HADITH.One

Urdu

Support

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Al Tahawi

29. قسم کھانے اور نذر (منت) ماننے کا بیان

الطحاوي

6682

۶۶۷۹ : حَدَّثَنَا اِسْحَاقُ بْنُ الْحُسَیْنِ الطَّحَّانُ ، قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ أَبِیْ مَرْیَمَ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ یُوْنُسَ بْنِ یَزِیْدَ ، عَنِ ابْنِ شِہَابٍ ، عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُتْبَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ فِیْ حَدِیْثٍ طَوِیْلٍ ، فِیْہِ ذِکْرُ رُؤْیَا عَبَّرَہَا أَبُوْبَکْرٍ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .فَقَالَ : أَصَبْتُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ؟ قَالَ : أَصَبْتَ بَعْضًا ، وَأَخْطَأْتَ بَعْضًا ، قَالَ أَقْسَمْتُ عَلَیْکَ ، یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ قَالَ لَا تُقْسِمُ۔ قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ اِلٰی کَرَاہَۃِ الْقَسَمِ ، وَقَالُوْا : لَا یَنْبَغِیْ لِأَحَدٍ أَنْ یُقْسِمَ عَلٰی شَیْئٍ ، وَأَعْظَمُوْا ذٰلِکَ .وَکَانَ مِمَّنْ أَعْظَمَ ذٰلِکَ ، اللَّیْثُ بْنُ سَعْدٍ ، فَذَکَرَ لِیْ غَیْرُ وَاحِدٍ مِنْ أَصْحَابِنَا ، عَنْ عِیْسَی بْنِ حَمَّادٍ زُغْبَۃَ قَالَ : أَتَیْتُ بَکْرَ بْنَ مُضَرَ لِأَعُوْدَہٗ، فَجَائَ اللَّیْثُ ، فَہَمَّ بِالصُّعُوْدِ اِلَیْہِ .فَقَالَ لَہٗ بَکْرٌ : أَقْسَمْتُ عَلَیْکَ أَنْ تَفْعَلَ ، فَقَالَ لَہٗ اللَّیْثُ : أَوَتَدْرِیْ مَا الْقَسَمُ ؟ أَوَتَدْرِیْ مَا الْقَسَمُ ؟ أَوَتَدْرِیْ مَا الْقَسَمُ ؟ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ ، فَلَمْ یَرَوْا بِالْقَسَمِ بَأْسًا ، وَجَعَلُوْھُ یَمِیْنًا ، وَحَکَمُوْا لَہٗ بِحُکْمِ الْیَمِیْنِ ، وَقَالُوْا قَدْ ذَکَرَ اللّٰہُ فِیْ غَیْرِ مَوْضِعٍ فِیْ کِتَابِہٖ فَقَالَ عَزَّ وَجَلَّ : لَا أُقْسِمُ بِیَوْمِ الْقِیَامَۃِ وَلَا أُقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَۃِ وَقَالَ : فَلَا أُقْسِمُ بِمَوَاقِعِ النُّجُوْمِ وَقَالَ : لَا أُقْسِمُ بِہٰذَا الْبَلَدِ۔ فَکَانَ تَأْوِیْلُ ذٰلِکَ عِنْدَ الْعُلَمَائِ جَمِیْعًا أُقْسِمُ بِیَوْمِ الْقِیَامَۃِ وَلَاصِلَۃٌ .وَقَالَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ : وَأَقْسَمُوْا بِاَللّٰہِ جَہْدَ أَیْمَانِہِمْ لَا یَبْعَثُ اللّٰہُ مَنْ یَمُوْتُ بَلٰی وَعْدًا عَلَیْہِ حَقًّا فَلَمْ یَعِبْہُمْ بِقَسَمِہِمْ، وَرَدَّ عَلَیْہِمْ کُفْرَہُمْ فَقَالَ : بَلَی وَعْدًا عَلَیْہِ حَقًّا۔ وَکَانَ فِی ذِکْرِہِ جَہْدَ أَیْمَانِہِمْ دَلِیْلٌ عَلٰی أَنَّ ذٰلِکَ الْقَسَمَ کَانَ مِنْہُمْ یَمِیْنًا۔ وَقَالَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ : اِذْ أَقْسَمُوْا لَیَصْرِمُنَّہَا مُصْبِحِیْنَ فَلَمْ یَعِبْ ذٰلِکَ عَلَیْہِمْ .ثُمَّ قَالَ : وَلَا یَسْتَثْنُوْنَ۔
٦٦٧٩: عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ نے حضرت ابن عباس (رض) سے ایک طویل حدیث بیان کی جس میں اس خواب کا تذکرہ ہے جس کی تعبیر حضرت ابوبکر (رض) نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی موجودگی میں دی۔ جناب ابوبکر نے پوچھا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! کیا میں نے درست تعبیر کی۔ آپ نے فرمایا تم نے کچھ درست اور کچھ غلط تعبیر کی۔ ابوبکر (رض) کہنے لگے یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں آپ کو قسم دیتا ہوں آپ نے فرمایا تم مجھے قسم مت دو ۔ امام طحاوی (رح) کہتے ہیں بعض لوگ اس طرف گئے ہیں کہ قسم مکروہ ہے اور کسی کو کسی چیز پر قسم نہ اٹھانی چاہیے انھوں نے قسم اٹھانے کو بہت بڑا قرار دیا ہے۔ امام لیث بن سعد ان لوگوں سے ہیں کہ جنہوں نے اس کو بہت بڑا قرار دیا ہمارے کئی احباب نے عیسیٰ بن حماد زغبہ سے روایت کی ہے کہ میں بکر بن مضر کے پاس آیا تاکہ میں ان کی عیادت کروں اس وقت اچانک لیث آگئے اور انھوں نے اس کے پاس جانے کا ارادہ کیا تو بکر نے ان سے کہا میں آپ کو قسم دیتا ہوں کہ آپ ایسا نہ کریں۔ لیث کہنے لگے کیا تم جانتے ہو کہ قسم کیا ہے ؟ یا قسم کی حقیقت جانتے ہو یا تم قسم کو جانتے ہو ؟ قسم میں کوئی حرج نہیں اور یہ یمین بنے گی اور اس کا حکم یمین والا ہوگا اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں کئی مقامات پر اس کا تذکرہ فرمایا ہے۔ ” لااقسم بیوم القیامہ۔ ولا اقسم بالنفس اللوامہ “ (القیامہ ١۔ ٢) اور فرمایا ” ولا اقسم بمواقع النجوم “ (واقعہ : ٧٥) اور فرمایا : ” لااقسم بہذا البلد “ (البلد ١) ان ساری آیات کی تفسیر علماء کے ہاں یہ ہے کہ لا زائدہ ہے اور یہ اقسم بیوم القیامۃ ہے اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ” واقسموا باللہ جہد ایمانہم لایبعث اللہ من یموت بلٰی وعدا علیہ حقًا “ (نحل ٣٨) اللہ تعالیٰ نے ان کی قسموں پر ان کو عیب نہیں لگایا یا البتہ ان کے کفر کی تردید فرمائی اور فرمایا کہ کیوں نہیں ہمارا وعدہ تو سچا ہے اور اللہ تعالیٰ نے جہد ایمانہم کا لفظ فرما کر اس بات کو ثابت کردیا کہ ان کی یہ قسم یمین ہے اور ایک اور آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ” اذا قسموا لیصر منہا مصبحین “ (قلم ١٧) انھوں نے قسم اٹھائی وہ ضرور صبح سویرے اس باغ کو کاٹ لیں گے یعنی پھل توڑ لیں گے اللہ تعالیٰ نے ان کی اس قسم پر اعتراض نہیں کیا بلکہ فرمایا : ” ولا یستثنون “ کہ انھوں نے استثناء بھی نہیں کیا (تو اس سے ثابت ہوا کہ یہ قسم یمین ہے)
تخریج : بخاری کتاب الایمان باب ٩‘ والتعبیر باب ٤٧‘ مسلم فی الرؤیا ١٧‘ ابو داؤد فی الایمان باب ١٠‘ والسنۃ باب ٨‘ ترمذی فی الرؤیا باب ١٠‘ ابن ماجہ فی الرؤیا باب ١٠‘ دارمی فی النذور باب ٨‘ مسند احمد ١؍٢٣٦۔
بعض علماء کا قول یہ ہے کہ مکروہ ہے اور کسی کو کسی بھی چیز پر قسم نہ اٹھانی چاہیے۔ قسم اٹھانا بھاری چیز ہے۔
فریق ثانی کا مؤقف قسم میں حرج نہیں یہ یمین بنے گی۔

6683

۶۶۸۰ : فَحَدَّثَنِیْ سُلَیْمَانُ بْنُ شُعَیْبٍ ، عَنْ أَبِیْہٖ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ قَالَ : فِیْ ہٰذِہِ الْآیَۃِ دَلِیْلٌ عَلٰی أَنَّ الْقَسَمَ یَمِیْنٌ ؛ لِأَنَّ الْاِسْتِثْنَائَ لَا یَکُوْنُ اِلَّا فِی الْیَمِیْنِ .وَاِذَا کَانَتْ یَمِیْنًا ، کَانَتْ مُبَاحَۃً ، فِیْمَا سَائِرُ الْأَیْمَانِ فِیْہِ مُبَاحَۃٌ ، وَمَکْرُوْہَۃً فِیْمَا سَائِرُ الْأَیْمَانِ فِیْہِ مَکْرُوْہَۃٌ .وَلَا حُجَّۃَ عِنْدَنَا ، عَلٰی أَہْلِ ہٰذِہِ الْمَقَالَۃِ ، فِیْ حَدِیْثِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، الَّذِیْ ذٰکَرْنَا ، فَاِنَّہٗ یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ الَّذِیْ کَرِہَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی الْقَسَمِ ، لِأَبِیْ بَکْرٍ مِنْ أَجْلِہٖ ، ہُوَ أَنَّ التَّعْبِیْرَ الَّذِیْ صَوَّبَہٗ فِیْ بَعْضِہٖ ، وَخَطَّأَہٗ فِیْ بَعْضِہٖ ، لَمْ یَکُنْ ذٰلِکَ مِنْہُ مِنْ جِہَۃِ الْوَحْیِ ، وَلٰـکِنْ مِنْ جِہَۃِ مَا یُعَبِّرُ لَہٗ الرُّؤْیَا کَمَا نَہَی أَنْ تُوْطَأَ الْحَوَامِلُ ، عَلَی الْاِشْفَاقِ مِنْہُ أَنْ یُضِرَّ ذٰلِکَ بِأَوْلَادِہِمْ .فَلَمَّا بَلَغَہٗ أَنَّ فَارِسَ وَالرُّوْمَ یَفْعَلُوْنَ ذٰلِکَ فَلَا یُضِرُّ بِأَوْلَادِہِمْ ، أَطْلَقَ مَا کَانَ حَظَرَ مِنْ ذٰلِکَ .وَکَمَا قَالَ فِیْ تَلْقِیْحِ النَّخْلِ مَا أَظُنُّ أَنَّ ذٰلِکَ یُغْنِی شَیْئًا فَتَرَکُوْھُ ، وَنَزَعُوْا عَنْہُ، فَبَلَغَ ذٰلِکَ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: اِنَّمَا ہُوَ ظَنٌّ ظَنَنْتُہٗ، اِنْ کَانَ یُغْنِیْ شَیْئًا فَلْیَصْنَعُوْھُ ، فَاِنَّمَا أَنَا بِشْرٌ مِثْلُکُمْ ، وَاِنَّمَا ہُوَ ظَنٌّ ظَنَنْتُہٗ، وَالظَّنُّ یُخْطِئُ وَیُصِیْبُ ، وَلٰـکِنْ مَا قُلْتُ قَالَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ فَلَنْ أَکْذِبَ عَلَی اللّٰہِ۔
٦٦٨٠: محمد بن حسن کہتے ہیں کہ اس آیت میں دلیل ہے کہ قسم یمین ہے کیونکہ استثنیٰ یمین ہی میں ہوتا ہے جب اس کا یمین ہونا ثابت ہوگیا تو پھر ان سب مقامات پر اس کا جواز ثابت ہوا جہاں یمین درست ہے اور جن مقامات پر یمین مکروہ ہے وہاں یہ بھی مکروہ ہے ہمارے نزدیک فریق ثانی کے خلاف ابن عباس کی روایت میں کوئی دلیل نہیں کیونکہ یہ کہنا ممکن ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قسم کو ابوبکر صدیق کے لیے مکروہ قرار دیا ہو کہ وہ تعبیر جس کو بعض کو آپ نے درست فرمایا اور بعض کو خطا قرار دیا تو وحی کے اعتبار سے نہیں تھی بلکہ علم تعبیر کے لحاظ سے تھی جیسا کہ حاملہ عورت سے وطی کی ممانعت اس خطرے کے پیش نظر کہ اولاد کو نقصان پہنچے پھر آپ کو یہ اطلاع ملی کہ فارس اور روم کے لوگ اس طرح کرتے ہیں اور یہ چیز ان کی اولاد کو نقصان نہیں دیتی تو جس سے ڈرایا تھا اس کی آزادی دے دی جس طرح کہ تعبیر نحل یعنی کھجوروں کی پیوندکاری کے بارے میں آپ نے فرمایا کہ میرے خیال میں اس کام کا کچھ بھی فائدہ نہیں تو صحابہ کرام نے اس کو چھوڑ دیا اور اس سے نقصان ہوا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں تم جیسا انسان ہوں اور یہ گمان ہے جو میں نے کیا اور گمان کبھی درست نکلتا ہے اور کبھی خطا لیکن جو میں اس طرح کہوں کہ اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے تو میں ہرگز اللہ تعالیٰ پر جھوٹ نہیں بول سکتا اسی طرح کی روایت ابو داؤد نے اقضیہ باب ٧ میں ذکر کی ہے۔

6684

۶۶۸۱ : حَدَّثَنَا بِذٰلِکَ یَزِیْدُ بْنُ سِنَانٍ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَامِرٍ ، قَالَ : ثَنَا اِسْرَائِیْلُ ، عَنْ سِمَاکٍ ، عَنْ مُوْسَی بْنِ طَلْحَۃَ ، عَنْ أَبِیْہٖ.فَأَخْبَرَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّ ، مَا قَالَہٗ مِنْ جِہَۃِ الظَّنِّ ، فَہُوَ کَسَائِرِ الْبَشَرِ فِیْ ظُنُوْنِہِمْ ، وَأَنَّ الَّذِیْ یَقُوْلُہٗ عَنِ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ ، فَہُوَ الَّذِیْ لَا یَجُوْزُ خِلَافُہُ. وَکَانَتِ الرُّؤْیَا اِنَّمَا تُعَبَّرُ بِالظَّنِّ وَالتَّحَرِّی ، وَقَدْ رُوِیَ ذٰلِکَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِیْرِیْنَ ، وَاحْتَجَّ بِقَوْلِ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ وَقَالَ لِلَّذِیْ ظَنَّ أَنَّہٗ نَاجٍ مِنْہُمَا۔ فَلَمَّا کَانَ التَّعْبِیْرُ مِنْ ہٰذِہِ الْجِہَۃِ الَّتِیْ لَا حَقِیْقَۃَ فِیْہَا ، کَرِہَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِأَبِیْ بَکْرٍ ، أَنْ یُقْسِمَ عَلَیْہِ ؛ لِیُخْبِرَہٗ بِمَا یَظُنُّہُ صَوَابًا، عَلٰی أَنَّہٗ عِنْدَہُ کَذٰلِکَ ، وَقَدْ یَکُوْنُ فِی الْحَقِیْقَۃِ بِخِلَافِہٖ۔أَلَا تَرَی أَنَّ رَجُلًا لَوْ نَظَرَ فِیْ مَسْأَلَۃٍ مِنَ الْفِقْہِ، وَاجْتَہَدَ ، فَأَدَّاہُ اجْتِہَادُہُ اِلَی شَیْئٍ وَسِعَہُ الْقَوْلُ بِہٖ ، وَرَدُّ مَا خَالَفَہٗ، وَتَخْطِئَۃُ قَائِلِہٖ ، اِذَا کَانَتِ الدَّلَائِلُ الَّتِی بِہَا یُسْتَخْرَجُ الْجَوَابُ فِیْ ذٰلِکَ ، رَافِعَۃً لَہٗ۔وَلَوْ حَلَفَ عَلٰی أَنَّ ذٰلِکَ الْجَوَابَ صَوَابٌ ، کَانَ مُخْطِئًا ؛ لِأَنَّہٗ لَمْ یُکَلَّفْ اِصَابَۃَ الصَّوَابِ ، فَیَکُوْنُ مَا قَالَہٗ، ہُوَ الصَّوَابَ ، وَلٰـکِنَّہٗ کُلِّفَ الْاِجْتِہَادَ .وَقَدْ یُؤَدِّیْہِ الْاِجْتِہَادُ اِلَی الصَّوَابِ وَاِلٰی غَیْرِ الصَّوَابِ ، فَمِنْ ہٰذِہِ الْجِہَۃِ ، کَرِہَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِأَبِیْ بَکْرٍ ، الْحَلِفَ عَلَیْہِ ؛ لِیُخْبِرَہٗ بِصَوَابِہٖ مَا ہُوَ ، لَا مِنْ جِہَۃِ کَرَاہِیَۃِ الْقَسَمِ .وَقَدْ رُوِیَ فِیْ ذٰلِکَ مَا یَدُلُّ عَلٰی مَا ذَکَرْنَاہُ .
٦٦٨١: سماک نے موسیٰ بن طلحہ اور انھوں نے اپنے والد سے روایت کی ہے۔ پس جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس میں یہ بتلا دیا کہ جو کچھ میں گمان کی جانب سے کہوں تو وہ گمان میں عام انسانوں کی طرح ہے اور جو آپ اللہ تعالیٰ کی طرف سے فرمائیں تو وہ وحی ہے جس کی مخالفت جائز نہیں اور خواب کی تعبیر تو گمان اور تحری سے کی جاتی ہے اور یہ بات محمد ابن سیرین نے اس آیت ” وقال للذی ظن انہ ناج منہما “ (یوسف ٤٢) کو دلیل بنا کر فرمائی ہے۔ جب کہ تعبیر ایسی جہت سے ہے جس میں قطعی بات نہیں ہوتی تو اسی لحاظ سے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صدیق اکبر کے اس پر قسم اٹھانے کو ناپسند کیا کہ آپ نے جس کو درست قرار دیا ہے اس کی ضرور اطلاع دیں اس طور پر کہ آپ کے ہاں اسی طرح ہے اور ہوسکتا ہے کہ حقیقت میں اس کے خلاف ہو کیا تم دیکھتے ہو کہ ایک آدمی نے فقہ کے ایک مسئلے کے بارے میں غور کیا اور پھر اجتہاد کیا اس کے اجتہاد نے اس کو ایک چیز تک پہنچایا تو اس کو اس بات کی گنجائش ہے کہ وہ اپنے اجتہاد کے مطابق بات کہے اور اس کے خلاف قول کو رد کر دے اور اس کے کہنے والے کو غلط قرار دے جبکہ دلائل جن کے ذریعے اس نے یہ مسئلہ نکالا ہے وہ مخالف کے قول کی تردید کر رہے ہیں اگر یہ آدمی اس جواب کے صحیح ہونے پر قسم اٹھائے تو وہ غلطی پر ہوگا اس لیے کہ اس کو صحیح تک پہنچنے کا مکلف نہیں بنایا گیا پس جو کچھ اس نے کہا ہے وہی درست ہوگا کیونکہ وہ اجتہاد کا مکلف بنایا گیا ہے اور یہ اجتہاد بسا اوقات اس کو درست اور بسا اوقات غیر درست کی طرف لے جائے گا پس اسی جہت کے لحاظ سے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابوبکر (رض) کے اس پر حلف اٹھانے کو ناپسند کیا اس لحاظ سے نہیں کہ آپ نے قسم کو ناپسند کیا اور ہم نے جو بات کہی ہے اس پر یہ روایات دلالت کرتی ہیں۔

6685

۶۶۸۲ : حَدَّثَنَا بَحْرُ بْنُ نَصْرٍ قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنِیْ یُوْنُسُ ، عَنِ ابْنِ شِہَابٍ ، عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، مِثْلَ حَدِیْثِ اِسْحَاقَ بْنِ الْحُسَیْنِ ، غَیْرَ أَنَّہٗ قَالَ وَاللّٰہِ لَتُخْبِرَنِّیْ بِمَا أَصَبْتُ مِمَّا أَخْطَأْتُ .فَقَالَ : رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَا تُقْسِمُ۔ فَدَلَّ ذٰلِکَ عَلٰی أَنَّ مَا کَرِہَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، ہُوَ الْحَلِفُ فِیْہِ عَلَی اِخْبَارِہٖ بِصَوَابِہٖ أَوْ خَطَئِہٖ فِیْ شَیْئٍ لَمْ یَقُلْہُ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِالْوَحْیِ الَّذِیْ یَعْلَمُ بِہٖ حَقِیْقَۃَ الْأَشْیَائِ ، لَا لِذِکْرِہِ الْقَسَمَ۔
٦٦٨٢: عبیداللہ بن عبداللہ نے اسحق بن حسین جیسی روایت نقل کی مگر اس کے اندر یہ بات زائد ہے : ” واللہ لتخبرنی بما اصبت مما اخطأت “ (اللہ کی قسم آپ مجھے ضرور بتلائیں جو میں نے اس میں سے درست کہا اور جو نادرست کہا) تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا قسم مت اٹھاؤ۔ اس سے یہ دلالت مل گئی کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جس کو ناپسند کیا وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی درست اور نادرست کی اطلاع پر جو قسم اٹھائی وہ تھی اس لیے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وحی کے ذریعے تعبیر نہیں فرمائی تھی جس سے چیزوں کی حقیقت معلوم ہوتی ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس لیے ناپسندیدگی نہیں فرمائی کہ انھوں نے قسم کا ذکر کیا ہے۔
تخریج : ترمذی فی الرؤیا باب ١٠‘ مسند احمد ١؍٢٣٦۔

6686

۶۶۸۳ : وَحَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ مَرْیَمَ ، قَالَ : ثَنَا الْفِرْیَابِیُّ ، قَالَ : ثَنَا شَرِیْکٌ عَنْ یَزِیْدَ بْنِ أَبِیْ زِیَادٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ الْحَارِثِ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ : الْقَسَمُ یَمِیْنٌ۔ فَہٰذَا ابْنُ عَبَّاسٍ ، وَہُوَ الَّذِیْ رَوٰی عَنْہُ الْحَدِیْثَ الْأَوَّلَ ، قَدْ جَعَلَ الْقَسَمَ یَمِیْنًا ، فَفِیْ ذٰلِکَ دَلِیْلٌ عَلٰی اِبَاحَۃِ الْحَلِفِ بِہٖ وَأَنَّہٗ عِنْدَہٗ، کَسَائِرِ الْأَیْمَانِ .فَثَبَتَ بِذٰلِکَ ، مَا تَأَوَّلْنَا الْحَدِیْثَ الْأَوَّلَ عَلَیْہٖ، وَانْتَفٰی قَوْلُ مَنْ تَأَوَّلَہٗ عَلٰی غَیْرِ مَا تَأَوَّلْنَاہُ عَلَیْہِ .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : وَقَدْ رُوِیَ فِیْ اِبَاحَۃِ الْقَسَمِ ۔
٦٦٨٣: عبدالرحمن بن حارث نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ قسم یمین ہے۔ یہ ابن عباس (رض) وہی ہیں جنہوں نے پہلی روایت نقل کی ہے یہاں وہ قسم کو یمین بتلا رہے ہیں اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ حلف مباح ہے اور یہ عام قسموں کی طرح ہے اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ حدیث اول کی جو ہم نے تاویل کی ہے وہ درست ہے اور دوسری تاویل صحیح نہیں۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں : اباحت قسم کی اور روایات بھی ہیں ان میں سے چند یہ ہیں۔
تخریج : دارمی فی النذور باب ٨۔

6687

۶۶۸۴ : مَا قَدْ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْغَنِیِّ بْنُ أَبِیْ عَقِیْلٍ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ زِیَادٍ ، قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ ، عَنْ أَشْعَثَ بْنِ سُلَیْمٍ ، عَنْ مُعَاوِیَۃَ بْنِ سُوَیْد بْنِ مُقَرِّنٍ ، عَنِ الْبَرَائِ بْنِ عَازِبٍ قَالَ : أَمَرَنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، بِاِبْرَارِ الْقَسَمِ۔
٦٦٨٤: معاویہ بن سوید نے حضرت براء بن عازب (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں قسم پورا کرنے کا حکم دیا۔
تخریج : بخاری فی الجنائز باب ٢‘ والایمان باب ٩‘ مسلم فی اللباس روایت ٣‘ ترمذی فی الادب باب ٤٥‘ نسائی فی الجنائز باب ٥٣‘ ابن ماجہ فی الکفارات باب ١٢ مسند احمد ٤؍٢٨٤۔

6688

۶۶۸۵ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ ، وَوَہْبٌ ، قَالَا : ثَنَا شُعْبَۃُ ، فَذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔غَیْرَ أَنَّہٗ قَالَ : بِاِبْرَارِ الْقَسَمِ۔ أَفَلَا تَرَی أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَدْ أَمَرَ بِاِبْرَارِ الْقَسَمِ ، وَلَوْ کَانَ الْمُقْسِمُ عَاصِیًا ، لَمَا کَانَ یَنْبَغِیْ أَنْ یُبَرَّ قَسَمُہٗ.
٦٦٨٥: ابو داؤد اور وہب دونوں نے شعبہ سے روایت کی ہے اور اس نے اپنی سند سے روایت نقل کی اور اس نے ابرار القسم کے لفظ بھی ذکر کئے ہیں۔ غور فرمائیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قسم کے پورا کرنے کا حکم دیا اگر قسم اٹھانے والا نافرمان ہو تو پھر اسے قسم کا پورا کرنا مناسب نہیں یعنی گناہ کی قسم۔

6689

۶۶۸۶ : وَقَدْ حَدَّثَنَا أَبُوْبَکْرَۃَ وَابْنُ مَرْزُوْقٍ ، قَالَا : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ بَکْرٍ السَّہْمِیُّ ، قَالَ : ثَنَا حُمَیْدٌ الطَّوِیْلُ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِنَّ مِنْ عِبَادِ اللّٰہِ، مَنْ لَوْ أَقْسَمَ عَلَی اللّٰہِ لَأَبَرَّہٗ ۔ فَلَوْ کَانَ الْقَسَمُ مَکْرُوْہًا ، لَکَانَ قَائِلُہٗ عَاصِیًا ، وَلَمَا أَبَرَّ اللّٰہُ قَسَمَ مَنْ عَصَاہُ .وَقَدْ رَوَیْنَا فِیْمَا تَقَدَّمَ مِنْ کِتَابِنَا ہٰذَا ، عَنِ الْمُغِیْرَۃِ بْنِ شُعْبَۃَ أَنَّہٗ قَالَ : صَلَّیْتُ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَوَجَدَ رِیحَ ثُوْمٍ .فَلَمَّا فَرَغَ مِنِ الصَّلَاۃِ قَالَ : مَنْ أَکَلَ مِنْ ہٰذِہِ الشَّجَرَۃِ فَلَا یَقْرَبْنَا فِیْ مَسْجِدِنَا حَتّٰی یَذْہَبَ رِیحُہَا .فَأَتَیْتُہُ فَقُلْتُ أَقْسَمْتُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ لَمَا أَعْطَیْتَنِیْ یَدَکَ ، فَأَعْطَانِیْہَا ، فَأَرَیْتُہٗ جَبَائِرَ عَلٰی صَدْرِیْ. فَقَالَ : اِنَّ لَکَ عُذْرًا وَلَمْ یُنْکِرْ عَلَیْہِ اِقْسَامَہٗ عَلَیْہِ .
٦٦٨٦: حمیدالطویل نے حضرت انس (رض) سے نقل کیا ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بیشک اللہ کے بندوں میں سے کچھ ایسے ہیں اگر وہ اللہ تعالیٰ کے نام کی قسم اٹھالیں تو اللہ تعالیٰ ان کی قسم پوری کردیتے ہیں۔ اگر قسم مکروہ ہوتی تو اس کا کہنے والا ہی گناہ گار تھا اللہ تعالیٰ اس کی قسم کو پورا نہ کرتے ہم پہلے ذکر کر آئے کہ حضرت مغیرہ ابن شعبہ نے نقل کیا کہ میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ نماز پڑھی آپ کو لہسن کی بو محسوس ہوئی جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا جو آدمی اس پودے کو کھائے تو وہ ہماری مسجد کے اس وقت تک قریب نہ آئے جب تک اس کی بو دور نہ ہو چنانچہ میں آپ کی خدمت میں آیا اور میں نے کہا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں آپ کو قسم دیتا ہوں کہ آپ مجھے اپنا ہاتھ پکڑائیں آپ نے اپنا ہاتھ پکڑا دیا تو میں نے آپ کو اپنے سینے کے زخم دکھائے تو آپ نے فرمایا تم معذور ہو۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مغیرہ کی قسم اٹھانے پر اعتراض نہیں فرمایا۔
تخریج : بخاری فی الصلح باب ٨‘ والایمان باب ٩‘ مسلم فی القسامہ حدیث ٢٤‘ ابو داؤد فی الدیات باب ٢٨‘ ترمذی فی جہنم باب ١٣‘ مسند احمد ٣؍١٢٨‘ ٤؍٣٠٦۔

6690

۶۶۸۷ : حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَیْمَانَ النَّوْفَلِیُّ ، قَالَ : ثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ الْمُنْذِرِ الْحِزَامِیُّ ، قَالَ : حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ أَبِیْ بَکْرٍ الْمَوْصِلِیُّ عَنِ ابْنِ أَبِی الزِّنَادِ ، عَنْ أَبِیْہَ عَنْ عَمْرَۃَ ، عَنْ عَائِشَۃَ أَنَّہَا قَالَتْ : أُہْدِیَ لِرَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَحْمٌ فَقَالَ أَہْدِیْ لِزَیْنَبِ بِنْتِ جَحْشٍ قَالَتْ : فَأَہْدَیْتُ لَہَا فَرَدَّتْہُ فَقَالَ أَقْسَمْتُ عَلَیْکِ لَا رَدَدْتِہَا ، فَرَدَدْتُہَا۔ فَدَلَّ مَا ذَکَرْنَا عَلٰی اِبَاحَۃِ الْقَسَمِ ، وَأَنَّ حُکْمَہٗ، حُکْمُ الْیَمِیْنِ ، وَہُوَ قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ ، وَأَبِیْ یُوْسُفَ ، وَمُحَمَّدٍ ، رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی .وَقَدْ رُوِیَ ذٰلِکَ عَنْ اِبْرَاھِیْمَ النَّخَعِیِّ .
٦٦٨٧: عمرہ نے حضرت عائشہ (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو گوشت کا تحفہ بھیجا گیا تو آپ نے فرمایا یہ زینب بنت جحش کو دے دو میں نے ان کے پاس بھیجا تو انھوں نے واپس کردیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میں تمہیں قسم دیتا ہوں کہ تم اس کو واپس بھیجو تو میں نے واپس بھیج دیا۔ ان روایات سے ثابت ہوگیا کہ قسم مباح ہے اور اس کا حکم یمین والا ہے یہی امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف اور محمد رحمہم اللہ کا قول ہے۔
ابراہیم نخعی (رض) کے قول سے اس کی تائید :

6691

۶۶۸۸ : حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ شُعَیْبٍ قَالَ : ثَنَا أَبِیْ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ ، عَنْ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ ، عَنْ حَمَّادٍ ، عَنْ اِبْرَاھِیْمَ قَالَ : أُقْسِمُ وَ أَقْسَمْتُ بِہٖ یَمِیْنٌ ، وَکَفَّارَۃُ ذٰلِکَ ، کَفَّارَۃُ یَمِیْنٍ .وَقَدْ أَقْسَمَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَی نِسَائِہٖ۔
٦٦٨٨: حماد نے ابراہیم سے نقل کیا کہ اقسم اور اقسمت بہ کے الفاظ یمین ہیں اور ان پر قسم والا کفارہ ہے اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی اپنی بیویوں کے متعلق قسم اٹھائی تھی چنانچہ روایت یہ ہے۔

6692

۶۶۸۹ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ حَفْصٍ الْفَلَّاسُ ، قَالَ : ثَنَا أَبُو قُتَیْبَۃَ ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ أَبِی الرِّجَالِ ، قَالَ : ثَنَا أَبِیْ عَنْ عَمْرَۃَ ، عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ ، کَانَ اِیْلَائُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أُقْسِمُ بِاَللّٰہِ لَا أَقْرَبُکُنَّ شَہْرًا۔
٦٦٨٩: ابی عمرہ نے حضرت عائشہ (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ایلاء یہ تھا ” اقسم با اللہ لا اقربکن شہرا “ اللہ کی قسم ایک ماہ تک میں تمہارے قریب نہ جاؤں گا۔

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔