HADITH.One

Urdu

Support

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Al Tahawi

22. اجارہ کا بیان

الطحاوي

5884

۵۸۸۳: حَدَّثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا وَہْبُ بْنُ جَرِیْرٍ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ أَبِی السَّفَرِ عَنْ عَامِرٍ الشَّعْبِیِّ عَنْ خَارِجَۃَ بْنِ الصَّلْتِ عَنْ عَمِّہِ أَنَّہٗ قَالَ : أَقْبَلْنَا مِنْ عِنْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَأَتَیْنَا عَلٰی حَی مِنْ أَحْیَائِ الْعَرَبِ فَقَالُوْا لَنَا : اِنَّکُمْ قَدْ جِئْتُمْ مِنْ عِنْدِ ہٰذَا الْحَبْرِ بِخَیْرٍ فَہَلْ عِنْدَکُمْ دَوَائٌ أَوْ رُقْیَۃٌ أَوْ شَیْئٌ ؟ فَاِنَّ عِنْدَنَا مَعْتُوْہًا فِی الْقُیُوْدِ .قَالَ : فَقُلْنَا نَعَمْ .فَجَائُوْا بِہٖ فَجَعَلْتُ أَقْرَأُ عَلَیْہِ بِفَاتِحَۃِ الْکِتَابِ ثَلَاثَۃَ أَیَّامٍ غَدْوَۃً وَعَشِیَّۃً أَجْمَعُ بُزَاقِی ثُمَّ أَتْفُلُ فَکَأَنَّمَا أُنْشِطَ مِنْ عِقَالٍ فَأَعْطَوْنِیْ جُعْلًا فَقُلْتُ :لَا حَتّٰی أَسْأَلَ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَسَأَلْتُہٗ فَقَالَ کُلْ فَلَعَمْرِی لَمَنْ أَکَلَ بِرُقْیَۃِ بَاطِلٍ لَقَدْ أَکَلْتُ بِرُقْیَۃِ حَق .
٥٨٨٣: شعبی نے خارجہ بن صلت سے انھوں نے اپنے چچا سے روایت نقل کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے لوٹے تو ہمارا گزر ایک عرب قبیلہ کے پاس سے ہوا۔ تو انھوں نے ہم سے کہا تم اس بڑے عالم کی طرف سے بہتری لائے ہو۔ کیا تمہارے پاس کوئی دوائی یا جھاڑ یا اور کوئی چیز ہے۔ کیونکہ ہمارے پاس ایک دیوانہ بیڑیوں میں جکڑا ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ ہم نے کہا ہاں۔ چنانچہ وہ اس دیوانہ کو ہمارے پاس لائے میں نے اس پر تین روز صبح و شام سورة فاتحہ پڑھی میں اپنے لعاب کو جمع کر کے اس پر تھوکتا رہا۔ گویا وہ رسّی سے کھل گیا۔ انھوں نے مجھے کچھ اجرت دی۔ میں نے کہا جب تک میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کے متعلق دریافت نہ کرلوں اس وقت تک نہ لوں گا۔ میں نے دریافت کیا تو آپ نے فرمایا اس کو کھاؤ۔ مجھے اپنی عمر کی قسم ہے جو آدمی باطل جھاڑ پھونک سے کھائے تو وہ باطل اور ناجائز ہے تو نے تو سچّے دم سے کھایا ہے۔
تخریج : ابو داؤد فی الطب باب ١٩‘ مسند احمد ٥؍٢١١۔
اجارہ : تملیک منافع مع العوض کو کہا جاتا ہے تعلیم قرآن مجید پر اجرت کے سلسلہ میں ایک رائے یہ ہے تعلیم قرآن پر اجرت میں کوئی حرج نہیں ہے۔
نمبر 2: تعلیم قرآن پر اجرت جائز نہیں ہے اس قول کو ائمہ احناف نے اختیار کیا ہے۔

5885

۵۸۸۴: وَقَدْ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَوَامّ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَبْدِ الْجَبَّارِ الْمُرَادِیُّ قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ حَسَّانَ قَالَ : ثَنَا ہُشَیْمٌ عَنْ أَبِیْ بِشْرٍ عَنْ أَبِی الْمُتَوَکِّلِ النَّاجِیْ عَنْ أَبِیْ سَعِیْدٍ الْخُدْرِیِّ أَنَّ أَصْحَابَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَدْ کَانُوْا فِیْ غُزَاۃٍ فَمَرُّوْا بِحَی مِنْ أَحْیَائِ الْعَرَبِ فَقَالُوْا : ہَلْ فِیْکُمْ مِنْ رَاقٍ ؟ فَاِنَّ سَیِّدَ الْحَیِّ قَدْ لُدِغَ أَوْ قَدْ عَرَضَ لَہٗ شَیْئٌ .قَالَ : فَرَقَاہُ رَجُلٌ بِفَاتِحَۃِ الْکِتَابِ فَبَرَأَ فَأُعْطِیَ قَطِیْعًا مِنَ الْغَنَمِ فَأَبَی أَنْ یَقْبَلَہٗ۔فَسَأَلَ عَنْ ذٰلِکَ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ لَہٗ بِمَ رَقِیَتْہٗ؟ فَقَالَ : بِفَاتِحَۃِ الْکِتَابِ .قَالَ : وَمَا یُدْرِیْکَ أَنَّہَا رُقْیَۃٌ ؟ قَالَ : ثُمَّ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خُذُوْہَا وَاضْرِبُوْا لِیْ مَعَکُمْ فِیْہَا بِسَہْمٍ .فَاحْتَجَّ قَوْمٌ بِہٰذِہِ الْآثَارِ فَقَالُوْا لَا بَأْسَ بِالْجُعْلِ عَلَی تَعْلِیْمِ الْقُرْآنِ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ فَکَرِہُوْا الْجُعْلَ عَلَی تَعْلِیْمِ الْقُرْآنِ کَمَا قَدْ یُکْرَہُ الْجُعْلُ عَلَی تَعْلِیْمِ الصَّلَاۃِ .وَقَدْ کَانَ مِنَ الْحُجَّۃِ لَہُمْ عَلٰی أَہْلِ الْمَقَالَۃِ الْأُوْلٰی فِیْ ذٰلِکَ أَنَّ الْآثَارَ الْأُوَلَ فِیْ ذٰلِکَ لَمْ یَکُنِ الْجُعْلُ الْمَذْکُوْرُ فِیْہَا عَلَی تَعْلِیْمِ الْقُرْآنِ وَاِنَّمَا کَانَ عَلَی الرُّقَی الَّتِیْ لَمْ یَقْصِدْ بِالْاِسْتِئْجَارِ عَلَیْہَا اِلَی الْقُرْآنِ .وَکَذٰلِکَ نَقُوْلُ نَحْنُ أَیْضًا : لَا بَأْسَ بِالْاِسْتِئْجَارِ عَلَی الرُّقَی وَالْعِلَاجَاتِ کُلِّہَا وَاِنْ کُنَّا نَعْلَمُ أَنَّ الْمُسْتَأْجَرَ عَلٰی ذٰلِکَ قَدْ یَدْخُلُ فِیْمَا یَرْقِی بِہٖ بَعْضُ الْقُرْآنِ لِأَنَّہٗ لَیْسَ عَلَی النَّاسِ أَنْ یَرْقِیَ بَعْضُہُمْ بَعْضًا فَاِذَا اُسْتُؤْجِرُوْا فِیْہِ عَلٰی أَنْ یَعْمَلُوْا مَا لَیْسَ عَلَیْہِمْ أَنْ یَعْمَلُوْھُ جَازَ ذٰلِکَ .وَتَعْلِیْمُ الْقُرْآنِ عَلَی النَّاسِ وَاجِبٌ أَنْ یُعَلِّمَہُ بَعْضُہُمْ بَعْضًا لِأَنَّ فِیْ ذٰلِکَ التَّبْلِیغَ عَنِ اللّٰہِ تَعَالٰی اِلَّا أَنَّ مَنْ عَلِمَہٗ مِنْہُمْ أَجْزَیْ ذٰلِکَ مِنْ بَقِیَّتِہِمْ کَالصَّلَاۃِ عَلَی الْجَنَائِزِ اِنَّمَا ہِیَ فَرْضٌ عَلَی النَّاسِ جَمِیْعًا اِلَّا أَنَّ مَنْ فَعَلَ ذٰلِکَ مِنْہُمْ أَجْزَیْ عَنْ بَقِیَّتِہِمْ .وَلَوْ أَنَّ رَجُلًا أَسْتَأْجَرَ رَجُلًا لِیُصَلِّیَ عَلَی وَلِیْ لَہٗ قَدْ مَاتَ لَمْ یَجُزْ ذٰلِکَ لِأَنَّہٗ اِنَّمَا اسْتَأْجَرَہُ عَلٰی أَنْ یَفْعَلَ مَا عَلَیْہِ أَنْ یَفْعَلَ ذٰلِکَ .فَکَذٰلِکَ تَعْلِیْمُ النَّاسِ الْقُرْآنَ بَعْضُہُمْ بَعْضًا ہُوَ عَلَیْہِمْ فَرْضٌ اِلَّا أَنَّ مَنْ فَعَلَہٗ مِنْہُمْ فَقَدْ أَجْزَی فِعْلُہُ ذٰلِکَ عَنْ بَقِیَّتِہِمْ .فَاِذَا اسْتَأْجَرَ بَعْضُہُمْ بَعْضًا عَلَی تَعْلِیْمِ ذٰلِکَ کَانَتْ اِجَارَتُہُ تِلْکَ وَاسْتِئْجَارُہُ اِیَّاہُ بَاطِلًا لِأَنَّہٗ اِنَّمَا اسْتَأْجَرَہُ عَلٰی أَنْ یُؤَدِّیَ فَرْضًا ہُوَ عَلَیْہِ لِلّٰہِ تَعَالٰی وَفِیْمَا یَفْعَلُہُ لِنَفْسِہٖ لِأَنَّہٗ اِنَّمَا یَسْقُطُ عَنْہُ الْفَرْضُ بِفِعْلِہِ اِیَّاہُ وَالْاِجَارَاتُ اِنَّمَا تَجُوْزُ وَتُمْلَکُ بِہَا الْأَبْدَالُ فِیْمَا یَفْعَلُہُ الْمُسْتَأْجِرُوْنَ لِلْمُسْتَأْجَرَیْنِ .فَاِنْ قَالَ قَائِلٌ : فَہَلْ رُوِیَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ شَیْئٌ یَدُلُّ عَلٰی مَا ذَکَرْتُ فِی الْمَنْعِ مِنْ الْاِسْتِئْجَارِ عَلَی تَعْلِیْمِ الْقُرْآنِ ؟ قِیْلَ لَہٗ : نَعَمْ قَدْ رُوِیَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ ذٰلِکَ أَنَّہٗ قَالَ لَا تَأْکُلُوْا بِالْقُرْآنِ .وَعَنْ عُبَادَۃَ بْنِ الصَّامِتِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَنَّہٗ قَالَ : کُنْتُ أُقْرِئُ نَاسًا مِنْ أَہْلِ الصُّفَّۃِ الْقُرْآنَ فَأَہْدَیْ اِلَیَّ رَجُلٌ مِنْہُمْ قَوْسًا عَلٰی أَنْ أَقْبَلَہَا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ تَعَالٰی .فَذَکَرْتُ ذٰلِکَ لِرَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ لِیْ اِنْ أَرَدْتُ أَنْ یُطَوِّقَک اللّٰہُ بِہَا قَوْسًا مِنْ نَارٍ فَاقْبَلْہَا .وَقَدْ ذَکَرْنَا ذٰلِکَ کُلَّہٗ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِأَسَانِیدِہَا فِیْمَا تَقَدَّمَ مِنَّا مِنْ کِتَابِنَا ہٰذَا فِی بَابِ التَّزْوِیْجِ عَلَی سُوْرَۃٍ مِنَ الْقُرْآنِ مِنْ کِتَابِ النِّکَاحِ .ثُمَّ قَدْ رُوِیَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ ذٰلِکَ أَیْضًا
٥٨٨٤: ابوالمتوکل ناجی نے ابو سعید خدری (رض) سے روایت کی ہے کہ اصحاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک غزوہ میں شریک تھے۔ ان کا گزر ایک عرب قبیلہ کے پاس سے ہوا تو انھوں نے پوچھا کیا تم میں سے کوئی جھاڑ پھونک کرلیتا ہے ہمارے قبیلہ کے سردار کو سانپ نے ڈس لیا یا اس کو کوئی عارضہ پیش آگیا ہے۔ ابو سعید کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے فاتحہ الکتاب پڑھ کر دم کردیا تو اس نے بکریوں کا ایک گلہ دیا اس آدمی نے لینے سے انکار کردیا پھر اس آدمی نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا تو آپ نے فرمایا تو نے کس چیز سے دم کیا اس آدمی نے کہا فاتحۃ الکتاب سے۔ آپ نے فرمایا : تمہیں کیا معلوم کہ وہ جھاڑ کا کام دیتی ہے ابو سعید کہتے ہیں پھر آپ نے اس کو لینے کا حکم دیا اور فرمایا اس میں میرا بھی ایک حصہ رکھ لو۔ ان آثار کو سامنے رکھتے ہوئے انھوں نے کہا کہ تعلیم قرآن پر اجرت میں حرج نہیں۔ تعلیم قرآن پر اجرت جائز نہیں جس طرح کہ نماز کی تعلیم پر اجرت جائز نہیں۔ اس سلسلہ میں جو روایات پیش کی گئی ہیں ان میں جس اجرت کا ذکر ہے وہ قرآن مجید کی تعلیم پر نہیں وہ دم پر اجرت ہے اور اس میں قرآن مجید پر اجرت کا قصد نہیں کیا گیا اور اس میں تو ہم بھی یہی کہتے ہیں کہ دم کرنے اور ہر قسم کے علاج معالجہ پر اجرت درست ہیں اگرچہ ہم یہ جانتے ہیں اس پر اجرت لینے والا بعض اوقات قرآن مجید کے کسی حصہ کے ساتھ بھی دم کرتا ہے۔ ایک دوسرے کو دم کرنا واجب نہیں فلہذا اگر وہ ایسے عمل پر اجارہ کریں جو ان پر لازم نہ ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ مگر لوگوں پر لازم ہے کہ وہ ایک دوسرے کو قرآن مجید سکھائیں کیونکہ اس میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے تبلیغ ہے مگر جو ان میں سے تعلیم دے گا تو وہ باقی لوگوں کی طرف سے کفایت کرنے والا ہوگا جیسا کہ نماز جنازہ تمام لوگوں پر فرض ہے مگر بعض کے ادا کرلینے سے باقی کی طرف سے کفایت ہوجائے گی اور اگر کوئی شخص کسی سے اپنے رشتہ دار کے نماز جنازہ پڑھنے کی اجرت مانگے تو یہ جائز نہیں ہے کیونکہ وہ اس عمل کی اجرت مانگ رہا ہے جو اس پر لازم ہے۔ اسی طرح قرآن مجید بھی ایک دوسرے کو سکھانا فرض ہے البتہ بعض کے سکھا دینے سے باقی کی طرف سے کفایت ہوجائے گی۔ فلہذا اگر کوئی کسی کو تعلیم قرآن کے لیے اجرت پر رکھے تو یہ اجارہ اور اجرت دونوں ناجائز ہیں کیونکہ اس فرض عمل پر اجارہ کیا ہے اور اس عمل کو سقوط فرض کے لیے اسے خود کرنا لازم تھا مگر اجاروں میں مزدور اپنے مستاجر کے لیے عمل کرتا ہے تبھی تو اجارہ درست ہوتا ہے اور وہ بدل کا مالک بنتا ہے۔ آپ نے تعلیم قرآن مجید کے سلسلے میں جو بات کہی ہے کیا اس پر کوئی چیز آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بھی منقول ہے۔ تو اس کے جواب میں کہا جائے گا اس سلسلہ میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بہت سی روایات وارد ہیں مثلا ” لاتاکلوا بالقرآن “ نمبر ٢ حضرت عبادہ (رض) سے مروی ہے کہ میں بعض اصحاب صفہ کو قرآن مجید پڑھاتا تھا۔ ان میں سے ایک نے مجھے ایک کمان ہدیہ میں دی اور اصرار کیا کہ اس کو راہ خدا کے لیے قبول فرمائیں۔ میں نے یہ بات جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں ذکر کی تو آپ نے فرمایا اگر تم چاہتے ہو کہ اس کے بدلے میں اللہ تعالیٰ تمہیں آگ کی کمان کا طوق ڈالیں تو اسے قبول کرلو۔
تخریج : بخاری فی الطب باب ٣٣‘ مسلم فی السلام ٦٥؍٦٦‘ مسند احمد ٣‘ ٢؍٤٤۔
فریق اول کا مؤقف : ان آثار کو سامنے رکھتے ہوئے انھوں نے کہا کہ تعلیم قرآن پر اجرت میں حرج نہیں۔
فریق ثانی کا مؤقف : تعلیم قرآن پر اجرت جائز نہیں جس طرح کہ نماز کی تعلیم پر اجرت جائز نہیں۔
مؤقف اول کا جواب : اس سلسلہ میں جو روایات پیش کی گئی ہیں ان میں جس اجرت کا ذکر ہے وہ قرآن مجید کی تعلیم پر نہیں وہ دم پر اجرت ہے اور اس میں قرآن مجید پر اجرت کا قصد نہیں کیا گیا اور اس میں ت وہم بھی یہی کہتے ہیں کہ دم کرنے اور ہر قسم کے علاج معالجہ پر اجرت درست ہیں اگرچہ ہم یہ جانتے ہیں اس پر اجرت لینے والا بعض اوقات قرآن مجید کے کسی حصہ کے ساتھ بھی دم کرتا ہے۔
وجہ جواز : ایک دوسرے کو دم کرنا واجب نہیں فلہذا اگر وہ ایسے عمل پر اجارہ کریں جو ان پر لازم نہ ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ مگر لوگوں پر لازم ہے کہ وہ ایک دوسرے کو قرآن مجید سکھائیں کیونکہ اس میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے تبلیغ ہے مگر جو ان میں سے تعلیم دے گا تو وہ باقی لوگوں کی طرف سے کفایت کرنے والا ہوگا جیسا کہ نماز جنازہ تمام لوگوں پر فرض ہے مگر بعض کے ادا کرلینے سے باقی کی طرف سے کفایت ہوجائے گی اور اگر کوئی شخص کسی سے اپنے رشتہ دار کے نماز جنازہ پڑھنے کی اجرت مانگے تو یہ جائز نہیں ہے کیونکہ وہ اس عمل کی اجرت مانگ رہا ہے جو اس پر لازم ہے۔ اسی طرح قرآن مجید بھی ایک دوسرے کو سکھانا فرض ہے البتہ بعض کے سکھا دینے سے باقی کی طرف سے کفایت ہوجائے گی۔
فلہذا اگر کوئی کسی کو تعلیم قرآن کے لیے اجرت پر رکھے تو یہ اجارہ اور اجرت دونوں ناجائز ہیں کیونکہ اس فرض عمل پر اجارہ کیا ہے اور اس عمل کو سقوط فرض کے لیے اسے خود کرنا لازم تھا مگر اجاروں میں مزدور اپنے مستاجر کے لیے عمل کرتا ہے تبھی تو اجارہ درست ہوتا ہے اور وہ بدل کا مالک بنتا ہے۔
سوال : آپ نے تعلیم قرآن مجید کے سلسلے میں جو بات کہی ہے کیا اس پر کوئی چیز آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بھی منقول ہے۔
جواب : اس سلسلہ میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بہت سی روایات وارد ہیں مثلا ” لاتاکلوا بالقرآن “ نمبر ٢ حضرت عبادہ (رض) سے مروی ہے کہ میں بعض اصحاب صفہ کو قرآن مجید پڑھاتا تھا۔ ان میں سے ایک نے مجھے ایک کمان ہدیہ میں دی اور اصرار کیا کہ میں اس کو راہ خدا کے لیے قبول فرمائیں۔ میں نے یہ بات جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں ذکر کی تو آپ نے فرمایا اگر تم چاہتے ہو کہ اس کے بدلے میں اللہ تعالیٰ تمہیں آگ کی کمان کا طوق ڈالیں تو اسے قبول کرلو۔
تخریج : ابو داؤد فی البیوع باب ٣٦‘ ابن ماجہ فی التجارات باب ٨‘ مسند احمد ٥؍٣١٥۔
ہم نے ان روایات کو باب التزویج علی سورة من القرآن کتاب النکاح میں ذکر کیا ہے۔ اس سلسلہ کی مزید روایات ملاحظہ ہوں۔

5886

۵۸۸۵: مَا قَدْ حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ شُعَیْبٍ قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ حَسَّانٍ قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ عَنْ أَبِیْ مَسْعُوْدٍ سَعِیْدِ بْنِ اِیَاسٍ الْجَرِیْرِیِّ عَنْ أَبِی الْعَلَائِ یَزِیْدَ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ الشَّخِیرِ عَنْ أَخِیْہِ مُطَرِّفِ بْنِ الشَّخِیرِ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ أَبِی الْعَاصِ أَنَّہٗ قَالَ : قَدْ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اتَّخَذَ مُؤَذِّنًا لَا یَأْخُذُ عَلٰی أَذَانِہِ أَجْرًا فَکَرِہَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْأَذَانَ بِالْأَجْرِ .وَقَدْ رُوِیَ فِیْ ذٰلِکَ أَیْضًا عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا
٥٨٨٥: مطرف بن شخیر نے عثمان بن ابی العاص (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم ایسا موذن مقرر کرو جو اذان پر اجرت نہ لے۔ تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اجرت پر اذان کو ناپسند فرمایا۔
تخریج : ترمذی فی الصلاۃ باب ٤١‘ نسائی فی الاذان باب ٣٢‘ ابن ماجہ فی الاذان باب ٣‘ مسند احمد ٤؍٢١٧۔
روایت ابن عمر (رض) :

5887

۵۸۸۶: مَا قَدْ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ أَبِیْ عِمْرَانَ قَالَ : ثَنَا عُبَیْدُ اللّٰہِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عُمَرَ بْنِ حَفْصٍ التَّیْمِیُّ قَالَ : أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ عَنْ یَحْیَی الْبَکَّائِ أَنَّ رَجُلًا قَالَ لِابْنِ عُمَرَ اِنِّیْ أُحِبُّک فِی اللّٰہِ .فَقَالَ لَہٗ ابْنُ عُمَرَ لَکِنِّیْ أَبْغَضُک فِی اللّٰہِ لِأَنَّک تَبْغِی فِیْ أَذَانِک أَجْرًا وَتَأْخُذُ عَلَی الْأَذَانِ أَجْرًا .فَقَدْ ثَبَتَ بِمَا ذَکَرْنَا کَرَاہِیَۃَ الْاِسْتِئْجَارِ عَلَی الْأَذَانِ فَالْاِسْتِجْعَالُ عَلَی تَعْلِیْمِ الْقُرْآنِ کَذٰلِکَ أَیْضًا لِأَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَدْ أُمِرَ بِالتَّبْلِیغِ عَنِ اللّٰہِ وَلَوْ آیَۃً مِنْ کِتَابِ اللّٰہِ وَأَوْجَبَ اللّٰہُ عَلٰی نَبِیِّہِ التَّبْلِیغَ عَنْہُ فَقَالَ یَا أَیُّہَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَا أُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَبِّکَ وَاِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْت رِسَالَتَہُ وَاللّٰہُ یَعْصِمُک مِنَ النَّاسِ .وَقَدْ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ مِثْلِ ذٰلِکَ أَیْضًا
٥٨٨٦: یحییٰ البکاء سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے ابن عمر (رض) کو کہا مجھے اللہ تعالیٰ کی خاطر تم سے محبت ہے۔ ابن عمر (رض) نے فرمایا مگر میں تم سے اللہ تعالیٰ کی خاطر بغض رکھتا ہوں کیونکہ تم اپنی اذان پر اجرت لیتے ہو ۔ ان روایات سے ثابت ہوتا ہے کہ اذان پر کسی کو اجرت دے کر رکھنا مکروہ ہے اور قرآن مجید کی تعلیم پر اجارہ یہی حکم رکھتا ہے کیونکہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے قرآن مجید کی ایک بھی آیت کو پہنچا دینے کا حکم فرمایا ہے اور اپنے پیغمبر پر تبلیغ کو فرض فرمایا اور فرمایا اے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو کچھ آپ کے رب کی طرف سے آپ پر اتارا گیا اس کو پہنچا دیں اور اگر آپ ایسا نہ کریں تو آپ نے اپنی رسالت کی تبلیغ نہ کی اور اللہ تعالیٰ آپ کو لوگوں سے محفوظ رکھے گا۔ ” یا ایہا الرسول بلغ ماانزل الیک۔۔۔“ ۔
تبلیغ رسالت کے سلسلہ میں مزید فرمایا :

5888

۵۸۸۷: فِیْمَا حَدَّثَنَا أَبُوْبَکْرَۃَ وَاِبْرَاھِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ جَمِیْعًا قَالَا : ثَنَا أَبُوْ عَاصِمٍ عَنِ الْأَوْزَاعِیِّ عَنْ حَسَّانَ بْنِ عَطِیَّۃَ عَنْ أَبِیْ کَبْشَۃَ السَّلُوْلِیِّ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ أَنَّہٗ قَالَ : قَدْ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَلِّغُوْا عَنِّیْ وَلَوْ آیَۃً مِنْ کِتَابِ اللّٰہِ وَحَدِّثُوْا عَنْ بَنِیْ اِسْرَائِیْلَ وَلَا حَرَجَ فِیْ ذٰلِکَ وَمَنْ کَذَبَ عَلَیَّ مُتَعَمِّدًا فَلْیَتَبَوَّأْ مَقْعَدَہُ مِنَ النَّارِ .فَأَوْجَبَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ عَلٰی أُمَّتِہِ التَّبْلِیغَ عَنْہُ .ثُمَّ قَدْ فَرَّقَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَیْنَ التَّبْلِیغِ عَنْہُ وَالْحَدِیْثِ عَنْ غَیْرِہِ فَقَالَ وَحَدِّثُوْا عَنْ بَنِیْ اِسْرَائِیْلَ وَلَا حَرَجَ أَیْ : وَلَا حَرَجَ عَلَیْکُمْ فِیْ أَنْ لَا تُحَدِّثُوْا عَنْہُمْ فِیْ ذٰلِکَ .فَالْاِسْتِجْعَالُ عَلٰی ذٰلِکَ اسْتِجْعَالٌ عَلَی الْفَرْضِ وَمَنِ اسْتَجْعَلَ جُعْلًا عَلَی عَمَلٍ یَعْمَلُہُ فِیْمَا افْتَرَضَ اللّٰہُ عَمَلَہٗ عَلَیْہِ فَذٰلِکَ عَلَیْہِ حَرَامٌ لِأَنَّہٗ اِنَّمَا یَعْمَلُہُ لِنَفْسِہٖ لِیُؤَدِّیَ بِہٖ فَرْضًا عَلَیْہِ .وَمَنِ اسْتَجْعَلَ جُعْلًا عَلَی عَمَلٍ یَعْمَلُہُ لِغَیْرِہِ مِنْ رُقْیَۃٍ أَوْ غَیْرِہَا وَاِنْ کَانَتْ بِقُرْآنٍ أَوْ عِلَاجٍ أَوْ مَا أَشْبَہَ ذٰلِکَ فَذٰلِکَ جَائِزٌ وَالْاِسْتِجْعَالُ عَلَیْہِ حَلَالٌ .فَیَصِحُّ بِمَا ذَکَرْنَا مَعَانِیْ مَا قَدْ رُوِیَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ ہٰذَا الْبَابِ مِنَ النَّہْیِ وَمِنَ الْاِبَاحَۃِ وَلَا یَتَضَادَّ ذٰلِکَ فَیَتَنَافَی .وَہٰذَا کُلُّہٗ قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ وَأَبِیْ یُوْسُفَ وَمُحَمَّدٍ رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِمْ .
٥٨٨٧: ابو کبشہ سلولی نے حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔” بَلِّغُوْا عَنِّیْ وَلَوْ آیَۃً ۔۔۔ “ کہ ایک آیت قرآن بھی ہو تو وہ بھی میری طرف سے پہنچاؤ اور بنی اسرائیل کی باتیں نقل کرنے میں حرج نہیں اور جس نے مجھ پر جان بوجھ کر جھوٹ بولا : (فَلْیَتَبَوَّأْ مَقْعَدَہُ مِنَ النَّارِ ) تو اسے اپنا ٹھکانا جہنم بنا لینا چاہیے۔ اس روایت میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے امت پر تبلیغ کو لازم فرمایا۔ پھر جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آپ کی طرف سے بات کے پہنچانے اور دوسروں سے بات نقل کرنے میں فرق کو ذکر کرتے ہوئے فرمایا۔ بنی اسرائیل سے بات بیان کرنے میں حرج نہیں یعنی تم پر ان سے بیان نہ کرنے میں کچھ گناہ نہیں۔ پس اس پر انعام و اجرت کو طلب کرنا جو کہ اس پر فرض ہے تو یہ فرض پر اجرت کو چاہنا ہے جو کہ اس پر حرام ہے کیونکہ وہ اپنی ذات کے لیے عمل کرنا ہے تاکہ فریضہ کی ادائیگی ہو اور جو عمل دوسرے کے لیے کیا جائے مثلاً جھاڑ پھونک وغیرہ اگرچہ قرآن مجید کی آیات سے ہو یا علاج وغیرہ اس پر اجرت جائز ہے اور حلال ہے۔ اس بات کو سامنے رکھنے سے آثار مذکورہ کے معانی درست ہوجاتے ہیں اور ان میں منافات اور تضاد نہیں رہتا۔ یہ تمام امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد رحمہم اللہ کا قول ہے۔
تخریج : بخاری فی احادیث الانبیاء باب ٥٠‘ ترمذی فی العلم باب ١٣‘ دارمی فی المقدمہ باب ٤٦‘ مسند احمد ٢‘ ١٥٩؍٢٠٢۔

5889

۵۸۸۸: حَدَّثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا ہَارُوْنُ بْنُ اِسْمَاعِیْلَ الْخَرَّازُ قَالَ : ثَنَا عَلِیُّ بْنُ الْمُبَارَکِ قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ أَبِیْ کَثِیْرٍ عَنْ اِبْرَاھِیْمَ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ قَارِظٍ أَنَّ السَّائِبَ بْنَ یَزِیْدَ قَدْ حَدَّثَہُمْ أَنَّ رَافِعَ بْنَ خَدِیجٍ قَدْ حَدَّثَہُمْ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَدْ قَالَ اِنَّ کَسْبَ الْحَجَّامِ خَبِیْثٌ .
٥٨٨٨: سائب بن یزید نے بیان کیا کہ حضرت رافع بن خدیج (رض) نے بتلایا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا سینگی لگانے والے کی کمائی ناپاک ہے۔
تخریج : مسلم فی المساقاۃ ٤٠؍٤١‘ ترمذی فی البیوع باب ٤٦‘ نسائی فی الصید باب ١٥‘ مسند احمد ٣؍٤٦٤‘ ٤؍١٤١۔
اس سلسلہ میں ایک فریق کا قول یہ ہے کہ اجرت حجام حرام ہے اس قول کو امام احمد (رح) نے اختیار کیا ہے۔
فریق ثانی کا قول یہ ہے کہ یہ اجرت جائز ہے اور عدم جواز کی روایات تمام تر منسوخ ہیں۔ (العینی ص ٥٥٦)

5890

۵۸۸۹: حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ شُعَیْبٍ قَالَ : ثَنَا بِشْرُ بْنُ بَکْرٍ قَالَ : حَدَّثَنِی الْأَوْزَاعِیُّ قَالَ : حَدَّثَنِیْ یَحْیَی بْنُ أَبِیْ کَثِیْرٍ قَالَ : حَدَّثَنِیْ اِبْرَاھِیْمُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ قَارِظٍ قَالَ : حَدَّثَنِی السَّائِبُ بْنُ یَزِیْدَ قَالَ : سَمِعْتُ رَافِعَ بْنَ خَدِیجٍ یُحَدِّثُ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ۔
٥٨٨٩: سائب بن یزید نے بیان کیا کہ میں نے رافع بن خدیج (رض) کو بیان کرتے سنا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسی طرح فرمایا۔

5891

۵۸۹۰: وَحَدَّثَنَا یَزِیْدُ بْنُ سِنَانٍ وَاِبْرَاھِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ جَمِیْعًا قَالَا : ثَنَا أَبُوْ عَامِرٍ الْعَقَدِیُّ قَالَ : ثَنَا رَبَاحُ بْنُ أَبِیْ مَعْرُوْفٍ عَنْ عَطَائٍ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِنَّ مِنْ السُّحْتِ کَسْبَ الْحَجَّامِ .
٥٨٩٠: عطاء نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کی کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا سینگی لگانے والے کی کمائی حرام ہے۔

5892

۵۸۹۱: حَدَّثَنَا فَہْدُ بْنُ سُلَیْمَانَ قَالَ : ثَنَا أَحْمَدُ بْنُ یُوْنُسَ قَالَ : ثَنَا شِہَابٌ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِیْ لَیْلَی عَنْ عَطَائٍ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ۔
٥٨٩١: عطاء نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔

5893

۵۸۹۲: وَحَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ الْجَارُوْدِ قَالَ : ثَنَا وَہْبُ بْنُ بَیَانٍ الْوَاسِطِیُّ قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیْدٍ الْقَطَّانُ قَالَ : حَدَّثَنِیْ عَبْدُ الْعَزِیْزِ بْنُ زِیَادٍ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ أَنَّہٗ قَالَ : قَدْ حَرَّمَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَسْبَ الْحَجَّامِ .
٥٨٩٢: عبدالعزیز بن زیاد نے حضرت انس بن مالک (رض) سے روایت کی ہے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حجام کی کمائی کو حرام قرار دیا۔

5894

۵۸۹۳: حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ قَالَ : ثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَۃَ قَالَ : أَنْبَأْنَا سَعِیْدٌ قَالَ : ثَنَا عَوْنٌ بْنُ أَبِیْ جُحَیْفَۃَ أَنَّہٗ قَالَ : قَدْ اشْتَرَی أَبِیْ حَجَّامًا فَکَسَرَ مَحَاجِمَہُ .فَقُلْتُ لَہٗ : یَا أَبَتِ لِمَ کَسَرْتُہٗ َا ؟ فَقَالَ : اِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَہٰی عَنْ ثَمَنِ الدَّمِ .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : وَلَیْسَ فِیْ ہٰذَا دَلِیْلٌ عَلَی تَحْرِیْمِ کَسْبِ الْحَجَّامِ وَلٰـکِنْ اِنَّمَا أَتَیْنَا بِہٖ لِئَلَّا یَتَوَہَّمَ مُتَوَہِّمٌ أَنَّا قَدْ أَغْفَلْنَاہُ وَاِنَّمَا فِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ کَرَاہِیَۃُ أَبِیْ جُحَیْفَۃَ لِذٰلِکَ فَقَطْ .فَأَمَّا مَا فِیْ ذٰلِکَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ نَہْیِہِ عَنْ ثَمَنِ الدَّمِ فَہُوَ مَا یُبَاعُ بِہٖ الدَّمُ لَا غَیْرُ ذٰلِکَ .فَذَہَبَ قَوْمٌ اِلٰی کَرَاہِیَۃِ کَسْبِ الْحَجَّامِ وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِہٰذِہِ الْآثَارِ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ فَقَالُوْا : اِنَّ کَسْبَ الْحَجَّامِ کَسْبٌ ذِی دَنَسٍ فَیُکْرَہُ لِلرَّجُلِ أَنْ یُدَنِّسَ نَفْسَہٗ وَیُدِیْنَہَا بِذٰلِکَ .فَأَمَّا أَنْ یَکُوْنَ ذٰلِکَ فِیْ نَفْسِہِ حَرَامًا فَلَا .وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ
٥٨٩٣: سعید نے ہمیں مطلع کیا کہ عون بن ابی حجیفہ نے بیان کیا کہ میرے والد نے ایک سینگی لگانے والے (غلام) کو خریدا پھر اس کے سینگی لگانے والے آلات توڑ دیئے میں نے کہا ابا جی ! آپ نے یہ آلات کیوں توڑ ڈالے ؟ تو فرمانے لگے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خون کی قیمت لینے سے منع فرمایا۔ امام طحاوی (رح) کہتے ہیں : اس روایت میں حجام کی کمائی کے حرام ہونے کی کوئی دلیل نہیں ہے اس روایت کو ذکر کرنے کا مقصد یہ ہے کہ کسی کو یہ وہم نہ ہو کہ ہم اس سے بےخبر ہیں۔ بس اس روایت سے اتنی بات معلوم ہوتی ہے کہ حضرت ابو جحیفہ نے اس کو ناپسند کرتے ہوئے ایسا کیا۔ رہا یہ سوال کہ خون کی قیمت سے منع فرمایا تو اس کا اطلاق خون فروخت کرنے پر ہوتا ہے اس کے علاوہ نہیں۔ بعض لوگوں نے کہا کہ حجام کی کمائی مکروہ ہے اس کی دلیل مندرجہ بالا روایات ہیں۔ دوسروں نے کہا سینگی لگوانے کا پیشہ گندا پیشہ ہے آدمی کو چاہیے کہ وہ اپنے کو اس پیشے میں ملوث کر کے اپنے کو عیب دار نہ کرے اور اس کو اختیار نہ کرے باقی بذات خود یہ حرام نہیں۔ دلیل یہ روایات ہیں۔
تخریج : مسند احمد ٤‘ ٣٠٨؍٣٠٩۔

5895

۵۸۹۴: بِمَا حَدَّثَنَا یُوْنُسُ وَالرَّبِیْعُ الْمُؤَذِّنُ قَالَا : ثَنَا یَحْیَی بْنُ حَسَّانَ قَالَ : ثَنَا وُہَیْبٌ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ طَاوُسٍ عَنْ أَبِیْھَاعَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ الْعَبَّاسِ أَنَّہٗ قَالَ : احْتَجَمَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَأَعْطَی الْحَجَّامَ أَجْرَہُ فِیْ ذٰلِکَ .
٥٨٩٤: عبداللہ بن طاوٗس نے اپنے والد سے انھوں نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سینگی لگوائی اور حجام کو اس کی مزدوری عنایت فرمائی۔
تخریج : بخاری فی الاجارہ باب ١٨‘ والبیوع باب ٣٩‘ مسلم فی المساقاۃ ٦٥‘ ابو داؤد فی البیوع باب ٣٨‘ ابن ماجہ فی التجارات باب ١٠‘ مسند احمد ١؍٩٠‘ ٣٣٣؍٣٥١‘ ٢٤١؍٣٦٥‘ ٢٥٠؍٢٩٢۔

5896

۵۸۹۵: : وَقَدْ حَدَّثَنَا الْحُسَیْنُ بْنُ الْحَکَمِ الْجِیزِیُّ قَالَ : ثَنَا عَفَّانَ بْنُ مُسْلِمٍ ح .وَحَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوٗدَ بْنِ مُوْسَی قَالَ : ثَنَا سَہْلُ بْنُ بَکَّارٍ قَالَا : ثَنَا وُہَیْبٌ فَذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔،
٥٨٩٥: حسین بن حکم جیزی نے عفان بن مسلم۔ سند نمبر ٢ احمد بن داؤد بن موسیٰ نے سہل بن بکار نے وہیب نے اپنی اسناد سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔

5897

۵۸۹۶: وَحَدَّثَنَا أَبُوْبَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُو الْوَلِیْدِ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ عَنْ جَابِرٍ الْجُعْفِیِّ أَنَّہٗ قَالَ : سَمِعْت الشَّعْبِیَّ یُحَدِّثُ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَرْسَلَ اِلَی غُلَامِ حَجَّامٍ فَجَائَ فَحَجَمَہٗ فَأَعْطَاہُ أَجْرًا مُدًّا أَوْ نِصْفَ مُدٍّ وَلَوْ کَانَ حَرَامًا لَمْ یُعْطِہِ ذٰلِکَ .
٥٨٩٦: شعبی نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک غلام حجام کی طرف پیغام بھیجا۔ پس اس نے سینگی لگوائی تو آپ نے اس کو ایک مد یا نصف مد اس کی مزدوری عنایت فرمائی۔ (ابن عباس (رض) فرماتے ہیں) اگر یہ حرام ہوتی تو آپ اس کو عنایت نہ فرماتے۔
تخریج : روایت ٥٨٩٥ ملاحظہ ہو۔

5898

۵۸۹۷: حَدَّثَنَا الْحُسَیْنُ بْنُ نَصْرٍ قَالَ : أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ یُوْسُفَ الْفِرْیَابِیُّ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ الثَّوْرِیُّ عَنْ جَابِرٍ الْجُعْفِیِّ عَنْ عَامِرٍ الشَّعْبِیِّ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَبَّاسٍ أَنَّہٗ قَالَ : احْتَجَمَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَأَعْطَی الْحَجَّامَ أَجْرَہُ وَلَوْ کَانَ حَرَامًا لَمْ یُعْطِہِ ذٰلِکَ .
٥٨٩٧: عبداللہ بن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سینگی لگوائی اور حجام کو اس کی اجرت عنایت فرمائی۔ اگر یہ حرام ہوتی تو آپ اس کو عنایت نہ فرماتے۔

5899

۵۸۹۸: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ الْأَنْصَارِیُّ حَدَّثَنَا سَعِیْدُ بْنُ أَبِیْ عَرُوْبَۃَ عَنْ قَتَادَۃَ عَنْ أَبِیْ طَالِبٍ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ حَجَّامًا کَانَ یُقَالُ لَہٗ أَبُو طَیْبَۃَ الْحَجَّامُ حَجَمَ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَأَعْطَاہُ أَجْرَہُ وَحَطَّہُ عَنْہُ طَائِفَۃٌ مِنْ غَلَّتِہِ أَوْ وَضَعَ عَنْہُ أَہْلُہُ طَائِفَۃً مِنْ غَلَّتِہِ .فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ : فَلَوْ کَانَ حَرَامًا لَمَا أَعْطَاہُ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .
٥٨٩٨: ابو طالب نے عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت کی ہے ایک حجام کا نام ابو طیبہ الحجام تھا اس نے آپ کو سینگی لگائی تو آپ نے اس کو اس کی مزدوری عنایت فرمائی اور اس کے خراج میں سے کچھ حصہ کم کردیا یا اس کے مالکوں نے اس سے خراج کا کچھ حصہ کم کردیا۔ ابن عباس (رض) فرماتے ہیں اگر یہ حرام ہوتی تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کو عنایت نہ فرماتے۔

5900

۵۸۹۹: وَحَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ الْجَارُوْدِ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ کَثِیْرِ بْنِ عُفَیْرٍ قَالَ : حَدَّثَنِیْ یَحْیَی بْنُ أَیُّوْبَ عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ عَنْ جَابِرٍ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَدْ احْتَجَمَ فَأَمَرَ الْحَجَّامَ بِصَاعٍ مِنْ طَعَامٍ وَأَمَرَ مَوَالِیَہُ أَنْ یُخَفِّفُوْا عَنْہُ مِنَ الْخَرَاجِ شَیْئًا .
٥٨٩٩: ابوالزبیر نے حضرت جابر (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سینگی کھنچوائی پھر حجام کو ایک صاع (غلہ) دینے کا حکم فرمایا اور اس کے مالکوں کو حکم فرمایا کہ وہ اس کے خراج میں سے کچھ کم کردیں۔
تخریج : اخرج بنحوہ بخاری فی البیوع باب ٣٩‘ والاجارہ باب ١٧؍١٩‘ مسلم فی المساقاۃ ٦٤؍٦٦‘ ابو داؤد فی البیوع باب ٣٨‘ مالک فی الاستیذان ٢٦‘ مسند احمد ١‘ ٣٦٥؍٢٨٢۔

5901

۵۹۰۰: وَحَدَّثَنَا فَہْدُ بْنُ سُلَیْمَانَ قَالَ : ثَنَا أَبُو غَسَّانَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَوَانَۃَ عَنْ أَبِیْ بِشْرٍ عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ قَیْسٍ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ دَعَا أَبَا طَیْبَۃَ الْحَجَّامَ فَحَجَمَہٗ فَسَأَلَہٗ کَمْ ضَرِیْبَتُک فَقَالَ : ثَلَاثَۃُ أَصْوُعٍ فَوَضَعَ عَنْہُ صَاعًا مِنْہَا .
٥٩٠٠: سلیمان بن قیس نے حضرت جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت کی کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ابو طیبہ حجام کو بلوایا اس نے سینگی لگائی تو آپ نے دریافت فرمایا تیرا خراج کتنا ہے اس نے کہا تین صاع (یومیہ) تو آپ نے ایک صاع اس سے کم کردیا۔
تخریج : مسند احمد ٣؍٣٥٣۔

5902

۵۹۰۱: وَحَدَّثَنَا أَبُوْبَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَوَانَۃَ عَنْ أَبِیْ بِشْرٍ عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ قَیْسٍ عَنْ جَابِرٍ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ثُمَّ ذَکَرَ ہٰذَا الْحَدِیْثَ بِمِثْلِ ذٰلِکَ أَیْضًا سَوَائً ۔
٥٩٠١: سلیمان بن قیس نے حضرت جابر (رض) سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی۔ پھر اس روایت کا اسی طرح تذکرہ کیا۔

5903

۵۹۰۲: وَحَدَّثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا آدَم بْنُ أَبِیْ اِیَاسٍ قَالَ : ثَنَا وَرْقَائُ بْنُ عُمَرَ عَنْ عَبْدِ الْأَعْلَی عَنْ أَبِیْ جَمِیْلَۃَ عَنْ عَلِی قَالَ احْتَجَمَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَأَعْطَی الْحَجَّامَ أَجْرَہُ .
٥٩٠٢: ابو جمیلہ نے حضرت علی (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سینگی لگوائی اور حجام کو اس کی مزدوری دی۔

5904

۵۹۰۳: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ النُّعْمَانِ قَالَ : ثَنَا الْحُمَیْدِیُّ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ عَنْ جَابِرٍ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَدْ قَالَ فِیْ کَسْبِ الْحَجَّامِ عَلِفَۃُ النَّاضِحِ أَوْ قَالَ اعْلِفْ ذٰلِکَ نَاضِحَک ۔
٥٩٠٣: ابوالزبیر نے حضرت جابر (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حجام کی مزدوری کے سلسلہ میں فرمایا وہ پانی لانے والے اونٹ کے چارے کی طرح ہے یا اس طرح فرمایا وہ تیرا پانی لانے والا اونٹ ہے تو اس کو چارہ ڈال۔

5905

۵۹۰۴: حَدَّثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا عَمْرُو بْنُ عَوْنٍ ح .
٥٩٠٤: ابراہیم بن داؤد نے عمرو بن عون سے۔

5906

۵۹۰۵: وَقَدْ حَدَّثَنَا أَبُو أُمَیَّۃَ مُحَمَّدُ بْنُ اِبْرَاھِیْمَ قَالَ : ثَنَا الْمُعَلَّی بْنُ مَنْصُوْرٍ قَالَا : ثَنَا خَالِدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ عَنْ یُوْنُسَ بْنِ عُبَیْدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِیْرِیْنَ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ : احْتَجَمَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَأَعْطَی الْحَجَّامَ أَجْرَہُ .
٥٩٠٥: محمد بن سیرین نے حضرت انس بن مالک (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سینگی لگوائی اور حجام کو اس کی مزدوری دی۔

5907

۵۹۰۵: وَقَدْ حَدَّثَنَا أَبُو أُمَیَّۃَ مُحَمَّدُ بْنُ اِبْرَاھِیْمَ قَالَ : ثَنَا الْمُعَلَّی بْنُ مَنْصُوْرٍ قَالَا : ثَنَا خَالِدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ عَنْ یُوْنُسَ بْنِ عُبَیْدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِیْرِیْنَ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ : احْتَجَمَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَأَعْطَی الْحَجَّامَ أَجْرَہُ .
٥٩٠٦: عاصم نے حضرت انس (رض) سے روایت کی ہے کہ ابو طیبہ نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سینگی لگائی جبکہ آپ روزے سے تھے پھر آپ نے اس کو اس کی مزدوری عنایت فرمائی۔ انس (رض) کہتے ہیں کہ اگر یہ حرام ہوتی تو آپ اس کو بالکل نہ دیتے۔

5908

۵۹۰۷: حَدَّثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ بَکْرٍ السَّہْمِیُّ قَالَ : ثَنَا حُمَیْدٌ الطَّوِیْلُ أَنَّہٗ قَالَ : سُئِلَ أَنَسٌ عَنْ کَسْبِ الْحَجَّامِ .فَقَالَ : احْتَجَمَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حَجَمَہُ أَبُو طَیْبَۃَ الْحَجَّامُ فَأَمَرَ لَہٗ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِصَاعَیْنِ مِنْ طَعَامٍ وَکَلَّمَ مَوَالِیَہُ لِیُخَفِّفُوْا عَنْہُ مِنْ غَلَّتِہِ شَیْئًا فَفَعَلُوْا ذٰلِکَ .
٥٩٠٧: حمیدالطویل سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت انس (رض) سے حجام کی کمائی کے متعلق پوچھا گیا تو انھوں نے فرمایا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سینگی لگوائی اور سینگی لگانے والا ابو طیبہ تھا تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے دو صاع غلہ دینے کا حکم فرمایا اور اس کے مالکوں سے بات چیت کی تاکہ وہ اس کے خراج میں سے کچھ کم کردیں انھوں نے ایسا کردیا۔

5909

۵۹۰۸: وَحَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ وَہْبٍ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ سُفْیَانُ الثَّوْرِیُّ أَنَّ حُمَیْدًا قَدْ حَدَّثَہُمْ عَنْ أَنَسٍ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ۔
٥٩٠٨: حمید نے بیان کیا کہ انس (رض) نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے متعلق اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔

5910

۵۹۰۹: وَقَدْ حَدَّثَنَا یُوْنُسُ أَیْضًا قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ وَہْبٍ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ مَالِکُ بْنُ أَنَسٍ عَنْ حُمَیْدٍ الطَّوِیْلِ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ثُمَّ ذَکَرَ ہٰذَا الْحَدِیْثَ أَیْضًا مِثْلَ ذٰلِکَ سَوَائً ،
٥٩٠٩: حمیدالطویل نے حضرت انس (رض) نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پھر انھوں نے اس روایت کو اسی طرح نقل کیا۔

5911

۵۹۱۰: وَقَدْ حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ قَالَ : ثَنَا اِسْمَاعِیْلُ بْنُ جَعْفَرٍ عَنْ حُمَیْدٍ الطَّوِیْلِ عَنْ أَنَسٍ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ۔فَفِیْ ہٰذِہِ الْآثَارِ اِبَاحَۃُ کَسْبِ الْحَجَّامِ فَاحْتَمَلَ أَنْ یَکُوْنَ ذٰلِکَ قَدْ تَأَخَّرَ عَنِ النَّہْیِ الَّذِی قَدْ ذَکَرْنَاہُ أَوْ تَقَدَّمَہُ .
٥٩١٠: حمیدالطویل نے حضرت انس (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت کی ہے۔ پس ان روایات سے حجام کی کمائی کے مباح ہونے کا ثبوت ملتا ہے اب اس میں یہ احتمال پیدا ہوا کہ اس ممانعت سے پہلے کی بات ہے یا بعد کی بات ہے۔
حاصل روایات : ان روایات سے حجام کی کمائی کے مباح ہونے کا ثبوت ملتا ہے اب اس میں یہ احتمال پیدا ہوا کہ اس ممانعت سے پہلے کی بات ہے یا بعد کی بات ہے۔
روایات پر غور :

5912

۵۹۱۱: فَنَظَرْنَا فِیْ ذٰلِکَ فَاِذَا یُوْنُسُ قَدْ حَدَّثَنَا قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ یُوْسُفَ ح .
٥٩١١: یونس نے عبداللہ بن یوسف سے نقل کیا۔

5913

۵۹۱۲: وَحَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ قَالَ : أَخْبَرَنَا شُعَیْبُ بْنُ اللَّیْثِ قَالَا : ثَنَا اللَّیْثُ عَنْ یَزِیْدَ بْنِ أَبِیْ حَبِیْبٍ عَنْ أَبِیْ عُفَیْرٍ الْأَنْصَارِیِّ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سَہْلِ بْنِ أَبِیْ حَثْمَۃَ عَنْ مُحَیِّصَۃَ بْنِ مَسْعُوْدٍ الْأَنْصَارِیِّ أَنَّہٗ قَدْ کَانَ لَہٗ غُلَامٌ حَجَّامٌ یُقَالُ لَہٗ نَافِعٌ وَأَبُو طَیْبَۃَ فَانْطَلَقَ اِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَسَأَلَہٗ عَنْ خَرَاجِہِ فَقَالَ لَا تَقْرَبُنَّہٗ فَرَدَّ ذٰلِکَ عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ اعْلِفْ بِہٖ النَّاضِحَ اجْعَلُوْھُ فِیْ کِرْشِہِ .
٥٩١٢: ربیع مؤذن نے اپنی سند کے ساتھ محیصہ بن مسعود انصاری (رض) سے نقل کیا کہ ان کا ایک حجام غلام تھا جن کا نام نافع و ابو طیبہ پکارا جاتا تھا۔ وہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں گیا اور اپنے خراج کے متعلق سوال کیا تو آپ نے فرمایا تم ہرگز اس کے قریب مت جاؤ۔ اس نے اپنا سوال بار بار دھرایا تو آپ نے فرمایا اس کو ماش کی والا چارہ دو اور اس کو اپنی اوجری میں رکھو (یعنی پیٹ بھر دو )

5914

۵۹۱۳: حَدَّثَنَا أَبُوْبَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا عُمَرُ بْنُ یُوْنُسَ قَالَ : ثَنَا عِکْرِمَۃُ بْنُ عَمَّارٍ قَالَ : ثَنَا طَارِقُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ أَنَّ رَافِعَۃَ بْنَ رَافِعٍ أَوْ رَافِعَ بْنَ رَافِعَۃَ الشَّکُّ مِنْہُمْ فِیْ ذٰلِکَ قَدْ جَائَ اِلَی مَجْلِسِ الْأَنْصَارِ فَقَالَ : نَہٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ کَسْبِ الْحَجَّامِ وَأَمَرَنَا أَنْ نُطْعِمَہُ نَاضِحَنَا۔
٥٩١٣: طارق بن عبدالرحمن کہتے ہیں کہ رافعہ بن رافع یا رافع بن رافعہ انہی سے متعلق ان کو شک ہے وہ مجلس انصار میں آیا اور کہنے لگا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حجام کی کمائی سے منع فرمایا اور ہمیں حکم دیا کہ ہم وہ اس کو پانی والے اونٹ کا چارہ کھلائیں (یعنی پیٹ بھر کھانا دیں)

5915

۵۹۱۴: وَقَدْ حَدَّثَنَا فَہْدُ بْنُ سُلَیْمَانَ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ صَالِحٍ الْکَاتِبُ قَالَ : حَدَّثَنِی اللَّیْثُ قَالَ: حَدَّثَنِیْ عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ خَالِدِ بْنِ مُسَافِرٍ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ عَنْ حَرَامِ بْنِ سَعْدِ بْنِ مُحَیِّصَۃَ عَنِ الْمُحَیِّصَۃِ رَجُلٍ مِنْ بَنِیْ حَارِثَۃَ أَنَّہٗ قَدْ کَانَ لَہٗ حَجَّامٌ وَاسْمُ الرَّجُلِ الْمُحَیِّصَۃُ سَأَلَ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ ذٰلِکَ فَنَہَاہُ أَنْ یَأْکُلَ کَسْبَہُ ثُمَّ عَادَ فَنَہَاہُ ثُمَّ عَادَ فَنَہَاہُ ثُمَّ عَادَ فَنَہَاہُ فَلَمْ یَزَلْ یُرَاجِعُہُ حَتّٰی قَالَ لَہٗ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اعْلِفْ کَسْبَہُ نَاضِحَکَ وَأَطْعِمْہُ رَقِیْقَک .
٥٩١٤: بنو حارث کے محیصہ (رض) کا ایک غلام حجام تھا محیصہ نے خود اس کے متعلق جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا تو آپ نے اس کی آمدنی کھانے سے منع فرمایا پھر دوبارہ سوال کیا تو آپ نے منع کردیا۔ پھر تیسری بار سوال کیا تو آپ نے منع کردیا۔ پھر چوتھی مرتبہ سوال کیا تو آپ نے منع کردیا وہ بار بار اپنا سوال دھراتا رہا۔ یہاں تک کہ آپ نے فرمایا اس کی کمائی اپنے پانی والے اونٹ کو کھلا دو اور اونٹ اپنے غلام کو کھلا دو ۔
تخریج : مسند احمد ٤؍٣٤١۔

5916

۵۹۱۵: وَحَدَّثَنَا اِسْمَاعِیْلُ بْنُ یَحْیَی الْمُزَنِیّ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ اِدْرِیْسَ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ عَنِ الزُّہْرِیِّ عَنْ حَرَامِ بْنِ سَعْدِ بْنِ مُحَیِّصَۃَ أَنَّ مُحَیِّصَۃَ سَأَلَ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَذَکَرَ مِثْلَہٗ۔ تخریج: ترمذی فی البیوع باب۴۷‘ مسند احمد ۵‘ ۴۳۵؍۴۳۶۔
٥٩١٥: حرام بن سعد بن محیصہ نے روایت کی کہ حضرت محیصہ (رض) نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا پھر اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

5917

۵۹۱۶: حَدَّثَنَا اِسْمَاعِیْلُ بْنُ یَحْیَی الْمُزَنِیّ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ اِدْرِیْسَ قَالَ: ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ اِسْمَاعِیْلَ بْنِ أَبِیْ فُدَیْکٍ الْمَدَنِیُّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ الْمُغِیْرَۃِ بْنِ أَبِیْ ذِئْبٍ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ عَنْ حَرَامِ بْنِ سَعْدِ بْنِ مُحَیِّصَۃَ الْحَارِثِیِّ عَنْ أَبِیْہَ أَنَّہٗ سَأَلَ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَذَکَرَ مِثْلَہٗ۔
٥٩١٦: حرام بن سعد بن محیصہ نے اپنے والد سے روایت کی ہے کہ انھوں نے (محیصہ نے) جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا پھر اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

5918

۵۹۱۷: حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ شُعَیْبٍ قَالَ : ثَنَا أَسَدُ بْنُ مُوْسَی قَالَ : ثَنَا ابْنُ أَبِیْ ذِئْبٍ فَذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔
٥٩١٧: اسد بن موسیٰ نے ابن ابی ذئب سے انھوں نے اپنی اسناد سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔

5919

۵۹۱۸: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَخْبَرَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَنَّ مَالِکًا أَخْبَرَہٗ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ الزُّہْرِیِّ عَنْ حَرَامِ بْنِ مُحَیِّصَۃَ أَحَدِ بَنِیْ حَارِثَۃَ عَنْ أَبِیْھَافَذَکَرَ مِثْلَہٗ۔فَدَلَّ مَا ذَکَرْنَا أَنَّ مَا کَانَ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ ذٰلِکَ مِنَ الْاِبَاحَۃِ فِیْ ہٰذَا اِنَّمَا کَانَ بَعْدَمَا نَہَاہُ عَنْہُ نَہْیًا عَامًّا مُطْلَقًا عَلٰی مَا فِی الْآثَارِ الْأُوَلِ .وَفِیْ اِبَاحَۃِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ یُطْعِمَہُ الرَّقِیْقَ أَوْ النَّاضِحَ دَلِیْلٌ عَلٰی أَنَّہٗ لَیْسَ بِحَرَامٍ .أَلَا تَرَی أَنَّ الْمَالَ الْحَرَامَ الَّذِی لَا یَحِلُّ أَکْلُہُ لَا یَحِلُّ لَہٗ أَنْ یُطْعِمَہُ رَقِیْقَہُ وَلَا نَاضِحَہُ لِأَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ فِی الرَّقِیْقِ أَطْعِمُوْھُمْ مِمَّا تَأْکُلُوْنَ .فَلَمَّا ثَبَتَ اِبَاحَۃُ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِمُحَیَّصَۃَ أَنْ یَعْلِفَ ذٰلِکَ نَاضِحَہُ وَیُطْعِمَ رَقِیْقَہُ مِنْ کَسْبِ حَجَّامِہِ دَلَّ ذٰلِکَ عَلٰی نَسْخِ مَا تَقَدَّمَ مِنْ نَہْیِہِ عَنْ ذٰلِکَ وَثَبَتَ حِلُّ ذٰلِکَ لَہٗ وَلِغَیْرِہٖ۔ وَہٰذَا قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ وَأَبِیْ یُوْسُفَ وَمُحَمَّدٍ رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِمْ .وَہٰذَا ہُوَ النَّظَرُ عِنْدَنَا أَیْضًا لِأَنَّا قَدْ رَأَیْنَا الرَّجُلَ یَسْتَأْجِرُ الرَّجُلَ یَفْصِدُ لَہٗ عِرْقًا أَوْ یَبْزُغَ لَہٗ حِمَارًا فَیَکُوْنُ ذٰلِکَ جَائِزًا وَالْاِسْتِئْجَارُ عَلٰی ذٰلِکَ جَائِزٌ فَالْحِجَامَۃُ أَیْضًا کَذٰلِکَ .وَقَدْ رُوِیَ فِیْ ذٰلِکَ أَیْضًا عَمَّنْ بَعْدَ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا
٥٩١٨: حرام بن محیصہ بنی حارثہ سے تھے انھوں نے اپنے والد سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔ ان روایات سے یہ دلالت مل گئی کہ یہ اباحت ممانعت کے بعد تھی اور وہ ممانعت عام اور مطلق تھی۔ جیسا کہ پہلے آثار اس پر دلالت کرتے ہیں اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمانا کہ اسے اپنے غلام یا پانی والے اونٹ کو کھلا دو ۔ یہ واضح دلیل ہے کہ یہ حرام نہ تھی ذرا غور تو فرمائیں کہ جو مال حرام ہے وہ اپنے غلام کو کھلانا اور اپنے پانی والے اونٹ کو کھلانا بھی جائز نہیں۔ کیونکہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غلاموں کے سلسلہ میں فرمایا : اطعموہم مماتأکلون “ (بخاری فی الزہد : ٧٤) پس جب محیصہ (رض) کے لیے اس کی اباحت ثابت ہوگئی کہ وہ اپنے پانی والے اونٹ کو کھلائیں یا اپنے غلام کو اپنے حجام کی اجرت کھلائیں اس سے سابقہ نہی کا نسخ معلوم ہوتا ہے اور اس اجرت کی اس کے لیے اور دوسروں کے لیے حلت ثابت ہوئی۔ یہ امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد رحمہم اللہ کا قول ہے۔ ہمارے نزدیک نظر کا تقاضا بھی یہی ہے کہ یہ حلال ہو۔ کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ آدمی کسی سے اجارے کا معاملہ کرتا ہے اور اپنی رگ میں اس سے فصد کھلواتا ہے یا تو یہ جائز ہوگا اور اس پر حصول اجرت بھی جائز ہے حجامت کا بھی یہی حال ہے۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے بعد صحابہ کرام سے بھی اس کی اباحت مروی ہے۔
تخریج : بخاری فی الزہد ٧٤‘ مسند احمد ٤؍٣٦‘ ٣؍١٦٨۔
اقوال صحابہ کرام (رض) سے تائید :
جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے بعد صحابہ کرام سے بھی اس کی اباحت مروی ہے۔

5920

۵۹۱۹: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ وَہْبٍ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ مُوْسَی بْنُ عَلِیِّ بْنِ رَبَاحٍ اللَّخْمِیُّ عَنْ أَبِیْہَ قَالَ : کُنْتُ عِنْدَ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ الْعَبَّاسِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا فَأَتَتْہُ امْرَأَۃٌ فَقَالَتْ لَہٗ : اِنَّ لِیْ غُلَامًا حَجَّامًا وَاِنَّ أَہْلَ الْعِرَاقِ یَزْعُمُوْنَ أَنِّیْ آکُلُ ثَمَنَ الدَّمِ .فَقَالَ لَہَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عَبَّاسٍ : لَقَدْ کَذَبُوْا اِنَّمَا تَأْکُلِیْنَ خَرَاجَ غُلَامِک .
٥٩١٩: موسیٰ بن علی لخمی نے اپنے والد سے نقل کیا کہ میں ابن عباس (رض) کے پاس تھا ان کے پاس ایک عورت آ کر کہنے لگی میرا ایک غلام حجام ہے اہل عراق گمان کرتے ہیں کہ میں خون فروخت کر کے کھاتی ہوں۔ حضرت ابن عباس (رض) کہنے لگے انھوں نے غلط کہا تم اپنے غلام کا خراج کھاتی ہو۔

5921

۵۹۲۰: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ یُوْسُفَ حَدَّثَنَا اللَّیْثُ قَالَ : وَحَدَّثَنِیْ رَبِیْعَۃُ بْنُ أَبِیْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ الرَّأْیَ أَنَّ الْحَجَّامِیْنَ قَدْ کَانَ لَہُمْ سُوْقٌ عَلَی عَہْدِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ وَقَدْ
٥٩٢٠: ربیعہ بن ابو عبدالرحمن کہتے ہیں کہ حجاموں کا ایک پورا بازار حضرت عمر (رض) کے زمانہ میں تھا۔

5922

۵۹۲۱: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ یُوْسُفَ حَدَّثَنَا اللَّیْثُ أَنَّہٗ قَالَ : - وَقَدْ أَخْبَرَنِیْ یَحْیَی بْنُ سَعِیْدٍ الْأَنْصَارِیُّ - أَنَّ الْمُسْلِمِیْنَ لَمْ یَزَالُوْا مُقِرِّیْنَ بِأَجْرِ الْحِجَامَۃِ وَلَا یُنْکِرُوْنَہَا.
٥٩٢١: لیث نے یحییٰ بن سعید انصاری (رض) سے نقل کیا کہ مسلمان ہمیشہ سے سینگی لگانے کی اجرت کے قائل رہے ہیں اور انھوں نے اس کا انکار نہیں کیا۔
اللغات : الحجامہ۔ سینگی لگوانا۔ الناضح۔ پانی والا اونٹ۔ غلۃ۔ خراج۔ محاجم۔ آلات حجامت۔
اس باب میں سینگی لگانے کی اجرت کی حلت کو روایات و نظر سے ثابت کر کے پھر اس کا معمول ہونا بھی بتلایا ہے۔

5923

۵۹۲۲: حَدَّثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ حَرْبٍ قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَیْدٍ عَنْ أَیُّوْبَ عَنْ أَبِی الْعَلَائِ یَزِیْدَ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ الشَّخِیرِ عَنْ أَبِیْ مُسْلِمٍ الْجُذَامِیِّ عَنِ الْجَارُوْدِ أَنَّہٗ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِنَّ ضَالَّۃَ الْمُسْلِمِ حَرْقُ النَّارِ
٥٩٢٢: ابو مسلم جذامی نے حضرت جارود (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بلاشبہ مؤمن کی گمشدہ چیز وہ آگ کی جلن ہے۔
تخریج : ترمذی فی الاشربہ باب ١١‘ ابن ماجہ فی اللقطہ باب ١‘ دارمی فی البیوع باب ٦١‘ مسند احمد ٤؍٥‘ ٢٥؍٨٠۔
کسی گری پڑی چیز کو اٹھانے کے متعلق بعض لوگ تو مطلقاً ناجائز قرار دیتے ہیں اور بعض متقدمین نے اس کے اٹھانے کو مکروہ قرار دیا ہے۔
فریق ثانی کا مؤقف یہ ہے کہ اس چیز کے ضائع ہونے کا خطرہ ہو تو اسے اٹھالینا پڑے رہنے اور چھوڑنے سے بہتر ہے۔ امام شافعی (رح) کا قول بھی یہی ہے تمام جگہ کے لقطہ کا حکم یکساں ہے اگر تشہیر پر بھی مالک نہ ملے تو ضرورت مند خود استعمال کرے ورنہ بیت المال میں جمع کرا دے یا کسی غریب پر مالک کی نیت سے صرف کر دے۔

5924

۵۹۲۳: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَلِیِّ بْنِ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا عَفَّانَ بْنُ مُسْلِمٍ قَالَ : ثَنَا ہَمَّامٌ قَالَ : ثَنَا قَتَادَۃُ عَنْ یَزِیْدَ أَخِی مُطَرِّفٍ عَنْ أَبِیْ مُسْلِمٍ الْجُذَامِیِّ عَنِ الْجَارُوْدِ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ اِنَّ ضَالَّۃَ الْمُسْلِمِ أَوْ الْمُؤْمِنِ حَرْقُ النَّارِ .
٥٩٢٣: ابو مسلم جذامی نے حضرت جارود (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی آپ نے فرمایا مسلم کا گمشدہ یا مؤمن کا گمشدہ وہ آگ کی جلن ہے۔

5925

۵۹۲۴: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَلِیِّ بْنِ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا عَفَّانَ بْنُ مُسْلِمٍ قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیْدٍ قَالَ : حَدَّثَنِیْ حُمَیْدٌ الطَّوِیْلُ قَالَ : ثَنَا الْحَسَنُ عَنْ مُطَرِّفِ بْنِ الشَّخِیرِ عَنْ أَبِیْہَ أَنَّہٗ قَالَ : قَدْ کُنَّا قَدِمْنَا عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ نَفَرٍ مِنْ بَنِیْ عَامِرٍ .فَقَالَ لَنَا أَلَا أَحْمِلُکُمْ ؟ فَقُلْتُ : اِنَّا نَجِدُ فِی الطَّرِیْقِ ہَوَامِّی الْاِبِلِ فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِنَّ ضَالَّۃَ الْمُسْلِمِ حَرْقُ النَّارِ .فَذَہَبَ قَوْمٌ اِلٰی أَنَّ الضَّوَالَّ حَرَامٌ أَخْذُہَا عَلَی کُلِّ حَالٍ لِلتَّعْرِیفِ وَغَیْرِ ذٰلِکَ وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِہٰذِہِ الْآثَارِ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ فَقَالُوْا : اِنَّہٗ لَمْ یُرِدْ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِمَا قَدْ ذَکَرْنَا فِیْ ہٰذِہِ الْآثَارِ تَحْرِیْمَ أَخْذِ الضَّالَّۃِ لِلتَّعْرِیفِ وَاِنَّمَا أَرَادَ أَخْذَہَا لِغَیْرِ ذٰلِکَ .
٥٩٢٤: حسن نے مطرف بن شخیر سے انھوں نے اپنے والد سے روایت کی ہے ہم بنی عامر کے ایک وفد میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو فرمایا کیا میں تمہیں سواری نہ دوں ؟ میں نے کہا ہم راہ میں اونٹوں کا گلہ پاتے ہیں تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مؤمن کا گمشدہ آگ کی جلن ہے۔ گمشدہ چیز کا کسی صورت لینا بھی حرام ہے خواہ تشہیر وغیرہ کے لیے کیوں نہ ہو۔ انھوں نے مندرجہ بالا آثار کو دلیل بنایا ہے۔ ان آثار میں آپ کی یہ ہرگز مراد نہیں کہ تشہیر کے لیے بھی ان کا لینا حرام ہے بلکہ اس کے علاوہ مقاصد کو سامنے رکھ کرلینا حرام ہے جیسا آئندہ روایات اس کو واضح کرتی ہیں۔
فریق اول کا مؤقف : گمشدہ چیز کا کسی صورت لینا بھی حرام ہے خواہ تشہیر وغیرہ کے لیے کیوں نہ ہو۔ انھوں نے مندرجہ بالا آثار کو دلیل بنایا ہے۔
فریق ثانی کا مؤقف اور فریق اول کا جواب : ان آثار میں آپ کی یہ ہرگز مراد نہیں کہ تشہیر کے لیے بھی ان کا لینا حرام ہے بلکہ اس کے علاوہ مقاصد کو سامنے رکھ کرلینا حرام ہے جیسا آئندہ روایات اس کو واضح کرتی ہیں۔

5926

۵۹۲۵: وَقَدْ بَیَّنَ مَا ذَہَبُوْا اِلَیْہِ مِنْ ذٰلِکَ مَا حَدَّثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ عَامِرٍ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّائِ عَنْ یَزِیْدَ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ الشَّخِیرِ عَنْ أَبِیْ مُسْلِمٍ الْجُذَامِیِّ عَنِ الْجَارُوْدِ أَنَّہٗ قَالَ : کُنَّا أَتَیْنَا رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ عَلَی اِبِلٍ عِجَافٍ .فَقُلْنَا : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ اِنَّا نَمُرُّ بِالْجُرُفِ فَنَجِدُ اِبِلًا فَنَرْکَبُہَا فَقَالَ اِنَّ ضَالَّۃَ الْمُسْلِمِ حَرْقُ النَّارِ .فَکَانَ سُؤَالُہُمْ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ أَخْذِہَا لَأَنْ یَرْکَبُوْہَا لَا لَأَنْ یُعَرِّفُوْہَا فَأَجَابَہُمْ بِأَنْ قَالَ ضَالَّۃُ الْمُسْلِمِ حَرْقُ النَّارِ أَیْ : اِنَّ ضَالَّۃَ الْمُسْلِمِ حُکْمُہَا أَنْ یُحْفَظَ عَلٰی صَاحِبِہَا حَتّٰی تُؤَدَّیْ اِلٰی صَاحِبِہَا لَا لَأَنْ یُنْتَفَعَ بِہَا لِرُکُوْبٍ وَلَا لِغَیْرِ ذٰلِکَ .فَبَانَ بِذٰلِکَ مَعْنٰی ہٰذَا الْحَدِیْثِ وَأَنَّ ذٰلِکَ عَلٰی مَا قَدْ ذَکَرْنَا .وَقَدْ کَانَ مِمَّا احْتَجَّ بِذٰلِکَ أَیْضًا مَنْ قَدْ حَرَّمَ أَخْذَ الضَّالَّۃِ مِنْ ذٰلِکَ
٥٩٢٥: ابو مسلم جذامی نے حضرت جارود (رض) سے نقل کیا ہے کہ ہم جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں کمزور اونٹوں پر سواری کی حالت میں پہنچے ہم نے کہا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ہمارا گزر سیلاب کی گزرگاہ کے پاس سے ہوتا ہے وہاں ہم اونٹ پاتے ہیں کیا ہم ان پر سوار ہوجائیں آپ نے فرمایا مؤمن کا گمشدہ آگ کی جلن ہے۔ اس وفد کے افراد کا سوال سواری کے لیے تھا تشہیر کرانے کے لیے لینے کا سوال نہ تھا تو آپ نے ان کو فرمایا ” ضالۃ المسلم حرق النار “ یعنی مؤمن کے گمشدہ کا حکم یہ ہے کہ اس کے مالک کے لیے اس کی حفاظت کی جائے یہاں تک کہ اس کا حق اسے پہنچ جائے اس لیے اس کو پکڑنا جائز نہیں کہ اس پر سواری کرے یا اور کوئی فائدہ اٹھائے۔
فریق اوّل کی دلیل :

5927

۵۹۲۶: مَا قَدْ حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ قَالَ : ثَنَا یَعْلَی بْنُ عُبَیْدٍ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ حَیَّانَ التَّمِیْمِیُّ عَنْ الضَّحَّاکِ بْنِ الْمُنْذِرِ عَنِ الْمُنْذِرِ أَنَّہٗ قَالَ : قَدْ کُنْتُ بِالْبَوَازِیجِ مَوْضِعٌ فَرَاحَتِ الْبَقَرُ فَرَأَی فِیْہَا جَرِیْرٌ بَقَرَۃً أَنْکَرَہَا .فَقَالَ لِلرَّاعِی : مَا ہٰذِہِ الْبَقَرَۃُ ؟ قَالَ : بَقَرَۃٌ لَحِقَتْ بِالْبَقَرِ لَا أَدْرِی لِمَنْ ہِیَ ؟ فَأَمَرَ بِہَا جَرِیْرٌ فَطُرِدَتْ حَتّٰی تَوَارَتْ .ثُمَّ قَالَ : قَدْ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ لَا یَأْوِی الضَّالَّۃَ اِلَّا ضَالٌّ .قَالُوْا : فَہٰذَا الْحَدِیْثُ أَیْضًا یُحَرِّمُ أَخْذَ الضَّالَّۃِ .فَکَانَ مِنَ الْحُجَّۃِ عَلَیْہِمْ لِلْآخَرِیْنَ فِیْ ذٰلِکَ أَنَّہٗ قَدْ یُحْتَمَلُ أَنْ یَکُوْنَ ہُوَ ذٰلِکَ الْاِیْوَائَ الَّذِی لَا تَعْرِیْفَ مَعَہٗ۔ فَاِنَّہٗ قَدْ بَیَّنَ ذٰلِکَ أَیْضًا
٥٩٢٦: ضحاک بن منذر نے حضرت منذر (رض) سے روایت کی ہے کہ میں مقام بواریج میں تھا شام کو گائیں واپس لوٹ کر آئیں تو حضرت جریر (رض) نے ان میں ایک اجنبی گائے کو دیکھا۔ چرواہے سے دریافت کیا یہ کیسی گائے ہے ؟ اس نے کہا کسی کی گائے گائیوں کے ساتھ آگئی ہے مجھے علم نہیں کہ یہ کس کی ہے۔ حضرت جریر (رض) نے فرمایا اس کو دور چھوڑ آئیں یہاں تک کہ غائب ہوجائے پھر فرمایا میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا کہ آپ نے فرمایا گمشدہ کو گمراہ آدمی ٹھکانا دیتا ہے۔ یہ روایت بھی مؤقف اول کی تائید کرتی ہے اور گمشدہ چیز کو پکڑنا حرام قرار دیتی ہے۔ اس روایت میں یہ احتمال ہے کہ اس پکڑنے والے کو گمراہ قرار دیا گیا جو تعریف کی غرض نہ رکھتا ہو جیسا کہ یہ روایت اس کی مؤید ہے۔ ملاحظ ہو۔
تخریج : ابو داؤد فی اللقطہ ابن ماجہ فی اللقطہ باب ١‘ مسند احمد ٤؍٣٦٠۔
حاصل روایت : یہ روایت بھی مؤقف اول کی تائید کرتی ہے اور گمشدہ چیز کو پکڑنا حرام قرار دیتی ہے۔
فریق ثانی کا جواب : اس روایت میں یہ احتمال ہے کہ اس پکڑنے والے کو گمراہ قرار دیا گیا جو تعریف کی غرض نہ رکھتا ہو جیسا کہ یہ روایت اس کی مؤید ہے۔ ملاحظ ہو۔

5928

۵۹۲۷: مَا قَدْ حَدَّثَنَا فَہْدُ بْنُ سُلَیْمَانَ قَالَ : ثَنَا ابْنُ أَبِیْ مَرْیَمَ قَالَ : أَنَا یَحْیَی بْنُ أَیُّوْبَ قَالَ : حَدَّثَنِیْ عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ أَنَّ بَکْرَ بْنَ سَوَدَاۃَ قَدْ أَخْبَرَہُمْ عَنْ أَبِیْ سَالِمٍ الْجَیَشَانِیِّ عَنْ زَیْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُہَنِیِّ أَنَّہٗ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَنْ آوَی ضَالَّۃً فَہُوَ ضَالٌّ مَا لَمْ یُعَرِّفْہَا
٥٩٢٧: ابو سالم جیشانی نے حضرت زید بن خالد جہنی (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس نے کسی گمشدہ کو ٹھکانا دیا وہ گمراہ ہے جبکہ اس کی تشہیر نہ کرانا چاہتا ہو۔
تخریج : مسلم فی اللقلہ ١٢‘ مسند احمد ٤؍١١٧۔

5929

۵۹۲۸: حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ وَہْبٍ قَالَ : ثَنَا عَمِّیْ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ وَہْبٍ قَالَ : حَدَّثَنِیْ عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ ثُمَّ ذَکَرَ ہٰذَا الْحَدِیْثَ بِاِسْنَادِہِ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِمِثْلِ ذٰلِکَ أَیْضًا سَوَائً .فَبَیَّنَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ مَنْ الَّذِیْ یَکُوْنُ بِاِیْوَائِ الضَّالَّۃِ ضَالًّا وَأَنَّہٗ الَّذِی لَا یُعَرِّفُہَا .فَعَادَ مَعْنٰی ہٰذَا الْحَدِیْثِ اِلَی مَعْنَیْ حَدِیْثِ الْجَارُوْدِ وَعَبْدِ اللّٰہِ بْنُ الشَّخِیرِ فِیْ ذٰلِکَ أَیْضًا .
٥٩٢٨: عبداللہ بن وہب نے عمرو بن حارث (رض) سے نقل کیا پھر اپنی اسناد کے ساتھ انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بالکل اسی طرح روایت بیان کی ہے۔ اس روایت میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بیان کردیا کہ وہ شخص جو گمشدہ کو عدم تشہیر کی غرض سے باندھتا ہے وہ گمراہ ہے۔ پس اس روایت کا مفہوم بھی حضرت جارود اور عبداللہ بن شخیر (رض) کی روایت کی طرف لوٹ گیا۔

5930

۵۹۲۹: وَقَدْ حَدَّثَنَا أَبُوْبَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا الْحُسَیْنُ بْنُ الْمَہْدِیِّ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ قَالَ : أَنَا سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ عَنْ وَائِلِ بْنِ دَاوٗدَ عَنِ الزُّہْرِیِّ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سُرَاقَۃَ عَنْ أَبِیْھَاسُرَاقَۃَ بْنِ مَالِکٍ أَنَّہٗ جَائَ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ لَہٗ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ یَرِدُ عَلٰی حَوْضِیْ اِبِلٌ اِلٰی أَحِرَارٌ أَسْقَیْتُہُا ؟ قَالَ وَفِی الْکَبِدِ الْحِرَائِ أَجْرٌ .
٥٩٢٩: محمد بن سراقہ نے اپنے والد سراقہ بن مالک (رض) سے روایت کی ہے کہ میں بارگاہ نبوت میں گیا اور عرض کیا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! میرے حوض پر پیاسے اونٹوں کے علاوہ اونٹ آتے ہیں تو میں انھیں پانی پلاتا ہوں آپ نے فرمایا پیاسے جگر کی سیرابی ثواب ہے۔
تخریج : ابن ماجہ فی الادب باب ٨‘ مسند احمد ٢؍٢٢٢‘ ٤؍١٧٥۔

5931

۵۹۳۰: وَقَدْ حَدَّثَنَا فَہْدُ بْنُ سُلَیْمَانَ قَالَ : ثَنَا الْحَسَنُ بْنُ الرَّبِیْعِ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ اِدْرِیْسَ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ اِسْحَاقَ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ الزُّہْرِیِّ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ مَالِکِ بْنِ جُعْشُمٍ عَنْ أَبِیْہَ أَنَّ أَخَاہُ سُرَاقَۃَ بْنَ مَالِکٍ قَالَ : قُلْتُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ثُمَّ ذَکَرَ ہٰذَا الْحَدِیْثَ بِمِثْلِ ذٰلِکَ أَیْضًا سَوَائً .وَہُوَ فِیْ حَالِ سَقْیِہِ اِیَّاہَا مُؤَوِّلُہَا فَلَمْ یَنْہَہُ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ ذٰلِکَ الْاِیْوَائِ اِذَا کَانَ اِنَّمَا یُرِیْدُ بِہٖ مَنْفَعَۃَ صَاحِبِہَا وَاِبْقَائَ ہَا عَلٰی رَبِّہَا وَالثَّوَابُ فِیْہَا .فَثَبَتَ بِذٰلِکَ أَنَّ الْاِیْوَائَ الْمَکْرُوْہَ فِیْ حَدِیْثِ جَرِیْرٍ اِنَّمَا ہُوَ الْاِیْوَائُ الَّذِیْ یُرَادُ بِہٖ خِلَافُ حَبْسِہَا عَلٰی صَاحِبِہَا وَطَلَبُ الثَّوَابِ فِیْہَا .وَقَدْ احْتَجَّ أَہْلُ الْمَقَالَۃِ الْأُوْلٰی لِقَوْلِہِمْ فِیْ ذٰلِکَ أَیْضًا بِمَا
٥٩٣٠: عبدالرحمن بن مالک بن جعشم (رض) نے اپنے والد سے بیان کیا کہ میرے بھائی سراقہ بن مالک نے بیان کیا کہ میں نے عرض کیا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! پھر اسی طرح کی روایت بیان کی ہے۔ وہ پانی پلانے کے دوران ان جانوروں کو ٹھکانا دینے والے تھے آپ نے اس کی ممانعت نہیں فرمائی کیونکہ وہ ان جانوروں کو ان کے مالکوں تک پہنچا کر ثواب حاصل کرنا چاہتے تھے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ حضرت جریر (رض) کی روایت میں جس ٹھکانے کا ذکر ہے اس سے مراد وہ ٹھکانا نہیں جس میں اس کو مالک کے لیے روکا جائے اور ثواب مطلوب ہو۔ فریق اول نے اس روایت سے بھی استدلال کیا ہے۔

5932

۵۹۳۱: قَدْ حَدَّثَنَا یُوْنُسُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَی الصُّوْفِیُّ قَالَ : أَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ وَہْبِ بْنِ مُسْلِمٍ الْقُرَشِیُّ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ وَمَالِکُ بْنُ أَنَسٍ وَسُفْیَانُ بْنُ سَعِیْدٍ الثَّوْرِیُّ جَمِیْعًا أَنَّ رَبِیْعَۃَ بْنَ أَبِیْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ الرَّأْیَ حَدَّثَہُمْ جَمِیْعًا عَنْ یَزِیْدَ مَوْلَی الْمُنْبَعِثِ وَزَیْدُ بْنُ خَالِدٍ الْجُہَنِیُّ أَنَّہٗ قَالَ : جَائَ رَجُلٌ اِلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَأَنَا مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ فَسَأَلَہٗ عَنِ اللُّقَطَۃِ فَقَالَ لَہٗ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اعْرِفْ عِفَاصَہَا وَوِکَائَ ہَا ثُمَّ عَرِّفْہَا سَنَۃً فَاِنْ جَائَ صَاحِبُہَا وَاِلَّا فَشَأْنُک بِہَا .قَالَ : فَضَالَّۃُ الْغَنَمِ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ؟ فَقَالَ ہِیَ لَک أَوْ لِأَخِیْک أَوْ لِلذِّئْبِ .قَالَ : فَضَالَّۃُ الْاِبِلِ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ؟ فَقَالَ مَعَہَا سِقَاؤُہَا وَحِذَاؤُہَا تَرِدُ الْمَائَ وَتَأْکُلُ الشَّجَرَ حَتّٰی یَلْقَاہَا رَبُّہَا
٥٩٣١: یزید مولیٰ منبعث اور زید بن خالد جہنی (رض) سے روایت ہے ایک آدمی جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت گرامی میں حاضر ہوا میں اس وقت آپ کے ساتھ تھا اور اس نے لقطہ کے متعلق سوال کیا تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس کا بندھن اور سربند خوب پہچان لو پھر اس کی تشہیر ایک سال تک کرو پھر اگر اس کا مالک آجائے تو مناسب ہے ورنہ تم جانو اور وہ شئی۔ اس نے پوچھا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور گم شدہ بکری کا کیا حکم ہے۔ فرمایا وہ تیرے لیے ہے یا تیرے بھائی کے لیے یا بھیڑئے کے لیے ہے پھر اس نے گمشدہ اونٹ سے متعلق دریافت کیا تو فرمایا۔ اس کا مشکیزہ اور موزہ اس کے ساتھ ہے وہ پانی پر جائے گا اور درختوں سے کھائے گا یہاں تک کہ اس کا مالک اس تک پہنچ جائے (اسے نہ چلنے میں دقت نہ پانی کی پریشانی بلکہ برداشت پر قدرت ہے)
تخریج : بخاری فی العلم باب ٢٨‘ المساقاۃ باب ١٢‘ واللقطہ باب ٢؍٤‘ ٩؍١١‘ والطلاق باب ٢٢‘ مسلم فی اللقطہ ١؍٥‘ ٢‘ ابو داؤد فی اللقطہ باب ١‘ ترمذی فی الاحکام باب ٣٥‘ ابن ماجہ فی للقطہ باب ١‘ مالک فی الاقضیہ ٤٦‘ مسند احمد ٤‘ ١١٦؍١١٧۔

5933

۵۹۳۲: حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ الْفَرَجِ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ مُحَمَّدٍ الْفَہْمِیُّ قَالَ : أَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ بِلَالٍ قَالَ : حَدَّثَنِیْ یَحْیَی بْنُ سَعِیْدٍ وَرَبِیْعَۃُ بْنُ أَبِیْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ جَمِیْعًا عَنْ یَزِیْدَ مَوْلَی الْمُنْبَعِثِ عَنْ زَیْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُہَنِیِّ أَنَّہٗ قَالَ : قَدْ سُئِلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنِ اللُّقَطَۃِ مِنَ الذَّہَبِ وَالْفِضَّۃِ وَالْوَرَقِ .فَقَالَ اعْرِفْ وِکَائَ ہَا وَعِفَاصَہَا ثُمَّ عَرِّفْہَا سَنَۃً فَاِنْ لَمْ تُعْرَفْ فَاسْتَنْفِعْ بِہَا وَلْتَکُنْ وَدِیْعَۃً عِنْدَک فَاِنْ جَائَ لَہَا طَالِبٌ یَوْمًا مِنْ الدَّہْرِ فَأَدِّہَا اِلَیْہِ .ثُمَّ ذَکَرْنَا فِی الْحَدِیْثِ فِی الْاِبِلِ وَالْغَنَمِ بِمِثْلِ مَا فِیْ حَدِیْثِ یُوْنُسَ سَوَائٌ .
٥٩٣٢: یزید مولیٰ منبعث نے زید بن خالد جہنی (رض) سے روایت کی ہے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سونے چاندی اور چاندی کے ڈھلے ہوئے ٹکڑے کے متعلق سوال ہوا کہ وہ اگر گری پڑی ملے تو فرمایا اس کے بندھن اور سربند کو اچھی طرح پہچان لو۔ پھر ایک سال تک تشہیر کرو اگر مالک معلوم نہ ہو تو اس کو استعمال کرلو۔ اور وہ تیرے پاس بطور امانت ہونی چاہیے۔ اگر کبھی اس کا مالک آجائے تو اس کو واپس کر دو ۔ پھر ہم نے روایت میں اونٹ بکری کا تذکرہ روایت یونس کی طرح کیا ہے۔
تخریج : بخاری فی الطلاق باب ٢٢‘ والادب باب ٢‘ ٣‘ مسلم فی اللقطہ ١‘ ٢‘ ٥‘ ٦‘ ابو داؤد فی اللقطہ باب ١‘ ترمذی فی الاحکام باب ٣٥‘ ابن ماجہ فی اللقطہ باب ١؍٢‘ مالک فی الاقضیہ ٤٦‘ مسند احمد ٤؍١١٦‘ ٥؍١٩٣۔

5934

۵۹۳۳: حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ مَسْلَمَۃَ بْنِ قُعْنُبٍ قَالَ : ثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ بِلَالٍ عَنْ رَبِیْعَۃَ بْنِ أَبِیْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ عَنْ یَزِیْدَ مَوْلَی الْمُنْبَعِثِ أَنَّہٗ سَمِعَ زَیْدَ بْنَ خَالِدٍ الْجُہَنِیَّ یَقُوْلُ : ثُمَّ ذَکَرَ ہٰذَا الْحَدِیْثَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَ ذٰلِکَ أَیْضًا سَوَائً .
٥٩٣٣: یزید مولیٰ منبعث کہتے ہیں کہ میں نے زید بن خالد جہنی (رض) کو فرماتے سنا پھر انھوں نے بعینہٖ اسی طرح کی حدیث روایت کی ہے۔

5935

۵۹۳۴: حَدَّثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَامِرٍ الْعَقَدِیُّ قَالَ : ثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ بِلَالٍ عَنْ رَبِیْعَۃَ بْنِ أَبِیْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ الرَّائِیْ عَنْ یَزِیْدَ مَوْلَی الْمُنْبَعِثِ عَنْ زَیْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُہَنِیِّ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِمِثْلِ ذٰلِکَ الْحَدِیْثِ أَیْضًا سَوَائً غَیْرَ أَنَّہٗ لَمْ یَقُلْ فِیْ ذٰلِکَ وَلْیَکُنْ وَدِیْعَۃً عِنْدَک .
٥٩٣٤: یزید مولیٰ منبعث نے زید بن خالد جہنی (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔ البتہ ” و لیکن ودیعۃ عندک “ کے الفاظ اس میں نہیں ہیں۔

5936

۵۹۳۵: حَدَّثَنَا فَہْدُ بْنُ سُلَیْمَانَ وَعَلِیُّ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ قَالَا : ثَنَا ابْنُ أَبِیْ مَرْیَمَ قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ أَیُّوْبَ قَالَ : حَدَّثَنِیْ مُحَمَّدُ بْنُ عَجْلَانَ قَالَ : حَدَّثَنِی الْقَعْقَاعُ بْنُ حَکِیْمٍ عَنْ أَبِیْ صَالِحٍ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہٗ سُئِلَ عَنْ ضَالَّۃِ الْغَنَمِ فَقَالَ ہِیَ لَک أَوْ لِأَخِیْک أَوْ لِلذِّئْبِ .وَسُئِلَ عَنْ ضَالَّۃِ الْاِبِلِ فَقَالَ مَا لَکَ وَمَا لَہَا ؟ مَعَہَا سِقَاؤُہَا وَحِذَاؤُہَا دَعْہَا حَتّٰی یَجِدَہَا رَبُّہَا .قَالُوْا فَفِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ أَنَّہٗ قَدْ نَہَاہُ عَنْ أَخْذِ ضَالَّۃِ الْاِبِلِ وَأَمَرَہٗ بِتَرْکِہَا فَذٰلِکَ أَیْضًا دَلِیْلٌ عَلَی تَحْرِیْمِ أَخْذِ الضَّوَالِّ .قِیْلَ لَہُمْ : مَا فِیْ ذٰلِکَ دَلِیْلٌ عَلٰی مَا ذَکَرْتُمُوْھُ وَلٰـکِنْ فِیْ ذٰلِکَ أَمَرَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِیَّاہُ بِتَرْکِ ضَالَّۃِ الْاِبِلِ لِأَنَّ مِنْ شَأْنِہَا طَلَبَ الْمَائِ حَتّٰی یَقْدِرَ عَلٰی ذٰلِکَ وَہُوَ لَا یَخَافُ عَلَیْہَا الضَّیَاعَ لِذٰلِکَ لِأَنَّہَا قَدْ تَرِدُ الْمَائَ وَتَأْکُلُ الشَّجَرَ حَتّٰی یَلْقَاہَا رَبُّہَا فَتَرْکُہَا أَفْضَلُ مِنْ أَخْذِہَا وَلَیْسَ مَنْ أَخَذَہَا لِیَحْفَظَہَا عَلٰی صَاحِبِہَا بِمَأْثُوْمٍ بِذٰلِکَ .وَقَدْ سُئِلَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ عَنْ ضَالَّۃِ الْغَنَمِ فَقَالَ ہِیَ لَک أَوْ لِأَخِیْک أَوْ لِلذِّئْبِ .أَیْ : لَک أَنْ تَأْخُذَہَا لِنَفْسِک فَتَکُوْنَ فِیْ یَدَیْکَ لِأَخِیْک أَوْ تُخَلِّیہَا فَیَأْخُذَہَا الذِّئْبُ فَیَأْکُلَہَا أَوْ یَجِدَہَا رَبُّہَا فَیَأْخُذَہَا .فَفِیْ ذٰلِکَ اِبَاحَۃٌ لِأَخْذِہَا .وَقَدْ رُوِیَ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ عَنْ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ ذٰلِکَ أَیْضًا
٥٩٣٥: ابو صالح نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے گمشدہ بکریوں کے متعلق دریافت کیا گیا آپ نے فرمایا وہ تیری یا تیرے بھائی یا پھر بھیڑئے کی ہے اور آپ سے گمشدہ اونٹ کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا تمہیں ان سے کیا غرض ان کی مشک اور موزہ ان کے پاس ہے اس کو چھوڑ دو یہاں تک کہ اس کا مالک اس کو پالے۔ اس روایت میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے گمشدہ اونٹ کو پکڑنے سے منع فرمایا اور چھوڑ دینے کا حکم دیا۔ یہ دلیل ہے کہ گمشدہ چیز کو لینا حرام ہے۔ اس کی حرمت پر تو روایت میں کوئی دلیل نہیں بلکہ اس میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صرف گمشدہ اونٹ کو چھوڑنے کا حکم فرمایا ہے اور وہ اس لیے دیا کہ اونٹ پانی کی تلاش پر قدرت رکھتا ہے اور چارہ بھی کھا سکتا ہے اس کے ضائع ہونے کا خطرہ ندارد کے برابر ہے کیونکہ وہ پانی پر جاتا اور درخت چرتا ہے یہاں تک کہ اپنے مالک تک پہنچ جائے پس اس کو پکڑنے سے چھوڑ دینا افضل ہے۔ اگر کوئی شخص اسے مالک کے لیے حفاظت کی خاطر پکڑ لے تو اس پر کچھ گناہ نہیں ہے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے گمشدہ بکری کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا وہ تیرے لیے یا تیرے بھائی یا بھیڑئے کے لیے ہے۔ یعنی اسے پکڑ لو پس تمہارے پاس تمہارے بھائی کے لیے محفوظ رہے گی اور چھوڑنے کی صورت میں بھیڑیا پکڑ کر کھاجائے گا یا پھر اس کا مالک خود پالے اور پکڑ لے۔ تو اس کو پکڑنے کی اجازت مرحمت فرمائی گئی ہے اور یہ روایت ابن عمرو بن عاص (رض) میں بھی موجود ہے ملاحظہ ہو۔
تخریج : بخاری فی العلم باب ٢٨‘ الماسقاۃ باب ١٢‘ واللقطہ باب ٢؍٣‘ ٤؍٩‘ مسلم فی الاقطہ ١؍٢‘ ٥‘ ابو داؤد فی اللقطہ باب ١‘ ترمذی فی الاحکام باب ٣٥‘ ابن ماجہ فی للقطہ باب ١‘ مالک فی الاقضیہ ٤٦‘ مسند احمد ٢‘ ١٨٠؍١٨٦۔

5937

۵۹۳۶: مَا قَدْ حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ وَہْبٍ قَالَ أَخْبَرَنِیْ عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ وَہِشَامُ بْنُ سَعْدٍ کِلَاہُمَا عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ عَنْ أَبِیْھَاعَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ أَنَّ رَجُلًا مِنْ مُزَیْنَۃَ أَتَیْ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَسَأَلَہٗ فَقَالَ لَہٗ : یَا نَبِیَّ اللّٰہِ کَیْفَ تَرَی فِیْ ضَالَّۃِ الْغَنَمِ ؟ .فَقَالَ طَعَامٌ مَأْکُوْلٌ لَک أَوْ لِأَخِیْک أَوْ لِلذِّئْبِ احْبِسْ عَلٰی أَخِیْک ضَالَّتَہٗ۔ فَقَالَ لَہٗ : یَا نَبِیَّ اللّٰہِ وَکَیْفَ تَرَی فِیْ ضَالَّۃِ الْاِبِلِ ؟ فَقَالَ مَا لَکَ وَمَا لَہَا ؟ مَعَہَا سِقَاؤُہَا وَحِذَاؤُہَا وَلَا یَخَافُ عَلَیْہَا الذِّئْبُ تَأْکُلُ الْکَلَأَ وَتَرِدُ الْمَائَ دَعْہَا حَتّٰی یَأْتِیَ طَالِبُہَا .فَفِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ أَیْضًا اِبَاحَۃُ أَخْذِ الضَّوَالِّ الَّتِی قَدْ یُخَافُ عَلَیْہَا الضَّیَاعُ وَحَبْسُہَا لَہٗ۔فَدَلَّ ذٰلِکَ عَلٰی أَنَّ مَعْنَی قَوْلِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِنَّ ضَالَّۃَ الْمُسْلِمِ أَوْ الْمُؤْمِنِ حَرْقُ النَّارِ وَقَوْلُ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَا یَأْوِیْ أَوْ یُؤْوِی الضَّالَّۃَ اِلَّا ضَالٌّ اِنَّمَا أَرَادَ بِذٰلِکَ الْاِیْوَائَ الَّذِی لَا تَعْرِیْفَ مَعَ ذٰلِکَ وَالْأَخْذُ الَّذِی لَا تَعْرِیْفَ مَعَ ذٰلِکَ أَیْضًا اللَّذَیْنِ ہُمَا ضِدُّ الْحَبْسِ عَلٰی صَاحِبِ الضَّوَالِّ حَتّٰی یَتَّفِقَ مَعْنَیْ حَدِیْثِنَا ہٰذَا وَمَعْنٰی ذٰیْنِک الْحَدِیْثَیْنِ وَلَا یَتَضَادَّ ہٰذَا الْحَدِیْثُ وَذَیْنِکَ الْحَدِیْثَیْنِ أَیْضًا .وَفِیْمَا قَدْ بَیَّنَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی الْاِبِلِ بِقَوْلِہٖ مَا لَکَ وَمَا لَہَا ؟ مَعَہَا سِقَاؤُہَا وَحِذَاؤُہَا وَلَا یَخَافُ الذِّئْبُ عَلَیْہَا دَلِیْلٌ عَلٰی أَنَّہٗ لَمْ یُطْلِقْ لَہٗ أَخْذَہَا لِعَدَمِ الْخَوْفِ عَلَیْہَا .وَفِیْ اِبَاحَتِہِ لِأَخْذِ الشَّاۃِ لِخَوْفِہِ عَلَیْہَا مِنْ الذِّئْبِ دَلِیْلٌ عَلٰی أَنَّ النَّاقَۃَ کَذٰلِکَ أَیْضًا اِذَا خِیْفَ عَلَیْہَا مِنْ غَیْرِ الذِّئْبِ وَأَنَّ أَخْذَہَا لِصَاحِبِہَا وَحِفْظَہَا عَلَی رَبِّہَا أَوْلَی مِنْ تَرْکِہَا وَذَہَابِہَا .وَقَدْ جَائَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا یَدُلُّ عَلٰی أَنَّ حُکْمَ الضَّالَّۃِ کَحُکْمِ اللُّقَطَۃِ فِیْ ذٰلِکَ وَہُوَ
٥٩٣٦: عمرو بن شعیب عن ابیہ انھوں نے عبداللہ بن عمرو (رض) سے روایت کی ہے کہ مزینہ قبیلہ کا ایک آدمی جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آیا اور آپ سے پوچھنے لگا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! گمشدہ بکری میں آپ کیا حکم دیتے ہیں آپ نے فرمایا وہ تیری خوراک ہوگی یا تیرے بھائی کی یا بھیڑیئے کی۔ اپنے بھائی کے لیے اس کی گمشدہ چیز کو روک رکھو۔ اس نے پوچھا کہ اے اللہ کے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ گمشدہ اونٹ کے متعلق کیا حکم فرماتے ہیں۔ آپ نے فرمایا۔ تمہیں اس سے کیا غرض ؟ اس کے پاس مشک اور موزہ موجود ہے اور اسے بھیڑیئے کا کوئی خطرہ نہیں وہ گھاس کھائے گا اور پانی کے گھاٹ پر جائے گا اس کو چھوڑ د ویہاں تک کہ اس کا مالک و طالب اس کو آ لے۔ یہ حدیث بتلا رہی ہے کہ گمشدہ جانور کو پکڑ کر روک لیا جائے خصوصاً وہ جانور جن کے ضیاع کا احتمال قوی ہو۔ پس اس کے مطابق آپ کے ارشاد ” ان ضالۃ المسلم حرق النار “ اور ” لایاوی الضالۃ الاضال “ کا مطلب یہ ہوا کہ اس سے مراد وہ ٹھکانا دینا ہے جس میں تشہیر مقصود نہ ہو اور وہ پکڑنا جس میں لوگوں میں تشہیر مطلوب نہ تھی یہ دونوں حالتیں مالک کے لیے حفاظت کرنے کے خلاف ہیں یہ مفہوم اس لیے لیا جائے گا تاکہ ان روایات کا دیگر روایات سے تضاد نہ رہے اور اونٹ کے متعلق آپ کا یہ فرمانا تمہیں اس سے کیا غرض اس کے ساتھ مشک اور موزہ موجود ہے اس کے متعلق بھیڑیئے کا خوف نہیں ہے۔ اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ اس کو پکڑنے کی ممانعت عدم خوف ہلاکت ہے اور بکری کے لیے اجازت کی وجہ بھیڑیئے کا خطرہ ہے اس سے یہ دلیل مل گئی کہ اونٹنی کا حکم بھی یہی ہے اگر اس میں بھیڑیئے کے علاوہ کسی اور چیز کے پکڑنے کا خوف ہو۔ تو اسے چھوڑنے اور ضائع کی بجائے پکڑنا اور مالک کے لیے محفوظ کرنا بہتر و اولیٰ ہوگا۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی ر وایات وارد ہیں جن سے گمشدہ اور لقطہ کا حکم ایک جیسا ثابت ہوتا ہے۔ لقطہ اور گمشدہ کا حکم ایک جیسا ہے جیسا ان روایات میں ہے۔

5938

۵۹۳۷: مَا قَدْ حَدَّثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ حَرْبٍ قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَیْدٍ عَنْ أَیُّوْبَ عَنْ أَبِی الْعَلَائِ عَنْ عِیَاضِ بْنِ حِمَارٍ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَدْ سُئِلَ عَنْ الضَّالَّۃِ فَقَالَ عَرِّفْہَا فَاِنْ وَجَدْتُ صَاحِبَہَا وَاِلَّا فَہِیَ مَالُ اللّٰہِ .فَفِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ أَنَّ تَعْرِیْفَہَا وَاجِبٌ وَمُعَرِّفَہَا فِیْ حَالِ تَعْرِیفِہِ اِیَّاہَا مُمْسِکٌ لَہَا وَمُؤْوٍ اِیَّاہَا لِصَاحِبِہَا وَلَمْ یُؤْمَرْ بِتَرْکِ ذٰلِکَ .فَدَلَّ ہٰذَا أَنَّ الْاِمْسَاکَ الْمَنْہِیَّ عَنْہُ عَنْ ذٰلِکَ فِیْ غَیْرِ ہٰذَا الْحَدِیْثِ اِنَّمَا ہُوَ الْاِمْسَاکُ الَّذِی لَمْ یَفْعَلْہُ الْمُمْسِکُ لِنَفْسِہِ لَا لِرَبِّ الضَّالَّۃِ فِیْ ذٰلِکَ .فَہٰذَا مَا فِی الضَّوَالِّ مِنَ الْأَحْکَامِ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .وَقَدْ رُوِیَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی اللُّقَطَۃِ أَنَّہٗ قَدْ أَمَرَ بِالْاِشْہَادِ عَلَیْہَا وَتَرْکِ کِتْمَانِہَا مِمَّا قَدْ رُوِیَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ ذٰلِکَ
٥٩٣٧: ابوالعلاء نے عیاض بن حمار (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے گمشدہ چیز کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا اس کو مشہور کرو اگر اس کا مالک مل جائے تو مناسب ہے ورنہ یہ اللہ تعالیٰ کا مال ہے۔ یہ حدیث ثابت کر رہی ہے کہ اس کی مشہوری ضروری ہے اور تشہیر کرنے والا دوران تشہیر اپنے پاس رکھے اور مالک کے لیے اس چیز کو محفوظ کرے اس کو چھوڑنے کا حکم نہیں فرمایا گیا۔ اس سے یہ ثبوت مل گیا کہ اس پکڑنے سے روکا گیا ہے جس کو پکڑنے والا اس چیز کے مالک کے لیے نہ پکڑے بلکہ اپنے لیے پکڑے اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے گمشدہ کا یہی حکم منقول ہے اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لقطہ پر گواہ قائم کرنے اور اس کو ظاہر کرنے اور کتمان نہ کرنے کا حکم فرمایا۔ جیسا ان روایات میں ہے۔

5939

۵۹۳۸: مَا قَدْ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا الْمُعَلَّی بْنُ أَسَدٍ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْعَزِیْزِ بْنُ الْمُخْتَارِ عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّائِ عَنْ یَزِیْدَ بْنِ الشَّخِیرِ عَنْ مُطَرِّفِ بْنِ الشَّخِیرِ عَنْ عِیَاضِ بْنِ حِمَارٍ الْمُجَاشِعِیِّ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہٗ قَالَ مَنِ الْتَقَطَ لُقَطَۃً فَلْیُشْہِدْ عَلَیْہَا ذَوَیْ عَدْلٍ وَلَا یَکْتُمْہَا وَلَا یُغَیِّرْہَا فَاِنْ جَائَ رَبُّہَا وَاِلَّا فَمَالُ اللّٰہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَشَائُ .فَلَمَّا کَانَ أَخْذُ اللُّقَطَۃِ عَلَی ہٰذَا الْوَجْہِ مُبَاحًا کَانَ کَذٰلِکَ أَیْضًا أَخْذُ الضَّالَّۃِ فِیْ ذٰلِکَ وَاِنَّمَا یُکْرَہُ أَخْذُہُمَا جَمِیْعًا اِذَا کَانَ یُرَادُ مِنْہُمَا ضِدُّ ذٰلِکَ .وَلَقَدِ اسْتَحَبَّ أُبَیُّ بْنُ کَعْبٍ أَخْذَ اللُّقَطَاتِ وَأَنْ لَا یُتْرَکَ لِلسِّبَاعِ .
٥٩٣٨: مطرف بن شخیر نے عیاض بن حمار مجاشعی (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو آدمی گری پڑی چیز اٹھائے اسے اس پر دو گواہ بنا لینے چاہئیں جو عدل والے ہوں اور چیز کو نہ چھپائے اور نہ بدلے اگر اس کا مالک آجائے تو مناسب ہے ورنہ وہ اللہ تعالیٰ کا مال ہے جس کو چاہے دے دے۔ (مستحق کو) جب اس طور پر لقطہ کو لینا مباح ہے تو گمشدہ کو پکڑنے کا بھی یہی حکم ہے ان دونوں کو لینا جائز نہیں جبکہ غرض اس سے مختلف ہو۔ حضرت ابی بن کعب (رض) کا لقطہ کے متعلق ارشاد ہے ‘ گری پڑی چیز کو لے لیا جائے اور درندوں کے لیے نہ چھوڑا جائے۔
تخریج : ابو داؤد فی اللقطہ باب ١‘ ابن ماجہ فی اللقطہ باب ٢‘ مسند احمد ٤‘ ٢٦٦؍١٦٢۔

5940

۵۹۳۹: فَحَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ قَالَ : ثَنَا یَزِیْدُ بْنُ ہَارُوْنَ قَالَ : أَنَا سُفْیَانُ بْنُ سَعِیْدٍ الثَّوْرِیُّ عَنْ سَلَمَۃَ بْنِ کُہَیْلٍ عَنْ سُوَیْد بْنِ غَفَلَۃَ أَنَّہٗ قَالَ : خَرَجْتُ حَاجًّا فَأَصَبْتُ سَوْطًا فَأَخَذْتُہَا .فَقَالَ لِیْ زَیْدُ بْنُ صُوْحَانَ : دَعْہَا فَقُلْتُ :لَا أَدَعُہَا لِلسِّبَاعِ لَآخُذَنَّہَا فَلِأَسْتَنْفِعَنِّ بِہَا .فَلَقِیْتُ أُبَیَّ بْنَ کَعْبٍ فَذَکَرْتُ ذٰلِکَ لَہٗ فَقَالَ لِی : لَقَدْ أَحْسَنْتُ فِیْ ذٰلِکَ اِنِّیْ قَدْ کُنْتُ وَجَدْت صُرَّۃً فِیْہَا مِائَۃُ دِیْنَارٍ عَلَی عَہْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَأَخَذْتُہَا فَذَکَرْتُہٗ َا لِرَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ لِیْ عَرِّفْہَا حَوْلًا فَاِنْ وَجَدْتُ مَنْ یَعْرِفُہَا فَادْفَعْہَا اِلَیْہِ وَاِلَّا فَاسْتَنْفِعْ بِہَا .
٥٩٣٩: سوید بن غفلہ کہتے ہیں کہ میں حج کے لیے روانہ ہوا تو میں نے ایک کوڑا پایا میں نے اسے لے لیا مجھے زید بن صوحان کہنے لگے اس کو رہنے دو ۔ میں نے کہا میں اس کو درندوں کا شکار نہ بناؤں گا میں اس کو ضرور لوں گا اور اس سے ضرور فائدہ اٹھاؤں گا۔ پھر میری ملاقات حضرت ابی بن کعب (رض) سے ہوئی تو میں نے ان کے سامنے اس کا تذکرہ کیا تو انھوں نے مجھے فرمایا تو نے اچھا کیا۔ میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ مبارک میں سو دینار کی ایک تھیلی پائی اور میں نے اس کو لے لیا پھر میں نے اس کا تذکرہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں کیا تو آپ نے مجھے فرمایا۔ اس کو ایک سال تک مشہور کرو اگر اس کی پہچان والا مل جائے تو اس کے حوالے کر دو ورنہ اس سے فائدہ اٹھاؤ۔
تخریج : بخاری فی اللقطہ باب ١؍١٠‘ مسلم فی اللقطہ ٨‘ مسند احمد ٥‘ ١٢٦؍١٢٧۔

5941

۵۹۴۰: حَدَّثَنَا أَبُوْبَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ الطَّیَالِسِیُّ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ عَنْ سَلَمَۃَ بْنِ کُہَیْلٍ أَنَّہٗ قَالَ : قَدْ سَمِعْتُ سُوَیْد بْنَ غَفَلَۃَ یَقُوْلُ : قَدْ کُنْتُ خَرَجْتُ حَاجًّا فَأَصَبْتُ سَوْطًا فَأَخَذْتُہَا .فَقَالَ لِیْ زَیْدُ بْنُ صُوْحَانَ : دَعْہَا عَنْک فَقُلْتُ :وَاللّٰہِ لَا أَدَعُہَا لِلسِّبَاعِ وَلَآخُذَنَّہَا فَلِأَسْتَنْفِعَنِّ بِہَا .فَلَقِیْتُ أُبَیَّ بْنَ کَعْبٍ فَذَکَرْتُ لَہٗ ذٰلِکَ فَقَالَ لِی : لَقَدْ أَحْسَنْتُ فِیْ أَخْذِہَا فَاِنِّیْ قَدْ کُنْتُ وَجَدْت صُرَّۃً فِیْہَا مِائَۃُ دِیْنَارٍ عَلَی عَہْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَأَخَذْتُہَا ثُمَّ أَتَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَذَکَرْتُہٗ َا لَہٗ فَقَالَ عَرِّفْہَا حَوْلًا کَامِلًا .قَالَ : فَعَرَّفْتُہَا حَوْلًا فَلَمْ أَجِدْ مَنْ یَعْرِفُہَا .قَالَ : فَأَتَیْتُ بِہَا النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ اذْہَبْ فَعَرِّفْہَا حَوْلًا فَعَرَّفْتُہَا حَوْلًا فَلَمْ أَجِدْ مَنْ یَعْرِفُہَا .ثُمَّ أَتَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ عَرِّفْہَا حَوْلًا فَعَرَّفْتُہَا حَوْلًا فَلَمْ أَجِدْ مَنْ یَعْرِفُہَا .فَقَالَ لِیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ احْفَظْ عَدَدَہَا وَوِعَائَ ہَا وَعِفَاصَہَا وَوِکَائَ ہَا ، فَاِنْ جَائَ صَاحِبُہَا وَاِلَّا فَاسْتَمْتِعْ بِہَا .قَالَ شُعْبَۃُ : ثُمَّ اِنَّ سَلَمَۃَ بْنَ کُہَیْلٍ شَکَّ فِیْ ذٰلِکَ لَا یَدْرِی أَثَلَاثَۃَ أَعْوَامٍ قَالَ فِی الْحَدِیْثِ : أَوْ عَامًا وَاحِدًا ؟ .قَالَ سَلَمَۃُ بْنُ کُہَیْلٍ : فَأَعْجَبَنِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثُ فَقُلْت لِأَبِیْ صَادِقٍ ذٰلِکَ فَقَالَ أَبُوْ صَادِقٍ : وَقَدْ سَمِعْتُ أَنَا ذٰلِکَ الْحَدِیْثَ أَیْضًا مِنْ أُبَیِّ بْنِ کَعْبٍ کَمَا قَدْ سَمِعَہُ سُوَیْدُ بْنُ غَفَلَۃَ مِنْ أُبَیِّ بْنِ کَعْبٍ سَوَائً .
٥٩٤٠: سوید بن غفلہ کہتے ہیں میں حج کرنے نکلا تو میں نے ایک کوڑا گرا پڑا پایا۔ میں نے اسے لے لیا۔ تو مجھے زید بن صوحان کہنے لگے اس کو چھوڑ دو ۔ میں نے کہا اللہ کی قسم میں تو اسے درندوں کے لیے نہ چھوڑوں گا بلکہ اس کو ضرور پکڑوں گا اور اس سے فائدہ اٹھاؤں گا پھر میری ملاقات حضرت ابی بن کعب (رض) سے ہوئی تو میں نے ان کے سامنے اس کا تذکرہ کیا تو انھوں نے مجھے فرمایا تو نے اس کو اٹھانے میں اچھا کام کیا۔ میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں سو دینار کی ایک تھیلی پائی تھی میں نے اسے اٹھا لیا پھر میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آیا اور اس کا تذکرہ کیا تو آپ نے فرمایا اس کی ایک سال تشہیر کرو۔ پس میں نے اس کا جاننے والا نہ پایا۔ پھر میں خدمت نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں آیا۔ تو آپ نے فرمایا جاؤ‘ اس کا ایک سال اعلان کرو (میں نے اعلان کروایا) مگر کوئی آدمی نہ آیا پھر میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آیا تو آپ نے فرمایا اس کو ایک سال اور مشہور کرو پس میں نے ایک سال اس کا اعلان کیا مگر کوئی اس کا مالک نہ مل سکا تو مجھے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس کی گنتی اچھی طرح محفوظ کرلو اور اس کا برتن (تھیلی) اور اس کا سربند محفوظ کرلو اور تسمیہ بھی حفاظت سے رکھ لو اگر مالک آجائے تو مناسب ورنہ اس سے نفع اٹھاؤ۔ شعبہ کہتے ہیں کہ سلمہ بن کھیل کو اس میں شک ہے اس کو معلوم نہیں رہا کہ تین سال فرمایا یا ایک سال فرمایا۔ سلمہ بن کھیل کہتے ہیں مجھے یہ روایت پسند آئی تو میں نے ابو صادق سے اس کا تذکرہ کیا تو انھوں نے کہا میں نے خود یہ حضرت ابی بن کعب (رض) سے سنی ہے جیسا کہ سوید بن غفلہ نے ابی بن کعب (رض) سے بعینہٖ سنی ہے۔
تخریج : بخاری فی اللقطہ باب ١؍١٠‘ مسلم فی اللقطہ ٨‘ مسند احمد ٥‘ ١٢٦؍١٢٧‘ ١٤٣۔

5942

۵۹۴۱: حَدَّثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ مَعْمَرٍ الْمُنْقِرِیُّ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جُحَادَۃَ عَنْ سَلَمَۃَ بْنِ کُہَیْلٍ عَنْ سُوَیْد بْنِ غَفَلَۃَ عَنْ أُبَیِّ بْنِ کَعْبٍ أَنَّہٗ قَالَ : کُنْتُ الْتَقَطْتُ عَلَی عَہْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِائَۃَ دِیْنَارٍ فَأَتَیْتُ بِہَا النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَذَکَرْتُ ذٰلِکَ لَہٗ فَقَالَ لِیْ عَرِّفْہَا سَنَۃً فَعَرَّفْتُہَا سَنَۃً ثُمَّ أَتَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ لَہٗ : عَرَّفْتُہَا سَنَۃً فَلَمْ أَجِدْ مَنْ یَعْرِفُہَا فَقَالَ لِیْ عَرِّفْہَا سَنَۃً فَعَرَّفْتُہَا سَنَۃً فَلَمْ أَجِدْ أَحَدًا یَعْرِفُہَا فَأَتَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ لَہٗ : عَرَّفْتُہَا سَنَۃً فَلَمْ أَجِدْ مَنْ یَعْرِفُہَا فَقَالَ لِیْ عَرِّفْہَا سَنَۃً فَعَرَّفْتُہَا سَنَۃً فَلَمْ أَجِدْ أَحَدًا یَعْرِفُہَا فَقَالَ لِی اعْلَمْ عَدَدَہَا وَوِکَائَ ہَا ثُمَّ اسْتَمْتِعْ بِہَا .وَقَدْ رُوِیَ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فِیْ ذٰلِکَ أَیْضًا
٥٩٤١: سوید بن غفلہ نے حضرت ابی بن کعب (رض) سے روایت کی ہے کہ میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں سو دینار گرے پڑے پائے۔ تو میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور میں نے اس کا تذکرہ کیا تو آپ نے مجھے ارشاد فرمایا ایک سال تک اس کا اعلان کرو۔ پس میں نے ایک سال تک اس کا اعلان کیا پھر میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آیا اور میں نے کہا میں نے ایک سال بھر اس کا اعلان کیا مگر کوئی اس کا پہچاننے والا نہیں ملا۔ تو آپ نے مجھے فرمایا اس کو ایک سال تک مشہور کرو پس میں نے ایک سال تک اعلان کیا تو میں نے کسی کو بھی نہ پایا جو اس کا پہچاننے والا ہو۔ پھر میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آیا اور میں نے کہا میں نے اس کو ایک سال تک مشہور کیا ہے مگر میں نے اس کا پہچاننے والا نہیں پایا آپ نے پھر فرمایا۔ اس کو ایک سال اور مشہور کرو۔ پس میں نے ایک سال اور اعلان کیا مگر اس کا کوئی مالک نہ آیا تو آپ نے مجھے فرمایا اس کی گنتی اچھی طرح جان لو اور اس کا سر بنو ‘ پہچان لو پھر اس سے فائدہ اٹھاؤ۔
تخریج : بخاری فی العلم باب ٢٨‘ واللقطہ باب ٢؍٣‘ ٤؍٩‘ مسلم فی اللقطہ ١‘ ٥‘ ٢‘ ٧‘ ابو داؤد فی اللقطہ باب ١‘ نسائی فی الزکوۃ باب ٢٨‘ مالک فی الاقضیہ ٤٦‘ مسند احمد ٥‘ ١٢٦؍١٢٧۔
حضرت عمر (رض) کی روایت :

5943

۵۹۴۲: مَا قَدْ حَدَّثَنَا فَہْدُ بْنُ سُلَیْمَانَ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَعِیْدٍ الْأَصْبَہَانِیُّ قَالَ : أَنَا أَبُو أُسَامَۃَ عَنِ الْوَلِیْدِ بْنِ کَثِیْرٍ أَنَّہٗ قَالَ : حَدَّثَنِیْ عَمْرُو بْنُ شُعَیْبٍ عَنْ عَمْرٍو وَعَاصِمٍ ابْنَیْ سُفْیَانَ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ رَبِیْعَۃِ أَنَّ أَبَاہُمَا سُفْیَانَ بْنَ عَبْدِ اللّٰہِ قَدْ کَانَ وَجَدَ عُتْبَۃَ فَأَتَی بِہَا عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ فَقَالَ لَہٗ عَرِّفْہَا سَنَۃً فَاِنْ عُرِفَتْ فَذَاکَ وَاِلَّا فَہِیَ لَک .قَالَ : فَعَرَّفَہَا سَنَۃً فَلَمْ تُعْرَفْ .فَأَتَی بِہَا عُمَرَ الْعَامَ الْمُقْبِلَ أَوْ الْقَابِلَ فِی الْمَوْسِمِ فَأَخْبَرَہٗ بِذٰلِکَ فَقَالَ لَہٗ عُمَرُ ہِیَ لَک .وَقَالَ : اِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ أَمَرَنَا بِذٰلِکَ .فَأَبَیْ سُفْیَانُ أَنْ یَأْخُذَہَا فَأَخَذَہَا مِنْہُ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ فَجَعَلَہَا فِیْ بَیْتِ مَالِ الْمُسْلِمِیْنَ .
٥٩٤٢: سفیان بن عبداللہ کہتے ہیں کہ میں نے دروازے کی چوکھٹ کا بازو پایا وہ حضرت عمر (رض) کے پاس لائی گئی تو آپ نے فرمایا اس کی تشہیر کرو اگر پہچان والا مل جائے تو یہ اسی کی ہے ورنہ یہ تیری ہے۔ راوی کہتے ہیں کہ سفیان نے ایک سال تشہیر کی مگر کوئی پہچان والا نہ آیا پھر وہ عمر (رض) کے پاس آئندہ سال حج کے موقعہ پر لائے اور ان کو اس کی اطلاع دی تو حضرت عمر (رض) نے فرمایا یہ تیری ہے اور فرمایا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں اس بات کا حکم فرمایا ہے تو سفیان نے اس کو لینے سے انکار کردیا۔ تو اس سے حضرت عمر (رض) نے لے لی اور مسلمانوں کے بیت المال میں رکھ دی۔

5944

۵۹۴۳: حَدَّثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْحُسَیْنِ اللِّہْبِیِّ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ اِسْمَاعِیْلَ بْنِ أَبِیْ فُدَیْکٍ عَنْ الضَّحَّاکِ بْنِ عُثْمَانَ عَنْ أَبِی النَّضْرِ عَنْ بِشْرِ بْنِ سَعِیْدٍ عَنْ زَیْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُہَنِیِّ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سُئِلَ عَنِ اللُّقَطَۃِ فَقَالَ عَرِّفْہَا سَنَۃً فَاِنْ جَائَ بَاغِیہَا فَأَدِّہَا اِلٰی صَاحِبِہَا وَاِلَّا فَاعْرِفْ عِفَاصَہَا وَوِکَائَ ہَا فَاِنْ جَائَ بَاغِیہَا فَأَدِّہَا اِلٰی بَاغِیہَا .أَفَلَا تَرَی أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَمْ یُعَنِّفْ أُبَیَّ بْنَ کَعْبٍ فِیْ أَخْذِہِ تِلْکَ الدَّنَانِیْرَ حِیْنَ أَخَذَہَا وَقَدْ صَوَّبَ أُبَیَّ بْنَ کَعْبٍ فِیْ أَخْذِہِ السَّوْطَ لِیَحْفَظَہَا عَلٰی صَاحِبِہَا وَلَا یَدَعُہَا لِلسِّبَاعِ .وَقَدْ قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ فِیْ حَدِیْثِ سُفْیَانَ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ ہِیَ مَالُک قَدْ أَمَرَنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِذٰلِکَ .فَلَمَّا أَنْ أَبَیْ سُفْیَانُ ذٰلِکَ جَعَلَہَا عُمَرُ فِیْ بَیْتِ الْمَالِ .وَقَدْ : أَجَازَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَخْذَ اللُّقَطَۃِ وَالضَّالَّۃِ لَأَنْ یَحْفَظَہُمَا عَلٰی صَاحِبِہِمَا .وَقَدْ رَوَی أَصْحَابُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ ذٰلِکَ أَیْضًا
٥٩٤٣: بشر بن سعید نے زید بن خالد جہنی (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے لقطہ کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا اس کی ایک سال تشہیر کرو۔ اگر اس کا متلاشی آجائے تو اس کو دے دو ورنہ اس کا سربند پہچان لو اور اس کا بندھن جان لو۔ اگر متلاشی آجائے تو متلاشی کے حوالہ کر دو ۔ اس میں غور فرمائیں کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے اٹھانے پر ڈانٹ نہیں پلائی اور حضرت ابی (رض) نے کوڑا اٹھانے والے کے عمل کی تصویب فرمائی تاکہ مالک کے لیے اس کو محفوظ کرلیا جائے اور درندوں کے لیے اس کو نہ چھوڑا جائے اور حضرت عمر (رض) نے روایت سفیان میں سفیان کو فرمایا یہ تیری ہے اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں اسی کا حکم فرمایا پھر جب سفیان نے لینے سے انکار کیا تو آپ نے اس کو مسلمانوں کے بیت المال میں رکھ دیا۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لقطہ اور گمشدہ کو لینے کی اجازت دی تاکہ اس کو محفوظ کیا جائے۔ اصحاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بھی اس سلسلہ میں روایات وارد ہیں۔
تخریج : ابو داؤد فی اللقطہ باب ١‘ مسند احمد ٥؍١٩٣۔
اس سلسلہ میں اصحاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دیگر روایات :

5945

۵۹۴۴: مَا حَدَّثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ مَسْلَمَۃَ بْنُ قَعْنَبٍ الْقَعْنَبِیُّ قَالَ : ثَنَا مَالِکٌ عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ یَسَارٍ أَنَّ ثَابِتَ بْنَ الضَّحَّاکِ کَانَ وَجَدَ بَعِیْرًا فَقَالَ لَہٗ عُمَرُ عَرِّفْہُ فَعَرَّفَ ذٰلِکَ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ ثُمَّ جَائَ اِلَی عُمَرَ .فَقَالَ : قَدْ شَغَلَنِیْ عَنْ صَنْعَتِیْ فَقَالَ لَہٗ عُمَرُ : انْزِعْ خِطَامَہُ ثُمَّ أَرْسِلْہُ حَیْثُ وَجَدْتَہُ
٥٩٤٤: سلیمان بن یسار کہتے ہیں کہ ثابت بن ضحاک (رض) نے ایک اونٹ پایا ان کو حضرت عمر (رض) نے فرمایا اس کی تشہیر کرو۔ انھوں نے تین مرتبہ تشہیر کی پھر وہ حضرت عمر (رض) کی خدمت میں آئے اور کہنے لگے اس نے تو مجھے میرے کام سے مشغول کردیا حضرت عمر (رض) نے فرمایا اس کی مہار کھینچ دو پھر اس کو تم نے جہاں پایا تھا وہیں چھوڑ دو ۔

5946

۵۹۴۵: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ وَہْبٍ أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہُمْ عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیْدٍ ثُمَّ ذَکَرَ ہٰذَا الْحَدِیْثَ بِاِسْنَادِہِ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ مِثْلَ ذٰلِکَ أَیْضًا سَوَائً .وَزَادَ فِی الْحَدِیْثِ أَنَّ ثَابِتَ بْنَ الضَّحَّاکِ وَقَدْ کَانَ مِنْ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ - حَدَّثَہٗ أَنَّہٗ کَانَ وَجَدَ بَعِیْرًا عَلَی عَہْدِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ .
٥٩٤٥: مالک نے یحییٰ بن سعید سے اپنی اسناد کے ساتھ حضرت عمر (رض) سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔ البتہ روایت میں یہ اضافہ ہے کہ ثابت بن ضحاک (رض) نے جو کہ صحابی رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں خود مجھے بیان فرمایا کہ میں نے عہد فاروقی میں اونٹ پایا تھا۔

5947

۵۹۴۶: وَقَدْ حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَنَا أَنَسُ بْنُ عِیَاضٍ قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیْدٍ قَالَ : سَمِعْتُ سُلَیْمَانَ بْنَ یَسَارٍ یُحَدِّثُ عَنْ ثَابِتِ بْنِ الضَّحَّاکِ أَنَّہٗ کَانَ وَجَدَ بَعِیْرًا ثُمَّ ذَکَرَ ہٰذَا الْحَدِیْثَ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ مِثْلَ ذٰلِکَ أَیْضًا سَوَائً .فَہٰذَا عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ قَدْ حَکَمَ فِی الضَّالَّۃِ بِحُکْمِ اللُّقَطَۃِ .وَکَذٰلِکَ رُوِیَ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ فِیْ ذٰلِکَ أَیْضًا وَہُوَ
٥٩٤٦: سلیمان بن یسار سے حضرت ثابت بن ضحاک (رض) سے بیان کیا کہ میں نے ایک اونٹ پایا پھر روایت اس طرح ذکر کی۔ حضرت عمر (رض) سے بھی اس طرح روایت کی ہے۔ یہ حضرت عمر (رض) ہیں جنہوں نے گمشدہ کا حکم لقطہ والا قرار دیا اور ابن عمر (رض) سے بھی اسی طرح مروی ہے اور وہ اسی طرح ہے جیسا تھا۔
حاصل : یہ حضرت عمر (رض) ہیں جنہوں نے گمشدہ کا حکم لقطہ والا قرار دیا اور ابن عمر (رض) سے بھی اسی طرح مروی ہے اور وہ اسی طرح ہے جیسا تھا۔

5948

۵۹۴۷: کَمَا قَدْ حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ قَالَ : ثَنَا یَزِیْدُ بْنُ ہَارُوْنَ قَالَ : أَنَا الْعَوَامُّ بْنُ حَوْشَبٍ قَالَ : حَدَّثَنِی الْعَلَائُ بْنُ سُہَیْلٍ أَنَّہٗ سَمِعَ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ عُمَرَ یَسْأَلُ عَنْ الضَّالَّۃِ مِنَ الْفَرَحِ وَالشَّیْئِ یَجِدُہُ الْاِنْسَانُ فَقَالَ اتَّقِ خَیْرَہَا بِشَرِّہَا وَشَرَّہَا بِخَیْرِہَا وَلَا تَضُمَّنَّہَا فَاِنَّ الضَّالَّۃَ لَا یَضُمُّہَا اِلَّا ضَالٌّ .
٥٩٤٧: علاء بن سہیل کہتے ہیں کہ میں نے ابن عمر (رض) سے سنا کہ ان سے گمشدہ کے متعلق پوچھا گیا جیسے پیالہ یا تیر یا کوئی چیز جس کو پائے تو انھوں نے فرمایا اس کے خیر کو اس کے شر سے ملانے سے بچ اور اس کے شر کو خیر سے ملانے سے گریز کر اور اس کو اپنے مال سے مت ملا گمشدہ چیز کو گمراہ اپنے مال سے ملاتا ہے۔

5949

۵۹۴۸: حَدَّثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ وَبِشْرُ بْنُ عُمَرَ قَالَا : ثَنَا شُعْبَۃُ عَنْ حَبِیْبِ بْنِ أَبِیْ ثَابِتٍ سَمِعْتُ رَجُلًا یَسْأَلُ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ عُمَرَ عَنْ الضَّالَّۃِ فَقَالَ لَہٗ ادْفَعْہَا اِلَی السُّلْطَانِ
٥٩٤٨: حبیب بن ابی ثابت سے روایت ہے کہ میں نے ایک آدمی کو سنا جو ابن عمر (رض) سے گمشدہ چیز کے متعلق استفسار کررہا تھا تو آپ نے فرمایا اس چیز کو بادشاہ کے سپرد کر دو ۔

5950

۵۹۴۹: حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ شُعَیْبٍ قَالَ : ثَنَا الْخَصِیْبُ بْنُ نَاصِحٍ قَالَ : ثَنَا ہَمَّامٌ عَنْ نَافِعٍ وَابْنِ سِیْرِیْنَ أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ عُمَرَ فَقَالَ : اِنِّیْ قَدْ أَصَبْتُ نَاقَۃً فَقَالَ : عَرِّفْہَا فَقَالَ : عَرَّفْتُہَا فَلَمْ تُعْرَفْ فَقَالَ : ادْفَعْہَا اِلَی الْوَالِی .
٥٩٤٩: ابن سیرین اور نافع نے بیان کیا کہ ایک آدمی نے ابن عمر (رض) سے سوال کیا کہ مجھے ایک اونٹنی ملی ہے آپ نے فرمایا اس کی تشہیر کرو تو اس نے بتلایا کہ میں نے اس کی تشہیر کی ہے مگر کوئی لینے والا نہیں آیا فرمایا اس چیز کو بادشاہ کے سپرد کر دو ۔

5951

۵۹۵۰: حَدَّثَنَا سَلْمَانُ بْنُ شُعَیْبٍ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ زِیَادٍ الرُّصَافِیُّ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ عَنْ حَبِیْبِ بْنِ أَبِیْ ثَابِتٍ أَنَّہٗ قَالَ : سَمِعْتُ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ عُمَرَ وَقَدْ سُئِلَ عَنْ الضَّالَّۃِ فَقَالَ ادْفَعْہَا اِلَی السُّلْطَانِ أَوْ اِلَی الْأَمِیْرِ .وَقَدْ رُوِیَ عَنْ عَائِشَۃَ فِیْ ذٰلِکَ أَیْضًا
٥٩٥٠: حبیب بن ابی ثابت سے روایت ہے کہ میں نے ابن عمر (رض) کو فرماتے سنا جبکہ ان سے گمشدہ کے متعلق پوچھا گیا آپ نے فرمایا اس کو بادشاہ یا امیر کے حوالے کر دو ۔
اس سلسلہ میں حضرت عائشہ (رض) کی روایات :

5952

۵۹۵۱: مَا حَدَّثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : أَنَا وَہْبُ بْنُ جَرِیْرٍ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ عَنْ یَزِیْدَ الرِّشْکِ عَنْ مُعَاذَۃَ الْعَدَوِیَّۃِ أَنَّ امْرَأَۃً سَأَلْتُ عَائِشَۃَ فَقَالَتْ : اِنِّیْ أَصَبْتُ ضَالَّۃً فِی الْحَرَمِ وَاِنِّیْ عَرَّفْتُہَا فَلَمْ أَجِدْ أَحَدًا یَعْرِفُہَا فَقَالَتْ لَہَا عَائِشَۃُ : اسْتَنْفِعِی بِہَا .وَقَدْ رُوِیَ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ فِیْ ہٰذَا مِثْلُ ذٰلِکَ أَیْضًا وَہُوَ
٥٩٥١: یزید رشک نے معاذہ عدویہ سے روایت کی ہے کہ ایک عورت نے حضرت عائشہ (رض) سے سوال کیا کہ میں نے حرم میں ایک گمشدہ چیز پائی ہے میں نے اس کی تشہیر کی مگر کسی مالک کا پتہ نہ چلا تو حضرت عائشہ (رض) نے فرمایا کہ اس سے فائدہ اٹھاؤ۔
روایت ابن مسعود (رض) :
حضرت ابن مسعود (رض) کی روایت بھی اس کے متعلق بعینہٖ اسی طرح ہے۔

5953

۵۹۵۲: کَمَا قَدْ حَدَّثَنَا فَہْدُ بْنُ سُلَیْمَانَ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَعِیْدٍ الْأَصْبَہَانِیُّ أَنَا شَرِیْکٌ عَنْ عَامِرِ بْنِ شَقِیْقٍ عَنْ أَبِیْ وَائِلٍ أَنَّہٗ قَالَ : اشْتَرٰی عَبْدُ اللّٰہِ خَادِمًا بِسَبْعِمِائَۃِ دِرْہَمٍ فَطَلَبَ صَاحِبَہَا فَلَمْ یَجِدْہُ فَعَرَّفَہَا حَوْلًا فَلَمْ یَجِدْ صَاحِبَہَا فَجَمَعَ الْمَسَاکِیْنَ وَجَعَلَ یُعْطِیہِمْ وَیَقُوْلُ : اللّٰہُمَّ عَنْ صَاحِبِہَا فَاِنْ أَبَیْ ذٰلِکَ فَمِنِّیْ ذٰلِکَ وَعَلَیَّ الثَّمَنُ ثُمَّ قَالَ : ہٰکَذَا یُفْعَلُ بِالضَّوَالِّ .وَقَدْ رَوَیْنَا عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ ذٰلِکَ وَعَمَّنْ رَوَیْنَاہُ مِنْ أَصْحَابِہٖ مِمَّنْ قَدْ ذَکَرْنَاہُمْ فِیْ ہٰذَا الْبَابِ التَّسْوِیَۃَ بَیْنَ حُکْمِ اللُّقَطَۃِ وَالضَّالَّۃِ جَمِیْعًا .فَدَلَّ أَنَّ مَا قَدْ جَائَ مِنْ ہٰذِہِ الْآثَارِ مِمَّا فِیْ ذٰلِکَ ذِکْرُ اِحْدَاہُمَا فَہُوَ فِیْہَا وَفِی الْأُخْرَی وَأَنَّ حُکْمَہَا حُکْمٌ وَاحِدٌ فِیْ جَمِیْعِ ذٰلِکَ .فَاِنْ قَالَ قَائِلٌ : فَاِنَّ الضَّالَّ مَا قَدْ ضَلَّ بِنَفْسِہِ وَاللُّقَطَۃَ : مَا سِوٰی ذٰلِکَ مِنَ الْأَمْتِعَۃِ وَمَا أَشْبَہَہَا .قِیْلَ لَہٗ : وَمَا دَلِیْلُک عَلٰی مَا قَدْ ذَکَرْتُ؟ بَلْ رَأَیْنَا اللُّغَۃَ فِیْ ذٰلِکَ أَبَاحَتْ أَنَّ مَا یُسَمَّی مَا لَا نَفْسَ لَہٗ ضَالًّا .أَلَا یُرَی أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ فِیْ حَدِیْثِ الْاِفْکِ اِنَّ أُمَّکُمْ قَدْ أَضَلَّتْ قِلَادَتَہَا .وَقَدْ رُوِیَ عَنْ عَائِشَۃَ أَیْضًا فِی الضَّالَّۃِ أَنَّ حُکْمَہَا حُکْمُ اللُّقَطَۃِ فِیْ جَمِیْعِ ذٰلِکَ وَہُوَ کَمَا
٥٩٥٢: ابو وائل کہتے ہیں کہ عبداللہ (رض) نے سات سو درہم میں ایک خادم خریدا اس کے مالک کا گھر ڈھونڈا مگر وہ نہ ملا تو آپ نے ایک سال تک اعلان کرایا مگر وہ نہ ملا پس آپ نے مساکین کو جمع کیا اور ان کو وہ رقم دینے لگے اور فرماتے جاتے اے اللہ یہ اس کے مالک کی طرف سے ہے اگر وہ اس سے انکار کرے تو میری طرف سے ہے اور مجھ پر اس کی قیمت ہے پھر فرمایا گمشدہ چیزوں کے متعلق یہ عمل کیا جاتا ہے۔ اس سلسلہ میں ہم نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی اور جن صحابہ کرام سے روایت کی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ گری پڑی اور گمشدہ چیز کا حکم ایک جیسا ہے۔ پس اس سے یہ دلالت مل گئی کہ اس سلسلہ کی روایات جن میں ان دونوں میں سے ایک کا حکم مذکور ہے تو وہ دوسری کے متعلق بھی ہے اور اس سلسلہ میں دونوں کے حکم میں فرق نہیں ہے۔ گمشدہ تو ہر اس ذی روح کو کہا جاتا ہے جو خود گم ہو اور گری پڑی چیز بےجان سازوسامان ہے (تو دونوں کے حکم میں یکسانیت کیسے ؟ ) آپ کا یہ قول لغت کے خلاف ہے گمشدہ کا لفظ ہر جاندار و بےجان پر بولا جاتا ہے حدیث افک میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ” ان امکم قد اضلت قلادتہا “ تو ہار پر یہ لفظ وارد ہوا اور حضرت عائشہ (رض) سے مروی ہے ضالہ اور لقطہ کا حکم تمام حالتوں میں ایک جیسا ہے۔ روایت ملاحظہ ہو۔
حاصل کلام : اس سلسلہ میں ہم نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی اور جن صحابہ کرام سے روایت کی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ گری پڑی اور گمشدہ چیز کا حکم ایک جیسا ہے۔
پس اس سے یہ دلالت مل گئی کہ اس سلسلہ کی روایات جن میں ان دونوں میں سے ایک کا حکم مذکور ہے تو وہ دوسری کے متعلق بھی ہے اور اس سلسلہ میں دونوں کے حکم میں فرق نہیں ہے۔
ایک اعتراض :
گمشدہ تو ہر اس ذی روح کو کہا جاتا ہے جو خود گم ہو اور گری پڑی چیز بےجان سازوسامان ہے (تو دونوں کے حکم میں یکسانیت کیسے ؟ )
جواب : آپ کا یہ قول لغت کے خلاف ہے گمشدہ کا لفظ ہر جاندار و بےجان پر بولا جاتا ہے حدیث افک میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ” ان امکم قد اضلت قلادتہا “ تو ہار پر یہ لفظ وارد ہوا اور حضرت عائشہ (رض) سے مروی ہے ضالہ اور لقطہ کا حکم تمام حالتوں میں ایک جیسا ہے۔ روایت ملاحظہ ہو۔

5954

۵۹۵۳: قَدْ حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ الْفَرَجِ قَالَ : ثَنَا یُوْسُفُ بْنُ عَدِی قَالَ : ثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ عَنْ أَبِیْ اِسْحَاقَ عَنِ الْعَالِیَۃِ امْرَأَۃِ أَبِیْ اِسْحَاقَ أَنَّہَا قَالَتْ : کُنْتُ عِنْدَ عَائِشَۃَ فَأَتَتْہَا امْرَأَۃٌ فَقَالَتْ لَہَا : یَا أُمَّ الْمُؤْمِنِیْنَ اِنِّیْ وَجَدْتُ ضَالَّۃً فَکَیْفَ تَأْمُرِینِیْ أَنْ أَصْنَعَ بِہَا ؟ .فَقَالَتْ : عَرِّفِیْہَا وَاعْلِفِیْ وَاحْتَلِبِی قَالَتْ : ثُمَّ عَادَتْ فَسَأَلَتْہَا فَقَالَتْ عَائِشَۃُ تُرِیْدِیْنَ آمُرُک بِبَیْعِہَا أَوْ نَزْعِہَا ؟ لَیْسَ ذٰلِکَ لَک .فَقَدْ ثَبَتَ بِمَا ذَکَرْنَا التَّسْوِیَۃُ بَیْنَ حُکْمِ الضَّوَالِّ وَاللُّقَطَۃِ وَہٰذَا کُلُّہٗ قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ وَأَبِیْ یُوْسُفَ وَمُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی - فِیْ ہٰذَا الْبَابِ .وَقَدْ رُوِیَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ لُقَطَۃِ مَکَّۃَ وَضَالَّتِہَا
٥٩٥٣: عالیہ ابو اسحق کی زوجہ کہتی ہیں کہ میں حضرت عائشہ (رض) کے پاس تھی تو ان کے پاس ایک عورت آ کر کہنے لگی اے امّ المؤمنین ! میں نے گمشدہ چیز پائی ہے آپ اس کے متعلق کیا حکم دیتی ہیں۔ انھوں نے فرمایا۔ اس کی تشہیر کرو اور چارہ ڈالو اور دودھ دوھ لو۔ وہ پھر لوٹ کر پوچھنے لگی تو حضرت عائشہ (رض) نے فرمایا تم ارادہ رکھتی ہو کہ میں تمہیں اس کی فروخت کا حکم دوں یا اس کو چھوڑنے کا کہوں۔ اس کا تمہیں اختیار نہیں۔ ان روایات سے یہ بات ثابت ہوگئی گمشدہ اور لقطہ کا حکم تمام احوال میں ایک جیسا ہی ہے۔ یہ امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد بن حسن رحمہم اللہ کا اس سلسلہ میں قول ہے۔
مکہ کے لقطہ و گمشدہ کا حکم :

5955

۵۹۵۴: مَا قَدْ حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ قَالَ : ثَنَا ابْنُ أَبِیْ مَرْیَمَ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْعَزِیْزِ بْنُ مُحَمَّدٍ الدَّرَاوَرْدِیُّ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ عَلْقَمَۃَ عَنْ أَبِیْ سَلَمَۃَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ - فِیْ وَصْفِ مَکَّۃَ وَلَا یُلْتَقَطُ ضَالَّتُہَا اِلَّا لِمُنْشِدٍ .
٥٩٥٤: ابو سلمہ بن عبدالرحمن نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مکہ کے متعلق فرمایا کہ اس کی گمشدہ چیز کو کوئی نہ اٹھائے سوائے اس آدمی کے جو گمشدہ کا اعلان کرنے والا ہو۔
تخریج : بتغیر یسیر من اللفاظ : بخاری فی العلم باب ٣٩‘ الدیات باب ٨‘ واللقطہ باب ٧‘ مسلم فی الحج ٤٤٧‘ دارمی فی البیوع باب ٦٠۔

5956

۵۹۵۵: وَقَدْ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَیْمُوْنٍ قَالَ : ثَنَا الْوَلِیْدُ بْنُ مُسْلِمٍ قَالَ : ثَنَا الْأَوْزَاعِیُّ قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ أَبِیْ کَثِیْرٍ عَنْ أَبِیْ سَلَمَۃَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِمِثْلِ ذٰلِکَ الْحَدِیْثِ سَوَائً
٥٩٥٥: ابو سلمہ بن عبدالرحمن نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کی انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح بعینہٖ روایت کی ہے۔

5957

۵۹۵۶: حَدَّثَنَا أَبُوْبَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا حَرْبُ بْنُ شَدَّادٍ قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ أَبِیْ کَثِیْرٍ ثُمَّ ذَکَرَ ہٰذَا الْحَدِیْثَ بِاِسْنَادِہِ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلُ ذٰلِکَ أَیْضًا سَوَائً .فَکَانَ النَّضْرُ بْنُ شُمَیْلٍ یَقُوْلُ - فِیْمَا بَلَغَنِیْ عَنْہُ فِیْ ذٰلِکَ - أَنَّ مَعْنٰی ذٰلِکَ أَنَّہٗ لَا یَنْبَغِی أَنْ یُلْتَقَطَ ضَالَّۃٌ فِی الْحَرَمِ اِلَّا أَنْ یَسْمَعَ رَجُلًا یَطْلُبُہَا وَیُنْشِدَہَا فَیَرْفَعَہَا اِلَیْہِ لِیَرَاہَا ثُمَّ یَرُدَّہَا مِنْ حَیْثُ أَخْذُہَا .وَقَدْ رُوِیَ ہٰذَا الْحَدِیْثُ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِغَیْرِ ہٰذَا اللَّفْظِ أَیْضًا وَہُوَ کَمَا قَدْ۔
٥٩٥٦: حرب بن شداد نے یحییٰ بن ابی کثیر سے پھر اس روایت کو اپنی اسناد کے ساتھ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بعینہٖ اسی طرح نقل کیا ہے۔ نضر بن شمیل کہا کرتے تھے جیسا کہ مجھے ان کے متعلق بات پہنچی اس کا مطلب یہ ہے۔ حرم کے گمشدہ سامان نہ اٹھائے سوائے اس کے کہ اس آدمی کو معلوم ہو کہ فلاں اس کو تلاش کررہا ہے۔ پس اس کی طرف اٹھا کرلے جائے تاکہ وہ دیکھ لے پھر جہاں سے اٹھایا وہیں رکھ دے۔
یہ روایت اور الفاظ سے بھی جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے۔ (وہ یہ ہے)

5958

۵۹۵۷: حَدَّثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : أَنَا عَمْرُو بْنُ عَوْنٍ قَالَ : أَنَا أَبُوْ یُوْسُفَ عَنْ یَزِیْدَ بْنِ أَبِیْ زِیَادٍ عَنْ مُجَاہِدٍ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَبَّاسٍ أَنَّہٗ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ وَصْفِ مَکَّۃَ وَلَا یُرْفَعُ لُقَطَتُہَا اِلَّا لِمُنْشِدِیہَا .
٥٩٥٧: مجاہد نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مکہ کی تعریف میں فرمایا کہ مکہ کی گری پڑی چیز کو کوئی نہ اٹھائے سوائے اس کے جو اعلان کرتا ہو۔

5959

۵۹۵۸: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا الْحَجَّاجُ بْنُ الْمِنْہَالِ أَبُوْ مُحَمَّدٍ الْأَنْمَاطِیُّ وَأَبُوْ سَلَمَۃَ مُوْسَی بْنُ اِسْمَاعِیْلَ الْبَصْرِیُّ قَالَا جَمِیْعًا قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَلْقَمَۃَ عَنْ أَبِیْ سَلَمَۃَ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہٗ قَالَ - فِیْ وَصْفِ مَکَّۃَ - وَلَا یُرْفَعُ لُقَطَتُہَا اِلَّا مُنْشِدٌ فَہٰذَا الْحَدِیْثُ یَمْنَعُ مِنْ أَخْذِہَا اِلَّا لِلْاِنْشَادِ بِہَا .فَقَدْ أَبَاحَ ہٰذَا الْحَدِیْثُ أَخْذَ لُقَطَۃِ الْحَرَمِ لِتُعْرَفَ فَاحْتُمِلَ أَنْ یَکُوْنَ ذٰلِکَ یُرَادُ بِہٖ أَنْ یُنْشِدَ ثُمَّ تُرَدَّ فِیْ مَکَانِہَا .وَاحْتُمِلَ أَنْ یَکُوْنَ الْمُرَادُ أَنْ یُنْشِدَ کَمَا یُنْشِدُ اللُّقَطَۃَ الْمَوْجُوْدَۃَ فِیْ سَائِرِ الْأَمَاکِنِ وَالْبُلْدَانِ .فَوَجَدْنَا عَنْ عَائِشَۃَ مَا قَدْ رَوَیْنَا عَنْہَا فِیْ ہٰذَا الْبَابِ أَنَّہَا سُئِلَتْ عَنْ ضَالَّۃِ الْحَرَمِ وَأَنَّ الْمَرْأَۃَ الَّتِیْ سَأَلَتْہَا عَنْ ذٰلِکَ کَانَتْ عَرَّفَتْہَا فَلَمْ تَجِدْ مَنْ یَعْرِفُہَا فَقَالَتْ لَہَا اسْتَنْفِعِی بِہَا .فَدَلَّ ذٰلِکَ عَلٰی أَنَّ حُکْمَ اللُّقَطَۃِ فِی الْحَرَمِ کَحُکْمِہَا فِیْ غَیْرِ الْحَرَمِ .وَقَدْ رُوِیَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ لُقَطَۃِ الْحَاجِّ أَیْضًا
٥٩٥٨: ابو سلمہ نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ مکہ مکرمہ کے متعلق آپ نے فرمایا اس کی گری پڑی چیز کو اعلان کرنے والا اٹھائے۔ یہ روایت اعلان کرنے والے کے علاوہ دوسرے کو اٹھانے سے ممانعت ثابت کر رہی ہے۔ پس اس روایت نے تشہیر کے لیے لقطہ کے اٹھانے کو مباح قرار دیا۔ اس میں یہ بھی احتمال ہے اس کی تشہیر کرے پھر اس کی جگہ واپس کر دے۔ دوسرا احتمال یہ ہے اس کی تشہیر اسی طرح کرے جس طرح تمام مقامات پر پایا جانے والا لقطہ حکم رکھتا ہے پس ہم نے حضرت عائشہ (رض) کی روایت پہلے نقل کی ہے کہ ان سے حرم کی گمشدہ چیز کے متعلق پوچھا گیا تو انھوں نے فرمایا کہ تو اس سے نفع اٹھالے۔ اس سے یہ دلالت مل گئی کہ حرم کے لقطہ کا حکم غیر حرم کی طرح ہے اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے حجاج کے لقطہ کے متعلق روایت وارد ہوئی ہے۔
لقطہ حجاج کا حکم :

5960

۵۹۵۹: مَا حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ الْفَرَجِ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ مُصْعَبٍ الزُّہْرِیُّ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْعَزِیْزِ بْنُ أَبِیْ حَازِمٍ عَنْ أُسَامَۃَ بْنِ زَیْدٍ عَنْ بُکَیْرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ عَنْ یَحْیَی بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ حَاطِبٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ عُثْمَانَ أَنَّہٗ قَالَ : نَہٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ لُقَطَۃِ الْحَاجِّ .فَمَعْنٰی ْ ہٰذَا - عِنْدَنَا وَاللّٰہُ أَعْلَمُ - عَلَی اللُّقَطَۃِ الَّتِیْ لَا یُنْشَدُ بِہَا وَلَا یُعْرَفُ بِہَا لِأَنَّ لُقَطَۃَ الْحَرَمِ اِنَّمَا أُبِیْحَتْ لِلْاِنْشَادِ .وَقَدْ یَکُوْنُ لِلْحَاجِّ وَغَیْرِ الْحَاجِّ کَانَتْ لُقَطَۃُ الْحَاجِّ فِیْ غَیْرِ الْحَرَمِ أَوْ لَا أَنْ یَکُوْنَ کَذٰلِکَ أَیْضًا وَاللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ أَعْلَمُ .
٥٩٥٩: عبدالعزیز بن ابو حازم نے عن یحییٰ بن عبدالرحمن بن طالب نے حضرت عبدالرحمن بن عثمان (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لقطہ حجاج کو اٹھانے سے منع فرمایا۔ ہمارے نزدیک اس روایت کا مفہوم یہ ہے (واللہ اعلم) کہ وہ لقطہ جس کی نہ تشہیر کی جائے اور نہ اعلان کیا جائے کیونکہ لقطہ حرم کا تشہیر کے لیے اٹھانا اس کی اباحت تو ثابت شدہ ہے اور وہ لقطہ حجاج و غیر حجاج ہر کسی کا ہوسکتا ہے تو غیر حرم میں حاجی کا لقطہ اٹھانا زیادہ بہتر ہے تو یہاں بھی اس کا یہی حکم ہے۔ واللہ اعلم۔
تخریج : مسلم فی اللقطہ باب ١١‘ ابو داؤد فی اللقطہ باب ١٩‘ دارمی فی البیوع باب ٦٠‘ مسند احمد ٣؍٤٩٩۔
حاصل روایت : ہمارے نزدیک اس روایت کا مفہوم یہ ہے (واللہ اعلم) کہ وہ لقطہ جس کی نہ تشہیر کی جائے اور نہ اعلان کیا جائے کیونکہ لقطہ حرم کا تشہیر کے لیے اٹھانا اس کی اباحیت تو ثابت شدہ ہے۔
اور وہ لقطہ حجاج و غیر حجاج ہر کسی کا ہوسکتا ہے تو غیر حرم میں حاجی کا لقطہ اٹھانا زیادہ بہتر ہے تو یہاں بھی اس کا یہی حکم ہے۔ واللہ اعلم۔
اللغات : حرق۔ جلن۔ جرف۔ سیلابی کنارہ۔ وکائ۔ بندھن۔ عفاص۔ سربند ‘ ڈاٹ۔ سباع۔ درندہ۔ منشد۔ گمشدہ کا متلاشی۔ الضوال۔ گمشدہ۔
اس باب میں لقطہ ‘ گمشدہ کا حکم حرم و غیر حرم میں ایک ہی ہے کہ وہ آدمی اٹھائے جو ان کا اعلان کرنا چاہتا ہو اگر ایسی چیز ہو جس کے ضیاع کا خطرہ ہو تو اس کو اٹھالے اور اعلان کرے اگر مالک مل جائے تو بہتر ورنہ خود ضرورت مند ہو تو استعمال کرے ورنہ بیت المال میں جمع کرا دے۔

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔