HADITH.One

Urdu

Support

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Al Tahawi

4. زکوۃ کا بیان

الطحاوي

2881

۲۸۸۱ : حَدَّثَنَا اِبْرَاہِیْمَ بْنِ أَبِیْ دَاوٗدَ‘ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ سُلَیْمَانَ الْوَاسِطِیُّ‘ قَالَ : ثَنَا شَرِیْکٌ‘ عَنْ سِمَاکِ بْنِ حَرْبٍ‘ عَنْ عِکْرَمَۃَ‘ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ : (قَدِمَتْ عِیْرٌ الْمَدِیْنَۃَ‘ فَاشْتَرٰی مِنْہَا النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَتَاعًا فَبَاعَہٗ بِرِبْحِ أَوَاقٍ فِضَّۃً فَتَصَدَّقَ بِہَا عَلٰی أَرَامِلِ بَنِیْ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ ثُمَّ قَالَ : لَا أَعُوْدُ أَنْ أَشْتَرِیَ بَعْدَہَا شَیْئًا أَبَدًا وَلَیْسَ ثَمَنُہٗ عِنْدِیْ) .
٢٨٨١: عکرمہ نے ابن عباس (رض) سے نقل کیا ہے کہ ایک قافلہ مدینہ میں آیا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ن ٢ اس سے کچھ سامان خریدا پھر کئی اوقیہ چاندی کے بدلے فروخت کیا اور اس چاندی کو بنی عبدالمطلب کی رانڈ عورتوں پر خرچ کیا پھر فرمایا میں آئندہ ایسی کوئی چیز کبھی نہ خریدوں گا جس کی قیمت میرے پاس نہ ہو۔ (اوقیہ چالیس درہم کی مقدار ہے) ۔
تخریج : ابو داؤد فی البویع باب ٩‘ نمبر ٢٣٤٤‘ مسند احمد ١؍٢٣٥۔
اس روایت میں تصدق کا لفظ صدقہ پر دلالت کررہا ہے معلوم ہوتا ہے کہ بنی عبدالمطلب کی بیوہ عورتوں پر صدقہ لگ سکتا ہے تبھی آپ نے عنایت فرمایا۔
کتاب الزکوۃ
اس میں ١٠ باب اور ٢٠٨ روایات و آثار ہیں
تمہید :
زکوۃ اسلام کا اہم رکن ہے حضرت صدیق اکبر (رض) نے نماز و زکوۃ کے درمیان ماننے اور نہ ماننے سے فرق کرنے والے کے خلاف اعلان جہاد فرمایا قرآن مجید میں ان دونوں ارکان کو اکٹھا ذکر کیا گیا ہے اسی وجہ سے فقہا رحمہم اللہ قرآن مجید کے انداز کو دیکھ کر کتاب الصلاۃ کے بعد کتاب الزکوۃ کو لاتے ہیں۔
اس کا لغوی معنی نمو ‘ اضافہ اور ستھرائی و پاکیزگی ہے اس کے وجوب کے لیے مال کی ایک مخصوص مقدار مقرر ہے اس سے پہلے لازم نہیں اور جس کے پاس اتنی مقدار نہ ہو اس پر لازم نہیں اس کی ادائیگی کے لیے مال کا الگ حساب کرتے ہوئے تمام مقدار میں نیت زکوۃ کرلینا ہے یا وقتی طور پر ادائیگی کے وقت نیت کرنا جس مال میں سے دی جائے اس کا قرضے اور ضروریات سے فارغ ہونا شرط ہے دنیا میں اس کی ادائیگی فریضہ کی ادائیگی اور آخرت میں عظیم اجر کا استحقاق ہے اس کے دینے کا مقصد بخل اور حب مال میں افراط کا ازالہ کرنا ہے اور محتاجوں کی ضروریات کی کفالت ہے اس کی رکنیت کا منکر کافر ہے۔
حاصل روایات : ! محتاج کو جو شے اجر وثواب کی خاطر دی جائے وہ صدقہ ہے " اور ہدیہ جو عطیہ اضافہ محبت کے لیے دیا جائے #اور ہبہ بلا عوض کوئی چیز کسی کو دے دینا ہے اور زکوۃ وہ مال جو مال نامی پر سال گزرنے کے بعد اڑھائی فیصد کے حساب سے کسی غیر ہاشمی مسلمان فقیر کو دیا جائے بنی ہاشم سے مراد زکوۃ کے سلسلہ میں نمبر ١ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مونث اولاد نمبر ٢ حضرت عباس (رض) نمبر ٣ حضرت حارث (رض) نمبر ٤ حضرت علی (رض) ‘ عقیل (رض) ‘ جعفر (رض) کی اولاد مراد ہوگی بنو لہب اور بنو مطلب اس میں شامل نہ ہوں گے۔ بنی ہاشم کو ہدیہ تو دیا جاسکتا ہے زکوۃ نہیں دی جاسکتی خواہ بنی ہاشم ہی کو اپنی زکوۃ ہو نفلی صدقہ ان کے لیے بلااختلاف جائز ہے موالی بنی ہاشم بھی صدقات واجبہ میں اپنے آقاؤں کے حکم میں ہوں گے زکوۃ و صدقات کو۔
۔۔۔

2882

۲۸۸۲ : قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ فَذَہَبَ قَوْمٌ إِلٰی ھٰذَا الْحَدِیْثِ وَأَبَاحُوا الصَّدَقَۃَ عَلٰی بَنِیْ ہَاشِمٍ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ‘ فَقَالُوْا : لَا یَجُوْزُ الصَّدَقَۃُ مِنَ الزَّکَوَاتِ وَالتَّطَوُّعِ وَغَیْرِ ذٰلِکَ عَلٰی بَنِیْ ہَاشِمٍ‘ وَہُمْ کَالْأَغْنِیَائِ فَمَا حَرُمَ عَلَی الْأَغْنِیَائِ مِنَ الصَّدَقَۃِ فَہِیَ عَلٰی بَنِیْ ہَاشِمٍ حَرَامٌ‘ فُقَرَائَ کَانُوْا أَوْ أَغْنِیَائَ .وَکُلُّ مَا یَحِلُّ لِلْأَغْنِیَائِ مِنْ غَیْرِ بَنِیْ ہَاشِمٍ‘ فَہُوَ حَلَالٌ لِبَنِیْ ہَاشِمٍ فُقَرَائِہِمْ وَأَغْنِیَائِہِمْ .وَلَیْسَ عَلٰی أَہْلِ ھٰذِہِ الْمَقَالَۃِ عِنْدَنَا حُجَّۃٌ فِی الْحَدِیْثِ الْأَوَّلِ‘ لِأَنَّہٗ یَجُوْزُ أَنْ یَّکُوْنَ مَا تَصَدَّقَ بِہِ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ ذٰلِکَ عَلٰی أَرَامِلِ بَنِیْ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ لَمْ یَجْعَلْہُ مِنْ جِہَۃِ الصَّدَقَۃِ الَّتِیْ تَحْرُمُ عَلٰی بَنِیْ ہَاشِمٍ فِیْ قَوْلِ مَنْ یُحَرِّمُہَا عَلَیْہِمْ وَلٰـکِنْ جَعَلَہَا مِنْ جِہَۃِ الصَّدَقَۃِ الَّتِیْ تَحِلُّ لَہُمْ .فَإِنَّا قَدْ رَأَیْنَا الْأَغْنِیَائَ مِنْ غَیْرِ بَنِیْ ہَاشِمٍ قَدْ یَتَصَدَّقُ الرَّجُلُ عَلٰی أَحَدِہِمْ بِدَارِہٖ أَوْ بِعَبْدِہٖ، فَیَکُوْنُ ذٰلِکَ جَائِزًا حَلَالًا‘ وَلَا یُحَرِّمُہٗ عَلَیْہِ مَالُہٗ .فَکَانَ مَا یَحْرُمُ عَلَیْہِ بِمَالِہٖ مِنَ الصَّدَقَاتِ‘ ہُوَ الزَّکَوَاتُ وَالْکَفَّارَاتُ وَالصَّدَقَاتُ الَّتِیْ یُتَقَرَّبُ بِہَا إِلَی اللّٰہِ تَعَالٰی .فَأَمَّا الصَّدَقَاتُ الَّتِیْ یُرَادُ بِہَا طَرِیْقُ الْہِبَاتِ وَإِنْ سُمِّیَتْ صَدَقَاتٍ فَلاَ‘ فَکَذٰلِکَ بَنُو ہَاشِمٍ حَرُمَ عَلَیْہِمْ لِقَرَابَتِہِمْ مِنَ الصَّدَقَاتِ مِثْلُ مَا حَرُمَ عَلَی الْأَغْنِیَائِ بِأَمْوَالِہِمْ .فَأَمَّا مَا کَانَ لَا یَحْرُمُ عَلَی الْأَغْنِیَائِ بِأَمْوَالِہِمْ‘ فَإِنَّہٗ لَا یَحْرُمُ عَلٰی بَنِیْ ہَاشِمٍ بِقَرَابَتِہِمْ .فَلِھٰذَا جَعَلْنَا مَا کَانَ تَصَدَّقَ بِہٖ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلٰی أَرَامِلِہِمْ مِنْ جِہَۃِ الْہِبَاتِ وَإِنْ سُمِّیَ ذٰلِکَ صَدَقَۃً‘ وَھٰذَا الَّذِیْ یَنْبَغِیْ أَنْ یُحْمَلَ تَأْوِیْلُ ذٰلِکَ الْحَدِیْثِ الْأَوَّلِ عَلَیْہِ .لِأَنَّہٗ قَدْ رُوِیَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا مَا قَدْ ۔: حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ‘ قَالَ : ثَنَا أَسَدٌ‘ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدٌ وَحَمَّادٌ ابْنَا زَیْدٍ‘ عَنْ أَبِیْ جَہْضَمٍ مُوْسَی بْنِ سَالِمٍ‘ عَنْ (عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ قَالَ : دَخَلْنَا عَلَی ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا فَقَالَ : مَا اخْتَصَّنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِشَیْئٍ دُوْنَ النَّاسِ إِلَّا بِثَلاَثِ أَشْیَائَ ‘ إِسْبَاغِ الْوُضُوْئِ‘ وَأَنْ لَا نَأْکُلَ الصَّدَقَۃَ‘ وَأَنْ لَا نُنْزِیَ الْحُمُرَ عَلَی الْخَیْلِ) .
٢٨٨٢: عبیداللہ بن عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ ہم ابن عباس (رض) کی خدمت میں گئے ‘ انھوں نے کہا ہمیں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تین چیزوں کے ساتھ باقی لوگوں میں سے خاص کیا ہے کامل طور پر وضو کرنا صدقہ نہ کھانا گدھے کی جفتی گھوڑے پر نہ کرائیں۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں کہ کچھ علماء اس طرف گئے ہیں چنانچہ انھوں نے بنی ہاشم کے لیے صدقات کو مباح قرار دیا ہے۔ دیگر علماء نے ان سے اختلاف کرتے کہا کہ زکوۃ اور نفلی صدقات نبی ہاشم پر درست نہیں وہ مالداروں کی طرح ہیں جو مالداروں پر حرام وہی ان پر بھی حرام ہے خواہ بنو ہاشم تنگ دست ہوں یا مالدار اور ہر وہ چیز جو بنی ہاشم کے علاوہ مالداروں کے لیے درست ہے وہ بنی ہاشم کے فقراء واغنیاء سب پر حلال ہے۔ ہمارے نزدیک اس قول کے قائلین کے لیے اس روایت میں کوئی دلیل نہیں ہے۔ کیونکہ اس کے متعلق یہ کہنا درست ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے بنی عبد اعطلب کی بیوہ عورتوں کو صدقہ دیا ہو اس صدقے کے طور پر نہ دیا ہو جو بنی ہاشم پر حرام ہے بقول ان لوگوں کے جوان پر حرام قرار دیتے ہیں بلکہ اس صدقہ کے طور پر دیا ہو جو ان کے لیے حلال ہے۔ اس لیے کہ ہم غیر نبی ہاشم کے مالداروں کو دیکھتے ہیں کہ وہ بعض دوسروں کو اپنا مکان یا غلام صدقہ کردیتے ہیں پس یہ اس لینے والے کے لیے جائز و حلال ہے اور یہ چیز اس پر اس کے مال کو حرام نہیں کرتا ۔ اس کا وہ مال جو اس پر حرام ہے وہ صدقات زکوفۃ کفارات اور ایسے صدقات تقرب الیٰ اللہ کے لیے دیے جاتے ہیں۔ رہے ایسے صدقات جن سے مقصود رہبہ کرنا ہو خواہ اس کو صدقے کا نام بھی دے دیا جائے وہ حرام نہیں ہوتا۔ بعینہٖ یہی صورت بنو ہاشم کے سلسلہ میں ہے کہ ان پر قرابت کی وجہ سے صدقات اسی طرح حرام ہیں جیسا اغنیاء پر ان کے مال کے پائے جانے کی صورت میں ہے۔ رہے وہ صدقات جو اغنیاء پر ان کے مالوں کی موجودگی میں حرام نہیں وہ بنی ہاشم پر بھی قرابت کی وجہ سے حرام نہیں اسی وجہ سے ہم نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس صدقہ کو جو آپ نے بیوگان پر کیا ہبہ کی مدد سے شمار کرتے اگرچہ نام اس کا صدقہ رکھا گیا ہے اور اس حدیث اول کی یہ تاویل مناسب ہے کیونکہ یہ روایت حضرت ابن عباس (رض) اس طرح نقل کی گئی ہے۔
تخریج : ابوداؤد فی الصلاۃ باب ١٢٧‘ نمبر ٨٠٨‘ ترمذی فی الجہاد باب ٢٣‘ نمبر ١٧٠١‘ نسائی فی الطہارۃ باب ١٠٥‘ الخیل باب ١٠‘ مسند احمد ١؍٧٨‘ ٩٥‘ ٢٣٤‘ ٢٤٩‘۔
بنی ہاشم پر صدقات حرام ہیں وہ اغنیاء کی طرح ہیں خواہ فقراء ہوں یا اغنیاء اور بنی ہاشم کے علاوہ جو چیز اغنیاء کے لیے حلال ہے وہ بنی ہاشم کے فقراء اور اغنیاء کے لیے حلال ہے آئندہ سطور میں دلائل پیش ہوں گے اس سے پہلے روایت سابقہ کا جواب ملاحظہ ہو۔
الجواب : روایت میں تصدق کا لفظ احتمال رکھتا ہے اس لیے ان کے موضوع پر دلیل نہیں بن سکتا آپ نے جو صدقہ ان بیواؤں و بیکسوں پر کیا وہ فرض نہ ہو بلکہ نفلی ہو ہم کئی اغنیاء کو دیکھتے ہیں کہ کوئی آدمی ان کے غلام و لونڈیوں پر صدقہ کرتا ہے اور وہ غنی کے لیے بھی حلال ہوجاتا ہے کیونکہ غلام کا مال آقا کو حلال ہے کیونکہ اغنیاء اور بنی ہاشم کو صدقات فرضیہ ‘ کفارات و صدقات جن سے تقرب الی اللہ مقصود ہو (نذر ‘ نیاز وغیرہ) وہ حرام ہیں۔
رہا تبرعات اور ہبات و عطیات وہ تو درست ہیں اگرچہ ان کو صدقات کا نام دیا جاتا ہے تو جو مال اغنیاء پر حرام نہیں وہ بنی ہاشم پر بھی حرام نہیں اسی وجہ سے شروع باب والی روایت میں صدقہ سے ہبہ و تبرع مراد ہے اگرچہ لفظ تصدق کا ہے۔

2883

۲۸۸۳: حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوٗدَ‘ قَالَ : ثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ حَرْبٍ‘ قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَیْدٍ‘ عَنْ أَبِیْ جَہْضَمٍ‘ فَذَکَرَ بِإِسْنَادٍ مِثْلَہٗ .
٢٨٨٣: حماد بن زید نے ابو جہضم سے پھر انھوں نے اپنی سند سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

2884

۲۸۸۴ :حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عُمَرَ الْحَوْضِیُّ‘ قَالَ : ثَنَا مُرَجَّی بْنُ رَجَائٍ ‘ عَنْ أَبِیْ جَہْضَمٍ‘ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَھٰذَا ابْنُ عَبَّاسٍ یُخْبِرُ فِیْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اخْتَصَّہُمْ أَنْ لَا یَأْکُلُوْا الصَّدَقَۃَ .فَلَیْسَ یَخْلُو الْحَدِیْثُ الْأَوَّلُ مِنْ أَنْ یَّکُوْنَ عَلٰی مَا ذَکَرْنَا فِی الْفَصْلِ الْأَوَّلِ‘ فَیَکُوْنُ مَا أَبَاحَ لَہُمْ فِیْہٖ‘ غَیْرَ مَا حَرَّمَ عَلَیْہِمْ فِیْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ الثَّانِیْ‘ وَیَکُوْنُ مَعْنٰی کُلِّ وَاحِدٍ مِنْہُمَا عَلٰی مَا ذَکَرْنَا .أَوْ یَکُوْنُ الْحَدِیْثُ الْأَوَّلُ یُبِیْحُ مَا مَنَعَ مِنْہُ ھٰذَا الْحَدِیْثُ الثَّانِیْ‘ فَیَکُوْنُ ھٰذَا الْحَدِیْثُ الثَّانِیْ نَاسِخًا لَہٗ‘ لِأَنَّ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ عَبَّاسٍ یُخْبِرُ فِیْہِ بَعْدَ مَوْتِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہُمْ مَخْصُوْصُوْنَ بِہٖ دُوْنَ النَّاسِ‘ فَلاَ یَجُوْزُ أَنْ یَّکُوْنَ ذٰلِکَ إِلَّا وَہُوَ قَائِمٌ فِیْ وَقْتِہِ ذٰلِکَ .فَإِنْ احْتَجَّ مُحْتَجٌّ فِیْ اِبَاحَۃِ الصَّدَقَۃِ عَلَیْہِمْ بِصَدَقَاتِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .فَذَکَرَ مَا
٢٨٨٤ : مرجی بن رجاء نے ابوجہضم سے انھوں نے اپنی سند سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔ یہ حضرت ابن عباس (رض) اس روایت میں خبر دے رہے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو اس بات کے ساتھ خاص کیا کہ وہ صدقہ نہ کھائیں۔ پس پہلی روایت اس سے خالی نہیں کہ اس کا معنیٰ وہ کیا جائے جو ہم نے فصل اول میں بیان کیا تو اس صورت میں جس چیز کو ان کے لیے مباح کیا ہے وہ اس کے علاوہ ہے جو ان کے لیے اس دوسری روایت ذکر کی گئی اور ہر روایت کا مفہوم اپنے اپنے مقام پر درست رہا۔ یا پھر اس طرح کہا جائے کہ اول روایت میں اس صدقے کو مباح قرار دیا جب کہ اس دوسری روایت سے روک دیا پس اس صورت میں یہ ناسخ ہوگی کیونکہ ابن عباس (رض) جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو وفات کے بعد بتلا رہے ہیں کہ ہم بنی ہاشم کے لیے دوسروں کو چھوڑ کر یہ چیز خاص کی گئی اور یہ اسی صورت میں تسلیم کیا جاسکتا ہے جب کہ یہ ان کے زمانہ میں قائم و موجود ہو اگر کوئی معترض صدقہ کے مباح ہونے کے لیے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صدقات کو دلیل بناتے اور ان روایات کو پیش کرے۔
حاصل روایات : یہ روایات تو صدقے کو حرام قرار دے رہی ہیں اور پہلی روایت انہی ابن عباس (رض) کی صدقے کو حلال قرار کیسے دے سکتی ہے کہ ایک آدمی دو متضاد باتیں کہہ رہا ہے ان دونوں کی مطابقت کی صورت وہی ہے جو گزشتہ سطور میں مذکور ہوئی کہ وہاں صدقہ سے تبرعات مراد لیے جائیں۔
اب دونوں روایات اپنے اپنے مقامات پر درست رہیں۔ یا یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ حدیث اول میں جس چیز کو مباح قرار دیا گیا دوسری روایت میں اس کو حرام کہا گیا تو پہلا حکم منسوخ ہوگیا اور اس کے لیے قرینہ یہ ہے کہ یہ فتویٰ ابن عباس (رض) آپ کی وفات کے بعد کا ہے اور وہ تبھی خبر دے رہے ہیں جبکہ وہ اس بات پر قائم ہیں۔
جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فدک وغیرہ کے خمس کو بنی ہاشم پر صدقہ فرمایا اس سے کسی کو انکار نہیں جیسا ان روایات میں وارد ہے۔

2885

۲۸۸۵ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ‘ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ صَالِحٍ‘ قَالَ : حَدَّثَنِی اللَّیْثُ‘ قَالَ : حَدَّثَنِیْ عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنِ خَالِدِ بْنُ مُسَافِرٍ‘ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ‘ عَنْ عُرْوَۃَ بْنِ الزُّبَیْرِ أَنَّ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا أَخْبَرَتْہُ أَنَّ فَاطِمَۃَ بِنْتَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَرْسَلَتْ إِلٰی أَبِیْ بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ تَسْأَلُہٗ مِیْرَاثَہَا مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْمَا أَفَائَ اللّٰہُ عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ وَفَاطِمَۃُ حِیْنَئِذٍ تَطْلُبُ صَدَقَۃَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِالْمَدِیْنَۃِ وَفَدَکَ‘ وَمَا بَقِیَ مِنْ خُمُسِ خَیْبَرَ .فَقَالَ أَبُوْ بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ إِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ (إِنَّا لَا نُوْرَثُ‘ مَا تَرَکْنَا صَدَقَۃٌ) إِنَّمَا یَأْکُلُ آلُ مُحَمَّدٍ فِیْ ھٰذَا الْمَالِ .وَإِنَی وَاللّٰہِ لَا أُغَیِّرُ شَیْئًا مِنْ صَدَقَۃِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ حَالِہَا الَّتِیْ کَانَتْ عَلَیْہِ فِیْ عَہْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ وَلَأَعْمَلَنَّ فِیْ ذٰلِکَ بِمَا عَمِلَ فِیْہَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ۔
٢٨٨٥: عروہ بن زبیر نے عائشہ (رض) سے نقل کیا کہ فاطمہ بنت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابوبکر (رض) کی طرف پیغام بھیجا وہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے اپنی وراثت مانگ رہی تھیں جو کہ مال فئی کے طور پر اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دی تھیں اور فاطمہ (رض) اس وقت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا صدقہ کا مال جو مدینہ اور فدک اور خمس خیبر سے بچا تھا وہ مانگ رہی تھیں تو ابوبکر (رض) نے کہا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہم وارث نہیں بنائے جاتے جو مال ہم چھوڑتے ہیں وہ صدقہ ہوتا ہے البتہ آل محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس مال میں خرچہ ملے گا میں اللہ کی قسم ! جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صدقات کو ان کی اس حالت سے نہ بدلوں گا جس حالت میں وہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں تھے اور ان کے متعلق میں وہ عمل جاری رکھوں گا جو ان میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کرتے تھے۔
تخریج : بخاری فی الخمس باب ١‘ فضائل اصحاب باب ١٢‘ المغازی باب ١٤‘ ٣٨‘ والنفقات باب ٣‘ والفرائض باب ٣‘ والاعتصام باب ٥‘ مسلم فی الجہاد ٤٩؍٥٠‘ ٥١‘ ٥٢‘ ٥٤‘ ٥٦‘ ابو داؤد فی الامارہ باب ١٩‘ ترمذی فی اسیر باب ٤٤‘ نسائی فی الفئی باب ٩‘ ١٦‘ موطا مالک نمبر ٢٧‘ مسند احمد ١‘ ٤‘ ٦‘ ٩‘ ١٠‘ ٤٨‘ ٤٩‘ ٦٠‘ ١٦٢‘ ١٧٩‘ ٢٠٨‘ ٢؍٤٠٣‘ ٦؍١٤٥‘ ٢٦٢۔

2886

۲۸۸۶ : حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ مَرْزُوْقٍ وَابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ‘ قَالَا : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ صَالِحٍ .
٢٨٨٦: ابن مرزوق اور ابو داؤد دونوں نے عبداللہ بن صالح سے نقل کیا۔

2887

۲۸۸۷ : وَحَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ الْفَرَجِ‘ قَالَ ثَنَا یَحْیَی بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ بُکَیْرٍ‘ قَالَا : ثَنَا اللَّیْثُ‘ قَالَ : حَدَّثَنِیْ عُقَیْلٌ‘ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ‘ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .
٢٨٨٧: لیث کہتے ہیں کہ مجھے عقیل نے ابن شہاب سے روایت کی پھر انھوں نے اپنی اسناد سے روایت نقل کی ہے۔

2888

۲۸۸۸ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا حُسَیْنُ بْنُ مَہْدِیٍّ‘ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ‘ قَالَ أَنَا مَعْمَرٌ‘ عَنِ الزُّہْرِیِّ‘ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ مَالِکُ بْنُ أَوْسِ بْنِ الْحَدَثَانِ النَّضْرِیُّ‘ قَالَ أَرْسَلَ إِلَیَّ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ‘ فَقَالَ إِنَّہٗ قَدْ حَضَرَ الْمَدِیْنَۃَ أَہْلُ أَبْیَاتٍ مِنْ قَوْمِکَ وَقَدْ أَمَرْنَا لَہُمْ بِرَضْخٍ فَاقْسِمْہُ فِیْہِمْ .فَبَیْنَا أَنَا کَذٰلِکَ اِذْ جَائَ ہُ یَرْفَأُ‘ فَقَالَ : ھٰذَا عُثْمَانُ‘ وَعَبْدُ الرَّحْمٰنِ‘ وَسَعْدٌ‘ وَالزُّبَیْرُ‘ وَلَا أَدْرِیْ، أَذَکَرَ طَلْحَۃَ أَمْ لَا‘ یَسْتَأْذِنُوْنَ عَلَیْکَ‘ فَقَالَ : ائْذَنْ لَہُمْ .قَالَ ثُمَّ مَکَثْنَا سَاعَۃً‘ فَقَالَ : ھٰذَا الْعَبَّاسُ وَعَلِیٌّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا یَسْتَأْذِنَانِ عَلَیْکَ‘ فَقَالَ : ائْذَنْ لَہُمَا .فَلَمَّا دَخَلَ الْعَبَّاسُ قَالَ : یَا أَمِیْرَ الْمُؤْمِنِیْنَ اقْضِ بَیْنِیْ وَبَیْنَ ھٰذَا الرَّجُلِ‘ وَہُمَا حِیْنَئِذٍ فِیْمَا أَفَائَ اللّٰہُ عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ أَمْوَالِ بَنِی النَّضِیْرِ .فَقَالَ الْقَوْمُ : اقْضِ بَیْنَہُمَا یَا أَمِیْرَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَأَرِحْ کُلَّ وَاحِدٍ مِنْہُمَا مِنْ صَاحِبِہٖ فَقَالَ عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ : أَنْشُدُکُمُ اللّٰہَ (أَیْ أَسْأَلُکُمْ بِاَللّٰہِ) الَّذِیْ بِإِذْنِہِ تَقُوْمُ السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ‘ أَتَعْلَمُوْنَ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ (لَا نُوْرَثُ‘ مَا تَرَکْنَا صَدَقَۃً) قَالُوْا : قَدْ قَالَ ذٰلِکَ .ثُمَّ قَالَ لَہُمَا مِثْلَ ذٰلِکَ‘ فَقَالَا : نَعَمْ .قَالَ : فَإِنِّیْ سَأُخْبِرُکُمْ عَنْ ھٰذَا الْفَیْئِ إِنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ خَصَّ نَبِیَّہٗ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِشَیْئٍ لَمْ یُعْطِہٖ غَیْرَہٗ‘ فَقَالَ (مَا أَفَائَ اللّٰہُ عَلٰی رَسُوْلِہِ مِنْہُمْ فَمَا أَوَجَفْتُمْ عَلَیْہِ مِنْ خَیْلٍ وَلَا رِکَابٍ) .فَکَانَتْ ھٰذِہِ لِرَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خَاصَّۃً ثُمَّ وَاللّٰہِ مَا احْتَازَہَا دُوْنَکُمْ وَلَا اسْتَأْثَرَ بِہَا عَلَیْکُمْ‘ وَلَقَدْ قَسَمَہَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَیْنَکُمْ وَبَثَّہَا فِیْکُمْ حَتّٰی بَقِیَ مِنْہَا ھٰذَا الْمَالُ فَکَانَ یُنْفِقُ مِنْہُ عَلٰی أَہْلِہٖ رِزْقَ سَنَۃٍ ثُمَّ یَجْمَعُ مَا بَقِیَ مِنْہُ فَجَمَعَ مَالَ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ .فَلَمَّا قُبِضَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ أَبُوْ بَکْرٍ (أَنَا وَلِیُّ رَسُوْلِ اللّٰہِ بَعْدَہٗ أَعْمَلُ فِیْہَا بِمَا کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَعْمَلُ) ثُمَّ ذَکَرَ الْحَدِیْثَ .
٢٨٨٨: معمر نے زہری سے انھوں نے مالک بن اوس بن حدثان نضری سے وہ کہتے ہیں کہ مجھے عمر (رض) نے بلوایا اور فرمایا مدینہ منورہ میں تمہاری قوم کے کچھ لوگ آئے ہیں ہم نے ان کو کچھ عطیہ دیا ہے وہ تم ان میں تقسیم کر دو اسی دوران یرفاء آگیا اور اس نے کہا یہ عثمان ‘ عبدالرحمن ‘ سعد ‘ زبیر ] ۔ اور مجھے یاد نہیں کہ طلحہ (رض) کا نام لیا یا نہیں وہ آپ کے پاس داخلے کی اجازت چاہ رہے ہیں آپ نے فرمایا ان کو اجازت ہے راوی کہتا ہے پھر ہم کچھ دیر ٹھہرنے پائے تھے تو یرفاء نے کہا یہ عباس (رض) و علی (رض) آپ کے ہاں آنے کی اجازت چاہتے ہیں آپ نے فرمایا انھیں اجازت دے دو جب عباس (رض) آئے تو کہنے لگے اے امیرالمؤمنین ! میرے اور اس شخص کے درمیان فیصلہ کیجئے وہ اس وقت دونوں بنی نضیر کے اموال فئی پر نگران مقرر تھے دوسرے حضرات نے بھی کہا ان کے درمیان فیصلہ فرمائیں اور رضامندی کرا دیں عمر (رض) نے فرمایا میں تمہیں اس اللہ تعالیٰ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں جس کے حکم سے آسمان و زمین قائم ہیں کیا تم جانتے ہو کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ہم وارث نہیں بنائے جاتے جو ہم چھوڑتے ہیں وہ صدقہ ہوتا ہے ان سب نے کہا واقعی آپ نے یہ بات فرمائی ہے پھر خاص طور پر ان دونوں کو خطاب کر کے بھی یہی فرمایا ان دونوں نے بھی اس کا اقرار کیا پھر عمر (رض) کہنے لگے میں تمہیں بتلاتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے ایسی چیز سے خاص کیا ہے جو اس نے اور کسی کو نہیں دی فرمایا :{ مَا أَفَائَ اللّٰہُ عَلٰی رَسُوْلِہِ مِنْہُمْ فَمَا أَوَجَفْتُمْ عَلَیْہِ مِنْ خَیْلٍ وَلَا رِکَاب } (الحشر : ٩) اور وہ جو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بطور مال فئی دے دیا تم نے اس پر گھوڑے اور سواریاں نہیں دوڑائیں۔ پس یہ مال خاص رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہوگئے آپ نے ان اموال کو تمہیں چھوڑ کر جمع نہیں کیا اور نہ اپنے کو تم پر ترجیح دی بلکہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تمہارے درمیان تقسیم کیا اور تم میں بھیجا اور پھیلایا یہاں تک کہ اس میں سے یہ مال باقی رہ گیا آپ اس میں سے اپنے اہل پر سال کے دوران خرچ کرتے پھر جو بچ جاتا وہ جمع کردیتے وہ اللہ تعالیٰ کا مال جمع ہوتا (یعنی بیت المال میں جمع کردیتے) جب جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات ہوگئی تو ابوبکر (رض) نے فرمایا میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ان اموال میں نائب و ولی ہوں میں ان میں وہی کروں گا جو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا کرتے تھے پھر روایت اسی طرح ذکر کیا۔
تخریج : مسلم فی الجہاد نمبر ٤٨۔
حاصل روایات : الرضخ۔ عطیہ۔ افاء۔ بطور فئی دینا۔

2889

۲۸۸۹ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا اِبْرَاہِیْمُ بْنُ بَشَّارٍ‘ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ‘ قَالَ : ثَنَا عَمْرُو بْنُ دِیْنَارٍ‘ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ فَذَکَرَ مِثْلَہٗ بِإِسْنَادِہٖ وَأَثْبَتَ أَنَّ طَلْحَۃَ کَانَ فِی الْقَوْمِ وَلَمْ یَقُلْ " وَبَثَّہَا فِیْکُمْ " .
٢٨٨٩: عمرو بن دینار نے ابن شہاب سے نقل کیا پھر اسناد سے اسی طرح روایت کی البتہ فرق یہ ہے کہ طلحہ کو آنے والوں میں ثابت کیا اور بثھافیکم کے لفظ نہیں کہے۔

2890

۲۸۹۰ : حَدَّثَنَا یَزِیْدُ بْنُ سِنَانٍ وَأَبُوْ أُمَیَّۃَ‘ قَالَا : ثَنَا بِشْرُ بْنُ عُمَرَ‘ قَالَ : ثَنَا مَالِکُ بْنُ أَنَسٍ‘ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ‘ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ وَقَالَ : فَکَانَ یُنْفِقُ مِنْہَا عَلٰی أَہْلِہٖ .
٢٨٩٠: مالک بن انس نے ابن شہاب سے پھر انھوں نے اپنی اسناد سے روایت نقل کی البتہ : فَکَانَ یُنْفِقُ مِنْھَا عَلٰی أَھْلِہٖکے الفاظ مختلف ہیں۔

2891

۲۸۹۱ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ‘ قَالَ : ثَنَا أَحْمَدُ بْنُ یُوْنُسَ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ شِہَابٍ‘ عَنْ سُفْیَانَ وَوَرْقَائَ ‘ عَنْ أَبِی الزِّنَادِ‘ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ الْأَعْرَجِ‘ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (لَا تَقْسِمُ وَرَثَتِیْ دِیْنَارًا مَا تَرَکْتُ بَعْدَ نَفَقَۃِ أَہْلِیْ وَمُؤْنَۃِ عَامِلِیْ فَہُوَ صَدَقَۃٌ) .قَالُوْا : فَفِیْ حَدِیْثِ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ ھٰذَا مَا یَدُلُّ عَلٰی أَنَّہَا کَانَتْ صَدَقَاتٍ فِیْ عَہْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِقَوْلِہٖ (بَعْدَ مُؤْنَۃِ عَامِلِیْ) وَعَامِلُہٗ لَا یَکُوْنُ إِلَّا وَہُوَ حَیٌّ .قَالُوْا : فَفِیْ ھٰذِہِ الْآثَارِ‘ مَا قَدْ دَلَّ عَلٰی أَنَّ الصَّدَقَۃَ لِبَنِیْ ہَاشِمٍ حَلَالٌ‘ لِأَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَأَہْلَہٗ وَفِیْہِمْ فَاطِمَۃُ بِنْتُہٗ‘ قَدْ کَانُوْا یَأْکُلُوْنَ مِنْ ھٰذِہِ الصَّدَقَۃِ فِیْ حَیَاۃِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .فَدَلَّ ذٰلِکَ عَلَی اِبَاحَۃِ سَائِرِ الصَّدَقَاتِ لَہُمْ‘ فَالْحُجَّۃُ عَلَیْہِمْ فِیْ ذٰلِکَ‘ أَنَّ تِلْکَ الصَّدَقَۃَ کَصَدَقَاتِ الْأَوْقَافِ‘ وَقَدْ رَأَیْنَا ذٰلِکَ یَحِلُّ لِلْأَغْنِیَائِ .أَلَا تَرٰی أَنَّ رَجُلًا لَوْ أَوْقَفَ دَارِہِ عَلٰی رَجُلٍ غَنِیٍّ‘ أَنَّ ذٰلِکَ جَائِزٌ وَلَا یَمْنَعُہُ ذٰلِکَ غِنَاہُ‘ وَحُکْمُ ذٰلِکَ خِلَافُ حُکْمِ سَائِرِ الصَّدَقَاتِ مِنَ الزَّکَوَاتِ وَالْکَفَّارَاتِ‘ وَمَا یُتَقَرَّبُ بِہٖ إِلَی اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ‘ فَکَذٰلِکَ مَنْ کَانَ مِنْ بَنِیْ ہَاشِمٍ ذٰلِکَ لَہُمْ حَلَالٌ وَحُکْمُہُ خِلَافُ حُکْمِ سَائِرِ الصَّدَقَاتِ الَّتِیْ قَدْ ذَکَرْنَا .ثُمَّ قَدْ جَائَ تْ بَعْدُ ھٰذِہِ الْآثَارُ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مُتَوَاتِرَۃً بِتَحْرِیْمِ الصَّدَقَۃِ عَلٰی بَنِیْ ہَاشِمٍ .فَمِمَّا جَائَ فِیْ ذٰلِکَ۔
٢٨٩١: عبدالرحمن الاعرج نے ابوہریرہ (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میری وراثت دینار کی صورت میں تقسیم نہ ہوگی میرے اہل و عیال کے خرچہ اور میرے گھریلو کام کرنے والوں کی اعانت کے علاوہ صدقہ ہے۔ انھوں نے فرمایا کہ یہ حدیث ابوہریرہ (رض) اس بات پر دلالت کر رہی ہے کہ وہ اموال جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ مبارک میں صدقات تھے اس لیے کہ اس روایت میں آپ کا ارشاد ” بعد مونۃ عاملی ‘ ‘ موجود ہے اور آپ کا عامل ہونا وہ آپ کی حیات مبارکہ ہی میں ہوسکتاے۔ ان آثار میں ایسی دلالت ملتی ہے جو اس بات کو ثابت کرتی ہے کہ صدقات بنی ہاشم کے لیے حلال ہے۔ کیونکہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے اہل اور ان میں آپ کی بیٹی فاطمہ (رض) بھی ہے۔ وہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی میں اس صدقہ سے کھاتے تھے ۔ تو اس سے یہ دلالت مل گئی کہ یہ تمام صدقات کی طرح ان پر حلال تھا۔ پس ان کے خلاف اس سلسلہ میں حجت یہ ہے۔ کہ یہ صدقہ صدقات اوقاف کی طرح ہے۔ اور ہم جانتے ہیں کہ یہ مالداروں کے لیے بھی حلال ہیں۔ کیا تم نہیں جانتے کہ اگر ایک آدمی اپنا مکان ایک غنی پر وقف کردیا ۔ تو یہ جائز ہے اور اس کا غناء اس کے استعمال سے مانع نہ بنے گا اور اس کا حکم تمام صدقات جو زکوۃ و کفارات اور وہ صدقات جو تقرب الی اللہ کے لیے دیے جائیں ان سے مختلف ہے۔ پس اسی طرح جو شخص بنی ہاشم سے ہو اس کے لیے حلال ہے اور اس کا حکم دیگر صدقات سے الگ ہے جن کا ہم نے تذکرہ کیا۔ پھر اس کے بعد جناب ہاسم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بنی ہاشم کے لیے صدقہ کی حرمت ثابت ہے۔ ذیل میں وہ درج ہے۔
حاصل روایات : ان روایات سے ان اموال کا صدقات ہونا معلوم ہوتا ہے اس کا ایک قرینہ مونت عاملین وہ عاملین آپ کی زندگی میں کام کرنے والے لوگ تھے ان اموال سے آپ کے اہل استعمال کرتے تھے ان میں فاطمہ (رض) بنت رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تھیں جب وہ ان صدقات سے کھاتے تھے تو بنی ہاشم کے لیے حلال تھے تبھی ان کو استعمال کرتے تھے پس ثابت ہوا سبھی صدقات ان کے لیے حلال ہیں۔
الجواب : ان صدقات کی حیثیت صدقات اوقاف جیسی تھی اور اوقاف کے صدقات اغنیاء کو بھی حلال ہیں جیسے کہ آدمی اگر اپنا گھر کسی غنی آدمی کو وقف کر دے تو یہ جائز ہے اور اس کی غناء اس میں مانع نہ ہوگی اور اس کا حکم زکوۃ و کفارات کے صدقات سے مختلف ہے بالکل اسی طرح یہ بنی ہاشم کے لیے بھی حلال ہے۔

2892

۲۸۹۲ : مَا حَدَّثَنَا اِبْرَاہِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا وَہْبُ بْنُ جَرِیْرٍ‘ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ‘ عَنْ یَزِیْدَ بْنِ أَبِیْ مَرْیَمَ‘ (عَنْ أَبِی الْجَوْزَائِ السَّعْدِیِّ‘ قَالَ : قُلْتُ لِلْحَسَنِ بْنِ عَلِیٍّ‘ مَا تَحْفَظُ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ؟ قَالَ : أَذْکُرُ أَنِّیْ أَخَذْتُ تَمْرَۃً مِنْ تَمْرِ الصَّدَقَۃِ فَجَعَلْتُہَا فِیْ فِیْ، فَأَخْرَجَہَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِلُعَابِہَا فَأَلْقَاہَا فِی التَّمْرِ .قَالَ رَجُلٌ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ‘ مَا عَلَیْکَ فِیْ ھٰذِہِ التَّمْرَۃِ لِھٰذَا الصَّبِیِّ ؟ قَالَ إِنَّا - آلَ مُحَمَّدٍ - لَا یَحِلُّ لَنَا الصَّدَقَۃُ) .
٢٨٩٢: ابوالجوزاء اسعدی کہتے ہیں کہ میں نے حسن بن علی (رض) کو کہا تمہیں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی کون سی بات یاد ہے تو وہ کہنے لگے مجھے یاد پڑتا ہے کہ میں نے صدقہ کی ایک کھجور کو منہ میں ڈال لیا تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے لعاب سمیت نکال کر پھینک دیا ایک آدمی نے کہا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! اس بچے کے اس ایک کھجور کھانے سے آپ پر کیا گناہ تھا ؟ آپ نے فرمایا ہم آل محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! کے لیے صدقہ حلال نہیں ہے۔
تخریج : مسلم فی الزکوۃ نمبر ١٦١‘ ١٦٨‘ نسائی فی الزکوۃ باب ٩٥‘ ٩٧‘ ٩٨‘ مالک فی الصدقہ نمبر ١٣‘ مسند احمد ١؍٢٠٠‘ ٣٢٩‘ ٢؍٢٧٩‘ ٤٤٤‘ ٤٧٦‘ ٣؍٤٤٨‘ ٤٩٠‘ ٤؍١٨٦‘ ٣٤٨‘ ٦؍١٠‘ ٣٩٠۔

2893

۲۸۹۳ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ وَابْن مَرْزُوق‘ قَالَا : ثَنَا أَبُوْ عَاصِمٍ‘ عَنْ ثَابِتِ بْنِ عُمَارَۃَ‘ عَنْ رَبِیْعَۃَ بْنِ شَیْبَانَ‘ قَالَ : قُلْتُ لِلْحَسَنِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ‘ فَذَکَرَ نَحْوَہٗ‘ إِلَّا أَنَّہٗ قَالَ فِیْ آخِرِہٖ (وَلَا لِأَحَدٍ مِنْ أَہْلِہٖ) .
٢٨٩٣: ربیعہ بن شیبان کہتے ہیں کہ میں نے حسن (رض) سے پوچھا پھر انھوں نے اسی طرح جواب دیا البتہ اتنا فرق ہے ولا لاحد من اہلہ کے الفاظ زائد ہیں۔

2894

۲۸۹۴ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ کَثِیْرٍ‘ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ الثَّوْرِیُّ‘ عَنِ ابْنِ أَبِیْ لَیْلٰی‘ عَنِ الْحَکَمِ‘ عَنْ مِقْسَمٍ‘ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا‘ قَالَ : (اُسْتُعْمِلَ أَرْقَمُ بْنُ أَرْقَمَ الزُّہْرِیُّ عَلَی الصَّدَقَاتِ‘ فَاسْتَتْبَعَ أَبَا رَافِعٍ‘ فَأَتَی النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَسَأَلَہٗ فَقَالَ : یَا أَبَا رَافِعٍ‘ إِنَّ الصَّدَقَۃَ حَرَامٌ عَلٰی مُحَمَّدٍ‘ وَعَلَی آلِ مُحَمَّدٍ‘ وَإِنَّ مَوْلَی الْقَوْمِ مِنْ أَنْفُسِہِمْ) .
٢٨٩٤: مقسم نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ ارقم بن ارقم زہری کو صدقات پر عامل بنایا گیا تو اس نے ابو رافع (رض) کو ساتھ چلنے کے لیے کہا وہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آئے تو آپ نے فرمایا اے ابو رافع آل محمد پر صدقہ حرام ہے اور قوم کا مولیٰ انہی میں سے ہوتا ہے۔
تخریج : ابو داؤد فی الزکوۃ باب ٢٩‘ نمبر ١٦٥٠۔

2895

۲۸۹۴: مقسم نے ابن عباسi سے روایت کی ہے کہ ارقم بن ارقم زہری کو صدقات پر عامل بنایا گیا تو اس نے ابو رافعؓ کو ساتھ چلنے کے لئے کہا وہ نبی اکرمﷺ کی خدمت میں آئے تو آپ نے فرمایا اے ابو رافع آل محمد پر صدقہ حرام ہے اور قوم کا مولیٰ انہی میں سے ہوتا ہے۔ تخریج : ابو داؤد فی الزکوٰۃ باب۲۹‘ نمبر۱۶۵۰۔
٢٨٩٥: عبداللہ بن عبداللہ بن نوفل بن حارث بن عبدالمطلب نے بیان کیا کہ عبدالمطلب بن ربیعہ بن حارث نے مجھے بیان کیا کہ ربیعہ بن حارث اور عباس بن عبدالمطلب دونوں نے کہا کہ اگر ہم دو ان دو لڑکوں یعنی مجھے اور فضل بن عباس (رض) کو صدقات پر مقرر کردیں تو وہ فرض ادا کریں گے جو لوگ ادا کرتے ہیں اور وہ تنخواہ وغیرہ پالیں گے جو دیگر عاملین کو ملتی ہے وہ دونوں اسی گفتگو میں مصروف تھے کہ علی بن ابی طالب (رض) آگئے اور ان کے پاس کھڑے ہوگئے دونوں نے اس بات کا تذکرہ ان سے کیا تو علی (رض) نے کہا تم مت یہ بات کرو اللہ کی قسم آپ ایسا بالکل نہ کریں گے۔ حضرت ربیعہ بن حارث کہنے لگے تم تو ہم سے حسد کی بناء پر یہ بات کہتے ہو اللہ کی قسم ! تم نے دامادی رسول پائی تو ہم نے ہرگز حسد نہ کیا۔ حضرت علی (رض) کہنے لگے میں ابوالحسن ہوں (میں حسد نہیں کرسکتا) تم دونوں ان کو بھیج کر دیکھ لو۔ علی (رض) لیٹ گئے۔ جب جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نماز ظہر پڑھ لی تو ہم حجرے کی طرف آپ سے پہلے پہنچ گئے اور دروازے کے پاس جا کھڑے ہوئے یہاں تک کہ آپ تشریف لائے تو آپ نے ہمارے کانوں کو پکڑ کر فرمایا اس بات کو تم دونوں دل سے نکال دو جو تم اپنے سینے میں جمع کرنے والے ہو پھر آپ حجرہ میں داخل ہوئے اور ہم بھی داخل ہوگئے اس دن آپ زینب بنت جحش (رض) کے مکان میں تھے ہم نے گفتگو میں ایک دوسرے پر بھروسہ کیا پھر ہم میں سے ایک نے بات کی اور کہا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ لوگوں میں سب سے زیادہ محسن اور صلہ رحمی کرنے والے ہیں اور ہم بالغ ہوچکے ہیں ہم اس لیے آئے ہیں تاکہ آپ ہمیں کسی صدقہ کا عامل مقرر فرما دیں ہم لوگوں سے جمع کر کے اسی طرح ادا کریں گے جیسے دوسرے ادا کرتے ہیں اور ہمیں عمل کی تنخواہ مل جائے گی جیسے دوسروں کو ملتی ہے آپ نے خاموشی اختیار فرمائی۔ یہاں تک کہ ہم نے آپ سے (دوبارہ) گفتگو کا ارادہ کیا اور پردے پیچھے زینب (رض) ہمیں اشارہ کر رہی تھیں (کہ بات نہ کرنا) پھر آپ نے فرمایا صدقہ آل محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لائق نہیں یہ لوگوں کی میل کچیل ہے۔ محمیہ (رض) (یہ خمس کے نگران تھے) کو بلاؤ اور نوفل بن حارث بن عبدالمطلب کو بلا لاؤ وہ دونوں آگئے تو آپ نے محمیہ کو فرمایا تم اس لڑکے سے اپنی بیٹی کا نکاح کر دو یعنی فضل بن عباس (رض) کے ساتھ پس انھوں نے نکاح کردیا اور نوفل بن حارث کو کہا تم اس لڑکے سے اپنی بیٹی کا نکاح کر دو چنانچہ انھوں نے میرا نکاح کردیا اور محمیہ (رض) کو فرمایا ان دونوں کو خمس میں سے اتنی رقم مہر کے لیے دے دو ۔ اگر کوئی یہ اعتراض کرے کہ ان کا مہر خمس میں سے دیا گیا اور خمس کا حکم بھی صدقات جیسا ہے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا ۔ عین ممکن ہے کہ یہ ذوی اتوبی کے حصہ سے ہو جہ کہ خمس میں مقرر ہے اور یہ ان صدقات سے خارج ہے جن کو حرام کیا گیا ہے۔ اس لیے کہ ان پر لوگوں کی میل کچیل حرام کی ہے اور خمس ان میں سے نہیں ہے۔
تخریج : مسلم فی الزکوۃ نمبر ١٦٧۔
حاصل کلام یہ کہ صدقات آل محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو درست نہیں خمس میں سے ان کو کھانے کے لیے دیا جائے گا۔
لغات : لقاسۃ۔ حسد۔ تصرران۔ دل میں بات جمع کرنا۔ تلمع۔ اشارہ جو ہاتھ یا کپڑے سے کیا جائے۔ تواکل الکلام۔ بھروسہ کرنا۔ اصدق۔ مہر ادا کر دو ۔ اوساخ۔ میل کچیل۔
سوال : خمس کا حکم بھی تو صدقات جیسا ہے اس میں سے فضل اور عبدالمطلب کی بیویوں کا مہر ادا کیا گیا اس سے صدقات سے فائدہ اٹھانے کا جواز مل رہا ہے۔
جواب : خمس میں ذوالقربیٰ کا حصہ بھی تو ہے اس میں سے دیا گیا ہوگا اور یہ حصہ تو محرم صدقات سے خارج ہے کیونکہ لوگوں کی میل کچیل ان پر حرام ہے اور خمس اس میں سے نہیں ہے اور خمس تو ہبہ اور ہدیہ کی قسم سے ہے وہ بلاشبہ آپ کے لیے درست ہے جیسا کہ یہ روایات مؤید ہیں۔

2896

۲۸۹۶ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ‘ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَعِیْدٍ‘ قَالَ أَنَا شَرِیْکٌ‘ عَنْ عُبَیْدٍ الْمُکْتِبِ‘ عَنْ أَبِی الطُّفَیْلِ‘ عَنْ سَلْمَانَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : (أَتَیْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِصَدَقَۃٍ فَرَدَّہَا‘ وَأَتَیْتُہٗ بِہَدِیَّۃٍ فَقَبِلَہَا) .
٢٨٩٦: ابوالطفیل نے سلمان (رض) سے روایت کی کہ میں جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں صدقہ لایا تو آپ نے اس کو واپس کردیا اور نہ لیا اور آپ کی خدمت میں ہدیہ لایا تو اسے قبول فرما لیا۔

2897

۲۸۹۷ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ‘ قَالَ : ثَنَا یُوْسُفُ بْنُ بُہْلُوْلٍ‘ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ إِدْرِیْسَ‘ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ ابْنُ إِسْحَاقَ‘ عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُمَرَ بْنِ قَتَادَۃَ‘ عَنْ مَحْمُوْدِ بْنِ لَبِیْدٍ‘ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ‘ قَالَ : حَدَّثَنِیْ سَلْمَانُ الْفَارِسِیُّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ‘ وَذَکَرَ حَدِیْثًا طَوِیْلًا‘ ذَکَرَ فِیْہِ (أَنَّہٗ کَانَ عَبْدًا‘ قَالَ : فَلَمَّا أَمْسَیْتُ جَمَعْتُ مَا کَانَ عِنْدِیْ، ثُمَّ خَرَجْتُ حَتّٰی جِئْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَہُوَ بِقُبَائَ ‘ فَدَخَلْتُ عَلَیْہِ وَمَعَہٗ نَفَرٌ مِنْ أَصْحَابِہٖ فَقُلْتُ إِنَّہُ بَلَغَنِیْ أَنَّہٗ لَیْسَ بِیَدَیْکَ شَیْء ٌ وَأَنَّ مَعَک أَصْحَابًا لَکَ‘ وَأَنْتُمْ أَہْلُ حَاجَۃٍ وَغُرْبَۃٍ‘ وَقَدْ کَانَ عِنْدِی شَیْء ٌ وَضَعْتُہٗ لِلصَّدَقَۃِ‘ فَلَمَّا ذُکِرَ لِیْ مَکَانُکُمْ رَأَیْتُکُمْ أَحَقَّ بِہٖ، ثُمَّ وَضَعْتُہٗ لَہٗ .فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کُلْہُ أَوْ أَمْسِکْہُ ثُمَّ أَتَیْتُہٗ بَعْدَ أَنْ تَحَوَّلَ إِلَی الْمَدِیْنَۃِ وَقَدْ جَمَعْتُ شَیْئًا‘ فَقُلْتُ : رَأَیْتُک لَا تَأْکُلُ الصَّدَقَۃَ‘ وَقَدْ کَانَ عِنْدِیْ شَیْء ٌ أَحْبَبْتُ أَنْ أُکْرِمَک بِہٖ کَرَامَۃً لَیْسَتْ بِصَدَقَۃٍ‘ فَأَکَلَ وَأَکَلَ أَصْحَابُہٗ) .
٢٨٩٧: محمود بن لبید نے ابن عباس (رض) نے نقل کیا کہ مجھے سلمان (رض) نے بیان کیا اور طویل روایت ذکر کی اس میں بیان کیا کہ میں غلام تھا جب شام کا وقت ہوا تو جو میرے پاس تھا میں نے اسے جمع کیا پھر میں نکلا یہاں تک کہ آپ کی خدمت میں پہنچا اس وقت آپ قباء میں تھے میں جب پہنچا تو صحابہ کرام کی ایک جماعت آپ کے ساتھ تھی میں نے کہا مجھے یہ اطلاع ملی ہے کہ آپ کے پاس کوئی چیز نہیں اور آپ کے کچھ ساتھی بھی آپ کے ساتھ ہیں اور تم مسافر اور ضرورت مند لوگ ہو میرے پاس صدقے کی چیز پڑی تھی جب میرے سامنے تمہاری حالت ذکر کی گئی تو مجھے تم سب سے زیادہ حقدار نظر آئے پھر میں نے وہ چیز آپ کے سامنے رکھ دی تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس کو تم خود کھالو یا اپنے پاس محفوظ رکھ لو۔ پھر میں اس وقت آپ کی خدمت میں آیا جب آپ مدینہ منتقل ہوچکے تھے اور میں نے کچھ چیزیں جمع کرلی تھیں میں نے کہا میں نے آپ کو صدقہ نہ کھانے والا پایا میرے پاس ایسی چیز موجود تھی جس سے میرا دل چاہا کہ آپ کا اکرام کروں یہ صدقہ نہیں ہے پس آپ نے خود کھایا اور آپ کے اصحاب نے کھایا۔

2898

۲۸۹۸ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ وَابْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَا : ثَنَا وَہْبٌ‘ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ‘ عَنِ الْحَکَمِ‘ عَنِ ابْنِ أَبِیْ رَافِعٍ مَوْلَی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ عَنْ أَبِیْہِ (أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَعَثَ رَجُلًا مِنْ بَنِیْ مَخْزُوْمٍ عَلَی الصَّدَقَۃِ .فَقَالَ لِأَبِیْ رَافِعٍ : اصْحَبْنِیْ کَیْمَا تُصِیْبَ مِنْہَا .فَقَالَ : حَتّٰی أَسْتَأْذِنَ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .فَأَتَی النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَذَکَرَ ذٰلِکَ لَہٗ‘ فَقَالَ إِنَّ آلَ مُحَمَّدٍ‘ لَا یَحِلُّ لَہُمُ الصَّدَقَۃُ‘ وَإِنَّ مَوْلَی الْقَوْمِ مِنْ أَنْفُسِہِمْ) .
٢٨٩٨: ابن ابی رافع (رح) مولیٰ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے والد ابو رافع (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بنی مخزوم کے ایک آدمی کو صدقہ پر عامل مقرر فرمایا اس نے ابو رافع (رض) کو کہا تم میرے ساتھ چلو تاکہ تمہیں بھی اس سے فائدہ ہو اس نے جانے کی حامی بھر لی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اجازت کے لیے آئے اور اس بات کا تذکرہ کیا تو آپ نے فرمایا آل محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے صدقہ حلال نہیں اور قوم کا مولیٰ انہی میں شمار ہوتا ہے یعنی تمہارے لیے صدقہ حلال نہیں ہے۔
تخریج : نمبر ٢٨٨٢ کی تخریج ملاحظہ کرلیں۔

2899

۲۸۹۹ : حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ‘ قَالَ : ثَنَا أَسَدٌ‘ قَالَ : ثَنَا وَرْقَائُ بْنُ عُمَرَ‘ عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ‘ قَالَ : (دَخَلْتُ عَلٰی أُمِّ کُلْثُوْمٍ بِنْتِ عَلِیٍّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا فَقَالَتْ إِنَّ مَوْلًیْ لَنَا یُقَالُ لَہٗ ہُرْمُزُ‘ أَوْ کَیْسَانَ‘ أَخْبَرَنِیْ أَنَّہٗ مَرَّ عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ فَدَعَانِیْ فَجِئْتُ .فَقَالَ یَا أَبَا فُلَانٍ إِنَّا - أَہْلَ بَیْتٍ - قَدْ نُہِیْنَا أَنْ نَأْکُلَ الصَّدَقَۃَ‘ وَإِنَّ مَوْلَی الْقَوْمِ مِنْ أَنْفُسِہِمْ فَلاَ تَأْکُلْ الصَّدَقَۃَ).
٢٨٩٩: عطاء بن سائب کہتے ہیں کہ میں ام کلثوم بنت علی (رض) کی خدمت میں گیا تو کہنے لگیں ہمارے غلام ہرمز یا کیسان نے بتلایا کہ اس کا گزر جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس سے ہوا تو آپ نے مجھے بلایا میں حاضر ہوگیا تو فرمایا اے ابو فلاں ہم (اہل بیت) کو صدقہ سے منع کیا گیا ہے اور قوم کا غلام انہی میں سے ہوتا ہے پس تم صدقہ نہ کھانا۔

2900

۲۹۰۰ : حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ نَصْرٍ‘ قَالَ : ثَنَا شَبَابَۃُ بْنُ سَوَّارٍ .
٢٩٠٠: حسین بن نصر نے شبابہ بن سوار سے روایت نقل کی۔

2901

۲۹۰۱ : وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا عَلِیُّ بْنُ الْجَعْدِ .ح .
٢٩٠١: محمد بن خزیمہ نے علی بن جعد سے روایت نقل کی ہے۔

2902

۲۹۰۲ : وَحَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ شُعَیْبٍ‘ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ زِیَادٍ‘ قَالُوْا : ثَنَا شُعْبَۃُ‘ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ زِیَادٍ‘ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ‘ قَالَ : (أَخَذَ الْحَسَنُ بْنُ عَلِیٍّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا تَمْرَۃً مِنْ تَمْرِ الصَّدَقَۃِ‘ فَأَدْخَلَہَا فِیْ فِیْہٖ‘ فَقَالَ لَہٗ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کِخْ کِخْ أَلْقِہَا أَلْقِہَا‘ أَمَا عَلِمْتُ أَنَّا لَا نَأْکُلُ الصَّدَقَۃَ) .
٢٩٠٢: محمد بن زیاد نے ابوہریرہ (رض) سے نقل کیا کہ حسن بن علی (رض) نے صدقات کی کھجوروں میں سے ایک کھجور لے لی اور اسے اپنے منہ میں ڈال لیا تو نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس کو باہر پھینک دو پھینک دو ۔ کیا تمہیں معلوم نہیں کہ ہم صدقہ نہیں کھاتے۔
تخریج : بخاری فی الزکوۃ باب ٦٢‘ مسلم فی الزکوۃ نمبر ١٦١۔

2903

۲۹۰۳ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ وَابْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَا : ثَنَا مَکِّیُّ بْنُ اِبْرَاہِیْمَ‘ قَالَ : ثَنَا بَہْزُ بْنُ حَکِیْمٍ‘ عَنْ أَبِیْہِ‘ عَنْ جَدِّہٖ‘ قَالَ : (کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِذَا أُتِیَ بِالشَّیْئِ سَأَلَ أَہَدِیَّۃٌ ہُوَ أَمْ صَدَقَۃٌ ؟ فَإِنْ قَالُوْا : ہَدِیَّۃٌ‘ بَسَطَ یَدَیْہٖ‘ وَإِنْ قَالُوْا صَدَقَۃٌ‘ قَالَ لِأَصْحَابِہٖ کُلُوْا) .
٢٩٠٣: بہز بن حکیم نے اپنے والد اور اپنے دادا سے نقل کیا جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس جب کوئی چیز لائی جاتی تو آپ دریافت فرماتے کیا یہ ہدیہ ہے یا صدقہ ہے ؟ اگر کہتے کہ ہدیہ ہے تو آپ اپنا دست اس کو استعمال کے لیے دراز فرماتے اور اگر وہ کہتے کہ صدقہ ہے تو صحابہ کرام کو فرماتے اس کو کھالو۔
تخریج : بخاری فی الہبہ باب ٧‘ ترمذی فی الزکوۃ باب ٢٥‘ نمبر ٦٥٦‘ نسائی فی الزکوۃ باب ٩٨‘ مسند احمد ٣؍٤٩٠‘ ٥؍٥۔

2904

۲۹۰۴ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ وَابْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَا : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ بَکْرٍ‘ عَنْ بَہْزِ بْنِ حَکِیْمٍ‘ عَنْ أَبِیْہِ‘ عَنْ جَدِّہِ‘ قَالَ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ فِیْ اِبِلٍ سَائِمَۃٍ (فِیْ کُلِّ أَرْبَعِیْنَ بِنْتُ لَبُوْنٍ‘ مَنْ أَعْطَاہَا مُؤْتَجِرًا أَیْ طَالِبَ أَجْرِہٖ فَلَہٗ أَجْرُہَا‘ وَمَنْ مَنَعَہَا فَإِنَّا آخِذُوْہَا مِنْہُ وَشَطْرَ اِبِلِہِ عَزْمَۃٌ مِنْ عَزَمَاتِ رَبِّنَا لَا یَحِلُّ لِأَحَدٍ مِنَّا مِنْہَا شَیْء ٌ) .
٢٩٠٤: بہز بن حکیم نے اپنے والد اور اپنے دادا سے روایت کی کہ میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے سنا کہ چرنے والے اونٹوں میں سے چالیس میں ایک بنت لبون ہے جس نے حلال اجر کے لیے دیا تو اس کا اجر اسے ملے گا اور جس نے نہ دیا ہم اس سے وصول کریں گے۔ اور اس کے بقیہ اونٹ میں سے کوئی چیز لینی حصول نہیں وہ ہمارے رب کی پختہ بات میں بات ہے۔
تخریج : ابو داؤد فی الزکوۃ باب ٥‘ نسائی فی الزکوۃ باب ٤‘ ٧‘ دارمی فی الزکوۃ باب ٣٦‘ مسند احمد ٥؍٢‘ ٤۔

2905

۲۹۰۵ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ وَابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ‘ قَالَا : ثَنَا أَبُوَ الْوَلِیْدِ‘ قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلْمَۃَ‘ عَنْ قَتَادَۃَ‘ عَنْ أَنَسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ (أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یَمُرُّ فِی الطَّرِیْقِ بِالتَّمْرَۃِ‘ فَمَا یَمْنَعُہٗ مِنْ أَخْذِہَا إِلَّا مَخَافَۃَ أَنْ تَکُوْنَ صَدَقَۃً) .
٢٩٠٥: قتادہ نے انس (رض) سے نقل کیا کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گزرنے والے راستہ میں اگر کوئی کھجور پڑی ہوتی تو آپ اسے اس لیے نہ اٹھاتے کہ کہیں یہ صدقہ کی نہ ہو۔
تخریج : مسلم فی الزکوۃ نمبر ١٦٦‘ ابو داؤد فی الزکوۃ باب ٢٩‘ نمبر ١٦٥١۔

2906

۲۹۰۶ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا مُسَدَّدٌ‘ قَالَ : ثَنَا یَحْیٰی‘ عَنْ سُفْیَانَ‘ قَالَ : ثَنَا مَنْصُوْرٌ‘ عَنْ طَلْحَۃَ‘ عَنْ أَنَسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ (أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَأَی تَمْرَۃً فَقَالَ لَوْلَا أَنِّیْ أَخَافُ أَنْ تَکُوْنَ صَدَقَۃً لَأَکَلْتُہَا) .
٢٩٠٦: طلحہ نے انس (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک کھجور راستہ میں پائی آپ نے فرمایا اگر مجھے خدشہ نہ ہوتا کہ یہ صدقہ کی ہے تو میں اسے کھا لیتا۔
تخریج : مسلم فی الزکوۃ ١٦٤؍١٦٥۔

2907

۲۹۰۷ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ‘ قَالَ : ثَنَا الْحَکَمُ بْنُ مَرْوَانَ الضَّرِیْرُ .ح .
٢٩٠٧ : علی بن معبد نے حکم بن مروان الضریر سے بیان کیا۔

2908

۲۹۰۸ : وَحَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ‘ قَالَ : ثَنَا أَحْمَدُ بْنُ یُوْنُسَ‘ قَالَ : ثَنَا مَعْرُوْفُ بْنُ وَاصِلٍ السَّعْدِیُّ‘ قَالَ : حَدَّثَتْنَا حَفْصَۃُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا فِیْ سَنَۃِ تِسْعِیْنَ‘ قَالَ ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ فِیْ حَدِیْثِہِ ابْنَۃُ طَلْقٍ تَقُوْلُ : ثَنَا (رُشَیْدُ بْنُ مَالِکٍ أَبُوْ عَمِیْرَۃَ‘ قَالَ : کُنَّا عِنْدَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَأُتِیَ بِطَبَقٍ عَلَیْہِ تَمْرٌ فَقَالَ أَصَدَقَۃٌ أَمْ ہَدِیَّۃٌ ؟ قَالَ : بَلْ صَدَقَۃٌ‘ فَوَضَعَہٗ بَیْنَ یَدَیَ الْقَوْمِ وَالْحَسَنُ یَتَعَفَّرُ بَیْنَ یَدَیْہٖ‘ فَأَخَذَ الصَّبِیُّ تَمْرَۃً فَجَعَلَہَا فِیْ فِیْہِ .فَأَدْخَلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِصْبَعَہٗ وَجَعَلَ یَتَرَفَّقُ بِہٖ، فَأَخْرَجَہَا فَقَذَفَہَا ثُمَّ قَالَ إِنَّا - آلَ مُحَمَّدٍ - لَا نَأْکُلُ الصَّدَقَۃَ) .
٢٩٠٨: معروف بن واصل السعدی کہتے ہیں کہ ہمیں حفصہ (رض) نے ٩٠ ھ میں بیان کیا ابن ابی داؤد نے اپنی روایت میں کہا کہ طلاق کی بیٹی کہتی ہے کہ ہمیں رشید بن مالک ابو عمیر نے بیان کیا کہ ہم جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس تھے کہ ایک کھجور کا تھال لایا گیا آپ نے دریافت فرمایا کیا یہ صدقہ ہے یا ہدیہ ؟ اس نے کہا صدقہ۔ آپ نے اسے لوگوں کے سامنے رکھ دیا اور حسن آپ کے سامنے مٹی میں کھیل رہے تھے بچے نے ایک کھجور منہ میں رکھ لی جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی انگلی اس کے منہ میں ڈالی اور اس سے نرمی کرنے لگے تاکہ وہ نکال دے تو اس نے نکال دی آپ نے اسے پھینک دیا اور فرمایا ہم آل محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صدقہ نہیں کھاتے۔
تخریج : مسند احمد ٣؍٤٩٠۔

2909

۲۹۰۹ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ‘ قَالَ : ثَنَا عَلِیُّ بْنُ حَکِیْمٍ الْأَوْدِیُّ‘ قَالَ : أَنَا شَرِیْکٌ‘ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عِیْسٰی عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ أَبِیْ لَیْلٰی‘ عَنْ أَبِیْہِ‘ قَالَ : (دَخَلْتُ مَعَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَیْتَ الصَّدَقَۃِ‘ فَتَنَاوَلَ الْحَسَنِ تَمْرَۃً‘ فَأَخْرَجَہَا مِنْ فِیْہِ وَقَالَ إِنَّا - أَہْلَ بَیْتٍ - لَا یَحِلُّ لَنَا الصَّدَقَۃُ أَوْ لَا نَأْکُلُ الصَّدَقَۃَ) .
٢٩٠٩: عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ نے اپنے والد سے روایت کی ہے کہ میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ بیت الصدقہ میں داخل ہوا حسن نے ایک کھجور اٹھالی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے ان کے منہ سے نکال دیا اور فرمایا ہم اہل بیت کے لیے صدقہ حلال نہیں یا فرمایا ہم صدقہ نہیں کھاتے۔

2910

۲۹۱۰ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ‘ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَعِیْدٍ‘ قَالَ : أَنَا شَرِیْکٌ‘ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ ، غَیْرَ أَنَّہٗ قَالَ (إِنَّا - أَہْلَ بَیْتٍ - لَا یَحِلُّ لَنَا الصَّدَقَۃُ) وَلَمْ یَشُکَّ .
٢٩١٠: محمد بن سعید نے کہا ہمیں شریک نے بیان کیا پھر انھوں نے اپنی اسناد سے روایت نقل کی ہے البتہ اس میں لَا یَحِلُّ لَنَا الصَّدَقَۃُ کے الفاظ ہیں او شک کا لفظ موجود نہیں۔

2911

۲۹۱۱ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ‘ قَالَ : ثَنَا نُعَیْمٌ‘ قَالَ : ثَنَا ابْنُ الْمُبَارَکِ‘ قَالَ : أَنَا مَعْمَرٌ‘ عَنْ ہَمَّامِ بْنِ مُنَبِّہٍ‘ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (إِنِّیْ لَأَنْقَلِبُ إِلٰی أَہْلِیْ فَأَجِدُ التَّمْرَۃَ سَاقِطَۃً عَلٰی فِرَاشِیْ فِیْ بَیْتِیْ‘ فَأَرْفَعُہَا لِآکُلَہَا‘ ثُمَّ أَخْشَیْ أَنْ تَکُوْنَ صَدَقَۃً فَأُلْقِیْہَا) .
٢٩١١: ہمام بن منبہ نے ابوہریرہ (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں بعض اوقات گھر آتا ہوں تو اپنے بستر پر ایک کھجور گری ہوئی پاتا ہوں میں اسے کھانے کے لیے اٹھاتا ہوں پھر اس خطرے سے اس کو میں ڈال دیتا ہوں کہ کہیں صدقہ نہ ہو۔
تخریج : بخاری فی البیوع باب ٤‘ واللقطہ باب ٦‘ مسلم فی الزکوۃ نمبر ١٦٣۔

2912

۲۹۱۲ : حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الْمُؤْمِنَ الْخُرَاسَانِیُّ‘ قَالَ : ثَنَا عَلِیُّ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ شَقِیْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا الْحُسَیْنُ بْنُ وَاقِدٍ‘ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ بُرَیْدَۃَ‘ قَالَ : سَمِعْتُ أَبِیْ یَقُوْلُ (جَائَ سَلْمَانُ الْفَارِسِیُّ إِلَی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ حِیْنَ قَدِمَ الْمَدِیْنَۃَ بِمَائِدَۃٍ عَلَیْہَا رُطَبٌ .فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا ھٰذَا یَا سَلْمَانُ ؟ قَالَ : صَدَقَۃٌ عَلَیْکَ‘ وَعَلٰی أَصْحَابِک .قَالَ ارْفَعْہَا فَإِنَّا لَا نَأْکُلُ الصَّدَقَۃَ فَرَفَعَہَا .فَجَائَ ہُ مِنَ الْغَدِ بِمِثْلِہٖ، فَوَضَعَہٗ بَیْنَ یَدَیْہِ فَقَالَ مَا ھٰذَا یَا سَلْمَانُ ؟ قَالَ ہَدِیَّۃٌ .فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِأَصْحَابِہِ انْبَسِطُوْا) .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَھٰذِہِ الْآثَارُ کُلُّہَا‘ قَدْ جَائَ تْ بِتَحْرِیْمِ الصَّدَقَۃِ عَلٰی بَنِیْ ہَاشِمٍ‘ وَلَا نَعْلَمُ شَیْئًا نَسَخَہَا وَلَا عَارَضَہَا إِلَّا مَا قَدْ ذَکَرْنَاہُ فِیْ ھٰذَا الْبَابِ‘ مِمَّا لَیْسَ فِیْہِ دَلِیْلٌ عَلٰی مُخَالَفَتِہَا .فَإِنْ قَالَ قَائِلٌ : تِلْکَ الصَّدَقَۃُ‘ إِنَّمَا ہِیَ الزَّکَاۃُ خَاصَّۃً‘ فَأَمَّا مَا سِوٰی ذٰلِکَ مِنْ سَائِرِ الصَّدَقَاتِ فَلاَ بَأْسَ بِہٖ۔ قِیْلَ لَہٗ : فِیْ ھٰذِہِ الْآثَارِ مَا قَدْ دَفَعَ مَا ذَہَبَ إِلَیْہٖ‘ وَذٰلِکَ مَا فِیْ حَدِیْثِ بَہْزِ بْنِ حَکِیْمٍ (أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ اِذَا أُتِیَ بِالشَّیْئِ سَأَلَ أَہَدِیَّۃٌ أَمْ صَدَقَۃٌ فَإِنْ قَالُوْا صَدَقَۃٌ‘ قَالَ لِأَصْحَابِہٖ کُلُوْا) وَاسْتَغْنَیْ بِقَوْلِ الْمَسْئُوْلِ (إِنَّہُ صَدَقَۃٌ) عَنْ أَنْ یَسْأَلَہُ صَدَقَۃٌ مِنْ زَکَاۃٍ‘ أَمْ غَیْرِ ذٰلِکَ ؟ فَدَلَّ ذٰلِکَ عَلٰی أَنَّ حُکْمَ سَائِرِ الصَّدَقَاتِ فِیْ ذٰلِکَ سَوَاء ٌ .وَفِیْ حَدِیْثِ سَلْمَانَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فَقَالَ : فَجِئْتُ فَقَالَ (أَہَدِیَّۃٌ أَمْ صَدَقَۃٌ فَقُلْتُ بَلْ صَدَقَۃٌ‘ لِأَنَّہٗ بَلَغَنِیْ أَنَّکُمْ قَوْمٌ فُقَرَائُ) فَامْتَنَعَ مِنْ أَکْلِہَا لِذٰلِکَ‘ وَإِنَّمَا کَانَ سَلْمَانُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ یَوْمَئِذٍ عَبْدًا‘ مِمَّنْ لَا یَجِبُ عَلَیْہِ زَکَاۃٌ .فَدَلَّ ذٰلِکَ عَلٰی أَنَّ کُلَّ الصَّدَقَاتِ‘ مِنَ التَّطَوُّعِ وَغَیْرِہِ‘ قَدْ کَانَ مُحَرَّمًا عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ وَعَلٰی سَائِرِ بَنِیْ ہَاشِمٍ . وَالنَّظْرُ أَیْضًا یَدُلُّ عَلَی اسْتِوَائِ حُکْمِ الْفَرَائِضِ وَالتَّطَوُّعِ فِیْ ذٰلِکَ‘ وَذٰلِکَ أَنَّا رَأَیْنَا غَیْرَ بَنِیْ ہَاشِمٍ مِنَ الْأَغْنِیَائِ وَالْفُقَرَائِ - فِی الصَّدَقَاتِ الْمَفْرُوْضَاتِ وَالتَّطَوُّعِ - سَوَاء ٌ مَنْ حَرُمَ عَلَیْہِ أَخْذُ صَدَقَۃٍ مَفْرُوْضَۃٍ‘ حَرُمَ عَلَیْہِ أَخْذُ صَدَقَۃٍ غَیْرِ مَفْرُوْضَۃٍ .فَلَمَّا حَرُمَ عَلٰی بَنِیْ ہَاشِمٍ أَخْذُ الصَّدَقَاتِ الْمَفْرُوْضَاتِ‘ حَرُمَ عَلَیْہِمْ أَخْذُ الصَّدَقَاتِ غَیْرِ الْمَفْرُوْضَاتِ .فَھٰذَا ہُوَ النَّظَرُ فِیْ ھٰذَا الْبَابِ‘ وَہُوَ قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ‘ وَأَبِیْ یُوْسُفَ‘ وَمُحَمَّدٍ‘ رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی .وَقَدْ اُخْتُلِفَ عَنْ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ رَحِمَہُ اللّٰہُ فِیْ ذٰلِکَ‘ فَرُوِیَ عَنْہُ أَنَّہٗ قَالَ : لَا بَأْسَ بِالصَّدَقَاتِ کُلِّہَا عَلٰی بَنِیْ ہَاشِمٍ .وَذَہَبَ فِیْ ذٰلِکَ - عِنْدَنَا - إِلٰی أَنَّ الصَّدَقَاتِ إِنَّمَا کَانَتْ حَرُمَتْ عَلَیْہِمْ مِنْ أَجْلِ مَا جُعِلَ لَہُمْ فِی الْخُمُسِ‘ مِنْ سَہْمِ ذَوِی الْقُرْبَی .فَلَمَّا انْقَطَعَ ذٰلِکَ عَنْہُمْ وَرَجَعَ إِلٰی غَیْرِہِمْ‘ بِمَوْتِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ - حَلَّ لَہُمْ بِذٰلِکَ مَا قَدْ کَانَ مُحَرَّمًا عَلَیْہِمْ مِنْ أَجْلِ مَا قَدْ کَانَ أُحِلَّ لَہُمْ .وَقَدْ حَدَّثَنِیْ سُلَیْمَانُ بْنُ شُعَیْبٍ‘ عَنْ أَبِیْہِ‘ عَنْ مُحَمَّدٍ عَنْ أَبِیْ یُوْسُفَ‘ عَنْ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ رَحِمَہُمُ اللّٰہُ فِیْ ذٰلِکَ‘ مِثْلَ قَوْلِ أَبِیْ یُوْسُفَ رَحِمَہُ اللّٰہُ‘ فَبِھٰذَا نَأْخُذُ .فَإِنْ قَالَ قَائِلٌ : أَفَتَکْرَہُہَا عَلٰی مَوَالِیْہِمْ ؟ قُلْتُ : نَعَمْ‘ لِحَدِیْثِ أَبِیْ رَافِعٍ الَّذِیْ قَدْ ذَکَرْنَاہُ فِیْ ھٰذَا الْبَابِ‘ وَقَدْ قَالَ ذٰلِکَ أَبُوْ یُوْسُفَ رَحِمَہُ اللّٰہُ فِیْ کِتَابِ الْاِمْلَائِ ‘ وَمَا عَلِمْتُ أَحَدًا مِنْ أَصْحَابِنَا خَالَفَہُ فِیْ ذٰلِکَ . فَإِنْ قَالَ قَائِلٌ : أَفَتَکْرَہُ لِلْہَاشِمِیِّ أَنْ یَعْمَلَ عَلَی الصَّدَقَۃِ ؟ قُلْتُ : لَا .فَإِنْ قَالَ : وَلِمَ‘ وَفِیْ حَدِیْثِ رَبِیْعَۃَ بْنِ الْحَارِثِ وَالْفَضْلِ بْنِ عَبَّاسٍ الَّذِیْ ذَکَرْتُ مَنْعُ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِیَّاہُمَا مِنْ ذٰلِکَ قُلْتُ: مَا فِیْہِ مَنْعٌ مِنْ ذٰلِکَ‘ لِأَنَّہُمْ سَأَلُوْہُ أَنْ یَسْتَعْمِلَہُمْ عَلَی الصَّدَقَۃِ‘ لِیَسُدُّوْا بِذٰلِکَ فَقْرَہُمْ‘ فَسَدَّ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقْرَہُمْ بِغَیْرِ ذٰلِکَ .وَقَدْ یَجُوْزُ أَیْضًا أَنْ یَّکُوْنَ أَرَادَ بِمَنْعِہِمْ أَنْ یُؤَکِّلَہُمْ عَلَی الْعَمَلِ عَلٰی أَوْسَاخِ النَّاسِ‘ لَا لِأَنَّ ذٰلِکَ یَحْرُمُ عَلَیْہِمْ‘ لِاِجْتِعَالِہِمْ مِنْہُ عِمَالَتَہُمْ عَلَیْہِ .وَقَدْ وَجَدْنَا مَا یَدُلُّ عَلٰی ھٰذَا .
٢٩١٢: حسین بن واقد کہتے ہیں کہ ہمیں عبداللہ بن بریدہ نے بیان کیا کہ میں نے اپنے والد سے سنا کہ سلمان الفارسی جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت گرامی میں آئے جبکہ آپ مدینہ منورہ تشریف لائے وہ ایک دستر خوان میں تازہ کھجور لائے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اے سلمان یہ کیا ہے انھوں نے کہا صدقہ ہے جو آپ کی خدمت میں لایا ہوں آپ کے صحابہ کی خدمت میں لایا ہوں آپ نے فرمایا اسے اٹھالو ہم صدقہ نہیں کھاتے تو سلمان نے اس کو سامنے سے اٹھا لیا اگلے دن بھی اسی طرح دستر خوان میں تازہ کھجور لائے اور آپ کے سامنے دستر خوان بچھا دیا آپ نے دریافت کیا اے سلمان ! یہ کیا ہے ؟ انھوں نے کہا یہ ہدیہ ہے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ کرام کو فرمایا اس کو پھیلاؤ اور کھاؤ۔ امام طحاوی (رح) کہتے ہیں یہ تمام آثار آمدہ اس بات پر دلات کرتے ہیں کہ بنی ہاشم پر صدقہ حرام ہے اور ہمیں کوئی ایسی نص معلوم نہیں جو ان کی ناسخ ہو اور ایسی نص بھی معلوم نہیں جو ان کے معارض ہو ۔ سوائے اس روایت کے جس کچ شروع باب میں ہم نے ذکر کیا اس میں اس کے صدقہ کوئی دلیل نہیں ہے اگر کسی کو یہ اعتراض ہو کہ اس صدقہ سے مراد تو خاص زکوۃ ہے۔ تو اس کے علاوہ صدقات میں تو کچھ حرج نہیں اس کے جواب میں کہا جائے گا ۔ ان آثار میں اس کا جواب موجود ہے اور وہ اس طرح کہ بہز بن حکیم (رض) والی روایت میں آیا ہے کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاں جب کوئی چیز لائی جاتی تو آپ دریافت فرماتے کیا یہ صدقہ ہے یا ہدیہ ہے۔ پھر اگر وہ کہتے کہ صدقہ ہے۔ تو آپ صحابہ کرام (رض) کو فرماتے اسے کھاؤ اور اپنی اس بات کو کہ یہ صدقہ ہے۔ اس استفسار سے بےنیاز قرار دیتے کہ یہ زکوۃ ہے یا اور کچھ اس سے یہ دلالت مل گئی کہ تمام صدقات کا حکم یکساں ہے اور سلمان فارسی (رض) کی روایت میں ہے کہ میں آیا ہے کہ آپ نے دریافت فرمایا اھدیۃ ام صدقۃ تو میں نے کہا بلکہ صدقہ ہے۔ کیونکہ مجھے یہ معلوم ہوا کہ تمہارے ہاں تنگدستی ہے آپ نے اس بناء پر استعمال نہیں فرمایا اس وقت حضرت سلمان (رض) غلام تھے جن پر زکوۃ سرے سے لازم نہیں ہوتی ۔ اس سے معلوم ہوا ان کے تمام صدقات نفلی تھے اور وہ آپ پر اور تمام بنی ہاشم پر حرام تھے غور وفکر بھی اس بات پر ہی دلالت کرتے ہیں کہ فرائض نوافل کا حکم اس سلسلہ میں برابر ہو اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم جانتے ہیں کہ بنی ہاشم کے مالدار اور فقراء صدقات فرضیہ اور نفلیہ میں یکساں ہیں۔ خواہ وہ ہوں کہ جن پر صدقات فرضیہ کا لینا حرام ہے تو ان پر صدقات نفلیہ کا لینا بھی حرام قرار دیا گیا ۔ پس جب بنی ہاشم پر فرضی صدقات کا لینا حرام قرار ہوگیا تو غیر فرضی صدقات کا لینا بھی ان پر حرام قرار دیا ۔ اس باب میں نظر و فکر اس کے متقاضی ہیں اور یہی امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد رحمہم اللہ کا قول ہے۔ امام ابوحنیفہ (رح) سے اس سلسلہ میں مختلف روایات آئی ہیں ایک روایت یہ ہے کہ بنی ہاشم کے لیے ان تمام صدقات کے استعمال میں کچھ حرج نہیں ۔ ہمارے نزدیک اس طرف جانے کی وجہ یہ ہے کہ ان کے لیے صدقات اس وجہ سے حرام کیے جائیں کیونکہ خمس غنیمت میں ان کا احصہ مقرر کیا گیا یعنی ذوی القربیٰ کا حصہ ۔ پس جب ذوی القربیٰ کا حصہ وفات رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وجہ سے منقطع ہوگیا۔ تو (علامت حرمت ختم ہونے سے) ان کے لیے جو حرام ہوا تھا وہ ان کے لیے حلال ہوگیا اور یہ امام ابو یوسف (رح) نے امام ابوحنیفہ (رح) سے نقل کی ہے۔ یہ ابو یوسف (رح) کے قول کی طرح ہے ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں۔ اگر کوئی معترض یہ کہے ۔ کیا موالی کے متعلق اس کو مکروہ قرار دیتے ہیں ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ جی ہاں ۔ اس کی دلیل حضرت ابو رافع کی وہ روایت ہے جسے ہم نے اس باب میں ذکر کیا ہے اور یہ بات امام ابو یوسف (رح) نے کتاب الاملاء میں کہی ہے اور اصحاب احناف کے متعلق مجھے تو معلوم نہیں کہ کسی نے اس سے اختلاف کیا ہو۔ اگر کوئی معترض یہ کہے کیا آپ کے ہاں ہاشمی کا صدقات پر عامل بننا مکروہ ہے ؟ میں عرض کرتا ہوں کہ نہیں۔ اگر کوئی یہ کہے کہ یہ کیونکر ممنوع نہیں جبکہ ربیعہ بن حارث اور فضل بن عباس (رض) جن کے متعلق تم نے خود نقل کیا کہ آپ نے ان کو عامل بننے سے منع فرمایا۔ اس کا جواب یہ ہے۔ اس روایت میں منع والی کوئی بات موجود نہیں ۔ کیونکہ انھوں نے آپ سے یہ سوال کیا تھا کہ آپ ان کو صدقات پر عامل بنائیں تاکہ اس سے ان کے فقرکا ازالہ ہو۔ تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی تنگدستی کا ازالہ عامل بنانے کے بغیر ہی کردیا اور یہ بھی کہنا درست ہے کہ آپ کے روکنے کا مقصد یہ ہو کہ آپ ان کو لوگوں کی میل کچیل پر نگران کرنا نہ چاہتے ہوں۔ یہ معنیٰ نہیں کہ عامل بننا ان پر حرام تھا اور ان کے عمل کی تنخواہ اسی میں سے ادا کرنا تھی اور ہم ایسی روایات پاتے ہیں جو اس پر دلالت کرتی ہیں جو ذیل میں ہیں۔
حاصل روایات : ان تمام آثار سے معلوم ہوتا ہے کہ بنی ہاشم پر صدقہ حرام ہے ان کے معارض یا ان کی تنسیخ کرنے والی کوئی روایت نہیں۔ اور جو روایت فریق اوّل نے دلیل بنائی تھی اس کی حقیقت ذکر کر کے جواب دے دیا گیا۔
ایک اشتباہ :
کہ بنی ہاشم پر جو صدقہ حرام ہے وہ فقط زکوۃ ہے دیگر صدقات کی حرمت ثابت نہیں پس دوسرے صدقات میں چنداں قباحت نہیں۔
ازالہ :
روایت بہز بن حکیم میں اس کا جواب ظاہر ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لانے والے کو کہتے ہیں کہ کیا یہ صدقہ ہے یا ہدیہ اور وہ اگر ہدیہ کہتا ہے آپ استعمال فرماتے ہیں اگر صدقہ کہتا ہے تو صحابہ کرام کو فرماتے ہیں کہ تم کھاؤ یہ سوال نہیں فرماتے کہ یہ صدقہ از قسم زکوۃ ہے یا دیگر تو معلوم ہوا کہ زکوۃ کے علاوہ صدقات بھی حرمت میں برابر کے شامل ہیں۔ نیز روایت سلمان میں آپ نے ہدیۃ ام صدقہ ؟ کا استفسار فرمایا انھوں نے صدقہ بتلایا تو آپ نے اس کے کھانے سے اعراض فرمایا سلمان ان دنوں فارسی غلام تھے اور ابھی مجوسی تھی اس پر زکوۃ کے وجوب کا کوئی معنی نہیں اس سے بھی قرینہ مل گیا کہ تمام قسم کے صدقات آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور بنی ہاشم پر حرام ہیں۔
نظر طحاوی (رض) :
نظر کا تقاضا یہ ہے کہ غیر بنی ہاشم کے اغنیاء و فقراء جب صدقات مفروضہ اور تطوع کے حکم میں برابر ہیں تو صدقہ فرضیہ جس پر حرام ہو اس پر نفلیہ کا لینا حرام ہونا چاہیے پس جب بنی ہاشم پر فرضی صدقات کا استعمال حرام ہے تو ان پر نفلی صدقات کا لینا بھی حرام ہے۔
نظر کا یہی تقاضا ہے اور امام ابو یوسف ‘ محمد ‘ اور امام ابوحنیفہ رحمہم اللہ کا قول یہی ہے۔
امام ابوحنیفہ (رح) کے متعلق ایک قول یہ ہے کہ بنی ہاشم پر تمام قسم کے صدقات صرف کرنے میں حرج نہیں۔ اور ہمارے ہاں ان پر صدقات کی حرمت کی وجہ خمس میں ذوی القربیٰ کے حصہ کا مقرر ہونا تھا جب وہ منقطع ہو کر دوسروں کی طرف لوٹ گیا اور وفات رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ان پر جو چیز آپ کی وجہ سے حرام تھی وہ حلال ہوگئی اور سلیمان بن شعیب نے ان کا ایک قول امام ابو یوسف (رح) کی طرح نقل کیا ہے ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں۔
نظر در نظر طحاوی (رض) :
ائمہ احناف کی طرف نفلی صدقات کی حرمت کا قول درست نہیں جمہور فقہاء احناف نے نفلی صدقات کو غنی اور ہاشمی کے لیے حلال قرار دیا اسی طرح امام صاحب کی طرف یہ نسبت بھی محل نظر ہے کہ خمس غنیمت کا سلسلہ ختم ہوجانے کی وجہ سے اب ہر قسم کے صدقات ہاشمیوں کو حلال ہیں یہ درست نظر نہیں آتا کیونکہ اوساخ انجاس ہونے والی علت تو فرض صدقات میں اب بھی پائی جاتی ہے پھر حکم کس طرح منقطع ہوا۔ البتہ آخر میں امام ابو یوسف کے مشہور قول کو اختیار کرنے کا اشارہ کر کے پہلی بات کی مجمل تردید کردی حالانکہ اوپر تو تینوں ائمہ کا قول یکساں نقل کیا ہے۔ (واللہ اعلم)
ایک اشکال :
بنی ہاشم پر تو صدقات واجبہ حرام ہیں مگر موالی بنی ہاشم کا حرمت میں وہی حکم ہے یا ان سے مختلف ہے۔
الجواب : ابو رافع والی روایت اس سلسلہ میں واضح طور پر آپ نے فرمایا : مولی القوم من انفسہم اس لیے آزاد کردہ غلاموں پر صدقات کی حرمت ثابت رہے گی امام ابو یوسف (رح) کی کتاب الاملاء میں مذکور ہے احناف میں اس کے متعلق کسی کا اختلاف میرے علم میں نہیں۔
M: بنی ہاشم عامل بن کر اجرت میں زکوۃ لے سکے گا یا نہیں۔
جواب : بنی ہاشم عامل بن جائے تب بھی صدقات واجبہ میں سے اس کو لینا جائز نہیں احناف کا فتویٰ عدم جواز پر ہی ہے۔
مگر امام طحاوی (رح) کی رائے اس سلسلہ میں جواز کی ہے اس پر وارد اشکالات کا وہ جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں۔
اشکال اول : ربیعہ (رح) بن حارث اور فضل بن عباس (رض) کو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نہ تو عامل مقرر فرمایا اور نہ صدقات واجبہ میں سے دیا بلکہ نکاح کر کے ان کے مہر خمس میں سے ادا کروا دیئے اگر عامل بننا حلال تھا تو آپ نے کیوں نہ بنایا۔
حل اشکال : آپ نے عامل بنانے سے انکار نہیں فرمایا روایت میں کوئی ایسی بات موجود نہیں انھوں نے اپنے فقر کے ازالہ کے لیے عامل بننے کا کہا آپ نے ان کے فقر کا ازالہ عمل کے بغیر کردیا اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس لیے منع کردیا ہو کہ تم لوگوں کی میل کچیل کھاؤ گے جبکہ تمہارے پاس طیب چیز موجود ہے اس لیے نہیں کہ ان کا عامل صدقہ بن کر اجرت لینا حرام تھا اور یہ بات ان روایات سے ثابت ہے۔

2913

۲۹۱۳ : حَدَّثَنَا أَبُوْ أُمَیَّۃَ‘ قَالَ : ثَنَا قَبِیْصَۃُ بْنُ عُقْبَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ‘ عَنْ مُوْسَی بْنِ أَبِیْ عَائِشَۃَ‘ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ أَبِیْ رَزِیْنٍ عَنْ أَبِیْ رَزِیْنٍ‘ (عَنْ عَلِیٍّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : قُلْتُ لِلْعَبَّاسِ‘ سَلَ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَسْتَعْمِلُک عَلَی الصَّدَقَاتِ .فَسَأَلَہٗ فَقَالَ مَا کُنْتُ لِأَسْتَعْمِلَک عَلٰی غَسَّالَۃِ ذُنُوْبِ النَّاسِ) .أَفَلاَ تَرٰی أَنَّہٗ إِنَّمَا کَرِہَ لَہُ الِاسْتِعْمَالَ عَلٰی غَسَّالَۃِ ذُنُوْبِ النَّاسِ لَا لِأَنَّہٗ حَرَّمَ ذٰلِکَ عَلَیْہِ لِحُرْمَۃِ الْاِجْتِعَالِ مِنْہُ عَلَیْہِ .وَقَدْ کَانَ أَبُوْ یُوْسُفَ رَحِمَہُ اللّٰہُ یَکْرَہُ لِبَنِیْ ہَاشِمٍ أَنْ یَّعْمَلُوْا عَلَی الصَّدَقَۃِ اِذَا کَانَتْ جُعَالَتُہُمْ مِنْہَا قَالَ " لِأَنَّ الصَّدَقَۃَ تَخْرُجُ مِنْ مَالِ الْمُتَصَدِّقِ إِلَی الْأَصْنَافِ الَّتِیْ سَمَّاہَا اللّٰہُ تَعَالٰی‘ فَیَمْلِکُ الْمُصَّدِّقُ بَعْضَہَا‘ وَہِیَ لَا تَحِلُّ لَہٗ .وَاحْتَجَّ فِیْ ذٰلِکَ أَیْضًا‘ بِحَدِیْثِ أَبِیْ رَافِعٍ حِیْنَ سَأَلَہُ الْمَخْزُوْمِیُّ أَنْ یَّخْرُجَ مَعَہٗ لِیُصِیْبَ مِنْہَا‘ وَمُحَالٌ أَنْ یُصِیْبَ مِنْہَا شَیْئًا إِلَّا بِعِمَالَتِہٖ عَلَیْہَا وَاجْتِعَالِہٖ مِنْہَا .وَخَالَفَ أَبَا یُوْسُفَ رَحِمَہُ اللّٰہُ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ‘ فَقَالُوْا : لَا بَأْسَ أَنْ یَجْتَعِلَ مِنْہَا الْہَاشِمِیُّ‘ لِأَنَّہٗ إِنَّمَا یَجْتَعِلُ عَلٰی عَمَلِہٖ‘ وَذٰلِکَ قَدْ یَحِلُّ لِلْأَغْنِیَائِ .فَلَمَّا کَانَ ھٰذَا لَا یَحْرُمُ عَلَی الْأَغْنِیَائِ الَّذِیْنَ یُحَرِّمُ عَلَیْہِمْ غِنَاہُمُ الصَّدَقَۃَ‘ کَانَ کَذٰلِکَ أَیْضًا فِی النَّظْرِ‘ لَا یَحْرُمُ ذٰلِکَ عَلٰی بَنِیْ ہَاشِمٍ الَّذِیْ یُحَرِّمُ عَلَیْہِمْ نَسَبُہُمْ أَخْذَ الصَّدَقَۃِ .وَقَدْ رُوِیَ (عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْمَا تَصَدَّقَ بِہٖ عَلٰی بَرِیْرَۃَ أَنَّہٗ أَکَلَ مِنْہُ وَقَالَ ہُوَ عَلَیْہَا صَدَقَۃٌ وَلَنَا ہَدِیَّۃٌ) .
٢٩١٣: ابو رزین نے علی (رض) سے نقل کیا کہ میں نے عباس (رض) سے کہا تم جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کہو کہ تمہیں صدقات کا عامل بنادیں عباس (رض) نے مطالبہ کیا تو آپ نے فرمایا میں تمہیں لوگوں کے گناہوں کے دھون پر عامل بنانے کے لیے تیار نہیں ہوں۔ کیا تم نہیں جانتے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کو اس بنا پر عامل بنانا ناپسند کیا کہ یہ لوگوں کے گناہوں کی میل ہے اس بناء پر نہیں کہ وہ ان پر حرام ہے اور اس پر عامل بنای کر اس میں سے ان کو وظیہ دینا حرام ہے۔ اور امام ابو یوسف (رح) بنی ہاشم کو عامل بنانا ناپسند کرتے تھے جب کہ ان کی تنخواہ اسی میں سے ہو ۔ انھوں نے اس کی دلیل یہ بیان کی کہ بعض اوقات صدقہ صقدہ دینے والے کی اپنے مال میں سے نکل کر ان اصناف طرف چلا جاتا ہے جن کا اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں تذکرہ فرمایا ہے۔ اور صدقہ کرنے والا ان میں سے بعض کا مالک ہوتا ہے حالانکہ وہ اس کے لیے حرام ہے انھوں نے دوسری دلیل حضرت ابو رافع (رض) کی روایت دی جب کہ مخذومی نے ان کو کہا کہ وہ بھی ان کے ساتھ جائیں تاکہ وہ بھی اس میں سے حصہ پاتے اور وہ حصہ اس کی کارکردگی اور تنخواہ ہی کا تھا۔ دیگر علماء نے امام ابو یوسف (رح) سے اس سلسلہ میں اختلاف کیا اور انھوں نے فرمایا کہ ہاشمی کو اس تنخواہ دی جاسکتی ہے۔ کیونکہ وہ تو اپنے عمل کی مزدوری لیتا ہے اور یہ تنخواہ تو مالدار کو بھی درست ہے۔ جن کے غناء نے ان پر صدقے کو حرام کردیا ہے۔ تو نظر و فکر کا رتقاضہ یہ ہے کہ بنی ہاشم پر حرام نہ ہو ۔ جن پر نسب صدقات لینے کو حرام کررہا تھا۔ اور جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس صقدہ کے متعلق منقول ہے جو حضرت بریرہ (رض) پر کیا گیا تھا کہ آپ نے اس کو کھایا اور فرمایا وہ تیرے لیے صدقہ ہے اور ہمارے لیے ہدیہ ہے۔ روایات ذیل میں ہیں۔
اس روایت سے معلوم ہوا کہ آپ نے ان کو اس لیے عامل بنایا ناپسند فرمایا کہ وہ اموال لوگوں کے گناہوں کا دھون ہیں اس وجہ سے نہیں کہ عامل بنانا اور اس میں سے ان کو اجرت لینا حرام ہے۔
مذاہب ِائمہ :
نمبر 1: امام ابو یوسف (رح) کے ہاں بنی ہاشم کو عامل صدقات بنانے کے باوجود مد زکوۃ سے تنخواہ لینا مکروہ تحریمی ہے۔
نمبر 2: دیگر تمام ائمہ کے ہاں ہاشمی کو عامل بن جانے کی صورت میں صدقات واجبہ سے تنخواہ درست ہے۔
فریق اوّل کی دلیل : صدقہ صدقہ کرنے والے کے مال سے نکلتا ہے اور پھر ان آٹھ اقسام میں تقسیم کردیا جاتا ہے جن کا تذکرہ انماالصدقات آیت میں پایا جاتا ہے اس طرح صدقہ کرنے والے تنخواہ کی صورت اپنے ہی دیئے ہوئے صدقہ میں سے بعض کا مالک بن جاتا ہے حالانکہ اپنے صدقے کو واپس کرنا اس پر حلال نہیں ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ ابو رافع (رض) نے جب بنی مخزوم کے آدمی کے ساتھ جانے کی اجازت طلب کی تو آپ نے ان کو اس سے منع فرما دیا اگر اس تنخواہ میں کراہت نہ ہوتی تو آپ منع نہ فرماتے روایت ابو رافع گزشتہ صفحات میں موجود ہے۔
فریق ثانی کا مؤقف : کہ بنی ہاشم میں سے اگر کسی کو عامل مقرر کردیا جائے تو اس کو اس مال یعنی صدقات واجبہ سے تنخواہ درست ہے دلیل اور فریق اوّل کا جواب عرض کیا جاتا ہے۔
فریق اوّل کا جواب : بنی ہاشم کے سلسلہ میں اگر وہ اپنے بعض صدقے کا مالک بن جاتا ہے اور یہ کراہت کی وجہ ہے تو غنی اگر عامل بن جائے تو اس کے متعلق بعینہ یہی صورت پیش آتی ہے حالانکہ غنی عامل کو صدقات واجبہ سے تنخواہ لینا بالاتفاق درست ہے پس جب اغنیاء کے لیے یہ حلال ہے تو بنی ہاشم کے لیے بھی حلال ہوگا وہ اس کے عمل کا بدلہ ہے باقی ابو رافع (رض) کو عمل اور اس کی تنخواہ کے حرام ہونے کی وجہ سے نہیں روکا بلکہ غسالۃ الناس اور گھٹیا ہونے کی وجہ سے نامناسب سمجھا کہ یہ ان کے مرتبہ کے مناسب نہیں۔
دلیل نمبر 1: مالدار کو جب تنخواہ درست ہے جبکہ ان پر صدقات واجب کے حرام ہونے کی وجہ مالداری ہے تو بتقاضائے نظر بنو ہاشم کو بھی یہ تنخواہ درست ہونی چاہیے کیونکہ ان کی وجہ حرمت تو نسب تھی۔
دلیل نمبر 2: حضرت بریدہ (رض) کو کسی نے کوئی چیز کھانے کی بطور صدقہ دی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بریرہ (رض) کے لیے یہ صدقہ ہے اور ہمارے لیے یہ ہدیہ ہے آپ نے اس کو استعمال فرمایا یہ بریرہ (رض) حضرت عائشہ (رض) کی لونڈی تھیں انھوں نے اس کو پھر آزاد فرما دیا تھا روایت یہ ہے ملاحظہ ہو۔

2914

۲۹۱۴ : حَدَّثَنَا بِذٰلِکَ فَہْدٌ‘ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَعِیْدٍ الْأَصْبَہَانِیُّ‘ قَالَ : أَنَا شَرِیْکٌ‘ عَنْ مَنْصُوْرٍ‘ عَنْ اِبْرَاہِیْمَ‘ عَنِ الْأَسْوَدِ‘ عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ (دَخَلَ عَلَیَّ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ وَفِی الْبَیْتِ‘ رِجْلُ شَاۃٍ مُعَلَّقَۃٍ‘ فَقَالَ مَا ھٰذِہٖ؟ فَقُلْتُ : تُصُدِّقَ بِہٖ عَلٰی بَرِیْرَۃَ فَأَہْدَتْہُ لَنَا .فَقَالَ ہُوَ عَلَیْہَا صَدَقَۃٌ‘ وَہُوَ لَنَا ہَدِیَّۃٌ ثُمَّ أَمَرَ بِہَا فَشُوِیَتْ) .
٢٩١٤: اسود نقل کرتے ہیں کہ عائشہ (رض) نے فرمایا جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرے ہاں تشریف لائے بکری کی ایک دستی لٹکی ہوئی تھی آپ نے فرمایا یہ کیا ہے ؟ میں نے کہا یہ بریرہ کو بطور صدقہ ملی تھی اس نے ہمیں ہدیہ کی ہے تو آپ نے فرمایا وہ اس پر تو صدقہ ہے اور ہمارے لیے ہدیہ (کا حکم رکھتی) ہے پھر اس کو بھوننے کا حکم فرمایا وہ بھونی گئی (آپ نے تناول فرمائی) ۔
تخریج : بخاری فی الزکوۃ باب ٦١‘ ٦٢‘ الہبہ باب ٧‘ النکاح باب ١٨‘ الطلاق باب ١٤‘ ١٧‘ الفرائض باب ١٩‘ مسلم فی الزکوۃ ١٧٠؍١٧١‘ العتق ١٠‘ ١١‘ ١٤‘ ابو داؤد فی الزکوۃ باب ٣٠‘ نسائی فی الزکوۃ باب ٩٩‘ الطلاق باب ٦‘ ٢٩‘ ٣٠‘ والعمرٰی باب ٥‘ البیوع باب ٧٨‘ ابن ماجہ فی الطلاق باب ٢٩‘ دارمی فی الطلاق باب ١٥‘ موطا مالک ٢٥‘ مسند احمد ١‘ ٢٨١‘ ٣٦١‘ ٣‘ ١١٧‘ ١٣٠‘ ٦‘ ٤٦‘ ١١٥۔

2915

۲۹۱۵ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ‘ قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَنَّ مَالِکًا أَخْبَرَہٗ، عَنْ رَبِیْعَۃَ بْنِ أَبِیْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ‘ عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ‘ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ : (دَخَلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَالْبُرْمَۃُ تَفُوْرُ بِلَحْمٍ وَأَدَمٍ مِنْ أَدَمِ الْبَیْتِ‘ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَلَمْ أَرَ بُرْمَۃً فِیْہَا لَحْمٌ ؟ .قَالُوْا : بَلٰی یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ‘ وَلٰـکِنَّ ذٰلِکَ لَحْمٌ تُصُدِّقَ بِہٖ عَلٰی بَرِیْرَۃَ‘ وَأَنْتَ لَا تَأْکُلُ الصَّدَقَۃَ .فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ہُوَ صَدَقَۃٌ عَلَیْہَا‘ وَہُوَ لَنَا ہَدِیَّۃٌ) .
٢٩١٥: قاسم بن محمد نے عائشہ (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے جبکہ ہنڈیا گوشت کے لیے ابل رہی تھی اور گھر کے لیے سالن تیار ہو رہا تھا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کیا ہنڈیا میں گوشت تو نہیں پک رہا ؟ میں نے عرض کی یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیوں نہیں۔ ہنڈیا میں گوشت ہی ہے مگر یہ گوشت بریرہ کو بطور صدقہ دیا گیا اور آپ صدقہ کھاتے نہیں تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا وہ اس کے لیے صدقہ ہے ہمارے لیے ہدیہ ہے۔
تخریج : سابقہ روایت کی تخریج ملاحظہ ہو۔

2916

۲۹۱۶ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ‘ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ مَسْلَمَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ بِلَالٍ‘ عَنْ رَبِیْعَۃَ‘ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .
٢٩١٦: سلیمان بن بلال نے ربیعہ سے نقل کیا پھر انھوں نے اپنی اسناد سے روایت نقل کی ہے۔

2917

۲۹۱۷ : حَدَّثَنَا عَلِیٌّ‘ قَالَ : ثَنَا عَفَّانَ‘ قَالَ : ثَنَا ہَمَّامٌ‘ قَالَ : ثَنَا قَتَادَۃُ‘ عَنْ عِکْرَمَۃَ‘ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ : (تُصُدِّقَ عَلٰی بَرِیْرَۃَ بِصَدَقَۃٍ فَأَہْدَتْ مِنْہَا لِعَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا‘ فَذَکَرَتْ ذٰلِکَ لِلنَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ ہُوَ لَنَا ہَدِیَّۃٌ‘ وَلَہَا صَدَقَۃٌ) .
٢٩١٧: عکرمہ نے ابن عباس (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ بریرہ (رض) کو صدقہ دیا گیا وہ انھوں نے عائشہ (رض) کو ہدیہ کردیا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے اس کا تذکرہ ہوا تو آپ نے فرمایا وہ ہمارے لیے ہدیہ اور اس کے حق میں صدقہ ہے۔
تخریج : روایت ٢٩١٥ کو ملاحظہ کریں۔

2918

۲۹۱۸ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ‘ قَالَ : ثَنَا الْوَہْبِیُّ‘ قَالَ : ثَنَا ابْنُ إِسْحَاقَ‘ عَنِ الزُّہْرِیِّ‘ عَنْ عُبَیْدِ بْنِ السَّبَّاقِ‘ عَنْ (جُوَیْرِیَۃَ بِنْتِ الْحَارِثِ‘ قَالَتْ : تُصُدِّقَ عَلٰی مَوْلَاۃٍ لِیْ بِعُضْوٍ مِنْ لَحْمٍ‘ فَدَخَلَ عَلَیَّ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ ہَلْ عِنْدَکُمْ مِنْ عَشَائٍ ؟ .فَقُلْتُ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ مَوْلَاتِیْ فُلَانَۃُ تُصُدِّقَ عَلَیْہَا بِعُضْوٍ مِنْ لَحْمٍ‘ فَأَہْدَتْہُ لِیْ وَأَنْتَ لَا تَأْکُلُ الصَّدَقَۃَ .فَقَالَ قَدْ بَلَغَتْ مَحِلَّہَا فَہَاتِیْہِ أَیْ نَاوِلِیْنِیْہِ فَأَکَلَ مِنْہَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ) .
٢٩١٨: عبید بن السباق نے جویریہ بنت الحارث (رض) سے نقل کیا کہ میری ایک لونڈی کو گوشت کا ایک ٹکڑا بطور صدقہ دیا گیا تو جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرے ہاں تشریف لائے اور آپ نے فرمایا کیا تمہارے پاس شام کے کھانے میں سے کوئی چیز ہے ؟ میں نے گزارش کی کہ یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میری فلاں لونڈی کو گوشت کا ایک ٹکڑا صدقہ کے طور پر دیا گیا اس نے وہ مجھے ہدیہ میں دیا ہے اور آپ تو صدقہ کی چیز نہیں کھاتے آپ نے فرمایا وہ صدقہ اپنے مقام پر پہنچ چکا (اور پھر آگے ہدیہ کیا جا چکا) پس وہ تم لے آؤ آپ نے اس میں سے کچھ کھایا۔
تخریج : بخاری فی الزکوۃ باب ٦٤‘ مسلم فی الزکوۃ نمبر ١٦٩۔

2919

۲۹۱۹ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا اِبْرَاہِیْمُ بْنُ بَشَّارٍ‘ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ‘ قَالَ : الزُّہْرِیُّ‘ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ عُبَیْدُ بْنُ السَّبَّاقِ‘ عَنْ جُوَیْرِیَۃَ مِثْلَہٗ .
٢٩١٩: زہری نے عبید بن السباق انھوں نے جویریہ (رض) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

2920

۲۹۲۰ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ‘ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمِنْہَالِ‘ قَالَ : ثَنَا یَزِیْدُ بْنُ زُرَیْعٍ‘ قَالَ : ثَنَا خَالِدٌ الْحَذَّائُ ‘ عَنْ حَفْصَۃَ بِنْتِ سِیْرِیْنَ‘ عَنْ أُمِّ عَطِیَّۃَ قَالَتْ : (دَخَلَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلٰی عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا فَقَالَ ہَلْ عِنْدَکُمْ شَیْء ٌ قَالَتْ : لَا إِلَّا شَیْء ٌ بَعَثَتْ بِہٖ إِلَیْنَا نُسَیْبَۃُ مِنَ الشَّاۃِ الَّتِیْ بُعِثَتْ إِلَیْہَا مِنَ الصَّدَقَۃِ فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِنَّہَا قَدْ بَلَغَتْ مَحِلَّہَا) .
٢٩٢٠: حفصہ بنت سیرین نے ام عطیہ (رض) سے نقل کیا ہے کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عائشہ (رض) کے ہاں تشریف لائے اور فرمایا کیا تمہارے پاس کوئی چیز کھانے کی پڑی ہے تو انھوں نے کہا اور تو کوئی چیز نہیں بس نسیبہ نے اس بکری میں سے کچھ گوشت بھیجا ہے جو آپ نے اس کو بطور صدقہ دی تھی تو وہ گوشت پڑا ہے تو جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا وہ اپنے ٹھکانے پہنچ چکی (یعنی مستحق تک صدقہ پہنچنے پر وہ اس میں سے جس کو چاہے دے وہ ہر ایک کو حلال ہے)
تخریج : نمبر ٢٩١٩ کو ملاحظہ کریں۔

2921

۲۹۲۱ : حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ الْفَرَجِ‘ قَالَ : ثَنَا عَمْرُو بْنُ خَالِدٍ‘ قَالَ : ثَنَا ابْنُ لَہِیْعَۃَ‘ عَنْ أَبِی الْأَسْوَدِ‘ عَنْ أَبِیْ مَعْنِ بْنِ یَزِیْدَ بْنِ یَسَارٍ‘ عَنْ یَعْقُوْبَ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ الْأَشَجِّ‘ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ وَہْبٍ‘ عَنْ أُمِّ سَلْمَۃَ زَوْجِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَسَمَ غَنَمًا مِنَ الصَّدَقَۃِ‘ فَأَرْسَلَ إِلٰی زَیْنَبَ الثَّقَفِیَّۃِ بِشَاۃٍ مِنْہَا‘ فَأَہْدَتْ زَیْنَبُ مِنْ لَحْمِہَا لَنَا .فَدَخَلَ عَلَیْنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ ہَلْ عِنْدَکُمْ شَیْء ٌ تُطْعِمُوْنَا ؟ قُلْنَا : لَا وَاللّٰہِ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ‘ فَقَالَ أَلَمْ أَرَ لَحْمًا آنِفًا أُدْخِلَ عَلَیْکُمْ .قُلْنَا : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ذَاکَ مِنَ الشَّاۃِ الَّتِیْ أَرْسَلْتُ بِہَا إِلَی زَیْنَبَ مِنَ الصَّدَقَۃِ‘ وَأَنْتَ لَا تَأْکُلُ الصَّدَقَۃَ‘ فَلَمْ نُحِبَّ أَنْ نُمْسِکَ مَا لَا تَأْکُلُ مِنْہُ .فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَوْ أَدْرَکْتہ لَأَکَلْتُ مِنْہٗ) .فَلَمَّا کَانَ مَا تُصُدِّقَ بِہٖ عَلٰی بَرِیْرَۃَ جَائِزًا لِلنَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَکْلُہٗ لِأَنَّہٗ إِنَّمَا مَلَکَہُ بِالْہَدِیَّۃِ‘ جَازَ أَیْضًا لِلْہَاشِمِیِّ أَنْ یَجْتَعِلَ مِنَ الصَّدَقَۃِ‘ لِأَنَّہٗ إِنَّمَا یَمْلِکُہُ بِعَمَلِہٖ‘ لَا بِالصَّدَقَۃِ .فَھٰذَا ہُوَ النَّظْرُ‘ وَہُوَ أَصَحُّ مِمَّا ذَہَبَ إِلَیْہِ أَبُوْ یُوْسُفَ رَحِمَہُ اللّٰہُ فِیْ ذٰلِکَ .
٢٩٢١: عبداللہ بن وہب نے امّ سلمہ ام المؤمنین (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صدقہ کی بکریاں تقسیم کیں اور ایک بکری زینب ثقفیہ (رض) کو بھیجی تو زینب ثقفیہ نے اس کا گوشت ہماری طرف بطور ہدیہ بھیجا پس جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے ہاں تشریف لائے اور فرمایا کیا تمہارے ہاں کوئی ایسی چیز موجود ہے جو تم ہمیں کھلاؤ؟ ہم نے عرض کی اللہ کی قسم ! یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے پاس کوئی چیز نہیں آپ نے فرمایا کیا میں نے وہ گوشت نہیں دیکھا جو تمہارے ہاں بھیجا گیا ہم نے عرض کی یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! وہ اسی بکری کا گوشت ہے جو زینب کو بطور صدقہ دی گئی تھی اور آپ صدقہ نہیں کھاتے ہم نے پسند نہ کیا کہ ہم اس چیز کو اپنے پاس روک رکھیں جس کو آپ استعمال نہیں فرماتے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اگر میں اسے پا لیتا تو ضرور کھاتا۔ پس جب بریرہ (رض) پر کیا جانے والا صدقہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر حلال ہے۔ آپ نے اس کو استعمال فرمایا کیونکہ ہدیہ کے سبب آپ اس کے مالک بن گئے تو ہاشمی کے لیے بھی جائز ہے کہ وہ صدقات سے تنخواہ حاصل کرے وہ اپنے عمل کی وجہ سے اس کا مالک بن جائے گا ۔ صدقہ کے سبب نہیں ۔ نظر کے اعتبار سے یہی حکم ہے اور وہ اس سے زیادہ درست ہے جس کو امام ایوسف (رح) نے اختیار کیا۔
حاصل روایات اور نظر طحاوی (رض) : ان روایات سے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا خود اس گوشت کا کھانا مذکور ہے جو صدقہ سے تھا پھر جس پر صدقہ کیا گیا اس نے ہدیہ کردیا آپ نے اس کو استعمال فرمایا تو جب بریرہ (رض) پر صدقہ کی جانے والی چیز کا نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے استعمال کرنا جائز ہے کیونکہ تبدل ملک سے حکم میں تبدیلی آگئی تو بالکل اسی طرح ہاشمی کو عامل بن جانے کی صورت میں تنخواہ درست ہوگی کیونکہ وہ اپنے عمل کے بدلے اس کا مالک بنا ہے۔ نظر کا تقاضا بھی یہی ہے پس فریق ثانی کا مؤقف امام ابو یوسف (رح) کے مؤقف سے زیادہ مضبوط اور مدلل ہے۔ اور امام طحاوی (رح) کا اس میں رجحان بھی اسی طرف معلوم ہوتا ہے۔ صاحب درمختار نے امام ابو یوسف (رح) کے قول کو راجح کہا ہے واللہ اعلم۔
نسیبہ یہ ام عطیہ بنت کعب (رض) کا نام ہے بڑی شان والی صحابیہ ہیں زینب ثقفیہ یہ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) کی زوجہ محترمہ کا نام ہے۔

2922

۲۹۲۲ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا الْحَجَّاجُ بْنُ الْمِنْہَالِ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ‘ قَالَ أَخْبَرَنِیْ سَعْدُ بْنُ اِبْرَاہِیْمَ قَالَ : سَمِعْتُ رَیْحَانَ بْنَ یَزِیْدَ‘ وَکَانَ أَعْرَابِیًّا صَدُوْقًا‘ قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عُمَرَ (وَلَا تَحِلُّ الصَّدَقَۃُ لِغَنِیٍّ وَلَا لِذِیْ مِرَّۃٍ سَوِیٍّ) .
٢٩٢٢: سعد بن ابراہیم کہتے ہیں کہ میں نے ریحان بن یزید سے سنا کہ ایک دیہاتی بہت صدقہ دینے والا تھا تو عبداللہ بن عمرو نے اس کو فرمایا مالدار اور تندرست طاقت ور فقیر کو صدقہ حلال نہیں ہے۔
تخریج : ابو داؤد فی الزکوۃ باب ٢٤‘ ترمذی فی الزکوۃ باب ٢٣‘ نسائی فی الزکوۃ باب ٩٠‘ ابن ماجہ فی الزکوۃ باب ٢٦‘ دارمی فی الزکوۃ باب ١٥‘ مسند احمد ٢؍١٦٤‘ ١٩٢‘ ٤؍٦٢‘ ٥؍٣٧٥۔
حاصل روایات : ذومرۃ۔ طاقتور۔ السوی۔ تندرست ‘ سالم بدن والا۔

2923

۲۹۲۳ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا وَہْبٌ‘ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ‘ عَنْ سَعْدٍ‘ عَنْ رَجُلٍ مِنْ بَنِیْ عَامِرٍ‘ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرٍو یَقُوْلُ ذٰلِکَ .
٢٩٢٣: سعد نے بنی عامر کے ایک آدمی سے اس نے عبداللہ بن عمرو کو کہتے پایا اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

2924

۲۹۲۴ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ حُذَیْفَۃَ .ح .
٢٩٢٤: ابن مرزوق نے ابو حذیفہ سے روایت کی۔

2925

۲۹۲۵ : وَحَدَّثَنَا فَہْدٌ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ نُعَیْمٍ‘ قَالَا : ثَنَا سُفْیَانُ الثَّوْرِیُّ‘ عَنْ سَعْدِ بْنِ اِبْرَاہِیْمَ‘ عَنْ رَیْحَانَ بْنِ یَزِیْدَ‘ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرٍو‘ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ .
٢٩٢٥: ریحان بن یزید نے عبداللہ بن عمرو سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

2926

۲۹۲۶ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا الْحَجَّاجُ بْنُ الْمِنْہَالِ‘ قَالَ : ثَنَا عِکْرِمَۃُ بْنُ عَمَّارٍ الْیَمَامِیُّ‘ عَنْ سِمَاکٍ أَبِیْ زُمَیْلٍ‘ عَنْ رَجُلٍ مِنْ بَنِیْ ہِلَالٍ : قَالَ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ فَذَکَرَ مِثْلَہٗ .
٢٩٢٦: سماک ابی زمیل نے بنی ہلال کے ایک شخص سے اس نے کہا کہ میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح سنا پھر ایسی طرح روایت نقل کی ہے۔

2927

۲۹۲۷ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ‘ قَالَ : ثَنَا مُعَلَّی بْنُ مَنْصُوْرٍ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ بَکْرِ بْنُ عَیَّاشٍ‘ عَنْ أَبِیْ حُصَیْنٍ‘ عَنْ أَبِیْ صَالِحٍ‘ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ مِثْلَہٗ .
٢٩٢٧: ابو صالح نے ابوہریرہ (رض) سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

2928

۲۹۲۸ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ‘ عَنْ أَبِیْ بَکْرِ بْنِ عَیَّاشٍ‘ عَنْ أَبِیْ حُصَیْنٍ‘ عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِی الْجَعْدِ‘ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ‘ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ مِثْلَہٗ .
٢٩٢٨: سالم بن ابوالجعد نے ابوہریرہ (رض) انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

2929

۲۹۲۹ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ غَسَّانَ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ بَکْرِ بْنُ عَیَّاشٍ‘ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ إِلٰی أَنَّ الصَّدَقَۃَ لَا تَحِلُّ لِذِی الْمِرَّۃِ السَّوِیِّ‘ وَجَعَلُوْہُ فِیْہَا‘ کَالْغَنِیِّ‘ وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِھٰذِہِ الْآثَارِ . وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ‘ فَقَالُوْا : کُلُّ فَقِیْرٍ مِنْ قَوِیٍّ وَزَمِنٍ‘ فَالصَّدَقَۃُ لَہٗ حَلَالٌ‘ وَذَہَبُوْا فِیْ تَأْوِیْلِ ھٰذِہِ الْآثَارِ الْمُتَقَدِّمَۃِ إِلٰی أَنَّ قَوْلَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (لَا تَحِلُّ الصَّدَقَۃُ لِذِیْ مِرَّۃٍ سَوِیٍّ) أَیْ إِنَّہَا لَا تَحِلُّ لَہٗ‘ کَمَا تَحِلُّ لِلْفَقِیْرِ الزَّمِنَ الَّذِیْ لَا یَقْدِرُ عَلٰی غَیْرِہَا‘ فَیَأْخُذُہَا عَلَی الضَّرُوْرَۃِ وَعَلَی الْحَاجَۃِ‘ مِنْ جَمِیْعِ الْجِہَاتِ مِنْہُ إِلَیْہَا .فَلَیْسَ مِثْلُہٗ ذِی الْمِرَّۃِ السَّوِیِّ الْقَادِرِ عَلَی اکْتِسَابِ غَیْرِہَا فِیْ حِلِّہَا لَہٗ‘ لِأَنَّ الزَّمِنَ الْفَقِیْرَ‘ یَحِلُّ لَہٗ مِنْ قِبَلِ الزَّمَانَۃِ‘ وَمِنْ قِبَلِ عَدَمِ قُدْرَتِہِ عَلٰی غَیْرِہَا .وَذُو الْمِرَّۃِ السَّوِیُّ إِنَّمَا تَحِلُّ لَہٗ مِنْ جِہَۃِ الْفَقْرِ خَاصَّۃً‘ وَإِنْ کَانَا جَمِیْعًا قَدْ یَحِلُّ لَہُمَا أَخْذُہَا‘ فَإِنَّ الْأَفْضَلَ لِذِی الْمِرَّۃِ السَّوِیِّ تَرْکُہَا وَالْأَکْلُ مِنَ الِاکْتِسَابِ بِعَمَلِہٖ .وَقَدْ یُغَلَّظُ الشَّیْئُ مِنْ ھٰذَا‘ فَیُقَالُ : لَا یَحِلُّ‘ أَوْ لَا یَکُوْنُ کَذَا‘ عَلٰی أَنَّہٗ غَیْرُ مُتَکَامِلِ الْأَسْبَابِ الَّتِیْ بِہَا یَحِلُّ ذٰلِکَ الْمَعْنَی‘ وَإِنْ کَانَ ذٰلِکَ الْمَعْنٰی قَدْ یَحِلُّ بِمَا دُوْنَ تَکَامُلِ تِلْکَ الْأَسْبَابِ .مِنْ ذٰلِکَ‘ مَا رُوِیَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہٗ قَالَ (لَیْسَ الْمِسْکِیْنُ بِالطَّوَّافِ وَلَا بِالَّذِیْ تَرُدُّہُ التَّمْرَۃُ وَالتَّمْرَتَانِ وَاللُّقْمَۃُ وَاللُّقْمَتَانِ‘ وَلٰـکِنَّ الْمِسْکِیْنَ الَّذِیْ لَا یَسْأَلُ‘ وَلَا یُفْطَنُ لَہٗ فَیُتَصَدَّقُ عَلَیْہِ) .فَلَمْ یَکُنَ الْمِسْکِیْنُ الَّذِیْ یَسْأَلُ خَارِجًا مِنْ أَسْبَابِ الْمَسْکَنَۃِ وَأَحْکَامِہَا‘ حَتّٰی لَا یَحِلَّ لَہٗ أَخْذُ الصَّدَقَۃِ‘ وَحَتّٰی لَا یُجْزِئَ مَنْ أَعْطَاہُ مِنْہَا شَیْئًا‘ مِمَّا أَعْطَاہُ مِنْ ذٰلِکَ وَلٰـکِنَّ ذٰلِکَ عَلٰی أَنَّہٗ لَیْسَ بِمِسْکِیْنٍ مُتَکَامِلِ أَسْبَابِ الْمَسْکَنَۃِ .فَکَذٰلِکَ قَوْلُہٗ (لَا تَحِلُّ الصَّدَقَۃُ لِذِیْ مِرَّۃٍ سَوِیٍّ) أَیْ إِنَّہَا لَا تَحِلُّ لَہٗ مِنْ جَمِیْعِ الْأَسْبَابِ الَّتِیْ بِہَا تَحِلُّ الصَّدَقَۃُ‘ وَإِنْ کَانَ قَدْ تَحِلُّ لَہٗ بِبَعْضِ تِلْکَ الْأَسْبَابِ .وَاحْتَجَّ أَہْلُ الْمَقَالَۃِ الْأُوْلٰی لِمَذْہَبِہِمْ أَیْضًا۔
٢٩٢٩: ابو غسان نے ابوبکر بن عیاش سے پھر انھوں نے اپنی اسناد سے روایت نقل کی ہے۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں علماء کی ایک جماعت کہتی ہے کہ صدقہ تندرست و صحت مند طاقت والے آدمی کو دینا درست نہیں اور انھوں نے اس مالدار کی طرح قرار دیا اور آثار بالا سے استدلال کیا ۔ ان کی اس بات سے علماء کی دوسری جماعت نے اختلاف کیا اور فرمایا فقرخواہ صحت مند ہو یا اپاہج اس کے لیے صدقہ حلال ہے۔ انھوں نے ان آثار متقدمہ کی تاویل کرتے ہوئے کہا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشاد گرامی لا تحل الصدقہ لذی مرۃ سوی الحدیث کا مطلب یہ ہے کہ صدقہ اس کے لیے اس طرح جائز نہیں جس طرح ایک اپاہج کے لیے جائز ہے جو کہ کمانے کی قدرت نہیں رکھتا اور حاجت مند ہونے کی بناء پر لیتا ہے اور وہ ہر اعتبار سے محتاج ہے۔ پس جو شخص صحت مند اور طاقتور ہے وہ حالت صدقہ میں اپاہج فقیر کی طرح نہیں اس کے لیے تو اپاہج ہونا کمانے کی قدرت نہ ہونے کی بناء پر صدقہ حلال ہے اور تندرست فقیر کے لیے صرف محتاجی کی وجہ سے حلال ہے۔ اگرچہ صدقہ تو دونوں کے لیے حلال ہے مگر تندرست و صحت مند کے لیے بہتر یہ ہے کہ وہ صدقہ نہ لے بلکہ اپنے کام سے کمائی کر کے کھائے یہ افضل و بہتر ہے۔ بعض اوقات مختلف احکام میں اس لیے سختی اختیار کی جاتی ہے اور یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ یہ حلال نہیں (کہ اس کے لیے بہتر ہوتا) یا اس وجہ اس میں حلال ہونے کے اسباب پورے نہیں اگرچہ اسباب پورے نہ ہونے کی صورت میں اسے صدقہ لینا درست ہے۔ چنانچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد اسی قسم سے ہے۔ لیس المسکین بالطواف ولا بالذی تردہ ۔۔۔پس وہ مسکین جو لوگوں سے سوال کرے وہ اسباب مسکینی سے نہ تو خارج ہے اور نہ اس کے احکام سے الگ کر کے کہ یہ کہا جائے کہ اس کو صدقہ لینا حلال نہیں اور دینے والے کا صدقہ بھی نہیں ہوگا بلکہ اس کا مطلب یہ ہے۔ کہ وہ ایسا مسکین نہیں ہے کہ جس میں مسکینی کے اسباب کامل طور پر موجود ہوں ۔ پس اسی طرح یہ ارشاد لا تحل الصدقۃ لذی مرۃ سوی) کا مطلب یہ ہے کہ اس کے لیے تمام اسباب حلت کے اعتبار سے حلال نہیں اگرچہ ان میں سے سے بعض اسباب کے پائے جانے کی وجہ سے صدقہ اس کو حلال ہو۔ اول قول کے قائلین نے اپنے استدلال کے لیے ان روایات کو بھی اختیار کیا جو ذیل میں ہیں۔
حاصل روایات : صحت مند تنوتوش والے فقیر کو صدقہ واجبہ دینا جائز اور حلال نہیں ہے۔
ہر فقیر جو تندرست ہو یا لولالنگڑا اس کو صدقہ واجبہ زکوۃ وغیرہ حلال ہے مندرجہ روایات کا پہلے جواب ذکر کریں گے پھر دلائل نقل کریں گے۔
الجواب : لاتحل الصدقۃ لذی مرۃ اس کا معنی یہ ہے کہ یہ صدقہ اس کے لیے ہر اعتبار سے اس طرح درست نہیں جس طرح اپاہج کو دیا جانے والا صدقہ کیونکہ وہ تمام اعتبارات سے سے مستحق ہے اور فقط فقیر ہونے کی وجہ سے حقدار بنا ہے اس کو کمانے کی قوت حاصل نہیں جبکہ اس کو وہ قوت حاصل ہے اگرچہ اس کا لے لینا اس کو درست ہے مگر افضل یہ ہے کہ وہ نہ لے بلکہ اپنی کمائی کے مال سے کھائے اور ایسے مواقع میں سختی کے طور پر لایحل کا لفظ استعمال کیا گیا اسی طرح لایکون کذا کا لفظ بھی استعمال ہوتا ہے جس سے یہ اشارہ کرنا مقصود ہوتا ہے کہ اس شے میں یہ سارے اسباب نہیں ہیں اگرچہ بعض اسباب کی وجہ سے وہ چیز درست ہے جیسا کہ اس روایت میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لیس المسکین الحدیث کہہ کر در در پھرنے والے اور مانگنے کے عادی شخص سے مسکینی کی نفی فرمائی ہے حالانکہ ظاہری اسباب میں سے اکثر اسباب تو اس میں جمع ہیں مگر بعض نہ پائے جانے سے مسکنت کی نفی فرمائی حالانکہ یہاں مقصود اس عادت کی جو صلہ شکنی ہے جو گداگری کی صورت میں نمایاں ہے حقیقی مسکین اس کو قرار دیا گیا جو بالکل سوال نہ کرے بلکہ اپنی مسکنت کو چھپائے پھرتا ہے اب اس روایت میں لیس المسکین سے یہ ہرگز مراد نہیں کہ اس کو صدقہ لینا حلال نہیں یا اس کو صدقہ دینا جائز نہیں گویا کمال مسکنت کی نفی مراد ہے بالکل اسی طرح لا تحل الحدیث کی نفی سے کامل اسباب حلت کی نفی ہے۔

2930

۲۹۳۰ : بِمَا حَدَّثَنَا أَبُوْ أُمَیَّۃَ‘ قَالَ : ثَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ قَالَ : ثَنَا ہِشَامُ بْنُ عُرْوَۃَ عَنْ أَبِیْہِ‘ عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ عَدِیِّ بْنِ الْخِیَارِ‘ قَالَ : (حَدَّثَنِیْ رَجُلَانِ مِنْ قَوْمِیْ، أَنَّہُمَا أَتَیَا النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَہُوَ یَقْسِمُ الصَّدَقَۃَ فَسَأَلَاہُ مِنْہَا‘ فَرَفَعَ الْبَصَرَ وَخَفَضَہٗ، فَرَآہُمَا جَلْدَیْنِ قَوِیَّیْنِ فَقَالَ : إِنْ شِئْتُمَا فَعَلْتُ، وَلَا حَقَّ فِیْہَا لِغَنِیٍّ‘ وَلَا لِقَوِیٍّ مُکْتَسِبٍ) .
٢٩٣٠: عبیداللہ بن علوی بن الخیار نے بیان کیا کہ مجھے میری قوم کے دو آدمیوں نے بتلایا کہ ہم جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں اس وقت آئے جب آپ صدقات کی تقسیم فرما رہے تھے ہم نے آپ سے صدقے کا سوال کیا تو آپ نے پہلے نگاہ اٹھائی پھر جھکا لی اور دیکھا کہ ہم مضبوط اور طاقت ور ہیں تو فرمایا اگر تم دونوں چاہتے ہو تو میں دے دیتا ہوں مگر اس صدقہ میں کسی مالدار اور کمائی کرنے والے طاقت ور کا حق نہیں ہے۔
تخریج : ابو داؤد فی الزکوۃ باب ٢٤‘ نمبر ١٧٣٣‘ نسائی فی الزکوۃ باب ٩١‘ مسند احمد ٤؍٥‘ ٢٢٤؍٣٦٢۔

2931

۲۹۳۱ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ‘ قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ‘ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ‘ وَاللَّیْثُ بْنُ سَعْدٍ‘ عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .
٢٩٣١: لیث نے ہشام بن عروہ سے پھر انھوں نے اپنی اسناد سے اسی طرح روایت کی ہے۔

2932

۲۹۳۲ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا الْحَجَّاجُ بْنُ الْمِنْہَالِ‘ قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلْمَۃَ‘ وَہَمَّامٌ‘ عَنْ ہِشَامٍ‘ فَذَکَرَ بِإِسْنَادَہٖ مِثْلَہٗ .قَالُوْا : فَقَدْ قَالَ لَہُمَا (لَا حَقَّ فِیْہَا لِقَوِیٍّ مُکْتَسِبٍ) فَدَلَّ ذٰلِکَ عَلٰی أَنَّ الْقَوِیَّ الْمُکْتَسِبَ لَا حَظَّ لَہٗ فِی الصَّدَقَۃِ‘ وَلَا تُجْزِئُ مَنْ أَعْطَاہُ مِنْہَا شَیْئًا .فَالْحُجَّۃُ لِلْآخَرِیْنَ عَلَیْہِمْ فِیْ ذٰلِکَ‘ أَنَّ قَوْلَہُ (إِنْ شِئْتُمَا فَعَلْتُ وَلَا حَقَّ فِیْہَا لِغَنِیٍّ) أَیْ إِنَّ غِنَاکُمَا یَخْفٰی عَلَیَّ‘ فَإِنْ کُنْتُمَا غَنِیَّیْنِ‘ فَلاَ حَقَّ لَکُمَا فِیْہَا‘ وَإِنْ شِئْتُمَا فَعَلْتُ، لِأَنِّیْ لَمْ أَعْلَمْ بِغِنَاکُمْ‘ فَمُبَاحٌ لِی إعْطَاؤُکُمَا‘ وَحَرَامٌ عَلَیْکُمَا أَخْذُ مَا أَعْطَیْتُکُمَا إِنْ کُنْتُمَا تَعْلَمَانِ مِنْ حَقِیْقَۃِ أُمُوْرِکُمَا فِی الْغِنَی‘ خِلَافَ مَا أَرَی مِنْ ظَاہِرِکُمَا الَّذِی اسْتَدْلَلْتُ بِہٖ عَلَی فَقْرِکُمَا .فَھٰذَا مَعْنٰی قَوْلِہٖ (أَنَّ شِئْتُمَا فَعَلْتُ وَلَا حَقَّ فِیْہَا لِغَنِیٍّ) .وَأَمَّا قَوْلُہٗ (وَلَا لِقَوِیٍّ مُکْتَسِبٍ) فَذٰلِکَ عَلٰی أَنَّہٗ لَا حَقَّ لِلْقَوِیِّ الْمُکْتَسِبِ مِنْ جَمِیْعِ الْجِہَاتِ الَّتِیْ یَجِبُ الْحَقُّ فِیْہَا‘ فَعَادَ مَعْنٰی ذٰلِکَ إِلٰی مَعْنٰی مَا ذَکَرْنَا مِنْ قَوْلِہٖ (وَلَا لِذِیْ مِرَّۃٍ قَوِیٍّ) .وَقَدْ یُقَالُ : " فُلَانٌ عَالِمٌ حَقًّا " اِذَا تَکَامَلَتْ فِیْہِ الْأَسْبَابُ الَّتِیْ بِہَا یَکُوْنُ الرَّجُلُ عَالِمًا‘ وَلَا یُقَالُ " ہُوَ عَالِمٌ حَقًّا " اِذَا کَانَ دُوْنَ ذٰلِکَ‘ وَإِنْ کَانَ عَالِمًا .فَکَذٰلِکَ لَا یُقَالُ " فَقِیْرٌ حَقًّا " إِلَّا لِمَنْ تَکَامَلَتْ فِیْہِ الْأَسْبَابُ الَّتِیْ یَکُوْنُ بِہَا الْفَقِیْرُ فَقِیْرًا‘ وَإِنْ کَانَ فَقِیْرًا‘ وَلِھٰذَا قَالَ لَہُمَا (وَلَا حَقَّ فِیْہَا لِقَوِیٍّ مُکْتَسِبٍ) أَیْ : وَلَا حَقَّ لَہٗ فِیْہَا‘ حَتّٰی یَکُوْنَ بِہٖ مِنْ أَہْلِہَا حَقًّا‘ وَہُوَ قَوِیٌّ مُکْتَسِبٌ .وَلَوْلَا أَنَّہٗ یَجُوْزُ لِلنَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إعْطَاؤُہٗ لِلْقَوِیِّ الْمُکْتَسِبِ‘ اِذَا کَانَ فَقِیْرًا‘ لَمَا قَالَ لَہُمَا (إِنْ شِئْتُمَا فَعَلْتُ) .وَھٰذَا أَوْلٰی مَا حُمِلَتْ عَلَیْہِ ھٰذِہِ الْآثَارُ‘ لِأَنَّہَا إِنْ حُمِلَتْ عَلٰی مَا حَمَلَہَا عَلَیْہِ أَہْلُ الْمَقَالَۃِ الْأُوْلٰی‘ ضَادَّتْ سِوَاہَا‘ مِمَّا قَدْ رُوِیَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .
٢٩٣٢: حماد بن سلمہ اور ہمام نے ہشام سے پھر انھوں نے اپنی اسناد سے روایت کی ہے۔ قول اول والوں نے اس طرح استدال کیا ہے۔ کہ آپ نے ان کو فرمایا کہ اس صدقہ میں طاقت ور کمائی کرنے والے کا کوئی حق نہیں ہے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ طاقت ور کمائی کرنے والے کا صدقہ میں کوئی حصہ نہیں اور نہ اس کو دینے والے کا حصہ ادا ہوگا۔ دوسرے علماء کی دلیل یہ ہے۔ کہ آپ نے ان کو فرمایا ان شئتما فعلت ولا حق فیھا لغنی “ یعنی تمہاری مالداری میرے سامنے ظاہر نہیں ہے۔ اگر تو تم مالدار ہو تو تمہارا اس سے کچھ حق نہیں اور اگر تم چاہتے ہو (اور اپنے کو مستحق خیال کرتے ہو) تو میں دے دیتا ہوں کیونکہ مجھے تمہارے غناء کا علم نہیں پس مجھے تو جائز ہے کہ میں تمہارے ظاہر کو دیکھ کر دے دوں اور اگر تم دونوں اپنے کو حقیقتاً غنی جانتے ہوئے لیتے ہو تو میں جو کچھ دوں گا وہ تم پر حرام ہے۔ اس لیے کہ وہ تمہارے ظاہر کے خلاف ہے جس سے استدلال کر کے میں نے تمہیں فقیر خیال کیا (اور دے رہا ہوں) پس یہ اس ارشاد ان شئتما فعلت ولا حق فیھا لغنی ‘ ‘ الحدیث کا مطلب ہے۔ رہا آپ کا ارشاد ” ولا لقوی مکتسب “ پس یہ اس لحاظ سے ہے کہ طاقت ور کمانے والا تمام جہات سے اس صدقے کا حقدار نہیں (اگرچہ بعض جہات اس میں موجود ہیں) پس اس روایت کا مفہوم اس روایت کے مفہوم کی طرح ہوگیا ولا لذی مرٍّقوی) جو ہم نے بیان کر آئے مہاورہ میں کہتے ہیں ” فلان عالم حقًا “ جبکہ اس میں وہ تمام اسباب کمال جمع ہوں جن سے کامل عالم ہوتا ہے۔ اس کو ہو عالم حقًا نہیں کہتے جس میں تمام اسباب علم جمع نہ ہوں اگرچہ وہ عالم ہو پس اسی طرح یہ نہیں کہتے : ” ھو فقیر حقًا “ کہ وہ واقعی فقیر ہے جب تک کہ اس میں تمام اسباب فقر موجود نہ ہو ۔ اگرچہ وہ محتاج و فقیر ہو۔ اسی وجہ سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو فرمایا لاحق فیھا لقوی مکتب ‘ ‘ یعنی اس کا اس میں کچھ حق نہیں جب تک کہ وہ اس کے واقعی مستحق لوگوں میں سے نہ ہوجائے اگرچہ وہ طاقتور کمائی کرنے والا ہو۔ اگر طاقتور کمانے والے کو دینا جائز نہ ہوتا جب کہ وہ فقیر محتاج ہو تو آپ ان کو ہرگز یہ نہ فرماتے ” ان شئتما فعلت ‘ ‘ اگر تم چاہتے ہو تو میں معاونت کردیتا ہوں ۔ ان آثار کا یہ سب سے بہتر مفہوم ہے کیونکہ اگر قول اول والوں کی بات پر محمول کیا جائے تو ان روایات کے علاوہ بقیہ تمام روایات جوب جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہیں باہمی متضاد ہوجائیں گی ذیل کی روایات ملاحظہ ہوں۔
نوٹ : آپ کا یہ فرمانا : لاحق لغنی ولا لقوی مکتسب اس بات کو ظاہر کررہا ہے کہ تندرست و توانا کو صدقہ واجبہ لینا حلال و جائز نہیں ہے اور دینے والے کو دینا درست نہیں ہے۔
الجواب : ان شئتما فعلت ولا حق فیہا لغنی اس ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ تمہارا غنی ہونا میرے سامنے مخفی ہے اگر تم دونوں مالدار ہو تو تمہیں اس کا لینا درست نہیں ہے اور اگر تم چاہتے ہو اور اپنا محتاج ہونا ظاہر کرتے ہو تو تم پر اعتماد کر کے میں تمہیں دے دیتا ہوں کیونکہ تمہارا حال مجھ پر مخفی ہے ایسی صورت میں مجھے دینا تمہیں مباح ہے مگر صدقہ کا لینا تم پر حرام ہے اگر تم دونوں یہ جانتے ہوئے کہ مالدار ہو اور یہ مال وصول کرتے ہو۔
ولا لقوی مکتسب طاقت ور کمانے والے کا اس مال میں حق نہیں کیونکہ تمام اعتبارات سے وہ مستحق نہیں اس سے زیادہ ضرورت مند لوگ موجود ہیں پس اس کا معنی ولا لذی مرہ والا بن جائے گا۔ اسی طرح کامل فقیر اسے کہا جائے گا جس میں تمام اسباب فقر موجود ہوں اسی وجہ سے ان کو فرمایا کہ اس میں تندرست کمائی والے کا کوئی حق نہیں جب تک کہ وہ مستحقین میں شامل نہ ہوجائے بلکہ طاقتور کمائی والا ہو اگر ان کو طاقتور ہونے کی وجہ سے باوجود فقیر ہونے کے دینا درست نہ ہوتا تو آپ یہ نہ فرماتے ان شئتما فعلت کہ اگر پسند کرتے ہو تو دے دیتا ہوں ان الفاظ سے مفت خوری اور ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھنے کی عادت کا قلع قمع مقصود ہے کیونکہ بےنیازی بہترین عادت ہے اس مضمون پر روایت کو محمول کرنے کی وجہ سے روایات کا مفہوم باہمی متضاد نہ ہوگا بلکہ ان میں مضبوط موافقت پیدا ہوجائے گی۔

2933

۲۹۳۳ : فَمِنْ ذٰلِکَ مَا حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا بِشْرُ بْنُ عُمَرَ الزَّہْرَانِیُّ‘ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ‘ عَنْ أَبِیْ حَمْزَۃَ‘ (عَنْ ہِلَالِ بْنِ حُصَیْنٍ‘ قَالَ : نَزَلْتُ دَارَ أَبِیْ سَعِیْدٍ الْخُدْرِیِّ بِالْمَدِیْنَۃِ‘ فَضَمَّنِیْ وَإِیَّاہُ الْمَجْلِسُ‘ فَقَالَ : أَصْبَحُوْا ذَاتَ یَوْمٍ وَقَدْ عَصَبُوْا عَلٰی بَطْنِہِ حَجَرًا مِنَ الْجُوْعِ .فَقَالَتْ لَہٗ امْرَأَتُہُ أَوْ أُمُّہُ : لَوْ أَتَیْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَسَأَلْتُہٗ، فَقَدْ أَتَاہٗ فُلَانٌ فَسَأَلَہٗ فَأَعْطَاہٗ، وَأَتَاہٗ فُلَانٌ فَسَأَلَہٗ فَأَعْطَاہٗ .فَقُلْتُ : لَا وَاَللّٰہِ‘ حَتّٰی أَطْلُبَ‘ فَطَلَبْتُ، فَلَمْ أَجِدْ شَیْئًا‘ فَاسْتَبَقْتُ إِلَیْہِ وَہُوَ یَخْطُبُ وَہُوَ یَقُوْلُ : مَنِ اسْتَغْنٰی أَغْنَاہُ اللّٰہُ‘ وَمَنِ اسْتَعَفَّ أَعَفَّہُ اللّٰہُ‘ وَمَنْ سَأَلَنَا إِمَّا أَنْ نَبْذُلَ لَہٗ وَإِمَّا أَنْ نُوَاسِیَہٗ‘ وَمَنِ اسْتَعَفَّ عَنَّا وَاسْتَغْنٰی أَحَبُّ إِلَیْنَا مِمَّنْ سَأَلَنَا .قَالَ : فَرَجَعْتُ، فَمَا سَأَلْتُ أَحَدًا بَعْدُ‘ فَمَا زَالَ اللّٰہُ یَرْزُقُنَا حَتّٰی مَا أَعْلَمُ بَیْتًا فِی الْمَدِیْنَۃِ أَکْبَرَ سُؤَالًا مِنَّا) .
٢٩٣٣: ہلال بن حسین کہتے ہیں کہ میں ابو سعید خدری (رح) کے ہاں مدینہ میں گیا میں ان کی مجلس میں بیٹھا تھا تو کہنے لگے کہ گھر والوں نے ایک صبح کو اس حالت میں پایا کہ ابو سعید نے پیٹ پر بھوک سے پتھر باندھ رکھے تھے اس پر ان کی بیوی یا والدہ نے کہا اگر تم جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں جاتے تو مناسب تھا آپ کے ہاں فلاں شخص گیا آپ نے اس کو دے دیا اور فلاں شخص نے سوال کیا آپ نے اسے دے دیا میں نے ان سے کہا اللہ کی قسم ! میں پہلے تلاش کروں گا اگر نہ ملی تو پھر جاؤں گا میں نے کھانے کی چیز تلاش کی مجھے کوئی چیز نہ ملی میں آپ کی خدمت میں پہنچا اس وقت آپ خطبہ میں یہ ارشاد فرما رہے تھے جو شخص اللہ تعالیٰ سے غنا طلب کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو غنی کردیتا ہے اور جو سوال سے بچتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو سوال سے بچاتا ہے جو شخص ہم سے مانگے گا ہم یا تو اس کو دے دیں گے یا اس سے ہمدردی کا اظہار کریں گے (اگر نہ ہوگا) جو ہم سے سوال کرنے سے بچے گا اور غناء اختیار کرے گا وہ ہمیں ان کی بنسبت زیادہ پسند ہے جو ہم سے سوال کریں گے ابو سعید کہنے لگے میں یہ سن کر واپس لوٹا اس کے بعد میں نے کسی سے نہ مانگا اور اللہ تعالیٰ ہمیں اس وقت سے رزق عنایت فرما رہے ہیں یہاں تک کہ مدینہ منورہ میں میرے علم کے مطابق کوئی گھر ایسا نہیں جہاں اس قدر کثرت سے سوال کرنے والے آتے ہوں جتنے ہمارے ہاں آتے ہیں۔
تخریج : بخاری فی الرقاق باب ٢٠‘ الزکوۃ باب ١٨‘ ٥‘ مسلم فی الزکوۃ نمبر ١٢٤‘ ابو داؤد فی الزکوۃ باب ٢٨‘ ترمذی فی البر باب ٧٦‘ دارمی فی الزکوۃ باب ١٨‘ موطا مالک فی الصلاۃ ٧‘ مسند احمد ٣؍١٢‘ ٤٤‘ ٤٧‘ ٩٣‘ ٤٣٤۔

2934

۲۹۳۴ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ‘ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمِنْہَالِ‘ قَالَ ثَنَا یَزِیْدُ بْنُ زُرَیْعٍ‘ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ أَبِیْ عَرُوْبَۃَ‘ عَنْ قَتَادَۃَ‘ عَنْ ہِلَالِ بْنِ مُرَّۃَ‘ (عَنْ أَبِیْ سَعِیْدٍ الْخُدْرِیِّ‘ قَالَ : أَعْوَزْنَا مَرَّۃً‘ فَأَتَیْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَذَکَرْتُ ذٰلِکَ لَہٗ‘ فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَنِ اسْتَعَفَّ أَعَفَّہُ اللّٰہُ‘ وَمَنِ اسْتَغْنٰی أَغْنَاہُ اللّٰہُ‘ وَمَنْ سَأَلَنَا أَعْطَیْنَاہُ .قَالَ : قُلْتُ فَلأََسْتَعِفَّ فَیُعِفَّنِی اللّٰہُ وَلْأَسْتَغْنِ فَیُغْنِیَنِی اللّٰہُ .قَالَ : فَوَاللّٰہِ مَا کَانَ إِلَّا أَیَّامٌ حَتّٰی إِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَسَمَ زَبِیْبًا فَأَرْسَلَ إِلَیْنَا مِنْہُ‘ ثُمَّ قَسَمَ شَعِیْرًا‘ فَأَرْسَلَ إِلَیْنَا مِنْہُ ثُمَّ سَالَتْ عَلَیْنَا الدُّنْیَا‘ فَغَرَّقَتْنَا إِلَّا مَنْ عَصَمَ اللّٰہُ) .
٢٩٣٤: حلال بن مرہ نے ابو سعید خدری (رض) سے نقل کیا کہ ایک مرتبہ ہمیں شدید محتاجی نے آلیا تو میں جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آیا اور میں نے اس کا تذکرہ کیا تو جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو سوال سے بچے گا اللہ تعالیٰ اس کو سوال سے محفوظ کردیں گے اور جو غناء اختیار کرے گا اللہ تعالیٰ اس کو غنی بنادیں گے اور جو ہم سے سوال کرے گا ہم اسے دے دیں گے ابو سعید کہتے ہیں میں نے سوال سے دامن کو بچا لیا تو اللہ تعالیٰ نے مجھے سوال سے محفوظ رکھا اور میں نے اللہ تعالیٰ سے غنا مانگا اس نے مجھے غناء عنایت فرما دیا ابو سعید کہتے ہیں ابھی چند دن گزرے تھے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کشمش تقسیم فرمائی تو اس میں سے کچھ ہمارے ہاں بھیجی پھر جو تقسیم کئے اس میں سے کچھ ہماری طرف بھیجے پھر تو ہم پر دنیا بہہ پڑی اور اس نے ہمیں ڈبو دیا مگر وہ بچا جس کو اللہ تعالیٰ نے محفوظ رکھا۔

2935

۲۹۳۵ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ‘ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمِنْہَالِ‘ قَالَ : ثَنَا یَزِیْدُ‘ قَالَ : ثَنَا ہِشَامٌ‘ عَنْ قَتَادَۃَ‘ عَنْ ہِلَالِ بْنِ حُصَیْنٍ أَخِیْ بَنِیْ مُرَّۃَ بْنِ عَبَّادٍ‘ عَنْ أَبِیْ سَعِیْدٍ‘ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ .قَالَ ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ‘ ھٰذَا ہُوَ الصَّحِیْحُ .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَھٰذَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ (مَنْ سَأَلَنَا أَعْطَیْنَاہٗ) وَیُخَاطِبُ بِذٰلِکَ أَصْحَابَہٗ، وَأَکْثَرُہُمْ صَحِیْحٌ لَا زَمَانَۃَ بِہٖ إِلَّا أَنَّہٗ فَقِیْرٌ‘ فَلَمْ یَمْنَعْہُمْ مِنْہَا لِصِحَّتِہِمْ‘ فَقَدْ دَلَّ ذٰلِکَ عَلٰی مَا ذَکَرْنَا وَفَضَّلَ مَنِ اسْتَعَفَّ وَلَمْ یَسْأَلْ‘ عَلٰی مَنْ سَأَلَ‘ فَلَمْ یَسْأَلْہُ أَبُوْ سَعِیْدٍ لِذٰلِکَ‘ وَلَوْ سَأَلَہُ لَأَعْطَاہُ‘ اِذْ قَدْ کَانَ بَذَلَ ذٰلِکَ لَہٗ‘ وَلِأَمْثَالِہِ مِنْ أَصْحَابِہٖ۔ وَقَدْ رُوِیَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَیْضًا مِنْ غَیْرِ ھٰذَا الْوَجْہِ‘ مَا یَدُلُّ عَلٰی مَا ذَکَرْنَا .
٢٩٣٥: ہلال بن حصین جو بنی مرہ بن عباد کے بھائی ہیں انھوں نے ابو سعید خدری (رض) اور انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے ابن ابی داؤد نے اس کی تصحیح کی ہے۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں ‘ یہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے صحابہ کرام (رض) کو مخاطب کر کے فرما رہے ہیں کہ جو شخص ہم سے مانگے گا ہم اسے دیں گے ۔ اگثر صحابہ کرام تندرست و توانا اور صحت مند تھے ۔ معذور و اپاہج نہ تھے۔ وہ تنگ دست تھے تو ان کی صحت مندی کی وجہ سے آپ نے ان سے صدقہ کو روکا اور نہ حرام قرار دیا۔ تو اس سے یہ بات ثابت ہوگئی جو ہم نے اوپر ذکر کی آپ نے سوال نہ کرنے کو افضل قرار دیا مگر سوال کرنے والے سے نہیں پوچھا ۔ حضرت ابو سعید (رض) نے سوال سے بچتے ہوئے سوال نہیں کیا اگر وہ سوال کرتے تو آپ ان کو ضرور عنایت فرماتے اللہ تعالیٰ نے اس کا بدل ان کو عنایت کردیا اور اسی طرح اور بھی ان کے ساتھی تھے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بھی اس کے علاوہ سند سے روایت وارد ہے جو ہماری اس بات پر دلالت کرتی ہے۔
حاصل روایات : ان روایات میں جہاں غنا اختیار کرنے اور سوال سے بچنے کی خوبی بیان کی گئی ہے وہاں دوسری طرف یہ اشارہ بھی مل رہا ہے کہ ہم سے سوال کرے گا ہم اس کو دے دیں گے صحابہ کرام کی اکثریت صحت مند تھی کئی حضرات ان میں فقیر و محتاج تھے تو ان کی صحت و تندرستی یہ فقر کے ہوتے ہوئے استحقاق صدقہ سے مانع نہ تھی ابوسعید (رض) کا کمال استغناء ثابت ہو رہا ہے سوال نہیں کیا اللہ تعالیٰ نے غنی کردیا اگر سوال کرتے تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ضرور عنایت فرما دیتے پس ثابت ہوا کہ فقیر و غریب جو تندرست و قوی ہو اس کو تندرست و قوی کو صدقہ لینا دینا جائز ہے۔

2936

۲۹۳۶ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ‘ قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ‘ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ زِیَادِ بْنِ أَنْعُمَ‘ عَنْ زِیَادِ بْنِ نُعَیْمٍ‘ أَنَّہٗ سَمِعَ (زِیَادَ بْنَ الْحَارِثِ الصُّدَائِیَّ یَقُوْلُ : أَمَّرَنِیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلٰی قَوْمِیْ، فَقُلْتُ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ‘ أَعْطِنِیْ مِنْ صَدَقَاتِہِمْ‘ فَفَعَلَ وَکَتَبَ لِیْ بِذٰلِکَ کِتَابًا. فَأَتَاہُ رَجُلٌ فَقَالَ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ أَعْطِنِیْ مِنَ الصَّدَقَۃِ .فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ لَمْ یَرْضَ بِحُکْمِ نَبِیٍّ وَلَا غَیْرِہٖ فِی الصَّدَقَاتِ‘ حَتّٰی حَکَمَ فِیْہَا ہُوَ مِنَ السَّمَائِ ‘ فَجَزَّأَہَا ثَمَانِیَۃَ أَجْزَائٍ ‘ فَإِنْ کُنْتُ مِنْ تِلْکَ الْأَجْزَائِ أَعْطَیْتُک مِنْہَا) .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَھٰذَا الصُّدَائِیُّ‘ قَدْ أَمَّرَہٗ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلٰی قَوْمِہٖ، وَمُحَالٌ أَنْ یَّکُوْنَ أَمَّرَہُ وَبِہِ زَمَانَۃٌ .ثُمَّ قَدْ سَأَلَہٗ مِنْ صَدَقَۃِ قَوْمِہٖ، وَہِیَ زَکَاتُہُمْ فَأَعْطَاہُ مِنْہَا‘ وَلَمْ یَمْنَعْہُ مِنْہُ لِصِحَّۃِ بَدَنِہٖ۔ ثُمَّ سَأَلَہُ الرَّجُلُ الْآخَرُ بَعْدَ ذٰلِکَ‘ فَقَالَ لَہٗ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (إِنْ کُنْتُ مِنَ الْأَجْزَائِ الَّذِیْنَ جَزَّأَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ الصَّدَقَۃَ فِیْہِمْ أَعْطَیْتُک مِنْہَا) .فَرَدَّ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِذٰلِکَ حُکْمَ الصَّدَقَاتِ إِلٰی مَا رَدَّہَا اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ إِلَیْہِ بِقَوْلِہٖ (إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَائِ وَالْمَسَاکِیْنِ) الْآیَۃَ " .فَکُلُّ مَنْ وَقَعَ عَلَیْہِ اسْمُ الْمُصَنَّفِ مِنْ تِلْکَ الْأَصْنَافِ‘ فَہُوَ مِنْ أَہْلِ الصَّدَقَۃِ الَّذِیْنَ جَعَلَہَا اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ لَہُمْ فِیْ کِتَابِہٖ، وَرَسُوْلُہٗ فِیْ سُنَّتِہٖ‘ زَمِنًا کَانَ أَوْ صَحِیْحًا .وَکَانَ أَوْلَی الْأَشْیَائِ بِنَا‘ فِی الْآثَارِ الَّتِیْ رَوَیْنَاہَا عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی الْفَصْلِ الْأَوَّلِ مِنْ قَوْلِہٖ (لَا تَحِلُّ الصَّدَقَۃُ لِذِیْ مِرَّۃٍ سَوِیٍّ) مَا حَمَلْنَاہَا عَلَیْہٖ‘ لِئَلَّا یَخْرُجَ مَعْنَاہَا مِنَ الْآیَۃِ الْمُحْکَمَۃِ الَّتِیْ ذَکَرْنَا‘ وَلَا مِنْ ھٰذِہِ الْأَحَادِیْثِ الْأُخَرِ الَّتِیْ رَوَیْنَا .وَیَکُوْنُ مَعْنٰی ذٰلِکَ کُلِّہٖ‘ مَعْنًی وَاحِدًا یُصَدِّقُ بَعْضُہٗ بَعْضًا .ثُمَّ قَدْ رَوَیْ قَبِیْصَۃُ بْنُ الْمُخَارِقِ‘ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ مَا قَدْ دَلَّ عَلٰی ذٰلِکَ أَیْضًا .
٢٩٣٦: زیاد بن نعیم کہتے ہیں کہ میں نے زیاد بن حارث صدائی کو کہتے سنا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے میری قوم پر امیر بنایا میں نے عرض کیا مجھے ان کے صدقات میں سے کچھ عنایت فرمائیں آپ نے دے دیا اور میرے لیے اس سلسلے میں ایک تحریر کروا کر عنایت فرمایا اس وقت آپ کی خدمت میں ایک آدمی آیا اور اس نے کہا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مجھے صدقہ میں سے کچھ دیں پس جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے کسی نبی اور غیر نبی کے فیصلے کو صدقات کے سلسلہ میں پسند نہیں کیا یہاں تک کہ آسمان سے اس کے متعلق فیصلہ اتار دیا اور اس کو آٹھ اقسام پر بانٹ دیا اگر تم ان میں سے ہو تو میں تجھے دے دیتا ہوں۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں یہ حضرت صدائی (رض) ہیں جن کو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی قوم پر عامل بنایا اور یہ بات ناممکن ہے کہ آپ اس کو امیر بنائیں اور وہ اپاہج ہوں۔ آپ سے انھوں نے اپنی قوم کے صدقات میں سوال کیا اور وہ اس قوم کے اموال زکوۃ تھے تو آپ نے ان کو اس میں سے عنایت فرمایا اور ان کے قوی و صحت مند ہونے کی وجہ سے منع نہ فرمایا ۔ پھر اس کے بعد دوسرے آدمی نے سوال کیا ۔ تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ۔ اگر تم ان لوگوں میں شامل ہو جن پر اللہ تعالیٰ نے صدقہ کو تقسیم کرنے کا حکم دیا تو میں تمہیں اس میں سے دیتا ہوں۔ پس جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صدقہ کا حکم ان لوگوں کی طرف لوٹا دیا جن کی اللہ تعالیٰ نے لوٹایا ہے۔ انما الصدقات للفقراء والمساکین ۔۔۔ پس ہر وہ شخص جو ان اصناف کے تحت داخل ہوگا اس پر صدقہ درست ہوگا۔ جن کا تذکرہ اللہ تعالیٰ اپنی کتاب اور اس کے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی سنت میں فرماتے ہیں خواہ وہ شخص اپاہج ہو یا تندرست ۔ ہمارے لیے فصل اول میں مذکورہ آثار میں وہی معنیٰ لا تحل الصدقۃ ۔۔۔ کا لینا مناسب ہے جو ہم نے بیان کیا ہے۔ تاکہ اس کا مفہوم آیت مح کہ اور دیگر احادیث باہر نہ نکلے۔ بلکہ تمام کا معنیٰ ایک ہو جو ایک دوسرے پر صادق آسکے دوسری بات یہ ہے کہ حضرت قبیصہ بن المخارق (رض) کی جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے منقولہ روایت بھی اسی بات پر دلالت کرتی ہے۔
تخریج : ابو داؤد فی الزکوۃ باب ٢٤‘ نمبر ١٦٣٠۔
یہ زیاد بن حارث کو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صداء قبیلہ کا امیر مقرر فرمایا پھر انھوں نے آپ سے قوم کے صدقات سے کچھ سوال کیا تو آپ نے عنایت فرما دیا ان کے تندرست ہونے کی وجہ سے ممانعت نہیں فرمائی پھر دوسرے نے سوال کیا تو اس کو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اگر تو مستحقین سے ہے تو میں تجھے دے دیتا ہوں تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی زکوۃ کے حقدار انہی کو قرار دیا جن کو قرآن مجید نے مستحق کہا۔ انماالصدقات للفقراء الایۃ (التوبہ ٦٠) ان اصناف میں سے جس میں وہ شامل ہوگا مستحق بن جائے گا خواہ وہ لنگڑا ہو یا صحت مند۔
پس بہتر یہ ہے کہ فصل اول کی روایات کو اسی پر محمول کیا جائے جو معنی ہم کر آئے ہیں تاکہ روایات کا توافق ہوجائے اور سب کا ایک معنی ہو کر روایات اکٹھی ہو سکیں اور ان کا معنی ایک دوسرے سے متضاد ہونے کی بجائے ایک دوسرے کی تصدیق کرے۔

2937

۲۹۳۷ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ‘ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ‘ عَنْ ہَارُوْنَ بْنِ رِئَابٍ‘ عَنْ کِنَانَۃَ بْنِ نُعَیْمٍ‘ (عَنْ قَبِیْصَۃَ بْنِ الْمُخَارِقِ أَنَّہٗ تَحَمَّلَ بِحَمَالَۃٍ‘ فَأَتَی النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَسَأَلَہٗ فِیْہَا فَقَالَ نُخْرِجُہَا عَنْکَ مِنْ اِبِلِ الصَّدَقَۃِ‘ أَوْ نَعَمِ الصَّدَقَۃِ .یَا قَبِیْصَۃُ إِنَّ الْمَسْأَلَۃَ حَرُمَتْ إِلَّا فِیْ ثَلاَثٍ‘ رَجُلٍ تَحَمَّلَ بِحَمَالَۃٍ فَحَلَّتْ لَہُ الْمَسْأَلَۃُ حَتّٰی یُؤَدِّیَہَا ثُمَّ یُمْسِکُ‘ وَرَجُلٍ أَصَابَتْہُ جَائِحَۃٌ فَاجْتَاحَتْ مَالَہٗ، فَحَلَّتْ لَہُ الْمَسْأَلَۃُ حَتّٰی یُصِیْبَ قِوَامًا مِنْ عَیْشٍ‘ أَوْ سِدَادًا مِنْ عَیْشٍ ثُمَّ یُمْسِکُ‘ وَرَجُلٍ أَصَابَتْہُ حَاجَۃٌ حَتّٰی تَکَلَّمَ ثَلاَثَۃٌ مِنْ ذَوِی الْحِجَا مِنْ قَوْمِہِ أَنْ حَلَّتْ حَلَّتْ لَہُ الْمَسْأَلَۃُ حَتّٰی یُصِیْبَ قِوَامًا مِنْ عَیْشٍ‘ أَوْ سِدَادًا مِنْ عَیْشٍ ثُمَّ یُمْسِکُ‘ وَمَا سِوٰی ذٰلِکَ مِنَ الْمَسْأَلَۃِ فَہُوَ سُحْتٌ) .
٢٩٣٧: کنانہ بن نعیم نے قبیصہ بن مخارق (رض) سے نقل کیا ہے کہ میں نے ایک ذمہ داری اٹھائی اور اس سلسلہ میں جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ سے سوال کیا تو آپ نے فرمایا تم اس کو صدقہ کے اونٹوں سے لے لینا۔ ابل الصدقہ یا نعم الصدقہ کا لفظ فرمایا۔
پھر فرمایا اے قبیصہ سوال تین آدمیوں کو درست ہے۔
نمبر 1: جس آدمی نے کسی کی ضمانت اٹھائی وہ اس پر پڑگئی وہ اس وقت تک سوال کرسکتا ہے جب تک اس کی ادائیگی کرنا ہوگی۔
نمبر 2: وہ آدمی جس کو کوئی آسمانی آفت پہنچی جس سے اس کا مال جاتا رہا اس کو اس وقت تک سوال درست ہے یہاں تک کہ گزر اوقات یا مناسب گزارا پالے پھر وہ رک جائے۔
نمبر 3: وہ آدمی جس کو کوئی ضرورت پیش آئی اس نے اپنی قوم کے تین عقل مند آدمیوں سے اس کے پیش آنے کی بات کی اس سے وہ محتاج ہوگیا تو اس کو اس وقت تک سوال درست ہے جب تک مناسب گزر اوقات نہ پالے یا ضرورت پوری ہوجائے پھر وہ سوال سے رک جائے ان کے علاوہ سوال جہنم کی آگ ہے۔
تخریج : مسلم فی الزکوۃ ١٠٩‘ ابو داؤد فی الزکوۃ باب ٢٦‘ نمبر ١٦٤٠‘ نسائی فی الزکوۃ باب ٨٠‘ دارمی فی الزکوۃ باب ٣٧‘ مسند احمد ٣؍٤٧٧۔

2938

۲۹۳۸ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ ثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ حَرْبٍ‘ قَالَ : ثَنَا حَمَّادٌ‘ عَنْ ہَارُوْنَ بْنِ رِئَابٍ‘ عَنْ کِنَانَۃَ بْنِ نُعَیْمٍ الْعَدَوِیِّ‘ عَنْ قَبِیْصَۃَ بْنِ الْمُخَارِقِ‘ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَحْوَہٗ۔
٢٩٣٨: کنانہ بن نعیم عدوی نے قبیصہ بن المخارق (رض) سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت بیان کی ہے۔
تخریج : روایت نمبر ٢٩٣٨ کی ملاحظہ ہو۔

2939

۲۹۳۹ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا الْحَجَّاجُ بْنُ الْمِنْہَالِ‘ قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلْمَۃَ‘ عَنْ ہَارُوْنَ بْنِ رِئَابٍ‘ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ ، وَزَادَ (رَجُلٍ تَحَمَّلَ بِحَمَالَۃٍ عَنْ قَوْمِہِ أَرَادَ بِہَا الْاِصْلَاحَ) .فَأَبَاحَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ لِذِی الْحَاجَۃِ أَنْ یَسْأَلَ لِحَاجَتِہٖ‘ حَتّٰی یُصِیْبَ قِوَامًا مِنْ عَیْشٍ‘ أَوْ سِدَادًا مِنْ عَیْشٍ .فَدَلَّ ذٰلِکَ أَنَّ الصَّدَقَۃَ لَا تَحْرُمُ بِالصِّحَّۃِ اِذَا أَرَادَ بِہَا الَّذِیْ تُصُدِّقَ بِہَا عَلَیْہِ سَدَّ فَقْرٍ .وَإِنَّمَا تَحْرُمُ عَلَیْہِ اِذَا کَانَ یُرِیْدُ بِہَا غَیْرَ ذٰلِکَ مِنَ التَّکَثُّرِ وَنَحْوِہٖ‘ وَمَنْ یُرِیْدُ بِہَا ذٰلِکَ‘ فَہُوَ مِمَّنْ یَطْلُبُہَا لِسِوَی الْمَعَانِی الثَّلَاثَۃِ الَّتِیْ ذَکَرَہَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ حَدِیْثِ قَبِیْصَۃَ بْنِ مُخَارِقٍ‘ الَّذِیْ ذَکَرْنَا‘ فَہُوَ عَلَیْہِ سُحْتٌ .وَقَدْ رَوٰی سَمُرَۃُ أَیْضًا مِثْلَ ذٰلِکَ‘ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .
٢٩٣٩: حماد بن سلمہ نے ہارون بن رئاب سے پھر انھوں نے اپنی سند سے روایت نقل کی ہے البتہ اس میں یہ اضافہ ہے کہ کسی آدمی نے کسی قوم کا ذمہ اصلاح کے لیے اٹھایا۔ اس ارشاد میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حاجت والے کے لیے مباح کردیا کہ وہ اپنی حاجت کے متعلق سوال کرے اور اس وقت تک سوال کرسکتا ہے ‘ جب تک کہ مناسب گزر اوقات یا بہتر حالت گزران نہ پالے۔ اس سے یہ دلالت مل گئی کہ صدقہ صحت کی وجہ سے حرام نہیں ہوتا جب کہ وہ شخص جس کو صدقہ دیا گیا ہے وہ اپنی فقر والی حالت کا ازالہ چاہتا ہو ۔ وہ بلاشبہ اس پر اس وقت حرام ہوگا جب کہ اس کا مقصد مال میں کثرت کرنا وغیرہ ہو اور جس کا یہ ارادہ ہو وہ ان لوگوں سے ہے۔ جو ان مقاصد کے علاوہ ماننے والوں سے ہے ‘ جن کا تذکرہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قبیصہ بن مخارق (رض) والی روایت میں فرمایا وہ صدقہ اس مانگنے والے کے لیے نری آگ ہے۔ حضرت سمرہ (رض) سے بھی جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔ جو ذیل میں ہے۔
حاصل روایات : اس روایت میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حاجت مند کے لیے سوال کو درست قرار دیا یہاں تک کہ وہ مناسب گزر اوقات پالے اور اس کی ضرورت پوری ہوجائے اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ صدقہ صحت مند ہونے کی وجہ سے حرام نہیں ہوتا جبکہ اس سے اس کی ضرورت فقر کو پورا کرنا مقصود ہو حرام اس وقت ہے جبکہ اس سے مال کو بڑھانے وغیرہ کا ارادہ کیا جائے اور جو آدمی اس کے علاوہ کسی غرض کے لیے حاصل کرنا ہے وہ اس کے لیے آگ اور حرام ہے۔

2940

۲۹۴۰ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا عَفَّانَ بْنُ مُسْلِمٍ‘ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ‘ عَنْ عَبْدِ الْمَلِک بْنِ عُمَیْرٍ‘ عَنْ زَیْدِ بْنِ عُقْبَۃَ‘ قَالَ : سَمِعْتُ سَمُرَۃَ بْنَ جُنْدُبٍ‘ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ (السَّائِلُ کُدُوْحٌ یَکْدَحُ بِہَا الرَّجُلُ وَجْہَہٗ‘ فَمَنْ شَائَ أَبْقَیْ عَلٰی وَجْہِہٖ‘ وَمَنْ شَائَ تَرَکَ‘ إِلَّا أَنْ یَسْأَلَ الرَّجُلُ ذَا سُلْطَانٍ‘ أَوْ یَسْأَلَ فِیْ أَمْرٍ لَا یَجِدُ مِنْہُ بُدًّا) .
٢٩٤٠: زید بن عقبہ کہتے ہیں کہ میں نے سمرہ بن جندب (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے سوال کرنے والا اپنے چہرے کو نوچنے والا ہے جو آدمی نوچنے کے آثار کو اپنے چہرے پر باقی رکھے اور جو چاہے سوال نہ کر کے اس کو بچائے البتہ جو آدمی مرتبہ والے حاکم سے سوال کرے یا ایسے معاملے میں سوال کرے جس میں کوئی چارہ کار نہ ہو۔ (تو درست ہے) ۔
تخریج : ابو داؤد فی الزکوۃ باب ٢٦‘ نمبر ١٦٣٩‘ نسائی فی الزکوۃ باب ٩٢‘ مسند احمد ٢؍٩٤‘ ٥؍١٩‘ ٢٢۔

2941

۲۹۴۱ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا وَہْبٌ‘ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ‘ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .
٢٩٤١: وہب نے شعبہ سے پھر انھوں نے اپنی اسناد سے روایت نقل کی ہے۔

2942

۲۹۴۲ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ‘ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ مَنْصُوْرٍ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَوَانَۃَ‘ عَنْ عَبْدِ الْمَلِک بْنِ عُمَیْرٍ‘ عَنْ زَیْدِ بْنِ عُقْبَۃَ‘ عَنْ سَمُرَۃَ بْنِ جُنْدَبٍ‘ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَقَدْ أَبَاحَ ھٰذَا الْحَدِیْثُ الْمَسْأَلَۃَ فِیْ کُلِّ أَمْرٍ لَا بُدَّ مِنَ الْمَسْأَلَۃِ فِیْہِ‘ فَدَخَلَ فِیْ ذٰلِکَ مَا أُبِیْحَتْ فِیْہِ الْمَسْأَلَۃُ فِیْ حَدِیْثِ قَبِیْصَۃَ‘ وَزَادَ ھٰذَا الْحَدِیْثُ عَلَیْہِ‘ مَا سِوٰی ذٰلِکَ مِنَ الْأُمُوْرِ الَّتِیْ لَا بُدَّ مِنْہَا‘ وَفِیْ ذٰلِکَ اِبَاحَۃُ الْمَسْأَلَۃِ بِالْحَاجَۃِ خَاصَّۃً‘ لَا بِالزَّمَانَۃِ .وَقَدْ رُوِیَ عَنْ أَنَسٍ‘ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ ھٰذَا الْمَعْنٰی۔
٢٩٤٢: زید بن عقبہ نے سمرہ بن جندب (رض) سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔ اس روایت میں ہر ایسے کام کے سلسلہ میں سوال کو درست قرار دیا جہاں سوال لازم ہو ۔ اس میں وہ بات بھی شامل ہے جس میں حضرت قبیصہ (رض) کی روایت میں مانگنا مباح قرار دیا گیا ۔ اس روایت میں کچھ اضافہ ہے جو کہ نہایت ضروری ہیں ان میں خاص طور پر ضرورت کے پیش نظر مانگنا ہے۔ اپاہج ہونا نہیں اور حضرت انس (رض) نے بھی جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس طرح کی روایت نقل کی ہے۔
حاصل روایات : اس روایت نے ہر ایسے موقع کے لیے سوال کو جائز کردیا جس کے بغیر چارہ نہ ہو ان میں جہاں وہ لوگ شامل ہیں جو سابقہ روایت قبیصہ (رض) میں موجود ہیں اور اس میں ایک اور کا اضافہ فرمایا کہ ایسا کام کہ جس میں کام کہ جن میں سوال کے علاوہ چارہ کار نہ ہو اس سے یہ صاف معلوم ہوا کہ سوال کا مباح ہونا ضرورت خاصہ فقر وغیرہ کی بنیاد پر ہے اس کا دارومدار اپاہج پن اور بیمار ہونا نہیں۔

2943

۲۹۴۳ : مَا قَدْ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ الْأَنْصَارِیُّ‘ قَالَ : حَدَّثَنِی الْأَخْضَرُ بْنُ عَجْلَانَ‘ عَنْ أَبِیْ بَکْرٍ الْحَنَفِیِّ‘ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ (أَنَّ رَجُلًا مِنَ الْأَنْصَارِ‘ أَتَی النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَسَأَلَہٗ، فَقَالَ إِنَّ الْمَسْأَلَۃَ لَا تَصْلُحُ إِلَّا لِثَلاَثٍ‘ لِغُرْمٍ مُوْجِعٍ‘ أَوْ دَمٍ مُفْظِعٍ‘ أَوْ فَقْرٍ مُدْقِعٍ) .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَکُلُّ ھٰذِہِ الْأُمُوْرِ‘ مِمَّا لَا بُدَّ مِنْہُ‘ فَقَدْ دَخَلَ ذٰلِکَ أَیْضًا فِیْ مَعْنٰی حَدِیْثِ سَمُرَۃَ وَقَدْ رُوِیَ عَنْ أَبِیْ سَعِیْدٍ الْخُدْرِیِّ‘ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ ذٰلِکَ أَیْضًا۔
٢٩٤٣: ابوبکر حنفی (رض) نے نقل کیا کہ ایک انصاری جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آیا اور اس نے سوال کیا تو آپ نے فرمایا سوال تین آدمیوں کو جائز و مناسب ہے۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں کہ یہ تمام ضروری امور حضرت سمرہ (رض) کی روایت کے معنیٰ میں داخل ہیں اور حضرت ابو سعید (رض) نے بھی جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بھی اسی طرح کی بھی روایت کی ہے۔
نمبر 1: تکلیف دہ چٹی کا شکار ہونے والا۔
نمبر 2: دم دیت قتل جس میں قاتل کے ورثارء کے پاس دینے کو مال نہ ہو۔
نمبر 3: فقر جو سخت ہونے کی وجہ سے پریشانی میں مبتلا کر دے۔
تخریج : ابو داؤد فی الزکوۃ باب ٢٦‘ نمبر ١٦٤١‘ ترمذی فی الزکوۃ باب ٢٣‘ نمبر ٦٥٣‘ ابن ماجہ فی التجارات باب ٢٥‘ مسند احمد ٣‘ ١١٤؍١٢٧۔
امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں یہ تمام چیزیں جو اس حدیث میں مذکور ہیں یہ اس حکم کے تحت داخل ہیں جن کا تذکرہ سمرہ اور قبیصہ (رض) کی روایت میں ہوا ہے۔

2944

۲۹۴۴ : مَا قَدْ حَدَّثَنَا فَہْدٌ ہُوَ ابْنُ سُلَیْمَانَ‘ قَالَ : ثَنَا الْحَسَنُ بْنُ الرَّبِیْعِ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ إِسْحَاقَ‘ عَنْ سُفْیَانَ‘ عَنْ عِمْرَانَ الْبَارِقِیِّ‘ عَنْ عَطِیَّۃَ بْنِ سَعْدٍ‘ عَنْ أَبِیْ سَعِیْدٍ‘ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (لَا تَحِلُّ الصَّدَقَۃُ لِغَنِیٍّ‘ إِلَّا أَنْ یَّکُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ‘ أَوِ ابْنِ السَّبِیْلِ‘ أَوْ یَکُوْنَ لَہٗ جَارٌ فَیَتَصَدَّقَ عَلَیْہٖ‘ فَیُہْدِیَ لَہٗ‘ أَوْ یَدْعُوَہٗ) .
٢٩٤٤: عطیہ بن سعد نے ابو سعید خدری (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ صدقہ کسی مالدار کو اس وقت حلال ہے جبکہ وہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں (جہاد میں) ہو یا پھر سفر میں ہو یا اس کا پڑوسی ہو اس کو مستحق ہونے کی وجہ سے صدقہ دیا جائے اور وہ اس کو ہدیہ میں دے یا اس کی دعوت کرے۔
تخریج : ابو داؤد فی الزکوۃ باب ٢٥‘ نمبر ١٦٣٧‘ ابن ماجہ فی الزکوۃ باب ٢٧‘ نمبر ١٨٤١۔

2945

۲۹۴۵ : حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ الْجَارُوْدِ‘ قَالَ : ثَنَا عُبَیْدُ اللّٰہِ بْنُ مُوْسٰی، قَالَ : أَنَا ابْنُ أَبِیْ لَیْلٰی‘ عَنْ عَطِیَّۃَ‘ عَنْ أَبِیْ سَعِیْدٍ‘ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ .فَأَبَاحَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الصَّدَقَۃَ لِلرَّجُلِ‘ اِذَا کَانَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ‘ أَوْ ابْنِ السَّبِیْلِ‘ فَقَدْ جَمَعَ ذٰلِکَ الصَّحِیْحَ‘ وَغَیْرَ الصَّحِیْحِ .فَدَلَّ ذٰلِکَ أَیْضًا‘ عَلٰی أَنَّ الصَّدَقَۃَ‘ إِنَّمَا تَحِلُّ بِالْفَقْرِ‘ کَانَتْ مَعَہُ الزَّمَانَۃُ‘ أَوْ لَمْ تَکُنْ .وَقَدْ رُوِیَ عَنْ وَہْبِ بْنِ خَنْبَشٍ‘ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔
٢٩٤٥: عطیہ نے ابو سعید (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔ تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس آدمی کو جو مسافر ہو یا جہاد میں ہو صدقہ دینا جائز قراردیا اس میں صحت مند اور بیمار کو جمع فرمایا اس سے اس بات کا ثبوت مل گیا کہ صدقہ فقرواحتیاج کی وجہ سے جائز ہوتا ہے۔ خواہ وہ معذور ہو یا نہ ہو ۔ حضرت وھب بن خنبش (رض) نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس طرح روایت کی ہے۔ ذیل میں ملاحظہ ہو۔
اس روایت میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غیر تندرست و صحت مند کا لحاظ کئے بغیر صدقے کا حقدار مجاہد ‘ مسافر کو بھی قرار دیا ہے۔ اس سے ثابت ہوگیا کہ صدقہ کے لیے محتاج ہونا چاہیے اپاہج لنگڑا ‘ اندھا ہونا ضروری نہیں۔

2946

۲۹۴۶ : مَا قَدْ حَدَّثَنَا أَبُوْ أُمَیَّۃَ‘ قَالَ : ثَنَا الْمُعَلَّی بْنُ مَنْصُوْرٍ‘ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ یَحْیَی بْنُ سَعِیْدٍ‘ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ مُجَالِدٌ‘ عَنِ الشَّعْبِیِّ‘ عَنْ وَہْبٍ‘ قَالَ : (جَائَ رَجُلٌ إِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَہُوَ وَاقِفٌ بِعَرَفَۃَ‘ فَسَأَلَہٗ رِدَائَ ہٗ‘ فَأَعْطَاہُ إِیَّاہٗ، فَذَہَبَ بِہٖ، ثُمَّ قَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِنَّ الْمَسْأَلَۃَ لَا تَحِلُّ إِلَّا مِنْ مُدْقِعٍ أَوْ غُرْمٍ مُفْظِعٍ‘ وَمَنْ سَأَلَ النَّاسَ لِیُثْرِیَ بِہٖ لَہٗ‘ فَإِنَّہٗ خُمُوشٌ فِیْ وَجْہِہٖ‘ وَرَضْفٌ یَأْکُلُہٗ مِنْ جَہَنَّمَ‘ إِنْ قَلِیْلًا فَقَلِیْلٌ‘ وَإِنْ کَثِیْرًا فَکَثِیْرٌ) .فَأَخْبَرَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَیْضًا فِیْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ أَنَّ الْمَسْأَلَۃَ تَحِلُّ بِالْفَقْرِ‘ وَالْغُرْمِ‘ فَذٰلِکَ دَلِیْلٌ عَلٰی أَنَّہَا تَحِلُّ بِہٰذَیْنِ الْمَعْنَیَیْنِ خَاصَّۃً‘ وَلَا یَخْتَلِفُ فِیْ ذٰلِکَ الزَّمِنُ وَلَا غَیْرُہٗ۔
٢٩٤٦: شعبی نے وہب (رض) سے نقل کیا کہ ایک آدمی جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آیا جبکہ آپ عرفات میں وقوف فرما رہے تھے اس نے آپ سے اوڑھنے والی چادر مانگی آپ نے اس کو عنایت فرما دی وہ لے کر چلا گیا پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ سوال۔ اس روایت میں جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خبردی کہ فقر و احتیاج کی وجہ سے سوال کیا جائز ہوجاتا ہے۔ اسی طرح تو یہ اس بات کا ثبوت ہے۔ کہ ان دو حالتوں میں خصوصًا سوال درست و حلال ہوجاتا ہے اس میں معذوری وغیرہ کا فرق نہیں ہے۔ مزید روایات ذیل میں ہیں۔
نمبر 1: شدید فقر جو ہلاک کن ہو۔
نمبر 2: رسوا کن چٹی کی صورت میں درست ہے۔ جس نے مالدار بننے کے لیے سوال کیا وہ اس کے چہرے پر خراش ہوگا۔ اور جہنم کا گرم پتھر ہوگا جس کو وہ کھائے گا اگر تھوڑا ہوگا تو تھوڑا اور زیادہ سوال ہوگا تو زیادہ گرم پتھر کھانا پڑے گا۔
تخریج : ترمذی فی الزکوۃ باب ٢٣‘ نمبر ٦٥٣‘۔
لغات : الرضف۔ گرم پتھر۔ مدقع ذلیل کرنے والا۔ مفظع۔ رسوا کن۔ ثری۔ یثری۔ مالدار ہونا۔
حاصل روایات : اس روایت سے معلوم ہوا کہ سوال فقر سے درست ہوتا ہے یا چٹی پڑجانے سے جائز ہے یہ کھلی دلیل ہے کہ یہ حلت ان اسباب کی بناء پر ہے اس میں معذور و اپاہج ہونے یا صحت مند ہونے کا دخل نہیں۔

2947

۲۹۴۷ : وَقَدْ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ‘ قَالَ ثَنَا مُخَوَّلُ بْنُ اِبْرَاہِیْمَ‘ قَالَ : ثَنَا إِسْرَائِیْلُ‘ عَنْ أَبِیْ إِسْحَاقَ‘ عَنْ حُبْشِیِّ بْنِ جُنَادَۃَ‘ قَالَ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ (مَنْ سَأَلَ مِنْ غَیْرِ فَقْرٍ‘ فَإِنَّمَا یَأْکُلُ الْجَمْرَ)
٢٩٤٧: ابو اسحاق نے حبشی بن جنادہ (رض) سے نقل کیا ہے کہ میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے سنا جس نے محتاجی کے بغیر سوال کیا وہ گویا انگارے کھا رہا ہے۔
تخریج : ابن ماجہ فی الزکوۃ باب ٢٦‘ نمبر ١٨٣٨۔
حاصل روایات : یہ حبشی بن جنادہ (رض) ہیں جنہوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جو بات بیان کی وہ ان پہلی روایات کے عین موافق ہے کہ سوال کا استحقاق فقر کے باعث ہے نہ کہ کسی اور سبب سے۔

2948

۲۹۴۸ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ غَسَّانَ‘ قَالَ : ثَنَا إِسْرَائِیْلُ‘ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .فَھٰذَا حُبْشِیٌّ قَدْ حَکٰی ھٰذَا عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ فَوَافَقَ مَا حَکَی مِنْ ذٰلِکَ‘ مَا حَکَاہُ الْآخَرُوْنَ‘ مِنْ أَنَّ الْمَسْأَلَۃَ إِنَّمَا تَحِلُّ بِالْفَقْرِ .وَقَدْ جَائَ تِ الْآثَارُ أَیْضًا‘ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِذٰلِکَ مُتَوَاتِرَۃً .
٢٩٤٨ : ابو غسان نے اسرائیل سے روایت کی پھر اپنی اسناد سے اسی طرح بیان کی۔ تو یہ حبشی (رض) ہیں جو جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کر رہے ہیں کہ فقر کے بغیر مانگنے والا شعلے کھانے والا ہے تو یہ ارشاد دوسرے قول والوں کی بات کے موافق ہے کہ فقر سے سوال درست ہوجاتا ہے۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کثیر روایات وارد ہیں چند ملاحظہ ہوں۔

2949

۲۹۴۹ : حَدَّثَنَا الْحُسَیْنُ بْنُ نَصْرٍ‘ قَالَ : ثَنَا الْفِرْیَابِیُّ .ح .
٢٩٤٩: حسین بن نصر نے فریابی سے نقل کیا۔

2950

۲۹۵۰ : وَحَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَاصِمٍ‘ قَالَا جَمِیْعًا : عَنْ سُفْیَانَ‘ عَنْ حَکِیْمِ بْنِ جُبَیْرٍ‘ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ یَزِیْدَ النَّخَعِیِّ‘ عَنْ أَبِیْہِ‘ عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (لَا یَسْأَلُ عَبْدٌ مَسْأَلَۃً‘ وَلَہٗ مَا یُغْنِیْہِ إِلَّا جَائَ تْ شَیْنًا‘ أَوْ کُدُوْحًا‘ أَوْ خُدُوْشًا‘ فِیْ وَجْہِہٖ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ .قِیْلَ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ‘ وَمَاذَا غِنَاہٗ؟ قَالَ خَمْسُوْنَ دِرْہَمًا وَحِسَابُہَا مِنَ الذَّہَبِ) .
٢٩٥٠: عبدالرحمن بن یزید نخعی نے اپنے والد سے انھوں نے عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت کی ہے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ جب کوئی بندہ ایسی حالت میں سوال کرتا ہے جبکہ اس کے پاس ایسی چیز موجود ہے جو اس کو مستغنی کرسکتی ہے وہ اس کے لیے قیامت کے دن چہرے پر خراش و زخم ہوگا کسی نے کہا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ۔ اس کی غناء کیا ہے فرمایا پچاس درہم اور اس کا حساب سونے سے ہوگا۔
تخریج : ابن ماجہ فی الزکوۃ باب ٢٦‘ نمبر ١٨٤٠۔

2951

۲۹۵۱ : حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ خَالِدٍ الْبَغْدَادِیُّ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ ہِشَامٍ الرِّفَاعِیُّ‘ قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ آدَمَ‘ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .غَیْرَ أَنَّہٗ قَالَ (کُدُوْحًا فِیْ وَجْہِہِ) وَلَمْ یَشُکَّ وَزَادَ (فَقِیْلَ لِسُفْیَانَ : لَوْ کَانَتْ مِنْ غَیْرِ حَکِیْمٍ ؟ فَقَالَ : حَدَّثَنَاہُ زُبَیْدٌ‘ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ یَزِیْدَ‘ مِثْلَہٗ) .
٢٩٥١: یحییٰ بن آدم نے سفیان سے نقل کی پھر اپنی اسناد سے روایت کی البتہ صرف کدوحاً کا لفظ بولا ہے اور یہ اضافہ ہے سفیان سے کہا گیا اگر یہ غیر حکیم سے روایت ہو ؟ تو انھوں نے فرمایا ہم اس کو زبید عن محمد بن عبدالرحمن بن یزید سے اسی طرح روایت کریں گے۔

2952

۲۹۵۲ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بِشْرٍ الرَّقِّیُّ‘ قَالَ : ثَنَا أَیُّوْبُ بْنُ سُوَیْدٍ‘ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ یَزِیْدَ‘ قَالَ : حَدَّثَنِیْ رَبِیْعَۃُ بْنُ یَزِیْدَ عَنْ أَبِیْ کَبْشَۃَ السَّلُوْلِیِّ‘ قَالَ : حَدَّثَنِیْ سَہْلُ بْنُ الْحَنْظَلِیَّۃِ‘ قَالَ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ (مَنْ سَأَلَ النَّاسَ عَنْ ظَہْرِ غِنًی‘ فَإِنَّمَا یَسْتَکْثِرُ مِنْ جَمْرِ جَہَنَّمَ .قُلْتُ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ‘ وَمَا ظَہْرُ غِنًی؟ قَالَ أَنْ یَعْلَمَ أَنَّ عِنْدَ أَہْلِہٖ مَا یُغَدِّیْہِمْ‘ أَوْ مَا یُعَشِّیْہِمْ) .
٢٩٥٢: ابو کبشہ سلولی نے کہا مجھے سہل بن الحنظلیہ نے بیان کیا اس نے کہا میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے سنا جو شخص مالدار ہو کہ لوگوں سے مانگتا پھرتا ہے وہ اپنے لیے جہنم کے انگاروں کا ڈھیر بنا رہا ہے میں نے عرض کیا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! مالداری کیا ہے ؟ فرمایا وہ جانتا ہو کہ اس کے اہل میں اتنی چیزیں ہیں جو ان کو صبح یا شام کافی ہوسکتی ہیں۔
تخریج : ابو داؤد فی الزکوۃ باب ٢٤‘ نمبر ١٦٢٩۔

2953

۲۹۵۳ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عُمَرَ الْحَوْضِیُّ‘ قَالَ : ثَنَا یَزِیْدُ بْنُ زُرَیْعٍ‘ عَنْ سَعِیْدِ بْنِ أَبِیْ عَرُوْبَۃَ‘ عَنْ قَتَادَۃَ‘ عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِی الْجَعْدِ‘ عَنْ مَعْدَانَ بْنِ أَبِیْ طَلْحَۃَ‘ عَنْ ثَوْبَانَ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (مَنْ سَأَلَ وَلَہٗ مَا یُغْنِیْہٖ‘ جَائَ تْ شَیْنًا فِیْ وَجْہِہٖ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ) .
٢٩٥٣: معدان بن ابی طلحہ نے ثوبان سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس نے اس وقت سوال کیا جبکہ اس کے پاس اتنا مال تھا جو اس کو دوسروں سے بے پروا کرنے والا ہے قیامت کے دن اس کے چہرے پر عیب ہوگا۔
تخریج : دارمی فی الزکوۃ باب ١٧‘ مسند احمد ٥؍٢٨١۔

2954

۲۹۵۴ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ‘ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ یُوْسُفَ : قَالَ : ثَنَا ابْنُ أَبِی الرِّجَالِ‘ عَنْ عُمَارَۃَ بْنِ غَزِیَّۃَ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ أَبِیْ سَعِیْدٍ الْخُدْرِیِّ‘ عَنْ أَبِیْہِ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : (مَنْ سَأَلَ‘ وَلَہُ قِیْمَۃُ أُوقِیَّۃٍ فَقَدْ أَلْحَفَ) .
٢٩٥٤: عبدالرحمن بن ابی سعید نے اپنے والد ابو سعیدالخدری (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس نے اس وقت سوال کیا جبکہ اس کے پاس ایک اوقیہ چاندی کی قیمت تھی اس نے اصرار سے مانگا۔
تخریج : ابو داؤد فی الزکوۃ باب ٢٤‘ نمبر ١٦٢٨۔

2955

۲۹۵۵ : حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوٗدَ‘ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ صَالِحٍ الْأَزْدِیُّ‘ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْفُضَیْلِ‘ عَنْ عُمَارَۃَ الْقَعْقَاعِ عَنْ أَبِیْ زُرْعَۃَ‘ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (مَنْ سَأَلَ النَّاسَ أَمْوَالَہُمْ تَکَثُّرًا‘ فَإِنَّمَا ہُوَ جَمْرٌ‘ فَلْیَسْتَقِلَّ مِنْہُ‘ أَوْ لِیَسْتَکْثِرْ) .
٢٩٥٥: ابو زرعہ نے ابوہریرہ (رض) سے روایت کی کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس نے لوگوں سے مال بڑھانے کے لیے مانگا وہ مال انگارہ ہے خواہ اس کو تھوڑا طلب کرے یا زیادہ۔
تخریج : ابن ماجہ فی الزکوۃ باب ١٦‘ نمبر ١٨٣٨۔

2956

۲۹۵۶ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ‘ قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ‘ أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ عَنْ زَیْدِ بْنِ أَسْلَمَ‘ عَنْ عَطَائِ بْنِ یَسَارٍ‘ (عَنْ رَجُلٍ مِنْ بَنِیْ أَسَدٍ قَالَ : نَزَلْتُ وَأَہْلِیْ، بَقِیْعَ الْغَرْقَدِ‘ فَقَالَ لِیْ أَہْلِیُ : اذْہَبْ إِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَاسْأَلْہُ لَنَا شَیْئًا نَأْکُلْہُ‘ وَجَعَلُوْا یَذْکُرُوْنَ حَاجَتَہُمْ .فَذَہَبْتُ إِلَی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَوَجَدْت عِنْدَہُ رَجُلًا یَسْأَلُہٗ‘ وَرَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ : لَا أَجِدُ مَا أُعْطِیک فَوَلَّی الرَّجُلُ وَہُوَ مُغْضَبٌ وَہُوَ یَقُوْلُ : لَعَمْرِیْ إِنَّک لَتُفَضِّلُ مَنْ شِئْت .فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِنَّہُ لَیَغْضَبُ عَلٰی أَنْ لَا أَجِدَ مَا أُعْطِیْہٖ‘ مَنْ سَأَلَ مِنْکُمْ‘ وَعِنْدَہٗ أُوقِیَّۃٌ أَوْ عِدْلُہَا فَقَدْ سَأَلَہَا إِلْحَافًا .قَالَ الْأَسَدِیُّ : فَقُلْتُ لِلَّقْحَۃِ لَنَا خَیْرٌ مِنْ أُوقِیَّۃٍ قَالَ : وَالْأُوقِیَّۃُ أَرْبَعُوْنَ دِرْہَمًا‘ قَالَ : فَرَجَعْتُ وَلَمْ أَسْأَلْہُ .فَقَدِمَ عَلَیَّ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَعْدَ ذٰلِکَ بِشَعِیْرٍ وَزَبِیْبٍ وَزُبْدٍ‘ فَقَسَمَ لَنَا مِنْہُ حَتّٰی أَغْنَانَا اللّٰہُ) .
٢٩٥٦: عطاء بن یسار نے بنی اسد کے ایک آدمی سے نقل کیا کہ میں اپنے اہل و عیال سمیت بقیع غرقد میں اترا مجھے میرے گھر والوں نے کہا تم جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں جاؤ اور ان سے کھانے کی کوئی چیز مانگ لاؤ اور گھر والے اپنی ضروریات ذکر کرنے لگے پس میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں گیا میں نے آپ کے ہاں ایک سائل کو پایا جو کہہ رہا تھا مجھے کچھ دو اور آپ فرما رہے تھے میرے پاس تجھے دینے کو کچھ نہیں وہ آدمی پیٹھ پھیر کر چل دیا اور وہ ناراضی سے کہہ رہا تھا۔ میری عمر کی قسم ! تم جس پر چاہتے ہو مہربانی کرتے ہو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یہ اس بات پر ناراض ہے کہ میں اسے دینے کے لیے کچھ نہیں پاتا جس آدمی نے ایسے وقت سوال کیا جبکہ اس کے پاس ایک اوقیہ یا بدل ہو تو وہ اصرار سے سوال کرنے والوں میں شمار ہوگا اسدی کہتے ہیں کہ میں نے کہا ہمارے پاس اوقیہ سے بہتر گابھن اونٹنی موجود ہے جبکہ اوقیہ چالیس درہم کے برابر وزن چاندی کو کہا جاتا ہے اسدی کہتے ہیں میں لوٹ آیا اور آپ سے سوال نہ کیا۔ اس کے بعد جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس جو کشمش آئی اس کو ہم میں تقسیم فرمایا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں غنی کردیا۔
تخریج : ابو داؤد فی الزکوۃ باب ٢٤‘ نمبر ١٦٢٧۔

2957

۲۹۵۷ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا مُؤَمَّلٌ‘ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ‘ عَنْ اِبْرَاہِیْمَ الْہَجَرِیِّ‘ عَنْ أَبِی الْأَحْوَصِ‘ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ‘ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : (الْأَیْدِیْ ثَلاَثٌ : فَیَدُ اللّٰہِ الْعُلْیَا‘ وَیَدُ الْمُعْطِی الَّتِیْ تَلِیْہَا‘ وَیَدُ السَّائِلِ السُّفْلَی إِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ‘ فَاسْتَعْفِفْ مَا اسْتَطَعْتُ، وَلَا تَعْجِزْ عَنْ نَفْسِکَ‘ وَلَا تُلَامُ عَلٰی کَفَافٍ وَاذَا آتَاک اللّٰہُ خَیْرًا فَلْیُرَ عَلَیْکَ) .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَکَانَتَ الْمَسْأَلَۃُ الَّتِیْ أَبَاحَہَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ ھٰذِہِ الْآثَارِ کُلِّہَا ہِیَ لِلْفَقْرِ لَا غَیْرِہٖ۔ وَکَانَ تَصْحِیْحُ مَعَانِیْ ھٰذِہِ الْآثَارِ - عِنْدَنَا - یُوْجِبُ أَنَّ مَنْ قَصَدَ إِلَیْہِ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِقَوْلِہٖ (لَا تَحِلُّ الصَّدَقَۃُ لِذِیْ مِرَّۃٍ سَوِیٍّ) ، ہُوَ غَیْرُ مَنِ اسْتَثْنَاہُ مِنْ ذٰلِکَ فِیْ حَدِیْثِ وَہْبِ بْنِ خَنْبَشٍ بِقَوْلِہٖ (إِلَّا مِنْ فَقْرٍ مُدْقِعٍ‘ أَوْ غُرْمٍ مُفْظِعٍ) وَأَنَّہٗ الَّذِیْ یُرِیْدُ بِمَسْأَلَتِہٖ أَنْ یُکْثِرَ مَالَہٗ، وَیَسْتَغْنِیَ مِنْ مَالِ الصَّدَقَۃِ‘ حَتّٰی تَصِحَّ ھٰذِہِ الْآثَارُ‘ وَتَتَّفِقَ مَعَانِیْہَا وَلَا تَتَضَادَّ .وَھٰذَا الْمَعْنَی الَّذِیْ حَمَلْنَا عَلَیْہِ وُجُوْہَ ھٰذِہِ الْآثَارِ‘ ہُوَ قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ‘ وَأَبِیْ یُوْسُفَ‘ وَمُحَمَّدٍ‘ رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی. فَإِنْ سَأَلَ سَائِلٌ عَنْ مَعْنَیْ حَدِیْثِ عُمَرَ الْمَرْوِیِّ عَنْہُ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ نَحْوٍ مِنْ ھٰذَا .
٢٩٥٧: ابوالاحوص نے عبداللہ (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہاتھ تین قسم ہیں۔ !: اللہ کا ہاتھ تو بلندیوں والا ہے۔ ": دینے والے کا ہاتھ جو اس (یداللہ) کے قریب ہے۔#: سائل کا ہاتھ نیچا ہے اور قیامت تک نیچا ہے جہاں تک ہو سکے سوال سے بچو اپنے نفس کو عاجز مت قرار دے گزراوقات موجود ہو تو تو قابل ملامت نہیں جب تیرے پاس مال آجائے تو اس کا اثر تم پر نظر آنا چاہیے۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں کہ ان روایات سے ثابت ہوتا ہے کہ سوال صرف فقر کی وجہ سے مباح ہے نہ کچھ اور تو روایات کے معانی کی درستی کا تقاضہ یہ ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جو یہ فرمایا : لا تحل الصدقۃ لذی مرۃ سویٍ۔۔۔ تو اس سے مراد وہ لوگ نہیں کہ جن کو روایت وھب بن خنبش میں الآمن فقر مدقع اوغرم مفظع سے مستثنیٰ فرمایا ہے بلکہ وہ شخص مراد ہے جو سوال کر کے مال کی کثرت اور مال صدقہ سے مالدار بننا چاہتا ہے تاکہ یہ روایات درست ثابت ہوں اور ان کے معانی یکساں ہو کر تضاد ختم ہو اور ان روایات سے جن وجوہ کو ہم نے ذکر کیا وہی درست مفہوم ہے اور یہی امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد رحمہم اللہ کا مسلک ہے۔ اگر معترض یہ کہے عمر (رض) والی روایت کا پھر کیا مفہوم بنے گا۔ جو ذیل میں ہے۔
تخریج : مسلم فی الزکوۃ نمبر ٩٤‘ ابو داؤد فی الزکوۃ باب ٢٨‘ ١٦٤٨؍١٦٤٩۔
حاصل روایات : ان روایات مزیدہ سے بھی یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ سوال کی اباحت کا سبب فقر ہے تندرست و معذور کا اس میں فرق نہیں ہے۔
ان آثار کے معانی میں تطبیق کا راستہ وہی بہتر ہے جو ہم نے اختیار کیا ہے کہ لاتحل الصدقہ لدی مرۃ سوی میں جس کا قصد کیا گیا ہے وہ اس وہب بن خنش (رض) والی روایت کے مستثنیات سے الگ ہیں اور جن کے لیے حرام کیا گیا وہ وہی لوگ ہیں جو مال کو بڑھانے کی غرض سے سوال کریں اور مالدار بننے کے لیے سوال کریں بھوک کو روکنے سد رمق والے لوگ اس میں شامل نہیں ان کو تندرست ہوں یا بیمار سوال حلال ہے۔
یہی ہمارے ائمہ ابوحنیفہ و ابو یوسف و محمد رحمہم اللہ کا قول ہے۔

2958

۲۹۵۸ : وَہُوَ مَا حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوَ الْیَمَانِ‘ قَالَ : أَنَا شُعَیْبٌ‘ عَنِ الزُّہْرِیِّ‘ قَالَ : ثَنَا السَّائِبُ بْنُ یَزِیْدَ أَنْ حُوَیْطِبَ بْنَ عَبْدِ الْعُزّٰی أَخْبَرَہٗ أَنَّ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ السَّعْدِیِّ أَخْبَرَہٗ أَنَّہٗ قَدِمَ عَلٰی عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فِیْ خِلَافَتِہٖ‘ فَقَالَ لَہٗ عُمَرُ : (أَلَمْ أُحَدَّثْ أَنَّک تَلِیْ مِنْ أَعْمَالِ النَّاسِ أَعْمَالًا‘ فَإِذَا أُعْطِیْتُ الْعُمَالَۃَ کَرِہْتُہَا) فَقَالَ : نَعَمْ .فَقَالَ عُمَرُ : فَمَا تُرِیْدُ إِلٰی ذٰلِکَ ؟ قُلْتُ : إِنَّ لِیْ أَفْرَاسًا وَأَعْبُدًا وَأَنَا أَتَّجِرُ‘ وَأُرِیْدُ أَنْ یَّکُوْنَ عُمَالَتِیْ صَدَقَۃً عَلَی الْمُسْلِمِیْنَ .فَقَالَ عُمَرُ : فَلاَ تَفْعَلْ‘ فَإِنِّیْ قَدْ کُنْتُ أَرَدْتُ الَّذِیْ أَرَدْتُ‘ وَقَدْ (کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُعْطِیْنِی الْعَطَائَ فَأَقُوْلُ : أَعْطِہٖ مَنْ ہُوَ أَفْقَرُ إِلَیْہِ مِنِّیْ‘ حَتّٰی أَعْطَانِیْ مَرَّۃً مَالًا فَقُلْتُ لَہٗ ذٰلِکَ .فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : خُذْہُ فَتَمَوَّلْہُ فَمَا جَائَ کَ مِنْ ھٰذَا الْمَالِ‘ وَأَنْتَ غَیْرُ مُشْرِفٍ‘ وَلَا سَائِلٍ‘ فَخُذْہُ‘ وَمَا لَا فَلاَ تُتْبِعْہُ نَفْسَکَ) .قَالَ : فَفِیْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ تَحْرِیْمُ الْمَسْأَلَۃِ أَیْضًا .قِیْلَ لَہٗ : لَیْسَ ھٰذَا عَلٰی أَمْوَالِ الصَّدَقَاتِ‘ إِنَّمَا ھٰذَا عَلَی الْأَمْوَالِ الَّتِیْ یَقْسِمُہَا الْاِمَامُ عَلَی النَّاسِ‘ فَیَقْسِمُہَا عَلٰی أَغْنِیَائِہِمْ وَفُقَرَائِہِمْ .کَمَا فَرَضَ عُمَرُ لِأَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حِیْنَ دَوَّنَ الدَّوَاوِیْنَ‘ فَفَرَضَ لِلْأَغْنِیَائِ مِنْہُمْ وَلِلْفُقَرَائِ ‘ فَکَانَتْ تِلْکَ الْأَمْوَالُ یُعْطَاہَا النَّاسُ‘ لَا مِنْ جِہَۃِ الْفَقْرِ‘ وَلٰـکِنْ لِحُقُوقِہِمْ فِیْہَا .فَکَرِہَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِعُمَرَ‘ حِیْنَ أَعْطَاہُ الَّذِیْ کَانَ أَعْطَاہُ مِنْہَا قَوْلُہٗ : (أَعْطِہِ مَنْ ہُوَ أَفْقَرُ إِلَیْہِ مِنِّیْ) .أَیْ : إِنِّیْ لَمْ أُعْطِکَ ذٰلِکَ لِأَنَّک فَقِیْرٌ‘ إِنَّمَا أَعْطَیْتُکَ ذٰلِکَ لِمَعْنًی آخَرَ غَیْرِ الْفَقْرِ .ثُمَّ قَالَ لَہٗ (خُذْہُ‘ فَتَمَوَّلْہُ) فَدَلَّ ذٰلِکَ أَیْضًا أَنَّہٗ لَیْسَ مِنْ أَمْوَالِ الصَّدَقَاتِ‘ لِأَنَّ الْفَقِیْرَ لَا یَنْبَغِیْ لَہٗ أَنْ یَأْخُذَ مِنَ الصَّدَقَاتِ مَا یَتَّخِذُہُ مَالًا‘ کَانَ ذٰلِکَ عَنْ مَسْأَلَۃٍ مِنْہُ أَوْ عَنْ غَیْرِ مَسْأَلَۃٍ .ثُمَّ قَالَ : " فَمَا جَائَ کُ مِنْ ھٰذَا الْمَالِ الَّذِیْ ھٰذَا حُکْمُہٗ، وَأَنْتَ غَیْرُ مُشْرِفٍ‘ أَیْ تَأْخُذُہٗ بِغَیْرِ إشْرَافٍ .وَالْاِشْرَافُ : أَنْ تُرِیْدَ بِہٖ مَا قَدْ نُہِیْتُ عَنْہُ .وَقَدْ یَحْتَمِلُ قَوْلُہٗ (وَلَا مُشْرِفٍ) أَیْ : وَلَا تَأْخُذْ مِنْ أَمْوَالِ الْمُسْلِمِیْنَ أَکْثَرَ مِمَّا یَجِبُ لَکَ فِیْہَا‘ فَیَکُوْنُ ذٰلِکَ شَرَفًا فِیْہَا (وَلَا سَائِلٍ) أَیْ : وَلَا سَائِلٍ مِنْہَا مَا لَا یَجِبُ لَک .فَھٰذَا وَجْہُ ھٰذَا الْبَابِ - عِنْدَنَا - وَاللّٰہُ أَعْلَمُ .فَأَمَّا مَا جَائَ فِیْ أَمْوَالِ الصَّدَقَاتِ‘ فَقَدْ أَتَیْنَا بِمَعَانِیْ ذٰلِکَ‘ فِیْمَا تَقَدَّمَ ذِکْرُہٗ، مِنْ ھٰذَا الْبَابِ .
٢٩٥٨: عبداللہ بن السعدی نے بتلایا کہ میں عمر (رض) کے پاس ان کی خلافت کے زمانہ میں گیا تو انھوں نے مجھے فرمایا کیا میں نے تجھے نہیں بتلایا کہ تم لوگوں کے اعمال کے ذمہ دار بنتے ہو اور جب تمہیں تنخواہ دی جاتی ہے تو تم اس کو ناپسند کرتے ہو میں نے کہا جی ہاں ! تو عمر کہنے لگے تیرے تنخواہ واپس کرنے سے کیا مقصد ہے میں نے کہا میرے پاس گھوڑے اور غلام ہیں اور میں تجارت بھی کرتا ہوں اور میں چاہتا ہوں کہ میری تنخواہ مسلمانوں پر صدقہ بن جائے عمر (رض) فرمانے لگے ایسا نہ کرو میں نے بھی وہی ارادہ کیا جو تو نے ظاہر کیا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مجھے عطیہ دیتے تو میں کہتا جو مجھ سے زیادہ ضرورت مند ہے اس کو دے دیں یہاں تک کہ ایک مرتبہ مجھے مال دیا تو میں نے یہی بات کہی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس کو لے لو اور اپنے پاس جمع کرلو تمہارے پاس جو مال (بلااشراف) بلا سوال اور بلاتوقع آجائے تو اس کو لے لو۔ جو ایسا نہ ہو تو اس کی طلب میں اپنے کو مت لگاؤ۔ اگر کوئی معترض کہے کہ اس روایت میں بھی سوال کی ممانعت ہے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا اس روایت میں اموال صدقہ نہیں بلکہ اس سے وہ اموال مراد ہیں جن کو حاکم اغنیاء اور فقراء میں تقسیم کرتا ہے جیسا کہ حضرت عمر (رض) نے اصحاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے اموال مقرر کیے اور وہ ان میں سے اغنیاء اور فقراء سب کو تقسیم فرماتے۔ یہ اموال ان کی محتاجی کی وجہ سے نہیں بلکہ ان کے حقوق کے بناء پر ان کو دیا جاتا ہے۔ حضرت عمر (رض) کو جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عطیہ دیا اور انھوں نے واپس کرنا چاہا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس بات کو ناپسند فرمایا عمر (رض) نے کہا کہ یہ مجھ سے زیادہ ضرورت مند کو دے دیا جاتے تو آپ نے فرمایا یہ تمارے فقیر کی وجہ سے نہیں دیا جارہا بلکہ یہ اس کے علاوہ بات کے پیش نظر ہے۔ پھر آپ نے ان کو فرمایا اس مال کو لے کر اسے اپنی ملکیت بناؤ۔ اس سے یہ ثبوت مل گیا کہ مال صدقات سے نہ تھا ۔ کیونکہ محتاج کے لیے تو مناسب نہیں کہ وہ مال کو اکٹھا کرنے کے لیے صدقہ لے ۔ خواہ وہ سوال کر کے حاصل کرے یا بغیر سوال اسے دیا جائے ۔ پھر آپ نے ان کو یہ بھی فرمایا کہ جو اس قسم کا مال تمہارے پاس آئے اور تم اس کی طرف امید باندھنے والے نہ ہو تو اسے لے لو اور ا شراف یہ ہے کہ تم اس مال کی طمع رکھنے والے ہو جس سے تمہیں روکا گیا ہے اور لا مشرف کا قول اس بات کا بھی احتمال رکھتا ہے۔ کہ اس میں اس بات کی ممانعت ہے کہ مسلمانوں کے اموا ل میں سے اپنے حصہ سے زائد نہ لو ۔ اگر لو گے تو وہ دوسروں پر برتری بن جائے گی جو کہ درست نہیں ‘ ‘ ولا سائلـ: کا مطلب یہ ہے کہ تم مت اس مال کا سوال کرو جو تمہارا حق نہیں بنتا ۔ ہمارے ہاں اس باب کی یہ صورت ہے۔ واللہ اعلم باقی جو آثار اموال صدقہ کے سلسلہ میں آئے ہیں ان کے معانی کی وضاحت اس باب کی پہلی سطور میں کر آئے ہیں۔
تخریج : ابو داؤد فی الزکوۃ باب ٢٨‘ نمبر ١٦٤٧۔
حاصل روایات : اس روایت سے بھی مطلق سوال کی حرمت ثابت ہوتی ہے۔
الجواب : اول تو یہ مال صدقات سے متعلق نہیں بلکہ اس کا تعلق اس مال سے ہے جو امام المسلمین لوگوں کے اغنیاء و فقراء سب پر تقسیم کرتا ہے وہ مراد ہے۔ اس کی نظیر وہ اموال ہیں جو حضرت عمر (رض) نے اصحاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں بطور عطیہ سال میں مقرر فرمایا اس میں ان کے فقراء و اغنیاء سب کو برابر دیا جاتا تھا یہ ان کے حق کی وجہ سے دیا جاتا اس میں فقر کا لحاظ نہ تھا۔
پس اسی وجہ سے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عمر (رض) کے اس قول کو ناپسند فرمایا آپ کے فرمان کا مقصد یہ تھا کہ یہ مال تمہیں فقر کی وجہ سے نہیں دیا جا رہا بلکہ یہ اور وجہ سے دیا جا رہا ہے پھر فرمایا اس کو لے کر اپنے مال میں جمع کرلو اس سے یہ واضح ہوگیا کہ وہ مال مال صدقات سے نہ تھا کیونکہ فقیر کو بھی صدقات سے وہ مال لینے کی اجازت نہیں جس پر وہ امیر بن سکے خواہ سوال سے ہو یا غیر سوال سے۔
پھر فرمایا جو مال اس قسم کا ہو اور تیرا میلان اس کی طرف نہ ہو تو اسے لے لو۔
حاصل روایات : اشراف۔ جو چیز ممنوع ہو اس کا ارادہ کرنا۔ ولا مشرف۔ اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ جس قدر تیرا وظیفہ بنایا گیا ہے اسی کو باقی رکھو یہ باعث مشرف ہوگا ولا سائل کا معنی جو تمہارا حق نہیں اس کو مت مانگو ہمارے ہاں اس روایت کا یہی مطلب ہے صدقات کے سلسلہ میں ہم پہلے بات کہہ چکے۔
نوٹ : اس باب میں امام طحاوی (رح) اپنے دلائل کی روایات کا مفہوم ساتھ ساتھ بتلاتے گئے ہیں بلاضرورت مانگنے پر وعید کی روایات کو چار صحابہ سے اور پھر چھ صحابہ کرام سے پیش کیا اور روایت عمر (رض) اور وعید والی روایت میں شاندار تطبیق پیش کر کے ان کا محل متعین کیا ہے۔ اپنے مؤقف کو پوری قوت سے پیش کیا ہے یہ اختلاف جواز عدم جواز کا ہے۔

2959

۲۹۵۹ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ‘ قَالَ : ثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصِ بْنِ غِیَاثٍ‘ قَالَ : ثَنَا أَبِیْ‘ عَنِ الْأَعْمَشِ‘ قَالَ : حَدَّثَنِیْ شَقِیْقٌ‘ عَنْ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ‘ عَنْ زَیْنَبَ امْرَأَۃِ عَبْدِ اللّٰہِ‘ قَالَ : فَذَکَرْتُہٗ لِاِبْرَاہِیْمَ‘ فَحَدَّثَنِیْ اِبْرَاہِیْمُ‘ عَنْ أَبِیْ عُبَیْدَۃَ‘ عَنْ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ‘ عَنْ زَیْنَبَ امْرَأَۃِ عَبْدِ اللّٰہِ‘ مِثْلَہٗ سَوَائً. قَالَتْ : (کُنْتُ فِی الْمَسْجِدِ فَرَآنِی النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی الْمَسْجِدِ فَقَالَ تَصَدَّقْنَ وَلَوْ مِنْ حُلِیِّکُنَّ) .(وَکَانَتْ زَیْنَبُ تُنْفِقُ عَلٰی عَبْدِ اللّٰہِ وَأَیْتَامٍ فِیْ حِجْرِہَا فَقَالَتْ لِعَبْدِ اللّٰہِ : سَلْ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ أَیُجْزِئُ عَنِّیْ أَنْ أَنْفَقْتُ عَلَیْکَ‘ وَعَلٰی أَیْتَامٍ فِیْ حِجْرِی مِنَ الصَّدَقَۃِ ؟ قَالَ : سَلِیْ أَنْتِ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .فَانْطَلَقْتُ إِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ فَوَجَدْتِ امْرَأَۃً مِنَ الْأَنْصَارِ عَلَی الْبَابِ‘ حَاجَتُہَا مِثْلُ حَاجَتِیْ .فَمَرَّ عَلَیْنَا بِلَالٌ‘ فَقُلْتُ : سَلْ لَنَا رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : ہَلْ یُجْزِئُ عَنِّیْ أَنْ أَتَصَدَّقَ عَلٰی زَوْجِی وَأَیْتَامٍ فِیْ حِجْرِیْ مِنَ الصَّدَقَۃِ ؟ وَقُلْنَا : لَا تُخْبِرُ بِنَا .قَالَتْ : فَدَخَلَ فَسَأَلَہٗ، فَقَالَ مَنْ ہُمَا ؟ قَالَ : زَیْنَبُ‘ قَالَ أَیُّ الزَّیَانِبِ ہِیَ ؟ قَالَ : امْرَأَۃُ عَبْدِ اللّٰہٖ؟ فَقَالَ نَعَمْ یَکُوْنُ لَہَا أَجْرُ الْقَرَابَۃِ وَأَجْرُ الصَّدَقَۃِ) .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ إِلٰی أَنَّ الْمَرْأَۃَ جَائِزٌ لَہَا أَنْ تُعْطِیَ زَوْجَہَا مِنْ زَکَاۃِ مَالِہَا‘ وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِھٰذَا الْحَدِیْثِ‘ وَمِمَّنْ ذَہَبَ إِلٰی ذٰلِکَ‘ أَبُوْ یُوْسُفَ‘ وَمُحَمَّدٌ رَحِمَہُمَا اللّٰہُ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ‘ مِنْہُمْ أَبُوْ حَنِیْفَۃَ رَحِمَہُ اللّٰہُ‘ فَقَالُوْا : لَا یَجُوْزُ لِلْمَرْأَۃِ أَنْ تُعْطِیَ زَوْجَہَا مِنْ زَکَاۃِ مَالِہَا‘ کَمَا لَا یَجُوْزُ لَہٗ أَنْ یُعْطِیَہَا مِنْ زَکَاۃِ مَالِہٖ .وَکَانَ مِنَ الْحُجَّۃِ لَہُمْ عَلٰی أَہْلِ الْمَقَالَۃِ الْأُوْلٰی‘ فِیْ حَدِیْثِ زَیْنَبَ الَّذِی احْتَجُّوْا بِہٖ عَلَیْہِمْ‘ أَنَّ تِلْکَ الصَّدَقَۃَ الَّتِیْ حَضَّ عَلَیْہَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ ذٰلِکَ الْحَدِیْثِ إِنَّمَا کَانَتْ مِنْ غَیْرِ الزَّکٰوۃِ .
٢٩٥٩: عمرو بن حارث نے ابن مسعود (رض) کی بیوی زینب ثقفیہ (رض) سے نقل کیا (یہ روایت شقیق عن عمرو اور ابو عبید عن عمرو دونوں اسناد سے ایک جیسی ہے۔ زینب کہتی ہیں کہ مجھے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مسجد میں دیکھ کر فرمایا تم عورتیں صدقہ کرو خواہ اپنے زیورات سے کرنا پڑے یہ زینب اپنے خاوند عبداللہ اور پرورش میں لیے ہوئے چند یتامیٰ پر اپنا مال خرچ کرتیں انھوں نے اپنے خاوند عبداللہ کو کہا کیا میرے لیے تجھ پر صدقہ خرچ کرنا درست ہوجائے گا اور اسی طرح ان زیر پرورش یتیموں پر ؟ (انہوں نے تو دریافت نہ کیا) پس میں خود جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں پہنچی تو وہاں ایک اور انصاری عورت اپنی ضرورت کی خاطر آپ کے دروازہ پر تھی دونوں کا کام ایک تھا ہمارے پاس سے بلال کا گزر ہوا تو میں نے کہا کہ ہماری طرف سے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کر دو کیا مجھے صدقہ کا مال اپنے خاوند اور زیر سرپرستی یتامیٰ پر خرچ کرنا جائز ہے یا نہیں ؟ اور تم ہمارے نام مت بتلانا زینب کہتی ہیں وہ داخل ہوئے اور آپ سے دریافت کیا تو آپ نے فرمایا وہ دونوں کون کون ہیں ؟ انھوں نے کہا وہ زینب ہے۔ آپ نے فرمایا وہ کون سی زینب ہے ؟ انھوں نے کہا ابن مسعود (رض) کی بیوی ! آپ نے فرمایا ہاں اس کو قرابت اور صدقے دونوں کا اجر ہوگا۔ امام طحاوی فرماتے ہیں کہ بعض علماء نے اس سے یہ استدلال کیا کہ عورت اپنے خاوند کو زکوۃ دے سکتی ہے اور یہ قول امام ابو یوسف ‘ محمد جواب نے اختیار کیا۔ دیگرعلماء نے ان کی بات سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ کسی عورت کو جائز نہیں کہ وہ اپنے خاوند کو زکوۃ دے جیسا کہ کسی مرد کو جائز نہیں کہ وہ اپنی بیوی کو زکوۃ دے اور پہلے قول والوں کے خلاف انھوں نے اسی حدیث زینب (رض) سے استدلال کرتے ہوئے کہا کہ یہ صدقہ جس پر اس حدیث میں آمادہ کیا گیا وہ زکوۃ کے علاوہ ہے اور اس کی وضاحت اس روایت ذیل میں ملاحظہ ہو۔
تخریج : بخاری فی الزکوۃ باب ٣٣‘ ٤٨‘ مسلم فی العیدین نمبر ٤‘ والزکوۃ ٤٦‘ ترمذی فی الزکوۃ باب ١٢‘ نسائی فی الزکوۃ باب ١٩‘ ٨٢‘ دارمی فی الصلاۃ باب ٢٢٤‘ الزکوۃ باب ٢٣‘ مسند احمد ١؍٣٧٦۔
اس روایت سے ثابت ہوتا ہے کہ بیوی کو اپنے خاوند پر زکوۃ خرچ کرنے میں کوئی حرج نہیں بلکہ اسے زیادہ ثواب ملے گا اور زکوۃ بھی ادا ہوجائے گی۔
استدلال کا جواب : لفظ صدقہ سے استدلال کر کے زکوۃ مراد لینا اس روایت میں درست نہیں بلکہ اس سے غیر واجب صدقات مراد ہیں جس کی دلیل اگلی روایت ہے ملاحظہ کریں۔

2960

۲۹۶۰ : وَقَدْ بَیَّنَ ذٰلِکَ مَا قَدْ حَدَّثَنَا یُوْنُسُ‘ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ یُوْسُفَ‘ قَالَ : ثَنَا اللَّیْثُ‘ عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ‘ عَنْ أَبِیْہِ‘ عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ‘ (عَنْ رَیْطَۃَ بِنْتِ عَبْدِ اللّٰہِ‘ امْرَأَۃِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ‘ وَکَانَتِ امْرَأَۃً صَنْعَائَ ‘ وَلَیْسَ لِعَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ مَالٌ‘ فَکَانَتْ تُنْفِقُ عَلَیْہِ وَعَلٰی وَلَدِہِ مِنْہَا .فَقَالَتْ : لَقَدْ شَغَلْتنِی - وَاللّٰہِ - أَنْتَ وَوَلَدُکَ عَنِ الصَّدَقَۃِ‘ فَمَا أَسْتَطِیْعُ أَنْ أَتَصَدَّقَ مَعَکُمْ بِشَیْئٍ .فَقَالَ مَا أُحِبُّ إِنْ لَمْ یَکُنْ لَک فِیْ ذٰلِکَ أَجْرٌ‘ أَنْ تَفْعَلِی .فَسَأَلَتْ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ہِیَ وَہُوَ فَقَالَتْ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ‘ إِنِّیْ امْرَأَۃٌ ذَاتُ صَنْعَۃٍ‘ أَبِیْعُ مِنْہَا‘ وَلَیْسَ لِوَلَدِی وَلَا لِزَوْجِیْ شَیْء ٌ‘ فَشَغَلُوْنِیْ فَلاَ أَتَصَدَّقُ‘ فَہَلْ لِیْ فِیْہِمْ أَجْرٌ ؟ .فَقَالَ لَک فِیْ ذٰلِکَ أَجْرُ مَا أَنْفَقْتُ عَلَیْہِمْ‘ فَأَنْفِقِیْ عَلَیْہِمْ) .فَفِیْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ أَنَّ تِلْکَ الصَّدَقَۃَ‘ مِمَّا لَمْ یَکُنْ فِیْہِ زَکَاۃٌ .وَ (رَیْطَۃُ ھٰذِہٖ ہِیَ زَیْنَبُ امْرَأَۃُ عَبْدِ اللّٰہِ‘ لَا نَعْلَمُ أَنَّ عَبْدَ اللّٰہِ کَانَتْ لَہُ امْرَأَۃٌ غَیْرُہَا فِیْ زَمَنِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ) .وَالدَّلِیْلُ عَلٰی أَنَّ تِلْکَ الصَّدَقَۃَ کَانَتْ تَطَوُّعًا کَمَا ذَکَرْنَا‘ قَوْلُہَا (کُنْتُ امْرَأَۃً صَنْعَائَ ‘ أَصْنَعُ بِیَدِیْ فَأَبِیْعُ مِنْ ذٰلِکَ‘ فَأُنْفِقُ عَلٰی عَبْدِ اللّٰہِ) .فَکَانَ قَوْلُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الَّذِیْ فِیْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ‘ وَفِی الْحَدِیْثِ الْأَوَّلِ‘ جَوَابًا لِسُؤَالِہَا ھٰذَا .وَفِیْ حَدِیْثِ رَیْطَۃَ ھٰذَا (کُنْتُ أُنْفِقُ مِنْ ذٰلِکَ عَلٰی عَبْدِ اللّٰہِ‘ وَعَلٰی وَلَدِہٖ مِنِّیْ) .وَقَدْ أَجْمَعُوْا عَلٰی أَنَّہٗ لَا یَجُوْزُ لِلْمَرْأَۃِ أَنْ تُنْفِقَ عَلٰی وَلَدِہَا مِنْ زَکَاتِہَا .فَلَمَّا کَانَ مَا أَنْفَقَتْ عَلٰی وَلَدِہَا لَیْسَ مِنَ الزَّکَاۃِ‘ فَکَذٰلِکَ مَا أَنْفَقَتْ عَلَی زَوْجِہَا لَیْسَ ہُوَ أَیْضًا مِنَ الزَّکٰوۃِ .وَقَدْ رُوِیَ أَیْضًا عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا یَدُلُّ أَنَّ تِلْکَ الصَّدَقَۃَ الَّتِیْ أَبَاحَ لَہَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِنْفَاقَہَا عَلٰی زَوْجِہَا‘ کَانَتْ مِنْ غَیْرِ الزَّکٰوۃِ .
٢٩٦٠: عبیداللہ نے رائطہ بنت عبداللہ جو ابن مسعود (رض) کی بیوی تھی روایت کی ہے یہ بہت دستکار عورت تھی اور ابن مسعود (رض) کے پاس بالکل مال نہ تھا یہ اپنی محنت کے کام سے ان پر اور اپنی اولاد پر خرچ کرتی تھیں ایک دن کہنے لگیں مجھے تو اور تیری اولاد نے صدقہ سے مشغول کردیا میں تمہارے خرچ کے ہوتے ہوئے صدقہ نہیں کرسکتی ابن مسعود (رض) کہنے لگے اگر اس خرچہ کا تمہیں اجر نہ ملے تو پھر میں اس خرچ کرنے کو پسند نہیں کرتا (یعنی تم نہ کرو) جناب عبداللہ نے اور زینب (رض) دونوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا کہ میں دستکار عورت ہوں وہ چیزیں میں فروخت کرتی ہوں میرے خاوند اور اولاد کے پاس مال نہیں ان پر خرچ نے مجھے صدقے سے روک دیا ہے میں صدقہ نہیں کرسکتی کیا مجھے ان پر خرچ میں اجر وثواب ملے گا یا نہیں ؟ آپ نے فرمایا تمہیں اس میں اجر ملے گا جو ان پر خرچ کرو گی تم خرچ کرتی رہو۔ اس روایت میں اس بات کی وضاحت ہے کہ وہ صدقہ زکوۃ سے نہ تھا اور ریطہ یہ وہی زینب ہیں جو کہ ابن مسعود (رض) کی زوجہ محترمہ ہیں۔ ہمارے علم میں یہ بات نہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں ابن مسعود (رض) کی زینب کے علاوہ کوئی اور بیوی ہو۔ اور اس بات کی دلیل کہ وہ صدقہ نفلیہ تھا جیسا کہ ہم نے ذکر کیا ان کا یہ قول ہے کنت امراۃ صنعاء اصنع بیری فابیع من ذلک فانفق علی عبداللہ ‘ ‘ کہ میں دست کاری سے واقف عورت تھی پس میں اپنے ہاتھ سے کام کر کے اس کو فروخت کرتی اور اسے اپنے اوپر اور عبداللہ پر خرچ کرتی ۔ پس جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد جو اس روایت اور اس سے پہلی روایت میں وارد ہے وہ اس کے اسی کمائی کے مال سے متعلق سوال ہے اور اس حدیث ربطہ میں یہ الفاظ ” کنت انفق من ذلک علی عبداللہ وعلی ولدہ منی “ کہ اس سے عبداللہ اور اپنی اولاد پر خرچ کرتی ہوں۔ اور اس پر تو تمام کا اجماع ہے کہ عورت کو اپنی اولاد پر زکوۃ کا خرچ کرنا جائز نہیں ہے پس جب وہ اس میں سے اپنی اولاد پر خرچ کرتی ہیں تو اس کا زکوۃ سے نہ ہونا ظاہر ہوا پس اسی طرح جو وہ عبداللہ پر خرچ کرتی ہیں وہ بھی زکوۃ سے نہ ہو اور حدیث ابوہریرہ (رض) میں جو جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے وارد ہوئی ہے۔ وہ بھی اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ وہ صدقہ جس کو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس عورت کے لیے مباح قرار دیا کہ وہ اپنے خاوند پر خرچ کرے وہ زکوۃ کے علاوہ تھا ۔ روایت ذیل میں ہے۔
تخریج : بخاری فی الزکوۃ باب ٤٦۔
اس صدقہ سے مراد زکوۃ نہیں بلکہ نفلی صدقات ہیں جیسا کہ اس قرینہ سے ظاہر ہوتا ہے میں ایک دستکار عورت ہوں اس کمائی سے میں اپنے خاوند اور اولاد پر صرف کرتی ہوں اب زکوۃ تو سال کے بعد آتی ہے جب بھی کوئی کمائی کرے اسی وقت ہی لازم تو نہیں ہوجاتی پس آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد پہلی روایت کے لیے کافی جواب ہے کہ تمہیں ان پر مال خرچ کرنے سے دوہرا ثواب ملے گا خرچ کرتی رہو پس جس خرچہ کی آپ نے اجازت مرحمت فرمائی وہ زکوۃ نہ تھا اور غیر زکوۃ کے صرف میں کسی کو اختلاف نہیں بلکہ ہمارے پاس تو ابوہریرہ (رض) کی روایت موجود ہے جو اس بات پر صاف دلالت کرتی ہے کہ زینب ثقفیہ (رض) کے لیے مباح کیا جائے والا خرچہ وہ زکوۃ نہ تھا روایت آتی ہے۔

2961

۲۹۶۱ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ‘ قَالَ : ثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ‘ قَالَ : ثَنَا إِسْمَاعِیْلُ بْنُ أَبِیْ کَثِیْرٍ الْأَنْصَارِیُّ‘ عَنْ عُمَرَ ابْنِ نُبَیْہٍ الْکَعْبِیِّ‘ عَنِ الْمَقْبُرِیِّ‘ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ (أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِنْصَرَفَ مِنَ الصُّبْحِ یَوْمًا‘ فَأَتٰی عَلَی النِّسَائِ فِی الْمَسْجِدِ فَقَالَ یَا مَعْشَرَ النِّسَائِ ‘ مَا رَأَیْتُ مِنْ نَاقِصَاتِ عَقْلٍ وَدِیْنٍ أَذْہَبَ بِعُقُوْلِ ذَوِی الْأَلْبَابِ مِنْکُنَّ‘ وَإِنِّیْ قَدْ رَأَیْتُ أَنَّکُنَّ أَکْثَرُ أَہْلِ النَّارِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ‘ فَتَقْرَبْنَ إِلَی اللّٰہِ بِمَا اسْتَطَعْتُنَّ .وَکَانَ فِی النِّسَائِ امْرَأَۃُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا‘ فَانْقَلَبَتْ إِلٰی عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فَأَخْبَرَتْہُ بِمَا سَمِعَتْ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَأَخَذَتْ حُلِیًّا لَہَا .فَقَالَ ابْنُ مَسْعُوْدٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَیْنَ تَذْہَبِیْنَ بِھٰذَا الْحُلِیِّ ؟ فَقَالَتْ : أَتَقَرَّبُ بِہٖ إِلَی اللّٰہِ وَإِلٰی رَسُوْلِہٖ، لَعَلَّ اللّٰہَ أَنْ لَا یَجْعَلَنِیْ مِنْ أَہْلِ النَّارِ .قَالَ : ہَلُمِّیْ بِذٰلِکَ وَیْلَک تَصَدَّقِیْ بِہٖ عَلَیَّ وَعَلٰی وَلَدِیْ فَقَالَتْ : لَا وَاللّٰہِ‘ حَتّٰی أَذْہَبَ بِہٖ إِلَی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .فَذَہَبَتْ تَسْتَأْذِنُ عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ فَقَالُوْا : یَا رَسُوْلَ اللّٰہٖ؟ ھٰذِہِ زَیْنَبُ تَسْتَأْذِنُ‘ فَقَالَ أَیُّ الزَّیَانِبِ ہِیَ ؟ قَالُوْا : امْرَأَۃُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ. فَدَخَلَتْ عَلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ : إِنِّیْ سَمِعْتُ مِنْکَ مَقَالَۃً‘ فَرَجَعْتُ إِلَی ابْنِ مَسْعُوْدٍ فَحَدَّثْتُہٗ‘ فَأَخَذْتُ حُلِیِّیْ أَتَقَرَّبُ بِہٖ إِلَی اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ‘ وَإِلَیْکَ‘ رَجَائَ أَنْ لَا یَجْعَلَنِی اللّٰہُ مِنْ أَہْلِ النَّارِ .فَقَالَ ابْنُ مَسْعُوْدٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ : تَصَدَّقِیْ بِہٖ عَلَیَّ وَعَلٰی بَنِیَّ‘ فَإِنَّا لَہٗ مَوْضِعٌ‘ فَقُلْتُ لَہٗ : حَتّٰی أَسْتَأْذِنَ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ تَصَدَّقِیْ بِہٖ عَلَیْہِ وَعَلٰی بَنِیْہٖ‘ فَإِنَّہُمْ لَہٗ مَوْضِعٌ) .
٢٩٦١: مقبری نے ابوہریرہ (رض) سے روایت کی کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک صبح کی نماز سے لوٹے تو مسجد میں عورتوں والی جگہ سے گزر ہوا تو آپ نے ان کو فرمایا۔ اے عورتوں کی جماعت میں خیال کرتا ہوں کہ تم دین و عقل میں ناقص ہو مگر بڑے بڑے عقلاء کی عقلوں کو اڑا دیتی ہو اور میں نے دیکھا کہ تمہاری اکثریت جہنم میں قیامت کے دن ہوگی پس تمہیں مناسب ہے کہ جس قدر ہو سکے تم اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرو۔ ان میں ابن مسعود (رض) کی بیوی بھی تھیں وہ عبداللہ کی طرف لوٹ آئیں اور ان کو اس بات کی اطلاع دی جو اس نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنی تھی اور اپنے زیورات لیے تو ابن مسعود (رض) کہنے لگے یہ زیور کہاں لے جاؤ گی اس نے جواب دیا میں اس سے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کا قرب حاصل کروں گی شاید کہ میں اس سے جہنم سے بچ جاؤں عبداللہ کہنے لگے اس کو روکو ! تمہارا ناس ہو ! اور مجھ پر اور میری اولاد پر خرچ کرو زینب کہنے لگی اللہ کی قسم میں ایسا نہ کروں گی جب تک کہ میں ان کو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں نہ لے جاؤں۔ چنانچہ وہ گئیں اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اجازت طلب کی جو حضرات اندر تھے انھوں نے بتلایا کہ زینب آئی ہیں ! اور آپ کے ہاں آنے کی اجازت چاہتی ہیں آپ نے فرمایا یہ کون سی زینب ہے ؟ انھوں نے بتلایا یہ عبداللہ بن مسعود (رض) کی بیوی ہیں (اجازت ملنے پر) وہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں داخل ہوئیں۔ اور عرض کی میں نے آپ کا ارشاد سنا ہے میں ابن مسعود (رض) کے ہاں گئی اور اس کو آپ کی بات ذکر کی پھر میں اپنا زیور لائی ہوں تاکہ اس سے میں اللہ تعالیٰ کا قرب اور آپ کا قرب (تعمیل ارشاد) حاصل کروں اس امید پر کہ اللہ تعالیٰ مجھے جہنم سے محفوظ کر دے۔ مگر ابن مسعود (رض) کہتا ہے کہ اس مال کو مجھ پر اور میری اولاد پر خرچ کرو میں اس کا حقدار ہوں میں نے اس کی بات سن کر کہا یہ اس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اجازت نہ لے لوں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم اس پر اور اس کی اولاد پر خرچ کرو ‘ وہ اس کے خرچ کا محل ہیں۔
تخریج : مسند احمد ٢؍٣٧٣‘ ٣٧٤۔

2962

۲۹۶۲ : حَدَّثَنَا الْحُسَیْنُ بْنُ الْحَکَمِ الْجِیْزِیُّ‘ قَالَ : ثَنَا عَاصِمِ بْنِ عَلِیٍّ‘ قَالَ : ثَنَا إِسْمَاعِیْلُ بْنُ جَعْفَرٍ‘ قَالَ : أَخْبَرَنِی ابْنُ أَبِیْ عَمْرٍو‘ عَنْ أَبِیْ سَعِیْدٍ الْمَقْبُرِیِّ‘ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَبَیَّنَ أَبُوْ ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فِیْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ‘ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا أَرَادَ بِقَوْلِہٖ (تَصَدَّقِیْ) فِی الصَّدَقَۃِ‘ التَّطَوُّعِ الَّتِیْ تُکَفِّرُ الذُّنُوْبَ .وَفِیْ حَدِیْثِہٖ قَالَ (فَجَائَ بِحُلِیٍّ لَہَا إِلَی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ فَقَالَتْ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ خُذْ ھٰذَا أَتَقَرَّبُ بِہٖ إِلَی اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ وَإِلَی رَسُوْلِہٖ .فَقَالَ لَہَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ تَصَدَّقِیْ بِہٖ عَلٰی عَبْدِ اللّٰہِ‘ وَعَلٰی بَنِیْہٖ‘ فَإِنَّہُمْ لَہٗ مَوْضِعٌ) فَکَانَ ذٰلِکَ عَلَی الصَّدَقَۃِ بِکُلِّ الْحُلِیِّ‘ وَذٰلِکَ مِنَ التَّطَوُّعِ‘ لَا مِنَ الزَّکَاۃِ‘ لِأَنَّ الزَّکَاۃَ لَا تُوْجِبُ الصَّدَقَۃَ بِکُلِّ الْمَالِ‘ وَإِنَّمَا تُوْجِبُ الصَّدَقَۃَ بِجُزْئٍ مِنْہُ .فَھٰذَا أَیْضًا دَلِیْلٌ عَلَی فَسَادِ تَأْوِیْلِ أَبِیْ یُوْسُفَ رَحِمَہُ اللّٰہُ وَمَنْ ذَہَبَ إِلٰی قَوْلِہِ لِلْحَدِیْثِ الْأَوَّلِ .فَقَدْ بَطَلَ بِمَا ذَکَرْنَا‘ أَنْ یَّکُوْنَ فِیْ حَدِیْثِ زَیْنَبَ مَا یَدُلُّ أَنَّ الْمَرْأَۃَ تُعْطِیْ زَوْجَہَا مِنْ زَکَاۃِ مَالِہَا اِذَا کَانَ فَقِیْرًا .وَإِنَّمَا نَلْتَمِسُ حُکْمَ ذٰلِکَ بَعْدُ مِنْ طَرِیْقِ النَّظَرِ وَشَوَاہِدِ الْأُصُوْلِ‘ فَاعْتَبَرْنَا ذٰلِکَ‘ فَوَجَدْنَا الْمَرْأَۃَ - بِاتِّفَاقِہِمْ - لَا یُعْطِیْہَا زَوْجُہَا مِنْ زَکَاۃِ مَالِہٖ، وَإِنْ کَانَتْ فَقِیْرَۃً‘ وَلَمْ تَکُنْ فِیْ ذٰلِکَ کَغَیْرِہَا‘ لِأَنَّا رَأَیْنَا الْأُخْتَ یُعْطِیْہَا أَخُوہَا مِنْ زَکَاتِہِ اِذَا کَانَتْ فَقِیْرَۃً‘ وَإِنْ کَانَ عَلٰی أَخِیْہَا أَنْ یُنْفِقَ عَلَیْہَا‘ وَلَمْ تَخْرُجْ بِذٰلِکَ مِنْ حُکْمِ مَنْ یُعْطَی مِنَ الزَّکٰوۃِ .فَثَبَتَ بِذٰلِکَ أَنَّ الَّذِیْ یَمْنَعُ الزَّوْجَ مِنْ إعْطَائِ زَوْجَتِہِ مِنْ زَکَاۃِ مَالِہٖ، لَیْسَ ہُوَ وُجُوْبَ النَّفَقَۃِ لَہَا عَلَیْہٖ‘ وَلٰکِنَّہٗ السَّبَبُ الَّذِیْ بَیْنَہُ وَبَیْنَہَا‘ فَصَارَ ذٰلِکَ کَالنَّسَبِ الَّذِیْ بَیْنَہُ وَبَیْنَ وَالِدِیْہِ فِیْ مَنْعِ ذٰلِکَ إِیَّاہُ مِنْ إعْطَائِہِمَا مِنَ الزَّکٰوۃِ .فَلَمَّا ثَبَتَ بِمَا ذَکَرْنَا أَنَّ سَبَبَ الْمَرْأَۃِ الَّذِیْ مَنَعَ زَوْجَہَا أَنْ یُعْطِیَہَا مِنْ زَکَاۃِ مَالِہِ وَإِنْ کَانَتْ فَقِیْرَۃً‘ ہُوَ کَالسَّبَبِ الَّذِیْ بَیْنَہُ وَبَیْنَ وَالِدِیْہِ الَّذِیْ یَمْنَعُہٗ مِنْ إعْطَائِہِمَا مِنْ زَکَاتِہٖ، وَإِنْ کَانَا فَقِیْرَیْنِ‘ وَرَأَیْنَا الْوَالِدَیْنِ لَا یُعْطِیَانِہِ أَیْضًا مِنْ زَکَاتِہِمَا‘ اِذَا کَانَ فَقِیْرًا‘ فَکَانَ الَّذِیْ بَیْنَہُ وَبَیْنَ وَالِدِیْہِ مِنَ النَّسَبِ یَمْنَعُہٗ مِنْ إعْطَائِہِمَا مِنَ الزَّکَاۃِ‘ وَیَمْنَعُہُمَا مِنْ إعْطَائِہِ مِنَ الزَّکٰوۃِ .فَکَذٰلِکَ السَّبَبُ الَّذِیْ بَیْنَ الزَّوْجِ وَالْمَرْأَۃِ‘ لَمَّا کَانَ یَمْنَعُہٗ مِنْ إعْطَائِہِمَا مِنَ الزَّکَاۃِ‘ کَانَ أَیْضًا یَمْنَعُہَا مِنْ إعْطَائِہِ مِنَ الزَّکٰوۃِ .وَقَدْ رَأَیْنَا ھٰذَا السَّبَبَ بَیْنَ الزَّوْجِ وَالْمَرْأَۃِ یَمْنَعُ مِنْ قَبُوْلِ شَہَادَۃِ کُلِّ وَاحِدٍ مِنْہُمَا لِصَاحِبِہٖ، فَجُعِلَا فِیْ ذٰلِکَ کَذَوِی الرَّحِمِ الْمَحْرَمِ‘ الَّذِیْ لَا یَجُوْزُ شَہَادَۃُ کُلِّ وَاحِدٍ مِنْہُمَا لِصَاحِبِہٖ وَرَأَیْنَا أَیْضًا کُلَّ وَاحِدٍ مِنْہُمَا‘ لَا یَرْجِعُ فِیْمَا وَہَبَ لِصَاحِبِہٖ، فِیْ قَوْلِ مَنْ یُّجِیْزُ الرُّجُوْعَ فِی الْہِبَۃِ فِیْمَا بَیْنَ الْقَرِیْبِیْنَ .فَلَمَّا کَانَ الزَّوْجَانِ فِیْمَا ذَکَرْنَا‘ قَدْ جُعِلَا کَذَوِی الرَّحِمِ الْمَحْرَمِ فِیْمَا مُنِعَ فِیْہِ مِنْ قَبُوْلِ الشَّہَادَۃِ‘ وَمِنَ الرُّجُوْعِ فِی الْہِبَۃِ‘ کَانَا فِی النَّظَرِ أَیْضًا فِیْ إعْطَائِ کُلِّ وَاحِدٍ مِنْہُمَا صَاحِبَہٗ مِنَ الزَّکٰوۃِ کَذٰلِکَ .فَھٰذَا ہُوَ النَّظَرُ فِیْ ھٰذَا الْبَابِ‘ وَہُوَ قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ رَحِمَہُ اللّٰہُ تَعَالٰی .
٢٩٦٢: ابو سعیدالمقبری نے ابوہریرہ (رض) سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں کہ حضرت ابوہریرہ (رض) نے اس روایت میں واضح کردیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے ارشاد ” تصدقی “ میں صدقہ نفلی کا ارادہ فرمایا جو کہ گناہوں کا کفارہ بنتا ہے۔ اور ان کی روایت میں ہے فجاءت بجلی لھا الی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فقالت یا رسول اللہ خذ ھذا اتقرب بہ الی اللہ عزوجل والی رسولہ فقال لھا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تصدقی بہ علی عبداللہ وعلی بنیہ فانھم لہ موضع) زینب اپنے تمام زیورات لے کر جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئی اور کہنے لگیں یا رسول اللہ ان زیورات سے میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کا قرب حاصل کرنا چاہتی ہوں ۔ تو ان کو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس کو ابن مسعود اور اس کی اولاد پر صرف کرو وہ اس کے خرچ کا محل ہیں۔ تو یہ تمام زیورات صدقہ نفلیہ ہی ہوسکتا ہے۔ زکوۃ نہیں ہوسکتی کیونکہ زکوۃ میں تمام مال کا خرچ لازم نہیں ہوتا بلکہ اس کے (چالیسویں) حصہ کا خرچ لازم ہے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ امام ابو یوسف (رح) اور دیگر حضرات جو ان کے حامی ہیں ان کا پہلی روایت سے یہ استدلال غلط ہے اور جو ہم نے مذکورہ بحث کی ہے اس سے اس حدیث زینب (رض) کے متعلق یہ کہی گئی بات باطل ہوگئی کہ عورت اپنے خاوند کو جب کہ وہ محتاج ہو زکوۃ دے سکتی ہے۔ اب ہم اس کا حکم نظر و فکر سے تلاش کرتے ہیں اور اصول کے شواہد سے اسے جانچتے ہیں۔ پس ہم نے دیکھا کہ بالا تفاق عورت کو اس کا خاوند زکوۃ نہیں دے سکتا۔ اگرچہ وہ محتاج ہو ۔ وہ اس سلسلہ میں دیگر عورتوں کی طرح نہیں کیونکہ ہم نے دیکھا کہ بہن اگر محتاج ہو تو اس کا بھائی اسے زکوۃ دے سکتا ہے۔ اگرچہ اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ بہن پر خرچ کرے مگر اس کے باوجود وہ ان لوگوں سے نہیں نکلتی جن کو زکوۃ دی جاتی ہے۔ پس اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ بیوی کو خاوند کے زکوۃ دینے سے رکاوٹ یہ بات نہیں کہ خاوند پر اس کا خرچہ لازم ہے۔ بلکہ اصل وجہ ان کے مابین زکوۃ سے مانع وہ رشتہ ازدواج ہے جو کہ اس نسبی رشتہ کی طرح بن گیا جو اس کے اور والدین کے مابین ہے اور ان کو زکوۃ دینے سے مانع ہے۔ اگرچہ وہ محتاج ہوں۔ اور اسی طرح والدین بھی اپنی زکوۃ اولاد کو نہیں دے سکتے اگرچہ وہ محتاج ہی کیوں نہ ہو۔ پس یہ نسبی رشتہ بیٹے کے لیے مانع ہے کہ وہ والدین کو زکوۃ دے اور والدین کے لیے حارج ہے کہ وہ اپنی اولاد کو زکوۃ دیں۔ پس اسی طرح وہ سبب جو میاں بیوی میں پایا جاتا ہے جب مرد کے لیے مانع ہے کہ وہ عورت کو اپنی زکوۃ دے تو وہ عورت کے لیے بھی مانع ہے کہ وہ اپنی زکوۃ شوہر کو دے اور ہم دیکھتے ہیں کہ یہی سبب میاں بیوی کے مابین اس بات سے مانع ہے کہ ایک کی گواہی دوسرے کے حق میں قبول کی جائے ‘ اس سلسلے میں وہ دونوں ذی رحم محرم کی طرح قرار دیئے گئے ہیں وہ ذی رحم کہ جن کی گواہی ایک دوسرے کے لیے جائز نہیں۔ اور ہم نے یہ بھی دیکھا کہ انھوں نے جو ایک دوسرے کو ھبہ کیا ہو ایک دوسرے کی طرف نہ لوٹا دیں گے ۔ یہ ان لوگوں کے نزدیک ہے جو اقرباء کے مابین ھبہ کے رجوع کو جائز قرارد یتے ہیں جب میاں بیوی اس حال میں ہوئے اور ان کو ذی رحم محرم کی طرح عدم قبول شہادت میں قرار دیا گیا۔ اور ھبہ کے رجوع میں بھی ۔ تو قیاس کا تقاضہ یہ ہے کہ ایک دوسرے کو زکوۃ دینے میں وہ یہی حکم رکھتے ہیں۔ نظر کا تقاضایہی ہے اور یہی امام ابوحنیفہ (رح) کا یہی مسلک ہے۔
س تفصیلی روایت سے ثابت ہوگیا تصدقی سے نفلی صدقہ جس سے سیئات کا کفارہ ہو وہی مراد ہے زکوۃ تو خود فرض ہے اور ایک روایت میں فجاءت بحلی لھا الی رسول اللہ الحدیث کہ وہ اپنے زیورات لے کر آپ کی خدمت میں آئیں اور کہنے لگیں یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ زیورات لے لیں اس سے میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کا قرب حاصل کرنا چاہتی ہوں۔
جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو فرمایا اس کو تم عبداللہ اور اس کی اولاد پر صرف کرو وہ اس کے حقدار ہیں۔ یہ فرمان ان تمام زیورات سے متعلق ہے اور یہ نفلی صدقہ ہی ہوسکتا ہے زکوۃ نہیں بن سکتی کیونکہ زکوۃ میں مال کا چالیسواں حصہ دیا جاتا ہے کل مال نہیں دیا جاتا۔ اس سے بھی امام ابو یوسف (رح) وغیرہ کی تاویل کا غلط ہونا ثابت ہوتا ہے اس سے یہ قول تو بالکل غلط ثابت ہوگیا کہ عورت اپنی زکوۃ اپنے خاوند یا اولاد کو دے حضرت زینب (رض) کی روایت میں اس کی کوئی دلیل نہیں ہے۔

نظر طحاوی (رض) :
اب ہم اصول کے مزید شواہد تلاش کرتے ہیں تاکہ اس کے لحاظ سے ہم استدلال کرسکیں چنانچہ اس بات پر سب کو متفق پایا گیا ہے کہ خاوند اپنی بیوی کو زکوۃ نہیں دے سکتا خواہ فقیر و محتاج ہو کیونکہ عورت کا حکم اس سلسلے میں دوسروں کی طرح نہیں ہے جیسا کہ بہن کو اس کا بھائی جب کہ وہ فقیرہ ہو تو دے سکتا ہے اگرچہ بھائی کا حق بنتا ہے کہ وہ اپنی بہن پر خرچ کرے اس حق خرچہ کے باوجود وہ مستحقین سے خارج نہیں ہوتی۔
اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ خاوند کو زکوۃ اپنی بیوی کو دینا اس لیے ممنوع نہیں کہ خاوند کے ذمہ اس کا خرچہ لازم ہے بلکہ اس کا سبب وہ رشتہ روجیت ہے جو دونوں کے مابین پایا جاتا ہے پس بیوی بھی ان نسبی رشتوں کی طرح ہوگئی جو ممانعت زکوۃ میں رشتہ نسب کی وجہ سے شامل ہوتے ہیں ان کا فقر ان کو اس کیزکوۃ کا حقدار نہیں بنا سکتا۔
جب یہ بات ثابت ہوچکی کہ خاوند کی زکوۃ عورت پر اسی وجہ سے نہیں لگ سکتی کیونکہ ان میں رشتہ زوجیت پایا گیا خواہ وہ عورت فقیرہ کیوں نہ ہو اور اس سبب نے ان میں ولدیت والے سبب کا مفہوم پیدا کردیا کہ خواہ والد کتنا غریب ہو بیٹا اس کو زکوۃ نہیں دے سکتا دوسری طرف والدین بھی اپنی زکوۃ بیٹے کو نہیں دے سکتے جبکہ وہ فقیر ہو کیونکہ یہاں بھی رشتہ نسب ہی زکوۃ کے دینے میں مانع ہے بالکل اسی طرح بیوی اور خاوند میں بھی رشتہ زوجیت عورت کی زکوۃ کے لیے مانع ہے کہ وہ خاوند کو دے سکے۔
نظیر نظر یا دلیل آخر :
خاوند اور بیوی میں رشتہ زوجیت اس بات سے مانع ہے کہ ان میں سے کسی کی گواہی دوسرے کے حق میں قابل قبول نہیں اس میں ان کو ذی رحم محرم کی طرح قرار دیا گیا ہے جن میں سے کسی کی شہادت دوسرے کے خلاف یا حق میں قابل قبول نہیں۔ اور وہ لوگ جو ہبہ میں رجوع کے قائل ہیں وہ بھی ذی رحم کے درمیان رجوع ہبہ کے قائل نہیں ہیں پس جب قبول اور شہادت میں یہ ذی رحم کی طرح ہیں تو نظر کا تقاضہ یہ ہے کہ ہر ایک زکوۃ دینے میں بھی ماں باپ اور بیٹے کی طرح قرار پائیں گے۔
یہ نظر و نظیر کا تقاضا ہے۔
امام ابوحنیفہ (رح) کا یہی قول ہے۔
نوٹ : اس باب میں پیش کیا جانے والا اختلاف جواز اور عدم جواز کا ہے امام طحاوی (رح) نے فریق اوّل کی دلیل پیش کر کے پھر اس کا جواب اور فریق ثانی کے نقل و عقل سے دلائل پیش کئے ہیں بلکہ نظر کی نظیر پیش کر کے بھی بات کو مزید روشن کیا ہے امام طحاوی (رح) کا اپنا رجحان بھی فریق ثانی کا قول معلوم ہوتا ہے۔

2963

۲۹۶۳ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا مُعَلَّی بْنُ أَسَدٍ‘ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْعَزِیْزِ بْنُ الْمُخْتَارِ‘ عَنْ سُہَیْلِ بْنِ أَبِیْ صَالِحٍ‘ عَنْ أَبِیْہِ‘ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ (أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ذَکَرَ الْخَیْلَ فَقَالَ ہِیَ لِثَلاَثَۃٍ‘ لِرَجُلٍ أَجْرٌ‘ وَلِرَجُلٍ سِتْرٌ‘ وَعَلٰی رَجُلٍ وِزْرٌ‘ فَأَمَّا الَّذِیْ ہِیَ لَہٗ سِتْرٌ‘ فَالرَّجُلُ یَتَّخِذُہَا تَکَرُّمًا وَتَجَمُّلًا‘ وَلَا یَنْسٰی حَقَّ ظُہُوْرِہَا وَبُطُوْنِہَا فِیْ عُسْرِہَا وَیُسْرِہَا).
٢٩٦٣: سہیل بن ابی صالح نے اپنے والد سے انھوں نے ابوہریرہ (رض) سے نقل کیا ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے گھوڑے کا ذکر فرمایا کہ وہ تین قسم ہیں۔
نمبر 1: آدمی کے لیے اجر کا باعث ہے۔
نمبر 2: آدمی کے لیے باعث ستر ہے۔
نمبر 3: آدمی کے لیے بوجھ ہے وہ گھوڑا جو ستر کا باعث ہے وہ جس کو عزت و جمال کے لیے پالا ہو اور اس میں وہ گھوڑے کا حق نہ بھولتا ہو اس کو خوب خوراک اور مناسب سواری و بار برداری کرتا ہو جو تنگ دست ہو یا خوش حال۔ (اجر والا جو جہاد وغیرہ دینی مقاصد کے لیے پالا جائے اور بوجھ وہ گھوڑا جو ریاکاری اور دکھلاوے کے لیے پالا جائے) ۔
تخریج : بخاری فی الشرب باب ١٢‘ والجہاد باب ٤٨‘ والمناقب باب ٢٨‘ و تفسیر سورة نمبر ٩٩‘ باب ١‘ وا؛اعتصا، باب ٢٤‘ مسلم فی الزکوۃ نمبر ٢٤‘ ٢٦‘ ترمذی فی فضائل الجہاد باب ١٠‘ نسائی فی الحیل باب ١‘ ابن ماجہ فی الجہاد باب ١٤‘ مالک فی الجہاد ٣‘ مسند احمد ٢؍٢٦٢‘ ٣٨٣۔
جن گھوڑوں کو خود چارہ ڈالا جائے اور جہاد اور گھریلو استعمال کے لیے ہوں ان میں بالکل زکوۃ نہیں اور تجارتی گھوڑوں میں بالاتفاق زکوۃ ہے جن گھوڑوں کا گھریلو چارے پر گزارا ہو خواہ نسل کے لیے پالیں ان پر بھی زکوۃ نہیں اسی طرح جہادی گھوڑوں پر بھی زکوۃ نہیں چرنے والے تجارتی گھوڑوں پر بالاتفاق زکوۃ ہے اور فقط نر ہی ہوں تب بھی زکوۃ نہیں البتہ ایسے گھوڑے جن کا چرنے پر گزر ہو اور نر و مادہ دونوں ہوں اور نسل کشی کے لیے پالے جائیں۔ ! ان میں امام ابوحنیفہ (رح) و زفر (رح) کے ہاں زکوۃ لازم ہے " اور ائمہ ثلاثہ اور صاحبین کے ہاں زکوۃ لازم نہیں۔

2964

۲۹۶۴ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ‘ قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ‘ أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ، عَنْ زَیْدِ بْنِ أَسْلَمَ‘ عَنْ أَبِیْ صَالِحٍ السَّمَّانِ‘ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ‘ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ ، غَیْرَ أَنَّہٗ قَالَ (وَلَمْ یَنْسَ حَقَّ اللّٰہِ فِیْ رِقَابِہَا وَلَا فِیْ ظُہُوْرِہَا) فَقَطْ .
٢٩٦٤: ابو صالح السّمان نے ابوہریرہ (رض) سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے البتہ یہ لفظ مختلف ہیں اس نے اس کی گردن کے سلسلہ میں اس کا حق اور اللہ تعالیٰ کا حق نہیں بھلایا۔
تخریج : سابقہ تخریج ملاحظہ ہو۔

2965

۲۹۶۵ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ‘ قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ‘ قَالَ : حَدَّثَنِیْ ہِشَامُ بْنُ سَعْدٍ‘ عَنْ زَیْدِ بْنِ أَسْلَمَ‘ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ إِلٰی وُجُوْبِ الصَّدَقَۃِ فِی الْخَیْلِ‘ اِذَا کَانَتْ ذُکُوْرًا وَإِنَاثًا‘ وَکَانَ صَاحِبُہَا یَلْتَمِسُ نَسْلَہَا .وَاحْتَجُّوْا فِیْ إِیْجَابِہِمُ الزَّکَاۃَ فِیْہَا بِقَوْلِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (وَلَمْ یَنْسَ حَقَّ اللّٰہِ فِیْہَا) .قَالُوْا : فَفِیْ ھٰذَا دَلِیْلٌ أَنَّ لِلّٰہِ فِیْہَا حَقًّا‘ وَہُوَ کَحَقِّہٖ فِیْ سَائِرِ الْأَمْوَالِ الَّتِیْ یَجِبُ فِیْہَا الزَّکَاۃُ .وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِمَا رُوِیَ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ .
٢٩٦٥: ہشام بن سعد نے زید بن اسلم سے پھر انھوں نے اپنی اسناد سے روایت نقل کی ہے۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں بعض علماء اس طرف گئے ہیں کہ گھوڑوں میں صدقہ لازم ہے جب کہ نر و مادہ دونوں مخلوط ہوں اور ان کا مالک ان کی نسل کشی چاہتا ہو۔ انھوں نے وجوب زکوۃ کے لیے اس ارشاد نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے استدلال کیا ” ولم ینس حق اللہ فیھا “ ان کا کہنا ہے۔ اس میں دلیل ہے کہ ان میں اللہ تعالیٰ کا حق ہے۔ وہ لزوم زکوۃ میں دیگر اموال کی طرح ہیں اور انھوں حضرت عمر (رض) کی روایت سے بھی استدلال کیا جو ذیل میں ہے۔
ان روایات سے معلوم ہوتا ہے۔ ولم ینس حق اللہ فیہا کا جملہ اس لیے لایا گیا کہ ان میں اللہ تعالیٰ کا حق واجب بتلایا جائے اگر وہ اس کا خیال نہ کرے گا تو اس پر بوجھ رہے گا اللہ تعالیٰ کا حق تمام اموال میں زکوۃ ہے تو اس میں بھی اللہ تعالیٰ کا حق یہی ہوگا پس زکوۃ لازم ہوگی اس کی شہادت حضرت علی (رض) کے عمل سے ملتی ہے ملاحظہ ہو۔

2966

۲۹۶۶ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ‘ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَسْمَائَ ‘ قَالَ : ثَنَا جُوَیْرِیَۃُ‘ عَنْ مَالِکٍ‘ عَنِ الزُّہْرِیِّ أَنَّ السَّائِبَ بْنَ یَزِیْدَ أَخْبَرَہٗ، قَالَ : رَأَیْتُ أَبِیْ یُقَوِّمُ الْخَیْلَ‘ وَیَدْفَعُ صَدَقَتَہَا إِلٰی عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ .
٢٩٦٦: زہری نے سائب بن یزید سے نقل کیا کہ میں نے اپنے والد کو دیکھا کہ وہ گھوڑے رکھتے تھے اور ان کی زکوۃ عمر (رض) کی طرف بھیجتے تھے۔

2967

۲۹۶۷ : حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ شُعَیْبٍ‘ قَالَ : ثَنَا الْخَصِیْبُ بْنُ نَاصِحٍ‘ قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلْمَۃَ‘ عَنْ قَتَادَۃَ‘ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ أَنَّ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ کَانَ یَأْخُذُ مِنَ الْفَرَسِ عَشْرَۃً‘ وَمِنَ الْبِرْذَوْنِ خَمْسَۃً .
٢٩٦٧: قتادہ نے انس (رض) سے روایت کی ہے کہ عمر (رض) ایک عربی گھوڑے سے دس درہم اور فارسی اور چھوٹے گھوڑے سے پانچ درہم سالانہ وصول کرتے تھے۔

2968

۲۹۶۸ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عُمَرَ‘ وَالْحَجَّاجُ بْنُ الْمِنْہَالِ‘ قَالَا : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلْمَۃَ‘ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .وَمِمَّنْ ذَہَبَ إِلٰی ھٰذَا الْقَوْلِ أَیْضًا‘ أَبُوْ حَنِیْفَۃَ‘ وَزُفَرُ رَحِمَہُمَا اللّٰہُ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ‘ مِنْہُمْ أَبُوْ یُوْسُفَ‘ وَمُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ رَحِمَہُمَا اللّٰہُ‘ فَقَالُوْا : لَا صَدَقَۃَ فِی الْخَیْلِ السَّائِمَۃِ أَلْبَتَّۃَ .وَکَانَ مِنَ الْحُجَّۃِ لَہُمْ عَلٰی أَہْلِ الْمَقَالَۃِ الْأُوْلٰی فِیْمَا احْتَجُّوْا بِہِ لِقَوْلِہِمْ‘ مِنْ قَوْلِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (وَلَمْ یَنْسَ حَقَّ اللّٰہِ فِیْہَا) أَنَّہٗ قَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَّکُوْنَ ذٰلِکَ الْحَقُّ حَقًّا سِوَی الزَّکٰوۃِ .فَإِنَّہٗ قَدْ رُوِیَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔
٢٩٦٨: ابو عمر اور حجاج بن منہال دونوں نے حماد بن سلمہ (رض) سے پھر انھوں نے اپنی سند سے روایت نقل کی ہے۔ اس قول کو جن علماء نے اختیار کیا وہ امام ابوحنیفہ اور زفرر رحمھما اللہ ہیں۔ دوسرے علماء نے ان سے اختلاف کیا ان کا امام ابو یوسف اور محمد بن الحسن جواب ہیں انھوں نے کہا کہ چرنے والے گھوڑوں میں بالکل زکوۃ نہیں۔ اول قول کے قائلین کے خلاف اسی روایت کے الفاظ ” لم ینس حق اللہ فیھا ‘ ‘ سے استدلال کرتے ہوئے کہا کہ یہ کہنا درست ہے کہ اس حق سے مراد زکوۃ کے علاوہ ہو چنانچہ جناب رسول اللہ سے مروی ہے۔ ملاحظہ ہو۔
حاصل روایات و آثار : ان روایات میں اللہ تعالیٰ کے جس حق کا ذکر ہے وہ زکوۃ ہے کیونکہ اس کے علاوہ اموال میں اور کوئی حق لازم نہیں اور حضرت عمر (رض) کے عمل نے اس کی توثیق کردی پس چرنے والے نر ‘ مادہ گھوڑوں پر زکوۃ ہوگی۔

2969

۲۹۶۹ : مَا حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ‘ قَالَ : ثَنَا أَسَدٌ‘ قَالَ : ثَنَا شَرِیْکُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ‘ عَنْ أَبِیْ حَمْزَۃَ‘ عَنْ عَامِرٍ‘ عَنْ فَاطِمَۃَ بِنْتِ قَیْسٍ‘ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہٗ قَالَ: (فِی الْمَالِ حَقٌّ سِوَی الزَّکٰوۃِ وَتَلَا ھٰذِہِ الْآیَۃَ (لَیْسَ الْبِرَّ أَنْ تُوَلُّوْا وُجُوْہَکُمْ) إِلٰی آخِرِ الْآیَۃِ) .فَلَمَّا رَأَیْنَا الْمَالَ قَدْ جُعِلَ فِیْہِ حَقٌّ سِوَی الزَّکَاۃِ‘ اُحْتُمِلَ أَنْ یَّکُوْنَ ذٰلِکَ الْحَقُّ‘ الَّذِیْ ذَکَرَہٗ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی الْخَیْلِ‘ ہُوَ ذٰلِکَ الْحَقُّ أَیْضًا. وَحُجَّۃٌ أُخْرٰی أَنَّ الزَّکَاۃَ فِی الْحَدِیْثِ الَّذِیْ رَوَیْنَاہُ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ‘ إِنَّمَا ہُوَ فِی الْخَیْلِ الْمُرْتَبِطَۃِ‘ لَا فِی الْخَیْلِ السَّائِمَۃِ .وَحُجَّۃٌ أُخْرٰی‘ أَنَّا قَدْ رَأَیْنَا رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ذَکَرَ الْاِبِلَ السَّائِمَۃَ أَیْضًا فَقَالَ (فِیْہَا حَقٌّ) فَسُئِلَ عَنْ ذٰلِکَ الْحَقِّ مَا ہُوَ فَقَالَ " (إِطْرَاقُ فَحْلِہَا‘ وَإِعَارَۃُ دَلْوِہَا‘ وَمَنِیْحَۃُ سَمِیْنِہَا) .
٢٩٦٩: عامر نے فاطمہ بنت قیس (رض) سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہ آپ نے فرمایا مال میں زکوۃ کے علاوہ حق ہے اور پھر یہ آیت تلاوت فرمائی : لیس البر ان تولو وجوہکم (البقرہ : ١٧٧) ہم جانتے ہیں کہ مال میں زکوۃ کے علاوہ حق بھی رکھا گیا ہے۔ تو اس میں اس بات کا احتمال ہے کہ اس سے گھوڑوں میں جو حق ذکر کیا گیا ہے وہ زکوۃ کے علاوہ ہو ۔ دوسری دلیل یہ ہے کہ حضرت ابوہریرہ (رض) کی جو روایت ذکر کی گئی ہے وہ باندھنے والے گھوڑوں سے متعلق ہے چرنے والوں سے متعلق نہیں ہے۔ ایک اور دلیل یہ ہے کہ ہم جانتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے چرنے والے اونٹوں کا تذکرہ فرمایا اور ارشاد فرمایا ان میں حق ہے ‘ ‘ پھر آپ سے اس حق کے متعلق سوال ہوا تو فرمایا : نر اونٹ جفتی کے لیے دینا اور پانی کے لیے عاریتًا ڈول دے دینا ‘ اور دودھ والا جانور استعمال کے لیے دے دینا۔
تخریج : ابن ماجہ فی الزکوۃ باب ٣۔
جب مال میں زکوۃ کے علاوہ حق بتلایا گیا ہے تو حق اللہ سے مراد جو گھوڑوں کے سلسلہ میں ذکر کیا گیا وہ وہی زکوۃ کے علاوہ ثابت ہونے والا حق ہے۔
اور دوسری بات یہ ہے کہ ابوہریرہ (رض) والی روایت میں جن کا تذکرہ ہے اس سے باندھ کر چارہ ڈالے جانے والے گھوڑے مراد ہیں اس سے چرنے والے گھوڑے مراد ہی نہیں باندھے جانے والے گھوڑوں میں تو بالاتفاق زکوۃ نہیں۔
تیسری بات یہ ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے چرنے والے اونٹوں کا بھی تذکرہ فرمایا اور ان کے متعلق فرمایا ان میں حق ہے پھر اس حق کا سوال کیا گیا کہ وہ کیا ہے ؟ تو فرمایا نر گھوڑے کو جفتی کے لیے اذاد چھوڑنا اس کو پانی پلانے کے لیے ڈول عاریتاً دے دینا اس میں سے موٹے کو استعمال کے لیے دینا۔
تخریج : مسلم فی الزکوۃ نمبر ٢٨۔
یہ سابقہ دلیل کا جواب ہے۔ حق اللہ جس کا تذکرہ روایت میں پایا جاتا ہے زکوۃ کے علاوہ بھی ہوسکتا ہے جیسا کہ یہ روایت ظاہر کر رہی ہے۔
اسی روایت کو جابر (رض) نے بھی نقل کیا۔

2970

۲۹۷۰ : حَدَّثَنَا بِذٰلِکَ اِبْرَاہِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ حُذَیْفَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ‘ عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ‘ عَنْ جَابِرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ‘ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .فَلَمَّا کَانَتِ الْاِبِلُ أَیْضًا فِیْہَا حَقٌّ غَیْرُ الزَّکَاۃِ‘ اُحْتُمِلَ أَنْ یَّکُوْنَ کَذٰلِکَ‘ الْخَیْلُ .وَأَمَّا مَا احْتَجُّوْا بِہٖ، مِمَّا رَوَیْنَاہُ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ‘ فَلاَ حُجَّۃَ لَہُمْ فِیْہِ أَیْضًا عِنْدَنَا‘ لِأَنَّ عُمَرَ لَمْ یَأْخُذْ ذٰلِکَ مِنْہُمْ‘ عَلٰی أَنَّہٗ وَاجِبٌ عَلَیْہِمْ .وَقَدْ بَیَّنَ السَّبَبَ الَّذِیْ مِنْ أَجْلِہٖ أَخَذَ ذٰلِکَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ‘ حَارِثَۃُ بْنُ مُضَرِّبٍ.
٢٩٧٠: ابوالزبیر نے جابر (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح نقل کیا ہے۔ جب اونٹوں میں بھی زکوۃ کے علاوہ حق ہے۔ تو یہ احتمال ہے کہ گھوڑوں میں بھی اسی طرح ہو ۔ رہی وہ روایت جس کو حضرت عمر (رض) سے نقل کیا گیا ہے۔ ہمارے نزدیک اس میں ان کے حق میں کوئی دلیل نہیں ہے کیونکہ حضرت عمر (رض) نے ان سے اس لیے نہیں لیا کہ وہ ان کے ذمہ واجب ہے۔ حارثہ بن مضرب نے آپ سے وہ سبب بھی کھول دیا جس کی بناء پر حضرت عمر (رض) نے ان سے لیا تھا ۔ روایت ذیل میں ہے۔
یہ ہے جب اونٹوں میں بھی زکوۃ کے علاوہ حق ہے تو گھوڑوں کے متعلق بھی یہی احتمال ہے پس حق سے زکوۃ کو متعین مراد لینا درست نہ رہا۔
دوسری دلیل کا جواب : روایت عمر (رض) میں بھی اس بات کی دلیل نہیں کہ گھوڑوں میں زکوۃ لازم ہے کیونکہ عمر (رض) کے لینے سے یہ کہاں لازم آیا کہ وہ زکوۃ تھی ہم حارثہ بن مضرب کی روایت پیش کرتے ہیں جو گھوڑوں پر وصول کئے جانے والے اس مال کی حقیقت پر روشنی ڈالے گی۔ ملاحظہ ہو۔

2971

۲۹۷۱ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ‘ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْقَاسِمِ الْمَعْرُوْفُ بِسُحَیْمٍ الْحَرَّانِیُّ‘ قَالَ : ثَنَا زُہَیْرُ بْنُ مُعَاوِیَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ إِسْحَاقَ‘ عَنْ حَارِثَۃَ بْنِ مُضَرِّبٍ‘ قَالَ : حَجَجْتُ مَعَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا‘ فَأَتَاہُ أَشْرَافٌ مِنْ أَشْرَافِ أَہْلِ الشَّامِ‘ قَالُوْا : یَا أَمِیْرَ الْمُؤْمِنِیْنَ‘ إِنَّا قَدْ أَصَبْنَا دَوَابَّ وَأَمْوَالًا‘ فَخُذْ مِنْ أَمْوَالِنَا صَدَقَۃً تُطَہِّرُنَا بِہَا‘ وَتَکُوْنُ لَنَا زَکَاۃً .فَقَالَ : ھٰذَا شَیْء ٌ لَمْ یَفْعَلْہُ اللَّذَانِ کَانَا قَبْلِیْ، وَلٰـکِنِ انْتَظِرُوْا حَتّٰی أَسْأَلَ الْمُسْلِمِیْنَ‘ فَسَأَلَ أَصْحَابَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ فِیْہِمْ عَلِیُّ بْنُ أَبِیْ طَالِبٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فَقَالُوْا : حَسَنٌ‘ وَعَلِیٌّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ سَاکِتٌ لَمْ یَتَکَلَّمْ مَعَہُمْ .فَقَالَ : مَا لَک یَا أَبَا الْحَسَنِ لَا تَتَکَلَّمُ قَالَ : قَدْ أَشَارُوْا عَلَیْکَ‘ وَلَا بَأْسَ بِمَا قَالُوْا‘ إِنْ لَمْ یَکُنْ أَمْرًا وَاجِبًا وَلَا جِزْیَۃً رَاتِبَۃً یُؤْخَذُوْنَ بِہَا .قَالَ : فَأَخَذَ مِنْ کُلِّ عَبْدٍ عَشَرَۃً‘ وَمِنْ کُلِّ فَرَسٍ عَشْرَۃً‘ وَمِنْ کُلِّ ہَجِیْنٍ ثَمَانِیَۃً‘ وَمِنْ کُلِّ بِرْذَوْنٍ أَوْ بَغْلٍ‘ خَمْسَۃَ دَرَاہِمَ فِی السَّنَۃِ‘ وَرَزَقَہُمْ کُلَّ شَہْرٍ‘ وَلِلْفَرَسِ عَشَرَۃَ دَرَاہِمَ‘ وَالْہَجِیْنِ ثَمَانِیَۃً‘ وَالْبَغْلِ خَمْسَۃً خَمْسَۃً‘ وَالْمَمْلُوْکُ جَرِیْبَیْنِ کُلَّ شَہْرٍ .فَدَلَّ ھٰذَا الْحَدِیْثُ عَلٰی أَنَّ مَا أَخَذَ مِنْہُمْ عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ مِنْ أَجَلِہٖ، مَا کَانَ أَخَذَ مِنْہُمْ فِیْ ذٰلِکَ‘ أَنَّہٗ لَمْ یَکُنْ زَکَاۃً وَلٰـکِنَّہَا صَدَقَۃٌ غَیْرَ زَکَاۃٍ .وَقَدْ قَالَ لَہُمْ عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ إِنَّ ھٰذَا لَمْ یَفْعَلْہُ اللَّذَانِ کَانَا قَبْلِیْ، یَعْنِیْ رَسُوْلَ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَأَبَا بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ .فَدَلَّ ذٰلِکَ عَلٰی أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَأَبَا بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ لَمْ یَأْخُذَا‘ مِمَّا کَانَ بِحَضْرَتِہِمَا‘ مِنَ الْخَیْلِ صَدَقَۃً‘ وَلَمْ یُنْکِرْ عَلٰی عُمَرَ مَا قَالَ مِنْ ذٰلِکَ‘ أَحَدٌ مِنْ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .وَدَلَّ قَوْلُ عَلِیٍّ لِعُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا : (قَدْ أَشَارُوْا عَلَیْکَ‘ إِنْ لَمْ یَکُنْ جِزْیَۃً رَاتِبَۃً‘ وَخَرَاجًا وَاجِبًا" ) .وَقَبُوْلُ عُمَرَ ذٰلِکَ مِنْہُ‘ أَنَّ عُمَرَ إِنَّمَا کَانَ أَخَذَ مِنْہُمْ بِسُؤَالِہِمْ إِیَّاہُ أَنْ یَأْخُذَ مِنْہُ‘ فَیَصْرِفَہٗ فِی الصَّدَقَاتِ‘ وَأَنَّ لَہُمْ مَنْعَ ذٰلِکَ مِنْہُ‘ مَتٰی أَحَبُّوْا‘ ثُمَّ سَلَکَ عُمَرُ بِالْعَبِیْدِ أَیْضًا فِیْ ذٰلِکَ‘ مَسْلَکَ الْخَیْلِ‘ وَلَمْ یَکُنْ ذٰلِکَ بِدَلِیْلٍ عَلٰی أَنَّ الْعَبِیْدَ الَّذِیْنَ لِغَیْرِ التِّجَارَۃِ‘ یَجِبُ فِیْہِمْ صَدَقَۃٌ وَإِنَّمَا کَانَ ذٰلِکَ عَلَی التَّبَرُّعِ مِنْ مَوَالِیْہِمْ بِإِعْطَائِ ذٰلِکَ. وَقَدْ رُوِیَ عَنْ عَلِیٍّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہٗ قَالَ : (عَفَوْتُ لَـکُمْ عَنْ صَدَقَۃِ الْخَیْلِ وَالرَّقِیْقِ) .
٢٩٧١: ابو اسحاق نے حارثہ بن مضرب سے نقل کیا کہ میں نے حضرت عمر (رض) کے ساتھ حج کیا جب اہل شام کے شرفا آپ سے ملے تو انھوں نے کہا اے امیرالمؤمنین (رض) ہمارے بہت سے چوپائے اور مال ہیں آپ ہمارے اموال سے صدقہ وصول کر کے ان مالوں کو پاک کردیں اور وہ ہمارے لیے پاکیزگی اور نمو کا باعث بنے اس پر عمر (رض) نے فرمایا یہ کام مجھ سے پہلے دونوں ہستیوں نے نہیں کیا لیکن تم انتظار کرو میں اصحاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس سلسلہ میں استفسار کرتا ہوں انھوں نے ان سے سوال کیا ان میں علی (رض) بھی تھے سب نے کہا ٹھیک ہے مگر حضرت علی (رض) خاموش تھے ان کے ساتھ جواب میں شریک نہ ہوئے حضرت عمر (رض) نے پوچھا ! ابوالحسن تم کیوں بات نہیں کرتے ؟ انھوں نے جواب میں کہا انھوں نے آپ کو مشورہ دے دیا اور جو انھوں نے کہا اس میں کوئی حرج نہیں ہے اگر یہ واجبی حکم نہ ہو اور نہ جزیہ مقررہ ہو جو ان سے لیا جاتا ہے حارثہ کہتے ہیں کہ انھوں نے ہر غلام پر دس اور ہر گھوڑے پر دس درہم اور مختلط نسل گھوڑے پر آٹھ اور فارسی گھوڑے اور خچر پر پانچ پانچ درہم سالانہ اور ان کو ہر ماہ خالص نسل گھوڑے پر دس درہم ‘ مختلط نسل گھوڑے کے لیے آٹھ اور فارسی گھوڑے اور خچر پھر پانچ خچر کے لیے پانچ درہم ماہانہ اور غلام کو دو جریب جو ہر ماہ دینے کرنے کا حکم فرمایا۔ یہ روایت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ عمر (رض) نے ان سے جو اپنے طور پر لیا تھا وہ زکوۃ نہ تھی بلکہ وہ زکوۃ کے علاوہ صدقہ تھا اور وصول کرنے سے پہلے حضرت عمر (رض) نے ان کو فرمایا یہ وہ عمل ہے جو کہ مجھے سے پہلے دو ہستیوں نے نہیں کیا یعنی جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ابوبکر (رض) ۔ اس سے یہ دلالت مل گئی کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ابوبکر (رض) نے گھوڑوں کی زکوۃ نہیں لی اور جو حضرت عمر (رض) نے فرمایا اس کا بھی کسی صحابی (رض) نے انکار نہیں کیا اور حضرت علی (رض) نے حضرت عمر (رض) کو جو بات فرمائی وہ اس بات پر دلالت کرتی ہے۔ قداشارو اعلیک ان لم یکن جزیۃ راتبۃ وخراجاً واجبام ( صحابہ کرام نے آپ کو مشورہ دیا ہے (اس کو لے لیا جائے) اگر یہ بطور واجب جزیہ اور خراج کے نہ ہو اور حضرت عمر (رض) کا اس کو قبول کرنا اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ حضرت عمر (رض) نے ان سے ان کے مطالبے پر لیا تھا کہ ان سے وصول کر کے اس کو صدقات میں شامل کرلیں اور ان کو اس کے روکنے کا اختیار تھا جب بھی ان کو پسند ہو ۔ پھر حضرت عمر (رض) نے غلاموں کے سلسلہ میں یہی راہ اختیار فرمائی اور یہ اس بات کی دلیل نہیں کہ تجارت کے علاوہ غلاموں پر صدقہ لازم ہے۔ آپ نے تو ان کے اموال سے جو کچھ لیا وہ نفلی صدقہ اور عطیہ کے طور پر تھا اور حضرت علی (رض) نے بھی جناب رسول اللہ سے اسی طرح کی بات نقل کی ہے کہ میں نے تم سے گھوڑوں اور غلاموں کی زکوۃ معاف کردی
اس روایت سے ثابت ہو رہا ہے کہ حضرت عمر (رض) نے جو مقرر کیا وہ زکوۃ نہیں تھی بلکہ اس کے علاوہ صدقہ تھا۔
اور عمر (رض) نے ان کو فرمایا یہ فعل مجھ سے پہلے دونوں ہستیوں نے نہیں کیا اس سے بھی یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ صدقہ جناب ابوبکر (رض) نے ان سے وصول نہیں کیا اور عمر (رض) نے صحابہ کرام کی موجودگی میں یہ بات کہی اور ان پر کسی نے نکیر نہیں فرمائی اور زکوۃ تو اللہ تعالیٰ کا فریضہ ہے اس کو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ابوبکر (رض) نے کبھی نہیں چھوڑا۔
اسی طرح علی (رض) کا قول کہ ان کا مشورہ صائب ہے بشرطیکہ یہ خراج لازمہ اور مقررہ جزیہ نہ ہو اور عمر (رض) نے بھی ان کے مطالبے پر ان سے لیا خود لاگو نہیں کیا اور صدقات کے مواقع میں اس کو صرف کیا اور ان کو اپنی مرضی کے مطابق روکنے کی اجازت دی پھر عمر (رض) نے گھوڑوں اور غلاموں میں ایک ہی طریقہ اختیار فرمایا اور یہ اس بات کی دلیل نہیں کہ وہ غلام جو تجارت کے لیے نہ ہو ان میں زکوۃ لازم ہے بلکہ یہ تو ان کے آقاؤں کی طرف سے بطور تبرع تھا اور اس سلسلے میں حضرت علی (رض) کی روایت جو انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل فرمائی وہ واضح ثبوت ہے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں نے گھوڑوں اور غلاموں کا صدقہ تم سے معاف کردیا۔
تخریج : ابو داؤد فی الزکوۃ باب ٥‘ نمبر ١٥٧٤‘ ترمذی فی الزکوۃ باب ٣‘ نمبر ٦٢٠‘ نسائی فی الزکوۃ باب ١٨‘ ابن ماجہ فی الزکوۃ باب ٤‘ دارمی فی الزکوۃ باب ٧‘ مسند احمد ١‘ ١٨؍١١٢‘ ١٤٨؍١٤٦‘ ١٣٢؍١٤٥۔

2972

۲۹۷۲ : حَدَّثَنَا بِذٰلِکَ فَہْدٌ‘ قَالَ : ثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصِ بْنِ غِیَاثٍ‘ قَالَ : ثَنَا أَبِیْ‘ عَنِ الْأَعْمَشِ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ إِسْحَاقَ‘ عَنْ عَاصِمِ بْنِ ضَمْرَۃَ‘ عَنْ عَلِیٍّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .
٢٩٧٢: اسی روایت کو عاصم بن ضمرہ نے حضرت علی (رض) سے ‘ انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کیا ہے۔
تخریج : سابقہ تخریج بین السطور کو ملاحظہ کریں۔

2973

۲۹۷۳ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ أَبِیْ شَیْبَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا یَزِیْدُ بْنُ ہَارُوْنَ ، قَالَ : أَنَا سُفْیَانُ‘ وَشَرِیْکٌ‘ عَنْ أَبِیْ إِسْحَاقَ‘ عَنِ الْحَارِثِ‘ عَنْ عَلِیٍّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ‘ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ .
٢٩٧٣: دوسری سند سے حارث نے انھوں نے حضرت علی (رض) سے ‘ انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کیا ہے۔

2974

۲۹۷۴ : حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْجِیْزِیُّ‘ قَالَ : ثَنَا یَعْقُوْبُ بْنُ إِسْحَاقَ بْنِ أَبِیْ عُبَادَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا اِبْرَاہِیْمُ بْنُ طَہْمَانَ عَنْ أَبِیْ إِسْحَاقَ عَنِ الْحَارِثِ عَنْ عَلِیٍّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ‘ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ .فَذٰلِکَ أَیْضًا یَنْفِیْ أَنْ یَّکُوْنَ فِی الْخَیْلِ صَدَقَۃٌ .فَإِنْ قَالَ قَائِلٌ : فَقَدْ قَرَنَ مَعَ ذٰلِکَ الرَّقِیْقَ‘ فَلَمَّا کَانَ ذٰلِکَ لَا یَنْفِیْ أَنْ تَکُوْنَ الصَّدَقَۃُ وَاجِبَۃً فِی الرَّقِیْقِ اِذَا کَانُوْا لِلتِّجَارَۃِ‘ فَکَذٰلِکَ لَا یَنْفِیْ ذٰلِکَ أَنْ تَکُوْنَ الزَّکَاۃُ وَاجِبَۃً فِی الْخَیْلِ اِذَا کَانَتْ سَائِمَۃً .وَکَمَا کَانَ قَوْلُہٗ (قَدْ عَفَوْتُ لَکُمْ عَنْ صَدَقَۃِ الرَّقِیْقِ) إِنَّمَا ہُوَ عَلَی الرَّقِیْقِ لِلْخِدْمَۃِ خَاصَّۃً‘ فَکَذٰلِکَ قَوْلُہٗ (قَدْ عَفَوْتُ لَکُمْ عَنْ صَدَقَۃِ الْخَیْلِ) إِنَّمَا ہُوَ عَلٰی خَیْلِ الرُّکُوْبِ خَاصَّۃً .قِیْلَ لَہٗ : ھٰذَا یَحْتَمِلُ مَا ذَکَرْتُ، وَإِذَا بَطَلَ أَنْ یَنْتَفِیَ الزَّکَاۃُ بِھٰذَا الْحَدِیْثِ‘ انْتَفَتْ بِمَا ذَکَرْنَا قَبْلَہٗ، مِمَّا فِیْ حَدِیْثِ حَارِثَۃَ‘ لِأَنَّ فِیْہِ أَنَّ عَلِیًّا قَالَ لِعُمَرَ مَا قَدْ ذَکَرْنَا‘ فَدَلَّ ذٰلِکَ أَنَّ مَعْنٰی قَوْلِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ھٰذَا‘ کَانَ عِنْدَ عَلِیٍّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ‘ عَلٰی نَفْیِ الزَّکٰوۃِ مِنْہَا‘ وَإِنْ کَانَتْ سَائِمَۃً .وَقَدْ رُوِیَ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا مَعْنَاہُ قَرِیْبٌ مِنْ مَعْنٰی حَدِیْثِ عَاصِمٍ‘ وَالْحَارِثِ عَنْ عَلِیٍّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ .
٢٩٧٤: ابو اسحاق نے حارث سے انھوں نے جناب علی (رض) سے ‘ انھوں نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح نقل کیا ہے یہ تمام روایات بھی گھوڑوں میں صدقہ فرضیہ کی نفی کرتی ہیں۔ یہ روایت بھی گھوڑوں میں زکوۃ کے لازم ہونے کے منافی ہے اگر کوئی معترض یہ کہے کہ ان کو غلاموں کے ساتھ ملا کر ذکر کیا گیا ہے اور جب غلام تجارت کے لیے ہوں تو اس وقت وجوب زکوۃ کی نفی نہیں ہوتی اسی طرح چرنے والے گھوڑوں سے بھی زکوۃ کی نفی نہیں ہوتی اور آپ کا ارشاد گرامی کہ میں نے تم سے صدقہ کو معاف کردیا یہ خدمت کے غلاموں کے ساتھ مخصوص ہے۔ اسی طرح آپ کا ارشاد تم سے گھوڑوں کا صدقہ معاف کردیا یہ سواری کے گھوڑوں کے ساتھ خاص ہے۔ اس کے جواب میں عرض کریں گے۔ اگر آپ نے جو احتمال ذکر کیا یہ بھی بجا ہے۔ جب روایت سے زکوۃ کا انتفاء باطل ہوا تو جو ہم نے سابقہ سطور میں ذکر کیا ‘ اس سے اس کی نفی ہوجائے گی اور حدیث حارثہ میں یہ واضح طور پر موجود ہے کہ حضرت علی (رض) نے حضرت عمر (رض) سے کہا کہ اگر یہ بطور فرض جزیہ یا خراج کے طور پر وصول نہ کیا جائے تو اس کے لینے میں حرج نہیں ۔ تو حضرت علی (رض) کے اس قول سے گھوڑوں کی زکوۃ کی نفی مراد ہے اگرچہ وہ چرنے والے ہوں اور حضرت ابوہریرہ (رض) سے بھی اس کے ہم معنیٰ روایت وارد ہوئی ہے ۔۔ جو کہ حدیث عاصم اور حارث کی حضرت علی (رض) سے ملتی جلتی ہے۔ روایات ذیل میں ہیں۔
اس روایت پر اشکال :
گھوڑوں اور غلاموں کو اکٹھا ذکر فرمایا گیا ہے اور غلاموں میں جب تجارت کے ہوں تو زکوۃ لازم ہے اور اس ارشاد سے ان کی نفی نہیں ہوتی تو گھوڑے جب چرنے والے ہوں تو ان کی صدقہ واجب سے نفی کس طرح ثابت ہوگی۔
ازالہ :
ہم نے تسلیم کرلیا کہ اس سے زکوۃ کی نفی نہیں ہوتی تو زکوۃ کی نفی حدیث سے ثابت ہو رہی ہے کیونکہ اس میں یہ بات واضح موجود ہے کہ حضرت علی (رض) نے عمر (رض) کو یہ بات کہی اس سے ثابت ہوا کہ علی (رض) کے ہاں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قول کا مطلب ان سے سائمہ ہونے کے باوجود زکوۃ کی نفی تھی اور خود ابوہریرہ (رض) نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے جس کا معنی عاصم ‘ حارث عن علی (رض) والی روایت کے قریب قریب ہیں۔
وہ روایت اگلی روایت ہے۔

2975

۲۹۷۵ : حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ نَصْرٍ‘ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ زِیَادٍ‘ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ‘ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ دِیْنَارٍ‘ قَالَ : سَمِعْتُ سُلَیْمَانَ بْنَ یَسَارٍ یُحَدِّثُ‘ عَنْ عِرَاکِ بْنِ مَالِکٍ‘ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ‘ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ (لَیْسَ عَلَی الْمُسْلِمِ فِیْ عَبْدِہٖ وَلَا فِیْ فَرَسِہٖ صَدَقَۃٌ) .
٢٩٧٥: عراک بن مالک نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت نقل کی ہے کہ مسلمان پر اس کے غلام اور گھوڑے پر صدقہ (واجبہ) نہیں ہے۔
تخریج : بخاری فی الزکوۃ باب ٤٨‘ مسلم فی الزکوۃ ٨‘ ابو داؤد فی الزکوۃ باب ١١‘ ١٥٩٥‘ ترمذی فی الزکوۃ باب ٨‘ نمبر ٦٢٨‘ نسائی فی الزکوۃ باب ١٦‘ ١٧‘ ابن ماجہ فی الزکوۃ باب ١٥‘ دارمی فی الزکوۃ باب ١٠‘ موطا مالک ٣٧‘ فی الزکوۃ مسند احمد ٢‘ ٢٤٢؍٤١٠‘ ٤٢٠؍٤٣٢‘ ٤٧٠؍٤٧٧۔

2976

۲۹۷۶ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا وَہْبٌ وَسَعِیْدُ بْنُ عَامِرٍ‘ قَالَا : ثَنَا شُعْبَۃُ‘ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ دِیْنَارٍ‘ عَنْ سُلَیْمَانَ‘ عَنْ عِرَاکٍ‘ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ‘ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ .
٢٩٧٦: عراک نے ابوہریرہ (رض) سے ‘ انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔

2977

۲۹۷۷ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ حُذَیْفَۃَ‘ قَالَ ثَنَا سُفْیَانُ‘ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ دِیْنَارٍ‘ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .
٢٩٧٧: سفیان نے عبداللہ بن دینار سے پھر انھوں نے اپنی اسناد سے اسی طرح روایت کی ہے۔

2978

۲۹۷۸ : حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ‘ قَالَ : ثَنَا الْقَعْنَبِیُّ‘ قَالَ : ثَنَا مَالِکٌ‘ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ دِیْنَارٍ‘ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .
٢٩٧٨: مالک نے عبداللہ بن دینار پھر انھوں نے اپنی اسناد سے روایت نقل کی۔

2979

۲۹۷۹ : حَدَّثَنِیْ مُحَمَّدُ بْنُ عِیْسَی بْنِ فُلَیْحٍ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوَ الْأَسْوَدِ النَّضْرُ بْنُ عَبْدِ الْجَبَّارِ‘ عَنْ سُلَیْمَانَ‘ قَالَ أَحْمَدُ بْنُ عَلِیٍّ ہُوَ ابْنُ بِلَالِ بْنِ فُلَیْحٍ‘ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ دِیْنَارٍ‘ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .
٢٩٧٩: احمد بن علی بن بلال بن فلیح نے عبداللہ بن دینار سے روایت کی ہے پھر انھوں نے اپنی اسناد سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

2980

۲۹۸۰ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ‘ قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ‘ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ أُسَامَۃُ بْنُ زَیْدٍ اللَّیْثِیُّ‘ عَنْ مَکْحُولٍ‘ عَنْ عِرَاکٍ‘ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .
٢٩٨٠: مکحول نے عراک سے پھر انھوں نے اپنی اسناد سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

2981

۲۹۸۱ : حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ‘ قَالَ : ثَنَا أَسَدٌ‘ قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَیْدٍ‘ عَنْ خُثَیْمٍ بْنِ عِرَاکٍ‘ عَنْ أَبِیْہِ‘ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .فَلَمَّا لَمْ یَکُنْ فِیْ شَیْئٍ مِمَّا ذَکَرْنَا مِنْ ھٰذِہِ الْآثَارِ‘ دَلِیْلٌ عَلٰی وُجُوْبِ الزَّکٰوۃِ فِی الْخَیْلِ السَّائِمَۃِ‘ وَکَانَ فِیْہَا مَا یَنْفِی الزَّکَاۃَ مِنْہَا‘ ثَبَتَ بِتَصْحِیْحِ ھٰذِہِ الْآثَارِ قَوْلُ الَّذِیْنَ لَا یَرَوْنَ فِیْہَا زَکَاۃً .فَھٰذَا وَجْہُ ھٰذَا الْبَابِ‘ مِنْ طَرِیْقِ الْآثَارِ .وَأَمَّا وَجْہُہُ مِنْ طَرِیْقِ النَّظَرِ‘ فَإِنَّا رَأَیْنَا الَّذِیْنَ یُوْجِبُوْنَ فِیْہَا الزَّکَاۃَ‘ لَا یُوْجِبُوْنَہَا حَتّٰی تَکُوْنَ ذُکُوْرًا وَإِنَاثًا‘ یَلْتَمِسُ مِنْہَا صَاحِبُہَا نَسْلَہَا‘ وَلَا تَجِبُ الزَّکَاۃُ فِیْ ذُکُوْرِہَا خَاصَّۃً‘ وَلَا فِیْ إِنَاثِہَا خَاصَّۃً‘ وَکَانَتُ الزَّکَوَاتُ الْمُتَّفَقُ عَلَیْہَا فِی الْمَوَاشِی السَّائِمَۃِ‘ تَجِبُ فِی الْاِبِلِ وَالْبَقَرِ وَالْغَنَمِ‘ ذُکُوْرًا کَانَتْ کُلُّہَا‘ أَوْ إِنَاثًا .فَلَمَّا اسْتَوٰی حُکْمُ الذُّکُوْرِ خَاصَّۃً فِیْ ذٰلِکَ‘ وَحُکْمُ الْاِنَاثِ خَاصَّۃً‘ وَحُکْمُ الذُّکُوْرِ وَالْاِنَاثِ‘ وَکَانَتْ الذُّکُوْرُ مِنَ الْخَیْلِ خَاصَّۃً‘ وَالْاِنَاثُ مِنْہَا خَاصَّۃً لَا تَجِبُ فِیْہَا زَکَاۃٌ - کَانَ کَذٰلِکَ فِی النَّظَرِ - الْاِنَاثُ مِنْہَا وَالذُّکُوْرُ اِذَا اجْتَمَعَتْ‘ لَا تَجِبُ فِیْہَا زَکَاۃٌ .وَحُجَّۃٌ أُخْرَی‘ أَنَّا قَدْ رَأَیْنَا الْبِغَالَ وَالْحَمِیْرَ‘ لَا زَکَاۃَ فِیْہَا‘ وَإِنْ کَانَتْ سَائِمَۃً‘ وَالْاِبِلَ وَالْبَقَرَ وَالْغَنَمَ‘ فِیْہَا الزَّکَاۃُ اِذَا کَانَتْ سَائِمَۃً‘ وَإِنَّمَا الِاخْتِلَافُ فِی الْخَیْلِ .فَأَرَدْنَا أَنْ نَنْظُرَ أَیُّ الصِّنْفَیْنِ ہِیَ بِہٖ أَشْبَہٗ‘ فَنَعْطِفُ حُکْمَہُ عَلَیْ حُکْمِہٖ، فَرَأَیْنَا الْخَیْلَ ذَوَاتِ حَوَافِرَ‘ وَکَذٰلِکَ الْحَمِیْرَ وَالْبِغَالَ‘ ہِیَ ذَوَاتُ حَوَافِرَ أَیْضًا‘ وَکَانَتِ الْمَوَاشِیْ مِنَ الْبَقَرِ وَالْغَنَمِ وَالْاِبِلِ‘ ذَوَاتِ أَخْفَافٍ‘ فَذُو الْحَافِرِ بِذِی الْحَافِرِ أَشْبَہُ مِنْہُ بِذِی الْخُفِّ .فَثَبَتَ بِذٰلِکَ أَنْ لَا زَکَاۃَ فِی الْخَیْلِ‘ کَمَا لَا زَکَاۃَ فِی الْحَمِیْرِ وَالْبِغَالِ‘ وَھٰذَا قَوْلُ أَبِیْ یُوْسُفَ وَمُحَمَّدٍ رَحِمَہُمَا اللّٰہُ‘ وَہُوَ أَحَبُّ الْقَوْلَیْنِ إِلَیْنَا‘ وَقَدْ رُوِیَ ذٰلِکَ عَنْ سَعِیْدِ بْنِ الْمُسَیِّبِ .
٢٩٨١: حماد بن زید نے خیثم بن عراک عن ابیہ سے پھر اس نے اپنی سند سے روایت اسی طرح نقل کی ہے۔ پس جب ان تمام آثار میں چرنے والے گھوڑوں کی زکوۃ کے سلسلہ میں کوئی بات نہیں بلکہ ان میں اس کے بالمقابل زکوۃ کی نفی پائی جاتی ہے۔ ان آثار کی تصحیح کے تقاضے سے ان حضرات کا قول ثابت ہوگیا جو ان میں زکوۃ کے قائل نہیں۔ آثار کے طریقے سے اس بات کی صورت یہ ہے۔ باقی نظر وفکر کے لحاظ سے اس کی وضاحت اس طرح ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ جو حضرات ان میں زکوۃ کے قائل ہیں وہ صرف اس صورت میں لازم کہتے ہیں جب نر ‘ مادہ مخلوط ہوں اور ان کے مالک کا مقصد بھی نسل کشی ہو ۔ اگر فقط نر ہوں یا فقط مادہ ہوں تو ان میں ان کے ہاں بھی زکوۃ لازم نہیں حالانکہ جن جانوروں کی زکوۃ پر اتفاق ہے۔ مثلاً اونٹ گائے ‘ بکری وغیرہ تو ان کے نر ‘ مادہ دونوں میں لازم ہے۔ جب ان جانوروں میں زکوۃ کا حکم ایک جیسا ہے خواہ نر ہوں یا مادہ یا مخلوط ۔ حکم یکساں ہے۔ صرف نر گھوڑوں اور صرف مادہ میں زکوۃ لازم نہیں تو قیاس یہی چاہتا ہے کہ مخلوط میں بھی زکوۃ لازم نہ ہو۔ دوسری دلیل یہ ہے کہ ہم بخوبی جانتے ہیں کہ گدھے اور خچر میں زکوۃ نہیں اگرچہ وہ چرنے والے ہوں ۔ جب کہ اونٹ گائے بکریاں چرنے والے ہوں تو ان میں زکوۃ ہے۔ اختلاف گھوڑوں میں ہے۔ اب ہم دیکھتے ہیں کہ گھوڑے ان دونوں میں سے کس کے ساتھ زیادہ مشابہت رکھتے ہیں تاکہ ان کا حکم اس کے ساتھ ملا یا جائے ۔ پس ہم جانتے ہیں کہ گھوڑا سم والا جانور ہے ور گدھے اور خچر بھی سم والے ہیں جب کہ گائے ‘ بکری اور اونٹ موزے اور (کھر والے) جانور ہے پس سم والے جانور کی سم والے جانور سے مشابہت بنسبت موزے والے زیادہ ہے۔ پس اس سے یہ ثابت ہوا ‘ کہ خچر اور گدھے کی طرح گھوڑے میں بھی زکوۃ نہیں یہ قول امام ابو یوسف ‘ محمد جواب کا ہے اور ہمارے ہاں ایسے قول زیادہ پسندیدہ ہے اور یہ قول حضرت سعید بن المسیب (رح) سے بھی مروی ہے۔ ذیل میں ملاحظہ ہو۔
جب ان منقولہ روایات میں چرنے والے گھوڑوں پر وجوب زکوۃ کا ثبوت نہیں تو یہ گھوڑے بھی ان میں شامل ہوگئے جن پر سے زکوۃ کی نفی کی گئی ہے اس سے ان لوگوں کی بات ثابت ہوگئی جو زکوۃ خیل کی نفی کرتے ہیں۔
نظر طحاوی (رض) :
گھوڑوں کے متعلق بعض حضرات زکوۃ کو لازم کرتے ہیں اور دوسرے لازم نہیں کرتے جب تک کہ نر و مادہ مخلوط نہ ہوں اور مالک کا مقصد پالنے سے نسل کشی ہو اور اگر فقط نر ہوں تو زکوۃ لازم نہیں اسی طرح اگر مادہ ہوں تب بھی لازم نہیں اور اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ جن جانوروں پر زکوۃ لازم ہے وہ سال بھر یا اس کا اکثر حصہ چرنے والے ہی ہیں۔ مثلاً اونٹ ‘ گائے ‘ بکری خواہ تمام نر ہوں یا مادہ حکم میں فرق نہیں جب گھوڑوں میں نر کا حکم خاص ہوگیا اور مادہ کا حکم بھی خاص ہوگیا کہ زکوۃ لازم نہیں ہوتی تو مخلوط میں بھی زکوۃ لازم نہیں ہونی چاہیے تاکہ حکم مختلف نہ ہو بلکہ ایک ہی رہے۔
ایک اور نظری دلیل ملاحظہ ہو۔
گدھے اور خچر میں بالاتفاق زکوۃ نہیں ہے اگرچہ سائمہ ہوں اور اونٹ ‘ بکری ‘ گائے میں زکوۃ ہے جبکہ وہ سائمہ ہوں گھوڑے میں اختلاف ہے اب ہم دیکھتے ہیں کہ ان میں گھوڑے کی مشابہت کس سے زیادہ ہے چنانچہ گھوڑا گھر والا جانور ہے اور گدھے اور خچر بھی اسی طرح اسی نوع کے ہیں اور گائے ‘ بکری ‘ اونٹ ذات الاخفاف سے ہیں (مگر یہ درست نہیں صرف اونٹ ذات الاخفاف سے ہے) صرف گائے ‘ بکری کے کھر درمیان سے پھٹے ہوتے ہیں اور گھوڑے کے کھر پھٹے ہوئے نہیں اب ذات الاخفاف کو حکم میں ذات الاخفاف کے مشابہ ہونا چاہیے اور ذات الحوافر کو ذات الحوافر کے ساتھ حکم میں مطابقت ہونی چاہیے۔ تو جس طرح خچر اور گدھے میں زکوۃ نہیں گھوڑے میں بھی زکوۃ نہیں ہونی چاہیے۔
یہ امام ابو یوسف ‘ محمد رحمہم اللہ کا قول ہے اور دونوں میں سے ہمیں زیادہ پسند یہی قول ہے۔

2982

۲۹۸۲ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا وَہْبٌ‘ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ‘ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ دِیْنَارٍ‘ وَقَالَ : قُلْت لِسَعِیْدِ بْنِ الْمُسَیِّبِ‘ أَعْلَی الْبَرَاذِیْنِ صَدَقَۃٌ ؟ فَقَالَ : أَوَ عَلَی الْخَیْلِ صَدَقَۃٌ ؟
٢٩٨٢: شعبہ نے عبداللہ بن دینار سے نقل کیا کہ میں نے سعید بن المسیّب (رح) سے دریافت کیا کیا چھوٹے گھوڑوں پر زکوۃ فرض ہے ؟ انھوں نے کہا کیا عربی گھوڑوں پر زکوۃ ہے یعنی نہیں ہے۔
تخریج : مصنفہ ابن ابی شیبہ۔
اس باب میں زکوۃ کے لزوم عدم لزوم کا اختلاف ہے فریق ثانی کے دلائل کو بڑی زوروقوت سے پیش کیا ہے نظر ثانی میں کافی کمزوری ہے اگر یہ قول ثبوت میں قوی بھی ہو مگر احتیاط امام صاحب کے قول میں ہے۔

2983

۲۹۸۳ : حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوٗدَ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوَ الْوَلِیْدِ‘ قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلْمَۃَ‘ عَنْ حُمَیْدٍ‘ عَنِ الْحُسَیْنِ‘ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ أَبِی الْعَاصِ (أَنَّ وَفْدَ ثَقِیْفٍ قَدِمُوْا عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ لَہُمْ لَا تُحْشَرُوْا وَلَا تُعْشَرُوْا) .
٢٩٨٣: حسین نے عثمان بن ابی العاص (رض) سے نقل کیا کہ وفد ثقیف جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے فرمایا اپنے اموال و مواشی کو عامل کے لیے جمع مت کرو کہ وہ اس میں سے زکوۃ وصول کرلے اور عشر ادا کرنا تم پر لازم نہیں۔
تخریج : ابو داؤد فی الامارہ باب ٢٦‘ مسند احمد ٤؍٢١٨۔
لغات : لا تحشروا۔ عامل کے لیے اموال کو ایک جگہ جمع کرنا۔ لاتعشروا۔ عشر ادا مت کرو۔
اموال ظاہرہ مال مویشی اور عشری زمین کو کہتے ہیں اور اموال باطنہ سونا ‘ چاندی ‘ نقدی اور مالی تجارت کو کہا جاتا ہے صدقات واجبہ کو حاکم مسلمان کا نمائندہ وصول زبردستی کرسکتا ہے یا نہیں۔ ! حضرت حسن بصری ‘ ابراہیم نخعی رحمہم اللہ کے ہاں مسلمان حاکم زکوۃ زبردستی وصول نہیں کرسکتا لوگ خود حاکم تک پہنچائیں یا اس کا عامل لے یا لوگ غرباء تک خود پہنچا دیں ہر دو باتیں برابر ہیں۔
نمبر 2: ائمہ اربعہ اور جمہور فقہاء حاکم وقت کو اس سلسلے میں مختار مانتے ہیں احناف کے ہاں اموال ظاہرہ و باطنہ میں فرق نہیں وہ خود وصول کر کے بیت المال میں جمع کرے یا لوگوں کو فقراء تک پہنچانے کی خود اجازت دے دے۔

2984

۲۹۸۴ : حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوٗدَ‘ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ صَالِحٍ‘ قَالَ : ثَنَا ابْنُ أَبِیْ زَائِدَۃَ‘ عَنْ إِسْرَائِیْلَ بْنِ یُوْنُسَ‘ عَنْ اِبْرَاہِیْمَ بْنِ مُہَاجِرٍ الْبَجَلِیِّ‘ عَنْ عَمْرِو بْنِ حُرَیْثٍ‘ عَنْ سَعِیْدِ بْنِ زَیْدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ نُفَیْلٍ‘ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (یَا مَعْشَرَ الْعَرَبِ‘ اِحْمَدُوْا اللّٰہَ‘ اِذْ رَفَعَ عَنْکُمُ الْعُشُوْرَ) .
٢٩٨٤: عمرو بن حریث نے حضرت سعید بن زید (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے اہل عرب اللہ تعالیٰ کی حمد وثناء کرو اس لیے کہ اس نے تم سے عشر کو اٹھا لیا ہے۔

2985

۲۹۸۵ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ أَحْمَدَ‘ قَالَ : ثَنَا إِسْرَائِیْلُ‘ عَنْ اِبْرَاہِیْمَ بْنِ الْمُہَاجِرِ‘ عَنْ رَجُلٍ حَدَّثَہٗ، عَنْ عَمْرِو بْنِ حُرَیْثٍ‘ عَنْ سَعِیْدِ بْنِ زَیْدٍ‘ قَالَ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ‘ فَذَکَرَ مِثْلَہٗ .
٢٩٨٥ : عمرو بن حریث نے سعید بن زید (رض) سے انھوں نے کہا میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے سنا ہے آپ نے اسی طرح فرمایا جیسا روایت بالا میں گزرا۔

2986

۲۹۸۶ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ‘ قَالَ : ثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ وَالْحِمَّانِیُّ‘ قَالَا : ثَنَا أَبُوَ الْأَحْوَصِ‘ عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ‘ عَنْ حَرْبِ بْنِ عُبَیْدِ اللّٰہِ‘ عَنْ جَدِّہٖ أَبِیْ أُمِّہٖ‘ عَنْ أَبِیْہِ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (لَیْسَ عَلَی الْمُسْلِمِیْنَ عُشُوْرٌ‘ إِنَّمَا الْعُشُوْرُ عَلٰی أَہْلِ الذِّمَّۃِ) .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ: فَذَہَبَ قَوْمٌ إِلٰی أَنَّ الْاِمَامَ لَیْسَ لَہٗ أَنْ یَبْعَثَ عَلَی الْمُسْلِمِیْنَ مَنْ یَتَوَلّٰی عَلٰی أَخْذِ صَدَقَاتِہِمْ‘ وَلٰـکِنَّ الْمُسْلِمِیْنَ بِالْخِیَارِ‘ إِنْ شَائُ وْا أَدَّوْہَا إِلَی الْاِمَامِ فَتَوَلَّی وَضْعَہَا فِیْ مَوَاضِعِہَا الَّتِیْ أَمَرَہُ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ بِہَا‘ وَإِنْ شَائُ وْا فَرَّقُوْہَا فِیْ تِلْکَ الْمَوَاضِعِ .وَلَیْسَ لِلْاِمَامِ أَنْ یَأْخُذَہَا مِنْہُمْ بِغَیْرِ طِیْبِ أَنْفُسِہِمْ‘ وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِھٰذِہِ الْآثَارِ الَّتِیْ رَوَیْنَاہَا عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَبِمَا رُوِیَ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ .
٢٩٨٦: حرب بن عبیداللہ نے اپنے دادا ابو امیہ سے ‘ انھوں نے اپنے والد سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مسلمانوں پر عشر نہیں عشور تو اہل ذمہ پر ہیں۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں کہ علماء کی ایک جماعت کہتی ہے کہ امام المسلمین کو یہ حق نہیں کہ وہ کسی شخص کو مسلمانوں سے زکوۃ وصول کرنے پر مقرر کرے ۔ بلکہ مسلمان اس میں خود مختار ہیں کہ اگر وہ چاہیں تو امام کو دیں پھر وہ مذکورہ مصارف پر خرچ کرے جہاں اللہ تعالیٰ نے صرف کا حکم دیا ہے اور اگر وہ چاہیں تو خود خرچ کریں امام کو ان کی مرضی کے خلاف لینے کا قطعاً حق نہیں بنتا۔ انھوں مندرجہ بالا روایات جو ہم نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کی ہیں ان سے استدلال کیا اور اسی طرح ان آثار سے جو حضرت عمر (رض) سے وارد ہوئے ہیں۔ ملاحظہ ہو۔
تخریج : ابو داؤد فی الامارۃ باب ٣٣‘ ترمذی فی الزکوۃ باب ١١‘ مسند احمد ٤٣٣‘ ٤٧٤؍٣٢٣۔
ان روایات سے ثابت ہوتا ہے کہ حاکم وقت کو اختیار نہیں کہ وہ مسلمانوں پر کسی کو زبردستی مسلط کر کے ان سے عشر وصول کرے البتہ بطیب خاطر اگر وہ دیں یا خود صدقات کے مقامات پر لگائیں تو یہ ان کی مرضی پر موقوف ہے حضرت عمر (رض) کا قول اس کا موید ہے۔

2987

۲۹۸۷ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ‘ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَعِیْدٍ‘ قَالَ : أَنَا سُفْیَانُ‘ عَنْ عَمْرٍو‘ عَنْ مُسْلِمِ بْنِ یَسَارٍ‘ قَالَ قُلْت لِابْنِ عُمَرَ‘ أَکَانَ عُمَرُ یُعَشِّرُ الْمُسْلِمِیْنَ ؟ قَالَ : لَا .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ‘ فَقَالُوْا : لِلْاِمَامِ أَنْ یُوَلِّیَ أَصْحَابَ الْأَمْوَالِ صَدَقَاتِ أَمْوَالِہِمْ‘ حَتّٰی یَضَعُوْہَا مَوَاضِعَہَا‘ وَلِلْاِمَامِ أَیْضًا أَنْ یَبْعَثَ عَلَیْہَا مُصَدِّقِیْنَ‘ حَتّٰی یَعْشُرُوْہَا‘ وَیَأْخُذُوا الزَّکَاۃَ مِنْہَا .وَکَانَ مِنَ الْحُجَّۃِ عَلٰی أَہْلِ الْمَقَالَۃِ الْأُوْلٰی لَہُمْ‘ أَنَّ الْعُشْرَ الَّذِیْ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَفَعَہُ عَنِ الْمُسْلِمِیْنَ‘ ہُوَ الْعَشْرُ الَّذِیْ کَانَ یُؤْخَذُ فِی الْجَاہِلِیَّۃِ‘ وَہُوَ خِلَافُ الزَّکَاۃِ‘ وَکَانُوْا یُسَمُّوْنَہُ الْمَکْسَ‘ وَہُوَ الَّذِیْ رَوٰی عُقْبَۃُ بْنُ عَامِرٍ فِیْہِ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا۔
٢٩٨٧: مسلم بن یسار کہتے ہیں کہ میں نے ابن عمر (رض) سے پوچھا کیا عمر (رض) مسلمانوں سے عشر وصول کرتے تھے انھوں نے کہا نہیں۔ دیگر حضرات نے ان سے اختلاف کرتے ہوئے فرمایا کہ امام المسلمین کو اس بات کا اختیار ہے کہ مال والوں کو خود ان مصارف زکوۃ پر صرف کی اجازت دے اور اس کو یہ بھی اختیار ہے کہ وہ عامل و ساعی بھیج کر ان سے زکوۃ کو وصول کرے۔ قول اوّل کے قائلین کے خلاف ان کی دلیل یہ ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مسلمانوں سے جو عشر معاف فرمایا اس سے مراد وہ ٹیکس تھا جو زمانہ جاہلیت میں سردار وصول کرتے تھے ۔ وہ زکوۃ نہ تھی بلکہ وہ ٹیکس ہی کہلاتا تھا اور یہی وہ روایت ہے جس کو حضرت عقبہ بن عامر (رض) نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کیا۔ روایت ذیل میں ہے۔
حاصل اثر : اس اثر کا حاصل بھی یہی ہے کہ مسلمانوں پر عشر نہیں نہ ان سے وصول کیا جائے گا۔
امام اموال ظاہرہ و باطنہ کی زکوۃ عامل کے ذریعہ زبردستی بھی وصول کرسکتا ہے بشرطیکہ بیت المال ہو اور وہ اس میں جمع کرائی جائے اس پر یہ روایات شاہد ہیں۔
اولاً فریق اوّل کے قول کا جواب پیش کرتے ہیں۔
الجواب : گزشتہ روایات میں جس کی ممانعت مذکور ہے وہ وہی عشر ہے جو جاہلیت میں وصول کیا جاتا تھا یہ مکس کہلاتا تھا یہ اسی طرح کا ظالمانہ ٹیکس تھا جیسا آج کل کے ظالمانہ ٹیکس ہیں اسلام نے اس کا خاتمہ کردیا اس کا زکوۃ و عشر اسلامی سے کوئی تعلق نہیں۔ اور عقبہ بن عامر (رض) کی روایت میں اس کا تذکرہ موجود ہے۔

2988

۲۹۸۸ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ‘ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَعِیْدٍ‘ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الرَّحِیْمِ‘ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ‘ عَنْ یَزِیْدَ بْنِ أَبِیْ حَبِیْبٍ‘ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ شِمَاسَۃَ‘ عَنْ عُقْبَۃَ بْنِ عَامِرٍ‘ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (لَا یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ صَاحِبُ مَکْسٍ) یَعْنِیْ : عَاشِرًا .فَھٰذَا ہُوَ الْعَشْرُ الْمَرْفُوْعُ عَنِ الْمُسْلِمِیْنَ‘ وَأَمَّا الزَّکَاۃُ‘ فَلاَ .وَقَدْ بَیَّنَ ذٰلِکَ أَیْضًا مَا
٢٩٨٨: عبدالرحمن بن شماسہ نے عقبہ بن عامر (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ٹیکس لینے والا جنت میں نہ جائے گا۔
تخریج : ابو داؤد فی الامارۃ باب ٧‘ دارمی فی الزکوۃ باب ٢٨‘ مسند احمد ٤‘ ١٤٣؍١٥٠۔
یہی وہ زمانہ جاہلیت کا عشر (یعنی سردار کا آمدنی میں دسواں حصہ) ہے جس کو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ختم کیا زکوۃ کا اس سے کچھ تعلق نہیں دوسری روایات میں اس کو بیان کیا گیا ہے۔ ملاحظہ ہو۔

2989

۲۹۸۹ : حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ شُعَیْبٍ‘ قَالَ : ثَنَا الْخَصِیْبُ‘ قَالَ : ثَنَا حَمَّادٌ‘ عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ‘ (عَنْ حَرْبِ بْنِ عُبَیْدِ اللّٰہِ‘ عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَخْوَالِہِ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اسْتَعْمَلَہٗ عَلَی الصَّدَقَۃِ‘ وَعَلَّمَہُ الْاِسْلَامَ‘ وَأَخْبَرَہٗ بِمَا یَأْخُذُ فَقَالَ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ کُلُّ الْاِسْلَامِ قَدْ عَلِمْتَہٗ إِلَّا الصَّدَقَۃَ‘ أَفَأُعْشِرُ الْمُسْلِمِیْنَ ؟ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا یُعْشَرُ الْیَہُوْدِ وَالنَّصَارٰی) .فَفِیْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَعَثَہٗ عَلَی الصَّدَقَۃِ‘ وَأَمَرَہٗ أَنْ لَا یُعَشِّرَ الْمُسْلِمِیْنَ‘ وَقَالَ لَہٗ : إِنَّمَا الْعُشُوْرُ عَلَی الْیَہُوْدِ وَالنَّصَارٰی .فَدَلَّ ذٰلِکَ أَنَّ الْعُشُوْرَ الْمَرْفُوْعَۃَ عَنِ الْمُسْلِمِیْنَ‘ ہِیَ خِلَافُ الزَّکٰوۃِ .وَمِمَّا یُبَیِّنُ ذٰلِکَ أَیْضًا۔
٢٩٨٩: عطاء بن السائب نے حرب بن عبیداللہ سے انھوں نے اپنے اخوال میں سے ایک آدمی سے بیان کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو صدقہ کا عامل مقرر فرمایا اور اس کو اسلام کے احکام سکھائے اور اسے بتلایا اتنا کچھ تم نے لینا ہے اس نے کہا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ نے صدقے کے سواء سارا اسلام سکھا دیا کیا میں عشر وصول کروں گا ؟ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یہود و نصاریٰ پر دسواں حصہ ہے۔ اس روایت میں ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو صدقات پر مقرر فرمایا اور ان کو حکم فرمایا کہ وہ مسلمانوں دسواں کے حصہ وصول نہ کریں اور ارشاد فرمایا ٹیکس تو یہود و نصاری پر ہوتے ہیں۔ اس سے یہ دلالت مل گئی کہ وہ عشر جس کی معافی کا اعلان فرمایا وہ زکوۃ سے الگ چیز ہے۔ اس کی وضاحت حسین بن نصر کی روایت سے ہوتی ہے۔
تخریج : سابقہ تخریج ملاحظہ ہو۔
اس روایت میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو صدقات کا عامل بنایا اور مسلمانوں سے عشر نہ وصول کرنے کا حکم فرمایا اور فرمایا کہ کہ عشور تو یہودونصاریٰ پر ہیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں سے جو عشر اٹھایا گیا وہ زکوۃ کے علاوہ ہے اس سلسلہ میں مندرجہ روایت اس کی وضاحت کرتی ہے روایت یہ ہے۔

2990

۲۹۹۰ : أَنَّ حُسَیْنَ بْنَ نَصْرٍ حَدَّثَنَا قَالَ : ثَنَا الْفِرْیَابِیُّ‘ قَالَ : أَنَا سُفْیَانُ‘ عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ‘ (عَنْ حَرْبِ بْنِ عُبَیْدِ اللّٰہِ الثَّقَفِیِّ‘ عَنْ خَالٍ لَہٗ مِنْ بَکْرِ بْنِ وَائِلٍ‘ قَالَ : أَتَیْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَسَأَلْتُہٗ عَنِ الْاِبِلِ وَالْغَنَمِ أَعْشُرُہُنَّ ؟ قَالَ إِنَّمَا الْعُشُوْرُ عَلَی الْیَہُوْدِ وَالنَّصَارٰی‘ وَلَیْسَ عَلَی الْمُسْلِمِیْنَ) .فَدَلَّ ھٰذَا عَلٰی أَنَّ الْعُشْرَ الَّذِیْ لَیْسَ عَلَی الْمُسْلِمِیْنَ‘ الْمَأْخُوْذَ مِنَ الْیَہُوْدِ وَالنَّصَارٰی‘ ہُوَ خِلَافُ الزَّکَاۃِ‘ لِأَنَّ مَا یُؤْخَذُ مِنَ النَّصَارٰی وَالْیَہُوْدِ مِنْ ذٰلِکَ‘ إِنَّمَا ہُوَ حَقٌّ لِلْمُسْلِمِیْنَ وَاجِبٌ عَلَیْہِمْ‘ کَالْجِزْیَۃِ الْوَاجِبَۃِ لَہُمْ عَلَیْہِمْ‘ وَالزَّکَاۃُ لَیْسَتْ کَذٰلِکَ‘ لِأَنَّہَا إِنَّمَا تُؤْخَذُ طَہَارَۃً لِرَبِّ الْمَالِ‘ وَہُوَ مُثَابٌ عَلٰی أَدَائِہَا .وَالْیَہُوْدِ وَالنَّصَارٰی لَیْسَ مَا یُؤْخَذُ مِنْہُمْ مِنَ الْعُشْرِ‘ طَہَارَۃً لَہُمْ‘ وَلَا ہُمْ مُثَابُوْنَ عَلَیْہِ .فَرَفَعَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ مَا یُؤْخَذُ مِنْہُمْ‘ مِمَّا لَا ثَوَابَ لَہُمْ عَلَیْہِ‘ وَأَقَرَّ ذٰلِکَ عَلَی الْیَہُوْدِ وَالنَّصَارٰی .
٢٩٩٠: حرب بن عبیداللہ ثقفی نے اپنے ماموں سے جو بکر بن وائل سے ہیں ‘ بیان کیا وہ کہتے ہیں کہ میں جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آیا اور میں نے آپ سے اونٹوں اور بکریوں کے عشر کے متعلق سوال کیا تو آپ نے فرمایا یہ عشور تو یہود و نصاریٰ پر ہیں مسلمانوں پر واجب نہیں۔ اس سے یہ دلالت میسر آگئی کہ دسواں حصہ مسلمانوں پر لازم نہیں اور وہ یہودو نصاری سے وصول کیا جاتا ہے وہ زکوۃ کے خلاف ہے۔ کیونکہ جو کچھ یہود نصاریٰ سے لیا جاتا ہے وہ مسلمانوں کا حق ہے اور ان پر جزیہ کی طرح لازم ہے حالانکہ زکوۃ کی یہ صورت نہیں ہے۔ کیونکہ وہ مالدار کے مال پاکیزگی کے لیے لی جاتی ہے اور اس کی ادائیگی پر ثواب ہے جس کو یہود نصاریٰ سے جو دسواں حصہ وصول کیا جاتا ہے وہ ان کی طہارت کا باعث نہیں اور نہ ہی ان کو اس پر کچھ ثواب ہے۔ تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مسلمانوں سے وہ چیز ہٹا دی جس میں ان کو کچھ ثواب نہیں اور یہودونصاریٰ پر قائم رہنے دیا۔
تخریج : ابو داؤد فی الامارہ باب ٣٣‘ ترمذی فی الزکوۃ باب ١١‘ مسند احمد ٣؍٤٧٤‘ ٤؍٣٢٢۔
حاصل روایات : یہ ہے کہ اس سے مراد وہ عشر ہے جو مسلمانوں پر لازم نہیں اور وہ یہود و نصاریٰ سے وصول کیا جاتا تھا یہ زکوۃ سے مختلف ہے یہ اس جزیہ کی طرح ہے جو ان پر واجب ہے حالانکہ زکوۃ تو اس طرح نہیں کیونکہ زکوۃ تو مسلمانوں کے اموال کی پاکیزگی کے لیے لی جاتی ہے اور دینے والے کو ثواب بھی ملتا ہے اور یہود و نصاریٰ سے لیا جانے والاجزیہ نہ تو ان کے اموال کی طہارت کا باعث ہے اور نہ ان کو اس کی ادائیگی پر کچھ ثواب ہے چنانچہ ان سے لیے جانے والے ٹیکس کو مسلمانوں سے ختم کردیا جن میں کوئی ثواب نہ تھا اور یہود و نصاریٰ پر اسے برقرار رکھا گیا۔
اس باب کو یہاں اس لیے قائم فرمایا تاکہ بتلایا جائے کہ ساعی و عامل کو صدقات میں کس قسم کے جانور وصول کرنے چاہئیں۔ اس کے متعلق علماء کی دو رائے ہیں۔
نمبر 1: امام مالک اور ظاہریہ کے ہاں جوان سال اونٹ ‘ بوڑھے اونٹ اور عیب دار اونٹ تینوں ملا کر لیے جائیں گے۔
نمبر 2: ائمہ اربعہ اور جمہور فقہاء و محدثین کے ہاں عمدہ اوسط ‘ گھٹیا درجہ کے جانوروں میں سے درمیانے درجے کے جانور لیے جائیں گے نہ اعلیٰ اور نہ بالکل ادنیٰ جیسا کہ صاف ارشادات نبوت میں موجود ہے۔ ایاکم و کرائم اموالہم (مسلم)

2991

۲۹۹۱ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ وَإِبْرَاہِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَا : ثَنَا أَبُوْ عَامِرٍ‘ قَالَ : ثَنَا ابْنُ أَبِیْ ذِئْبٍ‘ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ مِہْرَانَ‘ (أَنَّ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِیْزِ کَتَبَ إِلٰی أَیُّوْبَ بْنِ شُرَحْبِیْلَ أَنْ خُذْ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ‘ مِنْ کُلِّ أَرْبَعِیْنَ دِیْنَارًا‘ دِیْنَارًا‘ وَمِنْ أَہْلِ الْکِتَابِ مِنْ کُلِّ عِشْرِیْنَ دِیْنَارًا‘ دِیْنَارًا‘ اِذَا کَانُوْا یُرِیْدُوْنَہَا‘ ثُمَّ لَا تَأْخُذْ مِنْہُمْ شَیْئًا حَتّٰی رَأْسِ الْحَوْلِ‘ فَإِنِّیْ سَمِعْتُ ذٰلِکَ مِمَّنْ سَمِعَ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ یَقُوْلُ ذٰلِکَ) .فَفِیْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ أَمَرَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْمُصَدِّقِیْنَ أَنْ یَأْخُذُوْا مِنْ أَمْوَالِ الْمُسْلِمِیْنَ مَا ذَکَرْنَا‘ وَمِنْ أَمْوَالِ أَہْلِ الذِّمَّۃِ مَا وَصَفْنَا .وَقَدْ رُوِیَ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ‘ مَا قَدْ وَافَقَ ھٰذَا .
٢٩٩١: عبدالرحمن بن مہران کہتے ہیں کہ عمر بن عبدالعزیز (رح) نے ایوب بن شرحبیل کو لکھا کہ مسلمانوں سے ہر چالیس دینار پر ایک دینار اور اہل کتاب سے ہر بیس دینار ہر ایک دینار جب کہ وہ دینا چاہتے ہوں پھر سال کے گزرنے تک ان سے کچھ مت لو میں نے یہ باتیں اس سے سنی ہیں جس نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا ہے کہ آپ یہی فرما رہے تھے۔ پس اس روایت میں ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے زکوۃ لینے والوں کو فرمایا کہ وہ مسلمانوں کے اموال سے وہی وصول کریں جس کا ہم نے تذکرہ کیا اور اہل ذمہ کے مال میں سے وہ جو ہم کہہ آئے اور حضرت عمر (رض) نے بھی اسی طرح فرمایا جو ہم ذکر کیا ہے۔
اس روایت میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عاملوں کو حکم فرمایا ہے کہ وہ مسلمانوں کے اموال سے چالیسواں اور ذمیوں کے اموال سے بیسواں حصہ وصول کریں۔

2992

۲۹۹۲ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بِشْرٍ الرَّقِّیُّ‘ قَالَ : ثَنَا مُعَاذُ بْنُ مُعَاذٍ الْعَنْبَرِیُّ‘ عَنِ ابْنِ عَوْنٍ‘ عَنْ أَنَسِ بْنِ سِیْرِیْنَ‘ قَالَ : أَرْسَلَ إِلَیَّ أَنَسُ بْنُ مَالِکٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فَأَبْطَأْتُ عَلَیْہِ ثُمَّ أَرْسَلَ إِلَیَّ فَأَتَیْتُہٗ ‘ فَقَالَ (إِنْ کُنْتُ أَرَیْ أَنِّیْ لَوْ أَمَرْتُکَ أَنْ تَعَضَّ عَلٰی حَجَرِ کَذَا وَکَذَا‘ ابْتِغَائَ مَرْضَاتِیْ‘ لَفَعَلْتُ، أَخْبَرْتُ لَک عَمَلًا‘ فَکَرِہْتہ أَوَ أَکْتُبُ لَک سُنَّۃَ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ؟ قَالَ : قُلْتُ، اُکْتُبْ لِیْ سُنَّۃَ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ .قَالَ : فَکَتَبَ خُذْ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ‘ مِنْ أَرْبَعِیْنَ دِرْہَمًا‘ دِرْہَمًا‘ وَمِنْ أَہْلِ الذِّمَّۃِ مِنْ کُلِّ عِشْرِیْنَ دِرْہَمًا‘ دِرْہَمًا‘ وَمِمَّنْ لَا ذِمَّۃَ لَہٗ‘ مِنْ کُلِّ عَشَرَۃِ دَرَاہِمَ‘ دِرْہَمًا .قَالَ : قُلْتُ، مَنْ لَا ذِمَّۃَ لَہٗ ؟ قَالَ : الرُّوْمُ کَانُوْا یَقْدُمُوْنَ مِنَ الشَّامِ .فَلَمَّا فَعَلَ عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ ھٰذَا بِحَضْرَۃِ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ) ، فَلَمْ یُنْکِرْہُ عَلَیْہِ مِنْہُمْ أَحَدٌ مُنْکِرٌ‘ کَانَ ذٰلِکَ حُجَّۃً وَإِجْمَاعًا مِنْہُمْ عَلَیْہِ .فَھٰذَا وَجْہُ ھٰذَا الْبَابِ مِنْ طَرِیْقِ الْآثَارِ .وَأَمَّا وَجْہُہُ مِنْ طَرِیْقِ النَّظَرِ‘ فَإِنَّا قَدْ رَأَیْنَاہُمْ‘ أَنَّہُمْ لَا یَخْتَلِفُوْنَ أَنَّ لِلْاِمَامِ أَنْ یَبْعَثَ إِلٰی أَرْبَابِ الْمَوَاشِیْ السَّائِمَۃِ حَتّٰی یَأْخُذَ مِنْہُمْ صَدَقَۃَ مَوَاشِیْہمْ اِذَا وَجَبَتْ فِیْہَا الصَّدَقَۃُ‘ وَکَذٰلِکَ یَفْعَلُ فِیْ ثِمَارِہِمْ‘ ثُمَّ یَضَعُ ذٰلِکَ فِیْ مَوَاضِعِ الزَّکَوَاتِ عَلٰی مَا أَمَرَہٗ بِہٖ عَزَّ وَجَلَّ‘ لَا یَأْبَیْ ذٰلِکَ أَحَدٌ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ . فَالنَّظْرُ عَلٰی ذٰلِکَ أَنْ یَّکُوْنَ بَقِیَّۃُ الْأَمْوَالِ أَنَّ الذَّہَبَ وَالْفِضَّۃَ وَأَمْوَالَ التِّجَارَاتِ کَذٰلِکَ .فَأَمَّا مَعْنٰی قَوْلِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (لَیْسَ عَلَی الْمُسْلِمِیْنَ عُشُوْرٌ‘ إِنَّمَا الْعُشُوْرُ عَلَی الْیَہُوْدِ وَالنَّصَارٰی) .فَعَلٰی مَا قَدْ فَسَّرْتُہٗ فِیْمَا تَقَدَّمَ مِنْ ھٰذَا الْبَابِ‘ وَقَدْ سَمِعْتُ أَبَا بَکْرَۃَ یَحْکِیْ ذٰلِکَ‘ عَنْ أَبِیْ عُمَرَ الضَّرِیْرِ .وَھٰذَا کُلُّہٗ قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ‘ وَأَبِیْ یُوْسُفَ‘ وَمُحَمَّدٍ رَحِمَہُمُ اللّٰہُ .وَقَدْ رُوِیَ عَنْ یَحْیَی بْنِ آدَمَ فِیْ تَفْسِیْرِ قَوْلِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (لَیْسَ عَلَی الْمُسْلِمِیْنَ عُشُوْرٌ‘ إِنَّمَا الْعُشُوْرُ عَلَی الْیَہُوْدِ وَالنَّصَارٰی) مَعْنًی غَیْرُ الْمَعْنَی الَّذِیْ ذَکَرْنَا‘ وَذٰلِکَ أَنَّہٗ قَالَ : إِنَّ الْمُسْلِمِیْنَ لَا یَجِبُ عَلَیْہِمْ بِمُرُوْرِہِمْ عَلَی الْعَاشِرِ فِیْ أَمْوَالِہِمْ مَا لَمْ یَکُنْ وَاجِبًا عَلَیْہِمْ‘ لَوْ لَمْ یَمُرُّوْا بِہَا عَلَیْہٖ‘ لِأَنَّ عَلَیْہِمْ الزَّکَاۃَ عَلٰی أَیِّ حَالٍ کَانُوْا عَلَیْہَا .وَالْیَہُوْدُ وَالنَّصَارٰی لَوْ لَمْ یَمُرُّوْا بِأَمْوَالِہِمْ عَلَی الْعَاشِرِ‘ لَمْ یَجِبْ عَلَیْہِمْ فِیْہَا شَیْء ٌ .فَاَلَّذِیْ رَفَعَ عَنِ الْمُسْلِمِیْنَ‘ ہُوَ الَّذِیْ یُوْجِبُہُ الْمُرُوْرُ بِالْمَالِ عَلَی الْعَاشِرِ‘ وَلَمْ یُرْفَعْ ذٰلِکَ عَنِ الْیَہُوْدِ وَالنَّصَارٰی .
٢٩٩٢: انس بن سیرین کہتے ہیں کہ میری طرف انس بن مالک (رض) نے پیغام بھیجا میں نے تاخیر کردی انھوں نے دوبارہ پیغام بھیجا تو میں حاضر ہوا انس کہنے لگے مجھے خیال آیا کہ میں تجھے حکم دیتا کہ فلاں فلاں پتھر چباؤ تاکہ تم مجھے راضی کرو تو ایسا حکم دے سکتا تھا میں نے تمہیں ایک بات بتلائی اور تو نے اسے ناپسند کیا ‘ کیا میں تمہیں عمر (رض) کا طریقہ لکھ دوں ‘ میں نے عرض کیا کہ آپ مجھے عمر (رض) کا طریقہ لکھ دو ۔ ابن سیرین کہتے ہیں کہ انھوں نے یہ لکھ کردیا کہ مسلمانوں سے ہر چالیس پر ایک درہم اور ذمیوں سے ہر بیس پر ایک درہم لو اور جو ذمی نہیں ہیں ان کے ہر دس درہم سے ایک درہم لو ابن سیرین کہتے ہیں کہ میں نے پوچھا غیر ذمی سے مراد کون لوگ ہیں ؟ تو انھوں نے فرمایا رومی لوگ جو شام سے اسلامی مملکت میں داخل ہوتے تھے وہ مراد ہیں (ان سے ہر گزرنے پر یہ ٹیکس لیا جائے گا) جب حضرت عمر (رض) نے تمام صحابہ کرام (رض) کی موجودگی میں اس کو نافذ کیا تو کسی صحابی (رض) نے ان کی مخالفت نہ کی تو یہ اس معاملے میں دلیل اور اجماع صحابہ کرام ہے۔ آثار کے طریق سے اس باب کی وضاحت اسی طرح ہے اب رہا نظر و فکر کے طور پر تو اس کی وضاحت اس طرح ہے۔ ہم یہ بات جانتے ہیں کہ امام چرنے والے جانوروں کے مالکوں کے ہاں کسی بھی بھیج سکتا ہے جب کہ ان میں زکوۃ لازم ہو ۔ اسی طرح وہ پھلوں کے سلسلہ میں بھی کرسکتا ہے۔ پھر وہ اس زکوۃ کو مصارف زکوۃ پر خرچ کرے گا جن کا تذکرہ قرآن مجید میں ہے۔ اس سے تو کسی کو قطعا انکار نہیں۔ پس قیاس کا تقاضہ یہ ہے کہ بقیہ اموال سونا ‘ چاندی ‘ تجارتی اموال بھی اسی طرح ہوں۔ باقی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشاد کا مفہوم ہے کہ مسلمانوں پر دسواں نہیں بلاشبہ دسواں تو یہود و نصاریٰ پر ہے۔ اس کی وضاحت سابقہ سطور میں کی جا چکی طحاوی کہتے ہیں میں نے خود ابوبکر ہ کی سند سے اس کو ابو عمر الضریر سے نقل کیا ہے۔ یہی امام ابوحنیفہ ابو یوسف اور محمد رحمہم اللہ کا قول ہے۔ یحییٰ بن آدم نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قول : لیس علی المسلمین عشور۔۔۔ کا معنیٰ ہمارے معنیٰ سے مختلف نقل کیا ہے اور وہ اس طرح کہ مسلمانوں پر عاشر کے پاس سے گزرنے پر کچھ لازم نہ آئے گا ۔ جب تک ان پر گزر جانے کے بغیر واجب نہ ہو ۔ کیونکہ ان کے ذمہ تو صرف زکوۃ ہے۔ وہ کسی بھی حالت میں ہو اور یہود و نصاریٰ اگر عاشر کے پاس سے نہ گزریں تو ان پر بھی کچھ لازم نہ ہوگا ۔ پس وہ چیز جو مسلمانوں سے ہٹالی گئی تو وہی ہے جو مال کے ساتھ عاشر کے قریب گزرنے سے لازم ہوتی ہے اور وہ یہود نصاریٰ سے نہیں ہٹائی گئی۔
جب حضرت عمر (رض) نے صحابہ کرام کی موجودگی میں یہ کیا اور کسی نے انکار نہیں کیا تو یہ دلیل اجماعی بن گئی آثار سے تو یہ بات ثابت ہوتی ہے۔
دلیل نظری :
اس بات میں تو کسی کا اختلاف نہیں کہ حاکم ارباب مویشی کی طرف جو کہ چرنے والے ہوں عامل بھیجے تاکہ وہ ان سے مویشیوں کی زکوۃ وصول کرے جب زکوۃ ان پر لازم ہوجائے پھلوں کے سلسلہ میں بھی یہی حکم ہے پھر اس زکوۃ کو ان مقامات پر صرف کرے جن کا اللہ تعالیٰ نے ان کو حکم فرمایا ہے کوئی مسلمان اس کا انکار نہ کرے پس جب ان اموال کا یہ حکم اتفاقی ہے تو نظر کا تقاضا یہ ہے کہ سونے اور چاندی اور مال تجارت کا بھی یہی حکم ہو۔
باقی جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد : لیس علی المسلمین عشور انماالعشور علی الیہود والنصارٰی اس کے متعلق پہلے ذکر کرچکے کہ اس سے مراد وہ ٹیکس ہے جو ان پر لگایا جاتا ہے اسلامی عشر و زکوۃ مراد نہیں ہے اور یہ وضاحت میں نے ابو بکرہ سے خود سنی ہے وہ اسے ابو عمرالضریر کی طرف نسبت کر کے بیان کرتے تھے۔
یہی امام ابوحنیفہ (رح) و ابو یوسف (رح) و محمد (رح) کا قول ہے۔
لیس علی المسلمین عشور کا ایک اور معنی :
یحییٰ بن آدم (رح) فرماتے ہیں کہ اس ارشاد کا معنی یہ ہے کہ مسلمانوں کا جب عاشر یا مرور کے پاس سے گزر ہو تو ان پر عشر کی ادائیگی اس وقت تک لازم نہیں جب تک کہ ان پر سال نہ گزرا ہو۔ اگر سال پورا ہو کہ زکوۃ لازم ہوجائے تو زکوۃ لازم ہوجائے گی اگر عاشر نہ وصول کرے تو وہ ازخود ادا کرے مگر اس کے بالمقابل اگر یہود و نصاریٰ کا گزر عاشر وغیرہ کے پاس سے ہو تو خواہ ان کے مال پر سال گزرا ہو یا نہ گزرا ہو تب بھی ان کو عشر لازم ہے مگر وہ پوری مملکت میں پھرنے کے لیے ایک چوکی پر ادا کیا جائے گا اور اگر وہ عاشر کے پاس سے نہ گزرے تو یہ عشر بھی لازم نہ ہوگا اس سے یہ ثابت ہوا کہ فصل اول کی روایات میں عشر سے یہود و نصاریٰ کا یہ عشر مراد ہے جس کو مسلمانوں سے ختم کردیا گیا مگر وہ غیر مسلموں پر لاگو ہے۔

2993

۲۹۹۳ : حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوٗدَ‘ قَالَ : ثَنَا یَعْقُوْبُ بْنُ حُمَیْدِ بْنِ کَاسِبٍ‘ قَالَ : ثَنَا عُیَیْنَۃُ‘ عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ‘ عَنْ أَبِیْہِ‘ عَنْ عَائِشَۃَ‘ قَالَتْ : (بَعَثَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مُصَدِّقًا فِیْ أَوَّلِ الْاِسْلَامِ فَقَالَ : خُذْ اَلشَّارِفَ وَالْبِکْرَ‘ وَذَوَاتِ الْعَیْبِ‘ وَلَا تَأْخُذْ حَزَرَاتِ النَّاسِ) .قَالَ ہِشَامٌ : أَرٰی ذٰلِکَ لِیَسْتَأْلِفَہُمْ ثُمَّ جَرَتِ السُّنَّۃُ بَعْدَ ذٰلِکَ .
٢٩٩٣: ہشام نے عروہ سے انھوں نے عائشہ (رض) سے نقل کیا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے شروع اسلام میں (جب مدینہ منورہ میں زکوۃ فرض ہوئی) ایک عامل بھیجا اور اس کو فرمایا ان کے اموال سے بوڑھی اونٹنی اور جوان سال اونٹ اور عیب والے جانور وصول کرنا لوگوں کے اعلیٰ اموال سے مت لینا۔ ہشام راوی کہتے ہیں میرے خیال میں یہ ان کو مانوس کرنے کے لیے شروع میں فرمایا آئندہ ایک طریقہ جاری ہوا۔
اس باب کو یہاں اس لیے قائم فرمایا تاکہ بتلایا جائے کہ ساعی و عامل کو صدقات میں کس قسم کے جانور وصول کرنے چاہئیں۔ اس کے متعلق علماء کی دو رائے ہیں۔
نمبر 1: امام مالک اور ظاہریہ کے ہاں جوان سال اونٹ ‘ بوڑھے اونٹ اور عیب دار اونٹ تینوں ملا کر لیے جائیں گے۔
نمبر 2: ائمہ اربعہ اور جمہور فقہاء و محدثین کے ہاں عمدہ اوسط ‘ گھٹیا درجہ کے جانوروں میں سے درمیانے درجے کے جانور لیے جائیں گے نہ اعلیٰ اور نہ بالکل ادنیٰ جیسا کہ صاف ارشادات نبوت میں موجود ہے۔ ایاکم و کرائم اموالہم (مسلم)
لغات : الشارف۔ بوڑھی اونٹنی۔ خزرات۔ عمدہ مال البکر۔ جوان سال اونٹ۔

2994

۲۹۹۴ : حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوٗدَ‘ قَالَ : ثَنَا یَعْقُوْبُ‘ قَالَ : ثَنَا وَکِیْعٌ‘ عَنْ ہِشَامٍ‘ عَنْ أَبِیْہِ‘ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَحْوَہٗ۔قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ إِلَی تَقْلِیْدِ ھٰذَا الْخَبَرِ‘ وَقَالُوْا : ہٰکَذَا یَنْبَغِیْ لِلْمُصَدِّقِ أَنْ یَأْخُذَ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ‘ فَقَالُوْا : لَا یَأْخُذُ فِی الصَّدَقَاتِ ذَاتَ عَیْبٍ‘ وَإِنَّمَا یَأْخُذُ عِدْلًا مِنَ الْمَالِ .وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ۔
٢٩٩٤: ہشام نے اپنے والد سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت نقل کی ہے جو اسی طرح ہے۔ امام طحاوی (رح) کہتے ہیں کہ ایک گزروہ علماء نے اس روایت کو اختیار کیا اور کہا کہ صدقہ کی وصولی کرنے والے کو اسی طرح لینا چاہیے۔ مگر دیگر حضرات نے ان سے اختلاف کرتے ہوئے کہا زکوۃ میں عیب والا جانور نہ لیا جائے بلکہ درمیانی قسم کا جانور وصول کرے ان کی دلیل یہ روایت ذیل ہے۔
تخریج : بخاری فی الزکوۃ باب ٤١‘ ابو داؤد فی الزکوۃ باب ٥‘ ترمذی فی الزکوۃ باب ٤‘ ابن ماجہ فی الزکوۃ باب ١٠‘ نمبر ١٨٠٠‘ ابن ابی شیبہ۔
حاصل روایات؛ عامل ان اموال میں سے تمام اقسام کے جانور لے عیب دار ‘ درمیانے ‘ بوڑھے۔

2995

۲۹۹۵ : بِمَا حَدَّثَنَا اِبْرَاہِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ الْأَنْصَارِیُّ‘ قَالَ : حَدَّثَنِیْ أَبِیْ‘ عَنْ ثُمَامَۃَ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ‘ عَنْ أَنَسٍ أَنَّ (أَبَا بَکْرٍ الصِّدِّیْقَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ لَمَّا اُسْتُخْلِفَ‘ وَجَّہَ أَنَسَ بْنَ مَالِکٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ إِلَی الْبَحْرَیْنِ‘ فَکَتَبَ لَہٗ ھٰذَا الْکِتَابَ .ھٰذِہٖ فَرِیْضَۃٌ یَعْنِی الصَّدَقَۃَ الَّتِیْ فَرَضَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَی الْمُسْلِمِیْنَ الَّتِیْ أَمَرَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ بِہَا رَسُوْلَہٗ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .فَمَنْ سُئِلَہَا مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ عَلٰی وَجْہِہَا فَلِیُعْطِہَا‘ وَمَنْ سُئِلَ فَوْقَہَا فَلاَ یُعْطِہٖ‘ فَذَکَرَ فَرَائِضَ الصَّدَقَۃِ وَقَالَ لَا یُؤْخَذُ فِی الصَّدَقَۃِ ہَرِمَۃٌ‘ وَلَا ذَاتُ عَوَارٍ‘ وَلَا تَیْسُ الْغَنَمِ) .
٢٩٩٥: ثمامہ بن عبداللہ نے انس (رض) سے روایت کی ہے کہ ابوبکر صدیق (رض) نے خلافت کے زمانہ میں انس بن مالک (رض) کر بحرین کی طرف روانہ کیا اور ان کو یہ خط تحریر کر کے دیا یہ صدقہ فرض ہے جس کو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مسلمانوں پر مقرر فرمایا اور اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر مقرر کرنے کا حکم فرمایا ہے پس جو آدمی اس کو اسی انداز سے طلب کرے اس کو دے دو اور جو اس سے زیادہ کا مطالبہ کرے اس کو نہ دیا جائے پھر آپ نے اس میں صدقے کے فرائض ذکر کئے اور فرمایا صدقہ میں بوڑھی اونٹنی نہ لی جائے اور نہ عیب والا جانور لیا جائے اور نہ بکریوں کا جفتی کرنے والا نر لیا جائے۔

2996

۲۹۹۶ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ‘ قَالَ : ثَنَا الْحَکَمُ بْنُ مُوْسٰی، قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ حَمْزَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ دَاوٗدَ‘ قَالَ : حَدَّثَنِی الزُّہْرِیُّ‘ عَنْ أَبِیْ بَکْرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ‘ عَنْ أَبِیْہِ‘ عَنْ جَدِّہٖ (أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَتَبَ کِتَابًا إِلٰی أَہْلِ الْیَمَنِ فِیْہِ الْفَرَائِضُ وَالسُّنَنُ‘ فَکَتَبَ فِیْہِ لَا یُؤْخَذُ فِی الصَّدَقَۃِ ہَرِمَۃٌ‘ وَلَا ذَاتُ عَوَارٍ‘ وَلَا تَیْسُ الْغَنَمِ) .فَہٰکَذَا کَانَتْ کُتُبُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ وَأَبِیْ بَکْرٍ وَعُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ تَجْرِیْ مِنْ بَعْدِہٖ‘ وَکَتَبَ عَلِیٌّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ بَعْدَ ذٰلِکَ .فَدَلَّ مَا ذَکَرْنَا عَلٰی نَسْخِ مَا فِیْ حَدِیْثِ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا الَّذِیْ بَدَأْنَا بِذِکْرِہٖ فِیْ ھٰذَا الْبَابِ .وَفِیْہِ أَیْضًا مَا یَدُلُّ عَلَی تَقْدِیْمِہٖ بِمَا رَوَیْنَاہُ بَعْدَہٗ‘ وَہُوَ قَوْلُ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا (إِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یَبْعَثُ مُصَدِّقًا فِیْ صَدْرِ الْاِسْلَامِ‘ فَأَمَرَہٗ بِذٰلِکَ) ، وَنُسِخَ ذٰلِکَ بِمَا ذَکَرْنَا فِیْ کِتَابِ أَبِیْ بَکْرٍ لِأَنَسٍ‘ وَفِیْ کِتَابِ عَمْرِو ابْنِ حَزْمٍ .وَھٰذَا کُلُّہٗ قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ‘ وَأَبِیْ یُوْسُفَ‘ وَمُحَمَّدٍ رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی .
٢٩٩٦: زہری نے ابوبکر بن محمد بن عمرو بن حزم سے انھوں نے اپنے والد اور اپنے دادا سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اہل یمن کے نام ایک خط لکھا اس میں فرائض و سنن دونوں کو ذکر فرمایا اس میں یہ بھی لکھا صدقات میں بہت بوڑھا جانور اور عیب دار جانور اور جفتی نر نہ لیا جائے اسی طرح جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ابوبکر و عمر ] کے خطوط اور علی (رض) کے خطوط چلتے رہے۔ اس سے یہ دلالت مل گئی کہ حضرت صدیقہ (رض) کی روایت میں جو کچھ مذکور ہے جو کہ اس باب کے شروع میں لکھا گیا ہے وہ منسوخ ہے۔ نیز اس سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ حضرت صدیقہ (رض) نے جو فرمایا۔ کہ ” ان رسول اللہ کان یبعث مصدقا فی صدر الاسلام فامرہ بذلک “ کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) شروع اسلام میں مصدق کو بھیجتے اور اس کو حکم دیتے یہ منسوخ ہے اور یہ حضرت ابوبکر صدیق (رض) کے خط اور حضرت عمرو بن حزم (رض) کے خطوط میں مذکورہ احکام سے منسوخ ہوا۔ یہ امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد (رح) کا یہی قول ہے۔
نوٹ : روایت عائشہ (رض) جو مذکور ہے یہ خطوط اس کے نسخ کی دلیل ہیں اور اسی روایت میں خود صراحت موجود ہے کہ یہ بات بالکل ابتدائی دور کی بات ہے صدیق اکبر (رض) اور عمرو بن حزم (رض) کے خطوط اس کے بعد ہیں وہ اس قول کے منسوخ ہونے کا ثبوت ہیں یہ اوپر جو ہم ذکر کر آئے یہ امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد رحمہم اللہ تعالیٰ کا قول ہے۔
مویشیوں کے متعلق نصاب میں ذرا سی تفصیل ہے اونٹوں کا نصاب ٥ پر ایک بکرے سے شروع ہوتا ہے ایک سو بیس میں دو حقے لازم آتے ہیں بشرطیکہ سائمہ ہوں گائے اور بھینس میں بیس نصاب ہے اور اس پر ایک سال کا بچھڑا لازم ہے پھر ساٹھ میں دو تبیعے ہیں پھر دس پر فریضہ بدلتا رہے گا بکریوں کا نصاب چالیس پر ایک بکرا پھر ایک سو بیس کے بعد دو بکریاں لازم ہوں گی جن لوگوں کے جانور چرنے میں اکٹھے ہوں تو نصاب میں وہ الگ الگ شمار ہوں گے اور جو ملک میں مشترک ہوں ان پر مشترک طور پر صدقہ لیا جائے گا الگ الگ کر کے نصاب کو ضائع نہ کیا جائے گا۔
نوٹ : اس باب میں نسخ و غیر نسخ کا اختلاف ہے اور حضرت عمرو بن حزم (رض) کو یہ خط کیونکہ وفات سے تھوڑا عرصہ پہلے لکھا گیا اس لیے اس کے مندرجات اس سے ماقبل کے یقیناً ناسخ ہوں گے کیونکہ زمانہ ناسخ و منسوخ کی واضح تعیین ہے۔

2997

۲۹۹۷ : حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ نَصْرٍ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ نُعَیْمٍ‘ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ الثَّوْرِیُّ‘ عَنْ عَمْرِو بْنِ یَحْیَی الْمَازِنِیِّ‘ عَنْ أَبِیْہِ‘ عَنْ أَبِیْ سَعِیْدٍ الْخُدْرِیِّ‘ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (لَیْسَ فِیْمَا دُوْنَ خَمْسَۃِ أَوْسُقٍ صَدَقَۃٌ‘ وَلَیْسَ فِیْمَا دُوْنَ خَمْسِ ذَوْدٍ صَدَقَۃٌ‘ وَلَیْسَ فِیْمَا دُوْنَ خَمْسِ أَوَاقٍ صَدَقَۃٌ) .
٢٩٩٧: عروہ بن یحییٰ مازنی نے اپنے والد سے انھوں نے ابو سعید خدری (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا پانچ وسق سے کم مقدار اور پانچ اونٹ سے کم اونٹوں میں پانچ اوقیہ سے کم مقدار چاندی میں زکوۃ نہیں ہے۔
تخریج : بخاری فی الزکوۃ باب ٤‘ ٣٢‘ البیوع باب ٨٣‘ المساقاۃ باب ١٧‘ مسلم فی الزکوۃ نمبر ١‘ ٣‘ ٤‘ ٦‘ البیوع نمبر ٧١‘ ابو داؤد فی الزکوۃ باب ٢‘ ١‘ البیوع باب ٢٠‘ ٩٨‘ ٢٩٦‘ ترمذی فی الزکوۃ باب ٧‘ والبیوع باب ٦٣‘ نسائی فی الزکوۃ باب ٥‘ ١٨‘ ٢١‘ ابن ماجہ فی الزکوۃ باب ٦‘ دارمی فی الزکوۃ باب ١١‘ موطا فی الزکوۃ نمبر ١‘ ٢‘ البیوع نمبر ١٤‘ مسند احمد ٢؍٩٢‘ ٣؍٦‘ ٤٥‘ ٥٩‘ ٦٠۔

غلہ کی کتنی مقدار میں عشر لازم ہوگا۔
نمبر 1: ائمہ ثلاثہ اور ابو یوسف ‘ محمد رحمہم اللہ غلہ کی مقدار میں پانچ وسق سے کم میں زکوۃ نہیں مانتے پانچ وسق موجود وزن میں نو کو نٹل ٤٤ کلو ٧٨٤ گرام ہے۔
نمبر 2: امام ابوحنیفہ (رح) و ابراہیم نخعی حماد (رح) کے ہاں عشر ہر صورت میں لازم ہے خواہ پیداوار کم ہو یا زیادہ۔

2998

۲۹۹۸ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ عَامِرٍ‘ قَالَ : ثَنَا ہَمَّامٌ‘ عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیْدٍ‘ عَنْ عَمْرِو بْنِ یَحْیٰی‘ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .
٢٩٩٨: یحییٰ بن سعید نے عمرو بن یحییٰ سے انھوں نے اپنی اسناد سے روایت نقل کی ہے۔

2999

۲۹۹۹ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا یَزِیْدُ بْنُ ہَارُوْنَ‘ قَالَ : أَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیْدٍ‘ عَنْ عَمْرٍو‘ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .
٢٩٩٩: یحییٰ بن سعید نے عمرو بن یحییٰ سے انھوں نے اپنی اسناد سے روایت نقل کی ہے۔

3000

۳۰۰۰ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ‘ قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ‘ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ یَحْیَی بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ سَالِمٍ‘ وَمَالِکٌ‘ وَسُفْیَانُ الثَّوْرِیُّ‘ وَعَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عُمَرَ‘ أَنَّ عَمْرَو بْنَ یَحْیٰی حَدَّثَہُمْ‘ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .
٣٠٠٠: سفیان ثوری اور عبداللہ بن عمر ‘ مالک ‘ یحییٰ بن عبداللہ نے عمرو بن یحییٰ سے روایت کی انھوں نے اپنی اسناد سے نقل کی ہے۔

3001

۳۰۰۱ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ‘ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمِنْہَالِ‘ قَالَ : ثَنَا یَزِیْدُ بْنُ زُرَیْعٍ‘ قَالَ : ثَنَا رَوْحُ بْنُ الْقَاسِمِ‘ عَنْ عَمْرِو بْنِ یَحْیٰی‘ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .
٣٠٠١: روح بن قاسم نے عمرو بن یحییٰ سے اپنی اسناد سے روایت نقل کی ہے۔

3002

۳۰۰۲ : حَدَّثَنَا اِبْرَاہِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ حُذَیْفَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ‘ عَنْ إِسْمَاعِیْلَ بْنِ أُمَیَّۃَ‘ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ یَحْیَی بْنِ حَبَّابٍ‘ عَنْ یَحْیَی بْنِ عُمَارَۃَ‘ عَنْ أَبِیْ سَعِیْدٍ‘ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ .
٣٠٠٢: محمد بن یحییٰ نے یحییٰ بن عمارہ سے انھوں نے ابو سعید (رض) انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

3003

۳۰۰۳ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ‘ قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ‘ أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ صَعْصَعَۃَ الْمَازِنِیِّ‘ عَنْ أَبِیْہِ‘ عَنْ أَبِیْ سَعِیْدٍ الْخُدْرِیِّ‘ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ .
٣٠٠٣: محمد بن عبداللہ بن عبدالرحمن مازنی نے اپنے والد سے انھوں نے ابو سعید (رض) سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

3004

۳۰۰۴ : حَدَّثَنَا یَزِیْدُ بْنُ سِنَانٍ‘ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ أَبِیْ مَرْیَمَ‘ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُسْلِمٍ‘ قَالَ : أَنَا عَمْرُو بْنُ دِیْنَارٍ‘ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ‘ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (لَا صَدَقَۃَ فِیْ شَیْئٍ مِنَ الزَّرْعِ أَوِ الْکَرْمِ حَتّٰی یَکُوْنَ خَمْسَۃَ أَوْسُقٍ‘ وَلَا فِی الرِّقَّۃِ حَتّٰی تَبْلُغَ مِئَتَیْ دِرْہَمٍ) .
٣٠٠٤: عمرو بن دینار نے جابر بن عبداللہ (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کھیتی کی کسی چیز یا انگور میں اس وقت تک عشر نہیں جب تک پانچ وسق تک نہ پہنچ جائے اور نہ غلام میں یہاں تک کہ دو سو درہم تک پہنچ جائے۔

3005

۳۰۰۵ : حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ شُعَیْبٍ‘ قَالَ : ثَنَا الْخَصِیْبُ‘ قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلْمَۃَ‘ عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ‘ عَنْ جَابِرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (لَیْسَ فِیْمَا دُوْنَ خَمْسَۃِ أَوْسُقٍ صَدَقَۃٌ) .
٣٠٠٥: ابوالزبیر نے جابر (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ پانچ وسق سے کم پیداوار میں زکوۃ نہیں۔
تخریج : روایت نمبر ٢٩٩٧ ملاحظہ ہو۔

3006

۳۰۰۶ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُوْسَی الْأَشْیَبُ‘ قَالَ : ثَنَا شَیْبَانُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ‘ عَنْ لَیْثِ بْنِ أَبِیْ سُلَیْمٍ‘ عَنْ نَافِعٍ‘ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (لَیْسَ فِیْمَا دُوْنَ خَمْسٍ مِنَ الْاِبِلِ صَدَقَۃٌ‘ وَلَا خَمْسِ أَوَاقٍ‘ وَلَا خَمْسَۃِ أَوْسَاقٍ صَدَقَۃٌ) .
٣٠٠٦: نافع نے ابن عمر (رض) سے روایت کی جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ٥ سے کم تعداد اونٹوں میں زکوۃ نہیں اور نہ ہی پانچ سے کم اوقیہ اور پانچ وسق سے کم میں زکوۃ ہے۔

3007

۳۰۰۷ : حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوٗدَ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ مَعْمَرٍ‘ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ‘ قَالَ : ثَنَا لَیْثٌ‘ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .
٣٠٠٧: عبدالوارث نے کہا ہمیں لیث پھر انھوں نے اپنی اسناد سے روایت بیان کی۔

3008

۳۰۰۸ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ‘ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ کَثِیْرٍ‘ عَنِ الْأَوْزَاعِیِّ‘ عَنْ أَیُّوْبَ بْنِ مُوْسٰی، عَنْ نَافِعٍ‘ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ نَحْوَہٗ‘ وَلَمْ یَرْفَعْہُ .
٣٠٠٨: نافع نے ابن عمر (رض) سی اسی طرح کی روایت کی مگر مرفوع بیان نہیں کی۔

3009

۳۰۰۹ : حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ‘ قَالَ : ثَنَا نُعَیْمُ بْنُ حَمَّادٍ‘ قَالَ : ثَنَا ابْنُ الْمُبَارَکِ‘ عَنْ مَعْمَرٍ‘ عَنْ سُہَیْلِ بْنِ أَبِیْ صَالِحٍ‘ عَنْ أَبِیْہِ‘ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ‘ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ .
٣٠٠٩: سہیل بن ابی صالح نے اپنے والد سے انھوں نے ابوہریرہ (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔

3010

۳۰۱۰ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ‘ قَالَ : ثَنَا الْحَکَمُ بْنُ مُوْسٰی، قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ حَمْزَۃَ‘ عَنْ سُلَیْمَانَ بْنَ دَاوٗدَ‘ قَالَ : حَدَّثَنِی الزُّہْرِیُّ‘ عَنْ أَبِیْ بَکْرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ‘ عَنْ أَبِیْہِ‘ عَنْ جَدِّہٖ (أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَتَبَ إِلٰی أَہْلِ الْیَمَنِ بِکِتَابٍ‘ فِیْہِ الْفَرَائِضُ وَالسُّنَنُ‘ فَکَتَبَ فِیْہِ مَا سَقَتِ السَّمَائُ أَوْ کَانَ سَحًّا‘ أَوْ بَعْلًا فِیْہِ الْعُشْرُ اِذَا بَلَغَ خَمْسَۃَ أَوْسُقٍ‘ وَمَا سُقِیَ بِالرِّشَائِ أَوْ بِالدَّالِیَۃِ‘ فَفِیْہِ نِصْفُ الْعُشْرِ اِذَا بَلَغَ خَمْسَۃَ أَوْسُقٍ) .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ إِلٰی ھٰذِہِ الْآثَارِ‘ فَقَالُوْا : لَا تَجِبُ الصَّدَقَۃُ فِیْ شَیْئٍ مِنَ الْحِنْطَۃِ وَالشَّعِیْرِ وَالتَّمْرِ وَالزَّبِیْبِ‘ حَتّٰی یَکُوْنَ خَمْسَۃَ أَوْسُقٍ .وَکَذٰلِکَ کُلُّ شَیْئٍ مِمَّا تُخْرِجُ الْأَرْضُ‘ مِثْلُ : الْحِمَّصِ‘ وَالْعَدَسِ‘ وَالْمَاشِّ‘ وَمَا أَشْبَہَ ذٰلِکَ‘ فَلَیْسَ فِیْ شَیْئٍ مِنْہُ صَدَقَۃٌ حَتّٰی یَبْلُغَ ھٰذَا الْمِقْدَارَ أَیْضًا .وَمِمَّنْ ذَہَبَ إِلٰی ذٰلِکَ أَبُوْ یُوْسُفَ‘ وَمُحَمَّدٌ رَحِمَہُمَا اللّٰہُ‘ وَأَہْلُ الْمَدِیْنَۃِ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ‘ فَأَوْجَبُوْا الصَّدَقَۃَ فِیْ قَلِیْلِ ذٰلِکَ أَوْ کَثِیْرِہٖ وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ .
٣٠١٠: ابوبکر بن محمد بن عمرو بن حزم نے اپنے والد اپنے دادا سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کیا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اہل یمن کو ایک خط لکھا جس میں فرائض و سنن تھے اور اس میں یہ بھی لکھا تھا جس کو بارش سیراب کرے یا بہتا پانی سیراب کرے یا کھجور کا درخت نہر کے کنارے ہو اس میں عشر ہے جبکہ پانچ وسق کو پہنچ جائے اور جو اسی یا راہٹ سے پلایا جائے اس میں نصف عشر ہے بشرطیکہ مقدار پانچ وسق تک پہنچ جائے۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں کہ علماء کی ایک جماعت نے ان آثار کو اختیار کیا کہ گندم ‘ جو ‘ کھجور ‘ کشمش جب تک پانچ وسق نہ ہوں ان میں صدقہ نہیں ۔ اسی طرح ہر وہ چیز جو زمین سے نکلے مثلاً چنا ‘ مسور ‘ ماش وغیرہ اجناس میں بھی پانچ وسق کی مقدار سے کم کم میں زکوۃ نہیں ہے۔ اس قول کو امام ابو یوسف ‘ محمد اور اہل مدینہ رحمہم اللہ نے اختیار کیا ۔ مگر علماء کی دوسری جماعت نے ان سے اختلاف کرتے ہوئے قلیل و کثیر میں صدقے کو لازم کیا ہے۔
لغات : الرشاء۔ ڈول و رسّی سے سیراب ہو۔ بعل۔
ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ زمینی پیداوار میں چنا ‘ مسور ‘ ماش وغیرہ ان میں سے کسی بھی چیز میں صدقہ لازم نہیں جب تک پانچ وسق نہ ہوجائیں پانچ وسق کی مقدار متعین ہے اس سے کم پیداوار میں عشر نہیں ہے۔

3011

۳۰۱۱ : بِمَا حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ‘ قَالَ : ثَنَا أَسَدٌ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ بَکْرِ بْنُ عَیَّاشٍ‘ قَالَ حَدَّثَنِیْ عَاصِمُ بْنُ أَبِی النَّجُوْدِ‘ عَنْ أَبِیْ وَائِلٍ‘ (عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ‘ قَالَ : بَعَثَنِیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِلَی الْیَمَنِ‘ فَأَمَرَنِیْ أَنْ آخُذَ مِمَّا سَقَتِ السَّمَائُ الْعُشْرَ‘ وَمِمَّا سُقِیَ بَعْلًا نِصْفَ الْعُشْرِ) .
٣٠١١: ابو وائل نے معاذ بن جبل (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے یمن کی طرف عامل بنا کر بھیجا اور حکم فرمایا کہ جس زمین کو بارش کا پانی سیراب کرے اس میں عشر ہے اور جو راہٹ سے سیراب ہو اس میں نصف عشر ہے۔
تخریج : ابن ماجہ فی الزکوۃ باب ١٧‘ نمبر ١٨١٨۔

3012

۳۰۱۲ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ‘ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْحَمِیْدِ بْنُ صَالِحٍ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ بَکْرِ بْنُ عَیَّاشٍ‘ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ .
٣٠١٢: عبدالحمید بن صالح نے ابوبکر بن عیاش سے نقل کیا پھر انھوں نے اپنی سند سے روایت نقل کی ہے۔

3013

۳۰۱۳ : حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ وَہْبٍ‘ قَالَ : ثَنَا عَمِّیْ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ وَہْبٍ‘ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ یُوْنُسُ‘ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ‘ عَنْ سَالِمٍ‘ عَنْ أَبِیْہِ‘ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (فِیْمَا سَقَتِ السَّمَائُ الْعُشُوْرُ‘ وَفِیْمَا سُقِیَ بِالسَّانِیَۃِ نِصْفُ الْعُشُوْرِ) .
٣٠١٣: سالم نے اپنے والد سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کیا کہ آپ نے فرمایا جس کو بارش کا پانی سیراب کرے ان میں عشر ہے اور جو اونٹنی سے سیراب کیا جائے اس میں نصف عشر ہے۔
لغات : السانیہ جمع السوانی راہٹ چلانے والی اونٹنی۔
تخریج : بخاری فی الزکوۃ باب ٥٧‘ مسلم دی الزکوۃ ٨‘ ابو داؤد فی الزکوۃ باب ١٢‘ نسائی فی الزکوۃ باب ٢٥‘ ابن ماجہ فی الزکوۃ باب ١٧‘ دارمی فی الزکوۃ باب ٢٩‘ مسند احمد ٣؍٣٤١‘ ٣٥٣۔

3014

۳۰۱۴ : حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْجِیْزِیُّ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوَ الْأَسْوَدِ‘ قَالَ : ثَنَا ابْنُ لَہِیْعَۃَ‘ عَنْ یَزِیْدَ بْنِ أَبِیْ حَبِیْبٍ‘ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ‘ عَنْ سَالِمٍ‘ عَنْ أَبِیْہِ (أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَرَضَ فِیْمَا سَقَتِ الْأَنْہَارُ وَالْعُیُوْنُ‘ أَوْ کَانَ عَثَرِیًّا یُسْقٰی بِالسَّمَائِ الْعُشُوْرَ وَفِیْمَا سُقِیَ بِالنَّاضِحِ نِصْفَ الْعُشُوْرِ) .
٣٠١٤: سالم نے اپنے والد سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے کہ جس کو نہریں اور چشمے سیراب کریں یا اس کو بادل سیراب کرے ان میں عشر ہے اور جس کو اونٹ راہٹ سے پلائیں ان میں نصف عشر ہے۔
تخریج : بخاری فی الزکوۃ باب ٥٥‘ ترمذی فی الزکوۃ باب ١٤۔
لغات : عشری بارش سے سیراب ہونے والی کھیتی۔ الناضح۔ راہٹ والا اونٹ۔

3015

۳۰۱۵ : حَدَّثَنَا یَزِیْدُ بْنُ سِنَانٍ‘ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ أَبِیْ مَرْیَمَ‘ قَالَ : أَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ وَہْبٍ‘ قَالَ : حَدَّثَنِیْ یُوْنُسُ بْنُ یَزِیْدَ‘ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ‘ عَنْ سَالِمٍ‘ عَنْ أَبِیْہِ‘ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ .
٣٠١٥: سالم نے اپنے والد سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

3016

۳۰۱۶ : حَدَّثَنَا یَزِیْدُ بْنُ سِنَانٍ‘ قَالَ : ثَنَا ابْنُ أَبِیْ مَرْیَمَ‘ قَالَ : ثَنَا ابْنُ لَہِیْعَۃَ‘ عَنْ یَزِیْدَ بْنِ أَبِیْ حَبِیْبٍ‘ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ‘ عَنْ سَالِمٍ‘ عَنْ أَبِیْہِ‘ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ .
٣٠١٦ : سالم نے اپنے والد سے ‘ انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

3017

۳۰۱۷ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ‘ قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ‘ قَالَ : حَدَّثَنِیْ عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ أَنَّ أَبَا الزُّبَیْرِ حَدَّثَہٗ، أَنَّہٗ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللّٰہِ یَذْکُرُ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہٗ قَالَ (فِیْمَا سَقَتَ الْأَنْہَارُ وَالْغَیْمُ الْعُشُوْرُ‘ وَفِیْمَا سُقِیَ بِالسَّانِیَۃِ نِصْفُ الْعُشُوْرِ) .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَفِیْ ھٰذِہِ الْآثَارِ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ جَعَلَ فِیْمَا سَقَتِ السَّمَائُ مَا ذُکِرَ فِیْہَا‘ وَلَمْ یُقَدِّرْ فِیْ ذٰلِکَ مِقْدَارًا .فَفِیْ ذٰلِکَ مَا یَدُلُّ عَلٰی وُجُوْبِ الزَّکٰوۃِ فِیْ کُلِّ مَا خَرَجَ مِنَ الْأَرْضِ‘ قَلَّ أَوْ کَثُرَ .فَإِنْ قَالَ قَائِلٌ مِمَّنْ یَذْہَبُ إِلٰی قَوْلِ أَہْلِ الْمَدِیْنَۃِ : إِنَّ ھٰذِہِ الْآثَارَ الَّتِیْ رَوَیْتُہُا فِیْ ھٰذَا الْفَصْلِ‘ غَیْرُ مُضَادَّۃٍ لِلْآثَارِ الَّتِیْ رَوَیْتُہُا فِی الْفَصْلِ الْأَوَّلِ‘ إِلَّا أَنَّ الْأُوْلٰی مُفَسَّرَۃٌ‘ وَھٰذِہٖ مُجْمَلَۃٌ‘ فَالْمُفَسَّرُ مِنْ ذٰلِکَ أَوْلَی مِنَ الْمُجْمَلِ .قِیْلَ لَہٗ : ھٰذَا مُحَالٌ‘ لِأَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَخْبَرَ فِیْ ھٰذِہِ الْآثَارِ‘ أَنَّ ذٰلِکَ الْوَاجِبَ مِنَ الْعُشْرِ‘ أَوْ نِصْفِ الْعُشْرِ‘ فِیْمَا یُسْقَیْ بِالْأَنْہَارِ أَوْ بِالْعُیُوْنِ أَوْ بِالرِّشَائِ أَوْ بِالدَّالِیَۃِ‘ فَکَانَ وَجْہُ الْکَلَامِ عَلٰی کُلِّ مَا خَرَجَ مِمَّا سُقِیَ بِذٰلِکَ .وَقَدْ رَوَیْتُمْ أَنْتُمْ (عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہٗ رَدَّ مَاعِزًا عِنْدَ مَا جَائَ ‘ فَأَقَرَّ عِنْدَہُ بِالزِّنَا أَرْبَعَ مَرَّاتٍ‘ ثُمَّ رَجَمَہُ بَعْدَ ذٰلِکَ) .وَرَوَیْتُمْ (أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ لِأُنَیْسٍ اُغْدُہْ عَلَی امْرَأَۃِ ھٰذَا‘ فَإِنْ اعْتَرَفَتْ‘ فَارْجُمْہَا) .فَجَعَلْتُمْ ھٰذَا دَلِیْلًا‘ عَلٰی أَنَّ الِاعْتِبَارَ بِالْاِقْرَارِ بِالزِّنَا مَرَّۃً وَاحِدَۃً‘ لِأَنَّ ذٰلِکَ ظَاہِرُ قَوْلِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (فَإِنْ اعْتَرَفَتْ فَارْجُمْہَا) .وَلَمْ تَجْعَلُوْا حَدِیْثَ مَاعِزٍ الْمُفَسَّرَ‘ قَاضِیًا عَلٰی حَدِیْثِ أُنَیْسٍ الْمُجْمَلِ‘ فَیَکُوْنُ الِاعْتِرَافُ الْمَذْکُوْرُ فِیْ حَدِیْثِ أُنَیْسٍ الْمُجْمَلِ‘ ہُوَ الِاعْتِرَافَ الْمَذْکُوْرَ فِیْ حَدِیْثِ مَاعِزٍ الْمُفَسَّرِ .فَإِذْ کُنْتُمْ قَدْ فَعَلْتُمْ ھٰذَا فِیْمَا ذَکَرْنَا‘ فَمَا تُنْکِرُوْنَ عَلٰی مَنْ فَعَلَ فِیْ أَحَادِیْثِ الزَّکَوَاتِ مَا وَصَفْنَا‘ بَلْ حَدِیْثُ أُنَیْسٍ أَوْلٰی أَنْ یَّکُوْنَ مَعْطُوْفًا عَلٰی حَدِیْثِ مَاعِزٍ‘ لِأَنَّہٗ ذَکَرَ فِیْہِ الِاعْتِرَافَ .وَإِقْرَارُہُ مَرَّۃً وَاحِدَۃً لَیْسَ ہُوَ اعْتِرَافًا بِالزِّنَا الَّذِیْ یُوْجِبُ الْحَدَّ عَلَیْہِ فِیْ قَوْلِ مُخَالِفِکُمْ .وَحَدِیْثُ مُعَاذٍ وَابْنِ عُمَرَ وَجَابِرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ فِی الزَّکَاۃِ‘ إِنَّمَا فِیْہِ ذِکْرُ إِیْجَابِہَا فِیْمَا سُقِیَ بِکَذَا‘ وَفِیْمَا سُقِیَ بِکَذَا .فَذٰلِکَ أَوْلٰی أَنْ یَّکُوْنَ مُضَادًّا لِمَا فِیْہِ ذِکْرُ الْأَوْسَاقِ‘ مِنْ حَدِیْثِ أُنَیْسٍ‘ لِحَدِیْثِ مَاعِزٍ .وَقَدْ حُمِلَ حَدِیْثُ مُعَاذٍ وَجَابِرٍ وَابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ‘ عَلٰی مَا ذَکَرْنَا‘ وَذَہَبَ فِیْ مَعْنَاہُ إِلٰی مَا وَصَفْنَا‘ اِبْرَاہِیْمُ النَّخَعِیُّ‘ وَمُجَاہِدٌ .
٣٠١٧ : ابو الزبیر نے بیان کیا کہ انھوں نے جابر (رض) سے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد نقل کرتے سنا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس کو ندی اور بادل سیراب کرے اس میں عشر ہے اور جس کو راہٹ سے پلایا جائے اس میں نصف عشر ہے۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں ان روایات میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بارش سے سیراب ہونے والی کھیتی میں صدقے کو لازم فرمایا اس میں کسی مقدار کی تعیین نہیں فرمائی ۔ اس سے یہ دلالت ملتی ہے کہ زمین سے نکلنے والی ہر چیز پر صدقہ لازم ہے۔ اگر کوئی معترض یہ کہے کہ تم نے اس فصل میں جن روایات کو نقل کیا وہ شروع باب کی روایات سے متضا د نہیں بس یہ کہہ سکتے ہیں کہ پہلی روایات میں یہ وضاحت ہے اور ان میں اجمال پس مفصل مجمل سے اولیٰ ہیں۔ اس شخص کے جواب میں یہ کہا جائے گا کہ یہ بات ناممکن ہے کیونکہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان روایات میں یہ خبر دی کہ دسواں یابیسواں حصہ ان اراضی میں لازم ہے۔ جن کو چشموں ‘ ڈولوں اور راہٹ سے سیراب کیا جائے۔ اب رہا ان احادیث کو مجمل اور ان کو مفسر قرار دینا تو ہر مقام پر یہ محمول نہیں کیا جاتا ہاں فریق اوّل کے ہاں مفسر کا متروک ہو کر مجمل پر عمل ہونا تسلیم شدہ ہے ملاحظہ کریں ماعز اسلمی (رض) کا اقرار زنا چار مرتبہ ہے اور اس کو مسلم نے فی الحدود ص ١٧ میں نقل کیا ہے اور دوسری طرف انیس بن ضحاک اسلمی (رض) کی روایت میں عورت والے واقعہ میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کل صبح جا کر اس عورت سے دریافت کرلو اگر وہ اقرار کرلے تو اس کو رجم کردینا مسلم فی الحدود نمبر ٢٥ میں یہ روایت موجود ہے چنانچہ اس عورت نے اقرار کیا تو اس کو سنگسار کردیا گیا تمہارے ہاں حدیث انیس (رض) کے پیش نظر چار مرتبہ اقرار ضروری نہیں بلکہ ایک مرتبہ کو کافی کہتے ہو اس قاعدہ کو باب الزکوۃ میں کیوں مسلم نہیں مانتے ہو کہ مجمل کو مفسر پر محمول کر کے اقرار کو چار مرتبہ ضروری قرار نہیں دیتے تو یہاں بھی ان روایات کو جو بقول تمہارے مجمل ہیں اسی عام پر حکم پر رکھیں گے اور تخصیص مقدار والی روایات پر محمول نہ کریں گے پس روایات معاذ ‘ ابن عمر ‘ جابر جو ہر پیداوار میں عشر ثابت کرتی ہیں خواہ اس کی مقدار کم ہو یا زیادہ انہی کو افضل قرار دے کر ان کو معمول بہا ٹھہرایا جائے گا اوساق والی روایات سے استدلال درست نہ ہوگا چنانچہ تابعین میں امام ابراہیم و مجاہد رحمہم اللہ نے اسی کے موافق فتویٰ اختیار کیا ہے۔
ان روایات سے ثابت ہوتا ہے جس کو بارش سے سیرابی ملے خواہ وہ مقدار میں قلیل ہو یا کثیر اس میں عشر ہے اس کی کوئی مقدار مقر نہیں ہے۔
اشکال :
فصل اول کی روایات تو مفصل ہیں اور فصل ثانی کی روایات مجمل ہیں تو مجمل کو مفسر پر محمول کرنا چاہیے پس پانچ وسق سے کم مقدار میں عشر واجب نہیں ہوگا۔
حل اشکال :
یہ بات ناممکن ہے کیونکہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان آثار میں بتلایا کہ عشر یا نصف عشر کا وجوب ہر اس مال میں ہے جو نہر یا چشمہ یا ڈول یا راہٹ سے سیراب کیا گیا ہو اور ہر اس مقدار کے لیے ہے جو ان پانیوں سے سیراب ہوئی ہو۔
اب رہا ان احادیث کو مجمل اور ان کو مفسر قرار دینا تو ہر مقام پر یہ محمول نہیں کیا جاتا ہاں فریق اوّل کے ہاں مفسر کا متروک ہو کر مجمل پر عمل ہونا تسلیم شدہ ہے ملاحظہ کریں ماعز اسلمی (رض) کا اقرار زنا چار مرتبہ ہے اور اس کو مسلم نے فی الحدود ص ١٧ میں نقل کیا ہے اور دوسری طرف انیس بن ضحاک اسلمی (رض) کی روایت میں عورت والے واقعہ میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کل صبح جا کر اس عورت سے دریافت کرلو اگر وہ اقرار کرلے تو اس کو رجم کردینا مسلم فی الحدود نمبر ٢٥ میں یہ روایت موجود ہے چنانچہ اس عورت نے اقرار کیا تو اس کو سنگسار کردیا گیا تمہارے ہاں حدیث انیس (رض) کے پیش نظر چار مرتبہ اقرار ضروری نہیں بلکہ ایک مرتبہ کو کافی کہتے ہو اس قاعدہ کو باب الزکوۃ میں اس قاعدہ کو کیوں مسلم نہیں مانتے ہو کہ مجمل کو مفسر پر محمول کر کے اقرار کو چار مرتبہ ضروری قرار نہیں دیتے تو یہاں بھی ان روایات کو جو بقول تمہارے مجمل ہیں اسی عام پر حکم پر رکھیں گے اور تخصیص مقدار والی روایات پر محمول نہ کریں گے پس روایات معاذ ‘ ابن عمر ‘ جابر ] جو ہر پیداوار میں عشر ثابت کرتی ہیں خواہ اس کی مقدار کم ہو یا زیادہ انہی کو افضل قرار دے کر ان کو معمول بہا ٹھہرایا جائے گا اوساق والی روایات سے استدلال درست نہ ہوگا چنانچہ تابعین میں امام ابراہیم و مجاہد رحمہم اللہ کو اسی کے موافق فتویٰ دیتے ہوئے پاتے ہیں جو چند سطور کے بعد ہم نقل کریں گے۔
نیز فریق ثانی کی روایات کو قبولیت حاصل ہوئی حضرت عمر بن عبدالعزیز (رح) نے اپنے عمال کو اس کے مطابق حکم فرمایا۔
پانچ وسق والی روایت کا حکم ساعی و مصدق کو ہے کہ اگر وہ غلہ کی مقدار اس سے کم پائے تو صدقہ وصول نہیں کرسکتا بلکہ مالک خود فقراء میں تقسیم کر دے۔
ابراہیم و مجاہد کی روایات یہ ہیں۔

3018

۳۰۱۸ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ‘ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَعِیْدِ بْنِ الْأَصْبَہَانِیِّ‘ قَالَ : أَنَا شَرِیْکٌ‘ عَنْ مَنْصُوْرٍ‘ عَنْ اِبْرَاہِیْمَ‘ قَالَ (فِیْ کُلِّ شَیْئٍ أَخْرَجَتِ الْأَرْضُ الصَّدَقَۃُ) .
٣٠١٨: شریک نے منصور سے انھوں نے ابراہیم سے نقل کیا ہر چیز جو زمین نکالے اس میں صدقہ ہے۔

3019

۳۰۱۹ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حُمَیْدٍ‘ قَالَ : ثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ‘ قَالَ : ثَنَا مُوْسَی بْنُ أَعْیَنَ‘ عَنْ خُصَیْفٍ‘ عَنْ مُجَاہِدٍ‘ قَالَ : سَأَلْتُہٗ عَنْ زَکٰوۃِ الطَّعَامِ فَقَالَ (فِیْمَا قَلَّ مِنْہُ أَوْ کَثُرَ‘ الْعُشْرُ وَنِصْفُ الْعُشْرِ) .وَالنَّظْرُ الصَّحِیْحُ أَیْضًا یَدُلُّ عَلٰی ذٰلِکَ‘ وَذٰلِکَ أَنَّا رَأَیْنَا الزَّکَوَاتِ تَجِبُ فِی الْأَمْوَالِ وَالْمَوَاشِیْ‘ فِیْ مِقْدَارٍ مِنْہَا مَعْلُوْمٍ‘ بَعْدَ وَقْتٍ مَعْلُوْمٍ‘ وَہُوَ الْحَوْلُ‘ فَکَانَتْ تِلْکَ الْأَشْیَائُ تَجِبُ بِمِقْدَارٍ مَعْلُوْمٍ‘ وَوَقْتٍ مَعْلُوْمٍ .ثُمَّ رَأَیْنَا مَا تُخْرِجُ الْأَرْضُ‘ یُؤْخَذُ مِنْہُ الزَّکَاۃُ‘ فِیْ وَقْتِ مَا تُخْرِجُ‘ وَلَا یُنْتَظَرُ بِہٖ وَقْتٌ .فَلَمَّا سَقَطَ أَنْ یَّکُوْنَ لَہٗ وَقْتٌ یَجِبُ فِیْہِ الزَّکَاۃُ بِحُلُوْلِہٖ، سَقَطَ أَنْ یَّکُوْنَ لَہٗ مِقْدَارٌ یَجِبُ الزَّکَاۃُ فِیْہِ بِبُلُوْغِہٖ .فَیَکُوْنُ حُکْمُ الْمِقْدَارِ وَالْمِیْقَاتِ فِیْ ھٰذَا سَوَائً ‘ اِذَا سَقَطَ أَحَدُہُمَا سَقَطَ الْآخَرُ‘ کَمَا کَانَا فِی الْأَمْوَالِ الَّتِیْ ذَکَرْنَا‘ سَوَائً ‘ لِمَا ثَبَتَ أَحَدٌ ثَبَتَ الْآخَرُ .فَھٰذَا ہُوَ النَّظْرُ‘ وَہُوَ قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ رَحِمَہُ اللّٰہُ تَعَالٰی .
٣٠١٩: خصیف نے مجاہد سے نقل کیا کہ میں نے ان سے کھانے کی اشیاء کے صدقہ سے متعلق سوال کیا تو انھوں نے فرمایا اس کے قلیل و کثیر میں عشر اور نصف عشر ہے۔ درست غور وفکر بھی اسی بات پر دلالت کرتا ہے کہ ہم یہ جانتے ہیں کہ اموال اور مویشوں میں زکوۃ کی مقررہ مقدار سال گزرنے کے بعد لازم ہے۔ تو ان اشیاء میں ایک مقدار معلوم ایک مخصوص وقت میں لازم ہے پھر ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ زمین کی پیداوار میں جو زکوۃ لی جاتی ہے وہ اسی وقت ہے جب وہ پیداوار ہو اس کے لیے کسی وقت کا انتظار نہیں کیا جاتا جب اس کی زکوۃ کے لیے وقت ساقط ہوگیا تو اس کی مقدار واجبہ بھی ساقط ہونی چاہیے جس تک پہنچنے پر زکوۃ دی جائے ۔ پس اس میں وقت و مقدار کا حکم یکساں ہوگا جب ایک ساقط ہوگا تو دوسرا بھی ساقط ہوجائے گا ۔ جیسا کہ مذکورہ اموال میں یہ دونوں چیزیں برابر ہیں۔ کہ جب ایک ثابت ہو تو دوسری بھی ثابت ہوجائے نظر کا یہی تقاضا ہے یہی امام ابوحنیفہ (رح) کا قول ہے۔
نظر طحاوی (رح) :
جانوروں اور اموال تجارت اور اموال باطنہ میں وجوب زکوۃ کے لیے سال گزرنے کی شرط ہے مالک نصاب ہونا کافی نہیں ہے اور پیداوار زمینی میں وجوب عشر کے لیے سال بھر گزرنے کی شرط کسی کے ہاں بھی نہیں بلکہ جس وقت پیداوار تیار ہوجائے اسی وقت لازم ہے اور مویشی اور اموال تجارات میں بھی حولان حول کی شرط ہے اور مقدار نصاب بھی شرط کی گئی ہے پس پیداوار اراضی میں جس طرح سال گزرنے کی شرط نہیں ہے بالکل اس میں نصاب کی مقدار کی شرط پانچ وسق وہ بھی نہ ہوگی۔ جس میں ایک شرط لازم ہوتی ہے اس میں دوسری شرط بھی ساتھ لازم ہوتی ہے اور جس میں ایک شرط نہیں ہے اس میں دوسری شرط بھی ساتھ لازم نہیں ہوگی۔
یہی امام ابوحنیفہ کا مسلک ہے اور احوط مسلک یہی ہے۔
اصطلاحات کی وضاحت :
وسق : ایک وسق کا وزن ایک کو نٹل ٨٨ کلو ٩٥٦ کرام ٨٠٠ ملی گرام ہوتا ہے ٥ وسق کا وزن ٩ کو نٹل ٤٤ کلو ٧٨٤ گرام۔
صاع : ١٢ ماشہ کے تولہ سے ٢٧٠ تولہ ہوتا ہے۔ ٣ کلو ١٤٩ گرام ٨٠٠ ملی گرام ہے۔
تولہ : ١٢ ماشے۔ ١١ گرام ٦٦٤ ملی گرام ہے۔ ایضاح النوادر ص ١٨ ج ١۔
اوقیہ : ٤٠ درہم ٥ اوقیہ۔ ٢٠٠ درہم۔
١۔ تولہ۔ ١٢٢ گرام ٤٧٢ ملی گرام جبکہ تولہ ١٢ ماشہ کا ہو۔ (مترجم)
فریق اوّل کی روایات پانچ صحابہ سے مروی ہیں اور فریق ثانی کی روایات تین صحابہ کرام سے مروی ہیں فریق دوم کی روایات میں معاذ بن جبل (رض) کی روایت کی وجہ سے وزن زیادہ ہے کیونکہ وہ وفات سے تھوڑے دنوں پہلے کی ہے واللہ اعلم بالصواب امام طحاوی (رح) کا رجحان فریق ثانی کی طرف ہے۔

3020

۳۰۲۰ : حَدَّثَنَا یَزِیْدُ بْنُ سِنَانٍ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ بَکْرٍ الْحَنَفِیُّ‘ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ نَافِعٍ‘ عَنْ أَبِیْہِ‘ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ : (کَانَتِ الْمَزَارِعُ تُکْرٰی عَلٰی عَہْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ عَلٰی أَنَّ لِرَبِّ الْأَرْضِ‘ مَا عَلَی السَّاقِیْ مِنَ الزَّرْعِ‘ وَطَائِفَۃٍ مِنَ التِّبْنِ‘ لَا أَدْرِیْ کَمْ ہُوَ ؟ .قَالَ نَافِعٌ : فَجَائَ رَافِعُ بْنُ خَدِیْجٍ‘ وَأَنَا مَعَہٗ، فَقَالَ : إِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَعْطٰی خَیْبَرَ یَہُوْدٍ‘ عَلٰی أَنَّہُمْ یَعْمَلُوْنَہَا وَیَزْرَعُوْنَہَا‘ عَلٰی أَنَّ لَہُمْ نِصْفَ مَا یَخْرُجُ مِنْہَا مِنْ ثَمَرٍ أَوْ زَرْعٍ‘ عَلٰی أَنْ نُقِرَّکُمْ فِیْہَا مَا بَدَا لَنَا .قَالَ : فَخَرَصَہَا عَلَیْہِمْ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ رَوَاحَۃَ‘ فَصَاحُوْا إِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ خَرْصِہٖ؟ .فَقَالَ لَہُمْ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ رَوَاحَۃَ : أَنْتُمْ بِالْخِیَارِ‘ إِنْ شِئْتُمْ فَہِیَ لَکُمْ‘ وَإِنْ شِئْتُمْ فَہِیَ لَنَا‘ نَخْرُصُہَا وَنُؤَدِّیْ إِلَیْکُمْ نِصْفَہَا .فَقَالُوْا : بِھٰذَا قَامَتِ السَّمَوَاتُ‘ وَالْأَرْضُ) .
٣٠٢٠: نافع نے ابن عمر (رض) سے نقل کیا ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں زمین ٹھیکہ پر دی جاتی تھی اس کا طریقہ یہ تھا کہ زمین کے مالک کو اتنی مقدار ملے گی جتنی کھیت کے پانی کے کنارے کے قریب ہے اور کچھ بھوسہ دیا جائے گا مجھے معلوم نہیں اس کی مقدار کیا تھی نافع کہتے ہیں کہ رافع بن خدیج آئے اور میں ان کے ساتھ تھا تو انھوں نے کہا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہود کو خیبر کی زمینیں اس شرط پر عنایت فرمائیں کہ وہ کام کریں گے اور کھیتی لگائیں گے اور کل پیداوار کا نصف مسلمانوں کو دیں گے خواہ غلہ ہو یا پھل اور جب تک مناسب ہوگا ہم تمہیں یہاں ٹھہرائیں گے پھر جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عبداللہ بن رواحہ کو اندازہ کرنے کے لیے مقرر فرمایا تو انھوں نے ان کے اندازے کی جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں فریاد کی ؟ تو جناب عبداللہ نے فرمایا تمہیں اس میں اختیار ہے اگر چاہو تم لے لو اور اگر ہم چاہیں گے ہم لے لیں گے ہم اندازہ کریں گے اور اس کا نصف جو بنے گا وہ تمہیں ادا کردیں گے وہ کہنے لگے یہی وہ عدل و انصاف ہے جس کی وجہ سے آسمان و زمین قائم ہیں۔
تخریج : ابن ماجہ فی الزکوۃ باب ١٨‘ نمبر ١٨٢٠۔

3021

۳۰۲۱ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَوْنٍ الزِّیَادِیُّ‘ قَالَ : ثَنَا اِبْرَاہِیْمُ بْنُ طَہْمَانَ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُو الزُّبَیْرِ‘ عَنْ جَابِرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ (أَفَائَ اللّٰہُ خَیْبَرَ فَأَقَرَّہُمْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ کَمَا کَانُوْا‘ وَجَعَلَہَا بَیْنَہٗ وَبَیْنَہُمْ .فَبَعَثَ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ رَوَاحَۃَ فَخَرَصَہَا عَلَیْہِمْ ثُمَّ قَالَ یَا مَعْشَرَ الْیَہُوْدِ‘ أَنْتُمْ أَبْغَضُ الْخَلْقِ إِلَیَّ‘ قَتَلْتُمْ أَنْبِیَائَ اللّٰہِ‘ وَکَذَبْتُمْ عَلَی اللّٰہِ‘ وَلَیْسَ یَحْمِلُنِیْ بُغْضِیْ إِیَّاکُمْ أَنْ أَحِیْفَ عَلَیْکُمْ‘ وَقَدْ خَرَصْتُ عَلَیْکُمْ بِعِشْرِیْنَ أَلْفِ وَسْقٍ مِنْ تَمْرٍ‘ فَإِنْ شِئْتُمْ فَلَکُمْ‘ وَإِنْ شِئْتُمْ فَلِیْ) .
٣٠٢١: ابوالزبیر نے جابر (رض) سے روایت کی ہے اللہ تعالیٰ نے مال فئی کے طور پر خیبر عنایت فرمایا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو ان زمینوں پر برقرار رکھا جیسا پہلے تھے اور اس پیداوار کو اپنے اور ان کے مابین بانٹ لیا پھر آپ نے عبداللہ بن رواحہ (رض) کو بھیجا انھوں نے اندازہ لگایا پھر فرمایا اے یہود ! تم میرے ہاں مخلوق میں مبغوض ترین لوگ ہو تم نے انبیاء (علیہم السلام) کو قتل کیا اور اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھے مگر میرا بغض تمہارے متعلق مجھے اس بات پر آمادہ نہ کرے گا کہ میں پر ظلم کروں میں نے تمہارے متعلق اندازہ لگایا کہ کھجور کی مقدار بیس ہزار وسق ہوگی اگر تم چاہو تم لے لو اور اگر چاہو مجھے دے دو ۔

3022

۳۰۲۲ : حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوٗدَ‘ قَالَ : ثَنَا اِبْرَاہِیْمُ بْنُ الْمُنْذِرِ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ نَافِعٍ‘ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ صَالِحٍ‘ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ‘ عَنْ سَعِیْدِ بْنِ الْمُسَیِّبِ‘ (عَنْ عَتَّابِ بْنِ أُسَیْدٍ‘ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَمَرَہٗ أَنْ یَخْرُصَ الْعِنَبَ زَبِیْبًا‘ کَمَا یَخْرُصَ الرُّطَبَ) .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ‘ أَنَّ الثَّمَرَۃَ الَّتِیْ یَجِبُ فِیْہَا الْعُشْرُ‘ ہٰکَذَا حُکْمُہَا‘ تُخْرَصُ وَہِیَ رُطَبٌ تَمْرًا‘ فَیُعْلَمُ مِقْدَارُہَا‘ فَتُسَلَّمُ إِلٰی رَبِّہَا‘ وَیُمْلَکُ بِذٰلِکَ حَقُّ اللّٰہِ تَعَالٰی فِیْہَا‘ وَیَکُوْنُ عَلَیْہِ مِثْلُہَا مَکِیْلَۃً ذٰلِکَ تَمْرًا‘ وَکَذٰلِکَ یُفْعَلُ فِی الْعِنَبِ‘ وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِھٰذِہِ الْآثَارِ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ‘ فَکَرِہُوْا ذٰلِکَ وَقَالُوْا : لَیْسَ فِیْ شَیْئٍ مِنْ ھٰذِہِ الْآثَارِ أَنَّ التَّمْرَۃَ کَانَتْ رُطَبًا فِیْ وَقْتِ مَا خُرِصَتْ فِیْ حَدِیْثِ ابْنِ عُمَرَ وَجَابِرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا .وَکَیْفَ یَجُوْزُ أَنْ یَّکُوْنَ کَانَتْ رُطَبًا حِیْنَئِذٍ‘ فَتُجْعَل لِصَاحِبِہَا حَقَّ اللّٰہِ فِیْہَا بِمَکِیْلَۃِ ذٰلِکَ تَمْرًا یَکُوْنُ عَلَیْہِ نَسِیْئَۃً .وَقَدْ (نَہٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ بَیْعِ التَّمْرِ فِیْ رُئُ وْسِ النَّخْلِ بِالتَّمْرِ کَیْلًا) ، (وَنَہٰی عَنْ بَیْعِ الرُّطَبِ بِالتَّمْرِ نَسِیْئَۃً) ، وَجَائَ تْ بِذٰلِکَ عَنْہُ الْآثَارُ الْمَرْوِیَّۃُ الصَّحِیْحَۃُ‘ قَدْ ذَکَرْنَا ذٰلِکَ فِیْ غَیْرِ ھٰذَا الْمَوْضِعِ مِنْ کِتَابِنَا ھٰذَا‘ وَلَمْ یَسْتَثْنِ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ ذٰلِکَ شَیْئًا .فَلَیْسَ وَجْہُ مَا رَوَیْنَا فِی الْخَرْصِ عِنْدَنَا‘ عَلٰی مَا ذَکَرْتُمْ‘ وَلٰـکِنَّ وَجْہَ ذٰلِکَ عِنْدَنَا - وَاللّٰہُ أَعْلَمُ - أَنَّہٗ إِنَّمَا أُرِیْدَ بِخَرْصِ ابْنِ رَوَاحَۃَ‘ لِیَعْلَمَ بِہٖ مِقْدَارَ مَا فِیْ أَیْدِی کُلِّ قَوْمٍ مِنَ الثِّمَارِ‘ فَیُؤْخَذُ مِثْلُہٗ بِقَدْرِہٖ فِیْ وَقْتِ الصِّرَامِ‘ لَا أَنَّہُمْ یَمْلِکُوْنَ مِنْہُ شَیْئًا مِمَّا یَجِبُ لِلّٰہِ فِیْہِ بِبَدَلٍ لَا یَزُوْلُ ذٰلِکَ الْبَدَلُ عَنْہُمْ .وَکَیْفَ یَجُوْزُ ذٰلِکَ ؟ وَقَدْ یَجُوْزُ أَنْ تُصِیْبَ بَعْدَ ذٰلِکَ آفَۃٌ فَتُتْلِفَہَا‘ أَوْ نَارٌ فَتُحْرِقَہَا‘ فَتَکُوْنُ مَا یُؤْخَذُ مِنْ صَاحِبِہَا بَدَلًا مِنْ حَقِّ اللّٰہِ تَعَالٰی فِیْہَا مَأْخُوْذًا مِنْہُ‘ بَدَلًا مِمَّا لَمْ یُسَلَّمْ لَہٗ .وَلٰـکِنَّہٗ إِنَّمَا أُرِیْدَ بِذٰلِکَ الْخَرْصِ مَا ذَکَرْنَا‘ وَکَذٰلِکَ فِیْ حَدِیْثِ عَتَّابِ بْنِ أُسَیْدٍ‘ فَہُوَ عَلٰی مَا وَصَفْنَا مِنْ ذٰلِکَ أَیْضًا. وَقَدْ دَلَّ عَلٰی ذٰلِکَ أَیْضًا۔
٣٠٢٢: سعید بن المسیب سے عتاب بن اسید (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے حکم دیا کہ انگور کا اندازہ کشمش کے طور پر لگایا جائے جیسا کہ تازہ کھجور سے کھجور کا اندازہ کیا جاتا ہے۔ امام طحاوی (رح) نے فرمایا علماء کی ایک جماعت نے فرمایا کہ جس پھل میں عشر واجب ہے۔ اس کا حکم یہ ہے کہ جب وہ تر کھجور کی صورت میں ہو تو اس کی مقدار معلوم کرلی جائے اور اس کے مالک کے ان کو سپرد کردیا جائے اس سے ان میں اللہ تعالیٰ کا حق اس مالک پر لازم ہوجائے گا۔ جب وہ یک جائیں اسی کیل سے کھجور اس پر لازم ہوگی انگوروں کے سلسلہ میں بھی اسی طرح کیا جائے گا۔ انھوں نے ان آثار کو دلیل نہ بنایا مگر دوسرے علماء نے ان سے اختلاف کرتے ہوئے اس کو مکروہ قرار دیا اور کہا کہ ان آثار میں اس سلسلہ کی کوئی بات نہیں ہے کہ کھجور کو ترحالت میں اندازہ کیا جائے۔ نہ تو حدیث ابن عمر میں اور نہ جابر (رض) میں تو پھر یہ کہنا کیسے درست ہوا کہ تر کھجور سے ہی ان کھجوروں کے مالک پر کیل کے ذریعے سے حق لازم کردیا جائے اور وہ پکی ہوئی کھجور تو اس کے ذمہ ادھار ہوجائے گی حالانکہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے درخت کے اوپر کھجور کے بدلے میں کھجور کو کیل کرنے سے منع فرمایا اسی طرح آپ نے تر کھجوروں کو خشک کھجور کے بدلے ادھار فروخت سے منع فرمایا اور اس سلسلے میں بہت ساری صحیح روایات وارد ہیں جن کو ہم نے اپنی اسی کتاب میں دوسرے مقام پر ذکر کیا ہے۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کسی صورت کو مستثنیٰ نہیں فرمایا ۔ فلہذا ہمارے ہاں اندازہ کرے کے سلسلے میں وہ صورت نہیں ہے جو تم نے بیان کی ہے بلکہ ہمارے اس کہنے کا مطلب یہ ہے (واللہ اعلم) کہ حضرت عبداللہ بن رواحہ سے اندازہ لگوانے کا مطلب یہی تھا تاکہ یہ معلوم ہوجائے کہ جماعت کے پاس کتنا پھل ہے تاکہ کٹائی کے وقت اتنا پھل ان سے لے لیا جائے ۔ اس کا یہ معنیٰ نہیں ہے کہ وہ اندازہ کرنے سے اس چیز کے مالک بن گئے جس میں اللہ کا حق ان پر واجب ہوگیا اور جس کا بدل ادا کرنا ان کو ضروری ہوگیا ۔ آپ ہی فرمائیں کہ یہ کس طرح جائز ہے کہ اس کے بعد کہ آفت سے وہ پھل ہلاک ہوجائے یا آگ سے جل جائے تو گویا مالک سے ایسی چیز کا بدل لیا جا رہا ہے جو اس نے وصول ہی نہیں کی۔ پس اس اندازہ سے وہی مراد ہے جو ہم نے مراد لیا اور حضرت عتاب بن اسید (رض) کی روایت میں اسی بات کا تذکرہ ہے جو ہم نے بیان کی اور یہ روایت بھی اس پر دلالت کر رہی ہے۔
تخریج : ابو داؤد فی الزکوۃ باب ١٤‘ نمبر ١٦٠٣۔
حاصل روایات : کھجور کا اندازہ رطب (تازہ کھجور) کی صورت میں لگایا جائے گا اور انگور کا اندازہ بھی بطور کشمش لگایا جائے گا مکمل تیار ہونے کا انتظار نہ کیا جائے گا جیسا کہ آثار بالا اس پر دلالت کرتے ہیں۔
سابقہ مؤقف کا جواب :
فریق اوّل کے استدلال کے لیے ابن عمر (رض) اور جابر (رض) کی روایات میں کوئی گنجائش نہیں اور ہو بھی کیسے سکتی ہے کھجور تو ابھی رطب حالت میں ہے اور اس کے بدلے میں پختہ کھجور دی جا رہی ہے اور رطب ابھی درختوں کی ٹہنیوں پر ہے یہ بیع مزابنہ بن جائے گی جو کہ شرع میں ممنوع ہے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کھجور کی اس وقت بیع سے منع فرمایا جبکہ ابھی وہ درخت سے اتاری نہ گئی ہو اور رطب کو پکی کھجور کے بدلے ادھار بیچنے سے منع فرمایا ہے اور اس سلسلہ میں کئی روایات وارد ہیں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عشر میں کوئی چیز مستثنیٰ نہیں کی ہے۔
خرص کی وجہ وہ نہیں جو تم بیان کرتے ہو بلکہ اس کی وجہ دیگر ہے تاکہ ہمیں ان پھلوں کے متعلق اندازہ ہوجائے کہ ان کے پاس ہمارے پھل کتنے ہیں جب پھل توڑا جائے تو اس اندازہ کے مطابق ان سے لے لیا جائے یہ مطلب نہیں کہ وہ اس میں سے اللہ تعالیٰ کے حق کے مالک بن جائیں ایسے بدل کے ذریعہ مالک بن جائیں جو بدل ان سے زائل نہ ہو۔
اور اس کو درست کس طرح قرار دیا جاسکتا ہے جبکہ ابھی پھل اپنی میعاد کو نہیں پہنچا اس دوران اگر پھل کسی آفت سے تباہ ہوجائے یا بگولہ سے جل جائے تو اللہ تعالیٰ کے حق کا ہم نے وہ بدل وصول کرلیا جو مال ابھی مالک کے سپرد نہیں ہوا اور نہ اس کو پہنچا تو یہ وصولی کس چیز پر ہوگی۔
بلکہ خرص سے مراد وہی ہے کہ مزارع اور کارندہ اس میں خیانت کا مرتکب نہ ہو اسی وجہ سے اتنے دنوں کی مؤنت اس کے لیے مستثنیٰ کی گئی روایت عتاب بن اسید (رض) کا بھی یہی معنی ہے اس کی دلیل اگلی روایت ہے۔

3023

۳۰۲۳ : مَا حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا وَہْبُ بْنُ جَرِیْرٍ‘ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ‘ عَنْ خُبَیْبِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ‘ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ مَسْعُوْدِ بْنِ نِیَارٍ‘ عَنْ سَہْلٍ بْنِ أَبِیْ حَثْمَۃَ‘ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (اِذَا خَرَصْتُمْ فَخُذُوْا‘ وَدَعُوا الثُّلُثَ‘ فَإِنْ لَمْ تَدْعُوَا الثُّلُثَ‘ فَدَعُوْا الرُّبُعَ) .فَقَدْ عَلِمْنَا أَنَّ ذٰلِکَ لَا یَکُوْنُ فِیْ وَقْتِ مَا یُؤْخَذُ الزَّکَاۃُ‘ لِأَنَّ ثَمَرَتَہٗ لَوْ بَلَغَتْ مِقْدَارَ مَا یَجِبُ فِیْہِ الزَّکَاۃُ‘ لَمْ یُحَطَّ عَنْہُ شَیْء ٌ مِمَّا وَجَبَ عَلَیْہِ فِیْہَا‘ فَأَخَذَ مِنْہُ مَا وَجَبَ عَلَیْہِ فِیْہَا بِکَمَالِہٖ، ھٰذَا مِمَّا اتَّفَقَ عَلَیْہِ الْمُسْلِمُوْنَ .وَلٰـکِنَّ الْحَطِیْطَۃَ الْمَذْکُوْرَۃَ فِیْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ إِنَّمَا ہِیَ قَبْلَ ذٰلِکَ فِیْ وَقْتِ مَا یَأْکُلُ مِنَ الثَّمَرَۃِ أَہْلُہَا‘ قَبْلَ أَوَانِ أَخْذِ الزَّکٰوۃِ مِنْہَا .فَأَمَرَ الْخُرَّاصَ أَنْ یُلْقُوْا مِمَّا یَخْرُصُوْنَ‘ الْمِقْدَارَ الْمَذْکُوْرَ فِیْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ‘ لِئَلَّا یُحْتَسَبَ بِہٖ عَلٰی أَہْلِ الثِّمَارِ فِیْ وَقْتِ أَخْذِ الزَّکٰوۃِ مِنْہُمْ .وَقَدْ رُوِیَ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا أَنَّہٗ کَانَ یَأْمُرُ الْخُرَّاصَ بِذٰلِکَ أَیْضًا .
٣٠٢٣: عبدالرحمن بن مسعود بن دینار نے سہل بن ابی حثمہ (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب تم اندازہ کرلو تو کم از کم ثلث کو چھوڑ دو اور اگر تم ثلث نہ چھوڑو تو ربع تو ضرور چھوڑ دو ۔ ہمیں معلوم ہوگیا کہ یہ اس وقت کا حکم نہیں جب زکوۃ لی جائے کیونکہ جب پھل کی مقدار اتنی ہوجائے جس پر زکوۃ لازم ہے تو جتنی زکوۃ لازم ہے اس سے کم نہیں کیا جاسکتا بلکہ پورے واجب کو وصول کیا جائے گا اس پر پوری امت کا اتفاق ہے تو اس روایت میں جتنی مقدار کو چھوڑنے کا تذکرہ ہے تو وہ اس وقت کی بات ہے جب زکوۃ کی ادائیگی سے پہلے مالکوں کو اس سے کھانے کی ضرورت پڑتی ہے تو اندازہ لگانے والے کو حکم دے دیا کہ پھل کی جس مقدار کا وہ اندازہ لگائیں اس میں ثلث یا ربع کو چھوڑ دیں تاکہ باغات کا عشر وصول کرتے ہوئے اس کو حساب میں شامل نہ کیا جائے ۔ حضرت فاروق اعظم (رض) اندازہ لگانے والے کو اس بات کا حکم فرماتے تھے ‘ جیسا کہ اگلے اثر سے واضح ہے۔
تخریج : ترمذی فی الزکوۃ باب ١٧‘ نمبر ٦٤٣‘ نسائی فی الزکوۃ باب ٢٦‘ دارمی فی البیوع باب ٧٦‘ مسند احمد ٣؍٤٤٨‘ ٤؍٢‘ ٣۔
اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ اندازہ اس وقت نہیں جبکہ زکوۃ لی جاتی ہے کیونکہ اگر وہ پھل اسی اندازے کے مطابق کٹنے کے وقت نکل آیا تو اس وقت اس میں سے کچھ کم نہ کیا جائے گا اس کے تمام پر عشر ہوگا اس پر تو تمام امت مسلمہ کا اتفاق ہے۔
بقیہ وہ کمی جس کا تذکرہ اس روایت میں وارد ہے وہ پھل کے پکنے کے قریب قریب ہونے کے موقعہ پر ہے اور وہ زکوۃ سے پہلے کا زمانہ ہے۔
پس اس سے ثابت ہوا کہ اندازے کا حکم اسے کٹائی سے پہلے ہے اسی لیے خراص کو ثلث یا ربع منہا کرنے کا حکم دیا تاکہ وہ بوقت زکوۃ اس میں شمار نہ ہو اور حضرت عمر (رض) سے بھی یہ مروی ہے کہ وہ خراص کو یہ حکم فرماتے تھے۔

3024

۳۰۲۴ : حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ الْفَرَجِ‘ قَالَ : ثَنَا یُوْسُفَ بْنُ عَدِیٍّ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ بَکْرِ بْنُ عَیَّاشٍ‘ عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیْدٍ‘ عَنْ بُشَیْرِ بْنِ یَسَارٍ‘ عَنْ سَعِیْدِ بْنِ الْمُسَیِّبِ‘ قَالَ : بَعَثَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ سَہْلَ بْنَ أَبِیْ حَثْمَۃَ یَخْرُصُ عَلَی النَّاسِ‘ فَأَمَرَہٗ- اِذَا وَجَدَ الْقَوْمَ فِیْ نَخْلِہِمْ- أَنْ لَا یَخْرُصَ عَلَیْہِمْ مَا یَأْکُلُوْنَ‘ فَھٰذَا أَیْضًا دَلِیْلٌ عَلٰی مَا ذَکَرْنَا .وَقَدْ رُوِیَ عَنْ أَبِیْ حُمَیْدٍ السَّاعِدِیِّ أَیْضًا فِیْ صِفَۃِ خِرْصِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا یَدُلُّ عَلٰی مَا ذَکَرْنَا .
٣٠٢٤: سعید بن المسیب (رح) کہتے ہیں کہ عمر (رض) نے سہل بن حثمہ (رض) کو حکم دیا وہ لوگوں کے پھلوں کا اندازہ لگائے اور فرمایا جب لوگوں کو کھجوروں میں پاؤ تو جو وہ کھا لیں اس کو خرص میں شمار نہ کرو۔ یہ ہماری بات کی دلیل ہے اور حضرت ابو حمید ساعدی نے بھی جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی بات نقل کی ہے۔
یہ روایت بھی کھلی دلیل ہے کہ وہاں اندازہ کٹنے سے قبل مراد ہے جبکہ پھل کھانے کے قابل ہوجائے اسی لیے کھانے پینے کو مستثنیٰ کردیا اور حضرت ابو حمید ساعدی (رض) کی روایت بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خرص کے سلسلہ میں اس کی مؤید ہے۔

3025

۳۰۲۵ : وَحَدَّثَنَا اِبْرَاہِیْمُ بْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ‘ وَعَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ عَمْرٍو الدِّمَشْقِیُّ‘ قَالَا : ثَنَا الْوُحَاظِیُّ .ح .وَحَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ‘ وَأَحْمَدُ بْنُ دَاوٗدَ‘ قَالَا : ثَنَا الْقَعْنَبِیُّ‘ قَالَا : ثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ بِلَالٍ‘ قَالَ : ثَنَا عَمْرُو بْنُ یَحْیَی الْمَازِنِیُّ‘ عَنْ عَبَّاسِ بْنِ سَہْلِ بْنِ سَعْدِ السَّاعِدِیِّ‘ (عَنْ أَبِیْ حُمَیْدٍ السَّاعِدِیِّ‘ قَالَ : خَرَجْنَا مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ غَزْوَۃِ تَبُوکِ فَأَتَیْنَا وَادِیَ الْقُرٰی عَلٰی حَدِیْقَۃِ امْرَأَۃٍ‘ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اُخْرُصُوْہَا فَخَرَصَہَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَخَرَصْنَاہَا عَشْرَۃَ أَوْسُقٍ وَقَالَ أَحْصِہَا حَتّٰی أَرْجِعَ إِلَیْکَ إِنْ شَائَ اللّٰہُ تَعَالٰی .فَلَمَّا قَدِمْنَاہَا سَأَلَہَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ حَدِیْقَتِہَا کَمْ بَلَغَ تَمْرُہَا ؟ قَالَتْ : عَشْرَۃَ أَوْسُقٍ) .فَفِیْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ أَیْضًا أَنَّہُمْ خَرَصُوْہَا وَأَمَرُوْہَا بِأَنْ تُحْصِیَہَا حَتّٰی یَرْجِعُوْا إِلَیْہَا .فَذٰلِکَ دَلِیْلٌ عَلٰی أَنَّہَا لَمْ تُمْلَکْ بِخَرْصِہِمْ إِیَّاہَا مَا لَمْ تَکُنْ مَالِکَۃً لَہٗ قَبْلَ ذٰلِکَ .وَإِنَّمَا أَرَادُوْا ذٰلِکَ أَنْ یَعْلَمُوْا مِقْدَارَ مَا فِیْ نَخْلِہَا خَاصَّۃً‘ ثُمَّ یَأْخُذُوْنَ مِنْہَا الزَّکَاۃَ فِیْ وَقْتِ الصِّرَامِ‘ عَلٰی حَسَبِ مَا یَجِبُ فِیْہَا .فَھٰذَا ہُوَ الْمَعْنٰی فِیْ ھٰذِہِ الْآثَارِ عِنْدَنَا‘ وَاللّٰہُ أَعْلَمُ .وَقَدْ قَالَ قَوْمٌ فِی الْخَرْصِ غَیْرَ ھٰذَا الْقَوْلِ‘ قَالُوْا : إِنَّہٗ قَدْ کَانَ فِیْ أَوَّلِ الزَّمَانِ یَفْعَلُ مَا قَالَ أَہْلُ الْمَقَالَۃِ الْأُوْلٰی مِنْ تَمْلِیکِ الْخُرَّاصِ أَصْحَابَ الثِّمَارِ حَقَّ اللّٰہِ فِیْہَا‘ وَہِیَ رُطَبٌ‘ بِبَدَلٍ یَأْخُذُوْنَہُ مِنْہُمْ تَمْرًا‘ ثُمَّ نُسِخَ ذٰلِکَ بِنَسْخِ الرِّبَا فَرُدَّتَ الْأُمُوْرُ إِلٰی أَنْ لَا یُؤْخَذَ فِی الزَّکَوَاتِ إِلَّا مَا یَجُوْزُ فِی الْبَیْعَاتِ .وَذَکَرُوْا فِیْ ذٰلِکَ مَا
٣٠٢٥: سہل بن سعد الساعدی نے ابو حمیدالساعدی (رض) سے نقل کیا کہ ہم جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ غزوہ تبوک میں نکلے ہمارا گزر وادی القریٰ میں ایک عورت کے کھجوروں کے باغ کے پاس سے ہوا تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اندازہ کرو ہم نے اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کا اندازہ دس وسق سے لگایا آپ نے فرمایا اس کو اتنی مقدار میں جمع کر کے رکھنا ہم واپسی پر ان شاء اللہ تعالیٰ وصول کرلیں گے جب ہم تبوک سے واپس لوٹے تو اس عورت سے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا کہ کھجور کی کتنی مقدار حاصل ہوئی اس نے کہا دس وسق۔ اس روایت میں بھی یہ بات بتلائی گئی کہ انھوں نے اندازے کا حکم دیا اور اسے واپسی تک محفوظ کرنے کا حکم فرمایا اس سے یہ ثبوت مل گیا کہ اندازہ کرنے کی وجہ سے وہ عورت اس کی مالک نہیں بنی اگر وہ پہلے سے اس کی مالک نہ ہو صرف اس اندازے سے مقصد یہ تھا کہ کھجوروں کی وہ مقدار معلوم ہوجائے پھر وہ کٹائی کے وقت جتنی اس کے اندر زکوۃ بنتی ہے اتنی وہ وصول کرلے ۔ ہمارے نزدیک ان آثار کا یہی مطلب ہے۔ واللہ اعلم۔ بعض لوگوں نے ” خرص “ کے بارے میں ایک دوسرے قول کو اپنایا ہے کہ یہ شروع زمانہ میں تو تھا جیسا کہ اول قول والے علماء نے کہا کہ اندازہ کرنے والے لوگ پھل والوں کو اللہ کے حق کا مالک بنا دیتے تھے جب کہ ابھی کھجور تر حالت میں ہوتی تھی اور پھر وہ اس کے بدلے میں ان سے خشک کھجور لے لیا کرتے تھے پھر یہ حکم سود کے منسوخ ہونے سے منسوخ ہوگیا اور تمام معاملات اس طرف لوٹا دیئے گئے کہ زکوۃ میں وہ چیز لی جائے جس کی خریدو فروخت درست ہو جیسا کہ یہ روایت بتلا رہی ہے۔
تخریج : بخاری فی الزکوۃ باب ٥٦۔
اس روایت سے ثابت ہوتا ہے کہ رطب کی حالت میں اندازہ کیا گیا اور اس کو کھجور خشک کر کے جمع کرنے کا حکم فرمایا اور واپسی پر وصولی کا وعدہ فرمایا اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ وہ عورت خرص سے ان کی مالک نہ بنی بلکہ اس خرص کا مقصد یہ تھا کہ کھجوروں کی مقدار کا اندازہ ہوجائے پھر کٹائی کے موقعہ پر اس سے زکوۃ وصول کرلی جائے گی جتنی اس کے ذمہ بنے گی۔ آثار سامنے رکھتے ہوئے یہی مفہوم ہے۔ بعض علماء نے خرص کی تشریح ایک دوسرے انداز سے کی ہے۔
خرص کی دوسری توجیہہ :
فریق اوّل نے جو روایات پیش کی ہیں شروع میں خراص کے اندازے کے بعد وہ مالک بن جاتا تھا جبکہ رطب ہی ہوتی تھی اور وہ اس کے بدلے تمر لے لیتے تھے مگر جب سود کو منسوخ کیا تو اس حکم کو بھی منسوخ کردیا گیا اور معاملہ اس طرف لوٹا دیا گیا کہ جن چیزوں کی بیع جائز و درست ہے ان پر ہی زکوۃ وصول کی جائے مندرجہ روایات شاہد ہیں جن میں سے ایک یہ ہے۔

3026

۳۰۲۶ : حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ‘ قَالَ : ثَنَا أَسَدٌ‘ قَالَ : ثَنَا ابْنُ لَہِیْعَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُو الزُّبَیْرِ‘ عَنْ جَابِرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ (أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَہٰی عَنِ الْخَرْصِ وَقَالَ أَرَأَیْتُمْ إِنْ ہَلَکَ الثَّمَرُ أَیُحِبُّ أَحَدُکُمْ أَنْ یَأْکُلَ مَالَ أَخِیْہِ بِالْبَاطِلِ) .فَھٰذَا وَجْہُ ھٰذَا الْبَابِ مِنْ طَرِیْقِ الْآثَارِ .وَأَمَّا وَجْہُہُ مِنْ طَرِیْقِ النَّظَرِ‘ فَإِنَّا قَدْ رَأَیْنَا الزَّکَاۃَ تَجِبُ فِیْ أَشْیَائَ مُخْتَلِفَۃٍ‘ مِنْہَا : الذَّہَبُ‘ وَالْفِضَّۃُ‘ وَالثِّمَارُ الَّتِیْ تُخْرِجُہَا الْأَرْضُ‘ وَالنَّخْلُ‘ وَالشَّجَرُ‘ وَالْمَوَاشِی السَّائِمَۃُ .فَکُلٌّ قَدْ أَجْمَعَ أَنَّ رَجُلًا لَوْ وَجَبَتْ عَلَیْہِ عَلٰی مَالِہِ وَہُوَ ذَہَبٌ أَوْ فِضَّۃٌ‘ أَوْ مَاشِیَۃٌ سَائِمَۃٌ‘ فَسَلَّمَ ذٰلِکَ لَہُ الْمُصَدِّقُ‘ عَلٰی مَا لَا یَجُوْزُ عَلَیْہِ الْبَیَّاعَاتُ‘ أَنَّ ذٰلِکَ غَیْرُ جَائِزٍ لَہٗ .أَلَا تَرٰی أَنَّ رَجُلًا لَوْ وَجَبَتْ عَلَیْہِ فِیْ دَرَاہِمِہِ الزَّکَاۃُ‘ فَبَاعَ ذٰلِکَ مِنْہُ الْمُصَدِّقُ بِذَہَبٍ نَسِیْئَۃً‘ أَنَّ ذٰلِکَ لَا یَجُوْزُ .کَذٰلِکَ لَوْ بَاعَہٗ مِنْہُ بِذَہَبٍ‘ ثُمَّ فَارَقَہُ قَبْلَ أَنْ یُقْبِضَہٗ‘ لَمْ یَجُزْ ذٰلِکَ .وَکَذٰلِکَ لَوْ وَجَبَتْ عَلَیْہِ فِیْ مَاشِیَتِہِ الزَّکَاۃُ‘ ثُمَّ سَلَّمَ ذٰلِکَ لَہٗ الْمُصَدِّقُ‘ بِبَدَلٍ مَجْہُولٍ‘ أَوْ بِبَدَلٍ مَعْلُوْمٍ إِلٰی أَجْلٍ مَجْہُولٍ‘ فَذٰلِکَ کُلُّہٗ حَرَامٌ غَیْرُ جَائِزٍ .فَکَانَ کُلُّ مَا حَرُمَ فِی الْبَیَّاعَاتِ فِیْ بَیْعِ النَّاسِ ذٰلِکَ‘ بَعْضِہِمْ مِنْ بَعْضٍ‘ قَدْ دَخَلَ فِیْہِ حُکْمُ الْمُصَدِّقِ فِیْ بَیْعِہِ إِیَّاہُ مِنْ رَبِّ الْمَالِ الَّذِیْ فِیْہِ الزَّکَاۃُ‘ الَّتِیْ یَتَوَلَّی الْمُصَدِّقُ أَخْذَہَا مِنْہُ .فَلَمَّا کَانَ مَا ذَکَرْنَا کَذٰلِکَ فِی الْأَمْوَالِ الَّتِی وَصَفْنَا‘ کَانَ النَّظَرُ عَلٰی ذٰلِکَ أَیْضًا أَنْ یَّکُوْنَ کَذٰلِکَ حُکْمُ الثِّمَارِ .فَکَمَا لَا یَجُوْزُ بَیْعُ رُطَبٍ بِتَمْرٍ نَسِیْئَۃً‘ فِیْ غَیْرِ مَا فِیْہِ الصَّدَقَاتُ‘ فَکَذٰلِکَ لَا یَجُوْزُ فِیْمَا فِیْہِ الصَّدَقَاتُ‘ فِیْمَا بَیْنَ الْمُصَدِّقِ‘ وَبَیْنَ رَبِّ الْمَالِ . فَھٰذَا ہُوَ النَّظَرُ أَیْضًا فِیْ ھٰذَا الْبَابِ‘ وَقَدْ عَادَ ذٰلِکَ أَیْضًا إِلٰی مَا صَرَفْنَا إِلَیْہِ الْآثَارَ الْمَرْوِیَّۃَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الَّتِیْ قَدَّمْنَا ذِکْرَہَا .فَبِذٰلِکَ نَأْخُذُ‘ وَہُوَ قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ‘ وَأَبِیْ یُوْسُفَ‘ وَمُحَمَّدٍ رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی۔
٣٠٢٦: ابوالزبیر نے جابر (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خرص سے منع فرمایا اور فرمایا تمہارا کیا خیال ہے اگر پھل برباد ہوجائے کیا تم پسند کرتے ہو کہ اپنے بھائی کا مال ناجائز ذریعہ سے کھاؤ۔ یہ تو آثار کے انداز سے اس باب کی وضاحت ہے۔ باقی غور وفکر کے طور پر اس کا حکم اس طرح ہے کہ ہم جانتے ہیں کہ زکوۃ مختلف اشیاء میں لازم ہوتی ہے۔ ان میں سونا ‘ چاندی ‘ پھل جو زمین سے (غلہ جات کی صورت میں) نکلیں۔ کھجور اور دیگر پھل اور چرنے واے مویشی وغیرہ ۔ اس پر سب کا اجماع ہے کہ اگر کسی شخص پر اس کے مال میں جب کہ وہ سونا ‘ چاندی ‘ چرنے والے جانور ہوں اور زکوۃ وصول کرنے والا اس کو ایسی چیز اس کے بدلے میں دے جس کی بیع جائز نہیں تو یہ مصدق کو جائز نہیں۔ کیا تم نہیں جانتے کہ اگر کسی آدمی کے دراہم میں زکوۃ لازم ہوتی ۔ زکوۃ لینے والے نے اس سے سونے کے بدلے ادھار خریدلی ۔ تو یہ بھی جائز نہیں ۔ اسی طرح اگر اس نے اسے سونے کے بدلے خریدلیا ۔ پھر قبضہ سے پہلے جدا ہوگئے تو یہ بھی جائز نہیں اسی طرح اگر اس کے مویشیوں میں زکوۃ لازم ہوتی۔ پھر عامل نے اس کو بدل نامعلوم جو نامعلوم مدت کے لیے ہے اس کو دے دیا یہ سب حرام اور ناجائز صورتیں ہیں تو ہر وہ چیز کو جس کا لوگوں کو باہمی خریدو فروخت کرنا حرام ہے۔ تو صدقہ وصول کرنے والا اس مال کے مالک سے جس میں زکوۃ لازم ہوئی اور یہ مصدق اس کی وصول کا ذمہ داربنا وہ چیز بھی اسی حکم میں شامل ہے۔ پس جب یہ باتیں جن کا تذکرہ ہوا اموال مذکور کے سلسلہ میں اسی طرح ہیں۔ تو نظر کا تقاضہ بھی یہی ہے کہ پھلوں کا حکم بھی اسی طرح ہو۔ پس جس طرح تر کھجور کو پختہ کھجور کے بدلے صدقات کے علاوہ مواقع میں ادھار فروخت نہیں کیا سکتا ۔ بالکل اسی طرح وہ اموال جن میں صدقات ہیں صدقہ وصول کرنے والے اور مال کے مالک کے مابین ان کی فروخت درست نہیں۔ اس باب میں نظر کا یہی تقاضا ہے۔ یہ لوٹ کر مضمون وہی بن گیا جس کا تذکرہ آثار مرویہ میں کیا گیا ہے۔ ہم انہی کو اختیار کرتے ہیں اور یہی امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد (رح) کا قول ہے۔
تخریج : مسند احمد ٣؍٣٩٤۔
گویا آثار سے ہم نے اپنے مؤقف کو ثابت کردیا کہ زکوۃ کٹائی کے بعد وصول کی جائے گی اب ہم دلیل عقلی پیش کرتے ہیں۔
نظر طحاوی (رض) :
زکوۃ مختلف چیزوں میں فرض ہوتی ہے مثلاً سونا ‘ چاندی ‘ زمینی پیداوار پھل ‘ غلہ ‘ درخت ‘ چرنے والے مویشی وغیرہ اس میں سب کا اتفاق ہے کہ جس مال میں جو چیز لازم ہو وہی عامل کو دے اور جن میں بیع جائز نہ ہو وہ دینا جائز نہیں ذرا غور فرمائیں کہ اگر دراہم میں زکوۃ لازم ہوئی ہو مصدق نے سونے کے بدلے ادھار اس کو بیچ دیا تو یہ جائز نہیں اور اگر اس نے اسی طرح خرید لیا پھر قبضہ سے پہلے جدا ہوگیا تب بھی جائز نہیں اسی طرح اگر مواشی کی زکوۃ لازم ہوئی پھر اس نے مصدق کے سپرد کردیئے مگر رقم طے نہ کی یا رقم تو معلوم تھی مگر مدت نامعلوم تھی یہ سب صورتیں حرام ہیں حاصل یہ ہوا کہ عقد بیع میں جو جہالت حرام اور ناجائز ہے وہی مقدار زکوۃ اور مقدار عشر میں بھی حرام اور ناجائز ہے اور جس طرح بیع سلم میں مسلم فیہ کی مقدار کا نامعلوم ہونا جائز نہیں اسی طرح مقدار زکوۃ اور عشر کی ناواقفی ناجائز ہے فلہٰذا نامعلوم مقدار کا عوض جائز نہیں جیسا سابقہ مثالوں سے معلوم ہوچکا۔
اس سے ثابت ہوا کہ بیع کے سلسلہ میں جو جہالت جائز نہیں وہی زکوۃ و عشر کے سلسلہ میں بھی جائز نہیں جس طرح تمام اموال میں بیع کے موقع پر بدل یا مدت کی جہالت اس کی درستی کو مانع ہے اسی طرح زمین کی پیداوار اور درختوں کے پھلوں کی زکوۃ و عشر میں جہالت اس کی درستی کے خلاف اور اس کو ناجائز قرار دیتی ہے پس خرص کو معیار قرار دے کر حتمی زکوۃ و عشر کا فیصلہ درست نہیں ہوگا۔
ہمارے علماء ثلاثہ ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد رحمہم اللہ کا یہی مسلک ہے۔
اس بات میں امام طحاوی (رح) نے تطبیق کی جو شکل ذکر فرمائی اس سے تمام روایات اپنے اپنے مقام پر درست رہتی ہیں کہ خرص تو رطب کی صورت میں ہوگا اور اسی لیے ثلث یا ربع مزارع کو چھوڑا جائے گا توڑنے اور کٹنے کے بعد تو تمام کی زکوۃ وصول کی جائے گی۔ واللہ اعلم۔

3027

۳۰۲۷ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا قَبِیْصَۃُ بْنُ عُقْبَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ‘ عَنْ زَیْدِ بْنِ أَسْلَمَ‘ عَنْ عِیَاضِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ سَعِیْدِ بْنِ أَبِیْ سَرْحٍ‘ عَنْ (أَبِیْ سَعِیْدٍ الْخُدْرِیِّ‘ قَالَ : کُنَّا نُعْطِیْ زَکَاۃَ الْفِطْرِ مِنْ رَمَضَانَ صَاعًا مِنْ طَعَامٍ أَوْ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ‘ أَوْ صَاعًا مِنْ شَعِیْرٍ‘ أَوْ صَاعًا مِنْ أَقِطٍ) .
٣٠٢٧: عیاض بن عبداللہ بن سعید نے ابو سعید خدری (رض) سے نقل کیا کہ ہم صدقۃ الفطر رمضان میں طعام سے ایک صاع اور کھجور ‘ جو اور پنیر میں سے ایک ایک صاع دیا کرتے تھے۔
تخریج : بخاری فی الزکوۃ باب ٧٥‘ مسلم فی الزکوۃ نمبر ١٧۔
صدقۃ الفطر کی مقدار تمام اشیاء میں گندم اور آٹے کے علاوہ مکمل ایک صاع ہے مثلاً کھجور ‘ کشمش ‘ جو ‘ جوار وغیرہ گندم و آٹا کے متعلق اختلاف ہے۔
نمبر 1: امام مالک و شافعی رحمہم اللہ کے نزدیک گندم و آٹا میں ایک صاع لازم ہے۔
نمبر 2: احناف اور جمہور فقہاء گندم اور اس کے آٹے سے نصف صاع ہے اور امام ابوحنیفہ کے ہاں تو کشمش میں بھی نصف صاع ہے امام احمد کا قول بھی یہی ہے۔

فریق اوّل کا مؤقف اور دلائل :
گندم اور آٹا میں بھی دیگر اشیاء کی طرح ایک صاع لازم ہے ان میں تفاوت نہ ہوگا۔
دلیل یہ روایات ہیں :

3028

۳۰۲۸ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ‘ قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ‘ أَنَّ مَالِکًا أَخْبَرَہٗ، عَنْ زَیْدِ بْنِ أَسْلَمَ‘ عَنْ عِیَاضِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ أَنَّہٗ سَمِعَ (أَبَا سَعِیْدٍ یَقُوْلُ : کُنَّا نُخْرِجُ صَدَقَۃَ الْفِطْرِ صَاعًا مِنْ طَعَامٍ‘ أَوْ صَاعًا مِنْ شَعِیْرٍ‘ أَوْ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ‘ أَوْ صَاعًا مِنْ أَقِطٍ‘ أَوْ صَاعًا مِنْ زَبِیْبٍ) .
٣٠٢٨: عیاض بن عبداللہ کہتے ہیں میں نے ابو سعید (رض) کو فرماتے سنا کہ ہم طعام یا جو یا کھجور یا پنیر یا کشمش سے ایک ایک صاع صدقۃ الفطر نکالتے تھے۔

3029

۳۰۲۹ : حَدَّثَنَا یَزِیْدُ بْنُ سِنَانٍ‘ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ مَہْدِیٍّ‘ قَالَ : ثَنَا دَاوٗدَ بْنُ قَیْسٍ‘ عَنْ عِیَاضِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ سَعْدٍ‘ عَنْ (أَبِیْ سَعِیْدٍ‘ قَالَ : کُنَّا نُخْرِجُ‘ اِذْ کَانَ فِیْنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ - صَدَقَۃَ الْفِطْرِ‘ إِمَّا صَاعًا مِنْ طَعَامٍ‘ وَإِمَّا صَاعًا مِنْ تَمْرٍ‘ وَإِمَّا صَاعًا مِنْ شَعِیْرٍ‘ وَإِمَّا صَاعًا مِنْ زَبِیْبٍ‘ وَإِمَّا صَاعًا مِنْ أَقِطٍ فَلَمْ نَزَلْ نُخْرِجُہٗ حَتّٰی قَدِمَ مُعَاوِیَۃُ حَاجًّا أَوْ مُعْتَمِرًا‘ فَکَانَ فِیْمَا کَلَّمَ بِہِ النَّاسَ فَقَالَ أَدُّوْا مُدَّیْنِ مِنْ سَمْرَائِ الشَّامِ‘ یَعْدِلُ صَاعًا مِنْ شَعِیْرٍ) .
٣٠٢٩: عیاض بن عبداللہ بن سعد نے ابو سعید خدری (رض) سے نقل کیا کہ ہم جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں صدقۃ الفطر گندم یا کھجور یا جو یا کشمش یا پنیر میں سے ایک ایک صاع نکالا کرتے تھے ہم اسی طرح نکالتے رہے یہاں تک کہ امیر معاویہ (رض) حج یا عمرہ کے لیے آئے تو انھوں نے لوگوں سے کہا تم شام کی گندم کے دو مدّ دیا کرو وہ جو کے ایک صاع کے برابر ہے۔
تخریج : ابو داؤد فی الزکوۃ باب ٢٠‘ نمبر ١٦١٦‘ ابن ماجہ فی الزکوۃ باب ٢١‘ نمبر ١٨٢٩۔

3030

۳۰۳۰ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ‘ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ نَافِعٍ‘ عَنْ دَاوٗدَ بْنِ قَیْسٍ‘ عَنْ عِیَاضٍ‘ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ.
٣٠٣٠: داؤد بن قیس نے عیاض بن عبداللہ سے پھر انھوں نے اپنی اسناد سے روایت نقل کی ہے۔

3031

۳۰۳۱ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : أَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ‘ قَالَ : ثَنَا دَاوٗدَ‘ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ ، وَزَادَ‘ قَالَ أَبُوْ سَعِیْدٍ (أَمَّا أَنَا فَلاَ أَزَالُ أُخْرِجُ کَمَا کُنْتُ أُخْرِجُ) .
٣٠٣١: عثمان بن عمر نے داؤد سے پھر اس نے اپنی سند سے روایت بیان کی ہے اس میں یہ اضافہ ہے کہ میں تو اب تک اسی طرح گندم کا بھی ایک ہی نکالتا ہوں جیسا پہلے نکالتا تھا۔

3032

۳۰۳۲ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ‘ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمِنْہَالِ‘ قَالَ : ثَنَا یَزِیْدُ بْنُ زُرَیْعٍ‘ قَالَ : ثَنَا رَوْحُ بْنُ الْقَاسِمِ‘ عَنْ زَیْدِ بْنِ أَسْلَمَ‘ عَنْ عِیَاضٍ‘ عَنْ أَبِیْ سَعِیْدٍ قَالَ ( : کَانُوْا فِیْ صَدَقَۃِ رَمَضَانَ‘ مَنْ جَائَ بِصَاعٍ مِنْ شَعِیْرٍ قُبِلَ مِنْہُ‘ وَمَنْ جَائَ بِصَاعٍ مِنْ أَقِطٍ قُبِلَ مِنْہُ‘ وَمَنْ جَائَ بِصَاعٍ مِنْ تَمْرٍ قُبِلَ مِنْہُ‘ وَمَنْ جَائَ بِصَاعٍ مِنْ زَبِیْبٍ قُبِلَ مِنْہُ .)
٣٠٣٢: عیاض نے ابو سعید (رض) سے روایت کی ہے کہ صدقۃ الفطر میں جو شخص جو کا صاع لاتا اس سے قبول کرلیا جاتا اور جو پنیر کا صاع لاتا وہ اس سے قبول کرلیا جاتا اور کھجور کا صاع لاتا تو اس سے قبول کرلیا جاتا اور جو کشمش کا صاع لاتا وہ اس سے قبول کرلیا جاتا۔

3033

۳۰۳۳ : حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ‘ قَالَ : ثَنَا شُعَیْبُ بْنُ اللَّیْثِ .ح .
٣٠٣٣: ربیع الموذن نے شعیب بن لیث سے نقل کی ہے۔

3034

۳۰۳۴ : وَحَدَّثَنَا یُوْنُسُ‘ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ یُوْسُفَ‘ قَالَا : ثَنَا اللَّیْثُ‘ عَنْ یَزِیْدَ بْنِ أَبِیْ حَبِیْبٍ‘ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُثْمَانَ أَنَّ عِیَاضَ بْنَ عَبْدِ اللّٰہِ حَدَّثَہٗ أَنَّ (أَبَا سَعِیْدٍ قَالَ إِنَّمَا کُنَّا نُخْرِجُ عَلٰی عَہْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ‘ أَوْ صَاعًا مِنْ شَعِیْرٍ‘ أَوْ صَاعَ أَقِطٍ‘ لَا نُخْرِجُ غَیْرَہٗ‘ فَلَمَّا کَثُرَ الطَّعَامُ فِیْ زَمَنِ مُعَاوِیَۃَ‘ جَعَلُوْہُ مُدَّیْنِ مِنْ حِنْطَۃٍ) .
٣٠٣٤: عیاض بن عبداللہ نے بیان کیا کہ ابو سعیدخدری (رض) نے فرمایا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں ہم کھجور کا ایک صاع اسی طرح جو ‘ پنیر کا ایک ایک صاع نکالتے تھے اس کے علاوہ نہ نکالتے تھے جب گندم امیر معاویہ کے زمانے میں زیادہ ہوئی تو لوگوں نے گندم کے دو مد مقرر کردیئے۔
تخریج : بخاری فی الزکوۃ نمبر ٧٦۔

3035

۳۰۳۵ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ‘ قَالَ : ثَنَا الْوَہْبِیُّ‘ قَالَ : ثَنَا ابْنُ إِسْحَاقَ‘ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُثْمَانَ‘ عَنْ (عِیَاضِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ‘ قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا سَعِیْدٍ‘ وَہُوَ یُسْأَلُ عَنْ صَدَقَۃِ الْفِطْرِ‘ قَالَ : لَا أُخْرِجُ إِلَّا مَا کُنْتُ أُخْرِجُ عَلٰی عَہْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ‘ أَوْ صَاعًا مِنْ شَعِیْرٍ‘ أَوْ صَاعًا مِنْ زَبِیْبٍ‘ أَوْ صَاعًا مِنْ أَقِطٍ .فَقَالَ لَہٗ رَجُلٌ : أَوْ مُدَّیْنِ‘ مِنْ قَمْحٍ ؟ فَقَالَ : لَا‘ تِلْکَ قِیْمَۃُ مُعَاوِیَۃَ‘ لَا أَقْبَلُہَا‘ وَلَا أَعْمَلُ بِہَا) .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ إِلٰی ھٰذِہِ الْآثَارِ‘ فَقَالُوْا فِیْ صَدَقَۃِ الْفِطْرِ : مَنْ أَحَبَّ أَنْ یُعْطِیَہَا مِنَ الْحِنْطَۃِ‘ أَعْطَاہَا صَاعًا‘ وَکَذٰلِکَ إِنْ أَحَبَّ أَنْ یُعْطِیَہَا مِنَ الشَّعِیْرِ‘ أَوِ التَّمْرِ‘ أَوِ الزَّبِیْبِ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ‘ فَقَالُوْا : یُعْطِیْ صَدَقَۃَ الْفِطْرِ مِنَ الْحِنْطَۃِ‘ نِصْفَ صَاعٍ‘ وَمِمَّا سِوَی الْحِنْطَۃِ مِنَ الْأَصْنَافِ الَّتِیْ ذَکَرْنَا‘ صَاعًا .وَکَانَ مِنَ الْحُجَّۃِ لَہُمْ عَلٰی أَہْلِ الْمَقَالَۃِ الْأُوْلٰی‘ أَنَّ حَدِیْثَ أَبِیْ سَعِیْدٍ الَّذِی احْتَجُّوْا بِہٖ عَلَیْہِمْ‘ إِنَّمَا فِیْہِ إخْبَارٌ عَمَّا کَانُوْا یُعْطُوْنِ .وَقَدْ یَجُوْزُ أَنْ کَانُوْا یُعْطُوْنَ مِنْ ذٰلِکَ مَا عَلَیْہِمْ‘ وَیَزِیْدُوْنَ فَضْلًا‘ لَیْسَ عَلَیْہِمْ .وَقَدْ رُوِیَ عَنْ غَیْرِ أَبِیْ سَعِیْدٍ فِی الْحِنْطَۃِ‘ خِلَافُ مَا رُوِیَ عَنْ أَبِیْ سَعِیْدٍ .فَمِنْ ذٰلِکَ مَا حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ‘ قَالَ : ثَنَا أَسَدٌ .ح .
٣٠٣٥: عیاض بن عبداللہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے ابو سعیدالخدری (رض) سے سنا جبکہ ان سے صدقۃ الفطر کا سوال ہوا کہ میں تو آج بھی وہی نکالتا ہوں جو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں نکالا کرتا تھا وہ کھجور ‘ جو ‘ کشمش ‘ پنیر ہر ایک میں سے ایک ایک صاع ہے ایک آدمی نے کہا یا گندم کے دو مد ؟ تو آپ نے فرمایا نہیں یہ معاویہ نے قیمت لگائی ہے میں اس کو قبول نہیں کرتا اور نہ ہی میں اس پر عمل کروں گا۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں علمائ کی ایک جماعت نے ان آثار کو اختیار کرتے ہوئے کہا جو شخص صدقۃ الفطر گندم سے ادا کرنا چاہے تو وہ گندم کا ایک صاع اور جو یا کھجور اور کشمش دینا چاہیے تو وہ بھی اسی قدر ہوں گے ۔ مگر دیگر علماء نے ان سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ گندم سے نصف صاع صدقۃ الفطر دے اور جو وغیرہ سے پورا صاع ادا کرے۔ قول اول کے قائلین کے خلاف ان کی دلیل یہ ہے کہ حضرت ابو سعید (رض) کی جس روایت سے استدلال کیا اس میں تو اس بات کی اطلاع ہے جو وہ دیا کرتے تھے اور اس میں یہ کہنا ممکن ہے کہ وہ اس میں سے وہ بھی دیتے تھے جو ان پر لازم تھا اور کچھ زائد اپنے طور پر دیتے ہوں اور حضرت ابو سعید (رض) کے علاوہ دیگر صحابہ کرام سے گندم کے متعلق اس کے خلاف روایت وارد ہے۔ ذیل میں ملاحظہ ہو۔
حاصل روایات : یہ ہے کہ گندم ‘ پنیر ‘ کشمش ‘ جو ان میں سے ہر چیز کا ایک صاع صدقۃ الفطر میں دیا جائے گا کسی چیز میں باہمی تفاوت نہیں ہے۔
فریق ثانی کا مؤقف اور دلائل :
گندم سے نصف صاع اور بقیہ تمام چیزوں سے ایک صاع دیا جائے گا۔
روایت ابو سعید (رض) سے استدلال کا جواب : حضرت ابو سعیدالخدری (رض) والی روایت میں جو مقدار مذکور ہے وہ صحابہ کرام کے عمل کو ظاہر کرتی ہے صحابہ کرام اس لازم مقدار کے علاوہ بھی دیتے ہوں گے جو ان پر لازم تو نہ تھا مگر تبرعاً دیتے تھے اور ابو سعید (رض) سے گندم سے متعلق اس کے خلاف روایت وارد ہے وہ وہی روایت ہے جس کو ربیع موذن نے اسد سے اپنی سند کے ساتھ نقل کیا ہے نمبر ٣٠٣٩۔

3036

۳۰۳۶ : وَحَدَّثَنَا فَہْدٌ‘ قَالَ : ثَنَا ابْنُ أَبِیْ مَرْیَمَ‘ قَالَ : ثَنَا أَسَدٌ‘ قَالَ : ثَنَا ابْنُ لَہِیْعَۃَ .وَقَالَ ابْنُ أَبِیْ مَرْیَمَ أَنَا ابْنُ لَہِیْعَۃَ‘ عَنْ أَبِی الْأَسْوَدِ‘ عَنْ فَاطِمَۃَ بِنْتِ الْمُنْذِرِ‘ (عَنْ أَسْمَائَ بِنْتِ أَبِیْ بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا‘ قَالَتْ کُنَّا نُؤَدِّیْ زَکَاۃَ الْفِطْرِ عَلٰی عَہْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مُدَّیْنِ مِنْ قَمْحٍ) .
٣٠٣٦: فاطمہ بنت المنذر نے اسماء بنت ابی بکر ] سے روایت کی ہے کہ ہم جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں صدقۃ الفطر گندم کے دو مد نکالا کرتے تھے۔

3037

۳۰۳۷ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ‘ وَعَلِیُّ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ‘ قَالَا : ثَنَا ابْنُ أَبِیْ مَرْیَمَ‘ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ یَحْیَی بْنُ أَیُّوْبَ‘ أَنَّ ہِشَامَ بْنَ عُرْوَۃَ حَدَّثَہٗ، عَنْ أَبِیْہِ (أَنَّ أَسْمَائَ بِنْتَ أَبِیْ بَکْرٍ أَخْبَرَتْہُ أَنَّہَا کَانَتْ تُخْرِجُ عَلٰی عَہْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ أَہْلِہَا‘ الْحُرِّ مِنْہُمْ وَالْمَمْلُوْکِ‘ مُدَّیْنِ مِنْ حِنْطَۃٍ‘ أَوْ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ بِالْمُدِّ‘ أَوْ بِالصَّاعِ الَّذِیْ یَتَبَایَعُوْنَ بِہٖ) .
٣٠٣٧: ہشام بن عروہ نے اپنے والد سے انھوں نے اسماء بنت ابی بکر (رض) سے نقل کیا ہے کہ ہم جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں اپنے گھر کے آزاد و غلام کی طرف سے گندم کے دو مد یا کھجور کا ایک صاع دیتے تھے یہ ادائیگی اس مد یا صاع کے ذریعہ ہوتی جس سے وہ تجارت میں کام لیتے تھے۔

3038

۳۰۳۸ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ‘ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُزَیْزٍ‘ قَالَ : ثَنَا سَلَامَۃُ‘ عَنْ عَقِیْلٍ‘ عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ‘ عَنْ أَبِیْہِ‘ عَنْ (أَسْمَائَ ‘ قَالَتْ : کُنَّا نُخْرِجُ زَکَاۃَ الْفِطْرِ عَلٰی عَہْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مُدَّیْنِ .) فَھٰذِہٖ أَسْمَائُ تُخْبِرُ أَنَّہُمْ کَانُوْا یُؤَدُّوْنَ فِیْ عَہْدِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ زَکَاۃَ الْفِطْرِ مُدَّیْنِ مِنْ قَمْحٍ .وَمُحَالٌ أَنْ یَکُوْنُوْا یَفْعَلُوْنَ ھٰذَا إِلَّا بِأَمْرِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ لِأَنَّ ھٰذَا لَا یُؤْخَذُ - حِیْنَئِذٍ - إِلَّا مِنْ جِہَۃِ تَوْقِیْفِہٖ إِیَّاہُمْ عَلٰی مَا یَجِبُ عَلَیْہِمْ مِنْ ذٰلِکَ .فَتَصْحِیْحُ مَا رُوِیَ عَنْ أَسْمَائَ ‘ وَمَا رُوِیَ عَنْ أَبِیْ سَعِیْدٍ ، أَنْ یُجْعَلَ مَا کَانُوْا یُؤَدُّوْنَ عَلٰی مَا ذَکَرَتْ (یَعْنِیْ أَسْمَائَ) ہُوَ الْفَرْضَ‘ وَمَا کَانُوْا یُؤَدُّوْنَ عَلٰی مَا ذَکَرَہٗ أَبُوْ سَعِیْدٍ زِیَادَۃً عَلٰی ذٰلِکَ‘ ہُوَ تَطَوُّعٌ .وَالدَّلِیْلُ عَلٰی صِحَّۃِ مَا ذَکَرْنَا مِنْ ھٰذَا أَنَّ أَبَا بَکْرَۃَ ‘
٣٠٣٨: عروہ نے اسماء (رض) سے روایت کی ہے کہ ہم صدقۃ الفطر جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں دو مد نکالتے تھے۔ یہ حضرت اسماء بنت ابی بکر (رض) بتلا رہی ہیں کہ صحابہ کرام زمانہ نبوت میں صدقۃ الفطر گندم کے دو مد ادا کرتے تھے اور یہ بات ناممکن ہے کہ صحابہ کرام یہ عمل جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم کے بغیر کرتے ہوں ۔ کیونکہ اسوقت یہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے حاصل کر کے جو ان پر واجب ہوتا وہ کرتے تھے ۔ پس حضرت اسماء اور حضرت ابو سعید (رض) کی روایات کی تصحیح اسی طرح ممکن ہے کہ حضرت ابو سعید والی روایت میں مذکورہ مقدار کو نفل پر محمول کیا جائے اور حضرت اسماء (رض) والی روایت کو فرضی صدقہ پر محمول کریں اس کی دلیل یہ روایت ہے۔
حاصل روایت : یہ اسماء بنت ابی بکر (رض) بتلا رہی ہیں کہ وہ زمانہ نبوت میں صدقۃ الفطر گندم سے دو مد نکالا کرتے تھے یہ بات ناممکن ہے کہ وہ اپنی مرضی سے نکالتے ہوں کیونکہ صدقۃ الفطر توقیفی ہے اجتہادی نہیں۔
تطبیق :
حضرت اسماء (رض) اور ابو سعید خدری (رض) کی روایات میں موافقت کی صورت یہ ہے کہ اسماء (رض) نے جو ذکر کیا یہ مقدار فرض ہے اور ابو سعید (رض) کی روایت میں جس کا تذکرہ ہے وہ تبرعاً اور تطوعاً ہے۔
اس کی دلیل ابو بکرہ (رض) کی روایت ہے۔

3039

۳۰۳۹ : قَدْ حَدَّثَنَا قَالَ : ثَنَا حَجَّاجُ بْنُ الْمِنْہَالِ‘ قَالَ : ثَنَا حَمَّادٌ‘ عَنْ یُوْنُسَ‘ عَنِ الْحَسَنِ‘ أَنَّ مَرْوَانَ بَعَثَ إِلٰی أَبِیْ سَعِیْدٍ : أَنِ ابْعَثْ إِلَیَّ بِزَکَاۃِ رَقِیْقِکَ .فَقَالَ أَبُوْ سَعِیْدٍ لِلرَّسُوْلِ : إِنَّ مَرْوَانَ لَا یَعْلَمُ‘ إِنَّمَا عَلَیْنَا أَنْ نُعْطِیَ لِکُلِّ رَأْسٍ‘ عِنْدَ کُلِّ فِطْرٍ‘ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ‘ أَوْ نِصْفَ صَاعٍ مِنْ بُرٍّ .فَھٰذَا أَبُوْ سَعِیْدٍ‘ قَدْ أَخْبَرَ فِیْ ھٰذَا‘ بِمَا عَلَیْہِ فِیْ زَکَاۃِ الْفِطْرِ‘ عَنْ عَبِیْدِہٖ، فَدَلَّ ذٰلِکَ عَلٰی مَا ذَکَرْنَا‘ وَأَنَّ مَا رُوِیَ عَنْہُ مِمَّا زَادَ عَلٰی ذٰلِکَ‘ کَانَ اخْتِیَارًا مِنْہُ‘ وَلَمْ یَکُنْ فَرْضًا .وَقَدْ جَائَ تِ الْآثَارُ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِمَا فَرَضَہٗ فِیْ زَکَاۃِ الْفِطْرِ‘ مُوَافَقَۃً لِھٰذَا أَیْضًا .
٣٠٣٩: یونس نے حسن سے نقل کیا کہ مروان نے ابو سعید (رض) کی طرف پیغام بھیجا کہ اپنے غلام کی زکوۃ فطر بھیج دو تو ابو سعید (رض) نے قاصد کو کہا مروان کو علم نہیں ہمارے ذمہ لازم ہے کہ ہم ہر شخص کی طرف سے صدقۃ الفطر گندم کا ایک صاع یا نصف صاع گندم ادا کریں۔ یہ حضرت ابو سعید (رض) ہیں جو یہ بتاتے ہیں کہ ان پر غلام کا صدقہ فطر کتنی مقدار میں ہے۔ یہ بھی تو اس بات پر دلیل ہے۔ جو کچھ ان سے زیادہ دینے کے بارے میں مروی ہے تو وہ ان کی اختیار بات تھی ان پر فرض نہ تھا ۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اس کے موافق جناب رسول اللہ سے روایات بھی آتی ہیں ذیل میں ملاحظہ ہوں۔
اس روایت میں تو ابو سعید (رض) نے زکوۃ فطر گندم سے نصف صاع بتلایا ہے اس سے یہ ثابت ہوا کہ فریق اوّل کی نقل کردہ روایات میں فرض سے زائد بطور تطوع اور تبرع دیا گیا ہے وہ فرض مقدار نہیں ہے اس کی موافقت میں روایات وارد ہیں۔

3040

۳۰۴۰ : حَدَّثَنَا اِبْرَاہِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا عَارِمٌ .ح .
٣٠٤٠: ابراہیم بن مرزوق نے عارم سے روایت نقل کی ہے۔

3041

۳۰۴۱ : وَحَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ‘ قَالَ : ثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ حَرْبٍ‘ قَالَا : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَیْدٍ‘ عَنْ أَیُّوْبَ‘ عَنْ نَافِعٍ‘ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ : (أَمَرَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِصَدَقَۃِ الْفِطْرِ‘ عَنْ کُلِّ صَغِیْرٍ وَکَبِیْرٍ‘ حُرٍّ وَعَبْدٍ‘ صَاعًا مِنْ شَعِیْرٍ‘ أَوْ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ‘ قَالَ : فَعَدَلَہُ النَّاسُ بِمُدَّیْنِ مِنْ حِنْطَۃٍ) .
٣٠٤١: نافع نے ابن عمر (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہر چھوٹے بڑے ‘ آزاد ‘ غلام کی طرف سے جو کا ایک صاع ‘ کھجور کا ایک صاع مقرر کیا لوگوں نے اس کا معادلہ دو مد گندم سے کرلیا۔
تخریج : بخاری فی الزکوۃ باب ٧٦؍٧٧‘ مسلم فی الزکوۃ ١٤؍١٥‘ ابو داؤد فی الزکوۃ باب ٢٠‘ نمبر ١٦١١‘ ترمذی فی الزکوۃ باب ٣٥‘ نمبر ٦٧٦‘ ابن ماجہ فی الزکوۃ باب ٢١‘ نمبر ١٨٢٦۔

3042

۳۰۴۲ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا قَبِیْصَۃُ‘ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ‘ عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ‘ عَنْ نَافِعٍ‘ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ‘ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ .
٣٠٤٢: نافع نے ابن عمر (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

3043

۳۰۴۳ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو‘ قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ عِیْسٰی‘ عَنِ ابْنِ أَبِیْ لَیْلٰی‘ عَنْ نَافِعٍ‘ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا مِثْلَہٗ .
٣٠٤٣: نافع نے ابن عمر (رض) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

3044

۳۰۴۴ : حَدَّثَنَا یَزِیْدُ بْنُ سِنَانٍ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوَ الْوَلِیْدِ الطَّیَالِسِیُّ‘ وَبِشْرُ بْنُ عُمَرَ‘ قَالَا : ثَنَا لَیْثُ بْنُ سَعْدٍ‘ عَنْ نَافِعٍ‘ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا‘ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ ، غَیْرَ أَنَّہٗ لَمْ یَذْکُرِ التَّعْدِیْلَ .
٣٠٤٤: نافع نے ابن عمر (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت کی البتہ تعدیل کا تذکرہ نہیں ہے۔

3045

۳۰۴۵ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ‘ قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ‘ أَنَّ مَالِکًا أَخْبَرَہٗ ۔ ح .
٣٠٤٥: ابن وہب سے خبر دی کہ مالک نے ہمیں خبر دی ہے۔

3046

۳۰۴۶ : وَحَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ‘ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ مَسْلَمَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا مَالِکٌ‘ عَنْ نَافِعٍ‘ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا‘ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ .غَیْرَ أَنَّہٗ قَالَ : (عَنْ کُلِّ حُرٍّ وَعَبْدٍ‘ ذَکَرٍ وَأُنْثٰی‘ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ) .
٣٠٤٦: نافع نے ابن عمر (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے البتہ یہ لفظ مختلف ہیں : عَنْ کُلِّ حُرٍّ وَعَبْدٍ ‘ ذَکَرٍ وَأُنْثَی ‘ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ کے الفاظ زائد ہیں۔
تخریج : روایت ٣٠٤٢ کی تخریج ملاحظہ ہو۔

3047

۳۰۴۷ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ‘ قَالَ : ثَنَا عَمْرُو بْنُ طَارِقٍ‘ قَالَ : أَنَا یَحْیَی بْنُ أَیُّوْبَ‘ عَنْ یُوْنُسَ بْنِ یَزِیْدَ‘ أَنَّ نَافِعًا أَخْبَرَہٗ قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا (فَرَضَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ زَکَاۃَ الْفِطْرِ‘ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ‘ أَوْ صَاعًا مِنْ شَعِیْرٍ‘ عَلٰی کُلِّ إِنْسَانٍ‘ ذَکَرٍ حُرٍّ‘ أَوْ عَبْدٍ‘ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ .) قَالَ : وَکَانَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا یَقُوْلُ (فَجَعَلَ النَّاسُ عَدْلَہٗ مُدَّیْنِ مِنْ حِنْطَۃٍ) .فَقَوْلُ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا (فَجَعَلَ النَّاسُ عَدْلَہُ مُدَّیْنِ مِنْ حِنْطَۃٍ) إِنَّمَا یُرِیْدُ أَصْحَابَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الَّذِیْنَ یَجُوْزُ تَعْدِیْلُہُمْ‘ وَیَجِبُ الْوُقُوْفُ عِنْدَ قَوْلِہِمْ .فَإِنَّہٗ قَدْ رُوِیَ عَنْ عُمَرَ مِثْلُ ذٰلِکَ فِیْ کَفَّارَۃِ الْیَمِیْنِ‘ أَنَّہٗ قَالَ لِیَسَارِ بْنِ نُمَیْرٍ (إِنِّیْ أَحْلِفُ أَنْ لَا أُعْطِیَ أَقْوَامًا شَیْئًا‘ ثُمَّ یَبْدُو لِیْ فَأَفْعَلُ‘ فَإِذَا رَأَیْتَنِیْ فَعَلْتَ ذٰلِکَ‘ فَأَطْعِمْ عَنِّیْ عَشَرَۃَ مَسَاکِیْنَ‘ کُلَّ مِسْکِیْنٍ نِصْفَ صَاعٍ مِنْ بُرٍّ‘ أَوْ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ أَوْ شَعِیْرٍ) .وَرُوِیَ عَنْ عَلِیٍّ مِثْلُ ذٰلِکَ‘ وَسَنَذْکُرُ ذٰلِکَ فِیْ مَوْضِعِہٖ مِنْ کِتَابِنَا ھٰذَا‘ إِنْ شَائَ اللّٰہُ تَعَالٰی‘ مِنْ أَنَّہٗ قَدْ رُوِیَ عَنْ عُمَرَ‘ وَعَنْ أَبِیْ بَکْرٍ أَیْضًا‘ وَعَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ‘ فِیْ صَدَقَۃِ الْفِطْرِ‘ أَنَّہَا مِنَ الْحِنْطَۃِ نِصْفُ صَاعٍ‘ وَسَنَذْکُرُ ذٰلِکَ أَیْضًا فِیْ ھٰذَا الْبَابِ إِنْ شَائَ اللّٰہُ تَعَالٰی .فَدَلَّ ذٰلِکَ عَلٰی أَنَّہُمْ ہُمَ الْمُعَدِّلُوْنَ لِمَا ذَکَرْنَا مِنَ الْحِنْطَۃِ‘ بِالْمِقْدَارِ مِنَ الشَّعِیْرِ‘ وَالتَّمْرِ الَّذِیْ ذَکَرْنَا‘ وَلَمْ یَکُوْنُوْا یَفْعَلُوْنَ ذٰلِکَ إِلَّا بِمُشَاوَرَۃِ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَإِجْمَاعِہِمْ لَہُمْ عَلٰی ذٰلِکَ .فَلَوْ لَمْ یَکُنْ رُوِیَ لَنَا فِیْ مِقْدَارِ مَا یُعْطٰی مِنَ الْحِنْطَۃِ فِیْ زَکَاۃِ الْفِطْرِ إِلَّا ھٰذَا التَّعْدِیْلُ‘ لَکَانَ ذٰلِکَ - عِنْدَنَا - حُجَّۃً عَظِیْمَۃً فِیْ ثُبُوْتِ ذٰلِکَ الْمِقْدَارِ مِنَ الْحِنْطَۃِ‘ وَأَنَّہٗ نِصْفُ صَاعٍ .فَکَیْفَ وَقَدْ رُوِیَ - مَعَ ذٰلِکَ - عَنْ أَسْمَائِ ‘ أَنَّہَا کَانَتْ تُخْرِجُ ذٰلِکَ الْمِقْدَارَ عَلٰی عَہْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَیْضًا .ثُمَّ قَدْ رُوِیَ فِیْ غَیْرِ ھٰذِہِ الْآثَارِ الَّتِیْ ذَکَرْنَاہَا عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ مَا یُوَافِقُ ذٰلِکَ أَیْضًا .فَمِنْ ذٰلِکَ۔
٣٠٤٧: نافع نے عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے زکوۃ فطر کھجور سے ایک صاع اور ایک صاع جو ہر انسان آزاد و غلام پر مسلمانوں میں سے فرض کی۔ عبداللہ کہا کرتے تھے کہ لوگوں نے اس کے بدلے دو مد گندم مقرر کرلی۔ پس ابن عمر (رض) کا قول فجعل الناس عدلہ مدّ ین من حنطۃ ‘ ‘ الناس سے مراد صحابہ کرام (رض) ہیں جن کا اسے برابر ٹھہرانا جائز ہے اور ان کے قول پر رک جانا ضروری ہے حضرت عمر (رض) سے کفارہ قسم کے سلسلہ میں اسی طرح کا قول منقول ہے۔ کہ انھوں نے یسار بن نمیر کو فرمایا کہ میں قسم اٹھا لیتاہوں کہ بعض لوگوں کو کچھ نہ دوں گا ۔ پھر میرے سامنے یہ بات آتی ہے کہ مجھے ان کو دینا چاہیے تو ان کو دیتا ہوں ۔ پس جب تم مجھے ایسا کرتے ہوئے پاؤ تو میری طرف سے دس مساکین کو کھانا کھلادو کہ ہر مسکین کو نصف صاع گندم یا ایک صاع کھجور یا جو دو ‘ اور حضرت علی (رض) سے بھی اس طرح کی روایت آئی ہے جس کو اپنے موقعہ پر ہم اپنی اس کتاب میں ذکر کریں گے ان شاء اللہ تعالیٰ اور حضرت عمر اور حضرت ابوبکر اور حضرت عثمان (رض) سے صدقۃ الفطر کے متعلق اسی طرح کی روایت آئی ہے کہ اس کی مقدار گندم سے نصف صاع ہے۔ یہ روایات عنقریب ہم اسی باب میں ذکر کریں گے۔ پس اس سے یہ دلالت مل گئی کہ وہ گندم کی اس مقدار کو جو اور کھجور کے برابر قرار دینے والے تھے جس کا ہم نے تذکرہ کیا اور وہ ایسا اصحاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مشورے اور اتفاق سے کرتے تھے ۔ پس اگر گندم کی اس مقدار کے متعلق صدقۃ الفطر میں کھجور وغیرہ کے متعلق برابری کی یہی روایات ہوتیں ۔ تو دلیل کے لیے کافی تھیں کہ وہ مقدار نصف صاع ہے۔ مگر اس کے ساتھ حضرت اسماء (رض) کی روایت موجود ہے کہ وہ زمانہ نبوت میں یہی مقدار دیتی تھیں ۔ پھر اس سلسلہ اور بھی آثار جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کے متعلق مروی ہیں جن میں بعض ذیل میں ہیں۔
ابن عمر (رض) کے اس قول کا مطلب الناس سے اصحاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مراد ہیں جن کی تعدیل درست ہے ان کے قول پر اکتفا لازم ہے حضرت عمر (رض) سے کفارہ قسم میں مروی ہے کہ انھوں نے یسار بن نمیر کو فرمایا میں بعض اوقات یہ قسم اٹھاتا ہوں کہ بعض لوگوں کو کچھ نہ دوں پھر میرے سامنے کوئی بات آتی ہے تو میں کردیتا ہوں جب میں دیکھتا ہوں کہ میں نے اپنی قسم کے خلاف کردیا تو میں دس مساکین کو کھانا کھلا دیتا ہوں ہر مسکین کو نصف صاع گندم یا ایک صاع کھجور یا جو دیتا ہوں اور حضرت علی (رض) سے بھی اسی طرح کی روایت وارد ہے جس کو ہم اپنے مقام پر اس کتاب میں ذکر کریں گے (ان شاء اللہ) اور ابوبکر و عمر عثمان ] سے صدقۃ الفطر میں منقول ہے کہ وہ گندم سے نصف صاع ہے آئندہ ذکر کریں گے۔
اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ گندم کے متعلق جو اور کھجور کے مقابلے میں تعدیل والی بات وہ مشورہ سے ہوئی اور اس پر صحابہ کرام (رض) کا اجماع ہوا اگر اور کوئی روایت نہ بھی ہوتی یہ اجماع صحابہ کرام ہمارے لیے کافی حجت تھا اور یہ گندم کے نصف صاع صدقۃ الفطر ہونے میں عظیم حجت ہے اس اجماع کے ساتھ حضرت اسماء (رض) کی روایت گزری کہ ہم نصف صاع گندم صدقہ فطر میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں ادا کیا کرتے تھے اس کے علاوہ بھی ایسے آثار موجود ہیں جو اس بات کو صراحت سے ثابت کرتے ہیں۔
تائیدی آثار و روایات آگے ملاحظہ ہوں جن میں تین مرفوع سات موقوف ہیں۔

3048

۳۰۴۸ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ‘ قَالَ : ثَنَا مُسَدَّدٌ‘ قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَیْدٍ‘ عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ رَاشِدٍ‘ عَنِ الزُّہْرِیِّ‘ عَنْ ثَعْلَبَۃَ بْنِ أَبِیْ صُعَیْرٍ‘ عَنْ أَبِیْہِ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (صَاعٌ مِنْ بُرٍّ‘ أَوْ قَمْحٍ‘ عَنْ کُلِّ اثْنَیْنِ‘ حُرٍّ‘ أَوْ عَبْدٍ‘ ذَکَرٍ أَوْ أُنْثٰی‘ أَمَّا غَنِیُّکُمْ فَیُزَکِّیْہِ اللّٰہُ‘ وَأَمَّا فَقِیْرُکُمْ‘ فَیُرَدُّ عَلَیْہِ مِمَّا أَعْطٰی .
٣٠٤٨: زہری نے ثعلبہ بن ابی صعیر سے انھوں نے اپنے والد سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) گندم کا ایک صاع دو آدمیوں کی طرف سے خواہ وہ آزاد ہو یا غلام مرد ہو یا عورت۔ جو غنی ہیں ان کا تزکیہ ہوجائے گا اور فقیر کو اللہ تعالیٰ جو اس نے دیا ہے لوٹا دے گا۔
تخریج : ابو داؤد فی الزکوۃ باب ٢١‘ نمبر ١٦١٩۔

3049

۳۰۴۹ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ‘ قَالَ : ثَنَا عَفَّانَ‘ قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَیْدٍ‘ عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ رَاشِدٍ‘ عَنِ الزُّہْرِیِّ‘ عَنْ ثَعْلَبَۃَ بْنِ أَبِیْ صَغِیْرٍ‘ عَنْ أَبِیْہِ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (أَدُّوْا زَکَاۃَ الْفِطْرِ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ‘ أَوْ صَاعًا مِنْ شَعِیْرٍ‘ أَوْ نِصْفَ صَاعٍ مِنْ بُرٍّ أَوْ قَالَ قَمْحٍ عَنْ کُلِّ إِنْسَانٍ صَغِیْرٍ أَوْ کَبِیْرٍ‘ ذَکَرٍ أَوْ أُنْثٰی‘ حُرٍّ أَوْ مَمْلُوْکٍ‘ غَنِیٍّ أَوْ فَقِیْرٍ) .
٣٠٤٩: زہری نے ثلبہ نے ابی صعیر سے انھوں نے اپنے والد سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا صدقۃ الفطر ایک صاع کھجور یا ایک صاع جو یا آدھا صاع گندم ہر انسان کی طرف سے ادا کرو خواہ وہ چھوٹا ہو یا بڑا مرد ہو یا عورت آزاد ہو یا غلام ‘ مالدار ہو یا فقیر۔

3050

۳۰۵۰ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا حُسَیْنُ بْنُ مَہْدِیٍّ‘ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ‘ عَنْ مَعْمَرٍ‘ عَنِ الزُّہْرِیِّ‘ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ الْأَعْرَجِ‘ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : (زَکَاۃُ الْفِطْرِ عَنْ کُلِّ حُرٍّ وَعَبْدٍ‘ ذَکَرٍ أَوْ أُنْثٰی‘ صَغِیْرٍ أَوْ کَبِیْرٍ‘ غَنِیٍّ أَوْ فَقِیْرٍ‘ صَاعٌ مِنْ تَمْرٍ‘ أَوْ نِصْفُ صَاعٍ مِنْ قَمْحٍ .قَالَ مَعْمَرٌ وَبَلَغَنِیْ عَنِ الزُّہْرِیِّ أَنَّہٗ کَانَ یَرْفَعُہٗ) .
٣٠٥٠: زہری نے عبدالرحمن اعرج سے انھوں نے ابوہریرہ (رض) سے نقل کیا کہ صدقۃ الفطر ہر آزاد و غلام ‘ مرد و عورت ‘ بچے ‘ بوڑھے ‘ مالدار و فقیر کی طرف سے کھجور کا ایک صاع اور گندم کا نصف صاع ادا کرو۔

معمر کا قول :
معمر کہتے ہیں کہ مجھے زہری سے یہ بات پہنچی ہے کہ وہ اس کو مرفوع بیان کرتے تھے۔

3051

۳۰۵۱ : حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ‘ قَالَ : ثَنَا شُعَیْبُ بْنُ اللَّیْثِ‘ قَالَ : قَالَ اللَّیْثُ : حَدَّثَنِیْ عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ خَالِدٍ‘ وَعُقَیْلُ بْنُ خَالِدٍ‘ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ‘ عَنْ سَعِیْدِ بْنِ الْمُسَیِّبِ (، أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَرَضَ زَکَاۃَ الْفِطْرِ مُدَّیْنِ مِنْ حِنْطَۃٍ) ۔
٣٠٥١: ابن شہاب نے سعید بن المسیب سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صدقۃ الفطر گندم کے دو مد مقرر کئے ہیں۔

3052

۳۰۵۲ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ‘ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ یُوْسُفَ‘ قَالَ : ثَنَا اللَّیْثُ‘ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔
٣٠٥٢: عبداللہ بن یوسف نے لیث سے پھر انھوں نے اپنی سند سے اسی طرح بیان کیا۔

3053

۳۰۵۳ : حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْجِیْزِیُّ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ زُرْعَۃَ‘ قَالَ : أَنَا حَیْوَۃُ قَالَ : أَنَا عُقَیْلٌ‘ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ أَنَّہٗ سَمِعَ سَعِیْدَ بْنَ الْمُسَیِّبِ‘ وَأَبَا سَلْمَۃَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ‘ وَعُبَیْدَ اللّٰہِ بْنَ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُتْبَۃَ یَقُوْلُوْنَ : (أَمَرَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِزَکَاۃِ الْفِطْرِ‘ بِصَاعٍ مِنْ تَمْرٍ‘ أَوْ بِمُدَّیْنِ مِنْ حِنْطَۃٍ .)
٣٠٥٣: ابن شہاب نے نقل کیا ہے کہ سعید بن المسیب کہا کرتے تھے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حکم دیا کہ صدقۃ الفطر کھجور کا ایک صاع یا دو مد گندم کے ادا کئے جائیں گے۔

3054

۳۰۵۴ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ‘ قَالَ : ثَنَا ابْنُ أَبِیْ مَرْیَمَ‘ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ یَحْیَی بْنُ أَیُّوْبَ‘ قَالَ حَدَّثَنِیْ عُقَیْلٌ‘ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ‘ عَنْ سَعِیْدِ بْنِ الْمُسَیِّبِ‘ وَعُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَتَبَۃَ‘ وَالْقَاسِمِ‘ وَسَالِمٍ. قَالُوْا : (أَمَرَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ صَدَقَۃِ الْفِطْرِ‘ بِصَاعٍ مِنْ شَعِیْرٍ‘ أَوْ مُدَّیْنِ مِنْ قَمْحٍ) .
٣٠٥٤: ابن شہاب نے سعید بن المسیب اور عبیداللہ بن عبداللہ بن عقبہ اور قاسم وسالم ان تمام سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صدقۃ الفطر کے متعلق حکم فرمایا کہ جو کا ایک صاع یا گندم کے دو مد ادا کئے جائیں۔

3055

۳۰۵۵ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ‘ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْغَفَّارِ بْنُ دَاوٗدَ‘ قَالَ : ثَنَا ابْنُ لَہِیْعَۃَ‘ عَنْ عُقَیْلٍ‘ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ‘ عَنْ سَعِیْدٍ وَعُبَیْدِ اللّٰہِ وَالْقَاسِمِ وَسَالِمِ‘ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ .
٣٠٥٥: ابن شہاب نے سعید اور عبیداللہ اور قاسم ‘ سالم (رح) سے نقل کیا انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد اس طرح بیان فرمایا ہے۔

3056

۳۰۵۶ : حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوٗدَ‘ قَالَ : ثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ حَرْبٍ‘ قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَیْدٍ‘ عَنْ عَبْدِ الْخَالِقِ الشَّیْبَانِیِّ‘ عَنْ (سَعِیْدِ بْنِ الْمُسَیِّبِ‘ قَالَ : کَانَتِ الصَّدَقَۃُ تُعْطٰی عَلٰی عَہْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَأَبِیْ بَکْرٍ وَعُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا‘ نِصْفَ صَاعٍ مِنْ حِنْطَۃٍ .) فَقَدْ جَائَ تْ ھٰذِہِ الْآثَارُ الَّتِیْ ذَکَرْنَا عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی الْحِنْطَۃِ‘ بِمِثْلِ مَا عَدَلَہُ النَّاسُ بَعْدَہٗ‘ وَأَبُوْ سَعِیْدٍ‘ فَقَدْ رُوِیَ عَنْہُ مِنْ رَأْیِہٖ مَا یُوَافِقُ ذٰلِکَ‘ وَلَمْ یُخَالِفْ مَا رُوِیَ عَنْہُ مَا ذَکَرَہٗ عَنْہُ عِیَاضُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ فِیْ قَوْلِہٖ (تِلْکَ قِیْمَۃُ مُعَاوِیَۃَ‘ لَا أَقْبَلُہَا وَلَا أَعْمَلُ بِہَا) لِأَنَّہٗ فِیْ ذٰلِکَ‘ لَمْ یُنْکِرِ الْقِیْمَۃَ‘ وَإِنَّمَا أَنْکَرَ الْمُقَوِّمَ .فَھٰذَا مَا رُوِیَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ صَدَقَۃِ الْفِطْرِ‘ وَقَدْ ذَکَرْنَا بَعْضَ مَا رُوِیَ عَنْ أَبِیْ بَکْرٍ وَعُمَرَ وَعُثْمَانَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ فِیْ ذٰلِکَ .وَقَدْ رُوِیَ فِیْ ذٰلِکَ أَیْضًا عَنْ أَبِیْ بَکْرٍ وَعُمَرَ وَعُثْمَانَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ مَا یُوَافِقُ ذٰلِکَ .
٣٠٥٦: عبدالخالق شیبانی نے سعید بن المسیب سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ابوبکر ‘ عمر ] کے زمانے میں نصف صاع گندم سے دیا جاتا تھا۔ گندم کے متعلق یہ روایات جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے وارد ہوتی ہیں یہ اسی طرح ہیں جیسا کہ آپ کے بعد صحابہ کرام (رض) نے برابری قائم کی اور حضرت ابو سعید (رض) کی رائے بھی اس کے موافق موجود ہے۔ اور وہ قول اس کے مخالف نہیں جو حضرت عیاض بن عبداللہ نے ان سے نقل کیا ہے کہ ” تلک قیمۃ معاویہ لا اقبلھا ولا اعمل بھا “ کہ یہ معاویہ نے قیمت مقرر کی ہے میں اس کو نہ قبول کرتا ہوں اور نہ اس پر عمل کرتا ہوں کیونکہ انھوں نے اس قیمت کا انکار نہیں کیا بلکہ قیمت لگانے والے کا انکار کیا۔ صدقۃ الفطر کے متعلق تو یہ بات آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے۔ حضرت ابوبکر ‘ عمرو عثمان (رض) سے جو اس سلسلہ میں وارد ہوا ہے وہ بھی ہم نے ذکر کیا ہے اور ان کی مزید روایات بھی اس کی موافقت کرنے والی ہیں جو ذیل میں درج ہیں۔
حاصل روایات و آثار : گندم کے متعلق مندرجہ بالا روایات جن کا ہم نے تذکرہ کیا ہے یہ اسی طرح ہیں جس طرح کہ فریق اوّل کی تعدیل والی روایات ہیں بلکہ حضرت ابو سعید (رض) کی روایت ان کے موافق موجود ہے اب رہی وہ روایت جس کو عیاض بن عبداللہ نے اس طرح بیان کیا تلک قیمۃ معاویہ لا اقبلھاولا اعمل بھا تو ان روایات کو سامنے رکھ کر اس کی تاویل یہ ہوسکتی ہے کہ انھوں نے قیمت کا انکار نہیں کیا بلکہ قیمت لگانے والے کا انکار کیا۔
گندم کے سلسلہ میں آثار سے ہم ثابت کرچکے ہیں کہ یہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مقرر فرمائی ہے اس کو خود کسی نے مقرر نہیں کیا یہ توقیفی چیز ہے۔

3057

۳۰۵۷ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عُمَرَ‘ وَہِلَالُ بْنُ یَحْیٰی‘ قَالَا : أَنَا أَبُوْ عَوَانَۃَ‘ عَنْ عَاصِمٍ الْأَحْوَلِ‘ عَنْ أَبِیْ قِلَابَۃَ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ مَنْ دَفَعَ إِلٰی أَبِیْ بَکْرٍ الصِّدِّیْقِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ صَاعَ بُرٍّ بَیْنَ اثْنَیْنِ .
٣٠٥٧: عاصم احول نے ابو قلابہ سے نقل کیا کہ مجھے اس نے بتلایا جس نے ابوبکر (رض) کو خود دو آدمیوں کی طرف سے گندم کا ایک صاع بطور صدقۃ الفطر ادا کیا۔

3058

۳۰۵۸ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عُمَرَ‘ قَالَ : أَنَا حَمَّادٌ‘ عَنِ الْحَجَّاجِ بْنِ أَرْطَاۃَ‘ قَالَ : ذَہَبْتُ أَنَا وَالْحَکَمُ بْنُ عُتَیْبَۃَ إِلَی زِیَادِ بْنِ النَّضْرِ‘ فَحَدَّثَنَا عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ نَافِعٍ أَنَّ أَبَاہُ سَأَلَ‘ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فَقَالَ : (إِنِّیْ رَجُلٌ مَمْلُوْکٌ‘ فَہَلْ فِیْ مَالِیْ زَکَاۃٌ ؟) .فَقَالَ عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ (إِنَّمَا زَکَاتُکَ عَلٰی سَیِّدِکَ‘ أَنْ یُؤَدِّیَ عَنْکَ عِنْدَ کُلِّ فِطْرٍ‘ صَاعًا مِنْ شَعِیْرٍ‘ أَوْ تَمْرٍ‘ أَوْ نِصْفَ صَاعٍ مِنْ بُرٍّ) .
٣٠٥٨: عبداللہ بن نافع نے اپنے والد نافع سے نقل کیا کہ میں نے عمر (رض) سے دریافت کیا صدقۃ الفطر کتنا ہے جبکہ میں غلام ہوں ؟ تو آپ نے فرمایا تیرا صدقۃ الفطر تیرے آقا پر ہے کہ وہ ہر فطر کے موقعہ پر ایک صاع جو سے یا نصف صاع گندم سے ادا کرے۔

3059

۳۰۵۹ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ‘ قَالَ : ثَنَا نُعَیْمٌ‘ عَنِ ابْنِ عُیَیْنَۃَ‘ عَنِ الزُّہْرِیِّ‘ عَنِ ابْنِ أَبِیْ صُعَیْرٍ‘ قَالَ : کُنَّا نُخْرِجُ زَکَاۃَ الْفِطْرِ عَلٰی عَہْدِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ نِصْفَ صَاعٍ .
٣٠٥٩: زہری نے ثعلبہ بن ابی صعیر سے نقل کیا کہ عمر (رض) کے زمانہ میں ہم گندم کا نصف صاع صدقۃ الفطر کے طور پر ادا کیا کرتے تھے۔

3060

۳۰۶۰ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ‘ قَالَ : ثَنَا الْقَوَارِیْرِیُّ‘ قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَیْدٍ عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّائِ ‘ عَنْ أَبِیْ قِلَابَۃَ‘ عَنْ أَبِی الْأَشْعَثِ‘ قَالَ : خَطَبَنَا عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فَقَالَ فِیْ خُطْبَتِہِ : (أَدُّوْا زَکَاۃَ الْفِطْرِ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ‘ أَوْ صَاعًا مِنْ شَعِیْرٍ‘ عَنْ کُلِّ صَغِیْرٍ وَکَبِیْرٍ‘ حُرٍّ وَمَمْلُوْکٍ‘ ذَکَرٍ وَأُنْثَی) .
٣٠٦٠: ابو قلابہ نے ابی الاشعث سے نقل کیا کہ عثمان بن عفان (رض) نے ہمیں خطبہ دیا اور خطبہ میں ارشاد فرمایا کہ صدقۃ الفطر کھجور کا ایک صاع یا جو کا ایک صاع ہر چھوٹے بڑے ‘ آزاد ‘ غلام ‘ مرد و عورت کی طرف سے ادا کرو۔

3061

۳۰۶۱ : حَدَّثَنَا أَبُوْ زُرْعَۃَ : عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ عَمْرٍو الدِّمَشْقِیُّ‘ قَالَ : ثَنَا الْقَوَارِیْرِیُّ .فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہِ عَنْ عُثْمَانَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَنَّہٗ خَطَبَہُمْ فَقَالَ : (أَدُّوْا زَکَاۃَ الْفِطْرِ مُدَّیْنِ مِنْ حِنْطَۃٍ) وَلَمْ یَذْکُرْ مَا سِوٰی ذٰلِکَ‘ مِمَّا ذَکَرَہُ ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ .فَھٰذَا أَبُوْ بَکْرٍ وَعُمَرُ وَعُثْمَانُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ قَدْ أَجْمَعُوْا عَلٰی ذٰلِکَ‘ مِمَّا ذَکَرْنَا .وَقَدْ رُوِیَ مِثْلُ ذٰلِکَ أَیْضًا عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا .
٣٠٦١: ابو زرعہ عبدالرحمن بن عمرو دمشقی کہتے ہیں ہمیں قواریری نے اپنی اسناد سے بیان کیا کہ عثمان (رض) نے خطبہ دیا اور فرمایا صدقۃ الفطر گندم کے دو مد ادا کرو قواریری نے اس کے علاوہ اشیاء کا تذکرہ نہیں کیا جن کا تذکرہ ابن ابی داؤد نے کیا ہے۔ یہ حضرت ابوبکر و عمرو عثمان (رض) ہیں کہ جن کا اس بات پر اتفاق ہے۔ جیسا ہم نے ذکر کیا اور حضرت ابن عباس (رض) سے بھی اس کی مثل مروی ہے۔
آثار بالا سے ثابت ہوگیا کہ ابوبکر و عمر ‘ عثمان ] کا اس پر اتفاق ہے کہ گندم سے صدقۃ الفطر نصف صاع ہے اور ابن عباس (رض) کا قول بھی اس کے موافق ہے ملاحظہ ہو۔

3062

۳۰۶۲ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو‘ قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ عِیْسٰی‘ عَنِ ابْنِ أَبِیْ لَیْلٰی‘ عَنْ عَطَائٍ ‘ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ : (أَمَرْتُ أَہْلَ الْبَصْرَۃِ‘ اِذْ کُنْتُ فِیْہِمْ أَنْ یُعْطُوْا عَنِ الصَّغِیْرِ وَالْکَبِیْرِ‘ وَالْحُرِّ وَالْمَمْلُوْکِ‘ مُدَّیْنِ مِنْ حِنْطَۃٍ) وَقَدْ رُوِیَ مِثْلُ ذٰلِکَ أَیْضًا عَنْ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِیْزِ وَغَیْرِہٖ مِنَ التَّابِعِیْنَ۔
٣٠٦٢: عطاء نے ابن عباس (رض) سے نقل کیا کہ میں نے اہل بصرہ کو حکم دیا جبکہ میں وہاں مقیم (گورنر) تھا کہ وہ ہر چھوٹے بڑے آزاد و غلام کی طرف سے گندم دو مد بطور صدقۃ الفطر ادا کریں۔ اس کی مثل حضرت عمر بن عبد العزیز وغیرہ تابعین (رح) سے بھی مروی ہے۔

3063

۳۰۶۳ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ حُمْرَانَ‘ قَالَ : ثَنَا عَوْفٌ‘ قَالَ : کَتَبَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیْزِ إِلٰی عَدِیِّ بْنِ أَرْطَاۃَ کِتَابًا‘ فَقَرَأَہٗ عَلٰی مِنْبَرِ الْبَصْرَۃِ‘ وَأَنَا أَسْمَعُ : (أَمَّا بَعْدُ فَمُرْ مَنْ قَبِلَکَ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ أَنْ یُخْرِجُوْا زَکَاۃَ الْفِطْرِ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ أَوْ نِصْفَ صَاعٍ مِنْ بُرٍّ) .
٣٠٦٣: عوف بیان کرتے ہیں کہ عمر بن عبدالعزیز (رح) نے عدی بن ارطاۃ کی طرف لکھا اور انھوں نے وہ عمر کا خط بصرہ کے منبر پر سنایا میں ان سامعین میں موجود تھا حمد و صلوۃ کے بعد ! تمام مسلمانوں کو حکم دو کہ وہ صدقۃ الفطر گندم سے نصف صاع اور کھجور سے ایک صاع نکالیں۔

3064

۳۰۶۴ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عُمَرَ‘ قَالَ : أَنَا أَبُوْ عَوَانَۃَ‘ عَنْ مَنْصُوْرٍ‘ عَنْ اِبْرَاہِیْمَ‘ وَمُجَاہِدٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ مِثْلَہٗ .
٣٠٦٤: منصور نے ابراہیم و مجاہد رحمہم اللہ سے اسی طرح نقل کیا ہے۔

3065

۳۰۶۵ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَامِرٍ‘ عَنْ سُفْیَانَ‘ عَنْ مَنْصُوْرٍ‘ عَنْ مُجَاہِدٍ (فِیْ زَکَاۃِ الْفِطْرِ‘ صَاعٌ مِنْ کُلِّ شَیْئٍ سِوَی الْحِنْطَۃِ‘ وَالْحِنْطَۃِ نِصْفُ صَاعٍ) .
٣٠٦٥: منصور نے مجاہد سے صدقۃ الفطر کے متعلق نقل کیا ہے کہ گندم کے علاوہ ہر چیز سے ایک صاع نکالا جائے اور گندم سے نصف صاع ادا کیا جائے۔

3066

۳۰۶۶ : حَدَّثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ مُحَمَّدٍ بْنِ خُشَیْشٍ‘ قَالَ : ثَنَا مُسْلِمُ بْنُ اِبْرَاہِیْمَ قَالَ : ثَنَا ہِشَامٌ‘ قَالَ : ثَنَا قَتَادَۃُ‘ عَنْ سَعِیْدِ بْنِ الْمُسَیِّبِ فِیْ زَکَاۃِ رَمَضَانَ‘ قَالَ : (صَاعَ تَمْرٍ‘ أَوْ نِصْفَ صَاعِ بُرٍّ) .
٣٠٦٦: قتادہ نے سعید بن المسیب سے صدقۃ الفطر کے متعلق نقل کیا کہ کھجور سے ایک صاع یا گندم سے نصف صاع۔

3067

۳۰۶۷ : حَدَّثَنَا اِبْرَاہِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا أُرَاہُ عَفَّانَ‘ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ‘ قَالَ : سَأَلْتُ الْحَکَمَ وَحَمَّادًا وَعَبْدَ الرَّحْمٰنِ بْنَ الْقَاسِمِ عَنْ صَدَقَۃِ الْفِطْرِ فَقَالُوْا (نِصْفَ صَاعٍ حِنْطَۃً) .فَھٰذَا کُلُّ مَا رَوَیْنَا فِیْ ھٰذَا الْبَابِ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَعَنْ أَصْحَابِہٖ مِنْ بَعْدِہٖ‘ وَعَنْ تَابِعِیْہِمْ مِنْ بَعْدِہِمْ‘ کُلُّہَا عَلٰی أَنَّ صَدَقَۃَ الْفِطْرِ مِنَ الْحِنْطَۃِ نِصْفُ صَاعٍ‘ وَمِمَّا سِوَی الْحِنْطَۃِ صَاعٌ .وَمَا عَلِمْنَا أَنَّ أَحَدًا مِنْ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَلَا مِنَ التَّابِعِیْنَ‘ رُوِیَ عَنْہُ خِلَافُ ذٰلِکَ‘ فَلاَ یَنْبَغِی لِأَحَدٍ أَنْ یُخَالِفَ ذٰلِکَ‘ اِذْ کَانَ قَدْ صَارَ إِجْمَاعًا فِیْ زَمَنِ أَبِیْ بَکْرٍ وَعُمَرَ وَعُثْمَانَ وَعَلِیٍّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ إِلَی زَمَنِ مَنْ ذَکَرْنَا مِنَ التَّابِعِیْنَ .ثُمَّ النَّظَرُ أَیْضًا قَدْ دَلَّ ذٰلِکَ‘ وَذٰلِکَ أَنَّا رَأَیْنَاہُمْ قَدْ أَجْمَعُوْا عَلٰی أَنَّہَا مِنَ الشَّعِیْرِ وَالتَّمْرِ صَاعٌ .فَنَظَرْنَا فِیْ حُکْمِ الْحِنْطَۃِ فِی الْأَشْیَائِ الَّتِیْ تُؤَدّٰی عَنْہَا التَّمْرُ وَالشَّعِیْرُ کَیْفَ ہُوَ ؟ فَوَجَدْنَا کَفَّارَاتِ الْأَیْمَانِ قَدْ أُجْمِعَ أَنَّ الْاِطْعَامَ فِیْہَا مِنْ ھٰذِہِ الْأَصْنَافِ أَیْضًا‘ ثُمَّ اُخْتُلِفَ فِیْ مِقْدَارِہَا مِنْہَا . فَقَالَ قَوْمٌ مِقْدَارُ ذٰلِکَ مِنَ التَّمْرِ وَالشَّعِیْرِ‘ نِصْفُ صَاعٍ‘ وَمِنَ الْحِنْطَۃِ مُدٌّ مِثْلُ نِصْفِ ذٰلِکَ .وَقَالَ آخَرُوْنَ : بَلْ ہُوَ مِنَ الْحِنْطَۃِ‘ نِصْفُ صَاعٍ وَمِمَّا سِوٰی ذٰلِکَ‘ صَاعٌ .وَکُلُّہُمْ قَدْ عَدَلَ الْحِنْطَۃَ بِمِثْلَیْہَا مِنَ التَّمْرِ وَالشَّعِیْرِ‘ فَکَانَ النَّظَرُ عَلٰی ذٰلِکَ‘ اِذَا کَانَتْ صَدَقَۃُ الْفِطْرِ صَاعًا مِنَ التَّمْرِ وَالشَّعِیْرِ‘ أَنْ یَّکُوْنَ مِنَ الْحِنْطَۃِ مِثْلُ نِصْفِ ذٰلِکَ‘ وَہُوَ نِصْفُ صَاعٍ .فَھٰذَا ہُوَ النَّظَرُ فِیْ ھٰذَا الْبَابِ أَیْضًا‘ وَقَدْ وَافَقَ ذٰلِکَ مَا جَائَ تْ بِہِ الْآثَارُ الَّتِیْ ذَکَرْنَا فَبِذٰلِکَ نَأْخُذُ‘ وَہُوَ قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ‘ وَأَبِیْ یُوْسُفَ‘ وَمُحَمَّدٍ رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی .
٣٠٦٧: شعبہ کہتے ہیں کہ میں نے حکم اور حماد اور عبدالرحمن بن القاسم تینوں سے صدقۃ الفطر کے متعلق دریافت کیا تو سب کا جواب یہ تھا کہ گندم سے نصف صاع نکالا جائے گا۔ یہ تمام روایات باب جن کو ہم نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے بعد آپ کے صحابہ کرام اور ان کے بعد تابعین (رح) سے نقل کیا ان سے ثابت ہوتا ہے کہ گندم کی صدقۃ الفطر میں مقدار نصف صاع ہے اور گندم کے علاوہ صاع ہے ‘ اور ہمارے علم میں کوئی صحابی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور کوئی تابعی (رح) ایسا نہیں ہے جس نے اس کے خلاف روایت کی ہو ۔ پس کسی کو جائز نہیں کہ وہ اس کی مخالفت کرے کیونکہ خلفاء اربعہ (رض) کے زمانہ میں اس پر اجماع رہا اور تابعین کے زمانہ تک اسی طرح رہا۔ پھر قیاس بھی اس کا مؤید ہے ‘ وہ اس طرح کہ ہم جانتے ہیں کہ اس پر سب کا اتفاق ہے کہ جو اور کھجور کی مقدار فطر ایک صاع ہے۔ پھر ہم نے ان چیزوں میں گندم کا حکم معلوم کیا جن میں جو اور کھجور دی جاتی ہے کہ ان کی کیفیت کیا ہے۔ ہم نے یہ بات پائی کہ قسم کے کفار ات میں انہی اقسام سے کھانا کھلانے کا حکم ہے۔ پھر اس کی مقدار میں اختلاف ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ اس کی مقدار کھجور اور جو سے نصف صاع اور گندم سے اس کا نصف یعنی ایک مُد ہے۔ مگر دوسرے حضرات کا کہنا ہے کہ گندم سے صرف نصف صاع اور بقیہ اشیاء سے کامل صاع ہے۔ ان تمام نے گندم کے مقابلے میں دوگنا کھجور اور جو مقرر کیے ہیں۔ تو غور و فکر کا تقاضا یہ ہے کہ جب صدقۃ الفطر کھجور اور جو سے ایک صاع ہے تو گندم اس کا نصف یعنی نصف صاع ہو۔ اس باب میں قیاس اسی کو چاہتا ہے۔ اور آثار مذکورہ بھی اس کے مؤید ہیں اور امام ابوحنیفہ ابو یوسف ‘ محمد (رح) کا قول بھی یہی ہے اور ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں۔
اس باب میں ہم نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مرفوع روایات اور صحابہ کرام کے آثار اور جلیل القدر تابعین کے آثار نقل کئے ہیں جو اس بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ گندم سے صدقۃ الفطر نصف صاع ہے جبکہ اس کے علاوہ سے ایک صاع دیا جائے گا اور یہ توقیفی ہے ہماری معلومات میں کسی صحابی رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور تابعی کا قول اس کے خلاف نظر نہیں آیا۔
اب کسی کو جائز نہیں کہ وہ اس کی مخالفت کرتے ہوئے من مانی کرے اور اس پر ابوبکر و عمرو عثمان ] کے زمانہ میں اجماع ہوگیا اور تابعین کے زمانہ تک اس اجماع کی خلاف ورزی نظر نہیں آتی۔
اب بطریق نظر اس کو ملاحظہ کرتے ہیں تو وہ بھی اس کے عین موافق نظر آتا ہے وہ آئندہ سطور میں لکھا جاتا ہے۔
نظر طحاوی (رض) :
اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ جو اور کھجور سے ایک صاع صدقۃ الفطر ہوگا مگر گندم کے متعلق اختلاف ہوا کہ اس کی مقدار کیا ہے تو ہم نے دوسرے مواقع پر نگاہ ڈالی کہ گندم اور دوسری اشیاء باہمی موازنہ میں کس طرح استعمال کی جاتی ہیں۔
چنانچہ کفارات قسم کو دیکھنے سے معلوم ہوا کہ اس بات پر سب کا اتفاق ہے ان تمام اصناف سے طعام دینا جائز ہے پھر مقدار میں اختلاف ہوا بعض نے کہا کہ کھجور ‘ جو تو نصف صاع اور گندم کا ایک مد وہ نصف صاع کے برابر و مماثل ہے۔
دوسروں نے کہا کہ گندم نصف صاع اور اس کے علاوہ کامل صاع دیئے جائیں گے اب اس مثال سے ظاہر ہو رہا ہے کہ سب نے گندم کو کھجور اور جو کے مقابلے نصف قرار دیا ہے پس نظر کا تقاضا یہی ہے کہ صدقۃ الفطر میں جب کھجور اور جو کا ایک صاع ہے تو گندم لازماً نصف صاع ہی ہونی چاہیے یہ نظر بھی آثار کے موافق و مؤید ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں اور یہ ہمارے ائمہ ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد رحمہم اللہ تعالیٰ کا قول ہے۔
صدقۃ الفطر کی حیثیت :
علامہ عینی (رح) کے بقول شوافع و مالکیہ اور اہل ظواہر کے ہاں یہ سنت ہے مگر جمہور مالکیہ اور شوافع و حنابلہ نووی کے قول کے مطابق اس کی فرضیت کے قائل ہیں اور احناف کے ہاں یہ واجب ہے۔
وجوب صدقۃ الفطر کی حیثیت :
ائمہ ثلاثہ رحمہم اللہ کے ہاں تو جس کے پاس ایک دن رات کی خوراک موجود ہے اس پر بھی لازم ہے احناف کے ہاں ضروریات اصلیہ کے علاوہ وقتی طور پر نصاب کی مقدار صدقۃ الفطر کو لازم کردیتی ہے نصاب نامی شرط نہیں ہے۔ صدقۃ الفطر کی مقدار اجتہادی نہیں بلکہ توقیفی ہے اگرچہ زمانہ حال میں اشیاء کی قیمتوں میں خاصا تفاوت ہے مگر اس کی مقدار جن جن اشیاء میں جو مقرر ہے وہی رہے گی صحابہ کرام نے جن ممالک پر حکمرانی کی ان میں کھجور کے مقابلے گندم کثرت سے تھی مگر انھوں نے اس مقدار میں تبدیلی نہیں کی جیسے کہ مصر وغیرہ۔
حاصل روایات : امام طحاوی (رح) نے مرفوع روایات کے علاوہ خلفاء راشدین کے فتاویٰ اور تابعین سے بطور نمونہ چار تابعین کے فتاویٰ نقل کئے ہیں جن سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ گندم کے نصف صاع کی مقدار صحابہ کرام اور تابعین کے زمانہ سے معروف چلی آرہی ہے خود تجویز کردہ نہیں۔

3068

۳۰۶۸ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ عِمْرَانَ‘ قَالَ : قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ شُجَاعٍ‘ وَسُلَیْمَانُ ابْنُ بَکَّارٍ‘ وَأَحْمَدُ بْنُ مَنْصُوْرٍ الرَّمَادِیُّ‘ قَالُوْا : ثَنَا یَعْلَی بْنُ عُبَیْدٍ‘ عَنْ مُوْسَی الْجُہَنِیِّ‘ عَنْ (مُجَاہِدٍ‘ قَالَ : دَخَلْنَا عَلٰی عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا‘ فَاسْتَسْقٰی بَعْضُنَا فَأُتِیَ بِعُسٍّ‘ قَالَتْ عَائِشَۃُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَغْتَسِلُ بِمِثْلِ ھٰذَا .قَالَ مُجَاہِدٌ فَحَزَرْتُہٗ فِیْمَا أَحْزِرُ‘ ثَمَانِیَۃَ أَرْطَالٍ‘ تِسْعَۃَ أَرْطَالٍ‘ عَشَرَۃَ أَرْطَالٍ) .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَذَہَبَ ذَاہِبُوْنَ إِلٰی أَنَّ وَزْنَ الصَّاعِ ثَمَانِیَۃُ أَرْطَالٍ‘ وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِھٰذَا الْحَدِیْثِ‘ وَقَالَ : لَمْ یَشُکَّ مُجَاہِدٌ فِی الثَّمَانِیَۃٖ،وَإِنَّمَا شَکَّ فِیْمَا فَوْقَہَا‘ فَثَبَتَتْ الثَّمَانِیَۃُ بِھٰذَا الْحَدِیْثِ‘ وَانْتَفٰی مَا فَوْقَہَا‘ وَمِمَّنْ قَالَ بِھٰذَا الْقَوْلِ أَبُوْ حَنِیْفَۃَ رَحِمَہُ اللّٰہُ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ‘ فَقَالُوْا : وَزْنُہٗ خَمْسَۃُ أَرْطَالٍ وَثُلُثُ رَطْلٍ‘ وَمِمَّنْ قَالَ بِذٰلِکَ‘ أَبُوْ یُوْسُفَ رَحِمَہُ اللّٰہُ‘ وَقَالُوْا : ھٰذَا الَّذِیْ کَانَ یَغْتَسِلُ بِہٖ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ہُوَ صَاعٌ وَنِصْفٌ .وَذَکَرُوْا فِیْ ذٰلِکَ مَا۔
٣٠٦٨: موسیٰ جہنی نے مجاہد سے نقل کیا کہ ہم حضرت عائشہ (رض) کی خدمت میں حاضر ہوئے ہم میں سے بعض نے پانی مانگا تو انھوں نے بڑی ہنڈیا یا بڑا پیالہ منگوایا حضرت عائشہ (رض) فرمانے لگیں جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس جیسے برتن کی مقدار پانی سے غسل فرما لیتے تھے میں نے اس کو ماپا تو پیمائش میں وہ آٹھ رطل ‘ نو رطل ‘ دس رطل کے برابر تھا۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں کہ بعض علماء اس طرف گئے ہیں کہ صاع کا وزن آٹھ رطل ہے۔ انھوں نے اس روایت کو دلیل بنایا ہے۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ امام مجاہد (رح) نے اٹھ رطل میں شک ظاہر نہیں کیا البتہ زائد میں شک ظاہر کیا تو اس روایت نے آٹھ رطل کو ثابت اور زائد کی نفی کردی ۔ اس بات کو اختیار کرنے والوں میں امام ابوحنیفہ (رح) بھی ہیں۔ مگر دوسرے علماء نے ان سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ صاع کا وزن پانچ رطل اور رطل ہے۔ امام ابو ایوسف بھی اس قول کو اختیار کرنے والے ہیں ان کا کہنا یہ ہے کہ آپ جس پانی سے غسل فرماتے وہ ڈیڑھ صاع تھا اور انھوں نے ذیل کی روایات ذکر کیں۔
تخریج : نسائی فی الطہارۃ باب ١٤٣‘ مسند احمد ٦؍٥۔
لغات : العس بڑی ہنڈیا یا بہت بڑا پیالہ۔
صاع کا وزن آٹھ رطل ہے جیسا اس روایت میں موجود ہے مجاہد کو نو اور دس میں شک ہے مگر آٹھ تو متعین ہے پس صاع کا وزن آٹھ رطل ہوا۔
فریق ثانی کا مؤقف اور دلائل و جواب : صاع کا وزن ٥ رطل اور ثلث رطل ہے اور یہی وہ پانی کی مقدار ہے جس سے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غسل فرماتے تھے اور اس کی مقدار ڈیڑھ صاع ہے جیسا ان روایات میں ہے۔

صاع کی مقدار میں اختلاف ہے جو کہ گہری نگاہ ڈالنے سے لفظی رہ جاتا ہے اس کو سامنے رکھ کر عرض کرتے ہیں کہ امام ابوحنیفہ ‘ محمد ‘ ابراہیم ‘ نخعی رحمہم اللہ کے ہاں صاع آٹھ رطل کا ہوتا ہے۔
نمبر 2: امام ابو یوسف ‘ شافعی ومالک ‘ احمد رحمہم اللہ کے ہاں پانچ رطل اور ثلث رطل صاع کا وزن ہے۔
دراصل عراقی آٹھ رطل کا وزن ایک ہزار چالیس درہم کے مساوی ہے اسی طرح مدنی ٥ رطل اور ثلث کا بھی ایک ہزار چالیس درہم کے برابر وزن ہے۔
فریق اوّل کا مؤقف اور دلائل : عراقی صاع کا وزن آٹھ رطل ہے اس سے کم زیادہ نہیں دلیل یہ روایت ہے۔

3069

۳۰۶۹ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ‘ قَالَ : ثَنَا أَحْمَدُ بْنُ یُوْنُسَ‘ قَالَ : ثَنَا زَائِدَۃُ‘ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ بُرْقَانَ‘ عَنِ الزُّہْرِیِّ‘ عَنْ عُرْوَۃَ‘ عَنْ (عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ کُنْتُ أَغْتَسِلُ‘ أَنَا وَرَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ مِنْ إِنَائٍ وَاحِدٍ وَہُوَ الْفَرَقُ) .
٣٠٦٩: زہری نے عروہ سے انھوں نے عائشہ (رض) سے نقل کیا کہ میں اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک برتن سے غسل کرتے اور وہ الفرق ہے۔
تخریج : بخاری فی الغسل باب ٢‘ مسلم فی الحیض ٤٠؍٤١‘ ابو داؤد فی الطہارۃ باب ٩٦‘ نسائی فی الطہارۃ باب ١٤٣‘ ١٤٤‘ الغسل باب ٨‘ دارمی فی الوضو باب ٦٨‘ مالک فی الطہارۃ ٦٨ موطا مالک فی الطہارۃ نمبر ٦٨‘ مسند احمد ١؍٣٧‘ ١٩٩۔

3070

۳۰۷۰ : حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ شُعَیْبٍ‘ قَالَ : ثَنَا أَسَدُ بْنُ مُوْسٰی، قَالَ : ثَنَا ابْنُ أَبِیْ ذِئْبٍ‘ عَنِ الزُّہْرِیِّ‘ عَنْ عُرْوَۃَ‘ عَنْ (عَائِشَۃَ قَالَتْ کُنْتُ أَغْتَسِلُ أَنَا وَرَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ إِنَائٍ وَاحِدٍ مِنْ قَدَحٍ وَاحِدٍ یُقَالُ لَہُ الْفَرَقُ)
٣٠٧٠: زہری نے عروہ سے انھوں نے عائشہ (رض) سے نقل کیا ہے کہ میں اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک برتن سے غسل کرتے تھے جس کو الفرق کہتے تھے۔
تخریج : سابقہ تخریج نمبر ٣٠٧٠ ملاحظہ ہو۔

3071

۳۰۷۱ : حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ الْمُقْرِئُ‘ قَالَ : ثَنَا اللَّیْثُ بْنُ سَعْدٍ‘ قَالَ : حَدَّثَنِی ابْنُ شِہَابٍ‘ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہِ نَحْوَہٗ۔قَالُوْا : فَلَمَّا ثَبَتَ بِھٰذَا الْحَدِیْثِ الَّذِی رُوِیَ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یَغْتَسِلُ‘ ہُوَ وَہِیَ مِنَ الْفَرَقِ‘ وَالْفَرَقُ ثَلاَثَۃُ آصُعٍ‘ کَانَ مَا یَغْتَسِلُ بِہٖ کُلُّ وَاحِدٍ مِنْہُمَا صَاعًا وَنِصْفًا .فَإِذَا کَانَ ذٰلِکَ ثَمَانِیَۃَ أَرْطَالٍ‘ کَانَ الصَّاعُ ثُلُثَیْہَا‘ وَہُوَ خَمْسَۃُ أَرْطَالٍ‘ وَثُلُثُ رَطْلٍ‘ وَھٰذَا قَوْلُ أَہْلِ الْمَدِیْنَۃِ أَیْضًا .فَکَانَ مِنَ الْحُجَّۃِ عَلَیْہِمْ لِأَہْلِ الْمَقَالَۃِ الْأُوْلٰی أَنَّ حَدِیْثَ عُرْوَۃَ‘ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا إِنَّمَا فِیْہِ ذِکْرُ الْفَرَقِ الَّذِیْ کَانَ یَغْتَسِلُ مِنْہُ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ وَہِیَ لَمْ تَذْکُرْ مِقْدَارَ الْمَائِ الَّذِیْ کَانَ یَکُوْنُ فِیْہٖ‘ ہَلْ ہُوَ مِلْؤُہُ‘ أَوْ أَقَلُّ مِنْ ذٰلِکَ ؟ فَقَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَّکُوْنَ یَغْتَسِلُ ہُوَ وَہِیَ بِمِلْئِہٖ، وَیَجُوْزُ أَنْ یَّکُوْنَ کَانَ یَغْتَسِلُ ہُوَ وَہِیَ بِأَقَلَّ مِنْ مِلْئِہِ‘ مِمَّا ہُوَ صَاعَانِ‘ فَیَکُوْنُ کُلُّ وَاحِدٍ مِنْہُمْ مُغْتَسِلًا بِصَاعٍ مِنْ مَائٍ ‘ وَیَکُوْنُ مَعْنَی ھٰذَا الْحَدِیْثِ مُوَافِقًا لِمَعَانِی الْأَحَادِیْثِ الَّتِیْ رُوِیَتْ‘ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ أَنَّہٗ کَانَ یَغْتَسِلُ بِصَاعٍ .فَإِنَّہٗ قَدْ رُوِیَ عَنْہُ فِیْ ذٰلِکَ۔
٣٠٧١: لیث بن سعد نے کہا کہ مجھے ابن شہاب نے اپنی سند سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔ ان حضرت کا کہنا یہ ہے کہ جب حضرت عائشہ صدیقہ (رض) سے یہ بات ثابت ہوئی کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور وہ ایک فرق پانی سے غسل کرتے تھے اور فرق کی مقدار تین صاع ہے۔ تو غسل کے لیے ہر ایک کا پانی 2 1 صاع ہوا ۔ جب یہ آٹھ رطل ہوا ۔ تو ایک صاع اس کے دو ثلث کے برابر ہوا اور وہ مقدار (٥) پانچ رطل اور رطل ہے۔ یہ قول کو اہل مدینہ کا بھی ہے۔ اول قول والے ان کے خلاف دلیل دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ حضرت عروہ نے جو حضرت عائشہ صدیقہ (رض) سے نقل کی ہے۔ اس میں اس فرق (مقدار) کا ذکر ہے جس سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور خود عائشہ صدیقہ (رض) غسل کرتے تھے مگر اس میں پانی کی مقدار کا تذکرہ نہیں ‘ آیا وہ بھرا ہوا ہوتا تھا یا اس سے کم ؟ ممکن ہے کہ وہ بھرے ہوئے سے غسل فرماتے ہوں۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ ان کے غسل کے وقت وہ بھرا ہوا نہ ہو یعنی وہ دو صاع ہو اور ہر ایک کا غسل ایک صاع پانی سے ہو۔ اس صورت میں اس روایت کا مفہوم ان روایات کے موافق ہوجائے گا جو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہیں کہ آپ ایک صاع سے غسل کرتے تھے۔ اس سلسلہ میں ذیل کی روایات پر نظر ڈالیں۔
حاصل روایات : ان تمام روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور عائشہ (رض) ایک فرق سے غسل فرماتے تھے فرق تین صاع کا ہوتا ہے تو ہر ایک کے لیے غسل پر صرف ہونے والا پانی ڈیڑھ صاع بنا جب اس کو آٹھ رطل کا تسلیم کریں تو صاع اس کے دو ثلث ہوا حالانکہ وہ تو پانچ رطل اور ثلث رطل ہے اور یہ اہل مدینہ کا قول ہے پس آٹھ رطل ڈیڑھ صاع ہوا جبکہ صاع ٥ رطل اور ثلث رطل ہے۔
فریق اوّل کا جواب : یہ روایت عائشہ (رض) میں فرق کا تذکرہ ہے جس سے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غسل فرمایا کرتے تھے مگر روایت میں پانی کی مقدار کا تذکرہ نہیں کہ وہ بھرا ہوتا تھا یا اس میں کچھ پانی ہوتا تھا ہر دو احتمال ہیں۔۔ فرق نامی برتن پورا بھرا ہوا ہو۔
نمبر 2: کم بھرا ہو اور اس سے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور عائشہ (رض) غسل کرتے ہوں اور وہ کم بھرے کی مقدار دو صاع ہو تو ہر ایک ایک صاع پانی سے غسل کرنے والے تھے اس صورت میں یہ روایت ان روایات کے موافق ہوجائے گی جن میں ایک صاع کا ذکر آیا ہے جیسا کہ یہ روایت ہے۔

3072

۳۰۷۲ : مَاحَدَّثَنَا فَہْدٌ‘ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَعِیْدِ بْنِ الْأَصْبَہَانِیِّ‘ قَالَ : أَنَا عَبْدُ الرَّحِیْمِ بْنُ سُلَیْمَانَ‘ عَنْ حَجَّاجٍ‘ عَنْ اِبْرَاہِیْمَ‘ عَنْ صَفِیَّۃَ بِنْتِ شَیْبَۃَ‘ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ (کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَتَوَضَّأُ بِالْمُدِّ‘ وَیَغْتَسِلُ بِالصَّاعِ) .
٣٠٧٢: صفیہ بنت شیبہ نے عائشہ (رض) سے نقل کیا ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک مد سے وضو اور ایک صاع سے غسل فرماتے تھے۔
تخریج : بخاری فی الوضو باب ٤٧‘ مسلم فی الحیض ٥١‘ ابو داؤد فی الطہارۃ باب ٤٤‘ ترمذی فی الطہارۃ باب ٤٢‘ نسائی فی المیاہ باب ١٣‘ ابن ماجہ فی الطہارۃ باب ١‘ دارمی فی الوضو باب ٢٣‘ مسند احمد ٣؍٣٠٣‘ ٦‘ ٢٨٠؍١٣٣‘ ٢١٩۔

3073

۳۰۷۳ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ‘ قَالَ : ثَنَا الْحِمَّانِیُّ‘ قَالَ : ثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ‘ عَنِ الزُّہْرِیِّ‘ عَنْ عُرْوَۃَ‘ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا‘ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ مِثْلَہٗ .
٣٠٧٣: زہری نے عروہ انھوں نے عائشہ (رض) انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔

3074

۳۰۷۴ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ‘ قَالَ : ثَنَا الْحِمَّانِیُّ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوَ الْأَحْوَصِ‘ عَنْ مُسْلِمٍ (یَعْنِی الْمُلَائِیَّ) عَنْ اِبْرَاہِیْمَ‘ عَنْ عَلْقَمَۃَ‘ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ (کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَغْتَسِلُ بِالصَّاعِ .)
٣٠٧٤: علقمہ نے نقل کیا ہے کہ عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک صاع سے غسل فرماتے تھے۔

3075

۳۰۷۵ : حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوٗدَ‘ قَالَ : ثَنَا ہُدْبَۃُ بْنُ خَالِدٍ‘ قَالَ : ثَنَا ہَمَّامٌ‘ عَنْ قَتَادَۃَ‘ عَنْ صَفِیَّۃَ بِنْتِ شَیْبَۃَ‘ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا (أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یَغْتَسِلُ بِقَدْرِ الصَّاعِ‘ وَیَتَوَضَّأُ بِقَدْرِ الْمُدِّ) .
٣٠٧٥: صفیہ بنت شیبۃ نے عائشہ (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صاع کی مقدار سے غسل اور مد کی مقدار سے وضو فرماتے تھے۔

3076

۳۰۷۶ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا مُسْلِمٌ‘ قَالَ : ثَنَا أَبَانُ‘ عَنْ قَتَادَۃَ‘ عَنْ صَفِیَّۃَ بِنْتِ شَیْبَۃَ‘ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ (کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَغْتَسِلُ بِالصَّاعِ وَیَتَوَضَّأُ بِالْمُدِّ) .
٣٠٧٦: صفیہ بنت عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صاع کے ساتھ غسل کرتے اور مد کے ساتھ وضو کرتے تھے۔

3077

۳۰۷۷ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ‘ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ بْنُ عَطَائٍ ‘ عَنْ سَعِیْدٍ‘ عَنْ قَتَادَۃَ‘ فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ ، غَیْرَ أَنَّہٗ قَالَ : بِالْمُدِّ وَنَحْوِہٖ۔
٣٠٧٧: سعید نے قتادہ سے پھر انھوں نے اپنی اسناد سے اسی طرح روایت نقل کی ہے البتہ یہ لفظ مختلف ہیں بالمد و نحوہ۔

3078

۳۰۷۸ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَبَّاسِ بْنِ الرَّبِیْعِ‘ قَالَ : ثَنَا أَسَدُ‘ قَالَ : ثَنَا الْمُبَارَکُ بْنُ فَضَالَۃَ‘ قَالَ : حَدَّثَتْنِیْ أُمِّی‘ عَنْ مُعَاذَۃَ‘ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ (کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَتَوَضَّأُ بِالْمُدِّ‘ وَیَغْتَسِلُ بِالصَّاعِ) .
٣٠٧٨: معاذہ نے عائشہ (رض) سے روایت کی کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک مد سے وضو اور صاع سے غسل فرماتے تھے۔

3079

۳۰۷۹ : حَدَّثَنَا أَبُوْ أُمَیَّۃَ‘ قَالَ : ثَنَا حَیْوَۃُ بْنُ شُرَیْحٍ‘ قَالَ : ثَنَا بَقِیَّۃُ‘ عَنْ عُتْبَۃَ بْنِ أَبِیْ حَکِیْمٍ‘ قَالَ : حَدَّثَنِیْ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ جُبَیْرِ بْنِ عَتِیْکٍ‘ قَالَ : (سَأَلْنَا أَنَسًا عَنِ الْوُضُوْئِ الَّذِیْ یَکْفِی الرَّجُلَ مِنَ الْمَائِ فَقَالَ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَتَوَضَّأُ مِنْ مُدٍّ فَیَسْبُغُ الْوُضُوْئَ ‘ وَعَسَیْ أَنْ یَفْضُلَ مِنْہُ .قَالَ سَأَلْنَاہُ عَنِ الْغُسْلِ مِنَ الْجَنَابَۃِ : کَمْ یَکْفِیْ مِنَ الْمَائِ ؟ قَالَ : الصَّاعُ‘ فَسَأَلْتُ عَنْہُ : أَعَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ذِکْرُ الصَّاعِ ؟ قَالَ : نَعَمْ‘ مَعَ الْمُدِّ .)
٣٠٧٩: عبداللہ بن جبیر بن عتیک کہتے ہیں کہ ہم نے انس سے پوچھا کہ وضو کے لیے کتنا پانی کفایت کرے گا تو کہنے لگے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک مد سے کامل وضو کرتے اور ایسا بھی ہوتا کہ اس سے بچ جاتا پھر ہم نے ان سے سوال کیا کہ غسل جنابت کے لیے کتنا پانی کفایت کر جائے گا تو انھوں نے کہا ایک صاع۔ میں نے ان سے پوچھا یہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے صاع کا تذکرہ موجود ہے انھوں نے کہا ہاں مد سمیت تذکرہ ہے۔
تخریج : بخاری فی الوضو باب ٤٩‘ مسلم فی الحیض ٥١۔

3080

۳۰۸۰ : حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ‘ قَالَ : ثَنَا أَسَدٌ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَوَانَۃَ‘ عَنْ یَزِیْدَ بْنِ أَبِیْ زِیَادٍ‘ عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِی الْجَعْدِ‘ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ‘ قَالَ : (کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَتَوَضَّأُ بِالْمُدِّ‘ وَیَغْتَسِلُ بِالصَّاعِ) .
٣٠٨٠: سالم بن ابی الجعد نے جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مد سے وضو اور صاع سے غسل کرتے تھے۔

3081

۳۰۸۱ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بَکْرَۃَ‘ قَالَ : ثَنَا مُسَدَّدٌ‘ قَالَ : ثَنَا بِشْرٌ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ رَیْحَانَۃَ‘ عَنْ سَفِیْنَۃَ‘ مَوْلَی أُمِّ سَلْمَۃَ قَالَ (کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُغَسِّلُہٗ الصَّاعُ مِنَ الْمَائِ ‘ وَیُوَضِّئُہُ الْمُدُّ مِنَ الْمَائِ) .فَفِیْ ھٰذِہِ الْآثَارِ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ کَانَ یَغْتَسِلُ بِصَاعٍ‘ وَلَیْسَ فِیْہِ مِقْدَارٌ وَزْنِ الصَّاعِ کَمَا ہُوَ ؟ وَفِیْ حَدِیْثِ مُجَاہِدٍ‘ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا ذِکْرُ وَزْنِ مَا کَانَ یَغْتَسِلُ بِہٖ، وَہُوَ ثَمَانِیَۃُ أَرْطَالٍ .وَفِیْ حَدِیْثِ عُرْوَۃَ (عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا أَنَّہَا کَانَتْ تَغْتَسِلُ ہِیَ وَرَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ إِنَائٍ وَاحِدٍ‘ ہُوَ الْفَرَقُ) .فَفِیْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ‘ ذَکَرَ مَا کَانَا یَغْتَسِلَانِ مِنْہُ خَاصَّۃً‘ وَلَیْسَ فِیْہِ ذِکْرُ مِقْدَارِ الْمَائِ الَّذِیْ کَانَا یَغْتَسِلَانِ بِہٖ۔ وَفِی الْآثَارِ الْأُخَرِ‘ ذِکْرُ مِقْدَارِ الْمَائِ الَّذِیْ کَانَ یَغْتَسِلُ بِہٖ، وَأَنَّہٗ کَانَ صَاعًا .فَثَبَتَ بِذٰلِکَ‘ لَمَّا صَحَّتْ ھٰذِہِ الْآثَارُ‘ وَجُمِعَتْ وَکُشِفَتْ مَعَانِیْہَا - أَنَّہٗ کَانَ یَغْتَسِلُ مِنْ إِنَائٍ ہُوَ الْفَرَقُ‘ وَبِصَاعٍ وَزْنُہُ ثَمَانِیَۃُ أَرْطَالٍ .فَثَبَتَ بِذٰلِکَ مَا ذَہَبَ إِلَیْہِ أَبُوْ حَنِیْفَۃَ رَحِمَہُ اللّٰہُ .وَقَدْ قَالَ بِذٰلِکَ أَیْضًا مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ .وَقَدْ رُوِیَ عَنْ أَنَسِ ابْنِ مَالِکٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَیْضًا‘ مَا یَدُلُّ عَلٰی ھٰذَا الْمَعْنٰی .
٣٠٨١: ابو ریحانہ نے سفینہ مولیٰ امّ سلمہ (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پانی کا ایک صاع آپ کو غسل کرا دیتا اور پانی کا ایک مد وضو کرا دیتا۔ یہ روایات بتلا رہی ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک صاع پانی سے غسل فرماتے تھے مگر ان روایات میں صاع کا وزن مذکور نہیں ۔ حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کی وہ روایت جس کو مجاہد (رح) نے نقل کیا اس میں مقدار کا ذکر موجود ہے۔ کہ جس سے آپ غسل فرماتے تھے اور وہ آٹھ رطل ہے اور وہ روایت جس کو عائشہ صدیقہ (رض) سے عروہ (رح) نے نقل کیا۔ وہ یہ ہے کہ میں اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک برتن سے غسل کرتے تھے وہ فرق ہے۔ تو اس روایت میں غسل والے برتن کا تذکرہ ہے مقدار کا ذکر نہیں جس سے غسل کیا جاتا تھا ۔ دوسری روایات میں پانی کی وہ مقدار مذکور ہے جس سے آپ غسل کرتے تھے کہ وہ ایک صاع تھا پس اس سے ثابت ہوگیا جب کہ یہ آثار درست ہیں ان کو اکٹھا کر کے ان کے معانی کو کھولا گیا تو وہ یہی تھے کہ آپ فرق نامی برتن سے غسل فرماتے اور ایک صاع سے غسل فرماتے جس کا وزن آٹھ رطل ہے۔ پس اس سے امام ابوحنیفہ (رح) کا قول ثابت ہوگیا اور امام محمد (رح) کا قول بھی یہی ہے اور حضرت انس (رض) سے بھی ایسی روایات وارد ہیں جو اس مفہوم کو ثابت کرتی ہیں۔
ان تمام روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک صاع سے غسل فرماتے تھے اور ان روایات میں صاع کا وزن مذکور نہیں جیسا کہ مجاہد کی اس روایت میں موجود ہے جو عائشہ (رض) سے مروی ہے کہ غسل کا پانی آٹھ رطل ہوتا تھا اور عروہ عن عائشہ (رض) والی روایت میں آپ دونوں کا فرق نامی برتن سے غسل کرنا مذکور ہے۔ اور اس روایت میں دونوں کے غسل کا تذکرہ ہے مگر پانی کی مقدار مذکور نہیں ہے۔
اور دوسرے آثار میں غسل کے پانی کی مقدار مذکور ہے کہ وہ ایک صاع تھا اب اس سے مندرجہ ذیل نتائج نکل آئے جبکہ ان آثار کو جمع کیا اور ان کی حقیقت کو جانچا کہ آپ ایک فرق سے غسل فرماتے اور اس صاع سے جس کا وزن آٹھ رطل تھا اس سے امام ابوحنیفہ (رح) اور محمد (رح) کا قول ثابت ہوا۔ بلکہ انس بن مالک (رض) سے بھی اس معنی کی تائید مذکور ہے۔
روایت انس (رض) ملاحظہ ہو :

3082

۳۰۸۲ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ عِمْرَانَ‘ قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ عَبْدِ الْحَمِیْدِ الْحِمَّانِیُّ‘ قَالَ : ثَنَا شَرِیْکٌ‘ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عِیْسٰی‘ عَنِ ابْنِ جُبَیْرٍ‘ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : (کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَتَوَضَّأُ بِالْمُدِّ‘ وَہُوَ رَطْلَانِ) .
٣٠٨٢: ابن جبیر نے انس (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک مد سے وضو فرماتے جس کی مقدار دو رطل تھی۔
تخریج : ترمذی فی الصلاۃ باب ٧٦‘ نمبر ٦٠٩۔

3083

۳۰۸۳ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ‘ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ مَنْصُوْرٍ‘ قَالَ : ثَنَا شَرِیْکٌ‘ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عِیْسٰی‘ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ " یَعْنِی بْنَ جُبَیْرٍ " عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : (کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ یَتَوَضَّأُ بِرَطْلَیْنِ‘ وَیَغْتَسِلُ بِالصَّاعِ) .فَھٰذَا أَنَسٌ قَدْ أَخْبَرَ أَنَّ مُدَّ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَطْلَانِ‘ وَالصَّاعُ أَرْبَعَۃُ أَمْدَادٍ .فَإِذَا ثَبَتَ أَنَّ الْمُدَّ رَطْلَانِ‘ ثَبَتَ أَنَّ الصَّاعَ ثَمَانِیَۃُ أَرْطَالٍ .فَإِنْ قَالَ قَائِلٌ : فَإِنَّ أَنَسَ بْنَ مَالِکٍ‘ قَدْ رُوِیَ عَنْہُ خِلَافُ ھٰذَا‘ فَذَکَرَ ۔
٣٠٨٣: عبداللہ بن جبیر (رض) نے انس (رض) سے نقل کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دو رطل سے وضو اور ایک صاع سے غسل فرماتے تھے۔ یہ حضرت انس (رض) ہیں جو یہ بتلاتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مردورطل اور صاع چار مد کا تھا ۔ پس یہ بات ثابت ہوگئی کہ ایک مد ۔ دو رطل ہے تو یہ خود ثابت ہوگیا کہ ایک صاع آٹھ رطل ہوتا ہے۔ اگر کوئی معترض یہ کہے کہ حضرت انس (رض) سے اس کے خلاف بھی مروی ہے۔
تخریج : ابو داؤد فی الطہارۃ باب ٤٤‘ نمبر ٩٥۔
انس (رض) کی ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مد دو رطل کا تھا اور صاع چار مد کا تھا پس جب یہ ثابت ہوگیا کہ مد دو رطل کا ہے تو صاع کا آٹھ رطل ہونا ثابت ہوگیا۔

3084

۳۰۸۴ : مَا حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوٗدَ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوَ الْوَلِیْدِ الطَّیَالِسِیُّ‘ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ‘ قَالَ : أَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ جُبَیْرٍ‘ سَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِکٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ یَقُوْلُ (إِنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یَتَوَضَّأُ بِالْمَکُّوْکِ‘ وَیَغْتَسِلُ بِخَمْسِ مَکَاکِیِّ) .قَالَ : فَھٰذَا الْحَدِیْثُ یُخَالِفُ الْحَدِیْثَ الْأَوَّلَ .قِیْلَ لَہٗ : مَا فِیْ ھٰذَا - عِنْدَنَا - خِلَافٌ لَہٗ‘ لِأَنَّ حَدِیْثَ شَرِیْکٍ إِنَّمَا فِیْہِ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یَتَوَضَّأُ بِالْمُدِّ‘ وَقَدْ وَافَقَہٗ عَلٰی ذٰلِکَ‘ عَتَبَۃُ بْنُ أَبِیْ حَکِیْمٍ فَرَوٰی عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ جُبَیْرٍ نَحْوًا مِنْ ذٰلِکَ .فَلَمَّا رَوٰی شُعْبَۃُ مَا ذَکَرْنَا عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ جُبَیْرٍ‘ اُحْتُمِلَ أَنْ یَّکُوْنَ أَرَادَ بِالْمَکُّوْکِ‘ الْمُدَّ‘ لِأَنَّہُمْ کَانُوْا یُسَمُّوْنَ الْمُدَّ مَکُّوْکًا‘ فَیَکُوْنُ الَّذِیْ کَانَ یَتَوَضَّأُ بِہٖ مُدًّا‘ وَیَکُوْنُ الَّذِیْ یَغْتَسِلُ بِہٖ خَمْسَۃَ مَکَاکِیِّ‘ یَغْتَسِلُ بِأَرْبَعَۃٍ مِنْہَا‘ وَہِیَ أَرْبَعَۃُ أَمْدَادٍ‘ وَہِیَ صَاعٌ‘ وَیَتَوَضَّأُ بِآخَرَ‘ وَہُوَ مُدٌّ .فَجَمَعَ فِیْ ھٰذَا الْحَدِیْث مَا کَانَ یَتَوَضَّأُ بِہٖ لِلْجَنَابَۃِ‘ وَمَا کَانَ یَغْتَسِلُ بِہٖ لَہَا .وَأَفْرَدَ فِیْ حَدِیْثِ عُتْبَۃَ‘ مَا کَانَ یَغْتَسِلُ بِہٖ لَہَا خَاصَّۃً‘ دُوْنَ مَا کَانَ یَتَوَضَّأُ بِہٖ، وَأَنَّ ذٰلِکَ الْوُضُوْئَ لَہَا أَیْضًا .وَسَمِعْتُ ابْنَ أَبِیْ عِمْرَانَ یَقُوْلُ : سَمِعْتُ ابْنَ الثَّلْجِیِّ یَقُوْلُ : إِنَّمَا قَدْرُ الصَّاعِ عَلٰی وَزْنِ مَا یَعْتَدِلُ کَیْلُہٗ وَوَزْنُہٗ مِنَ الْمَاشِ وَالزَّبِیْبِ وَالْعَدَسِ‘ فَإِنَّہٗ یُقَالُ : إِنَّ کَیْلَ ذٰلِکَ وَوَزْنَہُ سَوَاء ٌ .
٣٠٨٤: عبداللہ بن عبداللہ بن جبیر کہتے ہیں میں نے انس بن مالک (رض) کو کہتے سنا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک مکوک سے وضو اور پانچ مکا کی سے غسل فرماتے تھے۔ کوئی معترض یہ کہے کہ یہ روایت پہلی حدیث کے خلاف ہے اس کے جواب میں یہ کہیں گے ۔ ہمارے ہاں تو اس روایت میں کوئی بات اس کے خلاف نہیں کیونکہ حضرت شریک (رض) کی روایت میں ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک مدپانی سے وضو فرماتے اور حضرت عتبہ بن حکیم عبداللہ بن جبیر (رض) سے اس کی مثل روایت کرتے ہیں۔ جب شعبہ نے عبداللہ بن جبیر (رض) سے مذکورہ روایت نقل کی تو اب اس میں اس بات کا احتمال ہے کہ مکوک سے مراد مد ہو۔ کیونکہ وہ مد کو مکوک کہتے تھے پس آپ کے وضو کی مقدار ایک مد تھی اور غسل والا پانی پانچ مکوک ہوتا تھا ۔ ان میں سے چار سے غسل فرماتے اور وہ چار مد ہیں اور یہی صاع ہیں اور باقی سے وضو فرماتے اور وہ ایک مد ہوتا ۔ پس اس طرح اس روایت میں جنابت کے لیے وضو اور غسل کو اکٹھا ذکر کیا گیا اور حدیث عتبہ (رض) میں فقط غسل جنابت کا ذکر کیا وضو نہیں اور اسی غسل جنابت میں وضو بھی ہوجاتا تھا ۔ میں نے ابن ابی عمران (رح) کو کہتے سنا کہ میں نے ابن ثلجی (رح) کو کہتے سنا کہ صاع کے وزن کا اندازہ لگایا گیا تو اس کا وزن و ماپ ماش ‘ کشمش ‘ مسور کے برابر ہے اسی وجہ سے کہا جاتا ہے کہ اس کا وزن اور ماپ برابر ہے۔
تخریج : مسلم فی الحیض نمبر ٥٠‘ ابو داؤد فی الطہارۃ باب ٤٤‘ ترمذی فی الجنۃ باب ٧٦‘ نسائی فی الطہارۃ باب ٥٨؍١٤٣‘ والمیاہ باب ١٣‘ دارمی فی الوضو باب ٢٣‘ مسند احمد ٣‘ ١١٢؍١١٦‘ ٢٨٢‘ ٢٩٠۔
ازالہ :
اس روایت میں کوئی بات بھی ان روایات کے مخالف نہیں ہے کیونکہ شریک راوی والی روایت میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مد کے ساتھ وضو فرمانا مذکور ہے اور یہ اس کے موافق ہے اور اس کی موافقت میں عتبہ بن ابی حکیم کی عبداللہ بن جبیر سے اسی طرح کی روایت ہے۔
پس جب شعبہ نے عبداللہ بن جبیر سے گزشتہ روایات کی طرح روایت کردی تو اس روایت میں احتمال پیدا ہوگیا کہ مکوک سے مراد مد ہے کیونکہ وہ لوگ مکوک اور مد کو ایک دوسرے پر بولتے تھے پس جس سے وضو فرماتے تھے جب اس کی مقدار مد ثابت ہوگئی تو پانچ مکا کی سے غسل کرتے ان میں چار سے غسل یہ چار مد ہوتے اور وہی ایک صاع بنا اور بقیہ سے وضو کرتے اور وہ مد ہوا پس اس روایت میں جنابت کے لیے آپ کا وضو فرمانا اور غسل کرنا دونوں مذکور ہوئے۔
اور حدیث عتبہ میں فقط غسل کا تذکرہ ہے وضو کا تذکرہ نہیں اور یہ وضو بھی غسل ہی کی خاطر ہوتا تھا۔
میں نے ابن ابی عمران کو کہتے سنا کہ ابن ثلجی کہا کرتے تھے صاع کا لفظ اس وزن پر بولا گیا جو ماش ‘ زبیب ‘ دال کی پیمائش میں اس کے برابر ہو جیسا کہ امام ابو یوسف (رح) سے منقول ہے۔

3085

۳۰۸۵ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ عِمْرَانَ‘ قَالَ : أَنَا عَلِیُّ بْنُ صَالِحٍ‘ وَبِشْرُ بْنُ الْوَلِیْدِ جَمِیْعًا‘ عَنْ أَبِیْ یُوْسُفَ قَالَ (قَدِمْتُ الْمَدِیْنَۃَ فَأَخْرَجَ إِلَیَّ مَنْ أَثِقُ بِہٖ صَاعًا‘ فَقَالَ : ھٰذَا صَاعُ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ فَقَدَّرْتُہٗ، فَوَجَدْتُہٗ خَمْسَۃَ أَرْطَالٍ وَثُلُثَ رَطْلٍ) .وَسَمِعْتُ ابْنَ أَبِیْ عِمْرَانَ‘ یَقُوْلُ (یُقَالُ إِنَّ الَّذِیْ أَخْرَجَ ھٰذَا لِأَبِیْ یُوْسُفَ .ہُوَ مَالِکُ بْنُ أَنَسٍ) .وَسَمِعْتُ أَبَا حَازِمٍ یَذْکُرُ‘ أَنَّ مَالِکًا سُئِلَ عَنْ ذٰلِکَ‘ فَقَالَ : (ہُوَ تَحَرِّیْ عَبْدِ الْمَلِکِ لِصَاعِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہٗ) .فَکَانَ مَالِکٌ لَمَّا ثَبَتَ عِنْدَہٗ أَنَّ عَبْدَ الْمَلِکِ تَحَرّٰیْ ذٰلِکَ مِنْ صَاعِ عُمَرَ‘ وَصَاعُ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ‘ صَاعُ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَقَدْ قُدِّرَ صَاعُ عُمَرَ‘ عَلٰی خِلَافِ ذٰلِکَ .
٣٠٨٥: علی بن صالح اور بشر بن الولید دونوں نے بیان کیا کہ امام ابو یوسف (رح) نے فرمایا میں خود مدینہ منورہ آیا (تاکہ صاع کی تحقیق کروں تو امام مالک نے) میری قابل اعتماد شخصیت نے صاع نکال کر دکھایا اور کہنے لگے یہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا صاع ہے تو میں نے اس کو ماپا تو ٥ رطل اور ثلث رطل پایا ابن ابی عمران نے قابل اعتماد آدمی کا نام مالک بن انس بتلایا ہے اور ابو حازم کو میں نے کہتے سنا کہ جب مالک سے اس بارے میں دریافت کیا گیا تو انھوں نے کہا یہ جانچ پڑتال کرنے والا عبدالملک تھا اور اس نے عمر (رض) کے صاع کے سلسلہ میں تحری کی تھی جب مالک کے ہاں یہ بات ثابت ہوگئی کہ عبدالملک سے صاع عمر کی تحری کی اور صاع عمر ہی صاع نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تھا اور صاع عمر کا اندازہ اس کے خلاف تھا جیسا کہ ان روایات سے معلوم ہوتا ہے۔

3086

۳۰۸۶ : فَحَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوٗدَ‘ قَالَ : ثَنَا یَعْقُوْبُ بْنُ حُمَیْدٍ‘ قَالَ : ثَنَا وَکِیْعٌ‘ عَنْ عَلِیِّ بْنِ صَالِحٍ‘ عَنْ أَبِیْ إِسْحَاقَ‘ عَنْ مُوْسَی بْنِ طَلْحَۃَ قَالَ الْحَجَّاجِیُّ (صَاعُ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہٗ) .
٣٠٨٦: ابو اسحاق نے موسیٰ بن طلحہ سے روایت کی ہے عمر (رض) کا صاع الحجاجی تھا۔

3087

۳۰۸۷ : حَدَّثَنَا أَحْمَدُ‘ قَالَہٗ : ثَنَا یَعْقُوْبُ‘ قَالَ : ثَنَا وَکِیْعٌ‘ عَنْ أَبِیْہِ‘ عَنْ مُغِیْرَۃَ‘ عَنْ اِبْرَاہِیْمَ قَالَ : عَیَّرْنَا صَاعَ عُمَرَ‘ فَوَجَدْنَاہُ حَجَّاجِیًّا‘ وَالْحَجَّاجِیُّ عِنْدَہُمْ‘ ثَمَانِیَۃُ أَرْطَالٍ بِالْبَغْدَادِیِّ .
٣٠٨٧: مغیرہ نے ابراہیم سے نقل کیا ہے کہ ہم نے صاع عمر (رض) کی پیمائش و اندازہ کیا تو اسے حجاجی پایا حجاجی ان کے ہاں آٹھ رطل بغدادی کا ہوتا ہے۔

3088

۳۰۸۸ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ‘ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ بْنُ بِشْرٍ الْکُوْفِیُّ‘ قَالَ : ثَنَا شَرِیْکٌ‘ عَنْ مُغِیْرَۃَ‘ وَعُبَیْدَۃَ‘ عَنْ اِبْرَاہِیْمَ‘ قَالَ : وَضَعَ الْحَجَّاجُ قَفِیْزَہٗ عَلٰی صَاعِ عُمَرَ .فَھٰذَا أَوْلٰی مِمَّا ذَکَرَ مَالِکٌ‘ مِنْ تَحَرِّیْ عَبْدِ الْمَلِکِ‘ لِأَنَّ التَّحَرِّیَ لَیْسَ مَعَہٗ حَقِیْقَۃٌ‘ وَمَا ذَکَرَہٗ اِبْرَاہِیْمُ وَمُوْسٰی بْنُ طَلْحَۃَ مِنَ الْعِیَارِ مَعَہٗ حَقِیْقَۃٌ .فَھٰذَا أَوْلَی وَبِاٰللّٰہِ التَّوْفِیْقُ .
٣٠٨٨: مغیرہ اور عبیدہ نے ابراہیم سے بیان کیا کہ حجاج نے اپنا قفیز صاع عمر (رض) کے مطابق بنایا۔ یہ اس سے بہتر ہے جس کا تذکرہ امام مالک (رح) نے کیا کہ عبد الملک نے تحری کی ۔ کیونکہ سوچ و بچار میں حقیقت نہیں اور جو بات حضرت ابراہیم (رح) اور موسیٰ بن طلحہ (رح) نے ذکر کی ہے۔ اس کے ساتھ حقیقت ہے۔ جو کہ اولیٰ ہے وباللہ التوفیق۔
حاصل یہ ہے کہ تحری عبدالملک والی روایت سے یہ بات جس کو ابراہیم اور موسیٰ بن طلحہ نے اندازہ سے تعبیر کیا ہے یہ اولیٰ و اعلیٰ ہے پس اصل کے لحاظ سے صاع کا وزن ٥ رطل اور ثلث رطل ہوا اور یہی مقدار عراقی و بغدادی صاع کے لحاظ سے آٹھ رطل ہے۔ پس اختلاف صرف نزاع لفظی ہوا نہ کہ حقیقی۔
نوٹ : اس باب میں امام ابوحنیفہ (رح) کے اسم گرامی کو دو مرتبہ لائے گزشتہ اوراق میں ایسا نہیں ہوا دلائل کے انداز سے معلوم ہوتا ہے کہ امام صاحب کے قول کو راجح قرار دینا چاہتے ہیں اسی لیے ضمنی طور پر بھی اس کے لیے روایات کثرت سے ذکر کردیں۔

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔