hadith book logo

HADITH.One

HADITH.One

Urdu

Support

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Ibn Abi Shaybah

25. فضائل قرآن

ابن أبي شيبة

30531

(۳۰۵۳۲) حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ أَبِی شَیْبَۃَ ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنِ الْمَقْبُرِیِّ ، عَنْ جَدِّہِ ، عَن أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: أَعْرِبُوا الْقُرْآنَ وَالْتَمِسُوا غَرَائِبَہُ۔ (ابویعلی ۶۵۲۹۔ احمد ۴۴۵)
(٣٠٥٣٢) حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : تم قرآن کے اعراب کو واضح کر کے پڑھو اور اس کے اسرار وغرائب تلاش کرو۔

30532

(۳۰۵۳۳) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ، عَن لَیْثٍ، عَن طَلْحَۃَ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ، عَن عَلْقَمَۃَ، عَنْ عَبْدِ اللہِ، قَالَ: أَعْرِبُوا الْقُرْآنَ۔
(٣٠٥٣٣) حضرت علقمہ فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ نے ارشاد فرمایا : قرآن کے اعراب کو واضح کر کے پڑھو۔

30533

(۳۰۵۳۴) حَدَّثَنَا عِیسَی بْنُ یُونُسَ ، عَن ثَوْرٍ ، عَنْ عُمَر بْنِ زَیْدٍ قَالَ: کَتَبَ عُمَرُ إِلَی أَبِی مُوسَی: أَمَّا بَعْدُ فَتَفَقَّہُوا فِی السُّنَّۃِ ،وَتَفَقَّہُوا فِی الْعَرَبِیَّۃِ ،وَأَعْرِبُوا الْقُرْآنَ فَإِنَّہُ عَرَبِیٌّ ،وَتَمَعْدَدُوا فَإِنَّکُمْ مَعْدِیُّونَ۔
(٣٠٥٣٤) حضرت عمر بن زید فرماتے ہیں کہ حضرت عمر نے حضرت ابو موسیٰ اشعری کی طرف خط لکھا اور فرمایا : حمد وصلوۃ کے بعد۔ پس تم لوگ سنت میں سمجھ بوجھ پیدا کرو ، اور عربی زبان میں سمجھ بوجھ پیدا کرو، اور قرآن کے اعراب کو واضح کر کے پڑھو۔ اس لیے کہ وہ عربی زبان میں ہے، اور تم قبیلہ معد کی طرف خود کو منسوب کرو اس لیے کہ تم قبیلہ معد والے ہو۔

30534

(۳۰۵۳۵) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ آدَمَ ، قَالَ: حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَیْدٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا وَاصِلٌ مَوْلَی أَبِی عُیَیْنَۃَ ، عَن یَحْیَی بْنِ عَقِیلٍ ، عَن یَحْیَی بْنِ یَعْمَُرَ ، عَن أُبَیِّ بْنِ کَعْبٍ ، قَالَ: تَعَلَّمُوا الْعَرَبِیَّۃَ کَمَا تَعَلَّمُونَ حِفْظَ الْقُرْآنِ۔
(٣٠٥٣٥) حضرت یحییٰ بن یعمر فرماتے ہیں کہ حضرت ابی بن کعب نے ارشاد فرمایا : تم لوگ عربی زبان کو ایسے سیکھو جیسے قرآن کو زبانی یاد کرتے ہو۔

30535

(۳۰۵۳۶) حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ ، عَن لَیْثٍ ، عَن مُجَاہِدٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ: أَعْرِبُوا الْقُرْآنَ۔
(٣٠٥٣٦) حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عمر نے ارشاد فرمایا؛ قرآن کے اعراب کو واضح کر کے پڑھو۔

30536

(۳۰۵۳۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن سُفْیَانَ ، عَن عُقْبَۃَ الأَسَدِیِّ ، عَنْ أَبِی الْعَلائِ ، قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللہِ: أَعْرِبُوا الْقُرْآنَ فَإِنَّہُ عَرَبِیٌّ۔
(٣٠٥٣٧) حضرت ابو العلائ فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ نے ارشاد فرمایا : کہ قرآن کے اعراب کو واضح کر کے پڑھو۔ اس لیے کہ وہ عربی زبان میں ہے۔

30537

(۳۰۵۳۸) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَن یُوسُفَ بْنِ صُہَیْبٍ ، عَنِ ابْنِ بُرَیْدَۃَ ، عَن رَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ: لأَنْ أَقْرَأَ الآیَۃَ بِإِعْرَابٍ أَحَبُّ إلَیَّ مِنْ أَنْ أَقْرَأَ کَذَا وَکَذَا آیَۃً بِغَیْرِ إعْرَابٍ۔
(٣٠٥٣٨) حضرت ابن بریدہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب میں سے ایک شخص نے ارشاد فرمایا : میرے لیے قرآن کی ایک آیت کو اعراب کی وضاحت کے ساتھ پڑھنا قرآن کی اتنی اور اتنی آیات کو اعراب کی وضاحت کے بغیر پڑھنے سے زیادہ پسندیدہ ہے۔

30538

(۳۰۵۳۹) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَن عُبَیْدِ اللہِ ، عَن نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، أَنَّہُ کَانَ یَضْرِبُ وَلَدَہُ عَلَی اللَّحْنِ۔
(٣٠٥٣٩) حضرت نافع فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عمر اپنے بیٹے کو غلطی پر مارا کرتے تھے۔

30539

(۳۰۵۴۰) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَنْ أَبِی مُوسَی ، قَالَ: قَالَ رَجُلٌ لِلْحَسَنِ: یَا أَبَا سَعِیدٍ ، وَاللہ مَا أَرَاک تَلْحَنُ ، فَقَالَ: یَا ابْنَ أَخِی ، إنِّی سَبَقْت اللَّحْنَ۔
(٣٠٥٤٠) حضرت ابو موسیٰ فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے حضرت حسن سے کہا : اے ابو سعید ! اللہ کی قسم میں آپ کو دیکھتا ہوں کہ آپ غلطی کرتے ہیں۔ تو آپ نے فرمایا ! اے میرے بھتیجے ! سبقت لسانی کی وجہ سے غلطی کرجاتا ہوں۔

30540

(۳۰۵۴۱) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَن عُمَرَ بْنِ حَمْزَۃَ ، قَالَ: أَخْبَرَنِی سَالِمٌ ، أَنَّ زَیْدَ بْنَ ثَابِتٍ اسْتَشَارَ عُمَرَ فِی جَمْعِ الْقُرْآنِ فَأَبِیَ عَلَیْہِ فَقَالَ: أَنْتُمْ قَوْمٌ تَلْحَنُونَ ، وَاسْتَشَارَ عُثْمَانَ فَأَذِنَ لَہُ۔
(٣٠٥٤١) حضرت سالم فرماتے ہیں کہ حضرت زید بن ثابت نے حضرت عمر سے قرآن جمع کرنے کے بارے میں مشورہ طلب کیا۔ پس آپ نے انکار فرما دیا : اور فرمایا : تم تو ایسے لوگ ہو جو غلطیاں کرتے ہو اور انھوں نے حضرت عثمان سے مشورہ مانگا۔ تو انھوں نے اجازت مرحمت فرما دی۔

30541

(۳۰۵۴۲) حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّیَالِسِیُّ ، عَن شُعْبَۃَ ، عَنْ أَبِی رَجَائٍ ، قَالَ: سَأَلْت مُحَمَّدًا عَن نَقْطِ الْمَصَاحِفِ فَقَالَ: أَخَافُ أَنْ تَزِیدُوا فِی الْحُرُوفِ ، أَوْ تُنْقِصُوا مِنْہَا ، وَسَأَلْت الْحَسَنَ فَقَالَ: أَمَا بَلَغَک مَا کَتَبَ بِہِ عُمَرُ أَنْ تَعَلَّمُوا الْعَرَبِیَّۃَ وَحُسْنَ الْعِبَادَۃِ وَتَفَقَّہوا فِی الدِّینِ۔
(٣٠٥٤٢) حضرت ابو رجائ فرماتے ہیں کہ میں نے امام محمد سے قرآن میں نقطے لگانے کے متعلق پوچھا ؟ تو آپ نے فرمایا : مجھے خوف ہے کہ تم لوگ حروف میں کمی زیادتی کرو گے۔ اور میں نے حضرت حسن سے پوچھا ؟ تو آپ نے فرمایا : کیا تمہیں حضرت عمر کی وہ بات نہیں پہنچی جو انھوں نے خط میں لکھی تھی : کہ تم عربی سیکھو۔ اور اچھے طریقہ سے عبادت کرنا سیکھو۔ اور دین میں سمجھ بوجھ پیدا کرو۔

30542

(۳۰۵۴۳) حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَن مُعَاوِیَۃَ بْنِ یَحْیَی ، عَن یُونُسَ بْنِ مَیْسَرَۃَ الْجُبْلانِیِّ ، عَن أُمِّ الدَّرْدَائِ قَالَتْ: إنِّی لأحِبّ أَنْ أَقْرَأَہُ کَمَا أُنْزِلَ یَعْنِی إعْرَابَ الْقُرْآنِ۔
(٣٠٥٤٣) حضرت یونس بن میسرہ الجبلانی فرماتے ہیں کہ حضرت ام الدردائ نے ارشاد فرمایا : میں پسند کرتی ہوں کہ میں قرآن کو ایسے پڑھوں جیسے وہ اترا ہے۔ یعنی : قرآن کے اعراب کو واضح کر کے پڑھو۔

30543

(۳۰۵۴۴) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ آدَمَ ، قَالَ: حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَیْدٍ ، عَن یَزِیدَ بْنِ حَازِمٍ ، عَن سُلَیْمَانَ بْنِ یَسَارٍ ، قَالَ: انْتَہَی عُمَرُ إِلَی قَوْمٍ یُقْرِئُ بَعْضُہُمْ بَعْضًا ، فَلَمَّا رَأَوْا عُمَرَ سَکَتُوا فَقَالَ: مَا کُنْتُمْ تُرَاجِعُونَ قُلْنَا: کان یُقْرِئُ بَعْضُنَا بَعْضًا ،فَقَالَ: اقْرَؤُوا ، وَلا تَلْحَنُوا۔
(٣٠٥٤٤) حضرت سلیمان بن یسار فرماتے ہیں کہ حضرت عمر ایسے لوگوں کے پاس گئے جن میں سے بعض بعض کو قرآن پڑھا رہے تھے۔ پس جب ان لوگوں نے حضرت عمر کو دیکھا تو وہ خاموش ہوگئے۔ تو حضرت عمر نے فرمایا : تم لوگ کس چیز کا مذاکرہ کر رہے تھے ؟ ہم نے عرض کیا : ہم میں سے بعض بعض کو قرآن پڑھا رہے تھے۔ آپ نے فرمایا : پڑھو اور غلطی مت کرنا۔

30544

(۳۰۵۴۵) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَن ثَعْلَبَۃَ ، عَن مُقَاتِلِ بْنِ حَیَّانَ ، قَالَ: کَلامُ أَہْلِ السَّمَائِ الْعَرَبِیَّۃُ ، ثُمَّ قَرَأَ: (حم وَالْکِتَابِ الْمُبِینِ إنَّا جَعَلْنَاہُ قُرْآنًا عَرَبِیًّا لَعَلَّکُمْ تَعْقِلُونَ ،وَإِنَّہُ فِی أُمِّ الْکِتَابِ لَدَیْنَا لَعَلِیٌّ حَکِیمٌ) ۔
(٣٠٥٤٥) حضرت ثعلبہ فرماتے ہیں کہ حضرت مقاتل بن حیان نے ارشاد فرمایا : آسمان والوں کی زبان عربی ہے۔ پھر یہ آیت پڑھی : حم۔ قسم ہے کتاب کی جو ہر بات کھول کر بیان کرنے والی ہے، ہم نے ہی اسے بنایا قرآن عربی تاکہ تم سمجھو۔ اور یہ قرآن لوح محفوظ میں ہمارے پاس بہت بلند مرتبہ ہے اور حکمت سے بھرا ہوا ہے۔

30545

(۳۰۵۴۶) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَن مُوَرِّقٍ ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ: تَعَلَّمُوا اللَّحْنَ وَالْفَرَائِضَ فَإِنَّہُ مِنْ دِینِکُمْ۔
(٣٠٥٤٦) حضرت مورّق فرماتے ہیں کہ حضرت عمر نے ارشاد فرمایا : قرآن کا صحیح تلفظ اور فرائض سیکھو۔ پس یہ بھی تمہارے دین میں سے ہے۔

30546

(۳۰۵۴۷) حَدَّثَنَا مَالِکُ بْنُ إسْمَاعِیلَ ، قَالَ: حدَّثَنَا جَعْفَرٌ الأَحْمَرُ ، عَن مُطَرِّفٍ ، عَن سَوَادَۃَ بْنِ الْجَعْدِ ، عَنْ أَبِی جَعْفَرٍ ، قَالَ: مِنْ فِقْہِ الرَّجُلِ عِرْفَانُہُ اللَّحْنَ۔
(٣٠٥٤٧) حضرت سوادہ بن الجعد فرماتے ہیں کہ حضرت ابو جعفر نے ارشاد فرمایا : آدمی کا غلطی کو پہچاننا اس کے فقیہ ہونے کی علامت ہے۔

30547

(۳۰۵۴۸) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ عَوْفٍ ، عَن خُلَیْدٍ الْعَصَرِیِّ ، قَالَ: لَمَّا قَدِمَ عَلَیْنَا سَلْمَانُ أَتَیْنَاہُ لیَسْتَقْرِئُنَا الْقُرْآنَ ،فَقَالَ: الْقُرْآنُ عَرَبِیٌّ فَاسْتَقْرِئُوہُ رَجُلاً عَرَبِیًّا ، فَاسْتَقْرَأْنَا زَیْدَ بْنَ صُوحَانَ ، فَکَانَ إذَا أَخْطَأَ أَخَذَ عَلَیْہِ سَلْمَانُ ، فَإِذَا أَصَابَ ، قَالَ: أَیْمُ اللہِ۔
(٣٠٥٤٨) حضرت خلید العصری فرماتے ہیں کہ جب حضرت سلمان ہمارے ہاں تشریف لائے تو ہم ان کی خدمت میں حاضر ہوئے تاکہ وہ ہمیں قرآن پڑھائیں۔ پس وہ فرمانے لگے : قرآن تو عربی زبان میں ہے۔ پس تم کسی عربی آدمی سے پڑھو۔ تو ہم نے حضرت زید بن صوحان سے پڑھوایا۔ پس جب بھی وہ غلط پڑھتے تو حضرت سلمان ان کو پکڑ لیتے۔ اور جب وہ درست پڑھتے تو فرماتے : اللہ کی قسم ایسے ہی ہے۔

30548

(۳۰۵۴۹) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ ، عَنْ أَبِی عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَنْ کَانَ یُقْرِئُنَا مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہُمْ کَانُوا یَقْتَرِئُونَ مِنْ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَشْرَ آیَاتٍ ، وَلا یَأْخُذُونَ فِی الْعَشْرِ الأُخْرَی حَتَّی یَعْلَمُوا مَا فِی ہَذِہِ مِنَ الْعَمَلِ وَالْعِلْمِ ، قَالَ: فَعَلِمْنَا الْعَمَلَ وَالْعِلْمَ۔ (احمد ۴۱۰۔ ابن سعد ۱۷۲)
(٣٠٥٤٩) حضرت ابو عبد الرحمن فرماتے ہیں کہ ہمیں بیان کیا اس شخص نے جو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب میں سے تھے اور ہمیں قرآن پڑھایا کرتے تھے۔ آپ نے فرمایا : بیشک صحابہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دس آیات سیکھتے تھے : اور اگلی دس آیات اس وقت تک نہیں سیکھتے تھے جب تک کہ انھیں یینس ہوجاتا کہ جو سیکھا ہے وہ عمل اور علم میں بھی ہے۔ آپ نے فرمایا : ہم نے علم اور عمل دونوں سیکھے تھے۔

30549

(۳۰۵۵۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن خَالِدِ بْنِ دِینَارٍ ، عَنْ أَبِی الْعَالِیَۃِ ، قَالَ: تَعَلَّمُوا الْقُرْآنَ خَمْسَ آیَاتٍ خَمْسَ آیَاتٍ ، فَإِنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یَأْخُذُہُ خَمْسًا خَمْسًا۔ (بیہقی ۱۹۵۸)
(٣٠٥٥٠) حضرت خالد بن دینار فرماتے ہیں کہ حضرت ابو العالیہ نے ارشاد فرمایا : قرآن کو پانچ ، پانچ آیات کر کے سیکھو، اس لیے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی پانچ پانچ آیات سیکھتے تھے۔

30550

(۳۰۵۵۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ ، قَالَ: کَانَ أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ یُعَلِّمُنَا خَمْسًا خَمْسًا۔
(٣٠٥٥١) حضرت اسماعیل نے ارشاد فرمایا کہ حضررت ابو عبد الرحمن ہمیں پانچ پانچ آیات سکھاتے تھے۔

30551

(۳۰۵۵۲) حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ أَبْجَرَ ، عَنِ الْمِنْہَالِ بْنِ عَمْرٍو ، عَن قَیْسِ بْنِ سَکَنٍ ، قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللہِ: تَعَلَّمُوا الْقُرْآنَ فَإِنَّہُ یُکْتَبُ بِکُلِّ حَرْفٍ مِنْہُ عَشْرُ حَسَنَاتٍ وَیُکَفَّرُ بِہِ عَشْرُ سَیِّئَاتٍ ، أَمَا إنِّی لاَ أَقُولُ: (الم) وَلَکِنْ أَقُولُ: أَلِفٌ عَشْرٌ وَلامٌ عَشْرٌ وَمِیمٌ عَشْرٌ۔ (حاکم ۵۵۵)
(٣٠٥٥٢) حضرت قیس بن سکن فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ نے ارشاد فرمایا : قرآن کو سیکھو۔ اس لیے کہ قرآن کے ایک حرف پڑھنے کے بدلے دس نیکیاں لکھی جاتی ہیں اور دس گناہوں کو مٹا دیا جاتا ہے۔ باقی میں یہ نہیں کہتا کہ الم ایک حرف ہے ، لیکن یوں کہتا ہوں ! الف کے بدلہ دس نیکیاں ہیں، اور لام کے بدلہ دس نیکیاں ہیں ، اور میم کے بدلہ دس نیکیاں ہیں۔

30552

(۳۰۵۵۳) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ حُبَابٍ ، عَن مُوسَی بْنِ عُبَیْدَۃَ ، قَالَ: حدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ کَعْبٍ ، عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِکٍ الأَشْجَعِیِّ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: مَنْ قَرَأَ حَرْفًا مِنْ کِتَابِ اللہِ کُتِبَ لَہُ حَسَنَۃ ، لاَ أَقُولُ: {الم ذَلِکَ الْکِتَابُ} وَلَکِنَّ الْحُرُوفَ مُقَطَّعَۃٌ عَنِ الأَلِفِ وَاللامِ وَالْمِیمِ۔ (بزار ۲۳۲۳۔ طبرانی ۳۱۶)
(٣٠٥٥٣) حضرت عوف بن مالک الاشجعی فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جو شخص کتا باللہ کا ایک حرف پڑھتا ہے تو اس کے لیے ایک نیکی لکھ دی جاتی ہے۔ میں نہیں کہتا کہ الم ذالک الکتاب کے بارے میں ۔ لیکن یوں کہتا ہوں۔ کہ حروف مقطعات میں سے الف ایک حرف، لام ایک حرف اور میم ایک حرف ہے۔

30553

(۳۰۵۵۴) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِِ، عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ أَبِی الأَحْوَصِ، عَنْ عَبْدِاللہِ، قَالَ: تَعَلَّمُوا الْقُرْآنَ وَاتْلُوہُ فَإِنَّ اللَّہَ یَأْجُرُکُمْ عَلَی تِلاوَتِہِ بِکُلِّ حَرْفٍ عَشْرَ حَسَنَاتٍ ، أَمَا إنِّی لاَ أَقُولُ: (الم) وَلَکِنْ أَلِفٌ وَلامٌ وَمِیمٌ۔
(٣٠٥٥٤) حضرت ابو الاحوص فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود نے ارشاد فرمایا : قرآن کو سیکھو اور اس کی تلاوت کرو اللہ تمہیں اس کی تلاوت کرنے پر ہر حرف کے بدلہ دس نیکیاں ثواب میں عطا کرتے ہیں۔ اور میں نہیں کہتا : الم ایک حرف ہے، لیکن یوں کہتا ہوں کہ الف ایک حرف اور لام ایک حرف اور میم ایک حرف ہے۔

30554

(۳۰۵۵۵) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، قَالَ: حدَّثَنَا مِسْعَرٌ ، عَن سُلَیْمَانَ الضَّبِّیِّ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، عَن عَلْقَمَۃَ ، أَو الأَسْوَدِ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ: مَنْ قَرَأَ الْقُرْآنَ یَبْتَغِی بِہِ وَجْہَ اللہِ کَانَ لَہُ بِکُلِّ حَرْفٍ عَشْرُ حَسَنَاتٍ وَمَحْوُ عَشْرِ سَیِّئَاتٍ۔
(٣٠٥٥٥) حضرت علقمہ یا حضرت اسود فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ نے ارشاد فرمایا : جو شخص اللہ کی رضا کے لیے قرآن پڑھتا ہے۔ تو اسے ہر حرف کے بدلہ دس نیکیاں ملتی ہیں ، اور دس گناہ معاف ہوتے ہیں۔

30555

(۳۰۵۵۶) حَدَّثَنَا حفص بْنُ غِیَاثٍ ، وَوَکِیعٌ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَن طَلْحَۃَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْسَجَۃَ ، عَنِ الْبَرَائِ بْنِ عَازِبٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: زَیِّنُوا الْقُرْآنَ بِأَصْوَاتِکُمْ۔
(٣٠٥٥٦) حضرت براء بن عازب فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : قرآن کو اپنی آوازوں کے ذریعہ مزین کرو۔

30556

(۳۰۵۵۷) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ: حدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو ، عَنْ أَبِی سَلَمَۃَ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ: دَخَلَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْمَسْجِدَ فَسَمِعَ قِرَائَۃَ رَجُلٍ فَقَالَ: مَنْ ہَذَا ؟ فقیل عَبْدُ اللہِ بْنُ قَیْسٍ ، فَقَالَ: لَقَدْ أُوتِیَ ہَذَا مِنْ مَزَامِیر آلِ دَاوُد۔ (احمد ۳۵۴۔ نسائی ۱۰۹۲)
(٣٠٥٥٧) حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مسجد میں داخل ہوئے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک آدمی کے قرآن پڑھنے کی آواز سنی تو فرمایا : یہ شخص کون ہے ؟ بتلایا گیا : حضرت عبداللہ بن قیس ، تو آپ نے ارشاد فرمایا : البتہ اس شخص کو آل داؤد کی بانسریوں میں سے حصہ دیا گیا ہے۔

30557

(۳۰۵۵۸) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، عَن مَالِکِ بْنِ مِغْوَلٍ ، عَنِ ابْنِ بُرَیْدَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: لَقَدْ أُوتِیَ الأَشْعَرِیُّ مِزْمَارًا مِنْ مَزَامِیرِ آلِ دَاوُد۔ (بخاری ۱۰۸۷۔ مسلم ۵۴۶)
(٣٠٥٥٨) حضرت بریدہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : تحقیق قبیلہ اشعر والوں کو آل داؤد کی بانسریوں میں سے ایک حصہ دیا گیا ہے۔

30558

(۳۰۵۵۹) حَدَّثَنَا شَبَابَۃُ ، عَن لَیْثِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنِ ابْنِ شِہَابٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ کَعْبِ بْنِ مَالِکٍ ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ لأَبِی مُوسَی وَسَمِعَہُ یَقْرَأُ الْقُرْآنَ: لَقَدْ أُوتِیَ أَخُوکُمْ مِنْ مَزَامِیرِ آلِ دَاوُد۔
(٣٠٥٥٩) حضرت عبد الرحمن بن کعب بن مالک فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت ابو موسیٰ اشعری کا قرآن سنا تو ان سے ارشاد فرمایا : تحقیق تمہارے بھائیوں کو مزامیر آل داؤد میں سے حصہ دیا گیا ہے۔

30559

(۳۰۵۶۰) حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرٍ ،بَلَغَنِی عَنِ ابْنِ عُیَیْنَۃَ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَن عُرْوَۃَ ، عَنْ عَائِشَۃَ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِمِثْلِہِ ، أَوْ نَحْوِہِ۔ (دارمی ۱۴۸۹۔ احمد ۱۶۷)
(٣٠٥٦٠) حضرت عائشہ سے بھی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مذکورہ ارشاد اس سند کے ساتھ نقل کیا گیا ہے۔

30560

(۳۰۵۶۱) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ، عَنْ أَبِی حَنِیفَۃَ، عَن حَمَّادٍ، عَنْ إبْرَاہِیمَ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ: حَسِّنُوا أَصْوَاتَکُمْ بِالْقُرْآنِ۔
(٣٠٥٦١) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ حضرت عمر نے ارشاد فرمایا : قرآن کو اپنی آوازوں کے ذریعہ خوبصورت بناؤ۔

30561

(۳۰۵۶۲) حَدَّثَنَا سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنِ ابْنِ أَبِی مُلَیْکَۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ أَبِی نَہِیکٍ ، عَن سَعْدٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: لَیْسَ مِنَّا مَنْ لَمْ یَتَغَنَّ بِالْقُرْآنِ۔
(٣٠٥٦٢) حضرت سعد فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جو شخص قرآن کو خوش الحانی سے نہیں پڑھتا وہ ہم میں سے نہیں۔

30562

(۳۰۵۶۳) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ، عَنْ عَمْرٍو، عَنْ أَبِی سَلَمَۃَ رِوَایَۃً، قَالَ: مَا أَذِنَ اللَّہُ لِشَیْئٍ کَإِذْنِہِ لِعَبْدٍ یَتَرَنَّمُ بِالْقُرْآنِ۔
(٣٠٥٦٣) حضرت عمرو فرماتے ہیں کہ حضرت ابو سلمہ نے ارشاد فرمایا : اللہ اتنا کسی کی طرف متوجہ نہیں ہوتے جتنا کہ اس بندے کی آواز کو توجہ سے سنتے ہیں جو کلام الٰہی خوش الحانی سے پڑھتا ہو۔

30563

(۳۰۵۶۴) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَن لَیْثٍ ، عَن طَاوُوس ، قَالَ: کَانَ یُقَالُ: أَحْسَنُ النَّاسِ صَوْتًا بِالْقُرْآنِ أَخْشَاہُمْ لِلَّہِ۔
(٣٠٥٦٤) حضرت طاو وس فرماتے ہیں کہ کہا جاتا تھا کہ لوگوں میں خوبصورت آواز سے قرآن پڑھنے والے وہ لوگ ہیں جو اللہ سے سب سے زیادہ ڈرتے ہیں۔

30564

(۳۰۵۶۵) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَن مِسْعَرٍ ، عَنْ عَبْدِ الْکَرِیمِ ، عَن طَاووس ،سُئِلَ مَنْ أَقْرَأُ النَّاسِ ؟ قَالَ: مَنْ إذَا قَرَأَ رَأَیْتہ یَخْشَی اللَّہَ ، قَالَ: وَکَانَ طَلْقٌ مِنْ أُولَئِکَ۔
(٣٠٥٦٥) حضرت عبد الکریم فرماتے ہیں کہ حضرت طاو وس سے پوچھا گیا؛ لوگوں میں سے سب سے اچھا قرآن پڑھنے والا کون شخص ہے ؟ آپ نے ارشاد فرمایا : جس کو تو دیکھے کہ وہ قرآن پڑھتے ہوئے اللہ سے خوف کھاتا ہے، اور فرمایا : حضرت طلق ان میں سے ہیں۔

30565

(۳۰۵۶۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ: حدَّثَنَا الأَعْمَشُ ، عَنْ أَبِی الضُّحَی ، عَن مَسْرُوقٍ ، قَالَ: کُنَّا مَعَ أَبِی مُوسَی فَجنَّنَا اللَّیْلَ إِلَی بُسْتَانٍ خَرِبٍ ، قَالَ: فَقَامَ مِنَ اللَّیْلِ فَقَرَأَ قِرَائَۃً حَسَنَۃً۔
(٣٠٥٦٦) حضرت مسروق فرماتے ہیں کہ ہم لوگ حضرت ابو موسیٰ کے ساتھ تھے۔ پس جب رات ہوگئی تو ہم نے ایک ویران باغ مں م پناہ لی۔ آپ فرماتے ہیں ! آپ نے رات کو قیام کیا اور بہت ہی اچھی تلاوت فرمائی۔

30566

(۳۰۵۶۷) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَن ثَابِتٍ ، عَنْ أَنَسٍ ، أَنَّ أَبَا مُوسَی کَانَ یَقْرَأُ ذَاتَ لَیْلَۃٍ ، وَنِسَائُ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَسْتَمِعْنَ فَقِیلَ لَہُ ، فَقَالَ: لَوْ عَلِمْت لَحَبَّرْت تَحْبِیرًا ، أَوْ لَشَوَّقْت تَشْوِیقًا۔
(٣٠٥٦٧) حضرت انس فرماتے ہیں کہ حضرت ابو موسیٰ رات کو قرآن کی تلاوت کرتے تھے اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ازواج مطہرات بہت شوق سے سنتی تھیں۔ پس جب انھیں بتلایا گیا، تو آپ نے ارشاد فرمایا : اگر مجھے معلوم ہوتا تو میں مزید خوش نما آواز میں پڑھتا یایوں فرمایا : میں اور زیادہ شوق سے پڑھتا۔

30567

(۳۰۵۶۸) حَدَّثَنَا عَفَّان ، قَالَ: حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا عِمْرَانُ بْنُ عَبْدِ اللہِ بْنِ طَلْحَۃَ ، أَنَّ رَجُلاً قَرَأَ فِی مَسْجِدِ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی رَمَضَانَ فَطَرَّبَ فَأَنْکَرَ ذَلِکَ الْقَاسِمُ ، وَقَالَ یَقُولُ اللَّہُ تَعَالَی: {وَإِنَّہُ لَکِتَابٌ عَزِیزٌ لاَ یَأْتِیہِ الْبَاطِلُ مِنْ بَیْنِ یَدَیْہِ وَلا مِنْ خَلْفِہِ تَنْزِیلٌ مِنْ حَکِیمٍ حَمِیدٍ}۔
(٣٠٥٦٨) حضرت عمران بن عبداللہ بن طلحہ فرماتے ہیں ایک آدمی رمضان میں مسجد نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں قرآن مجید کی تلاوت گنگنانے کے آواز میں کررہا تھا : تو حضرت قاسم نے اس کا انکار کیا اور فرمایا : اللہ نے ارشاد فرمایا ہے : حالانکہ وہ زبردست کتاب ہے۔ نہیں آسکتا ہے اس کے پاس باطل نہ سامنے سے اور نہ پیچھے سے، یہ نازل کردہ ہے اس ہستی کی طرف سے جو بڑی حکمت والی اور قابل تعریف ہے۔

30568

(۳۰۵۶۹) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ إدْرِیسَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، أَنَّ رَجُلاً قَرَأَ عِنْدَ أَنَسٍ فَطَرَّبَ فَکَرِہَ ذَلِکَ أَنَسٌ۔
(٣٠٥٦٩) حضرت اعمش فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے حضرت انس کے پاس گنگنا کر قرآن کی تلاوت کی۔ تو حضرت انس نے اس کو ناپسند کیا۔

30569

(۳۰۵۷۰) حَدَّثَنَا عَفَّان ، قَالَ: حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا عُبَیْدُ اللہِ بْنُ أَبِی بَکْرٍ ، أَنَّ زِیَادًا النُّمَیْرِیَّ جَائَ مَعَ الْقُرَّائِ إِلَی أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ فقیل لَہُ: اقْرَأْ ، فَرَفَعَ صَوْتَہُ ، وَکَانَ رَفِیعَ الصَّوْتِ ، فَکَشَفَ أَنَسٌ عَن وَجْہِہِ الْخِرْقَۃَ ، وَکَانَ عَلَی وَجْہِہِ خِرْقَۃٌ سَوْدَائُ ،فَقَالَ: مَا ہَذَا ؟ مَا ہَکَذَا کَانُوا یَفْعَلُونَ ، وَکَانَ إذَا رَأَی شَیْئًا یُنْکِرُہُ کَشَفَ الْخِرْقَۃَ عَن وَجْہِہِ۔
(٣٠٥٧٠) حضرت عبید اللہ بن ابی بکر فرماتے ہیں کہ حضرت زیاد النمیری چند قرّاء کے ساتھ حضرت انس بن مالک کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ تو ان کو کہا گیا : تلاوت کیجیے۔ تو انھوں نے اونچی آواز کی اور وہ بلند آواز کے مالک تھے۔ تو حضرت انس نے اپنے چہرے سے کپڑا ہٹایا۔ اور ان کے چہرے پر ایک کالے رنگ کا کپڑا تھا۔ پھر فرمایا : یہ کیا ہے ؟ صحابہ ایسے تو نہیں کرتے تھے۔ اور جب آپ کسی چیز کو برا سمجھتے تھے تو اپنے چہرے سے کپڑا ہٹا لیتے تھے۔

30570

(۳۰۵۷۱) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَن لَیْثٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الأَسْوَدِ ، قَالَ: کَانَ أَحَدُہُمْ یَمُدُّ بِالآیَۃِ فِی جَوْفِ اللَّیْلِ۔
(٣٠٥٧١) حضرت لیث فرماتے ہیں کہ حضرت عبد الرحمن بن الاسود نے ارشاد فرمایا : ان میں سے ایک آدھی رات کو آیات بلند آواز سے پڑھتے تھے۔

30571

(۳۰۵۷۲) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ السَّدُوسِیُّ ، عَن مِعْفَسِ بْنِ عِمْرَانَ ، عَن أُمِّ الدَّرْدَائِ قَالَتْ: دَخَلْتُ عَلَی عَائِشَۃَ ، فَقُلْتُ: مَا فَضْلُ مَنْ قَرَأَ الْقُرْآنَ عَلَی مَنْ لَمْ یَقْرَأْہُ مِمَّنْ دَخَلَ الْجَنَّۃَ ، فَقَالَتْ عَائِشَۃُ: إنَّ عَدَدَ دَرَجِ الْجَنَّۃِ عَلَی عَدَدِ آیِ الْقُرْآنِ ، فَلَیْسَ أَحَدٌ مِمَّنْ دَخَلَ الْجَنَّۃَ أَفْضَلَ مِمَّنْ قَرَأَ الْقُرْآنَ۔
(٣٠٥٧٢) حضرت معفس بن عمران فرماتے ہیں کہ حضرت ام الدردائ نے ارشاد فرمایا : میں نے حضرت عائشہ کی خدمت میں حاضر ہو کر پوچھا : جنتی لوگوں میں قرآن پڑھنے والے کی قرآن نہ پڑھنے والے پر کیا فضیلت ہے، تو حضرت عائشہ نے فرمایا ! بیشک جنت کے درجوں کی تعداد قرآن کی آیتوں کی تعداد کے بقدر ہے۔ کوئی شخص بھی جنت میں داخل نہیں ہوگا جو قرآن پڑھنے والے سے زیادہ افضل ہو۔

30572

(۳۰۵۷۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ: حدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ بْنُ رَافِعٍ ، عَن رَجُلٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو ، قَالَ: مَنْ قَرَأَ الْقُرْآنَ فَکَأَنَّمَا اسْتُدْرِجَتِ النُّبُوَّۃُ بَیْنَ جَنْبَیْہِ إِلاَّ أَنَّہُ لاَ یُوحَی إلَیْہِ۔ (حاکم ۵۵۲)
(٣٠٥٧٣) حضرت عبداللہ بن عمرو نے ارشاد فرمایا : جس شخص نے قرآن پڑھا، اس نے علوم نبوت کو اپنی پسلیوں کے درمیان لے لیا، گو اس کی طرف وحی نہیں بھیجی جاتی۔

30573

(۳۰۵۷۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ: حدَّثَنَا عِمْرَانُ أَبُو بِشْرٍ الْحَلَبِیُّ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: لاَ فَاقَۃَ لِعَبْدٍ یَقْرَأُ الْقُرْآنَ ، وَلا غِنَی لَہُ بَعْدَہُ۔
(٣٠٥٧٤) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : کبھی فاقہ نہیں ہوگا اس بندے کو جو قرآن پڑھتا ہے، اور نہ اس کے بعد کبھی اس کو ایسا غنا نصیب ہوگا۔

30574

(۳۰۵۷۵) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَن سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: مَنْ قَرَأَ الْقُرْآنَ وَاتَّبَعَ مَا فِیہِ ،ہَدَاہُ اللَّہُ مِنَ الضَّلالَۃِ ،وَوَقَاہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ سُوئَ الْحِسَابِ ، وَذَلِکَ بِأَنَّ اللَّہَ یَقُولُ: {فَمَنَ اتَّبَعَ ہُدَایَ فَلا یَضِلُّ وَلا یَشْقَی}۔
(٣٠٥٧٥) حضرت سعید بن جبیر فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عباس نے ارشاد فرمایا : جو شخص قرآن پڑھے اور جو اس میں تعلیمات ہیں ان کی پیروی کرے۔ تو اللہ اس کو گمراہی سے ہدایت نصیب فرمائیں گے۔ اور اسے قیامت کے دن برے حساب سے بچائیں گے۔ اور یہ اس وجہ سے ہے کہ اللہ نے فرمایا : پس جس نے میری ہدایت کی پیروی کی وہ نہ گمراہ ہوگا اور نہ ہی بدبخت ہوگا۔

30575

(۳۰۵۷۶) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَن عمرو بن قیس عن عکرمۃ عن ابن عباس قَالَ: ضَمِنَ اللَّہُ لمن قَرَأَ الْقُرْآنَ أَلاَّ یَضِلَّ فِی الدُّنْیَا وَلا یَشْقَی فِی الآخِرَۃِ ثم تلا: {فَمَنَ اتَّبَعَ ہُدَایَ فَلا یَضِلُّ وَلا یَشْقَی}۔
(٣٠٥٧٦) حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ اللہ نے قرآن مجید کی تلاوت کرنے والے کے لیے ذمہ لیا ہے کہ وہ دنیا میں گمراہ اور آخرت میں بدبخت نہیں ہوگا۔

30576

(۳۰۵۷۷) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنِ الْحَکَمِ بْنِ ہِشَامٍ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ عُمَیْرٍ ، قَالَ: کَانَ یُقَالُ: إنَّ أَبْقَی النَّاسِ عُقُولاً قَرَأَۃُ الْقُرْآنِ۔
(٣٠٥٧٧) حضرت عبدالملک بن عمیر فرماتے ہیں کہ اچھی عقل والے وہ ہیں جو قرآن پڑھنے والے ہیں۔

30577

(۳۰۵۷۸) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِِ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَن عِکْرِمَۃَ ، قَالَ: مَنْ قَرَأَ الْقُرْآنَ لَمْ یُرَدَّ إِلَی أَرْذَلِ الْعُمُرِ ، ثُمَّ قَرَأَ: {لِکَیْ لاَ یَعْلَمَ بَعْدَ عِلْمٍ شَیْئًا}۔
(٣٠٥٧٨) حضرت عاصم فرماتے ہیں کہ حضرت عکرمہ نے ارشاد فرمایا؛ جو شخص قرآن پڑھے تو وہ ادھیڑ عمر تک نہیں پہنچے گا۔ پھر آپ نے یہ آیت تلاوت کی : تاکہ وہ نہ جانے سب کچھ جاننے کے بعد۔

30578

(۳۰۵۷۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ مُوسَی بْنِ عُبَیْدَۃَ ، عَن مُحَمَّدِ بْنِ کَعْبٍ ، قَالَ: مَنْ قَرَأَ الْقُرْآنَ فَکَأَنَّمَا رَأَی النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، ثُمَّ قَرَأَ: {وَمَنْ بَلَغَ أَئِنَّکُمْ لَتَشْہَدُونَ}۔
(٣٠٥٧٩) حضرت موسیٰ بن عبیدہ فرماتے ہیں کہ حضرت محمد بن کعب نے ارشاد فرمایا : جس شخص نے قرآن پڑھا گویا اس نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زیارت کی ۔ پھر آپ نے یہ آیت پڑھی، اور ہر وہ شخص جس کو یہ پہنچے کیا تم گواہی دیتے ہو ؟۔

30579

(۳۰۵۸۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ بْنِ یَزِیدَ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَن مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ ، قَالَ: مَنِ اسْتَظْہَرَ الْقُرْآنَ کَانَتْ لَہُ دَعْوَۃٌ إِنْ شَائَ یُعَجِّلُہَا لِدُنْیَا ، وَإِنْ شَائَ لآخِرَۃ۔
(٣٠٥٨٠) امام زہری فرماتے ہیں کہ حضرت معاذ بن جبل نے ارشاد فرمایا : جس شخص نے قرآن کو زبانی حفظ کیا تو اس کی ایک دعا قبول ہوتی ہے۔ اگر چاہے تو جلدی ہی دنیا میں مانگ لے اور اگر چاہے تو آخرت کے لیے چھوڑ دے۔

30580

(۳۰۵۸۱) حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا إبْرَاہِیمُ بْنُ إسْمَاعِیلَ الأَنْصَارِیُّ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا ابْنُ شِہَابٍ ، عَن عُبَیْدِ بْنِ السَّبَّاقِ ، أَنَّ عُثْمَانَ ، قَالَ: إنَّمَا نَزَلَ بِلِسَانِ قُرَیْشٍ یَعْنِی الْقُرْآنَ۔
(٣٠٥٨١) حضرت عبید بن السّباق فرماتے ہیں کہ حضرت عثمان نے ارشاد فرمایا : بیشک قرآن قریش کی زبان میں اترا۔

30581

(۳۰۵۸۲) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، قَالَ: حدَّثَنَا سَلَمَۃ بْن نُبَیْطٍ ، عَنِ الضَّحَّاکِ ، قَالَ: نَزَلَ الْقُرْآنُ بِکُلِّ لِسَانٍ۔
(٣٠٥٨٢) حضرت سلمہ بن نبی ط فرماتے ہیں کہ حضرت ضحاک نے ارشاد فرمایا : قرآن سب زبانوں میں اترا ہے۔

30582

(۳۰۵۸۳) حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ ، عَنْ إسْرَائِیلَ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِی مَیْسَرَۃَ ، قَالَ: نَزَلَ الْقُرْآنُ بِکُلِّ لِسَانٍ۔
(٣٠٥٨٣) حضرت ابو اسحاق فرماتے ہیں کہ حضرت ابو میسرہ نے ارشاد فرمایا : قرآن سب زبانوں میں اترا ہے۔

30583

(۳۰۵۸۴) حَدَّثَنَا زَیْدِ بْنِ الْحُبَابِ، عَن سیف، قَالَ: سَمِعْتُ مُجَاہِدًا یَقُولُ: نَزَلَ الْقُرْآنُ بِلِسَانِ قُرَیْشٍ، وَبِہِ کَلامُہُمْ۔
(٣٠٥٨٤) حضرت سیف فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت مجاہد کو یوں فرماتے ہوئے سنا ہے : قرآن قریش کی زبان میں اترا اور اس کے ساتھ ان کا کلام بھی ہے۔

30584

(۳۰۵۸۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ ابْنِ أَبِی ذِئْبٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، قَالَ: {الْمَاعُونُ} بِلِسَانِ قُرَیْشٍ: الْمَالُ۔
(٣٠٥٨٥) حضرت ابن ابی ذئب فرماتے ہیں کہ امام زھری نے ارشاد فرمایا : الماعون کو قریش کی زبان میں مال کہتے ہیں۔

30585

(۳۰۵۸۶) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ حُبَابٍ، عَنْ جَرِیرِ بْنِ حَازِمٍ، عَن عِکْرِمَۃَ بْنِ خَالِدٍ، قَالَ: نَزَلَ الْقُرْآنُ بِلِسَانِنَا یَعْنِی قُرَیْش۔
(٣٠٥٨٦) حضرت جریر بن حازم فرماتے ہیں کہ حضرت عکرمہ بن خالد نے ارشاد فرمایا : قرآن تو ہماری زبان میں نازل ہوا ہے یعنی قریش کی زبان میں۔

30586

(۳۰۵۸۷) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ الْحُبَابِ ، عَن حُسَیْنِ بْنِ وَاقِدٍ ، عَنِ ابْنِ بُرَیْدَۃَ: أَنَّ لِسَانَ جُرْہُمٍ کَانَ عَرَبِیًّا۔
(٣٠٥٨٧) حضرت حسین بن واقد فرماتے ہیں کہ حضرت ابن بریدہ نے ارشاد فرمایا : بیشک قبیلہ جرھم والوں کی زبان عربی تھی۔

30587

(۳۰۵۸۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إسْرَائِیلَ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَن سَعدِ بْنِ عِیَاضٍ: { کَمِشْکَاۃٍ } قَالَ: کَکُوَّۃٍ بِلِسَانِ الْحَبَشَۃِ۔
(٣٠٥٨٨) حضرت ابو اسحاق فرماتے ہیں کہ حضرت سعد بن عیاض نے ارشاد فرمایا : مشکوٰۃ حبشی زبان میں طاقچہ کو کہتے ہیں۔

30588

(۳۰۵۸۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن عُمَرَ بْنِ أَبِی زَائِدَۃَ ، عَن عِکْرِمَۃَ ، قَالَ: (طَہ) بِالْحَبَشِیَّۃِ: یَا رَجُلُ۔
(٣٠٥٨٩) حضرت عمر بن ابی زائدہ فرماتے ہیں کہ حضرت عکرمہ نے ارشاد فرمایا : طہ : حبشی زبان میں اے آدمی کے معنی میں ہے۔

30589

(۳۰۵۹۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، عَنْ إسْرَائِیلَ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ، عَن سَعِیدِ بْنِ جّبَیر قَالَ: ہُوَ بِلِسَانِ الْحَبَشَۃِ: إذا قام نشأ۔
(٣٠٥٩٠) حضرت ابو اسحاق فرماتے ہیں کہ حضرت سعید بن جبیر نے ارشاد فرمایا : نشأ حبشہ کی زبان میں قام یعنی کھڑے ہونے کے معنی میں ہے۔

30590

(۳۰۵۹۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إسْرَائِیلَ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِی الأَحْوَصِ ، عَنْ أَبِی مُوسَی {یُؤْتِکُمْ کِفْلَیْنِ مِنْ رَحْمَتِہِ} قَالَ: أَجْرَیْنِ بِلِسَانِ الْحَبَشَۃِ۔
(٣٠٥٩١) حضرت ابو الاحوص فرماتے ہیں کہ حضرت ابو موسیٰ نے ارشاد فرمایا : اس آیت میں ( تمہیں اس کی رحمت سے دو اجر دیے جائیں گے) حبشہ کی زبان میں دو اجر کے معنی میں مستعمل ہے۔

30591

(۳۰۵۹۲) حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ أَبِی سِنَانٍ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُرَحْبِیلَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ {إنَّ نَاشِئَۃَ اللَّیْلِ} قَالَ: ہُوَ بالْحَبَشَۃِ قِیَامُ اللَّیْلِ۔
(٣٠٥٩٢) حضرت عمرو بن شرحبیل فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ نے ارشاد فرمایا : ان ناشئۃ الیل (بےشک رات کا اٹھنا) : حبشہ کی زبان میں رات کے اٹھنے کو کہتے ہیں۔

30592

(۳۰۵۹۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن سُفْیَانَ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَن مُجَاہِدٍ فِی قَوْلِہِ: {وَزِنُوا بِالْقِسْطَاسِ الْمُسْتَقِیمِ} قَالَ: الْعَدْلُ بِالرُّومِیَّۃِ۔
(٣٠٥٩٣) حضرت جابر فرماتے ہیں کہ حضرت مجاہد نے اللہ کے ارشاد { وَزِنُوا بِالْقِسْطَاسِ الْمُسْتَقِیمِ } (اور تولو صحیح ترازو) کے بارے میں فرمایا : قسطاس رومی زبان میں عدل کو کہتے ہیں۔

30593

(۳۰۵۹۴) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنِ ابْنِ أَبِی نَجِیحٍ ، عَن عِکْرِمَۃَ {وَأَنْتُمْ سَامِدُونَ} قَالَ: ہُوَ الْغِنَائُ بِالْحِمْیَرِیَّۃِ۔
(٣٠٥٩٤) حضرت ابن ابی نجیح فرماتے ہیں کہ حضرت عکرمہ نے ارشاد فرمایا : { وَأَنْتُمْ سَامِدُونَ } تم گانا بجانے والے ہو، سامد حمیری زبان میں گانا بجانے کو کہتے ہیں۔

30594

(۳۰۵۹۵) حَدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَن مُجَاہِدٍ ، قَالَ: {الْقِسْطَاسُ} الْعَدْلُ بِالرُّومِیَّۃِ۔
(٣٠٥٩٥) حضرت جابر فرماتے ہیں کہ حضرت مجاہد نے ارشاد فرمایا : { الْقِسْطَاسُ } رومی زبان میں عدل کو کہتے ہیں۔

30595

(۳۰۵۹۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن سُفْیَانَ ، عَن سَالِمٍ ، عَن سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ، قَالَ: (طَہ) بِالنَّبَطِیَّۃِ: ایطہ یَا رَجُلُ۔
(٣٠٥٩٦) حضرت سالم فرماتے ہیں کہ حضرت سعید بن جبیر نے ارشاد فرمایا : طہ : نبطی زبان میں اے آدمی کے معنی میں ہے۔

30596

(۳۰۵۹۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن قُرَّۃَ بْنِ خَالِدٍ ، عَنِ الضَّحَّاک ، قَالَ: (طَہ) یَا رَجُلُ بِالنَّبَطِیَّۃِ۔
(٣٠٥٩٧) حضرت قرۃ بن خالد فرماتے ہیں کہ حضرت ضحاک نے ارشاد فرمایا : طہ نبطی زبان میں اے آدمی کے معنی میں ہے۔

30597

(۳۰۵۹۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن سُفْیَانَ ، عَن خُصَیْفٍ ، عَن عِکْرِمَۃَ ، قَالَ: (طَہ) یَا رَجُلُ بِالنَّبَطِیَّۃِ۔
(٣٠٥٩٨) حضرت خصیف فرماتے ہیں کہ حضرت عکرمہ نے ارشاد فرمایا : طہ : نبطی زبان میں اے آدمی کے معنی میں ہے۔

30598

(۳۰۵۹۹) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، عَن سَلَمَۃَ بْنِ سَابُورَ ، عَنْ عَطِیَّۃَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ: {ہَیْتَ لَک} قَالَ: ہِیَ بِالنَّبَطِیَّۃِ: ہَلُمَّ لَک۔
(٣٠٥٩٩) حضرت عیہب فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عباس نے ارشاد فرمایا : { ہَیْتَ لَک } نبطی زبان میں ” تم آ جاؤ۔ “ کے معنی میں ہے۔

30599

(۳۰۶۰۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن سُفْیَانَ ، عَنِ السُّدِّیِّ ، عَن عِکْرِمَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ {حِجَارَۃً مِنْ سِجِّیلٍ} قَالَ: ہِیَ بِالْفَارِسِیَّۃِ سنْک ، وَکِلْ حَجَرٍ وَطِینٍ۔
(٣٠٦٠٠) حضرت عکرمہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عباس آیت { حِجَارَۃً مِنْ سِجِّیلٍ } مٹی کی کنکریاں کے بارے میں فرمایا : یہ فارسی زبان میں مٹی کی کنکریوں کو کہتے ہیں۔

30600

(۳۰۶۰۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إسْرَائِیلَ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنِ ابْنِ سَابِطٍ {حِجَارَۃً مِنْ سِجِّیلٍ} قَالَ: ہِیَ بِالْفَارِسِیَّۃِ۔
(٣٠٦٠١) حضرت جابر فرماتے ہیں کہ حضرت ابن سابط نے فرمایا : (مٹی کے گارے کی کنکریاں ) یہ فارسی زبان میں ہے۔

30601

(۳۰۶۰۲) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَن مُسْلِمٍ ، عَن سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ {یَوَدُّ أَحَدُہُمْ لَوْ یُعَمَّرُ أَلْفَ سَنَۃٍ} قَالَ: ہُوَ کَقَوْلِ الأَعَاجِمِ زہر ہَزَارُسَالَ ،أَیْ عِشْ أَلْف سَنَۃٍ۔
(٣٠٦٠٢) حضرت سعید بن جبیر فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عباس نے آیت ( ان میں سے ہر ایک چاہتا ہے کہ کاش اسے ہزار سال کی عمر ملے) کے بارے میں فرمایا : یہ عجمیوں کے محاورے کی طرح ہے۔ زھر ہزار سال یعنی جیو ہزار سال۔

30602

(۳۰۶۰۳) حَدَّثَنَا مُعْتَمِرُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ جَعْفَرٍ ، عَنِ الْقَاسِمِ ، عَنْ أَبِی أُمَامَۃَ ، قَالَ: إنَّ الْمَلائِکَۃَ الَّذِینَ یَحْمِلُونَ الْعَرْشَ یَتَکَلَّمُونَ الْفَارِسِیَّۃِ الدُّرِّیِّۃِ۔
(٣٠٦٠٣) حضرت قاسم فرماتے ہیں کہ حضرت ابو امامہ نے ارشاد فرمایا : یقیناً وہ فرشتے جو عرش اٹھاتے ہیں جو مشرق کی فارسی زبان میں کلام کرتے ہیں۔

30603

(۳۰۶۰۴) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَن بَیَانٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ: کَلامُ النَّاسِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ السُّرْیَانِیَّۃُ۔
(٣٠٦٠٤) حضرت بیان فرماتے ہیں کہ حضرت شعبی نے ارشاد فرمایا : قیامت کے دن لوگوں کی بات چیت سریانی زبان میں ہوگی۔

30604

(۳۰۶۰۵) حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّیَالِسِیُّ ، عَن مِسْمَعِ بْنِ مَالِکٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ عِکْرِمَۃَ ، قَالَ: کَانَ ابْنُ عَبَّاسٍ إذَا سُئِلَ عَن الشَّیْئِ مِنَ الْقُرْآنِ أَنْشَدَ أشْعَارًا مِنْ أَشْعَارِہِمْ۔
(٣٠٦٠٥) حضرت عکرمہ فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عباس سے جب قرآن کریم کی کسی آیت کی تفسیر پوچھی جاتی تو جواب میں اہل عرب کے اشعار سناتے۔

30605

(۳۰۶۰۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن مِسْعَرٍ ، عَن قَتَادَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: مَا کُنْت أَدْرِی مَا قَوْلُہُ: {رَبَّنَا افْتَحْ بَیْنَنَا وَبَیْنَ قَوْمِنَا بِالْحَقِّ} حَتَّی سَمِعْت بِنْتَ ذِی یَزِنَ تَقُولُ: تَعَالَ أُفَاتِحْک۔
(٣٠٦٠٦) حضرت عبداللہ بن عباس فرماتے ہیں کہ مجھے قرآن مجید کی اس آیت { رَبَّنَا افْتَحْ بَیْنَنَا وَبَیْنَ قَوْمِنَا بِالْحَقِّ } کے صحیح معنی کا اس وقت تک علم نہ تھا، جب تک میں میں نے بنت ذی یزن کا یہ قول نہیں سنا۔ تعال افا تحک۔

30606

(۳۰۶۰۷) حَدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَن بَیَانٍ ، عَنْ عَامِرٍ {فَإِذَا ہُمْ بِالسَّاہِرَۃِ} قَالَ: بِالأَرْضِ ، ثُمَّ أَنْشَدَ أَبْیَاتًا لأُمَیَّۃِ: وَفِیہَا لَحْمُ سَاہِرَۃٍ وَبَحْرٍ۔
(٣٠٦٠٧) حضرت عامر فرماتے ہیں کہ قرآن مجید کی آیت { فَإِذَا ہُمْ بِالسَّاہِرَۃِ } میں ساھرہ سے مراد زمین ہے۔ پھر انھوں نے دلیل کے طور پر امیہ کا یہ شعر پڑھا۔ وَفِیہَا لَحْمُ سَاہِرَۃٍ وَبَحْرٍ ۔

30607

(۳۰۶۰۸) حَدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَن فُرَاتٍ ، عَن سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ، قَالَ: الْقَانِعَ السَّائِلَ ، ثُمَّ أَنْشَدَ أَبْیَاتًا لِلشَمَّاخ: لَمَالُ الْمَرْئِ یُصْلِحُہُ فَیُغْنِی مَفَاقِرَہُ أَعَفُّ مِنَ الْقَنُوعِ
(٣٠٦٠٨) حضرت سعید بن جبیر قرآن مجید کی سورة حج میں آ نے والے الفاظ القانع کے بارے میں فرماتے ہیں کہ اس سے مراد مانگنے والا ہے، پھر انھوں نے شماخ کا یہ شعر پڑھا۔
لَمَالُ الْمَرْئِ یُصْلِحُہُ فَیُغْنِی مَفَاقِرَہُ أَعَفُّ مِنَ الْقَنُوعِ

30608

(۳۰۶۰۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن ثَابِتَ بْنِ أَبِی صَفِیَّۃَ ، عَن شَیْخٍ یُکَنَّی أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: الزَّنِیمُ اللَّئِیمُ الْمُلَزَّقُ ، ثُمَّ أَنْشَدَ ہَذَا الْبَیْتَ: زَنِیمٌ تَدَاعَاہُ الرِّجَالُ زِیَادَۃً کَمَا زِیدَ فِی عَرْضِ الأَدِیمِ الأَکَارِعُ
(٣٠٦٠٩) حضرت عبداللہ بن عباس فرماتے ہیں کہ زنیم ایسے شخص کو کہتے ہیں جو کمینہ ہو اور دھتکارا ہوا ہو۔ پھر وہ شعر پڑھتے۔
زَنِیمٌ تَدَاعَاہُ الرِّجَالُ زِیَادَۃً کَمَا زِیدَ فِی عَرْضِ الأَدِیمِ الأَکَارِعُ

30609

(۳۰۶۱۰) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ أَبِی المعلی ، عَن سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، أَنَّہُ کَانَ یَقْرَأُ: (دَرَسْتَ) ، وَیَتَمَثَّلُ: دَارِسٌ کَطَعْمِ الصَّابِّ وَالْعَلْقَمِ۔
(٣٠٦١٠) حضرت عبداللہ بن عباس قرآن مجید کی سورة انعام میں آ نے والے لفظ دَرَسْتَ کو پڑھتے پھر یہ کہتے : دَارِسٌ کَطَعْمِ الصَّابِّ وَالْعَلْقَمِ ۔

30610

(۳۰۶۱۱) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ الکَہْفِ ، عَنْ أَبِیہِ {فَمِنْہُمْ مَنْ قَضَی نَحْبَہُ} قَالَ: نَذَرہ ، وَقَالَ الشَّاعِرُ: قَضَتْ مِنْ یَثْرِب نَحْبَہَا فَاسْتَمَرَّتْ۔
(٣٠٦١١) حضرت کہف فرماتے ہیں قرآن مجید کی آیت { فَمِنْہُمْ مَنْ قَضَی نَحْبَہُ } میں نحبہ سے مراد نذر ہے، پھر یہ شعر کہتے : قَضَتْ مِنْ یَثْرِب نَحْبَہَا فَاسْتَمَرَّتْ ۔

30611

(۳۰۶۱۲) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَن عُبَیْدِ اللہِ ، عَن نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: مَثَلُ الْقُرْآنِ مَثَلُ الإِبِلِ الْمَعْقُولَۃِ ،إِنْ عَقَلَہَا صَاحِبُہَا أَمْسَکَہَا ، وَإِنْ تَرَکَہَا ذَہَبَتْ۔
(٣٠٦١٢) حضرت ابن عمر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : قرآن کی مثال اس اونٹ کی سی ہے جس کی اگلی ٹانگ کو گردن سے باندھ دیا گیا ہو۔ اگر اس کا مالک اس کی ٹانگ کو گردن سے باندھ دے گا تو وہ رکا رہے گا اور اگر خالی چھوڑ دے گا تو وہ چلا جائے گا۔

30612

(۳۰۶۱۳) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ الْحُبَابِ ، عَن مُوسَی بْنِ عُلَیٍّ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبِی یَقُولُ: ، قَالَ: سَمِعْتُ عُقْبَۃَ بْنَ عَامِرٍ یَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: تَعَلَّمُوا الْقُرْآنَ وَاقْتَنُوہُ وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ لَہُوَ أَشَدُّ تَفَصِّیًا مِنَ الْمَخَاضِ مِنْ عُقُلِہَا۔
(٣٠٦١٣) حضرت عقبہ بن عامر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : قرآن کو سیکھو اور اس کی خبر گیری کیا کرو۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے کہ قرآن پاک جلد نکل جانے والا ہے سینوں سے بہ نسبت اونٹ کے اپنی رسیوں سے۔

30613

(۳۰۶۱۴) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللہِ الأَسَدِیُّ ، عَن بُرَیْدِ بْنِ عَبْدِ اللہِ ، عَنْ أَبِی بُرْدَۃَ ، عَنْ أَبِی مُوسَی ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: تَعَاہَدُوا الْقُرْآنَ فَوَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ لَہُوَ أَشَدُّ تَفَصِّیًا مِنْ قُلُوبِ الرِّجَالِ مِنَ الإِبِلِ مِنْ عُقُلِہَا۔
(٣٠٦١٤) حضرت ابو موسیٰ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : قرآن کی خبر گیری کیا کرو ۔ پس قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے کہ قرآن جلد نکل جانے والا ہے مردوں کے دلوں سے بہ نسبت اونٹ کے اپنی رسیوں سے۔

30614

(۳۰۶۱۵) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَن شَقِیقٍ ، قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللہِ: تَعَاہَدُوا ہَذِہِ الْمَصَاحِفَ وَرُبَّمَا قَالَ: الْقُرْآنَ فَلَہُوَ أَشَدُّ تَفَصِّیًا مِنْ قُلُوبِ الرِّجَالِ مِنَ النَّعَمِ مِنْ عُقُلِہَا۔
(٣٠٦١٥) حضرت شقیق فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود نے ارشاد فرمایا : ان مصاحف کی دیکھ بھال کیا کرو۔ اور کبھی فرماتے : قرآن کی دیکھ بھال کیا کرو۔ اس لیے کہ وہ جلد نکل جانے والا ہے سینوں سے بہ نسبت اونٹ کے اپنی رسیوں سے۔

30615

(۳۰۶۱۶) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَن مَنْصُورٍ ، عَنْ أَبِی وَائِلٍ ، قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللہِ: تَعَاہَدُوا ہَذَا الْقُرْآنَ فَلَہُوَ أَشَدُّ تَفَصِّیًا مِنَ النَّعَمِ مِنْ عُقُلِہِ ، قَالَ: وَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: بِئْسَ مَا لأَحَدِہِمْ أَنْ یَقُولَ: نَسِیت آیَۃَ کَیْتَ وَکَیْتَ بَلْ ہُوَ نُسِّیَ۔ (بخاری ۵۰۳۲۔ ترمذی ۲۹۴۲)
(٣٠٦١٦) حضرت ابو وائل فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود نے ارشاد فرمایا : اس قرآن کی خبر گیری کیا کرو اس لیے کہ یہ جلد نکل جانے والا ہے سونعں سے بہ نسبت اونٹ کے اپنی رسیوں سے ۔ اور فرمایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے : برائی اس شخص کے لیے ہے جو یوں کہے : میں فلاں فلاں آیت بھول گیا۔ وہ بھولا نہیں بلکہ اسے بھلا دیا گیا۔

30616

(۳۰۶۱۷) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ ، عَن یَزِیدَ بْنِ أَبِی زِیَادٍ ، عَن عِیسَی بْنِ فَائِدٍ ، قَالَ: حدَّثَنِی فُلانٌ ، عَن سَعْدِ بْنِ عُبَادَۃَ ، قَالَ: حَدَّثَنِیہِ ، عَن رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: مَا مِنْ أَحَدٍ یَقْرَأُ الْقُرْآنَ ، ثُمَّ یَنْسَاہُ إِلاَّ لَقِیَ اللَّہَ وَہُوَ أَجْذَمُ۔ (احمد ۲۸۴۔ طبرانی ۵۳۸۷)
(٣٠٦١٧) حضرت سعد بن عبادہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : نہیں ہے کوئی شخص جو قرآن کو پڑھے پھر اس کو بھلا دے مگر یہ کہ وہ اللہ سے ملے گا کوڑھ کی حالت میں۔

30617

(۳۰۶۱۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ ابْنِ أَبِی رَوَّاد ، عَنِ الضَّحَّاکِ ، قَالَ: مَا تَعَلَّمَ رَجُلٌ الْقُرْآنَ ، ثُمَّ نَسِیَہُ إِلاَّ بِذَنْبٍ ، ثُمَّ قَرَأَ الضَّحَّاکُ: {وَمَا أَصَابَکُمْ مِنْ مُصِیبَۃٍ فَبِمَا کَسَبَتْ أَیْدِیکُمْ} ثُمَّ قَالَ الضَّحَّاکُ: وَأَیُّ مُصِیبَۃٍ أَعْظَمُ مِنْ نِسْیَانِ الْقُرْآنِ۔
(٣٠٦١٨) حضرت ابن ابی روّاد فرماتے ہیں کہ حضرت ضحاک نے ارشاد فرمایا؛ کسی آدمی نے قرآن سیکھا پھر اس کو بھلا دیا ایسا کسی گناہ کی وجہ سے ہوا۔ پھر آپ نے قرآن کی یہ آیت تلاوت فرمائی اور جو پہنچتی ہے تمہیں کوئی مصیبت سو وہ کمائی ہوتی ہے تمہارے اپنے ہاتھوں کی۔ پھر حضرت ضحاک نے فرمایا : کون سی مصیبت جو قرآن بھولنے سے زیادہ بڑی ہو۔

30618

(۳۰۶۱۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن سُفْیَانَ ، عَنْ عَبْدِ الْکَرِیمِ أَبِی أُمَیَّۃَ ، عَن طَلْقِ بْنِ حَبِیبٍ ، قَالَ: مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ ، ثُمَّ نَسِیَہُ مِنْ غَیْرِ عُذْرٍ حُطَّ عَنْہُ بِکُلِّ آیَۃٍ دَرَجَۃٌ ، وَجَائَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ مَخْصُومًا۔
(٣٠٦١٩) حضرت عبد الکریم ابو امیہ فرماتے ہیں کہ حضرت طلق بن حبیب نے ارشاد فرمایا : جس شخص نے قرآن سیکھا پھر بغیر کسی عذر کے اسے بھلا دیا۔ تو ہر ایک آیت کے بدلے ایک درجہ کم کردیا جاتا ہے، اور یہ شخص قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ قرآن اس سے جھگڑا کرے گا۔

30619

(۳۰۶۲۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ بْنِ یَزِیدَ ، عَنِ الْوَلِیدِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ أَبِی مُغِیثٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: عُرِضَتْ عَلَیَّ الذُّنُوبُ فَلَمْ أَرَ فِیہَا شَیْئًا أَعْظَمَ مِنْ حَامِلِ الْقُرْآنِ وَتَارِکِہِ۔ (ابوداؤد ۴۶۲۔ ترمذی ۲۹۱۶)
(٣٠٦٢٠) حضرت عبداللہ بن ابی مغیث فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : میرے سامنے بہت سے گناہ پیش کیے گئے لیکن میں نے ان گناہوں میں قرآن کو یاد کر کے اس کو بھلا دینے سے زیادہ کوئی بڑا گناہ نہیں دیکھا۔

30620

(۳۰۶۲۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن سُفْیَانَ ، عَن وَاقِدٍ ، عَن زَاذَانَ ، قَالَ: مَنْ قَرَأَ الْقُرْآنَ لِیَتَأَکَّلَ بِہِ النَّاسَ لَقِیَ اللَّہَ وَلَیْسَ عَلَی وَجْہِہِ مُزْعَۃُ لَحْمٍ۔
(٣٠٦٢١) حضرت واقد فرماتے ہیں کہ حضرت زاذان نے ارشاد فرمایا؛ جو شخص قرآن پڑھے تاکہ اس کی وجہ سے لوگوں سے کھائے قیامت کے دن وہ اللہ سے ایسی حالت میں ملے گا کہ اس کے چہرے پر گوشت کا ٹکڑا بھی نہیں ہوگا۔

30621

(۳۰۶۲۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن یَزِیدَ بْنِ إبْرَاہِیمَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ: اقَرَؤُوا الْقُرْآنَ وَاسْأَلُوا اللَّہَ بِہِ ،قَبْلَ أَنْ یَقْرَأَہ قَوْمٌ یَسْأَلُونَ النَّاسَ بِہِ۔
(٣٠٦٢٢) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ حضرت عمر نے ارشاد فرمایا : قرآن پڑھو اور اس کے ذریعہ اللہ سے سوال کرو قبل اس کہ کچھ لوگ قرآن پڑھیں گے اور اس کے ذریعہ لوگوں سے سوال کریں گے۔

30622

(۳۰۶۲۳) حَدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنِ الْجَرِیرِیِّ ، عَنْ أَبِی نَضْرَۃَ ، عَنْ أَبِی فِرَاسٍ ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ: قَدْ أَتَی عَلَیَّ زَمَانٌ وَأَنَا أَحْسِبُ مَنْ قَرَأَ الْقُرْآنَ یُرِیدُ بِہِ اللہ ، فَقَدْ خُیِّلَ لِی الآنَ بِأَخَرِۃٍ أَنِّی أَرَی قَوْمًا قَدْ قَرَؤُوہُ یُرِیدُونَ بِہِ النَّاسَ ، فَأَرِیدُوا اللَّہَ بِقِرَائَتِکُمْ ،وَأَرِیدُوا اللَّہَ بِأَعْمَالِکُمْ۔
(٣٠٦٢٣) حضرت ابو فراس فرماتے ہیں کہ حضرت عمر نے ارشاد فرمایا : مجھ پر ایک زمانہ گزرا ہے کہ میں نے گمان کیا کہ ایک شخص نے قرآن پڑھا اللہ کی رضا مندی کے لیے تحقیق مجھے ابھی خیال آیا اخیر میں میں نے کچھ لوگوں کو دیکھا جنہوں نے قرآن پڑھا اور اس کے ذریعہ لوگوں کا ارادہ کیا۔ پس تم لوگ اپنے پڑھنے کے ذریعہ اللہ کو راضی کرو۔ اور اپنے اعمال کے ذریعے اللہ کو راضی کرو۔

30623

(۳۰۶۲۴) حَدَّثَنَا الزُّبَیْرِیُّ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللہِ ، عَن سُفْیَانَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَن خَیْثَمَۃَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، عَن عِمْرَانَ بْنِ حُصَیْنٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ: مَنْ قَرَأَ الْقُرْآنَ فَلْیَسْأَلَ اللَّہَ بِہِ ،فَإِنَّہُ سَیَجِیئُ قَوْمٌ یَقْرَؤُونَ الْقُرْآنَ یَسْأَلُونَ النَّاسَ بِہِ۔ (ترمذی ۲۹۱۷۔ احمد ۴۳۹)
(٣٠٦٢٤) حضرت عمران بن حصین فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یوں فرماتے ہوئے سنا ہے : جو شخص قرآن پڑھے تو اس کو چاہیے کہ وہ اس کے ذریعہ اللہ سے مانگے۔ عنقریب کچھ ایسے لوگ آئیں گے جو قرآن پڑھیں گے اور اس کے ذریعہ لوگوں سے سوال کریں گے۔

30624

(۳۰۶۲۵) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَن زَائِدَۃَ ، عَن ہِشَامٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ: اقَرَؤُوا الْقُرْآنَ وَاطْلُبُوا بِہِ مَا عِنْدَ اللہ ،قَبْلَ أَنْ یَقْرَأَہُ أَقْوَامٌ یَطْلُبُونَ بِہِ مَا عِنْدَ النَّاسِ۔
(٣٠٦٢٥) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ حضرت عمر نے ارشاد فرمایا : قرآن پڑھو اور اس کے ذریعہ وہ چیز طلب کرو جو اللہ کے پاس ہے، قبل اس کہ کچھ لوگ قرآن کی تلاوت کریں گے اور اس کے ذریعہ وہ چیز طلب کریں گے جو لوگوں کے پاس ہوگی۔

30625

(۳۰۶۲۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن سُفْیَانَ ، عَن مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْکَدِرِ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: اقَرَؤُوا الْقُرْآنَ وَسَلُوا اللَّہَ بِہِ فَإِنَّہُ سَیَقْرَؤُہُ أَقْوَامٌ یُقِیمُونَہُ إقَامَۃَ الْقَدَحِ یَتَعَجَّلُونَہُ ، وَلا یَتَأَجَّلُونَہُ۔ (ابوداؤد ۸۲۷۔ احمد ۳۳۸)
(٣٠٦٢٦) حضرت محمد بن منکدر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : قرآن کی تلاوت کرو اور اس کے ذریعہ اللہ سے مانگو اس لیے کہ عنقریب کچھ لوگ اس کی تلاوت کریں گے جو اس کے حروف کو جوئے کے تیر کی طرح سیدھا کرکے پڑھیں گے وہ جلدی کریں گے اور مہلت نہیں دیں گے۔

30626

(۳۰۶۲۷) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، قَالَ: حدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ الْوَلِیدِ ، قَالَ: أَخْبَرَنِی عُمَرُ بْنُ أَیُّوبَ ، قَالَ: أَخْبَرَنِی أَبُو إیَاسٍ مُعَاوِیَۃُ بْنُ قُرَّۃَ ، قَالَ: کُنْتُ نَازِلاً عَلَی عَمْرِو بْنِ النُّعْمَانِ بْنِ مُقَرِّنٍ ، فَلَمَّا حَضَرَ رَمَضَانُ جَائَہُ رَجُلٌ بِأَلْفَیْ دِرْہَمٍ مِنْ قِبَلِ مُصْعَبِ بْنِ الزُّبَیْرِ فَقَالَ: إنَّ الأَمِیرَ یُقْرِئُک السَّلامَ ، وَیَقُولُ: إنَّا لَمْ نَدَعَ قَارِئًا شَرِیفًا إِلاَّ وَقَدْ وَصَلَ إلَیْہِ مِنَّا مَعْرُوفٌ ، فَاسْتَعِنْ بِہَذَیْنِ عَلَی نَفَقَۃِ شَہْرِکَ ہَذَا ، فَقَالَ عَمْرٌو: اقْرَأْ عَلَی الأَمِیرِ السَّلامَ وَقُلْ لَہُ: إنا وَاللہ مَا قَرَأْنَا الْقُرْآنَ نُرِیدُ بِہِ الدُّنْیَا ، وَرُدَّہ عَلَیْہِ۔
(٣٠٦٢٧) حضرت ابو ایاس معاویہ بن قرہ فرماتے ہیں کہ میں حضرت عمرو بن نعمان بن مقرن کے ہاں مہمان تھا، پس جب رمضان کا مہینہ آیا تو حضرت مصعب بن زبیر کی طرف سے ایک آدمی دو ہزار درہم لے کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا : بیشک امیر نے آپ کو سلام کہا ہے اور فرمایا ہے : یقیناً ہم نے کسی بھی نیک پڑھنے والے کو نہیں چھوڑا مگر یہ کہ اس کو ہماری طرف سے کچھ مال مل گیا۔ پس آپ ان روپوں کو اس مہینہ کے خرچ میں استعمال کیجئے۔ تو حضرت عمرو نے فرمایا : امیر کو سلام کہیے گا اور ان سے کہنا : بیشک اللہ کی قسم ہم قرآن کو دنیا کی غرض سے نہیں پڑھتے ۔ اور آپ نے یہ ہدیہ واپس بھیج دیا۔

30627

(۳۰۶۲۸) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنْ عَبْدِ الْحَمِیدِ بْنِ جَعْفَرٍ ، عَن سَعِیدِ بْنِ أَبِی سَعِیدٍ ، عَنْ أَبِی شُرَیْحٍ الْخُزَاعِیِّ ، قَالَ: خَرَجَ عَلَیْنَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: أَبْشِرُوا أَبْشِرُوا أَلَیْسَ تَشْہَدُونَ أَنْ لاَ إلَہَ إِلاَّ اللَّہُ وَأَنِّی رَسُولُ اللہِ ؟ قَالُوا: نَعَمْ ، قَالَ: فَإِنَّ ہَذَا الْقُرْآنَ سَبَبٌ طَرَفُہُ بِیَدِ اللہِ وَطَرَفُہُ بِأَیْدِیکُمْ فَتَمَسَّکُوا بِہِ ، فَإِنَّکُمْ لَنْ تَضِلُّوا وَلَنْ تَہْلِکُوا بَعْدَہُ أَبَدًا۔ (ابن حبان ۱۲۲۔ عبد بن حمید ۴۸۳)
(٣٠٦٢٨) حضرت ابو شریح الخزاعی فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا : خوشخبری سنو، خوشخبری سنو، کیا تم لوگ گواہی نہیں دیتے اس بات کی کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں ؟ صحابہ نے عرض کیا : جی ہاں ! آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : یقیناً یہ قرآن رسی ہے۔ جس کا ایک سرا اللہ کے ہاتھ میں ہے اور ایک سرا تمہارے ہاتھوں میں ہے، پس تم اس کو مضبوطی سے تھام لو۔ بیشک تم اس کے بعد ہرگز نہ گمراہ ہو گے اور نہ ہی کبھی ہلاک ہو گے۔

30628

(۳۰۶۲۹) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَن حَمْزَۃَ الزَّیَّاتِ ، عَنْ أَبِی الْمُخْتَارِ الطَّائِیِّ ، عَنِ ابْنِ أَخِی الْحَارِثِ الأَعْوَرِ ، عَنِ الْحَارِثِ ، عَنْ عَلِیٍّ ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ: کِتَابُ اللہِ فِیہِ خَبَرُ مَا قَبْلَکُمْ وَنَبَأُ مَا بَعْدَکُمْ وَحُکْمُ مَا بَیْنَکُمْ ، ہُوَ الْفَصْلُ لَیْسَ بِالْہَزْلِ ، ہُوَ الَّذِی لاَ تَزِیغُ بِہِ الأَہْوَائُ ، وَلا تَشْبَعُ مِنْہُ الْعُلَمَائُ ، وَلا یَخْلَقُ عَن کَثْرَۃِ رَدٍّ ، وَلا تَنْقَضِی عَجَائِبُہُ ، ہُوَ الَّذِی مَنْ تَرَکَہُ مِنْ جَبَّارٍ قَصَمَہُ اللَّہُ ، وَمَنِ ابْتَغَی الْہُدَی فِی غَیْرِہِ أَضَلَّہُ اللَّہُ ، ہُوَ حَبْلُ اللہِ الْمَتِینُ ،وَہُوَ الذِّکْرُ الْحَکِیمُ ،وَہُوَ الصِّرَاطُ الْمُسْتَقِیمُ ، ہُوَ الَّذِی مَنْ عَمِلَ بِہِ أُجِرَ ، وَمَنْ حَکَمَ بِہِ عَدَلَ ، وَمَنْ دَعَا إلَیْہِ دعا إِلَی صِرَاطٍ مُسْتَقِیمٍ ، خُذْہَا إلَیْک یَا أَعْوَرُ۔ (ترمذی ۲۹۰۶۔ احمد ۹۱)
(٣٠٦٢٩) حضرت علی فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یوں فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ! کتاب اللہ میں تم سے پہلے لوگوں کی باتیں ہیں اور تم سے بعد والے لوگوں کی خبریں ہیں، اور تمہارے درمیان والے لوگوں کے لیے احکام ہیں۔ یہ حق و باطل کے درمیان فیصلہ ہے کوئی مذاق کی بات نہیں۔ اس کی وجہ سے نفس ٹیڑھا نہیں ہوتا۔ اور علماء کبھی اس سے سیر نہیں ہوسکتے اور بار بار پڑھے جانے سے یہ پرانا نہیں ہوتا۔ اور اس کے معانی کے اسرار و عجائبات کبھی ختم نہیں ہوتے۔ جو کوئی اس کو چھوڑ دیتا ہے بےرحمی کی وجہ سے تو خدا اس کو ٹکڑے ٹکڑے کردیتا ہے۔ اور جو کوئی اس کے علاوہ کسی اور چیز میں ہدایت کو تلاش کرتا ہے تو اللہ اسے گمراہ کردیتا ہے۔ یہ اللہ کی مضبوط رسی ہے۔ اور یہ نعمت اور حکمت سے بھرپور ہے۔ اور یہ سیدھا راستہ ہے۔ جو کوئی اس پر عمل کرتا ہے وہ اجر پاتا ہے، اور جو اس کے ذریعہ فیصلہ کرتا ہے وہ انصاف کرتا ہے۔ اور جو شخص اس کی طرف بلاتا ہے وہ سیدھے راستے کی طرف بلاتا ہے۔ اے اعور اس کو مضبوطی سے پکڑ لو۔

30629

(۳۰۶۳۰) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الْہَجَرِیِّ ، عَنْ أَبِی الأَحْوَصِ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ،قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: إنَّ ہَذَا الْقُرْآنَ مَأْدُبَۃُ اللہِ فَتَعَلَّمُوا مِنْ مَأْدُبَۃِ اللہِ مَا اسْتَطَعْتُمْ ، إنَّ ہَذَا الْقُرْآنَ حَبْلُ اللہِ ،وَہُوَ النُّورُ الْبَیِّنُ ،وَالشِّفَائُ النَّافِعُ ، عِصْمَۃٌ لِمَنْ تَمَسَّکَ بِہِ ، وَنَجَاۃٌ لِمَنْ تَبِعَہُ ،لاَ یَعْوَجُّ فَیُقَوَّمُ ، وَلا یَزِیغُ فَیَسْتَعْتِبُ ، وَلا تَنْقَضِی عَجَائِبُہُ ، وَلا یَخْلَقُ عن کَثْرَۃِ الرَّدِّ۔ (حاکم ۵۵۵)
(٣٠٦٣٠) حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : یہ قرآن اللہ کا دسترخوان ہے، پس تم اپنی طاقت کے بقدر اللہ کے دسترخوان سے سیکھو۔ یہ قرآن اللہ کی رسی ہے، اور یہ واضح اور روشن نور ہے، اور شفا دینے والا اور نفع پہنچانے والا ہے، حفاظت کا ذریعہ ہے اس شخص کے لیے جو اسے مضبوطی سے پکڑلے، اور نجات کا ذریعہ ہے اس شخص کے لیے جو اس کی تعلیمات کی پیروی کرے، یہ ٹیڑھا نہیں ہوتا کہ اسے سیدھا کیا جائے، یہ عیب دار نہیں ہوتا کہ اس کا عیب دور کیا جائے اور اس کے معانی کے عجائبات کبھی ختم نہیں ہوتے۔ اور بار بار پڑھے جانے سے یہ پرانا نہیں ہوتا۔

30630

(۳۰۶۳۱) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، قَالَ: حدَّثَنَا أَبَانُ بْنُ إِسْحَاقَ ، قَالَ: حَدَّثَنِی رَجُلٌ مِنْ بَجِیلَۃَ ، قَالَ: خَرَجَ جُنْدَبٌ الْبَجَلِیُّ فِی سَفَرٍ لَہُ ، قَالَ: فَخَرَجَ مَعَہُ نَاسٌ مِنْ قَوْمِہِ حَتَّی إذَا کَانُوا بِالْمَکَانِ الَّذِی یُوَدِّعُ بَعْضُہُمْ بَعْضًا ، قَالَ: أَیْ قَوْمِ ، عَلَیْکُمْ بِتَقْوَی اللہِ ، عَلَیْکُمْ بِہَذَا الْقُرْآنِ فَالْزَمُوہُ عَلَی مَا کَانَ مِنْ جَہْدٍ وَفَاقَۃٍ ، فَإِنَّہُ نُورٌ بِاللَّیْلِ الْمُظْلِمِ وَہُدًی بِالنَّہَارِ۔
(٣٠٦٣١) قبیلہ بجیلہ کے ایک شخص فرماتے ہیں کہ حضرت جندب بَجَلی ایک سفر میں تشریف لے گئے۔ راوی کہتے ہیں کہ ان کی قوم کے بھی کچھ لوگ ان کے ساتھ تھے۔ یہاں تک کہ وہ ایسی جگہ میں پہنچے کہ بعض لوگ بعض کو الوداع کہنے لگے۔ آپ نے فرمایا : اے لوگو ! اللہ سے ڈرنے کو لازم پکڑ لو۔ یہ قرآن لازم ہے تم پر کہ اس کو لازم پکڑو۔ وہ شخص جو تکلیف اور فاقہ میں ہے یہ قرآن اس کے لیے اندھیری رات میں روشنی کا ذریعہ ہے اور عین ہدایت کا ذریعہ ہے۔

30631

(۳۰۶۳۲) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِِ، عَن زَیْدِ بْنِ جُبَیْرٍ، قَالَ: قَالَ لِی أَبُو الْبَخْْتَرِیِّ الطَّائِیُّ: اتَّبِعْ ہَذَا الْقُرْآنَ فَإِنَّہُ یَہْدِیک۔
(٣٠٦٣٢) حضرت زید بن جبیر فرماتے ہیں کہ حضرت ابو بختری الطائی نے مجھ سے فرمایا : اس قرآن کی پیروی کرو بیشک یہ تمہیں ہدایت دے گا۔

30632

(۳۰۶۳۳) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمُحَارِبِیُّ ، عَن ہَارُونَ بْنِ عَنْتَرَۃَ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الأَسْوَدِ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللہِ: إنَّ ہَذِہِ الْقُلُوبَ أَوْعِیَۃٌ فَاشْغَلُوہَا بِالْقُرْآنِ ، وَلا تَشْغَلُوہَا بِغَیْرِہِ۔
(٣٠٦٣٣) حضرت اسود فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود نے ارشاد فرمایا : بیشک یہ دل خالی برتن ہیں پس تم ان کو قرآن کے ساتھ مصروف رکھو اور اس کے علاوہ کسی چیز میں مصروف مت کرو۔

30633

(۳۰۶۳۴) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَن شُعْبَۃَ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ مَیْسَرَۃَ ، عَنْ أَبِی الأَحْوَصِ ، قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللہِ: إنَّ ہَذَا الْقُرْآنَ مَأْدُبَۃُ اللہ فمَنْ دَخَلَ فِیہِ ، فَہُوَ آمِنٌ۔
(٣٠٦٣٤) حضرت ابو الاحوص فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود نے ارشاد فرمایا : بیشک یہ قرآن اللہ کا دسترخوان ہے جو شخص اس دعوت میں داخل ہوگیا پس وہ محفوظ و مامون ہے۔

30634

(۳۰۶۳۵) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَن لَیْثٍ ، عَنْ شِہَابٍ ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ: تَعَلَّمُوا کِتَابَ اللہِ ،تُعْرَفُوا بِہِ ،وَاعْمَلُوا بِہِ تَکُونُوا مِنْ أَہْلِہِ۔
(٣٠٦٣٥) حضرت شھاب فرماتے ہیں کہ حضرت عمر نے ارشاد فرمایا : تم کتاب اللہ کو سیکھو اس کے ذریعہ پہچانے جاؤ گے، اور اس پر عمل کرو گے تو اس کے اہل میں سے بن جاؤ گے۔

30635

(۳۰۶۳۶) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَن شُعْبَۃَ ، عَن زِیَادِ بْنِ مِخْرَاقٍ ، عَنْ أَبِی إیَاسٍ ، عَنْ أَبِی کِنَانَۃَ ، عَنْ أَبِی مُوسَی ، أَنَّہُ قَالَ: إنَّ ہَذَا الْقُرْآنَ کَائِنٌ لَکُمْ ذِکْرًا أو کَائِنٌ لَکُمْ أَجْرًا ، أَوْ کَائِنٌ عَلَیْکُمْ وِزْرًا ،فَاتَّبِعُوا الْقُرْآنَ ، وَلا یَتَّبِعْکُمُ الْقُرْآنُ ،فَإِنَّہُ مَنْ یَتَّبِعِ الْقُرْآنَ یَہْبِطْ بِہِ عَلَی رِیَاضِ الْجَنَّۃِ ، وَمَنْ یَتَّبِعْہُ الْقُرْآنُ یَزُخُّ فِی قَفَاہُ فَیَقْذِفُہُ فِی جَہَنَّمَ۔
(٣٠٦٣٦) حضرت ابو کنانہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابو موسیٰ نے ارشاد فرمایا : بیشک یہ قرآن تمہارے لیے نصیحت ہے یا تمہارے لیے باعث اجر ہے یا تم پر بوجھ ہے، پس تم قرآن کی پیروی کرو اور قرآن تمہارے پیچھے نہ لگے۔ اس لیے کہ جو قرآن کی پیروی کرتا ہے تو وہ اس کی وجہ سے جنت کے باغات میں داخل ہوجاتا ہے، اور جس شخص کے پیچھے قرآن لگتا ہے۔ تو وہ اسے گردن کے پچھلے حصہ سے دھکیلتا ہے اور اس کو جہنم میں پھینک دیتا ہے۔

30636

(۳۰۶۳۷) حَدَّثَنَا کَثِیرُ بْنُ ہِشَامٍ ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ بُرْقَانَ ، قَالَ: حدَّثَنَا الأَخْنَسُ بْنُ أَبِی الأَخْنَسِ ، عَن زُبَیْدٍ الْمُرَادِیِّ ، قَالَ: شَہِدْت ابْنَ مَسْعُودٍ وَقَامَ خَطِیبًا فَقَالَ: الْزَمُوا الْقُرْآنَ وَتَمَسَّکُوا بِہِ ، حَتَّی جَعَلَ یَقْبِضُ عَلَی یَدَیْہِ جَمِیعًا کَأَنَّہُ أَخَذَ بِسَبَبِ شَیْئٍ۔
(٣٠٦٣٧) حضرت زبید المرادی فرماتے ہیں کہ میں حضرت عبداللہ بن مسعود کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ کھڑے ہو کر خطبہ ارشاد فرما رہے تھے۔ آپ نے فرمایا : لوگو ! قرآن کو لازم پکڑو اور اس کے مضبوطی سے تھام لو، یہاں تک کہ آپ نے اپنے ہاتھ دبوچ لیا گویا کہ آپ نے رسی کو پکڑا ہوا ہے۔

30637

(۳۰۶۳۸) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ عَنِ الأَعْمَشِ عَنْ خَیْثَمَۃ قَالَ: مَرَّتْ بِعِیسَی امْرَأَۃٌ ، فَقَالَتْ: طُوبَی لِبَطْنٍ حَمَلَک ، وَلِثَدْیٍ أَرْضَعَک ، قَالَ: فَقَالَ: عِیسَی طُوبَی لِمَنْ قَرَأَ الْقُرْآنَ وَاتَّبَعَ مَا فِیہِ۔
(٣٠٦٣٨) حضرت خیثمہ فرماتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ کا گزر ایک عورت پر سے ہوا تو اس عورت نے کہا : خوشخبری ہے اس پیٹ کے لیے جس نے تیرا بوجھ اٹھایا اور خوش خبری ہے اس پستان کے لیے جس نے تجھے دودھ پلایا : راوی کہتے ہیں : حضرت عیسیٰ نے فرمایا : خوشخبری ہے اس شخص کے لیے جس نے قرآن کو پڑھا اور اس کی تعلیمات کی پیروی کی۔

30638

(۳۰۶۳۹) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِی ، عَن سُفْیَانَ ، عَنْ وَاصل عَنْ إِبْرَاہِیم قَالَ: مَرَّتِ امْرَأَۃٌ بِعِیسَی ابْنِ مَرْیَمَ ، ثُمَّ ذَکَرَ نَحْوَہُ۔
(٣٠٦٣٩) حضرت واصل فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم نے ارشاد فرمایا : ایک عورت کا گزر حضرت عیسیٰ بن مریم کے پاس سے ہوا، پھر آگے راوی نے ما قبل جیسی حدیث ذکر فرمائی۔

30639

(۳۰۶۴۰) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ حُبَابٍ ، عَن مُغِیرَۃَ بِنْتِ حَسَّانَ قَالَتْ: سَمِعْت أَنَسًا یَقُولُ: {فَقَدِ اسْتَمْسَکَ بِالْعُرْوَۃِ الْوُثْقَی} ، قَالَ: الْقُرْآنُ۔
(٣٠٦٤٠) حضرت مغیرہ بنت حسان فرماتی ہیں کہ میں نے حضرت انس کو یوں فرماتے ہوئے سنا ! یقیناً اس نے تھام لیا ایک مضبوط سہارا، آپ نے فرمایا : مضبوط سہارے سے مراد قرآن ہے۔

30640

(۳۰۶۴۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن سُفْیَانَ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَن مُرَّۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ: مَنْ أَرَادَ الْعِلْمَ فَلْیَقْرَإِ الْقُرْآنَ فَإِنَّ فِیہِ عِلْمَ الأَوَّلِینَ وَالآخِرِینَ۔
(٣٠٦٤١) حضرت مرہ فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود نے ارشاد فرمایا : جو شخص علم حاصل کرنا چاہتا ہے اسے چاہیے کہ وہ قرآن پڑھے کیونکہ اس میں پہلے اور بعد کے لوگوں کا علم ہے۔

30641

(۳۰۶۴۲) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَن خَیْثَمَۃَ ، عَنِ الأَسْوَدِ ، قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللہِ: عَلَیْکُمْ بِالشِّفَائَیْنِ: الْقُرْآنِ وَالْعَسَلِ۔
(٣٠٦٤٢) حضرت اسود فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ نے ارشاد فرمایا : دو شفا دینے والی چیزوں کو لازم پکڑ لو۔ قرآن اور شہد۔

30642

(۳۰۶۴۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن سُفْیَانَ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِی الأحوص ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ: الْعَسَلُ شِفَائٌ مِنْ کُلِّ دَائٍ ، وَالْقُرْآنُ شِفَائٌ لِمَا فِی الصُّدُورِ۔
(٣٠٦٤٣) حضرت ابو الاحوص فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود نے ارشاد فرمایا : شہد میں ہر بیماری کی شفا ہے، اور قرآن میں شفاء ہے سینوں میں پائے جانے والے وسوسوں کے لیے۔

30643

(۳۰۶۴۴) حَدَّثَنَا الْمُحَارِبِیُّ ، عَن لَیْثٍ ، عَن مُجَاہِدٍ (شِفَائٌ لِلنَّاسِ) قَالَ: الشِّفَائُ فِی الْقُرْآنِ۔
(٣٠٦٤٤) حضرت لیث فرماتے ہیں کہ حضرت مجاہد نے ارشاد فرمایا : آیت کا ترجمہ : لوگوں کے لیے شفاء ہے۔ فرمایا : قرآن میں شفا ہے۔

30644

(۳۰۶۴۵) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِی صَالِحٍ ، عَنْ أَبِی الأَحْوَصِ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ: الْبَیْتُ الَّذِی لاَ یُقْرَأُ فِیہِ الْقُرْآنُ کَمَثَلِ الْبَیْتِ الْخَرِبِ الَّذِی لاَ عَامِرَ لَہُ۔
(٣٠٦٤٥) حضرت ابو الاحوص فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود نے ارشاد فرمایا : وہ گھر جس میں قرآن کی تلاوت نہیں کی جاتی اس ویران گھر کی مانند ہے جس کو آباد کرنے والا کوئی نہیں۔

30645

(۳۰۶۴۶) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ عَبَّادٍ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ ، قَالَ: الْبَیْتُ الَّذِی یُقْرَأُ فِیہِ الْقُرْآنُ تَحْضُرُہُ الْمَلائِکَۃُ وَتَخْرُجُ مِنْہُ الشَّیَاطِینُ وَیَتَّسِعُ بِأَہْلِہِ وَیَکْثُرُ خَیْرُہُ ، وَالْبَیْتُ الَّذِی لاَ یُقْرَأُ فِیہِ الْقُرْآنُ تَحْضُرُہُ الشَّیَاطِینُ ، وَتَخْرُجُ مِنْہُ الْمَلائِکَۃُ ، وَیَضِیقُ بِأَہْلِہِ وَیَقِلُّ خَیْرُہُ۔
(٣٠٦٤٦) حضرت عباد فرماتے ہیں کہ حضرت ابن سیرین نے ارشاد فرمایا : جس گھر میں قرآن کی تلاوت کی جاتی ہے فرشتے وہاں حاضر ہوتے ہیں اور شیاطین اس گھر سے نکل جاتے ہیں۔ اور اس کے گھر والوں میں کشادگی ہوتی اور خیر کی کثرت ہوجاتی ہے، اور جس گھر میں قرآن کی تلاوت نہیں کی جاتی، شیاطین وہاں موجود ہوتے ہیں اور فرشتے اس گھر سے نکل جاتے ہیں اور گھر والوں میں تنگی ہوتی ہے اور خیر کی قلت ہوتی ہے۔

30646

(۳۰۶۴۷) حَدَّثَنَا عَبِیْدَۃُ ، عَنْ أَبِی الزَّعْرَائِ ، عَنْ أَبِی الأَحْوَصِ ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ مَسْعُودٍ یَقُولُ: إنَّ أَصْفَرَ الْبُیُوتِ الیت الَّذِی صَفِرَ مِنْ کِتَابِ اللہِ۔
(٣٠٦٤٧) حضرت ابو الاحوص فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن مسعود کو یوں ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے : بیشک گھروں میں سے خالی گھر تو وہ ہے جو کتاب اللہ کی تلاوت سے خالی ہو۔

30647

(۳۰۶۴۸) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَن لَیْثٍ ، عَنِ ابْنِ سَابِطٍ ، قَالَ: إنَّ الْبُیُوتَ الَّتِی یُقْرَأُ فِیہَا الْقُرْآنُ لَتُضِیئُ لأَہْلِ السَّمَائِ کَمَا تُضِیئُ السَّمَائُ لأَہْلِ الأَرْضِ ، قَالَ: وَإِنَّ الْبَیْتَ الَّذِی لاَ یُقْرَأُ فِیہِ الْقُرْآنُ لَیَضِیقُ عَلَی أَہْلِہِ وَتَحْضُرُہُ الشَّیَاطِینُ وَتَنْفِرُ مِنْہُ الْمَلائِکَۃُ ، وَإِنَّ أَصْفَرَ الْبُیُوتِ لَبَیْتٌ صَفِرَ مِنْ کِتَابِ اللہِ۔
(٣٠٦٤٨) حضرت لیث فرماتے ہیں کہ حضرت ابن سابط نے ارشاد فرمایا : بیشک وہ گھر جن میں قرآن کی تلاوت کی جاتی ہے وہ آسمان والوں کے لیے ستاروں جیسے چمکتے ہیں، اور فرمایا اور بیشک وہ گھر جس میں قرآن کی تلاوت نہیں ہوتی تو اس کے رہنے والوں پر تنگی کردی جاتی ہے۔ اور شیاطین وہاں حاضر ہوجاتے ہیں اور فرشتے اس گھر سے بھاگ جاتے ہیں۔ اور بیشک گھروں میں سے خالی گھر تو وہ ہے جو کتاب اللہ سے خالی ہو۔

30648

(۳۰۶۴۹) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَن زَائِدَۃَ ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِیزِ بْنِ رُفَیْعٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُبَیْدِ بْنِ عُمَیْرٍ ، قَالَ: کَانَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ إذَا دَخَلَ مَنْزِلَہُ قَرَأَ فِی زَوَایَاہُ آیَۃَ الْکُرْسِیِّ۔
(٣٠٦٤٩) حضرت عبداللہ بن عبید بن عمیر فرماتے ہیں کہ حضرت عبد الرحمن بن عوف جب گھر میں داخل ہوتے اس کے کونوں میں آیت الکرسی کی تلاوت فرماتے۔

30649

(۳۰۶۵۰) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ: حدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ الْمُغِیرَۃِ ، قَالَ: حَدَّثَنَا ثَابِتٌ ، قَالَ: کَانَ أَبُو ہُرَیْرَۃَ یَقُولُ فی الْبَیْتُ إذَا تُلِیَ فِیہِ کِتَابُ اللہِ اتَّسَعَ بِأَہْلِہِ وَکَثُرَ خَیْرُہُ وَحَضَرَتْہُ الْمَلائِکَۃُ ، وَخَرَجَتْ مِنْہُ الشَّیَاطِینُ ، وَالْبَیْتُ إذا لَمْ یُتْلَ فِیہِ کِتَابُ اللہِ ضَاقَ بِأَہْلِہِ ، وَقَلَّ خَیْرُہُ ،وَحَضَرَتْہُ الشَّیَاطِینُ۔
(٣٠٦٥٠) حضرت ثابت فرماتے ہیں کہ حضرت ابوہریرہ فرمایا کرتے تھے : جس گھر میں کتاب اللہ کی تلاوت کی جاتی ہے اس گھر کے رہنے والوں پر وسعت کردی جاتی ہے ، اور خیر کی کثرت ہوتی ہے۔ اور فرشتے وہاں حاضر ہوجاتے ہیں اور شیاطین اس گھر سے نکل جاتے ہیں۔ اور وہ گھر جس میں کتاب اللہ کی تلاوت نہیں کی جاتی اس کے گھر والوں پر تنگی کردی جاتی ہے۔ اور خیر کی قلت ہوجاتی ہے۔ اور شیاطین وہاں حاضر ہوجاتے ہیں۔

30650

(۳۰۶۵۱) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ وَحَفْص ، عَنِ الأَعْمَش ، عَن شقیق ، قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللہِ: إنِّی قَدْ تَسَمَّعْتُ إِلَی الْقَرَأَۃِ فَوَجَدْتہمْ مُتَقَارِبِینَ فَاقْرَؤُوہُ کَمَا عَلِمْتُمْ ، وَإِیَّاکُمْ وَالتَّنَطُّعَ وَالاخْتِلافَ زَادَ أَبُو مُعَاوِیَۃَ: إنَّمَا ہُوَ کَقَوْلِ أَحَدِکُمْ ہَلُمَّ وَتَعَالَ۔
(٣٠٦٥١) حضرت شقیق فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود نے ارشاد فرمایا ! میں نے کچھ تلاوت کرنے والوں کو غور سے سنا تو میں نے ان کو باہم قریب پایا۔ پس جیسے تمہیں سکھایا گیا ویسے پڑھو۔ اور تکلف اور اختلاف سے بچو۔
ابو معاویہ نے یہ اضافہ کیا ہے ! یہ باہمی قرب تو تم میں سے کسی ایک کے ایسے قول کی طرح ہے ھلم اور تعال یعنی دونوں کا معنی ہے آؤ۔

30651

(۳۰۶۵۲) حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ بْنُ مُوسَی ، عَنْ إسْمَاعِیلَ بْنِ عَبْدِ الْمَلِکِ ، عَن سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ، قَالَ: اقْرَؤُوا الْقُرْآنَ صِبْیَانِیَّۃ وَلا تَنَطَّعُوا فِیہِ۔
(٣٠٦٥٢) حضرت اسماعیل بن عبد الملک فرماتے ہیں کہ حضرت سعید بن جبیر نے ارشاد فرمایا : قرآن کو بچگانہ انداز میں پڑھو۔ اور اس میں تکلف اختیار مت کرو۔

30652

(۳۰۶۵۳) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ ، عَن حَکِیمِ عَنْ جَابِرٍ ، قَالَ: قَالَ حُذَیْفَۃُ: إنَّ أَقْرَأَ النَّاسِ الْمُنَافِقُ الَّذِی لاَ یَدَعُ وَاوًا ، وَلا أَلِفًا ، یَلْفِت کَمَا تَلْفِت الْبَقَرُ أَلْسِنَتَہَا ، لاَ یُجَاوِزُ تَرْقُوَتَہُ۔
(٣٠٦٥٣) حضرت جابر فرماتے ہیں کہ حضرت حذیفہ نے ارشاد فرمایا : یقیناً لوگوں میں سے سب سے اچھا قرآن پڑھنے والا منافق ہے جو نہ کسی الف کو چھوڑتا ہے اور نہ ہی واؤ کو۔ وہ منہ کو ایسے موڑتا ہے جیسے گائے اپنی زبان کو موڑتی ہے۔ اور قرآن اس کے حلق سے تجاوز نہیں کرتا۔

30653

(۳۰۶۵۴) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ، قَالَ: أَخْبَرَنِی الثَّوْرِیُّ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَمْرٍو عَن فُضَیْلٍ، عَنْ إبْرَاہِیمَ: کَانُوا یَکْرَہُونَ أَنْ یُعَلِّمُوا الصَّبِیَّ الْقُرْآنَ حَتَّی یَعْقِلَ۔
(٣٠٦٥٤) حضرت فضیل فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم نے فرمایا : صحابہ ناپسند کرتے تھے بچہ کو قرآن سکھانا یہاں تک کہ وہ عقلمند ہوجائے۔

30654

(۳۰۶۵۵) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ حَدَّثَنِی الثَّوْرِیُّ، قَالَ: حدَّثَنَا أَسْلَمُ الْمُنْقِرِیُّ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبْزَی، عَنْ أَبِیہِ، عَن أُبَیٍّ، قَالَ: کِتَابُ اللہِ مَا اسْتَبَانَ مِنْہُ فَاعْمَلْ بِہِ ، وَمَا اشْتَبَہَ عَلَیْک فَآمِنْ بِہِ ،وَکِلْہُ إِلَی عَالِمِہِ۔
(٣٠٦٥٥) حضرت عبد الرحمن بن ابزی فرماتے ہیں کہ حضرت ابی نے ارشاد فرمایا : کتاب اللہ کی جو چیز واضح ہے اس پر عمل کرو۔ اور جو چیز تم پر غیر واضح ہو اس پر ایمان لاؤ اور اس کو علم والے کو سونپ دو ۔

30655

(۳۰۶۵۶) حَدَّثَنَا یَعْلَی ، قَالَ: حدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ ، عَن زُبَیْدٍ ، قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللہِ إنَّ لِلْقُرْآنِ مَنَارًا کَمَنَارِ الطَّرِیقِ ، فَمَا عَرَفْتُمْ فَتَمَسَّکُوا بِہِ ، وَمَا اشْتَبَہَ عَلَیْکُمْ فَذَرُوہُ۔
(٣٠٦٥٦) حضرت زبید فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود نے ارشاد فرمایا : قرآن کے لیے بھی نشان ہیں جساپ کہ راستہ کے نشان ہوتے ہیں۔ پس جو تمہیں سمجھ آجائے اس کو مضبوطی سے تھام لو اور جو تم پر واضح نہ ہو تو اس کو چھوڑ دو ۔

30656

(۳۰۶۵۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن سُفْیَانَ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَن بَعْضِ أَصْحَابِہِ ، عَنِ الرَّبِیعِ بْنِ خُثَیْمٍ ، قَالَ: اضْطَرُّوا ہَذَا الْقُرْآنَ إِلَی اللہِ وَرَسُولِہِ۔
(٣٠٦٥٧) حضرت ربیع بن خثیم نے فرمایا : جو چیز قرآن میں سے تم پر مشتبہ ہوجائے اسے اللہ اور اس کے رسول کی طرف لوٹاؤ۔

30657

(۳۰۶۵۸) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَن شُعْبَۃَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ سَلِمَۃَ ، عَن مُعَاذٍ ، أَنَّہُ قَالَ: أَمَّا الْقُرْآنُ فَمَنَارٌ کَمَنَارِ الطَّرِیقِ ، لاَ یَخْفَی عَلَی أَحَدٍ ، فَمَا عَرَفْتُمْ مِنْہُ فَلا تَسْأَلُوا عَنْہُ أَحَدًا ، وَمَا شَکَکْتُمْ فِیہِ فَکِلُوہُ إِلَی عَالِمہ۔
(٣٠٦٥٨) حضرت عبداللہ بن سلمہ فرماتے ہیں کہ حضرت معاذ نے ارشاد فرمایا : باقی قرآن کے لیے بھی واضح نشان ہیں جیسا کہ راستہ کے نشان ہوتے ہیں جو کسی پر بھی مخفی نہیں ہوتے۔ پس جو کچھ تمہیں اس میں سے سمجھ آجائے تو اس کے بارے میں کسی سے مزید سوال مت کرو ، اور جو چیز تمہیں شک میں ڈالے تو اس کو علم والے کی طرف سونپ دو ۔

30658

(۳۰۶۵۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن ہِشَامٍ الدَّسْتَوَائِیِّ ، عَن قَتَادَۃَ ، عَن زُرَارَۃَ بْنِ أَوْفَی ، عَن سَعْدِ بْنِ ہِشَامٍ ، عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: الَّذِی یَقْرَأُ الْقُرْآنَ وَہُوَ مَاہِرٌ بِہِ مَعَ السَّفَرَۃِ الْکِرَامِ الْبَرَرَۃِ ، وَالَّذِی یَقْرَؤُہُ وَہُوَ یَشْتَدُّ عَلَیْہِ لَہُ أَجْرَانِ۔ (بخاری ۴۹۳۷۔ مسلم ۲۴۴)
(٣٠٦٥٩) حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جو شخص قرآن کو پڑھتا ہے اس حال میں کہ وہ ماہر ہے وہ ان ملائکہ کے ساتھ ہوگا جو میر منشی ہیں اور نیکوکار ہیں اور جو شخص قرآن کو پڑھتا ہو اور اس کو پڑھنے میں دقت اٹھاتا ہو تو اس کے لیے دوہرا اجر ہے۔

30659

(۳۰۶۶۰) حَدَّثَنَا سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنْ عَطَائٍ: الَّذِی یَہُونُ عَلَیْہِ الْقُرْآنُ مَعَ السَّفَرَۃِ الْکِرَامِ ، وَالَّذِی یَنْفَلِتُ مِنْہُ وَیَشُقُّ عَلَیْہِ لَہُ عِنْدَ اللہِ أَجْرَانِ۔
(٣٠٦٦٠) حضرت عمرو فرماتے ہیں کہ حضرت عطائ نے ارشاد فرمایا : جس پر قرآن پڑھنا آسان ہو وہ ان ملائکہ کے ساتھ ہوگا جو میر منشی ہیں، اور جو اس کو مشقت سے پڑھتا ہے اور دقت اٹھاتا ہے۔ اس کے لیے اللہ کے پاس دوہرا اجر ہے۔

30660

(۳۰۶۶۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن مِسْعَرٍ ، عَن قَتَادَۃَ ، عَنْ أَنَسٍ ، أَنَّہُ کَانَ إذَا خَتَمَ جَمَعَ أَہْلَہُ۔
(٣٠٦٦١) حضرت قتادہ فرماتے ہیں کہ حضرت انس جب قرآن ختم کرتے تو اپنے تمام گھر والوں کو اکٹھا کرتے دعا کے لیے۔

30661

(۳۰۶۶۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن مِسْعَرٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الأَسْوَدِ ، قَالَ: یُذْکَرُ ، أَنَّہُ یُصَلَّی عَلَیْہِ إذَا خَتَمَ۔
(٣٠٦٦٢) حضرت مسعر فرماتے ہیں کہ حضرت عبد الرحمن بن اسود نے ارشاد فرمایا؛ یوں ذکر کیا جاتا ہے کہ قرآن ختم ہونے پر دعا کی جائے ۔

30662

(۳۰۶۶۳) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَن مَنْصُورٍ ، عَنِ الْحَکَمِ ، قَالَ: کَانَ مُجَاہِدٌ ، وَعَبْدَۃُ بْنُ أَبِی لُبَابَۃَ وَنَاسٌ یَعْرِضُونَ الْمَصَاحِفَ ، فَلَمَّا کَانَ الْیَوْمُ الَّذِی أَرَادُوا أَنْ یَخْتِمُوا أَرْسَلُوا إلَیَّ وَإِلَی سَلَمَۃَ بْنِ کُہَیْلٍ فَقَالُوا: إنَّا کُنَّا نَعْرِضُ الْمَصَاحِفَ فَأَرَدْنَا أَنْ نَخْتِمَ الْیَوْمَ فَأَحْبَبْنَا أَنْ تَشْہَدُونَا ، إِنَّہُ کَانَ یُقَالُ: إذَا خُتِمَ الْقُرْآنُ نَزَلَتِ الرَّحْمَۃُ عِنْدَ خَاتِمَتِہِ ، أَوْ حَضَرَتِ الرَّحْمَۃُ عِنْدَ خَاتِمَتِہِ۔
(٣٠٦٦٣) حضرت حکم فرماتے ہیں کہ حضرت مجاہد اور حضرت عبدہ بن ابو لبابہ اور لوگ قرآن پڑھا کرتے تھے۔ پس جس دن وہ لوگ قرآن کو مکمل کرنے کا ارادہ کرتے تو میری طرف اور حضرت سلمہ بن کھیل کی طرف قاصد بھیج کر ہمیں بلاتے، اور فرماتے ! ہم نے قرآن پڑھے ہیں پس ہمارا آج ختم کرنے کا ارادہ ہے ہم چاہتے ہیں کہ آپ لوگ بھی ہمارے پاس حاضر ہوں۔ اس لیے کہ کہا جاتا ہے۔ جب قرآن ختم کیا جاتا ہے تو اس کے ختم ہونے کے وقت رحمت اترتی ہے، یا فرمایا؛ اس کے ختم ہونے کے وقت رحمت حاضر ہوتی ہے۔

30663

(۳۰۶۶۴) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنِ الْعَوَّامِ بْنِ حَوْشَبٍ ، عَنِ الْمُسَیَّبِ بْنِ رَافِعٍ ، أَنَّہُ کَانَ یَخْتِمُ الْقُرْآنَ فِی ثَلاثٍ ، وَیُصْبِحُ الْیَوْمَ الَّذِی یَخْتِمُ فِیہِ صَائِمًا۔
(٣٠٦٦٤) حضرت عوام بن حوشب فرماتے ہیں کہ حضرت مسیب بن رافع تین دنوں میں قرآن ختم کیا کرتے تھے۔ اور جس دن ختم فرماتے تو اس دن صبح روزے کی حالت میں کرتے تھے۔

30664

(۳۰۶۶۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، عَن سُفْیَانَ، عَن مَنْصُورٍ، عَنِ الْحَکَمِ، عَن مُجَاہِدٍ، قَالَ: الرَّحْمَۃُ تَنْزِلُ عِنْدَ خَتْمِ الْقُرْآنِ۔
(٣٠٦٦٥) حضرت حکم فرماتے ہیں کہ حضرت مجاہد نے ارشاد فرمایا : ختم قرآن کے موقع پر رحمت نازل ہوتی ہے۔

30665

(۳۰۶۶۶) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ الْقَطَّانُ ، عَنِ التَّیْمِیِّ ، عَن رَجُلٍ ، عَنْ أَبِی الْعَالِیَۃِ ، أَنَّہُ کَانَ إذَا أَرَادَ أَنْ یَخْتِمَ الْقُرْآنَ مِنْ آخِرِ النَّہَارِ أَخَّرَہُ إِلَی أَنْ یُمْسِی ، وَإِذَا أَرَادَ أَنْ یَخْتِمَہُ مِنْ آخِرِ اللَّیْلِ أَخَّرَہُ إِلَی أَنْ یُصْبِحَ۔
(٣٠٦٦٦) ایک شخص بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابو العالیہ کا جب قرآن ختم کرنے کا ارادہ ہوتا تو اگر دن کا آخری حصہ ہوتا تو اسے شام تک مؤخر فرما دیتے۔ اور جب ختم کرنے کا ارادہ ہوتا اور رات کا آخری حصہ ہوتا تو اسے صبح تک مؤخر کردیتے۔

30666

(۳۰۶۶۷) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، قَالَ: حدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ جَدِّہِ ، قَالَ ، سَمِعْت رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقول: یُمَثَّلُ الْقُرْآنُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ رَجُلاً فَیُؤْتَی بِالرَّجُلِ قَدْ حَمَلَہُ فَخَالَفَ فی أَمْرِہِ فَیَتَمَثَّلُ خَصْمًا لَہُ فَیَقُولُ: یَا رَبِّ حَمَّلْتہ إیَّایَ فَشَرُّ حَامِلٍ تَعَدَّی حُدُودِی وَضَیَّعَ فَرَائِضِی ، وَرَکِبَ مَعْصِیَتِی وَتَرَکَ طَاعَتِی ، فَمَا یَزَالُ یَقْذِفُ عَلَیْہِ بِالْحُجَجِ حَتَّی یُقَالَ: فَشَأْنُک بِہِ ، فَیَأْخُذُ بِیَدِہِ ، فَمَا یُرْسِلُہُ حَتَّی یَکُبَّہُ عَلَی صَخْرَۃٍ فِی النَّارِ ، وَیُؤْتَی بِرَجُلٍ صَالِحٍ قَدْ کَانَ حَمَلَہُ وَحَفِظَ أَمْرَہُ فَیَتَمَثَّلُ خَصْمًا دُونَہُ فَیَقُولُ: یَا رَبِّ حَمَّلْتہ إیَّایَ فَخَیْرُ حَامِلٍ ، حَفِظَ حُدُودِی وَعَمِلَ بِفَرَائِضِی وَاجْتَنَبَ مَعْصِیَتِی وَاتَّبَعَ طَاعَتِی ، فَمَا یَزَالُ یَقْذِفُ لَہُ بِالْحُجَجِ حَتَّی یُقَالَ: شَأْنُک بِہِ ، فَیَأْخُذُ بِیَدِہِ فَمَا یُرْسِلُہُ حَتَّی یُلْبِسَہُ حُلَّۃَ الإِسْتَبْرَقِ وَیَعْقِدَ عَلَیْہِ تَاجَ الْمُلْکِ وَیَسْقِیَہُ کَأْسَ الْخَمْرِ۔
(٣٠٦٦٧) حضرت عبداللہ بن عمرو فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یوں فرماتے ہوئے سنا ہے : قیامت کے دن قرآن کو ایک آدمی کی شکل دی جائے گی پھر حامل قرآن کو لایا جائے گا۔ جس نے اس کے حکم کی مخالفت کی پھر وہ اس کے مدمقابل خصم کی شکل اختیار کرے گا اور کہے گا : اے میرے رب ! آپ نے اس پر میری ذمہ داری ڈالی پس بہت بُرا ذمہ دار ہے ! اس نے میری حدود کی خلاف ورزی کی۔ اور میرے فرائض کو ضائع کیا۔ اور میری نافرمانی کرتا رہا۔ اور میری اطاعت کو چھوڑ دیا، پس وہ مسلسل اس کے خلاف دلائل بیان کرے گا یہاں تک کہ کہا جائے گا۔ تو نے ٹھیک بیان کیا۔ پھر وہ اس کا ہاتھ پکڑے گا اور اس کو نہیں چھوڑے گا یہاں تک کہ اوندھے منہ جہنم میں ایک چٹان پر پھینک دے گا۔
اور ایک نیک آدمی کو لایا جائے گا جس نے اس کی ذمہ داری اٹھائی اور اس کے حکم کی حفاظت کی، پھر قرآن اس کے حق میں خصم کی شکل اختیار کرے گا ، اور کہے گا ! اے میرے رب ! تو نے اس پر میری ذمہ داری ڈالی پس بہت اچھا ذمہ دار ہے : اس نے میری حدود کی حفاظت کی اور میرے فرائض پر عمل کیا۔ اور مردی نافرمانی سے اجتناب کیا۔ اور میرے حکم کی پیروی کی، پس وہ مسلسل اس کے حق میں دلائل بیان کرتا رہے گا یہاں تک کہ کہا جائے گا، تو نے ٹھیک بیان کیا۔ پھر وہ اس کا ہاتھ پکڑے گا۔ پھر اس کو نہیں چھوڑے گا یہاں تک کہ اس کو نفیس قسم کا جوڑا پہنائے گا۔ اور اس کے سر پر بادشاہ کا تاج رکھے گا۔ او اسے شراب کا پیالہ پلائے گا۔

30667

(۳۰۶۶۸) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، قَالَ: حدَّثَنَا بَشِیرُ بْنُ الْمُہَاجِرِ ، قَالَ:حَدَّثَنِی عَبْدُ اللہِ بْنُ بُرَیْدَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ: کُنْتُ عِنْدَ النبی صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَسَمِعْتہ یَقُولُ: إنَّ الْقُرْآنَ یَلْقَی صَاحِبَہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ حِینَ یَنْشَقُّ عَنْہُ قَبْرُہُ کَالرَّجُلِ الشَّاحِبِ فیَقُولُ لَہُ: ہَلْ تَعْرِفُنِی ؟ فَیَقُولُ: مَا أَعْرِفُک ، فَیَقُولُ لَہُ: أَنَا صَاحِبُک الْقُرْآنُ الَّذِی أَظْمَأْتُک فِی الْہَوَاجِر ،وَأَسْہَرْت لَیْلَک ، وَإِنَّ کُلَّ تَاجِرٍ مِنْ وَرَائِ تِجَارَتِہِ ، وَإِنَّک الْیَوْمَ مِنْ وَرَائِ کُلِّ تِجَارَۃٍ ، قَالَ: فَیُعْطَی الْمُلْکَ بِیَمِینِہِ وَالْخُلْدَ بِشِمَالِہِ ، وَیُوضَعُ عَلَی رَأْسِہِ تَاجُ الْوَقَارِ ، وَیُکْسَی وَالِدَاہُ حُلَّتَیْنِ ، لاَ یَقُومُ لَہُمَا أَہْلُ الدُّنْیَا ، فَیَقُولانِ: بِمَ کُسِینَا ہَذَا ؟ قَالَ: فَیُقَالُ لَہُمَا: بِأَخْذِ وَلَدِکُمَا الْقُرْآنَ ، ثُمَّ یُقَالُ لَہُ: اقْرَأْ وَاصْعَدْ فِی دَرَجِ الْجَنَّۃِ وَغُرَفِہَا ، فَہُوَ فِی صُعُودٍ مَا دَامَ یَقْرَأُ ہَذًّا کَانَ ، أَوْ تَرْتِیلاً۔ (ابن ماجہ ۳۷۸۱۔ احمد ۳۵۲)
(٣٠٦٦٨) حضرت بریدہ فرماتے ہیں کہ میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس تھا تو میں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یوں فرماتے ہوئے سنا : قرآن قیامت کے دن دبلے آدمی کی صورت میں اپنے ساتھی سے ملے گا جب اس کی قبر پھٹے گی۔ اسے کہے گا : کیا تم مجھے پہچانتے ہو ؟ وہ شخص کہے گا : میں تمہیں نہیں پہچانتا پھر وہ اس شخص کو کہے گا : میں تیرا ساتھی قرآن ہوں جس نے تجھے شدید گرمی میں پیاسا رکھا اور تیری راتوں میں تجھے جگایا۔ اور یقیناً ہر تاجر کو اس کی تجارت کا نفع ملتا ہے۔ لہٰذا تجھے آج تجارت کا نفع ملے گا ، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اس شخص کے دائیں ہاتھ میں بادشاہت دے دی جائے گی، اور اس کے بائیں ہاتھ میں ہمیشہ ہمیشہ کی زندگی دے دی جائے گی۔ اور اس کے سر پر عزت کا تاج پہنایا جائے گا۔ اور اس کے والدین کو دو خوبصورت جوڑے پہنائے جائیں گے ۔ جس کا ساری دنیا والے مقابلہ نہیں کرسکتے۔ وہ دونوں کہیں گے۔ کس وجہ سے ہمیں یہ کپڑے پہنائے گئے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ! ان دونوں سے کہا جائے گا ! تمہارے بچہ کے قرآن حفظ کرنے کی وجہ سے۔ پھر اس حافظ قرآن سے کہا جائے گا : پڑھو اور جنت کے درجوں اور اس کے بالا خانوں میں چڑھتے جاؤ۔ پس وہ جب تک پڑھتا رہے گا آہستہ ہو یا تیز وہ بلند ہوتا رہے گا۔

30668

(۳۰۶۶۹) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ الْحُبَابِ ، قَالَ: حدَّثَنَا مُوسَی بْنُ عُبَیْدَۃَ الرَّبَذِیُّ ، قَالَ: حَدَّثَنَا سَعِیدُ بْنُ أَبِی سَعِیدٍ الْمَقْبُرِیُّ ، عَن عُثْمَانَ بْنِ الْحَکَمِ ، عَن کَعْبٍ ، أَنَّہُ قَالَ: یُمَثَّلُ الْقُرْآنُ لِمَنْ کَانَ یَعْمَلُ بِہِ فِی الدُّنْیَا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ کَأَحْسَنِ صُورَۃٍ رَآہَا وَأَحْسَنِہَا وَجْہًا وَأَطْیَبِہَا رِیحًا فَیَقُومُ بِجَنْبِ صَاحِبِہِ فَکُلَّمَا جَائَہُ رَوْعٌ ہَدَّأَ رَوْعَہُ وَسَکَّنَہُ وَبَسَطَ لَہُ أَمَلَہُ فَیَقُولُ لَہُ: جَزَاک اللَّہُ خَیْرًا مِنْ صَاحِبٍ ، فَمَا أَحْسَنَ صُورَتَکَ وَأَطْیَبَ رِیحَک، فَیَقُولُ لَہُ: أَمَا تَعْرِفُنِی: تَعَالَ ارْکَبْنِی ، فَطَالَمَا رَکِبْتُک فِی الدُّنْیَا ، أَنَا عَمَلُک ، إنَّ عَمَلَک کَانَ حَسَنًا ، فَتَرَی صُورَتِی حَسَنَۃً ، وَکَانَ طَیِّبًا فَتَرَی رِیحِی طَیِّبَۃً ، فَیَحْمِلُہُ فَیُوَافِی بِہِ الرَّبَّ تَبَارَکَ وَتَعَالَی فَیَقُولُ: یَا رَبِّ ہَذَا فُلانٌ وَہُوَ أَعْرَفُ بِہِ مِنْہُ قَدْ شَغَلْتہ فِی أَیَّامِہِ فِی حَیَاتِہِ فِی الدُّنْیَا ، أَظْمَأْت نَہَارَہُ وَأَسْہَرْت لَیْلَہُ ، فَشَفِّعْنِی فِیہِ ، فَیُوضَعُ تَاجُ الْمُلْکِ عَلَی رَأْسِہِ ، وَیُکْسَی حُلَّۃَ الْمُلْک ، فَیَقُولُ: یَا رَبِّ قَدْ کُنْت أَرْغَبُ لَہُ عَن ہَذَا وَأَرْجُو لَہُ مِنْک أَفْضَلَ مِنْ ہَذَا ، فَیُعْطَی الْخُلْدَ بِیَمِینِہِ وَالنِّعْمَۃَ بِشِمَالِہِ ، فَیَقُولُ: یَا رَبّ إنَّ کُلَّ تَاجِرٍ قَدْ دَخَلَ عَلَی أَہْلِہِ مِنْ تِجَارَتِہِ ، فَیُشَفَّعُ فِی أَقَارِبِہِ ، وَإِذا کَانَ کَافِرًا مُثِّلَ لَہُ عَمَلُہُ فِی أَقْبَحِ صُورَۃٍ رَآہَا ،وَأَنْتَنَہُ ،فَکُلَّمَا جَائَہُ رَوْعٌ زَادَہُ رَوْعًا فَیَقُولُ: قَبَّحَک اللَّہُ مِنْ صَاحِبٍ فَمَا أَقْبَحَ صُورَتَکَ، وَمَا أَنْتَنَ رِیحَک ، فَیَقُولُ: مَنْ أَنْتَ ؟ قَالَ: أَمَا تَعْرِفُنِی ، أَنَا عَمَلُک ، إنَّہ کَانَ قَبِیحًا فَتَرَی صُورَتِی قَبِیحَۃً ، وَکَانَ مُنْتِنًا فَتَرَی رِیحِی مُنْتِنَۃً ، فَیَقُولُ: تَعَالَ حتی أَرْکَبُک ، فَطَالَمَا رَکِبْتنِی فِی الدُّنْیَا ، فَیَرْکَبُہُ فَیُوَافِی بِہِ اللَّہَ فَلا یُقِیمُ لَہُ وَزْنًا۔
(٣٠٦٦٩) حضرت عثمان بن حکم فرماتے ہیں کہ حضرت کعب نے ارشاد فرمایا : جو شخص دنیا میں قرآن کے احکامات پر عمل کرتا تھا قیامت کے دن اس کے قرآن پڑھنے کو ایک خوبصورت چہرے والے کی شکل دے دی جائے گی جس کو وہ شخص دیکھ سکے گا۔ وہ چہرے کے اعتبار سے خوبصورت ترین ہوگا اور خوشبو کے اعتبار سے پاکیزہ ترین ہوگا۔ پھر وہ قرآن اپنے ساتھی کے پہلو میں کھڑا ہوجائے گا۔ اور جو بھی خوف زدہ کرنے والی چیز اس کے پاس آئے گی وہ اس کے خوف کو دور کرے گا اور اس کو تسکین پہنچائے گا۔ اور اس کے لیے اس کی امید کو کشادہ کرے گا۔ وہ شخص اس کو کہے گا ! اللہ اس ساتھی کو بہترین جزا دے۔ تیری صورت کتنی حسین ہے اور تیری خوشبو کتنی پاکیزہ ہے ؟ ! تو وہ قرآن اس کو کہے گا ! کیا تو مجھے نہیں پہچانتا ؟ آؤ مجھ پر سوار ہو جاؤ۔ پس دنیا میں میں تجھ پر سوار تھا اور میں تیرا عمل تھا۔ یقیناً تیرا عمل اچھا تھا اس لیے تو نے آج میری اچھی شکل دیکھی ۔ اور تیری عمل پاکیزہ تھا اس لیے آج تو نے میری پاکیزہ خوشبو دیکھی۔
پھر وہ اس شخص کو سوار کرے گا اور اپنے رب کے پاس لے جائے گا اور کہے گا : اے میرے رب ! یہ فلاں شخص ہے۔ حالانکہ اللہ اس سے زیادہ اس کو پہچانتے ہیں۔ تحقیق میں نے اس کو دنیا کی زندگی میں مصروف رکھا۔ میں نے اس کو دن میں پیاسا رکھا۔ اور میں نے رات کو اس کو جگایا۔ پس آپ اس کے بارے میں میری شفاعت کو قبول کیجئے۔ پھر اس شخص کے سر پر بادشاہ کا تاج پہنا دیا جائے گا ۔ اور اسے بادشاہ کا جوڑا پہنایا جائے گا۔ پھر وہ کہے گا ! اے میرے رب ! میں اس سے کہیں زیادہ اس کو مرغوب تھا۔ اور میں تجھ سے اس شخص کے لیے اس سے بھی زیادہ فضل کی امید کرتا ہوں تو پھر اس شخص کے دائیں ہاتھ میں ہمیشہ ہمیشہ کی زندگی عطا کردی جائے گی، پھر وہ قرآن کہے گا : اے میرے رب ! یقیناً ہر تاجر اپنی تجارت کا نفع اپنے گھر والوں کو بھی دیتا ہے۔ پھر اس شخص کے رشتہ داروں کے بارے میں اس کی شفاعت قبول کی جائے گی۔
اور جب کوئی شخص کافر ہو تو اس صورت میں اس کے عمل کو بد ترین شکل والے آدمی کی صورت دے دی جاتی ہے جسے وہ دیکھ سکے گا، اور جس کی بو انتہائی بد بودار ہوگی۔ پس جب بھی کوئی خوف زدہ کرنے والی چیز اس کے پاس آتی ہے تو یہ اس کے خوف میں مزید اضافہ کرتا ہے۔ پھر کافر شخص کہے گا ! اللہ تجھ جیسے ساتھی کو مزید برا کرے تو کتنا بد صورت شکل والا اور کتنی بری بدبو والا ہے ؟ ! پھر وہ کہے گا : تو کون ہے ؟ وہ کہے گا ! کیا تو مجھے نہیں پہچانتا ؟ یقیناً میں تیرا عمل ہوں۔ بیشک تیرا عمل برا تھا اس لیے تو مجھے بدصورت دیکھ رہا ہے، اور تر ا عمل بدبودار تھا اس لیے تو بھی مجھے انتہائی بد بودار شکل میں دیکھ رہا ہے۔ پھر وہ کہے گا ! آؤ یہاں تک کہ میں تم پر سوار ہوں پس تو دنیا میں مجھ پر سوار تھا۔ پھر وہ اس شخص پر سوار ہو کر اسے اللہ کے سامنے لے جائے گا اور وہ اس کو کوئی اہمیت نہیں دے گا۔

30669

(۳۰۶۷۰) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَن زَائِدَۃَ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ أَبِی صَالِحٍ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ: نِعْمَ الشَّفِیعُ الْقُرْآنُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ، قَالَ: یَقُولُ: یَا رَبِّ قَدْ کُنْت أَمْنَعُہُ شَہْوَتَہُ فِی الدُّنْیَا فَأَکْرِمْہُ ، قَالَ: فَیُلْبَسُ حُلَّۃَ الْکَرَامَۃِ ، قَالَ: فَیَقُولُ: أَیْ رَبِّ زِدْہُ ، قَالَ: فَیُحَلَّی حُلَّۃَ الْکَرَامَۃِ فَیَقُولُ أَیْ رَبِّ زِدْہُ ، قَالَ: فَیُکْسَی تَاجَ الْکَرَامَۃِ ، قَالَ: فَیَقُولُ: یَا رَبِّ زِدْہُ ، قَالَ: فَیَرْضَی مِنْہُ فَلَیْسَ بَعْدَ رِضَی اللہِ عَنْہُ شَیْئٌ۔ (ترمذی ۲۹۱۵)
(٣٠٦٧٠) حضرت ابو صالح فرماتے ہیں کہ حضرت ابوہریرہ نے ارشاد فرمایا : قرآن بہترین شفاعت کرنے والا ہوگا قیامت کے دن، راوی کہتے ہیں : قرآن کہے گا : اے میرے رب ! میں نے اس کو دنیا میں نفسانی شہوات سے روکے رکھا پس تو اس کا اعزازو اکرام فرما۔ پھر اس شخص کو عزت و شرافت کا لباس پہنایا جائے گا، پھر قرآن کہے گا : اے میرے رب ! اور اضافہ فرما۔ پھر اس شخص کو عزت و شرافت کے زیور پہنائے جائیں گے، پھر قرآن کہے گا : اے میرے رب ! اور اضافہ فرما۔ تو پھر اس شخص کو عزت و شرافت کا تاج پہنایا جائے گا۔ پھر قرآن کہے گا : اے میرے رب ! اور اضافہ فرما۔ تو اللہ اس سے راضی ہوجائیں گے۔ اور اللہ کی رضا کے بعد کوئی چیز باقی نہیں رہتی۔

30670

(۳۰۶۷۱) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عُبَیْدِ اللہِ ، عَنِ الْمُسَیَّبِ بْنِ رَافِعٍ ، عَنْ أَبِی صَالِحٍ ، قَالَ: یَشْفَعُ الْقُرْآنُ لِصَاحِبِہِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ فَیُکْسَی حُلَّۃَ الْکَرَامَۃِ فَیَقُولُ: أَیْ رَبِّ زِدْہُ ، فَإِنَّہُ فَإِنَّہُ ، قَالَ: فَیُکْسَی تَاجَ الْکَرَامَۃِ ، قَالَ: فَیَقُولُ: أَیْ رَبِّ زِدْہُ فَإِنَّہُ فَإِنَّہُ ، فَیَقُولُ: رِضَای۔
(٣٠٦٧١) حضرت مسیب بن رافع فرماتے ہیں کہ حضرت ابو صالح نے ارشاد فرمایا : قرآن اپنے پڑھنے والے کے حق میں شفاعت کرے گا، پھر اس شخص کو عزت و شرافت کا لباس پہنا دیا جائے گا، پھر قرآن کہے گا : میرے رب ! اور اضافہ فرما۔ پھر وہ اس پڑھنے والے کی بارہا خوبیاں بیان کرے گا، راوی فرماتے ہیں : پھر اس شخص کو عزت و شرافت کا تاج پہنایا دیا جائے گا ۔ پھر وہ قرآن کہے گا : اے میرے رب ! اور اضافہ فرما : بیشک وہ شخص تو ایسا اور ایسا تھا، پس اللہ فرمائیں گے : وہ میری رضا کا حقدار ہوگیا۔

30671

(۳۰۶۷۲) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَن شُعْبَۃَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ ، عَن مُجَاہِدٍ ، أَنَّہُ قَالَ: الْقُرْآنُ یَشْفَعُ لِصَاحِبِہِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ یَقُولُ: یَا رَبِّ جَعَلْتنِی فِی جَوْفِہِ فَأَسْہَرْت لَیْلَہُ وَمَنَعْتہ من کَثِیرٍ مِنْ شَہَوَاتِہِ ، وَلِکُلِّ عَامِلٍ مِنْ عَمَلِہِ عِمَالَۃٌ ، فَیُقَالُ لَہُ ابْسُطْ یَدَک ، قَالَ فَتُمْلأ مِنْ رِضْوَان اللہ ، فَلا سَخَطٌ عَلَیْہِ بَعْدَہُ ، ثُمَّ یُقَالُ لَہُ: اقْرَأْ وَارْقَہُ ، قَالَ: فَیُرْفَعُ لَہُ بِکُلِّ آیَۃٍ دَرَجَۃٌ وَیُزَادُ بِکُلِّ آیَۃٍ حَسَنَۃٌ۔
(٣٠٦٧٢) حضرت عمرو بن مرہ فرماتے ہیں کہ حضرت مجاہد نے ارشاد فرمایا : قرآن قیامت کے دن اپنے پڑھنے والے کے لیے شفاعت کرے گا، کہے گا : اے میرے رب ! تو نے مجھے اس کے سینہ میں رکھا پس میں نے اس کو رات میں جگایا، اور میں نے اسے بہت سی خواہشات سے روکے رکھا۔ اور ہر مزدور کے لیے اس کے کام کی مزدوری ہوتی ہے۔ پھر اس شخص سے کہا جائے گا ! اپنا ہاتھ پھیلاؤ۔ راوی کہتے ہیں : پھر اس کے ہاتھ کو اللہ کی رضا اور خوشنودی سے بھر دیا جائے گا جس کے بعد وہ کبھی ناراض نہیں ہوگا، پھر اس حافظ قرآن سے کہا جائے گا : پڑھتا جا اور چڑھتا جا۔ پھر ہر آیت کے بدلہ ایک درجہ بلند کردیا جائے گا، اور ایک نیکی کا ہر آیت کے ساتھ مزید اضافہ کیا جائے گا۔

30672

(۳۰۶۷۳) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَن زَائِدَۃَ ، قَالَ: قَالَ مَنْصُورٌ: حُدِّثْت عَن مُجَاہِدٍ ، قَالَ: یَجِیئُ الْقُرْآنُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ بَیْنَ یَدَیْ صَاحِبِہِ حَتَّی إذَا انْتَہَیَا إِلَی رَبِّہِمَا قَالَ الْقُرْآنُ: یَا رَبِّ ، إِنَّہُ لَیْسَ مِنْ عَامِلٍ إِلاَّ لَہُ مِنْ عِمَالَتِہِ نَصِیبٌ ،وَإِنَّک جَعَلْتنِی فِی جَوْفِہِ فَکُنْت أَنْہَاہُ عَن شَہَوَاتِہِ ، قَالَ: فَیُقَالُ لَہُ: ابْسُطْ یَمِینَک ، قَالَ: فَتُمْلأَ مِنْ رِضْوَانِ اللہِ ، ثُمَّ یُقَالُ لَہُ: ابْسُطْ شِمَالَک ، فَتُمْلأَ مِنْ رِضْوَانِ اللہِ ، فَلا یَسْخَطُ اللہ عَلَیْہِ بَعْدَ ذَلِکَ أَبَدًا۔
(٣٠٦٧٣) حضرت منصور فرماتے ہیں کہ حضرت مجاہد نے ارشاد فرمایا : قیامت کے دن قرآن اپنے پڑھنے والے کے سامنے جوان مرد کی شکل میں آئے گا یہاں تک کہ دونوں اپنے رب کے پاس پہنچیں گے، قرآن کہے گا : اے پروردگار ! بیشک ہر مزدور کے لیے اس کی مزدوری کے عوض اجرت ملتی ہے، اور یقیناً تو نے مجھے اس کے سینہ میں رکھا پس میں نے اس کو خواہشات سے باز رکھا، راوی فرماتے ہیں : پس اس شخص کو کہا جائے گا : اپنا دایاں ہاتھ کشادہ کر پس اس کو اللہ کی رضا مندی سے بھر دیا جائے گا، پھر اس شخص کو کہا جائے گا، اپنا بایاں ہاتھ کشادہ کر پھر اس کو اللہ کی رضا مندی و خوشنودی سے بھر دیا جائے گا، پھر اس کے بعد اللہ اس پر کبھی ناراضگی کا اظہار نہیں فرمائیں گے۔

30673

(۳۰۶۷۴) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَن مَنْصُورٍ ، عَن مُجَاہِدٍ فِی قَوْلِہِ {وَالَّذِی جَائَ بِالصِّدْقِ وَصَدَّقَ بِہِ} ، قَالَ: الَّذِینَ یَجِیئُونَ بِالْقُرْآنِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ فَیَقُولُونَ: ہَذَا الَّذِی أَعْطَیْتُمُونَا قَدِ اتَّبَعْنَا مَا فِیہِ۔
(٣٠٦٧٤) حضرت منصور فرماتے ہیں کہ حضرت مجاہد نے اللہ کے اس قول ( اور وہ شخص جو لایا سچی بات اور اس کی تصدیق کی) کے بارے میں فرمایا : وہ لوگ جو قیامت کے دن قرآن لائیں گے، اور کہیں گے : یہ ہے وہ چیز جو آپ نے ہمیں عطا کی۔ تحقیق ہم نے اس میں بیان کردہ تعلیمات کی اتباع کی۔

30674

(۳۰۶۷۵) حَدَّثَنَا عَبِیدَۃُ بْنُ حُمَیْدٍ ، عَن مَنْصُورٍ ، عَنْ أَبِی جَعْفَرٍ ، عَن زَاذَانَ ، قَالَ: یُقَالُ: إنَّ الْقُرْآنَ شَافِعٌ مُشَفَّعٌ وَمَاحِلٌ مُصَدَّقٌ۔
(٣٠٦٧٥) حضرت ابو جعفر فرماتے ہیں کہ حضرت زاذان نے ارشاد فرمایا : کہا جاتا ہے : قرآن ایسا سفارشی ہے جس کی سفارش قبول کی جاتی ہے، اور اپنے پڑھنے والے کا دفاع کرنے والا ہے جس کی بات کی تصدیق کی جاتی ہے۔

30675

(۳۰۶۷۶) حَدَّثَنَا عَفَّانُ، قَالَ: حدَّثَنَا ہَمَّامٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَاصِمُ بْنُ بَہْدَلَۃَ، عَنِ الشَّعْبِیِّ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: یَجِیئُ الْقُرْآنُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ فَیَشْفَعُ لِصَاحِبِہِ فَیَکُونُ قَائِدًا إِلَی الْجَنَّۃِ ، أو یَشْہَدُ عَلَیْہِ فَیَکُونُ سَائِقًا لَہُ إِلَی النَّارِ۔
(٣٠٦٧٦) حضرت شعبی فرماتے ہیں کہ حضرت ابن مسعود نے ارشاد فرمایا : قیامت کے دن قرآن آئے گا اور اپنے ساتھی کے حق میں شفاعت کرے گا پس وہ اس کا راہنما بن جائے گا جنت کی طرف یا پھر قرآن اس کے برخلاف گواہی دے گا پس وہ اس کو جہنم کی طرف ہانک کرلے جانے والا ہوگا۔

30676

(۳۰۶۷۷) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ قَیْسٍ ، عَن زُبَیْدٍ ، قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللہِ: الْقُرْآنُ شَافِعٌ مُشَفَّعٌ ومَاحِلٌ مُصَدَّقٌ ، فَمَنْ جَعَلَہُ إمَامَہُ قَادَہُ إِلَی الْجَنَّۃِ ، وَمَنْ جَعَلَہُ خَلْفَ ظَہْرِہِ قَادَہُ إِلَی النَّارِ۔ (بزار ۱۲۲۔ ابن حبان ۱۲۲)
(٣٠٦٧٧) حضرت زبید فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود نے ارشاد فرمایا : قرآن ایسا سفارشی ہے جس کی سفارش قبول کی جاتی ہے اور اپنے پڑھنے والے کا دفاع کرنے والا ہے جس کی بات کی تصدیق کی جاتی ہے۔ پس جو شخص اس کو اپنا راہنما بناتا ہے تو یہ اس کی جنت کی طرف قیادت کرتا ہے اور جو شخص اس کو پیٹھ پیچھے ڈال دیتا ہے یہ اس کی جہنم کی طرف قیادت کرتا ہے۔

30677

(۳۰۶۷۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ: حدَّثَنَا الأَعْمَشُ ، عَنْ أَبِی صَالِحٍ ، عَنْ أَبِی سَعِیدٍ ، أَوْ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ شَکَّ الأَعْمَشُ ، قَالَ: یُقَالُ لِصَاحِبِ الْقُرْآنِ: یَوْمَ الْقِیَامَۃِ اقْرَأْ وَارْقَہُ ، فإن مَنْزِلُک عِنْدَ آخِرِ آیَۃٍ تَقْرَؤُہَا۔
(٣٠٦٧٨) حضرت ابو صالح فرماتے ہیں کہ حضرت ابو سعید نے یا حضرت ابوہریرہ نے ارشاد فرمایا : قیامت کے دن حافظ قرآن کو کہا جائے گا : قرآن پڑھتا جا اور بہشت کے درجوں پر چڑھتا جا۔ پس بیشک تیرا درجہ وہی ہے جہاں آخری آیت پر پہنچے۔

30678

(۳۰۶۷۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن سُفْیَانَ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَن زِرٍّ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو بِمِثْلِہِ ، وَزَادَ فِیہِ: وَرَتِّلْ کَمَا کُنْت تُرَتِّلُ فِی الدُّنْیَا۔ (ابوداؤد ۱۴۵۹۔ ترمذی ۲۹۱۴)
(٣٠٦٧٩) حضرت زرّ فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمرو نے ارشاد فرمایا : راوی نے ما قبل جیسا مضمون ذکر کیا، مگر اس جملہ کا اضافہ کیا : اور ٹھہر ٹھہر کر پڑھ جیسا کہ تو دنیا میں ٹھہر ٹھہر کر پڑھتا تھا۔

30679

(۳۰۶۸۰) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَن زَائِدَۃَ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَن زِرٍّ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو ، قَالَ: یُقَالُ لِصَاحِبِ الْقُرْآنِ حِینَ یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ اقْرَأْ وَارْقَہُ فِی الدَّرَجَاتِ وَرَتِّلْ کَمَا کُنْت تُرَتِّلُ فِی الدُّنْیَا فَإِنَّ مَنْزِلَک من الدَّرَجَاتِ عِنْدَ آخِرِ مَا تَقْرَأُ۔
(٣٠٦٨٠) حضرت زرّ فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمرو نے ارشاد فرمایا : حامل قرآن سے کہا جائے گا جب وہ جنت میں داخل ہوگا : قرآن پڑھتا جا اور جنت کے درجات میں چڑھتا جا۔ اور ٹھہر ٹھہر کر پڑھ جیسا کہ تو دنیا میں ٹھہر ٹھہر کر پڑھتا تھا ۔ بیشک تیرا درجہ وہی ہے جہاں تو آخری آیت پر پہنچے۔

30680

(۳۰۶۸۱) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، حَدَّثَنَا شُعْبَۃُ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ ، عَن مُجَاہِدٍ ، قَالَ: یُقَالُ: اقْرَأْ وَارْقَہُ ، قَالَ: فَیُرْفَعُ لَہُ بِکُلِّ آیَۃٍ دَرَجَۃٌ وَیُزَادُ بِکُلِّ آیَۃٍ حَسَنَۃٌ۔
(٣٠٦٨١) حضرت عمرو بن مرہ فرماتے ہیں کہ حضرت مجاہد نے ارشاد فرمایا : حامل قرآن سے کہا جائے گا : قرآن پڑھتا جا اور جنت کے درجات پر چڑھتا جا، راوی فرماتے ہیں : پس ہر آیت کے بدلے ایک درجہ بلند کیا جائے گا : اور ہر آیت کے ساتھ مزید ایک نیکی بڑھائی جائے گی۔

30681

(۳۰۶۸۲) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَن مَنْصُورٍ ، عَنْ أَبِی الضُّحَی ، قَالَ: کَانَ الضَّحَّاکُ بْنُ قَیْسٍ یَقُولُ: یَا أَیُّہَا النَّاسُ عَلِّمُوا أَوْلادَکُمْ وَأَہَالِیکُمَ الْقُرْآنَ فَإِنَّہُ مَنْ کُتِبَ لَہُ مِنْ مُسْلِمٍ یُدْخِلُہُ اللَّہُ الْجَنَّۃَ أَتَاہُ مَلَکَانِ فَاکْتَنَفَاہُ فَقَالا لَہُ: إقرأ وَارْتَقِ فِی دَرَجِ الْجَنَّۃِ حَتَّی یَنْزِلانہِ حَیْثُ انْتَہَی عِلْمُہُ مِنَ الْقُرْآنِ۔
(٣٠٦٨٢) حضرت ابو الضحی فرماتے ہیں کہ حضرت ضحاک بن قیس فرمایا کرتے تھے، اے لوگو ! اپنے بچوں اور گھر والوں کو قرآن سکھاؤ۔ پس جس مسلمان کے نامہ اعمال میں اس کا ثواب لکھ دیا جاتا ہے تو یہ اس کو جنت میں داخل کرائے گا، دو فرشتے اس کے پاس آئیں گے پس اس کی حفاظت کریں گے، وہ دونوں اس سے کہیں گے : قرآن پڑھتا جا اور جنت کے درجوں میں چڑھتا جا۔ یہاں تک کہ وہ دونوں اس کو اتاریں گے اس جگہ جہاں اس کا قرآن کا علم مکمل ہوجائے گا۔

30682

(۳۰۶۸۳) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَن شُعْبَۃَ ، عَن قَتَادَۃَ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَنَسًا یَقُولُ: قَرَأَہُ مُعَاذٌ وَأُبَیُّ وَسَعْدٌ ، وَأَبُو زَیْدٍ ، قَالَ: قُلْتُ: مَنْ أَبُو زَیْدٍ قَالَ أَحَدُ عُمُومَتِی عَلَی عَہْدِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔ (بخاری ۳۸۱۰۔ مسلم ۱۹۱۴)
(٣٠٦٨٣) حضرت قتادہ فرماتے ہیں کہ حضرت انس نے ارشاد فرمایا : حضرت معاذ اور حضرت ابی ّ اور حضرت سعد اور حضرت ابو زید نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے قرآن پڑھا، قتادہ فرماتے ہیں ! میں نے پوچھا ! ابو زید کون تھے ؟ آپ نے فرمایا : نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں ایک عام انصاری صحابی تھے۔

30683

(۳۰۶۸۴) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ: قَرَؤُوا الْقُرْآنِ فِی عَہْدِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أُبَیٌّ وَمُعَاذٌ وَزَیْدٌ ، وَأَبُو زَیْدٍ ، وَأَبُو الدَّرْدَائِ وَسَعِیدُ بْنُ عُبَیْدٍ ، وَلَمْ یَقْرَأْہ أَحَدٌ مِنَ الْخُلَفَائِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِلاَّ عُثْمَانُ ، وَقَرَأَہُ مُجَمِّعُ ابْنُ جَارِیَۃَ إِلاَّ سُورَۃً ، أَوْ سُورَتَیْنِ۔ (ابن سعد ۳۵۵۔ طبرانی ۲۰۹۲)
(٣٠٦٨٤) حضرت اسماعیل فرماتے ہیں کہ امام شعبی نے ارشاد فرمایا : ان حضرات نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں قرآن پڑھا حضرت ابی ّ ، حضرت معاذ ، حضرت زید ، حضرت ابو زید ، حضرت ابو الدردائ ، اور حضرت سعید بن عبید وغیرہ، اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلفاء میں سے کسی نے بھی ان کے سامنے قرآن نہیں پڑھا سوائے حضرت عثمان کے۔ اور حضرت مجمع بن جاریہ نے بھی ایک یا دو سورتیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے پڑھیں۔

30684

(۳۰۶۸۵) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، عَن عَبْدِ اللہِ ، قَالَ: جَائَ مُعَاذٌ إِلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللہِ أَقْرِئْنِی ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: یا عبد اللہ أَقْرِئْہُ ، فَأَقْرَأْتہ مَا کَانَ مَعِی ، ثُمَّ اخْتَلَفْت أَنَا وَہُوَ إِلَی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَرَأَہُ مُعَاذٌ ، وَکَانَ مُعَلِّمًا مِنَ الْمُعَلِّمِینَ عَلَی عَہْدِ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔
(٣٠٦٨٥) حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ حضرت معاذ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس حاضر ہوئے اور فرمایا : اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! مجھے قرآن پڑھا دیجیے۔ پس رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے عبداللہ ! اس کو قرآن پڑھا دو ۔ پس جو مجھے یاد تھا میں نے ان کو پڑھا دیا، پھر میں اور وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس گئے، تو حضرت معاذ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے قرآن پڑھا۔ اور حضرت معاذ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں قرآن سکھانے والے معلمین میں سے ایک معلم تھے۔

30685

(۳۰۶۸۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن سُفْیَانَ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَن خمیر بْنِ مَالِکٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ: قرَأْت مِنْ فِی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سَبْعِینَ سُورَۃً وَإِنَّ زَیْدَ بْنَ ثَابِتٍ لَہُ ذُؤَابَتَانِ فِی الْکتابِ۔ (احمد ۳۸۹)
(٣٠٦٨٦) حضرت خمیر بن مالک فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود نے ارشاد فرمایا : میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے منہ مبارک سے ستر سورتیں سیکھی ہیں۔ اور بیشک زید بن ثابت کو لکھنے والوں میں دو نمایاں خصوصیتیں حاصل ہیں۔

30686

(۳۰۶۸۷) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ أَبِی بِشْرٍ ، عَن سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: جَمَعْت الْمُحْکَمَ عَلَی عَہْدِ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَعْنِی الْمُفَصَّلَ۔ (بخاری ۵۰۳۶۔ احمد ۳۳۷)
(٣٠٦٨٧) حضرت سعید بن جبیر فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عباس نے ارشاد فرمایا : میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں محکم آیات جمع کی تھیں۔ یعنی وہ آیات جو ظاہر و واضح ہیں ان میں کسی تاویل کی ضرورت نہیں۔

30687

(۳۰۶۸۸) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَن زَائِدَۃَ ، عَن ہِشَامٍ ، عَن مُحَمَّدٍ ، قَالَ: کَانَ أَصْحَابُنَا لاَ یَخْتَلِفُونَ ، أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قُبِضَ وَلَمْ یَقْرَأَ الْقُرْآنَ مِنْ أَصْحَابِہِ إِلاَّ أَرْبَعَۃٌ کُلُّہُمْ مِنَ الأَنْصَارِ: مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ وَأُبَیُّ بْنُ کَعْبٍ وَزَیْدٌ ، وَأَبُو زَیْدٍ۔
(٣٠٦٨٨) حضرت ہشام فرماتے ہیں کہ حضرت محمد نے ارشاد فرمایا : ہمارے ساتھی اس بات میں اختلاف نہیں کرتے تھے کہ بیشک رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وصال فرما گئے اس حال میں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب میں سے صرف چار نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے قرآن پڑھا۔ اور وہ سب انصار میں سے تھے۔ حضرت معاذ بن جبل ، حضرت ابی ّ بن کعب ، حضرت زید اور حضرت ابو زید ۔

30688

(۳۰۶۸۹) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَن حَجَّاجٍ ، عَنْ عَطِیَّۃَ ، عَنْ أَبِی سَعِیدٍ فِی قول اللہ تعالی (قُلْ بِفَضْلِ اللہِ وَبِرَحْمَتِہِ فَبِذَلِکَ فَلْیَفْرَحُوا) قَالَ: (بِفَضْلِ اللہِ) الْقُرْآنُ ، (وَبِرَحْمَتِہِ) أَنْ جُعِلْتُمْ مِنْ أَہْلِہِ ۔
(٣٠٦٨٩) حضرت عطیہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابو سعید نے اللہ کے قول ( کہو یہ اللہ کے فضل سے اور اس کی رحمت سے ہے سوا س پر ان کو خوش ہونا چاہیے) کے بارے میں ارشاد فرمایا : اللہ کے فضل سے مراد قرآن ہے، اور اس کی رحمت سے مراد : یہ کہ تمہیں قرآن کا اھل بنادیا جائے۔

30689

(۳۰۶۹۰) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَن مَنْصُورٍ ، عَن ہِلالٍ ، عَن مَنْصُورٍ ، عَن ہِلالِ بْنِ یَِسَافٍ فِی قَوْلِہِ: {قُلْ بِفَضْلِ اللہِ وَبِرَحْمَتِہِ فَبِذَلِکَ فَلْیَفْرَحُوا ہُوَ خَیْرٌ مِمَّا یَجْمَعُونَ}۔قَالَ: کِتَابُ اللہِ وَالإِسْلامُ ہُوَ خَیْرٌ مِمَّا یَجْمَعُونَ۔
(٣٠٦٩٠) حضرت منصور فرماتے ہیں کہ اللہ کے اس قول ( کہو یہ اللہ کے فضل سے اور اس کی رحمت سے ہے سو اس پر ان کو خوش ہونا چاہیے۔ یہ بہتر ہے ان سب چیزوں سے جو وہ جمع کر رہے ہیں) ۔ حضرت ھلال بن یساف نے ارشاد فرمایا : کتا باللہ اور اسلام بہتر ہیں ان چیزوں سے جو وہ جمع کر رہے ہیں۔

30690

(۳۰۶۹۱) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَن حَجَّاجٍ ، عَنْ عَطِیَّۃَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ فِی قَوْلِ اللہِ قُلْ بِفَضْلِ اللہِ وَبِرَحْمَتِہِ ، قَالَ: بِفَضْلِ اللہِ: الإِسْلامُ ، وَبِرَحْمَتِہِ: أَنْ جَعَلَکُمْ مِنْ أَہْلِ الْقُرْآنِ۔
(٣٠٦٩١) حضرت عطیہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے قول : (کہو یہ اللہ کے فضل اور اس کی رحمت سے ہے) کے بارے میں حضرت ابن عباس نے ارشاد فرمایا : اللہ کے فضل سے مراد اسلام، اور اس کی رحمت سے مراد یہ ہے کہ تمہیں قرآن کا اھل بنادیا جائے۔

30691

(۳۰۶۹۲) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَن حَجَّاجٍ ، عَنِ الْقَاسِمِ ، عَن مُجَاہِدٍ ، قَالَ: الْقُرْآنُ۔
(٣٠٦٩٢) حضرت قاسم فرماتے ہیں کہ حضرت مجاہد نے ارشاد فرمایا : فضل سے مراد قرآن ہے۔

30692

(۳۰۶۹۳) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ قَیْسٍ، عَن مَنْصُورٍ، عَن سَالِمٍ، قَالَ: بِفَضْلِ اللہِ وَبِرَحْمَتِہِ الإِسْلامُ وَالْقُرْآنُ۔
(٣٠٦٩٣) حضرت منصور فرماتے ہیں کہ حضرت سالم نے ارشاد فرمایا : آیت : کہو یہ اللہ کے فضل اور اس کی رحمت سے ہے ! سے مراد اسلام اور قرآن ہیں۔

30693

(۳۰۶۹۴) حَدَّثَنَا شَبَابَۃُ بْنُ سَوَّارٍ ، قَالَ: حدَّثَنَا شُعْبَۃُ ، عَنْ عَلْقَمَۃَ بْنِ مَرْثَدٍ ، قَالَ ، عَن سَعْدِ بْنِ عُبَیْدَۃَ ، عَنْ أَبِی عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَن عُثْمَانَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: خِیَارُکُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَعَلَّمَہُ۔ (بخاری ۵۰۲۷۔ ابوداؤد ۱۴۴۷)
(٣٠٦٩٤) حضرت عثمان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : تم میں سے بہترین شخص وہ ہے جو قرآن سیکھے اور سکھائے۔

30694

(۳۰۶۹۵) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ إِسْحَاقَ ، عَنْ عَبْدِ الْوَاحِدِ بْنِ زِیَادٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ إِسْحَاقَ ، عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ عَلِیٍّ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: خِیَارُکُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَعَلَّمَہُ۔ (ترمذی ۲۹۰۹۔ دارمی ۳۳۳۷)
(٣٠٦٩٥) حضرت علی فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : تم میں سے بہترین شخص وہ ہے جو قرآن سیکھے اور سکھائے۔

30695

(۳۰۶۹۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ قَالَ: حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ ، عَنْ أَبِی صَالِحٍ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: أَیُحِبُّ أَحَدُکُمْ إذَا رَجَعَ إِلَی أَہْلِہِ أَنْ یَجِدَ فِیہِ ثَلاثَ خَلِفَاتٍ عِظَامٍ سِمَانٍ ، قَالَ: قُلْنَا: نَعَمْ ، قَالَ: فثلاث آیَاتٍ یَقْرَأُ بِہِنَّ أَحَدُکُمْ فِی صَلاتِہِ خَیْرٌ لَہُ مِنْ ثَلاثِ خَلِفَاتٍ سِمَانٍ عِظَامٍ۔ (مسلم ۵۵۲۔ احمد ۴۶۶)
(٣٠٦٩٦) حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : کیا تم میں سے کوئی پسند کرتا ہے کہ جب وہ اپنے گھر لوٹے تو تین موٹی اور بڑی حاملہ اونٹنیوں کو پائے ؟ ابوہریرہ فرماتے ہیں ! ہم سب نے کہا : جی ہاں ! آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم میں سے کوئی ایک اپنی نماز میں تین آیات کی تلاوت کرے تو یہ اس کے لیے تین موٹی اور بڑی حاملہ اونٹنیوں سے بہتر ہیں۔

30696

(۳۰۶۹۷) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، قَالَ: حدَّثَنَا مُوسَی بْنُ عُلَیٍّ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبِی یُحَدِّثُ ، عَن عُقْبَۃَ بْنِ عَامِرٍ ، قَالَ: خَرَجَ إلَیْنَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ فِی الصُّفَّۃِ فَقَالَ: أَیُّکُمْ یُحِبُّ أَنْ یَغْدُوَ کُلَّ یَوْمٍ إِلَی بطْحَانَ ، أَو الْعَقِیقِ فَیَأْتِیَ مِنْہُ بِنَاقَتَیْنِ کَوْمَاوَیْنِ فِی غَیْرِ إِثْمَ وَلا قَطِیعَۃِ رَحِمٍ قُلْنَا: یَا رَسُولَ اللہِ ، کُلُّنَا نُحِبُّ ذَلِکَ ، قَالَ: فَلأَنْ یَغْدُو أَحَدُکُمْ إِلَی الْمَسْجِدِ فَیُعَلِّمُ ، أَوْ یَقْرَأُ آیَتَیْنِ مِنْ کِتَابِ اللہِ خَیْرٌ لَہُ مِنْ نَاقَتَیْنِ وَثَلاثٍ خَیْرٌ لَہُ مِنْ ثلاث ، وَأَرْبَعٌ خَیْرٌ لَہُ مِنْ أَرْبَعٍ وَمِثْل أَعْدَادِہِنَّ مِنَ الإِبِلِ۔ (ابوداؤد ۱۴۵۱۔ احمد ۱۵۴)
(٣٠٦٩٧) حضرت عقبہ بن عامر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے پاس تشریف لائے اس حال میں کہ ہم لوگ صفہ میں تھے : آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم میں سے کون شخص اس بات کو پسند کرتا ہے کہ وہ صبح سویرے بطحان یا عقیق کے مقام پر جائے اور دو اونٹنیاں اعلی سے اعلی بغیر کسی قسم کے گناہ اور قطع رحمی کے پکڑ لائے۔ صحابہ نے عرض کیا، اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! اس کو تو ہم سب پسند کرتے ہیں، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : مسجد میں جا کردو آیتوں کا پڑھنا یا پڑھا دینا دو اونٹنیوں سے اور تین آیات کا تین اونٹنیوں سے۔ اسی طرح چار آیات کا چار اونٹنیوں سے افضل ہے۔ اور ان کے برابر اونٹوں سے افضل ہے۔

30697

(۳۰۶۹۸) حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا إسْرَائِیلُ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِی الأَحْوَصِ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ: لَوْ جُعِلَ لأَحَدٍ خَمْسُ قَلائِصَ إِنْ صَلَّی الْغَدَاۃَ بالقریۃ لَبَاتَ یَقُولُ لأَہْلِہِ: لَقَدْ أَنَی لِی أَنْ أَنْطَلِقَ ، وَاللہ لأَنْ یَقْعُدُ أَحَدُکُمْ فَیَتَعَلَّمُ خَمْسَ آیَاتٍ مِنْ کِتَابِ اللہِ فَلَہُنَّ خَیْرٌ لَہُ مِنْ خَمْسِ قَلائِصَ وَخَمْسِ قَلائِصَ۔
(٣٠٦٩٨) حضرت ابو الاحوص فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود نے ارشاد فرمایا : اگر تم میں سے ہر کسی کے لیے پانچ جوان اونٹوں کو مقرر کردیا جائے اس صورت میں کہ وہ صبح کی نماز اپنے ٹھکانے پر پڑھے، تو وہ ضرور گھر والوں کو کہے گا کہ اب کہاں ممکن ہے میرے لیے چلنا : اللہ کی قسم ! تم میں سے ہر کوئی بیٹھ کر کتاب اللہ کی پانچ آیات سیکھے تو یہ اس کے حق میں پانچ جوان اونٹوں اور اونٹنیوں سے افضل ہے۔

30698

(۳۰۶۹۹) حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا إسْرَائِیلُ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِی عُبَیْدَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ: کَانَ یُقْرِیء الْقُرْآنَ فَیَمُرُّ بِالآیَۃِ فَیَقُولُ لِلرَّجُلِ: خُذْہَا فَوَاللہ لَہِیَ خَیْرٌ مِمَّا عَلَی الأَرْضِ مِنْ شَیْئٍ ، قَالَ: فَیَرَی الرَّجُلُ أَنَّمَا یَعْنِی تِلْکَ الآیَۃَ حَتَّی یَفْعَلَہُ بِالْقَوْمِ کُلِّہِمْ۔ (عبدالرزاق ۵۹۹۲)
(٣٠٦٩٩) حضرت ابو عبیدہ فرماتے ہیں کہ ان کے والد حضرت عبداللہ بن مسعود قرآن پڑھا رہے تھے کہ ایک آیت پر سے گزرے تو ایک آدمی کو کہنے لگے : اس آیت کو پکڑ لو۔ اللہ کی قسم : یہ آیت زمین پر موجود تمام چیزوں سے افضل ہے۔ پس وہ آدمی سمجھا صرف یہی آیت مراد ہے، یہاں تک کہ اس نے سب لوگوں کو ایسے ہی بتایا۔

30699

(۳۰۷۰۰) حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إسْمَاعِیلَ ، عَنْ جَعْفَرٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ جَابِرٍ ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ: تَرَکْت فِیکُمْ مَا لن تَضِلُّوا بَعْدَہُ إنِ اعْتَصَمْتُمْ بِہِ کِتَابُ اللہِ۔
(٣٠٧٠٠) حضرت جابر فرماتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : میں تمہارے درمیان وہ چیز چھوڑ کر جا رہا ہوں اگر تم اس کو مضبوطی سے پکڑ لو گے تو کبھی بھی گمراہ نہیں ہو گے : وہ کتاب اللہ ہے۔

30700

(۳۰۷۰۱) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ: حدَّثَنَا حَسَّانُ بْنُ إبْرَاہِیمَ ، عَن سَعِیدِ بْنِ مَسْرُوقٍ ، عَن یَزِید بْنِ حَیَّان ، عَن زَیْدِ بْنِ أَرْقَمَ ، قَالَ: دَخَلْنَا عَلَیْہِ فَقُلْنَا لَہُ قَدْ رَأَیْت خَیْرًا ، صَحِبْت رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَصَلَّیْت خَلْفَہُ، فَقَالَ: نَعَمْ ، وَإِنَّہُ خَطَبَنَا فَقَالَ: إنِّی تَارِکٌ فِیکُمْ کِتَابَ اللہِ ہُوَ حَبْلُ اللہِ ، مَنِ اتَّبَعَہُ کَانَ عَلَی الْہُدَی وَمَنْ تَرَکَہُ کَانَ عَلَی الضَّلالَۃِ۔ (مسلم ۱۸۷۴۔ احمد ۳۶۶)
(٣٠٧٠١) حضرت یزید بن حبان فرماتے ہیں کہ ہم لوگ حضرت زید بن ارقم کے پاس حاضر خدمت ہوئے تو ہم نے ان سے کہا : تحقیق آپ نے خیر کو دیکھا، آپ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صحبت پائی، اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیچھے نماز پڑھی تو آپ نے فرمایا : جی ہاں ! بیشک آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہم کو خطاب کیا اور فرمایا : میں تمہارے درمیان کتاب اللہ چھوڑے جار ہا ہوں۔ یہ اللہ کی رسی ہے جو اس کی پیروی کرے گا وہ ہدایت پر ہوگا، اور جو شخص اس کو چھوڑے گا وہ گمراہی پر ہوگا۔

30701

(۳۰۷۰۲) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا جَرِیرٌ ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ شُرَحْبِیلَ الْجبلانِیُّ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا أُمَامَۃَ یَقُولُ: اقَرَؤُوا الْقُرْآنَ وَلا تَغُرَّنَّکُمْ ہَذِہِ الْمَصَاحِفُ الْمُعَلَّقَۃُ فَإِنَّ اللَّہَ لَمْ یُعَذِّبْ قَلْبًا وَعَی الْقُرْآنَ۔
(٣٠٧٠٢) حضرت سلیمان بن شرحبیل فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابو امامہ کو یوں فرماتے ہوئے سنا ہے کہ قرآن پڑھو۔ یہ لٹکائے ہوئے مصاحف تمہیں ہرگز دھوکا میں مت ڈالیں۔ اس لیے کہ اللہ ہرگز اس دل کو عذاب نہیں دیں گے جس نے قرآن کو محفوظ کیا ہو۔

30702

(۳۰۷۰۳) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَیْدٍ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، عَن عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ یَزِیدَ ، قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللہِ: مَنْ قَرَأَ الْقُرْآنَ فَلْیُبْشِرْ۔
(٣٠٧٠٣) حضرت عبد الرحمن بن یزید فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود نے ارشاد فرمایا : جو قرآن پڑھ لے پس اس کو چاہیے کہ وہ خوش ہوجائے۔

30703

(۳۰۷۰۴) حَدَّثَنَا محمد بن بشر حَدَّثَنَا زَکَرِیَّا ، قَالَ: حدَّثَنِی عَطِیَّۃُ ، عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ: إنِّی تَارِکٌ فِیکُمَ الثَّقَلَیْنِ ، أَحَدُہُمَا أَکْبَرُ مِنَ الآخَرِ کِتَابُ اللہِ حَبْلٌ مَمْدُودٌ مِنَ السَّمَائِ إِلَی الأَرْضِ۔ (احمد ۱۴۔ ترذی ۳۷۸۸)
(٣٠٧٠٤) حضرت ابو سعید خدری فرماتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : میں تم میں دو عظیم الشان چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں ، ان دونوں میں سے ایک دوسری سے بڑی ہے : کتاب اللہ وہ رسی ہے جو آسمان سے لے کر زمین تک دراز ہے۔

30704

(۳۰۷۰۵) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ حُبَابٍ ، عَن مُوسَی بْنِ عُبَیْدَۃَ ، قَالَ: أَخْبَرَنِی مُحَمَّدُ بْنُ إبْرَاہِیمَ بْنِ الْحَارِثِ ، عَن یُحَنَّسَ أَبِی مُوسَی ، عَن رَاشِدِ بْنِ سَعْدٍ أَخٍ لأُمِّ الدَّرْدَائِ عَنْ أَبِی الدَّرْدَائِ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: مَنْ قَرَأَ مِئَۃ آیَۃٍ فِی لَیْلَۃٍ لَمْ یُکْتَبْ مِنَ الْغَافِلِینَ ، وَمَنْ قَرَأَ بِمِئَتَیْ آیَۃٍ کُتِبَ مِنَ الْقَانِتِینَ وَمَنْ قَرَأَ خَمْسَمِئَۃِ آیَۃٍ إِلَی أَلْفِ آیَۃٍ أَصْبَحَ لَہُ قِنْطَارٌ مِنَ الأَجْرِ وَالْقِیرَاطُ منہ مِثْلُ التَّلِّ الْعَظِیمِ۔ (عبد بن حمید ۲۰۰)
(٣٠٧٠٥) حضرت ابو الدردائ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جو شخص رات میں قرآن کی سو آیات کی تلاوت کرتا ہے تو وہ غافلین میں نہیں لکھا جائے گا، اور جو شخص دو سو آیات کی تلاوت کرے تو وہ فرمان برداروں میں لکھا جائے گا، اور جو شخص پانچ سو آیات سے لے کر ہزار آیات تک تلاوت کرے گا تو وہ اس حال میں صبح کرے گا کہ اس کے نامہ اعمال میں بہت زیادہ اجر لکھ دیا جائے گا۔ جس کا ایک قیراط بہت بڑے ٹیلہ کی مثل ہوگا۔

30705

(۳۰۷۰۶) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَن شُعْبَۃَ ، عَن مَنْصُورٍ ، عَن سَالِمِ بْنِ أَبِی الْجَعْدِ ، عَن مُعَاذٍ ، أَنَّہُ قَالَ: مَنْ قَرَأَ فِی لَیْلَۃٍ بثَلاثِ مِئَۃ آیَۃٍ کُتِبَ مِنَ الْقَانِتِینَ ، وَمَنْ قَرَأَ بِأَلْفِ آیَۃٍ کَانَ لَہُ قِنْطَاران الْقِیرَاطَ مِنْہُ أَفْضَلُ مِمَّا عَلَی الأَرْضِ مِنْ شَیْئٍ۔
(٣٠٧٠٦) حضرت سالم بن ابی الجعد فرماتے ہیں کہ حضرت معاذ نے ارشاد فرمایا : جو شخص رات میں تین سو آیات پڑھے تو وہ شخص فرمان برداروں میں لکھ دیا جائے گا، اور جو شخص ایک ہزار آیات پڑھے تو اس کے لیے دو اجر کے ڈھیر ہوں گے، جس کا ایک قیراط زمین پر موجود ہر چیز سے افضل و بڑا ہے۔

30706

(۳۰۷۰۷) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِِ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَن مُجَاہِدٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ ضَمْرَۃَ ، عَن کَعْبٍ ، قَالَ: مَنْ قَرَأَ فِی لَیْلَۃٍ مِئَۃ آیَۃٍ کُتِبَ مِنَ الْقَانِتِینَ۔
(٣٠٧٠٧) حضرت عبداللہ بن ضمرہ فرماتے ہیں کہ حضرت کعب نے ارشاد فرمایا : جو شخص رات میں سو آیات پڑھے تو وہ فرمان برداروں میں لکھ دیا جاتا ہے۔

30707

(۳۰۷۰۸) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، قَالَ: حدَّثَنَا مِسْعَرٌ ، عَنْ عَدِیِّ بْنِ ثَابِتٍ ، عَنْ أَبِی حَازِمٍ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ: مَنْ قَرَأَ مِئَۃ آیَۃٍ فِی لَیْلَۃٍ لَمْ یُکْتَبْ مِنَ الْغَافِلِینَ ، وَمَنْ قَرَأَ مِئَتَیْنِ کُتِبَ مِنَ الْقَانِتِینَ۔ (ابن خزیمۃ ۱۱۴۳۔ حاکم ۳۰۸)
(٣٠٧٠٨) حضرت ابو حازم فرماتے ہیں کہ حضرت ابوہریرہ نے ارشاد فرمایا : جو شخص رات میں سو آیات پڑھتا ہے تو غافلین میں اس کا شمار نہیں ہوتا ، اور جو شخص دو سو آیات پڑھتا ہے تو وہ فرمان برداروں میں لکھ دیا جاتا ہے۔

30708

(۳۰۷۰۹) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، عَن فِطْرٍ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِی الأَحْوَصِ ، عَنْ عبْدِ اللہِ ، قَالَ: مَنْ قَرَأَ فِی لَیْلَۃٍ خَمْسِینَ آیَۃً لَمْ یُکْتَبْ مِنَ الْغَافِلِینَ ، وَمَنْ قَرَأَ مِئَۃ آیَۃٍ کُتِبَ مِنَ الْقَانِتِینَ ، وَمَنْ قَرَأَ ثَلاثُ مِئَۃ آیَۃٍ کُتِبَ لَہُ قِنْطَارٌ ، وَمَنْ قَرَأَ تِسْعَ مِئَۃِ آیَۃٍ فُتِحَ لَہُ۔ (دارمی ۳۴۴۶)
(٣٠٧٠٩) حضرت ابو الاحوص فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود نے ارشاد فرمایا؛ جو شخص رات میں پچاس آیات پڑھے تو وہ غافلین میں شمار نہیں ہوتا۔ اور جو شخص سو آیات پڑھے تو وہ فرمان برداروں میں سے لکھ دیا جاتا ہے، اور جو شخص تین سو آیات پڑھے تو اس کے لیے اجر کا ایک ڈھیر لکھ دیا جاتا ہے۔ اور جو شخص سات سو آیات پڑھے تو اس کے لیے جنت کا دروازہ کھول دیا جائے گا۔

30709

(۳۰۷۱۰) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَن زَائِدَۃَ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ أَبِی صَالِحٍ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ: مَنْ قَرَأَ فِی لَیْلَۃٍ بِمِئَۃِ آیَۃٍ لَمْ یُکْتَبْ مِنَ الْغَافِلِینَ ، وَمَنْ قَرَأَ بِمِئَتَیْ آیَۃٍ کُتِبَ مِنَ الْقَانِتِینَ۔
(٣٠٧١٠) حضرت ابو صالح فرماتے ہیں کہ حضرت ابوہریرہ نے ارشاد فرمایا : جو شخص رات میں سو آیات پڑھے تو وہ غافلین میں سے شمار نہیں ہوگا اور جو شخص دو سو آیات پڑھے تو وہ فرمان برداروں میں سے لکھ دیا جاتا ہے۔

30710

(۳۰۷۱۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنِ الْجَدَلِی عن ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ: مَنْ قَرَأَ بِعَشْرِ آیَاتٍ فِی لَیْلَۃٍ لَمْ یُکْتَبْ مِنَ الْغَافِلِینَ۔ (ابوداؤد ۱۳۹۳۔ ابن حبان ۲۵۷۲)
(٣٠٧١١) حضرت جدلی فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عمر نے ارشاد فرمایا : جو شخص رات میں دس آیات کی تلاوت کرے تو وہ غافلین میں شمار نہیں ہوگا۔

30711

(۳۰۷۱۲) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَن زَائِدَۃَ ، عَن مَنْصُورٍ ، قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللہِ: لَوْ أَنَّ رَجُلاً بَاتَ یَحْمِلُ عَلَی الْجِیَادِ فِی سَبِیلِ اللہِ وَبَاتَ رَجُلٌ یَتْلُو کِتَابَ اللہِ لَکَانَ ذَاکِرُ اللہِ أَفْضَلَہُمَا قَالَ: وَقَالَ عَبْدُ اللہِ بْنُ عَمْرو: لَوْ بَاتَ رَجُلٌ یُنْفِقُ دِینَارًا دِینَارًا وَدِرْہَمًا دِرْہَمًا وَیَحْمِلُ عَلَی الْجِیَادِ فِی سَبِیلِ اللہِ حَتَّی یُصْبِحَ مُتَقَبَّلاً مِنْہُ، وَبِتُّ أَتْلُو کِتَابَ اللہِ حَتَّی أُصْبِحَ مُتَقَبَّلاً مِنِّی لَمْ أُحِبَّ ، أَنَّ لِی عَمَلَہُ بِعَمَلِی۔
(٣٠٧١٢) حضرت منصور فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود نے ارشاد فرمایا : اگر ایک آدمی رات گزارے اللہ کے راستہ میں گھوڑے پر سوار ہو کر اور ایک آدمی رات گزارتا ہے کتاب اللہ کی تلاوت کرتے ہوئے تو ان دونوں میں سے افضل اللہ کا ذکر کرنے والا ہوگا۔
راوی کہتے ہیں : حضرت عبداللہ بن عمرو نے بھی فرمایا : اگر کوئی شخص رات گزارے اس حال میں کہ وہ اتنے اور اتنے دینار خرچ کرے اور اتنے اور اتنے درھم خرچ کرے، اور وہ اللہ کے راستہ میں گھوڑے پر سوار ہو یہاں تک کہ صبح کرے اس حال میں کہ اس کا یہ عمل قبول کرلیا گاو ہو۔ اور میں رات گزاروں کتاب اللہ کی تلاوت کرتے ہوئے یہاں تک کہ صبح کروں اس حال میں کہ میرے اس عمل کو قبول کرلیا گیا ہو۔ میں پسند نہیں کرتا کہ مجھے اپنے عمل کے بدلے اس کے عمل کا ثواب مل جائے۔

30712

(۳۰۷۱۳) حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ مُعَاذٍ ، قَالَ: حدَّثَنَا التَّیْمِیُّ ، عَنْ أَبِی عُثْمَانَ ، عَن سَلْمَانَ ، قَالَ: لَوْ بَاتَ رَجُلٌ یُعْطِی الْقیَانِ الْبِیضَ وَبَاتَ آخَرُ یَقْرَأُ الْقُرْآنَ وَیَذْکُرُ اللَّہَ لَرَأَیْت ، أَنَّ ذَاکِرَ اللہِ أَفْضَلُ۔
(٣٠٧١٣) حضرت ابو عثمان فرماتے ہیں کہ حضرت سلمان نے ارشاد فرمایا : اگر ایک شخص رات گزارے اس حال میں کہ وہ غلام اور باندیاں عطا کرتا ہو : اور دوسرا رات گزارے اس حال میں کہ وہ قرآن پڑھتا ہو اور اللہ کا ذکر کرتا ہو میرے خیال میں اللہ کا ذکر کرنے والاسب سے افضل ہوگا۔

30713

(۳۰۷۱۴) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَن شَقِیقٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ: قرَائَۃُ الْقُرْآنِ أَحَبُّ إلَیَّ مِنَ الصَّوْمِ۔
(٣٠٧١٤) حضرت شقیق فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود نے ارشاد فرمایا : قرآن کا پڑھنا میرے لیے روزہ رکھنے سے زیادہ پسندیدہ ہے۔

30714

(۳۰۷۱۵) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِیٍّ ، عَن شَقِیقٍ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِی رَزِینٍ ، قَالَ: قَالَ رَجُلٌ لِحَبَّۃَ بْنِ سَلَمَۃَ ،وَکَانَ مِنْ أَصْحَابِ عَبْدِ اللہِ: قَرَأْت الْقُرْآنَ کُلَّہُ: قَالَ: وَمَا أَدْرَکْت مِنْہُ۔
(٣٠٧١٥) حضرت ابو رزین فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے حضرت حبہ بن سلمہ سے کہا جو حضرت عبداللہ بن مسعود کے اصحاب میں سے ہیں۔ میں نے سارا قرآن پڑھ لیا : آپ نے فرمایا : تو نے قرآن میں کیا سمجھا ؟ !

30715

(۳۰۷۱۶) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ: حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَیْدٍ ، قَالَ حَدَّثَنَا أَیُّوبُ ، عَن نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، أَنَّہُ کَانَ یَکْرَہُ أَنْ یَقُولَ: قَرَأْت الْقُرْآنَ کُلَّہُ۔
(٣٠٧١٦) حضرت نافع فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عمر یوں کہنا ناپسند کرتے تھے : کہ میں نے سارا قرآن پڑھ لیا۔

30716

(۳۰۷۱۷) حَدَّثَنَا ابْنُ مَہْدِیٍّ ، عَن سُفْیَانَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ سَلِمَۃَ ، قَالَ: قَالَ حُذَیْفَۃُ: مَا تَقْرَؤُونَ رُبُعَہَا یَعْنِی بَرَائَۃَ۔
(٣٠٧١٧) حضرت عبداللہ بن سلمہ فرماتے ہیں کہ حضرت حذیفہ نے ارشاد فرمایا : تم نے اس کا چوتھائی حصہ بھی نہیں پڑھا۔ یعنی برأت کر رہے تھے۔

30717

(۳۰۷۱۸) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَن عُبَیْدِ اللہِ ، عَن نَافِعٍ ، أن ابْنِ عُمَرَ کَرِہَ أَنْ یَقُولَ: الْمُفَصَّلُ ، وَیَقُولُ: الْقُرْآنُ کُلُّہُ مُفَصَّلٌ ، وَلَکِنْ قُولُوا: قِصَارُ الْقُرْآنِ۔
(٣٠٧١٨) حضرت نافع فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عمر ناپسند کرتے تھے : قرآن کی سورتوں کو مفصل کہنا : اور فرماتے تھے : قرآن مجید سارا مفصل و واضح ہے۔ لیکن تم یوں کہا کرو قرآن کی چھوٹی سورتیں۔

30718

(۳۰۷۱۹) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ عُمَر بْنِ حَمْزَۃَ ، عَن سَالِمٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ: سَأَلَنِی عُمَرُ ، کَمْ مَعَک مِنَ الْقُرْآنِ ؟ قُلْتُ: عَشْرُ سُوَرٍ ، فَقَالَ لِعُبَیْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ: کَمْ مَعَک مِنَ الْقُرْآنِ ؟ قَالَ: سُورَۃٌ ، قَالَ عَبْدُ اللہِ: فَلَمْ یَنْہَنَا وَلَمْ یَأْمُرْنَا غَیْرَ ، أَنَّہُ قَالَ: فَإِنْ کُنْتُمْ مُتَعَلِّمِینَ مِنْہُ بِشَیْئٍ فَعَلَیْکُمْ بِہَذَا الْمُفَصَّلِ فَإِنَّہُ أَحْفَظُ۔
(٣٠٧١٩) حضرت سالم فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عمر نے ارشاد فرمایا : مجھ سے حضرت عمر نے پوچھا : تمہیں کتنا قرآن یاد ہے ؟ میں نے کہا : ایک سورت، حضرت عبداللہ فرماتے ہیں : پھر نہ انھوں نے ہمیں کسی کام کا حکم دیا اور نہ ہی کسی کام سے منع کیا سوائے اس بات کے کہ انھوں نے کہا : پس اگر تم قرآن میں سے کچھ سیکھو تو تم پر یہ مفصل سورتیں لازم ہیں۔ اس لیے کہ یہ زیادہ محفوظ رہتی ہیں۔

30719

(۳۰۷۲۰) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنِ ابْنِ سیرین قَالَ: لاَ تقل سورۃ قصیرۃ ، ولا سورۃ خفیفۃ ، قَالَ فکیف أقول ؟ قَالَ: سورۃ یسیرۃ ؛ فإن اللہ تبارک وتعالی قَالَ: {وَلَقَدْ یَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّکْرِ فَہَلْ مِن مُّدَّکِرٍ} ولا تقل خفیفۃ ؛ فإن اللہ قَالَ {سَنُلْقِی عَلَیْکَ قَوْلاً ثَقِیلاً}۔
(٣٠٧٢٠) حضرت عاصم فرماتے ہیں کہ حضرت ابن سیرین نے ارشاد فرمایا : تم یوں مت کہو : چھوٹی سورت اور نہ ہی یوں کہو : ہلکی سورت۔ راوی کہتے ہیں : میں نے پوچھا : پھر میں کیسے کہوں ؟ آپ نے فرمایا : ایسے کہو ! آسان سورت۔ اس لیے کہ اللہ نے ارشاد فرمایا : اور بلاشبہ ہم نے آسان بنادیا اس قرآن کو نصیحت کے لیے، سو کیا ہے کوئی نصیحت قبول کرنے والا ؟ اور ایسے بھی مت کہو ؟ ہلکی سورت : اس لیے کہ اللہ نے فرمایا ہے : ہم نازل کرنے والے ہیں تم پر ایک بھاری کلام۔

30720

(۳۰۷۲۱) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ أَبِی الْعَالِیَۃِ ذَکَرَ نَحْوَہُ إِلاَّ أَنَّہُ خَالَفَہُ فِی بَعْضِ الْکَلامِ۔
(٣٠٧٢١) حضرت عاصم فرماتے ہیں کہ حضرت ابو العالیہ نے بھی ما قبل جیسا مضمون ذکر کیا، مگر یہ کہ کلام میں کچھ اختلاف کیا ہے۔

30721

(۳۰۷۲۲) حَدَّثَنَا عَبِیدَۃُ بْنُ حُمَیْدٍ ، عَن مَنْصُورٍ ، عَن ہِلالِ بْنِ یَِسَافٍ عَن فَرْوَۃَ بْنِ نَوْفَلٍ ، قَالَ: قَالَ خَبَّابُ بْنُ الأَرَتِّ وَأَقْبَلْت مَعَہُ مِنَ الْمَسْجِدِ إِلَی مَنْزِلِہِ فَقَالَ لِی: إنِ اسْتَطَعْت أَنْ تَقَرَّبَ إِلَی اللہِ فَإِنَّک لاَ تَقَرَّبُ إلَیْہِ بِشَیْئٍ أَحَبَّ إلَیْہِ مِنْ کَلامِہِ۔
(٣٠٧٢٢) حضرت فروہ بن نوفل فرماتے ہیں کہ حضرت خباب بن الأرت نے ارشاد فرمایا : اس حال میں کہ میں ان کے ساتھ مسجد سے ان کے گھر کی طرف جا رہا تھا ۔ پس مجھ سے کہا : اگر تو طاقت رکھتا ہے تو تو اللہ کا قرب حاصل کر۔ کیونکہ تو اس کا قرب حاصل نہیں کرسکتا اس کے پسندیدہ کلام کے علاوہ کسی اور چیز سے۔

30722

(۳۰۷۲۳) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا ابْنُ عَوْنٍ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ ، قَالَ: سَأَلْتُ عَبِیدَۃَ ، عَن آیَۃٍ فِی کِتَابِ اللہِ ؟ فَقَالَ: عَلَیْک بِتَقْوَی اللہِ وَالسَّدَادِ ، فَقَدْ ذَہَبَ الَّذِینَ کَانُوا یَعْلَمُونَ فِیمَ أُنْزِلَ الْقُرْآنُ۔
(٣٠٧٢٣) حضرت ابن سیرین فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عبیدہ سے کتاب اللہ کی ایک آیت کے متعلق پوچھا ؟ تو آپ نے فرمایا : تجھ پر لازم ہے اللہ سے ڈرنا اور راست روی، بلاشبہ چلے گئے وہ لوگ جو جانتے تھے کہ کس بارے میں قرآن نازل ہوا۔

30723

(۳۰۷۲۴) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَن شُعْبَۃَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ ، قَالَ: سَأَلَ رَجُلٌ سَعِیدَ بْنَ الْمُسَیَّبِ ، عَن آیَۃٍ مِنَ الْقُرْآنِ فَقَالَ: لاَ تَسْأَلْنِی عَنِ الْقُرْآنِ ، وَسَلْ عَنْہُ مَنْ یَزْعُمُ ، أَنَّہُ لاَ یَخْفَی عَلَیْہِ مِنْہُ شَیْئٌ یَعْنِی عِکْرِمَۃَ۔
(٣٠٧٢٤) حضرت عمرو بن مرہ فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے حضرت سعید بن المسیب سے قرآن کی ایک آیت کے متعلق سوال کیا ؟ تو آپ نے فرمایا : مجھ سے قرآن کے بارے میں سوال نہ کرو بلکہ اس سے پوچھو جو دعویٰ کرتا ہے کہ اس پر قرآن کی کوئی چیز مخفی نہیں ہے۔ یعنی حضرت عکرمہ سے۔

30724

(۳۰۷۲۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ عَبْدِ الأَعْلَی ، عَن سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: مَنْ قَالَ فِی الْقُرْآنِ بِغَیْرِ عِلْمٍ فَلْیَتَبَوَّأْ مَقْعَدَہُ مِنَ النَّارِ۔
(٣٠٧٢٥) حضرت سعید بن جبیر فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عباس نے ارشاد فرمایا : جو شخص قرآن کے بارے میں بغیر علم کے رائے زنی کرے پس اس کو چاہیے کہ وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے۔

30725

(۳۰۷۲۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن سُفْیَانَ ، عَن مُغِیرَۃَ ، قَالَ: کَانَ إبْرَاہِیمُ یَکْرَہُ أَنْ یَتَکَلَّمَ فِی الْقُرْآنِ۔
(٣٠٧٢٦) حضرت مغیرہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم ناپسند کرتے تھے کہ وہ قرآن کے بارے میں کچھ رائے زنی کریں۔

30726

(۳۰۷۲۷) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَمْرٍو ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ: أَدْرَکْت أَصْحَابَ عَبْدِ اللہِ وَأَصْحَابَ عَلِیٍّ وَلَیْسَ ہُمْ لِشَیْئٍ مِنَ الْعِلْمِ أَکْرَہُ مِنْہُمْ لِتَفْسِیرِ الْقُرْآنِ ، قَالَ: وَکَانَ أَبُو بَکْرٍ یَقُولُ: أَیُّ سَمَائٍ تُظِلُّنِی وَأَیُّ أَرْضٍ تُقِلُّنِی إذَا قُلْتُ فِی کِتَابِ اللہِ مَا لاَ أَعْلَمُ۔
(٣٠٧٢٧) امام شعبی فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن مسعود اور حضرت علی کے شاگردوں کو پایا اس حال میں کہ ان کے نزدیک علم میں قرآن کی تفسیر بیان کرنا سب سے زیادہ ناپسندیدہ تھا۔ شعبی نے فرمایا : اور حضرت ابوبکر فرمایا کرتے تھے : کون سا آسمان مجھ پر سایہ کرے گا ، اور کون سی زمین مجھے پناہ دے گی۔ جب میں قرآن کے بارے میں ایسی بات کہوں جس کا مجھے علم نہیں ؟ !

30727

(۳۰۷۲۸) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، قَالَ: حدَّثَنِی عَبْدُ اللہِ بْنُ حَبِیبِ بْنِ أَبِی ثَابِتٍ ، قَالَ: سَأَلْتُ طَاوُوسًا ، عَن تَفْسِیرِ ہَذِہِ الآیَۃِ: {شَہَادَۃُ بَیْنِکُمْ إذَا حَضَرَ أَحَدَکُمَ الْمَوْتُ} فَأَرَادَ أَنْ یَبْطِشَ حَتَّی قِیلَ ہَذَا ابْنُ حَبِیبٍ کَرَاہِیَۃً لِتَفْسِیرِ الْقُرْآنِ۔
(٣٠٧٢٨) حضرت عبداللہ بن حبیب بن ابی ثابت فرماتے ہیں : میں نے حضرت طاو وس سے اس آیت : گواہی کا (ضابطہ) تمہارے درمیان جب تم میں سے کسی کی موت آپہنچے، ؟ کی تفسیر کے متعلق پوچھا ؟ سو انھوں نے حملہ کرنے کا ارادہ کیا یہاں تک کہ انھیں کہا گیا : یہ ابن حبیب ہیں۔ قرآن کی تفسیر بیان کرنے کو ناپسند کرنے کی وجہ سے۔

30728

(۳۰۷۲۹) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا حُمَیْدٌ ، عَنْ أَنَسٍ ، أَنَّ عُمَرَ ، قَرَأَ عَلَی الْمِنْبَرِ: {وَفَاکِہَۃً وَأَبًّا} ثُمَّ قَالَ: ہَذِہِ الْفَاکِہَۃُ قَدْ عَرَفْنَاہَا فَمَا الأَبُّ ؟ ثُمَّ رَجَعَ إِلَی نَفْسِہِ فَقَالَ: إنَّ ہَذَا لَہُوَ التَّکَلُّفُ یَا عُمَرُ۔
(٣٠٧٢٩) حضرت انس فرماتے ہیں کہ حضرت عمر نے منبر پر آیت تلاوت فرمائی۔ ( اور پھل اور چارے) ۔ پھر فرمایا : یہ پھل تو ہم پہچانتے ہیں۔ پس اَبًّا کیا ہے ؟ پھر اپنے نفس کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا : اے عمر ! یقیناً یہ تو تکلف ہے !۔

30729

(۳۰۷۳۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إسْرَائِیلَ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ عَامِرٍ ، قَالَ: کَتَبَ رَجُلٌ مُصْحَفًا وَکَتَبَ عِنْدَ کُلِّ آیَۃٍ تَفْسِیرَہَا ، فَدَعَا بِہِ عُمَرُ فَقَرَضَہُ بِالْمِقْرَاضَیْنِ۔
(٣٠٧٣٠) حضرت جابر فرماتے ہیں کہ حضرت عامر نے ارشاد فرمایا : ایک آدمی نے قرآن لکھا اور ہر آیت کے ساتھ اس کی تفسیر بھی لکھی۔ پس حضرت عمر نے اس کو منگوایا ۔ پھر اس کو قینچی کے ساتھ کاٹ دیا۔

30730

(۳۰۷۳۱) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَیْدٍ ، عَنِ الْعَوَّامِ بْنِ حَوْشَبٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ التَّیْمِیِّ ، أَنَّ أَبَا بَکْرٍ سُئِلَ عَن (وفَاکِہَۃً وَأَبًّا) فَقَالَ: أَیُّ سَمَائٍ تُظِلُّنِی وَأَیُّ أَرْضٍ تُقِلُّنِی إذَا قُلْتُ فِی کِتَابِ اللہِ مَا لاَ أَعْلَمُ۔
(٣٠٧٣١) حضرت ابراہم التیمی فرماتے ہیں کہ حضرت ابوبکر سے اس آیت ( اور پھل اور چارے) کے متعلق سوال کیا گیا ؟ تو آپ نے فرمایا : کون سا آسمان مجھے سایہ دے گا ؟ اور کون سی زمین مجھے پناہ دے گی۔ جب میں کتاب اللہ کے بارے میں وہ بات کہوں جس کا مجھے علم نہیں ؟ !۔

30731

(۳۰۷۳۲) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عبد اللہِ الزُّبَیْرِیُّ ، عَن سُفْیَانَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِی وَائِلٍ ، قَالَ: کَانَ إذَا سُئِلَ عَن شَیْئٍ مِنَ الْقُرْآنِ ، قَالَ: قَدْ أَصَابَ اللَّہُ مَا أَرَادَ۔
(٣٠٧٣٢) حضرت اعمش فرماتے ہیں کہ حضرت ابو وائل سے جب قرآن کی کسی آیت کے متعلق سوال کیا جاتا۔ فرماتے : اللہ حق بجانب ہے جس کا بھی اس نے ارادہ کیا۔

30732

(۳۰۷۳۳) حَدَّثَنَا الثَّقَفِیُّ ، عَن شُعَیْبٍ ، قَالَ: کَانَ أَبُو الْعَالِیَۃِ یُقْرِئُ النَّاسَ الْقُرْآنَ ، فَإِذَا أَرَادَ أَنْ یُغَیِّرَ علی الرجل لَمْ یَقُلْ: لَیْسَ کَذَا وَکَذَا ، وَلَکِنَّہُ یَقُولُ: اقْرَأْ آیَۃَ کَذَا ، فَذَکَرْتہ لإِبْرَاہِیمَ فَقَالَ: أَظُنُّ صَاحِبَکُمْ قَدْ سَمِعَ ، أَنَّہُ مَنْ کَفَرَ بِحَرْفٍ مِنْہُ ، فَقَدْ کَفَرَ بِہِ کُلِّہِ۔
(٣٠٧٣٣) حضرت شعیب فرماتے ہیں کہ حضرت ابو العالیہ لوگوں کو قرآن پڑھایا کرتے تھے : پس جب وہ کسی شخص کی غلطی درست کرنے کا ارادہ کرتے تو یوں نہیں فرماتے : ایسے اور ایسے نہیں ہے۔ بلکہ وہ اس طرح فرماتے تھے : آیت کو ایسے پڑھو۔ پس میں نے یہ بات حضرت ابراہیم کے سامنے ذکر کی تو آپ نے فرمایا : میرا خیال ہے کہ تمہارے ساتھی نے یہ حدیث سنی ہے : جس شخص قرآن کے ایک حرف کا انکار کیا بلاشبہ اس نے پورے قرآن کا انکار کیا۔

30733

(۳۰۷۳۴) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، عَن عَلْقَمَۃَ ، قَالَ: أَمْسَکْت عَلَی عَبْدِ اللہِ فِی الْمُصْحَفِ فَقَالَ: کَیْفَ رَأَیْت ؟ قُلْتُ: قَرَأْتہَا کَمَا ہِیَ فِی الْمُصْحَفِ إِلاَّ حَرْفَ کَذَا قَرَأْتُہُ کَذَا وَکَذَا۔
(٣٠٧٣٤) حضرت علقمہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن مسعود کو قرآن پڑھتے میں روکا تو آپ نے فرمایا : تیری رائے کے مطابق کیسے ہے ؟ میں نے کہا : آپ نے پڑھا جیسے قرآن میں موجود ہے سوائے ایک حرف کے ۔ آپ نے اس کو ایسے اور ایسے پڑھا۔

30734

(۳۰۷۳۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ: حدَّثَنَا الأَعْمَشُ ، قَالَ: کُنْتُ أَقْرَأُ عَلَی إبْرَاہِیمَ فَإِذَا مَرَرْت بِحَرْفٍ یُنْکِرُہُ لَمْ یَقُلْ لِی: لَیْسَ کَذَا وَکَذَا ، وَیَقُولُ: کَانَ عَلْقَمَۃُ یَقْرَأُہ کَذَا وَکَذَا۔
(٣٠٧٣٥) حضرت اعمش فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابراہیم پر قرآن کی تلاوت کی ۔ پس جب میں ایک حرف پر گزرا انھوں نے اس پر روک دیا۔ مجھے یوں نہیں کہا کہ ایسے اور ایسے نہیں ہے۔ بلکہ فرمایا : حضرت علقمہ اس آیت کو ایسے اور ایسے پڑھتے تھے۔

30735

(۳۰۷۳۶) حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ الأَزْرَقُ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، قَالَ: قَالَ لِی إبْرَاہِیمُ: إنَّ إبْرَاہِیمَ التَّیْمِیَّ یُرِیدُ أَنْ تُقْرِئَہُ قِرَائَۃَ عَبْدِ اللہِ ، قُلْتُ: لاَ أَسْتَطِیعُ ، قَالَ: بَلَی ، فَإِنَّہُ قَدْ أَرَادَ ذَاکَ ، قَالَ: فَلَمَّا رَأَیْتہ قَدْ ہَوِی ذَاکَ ، قُلْتُ: فَیَکُونُ ہَذَا بِمَحْضَرٍ مِنْک فَنَتَذَاکَرُ حُرُوفَ عَبْدِ اللہِ فَقَالَ: اکفنی ہَذَا ، قُلْتُ: وَمَا تَکْرَہُ مِنْ ہَذَا ؟ قَالَ أَکْرَہُ أَنْ أَقُولَ لِشَیْئٍ ہُوَ ہَکَذَا ، وَلَیْسَ ہُوَ ہَکَذَا ، أَوْ أَقُولُ فِیہَا وَاوٌ وَلَیْسَ فِیہَا وَاوٌ۔
(٣٠٧٣٦) حضرت اعمش فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم نے مجھ سے فرمایا : بلاشبہ ابراہیم التیمی چاہ رہے ہیں کہ تم ان کو حضرت عبداللہ کی قراءت پڑھا دو ۔ میں نے کہا : میں طاقت نہیں رکھتا۔ انھوں نے فرمایا : کیوں نہیں، پس بیشک ان کا یہی ارادہ ہے، اعمش فرماتے ہیں : جب میں نے ان کو دیکھا کہ وہ یہی چاہ رہے ہیں تو میں نے کہا : ٹھیک ہے یہ آپ کی موجودگی میں ہوگا، تو ہم نے حضرت عبداللہ کے حروف کا مذاکرہ کیا۔ تو آپ نے فرمایا : مجھے اتنا کافی ہے۔ میں نے کہا : آپ اس طرح ناپسند کیوں کرتے ہیں پڑھانا، آپ نے فرمایا : میں ناپسند کرتا ہوں کہ میں کسی آیت کے بارے میں کہوں : کہ وہ ایسے ہے تو وہ اس طرح نہ ہو یا میں کہوں : اس میں واؤ ہے ، اور اس میں واؤ نہ ہو۔

30736

(۳۰۷۳۷) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ: سَأَلَ رَجُلٌ ابْنَ مَسْعُودٍ: {وَالَّذِینَ آمَنُوا وَاتَّبَعَتْہُمْ ذُرِّیَّتُہُمْ} فَجَعَلَ الرَّجُلُ یَقُولُ: ذُرِّیَاتُہُم ، فَجَعَلَ الرَّجُلُ یُرَدِّدُہَا وَیُرَدِّدُہَا ، وَلا یَقُولُ: لَیْسَ کَذَا۔
(٣٠٧٣٧) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے حضرت ابن مسعود سے اس آیت کا تلفظ پوچھا ! اور وہ لوگ جو ایمان لائے اور چلی ان کے نقش قدم پر ان کی اولاد۔ پس اس آدمی نے ذریاتھم کہنا شروع کردیا۔ پھر وہ بار بار اس لفظ کو دوہرا رہا تھا۔ اور آپ نے بھی نہیں فرمایا : کہ ایسے نہیں ہے۔

30737

(۳۰۷۳۸) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ: إنِّی لأَکْرَہُ أَنْ أَشْہَدَ عَرْضَ الْقُرْآنِ فَأَقُولُ کَذَا وَلَیْسَ کَذَا۔
(٣٠٧٣٨) حضرت اعمش فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم نے ارشاد فرمایا : میں ناپسند کرتا ہوں کہ میں قرآن کے معاملہ میں گواہی دوں پس میں کہوں ! ایسا ہے، اور وہ ویسا نہ ہو۔

30738

(۳۰۷۳۹) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَن مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ: کَانَ یَکْرَہُ أَنْ یَقْرَأَ الْقُرْآنَ یَعْرِضُ مِنْ أَمْرِ الدُّنْیَا۔
(٣٠٧٣٩) حضرت مغیرہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم ناپسند سمجھتے تھے کہ وہ کسی دنیاوی معاملہ کے پیش آنے کی صورت میں قرآن پڑھیں۔

30739

(۳۰۷۴۰) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَن ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ ، قَالَ: کَانَ أَبِی إذَا رَأَی شَیْئًا مِنْ أَمْرِ الدُّنْیَا یُعْجِبُہُ ، قَالَ: لاَ تَمُدَّنَّ عَیْنَیْکَ إِلَی مَا مَتَّعْنَا بِہِ أَزْوَاجًا مِنْہُمْ۔
(٣٠٧٤٠) حضرت ہشام بن عروہ فرماتے ہیں کہ میرے والد جب دنیا کی کوئی چیز دیکھتے جو ان کو اچھی لگتی تو آیت تلاوت فرماتے ! اور نہ آنکھ اٹھا کر دیکھو تم اس طرف جو سازو سامان ہم نے ان میں سے مختلف قسم کے لوگوں کو دیا ہے۔

30740

(۳۰۷۴۱) حَدَّثَنَا سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَن عُبَیْدِ اللہِ بْنِ أَبِی یَزِیدَ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَن أُمِّ أَیُّوبَ قَالَتْ: قَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: نَزَلَ الْقُرْآنُ عَلَی سَبْعَۃِ أَحْرُفٍ أَیُّہَا قَرَأْت أَصَبْت۔ (احمد ۴۳۳۔ حمیدی ۳۴۰)
(٣٠٧٤١) حضرت ام ایوب فرماتی ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : قرآن سات حروف پر نازل ہوا ہے جس حرف کے ساتھ بھی پڑھو گے ۔ حق بجانب ہو گے۔

30741

(۳۰۷۴۲) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ عَمْرٍو ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: نَزَلَ الْقُرْآنُ عَلَی سَبْعَۃِ أَحْرُفٍ کُلٌّ شَافٍ کَافٍ۔ (طبری ۱۹)
(٣٠٧٤٢) حضرت عمرو فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : قرآن سات حروف پر اترا ہے۔ ان میں سے ہر ایک کافی و شافی ہے۔

30742

(۳۰۷۴۳) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، قَالَ: حدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو ، عَنْ أَبِی سَلَمَۃَ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: نَزَلَ الْقُرْآنُ عَلَی سَبْعَۃِ أَحْرُفٍ عَلِیمًا حَکِیمًا ، غَفُورًا رَحِیمًا۔ (احمد ۳۳۲۔ ابن حبان ۷۴۳)
(٣٠٧٤٣) حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : قرآن سات حروف پر نازل ہوا ہے، وہ اللہ علم والا، حکمت والا، بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔

30743

(۳۰۷۴۴) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، قَالَ: حدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ بْنُ أَبِی خَالِدٍ ، قَالَ: حَدَّثَنِی عَبْدُ اللہِ بْنُ عِیسَی ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِی لَیْلَی ، قَالَ ، أَخْبَرَنِی أُبَیّ بْنُ کَعْبٍ ، أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: إنَّ رَبِّی أَرْسَلَ إلَیَّ: أَنِ اقْرَإِ الْقُرْآنَ عَلَی سَبْعَۃِ أَحْرُفٍ۔ (مسلم ۵۶۲۔ ابن حبان ۷۴۰)
(٣٠٧٤٤) حضرت ابی ّ بن کعب فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : بلاشبہ میرے رب نے میری طرف قاصد بھیجا ہے کہ میں قرآن کو سات حروف پر پڑھوں۔

30744

(۳۰۷۴۵) حَدَّثَنَا غُنْدَر ، عَنْ شُعْبَۃ ، عَنِ الحَکْم ، عَنْ مُجَاہِدْ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِی لَیْلَی ، عَنْ أُبَیِّ بْنِ کَعْبٍ ، أَنَّ النَّبِیَّ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَتَاہُ جِبْرِیلُ فَقَالَ: إنَّ اللَّہَ یَأْمُرُک أَنْ تُقْرِئَ أُمَّتُک الْقُرْآنَ عَلَی سَبْعَۃِ أَحْرُفٍ فَأَیُّمَا حَرْفٍ قَرَؤُوا عَلَیْہِ ، فَقَدْ أَصَابُوا۔ (مسلم ۵۶۲۔ ابوداؤد ۱۴۷۳)
(٣٠٧٤٥) حضرت ابی ّ بن کعب فرماتے ہیں کہ حضرت جبرائیل نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور فرمایا : اللہ آپ کو حکم دیتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی امت کو سات حروف پر قرآن پڑھائیں۔ پس وہ جس حرف کے ساتھ بھی پڑھیں گے وہ حق بجانب ہوں گے۔

30745

(۳۰۷۴۶) حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ ، عَنِ الْہَجَرِیِّ ، عَنْ أَبِی الأَحْوَصِ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ: نَزَلَ الْقُرْآنُ عَلَی سَبْعَۃِ أَحْرُفٍ۔ (ابن حبان ۷۵۔ طبری ۱۲)
(٣٠٧٤٦) حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا؛ قرآن سات حروف پر نازل ہوا ہے۔

30746

(۳۰۷۴۷) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ حُبَابٍ ، عَن حَمَّادِ بْنِ سَلَمَۃَ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ زَیْدِ بْنِ جُدْعَانَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِی بَکْرٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، أَنَّ جِبْرِیلَ ، قَالَ لِلنَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: اقْرَإِ الْقُرْآنَ عَلَی حَرْفٍ ، فَقَالَ لَہُ مِیکَائِیلُ: اسْتَزِدْہُ ، فَقَالَ: عَلَی حَرْفَیْنِ ، ثُمَّ قَالَ: اسْتَزِدْہُ ، حَتَّی بَلَغَ سَبْعَۃَ أَحْرُفٍ ، کُلُّہَا شَافٍ کَافٍ کَقَوْلِکَ: ہَلُمَّ وَتَعَالَ ، مَا لَمْ یَخْتِمْ آیَۃَ رَحْمَۃٍ بِآیَۃِ عَذَابٍ ، أَوْ آیَۃَ عَذَابٍ بِرَحْمَۃٍ۔ (احمد ۴۱)
(٣٠٧٤٧) حضرت ابوبکر فرماتے ہیں کہ حضرت جبرائیل نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فرمایا : قرآن کو ایک حرف پر پڑھیے، تو حضرت میکائیل نے ان سے کہا : اس میں اضافہ کردو، تو حضرت جبرائیل نے فرمایا : دو حرفوں پر پڑھیں ! پھر میکائیل نے کہا : اس میں اضافہ کردو، یہاں تک کہ وہ سات حروف تک پہنچ گئے۔ جن میں سے ہر ایک شافی کافی ہے۔ جیسا کہ تمہارا کہنا۔ ھلم اور تعال ، دونوں کا ایک معنی ہے، آؤ۔ جب تک وہ رحمت کی آیت کو عذاب کی آیت کے ساتھ مکمل نہ کرے اور عذاب کی آیت کو رحمت کی آیت کے ساتھ مکمل نہ کرے۔

30747

(۳۰۷۴۸) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَن حُمَیْدٍ ، عَنْ أَنَسٍ ، عَن أُبَیٍّ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ اقْرَإِ الْقُرْآنَ عَلَی سَبْعَۃِ أَحْرُفٍ ، کُلٌّ شَافٍ کَافٍ۔ (احمد ۱۱۴۔ ابن حبان ۷۴۲)
(٣٠٧٤٨) حضرت ابی فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : قرآن کو سات حروف پر پڑھو، ہر ایک حرف شافی کافی ہے۔

30748

(۳۰۷۴۹) حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ بْنُ مُوسَی عَنْ إِسْرَائِیلَ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ عَنْ سُقَیْرٍ الْعَبْدِیِّ عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ صُرَدٍ عَنْ أُبَیٍّ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: اقْرَأْہُ عَلَی سَبْعَۃِ أَحْرُفٍ۔ (ابوداؤد ۱۴۷۲۔ احمد ۱۲۴)
(٣٠٧٤٩) حضرت سلیمان بن صرد حضرت ابی کے واسطہ سے فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اس کو سات حروف پر پڑھو۔

30749

(۳۰۷۵۰) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ: حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَن قَتَادَۃَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، عَن سَمُرَۃَ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ: نَزَلَ الْقُرْآنُ عَلَی ثَلاثَۃِ أَحْرُفِ۔ (احمد ۱۶۔ طبرانی ۶۸۵۳)
(٣٠٧٥٠) حضرت سمرہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : قرآن تین حروف پر نازل ہوا ہے۔

30750

(۳۰۷۵۱) حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ مِجْلَزٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ الْعَزِیزِ الأَنْصَارِیِّ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَن عُرْوَۃَ بْنِ الزُّبَیْرِ ، عَنِ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَۃَ ، وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْد الْقَارِی ، قَالا: سَمِعْنَا عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ یَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: إنَّ الْقُرْآنَ نَزَلَ عَلَی سَبْعَۃِ أَحْرُفٍ فَاقْرَؤُوا مَا تَیَسَّرَ مِنْہُ۔ (بخاری ۲۴۱۹۔ مسلم ۵۶۰)
(٣٠٧٥١) حضرت عمر بن خطاب فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : بلاشبہ قرآن سات حروف پر نازل ہوا ہے۔ پس تم پڑھو جیسے تمہیں آسانی ہو۔

30751

(۳۰۷۵۲) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَن زَائِدَۃَ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَن زِرٍّ ، عَن أُبَیٍّ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: أنَّ جِبْرِیلَ لقیہ فَقَالَ: مُرْہُمْ فَلْیَقْرَؤُوہُ عَلَی سَبْعَۃِ أَحْرُفٍ۔ (ترمذی ۲۹۴۴۔ ابن حبان ۷۳۹)
(٣٠٧٥٢) حضرت ابی ّ فرماتے ہیں کہ حضرت جبرائیل نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ملے اور فرمایا : اپنی امت کو حکم دیں کہ قرآن کو سات حروف پر پڑھیں۔

30752

(۳۰۷۵۳) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَن شَقِیقٍ ، عَن مَسْرُوقٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو ، قَالَ ، قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: خُذُوا الْقُرْآنَ مِنْ أَرْبَعَۃٍ مِنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مَسْعُودٍ وَمُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ وَأُبَیُّ بْنِ کَعْبٍ وَسَالِمٍ مَوْلَی أَبِی حُذَیْفَۃَ۔ (بخاری ۳۷۶۰۔ مسلم ۱۹۱۴)
(٣٠٧٥٣) حضرت عبداللہ بن عمرو فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : قرآن چار لوگوں سے پڑھو، عبداللہ بن مسعود سے اور معاذ بن جبل سے اور ابی بن کعب سے اور سالم سے جو کہ حذیفہ کے آزاد کردہ غلام ہیں۔

30753

(۳۰۷۵۴) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، عَن عَلْقَمَۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ: قرَأْت عَلَی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ لِی: أَحْسَنْت۔ (مسلم ۵۵۱۔ احمد ۴۲۴)
(٣٠٧٥٤) حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے تلاوت فرمائی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھ سے فرمایا : تو نے خوبصورت پڑھا۔

30754

(۳۰۷۵۵) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، قَالَ: حدَّثَنَا الأَعْمَشُ ، عَن حَبِیبٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ خَطَبَنَا عُمَرُ فَقَالَ: عَلِیٌّ أَقْضَانَا وَأُبَیٌّ أَقْرَؤُنَا ، وَإِنَّا نَتْرُکُ أَشْیَائَ مِمَّا یَقْرَأُ أُبَیٌّ وَإِنَّ أُبَیًّا یَقُولُ: سَمِعْت رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَلا أَتْرُکُ قَوْلَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِشَیْئٍ ، وَقَدْ نَزَلَ بَعْدَ أُبَیٍّ کِتَابٌ۔
(٣٠٧٥٥) حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ حضرت عمر ہم سے خطاب کرتے ہوئے فرمانے لگے : علی ہم میں سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے، اور ابی ّ ہم میں سب سے اچھا پڑھنے والا ہے، اور ہم نے کچھ چیزیں چھوڑ دی ہیں جن کو ابی ّ پڑھتے ہیں۔ اور حضرت ابی ّ فرماتے تھے ! میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے قرآن سنا ہے، اور میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بات میں سے کچھ بھی نہیں چھوڑوں گا۔ اور تحقیق کتاب تو ابی ّ کے بعد نازل ہوئی تھی۔

30755

(۳۰۷۵۶) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَن زَائِدَۃَ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ عُمَیْرٍ ، عَن قَبِیصَۃَ بْنِ جَابِرٍ ، قَالَ: مَا رَأَیْت أَحَدًا کَانَ أَقْرَأَ لِکِتَابِ اللہِ ، وَلا أَفْقَہَ فِی دِینِ اللہِ ، وَلا أَعْلَمَ بِاللہِ مِنْ عُمَرَ۔
(٣٠٧٥٦) حضرت عبد الملک بن عمیر فرماتے ہیں کہ حضرت قبیصہ بن جابر نے ارشاد فرمایا : میں نے کسی شخص کو نہیں دیکھا جو کتاب کو زیادہ اچھا پڑھنے والا ہو، اور اللہ کے دین میں زیادہ سمجھ رکھنے والا ہو۔ اور اللہ کو زیادہ جاننے والا ہو حضرت عمر سے۔

30756

(۳۰۷۵۷) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَن دَاوُد بْنِ شَابُورَ ، عَن مُجَاہِدٍ ، قَالَ: کُنَّا نَفْخَرُ عَلَی النَّاسِ بِقَارِئنَا عَبْدِ اللہِ بْنِ السَّائِبِ۔
(٣٠٧٥٧) حضرت داؤد بن شابور فرماتے ہیں کہ حضرت مجاہد نے فرمایا : ہم لوگ لوگوں کے سامنے اپنے قاری حضرت عبداللہ بن سائب کی وجہ سے فخر کرتے تھے۔

30757

(۳۰۷۵۸) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَنِ ابْنِ عُیَیْنَۃَ ، عَن دَاوُد بْنِ شَابُورَ ، عَن مُجَاہِدٍ ، قَالَ: کُنْتُ أفخر النَّاسَ بِالْحِفْظِ لِلْقُرْآنِ حَتَّی صَلَّیْت خَلْفَ مَسْلَمَۃَ بْنِ مَخْلَدٍ ، فَافْتَتَحَ الْبَقَرَۃَ فَمَا أَخْطَأَ فِیہَا وَاوًا ، وَلا أَلِفًا۔
(٣٠٧٥٨) حضرت داؤد بن شابور فرماتے ہیں کہ حضرت مجاہد نے فرمایا : میں لوگوں میں قرآن کا پکا حافظ ہونے کی وجہ سے فخر کرتا تھا، یہاں تک کہ میں نے حضرت مسلمہ بن مخلد کے پیچھے نماز پڑھی۔ پس انھوں نے سورة بقرہ شروع کی اور اس میں الف اور واؤ تک کی غلطی بھی نہیں کی۔

30758

(۳۰۷۵۹) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، عَن عَلْقَمَۃَ ، عَنْ عَمْرٍو ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: مَنْ سَرَّہُ أَنْ یَقْرَأَ الْقُرْآنَ رَطْبًا کَمَا أُنْزِلَ فَلْیَقْرَأْ عَلَی قِرَائَۃِ ابْنِ أُمِّ عَبْدٍ۔
(٣٠٧٥٩) حضرت عمر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جو شخص چاہتا ہے کہ وہ قرآن کو ویسے ہی تروتازہ پڑھے جیسا کہ وہ اترا تھا۔ پس اسے چاہیے کہ وہ ابن ام عبد کی قراءت کے مطابق پڑھے۔

30759

(۳۰۷۶۰) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، قَالَ: حدَّثَنَا عِیسَی بْنُ دِینَارٍ مَوْلَی عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِی ، قَالَ: سَمِعْتُ عَمْرَو بْنَ الْحَارِثِ یَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: مَنْ سَرَّہُ أَنْ یَقْرَأَ الْقُرْآنَ کَمَا أُنْزِلَ غَضًّا فَلْیَقْرَأْہُ عَلَی قِرَائَۃِ ابْنِ أُمِّ عَبْدٍ۔ (بخاری ۱۹۲)
(٣٠٧٦٠) حضرت عمرو بن الحارث فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جو شخص چاہتا ہے کہ وہ قرآن پڑھے جیسے وہ تروتازہ اترا تھا پس اس کو چاہیے کہ وہ ابن ام عبد کی قراءت کے مطابق پڑھے۔

30760

(۳۰۷۶۱) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ: حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ زَیْدٍ ، عَنْ عَمَّارِ بْنِ أَبِی عَمَّارٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا حَبَّۃَ الْبَدْرِیَّ قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ: {لَمْ یَکُنِ الَّذِینَ کَفَرُوا مِنْ أَہْلِ الْکِتَابِ} إِلَی آخِرِہَا ، قَالَ جِبْرِیلُ: یَا رَسُولَ اللہِ ، إنَّ رَبَّک یَأْمُرُک أَنْ تُقْرِئَہَا أُبَیًّا ، فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لأُبَیٍّ: إنَّ جِبْرِیلَ أَمَرَنِی أَنْ أُقْرِئَک ہَذِہِ السُّورَۃَ ، قَالَ أُبَیٌّ: أَذَکَرَنِی یَا رَسُولَ اللہِ ؟ قَالَ: نَعَمْ۔ (احمد ۴۸۹۔ مسند ۷۲۳)
(٣٠٧٦١) حضرت عمار بن ابی عمار فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابو حبہ بدری کو یوں فرماتے ہوئے سنا ہے : جب آیت : ہرگز نہ تھے وہ لوگ جو کافر ہیں اہل کتاب میں ، آخر تک نازل ہوئی۔ تو جبرائیل نے فرمایا : اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا رب آپ کو حکم دیتا ہے کہ آپ یہ سورت ابی ّ کو پڑھا دیں۔ تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابی ّ سے فرمایا : جبرائیل نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں تمہیں یہ سورت پڑھا دوں، حضرت ابی ّ نے فرمایا : اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! کیا انھوں نے میرا نام ذکر کیا ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جی ہاں۔

30761

(۳۰۷۶۲) حَدَّثَنَا مُعَاوِیَۃُ بْنُ عَمْرو ، عَن زَائِدَۃَ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَن زِرٍّ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ: مَنْ أَحَبَّ أَنْ یَقْرَأَ الْقُرْآنَ غَضًّا کَمَا أُنْزِلَ فَلْیَقْرَأْہُ عَلَی قِرَائَۃِ ابْنِ أُمِّ عَبْدٍ۔ (احمد ۴۴۵۔ ابن حبان ۷۰۶۶)
(٣٠٧٦٢) حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا؛ جو شخص پسند کرتا ہے کہ قرآن کو ویسے ہی تروتازہ پڑھے جیسے وہ اترا تھا۔ پس اس کو چاہیے کہ وہ ابن ام عبد کی قراءت کے مطابق پڑھے۔

30762

(۳۰۷۶۳) حَدَّثَنَا مُصْعَبُ بْنُ الْمِقْدَامِ ، عَنْ إسْرَائِیلَ ، عَن مُغِیرَۃَ ، أَنَّہُ سَمِعَ إبْرَاہِیمَ یَقُولُ: قدْ قَرَأَ عَبْدُ اللہِ القرآن عَلَی ظَہْرِ لِسَانِہِ۔
(٣٠٧٦٣) حضرت مغیرہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم نے ارشاد فرمایا : حضرت عبداللہ بن مسعود نے قرآن حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان سے پڑھا۔

30763

(۳۰۷۶۴) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَن مَنْصُورِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ: مَاتَ أَبُو بَکْرٍ ، وَعُمَرُ وَعَلِیٌّ وَلَمْ یَجْمَعُوا الْقُرْآنَ۔
(٣٠٧٦٤) حضرت منصور بن عبد الرحمن فرماتے ہیں کہ حضرت شعبی نے ارشاد فرمایا : حضرت ابوبکر اور حضرت عمر اور حضرت علی انتقال فرما گئے اس حال میں کہ انھوں نے قرآن جمع نہیں کیا۔

30764

(۳۰۷۶۵) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِِ، عَن مَنْصُورٍ، عَن مُجَاہِدٍ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ، قَالَ: أُنْزِلَتْ فَاتِحَۃُ الْکِتَابِ بِالْمَدِینَۃِ۔
(٣٠٧٦٥) حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ حضرت ابوہریرہ نے ارشاد فرمایا؛ سورة فاتحہ مدینہ منورہ میں نازل ہوئی۔

30765

(۳۰۷۶۶) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَن ہِشَامٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ: مَا کَانَ مِنْ حَجٍّ ، أَوْ فَرِیضَۃٍ فَإِنَّہُ نَزَلَ بِالْمَدِینَۃِ ، وَمَا کَانَ مِنْ ذِکْرِ الأُمَمِ وَالْقُرُونِ وَالْعَذَابِ فَإِنَّہُ أُنْزِلَ بِمَکَّۃَ۔
(٣٠٧٦٦) حضرت ہشام بن عروہ فرماتے ہیں کہ ان کے والد حضرت عروہ نے ارشاد فرمایا : قرآن کے جس حصہ میں حج کے مسائل یا کسی فریضہ کو بیان کیا گیا ہے پس بلاشبہ وہ حصہ مدینہ میں نازل ہوا اور قرآن کے جس حصہ میں سابقہ امتوں اور صدیوں اور عذاب کا ذکر ہے پس بلاشبہ وہ حصہ مکہ میں نازل ہوا۔

30766

(۳۰۷۶۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن سَلَمَۃَ ، عَنِ الضَّحَّاکِ: یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا فِی الْمَدِینَۃِ۔
(٣٠٧٦٧) حضرت سلمہ فرماتے ہیں کہ حضرت ضحاک نے ارشاد فرمایا : (اے ایمان والو ! ) یہ آیات مدینہ میں نازل ہوئیں۔

30767

(۳۰۷۶۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، عن علقمۃ قَالَ: کُلُّ شَیْئٍ فِی الْقُرْآنِ یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا أُنْزِلَ بِالْمَدِینَۃِ ، وَکُلُّ شَیْئٍ فِی الْقُرْآنِ یَا أَیُّہَا النَّاسُ أُنْزِلَ بِمَکَّۃَ۔
(٣٠٧٦٨) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ حضرت علقمہ نے ارشاد فرمایا : قرآن میں ہر وہ آیت جس میں ( اے ایمان والو ! ) کے ذریعہ خطاب ہے مدینہ میں نازل ہوئی، اور قرآن میں ہر وہ آیت جس میں ( اے لوگو ! ) کے ذریعہ خطاب ہے وہ مکہ میں نازل ہوئی۔

30768

(۳۰۷۶۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إسْرَائِیلَ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ یَزِیدَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ: قَرَأْنَا الْمُفَصَّلَ حُجَجًا وَنَحْنُ بِمَکَّۃَ لَیْسَ فِیہَا یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا۔
(٣٠٧٦٩) حضرت عبد الرحمن بن یزید فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود نے ارشاد فرمایا : ہم نے چھوٹی سورتیں بطور دلائل کے مکہ میں پڑھیں، ان سورتوں میں ( اے ایمان والو) نہیں تھا۔

30769

(۳۰۷۷۰) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ: حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَن عِکْرِمَۃَ ، قَالَ: کُلُّ سُورَۃٍ فِیہَا یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا فَہِیَ مَدَنِیَّۃٌ۔
(٣٠٧٧٠) حضرت ایوب فرماتے ہیں کہ حضرت عکرمہ نے ارشاد فرمایا : ہر وہ سورت جس میں ( اے ایمان والو) موجود ہے وہ مدنی ہے۔

30770

(۳۰۷۷۱) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ، عَن زَائِدَۃَ، عَن مَنْصُورٍ، عَن مُجَاہِدٍ، قَالَ: الْحَمْدُ لِلَّہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ أُنْزِلَتْ بِالْمَدِینَۃِ۔
(٣٠٧٧١) حضرت منصور فرماتے ہیں کہ حضرت مجاہد نے ارشاد فرمایا : سب تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے۔ یہ مدینہ میں نازل ہوئی۔

30771

(۳۰۷۷۲) حَدَّثَنَا قَبِیصَۃُ ، عَن سُفْیَانَ ، عَن لَیْثٍ ، عَن شَہْرٍ ، قَالَ: الأَنْعَامُ مَکِّیَّۃٌ۔
(٣٠٧٧٢) حضرت لیث فرماتے ہیں کہ حضرت شھر نے ارشاد فرمایا؛ سورة الانعام مکی سورت ہے۔

30772

(۳۰۷۷۳) حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ ، عَنْ مِسْعَر ، عَنِ النَّضْرِ بْنِ قَیْسٍ ، عَن عُرْوَۃَ: مَا کَانَ {یَا أَیُّہَا النَّاسُ} بِمَکَّۃَ ، وَمَا کَانَ {یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا} بِالْمَدِینَۃِ۔
(٣٠٧٧٣) حضرت نضر بن قیس فرماتے ہیں کہ حضرت عروہ نے ارشاد فرمایا : ہر وہ آیت جس میں ( اے لوگو ! ) کے ذریعہ خطاب ہے وہ مکہ میں نازل ہوئی اور ہر وہ آیت جس میں ( اے ایمان والو ! ) کے ذریعہ خطاب ہے وہ مدینہ میں نازل ہوئی۔

30773

(۳۰۷۷۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، قَالَ: ذَکَرُوا عِنْدَ الشَّعْبِیِّ قَوْلَہُ: {وَشَہِدَ شَاہِدٌ مِنْ بَنِی إسْرَائِیلَ علی مثلہ} فَقِیلَ: عَبْدُ اللہِ بْنُ سَلامٍ ، فَقَالَ: کَیْفَ یَکُونُ ابْنُ سَلامٍ وَہَذِہِ السُّورَۃُ مَکِّیَّۃٌ۔
(٣٠٧٧٤) حضرت ابن عون فرماتے ہیں کہ کچھ لوگوں نے امام شعبی کے پاس آیت پڑھی : جبکہ گواہی دے چکا ہے ایک گواہ بنی اسرائیل میں سے اسی جیسے کلام پر۔ پس کہا گیا : گواہ سے مراد حضرت عبداللہ بن سلام ہیں تو آپ نے فرمایا : یہ ابن سلام کیسے ہوسکتے ہیں حالانکہ یہ سورت تو مکی ہے ؟ !۔

30774

(۳۰۷۷۵) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَن ہِشَامٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ: إنِّی لأَعْلَمُ مَا نَزَلَ مِنَ الْقُرْآنِ بِمَکَّۃَ ، وَمَا أُنْزِلَ بِالْمَدِینَۃِ ، فَأَمَّا مَا نَزَلَ بِمَکَّۃَ فَضَرْبُ الأَمْثَالِ وَذِکْرُ الْقُرُونِ ، وَأَمَّا مَا نَزَلَ بِالْمَدِینَۃِ فَالْفَرَائِضُ وَالْحُدُودُ وَالْجِہَادُ۔
(٣٠٧٧٥) حضرت ہشام بن عروہ فرماتے ہیں کہ ان کے والد حضرت عروہ نے ارشاد فرمایا : بلاشبہ میں بہت اچھے طریقہ سے جانتا ہوں قرآن کا جو حصہ مکہ میں نازل ہوا اور جو حصہ مدینہ میں نازل ہوا۔ بہرحال جو حصہ مکہ میں نازل ہوا اس میں مثالوں کا بیان اور پچھلے واقعات کا ذکر ہے، اور باقی جو حصہ مدینہ میں نازل ہوا اس میں فرائض ، حدود اور جہاد کا بیان ہے۔

30775

(۳۰۷۷۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ جَرِیرِ بْنِ حَازِمٍ ، عَن قَتَادَۃَ ، قَالَ: سَأَلْتُ أَنَسًا ، عَن قِرَائَۃِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: یَمُدُّ بِہَا صَوْتَہُ مَدًّا۔
(٣٠٧٧٦) حضرت قتادہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت انس سے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قراءت کے بارے میں پوچھا ؟ تو آپ نے فرمایا : آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی آواز کو لمباکر کے پڑھتے تھے۔

30776

(۳۰۷۷۷) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنِ ابْنِ أَبِی مُلَیْکَۃَ ، عَن أُمِّ سَلَمَۃَ قَالَتْ: کَانَت قِرَائَ ۃُ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: {الْحَمْدُ لِلَّہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ} فَذَکَرَتْ حَرْفًا حَرْفًا۔
(٣٠٧٧٧) حضرت ابن ابی ملیکہ فرماتے ہیں کہ حضرت ام سلمہ نے ارشاد فرمایا : نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا پڑھنا ایسے تھا : سب تعریف اللہ کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے۔ پس آپ نے ایک ایک حرف ذکر فرمایا :

30777

(۳۰۷۷۸) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِِ ، عَن مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ: کَانَ عَلْقَمَۃُ یَقْرَأُ عَلَی عَبْدِ اللہِ فَقَالَ: رَتِّلْ فِدَاک أَبِی وَأُمِّی فَإِنَّہُ زَیْنُ الْقُرْآنِ۔
(٣٠٧٧٨) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ حضرت علقمہ حضرت عبداللہ بن مسعود پر پڑھا کرتے تھے تو آپ فرماتے ! ٹھہر کر پڑھ۔ میرے ماں باپ تجھ پر فدا ہوں۔ پس یہی تو قرآن کی زیب وزینت ہے۔

30778

(۳۰۷۷۹) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ الثَّقَفِیُّ ، عَنْ أَیُّوبَ ، قَالَ: کَانَ ابْنُ سِیرِینَ إذَا قَرَأَ یَمْضِی فِی قِرَائَتِہِ۔
(٣٠٧٧٩) حضرت ابوب فرماتے ہیں کہ حضرت ابن سیرین جب پڑھتے تو اپنی قراءت میں جلدی کرتے تھے۔

30779

(۳۰۷۸۰) حَدَّثَنَا الضَّحَّاکُ بْنُ مَخْلَدٍ، عَن عُثْمَانَ بْنِ الأَسْوَدِ، عَن مُجَاہِدٍ، وَعَطَائٍ أَنَّہُمَا کَانَا یَہُذَّانِ الْقِرَائَۃَ ہَذًّا۔
(٣٠٧٨٠) حضرت عثمان بن الاسود فرماتے ہیں کہ حضرت مجاہد اور حضرت عطائ جلدی جلدی قرآن پڑھتے تھے۔

30780

(۳۰۷۸۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، عَن سُفْیَانَ، عَن سَلَمَۃَ بْنِ کُہَیْلٍ، عَن حُجْرِ بْنِ عَنْبَسَ، عَن وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ، قَالَ سَمِعْت النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَرَأَ: {وَلا الضَّالِّینَ} فَقَالَ: آمِینَ یَمُدُّ بِہَا صَوْتَہُ۔
(٣٠٧٨١) حضرت وائل بن حجر فرماتے ہیں کہ میں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سنا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پڑھا : ولا الضالین اور نہ ہی بھٹکنے والے، پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کہا : آمین اور اپنی آواز کو لمبا کیا۔

30781

(۳۰۷۸۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن عِیسَی ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللہِ لاَ تَہُذُّوا الْقُرْآنَ کَہَذِّ الشِّعْرِ ، وَلا تَنْثُرُوہُ نَثْرَ الدَّقَلِ۔
(٣٠٧٨٢) امام شعبی فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود نے ارشاد فرمایا : قرآن کو جلدی جلدی مت پڑھو ، شعر کے جلدی پڑھنے کی طرح، اور نہ ہی غیر منظوم انداز میں پڑھو ردی کھجور بکھیرنے کی طرح۔

30782

(۳۰۷۸۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، عَن سُفْیَانَ، عَن مَنْصُورٍ، عَن مُجَاہِدٍ: {وَرَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِیلاً} قَالَ: بَعْضُہُ عَلَی أَثَرِ بَعْضٍ۔
(٣٠٧٨٣) حضرت منصور فرماتے ہیں کہ حضرت مجاہد نے ارشاد فرمایا : اور قرآن کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھو۔ یعنی اس کے بعض حصہ کو بعض کے پیچھے پیچھے پڑھو۔

30783

(۳۰۷۸۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ: حدَّثَنَا ابْنُ أَبِی لَیْلَی ، عَنِ الْحَکَمِ ، عَن مِقْسَمٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ: {وَرَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِیلاً} قَالَ بَیِّنْہُ تَبْیِینًا۔
(٣٠٧٨٤) حضرت مقسم فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عباس نے اس آیت کے بارے میں فرمایا : قرآن کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھو۔ یعنی اس کو واضح انداز میں پڑھو۔

30784

(۳۰۷۸۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن سُفْیَانَ ، عَن عُبَیْدٍ الْمُکَتِّبِ ، قَالَ: سُئِلَ مُجَاہِدٌ ، عَن رَجُلَیْنِ قَرَأَ أَحَدُہُمَا الْبَقَرَۃَ وَقَرَأَ آخَرُ الْبَقَرَۃَ وَآلَ عِمْرَانَ ، فَکَانَ رُکُوعُہُمَا وَسُجُودُہُمَا وَجُلُوسُہُمَا سَوَائً أَیُّہُمَا أَفْضَلُ ؟ قَالَ: الَّذِی قَرَأَ الْبَقَرَۃَ ، ثُمَّ قَرَأَ مُجَاہِدٌ: {وَقُرْآنًا فَرَقْنَاہُ لِتَقْرَأَہُ عَلَی النَّاسِ عَلَی مُکْثٍ وَنَزَّلْنَاہُ تَنْزِیلاً}۔
(٣٠٧٨٥) حضرت عبید مکتب فرماتے ہیں کہ حضرت مجاہد سے ایسے دو آدمیوں کے بارے میں پوچھا گیا جن میں سے ایک نے سورة بقرہ پڑھی اور دوسرے نے سورة بقرہ اور سورة آل عمران پڑھی، اور ان دونوں کے رکوع اور سجدے اور ان دونوں کا بیٹھنا برابر تھا۔ ان دونوں میں سے کون افضل ہے ؟ آپ نے ارشاد فرمایا : جس نے سورة بقرہ پڑھی، پھر مجاہد نے تائید میں یہ آیت پڑھی : اور نازل کیا ہے ہم نے اس قرآن کو واضح مضامین کے ساتھ تاکہ پڑھ کر سناؤ تم اسے انسانوں کو ٹھہر ٹھہر کر اور نازل کیا ہے ہم نے اس کو بتدریج ( حسب موقع) ۔

30785

(۳۰۷۸۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ قَالَ: حَدَّثَنَا عُبَیْدُاللہِ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنُ مَوْہَبٍ، قَالَ: سَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ کَعْبٍ الْقُرَظِیَّ یَقُولُ: لأَنْ أَقْرَأَ: {إذَا زُلْزِلَتْ} وَ {الْقَارِعَۃُ} أُرَدِّدُہُمَا وَأَتَفَکَّرُ فِیہِمَا أَحَبُّ إلَیَّ مِنْ أَنْ أَہُذَّ الْقُرْآنَ۔
(٣٠٧٨٦) حضرت عبید اللہ بن عبد الرحمن بن موھب فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت محمد بن کعب القرظی کو یوں فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ! میں ان سورتوں کو پڑھوں : اذا زلزلت الارض اور سورة القارعۃ کو۔ میں ان دونوں کو بار بار پڑھوں اور ان دونوں میں غور و فکر کروں یہ مجھے زیادہ پسندیدہ ہے اس بات سے کہ میں قرآن کو جلدی جلدی پڑھوں۔

30786

(۳۰۷۸۷) حَدَّثَنَا مَعْنُ بْنُ عِیسَی، عَن ثَابِتِ بْنِ قَیْسٍ، قَالَ: سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ عَبْدِالْعَزِیزِ إذَا قَرَأَ تَرَسَّلَ فِی قِرَائَتِہِ۔
(٣٠٧٨٧) حضرت ثابت بن قیس فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر بن عبد العزیز کو قرآن پڑھتے ہوئے سنا : وہ ٹھہر ٹھہر کر پڑھتے تھے۔

30787

(۳۰۷۸۸) حَدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنْ أَبِی قِلابَۃَ ، أَنَّ أُنَاسًا مِنْ أَہْلِ الْکُوفَۃِ أتوا أبَا الدَّرْدَائِ، فَقَالُوا: إنَّ إخْوَانًا لک مِنْ أَہْلِ الْکُوفَۃِ یُقْرِئُ وْنَک السَّلامَ وَیَأْمُرُونَک أَنْ تُوصِیَہُمْ ، قَالَ: فَأَقْرِئُ وْہُمُ السَّلامَ وَمُرُوہُمْ فَلْیُعْطُوا الْقُرْآنَ خَزَائِمَہُ ، فَإِنَّہُ یَحْمِلُہُمْ عَلَی الْقَصْدِ وَالسُّہُولَۃِ ، وَیُجَنِّبُہُمُ الْجَوْرَ وَالْحُزُونَۃَ۔
(٣٠٧٨٨) حضرت ابو قلابہ فرماتے ہیں کہ کوفہ کے کچھ لوگ حضرت ابو الدردائ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا : آپ کے کوفہ کے بھائی آپ کو سلام کہہ رہے تھے اور آپ سے درخواست کر رہے تھے کہ آپ ان کے لیے کوئی وصیت کردیجیے۔ آپ نے فرمایا : پس تم ان کو سلام کہنا اور ان کو حکم دینا کہ وہ قرآن پر عمل کریں دل و جان سے وہ ان کو سہولت و آسانی دے گا۔ اور ان کو ظلم اور غم سے بچائے گا۔

30788

(۳۰۷۸۹) حَدَّثَنَا الثَّقَفِیُّ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنْ أَبِی قِلابَۃَ ، قَالَ: قَالَ أَبُو الدَّرْدَائِ: لاَ تَفْقَہُ کُلَّ الْفِقْہِ حَتَّی تَرَی لِلْقُرْآنِ وُجُوہًا کَثِیرَۃً۔
(٣٠٧٨٩) حضرت ابو قلابہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابو الدردائ نے ارشاد فرمایا : تم سارا قرآن نہیں سمجھ سکتے یہاں تک کہ تم قرآن کی ساری عملی صورتیں نہ دیکھ لو۔

30789

(۳۰۷۹۰) حَدَّثَنَا ہَوْذَۃُ بْنُ خَلِیفَۃ ، قَالَ: حدَّثَنَا عَوْفٌ ، عَن زِیَادِ بْنِ مِخْرَاقٍ ، عَنْ أَبِی کِنَانَۃَ ، عَنْ أَبِی مُوسَی ، قَالَ: أَعْطُوا الْقُرْآنَ خَزَائِمَہُ ، یَأْخُذْ بِکُمُ الْقَصْدَ وَالسُّہُولَۃَ وَیُجَنِّبْکُمُ الْجَوْرَ وَالْحُزُونَۃَ۔
(٣٠٧٩٠) حضرت ابو کنانہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابو موسیٰ نے ارشاد فرمایا : قرآن پر عمل کرو دل و جان سے، وہ تمہیں سہولت اور آسانی دے گا، اور تمہیں ظلم اور تکلیف سے بچائے گا۔

30790

(۳۰۷۹۱) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ ، عَن مُحَمَّدِ بْنِ إبْرَاہِیمَ ، عَن سَعْدٍ مَوْلَی عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ ، قَالَ: تَشَاجَرَ رَجُلانِ فِی آیَۃٍ فَارْتَفَعَا إِلَی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ: لاَ تُمَاروا فِیہِ فَإِنَّ مراء فِیہِ کُفْرٌ۔ (احمد ۲۰۴۔ بیہقی ۲۲۶۶)
(٣٠٧٩١) حضرت سعد جو کہ حضرت عمرو بن العاص کے آزاد کردہ غلام ہیں فرماتے ہیں کہ دو آدمی قرآن کی ایک آیت میں جھگڑ پڑے اور دونوں جھگڑا لے کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے فرمایا : تم اس میں جھگڑو مت۔ اس لیے کہ قرآن میں جھگڑنا کفر ہے۔

30791

(۳۰۷۹۲) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، قَالَ: حدَّثَنَا مُوسَی بْنُ عُبَیْدَۃَ ، قَالَ: أَخْبَرَنِی عَبْدُ اللہِ بْنُ یَزِیدَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ ثَوْبَانَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: دَعُوا الْمِرَائَ فِی الْقُرْآنِ فَإِنَّ الأُمَمَ قَبْلَکُمْ لَمْ یُلْعَنُوا حَتَّی اخْتَلَفُوا فِی الْقُرْآنِ ، فَإِنَّ مِرَائً فِی الْقُرْآنِ کُفْرٌ۔
(٣٠٧٩٢) حضرت عبداللہ بن عمرو فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : قرآن کے بارے میں جھگڑے کو چھوڑ دو پس بیشک تم سے پہلی امتوں پر لعنت نہیں کی گئی یہاں تک کہ انھوں نے قرآن میں اختلاف کیا۔ بلاشبہ قرآن کے بارے میں جھگڑا کفر ہے۔

30792

(۳۰۷۹۳) حَدَّثَنَا مَالِکٌ ، حَدَّثَنَا أَبُو قُدَامَۃَ ، قَالَ: حدَّثَنَا أَبُو عِمْرَانَ الْجَوْنِیُّ ، عَن جُنْدُبِ بْنِ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: اقْرَؤُوا الْقُرْآنَ مَا ائْتَلَفَتْ عَلَیْہِ قُلُوبُکُمْ ، فَإِذَا اخْتَلَفْتُمْ فِیہِ فَقُومُوا۔ (بخاری ۵۰۶۱۔ مسلم ۲۰۵۳)
(٣٠٧٩٣) حضرت جندب بن عبداللہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : قرآن کو پڑھو جب تک اس پر تمہارا دل مانوس رہے اور جب تم اس میں اختلاف کرو تو اٹھ جاؤ۔

30793

(۳۰۷۹۴) حَدَّثَنَا حَفْص ، عَن لَیْثٍ ، عَنْ عَطَائٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: لاَ تَضْرِبُوا الْقُرْآنَ بَعْضَہُ بِبَعْضٍ فَإِنَّ ذَلِکَ یُوقِعُ الشَّکَّ فِی الْقُلُوبِ۔
(٣٠٧٩٤) حضرت عطائ فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عباس نے ارشاد فرمایا : قرآن کے بعض حصہ کو بعض کے ساتھ خلط ملط مت کرو، اس لیے کہ یہ چیز دلوں میں شک پیدا کرتی ہے۔

30794

(۳۰۷۹۵) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ یَعْلَی التَّیْمِیُّ ، عَن مَنْصُورٍ ، عَن سَعْدِ بْنِ إِبْرَاہِیمَ ، عَن أَبِی سَلَمَۃَ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: جِدَالٌ فِی الْقُرْآنِ کُفْرٌ۔ (احمد ۴۷۸۔ ابویعلی ۵۹۹۰)
(٣٠٧٩٥) حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : قرآن کے بارے میں جھگڑا کرنا کفر ہے۔

30795

(۳۰۷۹۶) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَن شُعْبَۃَ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ مَیْسَرَۃَ ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّزَّالَ یَقُولُ: قَالَ عَبْدُ اللہِ: سَمِعْت رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ: إنَّ مَنْ قَبْلَکُمُ اخْتَلَفُوا فِیہِ فَأَہْلَکَہُمْ فَلا تَخْتَلِفُوا فِیہِ یَعْنِی فی الْقُرْآنِ۔ (بخاری ۲۴۱۰۔ احمد ۳۹۳)
(٣٠٧٩٦) حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یوں فرماتے ہوئے سنا ہے کہ بلاشبہ تم سے پہلے لوگوں نے اس میں اختلاف کیا تو اللہ نے ان کو ہلاک و برباد کردیا۔ پس تم اس میں اختلاف مت کرو، یعنی قرآن میں۔

30796

(۳۰۷۹۷) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِِ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنِ الْحَارِثِ ، عَنْ عَلِیٍّ ، قَالَ: مَثَلُ الَّذِی جَمَعَ الإِیمَانَ وَجَمَعَ الْقُرْآنَ مِثْلُ الأُتْرُجَّۃِ الطَّیِّبَۃِ الطَّعْمِ ، وَمَثَلُ الَّذِی لَمْ یَجْمَعِ الإِیمَانَ وَلَمْ یَجْمَعِ الْقُرْآنَ مِثْلُ الْحَنْظَلَۃِ خَبِیثَۃُ الطَّعْمِ وَخَبِیثَۃُ الرِّیحِ۔ (دارمی ۳۳۶۲)
(٣٠٧٩٧) حضرت حارث فرماتے ہیں کہ حضرت علی نے ارشاد فرمایا : مثال اس شخص کی جو ایمان اور قرآن کو جمع کرنے والا ہو ترنج کی سی ہے اس کی خوشبو عمدہ ہے اور مزہ لذیذ۔ اور مثال اس شخص کی جو نہ ایمان جمع کرے اور نہ ہی قرآن جمع کرے حنظل کے پھل کی سی ہے جو بدمزہ اور بدبو والا ہوتا ہے۔

30797

(۳۰۷۹۸) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ: حدَّثَنَا ہَمَّامٌ ، قَالَ: حَدَّثَنَا قَتَادَۃُ ، عَنْ أَنَسٍ ، أَنَّ أَبَا مُوسَی حَدَّثَہُ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَثَلُ الْمُؤْمِنِ الَّذِی لاَ یَقْرَأُ الْقُرْآنَ کَمَثَلِ التَّمْرَۃِ طَعْمُہَا طَیِّبٌ ، وَلا رِیحَ لَہَا ، وَمَثَلُ الْمُؤْمِنِ الَّذِی یَقْرَأُ الْقُرْآنَ کَمَثَلِ الأُتْرُجَّۃِ طَیِّبَۃُ الطَّعْمِ طَیِّبَۃُ الرِّیحِ ، وَمَثَلُ الْفَاجِرِ الَّذِی لاَ یَقْرَأُ الْقُرْآنَ کَمَثَلِ الْحَنْظَلَۃِ طَعْمُہَا مُرٌّ ، وَلا رِیحَ لَہَا۔ (بخاری ۵۰۲۰۔ ابن حبان ۷۷۰)
(٣٠٧٩٨) حضرت ابو موسیٰ فرماتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : مثال : اس مومن کی جو قرآن شریف نہ پڑھے کھجور کی سی ہے کہ مزہ شیریں ہوتا ہے مگر خوشبو کچھ نہیں اور مثال اس مومن کی جو قرآن شریف پڑھے ترنج کی سی ہے کہ مزہ لذیذ اور خوشبو بھی عمدہ۔ اور مثال اس گناہ گار کی جو قرآن نہ پڑھے حنظل کے پھل کی سی ہے جس کا ذائقہ بھی کڑوا اور خوشبو بھی عمدہ نہیں۔

30798

(۳۰۷۹۹) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِی عَبْدِ الرَّحْمَنِ، قَالَ: الْقُرْآنُ وَحْشِیٌّ، وَلا یَصْلُحُ مَعَ اللَّغَطِ۔
(٣٠٧٩٩) حضرت اعمش فرماتے ہیں کہ حضرت ابو عبد الرحمن نے ارشاد فرمایا : قرآن تو اکیلا ہے اور یہ شور کے ساتھ پڑھے جانے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔

30799

(۳۰۸۰۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ: حدَّثَنَا ہِشَامٌ الدَّسْتَوَائِیّ ، عَن قَتَادَۃَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، عَن قَیْسِ بْنِ عُبَادٍ ، قَالَ: کَانَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَکْرَہُونَ رَفْعَ الصَّوْتِ عِنْدَ الذِّکْرِ۔
(٣٠٨٠٠) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ حضرت قیس بن عباد نے ارشاد فرمایا : کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ ذکر کے وقت آواز بلند کرنے کو ناپسند کرتے تھے۔

30800

(۳۰۸۰۱) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَن حَمَّادِ بْنِ سَلَمَۃَ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ زَیْدٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یَکْرَہُ رَفْعَ الصَّوْتِ عِنْدَ قِرَائَۃِ الْقُرْآنِ۔
(٣٠٨٠١) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قرآن پڑھتے وقت آواز بلند کرنے کو ناپسند کرتے تھے۔

30801

(۳۰۸۰۲) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَن خَیْثَمَۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو ، قَالَ: انْتَہَیْت إلَیْہِ وَہُوَ یَنْظُرُ فِی الْمُصْحَفِ ، قَالَ: قُلْتُ: أَیُّ شَیْئٍ تَقْرَأُ فِی الْمُصْحَفِ ؟ قَالَ: حِزْبِی الَّذِی أَقُومُ بِہِ اللَّیْلَۃَ۔
(٣٠٨٠٢) حضرت خیثمہ فرماتے ہیں کہ میں حضرت عبداللہ بن عمرو کے پاس گیا تو وہ قرآن میں دیکھ رہے تھے : راوی کہتے ہیں : میں نے پوچھا ! آپ قرآن میں کیا چیز پڑھ رہے ہیں ؟ فرمایا : اپنی تلاوت کا وہ حصہ جو میں رات میں پڑھتا ہوں۔

30802

(۳۰۸۰۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن سُفْیَانَ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَن زِرٍّ ، قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللہِ: أَدِیمُوا النَّظَرَ فِی الْمَصَاحِفِ۔
(٣٠٨٠٣) حضرت زرّ فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ نے ارشاد فرمایا : مصاحف قرآنی میں اپنی نظر مسلسل جما کے رکھو۔

30803

(۳۰۸۰۴) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ أَبِی مُوسَی ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ: دَخَلُوا عَلَی عُثْمَانَ وَالْمُصْحَفُ فِی حِجْرِہِ۔
(٣٠٨٠٤) حضرت ابو موسیٰ فرماتے ہیں کہ حضرت حسن نے فرمایا : بلوائی حضرت عثمان پر داخل ہوئے اس حال میں کہ قرآن ان کی گود میں تھا۔

30804

(۳۰۸۰۵) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ یُونُس ، قَالَ: کَانَ من خُلُقُ الأَوَّلِینَ النَّظَرَ فِی الْمَصَاحِفِ ، وَکَانَ الأَحْنَفُ بْنُ قَیْسٍ إذَا خَلا نَظَرَ فِی الْمُصْحَفِ۔
(٣٠٨٠٥) حضرت ابن علیہ فرماتے ہیں کہ حضرت یونس نے ارشاد فرمایا : پہلے لوگوں کے اچھے اخلاق میں سے تھا قرآن میں دیکھنا ، اور حضرت احنف بن قیس جب فارغ ہوتے تو قرآن میں دیکھتے رہتے۔

30805

(۳۰۸۰۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ: حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَن سُرِّیَّۃَ الرَّبِیعِ قَالَتْ: کَانَ الرَّبِیعُ یَقْرَأُ فِی الْمُصْحَفِ ، فَإِذَا دَخَلَ إنْسَانٌ غَطَّاہُ ، وَقَالَ: لاَ یَرَی ہَذَا أَنِّی أَقْرَأُ فِیہِ کُلَّ سَاعَۃٍ۔
(٣٠٨٠٦) حضرت سرّیہ الربیع فرماتے ہیں کہ حضرت ربیع قرآن میں دیکھ کر پڑھتے رہتے تھے۔ پس جب کوئی انسان داخل ہوتا تو اس مصحف کو چھپالیتے۔ اور فرماتے : یہ شخص نہ دیکھے کہ میں ہر وقت قرآن میں ہی دیکھ کر پڑھتا ہوں۔

30806

(۳۰۸۰۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ: حدَّثَنَا الأَعْمَشُ ، قَالَ: کَانَ إبْرَاہِیمُ یَقْرَأُ فِی الْمُصْحَفِ فَإِذَا دَخَلَ عَلَیْہِ إنْسَانٌ غَطَّاہُ ، وَقَالَ: لاَ یَرَی ہَذَا أَنِّی أَقْرَأُ فِیہِ کُلَّ سَاعَۃٍ۔
(٣٠٨٠٧) حضرت اعمش فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم قرآن میں دیکھ کر پڑھا کرتے تھے پس جب کوئی انسان داخل ہوتا تو آپ اس مصحف کو چھپالیتے اور فرماتے کوئی یہ نہ دیکھے کہ میں ہر وقت اس میں دیکھ کر پڑھتا ہوں۔

30807

(۳۰۸۰۸) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَن مَنْصُورٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، عَنِ الأَسْوَدِ ، عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ: إنِّی لأَقْرَأُ جزئی ، أَوْ عَامَّۃَ جزئی ، وَأَنَا مُضْطَجِعَۃٌ عَلَی فِرَاشِی۔
(٣٠٨٠٨) حضرت اسود فرماتے ہیں کہ حضرت عائشہ نے ارشاد فرمایا : میں اپنے سپارے یا اپنے قرآن کے حصہ کو پڑھتی تھی اس حال میں کہ میں اپنے بستر پر لیٹی ہوتی تھی۔

30808

(۳۰۸۰۹) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، عَن مُوسَی بْنِ عُلَیٍّ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبِی ، قَالَ: أَمْسَکْت عَلَی فَضَالَۃَ بْنِ عُبَیْدٍ الْقُرْآنَ حَتَّی فَرَغَ مِنْہُ۔
(٣٠٨٠٩) حضرت موسیٰ بن علی فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے والد کو یوں فرماتے ہوئے سنا : میں نے حضرت فضالہ بن عبید کو قرآن سے روکا یہاں تک کہ وہ اس سے فارغ ہوئے۔

30809

(۳۰۸۱۰) حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ حَرْبٍ ، قَالَ: حدَّثَنَا أَبُو ہِلالٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو صَالِحٍ الْعُقَیْلِیُّ ، قَالَ: کَانَ أَبُو الْعَلائِ یَزِیدُ بْنُ عَبْدِ اللہِ بْنِ الشِّخِّیرِ یَقْرَأُ فِی الْمُصْحَفِ حَتَّی یُغْشَی عَلَیْہِ۔
(٣٠٨١٠) حضرت ابو صالح العقیلی فرماتے ہیں کہ حضرت ابو العلاء یزید بن عبداللہ بن الشخّیر قرآن میں دیکھ کر تلاوت فرمایا کرتے تھے یہاں تک کہ ان پر بےہوشی طاری ہوجاتی۔

30810

(۳۰۸۱۱) حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ ، عَن لَیْثٍ ، قَالَ: رَأَیْتُ طَلْحَۃَ یَقْرَأُ فِی الْمُصْحَفِ۔
(٣٠٨١١) حضرت لیث فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت طلحہ کو دیکھا کہ وہ قرآن میں دیکھ کر تلاوت فرما رہے تھے۔

30811

(۳۰۸۱۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، عَن سُفْیَانَ، عَن مَنْصُورٍ، عَنْ إبْرَاہِیمَ کَرِہَ أَنْ یَقُولَ: قرَائَۃُ فُلانٍ وَیَقُولُ: کَمَا یَقْرَأُ فُلانٌ۔
(٣٠٨١٢) حضرت منصور فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم یوں کہنا ناپسند کرتے تھے : فلاں کی قراءت ، یوں فرماتے ! جیسا کہ فلاں پڑھتا ہے۔

30812

(۳۰۸۱۳) حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ ، عَن دَاوُد ، عَن عِکْرِمَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: نَزَلَ الْقُرْآنُ جُمْلَۃً مِنَ السَّمَائِ الْعُلْیَا إِلَی السَّمَائِ الدُّنْیَا فِی رَمَضَانَ ، فَکَانَ اللَّہُ إذَا أَرَادَ أَنْ یُحْدِثَ شَیْئًا أَحْدَثَہُ۔
(٣٠٨١٣) حضرت عکرمہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عباس نے ارشاد فرمایا : پورا قرآن اوپر والے آسمان سے آسمانِ دنیا تک رمضان میں اترا۔ پھر اللہ جب کسی چیز کو وجود میں لانے کا ارادہ فرماتے تو اس کو نازل فرما دیتے۔

30813

(۳۰۸۱۴) حَدَّثَنَا الثَّقَفِیُّ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنْ أَبِی قِلابَۃَ ، قَالَ: نَزَلَتِ التَّوْرَاۃُ لِسِتٍّ خَلَوْنَ مِنْ رَمَضَانَ ، وَأُنْزِلَ الْقُرْآنُ لأَرْبَعٍ وَعِشْرِینَ۔
(٣٠٨١٤) حضرت ایوب فرماتے ہیں کہ حضرت ابوقلابہ نے ارشاد فرمایا : توراۃ رمضان کی چھ تاریخ کو نازل ہوئی۔ اور قرآن چوبیس رمضان کو اتارا گیا۔

30814

(۳۰۸۱۵) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ یَمَانٍ ، عَن سُفْیَانَ ، عَن خَالِدٍ ، عَنْ أَبِی قِلابَۃَ ، قَالَ: نَزَلَتِ الْکُتُبُ کلہا لَیْلَۃَ أَرْبَعٍ وَعِشْرِینَ مِنْ رَمَضَانَ۔
(٣٠٨١٥) حضرت خالد فرماتے ہیں کہ حضرت ابو قلابہ نے ارشاد فرمایا؛ ساری آسمانی کتابیں رمضان کی چوبیس تاریخ کو نازل ہوئیں۔

30815

(۳۰۸۱۶) حَدَّثَنَا مُعَاوِیَۃُ بْنُ ہِشَامٍ ، قَالَ: حدَّثَنَا عَمَّارُ بْنُ رُزَیْقٍ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَن حَسَّانَ بْنِ أَبِی الأَشْرَسِ ، عَن سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ فِی قَوْلِہِ: إنَّا أَنْزَلْنَاہُ فِی لَیْلَۃِ الْقَدْرِ ، قَالَ: دُفِعَ إِلَی جِبْرِیلَ لَیْلَۃَ الْقَدْرِ جُمْلَۃً ،فوضع فِی بَیْتِ الْعِزَّۃِ ثم جَعَلَ یَنْزِلُہ تَنْزِیلاً۔
(٣٠٨١٦) حضرت سعید بن جبیر فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عباس نے اللہ کے قول۔ یقیناً ہم نے ہی نازل کیا ہے قرآن کو شب قدر میں۔ کے بارے میں ارشاد فرمایا : حضرت جبرائیل کو سارا قرآن شب قدر میں ہی سپرد کردیا گیا تھا۔ پس اس کو بیت العزہ میں رکھا گیا، پھر وہ اس کو تدریجاً نازل کرتے رہے۔

30816

(۳۰۸۱۷) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، عَن سُفْیَانَ ، قَالَ: أَخْبَرَنِی مَنْ سَمِعَ أَبَا الْعَالِیَۃَ یَذْکُرُ ، عَنْ أَبِی الْجَلْدِ ، قَالَ: نَزَلَتْ صُحُفُ إبْرَاہِیمَ أَوَّلَ لَیْلَۃٍ مِنْ رَمَضَانَ ، وَنَزَلَت الزَّبُورُ فِی سِتٍّ ، وَالإِنْجِیلُ فِی ، ثَمَانِ عَشْرَۃَ ، وَالْقُرْآنُ فِی أَرْبَعٍ وَعِشْرِینَ۔
(٣٠٨١٧) حضرت ابو العالیہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابو الجلد نے ارشاد فرمایا : حضرت ابراہیم کے صحیفے رمضان کی پہلی رات میں نازل ہوئے ۔ اور زبور چھٹی رات میں اور انجیل اٹھارہویں رات میں ۔ اور قرآن چوبیسویں رات میں نازل ہوا۔

30817

(۳۰۸۱۸) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ الشَّیْبَانِیِّ ، عَن وَاصِلِ بْنِ حَیَّانَ ، عَن شَقِیقِ بْنِ سَلَمَۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ: کَیْفَ أَنْتُمْ إذَا أُسْرِیَ عَلَی کِتَابِ اللہِ فَذُہِبَ بِہِ ؟ قَالَ: یَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، کَیْفَ بِمَا فِی أَجَْوَافِ الرِّجَالِ ، قَالَ: یَبْعَثُ اللَّہُ رِیحًا طَیِّبَۃً فَتَکْفِتُ کُلَّ مُؤْمِنٍ۔
(٣٠٨١٨) حضرت شقیق بن سلمہ فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود نے ارشاد فرمایا : تم لوگ کس حال میں ہو گے جب قرآن پر ایک رات ایسی آئے گی کہ قرآن کو اٹھا لیا جائے گا، راوی نے پوچھا : اے عبد الرحمن ! یہ کیسے ممکن ہوگا حالانکہ قرآن تو مردوں کے سینوں میں محفوظ ہے ؟ آپ نے فرمایا : اللہ ایک پاکیزہ ہوا بھیجیں گے پس تمام فوت ہوجائیں گے۔

30818

(۳۰۸۱۹) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِِ ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِیزِ بْنِ رُفَیْعٍ ، عَن شَدَّادِ بْنِ مَعْقِلٍ ، قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللہِ: إنَّ ہَذَا الْقُرْآنَ الَّذِی بَیْنَ أَظْہُرِکُمْ یُوشِکُ أَنْ یُنْزَعَ مِنْکُمْ ، قَالَ: قُلْتُ: کَیْفَ یُنْزَعُ مِنَّا وَقَدْ أثْبَتَہُ اللَّہُ فِی قُلُوبِنَا وَأَثْبَتْنَاہُ فِی مَصَاحِفِنَا قَالَ: یُسْرَی عَلَیْہِ فِی لَیْلَۃٍ وَاحِدَۃٍ فَیَنْتزِعُ مَا فِی الْقُلُوبِ وَیَذْہَبُ مَا فِی الْمَصَاحِفِ وَیُصْبِحُ النَّاسُ مِنْہُ فُقَرَائَ ، ثُمَّ قَرَأَ {وَلَئِنْ شِئْنَا لَنَذْہَبَنَّ بِالَّذِی أَوْحَیْنَا إلَیْک} ۔ (عبدالرزاق ۵۹۸۱)
(٣٠٨١٩) حضرت شداد بن معقل فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود نے ارشاد فرمایا : بلاشبہ یہ قرآن جو تمہارے سینوں میں محفوظ ہے۔ قریب ہے کہ یہ تم سے چھین لیا جائے گا۔ راوی فرماتے ہیں ! میں نے عرض کیا : کیسے ہم سے اس کو چھین لیا جائے گا حالانکہ ہم نے اس کو اپنے دلوں میں محفوظ کیا ہے اور اپنے صحیفوں میں اس کو ضبط کیا ہے ؟ ! آپ نے فرمایا : پس اس پر ایک رات ایسی گزرے گی کہ جو کچھ دلوں میں محفوظ ہوگا اس کو چھین لیا جائے گا اور جو کچھ مصاحف میں ضبط ہوگا اے مٹا دیا جائے گا۔ اور لوگ صبح کریں گے اس حال میں کہ وہ اس سے خالی ہوں گے پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی : اور اگر ہم چاہیں تو چھین لے جائیں وہ سب جو ہم نے وحی کیا ہے تمہاری طرف۔

30819

(۳۰۸۲۰) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِِ ، عَن سِمَاکٍ ، عَن عِکْرِمَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: لَیَقْرَأَنَّ الْقُرْآنَ أَقْوَامٌ مِنْ أُمَّتِی یَمْرُقُونَ مِنَ الإِسْلامِ کَمَا یَمْرُقُ السَّہْمُ مِنَ الرَّمِیَّۃِ۔ (ابن ماجہ ۱۷۱۔ احمد ۲۵۶)
(٣٠٨٢٠) حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : میری امت میں سے کچھ لوگ ضرور قرآن پڑھیں گے اور وہ اسلام سے ایسے نکل جائیں گے جیسا کہ تیر شکار میں سے آر پار ہو کر نکل جاتا ہے۔

30820

(۳۰۸۲۱) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَنِ الشَّیْبَانِیِّ ، عَن یُسَیْرِ بْنِ عَمْرٍو ، قَالَ: سَأَلْتُ سَہْلَ بْنَ حُنَیْفٍ: مَا سَمِعْتَ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَذْکُرُ ہَؤُلائِ الْخَوَارِجَ ؟ ، قَالَ: سَمِعْتُہُ وَأَشَارَ بِیَدِہِ نَحْوَ الْمَشْرِقِ: یَخْرُجُ مِنْہُ قَوْمٌ یَقْرَؤُونَ الْقُرْآنَ بِأَلْسِنَتِہِمْ لاَ یَعْدُو تَرَاقِیَہُمْ ، یَمْرُقُونَ مِنَ الدِّینِ کَمَا یَمْرُقُ السَّہْمُ مِنَ الرَّمِیَّۃِ۔ (بخاری ۶۹۳۴۔ مسلم ۷۵۰)
(٣٠٨٢١) حضرت یسیر بن عمرو فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت سھل بن حنیف سے سوال کیا : کیا آپ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان خارجیوں کا ذکر کرتے ہوئے کبھی سنا تھا ؟ آپ نے فرمایا : میں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سنا اس حال میں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے ہاتھ سے مشرق کی جانب اشارہ کر کے فرمایا : یہاں سے ایک گروہ نکلے گا جو اپنی زبانوں سے قرآن کی تلاوت کریں گے اور قرآن ان کے حلق سے تجاوز نہیں کرے گا ، وہ دین سے ایسے نکلیں گے جیسا کہ تیر شکار سے آر پار ہو کر نکل جاتا ہے۔

30821

(۳۰۸۲۲) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ الْحُبَابِ ، قَالَ: حدَّثَنِی قرۃ بْنُ خَالِدٍ السَّدُوسِیُّ ، قَالَ: حَدَّثَنِی أَبُو الزُّبَیْرِ ، عَنْ جَابِرٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَجِیئُ قَوْمٌ یَقْرَؤُونَ الْقُرْآنَ لاَ یُجَاوِزُ تَرَاقِیَہُمْ ، یَمْرُقُونَ مِنَ الدِّینِ کَمَا یَمْرُقُ السَّہْمُ مِنَ الرَّمِیَّۃِ عَلَی فُوقِہِ۔ (مسلم ۱۴۲۔ احمد ۳۵۳)
(٣٠٨٢٢) حضرت جابر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ایک قوم ایسی آئے گی جو قرآن پڑھیں گے مگر قرآن ان کے حلقوں سے کبھی تجاوز نہیں کرے گا وہ دین سے ایسے نکل جائیں گے جیسا کہ تیر کا پھل شکار سے آر پار ہو کر نکل جاتا ہے۔

30822

(۳۰۸۲۳) حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ عَیَّاشٍ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَن زِرٍّ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: یَخْرُجُ فِی آخِرِ الزَّمَانِ قَوْمٌ أَحْدَاثُ الأَسْنَانِ سُفَہَائُ الأَحْلامِ یَقْرَؤُونَ الْقُرْآنَ لاَ یُجَاوِزُ حَنَاجِرَہُمْ۔ (ترمذی ۲۱۸۸۔ احمد ۴۰۴)
(٣٠٨٢٣) حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : آخری زمانے میں کچھ لوگ نکلیں گے جو نو عمر ہوں گے اور عقل کے بیوقوف ہوں گے وہ قرآن پڑھتے ہوں گے لیکن وہ ان کے نرخروں سے متجاوز نہیں ہوگا۔

30823

(۳۰۸۲۴) حَدَّثَنَا یُونُسُ بْنُ مُحَمَّد ٍحَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَنِ الأَزْرَقِ بْنِ قَیْسٍ ، عَن شَرِیکِ بْنِ شِہَابٍ الْحَارِثِیِّ ، عَنْ أَبِی بَرْزَۃَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: یَخْرُجُ قَوْمٌ مِنَ قبل الْمَشْرِقِ یَقْرَؤُونَ الْقُرْآنَ لاَ یُجَاوِزُ تَرَاقِیَہُمْ یَمْرُقُونَ مِنَ الدِّینِ کَمَا یَمْرُقُ السَّہْمُ مِنَ الرَّمِیَّۃِ لاَ یَرْجِعُونَ إلَیْہِ۔ (احمد ۴۲۱۔ حاکم ۱۴۶)
(٣٠٨٢٤) حضرت ابو برزہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : مشرق کی جانب سے کچھ لوگ نکلیں گے وہ قرآن کو پڑھتے ہوں گے لیکن وہ ان کے گلوں سے نیچے نہیں اترے گا ، وہ دین سے ایسے نکل جائیں گے ، جیسا کہ تیر شکار سے آر پار ہو کر نکل جاتا ہے ، پھر وہ اسلام کی طرف واپس نہیں لوٹیں گے۔

30824

(۳۰۸۲۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ: حدَّثَنَا الأَعْمَشُ ، عَن سَالِمِ بْنِ أَبِی الْجَعْدِ ، عَن زِیَادِ بْنِ لَبِیدٍ ، قَالَ: ذَکَرَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ شَیْئًا فَقَالَ: وَذَاکَ عِنْدَ أَوانِ ذَہَابِ الْعِلْمِ ، قَالَ: قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللہِ ، کَیْفَ یَذْہَبُ الْعِلْمُ وَنَحْنُ نَقْرَأُ الْقُرْآنَ وَنُقْرِئُہُ أَبْنَائَنَا وَیُقْرِئُہُ أَبْنَاؤُنَا أَبْنَائَہُمْ إِلَی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ ، قَالَ: ثَکِلَتْک أُمُّک زِیَادُ ، إِنْ کُنْت لأرَاک مِنْ أَفْقَہِ رَجُلٍ بِالْمَدِینَۃِ ، أَو لَیْسَ ہَذِہِ الْیَہُودُ وَالنَّصَارَی یَقْرَؤُونَ التَّوْرَاۃَ وَالإِنْجِیلَ، لاَ یَعْمَلُونَ بِشَیْئٍ مِمَّا فِیہِمَا۔ (احمد ۱۶۰۔ طبرانی ۵۲۹۱)
(٣٠٨٢٥) حضرت زیاد بن لبید فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے چند فتنوں کا ذکر کیا : پھر فرمایا : یہ سب علم کے اٹھ جانے کے وقت ہوگا، راوی فرماتے ہیں : میں نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! علم کیسے اٹھ جائے گا حالانکہ ہم قرآن پڑھتے ہیں اور اپنی اولادوں کو پڑھاتے ہیں اور آگے وہ اپنی اولادوں کو پڑھائیں گے ، یوں سلسلہ قیامت تک جاری رہے گاَ ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : تیری ماں تجھے گم پائے اے زیاد ! میں تو تجھے مدینہ میں سب سے سمجھ دار آدمی سمجھتا تھا ! کیا یہ یہود و نصاریٰ توراۃ اور انجیل نہیں پڑھتے اور یہ لوگ ان میں پائی جانے والی تعلیمات پر عمل نہیں کرتے ؟

30825

(۳۰۸۲۶) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنِ أَبِی سِنَان ، عَنْ أَبِی الْمبَارکِ ، عَنْ عَطَائٍ ، عَنْ أَبِی سَعِیدٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: مَا آمَنَ بِالْقُرْآنِ مَنِ اسْتَحَلَّ مَحَارِمَہُ۔ (عبد بن حمدع ۱۰۰۳)
(٣٠٨٢٦) حضرت ابو سعید خدری فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : وہ شخص قرآن پر ایمان ہی نہیں لایا جس نے اس کے محارم کو حلال سمجھا۔

30826

(۳۰۸۲۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ ابْنِ سِنَانٍ ، عَنْ أَبِی الْمبَارکِ ، عَن صُہَیْبٍ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِمِثْلِہِ۔ (ترمذی ۲۹۱۸)
(٣٠٨٢٧) حضرت صھیب فرماتے ہیں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : پھر راوی نے ما قبل جیسی حدیث ذکر کی۔

30827

(۳۰۸۲۸) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَنْ زَائِدَۃَ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَن زِرٍّ ، قَالَ: قُلْتُ لأُبَیٍّ: إنَّ ابْنَ مَسْعُودٍ لاَ یَکْتُبُ الْمُعَوِّذَتَیْنِ فِی مُصْحَفِہِ ، فَقَالَ: إنِّی سَأَلْت عَنْہُمَا النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: قِیلَ لِی ، فَقُلْتُ: فَقَالَ: أُبَیٌّ: وَنَحْنُ نَقُولُ کَمَا قِیلَ لَنَا۔ (بخاری ۴۹۷۶۔ ابن حبان ۴۴۲۹)
(٣٠٨٢٨) حضرت زرّ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابی سے پوچھا ! حضرت ابن مسعود معوذتین کو صحیفہ میں نہیں لکھتے اور فرماتے ہیں : میں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ان دونوں سورتوں کی بابت سوال کیا تھا، تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : یہ تو مجھے پڑھنے کے لیے دی گئی تھیں پس میں نے ان کو پڑھ لاِ ۔ تو حضرت ابی ّ نے جواباً ارشاد فرمایا : اور ہم ان کو پڑھتے ہیں جیسا کہ ہمیں کہا گیا ہے۔

30828

(۳۰۸۲۹) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَن زَائِدَۃَ ، عَن حُصَیْنٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ: الْمُعَوِّذَتَانِ مِنَ الْقُرْآنِ۔
(٣٠٨٢٩) حضرت حصین فرماتے ہیں کہ امام شعبی نے ارشاد فرمایا : معوذتین قرآن کا حصہ ہیں۔

30829

(۳۰۸۳۰) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَن حُصَیْنٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ بِنَحْوٍ مِنْہُ۔
(٣٠٨٣٠) حضرت حصین سے امام شعبی کا ما قبل جیسا ارشاد اس سند سے مروی ہے۔

30830

(۳۰۸۳۱) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِِ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ یَزِیدَ ، قَالَ: رَأَیْتُ عَبْدَ اللہِ یَحک الْمُعَوِّذَتَیْنِ مِنْ مَصَاحِفِہِ ، وقال: لاَ تَخْلِطُوا فِیہِ مَا لَیْسَ مِنْہُ۔ (احمد ۱۲۹۔ طبرانی ۹۱۴۸)
(٣٠٨٣١) حضرت عبد الرحمن بن یزید فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن مسعود کو دیکھا کہ وہ معوذتین کو اپنے صحیفوں میں سے کھرچ کر مٹا رہے تھے اور فرمایا : جو قرآن میں سے نہیں ہے اس کو اس میں خلط ملط مت کرو۔

30831

(۳۰۸۳۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ: حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ: قُلْتُ لِلأََسْوَدِ: مِنَ الْقُرْآنِ ہُمَا ؟ قَالَ: نَعَمْ یَعْنِی الْمُعَوِّذَتَیْنِ۔
(٣٠٨٣٢) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت اسود سے دریافت کیا : کیا یہ دونوں قرآن کا حصہ ہیں ؟ آپ نے فرمایا : جی ہاں ! یعنی معوذتین۔

30832

(۳۰۸۳۳) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ أَبِی بُکَیْرٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ بْنِ رَافِعٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ سُلَیْمَانَ مَوْلَی أُمِّ عَلِیٍّ ، أَنَّ مُجَاہِدًا کَانَ یَکْرَہُ أَنْ یَقْرَأَ بِالْمُعَوِّذَاتِ وَحْدَہَا حَتَّی یَجْعَلَ مَعَہَا سُورَۃً أُخْرَی۔
(٣٠٨٣٣) حضرت سلمان جو کہ ام علی کے آزاد کردہ غلام ہیں فرماتے ہیں کہ بلاشبہ حضرت مجاہد ناپسند کرتے تھے کہ وہ صرف معوذتین کو اکیلے پڑھیں ۔ یہاں تک کہ وہ اس کے ساتھ دوسری سورت کو ملا لیتے۔

30833

(۳۰۸۳۴) حَدَّثَنَا مُطَّلِبُ بْنُ زِیَادٍ ، عَن مُحَمَّدِ بْنِ سَالِمٍ ، قَالَ: قُلْتُ لأَبِی جَعْفَرٍ: إنَّ ابْنَ مَسْعُودٍ مَحَا الْمُعَوِّذَتَیْنِ مِنْ مُصْحَفِہِ ، فَقَالَ: اقْرَأْ بِہِمَا۔
(٣٠٨٣٤) حضرت محمد بن سالم فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابو جعفر سے عرض کیا : بلاشبہ حضرت ابن مسعود نے معوذتین کو مصاحف سے مٹا دیا تھا ! تو آپ نے فرمایا : تم ان دونوں کو پڑھا کرو۔

30834

(۳۰۸۳۵) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ: حدَّثَنَا أَبُو ہِلالٍ ، قَالَ: حدَّثَنَا مَنْصُورٌ الْقَصَّابُ ، قَالَ: سَأَلْتُ الْحَسَنَ قُلْتُ: یَا أَبَا سَعِیدٍ ، أَقْرَأُ الْمُعَوِّذَتَیْنِ فِی صَلاۃِ الْفَجْرِ ؟ فقَالَ: نَعَمْ إِنْ شِئْتَ ، سُورَتَانِ مُبَارَکَتَانِ طَیِّبَتَانِ۔
(٣٠٨٣٥) حضرت منصور قصاب فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت حسن سے پوچھا : اے ابو سعید ! کیا میں معوذتین کو فجر کی نماز میں پڑھ سکتا ہوں ؟ تو آپ نے فرمایا : ہاں اگر تم چاہو، یہ دونوں بہت مبارک اور پاکیزہ سورتیں ہیں۔

30835

(۳۰۸۳۶) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَن سُفْیَانَ ، عَن مُعَاوِیَۃَ بْنِ صَالِحٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ جُبَیْرٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَن عُقْبَۃَ بْنِ عَامِرٍ ، أَنَّہُ سَأَلَ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنِ الْمُعَوِّذَتَیْنِ ، قَالَ: فَأَمَّنَا بِہِمَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی صَلاۃِ الْفَجْرِ۔ (ابویعلی ۱۷۲۸۔ حاکم ۲۴۰)
(٣٠٨٣٦) حضرت عقبہ بن عامر فرماتے ہیں کہ انھوں نے حضرت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے معوذتین کی بابت پوچھا ! آپ فرماتے ہیں : پس آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان دونوں سورتوں کے ساتھ فجر کی نماز میں ہماری امامت کروائی۔

30836

(۳۰۸۳۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن ہِشَامِ بْنِ الْغَازِ ، عَن سُلَیْمَانَ بْنِ مُوسَی ، عَن عُقْبَۃَ بْنِ عَامِرٍ ، قَالَ: کُنْتُ مَعَ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی سَفَرٍ ، فَلَمَّا طَلَعَ الْفَجْرُ أَذَّنَ وَأَقَامَ ، ثُمَّ أَقَامَنِی عَن یَمِینِہِ وَقَرَأَ بِالْمُعَوِّذَتَیْنِ فَلَمَّا انْصَرَفَ ، قَالَ: کَیْفَ رَأَیْت ؟ قُلْتُ: قَدْ رَأَیْت یَا رَسُولَ اللہِ ، قَالَ: فَاقْرَأْ بِہِمَا کُلَّمَا نِمْت وَکُلَّمَا قُمْت۔
(٣٠٨٣٧) حضرت عقبہ بن عامر فرماتے ہیں کہ میں ایک سفر میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ تھا۔ پس جب فجر صادق طلوع ہوئی ۔ میں نے اذان دی اور اقامت کہی۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے اپنے دائیں جانب کھڑا کیا اور معوذتین کی تلاوت فرمائی۔ پس جب نماز سے فارغ ہوئے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تو نے دیکھ لیا جو میں نے پڑھا ؟ مں ھ نے کہا : اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! تحقیق میں نے دیکھ لیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تو ان دونوں سورتوں کو پڑھا کر جب بھی تو سو اور جب بھی تو بیدار ہو۔

30837

(۳۰۸۳۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ ، قَالَ: کَانَ ابْنُ مَسْعُودٍ لاَ یَکْتُبُ الْمُعَوِّذَتَیْنِ۔
(٣٠٨٣٨) حضرت ابن سیرین فرماتے ہیں کہ حضرت ابن مسعود معوذتین کو نہیں لکھتے تھے۔

30838

(۳۰۸۳۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ: حدَّثَنَا إسْرَائِیلُ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنِ الْبَرَائِ ، قَالَ ، آخِرُ سُورَۃٍ نَزَلَتْ کَامِلَۃً بَرَائَۃٌ ، وَآخِرُ آیَۃٍ نَزَلَتْ فِی الْقُرْآنِ: {یَسْتَفْتُونَک قُلَ اللَّہُ یُفْتِیکُمْ فِی الْکَلالَۃِ} ۔ (مسلم ۴۶۵۴)
(٣٠٨٣٩) حضرت ابو اسحاق فرماتے ہیں کہ حضرت برائ نے ارشاد فرمایا : سب سے آخری مکمل نازل ہونے والی سورة برائت ہے، اور قرآن میں سب سے آخری نازل ہونے والی آیت یہ ہے ( آپ سے فتوی پوچھتے ہیں ، کہو اللہ فتوی دیتا ہے تمہیں کلالہ کے بارے میں) ۔

30839

(۳۰۸۴۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ بْنِ أَبِی خَالِدٍ ، عَنِ السُّدِّیِّ ، قَالَ: آخِرُ آیَۃٍ نَزَلَتْ: {وَاتَّقُوا یَوْمًا تُرْجَعُونَ فِیہِ إِلَی اللہِ ثُمَّ تُوَفَّی کُلُّ نَفْسٍ مَا کَسَبَتْ وَہُمْ لاَ یُظْلَمُونَ}۔
(٣٠٨٤٠) حضرت اسماعیل بن ابی خالد فرماتے ہیں کہ حضرت سدّی نے ارشاد فرمایا : سب سے آخر میں یہ آیت نازل ہوئی ( اور ڈرو اس دن سے کہ جب لوٹ کر جاؤ گے تم اس دن اللہ کے حضور پھر پورا پورا دیا جائے گا ہر شخص کو (بدلہ) اس کے کمائے ہوئے عملوں کا اور ان پر ہرگز ظلم نہ ہوگا۔

30840

(۳۰۸۴۱) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، قَالَ: حدَّثَنَا مَالِکُ بْنُ مِغْوَلٍ ، عَنْ عَطِیَّۃَ الْعَوْفِیِّ ، قَالَ: آخِرُ آیَۃٍ نَزَلَتْ: {وَاتَّقُوا یَوْمًا تُرْجَعُونَ فِیہِ إِلَی اللہِ ثُمَّ تُوَفَّی کُلُّ نَفْسٍ مَا کَسَبَتْ وَہُمْ لاَ یُظْلَمُونَ} ۔
(٣٠٨٤١) حضرت مالک بن مغول فرماتے ہیں کہ حضرت عطیہ عوفی نے ارشاد فرمایا : آخری آیت یہ نازل ہوئی تھی ( اور ڈرو اس دن سے کہ جب لوٹ کر جاؤ گے تم اس دن اللہ کے حضور پھر پورا پورا دیا جائے گا ہر شخص کو ( بدلہ) اس کے کمائے ہوئے عملوں کا اور ان پر ہرگز ظلم نہ ہوگا) ۔

30841

(۳۰۸۴۲) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، قَالَ: حدَّثَنَا بَشِیرٌ ، قَالَ: مَالِکٌ ، عَنْ أَبِی السَّفَرِ ، عَنِ الْبَرَائِ ، قَالَ: آخِرُ آیَۃٍ نَزَلَتْ: {یَسْتَفْتُونَک قُلَ اللَّہُ یُفْتِیکُمْ فِی الْکَلالَۃِ} ۔ (مسلم ۱۲۳۶۔ طبری ۴۲)
(٣٠٨٤٢) حضرت ابو السفر فرماتے ہیں کہ حضرت برائ نے ارشاد فرمایا : سب سے آخر میں یہ آیت نازل ہوئی (آپ سے فتوی پوچھتے ہیں ِ ، کہو اللہ فتویٰ دیتا ہے تمہیں کلالہ کے بارے میں ) ۔

30842

(۳۰۸۴۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن سُفْیَانَ ، عَنِ ابْنِ أَبِی نَجِیحٍ ، عَن مُجَاہِدٍ ، قَالَ: ہی أَوَّلُ سُورَۃٍ نَزَلَتْ: {اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِی خَلَقَ} ثُمَّ (ن) ۔
(٣٠٨٤٣) حضرت ابن ابی نجیح فرماتے ہیں کہ حضرت مجاہد نے فرمایا : یہ سورت سب سے پہلے نازل ہوئی (پڑھو ( اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) اپنے رب نام لے کر جس نے پیدا کیا۔ پھر سورة ن نازل ہوئی۔

30843

(۳۰۸۴۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ بْنِ أَبِی خَالِدٍ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنِ الْبَرَائِ ، قَالَ: آخِرُ آیَۃٍ نَزَلَتْ فِی الْقُرْآنِ: {یَسْتَفْتُونَک قُلِ اللَّہُ یُفْتِیکُمْ فِی الْکَلالَۃِ}۔
(٣٠٨٤٤) حضرت ابو اسحاق فرماتے ہیں کہ حضرت برائ نے ارشاد فرمایا : قرآن میں سب سے آخری آیت یہ نازل ہوئی (آپ سے فتویٰ پوچھتے ہیں کہو اللہ فتویٰ دیتا ہے تمہیں کلالہ کے بارے میں۔ )

30844

(۳۰۸۴۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن شُعْبَۃَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِینَارٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ عُبَیْدَ بْنَ عُمَیْرٍ یَقُولُ: أَوَّلُ مَا نَزَلَ مِنَ الْقُرْآنِ: (اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِی خَلَقَ) ثُمَّ (ن) ۔
(٣٠٨٤٥) حضرت عمرو بن دینار فرماتے ہیں میں نے حضرت عبید بن عمیر کو یوں فرماتے ہوئے سنا ہے کہ : قرآن میں سب سے پہلے یہ سورت نازل ہوئی (پڑھو ( اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) اپنے رب کا نام لے کر جس نے پیدا کیا پھر سورت ن نازل ہوئی۔ )

30845

(۳۰۸۴۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن قُرَّۃَ ، عَنْ أَبِی رَجَائٍ ، قَالَ: أَخَذْت مِنْ أَبِی مُوسَی: {اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِی خَلَقَ} وَہِیَ أَوَّلُ سُورَۃٍ أُنْزِلَتْ عَلَی مُحَمَّدٍ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔
(٣٠٨٤٦) حضرت ابو رجائ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابو موسیٰ سے یہ سورت سیکھی (پڑھو ( اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) اپنے رب کا نام لے کر جس نے پیدا کیا ) یہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل ہونے والی پہلی سورت ہے۔

30846

(۳۰۸۴۷) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ: کَانَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیزِ لاَ یَفْرِضُ إِلاَّ لِمَنْ قَرَأَ الْقُرْآنَ ، قَالَ: وَکَانَ أَبِی مِمَّنْ قَرَأَ الْقُرْآنَ فَفَرَضَ لَہُ۔
(٣٠٨٤٧) حضرت محمد بن فضیل فرماتے ہیں کہ ان کے والد حضرت فضیل نے ارشاد فرمایا : حضرت عمر بن عبد العزیز عطیہ مقرر نہیں فرماتے تھے مگر اس شخص کے لیے جس نے قرآن پڑھا ہو۔ اور میرے والد ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے قرآن پڑھا تھا تو ان کے لیے عطیہ مقرر کردیا گیا۔

30847

(۳۰۸۴۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن سُفْیَانَ ، عَنِ الشَّیْبَانِیِّ ، عَن یُسَیْرِ بْنِ عَمْرٍو ، قَالَ: أَرَادَ سَعْدٌ أَنْ یُلْحِقَ مَنْ قَرَأَ الْقُرْآنَ عَلَی أَلْفَیْنِ أَلْفَیْنِ ، فَکَتَبَ إلَیْہِ عُمَرُ: تُعْطِی عَلَی کِتَابِ اللہِ أَجْرًا۔
(٣٠٨٤٨) حضرت یسیر بن عمرو فرماتے ہیں کہ حضرت سعد نے ارادہ کیا کہ جو شخص قرآن پڑھا ہوا ہو اس کے لیے دو دو ہزار مقرر کردیا جائے، تو حضرت عمر نے ان کی طرف خط لکھا : تم اللہ کی کتاب پر اجرت دو گے !۔

30848

(۳۰۸۴۹) حَدَّثَنَا الثَّقَفِیُّ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَن مُحَمَّدٍ ، قَالَ: جَمَعَ نَاسٌ الْقُرْآنَ حَتَّی بَلَغُوا عِدَّۃً ، فَکَتَبَ أَبُو مُوسَی إِلَی عُمَرَ بِذَلِکَ ، فَکَتَبَ إلَیْہِ عُمَرُ: إنَّ بَعْضَ النَّاسِ أَرْوَی لَہُ مِنْ بَعْضٍ ، وَلَعَلَّ بَعْضَ مَنْ یَقْرَؤُہُ أَنْ یَقُومَ الْمَقَامَ خَیْرٌ مِنْ قِرَائَۃِ الآخَرِ آخرَ مَا عَلَیْہِ۔
(٣٠٨٤٩) حضرت محمد فرماتے ہیں کہ حضرت ابو موسیٰ کے پاس قرآن سیکھنے کے لیے لوگوں کی اچھی خاصی تعداد جمع ہوگئی تو انھوں نے اس بارے رائے طلب کرنے کے لیے حضرت عمر کو خط لکھا۔ حضرت عمر نے جواب میں لکھا کہ کچھ لوگ قرآن کو دوسروں سے زیادہ یاد کرنے والے ہوتے ہیں۔ اسی طرح اس کی قراءت کرنے والے بعض لوگ بھی دوسروں سے بہتر ہے۔

30849

(۳۰۸۵۰) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ، عَن عَلِیٍّ، أَنَّہُ کَرِہَ أَنْ یُکْتَبَ الْقُرْآنُ فِی الْمُصْحَفِ الصَّغِیرِ۔
(٣٠٨٥٠) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ حضرت علی ناپسند فرماتے تھے کہ قرآن کو کسی چھوٹے سے مصحف میں لکھا جائے۔

30850

(۳۰۸۵۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن سُفْیَانَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، عَن عَلِیٍّ بِمِثْلِہِ إِلاَّ أَنَّہُ قَالَ: الْمَصَاحِفِ۔
(٣٠٨٥١) حضرت ابراہیم نے حضرت علی کا فعل اس سند سے بھی مروی ہے

30851

(۳۰۸۵۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ قَالَ: حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ: کَانَ یُقَالَ: عَظِّمُوا الْقُرْآنَ یَعْنِی: کَبِّرُوا الْمَصَاحِفَ۔
(٣٠٨٥٢) حضرت مغیرہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم نے فرمایا : یوں کہا جاتا تھا : قرآن کی تعظیم کرو یعنی اس کو بڑے مصاحف میں لکھو۔

30852

(۳۰۸۵۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ قَالَ: حدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِکَ بْنُ شَدَّادٍ الأَزْدِیُّ ، عَن عُبَیْدِ اللہ بْنِ سُلَیْمَانَ الْعَبْدِیِّ ، عَنْ أَبِی حَکِیمَۃَ الْعَبْدِیِّ ، قَالَ: کُنَّا نَکْتُبُ الْمَصَاحِفَ بِالْکُوفَۃِ فَیَمُرُّ عَلَیْنَا عَلِیٌّ وَنَحْنُ نَکْتُبُ فَیَقُومُ فَیَقُولُ: أَجِلَّ قَلَمَکَ ، قَالَ: فَقَطَطْت مِنْہُ ، ثُمَّ کَتَبْتُ ، فَقَالَ: ہَکَذَا نَوِّرُوا مَا نَوَّرَ اللَّہُ۔
(٣٠٨٥٣) حضرت عبید اللہ بن سلیمان العبدی فرماتے ہیں کہ حضرت ابو حکیمہ العبدی نے فرمایا ! ہم کوفہ میں قرآن کو مصاحف میں لکھا کرتے تھے۔ پس حضرت علی کا ہم پر گزر ہوا اس حال میں کہ ہم لکھ رہے تھے۔ پس آپ ٹھہر گئے اور فرمایا : اپنے قلم کی نوک کاٹو۔ آپ فرماتے ہیں ! میں نے اس کی نوک کاٹی پھر میں نے لکھا، تو آپ نے فرمایا : اس طرح واضح کرو جیسا کہ اللہ نے واضح کیا۔

30853

(۳۰۸۵۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَلِیِّ بْنِ مُبَارَکٍ ، عَنْ أَبِی حَکِیمَۃَ الْعَبْدِیِّ ، قَالَ: کُنَّا نَکْتُبُ الْمَصَاحِفَ بِالْکُوفَۃِ فَیَمُرُّ عَلَیْنَا عَلِیٌّ فیقوم فَیَنْظُرُ وَیُعْجِبُہُ خَطُّنَا وَیَقُولُ: ہَکَذَا نَوِّرُوا مَا نَوَّرَ اللَّہُ۔
(٣٠٨٥٤) حضرت علی بن مبارک فرماتے ہیں کہ حضرت ابو حکیمہ العبدی نے فرمایا : ہم کوفہ میں قرآن کو مصاحف میں لکھتے تھے۔ پس حضرت علی کا ہم پر گزر ہوا تو وہ کھڑے ہو کر دیکھنے لگے اور ہماری خوش نویسی کو سراہا، اور فرمایا : اسی طرح واضح کرو جیسا کہ اللہ نے واضح کیا۔

30854

(۳۰۸۵۵) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِاللہِ بْنِ الزُّبَیْرِ، عَن سُفْیَانَ، عَن لَیْثٍ، عَن مُجَاہِدٍ، أَنَّہُ کَرِہَ أَنْ یقال: مُصَیْحِفٌ۔
(٣٠٨٥٥) حضرت لیث فرماتے ہیں کہ حضرت مجاہد یوں کہنا ناپسند کرتے تھے : چھوٹا سا قرآن۔

30855

(۳۰۸۵۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن سُفْیَانَ ، عَنِ السُّدِّیِّ ، عَنْ عَبْدِ خَیْرٍ ، قَالَ: قَالَ عَلِیٌّ: یَرْحَمُ اللَّہُ أَبَا بَکْرٍ ہُوَ أَوَّلُ مَنْ جَمَعَ بَیْنَ اللَّوْحَیْنِ۔
(٣٠٨٥٦) حضرت عبد خیر فرماتے ہیں کہ حضرت علی نے ارشاد فرمایا : اللہ ابوبکر پر رحم فرمائے، وہ سب سے پہلے شخص ہیں جنہوں نے قرآن کو دو تختیوں کے درمیان جمع کیا۔

30856

(۳۰۸۵۷) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا ابْنُ عَوْنٍ ، عَن مُحَمَّدٍ ، قَالَ: لَمَّا اسْتُخْلِفَ أَبُو بَکْرٍ قَعَدَ عَلِیٌّ فِی بَیْتِہِ فَقِیلَ لأَبِی بَکْرٍ فَأَرْسَلِ إلَیْہِ: أَکَرِہْت خِلافَتِی ، قَالَ: لاَ ، لَمْ أَکْرَہْ خِلافَتَکَ ، وَلَکِنْ کَانَ الْقُرْآنُ یُزَادُ فِیہِ ، فَلَمَّا قُبِضَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ جَعَلْت عَلَیّ أَنْ لاَ أَرْتَدِیَ إِلاَّ لِصَلاۃٍ حَتَّی أَجْمَعَہُ لِلنَّاسِ، فَقَالَ أَبُو بَکْرٍ: نِعْمَ مَا رَأَیْت۔
(٣٠٨٥٧) حضرت ابن عون فرماتے ہیں کہ حضرت محمد نے ارشاد فرمایا : جب حضرت ابوبکر کو خلیفہ بنادیا گیا تو حضرت علی اپنے گھر والوں میں بیٹھ گئے۔ پس حضرت ابوبکر کو یہ بتلایا گیا، تو آپ نے ان کو قاصد بھیج کر بلایا اور پوچھا ! کیا تم میری خلافت کو ناپسند کرتے ہو ؟ علی نے فرمایا : نہیں، میں نے آپ کی خلافت کو ناپسند نہیں کیا۔ لیکن قرآن میں زیادتی کی جا رہی تھی، پس جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات ہوگئی تو میں نے خود پر لازم کرلیا کہ میں چادر نہیں اوڑھوں گا مگر صرف نماز کے لیے ، یہاں تک کہ میں قرآن کو لوگوں کے لیے جمع کر دوں۔ تو حضرت ابوبکر نے فرمایا : آپ کی رائے بڑی اچھی ہے۔

30857

(۳۰۸۵۸) حَدَّثَنَا قَبِیصَۃُ ، قَالَ: حدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَن مُجَالِدٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَن صَعْصَعَۃَ ، قَالَ: أَوَّلُ مَنْ جَمَعَ بَیْنَ اللَّوْحَیْنِ وَوَرَّثَ الْکَلالَۃَ أَبُو بَکْرٍ۔
(٣٠٨٥٨) امام شعبی فرماتے ہیں کہ حضرت صعصعہ نے ارشاد فرمایا : سب سے پہلے قرآن کو دو گتوں کے درمیان جمع کرنے والے اور کلالہ کو وارث بنانے والے حضرت ابوبکر ہیں۔

30858

(۳۰۸۵۹) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَن مُحَمَّدِ بْنِ عَجْلانَ ، عَن سَعِیدِ بْنِ أَبِی سَعِیدٍ ، قَالَ: قَالَ أُبَیٌّ: إذَا حَلَّیْتُمْ مَصَاحِفَکُمْ وَزَوَّقْتُمْ مَسَاجِدَکُمْ فَالدَّبَارُ عَلَیْکُمْ۔
(٣٠٨٥٩) حضرت سعید بن ابی سعید فرماتے ہیں کہ حضرت ابی ّ نے ارشاد فرمایا : جب تم اپنے مصاحف کو مزین کرنے لگو گے اور اپنی مساجد کو بناؤ سنگھار سے ملمع کرو گے تو تم پر ہلاکت اترے گی۔

30859

(۳۰۸۶۰) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ آدَمَ ، قَالَ: حدَّثَنَا قُطْبَۃُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیزِ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَن عِکْرِمَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، أَنَّہُ رَأَی مُصْحَفًا یُحَلَّی فَقَالَ: تُغْرُونَ بِہِ السُّرَّاقَ ، زِینَتُہُ فِی جَوْفِہِ۔
(٣٠٨٦٠) حضرت عکرمہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عباس نے ایک مزین مصحف دیکھا تو فرمایا : اس کے ذریعہ تو تم چور کو دھوکے میں ڈالو گے۔ قرآن کی زینت تو دل میں ہوتی ہے۔

30860

(۳۰۸۶۱) حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَن مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، أَنَّہُ کَرِہَ أَنْ یُحَلَّی الْمُصْحَفُ۔
(٣٠٨٦١) حضرت مغیرہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم قرآن کے مزین کرنے کو ناپسند کرتے تھے۔

30861

(۳۰۸۶۲) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِی وَائِلٍ ، قَالَ: أُتِیَ عَبْدُ اللہِ بِمُصْحَفٍ قَدْ زُیِّنَ بِالذَّہَبِ فَقَالَ عَبْدُ اللہِ: إنَّ أَحْسَنَ مَا زُیِّنَ بِہِ الْمُصْحَفُ تِلاوَتُہُ فی الْحَقِّ۔
(٣٠٨٦٢) حضرت ابو وائل فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود کے پاس سونے سے مزین کیا گیا قرآن لایا گیا تو آپ نے فرمایا : بلاشبہ مصحف کو جس چیز کے ساتھ مزین کیا گیا ہے اس سے زیادہ اچھی چیز وہ حق کے مطابق اس کی تلاوت کرنا ہے۔

30862

(۳۰۸۶۳) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ ، عَنِ الزِّبْرِقَانِ ، قَالَ: قُلْتُ لأَبِی رَزِینٍ: إنَّ عِنْدِی مُصْحَفًا أُرِیدُ أَنْ أَخْتِمَہُ بِالذَّہَبِ ، قَالَ: لاَ تَزِیدَنَّ فِیہِ شَیْئًا مِنْ أَمْرِ الدُّنْیَا قَلَّ ، وَلا کَثُرَ۔
(٣٠٨٦٣) حضرت زبرقان فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابو رزین سے فرمایا : میں چاہتا ہوں کہ میرے پاس ایک مصحف ہے اس کو سونے کی مہر لگا دوں، تو آپ نے فرمایا : قرآن میں دنیا کے اوامر میں کسی چیز کا بھی اضافہ مت کرو تھوڑا نہ زیادہ۔

30863

(۳۰۸۶۴) حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ ، عَنْ عَبْدِ الْحَمِیدِ بْنِ جَعْفَرٍ ، عَن سعید بن أَبِی سعید ، قَالَ: قَالَ أَبُو ذَرٍّ: إذا زَوَّقْتُمْ مَسَاجِدَکُمْ وَحَلَّیْتُمْ مَصَاحِفَکُمْ فَالدَّبَارُ عَلَیْکُمْ۔
(٣٠٨٦٤) حضرت سعید بن ابو سعید فرماتے ہیں کہ حضرت ابو ذرّ نے ارشاد فرمایا : جب تم اپنی مساجد کو بناؤ سنگھار سے ملمع کرنے لگو گے اور اپنے مصاحف مزین کرنے لگو گے تو تم پر ہلاکت اتر پڑے گی۔

30864

(۳۰۸۶۵) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنِ الأَحْوَصِ بْنِ حَکِیمٍ ، عَنْ أَبِی الزَّاہِرِیَّۃِ ، عَنْ أَبِی أُمَامَۃَ ، أَنَّہُ کَرِہَ أَنْ یُحَلَّی الْمُصْحَفُ۔
(٣٠٨٦٥) حضرت ابو الزاھریہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابو امامہ قرآن کے مزین کرنے کو ناپسند کرتے تھے۔

30865

(۳۰۸۶۶) حَدَّثَنَا سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ ابن أَبِی نَجِیحٍ ، عَن مُجَاہِدٍ ، قَالَ: أَتَیْتُ عَبْدَ الرَّحْمَن بْنَ أَبِی لَیْلَی بِتِبْرٍ فَقَالَ: ہَلْ عَسَیْت أَنْ تُحَلِّی بِہِ مُصْحَفًا۔
(٣٠٨٦٦) حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ میں حضرت عبد الرحمن بن ابی لیلی کے پاس سونے کی ڈلی لے کر آیا تو آپ نے فرمایا : امید ہے کہ تم اس کے ساتھ قرآن کو مزین کرو گے۔

30866

(۳۰۸۶۷) حَدَّثَنَا مُعَاذٌ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، عَن مُحَمَّدٍ ، قَالَ: لاَ بَأْسَ أَنْ یُحَلَّی الْمُصْحَفُ۔
(٣٠٨٦٧) حضرت ابن عون فرماتے ہیں کہ حضرت محمد نے ارشاد فرمایا : قرآن کو مزین کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

30867

(۳۰۸۶۸) حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ عَیَّاشٍ ، عَنْ أَبِی حَصِینٍ ، عَن یَحْیَی ، عَن مَسْرُوقٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ، أَنَّہُ کَرِہَ التَّعْشِیرَ فِی الْمُصْحَفِ۔
(٣٠٨٦٨) حضرت مسروق فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود مصحف میں اعشار کی نشانی ڈالنا مکروہ سمجھتے تھے۔

30868

(۳۰۸۶۹) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَن حَجَّاجٍ ، عَنْ عَطَائٍ ، أَنَّہُ کَانَ یَکْرَہُ التَّعْشِیرَ فِی الْمُصْحَفِ وَأَنْ یُکْتَبَ فِیہِ شَیْئٌ مِنْ غَیْرِہِ۔
(٣٠٨٦٩) حضرت حجاج فرماتے ہیں کہ حضرت عطائ مصحف میں اعشار کی نشانی لگانا مکروہ سمجھتے تھے۔ اور یہ بھی کہ اس میں قرآن کے علاوہ کوئی اور بات لکھی جائے۔

30869

(۳۰۸۷۰) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ ، عَن حَجَّاجٍ ، عَن حَمَّادٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، مِثْلَہُ۔
(٣٠٨٧٠) حضرت حماد نے بھی حضرت ابراہیم سے ما قبل جیسی حدیث نقل کی ہے۔

30870

(۳۰۸۷۱) حَدَّثَنَا الْمُحَارِبِیُّ ، عَن لَیْثٍ ، عَن مُجَاہِدٍ ، أَنَّہُ کَانَ یَکْرَہُ أَنْ یُکْتَبَ تَعْشِیرٌ ، أَوْ تَفْصِیلٌ ، وَیَقُولُ: سُورَۃُ الْبَقَرَۃِ ، وَیَقُولُ: السُّورَۃُ الَّتِی تُذْکَرُ فِیہَا الْبَقَرَۃُ۔
(٣٠٨٧١) حضرت لیث فرماتے ہیں کہ حضرت مجاہد مکروہ سمجھتے تھے کہ مصحف میں اعشار کی نشانی لگائی جائے یا کسی چیز کی تفصیل لکھی جائے اور یوں کہنا بھی مکروہ سمجھتے تھے، سورة البقرۃ، اور یوں کہتے : وہ سورت جس میں بقرہ کا ذکر ہے۔

30871

(۳۰۸۷۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ: حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَن لَیْثٍ ، عَن مُجَاہِدٍ ، أَنَّہُ کَرِہَ التَّعْشِیرَ فِی الْمُصْحَفِ۔
(٣٠٨٧٢) حضرت لیث فرماتے ہیں کہ حضرت مجاہد نے مصحف میں اعشار کی نشانی لگانا ناپسند کیا۔

30872

(۳۰۸۷۳) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ ، عَنِ الزِّبْرِقَانِ ، قَالَ: قُلْتُ لأَبِی رَزِینٍ: إنَّ عِنْدِی مُصْحَفًا أُرِیدُ أَنْ أَخْتِمَہُ بِالذَّہَبِ ، وَأَکْتُبَ عِنْدَ أَوَّلِ سُورَۃٍ آیَۃُ کَذَا وَکَذَا ، فقَالَ أَبُو رَزِینٍ: لاَ تَزِیدَنَّ فِیہِ شَیْئًا مِنْ أَمْرِ الدُّنْیَا قَلَّ ، وَلا کَثُرَ۔
(٣٠٨٧٣) حضرت زبرقان فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابو رزین سے عرض کیا : میرے پاس ایک مصحف ہے میں چاہتا ہوں کہ اس پر سونے کی مہر لگا ؤں اور ہر سورت کے شروع میں لکھ دوں۔ اتنی اور اتنی آیات ؟ تو حضرت ابو رزین نے فرمایا : تم قرآن میں اس چیز کو مت زیادہ کرو جو دنیا کی چیزیں ہیں نہ تھوڑی نہ زیادہ۔

30873

(۳۰۸۷۴) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَن ہِشَامٍ ، عَن مُحَمَّدٍ ، أَنَّہُ کَانَ یَکْرَہُ الْفَوَاتِحَ وَالْعَوَاشِرَ الَّتِی فِیہَا قَافٌ وَکَافٌ۔
(٣٠٨٧٤) حضرت ہشام فرماتے ہیں کہ حضرت محمد ان نشانیوں کو قرآن مجید میں مکروہ سمجھتے تھے۔ جن میں قاف اور کاف ہو۔

30874

(۳۰۸۷۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن سُفْیَانَ ، عَن مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، أَنَّہُ کَرِہَ التَّعْشِیرَ فِی الْمُصْحَفِ۔
(٣٠٨٧٥) حضرت مغیرہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم مکروہ سمجھتے تھے مصحف میں اعشار کی نشانی لگانے کو۔

30875

(۳۰۸۷۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن سُفْیَانَ ، عَن مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، أَنَّہُ کَرِہَ النَّقْطَ وَخَاتِمَۃَ سُورَۃِ کَذَا وَکَذَا۔
(٣٠٨٧٦) حضرت مغیرہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم مکروہ سمجھتے تھے مصحف میں نقطے لگانے کو اور سورة کے اختتام پر اس طرح اور اس طرح نشانی لگانے کو۔

30876

(۳۰۸۷۷) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ ، عَن حَجَّاجٍ ، عَن شَیْخٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ، أَنَّہُ رَأَی خَطَأً فِی الْمُصْحَفِ فَحَکَّہُ ، وَقَالَ: لاَ تَخْلِطُوا فِیہِ غَیْرَہُ۔
(٣٠٨٧٧) حضرت حجاج اپنے استاذ سے نقل کرتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود نے ایک مصحف میں خاص نشان لگا دیکھا تو اس کو مٹا دیا اور فرمایا : قرآن میں اس کے غیر کی آمیزش مت کرو۔

30877

(۳۰۸۷۸) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَن حَجَّاجٍ ، عَنْ عَطَائٍ ، أَنَّہُ کَانَ یَکْرَہُ التَّعْشِیرَ فِی الْمُصْحَفِ ، وَأَنْ یُکْتَبَ فِیہِ شَیْئٌ مِنْ غَیْرِہِ۔
(٣٠٨٧٨) حضرت حجاج فرماتے ہیں کہ حضرت عطاء ناپسند کرتے تھے کہ مصحف میں اعشار کی نشانی لگائی جائے اور اس میں قرآن کے علاوہ کوئی اور چیز لکھی جائے۔

30878

(۳۰۸۷۹) حَدَّثَنَا عَفَّانُ، قَالَ: حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَیْدٍ، عَن شُعَیْبِ بْنِ الْحَبْحَابِ، أَنَّ أَبَا الْعَالِیَۃِ کَانَ یَکْرَہُ الْعَوَاشِرَ۔
(٣٠٨٧٩) حضرت شعیب بن الحبحاب فرماتے ہیں کہ حضرت ابو العالیہ اعشار کے نشان ڈالنے کو ناپسند کرتے تھے۔

30879

(۳۰۸۸۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ: حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَن سَلَمَۃَ بْنِ کُہَیْلٍ ، عَنْ أَبِی الزَّعْرَائِ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ: جَرِّدُوا الْقُرْآنَ ، وَلا تُلْبِسُوا بِہِ مَا لَیْسَ مِنْہُ۔
(٣٠٨٨٠) حضرت ابو الزعرائ فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود نے ارشاد فرمایا : قرآن کو غیر قرآن سے خالی رکھو۔ اور اس کے ساتھ وہ چیز مت ملاؤ جو اس کا حصہ نہیں ہے۔

30880

(۳۰۸۸۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن سُفْیَانَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللہِ: جَرِّدُوا الْقُرْآنَ۔
(٣٠٨٨١) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود نے ارشاد فرمایا : قرآن کو غیر قرآن سے خالی رکھو۔

30881

(۳۰۸۸۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ: حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ: کَانَ یُقَالُ: جَرِّدُوا الْقُرْآنَ۔
(٣٠٨٨٢) حضرت مغیرہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم نے ارشاد فرمایا : یوں کہا جاتا ہے : قرآن کو غیر قرآن سے خالی رکھو۔

30882

(۳۰۸۸۳) حَدَّثَنَا الْمُحَارِبِیُّ ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عُبَیْدِ اللہِ ، قَالَ: قُلْتُ لِعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الأَسْوَدِ: مَا یَمْنَعُک أَنْ تَکُونَ سَأَلْت کَمَا سَأَلَ إبْرَاہِیمُ ؟ قَالَ: فَقَالَ: کَانَ یُقَالُ: جَرِّدُوا الْقُرْآنَ۔
(٣٠٨٨٣) حضرت حسن بن عبید اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عبد الرحمن بن اسود سے کہا : تجھے کیا چیز روکتی ہے کہ تو سوال کرے جیسا کہ حضرت ابراہیم سوال کرتے ہیں ؟ راوی کہتے ہیں پس آپ نے فرمایا : یوں کہا جاتا تھا : قرآن کو غیر قرآن سے خالی رکھو۔

30883

(۳۰۸۸۴) حَدَّثَنَا سَہْلُ بْنُ یُوسُفَ ، عَن حُمَیْدٍ الطَّوِیلِ ، عَن مُعَاوِیَۃَ بْنِ قُرَّۃَ ، عَنْ أَبِی الْمُغِیرَۃِ ، قَالَ: قرَأَ رَجُلٌ عِنْدَ ابْنِ مَسْعُودٍ فَقَالَ: أَسْتَعِیذُ بِالسَّمِیعِ الْعَلِیمِ مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیمِ فَقَالَ عَبْدُ اللہِ: جَرِّدُوا الْقُرْآنَ۔
(٣٠٨٨٤) حضرت ابو مغیرہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے حضرت عبداللہ بن مسعود کے پاس قرآن پڑھا تو یوں کہا : میں پناہ مانگتا ہوں اس ذات کی جو سننے والا ، جاننے والا ہے، شیطان مردود سے، تو آپ نے فرمایا : قرآن کو غیر چیزوں سے خالی رکھو۔

30884

(۳۰۸۸۵) حَدَّثَنَا مَالِکٌ، قَالَ: حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَیْدٍ، عَن شُعَیْبِ بْنِ الْحَبْحَابِ، أَنَّ أَبَا الْعَالِیَۃِ، قَالَ: جَرِّدُوا الْقُرْآنَ۔
(٣٠٨٨٥) حضرت شعیب بن حبحاب فرماتے ہیں کہ حضرت ابو العالیہ نے ارشاد فرمایا : قرآن کو غیر قرآن سے خالی رکھو۔

30885

(۳۰۸۸۶) حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ مُعَاذٍ ، عَنْ عَوْفٍ ، عَنْ زِیَادِ بْنِ مِخْرَاقٍ ، عَنْ أَبِی کِنَانَۃَ ، عَنْ أَبِی مُوسَی الأَشْعَرِیِّ ، قَالَ: إِنَّ مِنْ إجْلالِ اللہِ إکْرَامُ حَامِلِ الْقُرْآنِ غَیْرِ الْغَالِی فِیہِ ، وَلا الْجَافِی عَنْہُ۔ (ابوداؤد ۴۸۱۰۔ بیہقی ۱۶۳)
(٣٠٨٨٦) حضرت ابو کنانہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابو موسیٰ اشعری نے ارشاد فرمایا : یقیناً اللہ کے اکرام میں سے ہے کہ حامل قرآن کا اکرام و احترام کیا جائے جو نہ اس میں غلو کرتا ہو نہ ہی اس سے کنارہ کشی اختیار کرتا ہو۔

30886

(۳۰۸۸۷) حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إسْمَاعِیلَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ حَرْمَلَۃَ ، عَن سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ، قَالَ: مَرَّ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَی بِلالٍ وَہُوَ یَقْرَأُ مِنْ ہَذِہِ السُّورَۃِ وَمِنْ ہَذِہِ السُّورَۃِ ، فَقَالَ: مَرَرْتُ بِکَ یَا بِلالُ وَأَنْتَ تَقْرَأُ مِنْ ہَذِہِ السُّورَۃِ وَمِنْ ہَذِہِ السُّورَۃِ ، فَقَالَ: بِأَبِی أَنْتَ یَا رَسُولَ اللہِ إنِّی أَرَدْت أَنْ أَخْلِطَ الطَّیِّبَ بِالطَّیِّبِ: فَقَالَ: اقْرَأ السُّورَۃَ عَلَی نَحْوِہَا۔
(٣٠٨٨٧) حضرت سعید بن مسیب فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت بلال کے پاس سے گزرے اس حال میں کہ وہ قرآن کی ایک سورت سے کچھ حصہ اور دوسری سورت سے کچھ حصہ پڑھ رہے تھے ، تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے بلال ! میں تیرے پاس سے گزرا اس حال میں کہ تو یہ سورت اور یہ سورت ملا کر پڑھ رہا تھا ! تو حضرت بلال نے فرمایا : میرا باپ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر قربان ہو اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! میں نے چاہا کہ پاکیزہ حصہ کو پاکیزہ حصہ کے ساتھ ملاؤں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : سورت کو ایسے طریقہ سے پڑھو۔

30887

(۳۰۸۸۸) حَدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، قَالَ: کَانَ مُعَاذٌ یَخْلِطُ مِنْ ہَذِہِ السُّورَۃِ وَمِنْ ہَذِہِ السُّورَۃِ ، فَقِیلَ لَہُ، فَقَالَ: أَتَرُونِی أَخْلِطُ فِیہِ مَا لَیْسَ مِنْہُ ؟۔
(٣٠٨٨٨) حضرت ابو اسحاق فرماتے ہیں کہ حضرت معاذ ایک سورت کے کچھ حصے کو دوسری سورت کے کچھ حصے کے ساتھ ملا کر پڑھ رہے تھے پس ان کو اس کے بارے میں کہا گیا۔ تو آپ نے فرمایا : تم میرے بارے میں یہ کیوں سمجھ رہے ہو کہ میں قرآن کو غیر قرآن کے ساتھ ملا رہا ہوں ؟ !

30888

(۳۰۸۸۹) حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ ، عَنْ إسْرَائِیلَ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَن زَیْدِ بْنِ یُثَیْعٍ ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَرَّ بِبِلالٍ ، ثُمَّ ذَکَرَ نَحْوًا مِنْ حَدِیثِ حَاتِمٍ۔
(٣٠٨٨٩) حضرت زید بن یثیع فرماتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت بلال کے پاس سے گزرے ، پھر راوی نے حضرت حاتم کی حدیث کی مانندروایت نقل کی۔

30889

(۳۰۸۹۰) حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِی عَدِیٍّ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، قَالَ: سُئِل محمد عَن الذی یَقْرَأَ من ہَاہُنَا ومن ہَاہُنَا ؟ فقَالَ: لیتق لاَ یأثم إثم عظیم وہو لاَ یشعر۔
(٣٠٨٩٠) حضرت ابن عون فرماتے ہیں کہ حضرت محمد سے اس شخص کے بارے میں سوال کیا گیا جو قرآن میں یہاں سے وہاں سے ملا کر پڑھتا ہو ؟ تو آپ نے فرمایا : اس کو چاہیے کہ وہ ایسا کرنے سے بچے، وہ زیادہ گناہ گار نہیں ہوگا اس حال میں کہ وہ نہ جانتا ہو۔

30890

(۳۰۸۹۱) حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِی عَدِیٍّ ، عَن أشعث ، عَنِ الْحَسَنِ ، أَنَّہُ کَانَ یَکْرَہُ أَنْ یَقْرَأَ فِی سُورَتَیْنِ حَتَّی یَخْتِمَ آخِرَتَہَا ، ثُمَّ یَأْخُذُ فِی الأُخْرَی۔
(٣٠٨٩١) حضرت اشعث فرماتے ہیں کہ حضرت حسن ناپسند کرتے تھے کہ دو سورتوں کو اکٹھا پڑھا جائے یہاں تک کہ پہلے ایک کے آخر کو مکمل کرے پھر وہ دوسری پڑھ لے۔

30891

(۳۰۸۹۲) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ، قَالَ: حدَّثَنِی الْوَلِیدُ بْنُ جُمَیْعٍ، قَالَ: حَدَّثَنِی رَجُلٌ، أَنَّہُ أَمَّ النَّاسَ بِالْحِیرَۃِ خَالِدُ بْنُ الْوَلِیدِ ، ثُمَّ قَرَأَ مِنْ سُوَرٍ شَتَّی ، ثُمَّ الْتَفَتَ إلَیْنَا حِینَ انْصَرَفَ فَقَالَ: شَغَلَنَا الْجِہَادُ ، عَن تَعْلِیمِ الْقُرْآنِ۔
(٣٠٨٩٢) حضرت ولید بن جمیع فرماتے ہیں کہ مجھے ایک آدمی نے بیان کیا کہ حضرت خالد بن ولید نے حیرہ مقام پر لوگوں کی امامت کر وائی اور مختلف سورتوں میں سے تلاوت کی پھر نماز سے فارغ ہو کر ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا : جہاد نے ہمیں قرآن سیکھنے سے مشغول کردیا۔

30892

(۳۰۸۹۳) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ أَبِی سِنَانٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ أَبِی الْہُذَیْلِ ، قَالَ: کَانُوا یَکْرَہُونَ أَنْ یَقَرَؤُوا بَعْضَ الآیَۃِ وَیَتْرُکُوا بَعْضَہَا۔
(٣٠٨٩٣) حضرت ابو سنان فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن ابی الھذیل نے فرمایا : صحابہ ناپسند کرتے تھے کہ آیت کا کچھ حصہ پڑھیں اور اس کا کچھ حصہ چھوڑ دیں۔

30893

(۳۰۸۹۴) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، عَن سُفْیَانَ ، عَنْ عَطَائٍ ، عَنْ أَبِی عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، أَنَّہُ کَرِہَ أَنْ یَقُولَ: أَسْقَطْت آیَۃَ کَذَا وَکَذَا۔
(٣٠٨٩٤) حضرت عطائ فرماتے ہیں کہ حضرت ابو عبد الرحمن یوں کہنا ناپسند کرتے تھے : کہ میں نے آیت کے اس اس حصہ کو چھوڑ دیا۔

30894

(۳۰۸۹۵) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ: حدَّثَنَا سَعِیدُ بْنُ زَیْد ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ مَالِکٍ ، عَنْ أَبِی الْجَوْزَائِ ، قَالَ: نَقْلُ الْحِجَارَۃِ أَہْوَنُ عَلَی الْمُنَافِقِ مِنْ قِرَائَۃِ الْقُرْآنِ۔
(٣٠٨٩٥) حضرت عمرو بن مالک فرماتے ہیں کہ حضرت ابو الجوزائ نے ارشاد فرمایا : منافق پر پتھروں کا منتقل کرنا قرآن پڑھنے سے زیادہ آسان ہے۔

30895

(۳۰۸۹۶) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ ، قَالَ: حدَّثَنِی زَیْدُ بْنُ عَلِیٍّ ، قَالَ: مَرَرْت بِأَبِی جَعْفَرٍ وَہُوَ فِی دَارِہِ وَہُوَ یَقُولُ: اللَّہُمَّ اغْفِرْ لِی بِالْقُرْآنِ اللَّہُمَّ ارْحَمْنِی بِالْقُرْآنِ اللَّہُمَّ اہْدِنِی بِالْقُرْآنِ اللَّہُمَّ ارْزُقْنِی بِالْقُرْآنِ۔
(٣٠٨٩٦) حضرت زید بن علی فرماتے ہیں کہ میں حضرت ابو جعفر کے پاس سے گزرا اس حال میں کہ وہ اپنے گھر میں تھے اور یوں دعا فرما رہے تھے : اے اللہ ! تو مجھے قرآن کی وجہ سے معاف فرما دے۔ اے اللہ ! قرآن کی وجہ سے مجھ پر رحم فرما۔ اے اللہ ! قرآن کے ذریعہ ہدایت عطا فرما۔ اے اللہ ! قرآن کی وجہ سے مجھے رزق عطا فرما۔

30896

(۳۰۸۹۷) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِِ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ، عَن عِکْرِمَۃَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: قَالَ أَبُو بَکْرٍ: یَا رَسُولَ اللہِ، مَا شَیَّبَکَ؟ قَالَ: شَیَّبَنِی ہُودٌ وَالْوَاقِعَۃُ وَالْمُرْسَلاتُ وَعَمَّ یَتَسَائَلُونَ وَإذَا الشَّمْسُ کُوِّرَتْ۔ (ابویعلی ۱۰۲)
(٣٠٨٩٧) حضرت عکرمہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابوبکر نے پوچھا ! اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ کو کس چیز نے بوڑھا کردیا ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : سورت ہود اور واقعہ، المرسلات اور عم یتساء لون اور اذا الشمس کورت نے مجھے بوڑھا کردیا۔

30897

(۳۰۸۹۸) حَدَّثَنَا ابْنُ مَہْدِیٍّ وَقَبِیصَۃُ ، عَن سُفْیَانَ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَن زِرٍّ ، عَن حُذَیْفَۃَ ، قَالَ: یَقُولُونَ سُورَۃُ التَّوْبَۃِ وَہِیَ سُورَۃُ الْعَذَابِ یَعْنِی بَرَائَۃَ۔
(٣٠٨٩٨) حضرت زر فرماتے ہیں کہ حضرت حذیفہ نے ارشاد فرمایا : لوگ اسے سورت التوبہ کہتے ہیں حالانکہ یہ عذاب والی سورت ہے ، یعنی سورت بَرَائَۃَ ۔

30898

(۳۰۸۹۹) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَن عِکْرِمَۃَ ، قَالَ: مَا زَالَتْ بَرَائَۃُ تَنْزِلُ حَتَّی أَشْفَقَ مِنْہَا أصحاب مُحَمَّدٌ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَکَانَتْ تُسَمَّی الْفَاضِحَۃَ۔
(٣٠٨٩٩) حضرت ایوب فرماتے ہیں کہ حضرت عکرمہ نے ارشاد فرمایا : سورت بَرَائَۃَ مسلسل نازل ہوتی رہی یہاں تک کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب اس سورت سے ڈر گئے۔ اور اس کا نام فاضحہ رکھ دیا گیا۔

30899

(۳۰۹۰۰) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَن زَائِدَۃَ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنِ الْمُسَیَّبِ ، قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللہِ: الطُّوَّلُ کَالتَّوْرَاۃِ ، وَالْمِئِونَ کَالإِنْجِیلِ ، وَالْمَثَانِی کَالزَّبُورِ ، وَسَائِرُ الْقُرْآنِ فَضْلٌ۔
(٣٠٩٠٠) حضرت مسیب فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود نے ارشاد فرمایا : قرآن کی بڑی سورتیں توراۃ کی مانند ہیں اور وہ سورتیں جن کی سو آیات ہیں وہ انجیل کی مانند ہیں اور مثانی سورتیں زبور کی مانند ہیں اور بقیہ قرآن ان سے اضافی ہے۔

30900

(۳۰۹۰۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَن سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ: {وَلَقَدْ کَتَبْنَا فِی الزَّبُورِ} قَالَ: الْقُرْآنُ والتَّوْرَاۃُ وَالإِنْجِیلُ۔
(٣٠٩٠١) حضرت اعمش فرماتے ہیں کہ حضرت سعید بن جبیر نے قرآن کی اس آیت ( اور تحقیق ہم نے زبور میں لکھ دیا ) کے بارے میں فرمایا : یعنی قرآن کو ، توراۃ کو اور انجیل کو۔

30901

(۳۰۹۰۲) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِی عَدِیٍّ ، عَن دَاوُد ، عَنِ الشَّعْبِیِّ: {وَلَقَدْ کَتَبْنَا فِی الزَّبُورِ مِنْ بَعْدِ الذِّکْرِ} قَالَ: زَبُورِ دَاوُد مِنْ بَعْدِ ذِکْرِ مُوسَی۔
(٣٠٩٠٢) حضرت داؤد فرماتے ہیں کہ امام شعبی نے اس آیت ( اور بیشک ہم لکھ چکے ہیں زبور میں نصیحت کے بعد ) کے بارے میں ارشاد فرمایا : داؤد کی زبور موسیٰ کی نصیحت کے بعد ہے۔

30902

(۳۰۹۰۳) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ: حدَّثَنَا ہَمَّامٌ ، قَالَ سَمِعْت أَبَا عِمْرَانَ الْجَوْنِیَّ ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ رَبَاحٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ کَعْبًا یَقُولُ: فَاتِحَۃُ التَّوْرَاۃِ فَاتِحَۃُ سُورَۃِ الأَنْعَامِ ، وَخَاتِمَۃُ التَّوْرَاۃِ خَاتِمَۃُ سُورَۃِ ہُودٍ۔
(٣٠٩٠٣) حضرت عبداللہ بن رباح فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت کعب کو یوں فرماتے ہوئے سنا ہے : توراۃ کی ابتدا سورة انعام کی ابتدا ہے، اور توراۃ کا اختتام سورة ھود کا اختتام ہے۔

30903

(۳۰۹۰۴) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَن دَاوُد ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنْ عَلْقَمَۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ: إذَا شَکَکْتُمْ فِی الْیَائِ وَالتَّائِ فَاجْعَلُوہَا یَائً فَإِنَّ الْقُرْآنَ ذَکَرٌ فَذَکِّرُوہُ۔
(٣٠٩٠٤) حضرت علقمہ فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود نے ارشاد فرمایا : جب تم لوگوں کو کسی حرف کی یاء اور تاء ہونے میں شک ہوجائے تو اس کو یاء بنادو۔ کیونکہ قرآن مذکر ہے پس تم اس کو مذکر پڑھو۔

30904

(۳۰۹۰۵) حَدَّثَنَا مُعَاوِیَۃُ بْنُ ہِشَامٍ ، قَالَ: حدَّثَنَا أَبُو نِزَارٍ الْمُرَادِیُّ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَیْسَرَۃَ ، عَنْ أَبِی عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِیِّ ، قَالَ: إذَا اخْتَلَفْتُمْ فِی الْقُرْآنِ فِی یَائٍ ، أَوْ تَائٍ فَاجْعَلُوہَا یَائً فَإِنَّ الْقُرْآنَ نَزَلَ عَلَی الْیَائِ۔
(٣٠٩٠٥) حضرت عمرو بن میسرہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابو عبد الرحمن السلمی نے ارشاد فرمایا : جب تم قرآن میں کسی حرف کے یاء اور تاء ہونے کے بارے میں اختلاف کرو تو اس کو یاء بنادو۔ بلاشبہ قرآن حرف یاء پر نازل ہوا ۔

30905

(۳۰۹۰۶) حَدَّثَنَا مُعَاوِیَۃُ بْنُ عُمَر ، عَن زَائِدَۃَ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَن زِرٍّ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ: إذَا تَمَارَیْتُمْ فِی الْقُرْآنِ فِی یَائٍ ، أَوْ تَائٍ فَاجْعَلُوہَا یَائً وَذَکِّرُوا الْقُرْآنَ فَإِنَّہُ مُذَکَّرٌ۔
(٣٠٩٠٦) حضرت زرّ فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود نے ارشاد فرمایا : جب تم قرآن میں حرف یاء اور حرف تاء کے بارے میں جھگڑنے لگو تو اس کو حرف یاء بنادو۔ اور قرآن کو مذکر پڑھو کیونکہ وہ مذکر ہے۔

30906

(۳۰۹۰۷) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَن یَحْیَی بْنِ جَعْدَۃَ ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ ، قَالَ: الْقُرْآنُ ذَکَرٌ فَذَکِّرُوہُ۔
(٣٠٩٠٧) حضرت یحییٰ بن جعدہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابن مسعود نے ارشاد فرمایا : قرآن کو مذکر پڑھو کیونکہ وہ مذک رہے۔

30907

(۳۰۹۰۸) حَدَّثَنَا سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ عَبْدِ الْکَرِیمِ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ ، قَالَ: کَانَ الْغُلامُ إذَا أَفْصَحَ مِنْ بَنِی عَبْدِ الْمُطَّلِبِ عَلَّمَہُ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ہَذِہِ الآیَۃَ سَبْعًا: {الْحَمْدُ لِلَّہِ الَّذِی لَمْ یَتَّخِذْ وَلَدًا وَلَمْ یَکُنْ لَہُ شَرِیکٌ فِی الْمُلْکِ وَلَمْ یَکُنْ لَہُ وَلِیٌّ مِنَ الذُّلِّ وَکَبِّرْہُ تَکْبِیرًا}۔
(٣٠٩٠٨) حضرت عبد الکریم فرماتے ہیں کہ حضرت عمرو بن شعیب نے ارشاد فرمایا : جب بنو عبد المطلب قبیلہ کا کوئی بچہ صاف بولنے لگتا تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس بچے کو یہ آیت سات بار سکھاتے : سب تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے ہرگز نہیں بنایا کسی کو بیٹا اور ہرگز نہیں ہے اس کا کوئی شریک ، بادشاہی میں اور ہرگز نہیں اس کا کوئی مدد گار کمزوری کی بناء پر اور بڑائی بیان کرو اس کی کمال درجے کی بڑائی۔

30908

(۳۰۹۰۹) حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ سَعْدٍ أَبُو دَاوُدَ ، عَن سُفْیَانَ ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَمْرِو: جَاء بی أبی إلی سعید بن جبیر وأنا صغیر ، فقال: تُعَلِّمْ ہذا الْقُرْآنَ ؟۔
(٣٠٩٠٩) حضرت سفیان فرماتے ہیں کہ حضرت حسن بن عمرو نے ارشاد فرمایا : میرے والد مجھے حضرت سعید بن جبیر کے پاس لے گئے اس حال میں کہ میں بہت چھوٹا تھا، تو آپ نے فرمایا؛ کیا تم اس کو قرآن سکھاؤ گے ؟ !۔

30909

(۳۰۹۱۰) حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ سَعْدٍ ، عَن سُفْیَانَ ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَمْرِو ، عَن فُضَیْلٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ: کَانُوا یَکْرَہُونَ أَنْ یُعَلِّمُوا أَوْلادَہُم الْقُرْآنَ حَتَّی یَعْقِلُوا۔
(٣٠٩١٠) حضرت فضیل فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم نے ارشاد فرمایا : صحابہ ناپسند کرتے تھے کہ وہ اپنی اولاد کو عقلمند ہونے سے پہلے قرآن سکھائیں۔

30910

(۳۰۹۱۱) حَدَّثَنَا سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَن سَالِمٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ: لاَ حَسَدَ إِلاَّ فِی اثْنَتَیْنِ: رَجُلٍ آتَاہُ اللَّہُ مَالاً ، فَہُوَ یُنْفِقُہُ آنَائَ اللَّیْلِ وَأَنَائَ النَّہَارِ ، وَرَجُلٍ عَلَّمَہُ اللَّہُ الْقُرْآنَ ، فَہُوَ یَقُومُ بِہِ آنَائَ اللَّیْلِ وَآنَائَ النَّہَارِ۔ (بخاری ۵۰۲۵۔ مسلم ۵۵۸)
(٣٠٩١١) حضرت عبداللہ فرماتے ہیں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : حسد جائز نہیں ہے سوائے دو شخصوں میں ، ایک وہ شخص جسے اللہ نے مال دیا ہو پس وہ صبح و شام اسے اللہ کی رضا میں خرچ کرتا ہو اور دوسرا وہ شخص جسے اللہ نے قرآن سکھلایا پس وہ صبح و شام اس کی تلاوت کرتا ہو۔

30911

(۳۰۹۱۲) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ آدَمَ ، قَالَ: حدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیزِ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِی صَالِحٍ ، عَنْ أَبِی سَعِیدٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: لاَ حَسَدَ إِلاَّ فِی اثْنَتَیْنِ: رَجُلٍ آتَاہُ اللَّہُ الْقُرْآنَ ، فَہُوَ یَتْلُوہُ آنَائَ اللَّیْلِ وَآنَائَ النَّہَارِ ، فَیَقُولُ الرَّجُلُ: لَوْ آتَانِی اللَّہُ مِثْلَ مَا آتَی فُلانًا فَعَلْت مِثْلَ مَا یَفْعَلُ ، وَرَجُلٍ آتَاہُ اللَّہُ مَالاً ، فَہُوَ یُنْفِقُہُ فِی حَقِّہِ فَیَقُولُ الرَّجُلُ: لَوْ آتَانِی اللَّہُ مِثْلَ مَا آتَی فُلانًا فَعَلْت مِثْلَ مَا یَفْعَلُ۔ (احمد ۴۷۹۔ ابویعلی ۱۰۸۰)
(٣٠٩١٢) حضرت ابو سعید خدری فرماتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : حسد جائز نہیں ہے مگر دو آدمیوں میں، ایک وہ شخص جسے اللہ نے قرآن کی تلاوت کی توفیق عطا فرمائی پس وہ دن رات اس کی تلاوت کرتا ہو۔ پھر آدمی کہے : اگر اللہ تعالیٰ مجھے بھی قرآن کی تلاوت عطا فرماتا جیسا کہ فلاں کو عطا کی ہے تو میں بھی ایسے ہی کرتا جیسا کہ فلاں شخص تلاوت کرتا ہے۔ اور دوسرا وہ آدمی جسے اللہ نے مال دیا پس وہ اس مال کو اس کے حق میں خرچ کرتا ہو، پھر کوئی آدمی کہے : اگر اللہ مجھے بھی مال دیتا جیسا کہ فلاں کو دیا ہے ، تو میں بھی ایسے ہی کرتا جیسا کہ فلاں آدمی خرچ کرتا ہے۔

30912

(۳۰۹۱۳) حَدَّثَنَا سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنِ ابْنِ أَبِی نَجِیحٍ ، عَن مُجَاہِدٍ ، قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللہِ: (حم) دِیبَاجُ الْقُرْآنِ۔
(٣٠٩١٣) حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود نے ارشاد فرمایا : حم قرآن کی زینت ہے۔

30913

(۳۰۹۱۴) حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ ، عَن مِسْعَرٍ ، عَن سَعْدِ بْنِ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ: کُنَّ الْحَوَامِیمُ یُسَمَّیْنَ الْعَرَائِسَ۔
(٣٠٩١٤) حضرت مسعر فرماتے ہیں کہ حضرت سعد بن ابراہیم نے ارشاد فرمایا : حوا میم جتنی بھی سورتیں تھی ان کو عرائس کے نام سے جانا جاتا تھا۔

30914

(۳۰۹۱۵) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، وَوَکِیعٌ ، عَن مِسْعَرٍ ، عَن مَعْنِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللہِ: إذَا وَقَعَتْ فِی آلْ (حم) وَقَعْتُ فِی رَوْضَاتٍ دَمِثَاتٍ أَتَأَنَّقُ فِیہِنَّ۔
(٣٠٩١٥) حضرت معن بن عبد الرحمن فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود نے ارشاد فرمایا : جب میں حم والی سورتیں پڑھنا شروع کرتا ہوں تو میں نرم زمین والے خوبصورت باغات میں ہوتا ہوں جن میں ان کی تلاوت سے میں خوش ہوتا ہوں۔

30915

(۳۰۹۱۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، عَن سُفْیَانَ ، عَن حَبِیبٍ ، عَن رَجُلٍ ، عَنْ أَبِی الدَّرْدَائِ ، قَالَ: مَرَّ عَلَیْہِ وَہُوَ یَبْنِی مَسْجِدًا فَقَالَ: مَا ہَذَا ؟ قَالَ: ہَذَا لآلِ (حم) ۔
(٣٠٩١٦) حضرت حبیب فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے بیان کیا کہ حضرت ابو الدردائ نے فرمایا : ایک آدمی کا ان پر گزر ہوا اس حال میں کہ وہ مسجد کی تعمیر کر رہے تھے، پس وہ کہنے لگا : یہ کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا : یہ حم والی سورتوں کے لیے ہے۔

30916

(۳۰۹۱۷) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، عَن شِبْلٍ ، عَنِ ابْنِ أَبِی نَجِیحٍ ، عَن مُجَاہِدٍ ، قَالَ: عَرَضْت الْقُرْآنَ عَلَی ابْنِ عَبَّاسٍ ثَلاثَ عَرْضَاتٍ۔
(٣٠٩١٧) حضرت ابن ابی نجیح فرماتے ہیں کہ حضرت مجاہد نے ارشاد فرمایا : میں نے حضرت ابن عباس پر تین مرتبہ قرآن کا دور کیا۔

30917

(۳۰۹۱۸) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، قَالَ: حدَّثَنَا محمد بن إسحاق عن أبان بن صالح ، عَن مُجَاہِدٍ ، قَالَ: عَرَضْت الْقُرْآنَ عَلَی ابْنِ عَبَّاسٍ مِنْ فَاتِحَتِہِ إِلَی خَاتِمَتِہِ ثَلاثَ عَرْضَاتٍ أَقفہُ عِنْدَ کُلِّ آیَۃٍ۔
(٣٠٩١٨) حضرت ابان بن صالح فرماتے ہیں کہ حضرت مجاہد نے ارشاد فرمایا : میں نے تین مرتبہ شروع قرآن سے لے کر آخر تک حضرت ابن عباس کے سامنے دور کیا۔ میں ہر آیت پڑھنے کے وقت ٹھہرتا تھا۔

30918

(۳۰۹۱۹) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِی ظَبْیَانَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یَعْرِضُ الْقُرْآنَ فِی کُلِّ رَمَضَانَ مَرَّۃً إِلاَّ الْعَامَ الَّذِی قُبِضَ فِیہِ فَإِنَّہُ عُرِضَ عَلَیْہِ مَرَّتَیْنِ بِحَضْرَۃِ عَبْدِ اللہِ فَشَہِدَ مَا نُسِخَ مِنْہُ ، وَمَا بُدِّلَ۔ (احمد ۳۶۲۔ ابویعلی ۲۵۵)
(٣٠٩١٩) حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ یقیناً رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہر رمضان میں ایک مرتبہ قرآن پاک کا دور فرماتے تھے سوائے اس سال کہ جس میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا انتقال ہوا۔ پس اس سال آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عبداللہ بن مسعود کی موجودگی میں دو مرتبہ دور فرمایا : پس آپ کو معلوم ہے جو آیت نسخ ہوئی اور جو آیت تبدیل ہوئی۔

30919

(۳۰۹۲۰) حَدَّثَنَا یَعْلَی بْنُ عُبَیْدٍ ، عَن مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَن عُبَیْدِ اللہِ بْنِ عبْدِ اللہِ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَعْرِضُ الْکِتَابَ فِی کُلِّ رَمَضَانَ عَلَی جِبْرِیلَ ، فَلَمَّا کَانَ الشَّہْرُ الَّذِی ہَلَکَ فِیہِ عَرَضَہُ عَلَیْہِ عَرْضَتَیْنِ۔
(٣٠٩٢٠) حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہر رمضان میں قرآن پاک کا حضرت جبرائیل سے دور فرماتے تھے ۔ پس جس مہینہ میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا انتقال ہوا اس میں دو مرتبہ دور فرمایا۔

30920

(۳۰۹۲۱) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، قَالَ: حدَّثَنَا مُوسَی بْنُ عُلَیٍّ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبِی یَقُولُ: أَمْسَکْت عَلَی فَضَالَۃَ بْنِ عُبَیْدٍ الْقُرْآنَ حَتَّی فَرَغَ مِنْہُ۔
(٣٠٩٢١) حضرت موسیٰ بن علی ّ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے والد کو یوں فرماتے ہوئے سنا کہ : میں حضرت فضالہ بن عبید کے پاس ان کا قرآن سننے کے لیے اس وقت تک ٹھہرا جب تک انھوں نے اسے مکمل نہ کرلیا۔

30921

(۳۰۹۲۲) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَنِ ابْنِ عُیَیْنَۃَ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، وَعَنِ ابْنِ سِیرِینَ ، عَن عَبِیْدَۃَ ، قَالَ: الْقِرَائَۃُ الَّتِی عُرِضَتْ عَلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی الْعَامِ الَّذِی قُبِضَ فِیہِ ہِیَ الْقِرَائَۃُ الَّتِی یَقْرَؤُہَا النَّاسُ الْیَوْمَ۔
(٣٠٩٢٢) حضرت ابن سیرین فرماتے ہیں کہ حضرت عبیدہ نے ارشاد فرمایا : وہ قراءت جو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ان کے انتقال والے سال پڑھی گئی تھی یہ وہی قراءت تھی جو لوگ آج پڑھتے ہیں۔

30922

(۳۰۹۲۳) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَن زَائِدَۃَ ، عَن ہِشَامٍ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ ، قَالَ: کَانَ جِبْرِیلُ یَعْرِضُ عَلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْقُرْآنَ فِی کُلِّ عَامٍ مَرَّۃً فِی رَمَضَانَ ، فَلَمَّا کَانَ الْعَامُ الَّذِی قُبِضَ فِیہِ عَرَضَہُ عَلَیْہِ مَرَّتَیْنِ۔ (بخاری ۳۶۲۴۔ مسلم ۱۹۰۵)
(٣٠٩٢٣) حضرت ہشام فرماتے ہیں کہ حضرت ابن سیرین نے ارشاد فرمایا : حضرت جبرائیل ہر سال رمضان میں ایک مرتبہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ قرآن کا دور فرماتے تھے۔ پس جب وہ سال آیا جس میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا انتقال ہوا تو آپ نے دو مرتبہ قرآن کا دور فرمایا۔

30923

(۳۰۹۲۴) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، قَالَ: حدَّثَنَا زَکَرِیَّا بْنُ أَبِی زَائِدَۃَ ، عَن فِرَاسٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَن مَسْرُوقٍ ، عَنْ عَائِشَۃَ ، عَنْ فَاطِمَۃَ ، قَالَتْ: کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَعْرِضُ الْقُرْآنَ عَلَی جِبْرِیلَ فِی کُلِّ عَامٍ مَرَّۃً ، فَلَمَّا کَانَ الْعَامُ الَّذِی قُبِضَ فِیہِ عَرَضَہُ عَلَیْہِ مَرَّتَیْنِ۔
(٣٠٩٢٤) حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ حضرت فاطمہ نے ارشاد فرمایا : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہر سال میں ایک مرتبہ حضرت جبرائیل کے ساتھ قرآن کا دور فرماتے تھے۔ پس جس سال آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا انتقال ہوا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے ساتھ دو مرتبہ دور فرمایا۔

30924

(۳۰۹۲۵) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ: حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ أَبِی الأَحْوَصِ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ: لِکُلِّ شَیْئٍ لُبَابٌ وَإِنَّ لُبَابَ الْقُرْآنِ الْمُفَصَّلُ۔
(٣٠٩٢٥) حضرت ابو الاحوص فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود نے ارشاد فرمایا : ہر چیز کا ایک لبّ لباب ہوتا ہے، اور قرآن کا لب لباب مفصل سورتیں ہیں۔

30925

(۳۰۹۲۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ: حدَّثَنَا الأَعْمَشُ ، عَن سُلَیْمَانَ بْنِ مَیْسَرَۃَ ، عَن طَارِقِ بْنِ شِہَابٍ ، قَالَ: قَالَ سَلْمَانُ لِزَیْدِ بْنِ صُوحَانَ: کَیْفَ أَنْتَ إذَا اقْتَتَلَ الْقُرْآنُ وَالسُّلْطَانُ ؟ قَالَ: إذًا أَکُونُ مَعَ الْقُرْآنِ ، قَالَ: نِعْمَ الزُّویَیْدُ: إذًا أَنْتَ۔
(٣٠٩٢٦) حضرت طارق بن شھاب فرماتے ہیں کہ حضرت سلمان نے زید بن صوحان سے پوچھا : تیرا کیا حال ہوگا جب قرآن والوں اور بادشاہت والوں کے درمیان قتال ہوگا ؟ آپ نے فرمایا : تب تو میں قرآن کے ساتھ ہوں گا۔ آپ نے فرمایا : چھوٹے سے زید تب تو تو بہت اچھا ہوگا۔

30926

(۳۰۹۲۷) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَن شِمْرٍ ، عَن شَہْرِ بْنِ حَوْشَبٍ ، عَن کَعْبٍ ، قَالَ: یَقْتَتِلُ الْقُرْآنُ وَالسُّلْطَانُ قَالَ: فَیَطَأُ السُّلْطَانُ عَلَی صِمَاخِ الْقُرْآنِ فَلأْیًا بِلأْیِ ،وَلأْیًا بِلأی ،مَا تَنْفَلتُنَّ مِنْہُ۔
(٣٠٩٢٧) حضرت حوشب فرماتے ہیں کہ حضرت کعب نے فرمایا : اہل قرآن اور بادشاہت والے قتال کریں گے۔ پس بادشاہت والے قرآن کے سوراخ کو روند ڈالیں گے۔ پس پھر نہ وہ ان کی پروا کریں اور نہ یہ ان کی پروا کریں گے۔ تو ہرگز جان مت چھڑانا ان سے۔

30927

(۳۰۹۲۸) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ أَبِی بُکَیْرٍ ، قَالَ: حدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ عُمَیْرٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بن مسعود ، قَالَ: أَتَی ابْنَ مَسْعُودٍ رَجُلٌ فَقَالَ: یَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَلِّمْنِی کَلِمَاتٍ جَوَامِعَ نَوَافِعَ ، قَالَ تَعَبَّدَ اللَّہَ ، وَلا تُشْرِکْ بِہِ شَیْئًا وَتَزُولُ مَعَ الْقُرْآنِ حَیْثُ زَال۔
(٣٠٩٢٨) حضرت عبد الرحمن بن عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ ایک آدمی حضرت ابن مسعود کی خدمت میں حاضر ہو کر کہنے لگا : اے ابو عبد الرحمن ! آپ مجھے ایسے کلمات سکھا دیجیے جو جامع بھی ہوں اور نافع بھی۔ آپ نے فرمایا : تم اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک مت ٹھہراؤ۔ اور قرآن کی ہمیشہ تلاوت کیا کرو۔

30928

(۳۰۹۲۹) حَدَّثَنَا مُعَاوِیَۃَ بْنَ ہِشَامٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ جَبَلَۃَ بْنِ سُحَیْمٍ ، عَنْ عَامِرِ بْنِ مَطَرٍ ، قَالَ: کُنْتُ مَعَ حُذَیْفَۃَ فَقَالَ: کَیْفَ أَنْتَ یَا عَامِرُ بْنُ مَطَرٍ إذَا أَخَذَ النَّاسُ طَرِیقًا وَالْقُرْآنُ طَرِیقًا مَعَ أَیِّہِمَا تَکُونُ ؟ فَقُلْتُ: مَعَ الْقُرْآنِ أَحْیَا مَعَہُ ، أو أَمُوتُ ، قَالَ: فَأَنْتَ إذًا۔
(٣٠٩٢٩) حضرت عامر بن مطر فرماتے ہیں کہ میں حضرت حذیفہ کے ساتھ تھا تو آپ نے فرمایا : اے عامر بن مطر تیرا کیا حال ہوگا جب لوگ ایک راستہ بنالیں گے اور قرآن کا راستہ الگ ہوگا ؟ تو ان دونوں میں سے کس کے ساتھ ہوگا ؟ پس میں نے کہا : قرآن کے ساتھ ہی میں زندہ رہوں گا اور یا اس کے ساتھ ہی مروں گا۔ آپ نے فرمایا : تب تو بہت اچھا ہوگا۔

30929

(۳۰۹۳۰) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَن مِسْعَرٍ ، قَالَ: حدَّثَنَا مَعْنٌ ، قَالَ: أَتَی رَجُلٌ ابْنَ مَسْعُودٍ فَقَالَ: عَلِّمْنِی کَلِمَاتٍ جَوَامِعَ نَوَافِعَ ، قَالَ: تَعَبَّدَ اللَّہَ ، وَلا تُشْرِکْ بِہِ شَیْئًا ، وَتَزُولُ مَعَ الْقُرْآنِ حَیْثُ زَالَ۔
(٣٠٩٣٠) حضرت معن فرماتے ہیں کہ ایک آدمی کہنے لگا : مجھے ایسے کلمات سکھا دیجئے جو جامع بھی ہوں اور نافع بھی۔ آپ نے فرمایا : تم اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک مت ٹھہراؤ اور قرآن کی ہمیشہ تلاوت کرتے رہا کرو۔

30930

(۳۰۹۳۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن سُفْیَانَ ، عَن مَنْصُورٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ: کَانَ أَصْحَابُ عَبْدِ اللہِ الَّذِینَ یُفْتُونَ وَیَقْرَؤُونَ الْقُرْآنَ: عَلْقَمَۃَ وَالأَسْوَدَ وَعُبَیْدَۃَ وَمَسْرُوقًا وَعَمْرَو بْنَ شُرَحْبِیلَ وَالْحَارِثَ بْنَ قَیْسٍ۔
(٣٠٩٣١) حضرت منصور فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم نے ارشاد فرمایا : حضرت عبداللہ بن مسعود کے اصحاب میں سے یہ لوگ تھے جو فتویٰ دیتے تھے اور قرآن پڑھاتے تھے ، حضرت علقمہ ، اسود، عبیدہ، مسروق ، عمرو بن شرحبیل اور حارث بن قیس ۔

30931

(۳۰۹۳۲) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ مُسْلِمٍ ، عَن مَسْرُوقٍ ، قَالَ: کَانَ عَبْدُ اللہِ یُقْرِئُنَا الْقُرْآنَ فِی الْمَسْجِدِ ، ثُمَّ یَجْلِسُ بَعْدَہُ یثبت النَّاسَ۔
(٣٠٩٣٢) حضرت مسلم فرماتے ہیں کہ حضرت مسروق نے ارشاد فرمایا : حضرت عبداللہ بن مسعود ہمیں مسجد میں قرآن پڑھاتے تھے پھر اس کے بعد بیٹھ جاتے اور لوگوں کا ایمان پختہ کرتے۔

30932

(۳۰۹۳۳) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ آدَمَ ، قَالَ: حدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ حُمَیْدٍ ، قَالَ سَمِعْت أَبَا إِسْحَاقَ یَقُولُ: أَقْرَأَ أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِیُّ الْقُرْآنَ فِی الْمَسْجِدِ أَرْبَعِینَ سَنَۃً۔
(٣٠٩٣٣) حضرت عبد الرحمن بن حمید فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابو اسحاق کو یوں فرماتے ہوئے سنا ہے کہ حضرت ابو عبد الرحمن نے مسجد میں چالیس سال قرآن پڑھایا۔

30933

(۳۰۹۳۴) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، عَن عَبِیْدَۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ: قَالَ لِی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: اقْرَأْ عَلَیَّ الْقُرْآنَ ، فَقُلْتُ: أَقْرَأُ عَلَیْک وَعَلَیْک أُنْزِلَ ، قَالَ: إنِّی أَشْتَہِی أَنْ أَسْمَعَہُ مِنْ غَیْرِی ، قَالَ: فَقَرَأْت عَلَیْہِ النِّسَائَ حَتَّی بَلَغْت: {فَکَیْفَ إذَا جِئْنَا مِنْ کُلِّ أُمَّۃٍ بِشَہِیدٍ وَجِئْنَا بِکَ عَلَی ہَؤُلائِ شَہِیدًا} رَفَعْت رَأْسِی ، أَوْ غَمَزَنِی رَجُلٌ إِلَی جَنْبِی فَرَفَعْت رَأْسِی فَرَأَیْتُ عَیْنَیْہِ تَسِیلُ۔ (بخاری ۴۵۸۲۔ مسلم ۵۵۱)
(٣٠٩٣٤) حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھ سے ارشاد فرمایا : مجھے قرآن سناؤ۔ میں نے عرض کیاً ! میں آپ کو سناؤں ، حالانکہ قرآن تو آپ ہی پر نازل ہوا ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : بلاشبہ میں چاہتا ہوں کہ میں اپنے علاوہ کسی اور سے قرآن سنوں۔ عبداللہ فرماتے ہیں ! پس میں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے سورة نساء کی تلاوت فرمائی۔ یہاں تک کہ میں اس آیت پر پہنچا۔ ( پھر کیا کیفیت ہوگی ( ان لوگوں کی ) جب لائیں گے ہم ہر امت میں سے ایک گواہ اور لائیں گے تمہیں ( اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ) ان پر بطور گواہ) میں نے اپنا سر اٹھایا یا ایک آدمی نے میرے پہلو کو ٹٹولا تو میں نے اپنا سر اٹھایا پس میں نے دیکھا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دونوں آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔

30934

(۳۰۹۳۵) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَن حُصَیْنٍ ، عَن ہِلالِ بْنِ یَسَافٍ ، عَنْ أَبِی حَیَّانَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِنَحْوٍ مِنْ حَدِیثِ الأَعْمَشِ۔ (احمد ۳۷۴۔ ابویعلی ۵۱۲۸)
(٣٠٩٣٥) حضرت عبداللہ سے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حدیث اس سند سے بھی مروی ہے۔

30935

(۳۰۹۳۶) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَن زَائِدَۃَ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَن زِرٍّ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ لَہُ: اقْرَأ ، فَافْتَتَحَ سُورَۃَ النِّسَائِ حَتَّی إذَا بَلَغَ إِلَی قولہ تعالی: {فَکَیْفَ إذَا جِئْنَا مِنْ کُلِّ أُمَّۃٍ بِشَہِیدٍ وَجِئْنَابِکَ عَلَی ہَؤُلائِ شَہِیدًا} الآیۃ قَالَ: فَدَمَعَتْ عَیْنَا النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، قَالَ: حَسْبُک۔ (نسائی ۸۰۷۷۔ طبرانی ۸۴۵۹)
(٣٠٩٣٦) حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھ سے کہا : پڑھو، پس میں نے سورة النساء شروع کردی یہاں تک کہ میں پہنچا اللہ کے اس قول تک ( پھر کیا کیفیت ہوگی ( ان لوگوں کی) جب لائیں گے ہم ہر امت میں سے ایک گواہ اور لائیں گے تمہیں ( اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ) ان پر بطور گواہ) ۔ آپ فرماتے ہیں ! پس نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دونوں آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کافی ہے تمہیں۔

30936

(۳۰۹۳۷) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، عَنِ الأَجْلَحِ ، عَنِ ابْنِ أَبْزَی ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ: سَمِعْتُ أُبَیَّ بْنَ کَعْبٍ یَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: أُمِرْت أَنْ أَعْرِضَ عَلَیْک الْقُرْآنَ ، قَالَ: سَمَّانِی لَکَ ربک ، قَالَ: نَعَمْ ، فَقَالَ: أُبَیٌّ: {بِفَضْلِ اللہِ وَبِرَحْمَتِہِ فَبِذَلِکَ فَلْیَفْرَحُوا ہُوَ خَیْرٌ مِمَّا یَجْمَعُونَ}۔ (بخاری ۴۲۳۔ احمد ۱۲۲)
(٣٠٩٣٧) حضرت ابی ّ بن کعب فرماتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں تجھے قرآن سناؤں ۔ ابی نے عرض کیا : کیا آپ کے رب نے میرا نام لیا ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جی ہاں ! تو حضرت ابی نے فرمایا اللہ کے فضل اور اس کی رحمت سے ہے سو اس پر چاہیے ان کو خوش ہونا۔ یہ بہتر ہے ان سب چیزوں سے جو یہ جمع کر رہے ہیں۔

30937

(۳۰۹۳۸) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَن شَقِیقٍ ، قَالَ: قیلَ لِعَبْدِ اللہِ: إنَّ فُلانًا یَقْرَأُ الْقُرْآنَ مَنْکُوسًا ، فَقَالَ عَبْدُ اللہِ: ذَاکَ مَنْکُوسُ الْقَلْبِ۔
(٣٠٩٣٨) حضرت اعمش فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود کو بتلایا گیا، فلاں شخص قرآن کوالٹی طرف سے پڑھتا ہے ! تو حضرت عبداللہ نے فرمایا : وہ الٹے دل والا ہے۔

30938

(۳۰۹۳۹) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِِ ، عَن ہَارُونَ بْنِ عَنْتَرَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ سَأَلْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ: أَیُّ الْعَمَلِ أَفْضَلُ ، قَالَ: ذِکْرُ اللہِ أکبر ، وَمَا جَلَسَ قَوْمٌ فِی بَیْتٍ یَتَعَاطَوْنَ فِیہِ کِتَابَ اللہِ فِیمَا بَیْنَہُمْ وَیَتَدَارَسُونَہُ إِلاَّ أَظَلَّتْہُمُ الْمَلائِکَۃُ بِأَجْنِحَتِہَا ، وَکَانُوا أَضْیَافَ اللہِ مَا دَامُوا فِیہِ حَتَّی یُفِیضُوا فِی حَدِیثٍ غَیْرِہِ۔ (دارمی ۳۵۶)
(٣٠٩٣٩) حضرت عنترہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عباس سے سوال کیا : کون سا عمل سب سے افضل ہے ؟ آپ نے فرمایا : اللہ کا ذکر کرنا بہت بڑا عمل ہے۔ اور کوئی قوم کسی گھر میں بیٹھ کر کتاب اللہ کے پڑھنے پڑھانے میں مشغول نہیں ہوتی اور اس کا دور نہیں کرتی مگر یہ کہ ملائکہ ان پر اپنے پروں سے سایہ کرتے ہیں اور وہ جب تک اس جگہ میں ہوتے ہیں وہ اللہ کے مہمان ہوتے ہیں یہاں تک کہ وہ کسی اور بات میں مشغول ہوجائیں۔

30939

(۳۰۹۴۰) حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّیَالِسِیُّ ، عَن شُعْبَۃَ ، عَنْ أَبِی رَجَائٍ ، قَالَ: سَأَلْت مُحَمَّدًا عَن نَقْطِ الْمَصَاحِفِ ؟ فَقَالَ: إنِّی أَخَافُ أَنْ یَزِیدُوا فِی الْحُرُوفِ ، أَوْ یُنْقِصُوا۔
(٣٠٩٤٠) حضرت ابو رجاء فرماتے ہیں کہ میں نے امام محمد سے مصاحف میں نقطے لگانے کے متعلق پوچھا ؟ تو آپ نے فرمایا : مجھے ڈر ہے کہ وہ کسی حرف کا اضافہ کردیں گے یا کوئی حرف کم کردیں گے۔

30940

(۳۰۹۴۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ خَارِجَۃَ ، عَنْ خَالدٍ ، قَالَ: رَأَیْتُ ابْنِ سِیرِینَ یَقرأ فی مُصْحَفِ مَنْقُوط۔
(٣٠٩٤١) حضرت خالد فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن سیرین کو نقطے لگے ہوئے مصحف میں پڑھتے ہوئے دیکھا۔

30941

(۳۰۹۴۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ: حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، أَنَّہُ کَرِہَ النُّقَطَ۔
(٣٠٩٤٢) حضرت مغر ہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم نقطے لگانے کو مکروہ سمجھتے تھے۔

30942

(۳۰۹۴۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ الہُذَلی ، عَنِ الْحَسَنِ قَالَ: لاَ بَأْسَ بِنُقَطِہَا بِالأَحْمَرِ۔
(٣٠٩٤٣) حضرت ھذلی فرماتے ہیں کہ حضرت حسن نے ارشاد فرمایا : سرخ نقطے لگانے میں کوئی حرج نہیں۔

30943

(۳۰۹۴۴) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ خَالدٍ ، أَوْ غَیْرَہُ قَالَ: رَأَیْتُ ابْنِ سِیرِینَ یَقرأ فی مُصْحَفِ مَنْقُوط۔
(٣٠٩٤٤) حضرت خالد فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن سیرین کو دیکھا کہ وہ نقطے لگے ہوئے مصحف میں سے تلاوت فرما رہے تھے۔

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔