HADITH.One

Urdu

Support

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Al Tahawi

3. جنازوں کا بیان

الطحاوي

2668

۲۶۶۸ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ‘ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ الْمَدَائِنِیُّ‘ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ‘ (عَنْ عُیَیْنَۃَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ‘ عَنْ أَبِیْہِ قَالَ : کُنَّا فِیْ جَنَازَۃِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ سَمُرَۃَ‘ أَوْ عُثْمَانَ بْنِ أَبِی الْعَاصِ‘ فَکَانُوْا یَمْشُوْنَ بِہَا مَشْیًا لَیِّنًا .قَالَ : فَکَانَ أَبُوْ بَکْرَۃَ انْتَہَرَہُمْ وَرَفَعَ عَلَیْہِمْ صَوْتَہٗ وَقَالَ : لَقَدْ رَأَیْتُنَا نَرْمُلُ بِہَا مَعَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ) .
٢٦٦٨: عیینہ بن عبدالرحمن نے اپنے والد سے روایت کی ہے کہ ہم ایک جنازہ میں تھے جو کہ عبدالرحمن بن سمرہ یا عثمان بن ابی العاص کا تھا اور وہ لوگ جنازہ لے کر نرم رفتار سے جا رہے تھے تو ابو بکرہ نے ان کو بلند آواز سے ڈانٹا اور کہا کہ ہم نے تو جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ جنازے میں چلتے ہوئے رمل کی کیفیت سے چلتے تھے (کندھوں کو ہلاتے ہوئے دوڑتے تھے)
تخریج : ابو داؤد فی الجنائز باب ٤٦‘ نمبر ٣١٨٢‘ نسائی فی الجنائز باب ٤٦۔
جنازہ قبرستان کی طرف کس رفتار سے لے جایا جائے ؟
نمبر 1: امام ابوحنیفہ (رح) اور ابو یوسف (رح) و محمد (رح) کے ہاں تیز چلا جائے مگر دوڑ سے احتراز کیا جائے۔
نمبر 2: ائمہ ثلاثہ اور جمہور کے ہاں جنازہ میانہ رفتار اور نرم گام سے لے جایا جائے۔
فریق اوّل کا مؤقف اور دلائل : قبرستان کی طرف میت کو لے جاتے ہوئے حتی الامکان تیزی اختیار کی جائے مگر دوڑ سے بچا جائے تاکہ زیادہ حرکت سے پیٹ سے نجاست نہ خارج ہوجائے۔
دلیل یہ روایات ہیں۔
(کتاب الجنائز میں ١٢ باب اور ٢١٤ روایات و آثار ھیں)

2669

۲۶۶۹ : حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ‘ قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ‘ قَالَ : أَخْبَرَنِی ابْنُ أَبِی الزِّنَادِ‘ عَنْ أَبِیْہِ أَنَّہٗ قَالَ : کُنْتُ جَالِسًا مَعَ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ جَعْفَرِ بْنِ أَبِیْ طَالِبٍ بِالْبَقِیْعِ‘ فَطُلِعَ عَلَیْنَا بِجَنَازَۃٍ فَأَقْبَلَ عَلَیْنَا ابْنُ جَعْفَرٍ یَتَعَجَّبُ مِنْ مَشْیِہِمْ بِہَا‘ فَقَالَ : عَجَبًا لِمَا تَغَیَّرَ مِنْ حَالِ النَّاسِ‘ وَاللّٰہِ إِنْ کَانَ إِلَّا الْجَمْزَ وَإِنْ کَانَ الرَّجُلُ لَیُلَاحِیَ الرَّجُلَ فَیَقُوْلُ : یَا عَبْدَ اللّٰہِ اتَّقِ اللّٰہَ‘ فَوَاللّٰہِ لَکَأَنَّکَ قَدْ جُمِزَ بِک .
٢٦٦٩: ابن ابی الزناد نے اپنے والد سے نقل کیا کہ میں عبداللہ بن جعفر کے ساتھ بقیع میں بیٹھا تھا کہ ایک جنازہ سامنے آیا عبداللہ ہماری طرف متوجہ ہوئے وہ ان لوگوں کے چلنے پر متعجب تھے کہنے لگے لوگوں کی حالت کے بدلنے پر تعجب ہے یہ تو تیز دوڑ تھی اور آدمی دوسرے کو دور کرتے ہوئے کہتا اے عبداللہ اللہ سے ڈر۔ اللہ کی قسم ! تو تو اس طرح ہے گویا کسی سے دوڑ لگا رکھی ہے۔
تخریج : المستدرک ١؍٥٠٧۔

2670

۲۶۷۰ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ‘ قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ‘ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ یُوْنُسُ‘ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ أُمَامَۃَ سَہْلُ بْنُ حُنَیْفٍ‘ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ (أَسْرِعُوْا بِالْجَنَازَۃِ‘ فَإِنْ کَانَتْ صَالِحَۃً‘ قَرَّبْتُمُوْہَا إِلَی الْخَیْرِ‘ وَإِنْ کَانَتْ غَیْرَ ذٰلِکَ‘ کَانَ شَرًّا تَضَعُوْنَہٗ عَنْ رِقَابِکُمْ) .
٢٦٧٠: ابو امامہ سہل بن حنیف نے ابوہریرہ (رض) سے نقل کیا کہ میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے سنا جنازے کو تیز لے چلو پس اگر وہ نیک ہے تو تم اسے خیر کے قریب کرنے والے بنو گے اور اگر وہ برا ہے تو تم شر کو اپنے کندھوں سے اتارنے والے ہو گے۔
تخریج : بخاری فی الجنائز باب ٥١‘ مسلم فی الجنائز ٥٠‘ ٥١‘ ابو داؤد فی الجنائز باب ٤٦‘ نسائی فی الاجنائز باب ٤٤‘ ابن ماجہ فی الجنائز باب ١٥‘ موطا مالک فی الجنائز ٥٨‘ مسند احمد ٢؍٢٤٠‘ ٤٨٨۔

2671

۲۶۷۱ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ‘ قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ‘ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ زَمْعَۃُ بْنُ صَالِحٍ‘ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ‘ عَنْ سَعِیْدِ بْنِ الْمُسَیِّبِ‘ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ‘ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ .
٢٦٧١‘ سعید بن المسیّب نے ابوہریرہ (رض) انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

2672

۲۶۷۲ : حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ‘ قَالَ : ثَنَا أَسَدٌ‘ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ‘ عَنِ الزُّہْرِیِّ‘ عَنْ سَعِیْدِ بْنِ الْمُسَیِّبِ‘ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ‘ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ .
٢٦٧٢: سعید بن المسیّب نے ابوہریرہ (رض) انھوں نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

2673

۲۶۷۳ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ‘ قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ‘ قَالَ : أَخْبَرَنِی ابْنُ أَبِیْ ذِئْبٍ‘ عَنْ سَعِیْدِ الْمَقْبُرِیِّ‘ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ مِہْرَانَ‘ (أَنَّ أَبَا ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ - حِیْنَ حَضَرَتْہُ الْوَفَاۃُ - قَالَ : أَسْرِعُوْا بِیْ‘ فَإِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ اِذَا وُضِعَ الرَّجُلُ الصَّالِحُ عَلٰی سَرِیْرِہٖ‘ قَالَ : قَدِّمُوْنِیْ قَدِّمُوْنِیْ‘ وَاذَا وُضِعَ الرَّجُلُ السُّوْئُ عَلٰی سَرِیْرِہِ‘ قَالَ : یَا وَیْلَتِیْ‘ أَیْنَ تَذْہَبُوْنَ بِیْ) .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ إِلٰی أَنَّ السُّرْعَۃَ فِی السَّیْرِ بِالْجَنَازَۃِ أَفْضَلُ مِنْ غَیْرِ ذٰلِکَ‘ وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِھٰذِہِ الْآثَارِ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ وَقَالُوْا : بَلْ یُمْشٰی بِہَا مَشْیَا لَیِّنًا‘ فَہُوَ أَفْضَلُ مِنْ غَیْرِ ذٰلِکَ .وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِمَا۔
٢٦٧٣: عبدالرحمن بن مہران نے ابوہریرہ (رض) سے روایت نقل کی ہے جبکہ ان کی وفات کا وقت آیا تو فرمانے لگے مجھے جلد دفن کے لیے لے جانا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب نیک آدمی کو چار پائی پر رکھ دیا جاتا ہے تو وہ کہتا ہے مجھے آگے بھیجو ‘ آگے بھیجو۔ اور جب برے آدمی کو چارپائی پر رکھا جاتا ہے تو وہ کہتا ہے ہائے میری ہلاکت ! تم مجھے کہاں لے جا رہے ہو۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں کہ بعض علماء نے کہا کہ جنازہ کے ساتھ جلدی چلنا آہستہ چلنے سے افضل ہے۔ انھوں مندرجہ بالا آثار سے دلیل لی ہے۔ دیگر علماء نے ان کی بات سے اختلاف کرتے ہوتے کہا کہ مناسب رفتار سے چلنا زیادہ افضل ہے۔
تخریج : بخاری فی الاجنائز باب ٥١‘ ٥٣‘ نسائی فی الجنائز باب ٤٤‘ مسند احمد ٢؍٢٩٢۔
حاصل روایات : ان روایات سے ظاہر ہو رہا ہے کہ جنازے کو جلد لے جانے کا اہتمام کرنا چاہیے تاکہ نیک کو اس کے ٹھکانے تک پہنچایا جائے اور برے کو اپنے کندھوں سے اتارا جائے۔
لغات : انتھز۔ ڈانٹنا۔ جمز۔ تیز دوڑنا۔ رمل ۔ کندھے ہلا کر دوڑنا۔
فریق ثانی کا مؤقف مع دلائل : جنازے کو آرام سے نرمی کے ساتھ لے کر چلنا چاہیے دلیل یہ روایات ہیں۔

2674

۲۶۷۴ : حَدَّثَنَا مُبَشِّرُ بْنُ الْحَسَنِ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَامِرٍ‘ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ‘ عَنْ لَیْثِ بْنِ أَبِیْ سُلَیْمٍ‘ قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا بُرْدَۃَ یُحَدِّثُ عَنْ أَبِیْہِ (أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَرَّ عَلَیْہِ بِجَنَازَۃٍ وَہُمْ یُسْرِعُوْنَ بِہَا‘ فَقَالَ لِیَکُنْ عَلَیْکُمُ السَّکِیْنَۃُ) .فَلَمْ یَکُنْ - عِنْدَنَا - فِیْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ حُجَّۃٌ عَلٰی أَہْلِ الْمَقَالَۃِ الْأُوْلٰی‘ لِأَنَّہٗ قَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَّکُوْنَ فِیْ مَشْیِہِمْ ذٰلِکَ عُنْفٌ‘ یُجَاوِزُ مَا أُمِرُوْا بِہٖ فِی الْأَحَادِیْثِ الْأُوَلِ مِنَ السُّرْعَۃِ‘ فَنَظَرْنَا فِیْ ذٰلِکَ : ہَلْ نَجِدُ فِیْہِ دَلِیْلًا یَدُلُّنَا عَلٰی شَیْئٍ مِنْ ذٰلِکَ ؟ .فَإِذَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ خُشَیْشِ الْبَصْرِیُّ۔
٢٦٧٤: لبث بن ابو سلیم کہتے ہیں کہ میں نے ابو بردہ (رض) کو بیان کرتے سنا کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس سے ایک جنازہ گزرا وہ اسے تیز تیز لے جا رہے تھے آپ نے فرمایا تمہیں سکون اختیار کرنا چاہیے۔ ہمارے نزدیک اس روایات میں پہلے قول والوں کے خلاف کوئی دلیل نہیں کیونکہ عین ممکن ہے۔ ان کی چال میں ایسی تیزی ہو جو احادیث سابقہ میں مامور ہے تیزی سے تجاوز کرنے والی ۔ پس اس پر ہم غور کرتے ہیں کہ آیا کوئی دلالت اس کے متعلق مل جاتی ہے جو ان میں سے کوئی بات کی طرف راہمنائی کرے چنانچہ عبداللہ بن محمد بصری کی روایت مل گئی۔
تخریج : ابن ماجہ فی الجنائز ١٥‘ نمبر ١٤٧٩‘ مسند احمد ٤؍٤٠٦۔
فریق اوّل کی طرف سے روایت کا جواب :
یہ روایت فریق ثانی کے حق میں فریق اوّل کے خلاف دلیل نہیں بن سکتی کیونکہ اس میں زیادہ تیز رفتاری جس میں وہ مبتلا تھے اس سے روکا گیا ہے اس سے میت مشک کی طرح اچھل رہی تھی جس سے اس کے پیٹ کے اندر سے کسی نجاست کے نکلنے کا خدشہ تھا جس کی وجہ سے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایسی تیزی سے روک دیا البتہ پہلی روایات میں مناسب انداز والی تیزی کا تذکرہ ہے اور دوڑ کی ممانعت ہے۔ گویا روایت میں تیز چلنے کی مطلقاً نفی نہیں ہے پس ان کا یہ مستدل نہ بنے گی ابو بردہ (رض) کی روایت سے بھی اس کی تصدیق ہوتی ہے علیکم بالقصد کہ تیز چلنے میں اعتدال برتنا چاہیے۔

2675

۲۶۷۵ : قَدْ حَدَّثَنَا‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ الْوَلِیْدِ‘ قَالَ : ثَنَا زَائِدَۃُ‘ عَنْ لَیْثِ بْنِ أَبِیْ بُرْدَۃَ‘ عَنْ أَبِیْہِ‘ قَالَ : (مُرَّ عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِجَنَازَۃٍ یُسْرِعُوْنَ بِہَا الْمَشْیَ وَہُوَ یَمْخُضُ تَمَخُّضَ الزِّقِّ فَقَالَ: عَلَیْکُمْ بِالْقَصْدِ بِجَنَائِزِکُمْ) .فَفِیْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ أَنَّ الْمَیِّتَ کَانَ یَتَمَخَّضُ لِتِلْکَ السُّرْعَۃِ‘ تَمَخَّضَ الزِّقِّ .فَیُحْتَمَلُ أَنْ یَّکُوْنَ أَمَرَہُمْ بِالْقَصْدِ‘ لِأَنَّ السُّرْعَۃَ‘ سُرْعَۃٌ یُخَافُ مِنْہَا أَنْ یَّکُوْنَ مِنَ الْمَیِّتِ شَیْء ٌ‘ فَنَہَاہُمْ عَنْ ذٰلِکَ‘ فَکَانَ مَا أَمَرَہُمْ بِہٖ مِنَ السُّرْعَۃِ‘ فِی الْآثَارِ الْأُوَلِ‘ ہِیَ أُقْصَدُ مِنْ ھٰذِہِ السُّرْعَۃِ .فَنَظَرْنَا فِیْ ذٰلِکَ أَیْضًا‘ ہَلْ رُوِیَ فِیْہِ شَیْء ٌ یَدُلُّنَا عَلٰی شَیْئٍ مِنْ ھٰذَا الْمَعْنٰی؟
٢٦٧٥ : اس روایت میں یہ بات موجود ہے کہ اس تیزی کی وجہ سے میت چارپائی پر اس طرح حرکت کرتی تھی جس طرح مشکیزہ حرکت کرتا ہے۔ تو اس میں اس بات کا احتمال ہے کہ ان کو میانہ روی کی تعلیم دی گئی ہو ۔ کہ اس طرح کی تیزی سے میت کو کوئی معاملہ پیش آسکتا ہے۔ پس آپ نے ان کو اس بات سے روک دیا ۔ پس سابقہ روایات میں جس تیزی کا حکم ہے وہ اس کے بالمقابل اعتدال والی ہے۔ اب ہم یہ غور کرتے ہیں کہ آیا اس مفہوم پر دلالت کرنے والی روایت بھی موجود ہے۔ چنانچہ روایت مل گئی۔
اب ہم ایسی روایت تلاش کرتے ہیں جو اس بات کی تصدیق کرے چنانچہ ملاحظہ ہو۔

2676

۲۶۷۶ : فَإِذَا أَبُوْ أُمَیَّۃَ‘ قَدْ حَدَّثَنَا قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ مُوْسٰی، قَالَ : أَنَا الْحَسَنُ بْنُ صَالِحٍ‘ عَنْ یَحْیَی الْجَابِرِ‘ عَنْ أَبِیْ مَاجِدٍ‘ عَنِ (ابْنِ مَسْعُوْدٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : سَأَلْنَا نَبِیَّنَا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنِ السَّیْرِ بِالْجَنَازَۃِ‘ فَقَالَ مَا دُوْنَ الْخَبَبِ‘ فَإِنْ یَّکُ مُؤْمِنًا فَمَا عُجِّلَ فَخَیْرٌ‘ وَإِنْ یَکُ کَافِرًا فَبُعْدًا لِأَہْلِ النَّارِ) .فَأَخْبَرَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ أَنَّ السَّیْرَ بِالْجَنَازَۃِ ہُوَ مَا دُوْنَ الْخَبَبِ .فَذٰلِکَ - عِنْدَنَا - دُوْنَ مَا کَانُوْا یَفْعَلُوْنَ فِیْ حَدِیْثِ أَبِیْ مُوْسٰی، حَتّٰی أَمَرَہُمْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِمَا أَمَرَہُمْ بِہٖ مِنْ ذٰلِکَ وَمِثْلُ مَا أَمَرَہُمْ بِہٖ مِنَ السُّرْعَۃِ فِیْ حَدِیْثِ أَبِیْ ھُرَیْرَۃ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ .فَبِھٰذَا نَأْخُذُ‘ وَہُوَ قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ‘ وَأَبِیْ یُوْسُفَ‘ وَمُحَمَّدٍ رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی .
٢٦٧٦: ابو ماجد نے ابن مسعود (رض) نے نقل کیا کہ ہم نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جنازہ کے ساتھ چلنے کے متعلق دریافت کیا تو آپ نے فرمایا کہ ہلکی دوڑ سے کم ہو اگر وہ مؤمن صالح ہے تو جس کی طرف اسے لے جاتے ہیں وہ خیر ہے اور اگر وہ کافر ہے تو اہل نار کے لیے ہلاکت ہے۔ تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس روایت میں بتلایا کہ جناے اس قدر تیزی سے لے جائیں کہ دوڑنے سے تو کم رفتار ہے۔ پس ہمارے نزدیک یہ رفتار اس سے کم درجہ ہے جس کا مذکورہ حضرت ابو موسیٰ (رض) کی روایت میں گزرا۔ یہاں تک جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو وہ حکم فرمایا جس کا اس روایت میں مذکور ہے۔ چنانچہ امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ومحمد رحمہم اللہ کا یہی قول ہے۔
تخریج : ترمذی ١؍١٩٦‘ ابن ماجہ ١؍١٠٦۔
حاصل روایات : اس روایت میں آپ نے خبر دے دی کہ جنازے کو تیز لے کر تو چلنا چاہیے مگر وہ خبب یعنی ہلکی دوڑ سے کم ہو۔
ہمارے ہاں بھی یہی ہے اس طرح نہیں جیسا ابو موسیٰ (رض) کی روایت میں موجود ہے یہاں تک کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو ایسی تیزی سے روک دیا تو وہ تیزی جو روایت ابوہریرہ (رض) میں ہے وہی مطلوب ہے۔
اور ہمارے ائمہ ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد رحمہم اللہ کا یہی قول ہے۔
لغات : المخض۔ زور سے حرکت دینا۔ الزق۔ مشک۔ اقصد۔ میانہ روی۔ بعد۔ ہلاکت و دوری۔
یہ باب بھی نظر طحاوی (رح) سے خالی ہے اور اس میں اپنے انداز کے خلاف فریق راجح کو پہلے ذکر کیا اور پھر دوسرے فریق مرجوح کو ذکر کر کے فریق اوّل کی طرف سے جواب دیا اور آخر میں راجح قول کی تائید ایک قولی روایت سے کی ہے۔

2677

۲۶۷۷ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ‘ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ‘ عَنِ الزُّہْرِیِّ‘ عَنْ سَالِمٍ‘ عَنْ أَبِیْہِ قَالَ : (رَأَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَأَبَا بَکْرٍ وَعُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا یَمْشُوْنَ أَمَامَ الْجَنَازَۃِ) .
٢٦٧٧: سالم نے عبداللہ (رض) سے نقل کیا کہ میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ابوبکر و عمر ] ا کو جنازے سے آگے آگے چلتے دیکھا۔
تخریج : ابو داؤد فی الجنائز باب ٤٥‘ نمبر ٣١٧٩‘ ترمذی فی الجنائز باب ٢٦‘ نمبر ١٠٠٧‘ ابن ماجہ فی الاجنائز باب ١٦‘ نمبر ١٤٨٢‘ مسند احمد ٢؍٨‘ ١٢٢۔
جنازے سے آگے چلنا چاہیے یا پیچھے جائز تو ہر دو طرح ہے۔ افضلیت میں اختلاف ہے۔
نمبر 1: امام مالک ‘ شافعی ‘ احمد اور جمہور آگے چلنے کو افضل قرار دیتے ہیں۔
نمبر 2: ائمہ احناف جنازے کے پیچھے چلنے کو افضل گردانتے ہیں۔
فریق اوّل کا مؤقف اور مستدل روایات : جنازے سے آگے چلنا افضل ہے دلائل یہ ہیں۔

2678

۲۶۷۸ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ‘ قَالَ .أَنَا ابْنُ وَہْبٍ‘ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ یُوْنُسُ‘ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ‘ عَنْ سَالِمٍ (أَنَّ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا کَانَ یَمْشِیْ أَمَامَ الْجَنَازَۃِ‘ قَالَ : وَکَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَفْعَلُ ذٰلِکَ وَأَبُوْ بَکْرٍ وَعُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ وَعُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ) .
٢٦٧٨: سالم عبداللہ بن عمر (رض) کے متعلق نقل کرتے ہیں کہ وہ جنازہ سے آگے آگے چلتے اور کہتے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایسا ہی کرتے تھے اور ابوبکر و عمرو عثمان ] اسی طرح کرتے تھے۔

2679

۲۶۷۹ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَزِیْزٍ الْأَیْلِیُّ‘ قَالَ : ثَنَا سَلَامَۃُ‘ عَنْ عُقَیْلٍ‘ قَالَ : حَدَّثَنِی ابْنُ شِہَابٍ أَنَّ سَالِمًا أَخْبَرَ ثُمَّ ذَکَرَ مِثْلَہٗ .
٢٦٧٩: ابن شہاب نے سالم سے نقل کیا پھر انھوں نے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔

2680

۲۶۸۰ : حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ مَرْزُوْقٍ‘ وَابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ‘ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ صَالِحٍ‘ قَالَ : حَدَّثَنِی اللَّیْثُ بْنُ سَعْدٍ‘ قَالَ : ثَنَا عُقَیْلُ بْنُ خَالِدٍ .ثُمَّ ذَکَرَ مِثْلَہٗ بِإِسْنَادِہٖ
٢٦٨٠: لیث بن سعد نے عقیل بن خالد سے پھر انھوں نے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

2681

۲۶۸۱ : حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْجِیْزِیُّ‘ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ عُفَیْرٍ‘ قَالَ : ثَنٰی یَحْیَی بْنُ أَیُّوْبَ‘ قَالَ : ثَنَا عُقَیْلٌ‘ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ‘ عَنْ سَالِمٍ‘ (عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا أَنَّہٗ کَانَ یَمْشِیْ أَمَامَ الْجَنَازَۃَ وَأَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یَمْشِیْ بَیْنَ یَدٰی الْجَنَازَۃِ وَأَبُوْ بَکْرٍ وَعُمَرُ وَعُثْمَانُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ) ، وَکَذٰلِکَ السُّنَّۃُ فِی اتِّبَاعِ الْجَنَازَۃِ .
٢٦٨١: ابن شہاب نے سالم سے انھوں نے ابن عمر (رض) کے متعلق نقل کیا کہ وہ جنازہ سے آگے آگے چلتے تھے اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جنازہ سے آگے چلتے اور ابوبکر و عمرو عثمان ] بھی جنازہ سے آگے چلتے۔ جنازوں کے ساتھ چلنے کا یہی طریقہ ہے۔
تخریج : نسائی فی الجنائز باب ٥٨‘ موطا فی الجنائز نمبر ٨‘ ابو داؤد فی الجنائز باب ٤٥‘ ترمذی فی الجنائز باب ٢٦‘ نمبر ١٠٠٨۔

2682

۲۶۸۲ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا الْقَعْنَبِیُّ‘ قَالَ : ثَنَا مَالِکٌ .ح .
٢٦٨٢: ابن مرزوق کہتے ہیں ہمیں قعنبی نے انھوں نے مالک سے روایت نقل کی۔

2683

۲۶۸۳ : وَحَدَّثَنَا یُوْنُسُ‘ قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَنَّ مَالِکًا أَخْبَرَہٗ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ‘ قَالَ : (کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَمْشِیْ أَمَامَ الْجَنَازَۃِ‘ وَابْنُ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا وَالْخُلَفَائُ) .ہَلُمَّ جَرَّا إِلٰی یَوْمِنَا ھٰذَا .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ إِلٰی أَنَّ الْمَشْیَ أَمَامَ الْجَنَازَۃِ أَفْضَلُ مِنَ الْمَشْیِ خَلْفَہَا‘ وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِھٰذِہِ الْآثَارِ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ‘ فَقَالُوْا : الْمَشْیُ خَلْفَہَا أَفْضَلُ مِنَ الْمَشْیِ أَمَامَہَا .وَکَانَ مِنَ الْحُجَّۃِ لَہُمْ عَلٰی أَہْلِ الْمَقَالَۃِ الْأُوْلٰی‘ أَنَّ حَدِیْثَ ابْنِ عُیَیْنَۃَ الَّذِیْ ذَکَرْنَاہُ فِیْ أَوَّلِ ھٰذَا الْبَابِ‘ قَدْ رَوَاہٗ عَنِ الزُّہْرِیِّ‘ عَنْ (سَالِمٍ‘ عَنْ أَبِیْہِ قَالَ : رَأَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَأَبَا بَکْرٍ وَعُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا یَمْشُوْنَ أَمَامَ الْجَنَازَۃِ) فَصَارَ فِیْ ذٰلِکَ خَبَرًا مِنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا عَمَّا رَأٰی رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَأَبَا بَکْرٍ وَعُمَرَ وَعُثْمَانَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ یَفْعَلُوْنَہٗ فِیْ ذٰلِکَ .وَقَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنُوْا کَانُوْا یَفْعَلُوْنَ شَیْئًا‘ وَغَیْرُہٗ عِنْدَہُمْ أَفْضَلُ مِنْہُ لِلتَّوْسِعَۃِ .کَمَا قَدْ (تَوَضَّأَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَرَّۃً مَرَّۃً) ، وَالْوُضُوْئُ اثْنَتَیْنِ اثْنَتَیْنِ أَفْضَلُ مِنْہُ‘ وَالْوُضُوْئُ ثَلاَثًا ثَلاَثًا أَفْضَلُ مِنْ ذٰلِکَ کُلِّہٖ‘ وَلٰکِنَّہٗ فَعَلَ مَا فَعَلَ مِنْ ذٰلِکَ لِلتَّوْسِعَۃِ .ثُمَّ قَدْ خَالَفَ ابْنُ عُیَیْنَۃَ فِیْ إِسْنَادِ ھٰذَا الْحَدِیْثِ کُلَّ أَصْحَابِ الزُّہْرِیِّ غَیْرَہٗ .فَرَوَاہُ مَالِکٌ عَنِ الزُّہْرِیِّ‘ قَالَ : (کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَمْشِیْ أَمَامَ الْجَنَازَۃِ) ، فَقَطَعَہٗ .ثُمَّ رَوَاہُ عُقَیْلٌ وَیُوْنُسُ‘ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ‘ عَنْ سَالِمٍ‘ قَالَ : (کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَأَبُوْ بَکْرٍ وَعُمَرُ وَعُثْمَانُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ یَمْشُوْنَ أَمَامَ الْجَنَازَۃِ) ھٰذَا مَعْنَاہُ وَإِنْ لَمْ یَکُنْ لَفْظُہُ کَذٰلِکَ‘ لِأَنَّ أَصْلَ حَدِیْثِہٖ، إِنَّمَا ہُوَ عَنْ سَالِمٍ قَالَ : (کَانَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا یَمْشِیْ أَمَامَ الْجَنَازَۃِ‘ وَکَذٰلِکَ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَأَبُوْ بَکْرٍ وَعُمَرُ وَعُثْمَانُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ) . فَصَارَ ھٰذَا الْکَلَامُ کُلُّہٗ فِیْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ‘ اِذَا ہُوَ مِنْ سَالِمٍ‘ لَا مِنَ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا‘ فَصَارَ حَدِیْثًا مُنْقَطِعًا‘ وَفِیْ حَدِیْثِ یَحْیَی بْنِ أَیُّوْبَ‘ عَنْ عُقَیْلٍ : وَکَذٰلِکَ السُّنَّۃُ فِی اتِّبَاعِ الْجَنَازَۃِ‘ زِیَادَۃٌ عَلٰی مَا فِیْ حَدِیْثِ اللَّیْثِ وَسَلَامَۃَ‘ عَنْ عُقَیْلٍ : فَکَذٰلِکَ أَیْضًا لَا حُجَّۃَ فِیْہِ لِأَنَّہٗ إِنَّمَا ہُوَ مِنْ کَلَامِ سَالِمٍ‘ أَوْ مِنْ کَلَامِ الزُّہْرِیِّ .وَقَدْ رُوِیَ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا‘ مِمَّا سَنَرْوِیْہِ فِیْ مَوْضِعِہٖ مِنْ ھٰذَا الْبَابِ إِنْ شَائَ اللّٰہُ .وَقَالَ أَصْحَابُ الْمَقَالَۃِ الْأُوْلٰی : وَقَدْ رُوِیَ عَنْ جَمَاعَۃٍ مِنْ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہُمْ کَانُوْا یَمْشُوْنَ أَمَامَ الْجَنَازَۃِ. وَذَکَرُوْا مَا۔
٢٦٨٣: ابن شہاب کہتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جنازہ سے آگے چلتے ابن عمر (رض) اور خلفاء موجودہ کی یہی کیفیت ہے۔ حضرت امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں کہ علماء کی ایک جماعت کا کہنا یہ ہے کہ جنازے کے آگے چلنا اس کے پیچھے چلنے سے افضل ہے انھوں نے ان روایات سے استدلال کیا ہے۔ لیکن دوسرے علماء کہتے ہیں کہ آگے کی بجائے پیچھے چلنا زیادہ افضل ہے۔ اول قول والوں کے خلاف ان کی دلیل پر ابن عیینہ والی روایت ہے جس کو ہم شروع باب میں ذکر کر آئے اور اس کو زھری نے بھی حضرت عبداللہ (رض) سے روایت کیا ہے کہ میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ابوبکر وعمر (رض) اللہ عنہما کو جنازے کے آگے چلتے دیکھا ہے۔ تو اس میں ابن عمر (رض) نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ‘ ابوبکر ‘ عمر ‘ عثمان ] کے افعال کی خبر دی ہے۔ عین ممکن ہے کہ ان حضرات نے یہ عمل بیان جواز کے لیے کیا ہو ‘ جب کہ ان کے نزدیک دوسرا عمل افضل ہو اور یہ عمل امت کی آسانی کے لیے ہو جس طرح جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اعضائے وضو کو ایک ایک مرتبہ دھویا ۔ حالانکہ دو دو مرتبہ اعضاء وضو کا دھونا اس سے افضل ہے اور تین تین مرتبہ دھونا ان تمام سے افضل ہے۔ مگر آپ نے یہ عمل امت پر سہولت کے لیے کیا۔ دوسری بات یہ ہے کہ کہ ابن عیینہ نے زھری کے تمام شاگردوں کے خلاف روایت نقل کی ہے۔ مالک نے زھری سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چنازے کے آگے چلتے ‘ تو انھوں نے منقطع روایت ذکر کی پھر اس کو عقیل ‘ یونس نے ابن شھاب سے انھوں نے سالم سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ابوبکر و عمرو عثمان ] جنازے کے آگے آگے چلتے تھے۔ اس روایت کا یہ مفہوم ہے اگرچہ الفاظ روایت کی نقل کی ہے کہ ابن عمر (رض) جنازے کے آگے چلتے تھے اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ابوبکر ‘ عمرو عثمان ] اسی طرح کرتے تھے۔ پس اس روایت میں یہ تمام کلام سالم کا قول ہے نہ کہ ابن عمر (رض) ۔ پس یہ منقطع روایت ہے۔ اور روایت یحییٰ میں جو انھوں نے عقیل سے نقل کی ہے یہ الفاظ زائد ہیں ” فکذالک السنۃ فی اتباع الجنازہ “ یہ عقیل کی اس روایت پر اضافہ ہے جو اس سے لیث وسلامہ سے نقل کی ہے۔ اسی طرح روایت میں کوئی دلیل نہیں کیونکہ یہ سالم یا زھری کا کلام بنتا ہے اور ابن عمر (رض) کی روایت ہم عنقریب نقل کریں گے۔ پہلے قول والوں نے کہا کہ صحابہ کرام کی ایک جماعت کے متعلق منقول ہے کہ وہ جنازے کے آگے آگے چلتے تھے ۔ روایات ذیل میں ہیں۔
حاصل روایات : ان روایات سے جنازے سے آگے چلنا ثابت ہوتا ہے معلوم ہوتا ہے کہ یہ فعل افضل ہے۔
مؤقف فریق ثانی و دلائل و جوابات :
جنازے کے پیچھے چلنا افضل ہے جیسا کہ ہم روایات نقل کریں گے پہلے سابقہ روایات کے جوابات ملاحظہ ہوں۔
جواب نمبر :
حدیث ابن عیینہ جو کہ تم ابتداء باب میں نقل کی ہے اس میں ابن عمر (رض) نے صرف جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ابوبکر و عمر ] کو جنازے سے آگے چلتے دیکھا اس سے تو زیادہ سے زیادہ بیان جواز ثابت ہوسکتا ہے افضلیت ثابت نہیں ہوتی یہ عمل انھوں نے توسع کے لیے کیا جیسا کہ آپ نے ایک ایک مرتبہ وضو فرمایا حالانکہ عادت مبارکہ تین تین مرتبہ کرنے کی تھی تو گویا توسع کے لیے کیا۔
جواب نمبر ٢ قد خالف ابن عیینہ :
اس روایت میں ابن عیینہ نے زہری کے تمام شاگردوں کی مخالفت کی ہے نمبر ایک امام مالک (رح) نے زہری سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جنازہ سے آگے چلتے تھے پھر آپ نے یہ سلسلہ منقطع کردیا۔
نمبر 2: عقیل و یونس نے زہری عن سالم یہ نقل کیا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ابوبکر و عمرو عثمان ] جنازے سے آگے چلا کرتے تھے۔ اگرچہ یہ لفظ تو نہیں مگر مفہوم یہی ہے کیونکہ ان کی اصل روایت تو سالم پر موقوف ہے تو اس روایت میں یہ تمام سالم کا کلام ہے ابن عمر (رض) کا بھی نہیں اس لحاظ سے یہ منقطع بن گئی یحییٰ بن ایوب نے عقیل سے یہ نقل کیا کہ اتباع جنائز میں سنت یہی ہے۔ یہ الفاظ : لیث وسلامہ عن عقیل کی روایت پر اضافہ ہے حاصل یہ ہے کہ یہ روایت زیادہ سالم یا زہری کا کلام بنتا ہے۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا قول نہ بنا تو دلیل نہ بن سکی اور ابن عمر (رض) کا عمل اس کے خلاف ہم فریق ثانی کے دلائل میں ذکر کریں گے۔ ان شاء اللہ۔
اشکال و دلیل فریق اوّل :
بہت سے صحابہ کرام (رض) کے متعلق روایات وارد ہیں کہ وہ جنازہ سے آگے چلا کرتے تھے۔ روایات ملاحظہ ہوں۔

2684

۲۶۸۴ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ‘ قَالَ : حَدَّثَنَا سُفْیَانُ‘ عَنِ ابْنِ الْمُنْکَدِرِ‘ سَمِعَ رَبِیْعَۃَ بْنَ ہَدِیْرٍ یَقُوْلُ : رَأَیْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ یَقْدُمُ النَّاسَ أَمَامَ جَنَازَۃِ زَیْنَبَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا .
٢٦٨٤: ربیعہ بن ہدیر کہتے ہیں کہ میں نے ابن خطاب (رض) کو زینب (رض) کے جنازے میں لوگوں سے آگے چلتے دیکھا۔

2685

۲۶۸۵ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ‘ قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ‘ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ مَالِکٌ‘ عَنِ ابْنِ الْمُنْکَدِرِ‘ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .
٢٦٨٥: مالک نے ابن المنکدر سے انھوں نے اپنی سند سے اسی طرح روایت نقل ہے۔

2686

۲۶۸۶ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ نُعَیْمٍ‘ قَالَ : ثَنَا إِسْرَائِیْلُ‘ عَنْ عَبْدِ الْأَعْلٰی‘ قَالَ : سَأَلْتُ سَعِیْدَ بْنَ جُبَیْرٍ عَنِ الْمَشْیِ أَمَامَ الْجَنَازَۃِ .فَقَالَ : نَعَمْ رَأَیْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا یَمْشِیْ أَمَامَ الْجَنَازَۃِ .
٢٦٨٦: عبدالاعلی کہتے ہیں کہ میں نے سعید بن جبیر سے جنازہ سے آگے چلنے کے متعلق سوال کیا تو انھوں نے کہا میں نے ابن عباس (رض) کو جنازے سے آگے چلتے دیکھا۔

2687

۲۶۸۷ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ‘ قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ‘ قَالَ : أَخْبَرَنِی ابْنُ أَبِیْ لَہِیْعَۃَ‘ عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ الْمُغِیْرَۃِ أَنَّ أَبَا رَاشِدٍ‘ مَوْلٰی مُعَیْقِیْبٍ بْنِ أَبِیْ فَاطِمَۃَ‘ أَخْبَرَہٗ أَنَّہٗ رَأٰی عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا‘ وَطَلْحَۃَ بْنَ عُبَیْدِ اللّٰہِ‘ وَالزُّبَیْرَ بْنِ الْعَوَامِّ یَفْعَلُوْنَہٗ.
٢٦٨٧: عبیداللہ بن مغیرہ کہتے ہیں کہ ابو راشد مولی معیقیب بن ابی فاطمہ نے بتلایا کہ میں نے عثمان بن عفان (رض) اور طلحہ بن عبیداللہ ‘ زبیر بن العوام ] کو جنازے کے آگے چلتا دیکھا۔
حاصل روایات : ان روایات سے ثابت ہوا کہ جنازے سے آگے چلنا پیچھے چلنے سے افضل ہے اسی طرح دیگر صحابہ کرام کا عمل بھی مذکور ہے۔

2688

۲۶۸۸ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ‘ قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ‘ قَالَ : أَخْبَرَنِی ابْنُ أَبِیْ ذِئْبٍ‘ عَنْ صَالِحٍ‘ مَوْلَی التَّوْأَمَۃِ‘ أَنَّہٗ رَأٰی أَبَا ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، وَعَبْدَ اللّٰہِ بْنَ عُمَرَ‘ وَأَبَا أُسَیْدٍ السَّاعِدِیَّ‘ وَأَبَا قَتَادَۃَ‘ یَمْشُوْنَ أَمَامَ الْجَنَازَۃِ .قَالُوْا : فَقَدْ دَلَّ ھٰذَا عَلٰی أَنَّ الْمَشْیَ أَمَامَ الْجَنَازَۃِ أَفْضَلُ مِنَ الْمَشْیِ خَلْفَہَا .قِیْلَ لَہُمْ : مَا دَلَّ ذٰلِکَ عَلٰی شَیْئٍ مِمَّا ذَکَرْتُمْ‘ وَلٰکِنَّہٗ أَبَاحَ الْمَشْیَ أَمَامَ الْجَنَازَۃِ‘ وَھٰذَا مِمَّا لَا یُنْکِرُہٗ مُخَالِفُہُمْ أَنَّ الْمَشْیَ أَمَامَ الْجَنَازَۃِ مُبَاحٌ .وَإِنَّمَا اخْتَلَفْتُمْ‘ أَنْتُمْ وَإِیَّاہُ فِی الْأَفْضَلِ مِنْ ذٰلِکَ‘ وَمِنَ الْمَشْیِ خَلَفَ الْجَنَازَۃِ .فَإِنْ کَانَ عِنْدَکُمْ أَثَرٌ صَحِیْحٌ فِیْہِ أَنَّ الْمَشْیَ أَمَامَ الْجَنَازَۃِ أَفْضَلُ مِنَ الْمَشْیِ خَلْفَہَا‘ ثَبَتَ بِذٰلِکَ مَا قُلْتُمْ‘ وَإِلَّا فَقَوْلُہٗ إِلَی الْآنَ‘ مُکَافِیٌ لِقَوْلِکُمْ .وَإِنِ احْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ۔
٢٦٨٨: مولی التوأمہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے ابوہریرہ (رض) ‘ ابن عمر ‘ ابو اسید ساعدی ‘ ابو قتادہ ] کو جنازہ سے آگے چلتے دیکھا۔ انھوں نے کہ اس سے یہ دلالت مل گئی کہ جنازے سے آگے چلنا پیچھے چلنے سے افضل ہے۔ ان کے جواب میں یہ کہا جائے گا ۔ اس میں تو تمہاری مذکورہ بات پر کوئی دلالت نہیں ہے۔ پس اتنی بات ہے کہ اس سے جنازے کے آگے چلنا مباح ثابت ہوگیا ۔ جس کا ان کے مخالفین انکار نہیں کرتے۔ اس لیے کہ اختلاف تمہارے اور ان کا افضلیت میں ہے کہ آگے چلنا یا پیچھے چلنا افضل ہے۔ پس اگر تمہارے پاس کوئی جنازے سے آگے چلنے کی افضلیت کو ظاہر کرتا ہے تو پھر آگے چلنا افضل ہو ۔ ورنہ تو ان کا ” قولہ الا الآن ‘ ‘ ورنہ یہ تمہارے قول کے برابر ہے۔ اگر وہ اس روایت کو دلیل میں پیش کریں ۔

2689

۲۶۸۹ : بِمَا حَدَّثَنَا یُوْنُسُ‘ قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ‘ عَنْ مَالِکٍ‘ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ‘ قَالَ : لَیْسَ مِنَ السُّنَّۃِ الْمَشْیُ خَلَفَ الْجَنَازَۃِ .قَالَ ابْنُ شِہَابٍ : وَالْمَشْیُ خَلَفَ الْجَنَازَۃِ‘ مِنْ خَطَأِ السُّنَّۃِ .قِیْلَ لَہُمْ : ھٰذَا کَلَامُ ابْنِ شِہَابٍ‘ فَقَوْلُہٗ فِیْ ذٰلِکَ‘ کَقَوْلِکُمْ‘ اِذْ کَانَ لِمُخَالِفِہٖ وَمُخَالِفِکُمْ مِنَ الْحُجَّۃِ عَلَیْہِ وَعَلَیْکُمْ‘ مَا سَنَذْکُرُہٗ فِیْ ھٰذَا الْبَابِ إِنْ شَائَ اللّٰہُ تَعَالٰی .ثُمَّ رَجَعْنَا إِلٰی مَا رُوِیَ فِیْ ھٰذَا الْبَابِ مِنَ الْآثَارِ‘ ہَلْ فِیْہِ شَیْء ٌ یُبِیْحُ الْمَشْیَ خَلْفَ الْجَنَازَۃِ فَإِذَا رَبِیْعٌ الْجِیْزِیُّ‘ وَابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ.
٢٦٨٩: ابن شہاب کہتے ہیں جنازے کے پیچھے چلنا سنت نہیں ہے۔ ابن شہاب کے اس قول سے معلوم ہوا کہ جب پیچھے چلنا سنت نہیں تو خلاف سنت ہے یہ تو ابن شہاب زہری کا قول ہے جو کہ نہ اثر صحابی ہے نہ قول رسول ہے پس فریق ثانی کے اپنے قول کے برابر ہے جس کو ان کے خلاف حجت میں پیش نہیں کرسکتے۔ ہم تو جنازے کے پیچھے چلنے کا سنت ہونا عمل رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور عمل صحابہ (رض) سے ثابت کرتے ہیں۔ روایت یہ ہے۔ اس کو ربیع اور ابن ابی داؤد نے نقل کیا۔ ابن شہاب کہتے ہیں کہ جنازے کے پیچھے چلنا خلاف سنت ہے۔ اس روایت کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ ابن شہاب کا کلام ہے اور اس سلسلہ میں اس کا اور تمہارا قول برابر ہے۔ اس لیے کہ اس کے اور تمہارے مخالفین کے پاس اس کے خلاف دلیل موجود ہے۔ ہم عنقریب اس لائیں ہے۔ اب ہم دوبارہ اس باب کے آثار کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ آیا ان آثار میں کوئی ایسی چیز ملتی ہے جو جنازے کے پیچھے چلنے کو مباح ثابت کرے۔ تو ربیع چیز ی اور ابن ابی داؤد کی روایات مل گئیں۔ ان تمام صحابہ کرام کا یہ عمل ظاہر کرتا ہے کہ آگے چلنا افضل ہے۔
الجواب۔ قیل لہم۔۔۔ :
ان آثار سے بھی اباحت اور جواز کا ثبوت تو ملتا ہے جس کا کوئی بھی منکر نہیں کلام تو افضلیت میں ہے جس کی کوئی صریح دلیل نہیں مل رہی ورنہ فریق ثانی کی بات تو تمہارے برابر ہے۔

اشکال :
جنازے کے پیچھے چلنا خلاف سنت ہے اور ابن شہاب زہری بھی یہی کہتے ہیں پس خلاف سنت کو موافق سنت کا مقابل کیسے قرار دیں گے روایت ملاحظہ ہو۔

2690

۲۶۹۰ : قَدْ حَدَّثَنَا‘ قَالَا : ثَنَا أَبُوْ زُرْعَۃَ‘ قَالَ: أَنَا یُوْنُسُ بْنُ یَزِیْدَ‘ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ‘ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا‘ (أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّمَ‘ وَأَبَا بَکْرٍ وَعُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا‘ کَانُوْا یَمْشُوْنَ أَمَامَ الْجَنَازَۃِ وَخَلْفَہَا) .
٢٦٩٠: ابن شہاب نے انس (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ابوبکر و عمر ] ا جنازے کے آگے اور پیچھے بھی چلتے تھے۔
تخریج : ترمذی فی الجنائز باب ٢٦‘ نمبر ١٠١٠‘ ابن ماجی فی الجنائز باب ١٦‘ نمبر ١٤٨٣۔

2691

۲۶۹۱ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ‘ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ‘ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ الْبُرْسَانِیُّ‘ عَنْ یُوْنُسَ بْنِ یَزِیْدَ‘ ثُمَّ ذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .فَفِیْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یَمْشِیْ خَلَفَ الْجَنَازَۃِ‘ کَمَا کَانَ یَمْشِیْ أَمَامَہَا .فَإِنْ کَانَ مَشْیُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَأَبِیْ بَکْرٍ وَعُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا‘ أَمَامَ الْجَنَازَۃِ حُجَّۃً لَکُمْ أَنَّ ذٰلِکَ أَفْضَلُ مِنَ الْمَشْیِ خَلْفَہَا‘ فَکَذٰلِکَ مَشْیُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَأَبِیْ بَکْرٍ وَعُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا خَلْفَہَا‘ حُجَّۃٌ لِمُخَالِفِکُمْ عَلَیْکُمْ أَنَّ ذٰلِکَ أَفْضَلُ مِنَ الْمَشْیِ أَمَامَہَا‘ فَقَدِ اسْتَوٰی خَصْمُکُمْ‘ وَأَنْتُمْ فِیْ ھٰذَا الْبَابِ‘ فَلاَ حُجَّۃَ لَکُمْ فِیْہِ عَلَیْہِ .
٢٦٩١: محمد بن بکر برسانی نے یونس بن یزید سے پھر انھوں نے اپنی سند سے روایت نقل کی ہے۔ اس روایت میں یہ ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جنازے کے پیچھے چلتے جیسا کہ آگے چلتے اگر جنازے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ابوبکر و عمر (رض) کا جازے سے آگے چلنا تمہاری دلیل ہے اور یہ پیچھے چلنے سے افضل ہے۔ تو اسی طرح جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ابوبکر و عمر (رض) کا پیچھے چلنا تمہارے مخالفین کی دلیل ہے۔ اور آگے چلنے سے ان کے ہاں افضل ہے۔ اب اس سلسلے میں تم اور تمہارا حزب مکالف برابر ہوگیا ۔ پس اب تمہاری دلیل میں ان کے خلاف کوئی حجت نہ رہی۔
تخریج : ترمذی ١؍١٩٦۔
حاصل روایات : اس روایت کے پیچھے چلنے کا سنت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور سنت خلافء راشدین ہونا ثابت کردیا اب مخالفین کے خلاف تمہارے پاس افضلیت کی کوئی وجہ موجود نہیں آگے اور پیچھے چلنے ہر دو کا مباح ہونا اس روایت سے بھی ثابت ہوتا ہے۔ روایت یہ ہے۔

2692

۲۶۹۲ : وَقَدْ حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ‘ وَابْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَا : ثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ بْنِ فَارِسٍ‘ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ عُبَیْدِ اللّٰہِ‘ عَنْ زِیَادِ بْنِ جُبَیْرٍ‘ عَنْ أَبِیْہِ‘ عَنِ الْمُغِیْرَۃِ بْنِ شُعْبَۃَ‘ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (الرَّاکِبُ خَلْفَ الْجَنَازَۃِ‘ وَالْمَاشِیْ‘ حَیْثُ شَائَ مِنْہَا) .فَأَبَاحَ فِیْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ أَیْضًا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ الْمَشْیَ خَلْفَ الْجَنَازَۃِ‘ کَمَا أَبَاحَ الْمَشْیَ أَمَامَہَا .وَلَیْسَ فِیْ شَیْئٍ مِمَّا ذَکَرْنَا مَا یَدُلُّ عَلٰی الْأَفْضَلِ مِنْ ذٰلِکَ‘ مَا ہُوَ ؟ .وَقَدْ رُوِیَ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ مَا مَعْنَاہُ‘ قَرِیْبٌ مِنْ مَعْنٰی حَدِیْثِ الْمُغِیْرَۃِ‘ وَلَمْ یَذْکُرْ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .
٢٦٩٢: زیاد بن جبیر نے اپنے والد سے انھوں نے مغیرہ بن شعبہ (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا سوار جنازے کے پیچھے چلے پیدل جہاں چاہے چلے۔ اس روایت میں بھی جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جنازے کے پیچھے چلنے کو مباح قرار دیا ۔ جیسا کہ آگے چلنے کو مباح قرار دیا ان روایات میں کسی ایک کے دوسرے سے افضل ہونے کی کوئی دلیل نہیں اور حضرت انسن بن مالک (رض) سے ایسی روایت آتی ہے جس کا مفہوم روایت مغیرہ (رض) کے قریب ہے مگر اس میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا تذکرہ نہیں ہے۔
تخریج : ابو داؤد فی الجنائز باب ٤٥‘ نمبر ٨‘ ٣‘ ترمذی فی الجنائز باب ٤٢‘ نمبر ١٠٣١‘ ابن ماجہ فی الجنائز باب ١٥‘ نمبر ١٤٨١۔
اس روایت میں فرمان نبوت سے جنازے کے آگے پیچھے چلنے کی اباحیت ثابت ہوئی پس خلاف سنت کہنا درست نہ رہا۔ ان میں سے کسی روایت میں بھی آگے چلنے کی افضلیت مذکور نہیں۔ حضرت انس (رض) کی روایت بھی اس مفہوم کی مذکور ہے مگر اس میں مگر وہ مرفوع نہیں ہے۔ روایت یہ ہے۔

2693

۲۶۹۳ : حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ الْفَرَجِ‘ قَالَ : ثَنَا یُوْسُفُ بْنُ عَدِیٍّ‘ قَالَ : ثَنَا بَکْرُ بْنُ عَیَّاشٍ‘ عَنْ حُمَیْدٍ الطَّوِیْلِ‘ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ‘ فِی الرَّجُلِ یَتْبَعُ الْجَنَازَۃَ .ؑقَالَ : إِنَّمَا أَنْتُمْ مُشَیِّعُوْنَ لَہَا‘ فَامْشُوْا بَیْنَ یَدَیْہَا وَخَلْفَہَا‘ وَعَنْ یَمِیْنِہَا وَشِمَالِہَا .
٢٦٩٣: حمیدالطویل نے انس بن مالک (رض) سے اس آدمی کے متعلق دریافت کیا جو جنازے کے پیچھے چلے تو انھوں نے فرمایا تم تو جنازے کی مشایعت کرتے ہو اس کے آگے پیچھے دائیں بائیں چل سکتے ہو۔

2694

۲۶۹۴ : حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ الْفَرَجِ‘ قَالَ : ثَنَا ابْنُ عُفَیْرٍ‘ قَالَ : حَدَّثَنِیْ یَحْیَی بْنُ أَیُّوْبَ‘ عَنْ حُمَیْدٍ‘ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ مِثْلَہٗ وَقَدْ رُوِیَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ ذٰلِکَ أَیْضًا۔
٢٦٩٤: ایوب نے حمیدالطویل سے انھوں نے انس (رض) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔
حاصل یہ ہے : کہ اس روایت موقوفہ سے بھی جنازے کے آگے پیچھے دائیں بائیں چلنے کی وسعت ثابت ہوئی افضلیت والا مقصود حاصل نہ ہوا۔
فریق ثانی کے مزید دلائل : جنازے کے پیچھے چلنا افضل ہے۔ دلائل یہ ہیں۔

2695

۲۶۹۵ : مَا حَدَّثَنَا عَبْدُ الْغَنِیِّ بْنُ رِفَاعَۃَ اللَّحْنِیُّ‘ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ زِیَادٍ‘ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ‘ عَنْ أَشْعَثَ بْنِ سُلَیْمٍ‘ قَالَ : سَمِعْتُ مُعَاوِیَۃَ بْنَ سُوَیْد بْنِ مُقْرِنٍ‘ قَالَ : سَمِعْتُ (الْبَرَائَ بْنَ عَازِبٍ یَقُوْلُ: أَمَرَنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِاتِّبَاعِ الْجَنَازَۃِ) .فَفِیْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ أَنَّہٗ أَمَرَہُمْ بِاتِّبَاعِ الْجَنَازَۃِ‘ وَالْمُتَّبِعُ الْمَشٰی‘ ہُوَ الْمُتَأَخِّرُ عَنْہُ‘ لَا الْمُتَقَدِّمُ أَمَامَہٗ، فَفِیْمَا ذَکَرْنَا‘ مَا قَدْ دَلَّ عَلٰی فَسَادِ قَوْلِ الزُّہْرِیِّ أَنَّ الْمَشْیَ خَلَفَ الْجَنَازَۃِ مِنْ خَطَأِ السُّنَّۃِ .
٢٦٩٥: معاویہ بن سوید بن مقرن کہتے ہیں میں نے براء بن عازب (رض) کو کہتے سنا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں حکم فرمایا کہ ہم جنازے کے پیچھے چلا کریں۔ اس روایت میں یہ فرمایا کہ آپ نے ان کو جنازے کے پیچھے چلنے کا حکم فرمایا ۔ اور پیچھے چلنے والا جنازے سے متاخر ہوتا ہے۔ آگے اور مقدم نہیں ۔ اس روایت میں زھری کے قول کی غلطی ظاہر ہوتی ہے۔ کہ جنازے کے پیچھے چلنا خلاف سنت ہے۔
تخریج : بخاری ١؍١٦٥۔
اس روایت میں جنازے کے پیچھے چلنے کا حکم زبان نبوت سے ثابت ہو رہا ہے اتباع اور المتبع المشی کا معنی پیچھے چلنے والا ہی آتا ہے۔
اس ارشاد سے زہری کے قول کا غلط ہونا ثابت ہوگیا جو کہ جنازے کے پیچھے چلنا خلاف سنت کہہ رہے تھے۔۔ پس وہی افضل ہے جس کا حکم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرمائیں۔ مزید روایت ملاحظہ فرمائیں۔

2696

۲۶۹۶ : حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ‘ قَالَ : ثَنَا أَسَدٌ‘ قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلْمَۃَ‘ عَنْ یَعْلَی بْنِ عَطَائٍ ‘ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ یَسَارٍ‘ عَنْ عَمْرِو بْنِ حُرَیْثٍ‘ قَالَ : قُلْتُ لِعَلِیِّ بْنِ أَبِیْ طَالِبٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ‘ مَا تَقُوْلُ فِی الْمَشْیِ أَمَامَ الْجَنَازَۃِ ؟ فَقَالَ عَلِیُّ بْنُ أَبِیْ طَالِبٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ (الْمَشْیُ خَلْفَہَا أَفْضَلُ مِنَ الْمَشْیِ أَمَامَہَا‘ کَفَضْلِ الْمَکْتُوْبَۃِ عَلٰی التَّطَوُّعِ) .قَالَ: قُلْتُ، فَإِنِّیْ رَأَیْتُ أَبَا بَکْرٍ وَعُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا یَمْشِیَانِ أَمَامَہَا‘ فَقَالَ (إِنَّمَا یَکْرَہَانِ أَنْ یُّحْرِجَا النَّاسَ) .
٢٦٩٦: عمرو بن حریث کہتے ہیں کہ میں نے علی (رض) سے پوچھا آپ جنازے سے آگے چلنے کے متعلق کیا فرماتے ہیں تو علی (رض) فرمانے لگے پیچھے چلنا آگے چلنے سے اتنا افضل ہے جتنا کہ فرض نماز نفل سے افضل ہے میں نے دوسرا سوال کیا میں نے تو ابوبکر و عمر ] کو جنازہ کے آگے چلتے دیکھا ہے تو فرمایا وہ اس بات کو ناپسند کرتے تھے کہ لوگوں کو تنگی میں مبتلا کریں (یعنی سب لوگ ان کے ساتھ چلنا پسند کرتے جس سے مجمع کو تکلیف ہوتی تو انھوں نے آگے چل کر اس تنگی سے لوگوں کو محفوظ کردیا) ۔

2697

۲۶۹۷ : حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ الْفَرَجِ‘ قَالَ : ثَنَا یُوْسُفُ بْنُ عَدِیٍّ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ الْأَحْوَصِ‘ عَنْ أَبِیْ فَرْوَۃَ الْہَمْدَانِیِّ‘ عَنْ زَائِدَۃَ بْنِ خِرَاشٍ‘ قَالَ : ثَنَا ابْنُ أَبْزٰی‘ عَنْ أَبِیْہِ‘ قَالَ : کُنْتُ أَمْشِیْ فِیْ جَنَازَۃٍ فِیْہَا أَبُوْ بَکْرٍ وَعُمَرُ وَعَلِیٌّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ . فَکَانَ أَبُوْ بَکْرٍ وَعُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا یَمْشِیَانِ أَمَامَہَا‘ وَعَلِیٌّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ یَمْشِیْ خَلْفَہَا یَدِیْ فِیْ یَدِہٖ۔ فَقَالَ عَلِیٌّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ : أَمَّا إِنَّ فَضْلَ الرَّجُلِ یَمْشِیْ خَلَفَ الْجَنَازَۃِ‘ عَلٰی الَّذِیْ یَمْشِیْ أَمَامَہَا‘ کَفَضْلِ صَلَاۃِ الْجَمَاعَۃِ عَلٰی صَلَاۃِ الْفَذِّ‘ وَإِنَّہُمَا لَیَعْلَمَانِ مِنْ ذٰلِکَ مِثْلَ الَّذِیْ أَعْلَمُ‘ وَلٰکِنَّہُمَا سَہْلَانِ یُسَہِّلَانِ عَلَی النَّاسِ .فَفِیْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ تَفْضِیْلُ عَلِیٍّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ الْمَشْیَ خَلَفَ الْجَنَازَۃِ‘ عَلَی الْمَشْیِ أَمَامَہَا .وَقَوْلُہٗ (إِنَّ أَبَا بَکْرٍ وَعُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا یَعْلَمَانِ مِثْلَ مَا أَعْلَمُ‘ وَإِنَّہُمَا إِنَّمَا یَتْرُکَانِ ذٰلِکَ لِلتَّسْہِیْلِ عَلَی النَّاسِ‘ لَا لِأَنَّ ذٰلِکَ أَفْضَلُ مِنْ غَیْرِہِ) .وَھٰذَا مِمَّا لَا یُقَالُ بِالرَّأْیِ‘ إِنَّمَا یُقَالُ وَیُعْلَمُ‘ بِمَا قَدْ وَقَفَہُمْ عَلَیْہِ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ وَعَلَّمَہُمْ إِیَّاہُ مِنْ ذٰلِکَ .فَقَدْ ثَبَتَ بِتَصْحِیْحِ مَا رَوَیْنَا‘ أَنَّ الْمَشْیَ خَلَفَ الْجَنَازَۃِ‘ أَفْضَلُ مِنَ الْمَشْیِ أَمَامَہَا .
٢٦٩٧: ابن ابزی نے اپنے والد سے نقل کیا کہ میں جنازہ میں جا رہا تھا جس میں ابوبکر و عمرو علی ] بھی تھے ابوبکر و عمر ] تو جنازے سے آگے تھے اور علی (رض) اس کے پیچھے چل رہے تھے اور میرا ہاتھ ان کے ہاتھ میں تھا تو علی (رض) نے فرمایا سنو ! آدمی کے لیے بہتر یہ ہے کہ وہ جنازے کے پیچھے چلے اور آگے چلنے والے کے مقابلے میں اس کو اتنی فضیلت حاصل ہے جس قدر جماعت کی نماز کو منفرد کی نماز پر فضیلت حاصل ہے اور وہ دونوں حضرات اس بات کو جانتے ہیں جیسا میں جانتا ہوں مگر وہ لوگوں کے لیے سہولت پیدا کرتے ہیں۔ اس روایت میں حضرت علی (رض) نے جنازے سے پیچھے چلنے کو آگے سے افضل قرار دیا اور اس کا یہ قول کہ ابوبکر و عمر (رض) اس بات کو اسی طرح جانتے تھے جیسے میں جانتا ہوں ۔ انھوں نے لوگوں کی سہولت کے لیے اسے ترک کیا ۔ اس وجہ سے نہیں کہ وہ اسے دوسرے افضل مانتے تھے اور یہ بات رأی و قیاس سے معلوم نہیں ہوسکتی ۔ یہ جناب رسول اللہ کے بتلانے اور سکھانے سے ہی معلوم ہوسکتی ہے۔ ان روایات کی تصحیح کے انداز سے معلوم ہوا کہ جنازے کے پیچھے چلنا آگے چلنے سے افضل ہے۔
اس روایت میں زبان علی (رض) سے جنازے کے پیچھے چلنے کو آگے چلنے پر فضیلت دی گئی ہے اور پھر ان کی زبان سے ابوبکر و عمر ] کے عمل کی تاویل بھی واضح کردی گئی ہے کہ وہ فضیلت سمجھ کر نہیں چلتے بلکہ لوگوں کی سہولت ان کو پیش نظر ہے۔
علی (رض) کا یہ فضیلت دینا اور پھر اس کا حوالہ دینا کہ وہ دونوں حضرات بھی جانتے ہیں یہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ علم ان کو زبان نبوت سے حاصل ہوا۔ اس کی مزید تائید ملاحظہ ہو۔

2698

۲۶۹۸ : وَقَدْ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوَ الْیَمَانِ‘ الْحَکَمُ بْنُ نَافِعٍ الْبَہْرَانِیُّ‘ فَقَالَ : ثَنَا أَبُوْ بَکْرِ بْنُ أَبِیْ مَرْیَمَ‘ عَنْ رَاشِدِ بْنِ سَعْدٍ‘ عَنْ نَافِعٍ‘ قَالَ : خَرَجَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا وَأَنَا مَعَہُ عَلٰی جَنَازَۃٍ فَرَأٰی مَعَہَا نِسَائً ‘ فَوَقَفَ ثُمَّ قَالَ : رُدَّہُنَّ‘ فَإِنَّہُنَّ فِتْنَۃُ الْحَیِّ وَالْمَیِّتِ ثُمَّ مَضَی‘ فَمَشٰی خَلْفَہَا .فَقُلْتُ : یَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمٰنِ‘ کَیْفَ الْمَشْیُ فِی الْجَنَازَۃِ ؟ .أَمَامَہَا أَمْ خَلْفَہَا ؟ .فَقَالَ : أَمَا تَرَانِیْ أَمْشِیْ خَلْفَہَا ؟ .فَھٰذَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا‘ لَمَّا سُئِلَ عَنِ الْمَشْیِ فِی الْجَنَازَۃِ‘ أَجَابَ سَائِلَہٗ، إِنَّہٗ خَلْفَہَا‘ وَہُوَ الَّذِیْ رَوَیْنَا عَنْہُ فِی الْبَابِ الْأَوَّلِ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یَمْشِیْ أَمَامَہَا .فَدَلَّ ذٰلِکَ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ کَانَ یَفْعَلُ ذٰلِکَ عَلَی جِہَۃِ التَّخْفِیْفِ عَلَی النَّاسِ‘ لِیُعَلِّمَہُمْ أَنَّ الْمَشْیَ خَلْفَ الْجَنَازَۃِ‘ وَإِنْ کَانَ أَفْضَلَ مِنَ الْمَشْیِ أَمَامَہَا‘ لَیْسَ ہُوَ مِمَّا لَا بُدَّ مِنْہُ‘ وَلَا مِمَّا یُحْرَجُ تَارِکُہُ‘ وَلٰکِنَّہٗ مِمَّا لَہٗ أَنْ یَفْعَلَہٗ، وَیَفْعَلَ غَیْرَہُ .وَکَذٰلِکَ مَا رُوِیَ عَنِ ابْنِ عُمَرَ مِنْ ذٰلِکَ‘ ‘ فَرَوٰی عَنْہُ سَالِمٌ أَنَّہٗ کَانَ یَمْشِیْ أَمَامَ الْجَنَازَۃِ .فَدَلَّ ذٰلِکَ عَلَی اِبَاحَۃِ الْمَشْیِ أَمَامَہَا‘ لَا عَلٰی أَنَّ ذٰلِکَ أَفْضَلُ مِنَ الْمَشْیِ خَلْفَہَا‘ ثُمَّ رَوٰی عَنْہُ نَافِعٌ أَنَّہٗ مَشٰی خَلْفَہَا .فَدَلَّ ذٰلِکَ أَیْضًا عَلَی اِبَاحَتِہِ الْمَشْیَ خَلْفَہَا‘ لَا عَلٰی أَنَّ ذٰلِکَ أَفْضَلُ مِنْ غَیْرِہٖ۔ فَلَمَّا سَأَلَہٗ، أَخْبَرَہٗ بِالْمَشْیِ الَّذِیْ یَنْبَغِیْ لَہٗ أَنْ یَفْعَلَ فِی الْجَنَازَۃِ خَلْفَہَا‘ عَلٰی أَنَّہٗ ہُوَ الَّذِیْ ھُوَ أَفْضَلُ مِنْ غَیْرِہٖ۔ وَقَدْ رَوَیْنَا فِیْ حَدِیْثِ الْبَرَائِ (أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَمَرَہُمْ بِاتِّبَاعِ الْجَنَازَۃِ) ، وَالْأَغْلَبُ مِنْ مَعْنٰی ذٰلِکَ‘ ہُوَ الْمَشْیُ خَلْفَہَا أَیْضًا .فَصَارَ بِذٰلِکَ مِنْ حَقِّ الْجَنَازَۃِ‘ اتِّبَاعُہَا وَالصَّلَاۃُ عَلَیْہِ إِنْ کَانَ یُصَلِّیْ عَلَیْہَا یَکُوْنُ فِیْ صَلَاتِہٖ عَلَیْہَا مُتَأَخِّرًا عَنْہَا .فَالنَّظْرُ عَلٰی ذٰلِکَ أَنْ یَّکُوْنَ الْمُتَّبِعُ لَہَا فِی اتِّبَاعِہِ لَہَا‘ مُتَأَخِّرًا عَنْہَا‘ فَھٰذَا ہُوَ النَّظْرُ مَعَ مَا قَدْ وَافَقَہٗ مِنَ الْآثَارِ .
٢٦٩٨: نافع نے عبداللہ بن عمر (رض) سے نقل کیا کہ میں ایک جنازہ کے لیے ان کے ساتھ نکلا انھوں نے جنازے کے ساتھ عورتوں کو پایا تو وہ رک گئے پھر فرمایا ان کو واپس کر دو یہ زندہ اور مردہ دونوں کے لیے فتنہ ہیں پھر چل دیئے اور پیچھے چلے میں نے کہا اے ابو عبدالرحمن ! جنازے کے پیچھے چلنا کیسا ہے ؟ آگے یا پیچھے چلیں۔ فرمایا کیا تم مجھے پیچھے چلتا نہیں دیکھ رہے۔ تو یہ عبداللہ بن عمر (رض) ہیں کہ جب ان سے جنازہ کے ساتھ چلنے کے متعلق سوال ہو انھوں نے سائل کو اپنے چلنے کا عمل مسائل کے سامنے رکھ دیا ۔ یہ ابن عمر (رض) ہیں باب کے شروع میں روایت کر رہے تھے کہ آپ جنازے لے کر آگے آگے چلتے ۔ اس سے یہ دلالت مل گئی کہ آپ کا آگے چلنا لوگوں کے لیے حکم میں تخفیف کی غرض سے تھا تاکہ لوگوں کو سکھا دیا جائے اصل تو جنازے کے پیچھے چلنا آگے چلنے سے افضل ہے ‘ مگر وہ لازم نہیں اور نہ ہی اس کا ترک کرنے والا گناہ کا مرتکب ہے بلکہ وہ ان کاموں سے ہے جس کو اختیار کرنا یا اس کے علاوہ کا اختیار کرنا درست ہے۔ ابن عمر (رض) سے اس کے متعلق اسی طرح مروی ہے۔ سالم (رح) بیان کرتے ہیں کہ وہ جنازے کے آگے چلتے ۔ اس سے معلوم ہوا کہ آگے چلنا مباح ہے۔ یہ مطلب نہیں کہ یہ پیچھے چلنے سے افضل ہے۔ پھر ان سے نافع نے بیان کیا کہ وہ جنازے کے پیچھے چلتے تھے ۔ اس سے بھی یہ دلالت میسر آئی کہ پیچھے چلنا مباح ہے۔ یہ معنیٰ نہیں کہ یہ آگے چلنے سے افضل ہے۔ پھر جب ان سے پوچھا گیا تو انھوں نے بتلایا کہ جنازے ساتھ کس طرح چلنا چاہیے تو انھوں نے پیچھے چلنا بتلایا اور یہ کہ دوسری طرح چلنے سے یہ افضل ہے۔ ہم نے حضرت براء (رض) کی حدیث میں یہ نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ کرام کو جنازہ میں پیچھے چلنے کا حکم فرمایا اور اس کا غالب مفہوم پیچھے چلنا ہے۔ پس یہ جنازے کا حق بن گیا ۔ کہ پیچھے چلا جائے اور نماز جنازہ پڑھی جائے اور نماز جنازہ میں اس سے پیچھے رہے ۔ پس اس پر غور و فکر کا تقاضہ یہ ہے کہ پیچھے جانے والا بھی جناے کے پیچھے چلے ۔ قیا س کا تقاض یہی ہے اس کے ساتھ ساتھ کہ آثار بھی اس کے مؤید ہیں ‘
لیجئے یہ عبداللہ بن عمر (رض) ہیں جن کے قول کو فریق اوّل سے پیش کیا تھا خود ان کا فتویٰ اور عمل جنازہ میں پیچھے چلنے کا ہے اس سے بھی یہ بات ثابت ہوئی کہ ابن عمر (رض) نے فصل اول میں جو بات نقل کی ہے اس کا مطلب یہی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آگے چلنے سے لوگوں کو سہولت ہوجائے نہ یہ کہ یہ افضل ہے اور اگر اس کا مطلب یہ نہ بھی مانو۔ تب بھی اس قدر تو ثابت ہوگا کہ آگے نہ چلنے والا گناہ گار نہیں کبھی اس کو کرے کبھی دوسرا عمل کرے بالکل اسی طرح سالم والی روایت کا مفہوم بھی یہی ہے کہ آگے چلنا بھی جائز و مباح ہے اور ثبوت یہ ہے کہ نافع ان کا پیچھے چلنا ثابت کر رہے ہیں اس سے بس اباحیت ثابت ہوگی نہ کہ افضلیت۔ پھر جب ان سے سوال ہوا تو انھوں نے پیچھے چلنے کا حکم فرمایا اس سے معلوم ہوا کہ یہی ان کے ہاں افضل ہے۔ اور ہم نے براء بن عازب (رض) سے اتباع جنائز والی روایت نقل کردی جس کا معنی جنازے کے پیچھے چلنا متبادر ہے پس اس سے جنازہ کا یہ حق بن گیا کہ وہ اس کے پیچھے جائے اس پر نماز ادا کرے اور نماز میں بھی جنازہ مقدم ہوگا اور یہ متأخر ہوگا۔
نظر طحاوی (رض) :
جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اتباع جنازہ کا حکم دیا تو معلوم ہوا کہ جنازے کا پیچھا کیا جائے پیچھے چلا جائے۔ متبع متأخر ہوتا ہے اور متبع مقدم ہوتا ہے تو اس سے معلوم ہے کہ جب جنازے کو متبع کیا گیا تو چلنے والا پیچھے چلے گا تو وہ متبع بنے گا اور جنازہ متبع ہوگا پس نظر کے اعتبار سے بھی پیچھے چلنا افضل ہوا۔
اس کی تائید میں ابن عمر (رض) کا فرمان ملاحظہ کرلیں۔

2699

۲۶۹۹ : وَقَدْ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ‘ قَالَ : ثَنَا أَحْمَدُ بْنُ یُوْنُسَ‘ قَالَ : ثَنَا إِسْرَائِیْلُ‘ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ شَرِیْکٍ الْعَامِرِیِّ‘ قَالَ : سَمِعْتُ الْحَارِثَ بْنَ أَبِیْ رَبِیْعَۃَ سَأَلَ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ عُمَرَ‘ عَنْ أُمِّ وَلَدٍ لَہٗ نَصْرَانِیَّۃٍ‘ مَاتَتْ .فَقَالَ لَہُ ابْنُ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا : تَأْمُرُ بِأَمْرِکَ وَأَنْتَ بَعِیْدٌ مِنْہَا ثُمَّ تَسِیْرُ أَمَامَہَا‘ فَإِنَّ الَّذِیْ یَسِیْرُ أَمَامَ الْجَنَازَۃِ لَیْسَ مَعَہَا .فَھٰذَا ابْنُ عُمَرَ یُخْبِرُ أَنَّ الَّذِیْ یَسِیْرُ أَمَامَ الْجَنَازَۃِ لَیْسَ مَعَہَا .فَاسْتَحَالَ أَنْ یَّکُوْنَ ذٰلِکَ عِنْدَہُ کَذٰلِکَ‘ وَقَدْ رَأَی النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَمْشِیْ أَمَامَ الْجَنَازَۃِ .فَثَبَتَ بِذٰلِکَ أَنَّ أَصْلَ حَدِیْثِ سَالِمٍ الَّذِیْ رَوَیْنَاہُ فِیْ أَوَّلِ ھٰذَا الْبَابِ‘ إِنَّمَا ہُوَ کَمَا رَوَاہُ مَالِکٌ ؟ عَنِ الزُّہْرِیِّ مَوْقُوْفًا أَوْ کَمَا رَوَاہُ عُقَیْلٌ وَیُوْنُسُ‘ عَنِ الزُّہْرِیِّ‘ عَنْ سَالِمٍ مَوْقُوْفًا .لَا کَمَا رَوَاہُ ابْنُ عُیَیْنَۃَ‘ عَنِ الزُّہْرِیِّ عَنْ سَالِمٍ عَنْ أَبِیْہِ مَرْفُوْعًا .
٢٦٩٩: حارث بن ابی ربیعہ نے عبداللہ بن عمر (رض) سے پوچھا میری نصرانی ام ولد مرگئی اس کا کیا حکم ہے ابن عمر (رض) نے فرمایا اس کے بارے میں (دفن وغیرہ کا) حکم دو لیکن تم اس سے دور رہو پھر اس کے جنازے کے آگے چلو کیونکہ آگے چلنے والا وہ جنازے کے ساتھ شمار نہیں ہوتا۔ یہ ابن عمر (رض) جو کہ یہ بتلا رہے ہیں کہ جنازے سے آگے چلنے والا گویا جنازہ کے ساتھ جانے والا نہیں اور یہ بات اس وقت تک کہنا ممکن نہیں جب کہ انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جنازے سے آگے چلتے دیکھا ۔ پس اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ سالم والی روایت کی اصل وہ جو ہم نے باب کے شروع میں مالک کسے واسطے سے زھری سے موقوف نقل کی ہے یا جیسا عقیل و یونس نے زھری کی وساطت سے سالم سے موقوف نقل کی ہے۔ اس طرح نہیں جیسا ابن عیینہ نے زھری کے واسطہ سے مرفوعًا نقل کیا ہے۔
لو سنو ! یہ ابن عمر (رض) تو جنازے سے آگے چلنے والے کو جنازہ کے ساتھ نہ جانے والا فرما رہے ہیں پس یہ ناممکن ہے کہ وہ ایسی بات اپنی طرف سے کہیں جبکہ فصل اول کی روایات میں وہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا جنازے سے آگے چلنا نقل کرچکے ہیں اس سے یہ ثابت ہوا کہ سالم والی روایت کی اصل وہ ہے جو امام مالک نے زہری سے نقل کی ہے۔ وہ موقوف ہے مرفوع روایت نہیں ہے۔
مزید ابن عمر (رض) کی روایت دیکھیں۔

2700

۲۷۰۰ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ مَرْیَمَ‘ قَالَ : ثَنَا الْفِرْیَابِیُّ‘ قَالَ : ثَنَا إِسْرَائِیْلُ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ یَحْیٰی‘ عَنْ (مُجَاہِدٍ‘ قَالَ : کُنْتُ مَعَ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا جَالِسًا‘ فَمَرَّتْ جَنَازَۃٌ‘ فَقَامَ ابْنُ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا ثُمَّ قَالَ : قُمْ‘ فَإِنِّیْ رَأَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَامَ لِجَنَازَۃِ یَہُوْدِیٍّ مَرَّتْ عَلَیْہِ .فَقِیْلَ : ہَلْ لَک أَنْ تَتْبَعَہَا‘ فَإِنَّ فِیْ اتِّبَاعِ الْجَنَازَۃِ أَجْرًا ؟ فَانْطَلَقْنَا نَمْشِیْ مَعَہَا‘ فَنَظَرَ فَرَأَی نَاسًا‘ فَقَالَ : مَا أُوْلٰٓئِکَ النَّاسُ بَیْنَ یَدَیِ الْجَنَازَۃِ ؟ قُلْتُ : ہُمْ أَہْلُ الْجَنَازَۃِ‘ فَقَالَ : مَا ہُمْ مَعَ الْجَنَازَۃِ‘ وَلٰـکِنْ کَتِفَیْہَا أَوْ وَرَائَ ہَا .فَبَیْنَمَا ہُوَ یَمْشِیْ اِذْ سَمِعَ رَانَّۃً‘ فَاسْتَدَارَنِیْ وَہُوَ قَابِضٌ عَلٰی یَدِی فَاسْتَقْبَلَہَا‘ فَقَالَ لَہَا شَرًّا‘ حَرَمْتِیْنَا ھٰذِہِ الْجَنَازَۃَ اذْہَبْ یَا مُجَاہِدُ‘ فَإِنَّک تُرِیْدُ الْأَجْرَ‘ وَھٰذِہِ تُرِیْدُ الْوِزْرَ‘ إِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَہَانَا أَنْ نَتْبَعَ الْجَنَازَۃَ مَعَہَا رَانَّۃٌ) .فَإِنْ قَالَ قَائِلٌ : وَکَیْفَ یَجُوْزُ أَنْ یَّکُوْنَ الْمَشْیُ خَلَفَ الْجَنَازَۃِ أَفْضَلَ مِنَ الْمَشْیِ أَمَامَہَا ؟ وَقَدْ کَانَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ بِحَضْرَۃِ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ جَنَازَۃِ زَیْنَبَ‘ یُقَدِّمَ النَّاسَ أَمَامَہَا فَذٰلِکَ دَلِیْلٌ عَلٰی أَنَّہٗ کَانَ لَا یَرَی الْمَشْیَ خَلْفَہَا أَصْلًا‘ وَلَوْلَا ذٰلِکَ لَأَبَاحَہُ لِمَنْ مَشٰی خَلْفَہَا .قِیْلَ لَہٗ : وَکَیْفَ یَجُوْزُ مَا ذَکَرْتُ؟ .وَقَدْ قَالَ عَلِیُّ بْنُ أَبِیْ طَالِبٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ : إِنَّہُمَا - یُرِیْدُ أَبَا بَکْرٍ وَعُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا- یَعْلَمَانِ أَنَّ الْمَشْیَ خَلْفَہَا أَفْضَلُ مِنَ الْمَشْیِ أَمَامَہَا‘ ثُمَّ یَفْعَلُ ھٰذَا الْمَعْنَی الَّذِیْ ذَکَرْتُ؟ وَلٰکِنَّہٗ فَعَلَ ذٰلِکَ - عِنْدَنَا وَاللّٰہُ أَعْلَمُ - لِعَارِضٍ‘ إِمَّا لِنِسَائٍ کُنَّ خَلْفَہَا‘ فَکَرِہَ لِلرِّجَالِ مُخَالَطَتَہُنَّ‘ فَأَمَرَہُمْ بِتَقَدُّمِ الْجَنَازَۃِ لِذٰلِکَ الْعَارِضِ لَا لِأَنَّہٗ أَفْضَلُ مِنَ الْمَشْیِ خَلْفَہَا .وَقَدْ سَمِعْتُ یُوْنُسُ یَذْکُرُ عَنِ ابْنِ وَہْبٍ أَنَّہٗ سَمِعَ مَنْ یَقُوْلُ ذٰلِکَ‘ وَہُوَ أَوْلٰی مَا حُمِلَ عَلَیْہِ مَعْنٰی ذٰلِکَ الْحَدِیْثِ‘ حَتّٰی لَا یُضَادَّ مَا ذَکَرَہٗ عَلِیٌّ عَنْ أَبِیْ بَکْرٍ وَعُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا .
٢٧٠٠: مجاہد کہتے ہیں میں ابن عمر (رض) کے پاس بیٹھا تھا ان کے پاس سے ایک جنازہ گزرا ابن عمر (رض) کھڑے ہوگئے پھر فرمایا تم بھی اٹھو میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایک یہودی کا جنازہ گزرتے وقت کھڑے ہوتے دیکھا ان سے سوال ہوا کیا تم کو ان کے ساتھ جانا مناسب ہے اس لیے جنازے کے ساتھ جانے میں ثواب ہے ؟ (وہ اٹھ کر چل دیئے) ہم دونوں اس کے ساتھ چلتے گئے آپ کی نظر جنازہ کے آگے کچھ لوگوں پر پڑی میں نے کہا یہ جنازہ والے کے متعلقین ہیں یہ لوگ جنازہ کے ساتھ نہیں۔ وہ لوگ ساتھ ہیں جو اس کے دونوں اطراف اور پیچھے ہیں چلتے ہوئے انھوں نے ایک رونے والی عورت کو سنا میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے گھمایا اور اس کے سامنے کر کے فرمایا تو بہت بری ہے کہ اس جنازہ کے اجر سے محروم کر رہی ہے اے مجاہد جاؤ! تو تو اجر کا خواستگار تھا اور یہ گناہ چڑھا رہی ہے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایسے جنازے کے ساتھ جانے سے روکا ہے جس کے ساتھ بین کرنے والی ہو۔ اگر کوئی معترض یہ کہے کہ یہ کس طرح ثابت ہوگیا کہ جنازے کے پیچھے چلنا آگے چلنے سے افضل ہے۔ حالانکہ حضرت عمر (رض) صحابہ کرام کی موجودگی حضرت زینب کے جنازے میں لوگوں کو اس سے آگے بڑھاتے تھے ۔ پس اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ وہ پیچھے چلنے کی کوئی اصل نہ پاتے تھے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو آپ پیچھے چلنے کو بھی مباح قرار دیتے ؟ اس کے جواب میں اس طرح عرض کریں گے ‘ کہ تمہاری یہ بات کیسے درست ہے۔ حالانکہ حضرت علی (رض) کا قول گزرا کہ ان دونوں حضرات کا مقصد یہ ہے کہ وہ لوگوں کو سکھاتے ہیں کہ جنازے پیچھے چلنا آگے چلنے سے افضل ہے۔ پھر ان کا یہ طرز عمل اختیار کرنا تو اس کا مطلب ہمارے نزدیک یہ ہے۔ (واللہ اعلم) کہ یہ کسی عارضہ کی وجہ سے تھا۔ خواہ ان عورتوں کی وجہ سے جو ان کے پیچھے تھیں تو آپ نے مردوں عورتوں کے اختلاط کو ناپسند کیا ۔ اس سے انھوں نے مردوں کو جنازے سے آگے بڑھ جانے کا حکم فرمایا ۔ تو اس کا سبب یہ عارضہ تھا نہ یہ کہ یہ چلنے سے افضل ہے۔ میں نے یونس سے سنا کر وہ ابن دھب سے یہ بیان کرتے اور کہتے کہ اس نے یہ بات خود کہنے والے سے سنی ۔ اس حدیث کا یہ معنی کرنا زیادہ بہتر ہے تاکہ یہ اس روایت کے خلاف نہ ہو ۔ جس کو حضرت علی (رض) نے سابقہ سطور میں حضرت ابوبکر اور عمر (رض) کے متعلق ذکر کیا ہے۔
لغات : کنفیھا۔ دونوں اطراف۔ رابہ۔ بین کرنے والی عورت۔ استدار۔ گھمایا۔
تخریج : ابن ماجہ فی الجنائز باب ٥٧‘ مسند احمد ٢؍٤٢٧‘ ٥٢٨۔
ایک اہم سوال :
جنازہ میں پیچھے چلنے کو کس طرح افضل کہا جاسکتا ہے جبکہ ام المؤمنین زینب (رض) کے جنازے میں حضرت عمر (رض) نے صحابہ کرام (رض) کی موجودگی میں لوگوں کو جنازے سے آگے چلنے کا حکم فرمایا اگر وہ پیچھے چلنے کو افضل سمجھتے تو وہ آگے چلنے کا کیوں حکم فرماتے اس سے تو یہ معلوم ہو رہا ہے کہ وہ پیچھے چلنے کو درست نہ سمجھتے تھے۔
الجواب :
تمہارا یہ کہنا درست نہیں ہے کیونکہ حضرت علی (رض) نے فرمایا کہ ابوبکر و عمر ] جانتے ہیں کہ جنازے کے پیچھے چلنا آگے چلنے سے افضل ہے پھر عمر (رض) کی بات کا یہ مطلب تم کس طرح لے سکتے ہو عمر (رض) آگے چلنے کا حکم یا تو اس لیے دیا کہ کچھ عورتیں وہاں چلی آرہی تھیں مردوں کے ساتھ ان کے اختلاط کو روکنے کے لیے مردوں کو آگے چلنے کا حکم فرمایا اس لیے نہیں کہ وہ آگے چلنے کو افضل قرار دیتے تھے مشہور تابعی اسود (رح) کا طرز عمل اس کی تصدیق کرتا ہے۔
حاصل اثر : یہ اسود (رح) ہیں ‘ جنہوں نے ابن مسعود ‘ عمر فاروق ‘ علی مرتضیٰ ] کی طویل صحبت پائی ہے وہ جنازے سے آگے اسی وقت چلتے ہیں جب کوئی عارضہ پیش آجاتا ہے ورنہ پیچھے چلتے ہیں بس گزشتہ روایت کا مفہوم بھی یہی ہوگا اور عمر (رض) کے فعل کو جو جنازہ زینب میں پیش آیا اسی قسم کے عارضہ پر محمول کریں گے۔
مزید تائید ملاحظہ فرمائیں۔

2701

۲۷۰۱ : وَقَدْ حَدَّثَنَا فَہْدٌ‘ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَعِیْدٍ‘ قَالَ : أَنَا شَرِیْکٌ‘ عَنْ مُغِیْرَۃَ‘ عَنْ اِبْرَاہِیْمَ‘ قَالَ : کَانَ الْأَسْوَدُ اِذَا کَانَ مَعَہَا نِسَاء ٌ أَخَذَ بِیَدِیْ‘ فَتَقَدَّمْنَا نَمْشِیْ أَمَامَہَا‘ فَإِذَا لَمْ یَکُنْ مَعَہَا نِسَاء ٌ‘ مَشَیْنَا خَلْفَہَا .فَھٰذَا الْأَسْوَدُ بْنُ یَزِیْدَ - عَلٰی طُوْلِ صُحْبَتِہِ لِعَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ‘ وَعَلَی صُحْبَتِہِ لِعُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ - قَدْ کَانَ قَصْدُہُ فِی الْمَشْیِ مَعَ الْجَنَازَۃِ إِلَی الْمَشْیِ خَلْفَہَا‘ إِلَّا أَنْ یَعْرِضَ لَہٗ عَارِضٌ فَمَشٰی أَمَامَہَا لِذٰلِکَ الْعَارِضِ‘ لَا لِأَنَّ ذٰلِکَ أَفْضَلُ عِنْدَہُ مِنْ غَیْرِہٖ۔ فَکَذٰلِکَ عُمَرُ‘ مَا رَوَیْنَاہٗ عَنْہُ فِیْمَا فَعَلَہٗ فِیْ جَنَازَۃِ زَیْنَبَ‘ ہُوَ عَلٰی ھٰذَا الْمَعْنَی - عِنْدَنَا - وَاللّٰہُ أَعْلَمُ .
٢٧٠١ : محمد نے ابراہیم سے نقل کیا کہ جب جنازے کے ساتھ عورتیں ہو تیں تو اسود میرے ہاتھ کو پکڑتے ہم ان کے آگے چلنے کے لیے آگے بڑھ جاتے۔ اور جب جب عورتیں نہ ہوتیں تو ہم جنازے پیچھے چلتے۔ یہ اسود بن یزید ہیں جنہوں نے ابن مسعود (رض) کی طویل صحبت اٹھائی اور ان کو حضرت عر (رض) کی صحبت بھی ملی ان کا طریقہ جنازہ میں پیچھے چلنے کا تھا سوائے اس صورت کے جب کوئی عارضہ پیش آجائے ۔ تو وہ اس عارضہ کی بناء پھر آگے چلتے اس بناء پر نہیں کہ یہ آگے چلنا پیچھے چلنے سے ان کے ہاں افضل ہے۔ پس اسی طرح حضرت عمر (رض) نے حضرت زینب (رض) کے جنازہ میں کیا اس کا یہی مطلب ہمارے نزدیک ہے واللہ اعلم۔

2702

۲۷۰۲ : وَقَدْ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِی السَّرِیِّ‘ قَالَ : ثَنَا فُضَیْلُ بْنُ عِیَاضٍ‘ قَالَ : ثَنَا مَنْصُوْرٌ‘ عَنْ اِبْرَاہِیْمَ .ح .
٢٧٠٢: فضیل بن عیاض کہتے ہیں کہ ہمیں منصور نے ابراہیم سے روایت نقل کی۔

2703

۲۷۰۳ : وَحَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ الْفَرَجِ‘ قَالَ : ثَنَا یُوْسُفُ بْنُ عَدِیٍّ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ‘ عَنْ مُغِیْرَۃَ‘ عَنْ اِبْرَاہِیْمَ‘ قَالَ : کَانُوْا یَکْرَہُوْنَ السَّیْرَ أَمَامَ الْجَنَازَۃِ .فَھٰذَا اِبْرَاہِیْمُ یَقُوْلُ ھٰذَا‘ وَإِذَا قَالَ (کَانُوْا) فَإِنَّمَا یَعْنِیْ بِذٰلِکَ أَصْحَابَ عَبْدِ اللّٰہِ‘ فَقَدْ کَانُوْا یَکْرَہُوْنَ ھٰذَا‘ ثُمَّ یَفْعَلُوْنَہٗ لِلْعُذْرِ‘ لِأَنَّ ذٰلِکَ ہُوَ أَفْضَلُ مِنْ مُخَالَطَۃِ النِّسَائِ اِذَا قَرُبْنَ مِنَ الْجَنَازَۃِ‘ فَأَمَّا اِذَا بَعُدْنَ مِنْہَا‘ أَوْ لَمْ یَکُنْ مَعَہَا نِسَاء ٌ‘ فَإِنَّ الْمَشْیَ خَلْفَہَا أَفْضَلُ مِنَ الْمَشْیِ أَمَامَہَا وَعَنْ یَّمِیْنِہَا‘ وَعَنْ شِمَالِہَا .وَھٰذَا قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ‘ وَأَبِیْ یُوْسُفَ‘ وَمُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ‘ رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی .
٢٧٠٣: مغیرہ نے ابراہیم سے نقل کیا کہ یہ حضرات شافردان عبداللہ جنازہ کے آگے چلنا مکروہ خیال کرتے تھے۔ یہ ابراہیم ہیں جو اصحاب ابن مسعود (رض) کے متعلق بتلا رہے ہیں وہ سب جنازے سے آگے چلنے کو ناپسند قرار دیتے اور اگر کبھی کرتے تو وہ کسی خاص عذر کی بنا پر کرتے کیونکہ اس وقت عورتوں کی مخالطت سے جنازے سے آگے چلنا افضل ہے جب عورتیں نہ ہوں یا دور ہوں تو پھر پیچھے چلنا افضل ہے اس سے کہ آگے یا دائیں بائیں چلے۔
یہی امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد بن الحسن رحمہم اللہ کا قول ہے۔
حاصل روایات : اس باب میں امام نے مسلک راجح کو روایات اور جوابات سے خوب پختہ و مبرہن کیا ہے اور نظر کے بعد معمول کے مطابق اقوال تابعین سے مؤید کردیا اس باب میں صرف افضل و غیر افضل کا اختلاف ہے۔

2704

۲۷۰۴ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ‘ قَالَ : ثَنَا مُعَلَّی بْنُ مَنْصُوْرٍ‘ قَالَ : ثَنَا إِسْمَاعِیْلُ بْنُ عَیَّاشٍ‘ عَنْ إِسْمَاعِیْلِ بْنِ أُمَیَّۃَ‘ عَنْ مُوْسَی بْنِ عِمْرَانَ بْنِ مَبَاحٍ أَنَّ أَبَانَ بْنَ عُثْمَانَ مَرَّتْ بِہٖ جَنَازَۃٌ فَقَامَ لَہَا .
٢٧٠٤: موسیٰ بن عمران نے نقل کیا کہ ابان بن عثمان کے پاس سے جنازہ گزرا وہ جنازے کی خاطر کھڑے ہوگئے۔
تخریج : مسند احمد ١؍٦٤۔
جنازہ جب گزر رہا ہو تو اس وقت اسے دیکھ کر کھڑے ہونے کا حکم باقی ہے یا منسوخ ہوچکا۔
نمبر 1: امام شافعی (رح) کے ہاں جنازے کو دیکھ کر کھڑے ہونا مستحب ہے۔
نمبر ٢ : ائمہ احناف اور مالک و احمد کھڑے ہونے کے حکم کو منسوخ مانتے ہیں امام احمد کھڑے ہونے نہ ہونے میں اختیار دیتے ہیں۔
فریق اوّل کا مؤقف اور دلائل : جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کھڑے ہونے کا ثبوت ہے اس لیے کھڑے ہونا مستحب ہے دلائل ملاحظہ ہوں۔

2705

۲۷۰۵ : حَدَّثَنَا یَزِیْدُ‘ قَالَ : ثَنَا دُحَیْمٌ‘ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ مَسْلَمَۃَ بْنِ ہِشَامِ بْنِ عَبْدِ الْمَلِکِ‘ عَنْ إِسْمَاعِیْلَ بْنِ أُمَیَّۃَ‘ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .إِلَّا أَنَّہٗ قَالَ : رَأَیْتُ عُثْمَانَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ یَفْعَلُ ذٰلِکَ‘ وَأَخْبَرَنِیْ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَفْعَلُ ذٰلِکَ .
٢٧٠٥: سعید بن مسلمہ نے اسماعیل بن امیہ سے اپنی اسناد کے ساتھ یہ اثر اسی طرح نقل کیا ہے البتہ یہ اضافہ بھی ہے کہ میں نے عثمان (رض) کو ایسا کرتے دیکھا اور انھوں نے مجھے بتلایا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی ایسا کرتے تھے۔
تخریج : مسندالبزار ٢؍٢١۔

2706

۲۷۰۶ : حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ‘ قَالَ : ثَنَا أَسَدٌ‘ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ‘ عَنِ الزُّہْرِیِّ‘ عَنْ سَالِمٍ‘ عَنْ أَبِیْہِ‘ عَنْ عَامِرِ بْنِ رَبِیْعَۃَ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ (اِذَا رَأَیْتُمُ الْجَنَازَۃَ فَقُوْمُوْا لَہَا حَتّٰی تُوْضَعَ أَوْ تُخَلِّفَکُمْ) .
٢٧٠٦: سالم نے اپنے والد سے انھوں نے عامر بن ربیعہ (رض) سے نقل کیا کہ جناب اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب تم جنازہ دیکھو تو کھڑے ہوجاؤ یہاں تک کہ جنازہ کندھوں سے اتار دیا جائے یا آگے نکل جائے۔
تخریج : بخاری فی الجنائز باب ٤٧‘ ٤٨‘ مسلم فی الجنائز نمبر ٧٣‘ ٧٨‘ ابو داؤد فی الجنائز باب ٤٣‘ نمبر ٣١٧٢‘ ترمذی فی الجنائز باب ٥١‘ نمبر ١٠٤٢‘ نسائی فی الجنائز باب ٤٤‘ ٤٥‘ ٤٦‘ ابن ماجہ فی الجنائز باب ٣٥‘ نمبر ١٥٤٢‘ مسند احمد ٣؍٢٥‘ ٤١۔

2707

۲۷۰۷ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا اِبْرَاہِیْمُ بْنُ أَبِی الْوَزِیْرِ‘ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ‘ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ.
٢٧٠٧: ابراہیم بن ابی الوزیر نے کہا ہمیں سفیان نے اپنی اسناد سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

2708

۲۷۰۸ : حَدَّثَنَا یَزِیْدُ بْنُ سِنَانٍ‘ قَالَ : ثَنَا أَزْہَرُ بْنُ سَعْدٍ السَّمَّانِ‘ عَنِ ابْنِ عَوْنٍ‘ عَنْ نَافِعٍ‘ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا‘ عَنْ (عَامِرِ بْنِ رَبِیْعَۃَ‘ قَالَ : قَالَ لِیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِذَا رَأَیْتُ جَنَازَۃً فَقُمْ) .
٢٧٠٨: نافع نے ابن عمر (رض) سے انھوں نے عامر بن ربیعہ (رض) سے نقل کیا ہے کہ مجھے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب تو جنازہ دیکھے تو کھڑا ہوجا۔
تخریج : عزارہ العینی الی الطبرانی۔

2709

۲۷۰۹ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا حُسَیْنُ بْنُ مَہْدِیٍّ‘ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ‘ قَالَ : أَخْبَرَنِی ابْنُ جُرَیْجٍ‘ قَالَ : أَخْبَرَنِی ابْنُ شِہَابٍ‘ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ سَالِمٌ‘ عَنْ نَافِعٍ‘ عَنِ ابْنِ عُمَرَ‘ عَنْ عَامِرِ بْنِ رَبِیْعَۃَ‘ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ (اِذَا رَأَیْتُمُ الْجَنَازَۃَ فَقُوْمُوْا لَہَا حَتّٰی تُوْضَعَ أَوْ تُخَلِّفَکُمْ) .
٢٧٠٩: نافع نے ابن عمر (رض) سے انھوں نے عامر بن ربیعہ (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کیا ہے کہ جب تم جنازہ دیکھو تو اس کے لیے کھڑے ہوجاؤ جب تک کہ وہ زمین پر رکھ نہ دیا جائے یا تم سے گزر نہ جائے۔
تخریج : مسند احمد ٣؍٤٤٥۔

2710

۲۷۱۰ : حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ‘ قَالَ : ثَنَا أَسَدٌ‘ قَالَ : ثَنَا اللَّیْثُ‘ عَنْ نَافِعٍ‘ عَنِ ابْنِ عُمَرَ‘ عَنْ عَامِرِ ابْنِ رَبِیْعَۃَ‘ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَحْوَہٗ۔
٢٧١٠: نافع نے ابن عمر انھوں عن عامر بن ربیعہ ] سے ‘ انھوں نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔
تخریج : ترمذی نسائی نحوۃ۔

2711

۲۷۱۱ : حَدَّثَنَا یَزِیْدُ بْنُ سِنَانٍ‘ وَمُبَشِّرُ بْنُ الْحَسَنِ‘ قَالَا : حَدَّثَنَا أَبُوْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ الْمُقْرِیْ، قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ أَبِیْ أَیُّوْبَ‘ قَالَ : حَدَّثَنِیْ رَبِیْعَۃُ بْنُ سَیْفٍ الْمَعَافِرِیُّ‘ عَنْ أَبِیْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ‘ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرٍو‘ أَنَّہٗ قَالَ : (سَأَلَ رَجُلٌ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ فَقَالَ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ تَمُرُّ بِنَا جَنَازَۃُ الْکَافِرِ فَنَقُوْمُ لَہَا ؟ قَالَ نَعَمْ فَإِنَّکُمْ لَسْتُمْ تَقُوْمُوْنَ لَہَا إِنَّمَا تَقُوْمُوْنَ إعْظَامًا لِلَّذِیْ یَقْبِضُ النُّفُوْسَ) .
٢٧١١: ابو عبدالرحمن نے عبداللہ بن عمرو (رض) سے نقل کیا کہ ایک آدمی نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! اگر ہمارے پاس سے کافر کا جنازہ گزرے تو کیا اس کے لیے کھڑے ہوں گے ؟ فرمایا ہاں۔ تم اس میت کے لیے کھڑے نہیں ہوتے بلکہ تم (اس فرشتے کے لئے) کھڑے ہوتے ہو جو جان قبض کرتا ہے۔
تخریج : مسند احمد ٢؍١٦٨۔

2712

۲۷۱۲ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ .ح .
٢٧١٢: ابو بکرہ نے ابو داؤد سے اسی طرح اپنی سند سے بیان کیا۔

2713

۲۷۱۳ : وَحَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا وَہْبُ بْنُ جَرِیْرٍ‘ قَالَا : ثَنَا شُعْبَۃُ‘ عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ‘ عَنِ ابْنِ أَبِیْ لَیْلٰی‘ قَالَ : (قَعَدَ سَہْلُ بْنُ حُنَیْفٍ‘ وَقَیْسُ بْنُ سَعْدِ بْنِ عُبَادَۃَ بِالْقَادِسِیَّۃِ‘ فَمُرَّ عَلَیْہِمَا بِجَنَازَۃٍ فَقَامَا .فَقِیْلَ لَہُمَا : إِنَّہُ مِنْ أَہْلِ الْأَرْضِ‘ أَیْ مَجُوْسِیٌّ .فَقَالَا : إِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَرَّ عَلَیْہِ جَنَازَۃٌ‘ فَقَامَ‘ فَقِیْلَ لَہٗ : إِنَّہُ یَہُوْدِیٌّ‘ فَقَالَ أَلَیْسَ مَیِّتًا ؟ أَوْ لَیْسَ نَفْسًا ؟) .
٢٧١٣: ابن ابی لیلیٰ بیان کرتے ہیں کہ سہل بن حنیف اور قیس بن سعد بن عبادہ (رض) قادسیہ میں بیٹھے تھے ان کے پاس سے ایک جنازہ گزرا تو وہ دونوں کھڑے ہوگئے ان سے کہا گیا یہ مجوسی کا جنازہ ہے تو دونوں نے کہا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس سے ایک جنازہ گزرا تو آپ کھڑے ہوگئے آپ کو بتلایا گیا یہ یہودی کا جنازہ ہے تو فرمایا کیا وہ مردہ نہیں ؟ یا کیا وہ جاندار نہیں ؟
تخریج : بخاری فی الجنائز باب ٤٩‘ مسلم فی الجنائز نمبر ٨١۔

2714

۲۷۱۴ : حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ‘ قَالَ : ثَنَا أَسَدٌ‘ قَالَ : ثَنَا ابْنُ لَہِیْعَۃَ‘ عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ‘ عَنْ جَابِرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : (قَامَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَمَنْ مَعَہٗ لِجَنَازَۃٍ حَتّٰی تَوَارَتْ).
٢٧١٤: ابوالزبیر نے جابر (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے صحابہ ایک جنازہ کے لیے کھڑے ہوگئے۔ (اس وقت تک کھڑے رہے) یہاں تک کہ وہ آنکھوں سے غائب ہوگیا۔
تخریج : مسلم فی الجنائز نمبر ٧٩۔

2715

۲۷۱۵ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا مُسْلِمُ بْنُ اِبْرَاہِیْمَ‘ قَالَ : ثَنَا أَبَانُ .ح .
٢٧١٥: مسلم بن ابراہیم نے ابان سے نقل کیا۔

2716

۲۷۱۶ : وَحَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ‘ قَالَ : ثَنَا مُوْسَی بْنُ إِسْمَاعِیْلَ‘ قَالَ : ثَنَا أَبَانُ‘ عَنْ یَحْیَی بْنِ أَبِیْ کَثِیْرٍ‘ عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ مِقْسَمٍ‘ عَنْ (جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ : بَیْنَمَا نَحْنُ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِذْ مَرَّتْ عَلَیْہِ جَنَازَۃٌ فَقُمْنَا لِنَحْمِلَہَا‘ فَإِذَا جَنَازَۃٌ یَہُوْدِیٌّ أَوْ یَہُوْدِیَّۃٍ‘ فَقُلْنَا : یَا نَبِیَّ اللّٰہِ‘ إِنَّہَا جَنَازَۃُ یَہُوْدِیٍّ أَوْ یَہُوْدِیَّۃٍ‘ فَقَالَ إِنَّ الْمَوْتَ فَزَعٌ‘ فَإِذَا رَأَیْتُمُ الْجَنَازَۃَ فَقُوْمُوْا) .
٢٧١٦: موسیٰ بن اسماعیل نے ابان سے انھوں نے یحییٰ بن ابی کثیر سے انھوں نے عن عبیداللہ بن مقسم سے انھوں نے جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ ہم جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ تھے جب کہ آپ کے پاس سے ایک جنازہ گزرا ہم اٹھانے کے لیے کھڑے ہوئے تو معلوم ہوا کہ یہ یہودی مرد یا عورت کا جنازہ ہے ہم نے کہا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ یہودی مرد یا عورت کا جنازہ ہے فرمایا بلاشبہ موت گھبراہٹ ہے جب تم جنازہ دیکھو تو کھڑے ہوجایا کرو۔
تخریج : ابو داؤد ٢؍٤٥٢۔

2717

۲۷۱۷ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَیْمُوْنَ‘ قَالَ : ثَنَا الْوَلِیْدُ‘ عَنِ الْأَوْزَاعِیِّ‘ عَنْ یَحْیٰی‘ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .
٢٧١٧: ولید نے اوزاعی سے انھوں نے یحییٰ سے پھر اس نے اپنی سند سے روایت نقل کی ہے۔

2718

۲۷۱۸ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا وَہْبٌ‘ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ‘ عَنِ ابْنِ أَبِی السَّفَرِ‘ عَنِ الشَّعْبِیِّ‘ عَنْ (أَبِیْ سَعِیْدٍ الْخُدْرِیِّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ‘ قَالَ : مُرَّ عَلٰی مَرْوَانَ بِجَنَازَۃٍ فَلَمْ یَقُمْ .فَقَالَ أَبُوْ سَعِیْدٍ : إِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مُرَّ عَلَیْہِ بِجَنَازَۃٍ فَقَامَ‘ فَقَامَ مَرْوَانُ) .
٢٧١٨: شعبی نے ابو سعید خدری (رض) سے روایت کی ہے کہ مروان پر ایک جنازہ گزارا گیا وہ اس کے لیے کھڑا نہ ہوا تو ابو سعید کہنے لگے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس سے جنازہ گزارا گیا تو آپ اس کے لیے کھڑے ہوگئے تو مروان (یہ سن کر) کھڑا ہوگیا۔
تخریج : مسند احمد ٣؍٤٧۔

2719

۲۷۱۹ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا وَہْبٌ‘ عَنْ شُعْبَۃَ‘ عَنْ سُہَیْلِ بْنِ أَبِیْ صَالِحٍ‘ عَنْ أَبِیْہِ‘ عَنْ أَبِیْ سَعِیْدٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ‘ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ (اِذَا رَأَیْتُمُ الْجَنَازَۃَ فَقُوْمُوْا‘ فَمَنْ تَبِعَہَا فَلاَ یَقْعُدْ حَتّٰی تُوْضَعَ) .
٢٧١٩: سہیل بن ابی صالح نے اپنے والد سے انھوں نے ابو سعید (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کیا کہ آپ نے فرمایا کہ جب تم جنازہ دیکھو تو کھڑے ہوجاؤ جو جنازے کے پیچھے جائے وہ اس وقت تک نہ بیٹھے جب تک جنازہ زمین پر نہ رکھ دیا جائے۔
تخریج : بخاری فی الجنائز باب ٤٨‘ مسلم فی الجنائز نمبر ٧٦‘ ٧٧‘ ابو داؤد فی الجنائز باب ٤٣‘ نمبر ٣١٧٣۔

2720

۲۷۲۰ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا مُسْلِمٌ‘ قَالَ : ثَنَا أَبَانُ‘ قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ أَبِیْ کَثِیْرٍ‘ عَنْ أَبِیْ سَلْمَۃَ‘ عَنْ أَبِیْ سَعِیْدٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ‘ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ .
٢٧٢٠: ابو سلمہ نے ابو سعیدالخدری (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت کی ہے۔

2721

۲۷۲۱ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَیْمُوْنٍ‘ قَالَ : ثَنَا الْوَلِیْدُ‘ عَنِ الْأَوْزَاعِیِّ‘ عَنْ یَحْیٰی .ح.
٢٧٢١: ولید نے اوزاعی سے انھوں نے یحییٰ سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

2722

۲۷۲۲ : وَحَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ‘ قَالَ : ثَنَا ہِشَامٌ‘ عَنْ یَحْیٰی‘ عَنْ أَبِیْ سَلْمَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ سَعِیْدٍ‘ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ .
٢٧٢٢: یحییٰ نے ابو سلمہ سے انھوں نے ابو سعید (رض) سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔

2723

۲۷۲۳ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ‘ قَالَ : ثَنَا الْوَہْبِیُّ‘ قَالَ .ثَنَا ابْنُ إِسْحَاقَ‘ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ اِبْرَاہِیْمَ‘ عَنْ سَعِیْدِ بْنِ مَرْجَانَۃَ‘ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ (اِذَا صَلّٰی أَحَدُکُمْ عَلٰی جَنَازَۃٍ وَلَمْ یَمْشِ مَعَہَا‘ فَلْیَقُمْ حَتّٰی تَغِیْبَ عَنْہُ‘ وَإِنْ مَشَیْ مَعَہَا فَلاَ یَقْعُدْ حَتّٰی تُوْضَعَ) .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ إِلٰی ھٰذِہِ الْآثَارِ فَاتَّبَعُوْہَا وَجَعَلُوْہَا أَصْلًا وَقَلَّدُوْہَا‘ وَأَمَرُوْا مَنْ مَرَّتْ بِہٖ جَنَازَۃٌ أَنْ یَّقُوْمَ لَہَا حَتّٰی تَتَوَارٰی عَنْہُ‘ وَمَنْ مَشَیْ مَعَہَا أَنْ لَا یَقْعُدَ حَتّٰی تُوْضَعَ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ فَقَالُوْا : لَیْسَ عَلٰی مَنْ مَرَّتْ بِہٖ جَنَازَۃٌ أَنْ یَقُوْمَ لَہَا‘ وَلِمَنْ تَبِعَہَا أَنْ یَجْلِسَ‘ وَإِنْ لَمْ تُوْضَعْ .وَقَالُوْا : أَمَّا قِیَامُ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِجَنَازَۃِ الْیَہُوْدِیِّ فِی الْحَدِیْثِ الَّذِیْ رَوَاہُ قَیْسُ بْنُ سَعْدٍ‘ وَسَہْلُ بْنِ حُنَیْفٍ‘ فَإِنَّ ذٰلِکَ لَمْ یَکُنْ مِنَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ لِأَنَّ مِنْ حُکْمِ الْجَنَائِزِ أَنْ یُّقَامَ لَہَا‘ وَلٰـکِنْ لِمَعْنًی غَیْرِ ذٰلِکَ .وَذَکَرُوْا فِیْ ذٰلِکَ۔
٢٧٢٣: سعید بن مرجانہ نے ابوہریرہ (رض) سے روایت کی کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب تم میں سے کوئی جنازہ پڑھے اور اس کے ساتھ نہ جانا ہو تو اسے اس وقت تک کھڑا رہنا چاہیے یہاں تک کہ وہ نظروں سے غائب ہوجائے اور اگر ساتھ جائے تو جنازے کے زمین پر رکھنے سے پہلے نہ بیٹھے۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں کہ کچھ علماء نے ان آثار کی اتباع کی اور ان کو اصل قرار دے کر ان کی تقلید کی اور انھوں نے کہا کہ جس شخص کے پاس سے جنازہ گزرے اسے اس وقت تک کھڑا رہنا چاہیے یہاں تک کہ نظروں سے اوجھل ہو اور اس کے ساتھ چلنے والا جنازہ رکھنے سے پہلے نہ بیٹھے۔ دیگر علماء نے ان کی مخالفت کرتے ہوئے کہا جس کے پاس سے جنازہ گزرے اسے کھڑے ہونے کی ہاجت نہیں اور اس کے ساتھ چلنے والوں کو جنازہ رکھنے سے پہلے بیٹھنا جائز ہے۔ باقی رہی یہ بات کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہودی کے جنازے کے لیے کھڑے ہوتے جیسا قیس بن سعد اور سہل بن حنیف (رض) کی روایات میں ہے۔ آپ کا کھڑا ہونا جنازے کی وجہ سے نہ تھا ۔ جنازے کے لیے کھڑا ہونا چاہیے مگر کسی اور وجہ سے نہ کہ اس بناء پر اور نہوں نے۔
حاصل روایات : ان روایات سے جنازے کے لیے کھڑا ہونا ثابت ہوا ہے اور اگر ساتھ نہ جانا چاہتا ہو تو غائب ہونے تک کھڑا رہے اور اگر ساتھ جائے تو جب تک جنازہ رکھا نہ جائے اس وقت تک نہ بیٹھے۔
مؤقف فریق ثانی و دلائل و جوابات : جس کے پاس سے جنازہ گزرے وہ کھڑا نہ ہو اور جنازہ رکھے جانے سے پہلے بھی بیٹھ سکتا ہے۔
پہلے فریق اوّل کی پیش کردہ روایات کا جواب دیا جاتا ہے۔
جواب نمبر 1: قیام النبی۔۔۔ سے دیا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہودی کے جنازے کے لیے بطور تکریم نہ کھڑے ہوئے تھے بلکہ ایک خاص وجہ سے کھڑے ہوئے جو اس روایت میں موجود ہے۔

2724

۲۷۲۴ : مَا حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَاصِمٍ‘ عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ‘ قَالَ : سَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ عُمَرَ‘ یُحَدِّثُ عَنِ الْحَسَنِ‘ وَابْنٍ عَبَّاس رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا‘ أَوْ عَنْ أَحَدِہِمَا (أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ مَرَّتْ بِہٖ جَنَازَۃُ یَہُوْدِیٍّ‘ فَقَامَ لَہَا وَقَالَ آذَانِیْ رِیْحُہَا) .فَدَلَّ ھٰذَا الْحَدِیْثُ عَلٰی أَنَّ قِیَامَہٗ کَانَ لَمَّا آذَاہُ رِیْحُہَا لِیَتَبَاعَدَ عَنْہُ‘ لَا لِغَیْرِ ذٰلِکَ .وَأَمَّا مَا رُوِیَ مِنْ قِیَامِہٖ لِجَنَازَۃٍ (إِنَّمَا کَانَ) لِیُصَلِّیْ عَلَیْہَا .
٢٧٢٤: محمد بن عمر نے حسن اور ابن عباس (رض) سے نقل کی ہے یا ایک سے نقل کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس سے یہودی کا جنازہ گزرا تو آپ اس کی وجہ سے کھڑے ہوگئے اور فرمایا مجھے اس کی بدبو نے تکلیف پہنچائی ہے۔
جواب نمبر 2: یہود کے متعلق تو یہ علت معلوم ہوگئی اب رہا مسلمانوں کے جنازے کے لیے کھڑا ہونا تو اس کی علت اس روایت سے معلوم ہو رہی ہے ملاحظہ کریں۔

2725

۲۷۲۵ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو‘ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ نُمَیْرٍ‘ عَنْ سَعِیْدٍ‘ عَنْ قَتَادَۃَ‘ عَنِ الْحَسَنِ (أَنَّ الْعَبَّاسَ بْنَ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ وَالْحَسَنَ بْنَ عَلِیٍّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا مَرَّتْ بِہِمَا جَنَازَۃٌ‘ فَقَامَ الْعَبَّاسُ وَلَمْ یَقُمَ الْحَسَنُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ‘ فَقَالَ الْعَبَّاسُ لِلْحَسَنِ : أَمَا عَلِمْتُ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَرَّتْ عَلَیْہِ جَنَازَۃٌ فَقَامَ ؟ .فَقَالَ : نَعَمْ‘ وَقَالَ الْحَسَنُ لِلْعَبَّاسِ : أَمَا عَلِمْتُ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یُصَلِّیْ عَلَیْہَا ؟ قَالَ : نَعَمْ) . فَدَلَّ ھٰذَا الْحَدِیْثُ أَنَّ قِیَامَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ذٰلِکَ‘ إِنَّمَا کَانَ لِیُصَلِّیَ عَلَیْہَا‘ لَا لِأَنَّ مِنْ سُنَّتِہَا أَنْ یُقَامَ لَہَا .وَأَمَّا مَا ذُکِرَ مِنْ أَمْرِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنَ الْقِیَامِ لِلْجَنَازَۃِ‘ وَمِنْ تَرْکِ الْقُعُوْدِ اِذَا اُتُّبِعَتْ‘ حَتّٰی تُوْضَعَ‘ فَإِنَّ ذٰلِکَ قَدْ کَانَ‘ ثُمَّ نُسِخَ .
٢٧٢٥: قتادہ نے حسن سے روایت کی ہے کہ عباس بن عبدالمطلب اور حسن بن علی ] کے پاس سے ایک جنازہ گزرا تو اس کے لیے عباس تو کھڑے ہوگئے مگر حسن کھڑے نہ ہوئے تو عباس (رض) نے حسن کو کہا کیا تمہیں معلوم نہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس سے جنازہ گزرا تو آپ کھڑے ہوگئے تو حسن (رض) نے کہا جی ہاں۔ حسن (رض) نے عباس (رض) سے کہا کیا آپ کو معلوم نہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (اس لیے کھڑے ہوتے تھے) کہ آپ نے اس پر جنازہ پڑھنا ہوتا تھا عباس (رض) نے کہا بات تو ایسے ہی ہے۔ یہ روایت اس بات پر دلالت کر رہی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کھڑا ہونا جنازہ پڑھنے کے لیے تھا ۔ اس وجہ سے نہیں کہ یہ جنازہ کے سنن میں سے ہے۔ باقی جو آپ جنازہ کے لیے قیام کا تم نے ذکر کیا ہے اور جب جنازہ کے ساتھ جاتے تو رکھنے سے پہلے نہ بیٹھے یہ حکم پہلے موجود تھا پھر منسوخ ہوگیا ۔ روایات ملاحظہ کریں۔

2726

اس روایت سے یہ بات ثابت ہوئی کہ آپ جنازہ کے لئے کھڑے ہوتے تاکہ اس پر نمازِ جنازہ پڑھیں اس وجہ سے نہیں کہ کھڑا ہونا جنازے کی سنتوں میں سے ہے۔ اس مؤقف پر دلائل: جنازے کے لئے کھڑے ہونے کا حکم جن روایات میں وارد ہے وہ منسوخ نہیں اسی طرح جنازے کے ساتھ جانے والا اس وقت تک نہ بیٹھے جب تک جنازہ زمین پر نہ رکھا جائے اس پر مندرجہ ذیل روایات شاہد ہیں۔
٢٧٢٦ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ ‘ قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ ‘ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ مَالِکٌ‘ عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیْدٍ ‘ عَنْ وَاقِدِ بْنِ عَمْرٍو ‘ عَنْ نَافِعِ بْنِ جُبَیْرٍ ‘ عَنْ مَسْعُوْدِ بْنِ الْحَکَمِ ‘ عَنْ عَلِیِّ بْنِ أَبِیْ طَالِبٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : (قَامَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَعَ الْجَنَازَۃِ حَتّٰی تُوْضَعَ ‘ وَقَامَ النَّاسُ مَعَہٗ ، ثُمَّ قَعَدَ بَعْدَ ذٰلِکَ ‘ وَأَمَرَہُمْ بِالْقُعُوْدِ ) .
٢٧٢٦: مسعود بن حکم نے حضرت علی (رض) سے نقل کیا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جنازہ کے ساتھ کھڑے رہتے جب تک کہ وہ رکھ نہ دیا جاتا اور لوگ بھی کھڑے رہتے پھر اس کے بعد آپ بیٹھتے اور صحابہ کرام کو بھی بیٹھنے کا حکم فرماتے۔
تخریج : مسلم فی الجنائز نمبر ٨٢؍٨٣۔

2727

۲۷۲۷ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ وَبَحْرٌ‘ قَالَا : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ‘ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ أُسَامَۃُ بْنُ زَیْدٍ اللَّیْثِیُّ أَنَّ مُحَمَّدَ ابْنَ عَمْرِو بْنِ عَلْقَمَۃَ حَدَّثَہٗ، عَنْ وَاقِدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ‘ عَنْ مَسْعُوْدِ بْنِ الْحَکَمِ الزُّرَقِیُّ‘ عَنْ عَلِیٍّ‘ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ .
٢٧٢٧: مسعود بن حکم زرقی نے حضرت علی (رض) انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

2728

۲۷۲۸ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ‘ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ أَنَسُ بْنُ عِیَاضٍ‘ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ وَاقِدِ بْنِ عَمْرٍو‘ عَنْ نَافِعِ بْنِ جُبَیْرٍ‘ عَنْ مَسْعُوْدِ بْنِ الْحَکَمِ أَنَّہٗ قَالَ : سَمِعْتُ عَلِیًّا یَقُوْلُ (أَمَرَنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِالْقِیَامِ فِی الْجَنَازَۃِ‘ ثُمَّ جَلَسَ بَعْدَ ذٰلِکَ‘ وَأَمَرَنَا بِالْجُلُوْسِ) .
٢٧٢٨: مسعود بن حکم کہتے ہیں کہ میں نے حضرت علی (رض) کو کہتے سنا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جنازہ میں ہمیں قیام کا حکم فرمایا پھر آپ بیٹھنے لگے اور ہمیں بھی بیٹھنے کا حکم فرمایا۔
تخریج : ابو داؤد فی الجنائز باب ٤٣‘ نمبر ٣١٧٥‘ ترمذی فی الجنائز باب ٥٢‘ نمبر ١٠٤٤۔

2729

۲۷۲۹ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ‘ قَالَ : ثَنَا ابْنُ أَبِیْ مَرْیَمَ‘ قَالَ : أَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ‘ عَنْ مُوْسَی بْنِ عُقْبَۃَ‘ (عَنْ إِسْمَاعِیْلَ بْنِ الْحَکَمِ بْنِ مَسْعُوْدٍ الزُّرَقِیِّ‘ عَنْ أَبِیْہِ‘ قَالَ : شَہِدْتُ جَنَازَۃً بِالْعِرَاقِ‘ فَرَأَیْتُ رِجَالًا قِیَامًا یَنْتَظِرُوْنَ أَنْ تُوْضَعَ‘ وَرَأَیْتُ عَلِیَّ بْنَ أَبِیْ طَالِبٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ یُشِیْرُ إِلَیْہِمْ أَنْ اجْلِسُوْا فَإِنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَدْ أَمَرَنَا بِالْجُلُوْسِ بَعْدَ الْقِیَامِ) .
٢٧٢٩: اسماعیل بن حکم زرقی سے اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ میں عراق میں ایک جنازے میں حاضر ہوا میں نے کچھ لوگوں کو دیکھا کہ وہ منتظر ہیں کہ جنازہ رکھا جائے اور وہ تب بیٹھیں اور حضرت علی (رض) کو دیکھا کہ وہ ان کو اشارہ فرما رہے ہیں کہ بیٹھ جاؤ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کھڑے ہونے کا حکم دینے کے بعد بیٹھنے کا حکم فرمایا ہے۔

2730

۲۷۳۰ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا وَہْبٌ‘ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ‘ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْکَدِرِ‘ عَنْ مَسْعُوْدِ بْنِ الْحَکَمِ‘ عَنْ (عَلِیِّ بْنِ أَبِیْ طَالِبٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : رَأَیْنَا رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَامَ فَقُمْنَا‘ وَرَأَیْنَاہُ قَعَدَ فَقَعَدْنَا) .ؓفَقَدْ ثَبَتَ بِمَا ذَکَرْنَا أَنَّ الْقِیَامَ لِلْجَنَازَۃِ قَدْ کَانَ ثُمَّ نُسِخَ .فَقَالَ قَوْمٌ : إِنَّمَا نُسِخَ ذٰلِکَ لِخِلَافِ أَہْلِ الْکِتَابِ‘ وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ ۔
٢٧٣٠: مسعود بن حکم نے حضرت علی (رض) سے نقل کیا کہ ہم نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کھڑے دیکھا تو کھڑے ہوگئے اور جب بیٹھے دیکھا تو بیٹھ گئے۔ ان مذکورہ روایات سے یہ بات چابت ہوئی کہ جنازہ کے لیے قیام تھا پھر منسوخ ہوا بعض علماء نے کہا کہ یہ اہل کتاب کی مخالفت کی بناء پر منسوخ ہوا اور انھوں نے ان روایات کو دلیل بنایا ۔
حاصل روایات : ان روایات سے ثابت ہوتا ہے کہ اولاً جنازے کے لیے قیام کا حکم تھا پھر منسوخ ہوگیا بعض لوگوں نے ان روایات کی وجہ سے قیام کے منسوخ ہونے کی وجہ یہود کی مخالفت بتلائی ہے۔

2731

۲۷۳۱ : بِمَا حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا صَفْوَانُ بْنُ عِیْسٰی‘ قَالَ : ثَنَا بِشْرُ بْنُ رَافِعٍ‘ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ سُلَیْمَانَ‘ عَنْ أَبِیْہِ‘ عَنْ جُنَادَۃَ بْنِ أَبِیْ أُمَیَّۃَ‘ عَنْ (عُبَادَۃَ بْنِ الصَّامِتِ ذَکَرَ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِذَا اتَّبَعَ جَنَازَۃً‘ لَمْ یَجْلِسْ حَتّٰی تُوْضَعَ فِی اللَّحْدِ. قَالَ : فَعَرَضَ لِلنَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حَبْرٌ مِنْ أَحْبَارِ الْیَہُوْدِ فَقَالَ : یَا مُحَمَّدُ ہٰکَذَا نَفْعَلُ. قَالَ : فَجَلَسَ النَّبِیُّ وَقَالَ خَالِفُوْہُمْ) .وَلَیْسَ ھٰذَا الْحَدِیْثُ - عِنْدَنَا - یَدُلُّ عَلٰی مَا ذَہَبُوْا إِلَیْہٖ‘ لِأَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَدْ رُوِیَ عَنْہُ ۔
٢٧٣١: جنادہ بن ابی امیہ نے عبادہ بن صامت (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب کسی جنازہ کے ساتھ جاتے تو لحد میں رکھنے تک نہ بیٹھتے تھے۔ ایک دن ایک یہودی عالم آپ کو ملا تو فرمایا اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم بھی اسی طرح کرتے ہیں عبادہ کہتے ہیں آپ بیٹھ گئے اور فرمایا ان کی مخالفت کرو۔ یہ روایت ہمارے اس بات پر دلالت نہیں کرتی جس کو انھوں نے اختیار کیا کیونکہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ مروی ہے۔
تخریج : مسلم فی الجنائز نمبر ٨٤۔
مگر اس روایت میں بتلائی گئی وجہ اس موضوع پر کمزور دلیل ہے کیونکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا معمول مبارک یہ تھا کہ جس کسی معاملے میں وحی ابھی نازل نہ ہوتی اور مشرکین و اہل کتاب کا عمل باہمی متضاد ہوتا تو آپ اہل کتاب کے موافق عمل فرماتے رہتے تاآنکہ اس کے متعلق کوئی وحی اترتی تو پھر اس کے حکم کو اپناتے جیسا کہ یہ روایت دلالت کرتی ہے۔

2732

۲۷۳۲ : مَا حَدَّثَنَا یُوْنُسُ‘ قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ‘ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ یُوْنُسُ‘ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ‘ عَنْ عُبَیْدِاللّٰہِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُتْبَۃَ‘ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا (أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یَسْدُلُ شَعْرَہٗ‘ وَکَانَ الْمُشْرِکُوْنَ یَفْرُقُوْنِ رُئُ وْسَہُمْ) .وَکَانَ أَہْلُ الْکِتَابِ یَسْدُلُوْنَ رُئُ وْسَہُمْ‘ وَکَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُحِبُّ مُوَافَقَۃَ أَہْلِ الْکِتَابِ فِیْمَا لَمْ یُؤْمَرْ فِیْہِ بِشَیْئٍ .ثُمَّ فَرَقَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَأْسَہٗ .
٢٧٣٢: عبیداللہ بن عبداللہ نے ابن عباس (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بالوں کو کھلا چھوڑا کرتے تھے اور مشرکین مانگ نکالتے تھے اور اہل کتاب بھی اپنے بالوں کو کھلا چھوڑتے تھے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اہل کتاب کی موافقت کو پسند فرماتے جب تک اس میں کوئی حکم نہ اترتا پھر جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سر میں مانگ نکالنی شروع فرمائی۔ (جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم مل گیا)
تخریج : بخاری فی المناقت باب ٢٣‘ مناقت الانصار باب ٥٢‘ مسلم فی الفضائل نمبر ٩٠‘ ابو داؤد فی الترجل باب ١٠‘ نمبر ٤١٨٨‘ نسائی فی الزینہ باب ٦١‘ ابن ماجہ فی اللباس باب ٣٦‘ نمبر ٣٦٣٢‘ مسند احمد ١‘ ٢٨٧؍٣٢٠۔

2733

۲۷۳۳ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُزَیْرٍ الْأَیْلِیُّ‘ قَالَ : ثَنَا سَلَامَۃُ‘ عَنْ عُقَیْلٍ‘ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ‘ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ عُبَیْدُ اللّٰہِ‘ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .فَأَخْبَرَ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یَتْبَعُ أَہْلَ الْکِتَابِ حَتّٰی یُؤْمَرَ بِخِلَافِ ذٰلِکَ .فَاسْتَحَالَ أَنْ یَّکُوْنَ مَا أُمِرَ بِہِ مِنَ الْقُعُوْدِ فِیْ حَدِیْثِ عُبَادَۃَ ہُوَ بِخِلَافِ أَہْلِ الْکِتَابِ قَبْلَ أَنْ یُؤْمَرَ بِخِلَافِہِمْ فِیْ ذٰلِکَ‘ لِأَنَّ حُکْمَہُ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ یَّکُوْنَ عَلَی شَرِیْعَۃِ النَّبِیِّ الَّذِیْ کَانَ قَبْلَہٗ، حَتّٰی یَحْدُثَ لَہٗ شَرِیْعَۃٌ تَنْسَخُ مَا تَقَدَّمَہَا‘ قَالَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ (أُوْلَئِکَ الَّذِیْنَ ہَدَی اللّٰہُ فَبِہُدَاہُمْ اقْتَدِہِ) .وَلٰـکِنَّہٗ تَرَکَ ذٰلِکَ - عِنْدَنَا - وَاللّٰہُ أَعْلَمُ حِیْنَ أَحْدَثَ اللّٰہُ لَہٗ شَرِیْعَۃً فِیْ ذٰلِکَ‘ وَہُوَ الْقُعُوْدُ بِنَسْخِ مَا قَبْلَہَا‘ وَہُوَ الْقِیَامُ .وَقَدْ رُوِیَ ھٰذَا الْمَذْہَبُ‘ عَنْ عَلِیِّ بْنِ أَبِیْ طَالِبٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا .
٢٧٣٣: عقیل بن ابن شہاب سے اس نے کہا عبیداللہ نے مجھے خبر دی پھر انھوں نے اپنی سند سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔ پس حضرت ابن عباس (رض) نے خبر دی کہ آپ اہل کتاب والی بات کو اپناتے یہاں تک کہ اس کے خلاف کا حکم ملتا ۔ تو یہ بات ناممکن ہے کہ آپ کو حدیث عبادہ میں جو بیٹھنے کا حکم ملا وہ اہل کتاب کے طریقہ کی مخالفت کی وجہ سے ہو اور وہ اس سے پہلے ہو کہ آپ کو ان کی مخالفت کا حکم نہ ہوا ہو ۔ کیونکہ آپ نے جس بات کا حکم دیا وہ کسی پہلے پیغمبر کی شریعت کا حکم ہو۔ یہاں تک کہ اس کے لیے منسوخ کرنے والا نیا حکم آئے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا : ” اولٰٓپک الذین ھدی اللہ فبھد اھم اقتدہ “ ان لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے ہدایت کی۔ پس ان کی ہدایت کی اقتداء کرو۔ مگر ہمارے نزدیک اس کا ترک (واللہ اعلم) اس وقت ہوا جب اللہ تعالیٰ نے آپ کی شریعت کا حکم دیا ۔ تو بیٹھنے کی وجہ پہلے حکم کا منسوخ ہونا ہے جو کہ قیام ہے۔ اور یہ طریقہ حضرت علی (رض) سے منقول ہے۔
حاصل روایات : ان دونوں روایتوں سے یہ بات واضح ہوگئی کہ آپ اہل کتاب کی موافقت کو مشرکین کے بالمقابل ترجیح دیتے جب تک کہ اس کے خلاف وحی سے حکم نہ آتا۔ پس اس اعتبار سے یہ ناممکن ہے کہ حدیث عبادہ (رض) میں قعود والا حکم ان کی مخالفت کی وجہ سے دیا اور وحی سے حکم نہ ہوا بلکہ اس کی حکم کی وجہ سابقہ حکم کا منسوخ ہونا ہی ہے سابقہ انبیاء (علیہم السلام) کے متعلق فرمان الٰہی ہے۔ اولٰئک الذین ہدی اللہ فبہدٰہم اقتدہ (انعام۔ ٩٠) تو آپ کے چھوڑنے کی وجہ سابقہ کی تنسیخ ہے نہ کہ یہود کی مخالفت۔ اور اس کا ثبوت حضرت علی (رض) کی اس روایت سے ہوتا ہے۔

2734

۲۷۳۴ : حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوٗدَ‘ قَالَ : ثَنَا مُسَدَّدٌ‘ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنِ زِیَادٍ‘ قَالَ : ثَنَا لَیْثُ بْنُ أَبِیْ سُلَیْمٍ‘ عَنْ مُجَاہِدٍ‘ عَنِ ابْنِ سَخْبَرَۃَ‘ قَالَ : (کُنَّا قُعُوْدًا مَعَ عَلِیِّ بْنِ أَبِیْ طَالِبٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ نَنْتَظِرُ جَنَازَۃً‘ فَمُرَّ بِجَنَازَۃٍ أُخْرٰی‘ فَقُمْنَا‘ فَقَالَ : مَا ھٰذَا الْقِیَامُ ؟ فَقُلْتُ : مَا تَأْتُوْنَا بِہٖ، یَا أَصْحَابَ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ قَالَ أَبُوْ مُوْسٰی : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِذَا رَأَیْتُمْ جَنَازَۃَ مُسْلِمٍ أَوْ یَہُوْدِیٍّ أَوْ نَصْرَانِیٍّ‘ فَقُوْمُوْا‘ فَإِنَّکُمْ لَسْتُمْ لَہَا تَقُوْمُوْنَ‘ إِنَّمَا تَقُوْمُوْنَ لِمَنْ مَعَہَا مِنَ الْمَلَائِکَۃِ .فَقَالَ عَلِیٌّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ : اِذَا صَنَعَ ذٰلِکَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَرَّۃً وَاحِدَۃً کَانَ یَتَشَبَّہُ بِأَہْلِ الْکِتَابِ فِی الشَّیْئِ ‘ فَإِذَا نُہِیَ عَنْہُ تَرَکَہٗ) .فَأَخْبَرَ عَلِیٌّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فِیْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ إِنَّمَا کَانَ قَامَ مَرَّۃً فِیْ بَدْئِ أَمْرِہٖ‘ عَلَی التَّشَبُّہِ مِنْہُ بِأَہْلِ الْکِتَابِ‘ وَعَلَی الِاقْتِدَائِ بِمَنْ کَانَ قَبْلَہٗ مِنَ الْأَنْبِیَائِ ‘ حَتّٰی أَحْدَثَ اللّٰہُ تَعَالٰی لَہٗ خِلَافَ ذٰلِکَ‘ وَہُوَ الْقُعُوْدُ .فَثَبَتَ بِذٰلِکَ مَا صَرَفْنَا إِلَیْہِ وَجْہَ حَدِیْثِ عُبَادَۃَ .
٢٧٣٤: مجاہد نے ابن سخرہ سے نقل کیا کہ ہم علی (رض) کے ساتھ ایک جنازہ کی انتظار میں بیٹھے تھے کہ وہاں سے ایک اور جنازہ گزرا تو ہم کھڑے ہوگئے تو آپ نے فرمایا تم کیوں کھڑے ہوئے میں نے کہا اے اصحاب محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تم اس سلسلے میں ہمیں کیا فرماتے ہو تو ابو موسیٰ (رض) کہنے لگے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب تم کسی مسلمان یا یہودی یا نصرانی کا جنازہ دیکھو تو کھڑے ہوجاؤ کیونکہ تم اس شخص کے لیے کھڑے نہیں ہوتے ہو بلکہ تم ان فرشتوں کے لیے کھڑے ہوئے ہو جو اس کے ساتھ ہیں۔ حضرت علی (رض) نے اس روایت میں اس بات کی خبردی کہ کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ابتداء میں ایک مرتبہ کھڑے ہوتے اس کا مقصد اہل کتاب کے ساتھ مشابہت تھی اور اپنے سے پہلے انبیاء اسلام کے طریقے کی پیروی تھی یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس کے خلاف نیا حکم دے دیا اور وہ بیٹھنے کا حکم تھا۔ اس سے وہ بات ثابت ہوئی جس کی طرف ہم حدیث عبادہ کا رخ موڑا ہے۔ حضرت علی (رض) فرمانے لگے ایک مرتبہ یہ عمل رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کیا اور آپ کی عادت مبارکہ اہل کتاب سے مشابہت کی تھی جب اس سے روک دیا جاتا تو آپ اسے چھوڑ دیتے۔
تخریج : بخاری فی الجنائز باب ٤٩۔
اس روایت میں علی (رض) نے واضح بتلایا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ابتداء میں ایک مرتبہ اہل کتاب کی مشابہت میں کھڑے ہوئے اور پہلے انبیاء (علیہم السلام) کی اقتداء کرتے ہوئے یہ کیا یہاں تک کہ اس کے خلاف حکم آیا اور وہ بیٹھنے کا حکم تھا۔
پس اس سے حدیث عبادہ (رض) کی صحیح توجیہ ہوگئی۔

2735

۲۷۳۵ : وَقَدْ حَدَّثَنَا فَہْدٌ‘ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَعِیْدٍ الْأَصْبَہَانِیُّ‘ قَالَ : ثَنَا شَرِیْکٌ‘ عَنْ عُثْمَانَ ابْنِ أَبِیْ زُرْعَۃَ‘ عَنْ زَیْدِ بْنِ وَہْبٍ‘ قَالَ : تَذَاکَرْنَا الْقِیَامَ إِلَی الْجَنَازَۃِ وَعِنْدَنَا عَلِیٌّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ .فَقَالَ أَبُوْ مَسْعُوْدٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ : قَدْ کُنَّا نَقُوْمُ‘ فَقَالَ عَلِیٌّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ : ذٰلِکَ وَأَنْتُمْ یَہُوْدٌ. فَمَعْنٰی ھٰذَا أَنَّہُمْ کَانُوْا یَقُوْمُوْنَ عَلٰی شَرِیْعَتِہِمْ‘ ثُمَّ نُسِخَ ذٰلِکَ بِشَرِیْعَۃِ الْاِسْلَامِ فِیْہِ .وَقَدْ ثَبَتَ بِمَا وَصَفْنَا فِیْ ھٰذَا الْبَابِ أَیْضًا نَسْخُ مَا رَوَیْنَاہُ فِیْ أَوَّلِہٖ، مِنَ الْآثَارِ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ فِی الْقِیَامِ لِلْجَنَازَۃِ‘ بِالْآثَارِ الَّتِیْ رَوَیْنَاہَا بَعْدَ ذٰلِکَ .
٢٧٣٥: زید بن وہب کہتے ہیں کہ ہم نے باہمی جنازہ کے لیے قیام کے سلسلہ میں مذاکرہ کیا اس وقت ہمارے پاس علی (رض) موجود تھے تو ابو مسعود (رض) نے کہا ہم تو کھڑے ہوتے تھے تو علی (رض) نے فرمایا یہ تو یہود کا طرز عمل ہے کیا تم یہود ہو یعنی یہ حکم پہلے تھا پھر منسوخ ہوگیا۔ اس بات میں جو کچھ ہم نے بیان کیا اس سے شروع والے آثار جو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہیں جن میں جنازے کے لیے قیام کا تذکرہ ہے ان آثار کی وجہ سے منسوخ ہیں جنکا ہم نے تذکرہ کیا۔
اگلی روایات بھی نسخ کی موید ہیں۔

2736

۲۷۳۶ : وَقَدْ حَدَّثَنَا یُوْنُسُ‘ قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ‘ قَالَ : حَدَّثَنِیْ أَنَسُ بْنُ عِیَاضٍ‘ عَنْ أُنَیْسِ بْنِ أَبِیْ یَحْیٰی‘ قَالَ : سَمِعْتُ أَبِیْ یَقُوْلُ : کَانَ ابْنُ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا وَأَصْحَابُ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَجْلِسُوْنَ قَبْلَ أَنْ تُوْضَعَ الْجَنَازَۃُ .فَھٰذَا ابْنُ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَدْ کَانَ یَفْعَلُ ھٰذَا‘ وَقَدْ رُوِیَ عَنْ عَامِرِ بْنِ رَبِیْعَۃَ‘ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خِلَافُ ذٰلِکَ .فَدَلَّ تَرْکُہٗ لِذٰلِکَ إِلٰی مَا کَانَ یَفْعَلُ‘ عَلَی ثُبُوْتِ نَسْخٍ‘ فَأَحْدَثَہٗ عَامِرُ بْنُ رَبِیْعَۃَ .
٢٧٣٦: انیس بن ابی یحییٰ کہتے ہیں کہ میں نے اپنے والد کو فرماتے سنا کہ ابن عمر (رض) اور دیگر اصحاب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جنازہ رکھنے سے پہلے بیٹھ جاتے تھے۔ یہ ابن عمر (رض) جو پہلے یہ عمل کرتے تھے اور عامر بن ربیعہ نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بھی اس کے خلاف نقل کیا ہے۔ پس اس سے جو پہلے کرتے تھے اس کے منسوخ ہونے کا ثبوت مل گیا تبھی تو عامر بن ربیعہ رضی الہ نے اس نئے حکم کو اختیار کیا۔
حاصل : یہ ابن عمر (رض) ہیں جو پہلے کھڑے ہونے کا عمل کرتے تھے پھر جب نسخ کا حکم ہوا تو اس کے خلاف یہ بیٹھنے لگے۔
عامر بن ربیعہ (رض) نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کے خلاف روایت نقل کی ہے۔
حاصل : اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ پہلا حکم منسوخ ہوا تبھی تو عامر (رض) نے یہ حکم اپنایا یہ تابعی کا عمل بھی نقل کیا جا رہا ہے۔

2737

۲۷۳۷ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ أَیْضًا‘ قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ‘ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ‘ أَنَّ عَبْدَ الرَّحْمٰنِ بْنَ الْقَاسِمِ حَدَّثَہٗ أَنَّ الْقَاسِمَ کَانَ یَجْلِسُ قَبْلَ أَنْ تُوْضَعَ الْجَنَازَۃُ‘ وَلَا یَقُوْمُ لَہَا‘ وَیُخْبِرُ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا أَنَّہَا قَالَتْ : کَانَ أَہْلُ الْجَاہِلِیَّۃِ یَقُوْمُوْنَ لَہَا اِذَا رَأَوْہَا‘ وَیَقُوْلُوْنَ : فِیْ أَہْلِک مَا أَنْتَ فِیْ أَہْلِک مَا أَنْتَ. فَھٰذِہٖ عَائِشَۃُ تُنْکِرُ الْقِیَامَ لَہَا أَصْلًا‘ وَتُخْبِرُ أَنَّ ذٰلِکَ کَانَ مِنْ أَفْعَالِ أَہْلِ الْجَاہِلِیَّۃِ .وَکَانَ أَبُوْ حَنِیْفَۃَ‘ وَأَبُوْ یُوْسُفَ‘ وَمُحَمَّدٌ رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی یَذْہَبُوْنَ فِیْ کُلِّ مَا ذَکَرْنَا فِیْ ھٰذَا الْبَابِ إِلٰی مَا قَدْ بَیَّنَّا نَسْخَہٗ‘ لِمَا قَدْ خَالَفَہٗ وَبِہٖ نَأْخُذُ
٢٧٣٧: عبدالرحمن بن قاسم کہتے ہیں کہ قاسم جنازہ رکھنے سے پہلے بیٹھ جاتے اور کھڑے نہ ہوتے اور اس کے متعلق عائشہ صدیقہ (رض) سے بیان کرتے کہ وہ فرمایا کرتی تھیں زمانہ جاہلیت میں لوگ جنازے کو دیکھ کر اس کے لیے کھڑے ہوجاتے اور اس طرح کہتے : فی اہلک ماانت فی اہلک ماانت۔ تو اپنے گھر میں نہیں گھر میں نہیں۔ عائشہ (رض) تو جنازے کے لیے قیام کا بالکل انکار کرتی تھیں اور بتلاتیں کہ یہ اہل جاہلیت کا طرز عمل ہے۔ یہ حضرت عائشہ صدیقہ (رض) ہیں۔ جو بالکل قیام کا انکار کرنے والی ہیں اور بتلارہی ہیں کہ یہ زمانہ جاہلیت کے افعال سے ہیں۔ امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد (رح) اس طرف گئے ہیں کہ یہ حکم تھا پھر منسوخ ہوگیا ۔ اسی کو ہم اختیار کرنے والے ہیں۔ ہمارے ائمہ ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد رحمہم اللہ کا یہی قول ہے۔
نؤٹ : یہ باب بھی نظر طحاوی (رح) سے خالی ہے جنازے کے لیے کھڑا ہونا منسوخ ہوچکا ہے اس پر عمل کرنا درست نہیں البتہ یہ بات ضمنا جان لینا مناسب ہے کہ جنازے کو لے جانے والے میت کو قبر میں رکھنے سے پہلے بلاکراہت احناف و شوافع و مالکیہ کے ہاں بیٹھ سکتے ہیں البتہ امام احمد بن حنبل کے ہاں میت کو قبر میں رکھنے سے پہلے ان کا بیٹھ جانا مکروہ ہے۔ واللہ اعلم۔

2738

۲۷۳۸ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ یَحْیٰی‘ قَالَ : أَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ بْنُ سَعِیْدٍ‘ عَنْ حُسَیْنِ بْنِ ذَکْوَانَ‘ قَالَ : حَدَّثَنِیْ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ بُرَیْدَۃَ‘ عَنْ سَمُرَۃَ بْنِ جُنْدُبٍ‘ قَالَ : (صَلَّیْتُ خَلْفَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلٰی أُمِّ کَعْبٍ‘ مَاتَتْ وَہِیَ نُفَسَائَ ‘ فَقَامَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِلصَّلَاۃِ عَلَیْہَا‘ وَسَطَہَا) .
٢٧٣٨: عبداللہ بن بریدہ نے سمرہ بن جندب (رض) سے روایت کی ہے کہ میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیچھے ام کعب کا جنازہ پڑھا جو کہ حالت نفاس میں فوت ہوگئیں تھیں آپ جنازے کے لیے میت کے درمیان یعنی سینہ کے برابر کھڑے ہوئے۔
تخریج : بخاری فی الجنائز باب ٦٣ مسلم فی الجنائز نمبر ٨٧‘ ابو داؤد فی الجنائز باب ٥٣‘ نمبر ٣١٩٥‘ ترمذی فی الجنائز باب ٤٥‘ نمبر ١٠٣٥‘ ابن ماجہ فی الجنائز باب ٢١‘ نمبر ١٤٩٣‘ مسند احمد ٥؍١٤‘ ١٩۔
امام کو جنازہ پڑھاتے وقت میت کے کس عضو کے برابر کھڑے ہو کر جنازہ پڑھانا چاہیے اس کے متعلق کتب مذاہب میں باہمی متضاد قول منقول ہیں صاحب نخب الافکار کا قول تقریباً جامع معلوم ہوتا ہے۔ (١) امام ابوحنیفہ ‘ احمد رحمہم اللہ کے ہاں مرد و عورت کے سینہ کے برابر کھڑے ہوں گے ۔ (٢) امام شافعی ‘ ابو یوسف ‘ محمد (رح) کے ہاں عورت کی کمر اور مرد کے سر کے برابر کھڑے ہوں گے۔ نخب الافکار جلد ٤ ص ١٩٣۔
فریق اوّل کا مؤقف اور دلائل : مرد و عورت کے سینہ کے برابر کھڑا ہوا جائے اس کو احناف نے مفتیٰ بہ قرار دیا ہے دلائل یہ روایات ہیں۔

2739

۲۷۳۹ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا عَفَّانَ‘ قَالَ : ثَنَا ہَمَّامٌ‘ قَالَ : ثَنَا حُسَیْنٌ الْمُعَلِّمُ‘ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ. قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ إِلٰی ھٰذَا فَقَالُوْا : ھٰذَا ہُوَ الْمَقَامُ الَّذِیْ یَنْبَغِیْ لِلْمُصَلِّیْ عَلَی الْجَنَازَۃِ أَنْ یَقُوْمَہٗ مِنَ الْمَرْأَۃِ وَمِنَ الرَّجُلِ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ‘ وَقَالُوْا: أَمَّا الْمَرْأَۃُ فَہٰکَذَا یَقُوْمُ لِلصَّلَاۃِ عَلَیْہَا‘ وَأَمَّا الرَّجُلُ فَعِنْدَ رَأْسِہٖ۔ وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ ۔
٢٧٣٩: ہمام نے حسین المعلم سے پھر انھوں نے اپنی اسناد سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔ امام طحاوی (رح) بعض علماء اس طرف گئے ہیں کہ یہ وہ جگہ ہے جہاں جنازہ پڑھنے والا مرد وعورت کے لیے کھڑا ہوگا ۔ دیگر علماء نے ان سے اختلاف کیا اور کہا کہ عورت کے لیے تو اسی طرح کھڑے ہوں گے البتہ مرد کے لیے اس کے سرکے پاس کھڑے ہوں گے اور انھوں نے ان روایات کو دلیل بنایا۔
حاصل روایات : ان روایات سے ثابت ہوتا ہے کہ مرد و عورت کے لیے امام کے کھڑے ہونے کی جگہ اس کا سینہ ہے۔
فریق ثانی کا مؤقف اور دلائل : عورت کے لیے تو درمیان میں کھڑے ہوں گے مگر مرد کے لیے اس کے سر کے برابر کھڑے ہوں گے یہ امام شافعی ‘ ابو یوسف رحمہم اللہ کا مؤقف ہے دلیل یہ ہے۔

2740

۲۷۴۰ : بِمَا حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا یَعْقُوْبُ بْنُ إِسْحَاقَ الْحَضْرَمِیُّ‘ قَالَ : ثَنَا ہَمَّامٌ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ غَالِبٍ‘ قَالَ : (رَأَیْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِکٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ صَلّٰی عَلٰی جَنَازَۃِ رَجُلٍ‘ فَقَامَ عِنْدَ رَأْسِہٖ‘ وَجِیْئَ بِجَنَازَۃِ امْرَأَۃٍ‘ فَقَامَ عِنْدَ وَسَطِہَا .فَقَالَ لَہُ الْعَلَائُ بْنُ زِیَادٍ : یَا أَبَا حَمْزَۃَ‘ ہٰکَذَا کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَفْعَلُ ؟ قَالَ : نَعَمْ‘ فَالْتَفَتَ إِلَیْنَا الْعَلَائُ بْنُ زِیَادٍ‘ فَقَالَ : احْفَظُوْا) .
٢٧٤٠‘ ابو غالب کہتے ہیں کہ میں نے انس بن مالک (رض) کو دیکھا کہ انھوں نے ایک آدمی کا جنازہ پڑھا تو آپ اس کے سر کے برابر کھڑے ہوئے اور ان کے پاس عورت کا جنازہ لایا گیا تو آپ درمیان میں کھڑے ہوئے۔ علاء بن زیاد نے کہا اے ابو حمزہ کیا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسی طرح کرتے تھے ؟ انھوں نے کہا جی ہاں اس کے بعد علاء بن زیاد ہماری طرف متوجہ ہو کر کہنے لگے تم اچھی طرح اس بات کو یاد کرلو۔
تخریج : ابو داؤد فی الجنائز باب ٥٣‘ نمبر ٣١٩٤۔

2741

۲۷۴۱ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا یَزِیْدُ بْنُ ہَارُوْنَ‘ قَالَ : أَخْبَرَنَا ہَمَّامٌ‘ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .وَزَادَ (فَقَالَ لَہُ الْعَلَائُ بْنُ زِیَادٍ : (یَا أَبَا حَمْزَۃَ‘ ہٰکَذَا کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْمُ مِنَ الْمَرْأَۃِ حَیْثُ قُمْتَ‘ وَمِنَ الرَّجُلِ حَیْثُ قُمْتَ ؟ قَالَ : نَعَمْ) ) .
٢٧٤١: یزید بن ہارون کہتے ہیں کہ ہمیں ہمام نے خبر دی پھر انھوں نے اپنی اسناد سے روایت نقل کی ہے البتہ یہ اضافہ ہے کہ علاء بن زیاد نے کہا اے ابو حمزہ ! کیا اسی طرح جناب رسول اللہ عورت کے لیے وہیں کھڑے ہوتے جہاں تم کھڑے ہوئے اور مرد کے لیے جہاں تم کھڑے ہوئے وہیں کھڑے ہوتے تھے انھوں نے کہا جی ہاں۔
تخریج : ترمذی فی الجنائز باب ٤٥‘ نمبر ١٠٣٤‘ ابن ماجہ فی الجنائز باب ٢١‘ نمبر ١٤٩٤۔

2742

۲۷۴۲ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ‘ قَالَ : ثَنَا الْحِمَّانِیُّ‘ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ بْنُ سَعِیْدٍ‘ عَنْ أَبِیْ غَالِبٍ‘ عَنْ أَنَسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ (أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یَقُوْمُ عِنْدَ رَأْسِ الرَّجُلِ‘ وَعَجِیْزَۃِ الْمَرْأَۃِ) .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَبَیَّنَ أَنَسٌ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فِیْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یَقُوْمُ مِنَ الرَّجُلِ‘ عِنْدَ رَأْسِہٖ وَمِنَ الْمَرْأَۃِ مِنْ وَسَطِہَا‘ عَلٰی مَا فِیْ حَدِیْثِ سَمُرَۃَ‘ فَوَافَقَ حَدِیْثَ سَمُرَۃَ فِیْ حُکْمِ الْقِیَامِ مِنَ الْمَرْأَۃِ فِی الصَّلَاۃِ عَلَیْہَا کَیْفَ ہُوَ‘ وَزَادَ عَلَیْہِ حُکْمَ الرَّجُلِ فِی الْقِیَامِ مِنْہُ لِلصَّلَاۃِ عَلَیْہِ‘ فَہُوَ أَوْلٰی مِنْ حَدِیْثِ سَمُرَۃَ .وَقَدْ قَالَ بِھٰذَا الْقَوْلِ‘ أَبُوْ یُوْسُفَ رَحِمَہُ اللّٰہُ فِیْمَا حَدَّثَنِیْ بِہِ ابْنُ أَبِیْ عِمْرَانَ‘ قَالَ : حَدَّثَنِیْ مُحَمَّدُ بْنُ شُجَاعٍ‘ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ أَبِیْ مَالِکٍ‘ عَنْ أَبِیْ یُوْسُفَ رَحِمَہُ اللّٰہُ .وَأَمَّا قَوْلُہُ الْمَشْہُوْرُ عَنْہُ فِیْ ذٰلِکَ‘ فَمِثْلُ قَوْلِ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ‘ وَمُحَمَّدٍ رَحِمَہُمَا اللّٰہُ۔
٢٧٤٢: ابو غالب نے انس (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آدمی کے لیے سر کے پاس اور عورت کے سرین کے برابر کھڑے ہوتے۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں حضرت انس (رض) نے اس روایت میں بیان کردیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مرد کے پاس کھڑے ہوتے اور عورت کے لیے قد کے درمیان میں جیسا کہ سمرہ (رض) کی روایت میں ہے۔ پس یہ روایت سمرہ والی روایت کے فوافق ہے کہ عورت کی نماز جنازہ کے وقت کہاں کھڑے ہوں اور اس میں مرد پر نماز جنازہ کے وقت قیام کا اضافہ ہے۔ پس یہ عمرہ (رض) کی روایت سے اولیٰ ہے اور ابی عمران کے بقول یہ امام ابو یوسف (رح) کا ملک ہے۔ اور مجھے یہ محمد بن شجاع نے حسن بن ابی مالک کی وساطت سے امام ابو یوسف (رح) سے بیان کیا ہے۔ البتہ ان کا مشہور قول تو امام ابوحنیفہ ‘ محمد جواب کے قول کے مطابق ہے۔
تخریج : ابو داؤد فی الجنائز باب ٥٣‘ ٣١٩٤۔
امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں کہ حضرت انس (رض) نے اس روایت میں یہ بتلا دیا کہ مرد کے لیے سر کے پاس آپ کھڑے ہوتے اور عورت کے لیے درمیان میں جیسا کہ حدیث سمرہ (رض) میں ہے۔ گویا عورت کے سلسلہ میں تو دونوں روایات کا حکم ایک دوسرے کی روایت کے موافق ثابت ہوگیا البتہ انس (رض) کی روایت میں مرد کے سلسلہ میں اضافہ ہے پس یہ روایت سمرہ کی روایت سے اولیٰ ہے اور امام ابو یوسف (رح) کا قول بھی حسن بن ابی مالک کے بیان کے مطابق یہی ہے۔ البتہ ان کا مشہور قول امام ابوحنیفہ (رح) اور محمد (رح) کے قول کے مطابق ہے جیسا کہ اس اثر میں ملاحظہ کریں۔

2743

۲۷۴۳ : حَدَّثَنِیْ بِہٖ مُحَمَّدُ بْنُ الْعَبَّاسِ‘ قَالَ : ثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ‘ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ‘ عَنْ أَبِیْ یُوْسُفَ رَحِمَہُ اللّٰہُ‘ عَنْ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ رَحِمَہُ اللّٰہُ‘ قَالَ : یَقُوْمُ مِنَ الرَّجُلِ وَالْمَرْأَۃِ بِحِذَائِ الصَّدْرِ .وَلَمْ یَذْکُرْ مُحَمَّدٌ بَیْنَ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ وَأَبِیْ یُوْسُفَ رَحِمَہُمَا اللّٰہُ فِیْ ذٰلِکَ خِلَافًا .وَقَدْ رُوِیَ فِیْ ذٰلِکَ أَیْضًا عَنْ اِبْرَاہِیْمَ النَّخَعِیِّ .
٢٧٤٣: محمد بن الحسن نے ابو یوسف (رح) سے انھوں نے امام ابوحنیفہ (رح) سے نقل کیا کہ مرد و عورت کے سینہ کے برابر کھڑے ہوں اور محمد (رح) اللہ نے امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف جواب کے مابین کوئی اختلاف ذکر نہیں کیا اور یہ ابراہیم نخعی (رح) سے بھی مروی ہے۔
حاصل اثر : یہ ہے کہ امام ابو یوسف (رح) کا قول امام صاحب کے موافق ہے اور امام ابراہیم نخعی (رح) کا قول بھی یہی ہے جیسا کہ یہ اثر دلالت کرتا ہے۔

2744

۲۷۴۴ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا یُوْسُفُ بْنُ عَدِیٍّ‘ قَالَ : ثَنَا شَرِیْکُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مُغِیْرَۃَ‘ عَنْ اِبْرَاہِیْمَ‘ قَالَ : یَقُوْمُ الرَّجُلُ الَّذِیْ یُصَلِّیْ عَلَی الْجَنَازَۃِ عِنْدَ صَدْرِہَا .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : وَالْقَوْلُ الْأَوَّلُ أَحَبُّ إِلَیْنَا لِمَا قَدْ شَدَّہٗ مِنَ الْآثَارِ الَّتِیْ رَوَیْنَاہَا عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .
٢٧٤٤: شریک بن عبداللہ بن مغیرہ نے ابراہیم (رح) سے نقل کیا کہ امام جنازہ میں میت کے سینہ کے برابر کھڑا ہو۔ حضرت ابو جعفر (رح) نے فرمایا ۔ پہلا قول ہمیں پسند ہے اس لیے اس کی تائید میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے آثار وارد ہوتے ہیں۔
طحاوی (رح) کی ترجیح :
پہلا قول ہمارے نزدیک اولیٰ اور اعلیٰ ہے کیونکہ آثار روایات کے لحاظ سے وہ زیادہ پختہ ہے (البتہ اگر جنازے زیادہ ہوجائیں تو امام کے قریب افضل میت کو کیا جائے اور متعدد کو ایک بار پڑھا جائے یا الگ الگ پڑھا جائے ہر دو درست ہیں) ۔
نوٹ : اس باب میں بھی نظر طحاوی (رح) نہیں ہے اور یہاں بھی عام ترتیب کے خلاف راجح قول کو پہلے ذکر کیا حالانکہ عام طور پر صاحب کتاب فریق مرجوح کو پہلے اور آخر میں راجح کو ذکر کرتے ہیں اس باب میں بھی اختلاف راجح مرجوح سے زائد نہیں۔

2745

۲۷۴۵ : حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوٗدَ‘ قَالَ : ثَنَا یَعْقُوْبُ بْنُ حُمَیْدٍ‘ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِیْلَ‘ عَنِ الضَّحَّاکِ بْنِ عُثْمَانَ‘ عَنْ أَبِی النَّضْرِ‘ مَوْلٰی عُمَرَ بْنِ عُبَیْدِ اللّٰہِ‘ عَنْ أَبِیْ سَلْمَۃَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ‘ (أَنَّ عَائِشَۃَ حِیْنَ تُوُفِّیَ سَعْدُ بْنُ أَبِیْ وَقَّاصٍ‘ قَالَتْ : اُدْخُلُوْا بِہِ الْمَسْجِدَ حَتّٰی أُصَلِّیَ عَلَیْہِ‘ فَأَنْکَرَ النَّاسُ ذٰلِکَ عَلَیْہَا .فَقَالَتْ : لَقَدْ صَلّٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلٰی سُہَیْلِ بْنِ الْبَیْضَائِ فِی الْمَسْجِدِ) .
٢٧٤٥: ابو سلمہ بن عبدالرحمن روایت کرتے ہیں کہ جب سعد بن ابی وقاص (رض) کی وفات ہوئی تو عائشہ (رض) نے فرمایا ان کا جنازہ مسجد میں داخل کرو تاکہ میں بھی اس پر نماز پڑھ سکوں تو لوگوں نے ان پر نکیر کی۔ تو عائشہ (رض) نے کہا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سہیل بن بیضاء (رض) کا جنازہ مسجد میں پڑھا تھا۔
تخریج : مسلم فی الجنائز نمبر ٩٩‘ ابو داؤد فی الجنائز باب ٥٠‘ نمبر ٣١٨٩‘ ٣١٩٠‘ ترمذی فی الجنائز باب ٤٤‘ نمبر ١٠٣٣‘ ابن ماجہ فی الجنائز باب ٢٩‘ نمبر ١٥١٨۔
مسجد میں نماز جنازہ کا کیا حکم ہے ؟
نمبر 1: امام شافعی (رح) و احمد (رح) مسجد میں جنازہ پڑھنے میں کوئی حرج قرار نہیں دیتے جبکہ تلویث کا خطرہ نہ ہو۔
نمبر 2: احناف (رح) مالکیہ (رح) نمازِ جنازہ مسجد میں مکروہ قرار دیتے ہیں خواہ جو صورت ہو۔
مؤقف فریق اوّل : مسجد میں نماز جنازہ پڑھنے میں کوئی حرج نہیں مندرجہ روایات اس کی دلیل ہیں۔

2746

۲۷۴۶ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا الْقَعْنَبِیُّ‘ قَالَ ثَنَا مَالِکٌ‘ عَنْ أَبِی النَّضْرِ‘ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِذٰلِکَ .
٢٧٤٦: مالک نے ابوالنضر (رض) انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کو روایت کیا ہے۔

2747

۲۷۴۷ : حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوٗدَ‘ قَالَ : ثَنَا ابْنُ أَبِیْ عُمَرَ‘ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْعَزِیْزِ بْنُ مُحَمَّدٍ‘ عَنْ عَبْدِ الْوَاحِدِ بْنِ حَمْزَۃَ‘ عَنْ عَبَّادِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ الزُّبَیْرِ أَنَّ عَائِشَۃَ أَمَرَتْ بِسَعْدِ بْنِ أَبِیْ وَقَّاصٍ أَنْ یُّمَرَّ بِہٖ فِی الْمَسْجِدِ‘ ثُمَّ ذَکَرَ مِثْلَ حَدِیْثِہِ عَنْ یَعْقُوْبَ .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ إِلٰی ھٰذَا الْحَدِیْثِ‘ فَقَالُوْا : لَا بَأْسَ بِالصَّلَاۃِ عَلَی الْجَنَازَۃِ فِی الْمَسَاجِدِ .وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ أَیْضًا بِمَا۔
٢٧٤٧: عباد بن عبداللہ بن زبیر کہتے ہیں کہ عائشہ (رض) نے حکم فرمایا کہ سعد بن ابی وقاص (رض) کا جنازہ مسجد میں لایا جائے پھر یعقوب راوی جیسی روایت نقل کی ہے۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں ایک جماعت علماء نے اس روایت کو اختیار کیا ان کا کہنا یہ ہے کہ مسجد میں نماز جنازہ پر ہے لینے میں کچھ حرج نہیں انھوں نے اس سلسلہ میں مندرجہ روایات سے استدلال کیا ۔
تخریج : اخرجۃ الاربعۃ۔
حاصل روایات : ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ مسجد میں جنازے پڑھنے میں کوئی قباحت نہیں ورنہ عائشہ (رض) مسجد میں پڑھنے کا حکم نہ دیتیں نیز انھوں نے سہیل بن بیضاء کے جنازے کا حوالہ دیا جو خود مستقل ثبوت ہے۔
اور انھوں نے یہ دلیل بھی دی ہے۔
مؤقف فریق ثانی : مسجد میں نماز جنازہ ہر طور مکروہ ہے جیسا کہ ان روایات سے ثابت ہوتا ہے۔

2748

۲۷۴۸ : حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوٗدَ‘ قَالَ : ثَنَا أَحْمَدُ بْنُ أَبِیْ عُمَرَ‘ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْعَزِیْزِ بْنُ مُحَمَّدٍ‘ عَنْ مَالِکِ بْنِ أَنَسٍ‘ عَنْ نَافِعٍ‘ عَنِ ابْنِ عُمَرَ‘ أَنَّ عُمَرَ صَلّٰی عَلَیْہِ فِی الْمَسْجِدِ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ‘ فَکَرِہُوْا الصَّلَاۃَ عَلَی الْجَنَازَۃِ فِی الْمَسَاجِدِ .وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ ۔
٢٧٤٨ : عبدالعزیز بن محمد نے مالک بن انس (رض) سے انھوں نے نافع سے ‘ انھوں نے ابن عمر (رض) سے فرمایا کہ حضرت عمر (رض) کا جنازہ مسجد میں پڑھا گیا۔ دوسرے حضرات نے ان سے اختلاف کرتے ہوتے ہوئے کہا کہ مساجد میں نماز جنازہ مکروہ ہے اور انھوں نے ان روایات سے استدلال کیا ہے۔

2749

۲۷۴۹ : بِمَاحَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ شُعَیْبٍ‘ قَالَ : ثَنَا أَسَدٌ‘ قَالَ : ثَنَا ابْنُ أَبِیْ ذِئْبٍ‘ عَنْ صَالِحٍ مَوْلَی التَّوْأَمَۃِ .ح .
٢٧٤٩: اسد نے ابن ابی الذئب سے انھوں نے صالح مولی التوأمہ سے نقل کیا ہے۔

2750

۲۷۵۰ : وَحَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوٗدَ‘ قَالَ : ثَنَا یَعْقُوْبُ بْنُ حُمَیْدٍ‘ قَالَ : ثَنَا مَعْنُ بْنُ عِیْسٰی‘ عَنِ ابْنِ أَبِیْ ذِئْبٍ‘ عَنْ صَالِحِ بْنِ أَبِیْ صَالِحٍ‘ عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ‘ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ (مَنْ صَلّٰی عَلٰی جَنَازَۃٍ فِیْ مَسْجِدٍ فَلاَ شَیْئَ لَہٗ) .فَلَمَّا اخْتَلَفَتِ الرِّوَایَاتُ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ ھٰذَا الْبَابِ‘ فَکَانَ فِیْمَا رَوَیْنَا فِی الْفَصْلِ الْأَوَّلِ اِبَاحَۃُ الصَّلَاۃِ عَلَی الْجَنَائِزِ فِی الْمَسَاجِدِ‘ وَفِیْمَا رَوَیْنَا فِی الْفَصْلِ الثَّانِیْ کَرَاہَۃُ ذٰلِکَ‘ احْتَجْنَا إِلٰی کَشْفِ ذٰلِکَ لِنَعْلَمَ الْمُتَأَخِّرَ مِنْہُ‘ فَنَجْعَلہُ نَاسِخًا لِمَا تَقَدَّمَ مِنْ ذٰلِکَ .فَلَمَّا کَانَ حَدِیْثُ عَائِشَۃَ فِیْہِ دَلِیْلٌ عَلٰی أَنَّہُمْ قَدْ کَانُوْا تَرَکُوْا الصَّلَاۃَ عَلَی الْجَنَائِزِ فِی الْمَسْجِدِ‘ بَعْدَ أَنْ کَانَتْ تُفْعَلُ فِیْہٖ‘ حَتَّی ارْتَفَعَ ذٰلِکَ مِنْ فِعْلِہِمْ‘ وَذَہَبَتْ مَعْرِفَۃُ ذٰلِکَ مِنْ عَامَّتِہِمْ .فَلَمْ یَکُنْ ذٰلِکَ عِنْدَہَا‘ لِکَرَاہَۃٍ حَدَثَتْ‘ وَلٰـکِنْ کَانَ ذٰلِکَ عِنْدَہَا‘ لِأَنَّ لَہُمْ أَنْ یُصَلُّوْا فِی الْمَسْجِدِ عَلٰی جَنَائِزِہِمْ‘ وَلَہُمْ أَنْ یُصَلُّوْا عَلَیْہَا فِیْ غَیْرِہٖ۔ وَلَا یَکُوْنُ صَلَاتُہُمْ فِیْ غَیْرِہِ دَلِیْلًا عَلٰی کَرَاہَۃِ الصَّلَاۃِ فِیْہِ .کَمَا لَمْ تَکُنْ صَلَاتُہُمْ فِیْہِ دَلِیْلًا عَلٰی کَرَاہَۃِ الصَّلَاۃِ فِیْ غَیْرِہٖ۔ فَقَالَتْ بَعْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَوْمَ مَاتَ سَعْدٌ مَا قَالَتْ لِذٰلِکَ .وَأَنْکَرَ عَلَیْہَا ذٰلِکَ النَّاسُ‘ وَہُمْ أَصْحَابُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَمَنْ تَبِعَہُمْ .وَکَانَ أَبُوْ ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَدْ عَلِمَ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَسْخَ الصَّلَاۃِ عَلَیْہِمْ فِی الْمَسْجِدِ بِقَوْلِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الَّذِی سَمِعَہُ مِنْہُ فِیْ ذٰلِکَ‘ وَأَنَّ ذٰلِکَ التَّرْکَ الَّذِیْ کَانَ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِلصَّلَاۃِ عَلَی الْجَنَائِزِ فِی الْمَسْجِدِ‘ بَعْدَ أَنْ کَانَ یَفْعَلُہَا فِیْہٖ‘ تَرْکُ نَسْخٍ .فَذٰلِکَ أَوْلَی مِنْ حَدِیْثِ عَائِشَۃَ لِأَنَّ حَدِیْثَ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا إخْبَارٌ عَنْ فِعْلِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ حَالِ الْاِبَاحَۃِ الَّتِیْ لَمْ یَتَقَدَّمْہَا نَہْیٌ .وَفِیْ حَدِیْثِ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ إخْبَارٌ عَنْ نَہْیِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الَّذِیْ قَدْ تَقَدَّمَتْہُ الْاِبَاحَۃُ .فَصَارَ حَدِیْثُ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَوْلَی مِنْ حَدِیْثِ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا‘ لِأَنَّہٗ نَاسِخٌ لَہٗ .وَفِیْ إِنْکَارِ مَنْ أَنْکَرَ ذٰلِکَ عَلٰی عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا‘ وَہُمْ یَوْمَئِذٍ‘ أَصْحَابُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ دَلِیْلٌ عَلٰی أَنَّہُمْ قَدْ کَانُوْا عَلِمُوْا فِیْ ذٰلِکَ‘ خِلَافَ مَا عَلِمَتْ‘ وَلَوْلَا ذٰلِکَ لَمَا أَنْکَرُوْا ذٰلِکَ عَلَیْہَا .وَھٰذَا الَّذِیْ ذَکَرْنَا مِنَ النَّہْیِ عَنِ الصَّلَاۃِ عَلَی الْجَنَازَۃِ فِی الْمَسْجِدِ‘ وَکَرَاہَتِہَا‘ قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ‘ وَمُحَمَّدٍ‘ وَأَبِیْ یُوْسُفَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ .غَیْرَ أَنَّ أَصْحَابَ الْاِمْلَائِ رَوَوْا عَنْ أَبِیْ یُوْسُفَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فِیْ ذٰلِکَ أَنَّہٗ قَالَ : اِذَا کَانَ مَسْجِدٌ قَدْ أُفْرِدَ لِلصَّلَاۃِ عَلَی الْجَنَازَۃِ‘ فَلاَ بَأْسَ بِأَنْ یُّصَلِّیْ عَلَی الْجَنَائِزِ فِیْہِ .
٢٧٥٠: صالح بن ابی صالح نے ابوہریرہ (رض) انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کیا کہ جس نے کسی میت پر مسجد میں جنازہ پڑھا اس کو کچھ ثواب نہیں۔ جب اس سلسلہ میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے منقولہ روایات مختلف ہیں۔ پہلی روایات میں صراحت کے ساتھ مسجد میں نماز جنازہ کا تذکرہ ہے اور دوسری فصل میں مذکورہ روایت کراہت ظاہر کرتی ہیں۔ اس وجہ سے ہمیں ضرورت پڑی تاکہ یہ معلوم ہو کہ متاخر روایات کونسی ہیں اور ان کو پہلی روایات کا ناسخ قرار دیں۔ پس جب روایت عائشہ (رض) میں اس بات کی دلیل ہے کہ صحابہ کرام نے مسجد میں نماز جنازہ کو ترک کردیا تھا ۔ جب کہ پہلے مسجد میں یہ عمل ہوتا تھا ۔ پھر ان کے فعل سے اٹھ گیا اور عام لوگوں میں اس کی پہچان بھی نہ رہی ۔ تو یہ سلسلہ حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کے ہاں کسی کراہت جدیدہ کی وجہ سے نہ تھا ۔ بلکہ ان کے ہاں یہ اس لیے تھا کہ صحابہ کرام (رض) کو مسجد میں نماز جنازہ کی بھی اجازت تھی اور اس کے علاوہ دوسری جگہ بھی پڑھ سکتے تھے اور ان کا دوسری جگہ ادا کرنا مسجد میں پڑھنے کی کراہت کا ثبوت نہیں ۔ جیسا کہ اس کا عکس مسجد میں پڑھنا دوسری جگہ پڑھ لینے کی کراہت پر دلیل نہ تھی۔ پس انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد حضرت سعد (رض) کی وفات کے دن یہ بات فرمائی تو اصحابہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور تابعین رحمہم اللہ اس کا انکار کیا۔ اور حضرت ابوہریرہ نے مسجد میں نماز جنازہ کے پڑھنے کے حکم منسوخ ہونے کے سلسلہ میں خود جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا تھا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مسجد میں پہلے جنازہ ادا کرنا اور پھر اس کو چھوڑنا یہ اس کے نسخ کا ثبوت ہے اور یہ روایت حضرت عائشہ صدیقہ (رض) نے اس روایت میں جناب رسول اللہ کے اس فعل کی خبر دی ہے جو مباح ہونے کی ہالت میں تھا اور اس وقت تک ممانعت کی اطلاع ہے جس سے پہلے جواز تھا پس حضرت ابوہریرہ (رض) والی روایت حضرت صدیقہ (رض) کی روایت سے اولیٰ ہے۔ کیونکہ یہ اس کے لیے ناسخ ہے اور یہ صحابہ کرام کا اس عمل سے انکار اس بات کی دلیل ہے کہ ان کو ام المؤمنین کے قول کے خلاف علم تھا ۔ اگر ان کو معلوم نہ ہوتا تو وہ مخالفت نہ کرتے اور یہ جو ہم نے مسجد میں نماز جنازہ کی کراہت اور ممانعت کا تذکرہ کیا ہے۔ یہ امام ابوحنیفہ اور محمد جواب کا قول ہے۔ امام ابو یوسف (رح) کا قول بھی یہی ہے۔ البتہ اطلاع کرنے والوں نے امام ابو یوسف (رح) سے اس طرح نقل کیا کہ آپ نے فرمایا جب مسجد خاص جنازہ کی نماز کے لیے بنائی گئی ہو تو اس میں نماز ہ جنازہ پڑھنے میں کچھ حرج نہیں۔
تخریج : ابو داؤد فی الجنائز باب ٥٠‘ نمبر ٣١٩١‘ ابن ماجہ فی الجنائز باب ٢٩‘ نمبر ١٥١٧‘ باختلاف یسیر من اللفظ۔
کشف حقیقت :
جب جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایات جنازے کے مسجد میں مباح اور مکروہ کے سلسلہ میں مختلف ہوگئیں تو اب ناسخ و منسوخ کو پہچاننا ضروری ہے۔
روایت عائشہ (رض) سے یہ بخوبی معلوم ہوتا ہے کہ مسجد میں جنازہ ہوتا تھا پھر فعلی طور پر متروک ہوگیا اور عام لوگوں نے اس کو جان لیا حضرت عائشہ (رض) کے ہاں یہ ترک کراہت کی وجہ سے نہ تھا بلکہ اس کی وجہ یہ تھی کہ اپنے جنازے کے وہ ولی ہیں ان کو مسجد سے باہر پڑھنے یا مسجد میں پڑھنے کا اختیار حاصل ہے کسی اور جگہ پر ان کا نماز پڑھنا مسجد میں جنازے کی کراہت کی دلیل نہیں جیسا کہ ان کا نماز جنازہ مسجد میں پڑھنا دوسری جگہ پڑھنے کی کراہت کی دلیل نہیں اسی لیے انھوں نے سعد بن ابی وقاص (رض) کی وفات پر وہ بات فرمائی جو اوپر مذکور ہوئی۔
مگر اصحاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے اس قول پر نکیر فرمائی ابوہریرہ (رض) کو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مسجد میں نماز جنازہ کے حکم کا منسوخ ہونا معلوم تھا اور وہ جانتے تھے کہ آپ کا یہ چھوڑنا پہلے حکم کو منسوخ کرنے والا ہے حضرت عائشہ (رض) کی روایت سے ان کا قول اس لیے اولیٰ ہے کہ اس روایت میں فعل رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا تذکرہ ہے جو اباحت کے زمانہ سے متعلق ہے جبکہ ممانعت نہ ہوئی تھی اور نمبر ٢ روایت ابوہریرہ (رض) اس لیے بھی اولیٰ ہے کہ وہ ناسخ اور متأخر ہے۔
نمبر 3: اصحاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا انکار اس بات کی دلیل ہے کہ وہ اس کا منسوخ ہونا جانتے تھے اگر نہ جانتے تو انکار نہ کرتے اور عائشہ (رض) کو اس کا علم نہ تھا۔
نمازِ جنازہ کے مسجد میں ممنوع ہونے کا یہ قول ہمارے ائمہ امام ابوحنیفہ (رح) محمد (رح) ابو یوسف (رح) کا قول ہے۔
البتہ امالی ابو یوسف (رح) میں ایک مزید مسئلہ تحریر کیا گیا ہے کہ اگر کوئی مسجد خاص جنائز کے لیے بنائی گئی ہو تو اس میں جنازہ ادا کرنے میں کوئی کراہت نہیں ہے۔
نوٹ : امام طحاوی (رح) نے یہاں امام محمد (رح) کے نام کو ابو یوسف (رح) سے مقدم نقل کیا کیونکہ ان کا اس مسئلہ میں ایک گونہ اختلاف تھا اس کی طرف اشارہ کرنے کے لیے آخر میں ان کا قول بمع اختلاف ذکر کردیا اس باب میں جواز اور شدید کراہت کا اختلاف ہے یہ باب نظر طحاوی (رح) سے خالی ہے۔

2751

۲۷۵۱ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ .
٢٧٥١: ابو بکرہ نے ابو داؤد سے نقل کیا۔
جنازہ میں کتنی تکبیرات ہیں۔
نمبر 1: امام ابو یوسف (رح) زفر (رح) کے ہاں نماز جنازہ میں پانچ تکبیرات ہیں۔
نمبر 2: تمام ائمہ اور جمہور فقہاء و محدثین کے ہاں چار تکبیرات ہیں جو کہ فرض ہیں۔
فریق اوّل کا مؤقف اور دلائل : جنازہ میں پانچ تکبیرات ہیں جیسا کہ ان روایات میں پایا جاتا ہے۔

2752

۲۷۵۲ : ح وَحَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا وَہْبٌ‘ قَالَا : ثَنَا شُعْبَۃُ‘ عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ‘ عَنِ ابْنِ أَبِیْ لَیْلٰی‘ قَالَ : کَانَ زَیْدُ بْنُ أَرْقَمَ یُصَلِّیْ عَلٰی جَنَائِزِنَا فَیُکَبِّرُ أَرْبَعًا .فَکَبَّرَ یَوْمًا خَمْسًا‘ فَسُئِلَ عَنْ ذٰلِکَ‘ فَقَالَ أَبُوْ بَکْرَۃَ فِیْ حَدِیْثِہٖ، فَقَالَ : (کَبَّرَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خَمْسًا) .وَقَالَ ابْنُ مَرْزُوْقٍ فِیْ حَدِیْثِہٖ، فَقَالَ : (کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُکَبِّرُہَا أَوْ کَبَّرَہَا) ۔
٢٧٥٢: ابن ابی لیلیٰ کہتے ہیں کہ زید بن ارقم (رض) ہمارے جنازوں پر چار تکبیرات کہا کرتے تھے ایک دن انھوں نے پانچ تکبیرات کہیں تو ان سے دریافت کیا گیا تو ابو بکرہ کی روایت میں ان سے یہ جواب نقل کیا گیا ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پانچ تکبیرات کہیں۔ اور ابن مرزوق کی روایت میں ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پانچ تکبیرات کہا کرتے تھے یا کہیں۔
تخریج : ابو داؤد باب ٥٤‘ نمبر ٣١٩٧‘ ترمذی فی الجنائز باب ٣٧‘ نمبر ١٠٢٣‘ ابن ماجہ فی الجنائز باب ٢٥‘ نمبر ١٥٠٥۔

2753

۲۷۵۳ : حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوٗدَ‘ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ کَثِیْرٍ‘ قَالَ : أَنَا إِسْرَائِیْلُ بْنُ یُوْنُسَ‘ قَالَ : ثَنَا (عَبْدُ الْأَعْلٰی أَنَّہٗ صَلّٰی خَلْفَ زَیْدِ بْنِ أَرْقَمَ عَلٰی جَنَازَۃٍ فَکَبَّرَ خَمْسًا .فَسَأَلَہٗ عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ أَبِیْ لَیْلٰی‘ فَأَخَذَ بِیَدِہٖ، فَقَالَ : أَنَسِیْتُ ؟ قَالَ : لَا‘ وَلٰـکِنِّیْ صَلَّیْتُ خَلْفَ أَبِی الْقَاسِمِ خَلِیْلِیْ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَکَبَّرَ خَمْسًا فَلاَ أَتْرُکُہٗ أَبَدًا) .
٢٧٥٣‘ عبدالاعلیٰ نے بیان کیا کہ میں نے زید بن ارقم (رض) کے پیچھے ایک جنازہ کی نماز ادا کی تو انھوں نے پانچ تکبیرات کہیں ان سے عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ نے پوچھا تو انھوں نے اس کا ہاتھ پکڑ کر کہا کیا تم بھول گئے ؟ اس نے کہا نہیں لیکن میں نے اپنے خلیل ابوالقاسم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیچھے نماز پڑھی تو انھوں نے پانچ تکبیرات کہی ہیں میں ان کو کبھی نہ چھوڑوں گا۔
تخریج : مسلم فی الجنائز نمبر ٧٢۔

2754

۲۷۵۴ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ‘ قَالَ : ثَنَا عِیْسَی بْنُ اِبْرَاہِیْمَ‘ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْعَزِیْزِ بْنُ مُسْلِمٍ عَنْ (یَحْیَی بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ التَّیْمِیِّ قَالَ : صَلَّیْتُ مَعَ عِیْسٰی مَوْلٰی حُذَیْفَۃَ بْنِ الْیَمَانِ‘ عَلٰی جَنَازَۃٍ‘ فَکَبَّرَ عَلَیْہَا خَمْسًا‘ ثُمَّ الْتَفَتَ إِلَیْنَا فَقَالَ : مَا وَہِمْتُ وَلَا نَسِیْتُ، وَلٰـکِنِّیْ کَبَّرْت کَمَا کَبَّرَ مَوْلَایَ‘ وَوَلِیُّ نِعْمَتِیْ‘ یَعْنِیْ حُذَیْفَۃَ بْنَ الْیَمَانِ‘ صَلّٰی عَلٰی جَنَازَۃٍ فَکَبَّرَ عَلَیْہَا خَمْسًا‘ ثُمَّ الْتَفَتَ إِلَیْنَا فَقَالَ : مَا وَہِمْتُ وَلَا نَسِیْتُ، وَلٰـکِنِّیْ کَبَّرْت کَمَا کَبَّرَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ) .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ إِلٰی أَنَّ التَّکْبِیْرَ عَلَی الْجَنَائِزِ خَمْسًا‘ وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِھٰذِہِ الْآثَارِ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ فَقَالُوْا : بَلْ ہِیَ أَرْبَعٌ‘ لَا یَنْبَغِیْ أَنْ یُّزَادَ عَلٰی ذٰلِکَ‘ وَلَا یَنْقُصَ مِنْہُ .وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ ۔
٢٧٥٤: یحییٰ بن عبداللہ تیمی کہتے ہیں کہ میں حذیفہ بن یمان کے مولیٰ عیسیٰ کے ساتھ ایک جنازہ پر نماز پڑھی تو عیسیٰ نے اس پر پانچ تکبیرات کہیں پھر ہماری طرف توجہ کر کے فرمایا نہ مجھے وہم ہوا اور نہ میں بھولا بلکہ میں اسی طرح تکبیرات کہہ رہا ہوں جیسے میرے مولیٰ و محسن حذیفہ بن یمان نے ایک جنازہ کی نماز ادا کی اور اس پر پانچ تکبیرات کہیں پھر ہماری طرف متوجہ ہو کر کہا نہ مجھے وہم ہوا اور نہ میں بھولا بلکہ میں نے اسی طرح تکبیرات کہی ہیں جیسا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کہی تھیں۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں کہ علماء کی ایک جماعت نے یہ کہا ہے کہ جنازے کی تکبیرات پانچ ہیں انھوں نے ان روایات سے دلیل حاصل کی ہے۔ مگر دیگر علماء نے ان کی بات سے اختلاف کرتے ہوئے فرمایا کہ تکبیرات چار ہیں ان سے کمی اور اضافہ درست نہیں ۔ انھوں نے ان روایات سے استدلال کیا ہے۔
تخریج : ابن ابی شیبہ فی الجنائز ٣؍٣٠٣۔
حاصل روایات : ان تمام روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ جنازہ کی پانچ تکبیرات ہیں جو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ وتابعین سے ثابت ہیں پس اتنی کہی جائیں گی۔
مؤقف فریق ثانی : جنازے کی تکبیرات چار ہیں اس سے زیادہ نہ کہی جائیں۔ مندرجہ ذیل روایات اس کو ثابت کرتی ہیں۔

2755

۲۷۵۵ : بِمَا حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوٗدَ‘ قَالَ : ثَنَا ہُدْبَۃُ‘ قَالَ : ثَنَا ہَمَّامٌ‘ قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ أَبِیْ کَثِیْرٍ‘ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ أَبِیْ قَتَادَۃَ أَنَّہٗ حَدَّثَہٗ عَنْ أَبِیْہِ أَنَّہٗ (شَہِدَ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صَلّٰی عَلٰی مَیِّتٍ‘ فَکَبَّرَ عَلَیْہِ أَرْبَعًا) .
٢٧٥٥: یحییٰ بن کثیر نے عبداللہ بن ابی قتادہ (رض) سے اور انھوں نے اپنے والد سے نقل کیا کہ میں اس جنازے میں جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ موجود تھا جو آپ نے ایک میت کا ادا کیا تو اس میں چار تکبیرات کہیں۔

2756

۲۷۵۶ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ‘ عَنْ سُلَیْمِ بْنِ حِبَّابَ‘ عَنْ سَعِیْدِ بْنِ مِیْنَائَ ‘ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ (أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَبَّرَ عَلَی النَّجَاشِیِّ أَرْبَعًا) .
٢٧٥٦: سعید بن میناء نے جابر بن عبداللہ سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نجاشی کے جنازے میں چار تکبیرات کہیں۔
تخریج : بخاری فی الجنائز باب ٦٤‘ مسلم فی الجنائز نمبر ٦٤۔

2757

۲۷۵۷ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُو الْوَلِیْدِ‘ قَالَ : ثَنَا شَرِیْکٌ .ح .
٢٧٥٧: ابوالولید نے شریک سے روایت نقل کی ہے۔

2758

۲۷۵۸ : وَحَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ‘ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدٌ‘ قَالَ : ثَنَا ہُشَیْمٌ .ح .
٢٧٥٨: سعید نے ہشیم سے روایت نقل کی ہے۔

2759

۲۷۵۹ : وَحَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ یَحْیٰی‘ قَالَ : ثَنَا ہُشَیْمٌ‘ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ حَکِیْمٍ الْأَنْصَارِیِّ‘ عَنْ خَارِجَۃَ بْنِ زَیْدٍ‘ عَنْ زَیْدِ بْنِ ثَابِتٍ (أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صَلّٰی عَلٰی قَبْرِ قِلَابَۃَ‘ فَکَبَّرَ أَرْبَعًا) .
٢٧٥٩: خارجہ بن زید نے زید بن ثابت (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قلابہ (رض) کی قبر پر نماز پڑھی تو چار تکبیرات کہیں۔

2760

۲۷۶۰ : حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوٗدَ‘ قَالَ : ثَنَا شَیْبَانُ‘ قَالَ : ثَنَا سُوَیْدٌ‘ أَبُوْ حَازِمٍ‘ قَالَ : حَدَّثَنِیْ قَتَادَۃُ‘ عَنْ عَطَائٍ ‘ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ (أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَبَّرَ أَرْبَعًا) .
٢٧٦٠: عطاء نے جابر بن عبداللہ (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے چار تکبیرات کہیں۔
تخریج : مسلم فی الجنائز نمبر ٦٥۔

2761

۲۷۶۱ : حَدَّثَنَا أَحْمَدُ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوَ الْوَلِیْدِ‘ قَالَ : ثَنَا شَرِیْکٌ‘ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ أَبِیْ زُرْعَۃَ‘ عَنْ سَلْمَانَ الْمُؤَذِّنِ‘ قَالَ : (تُوُفِّیَ أَبُوْ شُرَیْحَۃَ‘ فَصَلّٰی عَلَیْہِ زَیْدُ بْنُ أَرْقَمَ‘ فَکَبَّرَ عَلَیْہِ أَرْبَعًا .فَقُلْنَا : مَا ھٰذَا ؟ فَقَالَ : ہٰکَذَا رَأَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَفْعَلُ) .
٢٧٦١: سلمان مؤذن کہتے ہیں کہ ابو شریحہ کی وفات ہوئی تو زید بن ارقم (رض) نے ان کی نماز جنازہ پڑھی اور اس پر چار تکبیرات کہیں ‘ ہم نے کہا یہ کیا ہے تو انھوں نے کہا میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اسی طرح کرتے دیکھا۔

2762

۲۷۶۲ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ‘ قَالَ : ثَنَا عَیَّاشٌ الرَّقَّامُ‘ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ یَحْیَی الْحِمْیَرِیُّ‘ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ بْنُ حُسَیْنٍ عَنِ الزُّہْرِیِّ‘ عَنْ أَبِیْ أُمَامَۃَ بْنِ سَہْلِ بْنِ حُنَیْفٍ‘ عَنْ أَبِیْہٖ‘ (أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یَعُوْدُ فُقَرَائَ أَہْلِ الْمَدِیْنَۃِ‘ وَأَنَّہٗ أُخْبِرَ بِاِمْرَأَۃٍ مَاتَتْ‘ فَدَفَنُوْہَا لَیْلًا‘ فَلَمَّا أَصْبَحَ آذَنُوْہُ فَمَشٰی إِلٰی قَبْرِہَا‘ فَصَلّٰی عَلَیْہَا وَکَبَّرَ أَرْبَعًا)
٢٧٦٢: زہری نے ابو امامہ بن سہل بن حنیف سے انھوں نے اپنے والد سے نقل کیا ہے کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نقراء اہل مدینہ کی عیادت کے لیے تشریف لے جاتے آپ کو ایک عورت کے متعلق بتلایا گیا کہ وہ فوت ہوگئی ہے اور صحابہ کرام نے اسے رات کو دفن کردیا ہے جب صبح ہوئی تو صحابہ کرام نے اس کی اطلاع دی پس آپ اس کی قبر کی طرف تشریف لے گئے اور اس پر نماز جنازہ پڑھی اور چار تکبیرات کہیں۔
تخریج : بخاری فی الجنائز باب ٦٤‘ مسلم فی الجنائز نمبر ٦٨‘ ترمذی فی الجنائز باب ٤٧‘ نمبر ١٠٣٧۔

2763

۲۷۶۳ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا وَہْبٌ‘ قَالَ : ثَنَا أَبِیْ‘ قَالَ : سَمِعَ النُّعْمَانَ یُحَدِّثُ عَنِ الزُّہْرِیِّ‘ عَنْ أَبِیْ أُمَامَۃَ عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَحْوَہٗ۔
٢٧٦٣: زہری نے ابو امامہ سے انھوں نے کسی صحابی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔

2764

۲۷۶۴ : حَدَّثَنَا إِسْمَاعِیْلُ بْنُ إِسْحَاقَ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ نُعَیْمٍ‘ قَالَ : ثَنَا شَرِیْکٌ‘ عَنْ اِبْرَاہِیْمَ الْہَجَرِیِّ‘ قَالَ : (صَلّٰی بِنَا ابْنُ أَبِیْ أَوْفٰی عَلَی ابْنَۃٍ لَہٗ فَکَبَّرَ عَلَیْہَا أَرْبَعًا‘ ثُمَّ وَقَفَ فَانْتَظَرْنَا بَعْدَ الرَّابِعَۃِ تَسْلِیْمَہٗ، حَتّٰی ظَنَنَّا أَنَّہٗ سَیُکَبِّرُ الْخَامِسَۃَ‘ ثُمَّ سَلَّمَ‘ ثُمَّ قَالَ : أَرَاکُمْ ظَنَنْتُمْ أَنِّیْ سَأُکَبِّرُ الْخَامِسَۃَ‘ وَلَمْ أَکُنْ لِأَفْعَل ذٰلِکَ‘ وَہٰکَذَا رَأَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَفْعَلُ) .
٢٧٦٤: ابراہیم الہجری کہتے ہیں کہ ہمیں ابن ابی اوفیٰ (رض) نے اپنی ایک بیٹی کی نماز جنازہ پڑھائی تو اس پر انھوں نے چار تکبیرات کہیں پھر رک گئے تو ہم نے چوتھی تکبیر کے بعد سلام کا انتظار کیا یہاں تک کہ ہمیں یہ گمان گزرا کہ وہ پانچویں تکبیر کہیں گے پھر انھوں نے سلام پھیرا پھر کہنے لگے میرا خیال ہے کہ تم نے گمان کیا کہ میں پانچویں تکبیر کہوں گا مگر میں ایسا کرنے والا نہیں اس لیے کہ میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اسی طرح کرتے پایا ہے۔
تخریج : ابن ماجہ فی الجنائز باب ٢٤‘ نمبر ١٥٠٣۔

2765

۲۷۶۵ : حَدَّثَنَا ابْنُ دَاوٗدَ‘ قَالَ : ثَنَا الْحَوْضِیُّ‘ قَالَ : ثَنَا خَالِدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ‘ عَنِ الْہَجَرِیِّ‘ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .
٢٧٦٥: خالد بن عبداللہ نے الہجری سے انھوں نے اپنی اسناد سے روایت نقل کی ہے۔

2766

۲۷۶۶ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا وَہْبٌ‘ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ‘ عَنِ الْہَجَرِیِّ‘ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔
٢٧٦٦: شعبہ نے الہجری سے پھر انھوں نے اپنی اسند سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

2767

۲۷۶۷ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ‘ قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ‘ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ مَالِکٌ‘ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ‘ عَنْ سَعِیْدِ بْنِ الْمُسَیِّبِ‘ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ (أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَعٰی لِلنَّاسِ النَّجَاشِیَّ فِی الْیَوْمِ الَّذِیْ مَاتَ فِیْہِ‘ ثُمَّ خَرَجَ إِلَی الْمُصَلّٰی‘ فَصَفَّ بِہِمْ‘ وَکَبَّرَ عَلَیْہِ أَرْبَعَ تَکْبِیْرَاتٍ) .
٢٧٦٧: سعید بن المسیّب نے ابوہریرہ (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں کو نجاشی کی موت کی اس دن اطلاع دی جس دن اس کا انتقال ہوا پھر آپ عید گاہ کی طرف نکلے اور صحابہ کرام کو صف میں کھڑا کیا اور جنازہ میں چار تکبیرات کہیں۔
تخریج : بخاری فی الجنائز باب ٦٤‘ مسلم فی الجنائز ٦٢؍٦٣‘ ترمذی فی الجنائز باب ٣٧١‘ نمبر ١٠٢٢۔

2768

۲۷۶۸ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ‘ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ صَالِحٍ‘ قَالَ : حَدَّثَنِی اللَّیْثُ‘ قَالَ : حَدَّثَنِیْ عُقَیْلٌ‘ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ‘ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ سَعِیْدُ بْنُ الْمُسَیِّبِ‘ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ‘ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ .
٢٧٦٨: سعید بن المسیّب نے ابوہریرہ (رض) سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

2769

۲۷۶۹ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بِشْرٍ الرَّقِّیُّ‘ قَالَ : ثَنَا شُجَاعٌ‘ عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ‘ عَنِ الزُّہْرِیِّ‘ عَنْ سَعِیْدِ ابْنِ الْمُسَیِّبِ‘ عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ .
٢٧٦٩: سعید بن المسیّب نے بعض اصحاب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔

2770

۲۷۷۰ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ‘ قَالَ : ثَنَا الْحِمَّانِیُّ‘ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ بْنُ سَعِیْدٍ‘ عَنْ أَبِیْ غَالِبٍ‘ عَنْ أَنَسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ (أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یُکَبِّرُ أَرْبَعَ تَکْبِیْرَاتٍ عَلَی الْمَیِّتِ) .وَقَالُوْا فِیْ حَدِیْثِ زَیْدِ بْنِ أَرْقَمَ الَّذِیْ بَدَأْنَا بِذِکْرِہٖ فِیْ ھٰذَا الْبَابِ‘ أَنَّہٗ کَانَ یُکَبِّرُ عَلَی الْجَنَائِزِ أَرْبَعًا قَبْلَ الْمَرَّۃِ الَّتِیْ کَبَّرَ فِیْہَا خَمْسًا .وَلَا یَجُوْزُ أَنْ یَّکُوْنَ کَانَ یَفْعَلُ ذٰلِکَ‘ وَقَدْ رَأَی النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَفْعَلُ خِلَافَہٗ إِلَّا لِمَعْنًی قَدْ رَأَی النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَفْعَلُہٗ .وَہُوَ مَا رَوَاہُ عَنْہُ سَلْمَانُ الْمُؤَذِّنُ فِیْ صَلَاتِہِ عَلٰی أَبِیْ شُرَیْحَۃَ فِیْ تَکْبِیْرِہٖ عَلَیْہِ أَرْبَعًا .وَیَحْتَمِلُ تَکْبِیْرُہٗ عَلَی تِلْکَ الْجَنَازَۃِ خَمْسًا‘ أَنْ یَّکُوْنَ ذٰلِکَ لِأَنَّ حُکْمَ ذٰلِکَ الْمَیِّتِ أَنْ یُّکَبَّرَ عَلَیْہِ خَمْسًا‘ لِأَنَّہٗ مِنْ أَہْلِ " بَدْرٍ " فَإِنَّہُمْ کَانُوْا یُفَضِّلُوْنَ فِی التَّکْبِیْرِ فِی الصَّلَاۃِ عَلَیْہِمْ‘ عَلٰی مَا یُکَبَّرُ عَلٰی غَیْرِہِمْ .
٢٧٧٠: ابو غالب نے انس (رض) سے کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میت پر چار تکبیرات کہتے تھے۔ ان علماء نے حضرت زید بن ارقم (رض) کی وہ روایت جو شروع باب میں مذکور ہوئی اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ چار تکبیرات کہتے تھے اس مرتبہ کے علاوہ جب انھوں نے پانچ کہیں اور یہ کہنا ممکن نہیں کہ انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جو عمل کرتے دیکھا اس کے خلاف عمل کیا ہو اور وہ وہی روایت ہے جس کو ربیع موذن نے ابو شریحہ (رض) کے جنازے کے سلسلہ میں ہے کہ آپ نے اس میں چار تکبیرات پڑھیں اور یہ بھی احتمال ہے کہ اس جنازہ میں پانچ تکبیرات پڑھء ہوں۔ اور حضرت زید (رض) کا ان پر پانچ تکبیرات کہنا اس میت کی وجہ سے ہوسکتا ہے کیونکہ وہ بدری ہیں اور وہ اہل بدر کو دوسروں پر تکبیرات سے فضیلت دیتے تھے۔
تخریج : ابو داؤد فی الجنائز باب ٥٣‘ نمبر ٣١٩٤‘ ابن ماجہ فی الجنائز باب ٢١‘ نمبر ١٤٩٤۔
راجح و مرجوح کے مابین محاکمہ :
حضرت زید بن ارقم (رض) کی پہلی روایت سے جنازے پر چار تکبیر پڑھنا ثابت ہوتا ہے اس موقع سے پہلے جس میں انھوں نے پانچ تکبیرات کہیں اور یہ تو جائز نہیں کہ انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور فعل کرتے دیکھا ہو اور وہ اس کے خلاف کریں یہ تبھی ہوسکتا ہے کہ جب انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دوسر اعمل کرتے دیکھا ہو اور وہ ابو شریحہ (رض) والا واقعہ ہے کہ ان پر آپ نے چار تکبیرات کہیں اب اس جنازے پر پانچ تکبیریں کہنا یہ دو احتمال رکھتا ہے۔
نمبر 1: خاص اس میت کا یہی حکم ہو کہ اس پر پانچ تکبیرات کہی جائیں کیونکہ وہ اہل بدر میں سے ہو اہل بدر کے متعلق صحابہ کرام میں ایک تکبیر زیادہ کہنے کا طریقہ تھا۔

2771

۲۷۷۱ : وَحَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ .ح .
٢٧٧١: ابو بکرہ نے ابو داؤد سے روایت نقل کی۔

2772

۲۷۷۲ : وَحَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا وَہْبٌ‘ عَنْ شُعْبَۃَ‘ عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ‘ عَنْ سَعِیْدِ بْنِ الْمُسَیِّبِ‘ قَالَ : قَالَ عُمَرُ : کُلُّ ذٰلِکَ قَدْ کَانَ خَمْسٌ وَأَرْبَعٌ‘ فَأَمَرَ عُمَرُ النَّاسَ بِأَرْبَعٍ - یَعْنِیْ فِی الصَّلَاۃِ عَلَی الْجَنَازَۃِ - .
٢٧٧٢: سعید بن المسیّب سے روایت ہے کہ حضرت عمر (رض) نے فرمایا کہ یہ چار اور پانچ تکبیرات تھیں مگر عمر (رض) نے نماز جنازہ میں چار کا حکم فرمایا۔

2773

۲۷۷۳ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ‘ قَالَ : ثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ‘ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عَمْرٍو‘ عَنْ زَیْدٍ (یَعْنِی ابْنَ أَبِیْ أُنَیْسَۃَ) عَنْ حَمَّادٍ عَنْ اِبْرَاہِیْمَ‘ قَالَ : قُبِضَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَالنَّاسُ مُخْتَلِفُوْنَ فِی التَّکْبِیْرِ عَلَی الْجَنَائِزِ‘ لَا تَشَائُ أَنْ تَسْمَعَ رَجُلًا یَقُوْلُ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُکَبِّرُ سَبْعًا‘ وَآخَرَ یَقُوْلُ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُکَبِّرُ خَمْسًا‘ وَآخَرَ یَقُوْلُ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُکَبِّرُ أَرْبَعًا إِلَّا سَمِعْتُہٗ، فَاخْتَلَفُوْا فِیْ ذٰلِکَ‘ فَکَانُوْا عَلٰی ذٰلِکَ حَتّٰی قُبِضَ أَبُوْ بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ .فَلَمَّا وَلِیَ عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ‘ وَرَأَی اخْتِلَافَ النَّاسِ فِیْ ذٰلِکَ‘ شَقَّ ذٰلِکَ عَلَیْہِ جِدًّا‘ فَأَرْسَلَ إِلَی رِجَالٍ مِنْ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .فَقَالَ : إِنَّکُمْ - مَعَاشِرَ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ - مَتٰی تَخْتَلِفُوْنَ عَلَی النَّاسِ‘ یَخْتَلِفُوْنَ مَنْ بَعْدَکُمْ‘ وَمَتٰی تَجْتَمِعُوْنَ عَلٰی أَمْرٍ یَجْتَمِعُ النَّاسُ عَلَیْہٖ‘ فَانْظُرُوْا أَمْرًا تَجْتَمِعُوْنَ عَلَیْہِ فَکَأَنَّمَا أَیْقَظَہُمْ .فَقَالُوْا : نِعْمَ مَا رَأَیْتُ یَا أَمِیْرَ الْمُؤْمِنِیْنَ‘ فَأَشِرْ عَلَیْنَا‘ فَقَالَ عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ : بَلْ أَشِیْرُوْا أَنْتُمْ عَلَیَّ‘ فَإِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُکُمْ .فَتَرَاجَعُوا الْأَمْرَ بَیْنَہُمْ‘ فَأَجْمَعُوْا أَمْرَہُمْ عَلٰی أَنْ یَجْعَلُوْا التَّکْبِیْرَ عَلَی الْجَنَائِزِ‘ مِثْلَ التَّکْبِیْرِ فِی الْأَضْحَی وَالْفِطْرِ‘ أَرْبَعَ تَکْبِیْرَاتٍ‘ فَأُجْمِعَ أَمْرُہُمْ عَلٰی ذٰلِکَ .فَھٰذَا عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَدْ رَدَّ الْأَمْرَ فِیْ ذٰلِکَ إِلٰی أَرْبَعِ تَکْبِیْرَاتٍ بِمَشُوْرَۃِ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِذٰلِکَ عَلَیْہِ وَہُمْ حَضَرُوْا مِنْ فِعْلِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا رَوَاہُ حُذَیْفَۃُ‘ وَزَیْدُ بْنُ أَرَقْمَ‘ فَکَأَنَّ مَا فَعَلُوْا مِنْ ذٰلِکَ عِنْدَہُمْ أَوْلَی مِمَّا قَدْ کَانُوْا عَلِمُوْا .فَذٰلِکَ نَسْخٌ لِمَا قَدْ کَانُوْا عَلِمُوْا‘ لِأَنَّہُمْ مَأْمُوْنُوْنَ عَلٰی مَا قَدْ فَعَلُوْا کَمَا کَانُوْا مَأْمُوْنِیْنَ عَلٰی مَا قَدْ رَوَوْا . وَہٰکَذَا کَمَا أَجْمَعُوْا عَلَیْہِ بَعْدَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی التَّوْقِیْتِ عَلٰی حَدِّ الْخَمْرِ‘ وَتَرْکِ بَیْعِ أُمَّہَاتِ الْأَوْلَادِ .فَکَانَ إِجْمَاعُہُمْ عَلٰی مَا قَدْ أَجْمَعُوْا عَلَیْہِ مِنْ ذٰلِکَ حُجَّۃً‘ وَإِنْ کَانُوْا قَدْ فَعَلُوْا فِیْ عَہْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خِلَافَہٗ۔ فَکَذٰلِکَ مَا أَجْمَعُوْا عَلَیْہِ مِنْ عَدَدِ التَّکْبِیْرِ بَعْدَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی الصَّلَاۃِ عَلَی الْجَنَازَۃِ فَہُوَ حُجَّۃٌ وَإِنْ کَانُوْا قَدْ عَلِمُوْا مِنَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خِلَافَہٗ۔ وَمَا فَعَلُوْا مِنْ ذٰلِکَ‘ وَأَجْمَعُوْا عَلَیْہِ بَعْدَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَہُوَ نَاسِخٌ لِمَا قَدْ کَانَ فَعَلَہُ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .فَإِنْ قَالَ قَائِلٌ : وَکَیْفَ یَکُوْنُ ذٰلِکَ نَاسِخًا‘ وَقَدْ کَبَّرَ عَلِیُّ بْنُ أَبِیْ طَالِبٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ بَعْدَ ذٰلِکَ أَکْثَرَ مِنْ أَرْبَعٍ .وَذَکَرُوْا فِیْ ذٰلِکَ۔
٢٧٧٣: حماد نے ابراہیم (رح) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات ہوئی اور لوگوں کا جنازہ کی تکبیرات کے متعلق اختلاف تھا کسی سے سات ‘ کسی سے پانچ اور کسی سے چار تکبیرات کی بات سنتا تھا ان کی حالت زمانہ ابوبکر (رض) تک یہی رہی جب عمر (رض) خلیفہ بنے اور لوگوں کو اس میں مختلف پایا ان پر ان کا اختلاف گراں گزرا تو آپ نے اصحاب رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مجلس شوریٰ کو بلایا اور فرمایا تم وہ لوگ ہو جن کو صحبت نبوت میسر آئی ہے جب تم لوگوں میں اختلاف ہوگا تو بعد والے لوگ بھی اختلاف کریں گے اور جب تم ایک بات پر اتفاق کرلو گے تو اور لوگ بھی ایک بات پر جمع ہوجائیں گے تم اجتماعی بات دیکھ لو گویا ان کو خبردار کیا انھوں نے کہا آپ کی رائے بہت خوب ہے آپ ہمیں اشارہ فرمائیں تو عمر (رض) نے کہا بلکہ تم مجھے مشورہ دو میں بھی تمہاری طرح کا انسان ہوں۔ چنانچہ انھوں نے معاملے کو ایک دوسرے پر لوٹایا اور اس بات پر اتفاق کیا کہ جنازے کی تکبیرات عیدالاضحی اور عیدالفطر کی طرح (ایک رکعت میں) چار تکبیرات ہوں اور اس پر سب کا اتفاق ہوگیا۔ یہ حضرت عمر (رض) ہیں جنہوں نے اس سلسلہ میں معاملے کو چار تکبیرات کی طرف اصحاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مشورہ سے لوٹایا حالانکہ وہ حضرت حذیفہ اور زید ارقم (رض) والی روایت میں مذکور نبوی عمل کے وقت خود موجود تھے ۔ پس انھوں نے جو کچھ کیا وہ ان کے ہاں اس سے اولیٰ تھا جس کو وہ جانتے تھے۔ پس یہ اس کے تھے ناسخ ہوا جس کو وہ جانتے تھے کیونکہ وہ اپنے اس فعل میں بھی مامون تھے ۔ یہ اسی طرح ہے جیسا انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد شراب کی حد مقرر کرنے میں اتفاق کیا اور ام ولدہ کی فروخت ترک کرنے پر اجماع کیا ۔ ان کا اجماع اس بات کے لیے ہے جس پر انھوں نے اتفاق کیا وہ ححبت ہے۔ اگرچہ انھوں نے زمانہ نبوت میں اس کے خلاف کیا تھا۔ پس اسی طرح جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد جنازے کی چار تکبیرات پر انھوں نے اجماع کرلیا وہ بھی محبت ہے اگرچہ انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جو جانا اور جو کیا وہ اس کے خلاف تھا اور جس بات کو انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد اجماع کیا وہ اس کے لیے ناسخ تھا جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کہا اگر کوئی معترض کہے کہ یہ کس طرح ناسخ بن سکتا ہے۔ جب کہ حضرت علی (رض) نے آپ کے بعد چار سے زائد تکبیرات کہیں اور اس سلسلہ میں ذیل کے آثار پیش کیے۔
تخریج : مصنفہ ابن ابی شیبہ ٢؍٤٩٥۔
حاصل اثر : اس اثر سے معلوم ہوا کہ جنازے کی چار تکبیرات پر صحابہ کرام کا اجماع ہوگیا تھا اور عمر (رض) نے صحابہ کرام کے مشورہ سے معاملے کو چار تکبیرات کی طرف لوٹا دیا حالانکہ تمام صحابہ کرام یا ان میں سے اکثریت اس موقعہ پر موجود تھی جو حذیفہ اور زید بن ارقم ] نے نقل کی ہے جو کچھ انھوں نے کہا وہ اس سے اولیٰ تھا جس کو وہ جانتے تھے اور یہ اس کے لیے نسخ تھا جو وہ جانتے تھے کیونکہ جو کچھ انھوں نے کیا وہ اس میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف غلط نسبت کرنے میں مامون و محفوظ ہیں جس طرح کہ وہ آپ سے روایت کرنے میں محفوظ ہیں کہ وہ کوئی غلط بات آپ کی طرف منسوب کریں اور اس اجماع کی دوسری نظیر حد شراب اور ام ولدہ کی بیع کے ترک پر اجماع کرنے کی طرح ہے۔
صحابہ کرام (رض) کا یہ اجماع حجت ہے اگرچہ زمانہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں ان میں سے بعض نے اس کے خلاف بھی عمل کیا ہو تکبیرات جنازہ کی تعداد پر اجماع اسی قسم سے ہے اور یہ آپ کے ایک قول و عمل پر اجماع ہے۔
اگرچہ پہلے بعض ایک فعل کو اپناتے تھے تو دوسرے دوسرے فعل کو اور یہ اجماع چونکہ آپ کے آخری عمل کو دیکھ کر کیا گیا اس لیے یہ پہلے عمل کا ناسخ ہے۔
ایک اہم اشکال :
چار تکبیرات والی روایت کس طرح ناسخ ہے اگر زائد تکبیرات والی روایات منسوخ ہوتیں تو حضرت علی (رض) ، سہل بن حنیف (رض) کے جنازے پر چار سے زائد تکبیرات نہ کہتے۔ روایت ملاحظہ ہو۔

2774

۲۷۷۴ : مَا حَدَّثَنَا یَزِیْدُ بْنُ سِنَانٍ‘ قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیْدٍ الْقَطَّانُ‘ قَالَ : ثَنَا إِسْمَاعِیْلُ بْنُ أَبِیْ خَالِدٍ‘ قَالَ : ثَنَا عَامِرٌ‘ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَعْقِلٍ أَنَّ عَلِیًّا صَلّٰی عَلٰی سَہْلِ بْنِ حُنَیْفٍ‘ فَکَبَّرَ عَلَیْہِ سِتًّا.
٢٧٧٤: عبداللہ بن معقل کہتے ہیں کہ علی (رض) نے سہل بن حنیف کی نماز جنازہ پڑھی تو چھ تکبیرات کہیں۔ ان سے کہا جائے گا ۔ انھوں نے یہ اس لیے کیا کیونکہ وہ صحابی اہل بدر سے تھے اور ان پر نماز جنازہ پڑھنے میں یہی حکم تھا اور دوسروں پر پڑھی جانے والی نماز میں ان پر زیادہ تکبیرات پڑھی جائیں گی ۔ اس کی دلیل یہ روایت ہے۔

2775

۲۷۷۵ : حَدَّثَنَا یَزِیْدُ‘ قَالَ : ثَنَا یَحْیٰی‘ قَالَ : ثَنَا إِسْمَاعِیْلُ‘ قَالَ : ثَنَا مُوْسَی بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ أَنَّ عَلِیًّا رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ صَلّٰی عَلٰی قَتَادَۃَ فَکَبَّرَ عَلَیْہِ سَبْعًا .قِیْلَ لَہٗ : إِنَّ عَلِیًّا رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ إِنَّمَا فَعَلَ ذٰلِکَ لِأَنَّ أَہْلَ بَدْرٍ کَانَ کَذٰلِکَ حُکْمُہُمْ فِی الصَّلَاۃِ عَلَیْہِمْ‘ یُزَادُ فِیْہَا مِنَ التَّکْبِیْرِ‘ عَلٰی مَا یُکَبَّرُ عَلٰی غَیْرِہِمْ مِنْ سَائِرِ النَّاسِ .وَالدَّلِیْلُ عَلٰی ذٰلِکَ۔
٢٧٧٥: موسیٰ بن عبداللہ کہتے ہیں کہ علی (رض) نے قتادہ کی نماز جنازہ میں سات تکبیرات کہیں۔
حل اشکال :
حضرت علی (رض) نے یہ عمل بدری صحابہ کرام کی فضیلت کے پیش نظر کیا اہل بدر کی نماز جنازہ کا یہی حکم ہے دوسروں کے جنازہ کی نسبت ان پر زائد تکبیر کہی جائے گی اس کی دلیل یہ روایت ہے۔

2776

۲۷۷۶ : أَنَّ اِبْرَاہِیْمَ بْنَ مُحَمَّدٍ الصَّیْرَفِیَّ حَدَّثَنَا‘ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ رَجَائٍ ‘ قَالَ : ثَنَا زَائِدَۃُ‘ قَالَ : ثَنَا یَزِیْدُ بْنُ أَبِیْ زِیَادٍ‘ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَعْقِلٍ‘ قَالَ : صَلَّیْتُ مَعَ عَلِیٍّ عَلٰی جَنَازَۃٍ‘ فَکَبَّرَ عَلَیْہَا خَمْسًا‘ ثُمَّ الْتَفَتَ فَقَالَ (إِنَّہٗ مِنْ أَہْلِ بَدْرٍ) ثُمَّ صَلَّیْتُ مَعَ عَلِیٍّ عَلٰی جَنَائِزَ‘ کُلُّ ذٰلِکَ کَانَ یُکَبِّرُ عَلَیْہَا أَرْبَعًا .
٢٧٧٦: عبداللہ بن مغفل کہتے ہیں کہ میں نے علی (رض) کے ساتھ ایک جنازہ کی نماز پڑھی تو انھوں نے پانچ تکبیرات کہیں پھر متوجہ ہو کر فرمایا یہ بدری صحابی ہیں پھر میں نے علی (رض) کے ساتھ کئی جنازے ادا کئے مگر ان میں آپ نے چار تکبیرات کہیں۔

2777

۲۷۷۷ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ‘ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَعِیْدٍ‘ قَالَ : ثَنَا شَرِیْکٌ‘ عَنْ جَابِرٍ‘ عَنْ عَامِرٍ‘ عَنِ ابْنِ مَعْقِلٍ‘ قَالَ : صَلّٰی عَلِیٌّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَلٰی سَہْلِ بْنِ حُنَیْفٍ‘ فَکَبَّرَ عَلَیْہِ سِتًّا‘ ثُمَّ الْتَفَتَ إِلَیْنَا فَقَالَ : إِنَّہُ مِنْ أَہْلِ بَدْرٍ .
٢٧٧٧: عبداللہ بن معقل سے روایت ہے کہ علی (رض) نے سہل بن حنیف (رض) کی نماز جنازہ ادا کی اس پر چھ تکبیرات کہیں پھر میری طرف متوجہ ہو کر فرمایا یہ اہل بدر سے ہے۔

2778

۲۷۷۸ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَعِیْدٍ‘ قَالَ : أَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ‘ عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ سَلْعٍ الْہَمْدَانِیِّ‘ عَنْ عَبْدِ خَیْرٍ‘ قَالَ : کَانَ عَلِیٌّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ یُکَبِّرُ عَلٰی أَہْلِ بَدْرٍ سِتًّا‘ وَعَلٰی أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خَمْسًا‘ وَعَلٰی سَائِرِ النَّاسِ أَرْبَعًا .فَہٰکَذَا کَانَ حُکْمُ الصَّلَاۃِ عَلٰی أَہْلِ بَدْرٍ .
٢٧٧٨: عبد خیر نے روایت کی ہے کہ علی (رض) اہل بدر پر چھ تکبیرات سے جنازہ پڑھتے اور دیگر اصحاب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر پانچ اور عام لوگوں پر چار تکبیرات سے جنازہ پڑھتے تھے۔
حاصل روایات : ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ چار سے زائد تکبیرات اصحاب بدر کے اعزاز کے لیے پڑھی جاتی تھیں اور عام لوگوں پر چار تکبیر سے جنازہ حضرت علی (رض) کا معمول تھا اصحاب بدر کی یہ خصوصیت مسلم ہے جیسا اس اثر میں ہے۔

2779

۲۷۷۹ : وَقَدْ حَدَّثَنِی الْقَاسِمُ بْنُ جَعْفَرٍ‘ قَالَ : ثَنَا زَیْدُ بْنُ أَخْزَمَ الطَّائِیُّ‘ قَالَ : ثَنَا یَعْلَی بْنُ عُبَیْدٍ‘ قَالَ : ثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ بَشِیْرٍ‘ قَالَ : صَلَّیْتُ خَلْفَ الْأَسْوَدِ بْنِ یَزِیْدَ‘ وَہَمَّامِ بْنِ الْحَارِثِ‘ وَإِبْرَاہِیْمَ النَّخَعِیِّ‘ فَکَانُوْا یُکَبِّرُوْنَ عَلَی الْجَنَائِزِ أَرْبَعًا .قَالَ ہَمَّامٌ : وَجَمَعَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ النَّاسَ عَلٰی أَرْبَعٍ إِلَّا عَلٰی أَہْلِ بَدْرٍ‘ فَإِنَّہُمْ کَانُوْا یُکَبِّرُوْنَ عَلَیْہِمْ خَمْسًا‘ وَسَبْعًا‘ وَتِسْعًا .فَدَلَّ مَا ذَکَرْنَا إِنَّمَا کَانُوْا اجْتَمَعُوْا عَلَیْہِ مِنْ عَدَدِ التَّکْبِیْرِ الْأَرْبَعِ فِیْ عَہْدِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ إِنَّمَا کَانَ عَلٰی غَیْرِ أَہْلِ بَدْرٍ‘ وَتَرَکُوْا حُکْمَ أَہْلِ بَدْرٍ عَلٰی مَا فَوْقَ الْأَرْبَعِ .فَمَا رُوِیَ عَنْ زَیْدِ ابْنِ أَرْقَمَ‘ مِمَّا ذَکَرْنَا‘ إِنَّمَا ہُوَ لِأَنَّہٗ کَانَ ذَہَبَ إِلٰی ھٰذَا الْمَذْہَبِ‘ فِیْمَا نَرٰی، وَاللّٰہُ أَعْلَمُ .
٢٧٧٩: سلیمان بن بشیر کہتے ہیں کہ میں نے اسود بن یزید ‘ ہمام بن حارث اور ابراہیم نخعی (رح) کے پیچھے نماز جنازہ ادا کی یہ سب چار تکبیر سے جنازہ ادا کرتے تھے۔ ہمام کہتے ہیں کہ عمر (رض) نے اہل بدر کے علاوہ بقیہ امت پر نماز جنازہ کے لیے صحابہ کرام کو جمع کیا گویا اہل بدر اس عموم سے مستثنیٰ ہیں اصحاب بدر پر خصوصیت کے ساتھ پانچ ‘ سات ‘ نو تکبیرات بھی پڑھی گئی ہیں۔ مذکورہ روایات سے یہ دلالت مل گئی کہ صحابہ کرام (رض) سے عہد فاروقی (رض) میں اجماع کیا کہ تکبیرات چار ہیں اور یہ حکم کو چار سے زیادہ پر برقرار رکھا پس جو روایت ہم نے زید بن ارقم (رض) سے نقل کی ہے وہ اس لیے نقل کی ہے کہ انھوں نے یہی رخ اختیار کیا ہے۔ جیسا ہماری رائے ہے (واللہ اعلم)
حاصل روایات : ان روایات سے اہل بدر پر چار سے زائد تکبیرات کا ثبوت ملتا ہے جبکہ دیگر پر علی (رض) کا عمل بھی چار تکبیر پڑھنے کا تھا پس فاروق اعظم (رض) کے زمانے میں اہل بدر کے علاوہ دوسرے لوگوں کے جنازے پر چار تکبیر کا اتفاق ہوا تھا اور جن صحابہ کرام سے چار سے زائد تکبیرات منقول ہیں وہ بدر یّین صحابہ کی خصوصیت کی وجہ سے ہے فلہٰذا ان کے عمل سے اس اجماع پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ اب زید بن ارقم اور حذیفہ بن یمان ] کی روایت کا آسان محمل نکل آیا اور چار تکبیر کا حکم ثابت رہا۔

2780

۲۷۸۰ : وَقَدْ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ‘ وَقَالَ : ثَنَا حَجَّاجُ بْنُ الْمِنْہَالِ‘ قَالَ : أَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلْمَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا دَاوٗدَ بْنُ أَبِیْ ہِنْدٍ‘ عَنِ الشَّعْبِیِّ‘ عَنْ عَلْقَمَۃَ بْنِ قَیْسٍ‘ قَالَ : قَدِمَ نَاسٌ مِنْ أَہْلِ الشَّامِ‘ فَمَاتَ لَہُمْ مَیِّتٌ‘ فَکَبَّرُوْا عَلَیْہِ خَمْسًا‘ فَأَرَدْتُ أَنْ لَا أُحَیِیَّہُمْ‘ فَأَخْبَرَتِ ابْنَ مَسْعُوْدٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ‘ فَقَالَ : لَیْسَ فِیْہِ شَیْء ٌ مَعْلُوْمٌ .فَھٰذَا یَحْتَمِلُ مَا ذَکَرْنَا فِی اخْتِلَافِ حُکْمِ الصَّلَاۃِ عَلَی الْبَدْرِیِّیْنَ‘ وَعَلٰی غَیْرِہِمْ .فَکَأَنَّ عَبْدَ اللّٰہِ أَرَادَ بِقَوْلِہٖ (لَیْسَ فِیْہِ شَیْء ٌ مَعْلُوْمٌ) أَیْ لَیْسَ فِیْہِ شَیْء ٌ یُکَبَّرُ فِی الصَّلَاۃِ عَلَی النَّاسِ جَمِیْعًا‘ لَا یُجَاوَزُ إِلٰی غَیْرِہٖ۔ وَقَدْ رُوِیَ ھٰذَا الْحَدِیْثُ بِغَیْرِ ھٰذَا اللَّفْظِ .
٢٧٨٠: شعبی نے علقمہ بن قیس سے روایت کی ہے کہ اہل شام میں سے کچھ لوگ آئے ان میں ایک آدمی کا انتقال ہوگیا انھوں نے اس کے نماز جنازہ میں پانچ تکبیرات کہیں میں نے چاہا کہ میں ان سے جھگڑوں تو میں نے ابن مسعود (رض) کو خبر دی تو انھوں نے کہا اس میں کوئی چیز مقرر نہیں۔ اس میں احتمال یہ ہے بدر یین کے متعلق نماز میں تکبیرات کا اختلاف اور اسی طرح غیر بدریین کے متعلق ایسا نہیں کہ جس سے دوسرے کی طرف تجاوز نہ ہوسکتا ہو۔ اس میں کوئی ایسی چیز نہیں جس میں دوسروں کی تجاوز نہ کرسکتے ہوں بلکہ تمام لوگوں پر نماز میں تکبیر کہی جائے گی۔ یہ روایت دیگر الفاظ سے بھی مروی ہے ۔
لغات : الاحییہم۔ جھگڑنا۔
لیس فیہ شیء معلوم اس قول میں ایک احتمال یہ ہے کہ تکبیرات جنازہ میں بدریین اور غیر بدریین کے متعلق تعداد تکبیر کا اختلاف ہے اس لیے اس میں ایک ایسی مقررہ حد نہیں کہ جس کی خلاف ورزی درست نہ ہو۔
یہ روایت دوسری سند سے اس طرح ہے۔

2781

۲۷۸۱ : حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوٗدَ‘ قَالَ : ثَنَا مُوْسَی بْنُ إِسْمَاعِیْلَ‘ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِیَادٍ‘ قَالَ : ثَنَا الشَّیْبَانِیُّ‘ قَالَ : ثَنَا عَامِرٌ‘ عَنْ عَلْقَمَۃَ أَنَّہٗ ذَکَرَ ذٰلِکَ لِعَبْدِ اللّٰہِ‘ فَقَالَ عَبْدُ اللّٰہِ (اِذَا تَقَدَّمَ الْاِمَامُ فَکَبِّرُوْا بِمَا کَبَّرَ‘ فَإِنَّہٗ لَا وَقْتَ وَلَا عَدَدَ) .وَھٰذَا - عِنْدَنَا - مَعْنَاہُ مَا ذَکَرْنَا أَیْضًا‘ لِأَنَّ الْاِمَامَ قَدْ یُصَلِّیْ حِیْنَئِذٍ عَلَی الْبَدْرِیِّیْنَ وَعَلٰی غَیْرِہِمْ .فَإِنْ صَلّٰی عَلَی الْبَدْرِیِّیْنَ فَکَبَّرَ عَلَیْہِمْ کَمَا یُکَبِّرُ عَلَی الْبَدْرِیِّیْنَ‘ وَذٰلِکَ مَا فَوْقَ الْأَرْبَعِ‘ فَکَبَّرُوْا مَا کَبَّرَ .وَإِنْ صَلّٰی عَلٰی غَیْرِ الْبَدْرِیِّیْنَ‘ فَکَبَّرَ أَرْبَعًا کَمَا یُکَبِّرُ عَلَیْہِمْ‘ فَکَبَّرُوْا کَمَا کَبَّرَ‘ لَا وَقْتَ وَلَا عَدَدَ فِی التَّکْبِیْرِ فِی الصَّلَاۃِ عَلٰی جَمِیْعِ النَّاسِ مِنَ الْبَدْرِیِّیْنَ وَغَیْرِہِمْ‘ لَا یُجَاوَزُ ذٰلِکَ إِلٰی مَا ہُوَ أَکْبَرُ مِنْہُ .وَقَدْ رُوِیَ ھٰذَا الْحَدِیْثُ أَیْضًا‘ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بِغَیْرِ ھٰذَا اللَّفْظِ .
٢٧٨١: عامر نے علقمہ بن قیس سے نقل کیا کہ میں نے یہ بات عبداللہ (رض) کو بتلائی تو انھوں نے فرمایا جب کوئی دوسرا امامت کرائے تو جتنی تکبیرات وہ کہے اتنی تم کہو کیونکہ لاوقت ولاعدد۔ اس کا وقت و عدد متعین نہیں مطلب یہ ہے کہ ممکن ہے کہ امام بدریین پر نماز پڑھ رہا ہو اور ان کی وجہ سے تکبیرات میں اضافہ نو تک درست ہے تو تم بھی اقتداء میں اتنی تکبیرات سے جنازہ ادا کرو یا غیر بدری صحابہ کرام پر نماز پڑھ رہا ہو تو وہ چار پڑھے تو جتنی تکبیرات وہ کہے تم اتنی کہو اس نماز کا کوئی وقت متعین نہیں اور تمام لوگ خواہ وہ بدری ہوں یا غیر بدری ان میں تکبیر کی کوئی ایسی تعداد نہیں کہ جس سے دوسرے کی طرف تجاوز نہ ہو سکے بلکہ بدریین میں دوسروں کی بنسبت زیادہ پڑھی جائیں گی۔
یہی روایت ایک اور سند اور متن کے ساتھ۔

2782

۲۷۸۲ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ غَسَّانَ‘ قَالَ : ثَنَا زُہَیْرٌ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ إِسْحَاقَ‘ عَنْ عَلْقَمَۃَ‘ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ‘ قَالَ : التَّکْبِیْرُ عَلَی الْجَنَازَۃِ‘ لَا وَقْتَ وَلَا عَدَدَ‘ إِنْ شِئْتَ خَمْسًا‘ وَإِنْ شِئْتَ سِتًّا .فَھٰذَا مَعْنَاہُ‘ غَیْرُ مَعْنٰی مَا حَکٰی عَامِرٌ‘ عَنْ عَلْقَمَۃَ‘ وَمَا حَکٰی عَامِرٌ عَنْ عَلْقَمَۃَ مِنْ ھٰذَا‘ فَہُوَ أَثْبَتُ‘ لِأَنَّ عَامِرًا قَدْ لَقِیَ عَلْقَمَۃَ وَأَخَذَ عَنْہُ أَبُوْ إِسْحَاقَ فَلَمْ یَلْقَہٗ، وَلَمْ یَأْخُذْ عَنْہُ‘ وَلِأَنَّ عَبْدَ اللّٰہِ قَدْ رُوِیَ عَنْہُ فِی التَّکْبِیْرِ أَنَّہٗ أَرْبَعٌ مِنْ غَیْرِ ھٰذَا الْوَجْہِ .
٢٧٨٢: علقمہ نے عبداللہ (رض) سے نقل کیا کہ جنازہ کی تکبیر نہ اس کا وقت ہے اور نہ گنتی اگر چاہو تو پانچ اور اگر چاہو تو چھ۔ اس کا معنیٰ اس کے علاوہ ہے جو عامر نے بیان کیا اور عامر کی علقمہ (رح) سے روایت زیادہ پختہ ہے کیونکہ عامر کی تو علقمہ سے ملاقات ثابت ہے اور ابو اسحاق کی اس سے ملاقات بھی ثابت نہیں اور نہ اس نے اس سے روایت بھی ہاصل نہیں کی کیونکہ حضرت عبداللہ (رض) کی دوسری روایت میں ان سے چار تکبیرات نقل کی گئی ہیں۔
اس روایت کا عامر کی روایت کے مقابلہ میں معنی مختلف ہے مگر عامر کی روایت اس سے پختہ ہے کیونکہ عامر کی خود علقمہ سے ملاقات اور حصول علم ثابت ہے جبکہ ابو اسحاق کی علقمہ سے ملاقات ہی ثابت نہیں چہ جائیکہ حصول روایت ہو پس یہ روایت منقطع ہے اور عبداللہ (رض) کی ایک دوسری روایت میں چار تکبیرات کا تذکرہ ہے وہ یہ روایت ہے۔

2783

۲۷۸۳ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا وَہْبٌ‘ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ‘ عَنْ عَلِیِّ بْنِ الْأَقْمَرِ‘ عَنْ أَبِیْ عَطِیَّۃَ‘ قَالَ : سَمِعْتُ عَبْدَ اللّٰہِ یَقُوْلُ (اَلتَّکْبِیْرُ عَلَی الْجَنَائِزِ أَرْبَعٌ کَالتَّکْبِیْرِ فِی الْعِیْدَیْنِ) .
٢٧٨٣: علی بن اقمر نے ابو عطیہ سے انھوں نے عبداللہ (رض) کو کہتے سنا کہ عیدین کی طرح جنازے کی چار تکبیرات ہیں۔

2784

۲۷۸۴ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ نُعَیْمٍ .ح .
٢٧٨٤: فہد نے ابو نعیم سے روایت کی ہے۔

2785

۲۷۸۵ : وَحَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا مُؤَمَّلٌ‘ قَالَ : حَدَّثَنَا سُفْیَانُ‘ عَنْ عَلِیِّ بْنِ الْأَقْمَرِ‘ عَنْ أَبِیْ عَطِیَّۃَ‘ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ‘ قَالَ : اَلتَّکْبِیْرُ فِی الْعِیْدَیْنِ أَرْبَعٌ‘ کَالصَّلَاۃِ عَلَی الْمَیِّتِ .
٢٧٨٥: علی بن اقمر نے ابو عطیہ انھوں نے عبداللہ (رض) سے روایت کی ہے کہ عیدین کی تکبیرات چار ہیں جیسا کہ نماز جنازہ میں۔

2786

۲۷۸۶ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا رَوْحٌ‘ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ‘ عَنْ عَلِیِّ بْنِ الْأَقْمَرِ‘ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .فَھٰذَا عَبْدُ اللّٰہِ‘ لَمَّا سُئِلَ عَنِ التَّکْبِیْرِ عَلَی الْجَنَازَۃِ أَخْبَرَ أَنَّہٗ أَرْبَعٌ‘ وَأَمَرَہُمْ فِیْ حَدِیْثِ عَلْقَمَۃَ أَنْ یُکَبِّرُوْا مَا کَبَّرَ أَئِمَّتُہُمْ .فَلَوْ انْقَطَعَ الْکَلَامُ عَلٰی ذٰلِکَ‘ لَکَانَ وَجْہُ حَدِیْثِہٖ عِنْدَنَا‘ عَلٰی أَنَّ أَصْلَ التَّکْبِیْرِ عِنْدَہٗ أَرْبَعٌ‘ وَعَلٰی أَنَّ مَنْ صَلّٰی خَلْفَ مَنْ یُکَبِّرُ أَکْثَرَ مِنْ أَرْبَعٍ‘ کَبَّرَ کَمَا کَبَّرَ إِمَامُہٗ، لِأَنَّہٗ قَدْ فَعَلَ مَا قَدْ قَالَہٗ بَعْضُ الْعُلَمَائِ .وَقَدْ کَانَ أَبُوْ یُوْسُفَ یَذْہَبُ إِلٰی ھٰذَا الْقَوْلِ‘ وَلٰـکِنَّ الْکَلَامَ لَمْ یَنْقَطِعْ عَلٰی ذٰلِکَ‘ وَقَالَ (لَا وَقْتَ وَلَا عَدَدَ) .فَدَلَّ ذٰلِکَ عَلٰی أَنَّ مَعْنَاہُ فِیْ ذٰلِکَ (لَا وَقْتَ عِنْدِی لِلتَّکْبِیْرِ فِی الصَّلَاۃِ عَلَی الْجَنَائِزِ‘ وَلَا عَدَدَ) عَلَی الْمَعْنَی الَّذِیْ ذَکَرْنَاہُ فِیْ أَہْلِ بَدْرٍ وَغَیْرِہِمْ .أَیْ لَا وَقْتَ وَلَا عَدَدَ فِی التَّکْبِیْرِ فِی الصَّلَاۃِ عَلَی النَّاسِ جَمِیْعًا‘ وَلٰـکِنْ جُمْلَتُہٗ لَا وَقْتَ لَہَا وَلَا عَدَدَ‘ إِنْ کَانَ أَہْلُ بَدْرٍ - ہٰکَذَا حُکْمُ الصَّلَاۃِ عَلَیْہِمْ وَالصَّلَاۃِ عَلٰی غَیْرِہِمْ عَلٰی مَا رَوٰی عَنْہُ أَبُوْ عَطِیَّۃَ‘ حَتّٰی لَا یَتَضَادَّ شَیْء ٌ مِنْ ذٰلِکَ .ثُمَّ قَدْ رُوِیَ عَنْ أَکْثَرِ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ صَلَاتِہِمْ عَلٰی جَنَائِزِہِمْ‘ أَنَّہُمْ کَبَّرُوْا فِیْہَا أَرْبَعًا .فَمِمَّا رُوِیَ عَنْہُمْ فِیْ ذٰلِکَ۔
٢٧٨٦: شعبہ نے علی بن اقمر سے پھر انھوں نے اپنی اسناد سے روایت نقل کی ہے۔ یہ عبداللہ (رض) کہ جب ان سے جنازے کی تکبیرات کے متعلق دریافت کیا جاتا ہے تو وہ چار بتلاتے ہیں اور روایت علقمہ میں ان کو حکم دیتے ہیں کہ وہ اسی قدر تکبیرات کہیں جتنی ان کے ائمہ کہیں اگر بات یہاں پر ختم ہوجاتی تب بھی ہمارے ہاں ان کے کلام کی توجیہہ ہے۔ کہ اصل تکبیرات ان کے ہاں چار ہیں اور وہ سخص جو چار سے زیادہ تکبیرات پڑھنے والا ہو تو اس کی اقتداء میں امام کی طرح تکبیرات کہے کیونکہ اس نے وہ فعل کیا جس کو بعض علماء نے اختیار کیا ہے۔ امام ابو یوسف اسی قول کو اختیار کرتے تھے۔ مگر بات یہاں تک منقطع نہیں ہوتی بلکہ انھوں نے کہا اس نماز کا نہ وقت ہے اور نہ عدد تکبیرات ہے۔ پس اس سے یہ دلالت مل گئی کہ ان کے قول ” لا وقت عندی للتکبیرفی الصلاۃ علی الجنائز ولا عدد “ الحدیث کا معنیٰ وہی ہے جو ہم نے اہل بدر اور دیگر کے متعلق ذکر کیا ہے یعنی تمام لوگوں پر نماز جنازہ میں تکبیر کے لیے وقت وعدد۔ اب ان کا جملہ لا وقت لھا ولا عدد کا مطلب یہ ہے کہ جب اہل بدر ہوں تو پھر تکبیرات میں وقت وعدہ نہیں ان پر نماز کا حکم اسی طرح ہے اور دوسروں پر نماز اسی طرح پڑھی جائے گی جیسا ابو عطیہ نے نقل کیا ۔ تاکہ کسی روایت کا تضاد نہ رہے ۔ پھر اصحاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اکثریت کو پایا کہ وہ جنائز میں چار تکبیرات کہتے تھے ۔ چند روایات درج ذیل ہیں۔
حاصل کلام : عبداللہ (رض) سے جنازے کی تکبیرات کا سوال ہوتا ہے تو وہ چار بتلاتے ہیں اور حدیث علقمہ میں ان کو ائمہ کی اقتداء میں اسی قدر تکبیرات کا حکم فرماتے ہیں اگر بات یہاں تک ختم ہوجاتی تو ان کی بات کا مفہوم ہمارے ہاں یہ تھا کہ اصل تو چار تکبیرات ہیں اور اگر کوئی پانچ تکبیرات والے امام کی اقتداء کرے تو اقتدائً وہ زائد تکبیرات کہہ لے اور ہمارے بعض علماء جیسے امام ابو یوسف (رح) اسی کے قائل ہیں مگر بات تو اس سے کچھ آگے ہے کہ انھوں نے لا وقت ولا عدد بھی فرمایا ہے تو اب اس کلام کا مطلب یہ ہے میرے نزدیک نماز جنازہ میں تکبیر کا کوئی وقت نہیں۔ اہل بدر پر ان کے لحاظ سے اور دوسروں پر چار تکبیر ہوں گی یعنی تمام لوگوں پر جنازے کی تکبیرات میں وقت و عدد یعنی اگر وہ اہل بدر ہوں گے تو یہی حکم ہوگا اور دوسروں پر نماز کی تکبیرات میں ابو عطیہ والی روایت کا لحاظ ہوگا تاکہ دونوں روایات میں تضاد نہ رہے مطلب یہ ہے لاوقت ولا عدد والی روایت اصحاب بدر اور صحابہ کرام (رض) کے ساتھ خاص ہے اور ابو عطیہ والی روایت میں عام لوگوں کا حکم بیان فرمایا۔
دلیل کا نیا انداز :
صحابہ کرام ] نے جنازے پڑھائے اور ان کے جنازے پڑھے گئے انھوں نے چار تکبیرات کا اہتمام کیا جیسا ان روایات سے ظاہر ہے۔

2787

۲۷۸۷ : مَا حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا مُؤَمَّلٌ‘ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ‘ عَنْ عَامِرِ بْنِ شَقِیْقٍ عَنْ أَبِیْ وَائِلٍ‘ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ‘ جَمَعَ أَصْحَابَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ فَسَأَلَہُمْ عَنِ التَّکْبِیْرِ عَلَی الْجَنَازَۃِ‘ فَأَخْبَرَ کُلُّ وَاحِدٍ مِنْہُمْ بِمَا رَأَی‘ وَبِمَا سَمِعَ‘ فَجَمَعَہُمْ عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَلٰی أَرْبَعِ تَکْبِیْرَاتٍ کَأَطْوَلِ الصَّلَوَاتِ‘ صَلَاۃِ الظُّہْرِ .
٢٧٨٧: ابو وائل کہتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے اصحاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جمع کر کے پوچھا کہ جنازے کی تکبیرات کتنی ہیں ہر ایک نے جو سنا تھا اور دیکھا تھا بتلا دیا تو عمر (رض) نے ان کو چار تکبیرات پر جمع کردیا جو طویل پڑھی جانے والی ظہر کے برابر طویل ہوں گی۔ یہ روایت اس کے خلاف ہے جو رائے حضرت عمر اور علی (رض) اہل بدر کے سلسلہ میں رکھتے تھے کہ ان پر چار سے زیادہ تکبیرات کہی جا ہیں۔

2788

۲۷۸۸ : حَدَّثَنَا یَزِیْدُ بْنُ سِنَانٍ‘ قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیْدٍ الْقَطَّانُ‘ قَالَ : ثَنَا إِسْمَاعِیْلُ‘ عَنْ عَامِرٍ‘ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ أَبْزٰی‘ قَالَ : صَلَّیْنَا مَعَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَلٰی زَیْنَبَ بِالْمَدِیْنَۃِ‘ فَکَبَّرَ عَلَیْہَا أَرْبَعًا .
٢٧٨٨: عبدالرحمن بن ابزی کہتے ہیں کہ ہم نے عمر (رض) کے ساتھ ام المؤمنین زینب (رض) پر مدینہ میں نماز جنازہ پڑھی تو انھوں نے چار تکبیرات کہیں۔

2789

۲۷۸۹ : حَدَّثَنَا یَزِیْدُ‘ قَالَ : ثَنَا یَحْیٰی‘ قَالَ : ثَنَا إِسْمَاعِیْلُ بْنُ أَبِیْ خَالِدٍ‘ قَالَ : ثَنَا عُمَیْرُ بْنُ سَعِیْدٍ‘ قَالَ : صَلَّیْتُ مَعَ عَلِیٍّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَلٰی یَزِیْدَ بْنِ الْمُکَفِّفِ‘ فَکَبَّرَ عَلَیْہِ أَرْبَعًا .
٢٧٨٩: عمیر بن سعد کہتے ہیں کہ میں نے علی (رض) کے ساتھ یزید بن المکفف پر نماز جنازہ ادا کی تو انھوں نے چار تکبیرات کہیں۔

2790

۲۷۹۰ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ أَحْمَدَ‘ قَالَ : ثَنَا مِسْعَرٌ‘ عَنْ عُمَیْرٍ مِثْلَہٗ .
٢٧٩٠: ابو بکرہ نے ابو احمد سے انھوں نے مسعر انھوں نے عمیر سے اسی طرح روایت کی۔

2791

۲۷۹۱ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا یَزِیْدُ بْنُ ہَارُوْنَ‘ قَالَ : ثَنَا إِسْمَاعِیْلُ بْنُ أَبِیْ خَالِدٍ‘ قَالَ : سَمِعْتُ عُمَیْرَ بْنَ سَعِیْدٍ‘ فَذَکَرَ مِثْلَہٗ .
٢٧٩١: اسماعیل بن ابی خالد نے کہا کہ میں نے عمیر بن سعید سے پھر اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

2792

۲۷۹۲ : حَدَّثَنَا عَلِیٌّ‘ قَالَ : ثَنَا قَبِیْصَۃُ‘ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ‘ عَنِ الْأَعْمَشِ‘ عَنْ عُمَیْرِ بْنِ سَعِیْدٍ‘ عَنْ عَلِیٍّ مِثْلَہٗ .
٢٧٩٢: اعمش نے عمیر بن سعید سے انھوں نے علی (رض) سے اسی طرح روایت کی ہے۔

2793

۲۷۹۳ : حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ شُعَیْبٍ‘ قَالَ : ثَنَا الْخَصِیْبُ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَوَانَۃَ‘ عَنْ أَبِیْ حُصَیْنٍ‘ عَنْ مُوْسَی بْنِ طَلْحَۃَ‘ قَالَ : شَہِدْتُ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ‘ صَلّٰی عَلٰی جَنَائِزِ رِجَالٍ وَنِسَائٍ ‘ فَجَعَلَ الرِّجَالَ مِمَّا یَلِیْہِ‘ وَالنِّسَائَ مِمَّا یَلِی الْقِبْلَۃَ‘ ثُمَّ کَبَّرَ عَلَیْہِمْ أَرْبَعًا .
٢٧٩٣: موسیٰ بن طلحہ کہتے ہیں کہ میں عثمان بن عفان (رض) کے ساتھ ایک جنازے میں شریک تھا انھوں نے مردوں اور عورتوں کا اکٹھا جنازہ پڑھایا مردوں کو اپنے قریب اور عورتوں کو قبلہ کے قریب کیا پھر ان پر چار تکبیرات کہیں۔

2794

۲۷۹۴ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ أَحْمَدَ‘ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ‘ عَنْ زَیْدِ بْنِ طَلْحَۃَ‘ قَالَ : صَلَّیْتُ خَلْفَ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا عَلٰی جَنَازَۃٍ فَکَبَّرَ عَلَیْہَا أَرْبَعًا .
٢٧٩٤: زید بن طلحہ کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس (رض) کے پیچھے نماز جنازہ پڑھی تو انھوں نے اس میں چار تکبیریں کہیں۔

2795

۲۷۹۵ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوَ الْیَمَانِ‘ قَالَ : ثَنَا شُعَیْبٌ‘ عَنِ الزُّہْرِیِّ‘ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ أَبُوْ أُمَامَۃَ بْنُ سَہْلِ بْنِ حُنَیْفٍ‘ وَکَانَ مِنْ کُبَرَائِ الْأَنْصَارِ وَعُلَمَائِہِمْ‘ وَأَبْنَائِ الَّذِیْنَ شَہِدُوْا بَدْرًا‘ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّ رَجُلًا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَخْبَرَہٗ أَنَّ السُّنَّۃَ فِی الصَّلَاۃِ عَلَی الْجَنَازَۃِ أَنْ یُکَبِّرَ الْاِمَامُ‘ ثُمَّ یَقْرَأَ بِفَاتِحَۃِ الْکِتَابِ سِرًّا فِیْ نَفْسِہِ‘ ثُمَّ یَخْتِمَ الصَّلَاۃَ فِی التَّکْبِیْرَاتِ الثَّلَاثِ .قَالَ الزُّہْرِیُّ : فَذَکَرْت الَّذِیْ أَخْبَرَنِیْ أَبُوْ أُمَامَۃَ مِنْ ذٰلِکَ‘ لِمُحَمَّدِ بْنِ سُوَیْدٍ الْفِہْرِیِّ‘ فَقَالَ : وَأَنَا سَمِعْتُ الضَّحَّاکَ بْنَ قَیْسٍ یُحَدِّثُ‘ عَنْ حَبِیْبِ بْنِ مَسْلَمَۃَ‘ فِی الصَّلَاۃِ عَلَی الْجَنَازَۃِ مِثْلَ الَّذِیْ حَدَّثَک أَبُوْ أُمَامَۃَ .
٢٧٩٥: ابو امامہ بن سہل بن حنیف نے بتلایا یہ انصار کے سرداروں اور علماء سے تھے اور ان کے والد بدری صحابی تھے انھوں نے بتلایا کہ ایک صحابی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے بتلایا کہ امام جنازے میں پہلی تکبیر کہے پھر فاتحہ الکتاب دل میں پڑھے پھر نماز کو تین مزید تکبیرات سے مکمل کرے۔
زہری کہتے ہیں کہ میں نے ابو امامہ کی بات محمد بن سوید فھری کو بتلائی تو وہ کہنے لگے میں نے ضحاک بن قیس کو سنا کہ وہ حبیب بن مسلمہ سے اسی طرح بیان کرتے تھے جیسا تم ابو امامہ سے بیان کرتے ہو۔

2796

۲۷۹۶ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ‘ قَالَ : ثَنَا أَحْمَدُ بْنُ یُوْنُسَ‘ قَالَ : ثَنَا إِسْرَائِیْلُ‘ عَنْ أَبِیْ إِسْحَاقَ أَنَّ الْحَسَنَ بْنَ عَلِیٍّ کَبَّرَ عَلٰی عَلِیِّ بْنِ أَبِیْ طَالِبٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَرْبَعًا .وَھٰذَا خِلَافُ مَا کَانَ عُمَرُ وَعَلِیٌّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا یَرَیَانِہِ فِیْ أَہْلِ بَدْرٍ‘ أَنْ یُکَبِّرَ فِی الصَّلَاۃِ عَلَیْہِمْ مَا جَاوَزَ الْأَرْبَعَ .
٢٧٩٦: ابو اسحاق نے حسن بن علی (رض) کے متعلق نقل کیا کہ انھوں نے علی (رض) پر چار تکبیرات کہیں۔
حاصل روایات :: یہ حضرت عمر (رض) اور علی (رض) کا عمل اس روایت کے خلاف ہے جو پہلے مذکور ہوئی کہ وہ اہل بدر پر چار سے زیادہ تکبیرات کے قائل تھے کیونکہ حسن (رض) نے اپنے والد کے سلسلہ میں ان کے عمل و فرمان کی ترجمانی کی ہے۔

2797

۲۷۹۷ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ أَحْمَدَ‘ قَالَ : ثَنَا مِسْعَرٌ‘ عَنْ ثَابِتِ بْنِ عُبَیْدٍ‘ قَالَ : صَلَّیْتُ خَلْفَ زَیْدِ بْنِ ثَابِتٍ عَلٰی جَنَازَۃٍ‘ فَکَبَّرَ عَلَیْہَا أَرْبَعًا‘ وَصَلَّیْتُ خَلَفَ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ عَلٰی جَنَازَۃٍ‘ فَکَبَّرَ عَلَیْہَا أَرْبَعًا .
٢٧٩٧: ثابت بن عبید کہتے ہیں کہ میں نے زید بن ثابت (رض) کے پیچھے ایک جنازہ کی نماز ادا کی تو انھوں نے چار تکبیرات کہیں اور میں نے ابوہریرہ (رض) کے پیچھے جنازہ پڑھا تو انھوں نے بھی چار تکبیرات کہیں۔

2798

۲۷۹۸ : وَحَدَّثَنَا فَہْدٌ‘ قَالَ : ثَنَا ابْنُ أَبِیْ مَرْیَمَ‘ قَالَ : حَدَّثَنَا مُوْسَی بْنُ یَعْقُوْبَ‘ قَالَ : حَدَّثَنِیْ شُرَحْبِیْلُ بْنُ سَعْدٍ‘ قَالَ : صَلّٰی بِنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا عَلٰی جَنَازَۃٍ فَکَبَّرَ أَرْبَعَ تَکْبِیْرَاتٍ .
٢٧٩٨: شرحبیل بن سعد کہتے ہیں کہ ہمیں عبداللہ بن عباس (رض) نے ایک جنازہ پڑھایا تو انھوں نے چار تکبیرات کہیں۔

2799

۲۷۹۹ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ‘ قَالَ : ثَنَا أَحْمَدُ بْنُ یُوْنُسَ‘ قَالَ : ثَنَا إِسْرَائِیْلُ‘ عَنْ مُہَاجِرٍ أَبِی الْحَسَنِ‘ قَالَ : صَلَّیْتُ خَلْفَ الْبَرَائِ بْنِ عَازِبٍ عَلٰی جَنَازَۃٍ .قَالَ (اجْتَمَعْتُمْ ؟) فَقُلْنَا : نَعَمْ‘ فَکَبَّرَ أَرْبَعًا .
٢٧٩٩: مہاجر ابوالحسن نے بیان کیا کہ میں نے براء بن عازب (رض) کے ساتھ ایک جنازہ کی نماز پڑھی تو انھوں نے فرمایا تم جمع ہوچکے ہم نے کہا جی ہاں تو انھوں نے چار تکبیرات سے نماز ادا کی۔

2800

۲۸۰۰ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ‘ قَالَ : ثَنَا أَحْمَدُ‘ قَالَ : ثَنَا إِسْرَائِیْلُ‘ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَوْہَبٍ‘ قَالَ : صَلَّیْتُ خَلْفَ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَلٰی جَنَائِزَ‘ مِنْ رِجَالٍ وَنِسَائٍ ‘ فَسَوّٰی بَیْنَہُمْ وَکَبَّرَ أَرْبَعًا .فَہٰؤُلَآئِ أَصْحَابُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْمَذْکُوْرُوْنَ فِیْ ھٰذِہِ الْآثَارِ‘ قَدْ کَانُوْا یُکَبِّرُوْنَ فِیْ صَلَاتِہِمْ عَلٰی جَنَائِزِہِمْ أَرْبَعَ تَکْبِیْرَاتٍ‘ ثُمَّ لَا یُنْکِرُ ذٰلِکَ عَلَیْہِمْ غَیْرُہُمْ .فَدَلَّ ذٰلِکَ أَنَّ ذٰلِکَ ہُوَ حُکْمُ التَّکْبِیْرِ فِی الصَّلَاۃِ عَلَی الْجَنَائِزِ‘ وَأَنَّ مَا زَادَ عَلَی التَّکْبِیْرَاتِ الْأَرْبَعِ‘ فَإِنَّمَا کَانَ لِمَعْنًی خَاصٍّ‘ خُصَّ بِہٖ بَعْضُ الْمَوْتٰی‘ مِمَّنْ ذَکَرْنَا‘ مِنْ أَہْلِ بَدْرٍ‘ عَلٰی سَائِرِ النَّاسِ .فَثَبَتَ بِمَا ذَکَرْنَا أَنَّ التَّکْبِیْرَ عَلَی الْجَنَازَۃِ أَرْبَعًا عَلَی النَّاسِ جَمِیْعًا‘ مِنْ بَعْدِ أَہْلِ بَدْرٍ إِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ .وَکَانَ مَذْہَبُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ‘ وَسُفْیَانَ‘ وَأَبِیْ یُوْسُفَ‘ وَمُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ رَحِمَہُمَا اللّٰہُ‘ فِی التَّکْبِیْرِ عَلَی الْجَنَائِزِ أَیْضًا مَا ذَکَرْنَا .وَقَدْ رُوِیَ ذٰلِکَ أَیْضًا‘ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَنَفِیَّۃِ .
٢٨٠٠: عبداللہ بن موہب کہتے ہیں کہ میں نے ابوہریرہ (رض) کے پیچھے کئی لوگوں کے جنازے اکٹھے ادا کئے جن میں مرد اور عورتیں شامل تھیں انھوں نے ان کو برابر رکھا اور چار تکبیرات کہیں۔ یہ اصحاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں جن کا تذکرہ ان آثار میں کیا گیا ۔ وہ اپنی نماز جنازہ میں چار تکبیرات کہتے تھے ۔ پھر اس سلسلہ میں ان پر کوئی نکیر نہ کرتا تھا۔ پس اس سے ثبوت مل گیا کہ جنازے کی تکبیرات کا یہی حکم تھا اور جو چار سے زائد تکبیرات ہیں ان کی خاص وجہ ہے جس کے لیے بعض مرنے والے مخصوص ہیں جن کا ہم نے اہل بدر میں سے تذکرہ کیا بقیہ لوگوں کی بجائے۔ پس اس سے ثابت ہوا کہ جنازہ کی تکبیرات چار ہیں جو تمام لوگوں کے لیے لازم ہیں علاوہ اہل بدر کے جب تک دنیا باقی ہے۔ امام ابوحنیفہ ‘ سفیان ابو یوسف ‘ محمد بن الحسن رحمہم اللہ کا مذہب تکبیرات میں یہی ہے اور امام محمد بن حنفیہ (رح) سے بھی اسی طرح منقول ہے۔
حاصل روایات : یہ اصحاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جنازوں میں چار تکبیرات ہی کہہ رہے ہیں اور دوسرا کوئی تنکیر و تنقید بھی نہیں کررہا اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ جنازہ کی تکبیرات کا یہی حکم ہے اور جو چار سے زائد منقول ہیں اس کی خاص وجہ ہے اور وہ اہل بدر کی خصوصیت ہے اب اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ قیامت تک آنے والے سب لوگوں کے لیے سوائے بدر کے چار تکبیرات ہی کہی جائیں گی۔
یہی امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد بن الحسن رحمہم اللہ کا مذہب ہے۔

2801

۲۸۰۱ : حَدَّثَنَا صَالِحٌ‘ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدٌ‘ قَالَ : ثَنَا ہُشَیْمٌ‘ قَالَ أَنَا أَبُوْ حَمْزَۃَ عِمْرَانُ بْنُ أَبِیْ عَطَائٍ ‘ قَالَ : شَہِدْتُ وَفَاۃَ ابْنِ عَبَّاسٍ بِالطَّائِفِ‘ فَوَلِیَہٗ مُحَمَّدُ بْنُ الْحَنَفِیَّۃِ‘ فَصَلّٰی عَلَیْہٖ‘ فَکَبَّرَ أَرْبَعًا .
٢٨٠١: عمران بن ابی عطاء کہتے ہیں کہ میں ابن عباس (رض) کی وفات کے وقت طائف میں موجود تھا ان کے ولی محمد بن حنفیہ تھے انھوں نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی اور چار تکبیرات کہیں۔

2802

۲۸۰۲ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ أَحْمَدَ‘ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ‘ عَنْ عِمْرَانَ بْنِ أَبِیْ عَطَائٍ ‘ قَالَ : صَلَّیْتُ خَلْفَ ابْنِ الْحَنَفِیَّۃِ عَلٰی ابْنِ عَبَّاسٍ‘ فَکَبَّرَ أَرْبَعًا .
٢٨٠٢: عمران بن ابی عطاء کہتے ہیں کہ میں نے ابن حنفیہ کے پیچھے نماز جنازہ ادا کی جو کہ ابن عباس (رض) کی نماز جنازہ تھی انھوں نے اس میں چار تکبیرات کہیں۔
٢٨٠٢: عمران بن ابی عطاء کہتے ہیں کہ میں نے ابن حنفیہ کے پیچھے نماز جنازہ ادا کی جو کہ ابن عباس (رض) کی نماز جنازہ تھی انھوں نے اس میں چار تکبیرات کہیں۔
حاصل روایات : یہ باب بھی نظر طحاوی (رح) سے خالی ہے البتہ چار تکبیرات کے سلسلہ میں کثرت سے روایات ذکر کیں اور صحابہ کرام اور تابعین کے عمل سے اس کو خوب مضبوط کیا فریق اوّل کی طرف سے دو صحابہ اور فریق ثانی کی طرف سے دس صحابہ کی روایات ذکر کی ہیں اور نو صحابہ کرام کا عمل ذکر کیا ہے اور اجماع صحابہ کو ایک مستقل دلیل کے طور پر ذکر کیا ہے۔

2803

حاصل روایات: شہید وہ شخص ہے جو کفار کے مقابلہ میں غزوہ میں شہید ہو پھر ظلماً قتل ہونے والا وغیرہ افراد شہداء کے حکم میں داخل ہیں۔ شہداء احد پر نمازِ جنازہ پڑھی گئی اس لئے شہید کی نمازِ جنازہ پڑھی جائے گی البتہ امام شافعی و احمد نے دوبار پڑھنے کی اباحت نقل کی ہے جبکہ احناف اس کو مکروہ قرار دیتے ہیں البتہ جواز میں اختلاف نہیں شہید کو کفن تو دیا جائے مگر غسل نہ دیا جائے۔ (۱)امام شافعی‘ مالک و احمد رحمہم اللہ کے ہاں نمازِ جنازہ بھی نہ پڑھی جائے گی جیسا کہ غسل نہیں دیا جاتا۔ (۲)اور ائمہ احناف کے ہاں نمازِ جنازہ ادا کی جائے گی۔ فریق اوّل کا مؤقف اور دلائل: جس طرح شہید کو غسل کی ضرورت نہیں اسی طرح نمازِ جنازہ کی بھی ضرورت نہیں۔ دلائل یہ ہیں۔
٢٨٠٣ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ ‘ قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ ‘ قَالَ : أَخْبَرَنِی اللَّیْثُ بْنُ سَعْدٍ ‘ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ ‘ حَدَّثَہٗ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ کَعْبِ بْنِ مَالِکٍ ‘ أَنَّ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللّٰہِ أَخْبَرَہٗ (أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَمَرَ بِدَفْنِ قَتْلَی أُحُدٍ بِدِمَائِہِمْ ‘ وَلَمْ یُصَلِّ عَلَیْہِمْ ‘ وَلَمْ یُغَسَّلُوْا) . قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ إِلٰی ھٰذَا الْحَدِیْثِ فَقَالُوْا : لَا یُّصَلِّیْ عَلٰی مَنْ قُتِلَ مِنَ الشُّہَدَائِ فِی الْمَعْرَکَۃِ ‘ وَلَا عَلٰی مَنْ جُرِحَ مِنْہُمْ فَمَاتَ قَبْلَ أَنْ یُحْمَلَ مِنْ مَکَانِہِ ‘ کَمَا لَا یُغَسَّلُ ‘ وَمِمَّنْ قَالَ بِذٰلِکَ أَہْلُ الْمَدِیْنَۃِ ۔ وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ ‘ فَقَالُوْا : بَلْ یُّصَلِّیْ عَلَی الشَّہِیْدِ ۔ وَکَانَ مِنَ الْحُجَّۃِ لَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ عَلٰی مُخَالِفِہِمْ ‘ أَنَّ الَّذِیْ فِیْ حَدِیْثِ جَابِرٍ إِنَّمَا ہُوَ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَمْ یُصَلِّ عَلَیْہِمْ ۔ فَقَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَّکُوْنَ تَرْکُہُ ذٰلِکَ ‘ لِأَنَّ سُنَّتَہُمْ أَنْ لَا یُّصَلِّیْ عَلَیْہِمْ ‘ کَمَا کَانَ مِنْ سُنَّتِہِمْ أَنْ لَا یُغَسَّلُوْا ۔ وَیَجُوْزُ أَنْ یَّکُوْنَ لَمْ یُصَلِّ عَلَیْہِمْ ‘ وَصَلّٰی عَلَیْہِمْ غَیْرُہٗ ، لِمَا کَانَ بِہِ حِیْنَئِذٍ مِنْ أَلَمِ الْجِرَاحِ ‘ وَکَسْرِ الرُّبَاعِیَّۃِ ‘ وَمَا أَصَابَہُ یَوْمئِذٍ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ ۔
٢٨٠٣: عبدالرحمن بن کعب بن مالک کہتے ہیں کہ جابر بن عبداللہ (رض) نے بتلایا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مقتولین احد کو خون سمیت دفن کرنے کا حکم فرمایا ان کو نہ غسل دیا گیا اور نہ ان کی نماز جنازہ پڑھی گئی۔
تخریج : بخاری فی الجنائز باب ٧٤‘ ترمذی فی الجنائز باب ٤٦‘ نمبر ١٠٣٦‘ ابن ماجہ فی الجنائز باب ٢٨‘ نمبر ١٥١٤۔
سوال : اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ شہداء کو جس طرح غسل نہیں دیا جاتا اسی طرح ان کی نماز جنازہ بھی نہ پڑھی جائے گی یہی قول اہل مدینہ نے اختیار کیا ہے۔
روایت کا جواب :
روایت جابر (رض) میں دو احتمال ہیں :
نمبر 1: آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان پر نماز جنازہ نہیں پڑھی کیونکہ جس طرح ان کا غسل نہیں اسی طرح نماز جنازہ نہیں۔
نمبر 2: آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بنفس نفیس نماز جنازہ تو نہ پڑھی مگر دوسروں نے نماز جنازہ پڑھی کیونکہ آپ کو شدید زخم تھے اور ایک دانت بھی ٹوٹ گیا تھا۔
احد میں زخموں کی حالت کو یہ روایات ظاہر کرتی ہیں۔

2804

۲۸۰۴ : فَإِنَّہٗ حَدَّثَنَا یُوْنُسُ‘ قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ‘ قَالَ : أَخْبَرَنِی ابْنُ أَبِیْ حَازِمٍ‘ وَسَعِیْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ الْجُمَحِیُّ‘ عَنْ أَبِیْ حَازِمٍ .قَالَ سَعِیْدٌ فِیْ حَدِیْثِہٖ : سَمِعْتُ سَہْلَ بْنَ سَعْدٍ .وَقَالَ ابْنُ أَبِیْ حَازِمٍ (عَنْ سَہْلٍ إِنَّہٗ سُئِلَ عَنْ وَجْہِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَوْمَ أُحُدٍ بِأَیِّ شَیْئٍ دُوْوِیَ ؟ قَالَ سَہْلٌ : کُسِرَتَ الْبَیْضَۃُ عَلٰی رَأْسِہٖ‘ وَکُسِرَتْ رُبَاعِیَتُہٗ، وَجُرِحَ وَجْہُہٗ‘ فَکَانَتْ فَاطِمَۃُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا تَغْسِلُہٗ، وَکَانَ عَلِیٌّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ یَسْکُبُ الْمَائَ بِالْمِجَنِّ .فَلَمَّا رَأَتْ فَاطِمَۃُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا‘ أَنَّ الْمَائَ لَا یَزِیْدُ الدَّمَ إِلَّا کَثْرَۃً‘ أَخَذَتْ قِطْعَۃَ حَصِیْرٍ فَأَحْرَقَتْہَا وَأَلْصَقَتْہَا عَلٰی جُرْحِہٖ فَاسْتَمْسَکَ الدَّمُ) .یَخْتَلِفُ لَفْظُ ابْنِ أَبِیْ حَازِمٍ‘ وَسَعِیْدٍ فِیْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ‘ وَالْمَعْنٰی وَاحِدٌ .
٢٨٠٤: ابو حازم نے سعید سے روایت کی ہے کہ میں نے سہل بن سعد سے سنا ہے ابن ابی حازم نے سہل سے نقل کیا سہل سے احد کے دن جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چہرے کے زخم کے متعلق پوچھا گیا کہ اس کا کس طرح علاج کیا گیا ؟ تو سہل نے کہا آپ کے سر کا خود ٹوٹ گیا اور سامنے والا دانت بھی ٹوٹا۔ اور چہرہ مبارک (خود کی کڑیوں کے گھسنے سے) زخمی ہوگیا حضرت فاطمہ (رض) زخم کو دھو رہیں تھیں اور علی (رض) ڈھال سے پانی ڈال رہے تھے۔ جب فاطمہ (رض) نے دیکھا کہ پانی سے خون گھٹنے کی بجائے بڑھ رہا ہے تو چٹائی کا ٹکڑا لے کر اس کو چلایا اور اس کی راکھ زخم پر چمٹا دی جس سے خون رک گیا۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں کہ بعض علماء نے مذکورہ الصدر روایت کو اختیار کر کے کہا کہ معرکہ میں شہید ہونے والے پر نماز جنازہ نہ پڑھی جائے گی اور نہ اس پر جو میدان جنگ میں زخمی ہو اور اپنے مقام کی طرف انتقال سے پہلے مرجائے جیسا کہ اسے غسل نہیں دیا جاتا اور یہ اہل مدینہ کا قول ہے۔ دوسرے علماء نے ان سے اختلاف کرتے ہوئے کہا بلکہ شہید پر نماز جنازہ پڑھی جائے گی اور ان کی اپنے مخالفین کے خلاف دلیل یہ ہے۔ کہ جابر (رض) والی مذکورہ روایت کا جملہ ” ان النبی لم یصل علیھم “ اس کا معنیٰ ممکن ہے یہ ہو کہ آپ نے ان پر نماز جنازہ نہ پڑھی جائے جیسا کہ ان کے ہاں یہ طریقہ تھا کہ ان کو غسل نہ دیا جاتا۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ آپ نے خود ان پر نماز جنازہ نہیں پڑھی بلکہ دوسری نے نماز جنازہ پڑھی کیونکہ آپ کو زخموں کی وجہ سے سخت تکلیف تھی آپ کا باعیہ دانت ٹوٹ گیا اور مشرکین کی طرف سے سخت ایذاء پہنچی تھی۔ ابن ابی حازم اور سعید کے الفاظ تو مخلتف ہیں مگر مفہوم ایک ہے۔
تخریج : بخاری فی المغازی باب ٢٦‘ والجہاد باب ٨٠‘ ٨٥‘ والطب باب ٢٧‘ مسلم فی الجہاد نمبر ١٠١‘ ترمذی فی تفسیر سورة نمبر ٣‘ باب ١٠‘ ١١‘ ابن ماجہ فی الطب باب ١٥‘ والفتن باب ٢٣‘ مسند احمد ١؍٣١‘ ٣٣‘ ٩٩‘ ٢٥٣‘ ٢٨٨۔
حاصل روایات : ابو حازم اور سعید کے الفاظ تو مختلف ہیں مگر معنی و مفہوم ایک ہے۔
لغات : البیضۃ۔ خود۔ رباعیۃ۔ سامنے کے دانت۔ المجن۔ ڈھال۔

2805

۲۸۰۵ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ‘ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ نَافِعٍ‘ عَنْ ہِشَامٍ‘ عَنْ أَبِیْ حَازِمٍ‘ عَنْ سَہْلٍ (أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أُصِیْبَ یَوْمَ أُحُدٍ فِیْ وَجْہِہٖ فَجُرِحَ‘ وَأَنَّ فَاطِمَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا ابْنَتَہٗ، أَحْرَقَتْ قِطْعَۃً مِنْ حَصِیْرٍ‘ فَجَعَلَتْہُ رَمَادًا وَأَلْصَقَتْہُ عَلٰی وَجْہِہٖ۔ وَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِشْتَدَّ غَضَبُ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ عَلٰی قَوْمٍ‘ أَدْمُوْا وَجْہَ رَسُوْلِ اللّٰہِ) .
٢٨٠٥: ابو حازم نے سہل سے نقل کیا کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو احد کے دن چہرے پر زخم آیا آپ کی بیٹی فاطمہ (رض) نے چٹائی کا ایک ٹکڑا جلا کر اس کی راکھ کو چہرے کے زخم پر چپکا دیا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان مبارک پر یہ الفاظ تھے اللہ تعالیٰ کا غضب اس قوم پر نازل ہو جنہوں نے اپنے پیغمبر کے چہرے کو زخمی کردیا۔
تخریج : بخاری فی المغازی باب ٢٤‘ مسلم فی الجہاد نمبر ١٠٢‘ مسند احمد ١؍٢٨٨۔

2806

۲۸۰۶ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ‘ قَالَ : ثَنَا ابْنُ أَبِیْ مَرْیَمَ‘ قَالَ : أَنَا أَبُوْ غَسَّانَ‘ قَالَ : حَدَّثَنِیْ أَبُوْ حَازِمٍ‘ عَنْ سَہْلِ بْنِ سَعْدٍ‘ قَالَ : (ہَشَّمَتَ الْبَیْضَۃُ عَلٰی رَأْسِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَوْمَ أُحُدٍ‘ وَکُسِرَتْ رُبَاعِیَتُہٗ، وَجُرِحَ وَجْہُہٗ) .
٢٨٠٦: ابو حازم نے سہل بن سعد سے نقل کیا کہ آپ کے سر مبارک پر خود ٹوٹ گیا اور آپ کے سامنے کے دانت ٹوٹ گئے اور چہرہ مبارک احد کے موقعہ پر زخمی ہوگیا۔
تخریج : بخاری فی الجہاد باب ٨٥‘ مسلم فی الجہاد نمبر ١٠١‘ ابن ماجہ فی الطب باب ١٥‘ مسند احمد ١‘ ٣١؍٣٣۔

2807

۲۸۰۷ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ‘ قَالَ : ثَنَا عَمْرُو بْنُ عَوْنٍ‘ قَالَ : أَنَا خَالِدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ‘ عَنْ مُحَمَّدِ ابْنِ عَمْرٍو‘ عَنْ أَبِیْ سَلْمَۃَ‘ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ (اِشْتَدَّ غَضَبُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلٰی قَوْمِ أَدْمُوْا وَجْہَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ) وَکَانُوْا أَدْمُوْا وَجْہَہٗ یَوْمَئِذٍ‘ وَہَشَّمُوْا عَلَیْہِ الْبَیْضَۃَ‘ وَکَسَرُوْا رُبَاعِیَتَہٗ۔
٢٨٠٧: ابو سلمہ نے ابوہریرہ (رض) سے روایت کی کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (ایسی قوم پر اللہ تعالیٰ کا غضب ٹوٹے جنہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چہرے کو خون آلود کردیا) انھوں نے آپ کے چہرے کو خون آلود کردیا اور خود ٹوٹ کر چہرے میں گھس گئی اور انھوں نے آپ کا دانت توڑ دیا۔
تخریج : روایت نمبر ٢٨٠٦ کو ملاحظہ کرو۔

2808

۲۸۰۸ : حَدَّثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ خُشَیْشٍ‘ قَالَ : ثَنَا الْقَعْنَبِیُّ‘ قَالَ : ثَنَا حَمَّادٌ‘ عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِیِّ‘ عَنْ أَنَسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ (أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کُسِرَتْ رُبَاعِیَتُہٗ، یَوْمَ أُحُدٍ‘ وَشُجَّ وَجْہُہُ‘ فَجَعَلَ یَسْلُتُ الدَّمُ عَلٰی وَجْہِہٖ‘ وَیَقُوْلُ کَیْفَ یُفْلِحُ قَوْمٌ شَجُّوْا وَجْہَ نَبِیِّہِمْ‘ وَکَسَرُوْا رُبَاعِیَتَہٗ‘ وَہُوَ یَدْعُوْہُمْ إِلَی اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ فَأَنْزَلَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ (لَیْسَ لَک مِنَ الْأَمْرِ شَیْئٌٌ). فَیَجُوْزُ أَنْ یَّکُوْنَ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ تَخَلَّفَ عَنِ الصَّلَاۃِ عَلَیْہِمْ لِأَلَمِ مَا نَزَلَ بِہٖ وَصَلّٰی عَلَیْہِمْ غَیْرُہٗ۔
٢٨٠٨: ثابت بنانی نے انس (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا سامنے والا دانت احد کے دن ٹوٹ گیا اور چہرہ مبارک زخمی کردیا گیا آپ اپنے چہرے سے خون پونچھ رہے تھے اور زبان مبارک پر یہ الفاظ تھے وہ قوم کیونکر کامیاب ہوگی جنہوں نے اپنے پیغمبر کے چہرے کو زخمی کردیا اور ان کے سامنے والے دانت کو توڑ دیا حالانکہ وہ ان کو اللہ تعالیٰ کی طرف بلا رہا ہے تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری : لَیْسَ لَک مِنَ الْأَمْرِ شَیْء ۔ (آل عمران ١٢٨) پس یہ کہنا بھی درست ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) درد کی وجہ سے ان پر جنازہ پڑھنے میں شامل نہ ہوئے ہوں اور دوسروں نے ان پر نماز جنازہ پڑھی ہو۔
تخریج : بخاری فی المغازی باب ٢١‘ مسلم فی الجہاد نمبر ١٠٣‘ ترمذی فی تفسیر سورة ٣‘ باب ١٠‘ ١١‘ ابن ماجہ فی الفتن باب ٢٣‘ مسند احمد ٣؍٩٩‘ ١٧٨‘ ٢٥٣‘ ٢٨٨۔
حاصل روایات : آپ کے سر ‘ چہرے پر شدید زخموں کا آنا ان روایات سے معلوم ہو رہا ہے ان شدید زخموں کی وجہ سے عین ممکن ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نماز جنازہ بذات خود نہ پڑھی ہو اور دوسروں کو پڑھنے کا حکم فرمایا اور انھوں نے پڑھی ہو اگرچہ ابن وہب کی روایت اس طرح مذکور ہے۔
لغات : شج وجہہ۔ چہرے کا زخمی ہونا۔ یسلت الدم۔ خون پونچھنا۔ الامر۔ اختیار۔

2809

۲۸۰۹ : وَقَدْ حَدَّثَنَا یُوْنُسُ‘ قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ‘ قَالَ : ثَنَا أُسَامَۃُ بْنُ زَیْدٍ اللَّیْثِیُّ أَنَّ ابْنَ شِہَابٍ حَدَّثَہٗ أَنَّ أَنَسَ بْنَ مَالِکٍ حَدَّثَہٗ أَنَّ شُہَدَائَ أُحُدٍ‘ لَمْ یُغَسَّلُوْا‘ وَدُفِنُوْا بِدِمَائِہِمْ‘ وَلَمْ یُصَلِّ عَلَیْہِمْ .فَفِیْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ مَا یَنْفِی الصَّلَاۃَ عَلَیْہِمْ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَمِنْ غَیْرِہٖ۔ فَنَظَرْنَا فِیْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ‘ کَیْفَ ہُوَ ؟ وَہَلْ زِیْدَ عَلَی ابْنِ وَہْبٍ فِیْہِ شَیْء ٌ؟
٢٨٠٩: ابن وہب نے اپنی سند سے انس بن مالک (رض) سے نقل کیا ہے کہ شہداء احد کو غسل نہ دیا گیا بلکہ ان کے خون سمیت ان کو دفن کردیا گیا اور ان پر نماز جنازہ بھی نہیں پڑھی گئی۔ اس روایت میں مذکور ہے کہ آپ نے ان میں سے کسی پر نماز جنازہ نہیں پڑھی صرف حضرت حمزہ (رض) پر پڑھی اور ان پر اس لیے پڑھی کیونکہ وہ شہداء احد میں سب سے افضل تھے ۔ پس اگر شہداء کے متعلق طریقہ جنازہ نہ پڑھنے کا ہوتا تو آپ حمزہ (رض) پر بھی جنازہ نہ پڑھتے جیسا کہ ان کو غسل نہ دیا تھا ۔ اس لیے کہ شہداء کے متعلق طریقہ یہی تھا کہ ان کو غسل نہ دیا جاتا تھا ۔ اس روایت یہ جو کچھ ہے کہ حضرت حمرزہ (رض) پر نماز جنازہ پڑھی دوسروں پر نہ پڑھی ۔ اس میں ایک احتمال یہ ہے کہ زخموں اور تکلیف کی شدت کی وجہ سے ان پر نماز جنازہ نہیں پڑھی اور دیگر لوگوں نے ان پر نماز جنازہ پڑھی ۔ حالانکہ یہ روایات میں وارد ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت حمزہ (رض) اور تمام شہداء پر نماز جنازہ پڑھی۔
تخریج : بخاری فی الجنائز ٧٢؍٧٤‘ المغازی باب ٢٦‘ ابو داؤد فی الجنائز باب ٢٧‘ نمبر ٣١٣٥‘ ترمذی فی الجنائز باب ٤٦‘ نمبر ١٠٣٦‘ نسائی فی الجنائز باب ٦٢‘ الجہاد باب ٢٧‘ ابن ماجہ فی الجنائز باب ٢٨‘ مسند احمد ١؍٢٤٧‘ ٥؍٤٣١۔
بظاہراً یہ روایت فریق اوّل کی واضح دلیل ہے کہ ان پر نماز جنازہ نہیں مگر اس کے متعلق ہم عرض کرتے ہیں کہ اس روایت کو ابن وہب کے علاوہ دیگر روات نے اس کو کس طرح نقل کیا ہے تاکہ بات کھل جائے۔

2810

۲۸۱۰ : فَإِذَا اِبْرَاہِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ قَدْ حَدَّثَنَا‘ قَالَ : ثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ بْنِ فَارِسٍ‘ قَالَ : أَنَا أُسَامَۃُ‘ عَنِ الزُّہْرِیِّ‘ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ (أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَرَّ یَوْمَ أُحُدٍ بِحَمْزَۃَ‘ وَقَدْ جُدِعَ وَمُثِّلَ بِہِ فَقَالَ لَوْلَا أَنْ تَجْزَعَ صَفِیَّۃُ لَتَرَکْتُہٗ حَتّٰی یَحْشُرَہُ اللّٰہُ مِنْ بُطُوْنِ الطَّیْرِ وَالسِّبَاعِ .فَکَفَّنَہٗ فِیْ نَمِرَۃٍ‘ اِذَا خَمَّرَ رَأْسَہٗ بَدَتْ رِجْلَاہُ‘ وَإِذَا خَمَّرَ رِجْلَیْہِ بَدَا رَأْسُہُ‘ فَخَمَّرَ رَأْسَہٗ‘ وَلَمْ یُصَلِّ عَلٰی أَحَدٍ مِنَ الشُّہَدَائِ غَیْرَہٗ وَقَالَ أَنَا شَہِیْدٌ عَلَیْکُمْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ) .فَفِیْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ لَمْ یُصَلِّ یَوْمَئِذٍ‘ عَلٰی أَحَدٍ مِنَ الشُّہَدَائِ غَیْرَ حَمْزَۃَ‘ فَإِنَّہٗ صَلّٰی عَلَیْہِ‘ وَہُوَ أَفْضَلُ شُہَدَائِ (أُحُدٍ) .فَلَوْ کَانَ مِنْ سُنَّۃِ الشُّہَدَائِ أَنْ لَا یُّصَلِّیْ عَلَیْہِمْ‘ لَمَا صَلّٰی عَلٰی حَمْزَۃَ‘ کَمَا لَمْ یُغَسِّلْہُ‘ اِذْ کَانَ مِنْ سُنَّۃِ الشُّہَدَائِ أَنْ لَا یُغَسَّلُوْا .وَصَارَ مَا فِیْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ صَلّٰی عَلٰی حَمْزَۃَ‘ وَلَمْ یُصَلِّ عَلٰی غَیْرِہٖ۔ فَھٰذَا یَحْتَمِلُ أَنْ یَّکُوْنَ لَمْ یُصَلِّ عَلَی غَیْرِہِ‘ لِشِدَّۃِ مَا بِہٖ مِمَّا ذَکَرْنَا‘ وَصَلّٰی عَلَیْہِمْ غَیْرُہٗ مِنَ النَّاسِ .وَقَدْ جَائَ فِیْ غَیْرِ ھٰذَا الْحَدِیْثِ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صَلَّیْ یَوْمَئِذٍ‘ عَلٰی حَمْزَۃَ‘ وَعَلٰی سَائِرِ الشُّہَدَائِ .
٢٨١٠: عثمان بن عمر نے اپنی سند سے انس (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا گزر میدان احد میں حمزہ (رض) کے جسد کے پاس سے ہوا ان کے ناک ‘ کان ہونٹ کاٹ کر ان کا مثلہ کیا گیا تھا تو آپ نے فرمایا اگر مجھے صفیہ کی گھبراہٹ کا خطرہ نہ ہوتا تو میں اس کو اسی طرح چھوڑتا یہاں تک کہ پرندوں اور درندوں کے پیٹ سے ان کا حشر ہوتا آپ نے حمزہ (رض) کو دھاری دار چادر سے کفن دیا جس سے سر ڈھانپتے تو ان کے پاؤں ظاہر ہوجاتے اور جب پاؤں ڈھانپے جاتے تو سر ظاہر ہوجاتا ان کے سر کو ڈھانپ دیا گیا اور ان کے علاوہ کسی اور شہید احد پر آپ نے نماز جنازہ نہ پڑھی اور فرمایا میں قیامت کے دن تمہارا گواہ ہوں گا۔ یہ ابن عباس اور ابن زبیر (رض) ہیں دونوں حضرت انس (رض) کی مذکورہ روایت کی مخالفت کر رہے ہیں اور اسی طرح کی روایت حضرت ابو مالک غفاری (رض) سے بھی مروی ہے ۔
تخریج : ابو داؤد فی الجنائز باب ٢٧‘ نمبر ٣١٣٦‘ ترمذی فی الجنائز باب ٣١‘ نمبر ١٠١٦۔
حاصل روایات : اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حمزہ (رض) کے علاوہ کسی احد کے شہید پر نماز جنازہ نہیں پڑھی مگر ان پر پڑھی اور حمزہ شہداء احد میں سب سے زیادہ فضیلت والے ہیں اگر شہید کی نماز جنازہ نہیں تھی تو آپ حمزہ (رض) پر نماز نہ پڑھتے جیسا کہ ان کو غسل نہ دیا گیا کیونکہ غسل نہ دینا یہ سنت شہداء تو ہے اب آپ کا ان پر نماز پڑھنا اور دوسروں پر نہ پڑھنا یہ احتمال رکھتا ہے۔
احتمال نمبر 1: آپ کو زخموں کی وجہ سے دوسروں پر نماز پڑھنے کی تاب نہ تھی اس لیے صحابہ کرام نے دیگر تمام پر نماز جنازہ پڑھی۔
حالانکہ دیگر روایات حدیث یہ ثابت کرتی ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حمزہ (رض) اور تمام شہداء احد پر نماز جنازہ پڑھی ہے۔ روایات ملاحظہ ہو۔

2811

۲۸۱۱ : حَدَّثَنَا اِبْرَاہِیْمُ بْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ‘ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ نُمَیْرٍ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ بَکْرِ بْنُ عَیَّاشٍ‘ عَنْ یَزِیْدَ بْنِ أَبِیْ زِیَادٍ‘ عَنْ مِقْسَمٍ‘ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا (أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یُوْضَعُ بَیْنَ یَدَیْہِ یَوْمَ أُحُدٍ عَشَرَۃٌ فَیُصَلِّیْ عَلَیْہِمْ‘ وَعَلٰی حَمْزَۃَ‘ ثُمَّ یُرْفَعُ الْعَشَرَۃُ‘ وَحَمْزَۃُ مَوْضُوْعٌ‘ ثُمَّ یُوْضَعُ عَشَرَۃٌ‘ فَیُصَلِّیْ عَلَیْہِمْ‘ وَعَلٰی حَمْزَۃَ مَعَہُمْ) .
٢٨١١: مقسم نے ابن عباس (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے احد کے دن دس دس شہداء کو رکھا جاتا اور ان پر نماز پڑھی جاتی اور حمزہ پر بھی پھر دس کو اٹھا لیا جاتا اور حمزہ کو وہیں رہنے دیا جاتا پھر اور دس رکھے جاتے اور ان پر نماز پڑھی جاتی اور حمزہ پر ان کے ساتھ نماز پڑھی جاتی۔
تخریج : ابن ماجہ فی الجنائز باب ٢٨‘ نمبر ١٥١٣۔

2812

۲۸۱۲ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ‘ قَالَ : ثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ یُوْنُسَ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ بَکْرِ بْنُ عَیَّاشٍ‘ عَنْ یَزِیْدَ بْنِ أَبِیْ زِیَادٍ‘ عَنْ مِقْسَمٍ‘ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ : (أَمَرَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَوْمَ أُحُدٍ بِالْقَتْلٰی‘ فَجَعَلَ یُصَلِّیْ عَلَیْہِمْ‘ فَیُوْضَعُ تِسْعَۃٌ وَحَمْزَۃُ‘ فَیُکَبِّرُ عَلَیْہِمْ سَبْعَ تَکْبِیْرَاتٍ‘ ثُمَّ یُرْفَعُوْنَ وَیُتْرَکُ حَمْزَۃُ‘ ثُمَّ یُجَائُ بِتِسْعَۃٍ‘ فَیُکَبِّرُ عَلَیْہِمْ سَبْعًا حَتّٰی فَرَغَ عَنْہُمْ) .
٢٨١٢: مقسم نے ابن عباس (رض) سے نقل کیا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حکم فرمایا مقتولین کو لایا جائے آپ ان پر نماز پڑھنے لگے حمزہ (رض) کا جسد پڑا تھا نو اور لائے جاتے اور ان پر سات تکبیرات کہی جاتی تھیں پھر ان کو اٹھا لیا جاتا اور حمزہ (رض) کو وہیں چھوڑ دیا جاتا پھر اور نو لائے جاتے اور ان پر تکبیرات کہی جاتیں یہاں تک کہ آپ جنازے سے فارغ ہوگئے۔

2813

۲۸۱۳ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ‘ قَالَ : ثَنَا یُوْسُفُ بْنُ بُہْلُوْلٍ‘ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ إِدْرِیْسَ‘ عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ‘ قَالَ : حَدَّثَنِیْ یَحْیَی بْنُ عَبَّادِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ الزُّبَیْرِ‘ عَنْ أَبِیْہِ‘ یَعْنِیْ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ الزُّبَیْرِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا (أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَمَرَ یَوْمَ أُحُدٍ بِحَمْزَۃَ فَسُجِّیَ بِبُرْدِہِ ثُمَّ صَلّٰی عَلَیْہٖ‘ فَکَبَّرَ تِسْعَ تَکْبِیْرَاتٍ‘ ثُمَّ أُتِیَ بِالْقَتْلَیْ یُصَفُّوْنَ‘ وَیُصَلِّیْ عَلَیْہِمْ وَعَلَیْہِ مَعَہُمْ) .فَھٰذَا ابْنُ عَبَّاسٍ‘ وَابْنُ الزُّبَیْرِ‘ قَدْ خَالَفَا أَنَسَ بْنَ مَالِکٍ فِیْمَا رَوَیْنَاہٗ عَنْہُ قَبْلَ ھٰذَا .وَقَدْ رُوِیَ مِثْلُ ھٰذَا أَیْضًا عَنْ أَبِیْ مَالِکٍ الْغِفَارِیِّ .
٢٨١٣: یحییٰ بن عباد بن عبداللہ بن زبیر نے اپنے والد (دادا) عبداللہ بن زبیر سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے احد کے دن حکم فرمایا کہ حمزہ کے جسم کو چادر سے ڈھانپ دیا جائے پھر ان پر نماز جنازہ پڑھی اور نو تکبیرات کہیں پھر دیگر مقتولین کو صف میں رکھ دیا جاتا اور ان پر اور حمزہ (رض) پر نماز جنازہ پڑھی جاتی۔
نوٹ : : یہ ابن عباس (رض) اور ابن زبیر (رض) اپنی روایت میں انس بن مالک کی روایت کے خلاف نقل کر رہے ہیں اور ان کے علاوہ ابو مالک غفاری (رض) بھی ابن عباس (رض) کے حامی نظر آتے ہیں۔ روایت ابو مالک ملاحظہ ہو۔

2814

۲۸۱۴ : حَدَّثَنَا بَکْرُ بْنُ إِدْرِیْسَ‘ قَالَ : ثَنَا آدَم بْنُ إِیَاسٍ‘ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ‘ عَنْ حُصَیْنِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ‘ قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا مَالِکٍ الْغِفَارِیَّ‘ قَالَ : (کَانَ قَتْلَی أُحُدٍ یُؤْتَیْ بِتِسْعَۃٍ وَعَاشِرُہُمْ حَمْزَۃُ‘ فَیُصَلِّیْ عَلَیْہِمْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ ثُمَّ یُحْمَلُوْنَ‘ ثُمَّ یُؤْتَیْ بِتِسْعَۃٍ‘ فَیُصَلِّیْ عَلَیْہِمْ وَحَمْزَۃُ مَکَانَہٗ، حَتّٰی صَلّٰی عَلَیْہِمْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ) .وَقَدْ رُوِیَ أَیْضًا عَنْ عُقْبَۃَ بْنِ عَامِرٍ‘ (أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صَلّٰی عَلٰی قَتْلٰی أُحُدٍ‘ بَعْدَ مَقْتَلِہِمْ بِثَمَانِ سِنِیْنَ) .
٢٨١٤: حصین بن عبدالرحمن کہتے ہیں کہ میں نے ابو مالک غفاری (رض) سے سنا فرماتے تھے کہ مقتولین احد میں نو نو کر لایا جاتا اور ان میں دسویں حمزہ (رض) تھے ان پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نمازِ جنازہ پڑھتے پھر انھیں اٹھا لیا جاتا پھر نو اور لائے جاتے آپ ان پر اور حمزہ (رض) جو اپنی جگہ پڑے تھے نماز پڑھتے یہاں تک کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تمام پر نماز جنازہ پڑھی اور عقبہ بن عامر کی روایت میں ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مقتولین احد پر آٹھ سال بعد نماز جنازہ پڑھی۔
تخریج : بخاری فی المغازی باب ١٧‘ ابو داؤد فی الجنائز باب ٧٠‘ نمبر ٣٢٢٤۔
عقبہ بن عامر (رض) کی روایت بھی اس کی موید ہے۔ ملاحظہ ہو۔

2815

۲۸۱۵ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ‘ قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ‘ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ عَمْرٌو‘ وَابْنُ لَہِیْعَۃَ عَنْ یَزِیْدَ بْنِ أَبِیْ حَبِیْبٍ أَنَّ أَبَا الْخَیْرِ أَخْبَرَہٗ أَنَّہٗ سَمِعَ عُقْبَۃَ بْنَ عَامِرٍ یَقُوْلُ : (إِنَّ آخِرَ مَا خَطَبَ لَنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہٗ صَلّٰی عَلفی شُہَدَائِ أُحُدٍ‘ ثُمَّ رَقِیَ عَلَی الْمِنْبَرِ‘ فَحَمِدَ اللّٰہَ‘ وَأَثْنٰی عَلَیْہٖ‘ ثُمَّ قَالَ إِنِّیْ لَکُمْ فَرَطٌ وَأَنَا عَلَیْکُمْ شَہِیْدٌ) .
٢٨١٥: ابوالخیر نے عقبہ بن عامر (رض) کو کہتے سنا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے شہداء احد پر نماز جنازہ پڑھنے کے بعد منبر پر چڑھ کر ہمیں آخری خطبہ دیا اللہ تعالیٰ کی حمدوثنا کے بعد فرمایا میں تم سے آگے جانے والا ہوں اور میں تم پر گواہ ہوں گا۔
تخریج : بخاری فی الجنائز باب ٦١‘ والمناقب باب ٢٥‘ المغازی باب ١٧‘ ٢٧‘ والرقاق باب ٧‘ ٥٣‘ نسائی فی الجنائز باب ٦١‘ مسند احمد ٤؍١٤٩۔
لغات : فرط۔ استقبالی۔

2816

۲۸۱۶ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ‘ قَالَ : ثَنَا یُوْنُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ‘ قَالَ : ثَنَا اللَّیْثُ بْنُ سَعْدٍ‘ عَنْ یَزِیْدَ بْنِ أَبِیْ حَبِیْبٍ‘ عَنْ أَبِی الْخَیْرِ‘ عَنْ عُقْبَۃَ بْنِ عَامِرٍ (أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خَرَجَ یَوْمًا‘ فَصَلّٰی عَلٰی أَہْلِ أُحُدٍ‘ صَلَاتَہٗ عَلَی الْمَیِّتِ) .فَفِیْ حَدِیْثِ عُقْبَۃَ (أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صَلّٰی عَلٰی قَتْلَی أُحُدٍ‘ بَعْدَ مَقْتَلِہِمْ بِثَمَانِ سِنِیْنَ) ، فَلاَ یَخْلُو صَلَاتُہٗ عَلَیْہِمْ فِیْ ذٰلِکَ الْوَقْتِ مِنْ أَحَدِ ثَلاَثَۃِ مَعَانٍ : إِمَّا أَنْ یَّکُوْنَ سُنَّتُہُمْ کَانَتْ أَنْ لَا یُّصَلِّیْ عَلَیْہِمْ‘ ثُمَّ نُسِخَ ذٰلِکَ الْحُکْمُ بَعْدُ‘ بِأَنْ یُّصَلِّیْ عَلَیْہِمْ .أَوْ أَنْ تَکُوْنَ تِلْکَ الصَّلَاۃُ الَّتِیْ صَلَّاہَا عَلَیْہِمْ تَطَوُّعًا‘ وَلَیْسَ لِلصَّلَاۃِ عَلَیْہِمْ أَصْلٌ فِی السُّنَّۃِ وَالْاِیْجَابِ .أَوْ یَکُوْنَ مِنْ سُنَّتِہِمْ أَنْ لَا یُّصَلِّیْ عَلَیْہِمْ بِحَضْرَۃِ الدَّفْنِ‘ وَیُّصَلِّیْ عَلَیْہِمْ بَعْدَ طُوْلِ ھٰذِہِ الْمُدَّۃِ .لَا یَخْلُو فِعْلُہٗ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ ھٰذِہِ الْمَعَانِی الثَّلَاثَۃِ .فَاعْتَبَرْنَا ذٰلِکَ‘ فَوَجَدْنَا أَمْرَ الصَّلَاۃِ عَلٰی سَائِرِ الْمَوْتَی‘ ہُوَ أَنْ یُّصَلِّیْ عَلَیْہِمْ قَبْلَ دَفْنِہِمْ .ثُمَّ تَکَلَّمَ النَّاسُ فِی التَّطَوُّعِ عَلَیْہِمْ قَبْلَ أَنْ یُدْفَنُوْا‘ وَبَعْدَمَا یُدْفَنُوْنَ‘ فَجَوَّزَ ذٰلِکَ قَوْمٌ وَکَرِہَہُ آخَرُوْنَ .فَأَمْرُ السُّنَّۃِ فِیْہِ أَوْکَدُ مِنَ التَّطَوُّعِ لِاجْتِمَاعِہِمْ عَلَی السُّنَّۃِ وَاخْتِلَافِہِمْ فِی التَّطَوُّعِ .فَإِنْ کَانَ قَتْلَی أُحُدٍ مِمَّنْ تَطَوَّعَ بِالصَّلَاۃِ عَلَیْہِمْ کَانَ فِیْ ثُبُوْتِ ذٰلِکَ ثُبُوْتُ السُّنَّۃِ فِی الصَّلَاۃِ عَلَیْہِمْ قَبْلَ أَوَانِ وَقْتِ التَّطَوُّعِ بِہَا عَلَیْہِمْ وَکُلُّ تَطَوُّعٍ‘ فَلَہُ أَصْلٌ فِی الْفَرْضِ .فَإِنْ ثَبَتَ أَنَّ تِلْکَ الصَّلَاۃَ کَانَتْ مِنَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ تَطَوُّعًا تَطَوَّعَ بِہٖ، فَلاَ یَکُوْنُ ذٰلِکَ إِلَّا وَالصَّلَاۃُ عَلَیْہِمْ سُنَّۃٌ‘ کَالصَّلَاۃِ عَلٰی غَیْرِہِمْ .وَإِنْ کَانَتْ صَلَاتُہُمْ عَلَیْہِمْ‘ لِعِلَّۃِ نَسْخِ فِعْلِہِ الْأَوَّلِ‘ وَتَرْکِہٖ الصَّلَاۃَ عَلَیْہِمْ‘ فَإِنَّ صَلَاتَہٗ ھٰذِہٖ عَلَیْہِمْ‘ تُوْجِبُ أَنَّ مِنْ سُنَّتِہِمُ الصَّلَاۃَ عَلَیْہِمْ‘ وَأَنَّ تَرْکَہُ الصَّلَاۃَ عَلَیْہِمْ عِنْدَ دَفْنِہِمْ مَنْسُوْخٌ .وَإِنْ کَانَتْ صَلَاتُہٗ عَلَیْہِمْ‘ إِنَّمَا کَانَتْ لِأَنَّ ہٰکَذَا سُنَّتَہُمْ‘ أَنْ لَا یُّصَلِّیْ عَلَیْہِمْ إِلَّا بَعْدَ ھٰذِہِ الْمُدَّۃِ‘ وَأَنَّہُمْ خُصُّوْا بِذٰلِکَ‘ فَقَدْ یُحْتَمَلُ أَنْ یَّکُوْنَ کَذٰلِکَ حُکْمُ سَائِرِ الشُّہَدَائِ ‘ أَنْ لَا یُّصَلِّیْ عَلَیْہِمْ إِلَّا بَعْدَ مُضِیِّ مِثْلِ ھٰذِہِ الْمُدَّۃِ .وَیَجُوْزُ أَنْ یَّکُوْنَ سَائِرُ الشُّہَدَائِ یُعَجَّلُ الصَّلَاۃُ عَلَیْہِمْ غَیْرَ شُہَدَائِ أُحُدٍ‘ فَإِنَّ سُنَّتَہُمْ کَانَتْ تَأْخِیْرَ الصَّلَاۃِ عَلَیْہِمْ أَنَّہٗ قَدْ ثَبَتَ بِکُلِّ ھٰذِہِ الْمَعَانِیْ أَنَّ مِنْ سُنَّتِہِمْ ثُبُوْتَ الصَّلَاۃِ عَلَیْہِمْ إِمَّا بَعْدَ حِیْنٍ وَإِمَّا قَبْلَ الدَّفْنِ .ثُمَّ کَانَ الْکَلَامُ بَیْنَ الْمُخْتَلِفِیْنَ فِیْ وَقْتِنَا ھٰذَا‘ إِنَّمَا ہُوَ فِیْ إِثْبَاتِ الصَّلَاۃِ عَلَیْہِمْ قَبْلَ الدَّفْنِ‘ أَوْ فِیْ تَرْکِہَا أَلْبَتَّۃَ. فَلَمَّا ثَبَتَ فِیْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ‘ الصَّلَاۃُ عَلَیْہِمْ بَعْدَ الدَّفْنِ کَانَتِ الصَّلَاۃُ عَلَیْہِمْ قَبْلَ الدَّفْنِ أَحْرٰی وَأَوْلٰی. ثُمَّ قَدْ رُوِیَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ غَیْرِ شُہَدَائِ أُحُدٍ‘أَنَّہٗ صَلّٰی عَلَیْہِمْ.
٢٨١٦: ابوالخیر نے عقبہ بن عامر (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک دن باہر نکلے اور اہل احد پر نماز جنازہ اسی طرح ادا کی جس طرح میت پر کی جاتی ہے۔ آپ کا ان پر اس وقت میں نماز جنازہ پڑھنا تین معانی کا احتمال رکھتا ہے۔ نمبرا یا تو ان کے ہاں طریقہ یہ تھا کہ ان پر نماز نہ پڑھی جاتی تھی پھر یہ حکم منسوخ ہوگیانمبر ٢ یا وہ نماز جوان پر پڑھی گئی وہ نفلی تھی اور اصل میں ان پر نہ نماز مسنون ہے نہ واجب۔ نمبر ٣ یا ان کے ہاں یہ طریقہ ہو کہ دفن کے وقت نماز نہ پڑھتے ہوں اور ان پر طویل مدت کے نماز پڑھتے ہوں۔ آپ کا یہ عمل مبارک ان تین معانی میں ایک احتمال ضروری رکھتا ہے۔ پس ہم نے جانچا تو ہم نے یہ بات پائی کہ نماز کا حکم تو عام مردوں پر ہے اور وہ اس طرح ہے کہ تدفین سے پہلے ان پر نماز جنازہ پڑھی جائے پھر لوگوں نے دفن سے قبل اور بعد اس کے نفل ہونے میں کلام کیا ہے۔ بعض علماء نے اس کو درست قرار دیا جب کہ دوسروں نے اس کو ناپسند کیا ۔ سنت سے اس کا حکم نفل سے مؤکد ہے کیونکہ سنت ہونے پر اجماع ہے البتہ نفل ہونے میں اختلاف ہے۔ پس اگر مقتولین احد پر نماز نفلی نماز تھی تو پھر اس نماز کے ثبوت سے نفل کا وقت آنے سے قبل نماز کا ان پر سنت ہونا ثابت ہو رہا ہے۔ اور قاعدہ یہ ہے کہ ہر نفل کی فرض میں اصل پائی جاتی ہے۔ پس اگر یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ جائے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وہ نماز نفلی تھی اور آپ نے بطور نفل پڑھی تھی ۔ تو یہ اسی صورت میں ہوسکتی ہے کہ نماز سنت ہو ۔ جیسا کہ دوسروں پر نماز ہے۔ اور اگر ان پر نماز جنازہ پہلے فعل کے منسوخ ہونے کی بناء پر ہو اور ان پر نماز چھوڑنے کی وجہ ہو ۔ تو آپ کا ان پر نماز پڑھنا اس بات کو لازم کرتا ہے کہ ان کے ہاں طریقہ ان پر نماز پڑھنے کا تھا اور دفن کے وقت ان پر نماز جنازہ کا ترک والا عمل منسوخ ہوچکا ہے۔ اور اگر آپ کا ان پر نماز پڑھنا اس بناء پر تھا کہ ان کے ہاں طریقہ یہی تھا کہ ان پر نماز اتنی مدت کے بعد پڑھی جائے اور یہ ان کی خصوصیت تھی ۔ تو اس میں یہ بھی احتمال ہے کہ تمام شہداء کا یہی حکم ہو کہ اتنا وقت گزر جانے کے بعد ان پر نماز جنازہ پڑھی جائے اور عین ممکن ہے کہ تمام شہداء پر جو شہدائِ احد کے علاوہ ہوں جلد نماز پڑھی جاتی ہو اور ان کے ہاں تاخیر کا طریقہ ہو۔ بہر صورت یہ معانی شہداء پر نماز جنازہ کو ثابت کرتے ہیں خواہ کچھ وقت کے بعد ہو یا دفن سے پہلے ہو۔ پھر آج تک اختلاف کرنے والوں میں یہ بات چلی آرہی ہے کہ وہ دفن سے قبل ان کے لیے پایہ ثبوت کو پہنچ گئی یا قطعا اسے چھوڑ دیا پس جب اس روایت نے دفن کے بعد بھی نماز ان پر ثابت کردی تو اس سے بہتر یہ ہے کہ دفن سے پہلے پڑھی جائے۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے شہدائِ احد کے علاوہ شہداء پر نماز جنازہ پڑھنا ثابت ہے۔ جیسا اس روایت میں ہے۔
عقبہ کی دوسری روایت میں ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مقتولین احد پر ان کے قتل کے آٹھ سال بعد نماز جنازہ پڑھی۔
تخریج : ابو داؤد فی الجنائز باب ٧٠‘ نمبر ٣٢٢٣۔
روایات میں محاکمہ :
آٹھ سال بعد نماز پڑھنے میں تین احتمال ہیں۔
نمبر 1: شہداء پر نماز نہ پڑھنے کا طریقہ اولاً تھا اس لیے اس وقت نہ پڑھی پھر یہ منسوخ ہوا تو آپ کو نماز کا حکم ہوا آپ نے نماز جنازہ پڑھی۔
نمبر 2: یہ دوبارہ پڑھی جانے والی نماز فرض نہ تھی بلکہ نفلی تھی فرض پہلے پڑھی جا چکی تھی گویا اس وقت تک نماز جنازہ کے سنت یا وجوب میں کوئی اصل نہ تھی۔
نمبر 3: تدفین کے وقت شہداء پر نماز نہ پڑھی جاتی ہو کچھ مدت گزرنے کے بعد پڑھی جاتی ہو جب آپ کا یہ فعل ان میں سے کوئی ایک احتمال رکھتا ہے اس بات کا اعتبار کرتے ہوئے ہم نے دیکھا کہ نماز جنازہ کا حکم دفن سے پہلے تمام اموات کے متعلق پایا جاتا ہے البتہ دفن سے پہلے دوسری مرتبہ بطور نفل نماز جنازہ میں بعض لوگوں نے جائز قرار دیا اور دوسروں سے مکروہ قرار دیا اسی طرح دفن کے بعد بھی بطور تطوع نماز جنازہ میں یہی اختلاف پایا جاتا ہے۔
پہلا جنازہ جو کہ سنت طریقہ ہے وہ زیادہ موکد ہے کیونکہ اس پر تو سب کا اتفاق ہے اور نفل میں اختلاف ہے۔
اگر شہداء ان لوگوں سے ہیں جن پر بطور نفل نماز جنازہ پڑھی جاتی ہے تو اس نفل کے ثبوت کی وجہ سے ان پر نفل نماز سے پہلے ان پر نماز جنازہ کی مسنون نیت ثابت ہوجائے گی اس لیے کہ ہر نفل کے لیے فرض میں اصل ہوتی ہے اگر عقبہ بن عامر (رض) کی روایت والی نماز حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے بطور نفل ثابت ہوتی ہے تو تمام اموات کی طرح شہداء کی نماز جنازہ کا مسنون ہونا ثابت ہوجائے گا۔
اور اگر شہداء کا دفن کردینا بغیر نماز کے پہلے مقرر تھا تو یہ بات لازم آئے گی کہ آٹھ سال بعد آپ کا وہاں جا کر نماز پڑھنا پہلے حکم کو منسوخ کرنے والا ہے۔
اور اگر آٹھ سال بعد نماز پڑھنا شہداء کی نماز کا طریقہ تھا تو یہ شہداء کی خصوصیات سے ہے تو پھر یہ امکان ہے کہ ہر شہید کا حکم یہی ہو کہ سات یا آٹھ سال بعد اس کی قبر پر نماز جنازہ پڑھی جائے یا پھر یہ مان لیا جائے کہ شہداء احد کے علاوہ شہداء کا یہ حکم نہیں بلکہ دفن سے پہلے بعجلت تمام ان کی نماز پڑھی جائے جو صورت بھی مانیں شہداء پر نماز کا ثبوت مل جائے گا۔
پس اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ شہداء پر نماز مسنون طریقہ ہے اور یہ ثابت ہے خواہ مدت کے بعد یا دفن سے پہلے اب اس مختلف فی مسئلہ میں جب دفن کے بعد نماز ثابت ہوچکی تو دفن سے پہلے ان پر نماز پڑھنا تو بدرجہ اولیٰ ثابت ہوجائے گا اس بات کے ثبوت کے لیے مندرجہ ذیل روایت ملاحظہ فرمائیں۔

2817

۲۸۱۷ : فَمِنْ ذٰلِکَ مَا حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ‘ قَالَ : ثَنَا نُعَیْمُ بْنُ حَمَّادٍ‘ قَالَ : أَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ الْمُبَارَکِ‘ قَالَ : أَنَا ابْنُ جُرَیْجٍ قَالَ أَخْبَرَنِیْ عِکْرِمَۃُ بْنُ خَالِدٍ أَنَّ ابْنَ أَبِیْ عَمَّارٍ‘ أَخْبَرَہٗ، عَنْ شَدَّادِ بْنِ الْہَادِ‘ (أَنَّ رَجُلًا مِنَ الْأَعْرَابِ جَائَ إِلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَآمَنَ بِہٖ وَاتَّبَعَہُ وَقَالَ : أُہَاجِرُ مَعَک فَأَوْصٰی بِہِ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَعْضَ أَصْحَابِہٖ۔ فَلَمَّا کَانَتْ غَزْوَۃٌ‘ غَنِمَ فِیْہَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَشْیَائَ ‘ فَقَسَمَ وَقَسَمَ لَہٗ فَأَعْطٰی أَصْحَابَہُ مَا قَسَمَ لَہٗ وَکَانَ یَرَی ظَہْرَہُمْ .فَلَمَّا جَائَ دَفَعُوْہُ إِلَیْہِ فَقَالَ : مَا ھٰذَا ؟ قَالُوْا : قِسْمٌ قَسَمَہٗ لَکَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .فَأَخَذَہُ فَجَائَ بِہِ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ : یَا مُحَمَّدُ‘ مَا ھٰذَا ؟ قَالَ : قَسَمْتُہُ لَکَ .قَالَ : مَا عَلٰی ھٰذَا اتَّبَعْتُک‘ وَلٰـکِنِّیْ اتَّبَعْتُکَ أَنْ أُرْمَی ہَاہُنَا - وَأَشَارَ إِلٰی حَلْقِہٖ۔ بِسَہْمٍ فَأَمُوْتَ وَأَدْخُلَ الْجَنَّۃَ .فَقَالَ: إِنْ تَصْدُقْ اللّٰہَ یَصْدُقْکَ .فَلَبِثُوْا قَلِیْلًا‘ ثُمَّ نَہَضُوْا إِلَی الْعَدُوِّ‘ فَأُتِیَ بِہِ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُحْمَلُ‘ قَدْ أَصَابَہٗ سَہْمٌ حَیْثُ أَشَارَ .فَقَالَ النَّبِیُّ : أَہُوَ ہُوَ ؟ قَالُوْا : نَعَمْ .قَالَ : صَدَقَ اللّٰہَ فَصَدَقَہٗ وَکَفَّنَہُ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ جُبَّۃِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ ثُمَّ قَدَّمَہٗ فَصَلّٰی عَلَیْہِ .فَکَانَ مِمَّا ظَہَرَ مِنْ صَلَاتِہِ عَلَیْہِ اللّٰہُمَّ إِنَّ ھٰذَا عَبْدُکَ‘ خَرَجَ مُہَاجِرًا فِیْ سَبِیْلِک‘ فَقُتِلَ شَہِیْدًا‘ أَنَا شَہِیْدٌ عَلَیْہِ) .فَفِیْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ‘ إِثْبَاتُ الصَّلَاۃِ عَلَی الشُّہَدَائِ الَّذِیْنَ لَا یُغَسَّلُوْنَ‘ لِأَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ‘ لَمْ یُغَسِّلْ الرَّجُلَ وَصَلّٰی عَلَیْہِ .فَثَبَتَ بِھٰذَا الْحَدِیْثِ أَنَّ کَذٰلِکَ حُکْمَ الشَّہِیْدِ الْمَقْتُوْلِ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فِی الْمَعْرَکَۃِ‘ یُّصَلِّیْ عَلَیْہِ وَلَا یُغَسَّلُ .فَھٰذَا حُکْمُ ھٰذَا الْبَابِ مِنْ طَرِیْقِ تَصْحِیْحِ مَعَانِی الْآثَارِ .وَأَمَّا النَّظَرُ فِیْ ذٰلِکَ‘ فَإِنَّا رَأَیْنَا الْمَیِّتَ حَتْفَ أَنْفِہِ‘ یُغَسَّلُ وَیُّصَلِّیْ عَلَیْہٖ‘ وَرَأَیْنَاہُ اِذَا صُلِّیَ عَلَیْہِ وَلَمْ یُغَسَّلْ‘ کَانَ فِیْ حُکْمِ مَنْ لَمْ یُصَلِّ عَلَیْہِ .فَکَانَتِ الصَّلَاۃُ عَلَیْہِ مُضْمَنَۃً بِالْغُسْلِ الَّذِیْ یَتَقَدَّمُہَا .فَإِنْ کَانَ الْغُسْلُ قَدْ کَانَ‘ جَازَتِ الصَّلَاۃُ عَلَیْہٖ‘ وَإِنْ لَمْ یَکُنْ غُسْلٌ‘ لَمْ تَجُزْ الصَّلَاۃُ عَلَیْہِ .ثُمَّ رَأَیْنَا الشَّہِیْدَ قَدْ سَقَطَ أَنْ یُغَسَّلَ‘ فَالنَّظْرُ عَلٰی ذٰلِکَ أَنْ یَسْقُطَ مَا ہُوَ مُضْمَنٌ بِحُکْمِ الْغُسْلِ .فَفِیْ ھٰذَا مَا یُوْجِبُ تَرْکَ الصَّلَاۃِ عَلَیْہِ إِلَّا أَنَّ فِیْ ذٰلِکَ مَعْنًی‘ وَہُوَ أَنَّا رَأَیْنَا غَیْرَ الشَّہِیْدِ یُغَسَّلُ‘ لِیُطَہَّرَ‘ وَہُوَ قَبْلَ أَنْ یُغَسَّلَ فِیْ حُکْمِ غَیْرِ الطَّاہِرِ‘ لَا یَنْبَغِی الصَّلَاۃُ عَلَیْہِ وَلَا دَفْنُہٗ عَلٰی حَالِہٖ تِلْکَ‘ حَتّٰی یُنْقَلَ عَنْہَا بِالْغُسْلِ .ثُمَّ رَأَیْنَا الشَّہِیْدَ لَا بَأْسَ بِدَفْنِہٖ عَلٰی حَالِہٖ تِلْکَ قَبْلَ أَنْ یُّغَسَّلَ‘ وَہُوَ فِیْ حُکْمِ سَائِرِ الْمَوْتَی الَّذِیْنَ قَدْ غُسِّلُوْا .فَالنَّظْرُ عَلٰی ذٰلِکَ أَنْ یَّکُوْنَ الصَّلَاۃُ عَلَیْہِمْ فِیْ حُکْمِ سَائِرِ الْمَوْتَی الَّذِیْنَ قَدْ غُسِّلُوْا .ھٰذَا ہُوَ النَّظْرُ فِیْ ھٰذَا الْبَابِ مَعَ مَا قَدْ شَہِدَ لَہٗ مِنَ الْآثَارِ‘ وَہُوَ قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ‘ وَأَبِیْ یُوْسُفَ‘ وَمُحَمَّدٍ رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی .
٢٨١٧: ابن ابی عمار نے بتلایا کہ شداد بن الھاد (رض) فرماتے تھے کہ ایک آدمی جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آیا ایمان لا کر ساتھ ہو لیا اور کہنے لگا میں آپ کے ساتھ چلوں گا جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے متعلق ایک آدمی کو خصوصی ہدایت فرمائی جب غزوہ پیش آیا اور مال غنیمت میں کچھ مال آیا آپ نے تقسیم کیا تو تقسیم میں اس کا حصہ اس کے ساتھیوں کو دیا وہ ان کے اموال و اشاء کا خیال رکھتا تھا جب وہ گلے کی نگہبانی سے واپس لوٹا تو انھوں نے اس کو وہ حصہ دیا اس سے پوچھا یہ کیا ہے۔ انھوں نے بتلایا تیرا حصہ ہے وہ لے کر جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آیا اور کہنے لگا اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ کیا ہے آپ نے فرمایا۔ یہ تیرا حصہ ہے۔ اس نے کہا میں نے اس کی خاطر آپ کی پیروی نہیں کی بلکہ میں تو اس لیے آپ کے ساتھ آیا کہ میری طرف کافر تیر پھینکیں اور وہ میرے حلق میں لگ جائے اور اس سے میری موت واقع ہوجائے اور میں جنت میں چلا جاؤں آپ نے فرمایا اگر تو نے اللہ تعالیٰ سے سچا وعدہ کیا ہے تو اللہ تعالیٰ تمہیں سچا کر دے گا صحابہ کرام تھوڑی دیر ٹھہرے پھر دشمن کی طرف گئے اس کو وہیں تیر لگا جہاں اس نے اشارہ کیا تھا صحابہ کرام اس کو آپ کی خدمت میں اٹھا لائے۔ آپ نے پوچھا کیا یہ وہی ہے ؟ انھوں نے کہا جی ہاں۔ آپ نے فرمایا اس نے اللہ تعالیٰ سے سچا وعدہ کیا اللہ تعالیٰ نے اسے سچا کردیا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو اپنے جبہ مبارک میں کفن دیا پھر اس کو سامنے کیا اور نماز جنازہ پڑھی۔ آپ کی ان دعاؤں میں سے جو اس کے لیے مانگیں ایک یہ تھی۔ اللہم ان ہذا عبدک خرج مہاجرا فی سبیلک فقتل شہیدا ‘ انا شہید علیہ۔ اے اللہ تیرا یہ بندہ تیری راہ میں مہاجر بن کر نکلا پھر شہادت کی موت پائی میں اس پر گواہ ہوں۔ اس روایت میں ان شہداء کی نماز جنازہ کا ثبوت مل رہا ہے جن کو غسل نہیں دیا جاتا کیونکہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس شخص کو غسل نہیں دیا مگر اس پر جنازہ پڑھا پس اس حدیث نے ثابت کردیا کہ میدان جنگ میں اللہ تعالیٰ کی راہ میں قتل ہوجانے والے کا یہی حکم ہے۔ کہ اس پر جنازہ تو پڑھیں مگر غسل نہ دیں۔ اس باب کے آثار کے معانی کی تصحیح تو اسی صورت میں ہوسکتی ہع ۔ رہا غور وفکر کا معاملہ تو ملاحظہ ہو ۔ ہم یہ دیکھتے ہیں کہ طبعی موت کے ساتھ فوت ہونے والے پر غسل و جنازہ دونوں ہیں اور یہ بھی ہمارے سامنے ہے کہ جب ان کی نماز جنازہ بلا غسل ادا کردی جائے تو یہ جنازہ نہ پڑھنے کے حکم میں ہے۔ تو گویا اس کی نماز اس کے اس غسل کو اپنے اندر سمیٹنے والی ہے جو اسے نماز سے پہلے دیا جاتا ہے ‘ اگر غسل ہوا تو جنازہ درست اور اگر غسل نہ کرایا گیا تو نماز جنازہ ہی درست نہ ہوتی۔ دوسری طرف شہید پر نگاہ ڈالی کہ اس سے غسل تو ساقط ہوگیا۔ قیاس تو یہی چاہتا ہے کہ جو چیز غسل سے متعلق ہو غسل کے ترک سے اسے بھی ترک کردیا جائے۔ تو اس قیاس سے نماز جنازہ کا ترک لازم آتا ہے۔ مگر یہاں ایک بات اس سے مختلف ہے وہ یہ ہے کہ جو شخص شہد نہ ہو اس کو غسل اس لیے دیا جاتا ہے تاکہ اسے پاک کیا جائے ‘ وہ غسل سے پہلے حکمًا غیر ظاہر ہوتا ہے پس اس پر نماز جنازہ مناسب نہیں اور نہ اس کو اس حالت میں دفن مناسب ہے۔ یہاں تک کہ غسل کے ذریعہ اس حالت کو بدلا جائے۔ پھر شہید کو دیکھا کہ اسے غسل سے پہلے دفن میں چنداں حرج نہیں اور وہ اس حالت میں ان اموات کے حکم میں ہے جن کو غسل دیا گیا تو اس پر قیاس کا تقاضا یہ ہے کہ ان پر جنازہ کا حکم وہی ہو جو عام مردوں کا ہے جن کو غسل دیا گیا ہو ۔ اس باب میں قیاس یہی ہے اور بہت سے آثار اس کے مؤید ہیں۔ امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد رحمہم اللہ کا بھی قول یہی ہے۔
حاصل روایات : اس روایت میں ان شہداء پر جن کو غسل نہیں دی جاتی ان پر نماز جنازہ کا ثبوت ملتا ہے آپ نے اس کو غسل نہیں دلایا اور نماز جنازہ ادا فرمائی۔
آثار کے پیش نظر تو اس باب کا یہی حکم ثابت ہوتا ہے کہ شہداء احد پر آٹھ سال بعد والی نماز نفل ہو یا فرض بہرصورت شہداء پر نماز جنازہ کے ثبوت کے لیے کافی ہے اور اس روایت نے عام شہداء پر نماز جنازہ کو ثابت کردیا۔
نظر طحاوی (رض) :
وہ آدمی جو اپنی طبعی موت مرتا ہے تو اس کو غسل دے کر نماز جنازہ پڑھتے ہیں اگر بلاغسل اس کی نماز پڑھیں گے تو وہ نہ پڑھنے کے حکم میں ہے کیونکہ بلاغسل میت نماز جنازہ درست نہیں اور یہ غسل نماز سے پہلے ہوگا تب نماز ہوگی گویا نماز غسل کے ضمن میں آگئی اگر غسل ہوچکا تو نماز درست اور اگر غسل نہیں تو اس پر نماز جنازہ درست نہیں۔
شہید کی موت غیر طبعی ہے اس پر غسل کے ساقط ہونے میں سب کا اتفاق ہے تو وہ نماز جو غسل کے ضمن میں تھی اس کو بھی ساقط ہونا چاہیے تھا مگر تھوڑا سا غور کیا جائے تو فرق واضح ہوجائے گا کہ عام میت کو غسل اس لیے دیا جاتا ہے تاکہ پاک ہوجائے اور غسل سے پہلے وہ پاک شمار نہیں ہوتا پس اس کو بغیر غسل و نماز دفن کرنا درست نہ ہوگا تاکہ غیر طہارت طہارت میں بدل جائے اور اس کے بالمقابل شہید کو بلا غسل دفن کرنے پر اتفاق ہے وہ بلا غسل اس میت کے حکم میں آگیا ہے جس کو غسل دے کر پاک کرلیا گیا ہو پس نظر و قیاس کا تقاضہ یہ ہے غسل کے بغیر شہید کی نماز وہی حکم رکھتی ہے جو عام میت کی غسل کے بعد ہوتی ہے پس جب وہ بلاغسل غسل کے حکم میں ہے تو عام اموات کی طرح اس پر نماز بھی پڑھی جائے گی۔
یہی امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد رحمہم اللہ تعالیٰ کا قول ہے اور آثار بھی اسی کے شاہد ہیں ایک فتویٰ نقل کیا جاتا ہے۔

2818

۲۸۱۸ : وَقَدْ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ‘ قَالَ : ثَنَا الْخَطَّابُ بْنُ عُثْمَانَ الْفَوْزِیُّ‘ قَالَ : ثَنَا إِسْمَاعِیْلُ بْنُ عَیَّاشٍ عَنْ سَعِیْدِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ : سَمِعْتُ مَکْحُوْلًا یَسْأَلُ عُبَادَۃَ بْنِ أَوْفَی النُّمَیْرِیَّ عَنِ الشُّہَدَائِ یُّصَلِّیْ عَلَیْہِمْ‘ فَقَالَ عُبَادَۃَ : نَعَمْ .فَھٰذَا عُبَادَۃَ بْنُ أَوْفٰی یَقُوْلُ ھٰذَا وَمَغَازِیْ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَعْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا کَانَ جُلُّہَا ہُنَاکَ نَحْوَ الشَّامِ‘ فَلَمْ یَکُنْ یَخْفٰی عَلٰی أَہْلِہٖ مَا کَانُوْا یَصْنَعُوْنَ بِشُہَدَائِہِمْ مِنَ الْغُسْلِ وَالصَّلَاۃِ وَغَیْرِ ذٰلِکَ .
٢٨١٨: مکحول نے عبادہ بن اوفیٰ (رض) سے شہداء کی نماز کے متعلق دریافت کیا تو انھوں نے فرمایا نماز پڑھی جائے گی۔ یہ حضرت عبادہ (رض) کا قول ہے اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد بڑی بڑی جنگیں ملک شام کی جانب لڑی گئیں ۔ وہاں کے ساکنین پر یہ بات مخفی نہ تھی کہ وہ شہداء کے کفن دفن ‘ غسل کے متعلق کیا عمل کرتے تھے۔
حاصل روایات : یہ عبادہ (رض) وہ صحابی ہیں جو شام میں سکونت پذیر ہوگئے اور وہاں کی جنگوں میں کثرت سے شرکت کی ان پر شہداء کا حال کس طرح مخفی رہ سکتا ہے پس ان کا فتویٰ مشاہداتی وزن بھی رکھتا ہے۔ واللہ اعلم۔
حاصل کلام : اس باب میں شہداء کی نماز جنازہ کے ثبوت میں چار صحابہ سے روایات پیش کی گئیں ابن عباس ابن زبیر ابو مالک غفاری عبادہ بن اوفیٰ ] اور ایک محاکمہ جس سے روایات کا جواب دیا گیا اور نظر طحاوی (رح) سے باب کو مکمل کیا خصوصی عادت کے مطابق ایک صحابی کے فتویٰ پر باب کو ختم کیا یہ فتویٰ درحقیقت نظر کی تائید کے لیے لایا گیا ہے۔
نمبر 1: حضرت سعید بن جبیر (رض) وغیرہ نابالغ بچوں پر نماز کو مشروع قرار نہیں دیتے۔
نمبر 2: تمام ائمہ و جمہور فقہاء کے ہاں نابالغ بچوں کی نماز تو بالغوں کی طرح لازم ہے البتہ شافعیہ و مالکیہ کے ہاں بچے کا چیخ مارنا ضروری ہے تب نماز پڑھی جائے گی ائمہ احناف و شوافع صرف زندہ پیدا ہونے پر اکتفاء قرار دیتے ہیں۔
فریق اوّل کا مؤقف اور دلائل : نابالغ بچے پر چنداں نماز جنازہ کی ضرورت نہیں دلائل مندرجہ ذیل روایات ہیں۔

2819

۲۸۱۹ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ عِمْرَانَ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ خَیْثَمَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا یَعْقُوْبُ بْنُ اِبْرَاہِیْمَ بْنِ سَعْدٍ‘ قَالَ : ثَنَا أَبِیْ عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ أَبِیْ بَکْرٍ‘ عَنْ عَمْرَۃَ‘ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا (أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ دَفَنَ ابْنَہٗ اِبْرَاہِیْمَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ وَلَمْ یُصَلِّ عَلَیْہِ).
٢٨١٩: عمرہ نے عائشہ (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے بیٹے ابراہیم کو نماز جنازہ پڑھائے بغیر دفن کردیا۔
تخریج : ابو داؤد فی الجنائز باب ٤٩‘ نمبر ٣١٨٧۔

2820

۲۸۲۰ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ‘ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ یَحْیَی النَّیْسَابُوْرِیُّ‘ قَالَ : ثَنَا یَعْقُوْبُ‘ فَذَکَرَ مِثْلَہٗ .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ إِلٰی أَنَّہٗ لَا یُّصَلِّیْ عَلَی الطِّفْلِ‘ وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِھٰذَا الْحَدِیْثِ .وَرَوَوْا فِیْ ذٰلِکَ أَیْضًا عَنْ سَمُرَۃَ بْنِ جُنْدُبٍ ۔
٢٨٢٠: محمد بن یحییٰ نیسا بوری نے یعقوب سے نقل کیا پھر انھوں نے اپنی سند سے اسی طرح روایت بیان کی ہے۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں علماء کی ایک جماعت کا کہنا یہ ہے کہ بچوں کی نماز جنازہ نہ پڑھی جائے گی اور انھوں نے اس روایت کو دلیل بنایا اور حضرت سمرہ بن جندب (رض) کی روایت بھی لی۔

2821

۲۸۲۱ : حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوٗدَ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ مَعْمَرٍ‘ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ‘ قَالَ : ثَنَا عُقْبَۃُ بْنُ یَسَارٍ‘ قَالَ : حَدَّثَنِیْ عُثْمَانُ بْنُ جِحَاشٍ‘ وَکَانَ ابْنَ أَخِیْ سَمُرَۃَ بْنِ جُنْدُبٍ‘ قَالَ : مَاتَ ابْنٌ لِسَمُرَۃَ‘ قَدْ کَانَ سُقِیَ‘ فَسَمِعَ بُکَائً ‘ فَقَالَ : (مَا ھٰذَا؟) فَقَالُوْا عَلٰی فُلَانٍ مَاتَ‘ فَنَہٰی عَنْ ذٰلِکَ‘ ثُمَّ دَعَا بِطَسْتٍ وَنَقِیْرٍ فَغَسَلَ بَیْنَ یَدَیْہٖ‘ وَکَفَّنَ بَیْنَ یَدَیْہِ‘ ثُمَّ قَالَ لِمَوْلَاہُ فُلَانٍ : انْطَلِقْ بِہٖ إِلٰی حُفْرَتِہٖ‘ فَإِذَا وَضَعْتُہٗ فِیْ لَحْدِہٖ، فَقُلْ : بِسْمِ اللّٰہِ وَعَلَی سُنَّۃِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ثُمَّ أَطْلِقْ عُقَدَ رَأْسِہٖ وَعُقَدَ رِجْلَیْہِ‘ وَقُلْ : " اللّٰہُمَّ لَا تَحْرِمْنَا أَجْرَہُ وَلَا تَفْتِنَّا بَعْدَہٗ " قَالَ : وَلَمْ یُصَلِّ عَلَیْہِ .
٢٨٢١: عثمان بن جحاش یہ سمرہ بن جندب کے بھتیجے ہیں وہ بیان کرتے ہیں کہ سمرہ کا ایک بیٹا فوت ہوگیا جس نے پانی کا گھونٹ پیا تھا سمرہ نے رونے کی آواز سنی تو پوچھا یہ آواز کیسی ہے انھوں نے کہا یہ فلاں پر رونے کی آواز ہے جس کی وفات ہوگئی آپ نے اس زور والی آواز سے منع کردیا پھر ایک تھال یا لکڑی کا برتن منگوایا اور اپنے سامنے اس کو غسل دلایا پھر ان کے سامنے کفن دیا گیا پھر اپنی لونڈی کو فرمایا اس کو اس کی قبر کی طرف لے جاؤ جب لحد میں رکھو تو کہنا : بسم اللہ وعلی سنۃ رسول اللہ ا : پھر اس کے سر کی اور پاؤں کی گرہ گھول دینا اور اس طرح کہنا : اللہم لا تحرمنا اجرہ ولا تفتنا بعدہ۔ عثمان کہتے ہیں کہ انھوں نے اس کی نماز جنازہ نہ پڑھی۔

2822

۲۸۲۲ : حَدَّثَنَا اِبْرَاہِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا وَہْبٌ‘ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ‘ یَعْنِیْ عَنْ خِلَاسٍ‘ عَنِ ابْنِ جِحَاشٍ‘ عَنْ سَمُرَۃَ بْنِ جُنْدُبٍ‘ أَنَّ صَبِیًّا لَہٗ مَاتَ‘ فَقَالَ : اِدْفِنُوْہُ وَلَا تُصَلُّوْا عَلَیْہٖ‘ فَإِنَّہٗ لَیْسَ عَلَیْہِ إِثْمٌ‘ ثُمَّ اُدْعُوْا اللّٰہَ لِأَبَوَیْہِ أَنْ یَجْعَلَہٗ لَہُمَا فَرَطًا وَسَلَفًا .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ‘ فَقَالُوْا : بَلْ یُّصَلِّیْ عَلَی الطِّفْلِ . وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِمَا۔
٢٨٢٢: ابن جحاش نے سمرہ بن جندب (رض) سے نقل کیا کہ ان کا ایک بچہ فوت ہوگیا تو انھوں نے کہا اس کو دفن کر دو اور اس پر نماز جنازہ مت پڑھو یہ بےگناہ ہے پھر اس کے والدین کے لیے دعا کرنا کہ وہ اس کو ان کا استقبالی اور ذخیرہ بنائے۔ اور دیگر علماء نے ان کی مخالفت کی ہے اور فرمایا بلکہ اس پر نماز جنازہ پڑھی جائے ان کا استدلال اس طرح ہے۔
حاصل روایات : ان روایات سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ نابالغ بچوں پر نماز جنازہ نہ پڑھی جائے بلکہ اس کے بغیر دفن کردیا جائے گا۔
فریق ثانی کا مؤقف :
نابالغ بچے پر نماز جنازہ اسی طرح پڑھی جائے گی جیسے بالغ پر پڑھی جاتی ہے البتہ اس میں آثار زندگی کا وجود ضروری ہے اس کی تائید مندرجہ روایات سے ہے۔

2823

۲۸۲۳ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ‘ قَالَ : أَنَا سُفْیَانُ‘ عَنْ طَلْحَۃَ بْنِ یَحْیَی بْنِ طَلْحَۃَ‘ عَنْ عَمَّتِہٖ عَائِشَۃَ بِنْتِ طَلْحَۃَ‘ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا زَوْجِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَتْ : (جَائَ تِ الْأَنْصَارُ بِصَبِیٍّ إِلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِیُصَلِّیَ عَلَیْہِ فَقُلْتُ : وَقِیْلَ لَہٗ : ہَنِیئًا لَہٗ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ‘ لَمْ یَعْمَلْ سُوئً ا قَطُّ‘ وَلَمْ یُدْرِکْہُ‘ عُصْفُوْرٌ مِنْ عَصَافِیْرِ الْجَنَّۃِ .فَقَالَ : أَوْ غَیْرُ ذٰلِکَ إِنَّ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ لَمَّا خَلَقَ الْجَنَّۃَ‘ خَلَقَ لَہَا أَہْلًا وَہُمْ فِیْ أَصْلَابِ آبَائِہِمْ وَخَلَقَ النَّارَ‘ وَخَلَقَ لَہَا أَہْلًا وَہُمْ فِیْ أَصْلَابِ آبَائِہِمْ) .
٢٨٢٣: عائشہ بنت طلحہ نے عائشہ (رض) سے روایت کی ہے کہ انصار ایک بچے کو آپ کی خدمت میں لائے تاکہ اس پر جنازہ پڑھا جائے میں نے کہا یا اس کو کہا گیا خوش نصیب ہے کہ اس نے کوئی برا عمل نہیں کیا اور نہ برے عمل کو پایا یہ جنت کی چڑیا ہے آپ نے فرمایا کیا کچھ اور بھی۔ اللہ تعالیٰ نے جب جنت بنائی اور جنت کے اندر رہنے والے بنائے جبکہ وہ ابھی اپنے باپوں کی پشتوں میں تھے اور آگ کو بنایا اور آگے والے لوگ بنائے جبکہ وہ ابھی اپنے باپوں کی اصلاب میں تھے۔
تخریج : مسلم فی القدر ٣٠‘ ٣١‘ نسائی فی الجنائز باب ٥٨‘ ابن ماجہ فی المقدمۃ باب ١٠‘ مسند احمد ٦؍٤١‘ ٢٠٨۔

2824

۲۸۲۴ : حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوٗدَ‘ قَالَ : ثَنَا حَرْمَلَۃُ بْنُ یَحْیَی‘ قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ‘ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ‘ عَنْ عُمَارَۃَ بْنِ غَزِیَّۃَ‘ عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ أَبِیْ طَلْحَۃَ‘ عَنْ أَبِیْہِ (أَنَّ أَبَا طَلْحَۃَ دَعَا رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِلٰی عُمَیْرِ بْنِ أَبِیْ طَلْحَۃَ‘ حِیْن تُوُفِّیَ فَأَتَاہُمْ فَصَلّٰی عَلَیْہٖ‘ فَتَقَدَّمَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَکَانَ أَبُوْ طَلْحَۃَ وَرَائَ ہٗ، وَأُمُّ سُلَیْمٍ وَرَائَ أَبِیْ طَلْحَۃَ لَمْ یَکُنْ مَعَہُمْ غَیْرُہُمْ) ، وَإِنَّمَا کَانَ تَزَوُّجُ أَبِیْ طَلْحَۃَ وَأُمِّ سُلَیْمٍ بَعْدَ قُدُوْمِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْمَدِیْنَۃَ بِمُدَّۃٍ‘ وَعُمَیْرٌ وَلَدُہٗ مِنْہَا فِیْ ذٰلِکَ النِّکَاحِ‘ تُوُفِّیَ وَہُوَ طِفْلٌ‘ فَھٰذَا أَخُوْہُ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ أَبِیْ طَلْحَۃَ یَذْکُرُ (أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صَلّٰی عَلَیْہِ) .
٢٨٢٤: اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ ابو طلحہ (رض) نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عمیر بن ابی طلحہ پر نماز جنازہ کے لیے بلایا جب اس کی وفات ہوگئی آپ تشریف لائے اور اس پر نماز جنازہ پڑھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آگے بڑھے ابو طلحہ آپ پیچھے تھے اور امّ سلیم ابو طلحہ کے پیچھے تھیں ان کے ساتھ اور کوئی شامل نہ تھا ابو طلحہ نے امّ سلیم سے شادی اس وقت کی جب جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مدینہ منورہ آئے کچھ وقت گزر گیا اور یہ عمیر اسی نکاح کے بعد پیدا ہوئے اور بچپن میں وفات پا گئے یہ ان کا بھائی عبداللہ بیان کررہا ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عمیر کی نماز جنازہ پڑھی۔

2825

۲۸۲۵ : حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِیْزِ بْنُ مُعَاوِیَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا إِسْمَاعِیْلُ بْنُ سَعِیْدٍ الْجُبَیْرِیُّ‘ قَالَ : ثَنَا أَبِیْ عَنْ زِیَادِ بْنِ جُبَیْرِ بْنِ حَیَّۃَ‘ عَنْ أَبِیْہِ فِیْمَا یَحْسِبُ عَبْدُ الْعَزِیْزِ یَشُکُّ فِیْ أَبِیْہِ خَاصَّۃً‘ عَنِ الْمُغِیْرَۃِ بْنِ شُعْبَۃَ‘ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : (الطِّفْلُ یُّصَلِّیْ عَلَیْہِ) .ق
٢٨٢٥: زیاد بن جبیر بن حیہ اپنے والد سے نقل کرتے ہیں (عبدالعزیز راوی کو ان کے والد کے متعلق شک ہے) وہ مغیرہ بن شعبہ سے نقل کرتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بچے پر نماز پڑھی جائے گی۔
تخریج : ترمذی فی الجنائز باب ٤٢‘ نسائی فی الجنائز باب ٥٥‘ ٥٦‘ ٥٩‘ ابن ماجہ فی الجنائز باب ٢٦‘ نمبر ١٥٠٧‘ مسند احمد ٤؍٢٤٧‘ ٢٥٢۔

2826

۲۸۲۶ : حَدَّثَنَا أَبُوْ أُمَیَّۃَ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ نُعَیْمٍ‘ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ السَّلَامِ‘ عَنْ لَیْثٍ‘ عَنْ عَامِرٍ‘ عَنِ الْبَرَائِ‘ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (أَحَقُّ مَنْ صَلَّیْتُمْ عَلَیْہِ أَطْفَالُکُمْ) .وَقَدْ قَالَ عَامِرٌ الشَّعْبِیُّ (إِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَدْ کَانَ صَلّٰی عَلَی ابْنِہٖ اِبْرَاہِیْمَ) وَلَمْ یَکُنْ لِیَقُوْلَ ذٰلِکَ إِلَّا وَقَدْ کَانَ ثَبَتَ عِنْدَہٗ .
٢٨٢٦: عامر نے براء (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تمہارے بچے تمہاری نماز جنازہ کے زیادہ حقدار ہیں اور عامر شعبی کہتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے بیٹے ابراہیم کی نماز جنازہ پڑھی۔
امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں عامر شعبی (رح) تبھی تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف نسبت کر رہے ہیں جبکہ ان کے ہاں یہ چیز ثابت شدہ ہے۔

2827

۲۸۲۷ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَامِرٍ عَنْ سُفْیَانَ‘ عَنْ جَابِرٍ عَنِ الشَّعْبِیِّ‘ قَالَ : (مَاتَ اِبْرَاہِیْمُ بْنُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَہُوَ ابْنُ سِتَّۃَ عَشَرَ شَہْرًا فَصَلّٰی عَلَیْہِ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ) .
٢٨٢٧: شعبی کہتے ہیں کہ ابراہیم بن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات ہوگئی اس وقت ان کی عمر چھ ماہ تھی تو ان پر جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نماز جنازہ پڑھی۔
تخریج : ابن ماجہ فی الجنائز باب ٢٧‘ ١٥١٠؍١٥١١۔

2828

۲۸۲۸ : حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَنْصُوْرٍ‘ قَالَ : ثَنَا الْہَیْثَمُ بْنُ جَمِیْلٍ‘ قَالَ : حَدَّثَنِیْ شَرِیْکٌ‘ عَنْ جَابِرٍ‘ فَذَکَرَ مِثْلَہٗ بِإِسْنَادِہٖ غَیْرَ أَنَّہٗ قَالَ (وَہُوَ ابْنُ سِتَّۃَ عَشَرَ شَہْرًا‘ أَوْ ثَمَانِیَۃَ عَشَرَ شَہْرًا) .فَفِیْ ھٰذِہِ الْآثَارِ‘ إِثْبَاتُ الصَّلَاۃِ عَلَی الْأَطْفَالِ .فَلَمَّا تَضَادَّتَ الْآثَارُ فِیْ ذٰلِکَ‘ وَجَبَ أَنَّ نَنْظُرَ إِلٰی مَا عَلَیْہِ عَمَلُ الْمُسْلِمِیْنَ‘ الَّذِیْ قَدْ جَرَتْ عَلَیْہِ عَادَاتُہُمْ‘ فَیُعْمَلُ عَلٰی ذٰلِکَ‘ وَیَکُوْنُ نَاسِخًا لِمَا خَالَفَہُ .فَکَانَتْ عَادَۃُ الْمُسْلِمِیْنَ الصَّلَاۃَ عَلٰی أَطْفَالِہِمْ‘ فَثَبَتَ مَا وَافَقَ ذٰلِکَ مِنَ الْآثَارِ‘ وَانْتَفَیْ مَا خَالَفَہُ .فَھٰذَا وَجْہُ ھٰذَا الْبَابِ مِنْ طَرِیْقِ الْآثَارِ .وَأَمَّا وَجْہُہٗ مِنْ طَرِیْقِ النَّظْرِ‘ فَإِنَّا رَأَیْنَا الْأَطْفَالَ یُغَسَّلُوْنَ بِاِتِّفَاقِ الْمُسْلِمِیْنَ عَلٰی ذٰلِکَ .وَقَدْ رَأَیْنَا الْبَالِغِیْنَ کُلُّ مَنْ غُسِّلَ مِنْہُمْ‘ صُلِّیَ عَلَیْہٖ‘ وَمَنْ لَمْ یُغَسَّلْ مِنَ الشُّہَدَائِ فَفِیْہِ اخْتِلَافٌ .فَمِنَ النَّاسِ مَنْ یُصَلِّیْ عَلَیْہٖ‘ وَمِنْہُمْ مَنْ لَا یُصَلِّیْ عَلَیْہٖ‘ فَکَانَ الْغُسْلُ لَا یَکُوْنُ إِلَّا وَبَعْدَہٗ صَلَاۃٌ‘ وَقَدْ یَکُوْنُ الصَّلَاۃُ وَلَا غُسْلَ قَبْلَہَا .فَلَمَّا کَانَ الْأَطْفَالُ یُغَسَّلُوْنَ کَمَا یُغَسَّلُ الْبَالِغُوْنَ‘ ثَبَتَ أَنْ یُّصَلِّیْ عَلَیْہِمْ‘ کَمَا یُّصَلِّیْ عَلَی الْبَالِغِیْنَ .ھٰذَا ہُوَ النَّظَرُ فِیْ ھٰذَا الْبَابِ‘ وَقَدْ وَافَقَ مَا جَرَتْ عَلَیْہِ عَادَۃُ الْمُسْلِمِیْنَ مِنَ الصَّلَاۃِ عَلَی الْأَطْفَالِ .وَہُوَ قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ‘ وَأَبِیْ یُوْسُفَ‘ وَمُحَمَّدٍ رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی‘ وَقَدْ رُوِیَ ذٰلِکَ عَنْ جَمَاعَۃٍ مِنْ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ.
٢٨٢٨: شریک نے جابر سے اس نے اپنی اسناد سے روایت بیان کی ہے البتہ روایت میں اتنا فرق ہے کہ اس نے سولہ ماہ کہا ہے یا اٹھارہ ماہ کہا ہے۔ یہ آثار بچوں پر نماز جنازہ کو ثابت کرتے ہیں۔ پس روایات میں ظاہری طور پر تضاد ہے۔ تو یہ غور کرنا چاہیے کہ مسلمانوں کا معمول کیا چلا آرہا ہے۔ تاکہ اس پر عمل کیا جائے اور وہ دوسرے حکم کا ناسخ ہو ۔ تو مسلمانوں کی عادت بچوں پر نماز جنازہ کا ادا کرنا ہے۔ پس جو روایات اس کے مطابق ہیں وہ ثابت ہوگئیں اور مخالف روایات کی خود نفی ہوگئی آثار کے پیش نظر اس باب کا حکم یہ ہے باقی نظر و فکر کے لحاظ سے اس کی صورت یہ ہے ہم دیکھتے ہیں کہ مرنے والے بچوں کو بالا تفاق غسل دیا جاتا ہے اور یہ بھی ہمارے سامنے ہے کہ جن بالغین کو غسل دیتے ہیں ان پر نماز جنازہ بھی پڑھتے ہیں۔ اور جن کو غسل نہیں دیا جاتا (جیسے شہداء) تو ان کی نماز جنازہ میں اختلاف ہے پس بعض کی نماز جنازہ پڑھی گئی اور بعض کی نہ پڑھی گئی ۔ پس جہاں غسل ہے اس کے بعد نماز ہے اور بعض اوقات جنازہ تو پڑھتے ہیں۔ مگر اس سے پہلے غسل نہیں ہوتا ۔ تو جب بچوں کو بھی بڑوں کی طرح غسل دیا جاتا ہے۔ تو اس سے ثابت ہوا کہ بالغوں کی طرح ان کی نماز جنازہ بھی پڑھی جائے ‘ اس باب میں قیاس اسی بات کو چاہتا ہے اور مسلمانوں کا معمول بھی اسی طرح ہے۔ چنانچہ امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف اور محمد رحمہم اللہ کا مسلک یہی ہے ‘ اور یہی بات صحابہ کرام (رض) کی ایک جماعت سے بھی مروی ہے ۔
حاصل روایات : ان آثار میں بچوں پر نماز جنازہ کا ثبوت موجود ہے اب ان روایات کا تقاضا تو یہی ہے کہ بچوں پر نماز جنازہ پڑھی جائے۔
امت کے اجماعی عمل سے تائیدی دلیل۔
اب آثار میں متضاد روایات ہونے کی وجہ سے مسلمانوں کے عمل پر نگاہ ڈالی جائے گی جو کہ ان کی عادت ثانیہ کے طور پر منقول چلا آ رہا ہے یہ عمل خود اس بات کا شاہد ہوگا کہ پہلا حکم منسوخ ہے مسلمانوں کی شروع زمانہ سے عادت چلی آرہی ہے کہ وہ بچوں پر نماز جنازہ پڑھتے ہیں پس جو آثار اس کے مطابق ہیں وہ ثابت و قائم ہیں جبکہ دوسرے منتفی ہیں۔
نظر طحاوی (رض) :
مسلمان بالاتفاق مرنے والے چھوٹے بچوں کو غسل و کفن دیتے ہیں اور بالغوں کے متعلق غسل و کفن کے بعد نماز جنازہ سب کے ہاں مسلّم ہے اور شہداء جن کو غسل نہیں دیا جاتا ان کی نماز جنازہ میں اختلاف ہے بعض ان پر نماز کے قائل ہیں جبکہ دوسرے نہیں۔ اور جن کو غسل دیا جاتا ہے ان کی نماز تو بہرحال پڑھی جاتی ہے اگرچہ کبھی نماز پڑھی جاتی ہے اور غسل نہیں دیا جاتا (جیسے شہداء)
حاصل روایات : پس نتیجہ یہ نکلا کہ جب بچوں کو بالغوں کی طرح غسل دیا جاتا ہے تو ان پر نماز بدرجہ اولیٰ ثابت ہونی چاہیے جیسا کہ بالغوں پر نماز پڑھی جاتی ہے۔
پس بتقاضائے نظر بھی بچوں پر نماز کا ثبوت مل گیا امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد رحمہم اللہ کا یہی قول ہے۔

2829

۲۸۲۹ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ‘ قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ‘ عَنْ یُوْنُسَ‘ عَنْ نَافِعٍ أَنَّہٗ حَدَّثَہٗ أَنَّ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ عُمَرَ‘ صَلّٰی فِی الدَّارِ عَلٰی مَوْلُوْدٍ لَہٗ‘ ثُمَّ أَمَرَ بِہٖ، فَحُمِلَ‘ فَدُفِنَ.
٢٨٢٩: نافع نے ابن عمر (رض) کے متعلق بیان فرمایا انھوں نے ایک گھر میں ایک نومولود پر نماز جنازہ پڑھی پھر اس کو اٹھانے اور دفن کرنے کا حکم فرمایا۔

2830

۲۸۳۰ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا یَزِیْدُ بْنُ ہَارُوْنَ‘ قَالَ : أَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَاشِدٍ‘ عَنْ عَطَائٍ ‘ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ‘ قَالَ : اِذَا اسْتَہَلَّ الصَّبِیُّ وُرِثَ‘ وَصُلِّیَ عَلَیْہِ .
٢٨٣٠: عطاء نے جابر بن عبداللہ (رض) سے نقل کیا ہے کہ انھوں نے فرمایا جب بچہ پیدائش کے بعد چیخ مارے تو وہ وارث بھی بن جاتا ہے اور اس پر نماز جنازہ بھی پڑھی جاتی ہے۔
تخریج : ترمذی فی الجنائز باب ٤٣‘ نمبر ١٠٢‘ ابن ماجہ فی الجنائز باب ٢٦‘ نمبر ١٥٠٨۔

2831

۲۸۳۱ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ‘ قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ‘ عَنِ ابْنِ لَہِیْعَۃَ‘ عَنْ یَزِیْدَ بْنِ أَبِیْ حَبِیْبٍ‘ عَنْ مَنْصُوْرِ بْنِ أَبِیْ مَنْصُوْرٍ‘ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَنَّہٗ اُسْتُفْتِیَ فِیْ صَبِیٍّ مَوْلُوْدٍ مَاتَ : أَیُّصَلِّیْ عَلَیْہِ؟ قَالَ : نَعَمْ .
٢٨٣١: ابو منصور نے ابوہریرہ (رض) سے نقل کیا ہے کہ ان سے کسی نے دریافت کیا اگر کوئی بچہ مرجائے تو کیا اس پر نماز جنازہ پڑھی جائے گی انھوں نے کہا جی ہاں۔

2832

۲۸۳۲ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا وَہْبٌ‘ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ‘ عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیْدِ بْنِ الْمُسَیِّبِ‘ قَالَ : رَأَیْتُ أَبَا ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ صَلّٰی عَلٰی مَنْفُوْسٍ لَمْ یَعْمَلْ خَطِیْئَۃً قَطُّ‘ فَسَمِعْتُہٗ یَقُوْلُ (اَللّٰہُمَّ أَعِذْہُ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ)
٢٨٣٢: یحییٰ بن سعید بن المسیّب نے ابوہریرہ (رض) کے متعلق نقل کیا کہ انھوں نے اس جان (نابالغ بچے) پر نماز جنازہ پڑھی جس نے کبھی غلطی نہ کی تھی میں نے سنا کہ وہ اس طرح دعا کر رہے ہیں : اللّٰھم اعذہ من عذاب القبر۔
تخریج : بیہقی ٤؍١٥۔
حاصل آثار : ان روایات سے صحابہ کرام کا نماز جنازہ پڑھنا ثابت ہوتا ہے۔
نوٹ : فصل اول کی روایات حضرت عائشہ (رض) اور سمرہ بن جندب (رض) سے مروی ہیں جبکہ فصل ثانی میں حضرت عائشہ ‘ عبداللہ بن ابی طلحہ ‘ براء بن عازب ‘ مغیرہ بن شعبہ ] کی روایات جنازہ کی نماز کو ثابت کرنے والی ہیں نفی والی روایات مضمون کے اعتبار سے غیر مفصل ہیں جبکہ فصل ثانی کی روایات صریح ہیں نیز تابعین کے آثار اور صحابہ کرام کے اقوال و اعمال سے بھی فصل ثانی کی روایات کا مضمون ثابت ہوتا ہے۔ نظر سے بھی اسی کی معاونت ملتی ہے پس بچے پر نماز جنازہ کا ثبوت بےغبار ہوگیا۔

2833

۲۸۳۳ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ الطَّیَالِسِیُّ‘ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ‘ قَالَ : ثَنَا الْأَسْوَدُ بْنُ شَیْبَانَ‘ قَالَ : ثَنَا خَالِدُ بْنُ سَمِیْرٍ‘ قَالَ : حَدَّثَنِیْ بَشِیْرُ بْنُ نَہِیْکٍ‘ عَنْ بَشِیْرِ بْنِ الْخَصَاصِیَۃِ (أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَأٰی رَجُلًا یَمْشِیْ بَیْنَ الْقُبُوْرِ فِیْ نَعْلَیْنِ‘ فَقَالَ : وَیْحَکَ یَا صَاحِبَ السِّبْتِیَّتَیْنِ أَلْقِ سِبْتِیَّتَیْکَ) .
٢٨٣٣: بشیر بن نہیک نے بشیر بن خصاصیہ (رض) سے نقل کیا ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک آدمی کو دیکھا کہ وہ جوتوں سمیت قبور کے درمیان چل رہا تھا تو آپ نے فرمایا تیرا ناس ہو اسے سبتی نعل والے اپنے جوتے کو اتار دے۔
تخریج : ابو داؤد فی الجنائز باب ٧٤‘ نمبر ٣٢٣٠‘ نسائی فی الجنائز باب ١٠٧‘ ابن ماجہ فی الجنائز باب ٤٦‘ مسند احمد ٥؍٨٣‘ ٨٤‘ نمبر ٢٢٤۔
قبرستان میں جوتوں سمیت چلنے کو امام احمد (رح) اور ظاہریہ نے ممنوع و مکروہ قرار دیا " اور امام ابوحنیفہ ‘ مالک و شافعی رحمہم اللہ کے ہاں اس میں کوئی کراہت نہیں۔
فریق اوّل کا مؤقف اور دلیل : قبرستان میں جوتے سمیت نہ چلنا چاہیے یہ ممنوع اور سخت مکروہ ہے دلیل یہ روایت ہے۔

2834

۲۸۳۴ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ‘ قَالَ : ثَنَا الْحِمَّانِیُّ‘ قَالَ : ثَنَا وَکِیْعٌ‘ عَنِ الْأَسْوَدِ‘ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ إِلٰی ھٰذَا الْحَدِیْثِ‘ فَکَرِہُوا الْمَشْیَ بِالنِّعَالِ بَیْنَ الْقُبُوْرِ. وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ فَقَالُوْا : قَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَّکُوْنَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَمَرَ ذٰلِکَ الرَّجُلَ بِخَلْعِ النَّعْلَیْنِ‘ لَا لِأَنَّہٗ کَرِہَ الْمَشْیَ بَیْنَ الْقُبُوْرِ بِالنِّعَالِ‘ لٰـکِنْ لِمَعْنًی آخَرَ‘ مِنْ قَذَرٍ رَآہٗ فِیْہَا‘ یُقَذِّرُ الْقُبُوْرَ .وَقَدْ رَأَیْنَا رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ صَلّٰی وَعَلَیْہِ نَعْلَاہُ‘ ثُمَّ أُمِرَ بِخَلْعِہِمَا فَخَلَعَہُمَا‘ وَہُوَ یُصَلِّیْ‘ فَلَمْ یَکُنْ ذٰلِکَ عَلٰی کَرَاہَۃِ الصَّلَاۃِ فِی النَّعْلَیْنِ‘ وَلٰکِنَّہٗ لِلْقَذَرِ الَّذِیْ کَانَ فِیْہِمَا .وَقَدْ رُوِیَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا یَدُلُّ عَلَی اِبَاحَۃِ الْمَشْیِ بَیْنَ الْقُبُوْرِ بِالنِّعَالِ .
٢٨٣٤: وکیع نے اسود سے روایت کی پھر اپنی اسناد سے روایت نقل کی ہے۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں کہ بعض لوگوں نے اس روایت کو اختیار کرتے ہوئے جو توں سمیت قبروں کے درمیان چلنے کی ممانعت فرمائی ہے۔ دیگر علماء نے ان سے اختلاف کرتے ہوئے فرمایا کہ ممکن ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس آدمی کو کسی اور وجہ سے جو تا اتار کر قبور کے درمیان چلنے کا حکم دیا ہو مثلاً کوئی گندگی وغیرہ اس کے جوتے کے ساتھ لگی ہو ۔ اس بناء پر نہیں کہ قبرستان میں جو تا اتار کر چلنا چاہیے ۔ ہم دیکھتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جوتے کے ساتھ نماز پڑھا رہے تھے پھر آپ کو اس کے اتارنے کا حکم دیا تو آپ نے جوتے نماز کے دوران ہی اتار دیے۔ یہ اس بناء پر نہیں کہ جوتوں کے ساتھ نماز پڑھنا مکروہ ہے بلکہ چلتے ہوئے کہیں ان کے ساتھ گندگی لگ گئی (جس سے اتارنے کا حکم ہوا) دوسری طرف جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ایسی روایات منقول ہیں جو جوتوں سمیت قبور کے درمیان چلنے کو درست ثابت کرتی ہیں۔
حاصل روایات : ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ قبور کے درمیان جوتے سمیت چلنا سخت ناپسندیدہ ہے آپ نے فوراً جوتا اتارنے کا حکم فرمایا پس قبور کے درمیان چلتے ہوئے جوتے کا استعمال درست نہیں۔
فریق ثانی کا مؤقف : قبور کے درمیان جوتوں سمیت چلنے میں کوئی حرج نہیں دلائل درج ذیل ہیں پہلے سابقہ روایات کا جواب ملاحظہ فرمائیں۔
جواب : جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جس شخص کو جوتے اتارنے کا حکم فرمایا اس کی وجہ امر شرعی نہیں بلکہ دوسری وجہ ہوسکتی ہے یعنی اس کے جوتے میں گندگی لگی ہو جس کی وجہ سے اسے جوتا اتارنے کا حکم فرمایا اور اس کی نظیر وہ روایت ہے جس میں وارد ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جوتے سمیت نماز پڑھ رہے تھے جبرائیل امین (علیہ السلام) نے جوتا اتارنے کا حکم دیا آپ نے اتار دیا جبکہ آپ نماز میں مصروف تھے یہ اس وجہ سے نہیں اتارا بلکہ جوتے سے گندگی چمٹی ہوئی تھی جس کی وجہ سے جوتا اتارا یہاں بھی جوتوں میں نجاست ہوگی جس کی بناء پر آپ نے اتارنے کا حکم فرمایا۔

2835

۲۸۳۵ : حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا آدَم بْنُ أَبِیْ إِیَاسٍ‘ قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلْمَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو‘ عَنْ أَبِیْ سَلْمَۃَ‘ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ‘ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ فَذَکَرَ حَدِیْثًا طَوِیْلًا فِی الْمُؤْمِنِ اِذَا دُفِنَ فِیْ قَبْرِہِ (وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہِ إِنَّہٗ لَیَسْمَعُ خَفْقَ نِعَالِکُمْ حِیْنَ تُوَلُّوْنَ عَنْہُ مُدْبِرِیْنَ) .
٢٨٣٥: ابو سلمہ نے ابوہریرہ (رض) سے نقل کیا انھوں نے مؤمن کو دفن کرنے کے متعلق طویل روایت نقل کی ہے آپ نے ارشاد فرمایا مجھے اس ذات کی قسم ہے جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے بیشک وہ تمہارے جوتوں کی کھٹ کھٹاہٹ کو سنتا ہے جبکہ تم واپس لوٹتے ہو۔
تخریج : بخاری فی الجنائز باب ٦٧‘ مسلم فی الجنۃ نمبر ٧١‘ ابو داؤد فی السنۃ باب ٢٤‘ مسند احمد ٢؍٢٣٣۔

2836

۲۸۳۶ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ‘ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ بْنُ عَطَائٍ ‘ قَالَ : أَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو‘ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .
٢٨٣٦: عبدالوہاب بن عطاء کہتے ہیں کہ ہمیں محمد بن عمرو نے اپنی اسناد سے روایت نقل کی ہے۔

2837

۲۸۳۷ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ‘ قَالَ : ثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حُمَیْدٍ‘ قَالَ : ثَنَا وَکِیْعٌ‘ عَنْ سُفْیَانَ‘ عَنِ السُّدِّیِّ‘ عَنْ أَبِیْہِ‘ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ رَفَعَہُ .مِثْلَہٗ .فَھٰذَا یُعَارِضُ الْحَدِیْثَ الْأَوَّلَ‘ اِذَا کَانَ مَعْنَاہُ‘ عَلٰی مَا حَمَلَہٗ عَلَیْہِ أَہْلُ الْمَقَالَۃِ الْأُوْلٰی .وَلٰـکِنَّا لَا نَحْمِلُہٗ عَلَی الْمُعَارَضَۃِ‘ وَنَجْعَلُ الْحَدِیْثَیْنِ صَحِیْحَیْنِ‘ فَنَجْعَلُ النَّہْیَ الَّذِیْ کَانَ فِیْ حَدِیْثِ بَشِیْرٍ‘ لِلنَّجَاسَۃِ الَّتِیْ کَانَتْ فِی النَّعْلَیْنِ‘ لِئَلَّا یُنَجِّسَ الْقُبُوْرَ‘ کَمَا قَدْ نُہِیَ أَنْ یُتَغَوَّطَ عَلَیْہَا‘ أَوْ یُبَالَ .وَحَدِیْثُ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ یَدُلُّ عَلَی اِبَاحَۃِ الْمَشْیِ بِالنِّعَالِ الَّتِیْ لَا قَذَرَ فِیْہَا بَیْنَ الْقُبُوْرِ .فَھٰذَا وَجْہُ ھٰذَا الْبَابِ‘ مِنْ طَرِیْقِ تَصْحِیْحِ مَعَانِی الْآثَارِ .وَقَدْ جَائَ تِ الْآثَارُ مُتَوَاتِرَۃً عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِمَا قَدْ ذَکَرْنَا عَنْہُ‘ مِنْ صَلَاتِہٖ فِیْ نَعْلَیْہٖ‘ وَمِنْ خَلْعِہِ إِیَّاہُمْ فِیْ وَقْتِ مَا خَلَعَہُمَا لِلنَّجَاسَۃِ الَّتِیْ کَانَتْ فِیْہِمَا‘ وَمِنْ اِبَاحَۃِ النَّاسِ الصَّلَاۃَ فِی النِّعَالِ.
٢٨٣٧: سدی نے اپنے والد سے انھوں نے ابوہریرہ (رض) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔ یہ روایت پہلی روایت کے معارض ہے جب کہ اس کا معنیٰ وہی لیا جائے جو قول اول کے قائلین نے اختیار کیا ہے۔ مگر ہم اس کو معارضہ پر محمول نہیں کرتے بلکہ دونوں روایات کو درست قرار دیتے ہیں۔ پس بشیر (رض) والی روایت کو نعلین کو گندگی سے ملوث ہونے کی حالت پر محمول کرتے ہیں تاکہ قبرستان میں نجاست نہ پھیلے جیسا کہ قبرستان میں بول و براز سے منع کیا گیا ہے اور حضرت ابوہریرہ (رض) والی روایت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ صاف جوتوں کے ساتھ قبرستان میں جایا جاسکتا ہے۔ آثار کے معانی کی تصحیح کی یہی صورت ہے اور نعلین میں نماز پڑھنے سے متعلق جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کثیر روایات وارد ہوئی ہیں اور آپ کا ان کو اتارنا اس نعلین کے ساتھ لگنے والی نجاست کی وجہ سے تھا ورنہ نعلین پاک میں نماز مباح ہے مندرجہ روایات کو ملاحظہ کریں۔
حاصل روایات : یہ روایات پہلی روایات کے معارض ہیں جبکہ ان روایات کا مفہوم وہ لیا جائے جو فریق اوّل نے کہا ہے اور اگر دونوں احادیث میں تطبیق دی جائے کہ حضرت بشیر (رض) والی روایت میں ممانعت کو ان لوگوں سے متعلق کیا جائے جن کے جوتے میں نجاست لگی ہو تاکہ اس سے قبور ملوث نہ ہوں جیسا کہ قبور پر پیشاب و پائخانہ سے منع کیا گیا ہے اور روایت ابوہریرہ (رض) کو صاف جوتے کے ساتھ چلنے کی اباحت پر محمول کیا جائے۔
آثار کے معانی کو سامنے رکھ کر یہ بات ہم نے ذکر کردی۔

2838

۲۸۳۸ : فَمِنْ ذٰلِکَ مَا قَدْ حَدَّثَنَا فَہْدٌ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ غَسَّانَ : قَالَ : ثَنَا زُہَیْرُ بْنُ مُعَاوِیَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ حَمْزَۃَ‘ عَنْ اِبْرَاہِیْمَ‘ عَنْ عَلْقَمَۃَ‘ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ‘ قَالَ : (خَلَعَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَعْلَیْہٖ‘ وَہُوَ یُصَلِّیْ‘ فَخَلَعَ مَنْ خَلْفَہٗ فَقَالَ مَا حَمَلَکُمْ عَلٰی خَلْعِ نِعَالِکُمْ؟ قَالُوْا : رَأَیْنَاکَ خَلَعْتُ فَخَلَعْنَا .فَقَالَ إِنَّ جَبْرَائِیْلُ عَلَیْہِ السَّلَامُ أَخْبَرَنِیْ أَنَّ فِیْ أَحَدِہِمَا قَذَرًا‘ فَخَلَعْتُہُمَا لِذٰلِکَ‘ فَلاَ تَخْلَعُوْا نِعَالَکُمْ) .
٢٨٣٨: علقمہ نے عبداللہ (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے دونوں جوتے نماز کے دوران اتار دیئے تو صحابہ کرام نے بھی اپنے جوتے اتار دیئے۔ (نماز کے بعد) آپ نے فرمایا تم نے اپنے جوتے کیوں اتارے ؟ انھوں نے عرض کیا ہم نے آپ کو جوتے اتارتے دیکھا تو ہم نے بھی اتار دیئے آپ نے فرمایا مجھے جبرائیل (علیہ السلام) نے بتلایا کہ میرے ایک جوتے کے ساتھ نجاست لگی ہے تو میں نے دونوں اس وجہ سے اتار دیئے (کہ معلوم نہیں کہ کون سے جوتے کے ساتھ نجاست ہے) تم اپنے جوتے مت اتارو یعنی تمہیں اپنے جوتے نہ اتارنے چاہیے تھے۔
تخریج : ابو داؤد فی الصلاۃ باب ٨٨‘ نمبر ٦٥٠‘ مسند احمد ٣؍٩٢۔

2839

۲۸۳۹ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ عَقِیْلٍ‘ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ زِیَادٍ‘ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ‘ عَنْ أَبِیْ مَسْلَمَۃَ‘ سَعِیْدِ بْنِ زَیْدٍ الْأَزْدِیِّ‘ قَالَ : (سَأَلْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِکٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَکَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُصَلِّیْ فِی النَّعْلَیْنِ ؟ فَقَالَ : نَعَمْ) .
٢٨٣٩: ابو سلمہ سعید بن یزید ازدی کہتے ہیں کہ میں نے انس بن مالک (رض) سے دریافت کیا کیا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نعلین میں نماز ادا فرماتے تھے ؟ انھوں نے کہا جی ہاں۔
تخریج : بخاری ١؍٥٦‘ مسلم ١؍٢٠٨‘ ترمذی ١؍٩١‘ نسائی ١؍١٢٥۔

2840

۲۸۴۰ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ غَسَّانَ‘ قَالَ : ثَنَا زُہَیْرُ بْنُ مُعَاوِیَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ إِسْحَاقَ‘ عَنْ عَلْقَمَۃَ بْنِ قَیْسٍ وَلَمْ یَسْمَعْہُ مِنْہُ‘ أَنَّ (عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ مَسْعُوْدٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَتٰی أَبَا مُوْسَی الْأَشْعَرِیَّ‘ فَحَضَرَتِ الصَّلَاۃُ .فَقَالَ أَبُوْ مُوْسٰی : تَقَدَّمَ یَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمٰنِ‘ فَإِنَّک أَقْدَمُ سِنًّا‘ وَأَعْلَمُ .فَقَالَ : تَقَدَّمَ أَنْتَ‘ فَإِنَّمَا أَتَیْنَاک فِیْ مَنْزِلِکَ وَمَسْجِدِکَ‘ فَأَنْتَ أَحَقُّ‘ فَتَقَدَّمَ أَبُوْ مُوْسٰی، فَخَلَعَ نَعْلَیْہِ .فَلَمَّا سَلَّمَ قَالَ : مَا أَرَدْتَ إِلَی خَلْعِہِمَا أَبِالْوَادِ الْمُقَدَّسِ طُوًیْ أَنْتَ ؟ لَقَدْ رَأَیْنَا رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُصَلِّیْ فِی الْخُفَّیْنِ وَالنَّعْلَیْنِ) .
٢٨٤٠: ابو اسحاق نے علقمہ سے نقل کیا (اسحاق کا سماع علقمہ سے ثابت نہیں) کہ عبداللہ (رض) ابو موسیٰ اشعری (رض) کے پاس آئے اور نماز کا وقت آگیا تو ابو موسیٰ نے کہا اے ابو عبدالرحمن امامت کراؤ کیونکہ تم زیادہ علم اور زیادہ عمر والے ہو انھوں نے کہا تم آگے بڑھو اس لیے کہ ہم آپ کے ٹھکانے اور نماز کی جگہ میں آئے ہیں اور آپ زیادہ حقدار ہیں تو ابو موسیٰ اشعری آگے بڑے اور انھوں نے اپنے نعل اتارے جب سلام پھیرا تو عبداللہ کہنے لگے تمہارا ان جوتوں کے اتارنے کا کیا مقصد تھا کیا تم طویٰ کی مقدس وادی میں تھے ؟ ہم نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنے خفین اور نعلین سمیت نماز ادا کرتے دیکھا۔
تخریج : ابن ماجہ فی الاقامہ باب ٦٦‘ نمبر ١٠٣٩۔

2841

۲۸۴۱ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوَ الْوَلِیْدِ‘ قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلْمَۃَ‘ عَنْ أَبِیْ نَعَامَۃَ‘ عَنْ أَبِیْ نَضْرَۃَ‘ عَنْ أَبِیْ سَعِیْدٍ الْخُدْرِیِّ‘ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (اِذَا أَتٰی أَحَدُکُمُ الْمَسْجِدَ‘ فَلْیَنْظُرْ فِیْ نَعْلَیْہِ‘ فَإِنْ کَانَ فِیْہِمَا أَذًیْ أَوْ قَذَرٌ‘ فَلْیَمْسَحْہُمَا‘ ثُمَّ لِیُصَلِّ فِیْہِمَا) .
٢٨٤١: ابو نضرہ نے ابو سعید خدری (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب تم مسجد میں آؤ تو اپنے جوتوں کو دیکھ لیا کرو اگر ان میں گندگی چمٹی ہو تو صاف کرلو پھر ان میں نماز پڑھ لو۔
تخریج : مسند احمد ٣؍٩٢۔

2842

۲۸۴۲ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوَ الْوَلِیْدِ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَوَانَۃَ‘ عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ عُمَیْرٍ‘ عَنْ (رَجُلٍ مِنْ بَنِی الْحَارِثِ بْنِ کَعْبٍ‘ قَالَ : کُنْتُ جَالِسًا مَعَ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فَقَالَ رَجُلٌ : یَا أَبَا ہُرَیْرَۃَ أَنْتَ نَہَیْتُ النَّاسَ أَنْ یُّصَلُّوْا فِیْ نِعَالِہِمْ ؟ فَقَالَ : مَا فَعَلْتُ، غَیْر أَنِّیْ وَرَبِّ ھٰذِہِ الْحُرْمَۃِ‘ رَأَیْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صَلّٰی فِیْ ھٰذَا الْمَقَامِ‘ وَأَنَّ نَعْلَیْہِ عَلَیْہِ) .
٢٨٤٢: بنی حارث بن کعب کے ایک آدمی نے بیان کیا کہ میں جناب ابوہریرہ (رض) کے ساتھ بیٹھا تھا تو ایک آدمی کہنے لگا اے ابوہریرہ (رض) کیا تم نے لوگوں کو جوتوں میں نماز پڑھنے سے روکا ہے تو انھوں نے جواب دیا میں نے ایسا نہیں کیا مجھے اس حرمت کے رب کی قسم ہے میں نے خود جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس مقام پر اپنے جوتوں سمیت نماز پڑھتے دیکھا ہے۔
تخریج : ابن ابی شیبہ ٢؍١٧٩‘ عبدالرزاق ١؍٣٨٥‘ مثلہ۔

2843

۲۸۴۳ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ حُذَیْفَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ‘ عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ‘ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ مَنْ سَمِعَ أَبَا ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ یَقُوْلُ : (إِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صَلّٰی فِیْ نَعْلَیْہِ) .
٢٨٤٣: عبدالملک کہتے ہیں کہ مجھے اس نے بتلایا جس نے ابوہریرہ (رض) سے سنا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے نعلین میں نماز ادا فرمائی۔

2844

۲۸۴۴ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ‘ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَعِیْدٍ‘ قَالَ : أَنَا شَرِیْکٌ‘ عَنْ زِیَادٍ الْحَادِیْ، قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ‘ فَذَکَرَ مِثْلَہٗ .
٢٨٤٤: زیاد الحادی کہتے ہیں کہ میں نے ابوہریرہ (رض) سے خود سنا پھر اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔

2845

۲۸۴۵ : حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْجِیْزِیُّ وَصَالِحُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ‘ قَالَا : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ مَسْلَمَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا مُجَمِّعُ بْنُ یَعْقُوْبَ الْأَنْصَارِیُّ‘ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْمَاعِیْلَ‘ قَالَ : (قِیْلَ لِعَبْدِ اللّٰہِ بْنِ أَبِیْ حَبِیْبَۃَ‘ مَا تَذْکُرُ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ؟ قَالَ : رَأَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ صَلّٰی فِیْ نَعْلَیْہِ) .
٢٨٤٥: محمد بن اسماعیل کہتے ہیں کہ عبداللہ بن ابی حبیبہ سے پوچھا گیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی کون سی بات تمہیں یاد ہے انھوں نے کہا میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیکھا کہ آپ نے اپنے نعلین میں نماز ادا کی۔
تخریج : مسند احمد ٤؍٣٣٤۔

2846

۲۸۴۶ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ غَسَّانَ‘ قَالَ : ثَنَا خَالِدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ‘ عَنْ حُسَیْنٍ الْمُعَلِّمِ‘ عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ‘ عَنْ أَبِیْہِ‘ عَنْ جَدِّہٖ (أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ صَلّٰی حَافِیًا وَمُتَنَعِّلًا).
٢٨٤٦: عمرو بن شعیب نے اپنے والد و دادا سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ننگے پاؤں اور جوتے سمیت نماز ادا کی۔
تخریج : ابو داؤد فی الصلاۃ باب ٨٨‘ نمبر ٦٥٣‘ نسائی فی السہو باب ١٠٠‘ ابن ماجہ فی الاقامہ باب ٦٦‘ نمبر ١٠٣٨‘ مسند احمد ٢؍١٧٤‘ ٢٠٦۔

2847

۲۸۴۷ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ حُذَیْفَۃَ‘ عَنْ سُفْیَانَ الثَّوْرِیِّ‘ عَنِ السُّدِّیِّ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ مَنْ سَمِعَ ابْنَ حُرَیْثٍ یَقُوْلُ : (رَأَیْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُصَلِّیْ فِیْ نَعْلَیْنِ مَخْصُوْفَتَیْنِ).
٢٨٤٧: سدی کہتے ہیں کہ مجھے اس نے بتلایا جس نے ابن حریث سے سنا وہ کہتے تھے کہ میں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنے چمڑہ چڑھے ہوئے نعلین میں نماز پڑھتے دیکھا۔
تخریج : ابن ابی شیبہ ٢؍١٧٩۔

2848

۲۸۴۸ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا وَہْبٌ‘ وَأَبُوَ الْوَلِیْدِ‘ قَالَا : ثَنَا شُعْبَۃُ‘ عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ سَالِمٍ فِیْ حَدِیْثِ وَہْبٍ‘ عَنِ ابْنِ عَمْرِو بْنِ أَوْسٍ‘ وَفِیْ حَدِیْثِ أَبِی الْوَلِیْدِ‘ قَالَ : (سَمِعْتُ رَجُلًا جَدُّہُ أَوْسُ بْنُ أَبِیْ أَوْسٍ‘ قَالَ : کَانَ جَدِّیْ یُصَلِّیْ فَیَأْمُرُنِیْ أَنْ أُنَاوِلَہُ نَعْلَیْہٖ‘ فَیَنْتَعِلَ وَیَقُوْلَ : رَأَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُصَلِّیْ فِیْ نَعْلَیْہِ) .
٢٨٤٨: نعمان بن سالم نے حدیث وہب میں عمرو بن اوس اور حدیث ابوالولید میں بیان کیا کہ میں نے اس آدمی سے سنا جس کا دادا اوس بن ابی اوس ہے کہ میرے دادا نماز پڑھنے لگتے تو مجھ سے جوتا منگواتے اور اس کو پہن کر کہتے کہ میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنے جوتوں سمیت نماز پڑھتے دیکھا۔
تخریج : ابن ماجہ فی الاقامہ باب ٦٦‘ نمبر ١٠٣٧۔

2849

۲۸۴۹ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا وَہْبٌ‘ فَذَکَرَ مِثْلَ مَا ذَکَرَ أَبُوْ بَکْرَۃَ‘ عَنْ وَہْبٍ .
٢٨٤٩: ابن مرزوق نے وہب سے پھر ابو بکرہ نے جو وہب سے نقل کیا اسی طرح روایت کی ہے۔
تخریج : ابن ابی شیبہ ٢؍١٢٩۔

2850

۲۸۵۰ : حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا أَسَدٌ‘ قَالَ : ثَنَا قَیْسُ بْنُ الرَّبِیْعِ‘ عَنْ عُمَیْرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ‘ عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ‘ یَعْنِی ابْنَ الْمُغِیْرَۃِ الطَّائِفِیَّ‘ عَنْ أَوْسِ بْنِ أَوْسٍ‘ أَوْ أَوْسِ بْنِ أُوَیْسٍ‘ قَالَ : (أَقَمْت عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نِصْفَ شَہْرٍ‘ فَرَأَیْتُہٗ یُصَلِّیْ وَعَلَیْہِ نَعْلَانِ مُقَابِلَتَانِ).
٢٨٥٠: عبدالملک یعنی ان المغیرہ طائفی نے اوس بن اوس یا اوس بن اویس سے روایت کی ہے کہ میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں نصف ماہ رہا میں نے دیکھا کہ آپ جوتوں سمیت نماز ادا فرما رہے ہیں وہ جوتے تسمہ دار ہیں۔
تخریج : مسند احمد۔

2851

۲۸۵۱ : حَدَّثَنَا اِبْرَاہِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ رَبِیْعَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلْمَۃَ‘ عَنِ الْحَجَّاجِ بْنِ أَرْطَاۃَ‘ عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ‘ عَنْ سَعِیْدِ بْنِ فَیْرُوْزَ‘ عَنْ أَبِیْہِ أَنَّ (وَفْدَ ثَقِیْفٍ قَدِمُوْا عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ قَالُوْا : فَرَأَیْنَاہُ یُصَلِّیْ‘ وَعَلَیْہِ نَعْلَانِ مُقَابِلَتَانِ) .فَلَمَّا کَانَ دُخُوْلُ الْمَسَاجِدِ بِالنِّعَالِ غَیْرَ مَکْرُوْہٍ‘ وَکَانَتِ الصَّلَاۃُ بِہَا أَیْضًا غَیْرَ مَکْرُوْہَۃٍ‘ کَانَ الْمَشْیُ بِہَا بَیْنَ الْقُبُوْرِ أَحْرٰی أَنْ لَا یَکُوْنَ مَکْرُوْہًا .وَھٰذَا قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ‘ وَأَبِیْ یُوْسُفَ‘ وَمُحَمَّدٍ رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی .
٢٨٥١: عبدالملک نے سعید بن فیروز سے انھوں نے اپنے والد سے نقل کیا کہ وفد ثقیف جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آیا اور کہنے لگا کہ ہم نے آپ کو دو تسمہ دار جوتوں میں نماز پڑھتے دیکھا۔ جب مساجد میں جوتوں کے ساتھ داخلہ مکروہ نہیں اور جوتوں کے ساتھ نماز بھی مکروہ نہیں تو ان جوتوں کے ساتھ قبور کے درمیان چلنا زیادہ مناسب ہے کہ مکروہ نہ ہو ۔ یہ امام ابوحنیفہ ابو یوسف ‘ محمد رحمہم اللہ کا قول ہے۔
تخریج : المعجم الکبیر ١؍٢١٩۔
حاصل روایات : ان تمام روایات میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرض و نفل نماز نعلین سمیت پڑھنا ثابت ہو رہا ہے تو اس میں کوئی کراہت کا شائبہ نہیں اور مسجد میں جوتوں سمیت داخل ہونا بھی درست ہے تو قبور کے درمیان چلنا بدرجہ اولیٰ درست اور غیر ممنوع اور غیر مکروہ ہوگا۔
یہ امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد رحمہم اللہ کا قول ہے۔
لغات : : نعلین سبتیین۔ سبت مقام کے بنے ہوئے جوتے۔ نعلین مخصوفین۔ دوہرے چمڑے والا جوتا۔ نعلان مقابلتان۔ تسمہ دار جوتے۔
نوٹ : اس باب میں فریق اوّل کی تو صرف ایک روایت حضرت شعبہ (رض) والی پیش کی گئی جو کہ محتمل ہے اور اس کے بالمقابل ابوہریرہ (رض) والی روایت واضح ہے مزید دس صحابہ کی روایت جوتوں سمیت نماز اور مسجد میں داخلے کو ثابت کر رہی ہیں تو قبرستان میں چلنا کوئی مسجد سے اعلیٰ نہیں کہ جو ناجائز ہو اور مسجد میں تو درست ہو پس یہ باب مکروہ تحریمی اور اس کے بالمقابل بلاکراہت اباحت کا باب ہے۔
امام حسن بصری (رح) اور سعید بن المسیّب کے ہاں رات کو دفن مکروہ ہے " جبکہ تمام ائمہ کے ہاں میت کو رات کے وقت دفن میں کوئی کراہت نہیں۔
فریق اوّل کا مؤقف اور دلیل : رات کو دفن کرنا مکروہ ہے جیسا کہ ان روایات میں موجود ہے۔

2852

۲۸۵۲ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا مُسْلِمُ بْنُ اِبْرَاہِیْمَ‘ قَالَ : ثَنَا مُبَارَکُ بْنُ فَضَالَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا نَصْرُ بْنُ رَاشِدٍ‘ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ‘ أَنَّ (رَجُلًا مِنْ بَنِیْ عُذْرَۃَ‘ دُفِنَ لَیْلًا‘ وَلَمْ یُصَلِّ عَلَیْہِ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَنَہٰی عَنِ الدَّفْنِ لَیْلًا) .
٢٨٥٢: نصر بن راشد نے جابر بن عبداللہ (رض) سے نقل کیا کہ بنی عذرہ کا ایک آدمی رات کو دفن کردیا گیا اور اس پر جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نماز جنازہ نہ پڑھی تو آپ نے رات کو دفن سے روک دیا۔
تخریج : ابن ماجہ فی الجنائز باب ٣٠‘ نمبر ١٥٢١۔

2853

۲۸۵۳ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ‘ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عِمْرَانَ‘ قَالَ : حَدَّثَنِیْ أَبِیْ‘ قَالَ : حَدَّثَنِی ابْنُ أَبِیْ لَیْلٰی‘ عَنْ نَافِعٍ‘ عَنِ ابْنِ عُمَرَ‘ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : (لَا تَدْفِنُوْا مَوْتَاکُمْ بِاللَّیْلِ) .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَکَرِہَ قَوْمٌ دَفْنَ الْمَوْتٰی فِی اللَّیْلِ‘ وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِھٰذَا الْحَدِیْثِ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ‘ فَلَمْ یَرَوْا بِالدَّفْنِ فِی اللَّیْلِ بَأْسًا .وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ۔
٢٨٥٣: نافع نے ابن عمر (رض) سے روایت کی کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اپنے مردوں کو رات کے وقت دفن مت کرو۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں بعض علماء نے میت کو رات میں دفن کرنے کو مکروہ قرار دیا اور انھوں نے اس روایت کو دلیل بنایا ۔ دیگر علماء نے ان سے اختلاف کیا ان کا ہاں کو دفن میں کچھ بھی ہرج نہیں ان کی دلیل مندرجہ روایات ہیں۔
تخریج : ابن ماجہ فی الجنائز باب ٣٠‘ نمبر ١٥١٩۔
حاصل روایات : ان روایات سے ثابت ہو رہا ہے کہ میت کی رات کو تدفین ممنوع و مکروہ ہے۔

2854

۲۸۵۴ : بِمَا حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ أَحْمَدَ‘ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُسْلِمٍ‘ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِیْنَارٍ‘ عَنْ جَابِرٍ قَالَ : (رُوئِیَ فِی الْمَقْبَرَۃِ لَیْلًا نَارٌ‘ فَإِذَا النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ قَبْرٍ‘ وَہُوَ یَقُوْلُ : نَاوِلُوْنِیْ صَاحِبَکُمْ) .
٢٨٥٤: عمرو بن دینار نے جابر (رض) سے نقل کیا کہ رات کو قبرستان میں آگ کی روشنی نظر آئی اچانک دیکھنے پر معلوم ہوا کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قبر میں کھڑے ہیں اور فرما رہے ہیں اپنے ساتھی کو مجھے پکڑاؤ۔
تخریج : ترمذی فی الجنائز باب ٦٣‘ نمبر ١٠٥٧۔

2855

۲۸۵۵ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ نُعَیْمٍ‘ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُسْلِمٍ الطَّائِفِیُّ‘ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِیْنَارٍ‘ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ‘ أَوْ قَالَ : سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللّٰہِ مِثْلَہٗ .وَزَادَ (ہُوَ الرَّجُلُ الَّذِیْ کَانَ یَرْفَعُ صَوْتَہٗ بِالْقُرْآنِ) .فَفِیْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ اِبَاحَۃُ الدَّفْنِ فِی اللَّیْلِ .وَیَجُوْزُ أَنْ یَّکُوْنَ النَّہْیُ الَّذِیْ ذَکَرْنَا فِی الْبَابِ الْأَوَّلِ‘ لَیْسَ مِنْ طَرِیْقِ کَرَاہَۃِ الدَّفْنِ بِاللَّیْلِ‘ وَلٰـکِنْ لِاِرَادَۃِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ یُصَلِّیَ عَلٰی جَمِیْعِ مَوْتَی الْمُسْلِمِیْنَ‘ لِمَا یَکُوْنُ لَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ مِنَ الْفَضْلِ وَالْخَیْرِ بِصَلَاتِہِ عَلَیْہِمْ .
٢٨٥٥: عمرو بن دینار کہتے ہیں کہ مجھے جابر بن عبداللہ نے بتلایا یا میں نے جابر سے سنا ہے پھر روایت اسی طرح نقل کی البتہ یہ اضافہ ہے کہ وہ وہی شخص تھا جو بلند آواز سے قرآن پڑھتا تھا۔ اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ رات میں دفن مباح ہے یہ کہنا ممکن ہے کہ اول میں مذکورہ روایت میں رات کو دفن کی کراہت نہ ہو۔ بلکہ مقصد یہ ہو مسلمان مرنے والوں پر نماز جنازہ پڑھنے کا ارادہ لوگوں کے سامنے ظاہر کیا جائے کیونکہ آپ کی نماز جنازہ ان کے لیے اضافہ خیر و فضیلت کا باعث تھی۔
جواب روایت (١): دفن کی ممانعت والی روایت میں دفن کی ممانعت کراہت تدفین کی وجہ سے نہیں بلکہ آپ کی طبیعت میں یہ بات تھی کہ تمام اموات کی نماز جنازہ آپ خود ادا فرمائیں کیونکہ اس میں جو خیروبرکت ہے وہ اور کسی کی نماز جنازہ میں نہیں ہے جیسا فرمایا ان صلاتک سکن لہم آپ کی دعا ان کے سکون و اطمینان کا باعث ہے۔

2856

۲۸۵۶ : فَإِنَّہٗ حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ یَحْیَی‘ قَالَ : ثَنَا ہُشَیْمٌ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ حَکِیْمٍ الْأَنْصَارِیِّ‘ عَنْ خَارِجَۃَ بْنِ زَیْدِ بْنِ ثَابِتٍ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : (لَا أَعْرِفَنَّ أَحَدًا مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ مَاتَ إِلَّا آذَنْتُمُوْنِیْ لِلصَّلَاۃِ عَلَیْہٖ‘ فَإِنَّ صَلَاتِیْ عَلَیْہِمْ رَحْمَۃٌ) .
٢٨٥٦: عثمان بن حکیم انصاری نے خارجہ بن زید بن ثابت (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم مجھے ہر فوت ہونے والے مسلمان کی اطلاع دو تاکہ میں اس پر نماز جنازہ پڑھوں میری نماز ان کے لیے رحمت ہے۔
تخریج : نسائی فی الجنائز باب ٩٤‘ ابن ماجہ فی الجنائز باب ٣٢‘ مسند احمد ٤؍٣٨٨۔

2857

۲۸۵۷ : وَکَمَا حَدَّثَنَا فَہْدٌ‘ قَالَ : ثَنَا الْحِمَّانِیُّ‘ قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَیْدٍ‘ عَنْ ثَابِتٍ‘ عَنْ أَبِیْ رَافِعٍ‘ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ (عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہٗ دَخَلَ الْمَقْبَرَۃَ فَصَلّٰی عَلٰی رَجُلٍ بَعْدَمَا دُفِنَ وَقَالَ : مُلِئَتْ ھٰذِہِ الْمَقْبَرَۃُ نُوْرًا بَعْدَ أَنْ کَانَتْ مُظْلِمَۃً عَلَیْہِ) .فَیَکُوْنُ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَرَادَ بِنَہْیِہِ عَنْ دَفْنِ الْمَوْتٰی فِی اللَّیْلِ‘ لِیَکُوْنَ ہُوَ الَّذِیْ یُصَلِّیْ عَلَیْہِمْ‘ فَیُصِیْبُوْنَ بِصَلَاتِہِ مَا وَصَفْنَا مِنَ الْفَصْلِ .وَقَدْ قِیْلَ : إِنَّہٗ إِنَّمَا نَہٰی عَنْ ذٰلِکَ لِمَعْنًی غَیْرِ ھٰذَا .
٢٨٥٧: ابو رافع نے ابوہریرہ (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کیا ہے آپ قبرستان میں داخل ہوئے اور وہاں ایک آدمی کی قبر پر دفن کے بعد نماز جنازہ پڑھی اور فرمایا یہ قبر اس کے لیے روشنی سے بھر دی گئی اس سے پہلے وہ اندھیر تھی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو رات کے وقت مردوں کو دفن سے اس لیے منع فرمایا تاکہ آپ خود ان پر جنازہ پڑھیں اور آپ کے نماز پڑھنے سے ان کو سعادت میسر ہو اور یہ بھی کیا گیا کہ یہ ممانعت دفن کسی اور وجہ سے تھی۔
تخریج : مسلم فی الجنائز نمبر ٧١۔
حاصل روایات : اس سے ثابت ہوگیا کہ ممانعت رات کے وقت دفن کی اس لیے فرمائی تاکہ کوئی میت آپ کی نماز جنازہ سے محروم نہ رہ جائے اور اس نماز جنازہ سے ان کو خوش نصیبی میسر ہو۔
جواب نمبر 2: کچھ لوگ اپنی اموات کو اچھی طرح کفن نہ دیتے تھے اور رات کو جیسے کیسے ہوتا دفن کردیتے تو آپ نے رات کے وقت دفن کی ممانعت فرما دی تاکہ ان لوگوں کی غلط حرکت کا خاتمہ ہو۔ جیسا کہ اس روایت میں ہے۔

2858

۲۸۵۸ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ حُمْرَانَ‘ عَنْ أَشْعَثَ‘ عَنِ الْحَسَنِ‘ (أَنَّ قَوْمًا کَانُوْا یُسِیْئُوْنَ أَکْفَانَ مَوْتَاہُمْ‘ فَیَدْفِنُوْنَہُمْ لَیْلًا‘ فَنَہٰی رَسُوْلُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ دَفْنِ اللَّیْلِ) .فَأَخْبَرَ الْحَسَنُ أَنَّ النَّہْیَ عَنِ الدَّفْنِ لَیْلًا إِنَّمَا کَانَ لِھٰذِہِ الْعِلَّۃِ‘ لَا لِأَنَّ اللَّیْلَ یُکْرَہُ الدَّفْنُ فِیْہِ .وَقَدْ رُوِیَ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ نَحْوًا مِنْ ذٰلِکَ .
٢٨٥٨: اشعث نے حسن (رح) سے روایت کی کہ کچھ لوگ اپنے اموات کے کفن اچھے طریقہ سے نہ دیتے تھے اور اسی طرح میت کو رات کے وقت دفن کر کے پیچھا چھڑاتے تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے رات کی تدفین سے ممانعت کردی۔ حسن (رح) نے بتلایا کہ رات کے وقت دفن سے ممانعت اس وجہ سے تھی اس بناء پر نہیں کہ رات کو دفن میں کچھ کراہت ہے اور جابر بن عبداللہ (رض) سے اسی طرح کی روایت آئی ہے۔
حاصل روایات : کہ رات کو تدفین کی ممانعت کا سبب یہ تھا اس وجہ سے نہیں کہ رات کو تدفین ممنوع و مکروہ ہے۔

2859

۲۸۵۹ : حَدَّثَنَا رَوْحٌ ہُوَ ابْنُ الْفَرَجِ‘ قَالَ : ثَنَا عَمْرُو بْنُ خَالِدٍ‘ قَالَ : ثَنَا ابْنُ لَہِیْعَۃَ‘ عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ ابْنِ أَبِیْ جَعْفَرٍ‘ عَنِ الزُّبَیْرِ‘ عَنْ جَابِرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : (خَطَبَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَوْمًا فَذَکَرَ رَجُلًا مِنْ أَصْحَابِہِ قُبِضَ‘ فَکُفِّنَ غَیْرَ طَائِلٍ‘ وَدُفِنَ لَیْلًا‘ فَزَجَرَ أَنْ یُّقْبَرَ رَجُلٌ لَیْلًا‘ لِکَیْ یُصَلِّیَ عَلَیْہِ إِلَّا أَنْ یُضْطَرَّ إِلٰی ذٰلِکَ وَقَالَ : اِذَا وَلِیَ أَحَدُکُمْ أَخَاہُ فَلْیُحْسِنْ کَفَنَہٗ) .فَجَمَعَ فِیْ ھٰذَا- یَعْنِی الْحَدِیْثَ - الْعِلَّتَیْنِ اللَّتَیْنِ قِیْلَ إِنَّ النَّہْیَ کَانَ مِنْ أَجَلِہِمَا‘ فَلاَ بَأْسَ بِالصَّلَاۃِ عَلَی الْمَوْتٰی بِاللَّیْلِ وَدَفْنِہِمْ فِیْہِ أَیْضًا .وَھٰذَا قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ‘ وَأَبِیْ یُوْسُفَ‘ وَمُحَمَّدٍ رَحِمَہُ اللّٰہُ تَعَالٰی. وَقَدْ فُعِلَ ذٰلِکَ بِرَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَدُفِنَ بِاللَّیْلِ .
٢٨٥٩: زبیر نے جابر (رض) سے نقل کیا کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک دن خطبہ دیا اور ایک صحابہ کا تذکرہ ہوا جنہوں نے وفات پائی اور ان کو اچھی طرح کفن نہیں دیا گیا اور رات ہی کو دفن کردیا گیا آپ نے اس بات پر ڈانٹا کہ رات کو دفن کیا جائے تاکہ اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے ہاں کوئی مجبوری ہو تو الگ بات ہے آپ نے فرمایا جب تم میں سے کوئی اپنے بھائی کا ذمہ لے تو اس کو اچھے انداز سے کفن دے۔ اس روایت وہ دونوں علتیں جمع کردی گئیں جن کی بناء پر ممانعت کہی جاتی ہے۔ پس رات کے وقت میت پر نماز میں کچھ حرج نہیں اسی طرح دفن میں بھی۔ یہ امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد رحمہم اللہ کا قول ہے۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تدفین رات کے وقت میں ہوئی۔
تخریج : مسلم فی الجنائز نمبر ٤٩۔
اس روایت میں ممانعت کی دونوں وجوہ کو اپنے اندر جمع کردیا ہے اس سے ثابت ہوگیا کہ میت پر نہ تو نماز جنازہ میں رات کے وقت کچھ حرج ہے اور نہ ہی ان کے دفن میں کوئی شرعی قباحت پائی جاتی ہے۔
یہی قول امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد رحمہم اللہ کا ہے۔

2860

۲۸۶۰ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ‘ قَالَ : ثَنَا یُوْسُفُ بْنُ بُہْلُوْلٍ‘ قَالَ : ثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ‘ عَنْ فَاطِمَۃَ بِنْتِ مُحَمَّدٍ‘ عَنْ عَمْرَۃَ بِنْتِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ‘ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ : مَا عَلِمْنَا بِدَفْنِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حَتَّی سَمِعْنَا صَوْتَ الْمَسَاحِیْ فِیْ آخِرِ اللَّیْلِ اللَّیْلَۃَ الْأَرْبِعَائَ .وَھٰذَا بِحَضْرَۃِ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَا یُنْکِرُہٗ أَحَدٌ مِنْہُمْ .فَدَلَّ ذٰلِکَ عَلٰی أَنَّ مَا کَانَ مِنْ نَہْیِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنِ الدَّفْنِ لَیْلًا إِنَّمَا کَانَ لِعَارِضٍ‘ لَا لِأَنَّ اللَّیْلَ یُکْرَہُ الدَّفْنُ فِیْہِ اِذَا لَمْ یَکُنْ ذٰلِکَ لِعَارِضٍ .وَقَدْ قَالَ عُقْبَۃُ بْنُ عَامِرٍ : (ثَلاَثُ سَاعَاتٍ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَنْہَانَا أَنْ نُصَلِّیَ فِیْہِنَّ‘ وَأَنْ نَقْبُرَ فِیْہِنَّ مَوْتَانَا : حِیْنَ تَطْلُعُ الشَّمْسُ حَتّٰی تَرْتَفِعَ‘ وَحِیْنَ یَقُوْمُ قَائِمُ الظَّہِیْرَۃِ حَتّٰی یَمِیْلَ‘ وَحِیْنَ تَضِیْفُ الشَّمْسُ لِلْغُرُوْبِ حَتّٰی تَغْرُبَ) وَقَدْ ذَکَرْنَا ذٰلِکَ بِإِسْنَادِہٖ فِیْمَا تَقَدَّمَ مِنْ کِتَابِنَا ھٰذَا .فَدَلَّ ذٰلِکَ أَنَّ مَا سِوٰی ھٰذِہِ الْأَوْقَاتِ بِخِلَافِہَا فِی الصَّلَاۃِ عَلَی الْمَوْتٰی وَدَفْنِہِمْ فِی الْکَرَاہَۃِ .
٢٨٦٠: عمرہ بنت عبدالرحمن نے حضرت عائشہ (رض) سے روایت کی ہے کہ ہمیں دفن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا علم نہ ہوا یہاں تک کہ ہم نے کدالوں کی آوازیں بدھ کی رات کے آخری حصہ میں سنیں۔ یہ تمام عمل صحابہ کرام (رض) کی موجودگی میں ہوا ۔ ان میں سے کسی نے بھی انکار نہ کیا ۔ اس سے یہ دلالت مل گئی کہ رات کو دفن کی ممانعت والا ارشاد کسی عارضہ کی بناء پر تھا ۔ یہ وجہ نہ بھی کہ رات کو دفن میں کچھ قباحت ہے جب کہ وہ عارضہ نہ ہو ۔ حضرت عقبہ بن عامر (رض) نے بتلایا کہ تین اوقات ہیں ‘ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان میں ہمیں نماز سے منع فرمایا اور اس سے بھی منع فرمایا کہ ہم ان اوقات میں اپنے مردوں کو دفن کریں : جب کہ سورج طلوع ہو رہا ہو یہاں تک کہ وہ بلند نہ ہوجائے ۔ ! دوپہر کا وقت ہو یہاں تک کہ ڈھل جائے۔ " سورج غروب ہو رہا ہو یہاں تک کہ مکمل غروب ہوجائے ۔ اس روایت کو اسناد کے ساتھ اپنی اسی کتاب میں ذکر آئے ۔ اس سے یہ دلالت مل گئی کہ ان اوقات کے علاوہ اوقات میں میت پر نماز و تدفین میں کراہت نہیں۔
تخریج : ابن ابی شیبہ ٣؍٣٢‘ مسلم ابو داؤد ترمذی ابن ماجہ اخرجہ۔
یہ دفن کا معاملہ تمام صحابہ کرام کی موجودگی میں ہوا اس پر کسی نے نکیر نہیں کی اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ رات کو دفن کی ممانعت کسی عارضہ سے تھی اس بناء پر نہیں کہ رات کو دفن کرنا ممنوع ہے اگر اس کو عارضہ کی وجہ سے تسلیم نہ کریں تو عقبہ بن عامر (رض) کی روایت موجود ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس میں ہمیں نماز پڑھنے ‘ میت کو دفن کرنے سے منع فرمایا وہ اوقات یہ ہیں طلوع آفتاب کے وقت جب تک کہ وہ بلند نہ ہوجائے اور دوپہر کے وقت جب تک ڈھل نہ جائے جب کہ غروب ہو رہا ہو یہاں تک کہ مکمل طور پر غروب نہ ہوجائے۔
تخریج : یہ روایت مسلم فی المسافرین ٢٩٣‘ ابو داؤد نمبر ٣١٩٢‘ نسائی فی المواقیت باب ٣١‘ ترمذی فی الجنائز باب ٤١‘ ابن ماجہ ١٥١٩‘ دارمی باب ١٤٢‘ مسند احمد ٤؍١٥٢۔
یہ روایت دلالت کرتی ہیں کہ ان کے علاوہ اوقات میں موتیٰ پر نماز اور دفن میں کوئی کراہت نہیں اور رات تو ان کے علاوہ اوقات سے ہے۔

2861

۲۸۶۱ : وَقَدْ حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ الْفَرَجِ‘ قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ بُکَیْرٍ‘ قَالَ : حَدَّثَنِی اللَّیْثُ‘ عَنْ عُقَیْلٍ ح .
٢٨٦١: عبداللہ بن بکیر نے لیث سے انھوں نے عقیل سے روایت نقل کی ہے۔

2862

۲۸۶۲ : وَحَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوٗدَ‘ قَالَ : ثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ الضَّیْفِ‘ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ‘ عَنْ مَعْمَرٍ‘ قَالَا جَمِیْعًا‘ عَنِ الزُّہْرِیِّ‘ عَنْ عُرْوَۃَ‘ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ : دَفَنَ عَلِیُّ بْنُ أَبِیْ طَالِبٍ فَاطِمَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا لَیْلًا .
٢٨٦٢: زہری نے عروہ عن عائشہ (رض) سے نقل کیا کہ علی (رض) نے فاطمہ (رض) کو رات کے وقت دفن کیا۔
تخریج : مسلم فی الجہاد نمبر ٥٢۔

2863

۲۸۶۳ : وَحَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ مَرْزُوْقٍ‘ وَابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ‘ قَالَا : ثَنَا أَبُوْ صَالِحٍ‘ قَالَ : حَدَّثَنِی اللَّیْثُ‘ عَنْ عُقَیْلٍ‘ عَنِ الزُّہْرِیِّ‘ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .فَھٰذَا عَلِیٌّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ لَمْ یَرُ بِالدَّفْنِ فِی اللَّیْلِ بَأْسًا وَلَمْ یُنْکِرْ ذٰلِکَ أَبُوْ بَکْرٍ‘ وَعُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا وَلَا أَحَدٌ مِنْ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .
٢٨٦٣: لیث نے عقیل عن زہری پھر انھوں نے اپنی سند سے روایت نقل کی ہے۔ یہ حضرت علی (رض) ہیں جو رات کے وقت تدفین میں کوئی حرج خیال نہیں کرتے اور اس پر حضرت ابوبکر و عمر (رض) اور نہ ان کے علاوہ کسی نے اس پر اعتراض کیا۔

2864

۲۸۶۴ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا حَجَّاجُ بْنُ الْمِنْہَالِ‘ قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلْمَۃَ‘ عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ عَنْ أَبِیْہِ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ : دُفِنَ أَبُوْ بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ لَیْلًا .
٢٨٦٤: عروہ نے عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ ابوبکر (رض) کو رات کے وقت دفن کیا گیا۔
تخریج : ابن ابی شیبہ ٣؍٣٢۔

2865

۲۸۶۵ : وَحَدَّثَنَا بَکْرُ بْنُ إِدْرِیْسَ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ‘ قَالَ : ثَنَا مُوْسَی بْنُ عَلِیٍّ‘ قَالَ : سَمِعْتُ أَبِیْ عَنْ عُقْبَۃَ أَنَّ رَجُلًا سَأَلَہٗ أَیُقْبَرُ بِاللَّیْلِ؟ فَقَالَ : نَعَمْ‘ قُبِرَ أَبُوْ بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ بِاللَّیْلِ .فَلاَ نَرٰی بِالدَّفْنِ لَیْلًا بَأْسًا .وَہُوَ قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ‘ وَأَبِیْ یُوْسُفَ‘ وَمُحَمَّدٍ رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی .
٢٨٦٥: موسیٰ بن علی کہتے ہیں کہ میں نے اپنے والد سے عقبہ کے حوالہ سے سنا کہ ایک آدمی نے ان سے دریافت کیا کیا رات کو دفن کیا جائے گا ؟ انھوں نے کہا۔ جی ہاں۔ ابوبکر (رض) کو رات کے وقت دفن کیا گیا۔ ہم رات کے وقت دفن میں کچھ حرج خیال نہیں کرتے اور یہی امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد رحمہم اللہ کا قول ہے۔
تخریج : ابن ابی شیبہ ٣؍٣١۔
حاصل روایات : یہ علی مرتضیٰ (رض) اور دیگر صحابہ کرام کا عمل ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ رات کو دفن کرنے میں کوئی سی کراہت بھی نہیں یہی امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد رحمہم اللہ کا قول ہے۔
نوٹ : اس باب میں ثابت کیا کہ فریق اوّل کی رایات معلل ہیں اور اس کے علاوہ فریق ثانی کی روایات موضوع کو صراحۃً ثابت کرتی ہیں اور عمل صحابہ اس پر شاہد ہے پس رات کی تدفین میں کچھ قباحت نہیں یہ باب بھی نظر طحاوی (رح) سے خالی ہے۔

2866

۲۸۶۶ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ‘ قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ حَسَّانَ‘ قَالَ : ثَنَا صَدَقَۃُ بْنُ خَالِدٍ‘ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ یَزِیْدَ بْنِ جَابِرٍ‘ عَنْ بِشْرِ بْنِ عُبَیْدِ اللّٰہِ‘ عَنْ أَبِیْ إِدْرِیْسَ الْخَوْلَانِیِّ‘ عَنْ وَاثِلَۃَ بْنِ الْأَسْقَعِ‘ عَنْ أَبِیْ مَرْثَدٍ الْغَنَوِیِّ‘ قَالَ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ (لَا تُصَلُّوْا إِلَی الْقُبُوْرِ‘ وَلَا تَجْلِسُوْا عَلَیْہَا) .
٢٨٦٦: واثلہ بن اسقع نے ابو مرثد غنوی (رض) سے نقل کیا کہ میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے سنا قبور کی طرف نماز مت پڑھو اور نہ ان پر بیٹھو۔
تخریج : مسلم فی الجنائز نمبر ٩٧‘ ٩٨‘ ابو داؤد فی الجنائز باب ٧٣‘ نمبر ٣٢٢٩‘ ترمذی فی الجنائز باب ٥٧‘ نمبر ١٠٥٠‘ نسائی فی القبلہ باب ١١۔

2867

۲۸۶۷ : حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ الْفَرَجِ‘ قَالَ : ثَنَا حَامِدُ بْنُ یَحْیٰی‘ قَالَ : ثَنَا الْوَلِیْدُ بْنُ مُسْلِمٍ‘ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ یَزِیْدَ بْنِ جَابِرٍ‘ أَنَّہٗ سَمِعَ بِشْرَ بْنِ عُبَیْدِ اللّٰہِ الْحَضْرَمِیَّ‘ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .
٢٨٦٧: عبدالرحمن بن یزید بن جابر نے بشر بن عبیداللہ الحضرمی سے سنا پھر انھوں نے اپنی سند سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

2868

۲۸۶۸ : حَدَّثَنَا بَحْرُ بْنُ نَصْرٍ‘ قَالَ : ثَنَا ابْنُ بَکْرٍ‘ قَالَ : حَدَّثَنِیْ عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ یَزِیْدَ بْنِ جَابِرٍ‘ عَنْ بِشْرِ أَنَّہٗ سَمِعَ وَاثِلَۃَ‘ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .
٢٨٦٨: عبدالرحمن بن یزید نے بشر سے پھر انھوں نے اپنی سند سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

2869

۲۸۶۹ : حَدَّثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ خُشَیْشٍ‘ قَالَ : ثَنَا عُبَیْدُ اللّٰہِ بْنُ مُحَمَّدٍ التَّیْمِیُّ‘ قَالَ : سَمِعْتُ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ الْمُبَارَکِ یَقُوْلُ : ثَنَا عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ یَزِیْدَ بْنِ جَابِرٍ‘ قَالَ : سَمِعْتُ بِشْرَ بْنَ عُبَیْدِ اللّٰہِ یَقُوْلُ : سَمِعْتُ أَبَا إِدْرِیْسَ الْخَوْلَانِیَّ یَقُوْلُ : سَمِعْتُ وَاثِلَۃَ بْنَ الْأَسْقَعِ یَقُوْلُ : سَمِعْتُ أَبَا مَرْثَدٍ الْغَنَوِیَّ یَقُوْلُ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ ذٰلِکَ .
٢٨٦٩: بشر نے ابو ادریس خولانی کو کہتے سنا کہ میں نے واثلہ بن اسقع کو کہتے سنا ہے کہ ابو مرثد غنوی کہا کرتے تھے کہ میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس طرح فرماتے سنا ہے۔

2870

۲۸۷۰ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ‘ قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ بُکَیْرٍ‘ عَنِ ابْنِ لَہِیْعَۃَ‘ عَنْ یَزِیْدَ بْنِ أَبِیْ حَبِیْبٍ‘ عَنْ بَکْرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ‘ عَنِ النَّضْرِ بْنِ عُبَیْدِ اللّٰہِ السُّلَمِیِّ‘ ثُمَّ الْأَنْصَارِیِّ‘ عَنْ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ‘ قَالَ : (رَآنِیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلٰی قَبْرٍ فَقَالَ : اَنْزِلْ عَنِ الْقَبْرِ‘ لَا تُؤْذِ صَاحِبَ الْقَبْرِ‘ فَلاَ یُؤْذِیْکَ) .
٢٨٧٠: نضر بن عبیداللہ سلمی ثم الانصاری نے عمرو بن حزم (رض) سے روایت کی ہے کہ مجھے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک قبر پر بیٹھا دیکھا تو فرمایا قبر والے کو مت ایذاء دو اور نہ یہ تمہیں ایذا پہنچائے۔
تخریج : مسلم فی الجنائز نمبر ٩٤‘ ترمذی فی الجنائز باب ٥٨‘ نمبر ١٠٥٢‘ نسائی فی الجنائز باب ٩٦؍٩٨‘ ابن ماجہ فی الجنائز باب ٤٣‘ مسند احمد ٣؍٢٩٥۔

2871

۲۸۷۱ : حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ‘ قَالَ : ثَنَا أَسَدٌ‘ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَازِمٍ‘ عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ‘ عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ‘ عَنْ جَابِرِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : (نَہٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ تَجْصِیْصِ الْقُبُوْرِ‘ وَالْکِتَابَۃِ عَلَیْہَا‘ وَالْجُلُوْسِ عَلَیْہَا‘ وَالْبِنَائِ عَلَیْہَا) .
٢٨٧١: ابوالزبیر نے جابر (رض) سے روایت کی کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قبور کو چونا گچ کرنے اور ان پر لکھنے اور ان پر بیٹھنے اور تعمیر کرنے سے منع فرمایا۔

2872

۲۸۷۲ : حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوٗدَ‘ قَالَ : ثَنَا مُسَدَّدٌ‘ قَالَ : ثَنَا حَفْصٌ‘ عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ‘ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہَا .
٢٨٧٢: حفص نے ابو جریج سے پھر انھوں نے اپنی سند سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

2873

۲۸۷۳ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا مُسْلِمٌ‘ قَالَ : ثَنَا مُبَارَکُ بْنُ فَضَالَۃَ‘ عَنْ نَصْرِ بْنِ رَاشِدٍ‘ عَنْ حَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ (أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَہٰی أَنْ نَجْلِسَ عَلَی الْقُبُوْرِ).
٢٨٧٣: نصر بن راشد نے جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت کی کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قبور پر بیٹھنے کی ممانعت فرمائی۔

2874

۲۸۷۴ : حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ شُعَیْبٍ‘ قَالَ : ثَنَا الْخَصِیْبُ بْنُ نَاصِحٍ‘ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْعَزِیْزِ بْنُ مُسْلِمٍ‘ عَنْ سُہَیْلِ بْنِ أَبِیْ صَالِحٍ ح .
٢٨٧٤: عبدالعزیز بن مسلم نے سہیل بن ابی صالح سے روایت کی ہے۔

2875

۲۸۷۵ : وَحَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ حُذَیْفَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ‘ عَنْ سُہَیْلٍ‘ عَنْ أَبِیْہِ‘ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ (لَأَنْ یَجْلِسَ أَحَدُکُمْ عَلٰی جَمْرَۃٍ حَتّٰی تُحَرِّقَ ثِیَابَہٗ‘ وَتَخْلُصَ إِلٰی جِلْدِہٖ، خَیْرٌ لَہٗ مِنْ أَنْ یَجْلِسَ عَلٰی قَبْرٍ) .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ إِلٰی ھٰذِہِ الْآثَارِ فَقَلَّدُوْہَا‘ وَکَرِہُوْا مِنْ أَجْلِہَا الْجُلُوْسَ عَلَی الْقُبُوْرِ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ‘ فَقَالُوْا : لَمْ یَنْہَ عَنْ ذٰلِکَ لِکَرَاہَۃِ الْجُلُوْسِ عَلَی الْقَبْرِ‘ وَلٰکِنَّہٗ أُرِیْدَ بِہِ الْجُلُوْسُ لِلْغَائِطِ أَوِ الْبَوْلِ‘ وَذٰلِکَ جَائِزٌ فِی اللُّغَۃِ‘ یُقَالُ : جَلَسَ فُلَانٌ لِلْغَائِطِ‘ وَجَلَسَ فُلَانٌ لِلْبَوْلِ. وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ۔
٢٨٧٥: سہیل بن ابی صالح نے ابوہریرہ (رض) سے روایت کی جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اگر تم میں سے کوئی انگارے پر بیٹھے یہاں تک کہ وہ اس کے کپڑوں کو جلا ڈالے اور اس کے چمڑے تک پہنچ جائے یہ قبر پر بیٹھنے سے بہتر ہے۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں کہ کچھ لوگوں نے ان آثار کو سامنے رکھ کر ان کی تقلید اختیار کی اور ان کی وجہ سے قبور پر بیٹھنے کو مکروہ قرار دیا۔ جب کہ دیگر علماء نے ان کی رائے سے اختلاف کرتے ہوئے کہا۔ یہ بیٹھنا اس بناء پر ممنوع نہیں کہ قبر پر بیٹھنا ممنوع ہے۔ بلکہ بیٹھنے سے مراد پیشاب و پائخانہ کے لیے بیٹھنا مراد ہے۔
تخریج : مسلم فی الجنائز نمبر ٩٦‘ ابو داؤد فی الجنائز باب ٧٣‘ نمبر ٣٢٢٨‘ ابن ماجہ فی الجنائز نمبر ١٥٦٦۔
حاصل روایات : ان روایات سے قبور پر بیٹھنے کی ممانعت ثابت ہوتی ہے اور یہ ممانعت عام ہے بلکہ اس پر وعید بھی موجود ہے پس قبر پر کسی طور پر بیٹھنا بھی ممنوع ہوگا۔

2876

۲۸۷۶ : بِمَا حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ شُعَیْبٍ‘ قَالَ : ثَنَا الْخَصِیْبُ‘ قَالَ : ثَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِیٍّ‘ قَالَ : ثَنَا عُثْمَانُ بْنُ حَکِیْمٍ‘ عَنْ أَبِیْ أُمَامَۃَ‘ أَنَّ زَیْدَ بْنَ ثَابِتٍ قَالَ : ہَلُمَّ یَا ابْنَ أَخِیْ، أُخْبِرْکَ إِنَّمَا (نَہَی النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنِ الْجُلُوْسِ عَلَی الْقُبُوْرِ‘ لِحَدَثِ غَائِطٍ‘ أَوْ بَوْلٍ) .فَبَیَّنَ زَیْدٌ فِیْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ‘ الْجُلُوْسَ الْمَنْہِیَّ عَنْہُ فِی الْآثَارِ الْأُوَلِ مَا ہُوَ .وَقَدْ رُوِیَ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ نَحْوٌ مِنْ ذٰلِکَ .
٢٨٧٦: ابو امامہ نے زید بن ثابت سے نقل کیا کہ انھوں نے فرمایا۔ اے بھتیجے ! آؤ میں تمہیں بتلاتا ہوں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قبور پر جس بناء پر بیٹھنے سے منع کیا ہے اس سے پیشاب و پائخانہ کے لیے بیٹھنا مراد ہے۔ اس روایت میں حضرت زید (رض) نے واضح کردیا کہ پہلے آثار میں جس بیٹھنے کی ممانعت وارد ہوئی ہے اس کی حقیقت کیا ہے۔ حضرت ابوہریرہ (رض) بھی اسی طرح مروی ہے ‘ ذیل میں ملاحظہ ہو۔
حاصل روایات : پہلی روایات میں جس بیٹھنے کی ممانعت ہے اس کو زید (رض) نے بتلا دیا کہ وہ قضائے حاجت کے لیے بیٹھنا ہے لہٰذا ابوہریرہ (رض) سے بھی اسی مضمون کی روایت منقول ہے۔ وہ ملاحظہ کرلیں۔

2877

۲۸۷۷ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ‘ قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ‘ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ مُحَمَّدُ بْنُ أَبِیْ حُمَیْدٍ أَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ کَعْبٍ الْقُرَظِیَّ أَخْبَرَہُمْ‘ قَالَ : إِنَّمَا قَالَ أَبُوْ ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ‘ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (مَنْ جَلَسَ عَلٰی قَبْرٍ یَبُوْلُ عَلَیْہِ‘ أَوْ یَتَغَوَّطُ‘ فَکَأَنَّمَا جَلَسَ عَلٰی جَمْرَۃِ نَارٍ) .
٢٨٧٧: محمد بن کعب القرظی نے بتلایا کہ ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو شخص کسی قبر پر پیشاب یا پائخانہ کے لیے بیٹھے وہ گویا کہ آگ کے انگارے پر بیٹھنے والا ہے۔

2878

۲۸۷۸ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ‘ قَالَ : ثَنَا الْمُقَدَّمِیُّ‘ قَالَ : ثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ دَاوٗدَ‘ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِیْ حُمَیْدٍ‘ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ کَعْبٍ‘ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ (مَنْ قَعَدَ عَلٰی قَبْرٍ‘ فَتَغَوَّطَ عَلَیْہِ أَوْ بَالَ‘ فَکَأَنَّمَا قَعَدَ عَلٰی جَمْرَۃٍ) .فَثَبَتَ بِذٰلِکَ أَنَّ الْجُلُوْسَ الْمَنْہِیَّ عَنْہُ فِی الْآثَارِ الْأُوَلِ‘ ہُوَ ھٰذَا الْجُلُوْسُ‘ فَأَمَّا الْجُلُوْسُ لِغَیْرِ ذٰلِکَ‘ فَلَمْ یَدْخُلْ فِیْ ذٰلِکَ النَّہْیِ .وَھٰذَا قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ‘ وَأَبِیْ یُوْسُفَ‘ وَمُحَمَّدٍ رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی .وَقَدْ رُوِیَ ذٰلِکَ عَنْ عَلِیٍّ وَابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ .
٢٨٧٨: محمد بن کعب نے ابوہریرہ (رض) سے نقل کیا کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جو شخص قبر پر پیشاب یا پائخانہ کرنے بیٹھا وہ گویا انگارے پر بیٹھا۔ پس اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ وہ بیٹھنا جس کی ممانعت آثار والیٰ میں پائی گئی ہے وہ یہی بیٹھنا ہے۔ اس کے علاوہ بیٹھنا ممانعت میں داخل نہیں ‘ اور یہ قول امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد (رح) کا ہے اور حضرت علی اور ابن عمر (رض) سے بھی مروی ہے۔
حاصل کلام : یہ کہ قبور پر جس بیٹھنے کی ممانعت ہے وہ پیشاب و پائخانہ کے لیے بیٹھنا ہے البتہ اس کے علاوہ بیٹھنا وہ اس میں داخل نہیں۔
یہی امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد رحمہم اللہ کا قول ہے۔

2879

۲۸۷۹ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ‘ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ صَالِحٍ‘ قَالَ : حَدَّثَنِیْ بَکْرُ بْنُ مُضَرَ‘ عَنْ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ‘ عَنْ بُکَیْرٍ أَنَّ یَحْیَی بْنَ أَبِیْ مُحَمَّدٍ حَدَّثَہٗ أَنَّ مَوْلًی لِآلِ عَلِیٍّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ حَدَّثَہٗ أَنَّ عَلِیَّ بْنَ أَبِیْ طَالِبٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ کَانَ یَجْلِسُ عَلَی الْقُبُوْرِ .وَقَالَ الْمَوْلٰی : کُنْتُ أَبْسُطُ لَہٗ فِی الْمَقْبَرَۃِ‘ فَیَتَوَسَّدُ قَبْرًا‘ ثُمَّ یَضْطَجِعُ .
٢٨٧٩: یحییٰ بن ابی محمد نے آل علی کے کسی غلام سے روایت کی کہ علی (رض) قبور پر بیٹھ جاتے علی عند کے معنی میں زیادہ بہتر ہے قبر کے پاس بیٹھنا غلام کہتا ہے میں قبرستان میں ان کے لیے چادر بچھا دیتا وہ قبر سے ٹیک لگا لیتے پھر وہیں لیٹ جاتے۔ (یہ روایت مجہول راوی سے مروی ہے)

2880

۲۸۸۰ : حَدَّثَنَا عَلِیٌّ‘ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ صَالِحٍ‘ قَالَ : حَدَّثَنِیْ بَکْرٌ‘ عَنْ عَمْرٍو‘ عَنْ بُکَیْرٍ أَنَّ نَافِعًا حَدَّثَہٗ أَنَّ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا کَانَ یَجْلِسُ عَلَی الْقُبُوْرِ ۔
٢٨٨٠: نافع بیان کرتے ہیں کہ ابن عمر (رض) قبور پر بیٹھ جایا کرتے تھے یعنی قبور کے پاس۔
حاصل روایات : ان روایات سے واقعۃ فریق ثانی کا مؤقف صراحۃ ثابت نہیں ہوتا اور قضائے حاجت کے لیے بیٹھنا تو بالاتفاق ممنوع ہے موقعہ نزاع میں ایصال ثواب کے لیے بیٹھنا ہے جو کہ کسی صراحت سے ثابت نہیں۔ فی الجملہ روایات سے یہ مؤقف کمزور نظر آتا ہے۔ (واللہ اعلم مترجم)

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔