hadith book logo

HADITH.One

HADITH.One

Urdu

Support

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Ibn Abi Shaybah

37. صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے مناقب کا بیان

ابن أبي شيبة

35571

(۳۵۵۷۲) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ إِسْحَاقَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ الْقُرَشِیِّ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُکَیْمٍ ، قَالَ : خَطَبَنَا أَبُو بَکْرٍ ، فَقَالَ : أَمَّا بَعْدُ فَإِنِّی أُوصِیکُمْ بِتَقْوَی اللہِ ، وَأَنْ تُثْنُوا عَلَیْہِ بِمَا ہُوَ لَہُ أَہْلٌ ، وَأَنْ تَخْلِطُوا الرَّغْبَۃَ بِالرَّہْبَۃِ وَتَجْمَعُوا الإِلْحَافَ بِالْمَسْأَلَۃِ ، فَإِنَّ اللَّہَ أَثْنَی عَلَی زَکَرِیَّا وَعَلَی أَہْلِ بَیْتِہِ ، فَقَالَ : {إنَّہُمْ کَانُوا یُسَارِعُونَ فِی الْخَیْرَاتِ وَیَدْعُونَنَا رَغَبًا وَرَہَبًا وَکَانُوا لَنَا خَاشِعِینَ} ثُمَّ اعْلَمُوا عِبَادَ اللہِ، أَنَّ اللَّہَ قَدَ ارْتَہَنَ بِحَقِّہِ أَنْفُسَکُمْ ، وَأَخَذَ عَلَی ذَلِکَ مَوَاثِیقَکُمْ ، وَاشْتَرَی مِنْکُمَ الْقَلِیلَ الْفَانِیَ بِالْکَثِیرِ الْبَاقِی ، وَہَذَا کِتَابُ اللہِ فِیکُمْ لاَ تَفْنَی عَجَائِبُہُ وَلاَ یُطْفَأُ نُورُہُ فَصَدِّقُوا بِقَوْلِہِ ، وَانْتَصِحُوا کِتَابَہُ ، وَاسْتَبْصِرُوا فِیہِ لِیَوْمِ الظُّلْمَۃِ ، فَإِنَّمَا خَلَقَکُمْ لِلْعِبَادَۃِ ، وَوَکَّلَ بِکُمَ الْکِرَامَ الْکَاتِبِینَ ، یَعْلَمُونَ مَا تَفْعَلُونَ ، ثُمَّ اعْلَمُوا عِبَادَ اللہِ أَنَّکُمْ تَغْدُونَ وَتَرُوحُونَ فِی أَجَلٍ قَدْ غُیِّبَ عَنْکُمْ عِلْمُہُ ، فَإِنَ اسْتَطَعْتُمْ أَنْ تَنْقَضِیَ الآجَالُ وَأَنْتُمْ فِی عَمَلِ اللہِ فَافْعَلُوا ، وَلَنْ تَسْتَطِیعُوا ذَلِکَ إِلاَّ بِاللہِ ، فَسَابِقُوا فِی مَہَلٍ آجَالَکُمْ قَبْلَ أَنْ تَنْقَضِیَ آجَالُکُمْ فَیَرُدَّکُمْ إِلَی أَسْوَأِ أَعْمَالِکُمْ ، فَإِنَّ أَقْوَامًا جَعَلُوا آجَالَہُمْ لِغَیْرِہِمْ وَنَسُوا أَنْفُسَہُمْ فَأَنْہَاکُمْ أَنْ تَکُونُوا أَمْثَالَہُمْ فَالْوَحَائَ الْوَحَائَ وَالنَّجَائَ النَّجَائَ ، فَإِنَّ وَرَائَکُمْ طَالِبًا حَثِیثًا مَرُّہُ سَرِیعٌ۔ (حاکم ۳۸۳)
(٣٥٥٧٢) حضرت عبداللہ بن عکیم سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ ہمیں حضرت ابوبکر (رض) نے خطبہ ارشاد فرمایا تو کہا : اما بعد ! بیشک میں تمہیں اللہ تعالیٰ سے ڈرنے کی وصیت کرتا ہوں۔ اور اس بات کی تمہیں وصیت کرتا ہوں کہ تم اللہ کی ثنا اس طرح کرو جیسے وہ ثنا کا اہل ہے اور یہ کہ تم خوف کو شوق کے ساتھ ملائے رکھو۔ اور یہ کہ تم خوب چمٹ کر مانگنے کو سوال کے ساتھ جمع کرو۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے حضرت زکریا اور ان کے گھر والوں کی تعریف کی ہے۔ فرمایا : {إنَّہُمْ کَانُوا یُسَارِعُونَ فِی الْخَیْرَاتِ وَیَدْعُونَنَا رَغَبًا وَرَہَبًا وَکَانُوا لَنَا خَاشِعِینَ } اللہ کے بندو ! پھر یہ بات جان لو۔ یقیناً اللہ تعالیٰ نے تمہاری جانوں کو اپنے حق کے عوض رہن رکھا ہے اور اس پر تم سے پختہ عہد لیے ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ نے تم سے فنا ہونے والی تھوڑی چیز کے بدلہ میں باقی رہنے والی کثیر چیز دے کر تم سے خریداری کی ہے۔ یہ تم میں اللہ کی کتاب ہے۔ اس کے عجائبات ختم نہیں ہوتے اور اس کا نور بند نہیں ہوتا۔ پس تم اس کے کلام کی تصدیق کرو۔ اور اس کی کتاب سے نصیحت حاصل کرو۔ اور اندھیرے کے دن میں اس سے بصیرت حاصل کرو۔ اللہ تعالیٰ نے تمہیں صرف عبادت کے لیے پیدا کیا ہے۔ اور کراماً کاتبین کو تم پر مقرر فرمایا ہے۔ وہ جانتے ہیں جو کچھ تم کرتے ہو۔
اللہ کے بندو ! پھر یہ بات جان لو۔ تم لوگ ایک مہلت میں صبح وشام گزار رہے ہو جس کا علم تم سے غائب ہے۔ اگر تم اس بات کی استطاعت رکھتے ہو کہ مہلتیں اس طرح سے ختم ہوں کہ تم اللہ کے کام میں ہو۔ تو پس تم یہ کام کرو۔ اور یہ کام تم اللہ کی توفیق کے بغیر نہیں کرسکتے ہو۔ پس تم اپنی مہلت کے موجود لمحوں میں جلدی کرو۔ قبل اس کے کہ تمہاری عمریں پوری ہوجائیں پھر تمہیں تمہارے برے اعمال کی طرف لوٹا دیا جائے۔ بیشک کچھ لوگوں نے اپنے اوقات کو دوسروں کے لیے کردیا اور اپنی جانوں کو بھول گئے لیکن میں تمہیں ان جیسا بننے سے منع کرتا ہوں۔ پس جلدی کرو۔ پس جلدی کرو۔ النجاء النجاء کیونکہ تمہارے پیچھے ایک تیز طالب ہے جس کا گزرنا بہت تیز ہے۔

35572

(۳۵۵۷۳) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ جُوَیْبِرٍ ، عَنِ الضَّحَّاکِ ، قَالَ : رَأَی أَبُو بَکْرٍ الصِّدِّیقُ طَیْرًا وَاقِعًا عَلَی شَجَرَۃٍ ، فَقَالَ : طُوبَی لَک یَا طَیْرُ وَاللہِ لَوَدِدْت أَنِّی کُنْت مِثْلَک ، تَقَعُ عَلَی الشَّجَرَۃِ وَتَأْکُلُ مِنَ الثَمَرِ ، ثُمَّ تَطِیرُ وَلَیْسَ عَلَیْک حِسَابٌ ، وَلاَ عَذَابٌ ، وَاللہِ لَوَدِدْت أَنِّی کُنْت شَجَرَۃً إِلَی جَانِبِ الطَّرِیقِ مَرَّ عَلَیَّ جَمَلٌ فَأَخَذَنِی فَأَدْخَلَنِی فَاہُ فَلاَکَنِی ، ثُمَّ ازْدَرَدَنِی ، ثُمَّ أَخْرَجَنِی بَعْرًا وَلَمْ أَکُنْ بَشَرًا۔ (ابن المبارک ۲۴۰)
(٣٥٥٧٣) حضرت ضحاک سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے ایک پرندے کو درخت پر بیٹھے دیکھا تو فرمایا : اے پرندے ! تجھے مبارک ہو۔ خدا کی قسم ! میں پسند کرتا ہوں کہ میں تیرے جیسا ہوتا۔ تو درختوں پر بیٹھتا ہے، پھلوں کو کھاتا ہے، پھر اُڑ جاتا ہے۔ تجھے نہ حساب ہے نہ عذاب۔ خدا کی قسم ! میں پسند کرتا ہوں کہ میں راستہ کے ایک جانب لگا ہوا درخت ہوتا۔ میرے پاس سے کوئی اونٹ گزرتا۔ مجھے پکڑتا اور اپنے منہ میں ڈال لیتا پھر وہ مجھے چباتا مجھے توڑتا پھر مجھے مینگنی بنا کر نکال دیتا لیکن میں انسان نہ ہوتا۔

35573

(۳۵۵۷۴) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ بْنِ أَبِی خَالِدٍ ، عَنْ زُبَیْدٍ ، قَالَ : لَمَّا حَضَرَتْ أَبَا بَکْرٍ الْوَفَاۃُ أَرْسَلَ إِلَی عُمَرَ ، فَقَالَ : إنِّی مُوصِیک بِوَصِیَّۃٍ إنْ حَفِظْتہَا : إنَّ لِلَّہِ حَقًّا فِی اللَّیْلِ لاَ یَقْبَلُہُ فِی النَّہَارِ ، وَإِنَّ لِلَّہِ حَقًّا فِی النَّہَارِ لاَ یَقْبَلُہُ فِی اللَّیْلِ ، وَأَنَّہُ لاَ یُقْبَلُ نَافِلَۃٌ حَتَّی تُؤَدَّی الْفَرِیضَۃُ ، وَإِنَّمَا خَفَّتْ مَوَازِینُ مَنْ خَفَّتْ مَوَازِینُہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ بِاتِّبَاعِہِمَ الْبَاطِلَ فِی الدُّنْیَا وَخِفَّتِہِ عَلَیْہِمْ ، وَحُقَّ لِمِیزَانٍ لاَ یُوضَعُ فِیہِ إِلاَّ الْبَاطِلُ أَنْ یَکُونَ خَفِیفًا ، وَإِنَّمَا ثَقُلَتْ مَوَازِینُ مَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِینُہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ بِاتِّبَاعِہِمَ الْحَقَّ فِی الدُّنْیَا وَثِقَلِہِ عَلَیْہِمْ ، وَحُقَّ لِمِیزَانٍ لاَ یُوضَعُ فِیہِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ إِلاَّ الْحَقُّ أَنْ یَکُونَ ثَقِیلا ، أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّہَ ذَکَرَ أَہْلَ الْجَنَّۃِ بِصَالِحِ مَا عَمِلُوا ، وَتَجَاوَزَ عَنْ سَیِّئَاتِہِمْ ، فَیَقُولُ الْقَائِلُ : لاَ أبلغ ہولاء ، وَذَکَرَ أَہْلَ النَّارِ بِسَیِّئِ مَا عَمِلُوا وَرَدَّ عَلَیْہِمْ صَالِحَ مَا عَمِلُوا : فَیَقُولُ الْقَائِلُ : أَنَا خَیْرٌ مِنْ ہَؤُلاَئِ ، وَذَکَرَ آیَۃَ الرَّحْمَۃِ وَآیَۃَ الْعَذَابِ ، لِیَکُون الْمُؤْمِنُ رَاغِبًا رَاہِبًا ، وَلاَ یَتَمَنَّی عَلَی اللہِ غَیْرَ الْحَقِ ، وَلاَ یُلْقِی بِیَدَیْہِ إِلَی التَّہْلُکَۃِ ، فَإِنْ أَنْتَ حَفِظْت قَوْلِی ہَذَا فَلاَ یَکُنْ غَائِبٌ أَحَبَّ إلَیْک مِنَ الْمَوْتِ ، وَلاَ بُدَّ لَک مِنْہُ ، وَإِنْ أَنْتَ ضَیَّعْت قَوْلِی ہَذَا فَلاَ یَکُنْ غَائِبٌ أَبْغَضَ إلَیْک مِنْہُ وَلَنْ تُعْجِزَہُ۔
(٣٥٥٧٤) حضرت زبید سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ جب حضرت ابوبکر (رض) کی موت کا وقت آیا تو انھوں نے حضرت عمر (رض) کی طرف آدمی بھیجا اور فرمایا : میں تمہیں ایک وصیت کرتا ہوں اگر تم اسے یاد رکھو تو بیشک اللہ تعالیٰ کا ایک حق رات کے وقت ہے جس کو اللہ تعالیٰ دن میں قبول نہیں کرتے اور بیشک ایک حق اللہ تعالیٰ کا دن کے وقت ہے جس کو اللہ تعالیٰ رات کے وقت قبول نہیں کرتے۔ اور یہ کہ جب تک فرض ادا نہ ہوں، نفل قبول نہیں ہوتے۔ اور جن لوگوں کے اعمال قیامت کے دن ہلکے ہوں گے ان کے اعمال صرف اس وجہ سے ہلکے ہوں گے کہ انھوں نے دنیا میں باطل کی پیروی کی اور باطل ان کو ہلکا محسوس ہوا۔ اور میزان کے لیے یہ بات حق ہے کہ اس میں باطل ہی رکھا جائے تو وہ ہلکا ہوجائے۔ اور جن لوگوں کے اعمال قیامت کے دن وزنی ہوں گے تو ان کے اعمال صرف اس وجہ سے وزنی ہوں گے کہ انھوں نے دنیا میں حق کی پیروی کی اور حق ان پر بھاری محسوس ہوا۔ اور ایسے میزان کے لیے جس میں بروز قیامت حق رکھا جائے یہی بات لائق ہے کہ وہ بھاری ہوجائے۔
تم دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ تعالیٰ نے اہل جنت کے اچھے اعمال کا ذکر کیا ہے اور ان کی غلطیوں سے درگزر کیا ہے۔ پس کہنے والا کہتا ہے میں ان لوگوں کو نہیں پہنچ سکتا۔ اور اللہ تعالیٰ نے اہل جہنم کے برے اعمال کا ذکر کیا ہے اور ان کے اچھے اعمال کو ان پر رد فرما دیا ہے۔ پس کہنے والا کہتا ہے۔ میں ان لوگوں سے بہتر ہوں اور اللہ تعالیٰ نے رحمت کی آیت کو اور عذاب کی آیت کو ذکر فرمایا تاکہ صاحب ایمان خوف کھانے والا اور شوق رکھنے والا ہو اور خدا پر حق کے سوا کوئی تمنا نہ کرے اور اپنے ہاتھوں سے ہلاکت میں نہ پڑے۔ پس اگر تم نے میری یہ بات یاد رکھی تو پھر کوئی غائب چیز تمہیں موت سے زیادہ محبوب نہیں ہوگی اور یہ موت تو ضروری ہے۔ اور اگر تم نے میری یہ بات ضائع کی تو پھر کوئی غائب چیز تمہیں موت سے زیادہ مبغوض نہیں ہوگی اور تو موت کو عاجز نہیں کرسکتا۔

35574

(۳۵۵۷۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا الأَعْمَشُ ، عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ مَیْسَرَۃَ ، عَنْ طَارِقِ بْنِ شِہَابٍ ، عَنْ رَافِعِ بْنِ أَبِی رَافِعٍ ، قَالَ : رَافَقْت أَبَا بَکْرٍ وَکَانَ لَہُ کِسَائٌ فَدَکیٌّ یُخِلُّہُ عَلَیْہِ إذَا رَکِبَ ، وَنَلْبَسُہُ أَنَا وَہُوَ إذَا نَزَلْنَا وَہُوَ الْکِسَائُ الَّذِی عَیَّرَتْہُ بِہِ ہَوَازِنُ ، فَقَالُوا : أَذَا الْخِلاَلِ نُبَایِعُ بَعْدَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔
(٣٥٥٧٥) حضرت رافع بن ابی رافع سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوبکر کے ساتھ مرافقت کی اور ان کے پاس مقام فدک کی ایک چادر تھی جس کو آپ سوار ہو کر سمیٹ لیتے تھے اور جب ہم اترتے تو ہم اس کو پہن لیتے۔ یہ وہی چادر ہے جس کا طعنہ، حضرت ابوبکر (رض) کو قبیلہ ہوازن نے دیا تھا۔ اور انھوں نے کہا کیا ہم اس چادر والے کی جناب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد بیعت کریں ؟ “

35575

(۳۵۵۷۶) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : لَمَّا نَزَلَتْ : {إنَّ الَّذِینَ یَغُضُّونَ أَصْوَاتَہُمْ عِنْدَ رَسُولِ اللہِ أُولَئِکَ الَّذِینَ امْتَحَنَ اللَّہُ قُلُوبَہُمْ لِلتَّقْوَی} قَالَ أَبُو بَکْرٍ الصِّدِّیقُ : یَا رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لاَ أُکَلِّمُک إِلاَّ کَأَخِی السِّرَارِ حَتَّی أَلْقَی اللَّہَ۔ (حارث ۹۵۷۔ حاکم ۴۶۲)
(٣٥٥٧٦) حضرت محمد بن ابراہیم سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ جب یہ آیت {إنَّ الَّذِینَ یَغُضُّونَ أَصْوَاتَہُمْ عِنْدَ رَسُولِ اللہِ أُولَئِکَ الَّذِینَ امْتَحَنَ اللَّہُ قُلُوبَہُمْ لِلتَّقْوَی } نازل ہوئی تو حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے عرض کیا۔ یا رسول اللہ 5! میں مرتے دم تک آپ سے محض سرگوشی کرنے والے آدمی کی طرح ہی کلام کروں گا۔

35576

(۳۵۵۷۷) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ، کَانَ أَبُو بَکْرٍ یَخْطُبُنَا فَیَذْکُرُ بَدْئَ خَلْقِ الإِنْسَاْن فَیَقُولُ : خُلِقَ مِنْ مَجْرَی الْبَوْلِ مِنْ نَتِنٍ ، فَیَذْکُرُ حَتَّی یَتَقَذَّرَ أَحَدُنَا نَفْسَہُ۔
(٣٥٥٧٧) حضرت انس (رض) سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت ابوبکر (رض) ہمیں خطبہ دے رہے تھے۔ پس انھوں نے انسان کی تخلیق کا آغاز ذکر کیا تو فرمایا : انسان کو پیشاب کی نالی کی بدبو سے پیدا کیا گیا ہے۔ حضرت ابوبکر (رض) اس کا ذکر کرتے رہے یہاں تک کہ ہم میں سے ہر ایک اپنے کو گندا سمجھنے لگا۔

35577

(۳۵۵۷۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ مِسْعَرٍ ، عَنِ أَبِی عَوْنٍ ، عَنْ عَرْفَجَۃَ السُّلَمِیِّ ، قَالَ : قَالَ أَبُو بَکْرٍ : ابْکُوا فَإِنْ لَمْ تَبْکُوا فَتَبَاکَوْا۔
(٣٥٥٧٨) حضرت عرفجہ سلمی سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت ابوبکر (رض) نے فرمایا : روؤ۔ پس اگر تم رو نہ سکو تو رونے کی شکل بناؤ۔

35578

(۳۵۵۷۹) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ زَائِدَۃَ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ عُمَیْرٍ ، عَنْ رِبْعِیٍّ ، عَنْ أَبِی مُوسَی ، قَالَ : قَالَ عَمْرُو بْنُ الْعَاصِ : وَاللہِ لَئِنْ کَانَ أَبُو بَکْرٍ ، وَعُمَرُ تَرَکَا ہَذَا الْمَالَ وَہُوَ یَحِلُّ لَہُمَا شَیْئٌ مِنْہُ ، لَقَدْ غُبِنَا وَنَقَصَ رَأْیُہُمَا ، وَایْمُ اللہِ مَا کَانَا بِمَغْبُونَیْنِ ، وَلاَ نَاقِصِی الرَّأْی ، وَلَئِنْ کَانَا امْرَأَیْنِ یَحْرُمُ عَلَیْہِمَا مِنْ ہَذَا الْمَالِ الَّذِی أَصَبْنَا بَعْدَہُمَا لَقَدْ ہَلَکْنَا ، وَایْمُ اللہِ مَا الْوَہْمُ إِلاَّ مِنْ قِبَلِنَا۔
(٣٥٥٧٩) حضرت ابوموسیٰ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت عمرو بن عاص نے ارشاد فرمایا : خدا کی قسم ! اگر حضرت ابوبکر (رض) اور حضرت عمر (رض) نے اس مال کو چھوڑا ہے جبکہ اس مال کا کچھ حصہ تو ان کے لیے حلال تھا۔ تو پھر ان دونوں کو دھوکا ہوا ہے یا ان کی رائے میں نقص تھا۔ (پھر فرمایا) خدا کی قسم ! وہ دونوں دھوکا کھائے ہوئے نہیں تھے اور نہ ہی وہ ناقص الرائے تھے۔ اور اگر یہ دونوں حضرات ایسے تھے کہ ان پر ہمیں ان کے بعد ملنے والا حرام تھا تو پھر یقیناً ہم ہلاک ہوگئے اور خدا کی قسم ! یہ وہم ہمارے حق میں ہی ہے۔

35579

(۳۵۵۸۰) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، قَالَ : قامَ أَبُو بَکْرٍ خَطِیبًا ، فَقَالَ : أَبْشِرُوا فَإِنِّی أَرْجُو أَنْ یُتِمَّ اللَّہُ ہَذَا الأَمْرَ حَتَّی تَشْبَعُوا مِنَ الزَّیْتِ وَالْخُبْزِ۔
(٣٥٥٨٠) حضرت مجاہد سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت ابوبکر (رض) خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے اور ارشاد فرمایا : تمہیں بشارت ہو کیونکہ مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اس معاملہ کو پورا کرے گا یہاں تک کہ تم زیتون کے تیل اور روٹی سے سیراب ہوگے۔

35580

(۳۵۵۸۱) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمُحَارِبِیُّ ، عَنْ مَالِکٍ ، عَنْ أَبِی السَّفَرِ ، قَالَ : دَخَلَ عَلَی أَبِی بَکْرٍ نَاسٌ مِنْ إخْوَانِہِ یَعُودُونَہُ فِی مَرَضِہِ فَقَالُوا لہ : یَا خَلِیفَۃَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، أَلاَ نَدْعُو لَک طَبِیبًا یَنْظُرُ إلَیْک ، قَالَ : قَدْ نَظَرَ إلَیَّ ، قَالُوا : فَمَاذَا قَالَ لَک ، قَالَ : قَالَ : إنِّی فَعَّالٌ لِمَا أُرِید۔
(٣٥٥٨١) حضرت ابوالسفر سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت ابوبکر (رض) کی بیماری کے دوران ان کے بھائیوں میں سے کچھ لوگ ان کی عیادت کے لیے آئے اور انھوں نے حضرت ابوبکر (رض) سے کہا : اے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلیفہ ! کیا ہم آپ کے لیے حکیم کو نہ بلائیں جو آپ کو دیکھے۔ حضرت ابوبکر (رض) نے کہا : میری طرف طبیب نے دیکھ لیا ہے۔ لوگوں نے پوچھا پھر اس نے آپ سے کیا کہا ہے ؟ حضرت ابوبکر (رض) نے فرمایا : حکیم نے کہا ہے میں نے جو ارادہ کرلیا ہے اس کو ضرور کروں گا۔

35581

(۳۵۵۸۲) حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ حَیَّانَ ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ بُرْقَانَ ، عَنْ مَیْمُونٍ ، قَالَ : أُتِیَ أَبُو بَکْرٍ بِغُرَابٍ وَافِرِ الْجَنَاحَیْنِ ، فَقَالَ : مَا صِیدَ مِنْ صَیْدٍ ، وَلاَ عَضُدَ مِنْ شَجَرٍ إِلاَّ بِمَا ضَیَّعَتْ مِنَ التَّسْبِیحِ۔
(٣٥٥٨٢) حضرت میمون سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت ابوبکر (رض) کے پاس بڑے بڑے پروں والا کوا لایا گیا تو حضرت ابوبکر (رض) نے فرمایا : کوئی شکار، شکار نہیں ہوتا اور کوئی درخت کاٹا نہیں جاتا مگر یہ کہ وہ تسبیح کو ضائع کردیتا ہے۔

35582

(۳۵۵۸۳) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ، عَنِ الْقَاسِمِ ، عَنْ أَسْلَمَ مَوْلَی عُمَرَ ، قَالَ : لَمَّا قَدِمْنَا مَعَ عُمَرَ الشَّامَ أَنَاخَ بَعِیرَہُ ، وَذَہَبَ لِحَاجَتِہِ فَأَلْقَیْت فَرْوَتِی بَیْنَ شُعْبَتَیَ الرَّحْلِ ، فَلَمَّا جَائَ رَکِبَ عَلَی الْفَرْوِ ، فَلَقِینَا أَہْلَ الشَّامِ یَتَلَقَّوْنَ عُمَرَ فَجَعَلُوا یَنْظُرُونَ فَجَعَلْتُ أُشِیرُ لَہُمْ إلَیْہِ ، قَالَ : یَقُولُ عُمَرُ : تَطْمَحُ أَعْیُنُہُمْ إِلَی مَرَاکِبِ مَنْ لاَ خَلاَقَ لَہُ یُرِیدُ مَرَاکِبَ الْعَجَمِ۔
(٣٥٥٨٣) حضرت عمر (رض) کے غلام اسلم سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ جب ہم لوگ حضرت عمر (رض) کے ساتھ شام گئے۔ انھوں نے اپنے اونٹ کو بٹھایا اور اپنی حاجت کے لیے چلے گئے۔ میں نے سواری کے دونوں حصوں کے درمیان چمڑے کا ملبوس ڈال دیا۔ پھر جب حضرت عمر (رض) آئے تو آپ (رض) اسی چمڑے پر ہی سوار ہوگئے۔ پس ہم اہل شام سے ملے۔ انھوں نے حضرت عمر (رض) کا استقبال کیا۔ وہ دیکھنے لگے تو میں ان کو حضرت عمر کی طرف اشارہ کرکے بتلانے لگا۔ راوی کہتے ہیں حضرت نے فرمایا : ان کی آنکھیں ایسے لوگوں کے مراکب کی طرف للچاتی ہیں جن کا کوئی حصہ نہیں ہے۔ حضرت عمر (رض) کی مراد عجمی سواریاں تھیں۔

35583

(۳۵۵۸۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ ، عَنْ قَیْسٍ ، قَالَ : لَمَّا قَدِمَ عُمَرُ الشَّامَ اسْتَقْبَلَہُ النَّاسُ وَہُوَ عَلَی بَعِیرِہِ فَقَالُوا : یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ ، لَوْ رَکِبْت بِرْذَوْنًا یَلْقَاک عُظَمَائُ النَّاسِ وَوُجُوہُہُمْ ، قَالَ : فَقَالَ عُمَرُ أَلاَّ أَرَاکُمْ ہَاہُنَا ، إنَّمَا الأَمْرُ مِنْ ہَاہُنَا ، وَأَشَارَ بِیَدِہِ إِلَی السَّمَائِ خَلُّوا سَبِیلَ جَمَلِی۔
(٣٥٥٨٤) حضرت قیس سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ جب حضرت عمر (رض) شام تشریف لائے لوگوں نے ان کا استقبال کیا۔ حضرت عمر (رض) اپنے اونٹ پر تھے۔ لوگوں نے کہا : اے امیر المومنین ! اگر آپ غیر عربی گھوڑے پر سوار ہوجاتے کہ لوگوں کے سردار اور رئیس آپ سے ملاقات کریں گے راوی کہتے ہیں اس پر حضرت عمر (رض) نے فرمایا : میں تمہیں یہاں دکھائی نہیں دوں گا۔ معاملہ تو وہاں ہوتا ہے اور آپ (رض) نے اپنے ہاتھ سے آسمان کی طرف اشارہ کیا۔ تم لوگ میرے اونٹ کا راستہ چھوڑ دو ۔

35584

(۳۵۵۸۵) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ قَیْسِ بْنِ مُسْلِمٍ ، عَنْ طَارِقِ بْنِ شِہَابٍ ، قَالَ : لَمَّا قَدِمَ عُمَرُ الشَّامَ أَتَتْہُ الْجُنُودُ وَعَلَیْہِ إزَارٌ وَخُفَّانِ وَعِمَامَۃٌ وَہُوَ آخِذٌ بِرَأْسِ بَعِیرِہِ یَخُوضُ الْمَائَ ، فَقَالُوا : یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ ، تَلْقَاک الْجُنُودُ وَبَطَارِقَۃِ الشَّامِ وَأَنْتَ عَلَی ہَذِہ الْحَالِ ، قَالَ : فَقَالَ عُمَرُ : إنَّا قَوْمٌ أَعَزَّنَا اللَّہُ بِالإِسْلاَمِ فَلَنْ نَلْتَمِسَ الْعِزَّ بِغَیْرِہِ۔
(٣٥٥٨٥) حضرت طارق بن شہاب سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ جب حضرت عمر (رض) شام تشریف لائے تو آپ (رض) کے پاس بہت سے گروہ حاضر ہوئے اور آپ (رض) پر (اس وقت) ایک ازار، دو موزے اور ایک عمامہ تھا۔ اور آپ (رض) اپنے اونٹ کے سر کو پکڑ کر اس کو پانی میں ڈال رہے تھے۔ لوگوں نے کہا : اے امیر المومنین ! لشکر آپ سے ملاقات کررہے ہیں اور شامی یہودی علماء آپ (رض) سے مل رہے ہیں۔ اور آپ اس حالت میں ہیں۔ راوی کہتے ہیں اس پر حضرت عمر (رض) نے فرمایا : یقیناً ہم وہ لوگ ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے اسلام سے عزت دی ہے۔ پس ہم اس کے علاوہ کسی چیز سے ہرگز عزت کے متلاشی نہیں ہوں گے۔

35585

(۳۵۵۸۶) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ شَقِیقٍ ، قَالَ : کَتَبَ عُمَرُ : إنَّ الدُّنْیَا خَضِرَۃٌ حُلْوَۃٌ ، فَمَنْ أَخَذَہَا بِحَقِّہَا کَانَ قَمِنًا أَنْ یُبَارَکَ لَہُ فِیہِ ، وَمَنْ أَخَذَہَا بِغَیْرِ ذَلِکَ کَانَ کَالآکِلِ الَّذِی لاَ یَشْبَعُ۔
(٣٥٥٨٦) حضرت شقیق سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے خط میں تحریر فرمایا : بیشک دنیا میٹھی اور سرسبز ہے۔ پس جو آدمی اس کو اس کے حق کے ساتھ لے گا تو وہ اس لائق ہے کہ اس کے لیے اس میں برکت دی جائے اور جو شخص اس کو اس کے بغیر لے گا تو اس کی مثال اس کھانے والے کی سی ہے جو سیر نہ ہوتا ہو۔

35586

(۳۵۵۸۷) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ ، قَالَ : لَمَّا أُتِیَ عُمَرُ بِکُنُوزِ آلِ کِسْرَی فَإِذَا مِنَ الصَّفْرَائِ وَالْبَیْضَائِ مَا یَکَادُ أَنْ یَحَارَ مِنْہُ الْبَصَرُ ، قَالَ : فَبَکَی عُمَرُ عِنْدَ ذَلِکَ ، قَالَ : فَقَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ : مَا یُبْکِیک یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ ، إنَّ ہَذَا الْیَوْمَ یَوْمُ شُکْرٍ وَسُرُورٍ وَفَرَحٍ ، فَقَالَ عُمَرُ : مَا کَثُرَ ہَذَا عِنْدَ قَوْمٍ إِلاَّ أَلْقَی اللَّہُ بَیْنَہُمَ الْعَدَاوَۃَ وَالْبَغْضَائَ۔
(٣٥٥٨٧) حضرت ابراہیم بن عبدالرحمن بن عوف سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ جب حضرت عمر (رض) کے پاس آلِ کسریٰ کے خزانے لائے گئے تو اس میں اس قدر سونا، چاندی تھا کہ جس سے آنکھیں چندھیانے لگیں۔ راوی کہتے ہیں اس پر حضرت عمر روپڑے۔ راوی کہتے ہیں حضرت عبدالرحمن نے عرض کیا : اے امیر المومنین ! آپ کو کس چیز نے رلا دیا ہے ؟ یقیناً آج کا دن تو شکر، خوشی اور فرحت کا دن ہے۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : یہ چیزیں جس قوم کے پاس بھی زیادہ ہوتی ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کے درمیان عداوت اور بغض ڈال دیتے ہیں۔

35587

(۳۵۵۸۸) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ الْمُغِیرَۃِ ، عَنْ ثَابِتٍ ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ : رَأَیْت بَیْنَ کَتِفَیْ عُمَرَ أَرْبَعَ رِقَاعٍ فِی قَمِیصِہِ۔
(٣٥٥٨٨) حضرت انس (رض) سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر (رض) کے دونوں کندھوں کے درمیان ان کی قمیص میں چار پیوند دیکھے۔

35588

(۳۵۵۸۹) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ بْنِ أَبِی خَالِدٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ أَبِی بُرْدَۃَ ، قَالَ : کَتَبَ عُمَرُ إِلَی أَبِی مُوسَی : أَمَّا بَعْدُ ، فَإِنَّ أَسْعَدَ الرُّعَاۃِ مَنْ سَعِدَتْ بِہِ رَعِیَّتُہُ وَإِنَّ أَشْقَی الرُّعَاۃِ عِنْدَ اللہِ مَنْ شَقِیَتْ بِہِ رَعِیَّتُہُ ، وَإِیَّاکَ أَنْ تَرْتَعَ فَیَرْتَعَ عُمَّالُک ، فَیَکُونَ مِثْلُک عِنْدَ اللہِ مِثْلُ الْبَہِیمَۃِ ، نَظَرَتْ إِلَی خَضِرَۃٍ مِنَ الأَرْضِ فَرَتَعَتْ فِیہَا تَبْتَغِی بِذَلِکَ السَّمْنِ ، وَإِنَّمَا حَتْفُہَا فِی سَمْنِہَا ، وَالسَّلاَمُ عَلَیْک۔
(٣٥٥٨٩) حضرت سعید بن ابی بردہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے حضرت ابوموسیٰ کی طرف خط لکھا : اما بعد ! پس بیشک خوش بخت ترین چرواہا (ذمہ دار) وہ ہے جس کی وجہ سے اس کی رعیت خوشحال ہو اور یقیناً اللہ کے ہاں بدبخت ترین چرواہا (ذمہ دار) وہ ہے جس سے اس کی رعیت بدحال ہو۔ خبردار ! تم اس بات سے بچو کہ تم (غلط جگہ) چرنے لگو پھر تمہارے عمال بھی چرنے لگیں۔ پس تمہاری مثال اللہ کے ہاں جانور کی سی ہوگی جو زمین کے سبزے کی طرف دیکھتا ہے تو اس میں چرنے لگتا ہے اور اس کا مقصد موٹاپا ہوتا ہے جبکہ اس کے موٹاپے میں ہی اس کی موت ہے۔ والسلام علیک

35589

(۳۵۵۹۰) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : قَالَ عُمَرُ : الرَّعِیَّۃُ مُؤَدِّیَۃٌ إِلَی الإِمَامِ مَا أَدَّی الإِمَامُ إِلَی اللہِ ، فَإِذَا رَتَعَ رَتَعُوا۔
(٣٥٥٩٠) حضرت حسن سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے ارشاد فرمایا : رعایا، امام کی طرف وہی چیز ادا کرے گی جو چیز امام اللہ کی طرف ادا کرے گا پس جب امام چرنے لگتا ہے تو رعایا بھی چرتی ہے۔

35590

(۳۵۵۹۱) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَجْلاَنَ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، عَن مُحَمَّدِ بْنِ شِہَابٍ ، قَالَ : قَالَ عُمَرُ : لاَ تَعْتَرِضْ فِیمَا لاَ یَعْنِیکَ وَاعْتَزِلْ عَدُوَّک ، وَاحْتَفِظْ مِنْ خَلِیلِکَ إِلاَّ الأَمِینَ فَإِنَّ الأَمِینَ مِنَ الْقَوْمِ لاَ یُعَادِلُہُ شَیْئٌ ، وَلاَ تَصْحَبَ الْفَاجِرَ فَیُعَلِّمْک مِنْ فُجُورِہِ ، وَلاَ تُفْشِ إلَیْہِ سِرَّک وَاسْتَشِرْ فِی أَمْرِکَ الَّذِینَ یَخْشَوْنَ اللَّہَ۔
(٣٥٥٩١) حضرت محمد بن شہاب سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے ارشاد فرمایا : تم اپنے غیر متعلقہ کاموں میں تعرض نہ کرو۔ اور اپنے دشمن سے علیحدہ رہو۔ اور اپنے دوستوں میں سے صرف امانتدار کو خاص کرو۔ کیونکہ لوگوں میں سے امانتدار آدمی کے مقابل کوئی چیز نہیں ہے۔ اور فاجر آدمی کی صحبت نہ پکڑو کہ وہ تمہیں بھی اپنے فجور کی تعلیم دے گا۔ اور تم اس کو اپنا راز نہ بتاؤ۔ اور تم اپنے معاملات میں ان لوگوں سے مشورہ کرو جو اللہ تعالیٰ سے خوف رکھتے ہوں۔

35591

(۳۵۵۹۲) حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سُوقَۃَ ، قَالَ : أَتَیْتُ نُعَیْمَ بْنَ أَبِی ہِنْدٍ فَأَخْرَجَ إلَیَّ صَحِیفَۃً فَإِذَا فِیہَا مِنْ أَبِی عُبَیْدَۃَ بْنِ الْجَرَّاحِ وَمُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ إِلَی عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ : سَلاَمٌ عَلَیْک أَمَّا بَعْدُ ، فَإِنَّا عَہِدْنَاک وَأَمْرُ نَفْسِکَ لَک مُہِمٌّ ، وَأَصْبَحْت وقَدْ وُلِّیت أَمْرَ ہَذِہِ الأُمَّۃِ أَحْمَرِہَا وَأَسْوَدِہَا ، یَجْلِسُ بَیْنَ یَدَیْک الشَّرِیفُ وَالْوَضِیعُ وَالْعَدُوُّ وَالصَّدِیقُ ، وَلِکُلٍّ حِصَّتُہُ مِنَ الْعَدْلِ فَانْظُرْ کَیْفَ أَنْتَ عِنْدَ ذَلِکَ یَا عُمَرُ ، فَإِنَّا نُحَذِّرُک یَوْمًا تَعَنْو فِیہِ الْوُجُوہُ ، وَتَجِفُّ فِیہِ الْقُلُوبُ ، وَتُقْطَعُ فِیہِ الْحُجَجُ مَلکٌ قَہْرَہُمْ بِجَبَرُوتِہِ وَالْخَلْقُ دَاخِرُونَ لَہُ ، یَرْجُونَ رَحْمَتَہُ وَیَخَافُونَ عِقَابَہُ ، وَإِنَّا کُنَّا نُحَدِّثُ أَنَّ أَمْرَ ہَذِہِ الأُمَّۃِ سَیَرْجِعُ فِی آخِرِ زَمَانِہَا : أَنْ یَکُونَ إخْوَانُ الْعَلاَنِیَۃِ أَعْدَائَ السَّرِیرَۃِ ، وَإِنَّا نَعُوذَ بِاللہِ أَنْ یَنْزِلَ کِتَابُنَا إلَیْک سِوَی الْمَنْزِلِ الَّذِی نَزَلَ مِنْ قُلُوبِنَا ، فَإِنَّا کَتَبْنَا بِہِ نَصِیحَۃً لَک وَالسَّلاَمُ عَلَیْک ، فَکَتَبَ إلَیْہِمَا : مِنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ : إِلَی أَبِی عُبَیْدَۃَ وَمُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ سَلاَمٌ عَلَیْکُمَا أَمَّا بَعْدُ ، فَإِنَّکُمَا کَتَبْتُمَا إلَیَّ تَذْکُرَانِ أَنَّکُمَا عَہِدْتُمَانِی وَأَمْرُ نَفْسِی لِی مُہِمٌّ وَأَنِّی قَدْ أَصْبَحْت قَدْ وُلِّیت أَمْرَ ہَذِہِ الأُمَّۃِ أَحْمَرِہَا وَأَسْوَدِہَا ، یَجْلِسُ بَیْنَ یَدِی الشَّرِیفُ وَالْوَضِیعُ وَالْعَدُوُّ وَالصَّدِیقُ ، وَلِکُلٍّ حِصَّۃٌ مِنْ ذَلِکَ ، وَکَتَبْتُمَا فَانْظُرْ کَیْفَ أَنْتَ عِنْدَ ذَلِکَ یَا عُمَرُ ، وَإِنَّہُ لاَ حَوْلَ وَلاَ قُوَّۃَ عِنْدَ ذَلِکَ لِعُمَرَ إِلاَّ بِاللہِ ، وَکَتَبْتُمَا تُحَذِّرَانِی مَا حُذِّرَتْ بِہِ الأُمَمُ قَبْلَنَا ، وَقَدِیمًا کَانَ اخْتِلاَفُ اللَّیْلِ وَالنَّہَارِ بِآجَالِ النَّاسِ یُقَرِّبَانِ کُلَّ بَعِیدٍ وَیُبْلِیَانِ کُلَّ جَدِیدٍ وَیَأْتِیَانِ بِکُلِّ مَوْعُودٍ حَتَّی یَصِیرَ النَّاسُ إِلَی مَنَازِلِہِمْ مِنَ الْجَنَّۃِ وَالنَّارِ ، وکَتَبْتُمَا تَذْکُرَانِ أَنَّکُمَا کُنْتُمَا تُحَدِّثَانِ ، أَنَّ أَمْرَ ہَذِہِ الأُمَّۃِ سَیَرْجِعُ فِی آخِرِ زَمَانِہَا : أَنْ یَکُونَ إخْوَانُ الْعَلاَنِیَۃِ أَعْدَائَ السَّرِیرَۃِ ، وَلَسْتُمْ بِأُولَئِکَ ، لَیْسَ ہَذَا بِزَمَانِ ذَلِکَ ، وَإِنَّ ذَلِکَ زَمَانٌ تَظْہَرُ فِیہِ الرَّغْبَۃُ وَالرَّہْبَۃُ ، تَکُونُ رَغْبَۃُ بَعْضِ النَّاسِ إِلَی بَعْضٍ لِصَلاَحِ دُنْیَاہُمْ ، وَرَہْبَۃُ بَعْضِ النَّاسِ مِنْ بَعْضٍ ، کَتَبْتُمَا بِہِ نَصِیحَۃً تَعِظَانِی بِاللہِ أَنْ أُنْزِلَ کِتَابَکُمَا سِوَی الْمَنْزِلِ الَّذِی نَزَلَ مِنْ قُلُوبِکُمَا ، وَأَنَّکُمَا کَتَبْتُمَا بِہِ وَقَدْ صَدَقْتُمَا فَلاَ تَدَعَا الْکِتَابَ إلَیَّ فَإِنَّہُ لاَ غِنَی لِی عَنْکُمَا وَالسَّلاَمُ عَلَیْکُمَا۔
(٣٥٥٩٢) حضرت محمد بن سوقہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں حضرت نعیم بن ابی ہند کے پاس آیا تو انھوں نے مجھے ایک صحیفہ نکال کر دکھایا۔ اس میں یہ لکھا ہوا تھا۔ ابوعبیدہ بن جراح (رض) اور معاذ بن جبل (رض) کی طرف سے حضرت عمر بن خطاب (رض) کی طرف یہ خط ہے۔ آپ پر سلامتی ہو۔ اما بعد ! ہم آپ کو نصیحت کرتے ہیں۔ تمہارے لیے تمہاری ذات کا معاملہ بہت اہم ہے۔ آپ اس وقت ایسی حالت میں ہیں کہ آپ کو اس امت کے سرخ اور سفید پر اختیار حاصل ہوا ہے۔ آپ کے سامنے شریف اور گھٹیا آدمی بیٹھتا ہے اور دوست، دشمن بیٹھتا ہے۔ اور ہر ایک کو انصاف میں اس کا حصہ ملتا ہے۔ اے عمر (رض) ! پس آپ دیکھیں کہ اس وقت آپ کیسے ہو ؟ کیونکہ ہم آپ کو اس دن سے ڈراتے ہیں جس دن چہرے جھکے ہوں گے اور دل خشک ہوچکے ہوں گے اور اس دن دلیلیں کاٹ دی جائیں گی۔ ایک بادشاہ ہوگا جو لوگوں پر اپنی جبروت کی وجہ سے غالب ہوگا۔ اور مخلوق اس کے لیے ذلیل ہوگی۔ اپنے رب کی رحمت کی امید کرتے ہوں گے اور اس کے عذاب سے خوف کرتے ہوں گے۔ اور ہمیں یہ بات بیان کی جاتی تھی کہ اس امت کے آخر کا معاملہ اس طرح سے لوٹے گا کہ وہ علانیہ طور پر بھائی اور خلوت کے دشمن ہوں گے۔ اور ہم اس بات سے اللہ کی پناہ پکڑتے ہیں کہ ہمارا یہ آپ کو خط، اس جگہ کے علاوہ اترے جس جگہ ہمارے دلوں سے اترا ہے۔ کیونکہ ہم نے آپ کو صرف خیر خواہی کے لیے لکھا ہے۔ والسلام علیک
پھر حضرت عمر (رض) نے ان دونوں کو تحریر فرمایا : عمر بن خطاب کی طرف سے حضرت ابوعبیدہ بن جراح (رض) اور حضرت معاذ بن جبل (رض) کے نام۔ آپ دونوں کو سلام ہو۔ اما بعد ! تم نے میری طرف خط لکھا ہے اور مجھے یہ بات یاد دلائی ہے کہ تم مجھے نصیحت کررہے ہو اور میرے لیے میری ذات کا معاملہ بہت اہم ہے اور یہ کہ میں ایسی حالت میں ہوں کہ مجھے اس امت کے سرخ و سیاہ پر اختیار حاصل ہے۔ میرے سامنے شریف اور ذلیل آدمی بیٹھتا ہے اور دوست، دشمن بیٹھتا ہے۔ اور ہر ایک کے لیے اس میں سے حصہ ہے۔ اور تم نے مجھے یہ بات بھی لکھی ہے کہ اے عمر ! تم خیال رکھو کہ اس وقت تم کیسے رہتے ہو ؟ ایسے وقت میں عمر کے پاس اللہ کی طاقت اور قوت کے علاوہ کسی شے کا سہارا نہیں ہے۔ اور تم نے میری طرف خط لکھ کر مجھے اس بات سے ڈرایا جس سے ہم سے پہلی امتوں کو ڈرایا گیا۔ اور زمانہ قدیم سے یہ دستور ہے کہ گردش لیل ونہار ہر دور کو قریب کردیتی ہے اور ہر جدید کو بوسیدہ کردیتی ہے۔ اور ہر موعود کو حاضر کردیتی ہے۔ یہاں تک کہ لوگ جنت یا جہنم میں اپنی منازل کو لوٹ جاتے ہیں اور تم نے یہ بات لکھ کر بھی مجھے یاد دہانی کروائی کہ تمہیں یہ بات بیان کی جاتی تھی کہ اس امت کا معاملہ آخر زمانہ میں اس طرف لوٹے گا کہ یہ ظاہری طور پر بھائی ہوں گے اور خلوت کے دشمن ہوں گے لیکن تم لوگ ایسے نہیں ہو اور یہ زمانہ بھی وہ نہیں ہے۔ یہ وہ زمانہ ہوگا جس میں خوف اور شوق ظاہر ہوگا۔ بعض لوگوں کا شوق بعض لوگوں کی طرف اپنی دنیا کی بہتری کے لیے ہوگا اور بعض لوگوں سے بعض کا خوف ہوگا۔ تم نے مجھے یہ خط لکھ کر خدا کے نام پر وصیت کی کہ یہ خط اسی جگہ اترے جس جگہ تمہارے دلوں سے اترا ہے۔ تم لوگوں نے یہ خط لکھا ہے اور تم نے سچ لکھا ہے۔ پس تم مجھے خط لکھنا نہ چھوڑنا کیونکہ میرے لیے تمہارے خط کے بغیر چارہ کار نہیں ہے۔ والسلام علیکما

35592

(۳۵۵۹۳) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ سُلَیْمِ بْنِ حَنْظَلَۃَ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ ، أَنَّہُ کَانَ یَقُولُ : اللَّہُمَّ إنِّی أَعُوذُ بِکَ أَنْ تَأْخُذَنِی عَلَی غِرَّۃٍ ، أَوْ تَذَرَنِی فِی غَفْلَۃٍ ، أَوْ تَجْعَلَنِی مِنَ الْغَافِلِینَ۔
(٣٥٥٩٣) حضرت عمر بن خطاب (رض) کے بارے میں روایت ہے کہ وہ کہا کرتے تھے۔ اے اللہ ! میں آپ سے اس بات کی پناہ مانگتا ہوں کہ مجھے دھوکا لگ جائے یا میں غفلت میں پڑا رہوں یا آپ مجھے غافلین میں ڈال دیں۔

35593

(۳۵۵۹۴) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ شَقِیقٍ ، عَنْ یَسَارِ بْنِ نُمَیْرٍ ، قَالَ : وَاللہِ مَا نَخَلْت لِعُمَرَ الدَّقِیقَ قَطُّ إِلاَّ وَأَنَا لَہُ عَاصٍ۔
(٣٥٥٩٤) حضرت یسار بن نمیر سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر (رض) کے لیے کبھی آٹا نہیں چھانا مگر یہ کہ میں نے ان کی (اس معاملہ میں) نافرمانی کی۔

35594

(۳۵۵۹۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ ہِشَام بْنِ عُرْوَۃَ ، عَنْ أَبِی اللَّیْثِ الأَنْصَارِیِّ ، قَالَ : قَالَ عُمَرُ : امْلِکُوا الْعَجِینَ فَہُوَ أَحَدُ الطِّحْنَیْنِ۔
(٣٥٥٩٥) حضرت ابواللیث انصاری سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے ارشاد فرمایا : آٹے کو خوب اچھی طرح گوندھو کیونکہ یہ بھی ایک طرح کا پیسنا ہے۔

35595

(۳۵۵۹۶) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَرْوَانَ ، عَنْ یُونُسَ ، قَالَ : کَانَ الْحَسَنُ رُبَّمَا ذُکِرَ عُمَرَ فَیَقُولُ : وَاللہِ مَا کَانَ بِأَوَّلِہِمْ إسْلاَمًا ، وَلاَ بِأَفْضَلِہِمْ نَفَقَۃً فِی سَبِیلِ اللہِ ، وَلَکِنَّہُ غَلَبَ النَّاسَ بِالزُّہْدِ فِی الدُّنْیَا وَالصَّرَامَۃِ فِی أَمْرِ اللہِ ، وَلاَ یَخَافُ فِی اللہِ لَوْمَۃَ لاَئِمٍ۔
(٣٥٥٩٦) حضرت یونس سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت حسن جب کبھی حضرت عمر (رض) کا ذکر کرتے تو کہتے خدا کی قسم ! یہ صحابہ کرام میں سے اسلام لانے میں اول نہ تھے۔ اور بقیہ صحابہ (رض) سے راہ خدا میں خرچ کے معاملہ میں بھی افضل نہ تھے لیکن پھر بھی یہ صحابہ (رض) میں سب پر دنیا سے بےرغبتی، خدا کے حکم میں پختہ عزمی کی وجہ سے غالب تھے۔ اور اللہ کے معاملہ میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کا خوف نہیں کرتے تھے۔

35596

(۳۵۵۹۷) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، قَالَ : مَالِکُ بْنُ دِینَارٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : مَا ادَّہَنَ عُمَرُ حَتَّی قُتِلَ إِلاَّ بِسَمْنٍ ، أَوْ إہَالَۃٍ ، أَوْ زَیْتٍ مُقَتَّتٍ۔
(٣٥٥٩٧) حضرت حسن سے روایت ہے وہ کہتے ہیں حضرت عمر (رض) نے شہید ہونے تک سوائے گھی، چکناہٹ اور مخلوط زیتون کے تیل کے کسی تیل سے نہیں لگایا۔

35597

(۳۵۵۹۸) حَدَّثَنَا عَفَّانُ، قَالَ: حدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَیْمَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا ہِشَامٌ، عَنِ الْحَسَنِ، قَالَ: کَانَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ یَمُرُّ بِالآیَۃِ فِی وِرْدِہِ فَتَخْنُقُہُ الْعَبْرَۃُ فَیَبْکِی حَتَّی یَسْقُطَ ، ثُمَّ یَلْزَمَ بَیْتَہُ حَتَّی یُعَادَ ، یَحْسِبُونَہُ مَرِیضًا۔
(٣٥٥٩٨) حضرت حسن سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) اپنے ورد میں ایک آیت پر سے گزرتے تو آپ (رض) کی ہچکی بندھ جاتی۔ آپ اس قدر روتے کہ گرجاتے۔ یہاں تک کہ آپ گھر کے ہو کے رہ جاتے آپ کی عیادت کی جاتی۔ لوگ آپ کو مریض خیال کرنے لگتے۔

35598

(۳۵۵۹۹) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : کَانَ عُمَرُ یَمْشِی فِی طَرِیقٍ وَمَعَہُ عَبْدُ اللہِ بْنُ عُمَرَ فَرَأَی جَارِیَۃً مَہْزُولَۃً تَطِیشُ مَرَّۃً وَتَقُومُ أُخْرَی ، فَقَالَ : ہَا بُؤْسَ لِہَذِہِ ہَاہْ ، مَنْ یَعْرِفُ تَیَّاہُ ، فَقَالَ عَبْدُ اللہِ : ہَذِہِ وَاللہِ إحْدَی بَنَاتِکَ ، قَالَ : بَنَاتِی ، قَالَ : نَعَمْ ، قَالَ : مَنْ ہِیَ ، قَالَ : بِنْتُ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ ، قَالَ : وَیْلَک یَا عَبْدَ اللہِ بْنَ عُمَرَ ، أَہْلَکْتہَا ہَزْلاً ، قَالَ : مَا نَصْنَعُ ، مَنَعْتنَا مَا عِنْدَکَ ، فَنَظَرَ إلَیْہِ ، فَقَالَ : مَا عِنْدِی عَزَّکَ أَنْ تَکْسِبَ لِبَنَاتِکَ کَمَا تَکْسِبُ الأَقْوَامُ لاَ وَاللہِ مَا لَک عِنْدِی إِلاَّ سَہْمُک مَعَ الْمُسْلِمِینَ۔
(٣٥٥٩٩) حضرت حسن سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) راستہ میں چل رہے تھے اور آپ کے ساتھ حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بھی تھے تو حضرت عمر (رض) نے ایک کمزور سی بچی کو دیکھا جو کبھی اٹھتی اور کبھی گرتی۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : ہائے، اس کی بدحالی۔ ہائے ! اس کو کون جانتا ہے ؟ حضرت عبداللہ (رض) نے عرض کیا۔ خدا کی قسم ! یہ آپ کی ہی ایک بچی ہے۔ حضرت عمر (رض) نے کہا۔ میری بچیوں میں سے۔ حضرت عبداللہ نے کہا جی ہاں ! حضرت عمر (رض) نے پوچھا یہ کون ہے ؟ حضرت عبداللہ نے کہا عبداللہ بن عمر (رض) کی بچی ہے۔ حضرت عمر (رض) نے کہا۔ اے عبداللہ بن عمر ! تم اس کو کمزوری سے ہلاک کرو گے۔ عبداللہ نے کہا ہم کیا کریں جو کچھ آپ کے پاس ہے اس کو آپ نے ہم سے روک رکھا ہے۔ اس پر حضرت عمر (رض) نے حضرت عبداللہ (رض) کو دیکھا اور فرمایا : میرے پاس کیا ہے ؟ تمہیں یہ بات شاق گزرتی ہے کہ جس طرح دیگر لوگ اپنی بیٹیوں کے لیے کماتے ہیں تم بھی اپنی بیٹیوں کے لیے کماؤ۔ نہیں، خدا کی قسم ! میرے پاس تمہارے لیے دیگر مسلمانوں کے ساتھ (برابر کا) حصہ ہی ہے۔

35599

(۳۵۶۰۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ بُرْقَانَ ، عَنْ رَجُلٍ لَمْ یَکُنْ یُسَمِّیہِ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ ، أَنَّہُ قَالَ فِی خُطْبَتِہِ : حاسِبُوا أَنْفُسَکُمْ قَبْلَ أَنْ تُحَاسَبُوا وَزِنُوا أَنْفُسَکُمْ قَبْل أَنْ تُوزَنُوا ، وَتَزَیَّنُوا لِلْعَرْضِ الأَکْبَرِ ، یَوْمَ تُعْرَضُونَ لاَ تَخْفَی مِنْکُمْ خَافِیَۃٌ۔ (ابو نعیم ۵۲)
(٣٥٦٠٠) حضرت عمر بن خطاب (رض) کے بارے میں روایت ہے کہ انھوں نے اپنے ایک خطبہ میں ارشاد فرمایا : تم لوگ اپنے نفسوں کا خود ہی حساب لو قبل اس کے کہ ان کا حساب لیا جائے اور اپنے نفسوں کا وزن ہونے سے قبل ہی ان کا خود وزن کرلو۔ اور عرض اکبر کے لیے خوب صورت ہوجاؤ۔ جس دن تم پیش کیے جاؤ گے تم میں سے کوئی چیز مخفی نہ رہے گی۔

35600

(۳۵۶۰۱) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو قَالَ : حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَۃَ ، قَالَ : قَالَ سَعْدٌ : أَمَا وَاللہِ مَا کَانَ بِأَقْدَمِنَا إسْلاَمًا ، وَلاَ أَقْدَمِنَا ہِجْرَۃً وَلَکِنْ قَدْ عَرَفْت بِأَیِّ شَیْئٍ فَضَلَنَا کَانَ أَزْہَدَنَا فِی الدُّنْیَا ، یَعْنِی عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ۔
(٣٥٦٠١) حضرت ابوسلمہ بیان کرتے ہیں کہتے ہیں کہ حضرت سعد نے فرمایا : خدا کی قسم ! وہ ہم میں سے قدیم الاسلام نہیں تھے اور نہ ہی ہم میں قدیم الہجرت تھے۔ لیکن میں جانتا ہوں کہ وہ کس چیز کی وجہ سے ہم پر فضیلت پاگئے۔ وہ دنیا کے معاملہ میں ہم سب سے زیادہ زاہد تھے۔ حضرت سعد کی مراد، حضرت عمر بن خطاب (رض) تھے۔

35601

(۳۵۶۰۲) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، وَابْنُ إدْرِیسَ ، وَابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَجْلاَنَ ، عَنْ بُکَیْرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ الأَشَجِّ ، عَنْ مَعْمَرِ بْنِ أَبِی حُیَیَّۃَ ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ بْنِ عَدِیِّ بْنِ الْخِیَارِ ، قَالَ : قَالَ عُمَرُ : إنَّ الْعَبْدَ إذَا تَوَاضَعَ لِلَّہِ رَفَعَ اللَّہُ حِکْمَتَہُ ، وَقَالَ : انْتَعِشْ نَعَشَکَ اللَّہُ ، فَہُوَ فِی نَفْسِہِ صَغِیرٌ وَفِی أَنْفُسِ النَّاسِ کَبِیرٌ ، وَإِنَّ الْعَبْدَ إذَا تَعَظَّمَ وَعَدَا طَوْرَہُ وہَصَہُ اللَّہُ إِلَی الأَرْضِ ، وَقَالَ اخْسَأْ خَسَأَک اللَّہُ ، فَہُوَ فِی نَفْسِہِ کَبِیرٌ وَفِی أَنْفُسِ النَّاسِ صَغِیرٌ حَتَّی لَہُوَ أَحْقَرُ عِنْدَہُ مِنْ خِنْزِیرٍ۔
(٣٥٦٠٢) حضرت عبید اللہ بن عدی سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : بیشک بندہ جب اللہ کے لیے تواضع کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی شان بلند کردیتے ہیں اور فرماتے ہیں : اٹھ کھڑا ہو، اللہ تجھے بلند کرے۔ پس یہ آدمی اپنے آپ میں چھوٹا ہوتا ہے اور لوگوں کے ہاں بڑا ہوتا ہے۔ اور بیشک بندہ بڑائی اختیار کرتا ہے اور اپنی حد کو تجاوز کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو زمین پر پٹخ دیتے ہیں اور فرماتے ہیں : ذلیل ہوجا۔ اللہ نے تجھے ذلیل کیا۔ پس یہ آدمی اپنے آپ میں بڑا ہوتا ہے اور لوگوں کے ہاں چھوٹا ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ یہ لوگوں کے ہاں خنزیر سے بھی حقیر ہوجاتا ہے۔

35602

(۳۵۶۰۳) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ، قَالَ : لَمَّا نَفَرَ عُمَرُ کَوَّمَ کَوْمَۃً مِنْ تُرَابٍ ، ثُمَّ بَسَطَ عَلَیْہَا ثَوْبَہُ وَاسْتَلْقَی عَلَیْہَا۔
(٣٥٦٠٣) حضرت سعید بن مسیب سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) جب سفر کرتے تو مٹی کا ایک ڈھیر اکٹھا کرلیتے پھر اس پر اپنا کپڑا بچھا لیتے اور اس پر لیٹ جاتے۔

35603

(۳۵۶۰۴) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ، عَنْ مُصْعَبِ بْنِ مُحَمَّدٍ ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ غِفَارٍ ، عَنْ أَبِیہِ، قَالَ : أَقْبَلْت بِطَعَامٍ أَحْمِلُہُ مِنَ الْجَارِ عَلَی إبِلٍ مِنْ إبِلِ الصَّدَقَۃِ فَتَصَفَّحَہَا عُمَرُ فَأَعْجَبَہُ بِکْرٌ فِیہَا ، قُلْتُ : خُذْہُ یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ ، فَضَرَبَ بِیَدِہِ عَلَی کَتِفِی ، وَقَالَ : وَاللہِ مَا أَنَا بِأَحَقَّ بِہِ مِنْ رَجُلٍ مِنْ بَنِی غِفَارٍ۔
(٣٥٦٠٤) ” قبیلہ غفار کا ایک آدمی، اپنے والد سے روایت کرتا ہے اس کے والد کہتے ہیں کہ میں مقام جار سے صدقہ کے اونٹوں پر کھانا لاد کر لا رہا تھا۔ حضرت عمر (رض) نے ان اونٹوں کو غور سے دیکھا تو ان اونٹوں میں ایک جوان اونٹ حضرت عمر (رض) کو پسند آیا۔ میں نے عرض کیا : اے امیر المومنین ! اس کو لے لیں۔ تو حضرت عمر (رض) نے اپنا ہاتھ میرے کندھے پر مارا اور فرمایا : میں بنو غفار کے آدمی سے زیادہ اس کا حقدار نہیں ہوں۔

35604

(۳۵۶۰۵) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ یَحْیَی بْنِ حَبَّانَ ، قَالَ : کَانَ بَیْنَ یَدَیْ عُمَرَ صَحْفَۃٌ فِیہَا خُبْزٌ مَفْتُوتٌ فِیہِ ، فَجَائَ رَجُلٌ کَالْبَدَوِیِّ ، قَالَ : فَقَالَ : کُلْ ، قَالَ : فَجَعَلَ یَتْبَعُ بِاللُّقْمَۃِ الدَّسَمَ فِی جُنوب الصَّحْفَۃِ ، فَقَالَ عُمَرُ : کَأَنَّک مُقْفِرٌ ، فَقَالَ : وَاللہِ مَا ذُقْت سَمْنًا ، وَلاَ رَأَیْت لَہُ آکِلاً ، فَقَالَ عُمَرُ : وَاللہِ لاَ أَذُوقُ سَمْنًا حَتَّی یَحْیَا النَّاسُ مِنْ أَوَّلِ مَا یَحْیَوْنَ۔
(٣٥٦٠٥) حضرت محمد بن یحییٰ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) کے سامنے ایک پلیٹ تھی جس میں روٹی، گھی میں چورا کی ہوئی تھی کہ ایک دیہاتی قسم کا آدمی آگیا۔ راوی کہتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : کھاؤ، راوی کہتے ہیں : پس اس نے پلیٹ کے کنارے میں موجود چکناہٹ کے ساتھ لقمہ لگانا شروع کیا اس پر حضرت عمر (رض) نے پوچھا لگتا ہے تم بھوکے ہو ؟ اس نے کہا : خدا کی قسم ! میں نے گھی کو چکھا ہے اور نہ ہی میں نے اس کو کھانے والا دیکھا ہے۔ اس پر حضرت عمر (رض) نے فرمایا : خدا کی قسم ! اس وقت تک میں گھی نہیں چکھوں گا جب تک یَحْیَا النَّاسُ مِنْ أَوَّلِ مَا یَحْیَوْنَ

35605

(۳۵۶۰۶) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا مِسْعَرٌ ، عَنْ عَوْنِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُتْبَۃَ ، قَالَ : قَالَ عُمَرُ : جَالِسُوا التَّوَّابِینَ فَإِنَّہُمْ أَرَقُّ شَیْئٍ أَفْئِدَۃً۔
(٣٥٦٠٦) حضرت عبداللہ بن عتبہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے ارشاد فرمایا : تم لوگ، توبہ کرنے والے کی مجلس میں بیٹھا کرو کیونکہ یہ دل کو سب سے زیادہ نرم کرنے والی چیز ہے۔

35606

(۳۵۶۰۷) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ مِسْعَرٍ ، عَنْ حَبِیبٍ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ جَعْدَۃَ ، قَالَ : قَالَ عُمَرُ : لَوْلاَ أَنْ أَسِیرَ فِی سَبِیلِ اللہِ ، أَوْ أَضَعَ جبینی لِلَّہِ فِی التُّرَابِ ، أَوْ أُجَالِسَ قَوْمًا یَلْتَقِطُونَ طَیِّبَ الْکَلاَمُ کَمَا یُلْتَقَطُ التَّمْرُ ، لأَحْبَبْت أَنْ أَکُونَ قَدْ لَحِقْت بِاللہِ۔
(٣٥٦٠٧) حضرت یحییٰ بن جعدہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے ارشاد فرمایا : اگر یہ بات نہ ہوتی کہ میں راہ خدا میں چلتا ہوں یا اپنی پیشانی کو اللہ کے لیے مٹی میں رکھتا ہوں یا میں ایسے لوگوں میں بیٹھتا ہوں جو عمدہ کلام کو اس طرح چن لیتے ہیں جیسے کھجور کو چنا جاتا ہے تو پھر مجھے خدا سے ملنا زیادہ محبوب ہوتا ہے۔

35607

(۳۵۶۰۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا الأَعْمَشُ ، عَنْ شَیْخٍ ، قَالَ : قَالَ عُمَرُ : مَنْ أَرَاْدَ الْحَقَّ فَلْیَنْزِلْ بِالْبِرَازِ ، یَعْنِی یُظْہِرُ أَمْرَہُ۔
(٣٥٦٠٨) ایک بوڑھے سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے ارشاد فرمایا : جو آدمی حق کا ارادہ کرتا ہے تو اس کو چاہیے کہ اپنے معاملہ کو ظاہر رکھے۔

35608

(۳۵۶۰۹) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ، عَنْ زَائِدَۃَ، عَنِ التَّیْمِیِّ، عَنْ أَبِی عُثْمَانَ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ : الشِّتَائُ غَنِیمَۃُ الْعَابِدِ۔
(٣٥٦٠٩) حضرت ابوعثمان سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے ارشاد فرمایا : سردیاں، عبادت گزار کے لیے غنیمت ہیں۔

35609

(۳۵۶۱۰) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : حدَّثَنَا أَشْرَسُ أَبُو شَیْبَانَ ، قَالَ : حَدَّثَنَا عَطَائٌ الْخُرَاسَانِیُّ ، قَالَ : قَالَ احْتَبَسَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ عَلَی جُلَسَائِہِ فَخَرَجَ إلَیْہِمْ مِنَ الْعَشِیِّ فَقَالُوا : مَا حَبَسَک ، فَقَالَ : غَسَلْت ثِیَابِی، فَلَمَّا جَفَّتْ خَرَجْت إلَیْکُمْ۔
(٣٥٦١٠) حضرت عطاء خراسانی بیان کرتے ہیں کہتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) بن خطاب نے اپنے ہم مجلسوں کو روکے رکھا پھر آپ (رض) شام کو ان کے پاس آئے۔ لوگوں نے پوچھا : آپ کو کس چیز نے روکا تھا ؟ انھوں نے فرمایا : میں نے اپنے کپڑوں کو دھویا تھا جب وہ خشک ہوئے تو میں تمہارے پاس آیا۔

35610

(۳۵۶۱۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، قَالَ : کَتَبَ عُمَرُ إِلَی أَبِی مُوسَی : إنَّک لَنْ تَنَالَ الآخِرَۃَ بِشَیْئٍ أَفْضَلَ مِنَ الزُّہْدِ فِی الدُّنْیَا۔
(٣٥٦١١) حضرت سفیان سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے حضرت ابوموسیٰ (رض) کو خط لکھا : بیشک تم آخرت کو اس سے بہتر کسی چیز سے حاصل نہیں کرسکتے کہ دنیا میں بےرغبتی اختیار کرو۔

35611

(۳۵۶۱۲) حَدَّثَنَا سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ أَبِی فَرْوَۃَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِی لَیْلَی ، قَالَ : قدِمَ عَلَی عُمَرَ نَاسٌ مِنْ الْعِرَاقِ فَرَأَی کَأَنَّہُمْ یَأْکُلُونَ تَعْذِیرًا ، فَقَالَ : مَا ہَذَا یَا أَہْلَ الْعِرَاقِ ؟ لَوْ شِئْت أَنْ یُدَہْمَقَ لِی کَمَا یُدَہْمَقُ لَکُمْ لَفَعَلْت ، وَلَکِنَّا نَسْتَبْقِی مِنْ دُنْیَانَا مَا نَجِدُہُ فِی آخِرَتِنَا ، أَمَا سَمِعْتُمُ اللَّہَ قَالَ : {أَذْہَبْتُمْ طَیِّبَاتِکُمْ فِی حَیَاتِکُمُ الدُّنْیَا وَاسْتَمْتَعْتُمْ بِہَا}۔
(٣٥٦١٢) حضرت عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) کے پاس، عراق کے کچھ لوگ آئے۔ حضرت عمر (رض) نے انھیں دیکھا کہ گویا وہ کھانا تھوڑا کھا رہے ہیں۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : اے اہل عراق ! یہ کیا ہے ؟ اگر میں چاہتا کہ جس طرح تمہارے لیے کھانا عمدہ بنایا گیا، میرے لیے بھی بنایا جائے تو میں بنوا سکتا ہوں۔ لیکن ہم اپنی دنیا میں سے بچاتے ہیں جس کو ہم آخرت میں پائیں گے۔ کیا تم نے حق تعالیٰ کا فرمان نہیں سنا : { أَذْہَبْتُمْ طَیِّبَاتِکُمْ فِی حَیَاتِکُمُ الدُّنْیَا وَاسْتَمْتَعْتُمْ بِہَا }۔

35612

(۳۵۶۱۳) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا ہِشَامُ بْنُ عُرْوَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : لَمَّا قَدِمَ عُمَرُ الشَّامَ کَانَ قَمِیصُہُ قَدْ تَجَوَّب عَنْ مَقْعَدَتہِ ، قَمِیصٌ سُنْبُلاَنِیٌّ غَلِیظٌ ، فَأَرْسَلَ بِہِ إِلَی صَاحِبِ أَذَرِعَاتٍ ، أَوْ أَیْلَۃٍ ، قَالَ : فَغَسَلَہُ وَرَقَّعَہُ وَخَیَّطَ لَہُ قَمِیصَ قُبْطرِی ، فَجَائَ بِہِمَا جَمِیعًا فَأَلْقَی إلَیْہِ الْقُبْطرِی ، فَأَخَذَہُ عُمَرُ فَمَسَّہُ ، فَقَالَ : ہَذَا أَلْیَنُ ، فَرَمَی بِہِ إلَیْہِ ، وَقَالَ : أَلْقِ إلَیَّ قَمِیصِی ، فَإِنَّہُ أَنْشَفُہُمَا لِلْعِرَقِ۔
(٣٥٦١٣) حضرت ہشام بن عروہ، اپنے والد سے روایت کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ جب حضرت عمر (رض) شام تشریف لائے تو آپ (رض) کی قمیص، بیٹھنے کی جگہ سے پھٹی ہوئی تھی۔ وہ ایک موٹی اور سنبلانی قمیص تھی۔ چنانچہ آپ (رض) نے وہ قمیص صاحب اذرعات یا ایلہ کی طرف بھیجی۔ راوی کہتے ہیں پس اس نے اس قمیص کو دھویا اور اس میں پیوند لگا دیا اور حضرت عمر (رض) کے لیے قبطری قمیص سی گئی۔ پھر ان دونوں قمیصوں کو لے کر آدمی آپ (رض) کے پاس آیا اور آپ (رض) کو قبطری قمیص دی۔ حضرت عمر (رض) نے اس قمیص کو پکڑا اور اس کو چھوا پھر فرمایا : یہ نرم ہے۔ پھر آپ نے وہ قمیص اسی آدمی کی طرف پھینک دی اور فرمایا : مجھے میری قمیص دے دو کیونکہ وہ ان دونوں قمیصوں میں سے پسینہ کو زیادہ چوسنے والی ہے۔

35613

(۳۵۶۱۴) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُمَرَ ، قَالَ : کَانَ عُمَرُ یَقُولُ : یَحْفَظُ اللَّہُ الْمُؤْمِنَ ، کَانَ عَاصِمُ بْنُ ثَابِتِ بْنِ الأَفْلَحِ نَذَرَ أَنْ لاَ یَمَسَّ مُشْرِکًا ، وَلاَ یَمَسَّہُ مُشْرِکَ ، فَمَنَعَہُ اللَّہُ بَعْدَ وَفَاتِہِ کَمَا امْتَنَعَ مِنْہُمْ فِی حَیَاتِہِ۔
(٣٥٦١٤) حضرت عاصم بن عمر سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) فرمایا کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ ایمان والے کی حفاظت کرتا ہے۔ حضرت عاصم بن ثابت بن افلح نے اس بات کی نذر مانی تھی کہ وہ کسی مشرک کو نہیں چھوئیں گے اور کوئی مشرک ان کو نہ چھوئے۔ چنانچہ جس طرح یہ اپنی زندگی میں اس سے بچتے رہے اسی طرح اللہ تعالیٰ نے ان کو ان کی وفات کے بعد بھی بچایا۔

35614

(۳۵۶۱۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنِ الرَّبِیعِ بْنِ قُزَیْعٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ ، قَالَ : کَانَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ یُؤْتَی بِخُبْزِہِ وَلَحْمِہِ وَلَبَنِہِ وَزَیْتِہِ وَبَقْلِہِ وَخَلِّہِ فَیَأْکُلُ ، ثُمَّ یَمُصُّ أَصَابِعَہُ وَیَقُولُ ہَکَذَا فَیَمْسَحُ یَدَیْہِ بِیَدَیْہِ وَیَقُولُ : ہَذِہِ مَنَادِیلُ آلِ عُمَرَ۔
(٣٥٦١٥) حضرت ربیع بن قزیع سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے ابن عمر (رض) کو کہتے سنا کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) کے پاس، روٹی، گوشت، دودھ، زیتون، سبزی اور سرکہ لایا جاتا تھا۔ وہ کھانا تناول کرتے پھر اپنی انگلیوں کو چاٹ لیتے۔ پھر یوں اشارہ کرتے۔ پھر اپنے ایک ہاتھ کو دوسرے ہاتھ سے مل لیتے اور فرماتے۔ آلِ عمر (رض) کے رومال یہی ہیں۔

35615

(۳۵۶۱۶) حَدَّثَنَا مُعَاوِیَۃُ بْنُ ہِشَامٍ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ عُمَیْرٍ ، عَنْ أَبِی مَلِیحٍ ، قَالَ : قَالَ عُمَرُ : مَا الدُّنْیَا فِی الآخِرَۃِ إِلاَّ کَنُفُجَۃِ أَرْنَبٍ۔
(٣٥٦١٦) حضرت ابوملیح سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ آخرت کے مقابلہ میں دنیا کی حیثیت خرگوش کی ایک چھلانگ کی سی ہے۔

35616

(۳۵۶۱۷) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، قَالَ : حدَّثَنَا مِسْعَر ، قَالَ : حدَّثَنَا وَدِیعَۃُ الأَنْصَارِیُّ ، قَالَ : قَالَ عُمَرُ : لاَ تَعْتَرِضُ لِمَا لاَ یَعْنِیک وَاعْتَزِلْ عَدُوَّک وَاحْذَرْ صِدِّیقَک إِلاَّ الأَمِینَ مِنَ الأَقْوَامِ ، وَلاَ أَمِینٌ إِلاَّ مَنْ خَشِیَ اللَّہَ ، وَلاَ تَصْحَبَ الْفَاجِرَ فَتَعَلَّمَ مِنْ فُجُورِہِ ، وَلاَ تُطْلِعْہُ عَلَی سِرِّکَ وَاسْتَشِرْ فِی أَمْرِکَ الَّذِینَ یَخْشَوْنَ اللَّہَ۔
(٣٥٦١٧) حضرت ودیعہ انصاری بیان کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے ارشاد فرمایا : جو بات تمہارے مقصد کی نہ ہو اس سے تعرض نہ کرو۔ اور اپنے دشمن سے علیحدگی رکھو۔ لوگوں میں اپنے دوستوں میں سے امین کے ماسوا سے ڈرو اور امین شخص وہ ہوتا ہے جو خوفِ خدا رکھتا ہو۔ فاجر آدمی سے صحبت نہ رکھو پھر اس کے فجور کو سیکھ جاؤ گے۔ اور اس کو اپنے راز پر مطلع نہ کرو اور اپنے معاملہ میں ان لوگوں سے مشورہ کرو جو اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہوں۔

35617

(۳۵۶۱۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ بْنِ أُمَیَّۃَ ، قَالَ : قَالَ عُمَرُ فِی الْعُزْلَۃِ رَاحَۃٌ مِنْ خُلَطَائِ السُّوئِ۔
(٣٥٦١٨) حضرت اسماعیل بن امیہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) فرماتے ہیں خلوت میں برے دوستوں سے راحت ہوتی ہے۔

35618

(۳۵۶۱۹) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ حَبِیبٍ ، قَالَ : قدِمَ أُنَاسٌ مِنَ الْعِرَاقِ عَلَی عُمَرَ وَفِیہِمْ جَرِیرُ بْنُ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : فَأَتَاہُمْ بِجَفْنَۃٍ قَدْ صُنِعَتْ بِخُبْزٍ وَزَیْتٍ ، قَالَ : فَقَالَ لَہُمْ خُذُوا قَالَ : فَأَخَذُوا أَخْذًا ضَعِیفًا قَالَ: فَقَالَ لَہُم: قَدْ أَرَی مَا تَقْرَمُونَ إلَیْہِ، فَأَیُّ شَیْئٍ تُرِیدُونَ حُلْوًا وَحَامِضًا وَحَارًّا وَبَارِدًا وَقَذْفًا فِی الْبُطُونِ۔
(٣٥٦١٩) حضرت حبیب سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) کے پاس عراق سے کچھ لوگ آئے۔ ان میں حضرت جریر بن عبداللہ بھی تھے۔ راوی کہتے ہیں پھر کوئی ان کے پاس ایک بڑا برتن لے کر آیا جس میں روٹی اور زیتون بنایا گیا تھا۔ راوی کہتے ہیں حضرت عمر (رض) نے ان لوگوں سے کہا۔ لے لو راوی کہتے ہیں انھوں نے آرام سے ہلکے سے لیا۔ راوی کہتے ہیں اس پر حضرت عمر (رض) نے ان سے کہا۔ تحقیق میں تمہاری گوشت کے لیے شدت خواہش کو دیکھ رہا ہو۔ تم کیا چاہتے ہو ؟ کھٹا میٹھا، ٹھنڈا گرم، پیٹوں میں ڈالنا ؟ “

35619

(۳۵۶۲۰) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ حَبِیبٍ ، عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِہِ ، عَنْ عُمَرَ ، أَنَّہُ دُعِیَ إِلَی طَعَامٍ فَکَانُوا إذَا جَاؤُوا بِلَوْنٍ خَلَطَہُ بِصَاحِبِہِ۔
(٣٥٦٢٠) حضرت عمر کے بارے میں روایت ہے کہ انھیں ایک دعوت میں مدعو کیا گیا پس وہ لوگ جب کوئی مختلف شے لاتے تو اس کو اپنے ساتھی کے ساتھ ملا لیتے۔

35620

(۳۵۶۲۱) حَدَّثَنَا شَبَابَۃُ بْنُ سَوَّارٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا شُعْبَۃُ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُبَیْدِ اللہِ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَامِرٍ ، قَالَ : رَأَیْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ أَخَذَ تَبِنَۃً مِنَ الأَرْضِ ، فَقَالَ : لَیْتَنِی ہَذِہِ التَّبِنَۃُ ، لَیْتَنِی لَمْ أَکُ شَیْئًا ، لَیْتَ أُمِّی لَمْ تَلِدْنِی ، لَیْتَنِی کُنْت نَسْیًا مَنْسِیًّا۔
(٣٥٦٢١) حضرت عبداللہ بن عامر سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر بن خطاب کو دیکھا کہ انھوں نے زمین سے ایک تنکا اٹھایا (اور فرمایا : ہائے کاش ! میں یہ تنکا ہوتا۔ کاش ! میں کچھ نہ ہوتا۔ کاش میری ماں نے مجھے جنا نہ ہوتا۔ کاش ! میں بھولا بسرا ہوچکا ہوتا۔

35621

(۳۵۶۲۲) حَدَّثَنَا شَبَابَۃُ ، قَالَ : حدَّثَنَا شُعْبَۃُ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُبَیْدِ اللہِ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَامِرٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : کَانَ رَأْسُ عُمَرَ عَلَی حِجْرِی ، فَقَالَ : ضَعْہُ لاَ أُمَّ لَک ، فَقَالَ : وَیْلِی وَیْلُ أُمِّ عُمَرَ إنْ لَمْ یَغْفِرْ لِی رَبِّی۔
(٣٥٦٢٢) حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) کا سر مبارک میری گود میں تھا تو حضرت عمر (رض) نے فرمایا : تیری ماں نہ رہے۔ اس کو (زمین پر) رکھ دو ۔ پھر فرمایا : میری ہلاکت ! اگر میرے رب نے مجھے معاف نہ کیا تو میری ماں کی ہلاکت۔

35622

(۳۵۶۲۳) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ آدَمَ ، قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَنْ أَبِی نَعَامَۃَ ، عَنْ حُجَیْرِ بْنِ رَبِیعۃ ، قَالَ : قَالَ عُمَرُ : إنَّ الْفُجُورَ ہَکَذَا وَغَطَّی رَأْسَہُ إِلَی حَاجِبِیہِ ، أَلاَ إنَّ الْبَرَّ ہَکَذَا وَکَشَفَ رَأْسَہُ۔
(٣٥٦٢٣) حضرت حجیر بن ربیعہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : بیشک گناہ ایسا ہے اور آپ (رض) نے اپنے سر کو اپنی ابروؤں کی طرف جھکا لیا۔ خبردار ! بیشک نیکی اس طرح ہے اور آپ نے اپنے سر کو چھپالیا۔

35623

(۳۵۶۲۴) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ الْمُغِیرَۃِ ، قَالَ : قَالَ ثَابِتٌ : قَالَ أَنَسٌ : غَلاَ السعر غَلاَ الطَّعَامُ بِالْمَدِینَۃِ عَلَی عَہْدِ عُمَرَ ، فَجَعَلَ یَأْکُلُ الشَّعِیرَ فَاسْتَنْکَرَہُ بَطْنُہُ ، فَأَہْوَی بِیَدِہِ إِلَی بَطْنِہِ ، فَقَالَ : وَاللہِ مَا ہُوَ إِلاَّ مَا تَرَی حَتَّی یُوَسِّعَ اللَّہُ عَلَی الْمُسْلِمِینَ۔
(٣٥٦٢٤) حضرت انس کہتے ہیں کہ قیمتیں بڑھ گئیں، مدینہ منورہ میں حضرت عمر (رض) کے زمانہ میں کھانا مہنگا ہوگیا۔ حضرت عمر (رض) نے جو کھانا شروع کیا تو وہ ان کے پیٹ کو موافق نہ آیا۔ حضرت عمر (رض) نے اپنے ہاتھ سے اپنے پیٹ کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا : خدا کی قسم ! جب تک اللہ تعالیٰ مسلمانوں پر وسعت نہ کردیں تب تک یہی کھاؤ گے۔

35624

(۳۵۶۲۵) حَدَّثَنَا مُعَاوِیَۃُ بْنُ ہِشَامٍ ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ زَیْدِ بْنِ أَسْلَمَ ، عْن أَبِیہِ ، قَالَ : کُنْتُ أَمْشِی مَعَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فَرَأَی تَمْرَۃً مَطْرُوحَۃً ، فَقَالَ : خُذْہَا ، قُلْتُ : وَمَا أَصْنَعُ بِتَمْرَۃٍ ، قَالَ : تَمْرَۃٌ وَتَمْرَۃٌ حَتَّی تَجْتَمِعَ ، فَأَخَذْتہَا فَمَرَّ بِمِرْبَدِ تَمْرٍ ، فَقَالَ : أَلْقِہَا فِیہِ۔
(٣٥٦٢٥) حضرت زید بن اسلم، اپنے والد سے روایت کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ میں حضرت عمر بن خطاب (رض) کے ساتھ چل رہا تھا۔ انھوں نے ایک گری ہوئی کھجور دیکھی تو فرمایا اس کو پکڑ لو۔ میں نے عرض کیا۔ میں اس کھجور کو کیا کروں ؟ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : ایک ایک کھجور ہی جمع ہوتی ہے۔ پس میں نے وہ پکڑ لی پھر آپ (رض) کھجوروں کے ڈھیر کے پاس سے گزرے تو فرمایا : اس کھجور کو یہاں پھینک دو ۔

35625

(۳۵۶۲۶) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَامِرٍ ، قَالَ : خَرَجْت مَعَ عُمَرَ فَمَا رَأَیْتہ مُضْطَرِبًا فُسْطَاطًا حَتَّی رَجَعَ ، قَالَ : قُلْتُ : فَبِأَیِّ شَیْئٍ کَانَ یَسْتَظِلُّ ، قَالَ : یَطْرَحُ النِّطْعَ عَلَی الشَّجَرَۃِ یَسْتَظِلُّ بِہِ۔
(٣٥٦٢٦) حضرت عبداللہ بن عامر سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں حضرت عمر (رض) کے ساتھ باہر نکلا تو میں نے ان کو واپس آنے تک خیمہ لگاتے نہیں دیکھا۔ راوی کہتے ہیں۔ میں نے پوچھا : پھر وہ کس چیز سے سایہ حاصل کرتے تھے ؟ استاد نے جواب دیا : چمڑے کو درخت پر ڈال دیتے تھے اور اس سے سایہ حاصل کرتے تھے۔

35626

(۳۵۶۲۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ أُسَامَۃَ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ حُمَیْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، قَالَ : قَالَ عُمَرُ : لَوْ ہَلَکَ حَمْلٌ مِنْ وَلَدِ الضَّأْنِ ضَیَاعًا بِشَاطِئِ الْفُرَاتِ خَشِیت أَنْ یَسْأَلَنِی اللَّہُ عَنْہُ۔
(٣٥٦٢٧) حضرت حمید بن عبدالرحمن سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے ارشاد فرمایا کہ اگر دریائے فرات کے کنارہ پر کوئی بھیڑ کا بچہ ہلاک ہوجائے تو مجھے اس بات کا خوف ہوتا ہے کہ کہیں اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ مجھ سے سوال نہ کرے۔

35627

(۳۵۶۲۸) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَنِ الشَّیْبَانِیِّ ، عَنْ یسیر بْنِ عَمْرٍو قَالَ : لَمَّا أَتَی عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ الشَّامَ أُتِیَ بِبِرْذَوْنٍ فَرَکِبَ عَلَیْہِ ، فَلَمَّا ہَزَّہُ نَزَلَ عَنْہُ وَضَرَبَ وَجْہَہُ ، وَقَالَ : قَبَّحَک اللَّہُ وَقَبَّحَ مَنْ عَلَّمَک ہَذَا۔
(٣٥٦٢٨) حضرت یسیر بن عمرو سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ جب حضرت عمر بن خطاب (رض) شام تشریف لائے تو ایک عجمی گھوڑا لایا گیا چنانچہ آپ (رض) اس پر سوار ہوئے۔ پھر جب اس نے حرکت کرنا شروع کیا تو آپ اس سے نیچے اتر آئے اور اس کے چہرے کو مارا اور فرمایا اللہ تعالیٰ تیرا برا کرے اور جس نے تجھے یہ سکھایا ہے اس کا بھی برا ہو۔

35628

(۳۵۶۲۹) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ عِیسَی ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، عَن ہَمَّامٍ ، عَنْ حُذَیْفَۃَ ، قَالَ : دَخَلْتُ عَلَی عُمَرَ وَہُوَ قَاعِدٌ عَلَی جِذْعٍ فِی دَارِہِ وَہُوَ یُحَدِّثُ نَفْسَہُ فَدَنَوْت مِنْہُ ، فَقُلْتُ : مَا الَّذِی أَہَمَّکَ یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ ، فَقَالَ : ہَکَذَا بِیَدِہِ وَأَشَارَ بِہَا ، قَالَ : قُلْتُ : ما الَّذِی یُہِمُّک وَاللہِ لَوْ رَأَیْنَا مِنْک أَمْرًا نُنْکِرُہُ لَقَوَّمْنَاک ، قَالَ : آللہِ الَّذِی لاَ إلَہَ إِلاَّ ہُوَ ، لَوْ رَأَیْتُمْ مِنِّی أَمْرًا تُنْکِرُونَہُ لَقَوَّمْتُمُوہُ ، فَقُلْتُ : آللہِ الَّذِی لاَ إلَہَ إِلاَّ ہُوَ ، لَوْ رَأَیْنَا مِنْک أَمْرًا نُنْکِرُہُ لَقَوَّمْنَاک ، قَالَ : فَفَرِحَ بِذَلِکَ فَرَحًا شَدِیدًا ، وَقَالَ : الْحَمْدُ لِلَّہِ الَّذِی جَعَلَ فِیکُمْ أَصْحَابَ مُحَمَّدٍ مَنِ الَّذِی إذَا رَأَی مِنِّی أَمْرًا یُنْکِرُہُ قَوَّمَنِی۔
(٣٥٦٢٩) حضرت حذیفہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں حضرت عمر کے پاس گیا جبکہ وہ اپنے گھر کی چوکھٹ پر تھے اور اپنے آپ سے باتیں کررہے تھے۔ میں آپ کے قریب ہوا اور میں نے پوچھا : اے امیر المومنین ! کس چیز نے آپ کو فکر مند کر رکھا ہے ؟ آپ (رض) نے اپنے ہاتھوں سے اشارہ فرما کر کچھ کہا۔ راوی کہتے ہیں میں نے کہا : آپ کو کس چیز نے وہم میں ڈالا ہے ؟ خدا کی قسم ! اگر ہم آپ سے کسی امر منکر کو دیکھیں گے تو ہم آپ کو سیدھا کردیں گے۔ حضرت عمر (رض) نے کہا : بخدا ! اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔ اگر تم نے مجھ سے کوئی امر منکر دیکھا تو تم مجھے سیدھا کردو گے ؟ میں نے کہا : اس خدا کی قسم ! جس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔ ہم نے اگر آپ سے کوئی امر منکر دیکھا تو البتہ ہم آپ کو سیدھا کردیں گے۔ راوی کہتے ہیں۔ اس پر حضرت عمر (رض) بہت زیادہ خوش ہوگئے اور فرمایا : تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے تمہارے اندر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ (رض) پیدا فرمائے جو مجھ سے بھی کوئی امر منکر دیکھیں گے تو مجھے سیدھا کریں گے۔

35629

(۳۵۶۳۰) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ ہَمَّامِ بْنِ یَحْیَی ، عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ أَبِی طَلْحَۃَ ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ: رَأَیْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ یَأْکُلُ الصَّاعَ مِنَ التَّمْرِ بِحَشَفِہِ۔
(٣٥٦٣٠) حضرت انس (رض) سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر بن خطاب کو کھجور کے صاع میں سے گھٹیا کھجوریں کھاتے دیکھا۔

35630

(۳۵۶۳۱) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ مُطَرِّفٍ ، عَنْ زَیْدِ بْنِ أَسْلَمَ ، عْن أَبِیہِ ، قَالَ : کُنْتُ آتِی عُمَرَ بِالصَّاعِ مِنَ التَّمْرِ فَیَقُولُ : یَا أَسْلَمَ حُتَّ عَنِّی قِشْرَہُ فَأَحْشِفُہُ ، فَیَأْکُلُہُ۔
(٣٥٦٣١) حضرت زید بن اسلم، اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ میں حضرت عمر (رض) کے پاس کھجور کے صاع لاتا تو حضرت عمر (رض) فرماتے : اے اسلم ! اس کے چھلکے مجھ سے ہٹا دو ۔ پھر آپ (رض) گھٹیا کھجور کھالیتے۔

35631

(۳۵۶۳۲) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِِ ، عَنْ سِمَاکٍ ، عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِیرٍ ، قَالَ : سُئِلَ عُمَرُ عَنِ التَّوْبَۃِ النَّصُوحِ ، فَقَالَ: التَّوْبَۃُ النَّصُوحُ أَنْ یَتُوبَ الْعَبْدُ مِنَ الْعَمَلِ السَّیِّئِ ، ثُمَّ لاَ یَعُودُ إلَیْہِ أَبَدًا۔
(٣٥٦٣٢) حضرت نعمان بن بشیر سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) سے توبۃ نصوح کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ (رض) نے فرمایا : توبۃ نصوح : یہ ہے کہ آدمی برے کام سے توبہ کرے اور پھر کبھی بھی اس کی طرف نہ لوٹے۔

35632

(۳۵۶۳۳) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِِ ، عَنْ سِمَاکٍ ، عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِیرٍ ، قَالَ : سُئِلَ عُمَرُ ، عَنْ قَوْلِ اللہِ : {وَإِذَا النُّفُوسُ زُوِّجَتْ} قَالَ : یُقْرَنُ بَیْنَ الرَّجُلِ الصَّالِحِ مَعَ الرَّجُلِ الصَّالِحِ فِی الْجَنَّۃِ ، وَیُقْرَنُ بَیْنَ الرَّجُلِ السُّوئِ مَعَ الرَّجُلِ السُّوئِ فِی النَّارِ۔
(٣٥٦٣٣) حضرت نعمان بن بشیر سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) سے اللہ تعالیٰ کے قول { وَإِذَا النُّفُوسُ زُوِّجَتْ } کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ (رض) نے فرمایا : جنت میں نیک آدمی کو نیک آدمی کے ساتھ ملایا جائے گا اور جہنم میں برے آدمی کے ساتھ برے آدمی کو ملایا جائے گا۔

35633

(۳۵۶۳۴) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، قَالَ : حدَّثَنِی طُعْمَۃُ بْنُ غَیْلاَنَ الْجُعْفِیُّ ، عَنْ رَجُلٍ ، یُقَالَ لَہُ : مِیکَائِیلُ شَیْخٍ مِنْ أَہْلِ خُرَاسَانَ ، قَالَ : کَانَ عُمَرُ إذَا قَامَ مِنَ اللَّیْلِ ، قَالَ : قَدْ تَرَی مَقَامِی وَتَعْلَمُ حاجَتِی فَأَرْجِعْنِی مِنْ عِنْدِکَ یَا اللَّہُ بِحَاجَتِی مُفْلِحًا مُنْجِحًا مُسْتَجِیبًا مُسْتَجَابًا لِی ، قَدْ غَفَرْت لِی وَرَحِمَتْنِی ، فَإِذَا قَضَی صَلاَتَہُ، قَالَ : اللَّہُمَّ لاَ أَرَی شَیْئًا مِنَ الدُّنْیَا یَدُومُ ، وَلاَ أَرَی حَالاً فِیہَا یَسْتَقِیمُ ، اللہم اجْعَلْنِی أَنْطِقُ فِیہَا بِعِلْمٍ وَأَصْمُت فِیہَا بِحُکْمٍ ، اللَّہُمَّ لاَ تُکْثِرْ لِی مِنَ الدُّنْیَا فَأَطْغَی ، وَلاَ تُقِلَّ لِی مِنْہَا فَأَنْسَی ، فَإِنَّ مَا قَلَّ وَکَفَی خَیْرٌ مِمَّا کَثُرَ وَأَلْہَی۔
(٣٥٦٣٤) میکائیل نامی ایک آدمی سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) جب رات کو قیام کرتے تو فرماتے۔ تحقیق تو میری جگہ کو دیکھ رہا ہے اور میری ضرورت کو جانتا ہے۔ پس اے اللہ ! تو مجھے اپنے پاس سے کامیاب، اور دعا قبول کیا ہوا واپس فرما۔ تحقیق تو نے میری مغفرت فرما دی اور مجھ پر رحمت کی اور جب حضرت عمر (رض) اپنی نماز سے فارغ ہوتے تو کہتے۔ اے اللہ ! میں دنیا کی کسی چیز میں دوام نہیں دیکھتا۔ اور میں دنیا کی کسی حالت کی استقامت نہیں دیکھ رہا۔ اے اللہ ! تو دنیا میں مجھے علم کے ساتھ بولنے والا بنا دے اور دنیا میں مجھے اپنے حکم کے ساتھ خاموش رہنے والا بنا دے۔ اے اللہ ! تو میرے لیے دنیا کو زیادہ نہ کرنا کہ پھر میں سرکش ہوجاؤں اور میرے لیے دنیا اتنی کم بھی نہ کرنا کہ میں بھول جاؤں۔ بیشک اتنی کم دنیا جو کافی ہو اس زیادہ سے بہتر ہے جو غافل کرے۔

35634

(۳۵۶۳۵) حدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنْ دَاوُدَ ، عَنْ عَامِرٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : دَخَلْتُ عَلَی عُمَرَ حِینَ طُعِنَ ، فَقُلْتُ : أَبْشِرْ بِالْجَنَّۃِ یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ ، أَسْلَمْت حِینَ کَفَرَ النَّاسُ وَجَاہَدْت مَعَ رَسُولِ اللہِ حِینَ خَذَلَہُ النَّاسُ ، وَقُبِضَ رَسُولُ اللہِ وَہُوَ عَنْک رَاضٍ ، وَلَمْ یَخْتَلِفْ فِی خِلاَفَتِکَ اثْنَانِ ، وَقُتِلْت شَہِیدًا ، فَقَالَ : أَعِدْ عَلَی ، فَأَعَدْت عَلَیْہِ ، فَقَالَ : وَالَّذِی لاَ إلَہَ غَیْرُہُ لَوْ أَنَّ لِی مَا عَلَی الأَرْضِ مِنْ صَفْرَائَ وَبَیْضَائَ لاَفْتَدَیْت بِہِ مِنْ ہَوْلِ الْمَطْلَعِ۔
(٣٥٦٣٥) حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ جب حضرت عمر (رض) پر حملہ ہوا میں ان کے پاس گیا اور میں نے کہا : اے امیر المومنین ! آپ کو جنت کی بشارت ہو۔ جب دیگر لوگوں نے کفر کیا تب آپ (رض) نے اسلام قبول کیا۔ جب دیگر لوگ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو رسوا کررہے تھے تب آپ (رض) نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ جہاد کیا۔ اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی موت اس حال میں آئی کہ آپ تم سے راضی تھے۔ اور آپ کی خلافت میں کوئی دو آدمی اختلاف کرنے والے نہیں ہیں اور آپ شہید ہو کر مر رہے ہیں۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : مجھے یہ بات دوبارہ کہو۔ چنانچہ میں نے یہ بات آپ کو دوبارہ کہی تو آپ (رض) نے فرمایا : قسم اس ذات کی جس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔ اگر میرے پاس زمین پر موجود چیزوں کے برابر سونا چاندی ہوتا تو میں اس کے ذریعہ قیامت کی ہول ناکی سے جان چھڑا لیتا۔

35635

(۳۵۶۳۶) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ وَسُفْیَانَ ، عَنْ زُبَیْدِ بْنِ الْحَارِثِ ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ بَنِی عَامِرٍ ، قَالَ : قَالَ عَلِیٌّ : إنَّمَا أَخَافُ عَلَیْکُمَ اثْنَتَیْنِ : طُولَ الأَمَلِ ، وَاتِّبَاعَ الْہَوَی ، فَإِنَّ طُولَ الأَمَلِ یُنْسِی الآخِرَۃَ ، وَإِنَّ اتِّبَاعَ الْہَوَی یَصُدُّ عَنِ الْحَقِّ ، وَإِنَّ الدُّنْیَا قَدْ تَرَحَّلَتْ مُدْبِرَۃً ، وَإِنَّ الآخِرَۃَ مُقْبِلَۃٌ وَلِکُلِّ وَاحِدَۃٍ مِنْہُمَا بَنُونَ فَکُونُوا مِنْ أَبْنَائِ الآخِرَۃِ ، فَإِنَّ الْیَوْمَ عَمَلٌ ، وَلاَ حِسَابَ ، وَغَدًا حِسَابٌ ، وَلاَ عَمَلَ۔ (ابن المبارک ۲۵۵)
(٣٥٦٣٦) بنو عامر کے ایک صاحب سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت علی (رض) نے ارشاد فرمایا : مجھے تم پر صرف دو چیزوں کا خوف ہے۔ لمبی امید، اور خواہشات کی پیروی۔ کیونکہ امید کا لمبا ہونا آخرت کو بھلا دیتا ہے۔ اور خواہشات کی اتباع، حق بات سے رکاوٹ بن جاتی ہے۔ یقیناً دنیا پیٹھ پھیر کر کوچ کرجاتی ہے اور آخرت آرہی ہے۔ اور ان میں سے ہر ایک کے بیٹے ہیں۔ پس تم لوگ آخرت کے بیٹے بنو۔ پس آج عمل ہے، حساب نہیں ہے اور کل حساب ہوگا عمل نہیں ہوگا۔

35636

(۳۵۶۳۷) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ بْنِ أَبِی خَالِدٍ ، عَنْ زُبَیْدٍ ، عَنِ الْمُہَاجِرِ الْعَامِرِیِّ ، عَنْ عَلِیٍّ بِمِثْلِہِ۔
(٣٥٦٣٧) حضرت مہاجر عامری بھی حضرت علی (رض) سے ایسی روایت کرتے ہیں۔

35637

(۳۵۶۳۸) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : قَالَ عَلِیٌّ : طُوبَی لِکُلِّ عَبْدٍ نُوَمۃ عَرَفَ النَّاسَ ، وَلَمْ یَعْرِفْہُ النَّاسُ ، وَعَرَفَہُ اللَّہُ مِنْہُ بِرِضْوَانٍ ، أُولَئِکَ مَصَابِیحُ الْہُدَی ، یُجْلِی عَنْہُمْ کُلَّ فِتْنَۃٍ مُظْلِمَۃٍ ، وَیُدَخِّلُہُمَ اللَّہُ فِی رَحْمَتِہِ ، لَیْسَ أُولَئِکَ بِالْمَذَایِیعِ الْبُذُرِ ، وَلاَ بِالْجُفَاۃِ الْمُرَائِینَ۔
(٣٥٦٣٨) حضرت حسن سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت علی نے فرمایا : ہر غیر معروف آدمی کے لیے بشارت ہے جو لوگوں کو تو پہچانتا ہے لیکن لوگ اس کو نہیں پہچانتے۔ اور اللہ تعالیٰ اس کو اپنی رضا کے ساتھ پہچانتے ہیں۔ یہی لوگ ہدایت کے چراغ ہیں۔ ان سے ہر اندھیرا فتنہ دور کردیا جاتا ہے اور ان کو اللہ تعالیٰ اپنی رحمت میں داخل کرلیتا ہے۔ یہ لوگ کے راز ظاہر کرنے والے نہیں ہوتے اور نہ جفا کرنے اور ریا کاری کرنے والے۔

35638

(۳۵۶۳۹) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ طَلْحَۃَ ، عَنْ زُبَیْدٍ ، قَالَ : قَالَ عَلِیٌّ : خَیْرُ النَّاسِ ہَذَا النَّمَطُ الأَوْسَطُ یَلْحَقُ بِہِمَ التَّالِی ، وَیَرْجِعُ إلَیْہِمَ الْعَالِی۔
(٣٥٦٣٩) حضرت زبید سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت علی (رض) نے ارشاد فرمایا : لوگوں میں سے بہترین یہ درمیانے لوگ ہیں۔ پیچھے والے ان سے مل جاتے ہیں اور آگے والے ان کی طرف لوٹ آتے ہیں۔

35639

(۳۵۶۴۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا إیَاسُ بْنُ أَبِی تَمِیمَۃَ ، قَالَ : سَمِعْتُ عَطَائَ بْنَ أَبِی رَبَاحٍ ، قَالَ : کَانَ عَلِیُّ بْنُ أَبِی طَالِبٍ إذَا بَعَثَ سَرِیَّۃً وَلَّی أَمْرَہَا رَجُلاً فَأَوْصَاہُ ، فَقَالَ : أُوصِیک بِتَقْوَی اللہِ ، لاَ بُدَّ لَک مِنْ لِقَائِہِ ، وَلاَ مُنْتَہَی لَک دُونَہُ وَہُوَ یَمْلِکُ الدُّنْیَا فِی الآخِرَۃِ ، وَعَلَیْک بِالَّذِی یُقَرِّبُک إِلَی اللہِ ، فَإِنَّ فِیمَا عِنْدَ اللہِ خَلَفًا مِنَ الدُّنْیَا۔
(٣٥٦٤٠) حضرت عطاء بن ابی رباح سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت علی بن ابی طالب جب کوئی سریہ روانہ فرماتے تو اس پر کسی آدمی کو متولی بناتے اور اس کو وصیت کرتے۔ فرماتے : میں تمہیں اللہ سے ڈرنے کی وصیت کرتا ہوں۔ تمہیں اللہ سے ضرور ملنا ہے اور اس سے پیچھے تمہارے لیے منتہی کوئی نہیں ہے۔ وہی دنیا، آخرت کا مالک ہے اور تم ضرور وہ کام کرو جو تمہیں اللہ کے قریب کرے کیونکہ جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ دنیا کے مال کا بھی خلیفہ ہے۔

35640

(۳۵۶۴۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ عُثْمَانَ الثَّقَفِیِّ ، عَنْ زَیْدِ بْنِ وَہْبٍ ، أَنَّ نَعْجَۃَ عَابَ عَلِیًّا فِی لِبَاسِہِ ، فَقَالَ : یَقْتَدِی الْمُؤْمِنُ وَیَخْشَعُ الْقَلْبُ۔
(٣٥٦٤١) حضرت زید بن وہب سے روایت ہے کہ نعجہ نے حضرت علی (رض) کے لباس کے بارے میں اعتراض کیا تو آپ (رض) نے فرمایا : مومن اقتداء کرتا ہے اور قلب خشوع کرتا ہے۔

35641

(۳۵۶۴۲) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، قَالَ : حدَّثَنَا الأَعْمَشُ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ ، عَنْ أَبِی صَالِحٍ الَّذِی کَانَ یَخْدِمُ أُمَّ کُلْثُومٍ ابْنَۃَ عَلِیٍّ ، قَالَ : دَخَلْتُ عَلَی أُمِّ کُلْثُومٍ وَہِیَ تَمْتَشِطُ وَسِتْرٌ بَیْنَہَا وَبَیْنِی ، فَجَلَسْت أَنْتَظِرُہَا حَتَّی تَأْذَنَ لِی ، فَجَائَ حَسَنٌ وَحُسَیْنٌ فَدَخَلاَ عَلَیْہَا وَہِیَ تَمْتشِطُ ، فَقَالاَ : إِلاَّ تُطْعِمُونَ أَبَا صَالِحٍ شَیْئًا ، قَالَتْ : بَلَی ، قَالَ : فَأَخْرَجُوا قَصْعَۃً فِیہَا مَرَقٌ بِحُبُوبٍ ، فَقُلْتُ : أَتُطْعِمُونَنِی ہَذَا وَأَنْتُمْ أُمَرَائُ ، فَقَالَتْ أُمُّ کُلْثُومٍ : یَا أَبَا صَالِحٍ ، فَکَیْفَ لَوْ رَأَیْت أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ وَأُتِیَ بِأُتْرُنْجٍ فَذَہَبَ حَسَنٌ ، أَوْ حُسَیْنٌ یَتَنَاوَلُ مِنْہُ أُتْرُنْجَۃً فَنَزَعَہَا مِنْ یَدِہِ ، ثُمَّ أَمَرَ بِہِ فَقُسِّمَ۔
٣٥٦٤٢) حضرت عمرو بن مرہ، حضرت ابوصالح ۔۔۔ جو حضرت علی کی بیٹی حضرت ام کلثوم (رض) کی خدمت کرتے تھے ۔۔۔ سے روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے فرمایا : میں حضرت ام کلثوم کے پاس حاضر ہوا وہ کنگھی کررہی تھیں۔ چنانچہ میں بیٹھ کر ان کا انتظار کرنے لگا یہاں تک کہ انھوں نے مجھے اجازت دی۔ حضرت حسن اور حضرت حسین (رض) تشریف لائے۔ جبکہ وہ کنگھی کررہی تھیں۔ انھوں نے پوچھا : کیا تم نے ابوصالح کو کھانا نہیں کھلایا ؟ حضرت ام کلثوم نے فرمایا : کیوں نہیں۔ راوی کہتے ہیں پھر انھوں نے ایک پیالہ نکالا جس میں شوربہ میں دانے ڈالے ہوئے تھے۔ میں نے کہا : تم لوگ امراء ہو اور مجھے یہ کھانا کھلاتے ہو ؟ اس پر حضرت ام کلثوم نے فرمایا : اے ابوصالح ! اگر تم امیر المومنین کو دیکھ لو تو پھر تم کیسے ہو ؟ مالٹے لائے گئے تو حضرت حسن یا حضرت حسین ان سے مالٹا لینے لگے تو حضرت علی (رض) نے ان کے ہاتھ سے مالٹا چھین لیا پھر تقسیم کرنے کا کہا چنانچہ وہ تقسیم کردیا گیا۔

35642

(۳۵۶۴۳) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، قَالَ : حدَّثَنَا الأَعْمَشُ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ ، عَنْ أَبِی الْبَخْتَرِیِّ ، قَالَ : قَالَ عَلِیٌّ لأُمِّہِ فَاطِمَۃَ بِنْتِ أَسَدٍ : اکْفِی فَاطِمَۃَ بِنْتَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْخِدْمَۃَ خَارِجًا : سِقَایَۃَ الْمَائِ وَالْحَاجَۃَ ، وَتَکْفِیک الْعَمَلَ فِی الْبَیْتِ : الْعَجْنَ وَالْخَبْزَ وَالطَّحْنَ۔
(٣٥٦٤٣) حضرت ابوالبختری سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت علی (رض) نے اپنی والدہ فاطمہ بنت اسد سے کہا۔ آپ فاطمہ بنت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو باہر کی خدمت پانی لانا وغیرہ سے کافی ہوجائیں۔ وہ آپ کو گھر کے کام سے آٹا گوندھنا، روٹی پکانا اور چکی چلانا وغیرہ سے کفایت کرلیں گی۔

35643

(۳۵۶۴۴) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ مُجَالِدٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنِ الْحَارِثِ ، عَنْ عَلِیٍّ ، قَالَ : أُہْدِیَتْ فَاطِمَۃُ لَیْلَۃَ أُہْدِیَتْ إلَیَّ ، وَمَا تَحْتَنَا إِلاَّ جِلْدُ کَبْشٍ۔
(٣٥٦٤٤) حضرت علی (رض) سے روایت ہے وہ کہتے ہیں جس رات حضرت فاطمہ مجھے ہدیہ کی گئیں اس رات ہمارے نیچے صرف مینڈھے کی کھال تھی۔

35644

(۳۵۶۴۵) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ قَیْسٍ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ، قَالَ: قَالَ عَلِیٌّ: کَلِمَات لَوْ رَحَلْتُمَ الْمَطِیَّ فِیہِنَّ لأَنْضَیْتُمُوہُنَّ قَبْلَ أَنْ تُدْرِکُوا مِثْلَہُنَّ : لاَ یَرْجُ عَبْدٌ إِلاَّ رَبَّہُ ، وَلاَ یَخَفْ إِلاَّ ذَنْبَہُ ، وَلاَ یَسْتَحْیِی مَنْ لاَ یَعْلَمُ أَنْ یَتَعَلَّمَ، وَلاَ یَسْتَحْیِی عَالِمٌ إذَا سُئِلَ عَمَّا لاَ یَعْلَمُ أَنْ یَقُولَ: اللَّہُ أَعْلَمُ ، وَاعْلَمُوا أَنَّ مَنْزِلَۃَ الصَّبْرِ مِنَ الإِیمَانِ کَمَنْزِلَۃِ الرَّأْسِ مِنَ الْجَسَد ، فَإِذَا ذَہَبَ الرَّأْسُ ذَہَبَ الْجَسَدُ ، وَإِذَا ذَہَبَ الصَّبْرُ ذَہَبَ الإِیمَانُ۔
(٣٥٦٤٥) حضرت ابواسحاق سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت علی (رض) نے ارشاد فرمایا : چند باتیں ایسی ہیں کہ اگر تم سواریوں کو چلاؤ تو تم ان باتوں کی مثل پانے سے قبل سواریوں کو ہلاک وفنا کردو گے۔ بندہ اپنے پروردگار کے سوا کسی سے امید نہ رکھے۔ بندہ صرف اپنے گناہ سے ڈرے۔ جو آدمی نہ جانتا ہو وہ جاننے سے حیا نہ کرے اور جب آدمی سے غیر معلوم بات کا سوال ہو تو اس کو اللہ اعلم کہنے سے حیا نہیں آنی چاہیے۔ اور یہ بات جان لو کہ صبر کا ایمان میں وہی مقام ہے جو جسم میں سر کا ہے۔ پس جب سر چلا جاتا ہے تو جسم چلا جاتا ہے اور جب صبر چلا جاتا ہے تو ایمان چلا جاتا ہے۔

35645

(۳۵۶۴۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ قَیْسٍ ، عَنْ عَدِیِّ بْنِ ثَابِتٍ ، قَالَ : أُتِیَ عَلِیٌّ بِطِسْتِ خِوَانٍ فَالُوذَجٍ فَلَمْ یَأْکُلْ مِنْہُ۔
(٣٥٦٤٦) حضرت عدی بن ثابت سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت علی (رض) کے پاس دستر خوان پر فالودہ کا طشت لایا گیا تو آپ نے اس میں سے کچھ بھی نہیں کھایا۔

35646

(۳۵۶۴۷) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ یَمَانٍ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ کَثِیرٍ الْحَنَفِیِّ ، عَنْ عَلِیٍّ ، قَالَ : اکْظِمُوا الْغَیْظَ وَأَقِلُّوا الضَّحِکَ لاَ تَمُجْہُ الْقُلُوبُ۔
(٣٥٦٤٧) حضرت علی (رض) سے روایت ہے وہ کہتے ہیں غصہ کو قابو کرو اور ہنسی کو کم کرو دل اس کو گوارا نہیں کرتے۔

35647

(۳۵۶۴۸) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَنِ الأَجْلَحِ ، عَنِ ابْنِ أَبِی ہُذَیْلٍ ، قَالَ : رَأَیْتُ عَلَی عَلِیٍّ قَمِیصًا ، کُمُّہُ إذَا أَرْسَلَہُ بَلَغَ نِصْفَ سَاعِدِہِ ، وَإِذَا مَدَّہُ لَمْ یُجَاوِزْ ظُفْرَہُ۔
(٣٥٦٤٨) حضرت ابن ابوالہذیل سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت علی (رض) پر ایک قمیص دیکھی جس کی آستین جب آپ چھوڑتے تو آپ کی نصف کلائی تک پہنچتی اور جب آپ اس کو کھینچتے تو آپ کے ناخن کو تجاوز نہ کرتی۔

35648

(۳۵۶۴۹) حَدَّثَنَا عِیسَی بْنُ یُونُسَ ، عَنْ أَبِی بَکْرِ بْنِ أَبِی مَرْیَمَ ، عْن ضَمْرَۃَ بْنِ حَبِیبٍ ، قَالَ : قضَی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَی ابْنَتِہِ فَاطِمَۃَ بِخِدْمَۃِ الْبَیْتِ ، وَقَضَی عَلَی عَلِیٍّ بِمَا کَانَ خَارِجًا مِنَ الْبَیْتِ۔
(٣٥٦٤٩) حضرت ضمرہ بن حبیب سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی بیٹی پر گھر کے کام کاج کا فیصلہ فرمایا تھا اور حضرت علی پر گھر سے باہر والا کام۔

35649

(۳۵۶۵۰) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ سَخْبَرَۃَ ، عَنْ عَلِیٍّ ، قَالَ : مَا أَصْبَحَ بِالْکُوفَۃِ أَحَدٌ إِلاَّ نَاعِمًا ، وَإِنَّ أَدْنَاہُمْ مَنْزِلَۃً مَنْ یَأْکُلُ الْبُرَّ وَیَجْلِسُ فِی الظِّلِّ وَیَشْرَبُ مِنْ مَائِ الْفُرَاتِ۔
(٣٥٦٥٠) حضرت علی (رض) سے روایت ہے وہ کہتے ہیں جو بھی کوفہ میں ہے وہ ناز ونعم والا ہے۔ اور ان میں سے کم تر درجہ کا آدمی بھی گندم کھاتا ہے، سایہ میں بیٹھتا ہے اور فرات کا پانی پیتا ہے۔

35650

(۳۵۶۵۱) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، قَالَ : حدَّثَنَا أَبُو حَیَّانَ ، عَنْ مُجَمِّعٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ التَّیْمِیِّ ، عَنْ یَزِیدَ بْنِ شَرِیکٍ ، قَالَ : خَرَجَ عَلِیٌّ ذَاتَ یَوْمٍ بِسَیْفِہِ ، فَقَالَ : مَنْ یَبْتَاعُ مِنِّی سَیْفِی ہَذَا ، فَلَوْ کَانَ عِنْدِی ثَمَنُ إزَارٍ مَا بِعْتُہُ۔
(٣٥٦٥١) حضرت یزید بن شریک سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ ایک دن اپنی تلوار لے کر نکلے اور فرمایا : کون مجھ سے میری یہ تلوار خریدے گا ؟ اگر میرے پاس ازار کے پیسے ہوتے میں یہ تلوار نہ بیچتا۔

35651

(۳۵۶۵۲) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ عُثْمَانَ أَبِی الْیَقْظَانِ ، عَنْ زَاذَانَ ، عَنْ عَلِیٍّ {إِلاَّ أَصْحَابَ الْیَمِینِ} قَالَ : ہُمْ أَطْفَالُ الْمُسْلِمِینَ۔
(٣٥٦٥٢) حضرت زاذان، حضرت علی (رض) سے ۔۔۔ {إِلاَّ أَصْحَابَ الْیَمِینِ }۔۔۔ کے بارے میں روایت کرتے ہیں کہتے ہیں کہ یہ مسلمانوں کے بچے ہوں گے۔

35652

(۳۵۶۵۳) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ الْحَکَمِ النَّخَعِیِّ ، قَالَ : حدَّثَتْنِی أُمِّی ، عَنْ أُمِّ عُثْمَانَ أُمِّ وَلَدٍ لِعَلِیٍّ ، قَالَت : جِئْت عَلِیًّا وَبَیْنَ یَدَیْہِ قُرُنْفُلٌ مَکْبُوبٌ فِی الرَّحْبَۃِ ، فَقُلْتُ : یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ ، ہَبْ لاِبْنَتِی مِنْ ہَذَا الْقُرُنْفُلِ قِلاَدَۃً ، فَقَالَ : ہَکَذَا ، وَنَقرَ بِیَدَیْہِ ، أَدنی دِرْہَمًا جَیِّدًا ، فَإِنَّمَا ہَذَا مَالُ الْمُسْلِمِینَ وَإِلاَّ فَاصْبِرِی حَتَّی یَأْتِیَنَا حَظُّنَا مِنْہُ ، فَنَہَبُ لاِبْنَتِکَ مِنْہُ قِلاَدَۃً۔
(٣٥٦٥٣) حضرت علی (رض) کی ام ولد، ام عثمان سے روایت ہے وہ کہتی ہیں کہ میں حضرت علی (رض) کے پاس آئی اور ان کے سامنے صحن میں لونگ کا ڈھیر تھا۔ میں نے عرض کیا : اے امیر المومنین ! اس لونگ میں سے ایک ہار میری بیٹی کو ہدیہ کردیں۔ حضرت علی (رض) نے یوں فرمایا اور اپنے دونوں ہاتھوں سے ٹھونکا۔ ایک عمدہ درہم قریب کرو کیونکہ یہ مسلمانوں کا مال ہے۔ بصورت دیگر صبر کر یہاں تک کہ اس میں سے ہمیں ہمارا حصہ مل جائے پھر ہم اس میں سے تمہاری بیٹی کو ہدیہ کردیں گے۔

35653

(۳۵۶۵۴) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِِ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنِ الْحَارِثِ ، عَنْ عَلِیٍّ ، قَالَ : مَثَلُ الَّذِی جَمَعَ الإِیمَانَ وَالْقُرْآنَ مَثَلُ الأُتْرُنجَۃِ الطَّیِّبَۃِ الرِّیحِ الطَّیِّبَۃِ الطَّعْمِ ، وَمَثَلُ الَّذِی لَمْ یَجْمَعَ الإِیمَانَ وَلَمْ یَجْمَعَ الْقُرْآنَ مَثَلُ الْحَنْظَلَۃِ خَبِیثَۃِ الرِّیحِ وَخَبِیثَۃِ الطَّعْمِ۔
(٣٥٦٥٤) حضرت علی (رض) سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ جو شخص قرآن اور ایمان کو جمع کرتا ہے اس کی مثال مالٹے کی طرح ہے جس کا ذائقہ بھی عمدہ اور خوشبو بھی عمدہ۔ اور جو شخص ایمان کو اور قرآن کو جمع نہیں کرتا اس کی مثال حنظل کی طرح ہے۔ ذائقہ بھی برا، بو بھی بری۔

35654

(۳۵۶۵۵) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، قَالَ : حدَّثَنِی عَبْدُ اللہِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عُمَرَ بْنِ عَلِیٍّ ، قَالَ : حَدَّثَنِی أَبِی ، قَالَ : قِیلَ لِعَلِیٍّ : مَا شَأْنُک یَا أَبَا حَسَنٍ جَاوَرْت الْمَقْبَرَۃَ ، قَالَ : إنِّی أَجِدُہُمْ جِیرَانَ صِدْقٍ ، یَکُفُّونَ السَّیِّئَۃَ وَیُذَکِّرُونَ الآخِرَۃَ۔
(٣٥٦٥٥) حضرت علی سے پوچھا گیا اے ابوالحسن ! کیا بات ہے کہ آپ قبرستان والوں کی مجاورت کرتے ہو ؟ آپ (رض) نے فرمایا : میں نے انھیں سچا دوست پایا ہے۔ یہ برائی سے روکتے اور آخرت یاد دلاتے ہیں۔

35655

(۳۵۶۵۶) حَدَّثَنَا عِیسَی بْنُ یُونُسَ ، عَنِ الأَوْزَاعِیِّ ، عَنْ عَطَائٍ ، قَالَ : إنْ کَانَتْ فَاطِمَۃُ لَتَعْجِنُ ، وَإِنَّ قُصَّتَہَا لَتَکَادُ تَضْرِبُ الْجَفْنَۃَ۔
(٣٥٦٥٦) حضرت عطاء سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت فاطمہ (رض) آٹا گوندھا کرتی تھیں اور ان کی پیشانی کے بال آٹے کے برتن میں لگتے تھے۔

35656

(۳۵۶۵۷) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ یَزِیدَ بْنِ أَبِی زِیَادٍ ، عَنْ أَبِی جُحَیْفَۃَ ، قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللہِ : ذَہَبَ صَفْوُ الدُّنْیَا وَبَقِیَ کَدَرُہَا فَالْمَوْتُ تُحْفَۃٌ لِکُلِّ مُسْلِمٍ۔
(٣٥٦٥٧) حضرت ابوجحیفہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ نے فرمایا : دنیا کی صفائی چلی گئی اور اس کی کدورت رہ گئی پس موت ہر مسلمان کے لیے تحفہ ہے۔

35657

(۳۵۶۵۸) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ یَزِیدَ بْنِ أَبِی زِیَادٍ ، عَنْ أَبِی جُحَیْفَۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ : الدُّنْیَا کَالثَّغْبِ ذَہَبَ صَفْوُہُ وَبَقِیَ کَدَرُہُ۔
(٣٥٦٥٨) حضرت عبداللہ سے روایت ہے دنیا دامن کوہ کی طرح ہے اس کی صفائی چلی گئی ہے اور اس کی کدورت باقی رہ گئی ہے۔

35658

(۳۵۶۵۹) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مُرَّۃَ ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ ، قَالَ : بِحَسْبِ الْمَرْئِ مِنَ الْعِلْمِ أَنْ یَخَافَ اللَّہَ ، وَبِحَسْبِہِ مِنَ الْجَہْلِ أَنْ یُعْجَبَ بِعَمَلِہِ۔
(٣٥٦٥٩) حضرت ابن مسعود سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ آدمی کے علم کے لیے یہی بات کافی ہے کہ وہ اللہ سے ڈرے اور آدمی کی جہالت کے لیے یہی بات کافی ہے کہ وہ اپنے عمل پر خوش رہے۔

35659

(۳۵۶۶۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ أَبِی قَیْسٍ ، عَنْ ہُذَیْلٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : مَنْ أَرَادَ الآخِرَۃَ أَضَرَّ بِالدُّنْیَا وَمَنْ أَرَادَ الدُّنْیَا أَضَرَّ بِالآخِرَۃِ ، یَا قَوْمِ فَأَضِرُّوا بِالْفَانِی لِلْبَاقِی۔
(٣٥٦٦٠) حضرت عبداللہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں جو شخص آخرت کا ارادہ رکھتا ہے تو دنیا کا نقصان اٹھاتا ہے اور جو شخص دنیا کا ارادہ کرتا ہے وہ آخرت کا نقصان اٹھاتا ہے۔ اے لوگو ! تم باقی کے لیے فانی کا نقصان اٹھا لو۔

35660

(۳۵۶۶۱) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ مَالِکِ بْنِ مِغْوَلٍ ، عَنْ أَبِی صُفْرَۃَ ، عَنِ الضَّحَّاکِ بْنِ مُزَاحِمٍ ، قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللہِ : لَوَدِدْت أَنِّی طَیْرٌ فِی مَنْکِبِی رِیشٌ۔
(٣٥٦٦١) حضرت عبداللہ فرماتے ہیں : مجھے یہ بات پسند ہے کہ میں پرندہ ہوتا میرے مونڈھے میں پر ہوتے۔

35661

(۳۵۶۶۲) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ آدَمَ ، عَنْ زُہَیْرٍ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللہِ : لَیْتَنِی شَجَرَۃٌ تُعْضَدُ۔
(٣٥٦٦٢) حضرت عبداللہ فرماتے ہیں : کاش کہ میں کوئی درخت ہوتا جس کو کاٹ لیا جاتا۔

35662

(۳۵۶۶۳) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ وَوَکِیع ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ التَّیْمِیِّ ، عَنِ الْحَارِثِ بْنِ سُوَیْد ، قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللہِ : لَوَدِدْتُ أَنَّ رَوْثَۃً انْفَلقَتْ عَنِّی فَنُسِبْت إلَیْہَا فَسُمِّیت عَبْدَ اللہِ بْنَ رَوْثَۃَ ، وَأَنَّ اللَّہَ غَفَرَ لِی ذَنْبًا وَاحِدًا ، إِلاَّ أَنَّ أَبَا مُعَاوِیَۃَ ، قَالَ : لَوَدِدْت أَنِّی عَلِمْت أَنَّ اللَّہَ غَفَرَ لِی ، ثُمَّ ذَکَرَ مِثْلَہُ۔
(٣٥٦٦٣) حضرت عبداللہ فرماتے ہیں : میں اس بات کو پسند کرتا ہوں کہ گوبر مجھ سے پھٹ جاتا اور میں اس کی طرف منسوب ہوجاتا۔ مجھے عبداللہ بن روثہ کا نام دیا جاتا اور اللہ تعالیٰ میرا ایک گناہ معاف کردیتے۔ راوی ابومعاویہ کہتے ہیں۔ آپ (رض) نے فرمایا تھا : مجھے یہ بات پسند ہے کہ مجھے معلوم ہوجائے کہ اللہ نے مجھے معاف کردیا ہے۔ پھر آگے سابقہ حدیث کے مثل بیان کیا۔

35663

(۳۵۶۶۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ ، عَنْ أَخِیہِ ، عَنْ أَبِی عُبَیْدَۃَ ، قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللہِ : مَنِ اسْتَطَاعَ مِنْکُمْ أَنْ یَجْعَلَ کَنْزَہُ فِی السَّمَائِ حَیْثُ لاَ یَأْکُلُہُ السُّوسُ ، وَلاَ یَنَالُہُ السُّرُقُ فَلْیَفْعَلْ ، فَإِنَّ قَلْبَ الرَّجُلِ مَعَ کَنْزِہِ۔ (ابو نعیم ۱۳۵)
(٣٥٦٦٤) حضرت عبداللہ فرماتے ہیں تم میں سے جو شخص اس کی استطاعت رکھتا ہو کہ اس کا خزانہ آسمان میں ہو جہاں اس کو سرسری نہ کھائے اور چور نہ پائے تو اس کو ایسا کرنا چاہیے۔ کیونکہ آدمی کا دل اس کے خزانہ کے ساتھ ہوتا ہے۔

35664

(۳۵۶۶۵) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ مِسْعَرٍ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ أَیُّوبَ ، عَنْ أَبِی بُرْدَۃَ ، قَالَ : سَمِعَ عَبْدُ اللہِ بْنُ مَسْعُودٍ صَیْحَۃً فَاضْطَجَعَ مُسْتَقْبِلَ الْقِبْلَۃِ۔
(٣٥٦٦٥) حضرت ابوبردہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ نے ایک چیخ سنی تو آپ قبلہ رخ ہو کر لیٹ گئے۔

35665

(۳۵۶۶۶) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَنْ زَائِدَۃَ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ عُمَیْرٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنِی آلُ عَبْدِ اللہِ ، أَنَّ عَبْدَ اللہِ أَوْصَی ابْنَہُ عَبْدَ الرَّحْمَن ، فَقَالَ : أُوصِیک بِتَقْوَی اللہِ وَلْیَسْعَک بَیْتُک ، وَامْلِکْ عَلَیْک لِسَانَک ، وَابْکِ عَلَی خَطِیئَتِک۔
(٣٥٦٦٦) آلِ عبداللہ نے بتایا کہ حضرت عبداللہ نے اپنے بیٹے عبدالرحمن کو یہ وصیت کی تھی۔ فرمایا : میں تمہیں اللہ سے ڈرنے کی وصیت کرتا ہوں۔ اور تمہارے لیے تمہارا گھر وسیع ہونا چاہیے اور اپنی زبان کو اپنے قابو میں رکھو اور اپنی غلطیوں پر رویا کرو۔

35666

(۳۵۶۶۷) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ بَیَانٍ ، عَنْ قَیْسٍ ، قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللہِ : لَوَدِدْت أَنِّی أَعْلَمُ ، أَنَّ اللَّہَ غَفَرَ لِی ذَنْبًا مِنْ ذُنُوبِی ، وَأَنِّی لاَ أُبَالِی أَیَّ وَلَدِ آدَمَ وَلَدَنِی۔
(٣٥٦٦٧) حضرت عبداللہ فرماتے ہیں : مجھے یہ بات محبوب ہے کہ مجھے معلوم ہوجائے اللہ تعالیٰ نے مجھے معاف کردیا ہے تو مجھے اس کی کوئی پروا نہیں کہ مجھے بنو آدم کی کس اولاد نے جنم دیا ہے۔

35667

(۳۵۶۶۸) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ صَالِحِ بْنِ خَبَّابٍ ، عَنْ حُصَیْنِ بْنِ عُقْبَۃَ ، قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللہِ : إن من أکثر الناس خطأ یوم القیامۃ أکثرہم خوضاً فی الباطل۔
(٣٥٦٦٨) حضرت عبداللہ فرماتے ہیں : بیشک جنت ناپسندیدہ چیزوں سے ڈھکی ہوئی ہے اور بیشک جہنم خواہشات سے ڈھکی ہوئی ہے۔ پس جو شخص پردہ سے (پرے) جھانک لیتا ہے تو وہ ماوراء میں چلا جاتا ہے۔

35668

(۳۵۶۶۹) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ صَالِحِ بْنِ خَبَّابٍ ، عَنْ حُصَیْنِ بْنِ عُقْبَۃَ ، قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللہِ : إِنَّ الْجَنَّۃَ حُفَّتْ بِالْمَکَارِہِ ، وَإِنَّ النَّارَ حُفَّتْ بِالشَّہَوَاتِ ، فَمَنَ اطَّلَعَ الحِجَاب وَاقِع مَا وَرَائَہُ۔
(٣٥٦٦٩) حضرت عبداللہ فرماتے ہیں : بیشک قیامت کے دن سب سے زیادہ خطاؤں والا وہ شخص ہوگا جو باطل میں زیادہ غور وخوض کرتا ہے۔

35669

(۳۵۶۷۰) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِِ ، عَنْ سِمَاکٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللہِ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : مَثَلُ الْمُحَقَّرَاتِ مِنَ الأَعْمَالِ مَثَلُ قَوْمٍ نَزَلُوا مَنْزِلاً لَیْسَ بِہِ حَطَبٌ وَمَعَہُمْ لَحْمٌ ، فَلَمْ یَزَالُوا یَلْقُطُونَ حَتَّی جَمَعُوا مَا أَنْضَجُوا بِہِ لَحْمَہُمْ۔
(٣٥٦٧٠) حضرت عبدالرحمن بن عبداللہ، اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے فرمایا : چھوٹے چھوٹے عملوں کی مثال ایسی ہے جیسے کچھ لوگ کسی جگہ پڑاؤ ڈالیں جہاں پر ایندھن نہ ہو اور ان لوگوں کے پاس گوشت ہو۔ پس یہ لوگ مسلسل چنتے رہیں یہاں تک کہ یہ اتنا ایندھن جمع کرلیں جس پر یہ اپنا گوشت پکا لیں۔

35670

(۳۵۶۷۱) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، عَن عَلْقَمَۃَ ، قَالَ : مَرِضَ عَبْدُ اللہِ مَرَضًا فَجَزَع فِیہِ فَقُلْنَا : مَا رَأَیْنَاک جَزِعْت فِی مَرَضٍ مَا جَزعت فِی مَرَضِکَ ہَذَا ، قَالَ : إِنَّہُ أخذنی وَقَرَّبَ بِی مِنَ الْغَفْلَۃِ۔
(٣٥٦٧١) حضرت علقمہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ کو ایک خاص مرض لاحق ہوا جس میں انھوں نے جزع کرنا شروع کیا۔ ہم نے عرض کیا ہم نے آپ کو کسی مرض میں ایسی جزع کرتے نہیں دیکھا جیسی آپ نے اس مرض میں جزع کی ہے ؟ آپ (رض) نے فرمایا : یہ مرض مجھ پر غالب ہوگیا اور غفلت کو میرے قریب کردیا۔

35671

(۳۵۶۷۲) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنِ الْقَاسِمِ ، قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللہِ : لاَ تَعْجَلُوا بِحَمْدِ النَّاسِ وَلا بِذَمِّہِمْ ، فَإِنَّ الرَّجُلَ یُعْجِبُک الْیَوْمَ وَیَسُوئُک غَدًا ، وَیَسُوئُک الْیَوْمَ وَیُعْجِبُک غَدًا ، وَإِنَّ الْعِبَادَ یُغِیرُونَ وَاللَّہُ یَغْفِرُ الذُّنُوبَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ، وَاللَّہُ أَرْحَمُ بِعَبْدِہِ یَوْمَ یَأْتِیہِ مِنْ أُمِّ وَاحِدٍ فَرَشَتْ لَہُ فِی أَرْضِ قیٍّ ، ثُمَّ قَامَتْ تَلْتَمِسُ فِرَاشَہُ بِیَدِہَا ، فَإِنْ کَانَتْ لَدْغَۃٌ کَانَتْ بِہَا وَإِنْ کَانَتْ شَوْکَۃٌ کَانَتْ بِہَا۔
(٣٥٦٧٢) حضرت قاسم سے روایت ہے وہ کہتے ہیں حضرت عبداللہ فرماتے ہیں لوگوں کی حمد اور لوگوں کی مذمت کی وجہ سے جلد بازی نہ کرو۔ کیونکہ آج کے دن ایک آدمی تمہیں پسند کرے گا اور کل کے دن یہی آدمی تمہیں برا سمجھے گا۔ اور آج (اگر) برا سمجھے گا تو کل تمہیں اچھا سمجھے گا۔ کیونکہ لوگ بدلتے رہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے روز گناہوں کو معاف فرمائیں گے۔ جس دن بندہ اللہ کے پاس آئے گا تو اللہ تعالیٰ اپنے بندہ پر اس ماں سے زیادہ رحم کرنے والے ہوں گے جو ماں بچے کے لیے خالی زمین میں فرش بچھائے پھر اس کے بچھونے کو اپنے ہاتھ سے ٹٹول کر تلاش کرنے لگے چنانچہ اگر کوئی ڈسنا ہوا تو اس کے ہاتھ پر ہوگا اور اگر کوئی کانٹا ہوا تو اس کے ہاتھ پر ہوگا۔

35672

(۳۵۶۷۳) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنِ الْمَسْعُودِیِّ ، عَنِ الْقَاسِمِ ، قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللہِ : وَدِدْت أَنِّی مِنَ الدُّنْیَا فَرْدٌ کَالْغَادِی الرَّاکِبِ الرَّائِحِ۔
(٣٥٦٧٣) حضرت قاسم سے روایت ہے کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ نے فرمایا : مجھے یہ بات پسند ہے کہ میں دنیا میں ایک ایسے فرد کی طرح ہوں جو صبح کو آئے سوار ہو اور چلا جائے۔

35673

(۳۵۶۷۴) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنِ الْمَسْعُودِیِّ ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللہِ : کَفَی بِخَشْیَۃِ اللہِ عِلْمًا ، وَکَفَی بِالاِغْتِرَارِ بِہِ جَہْلاً۔
(٣٥٦٧٤) حضرت قاسم بن عبدالرحمن سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ نے فرمایا : خدا کے خوف کے لیے علم ہی کافی ہے اور خدا کے بارے میں دھوکا کے لیے جہالت ہی کافی ہے۔

35674

(۳۵۶۷۵) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ التَّیْمِیِّ ، عَنِ الْحَارِثِ بْنِ سُوَیْد ، قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللہِ : وَالَّذِی لاَ إلَہَ غَیْرُہُ ، مَا أَصْبَحَ عِنْدَ آلِ عَبْدِ اللہِ شَیْئٌ یَرْجُونَ أَنْ یُعْطِیَہُمَ اللَّہُ بِہِ خَیْرًا ، أَوْ یَدْفَعَ عَنْہُمْ بِہِ سُوئًا إِلاَّ ، أَنَّ اللَّہَ قَدْ عَلِمَ أَنَّ عَبْدَ اللہِ لاَ یُشْرِکُ بِہِ شَیْئًا۔
(٣٥٦٧٥) حضرت حارث بن سوید سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ نے فرمایا : قسم اس ذات کی جس کے سوا کوئی معبود نہیں ؟ آل عبداللہ نے کبھی اس حال میں صبح نہیں کی کہ ان کے پاس کوئی چیز ہو جس کے ذریعہ سے یہ امید رکھتے ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کو اس کے ذریعہ سے خیر دیں یا اس کے ذریعہ ان سے کوئی برائی دور کریں مگر یہ کہ خدا جانتا ہے کہ عبداللہ اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہیں ٹھہراتا۔

35675

(۳۵۶۷۶) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ شِمْرِ بْنِ عَطِیَّۃَ ، عَنْ مُغِیرَۃَ بْنِ سَعْدِ بْنِ الأَخْرَمِ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللہِ : وَالَّذِی لاَ إلَہَ غَیْرُہُ مَا یَضُرُّ عَبْدًا یُصْبِحُ عَلَی الإِسْلاَمِ وَیُمْسِی عَلَیْہِ مَاذَا أَصَابَہُ مِنَ الدُّنْیَا۔
(٣٥٦٧٦) حضرت عبداللہ کہتے ہیں قسم اس ذات کی جس کے سوا کوئی معبود نہیں ! جو بندہ صبح اس حال میں کرے کہ وہ مسلمان ہو اور شام اس حال میں کرے کہ وہ مسلمان ہو تو اس کو دنیا کی جو حالت بھی ملے، اس کو کوئی نقصان نہیں ہے۔

35676

(۳۵۶۷۷) حَدَّثَنَا مُعْتَمِرُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ عَبَّادِ بْنِ عَبَّادِ بْنِ عَلْقَمَۃَ الْمَازِنِیِّ ، عَنْ أَبِی مِجْلَزٍ ، قَالَ : قرَصَ أَصْحَابَ ابْنِ مَسْعُودٍ الْبَرْدُ ، قَالَ: فَجَعَلَ الرَّجُلُ یَسْتَحْیِی أَنْ یَجِیئَ فِی الثَّوْبِ الدُّونِ ، أَوِ الْکِسَائِ الدُّونِ، فَأَصْبَحَ أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ فِی عَبَایَۃٍ ، ثُمَّ أَصْبَحَ فِیہَا ، ثُمَّ أَصْبَحَ فِی الْیَوْمِ الثَّالِثِ فِیہَا۔
(٣٥٦٧٧) حضرت ابومجلز سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت ابن مسعود (رض) کے ساتھیوں کو سردی نے تکلیف پہنچائی۔ راوی کہتے ہیں چنانچہ آدمی اس بات سے حیا کرنے لگا کہ وہ گھٹیا کپڑے یا گھٹیا چادر میں آئے۔ اس پر حضرت ابوعبدالرحمن ایک (دن ایک) چغہ میں آئے پھر اگلی صبح بھی اسی میں آئے پھر تیسری صبح بھی اسی میں آئے۔

35677

(۳۵۶۷۸) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنْ دَاوُدَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللہِ : إنِّی لاَ أَخَافُ عَلَیْکُمْ فِی الْخَطَأِ وَلَکِنِّی أَخَافُ عَلَیْکُمْ فِی الْعَمْد ، إنِّی لاَ أَخَافُ عَلَیْکُمْ أَنْ تَسْتَقِلُّوا أَعْمَالَکُمْ ، وَلَکِنِّی أَخَافُ عَلَیْکُمْ أَنْ تَسْتَکْثِرُوہَا۔
(٣٥٦٧٨) حضرت شعبی سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ نے فرمایا : مجھے تم پر خطا کرنے میں کوئی خوف نہیں ہے۔ لیکن مجھے تمہارے بارے میں جان بوجھ کر غلطی کا خوف ہے۔ مجھے تم پر اس بات کا خوف نہیں ہے کہ تم اپنے عملوں کو کم سمجھنے لگو لیکن مجھے تم پر اس بات کا خوف ہے کہ تم اعمال کو زیادہ سمجھنے لگو۔

35678

(۳۵۶۷۹) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا ہِشَامٌ الدَّسْتَوَائِیُّ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ أَبِی کَثِیرٍ ، قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللہِ : دَعُوا الْحَکَّاکَاتِ فَإِنَّہَا الإِثْمَ۔
(٣٥٦٧٩) حضرت یحییٰ بن ابی کثیر سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ نے فرمایا : وسوسوں کو چھوڑ دو کیونکہ یہ گناہ ہیں۔

35679

(۳۵۶۸۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ فِطْرٍ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِی الأَحْوَصِ ، قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللہِ : الْمُؤْمِنُ یَرَی ذَنْبَہُ کَأَنَّہُ صَخْرَۃٌ یَخَافُ أَنْ تَقَعَ عَلَیْہِ ، وَالْمُنَافِقُ یَرَی ذَنْبَہُ کَذُبَابٍ وَقَعَ عَلَی أَنْفِہِ فَطَارَ فَذَہَبَ۔
(٣٥٦٨٠) حضرت ابوالاحوص سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ نے فرمایا : مومن، اپنے گناہ کو یوں خیال کرتا ہے گویا کہ وہ ایک چٹان ہے جس کے بارے میں مومن خوف رکھتا ہے کہ کہیں اس پر گر نہ جائے۔ اور منافق اپنے گناہ کو مکھی کی طرح سمجھتا ہے جو اس کے ناک پر بیٹھی پھر اڑ گئی اور چلی گئی۔

35680

(۳۵۶۸۱) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ مَالِکِ بْنِ مِغْوَلٍ ، قَالَ : کُنَّا جُلُوسًا مَعَ الْقَاسِمِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، فَقَالَ رَجُلٌ وَأَشَارَ إِلَی الْقَاسِمِ، قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللہِ: وَدِدْت أَنِّی إذَا مِتّ لَمْ أُبْعَثْ ، فَقَالَ الْقَاسِمُ بِرَأْسِہِ ہَکَذَا، أَیْ نَعَمْ۔
(٣٥٦٨١) حضرت مالک بن مغول سے روایت ہے وہ کہتے ہیں ہم حضرت قاسم بن عبدالرحمن کے پاس بیٹھے ہوئے تھے ۔۔۔ اس پر ایک آدمی نے کہا ۔۔۔ اور اس نے حضرت قاسم کی طرف اشارہ کیا ۔۔۔ فرمایا : حضرت عبداللہ نے کہا تھا ۔۔۔ مجھے یہ بات محبوب ہے کہ جب میں مرجاؤں تو پھر مجھے نہ اٹھایا جائے۔ اس پر حضرت قاسم نے اپنے سر سے یوں اشارہ کیا۔ یعنی ہاں۔

35681

(۳۵۶۸۲) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ ، عَنْ زُبَیْدٍ ، قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللہِ : قُولُوا خَیْرًا تُعْرَفُوا بِہِ ، وَاعْمَلُوا بِہِ تَکُونُوا مِنْ أَہْلِہِ ، وَلاَ تَکُونُوا عُجَلاً مَذَایِیعَ بُذْرًا۔ (ابن المبارک ۱۴۳۸)
(٣٥٦٨٢) حضرت زبید سے روایت ہے وہ کہتے ہیں حضرت عبداللہ نے فرمایا : خیر کی بات کہو تو تم خیر کے ذریعہ معروف ہوگے۔ خیر پر عمل کرو تو اہل خیر بن جاؤ گے۔ جلد باز، راز فاش کرنے والے نہ بنو۔

35682

(۳۵۶۸۳) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ السَّرِیِّ بْنِ یَحْیَی ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللہِ : لَوْ وَقَفْت بَیْنَ الْجَنَّۃِ وَالنَّارِ فَقِیلَ لِی : نُخْبِرُک مَنْ أَیُّہُمَا تَکُونُ أَحَبَّ إلَیْک ، أَوْ تَکُونُ رَمَادًا ، لاَخْتَرْت أَنْ أَکُونَ رَمَادًا۔
(٣٥٦٨٣) حضرت حسن سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ نے فرمایا : اگر مجھے جنت اور جہنم کے درمیان کھڑا کیا جائے اور مجھے کہا جائے ۔۔۔ ہم تمہیں بتاتے ہیں کہ تم ان دونوں میں سے کس میں ہو ۔۔۔ یہ بات تمہیں زیادہ محبوب ہے ۔۔۔ یا یہ کہ تم راکھ ہوجاؤ ؟ تو میں راکھ ہونے کو پسند کروں گا۔

35683

(۳۵۶۸۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ قَیْسٍ ، عَنْ مَعَنْ ، قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللہِ : لاَ تَفْتَرِقُوا فَتَہْلَکُوا۔
(٣٥٦٨٤) حضرت معن سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ نے فرمایا : فرقوں میں نہ پڑو، ورنہ ہلاک ہوجاؤ گے۔

35684

(۳۵۶۸۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِی الأَحْوَصِ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : وَدِدْت أَنِّی صُولِحْت عَلَی تِسْعِ سَیِّئَاتٍ وَحَسَنَۃٍ۔
(٣٥٦٨٥) حضرت عبداللہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ مجھے یہ بات پسند ہے کہ میرے ساتھ ایک نیکی اور نو برائیوں پر صلح کرلی جائے۔

35685

(۳۵۶۸۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنِ الْمَسْعُودِیِّ ، عَنْ عَوْنٍ ، قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللہِ : الْمُؤْمِنُ یَأْلَف ، وَلاَ خَیْرَ فِیمَنْ لاَ یَأْلَفُ ، وَلاَ یُؤْلَفُ۔ (ابو نعیم ۲۵۴)
(٣٥٦٨٦) حضرت عون سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ نے فرمایا : مومن محبت کرتا ہے اس آدمی میں کوئی خیر نہیں جو نہ محبت کرے اور نہ اس سے محبت کی جائے۔

35686

(۳۵۶۸۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ زُبَیْدٍ ، عَنْ مُرَّۃَ ، قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللہِ : إنَّ اللَّہَ یُعْطِی الدُّنْیَا مَنْ یُحِبُّ وَمَنْ لاَ یُحِبُّ ، وَلاَ یُعْطِی الإِیمَانَ إِلاَّ مَنْ یُحِبُّ ، فَإِذَا أَحَبَّ اللَّہُ عَبْدًا أَعْطَاہُ الإِیمَانَ۔ (طبرانی ۸۹۹۰)
(٣٥٦٨٧) حضرت مرہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ نے فرمایا : بیشک اللہ تعالیٰ دنیا اس کو بھی دیتے ہیں جس سے محبت کرتے ہیں اور اس کو بھی دیتے ہیں جس سے محبت نہیں کرتے۔ لیکن جس سے محبت کرتے ہیں ایمان اسی کو دیتے ہیں۔ پس جب اللہ تعالیٰ کسی بندہ سے محبت کرتے ہیں تو اس کو ایمان دیتے ہیں۔

35687

(۳۵۶۸۸) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ أَبِی حَنِیفَۃَ سَمِعَہُ مِنْ عَوْنِ بْنِ عَبْدِ اللہِ ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ ، قَالَ : یُعْرَضُ النَّاسُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ عَلَی ثَلاَثَۃِ دَوَاوِینَ : دِیوَانٌ فِیہِ الْحَسَنَاتُ ، وَدِیوَانٌ فِیہِ النَّعِیمُ ، وَدِیوَانٌ فِیہِ السَّیِّئَاتُ ، فَیُقَابَلُ بِدِیوَانِ الْحَسَنَاتِ دِیوَانُ النَّعِیمِ ، فَیَسْتَفْرِغُ النَّعِیمُ الْحَسَنَاتِ ، وَتَبْقَی السَّیِّئَاتُ مَشِیئَتُہَا إِلَی اللہِ تَعَالَی ، إنْ شَائَ عَذَّبَ ، وَإِنْ شَائَ غَفَرَ۔
(٣٥٦٨٨) حضرت ابن مسعود (رض) سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ قیامت کے دن لوگوں کو تین دفتروں پر پیش کیا جائے گا۔ ایک دفتر جس میں نیکیاں ہوں گی اور ایک دفتر جس میں نعمتیں ہوں گی اور ایک دفتر جس میں گناہ ہوں گے۔ پس نعمتوں والے دفتر کو نیکیوں والے دفتر کے مقابل لایا جائے گا۔ چنانچہ نیکیاں تو نعمتوں کے بدلے میں فارغ ہوجائیں گی اور خطائیں باقی رہ جائیں گی جو اللہ کی مشیت کے متعلق ہوں گی۔ اگر اللہ چاہے تو عذاب دے اور اگر چاہے تو معاف کردے۔

35688

(۳۵۶۸۹) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ یَزِیدَ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، عَن عَلْقَمَۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : تَعَلَّمُوا تَعْلَمُوا ، فَإِذَا عَلِمْتُمْ فَاعْمَلُوا۔
(٣٥٦٨٩) حضرت عبداللہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں علم حاصل کرو علم حاصل کرو پھر جب علم حاصل کر چکو تو عمل کرو۔

35689

(۳۵۶۹۰) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ، عَنْ لَیْثٍ، عَنْ مَعْنٍ، قَالَ: قَالَ عَبْدُاللہِ: لاَ یُشْبِہُ الزِّیُّ الزِّیَّ حَتَّی تَشْتَبِہَ الْقُلُوبُ الْقُلُوبُ۔
(٣٥٦٩٠) حضرت عبداللہ فرماتے ہیں : ظاہری شکل و صورت، ظاہری شکل و صورت سے مشابہت تب کھاتی ہے جب دل، دل کے مشابہ ہوتے ہیں۔

35690

(۳۵۶۹۱) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ یَمَانٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَجْلاَنَ ، عَنْ أَبِی عِیسَی ، قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللہِ : إنَّ مِنْ رَأْسِ التَّوَاضُعِ أَنْ تَرْضَی بِالدُّونِ مِنْ شَرَفِ الْمَجْلِسِ ، وَأَنْ تَبْدَأَ بِالسَّلاَمِ مَنْ لَقِیت۔
(٣٥٦٩١) حضرت عبداللہ فرماتے ہیں : بیشک تواضع کا بڑا حصہ یہ ہے کہ تم مجلس میں عزت کی جگہ سے کم درجہ جگہ پر راضی ہوجاؤ اور جس سے ملو سلام میں پہل کرو۔

35691

(۳۵۶۹۲) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ عُمَارَۃَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ یَزِیدَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : أَنْتُمْ أَکْثَرُ صِیَامًا وَأَکْثَرُ صَلاَۃً وَأَکْثَرُ جِہَادًا مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَہُمْ کَانُوا خَیْرًا مِنْکُمْ ، قَالُوا : لِمَ یَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، قَالَ : کَانُوا أَزْہَدَ فِی الدُّنْیَا وَأَرْغَبَ فِی الآخِرَۃِ۔
(٣٥٦٩٢) حضرت عبداللہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ تم جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ (رض) سے روزوں میں، نمازوں میں، جہاد میں زیادہ ہو لیکن وہ تم سے بہتر تھے۔ لوگوں نے پوچھا : اے ابوعبدالرحمن ! کیوں ؟ آپ (رض) نے فرمایا : وہ دنیا میں زیادہ بےرغبت تھے اور آخرت میں زیادہ رغبت کرنے والے تھے۔

35692

(۳۵۶۹۳) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمُحَارِبِیُّ ، عَنْ ہَارُونَ بْنِ عَنْتَرَۃَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الأَسْوَدِ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللہِ بْنُ مَسْعُودٍ : إنَّمَا ہَذِہِ الْقُلُوبُ أَوْعِیَۃٌ ، فَأَشْغِلُوہَا بِالْقُرْآنِ ، وَلاَ تَشْغَلُوہَا بِغَیْرِہِ۔
(٣٥٦٩٣) حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) فرماتے ہیں : یہ دل تو صرف برتن ہیں۔ پس تم ان کو قرآن سے بھرو کسی اور چیز سے دلوں کو نہ بھرو۔

35693

(۳۵۶۹۵) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، قَالَ : حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ عَابِسٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِی أبو إیَاسٌ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ، أَنَّہُ کَانَ یَقُولُ فِی خُطْبَتِہِ : إنَّ أَصْدَقَ الْحَدِیثِ کَلاَمُ اللہِ ، وَأَوْثَقَ الْعُرَی کَلِمَۃُ التَّقْوَی ، وَخَیْرَ الْمِلَلِ مِلَّۃُ إبْرَاہِیمَ ، وَأَحْسَنَ الْقَصَصِ ہَذَا الْقُرْآنُ ، وَأَحْسَنَ السُّنَنِ سُنَّۃُ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَأَشْرَفَ الْحَدِیثِ ذِکْرُ اللہِ ، وَخَیْرَ الأُمُورِ عَزَائِمُہَا ، وَشَرَّ الأُمُورِ مُحْدَثَاتُہَا ، وَأَحْسَنَ الْہَدْیِ ہَدْیُ الأَنْبِیَائِ ، وَأَشْرَفَ الْمَوْتِ قَتْلُ الشُّہَدَائِ ، وَأَغَرَّ الضَّلاَلَۃِ الضَّلاَلَۃُ بَعْدَ الْہُدَی ، وَخَیْرَ الْعِلْمِ مَا نَفَعَ ، وَخَیْرَ الْہُدَی مَا اتُّبِعَ ، وَشَرَّ الْعَمَی عَمَی الْقَلْبِ۔ ۲۔ وَالْیَدَ الْعُلْیَا خَیْرٌ مِنَ الْیَدِ السُّفْلَی ، وَمَا قَلَّ وَکَفَی خَیْرٌ مِمَّا کَثُرَ وَأَلْہَی ، وَنَفْسٌ تُنْجِیہَا خَیْرٌ مِنْ أَمَارَۃٍ لاَ تُحْصِیہَا ، وَشَرَّ الْعَذِلَۃِ عِنْدَ حَضْرَۃِ الْمَوْتِ ، وَشَرَّ النَّدَامَۃِ نَدَامَۃُ یَوْمِ الْقِیَامَۃِ ، وَمِنَ النَّاسِ مَنْ لاَ یَأْتِی الصَّلاَۃَ إِلاَّ دبریًّا ، وَمِنَ النَّاسِ مَنْ لاَ یَذْکُرُ اللَّہَ إِلاَّ مُہَاجِرًا ، وَأَعْظَمَ الْخَطَایَا اللِّسَانُ الْکَذُوبُ ، وَخَیْرَ الْغِنَی غِنَی النَّفْسِ ، وَخَیْرَ الزَّادِ التَّقْوَی ، وَرَأْسَ الْحِکْمَۃِ مَخَافَۃُ اللہِ ، وَخَیْرَ مَا أُلْقِیَ فِی الْقَلْبِ الْیَقِینُ ، وَالرَّیْبَ مِنَ الْکُفْرِ ، وَالنَّوْحَ مِنْ عَمَلِ الْجَاہِلِیَّۃِ ، وَالْغُلُولَ مِنْ جَمْرِ جَہَنَّمَ ، وَالْکَنْزَ کَیٌّ مِنَ النَّارِ۔ ۳۔ وَالشِّعْرَ مَزَامِیرُ إبْلِیسَ ، وَالْخَمْرَ جِمَاعُ الإِثْمِ ، وَالنِّسَائَ حَبَائِلُ الشَّیْطَانِ ، وَالشَّبَابَ شُعْبَۃٌ مِنَ الْجُنُونِ ، وَشَرَّ الْمَکَاسِبِ کَسْبُ الرِّبَا ، وَشَرَّ الْمَآکِلِ أکْلُ مَالِ الْیَتِیمِ ، وَالسَّعِیدَ مَنْ وُعِظَ بِغَیْرِہِ ، وَالشَّقِیَّ مِنْ شُقِیَ فِی بَطْنِ أُمِّہِ ، وَإِنَّمَا یَکْفِی أَحَدُکُمْ مَا قَنَعَتْ بِہِ نَفْسُہُ ، وَإِنَّمَا یَصِیرُ إِلَی مَوْضِعِ أَرْبَعۃ أَذْرُعٍ وَالأَمْرُ بِآخِرِہِ ، وَأَمْلَکَ الْعَمَلِ بِہِ خَوَاتِمُہُ ، وَشَرَّ الرِّوَایَا رِوَایَا الْکَذِبِ ، وَکُلَّ مَا ہُوَ آتٍ قَرِیبٌ۔ ۴۔ وَسِبَابَ الْمُؤْمِنِ فُسُوقٌ وَقِتَالَہُ کُفْرٌ ، وَأَکْلَ لَحْمِہِ مِنْ مَعَاصِی اللہِ ، وَحُرْمَۃُ مَالِہِ کَحُرْمَۃِ دَمِہِ ، وَمَنْ یَتَأَلَّی عَلَی اللہِ یُکَذِّبْہُ ، وَمَنْ یَغْفِرْ یَغْفِرَ اللَّہُ لَہُ ، وَمَنْ یَعْفُ یَعْفُ اللَّہُ عَنْہُ ، وَمَنْ یَکْظِمَ الْغَیْظَ یَأْجُرْہُ اللَّہُ ، وَمَنْ یَصْبِرْ عَلَی الرَّزَایَا یُعْقِبْہُ اللَّہُ ، وَمَنْ یَعْرِفَ الْبَلاَئَ یَصْبِرْ عَلَیْہِ ، وَمَنْ لاَ یَعْرِفْہُ یُنْکِرْہُ ، وَمَنْ یَسْتَکْبِرْ یَضَعْہُ اللَّہُ ، وَمَنْ یَبْتَغِ السُّمْعَۃَ یُسَمِّعَ اللَّہُ بِہِ ، وَمَنْ یَنْوِ الدُّنْیَا تُعْجِزْہُ ، وَمَنْ یُطِعَ الشَّیْطَانَ یَعْصِ اللَّہَ ، وَمَنْ یَعْصِ اللَّہَ یَعْذِبْہُ۔
(٣٥٦٩٤) حضرت عبداللہ سے روایت ہے کہ وہ اپنے خطبہ میں کہا کرتے تھے : سب سے سچی بات کلام اللہ ہے اور مضبوط ترین کڑا کلمۃ التقویٰ ہے اور بہترین ملت، ملت ابراہیمی ہے اور خوبصورت قصوں میں سے یہ قرآن ہے اور خوبصورت راستہ، سنت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہے۔ سب سے زیادہ شرافت والی بات ذکر اللہ ہے۔ بہترین امور میں سے پختہ امر ہے۔ امور میں سے بدترین امور بدعات ہیں اور اچھی ہدایت، انبیاء کی ہدایت ہے۔ سب سے عزت والی موت شہداء کا قتل ہوتا ہے۔ سب سے خطرناک گمراہی، ہدایت کے بعد کی ضلالت ہے۔ بہترین علم وہ ہے جو نفع مند ہو اور بہترین ہدایت وہ ہے جس کی اتباع کی جائے۔ بدترین اندھا پن، دل کا اندھا پن ہے۔
٢۔ اور اوپر کا ہاتھ، نیچے کے ہاتھ سے بہتر ہے جو چیز کم ہو اور کافی ہو اس چیز سے بہتر ہے جو زیادہ ہو اور غافل کردے۔ وَنَفْسٌ تُنْجِیہَا خَیْرٌ مِنْ أَمَارَۃٍ لاَ تُحْصِیہَا بدترین ملامت موت کے وقت کی ملامت ہے اور بدترین ندامت، قیامت کے دن کی ملامت ہے۔ اور بعض لوگ نماز کے لیے آخری وقت میں آتے ہیں۔ اور بعض اللہ کا ذکر غافل دل کے ساتھ کرتے ہیں۔ غلطیوں میں سے سب سے بڑی غلطی جھوٹی زبان ہے۔ بہترین تونگری، دل کی تونگری ہے۔ بہترین زاد تقویٰ ہے۔ حکمت کا بڑا حصہ، خوفِ خدا ہے۔ دلوں میں جو کچھ ڈالا جاتا ہے اس میں سے بہترین چیز یقین ہے اور کفر کے بارے میں شک اور نوحہ، جاہلیت کا عمل ہے۔ خیانت (مالِ غنیمت میں) جہنم کا انگارہ ہے اور خزانہ جہنم کا داغنا ہے۔
٣۔ شعر، شیطان کے باجوں میں سے ہے۔ شراب، گناہوں کا مجموعہ ہے۔ عورتیں، شیطان کی رسیاں ہیں۔ جوانی، جنون کا شعبہ ہے۔ بدترین کمائی، سود کی کمائی ہے اور بدترین کھانا یتیم کا کھانا ہے۔ خوش بخت وہ ہے جو دوسروں سے نصیحت حاصل کرے اور بدبخت وہ ہے جو بطن مادر میں بدبخت لکھا گیا ہے۔ تم میں سے کسی کو اتنی مقدار کافی ہے جس پر اس کا نفس قناعت کرلے۔ کیونکہ لوٹنا تو چار بالشت (زمین) کی طرف ہے۔ معاملہ، آخر کا معتبر ہوتا ہے۔ کسی شے پر عمل کا دار و مدار خاتمہ پر ہوتا ہے۔ بدترین روایت کرنے والے، جھوٹ کے روایت کرنے والے ہیں اور جو چیز آنے والی ہے وہ قریب ہے۔
٤۔ مومن کو گالی دینا گناہ ہے اور اس سے لڑنا کفر ہے اور اس کے گوشت کو کھانا خدا کی نافرمانیوں میں سے ہے۔ اس کے مال کی حرمت اس کے خون کی حرمت کی طرح ہے۔ جو اللہ پر جرأت کرتا ہے اللہ اسے جھوٹا ثابت کرتا ہے۔ اور جو معاف کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی اس کو معاف کردیتے ہیں اور جو درگزر کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی درگزر کرتے ہیں اور جو اپنے غصہ کو قابو کرتا ہے اس کو اللہ تعالیٰ اجر دیتے ہیں اور جو شخص رزایا پر صبر کرتا ہے اللہ اس کی اعانت کرتے ہیں اور جو آزمائش کو پہچانتا ہے وہ اس پر صبر کرتا ہے اور جو نہیں پہچانتا وہ اس کو ناپسند کرتا ہے اور جو بڑا بنتا ہے اللہ اس کو گرا دیتے ہیں اور جو ناموری چاہتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو رسوا کرتے ہیں اور جو دنیا کی چاہت کرتا ہے۔ دنیا اس کو تھکا دیتی ہے اور جو شیطان کی مانتا ہے خدا کی نافرمانی کرتا ہے اور جو خدا کی نافرمانی کرتا ہے خدا اس کو عذاب دیتا ہے۔

35694

(۳۵۶۹۵) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ زُبَیْدِ بْنِ الْحَارِثِ ، عَنْ مُرَّۃَ بْنِ شَرَاحِیلَ ، قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللہِ : {اتَّقُوا اللَّہَ حَقَّ تُقَاتِہِ} وَحَقُّ تُقَاتِہِ أَنْ یُطَاعَ فَلاَ یُعْصَی ، وَأَنْ یُذْکَرَ فَلاَ یُنْسَی ، وَأَنْ یُشْکَرَ فَلاَ یُکْفَرُ وَإِیتَائُ الْمَالِ عَلَی حُبِّہِ أَنْ تُؤْتِیَہُ وَأَنْتَ صَحِیحٌ شَحِیحٌ تَأْمَلُ الْعَیْشَ وَتَخَافُ الْفَقْرَ ، وَفَضْلُ صَلاَۃِ اللَّیْلِ عَلَی صَلاَۃِ النَّہَارِ کَفَضْلِ صَدَقَۃِ السِّرِّ عَلَی صَدَقَۃِ الْعَلاَنِیَۃِ۔
(٣٥٦٩٥) حضرت مرہ بن شراحیل سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ نے فرمایا : { اتَّقُوا اللَّہَ حَقَّ تُقَاتِہِ } اور حق تقاتہ یہ ہے کہ فرمان برداری کی جائے۔ نافرمانی نہ کی جائے۔ یاد کیا جائے، بھلایا نہ جائے اور شکر کیا جائے، نافرمانی نہ کی جائے۔ اور مال کا محبت کے باوجود دینا یہ ہے کہ تم مال کو اس حالت میں خرچ کرو جبکہ تم صحت مند، تندرست ہو، تم عیش کرنا چاہتے ہو اور فقر سے ڈرتے ہو اور رات کی نماز کی فضیلت دن کی نماز پر ایسی ہے جیسے مخفی صدقہ کی اعلانیہ صدقہ پر فضیلت ہوتی ہے۔

35695

(۳۵۶۹۶) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَنْ زَائِدَۃَ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ شَقِیقٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : لاَ تَنْفَعُ الصَّلاَۃُ إِلاَّ مَنْ أَطَاعَہَا ، ثُمَّ قَرَأَ عَبْدُ اللہِ : {إنَّ الصَّلاَۃَ تَنْہَی عَنِ الْفَحْشَائِ وَالْمُنْکَرِ وَلَذِکْرُ اللہِ أَکْبَرُ} فَقَالَ عَبْدُ اللہِ : ذِکْرُ اللہِ الْعَبْدَ أَکْبَرُ مِنْ ذِکْرِ الْعَبْدِ لِرَبِّہِ۔
(٣٥٦٩٦) حضرت عبداللہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ نماز اسی کو نفع دیتی ہے جو اس کی اطاعت کرتا ہے۔ پھر حضرت عبداللہ (رض) نے یہ آیت پڑھی : {إنَّ الصَّلاَۃَ تَنْہَی عَنِ الْفَحْشَائِ وَالْمُنْکَرِ وَلَذِکْرُ اللہِ أَکْبَرُ } پھر حضرت عبداللہ نے کہا : اللہ کا بندے کو یاد کرنا، بندہ کا اپنے ربّ کو یاد کرنے سے بڑا ہے۔

35696

(۳۵۶۹۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ ، عَنْ قَیْسٍ ، قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللہِ : کَفَی بِالْمَرْئِ مِنَ الشَّقَائِ ، أَوْ مِنَ الْخَیْبَۃِ أَنْ یَبِیتَ وَقَدْ بَالَ الشَّیْطَانُ فِی أُذُنِہِ فَیُصْبِحُ وَلَمْ یَذْکُرِ اللَّہَ۔
(٣٥٦٩٧) حضرت عبداللہ فرماتے ہیں : آدمی کی بدبختی کے لیے یہی بات کافی ہے کہ وہ رات اس حال میں گزارے کہ شیطان اس کے کان میں پیشاب کر دے پس وہ صبح اس حال میں کرے کہ خدا کا ذکر نہ کرے۔

35697

(۳۵۶۹۸) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ مِسْعَرٍ ، قَالَ سَمِعْت عَوْنُ بْنُ عَبْدِ اللہِ یَقُولُ : قرَأَ رَجُلٌ عِنْدَ عَبْدِ اللہِ بْنِ مَسْعُودٍ: {ہَلْ أَتَی عَلَی الإِنْسَان حِینٌ مِنَ الدَّہْرِ لَمْ یَکُنْ شَیْئًا مَذْکُورًا} فَقَالَ عَبْدُ اللہِ: أَلاَ لَیْتَ ذَلِکَ تَمَّ۔
(٣٥٦٩٨) حضرت عون بن عبداللہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے حضرت ابن مسعود کے پاس یہ آیت { ہَلْ أَتَی عَلَی الإِنْسَان حِینٌ مِنَ الدَّہْرِ لَمْ یَکُنْ شَیْئًا مَذْکُورًا } پڑھی۔ اس پر حضرت عبداللہ نے کہا : خبردار ! کاش یہ بات پوری ہوتی۔

35698

(۳۵۶۹۹) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، عَنْ قُرَّۃَ ، عَنِ الضَّحَّاکِ ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ ، قَالَ : مَا أَصْبَحَ الْیَوْمَ أَحَدٌ مِنَ النَّاسِ إِلاَّ وَہُوَ ضَیْفٌ ، وَمَالُہُ عَارِیَّۃٌ ، فَالضَّیْفُ مُرْتَحِلٌ وَالْعَارِیَّۃُ مُؤَدَّاۃٌ۔
(٣٥٦٩٩) حضرت ابن مسعود (رض) سے روایت ہے وہ کہتے ہیں آج کے دن جس نے بھی صبح کی ہے تو وہ مہمان ہے اور اس کا مال عاریت ہے۔ پس مہمان جانے والا ہے اور عاریت قابل واپسی ہے۔

35699

(۳۵۷۰۰) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنِ الْمِنْہَالِ بْنِ عَمْرٍو ، عَنْ قَیْسِ بْنِ سَکَنٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ فِی قَوْلِہِ تعالی : {یَسْعَی نُورُہُمْ بَیْنَ أَیْدِیہِمْ} قَالَ : یُؤْتَوْنَ نُورَہُمْ عَلَی قَدْرِ أَعْمَالِہِمْ ، مِنْہُمْ مَنْ نُورُہ مِثْلُ الْجَبَلِ ، وَأَدْنَاہُمْ نُورًا مَنْ نُورُہُ عَلَی إبْہَامِہِ یُطْفَأُ مَرَّۃً وَیَتقِدُ أُخْرَی۔
(٣٥٧٠٠) حضرت عبداللہ سے قول خداوندی { یَسْعَی نُورُہُمْ بَیْنَ أَیْدِیہِمْ } کے بارے میں روایت ہے۔ فرمایا : ان لوگوں کو ان کے اعمال کے بقدر نور دیا جائے گا۔ بعض لوگوں کا نور پہاڑ کی طرح ہوگا اور ان میں سے کم ترین نور والا یوں ہوگا کہ اس کا نور اس کے انگوٹھے پر ہوگا۔ کبھی بجھے گا اور کبھی جلے گا۔

35700

(۳۵۷۰۱) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ أَبِی رَزِینٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مَسْعُودٍ ، قَالَ : مُوَسَّعٌ عَلَیْہِ فِی الدُّنْیَا مُوَسَّعٌ عَلَیْہِ فِی الآخِرَۃِ ، مَقْتُورٌ عَلَیْہِ فِی الدُّنْیَا مَقْتُورٌ عَلَیْہِ فِی الآخِرَۃِ ، مُوَسَّعٌ عَلَیْہِ فِی الدُّنْیَا مَقْتُورٌ عَلَیْہِ فِی الآخِرَۃِ ، مُسْتَرِیحٌ وَمُسْتَرَاحٌ مِنْہُ۔ (ابن المبارک ۷۴)
(٣٥٧٠١) حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے وہ کہتے ہیں : دنیا میں خوش حال، آخرت میں خوشحال دنیا میں تنگ حال، آخرت میں تنگ حال، دنیا میں خوشحال، آخرت میں تنگ حال آرام و سکون سے ہوگا۔

35701

(۳۵۷۰۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِی الأَحْوَصِ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ فِی قَوْلِہِ : {تُوبُوا إِلَی اللہِ تَوْبَۃً نَصُوحًا} قَالَ : التَّوْبَۃُ النَّصُوحُ أَنْ یَتُوبَ ، ثُمَّ لاَ یَعُودُ۔
(٣٥٧٠٢) حضرت عبداللہ سے ارشاد خداوندی { تُوبُوا إِلَی اللہِ تَوْبَۃً نَصُوحًا } کے بارے میں منقول ہے۔ آپ (رض) نے فرمایا : توبۃ نصوح یہ ہے کہ آدمی توبہ کرے پھر اس گناہ کو دوبارہ نہ کرے۔

35702

(۳۵۷۰۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللہِ : مَنْ أَرَاْدَ الدُّنْیَا أَضَرَّ بِالآخِرَۃِ ، وَمَنْ أَرَاْدَ الآخِرَۃَ أَضَرَّ بِالدُّنْیَا۔
(٣٥٧٠٣) حضرت عبداللہ فرماتے ہیں جو شخص دنیا کا ارادہ کرے تو اس کو آخرت کا نقصان ہوگا اور جو شخص آخرت کا ارادہ کرے تو اس کو دنیا کا نقصان ہوگا۔

35703

(۳۵۷۰۴) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنِ الْمُسَیَّبِ بْنِ رَافِعٍ ، قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللہِ : إنِّی لأَمْقُتُ الرَّجُلَ أَنْ أَرَاہُ فَارِغًا لَیْسَ فِی شَیْئٍ مِنْ عَمَلِ الدُّنْیَا ، وَلاَ عَمَلِ الآخِرَۃِ۔
(٣٥٧٠٤) حضرت عبداللہ فرماتے ہیں کہ مجھے اس آدمی پر سخت غصہ آتا ہے جس کو میں اس طرح فارغ دیکھوں کہ وہ دنیا، آخرت کے کسی کام میں مشغول نہ ہو۔

35704

(۳۵۷۰۵) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ خَیْثَمَۃ ، قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللہِ : مَنْ أَحَبَّ أَنْ یُنْصِفَ اللَّہَ مِنْ نَفْسِہِ فَلْیَأْتِ إِلَی النَّاسِ الَّذِی یُحِبُّ أَنْ یُؤْتَی إلَیْہِ۔
(٣٥٧٠٥) حضرت عبداللہ فرماتے ہیں : جو شخص اس بات کو پسند کرتا ہے کہ وہ اپنے نفس سے اللہ کو پورا حق دلائے تو اس کو چاہیے کہ وہ ایسے لوگوں کے پاس آئے جو اپنے پاس آنے کو پسند کرتے ہوں۔

35705

(۳۵۷۰۶) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ خَیْثَمَۃ ، قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللہِ : وَالَّذِی لاَ إلَہَ غَیْرُہُ ، مَا أُعْطِیَ عَبْدٌ مُؤْمِنٌ مِنْ شَیْئٍ أَفْضَلَ مِنْ أَنْ یُحْسِنَ بِاللہِ ظَنَّہُ ، وَالَّذِی لاَ إلَہَ غَیْرُہُ ، لاَ یُحْسِنُ عَبْدٌ مُؤْمِنٌ بِاللہِ ظَنَّہُ إِلاَّ أَعْطَاہُ ذَلِکَ ، فَإِنَّ الْخَیْرَ کُلَّہ بِیَدِہِ۔
(٣٥٧٠٦) حضرت عبداللہ فرماتے ہیں قسم اس ذات کی جس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے ؟ کسی بندہ مومن کو اس سے افضل چیز عطا نہیں کی گئی کہ وہ اللہ کے ساتھ حسن ظن کرے اور قسم اس ذات کی جس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔ کوئی بندہ مومن خدا کے ساتھ حسن ظن نہیں کرتا مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ اس کو خیر دے دیتے ہیں۔ کیونکہ ساری خیر اسی کے قبضہ میں ہے۔

35706

(۳۵۷۰۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِی الأَحْوَصِ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : کَادَ الْجُعْلُ أَنْ یُعَذَّبَ فِی جُحْرِہِ بِذَنْبِ ابْنِ آدَمَ ، ثُمَّ قَرَأَ : {وَلَوْ یُؤَاخِذُ اللَّہُ النَّاسَ بِمَا کَسَبُوا}۔
(٣٥٧٠٧) حضرت عبداللہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں قریب ہے کہ بھنورے کو بھی اپنی بل میں ابن آدم کے گناہ کی وجہ سے عذاب دیا جائے پھر آپ (رض) نے یہ آیت پڑھی : { وَلَوْ یُؤَاخِذُ اللَّہُ النَّاسَ بِمَا کَسَبُوا }۔

35707

(۳۵۷۰۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِی الأَحْوَصِ ، قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللہِ : لاَ تُغَالِبُوا ہَذَا اللَّیْلَ فَإِنَّکُمْ لاَ تُطِیقُونَہُ ، فَإِذَا نَعَسَ أَحَدُکُمْ فَلْیَنَمْ عَلَی فِرَاشِہِ فَإِنَّہُ أَسْلَمُ۔
(٣٥٧٠٨) حضرت ابوالاحوص سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ نے فرمایا : تم لوگ اس رات پر غلبہ حاصل نہ کرو کیونکہ تم اس کی طاقت نہیں رکھتے۔ پس جب تم میں سے کسی کو اونگھ آئے تو اس کو چاہیے کہ وہ اپنے بستر پر سو جائے۔ کیونکہ یہ زیادہ بہتر بات ہے۔

35708

(۳۵۷۰۹) حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ ، عَنْ سُفْیَانَ بْنِ حُسَیْنٍ ، عَنْ أَبِی الْحَکَمِ ، عَنْ أَبِی وَائِلٍ ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ ، قَالَ : مَا أَحَدٌ مِنَ النَّاسِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ إِلاَّ یَتَمَنَّی أَنَّہُ کَانَ یَأْکُلُ فِی الدُّنْیَا قُوتًا ، وَمَا یَضُرُّ أَحَدُکُمْ عَلَی أَیِّ حَالٍ أَمْسَی وَأَصْبَحَ مِنَ الدُّنْیَا أَنْ لاَ تَکُونَ فِی النَّفْسِ حَزَازَۃٌ ، وَلأنْ یَعَضَّ أَحَدُکُمْ عَلَی جَمْرَۃٍ حَتَّی تُطْفَأَ خَیْرٌ مِنْ أَنْ یَقُولَ لأَمْرٍ قَضَاہُ اللَّہُ : لَیْتَ ہَذَا لَمْ یَکُنْ۔ (ابو نعیم ۱۳۷۔ احمد ۱۱۷)
(٣٥٧٠٩) حضرت ابن مسعود (رض) سے روایت ہے وہ کہتے ہیں لوگوں میں سے ہر ایک قیامت کے دن اس بات کی خواہش کرے گا کہ وہ دنیا میں جو کچھ کھاتا تھا وہ قوت ۔۔۔ زندگی بچانے کی مقدار کھانا ۔۔۔ ہوتا اور تم میں سے کسی کو دنیا کی صبح وشام ۔۔۔ جس حالت کی بھی ہو ۔۔۔ نقصان نہیں دے گی اگر اس کے دل میں درد نہ ہو۔ اور تم میں سے کوئی انگارے کو پکڑے یہاں تک کہ وہ بجھ جائے یہ کام اس بات سے بہتر ہے کہ آدمی خدا کے کسی فیصلہ شدہ کام کے بارے میں یہ کہے : کاش کہ یہ نہ ہوتا۔

35709

(۳۵۷۱۰) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِِ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِی عُبَیْدَۃَ ، قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللہِ : إِنَّہُ لَمَکْتُوبٌ فِی التَّوْرَاۃِ : لَقَدْ أَعَدَّ اللَّہُ لِلَّذِینَ تَتَجَافَی جَنُوبُہُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ مَا لَمْ تَرَ عَیْنٌ وَلَمْ تَسْمَعْ أُذُنٌ وَلَمْ یَخْطُرْ عَلَی قَلْبِ بَشَرٍ ، وَمَا لاَ یَعْلَمُہُ مَلَکٌ ، وَلاَ مُرْسَلٌ، قَالَ: وَنَحْنُ نَقْرَأُہَا: {فَلاَ تَعْلَمُ نَفْسٌ مَا أُخْفِیَ لَہُمْ مِنْ قُرَّۃِ أَعْیُنٍ}۔
(٣٥٧١٠) حضرت ابوعبیدہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ نے فرمایا : یقیناً یہ بات توراۃ میں لکھی ہوئی ہے۔ تحقیق اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے لیے جن کے پہلو خوابگاہوں سے جدا رہتے ہیں ایسی نعمتیں تیار کی ہیں جن کو کسی آنکھ نے دیکھا نہیں اور کسی کان نے سنا نہیں اور کسی بندہ کے دل پر ان کا خیال نہیں گزرا اور جن کو کوئی فرشتہ، رسول نہیں جانتا۔ پھر فرمایا : ہم اس بات کو (یہاں) پڑھتے ہیں : { فَلاَ تَعْلَمُ نَفْسٌ مَا أُخْفِیَ لَہُمْ مِنْ قُرَّۃِ أَعْیُنٍ }

35710

(۳۵۷۱۱) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ مُسْلِمٍ الْبَطِینِ ، عَنْ عَدَسَۃَ الطَّائِیِّ ، قَالَ : أُتِیَ عَبْدُ اللہِ بِطَیْرٍ صِیدَ بِشِرَافٍ ، فَقَالَ عَبْدُ اللہِ : لَوَدِدْت أَنِّی بِحَیْثُ صِیدَ ہَذَا الطَّیْرُ ، لاَ یُکَلِّمُنِی بَشَرٌ ، وَلاَ أُکَلِّمُہُ حَتَّی أَلْقَی اللَّہَ۔
(٣٥٧١١) حضرت عدسہ طائی سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ کے پاس مقام شراف سے شکار کردہ ایک پرندہ لایا گیا تو آپ (رض) نے فرمایا : مجھے یہ بات محبوب ہے کہ میں اس مقام پر رہوں جہاں اس پرندہ کو شکار کیا گیا ہے۔ نہ مجھ سے کوئی بشر کلام کرے اور نہ میں کسی بشر سے کلام کروں یہاں تک کہ میں اللہ سے مل جاؤں۔

35711

(۳۵۷۱۲) حَدَّثَنَا جَرِیرُ بْنُ عَبْدِ الْحَمِیدِ ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِیزِ بْنِ رُفَیْعٍ ، عَنْ خَیْثَمَۃ ، قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللہِ : انْظُرُوا النَّاسَ عِنْدَ مَضَاجِعِہِمْ ، فَإِذَا رَأَیْتُمَ الْعَبْدَ یَمُوتُ عَلَی خَیْرِ مَا تَرَوْنَہُ فَارْجُوَا لَہُ الْخَیْرَ ، وَإِذَا رَأَیْتُمُوہُ یَمُوتُ عَلَی شَرِّ مَا تَرَوْنَہُ فَخَافُوا عَلَیْہِ ، فَإِنَّ الْعَبْدَ إذَا کَانَ شَقِیًّا وَإِنْ أَعْجَبَ النَّاسَ بَعْضُ عَمَلِہِ قُیِّضَ لَہُ شَیْطَانٌ فَأَرْدَاہُ وَأَہْلَکَہُ حَتَّی یُدْرِکَہُ الشَّقَائُ الَّذِی کُتِبَ عَلَیْہِ ، وَإِذَا کَانَ سَعِیدًا وَإِنْ کَانَ النَّاسُ یَکْرَہُونَ بَعْضَ عَمَلِہِ قُیِّضَ لَہُ مَلَکٌ فَأَرْشَدَہُ وَسَدَّدَہُ حَتَّی تُدْرِکَہُ السَّعَادَۃُ الَّتِی کُتِبَتْ لَہُ۔
(٣٥٧١٢) حضرت خیثمہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ نے فرمایا : لوگوں کو ان کی خواب گاہوں کے پاس دیکھو۔ پس جب تم کسی بندے کو بہترین حالت پر مرتے دیکھو تو اس کے لیے خیر کی امید رکھو اور جب تم کسی بندے کو بدترین حالت میں مرتے دیکھو تو پھر تم اس پر خوف کرو۔ کیونکہ جب بدبخت ہوتا ہے ۔۔۔ تو اگرچہ اس کے بعض اعمال لوگوں کو متعجب کرتے ہیں ۔۔۔ تو اس کے لیے ایک شیطان مقرر کردیا جاتا ہے وہ اس کو بہکاتا ہے اور ہلاکت میں ڈال دیتا ہے یہاں تک کہ وہ بدبختی اس کو پالیتی ہے جو اس کا مقدر ہوتی ہے اور جب بندہ خوش بخت ہوتا ہے ۔۔۔ اگرچہ اس کے بعض اعمال لوگوں کو ناپسند ہوتے ہیں ۔۔۔ اس کے لیے ایک فرشتہ مقرر کردیا جاتا ہے جو اس کی راہنمائی کرتا ہے اور راہ راست پر لگاتا ہے۔ یہاں تک کہ اس کو مقدر کی سعادت پالیتی ہے۔

35712

(۳۵۷۱۳) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ عُمَارَۃَ ، عَنْ أَبِی الأَحْوَصِ ، قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللہِ : تَعَوَّدُوا الْخَیْرَ فَإِنَّمَا الْخَیْرُ فِی الْعَادَۃِ۔
(٣٥٧١٣) حضرت ابوالاحوص سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ نے فرمایا : خیر کی عادت بناؤ۔ کیونکہ عادت میں بہتری ہے۔

35713

(۳۵۷۱۴) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ خَیْثَمَۃ ، عَنِ الأَسْوَدِ ، قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللہِ : مَا مِنْ نَفْسٍ بَرَّۃٍ ، وَلاَ فَاجِرَۃٍ إِلاَّ وَإِنَّ الْمَوْتَ خَیْرٌ لَہَا مِنَ الْحَیَاۃِ ، لَئِنْ کَانَ بَرًّا لَقَدْ قَالَ اللَّہُ : {وَمَا عِنْدَ اللہِ خَیْرٌ لِلأَبْرَارِ} وَلَئِنْ کَانَ فَاجِرًا لَقَدْ قَالَ اللَّہُ : {وَلاَ یَحْسَبَنَّ الَّذِینَ کَفَرُوا أَنَمَّا نُمْلِی لَہُمْ خَیْرٌ لأَنْفُسِہِمْ إنَّمَا نُمْلِی لَہُمْ لِیَزْدَادُوا إِثْمًا وَلَہُمْ عَذَابٌ مُہِینٌ}۔
(٣٥٧١٤) حضرت اسود سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ نے فرمایا : نفس اچھا ہو یا برا ہو۔ بہرحال موت اس کے لیے زندگی سے بہتر ہے۔ اگر نفس نیک ہو تو ارشاد خداوندی ہے : { وَمَا عِنْدَ اللہِ خَیْرٌ لِلأَبْرَارِ } اور اگر نفس برا ہو تو ارشاد خداوندی ہے : { وَلاَ یَحْسَبَنَّ الَّذِینَ کَفَرُوا أَنَمَّا نُمْلِی لَہُمْ خَیْرٌ لأَنْفُسِہِمْ إنَّمَا نُمْلِی لَہُمْ لِیَزْدَادُوا إِثْمًا وَلَہُمْ عَذَابٌ مُہِینٌ}۔

35714

(۳۵۷۱۵) حَدَّثَنَا شَبَابَۃُ بْنُ سَوَّارٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا شُعْبَۃُ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مُرَّۃَ ، عَنْ أَبِی کَنَفٍ ، أَنَّ رَجُلاً رَأَی رُؤْیَا فَجَعَلَ یَقُصُّہَا عَلَی ابْنِ مَسْعُودٍ وَہُوَ سَمِینٌ ، فَقَالَ ابْنُ مَسْعُودٍ : إنِّی لأَکْرَہُ أَنْ یَکُونَ الْقَارِئُ سَمِینًا ، قَالَ الأَعْمَشُ : فَذَکَرْت ذَلِکَ لإِبْرَاہِیمَ ، فَقَالَ : سَمِینٌ نَسِیٌّ لِلْقُرْآنِ۔
(٣٥٧١٥) حضرت ابوکنف سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے خواب دیکھا۔ چنانچہ اس نے وہ خواب حضرت ابن مسعود (رض) کو بیان کرنا شروع کیا ۔۔۔ وہ آدمی موٹا تھا ۔۔۔ حضرت ابن مسعود (رض) نے فرمایا : میں اس بات کو ناپسند کرتا ہوں کہ قاری موٹا ہو ۔۔۔ راوی اعمش کہتے ہیں ۔۔۔ میں نے یہ روایت حضرت ابراہیم سے ذکر کی تو انھوں نے فرمایا : موٹا آدمی قرآن کو بھلا دیتا ہے۔

35715

(۳۵۷۱۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، عَنْ سُفْیَانَ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ، عَنْ أَبِی الأَحْوَصِ، قَالَ: قَالَ عَبْدُاللہِ: مَعَ کُلِّ فَرْحَۃٍ تَرْحَۃٌ۔
(٣٥٧١٦) حضرت ابوالاحوص سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ نے فرمایا : ہر خوشی کے ساتھ غم ہوتا ہے۔

35716

(۳۵۷۱۷) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِی الضُّحَی ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، قَالَ: أُتِیَ عَبْدُ اللہِ بِشَرَابٍ، فَقَالَ : أَعْطِہِ عَلْقَمَۃَ ، قَالَ : إنِّی صَائِمٌ ، ثُمَّ قَالَ : أعْطِہ الأَسْوَدَ ، فَقَالَ : إنِّی صَائِمٌ ، حَتَّی مَرَّ بِکُلِّہِمْ ، ثُمَّ أَخَذَہُ فَشَرِبَہُ ، ثُمَّ تَلاَ ہَذِہِ الآیَۃَ : {یَخَافُونَ یَوْمًا تَتَقَلَّبُ فِیہِ الْقُلُوبُ وَالأَبْصَارُ}۔
(٣٥٧١٧) حضرت مسروق سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ کے پاس کوئی مشروب لایا گیا تو آپ (رض) نے فرمایا : یہ مشروب علقمہ کو دے دو ۔ علقمہ نے کہا : میں روزے سے ہوں۔ پھر آپ (رض) نے فرمایا : یہ مشروب اسود کو دے دو ۔ اسود نے کہا میں روزے سے ہوں۔ یہاں تک کہ سب لوگوں کے پاس سے وہ مشروب ہو آیا پھر آپ نے خود وہ مشروب پکڑا اور اس کو نوش فرمایا پھر یہ آیت پڑھی : { یَخَافُونَ یَوْمًا تَتَقَلَّبُ فِیہِ الْقُلُوبُ وَالأَبْصَارُ }

35717

(۳۵۷۱۸) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِی وَائِلٍ ، قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللہِ : مَا شَبَّہْت مَا غَبَرَ مِنَ الدُّنْیَا إِلاَّ الثَّغْب شُرِبَ صَفْوُہُ وَبَقِیَ کَدَرُہُ ، وَلاَ یَزَالُ أَحَدُکُمْ بِخَیْرٍ مَا اتَّقَی اللَّہَ ، وَإِذَا حَاکَ فِی صَدْرِہِ شَیْئٌ أَتَی رَجُلاً فَشَفَاہُ مِنْہُ ، وَایْمُ اللہِ لأَوْشَکَ أَنْ لاَ تَجِدُوہُ۔
(٣٥٧١٨) حضرت عبداللہ فرماتے ہیں : جس قدر دنیا گزر گئی ہے اس کی مثال اس کوہ دامن کی سی ہے جس کی صفائی ختم اور کدورت باقی ہو اور تم میں سے ایک جب تک اللہ سے ڈرے گا خیر پر ہوگا اور جب اس کے دل میں کوئی بات کھٹکے اور وہ آدمی کے پاس آئے اور اس سے شفا پالے۔ خدا کی قسم ! ہوسکتا ہے کہ تم اس کو نہ پاؤ۔

35718

(۳۵۷۱۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنِ الْمُسَیَّبِ ، عَنْ وَائِلِ بْنِ رَبِیعَۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : مَا حَالٌ أَحَبُّ إِلَی اللہِ یَرَی الْعَبْدَ عَلَیْہَا مِنْہُ وَہُوَ سَاجِدٌ۔
(٣٥٧١٩) حضرت عبداللہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کو اس حالت سے زیادہ کوئی حالت پسند نہیں ہے کہ وہ بندہ کو سجدہ میں دیکھے۔

35719

(۳۵۷۲۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ زُبَیْدٍ ، عَنْ مُرَّۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : إنَّ اللَّہَ یُعْطِی الدُّنْیَا مَنْ یُحِبُّ وَمَنْ لاَ یُحِبُّ ، وَلاَ یُعْطِی الإِیمَانَ إِلاَّ مَنْ یُحِبُّ ، فَإِذَا أَحَبَّ اللَّہُ عَبْدًا أَعْطَاہُ الإِیمَانَ ، فَمَنْ جَبُنَ مِنْکُمْ عَنِ اللَّیْلِ أَنْ یُکَابِدَہُ ، وَالْعَدُوِّ أَنْ یُجَاہِدَہُ ، وَضَنَّ بِالْمَالِ أَنْ یُنْفِقَہُ ، فَلْیُکْثِرْ مِنْ سُبْحَانَ اللہِ وَالْحَمْدُ لِلَّہِ ، وَلاَ إلَہَ إِلاَّ اللَّہُ ، وَاللَّہُ أَکْبَرُ۔
(٣٥٧٢٠) حضرت عبداللہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں : یقیناً اللہ تعالیٰ دنیا اس کو دیتے ہیں جس سے محبت کرتے ہیں اور جس سے محبت نہیں کرتے لیکن ایمان اسی کو عطا کرتے ہیں جس سے محبت کرتے ہیں۔ جب اللہ تعالیٰ کسی بندے سے محبت کرتے ہیں تو اس کو ایمان عطا کرتے ہیں۔ پس جو شخص تم میں سے رات کے وقت مشقت برداشت کرنے سے ڈرتا ہو اور دشمن کے ساتھ جہاد کرنے سے بزدل ہو اور مال کو خرچ کرنے میں بخیل ہو تو وہ کثرت سے سُبْحَانَ اللہِ وَالْحَمْدُ لِلَّہِ ، وَلاَ إلَہَ إِلاَّ اللَّہُ ، وَاللَّہُ أَکْبَرُ پڑھے۔

35720

(۳۵۷۲۱) حَدَّثَنَا عِیسَی بْنُ یُونُسَ ، عَنْ مِسْعَرٍ ، عَنْ عَوْنِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُتْبَۃَ ، قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللہِ : إنَّ الْجَبَلَ لَیُنَادِی بِالْجَبَلِ : ہَلْ مَرَّ بِکَ الْیَوْمَ مِنْ ذَاکِرٍ لِلَّہِ۔
(٣٥٧٢١) حضرت عبداللہ فرماتے ہیں : بیشک پہاڑ، پہاڑ کو آواز دے کر کہتا ہے۔ کیا آج کے دن تم پر سے کوئی خدا کا ذکر کرنے والا گزرا ہے ؟ “

35721

(۳۵۷۲۲) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مُرَّۃَ ، قَالَ : قَالَ أَبُو الدَّرْدَائِ : اعْبُدُوا اللَّہَ کَأَنَّکُمْ تَرَوْنَہُ ، وَعُدُّوا أَنْفُسَکُمْ مِنَ الْمَوْتَی ، وَاعْلَمُوا أَنَّ قَلِیلاً یُغْنِیکُمْ خَیْرٌ مِنْ کَثِیرٍ یُلْہِیکُمْ ، واعْلَمُوا أَنَّ الْبِرَّ لاَ یَبْلَی ، وَأَنَّ الإِثْمَ لاَ یُنْسَی۔
(٣٥٧٢٢) حضرت عبداللہ بن مرہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت ابوالدرداء (رض) نے فرمایا : تم اللہ کی عبادت اس طرح کرو گویا کہ تم اس کو دیکھ رہے ہو اور اپنے آپ کو مردوں میں شمار کرو۔ اور یہ بات جان لو کہ وہ تھوڑا جو تمہیں کفایت کر جائے اس کثیر سے بہتر ہے جو تمہیں غافل کرے اور جان لو کہ نیکی پرانی نہیں ہوتی اور گناہ بھلایا نہیں جاتا۔

35722

(۳۵۷۲۳) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَنْ زَائِدَۃَ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ عُمَیْرٍ ، عَنْ رَجَائِ بْنِ حَیْوَۃَ ، قَالَ : جَمَعَ أَبُو الدَّرْدَائِ أَہْلَ دِمَشْقَ ، فَقَالَ : اسْمَعُوا مِنْ أَخٍ لَکُمْ نَاصِحٌ : أَتَجْمَعُونَ مَا لاَ تَأْکُلُونَ ، وَتُؤَمِّلُونَ مَا لاَ تُدْرِکُونَ، وَتَبْنُونَ مَا لاَ تَسْکُنُونَ، أَیْنَ الَّذِینَ کَانُوا مِنْ قَبْلِکُمْ ، فَجَمَعُوا کَثِیرًا وَأَمَّلُوا بَعِیدًا وَبَنَوْا شَدِیدًا، فَأَصْبَحَ جَمْعُہُمْ بُورًا ، وَأَصْبَحَ أَمَلُہُمْ غُرُورًا ، وَأَصْبَحَتْ دِیَارُہُمْ قُبُورًا۔
(٣٥٧٢٣) حضرت رجاء بن حیوہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت ابوالدرداء (رض) نے اہل دمشق کو جمع فرمایا پھر ارشاد فرمایا : اپنے خیر خواہ بھائی سے سن لو کیا تم وہ جمع کرتے ہو جس کو تم کھاؤ گے نہیں۔ اور تم اس چیز کی امید کرتے ہو جس کو تم پاؤ گے نہیں۔ اور تم وہ کچھ بناتے ہو جس میں تم نے رہنا نہیں ہے۔ وہ لوگ کہاں ہیں جو تم سے پہلے تھے ؟ انھوں نے بہت کچھ جمع کیا اور دور دور کی امیدیں باندھیں۔ اور سخت (عمارتیں) بنائیں۔ پھر ان کی جمع کردہ چیزیں بیکار ہوگئیں اور ان کی امیدیں، دھوکا ہوگئیں اور ان کے گھر قبور بن گئے۔

35723

(۳۵۷۲۴) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ حَبِیبٍ ، قَالَ : کَانَ أَبُو الدَّرْدَائِ لاَ یَمُرُّ عَلَی قَرْیَۃٍ إِلاَّ قَالَ : أَیْنَ أَہلکِ ؟ ثُمَّ یَقُولُ : ذَہَبُوا وَبَقِیَتِ الأَعْمَالُ۔
(٣٥٧٢٤) حضرت حبیب سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت ابوالدردائ، جس بستی پر سے بھی گزرتے، فرماتے تیرے اہل کہاں ہیں ؟ پھر آپ (رض) فرماتے : وہ تو چلے گئے ہیں لیکن اعمال باقی رہ گئے ہیں۔

35724

(۳۵۷۲۵) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ مَالِکِ بْنِ مِغْوَلٍ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ عُمَیْرٍ ، قَالَ : قَالَ أَبُو الدَّرْدَائِ : مَنْ أَکْثَرَ ذِکْرَ الْمَوْتِ قَلَّ حَسَدُہُ وَقَلَّ فَرَحُہُ۔
(٣٥٧٢٥) حضرت عبدالملک بن عمیر سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت ابوالدرداء فرماتے ہیں جو موت کا کثرت سے ذکر کرے گا اس کا حسد کم ہوگا اور اس کی خوشی کم ہوگی۔

35725

(۳۵۷۲۶) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ الثَّقَفِیُّ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنْ أَبِی قِلاَبَۃَ ، عَنْ أَبِی الدَّرْدَائِ ، قَالَ : لاَ تَفْقَہُ کُلَّ الْفِقْہِ حَتَّی تَمْقُتَ النَّاسَ فِی جَنْبِ اللہِ ، ثُمَّ تَرْجِعَ إِلَی نَفْسِکَ فَتَکُونَ أَشَدَّ لَہَا مَقْتًا۔
(٣٥٧٢٦) حضرت ابوالدرداء (رض) سے روایت ہے وہ کہتے ہیں تم اس وقت تک مکمل فقیہ نہیں ہوسکتے جب تک تم خدا کے لیے لوگوں پر غصہ نہ کرو۔ پھر تم اپنے نفس کی طرف لوٹو تو تمہیں نفس پر اور زیادہ غصہ ہو۔

35726

(۳۵۷۲۷) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ خَالِدِ بْنِ دِینَارٍ ، عَنْ مُعَاوِیَۃَ بْنِ قُرَّۃَ ، قَالَ : قَالَ أَبُو الدَّرْدَائِ : لَیْسَ الْخَیْرُ أَنْ یَکثر مَالُک وَوَلَدُک ، وَلَکِنَّ الْخَیْرَ أَنْ یَعْظُمَ حِلْمُک ، وَأَنْ یَکْثُرَ عَمَلُک ، وَأَنْ تُبَارِیَ النَّاسَ فِی عِبَادَۃِ اللہِ ، فَإِنْ أَحْسَنْت حَمِدْت اللَّہَ ، وَإِنْ أَسَأْت اسْتَغْفَرْت اللَّہَ۔
(٣٥٧٢٧) حضرت معاویہ بن قرہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت ابوالدرداء (رض) نے فرمایا : یہ بات خیر نہیں ہے کہ تمہاری اولاد اور مال کثیر ہوجائے بلکہ خیر یہ ہے کہ تیرا حلم بڑھ جائے اور تیرا عمل زیادہ ہوجائے اور خدا کی عبادت میں تو دیگر لوگوں پر سبقت لے جائے۔ پھر اگر تو اچھا کام کرے تو خدا کی حمد کرے اور اگر تو برا کام کرے تو اللہ سے معافی مانگے۔

35727

(۳۵۷۲۸) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِی الْجَعْدِ ، عَنْ أُمِّ الدَّرْدَائِ ، عَنْ أَبی الدَّرْدَائِ ، قَالَ : تَفَکُّرُ سَاعَۃٍ خَیْرٌ مِنْ قِیَامِ لَیْلَۃٍ۔
(٣٥٧٢٨) حضرت ابوالدرداء (رض) سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ ایک گھڑی کا غور وفکر رات بھر کے قیام سے بہتر ہے۔

35728

(۳۵۷۲۹) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِی الْجَعْدِ ، عَنْ أُمِّ الدَّرْدَائِ ، قَالَ : قیلَ لَہَا : مَا کَانَ أَفْضَلَ عَمَلِ أَبِی الدَّرْدَائِ ، قَالَتْ : التَّفَکُّرُ۔
(٣٥٧٢٩) حضرت سالم بن ابی الجعد، ام درداء (رض) سے روایت کرتے ہیں کہتے ہیں کہ اُن (ام درداء (رض) ) سے پوچھا گیا کہ حضرت ابوالدرداء (رض) کا افضل ترین عمل کیا تھا ؟ انھوں نے فرمایا : تفکر۔

35729

(۳۵۷۳۰) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ الحُبَاب ، عَنْ مُعَاوِیَۃَ بْنِ صَالِحٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ جُبَیْرِ بْنِ نُفَیْرٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ أَبِی الدَّرْدَائِ ، قَالَ : إنَّ الَّذِینَ لاَ تَزَالُ أَلْسِنَتُہُمْ رَطْبَۃً مِنْ ذِکْرِ اللہِ یَدْخُلُونَ الْجَنَّۃَ وَہُمْ یَضْحَکُونَ۔
(٣٥٧٣٠) حضرت ابوالدرداء (رض) سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ جن لوگوں کی زبانیں خدا کے ذکر سے مسلسل تر رہتی ہیں وہ جنت میں اس حال میں داخل ہوں گے کہ وہ ہنستے ہوں گے۔

35730

(۳۵۷۳۱) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ، عَنْ أَبِی بَکْرِ بْنِ مُحَمَّدٍ أَنَّ أَبَا عَوْنٍ أَخْبَرَہُ، أَنَّ أَبَا الدَّرْدَائِ کَانَ یَقُولُ : مَا بِتُّ مِنْ لَیْلَۃٍ فَأَصْبَحْت لَمْ یَرْمِنی النَّاسُ فِیہَا بِدَاہِیَۃٍ إِلاَّ رَأَیْت أَنَّ عَلَیَّ مِنَ اللہِ نِعْمَۃٌ۔
(٣٥٧٣١) حضرت ابوالدرداء (رض) کہا کرتے تھے۔ میں نے جو رات بھی اس طرح گزاری ہے کہ صبح کو لوگ مجھے اس رات میں کسی مصیبت میں مبتلا کرتے ہیں تو میں یہی سمجھتا ہوں کہ یہ مجھ پر خدا کی نعمت ہے۔

35731

(۳۵۷۳۲) حَدَّثَنَا ابْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ زِیَادِ بْنِ فَیَّاضٍ ، عَنْ أَبِی حَازِمٍ ، قَالَ : قالَتْ أُمُّ الدَّرْدَائِ لأبی الدرداء : یَجِیئُ الشَّیْخُ فَیُصَلِّی ، وَیَجِیئُ الشَّابُّ فَلاَ یُصَلِّی ، فَقَالَ أَبُو الدَّرْدَائِ : کُلٌّ فِی ثَوَابٍ قَدْ أُعِدَّ لَہُ۔
(٣٥٧٣٢) حضرت ابوحازم سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت ام درداء (رض) نے حضرت ابوالدرداء (رض) سے کہا : بوڑھا آتا ہے تو نماز پڑھتا ہے اور جوان آتا ہے تو نماز نہیں پڑھتا۔ اس پر حضرت ابوالدرداء (رض) نے فرمایا : ہر کوئی ثواب میں ہے اور اسی کے لیے تیار کیا گیا ہے۔

35732

(۳۵۷۳۳) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ عَبْدِ الْحَمِیدِ بْنِ جَعْفَرٍ ، قَالَ : حدَّثَنِی صَالِحُ بْنُ أَبِی عَرِیبٍ ، عَنْ کَثِیرِ بْنِ مُرَّۃَ الْحَضْرَمِیِّ ، قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا الدَّرْدَائِ یَقُولُ : أَلاَ أُخْبِرُکُمْ بِخَیْرِ أَعْمَالِکُمْ ، أَحَبِّہَا إِلَی مَلِیکِکُمْ ، وَأَنْمَاہَا فِی دَرَجَاتِکُمْ ، خَیْرٌ مِنْ أَنْ تَغْزُوْا عَدُوَّکُمْ فَیَضْرِبُوا رِقَابَکُمْ وَتَضْرِبُوا رِقَابَہُمْ ، خَیْرٌ مِنْ إعْطَائِ الدَّنَانِیرِ وَالدَّرَاہِمِ ، قَالُوا : وَمَا ہُوَ یَا أَبَا الدَّرْدَائِ ، قَالَ : ذِکْرُ اللَّہِ ، ولَذِکْرُ اللہِ أَکْبَرُ۔
(٣٥٧٣٣) حضرت کثیر بن مرہ حضرمی سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوالدرداء (رض) کو کہتے سنا۔ کیا میں تمہیں بہترین اعمال کا نہ بتاؤں جو تمہارے مالک کو زیادہ محبوب ہے اور تمہارے درجات کو زیادہ بڑھانے والا ہے۔ اس سے بھی بہتر ہے کہ تم اپنے دشمن سے لڑو، وہ تمہاری گردنیں مارے اور تم ان کی گردنیں مارو۔ دراہم ودنانیر دینے سے بہتر ہے ؟ لوگوں نے پوچھا : اے ابوالدرداء (رض) ! یہ کیا ہے ؟ آپ (رض) نے فرمایا : ذکر خدا۔ اور اللہ کا ذکر بہت بڑی چیز ہے۔

35733

(۳۵۷۳۴) حَدَّثَنَا جَرِیرُ بْنُ عَبْدِ الْحَمِیدِ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ أَبِی وَائِلٍ، عَنْ أَبِی الدَّرْدَائِ، قَالَ: إنِّی لآمُرُکُمْ بِالأَمْرِ، وَمَا أَفْعَلُہُ وَلَکِنِّی أَرْجُو فِیہِ الأَجْرَ ، وَإِنَّ أَبْغَضَ النَّاسِ إلَیَّ أَنْ أَظْلِمَہُ الَّذِی لاَ یَسْتَعِینُ عَلَیَّ إِلاَّ بِاللہِ۔
(٣٥٧٣٤) حضرت ابوالدرداء (رض) سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں تمہیں ایک کام کا حکم دیتا ہوں جبکہ میں اس کو خود نہیں کرتا۔ لیکن میں اس میں اجر کی امید رکھتا ہوں اور مجھے کسی پر ظلم کرتے ہوئے اس بندے پر بہت بغض آتا ہے جو میرے بارے میں صرف خدا سے مدد مانگے۔

35734

(۳۵۷۳۵) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا وُہَیْبٌ ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُوسَی بْنُ عُقْبَۃَ، قَالَ: حَدَّثَنِی بِلاَلُ بْنُ سَعْدٍ الْکِنْدِیِّ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ أَبِی الدَّرْدَائِ ، أَنَّہُ کَانَ إذَا ذَکَرَ الدُّنْیَا ، قَالَ : إِنَّہَا مَلْعُونَۃٌ مَلْعُونٌ مَا فِیہَا۔
(٣٥٧٣٥) حضرت ابوالدرداء (رض) کے بارے میں روایت ہے کہ جب وہ دنیا کا ذکر کرتے تھے تو فرماتے دنیا اور جو کچھ اس میں ہے سب ملعون ہے۔

35735

(۳۵۷۳۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ أَبِی ہِلاَلٍ ، عَنْ مُعَاوِیَۃَ بْنِ قُرَّۃَ ، قَالَ : مَرَضَ أَبُو الدَّرْدَائِ فَعَادُوہُ فَقَالُوا : أَیَّ شَیْئٍ تَشْتَکِی ، قَالَ: ذُنُوبِی ، قِیلَ: أَیَّ شَیْئٍ تَشْتَہِی ، قَالَ: الْجَنَّۃَ ، قِیلَ: نَدْعُو لَک الطَّبِیبَ ، قَالَ: ہُوَ أَضْجَعَنِی۔
(٣٥٧٣٦) حضرت معاویہ بن قرہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت ابوالدرداء (رض) بیمار ہوئے تو لوگوں نے ان کی عیادت کی۔ لوگوں نے پوچھا : آپ کو کس چیز کی شکایت ہے ؟ فرمایا : اپنے گناہوں کی۔ پوچھا گیا کس چیز کی چاہت ہے ؟ فرمایا : جنت کی۔ کہا گیا ہم آپ کے لیے کوئی طبیب بلائیں ؟ فرمایا : اسی نے تو مجھے بستر پر ڈالا ہے۔

35736

(۳۵۷۳۷) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا شَیْخٌ مِنَّا ، یُقَالَ لَہُ : الْحَکَمُ بْنُ الْفُضَیْلِ ، عَنْ زَیْدِ بْنِ أَسْلَمَ ، قَالَ: قَالَ أَبُو الدَّرْدَائِ : الْتَمِسُوا الْخَیْرَ دَہْرَکُمْ کُلَّہُ ، وَتَعَرَّضُوا لِنَفَحَاتِ رَحْمَۃِ اللہِ ، فَإِنَّ لِلَّہِ فَحَاتٍ مِنْ رَحْمَتِہِ یُصِیبُ بِہَا مَنْ یَشَائُ مِنْ عِبَادِہِ ، وَسَلُوا اللَّہَ أَنْ یَسْتُرَ عَوْرَاتِکُمْ وَیُؤَمِّنَ رَوْعَاتِکُمْ۔
(٣٥٧٣٧) حضرت زید بن اسلم سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت ابوالدرداء (رض) نے فرمایا : تم اپنی پوری زندگی خیر ہی تلاش کرتے رہو اور خدا کی رحمت کے جھونکوں کے سامنے پیش ہوتے رہو کیونکہ اللہ کی رحمت کے کچھ جھونکے ہوتے ہیں جو اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتے ہیں پہنچاتے ہیں۔ اور اللہ سے سوال کرو کہ وہ تمہارے رازوں کو چھپائے اور تمہارے خوف کو امن دے۔

35737

(۳۵۷۳۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ ثَوْرٍ ، عَنْ سُلَیْمِ بْنِ عَامِرٍ ، عَنْ أَبِی الدَّرْدَائِ ، قَالَ : نِعْمَ صَوْمَعَۃُ الرَّجُلِ بَیْتُہُ ، یَحْفَظُ فِیہَا لِسَانَہُ وَبَصَرَہُ ، وَإِیَّاکَ وَالسُّوقَ فَإِنَّہَا تُلْغِی وَتُلْہِی۔
(٣٥٧٣٨) حضرت ابوالدرداء (رض) سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ آدمی کا بہترین عبادت خانہ اس کا گھر ہے جس میں وہ اپنی زبان اور اپنی نگاہ کی حفاظت کرتا ہے۔ اور خبردار، بازار سے بچو۔ کیونکہ یہ لغو میں مبتلا کرتا ہے اور غافل کردیتا ہے۔

35738

(۳۵۷۳۹) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا مِسْعَرٌ ، عَنْ عَوْنِ بْنِ عَبْدِ اللہِ ، عَنْ أَبِی الدَّرْدَائِ ، قَالَ : مَنْ یَتَفَقَّدْ یُفْقَد ، وَمَنْ لاَ یُعِدَّ الصَّبْرَ لِفَوَاجِعِ الأُمُورِ یَعْجِزْ ، قَالَ : وَقَالَ أَبُو الدَّرْدَائِ : إنْ قَارَضْت النَّاسَ قَارَضُوک ، وَإِنْ تَرَکْتہمْ لَمْ یَتْرُکُوک ، قَالَ : فَمَا تَأْمُرُنِی ، قَالَ : أَقْرِضْ مِنْ عَرَضِکَ لِیَوْمِ فَقْرِک۔
(٣٥٧٣٩) حضرت ابوالدرداء (رض) سے روایت ہے وہ کہتے ہیں جو شخص جائزہ لیتا ہے وہ محروم ہوجاتا ہے اور جو شخص غم گین امور میں صبر نہیں کرتا وہ عاجز ہوجاتا ہے۔ راوی کہتے ہیں حضرت ابودرداء (رض) نے فرمایا : اگر تو لوگوں کو قرض دے گا تو لوگ بھی تجھے قرض دیں گے اور اگر تو ان کو چھوڑ دے گا تو وہ تجھے نہیں چھوڑیں گے۔ راوی نے کہا : پھر آپ مجھے کیا حکم دیتے ہیں ؟ حضرت ابوالدردائ (رض) نے فرمایا : تو اپنی عزت سے اپنے فقر کے دن کے لیے قرض لے لے۔

35739

(۳۵۷۴۰) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ ، عَنْ أَبِی الْبَخْتَرِیِّ ، قَالَ : بَیْنَمَا أَبُو الدَّرْدَائِ یُوقِدُ تَحْتَ قِدْرٍ لَہُ وَسَلْمَانُ عِنْدَہُ إذْ سَمِعَ أَبُو الدَّرْدَائِ فِی الْقِدْرِ صَوْتًا ، ثُمَّ ارْتَفَعَ الصَّوْتُ بنشیج کَہَیْئَۃِ صَوْتِ الصَّبِیِّ ، قَالَ : ثُمَّ نَدَرَتِ الْقِدْرُ فَانْکَفَأَتْ ، ثُمَّ رَجَعَتْ إِلَی مَکَانِہَا لَمْ یَنْصَبَّ مِنْہَا شَیْئٌ ، فَجَعَلَ أَبُو الدَّرْدَائِ یُنَادِی : یَا سَلْمَانُ ، انْظُرْ إِلَی الْعَجَبِ ، انْظُرْ إِلَی مَا لَمْ تَنْظُرْ إِلَی مِثْلِہِ أَنْتَ ، وَلاَ أَبُوک ، فَقَالَ سَلْمَانُ : أَمَّا إنَّک لَوْ سَکَتّ لَسَمِعْت مِنْ آیَاتِ اللہِ الْکُبْرَی۔
(٣٥٧٤٠) حضرت ابوالبختری سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت ابوالدرداء (رض) کی ہانڈی کے نیچے آگ جل رہی تھی اور حضرت سلمان ان کے پاس تھے کہ اچانک حضرت ابوالدرداء (رض) نے ہانڈی میں سے ایک آواز سنی۔ پھر وہ آواز آنسو نکلنے کی آواز ہوگئی جیسے بچہ کی آواز ہوتی ہے۔ راوی کہتے ہیں پھر ہانڈی گرگئی اور اوندھی ہوگئی پھر وہ واپس اپنی جگہ آگئی لیکن اس میں سے کچھ بھی نہیں گرا تھا۔ پس حضرت ابوالدرداء (رض) نے آواز دینی شروع کی۔ اے سلمان ! عجیب بات دیکھو ! ایسی چیز دیکھو جس کی مثل نہ تم نے دیکھی نہ تمہارے باپ نے دیکھی۔ حضرت سلمان نے فرمایا : اگر آپ خاموش رہتے تو آپ اللہ تعالیٰ کی بڑی نشانیوں میں سے سنتے۔

35740

(۳۵۷۴۱) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ الْمُغِیرَۃِ ، عَنْ حُمَیْدِ بْنِ ہِلاَلٍ ، قَالَ : قَالَ أَبُو الدَّرْدَائِ : إنَّ أَخْوَف مَا أَخَافُ إذَا وَقَفْت عَلَی الْحِسَابِ أَنْ ، یُقَالَ لِی : قَدْ عَلِمْت فَمَا عَمِلْت فِیمَا عَلِمْت۔
(٣٥٧٤١) حضرت حمید بن ہلال سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت ابوالدرداء (رض) نے فرمایا : جب میں حساب کے لیے کھڑا ہوں تو مجھے جس بات سے سب سے زیادہ خوف ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ مجھے کہا جائے تحقیق تجھے علم تھا۔ پس جو تجھے علم تھا تو نے اس میں کیا عمل کیا ہے ؟ “

35741

(۳۵۷۴۲) حَدَّثَنَا مُعَاوِیَۃُ بْنُ ہِشَامٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ ، أَوْ غَیْرِہِ ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِی الْجَعْدِ ، قَالَ : مَرَّ ثَوْرَانِ عَلَی أَبِی الدَّرْدَائِ وَہُمَا یَعْمَلاَنِ ، فَقَامَ أَحَدُہُمَا فَقَامَ الآخَرُ ، فَقَالَ أَبُو الدَّرْدَائِ : إنَّ فِی ہَذَا لَمُعْتَبَرًا۔
(٣٥٧٤٢) حضرت سالم بن ابی الجعد سے روایت ہے وہ کہتے ہیں : دو بیل حضرت ابوالدرداء (رض) کے پاس سے گزرے وہ دونوں کام میں جتے ہوئے تھے۔ پھر ان میں سے ایک کھڑا ہوا تو دوسرا بھی کھڑا ہوگیا اس پر حضرت ابوالدرداء (رض) نے فرمایا : یقیناً اس میں عبرت ہے۔

35742

(۳۵۷۴۳) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ غَیْلاَنَ بْنِ بِشْر ، عَنْ یَعْلَی بْنِ الْوَلِیدِ ، قَالَ : کُنْتُ أَمْشِی مَعَ أَبِی الدَّرْدَائِ ، قَالَ : قُلْتُ : یَا أَبَا الدَّرْدَائِ ، مَا تُحِبُّ لِمَنْ تُحِبُّ ، قَالَ : الْمَوْتُ ، قَالَ : قُلْتُ لَہُ : فَإِنْ لَمْ یَمُتْ ، قَالَ : یَقِلُّ مَالُہُ وَوَلَدُہُ۔
(٣٥٧٤٣) حضرت یعلی بن ولید سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں حضرت ابوالدرداء (رض) کے ساتھ چلا جا رہا تھا کہتے ہیں میں نے کہا : اے ابوالدردائ (رض) ! آپ کو جس سے محبت ہے اس کے لیے آپ کیا پسند کرتے ہیں ؟ فرمایا : موت۔ راوی کہتے ہیں۔ میں نے آپ سے کہا : لیکن اگر وہ نہ مرے ؟ فرمایا : اس کے بچے اور مال کم ہو۔

35743

(۳۵۷۴۴) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سَعْدٍ الأَنْصَارِیِّ ، قَالَ : حدَّثَنِی عَبْدُ اللہِ بْنُ یَزِیدَ بْنِ رَبِیعَۃَ الدِّمَشْقِیُّ ، قَالَ : قَالَ أَبُو الدَّرْدَائِ : أَدْلَجْت ذَاتَ لَیْلَۃٍ إِلَی الْمَسْجِدِ ، فَلَمَّا دَخَلْت مَرَرْت عَلَی رَجُلٍ وَہُوَ سَاجِدٌ وَہُوَ یَقُولُ : اللَّہُمَ إنِّی خَائِفٌ مُسْتَجِیرٌ فَأَجِرْنِی مِنْ عَذَابِکَ ، وَسَائِلٌ فَقِیرٌ فَارْزُقْنِی مِنْ فَضْلِکَ ، لاَ بَرِیئٌ مِنْ ذَنْبٍ فَأَعْتَذِرُ ، وَلاَ ذُو قُوَّۃٍ فَأَنْتَصِرُ ، وَلَکِنی مُذْنِبٌ مُسْتَغْفِرٌ ، قَالَ : فَأَصْبَحَ أَبُو الدَّرْدَائِ یُعَلِّمُہُنَّ أَصْحَابَہُ إعْجَابًا بِہِنَّ۔
(٣٥٧٤٤) حضرت عبداللہ بن یزید بیان کرتے ہیں کہتے ہیں کہ حضرت ابودرداء (رض) نے فرمایا : میں ایک رات منہ اندھیرے مسجد کی طرف گیا۔ پس جب میں داخل ہوا تو میں ایک آدمی کے پاس سے گزرا۔ وہ سجدہ میں تھا اور کہہ رہا تھا۔ اے اللہ ! میں خوفزدہ ہوں، پناہ کا طالب ہوں پس تو مجھے اپنے عذاب سے پناہ دے دے۔ اور میں مانگنے والا فقیر ہوں پس تو مجھے اپنے فضل میں سے رزق دے دے۔ میں گناہ سے بری نہیں ہوں لیکن تو (میرا) عذر قبول کرلے اور نہ میں طاقت ور ہوں لیکن تو میری مدد فرما۔ بلکہ میں گناہ گار اور معافی کا طلب گار ہوں۔ راوی کہتے ہیں حضرت ابوالدرداء (رض) نے صبح کے وقت یہ کلمات اپنے شاگردوں کو سکھانے شروع کردئیے ان کو اچھا سمجھتے ہوئے۔

35744

(۳۵۷۴۵) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ أَبِی بُکَیْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا شُعْبَۃُ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا یَزِیدُ بْنُ خُمَیْرٍ الشَّامِیُّ ، قَالَ : أَخْبَرَنِی سُلَیْمَانُ بْنُ مَرْثَدٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ ابْنَۃَ أَبِی الدَّرْدَائِ تُحَدِّثُ عَنْ أَبِی الدَّرْدَائِ ، قَالَ : لَوْ تَعْلَمُونَ مَا أَعْلَمُ لَضَحِکْتُمْ قَلِیلاً وَلَبَکَیْتُمْ کَثِیرًا وَلَخَرَجْتُمْ تَبْکُونَ لاَ تَدْرُونَ تَنْجُونَ ، أَوْ لاَ تَنْجُونَ۔
(٣٥٧٤٥) حضرت سلمان بن مرثد بیان کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوالدرداء (رض) کی بیٹی کو حضرت ابوالدردائ (رض) سے بیان کرتے ہیں ا کہ انھوں نے فرمایا : اگر تم وہ کچھ جان لو جو میں جانتا ہوں تو البتہ تم لوگ کم ہنسو اور زیادہ روؤ۔ اور تم روتے ہوئے نکل پڑو۔ تمہیں معلوم نہ ہو کہ تم نجات پاؤ گے کہ نہیں۔

35745

(۳۵۷۴۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ مِسْعَرٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ السَّکْسَکِیِّ ، قَالَ : حدَّثَنَا أَصْحَابُنَا ، عَنْ أَبِی الدَّرْدَائِ ، قَالَ : إنْ شِئْتُمْ لأقْسِمَنَّ لَکُمْ : إنَّ أَحَبَّ الْعِبَادِ إِلَی اللہِ الَّذِینَ یُحِبُّونَ اللَّہَ وَیُحَبِّبُونَ اللَّہَ إِلَی عِبَادِہِ الَّذِینَ یُرَاعُونَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ وَالنُّجُومَ وَالأَظِلَّۃَ لِذِکْرِ اللہِ۔
(٣٥٧٤٦) حضرت ابوالدرداء (رض) سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ اگر تم چاہو تو میں تمہیں قسم کھا کر کہہ دیتا ہوں۔ بیشک اللہ تعالیٰ کو اپنے بندوں میں سے محبوب ترین وہ بندے ہیں جو اللہ سے محبت کرتے ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ اس کے بندوں کی محبت کرواتے ہیں۔ جو لوگ شمس وقمر اور ستاروں، سایوں کا خیال اللہ کے ذکر کی وجہ سے رکھتے ہیں۔

35746

(۳۵۷۴۷) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ ، عَنِ ابْنِ أَبِی لَیْلَی ، قَالَ : کَتَبَ أَبُو الدَّرْدَائِ إِلَی مَسْلَمَۃَ بْنِ مُخَلَّدٍ وَہُوَ أَمِیرٌ بِمِصْرَ : أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ الْعَبْدَ إذَا عَمِلَ بِطَاعَۃِ اللہِ أَحَبَّہُ اللَّہُ ، وَإِذَا أَحَبَّہُ اللَّہُ حَبَّبَہُ إِلَی خَلْقِہِ، وَإِذَا أَبْغَضَہُ اللہ بَغَّضَہُ إِلَی خَلْقِہِ۔
(٣٥٧٤٧) حضرت ابن ابی لیلیٰ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت ابوالدرداء (رض) نے حضرت مسلمہ بن مخلد کو خط لکھا جبکہ وہ مصر کے امیر تھے۔ اما بعد ! پس بیشک بندہ جب اللہ کی اطاعت والا عمل کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس سے محبت کرتے ہیں۔ اور جب اللہ تعالیٰ اس سے محبت کرتے ہیں تو اس کو اپنی مخلوق میں محبوبیت عطا کرتے ہیں۔ اور جب اللہ تعالیٰ کسی بندہ سے بغض رکھتے ہیں تو اس کو اپنی مخلوق میں سے مبغوض بنا دیتے ہیں۔

35747

(۳۵۷۴۸) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ حُصَیْنٍ ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِی الْجَعْدِ ، عَنْ أَبِی الدَّرْدَائِ ، أَنَّہُ قَالَ : مَالِی أَرَی عُلَمَائَکُمْ یَذْہَبُونَ ، وَأَرَی جُہَّالَکُمْ لاَ یَتَعَلَّمُونَ ، اعْلَمُوا قَبْلَ أَنْ یُرْفَعَ الْعِلْمُ ، فَإِنَّ رَفْعَ الْعِلْمِ ذَہَابُ الْعُلَمَائِ ، مَالِی أَرَاکُمْ تَحْرِصُونَ عَلَی مَا تُکُفِّلَ لَکُمْ بِہِ ، وَتُضَیِّعُونَ مَا وُکِّلْتُمْ بِہِ ، لأَنَا أَعْلَمُ بِشِرَارِکُمْ مِنَ الْبَیْطَارِ بِالْخَیْلِ، ہُمُ الَّذِینَ لاَ یَأْتُونَ الصَّلاَۃَ إِلاَّ دُبُرًا ، وَلاَ یَسْمَعُونَ الْقُرْآنَ إِلاَّ ہَجْرًا، وَلاَ یَعْتِقُ مُحَرَّرُہُمْ۔
(٣٥٧٤٨) حضرت ابوالدرداء (رض) کے بارے میں روایت ہے کہ انھوں نے فرمایا : مجھے کیا ہوگیا ہے کہ میں تمہارے علماء کو دیکھ رہا ہوں کہ وہ جا رہے ہیں اور میں تمہارے جاہل لوگوں کو دیکھتا ہوں کہ وہ علم حاصل نہیں کرتے ؟ علم کے اٹھائے جانے سے قبل علم حاصل کرو کیونکہ علم کا اٹھنا علماء کا جانا ہے۔ مجھے کیا ہوگیا ہے کہ میں تمہیں ان چیزوں کے بارے میں حریص دیکھتا ہوں جو تمہارے سپرد کی گئی ہیں ؟ میں تم میں شریر لوگوں کو اس سے زیادہ جانتا ہوں جتنا کہ جانوروں کا علاج کرنے والا گھوڑوں کو جانتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو نماز کو وقت نکل جانے کے بعد پڑھتے ہیں اور قرآن مجید کو بےرخی کے ساتھ سنتے ہیں اور اپنے غلاموں کو آزاد نہیں کرتے۔

35748

(۳۵۷۴۹) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ سَالِمٍ، قَالَ: صَعِدَ رَجُلٌ إِلَی أَبِی الدَّرْدَائِ وَہُوَ جَالِسٌ فَوْقَ بَیْتٍ یَلْتَقِطُ حَبًّا ، قَالَ : فَکَأَنَّ الرَّجُلَ اسْتَحْیَا مِنْہُ فَرَجَعَ ، فَقَالَ أَبُو الدَّرْدَائِ : تَعَالَ فَإِنَّ مِنْ فِقْہِکَ رِفْقَک بِمَعِیشَتِک۔
(٣٥٧٤٩) حضرت سالم سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی حضرت ابوالدرداء (رض) کے پاس اوپر گیا جبکہ وہ کمرے کے اوپر دانے چن رہے تھے۔ راوی کہتے ہیں گویا کہ اس آدمی نے آپ سے حیا کرتے ہوئے واپسی کا راستہ لے لیا۔ اس پر حضرت ابوالدرداء (رض) نے فرمایا : آجاؤ۔ کیونکہ تمہارا اپنی معیشت میں نرم برتاؤ تمہاری سمجھ داری ہے۔

35749

(۳۵۷۵۰) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ إِسْحَاقَ ، عَنِ ابن مُبَارَکٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ یَزِیدَ بْنِ جَابِرٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنِی إسْمَاعِیلُ بْنُ عُبَیْدِ اللہِ ، قَالَ : حَدَّثَتْنِی أُمُّ الدَّرْدَائِ ، أَنَّہُ أُغْمِیَ عَلَی أَبِی الدَّرْدَائِ فَأَفَاقَ ، فَإِذَا بِلاَلٌ ابْنُہُ عِنْدَہُ ، فَقَالَ : قُمْ فَاخْرُجْ عَنِّی ، ثُمَّ قَالَ : مَنْ یَعْمَلُ لِمِثْلِ مَضْجَعِی ہَذَا مَنْ یَعْمَلُ لِمِثْلِ سَاعَتِی ہَذِہِ وَنُقَلِّبُ أَفْئِدَتَہُمْ وَأَبْصَارَہُمْ کَمَا لَمْ یُؤْمِنُوا بِہِ أَوَّلَ مَرَّۃٍ وَنَذَرُہُمْ فِی طُغْیَانِہِمْ یَعْمَہُونَ ، قَالَتْ ، ثُمَّ یُغْمَی عَلَیْہِ فَیَلْبَثُ لُبْثًا ، ثُمَّ یُفِیقُ فَیَقُولُ مِثْلَ ذَلِکَ ، فَلَمْ یَزَلْ یُرَدِّدُہَا حَتَّی قُبِضَ۔
(٣٥٧٥٠) حضرت ام درداء (رض) بیان کرتی ہیں کہ ایک مرتبہ کا واقعہ ہے کہ حضرت ابوالدرداء (رض) بےہوش ہوگئے پھر انھیں ہوش آیا تو ان کے بیٹے حضرت بلال ان کے پاس تھے۔ حضرت ابوالدرادء (رض) نے فرمایا : اٹھو اور میرے پاس سے باہر چلے جاؤ۔ پھر فرمایا : میرے اس خواب گاہ کی طرح کس نے کام کیا ہے ؟ میری اس گھڑی کی طرح کس نے کام کیا ہے ؟ وَنُقَلِّبُ أَفْئِدَتَہُمْ وَأَبْصَارَہُمْ کَمَا لَمْ یُؤْمِنُوا بِہِ أَوَّلَ مَرَّۃٍ وَنَذَرُہُمْ فِی طُغْیَانِہِمْ یَعْمَہُونَ حضرت ام درداء (رض) کہتی ہیں پھر آپ پر بیہوشی طاری ہوگئی۔ آپ کچھ دیر گزارتے پھر آپ کو افاقہ ہوتا اور آپ پھر یہی بات دہراتے۔ چنانچہ آپ یہ بات دہراتے رہے۔ یہاں تک کہ آپ کی جان قبض ہوگئی۔

35750

(۳۵۷۵۱) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ یَعْلَی بْنِ عَطَائٍ ، قَالَ : حدَّثَنِی تَمِیمُ بْنُ غَیْلاَنَ بْنِ سَلَمَۃَ ، قَالَ : جَائَ رَجُلٌ إِلَی أَبِی الدَّرْدَائِ وَہُوَ مَرِیضٌ ، فَقَالَ : یَا أَبَا الدَّرْدَائِ ، إنَّک قَدْ أَصْبَحْت عَلَی جَنَاحِ فِرَاقِ الدُّنْیَا ، فَمُرْنِی بِأَمْرٍ یَنْفَعُنِی اللَّہُ بِہِ ، وَأَذْکُرُک بِہِ ، فَقَالَ : إنَّک مِنْ أُمَّۃٍ مُعَافَاۃٍ ، فَأَقِمَ الصَّلاَۃَ وَأَدِّ الزَّکَاۃَ إنْ کَانَ لَک مَالٌ ، وَصُمْ رَمَضَانَ وَاجْتَنِبَ الْفَوَاحِشَ ، ثُمَّ أَبْشِرْ ، فَأَعَادَ الرَّجُلُ عَلَی أَبِی الدَّرْدَائِ ، فَقَالَ لَہُ أَبُو الدَّرْدَائِ مِثْلَ ذَلِکَ ، فَنَفَضَ الرَّجُلُ رِدَائَہُ ، ثُمَّ قَالَ : {إنَّ الَّذِینَ یَکْتُمُونَ مَا أَنْزَلْنَا مِنَ الْبَیِّنَاتِ وَالْہُدَی مِنْ بَعْدِ مَا بَیَّنَّاہُ لِلنَّاسِ} إِلَی قَوْلِہِ : {وَیَلْعَنَہُمُ اللاَّعِنُوْنَ} فَقَالَ أَبُو الدَّرْدَائِ : عَلَیَّ بِالرَّجُلِ ، فَجَائَ ، فَقَالَ أَبُو الدَّرْدَائِ: مَا قُلْتَ؟ قَالَ: کُنْتُ رَجُلاً مُعَلَّمًا عِنْدَکَ مِنَ الْعِلْمِ مَا لَیْسَ عِنْدِی ، فَأَرَدْت أَنْ تُحَدِّثَنِی بِمَا یَنْفَعُنِی اللَّہُ بِہِ ، فَلَمْ تَرُدَّ عَلَیَّ إِلاَّ قَوْلاً وَاحِدًا ، فَقَالَ لَہُ أَبُو الدَّرْدَائِ : اجْلِسْ ، ثُمَّ اعْقِلْ مَا أَقُولُ لَک : أَیْنَ أَنْتَ مِنْ یَوْمٍ لَیْسَ لَک مِنَ الأَرْضِ إِلاَّ عَرْضُ ذِرَاعَیْنِ فِی طُولِ أَرْبَعِ أَذْرُعٍ ، أَقْبَلَ بِکَ أَہْلُک الَّذِینَ کَانُوا لاَ یُحِبُّونَ فِرَاقَک وَجُلَسَاؤُک وَإِخْوَانُک فَأَتْقَنُوا عَلَیْک الْبُنْیَانَ وَأَکْثَرُوا عَلَیْک التُّرَابَ ، وَتَرَکُوک لِمَتَلِّکَ ذَلِکَ ، وَجَائَک مَلَکَانِ أَسْوَدَانِ أَزْرَقَانِ جَعْدَانِ ، أَسْمَاہُمَا مُنْکَرٌ وَنَکِیرٌ ، فَأَجْلَسَاک ، ثُمَّ سَأَلاَک : مَا أَنْتَ وَعَلَی مَاذَا کُنْت ؟ وَمَا تَقُولُ فِی ہَذَا الرَّجُلِ فَإِنْ قُلْتَ : وَاللہِ مَا أَدْرِی ، سَمِعْت النَّاسَ ، قَالُوا : قَوْلاً ، فَقُلْتُ قَوْلَ النَّاسِ ، فَقَدْ وَاللہِ رَدِیت وَہَوَیْت ، وَإِنْ قُلْتَ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، أَنْزَلَ اللَّہُ عَلَیْہِ کِتَابَہُ ، فَآمَنْتُ بِہِ ، وَبِمَا جَائَ بِہِ فَقَدْ وَاللہِ نَجَوْت وَہُدِیت ، وَلَنْ تَسْتَطِیعَ ذَلِکَ إِلاَّ بِتَثْبِیتٍ مِنَ اللہِ مَعَ مَا تَرَی مِنَ الشِّدَّۃِ وَالتَّخْوِیفِ ، ثُمَّ أَیْنَ أَنْتَ مِنْ یَوْمٍ لَیْسَ لَک مِنَ الأَرْضِ إِلاَّ مَوْضِعُ قَدَمَیْک ، وَیَوْمٍ کَانَ مِقْدَارُہُ خَمْسِینَ أَلْفِ سَنَۃٍ ، النَّاسُ فِیہِ قِیَامٌ لِرَبِّ الْعَالَمِینَ ، وَلاَ ظِلَّ إِلاَّ ظِلُّ عَرْشِ رَبِّ الْعَالَمِینَ ، وَأُدْنِیَتِ الشَّمْسُ ، فَإِنْ کُنْت مِنْ أَہْلِ الظِّلِّ فَقَدْ وَاللہِ نَجَوْت وَہُدِیت ، وَإِنْ کُنْت مِنْ أَہْلِ الشَّمْسِ فَقَدْ وَاللہِ رَدِیت وَہَوَیْت ، ثُمَّ أَیْنَ أَنْتَ مِنْ یَوْمٍ جِیئَ بِجَہَنَّمَ قَدْ سَدَّتْ مَا بَیْنَ الْخَافِقَیْنِ وَقِیلَ : لَنْ تَدْخُلَ الْجَنَّۃَ حَتَّی تَخُوضَ النَّارَ ، فَإِنْ کَانَ مَعَک نُورٌ اسْتَقَامَ بِکَ الصِّرَاطُ فَقَدْ وَاللہِ نَجَوْت وَہُدِیت ، وَإِنْ لَمْ یَکُنْ مَعَک نُورٌ تَشَبَّثَتْ بِکَ بَعْضُ خَطَاطِیفِ جَہَنَّمَ ، أَوْ کَلاَلِیبِہَا ، أَوْ شَبَابِیثِہَا فَقَدْ وَاللہِ رَدِیت وَہَوَیْت ، فَوَرَبِّ أَبِی الدَّرْدَائِ إنَّ مَا أَقُولُ حَقٌّ فَاعْقِلْ مَا أَقُولُ۔ق
(٣٥٧٥١) حضرت تمیم بن غیلان بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی حضرت ابوالدرداء (رض) کی بیماری کے دوران ان کے پاس آیا اور اس نے کہا : اے ابوالدرداء (رض) ! یقیناً آؤ اس دنیا سے ایک کنارے پر ہو رہے ہیں پس آپ مجھے کوئی ایسا حکم دیں جس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ مجھے نفع دے اور میں آپ کو اس کے ذریعہ یاد رکھوں۔ حضرت ابوالدرداء (رض) نے فرمایا : تم ایک درگزر کی ہوئی امت سے ہو۔ پس تم نماز قائم کرو۔ اگر تمہارے پاس مال ہے تو زکوۃ ادا کرو۔ اور رمضان کا روزہ رکھو۔ اور فواحش سے اجتناب کرو پھر تمہیں بشارت ہے۔ اس آدمی نے حضرت ابوالدرداء (رض) سے یہ بات دوبارہ کہی تو حضرت ابوالدرداء (رض) نے اس سے پھر ایسی بات کہی۔ اس پر اس آدمی نے اپنی چادر جھاڑی اور کہا : {إنَّ الَّذِینَ یَکْتُمُونَ مَا أَنْزَلْنَا مِنَ الْبَیِّنَاتِ وَالْہُدَی مِنْ بَعْدِ مَا بَیَّنَّاہُ لِلنَّاسِ } إِلَی قَوْلِہِ : { وَیَلْعَنَہُمُ اللاَّعِنُوْنَ } چنانچہ حضرت ابوالدرداء (رض) نے فرمایا : اس کو میرے پاس لاؤ۔ پس وہ آدمی آیا تو حضرت ابوالدرداء (رض) نے پوچھا تم نے کیا کہا ؟ اس آدمی نے کہا : آپ صاحب علم آدمی ہیں۔ آپ کے پاس وہ علم ہے جو میرے پاس نہیں ہے۔ میرا ارادہ یہ تھا کہ آپ مجھے کوئی ایسی بات بیان کریں گے جس کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ مجھے نفع دے گا لیکن آپ نے تو مجھے ایک ہی جواب دیا۔ اس پر حضرت ابوالدرداء (رض) نے اس آدمی سے کہا : بیٹھو اور جو بات میں تمہیں کہنے لگا ہوں اس کو سمجھو۔ تم اس دن کے بارے میں کہاں ہو جس دن تمہیں زمین سے صرف دو ہاتھ چوڑی اور چار ہاتھ لمبی زمین نصیب ہوگی۔ اور تمہیں تمہارے وہ اہل خانہ لے کر آئیں گے جو تمہاری جدائی پسند نہیں کرتے اور تمہارے وہ ہم مجلس اور بھائی لے کر آئیں گے جو تمہاری جدائی پسند نہیں کرتے۔ پس وہ تم پر اچھی عمارت بنا کر تم پر خوب مٹی ڈال دیں گے اور تمہیں { ذلک بمیتک } چھوڑ جائیں گے۔ اور تمہارے پاس دو گھنگریالے بالوں والے کالے، نیلے فرشتے آئیں گے۔ ان کے نام منکر اور نکیر ہوں گے۔ یہ دونوں تمہیں بٹھائیں گے پھر یہ دونوں تم سے پوچھیں گے تم کیا ہو ؟ اور تم کس دین پر تھے اور تم اس آدمی کے بارے میں کیا کہتے ہو ؟ پس اگر تو نے کہا : بخدا ! مجھے معلوم نہیں ہے۔ میں تو لوگوں کو سنتا تھا کہ وہ ایک بات کہتے تھے تو میں بھی لوگوں کی طرح کی بات کہتا تھا۔ تو تحقیق تو ہلاک و برباد ہوگیا۔ اور اگر تم نے یہ کہا : یہ اللہ کے رسول محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان پر اپنی کتاب نازل فرمائی ہے۔ اور میں ان پر ایمان لایا ہوں اور جو کچھ یہ لے کر آئے ہیں اس پر بھی ایمان لایا ہوں تو تحقیق تو نجات پا گیا اور راہ راست پا گیا۔ اور تم اس بات کی خدا کی طرف سے ثابت قدمی کے بغیر ہرگز طاقت نہیں رکھتے۔ اس کے ساتھ ساتھ تم شدت اور تخویف بھی دیکھ رہے ہو۔ پھر تم اس دن کے بارے میں کہاں ہو۔ جس دن تمہیں زمین میں سے صرف اپنے دو قدموں کے بقدر جگہ نصیب ہوگی اور یہ ایسا دن ہوگا جس کی مقدار پچاس ہزار سال کے برابر ہوگی۔ اس دن تمام لوگ رب العالمین کے سامنے کھڑے ہوں گے اور رب العالمین کے عرش کے سایہ کے سوا کوئی سایہ نہیں ہوگا۔ اور سورج کو قریب کردیا جائے گا۔ پس اگر تو سایہ والوں میں سے ہوا تو پھر بخدا تو یقیناً نجات پا گیا اور ہدایت پا گیا اور اگر تو دھوپ والوں میں سے ہوا تو پھر بخدا یقیناً تو ہلاک و برباد ہوگیا۔ پھر تو اس دن کے بارے میں کہاں ہے جس دن جہنم کو لایا جائے گا جس نے دونوں اطراف ۔۔۔ مشرق ومغرب ۔۔۔ کو گھیر رکھا ہوگا اور کہا جائے گا کہ تو ہرگز جنت میں داخل نہیں ہوگا یہاں تک کہ تو جہنم کو عبور کرے پس اگر تیرے پاس نور ہوگا تو تو پل صراط پر سیدھا جائے گا۔ پھر تو تحقیق تو نجات پا گیا اور ہدایت حاصل کرگیا اور اگر تیرے پاس نور نہ ہوا تو تیرے ساتھ جہنم کی بعض ابابلیں یا جہنم کے کتے یا وہاں کی کوئی چمٹنے والی چیزیں چمٹ جائیں گی۔ تو پھر تحقیق تو ہلاک و برباد ہوجائے گا۔ ابوالدرداء کے رب کی قسم ! میں نے جو کچھ کہا ہے وہ برحق ہے۔ پس جو کچھ میں نے کہا ہے اس کو سمجھو۔

35751

(۳۵۷۵۲) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ خَیْثَمَۃ ، قَالَ : قَالَ أَبُو الدَّرْدَائِ : کُنْت تَاجِرًا قَبْلَ أَنْ یُبْعَثَ مُحَمَّدٌ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَلَمَّا بُعِثَ مُحَمَّدٌ زَاوَلْت التِّجَارَۃَ وَالْعِبَادَۃَ فَلَمْ تَجْتَمِعَا ، فَأَخَذْت الْعِبَادَۃَ وَتَرَکْت التِّجَارَۃَ۔
(٣٥٧٥٢) حضرت خیثمہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت ابوالدرداء (رض) نے فرمایا : میں جناب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مبعوث ہونے سے پہلے تجارت کرتا تھا۔ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت ہوئی تو میں نے عبادت اور تجارت کو (اکٹھا کرنے کی) مسلسل مشق کی لیکن یہ دونوں جمع نہیں ہوئے۔ چنانچہ میں نے عبادت کو لے لیا اور تجارت کو چھوڑ دیا۔

35752

(۳۵۷۵۳) حَدَّثَنَا یَعْلَی بْنُ عُبَیْدٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ بْنُ أَبِی خَالِدٍ ، عَنْ رَجُلٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ وَاسِعٍ ، قَالَ : قَالَ أَبُو الدَّرْدَائِ لاِبْنِہِ : یَا بُنَی ، لِیَکُنِ الْمَسْجِدُ بَیْتَکَ ، فَإِنِّی سَمِعْت رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : الْمَسَاجِدُ بُیُوتُ الْمُتَّقِینَ ، فَمَنْ یَکُنِ الْمَسْجِدُ بَیْتَہُ یَضْمَنْ اللہ لَہُ الرُّوحَ وَالرَّحْمَۃَ وَالْجَوَازَ عَلَی الصِّرَاطِ إِلَی الْجَنَّۃِ۔ (بزار ۴۳۴)
(٣٥٧٥٣) حضرت محمد بن واسع سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت ابوالدرداء (رض) نے اپنے بیٹے سے کہا اے میرے بیٹے ! مسجد تیرا گھر ہونا چاہیے۔ کیونکہ میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کہتے ہوئے سنا : ” مسجدیں متقی لوگوں کا گھر ہیں۔ پس جس کا گھر مسجد ہو تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے رحمت و خوشی کا ضامن ہوتا ہے اور جنت کی طرف کے راستہ کے عبور کا ضامن ہوتا ہے۔

35753

(۳۵۷۵۴) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُطَرِّفٍ أَبُو غَسَّانَ ، عَنْ زَیْدِ بْنِ أَسْلَمَ ، عْن عَطَائِ بْنِ یَسَارٍ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : مَنْ غَدَا إِلَی الْمَسْجِدِ ، أَوْ رَاحَ إِلَی الْمَسْجِدِ أَعَدَّ اللَّہُ لَہُ فِی الْجَنَّۃِ نُزُلاً کُلَّمَا غَدَا ، أَوْ رَاحَ۔ (بخاری ۶۶۲۔ مسلم ۴۶۳)
(٣٥٧٥٤) حضرت ابوہریرہ (رض) جناب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کرتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” جو شخص صبح کو مسجد کی طرف جائے یا شام کو مسجد کی طرف جائے تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت میں مہمانی تیاری کرتے ہیں جب بھی وہ صبح شام مسجد کی طرف جائے۔

35754

(۳۵۷۵۵) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا عُیَیْنَۃَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ أَیُّوبَ بْنِ مُوسَی ، عَنْ أَبِی حَازِمٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ، قَالَ : إنَّ لِلْمَسَاجِدِ مِنْ عِبَادِ اللہِ أَوْتَادًا ، جُلَسَاؤُہُمُ الْمَلاَئِکَۃُ ، فَإِذا فَقَدُوہُمْ سَأَلُوا عَنْہُمْ ، فَإِنْ کَانُوا مَرْضَی عَادُوہُمْ ، وَإِنْ کَانُوا فِی حَاجَۃٍ أَعَانُوہُمْ۔ (احمد ۴۱۸)
(٣٥٧٥٥) حضرت سعید بن مسیب سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ بیشک اللہ کے بندوں میں سے کچھ لوگ مسجدوں کے کھونٹے ہوتے ہیں۔ فرشتے ان کے ہم نشین ہوتے ہیں۔ پس فرشتے جب ان کو گم پاتے ہیں تو ان کے بارے میں پوچھتے ہیں پھر اگر وہ بیمار ہوں تو فرشتے ان کی عیادت کرتے ہیں اور اگر وہ کسی ضرورت میں مصروف ہوتے ہیں تو فرشتے ان کی معاونت کرتے ہیں۔

35755

(۳۵۷۵۶) حَدَّثَنَا مُعَاوِیَۃُ بْنُ ہِشَامٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مَعْقِلٍ ، قَالَ : کُنَّا نَتَحَدَّثُ أَنَّ الْمَسْجِدَ حِصْنٌ حَصِینٌ مِنَ الشَّیْطَانِ۔
(٣٥٧٥٦) حضرت عبدالرحمن بن معقل سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ ہم یہ بات باہم بیان کرتے تھے کہ مسجد، شیطان سے بچنے کے لیے ایک مضبوط قلعہ ہے۔

35756

(۳۵۷۵۷) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ ، قَالَ : حدَّثَنِی عَمِّی مُوسَی بْنُ یَسَارٍ ، أَنَّ سَلْمَانَ کَتَبَ إِلَی أَبِی الدَّرْدَائِ : إنَّ فِی ظِلِّ الْعَرْشِ رَجُلاً قَلْبُہُ مُعَلَّقٌ فِی الْمَسَاجِدِ مِنْ حُبِّہَا۔
(٣٥٧٥٧) حضرت سلمان نے حضرت ابوالدرداء (رض) کو خط میں تحریر فرمایا : بیشک عرش کے سایہ میں وہ آدمی (بھی) ہوگا جس کا دل مسجد کی محبت کی وجہ سے مسجد میں اٹکا ہوا ہوتا ہے۔

35757

(۳۵۷۵۸) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ مِسْعَرٍ ، عَنِ الْوَلِیدِ بْنِ الْعَیْزَارِ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَیْمُونٍ ، عَنْ عُمَرَ ، قَالَ : الْمَسَاجِدُ بُیُوتُ اللہِ فِی الأَرْضِ ، وَحَقٌّ عَلَی الْمَزُورِ أَنْ یُکْرِمَ زَائِرَہُ۔
(٣٥٧٥٨) حضرت عمر سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ مسجدیں زمین میں اللہ کے گھر ہیں اور جس کی زیارت کی جائے اس پر یہ بات حق ہوتی ہے کہ وہ اپنی زیارت کرنے والے کا اکرام کرے۔

35758

(۳۵۷۵۹) حَدَّثَنَا شَبَابَۃُ بْنُ سَوَّارٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا حَرِیزٌ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِی عَوْفٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مَسْعُودٍ الْفَزَارِیِّ ، عَنْ أَبِی الدَّرْدَائِ ، قَالَ : مَا مِنْ رَجُلٍ یَغْدُو إِلَی الْمَسْجِدِ لِخَیْرٍ یَتَعَلَّمُہُ ، أَوْ یُعَلِّمُہُ إِلاَّ کَتَبَ اللہ لَہُ أَجْرُ مُجَاہِدٍ ، لاَ یَنْقَلِبُ إِلاَّ غَانِمًا۔
(٣٥٧٥٩) حضرت ابوالدرداء (رض) سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ جو کوئی آدمی بھی مسجد کی طرف کسی خیر کو سیکھنے یا سکھانے کے لیے جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے ایسے مجاہد کا ثواب لکھتے ہیں جو مال غنیمت لے کر ہی لوٹتا ہے۔

35759

(۳۵۷۶۰) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ أَبِی عُثْمَانَ ، عَنْ سَلْمَانَ ، قَالَ : مَنْ تَوَضَّأَ فَأَحْسَنَ الْوُضُوئَ، ثُمَّ أَتَی الْمَسْجِدَ لِیُصَلِّیَ فِیہِ کَانَ زَائِرًا للہِ ، وَحَقٌّ عَلَی الْمَزُورِ أَنْ یُکْرِمَ زَائِرَہُ۔ (طبرانی ۱۰۳۲۴)
(٣٥٧٦٠) حضرت سلمان سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ جو شخص وضو کرتا ہے اور خوب اچھی طرح وضو کرتا ہے پھر مسجد کو آتا ہے تاکہ مسجد میں نماز پڑھے تو یہ شخص اللہ تعالیٰ کا زائر ہوتا ہے اور جس کی زیارت کی جائے اس پر یہ حق ہے کہ وہ اپنے زائر کا اکرام کرے۔

35760

(۳۵۷۶۱) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ أَبِی سَعِیدٍ، عَنْ عُمَرَ بْنِ أَبِی بَکْرٍ، عَنْ أَبِیہِ، عَنْ کَعْبِ الأَحْبَارِ، قَالَ: أَجِدُ فِی کِتَابِ اللہِ : مَا مِنْ عَبْدٍ مُؤْمِنٍ یَغْدُو إِلَی الْمَسْجِدِ وَیَرُوحُ ، لاَ یَغْدُو ، وَیَرُوحُ إِلاَّ لِیَتَعَلَّمَ خَیْرًا، أَوْ یُعَلِّمُہُ، أَوْ یَذْکُرَ اللَّہَ، أَوْ یُذَکِّرَ بِہِ إِلاَّ مَثَلُہُ فِی کِتَابِ اللہِ کَمَثَلِ الْمُجَاہِدِ فِی سَبِیلِ اللہِ۔
(٣٥٧٦١) حضرت کعب احبا رسے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے خدا کی کتاب میں پایا کہ جو کوئی بندہ مومن، صبح وشام کو مسجد کی طرف جاتا ہے اور اس کا صبح وشام مسجد کی طرف جانا صرف خیر کو سیکھنے یا سکھانے کے لیے ہوتا ہے یا خدا کے ذکر وفکر کے لیے ہوتا ہے تو اس کی مثال خدا کی کتاب میں مجاہد فی سبیل اللہ کی طرح ہے۔

35761

(۳۵۷۶۲) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : دَخَلَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ عَلَی أَبِی عُبَیْدَۃَ بْنِ الْجَرَّاحِ فَإِذَا ہُوَ مُضْطَجِعٌ عَلَی طِنْفِسَۃِ رَحْلِہِ مُتَوَسِّدَ الْحَقِیبَۃِ ، قَالَ : فَقَالَ لَہُ عُمَرُ : أَلاَ تُحَدِّثَ ما تحدث أَصْحَابِکَ ، فَقَالَ : یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ ، ہَذَا یُبَلِّغُنِی الْمَقِیلَ۔
(٣٥٧٦٢) حضرت ہشام، اپنے والد سے روایت کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب، حضرت ابوعبیدہ بن جراح (رض) کے پاس تشریف لے گئے تو حضرت ابوعبیدہ بن جراح اپنے کجاوہ پر لیٹے ہوئے تھیلے کو تکیہ بنائے ہوئے تھے۔ راوی کہتے ہیں انھیں حضرت عمر نے کہا آپ ان نئی چیزوں کو استعمال کیوں نہیں کرتے جنھیں آپ کے ساتھی استعمال کرتے ہیں۔ حضرت ابو عبیدہ (رض) نے کہا میرا یہ بستر بھی میری نیند پوری کردیتا ہے۔

35762

(۳۵۷۶۳) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ الْمُغِیرَۃِ ، قَالَ : حَدَّثَنَا ثَابِتٌ الْبُنَانِیُّ ، قَالَ : کَانَ أَبُو عُبَیْدَۃَ بْنُ الْجَرَّاحِ أَمِیرًا عَلَی الشَّامِ فَخَطَبَ النَّاسَ ، فَقَالَ : یَا أَیُّہَا النَّاسُ ، إنِّی امْرُؤٌ مِنْ قُرَیْشٍ ، وَإِنِّی وَاللہِ مَا أَعْلَمُ أَحْمَرَ ، وَلاَ أَسْوَدَ یَفْضُلُنِی بِتَقْوَی اللہِ إِلاَّ وَدِدْت أَنِّی فِی مِسْلاَخِہِ۔
(٣٥٧٦٣) حضرت ثابت بنانی بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابوعبیدہ بن جراح ملک شام کے امیر تھے۔ آپ نے لوگوں کو خطبہ دیا ارشاد فرمایا : اے لوگو ! میں ایک قریشی مرد ہوں اور خدا کی قسم ! میں اپنے سے افضل کسی سرخ یا سیاہ کو نہیں جانتا جو خوف خدا کی وجہ سے مجھ پر فضیلت رکھتا ہو مگر یہ کہ میں اس کی سی زندگی گزارنا پسند کرتا ہوں۔

35763

(۳۵۷۶۴) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : حدَّثَنَا حَرِیزُ بْنُ عُثْمَانَ ، عَنْ نِمْرَانَ بْنِ مِخْمَرٍ الرَّحَبِیِّ ، قَالَ : کَانَ أَبُو عُبَیْدَۃَ بْنُ الْجَرَّاحِ یَسِیرُ فِی الْجَیْشِ وَہُوَ یَقُولُ : أَلاَ رُبَّ مُبَیِّضٍ لِثِیَابِہِ مُدَنِّسٌ لِدِینِہِ ، أَلاَ رُبَّ مُکْرِمٍ لِنَفْسِہِ وَہُوَ لَہَا مُہِینٌ ، إِلاَّ بَادِرُوا السَّیِّئَاتِ الْقَدِیمَاتِ بِالْحَسَنَاتِ الْحَدِیثَاتِ ، فَإِنَّ أَحَدَکُمْ لَوْ أَسَائَ مَا بَیْنَ السَّمَائِ وَالأَرْضِ ، ثُمَّ عَمِلَ حَسَنَۃً لَغَلَبَتْ سَیِّئَاتِہِ حَتَّی تُقْہِرَہُنَّ۔
(٣٥٧٦٤) حضرت نمران بن مخمر رحبی سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت ابوعبیدہ بن جراح لشکر میں چلے جا رہے تھے اور کہہ رہے تھے۔ خبردار ! بہت سے اپنے کپڑوں کو سفید رکھنے والے اپنے دین کو میلا کرنے والے ہوتے ہیں۔ خبردار ! بہت سے لوگ جو اپنے نفس کا اکرام کرنے والے ہوتے ہیں وہ اس کو ذلیل کرنے والے ہوتے ہیں۔ خبردار ! پرانی برائیوں کے لیے نئی نیکیاں کرو کیونکہ اگر تم میں سے کوئی ایک زمین و آسمان کے درمیان کو برائی سے بھر دے پھر وہ ایک اچھا عمل کرلے تو یہ نیکی اس کی برائیوں پر غالب آجاتی ہے۔ یہاں تک کہ ان کو نیچا کردیتی ہے۔

35764

(۳۵۷۶۵) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، قَالَ : حَدَّثَنَا ثَابِتٌ ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ : قَدِمْت عَلَی أَبِی عُبَیْدَۃَ بْنِ الْجَرَّاحِ فَأَنْزَلَنِی فِی نَاحِیَۃِ بَیْتِہِ ، وَامْرَأَتُہُ فِی نَاحِیَۃٍ وَبَیْنَنَا سِتْرٌ ، فَکَانَ یَحْلِبُ النَّاقَۃَ فَیَجِیئُ بِالإِنَائِ فیضعہ فِی یَدَیَّ ، فَقَالَ لَہُ رَجُلٌ مِنَ الطُّلَقَائِ : أَتُنْزِلُ ہَذَا نَاحِیَۃَ بَیْتِکَ مَعَ امْرَأَتِکَ ، فَقَالَ : أُرَاقِبُ بِہِ عیر مَنْ لَوْ لَقِیتہ سَلِیبًا لاَسْتَأْنَی عَلَی کُلِّ مَرْکَبٍ۔
(٣٥٧٦٥) حضرت انس (رض) سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں حضرت ابوعبیدہ بن جراح (رض) کے پاس حاضر ہوا تو انھوں نے مجھے اپنے گھر کے کنارے میں ٹھہرایا۔ جبکہ ان کی بیوی ایک دوسرے کنارے میں تھیں۔ اور ہمارے درمیان ایک پردہ تھا۔ پس آپ اونٹنی کا دودھ نکالتے اور برتن میں لے کر آتے پھر اس کو میرے ہاتھ میں رکھ دیتے۔ اس پر طلقاء میں سے ایک آدمی نے ان سے کہا۔ کیا آپ اس آدمی کو اپنی بیوی کے ساتھ اپنے گھر ٹھہراتے ہیں ؟ تو انھوں نے فرمایا : میں اس آدمی کو مکمل طور پر پاکدامن سمجھتا ہوں۔

35765

(۳۵۷۶۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ ثَوْرٍ ، عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ ، عَنْ أَبِی عُبَیْدَۃَ بْنِ الْجَرَّاحِ ، قَالَ : مَثَلُ قَلْبِ الْمُؤْمِنِ مَثَلُ الْعُصْفُورِ یَتَقَلَّبُ کَذَا مَرَّۃً وَکَذَا مَرَّۃً۔
(٣٥٧٦٦) حضرت ابوعبیدہ بن جراح سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ مومن کا دل چڑیا کی طرح ہوتا ہے۔ ایک مرتبہ ادھر اور ایک مرتبہ ادھر ہوتا ہے۔

35766

(۳۵۷۶۷) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو ، عَنْ یَحْیَی بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ حَاطِبٍ ، قَالَ : قَالَ أَبُو وَاقِدٍ اللَّیْثِیُّ : تَابَعْنَا الأَعْمَالَ أَیُّہَا أَفْضَلُ ، فَلَمْ نَجِدْ شَیْئًا أَعْوَنَ عَلَی طَلَبِ الآخِرَۃِ مِنَ الزُّہْدِ فِی الدُّنْیَا۔
(٣٥٧٦٧) حضرت یحییٰ بن عبدالرحمن سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت ابو واقد لیثی کہتے ہیں ہم نے سب اعمال پر متابعت کرکے دیکھا کہ ان میں سے افضل ترین کون سا ہے ؟ تو ہم نے دنیا سے بےرغبتی کرنے سے بڑھ کر طلب آخرت پر معاون کوئی کام نہیں پایا۔

35767

(۳۵۷۶۸) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ وَوَکِیعٌ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ بْنِ أَبِی خَالِدٍ ، عَنْ قَیْسٍ ، قَالَ : قَالَ الزُّبَیْرُ بْنُ الْعَوَّامِ : مَنِ اسْتَطَاعَ مِنْکُمْ أَنْ یَکُونَ لَہُ خَبِیئٌ مِنْ عَمَلٍ صَالِحٍ فَلْیَفْعَلْ۔
(٣٥٧٦٨) حضرت قیس سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت زبیر بن عوام نے ارشاد فرمایا : تم میں سے جو آدمی عمل صالح کے بارے میں پوشیدگی کرسکے تو اس کو چاہیے کہ وہ یہ کرے۔

35768

(۳۵۷۶۹) حَدَّثَنَا أَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَۃَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، أَنَّ الزُّبَیْرَ بُعِثَ إِلَی مِصْرَ فَقِیلَ لَہُ : إنَّ بِہَا الطَّاعُونَ ، فَقَالَ : إنَّمَا جِئْنَاہَا لِلطَّعْنِ وَالطَّاعُونِ۔
(٣٥٧٦٩) حضرت ہشام، اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت زبیر کو مصر کی طرف بھیجا گیا تو انھیں کہا گیا۔ مصر میں طاعون کی وبا ہے۔ تو انھوں نے جواب میں فرمایا : ہم تو وہاں جا ہی طاعون اور طعن کے لیے رہے ہیں۔

35769

(۳۵۷۷۰) حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ ، عَنْ حُصَیْنٍ ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِی الْجَعْدِ ، عَنْ جَابِرٍ ، قَالَ : مَا مِنَّا أَحَدٌ أَدْرَکَ الدُّنْیَا إِلاَّ مَالَ بِہَا وَمَالَتْ بِہِ غَیْرَ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ۔
(٣٥٧٧٠) حضرت جابر سے روایت ہے وہ کہتے ہیں ہم میں سے کوئی آدمی نہیں تھا جس نے دنیا کو پایا مگر یہ کہ وہ اس کی طرف مائل ہوگیا اور دنیا اس کی طرف مائل ہوگئی سوائے حضرت عبداللہ بن عمر (رض) کے۔

35770

(۳۵۷۷۱) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : لاَ یُصِیبُ أَحَدٌ مِنَ الدُّنْیَا إِلاَّ نَقَصَ مِنْ دَرَجَاتِہِ عِنْدَ اللہِ وَإِنْ کَانَ عَلَیْہِ کَرِیمًا۔
(٣٥٧٧١) حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ جس آدمی کو بھی دنیا ملے گی تو وہ اس کے خدا کے ہاں درجات میں کمی کردے گی اگرچہ یہ بندہ اللہ کے ہاں معزز ہو۔

35771

(۳۵۷۷۲) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ یَمَانٍ، عن ابن جریج، عن ابن طاوس، عن أبیہ قَالَ: ما رأیت أحدا أتقی من ابن عمر۔
(٣٥٧٧٢) حضرت ابن طاوس، اپنے والد سے روایت کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عمر (رض) سے زیادہ متقی شخص نہیں دیکھا۔

35772

(۳۵۷۷۳) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ یَمَانٍ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ رَجُلٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : لاَ یَکُونُ رَجُلٌ مِنْ أَہْلِ الْعِلْمِ حَتَّی لاَ یَحْسُدَ مَنْ فَوْقَہُ وَلاَ یُحَقِّرَ مَنْ دُونَہُ وَلاَ یَبْتَغِی بِعِلْمِہِ ثَمَنًا۔
(٣٥٧٧٣) حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ آدمی اہل علم میں سے تب ہوتا ہے جب وہ اپنے سے اوپر والوں پر حسد نہ کرے اور اپنے سے نیچے والوں کو حقیر نہ سمجھے اور اپنے علم کے ذریعہ، مال نہ تلاش کرے۔

35773

(۳۵۷۷۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِی الْجَعْدِ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : لاَ یَبْلُغُ عَبْدٌ حَقِیقَۃَ الإِیمَانِ حَتَّی یُعِدَّ النَّاسَ حَمْقَی فِی دِینِہِ۔
(٣٥٧٧٤) حضرت ابن عمر سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ کوئی بندہ ایمان کی حقیقت کو نہیں پہنچ سکتا یہاں تک کہ لوگ اس کو اس کے دین کے بارے میں پاگل شمار نہ کرنے لگیں۔

35774

(۳۵۷۷۵) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ أَبِی سُلَیْمَانَ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ، قَالَ : دَخَلْتُ عَلَی ابْنِ عُمَرَ فَإِذَا ہُوَ مُفْتَرِشٌ ذِرَاعَیْہِ ، مُتَوَسِّدٌ وِسَادَۃً حَشْوُہَا لِیفٌ۔
(٣٥٧٧٥) حضرت سعید بن جبیر سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں حضرت ابن عمر (رض) کے پاس حاضر ہوا تو میں نے دیکھا کہ وہ اپنی کہنیاں بچھائے ہوئے تھے اور ایسے تکیہ پر ٹیک لگائے ہوئے تھے جس میں گھاس بھرا ہوا تھا۔

35775

(۳۵۷۷۶) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ قَیْسٍ ، عَنْ عَطِیَّۃَ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : یَسْتَقْبِلُ الْمُؤْمِنُ عِنْدَ خُرُوجِہِ مِنْ قَبْرِہِ أَحْسَنَ صُورَۃٍ رَآہَا قَطُّ ، فَیَقُولُ لَہَا : مَنْ أَنْتِ فَتَقُولُ لَہُ : أَنَا الَّتِی کُنْت مَعَک فِی الدُّنْیَا ، لاَ أُفَارِقُ حَتَّی أُدْخِلَک الْجَنَّۃَ۔
(٣٥٧٧٦) حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ مومن کے قبر سے نکلنے کے وقت اس کی دیکھی ہوئی صورتوں میں سے بہترین صورت اس کا استقبال کرے گی۔ مومن اس سے کہے گا۔ تم کون ہو ؟ وہ مومن سے کہے گی میں وہی ہوں جو دنیا میں تیرے ساتھ تھی۔ میں تمہیں جنت میں داخل کروانے تک نہیں چھوڑوں گا۔

35776

(۳۵۷۷۷) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ الْمُبَارَکِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ قَتَادَۃَ قَالَ: قَالَ قِیلَ لاِبْنِ عُمَرَ: کَانَ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَضْحَکُ بَعْضُہُمْ إِلَی بَعْضٍ ؟ قَالَ : نَعَمْ والإِیمَانُ أَثْبَتُ فِی قُلُوبِہْم مِنَ الْجِبَالِ الْرَّوَاسِی۔
(٣٥٧٧٧) حضرت قتادہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت ابن عمر سے پوچھا گیا کہ جناب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ ایک دوسرے کے ساتھ ہنسی کیا کرتے تھے ؟ آپ نے فرمایا : ہاں۔ لیکن ان کے دلوں میں ایمان پہاڑوں سے بھی زیادہ مضبوط ہوتا تھا۔

35777

(۳۵۷۷۸) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ عَاصِمٍ عَمَّنْ حَدَّثَہُ ، قَالَ : کَانَ ابْنُ عُمَرَ إذَا رَآہُ أَحَدٌ ظَنَّ أَنَّ بِہِ شَیْئًا مِنْ تَتَبُّعِہِ آثَارَ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔
(٣٥٧٧٨) ایک صاحب بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابن عمر (رض) کو جب کوئی آدمی جناب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنتوں کی پیروی کرتے دیکھتا تو وہ یہ گمان کرتا کہ ان پر کسی شے کا اثر ہے۔

35778

(۳۵۷۷۹) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ عَمْرٍو ، أَنَّ ابْنَ عُمَرَ ، قَالَ : مَا وَضَعْت لَبِنَۃً علی لبنۃ ، وَلاَ غَرَسْت نَخْلَۃً مُنْذُ قُبِضَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔
(٣٥٧٧٩) حضرت عمرو سے روایت ہے کہ حضرت ابن عمر (رض) فرماتے تھے۔ جب سے جناب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی روح مبارک قبض ہوئی ہے میں نے ایک اینٹ، اینٹ پر نہیں رکھی اور نہ ہی کوئی درخت لگایا ہے۔

35779

(۳۵۷۸۰) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ کَانَ یَکْرَہُ أَنْ یُصَلِّیَ إِلَی أَمْیَالٍ صَنَعَہَا مَرْوَانُ مِنْ حِجَارَۃٍ۔
(٣٥٧٨٠) حضرت ابن عمر کے بارے میں روایت ہے کہ وہ ان نشانات کے پاس نماز پڑھنے کو ناپسند کرتے تھے جو مروان نے پتھر سے بنائے تھے۔

35780

(۳۵۷۸۱) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ السُّلَیْکِ ، عَنْ أَبِی سَہْلٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ ، قَالَ فِی ہَذِہِ الآیَۃِ : {کُلُّ نَفْسٍ بِمَا کَسَبَتْ رَہِینَۃٌ إِلاَّ أَصْحَابَ الْیَمِینِ} ۔ قَالَ : أَطْفَالُ الْمُسْلِمِینَ۔
(٣٥٧٨١) حضرت ابوسہل کہتے ہیں کہ میں نے اس آیت { کُلُّ نَفْسٍ بِمَا کَسَبَتْ رَہِینَۃٌ إِلاَّ أَصْحَابَ الْیَمِینِ } کے بارے میں حضرت ابن عمر کو سنا۔ آپ (رض) نے فرمایا : یہ مسلمانوں کے بچوں کا ذکر ہے۔

35781

(۳۵۷۸۲) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ، قَالَ: حدَّثَنَا یَعْلَی بْنُ عَطَائٍ، عَنِ الْوَلِیدِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّہُ قَالَ لِحُمْرَانَ: لاَ تَلْقِیَنَّ اللَّہَ بِذِمَّۃٍ لاَ وَفَائَ بِہَا ، فَإِنَّہُ لَیْسَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ دِینَارٌ ، وَلاَ دِرْہَمٌ ، إنَّمَا یُجَازَی النَّاسُ بِأَعْمَالِہِمْ۔
(٣٥٧٨٢) حضرت ابن عمر (رض) کے بارے میں روایت ہے کہ انھوں نے حمران سے فرمایا : تم ایسی ذمہ داری کے ساتھ خدا کی ملاقات نہ کرنا جس کے پورا کرنے کے لیے کچھ نہ ہو کیونکہ قیامت کے دن کوئی درہم و دینار نہیں ہوگا۔ اور لوگوں کو صرف ان کے اعمال کے ذریعہ جزا دی جائے گی۔

35782

(۳۵۷۸۳) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنْ مُحَمَّدٍ ، قَالَ : نُبِّئْت عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، أَنَّہُ کَانَ یَقُولُ : إنِّی أَلْفَیْت أَصْحَابِی عَلَی أَمْرٍ ، وَإِنِّی إنْ خَالَفْتہمْ خَشِیت أَنْ لاَ أَلْحَقَ بِہِمْ۔
(٣٥٧٨٣) حضرت ابن عمر کے بارے میں روایت ہے کہ وہ فرمایا کرتے تھے۔ میں نے اپنے ساتھیوں کو ایک امر پر پایا ہے۔ پس اگر میں ان کی مخالفت کروں تو مجھے ڈر ہے کہ کہیں میں ان کو نہ مل سکوں۔

35783

(۳۵۷۸۴) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ عَطِیَّۃَ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ {أَوْ خَلْقًا مِمَّا یَکْبُرُ فِی صُدُورِکُمْ} قَالَ : الْمَوْتُ : لَوْ کُنْتُمُ الْمَوْتَ لأَحْیَیْتُکُمْ۔
(٣٥٧٨٤) حضرت ابن عمر (رض) سے { أَوْ خَلْقًا مِمَّا یَکْبُرُ فِی صُدُورِکُمْ } کے بارے میں روایت ہے۔ آپ (رض) نے فرمایا : موت۔ اگر تم مردہ ہوتے تو میں تمہیں زندہ کردیتا۔

35784

(۳۵۷۸۵) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ عَطِیَّۃَ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : {فَلاَ اقْتَحَمَ الْعَقَبَۃَ} قَالَ : جَبَلٌ زُلاَلٌ فِی جَہَنَّمَ۔ (ابن جریر ۲۰۱)
(٣٥٧٨٥) حضرت ابن عمر سے { فَلاَ اقْتَحَمَ الْعَقَبَۃَ } کے بارے میں روایت ہے۔ آپ نے فرمایا : یہ جہنم میں زلال کا پہاڑ ہے۔

35785

(۳۵۷۸۶) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنِ الْبَرَائِ بْنِ سُلَیْمٍ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : مَا تَلاَ ہَذِہِ الآیَۃَ قَطُّ إِلاَّ بَکَی : {إِنْ تُبْدُوا مَا فِی أَنْفُسِکُمْ أَوْ تُخْفُوہُ یُحَاسِبْکُمْ بِہِ اللَّہُ}۔
(٣٥٧٨٦) حضرت نافع، حضرت ابن عمر (رض) کے بارے میں روایت کرتے ہیں کہ آپ جب بھی یہ آیت پڑھتے تو رو پڑتے : {إِنْ تُبْدُوا مَا فِی أَنْفُسِکُمْ أَوْ تُخْفُوہُ یُحَاسِبْکُمْ بِہِ اللَّہُ }۔

35786

(۳۵۷۸۷) حَدَّثَنَا عَفَّانُ بْنُ مُسْلِمٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ أَبِی عُثْمَانَ ، قَالَ : حَدَّثَنَا سَلِیطُ بْنُ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : قَالَ ابْنُ عُمَرَ : رَأوا بِالْخَیْرِ ، وَلاَ تُرَاؤوا بِالشَّرِّ۔
(٣٥٧٨٧) حضرت ابن عمر نے فرمایا : تم خیر کا مظاہرہ کرو۔ شر کا مظاہرہ نہ کرو۔

35787

(۳۵۷۸۸) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ یَمَانٍ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ جَبَلَۃَ بْنِ سُحَیْمٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ وَبِالأَسْحَارِ ہُمْ یَسْتَغْفِرُونَ ، قَالَ : یُصَلُّونَ۔
(٣٥٧٨٨) حضرت ابن عمر (رض) سے وَبِالأَسْحَارِ ہُمْ یَسْتَغْفِرُونَ کے بارے میں روایت ہے۔ فرمایا : وہ لوگ نماز پڑھتے ہیں۔

35788

(۳۵۷۸۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا ہِشَامُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنْ نَافِعٍ ، قَالَ : کَانَ ابْنُ عُمَرَ یَعْمَلُ فِی خَاصَّۃِ نَفْسِہِ بِالشَّیْئِ لاَ یَعْمَلُ بِہِ فِی النَّاسِ۔
(٣٥٧٨٩) حضرت نافع سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت ابن عمر (رض) اپنے آپ کو بتا کر ایک کام کرتے تھے جو آپ عام لوگوں میں نہیں کرتے تھے۔

35789

(۳۵۷۹۰) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ، عَنْ مُحَمَّدٍ، قَالَ: کَانَ ابْنُ عُمَرَ کُلَّمَا اسْتَیْقَظَ مِنَ اللَّیْلِ صَلَّی۔
(٣٥٧٩٠) حضرت محمد سے روایت ہے کہ حضرت عمر (رض) رات کے وقت جب بھی بیدار ہوتے تو نماز پڑھتے۔

35790

(۳۵۷۹۱) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ مَیْمُونٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : قِیلَ لاِبْنِ عُمَرَ : تُوُفِّیَ زَیْدُ بْنُ حَارِثَۃَ وَتَرَکَ مِئَۃَ أَلْفٍ درہم ، قَالَ : لَکِنْ لاَ تَتْرُکْہُ۔
(٣٥٧٩١) حضرت میمون سے روایت ہے کہتے ہیں کہ حضرت ابن عمر سے کہا گیا۔ حضرت زید بن ثابت فوت ہوئے اور انھوں نے ایک لاکھ درہم چھوڑے۔ آپ (رض) نے فرمایا : لیکن تم ایک لاکھ درہم مت چھوڑنا۔

35791

(۳۵۷۹۲) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ وَاقِدٍ ، عن نافع قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللہِ بْنُ عُمَرَ ہَذِہِ الآیَۃَ {أَلَمْ یَأْنِ لِلَّذِینَ آمَنُوا أَنْ تَخْشَعَ قُلُوبُہُمْ لِذِکْرِ اللہِ}۔ (ابو نعیم ۳۰۵)
(٣٥٧٩٢) حضرت عبداللہ بن عمر (رض) نے یہ آیت پڑھی : { أَلَمْ یَأْنِ لِلَّذِینَ آمَنُوا أَنْ تَخْشَعَ قُلُوبُہُمْ لِذِکْرِ اللہِ } تو روپڑے۔

35792

(۳۵۷۹۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ أَبِی مَوْدُودٍ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، أَنَّہُ کَانَ فِی طَرِیقِ مَکَّۃَ یَقُولُ بِرَأْسِ رَاحِلَتِہِ یُثْنِیہَا وَیَقُولُ : لَعَلَّ خُفًّا یَقَعُ عَلَی خُفٍّ ، یَعْنِی خُفَّ رَاحِلَۃِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔
(٣٥٧٩٣) حضرت ابن عمر (رض) کے بارے میں روایت ہے کہ وہ مکہ کے راستہ پر چل رہے تھے کہ انھوں نے اپنی سواری کے سر کو جھکایا اور فرمایا : شاید کہ نشان پر نشان آجائے یعنی جناب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سواری کا نشان۔

35793

(۳۵۷۹۴) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِِ ، عَنْ آدَمَ بْنِ عَلِیٍّ ، قَالَ : سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ یَقُولُ : خَالِفُوا سُنَنَ الْمُشْرِکِینَ۔
(٣٥٧٩٤) حضرت آدم بن علی سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عمر کو کہتے سنا۔ مشرکوں کے طریقوں کی مخالفت کرو۔

35794

(۳۵۷۹۵) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَنْ فُضَیْلِ بْنِ مَرْزُوقٍ ، عَنْ عَطِیَّۃَ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ {فَوَرَبِّکَ لَنَسْأَلَنَّہُمْ أَجْمَعِینَ} قَالَ : عَنْ لاَ إلَہَ إِلاَّ اللَّہُ۔
(٣٥٧٩٥) حضرت ابن عمر (رض) سے { فَوَرَبِّکَ لَنَسْأَلَنَّہُمْ أَجْمَعِینَ } کے بارے میں روایت ہے کہ لا الہ الا اللہ کے بارے میں سوال ہوگا۔

35795

(۳۵۷۹۶) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ إدْرِیسَ ، عَنْ عَطِیَّۃَ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ : {وَإِذَا وَقَعَ الْقَوْلُ عَلَیْہِمْ أَخْرَجْنَا لَہُمْ دَابَّۃً مِنَ الأَرْضِ تکلمہم} قَالَ : حینَ لاَ یَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ ، وَلاَ یَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ۔ (حاکم ۴۸۵)
(٣٥٧٩٦) حضرت ابن عمر (رض) سے { وَإِذَا وَقَعَ الْقَوْلُ عَلَیْہِمْ أَخْرَجْنَا لَہُمْ دَابَّۃً مِنَ الأَرْضِ تکلمہم } کے بارے میں روایت ہے۔ جب لوگ اچھی بات کا حکم نہیں کریں گے اور بری بات سے منع نہیں کریں گے۔

35796

(۳۵۷۹۷) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، عَنْ نَافِعٍ ، أنَّ ابْنَ عُمَرَ کَانَ إذَا قَرَأَ الْقُرْآنَ کَرِہَ أَنْ یَتَکَلَّمَ ، أَوْ لَمْ یَتَکَلَّمْ حَتَّی یَفْرُغَ مِمَّا یُرِیدُ ، أَوْ لَمْ یَتَکَلَّمْ حَتَّی یَفْرُغَ إِلاَّ یَوْمًا کُنْت قَدْ أَخَذْت عَلَیْہِ الْمُصْحَفَ وَہُوَ یَقْرَأُ فَأَتَی عَلَی آیۃ ، فَقَالَ : أَتَدْرِی فِیمَا أُنْزِلَتْ ؟۔
(٣٥٧٩٧) حضرت نافع سے روایت ہے کہ حضرت ابن عمر (رض) جب قراءت کرتے تو کلام کرنے کو ناپسند کرتے تھے ۔۔۔ یا فرمایا۔۔۔ فارغ ہونے تک اپنی مراد کی بات نہیں کرتے تھے۔ یا فرمایا ۔۔۔ فارغ ۔۔۔ ہونے تک کلام نہیں کرتے تھے۔ مگر ایک دن جب میں ان کے پاس مصحف لے کر بیٹھا تھا اور وہ قراءت کر رہے تھے۔ آپ (رض) ایک آیت پر پہنچے تو فرمایا : تمہیں معلوم ہے یہ آیت کس کے بارے میں نازل ہوئی ؟ “

35797

(۳۵۷۹۸) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَیْمُونٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : دَخَلَ ابْنُ عُمَرَ فِی أُنَاسٍ مِنْ أَصْحَابِہِ عَلَی عَبْدِ اللہِ بْنِ عَامِرِ بْنِ کُرَیْزٍ وَہُوَ مَرِیضٌ یَرون أَنَّہُ یَمُوت ، فَقَالُوا لَہُ : أَبْشِرْ فَإِنَّک قَدْ حَفَرْت الْحِیَاضَ بِعَرَفَاتٍ یَشْرَعُ فِیہَا حَاجُّ بَیْتِ اللہِ ، وَحَفَرْت الآبَارَ بِالْفَلَوَاتِ ، قَالَ : وَذَکَرُوا خِصَالاً مِنْ خِصَالِ الْخَیْرِ ، قَالَ : فَقَالُوا : إنَّا لَنَرْجُو لَک خَیْرًا إنْ شَائَ اللَّہُ ، وَابْنُ عُمَرَ جَالِسٌ لاَ یَتَکَلَّمُ ، فَلَمَّا أَبْطَأَ عَلَیْہِ الْکَلاَمُ ، قَالَ : یَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، مَا تَقُولُ ، فَقَالَ : إذَا طَابَتِ الْمَکْسَبَۃُ زَکَت النَّفَقَۃَ ، وَسَتَرِدُ فَتَعْلَمُ۔
(٣٥٧٩٨) حضرت میمون سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت ابن عمر، اپنے چند ساتھیوں کے ہمراہ حضرت عبداللہ بن عامر کے ہاں تشریف لے گئے جبکہ وہ بیمار تھے اور لوگوں کا خیال یہ تھا وہ مرجائیں گے۔ چنانچہ لوگوں نے انھیں کہا تمہیں بشارت ہو کہ تم نے عرفات میں بہت سے حوض بنوائے ہیں جن سے بیت اللہ کے حاجی سیراب ہوں گے۔ اور آپ نے جنگلوں میں کنوے کھدوائے۔ راوی کہتے ہیں لوگوں نے بہت سی خیر کی باتیں ذکر کردیں۔ راوی کہتے ہیں پھر لوگ کہنے لگے۔ ان شاء اللہ ہمیں آپ کے لیے خیر کی امید ہے۔ ابن عمر (رض) خاموش بیٹھے رہے۔ پھر بعد میں جب آپ نے کلام فرمایا : تو کہا اے ابوعبدالرحمن آپ کیا کہتے ہیں ؟ تو آپ (رض) نے فرمایا : جب کمائی پاکیزہ ہوتی ہے تو خرچ اچھا ہوتا ہے۔ ابو عنقریب تم وارد ہو گے تو پھر تم جان لوگے۔

35798

(۳۵۷۹۹) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَنِ ابْنِ أَبْجَرَ ، عَنْ ثُوَیْرٍ ، قَالَ : مَرَّ ابْنُ عُمَرَ فِی خَرِبَۃٍ وَمَعَہُ رَجُلٌ ، فَقَالَ : اہْتِفْ ، فَہَتَفَ فَلَمْ یُجِبْہُ ابْنُ عُمَرَ ، ثُمَّ قَالَ لَہُ : اہْتِفْ ، فَأَجَابَہُ ابْنُ عُمَرَ : ذَہَبُوا وَبَقِیَتْ أَعْمَالُہُمْ۔
(٣٥٧٩٩) حضرت ثویر سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت ابن عمر (رض) کا ایک ویرانہ پر گزر ہوا آپ کے ہمراہ ایک آدمی تھا۔ آپ نے فرمایا : آواز دو ۔ چنانچہ اس نے آواز دی۔ لیکن حضرت ابن عمر نے اس کو جواب نہیں دیا۔ پھر آپ (رض) نے اس کو کہا۔ آواز دو ۔ پھر آپ نے اس کو جواب دیا۔ وہ لوگ چلے گئے اور ان کے اعمال باقی رہ گئے۔

35799

(۳۵۸۰۰) حَدَّثَنَا مُعْتَمِرُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنِ التَّیْمِیِّ ، عَنْ أَبِی عُثْمَانَ ، عَنْ سَلْمَانَ ، قَالَ : لَمَّا خَلَقَ اللَّہُ آدَمَ ، قَالَ : وَاحِدَۃٌ لِی وَوَاحِدَۃٌ لَک ، وَوَاحِدَۃٌ بَیْنِی وَبَیْنَکَ ، فَأَمَّا الَّتِی لِی فَتَعْبُدُنِی لاَ تُشْرِکْ بِی شَیْئًا ، وَأَمَّا الَّتِی لَک فَمَا عَمِلْت مِنْ شَیْئٍ جَزَیْتُک بِہِ ، وَأَمَّا الَّتِی بَیْنِی وَبَیْنَکَ فَمِنْک الْمَسْأَلَۃُ والدعاء وَعَلَیَّ الإِجَابَۃُ۔
(٣٥٨٠٠) حضرت سلمان سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم کو پیدا کیا تو فرمایا : ایک چیز میری ہے اور ایک چیز تیری ہے اور ایک چیز میرے اور تیرے درمیان ہے جو چیز میری ہے وہ یہ کہ تم میری عبادت کرو۔ میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو اور جو چیز تمہاری ہے وہ یہ کہ تم جو عمل کرو گے میں تمہیں اس کا بدلہ دوں گا اور جو چیز میرے اور تمہارے درمیان ہے وہ یہ کہ تم سوال کرو اور دعا مانگو اور میں قبول کروں گا۔

35800

(۳۵۸۰۱) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنِ التَّیْمِیِّ ، عَنْ أَبِی عُثْمَانَ ، عَنْ سَلْمَانَ ، قَالَ : کَانَتِ امْرَأَۃُ فِرْعَوْنَ تُعَذَّبُ بِالشَّمْسِ ، فَإِذَا انْصَرَفُوا عنہا أَظَلَّتْہَا الْمَلاَئِکَۃُ بِأَجْنِحَتِہَا ، فَکَانَتْ تَرَی بَیْتَہَا مِنَ الْجَنَّۃِ۔
(٣٥٨٠١) حضرت سلمان سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ فرعون کی بیوی کو دھوپ میں رکھ کر عذاب دیا جاتا تھا لیکن جب یہ لوگ اس سے واپس پلٹ جاتے تو فرشتے اس عورت پر اپنے پروں کا سایہ کردیتے۔ پس وہ عورت اپنا جنت والا گھر دیکھ لیتی۔

35801

(۳۵۸۰۲) حَدَّثَنَا عَبْدُاللہِ بْنُ نُمَیْرٍ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ، أَنَّ سَلْمَانَ، وَعَبْدَ اللہِ بْنَ سَلاَمٍ الْتَقَیَا، فَقَالَ: أَحَدُہُمَا لِصَاحِبِہِ: إنْ لَقِیت رَبَّک فَأَخْبِرْنِی مَاذَا لَقِیت مِنْہُ وَإِنْ لَقِیتک فَأَخْبَرْتُک، فَتُوُفِّیَ أَحَدُہُمَا فَلَقِیَہُ صَاحِبُہُ فِی الْمَنَامِ ، فَقَالَ : تَوَکَّلْ وَأَبْشِرْ ، فَإِنِّی لَمْ أَرَ مِثْلَ التَّوَکُّلِ قَطُّ ، قَالَہَا ثَلاَثَ مَرَّاتٍ۔
(٣٥٨٠٢) حضرت سعید بن مسیب سے روایت ہے کہ حضرت سلمان اور حضرت عبداللہ بن سلام کی باہم ملاقات ہوئی تو ان میں سے ایک نے اپنے ساتھی سے کہا۔ اگر تم اپنے رب سے (مجھ سے پہلے) ملو تو تم مجھے بتا دینا کہ میں کیا لے کر خدا سے ملوں۔ اور اگر تم سے پہلے میں خدا سے ملا تو میں تمہیں ملوں گا اور تمہیں بتاؤں گا۔ پھر ان میں سے ایک فوت ہوگیا اور وہ اپنے ساتھی کو خواب میں ملا اور کہا۔ توکل کرو اور بشارت پالو۔ کیونکہ میں نے تو کل جیسی چیز بالکل نہیں دیکھی۔ یہ بات اس نے تین مرتبہ کہی۔

35802

(۳۵۸۰۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِی الْجَعْدِ ، عَنْ زَیْدِ بْنِ صُوحَانَ ، عَنْ سَلْمَانَ ، أَنَّہُ رَکَعَ رَکْعَتَیْنِ قَبْلَ الْفَجْرِ ، قَالَ : فَقُلْتُ لَہُ ، فَقَالَ : احْفَظْ نَفْسَک یَقْظَانَ یَحْفَظْک نَائِمًا۔
(٣٥٨٠٣) حضرت سلمان کے بارے میں حضرت زید بن صوحان روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے فجر سے پہلے دو رکعات ادا کیں۔ راوی کہتے ہیں میں نے ان سے کہا تو انھوں نے فرمایا : تم بیداری میں اپنے نفس کی حفاظت کرو تو وہ نیند میں تمہاری حفاظت کرے گا۔

35803

(۳۵۸۰۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ شِمْر ، عَنْ بَعْضِ أَشْیَاخِہِ ، عَنْ سَلْمَانَ ، قَالَ : أَکْثَرُ النَّاسِ ذُنُوبًا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ أَکْثَرُہُمْ کَلاَمُا فِی مَعْصِیَۃِ اللہِ۔
(٣٥٨٠٤) حضرت سلمان سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ قیامت کے دن سب سے زیادہ گناہوں والا وہ شخص ہوگا جب سب سے زیادہ خدا کی نافرمانی میں کلام کرنے والا ہوگا۔

35804

(۳۵۸۰۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ الْغَازِ ، عَنْ عُبَادَۃَ بْنِ نُسَیٍّ ، قَالَ : کَانَ لِسَلْمَانَ خِبَائٌ مِنْ عَبَائٍ۔
(٣٥٨٠٥) حضرت عبادہ بن نسی سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت سلمان کا عباء کا ایک خیمہ تھا۔

35805

(۳۵۸۰۶) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ ، عَنْ حَبِیبِ بْنِ شَہِیدٍ ، عَنِ ابْنِ بُرَیْدَۃَ ، أَنَّ سَلْمَانَ کَانَ یَصْنَعُ الطَّعَامَ مِنْ کَسْبِہِ فَیَدْعُو الْمَجْذُومِینَ فَیَأْکُلُ مَعَہُمْ۔
(٣٥٨٠٦) حضرت ابن بریدہ سے روایت ہے کہ حضرت سلمان، اپنی کمائی سے کھانا تیار کرتے تھے۔ پھر آپ مجذومین کو بلاتے اور ان کے ہمراہ کھانا کھاتے تھے۔

35806

(۳۵۸۰۷) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، عَنْ شُعْبَۃَ، عَنْ سِمَاکٍ ، عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ حُمَیْدٍ، قَالَ: دَخَلْت مَعَ خَالِی عَبَّادٍ عَلَی سَلْمَانَ، فَلَمَّا رَآہُ صَافَحَہُ سَلْمَانُ ، وَإِذَا ہُوَ مُقَصِّصٌ ، وَإِذَا ہُوَ یَسُفُّ الْخُوصَ ، فَقَالَ : إنہ اشتُریَ لِی بِدِرْہَمٍ فَأَسِفُّہُ وَأَبِیعُہُ بِثَلاَثَۃٍ ، فَأَتَصَدَّقُ بِدِرْہَمٍ وَأَجْعَلُ دِرْہَمًا فِیہِ ، وَأُنْفِقُ دِرْہَمًا ، وَلَوْ أَنَّ عُمَرَ نَہَانِی مَا انْتَہَیْت۔
(٣٥٨٠٧) حضرت نعمان بن حمید سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں اپنے خالو عباد کے ہمراہ حضرت سلمان کے ہاں گیا۔ پس جب حضرت سلمان نے ان کو دیکھا تو انھیں مصافحہ کیا۔ اور ان کے بال خوب لمبے تھے اور وہ چٹائی بن رہے تھے۔ حضرت سلمان نے فرمایا : یہ چیز میرے لیے ایک درہم میں خریدی جاتی ہے۔ میں اس کو بنتا ہوں اور اس کو تین درہموں میں بیچتا ہوں۔ پھر میں ایک درہم صدقہ کردیتا ہوں اور ایک درہم اسی کام میں لگا دیتا ہوں اور ایک درہم خرچ کردیتا ہوں۔ اور اگر حضرت عمر مجھے (اس سے) منع کریں تو بھی میں منع نہیں ہوں گا۔

35807

(۳۵۸۰۸) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِی ظَبْیَانَ ، عَنْ جَرِیرٍ ، قَالَ : نَزَلْنَا الصِّفَاحَ فَإِذَا نَحْنُ بِرَجُلٍ نَائِمٍ فِی ظِلِّ شَجَرَۃٍ قَدْ کَادَتِ الشَّمْسُ تَبْلُغُہُ ، قَالَ : فَقُلْتُ لِلْغُلاَمِ : انْطَلِقْ بِہَذَا النِّطْعِ فَأَظِلَّہُ ، فَلَمَّا اسْتَیْقَظَ إذَا ہُوَ سَلْمَانُ ، قَالَ : فَأَتَیْتہ أُسَلِّمُ عَلَیْہِ ، قَالَ : فَقَالَ : یَا جَرِیرُ ، تَوَاضَعْ لِلَّہِ ، فَإِنَّ مَنْ تَوَاضَعَ لِلَّہِ رَفَعَہُ اللَّہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ، یَا جَرِیرُ ، ہَلْ تَدْرِی مَا الظُّلُمَاتُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ، قَالَ : قُلْتُ : لاَ أَدْرِی ، قَالَ : ظُلْمُ النَّاسِ بَیْنَہُمْ فِی الدُّنْیَا ، ثُمَّ أَخَذَ عُودًا لاَ أَکَادُ أَرَاہُ بَیْنَ إصْبَعَیْہِ ، فَقَالَ : یَا جَرِیرُ ، لَوْ طَلَبْت فِی الْجَنَّۃِ مِثْلَ ہَذَا الْعُودِ لَمْ تَجِدْہُ ، قَالَ : قُلْتُ : یَا أَبَا عَبْدِ اللہِ أَیْنَ النَّخْلُ وَالشَّجَرُ ، فَقَالَ : أُصُولُہُ اللُّؤْلُؤُ وَالذَّہَبُ وَأَعْلاَہُ الثَمَرُ۔
(٣٥٨٠٨) حضرت جریر سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ ہم مقام صفاح میں اترے تو ہم نے (وہاں) درخت کے سائے میں ایک آدمی کو سویا ہوا دیکھا۔ قریب تھا کہ اس کو سورج پہنچ جاتا کہتے ہیں کہ میں نے غلام سے کہا۔ یہ چمڑا لے جاؤ اور اس آدمی پر سایہ کردو۔ راوی کہتے ہیں پس اس نے اس پر سایہ کردیا۔ پھر وہ آدمی جب بیدار ہوا تو وہ حضرت سلمان تھے۔ راوی کہتے ہیں میں ان کے پاس آیا اور ان کو سلام کیا۔ راوی کہتے ہیں پھر حضرت سلمان نے کہا۔ اے جریر ! اللہ کے لیے تواضع اختیار کرو۔ کیونکہ جو شخص اللہ کے لیے تواضع کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو قیامت کے دن بلند کردیتے ہیں۔ اے جریر ! تم جانتے ہو کہ قیامت کے دن ظلمات کیا ہیں ؟ راوی کہتے ہیں میں نے عرض کیا : میں نہیں جانتا۔ آپ (رض) نے فرمایا : لوگوں کا دنیا میں باہم ظلم کرنا۔ پھر آپ (رض) نے ایک لکڑی میرا خیال نہیں تھا کہ آپ اس کو اپنے ہاتھ میں رکھیں گے۔ فرمایا : اے جریر ! اگر تم جنت میں اس کے مثل لکڑی تلاش کرو گے تو نہ پاؤ گے۔ راوی کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : اے ابوعبداللہ ! کھجور کے اور دوسرے درخت کہاں ہوں گے ؟ آپ (رض) نے فرمایا : ان کے اصول موتیوں اور سونے کے ہوں گے اور ان کے اوپر پھل ہوگا۔

35808

(۳۵۸۰۹) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ أَبِی عُثْمَانَ ، عَنْ سَلْمَانَ ، قَالَ : إذَا کَانَ الْعَبْدُ یَذْکُرُ اللَّہَ فِی السَّرَّائِ وَیَحْمَدُہُ فِی الرَّخَائِ فَأَصَابَہُ ضُرٌّ فَدَعَا اللَّہَ ، قَالَتِ الْمَلاَئِکَۃُ : صَوْتٌ مَعْرُوفٌ مِنَ امْرِئٍ ضَعِیفٍ فَیَشْفَعُونَ لَہُ ، وَإِنْ کَانَ الْعَبْدُ لم یَذْکُرُ اللَّہَ فِی السَّرَّائِ ، وَلاَ یَحْمَدُہُ فِی الرَّخَائِ فَأَصَابَہُ ضُرٌّ فَدَعَا اللَّہَ قَالَتِ الْمَلاَئِکَۃُ : صَوْتٌ مُنْکَرٌ فَلَمْ یَشْفَعُوا لَہُ۔
(٣٥٨٠٩) حضرت سلمان سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ بندہ جب خوشحالی میں خدا کا ذکر کرتا ہے اور تنگدستی میں اس کی حمد وثنا کرتا ہے پھر اس کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے اور وہ اللہ سے دعا کرتا ہے تو فرشتے کہتے ہیں ایک کمزور بندے کی پہچانی ہوئی آواز ہے۔ چنانچہ وہ اس کی شفاعت کرتے ہیں اور اگر خوشحالی میں خدا کو یاد نہیں کرتا اور تنگدستی میں خدا کی حمد نہیں کرتا پھر اس کو تکلیف پہنچتی ہے اور وہ اللہ سے دعا کرتا ہے۔ تو فرشتے کہتے ہیں نامانوس آواز ہے چنانچہ وہ اس کی شفاعت نہیں کرتے۔

35809

(۳۵۸۱۰) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِِ ، وَأَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ صَالِحِ بْنِ خَبَّابٍ ، عَنْ حُصَیْنِ بْنِ عُقْبَۃَ ، قَالَ : قَالَ سَلْمَانُ : عِلْمٌ لاَ ، یُقَالُ بِہِ کَکَنْزٍ لاَ یُنْفَقُ مِنْہُ۔
(٣٥٨١٠) حضرت حصین بن عقبہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت سلمان نے فرمایا : وہ علم جو بیان نہ کیا جائے اس خزانہ کے مثل ہے جس کو خرچ نہ کیا جائے۔

35810

(۳۵۸۱۱) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ ، قَالَ : حدَّثَنِی عَمِّی مُوسَی بْنُ یَسَارٍ ، أَنَّ سَلْمَانَ کَتَبَ إِلَی أَبِی الدَّرْدَائِ ، إِنَّ فِی ظِلِّ الْعَرْشِ إمَامًا مُقْسِطًا ، وَذَا مَالٍ تَصَدَّقَ أَخْفَی یَمِینَہُ ، عَنْ شِمَالِہِ ، وَرَجُلاً دَعَتْہُ امْرَأَۃٌ جمیلۃ ذَاتُ حَسَبٍ وَمَنْصِبٍ إِلَی نَفْسِہَا ، فَقَالَ : أَخَافُ اللَّہَ رَبَّ الْعَالَمِینَ ، وَرَجُلاً نَشَأَ فَکَانَتْ صُحْبَتُہُ وَشَبَابُہُ وَقُوَّتُہُ فِیمَا یُحِبُّ اللَّہُ وَیَرْضَاہُ مِنَ الْعَمَلِ ، وَرَجُلاً کَانَ قَلْبُہُ مُعَلَّقًا فِی الْمَسَاجِدِ مِنْ حُبِّہَا ، وَرَجُلاً ذَکَرَ اللَّہَ فَفَاضَتْ عَیْنَاہُ مِنَ الدَّمْعِ مِنْ خَشْیَۃِ اللہِ ، وَرَجُلَیْنِ الْتَقَیَا ، فَقَالَ : أَحَدُہُمَا لِصَاحِبِہِ ، إنِّی لأُحِبُّک فِی اللہِ ، وَکَتَبَ إلَیْہِ : إنَّمَا الْعِلْمُ کَالْیَنَابِیعِ فَیَنْفَعُ بِہِ اللَّہُ مَنْ شَائَ ، وَمَثَلُ حِکْمَۃٍ لاَ یُتَکَلَّمُ بِہَا کَجَسَدٍ لاَ رُوحَ لَہُ ، وَمَثَلُ عِلْمٍ لاَ یُعْمَلُ بِہِ کَمَثَلِ کَنْزٍ لاَ یُنْفَقُ مِنْہُ ، وَمَثَلُ الْعَالِمِ کَمَثَلِ رَجُلٍ أَضَائَ لَہُ مِصْبَاحٌ فِی طَرِیقٍ فَجَعَلَ النَّاسُ یَسْتَضِیئُونَ بِہِ ، وَکُلٌّ یَدْعُو إِلَیْہِ۔
(٣٥٨١١) حضرت موسیٰ بن یسار بیان کرتے ہیں کہ حضرت سلمان نے حضرت ابوالدرداء (رض) کو خط لکھا : ” عرش کے سایہ میں عادل امام ہوگا اور وہ مالدار شخص ہوگا کہ جب صدقہ کرے تو اپنے دائیں ہاتھ کو اپنے بائیں ہاتھ سے مخفی رکھے اور وہ آدمی ہوگا جس کو خوبصورت اور حسب ونسب والی عورت اپنی طرف دعوت دے اور وہ مرد کہہ دے میں رب العالمین سے خوف کرتا ہوں اور وہ آدمی ہوگا جو اس طرح نشو و نما پائے کہ اس کی صحت، اس کا شباب اور اس کی موت اللہ کی محبت اور اس کی رضا کے اعمال میں خرچ ہو اور وہ آدمی ہوگا جس کا دل مسجد کی محبت کی وجہ سے مسجدوں میں ہی اٹکا رہے اور وہ آدمی ہوگا جو اللہ کا ذکر کرے اور خدا کے خوف کی وجہ سے اس کی آنکھیں بہہ پڑیں۔ اور وہ دو آدمی ہوں گے جو باہم ملیں تو ان میں سے ایک دوسرے سے کہے : میں تم سے اللہ کے لیے محبت کرتا ہوں۔
اور خط میں یہ بھی لکھا : علم، چشموں کی طرح ہے پس اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ جس کو چاہے اس سے نفع مند کرتے ہیں۔ اور وہ حکمت جو بولی نہ جائے اس کی مثال بےروح جسم کی طرح ہے اور عمل نہ کیے جانے والے علم کی مثال اس خزانہ کی طرح ہے جس سے خرچ نہ کیا جائے اور عالم کی مثال اس آدمی کی طرح ہے جس کے لیے راستہ میں چراغ روشن کیا جائے۔ پس لوگ اس سے روشنی حاصل کریں اور ہر ایک اس کے لیے دعا کرے۔

35811

(۳۵۸۱۲) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا عَبْدُ الْحَمِیدِ بْنُ جَعْفَرٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، أَنَّ سَلْمَانَ کَانَ یَقُولُ : إنَّ مِنَ النَّاسِ حَامِلَ دَائٍ وَحَامِلَ شِفَائٍ ، وَمِفْتَاحَ خَیْرٍ وَمِفْتَاحَ شَرٍّ۔
(٣٥٨١٢) حضرت جعفر سے روایت ہے کہ حضرت سلمان فرمایا کرتے تھے۔ بعض لوگ بیماری کو اٹھانے والے ہوتے ہیں اور بعض لوگ شفا کے حامل ہوتے ہیں۔ بعض لوگ خیر کی کنجی ہوتے ہیں اور بعض لوگ شر کی کنجی ہوتے ہیں۔

35812

(۳۵۸۱۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا الأَعْمَشُ ، عَنْ شِمْرٍ ، عَنْ شَہْرِ بْنِ حَوْشَبٍ ، قَالَ : جَائَ سَلْمَانُ إِلَی أَبِی الدَّرْدَائِ فَلَمْ یَجِدْہُ ، فَسَلَّمَ عَلَی أُمِّ الدَّرْدَائِ ، وَقَالَ : أَیْنَ أَخِی ، قَالَتْ فِی الْمَسْجِد ، وَعَلَیْہِ عَبَائَۃٌ لَہَا قُطْوَانِیَّۃٌ ، فَأَلْقَتْ إلَیْہِ خَلَقَ وِسَادَۃٍ ، فَأَبَی أَنْ یَجْلِسَ عَلَیْہَا وَلَوَّی عِمَامَتَہُ فَطَرَحَہَا فَجَلَسَ عَلَیْہَا ، قَالَ : فَجَائَ أَبُو الدَّرْدَائِ مُعَلِّقًا لَحْمًا بِدِرْہَمَیْنِ ، فَقَامَتْ أُمُّ الدَّرْدَائِ فَطَبَخَتْہُ وَخَبَزَتْ ، ثُمَّ جَائَتْ بِالطَّعَامِ ، وَأَبُو الدَّرْدَائِ صَائِمٌ ، فَقَالَ : سَلْمَانُ : مَنْ یَأْکُلْ مَعِی ، فَقَالَ : تَأْکُلُ مَعَک أُمُّ الدَّرْدَائِ ، فَلَمْ یَدَعْہُ حَتَّی أَفْطَرَ ، فَقَالَ : سَلْمَانُ لأُمِّ الدَّرْدَائِ وَرَآہَا سَیِّئَۃَ الْہَیْئَۃِ : مَا لَک ، قَالَتْ : إنَّ أَخَاک لاَ یُرِیدُ النِّسَائَ ، یَصُومُ النَّہَارَ وَیَقُومُ اللَّیْلَ ، فَبَاتَ عِنْدَہُ ، فَجَعَلَ أَبُو الدَّرْدَائِ یُرِیدُ أَنْ یَقُومَ فَیَحْبِسُہُ حَتَّی کَانَ قَبْلَ الْفَجْرِ فَقَامَ فَتَوَضَّأَ وَصَلَّی رَکَعَاتٍ ، قَالَ : فَقَالَ لَہُ أَبُو الدَّرْدَائِ : حَبَسْتنِی عَنْ صَلاَتِی ، فَقَالَ لَہُ سَلْمَانُ : صَلِّ وَنَمْ وَصُمْ وَأَفْطِرْ فَإِنَّ لأَہْلِکَ عَلَیْک حَقًّا وَلِعَیْنَیْک عَلَیْک حَقًّا۔
(٣٥٨١٣) حضرت شہر بن حوشب سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت سلمان، حضرت ابوالدرداء کے ہاں تشریف لے گئے لیکن انھیں موجود نہ پایا۔ تو آپ (رض) نے ام درداء (رض) کو سلام کیا اور کہا : میرا بھائی کہاں ہے ؟ انھوں نے جواب دیا مسجد میں اور ان پر اہلیہ کا قطوانی چوغہ تھا۔ ام درداء (رض) نے ان کی طرف پرانا تکیہ پھینکا۔ انھوں نے اس پر بیٹھنے سے انکار کردیا اور اپنے عمامہ کو اتارا اور اس کو نیچے ڈال کر اس پر بیٹھ گئے۔ راوی کہتے ہیں پھر حضرت ابوالدرداء (رض) تشریف لائے۔ دو درہموں کا گوشت اٹھائے ہوئے۔ چنانچہ حضرت ام درداء کھڑی ہوئیں انھوں نے اس کو پکایا اور روٹی پکائی۔ پھر کھانا لے کر آئی۔ حضرت ابودرداء (رض) روزے سے تھے۔ حضرت سلمان نے کہا میرے ساتھ کون کھائے گا ؟ انھوں نے کہا تمہارے ساتھ ام درداء کھائیں گی۔ حضرت سلمان نے ان کو روزہ افطار کروائے بغیر نہ چھوڑا۔ پھر حضرت سلمان (رض) نے ام درداء سے کہا۔ آپ نے ان کی خستہ حالت دیکھی تھی۔ تمہیں کیا ہوا ہے ؟ انھوں نے جواب دیا۔ آپ کا بھائی عورتوں کا ارادہ نہیں رکھتا۔ وہ دن کو روزہ رکھتا ہے اور رات کو قیام کرتا ہے۔ چنانچہ آپ نے ان کے ہاں رات گزاری۔ اور حضرت ابوالدرداء (رض) اٹھنے کا ارادہ کرتے تو حضرت سلمان ان کو روک دیتے یہاں تک کہ فجر سے پہلے کا وقت ہوگیا تو آپ کھڑے ہوئے وضو کیا اور چند رکعات ادا کیں۔ راوی کہتے ہیں اس پر حضرت ابوالدراء (رض) نے ان سے کہا۔ آپ نے مجھے میری نماز سے روکا ہے۔ حضرت سلمان نے ان سے کہا۔ نماز پڑھو اور سو جاؤ۔ روزہ رکھو اور افطار کرو کیونکہ تمہارے اہل خانہ کا بھی تم پر حق ہے اور تمہاری آنکھوں کا بھی تم پر حق ہے۔

35813

(۳۵۸۱۴) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ، قَالَ: حدَّثَنَا عُثْمَان بْنُ غِیَاثٍ، عَنْ أَبِی عُثْمَانَ النَّہْدِیِّ، عَنْ سَلْمَانَ وَغَیْرِہِ مِنْ أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالُوا : إنَّ الرَّجُلَ یَجِیئُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ قَدْ عَمِلَ عَمَلاً یَرْجُو أَنْ یَنْجُوَ بِہِ ، قَالَ : فَمَا یَزَالُ الرَّجُلُ یَأْتِیہ فَیَشْتَکِی مَظْلَمَۃً فَیُؤْخَذُ مِنْ حَسَنَاتِہِ فَیُعْطَاہَا حَتَّی مَا تَبْقَی لَہُ من حَسَنَۃٌ ، وَیَجِیئُ الْمُشْتَکِی یَشْتَکِی مَظْلَمَۃً فَیُؤْخَذُ مِنْ سَیِّئَاتِہِ فَتُوضَعُ عَلَی سَیِّئَاتِہِ ، ثُمَّ یُکَبُّ فِی النَّارِ ، أَوْ یُلْقَی فِی النَّارِ۔
(٣٥٨١٤) حضرت سلمان اور جناب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دیگر صحابہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ قیامت کے دن ایک آدمی کو لایا جائے گا جس نے ایسے اعمال کیے ہوں گے جن کے ذریعہ اس کو نجات کی امید ہوگی۔ راوی کہتے ہیں۔ لیکن کوئی نہ کوئی آدمی آکر اس کے مظالم کی شکایت کرتا رہے گا۔ پس اس کی نیکیوں سے لے کر اس شکایت کرنے والے کو دیا جائے گا یہاں تک کہ اس کی کوئی نیکی باقی نہیں رہے گی اور پھر اس کے مظالم کی شکایت کرنے والا آئے گا تو اس شکایت کرنے والے کی غلطیوں میں لے کر اس آدمی کے گناہوں پر رکھ دی جائیں گی پھر اس کو اوندھے منہ جہنم میں گرا دیا جائے گا یا اس کو جہنم میں ڈالا جائے گا۔

35814

(۳۵۸۱۵) حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ مُعَاذٍ ، عَنِ التَّیْمِیِّ ، عَنْ أَبِی عُثْمَانَ ، عَنْ سَلْمَانَ ، قَالَ : لَوْ بَاتَ الرَّجُلاَنِ أَحَدُہُمَا یُعْطِی الْقِیَانَ الْبِیضَ ، وَبَاتَ الآخَرُ یَقْرَأُ الْقُرْآنَ وَیَذْکُرُ اللَّہَ لَرَأَیْت أَنَّ ذَاکِرَ اللہِ أَفْضَلُ۔
(٣٥٨١٥) حضرت سلمان سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ اگر ایک آدمی سفید غلام دے کر رات گزارے اور دوسرا آدمی قرآن کی تلاوت اور ذکر خدا کرتے ہوئے گزارے تو میرے خیال میں خدا کا ذکر کرنے والا افضل ہے۔

35815

(۳۵۸۱۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِی الْجَعْدِ ، عَنْ زَیْدِ بْنِ صُوحَانَ ، عَنْ سَلْمَانَ ، أَنَّہُ کَانَ إذَا تَعَارَّ مِنَ اللَّیْلِ ، قَالَ : سُبْحَانَ رَبِّ النَّبِیُّینَ وَإِلَہِ الْمُرْسَلِینَ۔
(٣٥٨١٦) حضرت سلمان کے بارے میں روایت ہے کہ وہ جب رات کو بےخواب ہوتے تو کہتے انبیاء کے پروردگار اور رسولوں کے الٰہ پاک ہیں۔

35816

(۳۵۸۱۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ سَلِمَۃَ ، قَالَ : کَانَ سَلْمَانُ إذَا أَصَابَ شَاۃً مِنَ الْمَغْنَمِ ذَبَحَہَا ، فَقَدَّدَ لَحْمَہَا ، وَجَعَلَ جِلْدَہَا سِقَائً ، وَجَعَلَ صُوفَہَا حَبْلا ، فَإِنْ رَأَی رَجُلاً قَدَ احْتَاجَ إِلَی حَبْلٍ لِفَرَسِہِ أَعْطَاہُ ، وَإِنْ رَأَی رَجُلاً احْتَاجَ إِلَی سِقَائٍ أَعْطَاہُ۔
(٣٥٨١٧) حضرت عبداللہ بن سلمہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت سلمان کو جب غنیمت میں سے بکری ملتی تو آپ اس کو ذبح کرتے پھر اس کے گوشت کے ٹکڑے کرتے اور اس کے چمڑے کا مشکیزہ بنا لیتے اور اس کے بالوں کی رسی بنا لیتے پھر اگر وہ کسی کو گھوڑے کی رسی کا محتاج دیکھتے تو آپ یہ رسی اس کو دے دیتے اور اگر کسی کو مشکیزہ کا محتاج دیکھتے تو اس کو مشکیزہ دے دیتے۔

35817

(۳۵۸۱۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ مِسْعَرٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ ، عَنْ أَبِی الْبَخْتَرِیِّ ، قَالَ : صَحِبَ سَلْمَانَ رَجُلٌ مِنْ بَنِی عَبْسٍ فَأَتَی دِجْلَۃَ ، فَقَالَ لَہُ سَلْمَانُ : اشْرَبْ : فَشَرِبَ ، ثُمَّ قَالَ لَہُ : اشْرَبْ ، فَشَرِبَ ، ثُمَّ قَالَ لَہُ : اشْرَبْ ، فَشَرِبَ ، ثُمَّ قَالَ لَہُ : یَا أَخَا بَنِی عَبْسٍ ، أَتَرَی شَرْبَتَکَ ہَذِہِ نَقَصَتْ مِنْ مَائِ دِجْلَۃَ شَیْئًا کَذَلِکَ الْعِلْمُ لاَ یَنْفَدُ، فَابْتَغِ مِنَ الْعِلْمِ مَا یَنْفَعُک ، ثُمَّ مَرَّ بنہر دَنَّ فَإِذَا أَطْعِمَۃٌ وَکُدُوسُ تُذْرَی ، فَقَالَ : یَا أَخَا بَنِی عَبْسٍ، إنَّ الَّذِی کَانَ یَمْلِکُ خَزَائِنَہُ وَمُحَمَّدٌ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حَیٌّ ، وَکَانُوا یُمْسُونَ وَیُصْبِحُونَ ، وَمَا فِیہِمْ قَفِیزُ حِنْطَۃٍ ، ثُمَّ ذَکَرَ جَلُولاَئَ ، وَمَا فَتَحَ اللَّہُ عَلَی الْمُسْلِمِینَ فِیہَا ، فَقَالَ : أَخَا بَنِی عَبْسٍ ، إنَّ اللَّہَ أَعْطَاکُمْ ہَذَا وَخَوَّلَکُمُوہُ قَدْ کَانَ یَقْدِرُ عَلَیْہِ وَمُحَمَّدٌ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حَیٌّ۔
(٣٥٨١٨) حضرت ابوالبختری سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ قبیلہ بنو عبس کا ایک آدمی حضرت سلمان کے ساتھ تھا۔ وہ دریائے دجلہ پر آیا تو حضرت سلمان نے اس سے کہا۔ پانی پیو۔ اس نے پانی پیا۔ پھر آپ نے اس سے کہا۔ پانی پیو۔ اس نے پانی پیا۔ پھر آپ نے اس سے کہا۔ پانی پیو۔ اس نے پانی پیا۔ پھر آپ (رض) نے اس سے کہا۔ اے بنو عبس کے بھائی ! ؛ تو کیا دیکھتا ہے کہ تیرے اس گھونٹ نے اس دجلہ کے پانی میں کمی کی ہے ؟ اسی طرح علم نہ ختم ہونے والی چیز ہے۔ پس تو اپنے لیے نفع مند علم تلاش کر۔ پھر آپ کا گزر نہروں پر ہوا تو وہاں کچھ کھانے تھے اور دانے ہوا میں اڑائے جا رہے تھے۔ آپ نے فرمایا : اے بنو عبس کے بھائی ! وہ آدمی جو اس کے خزانوں کا مالک تھا جبکہ آپ زندہ تھے۔ وہ لوگ صبح وشام اس حال میں کرتے کہ ان میں ایک قفیز گندم نہ ہوتی۔ پھر آپ نے جلولاء اور اس کے بارے میں مسلمانوں کی فتوحات کا ذکر فرمایا اور کہا : اے بنو عبس کے بھائی ! اللہ تعالیٰ نے تمہیں یہ عطا فرما دیا حالانکہ اللہ تعالیٰ اس پر اس وقت بھی قادر تھا جب محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) زندہ تھے “

35818

(۳۵۸۱۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ حَبِیبٍ ، عَنْ نَافِعِ بْنِ جُبَیْرِ بْنِ مُطْعِمٍ ، أَنَّ حُذَیْفَۃَ وَسَلْمَانَ ، قَالاَ : لاِمْرَأَۃٍ أَعْجَمِیَّۃٍ : أَہَاہُنَا مَکَانٌ طَاہِرٌ نُصَلِّی فِیہِ ، فَقَالَتْ : طَہِّرْ قَلْبَک وَصَلِّ حَیْثُ شِئْت ، فَقَالَ : أَحَدُہُمَا لِصَاحِبِہِ : فَقِہْت۔
(٣٥٨١٩) حضرت نافع بن جبیر سے روایت ہے کہ حضرت حذیفہ اور حضرت سلمان نے ایک عجمی عورت سے کہا کیا یہاں پر کوئی پاک جگہ ہے جہاں پر ہم نماز پڑھیں ؟ اس عورت نے کہا تم اپنے دل کو پاک کرلو اور جہاں چاہو نماز پڑھو۔ تو ان میں سے ایک نے اپنے ساتھی سے کہا : یہ عورت تو سمجھ دار ہے۔

35819

(۳۵۸۲۰) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ عَوْفٍ ، عَنْ أَبِی عُثْمَانَ ، قَالَ : قَالَ لِی سَلْمَانُ الْفَارِسِیُّ : إنَّ السُّوقَ مَبْیَضُ الشَّیْطَانِ وَمَفْرَخُہُ ، فَإِنَ اسْتَطَعْت أَنْ لاَ تَکُونَ أَوَّلَ مَنْ یَدْخُلُہَا ، وَلاَ آخِرَ مَنْ یَخْرُجُ مِنْہَا فَافْعَلْ۔
(٣٥٨٢٠) حضرت ابوعثمان سے روایت ہے کہتے ہیں کہ مجھے حضرت سلمان فارسی (رض) نے فرمایا : یقیناً بازار شیطان کے انڈے دینے اور بچہ نکلنے کی جگہ ہے۔ پس اگر تو یہ کرسکے کہ تو بازار میں پہلا داخل ہونے والا نہ ہو اور نکلنے والوں میں سے آخری نہ ہو تو تو یہ کام کر۔

35820

(۳۵۸۲۱) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ آدَمَ ، عَنْ عَمَّارِ بْنِ رُزَیْقٍ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ أَوْسِ بْنِ ضَمْعَجٍ ، قَالَ : قلْنَا لِسَلْمَانَ : یَا أَبَا عَبْدِ اللہِ ، أَلاَ تُحَدِّثُنَا ، قَالَ : ذِکْرُ اللہِ أَکْبَرُ ، وَإِطْعَامُ الطَّعَامِ ، وَإِفْشَائُ السَّلاَمِ ، وَالصَّلاَۃُ وَالنَّاسُ نِیَامٌ۔
(٣٥٨٢١) حضرت اوس بن ضمعج سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ ہم نے حضرت سلمان سے عرض کیا : اے ابوعبداللہ ! آپ ہمیں حدیث کیوں نہیں بیان کرتے ؟ انھوں نے کہا ذکر خدا بہت بڑا ہے۔ کھانا کھلانا، سلام کو پھیلانا اور لوگوں کے سوتے ہوئے نماز پڑھنا۔

35821

(۳۵۸۲۲) حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ مُعَاذٍ ، عَنْ سُلَیْمَانَ التَّیْمِیِّ ، عَنْ أَبِی عُثْمَانَ ، عَنْ سَلْمَانَ ، قَالَ : إنَّ اللَّہَ یَسْتَحْیِی أَنْ یَبْسُطَ إلَیْہِ عَبْدٌ یَدَیْہِ یَسْأَلُہُ بِہِمَا خَیْرًا فَیَرُدُّہُمَا خَائِبَتَیْنِ۔
(٣٥٨٢٢) حضرت سلمان سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کو اس بات سے حیا آتی ہے کہ بندہ اس کی طرف ہاتھ پھیلائے اور ان کے ذریعہ خیر کا سوال کرے اور اللہ تعالیٰ ان کو ناکام واپس کردے۔

35822

(۳۵۸۲۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا الأَعْمَشُ ، عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ مَیْسَرَۃَ وَالْمُغِیرَۃِ بْنِ شُبَیْلٍ ، عَنْ طَارِقِ بْنِ شِہَابٍ ، قَالَ : کَانَ لِی أَخٌ أَکْبَرُ مِنِّی یُکَنَّی أَبَا عَزْرَۃَ ، وَکَانَ یُکْثِرُ ذِکْرَ سَلْمَانَ ، فَکُنْت أَشْتَہِی لِقَائَہُ لِکَثْرَۃِ ذِکْرِ أَخِی إیَّاہُ ، قَالَ : فَقَالَ لِی ذَاتَ یَوْمٍ : ہَلْ لَک فِی أَبِی عَبْدِ اللہِ ؟ قَدْ نَزَلَ الْقَادِسِیَّۃَ ، قَالَ : وَکَانَ سَلْمَانُ إذَا قَدِمَ مِنَ الْغَزْوِ نَزَلَ الْقَادِسِیَّۃَ ، وَإِذَا قَدِمَ مِنَ الْحَجِّ نَزَلَ الْمَدَائِنَ غَازِیًا ، قَالَ : قُلْتُ : نَعَمْ ، قَالَ : فَانْطَلَقْنَا حَتَّی دَخَلْنَا عَلَیْہِ فِی بَیْتٍ بِالْقَادِسِیَّۃِ ، فَإِذَا ہُوَ جَالِسٌ ، بَیْنَ رِجْلَیْہِ خِرْقَۃٌ وَہُوَ یَخِیطُ زِنْبِیلاً، أَوْ یَدْبُغُ إہَابًا، قَالَ : فَسَلَّمْنَا عَلَیْہِ وَجَلَسْنَا ، قَالَ : فَقَالَ : یَا ابْنَ أَخِی ، عَلَیْک بِالْقَصْدِ فَإِنَّہُ أَبْلَغُ۔
(٣٥٨٢٣) حضرت طارق بن شہاب سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میرا ایک مجھ سے بڑا بھائی تھا جس کی کنیت ابوعزرہ تھی۔ وہ حضرت سلمان کا ذکر بڑی کثرت سے کرتا تھا۔ تو اپنے بھائی سے حضرت سلمان کا بہت زیادہ ذکر سن کر مجھے آپ سے ملاقات کا شوق تھا۔ راوی کہتے ہیں ایک دن میرے بھائی نے مجھے کہا کیا تمہیں ابوعبداللہ سے ملنے کا شوق ہے ؟ وہ قادسیہ مقام میں فروکش ہیں۔ راوی کہتے ہیں حضرت سلمان جب جہاد سے واپس آتے تو قادسیہ میں اترتے اور جب حج سے واپس آتے تو مدائن میں پڑاؤ ڈالتے۔ راوی کہتے ہیں میں نے کہا : ہاں (شوق ہے) ۔ راوی کہتے ہیں پس ہم چل پڑے یہاں تک کہ ہم قادسیہ میں ان کے گھر میں اترے۔ وہ بیٹھے ہوئے تھے اور ان کے سامنے ایک کپڑے کا ٹکڑا تھا۔ وہ ٹوکری سی رہے تھے یا چمڑے کو دباغت دے رہے تھے۔ راوی کہتے ہیں پس ہم نے انھیں سلام کیا اور ہم بیٹھ گئے۔ راوی کہتے ہیں انھوں نے کہا : اے بھتیجے ! تم پر ارادہ لازم ہے کیونکہ یہ مؤثر ہے۔

35823

(۳۵۸۲۴) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ مِسْعَرٍ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ قَیْسٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ أَبِی قُرَّۃَ الْکِنْدِیِّ ، قَالَ : عَرَضَ أَبِی عَلَی سَلْمَانَ أُخْتَہُ أَنْ یُزَوِّجَہُ ، فَأَبَی وَزَوَّجَہُ مَوْلاَۃً لَہُ ، یُقَالَ لَہَا بُقَیْرَۃُ ، قَالَ : فَبَلَغَ أَبَا قُرَّۃَ ، أَنَّہُ کَانَ بَیْنَ حُذَیْفَۃَ وَسَلْمَانَ شَیْئٌ ، فَأَتَاہُ یَطْلُبُہُ فَأُخْبِرَ أَنَّہُ فِی مَبْقَلَۃٍ لَہُ ، فَتَوَجَّہَ إلَیْہِ فَلَقِیَہُ مَعَہُ زِنْبِیلٌ فِیہِ بَقْلٌ قَدْ أَدْخَلَ عَصَاہُ فِی عُرْوَۃِ الزِّنْبِیلِ وَہُوَ عَلَی عَاتِقِہِ۔
(٣٥٨٢٤) حضرت عمرو بن ابی قرہ کندی سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میرے والد صاحب نے حضرت سلمان کو یہ پیشکش کی کہ وہ ان کی بہن سے شادی کریں۔ آپ نے انکار کردیا اور اپنی آزا دکردہ لونڈی جس کا نام بقیرہ تھا اس سے شادی کرلی۔ راوی کہتے ہیں ابوقرہ کو یہ بات پہنچی کہ حضرت حذیفہ اور حضرت سلمان کے درمیان کوئی معاملہ تھا۔ چنانچہ حضرت حذیفہ، سلمان کے پاس ان کو بلانے آئے تو انھیں بتایا گیا کہ وہ اپنی سبزیوں کے اگانے کی جگہ میں ہیں چنانچہ وہ اس طرف گئے تو وہ ان سے ملے۔ ان کے پاس ایک ٹوکری تھی جس میں سبزی تھی۔ اپنی لاٹھی کو انھوں نے ٹوکری کے کڑے میں ڈالا ہوا تھا اور وہ لاٹھی ان کی گردن پر تھی۔

35824

(۳۵۸۲۵) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ أَبِی عُثْمَانَ ، عَنْ سَلْمَانَ ، قَالَ : تُعْطِی الشَّمْسُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ حَرَّ عَشْرِ سِنِینَ ، ثُمَّ تُدْنَا مِنْ جَمَاجِمِ النَّاسِ حَتَّی تَکُونَ قَابَ قَوْسَیْنِ ، قَالَ : فَیَعْرَقُونَ حَتَّی یَرْشَحَ الْعَرَقُ فِی الأَرْضِ قَامَۃً ، ثُمَّ یَرْتَفِعُ حَتَّی یُغَرْغِرَ الرَّجُلُ ، قَالَ سَلْمَانُ : حَتَّی یَقُولَ الرَّجُلُ : غَرْ غَرْ۔
(٣٥٨٢٥) حضرت سلمان سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ قیامت کے دن سورج کو دس سال کی حرارت دی جائے گی پھر اس کو لوگوں کی کھوپڑیوں کے قریب کیا جائے گا یہاں تک کہ یہ غلیل کے دو کناروں کے برابر ہوجائے گا۔ راوی کہتے ہیں پھر ان لوگوں کو پسینہ آئے گا یہاں تک کہ پسینہ زمین میں قد کے برابر ہوجائے گا پھر اوپر اٹھے گا یہاں تک کہ آدمی غرارہ کرنے لگے گا۔ حضرت سلمان نے فرمایا : یہاں تک کہ آدمی کہے گا : غر غر۔

35825

(۳۵۸۲۶) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ ہُبَیْرَۃَ ، قَالَ : کَتَبَ أَبُو الدَّرْدَائِ إِلَی سَلْمَانَ : أَمَّا بَعْدُ فَإِنِّی أَدْعُوک إِلَی الأَرْضِ الْمُقَدَّسَۃِ وَأَرْضِ الْجِہَادِ ، قَالَ : فَکَتَبَ إلَیْہِ سَلْمَانُ : أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّک قَدْ کَتَبْت إلَیَّ تَدْعُونِی إِلَی الأَرْضِ الْمُقَدَّسَۃِ وَأَرْضِ الْجِہَاد ، وَلَعَمْرِی مَا الأَرْضُ تُقَدِّسُ أَہْلَہَا ، وَلَکِنِ الْمَرْئُ یُقَدِّسُہُ عَمَلُہُ۔
(٣٥٨٢٦) حضرت عبداللہ بن ہبیرہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت ابوالدرداء (رض) نے حضرت سلمان کو خط لکھا۔ اما بعد ! پس بیشک میں تمہیں ارض مقدس اور ارض جہاد کی طرف دعوت دیتا ہوں۔ راوی کہتے ہیں۔ اس پر حضرت سلمان نے ان کو تحریر فرمایا۔ اما بعد ! پس بیشک آپ نے یہ تحریر فرمایا کہ آپ مجھے ارض مقدس اور ارض جہاد کی طرف دعوت دیتے ہیں۔ میری عمر کی قسم ! کوئی زمین اپنے اہل کو پاک نہیں بناتی بلکہ آدمی کو اس کے عمل پاک کرتے ہیں۔

35826

(۳۵۸۲۷) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِی لَیْلَی ، عَنْ أَبِی ذَرٍّ ، قَالَ : وَاللہِ لَوْ تَعْلَمُونَ مَا أَعْلَمُ لَبَکَیْتُمْ کَثِیرًا وَلَضَحِکْتُمْ قَلِیلاً ، وَلَوْ تَعْلَمُونَ مَا أَعْلَمُ مَا انْبَسَطْتُمْ إِلَی نِسَائِکُمْ ، وَلاَ تَقَارَرْتُمْ عَلَی فُرُشِکُمْ وَلَخَرَجْتُمْ إِلَی الصُّعُدَاتِ تَجْأَرُونَ وَتَبْکُونَ ، وَاللہِ لَوْ أَنَّ اللَّہَ خَلَقَنِی یَوْمَ خَلَقَنِی شَجَرَۃً تُعْضَدُ وَتُؤْکَلُ ثَمَرَتِی۔
(٣٥٨٢٧) حضرت ابوذر (رض) سے روایت ہے وہ کہتے ہیں خدا کی قسم جو کچھ میں جانتا ہوں اگر تم وہ کچھ جانتے تو البتہ تم بہت زیادہ روتے اور بہت کم ہنستے اور اگر تم لوگ وہ جانتے جو میں جانتا ہوں تو تم اپنی عورتوں کی طرف ہاتھ نہ پھیلاتے اور تم اپنے بستروں پر اطمینان نہ کرتے اور تم گھاٹیوں کی طرف آوازیں بلند کرتے اور روتے ہوئے نکل جاتے۔ خدا کی قسم ! اگر میری تخلیق کے دن مجھے ایک کٹنے اور کھائے جانے والا درخت بنادیا ہوتا۔

35827

(۳۵۸۲۸) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ أَبِی الْمُحَجِّلِ ، عَنِ ابْنِ عِمْرَانَ بْنِ حِطَّانَ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : قَالَ أَبُو ذَرٍّ : الصَّاحِبُ الصَّالِحُ خَیْرٌ مِنَ الْوَحْدَۃِ ، وَالْوَحْدَۃُ خَیْرٌ مِنْ صَاحِبِ السُّوئِ ، وَمُمْلِی الْخَیْرِ خَیْرٌ مِنَ السَّاکِتِ ، وَالسَّاکِتُ خَیْرٌ مِنْ مُمْلِی الشَّرِ ، وَالأَمَانَۃُ خَیْرٌ مِنَ الْخَاتَمِ ، وَالْخَاتَمُ خَیْرٌ مِنْ ظَنِّ السَّوْئِ۔ (ابن حبان ۱۰۱۔ حاکم ۳۴۳)
(٣٥٨٢٨) حضرت حطان سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ اچھا ساتھی، تنہائی سے بہتر ہے اور تنہائی، برے ساتھی سے بہتر ہے اور خیر کا املاء کروانے والا ساکت سے بہتر ہے اور ساکت، شر کے املاء کروانے والے سے بہتر ہے۔ اور امانت، خاتم سے بہتر ہے اور خاتم برے گمان سے بہتر ہے۔

35828

(۳۵۸۲۹) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ التَّیْمِیِّ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ أَبِی ذَرٍّ ، قَالَ : ذُو الدِّرْہَمَیْنِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ أَشَدُّ حِسَابًا مِنْ ذِی الدِّرْہَمِ۔
(٣٥٨٢٩) حضرت ابوذر (رض) سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ دو درہموں والا شخص بروز قیامت ایک درہم والے سے شدید حساب میں ہوگا۔

35829

(۳۵۸۳۰) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ التَّیْمِیِّ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ أَبِی ذَرٍّ ، قَالَ : قیلَ لَہُ : أَلاَ تَتَّخِذُ أَرْضًا کَمَا اتَّخَذَ طَلْحَۃُ وَالزُّبَیْرُ ، قَالَ : فَقَالَ : وَمَا أَصْنَعُ بِأَنْ أَکُونَ أَمِیرًا ، وَإِنَّمَا یَکْفِینِی کُلَّ یَوْمٍ شَرْبَۃٌ مِنْ مَائٍ ، أَوْ نَبِیذٍ ، أَوْ لَبَنٍ وَفِی الْجُمُعَۃِ قَفِیزٌ مِنْ قَمْحٍ۔
(٣٥٨٣٠) حضرت ابوذر (رض) کے بارے میں روایت ہے کہ ان سے کہا گیا کہ جس طرح حضرت طلحہ اور حضرت زبیر نے زمین بنائی ہے آپ کیوں نہیں بنا لیتے ؟ راوی کہتے ہیں انھوں نے جواب دیا : میں امیر ہو کر کیا کروں گا ؟ مجھے تو روزانہ کے لیے ایک گھونٹ پانی یا نبیذ کا ایک گھونٹ یا دودھ کا گھونٹ کافی ہے اور ہر جمعہ کے لیے ایک قفیز گندم کافی ہے۔

35830

(۳۵۸۳۱) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ الْعَبْدِیُّ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَیْمُونٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ بَنِی سُلَیْمٍ ، یُقَالَ لَہُ : عَبْدُ اللہِ بْنُ سِیدَانَ ، قَالَ : صَحِبْت أَبَا ذَرٍّ ، فَقَالَ لِی : أَلاَ أُخْبِرُک بِیَوْمِ حَاجَتِی ، إنَّ یَوْمَ حَاجَتِی یَوْمَ أُوضَعُ فِی حُفْرَتِی ، فَذَلِکَ یَوْمُ حَاجَتِی۔
(٣٥٨٣١) حضرت عبداللہ بن سیدان سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں حضرت ابوذر (رض) کے ساتھ تھا تو انھوں نے مجھے کہا کیا میں تمہیں اپنی حاجت کا دن نہ بتاؤں ؟ بیشک میری حاجت کا دن وہ ہے جب مجھے میری قبر میں رکھا جائے گا۔ پس یہ میری حاجت کا دن ہے۔

35831

(۳۵۸۳۲) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ مُوسَی بْنِ عُبَیْدَۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ خِرَاشٍ ، قَالَ : رَأَیْتُ أَبَا ذَرٍّ بِالرَّبَذَۃِ ، وَعِنْدَہُ امْرَأَۃٌ لَہُ سَحْمَائُ ، أَوْ شَحْبَائُ ، قَالَ : وَہُوَ فِی مِظَلَّۃٍ سَوْدَائَ ، قَالَ : فَقِیلَ لَہُ : یَا أَبَا ذَرٍّ ، لَوِ اتَّخَذْت امْرَأَۃً ہِیَ أَرْفَعُ مِنْ ہَذِہِ ، قَالَ : فَقَالَ : إنِّی وَاللہِ لأَنْ أَتَّخِذَ امْرَأَۃً تَضَعُنِی ، أَحَبُّ إلَیَّ مِنْ أَنْ أَتَّخِذَ امْرَأَۃً تَرْفَعُنِی ، قَالُوا : یَا أَبَا ذَرٍّ ، إنَّک مُرْزَؤٌ مَا یَکَادُ یَبْقَی لَک وَلَدٌ ، قَالَ : فَقَالَ : إِنَّا نَحْمَدُ اللَّہَ الَّذِی یَأْخُذُہُمْ مِنَّا فِی دَارِ الْفَنَائِ وَیَدَّخِرْہُم لَنَا فِی دَارِ الْبَقَائِ ، قَالَ : وَکَانَ یَجْلِسُ عَلَی قِطْعَۃِ الْمِسْحِ وَالْجَوَالِقِ ، قَالَ : فَقَالُوا: یَا أَبَا ذَرٍّ لَوِ اتَّخَذْت بِسَاطًا ہُوَ أَلْیَنُ مِنْ بِسَاطِکَ ہَذَا ، قَالَ : فَقَالَ : اللَّہُمَّ غُفْرًا ، خُذْ مَا أُوتِیت ، إنَّمَا خُلِقْنَا لِدَارٍ لَہَا نَعْمَلُ وَإِلَیْہَا نَرْجِعُ۔
(٣٥٨٣٢) حضرت عبداللہ بن خراش سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوذر (رض) کو مقام ربذہ میں دیکھا ان کے ساتھ ایک سحماء یا شحباء عورت تھی۔ راوی کہتے ہیں حضرت ابوذر (رض) ایک سیاہ سائبان میں تھے۔ راوی کہتے ہیں۔ حضرت ابوذر (رض) سے کہا گیا۔ اگر آپ اس عورت سے بلند عورت رکھتے۔ راوی کہتے ہیں۔ انھوں نے کہا : خدا کی قسم ! میں کوئی ایسی عورت رکھوں جو مجھے نیچا رکھے یہ بات مجھے اس سے زیادہ محبوب ہے کہ میں ایسی عورت رکھوں جو مجھے بلند کرے۔ لوگوں نے کہا : اے ابوذر (رض) ! آپ اولاد کی طرف سے غم زدہ ہیں۔ آپ کا کوئی بچہ باقی نہیں رہتا۔ راوی کہتے ہیں اس پر آپ نے فرمایا : ہم اس اللہ کی حمد وثنا بیان کرتے ہیں جو ہم سے دارالفناء میں بچے لیتا ہے اور ان کو ہمارے لیے دارالبقاء میں ذخیرہ کرلیتا ہے۔ راوی کہتے ہیں حضرت ابوذر (رض) ٹاٹ اور بالوں سے بنے بچھونے پر بیٹھتے تھے۔ لوگوں نے ان سے کہا : اے ابوذر (رض) ! اگر آپ کوئی ایسا بچھونا بنا لیتے جو آپ کے اس بچھونے سے نرم ہوتا ؟ اس پر انھوں نے فرمایا : اللَّہُمَّ غُفْرًا ” اے اللہ ! مغفرت عطا فرما۔ “ مجھے جو دیا جائے وہ آپ لے لیں۔ کیونکہ ہم تو اس گھر کے لیے عامل پیدا کیے گئے ہیں اور اسی کی طرف ہمیں لوٹنا ہے۔

35832

(۳۵۸۳۳) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِی الْجَعْدِ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : بَعَثَ أَبُو الدَّرْدَائِ إِلَی أَبِی ذَرٍّ رَسُولاً ، قَالَ : فَجَائَ الرَّسُولُ ، فَقَالَ : لأَبِی ذَرٍّ : إنَّ أَخَاکَ أَبَا الدَّرْدَائِ یُقْرِئُک السَّلاَمَ ، ویَقُولُ لَک : اتَّقِ اللَّہَ وخف النَّاسِ ، قَالَ : فَقَالَ أَبُو ذَرٍّ : مَالِی وَلِلنَّاسِ ، وَقَدْ تَرَکْت لَہُمْ بَیْضَائَہُمْ وَصَفْرَائَہُمْ ، ثُمَّ قَالَ لِلرَّسُولِ : انْطَلِقْ إِلَی الْمَنْزِلِ ، قَالَ : فَانْطَلَقَ مَعَہُ ، قَالَ : فَلَمَّا دَخَلَ بَیْتَہُ إذَا طُعَیْمٌ فِی عَبَائَۃٍ لَیْسَ بِالْکَثِیرِ ، وَقَدِ انْتَشَرَ بَعْضُہُ ، قَالَ : فَجَعَلَ أَبُو ذَرٍّ یَکْنِسُہُ وَیُعِیدُہُ فِی الْعَبَائَۃِ ، قَالَ : ثُمَّ قَالَ : إنَّ مِنْ فِقْہِ الْمَرْئِ رِفْقَہُ فِی مَعِیشَتِہِ ، قَالَ : ثُمَّ جِیئَ بطُعَیْمٍ فَوُضِعَ بَیْنَ یَدَیْہِ ، قَالَ : فَقَالَ لِی : کُلْ ، قَالَ : فَجَعَلَ الرَّجُلُ یَکْرَہُ أَنْ یَضَعَ یَدَہُ فِی الطَّعَامِ لِمَا یَرَی مِنْ قِلَّتِہِ ، قَالَ : فَقَالَ لَہُ أَبُو ذَرٍّ : ضَعْ یَدَک ، فَوَاللہِ لأَنَّا بِکَثْرَتِہِ أَخْوَفُ مِنِّی بِقِلَّتِہِ ، قَالَ : فَطَعِمَ الرَّجُلُ ، ثُمَّ رَجَعَ إِلَی أَبِی الدَّرْدَائِ فَأَخْبَرَہُ بِمَا رَدَّ عَلَیْہِ ، فَقَالَ أَبُو الدَّرْدَائِ : مَا أَظَلَّتِ الْخَضْرَائُ ، وَلاَ أَقَلَّتِ الْغَبْرَائُ عَلَی ذِی لَہْجَۃٍ أَصْدَقَ مِنْک یَا أَبَا ذَرٍّ۔
(٣٥٨٣٣) حضرت ابوالجعد سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت ابوالدرداء (رض) نے حضرت ابوذر (رض) کی طرف قاصد بھیجا۔ قاصد آیا اور اس نے حضرت ابوذر کو کہا آپ کے بھائی حضرت ابوالدرداء (رض) آپ کو سلام کہتے ہیں اور وہ آپ سے کہتے ہیں اللہ سے ڈرو اور لوگوں سے مخفی رہو۔ اس پر حضرت ابوذر (رض) نے فرمایا : مجھے لوگوں سے کیا لینا ہے۔ میں نے ان کے لیے ان کی چاندی سونے کو چھوڑ دیا ہے۔ پھر آپ نے قاصد سے فرمایا۔ گھر کی طرف چلو۔ وہ آپ کے ہمراہ چل پڑا۔ پس جب وہ آپ کے گھر میں داخل ہوا تو ایک چوغہ میں تھوڑی سی کھانے کی چیز تھی جو بکھری ہوئی تھی۔ راوی کہتے ہیں پس حضرت ابوذر (رض) نے اس کو اکٹھا کرنا شروع کیا اور اس کو چوغہ میں جمع کیا۔ پھر آپ نے فرمایا : بیشک آدمی کی فقاہت میں سے اس کا اپنی معیشت کے ساتھ نرمی والا معاملہ کرنا ہے۔ پھر کچھ تھوڑا سا کھانا لایا گیا اور ان کے سامنے رکھا گیا۔ انھوں نے مجھے کہا کھاؤ۔ وہ آدمی اس کھانے میں ہاتھ ڈالنے کو ناپسند کرتا تھا۔ کیونکہ وہ تھوڑا دکھائی دے رہا تھا۔ حضرت ابوذر (رض) نے اس آدمی سے کہا ہاتھ ڈالو خدا کی قسم ! ہم کھانے کی قلت سے اتنا خوفزدہ نہیں ہوتے جتنا اس کی کثرت سے ہوتے ہیں۔ اس پر آدمی نے کھانا کھالیا پھر حضرت ابوالدرداء (رض) کے پاس واپس چلا گیا اور ان کو ساری حالت بیان کی۔ حضرت ابوالدرداء (رض) نے فرمایا : اے ابوذر (رض) تجھ سے زیادہ سچے کسی آدمی پر کسی درخت نے سایہ نہیں کیا اور کسی زمین نے پناہ نہیں دی۔

35833

(۳۵۸۳۴) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو ، عَنْ أَبِی بَکْرِ بْنِ الْمُنْکَدِرِ ، قَالَ : أَرْسَلَ حَبِیبُ بْنُ مَسْلَمَۃَ وَہُوَ عَلَی الشَّامِ إِلَی أَبِی ذَرٍّ بِثَلاَثُ مِئَۃ دِینَارٍ ، فَقَالَ : اسْتَعِنْ بِہَا عَلَی حَاجَتِکَ ، فَقَالَ أَبُو ذَرٍّ : ارْجِعْ بِہَا ، فَمَا وَجَدَ أَحَدًا أَغَرَّ بِاللہِ مِنَّا ، مَا لَنَا إِلاَّ ظِلٌّ نَتَوَارَی بِہِ ، وَثُلَّۃٌ مِنْ غَنَمٍ تَرُوحُ عَلَیْنَا ، وَمَوْلاَۃٌ لَنَا تَصَدَّقَتْ عَلَیْنَا بِخِدْمَتِہَا ، ثُمَّ إنِّی لأَتَخَوَّفُ الْفَضْلَ۔
(٣٥٨٣٤) حضرت ابوبکر بن منذر سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت حبیب بن مسلمہ نے ۔۔۔ یہ شام پر حکمران تھے ۔۔۔ حضرت ابوذر (رض) کی طرف تین سو دینار بھیجے اور فرمایا : ان سے اپنی ضرورت میں مدد کرلینا۔ حضرت ابوذر (رض) نے فرمایا : ان کو واپس لے جاؤ۔ ہم سے بڑھ کر کوئی شخص غنی نہیں ہے۔ ہمیں تو صرف ایک سایہ چاہیے جس میں ہم سایہ حاصل کریں اور بکریوں کا ایک ریوڑ ہے جو ہمیں راحت دیتا ہے اور ایک آزاد لونڈی ہے جو اپنی خدمات کا ہم پر صدقہ کرتی ہے پھر میں اس سے زیادہ چیز کا خوف کھاتا ہوں۔

35834

(۳۵۸۳۵) حَدَّثَنَا عَفَّانُ بْنُ مُسْلِمٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَسْعَدَۃ ، قَالَ : حدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ الرُّومِیُّ ، قَالَ : دَخَلْتُ عَلَی أُمِّ طَلْقٍ وَإِنَّہَا حَدَّثَتْہُ ، أَنَّہَا دَخَلَتْ عَلَی أَبِی ذَرٍّ ، فَأَعْطَتْہُ شَیْئًا مِنْ دَقِیقٍ وَسَوِیقٍ ، فَجَعَلَہُ فِی طَرَفِ ثَوْبِہِ ، وَقَالَ : ثَوَابُک عَلَی اللہِ ، فَقُلْتُ لَہَا : یَا أُمَّ طَلْقٍ ، کَیْفَ رَأَیْت ہَیْئَۃَ أَبِی ذَرٍّ ، فَقَالَتْ : یَا بُنَی ، رَأَیْتہ شَعِثًا شَاحِبًا ، وَرَأَیْت فِی یَدِہِ صُوفًا مَنْفُوشًا وَعُودَیْنِ قَدْ خَالَفَ بَیْنَہُمَا وَہُوَ یَغْزِلُ مِنْ ذَلِکَ الصُّوفِ۔
(٣٥٨٣٥) حضرت ام طلق بیان کرتی ہیں کہ وہ حضرت ابوذر کے پاس گئیں اور انھوں نے حضرت ابوذر کو کچھ آٹا اور ستو دئیے تو آپ نے ان کو اپنے کپڑوں کے کنارے میں باندھ لیا اور فرمایا : آپ کا ثواب اللہ پر ہے۔ میں (راوی) نے کہا : اے ام طلق ! آپ نے حضرت ابوذر (رض) کی حالت کیسی دیکھی تھی ؟ انھوں نے فرمایا : اے میرے بیٹے ! میں نے ان کو پراگندہ بال اور اداس حالت میں دیکھا اور میں نے ان کے ہاتھ میں دھنی ہوئی اون دیکھی اور دو باہم الٹی لکڑیاں تھیں جن سے آپ اون کاتا کرتے تھے۔

35835

(۳۵۸۳۶) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنِ الْمُغِیرَۃِ بْنِ النُّعْمَانِ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ الأَقْنَعِ الْبَاہِلِیِّ، عَنِ الأَحْنَفِ بْنِ قَیْسٍ ، قَالَ : کُنْتُ جَالِسًا فِی مَسْجِدِ الْمَدِینَۃِ فَأَقْبَلَ رَجُلٌ لاَ تَرَاہُ حَلْقَۃٌ إِلاَّ فَرُّوا مِنْہُ حَتَّی انْتَہَی إِلَی الْحَلْقَۃِ الَّتِی کُنْت فِیہَا ، فَثَبَتُّ وَفَرُّوا ، فَقُلْتُ : مَنْ أَنْتَ ، فَقَالَ أَبُو ذَرٍّ صَاحِبُ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقُلْتُ : مَا یَفِرُّ النَّاسُ مِنْک ، فَقَالَ : إنِّی أَنْہَاہُمْ عَنِ الْکُنُوزِ ، فَقُلْتُ : إنَّ أُعْطِیَاتِنَا قَدْ بَلَغَتْ وَارْتَفَعَتْ فَتَخَافُ عَلَیْنَا مِنْہَا ، قَالَ : أَمَّا الْیَوْمُ فَلا ، وَلَکِنَّہَا یُوشِکُ أَنْ تَکُونَ أَثْمَانَ دِینِکُمْ فَدَعُوہُمْ وَإِیَّاہَا۔
(٣٥٨٣٦) حضرت احنف بن قیس سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں مسجد نبوی میں بیٹھا ہوا تھا کہ ایک آدمی سامنے سے آیا جو حلقہ بھی اس کو دیکھتا تو وہ حلقہ بھاگ جاتا۔ یہاں تک کہ وہ آدمی اس حلقہ کے پاس آیا جس میں میں بیٹھا ہوا تھا۔ باقی لوگ فرار ہوگئے اور میں بیٹھا رہا۔ میں نے کہا تم کون ہو ؟ انھوں نے کہا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا صحابی ابوذر (رض) ہوں۔ میں نے کہا : لوگ آپ سے کیوں بھاگتے ہیں ؟ انھوں نے کہا میں ان کو خزانے جمع کرنے سے منع کرتا ہوں۔ میں نے کہا : (کیا) ہماری جاگیریں بہت زیادہ بلند ہوگئی ہیں جن کی وجہ سے آپ کو ہم پر خوف ہے ؟ انھوں نے کہا : آج تو یہ حالت نہیں ہے لیکن عنقریب ایسا ہوگا کہ تمہارے دین کی قیمت ہوگی پس تم ان کو چھوڑ دو اور ان سے بچو۔

35836

(۳۵۸۳۷) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنِ الْجُرَیْرِیِّ ، عَنْ یَزِیدَ ، عَنْ أَخِیہِ مُطَرِّف ، قَالَ : قَالَ لِی عِمْرَانُ بْنُ حُصَیْنٍ : إنِّی أُحَدِّثُک حَدِیثًا لَعَلَّ اللَّہَ أَنْ یَنْفَعَک بِہِ بَعْدَ الْیَوْمِ ، اعْلَمْ أَنَّ خِیَارَ الْعِبَادِ عِنْدَ اللہِ الْحَمَّادُونَ۔ (احمد ۴۳۴)
(٣٥٨٣٧) حضرت مطرف سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت عمران بن حصین نے مجھے کہا میں تمہیں ایک حدیث بیان کرتا ہوں۔ ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں آج کے بعد اس کے ذریعہ نفع دے۔ جان لو اللہ کے بندوں میں سے بہترین بندے زیادہ حمد کرنے والے ہیں۔

35837

(۳۵۸۳۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ أَبِی الأَشْہَبِ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : ابْتُلِیَ عِمْرَانُ بْنُ الْحُصَیْنِ بِبَلاَئٍ کَانَ یولَّہُ مِنْہُ ، قَالَ : فَقَالَ لَہُ بَعْضُ مَنْ یَأْتِیہ : إِنَّہُ لَیَمْنَعُنِی مِنْ إتْیَانِکَ مَا نَرَی مِنْکَ ، قَالَ : فَلاَ تَفْعَلْ فَوَاللہِ إنَّ أَحَبَّہُ إلَیَّ أَحَبُّہُ إِلَی اللہِ۔
(٣٥٨٣٨) حضرت حسن سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت عمران بن حصین ایسی بیماری میں مبتلا تھے جس کی وجہ سے ان کے ہوش قائم نہیں رہتے تھے۔ راوی کہتے ہیں انھیں ان کے پاس آنے والے بعض لوگوں نے کہا : ہم آپ کی جو حالت دیکھتے ہیں یہ مجھے آپ کے پاس آنے سے مانع ہوتی ہے۔ فرمایا : یوں نہ کرو۔ خدا کی قسم ! بیشک جو خدا کو محبوب ہے وہی مجھے محبوب ہے۔

35838

(۳۵۸۳۹) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمُحَارِبِیُّ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ عَدِیٍّ ، عَنِ الصُّنَابِحِیِّ ، عَنْ مُعَاذٍ ، قَالَ : لاَ تَزُولُ قَدَمَا الْعَبْدِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ حَتَّی یُسْأَلَ ، عَنْ أَرْبَعِ خِصَالٍ : عَنْ جَسَدِہِ فِیمَا أَبْلاَہُ ، وَعَنْ عُمُرِہِ فِیمَا أَفْنَاہُ، وَعَنْ مَالِہِ مِنْ أَیْنَ اکْتَسَبَہُ وَفِیمَا أَنْفَقَہُ ، وَعَنْ عِلْمِہِ کَیْفَ عَمِلَ فِیہِ۔ (طبرانی ۱۱۱۔ بزار ۳۴۳۷)
(٣٥٨٣٩) حضرت معاذ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں : قیامت کے دن بندے کے قدم اپنی جگہ سے نہیں ہٹیں گے یہاں تک کہ چار چیزوں کے بارے میں سوال کیا جائے۔ جسم کے بارے میں کہ کس بات میں پرانا کیا اور عمر کے بارے میں کہ کس چیز میں فنا کیا اور مال کے بارے میں کہ کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا اور علم کے بارے میں کہ اس پر کتنا عمل کیا۔

35839

(۳۵۸۴۰) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، عَنْ مُحَمَّدٍ ، قَالَ : جَائَ مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ رَجُلٌ مَعَہُ أَصْحَابُہُ یُسَلِّمُونَ عَلَیْہِ ، وَیُوَدِّعُونَہُ وَیُوصُونَہُ ، فَقَالَ لَہُ مُعَاذٌ : إنِّی مُوصِیک بِأَمْرَیْنِ إنْ حَفِظْتہمَا حُفِظْتَ : إِنَّہُ لاَ غِنَی بِکَ عَنْ نَصِیبِکَ مِنَ الدُّنْیَا ، وَأَنْتَ إِلَی نَصِیبِکَ مِنَ الآخِرَۃِ أَحْوَجُ ، فَآثِرْ نَصِیبَک مِنَ الآخِرَۃِ عَلَی نَصِیبِکَ مِنَ الدُّنْیَا ، فَإِنَّہُ یَأْتِی بِکَ ، أَوْ یُمَرُّ بِکَ عَلَی نَصِیبِکَ مِنَ الدُّنْیَا فَیَنْتَظِمُہُ لَک انْتِظَامًا ، فَیَزُولُ مَعَک أَیْنَمَا زُلْتَ۔
(٣٥٨٤٠) حضرت محمد سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی اپنے دوستوں کے ہمراہ حضرت معاذ بن جبل کے پاس آیا۔ انھوں نے حضرت معاذ کو سلام کیا پھر الوداع کہا اور وصیت کی درخواست کی تو حضرت معاذ نے ان کو کہا میں تمہیں دو چیزوں کی وصیت کرتا ہوں۔ اگر تم نے ان کی حفاظت کی تو تمہاری حفاظت ہوگی۔ ایک یہ بات کہ دنیا کے حصہ سے غنی نہیں ہو اور تم اپنے آخرت کے حصہ کے زیادہ محتاج ہو پس تم اپنی آخرت کے حصہ کو اپنے دنیا کے حصہ پر ترجیح دو ۔ کیونکہ تمہاری دنیا کا حصہ تم پر سے گزرے گا یا تمہارے پاس آئے اور وہ تمہیں شامل ہوجائے گا اور جہاں تم اترو گے وہاں وہ تمہارے ساتھ اترے گا۔

35840

(۳۵۸۴۱) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ آدَمَ ، عَنْ قُطْبَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ شِمْرٍ ، عَنْ شَہْرِ بْنِ حَوْشَبٍ ، قَالَ أَخَذَتْ مُعَاذًا قُرْحَۃٌ فِی حَلْقِہِ ، فَقَالَ : اخْنُقْنِی خَنْقَک فَوَعِزَّتِکَ إنِّی لأُحِبُّک۔
(٣٥٨٤١) حضرت شہر بن حوشب سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت معاذ کو ان کے حلق میں ایک دانہ نکل آیا تو انھوں نے فرمایا : تم میرا گلا دبا دو ۔ تیری عزت کی قسم ! مجھے آپ سے محبت ہے۔

35841

(۳۵۸۴۲) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، عَنْ مِسْعَرٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ سَلِمَۃَ ، قَالَ : قَالَ مُعَاذٌ : صَلِّ وَنَمْ وَصُمْ وَأَفْطِرْ وَاکْتَسِبْ ، وَلاَ تَأْثَمْ ، وَلاَ تَمُوتَنَّ إِلاَّ وَأَنْتَ مُسْلِمٌ ، وَإِیَّاکَ وَدَعَوَاتِ ، أَوْ دَعْوَۃَ مَظْلُومٍ۔
(٣٥٨٤٢) حضرت عبداللہ بن سلمہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت معاذ نے فرمایا : نماز پڑھو اور سو جاؤ۔ روزہ رکھو اور افطار کرو۔ کمائی کرو لیکن گناہ نہ کرو۔ اور تم مرو اس حال میں کہ تم مسلمان ہو اور تم بدعاؤں سے بچو ۔۔۔ یا فرمایا ۔۔۔ مظلوم کی بددعا سے۔

35842

(۳۵۸۴۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا الأَعْمَشُ ، عَنْ جَامِعِ بْنِ شَدَّادٍ ، عَنِ الأَسْوَدِ بْنِ ہِلاَلٍ الْمُحَارِبِیِّ ، قَالَ : قَالَ مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ : اجْلِسْ بِنَا نُؤْمِنُ سَاعَۃً ، یَعْنِی نَذْکُرُ اللَّہَ۔
(٣٥٨٤٣) حضرت اسود بن ہلال سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت معاذ بن جبل نے مجھے کہا : تم ہمارے ساتھ بیٹھو ہم ایک گھڑی اللہ کا ذکر کریں۔

35843

(۳۵۸۴۴) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ زَائِدَۃَ بْنِ نَشِیطٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ أَبِی خَالِدٍ الْوَالِبِیِّ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : إنَّ اللَّہَ یَقُولُ : یَا ابْنَ آدَمَ ، تَفَرَّغْ لِعِبَادَتِی أَمْلأ قَلْبَک غِنًی ، وَأَسُدَّ فَقْرَک ، وَإِلاَّ تَفْعَلْ أَمْلأ یَدَیْک شُغْلاً ، وَلاَ أَسُدَّ فَقْرَک۔ (ترمذی ۲۴۶۶۔ احمد ۳۵۸)
(٣٥٨٤٤) حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ اے ابن آدم ! تم میری عبادت کے لیے فارغ ہوجاؤ میں تمہارے دل کو غنا سے بھر دوں گا اور تمہارے فقر کو بند کردوں گا۔ وگرنہ میں تمہارے دونوں ہاتھوں کو مشغولیات سے بھر دوں گا اور تیرے فقر کو بند نہیں کروں گا۔

35844

(۳۵۸۴۵) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنْ أَبِی مَالِکٍ الأَشْجَعِیِّ ، عَنْ أَبِی حَازِمٍ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : لاَ یُقْبَضُ الْمُؤْمِنُ حَتَّی یَرَی الْبُشْرَی ، فَإِذَا قُبِضَ نَادَی ، فَلَیْسَ فِی الدَّارِ دَابَّۃٌ صَغِیرَۃٌ ، وَلاَ کَبِیرَۃٌ إِلاَّ ہِیَ تَسْمَعُ صَوْتَہُ إِلاَّ الثَّقَلَیْنِ : الْجِنَّ وَالإِنْسَ تَعَجَّلُوا بِہِ إِلَی أَرْحَمِ الرَّاحِمِینَ فَإِذَا وُضِعَ عَلَی سَرِیرِہِ ، قَالَ : مَا أَبْطَأَ مَا تَمْشُونَ ، فَإِذَا أُدْخِلَ فِی لَحْدِہِ أُقْعِدَ فَأُرِیَ مَقْعَدَہُ مِنَ الْجَنَّۃِ ، وَمَا أَعَدَّ اللَّہُ لَہُ ، وَمُلِئَ قَبْرُہُ مِنْ رَوْحٍ وَرَیْحَانٍ وَمِسْکٍ ، قَالَ : فَیَقُولُ : یَا رَبِّ ، قَدِّمْنِی ، قَالَ : فَیُقَالَ : لَمْ یَأْنِ لَک ، إنَّ لَک إخْوَۃً وَأَخَوَاتٍ لَمَّا یَلْحَقُونَ ، وَلَکِنْ نَمْ قَرِیرَ الْعَیْنِ ، قَالَ أَبُو ہُرَیْرَۃَ : فَوَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ ، مَا نَامَ نَائِمٌ شَابٌّ طَاعِمٌ نَاعِمٌ ، وَلاَ فَتَاۃٌ فِی الدُّنْیَا نَوْمَۃً بِأَقْصَرَ ، وَلاَ أَحْلَی مِنْ نَوْمَتِہِ حَتَّی یَرْفَعَ رَأْسَہُ إِلَی الْبُشْرَی یَوْمَ الْقِیَامَۃِ۔
(٣٥٨٤٥) حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ مومن کی روح قبض نہیں ہوتی یہاں تک کہ وہ بشارت دیکھ لے۔ پھر جب اس کی روح قبض ہوتی ہے تو آواز دیتا ہے۔ گھر میں کوئی چھوٹا یا بڑا جانور نہیں ہوتا سوائے انس وجان کے مگر یہ کہ وہ اس کی آواز کو سن لیتا ہے۔ اس کو ارحم الراحمین کی طرف جلدی لے کر جاؤ۔ پھر جب اس کو تخت پر رکھا جاتا ہے تو کہتا ہے تم لوگ کس قدر آہستہ چلتے ہو ؟ پھر جب اس کو اس کی قبر میں داخل کیا جاتا ہے تو اس کو بٹھایا جاتا ہے اور اس کو جنت میں اس کا ٹھکانا اور اس کے لیے خدا کی طرف سے تیار سامان دکھایا جائے گا اور اس کی قبر کو رحمت، ریحان اور مشک سے بھر دیا جائے گا۔ راوی کہتے ہیں وہ کہے گا : اے میرے پروردگار ! مجھے آگے بھیج دے۔ کہا جائے گا ابھی تیرا وقت نہیں ہے۔ تیرے کچھ بہن بھائی ہیں جو ابھی تک ساتھ نہیں ملے۔ لیکن تو آنکھیں ٹھنڈی کرنے کے لیے سوجا۔ حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے۔ کوئی کھاتا پیتا، ناز ونعم والا نوجوان لڑکا یا لڑکی دنیا میں اس قدر میٹھی اور مختصر نیند نہیں سوتی جیسی وہ نیند ہوگی۔ یہاں تک کہ وہ قیامت کے دن اپنا سر بشارت کے لیے بلند کرے گا۔

35845

(۳۵۸۴۶) حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ مُعَاذٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا ابْنُ عَوْنٍ ، عَنْ عُبَیْدِ بْنِ بَابٍ ، قَالَ : کُنْتُ أُفْرِغُ عَلَی أَبِی ہُرَیْرَۃَ مِنْ إدَاوَۃٍ ، فَمَرَّ بِہِ رَجُلٌ ، فَقَالَ : أَیْنَ تُرِیدُ یَا فُلاَنُ ، قَالَ : السُّوقَ ، قَالَ : إنِ اسْتَطَعْت أَنْ تَشْتَرِیَ الْمَوْتَ قَبْلَ أَنْ تَرْجِعَ فَافْعَلْ ، قَالَ : ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَیَّ ، فَقَالَ : لَقَدْ خِفْت اللَّہَ مِمَّا أَسْتَعْجِلُ إلَیْہِ قَبْلَ الْقَدَرِ۔
(٣٥٨٤٦) حضرت عبید بن باب سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں حضرت ابوہریرہ (رض) پر مشکیزہ میں سے پانی ڈال رہا تھا کہ آپ کے پاس سے ایک آدمی گزرا تو آپ (رض) نے پوچھا : اے فلاں ! کہاں کا ارادہ ہے ؟ اس نے کہا : بازار کا۔ آپ (رض) نے فرمایا : اگر تم واپس آنے سے قبل موت کو خرید سکتے ہو تو خرید لو۔ راوی کہتے ہیں۔ پھر آپ (رض) میری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا : تحقیق میں اللہ کا خوف رکھتا ہوں اس چیز سے جو تقدیر سے پہلے جلدی مانگی جائے۔

35846

(۳۵۸۴۷) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ ، عَنْ أَبِی مَالِکٍ ، عَنْ أَبِی حَازِمٍ ، قَالَ : مَرَرْت مَعَ أَبِی ہُرَیْرَۃَ عَلَی قَبْرٍ دُفِنَ حَدِیثًا ، فَقَالَ : رَکْعَتَانِ خَفِیفَتَانِ مِمَّا تَحْتَقِرُونَ زادہما ہذا أَحَبُّ إلَیَّ مِنْ دُنْیَاکُمْ۔
(٣٥٨٤٧) حضرت ابوحازم سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں حضرت ابوہریرہ (رض) کے ہمراہ ایک تازہ دفن ہونے والے مردہ کی قبر پر سے گزرا تو آپ نے فرمایا : دو ہلکی رکعتیں جن کو تم حقیر سمجھتے ہو وہ اس کا زاد راہ ہوں تو یہ چیز مجھے تمہاری دنیا سے زیادہ محبوب ہیں۔

35847

(۳۵۸۴۸) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ ، عَنْ دَاوُدَ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ زَیْدٍ ، عَنْ أَبِی عُثْمَانَ ، قَالَ : بَلَغَنِی عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : إنَّ اللَّہَ یُجْزِی الْمُؤْمِنَ بِالْحَسَنَۃِ أَلْفَ أَلْفِ حَسَنَۃٍ ، فَأَتَیْتہ ، فَقُلْتُ : یَا أَبَا ہُرَیْرَۃَ ، إِنَّہُ بَلَغَنِی أَنَّک تَقُولُ : إنَّ اللَّہَ یُجْزِی الْمُؤْمِنَ بِالْحَسَنَۃِ أَلْفَ أَلْفِ حَسَنَۃٍ ، قَالَ : نَعَمْ ، وَأَلْفَیْ أَلْفِ حَسَنَۃٍ ، وَفِی الْقُرْآنِ مِنْ ذَلِکَ : {إنَّ اللَّہَ لاَ یَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ وَإِنْ تَکُ حَسَنَۃً یُضَاعِفْہَا} فَمَنْ یَدْرِی تَسْمِیَۃَ تِلْکَ الأَضْعَافِ {وَیُؤْتِ مِنْ لَدُنْہُ أَجْرًا عَظِیمًا} قَالَ : الْجَنَّۃُ۔ (احمد ۲۹۶)
(٣٥٨٤٨) حضرت ابوعثمان سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ مجھے ابوہریرہ (رض) کی طرف سے یہ بات پہنچی کہ آپ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ مومن کو ایک نیکی کا بدلہ ایک لاکھ نیکیوں کے ساتھ دیتے ہیں چنانچہ میں آپ کے پاس حاضر ہوا اور میں نے عرض کیا : اے ابوہریرہ (رض) ! مجھے آپ سے یہ بات پہنچی ہے کہ آپ کہتے ہیں اللہ تعالیٰ مومن کو ایک نیکی کا بدلہ ایک لاکھ نیکیوں میں دیتے ہیں ؟ انھوں نے فرمایا : ہاں اور دو لاکھ بھی۔ قرآنِ کریم میں اس کے متعلق ہے {إنَّ اللَّہَ لاَ یَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ وَإِنْ تَکُ حَسَنَۃً یُضَاعِفْہَا } پس کون اس دو چند کی مقدار کو جانتا ہے ؟ { وَیُؤْتِ مِنْ لَدُنْہُ أَجْرًا عَظِیمًا } فرمایا : جنت۔

35848

(۳۵۸۴۹) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنِ الْعَوَّامِ ، عَنْ أَبِی حَازِمٍ ، قَالَ : قَالَ أَبُو ہُرَیْرَۃَ : مَنْ کَسَا خَلِقًا کَسَاہُ اللَّہُ بِہِ حَرِیرًا ، وَمَنْ کَسَا جَدِیدًا کَسَاہُ اللَّہُ بِہِ إسْتَبْرَقًا۔
(٣٥٨٤٩) حضرت ابوحازم سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت ابوہریرہ (رض) نے فرمایا : جو شخص پرانا کپڑا پہنائے گا اللہ تعالیٰ اس کو اس کے بدلہ میں ریشم پہنائے گا اور جو شخص نیا کپڑا پہنائے گا تو اللہ تعالیٰ اس کو اس کے عوض استبرق پہنائے گا۔

35849

(۳۵۸۵۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ فُضَیْلِ بْنِ غَزْوَانَ ، عَنْ أَبِی حَازِمٍ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، أَنَّ رَجُلاً مِنَ الأَنْصَارِ آذَنَہُ ضَیْفٌ ، فَلَمْ یَکُنْ عِنْدَہُ إِلاَّ قُوتُہُ وَقُوتُ صِبْیَانِہِ ، فَقَالَ : لاِمْرَأَتِہِ : نَوِّمِی الصِّبْیَۃَ وَأَطْفِئَ السِّرَاجَ ، قَالَ : فَنَزَلَتْ ہَذِہِ الآیَۃُ {وَیُؤْثِرُونَ عَلَی أَنْفُسِہِمْ وَلَوْ کَانَ بِہِمْ خَصَاصَۃٌ وَمَنْ یُوقَ شُحَّ نَفْسِہِ فَأُولَئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُونَ}۔ (بخاری ۳۷۹۸۔ مسلم ۱۷۲)
(٣٥٨٥٠) حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ ایک انصاری آدمی کے پاس ایک مہمان نے اجازت طلب کی۔ اس انصاری کے پاس صرف اپنے اور اپنے بچوں کے لیے کھانا تھا۔ تو اس نے اپنی بیوی سے کہا : بچوں کو سلا دو اور چراغ بجھا دو ۔ راوی کہتے ہیں اس پر یہ آیت نازل ہوئی : { وَیُؤْثِرُونَ عَلَی أَنْفُسِہِمْ وَلَوْ کَانَ بِہِمْ خَصَاصَۃٌ وَمَنْ یُوقَ شُحَّ نَفْسِہِ فَأُولَئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُونَ }۔

35850

(۳۵۸۵۱) حدَّثَنَا ابْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِی صَالِحٍ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : إذَا مَاتَ الْمَیِّتُ تَقُولُ الْمَلاَئِکَۃُ : مَا قَدَّمَ وَیَقُولُ النَّاسُ : مَا تَرَکَ۔
(٣٥٨٥١) حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ جب میت مرجاتی ہے تو فرشتے کہتے ہیں اس نے آگے کیا بھیجا ؟ اور لوگ کہتے ہیں اس نے پیچھے کیا چھوڑا۔

35851

(۳۵۸۵۲) حَدَّثَنَا ابْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ عُبَیْدٍ مَوْلَی أَبِی رُہْمٍ ، قَالَ : مَرَرْت مَعَ أَبِی ہُرَیْرَۃَ عَلَی نَخْلٍ ، فَقَالَ : اللَّہُمَّ أَطْعِمْنَا مِنْ تَمْرٍ لاَ یَأْبُرُہُ بَنُو آدَمَ۔
(٣٥٨٥٢) حضرت عبید سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں حضرت ابوہریرہ کے ہمراہ ایک کھجور کے درخت کے پاس سے گزرا تو انھوں نے فرمایا : اے اللہ ! ہمیں وہ کھجور کھلا جس کو بنی آدم نے نہ لگایا ہو۔

35852

(۳۵۸۵۳) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا مِسْعَرٌ ، قَالَ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ مَوْلَی طَلْحَۃَ ، عَنْ عِیسَی بْنِ طَلْحَۃَ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : لاَ تَطْعَمُ النَّارُ رَجُلاً بَکَی مِنْ خَشْیَۃِ اللہِ أَبَدًا حَتَّی یُرَدَّ اللَّبَنُ فِی الضَّرْعِ ، وَلاَ یَجْتَمِعُ غُبَارٌ فِی سَبِیلِ اللہِ وَدُخَانُ جَہَنَّمَ فِی مَنْخَرَیْ رَجُلٍ مُسْلِمٍ أَبَدًا۔
(٣٥٨٥٣) حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ جو شخص خوفِ خدا کی وجہ سے رویا اس کو جہنم کی آگ تب تک نہ کھائے گی جب تک کہ دودھ تھن میں واپس نہ چلا جائے اور کسی بندہ مسلم کے نتھنوں میں راہ خدا کا غبار اور جہنم کا دھواں کبھی جمع نہیں ہوسکتا۔

35853

(۳۵۸۵۴) حَدَّثَنَا عِیسَی بْنُ یُونُسَ ، عَنِ الأَوْزَاعِیِّ ، عَنْ عَبْدِ الْوَاحِدِ بْنِ قَیْسٍ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : مَنْ أَطْفَأَ عَنْ مُؤْمِنٍ سَیِّئَۃً فَکَأَنَّمَا أَحْیَا مَوْؤُودَۃً۔
(٣٥٨٥٤) حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ جو شخص کسی مومن سے برائی دور کرتا ہے تو گویا اس نے زندہ درگور ہونے والی بچی کو زندہ کیا۔

35854

(۳۵۸۵۵) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ زُہَیْرٍ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ عَطَائٍ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : لاَ خَیْرَ فِی فُضُولِ الْکَلاَمِ۔
(٣٥٨٥٥) حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ فضول کلام میں کوئی بہتری نہیں۔

35855

(۳۵۸۵۶) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِی یَحْیَی مَوْلَی جَعْدَۃَ بْنِ ہُبَیْرَۃَ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : مَرَّ رَجُلٌ عَلَی کَلْبٍ مُضْطَجِعٍ عِنْدَ قَلِیبٍ قَدْ کَادَ أَنْ یَمُوتَ مِنَ الْعَطَشِ ، فَلَمْ یَجِدْ مَا یَسْقِیہ فِیہِ ، فَنَزَعَ خُفَّہُ فَجَعَلَ یَغْرِفُ لَہُ وَیَسْقِیہ فَحَاسَبَہُ اللَّہُ بِہِ فَأَدْخَلَہُ الْجَنَّۃَ۔
(٣٥٨٥٦) حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی قلیب کے پاس ایک گرے ہوئے کتے کے پاس سے گزرا جو کتا پیاس کی وجہ سے موت کے قریب تھا۔ اس آدمی نے پانی پلانے کے لیے کچھ نہیں پایا تو اس نے اپنا موزہ اتارا اور اس کے لیے چلو بھرا اور اس کو پلایا۔ پس اللہ تعالیٰ نے اس کا حساب فرمایا اور اس کو جنت میں داخل فرما دیا۔

35856

(۳۵۸۵۷) حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ مُعَاذٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو ، عَنْ أَبِی سَلَمَۃَ ، قَالَ : دَخَلْتُ عَلَی أَبِی ہُرَیْرَۃَ وَہُوَ مَرِیضٌ فَاحْتَضَنْتہ مِنْ خَلْفِہِ وَقُلْت : اللَّہُمَّ اشْفِ أَبَا ہُرَیْرَۃَ ، فَقَالَ : اللَّہُمَّ اشْدُدْ۔
(٣٥٨٥٧) حضرت ابوسلمہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں حضرت ابوہریرہ (رض) کے پاس حاضر ہوا جبکہ وہ مریض تھے۔ میں نے ان کو پیچھے سے گود میں لے لیا اور میں نے کہا اے اللہ ! ابوہریرہ (رض) کو شفا دے دے۔ تو انھوں نے فرمایا : اے اللہ ! اور شدید فرما۔

35857

(۳۵۸۵۸) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ الْمُغِیرَۃِ ، عَنْ حُمَیْدِ بْنِ ہِلاَلٍ ، قَالَ : کَانَ عَبْدُ اللہِ بْنُ عَمْرٍو یَقُولُ: دَعْ مَا لَسْت مِنْہُ فِی شَیْئٍ ، وَلاَ تَنْطِقْ فِیمَا لاَ یَعَنِیکَ ، وَاخْزُنْ لِسَانَک کَمَا تَخْزُنُ نَفَقَتَک۔
(٣٥٨٥٨) حضرت حمید بن ہلال سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمرو کہا کرتے تھے کہ جس کام سے تمہیں غرض نہیں ہے اس کو چھوڑ دو اور غیر متعلق معاملات میں گفتگو نہ کرو اور تم اپنی زبان کو یونہی خزانہ رکھو جس طرح تم اپنے خرچوں کو خزانہ رکھتے ہو۔

35858

(۳۵۸۵۹) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ الْحُبَابِ ، قَالَ : حدَّثَنَا مُعَاوِیَۃُ بْنُ صَالِحٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا یَحْیَی بْنُ سَعْدٍ الْکَلاَعِیُّ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ عَائِذٍ الأَزْدِیِّ ، عَنْ غُطَیْفِ بْنِ الْحَارِثِ الْکِنْدِیِّ ، قَالَ : جَلَسْت أَنَا وَأَصْحَابٌ لِی إِلَی عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو ، قَالَ : فَسَمِعْتہ یَقُولُ : إنَّ الْعَبْدَ إذَا وُضِعَ فِی الْقَبْرِ کَلَّمَہُ ، فَقَالَ : یَا ابْنَ آدَمَ ، أَلَمْ تَعْلَمْ أَنِّی بَیْتُ الْوَحْدَۃِ وَبَیْتُ الظُّلْمَۃِ وَبَیْتُ الْحَقِ ، یَا ابْنَ آدَمَ ، مَا غَرَّک بِی ، قَدْ کُنْت تَمْشِی حَوْلِی فِدَادًا ، قَالَ : فَقُلْتُ لِغُطَیْفٍ : یَا أَبَا أَسْمَائَ ، مَا فِدَادًا ، قَالَ : اختیالاً ، فَقَالَ لَہُ صَاحِبِی وَکَانَ أَسَنَّ مِنِّی : فَإِذَا کَانَ مُؤْمِنًا ، قَالَ : وُسِّعَ لَہُ فِی قَبْرِہِ وَجُعِلَ مَنْزِلُہُ أَخْضَرَ ، وَعُرِجَ بِنَفْسِہِ إِلَی الْجَنَّۃِ۔
(٣٥٨٥٩) حضرت غطیف بن حارث کندی سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں اور میرے کچھ ساتھی حضرت عبداللہ بن عمرو کی خدمت میں حاضر تھے۔ راوی کہتے ہیں کہ میں نے انھیں کہتے ہوئے سنا کہ جب بندہ کو قبر میں رکھا جاتا ہے تو قبر اس سے کلام کرتی ہے۔ اور کہتی ہے : اے آدم کے بیٹے ! کیا تجھے معلوم نہیں تھا کہ میں تنہائی کا گھر ہوں اور ظلمت کا گھر ہوں اور حقیقت کا گھر ہوں ؟ اے آدم کے بیٹے ! تجھے کس چیز نے میرے ساتھ دھوکا میں ڈالا تھا ؟ تم میرے گرد فداداً چلتے تھے۔ راوی کہتے ہیں کہ میں نے حضرت غطیف سے پوچھا : اے ابواسمائ ! فداداً کیا ہے ؟ انھوں نے فرمایا : یعنی تکبر کے ساتھ۔ حضرت غطیف سے میرے ساتھی نے ۔۔۔ جو عمر میں مجھ سے بڑا تھا ۔۔۔ کہا۔ اگر وہ شخص مومن ہو ؟ غطیف نے کہا : اس کے لیے اس کی قبر کو وسیع کردیا جاتا ہے اور اس کی منزل کو سرسبز کردیا جاتا ہے اور اس کے نفس کو جنت کی طرف بلند کردیا جاتا ہے۔

35859

(۳۵۸۶۰) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ الْحَارِثِ ، عَنْ أَبِی کَثِیرٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ : تُجْمَعُونَ جَمِیعًا فَیُقَالَ : أَیْنَ فُقَرَائُ ہَذِہِ الأُمَّۃِ وَمَسَاکِینُہَا فَیَبْرُزُونَ ، قَالَ : فَیُقَالَ : مَا عِنْدَکُمْ ، قَالَ : فَیَقُولُونَ : یَا رَبَّنَا ، ابْتُلِینَا فَصَبَرْنَا وَأَنْتَ أَعْلَمُ ، قَالَ : وَأَرَاہُ ، قَالَ : وَوَلَّیْتَ الأَمْوَالَ وَالسُّلْطَانُ غَیْرَنَا ، قَالَ : فَیُقَالَ : صَدَقْتُمْ ، قَالَ : فَیَدْخُلُونَ الْجَنَّۃَ قَبْلَ سَائِرِ النَّاسِ بِزَمَانٍ ، وَتَبْقَی شِدَّۃُ الْحِسَابِ عَلَی ذَوِی الأَمْوَالِ وَالسُّلْطَانِ ، قَالَ : قُلْتُ : فَأَیْنَ الْمُؤْمِنُونَ یَوْمَئِذٍ ، قَالَ : یُوضَعُ لَہُمْ کَرَاسِیُّ مِنْ نُورٍ وَیُظَلِّلُ عَلَیْہِمَ الْغَمَامُ ، وَیَکُونُ ذَلِکَ الْیَوْمُ أَقْصَرَ عَلَیْہِمْ مِنْ سَاعَۃٍ مِنْ نَہَارٍ۔
(٣٥٨٦٠) حضرت عبداللہ بن عمرو سے روایت ہے وہ کہتے ہیں : تم سب لوگوں کو اکٹھا جمع کیا جائے گا پھر کہا جائے گا۔ اس امت کے فقراء اور مساکین کہاں ہیں ؟ چنانچہ وہ لوگ ظاہر ہوں گے کہا جائے گا تمہارے پاس کیا ہے ؟ وہ لوگ کہیں گے اے ہمارے پروردگار ! ہمیں آزمائش میں ڈالا گیا لیکن ہم نے صبر کیا اور تو خوب جانتا ہے۔ راوی کہتے ہیں میرے خیال میں یہ بھی کہا تھا کہ آپ نے مال اور سلطنت ہمارے علاوہ دیگر لوگوں کو دی۔ اس پر کہا جائے گا تم نے سچ کہا ہے۔ پس وہ لوگ باقی لوگوں سے کافی دیر پہلے جنت میں داخل ہوجائیں گے اور مال و سلطنت کے مالک حساب کی شدت میں باقی رہیں گے۔ راوی کہتے ہیں میں نے کہا : اس دن اہل ایمان کہاں ہوں گے ؟ آپ (رض) نے فرمایا : ان کے لیے نور کی کرسیاں رکھی جائیں گی اور ان پر بادل سایہ فگن ہوں گے اور یہ دن ان پر دن کی ایک گھڑی سے بھی چھوٹا ہوگا۔

35860

(۳۵۸۶۱) حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ ، عَنْ حُصَیْنٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ : مَا مِنْ مَلاَ یَجْتَمِعُونَ فَیَذْکُرُونَ اللَّہَ إِلاَّ ذَکَرَہُمُ اللَّہُ فِی مَلاَ أَعَزَّ مِنْ مَلَئِہِمْ وَأَکْرَمَ ، وَمَا مِنْ مَلاَ یَتَفَرَّقُونَ لَمْ یَذْکُرُوا اللَّہَ إِلاَّ کَانَ مَجْلِسُہُمْ حَسْرَۃً عَلَیْہِمْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ۔
(٣٥٨٦١) حضرت عبداللہ بن عمرو سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ کوئی جماعت بھی ایسی نہیں ہے جو جمع ہو اور اللہ کا ذکر کرے مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ ان کو ایسی جماعت میں یاد کرتا ہے جو ان کی جماعت سے معزز اور مکرم ہوتی ہے اور کوئی جماعت ایسی نہیں ہے جو جدا ہو جبکہ اس نے خدا کا ذکر نہ کیا ہو مگر یہ کہ یہ مجلس قیامت کے دن ان پر حسرت کا ذریعہ ہوگی۔

35861

(۳۵۸۶۲) حَدَّثَنَا مُعَاوِیَۃُ بْنُ ہِشَامٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ سُلَیْمَانَ التَّیْمِیِّ ، عَنْ أَبِی عُثْمَانَ النَّہْدِیِّ ، قَالَ : أَرْسَلْنَا امْرَأَۃً إِلَی عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو تَسْأَلُہُ : مَا الذَّنْبُ الَّذِی لاَ یَغْفِرُہ اللَّہُ ؟ قَالَ : مَا مِنْ ذَنْبٍ ، أَوْ عَمَلٍ مِمَّا بَیْنَ السَّمَائِ إِلی الأَرْضِ یَتُوبُ مِنْہُ عَبْدٌ إِلَی اللہِ تَعَالَی قَبْلَ الْمَوْتِ إِلاَّ تَابَ عَلَیْہِ۔
(٣٥٨٦٢) حضرت ابوعثمان نہدی سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ ہم نے ایک عورت کو حضرت عبداللہ بن عمرو کے پاس یہ سوال کرنے بھیجا کہ وہ کون سا گناہ ہے جس کو اللہ تعالیٰ معاف نہیں کرے گا ؟ انھوں نے فرمایا : زمین و آسمان کے درمیان کوئی گناہ یا عمل ایسا نہیں ہے کہ جس پر آدمی موت سے پہلے اللہ سے توبہ کرے مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول کرلیتے ہیں۔

35862

(۳۵۸۶۳) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ : مَا مِنْ أَحَدٍ إِلاَّ یَلْقَی اللَّہَ بِذَنْبٍ إِلاَّ یَحْیَی بْنَ زَکَرِیَّا ، ثُمَّ تَلاَہُ : {وَسَیِّدًا وَحَصُورًا} ثُمَّ رَفَعَ شَیْئًا صَغِیرًا مِنَ الأَرْضِ ، فَقَالَ : مَا کَانَ مَعَہُ مِثْلُ ہَذَا ، ثُمَّ ذُبِحَ ذَبْحًا۔
(٣٥٨٦٣) حضرت عبداللہ بن عمرو سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ ہر آدمی اللہ تعالیٰ سے کسی گناہ کے ساتھ ملاقات کرے گا مگر یحییٰ بن زکریا پھر آپ نے یہ آیت تلاوت کی { وَسَیِّدًا وَحَصُورًا } پھر آپ (رض) نے زمین سے ایک چھوٹی سی چیز اٹھائی اور فرمایا : ان کے پاس اس کے بقدر بھی (جرم) نہ تھا پھر بھی انھیں ذبح کردیا گیا۔

35863

(۳۵۸۶۴) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ خَیْثَمَۃ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرو قَالَ : انْتَہَیْت إلَیْہِ وَہُوَ یَنْظُرُ إِلَی الْمُصْحَفِ ، قَالَ : قُلْتُ : أَیُّ شَیْئٍ الَّذِی تَقْرَأُ ؟ قَالَ : حِزْبِی الَّذِی أَقُومُ بِہِ اللَّیْلَۃَ۔
(٣٥٨٦٤) حضرت خیثمہ، حضرت عبداللہ بن عمرو کے بارے میں روایت کرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ میں آپ (رض) کے پاس گیا جبکہ آپ قرآن مجید کو دیکھ رہے تھے۔ راوی کہتے ہیں۔ میں نے پوچھا آپ کیا پڑھ رہے ہیں ؟ انھوں نے فرمایا : اپنا وہ پارہ جو میں نے آج رات قیام میں پڑھنا ہے۔

35864

(۳۵۸۶۵) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَنْ أَبِی عِمْرَانَ الْجَوْنِیِّ ، أَنَّ عَبْدَ اللہِ بْنَ عَمْرٍو بَیْنَا ہُوَ جَالِسٌ وَبَیْنَ یَدَیْہِ نَارٌ إذْ شَہِقَتْ ، فَقَالَ : وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ ، إِنَّہَا لَتَعُوذُ بِاللہِ مِنَ النَّارِ الْکُبْرَی ، أَوَ قَالَ : مِنْ نَارِ جَہَنَّمَ : قَالَ : فَرَأَی الْقَمَرَ حِینَ جَنَحَ لِلْغُرُوبِ ، فَقَالَ : وَاللہِ إِنَّہُ لَیَبْکِی الآنَ۔
(٣٥٨٦٥) حضرت ابوعمران سے روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمرو بیٹھے ہوئے تھے اور ان کے سامنے آگ تھی کہ اچانک میرا سانس گھٹنے لگا تو آپ (رض) نے فرمایا : قسم اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے ! یہ آگ بھی اللہ تعالیٰ سے بڑی آگ ۔۔۔ یا فرمایا جہنم کی آگ ۔۔۔ سے پناہ مانگتی ہے۔ راوی کہتے ہیں پھر انھوں نے چاند کو غروب ہوتے وقت جھک کر دیکھا تو فرمایا : بخدا ! یہ اس وقت رو رہا ہے۔

35865

(۳۵۸۶۶) حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ ، عَنْ مِسْعَرٍ ، عَنْ زِیَادِ بْنِ عِلاَقَۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍوَ قَالَ : لَوَدِدْت أَنِّی ہَذِہِ الشَّجَرَۃُ۔
(٣٥٨٦٦) حضرت عبداللہ بن عمرو سے روایت ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ مجھے یہ بات محبوب ہے کہ میں یہ درخت ہوتا۔

35866

(۳۵۸۶۷) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ یَعْلَی بْنِ عُبَیْدٍ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ قَمْطَۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ : الدُّنْیَا سِجْنُ الْمُؤْمِنِ وَجَنَّۃُ الْکَافِرِ ، فَإِذَا مَاتَ الْمُؤْمِنُ یُخْلَی سربہ ، یَسْرَحُ حَیْثُ شَائَ۔ (مسلم ۲۲۷۲)
(٣٥٨٦٧) حضرت عبداللہ بن عمرو سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ دنیا مومن کا قید خانہ ہے اور کافر کی جنت ہے۔ پس جب مومن کو موت آتی ہے تو اس کو آزاد کردیا جاتا ہے کہ وہ جہاں چاہے، سیر کرے۔

35867

(۳۵۸۶۸) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِِ ، عَنْ سِمَاکٍ ، عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِیرٍ ، قَالَ سَمِعْتہ یَقُولُ : مَثَلُ ابْنِ آدَمَ وَمَثَلُ الْمَوْتِ مَثَلُ رَجُلٍ کَانَ لَہُ ثَلاَثَۃُ أَخِلاَئٍ ، فَقَالَ لأَحَدِہِمْ : مَا عِنْدَکَ ، فَقَالَ : عِنْدِی مَالُک فَخُذْ مِنْہُ مَا شِئْت ، وَمَا لَمْ تَأْخُذْ فَلَیْسَ لَک ، ثُمَّ قَالَ لِلآخَرِ : مَا عِنْدَکَ ، قَالَ : أَقُومُ عَلَیْک فَإِذَا مِتّ دَفَنْتُک وَخَلَّیْتُک ، ثُمَّ قَالَ لِلثَّالِثِ : مَا عِنْدَکَ ، فَقَالَ : أَنَا مَعَک حَیْثُمَا کُنْت ، قَالَ : فَأَمَّا الأَوَّلُ فَمَالُہُ ، مَا أَخَذَ فَلَہُ ، وَمَا لَمْ یَأْخُذْ فَلَیْسَ لَہُ ، وَأَمَّا الثَّانِی فَعَشِیرَتُہُ ، إذَا مَاتَ قَامُوا عَلَیْہِ ، ثُمَّ خَلَّوْہُ ، وَأَمَّا الثَّالِثُ : فَعَمَلُہُ حَیْثُمَا کَانَ ؛ کَانَ مَعَہُ وَحَیْثُمَا دَخَلَ دَخَلَ مَعَہُ۔
(٣٥٨٦٨) حضرت سماک، حضرت نعمان بن بشیر کے بارے میں روایت کرتے ہیں کہتے ہیں کہ میں نے انھیں کہتے سنا۔ ابن آدم اور موت کی مثال یہ ہے جیسے ایک آدمی کے تین دوست ہوں۔ وہ ان میں سے ایک دوست سے کہے۔ تیرے پاس کیا ہے ؟ وہ دوست کہے۔ میرے پاس تیرا مال ہے۔ پس تو اس میں سے جو چاہے لے لے اور جو تو نہ لے سکے تو پھر وہ تیرا نہیں ہے۔ پھر اس آدمی نے دوسرے سے پوچھا۔ تیرے پاس کیا ہے ؟ اس نے کہا جب تو مرجائے گا تو میں تجھے دفن کروں گا اور تجھے اکیلا چھوڑ دوں گا۔ پھر اس آدمی نے تیسرے سے کہا۔ تیرے پاس کیا ہے ؟ اس نے کہا : تم جہاں ہو گے میں تمہارے ساتھ رہوں گا۔ حضرت نعمان نے فرمایا : پس پہلا دوست اس کا مال ہے کہ جو اس نے لے لیا وہ اس کا ہے اور جو اس نے نہ لیا وہ اس کا نہیں ہے اور جو دوسرا ہے وہ اس کا قبیلہ، برادری ہے۔ جب یہ مرجائے گا تو یہ اس کے پاس رہیں گے پھر اس کو اکیلا چھوڑ دیں گے اور تیسرا اس کا عمل ہے جو اس کے ساتھ ہوگا وہ جہاں بھی ہو اور جہاں وہ جائے گا یہ بھی ساتھ جائے گا۔

35868

(۳۵۸۶۹) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا جَرِیرٌ ، قَالَ : حَدَّثَنِی مَنْ سَمِعَ النُّعْمَانَ بْنَ بَشِیرٍ یَقُولُ : إنَّ الْہَلَکَۃَ کُلَّ الْہَلَکَۃِ أَنْ تَعْمَلَ عَمَلَ السَّوْئِ فِی زَمَانِ الْبَلاَئِ۔
(٣٥٨٦٩) حضرت نعمان بن بشیر فرماتے ہیں بیشک مکمل ہلاکت ہے یہ بات کہ تم آزمائش کے زمانہ میں عمل کرو۔

35869

(۳۵۸۷۰) حَدَّثَنَا یَزِیدُ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا حَرِیزُ بْنُ عُثْمَانَ ، قَالَ : حَدَّثَنِی حِبَّانُ بْنُ زَیْدٍ الشَّرْعَبِیُّ ، قَالَ وَکَانَ وُدًّا لِلنُّعْمَانِ ، وَکَانَ النُّعْمَانُ اسْتَعْمَلَہُ عَلَی النَّبْک ، قَالَ : فَسَمِعَ النُّعْمَانَ یَقُولُ : أَلاَ إنَّ عُمَّالَ اللہِ ضَامِنُونَ عَلَی اللہِ ، أَلاَ إنَّ عُمَّالَ بَنِی آدَمَ لاَ یَمْلِکُونَ ضَمَانَہُمْ ، قَالَ : فَلَمَّا نَزَلَ النُّعْمَانُ ، عَنْ مِنْبَرِہِ أَتَاہُ فَاسْتَعْفَی ، فَقَالَ : مَا لَک ، قَالَ : سَمِعْتُک تَقُولُ کَذَا وَکَذَا۔
(٣٥٨٧٠) حضرت حبان بن زید بیان کرتے ہیں ۔۔۔ یہ حضرت نعمان کے بہت دوست تھے اور آپ (رض) نے ان کو مقام نبک پر عامل مقرر کیا تھا ۔۔۔ کہتے ہیں کہ انھوں نے حضرت نعمان کو کہتے سنا خبردار ! خدا کے عمال خدا پر ضامن ہوں گے۔ خبردار ! بنی آدم کے عمال۔ اپنے ضمان کے مالک نہیں ہوں گے۔ راوی کہتے ہیں پھر جب حضرت نعمان اپنے منبر سے اترے تو یہ ان کے پاس آئے اور ان کو استعفیٰ دینا چاہا انھوں نے پوچھا : تمہیں کیا ہوا ہے ؟ انھوں نے کہا میں نے آپ کو یوں یوں کہتے سنا ہے۔

35870

(۳۵۸۷۱) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ حُصَیْنٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِیرٍ ، قَالَ : أُغْمِیَ عَلَی عَبْدِ اللہِ بْنِ رَوَاحَۃَ ، فَجَعَلَتْ أُخْتُہُ عَمْرَۃُ تَبْکِی وَتَقُولُ : وَأَخَاہُ ، وَا کَذَا وَا کَذَا تُعَدِّدُ عَلَیْہِ ، فَقَالَ ابْنُ رَوَاحَۃَ حِینَ أَفَاقَ : مَا قُلْتُ شَیْئًا إِلاَّ قِیلَ لِی : أَنْتَ کَذَاک۔
(٣٥٨٧١) حضرت نعمان بن بشیر سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن رواحہ پر بیہوشی طاری ہوئی تو ان کی بہن حضرت عمرہ (رض) نے رونا شروع کیا اور کہنے لگیں۔ ہائے بھائی ! ہائے یہ ! ہائے یہ۔ مختلف باتیں ان کے بارے میں شمار کرنے لگی۔ پھر جب ابن رواحہ (رض) کو افاقہ ہوا تو فرمایا : تم نے جو بات بھی کہی تو (مجھے) کہا گیا کیا تم ایسے ہو ؟ “

35871

(۳۵۸۷۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ ، عَنْ قَیْسٍ ، أَنَّ عَبْدَ اللہِ بْنَ رَوَاحَۃَ بَکَی فَبَکَتِ امْرَأَتُہُ ، فَقَالَ لہا : مَا یُبْکِیک ؟ قَالَتْ : رَأَیْتُک تَبْکِی فَبَکَیْت ، فَقَالَ : إنِّی أُنْبِئْت أَنِّی وَارِدٌ وَلَمْ أُنَبَّأْ أَنِّی صَادِرٌ۔
(٣٥٨٧٢) حضرت قیس سے روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن رواحہ روئے تو ان کی بیوی بھی روپڑی۔ انھوں نے بیوی سے پوچھا تمہیں کس بات نے رلایا ؟ انھوں نے جواب دیا۔ میں نے آپ کو روتے دیکھا تو میں بھی روپڑی۔ حضرت عبداللہ نے فرمایا : مجھے یہ خبر دی گئی ہے کہ میں وارد ہوں گا لیکن مجھے یہ خبر نہیں دی گئی کہ میں صادر (عبور کروں گا) ہوں گا۔

35872

(۳۵۸۷۳) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ یَعْلَی التَّیْمِیُّ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ رِبْعِیِّ بْنِ حِرَاشٍ ، قَالَ : قَالَ : عَبْدُ اللہِ بْنُ رَوَاحَۃَ : اللَّہُمَّ إنِّی أَسْأَلُک قُرَّۃَ عَیْنٍ لاَ تَرْتَدُّ وَنَعِیمًا لاَ یَنْفَدُ
(٣٥٨٧٣) حضرت ربعی بن حراش سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن رواحہ کہا کرتے تھے۔ اے اللہ ! میں آپ سے ایسی آنکھوں کی ٹھنڈک کا سوال کرتا ہوں جو غیر متغیر ہو اور ایسی نعمت کا سوال کرتا ہوں جو نہ ختم ہو۔

35873

(۳۵۸۷۴) حَدَّثَنَا مَالِکٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا زُہَیْرٌ ، قَالَ : حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ ، عَنِ امْرَأَۃِ عَبْدِ اللہِ بْنِ رَوَاحَۃَ ، أَنَّ عَبْدَ اللہِ بْنَ رَوَاحَۃَ کَانَ لَہُ مَسْجِدَانِ : مَسْجِدٌ فِی بَیْتِہِ ، وَمَسْجِدٌ فِی دَارِہِ ، إذَا أَرَادَ أَنْ یَخْرُجَ صَلَّی فِی الْمَسْجِدِ الَّذِی فِی بَیْتِہِ، وَإِذَا دَخَلَ صَلَّی فِی الْمَسْجِدِ الَّذِی فِی دَارِہِ، وَکَانَ حَیْثُمَا أَدْرَکَتْہُ الصَّلاَۃُ أَنَاخَ۔
(٣٥٨٧٤) حضرت عبداللہ بن رواحہ کی بیوی سے روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن رواحہ کی دو مسجدیں تھیں۔ ایک ان کے گھر میں اور ایک ان کے کمرہ میں جب وہ باہر آنا چاہتے تو وہ اپنے کمرے والی مسجد میں نماز ادا کرتے اور جب وہ اندر آنا چاہتے تو پھر اپنی گھر والی مسجد میں نماز پڑھتے اور ان کو جہاں بھی نماز پالیتی وہ جانور بٹھا لیتے۔

35874

(۳۵۸۷۵) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ یَزِیدَ ، قَالَ : حدَّثَنَا الْقَاسِمُ ، عَنْ أَبِی أُمَامَۃَ ، قَالَ : مَنْ أَحَبَّ لِلَّہِ وَأَبْغَضَ لِلَّہِ وَأَعْطَی لِلَّہِ وَمَنَعَ لِلَّہِ فَقَدِ اسْتَکْمَلَ الإِیمَانَ۔
(٣٥٨٧٥) حضرت ابوامامہ (رض) سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ جو شخص اللہ کے لیے محبت کرے اور اللہ کے لیے نفرت کرے اور اللہ کے لیے دے اور اللہ کے لیے روکے تو تحقیق (اس کا) ایمان کامل ہوگیا۔

35875

(۳۵۸۷۶) حَدَّثَنَا شَبَابَۃُ بْنُ سَوَّارٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا جَرِیرٌ ، قَالَ : حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَیْسَرَۃَ الْحَضْرَمِیُّ ، قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا أُمَامَۃَ یَقُولُ : لاَ یَدْخُلُ النَّارَ مِنْ ہَذِہِ الأُمَّۃِ إِلاَّ مَنْ شَرَدَ عَلَی اللہِ شِرَادَ الْبَعِیرِ۔
(٣٥٨٧٦) حضرت ابوامامہ (رض) کہتے ہیں کہ اس امت میں سے جہنم میں صرف وہ شخص داخل ہوگا جو اونٹ کے نافرمان ہونے کی طرح خدا کی اطاعت سے نکلے گا۔

35876

(۳۵۸۷۷) حَدَّثَنَا شَبَابَۃُ بْنُ سَوَّارٍ ، قَالَ : حدَّثَنِی حَرِیز ، قَالَ : حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ ، قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا أُمَامَۃَ یَقُولُ : اقَرَؤُوا الْقُرْآنَ ، لاَ تَغُرَّنَّکُمْ ہَذِہِ الْمَصَاحِفُ الْمُعَلَّقَۃُ ؛ فَإِنَّ اللَّہَ لاَ یُعَذِّبُ قَلْبًا وَعَی الْقُرْآنَ۔
(٣٥٨٧٧) حضرت ابوامامہ کہتے ہیں تم لوگ قرآن کی قراءت کرو۔ تمہیں یہ لٹکے ہوئے قرآنِ مجید کے نسخے دھوکا میں نہ ڈال دیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ ایسے دل کو عذاب نہیں دے گا جس نے قرآن کو محفوظ کیا ہو۔

35877

(۳۵۸۷۸) حَدَّثَنَا شَبَابَۃُ بْنُ سَوَّارٍ ، قَالَ : حدَّثَنِی جَرِیرٌ ، عَنْ حَبِیبِ بْنِ عُبَیْدٍ ، قَالَ : کَانَ أَبُو أُمَامَۃَ یُحَدِّثُنَا الْحَدِیثَ کَالرَّجُلِ الَّذِی عَلَیْہِ أَنْ یُؤَدِّیَ مَا سَمِعَ۔
(٣٥٨٧٨) حضرت حبیب بن عبید سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت ابوامامہ (رض) ہمیں اس آدمی کی طرح حدیث بیان کرتے تھے جس پر اپنے سنے ہوئے کی ادائیگی لازم ہو۔

35878

(۳۵۸۷۹) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، قَالَ : حدَّثَنَا جَرِیرُ بْنُ حَازِمٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِی یَعْلَی بْنُ حَکِیمٍ ، عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ أَبِی عَبْدِ اللہِ الْمَدَنِیِّ ، قَالَ : کَانَ أَبُو أُمَامَۃَ الْبَاہِلِیُّ صَاحِبُ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَدْ أَحْقَبَ رِدَائَہُ خَلْفَہُ عَلَی رَحْلِہِ ، فَسَمِعْت ابْنَ عُمَرَ یَقُولُ : مَنْ سَرَّہُ أَنْ یَنْظُرَ إِلَی رَجُلٍ حَاجٍّ فَلْیَنْظُرْ إِلَی أَبِی أُمَامَۃَ۔
(٣٥٨٧٩) حضرت سلیمان بن ابی عبداللہ مدنی سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ جناب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابی حضرت ابوامامہ باہلی نے اپنی چادر کو اپنی سواری کے پیچھے ٹیک بنایا ہوا تھا تو میں نے حضرت ابن عمر کو کہتے سنا جو شخص کسی حاجی کی طرف دیکھ کر خوشی محسوس کرتا ہے تو اس کو ابوامامہ کی طرف دیکھنا چاہیے۔

35879

(۳۵۸۸۰) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، وَعَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ عَائِشَۃَ ، أَنَّہَا قَالَتْ : وَدِدْت أَنِّی إذَا مِتّ کُنْت نَسْیًا مَنْسِیًّا۔
(٣٥٨٨٠) حضرت عائشہ کے بارے میں روایت ہے کہ وہ کہا کرتی تھیں میں یہ بات پسند کرتی ہوں کہ جب میں مرجاؤں تو میں بھولی بسری ہوجاؤں۔

35880

(۳۵۸۸۱) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ الْحُبَابِ ، عَنْ أُسَامَۃَ بْنِ زَیْدٍ ، قَالَ : حدَّثَنِی إِسْحَاقُ مَوْلَی زَائِدَۃَ ، أَنَّ عَائِشَۃَ ، قَالَتْ : یَا لَیْتَہَا شَجَرَۃٌ تُسَبِّحُ وَتَقْضِی مَا عَلَیْہَا ، وَأَنَّہَا لَمْ تُخْلَقْ۔
(٣٥٨٨١) حضرت اسحق بیان کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ (رض) نے فرمایا : کاش کہ وہ ایک درخت ہوتیں جو تسبیح کرتا اور اپنی مدت پوری کرتا اور یہ پیدا ہی نہ ہوتیں۔

35881

(۳۵۸۸۲) حَدَّثَنَا شَبَابَۃُ بْنُ سَوَّارٍ ، عَنْ لَیْثِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ یَزِیدَ ، عَنْ عِرَاکٍ ، عَنْ عُرْوَۃَ ، أَنَّہُ سَمِعَ عَائِشَۃَ تَقُولُ : یَا لَیْتَنِی لَمْ أُخْلَقْ۔
(٣٥٨٨٢) حضرت عروہ سے روایت ہے کہ انھوں نے حضرت عائشہ (رض) کو کہتے سنا : اے کاش کہ میں پیدا ہی نہ کی جاتی۔

35882

(۳۵۸۸۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ حَمَّادٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : قالَتْ عَائِشَۃُ : أَقِلُّوا الذُّنُوبَ فَإِنَّکُمْ لَنْ تَلْقَوُا اللَّہَ بِشَیْئٍ یُشْبِہُ قِلَّۃَ الذُّنُوبِ۔
(٣٥٨٨٣) حضرت ابراہیم سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت عائشہ (رض) نے فرمایا : تم گناہ کم کرو۔ کیونکہ تم ہرگز خدا کو قلت ذنوب کے مشابہ کسی چیز کے ساتھ نہ ملو گے۔

35883

(۳۵۸۸۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ مِسْعَرٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ أَبِی بُرْدَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنِ الأَسْوَدِ ، عَنْ عَائِشَۃَ ، قَالَتْ : إنَّکُمْ لَتَدَعُونَ أَفْضَلَ الْعِبَادَۃِ التَّوَاضُعَ۔
(٣٥٨٨٤) حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے وہ کہتی ہیں کہ تم لوگوں نے افضل عبادت یعنی تواضع کو چھوڑ دیا ہے۔

35884

(۳۵۸۸۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا الأَعْمَشُ ، عَنْ تَمِیمٍ ، عَنْ عُرْوَۃَ بْنِ الزُّبَیْرِ ، قَالَ : کَانَتْ عَائِشَۃُ تَقْسِمُ سَبْعِینَ أَلْفًا وَہِیَ تُرَقِّعُ دِرْعَہَا۔
(٣٥٨٨٥) حضرت عروہ بن زبیر سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت عائشہ (رض) ستر ہزار تقسیم کرتی تھیں لیکن اپنے دوپٹہ کو پیوند لگاتی تھیں۔

35885

(۳۵۸۸۶) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ، عَنِ الْقَاسِمِ ، عَنْ عَائِشَۃَ ، قَالَتْ : مَنْ نُوقِشَ الْحِسَابَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ لَمْ یُغْفَرْ لَہُ۔
(٣٥٨٨٦) حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے وہ کہتی ہیں کہ جس سے قیامت کے دن حساب میں مناقشہ کیا گیا تو اس کو معافی نہیں ملے گی۔

35886

(۳۵۸۸۷) حَدَّثَنَا ہَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ ، قَالَ : حدَّثَنَا أَبُو عَقِیلٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ بْنُ أَبِی خَالِدٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِی أَبُو السَّفَرِ ، قَالَ : قَالَتْ عَائِشَۃُ : إنَّ النَّاسَ قَدْ ضَیَّعُوا عُظْمَ دِینِہِمْ : الْوَرَعَ۔
(٣٥٨٨٧) حضرت ابوالسفر کہتے ہیں کہ حضرت عائشہ (رض) نے فرمایا : لوگوں نے اپنے دین کا بڑا حصہ یعنی ورع کو ضائع کردیا ہے۔

35887

(۳۵۸۸۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَابِسٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ عَائِشَۃَ ، قَالَتْ : مَا شَبِعَ آلُ مُحَمَّدٍ مِنْ طَعَامِ بُرٍّ فَوْقَ ثَلاَثٍ۔ (بخاری ۵۴۲۳۔ مسلم ۲۲۸۲)
(٣٥٨٨٨) حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے وہ کہتی ہیں کہ آل محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تین دن سے زیادہ گندم کا آٹا سیر ہو کر نہیں کھایا۔

35888

(۳۵۸۸۹) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ عَائِشَۃَ ، قَالَتْ : کُنَّا نَلْبَثُ شَہْرًا مَا نَسْتَوْقِدُ بِنَارٍ ، مَا ہُوَ إِلاَّ التَّمْرُ وَالْمَائُ۔ (بخاری ۶۴۵۸۔ مسلم ۲۲۸۲)
(٣٥٨٨٩) حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے وہ کہتی ہیں کہ ہم مہینہ مہینہ اس حالت میں گزارتے کہ ہم آگ نہیں جلاتے تھے۔ کھانا صرف کھجور اور پانی ہوتا تھا۔

35889

(۳۵۸۹۰) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ عَائِشَۃَ ، قَالَتْ : لاَ یُحَاسَبُ أَحَدٌ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ إِلاَّ دَخَلَ الْجَنَّۃَ ، ثُمَّ قَرَأَتْ : {فَأَمَّا مَنْ أُوتِیَ کِتَابَہُ بِیَمِینِہِ فَسَوْفَ یُحَاسَبُ حِسَابًا یَسِیرًا} ثُمَّ قَرَأَتْ : {یُعْرَفُ الْمُجْرِمُونَ بِسِیمَاہُمْ فَیُؤْخَذُ بِالنَّوَاصِی وَالأَقْدَامِ}۔
(٣٥٨٩٠) حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے وہ کہتی ہیں کہ جس سے بھی قیامت کے دن حساب نہیں ہوا مگر یہ کہ وہ جنت میں داخل ہوگا پھر آپ (رض) نے آیات قراءت کیں : { فَأَمَّا مَنْ أُوتِیَ کِتَابَہُ بِیَمِینِہِ فَسَوْفَ یُحَاسَبُ حِسَابًا یَسِیرًا } پھر آپ (رض) نے یہ آیت تلاوت کی : { یُعْرَفُ الْمُجْرِمُونَ بِسِیمَاہُمْ فَیُؤْخَذُ بِالنَّوَاصِی وَالأَقْدَامِ }

35890

(۳۵۸۹۱) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ عَائِشَۃَ ، قَالَتْ : إذَا تَمَنَّی أَحَدُکُمْ فَلْیُکْثِرْ فَإِنَّمَا یَسْأَلُ رَبَّہُ۔
(٣٥٨٩١) حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے وہ کہتی ہیں کہ جب تم میں سے کوئی تمنا کرے تو اس کو خوب کرنی چاہیے کیونکہ وہ اپنے رب ہی سے سوال کرتا ہے۔

35891

(۳۵۸۹۲) حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ ، عَنْ مِسْعَرٍ ، عَنْ حَمَّادٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : قالَتْ عَائِشَۃُ : وَدِدْت أَنِّی وَرَقَۃٌ مِنْ ہَذَا الشَّجَرِ۔
(٣٥٨٩٢) حضرت ابراہیم سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت عائشہ (رض) نے فرمایا : مجھے یہ بات محبوب ہے کہ میں اس درخت کا پتہ ہوتی۔

35892

(۳۵۸۹۳) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ عَائِشَۃَ ، قَالَتْ : لَقَدْ تُوُفِّیَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَمَا فِی رَفِّی شَیْئٌ یَأْکُلُہُ ذُو کَبِدٍ إِلاَّ شَطْرُ شَعِیرٍ فِی رَفٍّ لِی۔ (مسلم ۲۲۸۲)
(٣٥٨٩٣) حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے وہ کہتی ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات اس حالت میں ہوئی کہ میری الماری میں کوئی ایسی چیز نہ تھی جس کو جاندار کھا سکے سوائے چند جو کے جو میری الماری میں تھے۔

35893

(۳۵۸۹۴) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، قَالَ : حدَّثَنِی جَرِیرُ بْنُ حَازِمٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ عَبْدَ اللہِ بْنَ أَبِی مُلَیْکَۃَ ، قَالَ : سَمِعْتُ عَائِشَۃَ تَقُولُ : یُسَلَّطُ عَلَی الْکَافِرِ فِی قَبْرِہِ شُجَاعٌ أَقْرَعُ ، فَیَأْکُلُ لَحْمَہُ مِنْ رَأْسِہِ إِلَی رِجْلَیْہِ ، ثُمَّ یُکْسَی اللَّحْمَ فَیَأْکُلُ مِنْ رِجْلَیْہِ إِلَی رَأْسِہِ ، ثُمَّ یُکْسَی اللَّحْمَ فَیَأْکُلُ مِنْ رَأْسِہِ إِلَی رِجْلَیْہِ فَہُوَ کَذَلِکَ۔
(٣٥٨٩٤) حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ کافر پر اس کی قبر میں اس پر گنجا سانپ مسلط کیا جاتا ہے۔ پس وہ اس کے سر سے لے کر اس کے پاؤں تک گوشت کھالے گا۔ پھر گوشت چڑھایا جائے گا پھر وہ اس کے پاؤں سے اس کے سر تک کھالے گا پھر گوشت چڑھایا جائے گا پھر وہ اس کے سر سے لے کر اس کے پاؤں تک کھالے گا۔ پھر یہی معاملہ ہوگا۔

35894

(۳۵۸۹۵) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا إسْمَاعِیلُ بْنُ أَبِی خَالِدٍ ، عَنْ قَیْسِ بْنِ أَبِی حَازِمٍ ، عَنْ سَعْدٍ ، قَالَ : لَقَدْ رَأَیْتنَا نَغْزُو مَعَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا لَنَا زَادٌ إِلاَّ وَرَقُ الْحُبْلَۃِ وَہَذَا السَّمُرُ حَتَّی إنَّ أَحَدَنَا لَیَضَعُ کَمَا تَضَعُ الشَّاۃُ ، مَا لَہُ خِلْطٌ ، ثُمَّ أَصْبَحَتْ بَنُو أَسَدٍ یُعَزِّرُونَنِی عَلَی الدِّینِ ، لَقَدْ خِبْت إذًا وَخَسِرَ عَمَلِی۔ (بخاری ۳۷۲۸۔ ۲۲۷۷)
(٣٥٨٩٥) حضرت سعد سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے اپنے آپ کو دیکھا کہ ہم جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہمراہ جہاد کرتے تھے اور ہمارے پاس سبزیوں کے پتوں اور اس کیکر کے علاوہ کوئی زادِ راہ نہیں ہوتا تھا۔ یہاں تک کہ ہم میں سے ایک بکری کے پاخانہ کی طرح پاخانہ کرتا تھا۔ جس میں کوئی پھوک نہیں ہوتا تھا۔ پھر بنو اسد مجھے دین کے معاملہ پر تعزیر کرنے لگے ہیں۔ پھر تو میں خائب ہوں گا اور میرا عمل خسارہ والا ہوگا۔

35895

(۳۵۸۹۶) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ وَوَکِیعٌ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ ، عَنْ قَیْسِ بن أبی حازم ، قَالَ : قَالَ الزُّبَیْرُ بْنُ الْعَوَّامِ : مَنِ اسْتَطَاعَ مِنْکُمْ أَنْ یَکُونَ لَہُ خَبِیئٌ مِنْ عَمَلٍ صَالِحٍ فَلْیَفْعَلْ۔
(٣٥٨٩٦) حضرت زبیر بن عوام فرماتے ہیں جو شخص تم میں سے نیک عمل کو مخفی رکھ سکے تو اس کو یہ کام کرنا چاہیے۔

35896

(۳۵۸۹۷) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو ، عَنْ صَالِحِ بْنِ إِبْرَاہِیمَ بن عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ ، قَالَ : سَأَلْتُ رَجُلاً مِنْ جُہَیْنَۃَ قُلْتُ : مَا بَالُ زَیْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُہَنِیِّ أَنْبَہَ أَصْحَاب رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ذِکْرًا ، قَالَ : إِنَّہُ لَمْ یَجْرِ مَجْرَاہُمْ فَسَخطَ۔
(٣٥٨٩٧) حضرت صالح بن ابراہیم سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے قبیلہ جہینہ کے ایک آدمی سے سوال کیا۔ زید بن خالد جہنی کا کیا معاملہ ہے ؟ (شیخ محمد عوامہ کے مطابق اگلی عبارت کا مفہوم واضح نہیں اور نسخوں میں اضطراب ہے)

35897

(۳۵۸۹۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ ، عَنْ قَیْسٍ ، عَنْ جَرِیرٍ ، أَنَّہُ قَالَ لِقَوْمِہِ وَہُوَ یَعِظُہُمْ : مَا أَنْتَ إِلاَّ کَالنَّعَامَۃِ استُثیرتْ وَاتَّخذوا ظَہْرًا ، فَإِنْ لَمْ تَجِدُوا الظَّہْرَ فَعَلَیْکُمْ ، وَإِنَّ أول الأَرْضِ خَرَابًا یُسْرَاہَا ، ثُمَّ تَتْبَعُہَا یُمْنَاہَا ، وَالْمَحْشَرُ ہَاہُنَا وَأَنَا بِالأَثَرِ۔
(٣٥٨٩٨) حضرت جریر کے بارے میں روایت ہے کہ وہ اپنی قوم کو وعظ کرتے ہوئے فرماتے ہیں تم اس شتر مرغ کی طرح ہو جسے اڑا دیا گیا ہو، تم جانور کی سواری کو لازم پکڑو اگر وہ نہ ملے تو اپنا انتظام کرو۔ اور بیشک خرابی کے اعتبار سے سب سے پہلی زمین بائیں جانب والی ہوگی پھر اس کے بعد پیچھے دائیں جانب والی ہوگی۔ اور محشر یہاں ہوگا اور ہم پیچھے ہوں گے۔

35898

(۳۵۸۹۹) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، عَنْ عَطَائٍ الْوَاسِطِیِّ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ ، قَالَ : لاَ یَتَّقِی اللَّہَ عَبْدٌ حَتَّی یَخزَنَ مِنْ لِسَانِہِ۔
(٣٥٨٩٩) حضرت انس بن مالک (رض) سے روایت ہے وہ کہتے ہیں بندہ اللہ تعالیٰ سے نہیں ڈرتا جب تک کہ وہ اپنی زبان کو خزانہ نہ کرے۔

35899

(۳۵۹۰۰) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، قَالَ : حَدَّثَنَا ثَابِتٌ ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ : مَا نَفَضْنَا عَنْ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الأَیْدِی حَتَّی أَنْکَرْنَا قُلُوبَنَا۔ (ترمذی ۳۶۱۸۔ احمد ۲۶۸)
(٣٥٩٠٠) حضرت انس (رض) سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ ہم نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (کی تدفین) سے ابھی ہاتھ نہیں جھاڑے تھے کہ ہمارے دل ہمیں منکر لگنے لگے۔

35900

(۳۵۹۰۱) حَدَّثَنَا عَفَّانُ بْنُ مُسْلِمٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ کَثِیرٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا الْجَلْدُ بْنُ أَیُّوبَ ، عَنْ مُعَاوِیَۃَ بْنِ قُرَّۃَ ، قَالَ : قَالَ لِی أَنَسُ بْنُ مَالِکٍ : لَمْ أَرَ مِثْلَ الَّذِی بَلَغَنَا عَنْ رَبِّنَا لَمْ نَخْرُجْ لَہُ ، عَنْ کُلِّ أَہْلٍ وَمَالٍ أَنْ تَجَاوَزَ لَنَا عَمَّا دُونَ الْکَبَائِرِ فَمَا لَنَا وَلَہَا ، قَوْل اللَّہ : {إنْ تَجْتَنِبُوا کَبَائِرَ مَا تُنْہَوْنَ عَنْہُ نُکَفِّرْ عَنْکُمْ سَیِّئَاتِکُمْ وَنُدْخِلْکُمْ مُدْخَلاً کَرِیمًا}۔ (ابن جریر ۴۴)
(٣٥٩٠١) حضرت معاویہ بن قرہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت انس بن مالک نے مجھے کہا ہمیں اپنے پروردگار کی طرف سے جو بات پہنچی ہے میں تو اس کی مثال ہی نہیں دیکھتا۔ ہم اس کے لیے اپنے سارے اہل ومال سے نہیں نکلے۔ اگر وہ ہمارے لیے کبائر سے کم درجہ کو درگزر کردے تو پھر ہمیں کیا ہے۔ ارشاد خداوندی ہے : {إنْ تَجْتَنِبُوا کَبَائِرَ مَا تُنْہَوْنَ عَنْہُ نُکَفِّرْ عَنْکُمْ سَیِّئَاتِکُمْ وَنُدْخِلْکُمْ مُدْخَلاً کَرِیمًا }۔

35901

(۳۵۹۰۲) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا مِسْعَرٌ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ خَالِدٍ ، أَنَّ أَنَسًا کَانَ یَقُولُ : مَا مِنْ رَوْحَۃٍ ، وَلاَ غَدْوَۃٍ إِلاَّ تُنَادِی کُلُّ بُقْعَۃٍ جَارَتَہَا یَا جَارَتِی ، متی مَرَّ بِکَ الْیَوْمَ نَبِیٌّ ، أَوْ صِدِّیقٌ ، أَوْ عَبْدٌ ذَاکِرٌ لِلَّہِ عَلَیْک فَمِنْ قَائِلَۃٍ : نَعَمْ ، وَمِنْ قَائِلَۃٍ : لاَ۔
(٣٥٩٠٢) حضرت محمد بن خالد سے روایت ہے کہ حضرت انس (رض) کہا کرتے تھے کوئی صبح یا کوئی شام نہیں گزرتی مگر یہ کہ زمین کا ہر ٹکڑا، اپنے ساتھ والے ٹکڑے کو آواز دیتا ہے۔ اے میرے ساتھی ! آج کے دن کب تیرے پاس سے نبی، صدیق یا خدا کو یاد کرنے والے کا گزر ہوا ہے ؟ پس بعض ٹکڑے کہتے ہیں ہاں اور بعض ٹکڑے کہتے ہیں نہیں۔

35902

(۳۵۹۰۳) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ بَشِیرٍ ، عَنْ أَنَسٍ فِی قَوْلِہِ : {فَوَرَبِّکَ لَنَسْأَلَنَّہُمْ أَجْمَعِینَ عَمَّا کَانُوا یَعْمَلُونَ} قَالَ : لاَ إلَہَ إِلاَّ اللَّہُ۔
(٣٥٩٠٣) حضرت انس (رض) سے ارشادِ خداوندی { فَوَرَبِّکَ لَنَسْأَلَنَّہُمْ أَجْمَعِینَ عَمَّا کَانُوا یَعْمَلُونَ } کے بارے میں روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ اس سے مراد لا الہ الا اللہ ہے۔

35903

(۳۵۹۰۴) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ : مَنِ اتَّخَذَ أَخًا فِی اللہِ بَنَی اللہ لَہُ بُرْجًا فِی الْجَنَّۃِ، وَمَنْ لَبِسَ بِأَخِیہِ ثَوْبًا أَلْبَسَہُ اللَّہُ ثَوْبًا فِی الْنَّارِ، وَمَنْ أَکَلَ بِأَخِیہِ أَکْلَۃً آکَلَہُ اللَّہُ بِہَا أَکْلَۃً فِی النَّارِ، وَمَنْ قَامَ بِأَخِیہِ مَقَامَ سُمْعَۃٍ وَرِیَائٍ أَقَامَہُ اللَّہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ مَقَامَ سُمْعَۃٍ وَرِیَائٍ۔ (بخاری ۲۴۰۔ ابوداؤد ۴۸۴۷)
(٣٥٩٠٤) حضرت انس (رض) سے روایت ہے وہ کہتے ہیں جو شخص (کسی کو) اللہ کے لیے بھائی بناتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت میں ایک برج تعمیر کرتا ہے اور جو شخص اپنے بھائی پر طعن کرکے دنیا حاصل کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو جہنم کا لباس پہنائیں گے۔ اور جو شخص اپنے بھائی پر طعن کرکے کچھ کھائے گا تو حق تعالیٰ اس کو جہنم میں کھلائیں گے اور جو شخص اپنے بھائی پر طعن کرکے شہرت اور ریا کرے گا تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس کو رسوائی اور دکھلاوے کی جگہ کھڑا کرے گا۔

35904

(۳۵۹۰۵) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ رَجُلٍ ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ : مَا الْتَقَی رَجُلاَنِ مِنْ أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَافْتَرَقَا حَتَّی یَدْعُوَا بِدَعْوَی وَیَذْکُرَا اللَّہَ۔
(٣٥٩٠٥) حضرت انس (رض) سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ جناب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ (رض) میں سے کوئی دو آدمی بھی باہم ملتے تو وہ خدا کے ذکر اور باہم دعوت کے بعد جدا ہوتے تھے۔

35905

(۳۵۹۰۶) حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ ، عَنْ أَبِی الْعُمَیْسِ ، عَنْ أَبِی طَلْحَۃَ ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ : لَوْ تَعْلَمُونَ مَا أَعْلَمُ لَبَکَیْتُمْ کَثِیرًا وَلَضَحِکْتُمْ قَلِیلاً۔
(٣٥٩٠٦) حضرت انس (رض) سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ اگر تم وہ کچھ جان لو جو میں جانتا ہوں تو تم رونا زیادہ کردو اور ہنسنا کم کردو۔

35906

(۳۵۹۰۷) حَدَّثَنَا الثَّقَفِیُّ ، عَنْ حُمَیْدٍ ، قَالَ : أَطَلْنَا الْحَدِیثَ ذَاتَ لَیْلَۃٍ ، ثُمَّ دَخَلْنَا عَلَی أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ ، فَقَالَ : أَطَلْتُمَ الْحَدِیثَ الْبَارِحَۃَ ، أَمَا إنَّ حَدِیثَ أَوَّلِ اللَّیْلِ یُضِرُّ بِآخِرِہِ۔
(٣٥٩٠٧) حضرت حمید سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ ہم نے ایک رات لمبی گفتگو کی۔ پھر ہم حضرت انس بن مالک (رض) کے پاس گئے تو انھوں نے فرمایا : تم نے آج رات بہت لمبی گفتگو کی۔ خبردار ! اول شب کی گفتگو آخر شب کے لیے نقصان دہ ہوتی ہے۔

35907

(۳۵۹۰۸) حَدَّثَنَا سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ أَبِی بَکْرٍ سَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِکٍ یَقُولُ : یَتْبَعُ الْمَیِّتَ ثَلاَثٌ : أَہْلُہُ وَمَالُہُ وَعَمَلُہُ یَرْجِعُ أَہْلُہُ وَمَالُہُ وَیَبْقَی وَاحِدٌ ، یَعْنِی عَمَلَہُ۔
(٣٥٩٠٨) حضرت انس بن مالک فرماتے ہیں تین چیزیں میت کے ساتھ جاتی ہیں۔ اس کے اہل، اس کے مال اور اس کے عمل۔ پھر اس کے اہل اور مال واپس لوٹ آتے ہیں اور ایک چیز یعنی اس کا عمل باقی رہتا ہے۔

35908

(۳۵۹۰۹) حَدَّثَنَا ابْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ حُصَیْنِ بْنِ عَبْدِ اللہِ الْہِفّانی ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ : مَا أَعْرِفُ شَیْئًا إِلاَّ الصَّلاَۃَ۔
(٣٥٩٠٩) حضرت انس (رض) سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نماز کے علاوہ کسی چیز کو نہیں جانتا۔

35909

(۳۵۹۱۰) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ یَعْلَی ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ طَلْقِ بْنِ حَبِیبٍ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ ، قَالَ : ثَلاَثٌ مَنْ کُنَّ فِیہِ وَجَدَ طَعْمَ الإِیمَانِ وَحَلاَوَتَہُ : أَنْ یَکُونَ اللَّہُ وَرَسُولُہُ أَحَبَّ إلَیْہِ مِمَّا سِوَاہُمَا ، وَأَنْ یُحِبَّ فِی اللہِ ، وَأَنْ یَبْغَضَ فِی اللہِ ، وَأَنْ لَوْ أُوقِدَتْ لَہُ نَارٌ یَقَعُ فِیہَا أَحَبُّ إلَیْہِ مِنْ أَنْ یُشْرِکَ بِاللہِ۔
(٣٥٩١٠) حضرت انس بن مالک (رض) سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ تین چیزیں ایسی ہیں جو شخص ان کا حامل ہوگا وہ ایمان کی حلاوت پالے گا۔ یہ کہ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ ما سوا سے زیادہ محبوب رکھتا ہو۔ اور یہ کہ وہ اللہ کے لیے محبت کرے اور اللہ کے لیے نفرت کرے اور یہ کہ اگر اس کے لیے آگ جلائی جائے جس میں اس کو ڈالا جائے تو یہ اس کو خدا کے ساتھ شرک کرنے سے زیادہ محبوب ہو۔

35910

(۳۵۹۱۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ یَزِیدَ بْنِ دِرْہَمٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِکٍ یَقُولُ فِی قَوْلِہِ : {وَکُلَّ إنْسَانٍ أَلْزَمْنَاہُ طَائِرَہُ فِی عُنُقِہِ} قَالَ : کِتَابَہُ۔
(٣٥٩١١) حضرت انس بن مالک (رض) سے ارشاد خداوندی { وَکُلَّ إنْسَانٍ أَلْزَمْنَاہُ طَائِرَہُ فِی عُنُقِہِ } کے بارے میں روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ اس سے مراد اس کا نامہ اعمال ہے۔

35911

(۳۵۹۱۲) حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا أَبُو رَجَائٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ مَالِکٍ ، عَنِ الْبَرَائِ بْنِ عَازِبٍ : {تَحِیَّتُہُمْ یَوْمَ یَلْقَوْنَہُ سَلاَمٌ} قَالَ : یَوْمَ یَلْقَوْنَ مَلَکَ الْمَوْتِ ، لَیْسَ مِنْ مُؤْمِنٍ یَقْبِضُ رُوحَہُ إِلاَّ سَلَّمَ عَلَیْہِ۔
(٣٥٩١٢) حضرت براء بن عازب (رض) سے ارشاد خداوندی { تَحِیَّتُہُمْ یَوْمَ یَلْقَوْنَہُ سَلاَمٌ} کے بارے میں روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ یہ وہ دن ہے جس میں وہ ملک الموت سے ملیں گے۔ کوئی مومن ایسا نہیں ہے جس کی روح وہ قبض کرے مگر یہ کہ وہ اس کو سلام کرتا ہے۔

35912

(۳۵۹۱۳) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ عَنِ الأعمش عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَیْدَۃَ ، عَنِ الْبَرَائِ بْنِ عَازِبٍ ، قَالَ فِی قَوْلِہِ : {یُثَبِّتُ اللَّہُ الَّذِینَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِی الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا} قَالَ : التَّثْبِیتُ فِی الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا إذَا جَائَ الْمَلَکَانِ إِلَی الرَّجُلِ فِی الْقَبْرِ فَقَالاَ لَہُ : مَنْ رَبُّک ؟ فَقَالَ : رَبِّی اللَّہُ ، وَقَالاَ : مَا دِینُک ؟ قَالَ : دِینِی الإِسْلاَمُ ، قَالاَ : وَمَنْ نَبِیُّک ، قَالَ : مُحَمَّدٌ ، قَالَ : فَذَلِکَ التَّثْبِیتُ فِی الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا۔
(٣٥٩١٣) حضرت براء بن عازب سے روایت ہے کہ انھوں نے ارشاد خداوندی { یُثَبِّتُ اللَّہُ الَّذِینَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِی الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا } کے بارے میں فرمایا : ” دنیوی زندگی میں ثابت قدم رکھنے سے مراد یہ ہے کہ قبر میں جب دو فرشتے آدمی کے پاس آتے ہیں تو وہ دونوں اس آدمی سے کہتے ہیں : تیرا پروردگار کون ہے ؟ وہ آدمی جواب دیتا ہے : میرا پروردگار اللہ ہے۔ پھر وہ دونوں پوچھتے ہیں تیرا دین کیا ہے ؟ یہ جواب دیتا ہے : میرا دین اسلام ہے۔ پھر یہ پوچھتے ہیں : تیرا نبی کون ہے ؟ یہ جواب دیتا ہے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ۔ حضرت براء (رض) نے فرمایا : دنیوی زندگی میں ثابت قدمی سے یہی مراد ہے۔

35913

(۳۵۹۱۴) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ السَّائِبِ ، عَنْ زَاذَانَ ، عَنِ الْبَرَائِ ، قَالَ : {إنَّ اللَّہَ یَأْمُرُکُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الأَمَانَاتِ إِلَی أَہْلِہَا} قَالَ : الأَمَانَۃُ فِی الصَّلاَۃِ ، وَالأَمَانَۃُ فِی الْغُسْلِ مِنَ الْجَنَابَۃ، وَالأَمَانَۃُ فِی الْکَیْلِ ، وَالأَمَانَۃُ فِی الْوَزْنِ ، وَأَعْظَمُ ذَلِکَ فِی الْوَدَائِعِ۔
(٣٥٩١٤) حضرت براء (رض) سے روایت ہے کہ انھوں نے فرمایا : {إنَّ اللَّہَ یَأْمُرُکُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الأَمَانَاتِ إِلَی أَہْلِہَا } فرمایا : نمازیں بھی امانت ہوتی ہیں۔ اور وزن میں بھی امانت ہوتی ہے اور جنابت کے غسل میں بھی امانت ہوتی ہے۔ ناپ میں بھی امانت ہوتی ہے اور سب سے بڑی ودیعتوں میں امانت ہوتی ہے۔

35914

(۳۵۹۱۵) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : أَحِبَّ فِی اللہِ ، وَأَبْغِض فِی اللہِ ، وَوَالِ فِی اللہِ ، وَعَادِ فِی اللہِ ، فَإِنَّمَا تُنَالُ وِلاَیَۃُ اللہِ بِذَلِکَ ، لاَ یَجِدُ رَجُلٌ طَعْمَ الإِیمَانِ وَإِنْ کَثُرَتْ صَلاَتُہُ وَصِیَامُہُ حَتَّی یَکُونَ کَذَلِکَ۔
(٣٥٩١٥) حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے وہ کہتے ہیں اللہ کے لیے محبت کرو۔ اللہ کے لیے نفرت کرو۔ خدا کے لیے دوستی کرو اور خدا کے لیے دشمنی کرو۔ کیونکہ خدا کی ولایت اسی سے حاصل ہوتی ہے۔ آدمی کی نمازیں اور روزے بہت زیادہ بھی ہوجائیں تو وہ تب تک ایمان کی حلاوت نہیں پاتا جب تک کہ وہ ایسا نہ ہوجائے۔

35915

(۳۵۹۱۶) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنْ یَحْیَی ، عَنِ الْقَاسِمِ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : قیلَ لَہُ : رَجُلٌ کَثِیرُ الذُّنُوبِ کَثِیرُ الْعَمَلِ أَحَبُّ إلَیْک ، أَوْ رَجُلٌ قَلِیلُ الذُّنُوبِ قَلِیلُ الْعَمَلِ ، قَالَ : مَا أَعْدِلُ بِالسَّلاَمَۃِ شَیْئًا۔
(٣٥٩١٦) حضرت قاسم، حضرت ابن عباس (رض) کے بارے میں روایت کرتے ہیں کہتے ہیں کہ ان سے پوچھا گیا : زیادہ گناہوں والا، زیادہ عمل والا شخص آپ کو محبوب ہے یا کم گناہوں والا کم عمل والا شخص ؟ انھوں نے فرمایا : میں سلامتی کو کسی بھی چیز کے برابر قرار نہیں دیتا۔

35916

(۳۵۹۱۷) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ قَابُوسَ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : السَّمْتُ الصَّالِحُ وَالْہَدْیُ الصَّالِحُ وَالاِقْتِصَادُ جُزْئٌ مِنْ خَمْسَۃٍ وَعِشْرِینَ جُزْئًا مِنَ النُّبُوَّۃِ۔ (احمد ۲۹۶)
(٣٥٩١٧) حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ اچھی وضع قطع، اچھی چال ڈھال اور میانہ روی، نبوت کے پچیس اجزاء میں سے ایک جز ہے۔

35917

(۳۵۹۱۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ عُثْمَانَ الثَّقَفِیِّ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ : {وَنَادَی أَصْحَابُ النَّارِ أَصْحَابَ الْجَنَّۃِ أَنْ أَفِیضُوا عَلَیْنَا مِنَ الْمَائِ} الآیَۃُ ، قَالَ : یُنَادِی الرَّجُلُ أَخَاہُ ، وَیُنَادِی الرَّجُل الرَّجُلَ فَیَقُولُ : إنِّی قَدِ احْتَرَقْت فَأَفِضْ عَلَیَّ مِنَ الْمَائِ ، قَالَ : فَیُقَالُ لہ : أَجِبْہُ ، فَیَقُولُ : إنَّ اللَّہَ حرَّمَہُمَا عَلَی الْکَافِرِینَ۔
(٣٥٩١٨) حضرت ابن عباس (رض) سے { وَنَادَی أَصْحَابُ النَّارِ أَصْحَابَ الْجَنَّۃِ أَنْ أَفِیضُوا عَلَیْنَا مِنَ الْمَائِ } کے بارے میں روایت ہے۔ آپ (رض) نے فرمایا : آدمی اپنے بھائی کو آواز دے گا اور آدمی، آدمی کو آواز دے گا۔ آدمی کہے گا میں تو جل گیا ہوں۔ پس تم مجھ پر پانی بہاؤ۔ راوی کہتے ہیں اس آدمی سے کہا جائے گا تم اس کو جواب دو ۔ وہ کہے گا : إنَّ اللَّہَ حرَّمَہُمَا عَلَی الْکَافِرِینَ ۔

35918

(۳۵۹۱۹) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ فِی قَوْلِہِ : {الْوَسْوَاسِ الْخَنَّاسِ} قَالَ: الشَّیْطَانُ جَاثِمٌ عَلَی قَلْبِ ابْنِ آدَمَ ، فَإِذَا سَہَا وَغَفَلَ وَسْوَسَ ، وَإِذَا ذَکَرَ اللَّہَ خَنَسَ۔
(٣٥٩١٩) حضرت ابن عباس (رض) سے ارشادِ خداوندی { الْوَسْوَاسِ الْخَنَّاسِ } کے بارے میں منقول ہے انھوں نے فرمایا : شیطان، ابن آدم کے دل پر بیٹھا ہوتا ہے پس جب انسان بھولتا ہے اور غافل ہوتا ہے تو شیطان وسوسہ ڈالتا ہے اور جب آدمی خدا کا ذکر کرتا ہے تو وہ پیچھے ہٹ جاتا ہے۔

35919

(۳۵۹۲۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ زَیْدٍ ، عَنْ یُوسُفَ بْنِ مِہْرَانَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ : {ذَلِکَ یَوْمٌ مَجْمُوعٌ لَہُ النَّاسُ وَذَلِکَ یَوْمٌ مَشْہُودٌ} قَالَ : یَوْمُ الْقِیَامَۃِ۔
(٣٥٩٢٠) حضرت ابن عباس سے ارشاد خداوندی { ذَلِکَ یَوْمٌ مَجْمُوعٌ لَہُ النَّاسُ وَذَلِکَ یَوْمٌ مَشْہُودٌ} کے بارے میں روایت ہے۔ فرمایا : یہ قیامت کا دن ہے۔

35920

(۳۵۹۲۱) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ قَابُوسَ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ {آنَائَ اللَّیْلِ} قَالَ : جَوْفُ اللَّیْلِ۔
(٣٥٩٢١) حضرت ابن عباس (رض) سے { آنَائَ اللَّیْلِ } کے بارے میں روایت ہے کہ انھوں نے فرمایا : یہ رات کا درمیان ہے۔

35921

(۳۵۹۲۲) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِِ ، عَنْ ہَارُونَ بْنِ عَنْتَرَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : سَأَلْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ : أَیُّ الْعَمَلِ أَفْضَلُ ، قَالَ : ذِکْرُ اللہِ أَکْبَرُ ، وَمَا جَلَسَ قَوْمٌ فِی بَیْتٍ یَتَعَاطَوْنَ فِیہِ کِتَابَ اللہِ فِیمَا بَیْنَہُمْ ، وَیَتَدَارَسُونَہُ إِلاَّ أَظَلَّتْہُمَ الْمَلاَئِکَۃُ بِأَجْنِحَتِہَا ، وَکَانُوا أَضْیَافَ اللہِ ، مَا دَامُوا فِیہِ ، حَتَّی یَخُوضُوا فِی حَدِیثٍ غَیْرِہِ۔
(٣٥٩٢٢) حضرت عنترہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عباس (رض) سے سوال کیا : کون سا عمل افضل ہے ؟ آپ (رض) نے فرمایا : اللہ کا ذکر سب سے بڑا عمل ہے۔ کوئی قوم کسی گھر میں بیٹھ کر آپس میں اللہ کی کتاب کی تدریس نہیں کرتے مگر یہ کہ فرشتے ان کو اپنے پروں کے ساتھ سایہ کرلیتے ہیں اور جب تک وہ اس عمل میں ہوتے ہیں وہ خدا کے مہمان ہوتے ہیں۔ یہاں تک کہ وہ کسی دوسری بات میں لگ جائیں۔

35922

(۳۵۹۲۳) حَدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنِ السُّدِّیِّ ، عَنْ أَبِی حَکِیمٍ الْبَارِقِیِّ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : {وَنُفِخَ فِی الصُّوْرِ فَصَعِقَ مَنْ فِی السَّمَاوَاتِ وَمَنْ فِی الأَرْضِ إِلاَّ مَنْ شَائَ اللَّہُ} قَالَ : نُفِخَ فِیہِ أَوَّلُ نَفْخَۃٍ فَصَارُوا عِظَامًا وَرُفَاتًا ، ثُمَّ نُفِخَ فِیہِ الثَّانِیَۃُ، فَإِذَا ہُمْ قِیَامٌ یَنْظُرُونَ۔
(٣٥٩٢٣) حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ انھوں نے فرمایا : { وَنُفِخَ فِی الصُّوْرِ فَصَعِقَ مَنْ فِی السَّمَاوَاتِ وَمَنْ فِی الأَرْضِ إِلاَّ مَنْ شَائَ اللَّہُ } فرمایا : اس دن پہلا صور پھونکا جائے گا تو لوگ ہڈیاں اور ریزے بن جائیں گے پھر اس میں دوسرا صور پھونکا جائے گا : فَإِذَا ہُمْ قِیَامٌ یَنْظُرُونَ

35923

(۳۵۹۲۴) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنِ الْحَکَمِ ، عَنْ مِقْسَمٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ {یَعِظُکُمُ اللَّہُ أَنْ تَعُودُوا لِمِثْلِہِ} قَالَ : یُحَرِّجُ اللَّہُ عَلَیْکُمْ أَنْ تَعُودُوا لِمِثْلِہِ۔
(٣٥٩٢٤) حضرت ابن عباس (رض) سے { یَعِظُکُمُ اللَّہُ أَنْ تَعُودُوا لِمِثْلِہِ } کے بارے میں روایت ہے کہ انھوں نے فرمایا : اللہ تعالیٰ تمہارے لیے یہ بات ممنوع قرار دے رہا ہے کہ تم اس کے مثل کو لوٹو۔

35924

(۳۵۹۲۵) حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ، عَنْ سُفْیَانَ بْنِ حُسَیْنٍ، عَنِ الْحَکَمِ، عَنْ مُجَاہِدٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ فِی قَوْلِہِ: {فَاتَّقُوا اللَّہَ وَأَصْلِحُوا ذَاتَ بَیْنِکُمْ} قَالَ : ہَذَا تَحْرِیجٌ مِنَ اللہِ عَلَی الْمُؤْمِنِینَ أَنْ یَتَّقُوا وَیُصْلِحُوا ذَاتَ بَیْنِہِمْ۔
(٣٥٩٢٥) حضرت ابن عباس (رض) سے ارشادِ خداوندی (فَاتَّقُوا اللَّہَ وَأَصْلِحُوا ذَاتَ بَیْنِکُمْ ) کے بارے میں روایت ہے کہ انھوں نے فرمایا : یہ خدا کی طرف سے ایمان والوں پر لازم ہے کہ وہ تقویٰ اختیار کریں اور آپس میں صلح صفائی رکھیں۔

35925

(۳۵۹۲۶) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ قَیْسٍ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ : ضَمِنَ اللَّہُ لِمَنِ اتَّبَعَ الْقُرْآنَ أَنْ لاَ یَضِلَّ فِی الدُّنْیَا ، وَلاَ یَشْقَی فِی الآخِرَۃِ ، ثُمَّ تَلاَ {فَمَنِ اتَّبَعَ ہُدَایَ فَلاَ یَضِلُّ وَلاَ یَشْقَی}۔
(٣٥٩٢٦) حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کی اتباع کرنے والے کے لیے اس بات کی ضمانت دی ہے کہ وہ دنیا میں گمراہ نہ ہوگا اور آخرت میں شقی نہ بنے گا۔ پھر آپ (رض) نے تلاوت فرمائی : { فَمَنِ اتَّبَعَ ہُدَایَ فَلاَ یَضِلُّ وَلاَ یَشْقَی }۔

35926

(۳۵۹۲۷) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عُبَیْدِ اللہِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ فِی قَوْلِہِ : {تَوَفَّتْہُ رُسُلُنَا وَہُمْ لاَ یُفَرِّطُونَ} قَالَ : أَعْوَانُ مَلَکِ الْمَوْتِ مِنَ الْمَلاَئِکَۃِ۔
(٣٥٩٢٧) حضرت ابن عباس (رض) سے ارشادِ خداوندی { تَوَفَّتْہُ رُسُلُنَا وَہُمْ لاَ یُفَرِّطُونَ } کے بارے میں روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ یہ ملک الموت کے معاونین فرشتے ہیں۔

35927

(۳۵۹۲۸) حَدَّثَنَا حُمَیْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ سِمَاکٍ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ {إذَا وَقَعَتِ الْوَاقِعَۃُ} قَالَ : یَوْمُ الْقِیَامَۃِ {لَیْسَ لِوَقْعَتِہَا کَاذِبَۃٌ خَافِضَۃٌ رَافِعَۃٌ} قَالَ : تَخْفِضُ نَاسًا وَتَرْفَعُ آخَرِینَ۔
(٣٥٩٢٨) حضرت ابن عباس (رض) سے {إذَا وَقَعَتِ الْوَاقِعَۃُ } کے بارے میں روایت ہے فرمایا : یہ قیامت کا دن ہے۔ { لَیْسَ لِوَقْعَتِہَا کَاذِبَۃٌ خَافِضَۃٌ رَافِعَۃٌ} فرمایا : کچھ لوگوں کو بلند کرے گی اور کچھ لوگوں کو پست کرے گی۔

35928

(۳۵۹۲۹) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ مُسْلِمٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ، عَنِ ابْنِ عبَّاسٍ : {إنَّ الْحَسَنَاتِ یُذْہِبْنَ السَّیِّئَاتِ} قَالَ : الصَّلَوَاتُ الْخَمْسُ۔
(٣٥٩٢٩) حضرت ابن عباس سے {إنَّ الْحَسَنَاتِ یُذْہِبْنَ السَّیِّئَاتِ } کے بارے میں منقول ہے۔ فرمایا : یہ پانچ نمازیں ہیں۔

35929

(۳۵۹۳۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ أَبِی یَحْیَی الْقَتَّاتِ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : الأَرْضُ تَبْکِی عَلَی الْمُؤْمِنِ أَرْبَعِینَ صَبَاحًا۔ (ابن جریر ۲۹)
(٣٥٩٣٠) حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ زمین بندہ مومن پر چالیس دن روتی ہے۔

35930

(۳۵۹۳۱) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ قَابُوسَ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : مَنْ رَائَی رَائَی اللَّہُ بِہِ۔ (مسلم ۲۲۸۹۔ ابن حبان ۴۰۷)
(٣٥٩٣١) حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ جو شخص ریا کاری کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی اس کے ساتھ دکھلاوا کرتے ہیں۔

35931

(۳۵۹۳۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ ابْنِ أَبِی لَیْلَی ، عَنِ الْمِنْہَالِ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ {سَیَجْعَلُ لَہُمُ الرَّحْمَن وُدًّا} قَالَ : یُحِبُّہُمْ وَیُحَبِّبُہُمْ۔
(٣٥٩٣٢) حضرت ابن عباس (رض) سے { سَیَجْعَلُ لَہُمُ الرَّحْمَن وُدًّا } کے بارے میں روایت ہے۔ فرمایا : ان سے خدا محبت کرتا ہے اور ان کو (لوگوں کا) محبوب بنا دیتا ہے۔

35932

(۳۵۹۳۳) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، قَالَ : حدَّثَنَا بشیر بْنُ عُقْبَۃَ ، قَالَ : حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ عَبْدِ اللہِ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : لاِبْنِ آدَمَ ثَلاَثَۃٌ وَثَلاَثُونَ عُضْوًا ، عَلَی کُلِّ عُضْوٍ مِنْہَا زَکَاۃٌ مِنْ تَسْبِیحِ اللہِ وَتَحْمِیدِہِ وَذِکْرِہِ۔
(٣٥٩٣٣) حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ ابن آدم کے تینتیس اعضاء ہیں اور اس کے ہر عضو پر خدا کی تسبیح، تحمید اور ذکر کی زکوۃ ہے۔

35933

(۳۵۹۳۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ سِمَاکٍ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ {لِکَیْلاَ تَأْسَوْا عَلَی مَا فَاتَکُمْ وَلاَ تَفْرَحُوا بِمَا آتَاکُمْ} قَالَ : لَیْسَ أَحَدٌ إِلاَّ وَہُوَ یَحْزَنُ وَیَفْرَحُ ، وَلَکِنْ مَنْ جَعَلَ الْمُصِیبَۃَ صَبْرًا وَجَعَلَ الْخَیْرَ شُکْرًا۔
(٣٥٩٣٤) حضرت ابن عباس (رض) سے { لِکَیْلاَ تَأْسَوْا عَلَی مَا فَاتَکُمْ وَلاَ تَفْرَحُوا بِمَا آتَاکُمْ } کے بارے میں روایت ہے کہ انھوں نے فرمایا : ہر آدمی خوش ہوتا ہے اور غم گین ہوتا ہے لیکن جس نے مصیبت کو صبر کرلیا اور خیر کو شکر کرلیا۔

35934

(۳۵۹۳۵) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ بْنِ سُمَیْعٍ ، عَنْ مُسْلِمٍ الْبَطِینِ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ {مَا لَکُمْ لاَ تَرْجُونَ لِلَّہِ وَقَارًا} مَا لَکُمْ لاَ تَعْلَمُونَ حَقَّ عَظَمَتِہِ۔
(٣٥٩٣٥) حضرت ابن عباس (رض) سے { مَا لَکُمْ لاَ تَرْجُونَ لِلَّہِ وَقَارًا } کے بارے میں روایت ہے۔ فرمایا : تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم اس کی عظمت کو کماحقہ نہیں معلوم کرتے۔

35935

(۳۵۹۳۶) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، قَالَ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُنْکَدِرِ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ الأَنْصَارِیِّ ، قَالَ : رَأَی رَجُلٌ جُمْجُمَۃً فَحَدَّثَ نَفْسَہُ بِشَیْئٍ ، قَالَ : فَخَرَّ سَاجِدًا تَائِبًا مَکَانَہُ ، قَالَ : فَقِیلَ لَہُ : ارْفَعْ رَأْسَک فَإِنَّک أَنْتَ أَنْتَ وَأَنَا أَنَا۔
(٣٥٩٣٦) حضرت جابر بن عبداللہ انصاری سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے کوئی کھوپڑی دیکھی تو اس کے دل میں کوئی بات آئی۔ راوی کہتے ہیں لیکن وہ اسی جگہ توبہ کرتے ہوئے سجدہ میں گرگیا۔ راوی کہتے ہیں اس کو کہا گیا اپنا سر اٹھا لو۔ کیونکہ تم تم ہو اور میں میں ہوں۔

35936

(۳۵۹۳۷) حدَّثَنَا جَرِیرُ بْنُ عَبْدِ الْحَمِیدِ ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِیزِ بْنِ رُفَیْعٍ ، عَنْ تَمِیمِ بْنِ طَرَفَۃَ ، قَالَ : سَمِعْتُ الضَّحَّاکَ بْنَ قَیْسٍ یَقُولُ : یَا أَیُّہَا النَّاسُ ، اعْمَلُوا أَعْمَالَکُمْ لِلَّہِ ، فَإِنَّ اللَّہَ لاَ یَقْبَلُ إِلاَّ عَمَلاً خَالِصًا ، لاَ یَعْفُو أَحَدٌ مِنْکُمْ عَنْ مَظْلَمَۃٍ فَیَقُولُ : ہَذَا لِلَّہِ وَلِوُجُوہِکُمْ ، فَلَیْسَ لِلَّہِ ، وَإِنَّمَا ہِیَ لِوُجُوہِہِمْ ، وَلاَ یَصِلُ أَحَدٌ مِنْکُمْ رَحِمَہُ فَیَقُولُ : ہَذَا لِلَّہِ وَلِلرَّحِمِ ، إنَّمَا ہُوَ لِلرَّحِمِ ، وَمَنْ عَمِلَ عَمَلاً فَیَجْعَلُہُ لِلَّہِ ، وَلاَ یُشْرِکُ فِیہِ شَیْئًا ، فَإِنَّ اللَّہَ یَقُولُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ : مَنْ أَشْرَکَ بِی شَیْئًا فِی عَمَلٍ عَمِلَہُ فَہُوَ لِشَرِیکِہِ لَیْسَ لِی مِنْہُ شَیْئٌ۔
(٣٥٩٣٧) حضرت ضحاک بن قیس بیان فرماتے ہیں : اے لوگو ! تم اپنے اعمال اللہ کے لیے کرو۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ صرف خالص عمل کو قبول کرتا ہے وہ تم میں سے کوئی کسی کے ظلم کو معاف نہ کرے کہ وہ کہے : یہ خدا کے لیے اور تمہارے لیے ہیں۔ پس یہ عمل اللہ کے لیے نہیں ہے۔ وہ عمل صرف تمہارے لیے ہی ہے اور تم میں سے کوئی کسی کے ساتھ صلہ رحمی یوں نہ کرے کہ کہے یہ خدا کے لیے بھی ہے اور رشتہ داروں کے لیے بھی ہے۔ یہ عمل صرف رشتہ داروں کے لیے ہے جو شخص کوئی عمل کرے تو اس کو چاہیے کہ وہ خالص اللہ کے لیے عمل کرے اور اس کے اندر کسی کو شریک نہ کرے۔ کیونکہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ فرمائیں گے جس شخص نے اپنے کسی عمل میں میرے ساتھ کسی کو شریک بنایا ہے تو پس وہ عمل اس شریک کے لیے ہوگا میرے لیے اس میں سے کچھ نہیں ہے۔

35937

(۳۵۹۳۸) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ أَبِی الضُّحَی ، قَالَ : کَانَ الضَّحَّاکُ بْنُ قَیْسٍ یَقُولُ : یَا أَیُّہَا النَّاسُ ، عَلِّمُوا أَوْلاَدَکُمْ وَأَہْلِیکُمُ الْقُرْآنَ ، فَإِنَّہُ مَنْ کَتَبَ اللَّہُ لَہُ مِنْ مُسْلِمٍ أَنْ یُدْخِلَہُ الْجَنَّۃَ أَتَاہُ مَلَکَانِ فَاکْتَنَفَاہُ فَقَالاَ لَہُ : اقْرَأْ وَارْتَقِ فِی دَرَجِ الْجَنَّۃِ حَتَّی یَنْزِلوا بِہِ حَیْثُ انْتَہَی عَمَلُہُ مِنَ الْقُرْآنِ۔
(٣٥٩٣٨) حضرت ضحاک بن قیس فرماتے ہیں : اے لوگو ! اپنے بچوں اور اپنے گھر والوں کو قرآن سکھاؤ۔ کیونکہ جس مسلمان کے لیے خدا تعالیٰ نے جنت میں داخلہ لکھ دیا ہوگا اس کے پاس دو فرشتے آئیں گے اور اس کو گھیر لیں گے پھر وہ فرشتے اس آدمی سے کہیں گے۔ پڑھتے جاؤ اور بہشت کے زینے چڑھتے جاؤ۔ یہاں تک کہ وہ اس جگہ اتریں گے جہاں پر اس کے قرآن کا عمل ختم ہوگا۔

35938

(۳۵۹۳۹) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ بُرْقَانَ ، عَنْ مَیْمُونِ بْنِ مِہْرَانَ ، قَالَ : قَالَ : سَمِعْت الضَّحَّاکَ بْنَ قَیْسٍ یَقُولُ : اذْکُرُوا اللَّہَ فِی الرَّخَائِ یَذْکُرْکُمْ فِی الشِّدَّۃِ ، فَإِنَّ یُونُسَ کَانَ عَبْدًا صَالِحًا ذَاکِرًا لِلَّہِ ، فَلَمَّا وَقَعَ فِی بَطْنِ الْحُوتِ ، قَالَ اللَّہُ : {فَلَوْلا أَنَّہُ کَانَ مِنَ الْمُسَبِّحِینَ لَلَبِثَ فِی بَطْنِہِ إِلَی یَوْمِ یُبْعَثُونَ} وَإِنَّ فِرْعَوْنَ کَانَ عَبْدًا طَاغِیًا نَاسِیًا لِذِکْرِ اللہِ ، فَلَمَّا أَدْرَکَہُ {الْغَرَقُ قَالَ : آمَنْت أنَّہُ لاَ إلَہَ إِلاَّ الَّذِی آمَنَتْ بِہِ بَنُو إسْرَائِیلَ وَأَنَا مِنَ الْمُسْلِمِینَ الآنَ وَقَدْ عَصَیْت قَبْلُ وَکُنْت مِنَ الْمُفْسِدِینَ}۔
(٣٥٩٣٩) حضرت ضحاک بن قیس فرماتے ہیں : اللہ تعالیٰ کو تم نرمی میں یاد کرو تو وہ سختی میں تمہیں یاد کرے گا۔ چنانچہ حضرت یونس (علیہ السلام) خدا کو یاد کرنے والے عبد صالح تھے۔ پس جب وہ مچھلی کے پیٹ میں چلے گئے تو اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : { فَلَوْلا أَنَّہُ کَانَ مِنَ الْمُسَبِّحِینَ لَلَبِثَ فِی بَطْنِہِ إِلَی یَوْمِ یُبْعَثُونَ } اور فرعون ایک سرکش اور یاد خدا کو بھولنے والا بندہ تھا۔ پس جب وہ غرق ہونے لگا تو اس نے کہا کہ میں اس بات پر ایمان لاتا ہوں کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے ہیں اور میں مسلمانوں میں سے ہیں، حالانکہ پہلے تو نے نافرمانی کی تھی اور تو فساد کرنے والوں میں سے تھا۔

35939

(۳۵۹۴۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، عَنْ قُرَّۃَ بْنِ خَالِدٍ السَّدُوسِیِّ، عَنْ حُمَیْدِ بْنِ ہِلاَلٍ الْعَدَوِیِّ، عَنْ خَالِدِ بْنِ عُمَیْرٍ الْعَدَوِیِّ،
(٣٥٩٤٠) حضرت خالد بن عمیر عدوی سے بھی ماقبل جیسی روایت ہے۔

35940

(۳۵۹۴۱) قَالَ : وَحَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ أَبِی نَعَامَۃَ سَمِعَہُ مِنْ خَالِدِ بْنِ عُمَیْرٍ ، قَالَ : خَطَبَنَا عُتْبَۃُ بْنُ غَزْوَانَ ، قَالَ أَبُو نَعَامَۃَ عَلَی الْمِنْبَرِ ، وَلَمْ یَقُلْہُ قُرَّۃُ ، فَقَالَ : أَلاَ إِنَّ الدُّنْیَا قَدْ آذَنَتْ بِصُرْمٍ وَوَلَّتْ حَذَّائَ ، وَلَمْ یَبْقَ مِنْہَا إِلاَّ صُبَابَۃٌ کَصُبَابَۃِ الإِنَائِ ، فَأَنْتُمْ فِی دَارٍ مُنْتَقِلُونَ عَنْہَا ، فَانْتَقِلُوا بِخَیْرِ مَا بِحَضْرَتِکُمْ ، وَلَقَدْ رَأَیْتُنِی سَابِعَ سَبْعَۃٍ مَعَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَمَا لَنَا طَعَامٌ نَأْکُلُہُ إِلاَّ وَرَقُ الشَّجَرِ حَتَّی قَرِحَتْ أَشْدَاقُنَا ، قَالَ قُرَّۃُ : وَلَقَدْ وَجَدْت بُرْدَۃً ، قَالَ : وَقَالَ أَبُو نَعَامَۃَ : الْتَقَطْت بُرْدَۃً ، فَشَقَقْتہَا نِصْفَیْنِ فَلَبِسْت نِصْفَہَا وَأَعْطَیْت سَعْدًا نِصْفَہَا ، وَلَیْسَ مِنْ أُولَئِکَ السَّبْعَۃِ أَحَدٌ الْیَوْمَ حَیٌّ إِلاَّ عَلَی مِصْرٍ مِنَ الأَمْصَارِ ، وَلَتُجَرِّبُنَّ الأُمَرَائَ بَعْدِی ، وَإِنَّہُ وَاللہِ مَا کَانَتْ نُبُوَّۃٌ إِلاَّ تَنَاسَخَتْ حَتَّی تَکُونُ مُلْکًا وَجَبْرِیَّۃً ، وَلَقَدْ ذُکِرَ لِی ، قَالَ قُرَّۃُ : إنَّ الْحَجَرَ ، وَقَالَ أَبُو نَعَامَۃَ : إنَّ الصَّخْرَۃَ یُقْذَفُ بِہَا مِنْ شَفِیرِ جَہَنَّمَ فَتَہْوِی إِلَی قَرَارِہَا ، قَالَ قُرَّۃُ : أَرَاہُ ، قَالَ : سَبْعِینَ ، وَقَالَ أَبُو نَعَامَۃَ : سَبْعِینَ خَرِیفًا ، وَلَتُمْلأَنَّ ، وَإِنَّ مَا بَیْنَ الْمِصْرَاعَیْنِ مِنْ أَبْوَابِ الْجَنَّۃِ لِمَسِیرَۃِ أَرْبَعِینَ عَامًا ، وَلَیَأْتِیَنَّ عَلَی أَبْوَابِ الْجَنَّۃِ یَوْمٌ وَلَیْسَ مِنْہَا بَابٌ إِلاَّ وَہُوَ کَظِیظٌ ، وَإِنِّی أَعُوذُ بِاللہِ أَنْ أَکُونَ فِی نَفْسِی عَظِیمًا ، وَعِنْدَ اللہِ صَغِیرًا۔
(٣٥٩٤١) حضرت خالد بن عمیر کہتے ہیں کہ حضرت عتبہ بن غزوان نے ہمیں منبر پر خطبہ دیا تو کہا : خبردار ! بیشک دنیا آہستہ آہستہ واپس جاتی ہے اور اس میں سے صرف بچے ہوئے پانی کی طرح باقی رہ گیا ہے۔ پس تم ایسے گھر میں ہو جس سے تمہیں کوچ کرنا ہے۔ پس تم اپنے پاس موجود خیر کو لے کر منتقل ہو۔ تحقیق میں نے تو خود کو جناب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہمراہ سات لوگوں میں سے ساتواں اس حالت میں دیکھا کہ ہمارے پاس ان درختوں کے پتوں کے علاوہ کھانے کو کچھ نہ تھا یہاں تک کہ ہماری باچھیں زخمی ہوگئیں۔ مجھے ایک چاد رملی میں نے اس کو دو ٹکڑوں میں پھاڑ لیا۔ پھر آدھی چادر میں نے پہن لی اور آدھی چادر میں نے حضرت سعد کو دے دی اور ان سات لوگوں میں سے ہر ایک آدمی کسی شہر پر عامل ہے اور میرے بعد امراء کو ضرور آزمایا جائے گا اور خدا کی قسم ! (مجھے یہ بات ذکر کی گئی ہے کہ ایک پتھر جس کو جہنم کے کنارے سے پھینکا جائے تو وہ اس کی تہہ میں ستر سالوں کے بعد پہنچے گا اور اس جہنم کو ضرور بھر دیا جائے گا اور جنت کے دروازوں میں سے ہر دروازے کے دو چوکھٹوں کے درمیان چالیس سال کی مسافت ہے اور ضرور جنت کے دروازوں پر وہ دن آئے گا کہ اس کا ہر دروازہ تنگ ہوجائے گا۔ میں اس بات سے خدا کی پناہ مانگتا ہوں کہ میں اپنے دل میں بڑا ہوں اور خدا کے ہاں چھوٹا ہوں۔

35941

(۳۵۹۴۲) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرُو ، عَنِ الْمَاجِشُونِ بْنِ أَبِی سَلَمَۃَ ، قَالَ : قَالَ سَعْدُ بْنُ مُعَاذٍ : ثَلاَثٌ أَنَا فِیمَا سِوَاہُنَّ بَعْدُ ضَعِیفٌ : مَا سَمِعْت رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ قَوْلاً قَطُّ إِلاَّ عَلِمْت أَنَّہُ حَقٌّ ، وَلاَ صَلَّیْت صَلاَۃً قَطُّ فَأَلْہَانِی عنہا غَیْرُہَا حَتَّی أَنْصَرِفَ ، وَلاَ تَبِعْت جِنَازَۃً فَحَدَّثْت نَفْسِی بِغَیْرِ مَا ہِیَ قَائِلَۃٌ ، أَوْ یُقَالَ لَہَا حَتَّی نَفْرُغَ مِنْہَا ، قَالَ مُحَمَّدٌ : فَحَدَّثْت بِذَلِکَ الزُّہْرِیَّ ، فَقَالَ : یَرْحَمُ اللَّہُ سَعْدًا إنْ کَانَ لَمَأْمُونًا ، وَمَا کُنْت أَرَی ، أَنَّ أَحَدًا یَکُونُ ہَکَذَا إِلاَّ نَبِیٌّ۔
(٣٥٩٤٢) حضرت ماجشون بن ابی سلمہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت سعد بن معاذ (رض) نے فرمایا : میں تین چیزوں کے علاوہ میں ابھی تک کمزور ہوں۔ میں نے جناب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کبھی کوئی بات نہیں سنی مگر یہ کہ مجھے اس کے برحق ہونے کا علم ہوتا ہے اور میں نے کبھی کوئی نماز نہیں پڑھی کہ اس دوران مجھے کسی چیز نے اس سے غافل کیا ہو یہاں تک کہ میں نماز سے فارغ ہوجاؤں اور میں نے کسی جنازہ کی پیروی نہیں کی کہ میرے دل میں اس کے علاوہ کوئی بات ہو یہاں تک کہ ہم اس سے فارغ ہوجائیں۔ محمد راوی کہتے ہیں میں نے یہ بات امام زہری سے بیان کی تو انھوں نے فرمایا : اللہ تعالیٰ حضرت سعد پر رحم کرے۔ وہ تو امن یافتہ تھے۔ میرے خیال میں تو ایسی حالت نبی کی ہوتی ہے۔

35942

(۳۵۹۴۳) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ، عَنْ سُفْیَانَ، عَنْ أَبِی سِنَانٍ، عَنِ ابْنِ أَبِی الْہُذَیْلِ، قَالَ: بَنَی عَبْدُ اللہِ بَیْتًا فِی دَارِہِ مِنْ لَبِنٍ، ثُمَّ دَعَا عَمَّارًا، فَقَالَ: کَیْفَ تَرَی یَا أَبَا الْیَقْظَانِ، فَقَالَ: أَرَاک بَنَیْت شَدِیدًا وَأَمَّلْتَ بَعِیدًا وَتَمُوتُ قَرِیبًا۔
(٣٥٩٤٣) حضرت ابن ابی الہذیل سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ نے اپنے گھر میں پختہ اینٹوں کا ایک کمرہ بنایا۔ پھر انھوں نے حضرت عمار کو بلایا اور پوچھا۔ اے ابوالیقظان ! تمہیں کیسا لگتا ہے ؟ انھوں نے فرمایا : میرا خیال یہ ہے کہ تم نے مضبوط گھر بنایا ہے اور دور کی امیدیں باندھی ہیں اور عنقریب تم مر جاؤ گے۔

35943

(۳۵۹۴۴) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ ، عَنْ أَبِی عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، قَالَ : قامَ حُذَیْفَۃُ بِالْمَدَائِنِ فَخَطَبَ فَحَمِدَ اللَّہَ وَأَثْنَی عَلَیْہِ ، ثُمَّ قَالَ : {اقْتَرَبَتِ السَّاعَۃُ وَانْشَقَّ الْقَمَرُ} أَلاَ إِنَّ السَّاعَۃَ قَدِ اقْتَرَبَتْ ، وَإِنَّ الْقَمَرَ قَدِ انْشَقَّ ، أَلاَ وَإِنَّ الدُّنْیَا قَدْ آذَنَتْ بِالْفِرَاقِ ، أَلاَ وَإِنَّ الْمِضْمَارَ الْیَوْمُ ، وَإِنَّ السِّبَاقَ غَدًا ، وَإِنَّ الْغَایَۃَ النَّارُ ، وَإِنَّ السَّابِقَ مَنْ سَبَقَ إِلَی الْجَنَّۃِ۔
(٣٥٩٤٤) حضرت ابوعبدالرحمن سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت حذیفہ (رض) مدائن میں کھڑے تھے۔ آپ نے خطبہ دیا اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا بیان کی پھر فرمایا : { اقْتَرَبَتِ السَّاعَۃُ وَانْشَقَّ الْقَمَرُ } خبردار ! قیامت قریب آگئی ہے اور چاند پھٹ گیا ہے۔ خبردار ! دنیا نے جدائی کا کہہ دیا ہے۔ خبردار ! آج کا دن دوڑ کا میدان ہے اور کل کا دن سبقت ہے۔ اور انتہا جہنم ہے اور سبقت کرنے والا وہی ہے جو جنت کی طرف سبقت کرجائے۔

35944

(۳۵۹۴۵) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ سُلَیْمان الْعَامِرِیِّ ، قَالَ : سَمِعْتُ حُذَیْفَۃَ یَقُولُ : بِحَسْبِ الْمُؤمن مِنَ الْعِلْمِ أَنْ یَخْشَی اللَّہَ وَبِحَسْبِہِ مِنَ الْکَذِبِ أَنْ یَقُولَ : أَسْتَغْفِرُ اللَّہَ ، ثُمَّ یَعُودَ۔
(٣٥٩٤٥) حضرت حذیفہ فرماتے ہیں مومن کے لیے یہی علم کافی ہے کہ وہ خدا سے خوف کھائے اور اس کے جھوٹ کے لیے یہی بات کافی ہے کہ وہ استغفر اللہ کہے پھر وہی کام کرنے لگے۔

35945

(۳۵۹۴۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إسْرَائِیلَ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ صِلَۃَ ، عَنْ حُذَیْفَۃَ ، قَالَ : یُجْمَعُ النَّاسُ فِی صَعِیدٍ وَاحِدٍ ، یَنْفُذُہُمُ الْبَصَرُ وَیَسْمَعُہُمُ الدَّاعِی فَیُنَادِی مُنَادٍ : یَا مُحَمَّدُ عَلَی رُؤُوسِ الأَوَّلِینَ وَالآخِرِینَ ، فَیَقُولُ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لَبَّیْکَ وَسَعْدَیْکَ وَالْخَیْرُ بَیْنَ یَدَیْک ، وَالشَّرُّ لَیْسَ إلَیْک ، وَالْمَہْدِیُّ مَنْ ہَدَیْتَ ، تَبَارَکْت وَتَعَالَیْت ، قَالَ حُذَیْفَۃُ : فَذَلِکَ الْمَقَامُ الْمَحْمُودُ۔
(٣٥٩٤٦) حضرت حذیفہ (رض) سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ لوگوں کو ایک ہی جگہ اس طرح اکٹھا کیا جائے گا کہ نگاہ ان کو پار کرجائے گی اور بلانے والا ان کو سنائے گا اور آواز دینے والا آواز دے گا۔ اے محمد ! ۔۔۔ پہلوں اور پچھلوں کے سامنے ۔۔۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جواب میں فرمائیں گے : ” میں حاضر ہوں۔ خیر آپ کے قبضہ میں ہے اور شر آپ کی طرف نہیں ہے۔ اور ہدایت یافتہ وہی ہے جس کو آپ نے ہدایت دی ہے۔ آپ برکت والے اور بلند ہیں۔ حضرت حذیفہ (رض) نے فرمایا : یہی مقام محمود ہے۔

35946

(۳۵۹۴۷) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، عَنْ ہَمَّامٍ ، عَنْ حُذَیْفَۃَ ، قَالَ : کَانَ یَدْخُلُ الْمَسْجِدَ فَیَقِفُ عَلَی الْحِلَقِ فَیَقُولُ : یَا مَعْشَرَ الْقُرَّائِ ، اسْلُکُوا الطَّرِیقَ فَلَئِنْ سَلَکْتُمُوہُ لَقَدْ سَبَقْتُمْ سَبْقًا بَعِیدًا ، وَلَئِنْ أَخَذْتُمْ یَمِینًا أَوْ شِمَالاً لَقَدْ ضَلَلْتُمْ ضَلاَلاً بَعِیدًا۔
(٣٥٩٤٧) حضرت حذیفہ کے بارے میں روایت ہے کہ وہ مسجد میں داخل ہوتے پھر وہ حلقوں کے پاس کھڑے ہوتے اور کہتے۔ اے جماعت قرائ ! (سیدھے) راستہ چلتے جاؤ۔ پس اگر تم راستہ پر چلتے رہے تو تم بہت زیادہ سبقت پا جاؤ گے اور اگر تم نے دائیں، بائیں کا (راستہ) لے لیا تو تم بہت زیادہ گمراہ ہوجاؤ گے۔

35947

(۳۵۹۴۸) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَیْدٍ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ مُوسَی بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ یَزِیدَ ، عَنْ أُمِّ سَلَمَۃَ ، قَالَتْ : قَالَ حُذَیْفَۃُ : لَوَدِدْت أَنَّ لِی إنْسَانًا یَکُونُ فِی مَالِی ، ثُمَّ أُغْلِقُ عَلَیَّ بَابًا فَلاَ یَدْخُلُ عَلَیَّ أَحَدٌ حَتَّی أَلْحَقَ بِاللہِ۔ (ابن المبارک ۲۰)
(٣٥٩٤٨) حضرت ام سلمہ (رض) سے روایت ہے وہ کہتی ہیں کہ حضرت حذیفہ (رض) نے فرمایا : مجھے یہ بات پسند ہے کہ اگر میرے مال کا محافظ کوئی آدمی ہو پھر مجھ پر دروازہ بند کردیا جائے اور میرے پاس کوئی نہ آئے یہاں تک کہ میں اللہ تعالیٰ سے مل جاؤں۔

35948

(۳۵۹۴۹) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ حُصَیْنٍ ، عَنْ أَبِی وَائِلٍ شَقِیقٍ ، عَنْ خَالِدِ بْنِ رَبِیعٍ الْعَبْسِیِّ ، قَالَ : لَمَّا بَلَغَنَا ثَقَلُ حُذَیْفَۃَ خَرَجَ إلَیْہِ نَفَرٌ مِنْ بَنِی عَبْسٍ وَنَفَرٌ مِنَ الأَنْصَارِ مَعَنَا أَبُو مَسْعُودٍ ، قَالَ : فَانْتَہَیْنَا إلَیْہِ فِی بَعْضِ اللَّیْلِ ، فَقَالَ : أَیُّ سَاعَۃٍ ہَذِہِ قُلْنَا : سَاعَۃُ کَذَا وَکَذَا ، قَالَ : أَعُوذُ بِاللہِ مِنْ صَبَاحٍ إِلَی النَّارِ ، ہَلْ جِئْتُمُونِی مَعَکُمْ بِکَفَنٍ ؟ قُلْنَا : نَعَمْ ، قَالَ : فَلاَ تُغَالُوا بِکَفَنِی فَإِنْ یَکُنْ لِصَاحِبِکُمْ خَیْرٌ عِنْدَ اللہِ یُبْدَلْ خَیْرًا مِنْہُ وَإِلاَّ سُلِبَ سَرِیعًا۔ (ابوداؤد ۳۱۴۶)
(٣٥٩٤٩) حضرت خالد بن ربیع عبسی سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ جب ہمیں حضرت حذیفہ (رض) کی تکلیف کی خبر پہنچی تو بنو عبس کا ایک گروہ ان کے پاس گیا اور ایک گروہ انصار کا گیا اور ہمارے ساتھ حضرت ابومسعود (رض) تھے۔ راوی کہتے ہیں ہم ان کے پاس رات کے کسی حصہ میں پہنچے۔ انھوں نے پوچھا : یہ کون سا وقت ہے ؟ ہم نے کہا : یہ یہ وقت ہے۔ انھوں نے فرمایا : میں صبح کے وقت خدا کی جہنم سے پناہ مانگتا ہوں۔ کیا تم اپنے ساتھ میرے پاس کفن لے کر آئے ہو ؟ ہم نے کہا ہاں۔ انھوں نے فرمایا : تم میرے کفن کو قیمتی نہ بنانا۔ کیونکہ اگر تمہارے ساتھی کے لیے عنداللہ کوئی خیر ہوئی تو وہ اس کے بدلہ میں بہتر کفن پالے گا وگرنہ یہ بھی جلد ہی اتار لیا جائے گا۔

35949

(۳۵۹۵۰) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ مُجَالِدٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْتَشِرِ ، عَنِ ابْنِ حِرَاشٍ ، عَنْ حُذَیْفَۃَ بْنِ الْیَمَانِ ، قَالَ : إنَّ فِی الْقَبْرِ حِسَابًا وَفِی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ عَذَابًا۔
(٣٥٩٥٠) حضرت حذیفہ بن یمان سے روایت ہے وہ کہتے ہیں بیشک قبر میں حساب ہے اور بروز قیامت عذاب ہوگا۔

35950

(۳۵۹۵۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ ، عَنْ قَیْسٍ ، قَالَ : لَمَّا أُتِیَ حُذَیْفَۃُ بِکَفَنِہِ ، قَالَ : إنْ یُصِبْ أَخُوکُمْ خَیْرًا فَعَسَی ، وَإِلاَّ لَیَتَرَامَیْنَ بِہِ رَجَوَاہَا إِلَی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ۔
(٣٥٩٥١) حضرت قیس سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ جب حضرت حذیفہ (رض) کے پاس ان کا کفن لایا گیا تو آپ (رض) نے فرمایا : اگر تمہارے بھائی کو خیر نصیب ہوتی تو بہت اچھا۔ وگرنہ قبر کے کنارے قیامت تک اس کو ایک دوسرے کی طرف پھینکتے رہیں گے۔

35951

(۳۵۹۵۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ مُسْلِمٍ ، عَنْ حُذَیْفَۃَ : {لِلَّذِینَ أَحْسَنُوا الْحُسْنَی وَزِیَادَۃٌ} قَالَ : النَّظَرُ إِلَی وَجْہِ اللہِ۔
(٣٥٩٥٢) حضرت حذیفہ (رض) سے { لِلَّذِینَ أَحْسَنُوا الْحُسْنَی وَزِیَادَۃٌ} کے بارے میں روایت ہے فرمایا : خدا تعالیٰ کے چہرہ کی زیارت مراد ہے۔

35952

(۳۵۹۵۳) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ أَبِی بُکَیْرٍ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ مَیْسَرَۃَ ، قَالَ : سَمِعْتُ زِیَادًا یُحَدِّثُ عَنْ رِبْعِیِّ بْنِ حِرَاشٍ ، عَنْ حُذَیْفَۃَ ، أَنَّہُ قَالَ : رُبَّ یَوْمٍ لَوْ أَتَانِی الْمَوْتُ لَمْ أَشُکَ ، فَأَمَّا الْیَوْمُ فَقَدْ خَالَطْت أَشْیَائَ لاَ أَدْرِی عَلَی مَا أَنَا فِیہَا ، وَأَوْصَی أَبَا مَسْعُودٍ ، فَقَالَ : عَلَیْک بِمَا تَعْرِفُ ، وَإِیَّاکَ وَالتَّلَوُّنَ فِی دِینِ اللہِ۔
(٣٥٩٥٣) حضرت حذیفہ (رض) کے بارے میں روایت ہے کہ انھوں نے فرمایا : بہت سے دن ایسے تھے کہ اگر مجھے موت آجاتی تو مجھے شک نہ ہوتا۔ لیکن آج کا دن تو بہت سی ایسی چیزیں مل گئی ہیں کہ مجھے ان میں ہونے کے بارے میں علم نہیں اور انھوں نے حضرت ابومسعود کو وصیت کی۔ فرمایا : جو چیز تم جانتے ہو اس کو لازم پکڑو اور خدا کے دین میں تَلَوُّن (مختلف مزاجی) سے بچو۔

35953

(۳۵۹۵۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ بْنِ عَمَّارٍ ، عَنْ أَبِی عَبْدِ اللہِ الْفِلَسْطِینِیِّ ، عَنْ عبْدِ الْعَزِیزِ ابْنِ أَخٍ لِحُذَیْفَۃَ ، قَالَ سَمِعْتہ مِنْ حُذَیْفَۃَ مِنْ خَمْسٍ وَأَرْبَعِینَ سَنَۃً ، قَالَ : قَالَ حُذَیْفَۃُ : أَوَّلُ مَا تَفْقِدُونَ مِنْ دِینِکُمَ الْخُشُوعُ ، وَآخِرُ مَا تَفْقِدُونَ مِنْ دِینِکُمَ الصَّلاَۃُ۔
(٣٥٩٥٤) حضرت حذیفہ (رض) کے ایک برادر زادہ عبدالعزیز سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ انھوں نے حضرت حذیفہ سے پینتالیس سال میں سنا : کہتے ہیں کہ حضرت حذیفہ (رض) نے فرمایا : تم اپنے دین میں سے جس چیز کو سب سے پہلے گم کرو گے وہ خشوع ہے اور تم جس آخری چیز کو اپنے دین میں سے گم کرو گے وہ نماز ہے۔

35954

(۳۵۹۵۵) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، عَنْ أَبِی بِشْرٍ ، عَنْ جُنْدُبِ بْنِ عَبْدِ اللہِ الْبَجَلِیِّ ، ثُمَّ الْقَسْرِیِّ ، قَالَ : اسْتَأْذَنْت عَلَی حُذَیْفَۃَ ثَلاَثَ مَرَّاتٍ فَلَمْ یَأْذَنْ لِی ، فَرَجَعْت فَإِذَا رَسُولُہُ قَدْ لَحِقَنِی ، فَقَالَ : مَا رَدُّک ؟ قُلْتُ : ظَنَنْت أَنَّک نَائِمٌ ، قَالَ : مَا کُنْت لأَنَامَ حَتَّی أَنْظُرَ مِنْ أَیْنَ تَطْلُعُ الشَّمْسُ ، قَالَ : فَحَدَّثْت بِہِ مُحَمَّدًا ، فَقَالَ : قَدْ فَعَلَہُ غَیْرُ وَاحِدٍ مِنْ أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔
(٣٥٩٥٥) حضرت جندب بن عبداللہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت حذیفہ (رض) سے تین مرتبہ اجازت مانگی لیکن انھوں نے مجھے اجازت نہ دی تو میں واپس پلٹ گیا۔ پھر اچانک ان کا قاصد میرے پاس آیا۔ (مجھے لے آیا) آپ (رض) نے مجھ سے پوچھا : تمہیں کس چیز نے واپس کردیا تھا ؟ میں نے جواب دیا : میں نے یہ گمان کیا کہ آپ سوئے ہوں گے۔ انھوں نے فرمایا : میں تب نہیں سوتا جب تک میں سورج کے طلوع کی جگہ نہ دیکھ لوں۔ راوی کہتے ہیں میں نے یہ بات محمد سے بیان کی تو انھوں نے فرمایا : جناب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ایک سے زیادہ صحابہ (رض) یہ عمل کرتے تھے۔

35955

(۳۵۹۵۶) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ شِمْرِ بْنِ عَطِیَّۃَ ، عَنْ شَہْرِ بْنِ حَوْشَبٍ ، عَنْ عُبَادَۃَ بْنِ الصَّامِتِ، قَالَ : إذَا کَانَ یَوْمُ الْقِیَامَۃِ ، قَالَ اللَّہُ : مَیِّزُوا مَا کَانَ لِی مِنَ الدُّنْیَا ، وَأَلْقُوا سَائِرَہَا فِی النَّارِ۔ (ابن المبارک ۵۴۴)
(٣٥٩٥٦) حضرت عبادہ بن صامت سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ جب قیامت کا دن ہوگا تو ارشادِ خداوندی ہوگا۔ دنیا میں سے جو کچھ میرے لیے تھا اس کو جدا کرلو اور باقی دنیا کو جہنم میں ڈال دو ۔

35956

(۳۵۹۵۷) حَدَّثَنَا یَعْلَی بْنُ عُبَیْدٍ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ عُمَارَۃَ بْنِ حَمْزَۃَ ، عَنْ شَہْرِ بْنِ حَوْشَبٍ ، قَالَ : جَائَ رَجُلٌ إِلَی عُبَادَۃَ بْنِ الصَّامِتِ ، فَقَالَ رَجُلٌ یُصَلِّی یَبْتَغِی وَجْہَ اللہِ ، وَیُحِبُّ أَنْ یُحْمَدَ ، قَالَ : لَیْسَ بِشَیْئٍ ، إنَّ اللَّہَ یَقُولُ : أَنَا خَیْرُ شَرِیک ، فَمَنْ کَانَ لَہُ مَعِی شِرکٌ فَہُوَ لَہُ کُلُّہُ لاَ حَاجَۃَ لِی فِیہِ۔
(٣٥٩٥٧) حضرت شہر بن حوشب سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی حضرت عبادہ بن صامت (رض) کے پاس حاضر ہوا اور اس نے کہا : ایک آدمی اللہ کی رضا کے لیے نماز پڑھتا ہے اور اس بات کو پسند کرتا ہے کہ اس کی تعریف کی جائے۔ آپ (رض) نے فرمایا : یہ عمل کچھ (کام کا) نہیں۔ ارشاد خداوندی ہے : میں بہتر شریک ہوں۔ پس جس آدمی کی میرے ساتھ شرکت ہو تو وہ چیز ساری اسی کی ہے۔ مجھے اس کی ضرورت نہیں ہے۔

35957

(۳۵۹۵۸) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنِ الْحَکَمِ ، قَالَ : سَمِعْتُ مَیْمُونَ بْنَ أَبِی شَبِیبٍ یُحَدِّثُ عَنْ عُبَادَۃَ بْنِ الصَّامِتِ ، قَالَ : أَتَمَنَّی لِحَبِیبِی أَنْ یَقِلَّ مَالُہُ أَوْ یُعَجَّلَ مَوْتُہُ۔
(٣٥٩٥٨) حضرت عبادہ بن صامت (رض) فرماتے ہیں : میں اپنے دوست کے لیے اس بات کو پسند کرتا ہوں کہ اس کا مال کم ہو یا اس کی موت جلدی آئے۔

35958

(۳۵۹۵۹) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ شَقِیقٍ ، عَنْ أَبِی مُوسَی ، قَالَ : إنَّمَا أَہْلَکَ مَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ ہَذَا الدِّینَارُ وَالدِّرْہَمُ ، وَہُمَا مُہْلِکَاکُمْ۔ (ابو نعیم ۲۶۱۔ ابن حبان ۶۹۴)
(٣٥٩٥٩) حضرت ابوموسیٰ (رض) سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ تم سے پہلے جو لوگ تھے انھیں اس دینار اور درہم نے ہلاک کیا تھا اور یہی دو تمہیں بھی ہلاک کرنے والے ہیں۔

35959

(۳۵۹۶۰) حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَبْدِ الْوَارِثِ ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَۃَ ، عَنْ أَبِی عِمْرَانَ الْجَوْنِیِّ ، عَنِ ابْنِ أَبِی مُوسَی ، عَنْ أَبِیہِ {وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہِ جَنَّتَانِ} قَالَ : جَنَّتَانِ مِنْ ذَہَبٍ لِلسَّابِقِینَ وَجَنَّتَانِ مِنْ فِضَّۃٍ لِلتَّابِعِینَ۔ (حاکم ۴۷۴)
(٣٥٩٦٠) حضرت ابن ابی موسیٰ ، اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ (وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہِ جَنَّتَانِ ) فرمایا : سابقین کے لیے دو سونے کی جنتیں ہوں گی اور تابعین کے لیے دو چاندی کی جنتیں ہوں گی۔

35960

(۳۵۹۶۱) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِی ظَبْیَانَ ، عَنْ أَبِی مُوسَی ، قَالَ : الشَّمْسُ فَوْقَ رُؤُوسِ النَّاسِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَأَعْمَالُہُمْ تُظِلُّہُمْ ، أَوْ تُضَحِّیْہِمْ۔
(٣٥٩٦١) حضرت ابوموسیٰ (رض) سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ قیامت کے دن سورج لوگوں کے سروں پر ہوگا اور لوگوں کے اعمال لوگوں پر سایہ کریں گے یا ان کو سورج کے لیے چھوڑیں گے۔

35961

(۳۵۹۶۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا الأَعْمَشُ ، عَنْ أَبِی الضُّحَی ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، قَالَ: کُنَّا مَعَ أَبِی مُوسَی، قَالَ: فَجِئْنَا اللَّیْلَ إِلَی بُسْتَانٍ خَرِبٍ ، قَالَ ، فَقَامَ أَبُو مُوسَی مِنَ اللَّیْلِ یُصَلِّی ، فَقَرَأَ قِرَائَۃً حَسَنَۃً ، ثُمَّ قَالَ : اللَّہُمَّ أَنْتَ مُؤْمِنٌ تُحِبُّ الْمُؤْمِنَ مُہَیْمِنٌ تُحِبُّ الْمُہَیْمِنَ ، سَلاَمٌ تُحِبُّ السَّلاَمَ ، صَادِقٌ تُحِبُّ الصَّادِقَ۔
(٣٥٩٦٢) حضرت مسروق سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ ہم حضرت ابوموسیٰ (رض) کے ساتھ تھے کہتے ہیں : پس ہم رات کو ایک ویران باغ میں آئے۔ مسروق کہتے ہیں حضرت ابوموسیٰ (رض) رات کو کھڑے ہوئے، نماز پڑھی، خوبصورت قراءت کی پھر کہا : اے اللہ ! تو مومن ہے اور مومن کو پسند کرتا ہے۔ مہیمن ہے اور مہیمن کو پسند کرتا ہے۔ سلام ہے اور سلامتی کو پسند کرتا ہے۔ سچا ہے اور سچے کو پسند کرتا ہے۔

35962

(۳۵۹۶۳) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَنْ زَائِدَۃَ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ شَقِیقٍ ، عَنْ أَبِی مُوسَی ، قَالَ : تَخْرُجُ نَفْسُ الْمُؤْمِنِ وَہِیَ أَطْیَبُ رِیحًا مِنَ الْمِسْکِ ، قَالَ : فَیَصْعَدُ بِہَا الْمَلاَئِکَۃُ الَّذِینَ یَتَوَفَّوْنَہَا فَتَلَقَّاہُمْ مَلاَئِکَۃٌ دُونَ السَّمَائِ فَیَقُولُونَ : مَنْ ہَذَا مَعَکُمْ ؟ فَیَقُولُونَ : فُلاَنٌ وَیَذْکُرُونَہُ بِأَحْسَنِ عَمَلِہِ ، فَیَقُولُونَ : حَیَّاکُمَ اللَّہُ وَحَیَّا مَنْ مَعَکُمْ ، قَالَ : فَتُفْتَحُ لَہُ أَبْوَابُ السَّمَائِ ، قَالَ : فَیُشْرِقُ وَجْہُہُ فَیَأْتِی الرَّبَّ وَلِوَجْہِہِ بُرْہَانٌ مِثْلُ الشَّمْسِ، قَالَ : وَأَمَّا الآخَرُ فَتَخْرُجُ نَفْسُہُ وَہِیَ أَنْتَنُ مِنَ الْجِیفَۃِ ، فَیَصْعَدُ بِہَا الْمَلاَئِکَۃُ الَّذِینَ یَتَوَفَّوْنَہَا فَتَلَقَّاہُمْ مَلاَئِکَۃٌ دُونَ السَّمَائِ فَیَقُولُونَ : مَنْ ہَذَا ؟ فَیَقُولُونَ : فُلاَنٌ ، وَیَذْکُرُونَہُ بِأَسْوَئِ عَمَلِہِ ، قَالَ : فَیَقُولُونَ : رُدُّوہُ فَمَا ظَلَمَہُ اللَّہُ شَیْئًا ، قَالَ : وَقَرَأَ أَبُو مُوسَی : {وَلاَ یَدْخُلُونَ الْجَنَّۃَ حَتَّی یَلِجَ الْجَمَلُ فِی سَمِّ الْخِیَاطِ}۔
(٣٥٩٦٣) حضرت ابوموسیٰ (رض) سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ مومن کی روح نکلتی ہے تو وہ مشک سے زیادہ خوشبو والی ہوتی ہے۔ راوی کہتے ہیں پھر جن فرشتوں نے اس روح کو نکالا ہوتا ہے وہ فرشتے اس کو لے کر اوپر جاتے ہیں۔ پھر ان فرشتوں کو آسمان سے پہلے ہی اور فرشتے ملتے ہیں اور پوچھتے ہیں : یہ تمہارے ساتھ کون ہے ؟ یہ فرشتے جواب دیتے ہیں کہ فلاں ہے اور فرشتے اس کا ذکر اس کے بہترین عمل کے ذریعہ سے کرتے ہیں۔ اس پر سوال کرنے والے فرشتے کہتے ہیں : خدا تعالیٰ تم پر بھی رحمت کرے اور جو تمہارے ساتھ ہے اس پر بھی رحمت کرے۔ راوی کہتے ہیں پھر اس کے لیے آسمان کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں۔ راوی کہتے ہیں پھر اس کا چہرہ روشن ہوجاتا ہے۔ پس وہ پروردگار کے پاس آتا ہے تو اس کے چہرے میں سورج کی مثل دلیل موجود ہوتی ہے۔ فرمایا : اور جو دوسرا ہے اس کی روح نکلتی ہے جبکہ وہ مردار سے زیادہ بدبودار ہوتی ہے۔ جو فرشتے اس کو نکالتے ہیں وہ اس کو لے کر اوپر جاتے ہیں تو آسمان سے پہلے کچھ فرشتے انھیں ملتے ہیں اور کہتے ہیں : یہ کون ہے ؟ فرشتے کہتے ہیں فلاں ہے۔ اور اس کے بدترین عمل کا ذکر کرتے ہیں۔ راوی کہتے ہیں : اس پر وہ فرشتے کہتے ہیں : اس کو واپس کردو۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے کوئی ظلم نہیں کیا۔ راوی کہتے ہیں پھر حضرت ابوموسیٰ (رض) نے یہ آیت پڑھی : { وَلاَ یَدْخُلُونَ الْجَنَّۃَ حَتَّی یَلِجَ الْجَمَلُ فِی سَمِّ الْخِیَاطِ }

35963

(۳۵۹۶۴) حَدَّثَنَا مُعَاذٌ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، عَنْ مُحَمَّدٍ ، قَالَ : کَتَبَ أَبُو مُوسَی إِلَی عَامِرٍ مِنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ قَیْسٍ إِلَی عَامِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ الَّذِی کَانَ یُدْعَی عَامِرَ بْنَ عَبْدِ قَیْسٍ أَمَّا بَعْدُ فَإِنِّی عَہِدْتُک عَلَی أَمْرٍ وَبَلَغَنِی أَنَّک تَغَیَّرْت، فَإِنْ کُنْت عَلَی مَا عَہِدْت فَاتَّقِ اللَّہَ وَدُمْ ، وَإِنْ کُنْت تَغَیَّرْت فَاتَّقِ اللَّہَ وَعُدْ۔
(٣٥٩٦٤) حضرت محمد سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت ابوموسیٰ (رض) نے حضرت عامر کو خط لکھا عبداللہ بن قیس کی طرف سے عامر بن عبداللہ کی طرف ۔۔۔ جس کو پہلے عبد قیس کہا جاتا تھا ۔۔۔ اما بعد ! پس میں نے تمہارے ساتھ ایک بات پر عہد کیا تھا اور مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ تم بدل گئے ہو۔ لہٰذا اگر تم میرے کیے ہوئے معاہدہ پر ہو تو خدا سے ڈرو اور مداومت رکھو۔ اور اگر تم بدل گئے ہو تو خدا سے ڈرو اور واپس آجاؤ۔

35964

(۳۵۹۶۵) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ أَبِی کَبْشَۃَ ، عَنْ أَبِی مُوسَی ، قَالَ : الْجَلِیسُ الصَّالِحُ خَیْرٌ مِنَ الْوَحْدَۃِ وَالْوَحْدَۃُ خَیْرٌ مِنْ جَلِیسِ السُّوئِ ، أَلاَ إنَّ مَثَلَ الْجَلِیس الْصَّالِح کَمَثَلِ الْعِطْرِ أَلاَ یُحْذِکَ یَعْبَقُ بِکَ مِنْ رِیحِہِ ، أَلاَ وَإِنَّ مَثَلَ جَلِیسِ السُّوئِ کَمَثَلِ الْکِیرِ إِلاَّ یَحْرُقُک یَعْبَقُ بِکَ مِنْ رِیحِہِ ، أَلاَ وَإِنَّمَا سُمِّیَ الْقَلْبُ مِنْ تَقَلُّبِہِ ، أَلاَ وَإِنَّ مَثَلَ الْقَلْبِ مَثَلُ رِیشَۃٍ مُتَعَلِّقَۃٍ بِشَجَرَۃٍ فِی فَضَائٍ مِنَ الأَرْضِ فَالرِّیحُ تُقَلِّبُہَا ظَہْرًا وَبَطْنًا۔ (ابن المبارک ۳۵۸)
(٣٥٩٦٥) حضرت ابوموسیٰ (رض) سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ اچھا ہم نشین، خلوت سے بہتر ہوتا ہے اور خلوت، برے ہم نشین سے بہتر ہے۔ خبردار ! اچھے ہم نشین کی مثال عطر کی سی ہے اگر وہ تجھے نہ بھی دے تو بھی خوشبو لگ کر تم مہک جاؤ گے۔ اور خبردار ! برے ہم نشین کی مثال بھٹی کی دھونی کی سی ہے اگر وہ تمہیں نہ جلائے تو اس کی بو تمہیں پہنچ جائے گی۔ خبردار ! دل کو دل اس کے پلٹنے کی وجہ سے کہا جاتا ہے۔ خبردار ! دل کی مثال زمین کے اوپر فضا میں درخت کے ساتھ لٹکے ہوئے پر کی سی ہے۔ کہ ہوا اس کو اوپر، نیچے کی جانب پلٹتی رہتی ہے۔

35965

(۳۵۹۶۶) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنِ سَلَمَۃَ ، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِیِّ ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ : کُنَّا مَعَ أَبِی مُوسَی فِی منزلہ فَسَمِعَ النَّاسَ یَتَکَلَّمُونَ فَسَمِعَ فَصَاحَۃً وَبَلاَغَۃً ، قَالَ : فَقَالَ : یَا أَنَسُ ، ہَلُمَّ فَلْنَذْکُرِ اللَّہَ سَاعَۃً ، فَإِنَّ ہَؤُلاَئِ یَکَادُ أَحَدُہُمْ أَنْ یَفْرِیَ الأَدِیمَ بِلِسَانِہِ ، ثُمَّ قَالَ : یَا أَنَسُ ، مَا ثَبَّطَ النَّاسَ عَنِ الآخِرَۃِ مَا ثَبَّطَہُمْ عنہا ؟ قَالَ : قُلْتُ : الدُّنْیَا وَالشَّہَوَاتُ ، قَالَ : لاَ ، وَلَکِنْ غُیِّبَتِ الآخِرَۃُ وَعُجِّلَتِ الدُّنْیَا ، وَلَوْ عَایَنُوا مَا عَدَلُوا بَیْنَہُمَا ، وَلاَ مَیَّلُوا۔
(٣٥٩٦٦) حضرت انس (رض) سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ ہم حضرت ابوموسیٰ (رض) کے ہمراہ ان کے گھر پر تھے کہ انھوں نے کچھ لوگوں کو باتیں کرتے سنا اور انھوں نے فصاحت و بلاغت کے ساتھ سنا۔ راوی کہتے ہیں انھوں نے فرمایا : اے انس ! آؤ، ہم کچھ دیر اللہ کا ذکر کرلیں۔ کیونکہ یہ تو ایسے ہیں کہ ان میں سے کوئی ایک اپنی زبان سے چمڑے کو کاٹ دے پھر آپ (رض) نے فرمایا : کس چیز نے لوگوں کو آخرت سے روکا ہے ؟ کس چیز نے انھیں اس سے روکا ہے ؟ راوی کہتے ہیں میں نے کہا : دنیا اور خواہشات۔ آپ (رض) نے فرمایا : نہیں۔ بلکہ آخرت آنکھوں سے غائب ہے اور دنیا حاضر ہے۔ اگر لوگ معائنہ کرلیں تو ان کے درمیان عدل نہ کریں اور نہ متردد ہوں۔

35966

(۳۵۹۶۷) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ زِیَادِ بْنِ مِخْرَاقٍ ، عَنْ أَبِی إیَاسٍ ، عَنْ أَبِی کِنَانَۃَ ، عَنْ أَبِی مُوسَی الأَشْعَرِیِّ ، أَنَّہُ قَالَ : إنَّ ہَذَا الْقُرْآنَ کَائِنٌ لَکُمْ أَجْرًا ، وَکَائِنٌ لَکُمْ ذِکْرًا ، وَکَائِنٌ عَلَیْکُمْ وِزْرًا ، فَاتَّبِعُوا الْقُرْآنَ ، وَلاَ یَتْبَعْکُمْ ، فَإِنَّہُ مَنْ یَتَّبِعَ الْقُرْآنَ یَہْبِطْ بِہِ عَلَی رِیَاضِ الْجَنَّۃِ ، وَمَنْ یَتْبَعْہُ الْقُرْآنُ یُزَخُّ فِی قَفَاہُ فَیَقْذِفْہُ فِی جَہَنَّمَ۔
(٣٥٩٦٧) حضرت ابوموسیٰ اشعری (رض) سے روایت ہے کہ انھوں نے فرمایا : بیشک یہ قرآن تمہارے لیے اجر ہوگا اور تمہارے لیے ذکر ہوگا۔ اور تمہارے اوپر بوجھ ہوگا۔ پس تم قرآن کی پیروی کرو اور قرآن کو اپنے پیچھے نہ لگاؤ۔ کیونکہ جو شخص قرآن کی پیروی کرے گا تو وہ اس کو جنت کے باغ میں اتار دے گا اور جس کے پیچھے قرآن لگ جائے گا وہ اس کو اس کی گدی سے پکڑ کر جہنم میں گرا دیتا ہے۔

35967

(۳۵۹۶۸) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ ، عَنْ أَبِی عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِی مُوسَی، قَالَ: إذَا أَصْبَحَ إبْلِیسُ بَعَثَ جُنُودَہُ فَیَقُولُ : لَمْ أَزَلْ بِہِ حَتَّی شَرِبَ ، قَالَ: أَنْتَ ، قَالَ: لَمْ أَزَلْ بِہِ حَتَّی زَنَی، قَالَ : أَنْتَ ، قَالَ : لَمْ أَزَلْ بِہِ حَتَّی قَتَلَ ، قَالَ : أَنْتَ۔
(٣٥٩٦٨) حضرت ابوموسیٰ (رض) سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ جب ابلیس صبح کرتا ہے تو اپنے لشکر کو بھیجتا ہے۔ ایک کہتا ہے : میں مسلسل ساتھ رہا یہاں تک کہ اس نے شراب پی لی۔ شیطان کہتا ہے تو ٹھیک ہے۔ ایک دوسرا کہتا ہے۔ میں مسلسل ساتھ رہا یہاں تک کہ اس نے زنا کرلیا۔ ابلیس کہتا ہے : تو ٹھیک ہے۔ ایک کہتا ہے : میں مسلسل ساتھ رہا یہاں تک کہ اس نے قتل کرلیا۔ ابلیس کہتا ہے۔ تو ٹھیک ہے۔

35968

(۳۵۹۶۹) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا وُہَیْبٌ ، قَالَ : حَدَّثَنَا دَاوُد بْنُ أَبِی ہِنْدٍ ، عَنْ أَبِی حَرْبِ بْنِ أَبِی الأَسْوَدِ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : جَمَعَ أَبُو مُوسَی الْقُرَّائَ ، فَقَالَ : لاَ یَدْخُلَنَّ عَلَیْکُمْ إِلاَّ مَنْ جَمَعَ الْقُرْآنَ ، قَالَ : فَدَخَلْنَا زُہَائَ ثَلاَثُ مِئَۃ رَجُلٍ فَوَعَظَنَا ، وَقَالَ : أَنْتُمْ قُرَّائُ ہَذَا الْبَلَدِ وَأَنْتُمْ ، فَلاَ یَطُولَنَّ عَلَیْکُمَ الأَمَدُ فَتَقْسُو قُلُوبُکُمْ کَمَا قَسَتْ قُلُوبُ أَہْلِ الْکِتَابِ۔
(٣٥٩٦٩) حضرت ابوالاسود سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت ابوموسیٰ (رض) نے قراء کو جمع کیا۔ آپ (رض) نے فرمایا : یہاں وہی آئے جس نے قرآن جمع کیا ہے۔ راوی کہتے ہیں ہم تین صد کے قریب آدمی جمع ہوئے۔ پس آپ (رض) نے ہمیں نصیحت فرمائی اور کہا تم لوگ اس شہر کے قاری ہو۔ تم لوگ امیدیں لمبی نہ باندھو ورنہ تمہارے دل سخت ہوجائیں گے جس طرح اہل کتاب کے دل سخت ہوگئے تھے۔

35969

(۳۵۹۷۰) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنْ أَبِی بُرْدَۃَ ، قَالَ : بَعَثَنِی أَبِی إِلَی الْمَدِینَۃِ ، وَقَالَ : الْحَقْ أَصْحَابَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَسَائِلْہُمْ ، وَاعْلَمْ أَنِّی سَائِلُک ، فَلَقِیت ابْنَ سَلاَمٍ فَإِذَا ہُوَ رَجُلٌ خَاشِعٌ۔
(٣٥٩٧٠) حضرت ابوبردہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میرے والد نے مجھے مدینہ کی طرف بھیجا اور فرمایا : جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ سے ملو اور ان سے سوال کرو۔ اور یاد رکھو میں تم سے پوچھوں گا۔ چنانچہ میں حضرت ابن سلام کو ملا وہ ایک عاجز آدمی تھے۔

35970

(۳۵۹۷۱) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، قَالَ : کَانَ ابْنُ الزُّبَیْرِ إذَا قَامَ فِی الصَّلاَۃِ کَأَنَّہُ وَتِدٌ۔
(٣٥٩٧١) حضرت مجاہد سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت ابن زبیر (رض) جب نماز میں کھڑے ہوتے تو میخ کی طرح ہوتے۔

35971

(۳۵۹۷۲) حَدَّثَنَا أَبُوبَکْرِ بْنُ عَیَّاشٍ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ، قَالَ: مَا رَأَیْت سَجْدَۃً أَعْظَمَ مِنْ سَجْدَتِہِ، یَعْنِی ابْنَ الزُّبَیْرِ۔
(٣٥٩٧٢) حضرت ابواسحاق سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے ان ۔۔۔ ابن زبیر (رض) ۔۔۔ کے سجدے سے بڑا سجدہ نہیں دیکھا۔

35972

(۳۵۹۷۳) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا ہِشَامُ بْنُ عُرْوَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ الزُّبَیْرِ ، قَالَ : {خُذِ الْعَفْوَ} قَالَ : مَا أُمِرَ بِہِ إلا مِنْ أَخْلاَقِ النَّاسِ ، وَایْمُ اللہِ لآخُذَنَّ بِہِ فِیہِمْ مَا صَحِبْتہمْ۔
(٣٥٩٧٣) حضرت عبداللہ بن زبیر (رض) سے روایت ہے وہ کہتے ہیں { خُذِ الْعَفْوَ } فرمایا : آپ (رض) کو لوگوں کے اخلاق سے ہی حکم دیا گیا۔ اور خدا کی قسم ! جب تک میں لوگوں میں رہوں گا میں بھی اسی پر عمل کروں گا۔

35973

(۳۵۹۷۴) حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّیَالِسِیُّ ، عَنِ الأَسْوَدِ بْنِ شَیْبَانَ ، عَنْ أَبِی نَوْفَلِ بْنِ أَبِی عَقْرَبٍ ، قَالَ : دَخَلْنَا عَلَی ابْنِ الزُّبَیْرِ وَہُوَ مُوَاصِلٌ لِخَمْسَ عَشْرَۃَ۔
(٣٥٩٧٤) حضرت ابونوفل بن ابوعقرب سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ ہم حضرت ابن زبیر (رض) کے پاس حاضر ہوئے تو وہ پندرہ روز سے صوم وصال رکھ رہے تھے۔

35974

(۳۵۹۷۵) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ مَرْزُبَانَ، قَالَ: حدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَیْدِ اللہِ الثَّقَفِیُّ، قَالَ: رَأَیْتُ ابْنَ الزُّبَیْرِ خَطَبَہُمْ ، وَقَالَ : إنَّکُمْ جِئْتُمْ مِنْ بُلْدَانٍ شَتَّی تَلْتَمِسُونَ أَمْرًا عَظِیمًا ، فَعَلَیْکُمْ بِحُسْنِ الدَّعَۃِ وَصِدْقِ النِّیَّۃِ۔
(٣٥٩٧٥) حضرت محمد بن عبید اللہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن زبیر (رض) کو لوگوں کو خطبہ دیتے دیکھا۔ آپ (رض) نے فرمایا : تم متفرق شہروں سے آئے ہو اور ایک بڑی چیز کے متلاشی ہو۔ لہٰذا تم پر حسن دعا اور صدق نیت لازم ہے۔

35975

(۳۵۹۷۶) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ ، عَنْ وَہْبِ بْنِ کَیْسَانَ ، قَالَ : کَتَبَ رَجُلٌ مِنْ أَہْلِ الْعِرَاقِ إِلَی ابْنِ الزُّبَیْرِ حِینَ بُویِعَ : سَلاَمٌ عَلَیْک فَإِنِّی أَحْمَدُ إلَیْک اللَّہَ الَّذِی لاَ إلَہَ إِلاَّ ہُوَ ، أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ لأَہْلِ طَاعَۃِ اللہِ وَأَہْلِ الْخَیْرِ عَلاَمَۃً یُعْرَفُونَ بِہَا ، وَتُعْرَفُ فِیہِمْ مِنَ الأَمْرِ بِالْمَعْرُوفِ ، وَالنَّہْیِ عَنِ الْمُنْکَرِ ، وَالْعَمَلِ بِطَاعَۃِ اللہِ ، وَاعْلَمْ أَنَّ الإِمَامَ مِثْلُ السُّوقِ یَأْتِیہ مَا کان فِیہِ ، فَإِنْ کَانَ بَرًّا جَائَہُ أَہْلُ الْبِرِّ بِبِرِّہِمْ ، وَإِنْ کَانَ فَاجِرًا جَائَہُ أَہْلُ الْفُجُورِ بِفُجُورِہِمْ۔
(٣٥٩٧٦) حضرت وہب بن کیسان سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ جب ابن زبیر (رض) کی بیعت کی گئی تو ایک عراقی آدمی نے آپ کو خط لکھا : ” تم پر سلامتی ہو۔ میں تمہارے سامنے اس خدا کی تعریف کرتا ہوں جس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔ اما بعد ! پس اللہ کی اطاعت کرنے والوں اور اہل خیر کی ایک علامت ہوتی ہے جس سے وہ پہچانے جاتے ہیں۔ اور وہ چیزیں ان میں پہچانی جاتی ہیں۔ امر بالمعروف، نہی عن المنکر، خدا کی فرمان برداری والے عمل اور جان لو کہ امام کی مثال بازار کی سی ہے۔ اس میں جو ہوگا وہی اس کے پاس آئے گا۔ اگر امام نیک ہوگا تو نیک لوگ اپنی نیکی کے ساتھ اس کے پاس آئیں گے اور اگر امام فاجر ہو تو اہل فجور اس کے پاس اپنے فجور کے ساتھ آئیں گے۔

35976

(۳۵۹۷۷) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللہِ الأَسَدِیُّ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، عَنْ عُتَیٍّ ، عَنْ أُبَیِّ بْنِ کَعْبٍ ، قَالَ : إِنَّ طَعَامَ ابْنِ آدَمَ ضُرِبَ مَثَلاً ، وَإِنَّ مَلَّحَہُ وَقَزَّحَہُ ، عَلِمَ إِلَی مَا یَصِیرُ۔
(٣٥٩٧٧) حضرت ابی بن کعب سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ ابن آدم کے کھانے کی مثال بیان کی گئی ہے کہ اگر اس میں خوب نمک مصالحے ڈالے جائیں گے تو جو انجام ہوگا وہ اس سے واقف ہے۔

35977

(۳۵۹۷۸) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاہِیمَ ، عَن أَبِیہِ ، عَنْ جَدِّہِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ ، أَنَّہُ أُتِیَ بِطَعَامٍ ، فَقَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ : قتِلَ حَمْزَۃُ وَلَمْ نَجِدْ مَا نُکَفِّنُہُ وَہُوَ خَیْرٌ مِنِّی ، وَقُتِلَ مُصْعَبُ بْنُ عُمَیْرٍ وَہُوَ خَیْرٌ مِنِّی وَلَمْ یَجِدْ مَا نکَفِّنُہُ ، وَقَدْ أَصَبْنَا مِنْہَا مَا أَصَبْنَا ، ثُمَّ قَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ : إنِّی لأَخْشَی أَنْ نَکُونَ قَدْ عُجِّلَتْ لَنَا طَیِّبَاتُنَا فِی الدُّنْیَا۔
(٣٥٩٧٨) حضرت عبدالرحمن بن عوف کے بارے میں روایت ہے کہ ان کے پاس کھانا لایا گیا تو حضرت عبدالرحمن نے فرمایا : حضرت حمزہ قتل کیے گئے لیکن ہمارے پاس ان کے کفن دینے کے لیے کچھ موجود نہیں تھا جبکہ وہ مجھ سے بہتر تھے اور مصعب بن عمیر کو قتل کیا گیا وہ بھی مجھ سے بہتر تھے۔ لیکن ہمارے پاس ان کی تکفین کے لیے کچھ موجود نہ تھا۔ جبکہ ہمیں اس دنیا سے جو ملا ہے وہ تو ملا ہے پھر حضرت عبدالرحمن نے فرمایا : مجھے تو اس بات کا ڈر ہے کہ کہیں ہماری پاکیزہ چیزیں ہمیں دنیا ہی میں تو پیشگی نہیں دے دی گئیں۔

35978

(۳۵۹۷۹) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ مِسْعَرٍ ، عَنْ مَعْنٍ ، عَنْ عَوْنِ بْنِ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : بَیْنَا رَجُلٌ فِی بُسْتَانٍ بِمِصْرٍ فِی فِتْنَۃِ ابْنِ الزُّبَیْرِ جَالِسٌ مَہْمُومٌ حَزِینٌ یَنْکُتُ فِی الأَرْضِ ، إذْ رَفَعَ رَأْسَہُ فَإِذَا صَاحِبُ مِسْحَاۃٍ قَائِمٌ بَیْنَ یَدَیْہِ، فَقَالَ: صَاحِبُ الْمِسْحَاۃِ، مَا لِی أَرَاک مَہْمُومًا حَزِینًا فَکَأَنَّہُ ازْدَرَاہُ، فَقَالَ: لاَ شَیْئَ، فَقَالَ: صَاحِبُ الْمِسْحَاۃِ: إنْ یَکُنْ لِلدُّنْیَا فَالدُّنْیَا عَرَضٌ حَاضِرٌ یَأْکُلُ مِنْہُ الْبَرُّ وَالْفَاجِرُ ، وَإِنَّ الآخِرَۃَ أَجَلٌ صَادِقٌ یَحْکُمُ فِیہِ مَلِکٌ قَادِرٌ ، یَفْصِلُ بَیْنَ الْحَقِّ وَالْبَاطِلِ ، حَتَّی ذَکَرَ أَنَّ لَہَا مَفَاصِلَ مِثْلَ مَفَاصِلِ اللَّحْمِ ، مَنْ أَخْطَأَ مِنْہَا شَیْئًا أَخْطَأَ الْحَقَّ ، فَلَمَّا سَمِعَ بِذَلِکَ ، قَالَ : اہْتِمَامِی بِمَا فِیہِ الْمُسْلِمُونَ ، قَالَ : فَقَالَ : فَإِنَّ اللَّہَ سَیُنْجِیک بِشَفَقَتِکَ عَلَی الْمُسْلِمِینَ وَسَلْ ، مَنْ ذَا الَّذِی سَأَلَ اللَّہَ فَلَمْ یُعْطِہِ ، وَدَعَا اللَّہَ فَلَمْ یُجِبْہُ وَتَوَکَّلَ عَلَیْہِ فَلَمْ یَکْفِہِ وَوَثِقَ بِہِ فَلَمْ یُنْجِہِ ، قَالَ : فَطَفِقْت أَقُولُ : اللَّہُمَّ سَلِّمْنِی وَسَلِّمْ مِنِّی ، قَالَ : فَتَجَلَّتْ وَلَمْ أُصِبْ مِنْہَا بِشَیْئٍ۔
(٣٥٩٧٩) حضرت عون بن عبداللہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ فتنہ ابن زبیر (رض) کے وقت میں ایک آدمی مصر میں ایک باغ میں فکر مند، غم گین بیٹھا ہوا زمین پر کرید رہا تھا کہ اس دوران اس نے اپنا سر اوپر اٹھایا تو ایک بیلچے والے آدمی کو اپنے سامنے کھڑے پایا۔ بیلچے والے نے کہا کیا بات ہے کہ میں تمہیں فکر مند اور غم گین پاتا ہوں ؟ گویا کہ اس نے اس کو ہلکا سمجھتے ہوئے کہا : کوئی بات نہیں۔ اس پر بیلچے والے نے کہا : اگر تو یہ دنیا کی خاطر ہے تو دنیا ایک حاضر سامان ہے جس سے نیک اور بد کھاتا ہے۔ اور آخرت ایک سچا وقت ہے جس میں قدرت والا بادشاہ فیصلہ کرے گا۔ حق اور باطل کے درمیان فیصلہ کرے گا۔ یہاں تک کہ اس نے ذکر کیا کہ اس کے گوشت کی طرح مفاصل ہیں۔ جوان میں سے کسی شے میں غلطی کرے گا وہ حق سے غلطی کر بیٹھے گا۔
جب اس آدمی نے یہ باتیں سنیں تو کہا میری فکر مندی مسلمانوں کے اندرونی مسئلہ میں ہے۔ راوی کہتے ہیں اس پر اس آدمی نے کہا : عنقریب اللہ تعالیٰ تجھے مسلمانوں پر شفقت کی وجہ سے نجات دے گا اور تم سوال کرو۔ وہ کون شخص ہے جس نے اللہ سے مانگا ہو پھر اس کو عطا نہ کیا گیا ہو ؟ اس نے اللہ سے دعا کی ہو اور قبول نہ ہوئی ہو ؟ خدا پر توکل کیا ہو اور خدا اس کو کافی نہ ہوا ہو ؟ اور خدا پر بھروسہ کیا ہو اور خدا نے اس کو نجات نہ دی ہو ؟ راوی کہتے ہیں۔ چنانچہ میں نے کہنا شروع کیا۔ اے اللہ ! تو مجھے بھی سلامت رکھنا اور مجھ سے بھی سلامتی رکھنا۔ کہتے ہیں پس وہ فتنہ ختم ہوگیا اور مجھے اس سے کوئی نقصان نہیں ہوا۔

35979

(۳۵۹۸۰) حَدَّثَنَا قَبِیصَۃُ بْنُ عُقْبَۃَ ، عَنْ مَالِکِ بْنِ مِغْوَلٍ ، عَنِ ابْنِ أَبْجَرَ ، عَنْ سَلَمَۃَ بْنِ کُہَیْلٍ ، قَالَ : لَقِیَنِی أَبُو جُحَیْفَۃَ ، فَقَالَ لِی : یَا سَلَمَۃُ مَا بَقِیَ شَیْئٌ مِمَّا کُنْت أَعْرِفُ إِلاَّ ہَذِہِ الصَّلاَۃُ ، وَمَا مِنْ نَفْسٍ تَسُرُّنِی أَنْ تَفْدِیَنِی مِنَ الْمَوْتِ ، وَلاَ نَفْسُ ذُبَابٍ ، قَالَ : ثُمَّ بَکَی۔
(٣٥٩٨٠) حضرت سلمہ بن کہیل سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ ابوجحیفہ کی میرے ساتھ ملاقات ہوئی تو اس نے مجھے کہا : اے سلمہ ! میری پہچان والی چیزوں میں سے صرف یہ نماز ہی رہ گئی ہے۔ مجھے کوئی نفس موت سے چھڑا کر خوش نہیں کرتا اور نہ مکھی کا نفس۔ راوی کہتے ہیں پھر وہ رو پڑے۔

35980

(۳۵۹۸۱) حَدَّثَنَا حُمَیْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ زَکَرِیَّا ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ الأَقْمَرِ ، عَنْ أَبِی جُحَیْفَۃَ ، قَالَ : جَالِسُوا الْکُبَرَائَ وَخَالِطُوا الْحُکَمَائَ وَسَائِلُوا الْعُلَمَائَ۔
(٣٥٩٨١) حضرت ابوجحیفہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں بڑوں کے ساتھ بیٹھو۔ حکماء سے ملو اور علماء سے پوچھو۔

35981

(۳۵۹۸۲) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِی عَدِیٍّ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ یَزِیدَ بْنِ أَبِی زِیَادٍ ، قَالَ : مَرُّوا بِجِنَازَۃِ أَبِی عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَلَی أَبِی جُحَیْفَۃَ ، فَقَالَ : اسْتَرَاحَ وَاسْتُرِیحَ مِنْہُ۔
(٣٥٩٨٢) حضرت یزید بن ابی زیاد سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ لوگ ابوعبدالرحمن کا جنازہ لے کر حضرت ابوجحیفہ کے پاس سے گزرے تو آپ (رض) نے فرمایا : راحت پا گیا اور اس سے بھی راحت پائی گئی۔

35982

(۳۵۹۸۳) حَدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِی حَازِمٍ ، عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ أَبِی عَیَّاشٍ، عَنْ أَبِی سَعِیدٍ {فَإِنَّ لَہُ مَعِیشَۃً ضَنْکًا} قَالَ : عَذَابُ الْقَبْرِ۔
(٣٥٩٨٣) حضرت ابوسعید سے { فَإِنَّ لَہُ مَعِیشَۃً ضَنْکًا } کے بارے میں روایت ہے کہتے ہیں کہ یہ عذاب قبر ہے۔

35983

(۳۵۹۸۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ بْنِ حَیَّانَ ، عَنْ أَبِی جَعْفَرٍ ، عَنْ أَبِی سَعِیدٍ {لَرَادُّک إِلَی مَعَادٍ} قَالَ : مَعَادُہُ آخِرَتُہُ : الْجَنَّۃُ۔
(٣٥٩٨٤) حضرت ابوسعید سے { لَرَادُّک إِلَی مَعَادٍ } کے بارے میں روایت ہے وہ کہتے ہیں : معاد یعنی اس کی آخرت یعنی جنت۔

35984

(۳۵۹۸۵) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ مُجَالِدٍ ، عَنْ أَبِی الْوَدَّاکِ ، عَنْ أَبِی سَعِیدٍ ، قَالَ : إنَّ إبْرَاہِیمَ یَلْقَاہُ أَبُوہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ فَیَتَعَلَّقُ بِہِ ، فَیَقُولُ لَہُ إبْرَاہِیمُ : قَدْ کُنْت آمُرُک وَأَنْہَاک فَعَصَیْتَنِی ، قَالَ : وَلَکِنَّ الْیَوْمَ لاَ أَعْصِیک ، قَالَ : فَیُقْبِلُ إبْرَاہِیمُ إِلَی الْجَنَّۃِ وَہُوَ مَعَہُ ، قَالَ : فَیُقَالَ لَہُ : یَا إبْرَاہِیمُ ، دَعْہُ ، قَالَ : فَیَقُولُ : إنَّ اللَّہَ وَعَدَنِی أَنْ لاَ یَخْذُلَنِی الْیَوْمَ ، قَالَ : فَیَأْتِی إبْرَاہِیمَ آتٍ مِنْ رَبِّہِ مَلَک ، فَیُسَلِّمُ عَلَیْہِ فَیَرْتَاعُ لَہُ إبْرَاہِیمُ وَیُکَلِّمُہُ وَیُشْغَلُ حَتَّی یَلْہُو عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : فَیَنْطَلِقُ الْمَلَکُ وَیَمْشِی إبْرَاہِیمُ نَحْوَ الْجَنَّۃِ ، قَالَ : فَیُنَادِیہِ أَبُوہُ : یَا إبْرَاہِیمُ ، قَالَ : فَیَلْتَفِتُ إلَیْہِ وَقَدْ غُیِّرَ خَلْقُہُ ، قَالَ : فَیَقُولُ إبْرَاہِیمُ : أُفٍّ أُفٍّ ، ثُمَّ یَسْتَقِیمُ وَیَدَعُہُ۔
(٣٥٩٨٥) حضرت ابوسعید سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ قیامت کے دن حضرت ابراہیم کے والد کی حضرت ابراہیم سے ملاقات ہوگی۔ وہ حضرت ابراہیم سے لپٹ جائیں گے تو حضرت ابراہیم ان سے کہیں گے۔ تحقیق میں نے آپ کو حکم دیا اور آپ کو منع کیا لیکن آپ نے میری نافرمانی کی۔ والد کہیں گے : لیکن آج تو میں تمہاری نافرمانی نہیں کروں گا۔ راوی کہتے ہیں حضرت ابراہیم جنت کی طرف چل دیں گے اور وہ بھی آپ کے ساتھ ہوں گے۔ راوی کہتے ہیں حضرت ابراہیم کو کہا جائے گا۔ اے ابراہیم ! اس کو چھوڑ دے۔ راوی کہتے ہیں وہ کہیں گے تحقیق اللہ تعالیٰ نے میرے ساتھ وعدہ کیا ہے کہ وہ مجھے آج کے دن رسوا نہیں کرے گا۔ راوی کہتے ہیں پھر حضرت ابراہیم کے پاس ان کے پروردگار کے پاس سے ایک فرشتہ آئے گا اور انھیں سلام کہے گا۔ پس حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اس کو دیکھ کر خوش ہوں گے اور اس سے کلام کریں گے۔ اور ایسے مصروف ہوں گے کہ اپنے والد سے غافل ہوجائیں گے۔ راوی کہتے ہیں پھر فرشتہ چلنے لگے گا اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) بھی ان کے ہمراہ جنت کی طرف چلیں گے۔ راوی کہتے ہیں اس پر ان کے والد ان کو آواز دیں گے۔ اے ابراہیم ! راوی کہتے ہیں آپ اس کی طرف التفات کریں گے تو اس کی خلقت ہی بدل چکی ہوگی۔ راوی کہتے ہیں۔ اس پر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کہیں گے۔ اُف، اُف۔ پھر آپ (علیہ السلام) سیدھے ہوجائیں گے اور اس کو چھوڑ دیں گے۔

35985

(۳۵۹۸۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ أَبِی یَعْلَی ، قَالَ : کَانَ الرَّبِیعُ بْنُ خُثَیْمٍ إِذَا مَرَّ بِالْمَجْلِسِ یَقُولُ : قُولُوا خَیْرًا وَافْعَلُوا خَیْرًا وَدُومُوا عَلَی صَالِحَۃٍ ، وَلاَ تَقْسُ قُلُوبُکُمْ ، وَلاَ یَتَطَاوَلْ عَلَیْکُمُ الأَمَدُ ، وَلاَ تَکُونُوا کَالَّذِینَ ، قَالُوا : سَمِعْنَا وَہُمْ لاَ یَسْمَعُونَ۔
(٣٥٩٨٦) حضرت ابویعلی سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت ربیع بن خثیم جب کسی مجلس کے پاس سے گزرتے تھے تو کہتے تھے۔ خیر کی بات کہو خیر کا کام کرو۔ اچھے عمل پر مداومت رکھو۔ تمہارے دل سخت نہ ہوجائیں اور تمہاری مہلت زیادہ نہ ہوجائے اور ان لوگوں کی طرح نہ ہوجاؤ جنہوں نے کہا ہم نے سنا حالانکہ انھوں نے نہیں سنا تھا۔

35986

(۳۵۹۸۷) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ أَبِی یَعْلَی ، قَالَ : کَانَ الرَّبِیعُ إذَا قِیلَ لَہُ : کَیْفَ أَصْبَحْت یَقُولُ : أَصْبَحْنَا ضُعَفَائَ مُذْنِبِینَ نَأْکُلُ أَرْزَاقَنَا وَنَنْتَظِرُ آجَالَنَا۔
(٣٥٩٨٧) حضرت ابویعلی سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ جب حضرت ربیع سے کہا جاتا آپ نے صبح کس طرح کی ؟ تو آپ فرماتے : ہم نے ضعف اور گناہگاری کی حالت میں صبح کی کہ ہم اپنے رزق کھا رہے ہیں اور اپنی موتوں کا انتظار کررہے ہیں۔

35987

(۳۵۹۸۸) حَدَّثَنَا ابْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ أَبِی یَعْلَی ، عَنْ رَبِیعٍ ، قَالَ : مَا أُحِبُّ مُنَاشَدَۃَ الْعَبْدِ رَبَّہ یَقُولُ : رَبِّ قَضَیْت عَلَی نَفْسِکَ الرَّحْمَۃَ ، قَضَیْت عَلَی نَفْسِکَ کَذَا ، یَسْتَبْطِئُ ، وَمَا رَأَیْت أَحَدًا یَقُولُ : رَبِّ قَدْ أَدَّیْت مَا عَلَیَّ فَأَدِّ مَا عَلَیْک۔
(٣٥٩٨٨) حضرت ربیع سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ مجھے بندہ کی یہ دعا، اپنے رب سے کرنا پسند نہیں ہے کہ وہ کہے : اے اللہ ! تو نے اپنے اوپر رحمت کا فیصلہ کرلیا ہے تو نے خود پر یہ فیصلہ کرلیا ہے۔ (یہ کہہ کر) بندہ سستی کا مظاہرہ کرے۔ میں نے کسی کو یہ کہتے نہیں دیکھا کہ اے میرے پروردگار ! جو مجھ پر لازم تھا وہ میں نے اد ا کردیا ہے۔ پس جو تجھ پر لازم ہے وہ تو ادا کردے۔

35988

(۳۵۹۸۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ أَبِی یَعْلَی ، عَنْ رَبِیعِ بْنِ خُثَیْمٍ ، قَالَ : مَا غَائِبٌ یَنْتَظِرُہُ الْمُؤْمِنُ خَیْرٌ مِنَ الْمَوْتِ۔
(٣٥٩٨٩) حضرت ربیع بن خثیم سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ موت سے زیادہ بہتر کوئی غائب چیز ایسی نہیں جس کا مومن کو انتظار ہو۔

35989

(۳۵۹۹۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ مُنْذِرٍ ، عَنِ الرَّبِیعِ بْنِ خُثَیْمٍ أَنَّہُ أَوْصَی عِنْدَ مَوْتِہِ ، فَقَالَ : ہَذَا مَا أَقَرَّ بِہِ الرَّبِیعُ بْنُ خُثَیْمٍ عَلَی نَفْسِہِ وَأَشْہَدَ عَلَیْہِ وَکَفَی بِاللہِ شَہِیدًا ، وَجَازِیًا لِعِبَادِہِ الصَّالِحِینَ وَمُثِیبًا أَنِّی رَضِیت بِاللہِ رَبًّا وَبِالإِسْلاَمِ دِینًا وَبِمُحَمَّدٍ نَبِیًّا ، وَرَضِیت لِنَفْسِی وَلِمَنْ أَطَاعَنِی أَنْ أَعْبُدَہُ فِی الْعَابِدِینَ ، وَأَنْ أَحْمَدَہُ فِی الْحَامِدِینَ ، وَأَنْ أَنْصَحَ لِجَمَاعَۃِ الْمُسْلِمِینَ۔
(٣٥٩٩٠) حضرت ربیع بن خثیم کے بارے میں روایت ہے کہ انھوں نے اپنی موت کے وقت وصیت کی۔ فرمایا : یہ وہ باتیں ہیں جن کا ربیع بن خثیم اپنی ذات کے بارے میں اقرار کرتا ہے اور اس پر گواہی دیتا ہے اور گواہی کے لیے خدا ہی کافی ہے۔ اور اپنے نیک بندوں کو بدلہ دینے کے لیے کافی ہے اور ثواب دینے کے لیے کافی ہے۔ میں اللہ پر رب ہونے کے اعتبار سے راضی ہوں اور اسلام کے دین ہونے پر اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نبی ہونے پر راضی ہوں اور اپنے نفس کے لیے اور اس کے لیے جو میری فرمان برداری کرے اس بات پر راضی ہوں کہ میں عبادت کرنے والوں میں خدا کی عبادت کروں اور حمد کرنے والوں میں خدا کی حمد کروں اور میں مسلمانوں کی جماعت کی خیر خواہی کروں۔

35990

(۳۵۹۹۱) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ أَبِی حَیَّانَ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : مَا سَمِعْت الرَّبِیعَ بْنَ خُثَیْمٍ یَذْکُرُ شَیْئًا مِنْ أَمْرِ الدُّنْیَا إِلاَّ أَنِّی سَمِعْتہ یَقُولُ مَرَّۃً : کَمْ للتَّیْم مَسْجِدًا۔
(٣٥٩٩١) حضرت ابوحیان اپنے والد سے روایت کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ربیع بن خثیم کو دنیا کے معاملات میں سے کسی کا ذکر کرتے نہیں سنا۔ ہاں ایک مرتبہ میں نے انھیں کہتے سنا : یتیم کی کتنی ہی مسجدیں ہیں۔

35991

(۳۵۹۹۲) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ الثَّوْرِیُّ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ بَکْرِ بْنِ مَاعِزٍ ، قَالَ : قَالَ لی الرَّبِیعُ بْنُ خُثَیْمٍ : یَا بَکْرُ ، اخْزُنْ عَلَیْک لِسَانَک إِلاَّ مِمَّا لَک ، وَلاَ عَلَیْک ، فَإِنِّی اتَّہَمْت النَّاسَ عَلَی دِینِی ، أَطِعَ اللَّہَ فِیمَا عَلِمْت ، وَمَا اسْتُؤْثِرَ بِہِ عَلَیْک فَکِلْہُ إِلَی عَالَمِہِ ، لأَنَّا عَلَیْکُمْ فِی الْعَمْدِ أَخْوَفُ مِنِّی عَلَیْکُمْ فِی الْخَطَأ، مَا خَیْرُکُمَ الْیَوْمَ بِخَیْرِہِ ، وَلَکِنَّہُ خَیْرٌ مِنْ آخِرِ شَرٍّ مِنْہُ ، مَا تَتَّبِعُونَ الْخَیْرَ کُلَّ اتِّبَاعِہِ ، وَلاَ تَفِرُّونَ مِنَ الشَّرِّ حَقَّ فِرَارِہِ ، مَا کُلُّ مَا أَنْزَلَ اللَّہُ عَلَی مُحَمَّدٍ أَدْرَکْتُمْ ، وَلاَ کُلُّ مَا تَقْرَؤُونَ تَدْرُونَ مَا ہُوَ السَّرَائِرُ اللاَتِی یُخْفِینَ عَلَی النَّاسِ وَہِیَ لِلَّہِ بَوَادٍ ، ابْتَغَوْا دَوَائَہَا ، ثُمَّ یَقُولُ لِنَفْسِہِ : وَمَا دَوَاؤُہَا أَنْ تَتُوبَ ، ثُمَّ لاَ تَعُودَ۔
(٣٥٩٩٢) حضرت بکر بن ماعز سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت ربیع بن خثیم نے مجھے کہا : اے بکر ! اپنی زبان کو اپنی حفاظت میں رکھ مگر وہ بات جو تیرے فائدہ میں ہو۔ تیرے خلاف نہ ہو۔ کیونکہ میں نے اپنے دین کے بارے میں لوگوں کو متہم پایا ہے۔ جو تمہیں معلوم ہے اس میں اللہ کی اطاعت کر اور جو چیز تمہارے علم میں نہ ہو تو اس کو اس کے جاننے والے کے سپرد کردے۔ مجھے تمہارے اوپر جان بوجھ کر کیے جانے والے عمل کا، غلطی سے ہونے والے عمل کی بہ نسبت زیادہ خوف ہے۔ تم میں سے جو آج خیر پر ہے وہ بہتر نہیں ہے بلکہ وہ اپنے اپنے آخری شر سے بہتر ہیں، تم لوگ خیر کی مکمل اتباع نہیں کرتے اور تم شر سے کماحقہ فرار اختیار نہیں کرتے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جو کچھ اتارا ہے تم نے اس کو سارا نہیں پایا۔ اور جو کچھ تم پڑھتے ہو اس سارے کو تم نہیں جانتے کہ وہ کیا ہے۔ وہ پوشیدہ باتیں جو لوگوں پر مخفی ہوتی ہیں وہ اللہ کے لیے تو ظاہر ہیں۔ تم اس کا علاج تلاش کرو۔ پھر آپ نے اپنے آپ سے کہا : اس کا علاج کیا ہے ؟ یہ کہ تم توبہ کرو اور پھر اس کی طرف عود نہ کرو۔

35992

(۳۵۹۹۳) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَجْلاَنَ ، عَنْ بُشَیْرِ مَوْلَی الرَّبِیعِ ، قَالَ : کَانَ الرَّبِیعُ یُصَلِّی لَیْلَۃً فَمَرَّ بِہَذِہِ الآیَۃِ : {أَمْ حَسِبَ الَّذِینَ اجْتَرَحُوا السَّیِّئَاتِ} فَرَدَّدَہَا حَتَّی أَصْبَحَ۔
(٣٥٩٩٣) حضرت ربیع کے آزاد کردہ غلام سے روایت ہے کہ حضرت ربیع رات کو نماز پڑھ رہے تھے کہ اس آیت پر پہنچے { أَمْ حَسِبَ الَّذِینَ اجْتَرَحُوا السَّیِّئَاتِ } تو اس کو صبح تک دہراتے رہے۔

35993

(۳۵۹۹۴) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : کَانَ الرَّبِیعُ یَأْتِی عَلْقَمَۃَ وَکَانَ فِی مَسْجِدِہِ طَرِیقٌ ، وَإِلَی جَنْبِہِ نِسَائٌ کُنَّ یَمْرُرْنَ فِی الْمَسْجِد ، فَلاَ یَقُولُ کَذَا وَلا کَذَا۔
(٣٥٩٩٤) حضرت ابراہیم سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت ربیع، حضرت علقمہ کے پاس آتے تھے اور ان کی مسجد میں راستہ تھا اور ان کے ہمراہ عورتیں بھی مسجد میں سے گزرتی تھیں لیکن وہ ایسی ویسی باتیں نہیں کرتے تھے۔

35994

(۳۵۹۹۵) حَدَّثَنَا أبو مُعَاوِیَۃَ ، وَوَکِیع ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِی رَزِینٍ ، عَنِ الرَّبِیعِ بْنِ خُثَیْمٍ {وَإِذًا لاَ تُمَتَّعُونَ إِلاَّ قَلِیلاً} قَالَ : الْقَلِیلُ مَا بَیْنَہُمْ وَبَیْنَ الأَجَلِ۔
(٣٥٩٩٥) حضرت ربیع بن خثیم سے { وَإِذًا لاَ تُمَتَّعُونَ إِلاَّ قَلِیلاً } کے بارے میں روایت ہے۔ فرمایا : قلیل سے مراد وہ مہلت ہے جو ان کی موت اور ان کے درمیان ہے۔

35995

(۳۵۹۹۶) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِی رَزِینٍ، عَنْ رَبِیعِ بْنِ خُثَیْمٍ {بَلَی مَنْ کَسَبَ سَیِّئَۃً وَأَحَاطَتْ بِہِ خَطِیئَتُہُ} قَالَ : مَاتُوا عَلَی کُفْرِہِمْ ، وَرُبَّمَا قَالَ : مَاتُوا عَلَی الْمَعْصِیَۃِ۔
(٣٥٩٩٦) حضرت ربیع بن خثیم سے { بَلَی مَنْ کَسَبَ سَیِّئَۃً وَأَحَاطَتْ بِہِ خَطِیئَتُہُ } کے بارے میں روایت ہے۔ وہ کہتے ہیں جو اپنے کفر پر مرے اور کبھی فرماتے جو لوگ معصیت کی حالت میں مرے۔

35996

(۳۵۹۹۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا الأَعْمَشُ ، عَنْ مُنْذِرٍ ، عَنْ رَبِیعِ بْنِ خُثَیْمٍ ، أَنَّہُ کَانَ یَکْنِسُ الْحُشَّ بِنَفْسِہِ ، قَالَ : فَقِیلَ لَہُ : إنَّک تُکْفَی ہَذَا ، قَالَ : إنِّی أُحِبُّ أَنْ آخُذَ بِنَصِیبِی مِنَ الْمِہْنَۃِ۔
(٣٥٩٩٧) حضرت ربیع بن خثیم کے بارے میں روایت ہے کہ وہ بذات خود بیت الخلاء کو صاف کرتے تھے۔ راوی کہتے ہیں انھیں کہا گیا : آپ کو اس کی کفایت ہے ؟ انھوں نے فرمایا : مجھے یہ بات پسند ہے کہ میں بھی مشقت میں سے اپنا حصہ لوں۔

35997

(۳۵۹۹۸) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ ، عَنِ الرَّبِیعِ بْنِ خُثَیْمٍ ، قَالَ : أَقِلُّوا الْکَلاَمُ إِلاَّ بِتِسْعٍ : تَسْبِیحٍ وَتَہْلِیلٍ وَتَکْبِیرٍ وَتَحْمِیدٍ ، وَسُؤَالِکَ الْخَیْرَ ، وَتَعَوُّذِکَ مِنَ الشَّرِّ ، وَأَمْرِکَ بِالْمَعْرُوفِ وَنَہْیِکَ عَنِ الْمُنْکَرِ ، وَقِرَائَۃِ الْقُرْآنِ۔
(٣٥٩٩٨) حضرت ربیع بن خثیم سے روایت ہے وہ کہتے ہیں نو باتوں کے علاوہ (باقی) باتیں کم کرو : تسبیح، تہلیل، تکبیر، تحمید اور تمہارا خیر کا سوال کرنا اور تمہارا شر سے پناہ مانگنا، اور تمہارا امر بالمعروف کرنا اور نہی عن المنکر کرنا اور قرآن کی قراءت کرنا۔

35998

(۳۵۹۹۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ مُنْذِرٍ ، عَنِ الرَّبِیعِ ، أَنَّہُ قَالَ لأَہْلِہِ : اصْنَعُوا لِی خَبِیصًا ، فَصُنِعَ فَدَعَا رَجُلاً بِہِ خَبَلٌ فَجَعَلَ رَبِیعٌ یُلَقِّمُہُ وَلُعَابُہُ یَسِیلُ ، فَلَمَّا أَکَلَ وَخَرَجَ ، قَالَ لَہُ أَہْلُہُ : تَکَلَّفْنَا وَصَنَعَنَّا ، ثُمَّ أَطْعَمْتہ رجلا ما یَدْرِی ہَذَا مَا أَکَلَ ، قَالَ الرَّبِیعُ : لَکِنَّ اللَّہَ یَدْرِی۔
(٣٥٩٩٩) حضرت ربیع کے بارے میں روایت ہے کہ انھوں نے اپنے گھر والوں سے کہا : تم میرے لیے حلوہ بناؤ۔ چنانچہ حلوہ پکایا گیا پھر انھوں نے ایک پاگل آدمی کو بلایا اور حضرت ربیع نے اس کو لقمہ بنا کردینا شروع کیا اور اس کا تھوک بہہ رہا تھا۔ پس جب اس نے کھالیا اور چلا گیا تو گھر والوں نے حضرت ربیع سے کہا ہم نے تکلف کیا اور تیار کیا پھر آپ نے وہ ایسے آدمی کو کھلا دیا جس کو معلوم ہی نہیں کہ اس نے کیا کھایا ہے۔ حضرت ربیع نے فرمایا : لیکن اللہ کو تو معلوم ہے۔

35999

(۳۶۰۰۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حَدَّثَنَا مَالِکُ بْنُ مِغْوَلٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : مَا جَلَسَ الرَّبِیعُ بْنُ خُثَیْمٍ فِی مَجْلِسٍ مُنْذُ تَأَزَّرَ بِإِزَارٍ ، قَالَ : أَخَافُ أَنْ یُظْلَمَ رَجُلٌ فَلاَ أَنْصُرُہُ ، أَوْ یَفْتَرِیَ رَجُلٌ عَلَی رَجُلٍ فَأُکَلِّفُ عَلَیْہِ الشَّہَادَۃَ، وَلاَ أَغُضَّ الْبَصَرَ ، وَلاَ أَہْدِی السَّبِیلَ ، أَوْ تَقَعَ الْحَامِلُ فَلاَ أَحْمِلُ عَلَیْہَا۔
(٣٦٠٠٠) حضرت شعبی سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت ربیع بن خثیم نے جب سے ہوش سنبھالا ہے کسی مجلس میں نہیں بیٹھے۔ کہتے ہیں مجھے خوف ہے کہ کسی آدمی پر ظلم کیا جائے اور میں اس کی مدد نہ کروں، یا کوئی آدمی کسی آدمی پر جھوٹ باندھے اور مجھے اس پر گواہی کا مکلف بنایا جائے اور میں نگاہ نیچی نہ کرسکوں اور نہ راہ دکھا سکوں۔

36000

(۳۶۰۰۱) حَدَّثَنَا خَلَفُ بْنُ خَلِیفَۃَ ، عَنْ سَیَّارٍ ، عَنْ أَبِی وَائِلٍ ، قَالَ : انْطَلَقْت أَنَا وَأَخِی إِلَی الرَّبِیعِ بْنِ خُثَیْمٍ ، فَإِذَا ہُوَ جَالِسٌ فِی الْمَسْجِدِ ، فَقَالَ : مَا جَائَ بِکُمْ ، قَالُوا : جِئْنَا لِتَذْکُرَ اللَّہَ فَنَذْکُرَہُ مَعَک ، وَتَحْمَدَ اللَّہَ فَنَحْمَدَہُ مَعَک ، فَرَفَعَ یَدَیْہِ ، فَقَالَ : الْحَمْدُ لِلَّہِ الَّذِی لَمْ تَقُولاَ : جِئْنَا لِتَشْرَبَ فَنَشْرَبَ مَعَک ، وَلاَ جِئْنَا لِتَزْنِیَ فَنَزْنِیَ مَعَک۔
(٣٦٠٠١) حضرت ابو وائل سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں اور میرے بھائی حضرت ربیع بن خثیم کے پاس گئے تو وہ مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے۔ انھوں نے فرمایا : تمہیں کیا مقصد لایا ہے ؟ ہم نے جواب دیا۔ ہم آئے ہیں تاکہ آپ اللہ کا ذکر کریں تو ہم بھی آپ کے ہمراہ اللہ کا ذکر کریں اور آپ اللہ کی تعریف کریں اور ہم بھی آپ کے ساتھ اللہ کی تعریف کریں۔ اس پر آپ نے اپنے دونوں ہاتھ بلند کیے اور کہا۔ تمام تعریف اس اللہ کی ہے تم سے یہ نہیں کہلوایا۔ ہم تیرے پاس آئے ہیں کہ تو شراب پئے تاکہ ہم بھی تیرے ساتھ پئیں اور نہ ہم تیرے پاس آئے ہیں کہ تم زنا کرو تاکہ ہم تیرے ساتھ زنا کریں۔

36001

(۳۶۰۰۲) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ حُصَیْنٍ ، قَالَ : حدَّثَنِی مَنْ سَمِعَ الرَّبِیعَ یَقُولُ : عَجَبًا لِمَلَکِ الْمَوْتِ وَإِتْیَانِہِ ثَلاَثَۃً : مَلِکٌ مُمْتَنِعٌ فِی حُصُونِہِ فَیَأْتِیہِ فَیَنْزِعُ نَفْسَہُ وَیَدَعُ مُلْکَہُ خَلْفَہُ ، وَطَبِیبٌ نِحْرِیرٌ یُدَاوِی النَّاسَ فَیَأْتِیہ فَیَنْزِعُ نَفْسَہُ۔ (ابو نعیم ۱۱۵)
(٣٦٠٠٢) حضرت ربیع فرماتے ہیں ملک الموت اور اس کا تین آدمیوں کے پاس آنا قابل تعجب ہے۔ (ایک) اپنے قلعوں میں بند بادشاہ کہ فرشتہ اس کے پاس آتا ہے اور اس کی روح نکالتا ہے اور اس کے ملک کو اس کے پیچھے چھوڑ دیتا ہے۔ اور ماہر طبیب جو لوگوں کا علاج کرتا ہے۔ اس کے پاس فرشتہ آتا ہے اور اس کی روح نکال لیتا ہے۔

36002

(۳۶۰۰۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ رَجُلٍ ، عَنْ رَبِیعِ بْنِ خُثَیْمٍ ، أَنَّہُ سُرِقَتْ لَہُ فَرَسٌ مِنَ اللَّیْلِ وَہُوَ یُصَلِّی قِیمَتُہُ ثَلاَثُونَ أَلْفًا فَلَمْ یَنْصَرِفْ ، فَأَصْبَحَ فَحَمَلَ عَلَی مَہْرِہَا ، ثُمَّ أَصْبَحَ ، فَقَالَ : اللَّہُمَّ سَرَقَنِی وَلَمْ أَکُنْ لأَسْرِقُہُ ، قَالَ : وَکَانَ رَبِیعٌ یَجْہَرُ بِالْقِرَائَۃِ فَإِذَا سَمِعَ وَقْعًا خَافَتَ۔
(٣٦٠٠٣) حضرت ربیع بن خثیم کے بارے میں روایت ہے کہ ان کا ایک تیس ہزار کی قیمت کا گھوڑا رات نماز پڑھتے ہوئے چوری ہوا لیکن انھوں نے نماز نہ چھوڑی۔ جب صبح ہوئی تو ربیع نے اس کے بچے پر سواری شروع کردی پھر جب صبح ہوئی تو انھوں نے کہا : اے اللہ ! اس نے میری چوری کرلی حالانکہ میں نے اس کی چوری نہیں کی تھی۔ راوی کہتے ہیں : حضرت ربیع قراءت بلند آواز سے کیا کرتے تھے۔ جب آپ نے قدموں کی چاپ سنی تو آہستہ قراءت کرلی۔

36003

(۳۶۰۰۴) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمُحَارِبِیُّ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ عُمَیْرٍ ، قَالَ لِلرَّبِیعِ: أَلاَ نَدْعُو لَک طَبِیبًا، فَقَالَ : أَنْظِرُونِی ، ثُمَّ تَفَکَّرَ ، فَقَالَ : {وَعَادًا وَثُمُودَ وَأَصْحَابَ الرَّسِّ وَقُرُونًا بَیْنَ ذَلِکَ کَثِیرًا وَکُلاًّ ضَرَبْنَا لَہُ الأَمْثَالَ وَکُلاًّ تَبَّرْنَا تَتْبِیرًا} فَذَکَرَ مِنْ حِرْصِہِمْ عَلَی الدُّنْیَا وَرَغْبَتِہِمْ فِیہَا، قَالَ: فَقَدْ کَانَتْ مرضی وکان منہم أَطِبَّائُ ، فَلاَ الْمُدَاوِی بَقِیَ ، وَلاَ الْمُدَاوَی ، ہَلَکَ الَّنَاعِت وَالْمنْعُوتُ لَہُ ، وَاللہِ لاَ تَدْعُونَ لِی طَبِیبًا۔
(٣٦٠٠٤) حضرت عبدالملک بن عمیر سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت ربیع سے کہا گیا ہم آپ کے لیے حکیم کو نہ بلائیں ؟ آپ نے فرمایا : تم مجھے مہلت دے دو ۔ پھر آپ نے فکر فرمایا تو کہا : { وَعَادًا وَثُمُودَ وَأَصْحَابَ الرَّسِّ وَقُرُونًا بَیْنَ ذَلِکَ کَثِیرًا وَکُلاًّ ضَرَبْنَا لَہُ الأَمْثَالَ وَکُلاًّ تَبَّرْنَا تَتْبِیرًا } پھر آپ نے ان لوگوں کی دنیوی زندگی پر حرص اور اس زندگی کی رغبت ذکر فرمائی۔ فرمایا : یہ لوگ بیمار ہوئے اور کچھ ان میں حکیم تھے لیکن دوائی کھانے والا بھی باقی نہ رہا اور دوائی کھلانے والا بھی باقی نہ رہا۔ صفت کرنے والا اور صفت کیا ہوا دونوں ہلاکت کا شکار ہوئے۔ بخدا ! تم لوگ میرے لیے حکیم کو نہ بلاؤ۔

36004

(۳۶۰۰۵) حَدَّثَنَا عَبِیْدَۃُ بْنُ حُمَیْدٍ ، عَنْ دَاوُدَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : دَخَلْنَا عَلَی الرَّبِیعِ بْنِ خُثَیْمٍ فَدَعَا بِہَذِہِ الدَّعَوَاتِ : اللَّہُمَّ لَک الْحَمْدُ کُلُّہُ ، وَإِلَیْک یَرْجِعُ الأَمْرُ کُلُّہُ ، وَأَنْتَ إلَہُ الْخَلْقِ کُلِّہِ ، بِیَدِکَ الْخَیْرُ کُلُّہُ ، نَسْأَلُک مِنَ الْخَیْرِ کُلِّہِ ، وَنَعُوذُ بِکَ مِنَ الشَّرِّ کُلِّہِ۔
(٣٦٠٠٥) حضرت شعبی سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ ہم حضرت ربیع بن خثیم کے پاس گئے تو انھوں نے یہ دعا مانگی۔ اے اللہ ! ساری حمد تیرے لیے ہے اور سارے امور تیری طرف لوٹتے ہیں اور ہر قسم کی حمد کے معبود آپ ہی ہیں۔ ساری بھلائیاں آپ کے قبضہ میں ہیں۔ ہم ہر خیر کا آپ ہی سے سوال کرتے ہیں اور ہم ہر شر سے آپ ہی کی پناہ مانگتے ہیں۔

36005

(۳۶۰۰۶) حَدَّثَنَا ابْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ سُرِّیَّۃِ الرَّبِیعِ ، قَالَتْ : لَمَّا حُضِرَ الرَّبِیعُ بَکَتِ ابْنَتُہُ ، فَقَالَ : یَا بُنَیَّۃُ، لِمَ تَبْکِینَ ؟ قُولِی یا بشری : لَقِیَ أَبِی الْخَیْرَ۔
(٣٦٠٠٦) حضرت سریۃ الربیع سے روایت ہے وہ کہتی ہیں کہ جب حضرت ربیع کی موت کا وقت قریب آیا تو ان کی بیٹی روپڑی۔ آپ (رض) نے فرمایا : اے بیٹی ! تم کیوں روتی ہو ؟ تم کہو۔ اے خوشخبری ! میرا والد خیر سے مل رہا ہے۔

36006

(۳۶۰۰۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ التَّیْمِیِّ قَالَ : حدَّثَنِی مَنْ صَحِبَ رَبِیعَ بْنَ خُثَیْمٍ عِشْرِینَ سَنَۃً مَا سَمِعَ منہ کَلِمَۃً تُعَابُ۔
(٣٦٠٠٧) حضرت ابراہیم سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ مجھے اس آدمی نے بیان کیا جو بیس سال تک ربیع بن خثیم کے ساتھ رہا تھا کہ اس نے آپ سے کوئی قابل عتاب کلمہ نہیں سنا۔

36007

(۳۶۰۰۸) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنْ مُنْذِرٍ ، عَنِ الرَّبِیعِ بْنِ خُثَیْمٍ فِی قَوْلِہِ : {فَأَمَّا إنْ کَانَ مِنَ الْمُقَرَّبِینَ فَرَوْحٌ وَرَیْحَانٌ وَجَنَّۃُ نَعِیمٍ} قَالَ : مَذْخُورَۃٌ لہ {وَأَمَّا إنْ کَانَ مِنَ الْمُکَذِّبِینَ الضَّالِّینَ فَنُزُلٌ مِنْ حَمِیمٍ} قَالَ : عِنْدَہُ {وَتَصْلِیَۃُ جَحِیمٍ} قَالَ : مَذْخُورَۃٌ لَہُ۔
(٣٦٠٠٨) حضرت ربیع بن خثیم سے ارشاد خداوندی { فَأَمَّا إنْ کَانَ مِنَ الْمُقَرَّبِینَ فَرَوْحٌ وَرَیْحَانٌ وَجَنَّۃُ نَعِیمٍ } فرمایا : یہ ان کے لیے ذخیرہ شدہ ہیں۔ { وَأَمَّا إنْ کَانَ مِنَ الْمُکَذِّبِینَ الضَّالِّینَ فَنُزُلٌ مِنْ حَمِیمٍ } فرمایا : اس کے پاس ہے { وَتَصْلِیَۃُ جَحِیمٍ } فرمایا : اس کے لیے ذخیرہ شدہ ہے۔

36008

(۳۶۰۰۹) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنِ ابْنِ عَجْلاَنَ ، عَنْ نُسَیْرٍ أَبِی طُعْمَۃَ قَالَ : کَانَ الرَّبِیعُ إذَا جَائَہُ سَائِلٌ ، قَالَ : أَطْعِمُوا ہَذَا السَّائِلَ سُکَّرًا ، فَإِنَّ الرَّبِیعَ یُحِبُّ السُّکَّرَ۔
(٣٦٠٠٩) حضرت نسیر سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت ربیع کے پاس جب کوئی سائل آتا تو آپ (رض) کہتے۔ اس سائل کو شکر کھلاؤ۔ کیونکہ حضرت ربیع کو شکر پسند تھی۔

36009

(۳۶۰۱۰) حَدَّثَنَا مُعَاوِیَۃُ بْنُ ہِشَامٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ رَجُلٍ ، عَنْ رَبِیعِ بْنِ خُثَیْمٍ فی قوْلِہِ : {یَا أَیُّہَا الإِنْسَان مَا غَرَّک بِرَبِّکَ الْکَرِیمِ} قَالَ : الْجَہْلُ۔
(٣٦٠١٠) حضرت ربیع بن خثیم سے ارشاد خداوندی { یَا أَیُّہَا الإِنْسَاْن مَا غَرَّک بِرَبِّکَ الْکَرِیمِ } کے بارے میں روایت ہے فرمایا : جہل نے۔

36010

(۳۶۰۱۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ مِسْعَرٍ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ بن مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْتَشِرِ ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، قَالَ : مَا مِنْ شَیْئٍ خَیْرٌ لِلْمُؤْمِنِ مِنْ لَحْدٍ قَدِ اسْتَرَاحَ مِنْ ہُمُومِ الدُّنْیَا وَأَمِنَ مِنْ عَذَابِ اللہِ۔ (ابو نعیم ۹۷)
(٣٦٠١١) حضرت مسروق سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ مومن کے لیے اس لحد سے بہتر کوئی چیز نہیں ہے جس میں وہ دنیا کے ہموم سے راحت پالے اور عذاب الٰہی سے امن میں ہو۔

36011

(۳۶۰۱۲) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، قَالَ : حجَّ مَسْرُوقٌ فَمَا نَامَ إِلاَّ سَاجِدًا۔
(٣٦٠١٢) حضرت ابواسحاق سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت مسروق نے حج ادا کیا وہ صرف سجدے میں ہی سوتے تھے۔

36012

(۳۶۰۱۳) حَدَّثَنَا ابْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ بْنِ أَبِی خَالِدٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، قَالَ : مَا مِنَ الدُّنْیَا شَیْئٌ آسَی عَلَیْہِ إِلاَّ السُّجُودُ لِلَّہِ۔
(٣٦٠١٣) حضرت مسروق سے روایت ہے وہ کہتے ہیں دنیا میں کوئی چیز سکون دہ نہیں ہے سوائے خدا کے لیے سجدوں کے۔

36013

(۳۶۰۱۴) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ مَالِکِ بْنِ مِغْوَلٍ ، عَنْ أَبِی السَّفَرِ ، عَنْ مُرَّۃَ ، قَالَ : مَا وَلَدَتْ ہَمْدَانِیَّۃٌ مِثْلَ مَسْرُوقٍ۔
(٣٦٠١٤) حضرت مرہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ کسی ہمدانی عورت نے حضرت مسروق کے مثل بچہ نہیں جنا۔

36014

(۳۶۰۱۵) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ مُسْلِمٍ ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، قَالَ : مَا خَطَا عَبْدٌ خَطْوَۃً قَطُّ إِلاَّ کُتِبَتْ لَہُ حَسَنَۃٌ ، أَوْ سَیِّئَۃٌ۔
(٣٦٠١٥) حضرت مسروق سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ بندہ جب بھی کوئی قدم اٹھاتا ہے تو اس کے لیے نیکی لکھی جاتی ہے یا برائی۔

36015

(۳۶۰۱۶) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ مَسْرُوقٍ قَالَ : مَا مِنْ نَفَقَۃٍ أَعْظَمُ عِنْدَ اللہِ مِنْ قَوْلٍ۔
(٣٦٠١٦) حضرت مسروق سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ اللہ کے ہاں گفتگو سے بڑھ کر کوئی خرچ نہیں ہے۔

36016

(۳۶۰۱۷) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ مُسْلِمٍ ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، قَالَ : إنَّ الْمَرْئَ لَحَقِیقٌ أَنْ تَکُونَ لَہُ مَجَالِسُ یَخْلُو فِیہَا یَذْکُرُ فِیہَا ذُنُوبَہُ فَیَسْتَغْفِرُ مِنْہَا۔
(٣٦٠١٧) حضرت مسروق سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ بندہ اس بات کا حق دار ہے کہ اس کے لیے چند مجلسیں ایسی ہوں جن میں وہ خلوت میں ہو اور ان میں اپنے گناہوں کو یاد کرے پھر ان پر استغفار کرے۔

36017

(۳۶۰۱۸) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ مُسْلِمٍ ، أَوْ غَیْرِہِ ، شَکَّ الأَعْمَشُ ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، قَالَ : إنَّ أَحْسَنَ مَا أَکُونُ ظَنًّا حِینَ یَقُولُ الْخَادِمُ : لَیْسَ فِی الْبَیْتِ قَفِیزٌ مِنْ قَمْحٍ ، وَلاَ دِرْہَمٌ۔
(٣٦٠١٨) حضرت مسروق سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں اس وقت سب سے اچھے خیال میں ہوتا ہوں جب خادم کہتا ہے۔ گھر میں نہ گندم کا قفیز ہے اور نہ ہی درہم۔

36018

(۳۶۰۱۹) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عُبَیْدِ اللہِ ، عَنْ أَبِی الضُّحَی ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، قَالَ : أَقْرَبُ مَا یَکُونُ الْعَبْدُ إِلَی اللہِ وَہُوَ سَاجِدٌ۔
(٣٦٠١٩) حضرت مسروق سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ بندہ اللہ کے ہاں سب سے زیادہ قریب حالت سجدہ میں ہوتا ہے۔

36019

(۳۶۰۲۰) حَدَّثَنَا عَبِیْدَۃُ بْنُ حُمَیْدٍ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ ہِلاَلِ بْنِ یَِسَافٍ ، قَالَ : قَالَ مَسْرُوقٌ : مَنْ سَرَّہُ أَنْ یَعْلَمَ عِلْمَ الأَوَّلِینَ وَالآخِرِینَ وَعِلْمَ الدُّنْیَا وَالآخِرَۃِ فَلْیَقْرَأْ سُورَۃَ الْوَاقِعَۃِ۔
(٣٦٠٢٠) حضرت مسروق فرماتے ہیں جس آدمی کو یہ بات پسند ہو کہ اسے اولین اور آخرین کا علم ہو اور دنیا وآخرت کا علم ہو تو اس کو سورة واقعہ پڑھنی چاہیے۔

36020

(۳۶۰۲۱) حَدَّثَنَا عَفَّانُ بْنُ مُسْلِمٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا أَبُو عَوَانَۃَ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ عَامِرٍ ، أَنَّ رَجُلاً کَانَ یَجْلِسُ إِلَی مَسْرُوقٍ یَعْرِفُ وَجْہَہُ وَلاَ یُسَمِّی اسْمَہُ ، قَالَ : فَشَیَّعَہُ ، قَالَ : فَکَانَ فِی آخِرِ مَنْ وَدَّعَہُ ، فَقَالَ : إنَّک قَرِیعُ الْقُرَّائِ وَسَیِّدُہُمْ ، وَإِنَّ زَیْنَک لَہُمْ زَیْنٌ ، وَشَیْنَک لَہُمْ شَیْنٌ ، فَلاَ تُحَدِّثَنَّ نَفْسَک بِفَقْرٍ ، وَلاَ طُولِ عُمُرٍ۔
(٣٦٠٢١) حضرت عامر سے روایت ہے کہ ایک آدمی حضرت مسروق کے پاس بیٹھتا تھا راوی اس کو شکل سے جانتا تھا لیکن نام سے واقف نہیں تھا۔ راوی کہتے ہیں پھر وہ آپ کی مشایعت میں نکلا۔ راوی کہتے ہیں وہ آپ کو الوداع کہنے والوں میں آخری تھا۔ تو اس نے کہا آپ سب قاریوں میں سے بڑے اور ان کے سردار ہیں۔ اور آپ کی زینت میں ان کی زینت ہے اور آپ کی بدصورتی، ان کی بدصورتی ہے۔ پس آپ اپنے نفس سے فقر اور لمبی عمر کی باتیں نہ کیا کریں۔

36021

(۳۶۰۲۲) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ مُسْلِمٍ ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، قَالَ : لَمَّا قَدِمَ مِنَ السِّلْسِلَۃِ أَتَاہُ أَہْلُ الْکُوفَۃِ ، وَأَتَاہُ نَاسٌ مِنَ التُّجَّارِ ، فَجَعَلُوا یُثْنُونَ عَلَیْہِ وَیَقُولُونَ : جَزَاک اللَّہُ خَیْرًا مَا کَانَ أَعَفَّک عَنْ أَمْوَالِنَا ، فَقَرَأَ ہَذِہِ الآیَۃَ : {أَفَمَنْ وَعَدْنَاہُ وَعْدًا حَسَنًا فَہُوَ لاَقِیہِ کَمَنْ مَتَّعْنَاہُ مَتَاعَ الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا}۔
(٣٦٠٢٢) حضرت مسروق کے بارے میں روایت ہے کہ جب وہ مقام سلسلہ سے واپس آئے تو اہل کوفہ ان کے پاس آئے اور ان کے پاس تاجر لوگ آئے اور آپ کی تعریف کرنے لگے اور کہنے لگے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو بہترین بدلہ دے۔ آپ ہمارے مالوں سے کس قدر مستغنی تھے۔ اس پر آپ نے یہ آیت پڑھی : { أَفَمَنْ وَعَدْنَاہُ وَعْدًا حَسَنًا فَہُوَ لاَقِیہِ کَمَنْ مَتَّعْنَاہُ مَتَاعَ الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا }۔ کیا وہ شخص جس سے ہم نے اچھا وعدہ کیا اور وہ اسے حاصل کرے گا اس شخص کی طرح ہوسکتا ہے جسے ہم نے دنیا کی زندگی میں فائدے کی چیزیں دے دی ہیں۔

36022

(۳۶۰۲۳) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ مُسْلِمٍ ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، قَالَ : بِحَسْبِ الْمَرْئِ مِنَ الْجَہْلِ أَنْ یَعْجَبَ بِعِلْمِہِ وَبِحَسْبِہِ مِنَ الْعِلْمِ أَنْ یَخْشَی اللَّہَ۔
(٣٦٠٢٣) حضرت مسروق سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ آدمی کی جہالت کے لیے یہ بات ہی کافی ہے کہ آدمی اپنے علم پر عجب کرنے لگے اور آدمی کے علم کے لیے یہی بات کافی ہے کہ وہ اللہ سے ڈرے۔

36023

(۳۶۰۲۴) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ مُسْلِمٍ ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، قَالَ : کَانَ رَجُلٌ بِالْبَادِیَۃِ لَہُ کَلْبٌ وَحِمَارٌ وَدِیکٌ ، قَالَ : فَالدِّیکُ یُوقِظُہُمْ لِلصَّلاَۃِ ، وَالْحِمَارُ یَنْقُلُونَ عَلَیْہِ الْمَائَ ، وَیَنْتَفِعُونَ بِہِ وَیَحْمِلُونَ لَہُمْ خِبَائَہُمْ، وَالْکَلْبُ یَحْرُسُہُمْ ، فَجَائَ ثَعْلَبٌ فَأَخَذَ الدِّیکَ فَحَزِنُوا لِذَہَابِ الدِّیک ، وَکَانَ الرَّجُلُ صَالِحًا ، فَقَالَ : عَسَی أَنْ یَکُونَ خَیْرًا ، قَالَ : فَمَکَثُوا مَا شَائَ اللَّہُ ، ثُمَّ جَائَ ذِئْبٌ فَشَقَّ بَطْنَ الْحِمَارِ فَقَتَلَہُ فَحَزِنُوا لِذَہَابِ الْحِمَارِ ، فَقَالَ : الرَّجُلُ الصَّالِحُ : عَسَی أَنْ یَکُونَ خَیْرًا ، ثُمَّ مَکَثُوا بَعْدَ ذَلِکَ مَا شَائَ اللَّہُ ، ثُمَّ أُصِیبَ الْکَلْبُ ، فَقَالَ : الرَّجُلُ الصَّالِحُ : عَسَی أَنْ یَکُونَ خَیْرًا ، فَلَمَّا أَصْبَحُوا نَظَرُوا فَإِذَا ہُوَ قَدْ سُبِیَ مِنْ حَوْلِہِمْ وَبَقُوا ہُمْ ، قَالَ : فَإِنَّمَا أُخِذُوا أُولَئِکَ بِمَا کَانَ عِنْدَہُمْ مِنَ الصَّوْتِ وَالْجَلَبَۃِ ، وَلَمْ یَکُنْ عِنْدَ أُولَئِکَ شَیْئٌ یَجْلُب ، قَدْ ذَہَبَ کَلْبُہُمْ وَحِمَارُہُمْ وَدِیکُہُمْ۔
(٣٦٠٢٤) حضرت مسروق سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ جنگل میں ایک آدمی رہتا تھا جس کے پاس ایک کتا، ایک گدھا اور ایک مرغا تھا۔ فرماتے ہیں : مرغا ان کو نماز کے لیے اٹھاتا تھا اور گدھے پر وہ پانی ادھر ادھر لے جاتے تھے اور اس سے منتفع ہوتے اور وہ ان کے لیے ان کے خیمہ کو اٹھاتا تھا۔ اور کتا ان کی حفاظت کرتا تھا۔ پھر ایک لومڑی آئی اور اس نے مرغا پکڑا۔ ان لوگوں کو مرغ کے چلے جانے کا غم ہوا لیکن وہ آدمی نیک تھا تو اس نے کہا ہوسکتا ہے کہ اس میں خیر ہو۔ فرماتے ہیں کہ یہ لوگ جتنی دیر اللہ نے چاہا اسی طرح رہے پھر بھیڑیا آیا تو اس نے گدھے کا پیٹ پھاڑ کر اس کو قتل کردیا۔ چنانچہ وہ لوگ گدھے کے جانے پر بھی غم گین ہوئے لیکن نیک آدمی نے کہا ہوسکتا ہے اسی میں خیر ہو۔ پھر کتا بھی مرگیا۔ تو اس مرد صالح نے کہا ہوسکتا ہے یہی بہتر ہو۔ پھر جب ان لوگوں نے صبح کی تو دیکھا کہ ان کے اردگرد کے لوگ تو قید کرلیے گئے ہیں اور یہ بچ گئے ہیں۔ آپ (رض) فرماتے ہیں : وہ لوگ اس لیے پکڑے گئے تھے کہ ان کے پاس آوازیں اور چیخ و پکار تھی۔ جبکہ ان لوگوں کے پاس کوئی شور مچانے والی چیز نہ تھی۔ ان کا کتا، گدھا اور مرغ تو مرگئے تھے۔

36024

(۳۶۰۲۵) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، قَالَ : خَرَجَ رَجُلٌ صَالِحٌ بِصُرَّۃٍ مِنْ دَرَاہِمَ فِی ظُلْمَۃِ اللَّیْلِ ، فَأَرَادَ أَنْ یَتَصَدَّقَ بِہَا ، فَلَقِیَ رَجُلاً کَثِیرَ الْمَالِ فَأَعْطَاہَا إیَّاہُ ، فَلَمَّا أَصْبَحَ ، قَالَ : أَلاَ تَعْجَبُونَ لِفُلاَنٍ وَکَثْرَۃِ مَالِہِ ، جَائَہُ رَجُلٌ بِصُرَّۃِ دَرَاہِمَ فَأَعْطَاہَا إیَّاہُ ، فَبَلَغَ ذَلِکَ الرَّجُلَ فَشَقَّ عَلَیْہِ ، وَقَالَ : مَا أَرَاہُ تُقْبَلُ مِنِّی حِینَ أَعْطَیْتہَا ہَذَا الرَّجُلَ الْغَنِیَّ۔ ۲۔ قَالَ : وَخَرَجَ لَیْلَۃً أُخْرَی بِصُرَّۃٍ فَأَعْطَاہَا امْرَأَۃً بَغِیًّا ، فَلَمَّا أَصْبَحُوا ، قَالُوا : أَلاَ تَعْجَبُونَ إِلَی فُلاَنَۃَ جَائَہَا فُلاَنٌ بِصُرَّۃٍ فَأَعْطَاہَا وَہِیَ لاَ تَمْنَعُ رِجْلَہَا مِنْ أَحَدٍ ، فَبَلَغَہُ ذَلِکَ فَشَقَّ عَلَیْہِ ، وَقَالَ : مَا أُرَاہُ یُقْبَلُ مِنِّی۔ ۳۔ قَالَ : فَأُتِیَ فِی الْمَنَامِ فَقِیلَ لَہُ قَدْ تُقُبِّلَ مِنْک مَا أَعْطَیْت ہَذَا الْغَنِی ، فَإِنَّا أَرَدْنَا أَنْ نُرِیَہُ ، أَنَّ فِی النَّاسِ مَنْ یَتَصَدَّقُ ، فَیَرْغَبُ فِی ذَلِکَ ، وَأَمَّا الْمَرْأَۃُ فَإِنَّہَا إنَّمَا تَبْغِی مِنَ الْحَاجَۃِ ، فَأَرَدْنَا أَنْ نَعُفَّہَا۔
(٣٦٠٢٥) حضرت مسروق سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ ایک مرد صالح رات کے اندھیرے میں درہموں کی تھیلی لے کر نکلا۔ وہ اس کو صدقہ کرنا چاہتا تھا کہ اس کو ایک کثیر المال شخص ملا اس آدمی نے یہ دراہم کی تھیلی اس کو دے دی۔ جب صبح ہوئی تو شور ہوا۔ فلاں آدمی اور اس کے مال پر تم لوگ تعجب نہیں کرتے۔ اس کے پاس کوئی آدمی درہموں کی تھیلی لے کر آیا اور وہ اس کو دے گیا۔ یہ بات اس دینے والے کو پہنچی تو اس پر بہت شاق گزرا اس نے کہا میرا خیال نہیں ہے کہ جب میں نے تھیلی اس مالدار کو دے دی ہے تو میری طرف سے یہ قبول ہوا ہوگا۔
٢۔ راوی کہتے ہیں یہ آدمی ایک رات پھر تھیلی لے کر نکلا اور اس نے یہ تھیلی ایک زانیہ عورت کو دے دی۔ لوگوں نے جب صبح کی تو کہنے لگے۔ فلانی عورت پر تمہیں تعجب نہیں ہے۔ اس کے پاس فلاں آیا اور اس کو تھیلی دے گیا حالانکہ یہ عورت تو کسی کو اپنے پاس آنے سے نہیں روکتی۔ اس آدمی کو یہ بات پہنچی تو اس کو بہت شاق گزرا اس نے کہا : میرا خیال نہیں ہے کہ یہ صدقہ میری طرف سے قبول ہوا ہوگا۔
٣۔ راوی کہتے ہیں پھر اس آدمی کو خواب آیا اور اس کو کہا گیا تم نے غنی کو جو صدقہ دیا وہ بھی تم سے قبول ہوگیا ہے کیونکہ ہمارا ارادہ یہ تھا کہ ہم اس کو یہ بات دکھائیں کہ صدقہ کرنے والے لوگ بھی ہیں تاکہ اس کو بھی اس کا شوق ہو اور جو عورت تھی وہ صرف ضرورت کی وجہ سے زنا کرتی تھی۔ ہمارا ارادہ یہ تھا کہ ہم اس کو عفیفہ بنائیں۔

36025

(۳۶۰۲۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ زَیْدٍ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ سِیرِینَ ، قَالَ : کَانَ مَسْرُوقٌ یُصَلِّی حَتَّی تَجْلِسَ امْرَأَتُہُ خَلْفَہُ تَبْکِی۔
(٣٦٠٢٦) حضرت انس بن سیرین سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت مسروق اس حد تک نماز پڑھتے کہ ان کی بیوی ان کے پیچھے بیٹھ کر رونے لگتی۔

36026

(۳۶۰۲۷) حَدَّثَنَا ابْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ طَلْحَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَمِیرَۃَ ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، قَالَ : وَدَّ أَہْلُ الْبَلاَئِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ، أَنَّ جُلُودَہُمْ کَانَتْ تُقْرَضُ بِالْمَقَارِیضِ۔
(٣٦٠٢٧) حضرت مسروق سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ مصیبتوں والے لوگ قیامت کے دن اس بات کو پسند کریں گے کہ ان کو قینچیوں سے کاٹا جاتا۔

36027

(۳۶۰۲۸) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ حُصَیْنٍ ، قَالَ : أَتَیْنَا مُرَّۃَ نَسْأَلُ عَنْہُ فَقَالُوا : مُرَّۃُ الطَّیِّبُ ، فَإِذَا ہُوَ فِی عِلْیَۃٍ لَہُ قَدْ تَعَبَّدَ فِیہَا ثِنْتَیْ عَشْرَۃَ سَنَۃً۔
(٣٦٠٢٨) حضرت حصین سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ ہم حضرت مرہ کے پاس آئے۔ ہم نے ان کے بارے میں پوچھا : لوگوں نے کہا مرۃ الطیب ؟ تو وہ اپنے بالاخانہ میں تھے جس میں انھوں نے بارہ سال عبادت کی تھی۔

36028

(۳۶۰۲۹) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنِ الْہَیْثَم قَالَ : کَانَ مُرَّۃُ یُصَلِّی کُلَّ یَوْمٍ مِئَتَیْ رَکْعَۃٍ۔
(٣٦٠٢٩) حضرت ہیثم سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت مرہ ہر روز دو سو رکعات پڑھا کرتے تھے۔

36029

(۳۶۰۳۰) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ مَالِکِ بْنِ مِغْوَلٍ ، قَالَ : سُئِلَ مُرَّۃُ : عمَّا بَقِیَ مِنْ صَلاَتِکَ ، قَالَ : الشَّطْرُ خَمْسُونَ وَمِائَتَا رَکْعَۃٍ۔
(٣٦٠٣٠) حضرت مالک بن مغول سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت مرہ سے پوچھا گیا آپ کی کتنی نماز باقی ہے ؟ انھوں نے فرمایا : آدھی یعنی دو سو پچاس رکعات۔

36030

(۳۶۰۳۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ مُرَّۃَ {وَأَفْئِدَتُہُمْ ہَوَائٌ} قَالَ : مُتَخَرِّقَۃٌ لاَ تَعِی شَیْئًا۔
(٣٦٠٣١) حضرت مرہ سے { وَأَفْئِدَتُہُمْ ہَوَائٌ} کے بارے میں روایت ہے وہ کہتے ہیں : پھٹے ہوں گے کسی شے کی حفاظت نہیں کریں گے۔

36031

(۳۶۰۳۲) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ عُمَارَۃَ، عَنِ الأَسْوَدِ، قَالَ: مَا کَانَ إِلاَّ رَاہِبًا مِنَ الرُّہْبَانِ۔
(٣٦٠٣٢) حضرت عمارہ، حضرت اسود کے بارے میں روایت کرتے ہیں کہتے ہیں کہ وہ راہبوں میں سے ایک راہب تھے۔

36032

(۳۶۰۳۳) حَدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : سُئِلَ عَنِ الأَسْوَدِ ، فَقَالَ : کَانَ صَوَّامًا حَجَّاجًا قَوَّامًا۔
(٣٦٠٣٣) حضرت شعبی سے روایت ہے کہتے ہیں (ان سے) حضرت اسود کے بارے میں سوال کیا گیا ؟ تو انھوں نے فرمایا : وہ خوب روزہ رکھنے والے، خوب حج کرنے والے اور خوب قیام کرنے والے تھے۔

36033

(۳۶۰۳۴) حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا حَسَنٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِہِ ، قَالَ : إنْ کَانَ الأَسْوَدُ لَیَصُومُن فِی الْیَوْمِ الشَّدِیدِ الْحَرِّ الَّذِی یُرَی أَنَّ الْجَمَلَ الْجَلَدَ الأَحْمَرَ یُرَنَّحُ فِیہِ مِنَ الْحَرِّ۔
(٣٦٠٣٤) حضرت منصور کے بعض شاگردوں سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت اسود (رض) شدید گرمی کے دن بھی روزہ رکھتے تھے۔ وہ دن جس کے بارے میں خیال ہوتا تھا کہ سرخ چمڑے والا اونٹ بھی گرمی کی وجہ سے کمزور ہوجاتا ہے۔

36034

(۳۶۰۳۵) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا حَنَشُ بْنُ الْحَارِثِ ، قَالَ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُدْرِکٍ ، أَنَّ عَلْقَمَۃَ کَانَ یَقُولُ لِلأَسْوَدِ : لِمَ تُعَذِّبُ ہَذَا الْجَسَدَ فَیَقُولُ : إنَّمَا أُرِیدُ لَہُ الرَّاحَۃَ۔
(٣٦٠٣٥) حضرت علی بن مدرک بیان کرتے ہیں کہ حضرت علقمہ، حضرت اسود کو کہا کرتے تھے۔ آپ اس جسم کو کیوں عذاب دیتے ہیں ؟ اسود کہتے تھے میں اس کی راحت چاہتا ہوں۔

36035

(۳۶۰۳۶) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا حَنَشُ بْنُ الْحَارِثِ ، قَالَ : رَأَیْتُ الأَسْوَدَ بْنَ یَزِیدَ قَدْ ذَہَبَتْ إحْدَی عَیْنَیْہِ مِنَ الصَّوْمِ۔
(٣٦٠٣٦) حضرت حنش بن حارث کہتے ہیں کہ میں نے حضرت اسود بن یزید کو دیکھا کہ ان کی ایک آنکھ روزے کی وجہ سے ضائع ہوگئی تھی۔

36036

(۳۶۰۳۷) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ ، عَنْ حَنَشٍ ، عَنْ رِیَاحٍ النَّخَعِیِّ ، قَالَ : کَانَ الأَسْوَدُ یَصُومُ فِی السَّفَرِ حَتَّی یَتَغَیَّرَ لَوْنُہُ مِنَ الْعَطَشِ فِی الْیَوْمِ الْحَارِّ فِی غَیْرِ رَمَضَانَ۔
(٣٦٠٣٧) حضرت ریاح نخعی سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت اسود، سفر میں روزہ رکھا کرتے تھے۔ یہاں تک کہ غیر رمضان میں سخت گرمی کے دن پیاس کی وجہ سے ان کا رنگ متغیر ہوجاتا تھا۔

36037

(۳۶۰۳۸) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ شِبَاکٍ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، عَن عَلْقَمَۃَ ، أَنَّہُ کَانَ یَقُولُ لأَصْحَابِہِ : اذْہَبُوا بِنَا نَزْدَدْ إیمَانًا۔
(٣٦٠٣٨) حضرت علقمہ کے بارے میں روایت ہے کہ وہ اپنے ساتھیوں سے کہتے تھے۔ ہمارے ساتھ چلو تاکہ ہم اپنا ایمان زیادہ کریں۔

36038

(۳۶۰۳۹) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، قَالَ : سُئِلَ الشَّعْبِیُّ ، عَنْ عَلْقَمَۃَ ، قَالَ : کَانَ مَعَ الْبَطِیئِ وَیُدْرِکُ السَّرِیعَ۔
(٣٦٠٣٩) حضرت ابن عون سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت شعبی سے علقمہ کے بارے میں سوال کیا گیا ؟ تو انھوں نے فرمایا : وہ سست کے ساتھ تھے لیکن تیز رفتار کو پکڑ لیتے تھے۔

36039

(۳۶۰۴۰) حَدَّثَنَا عَبْدُاللہِ بْنُ نُمَیْرٍ، عَنْ مَالِکِ بْنِ مِغْوَلٍ، عَنْ أَبِی السَّفَرِ، عَنْ مُرَّۃَ، قَالَ: کَانَ عَلْقَمَۃُ مِنَ الرَّبَّانِیِّینَ۔
(٣٦٠٤٠) حضرت مرہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت علقمہ اللہ والوں میں سے تھے۔

36040

(۳۶۰۴۱) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ قَالَ : قَرَأَ عَلْقَمَۃُ الْقُرْآن فِی لَیْلَۃٍ۔
(٣٦٠٤١) حضرت ابراہیم سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت علقمہ نے ایک رات میں قرآن پڑھا۔

36041

(۳۶۰۴۲) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ عَن عَلْقَمَۃَ {إنَّ زَلْزَلَۃَ السَّاعَۃِ شَیْئٌ عَظِیمٌ} قَالَ شَرِیکٌ : ہَذَا فِی الدُّنْیَا قَبْلَ یَوْمِ الْقِیَامَۃِ ، قَالَ جَرِیرٌ : ہَذَا بَیْنَ یَدَیِ السَّاعَۃِ۔
(٣٦٠٤٢) حضرت علقمہ سے {إنَّ زَلْزَلَۃَ السَّاعَۃِ شَیْئٌ عَظِیمٌ} کے بارے میں روایت ہے۔ حضرت شریک فرماتے ہیں یہ قیامت سے پہلے دنیا ہی میں ہوگا۔ حضرت جریر کہتے ہیں کہ قیامت کو ہوگا۔

36042

(۳۶۰۴۳) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : کَانَ عَلْقَمَۃُ إذَا رَأَی مِنْ أَصْحَابِہِ ہَشَاشًا ، أَوَ قَالَ : انْبِسَاطًا ذَکَّرَہُمْ بین الأَیَّامِ کَذَلِکَ۔
(٣٦٠٤٣) حضرت ابراہیم سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت علقمہ جب اپنے ساتھیوں کو خوش اور ہشاش دیکھتے تو انھیں اسی طرح کے ایام یاد دلاتے۔

36043

(۳۶۰۴۴) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَیْدٍ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ عُمَارَۃَ ، عَنْ أَبِی مَعْمَرٍ ، قَالَ : دَخَلْنَا عَلَی عَمْرِو بْنِ شُرَحْبِیلَ ، فَقَالَ : انْطَلَقُوا بِنَا إِلَی أَشْبَہِ النَّاسِ سَمْتًا وَہَدْیًا بِعَبْدِ اللہِ ، فَدَخَلْنَا عَلَی عَلْقَمَۃَ۔
(٣٦٠٤٤) حضرت ابومعمر سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ ہم حضرت عمرو بن شرحبیل کے پاس گئے تو انھوں نے فرمایا : ہمارے ساتھ اس آدمی کے پاس چلو جو چال ڈھال میں حضرت عبداللہ کے سب سے زیادہ مشابہ ہے۔ چنانچہ ہم حضرت علقمہ کے پاس گئے۔

36044

(۳۶۰۴۵) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، قَالَ : حدَّثَنَا الأَعْمَشُ ، قَالَ : حَدَّثَنَا عُمَارَۃُ ، عَنْ أَبِی مَعْمَرٍ ، قَالَ : کُنَّا جُلُوسًا عِنْدَ عَمْرِو بْنِ شُرَحْبِیلَ ، فَقَالَ : اذْہَبُوا بِنَا إِلَی أَشْبَہِ النَّاسِ ہَدْیًا وَدَلاًّ وَسَمْتًا وَأَبْطَنِہِمْ بِعَبْدِ اللہِ ، فَلَمْ نَدْرِ مَنْ ہُوَ حَتَّی انْطَلَقْنَا إِلَی عَلْقَمَۃَ۔
(٣٦٠٤٥) حضرت ابومعمر سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ ہم حضرت عمرو بن شرحبیل کے پاس بیٹھے ہوئے تھے تو انھوں نے فرمایا : تم ہمارے ساتھ لوگوں میں سے اس شخص کے پاس جاؤ جو طریقہ زندگی، اندازق گفتگو اور طرز عمل میں حضرت عبداللہ کے سب سے زیادہ مشابہ ہے اور حضرت عبداللہ کے سب سے بڑے راز دار ہیں۔ ہمیں معلوم نہ تھا کہ وہ کون ہے یہاں تک کہ ہم حضرت علقمہ کے پاس پہنچے۔

36045

(۳۶۰۴۶) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : أَصْبَحَ ہَمَّامٌ مُتَرَجِّلاً ، فَقَالَ بَعْضُ الْقَوْمِ : إنَّ جُمَّۃَ ہَمَّامٍ لَتُخْبِرُکُمْ ، أَنَّہُ لَمْ یَتَوَسَّدْہَا اللَّیْلَۃَ۔
(٣٦٠٤٦) حضرت ابراہیم سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ ایک صبح حضرت ہمام کنگھی کرکے آئے تو کچھ لوگوں نے کہا : حضرت ہمام کی زلفیں بتارہی ہیں کہ آج رات انھوں نے تکیہ نہیں کیا۔

36046

(۳۶۰۴۷) حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ ، عَنْ حُصَیْنٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : کَانَ رَجُلٌ مِنَّا ، یُقَالَ لَہُ : ہَمَّامُ بْنُ الْحَارِثِ وَکَانَ لاَ یَنَامُ إِلاَّ قَاعِدًا فِی الْمَسْجِدِ فِی صَلاَتِہِ ، فَکَانَ یَقُولُ : اللَّہُمَّ اشْفِنِی مِنَ النَّوْمِ بِیَسِیرٍ وَارْزُقْنِی سَہَرًا فِی طَاعَتِک۔
(٣٦٠٤٧) حضرت ابراہیم سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ ہم میں ایک آدمی تھا جس کو ہمام بن حارث کہا جاتا تھا۔ وہ مسجد میں نماز کے دوران صرف بیٹھ کر ہی سوتا تھا اور کہا کرتا تھا : اے اللہ ! آپ مجھے تھوڑی نیند سے شفا دے دیں اور میری بیداری کو اپنی اطاعت میں کردیں۔

36047

(۳۶۰۴۸) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ ، عَنِ ابْنِ مَعْقِلٍ : (وَلَوْ تَرَی إذْ فَزِعُوا فَلاَ فَوْتَ) قَالَ : أَفْزَعَہُمْ فَلَمْ یَفُوتُوہُ۔
(٣٦٠٤٨) حضرت ابن معقل سے روایت ہے وہ کہتے ہیں (وَلَوْ تَرَی إذْ فَزِعُوا فَلاَ فَوْتَ ) یعنی وہ بہت زیادہ ڈریں گے مگر ان کو موت نہیں آئے گی۔

36048

(۳۶۰۴۹) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ أَبِی وَائِلٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُرَحْبِیلَ ، قَالَ : إنِّی الْیَوْمَ لَمیسر لِلْمَوْتِ خَفِیفُ الْحَالِ أو الْحَالَۃِ ، وَمَا أَدَعُ دَیْنًا ، وَمَا أَدَعُ عِیَالاً أَخَافُ عَلَیْہِمُ الضَّیْعَۃَ لولا ہَوْلُ الْمُطَّلَعِ۔
(٣٦٠٤٩) حضرت عمرو بن شرحبیل سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں آج کے دن موت کے لیے تیار ہوں، خفیف الحال ہوں، میں نے کوئی قرض نہیں چھوڑا اور نہ ہی میں نے ایسے عیال چھوڑے ہیں جن کی ہلاکت کا مجھے خوف ہے۔ اگر محشر کا خوف نہ ہوتا۔

36049

(۳۶۰۵۰) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ یَمَانٍ ، عَنْ مَالِکِ بْنِ مِغْوَلٍ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ،عَنْ أَبِی مَیْسَرَۃَ، قَالَ: کَانَ إذَا آوَی إِلَی فِرَاشِہِ بَکَی ، ثُمَّ قَالَ : لَیْتَ أُمِّی لَمْ تَلِدْنِی ، قِیلَ : لِمَ ، قَالَ : لأَنَّا أُخْبِرْنَا أَنَّا وَارِدُوہَا وَلَمْ نُخْبَرْ أَنَّا صَادِرُوہَا۔
(٣٦٠٥٠) حضرت ابواسحق، حضرت ابومیسرہ کے بارے میں روایت کرتے ہیں کہتے ہیں کہ وہ جب اپنے بستر پر آتے تو رو پڑتے پھر کہتے۔ کاش میری ماں نے مجھے جنا ہی نہ ہوتا۔ پوچھا گیا : کیوں۔ انھوں نے فرمایا : اس لیے کہ ہمیں یہ خبر تو دی گئی ہے کہ ہم اس پر وارد ہوں گے لیکن ہمیں یہ نہیں بتایا گیا کہ ہم اس کو پار کریں گے۔

36050

(۳۶۰۵۱) حَدَّثَنَا حُمَیْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُرَحْبِیلَ ، قَالَ : مَاتَ رَجُلٌ یَرَوْنَ ، أَنَّ عِنْدَہُ وَرَعًا ، فَأُتِیَ فِی قَبْرِہِ فَقِیلَ : إنَّا جَالِدُوک مِئَۃَ جَلْدَۃٍ مِنْ عَذَابِ اللہِ ، قَالَ فِیمَ تَجْلِدُونِی فَقَدْ کُنْت أَتَوَقَّی وَأَتَوَرَّعُ ، فَقِیلَ : خَمْسُونَ ، فَلَمْ یَزَالُوا یُنَاقِصُونَہُ حَتَّی صَارَ إِلَی جَلْدَۃٍ فَجُلِدَ ، فَالْتَہَبَ الْقَبْرُ عَلَیْہِ نَارًا وَہَلَکَ الرَّجُلُ ، ثُمَّ أُعِیدَ ، فَقَالَ فِیمَ جَلَدْتُمُونِی ، قَالُوا : صَلَّیْت یَوْمَ تَعْلَمُ وَأَنْتَ عَلَی غَیْرِ وُضُوئٍ ، وَاسْتَغَاثَک الضَّعِیفُ الْمِسْکِینُ فَلَمْ تُغِثْہُ۔
(٣٦٠٥١) حضرت عمرو بن شرحبیل سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی مرگیا لوگوں کا خیال تھا کہ یہ پرہیزگار ہے۔ پس اس کی قبر میں کوئی آیا اور اس کو کہا گیا ہم تمہیں عذاب خداوندی کے سو کوڑے ماریں گے۔ اس نے کہا : تم مجھے کس وجہ سے کوڑے مارو گے جبکہ میں خوب بچتا تھا اور پرہیزگاری کرتا تھا ؟ اس کو کہا گیا پچاس۔ کم ہوتے ہوتے ایک کوڑے تک آگئے۔ چنانچہ اس کو ایک کوڑا لگایا گیا تو قبر آگ سے بھڑک اٹھی اور وہ شخص ہلاک ہوگیا پھر اس کو دوبارہ پیدا کیا گیا تو اس نے کہا : تم نے مجھے کس وجہ سے کوڑا مارا ہے ؟ ان لوگوں نے جواب دیا ایک دن تو نے یہ جانتے ہوئے نماز پڑھی کہ تو بغیر وضو کے ہے اور ایک کمزور مسکین نے تجھ سے مدد طلب کی لیکن تو نے اس کی مدد نہ کی۔

36051

(۳۶۰۵۲) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِی وَائِلٍ ، قَالَ : مَا رَأَیْت ہَمْدَانِیًّا قَطُّ أَحَبَّ إلَیَّ أَنْ أَکُونَ فِی سَلْخِ جِلْدِہِ مِنْ عَمْرِو بْنِ شُرَحْبِیلَ۔
(٣٦٠٥٢) حضرت ابو وائل سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے عمرو بن شرحبیل کے علاوہ کسی ہمدانی کے جسم میں ہونے کو کبھی پسند نہیں کیا۔

36052

(۳۶۰۵۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ صَالِحٍ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِی مَیْسَرَۃَ ، قَالَ : مَنْ عَمِلَ بِہَذِہِ الآیَۃِ فَقَدِ اسْتَکْمَلَ البر: {لَیْسَ الْبِرَّ أَنْ تُوَلُّوا وُجُوہَکُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ}۔
(٣٦٠٥٣) حضرت ابومیسرہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ جس آدمی نے اس آیت پر عمل کیا تو تحقیق اس نے کامل نیکی کی { لَیْسَ الْبِرَّ أَنْ تُوَلُّوا وُجُوہَکُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ }

36053

(۳۶۰۵۴) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، قَالَ : دَخَلَ سُلَیْمُ بْنُ الأَسْوَدِ أَبُو الشَّعْثَائِ عَلَی أَبِی وَائِلٍ یَعُودُہُ ، فَقَالَ : إنَّ فِی الْمَوْتِ لَرَاحَۃً ، فَقَالَ أَبُو وَائِلٍ : إنَّ لِی صَاحِبًا خَیْرٌ لِی مِنْک : خَمْسُ صَلَوَاتٍ فِی الْیَوْمِ۔
(٣٦٠٥٤) حضرت اعمش سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت ابوالشعثاء سلیم بن اسود، حضرت ابو وائل کے پاس عیادت کے لیے آئے اور کہا : یقیناً موت میں راحت ہے۔ اس پر حضرت ابو وائل نے کہا : میرا ایک تجھ سے بہتر ساتھی ہے یعنی ایک دن میں پانچ نمازیں۔

36054

(۳۶۰۵۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، قَالَ: حدَّثَنَا الأَعْمَشُ ، قَالَ: قَالَ لِی أَبُو وَائِلٍ: یَا سُلَیْمَانُ، وَاللہِ لَوْ أَطَعْنَا اللَّہَ مَا عَصَانَا۔
(٣٦٠٥٥) حضرت اعمش بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابو وائل نے مجھے کہا : اے سلیمان ! خدا کی قسم ! اگر ہم نے اللہ کی اطاعت کی ہوتی تو وہ ہماری نافرمانی نہ کرتا۔

36055

(۳۶۰۵۶) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ مِسْعَرٍ ، عَنْ عَاصِمٍ ، أَنَّ أَبَا وَائِلٍ کَانَ یَقُولُ وَہُوَ سَاجِدٌ : إنْ تَعْفُ عَنِّی تَعْفُ عَنْ طَوْلٍ مِنْک ، وَإِنْ تُعَذِّبْنِی تُعَذِّبْنِی غَیْرَ ظَالِمٍ ، وَلاَ مَسْبُوقٍ ، ثُمَّ یَبْکِی۔
(٣٦٠٥٦) حضرت عاصم سے روایت ہے کہ حضرت ابو وائل سجدہ کی حالت میں کہتے تھے۔ اگر آپ مجھے معاف کریں گے تو آپ اپنی قدرت کے باوجود مجھے معاف کریں گے اور اگر آپ مجھے عذاب دیں گے تو آپ کا عذاب نہ تو ظالم والا ہوگا نہ سبقت پائے ہوگا۔ پھر آپ رونے لگے۔

36056

(۳۶۰۵۷) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، قَالَ : کَانَ إبْرَاہِیمُ التَّیْمِیُّ یَذْکُرُ فِی مَنْزِلِ أَبِی وَائِلٍ ، فَکَانَ أَبُو وَائِلٍ یَنْتَفِضُ کَمَا یَنْتَفِضُ الطَّیْرُ۔
(٣٦٠٥٧) حضرت مغیرہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت ابراہیم تیمی، حضرت ابو وائل کے گھر میں وعظ و تذکیر کرتے تھے۔ اور حضرت ابو وائل پرندے کے پھڑپھڑانے کی طرح پھڑپھڑاتے تھے۔

36057

(۳۶۰۵۸) حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ ، عَنْ مِسْعَرٍ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ أَبِی وَائِلٍ ، قَالَ : مَا شَبَّہْت قُرَّائَ زَمَانِنَا ہَذَا إِلاَّ دَرَاہِمَ مُزَوَّقَۃً ، أَوْ غَنَمًا رَعَتِ الْحِمِّصَ فَنُفِخَتْ بُطُونُہَا فَذُبِحَتْ مِنْہَا شَاۃٌ فَإِذَا ہِیَ لاَ تُنْقی۔
(٣٦٠٥٨) حضرت ابو وائل سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ ہمارے زمانہ کے قراء کی مثال تو دراہم مزوقہ کی سی ہے یا ان بکریوں کی سی ہے جو چنے کھا لیں پھر ان کے پیٹ پھول جائیں۔ پس ان میں سے کوئی بکری ذبح کی جائے تو اس میں کوئی گودا نہ ہو۔

36058

(۳۶۰۵۹) حَدَّثَنَا یَحْیِی بْنُ آدَمَ ، قَالَ : حدَّثَنَا قُطْبَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ شَقِیقٍ ، أَنَّہُ کَانَ یَتَوَضَّا ، یَقُولُ للشیطان: ہَاتِ الآنَ کُلَّ حَاجَۃٍ لَک۔
(٣٦٠٥٩) حضرت شقیق کے بارے میں روایت ہے وہ وضو کرتے تھے تو شیطان کو کہتے تھے اپنی ہر ضرورت اب لے آؤ۔

36059

(۳۶۰۶۰) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَیْدٍ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، قَالَ : قَالَ لِی إبْرَاہِیمُ ، عَلَیْک بِشَقِیقٍ فَإِنِّی أَدْرَکْت أَصْحَابَ عَبْدِ اللہِ وَہُمْ مُتَوَافِرُونَ وَہُمْ یَعُدُّونَہُ مِنْ خِیَارِہِمْ۔
(٣٦٠٦٠) حضرت اعمش سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ مجھے حضرت ابراہیم نے کہا : تم حضرت شقیق کو لازم پکڑو۔ کیونکہ میں نے حضرت عبداللہ کے ساتھیوں کو پایا وہ بہت زیادہ تھے لیکن وہ ان کو اپنے سے بہترین سمجھتے تھے۔

36060

(۳۶۰۶۱) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، عَن ہَمَّامٍ ، قَالَ : انْتَہَیْت إِلَی مِعْضَدٍ وَہُوَ سَاجِدٌ نَائِمٌ، قَالَ : فَأَتَیْتُہ وَہُوَ یَقُولُ : اللَّہُمَّ اشْفِنِی مِنَ النَّوْمِ بِیَسِیرٍ ، ثُمَّ مَضَی فِی صَلاَتِہِ۔
(٣٦٠٦١) حضرت ہمام سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں حضرت معضد کے پاس گیا اور وہ سجدہ کی حالت میں تھے۔ کہتے ہیں کہ میں ان کے پاس آیا تو وہ کہہ رہے تھے۔ اے اللہ ! تو مجھے تھوڑی نیند سے شفا دے دے پھر آپ اپنی نماز پڑھنے لگے۔

36061

(۳۶۰۶۲) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ، قَالَ: حدَّثَنَا الأَعْمَشُ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ، عَن عَلْقَمَۃَ ، قَالَ: رُمِیَ مِعْضَدٌ بِسَہْمٍ فِی رَأْسِہِ فَنَزَعَ السَّہْمَ مِنْ رَأْسِہِ، ثُمَّ وَضَعَ یَدَہُ عَلَی مَوْضِعِہِ، ثُمَّ قَالَ: إِنَّہَا لَصَغِیرَۃٌ، وَإِنَّ اللَّہَ لَیُبَارِکُ فِی الصَّغِیرَۃِ۔
(٣٦٠٦٢) حضرت علقمہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت معضد کو ان کے سر میں تیر لگ گیا تو انھوں نے اپنے سر سے تیر نکالا پھر اپنے ہاتھ کو اس کی جگہ رکھا پھر فرمایا : یہ تو چھوٹا ہے اور اللہ تعالیٰ چھوٹے میں بھی برکت دے دیتا ہے۔

36062

(۳۶۰۶۳) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، عَن عَلْقَمَۃَ ، قَالَ : أَصَابَ ثَوْبَہُ مِنْ دَمِ مِعْضَدٍ ، قَالَ : فَغَسَلَہُ فَلَمْ یَذْہَبْ أَثَرُہُ ، قَالَ : فَکَانَ یُصَلِّی فِیہِ وَیَقُولُ : إِنَّہُ لَیَزِیدُہُ إلَیَّ حُبًّا مِنْ دَمِ مِعْضَدٍ ۔
(٣٦٠٦٣) حضرت علقمہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ ان کے کپڑوں پر حضرت معضد کا خون لگ گیا۔ کہتے ہیں : انھوں نے اس کو دھویا لیکن اس کا اثر ختم نہ ہوا۔ راوی کہتے ہیں کہ وہ اسی کپڑے میں نماز پڑھتے تھے اور کہتے تھے : بیشک معضد کے خون کی وجہ سے یہ کپڑا مجھے زیادہ محبوب ہوگیا ہے۔

36063

(۳۶۰۶۴) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ عُمَارَۃَ ، قَالَ : نَزَلَ مِعضَد إِلَی جَنْبِ شَجَرَۃٍ ، فَقَالَ : وَاللہِ مَا أُبَالِی صَلَّیْت لِہَذِہِ مِنْ دُونِ اللہِ ، أَوْ أَطَعْت مَخْلُوقًا فِی مَعْصِیَۃِ اللہِ۔
(٣٦٠٦٤) حضرت عمارہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت معضد ایک درخت کے پاس اترے تو فرمایا : بخدا ! مجھے اس کی کوئی پروا نہیں ہے کہ میں اللہ کے سوا اس کی نماز پڑھوں یا خدا کی نافرمانی میں کسی مخلوق کی اطاعت کروں۔

36064

(۳۶۰۶۵) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنِ الشَّیْبَانِیِّ ، قَالَ : کَانَ لِمِعْضَدٍ أَخٌ ، قَالَ : فَکَانَ یَأْتِی السُّوقَ فَیَشْتَرِی وَیَبِیعُ وَیُنْفِقُ عَلَی عِیَالِہِ وَعَلَی عِیَالِ مِعضَدٍ ، قَالَ : فَکَانَ یَقُولُ : ہُوَ خَیْرٌ مِنِّی ، نَحْنُ فِی عِیَالِہِ یُنْفِقُ عَلَیْنَا۔
(٣٦٠٦٥) حضرت شیبانی سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت معضد کا ایک بھائی تھا۔ راوی کہتے ہیں : وہ بازار میں آتا۔ خریدو فروخت کرتا اور اپنے اور معضد کے عیال پر خرچ کرتا۔ راوی کہتے ہیں وہ کہا کرتے تھے : یہ مجھ سے بہتر ہے۔ ہم اس کے عیال میں سے ہیں۔ یہ ہم پر خرچ کرتا ہے۔

36065

(۳۶۰۶۶) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ أَبِی رَزِینٍ فِی قَوْلِہِ : {وَثِیَابَک فَطَہِّرْ} قَالَ : عَمَلَک أَصْلِحْہُ ، فَکَانَ الرَّجُلُ إذَا کَانَ حَسَنَ الْعَمَلِ قِیلَ : فُلاَنٌ طَاہِرُ الثِّیَابِ۔
(٣٦٠٦٦) حضرت ابورزین سے ارشادِ خداوندی { وَثِیَابَک فَطَہِّرْ } کے بارے میں روایت ہے کہ فرمایا : تم اپنے عمل کو درست کرو۔ پس جب آدمی اچھے عمل والا ہوتا ہے تو کہا جاتا ہے فلاں طاہر الثیاب (پاکیزہ کپڑوں والا) ہے۔

36066

(۳۶۰۶۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، وَأَبِی رَزِینٍ {فَہُمْ یُوزَعُونَ} قَالاَ : یُحْبَسُ أَوَّلُہُمْ عَلَی آخِرِہِمْ۔
(٣٦٠٦٧) حضرت مجاہد اور حضرت ابورزین سے { فَہُمْ یُوزَعُونَ } کے بارے میں روایت ہے یہ دونوں کہتے ہیں کہ ان کے اول کو آخر پر بند رکھا جائے گا۔

36067

(۳۶۰۶۸) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، قَالَ : حدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ بْنُ سُمَیْعٍ ، عَنْ أَبِی رَزِینٍ فِی قَوْلِہِ : {فَلْیَضْحَکُوا قَلِیلاً وَلْیَبْکُوا کَثِیرًا} قَالَ : یَقُولُ اللَّہُ : الدُّنْیَا قَلِیلٌ فَلْیَضْحَکُوا فِیہَا مَا شَاؤُوا ، فَإِذَا صَارُوا إِلَی الآخِرَۃِ بَکَوْا بُکَائً لاَ یَنْقَطِعُ ، فَذَلِکَ الْکَثِیرُ۔
(٣٦٠٦٨) حضرت ابورزین سے ارشادِ خداوندی { فَلْیَضْحَکُوا قَلِیلاً وَلْیَبْکُوا کَثِیرًا } کے بارے میں روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : دنیا تھوڑی ہے۔ پس اس میں تم جتنا چاہو ہنس لو۔ پھر جب وہ لوگ آخرت کی طرف لوٹیں گے تو نہ ختم ہونے والا رونا روئیں گے۔ پس یہی کثیر ہے۔

36068

(۳۶۰۶۹) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ بْنِ سُمَیْعٍ ، عَنْ أَبِی رَزِینٍ فِی قَوْلِہِ : {إنَّہَا لإِحْدَی الْکُبَرِ} قَالَ: جَہَنَّمُ {نَذِیرًا لِلْبَشَرِ} قَالَ : یَقُولُ اللَّہُ : أَنَا لَکُمْ مِنْہُ نَذِیرٌ۔
(٣٦٠٦٩) حضرت ابورزین سے ارشادِ خداوندی {إنَّہَا لإِحْدَی الْکُبَرِ نَذِیرًا لِلْبَشَرِ }) کے بارے میں روایت ہے۔ فرمایا : اللہ تعالیٰ کہتے ہیں : میں تمہیں جہنم سے ڈرانے والا ہوں۔

36069

(۳۶۰۷۰) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ بْنِ سُمَیْعٍ ، عَنْ أَبِی رَزِینٍ {لَوَّاحَۃٌ لِلْبَشَرِ} قَالَ : تُلَوِّحُ جِلْدَہُ حَتَّی تَدَعَہُ أَشَدَّ سَوَادًا مِنَ اللَّیْلِ۔
(٣٦٠٧٠) حضرت ابورزین سے { لَوَّاحَۃٌ لِلْبَشَرِ } کے بارے میں روایت ہے وہ کہتے ہیں یہ اس کی کھال کو ظاہر کرے گی یہاں تک کہ یہ اس کو رات سے بھی زیادہ شدید السواد چھوڑ دے گی۔

36070

(۳۶۰۷۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ أَبِی رَزِینٍ ، قَالَ : الْغَسَّاقُ مَا یَسِیلُ مِنْ صَدِیدِہِمْ۔
(٣٦٠٧١) حضرت ابورزین سے روایت ہے وہ کہتے ہیں الْغَسَّاقُ وہ ہے جو ان کی پیپ میں سے بہتا ہے۔

36071

(۳۶۰۷۲) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، قَالَ : سَمِعْتہمْ یَقُولُونَ : مَا عَمِلَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ یَزِیدَ عَمَلاً قَطُّ إِلاَّ وَہُوَ یُرِیدُ بِہِ وَجْہَ اللہِ۔
(٣٦٠٧٢) حضرت اعمش سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے لوگوں کو کہتے سنا کہ عبدالرحمن بن یزید نے کبھی کوئی عمل نہیں کیا مگر یہ کہ اس سے ان کی مراد خدا کی رضا ہوتی تھی۔

36072

(۳۶۰۷۳) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ، عَن عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ یَزِیدَ ، أَنَّہُ کَانَ یَقْرَأُ الْقُرْآنَ فِی سَبْعٍ۔
(٣٦٠٧٣) حضرت عبدالرحمن بن یزید کے بارے میں روایت ہے کہ وہ سات دن میں قرآن پڑھا کرتے تھے۔

36073

(۳۶۰۷۴) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ شِمْرٍ، عَنْ زِیَادِ بْنِ حُدَیْرٍ، قَالَ: مَا فَقِہَ قَوْمٌ لَمْ یَبْلُغُوا التُّقَی۔
(٣٦٠٧٤) حضرت زیاد بن حدیر سے روایت ہے وہ کہتے ہیں جو لوگ تقویٰ میں مبالغہ نہیں کرتے وہ فقاہت حاصل نہیں کرتے۔

36074

(۳۶۰۷۵) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا مَالِکُ بْنُ مِغْوَلٍ ، عَنْ أَبِی صَخْرَۃَ ، قَالَ : قَالَ زِیَادُ بْنُ حُدَیْرٍ : لَوَدِدْت أَنِّی فِی حَیِّزٍ مِنْ حَدِیدٍ وَمَعِی مَا یُصْلِحُنِی لاَ أُکَلِّمُ ، وَلاَ یُکَلِّمُونِی۔
(٣٦٠٧٥) حضرت زیاد بن حدیر فرماتے ہیں : مجھے یہ بات محبوب ہے کہ میں لوہے کی رکاوٹ (پنجرہ وغیرہ) میں ہوں اور میرے پاس میری ضرورت کی چیزیں ہوں۔ نہ میں لوگوں سے بات کروں اور نہ ہی لوگ میرے ساتھ بات کریں۔

36075

(۳۶۰۷۶) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ خَیْثَمَۃ ، عَنِ الْحَارِثِ بْنِ قَیْسٍ ، قَالَ : إذَا کُنْتَ فِی شَیْئٍ مِنْ أَمْرِ الدُّنْیَا فَتَوحَّ ، وَإِذَا کُنْت فِی شَیْئٍ مِنْ أَمْرِ الآخِرَۃِ فَامْکُثْ مَا اسْتَطَعْت ، وَإِذَا جَائَک الشَّیْطَانُ وَأَنْتَ تُصَلِّی، فَقَالَ : إنَّک تُرَائِی ، فَزِدْ وَأَطِلْ۔
(٣٦٠٧٦) حضرت حارث بن قیس سے روایت ہے وہ کہتے ہیں جب تو کسی دنیوی کام میں ہو تو جلدی کرو اور جب تم کسی اخروی معاملہ میں ہو تو جتنا ہوسکے ٹھہرو۔ اور جب تم نماز پڑھ رہے ہو اور شیطان تمہارے پاس آئے اور کہے : تم دکھلاوا کررہے ہو۔ تو تم (پھر بھی) نماز کو مزید لمبا کرو۔

36076

(۳۶۰۷۷) حَدَّثَنَا شَبَابَۃُ بْنُ سَوَّارٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا شُعْبَۃُ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، قَالَ : قَالَ خَیْثَمَۃُ : تَجْلِسُ أَنْتَ وَإِبْرَاہِیمُ فِی الْمَسْجِدِ وَیُجْتَمَعُ عَلَیْکُمْ ، قَدْ رَأَیْت الْحَارِثَ بْنَ قَیْسٍ إذَا اجْتَمَعَ عِنْدَہُ رَجُلاَنِ قَامَ وَتَرَکَہُمَا۔
(٣٦٠٧٧) حضرت اعمش سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت خیثمہ نے فرمایا : تم اور ابراہیم مسجد میں بیٹھتے ہو اور تم پر ایک مجمع لگ جاتا ہے۔ جب کہ میں نے حارث بن قیس کو دیکھا کہ جب ان کے پاس دو آدمی جمع ہوجاتے تو وہ ان کو چھوڑ کر اٹھ کھڑے ہوتے۔

36077

(۳۶۰۷۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ مِسْعَرٍ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ الأَ قْمَرِ ، عَنْ أَبِی الأَحْوَصِ ، قَالَ : إنْ کَانَ الرَّجُلُ لَیَطْرُقُ الْفُسْطَاطَ ، قَالَ : فَیَجِدُ لَہُمْ دَوِیًّا کَدَوِیِّ النَّحْلِ ، فَمَا بَالُ ہَؤُلاَئِ یَأْمَنُونَ مَا کَانَ أُولَئِکَ یَخَافُونَ۔
(٣٦٠٧٨) حضرت ابوالاحوص سے روایت ہے وہ کہتے ہیں آدمی خیمہ کو کھٹکھٹاتا تھا۔ راوی کہتے ہیں پس وہ ان کے لیے شہد کی مکھیوں کی سی بھنبھناہٹ پاتا تھا۔ ان لوگوں کو کیا ہوا ہے کہ یہ لوگ اس پر مامون ہیں جس پر وہ لوگ خوفزدہ تھے۔

36078

(۳۶۰۷۹) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ مَالِکِ بْنِ الْحَارِثِ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ رَبِیعَۃَ ، قَالَ : قَالَ عُتْبَۃُ بْنُ فَرْقَدٍ لِعَبْدِ اللہِ بْنِ رَبِیعَۃَ : یَا عَبْدَ اللہِ ، أَلاَ تُعِینُنِی عَلَی ابْنِ أَخِیک ، قَالَ : وَمَا ذَاکَ ، قَالَ : یُعِینُنِی عَلَی مَا أَنَا فِیہِ مِنْ عَمَلٍ ، فَقَالَ لَہُ عَبْدُ اللہِ : یَا عَمْرُو ، أَطِعْ أَبَاک ، قَالَ : فَنَظَرَ إِلَی مِعَضَدٍ وَہُوَ جَالِسٌ ، فَقَالَ : لاَ تُطِعْہُم {وَاسْجُدْ وَاقْتَرِبْ} قَالَ : فَقَالَ عَمْرٌو : یَا أَبَتِ ، إِنِی إنَّمَا أَنَا عَبْدٌ أَعْمَلُ فِی فِکَاکِ رَقَبَتِی ، قَالَ : فَبَکَی عُتْبَۃُ ، وَقَالَ : یَا بُنَیَّ إنِّی لأُحِبُّک حُبَّیْنِ : حُبًّا لِلَّہِ وَحُبَّ الْوَالِدِ وَلَدَہُ ، قَالَ : فَقَالَ : عَمْرٌو : یَا أَبَتِ ، إنَّک کُنْت أَتَیْتنِی بِمَالٍ بَلَغَ سَبْعِینَ أَلْفًا ، فَإِنْ کُنْت سَائِلِی عَنْہُ فَہُوَ ذَا فَخُذْہُ ، وَإِلاَّ فَدَعْنِی فَأَمْضِیہ ، قَالَ لَہُ : عُتْبَۃُ فَأَمْضِہِ ، قَالَ : فَأَمْضَاہُ حَتَّی مَا بَقِیَ مِنْہُ دِرْہَمٌ۔
(٣٦٠٧٩) حضرت عبداللہ بن ربیعہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ عتبہ بن فرقد نے عبداللہ بن ربیعہ سے کہا : اے عبداللہ ! کیا آپ اپنے بھتیجے کے بارے میں میری مدد نہیں کرو گے ؟ انھوں نے کہا : وہ کیا مدد ہے ؟ انھوں نے کہا : میں جس کام میں ہوں وہ میری اس میں مدد کرے۔ تو عبداللہ نے اس سے کہا : اے عمرو ! اپنے والد کی اطاعت کر۔ راوی کہتے ہیں پھر انھوں نے حضرت معضد کی طرف دیکھا۔ وہ بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ انھوں نے فرمایا : تو ان کی اطاعت نہ کر { وَاسْجُدْ وَاقْتَرِبْ } راوی کہتے ہیں اس پر حضرت عمرو نے فرمایا : اے میرے ابا جان ! میں تو محض ایک غلام ہوں جو اپنی گردن چھڑانے میں عمل کررہا ہوں۔ راوی کہتے ہیں۔ اس پر عتبہ رو پڑے اور کہا : اے میرے بیٹے ! میں تجھ سے دو محبتیں کرتا ہوں ایک اللہ کے لیے محبت اور (دوسری) والد کی اپنے بیٹے سے محبت۔ راوی کہتے ہیں پھر حضرت عمرو نے کہا : اے ابا جان ! آپ میرے پاس ستر ہزار کے مبلغ مال لائے تھے۔ پس اگر آپ اس مال کے متعلق مجھ سے سوال کر رہے ہیں تو وہ یہ ہے اس کو لے لو۔ وگرنہ مجھے چھوڑ دو کہ میں اس کو خرچ کروں۔ عتبہ نے اس کو کہا : تم اس کو خرچ لو۔ راوی کہتے ہیں پھر انھوں نے اس کو اس طرح خرچ کیا کہ اس میں سے ایک درہم بھی باقی نہ رہا۔

36079

(۳۶۰۸۰) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، قَالَ : حدَّثَنَا الأَعْمَشُ ، قَالَ : حَدَّثَنَا عُمَارَۃُ ، قَالَ : خَرَجْنَا مَعَنَا أَہْلٌ لِشُرَیْحِ بْنِ ہَانِیئٍ إِلَی مَکَّۃَ ، فَخَرَجَ مَعَنَا یُشَیِّعْنَا ، قَالَ : فَکَانَ فِیمَا قَالَ لَنَا : أَجِدُّوا السَّیْرَ فَإِنَّ رُکْبَانَکُمْ لاَ تُغْنِی عَنْکُمْ مِنَ اللہِ شَیْئًا ، وَمَا فَقَدَ الرَّجُلُ مِنَ الدُّنْیَا شَیْئًا أَہْوَنَ عَلَیْہِ مِنْ نَفْسِہِ تَرَکَہَا ، قَالَ عُمَارَۃُ : فَمَا ذَکَرْتہَا مِنْ قَوْلِہِ إِلاَّ انْتَفَعْت بِہَا۔
(٣٦٠٨٠) حضرت عمارہ کہتے ہیں کہ ہم مکہ کی طرف نکلے اور ہمارے ساتھ حضرت شریح کے گھر والے بھی تھے۔ چنانچہ شریح ہمارے ساتھ مشایعت میں باہر آئے تو فرمایا : ان کی باتوں میں یہ بات بھی تھی۔ چلنے میں خوب کوشش کرو کیونکہ تمہارے سوار تمہیں خدا کی طرف سے کسی چیز کا فائدہ نہیں دیں گے۔ اور آدمی دنیا میں سے کوئی چیز اپنی جان سے ہلکی نہیں چھوڑتا۔ عمارہ کہتے ہیں میں نے ان کی بات یاد رکھی اور اس سے فائدہ اٹھایا۔

36080

(۳۶۰۸۱) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : سَمِعْتُ مَاہَانَ یَقُولُ : أَمَا یَسْتَحْیِی أحَدُکُمْ أَنْ تَکُونَ دَابَّتُہُ الَّتِی یَرْکَبُ وَثَوْبُہُ الَّذِی یَلْبَسُ أَکْثَرَ لِلَّہِ مِنْہُ ذِکْرًا ، فَکَانَ لاَ یَفْتُرُ مِنَ التَّکْبِیرِ وَالتَّہْلِیلِ۔
(٣٦٠٨١) حضرت محمد بن فضیل، اپنے والد سے روایت کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ماہان حنفی کو کہتے سنا : کیا تم میں سے کسی کو اس بات پر حیا نہیں آتی کہ اس کی سواری کا جانور یا اس کے پہننے کا کپڑا اس سے زیادہ اللہ کا ذکر کرنے والا ہو۔ ماہان تکبیر اور تہلیل میں سستی نہیں کرتے تھے۔

36081

(۳۶۰۸۲) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ مُؤَذِّنِ بَنِی حَنِیفَۃَ ، قَالَ : رَأَیْتُ مَاہَانَ الْحَنَفِیَّ وَأَمَرَ بِہِ الْحَجَّاجُ أَنْ یُصْلَبَ عَلَی بَابِہِ ، قَالَ : فَنَظَرْت إلَیْہِ وَإِنَّہُ لَعَلَی الْخَشَبَۃِ وَہُوَ یُسَبِّحُ وَیُکَبِّرُ وَیُہَلِّلُ وَیَحْمَدُ اللَّہَ حَتَّی بَلَغَ تِسْعًا وَعِشْرِینَ ، فَعَقَدَ بِیَدِہِ فَطَعَنَہُ وَہُوَ عَلَی ذَلِکَ الْحَالِ ، فَلَقَدْ رَأَیْت بَعْدَ شَہْرٍ تِسْعًا وَعِشْرِینَ بِیَدِہِ، قَالَ : وَکَانَ یُرَی عِنْدَہُ الضَّوْئُ بِاللَّیْلِ۔
(٣٦٠٨٢) حضرت ابراہیم سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے ماہان حنفی کو دیکھا اور حجاج نے ان کے بارے میں حکم دیا تھا کہ ان کو ان کے دروازے پر سولی چڑھا دیا جائے۔ راوی کہتے ہیں میں نے ان کو اس وقت دیکھا جبکہ وہ تختہ پر تھے اور تسبیح، تکبیر، تہلیل اور خدا کی حمد وثنا میں مصروف تھے۔ یہاں تک کہ جب انتیس کو پہنچے تو اپنے ہاتھ سے اشارہ کیا اور اسی حالت میں ان کو نیزہ لگا۔ پھر میں نے ان کو ایک مہینہ کے بعد بھی، اپنے ہاتھ سے انتیس کا عدد شمار کیے ہوئے دیکھا۔ راوی کہتے ہیں رات کے وقت ان کے پاس روشنی دیکھی جاتی تھی۔

36082

(۳۶۰۸۳) حَدَّثَنَا شَرِیکُ بْنُ عَبْدِ اللہِ ، عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ ، قَالَ : کَانَ أَبُو الْبَخْتَرِیِّ رَجُلاً رَقِیقًا ، وَکَانَ یَسْمَعُ النَّوْحَ وَیَبْکِی۔
(٣٦٠٨٣) حضرت عطاء بن سائب سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت ابوالبختری نرم دل تھے اور یہ جب نوحہ سنتے تو رونے لگ جاتے۔

36083

(۳۶۰۸۴) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ عَطَائٍ ، عَنْ أَبِی الْبَخْتَرِیِّ فِی قَوْلِہِ : {اتَّخَذُوا أَحْبَارَہُمْ وَرُہْبَانَہُمْ أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللہِ} قَالَ : أَطَاعُوہُمْ فِیمَا أَمَرُوہُمْ بِہِ مِنْ تَحْلِیلِ حَرَامٍ ، وَتَحْرِیمِ حَلاَلِ اللہ فَعَبَدُوہُمْ بِذَلِکَ۔
(٣٦٠٨٤) حضرت ابوالبختری سے ارشادِ خداوندی { اتَّخَذُوا أَحْبَارَہُمْ وَرُہْبَانَہُمْ أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللہِ } کے بارے میں روایت ہے۔ آپ کہتے ہیں وہ لوگ ان کو جس حرام کے حلال کرنے کا کہتے یہ ان کی اطاعت کرتے اور اسی طرح جس خدا کے حلال کردہ کو حرام کرنے کو کہتے یہ ان کی اطاعت کرتے اس طرح ان لوگوں نے ان کی عبادت کی۔

36084

(۳۶۰۸۵) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، قَالَ : أَخْبَرَنِی مِسْعَرٌ ، عَنْ أَبِی الَعَنْبَسِ ، قَالَ : قَالَ أَبُو الْبَخْتَرِیِّ : لأَنْ أَکُونَ فِی قَوْمٍ أَعْلَمَ مِنِّی أَحَبُّ إلَیَّ مِنْ أَنْ أَکُونَ فِی قَوْمٍ أَنَا أَعْلَمُہُمْ۔
(٣٦٠٨٥) حضرت ابوالبختری کہتے ہیں اگر میں کسی ایسی جماعت میں ہوں جو مجھ سے زیادہ جانتی ہو تو مجھے یہ اس سے زیادہ پسند ہے کہ میں ایسی قوم میں ہوں جہاں سب سے بڑا عالم میں ہوں۔

36085

(۳۶۰۸۶) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، قَالَ : حدثنا سَعِیدُ بْنُ صَالِحٍ أُخْبِرْنَا ، عَنْ حَکِیمِ بْنِ جُبَیْرٍ ، قَالَ : قَالَ أَبُو الْبَخْتَرِیِّ : ثَلاَثَۃٌ لأَنْ أَخِرَّ مِنَ السَّمَائِ أَحَبُّ إلَیَّ مِنْ أَکُونَ أَحَدَہُمْ : قَوْمٌ اسْتَحَلُّوا أَحَادِیثَ لَہَا زِینَۃٌ وَبَہْجَۃٌ ، وَسَئِمُوا الْقُرْآنَ ، وَقَوْمٌ أَطَاعُوا الْمَخْلُوقَ فِی مَعْصِیَۃِ الْخَالِقِ ، یَعْنِی أَہْلَ الشَّامِ وَالْخَوَارِجَ۔
(٣٦٠٨٦) حضرت ابوالبختری فرماتے ہیں تین باتیں ایسی ہیں کہ مجھے ان میں سے ہونے کی بنسبت آسمان سے گرنا زیادہ محبوب ہے۔ وہ لوگ جو زیب وزینت کی باتوں کو میٹھا سمجھے اور قرآن سے اکتائے اور وہ قوم جو خالق کی نافرمانی میں مخلوق کی اطاعت کرے۔ یعنی خارجی اور اہل شام۔

36086

(۳۶۰۸۷) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا عَطَائُ بْنُ السَّائِبِ ، أَنَّ أَبَا الْبَخْتَرِیِّ وَأَصْحَابَہُ کَانُوا إذَا سَمِعَ أَحَدَہُمْ یُثْنِی عَلَیْہِ ، أَوْ دَخَلَہُ عُجْبٌ ثَنَی مَنْکِبَیْہِ ، وَقَالَ : خَشَعْت لِلَّہِ۔
(٣٦٠٨٧) حضرت عطاء بن سائب کہتے ہیں کہ حضرت ابوالبختری اور ان کے ساتھی ایسے تھے کہ جب ان میں سے کوئی کسی کو اپنی تعریف کہتے سنتا یا اس کو عجب ہونے لگتا تو وہ اپنے کندھوں کو موڑ لیتا اور کہتا میں خدا کے لیے عاجزی کرتا ہوں۔

36087

(۳۶۰۸۸) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ ، عَنْ أَبِی الْبَخْتَرِیِّ ، قَالَ : إنَّ الأَرْضَ لَتَفْقِدُ الْمُؤْمِنَ ، وَإِنَّ الْبِقَاعَ لَتُزَیَّنُ لِلْمُؤْمِنِ إذَا أَرَادَ أَنْ یُصَلِّیَ۔
(٣٦٠٨٨) حضرت ابوالبختری سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ زمین صاحب ایمان کی غیر موجودگی کو محسوس کرتی ہے اور زمین کے ٹکڑے مومن کے لیے مزین ہوجاتے ہیں جبکہ وہ نماز پڑھنے کا ارادہ کرتا ہے۔

36088

(۳۶۰۸۹) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِِ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَیْمُونٍ ، قَالَ : کَانَ یُقَالَ : بَادِرُوا بِالْعَمَلِ أَرْبَعًا: بِالْحَیَاۃِ قَبْلَ الْمَمَاتِ ، وَبِالصِّحَّۃِ قَبْلَ السَّقَمِ ، وَبِالْفَرَاغِ قَبْلَ الشُّغْلِ ، وَلَمْ أَحْفَظِ الرَّابِعَۃَ۔
(٣٦٠٨٩) حضرت عمرو بن میمون کے بارے میں روایت ہے کہ وہ کہا کرتے تھے۔ چار چیزوں میں عمل کو جلدی کرو۔ موت سے پہلے زندگی میں، بیماری سے قبل صحت میں، مشغولیت سے قبل فراغت میں اور چوتھی مجھے یاد نہیں رہی۔

36089

(۳۶۰۹۰) حَدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَیْمُونٍ فِی قَوْلِہِ : {لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ} قَالَ : الْبِرُّ الْجَنَّۃُ۔
(٣٦٠٩٠) حضرت عمرو بن میمون سے ارشادِ خداوندی { لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ } کے بارے میں روایت ہے۔ آپ (رض) نے فرمایا : (اس سے مراد) جنت ہے۔

36090

(۳۶۰۹۱) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ، عَن عَمْرِو بْنِ مَیْمُونٍ، قَالَ: کَانَ یُوتَدُ لَہُ فِی حَائِطِ الْمَسْجِد، وَکَانَ إذَا سَئِمَ مِنَ الْقِیَامِ فِی الصَّلاَۃِ وَشَقَّ عَلَیْہِ أَمْسَکَ بِالْوَتِدِ یَعْتَمِدُ عَلَیْہِ ، أَوْ یُرْبَطُ لَہُ حَبْلٌ فَیَمْسِکُ بِہِ۔
(٣٦٠٩١) حضرت عمرو بن میمون کے بارے میں روایت ہے کہ ان کے لیے مسجد کی دیوار میں ایک کیل لگایا جاتا تھا اور جب آپ نماز میں قیام سے تھک جاتے اور قیام آپ کے لیے مشکل ہوجاتا تو آپ اس کیل سے سہارا لے کر ٹھہر جاتے یا اس کے ساتھ رسی باندھ دی جاتی پھر آپ اس کے ساتھ ٹھہر جاتے۔

36091

(۳۶۰۹۲) حَدَّثَنَا ابْنُ مَہْدِیٍّ، عَنْ شُعْبَۃَ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ، قَالَ: حجَّ عَمْرُو بْنُ مَیْمُونٍ سِتِّینَ مِنْ بَیْنِ حَجَّۃٍ وَعُمْرَۃٍ۔
(٣٦٠٩٢) حضرت ابواسحاق سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت عمرو بن میمون نے ساٹھ حج اور عمرے ادا کیے تھے۔

36092

(۳۶۰۹۳) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ الْحُبَابِ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا أَبُو سِنَانٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَیْمُونٍ فِی قَوْلِہِ {ذَلِکَ بِأَنَّہُمْ کَرِہُوا مَا أَنْزَلَ اللَّہُ فَأَحْبَطَ أَعْمَالَہُمْ} قَالَ : الْفَرَائِضُ۔
(٣٦٠٩٣) حضرت عمرو بن میمون سے ارشاد خداوندی { ذَلِکَ بِأَنَّہُمْ کَرِہُوا مَا أَنْزَلَ اللَّہُ فَأَحْبَطَ أَعْمَالَہُمْ }) کے بارے میں روایت ہے۔ فرمایا : (اس سے مراد) فرائض ہیں۔

36093

(۳۶۰۹۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ مِسْعَرٍ ، عَنْ عِفَاقٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَیْمُونٍ ، قَالَ : إِنَّہُ لَیُسْمَعُ بَیْنَ جِلْدِ الْکَافِرِ وَلَحْمِہِ جَلَبَۃُ الدُّودِ کَجَلَبَۃِ الْوَحْشِ۔
(٣٦٠٩٤) حضرت عمرو بن میمون سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ کافر کے گوشت اور اس کی کھال کے درمیان سے وحشیوں کے شور و غل کی طرح کیڑوں کی خوفناک آوازیں سنائی دیں گی۔

36094

(۳۶۰۹۵) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ حَنَشٍ ، قَالَ : رَأَیْتُ عَمْرَو بْنَ مَیْمُونٍ وَلَہُ ہَمْہَمَۃٌ۔
(٣٦٠٩٥) حضرت حنش سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عمرو بن میمون کو دیکھا کہ آپ کے سینہ کی آواز تھی۔

36095

(۳۶۰۹۶) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ أَبِی بلج ، قَالَ : کَانَ عَمْرٌو إذَا لَقِیَ الرَّجُلَ مِنْ إخْوَانِہِ ، قَالَ : رَزَقَ اللَّہُ الْبَارِحَۃَ مِنَ الصَّلاَۃِ کَذَا ، وَرَزَقَ اللَّہُ الْبَارِحَۃَ مِنَ الْخَیْرِ کَذَا وَکَذَا۔ (حاکم ۵۲۷)
(٣٦٠٩٦) حضرت ابوبلج سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت عمرو جب اپنے بھائیوں میں سے کسی کو ملتے تو کہتے : آج رات اللہ تعالیٰ نے اتنی نماز کی توفیق دی اور آج رات اللہ تعالیٰ نے اتنی خیر کی توفیق دی۔

36096

(۳۶۰۹۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ أَبِی السَّوْدَائِ ، عَنِ الضَّحَّاکِ ، قَالَ : لَقَدْ رَأَیْتنَا ، وَمَا نَتَعَلَّمُ إِلاَّ الْوَرَعَ۔
(٣٦٠٩٧) حضرت ضحاک سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں تو اپنے آپ کو دیکھتا تھا کہ ہم پرہیزگاری کے سوا کچھ نہیں سیکھتے تھے۔

36097

(۳۶۰۹۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ مَالِکِ بْنِ مِغْوَلٍ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ قَیْسٍ النَّاصِرِ ، عَنِ الضَّحَّاکِ ، قَالَ : أَدْرَکَنَا أَصْحَابُنَا، وَمَا یَتَعَلَّمُونَ إِلاَّ الْوَرَعَ۔
(٣٦٠٩٨) حضرت ضحاک سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ ہم نے اپنے ساتھیوں کو اس حال میں پایا کہ وہ پرہیزگاری کے سوا کچھ نہیں سیکھتے تھے۔

36098

(۳۶۰۹۹) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، عَنِ الأَجْلَحِ ، قَالَ : قُلْتُ لِلضَّحَّاکِ : لِمَ سُمِّیَتْ سِدْرَۃَ الْمُنْتَہَی ، قَالَ : لأَنَّہُ یَنْتَہِی إلَیْہَا کُلُّ شَیْئٍ مِنْ أَمْرِ اللہِ۔
(٣٦٠٩٩) حضرت اجلح سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ضحاک سے کہا : سدرۃ المنتہیٰ کا یہ نام کیوں ہے ؟ انھوں نے فرمایا : کیونکہ تمام امور الٰہیہ اسی کی طرف منتہی ہوتے ہیں۔

36099

(۳۶۱۰۰) حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ سَعْدٍ أَبُو دَاوُدَ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِی زِیَادٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِی لَیْلَی ، قَالَ : الرُّوحُ بِیَدِ مَلَکٍ یَمْشِی بِہِ ، فَإِذَا دَخَلَ قَبْرَہُ جَعَلَہُ فِیہِ۔
(٣٦١٠٠) حضرت عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ روح ایک فرشتے کے ہاتھ میں ہے جس کو لے کر وہ چلتا ہے۔ پھر جب وہ قبر میں داخل ہوتا ہے تو اس کو اس میں ڈال دیتا ہے۔

36100

(۳۶۱۰۱) حَدَّثَنَا مُعَاوِیَۃُ بْنُ ہِشَامٍ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، قَالَ : کَانَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِی لَیْلَی یُصَلِّی ، فَإِذَا دَخَلَ الدَّاخِلُ أَتَی فِرَاشَہُ فَاتَّکَأَ عَلَیْہِ۔
(٣٦١٠١) حضرت اعمش سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ نماز پڑھا کرتے تھے۔ پھر جب کوئی شخص ملاقات کے لیے آتا تو اپنے بستر پر آتے اور اس پر تکیہ لگاتے۔

36101

(۳۶۱۰۲) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَیْدٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا ثَابِتٌ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِی لَیْلَی ، قَالَ : {لاَ یَرْہَقُ وُجُوہَہُمْ قَتَرٌ وَلاَ ذِلَّۃٌ} قَالَ : بَعْدَ نَظَرِہِمْ إِلَی رَبِّہِمْ۔
(٣٦١٠٢) حضرت عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ قرآن مجید کی آیت { لاَ یَرْہَقُ وُجُوہَہُمْ قَتَرٌ وَلاَ ذِلَّۃٌ} کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ ان کی یہ حالت اپنے ربّ کی طرف دیکھنے کے بعد ہوگی۔

36102

(۳۶۱۰۳) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا ثَابِتٌ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِی لَیْلَی ، قَالَ : یَقُولُ الْمُشْرِکُونَ {یَا وَیْلَنَا مَنْ بَعَثَنَا مِنْ مَرْقَدِنَا} قَالَ : یَقُولُ الْمُؤْمِنُونَ : {ہَذَا مَا وَعَدَ الرَّحْمَن وَصَدَقَ الْمُرْسَلُونَ}۔
(٣٦١٠٣) حضرت عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ مشرکین کہیں گے ” ہائے ہماری ہلاکت ! ہمیں کس نے ہماری قبروں سے اٹھا دیا۔ “ فرمایا : اور مومن کہیں گے : ” یہ وہ ہے جس کا رحمن نے وعدہ کیا تھا اور جس کے بارے میں رسولوں نے سچ کہا تھا۔ “

36103

(۳۶۱۰۴) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ ، عَنِ الْوَلِیدِ بْنِ جُمَیْعٍ ، عَنْ أَبِی سَلَمَۃَ ، قَالَ : لَمْ یَکُنْ أَصْحَابُ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مُتَحَزِّقِینَ ، وَلاَ مُتَمَاوِتِینَ ، وَکَانُوا یَتَنَاشَدُونَ الشِّعْرَ فِی مَجَالِسِہِمْ ، وَیَذْکُرُونَ أَمْرَ جَاہِلِیَّتِہِمْ ، فَإِذَا أُرِیدَ أَحَدُہُمْ عَلَی شَیْئٍ مِنْ أَمْرِ دِینِہِ دَارَتْ حَمَالِیقُ عَیْنَیْہِ کَأَنَّہُ مَجْنُونٌ۔
(٣٦١٠٤) حضرت ابوسلمہ سے روایت ہے کہ جناب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ کنجوسی کرنے والے اور ادائے عبادت میں کمزوری کرنے والے نہ تھے۔ وہ اپنی مجالس میں شعر پڑھتے تھے اور زمانہ جاہلیت کی باتیں یاد کرتے تھے۔ لیکن جب ان کے دین کے کسی معاملہ میں ان میں سے کسی پر ارادہ کیا جاتا تو اس کی آنکھوں کے پپوٹے یوں گھومتے گویا کہ وہ مجنون ہے۔

36104

(۳۶۱۰۵) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو قَالَ : حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَۃَ ، أَنَّ صُبْحَ یَوْمِ الْقِیَامَۃِ یَطُولُ تِلْکَ اللَّیْلَۃُ کَطُولِ ثَلاَثِ لَیَالٍ ، فَیَقُومُ الَّذِینَ یَخْشَوْنَ رَبَّہُمْ فَیُصَلُّونَ حَتَّی إذَا فَرَغُوا مِنْ صَلاَتِہِمْ رَجَعُوا فَنَامُوا حَتَّی تَکِلَّ جُنُوبُہُمْ ، ثُمَّ قَامُوا فَصَلَّوْا حَتَّی إذَا فَرَغُوا مِنْ صَلاَتِہِمْ أَصْبَحُوا یَنْظُرُونَ إِلَی الشَّمْسِ مِنْ مَطْلَعِہَا فَإِذَا ہِیَ قَدْ طَلَعَتْ مِنْ مَغْرِبِہَا۔
(٣٦١٠٥) حضرت ابوسلمہ بیان کرتے ہیں کہ روز قیامت سے پہلے والی رات تین راتوں کے بقدر ہوگی۔ چنانچہ خوفِ خدا رکھنے والے لوگ اٹھیں گے اور نماز پڑھیں گے یہاں تک کہ جب وہ اپنی نماز سے فارغ ہوجائیں گے واپس جا کر سوجائیں گے۔ یہاں تک کہ ان کے پہلو تھک جائیں گے۔ پھر وہ اٹھ کر نماز پڑھیں گے یہاں تک کہ جب وہ اپنی نماز سے فارغ ہوں گے تو وہ سورج کو اس کے طلوع ہونے کی جگہ سے انتظار کرنے لگیں گے۔ لیکن پھر ناگہاں سورج، مغرب سے نکلے گا۔

36105

(۳۶۱۰۶) حَدَّثَنَا سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَجْلاَنَ ، عَنْ عَوْنِ بْنِ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : إنَّ مِنْ کَمَالِ التَّقْوَی أَنْ تَبْتَغِیَ إِلَی مَا عَلِمْت مِنْہَا عِلْمَ مَا لَمْ تَعْلَمْ ، وَاعْلَمْ أَنَّ النقص فِیمَا عَلِمْت تَرْکَ ابْتِغَائِ الزِّیَادَۃِ فِیہِ ، وَإِنَّمَا یُحْمَلُ الرَّجُلُ عَلَی تَرْکِ ابْتِغَائِ الزِّیَادَۃِ فِیمَا قَدْ عَلِمَ قِلَّۃَ الاِنْتِفَاعِ بِمَا قَدْ عَلِمَ۔
(٣٦١٠٦) حضرت عون بن عبداللہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ کمال تقویٰ یہ ہے کہ تم اپنے علم کے ذریعہ اس بات کو جانو جس کو تم نہیں جانتے تھے اور جان لو کہ تمہارے علم کا نقص اس میں زیادتی کی تلاش کو ترک کرنا ہے۔ اپنے علم میں زیادتی کی تلاش کو ترک کرنے کی وجہ سے آدمی اپنے علم پر نفع کم حاصل کرتا ہے۔

36106

(۳۶۱۰۷) حَدَّثَنَا سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَجْلاَنَ ، عَنْ عَوْنٍ ، قَالَ : بِحَسْبِکَ مِنَ الْکِبْرِ أَنْ تَأْخُذَ بِفَضْلِکَ عَلَی غَیْرِک۔
(٣٦١٠٧) حضرت عون سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ تیرے تکبر کے لیے یہی بات کافی ہے کہ تو اپنی فضیلت کی وجہ سے غیر پر پکڑکرے۔

36107

(۳۶۱۰۸) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنِ ابْنِ عَجْلاَنَ، عَنْ عَوْنٍ، قَالَ: الذَّاکِرُ فِی الْغَافِلِینَ کَالْمُقَاتِلِ عَنِ الْفَارِّینَ، وَإِنَّ الْغَافِلَ فِی الذَّاکِرِینَ کَالْفَارِّ ، عَنِ الْمُقَاتِلِینَ۔
(٣٦١٠٨) حضرت عون سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ غافلین میں ذاکر ایسے ہے جیسے بھاگنے والوں میں لڑنے والا۔ اور ذاکرین میں غافل ایسا ہے جیسے لڑنے والوں میں بھاگنے والا۔

36108

(۳۶۱۰۹) حَدَّثَنَا سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ مِسْعَرٍ ، عَنْ عَوْنٍ ، قَالَ : أَخْبَرَہُ بِالْعَفْوِ قَبْلَ الذَّنْبِ {عَفَا اللَّہُ عَنْک لِمَ أَذِنْت لَہُمْ} ۔
(٣٦١٠٩) حضرت عون سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے گناہ سے قبل ہی معافی کا بتادیا : ” اللہ نے آپ کو معاف کردیا آپ نے انھیں اجازت کیوں دی۔ “

36109

(۳۶۱۱۰) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا الْمَسْعُودِیُّ ، عَنْ عَوْنِ بْنِ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : مَا أَحَدٌ یُنْزِلُ الْمَوْتَ حَقَّ مَنْزِلَتِہِ إِلاَّ عَبْدٌ عَدَّ غَدًا لَیْسَ مِنْ أَجَلِہِ ، کَمْ مِنْ مُسْتَقْبِلٍ یَوْمًا لاَ یَسْتَکْمِلُہُ ، وَرَاجٍ غَدًا لاَ یَبْلُغُہُ ، إنَّک لَوْ تَرَی الأَجَلَ وَمَسِیرَہُ لأَبْغَضْت الأَمَلَ وَغُرُورَہُ۔
(٣٦١١٠) حضرت عون بن عبداللہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ کوئی بندہ موت میں کماحقہ نہیں اترتا مگر وہ شخص جو کل کے دن کو اپنی مہلت میں سے نہ سمجھے۔ کتنے لوگ دن کا استقبال کرنے والے ہیں جو اس کو پورا نہیں کرپاتے اور کتنے لوگ کل کی امید والے کل کو نہیں پہنچ پاتے۔ یقیناً تم اگر مہلت اور اس کی رفتار کو دیکھ لیتے تو تم امیدوں اور دھوکوں سے نفرت کرنے لگتے۔

36110

(۳۶۱۱۱) حَدَّثَنَا شَبَابَۃُ بْنُ سَوَّارٍ ، عَنْ لَیْثِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنِ ابْنِ عَجْلاَنَ ، عَنْ عَوْنٍ ، قَالَ : کَانَ ، یُقَالَ : مَنْ أَحْسَنَ اللَّہُ صُورَتَہُ وَجَعَلَہُ فِی مَنْصِبٍ صَالِحٍ ، ثُمَّ تَوَاضَعَ لِلَّہِ کَانَ مِنْ خَالِصِ اللہِ۔
(٣٦١١١) حضرت عون سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ کہا جاتا تھا جس آدمی کو اللہ تعالیٰ نے اچھی صورت دی ہو اور اس کو اچھے منصب میں پہنچائے پھر وہ اللہ کے لیے تواضع کرے تو یہ شخص خالص اللہ کے لیے عمل کرے گا۔

36111

(۳۶۱۱۲) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنِ ابْنِ سَابِطٍ {لِلَّذِینَ أَحْسَنُوا الْحُسْنَی وَزِیَادَۃٌ} قَالَ : النَّظَرُ إِلَی وَجْہِ اللہِ۔
(٣٦١١٢) حضرت ابن سابط سے قرآن مجید کی آیت { لِلَّذِینَ أَحْسَنُوا الْحُسْنَی وَزِیَادَۃٌ} کے بارے میں روایت ہے۔ آپ (رض) نے فرمایا : اس سے مراد چہرہ خداوندی کی طرف دیکھنا۔

36112

(۳۶۱۱۳) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَنْ زَائِدَۃَ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنِ ابْنِ سَابِطٍ ، قَالَ : إنَّ اللَّہَ یَقُولُ : إنَّک یَا ابْنَ آدَمَ مَا عَبَّدْتنِی وَرَجَوْتنِی فَإِنِّی غَافِرٌ لَک عَلَی مَا کَانَ ، یَسْأَلُنِی عَبْدِی الْہُدَی وَکَیْفَ أضِلُّ عَبْدِی وَہُوَ یَسْأَلُنِی الْہُدَی وَأَنَا الْحَکَمُ۔
(٣٦١١٣) حضرت ابن سابط سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : اے آدم کے بیٹے ! تو نے جتنی میری عبادت کی اور مجھ سے امید رکھی پس میں تجھے جو کچھ ہوچکا ہے اس پر معاف کرتا ہوں۔ میرا بندہ مجھ سے ہدایت کا سوال کرتا ہے اور میں کیسے اپنے بندہ کو گمراہ کروں جبکہ وہ مجھ سے ہدایت مانگتا ہے اور میں حکم ہوں۔

36113

(۳۶۱۱۴) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَنْ زَائِدَۃَ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنِ ابْنِ سَابِطٍ ، قَالَ : بَشِّرَ الْمَشَّائِینَ فِی ظُلَمِ اللَّیْلِ إِلَی الصَّلَوَاتِ بِنُورٍ تَامٍّ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ۔
(٣٦١١٤) حضرت ابن سابط سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ رات کے اندھیروں میں نمازوں کے لیے جانے والوں کو قیامت کے دن نور تام کی خوشخبری دے دو ۔

36114

(۳۶۱۱۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ الْعَلاَئِ بْنِ عَبْدِ الْکَرِیمِ سَمِعَہُ مِنَ ابْنِ سَابِطٍ : {وَإِنَّہُ فِی أُمِّ الْکِتَابِ لَدَیْنَا لَعَلِیٌّ حَکِیمٌ} قَالَ : فِی أُمِّ الْکِتَابِ کُلُّ شَیْئٍ ہُوَ کَائِنٌ إِلَی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ۔
(٣٦١١٥) حضرت علاء بن عبدالکریم سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ انھوں نے ابن سابط کو قرآن مجید کی آیت { وَإِنَّہُ فِی أُمِّ الْکِتَابِ لَدَیْنَا لَعَلِیٌّ حَکِیمٌ} کے بارے میں کہتے سنا۔ آپ نے فرمایا : اُم الکتاب میں ہر وہ چیز ہے جو قیامت تک ہونے والی ہے۔

36115

(۳۶۱۱۶) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، قَالَ سَمِعْت الأَعْمَشَ ، قَالَ : حدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ مُرَّۃَ ، عَنِ ابْنِ سَابِطٍ ، قَالَ : یُدَبِّرُ أَمْرَ الدُّنْیَا أَرْبَعَۃٌ : جَبْرَائِیلُ وَمِیکَائِیلُ وَإِسْرَافِیلُ وَمَلَکُ الْمَوْتِ ، فَأَمَّا جَبْرَائِیلُ فَصَاحِبُ الْجُنُودِ وَالرِّیحِ ، وَأَمَّا مِیکَائِیلُ فَصَاحِبُ الْقَطْرِ وَالنَّبَاتِ ، وَأَمَّا مَلَکُ الْمَوْتِ فَمُوَکَّلٌ بِقَبْضِ الأَنْفُسِ ، وَإِمَّا إسْرَافِیلُ فَہُوَ یَتَنَزَّلُ بِالأَمْرِ عَلَیْہِمْ بِمَا یُؤْمَرُونَ۔
(٣٦١١٦) حضرت ابن سابط سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ دنیا کے امور کی تدبیر چار فرشتے کرتے ہیں۔ جبرئیل، میکائیل، اسرافیل اور ملک الموت۔ جو جبرائیل ہے وہ لشکروں اور ہوا والا ہے اور جو میکائیل ہے وہ بارشوں اور نباتات والا ہے اور ملک الموت تو روحوں کو قبض کرنے والا ہے اور اسرافیل لوگوں پر جو احکامات ہوتے ہیں جو انھوں نے پورے کرنے ہوتے ہیں وہ لے کر اترتا ہے۔

36116

(۳۶۱۱۷) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللہِ بْنِ الزُّبَیْرِ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ أَبِی حَیَّانَ ، قَالَ : سَمِعْتُ إبْرَاہِیمَ التَّیْمِیَّ یَقُولُ: مَا عَرَضْت قَوْلِی عَلَی عَمَلِی إِلاَّ لَخَشِیت أَنْ أَکُونَ مُکَذِّبًا۔
(٣٦١١٧) حضرت ابوحیان سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابراہیم کو کہتے سنا میں نے جب بھی اپنے قول کو اپنے عمل پر پیش کیا تو مجھے یہ ڈر ہوا کہ میں جھوٹا نہ بنوں۔

36117

(۳۶۱۱۸) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِِ ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِی حَفْصَۃَ ، قَالَ: سَمِعْتُ إبْرَاہِیمَ التَّیْمِیَّ یَقُولُ: اللَّہُمَّ إنَّا ضُعَفَائُ، مِنْ ضَعْفٍ خَلَقْتَنَا وَإِلَی ضَعْفٍ مَا نَصِیرُ ، فَمَا شِئْت لاَ مَا شِئْنَا ، فَشَأْ لَنَا أَنْ نَسْتَقِیمَ۔
(٣٦١١٨) حضرت سالم بن ابی حفصہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے ابراہیم تیمی کو کہتے سنا : اے اللہ ! ہم کمزور ہیں۔ اس کمزوری کی وجہ سے جس پر تو نے ہمیں پیدا کیا اور اس کمزوری کی وجہ سے جس کی طرف ہم نے رجوع کرنا ہے جو تو چاہے (وہی ہوتا ہے) نہ کہ جو ہم چاہیں۔ پس تو ہمارے لیے یہ بات چاہ لے کہ ہم استقامت کے ساتھ رہیں۔

36118

(۳۶۱۱۹) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ حُصَیْنٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ التَّیْمِیِّ ، قَالَ : کَانَ مِنْ کَلاَمُہِ أَنْ یَقُولَ : أَیُّ حَسْرَۃٍ أَکْبَرُ عَلَی امْرِئٍ مِنْ أَنْ یَرَی عَبْدًا لہ کَانَ اللَّہُ خَوَّلَہُ فِی الدُّنْیَا وَہُوَ عِنْدَ اللہِ أَفْضَلُ مَنْزِلَۃً مِنْہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ، وَأَیُّ حَسْرَۃٍ عَلَی امْرِئٍ أَکْبَرُ مِنْ أَنْ یُؤْتِیَہُ اللَّہُ مَالاً فِی الدُّنْیَا فَیَرِثَہُ غَیْرُہُ فَیَعْمَلَ فِیہِ بِطَاعَۃِ اللہِ فَیَکُونَ وِزْرُہُ عَلَیْہِ وَأَجْرُہُ لِغَیْرِہِ ، وَأَیُّ حَسْرَۃٍ عَلَی امْرِئٍ أَکْبَرُ مِنْ أَنْ یَرَی عَبْدًا کَانَ مَکْفُوفَ الْبَصَرِ فِی الدُّنْیَا قَدْ فَتَحَ اللَّہُ لَہُ ، عَنْ بَصَرِہِ وَقَدْ عَمِیَ ہُوَ ، ثُمَّ یَقُولُ : إنَّ مَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ کَانُوا یَفِرُّونَ مِنَ الدُّنْیَا وَہِیَ مُقْبِلَۃٌ عَلَیْہِمْ ، وَلَہُمْ مِنَ الْقِدَمِ مَا لَہُمْ ، وَإِنَّکُمْ تَتَّبِعُونَہَا وَہِیَ مُدْبِرَۃٌ عَنْکُمْ وَلَکُمْ مِنَ العذاب مَا لَکُمْ ، فَقِیسُوا أَمْرَکُمْ وَأَمْرَ الْقَوْمِ۔
(٣٦١١٩) حضرت حصین، حضرت ابراہیم تیمی کے بارے میں روایت کرتے ہیں کہتے ہیں کہ ان کے کلام میں سے یہ بات تھی : آدمی کو اس سے بڑی حسرت کیا ہوگی کہ وہ اپنے غلام کو جس کو اللہ نے دنیا میں اس کا غلام بنایا تھا اور وہ غلام اللہ کے ہاں بروز قیامت افضل درجہ پر ہو ؟ آدمی کو اس سے بڑی حسرت کس بات پر ہوگی کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو دنیا میں مال دیا تھا۔ وہ کسی اور کو اس مال کا وارث بنا دے پھر وہ وارث اس مال میں اللہ کی اطاعت کرے۔ پس مال کا گناہ مالک پر اور اس کا ثواب دوسرے کے لیے ہو ؟ اور اس سے بڑی حسرت آدمی کو کیا ہوگی کہ وہ کسی بندے کو دیکھے جو دنیا میں نابینا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اس کی نظر کھول دی ہے اور یہ نابینا ہوگیا ہے ؟ پھر آپ (رض) نے فرمایا : تم سے پہلے جو لوگ تھے وہ دنیا سے بھاگتے تھے جبکہ دنیا ان کی طرف متوجہ ہوتی تھی۔ اور ان لوگوں کو جو مقام ملتا تھا وہ ملتا تھا۔ لیکن تم لوگ دنیا کی پیروی کرتے ہو اور دنیا نے تم سے منہ پھیرا ہوا ہے اور تمہیں جو عذاب ہونا ہے وہ ہونا ہے۔ پس تم اپنا اور ان لوگوں کا معاملہ قیاس کرلو۔

36119

(۳۶۱۲۰) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنِ الْعَوَّامِ بْنِ حَوْشَبٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ التَّیْمِیِّ : {وَیَأْتِیہِ الْمَوْتُ مِنْ کُلِّ مَکَان} قَالَ : حَتَّی مِنْ أَطْرَافِ شَعْرِہِ۔
(٣٦١٢٠) حضرت ابراہیم تیمی سے قرآن مجید کی آیت { وَیَأْتِیہِ الْمَوْتُ مِنْ کُلِّ مَکَان } کے بارے میں منقول ہے کہ یہاں تک کہ بالوں کے کناروں سے بھی موت آئے گی۔

36120

(۳۶۱۲۱) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ یَزِیدَ ، عَنِ الْعَوَّامِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ التَّیْمِیِّ {إنَّا ہُدْنَا إلَیْک} قَالَ : تُبْنَا۔
(٣٦١٢١) حضرت ابراہیم تیمی سے {إنَّا ہُدْنَا إلَیْک } کے بارے میں روایت ہے : تُبْنَا یعنی ہم نے رجوع کیا۔

36121

(۳۶۱۲۲) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ التَّیْمِیِّ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : کَانَ یَرْتَدِی بِالرِّدَائِ یَبْلُغُ أَلْیَتَیْہِ مِنْ خَلْفِہِ وَثَدْیَیْہِ مِنْ بَیْنِ یَدَیْہِ ، قَالَ : قُلْتُ : یَا أَبَتِ ، لَوْ أَنَّک اتَّخَذْت رِدَائً أَوْسَعَ مِنْ رِدَائِک ہَذَا ، قَالَ : یَا بُنَی ، لاَ تَقُلْ ہَذَا ، فَوَاللہِ مَا عَلَی الأَرْضِ لُقْمَۃٌ لَقَمْتہَا طَیِّبَۃً إِلاَّ لَوَدِدْت لَوْ کَانَتْ فِی أَبْغَضِ النَّاسِ إلَیَّ۔
(٣٦١٢٢) حضرت ابراہیم تیمی، اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہتے ہیں کہ وہ ایسی چادر اوڑھتے تھے جو پیچھے سے سرین تک اور آگے سے پستان تک پہنچتی تھی۔ ابراہیم کہتے ہیں میں نے عرض کیا : اے ابا جان ! اگر آپ اپنی اس چادر سے بڑی چادرلے لیں ! انھوں نے فرمایا : اے میرے بیٹے ! یہ بات نہ کہہ۔ خدا کی قسم ! زمین پر جو طیب لقمہ بھی میں کھاتا ہوں تو میرا دل چاہتا ہے کہ وہ بھی میرے مبغوض ترین انسان کے منہ میں چلا جائے۔

36122

(۳۶۱۲۳) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ التَّیْمِیِّ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : خَرَجَ إِلَی الْبَصْرَۃِ فَاشْتَرَی رَقِیقًا بِأَرْبَعَۃِ آلاَفٍ ، قَالَ : فَبَنَوْا لَہُ دَارِہِ ، ثُمَّ بَاعَہُمْ بِرِبْحٍ أَرْبَعَۃِ آلاَفٍ ، قَالَ : فَقُلْتُ لَہُ : یَا أَبَتِ لَوْ أَنَّک عَمَدْت إِلَی الْبَصْرَۃِ فَاشْتَرَیْت مِثْلَ ہَؤُلاَئِ فَرَبِحْت فِیہِمْ ، فَقَالَ : لاَ تَقُلْ لِی ہَذَا ، فَوَاللہِ مَا فَرِحْت بِہَا حِینَ أَصَبْتہَا ، وَلاَ حَدَّثْت نَفْسِی بِأَنْ أَرْجِعَ فَأُصِیبَ مِثْلَہَا۔
(٣٦١٢٣) حضرت ابراہیم تیمی، اپنے والد سے روایت کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ والد صاحب بصرہ گئے اور انھوں نے چار ہزار میں غلام خریدا۔ پھر اسے چار ہزار کے نفع کے ساتھ بیچ دیا۔ میں نے ان سے کہا ابا جان ! اگر آپ بصرہ جائیں اور غلاموں کی خریدو فروخت کریں تو خوب نفع ہوگا۔ انھوں نے کہا کہ مجھ سے ایسی بات نہ کہو۔ واللہ مجھے یہ نفع حاصل کر کے خوشی نہیں ہوئی اور نہ ہی میرے دل میں اس طرح کا اور نفع حاصل کرنے کی امنگ پیدا ہوئی ہے۔

36123

(۳۶۱۲۴) حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمُحَارِبِیُّ، عَنْ لَیْثٍ، عَنْ مُجَاہِدٍ، عَنْ یَزِیدَ بْنِ شَجَرَۃَ، قَالَ: مَا مِنْ مَیِّتٍ یَمُوتُ حَتَّی یُمَثَّلَ لَہُ جُلَسَاؤُہُ عِنْدَ مَوْتِہِ ، إنْ کَانُوا أَہْلَ لَہْوٍ فَأَہْلُ لَہْوٍ ، وَإِنْ کَانُوا أَہْلَ ذِکْرٍ فَأَہْلُ ذِکْرٍ۔
(٣٦١٢٤) حضرت یزید بن شجرہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ جو میت بھی مرتا ہے تو اس کے ہم مجلس اس کے سامنے متمثل ہوجاتے ہیں۔ اگر وہ اہل لہو ہوں تو اہل لہو۔ اور اگر اہل ذکر سے ہوں تو اہل ذکر۔

36124

(۳۶۱۲۵) حَدَّثَنَا الْمُحَارِبِیُّ ، عَنْ لَیْثٍ ، عن مجاہد عَنِ ابْنِ شَجَرَۃَ ، قَالَ : یَقُولُ الْقَبْرُ لِلرَّجُلِ الْکَافِرِ ، أَوِ الْفَاجِرِ : أَمَا ذَکَرْت ظُلْمَتِی ؟ أَمَا ذَکَرْت وَحْشَتِی ؟ أَمَا ذَکَرْت ضِیقِی ؟ أَمَا ذَکَرْت غَمِّی ؟۔
(٣٦١٢٥) حضرت ابن شجرہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ قبر کافر آدمی سے یا فاجر آدمی سے کہتی ہے کیا تمہیں میری ظلمت یاد نہیں ہے ؟ کیا تمہیں میری وحشت یاد نہیں ہے ؟ کیا تمہیں میری تنگی یاد نہیں ہے ؟ کیا تمہیں میرا غم یاد نہیں ؟ “

36125

(۳۶۱۲۶) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، عَنْ یَزِیدَ بْنِ شَجَرَۃَ ، قَالَ : کَانَ یَقُصُّ وَکَانَ یُصَدِّقُ فِعْلُہُ قَوْلَہُ۔
(٣٦١٢٦) حضرت یزید بن شجرہ کے بارے میں روایت ہے وہ قصہ بیان کرتے تھے اور ان کا فعل ان کے قول کی تصدیق کرتا تھا۔

36126

(۳۶۱۲۷) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ عَمِّہِ ، عَنْ کُرْدُوسٍ ، قَالَ : کَانَ یَقُصُّ عَلَیْنَا غَدْوَۃً وَعَشِیَّۃً وَیَقُولُ : إنَّ الْجَنَّۃَ لاَ تُنَالُ إِلاَّ بِعَمَلٍ لَہَا ، اخْلِطُوا الرَّغْبَۃَ بِالرَّہْبَۃِ ، وَدُومُوا عَلَی صَلاَحٍ ، وَاتَّقُوا اللَّہَ بِقُلُوبٍ سَلِیمَۃٍ وَأَعْمَالٍ صَالِحَۃٍ ، وَیُکْثِرُ أَنْ یَقُولَ : مَنْ خَافَ أَدْلَجَ۔
(٣٦١٢٧) حضرت کردوس سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ آپ ہمیں صبح وشام واقعات سنایا کرتے تھے اور فرماتے تھے۔ بیشک جنت، جنت کے عمل کے بغیر حاصل نہیں کی جاسکتی۔ رغبت کو خوف کے ساتھ ملائے رکھو۔ اچھے کاموں پر مداومت رکھو۔ اور اللہ تعالیٰ سے سلیم قلوب اور صالح اعمال کے ہمراہ ڈرتے رہو۔ اور آپ بکثرت یہ فرمایا کرتے تھے : جو ڈرتا ہے وہ جلدی اندھیرے میں ہی چل پڑتا ہے۔

36127

(۳۶۱۲۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ أَبِی حَیَّانَ ، عَنْ أَبِی الزِّنْبَاعِ ، عَنْ أَبِی الدِّہْقَانِ ، قَالَ : بَیْنَمَا شَابٌّ یَمْشِی مَعَ الأَحْنَفِ ، فَقَالَ لَہُ : یَا ابْنَ أَخِی ، إذَا عُرِضَ لَک الْحَقُّ فَاقْصِدْ لَہُ وَالْہَ عَمَّا سِوَاہُ۔
(٣٦١٢٨) حضرت ابودہقان سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ ایک جوان حضرت احنف کے ہمراہ چلا جارہا تھا تو آپ نے اس کو کہا : اے برادر زادہ ! جب حق تمہارے سامنے آجائے تو پھر تم اس کا ارادہ کرلو اور اس کے ماسوا سے غافل ہوجاؤ۔

36128

(۳۶۱۲۹) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا مِسْعَرٌ ، قَالَ : حَدَّثَنَا حَبِیبُ بْنُ أَبِی ثَابِتٍ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ جَعْدَۃَ ، قَالَ : کَانَ یُقَالَ : اعْمَلْ وَأَنْتَ مُشْفِقٌ وَدَعَ الْعَمَلَ وَأَنْتَ تَشْتَہِیہِ ، عَمَلٌ صَالِحٌ قَلِیلٌ تَدُومُ عَلَیْہِ۔
(٣٦١٢٩) حضرت یحییٰ بن جعدہ سے روایت ہے کہ وہ کہا کرتے تھے تم عمل کرو درآنحالیکہ تم ڈر رہے ہو اور عمل کو چھوڑ دو جبکہ تمہیں اس کی چاہت ہو۔ عمل صالح تھوڑا بھی ہو تم اس پر مداومت کرو۔

36129

(۳۶۱۳۰) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ ، وَابْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ حَبِیبٍ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ جَعْدَۃَ ، قَالَ یَحْیَی : إذَا سَجَدَ ، وَقَالَ ابْنُ مَہْدِیٍّ : إذَا وَضَعَ الرَّجُلُ جَبْہَتَہُ فَقَدْ بَرِئَ مِنَ الْکِبْرِ۔
(٣٦١٣٠) حضرت یحییٰ بن جعدہ سے روایت ہے حضرت یحییٰ کہتے ہیں جب آدمی سجدہ کرے اور حضرت ابن مہدی کہتے ہیں جب آدمی اپنی پیشانی کو رکھ دیتا ہے تو وہ تکبر سے بری ہوجاتا ہے۔

36130

(۳۶۱۳۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، قَالَ : سَمِعْتہمْ یَذْکُرُونَ ، عَنْ شُرَیْحٍ ، أَنَّہُ رَأَی جِیرَانًا لَہُ تَحَوَّلُوا ، فَقَالَ : مَا لَکُمْ ؟ قَالُوا : فَرَغْنَا ، قَالَ : وَبِہَذَا أُمِرَ الفارغ۔
(٣٦١٣١) حضرت اعمش سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے لوگوں کو حضرت شریح کے حوالہ سے ذکر کرتے سنا کہ انھوں نے اپنے ایک پڑوسی کو دیکھا جو جارہے تھے۔ پوچھا : تمہیں کیا ہوا ہے ؟ انھوں نے کہا : ہم فارغ ہوگئے ہیں۔ شریح نے کہا : فارغ آدمی کو یہی حکم ہے ؟ “

36131

(۳۶۱۳۲) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ ہَارُونَ بْنِ أَبِی إِبْرَاہِیمَ ، عَن عَبْدِ اللہِ بْنِ عُبَیْدِ بْنِ عُمَیْرٍ ، قَالَ : إنَّ أَیْسَرَ النُّسُکِ اللِّبَاسُ وَالْمَشْیَۃُ۔
(٣٦١٣٢) حضرت عبداللہ بن عبید سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ بیشک آسان ترین قربانی لباس اور چال ہے۔

36132

(۳۶۱۳۳) حَدَّثَنَا عَفَّانُ بْنُ مُسْلِمٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا أَبُو عَوَانَۃَ ، قَالَ : حدَّثَنَا أَبُو سِنَانٍ ، قَالَ : اشْتَکَی عَبْدُ اللہِ بْنُ أَبِی الْہُذَیْلِ یَوْمًا ذُنُوبَہُ ، فَقَالَ لَہُ رَجُلٌ : یَا أَبَا الْمُغِیرَۃِ ، أَلَسْت التَّقِیَّ ، قَالَ : فَقَالَ : اللَّہُمَّ إنَّ عَبْدَک ہَذَا أَرَادَ أَنْ یَتَقَرَّبَ إلَیَّ وَإِنِّی أُشْہِدُک عَلَی مَقْتِہِ۔
(٣٦١٣٣) حضرت ابوسنان بیان کرتے ہیں کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن ابوالہذیل ایک دن اپنے گناہوں کی شکایت کررہے تھے تو ان سے ایک آدمی نے کہا : اے ابوالمغیرہ ! کیا تم متقی نہیں ہو۔ راوی کہتے ہیں انھوں نے کہا : اے اللہ ! تیرا ایک بندہ میرے قریب ہو رہا ہے اور میں تجھے اس کے غصہ پر گواہ بناتا ہوں۔

36133

(۳۶۱۳۴) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ بْنُ أَبِی خَالِدٍ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ عُمَیْرٍ ، عَنْ رِبْعِیِّ بْنِ حِرَاشٍ ، قَالَ : أُتِیتُ فَقِیلَ لِی : قَدْ مَاتَ أَخُوک ، فَجِئْت سَرِیعًا وَقَدْ سُجِّیَ بِثَوْبِہِ ، فَأَنَا عِنْدَ رَأْسِ أَخِی أَسْتَغْفِرُ لَہُ وَأَسْتَرْجِعُ إذْ کُشِفَ الثَّوْبُ عَنْ وَجْہِہِ ، فَقَالَ : السَّلاَمُ عَلَیْکُمْ ، فَقُلْنَا : وَعَلَیْک السَّلاَمُ سُبْحَانَ اللہِ ، قَالَ : سُبْحَانَ اللہِ إنِّی قَدِمْت عَلَی اللہِ بَعْدَکُمْ فَتُلُقِّیت بِرَوْحٍ وَرَیْحَانٍ وَرَبٍّ غَیْرِ غَضْبَانَ ، وَکَسَانِی ثِیَابًا خُضْرًا مِنْ سُنْدُسٍ وَإِسْتَبْرَقٍ ، وَوَجَدْت الأَمْرَ أَیْسَرَ مِمَّا تَظُنُّونَ ، وَلاَ تَتَّکِلُوا ، وَإِنِّی أَسْتَأْذَنْت رَبِّی أن أُخْبِرُکُمْ وَأُبَشِّرُکُمْ ، احْمِلُونِی إِلَی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَإِنَّہُ عَہِدَ إلَیَّ أَنْ لاَ أَبْرَحَ حَتَّی آتِیَہُ ، ثُمَّ طَفِئَ مَکَانُہُ ، قَالَ : وَأَخَذَ حَصَاۃً فَرَمَی بِہَا ، قَالَ : فَمَا أَدْرِی أَہُوَ کَانَ أَسْرَعَ أَمْ ہَذِہِ۔
(٣٦١٣٤) حضرت ربعی بن حراش سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میرے پاس کوئی آیا اور مجھے کہا تمہارا بھائی مرگیا ہے۔ پس میں جلدی سے آیا۔ اس کو اس کے کپڑوں میں ڈھانپ دیا گیا تھا اور میں اپنے بھائی کے سر کے پاس کھڑا اس کے لیے استغفار کررہا تھا۔ اور انا للہ پڑھ رہا تھا کہ اچانک اس کے چہرے سے کپڑا ہٹا اور اس نے کہا : السلام علیکم ! ہم نے جواب میں کہا۔ وعلیک السلام۔ سبحان اللہ۔ اس نے کہا : سبحان اللہ۔ میں تمہارے بعد اللہ کے پاس حاضر ہوا تھا۔ وہاں میرا استقبال باد نسیم اور ریحان کے ساتھ اور ایسے پروردگار نے کیا جو غصہ میں نہیں تھا۔ اور مجھے سندس اور ریشم کا سبز لباس پہنایا۔ اور میں نے تمہارے گمان سے بھی آسان معاملہ پایا۔ اور تم بھروسہ کر کے نہ بیٹھ جاؤ۔ میں نے اپنے رب سے اس بات کی اجازت لی ہے کہ میں تمہیں خبر دوں اور بشارت دوں۔ تم مجھے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف لے چلو۔ کیونکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے میرے ساتھ عہد کیا ہے کہ میں تمہارے آنے تک یہیں رہوں گا۔ پھر یہ صاحب اسی جگہ فوت ہوگئے۔ راوی کہتے ہیں اس نے ایک کنکری پکڑی اور پھینک دی۔ راوی کہتے ہیں۔ مجھے یہ بات معلوم نہیں ہے کہ وہ زیادہ تیز تھے یا یہ۔

36134

(۳۶۱۳۵) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا مِسْعَرٌ ، عَنْ أَبِی عَوْنٍ ، قَالَ : کَانَ أَہْلُ الْخَیْرِ إذَا الْتَقَوْا یُوصِی بَعْضُہُمْ بَعْضًا بِثَلاَثٍ ، وَإِذَا غَابُوا کَتَبَ بَعْضُہُمْ إِلَی بَعْضٍ مَنْ عَمِلَ لآخِرَتِہِ کَفَاہُ اللَّہُ دُنْیَاہُ ، وَمَنْ أَصْلَحَ فِیمَا بَیْنَہُ وَبَیْنَ اللہِ کَفَاہُ اللَّہُ النَّاسَ ، وَمَنْ أَصْلَحَ سَرِیرَتَہُ أَصْلَحَ اللَّہُ عَلاَنِیَتَہُ۔
(٣٦١٣٥) حضرت ابوعون سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ اہل خیر جب باہم ملتے تھے تو ان میں سے بعض، بعض کو تین باتوں کی وصیت کرتے تھے اور جب یہ غائب ہوتے تو پھر ایک دوسرے کو یہ تحریر کرتے۔ جو شخص اپنی آخرت کے لیے عمل کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی دنیا کے لیے اس کو کافی ہوجاتے ہیں۔ جو شخص اپنے اور اپنے اللہ کے درمیان معاملہ درست رکھتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو لوگوں کی طرف سے کفایت کرجاتے ہیں۔ جو شخص اپنی خلوت کو درست رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کی جلوت کو درست کردیتے ہیں۔

36135

(۳۶۱۳۶) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ آدَمَ ، قَالَ : حدَّثَنَا قُطْبَۃُ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ سِنَانٍ ، أَنَّہُ رَأَی صَاحِبًا لَہُ فِی النَّوْمِ ، فَقَالَ : أَیُّ شَیْئٍ رَأَیْت أَفْضَلَ حِینَ اطَّلَعْت الأَمْرَ ، قَالَ : سَجَدَاتُ الْمَسْجِدِ۔
(٣٦١٣٦) حضرت عبداللہ بن سنان سے روایت ہے کہ انھوں نے اپنے ایک دوست کو خواب میں دیکھا۔ تو اس سے پوچھا جب تم نے معاملہ دیکھا تو کون سی چیز تمہیں سب سے افضل نظر آئی ؟ انھوں نے کہا : مسجد کے چند سجدے۔

36136

(۳۶۱۳۷) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ طُعْمَۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عِیسَی ، قَالَ : کَانَ فِیمَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ رَجُلٌ عَبَدَ اللَّہَ أَرْبَعِینَ سَنَۃً فِی الْبَرِّ ، ثُمَّ قَالَ : یَا رَبِّ قَدَ اشْتَقْت أَنْ أَعْبُدَک فِی الْبَحْرِ ، فَأَتَی قَوْمٌ فَاسْتَحْمَلَہُمْ فَحَمَلُوہُ ، وَجَرَتْ بِہِمْ سَفِینَتُہُمْ مَا شَائَ اللَّہُ أَنْ تَجْرِیَ ، ثُمَّ قَامَتْ فَإِذَا شَجَرَۃٌ فِی نَاحِیَۃِ الْمَائِ ، قَالَ : فَقَالَ : ضَعُونِی عَلَی ہَذِہِ الشَّجَرَۃِ ، قَالَ : فَقَالُوا : مَا یُعَیِّشُک عَلَی ہَذِہِ ، قَالَ : إنَّمَا اسْتَحْمَلْتُکُمْ فَضَعُونِی حَیْثُ أُرِیدُ ، فَوَضَعُوہُ وَجَرَتْ بِہِمْ سَفِینَتُہُمْ ، فَأَرَادَ مَلَکٌ أَنْ یَعْرُجَ إِلَی السَّمَائِ فَتَکَلَّمَ بِکَلاَمِہِ الَّذِی کَانَ یَعْرُجُ بِہِ فَلَمْ یَقْدِرْ عَلَی ذَلِکَ ، فَعَلِمَ ، أَنَّ ذَلِکَ لِخَطِیئَۃٍ کَانَتْ مِنْہُ ، فَأَتَی صَاحِبُ الشَّجَرَۃِ فَسَأَلَہُ أَنْ یَشْفَعَ لَہُ إِلَی رَبِّہِ ، قَالَ : فَصَلَّی وَدَعَا لِلْمَلَکِ ، قَالَ وَطَلَبَ إِلَی رَبِّہِ أَنْ یَکُونَ ہُوَ یَقْبِضُ نَفْسَہُ لِیَکُونَ أَہْوَنَ عَلَیْہِ مِنْ مَلَکِ الْمَوْتِ ، فَأَتَاہُ حِینَ حَضَرَ أَجَلُہُ ، فَقَالَ : إنِّی طَلَبْت إِلَی رَبِّی أَنْ یُشَفِّعَنِی فِیک کَمَا شَفَّعَک فِی ، وَأَنْ أَکُونَ أَنَا أَقْبِضُ نَفْسَک ، فَمِنْ حَیْثُ شِئْت قَبَضْتہَا ، قَالَ : فَسَجَدَ سَجْدَۃً فَخَرَجَتْ دَمْعَۃٌ مِنْ عَیْنِہِ فَمَاتَ۔
(٣٦١٣٧) حضرت عبداللہ بن عیسیٰ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں تم سے پہلے لوگوں میں ایک آدمی تھا جس نے چالیس سال تک خشکی میں اللہ کی عبادت کی۔ پھر اس نے دعا کی۔ اے پروردگار ! میں سمندر میں آپ کی عبادت کرنے کا شوق رکھتا ہوں۔ چنانچہ کچھ لوگ آئے اور اس نے ان سے سوار کرنے کو کہا : انھوں نے اس کو (کشتی میں) سوار کرلیا۔ پھر جب تک خدا کی مشیت تھی کشتی انھیں لے کر چلتی رہی۔ پھر کشتی ٹھہر گئی۔ وہاں پانی کے کنارے میں ایک درخت تھا۔ راوی کہتے ہیں اس آدمی نے (کشی والوں سے) کہا : مجھے اس درخت کے پاس اتار دو ۔ راوی کہتے ہیں : لوگوں نے کہا : تم اس جگہ کیسے زندہ رہو گے ؟ اس نے کہا : میں نے تمہیں اجرت پر اٹھانے کو کہا تھا پس جہاں میرا دل چاہے تم مجھے وہیں اتارو۔ چنانچہ ان لوگوں نے اس کو وہاں اتار دیا اور کشتی بقایا لوگوں کو لے کر پھر چل پڑی۔ پھر ایک فرشتے نے آسمان پر چڑھنا چاہا اور اس نے وہ کلمات پڑھے جن کے ذریعہ وہ آسمان پر چڑھتا تھا لیکن وہ آسمان پر نہ چڑھ سکا۔ اسے معلوم ہوا کہ یہ اس کی کسی غلطی کا نتیجہ ہے۔ چنانچہ وہ درخت والے کے پاس آیا اور اس سے کہا کہ وہ اس کے پروردگار کے پاس اس کی سفارش کرے۔ راوی کہتے ہیں۔ اس آدمی نے نماز پڑھی اور فرشتے کے لیے دعا کی۔ راوی کہتے ہیں : اس عابد نے خدا سے یہ دعا بھی کی کہ اس کی روح یہ فرشتہ قبض کرے تاکہ ملک الموت سے ہلکی تکلیف ہو۔ چنانچہ جب اس آدمی کی موت آئی تو یہ فرشتہ حاضر ہوا اور اس نے کہا میں نے اپنے رب سے یہ درخواست کی ہے کہ وہ تیرے بارے میں میری بھی شفاعت قبول کریں جس طرح انھوں نے میرے بارے میں تیری شفاعت قبول کی تھی اور یہ کہ میں ہی تمہاری روح قبض کروں۔ پس جیسے تم چاہو گے میں تمہاری روح قبض کروں گا۔ راوی کہتے ہیں پھر اس عابد نے سجدہ کیا اور اس کی آنکھ سے آنسو نکلا اور وہ مرگیا۔

36137

(۳۶۱۳۸) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ حُصَیْنٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، عَنْ عُبَیْدِ بْنِ عُمَیْرٍ ، قَالَ : کَانَ یَقُولُ : إذَا جَائَ الشِّتَائُ یَا أَہْلَ الْقُرْآنِ طَالَ اللَّیْلُ لِصَلاَتِکُمْ وَقَصُرَ النَّہَارُ لِصِیَامِکُمْ فَاغْتَنِمُوا۔
(٣٦١٣٨) حضرت عبید بن عمیر سے روایت ہے جب سردی کا موسم آتا تو وہ کہتے اے اہل قرآن ! تمہاری نمازوں کے لیے رات لمبی ہوگئی ہے اور تمہارے روزوں کے لیے دن چھوٹا ہوگیا ہے۔ پس تم غنیمت سمجھو۔

36138

(۳۶۱۳۹) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، عَنْ عُبَیْدِ بْنِ عُمَیْرٍ ، قَالَ : مَا کَانَ الْمُجْتَہِدُ فِیکُمْ إِلاَّ کَاللاَّعِبِ فِیمَنْ مَضَی۔
(٣٦١٣٩) حضرت عبید بن عمیر سے روایت ہے وہ کہتے ہیں تم میں سے جو خوب محنت کرنے والا ہے وہ پہلے لوگوں میں سے کھیلنے والے کی طرح ہے۔

36139

(۳۶۱۴۰) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنْ عُبَیْدِ بْنِ عُمَیْرٍ ، قَالَ : إنَّ أَہْلَ الْقُبُورِ لیَتَوَقَّعُونَ الأَخْبَارَ ، فَإِذَا لَمْ تَأْتِہِمْ ، قَالُوا : إنَّا لِلَّہِ وَإِنَّا إلَیْہِ رَاجِعُونَ ، سُلِکَ بِہِ غَیْرُ طَرِیقِنَا۔
(٣٦١٤٠) حضرت عبید بن عمیر سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ بیشک قبروں والے خبروں کے منتظر رہتے ہیں۔ پھر جب ان کے پاس خبریں نہیں آتیں تو وہ انا للہ وانا الیہ راجعون کہتے ہیں۔ یہ ہمارے راستہ کے علاوہ پر چل پڑے ہیں۔

36140

(۳۶۱۴۱) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنْ عُبَیْدِ بْنِ عُمَیْرٍ ، قَالَ : یُؤْتَی بِالرَّجُلِ الْعَظِیمِ الطَّوِیلِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ فَیُوضَعُ فِی الْمِیزَانِ ، فَلاَ یَزِنُ عِنْدَ اللہِ جَنَاحَ بَعُوضَۃٍ وَقَرَأَ : {فَلاَ نُقِیمُ لَہُمْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَزْنًا}۔
(٣٦١٤١) حضرت بعید بن عمیر سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ قیامت کے دن ایک بڑے لمبے آدمی کو لایا جائے گا اور اس کو میزان میں رکھا جائے گا تو اللہ کے ہاں اس کا وزن مچھر کے پر جتنا بھی نہیں ہوگا۔ پھر آپ نے یہ آیت پڑھی : { فَلاَ نُقِیمُ لَہُمْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَزْنًا }۔

36141

(۳۶۱۴۲) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنْ عُبَیْدِ بْنِ عُمَیْرٍ : {لِکُلِّ أَوَّابٍ حَفِیظٍ} قَالَ : الَّذِی لاَ یَجْلِسُ مَجْلِسًا ، ثُمَّ یَقُومُ إِلاَّ اسْتَغْفَرَ اللَّہَ۔
(٣٦١٤٢) حضرت عبید بن عمیر سے قرآن مجید کی آیت { لِکُلِّ أَوَّابٍ حَفِیظٍ } کے بارے میں منقول ہے۔ وہ کہتے ہیں یہ اس آدمی کے بارے میں ہے جو کسی بھی مجلس میں بیٹھے پھر اٹھے تو اللہ سے معافی کا طلبگار رہے۔

36142

(۳۶۱۴۳) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنْ عُبَیْدِ بْنِ عُمَیْرٍ ، قَالَ : مِنْ صِدْقِ الإِیمَانِ وَبِرِّہِ إسْبَاغُ الْوُضُوئِ فِی الْمَکَارِہِ وَمِنْ صِدْقِ الإِیمَانِ وَبِرِّہِ أَنْ یَخْلُوَ الرَّجُلُ بِالْمَرْأَۃِ الْحَسْنَائِ فَیَدَعَہَا ، لاَ یَدَعُہَا إِلاَّ لِلَّہِ۔
(٣٦١٤٣) حضرت عبید بن عمیر سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ ایمان کی سچائی اور نیکی میں سے یہ بات ہے کہ ناپسندیدہ اوقات میں وضو کو خوب اچھی طرح کرنا۔ ایمان کی سچائی اور نیکی میں سے یہ بات ہے کہ آدمی کسی حسین عورت کے ساتھ خلوت میں ہو پھر اس کو چھوڑ دے۔ اس کو صرف اللہ کے لیے چھوڑ دے۔

36143

(۳۶۱۴۴) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ ، عَنْ عُبَیْدِ بْنِ عُمَیْرٍ فِی قَوْلِہِ : {عُتُلٍّ بَعْدَ ذَلِکَ زَنِیمٍ} قَالَ : ہُوَ الأَکُولُ الشَّرُوبُ الْقَوی الشَّدِیدُ یُوزَنُ فَلاَ یَزِنُ شَعِیرَۃً ، یَدْفَعُ الْمَلَکُ مِنْ أُولَئِکَ سَبْعِینَ أَلْفًا دَفْعَۃً وَاحِدَۃً فِی جَہَنَّمَ۔
(٣٦١٤٤) حضرت عبید بن عمیر سے ارشادِ خداوندی { عُتُلٍّ بَعْدَ ذَلِکَ زَنِیمٍ } کے بارے میں روایت ہے وہ کہتے ہیں یہ زیادہ کھانے والا اور زیادہ پینے والا ہے۔ طاقتور اور سخت جان لیکن وزن کیا جائے تو وہ جو کے وزن کے برابر بھی نہیں ہوتا۔ فرشتہ اس جیسے ستر لوگوں کو ایک ہی مرتبہ میں جہنم میں پھینک دے گا۔

36144

(۳۶۱۴۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، عَنْ عُبَیْدِ بْنِ عُمَیْرٍ {لِکُلِّ أَوَّابٍ حَفِیظٍ} قَالَ : الَّذِی یَذْکُرُ ذُنُوبَہُ فِی الْخَلاَئِ فَیَسْتَغْفِرُہَا۔
(٣٦١٤٥) حضرت عبید بن عمیر سے { لِکُلِّ أَوَّابٍ حَفِیظٍ } کے بارے میں روایت ہے وہ کہتے ہیں : یہ وہ آدمی ہے جو اپنے گناہوں کو خلوت میں یاد کرتا ہے پھر ان پر استغفار کرتا ہے۔

36145

(۳۶۱۴۶) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، عَنْ عُبَیْدِ بْنِ عُمَیْرٍ {کُلَّ یَوْمٍ ہُوَ فِی شَأْنٍ} قَالَ : مِنْ شَأْنِہِ أَنْ یَفُکَّ عَانِیًا ، أَوْ یُجِیبَ دَاعِیًا ، أَوْ یَشْفِیَ سَقِیمًا ، أَوْ یُعْطِیَ سَائِلاً۔
(٣٦١٤٦) حضرت عبید بن عمیر سے { کُلَّ یَوْمٍ ہُوَ فِی شَأْنٍ } کے بارے میں روایت ہے وہ کہتے ہیں : اس کی شان میں سے یہ بات ہے کہ وہ قیدی کو رہائی دیتا ہے یا دعا کرنے والے کی قبول کرتا ہے، یا بیمار کو شفا دیتا ہے یا سوال کرنے والے کو عطا کرتا ہے۔

36146

(۳۶۱۴۷) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، عَنْ عُبَیْدِ بْنِ عُمَیْرٍ ، قَالَ : إنَّکُمْ مَکْتُوبُونَ عِنْدَ اللہِ بِأَسْمَائِکُمْ وَسِیمَاکُمْ ومجالسکم وَحُلاَکُمْ۔
(٣٦١٤٧) حضرت عبید بن عمیر سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ تم اللہ کے ہاں، اپنے ناموں، اپنی نشانیوں، اپنے ہم مجلسوں اور اپنے ظاہری حلیوں سمیت لکھے ہوئے ہو۔

36147

(۳۶۱۴۸) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، عَنْ عُبَیْدِ بْنِ عُمَیْرٍ فِی قَوْلِ اللہِ {مَسَّتْہُمُ الْبَأْسَائُ وَالضَّرَّائُ} قَالَ : الْبَأْسَائُ : الْبُؤْسُ ، وَالضَّرَّائُ : الضُّرُّ ، ثُمَّ قَالَ : السَّرَّائُ : الرَّخَائُ ، وَالضَّرَّائُ : الشِّدَّۃُ۔
(٣٦١٤٨) حضرت عبید بن عمیر سے ارشاد خداوندی { مَسَّتْہُمُ الْبَأْسَائُ وَالضَّرَّائُ } کے بارے میں روایت ہے۔ الباساء سے مراد فقر ہے اور الضراء سے مراد تکلیف ہے۔ پھر فرمایا : السراء سے مراد نرمی ہے اور الضراء سے مراد سختی ہے۔

36148

(۳۶۱۴۹) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ رَجُلٍ ، عَنْ عُبَیْدِ بْنِ عُمَیْرٍ ، قَالَ : کَانَ لِرَجُلٍ ثَلاَثَۃُ أَخِلاَّئِ بَعْضُہُمْ أَخَصُّ بِہِ مِنْ بَعْضٍ ، قَالَ : فَنَزَلَتْ بِہِ نَازِلَۃٌ فَلَقِیَ أَخَصَّ الثَّلاَثَۃِ بِہِ ، فَقَالَ : یَا فُلاَنُ ، إِنَّہُ قَدْ نَزَلَ بِی کَذَا وَکَذَا ، وَإِنِّی أُحِبُّ أَنْ تُعِینَنِی ، قَالَ : مَا أَنَا بِالَّذِی أَفْعَلُ ، فَانْطَلَقَ إِلَی الَّذِی یَلِیہِ فِی الْخَاصَّۃِ ، فَقَالَ : یَا فُلاَنُ ، إِنَّہُ قَدْ نَزَلَ بِی کَذَا وَکَذَا ، فَأَنَا أُحِبُّ أَنْ تُعِینَنِی ، فَقَالَ : أَنْطَلِقُ مَعَک حَتَّی تَبْلُغَ الْمَکَانَ الَّذِی تُرِیدُ، فَإِذَا بَلَغْتَ رَجَعْتُ وَتَرَکْتُک ، فَانْطَلَقَ إِلَی أَخَسِّ الثَّلاَثَۃِ ، فَقَالَ : یَا فُلاَنُ ، إِنَّہُ قَدْ نَزَلَ بِی کَذَا وَکَذَا فَأَنَا أُحِبُّ أَنْ تُعِینَنِی ، قَالَ : أَنَا أَذْہَبُ مَعَک حَیْثُمَا ذَہَبْت ، وَأَدْخُلُ مَعَک حَیْثُمَا دَخَلْت ، قَالَ : فَأَمَّا الأَوَّلُ فَمَالُہُ ، خَلَفَہُ فِی أَہْلِہِ فَلَمْ یَتْبَعْہُ مِنْہُ شَیْئٌ ، وَالثَّانِی أَہْلُہُ وَعَشِیرَتُہُ ذَہَبُوا بِہِ إِلَی قَبْرِہِ ، ثُمَّ رَجَعُوا وَتَرَکُوہُ ، وَالثَّالِثُ عَمَلُہُ ہُوَ حَیْثُمَا ذَہَبَ وَیَدْخُلُ مَعَہُ حَیْثُ مَا دَخَلَ۔
(٣٦١٤٩) حضرت عبید بن عمیر سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی کے تین دوست تھے۔ ان میں سے بعض، بعض سے زیادہ خاص تھے۔ آپ (رض) کہتے ہیں : پس اس آدمی پر کوئی مصیبت نازل ہوگئی۔ چنانچہ وہ اپنے دوستوں میں سے خاص ترین کو ملا اور کہا : اے فلاں ! مجھ پر ایسی ایسی مصیبت اتری ہے اور میں تم سے مدد لینا پسند کرتا ہوں۔ اس دوست نے کہا : میں تو یہ کام نہیں کرتا۔ پس یہ آدمی اس کے بعد والے خاص دوست کے پاس چلا گیا اور کہا : اے فلاں ! مجھ پر ایسی ایسی مصیبت اتری ہے۔ اور میں تم سے مدد لینا پسند کرتا ہوں۔ اس دوست نے کہا : میں تمہارے ساتھ وہاں تک چلوں گا جہاں تم جانا چاہو۔ پھر جب تم پہنچ جاؤ گے تو میں واپس آجاؤں گا تمہیں چھوڑ دوں گا۔ پھر یہ آدمی سب سے گھٹیا دوست کے پاس چلا گیا اور کہا : اے فلاں ! معاملہ کچھ یوں ہے کہ مجھ پر ایسی ایسی مصیبت اتری ہے میں آپ کی مدد لینا چاہتا ہوں۔ اس دوست نے کہا : میں تمہارے ساتھ جاؤں گا جہاں تم جاؤ گے اور جہاں تم داخل ہوگے وہاں میں داخل ہوگا۔ حضرت عبید فرماتے ہیں : پس پہلا دوست اس کا مال ہے جس کو اس نے اپنے گھر والوں میں چھوڑ دیا ہے۔ اس مال میں سے کوئی چیز اس کے پیچھے نہیں گئی۔ دوسرا دوست اس کے اہل و خاندان ہے جو اس کے ساتھ اس کی قبر تک جاتے ہیں پھر اس کو چھوڑ کر واپس آجاتے ہیں۔ تیسرا دوست اس کے عمل ہیں جو اس کے ساتھ ہیں جہاں وہ جائے گا اور اس کے ساتھ اندر جائیں گے جہاں وہ داخل ہوں گے۔

36149

(۳۶۱۵۰) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنْ عُبَیْدِ بْنِ عُمَیْرٍ {یَوْمَ یَأْتِی بَعْضُ آیَاتِ رَبِّک} قَالَ : طُلُوعُ الشَّمْسِ مِنْ مَغْرِبِہَا۔
(٣٦١٥٠) حضرت عبید بن عمیر سے روایت ہے وہ { یَوْمَ یَأْتِی بَعْضُ آیَاتِ رَبِّک } کی تفسیر میں فرماتے ہیں : سورج کا غروب کی جگہ سے طلوع ہونا۔

36150

(۳۶۱۵۱) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَطَائٍ ، عَنْ عُبَیْدِ بْنِ عُمَیْرٍ ، قَالَ : إنَّ اللَّہَ أَحَلَّ وَحَرَّمَ ، فَمَا أَحَلَّ فَاسْتَحِلُّوہُ ، وَمَا حَرَّمَ فَاجْتَنِبُوہُ وَتَرَکَ من ذَلِکَ أَشْیَائَ لَمْ یُحِلَّہَا وَلَمْ یُحَرِّمْہَا ، فَذَلِکَ عَفْوٌ مِنَ اللہِ عَفَاہُ ، ثُمَّ یَتْلُو : {یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا لاَ تَسْأَلُوا عَنْ أَشْیَائَ} إِلَی آخِرِ الآیَۃِ۔
(٣٦١٥١) حضرت عبید بن عمیر سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے حلال کیا ہے اور حرام کیا ہے۔ پس جس چیز کو اللہ نے حلال کیا ہے تم اس کو حلال جانو اور جس چیز کو اللہ نے حرام کیا ہے تم اس سے اجتناب کرو۔ اور ان میں سے بعض چیزوں کو اللہ تعالیٰ نے چھوڑ دیا ہے نہ ان کو حرام قرار دیا ہے اور نہ ان کو حلال قرار دیا ہے۔ یہ خدا کی طرف سے معافی ہے پھر آپ (رض) نے یہ آیت تلاوت کی : { یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا لاَ تَسْأَلُوا عَنْ أَشْیَائَ۔۔۔} آخر آیت تک۔

36151

(۳۶۱۵۲) حَدَّثَنَا ابْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ حَبِیبٍ ، عَنْ عُبَیْدِ بْنِ عُمَیْرٍ ، قَالَ : لاَ یَزَالُ للہ فِی الْعَبِدِ حَاجَۃ مَا کَانَتْ لِلْعَبْدِ إِلَی اللہِ حَاجَۃٌ۔
(٣٦١٥٢) حضرت عبید بن عمیر سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کو بھی بندہ کی تب تک ضرورت رہتی ہے جب تک بندہ خدا کی طرف حاجت مند رہتا ہے۔

36152

(۳۶۱۵۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِیزِ بْنِ رُفَیْعٍ ، عَنْ قَیْسِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ عُبَیْدِ بْنِ عُمَیْرٍ ، قَالَ : إنَّ أَہْلَ الْقُبُورِ لَیَتَوکَّفُونَ لِلْمَیِّتَ کَمَا یُتَلَقَّی الرَّاکِبُ یَسْأَلُونَہُ ، فَإِذَا سَأَلُوہُ مَا فَعَلَ فُلاَنٌ مِمَّنْ قَدْ مَاتَ ، فَیَقُولُ : أَلَمْ یَأْتِکُمْ ، فَیَقُولُونَ : إنَّا لِلَّہِ وَإِنَّا إلَیْہِ رَاجِعُونَ ذُہِبَ بِہِ إِلَی أُمِّہِ الْہَاوِیَۃِ۔
(٣٦١٥٣) حضرت عبید بن عمیر سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ بلاشبہ قبروں والے بھی میت کا اس طرح استقبال کرتے ہیں جس طرح کسی سوار کا استقبال کیا جاتا ہے۔ وہ اس سے سوال کرتے ہیں۔ پس جب وہ اس سے سوال کرتے ہیں کہ فلاں کا کیا ہوا ؟ جو لوگ مرگئے ہیں ان میں سے کسی کے بارے میں سوال کرتے ہیں۔ تو یہ میت کہتا ہے کیا وہ تمہارے پاس نہیں آیا۔ اس پر وہ کہتے ہیں : إنَّا لِلَّہِ وَإِنَّا إلَیْہِ رَاجِعُونَ ۔ اس کو اس کے ٹھکانا ہاویہ کی طرف لے جایا گیا۔

36153

(۳۶۱۵۴) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، قَالَ : حدثنا مَالِکُ بْنُ مِغْوَلٍ ، عَنِ الْفَضْلِ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُبَیْدِ بْنِ عُمَیْرٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : إنَّ الْقَبْرَ لَیَقُولُ : یَا ابْنَ آدَمَ ، مَاذَا أَعْدَدْت لِی أَلَمْ تَعْلَمْ أَنِّی بَیْتُ الْغُرْبَۃِ ، وَبَیْتُ الْوَحْدَۃِ ، وَبَیْتُ الأَکْلَۃِ ، وَبَیْتُ الدُّودِ۔
(٣٦١٥٤) حضرت عبید بن عمیر، اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ بیشک قبر کہتی ہے۔ اے ابن آدم ! تو نے میرے لیے کیا تیاری کی ہے ؟ کیا تمہیں یہ بات معلوم نہیں ہے کہ میں غربت کا گھر ہوں۔ تنہائی کا گھر ہوں۔ کیڑے مکوڑوں کا گھر ہوں ؟ “

36154

(۳۶۱۵۵) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ مُجَاہِدٍ، عَنْ عُبَیْدِ بْنِ عُمَیْرٍ، قَالَ: إنْ کَانَ نُوحٌ لَیَلْقَاہُ الرَّجُلُ مِنْ قَوْمِہِ فَیَخْنُقُہُ حَتَّی یَخِرَّ مَغْشِیًّا عَلَیْہِ، قَالَ: فَیفِیقُ حِینَ یَفِیقُ وَہُوَ یَقُولُ: رَبِّ اغْفِرْ لِقَوْمِی فَإِنَّہُمْ لاَ یَعْلَمُونَ۔
(٣٦١٥٥) حضرت عبید بن عمیر سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت نوح کو اپنی قوم میں سے ایسے آدمی سے بھی واسطہ پڑا کہ اس نے آپ (علیہ السلام) کا گلا گھونٹ دیا۔ یہاں تک کہ آپ بےہوش ہو کر گرپڑے۔ راوی کہتے ہیں : پھر آپ کو افاقہ ہوا تو آپ یہ کہہ رہے تھے۔ اے میرے پروردگار ! میری قوم کو معاف کردے کیونکہ یہ جانتے نہیں ہیں۔

36155

(۳۶۱۵۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا الأَعْمَشُ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، قَالَ : سَمِعْتہ یُحَدِّثُ ، عَنْ عُبَیْدِ بْنِ عُمَیْرٍ اللَّیْثِیِّ : إنَّ قَوْمَ نُوحٍ لَمَّا أَصَابَہُمَ الْغَرَقُ ، قَالَ : وَکَانَتْ مَعَہُمَ امْرَأَۃٌ مَعَہَا صَبِیٌّ لَہَا ، قَالَ : فَرَفَعَتْہُ إِلَی حَقْوِہَا ، فَلَمَّا بَلَغَہُ الْمَائُ رَفَعَتْہُ إِلَی صَدْرِہَا ، فَلَمَّا بَلَغَہُ الْمَائُ رَفَعَتْہُ إِلَی ثَدْیِہَا ، فَقَالَ اللَّہُ : لَوْ کُنْت رَاحِمًا مِنْہُمْ أَحَدًا رَحِمْتہَا ، یَعْنِی بِرَحْمَتِہَا الصَّبِیَّ۔
(٣٦١٥٦) حضرت عبید بن عمیر سے روایت ہے کہ حضرت نوح کی قوم پر جب غرق کا سیلاب آیا کہتے ہیں کہ ان لوگوں کے ہمراہ ایک عورت تھی جس کے پاس بچہ تھا۔ راوی کہتے ہیں : اس عورت نے بچہ کو کمر تک اوپر اٹھایا۔ جب پانی کمر تک پہنچا تو اس نے بچہ کو اپنے سینہ تک بلند کرلیا پھر جب پانی سینہ کو پہنچا تو اس نے بچہ کو اپنے پستان تک بلند کردیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : اگر میں ان لوگوں میں سے کسی پر رحم کرتا تو میں اس عورت پر رحم کرتا، یعنی اس کی طرف سے بچہ پر رحم کی وجہ سے۔

36156

(۳۶۱۵۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا الأَعْمَشُ ، عَنْ أبی سُفْیَانَ ، عَنْ عُبَیْدِ بْنِ عُمَیْرٍ ، قَالَ : إذَا أَرَادَ اللَّہُ بِعَبْدٍ خَیْرًا فَقَّہَہُ فِی الدِّینِ وَأَلْہَمَہُ رُشْدَہُ فِیہِ۔
(٣٦١٥٧) حضرت عبید بن عمیر سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ کسی بندے کے ساتھ خیر کا ارادہ کرتا ہے تو اس کو دین میں سمجھ عطا کرتا ہے اور اس کو دین کی راہنمائی القاء کرتا ہے۔

36157

(۳۶۱۵۸) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ ، عَنْ عَطَائٍ ، عَنْ عُبَیْدِ بْنِ عُمَیْرٍ ، قَالَ : إنَّ إبْرَاہِیمَ ، یُقَالَ لَہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ : ادْخُلِ الْجَنَّۃَ مِنْ أَیِّ أَبْوَابِ الْجَنَّۃِ شِئْت ، قَالَ : فَیَقُولُ : یَا رَبِّ وَالِدِی فَیُقَالَ لَہُ : إِنَّہُ لَیْسَ مِنْک ، فَإِذَا أَلَحَّ فِی الْمَسْأَلَۃِ قِیلَ لَہُ : دُونَک أَبَاک ، قَالَ : فَیَلْتَفِتُ فَإِذَا ہُوَ ضَبُعٌ فَیَقُولُ : مَا لِی فِیہِ مِنْ حَاجَۃٍ، فَتَطِیبُ نَفْسُہُ عَنْہُ ، فَیُنْطَلَقُ بِإِبْرَاہِیمَ إِلَی الْجَنَّۃِ وَیُنْطَلَقُ بِأَبِیہِ إِلَی النَّارِ۔
(٣٦١٥٨) حضرت عبید بن عمیر سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو قیامت کے دن کہا جائے گا۔ جنت کے دروازوں میں سے جس دروازے سے آپ چاہو جنت میں داخل ہوجاؤ۔ راوی کہتے ہیں : حضرت ابراہیم کہیں گے۔ اے میرے پروردگار ! میرے والد ؟ حضرت ابراہیم سے کہا جائے گا یہ تیرے ساتھ والوں میں سے نہیں ہے۔ لیکن جب حضرت ابراہیم سوال کرنے میں اصرار کریں گے تو ان سے کہا جائے گا۔ اپنے والد کو دیکھو۔ راوی کہتے ہیں پس جب وہ دیکھیں گے تو وہ بجو بنا ہوگا۔ اس پر حضرت ابراہیم کہیں گے مجھے ان کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ پھر ان کا دل ان سے بے پروا ہوجائے گا۔ اور حضرت ابراہیم جنت کی طرف لے جائے جائیں گے اور ان کے والد کو جہنم کی طرف لے جایا جائے گا۔

36158

(۳۶۱۵۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا الأَعْمَشُ ، عَنْ حَکِیمِ بْنِ جُبَیْرٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، عَنْ عُبَیْدِ بْنِ عُمَیْرٍ ، قَالَ : یَجِیئُ فُقَرَائُ الْمُہَاجِرِینَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ تَقْطُرُ رِمَاحُہُمْ وَسُیُوفُہُمْ دَمًا ، قَالَ : فَیُقَالَ لَہُمْ : کَمَا أَنْتُمْ حَتَّی تُحَاسَبُوا عَلِیہِ ، قَالَ : فَیَقُولُونَ : وَہَلْ أَعْطَیْتُمُونَا شَیْئًا تُحَاسِبُونَا عَلَیْہِ ، قَالَ : فَیُنْظَرُ فِی ذَلِکَ فَلاَ یُوجَدُ إِلاَّ أَکْوَارُہُمُ الَّتِی ہَاجَرُوا عَلَیْہَا ، قَالَ : فَیَدْخُلُونَ الْجَنَّۃَ قَبْلَ النَّاسِ بِخَمْسِ مِئَۃِ عَام۔
(٣٦١٥٩) حضرت عبید بن عمیر سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ قیامت کے دن مہاجر فقراء اس حال میں آئیں گے کہ ان کے نیزے اور ان کی تلواریں خون ٹپکا رہی ہوں گی۔ راوی کہتے ہیں ان سے کہا جائے گا۔ تم اسی حالت میں رہو یہاں تک کہ تم سے حساب لیا جائے۔ راوی کہتے ہیں وہ عرض کریں گے۔ کیا آپ نے ہمیں کچھ دیا ہے کہ جس کا آپ حساب لیں گے ؟ راوی کہتے ہیں پس اس معاملہ میں دیکھا جائے گا تو ان کے پاس صرف وہ برتن ہوں گے جن میں انھوں نے ہجرت کے سفر میں زاد راہ رکھا تھا۔ راوی کہتے ہیں پس یہ لوگ جنت میں باقی لوگوں سے پانچ سو سال قبل داخل ہوں گے۔

36159

(۳۶۱۶۰) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِی رَاشِدٍ ، عَنْ عُبَیْدِ بْنِ عُمَیْرٍ {إِنَّہُ کَانَ لِلأَوَّابِینَ غَفُورًا} الأَوَّابُ الَّذِی یَتَذَکَّرُ ذُنُوبَہُ فِی الْخَلاَئِ فَیَسْتَغْفِرُ مِنْہَا۔
(٣٦١٦٠) حضرت عبید بن عمیر سے {إِنَّہُ کَانَ لِلأَوَّابِینَ غَفُورًا } کے بارے میں روایت ہے وہ کہتے ہیں : اواب : وہ آدمی ہوتا ہے جو اپنے گناہوں کو خلوت میں یاد کرتا ہے اور پھر ان پر استغفار کرتا ہے۔

36160

(۳۶۱۶۱) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِی سُفْیَانَ ، عَنْ عُبَیْدِ بْنِ عُمَیْرٍ ، قَالَ : لَمَّا أَرَادَ اللَّہُ أَنْ یَہْلِکَ أَصْحَابَ الْفِیلِ بَعَثَ عَلَیْہِمْ طَیْرًا أُنْشِئَتْ مِنَ الْبَحْرِ أَمْثَالَ الْخَطَاطِیفِ کُلُّ طَیْرٍ مِنْہَا یَحْمِلُ ثَلاَثَۃَ أَحْجَارٍ مُجَزَّعَۃٍ : حَجَرَیْنِ فِی رِجْلَیْہِ وَحَجَرًا فِی مِنْقَارِہِ ، قَالَ فَجَائَتْ حَتَّی صَفَّتْ عَلَی رُؤُوسہمْ ، ثُمَّ صَاحَتْ وَأَلْقَتْ مَا فِی أَرْجُلِہَا وَمَنَاقِیرِہَا ، فَمَا یَقَعُ حَجَرٌ عَلَی رَأْسِ رَجُلٍ إِلاَّ خَرَجَ مِنْ دُبُرِہِ ، وَلاَ یَقَعُ عَلَی شَیْئٍ مِنْ جَسَدِہِ إِلاَّ خَرَجَ مِنَ الْجَانِبِ الآخَرِ ، قَالَ : وَبَعَثَ اللَّہُ رِیحًا شَدِیدَۃً فَضَرَبَتِ الْحِجَارَۃَ فَزَادَتْہَا شِدَّۃً فَأُہْلِکُوا جَمِیعًا۔
(٣٦١٦١) حضرت عبید بن عمیر سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ نے اصحاب الفیل کو ہلاک کرنے کا ارادہ فرمایا تو ان پر سمندر سے پیدا کردہ ابابیلوں کے مثل پرندے بھیجے۔ ان میں سے ہر ایک پرندے نے تین سفید و سیاہ پتھر اٹھائے ہوئے تھے۔ دو پتھر اس کے پنجوں میں اور ایک پتھر اس کی چونچ میں۔ آپ (رض) فرماتے ہیں : پس یہ پرندے آئے۔ یہاں تک کہ انھوں نے ان اصحاب الفیل کے سروں پر صف بنا لی پھر چیخ ماری اور اپنی چونچوں اور پنجوں میں موجود پتھروں کو گرا دیا۔ جو پتھر بھی کسی آدمی کے سر پر لگتا وہ اس کی دبر سے باہر نکل آتا اور جسم کے جس حصہ پر بھی پڑتا دوسرے حصہ سے باہر آجاتا۔ راوی کہتے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے شدید ہوا بھیجی جو پتھروں پر لگی تو اس نے (ان کی) شدت کو اور زیادہ کردیا پس وہ سارے لوگ ہلاک ہوگئے۔

36161

(۳۶۱۶۲) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ خَیْثَمَۃ، قَالَ: کَانَ، یُقَالَ: إنَّ الشَّیْطَانَ یَقُولُ: مَا غَلَبَنِی عَلَیْہِ ابْنُ آدَمَ فَلَنْ یَغْلِبَنِی عَلَی ثَلاَثٍ : أَنْ یَأْخُذَ مَالاً مِنْ غَیْرِ حَقِّہِ ، أَوْ أَنْ یَمْنَعَہُ مِنْ حَقِّہِ ، أَوْ أَنْ یَضَعَہُ فِی غَیْرِ حَقِّہِ۔
(٣٦١٦٢) حضرت خیثمہ کے بارے میں روایت ہے کہ وہ کہا کرتے تھے شیطان کہتا ہے : آدم کا بیٹا مجھ پر غالب آتا ہے لیکن تین چیزوں میں مجھ پر غالب نہیں آتا۔ بغیر حق کے مال لے یا حق کے باوجود مال سے روکے یا بغیر حق کے مال کو کہیں لگائے۔

36162

(۳۶۱۶۳) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ خَیْثَمَۃ ، قَالَ : کَانَ ، یُقَالُ : إنَّ الشَّیْطَانَ یَقُولُ : کَیْفَ یَغْلِبُنِی ابْنُ آدَمَ وَإِذَا رَضِیَ جِئْت حَتَّی أَکُونَ فِی قَلْبِہِ ، وَإِذَا غَضِبَ طِرْت حَتَّی أَکُونَ فِی رَأْسِہِ۔ (ھناد ۱۳۰۴۔ احمد ۴)
(٣٦١٦٣) حضرت خیثمہ کے بارے میں روایت ہے وہ کہا کرتے تھے شیطان کہتا ہے : آدم کا بیٹا مجھ پر کس طرح غلبہ پاسکتا ہے۔ جب وہ راضی ہوتا ہے تو میں آتا ہوں یہاں تک کہ میں اس کے دل میں بیٹھ جاتا ہوں اور جب وہ غضبناک ہوتا ہے تو میں اڑتا ہوں یہاں تک کہ میں اس کے سر میں آجاتا ہوں۔

36163

(۳۶۱۶۴) حَدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ بْنِ أَبِی خَالِدٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ خَیْثَمَۃ یَقُولُ فِی ہَذِہِ الآیَۃِ : {یَوْمًا یَجْعَلُ الْوِلْدَانَ شِیبًا} قَالَ : یُنَادِی مُنَادٍ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ یَخْرُجُ بَعْثُ النَّارِ مِنْ کُلِّ أَلْفٍ تِسْعُمِئَۃٍ وَتِسْعَۃٌ وَتِسْعُونَ فَمِنْ ذَلِکَ یَشِیبُ الْوِلْدَانُ۔
(٣٦١٦٤) حضرت اسماعیل بن ابی خالد سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت خیثمہ کو کہتے سنا ارشاد خداوندی { یَوْمًا یَجْعَلُ الْوِلْدَانَ شِیبًا } کے بارے میں۔ فرمایا : قیامت کے دن آواز دینے والا آواز دے گا۔ جہنم کے مستحق باہر آجائیں ہر ہزار میں سے نو سو ننانوے۔ پس اس بات کی وجہ سے بچے بوڑھے ہوجائیں گے۔

36164

(۳۶۱۶۵) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ خَیْثَمَۃ ، قَالَ : دَعَانِی خَیْثَمَۃُ ، فَلَمَّا جِئْت إذَا أَصْحَابُ الْعَمَائِمِ وَالْمَطَارِفِ عَلَی الْخَیْلِ ، فَحَقَّرْت نَفْسِی فَرَجَعْت ، قَالَ: فَلَقِیَنِی بَعْدَ ذَلِکَ ، فَقَالَ: مَا لَک لَمْ تَجِئْ، قَالَ ، قُلْتُ : قَدْ جِئْت وَلَکِنْ قَدْ رَأَیْت أَصْحَابَ الْعَمَائِمِ وَالْمَطَارِفِ عَلَی الْخَیْلِ فَحَقَّرْت نَفْسِی ، قَالَ : فَأَنْتَ وَاللہِ أَحَبُّ إلَیَّ مِنْہُمْ ، قَالَ : وَکُنَّا إذَا دَخَلْنَا عَلَیْہِ ، قَالَ بِالسَّلَّۃِ مِنْ تَحْتِ السَّرِیرِ ، وَقَالَ : کُلُوا وَاللہِ مَا أَشْتَہِیہِ ، وَلاَ أَصْنَعُہُ إِلاَّ لَکُمْ۔
(٣٦١٦٥) حضرت اعمش، حضرت خیثمہ کے بارے میں روایت کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ مجھے حضرت خیثمہ نے بلایا۔ جب میں آیا تو کچھ دستار اور شال والے لوگ گھوڑوں پر آئے۔ میں نے اپنے کو حقیر سمجھا اور واپس ہوگیا۔ راوی کہتے ہیں پھر اس کے بعد آپ کی ملاقات مجھ سے ہوئی تو فرمایا : تمہیں کیا ہوا کہ تم نہیں آئے ؟ راوی کہتے ہیں میں نے کہا : میں تو آیا تھا لیکن میں نے دستار اور شال والے لوگ دیکھے جو گھوڑوں پر سوار تھے تو میں نے اپنے آپ کو حقیر جانا۔ اس پر حضرت خیثمہ نے فرمایا : خدا کی قسم ! تم مجھے ان سے زیادہ محبوب ہو۔ راوی کہتے ہیں : جب ہم لوگ حضرت خیثمہ کے پاس جاتے تھے تو وہ اپنے تخت کے نیچے سے ایک ٹوکری نکالتے اور فرماتے : کھاؤ، خدا کی قسم ! مجھے اس کی خواہش نہیں ہوتی لیکن میں یہ تمہارے لیے تیار کرتا ہوں۔

36165

(۳۶۱۶۶) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ خَیْثَمَۃ ، قَالَ : کَانَ قَوْمُہُ یُؤْذُونَہُ ، فَقَالَ : إنَّ ہَؤُلاَئِ یُؤْذُونَنِی ، وَلاَ وَاللہِ مَا طَلَبَنِی أَحَدٌ مِنْہُمْ بِحَاجَۃٍ إِلاَّ قَضَیْتہَا ، وَلاَ أُدْخِلُ عَلَیَّ أَحَدٌ مِنْہُمْ أَذًی ، وَلأَنَا أَبْغَضُ فِیہِمْ مِنَ الْکَلْبِ الأَسْوَد ، وَلَمْ یَرَوْنَ ذَاکَ أَلاَ إِنَّہُ وَاللہِ مَا یُحِبُّ مُنَافِقٌ مُؤْمِنًا أَبَدًا۔
(٣٦١٦٦) حضرت اعمش، حضرت خیثمہ کے بارے میں روایت کرتے ہیں کہتے ہیں کہ ان کی قوم والے ان کو تکلیف دیتے تھے۔ آپ نے فرمایا : یہ لوگ مجھے تکلیف دیتے ہیں جبکہ ایسا کبھی نہیں ہوا۔ خدا کی قسم ! ان میں سے کسی نے مجھ سے کوئی ضرورت مانگی ہو مگر یہ کہ میں نے اس کو پورا کیا ہے۔ اور میں ان میں سے کسی کو تکلیف نہیں دیتا۔ لیکن (پھر بھی) میں انھیں سیاہ کتے سے بھی بڑھ کر مبغوض ہوں۔ اور یہ لوگ یہ خیال کیوں کرتے ہیں ؟ مگر یہ بات ہے کہ بخدا کسی ایمان والے سے کبھی منافق محبت نہیں کرتا۔

36166

(۳۶۱۶۷) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ خَیْثَمَۃ ، قَالَ : تَقُولُ الْمَلاَئِکَۃُ : یَا رَبِ ، عَبْدُک الْمُؤْمِنُ تَزْوِی عَنْہُ الدُّنْیَا وَتُعَرِّضُہُ لِلْبَلاَئِ ، قَالَ : فَیَقُولُ لِلْمَلاَئِکَۃِ : اکْشِفُوا لَہُمْ عَنْ ثَوَابِہِ ، فَإِذَا رَأَوْا ثَوَابَہُ ، قَالُوا : یَا رَبِ، لاَ یَضُرُّہُ مَا أَصَابَہُ مِنَ الدُّنْیَا ، قَالَ : وَیَقُولُونَ : عَبْدُک الْکَافِرُ تَزْوِی عَنْہُ الْبَلاَئَ وَتَبْسُطُ لَہُ الدُّنْیَا ، قَالَ : فَیَقُولُ لِلْمَلاَئِکَۃِ اکْشِفُوا لَہُمْ عَنْ ثوابہ ، فَإِذَا رَأَوْا ثوابہ ، قَالُوا : یَا رَبِّ لاَ یَنْفَعُہُ مَا أَصَابَہُ مِنَ الدُّنْیَا۔
(٣٦١٦٧) حضرت خیثمہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ فرشتوں نے عرض کیا : اے پروردگار ! تیرے مومن بندہ سے دنیا دور ہوگئی ہے اور اس کو مصائب کے لیے آگے کردیا ہے ؟ راوی کہتے ہیں : اللہ تعالیٰ نے (دوسرے) فرشتوں سے کہا : ان کو مومن کا بدلہ دکھاؤ۔ چنانچہ جب فرشتوں نے مومن کا بدلہ دیکھا تو کہنے لگے : اے پروردگار ! مومن کو دنیا میں جو حالت بھی پہنچے یہ اس کو نقصان دہ نہیں ہے۔ راوی کہتے تھے : اور فرشتوں نے عرض کیا : اے پروردگار ! تیرے کافر بندے سے مصائب دور ہوگئے اور اس کے لیے دنیا کشادہ ہوگئی۔ راوی کہتے ہیں : حق تعالیٰ نے فرشتوں سے کہا : ان کے لیے کافر کا بدلہ ظاہر کرو۔ چنانچہ جب فرشتوں نے کافر کا بدلہ دیکھا تو کہنے لگا۔ اے پروردگار ! کافر کو دنیا میں جو بھی ملے اس کے لیے نفع مند نہیں ہے۔

36167

(۳۶۱۶۸) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ مَالِکٍ بْنِ طَلْحَۃَ ، عَنْ خَیْثَمَۃ ، قَالَ : إنَّ اللَّہَ لَیَطْرُدُ بِالرَّجُلِ الشَّیْطَانَ مِنَ الآدُرِ۔ (ابن المبارک ۳۳۱)
(٣٦١٦٨) حضرت خیثمہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں : بلاشبہ اللہ تعالیٰ ایک آدمی کی وجہ سے شیطان کو کئی گھروں سے دور کردیتے ہیں۔

36168

(۳۶۱۶۹) حَدَّثَنَا مُعَاوِیَۃُ بْنُ ہِشَامٍ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ رَجُلٍ ، عَنْ خَیْثَمَۃ ، أَنَّہُ أَوْصَی أَنْ یُدْفَنَ فِی مَقْبَرَۃِ فُقَرَائِ قَوْمِہِ۔
(٣٦١٦٩) حضرت خیثمہ کے بارے میں روایت ہے کہ انھوں نے وصیت کی تھی کہ ان کو ان کی قوم کے فقراء کے مقبرہ میں دفن کیا جائے۔

36169

(۳۶۱۷۰) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ مَالِکٍ بْنِ طَلْحَۃَ ، عَنْ خَیْثَمَۃ ، قَالَ : إنِّی لأَعْلَمُ مَکَانَ رَجُلٍ یَتَمَنَّی الْمَوْتَ فِی السَّنَۃِ مَرَّتَیْنِ ، فَرَأَیْتُ أَنَّہُ یَعْنِی نَفْسَہُ۔
(٣٦١٧٠) حضرت خیثمہ کے بارے میں روایت ہے کہ وہ فرمایا کرتے تھے : میں ایک ایسے آدمی کا مکان جانتا ہوں جو سال میں دو مرتبہ موت کی تمنا کرتا ہے۔ میرا خیال یہ ہے کہ وہ خود کو مراد لیتے تھے۔

36170

(۳۶۱۷۱) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ مِسْعَرٍ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ مَیْسَرَۃَ ، عَنْ خَیْثَمَۃ ، قَالَ : طُوبَی لِلْمُؤْمِنِ کَیْفَ یُحْفَظُ فِی ذُرِّیَّتِہِ مِنْ بَعْدِہِ۔
(٣٦١٧١) حضرت خیثمہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ مومن کے لیے بشارت ہے کہ اس کے بعد اس کی نسل کی کس طرح حفاظت کی جاتی ہے۔

36171

(۳۶۱۷۲) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ خَیْثَمَۃ ، قَالَ : مَا تَقْرَؤُونَ فِی الْقُرْآنِ : {یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا} فَإِنَّ مَوْضِعَہُ فِی التَّوْرَاۃِ : یَا أَیُّہَا الْمَسَاکِینُ۔
(٣٦١٧٢) حضرت خیثمہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ تم لوگ قرآن مجید میں جو { یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا } کے الفاظ پڑھتے ہو تو توراۃ میں اس کی جگہ یَا أَیُّہَا الْمَسَاکِینُ کے الفاظ ہیں۔

36172

(۳۶۱۷۳) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِی صَالِحٍ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لأَنْ أَقُولَ : سُبْحَانَ اللہِ وَالْحَمْدُ لِلَّہِ ، وَلاَ إلَہَ إِلاَّ اللَّہُ ، وَاللَّہُ أَکْبَرُ ، أَحَبُّ إلَیَّ مِمَّا طَلَعَتْ عَلَیْہِ الشَّمْسُ۔
(٣٦١٧٣) حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ” اگر میں سُبْحَانَ اللہِ وَالْحَمْدُ لِلَّہِ ، وَلاَ إلَہَ إِلاَّ اللَّہُ ، وَاللَّہُ أَکْبَرُ کہوں تو یہ مجھے ہر اس چیز سے زیادہ محبوب ہے جس پر سورج طلوع ہوتا ہے۔

36173

(۳۶۱۷۴) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ عُمَارَۃَ بْنِ الْقَعْقَاعِ ، عَنْ أَبِی زُرْعَۃَ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : کَلِمَتَانِ خَفِیفَتَانِ عَلَی اللِّسَانِ ثَقِیلَتَانِ فِی الْمِیزَانِ حَبِیبَتَانِ إِلَی الرَّحْمَن : سُبْحَانَ اللہِ وَبِحَمْدِہِ ، سُبْحَانَ اللہِ الْعَظِیمِ۔
(٣٦١٧٤) حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ” دو کلمے ایسے ہیں جو زبان پر ہلکے، میزان میں بھاری اور رحمن کو محبوب ہیں یعنی سُبْحَانَ اللہِ وَبِحَمْدِہِ ، سُبْحَانَ اللہِ الْعَظِیمِ ۔

36174

(۳۶۱۷۵) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ ہِلاَلِ بْنِ یَِسَافٍ ، عَنْ أَبِی عُبَیْدَۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : لأنْ أَقُولَ : سُبْحَانَ اللہِ وَالْحَمْدُ لِلَّہِ ، وَلاَ إلَہَ إِلاَّ اللَّہُ وَاللَّہُ أَکْبَرُ ، أَحَبُّ إلَیَّ مِنْ أَنْ أَتَصَدَّقَ بِعَدَدِہَا دَنَانِیرَ فِی سَبِیلِ اللہِ۔
(٣٦١٧٥) حضرت عبداللہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں اگر سُبْحَانَ اللہِ وَالْحَمْدُ لِلَّہِ ، وَلاَ إلَہَ إِلاَّ اللَّہُ اور اللَّہُ أَکْبَرُ کہوں تو یہ مجھے اس بات سے زیادہ محبوب ہے کہ میں ان کی تعداد کے بقدر راہ خدا میں دینار خرچ کروں۔

36175

(۳۶۱۷۶) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِیِّ ، قَالَ : حدَّثَنِی رَجُلٌ مِنْ أصْحَابِ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عِنْدَ ہَذِہِ السَّارِیَۃِ ، قَالَ : مَنْ قَالَ سُبْحَانَ اللہِ وَبِحَمْدِہِ وَأَسْتَغْفِرُ اللَّہَ وَأَتُوبُ إلَیْہِ کُتِبَتْ فِی رِقٍّ ، ثُمَّ طُبِعَ عَلَیْہَا طَابِعٌ مِنْ مِسْکٍ فَلَمْ تُکْسَرْ حَتَّی یُوَافِیَ بِہَا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ۔
(٣٦١٧٦) حضرت ثابت بنانی سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھیوں میں سے ایک نے مجھے اس ستون کے پاس یہ حدیث بیان کی۔ اس نے کہا : جو آدمی سُبْحَانَ اللہِ وَبِحَمْدِہِ وَأَسْتَغْفِرُ اللَّہَ وَأَتُوبُ إلَیْہِ کہتا ہے تو اس کو ایک کاغذ میں لکھ دیا جاتا ہے پھر اس پر مشک کی ایک مہر لگا دی جاتی ہے۔ اس کو قیامت کے دن تک توڑا جائے گا جب اس آدمی کو اس کا پورا بدلہ دے دیا جائے گا۔

36176

(۳۶۱۷۷) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ طَلْقِ بْنِ حَبِیبٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ : لأَنْ أَقُولَہَا أَحَبُّ إلَیَّ مِنْ أَنْ أَحْمِلَ عَلَی عَدَدِہَا خَیْلاً بِأَرْسَانِہَا۔
(٣٦١٧٧) حضرت عبداللہ بن عمرو سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ اگر میں یہ کلمات کہوں تو یہ مجھے اس سے زیادہ محبوب ہیں کہ میں ان کی تعداد کے بقدر لگام لگے ہوئے گھوڑوں کو (راہِ خدا میں) بھیجوں۔

36177

(۳۶۱۷۸) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنْ عُبَیْدِ بْنِ عُمَیْرٍ ، قَالَ : تَسْبِیحَۃٌ بِحَمْدِ اللہِ فِی صَحِیفَۃِ الْمُؤْمِنِ خَیْرٌ مِنْ أَنْ تَسِیرَ ، أَوْ تَسِیلَ مَعَہُ جِبَالُ الدُّنْیَا ذَہَبًا۔
(٣٦١٧٨) حضرت عبید بن عمیر سے روایت ہے کہ مومن کے صحیفہ میں خدا کی حمد کی ایک تسبیح اس سے بہتر ہے کہ اس کے ساتھ سونے کے پہاڑ چلیں یا بہیں۔

36178

(۳۶۱۷۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ مِسْعَرٍ ، عَنِ الْوَلِیدِ بْنِ الْعَیْزَارِ ، عَنْ أَبِی الأَحْوَصِ ، قَالَ : سَمِعْتُہُ یَقُولُ : تَسْبِیحَۃٌ فِی طَلَبِ الْحَاجَۃِ خَیْرٌ مِنْ لَقُوحٍ صَفِیٍّ فِی عَامٍ أَزِبَۃَ ، أَوَ قَالَ : لَزِبَۃَ۔
(٣٦١٧٩) حضرت ولید، ابوالاحوص کے بارے میں روایت کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ میں نے ابوالاحوص کو کہتے سنا۔ حاجت کی طلب میں ایک تسبیح دودھ والی منتخب اونٹنی سے بہتر ہے جو شدت والے سال میں مہیا ہو۔

36179

(۳۶۱۸۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ مِسْعَرٍ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ مَیْسَرَۃَ ، عَنْ ہِلاَلِ بْنِ یَِسَافٍ ، قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللہِ : لأَنْ أُسَبِّحَ تَسْبِیحَاتٍ أَحَبُّ إلَیَّ مِنْ أَنْ أُنْفِقَ عَدَدَہُنَّ دَنَانِیرَ فِی سَبِیلِ اللہِ۔
(٣٦١٨٠) حضرت عبید فرماتے ہیں کہ میں چند تسبیحات کرلوں یہ مجھے اس سے زیادہ محبوب ہے کہ میں ان کی گنتی کے بقدر راہ خدا میں دینار خرچ کروں۔

36180

(۳۶۱۸۱) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، وَأَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ مِسْعَرٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ ، عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ ، وَقَالَ أَبُو أُسَامَۃَ: سَمِعْت مُصْعَبَ بْنَ سَعْدٍ یَقُولُ: إذَا قَالَ الْعَبْدُ: سُبْحَانَ اللہِ ، قَالَتِ الْمَلاَئِکَۃُ : وَبِحَمْدِہِ ، وَإذَا قَالَ: سُبْحَانَ اللہِ وَبِحَمْدِہِ صَلَّوْا عَلَیْہِ ، وَقَالَ أَبُو أُسَامَۃَ : صَلَّتْ عَلَیْہِ۔
(٣٦١٨١) حضرت مصعب بن سعد فرماتے ہیں جب بندہ سُبْحَانَ اللہِ کہتا ہے تو فرشتے وَبِحَمْدِہِ کہتے ہیں اور جب بندہ سُبْحَانَ اللہِ وَبِحَمْدِہِ کہتا ہے تو فرشتے اس کے لیے رحمت کی دعا کرتے ہیں۔

36181

(۳۶۱۸۲) حَدَّثَنَا یَعْلَی بْنُ عُبَیْدٍ ، عَنْ مِسْعَرٍ ، عَنْ عَطِیَّۃَ ، عَنْ أَبِی سَعِیدٍ ، قَالَ : إذَا قَالَ الْعَبْدُ : الْحَمْدُ لِلَّہِ کَثِیرًا ، قَالَ الْمَلَکُ : کَیْفَ أَکْتُبُ ؟ فَیَقُولُ اکْتُبْ لَہُ رَحْمَتِی کَثِیرًا ، وَإذَا قَالَ : سُبْحَانَ اللہِ کَثِیرًا ، قَالَ الْمَلَک ، کَیْفَ أَکْتُبُ ؟ فَیَقُولُ : اکْتُبْ رَحْمَتِی کَثِیرًا ، وَإذَا قَالَ اللَّہُ أَکْبَرُ کَبِیرًا ، قَالَ الْمَلَک ، کَیْفَ أَکْتُبُ ؟ فَیَقُولُ : اکْتُبْ لَہُ رَحْمَتِی کَبِیرًا ۔
(٣٦١٨٢) حضرت ابوسعید سے روایت ہے وہ کہتے ہیں جب بندہ الْحَمْدُ لِلَّہِ کَثِیرًا کہتا ہے تو فرشتہ کہتا ہے۔ میں (اس کو) کیسے لکھوں ؟ اللہ فرماتے ہیں تم اس کو میری کثیر رحمت لکھو اور جب بندہ کہتا ہے سُبْحَانَ اللہِ کَثِیرًا۔ تو فرشتہ کہتا ہے میں کیسے لکھوں ؟ اللہ فرماتے ہیں تم اس کے لیے میری کثیر رحمت لکھو۔ اور جب بندہ کہتا ہے اللہ اکبر کبیرا۔ فرشتہ کہتا ہے میں کیسے لکھوں ؟ اللہ فرماتے ہیں تم اس کے لیے میری بڑی رحمت لکھو۔

36182

(۳۶۱۸۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ مِسْعَرٍ ، عَنْ عفاق ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَیْمُونٍ ، قَالَ : أَیَعْجِزُ أَحَدُکُمْ أَنْ یُسَبِّحَ مِئَۃَ تَسْبِیحَۃٍ فَتَکُونَ لَہُ بِأَلْفُ حَسَنَۃٍ۔
(٣٦١٨٣) حضرت عمرو بن میمون سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ کیا تم میں سے کوئی ایک اس بات سے عاجز ہے کہ وہ ایک سو مرتبہ تسبیح پڑھے کہ اس کے لیے ہزار نیکیاں ہوں۔

36183

(۳۶۱۸۴) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃ ، عَنْ مِسْعَرٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ السَّکْسَکِیِّ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ أَبِی أَوْفَی ، قَالَ : أَتَی رَجُلٌ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَذَکَرَ أَنَّہُ لاَ یَسْتَطِیعُ أَنْ یَأْخُذَ مِنَ الْقُرْآنِ شَیْئًا ، وَسَأَلَہُ شَیْئًا یُجْزِئُ عن الْقُرْآنِ، فَقَالَ لَہُ : قُلْ سُبْحَانَ اللہِ وَالْحَمْدُ لِلَّہِ ، وَلاَ إلَہَ إِلاَّ اللَّہُ وَاللَّہُ أَکْبَرُ ، وَلاَ حَوْلَ وَلاَ قُوَّۃَ إِلاَّ بِاللہِ۔
(٣٦١٨٤) حضرت عبداللہ بن ابی اوفی سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ جناب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ایک آدمی آیا۔ اس نے یہ ذکر کیا کہ وہ قرآن سے کچھ نہیں لے سکتا اور اس نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کسی ایسی چیز کا سوال کیا جو قرآن کی طرف سے کفایت کرجائے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو کہا : ” تم کہو ! سُبْحَانَ اللہِ وَالْحَمْدُ لِلَّہِ ، وَلاَ إلَہَ إِلاَّ اللَّہُ وَاللَّہُ أَکْبَرُ ، وَلاَ حَوْلَ وَلاَ قُوَّۃَ إِلاَّ بِاللہِ ۔

36184

(۳۶۱۸۵) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ مُوسَی بْنِ مسلم ، عَنْ عَوْنِ بْنِ عَبْدِ اللہِ ، عَنْ أَبِیہِ ، أَوْ عَنْ أَخِیہِ ، عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِیرٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّہ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : الَّذِینَ یَذْکُرُونَ مِنْ جَلالِ اللَّہ مِنْ تَسْبِیحِہِ وَتَحْمِیدِہِ وَتَہْلِیلِہِ یَتَعَاطَفْنَ حَوْلَ الْعَرْشِ لَہُنَّ دَوِیٌّ کَدَوِیِّ النَّحْلِ ، یُذَکِّرْنَ بِصَاحِبِہِنَّ ، أَوَلاَ یُحِبُّ أَحَدُکُمْ أَنْ لاَ یَزَالَ عِنْدَ الرَّحْمَن شَیْئٌ یُذَکِّرُ بِہِ۔
(٣٦١٨٥) حضرت نعمان بن بشیر سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ” جو لوگ ہیبت خداوندی کی وجہ سے خدا کی تسبیح، تحمید اور تہلیل پڑھتے ہیں تو ان کی یہ تسبیحات عرش کے گرد منڈلاتی رہتی ہیں۔ ان تسبیحات کی شہد کی مکھیوں کی طرح کی بھنبھناہٹ ہوتی ہے۔ یہ اپنے پڑھنے والے کو یاد کرتی ہیں کیا تم میں سے کوئی ایک یہ بات پسند نہیں کرتا کہ رحمن کے پاس کوئی چیز ہو جو اس کو مسلسل یاد کرتی رہے ؟ “

36185

(۳۶۱۸۶) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ ہَانِیئَ بْنَ عُثْمَانَ یُحَدِّثُ ، عَنْ أُمِّہِ حُمَیْضَۃَ ابْنَۃِ یَاسِرٍ ، عَنْ جَدَّتِہَا یُسَیْرَۃَ ، وَکَانَتْ إحْدَی الْمُہَاجِرَاتِ ، قَالَتْ : قَالَ لَنَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَیْکُنَّ بِالتَّسْبِیحِ وَالتَّکْبِیرِ ، والتقدیس واعقدن بالأنامل فإنہن یأتین یوم القیامۃ مسؤولات مستنطقات وَلاَ تَغْفُلْنَ فَتَنْسَیْنَ الرَّحْمَۃَ۔
(٣٦١٨٦) حضرت یسیرہ ۔۔۔ جو ہجرت کرنے والیوں میں سے ایک تھیں ۔۔۔ سے روایت ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں ارشاد فرمایا : ” تم پر تسبیح، تکبیر اور تقدیس لازم ہے اور تم انگلیوں کے ساتھ شمار کرو۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کیونکہ یہ انگلیاں قیامت کے دن بلوائی جائیں گی اور پوچھی جائیں گی۔ تم غافل نہ ہونا کہ پھر رحمت سے بھلا دی جاؤ۔

36186

(۳۶۱۸۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِیزِ بْنِ رُفَیْعٍ سَمِعَہُ مِنْ أَبِی عُمَرَ الصینی ، عَنْ أَبِی الدَّرْدَائِ ، قَالَ : قُلْتُ : یَا رَسُولَ اللہِ ذَہَبَ الأَغْنِیَائُ بِالأَجْرِ ، یُصَلُّونَ کَمَا نُصَلِّی ، وَیَصُومُونَ کَمَا نَصُومُ ، وَیَحُجُّونَ کَمَا نَحُجُّ ، وَیَتَصَدَّقُونَ ، وَلاَ نَجِدُ مَا نَتَصَدَّقُ ، قَالَ : فَقَالَ : أَلاَ أَدُلُّکُمْ عَلَی شَیْئٍ إذَا فَعَلْتُمُوہُ أَدْرَکْتُمْ مَنْ سَبَقَکُمْ ، وَلاَ یُدْرِکُکُمْ مَنْ بَعْدَکُمْ إِلاَّ مَنْ عَمِلَ بِالَّذِی تَعْمَلُونَ بِہِ : تُسَبِّحُونَ اللَّہَ ثَلاَثًا وَثَلاَثِینَ ، وَتَحْمَدُونَہُ ثَلاَثًا وَثَلاَثِینَ ، وَتُکَبِّرُونَہُ أَرْبَعًا وَثَلاَثِینَ دُبُرَ کُلِّ صَلاَۃٍ۔
(٣٦١٨٧) حضرت ابوالدرداء (رض) سے روایت ہے وہ کہتے ہیں میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ 5! غنی لوگ تو اجر لے گئے۔ جیسے ہم نماز پڑھتے ہیں وہ بھی اسی طرح نماز پڑھتے ہیں اور جیسے ہم روزے رکھتے ہیں وہ بھی روزے رکھتے ہیں اور جس طرح ہم حج کرتے ہیں وہ بھی یوں ہی حج کرتے ہیں اور وہ صدقہ بھی کرتے ہیں جبکہ ہمیں صدقہ کرنے کو کچھ نہیں ملتا۔ راوی کہتے ہیں : آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ” کیا میں تمہیں کوئی ایسی چیز نہ بتادوں کہ جب تم اس کو کرو تو تم خود پر سبقت کرنے والے کو پالو اور تمہارے بعد والے تمہیں نہ پاسکیں گے مگر اسی عمل کے ذریعہ جو تم نے کیا ہوگا ؟ تم لوگ ہر نماز کے بعد تینتیس مرتبہ سبحان اللہ اور تینتیس مرتبہ الحمد للہ اور چونتیس مرتبہ اللہ اکبر پڑھا کرو۔

36187

(۳۶۱۸۸) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، وَأَبُو الأَحْوَصِ ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِیزِ بْنِ رُفَیْعٍ ، عَنْ أَبِی صَالِحٍ ، عَنْ أَبِی الدَّرْدَائِ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِنَحْوٍ مِنْہُ۔
(٣٦١٨٨) حضرت ابوالدرداء (رض) بھی جناب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ایسی ہی روایت کرتے ہیں۔

36188

(۳۶۱۸۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ مِسْعَرٍ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ مَیْسَرَۃَ ، عَنْ ہِلاَلِ بْنِ یَِسَافٍ ، قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللہِ : لأَنْ أُسَبِّحَ تَسْبِیحَاتٍ أَحَبُّ إلَیَّ مِنْ أَنْ أُنْفِقَ عِدَّتَہُنَّ دَنَانِیرَ فِی سَبِیلِ اللہِ۔
(٣٦١٨٩) حضرت ہلال بن یساف سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ نے فرمایا : میں چند تسبیحات پڑھ لوں یہ مجھے اس سے زیادہ پسند ہے کہ میں ان کی تعداد کے بقدر راہ خدا میں دینار خرچ کروں۔

36189

(۳۶۱۹۰) حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُوسَی ، قَالَ : حدَّثَنَا مَہْدِیٌّ بْنُ مَیْمُون ، عَنْ وَاصِلٍ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ عُقَیْلٍ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ یَعْمَُرَ ، عَنْ أَبِی الأَسْوَدِ الدَّیلِیِّ ، عَنْ أَبِی ذَرٍّ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : بِکُلِّ تَسْبِیحَۃٍ صَدَقَۃٌ۔
(٣٦١٩٠) حضرت ابوذر، جناب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کرتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ہر تسبیح کے بدلہ میں صدقہ ہوتا ہے۔

36190

(۳۶۱۹۱) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ أَبِی بُکَیْرٍ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنِ الْجُرَیرِیِّ ، عَنْ أَبِی عَبْدِ اللہِ الْجَسْرِیِّ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ الصَّامِتِ ، عَنْ أَبِی ذَرٍّ ، قَالَ : قَالَ لِی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : أَلاَ أُخْبِرُک بِأَحَبِّ الْکَلاَمِ إِلَی اللہِ، قَالَ: قُلْتُ: بَلَی ، یَا رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، أَخْبِرْنِی بِأَحَبِّ الْکَلاَمِ إِلَی اللہِ ، قَالَ : أَحَبُّ الْکَلاَمُ إِلَی اللہِ سُبْحَانَ اللہِ وَبِحَمْدِہِ۔
(٣٦١٩١) حضرت ابوذر (رض) سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھ سے فرمایا : کیا میں تمہیں خدا تعالیٰ کا محبوب ترین کلام نہ بتاؤں ؟ “ ابوذر (رض) کہتے ہیں : میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ 5! کیوں نہیں۔ آپ مجھے خدا تعالیٰ کا محبوب ترین کلام بتادیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : خدا تعالیٰ کا محبوب ترین کلام سبحان اللہ وبحمدہ ہے۔

36191

(۳۶۱۹۲) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنِ الْجُرَیْرِیِّ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ شَقِیقٍ ، عَنْ کَعْبٍ ، قَالَ : إنَّ مِنْ خَیْرِ الْعَمَلِ سُبْحَۃَ الْحَدِیثِ ، وَإِنَّ مِنْ شَرِّ الْعَمَلِ التَّجْدِیفَ ، قَالَ : قُلْتُ : یَا أَبَا عَبْدَ الرَّحْمَان ، وَمَا سُبْحَۃُ الْحَدِیثِ ، قَالَ : تَسْبِیحُ الرَّجُلِ وَالْقَوْمُ یَتَحَدَّثُونَ ، قَالَ : قُلْتُ : وَمَا التَّجْدِیفَ ، قَالَ : یَکُونُ الْقَوْمُ بِخَیْرٍ فَإِذَا سُئِلُوا ، قَالُوا : بِشَرٍّ۔
(٣٦١٩٢) حضرت کعب سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ اعمال میں سے بہترین عمل سبحۃ الحدیث ہے اور اعمال میں سے بدترین عمل تجدیف ہے۔ راوی کہتے ہیں میں نے عرض کیا : اے ابوعبدالرحمن ! سبحۃ الحدیث کیا ہے ؟ آپ (رض) نے فرمایا : آدمی تسبیح کرے جبکہ باقی لوگ باتیں کررہے ہوں۔ راوی کہتے ہیں میں نے عرض کیا : تجدیف کیا ہے ؟ آپ (رض) نے فرمایا : لوگ خیر کے ساتھ ہوں لیکن جب سوال کیا جائے تو شر کا جواب دیں۔

36192

(۳۶۱۹۳) حَدَّثَنَا أَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ زَیْدٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ، قَالَ : کُنَّا عِنْدَ سَعْدِ بْنِ مَالِکٍ فَسَکَتَ سَکْتَۃً ، فَقَالَ : لَقَدْ أَصَبْت بِسَکْتَتِی ہَذِہِ مِثْلَ مَا سَقَی النِّیلُ وَالْفُرَاتُ ، قَالَ : قُلْنَا ، وَمَا أَصَبْت ، قَالَ : سُبْحَانَ اللہِ وَالْحَمْدُ لِلَّہِ ، وَلاَ إلَہَ إِلاَّ اللَّہُ وَاللَّہُ أَکْبَرُ۔
(٣٦١٩٣) حضرت سعید بن مسیب سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ ہم حضرت سعد بن مالک کے پاس تھے پھر وہ ایک لمحہ خاموش رہے اور پھر کہنے لگے۔ تحقیق میں نے اپنی اس خاموشی میں وہ کچھ پالیا ہے جس کو نیل اور فرات سیراب کرتے ہیں۔ راوی کہتے ہیں ہم نے کہا : آپ کو کیا ملا ہے ؟ انھوں نے فرمایا : سُبْحَانَ اللہِ وَالْحَمْدُ لِلَّہِ ، وَلاَ إلَہَ إِلاَّ اللَّہُ وَاللَّہُ أَکْبَرُ ۔

36193

(۳۶۱۹۴) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ، عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ ، عَنْ طَاوُوسٍ ، عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَا عَمِلَ ابْنُ آدَمَ مِنْ عَمَلٍ أَنْجَی لَہُ مِنَ النَّارِ مِنْ ذِکْرِ اللہِ ، قَالُوا : یَا رَسُولَ اللہِ ، وَلاَ الْجِہَادُ فِی سَبِیلِ اللہِ ، قَالَ : وَلاَ الْجِہَادُ فِی سَبِیلِ اللہِ ، إلا أن تَضْرِبُ بِسَیْفِکَ حَتَّی یَنْقَطِعَ ، ثُمَّ تَضْرِبُ بِہِ حَتَّی یَنْقَطِعَ ثَلاَثًا۔
(٣٦١٩٤) حضرت معاذ بن جبل سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ” ابن آدم کا کوئی عمل ذکر اللہ سے بڑھ کر اس کو آگ سے نجات دینے والا نہیں ہے۔ لوگوں نے کہا : یا رسول اللہ 5! نہ ہی جہاد فی سبیل اللہ ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” نہ ہی جہاد فی سبیل اللہ۔ مگر یہ کہ تو اپنی تلوار سے مارتا رہے یہاں تک کہ وہ ٹوٹ جائے۔ پھر تو (دوسری تلوار) مارتا رہے یہاں تک کہ وہ بھی ٹوٹ جائے۔ تین مرتبہ یہ بات فرمائی۔

36194

(۳۶۱۹۵) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ یَعْلَی بْنِ عَطَائٍ ، عَنْ بِشْرِ بْنِ عَاصِمٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ ، ذِکْرُ اللہِ بِالْغَدَاۃِ وَالْعَشِیِّ أَفْضَلُ مِنْ حَطْمِ السُّیُوفِ فِی سَبِیلِ اللہِ وَإِعْطَائِ الْمَالِ سَحًّا۔
(٣٦١٩٥) حضرت عبداللہ بن عمرو سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ صبح وشام خدا کا ذکر کرنا، راہِ خدا میں تلواریں توڑنے اور ڈھیروں مال دینے سے بہتر ہے۔

36195

(۳۶۱۹۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، عَنْ مِسْعَرٍ، عَنْ عَلْقَمَۃَ بْنِ مَرْثَدٍ، عَنِ ابْنِ سَابِطٍ، عَنْ مُعَاذٍ، قَالَ: لأَنْ أَذْکُرَ اللَّہَ مِنْ غُدْوَۃٍ حَتَّی تَطْلُعَ الشَّمْسُ أَحَبُّ إلَیَّ مِنْ أَنْ أُحْمَلَ عَلَی الْجِھَادِ فِی سَبِیلِ اللہِ مِنْ غُدْوَۃٍ حَتَّی تَطْلُعَ الشَّمْسُ۔
(٣٦١٩٦) حضرت معاذ (رض) سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ اگر میں خدا کا ذکر صبح سے طلوع شمس تک کروں تو یہ بات مجھے اس سے زیادہ محبوب ہے کہ میں صبح سے طلوع آفتاب تک عمدہ گھوڑوں پر سوار ہو کر راہ خدا میں حملہ کرتا رہوں۔

36196

(۳۶۱۹۷) حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ مُعَاذٍ ، عَنْ سُلَیْمَانَ التَّیْمِیِّ ، عَنْ أَبِی عُثْمَانَ ، عَنْ سَلْمَانَ ، قَالَ : لَوْ بَاتَ رَجُلٌ یُعْطِی الْقِیَانَ الْبِیضَ ، وَبَاتَ آخَرُ یَقْرَأُ الْقُرْآنَ وَیَذْکُرُ اللَّہَ ، لرَأَیْتُ أَنَّ ذَاکِرَ اللہِ أَفْضَلُ۔
(٣٦١٩٧) حضرت سلمان سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ اگر ایک آدمی اس حال میں رات گزارے کہ راہ خدا میں سونا خیرات کرے اور دوسرا آدمی اس حال میں رات گزارے کہ قرآن کی تلاوت کرے اور اللہ کا ذکر کرے تو میرا خیال یہ ہے کہ خدا کو یاد کرنے والا افضل ہے۔

36197

(۳۶۱۹۸) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ أَبِی ہِلاَلٍ ، عَنْ أَبِی الْوَازِعِ ، جَابِرٍ الرَّاسِبِیِّ ، عَنْ أَبِی بَرْزَۃَ ، قَالَ : لَوْ أَنَّ رَجُلَیْنِ أَحَدُہُمَا فِی حِجْرِہِ دَنَانِیرُ یُعْطِیہَا وَالآخَرُ یَذْکُرُ اللَّہَ کَانَ ذَاکِرُ اللہِ أَفْضَلَ۔
(٣٦١٩٨) حضرت ابوبرزہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ اگر دو آدمیوں میں سے ایک اپنی جھولی میں دینار ڈال کر دے رہا ہو اور دوسرا خدا کا ذکر کررہا ہو تو ذکر خدا کرنے والا افضل ہے۔

36198

(۳۶۱۹۹) حَدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ أَبِی جَعْفَرٍ ، قَالَ : مَا مِنْ شِیمَۃٍ أَحَبُّ إِلَی اللہِ مِنَ الشُّکْرِ وَالذِّکْرِ۔
(٣٦١٩٩) حضرت ابوجعفر سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کو شکر اور ذکر کرنے سے زیادہ کوئی عادت محبوب نہیں ہے۔

36199

(۳۶۲۰۰) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ الْحُبَابِ ، قَالَ : حدَّثَنَا مُعَاوِیَۃُ بْنُ صَالِحٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِی عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ جُبَیْرِ بْنِ نُفَیْرٍ ، عَنْ أَبِیہِ، عَنْ أَبِی الدَّرْدَائِ، أَنَّہُ قَالَ: الَّذِینَ لاَ تَزَالُ أَلْسِنَتُہُمْ رَطْبَۃً مِنْ ذِکْرِ اللہِ یَدْخُلُونَ الْجَنَّۃَ وَہُمْ یَضْحَکُونَ۔
(٣٦٢٠٠) حضرت ابوالدرداء (رض) کے بارے میں روایت ہے کہ انھوں نے فرمایا : جن لوگوں کی زبانیں ذکر خدا سے تر رہتی ہیں وہ جنت میں اس طرح داخل ہوں گے کہ مسکرا رہے ہوں گے۔

36200

(۳۶۲۰۱) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ الْحُبَابِ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا مُعَاوِیَۃُ بْنُ صَالِحٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنِی عَمْرُو بْنُ قَیْسٍ الْکِنْدِیُّ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ بُسْرٍ ، أَنَّ أَعْرَابِیًّا ، قَالَ : یَا رَسُولَ اللہِ ، إنَّ شَرَائِعَ الإِسْلاَمِ قَدْ کَثُرَتْ ، فَأَنْبِئْنِی مِنْہَا بِمَا أَتَشَبَّثُ بِہِ ، قَالَ : لاَ یَزَالُ لِسَانُک رَطْبًا مِنْ ذِکْرِ اللہِ۔
(٣٦٢٠١) حضرت عبداللہ بن بسر سے روایت ہے کہ ایک دیہاتی نے عرض کیا : یا رسول اللہ 5! بیشک اسلام کے احکام تو بہت زیادہ ہیں۔ آپ مجھے کوئی ایسی بات بتادیں جس سے میں چمٹ جاؤں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” تمہاری زبان ہمیشہ ذکر خدا سے تر رہنی چاہیے۔

36201

(۳۶۲۰۲) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنِ ابْنِ سَابِطٍ ، قَالَ : أَنِیرُوا بِذِکْرِ اللہِ وَاجْعَلُوا لِبُیُوتِکُمْ مِنْ صَلاَتِکُمْ جُزْئًا۔
(٣٦٢٠٢) حضرت ابن سابط سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ تم ذکر خدا سے نور پکڑو اور اپنے گھروں کے لیے اپنی نمازوں میں سے حصہ بناؤ۔

36202

(۳۶۲۰۳) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمُحَارِبِیُّ ، عَنِ الإِفْرِیقِیِّ ، عَنْ أَبِی عَلْقَمَۃَ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : إنَّ أَہْلَ السَّمَائِ لَیَرَوْنَ بُیُوتَ أَہْلِ الذِّکْرِ تُضِیئُ لَہُمْ کَمَا تُضِیئُ الْکَوَاکِبُ لأَہْلِ الأَرْضِ۔
(٣٦٢٠٣) حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ بیشک اہل سماء کے لیے اہل ذکر کے گھر اس طرح چمکتے ہیں جیسے اہل زمین کے لیے ستارے چمکتے ہیں۔

36203

(۳۶۲۰۴) حَدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ، قَالَ : قَالَ مُعَاذٌ : لَوْ أَنَّ رَجُلَیْنِ أَحَدُہُمَا یَحْمِلُ عَلَی الْجِیَادِ فِی سَبِیلِ اللہِ ، وَالآخَرُ یَذْکُرُ اللَّہَ لَکَانَ ہَذَا أَعْظَمَ ، أَوْ أَفْضَلَ أَجْرًا ، یَعْنِی الذَّاکِرَ۔
(٣٦٢٠٤) حضرت سعید بن مسیب سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت معاذ نے ارشاد فرمایا : اگر دو آدمی ہوں ان میں سے ایک راہ خدا میں گھوڑے پر سوار حملہ کررہا ہو اور دوسرا اللہ کا ذکر کررہا ہو تو یہ ذاکر اجر کے اعتبار سے افضل اور بڑھیا ہوگا۔

36204

(۳۶۲۰۵) حَدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِی الْجَعْدِ ، قَالَ : قیلَ لأَبِی الدَّرْدَائِ : إنَّ أَبَا سعد بن مُنْبَہٍ جَعَلَ فِی مَالِہِ مِئَۃَ مُحَرَّرٍ ، قَالَ : أَمَا أَنَّ مِئَۃَ مُحَرَّرٍ فِی مَالِ رَجُلٍ لَکَثِیرٌ ، أَلاَ أُخْبِرُکُمْ بِأَفْضَلَ مِنْ ذَلِکَ إیمَانٌ مَلْزُومٌ بِاللَّیْلِ وَالنَّہَارِ ، وَلاَ یَزَالُ لِسَانُک رَطْبًا مِنْ ذِکْرِ اللہِ۔
(٣٦٢٠٥) حضرت سالم بن ابی الجعد سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت ابوالدرداء (رض) سے کہا گیا کہ حضرت ابوسعد بن منبہ نے اپنے مال میں سے سو غلام آزاد کیے ہیں۔ حضرت نے فرمایا : خبردار ! کسی ایک آدمی کے مال میں سو آزاد ہونا بڑی بات ہے لیکن کیا میں تمہیں اس سے بھی افضل بات نہ بتاؤں ؟ رات، دن ایمان سے چمٹا رہ۔ اور تیری زبان خدا کے ذکر سے مسلسل تر رہے۔

36205

(۳۶۲۰۶) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ ہِلاَلِ بْنِ یَِسَافٍ ، عَنْ أَبِی عُبَیْدَۃَ ، قَالَ : مَا دَامَ قلْبُ الرَّجُلِ یَذْکُرُ اللَّہَ فَہُوَ فِی صَلاَۃٍ وَإِنْ کَانَ فِی السُّوقِ ، وَإِنْ یُحَرِّکُ بِہِ شَفَتَیْہِ فَہُوَ أَفْضَلُ۔
(٣٦٢٠٦) حضرت ابوعبیدہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ جب تک آدمی کا دل ذکر کرتا ہے تب تک آدمی نماز میں ہوتا ہے اگرچہ یہ آدمی بازار میں ہو اور اگر اس کے ہونٹ بھی حرکت کریں تو یہ اور اچھا ہے۔

36206

(۳۶۲۰۷) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ وَاضِحٍ ، عَنْ مُوسَی بْنِ عُبَیْدَۃَ ، عَنْ أَبِی عَبْدِ اللہِ الْقَرَّاظِ ، عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ ، قَالَ : قَالَ رسول اللہ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَنْ أَحَبَّ أَنْ یَرْتَعَ فِی رِیَاضِ الْجَنَّۃِ فَلْیُکْثِرْ ذِکْرَ اللہِ۔
(٣٦٢٠٧) حضرت معاذ بن جبل سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” جو آدمی اس بات کو پسند کرے کہ وہ جنت کے باغ میں چرے تو اس کو ذکر اللہ کثرت سے کرنا چاہیے۔

36207

(۳۶۲۰۸) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، قَالَ : مَا دَامَ قَلْبُ الرَّجُلِ یَذْکُرُ اللَّہَ فَہُوَ فِی صَلاَۃٍ وَإِنْ کَانَ فِی السُّوقِ۔
(٣٦٢٠٨) حضرت مسروق سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ جب تک آدمی کا دل اللہ کا ذکر کرتا ہے تو وہ نماز میں ہوتا ہے اگرچہ وہ بازار میں ہو۔

36208

(۳۶۲۰۹) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا مِسْعَرٌ ، قَالَ : حَدَّثَنَا سَعْدُ بْنُ إِبْرَاہِیمَ ، عَن أَبِی عُبَیْدَۃَ ، قَالَ : الْعَبْدُ مَا ذَکَرَ اللَّہَ فَہُوَ فِی صَلاَۃٍ۔
(٣٦٢٠٩) حضرت ابوعبیدہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ بندہ جب تک ذکر کرتا ہے تو وہ نماز میں ہوتا ہے۔

36209

(۳۶۲۱۰) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا مِسْعَرٌ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ مَیْسَرَۃَ ، عَنْ ہِلاَلِ بْنِ یَِسَافٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَیْمُونٍ ، عَنْ رَبِیعِ بْنِ خُثَیْمٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مَسْعُودٍ ، قَالَ : مَنْ قَالَ عَشْرَ مَرَّاتٍ : لاَ إلَہَ إِلاَّ اللَّہُ وَحْدَہُ لاَ شَرِیکَ لَہُ ، لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ وَہُوَ عَلَی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیرٌ کَانَ کَعِدْلِ أَرْبَعِ رِقَابٍ ، أُرَاہُ قَالَ : مِنْ وَلَدِ إسْمَاعِیلَ۔
(٣٦٢١٠) حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے وہ کہتے ہیں جو آدمی دس مرتبہ یہ کلمات کہتا ہے : لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ، لہ الملک ولہ الحمد وہو علی کل شیء قدیر تو یہ اس کے لیے چار غلام آزاد کرنے کے برابر ہے۔ راوی کے خیال میں آپ نے یہ بھی کہا تھا۔ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی اولاد سے۔

36210

(۳۶۲۱۱) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ طَلْحَۃَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْسَجَۃَ ، عَنِ الْبَرَائِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَنْ قَالَ لاَ إلَہَ إِلاَّ اللَّہُ وَحْدَہُ لاَ شَرِیکَ لَہُ لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ وَہُوَ عَلَی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیرٌ کُنَّ کَعِتْقِ رَقَبَۃٍ۔
(٣٦٢١١) حضرت براء سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جو شخص لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ، لہ الملک ولہ الحمد وہو علی کل شیء قدیر کہے تو یہ کلمات کہنا ایک غلام آزاد کرنے کی طرح ہے۔

36211

(۳۶۲۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ مِسْعَرٍ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ مَیْسَرَۃَ ، عَنْ ہِلاَلٍ ، عَنْ أم الدَّرْدَائِ ، قَالَت : مَنْ قَالَ مِئَۃَ مَرَّۃٍ غُدْوَۃً ، وَمِئَۃَ مَرَّۃٍ عَشِیَّۃً لاَ إلَہَ إِلاَّ اللَّہُ وَحْدَہُ لاَ شَرِیکَ لَہُ لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ وَہُوَ عَلَی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیرٌ لَمْ یَجِئْ أَحَدٌ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ بِمِثْلِ مَا جَائَ بِہِ إِلاَّ مَنْ قَالَ مِثْلَہُنَّ ، أَوْ زَادَ۔
(٣٦٢١٢) حضرت ہلال، حضرت ام درداء (رض) سے روایت کرتے ہیں کہتے ہیں کہ جو آدمی سو مرتبہ صبح اور سو مرتبہ شام لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ، لہ الملک ولہ الحمد وہو علی کل شیء قدیر کہے گا تو قیامت کے دن کوئی آدمی اس کے عمل کے برابر نہیں آئے گا مگر وہی آدمی جس نے یہ کلمات کہے یا اس سے زیادہ۔

36212

(۳۶۲۱۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ مِسْعَرٍ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ مَیْسَرَۃَ عَنْ سُوَیْد بْنِ جُہَیْلٍ ، قَالَ : مَنْ قَالَ بَعْدَ الْعَصْرِ: لاَ إلَہَ إِلاَّ اللَّہُ لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ وَہُوَ عَلَی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیرٌ قَاتَلْنَ عَنْ قَائِلِہِنَّ إِلَی مِثْلِہَا مِنَ الْغَدِ۔
(٣٦٢١٣) حضرت سوید بن جہیل سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ جو شخص عصر کے بعد لا الہ الا اللہ، لہ الملک ولہ الحمد وہو علی کل شیء قدیر کہے گا تو یہ کلمات اپنے کہنے والے کے لیے کل تک جھگڑتے رہیں گے۔

36213

(۳۶۲۱۴) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا مِسْعَرٌ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ مَیْسَرَۃَ ، عَنْ مُسْلِمٍ مَوْلَی سُوَیْد بْنِ جُہَیْلٍ ، عَنْ سُوَیْد وَکَانَ مِنْ أَصْحَابِ عُمَرَ ، ثُمَّ ذَکَرَ نَحْوَ حَدِیثِ وَکِیعٍ۔
(٣٦٢١٤) حضرت مسلم مولی سوید بن جھیل سے بھی ایسی حدیث منقول ہے۔

36214

(۳۶۲۱۵) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ دَاوُدَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِی لَیْلَی ، عَنْ أَبِی أَیُّوبَ الأنصاری ، عَنْ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : مَنْ قَالَ لاَ إلَہَ إِلاَّ اللَّہُ وَحْدَہُ لاَ شَرِیکَ لَہُ ، لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ بِیَدِہِ الْخَیْرُ وَہُوَ عَلَی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیرٌ عَشْرَ مَرَّاتٍ کُنَّ لَہُ کَعِدْلِ عَشْرِ رِقَابٍ ، أَوْ کَعِدْلِ رَقَبَۃٍ۔
(٣٦٢١٥) حضرت ابوایوب انصاری، جناب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کرتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” جو شخص لاَ إلَہَ إِلاَّ اللَّہُ وَحْدَہُ لاَ شَرِیکَ لَہُ ، لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ بِیَدِہِ الْخَیْرُ وَہُوَ عَلَی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیرٌ دس مرتبہ کہے گا تو یہ دس گردنوں کو آزاد کرنے کے برابر ہوں گے۔ یا ” ایک گردن کے برابر ہوں گے۔

36215

(۳۶۲۱۶) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا مِسْعَرٌ ، قَالَ : حَدَّثَنِی ثَعْلَبَۃُ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ ، قَالَ ، لَوْ أَنَّ رَجُلَیْنِ أَقْبَلَ أَحَدُہُمَا مِنَ الْمَشْرِقِ وَالآخَرُ مِنَ الْمَغْرِبِ ، مَعَ أَحَدِہِمَا ذَہَبٌ لاَ یَضَعُ مِنْہُ شَیْئًا إِلاَّ فِی حَقٍّ ، وَالآخَرُ یَذْکُرُ اللَّہَ حَتَّی یَلْتَقِیَا فِی طَرِیقٍ لَکَانَ الَّذِی یَذْکُرُ اللَّہَ أَفْضَلَہُمَا۔
(٣٦٢١٦) حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ اگر دو آدمی ہوں۔ ان میں سے ایک مشرق کی جانب سے آئے اور دوسرا مغرب کی جانب سے آئے۔ ان میں سے ایک کے پاس سونا ہو۔ جو وہ حقدار جگہ پر خرچ کرتا آئے اور دوسرا خدا کا ذکر کرتا رہے۔ یہاں تک کہ یہ دونوں راستہ میں مل جائیں تو ان دونوں میں افضل وہ ہوگا جو اللہ کا ذکر کررہا ہے۔

36216

(۳۶۲۱۷) حَدَّثَنَا یَعْلَی ، عَنْ مُوسَی الطَّحَّانِ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَابِطٍ ، قَالَ : دُفِعَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِلَی حَلْقَۃٍ وَہُمْ یَذْکُرُونَ اللَّہَ ، فَقَالَ : إنَّ اللَّہَ لَیُبَاہِی بِمَجْلِسِکُمْ أَہْلَ السَّمَائِ۔
(٣٦٢١٧) حضرت عبدالرحمن بن سابط سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایک حلقہ کی طرف لے جایا گیا جو اللہ کا ذکر کررہے تھے۔ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ” بیشک اللہ تعالیٰ ، تمہاری مجلس کی وجہ سے اہل آسمان پر فخر کررہے ہیں۔

36217

(۳۶۲۱۸) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : قَالَ عُبَادَۃُ بْنُ الصَّامِتِ : لأَنْ أَکُونَ فِی قَوْمٍ یَذْکُرُونَ اللَّہَ مِنْ حِینِ یُصَلُّونَ الْغَدَاۃَ إِلَی أَنْ تَطْلُعَ الشَّمْسُ أَحَبُّ إلَیَّ مِنْ أَنْ أَکُونَ عَلَی مُتُونِ الْخَیْلِ أُجَاہِدُ فِی سَبِیلِ اللہِ إِلَی أَنْ تَطْلُعَ الشَّمْسُ ، وَلأَنْ أَکُونَ فِی قَوْمٍ یَذْکُرُونَ اللَّہَ مِنْ حِینِ یُصَلُّونَ الْعَصْرَ حَتَّی تَغْرُبَ الشَّمْسُ أَحَبُّ إلَیَّ مِنْ أَنْ أَکُونَ عَلَی مُتُونِ الْخَیْلِ أُجَاہِدُ فِی سَبِیلِ اللہِ حَتَّی تَغْرُبَ الشَّمْسُ۔
(٣٦٢١٨) حضرت محمد بن ابراہیم سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت عبادہ بن صامت فرماتے ہیں کہ اگر میں ایسے لوگوں میں ہوں جو صبح کی نماز پڑھنے سے لے کر طلوع آفتاب تک اللہ کا ذکر کریں تو مجھے یہ بات اس سے زیادہ پسند ہے کہ میں گھوڑوں کی پشت پر ہوں اور طلوع آفتاب تک راہ خدا میں جہاد کرتا رہوں۔ اور اگر میں ایسے لوگوں میں ہوں جو عصر کی نماز پڑھنے سے لے کر غروب آفتاب تک اللہ کا ذکر کریں تو مجھے یہ بات اس سے زیادہ محبوب ہے کہ میں گھوڑوں کی پشت پر سوار ہو کر غروب آفتاب تک راہ خدا میں جہاد کروں۔

36218

(۳۶۲۱۹) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو ، عَنْ أَبِی سَلَمَۃَ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إنِّی لأسْتَغْفِرُ اللَّہَ وَأَتُوبُ إلَیْہِ فِی الْیَوْمِ مِئَۃَ مَرَّۃٍ۔
(٣٦٢١٩) حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ” میں ہر دن اللہ تعالیٰ سے سو مرتبہ توبہ اور استغفار کرتا ہوں۔

36219

(۳۶۲۲۰) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ ، عَنْ أَبِی بُرْدَۃَ ، قَالَ : سَمِعْتُ الأَغَرَّ وَکَانَ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُحَدِّثُ ابْنَ عُمَرَ ، قَالَ : یَقُولُ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : یَا أَیّہَا الْنَّاسُ تُوبُوا إِلَی رَبِّکُمْ فَإِنِّی أَتُوبُ إلَیْہِ فِی الْیَوْمِ مِئَۃَ مَرَّۃٍ۔
(٣٦٢٢٠) حضرت ابن عمر (رض) حدیث بیان کرتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ” اے لوگو ! اپنے پروردگار سے توبہ کرو۔ کیونکہ میں بھی اس سے ایک دن سو مرتبہ توبہ کرتا ہوں۔

36220

(۳۶۲۲۱) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ مَالِکِ بْنِ مِغْوَلٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سُوقَۃَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : إنْ کَانَ لَیُعَدُّ لِرَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی الْمَجْلِسِ الْوَاحِدِ یَقُولُ : رَبِّ اغْفِرْ لِی وَتُبْ عَلَیَّ إنَّک أَنْتَ التَّوَّابُ الْغَفُورُ مِئَۃَ مَرَّۃٍ۔
(٣٦٢٢١) حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ اگر جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ایک ہی مجلس میں یہ بات شمار کی جاتی کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے تھے : ” اے میرے پروردگار ! تو مجھے معاف کردے اور میری توبہ قبول فرما۔ بیشک تو توبہ قبول کرنے والا، معاف کرنے والا ہے۔ تو یہ سو مرتبہ شمار ہوتی۔

36221

(۳۶۲۲۲) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ حُصَیْنٍ ، عَنْ ہِلاَلِ بْنِ یَِسَافٍ ، عَنْ زَاذَانَ ، قَالَ : حدَّثَنِی رَجُلٌ مِنَ الأَنْصَارِ ، قَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ فِی دُبُرِ الصَّلاَۃِ : اللَّہُمَّ تُبْ عَلَیَّ وَاغْفِرْ لِی إنَّک أَنْتَ التَّوَّابُ الْغَفُورُ مِئَۃَ مَرَّۃٍ۔
(٣٦٢٢٢) ایک انصاری صحابی بیان کرتے ہیں کہ میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہر نماز کے بعد سو مرتبہ یہ کہتے سنا : ” اے اللہ ! تو میری توبہ قبول فرما اور تو مجھے معاف کردے بیشک تو توبہ قبول کرنے والا معاف کرنے والا ہے۔

36222

(۳۶۲۲۳) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا الْمُغِیرَۃُ بْنُ أَبِی الْحُرِّ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ أَبِی بُرْدَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ جَدِّہِ ، قَالَ : جَائَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ جُلُوسٌ ، فَقَالَ : مَا أَصْبَحْت غَدَاۃً قَطُّ إِلاَّ اسْتَغْفَرْت اللَّہَ فِیہَا مِئَۃَ مَرَّۃٍ۔
(٣٦٢٢٣) حضرت سعید بن ابی بردہ، اپنے والد، اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے فرمایا : ہم بیٹھے ہوئے تھے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے اور فرمایا : ” میں نے کسی دن صبح نہیں کی مگر یہ کہ میں نے سو مرتبہ اللہ سے استغفار کیا ہے۔

36223

(۳۶۲۲۴) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ کَہْمَسٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ شَقِیقٍ ، قَالَ : کَانَ أَبُو الدَّرْدَائِ یَقُولُ : طُوبَی لِمَنْ وُجِدَ فِی صَحِیفَتِہِ نُبَذ مِنَ اسْتِغْفَارٍ۔
(٣٦٢٢٤) حضرت عبداللہ بن شقیق سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت ابوالدرداء (رض) فرمایا کرتے تھے۔ خوشخبری ہے اس آدمی کے لیے جس کے صحیفہ میں کچھ استغفار پایا جائے۔

36224

(۳۶۲۲۵) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنْ عَوْفٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إنَّ اللَّہَ یَقْبَلُ تَوْبَۃَ عَبْدِہِ مَا لَمْ یَعُدْ۔ (ترمذی ۳۵۳۷۔ احمد ۱۳۲)
(٣٦٢٢٥) حضرت حسن سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ” بیشک اللہ تعالیٰ اپنے بندہ کی توبہ تب تک قبول فرماتے ہیں جب تک وہ دوبارہ نہیں کرتا۔

36225

(۳۶۲۲۶) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِِ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِی الْمُغِیرَۃِ ، عَنْ حُذَیْفَۃَ ، قَالَ : شَکَوْت إِلَی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ذَرَبَ لِسَانِی ، فَقَالَ : أَیْنَ أَنْتَ مِنَ الاِسْتِغْفَارِ إنِّی لأسْتَغْفِرُ اللَّہَ فِی کُلِّ یَوْمٍ مِئَۃَ مَرَّۃٍ۔
(٣٦٢٢٦) حضرت حذیفہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے جناب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اپنی زبان کی تیزی کی شکایت کی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” تم استغفار سے کہاں ہو ؟ میں تو ہر دن اللہ سے سو مرتبہ استغفار کرتا ہوں۔

36226

(۳۶۲۲۷) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا بُکَیْر بْنُ أَبِی السُّمَیْطِ ، قَالَ : مَنْصُورُ بْنُ زَاذَانَ ، عَنْ أَبِی الصِّدِّیقِ النَّاجِی ، عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ ، قَالَ : مَنْ قَالَ أَسْتَغْفِرُ اللَّہَ الَّذِی لاَ إلَہَ إِلاَّ ہُوَ الْحَیُّ الْقَیُّومُ وَأَتُوبُ إلَیْہِ خَمْسَ مَرَّاتٍ غُفِرَ لَہُ وَإِنْ کَانَتْ ذُنُوبُہُ مِثْلَ زَبَدِ الْبَحْرِ۔
(٣٦٢٢٧) حضرت ابوسعید خدری سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ جو شخص أَسْتَغْفِرُ اللَّہَ الَّذِی لاَ إلَہَ إِلاَّ ہُوَ الْحَیُّ الْقَیُّومُ وَأَتُوبُ إلَیْہِ پانچ مرتبہ کہتا ہے تو اس کی مغفرت کردی جاتی ہے۔ اگرچہ اس کے گناہ سمندر کی جھاگ کے برابر ہوں۔

36227

(۳۶۲۲۸) حَدَّثَنَا مُعْتَمِرُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ زَیْدٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِیزِ یَخْطُبُ بِخُنَاصِرَۃ فَسَمِعْتہ یَقُولُ : أَفْضَلُ الْعِبَادَۃِ أَدَائُ الْفَرَائِضِ وَاجْتِنَابُ الْمَحَارِمِ۔
(٣٦٢٢٨) حضرت علی بن زید سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے مقام خناصرہ میں حضرت عمر بن عبدالعزیز کو خطبہ دیتے سنا۔ چنانچہ میں نے آپ کو کہتے سنا بہترین عبادت فرائض کی ادائیگی ہے اور حرام چیزوں سے اجتناب ہے۔

36228

(۳۶۲۲۹) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ أَزْہَرَ بَیَّاعِ الْخُمُرِ ، قَالَ : رَأَیْتُ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِیزِ بِخُنَاصِرَۃ یَخْطُبُ النَّاسَ عَلَیْہِ قَمِیصٌ مَرْقُوعٌ۔
(٣٦٢٢٩) حضرت ازہر سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر بن عبدالعزیز کو مقام خناصرہ میں لوگوں کو خطبہ دیتے ہوئے دیکھا۔ انھوں نے پیوند لگی قمیص پہنی ہوئی تھی۔

36229

(۳۶۲۳۰) حَدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ أَبِی مَخْزُومٍ ، قَالَ : حدَّثَنِی عُمَرُ بْنُ أَبِی الْوَلِیدِ ، قَالَ : خَرَجَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیزِ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ وَہُوَ نَاحِلُ الْجِسْمِ یَخَطُبُ کَمَا کَانَ یَخْطُبُ ، ثُمَّ قَالَ : یَا أَیُّہَا النَّاسُ ، مَنْ أَحْسَنَ مِنْکُمْ فَلْیَحْمَدَ اللَّہَ وَمَنْ أَسَائَ فَلْیَسْتَغْفِرَ اللَّہَ ، فَإِنَّہُ لاَ بُدَّ لأَقْوَامٍ أَنْ یَعْمَلُوا أَعْمَالاً وَضَعَہَا اللَّہُ فِی رِقَابِہِمْ وَکَتَبَہَا عَلَیْہِمْ۔
(٣٦٢٣٠) حضرت عمر بن الولید بیان کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز ایک جمعہ کو باہر تشریف لائے ۔۔۔ آپ کا جسم بہت کمزور تھا ۔۔۔ آپ نے خطبہ دیا جس طرح آپ خطبہ دیتے تھے۔ پھر فرمایا : اے لوگو ! تم میں سے جو اچھا کام کرے تو اس کو اللہ کی تعریف کرنی چاہیے۔ اور تم میں سے جو برا کام کرے تو اس کو اللہ سے معافی مانگنی چاہیے۔ کیونکہ لوگوں کے لیے یہ بات لازمی ہے کہ وہ اعمال کریں اور اللہ ان اعمال کو ان کی گردنوں پر رکھ دے اور ان اعمال کو ان لوگوں پر لکھ دے۔

36230

(۳۶۲۳۱) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ مُعرف ، فَقَالَ : رَأَیْت عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِیزِ یَخْطُبُ النَّاسَ بِعَرَفَۃَ وَعَلَیْہِ ثَوْبَانِ أَخْضَرَانِ ، وَذَکَرَ الْمَوْتَ ، فَقَالَ : غَنْظٌ لَیْسَ کَالْغَنْظِ وَکَظٌّ لَیْسَ کَالْکَظِّ۔
(٣٦٢٣١) حضرت معرف سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر بن عبدالعزیز کو مقام عرفہ میں دیکھا وہ لوگوں کو خطبہ دے رہے تھے اور ان پر دو سبز کپڑے تھے۔ آپ (رض) نے موت کا ذکر کیا تو فرمایا : وہ سخت تکلیف ہے لیکن عام سخت تکالیف کی طرح نہیں ہے۔ وہ سخت غم ہے لیکن عام سخت غموں کی طرح نہیں ہے۔

36231

(۳۶۲۳۲) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ ذَرٍّ ، قَالَ : مَا رَأَیْت أَحَدًا أَرَی ، أَنَّہُ أَشَدُّ خَوْفًا لِلَّہِ مِنْ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِیزِ۔
(٣٦٢٣٢) حضرت عمر بن ذر سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر بن عبدالعزیز (رض) سے زیادہ خوفِ خدا والا کوئی آدمی نہیں دیکھا۔

36232

(۳۶۲۳۳) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ، قَالَ : بَلَغَنِی أَنَّ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِیزِ خَطَبَ النَّاسَ بِعَرَفَۃَ ، فَقَالَ : یَا أَیُّہَا النَّاسُ ، إنَّکُمْ جِئْتُمْ مِنَ الْقَرِیبِ وَالْبَعِید ، فَأَنْضَیْتُمَ الظَّہْرَ وَأَخْلَقْتُمَ الثِّیَابَ ، وَلَیْسَ السَّعِیدُ مَنْ سَبَقَتْ دَابَّتُہُ ، أَوْ رَاحِلَتُہُ ، وَلَکِنَّ السَّعِیدَ مَنْ تُقُبِّلَ مِنْہُ۔
(٣٦٢٣٣) حضرت یحییٰ بن سعید سے روایت ہے وہ کہتے ہیں مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز نے مقام عرفہ میں لوگوں کو خطبہ ارشاد فرمایا۔ کہا : اے لوگو ! تم دور اور قریب سے آئے ہو، چنانچہ تم نے جانور بھی لاغر کردیے ہیں اور کپڑے بھی پرانے کرلیے ہیں لیکن خوش بخت وہ آدمی نہیں ہے جس کی سواری آگے نکل گئی بلکہ خوش بخت وہ ہے جس کی قبولیت ہوگئی۔

36233

(۳۶۲۳۴) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ، قَالَ : بَلَغَنِی عَنْ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِیزِ ، قَالَ : ذِکْرُ النِّعَمِ شُکْرُہَا۔
(٣٦٢٣٤) حضرت عمر بن عبدالعزیز سے روایت ہے وہ کہتے ہیں : نعمتوں کا ذکر کرنا بھی ان کا شکر ہے۔

36234

(۳۶۲۳۵) حَدَّثَنَا عِیسَی بْنُ یُونُسَ ، عَنِ الأَوْزَاعِیِّ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُہَاجِرٍ قَالَ : کَانَ قَمِیصُ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِیزِ وثیابہ فِیمَا بَیْنَ الْکَعْبِ وَالشِّرَاکِ۔
(٣٦٢٣٥) حضرت عمرو بن مہاجر سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز کی قمیص اور آپ کے کپڑے ٹخنوں اور تسمہ باندھنے کی جگہ کے درمیان تھے۔

36235

(۳۶۲۳۶) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَنِ الْمُہَلَّبِ بْنِ عُقْبَۃَ ، قَالَ : کَانَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیزِ یَخْطُبُ یَقُولُ : إنَّ مِنْ أَحَبِّ الأُمُورِ إِلَی اللہِ الْقَصْدَ فِی الْجِدَّۃِ ، وَالْعَفْوَ فِی الْمَقْدِرَۃِ ، وَالرِّفْقَ فِی الْوِلاَیَۃِ ، وَمَا رَفَقَ عَبْدٌ بِعَبْدٍ فِی الدُّنْیَا إِلاَّ رَفَقَ اللَّہُ بِہِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ۔
(٣٦٢٣٦) حضرت مہلب بن عقبہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز خطبہ دیتے تو فرماتے۔ اللہ تعالیٰ کے محبوب ترین کاموں میں تونگری کی حالت میں میانہ روی اور قدرت کے وقت معافی اور اختیار کے وقت نرمی ہے۔ جو بندہ بھی کسی بندہ کے ساتھ دنیا میں نرمی کرے گا تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے ساتھ نرمی کریں گے۔

36236

(۳۶۲۳۷) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَنْ عُبَیْدِ بْنِ عَبْدِ الْمَلِکِ ، قَالَ کَانَ عُمَرُ بْنُ عبْدِ الْعَزِیزِ یَقُولُ : اللَّہُمَّ أَصْلِحْ مَنْ کَانَ فِی صَلاَحِہِ صَلاَحٌ لأُمَّۃِ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، اللَّہُمَّ وَأَہْلِکْ مَنْ کَانَ فِی ہَلاَکِہِ صَلاَحٌ لأُمَّۃِ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔
(٣٦٢٣٧) حضرت عبید بن عبد الملک سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز فرمایا کرتے تھے : اے اللہ ! اس آدمی کو درست کردے جس کی درستگی میں امت محمدیہ کی درستگی ہے۔ اور اے اللہ ! اس آدمی کو ہلاک کردے جس کی ہلاکت میں امت محمدیہ کی درستگی ہے۔

36237

(۳۶۲۳۸) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَنْ عُبَیْدِ بْنِ عَبْدِ الْمَلِکِ ، قَالَ : أَخْبَرَنِی مَنْ رَأَی عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِیزِ وَاقِفًا بِعَرَفَۃَ وَہُوَ یَدْعُو وَہُوَ یَقُولُ بِأُصْبُعِہِ ہَکَذَا ، یَعْنِی یُشِیرُ بِہَا : اللَّہُمَّ زِدْ مُحْسِنَ أُمَّۃِ مُحَمَّدٍ إحْسَانًا ، وَرَاجِعْ بِمُسِیئِہِمْ إِلَی التَّوْبَۃِ ، ثُمَّ یَقُولُ : ہَکَذَا ، ثُمَّ یُدِیرُ إصْبَعَہُ : اللَّہُمَّ وَحُطَّ مِنْ وَرَائِہِمْ بِرَحْمَتِک۔
(٣٦٢٣٨) حضرت عبید بن عبد الملک سے روایت ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ مجھے اس آدمی نے بتایا جس نے حضرت عمر بن عبدالعزیز کو مقام عرفہ میں وقوف کرتے دیکھا تھا اور آپ (رض) دعا کر رہے تھے۔ اور آپ اپنی انگلی سے یوں اشارہ کررہے تھے۔ اے اللہ ! اُمت محمد 5! کے ساتھ اچھائی کرنے والے کی اچھائی کو اور زیادہ کر اور امت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ برائی کرنے والے کو توبہ کی طرف پھیر دے پھر آپ (رض) نے اپنی انگلی کو پھیرا۔ اے اللہ ! اور تو ان کے پیچھے سے اپنی رحمت کا احاطہ فرما لے۔

36238

(۳۶۲۳۹) حَدَّثَنَا عَفَّانُ بْنُ مُسْلِمٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا جُوَیْرِیَۃُ بْنُ أَسْمَائَ ، قَالَ : حَدَّثَنَا نَافِعٌ ، قَالَ : قَالَ عَبْدُ الْمَلِکِ بْنُ عُمَرَ لِعُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِیزِ : یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ ، مَا یَمْنَعُک أَنْ تمضی لِلَّذِی تُرِیدُ ، فَوَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ ، مَا أُبَالِی لَوْ غَلَتْ بِی وَبِکَ فِیہِ الْقُدُورُ ، قَالَ : وَحَقٌّ ہَذَا مِنْک یَا بُنَیَّ ، قَالَ : نَعَمْ وَاللہِ ، قَالَ : الْحَمْدُ لِلَّہِ الَّذِی جَعَلَ لِی مِنْ ذُرِّیَّتِی مَنْ یُعِینُنِی عَلَی أَمْرِ رَبِّی ، یَا بُنَی ، لَوْ بَدَہْت النَّاسَ بِالَّذِی تَقُولُ لَمْ آمَنْ أَنْ یُنْکِرُوہَا ، فَإِذَا أَنْکَرُوہَا لَمْ أَجِدْ بُدًّا مِنَ السَّیْفِ ، وَلاَ خَیْرَ فِی خَیْرٍ لاَ یَأْتِی إِلاَّ بِالسَّیْفِ ، یَا بُنَی ، إنِّی أُرَوِّضُ النَّاسَ رِیَاضَۃَ الصَّعْبِ ، فَإِنْ یَطُلْ بِی عُمْرٌ فَإِنِّی أَرْجُو أَنْ یُنْفِذَ اللَّہُ لِی شَیْئًا ، وَإِنْ تَعَدَّ عَلَیَّ مَنِیَّۃٌ فَقَدْ عَلِمَ اللَّہُ الَّذِی أُرِیدُ۔
(٣٦٢٣٩) حضرت نافع بیان کرتے ہیں کہتے ہیں کہ عبدالملک بن عمر نے حضرت عمر بن عبدالعزیز سے کہا : اے امیر المومنین ! آپ کو اپنے ارادہ کے پورے کرنے سے کیا شے رکاوٹ ہے۔ قسم اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے ! مجھے اس بات کی کوئی پروا نہیں ہے کہ میرے اور آپ کے ذریعہ ہانڈیاں ابلیں۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز (رض) نے فرمایا : اے میرے بیٹے ! یہ بات تیری طرف سے درست ہے ؟ عبدالملک نے کہا : جی ہاں، خدا کی قسم ! آپ (رض) نے فرمایا : تمام تعریفیں اس ذات کے لیے ہیں جس نے میری نسل میں ایسے لوگ پیدا فرمائے جو حکم خداوندی میں میری معاونت کرتا ہے۔ اے میرے بیٹے ! اگر میں یہ بات جو تم نے کہی ہے۔ لوگوں کے پاس اچانک لے کر آتا تو ان کی طرف سے اس بات کے انکار سے مجھے امن نہیں تھا۔ پھر جب وہ انکار کرتے تو میرے لیے تلوار کے سوا کوئی چارہ نہ ہوتا۔ اور ایسی خیر میں کوئی بہتری نہیں ہے جو تلوار کے ذریعہ آئے۔ اے میرے بیٹے ! میں لوگوں کے ساتھ مشکل سے قابو آنے والی اونٹنی کو قابو کرنے کی طرح کا معاملہ کررہا ہوں۔ چنانچہ اگر میری عمر لمبی ہوئی تو مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ میرے لیے کسی چیز کو نافذ کر دے گا اور اگر مجھ پر موت نے حملہ کردیا تو بھی اللہ تعالیٰ میرے ارادہ کو جانتے ہیں۔

36239

(۳۶۲۴۰) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا جُوَیْرِیَۃُ بْنُ أَسْمَائَ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ بْنِ أَبِی حَکِیمٍ ، قَالَ : غَضِبَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیزِ یَوْمًا فَاشْتَدَّ غَضَبُہُ ، وَکَانَتْ فِیہِ حِدَۃٌ ، وَعَبْدُ الْمَلِکِ ابْنُہُ حَاضِرٌ ، فَلَمَّا رَأَوْہُ قَدْ سَکَنَ غَضَبُہُ ، قَالَ : یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ ، أَنْتَ فِی قَدْرِ نِعْمَۃِ اللہِ عَلَیْک ، وَفِی مَوْضِعِکَ الَّذِی وَضَعَک اللَّہُ فیہ ، وَمَا وَلاَّک اللَّہُ مِنْ أَمْرِ عِبَادِہِ یَبْلُغُ بِکَ الْغَضَبُ مَا أَرَی ، قَالَ : کَیْفَ قُلْتَ ؟ فَأَعَادَ عَلَیْہِ کَلاَمُہُ ، فَقَالَ : أَمَا تَغْضَبُ یَا عَبْدَ الْمَلِکِ ، قَالَ : مَا یُغْنِی عَنِّی سَعَۃُ جَوْفِی إنْ لَمْ أُرَدِّدْ فِیہِ الْغَضَبَ حَتَّی لاَ یَظْہَرَ مِنْہُ شَیْئٌ أَکْرَہُہُ۔
(٣٦٢٤٠) حضرت اسماعیل بن عبدالحکیم سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ ایک دن حضرت عمر بن عبدالعزیز کو غصہ آیا اور ان کا غصہ شدید ہوگیا اور اس میں کچھ تیزی بھی تھی۔ آپ کا بیٹا عبدالملک موجود تھا۔ چنانچہ جب اس نے آپ کو دیکھا کہ آپ کا غصہ ٹھنڈا ہوگیا ہے تو اس نے کہا : اے امیر المومنین ! آپ، اپنے اوپر خدا کی نعمت کی قدر کریں اور جس جگہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو رکھا ہے آپ اسی جگہ رہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو جو حکومت کا اختیار دیا ہے تو بندوں کے معاملہ میں آپ کا غصہ جہاں تک پہنچا تھا آپ کو اس کا اختیار نہیں جو میں دیکھتا ہوں۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز نے فرمایا : تم نے کیسے یہ بات کہی ؟ چنانچہ عبدالملک نے بات دہرائی۔ حضرت عمر نے پوچھا : اے عبدالملک ! تمہیں غصہ نہیں آتا ؟ انھوں نے فرمایا : میری اس وسعت قلبی کا کیا فائدہ ؟ اگر میں اپنے غصہ کو واپس نہ کروں تاکہ اس کی وجہ سے کوئی ناپسندیدہ بات ظاہر نہ ہو ؟ “

36240

(۳۶۲۴۱) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ بُرْقَانَ ، قَالَ : کَتَبَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیزِ : أَمَّا بَعْدُ ، فَإِنَّ أُنَاسًا مِنَ النَّاسِ الْتَمَسُوا الدُّنْیَا بِعَمَلِ الآخِرَۃِ ، وَإِنَّ أُنَاسًا مِنَ الْقُصَّاصِ قَدْ أَحْدَثُوا مِنَ الصَّلاَۃِ عَلَی خُلَفَائِہِمْ وَأُمَرَائِہِمْ عِدْلَ صَلاَتِہِمْ عَلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَإِذَا أَتَاک کِتَابِی ہَذَا فَمُرْہُمْ أَنْ تَکُونَ صَلاَتُہُمْ عَلَی النبی صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وعلی النَّبِیّینَ وَدُعَاؤُہُمْ لِلْمُسْلِمِینَ عَامَّۃً ، وَیَدَعُوا مَا سِوَی ذَلِکَ۔
(٣٦٢٤١) حضرت جعفر بن برقان سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز (رض) نے خط لکھا۔ اما بعد ! بیشک کچھ لوگ آخرت کے عمل سے دنیا کو تلاش کرتے ہیں اور کچھ قصہ گو لوگوں نے جناب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرح اپنے خلفاء اور امراء پر درود بھیجنے کی بدعت نکال لی ہے۔ پس جب تمہارے پاس میرا یہ خط آئے تو تو لوگوں کو حکم دے کہ وہ جناب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور دیگر انبیاء پر درود بھیجیں۔ اور عام مسلمان لوگوں کے لیے دعا ہے اور ان کے علاوہ کو چھوڑ دیں۔

36241

(۳۶۲۴۲) حَدَّثَنَا سَعِیدُ بْنُ عَامِرٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ سَمِعْت عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِیزِ یَقُولُ : مَا أَنْعَمَ اللَّہُ عَلَی عَبْدٍ مِنْ نِعْمَۃٍ فَانْتَزَعَہَا مِنْہُ فَعَاضَہُ مِمَّا انْتَزَعَ مِنْہُ صَبْرًا إِلاَّ کَانَ الَّذِی عَاضَہُ خَیْرًا مِمَّا انْتَزَعَ مِنْہُ۔
(٣٦٢٤٢) حضرت عمر بن عبدالعزیز فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ کسی بندہ پر بھی نعمت کرتا ہے پھر اس کو اس آدمی سے واپس لے لیتا ہے اور جس سے واپس لیتا ہے اس کو صبر دے دیتا ہے تو اللہ تعالیٰ نے اس آدمی کو جو صبر دیا ہوتا ہے وہ واپس لی ہوئی نعمت سے بہتر ہوتا ہے۔

36242

(۳۶۲۴۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ عُبَیْدِ اللہ بْنِ مَوْہَبٍ ، عَنْ صَالِحِ بْنِ سَعِیدٍ الْمُؤَذِّنِ ، قَالَ : بَیْنَمَا أَنَا مَعَ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِیزِ بِالسُّوَیْدَائِ فَأَذَّنْت لِلْعِشَائِ ، فَصَلَّی ، ثُمَّ دَخَلَ الْقَصْرَ فَقَلَّمَا لَبِثَ أَنْ خَرَجَ ، فَصَلَّی رَکْعَتَیْنِ خَفِیفَتَیْنِ ، ثُمَّ جَلَسَ فَاحْتَبَی ، فَافْتَتَحَ الأَنْفَالَ فَمَا زَالَ یُرَدِّدُہَا وَیَقْرَأ ، کُلَّمَا مَرَّ بِآیَۃِ تَخْوِیفٍ تَضَرَّعَ ، وَکُلَّمَا مَرَّ بِآیَۃِ رَحْمَۃٍ دَعَا حَتَّی أَذَّنْتُ لِلْفَجْرِ۔
(٣٦٢٤٣) حضرت صالح بن سعید مؤذن سے روایت ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ میں حضرت عمر بن عبدالعزیز (رض) کے ہمراہ مقام سویداء میں تھا۔ چنانچہ میں نے عشاء کی اذان دی اور انھوں نے نماز ادا کی پھر محل میں چلے گئے۔ پھر تھوڑی دیر ہی ٹھہرے تھے کہ باہر آگئے پھر دوہل کی سی رکعتیں پڑھیں اور پھر گھٹنے اٹھا کر (احتباء کی حالت میں) بیٹھ گئے۔ اور سورة انفال پڑھنا شروع کردی۔ آپ (رض) مسلسل سورة انفال دہراتے رہے اور پڑھتے رہے۔ جب بھی کسی تخویف والی آیت سے گزرتے عاجزی کرتے اور جب کسی رحمت کی آیت سے گزرتے دعا کرتے۔ یہاں تک کہ میں نے فجر کی اذان دے دی۔

36243

(۳۶۲۴۴) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ طَلْحَۃَ بْنِ یَحْیَی ، قَالَ : کُنْتُ جَالِسًا عِنْدَ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِیزِ فَدَخَلَ عَلَیْہِ عَبْدُ الأَعْلَی بْنُ ہِلاَلٍ ، فَقَالَ : أَبْقَاک اللَّہُ یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ مَا دَامَ الْبَقَائُ خَیْرًا لَک ، قَالَ : قَدْ فُرِغَ مِنْ ذَلِکَ یَا أَبَا النَّضْرِ ، وَلَکِنْ قُلْ : أَحْیَاک اللَّہُ حَیَاۃً طَیِّبَۃً ، وَتَوَفَّاک مَعَ الأَبْرَارِ۔
(٣٦٢٤٤) حضرت طلحہ بن یحییٰ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں حضرت عمر بن عبدالعزیز کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ ان کے پاس حضرت عبدالاعلیٰ بن ہلال تشریف لائے اور کہا : اے امیر المومنین ! جب تک باقی رہنا آپ کے لیے بہتر ہو۔ اللہ آپ کو باقی رکھے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز نے کہا : اے ابوالنضر ! اس دعا سے تو فراغت ہوچکی ہے۔ لیکن تم یہ دعا کرو۔ اللہ تمہیں طیب زندگی عطا کرے اور تمہیں نیک لوگوں کے ساتھ وفات دے۔

36244

(۳۶۲۴۵) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ بْنِ أَبِی حَکِیمٍ، عَنْ عُمَرَ بْنِ عَبْدِالْعَزِیزِ، قَالَ: إنَّ اللَّہَ لاَ یُؤَاخِذُ الْعَامَّۃَ بِعَمَلٍ فِی الْخَاصَّۃِ ، فَإِذَا الْمَعَاصِی ظَہَرَتْ فَلَمْ تُنْکَرَ اسْتَحَقُّوا الْعُقُوبَۃَ جَمِیعًا۔ (مالک ۹۹۱)
(٣٦٢٤٥) حضرت عمر بن عبدالعزیز سے روایت ہے وہ کہتے ہیں بیشک اللہ تعالیٰ عام لوگوں کو خاص لوگوں کے عمل کی وجہ سے مؤاخذہ نہیں کرتے۔ لیکن جب گناہ سرعام ہوتے ہیں اور ان پر انکار نہیں کیا جاتا تو پھر سب لوگ سزا کے مستحق ہوجاتے ہیں۔

36245

(۳۶۲۴۶) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِی عَبْدِ اللہِ الأَسَدِیُّ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِیزِ ، قَالَ : مَنْ لَمْ یَعُدْ کَلاَمُہُ مِنْ عَمَلِہِ کَثُرَتْ خَطَایَاہُ ، وَمَنْ عَمِلَ بِغَیْرِ عِلْمٍ کَانَ مَا یَفْسُدُ أَکْثَرَ مِمَّا یَصْلُحُ۔
(٣٦٢٤٦) حضرت عمر بن عبدالعزیز سے روایت ہے وہ کہتے ہیں جو آدمی، اپنے کلام کو اپنے عمل سے شمار نہیں کرتا اس کی خطائیں زیادہ ہوتی ہیں اور جو آدمی علم کے بغیر عمل کرتا ہے تو اس کے خراب عمل اس کے صحیح عملوں سے زیادہ ہوجاتے ہیں۔

36246

(۳۶۲۴۷) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، قَالَ : ذَکَرَ أَبُو إسْرَائِیلَ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِیزِ ، فَقَالَ : حَدَّثَنِی عَلِیُّ بْنُ بَذِیمَۃَ، قَالَ : رَأَیْتہ بِالْمَدِینَۃِ وَہُوَ أَحْسَنُ النَّاسِ لِبَاسًا وَأَطْیَبُ النَّاسِ رِیحًا وَمِنْ أَخْیَل النَّاسِ فِی مِشْیَتِہِ ، أَوْ أَخْیَلَ النَّاسِ فِی مِشْیَتِہِ ، ثُمَّ رَأَیْتہ بَعْدُ یَمْشِی مِشْیَۃَ الرُّہْبَانِ ، فَمَنْ حَدَّثَک أَنَّ الْمَشْیَ سَجِیَّۃٌ فَلاَ تُصَدِّقْہُ بَعْدَ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِیزِ۔
(٣٦٢٤٧) حضرت علی بن بذیمہ بیان کرتے ہیں کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر بن عبدالعزیز کو مدینہ میں دیکھا تھا۔ وہ سب سے خوبصورت لباس والے تھے۔ اور سب سے عمدہ خوشبو والے تھے۔ اور اپنی چال میں سب سے زیادہ نخرے والے تھے۔ پھر میں نے ان کو اس کے بعد راہبوں کی سی چال چلتے (بھی) دیکھا ہے۔ پس جو شخص تمہیں یہ کہے کہ چال انسان کی فطری عادت ہے تو اس کی عمر بن عبد العزیز کے بعد تصدیق نہ کرنا۔

36247

(۳۶۲۴۸) حَدَّثَنَا سَعِیدُ بْنُ عُثْمَانَ ، عَنْ غَیْلاَنَ بْنِ مَیْسَرَۃَ ، أَنَّ رَجُلاً أَتَی عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِیزِ ، فَقَالَ : زَرَعْت زَرْعًا فَمَرَّ بِہِ جَیْشٌ مِنْ أَہْلِ الشَّامِ فَأَفْسَدُوہُ ، قَالَ : فَعَوَّضَہُ مِنْہُ عَشْرَۃَ آلاَفِ۔
(٣٦٢٤٨) حضرت غیلان بن میسرہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی حضرت عمر بن عبدالعزیز کے پاس آیا اور اس نے کہا : میں نے کھیتی کاشت کی تھی لیکن اس کے پاس سے اہل شام کا لشکر گزرا اور اس نے کھیتی خراب کردی۔ راوی کہتے ہیں حضرت عمر بن عبدالعزیز نے اس آدمی کو دس ہزار معاوضہ ادا کیا۔

36248

(۳۶۲۴۹) حَدَّثَنَا عِیسَی بْنُ یُونُسَ ، عَنِ الأَوْزَاعِیِّ ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِیزِ أَوْصَی عَامِلَہُ فِی الْغَزْوِ أَنْ لاَ یَرْکَبَ دَابَّۃً إِلاَّ دَابَّۃً یَضْبِطُ سَیْرَہَا أَضْعَفَ دَابَّۃٍ فِی الْجَیْشِ۔
(٣٦٢٤٩) حضرت اوزاعی سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز (رض) نے اپنے عامل کو سفر جہاد میں یہ وصیت کی تھی کہ وہ صرف ایسی سواری پر ہی سوار ہو جس کی رفتار کو لشکر میں موجود کمزور ترین سواری بھی پاسکے۔

36249

(۳۶۲۵۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ طَلْحَۃَ بْنِ یَحْیَی ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِیزِ کَانَ یُبْرِدُ ، قَالَ : فَحَمَلَ مَوْلًی لَہُ رَجُلاً عَلَی الْبَرِیدِ بِغَیْرِ إذْنِہِ ، قَالَ : فَدَعَاہُ ، فَقَالَ : لاَ تَبْرَحْ حَتَّی تُقَوِّمَہُ ، ثُمَّ تَجْعَلَہُ فِی بَیْتِ الْمَالِ۔
(٣٦٢٥٠) حضرت طلحہ بن یحییٰ سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز قاصد روانہ کیا کرتے تھے۔ راوی کہتے ہیں : حضرت عمر کے ایک آزاد کردہ غلام نے آپ کی اجازت کے بغیر ایک آدمی کو ڈاک کے گھوڑے پر سوار کردیا۔ راوی کہتے ہیں۔ چنانچہ آپ (رض) نے اس کو بلایا اور فرمایا : تم اسی طرح رہو یہاں تک کہ تم اس کی قیمت لگاؤ اور پھر اس کو بیت المال میں جمع کرو۔

36250

(۳۶۲۵۱) حَدَّثَنَا ابْنُ مُبَارَکٍ ، عَنْ جُمَیْعِ بْنِ عَبْدِ اللہِ الْمُقْرِئِ ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِیزِ نَہَی الْبَرِیدَ أَنْ یَجْعَلَ فِی طَرَفِ السَّوْطِ حَدِیدَۃً یَنْخُسُ بِہَا الدَّابَّۃَ ، قَالَ : وَنَہَی عَنِ اللُّجُمِ الثِّقَالَ۔
(٣٦٢٥١) حضرت جمیع بن عبداللہ سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز نے قاصد کو اس بات سے منع فرمایا کہ لاٹھی کے ایک جانب لوہا لگایا جائے جس کے ذریعہ جانور کو مارا جائے۔ راوی کہتے ہیں۔ آپ نے بھاری لگاموں سے بھی منع کیا۔

36251

(۳۶۲۵۲) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : قَالَ عَامِرُ بْنُ عَبْدِ قَیْسٍ : الْعَیْشُ فِی أَرْبَعٍ : النِّسَائِ وَاللِّبَاسِ وَالطَّعَامِ وَالنَّوْمِ ، فَأَمَّا النِّسَائُ فَوَاللہِ مَا أُبَالِی امْرَأَۃً رَأَیْت أَمْ عَنْزًا ، وَأَمَّا اللِّبَاسُ فَوَاللہِ مَا أُبَالِی بِمَا وَارَیْت بِہِ عَوْرَتِی ، وَأَمَّا الطَّعَامُ وَالنَّوْمُ فَقَدْ غَلَبَانِی ، وَاللہِ لأُضِرَّنَّ بِہِمَا جَہْدِی ، قَالَ الْحَسَنُ : فَأَضَرَّ وَاللہِ بِہِمَا۔
(٣٦٢٥٢) حضرت عامر بن عبد قیس سے روایت ہے وہ کہتے ہیں عیش چار چیزوں میں ہے : عورتیں، لباس، کھانا، نیند۔ پس عورتیں تو خدا کی قسم میرے لیے کسی عورت اور کسی بکری کو دیکھنا برابر ہے اور لباس تو خدا کی قسم ! مجھے اپنی ستر چھپانے کو جو کپڑا ملا ہے تو مجھے کسی اور کپڑے کی پروا نہیں ہے۔ اور کھانا اور نیند تو تحقیق یہ دونوں مجھ پر غالب ہیں۔ بخدا ! میں ان دونوں کے ساتھ اپنی مشقت کو تکلیف دوں گا۔ حضرت حسن کہتے ہیں : بخدا ! انھوں نے دونوں کو نقصان دیا۔

36252

(۳۶۲۵۳) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : دَخَلَ عَلَیَّ عَامِرٌ فِی الْبَیْتِ وَلَیْسَ مَعَہُ إِلاَّ جَرَّۃٌ فِیہَا شَرَابُہُ وَطُہُورُہُ ، وَسَلَّۃٌ فِیہَا طَعَامُہُ۔
(٣٦٢٥٣) حضرت حسن سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت عامر کے پاس گھر میں گیا تو ان کے پاس صرف ایک گھڑا تھا جس میں ان کے وضو اور پینے کا پانی تھا یا ایک ٹوکرا تھا جس میں ان کا کھانا تھا۔

36253

(۳۶۲۵۴) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : کَانَ مَا یَلِی الأَرْضَ مِنْ عَامِرِ بْنِ عَبْدِ قَیْسٍ مِثْلَ ثَفِنِ الْبَعِیرِ۔
(٣٦٢٥٤) حضرت حسن سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت عامر بن عبد قیس کے جسم کا جو حصہ زمین کو لگتا تھا وہ اونٹ کے حصہ کی طرح (سخت) تھا۔

36254

(۳۶۲۵۵) حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُوسَی الأَشْیَبُ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ حَبِیبِ بْنِ شَہِیدٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا بِشْرٍ یُحَدِّثُ عَنْ سَہْمِ بْنِ شَقِیقٍ ، قَالَ : أَتَیْتُ عَامِرَ بْنَ عَبْدِ قَیْسٍ فَقَعَدْت عَلَی بَابِہِ فَخَرَجَ وَقَدِ اغْتَسَلَ ، فَقُلْتُ : إنِّی أَرَی الْغُسْلَ یُعْجِبُک ، فَقَالَ : رُبَّمَا اغْتَسَلْت ، قَالَ : مَا حَاجَتُک ؟ قُلْتُ : جئت للْحَدِیثِ ، قَالَ : وَعَہْدُک بِی أُحِبُّ الْحَدِیثِ۔
(٣٦٢٥٥) حضرت سہم بن شقیق سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں حضرت عامر بن عبد قیس کے پاس حاضر ہوا اور میں ان کے دروازے پر بیٹھ گیا۔ پس وہ غسل کرکے باہر آئے تو میں نے کہا : میرے خیال میں آپ کو غسل پسند ہے۔ انھوں نے فرمایا : میں اکثر غسل کرتا ہوں۔ پھر پوچھا : تمہاری کیا ضرورت ہے ؟ میں نے کہا : میں حدیث کے لیے آیا ہوں۔ آپ نے فرمایا : تمہارا میرے بارے میں یہ خیال ہے کہ مجھے حدیث سے محبت ہے ؟ “

36255

(۳۶۲۵۶) حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُوسَی ، عَنْ أَبِی ہِلاَلٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سِیرِینَ ، قَالَ : قِیلَ لِعَامِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ : أَلاَ تَزَوَّجُ ، قَالَ : مَا عِنْدِی نَشَاطٌ ، وَمَا عِنْدِی مِنْ مَالٍ ، فَمَا أَغُرُّ امْرَأَۃً مُسْلِمَۃً۔
(٣٦٢٥٦) حضرت محمد بن سیرین سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت عامر بن عبداللہ سے کہا گیا۔ آپ نے شادی کیوں نہیں کی ؟ انھوں نے فرمایا : مجھے (اس کی) طلب نہیں ہے اور نہ ہی میرے پاس مال ہے۔ چنانچہ میں کسی مسلمان عورت کو دھوکا نہیں دے سکتا۔

36256

(۳۶۲۵۷) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَنْ ثَابِتٍ ، قَالَ : قَالَ عَامِرُ بْنُ عَبْدِ قَیْسٍ لاِبْنَیْ عَمٍّ لَہُ : فَوِّضَا أَمْرَکُمَا إِلَی اللہِ۔
(٣٦٢٥٧) حضرت ثابت سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت عامر بن عبد قیس نے اپنے دو چچا زاد بھائیوں سے کہا : تم اپنا معاملہ اللہ کے سپرد کردو۔

36257

(۳۶۲۵۸) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، قَالَ : حَدَّثَنَا بَعْضُ مَشْیَخَتِنَا ، قَالَ : قَالَ عَامِرُ بْنُ عَبْدِ اللہِ : إنَّمَا أَجِدُنِی آسَفُ عَلَی الْبَصْرَۃِ لأَرْبَعِ خِصَالٍ : تَجَاوُبُ مُؤَذِّنِیہَا ، وَظَمَأُ الْہَوَاجِرِ ، وَلأَنَّ بِہَا أَخْدَانِی ، وَلأَنَّ بِہَا وَطَنِی۔
(٣٦٢٥٨) حضرت عامر بن عبداللہ فرماتے ہیں کہ میں اپنے آپ کو بصرہ کی چار باتوں کی وجہ سے غم گین پاتا ہوں۔ اس کے موذنوں کا ایک دوسرے کو جواب دینا۔ اور سخت گرمیوں کی دوپہر کی پیاس، اور یہ کہ وہاں میرے دوست ہیں اور یہ کہ وہ میرا وطن ہے۔

36258

(۳۶۲۵۹) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، قَالَ : حَدَّثَنَا سَعِیدُ الْجُرَیْرِیُّ ، قَالَ : لَمَّا سُیِّرَ عَامِرُ بْنُ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : شَیَّعَہُ إخْوَانُہُ ، فَقَالَ : بِظَہْرِ الْمِرْبَدِ : إنِّی دَاعٍ فَأَمِّنُوا ، فَقَالُوا : ہَاتِ فَقَدْ کُنَّا نَشْتَہِی ہَذَا مِنْک ، فَقَالَ : اللَّہُمَّ مَنْ سَائَنِی وَکَذَبَ عَلَیَّ وَأَخْرَجَنِی مِنْ مِصْرِی وَفَرَّقَ بَیْنِی وَبَیْنَ إخْوَانِی اللَّہُمَّ أَکْثِرْ مَالَہُ وَوَلَدَہُ وَأَصِحَّ جِسْمَہُ وَأَطِلْ عُمْرَہُ۔
(٣٦٢٥٩) حضرت سعید جریری بیان کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ جب حضرت عامر بن عبداللہ کو جلا وطن کیا گیا تو ان کے کچھ بھائی ان کی مشایعت کے لیے نکلے۔ چنانچہ انھوں نے ظہر مربد میں جا کر کہا : میں دعا کرتا ہوں تم آمین کہنا۔ بھائیوں نے کہا : مانگیں۔ ہم تو خود آپ سے یہی چاہتے ہیں۔ آپ (رض) نے دعا کی : اے اللہ ! جس نے میرے ساتھ برا کیا اور مجھ پر جھوٹ بولا اور مجھے میرے شہر سے جلا وطن کیا اور میرے اور میرے بھائیوں میں جدائی ڈالی، اے اللہ ! تو اس کے مال، اور اس کے اولاد کو زیادہ فرما اور اس کے جسم کو صحت مند رکھ اور اس کی عمر لمبی فرما۔

36259

(۳۶۲۶۰) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ مَالِکِ بْنِ دِینَارٍ ، قَالَ : حدَّثَنِی مَنْ رَأَی عَامِرَ بْنَ عَبْدِ قَیْسٍ دَعَا بِزَیْتٍ فَصَبَّہُ فِی یَدِہِ کَذَا وَصَفَ جَعْفَرٌ ، وَمَسَحَ إحْدَاہُمَا عَلَی الأُخْرَی ، ثُمَّ قَالَ : {وَشَجَرَۃً تَخْرُجُ مِنْ طُورِ سَیْنَائَ تَنْبُتُ بِالدُّہْنِ وَصِبْغٍ لِلآکِلِینَ} قَالَ فَدَہَنَ رَأْسَہُ وَلِحْیَتَہُ۔
(٣٦٢٦٠) حضرت مالک بن دینار سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ مجھے اس شخص نے بیان کیا جس نے خود عامر بن عبد قیس کو دیکھا تھا کہ انھوں نے زیتون کاتیل منگوایا اور پھر اس کو اپنے ہاتھ میں ڈالا اور ایک ہاتھ کو دوسرے پر ملا پھر قرآن مجید کی یہ آیت پڑھی : { وَشَجَرَۃً تَخْرُجُ مِنْ طُورِ سَیْنَائَ تَنْبُتُ بِالدُّہْنِ وَصِبْغٍ لِلآکِلِینَ } راوی کہتے ہیں پھر انھوں نے اپنے سر اور داڑھی پر تیل لگایا۔

36260

(۳۶۲۶۱) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، قَالَ : حَدَّثَنِی مَالِکُ بْنُ دِینَارٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِی فُلاَنٌ ، أَنَّ عَامِرَ بْنَ عَبْدِ اللہِ کَانَ فِی الرَّحْبَۃِ وَإِذَا ذِمِّیٌّ یُظْلَمُ ، قَالَ : فَأَلْقَی عَامِرٌ رِدَائَہُ وَقَالَ : أَلاَّ أَرَی ذِمَّۃَ اللہِ تخْفَرُون وَأَنَا حَی ، فَاسْتَنْقَذَہُ۔
(٣٦٢٦١) حضرت مالک بن دینار، ایک آدمی کے حوالہ سے بیان کرتے ہیں کہ حضرت عامر بن عبداللہ، اپنے گھر کے صحن میں تھے کہ ایک ذمی پر ظلم ہو رہا تھا۔ راوی کہتے ہیں۔ پس حضرت عامر نے اپنی چادر پھینک دی اور فرمایا : کیا میں اللہ کے ذمہ کو ٹوٹتے ہوئے دیکھتا رہوں اور میں زندہ رہوں ؟ چنانچہ آپ نے اس کو بچا لیا۔

36261

(۳۶۲۶۲) حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ فُضَیْلِ بْنِ زَیْدٍ الرَّقَاشِیِّ ، قَالَ : لاَ یہلک النَّاسُ عَنْ نَفْسِکَ ، فَإِنَّ الأَمْرَ یَصِلُ إلَیْک دُونَہُمْ ، وَلاَ تَقُلْ : اقْطَعْ عَنَّا الْیَوْمَ بِکَذَا وَکَذَا ، فَإِنَّہُ مَحْصِیٌّ عَلَیْکَ جَمِیعَ مَا عَمِلْت فِی ذَلِکَ ، وَلَمْ تَرَ شَیْئًا أَسْرَعَ إدْرَاکًا ، وَلاَ أَحْسَنَ طَلَبًا مِنْ حَسَنَۃٍ حَدِیثَۃٍ لِذَنْبٍ عَظیم۔
(٣٦٢٦٢) حضرت فضیل بن زید رقاشی سے روایت ہے وہ کہتے ہیں۔ لوگ تجھے تیری ذات سے غافل نہ کردیں۔ کیونکہ (تیرا) معاملہ تیرے ساتھ ہوگا نہ کہ ان کے ساتھ اور تم یہ بات نہ کہو۔ آج کا دن ہم سے یوں یوں گزر گیا۔ کیونکہ تم اس میں جو کچھ کرو گے وہ سارا تمہارے اوپر شمار ہوگا اور تم کسی چیز کو اس نیکی سے زیادہ تیز پانے والا اور اچھا طلب کرنے والا نہیں پاؤ گے جو بڑے گناہ کے بعد ہو۔

36262

(۳۶۲۶۳) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَیْدٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا عِمْرَانُ بْنُ حُدَیْرٍ ، عَنْ قَسَامَۃَ بْنِ زُہَیْرٍ ، قَالَ : رَوِّحُوا الْقُلُوبَ تَعِ الذِّکْرَ۔
(٣٦٢٦٣) حضرت قسامہ بن زہیر سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ دلوں کو راحت پہنچاؤ ذکر کی۔

36263

(۳۶۲۶۴) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِِ ، عَنْ أَبِی غَیْلاَنَ ، قَالَ : کَانَ مُطَرِّفُ بْنُ الشِّخِّیرِ یَقُولُ : اللَّہُمَّ إنِّی أَعُوذُ بِکَ مِنْ شَرِّ السُّلْطَانِ ، وَمِنْ شَرِّ مَا تَجْرِی بِہِ أَقْلاَمُہُمْ ، وَأَعُوذُ بِکَ أَنْ أَقُولَ بِحَقٍّ أَطْلُبُ بِہِ غَیْرَ طَاعَتِکَ ، وَأَعُوذُ بِکَ أَنْ أَتَزَیَّنَ لِلنَّاسِ بِشَیْئٍ یَشِینُنِی عِنْدَکَ ، وَأَعُوذُ بِکَ أَنْ أَسْتَغِیثَ بِشَیْئٍ مِنْ مَعَاصِیک عَلَی ضُرٍّ نَزَلَ بِی، وَأَعُوذُ بِکَ أَنْ تَجْعَلَنِی عِبْرَۃً لأَحَدٍ مِنْ خَلْقِکَ ، وَأَعُوذُ بِکَ أَنْ تَجْعَلَ أَحَدًا أَسْعَدَ بِمَا عَلَّمْتہ مِنِّی ، اللَّہُمَّ لاَ تُخْزِنِی فَإِنَّک بِی عَالِمٌ ، اللَّہُمَّ لاَ تُعَذِّبْنِی فَإِنَّک عَلَیَّ قَادِرٌ۔
(٣٦٢٦٤) حضرت ابوغیلان سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت مطرف ابن الشخیر یہ دعا کیا کرتے تھے۔ اے اللہ ! میں آپ سے بادشاہ کے شر سے پناہ مانگتا ہوں۔ اور اس چیز کے شر سے جس پر ان کے قلم چلیں۔ اور میں آپ سے پناہ مانگتا ہوں اس بات کی کہ میں ایسا حق بولوں جس سے میں آپ کی فرمان برداری کے سوا کچھ طلب کروں اور میں آپ سے مانگتا ہوں اس بات سے کہ میں لوگوں کے سامنے کسی ایسی چیز کے ذریعہ زینت حاصل کروں جو مجھے آپ کے ہاں بدنما کردے اور میں آپ سے اس بات کی پناہ مانگتا ہوں کہ میں اپنے اوپر آنے والی کسی تکلیف کی وجہ سے آپ سے آپ کی نافرمانی پر مدد طلب کروں۔ اور میں اس بات سے آپ کی پناہ مانگتا ہوں کہ آپ مجھے اپنی مخلوق میں سے کسی کے لیے عبرت بنادیں۔ اور میں آپ سے اس بات کی پناہ مانگتا ہوں کہ آپ میرے جاننے والوں میں سے کسی کو مجھ سے زیادہ خوش بخت کردیں۔ اے اللہ ! آپ مجھے رسوا نہ کرنا۔ کیونکہ آپ مجھے جانتے ہیں۔ اے اللہ ! آپ مجھے عذاب نہ دینا کیونکہ آپ مجھ پر قادر ہیں۔

36264

(۳۶۲۶۵) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ الْحُبَابِ ، عَنْ مَہْدِیِّ بْنِ مَیْمُونٍ ، عَنْ غَیْلاَنَ بْنِ جَرِیرٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ مُطَّرِفًا یَقُولُ : کَأَنَّ الْقُلُوبَ لَیْسَتْ مِنَّا وَکَأَنَّ الْحَدِیثَ یُعْنَی بِہِ غَیْرَنَا۔
(٣٦٢٦٥) حضرت غیلان بن جریر کہتے ہیں کہ انھوں نے حضرت مطرف کو کہتے سنا۔ (یوں لگتا ہے) گویا کہ دل ہمارے نہیں ہیں اور گویا کہ حدیث سے مقصود ہمارے سوا کوئی اور ہے۔

36265

(۳۶۲۶۶) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ الْحُبَابِ ، عَنْ مَہْدِیٍّ ، قَالَ : حدَّثَنَا غَیْلاَنُ ، قَالَ : سَمِعْتُ مُطَّرِفًا یَقُولُ : لَوْ أَتَانِی آتٍ مِنْ رَبِّی فَخَیَّرَنِی ، أَفِی الْجَنَّۃِ أَمْ فِی النَّارِ أَمْ أَصِیرُ تُرَابًا ، اخْتَرْت أَنْ أَصِیرَ تُرَابًا۔
(٣٦٢٦٦) حضرت غیلان بیان کرتے ہیں کہتے ہیں کہ میں نے حضرت مطرف کو کہتے سنا : اگر میرے پاس میرے رب کا کوئی قاصد آئے اور مجھے یہ اختیار دے کہ یا جنت میں جاؤں یا جہنم میں جاؤں یا میں مٹی ہوجاؤں ؟ تو میں مٹی ہونا پسند کروں گا۔

36266

(۳۶۲۶۷) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ یَزِیدَ الرِّشْکِ ، عَنْ مُطَرِّفٌ قَالَ : {إنَّ الَّذِینَ یَتْلُونَ کِتَابَ اللہِ وَأَقَامُوا الصَّلاَۃَ} إِلَی آخِرِ الآیَۃِ ، قَالَ : ہَذِہِ آیَۃَ الْقُرَّائِ۔
(٣٦٢٦٧) حضرت مطرف سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ {إنَّ الَّذِینَ یَتْلُونَ کِتَابَ اللہِ وَأَقَامُوا الصَّلاَۃَ } آخر تک۔ فرمایا : یہ قاریوں کی آیت ہے۔

36267

(۳۶۲۶۸) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ الْمُغِیرَۃِ ، عَنْ ثَابِتٍ ، قَالَ : قَالَ مُطَرِّفٌ : مَا مِنَ النَّاسِ أَحَدٌ إِلاَّ وَہُوَ أَحْمَقُ فِیمَا بَیْنَہُ وَبَیْنَ رَبِّہِ ، وَلَکِنَّ بَعْضَ الْحَمَقِ أَہْوَنُ مِنْ بَعْضٍ۔
(٣٦٢٦٨) حضرت ثابت سے روایت ہے وہ کہتے ہیں لوگوں میں سے ہر ایک اپنے اور اپنے اللہ کے درمیان معاملہ کرنے میں بیوقوف ہے۔ لیکن بعض لوگوں کی بیوقوفی بعض سے کم درجہ ہے۔

36268

(۳۶۲۶۹) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَۃَ ، عَنْ ثَابِتٍ ، قَالَ : کَانَ مُطَرِّفٌ یَقُولُ : اللَّہُمَّ تَقَبَّلْ مِنِّی صَلاَۃَ یَوْمٍ ، اللَّہُمَّ تَقَبَّلْ مِنِّی صَوْمَ یَوْمٍ، اللَّہُمَّ اکْتُبْ لِی حَسَنَۃً ، ثُمَّ یَقُولُ: {إنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللَّہُ مِنَ الْمُتَّقِینَ}۔
(٣٦٢٦٩) حضرت ثابت سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت مطرف کہا کرتے تھے۔ اے اللہ ! آپ مجھ سے ایک دن کی نماز قبول فرما لیں، اے اللہ ! آپ مجھ سے ایک دن کا روزہ قبول کرلیں۔ اے اللہ ! آپ میرے لیے نیکی لکھ دیں۔ پھر آپ یہ (تلاوت) فرمایا کرتے۔ ” بیشک اللہ تقویٰ والوں کا عمل قبول کرتا ہے۔ “

36269

(۳۶۲۷۰) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا ثَابِتُ ، أَنَّ مُطَرِّفَ بْنَ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : لَوْ کَانَتْ لِی نَفْسَانِ لَقَدَّمْت إحْدَاہُمَا قبل الأُخْرَی، فَإِنْ ہَجَمَتْ عَلَی خَیْرٍ أَتْبَعْتُہَا الأُخْرَی، وَإِلاَّ أَمْسَکْتُہا، وَلَکِنْ إنَّمَا ہِیَ نَفْسٌ وَاحِدَۃٌ ، لاَ أَدْرِی عَلَی مَا تَہْجُمُ خَیْرٌ أَمْ شَرٌّ۔
(٣٦٢٧٠) حضرت مطرف بن عبداللہ کہتے ہیں اگر میرے پاس دو نفس ہوتے تو میں ان میں ایک کو دوسرے سے پہلے آگے بھیجتا۔ پس اگر وہ خیر پر پہنچتا تو میں دوسرے کو بھی اس کے پیچھے کردیتا وگرنہ میں دوسرے کو روک لیتا۔ لیکن نفس تو ایک ہی ہے۔ مجھے معلوم نہیں ہے کہ یہ خیر پر پہنچے گا یا شرپر ؟ “

36270

(۳۶۲۷۱) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا ثَابِتٌ ، أَنَّ مُطَّرِفًا ، قَالَ : لَوْ وُزِنَ رَجَائُ الْمُؤْمِنِ وخَوْفَہُ مَا رَجَحَ أَحَدُہُمَا صَاحِبَہُ۔
(٣٦٢٧١) حضرت ثابت بیان کرتے ہیں کہ حضرت مطرف نے فرمایا۔ اگر مومن کی امید اور اس کا خوف وزن کیا جائے تو ان میں سے کوئی دوسرے پر غالب نہیں ہوگا۔

36271

(۳۶۲۷۲) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، قَالَ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ وَاسِعٍ الأَزْدِیُّ ، قَالَ : کُنْتُ فِی حَلْقَۃٍ فِیہَا الْحَسَنُ وَمُطَرِّفٌ ، وَفُلاَنٌ وَفُلاَنٌ ، ذَکَرَ أُنَاسًا ، فَتَکَلَّمَ سَعِیدُ بْنُ أَبِی الْحَسَنِ ، قَالَ : ثُمَّ دَعَا ، فَقَالَ فِی دُعَائِہِ : اللَّہُمَّ ارْض عَنَّا ، اللَّہُمَّ ارْض عَنَّا ، مَرَّتَیْنِ أَوْ ثَلاَثًا ، قَالَ : یَقُولُ مُطَرِّفٌ وَہُوَ فِی نَاحِیَۃِ الْحَلْقَۃِ : اللَّہُمَّ إنْ لَمْ تَرْضَ عَنَّا فَاعْفُ عَنَّا ، قَالَ : فَأَبْکَی الْقَوْمَ بِہَذِہِ الْکَلِمَۃِ۔
(٣٦٢٧٢) حضرت محمد بن واسع ازدی بیان کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ میں ایک حلقہ میں بیٹھا ہوا تھا جس میں حضرت حسن، حضرت مطرف اور فلاں، فلاں لوگ محمد بن واسع نے کئی لوگوں کا ذکر کیا۔۔۔ موجود تھے۔ چنانچہ حضرت سعید بن ابو الحسن نے کلام کیا راوی کہتے ہیں پھر انھوں نے دعا کی اور اپنی دعا میں کہا۔ اے اللہ ! تو ہم سے راضی ہوجا۔ اے اللہ ! تو ہم سے راضی ہوجا دو یا تین مرتبہ کہا راوی کہتے ہیں حضرت مطرف حلقہ کے کنارہ میں تشریف فرما تھے۔ آپ کہنے لگے۔ اے اللہ ! اگر تم ہم سے راضی نہیں ہے تو تو ہمیں معاف کردے۔ راوی کہتے ہیں۔ اس بات کی وجہ سے سارے لوگ روپڑے۔

36272

(۳۶۲۷۳) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا مَہْدِیٍّ ، قَالَ : حَدَّثَنَا غَیْلاَنُ بْنُ جَرِیرٍ ، عَنْ مُطَرِّفٍ ، قَالَ : ہُمُ النَّاسُ وَہُمُ النَّسْنَاسُ ، وَأُنَاسٌ غُمِسُوا فِی مَائِ النَّاسِ۔
(٣٦٢٧٣) حضرت مطرف سے روایت ہے وہ کہتے ہیں وہ لوگ تھے۔ وہ لنگور تھے۔ اور ایسے لوگ تھے جنہیں انسانوں کے پانی میں غوطہ دیا گیا تھا۔

36273

(۳۶۲۷۴) حَدَّثَنَا شَاذَانُ ، عَنْ مَہْدِیٍّ ، عَنْ غَیْلاَنَ بْنِ جَرِیرٍ ، عَنْ مُطَرِّف قَالَ : عُقُولُ النَّاسِ علَی قَدْرِ زَمَانِہِمْ۔
(٣٦٢٧٤) حضرت مطرف سے روایت ہے وہ کہتے ہیں لوگوں کی عقلیں ان کے زمانوں کے بقدر ہوتی ہیں۔

36274

(۳۶۲۷۵) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ مُطَرِّفِ بْنِ الشِّخِّیرِ فِی قَوْلِہِ : {کَانُوا قَلِیلاً مِنَ اللَّیْلِ مَا یَہْجَعُونَ} قَالَ : قَلَّ لَیْلَۃٍ أَتَتْ عَلَیْہِمْ ہَجَعُوہَا۔
(٣٦٢٧٥) حضرت مطرف ابن الشخیر سے قول خداوندی { کَانُوا قَلِیلاً مِنَ اللَّیْلِ مَا یَہْجَعُونَ } کے بارے میں روایت ہے وہ کہتے ہیں ان پر بہت کم ایسی رات آتی ہے کہ جس میں وہ سوتے ہیں۔

36275

(۳۶۲۷۶) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَنْ ثَابِتٍ ، عَنْ مُطَرِّف قَالَ : خَیْرُ الأُمُورِ أَوْسَاطُہَا۔
(٣٦٢٧٦) حضرت مطرف سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ امور میں سے سب سے بہتر میانہ روی والے امور ہیں۔

36276

(۳۶۲۷۷) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادُ عَنْ ثَابِتٍ ، عَنْ مُطَرِّفٍ ، أَنَّہُ أَقْبَلَ مِنْ مَبْدَئِہِ قَالَ فَجَعَلَ یَسِیرُ بِاللَّیْلِ فَأَضَائَ لَہُ سَوْطَہُ۔
(٣٦٢٧٧) حضرت ثابت، حضرت مطرف کے بارے میں روایت کرتے ہیں کہ وہ اپنی بستی سے چلے۔ راوی کہتے ہیں وہ رات کے وقت چلتے تھے اور ان کی لاٹھی ان کے لیے روشنی کرتی تھی۔

36277

(۳۶۲۷۸) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادٌ ، عَنْ ثَابِتٍ ، أَنَّ مُطَرِّفًا ، قَالَ : لَوْ کَانَتْ لِی الدُّنْیَا فَأَخَذَہَا اللَّہُ مِنِّی بِشَرْبَۃٍ مِنْ مَائٍ یَسْقِینِی بِہَا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ کَانَ قَدْ أَعْطَانِی بِہَا ثَمَنًا۔
(٣٦٢٧٨) حضرت ثابت سے روایت ہے کہ حضرت مطرف نے فرمایا : اگر ساری دنیا میرے پاس ہوتی پھر اللہ تعالیٰ یہ دنیا مجھ سے پانی کے اس گھونٹ کے عوض لے لیتے جو قیامت کے دن آپ مجھے پلاتے تو تحقیق مجھے (میری دنیا کی) قیمت مل جاتی۔

36278

(۳۶۲۷۹) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَنْ ثَابِتٍ ، قَالَ : کُنَّا عِنْدَ مُطَرِّفٍ فَذَکَرْنَا اللَّہَ وَدَعَوْنَاہُ ، فَقَالَ : وَاللہِ لَئِنْ کَانَ ہذا مِمَّا سَبَقَ لَکُمْ فِی الذِّکْرِ لَقَدْ أَرَادَ اللَّہُ بِکُمْ خَیْرًا ، وَإِنْ کَانَ مِمَّا یَحْدُثُ فِی اللَّیْلِ وَالنَّہَارِ لَقَدْ أَرَادَ اللَّہُ بِکُمْ خَیْرًا ، فَأَیُّ ذَلِکَ مَا کَانَ فَاحْمَدُوا اللَّہَ عَلَیْہِ۔
(٣٦٢٧٩) حضرت ثابت سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ ہم حضرت مطرف کے پاس تھے۔ چنانچہ ہم نے اللہ کا ذکر کیا اور اللہ سے دعا کی پھر آپ نے فرمایا : خدا کی قسم ! جو تمہارا وقت خدا کی یاد میں گزرا ہے تو تحقیق اللہ نے تمہارے ساتھ خیر کا ارادہ کیا ہے۔ اور اگر آنے والے دن رات تمہارے لیے ایسے ہی ہوں تو بھی اللہ نے تمہارے ساتھ خیر کا ارادہ کیا ہے۔ ان میں سے جو بھی ہو تو تم اس پر اللہ کی تعریف کرو۔

36279

(۳۶۲۸۰) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادٌ ، عَنْ ثَابِتٍ ، أَنَّ مُطَرِّفًا کَانَ یَقُولُ : إنَّ الْحَدِیثَ ، وَإِنَّ الْیَمِینَ بِاللہِ۔
(٣٦٢٨٠) حضرت ثابت سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت مطرف کہا کرتے تھے : بیشک حدیث اور قسم خدا کے ساتھ ہے۔

36280

(۳۶۲۸۱) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادٌ ، عَنْ ثَابِتٍ ، أَنَّ مُطَرِّفًا کَانَ یَقُولُ : لَوْ کَانَ الْخَیْرُ فِی کَفِّ أَحَدِنَا مَا اسْتَطَاعَ أَنْ یُفْرِغَہُ فِی قَلْبِہِ حَتَّی یَکُونَ اللَّہُ ہُوَ الَّذِی یُفْرِغُہُ فِی قَلْبِہِ۔
(٣٦٢٨١) حضرت ثابت سے روایت ہے کہ حضرت مطرف کہا کرتے تھے۔ اگر خیر ہم میں سے کسی ایک کی ہتھیلی میں (بھی) ہو تو وہ اس کی استطاعت نہیں رکھتا کہ وہ اس کو اپنے دل میں ڈال لے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس کو اس کے دل میں ڈالیں۔

36281

(۳۶۲۸۲) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادٌ ، عَنْ ثَابِتٍ ، أَنَّ مُطَرِّفًا کَانَ یَقُولُ : لَوْ أَنَّ رَجُلاً رَأَی صَیْدًا وَالصَّیْدُ لاَ یَرَاہُ فَخَتَلَہُ أَلَمْ یُوشِکْ أَنْ یَأْخُذَہُ ، قَالُوا : بَلَی ، قَالَ : فَإِنَّ الشَّیْطَانَ یَرَانَا وَنَحْنُ لاَ نَرَاہُ وَہُوَ یُصِیبُ مِنَّا۔
(٣٦٢٨٢) حضرت ثابت سے روایت ہے کہ حضرت مطرف فرمایا کرتے تھے کہ اگر کوئی آدمی شکار کو دیکھ لے اور اس کو شکار نے نہ دیکھا ہو اور شکاری گھات لگا لے تو ہوسکتا ہے کہ شکاری شکار پکڑ لے ؟ لوگوں نے کہا کیوں نہیں۔ حضرت مطرف نے فرمایا : پس شیطان بھی ہمیں دیکھتا ہے لیکن ہم اس کو نہیں دیکھ پاتے چنانچہ وہ ہمیں پالیتا ہے۔

36282

(۳۶۲۸۳) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادٌ ، عَنْ ثَابِتٍ ، قَالَ مُطَرِّفٌ : نَظَرْت فِی بَدْئِ ہَذَا الأَمْرِ مِمَّنْ کَانَ ، فَإِذَا ہُوَ مِنَ اللہِ ، وَنَظَرْت عَلَی مَنْ تَمَامُہُ فَإِذَا تَمَامُہُ عَلَی اللہِ ، وَنَظَرْت مَا مِلاَکُہُ فَإِذَا مِلاَکُہُ الدُّعَائُ۔
(٣٦٢٨٣) حضرت ثابت سے روایت ہے کہ حضرت مطرف فرماتے ہیں : میں نے اس معاملہ کی ابتدا کو دیکھا کہ یہ کس سے ہے ؟ تو وہ ابتداء خدا تعالیٰ ہے اور میں نے یہ دیکھا کہ اس کی انتہاء کس پر ہوگی ؟ تو وہ بھی خدا تعالیٰ ہے اور میں نے اس بات میں غور کیا کہ اس کا ملاک (قوام) کیا شے ہے ؟ تو اس کا قوام دعا ہے۔

36283

(۳۶۲۸۴) حَدَّثَنَا شَبَابَۃُ بْنُ سَوَّارٍ ، عَنْ سُلَیْمَانَ ، عَنْ ثَابِتٍ ، أَنَّ مُطَرِّفَ بْنَ الشِّخِّیرِ ، قَالَ : لَیَعْظُمُ جَلاَلُ اللہِ فِی صُدُورِکُمْ فَلاَ یُذْکَرُ اللَّہُ عِنْدَ مِثْلِ ہَذَا ، یَقُولُ أَحَدُکُمْ لِلْکَلْبِ : أَخْزَاہُ اللَّہُ وَلِلْحِمَارِ ، أَوِ الشَّاۃِ۔
(٣٦٢٨٤) حضرت ثابت سے روایت ہے کہ حضرت مطرف ابن الشخیر نے فرمایا : تمہارے سینوں میں اللہ کی عظمت ہونی چاہیے۔ چنانچہ ایسی باتوں کے وقت خدا کا ذکر نہ کیا جائے کہ تم میں سے کوئی کتے کو یہ کہے یا گدھے کو یا بکری کو کہے۔ اللہ اس کو رسوا کرے۔

36284

(۳۶۲۸۵) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَنْ ثَابِتٍ ، عَنْ مُطَرِّف قَالَ : کُنَّا نَتَحَدَّثُ أَنَّہُ لَمْ یَتَحَابَّ رَجُلاَنِ فِی اللہِ إِلاَّ کَانَ أَفْضَلَہُمَا أَشَدُّہُمَا حُبًّا لِصَاحِبِہِ ، قَالَ : فَلَمَّا سُیِّرَ مَذْعُورٌ ، وعَامِرُ بْنُ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ: لَقِیَ مَذْعُورٌ مُطَرِّفًا فَجَعَلَ یُذَاکِرُہُ ، قَالَ مُطَرِّفٌ : فَجَعَلْتُ أَقُولُ : أَیْ أَخِی ، عَلاَمَ تَحْبِسُنِی وَقَدْ تَہَوَّرَتِ النُّجُومُ ، وَذَہَبَ اللَّیْلُ ، فَیَقُولُ : اللَّہُمَّ فِیک ، ثم یُذَاکِرْہُ السَّاعَۃَ فَیَقُولُ : یَا أَخِی ، عَلاَمَ تَحْبِسُنِی وَقَدْ تَہَوَّرَتِ النُّجُومُ ، وَذَہَبَ اللَّیْلُ ، فَقَالَ : اللَّہُمَّ فِیک ، فَلَمَّا أَصْبَحْنَا أُخْبِرْت أَنَّہُ قَدْ سُیِّرَ ، فَعَرَفْت لَیْلَتَہ فَضْلَہُ عَلَیَّ۔
(٣٦٢٨٥) حضرت مطرف سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ ہم آپس میں یہ بات کرتے تھے کہ باہم اللہ کے لیے محبت کرنے والے دو آدمیوں میں سے افضل آدمی وہ ہوتا ہے جو ان دونوں میں سے اپنے ساتھی سے زیادہ محبت کرنے والا ہوتا ہے۔ فرماتے ہیں : چنانچہ جب حضرت مذعور اور حضرت عامر بن عبداللہ کو جلا وطن کیا گیا۔ راوی کہتے ہیں۔ حضرت مذعور، حضرت مطرف سے ملے اور ان سے مذاکرہ شروع کردیا۔ حضرت مطرف کہتے ہیں۔ میں کہنے لگا۔ اے میرے بھائی ! تم نے مجھے کس وجہ سے روک رکھا ہے۔ جبکہ ستارے ڈوب گئے اور رات جا رہی ہے ؟ وہ فرمانے لگے۔ اے اللہ ! تیرے لیے پھر انھوں نے حضرت مطرف سے ایک گھڑی اور مذاکرہ کیا۔ مطرف نے پھر کہا۔ اے میرے بھائی ! آپ نے مجھے کس وجہ سے روک رکھا ہے جبکہ ستارے ڈوب چکے ہیں اور رات جا رہی ہے ؟ انھوں نے کہا : اے اللہ ! تیرے لیے۔ پھر جب ہم نے صبح کی تو مجھے خبر ملی کہ وہ چلے گئے ہیں۔ تب میں نے ان کی خود پر رات کی فضیلت پہچانی۔

36285

(۳۶۲۸۶) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا مَہْدِیُّ بْنُ مَیْمُونٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِی غَیْلاَنُ بْنُ جَرِیرٍ ، عَنْ مُطَرِّفٍ قَالَ : مَا أَرْمَلَۃٌ جَالِسَۃٌ عَلَی ذَیْلِہَا بِأَحْوَجَ إِلَی الْجَمَاعَۃِ مِنِّی۔
(٣٦٢٨٦) حضرت مطرف سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ اپنے دروازوں پر بیٹھی بیوہ عورتوں سے بھی زیادہ میں جماعت کا محتاج ہوں۔

36286

(۳۶۲۸۷) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُلَیْمَانُ ، عَنْ ثَابِتٍ ، قَالَ : کَانَ مُطَرِّفٌ یَقُولُ : مَا أُوتِیَ أَحَدٌ مِنَ النَّاسِ أَفْضَلَ مِنَ الْعَقْلِ۔
(٣٦٢٨٧) حضرت ثابت سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت مطرف کہا کرتے تھے۔ لوگوں کو عقل سے افضل چیز کوئی نہیں دی گئی۔

36287

(۳۶۲۸۸) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا مَہْدِیٌّ ، قَالَ : حَدَّثَنَا غَیْلاَنُ بْنُ جَرِیرٍ ، عَنْ مُطَرِّفَ قَالَ : رَأَیْتُ فِی الْمَنَامِ کَأَنِّی خَرَجْت أُرِیدُ الْجُمُعَۃَ ، فَأَتَیْت عَلَی مَقَابِرَ مِنَ الْحَی ، فَإِذَا أَہْلُ الْقُبُورِ جُلُوسٌ ، فَجَعَلْتُ أُسَلِّمُ وَأَمْضِی ، قَالُوا : یَا عَبْدَ اللہِ ، أَیْنَ تُرِیدُ ، قَالَ : قُلْتُ : أُرِیدُ الْجُمُعَۃَ ، قَالَ : ثُمَّ قُلْتُ : تَدْرُونَ مَا الْجُمُعَۃُ ، قَالُوا : نَعَمْ وَنَعْلَمُ مَا یَقُولُ الطَّیْرُ یَوْمَئِذٍ ، قَالَ : قُلْتُ : مَا یَقُولُ الطَّیْرُ یَوْمَئِذٍ ، قَالُوا : یَقُولُ : سَلاَمٌ سَلاَمٌ یَوْمٌ صَالِحٌ۔
(٣٦٢٨٨) حضرت مطرف سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے خواب میں دیکھا گویا کہ میں جمعہ کے ارادے سے باہر نکلا ہوں اور میں محلہ کے قبرستان کے پاس آیا تو دیکھا کہ اہل قبور بیٹھے ہوئے ہیں۔ میں نے ان کو سلام کرکے گزرنا چاہا تو وہ کہنے لگے۔ اے عبداللہ ! کہاں کا ارادہ ہے ؟ میں نے کہا۔ میرا جمعہ کا ارادہ ہے۔ مطرف کہتے ہیں پھر میں نے پوچھا : تمہیں معلوم ہے جمعہ کیا ہے ؟ انھوں نے کہا : ہاں۔ اور ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ اس دن پرندے کیا کہتے ہیں۔ مطرف کہتے ہیں۔ میں نے پوچھا : پرندے اس دن کیا کہتے ہیں ؟ انھوں نے کہا : پرندے کہتے ہیں۔ سلام، سلام، اچھا دن ہے۔

36288

(۳۶۲۸۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ قُرَّۃَ ، عَنْ أَبِی الْعَلاَئِ یَزِیدَ بْنِ عَبْدِ اللہِ ، عَنْ أَخِیہِ مُطَرِّفَ قَالَ : إنَّ اللَّہَ لَیَرْحَمُ بِرَحْمَۃِ الْعُصْفُورِ۔
(٣٦٢٨٩) حضرت مطرف سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ بیشک اللہ تعالیٰ چڑیا کے رحم کی وجہ سے رحم فرماتے ہیں۔

36289

(۳۶۲۹۰) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا ثَابِتٌ ، قَالَ : سَمِعْتُ مُطَرِّفًا یَقُولُ : مَا مَرَرْت بِأَہْلِ مَجْلِسٍ فَسَمِعْت أَحَدًا یُثْنِی عَلَیَّ خَیْرًا ، قَالَ : فَیَأْخُذُ ذَلِکَ فِی۔
(٣٦٢٩٠) حضرت ثابت کہتے ہیں میں نے حضرت مطرف کو کہتے سنا میں کسی مجلس والوں کے پاس نہیں گزرتا جن میں سے کوئی میرے لیے خیر کی بات کہہ رہا ہو۔ کہتے ہیں پس یہ مجھے دل میں اتر جاتی ہے۔

36290

(۳۶۲۹۱) حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ الرَّازِیّ ، عَنْ أَبِی جَعْفَرٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ مُطَّرِفٍ قَالَ : إنَّ ہَذَا الْمَوْتَ قَدْ أَفْسَدَ عَلَی أَہْلِ النَّعِیمِ نَعِیمَہُمْ فَاطْلُبُوا نَعِیمًا لاَ مَوْتَ فِیہِ۔
(٣٦٢٩١) حضرت مطرف سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ بیشک اس موت نے اہل نعیم پر ان کی نعمتوں کو خراب کردیا ہے۔ پس تم (خدا سے) ایسی نعمت طلب کرو جس میں موت نہ ہو۔

36291

(۳۶۲۹۲) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، قَالَ : حَدَّثَنَا الْمُعَلَّی بْنُ زِیَادٍ ، قَالَ : قَالَ مُوَرِّقٌ الْعِجْلِیّ : أَمْرٌ أَنَا فِی طَلَبِہِ مُنْذُ عَشْرِ سِنِینَ لَمْ أَقْدِرْ عَلَیْہِ ، وَلَسْت بِتَارِکٍ طَلَبَہُ أَبَدًا ، قَالَ ، وَمَا ہُوَ یَا أَبَا الْمُعْتَمِرِ ، قَالَ : الصَّمْتُ عَمَّا لاَ یَعْنِینِی۔
(٣٦٢٩٢) حضرت معلی بن زیاد بیان کرتے ہیں کہتے ہیں کہ حضرت مورق عجلی فرماتے ہیں کہ ایک کام ہے جس کو میں دس سال سے تلاش کررہا ہوں لیکن میں اس پر قادر نہیں ہوا۔ اور میں اس کی تلاش کو ترک کرنے والا بھی نہیں۔ معلی نے پوچھا : اے ابوالمعتمر ! وہ کیا ہے ؟ مؤرق نے فرمایا : بےفائدہ کلام سے سکوت۔

36292

(۳۶۲۹۳) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، قَالَ : حَدَّثَنَا ہِشَامٌ ، عَنْ حَفْصَۃَ بِنْتِ سِیرِینَ ، قَالَتْ : کَانَ مُوَرِّقٌ یَزُورُنَا ، فَزَارَنَا یَوْمًا فَسَلَّمَ فَرَدَدْت عَلَیْہِ السَّلاَمَ ، قَالَتْ : ثُمَّ سَأَلَنِی وَسَأَلْتُہُ ، قُلْتُ : کَیْفَ أَہْلُک کَیْفَ وَلَدُک ؟ قَالَ : إنَّہُمْ لَمُتَوَافِرُونَ ، قُلْتُ : فَاحْمَدْ رَبَّک ، قَالَ : إنِّی وَاللہِ قَدْ خَشِیت أَنْ یَحْبِسُونِی عَلَی ہَلَکَۃٍ۔
(٣٦٢٩٣) حضرت حفصہ بنت سیرین سے روایت ہے وہ کہتی ہیں کہ حضرت مورق ہماری ملاقات کو آتے تھے۔ چنانچہ وہ ایک دن ہمیں ملنے آئے اور انھوں نے سلام کیا۔ میں نے ان کو سلام کا جواب دیا۔ کہتی ہیں۔ پھر انھوں نے مجھ سے کچھ پوچھا اور میں نے ان سے کچھ پوچھا۔ میں نے پوچھا۔ آپ کے اہل خانہ کیسے ہیں ؟ اور آپ کے بچے کیسے ہیں ؟ انھوں نے جواب دیا وہ خوب ہیں۔ میں نے کہا۔ پھر تو آپ اپنے رب کی حمد بیان کریں۔ انھوں نے فرمایا : خدا کی قسم ! میں تو اس بات سے ڈرتا ہوں کہ کہیں وہ مجھے ہلاکت پر محبوس نہ کردیں۔

36293

(۳۶۲۹۴) حَدَّثَنَا عَفَّانُ بْنُ مُسْلِمٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، قَالَ : حَدَّثَنَا بَعْضُ أَصْحَابِنَا ، قَالَ : کَانَ مُوَرِّقٌ الْعِجْلِیّ یَتْجُرُ فَیُصِیبُ الْمَالَ ، فَلاَ تَأْتِی عَلَیْہِ جُمُعَۃٌ وَعِنْدَہُ مِنْہُ شَیْئٌ ، قَالَ : کَانَ یَلْقَی الأَخَ مِنْ إخْوَانِہِ فَیُعْطِیہِ أَرْبَعَ مِئَۃٍ خَمْسَ مِئَۃٍ ثَلاَث مِئَۃٍ ، فَیَقُولُ : ضَعْہَا لَنَا عِنْدَکَ حَتَّی نَحْتَاجَ إلَیْہَا ، ثُمَّ یَلْقَاہُ بَعْدَ ذَلِکَ فَیَقُولُ : شَأْنُک بِہَا ، وَیَقُولُ الآخَرُ : لاَ حَاجَۃَ لِی فِیہَا ، فَیَقُولُ : إنَّا وَاللہِ مَا نَحْنُ بِآخِذِیہَا أَبَدًا ، شَأْنُک بِہَا۔
(٣٦٢٩٤) حضرت جعفر بن سلیمان سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ ہمیں ہمارے بعض اصحاب نے بیان کیا وہ کہتے ہیں کہ حضرت مؤرق عجلی تجارت کرتے تھے اور انھیں مال حاصل ہوتا تھا۔ لیکن پھر ان پر ایک جمعہ بھی نہیں گزرتا تھا کہ ان کے پاس اس مال میں سے کچھ موجود ہو۔ راوی کہتے ہیں۔ ان کے بھائیوں میں سے کوئی بھائی ان کو ملتا تو یہ اس کو چار سو، پانچ سو یا تین سو دے دیتے اور کہتے۔ اس کو تم اپنے پاس ہمارے لیے رکھ لو۔ یہاں تک کہ ہمیں اس کی ضرورت پڑے۔ پھر اس کے بعد اس سے ملتے تو فرماتے۔ یہ تم لے لو۔ دوسرا آدمی کہتا۔ مجھے ان کی ضرورت نہیں ہے۔ اس پر یہ کہتے۔ خدا کی قسم ! ہم یہ پیسے کبھی بھی نہیں لیں گے۔ یہ تم لے لو۔

36294

(۳۶۲۹۵) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا ہَمَّامٌ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، قَالَ : قَالَ مُوَرِّقٌ الْعِجْلِیّ : مَا وَجَدْت لِلْمُؤْمِنِ فِی الدُّنْیَا مَثَلاً إِلاَّ کَمَثَلِ رَجُلٍ عَلَی خَشَبَۃٍ فِی الْبَحْرِ وَہُوَ یَقُولُ : یَا رَبِّ یَا رَبِّ لَعَلَّ اللَّہَ أَنْ یُنْجِیَہُ۔
(٣٦٢٩٥) حضرت قتادہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت مؤرق عجلی فرماتے ہیں۔ میں نے دنیا میں مومن کی مثال اس آدمی کی طرح دیکھی ہے جو سمندر میں ایک تختہ پر بیٹھا ہوا کہہ رہا ہو۔ اے اللہ، اے اللہ، شاید کہ اللہ تعالیٰ اس کو نجات دے دیں۔

36295

(۳۶۲۹۶) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَیْدٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا أَبُو التَّیَّاحِ ، عَنْ مُوَرِّقٍ ، قَالَ : الْمُتَمَسِّکُ بِطَاعَۃِ اللہِ إذَا جَبُنَ النَّاسُ عنہا کَالْکَارِّ بَعْدَ الْفَارِّ۔
(٣٦٢٩٦) حضرت مؤرق سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ خدا کی اطاعت کے ساتھ تمسک کرنے والا جب لوگ اس سے بزدل ہوجاتے ہیں، بھاگنے کے بعد دوبارہ حملہ کرنے والے کی طرح ہے۔

36296

(۳۶۲۹۷) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَیْدٍ ، عَنْ عَاصِمٍ الأَحْوَلِ ، قَالَ : سَمِعْتُ مُوَرِّقًا الْعِجْلِیّ یَقُولُ : مَا رَأَیْت رَجُلاً أَفْقَہَ فِی وَرَعِہِ ، وَلاَ أَوْرَعَ فِی فِقْہِہِ مِنْ مُحَمَّدٍ۔
(٣٦٢٩٧) حضرت عاصم احول سے روایت ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت مؤرق عجلی کو کہتے سنا۔ میں نے کوئی آدمی اپنی بزرگی میں سمجھ داری کرنے والا اور سمجھ داری میں بزرگی کرنے والا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے افضل نہیں دیکھا۔

36297

(۳۶۲۹۸) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا ثَابِتُ بْنُ یَزِیدَ أَبُو زَیْدٍ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ مُوَرِّقٍ ، قَالَ : إنَّمَا کَانَ حَدِیثُہُمْ تَعْرِیضًا۔
(٣٦٢٩٨) حضرت مؤرق سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ لوگوں کی باتیں، اشارۃً بات کرنا ہوتا تھا۔

36298

(۳۶۲۹۹) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، قَالَ : حَدَّثَنَا ہِشَامُ بْنُ حَسَّانَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : قَالَ صَفْوَانُ بْنُ مُحْرِزٍ : إذَا أَکَلْتُ رَغِیفًا أَشُدُّ بِہِ صُلْبِی وَشَرِبْتُ کُوزًا مِنْ مَائٍ فَعَلَی الدُّنْیَا وَأَہْلِہَا الْعَفَائُ۔
(٣٦٢٩٩) حضرت حسن سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت صفوان بن محرز فرماتے تھے۔ میں جب روٹی کھاتا ہوں تو (مقصد یہ ہوتا ہے کہ) میں اس کے ذریعہ اپنی کمر کو سیدھا رکھوں اور پانی کا کوزہ پیتا ہوں۔ دنیا اور اہل دنیا پر ہلاکت آنے والی ہے۔

36299

(۳۶۳۰۰) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا مَہْدِیُّ بْنُ مَیْمُونٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا غَیْلاَنُ بْنُ جَرِیرٍ ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ مُحْرِزٍ ، قَالَ : وَکَانُوا یَجْتَمِعُونَ ہُوَ وَإِخْوَانُہُ وَیَتَحَدَّثُونَ فَلاَ یَرَوْنَ تِلْکَ الرِّقَّۃَ ، قَالَ : فَیَقُولُونَ : یَا صَفْوَانُ ، حَدِّثْ أَصْحَابَک ، قَالَ : فَیَقُولُ : الْحَمْدُ لِلَّہِ ، قَالَ : فَیَرِقُّ الْقَوْمُ وَتَسِیلُ دُمُوعُہُمْ کَأَنَّہَا أَفْوَاہُ الْمَزَادۃ۔
(٣٦٣٠٠) حضرت غیلان بن جریر، حضرت صفوان بن محرز کے بارے میں روایت کرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ حضرت صفوان اور ان کے بھائی اکٹھے ہوتے اور باہم گفتگو کرتے۔ لیکن وہ رقت کے آثار نہ دیکھتے۔ راوی کہتے ہیں۔ پھر لوگ کہتے۔ اے صفوان ! آپ اپنے ساتھیوں سے کوئی گفتگو کریں۔ راوی کہتے ہیں۔ حضرت صفوان کہتے۔ الحمد للہ۔ اس پر لوگوں پر رقت طاری ہوجاتی اور ان کے آنسو یوں بہہ پڑتے۔ گویا کہ مشکیزوں کے منہ ہیں۔

36300

(۳۶۳۰۱) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ رَبَاحٍ ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ مُحْرِزٍ ، أَنَّہُ کَانَ إذَا قَرَأَ ہَذِہِ الآیَۃَ بَکَی ، حتی أری لقد اندق َّ قَضیض زَوْرِۃ: {وَسَیَعْلَمُ الَّذِینَ ظَلَمُوا أَیَّ مُنْقَلَبٍ یَنْقَلِبُونَ}۔
(٣٦٣٠١) حضرت صفوان بن محرز کے بارے میں روایت ہے کہ وہ جب یہ آیت پڑھتے تو روپڑتے یہاں تک کہ ان کا سینہ پسیج جاتا تھا۔ ” اور ظالم لوگ عن قریب جان لیں گے کہ وہ کس راستے پر چل رہے تھے۔ “

36301

(۳۶۳۰۲) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادٌ ، عَنْ ثَابِتٍ ، أَنَّ صَفْوَانَ بْنَ مُحْرِزٍ کَانَ لَہُ خُصٌّ فِیہِ جِذْعٌ ، فَانْکَسَرَ الْجِذْعُ ، فَقِیلَ لَہُ : أَلاَ تُصْلِحُہُ ؟ فَقَالَ : دَعْہُ فَإِنَّمَا أَمُوتُ غَدًا۔
(٣٦٣٠٢) حضرت ثابت سے روایت ہے کہ حضرت صفوان بن محرز کا کانے کا ایک کمرہ تھا جس میں شہتیر تھا۔ پھر شہتیر ٹوٹ گیا تو ان سے کہا گیا۔ آپ اس کو درست کیوں نہیں کرلیتے ؟ انھوں نے فرمایا : تم اس کو چھوڑو۔ کیونکہ میں نے بھی کل مرجانا ہے۔

36302

(۳۶۳۰۳) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ زُرَیْعٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا سَعِیدٌ قَالَ : حَدَّثَنَا قَتَادَۃُ ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ مُحْرِزٍ فِی قَوْلِہِ : {إنَّا أَنْشَأْنَاہُنَّ إنْشَائً فَجَعَلْنَاہُنَّ أَبْکَارًا عُرُبًا أَتْرَابًا} قَالَ : وَاللہِ إنَّ مِنْہُنَّ الْعُجُزَ الزُّحُفَ صَیَّرَہُنَّ اللَّہُ کَمَا تَسْمَعُونَ۔
(٣٦٣٠٣) حضرت صفوان بن محرز سے ارشادِ خداوندی : {إنَّا أَنْشَأْنَاہُنَّ إنْشَائً فَجَعَلْنَاہُنَّ أَبْکَارًا عُرُبًا أَتْرَابًا } کے بارے میں روایت ہے وہ کہتے ہیں۔ خدا کی قسم ! ان میں سے کچھ بوڑھیاں ہوں گی۔ انھیں اللہ تعالیٰ ایسا کردے گا جیسا کہ تم نے سنا۔

36303

(۳۶۳۰۴) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، قَالَ : سَمِعْتُ الْمُعَلَّی بْنَ زِیَادٍ ، قَالَ : کَانَ لِصَفْوَانَ بْنِ مُحْرِزٍ الْمَازِنِیِّ سِرْبٌ یَبْکِی فِیہِ ، وَکَانَ یَقُولُ : قَدْ أَرَی مَکَانَ الشَّہَادَۃِ لَوْ تَشَاء ، یَعْنِی نَفْسِہ۔
(٣٦٣٠٤) حضرت معلی بن زیاد کہتے ہیں کہ حضرت صفوان بن محرز کا ایک تہہ خانہ تھا۔ جس میں وہ رویا کرتے تھے۔ اور فرمایا کرتے تھے اگر نفس چاہے تو میں شہادت کا مکان دیکھ سکتا ہوں۔

36304

(۳۶۳۰۵) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، قَالَ : قَالَ حدثنا مسعر قَالَ : حدَّثَنِی عُتْبَۃُ بْنُ قَیْسٍ ، عَنْ طَلْقِ بْنِ حَبِیبٍ ، قَالَ: أرْبَعٌ مَنْ أُوتِیَہُنَّ أُوتِیَ خَیْرَ الدُّنْیَا وَالآخِرَۃِ : مَنْ أُوتِیَ لِسَانًا ذَاکِرًا ، وَقَلْبًا شَاکِرًا ، وَجَسَدًا عَلَی الْبَلاَئِ صَابِرًا ، وَزَوْجًا مُؤْمِنَۃً لاَ تَبْغِیہِ فِی نَفْسِہَا خَوْنًا۔ (ابن ابی الدنیا ۳۴۔ طبرانی ۱۱۲۷۵)
(٣٦٣٠٥) حضرت طلق بن حبیب سے روایت ہے وہ کہتے ہیں چار چیزیں ایسی ہیں کہ وہ جس کو دی جائیں تو اس کو دنیا، آخرت کی خیر دی گئی۔ جس آدمی کو ذکر کرنے والی زبان اور شکر کرنے والا دل اور مصائب پر صبر کرنے والا جسم اور ایسی صاحب ایمان بیوی ملے جو اپنے بارے میں شوہر کے ساتھ کوئی خیانت نہ کرے۔

36305

(۳۶۳۰۶) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا مِسْعَرٌ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاہِیمَ ، عَن طَلْقِ بْنِ حَبِیبٍ ، قَالَ : إنَّ حُقُوقَ اللہِ أَثْقَلُ مِنْ أَنْ یَقُومَ بِہَا الْعِبَادُ ، وَإِنَّ نِعَمَ اللہِ أَکْثَرُ مِنْ أَنْ یُحْصِیَہَا الْعِبَادُ ، وَلَکِنْ أَصْبِحُوا تَوَّابِینَ وَأَمْسُوا تَوَّابِینَ۔
(٣٦٣٠٦) حضرت طلق بن حبیب سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ بیشک اللہ تعالیٰ کے حقوق اس سے وزنی ہیں کہ بندے ان کو قائم کریں اور خدا کی نعمتیں اس سے زیادہ ہیں کہ بندے ان کو شمار کریں۔ لہٰذا تم صبح کو بھی توبہ کرو اور شام کو بھی توبہ کرو۔

36306

(۳۶۳۰۷) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ الْحُبَابِ ، قَالَ : حدَّثَنَا عَبْدُ الْحَمِیدِ بْنُ عَبْدِ اللہِ بْنِ مُسْلِمِ بْنِ یَسَارٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا کُلْثُومُ بْنُ جَبْرٍ ، قَالَ : کَانَ الْمُتَمَنِّی بِالْبَصْرَۃِ یَقُولُ : عِبَادَۃُ طَلْقِ بْنِ حَبِیبٍ ، وَحِلْمُ مُسْلِمِ بْنِ یَسَارٍ۔
(٣٦٣٠٧) حضرت کلثوم بن جبر کہتے ہیں کہ بصرہ میں متمنی کہتا تھا۔ طلق بن حبیب کی عبادت، عبادت ہے اور مسلم بن یسار کا حلم ہے۔

36307

(۳۶۳۰۸) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ آدَمَ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ عَاصِمٍ ، قَالَ : قلْنَا لِطَلْقِ بْنِ حَبِیبٍ : صِفْ لَنَا التَّقْوَی ، قَالَ : التَّقْوَی عَمَلٌ بِطَاعَۃِ اللہِ رَجَائَ رَحْمَۃِ اللہِ عَلَی نُورٍ مِنَ اللہِ ، وَالتَّقْوَی تَرْکُ مَعْصِیَۃِ اللہِ مَخَافَۃَ اللہِ عَلَی نُورٍ مِنَ اللہِ۔
(٣٦٣٠٨) حضرت عاصم سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ ہم نے حضرت طلق بن حبیب سے کہا آپ ہمیں تقویٰ کے بارے میں بتائیں۔ فرمایا : تقویٰ خدا کی فرمان برداری کا عمل ہے۔ اس کی رحمت کی امید پر اور اس کے نور کی روشنی میں اور تقویٰ خدا کی نافرمانی کو خدا کے خوف سے خدائی نور کی وجہ سے ترک کرنے کا نام ہے۔

36308

(۳۶۳۰۹) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ عَوْفٍ ، عَنْ أَبِی الْمِنْہَالِ ، قَالَ : حدَّثَنِی صَفْوَانُ بْنُ مُحْرِزٍ ، قَالَ : قَالَ جُنْدُبٌ : مَثَلُ الَّذِی یَعِظُ وَیَنْسَی نَفْسَہُ مَثَلُ الْمِصْبَاحِ یَفِیئُ لِغَیْرِہِ وَیُحْرِقُ نَفْسَہُ ، لِیُبْصِرْ أَحَدُکُمْ مَا یُجْعَلُ فِی بَطْنِہِ، فَإِنَّ الدَّابَّۃَ إذَا مَاتَتْ کَانَ أَوَّلَ مَا یَنْفَتِقُ مِنْہَا بَطْنُہَا ، وَلْیَتَّقِ أَحَدُکُمْ أَنْ یَحُولَ بَیْنَہُ وَبَیْنَ الْجَنَّۃِ مِلْئُ کَفٍّ مِنْ دَمِ مُسْلِمٍ۔ (عبدالرزاق ۱۸۲۵۰)
(٣٦٣٠٩) حضرت صفوان بن محرز بیان کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ حضرت جندب نے فرمایا : اس آدمی کی مثال جو وعظ کہتا ہے اور خود کو بھول جاتا ہے اس چراغ کی طرح ہے جو دوسروں کے لیے روشنی کرتا ہے اور اپنا آپ کو جلاتا ہے۔ چاہیے کہ تم میں سے (ہر) ایک اپنے پیٹ میں جانے والی چیز کو دیکھے۔ کیونکہ جب جانور مرجاتا ہے تو سب سے پہلے اس کا پیٹ پھٹتا ہے۔ اور تم میں سے (ہر) ایک، اپنے اور جنت کے درمیان خون مسلم کی ایک مٹھی کے بھی حائل ہونے سے ڈرے۔

36309

(۳۶۳۱۰) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا أَبَانُ بْنُ إِسْحَاقَ ، قَالَ : حَدَّثَنِی رَجُلٌ مِنْ عُرَیْنَۃَ ، قَالَ : خَرَجَ جُنْدُبٌ الْبَجَلِیُّ فِی سَفَرٍ لَہُ ، فَخَرَجَ مَعَہُ نَاسٌ مِنْ قَوْمِہِ حَتَّی إذَا کَانُوا فِی الْمَکَانِ الَّذِی یُوَدِّعُ بَعْضُہُمْ بَعْضًا ، قَالَ : أَلاَ تَرَی ، الْمَحْرُوبُ مَنْ حُرِبَ دِینُہُ وَإِنَّ الْمَسْلُوبَ مَنْ سُلِبَ دِینُہُ ، أَلاَ ، إِنَّہُ لاَ فَقْرَ بَعْدَ الْجَنَّۃِ ، وَلاَ غِنَی بَعْدَ النَّارِ ، أَلاَ إنَّ النَّارَ لاَ یُفَکُّ أَسِیرُہَا ، وَلاَ یَسْتَغْنِی فَقِیرُہَا ، ثُمَّ رَکِبَ الْجَادَّۃَ وَانْطَلَقَ۔
(٣٦٣١٠) قبیلہ عرینہ کے ایک صاحب بیان کرتے ہیں کہ حضرت جندب بجلی، اپنے ایک سفر میں نکلے اور ان کے ساتھ ان کی قوم کے کچھ لوگ بھی نکلے۔ یہاں تک کہ جب وہ اس جگہ پہنچے جہاں ان میں سے بعض نے بعض کو الوداع کہا۔ تو جندب نے کہا۔ آپ کو معلوم نہیں ہے۔ محروب وہ ہوتا ہے جس کے دین پر حملہ ہوا ہو اور مسلوب وہ ہے جس کا دین سلب ہوا ہو۔ خبردار ! جنت کے بعد کوئی فقر نہیں ہے اور جہنم کے بعد کوئی غناء نہیں ہے۔ ہاں یہ بات ہے کہ جہنم کا قیدی رہائی نہیں پاتا اور اس کا فقیر، غنی نہیں ہوپاتا۔ پھر آپ سواری پر سوار ہوئے اور چل پڑے۔

36310

(۳۶۳۱۱) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ عَوْفٍ ، عَنْ غَالِبِ بْنِ عَجْرَدٍ ، قَالَ : حدَّثَنِی رَجُلٌ مِنْ فُقَہَائِ أَہْلِ الشَّامِ فِی مَسْجِدِ مِنًی ، قَالَ : إنَّ اللَّہَ خَلَقَ الأَرْضَ ، وَخَلَقَ مَا فِیہَا مِنَ الشَّجَرِ ، وَلَمْ یَکُنْ أَحَدٌ مِنْ بَنِی آدَمَ یَأْتِی شَجَرَۃً مِنْ تِلْکَ الشَّجَرِ إِلاَّ أَصَابَ مِنْہَا خَیْرًا ، أَوْ کَانَ لَہُ خَیْرٌ ، فَلَمْ یَزَلَ الشَّجَرَ کَذَلِکَ حَتَّی تَکَلَّمَتْ فَجَرَۃُ بَنِی آدَمَ بِالْکَلِمَۃِ الْعَظِیمَۃِ قَوْلُہُمْ (اتَّخَذَ اللَّہُ وَلَدًا) فَاقْشَعَرَّتِ الأَرْضُ فَشَاکَ الشَّجَرُ۔
(٣٦٣١١) مسجد منی میں اہل شام کے فقہاء میں سے ایک آدمی نے بیان کیا کہ اللہ تعالیٰ نے زمین کو اور زمین میں موجود درختوں کو پیدا فرمایا۔ اور اولادِ آدم میں سے جو کوئی بھی ان درختوں میں سے کسی درخت کے پاس آتا تھا تو وہ اس درخت سے خیر ہی پاتا تھا۔ یا اس کے لیے یہ بہتر ہی ہوتا تھا چنانچہ درختوں کی مسلسل یہی حالت رہی یہاں تک کہ اولادِ آدم میں سے فجار نے یہ بڑی بات بولی کہ اللہ نے اولاد بنائی ہے۔ اس پر زمین کانپ اٹھی اور درختوں میں کانٹے پیدا ہوگئے۔

36311

(۳۶۳۱۲) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ عَوْفٍ ، عَنْ أَبِی قَحْذَمٍ ، قَالَ : أُتِیَ ابْنُ زِیَادٍ بِصُرَّۃٍ فِیہَا حَبُّ حِنْطَۃٍ أَمْثَالُ النَّوَی وُجِدَتْ فِی بَعْضِ بُیُوتِ آل کِسْرَی مَکْتُوبٌ مَعَہَا : ہَذَا نَبْتُ زَمَانٍ کَذَا وَکَذَا ، یَعْنِی : نَبْتُ زَمَانٍ کَانَ یُعْمَلُ فِیہِ بِطَاعَۃِ اللہِ۔
(٣٦٣١٢) حضرت ابوقحذم سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حصرت ابن زیاد کے پاس ایک تھیلی لائی گئی جس میں کھجور کی گٹھلی کے برابر گندم کے دانے تھے۔ اور یہ تھیلی خاندانِ کسریٰ میں سے بعض کے گھر میں پائی گئی تھی اور اس کے ہمراہ یہ تحریر تھی۔ یہ فلاں، فلاں زمانہ کی پیداوار ہے یعنی وہ اس زمانہ میں پیدا ہوئی تھی جس میں خدا کی فرمان برداری کی جاتی تھی۔

36312

(۳۶۳۱۳) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ عَوْفٍ ، عَنْ خَالِدٍ الرَّبَعِیِّ ، قَالَ : کَانَ فِی بَنِی إسْرَائِیلَ رَجُلٌ ، وَکَانَ مَغْمُورًا فِی الْعِلْمِ ، وَأَنَّہُ ابْتَدَعَ بِدْعَۃً ، فَدَعَا النَّاسَ فَاتُّبِعَ ، وَأَنَّہُ تَذَکَّرَ ذَاتَ لَیْلَۃٍ ، فَقَالَ : ہَبْ ہَؤُلاَئِ النَّاسُ لاَ یَعْلَمُونَ مَا ابْتَدَعْت ، أَلَیْسَ اللَّہُ قَدْ عَلِمَ مَا ابْتَدَعْت ، قَالَ : فَبَلَغَ مِنْ تَوْبَتِہِ أَنْ حَرَقَ تَرْقُوَتَہُ ، وَجَعَلَ فِیہَا سِلْسِلَۃً وَرَبَطَہَا بِسَارِیَۃٍ مِنْ سَوَارِی الْمَسْجِدِ ، قَالَ : لاَ أَنْزِعُہَا حَتَّی یُتَابَ عَلَیَّ ، قَالَ : فَأَوْحَی اللَّہُ إِلَی نَبِیٍّ مِنْ أَنْبِیَائِ بَنِی إسْرَائِیلَ ، وَکَانَ لاَ یَسْتَنْکِرُ بِالْوَحْیِ : أَنْ قُلْ لِفُلاَنٍ : لَوْ أَنَّ ذَنْبَک کَانَ فِیمَا بَیْنِی وَبَیْنَکَ لَغَفَرْت لَک ، وَلَکِنْ کَیْفَ بِمَنْ أَضْلَلْت مِنْ عِبَادِی ، فَدَخَلَ النَّارَ۔
(٣٦٣١٣) حضرت خالد ربعی سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ بنی اسرائیل میں ایک آدمی تھا اور علم سے ڈھکا ہوا تھا۔ اس نے ایک بدعت ایجاد کی۔ پھر اس نے لوگوں کو دعوت دی اور اس کی اتباع ہونے لگی۔ ایک رات اس کو یہ خیال آیا اس نے کہا۔ ان لوگوں کو تو چھوڑو۔ انھیں تو میری ایجاد کا علم نہیں ہے۔ لیکن کیا اللہ تعالیٰ کو میری اس پیدا کردہ بدعت کا علم نہیں ہے ؟ کہتے ہیں وہ اپنی توبہ میں یہاں تک پہنچ گیا کہ اس نے اپنی ہنسلی کی ہڈی کو جلا لیا اور اس میں ایک رسی ڈال کر مسجد کے ستونوں میں سے ایک ستون سے باندھ دیا اور کہا۔ میں اس کو تب تک نہیں کھولوں گا جب تک کہ میری توبہ قبول نہ ہوجائے۔ راوی کہتے ہیں۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے نبیوں میں سے ایک نبی کو وحی کی کہ آپ فلاں سے کہہ دو ۔ اگر تیرا گناہ میرے، تیرے درمیان ہوتا تو میں تجھے معاف کردیتا لیکن میرے جن بندوں کو تو نے گمراہ کیا ہے ان کا کیا ہوگا ؟ چنانچہ وہ جہنم میں داخل ہوا۔

36313

(۳۶۳۱۴) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ حُبَابٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مَرْوَانَ ، قَالَ : سَمِعْتُ صَالِحًا أَبَا الْخَلِیلِ یَقُولُ فِی قَوْلِ اللہِ : {إنَّمَا یَخْشَی اللَّہَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمَائُ} قَالَ : أَعْلَمُہُمْ بِہِ أَشَدُّہُمْ خَشْیَۃً لَہُ۔
(٣٦٣١٤) حضرت عبداللہ بن مروان سے روایت ہے وہ کہتے ہیں میں نے ابوخلیل صالح کو ارشادِ خداوندی {إنَّمَا یَخْشَی اللَّہَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمَائُ } کے بارے میں سنا۔ انھوں نے فرمایا : خدا کا سب سے بڑا عالم وہ ہے جو اس سے سب سے زیادہ خوف کھانے والا ہوتا ہے۔

36314

(۳۶۳۱۵) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ سُفْیَانَ ، قَالَ : حدَّثَنَا رَجُلٌ مِنْ أَہْلِ الصَّنْعَائِ ، عَنْ وَہْبِ بْنِ مُنَبِّہٍ ، قَالَ : مَرَّ رَجُلٌ بِرَاہِبٍ ، فَقَالَ : یَا رَاہِبُ ، کَیْفَ ذِکْرُک لِلْمَوْتِ ، قَالَ : مَا أَرْفَعُ قَدَمًا ، وَلاَ أَضَعُ أُخْرَی إِلاَّ رَأَیْت أَنِّی مَیِّتٌ ، قَالَ : کَیْفَ دَأْبُ نَشَاطِکَ ، قَالَ : مَا کُنْت أَرَی أن أَحَدًا سَمِعَ بِذِکْرِ الْجَنَّۃِ وَالنَّارِ تَأْتِی عَلَیْہِ سَاعَۃً لاَ یُصَلِّی ، فَقَالَ الرَّجُلُ : إنِّی لأُصَلِّی فَأَبْکِی حَتَّی یَنْبُتَ الْبَقْلُ مِنْ دُمُوعِی ، فَقَالَ الرَّاہِبُ : إنَّک إنْ تَضْحَکْ وَأَنْتَ مُعْتَرِفٌ لِلَّہِ بِخَطِیئَتِکَ خَیْرٌ مِنْ أَنْ تَبْکِیَ وَأَنْتَ مُدْلٍ بِعَمَلِکَ ، إنَّ صَلاَۃَ الْمُدْلِ لاَ تَصْعَدُ فَوْقَہُ فَقَالَ الرَّجُلُ : أَوْصِنِی ، فَقَالَ الرَّاہِبُ : عَلَیْک بِالزُّہْدِ فِی الدُّنْیَا ، وَلاَ تُنَازِعُہَا أَہْلَہَا ، وَکُنْ کَالنَّحْلَۃِ إنْ أُکِلَتْ أُکِلَتْ طَیِّبًا ، وَإِنْ وَضَعَتْ وَضَعَتْ طَیِّبًا ، وَإِنْ وَقَعَتْ عَلَی شَیْئٍ لَمْ تَضُرَّہُ وَلَمْ تَکْسِرْہُ ، وَانْصَحْ لِلَّہِ کَنُصْحِ الْکَلْبِ أَہْلَہُ فإنہم یُجِیعُونہُ وَیَضْرِبُونہُ ، وَیَأْبَی إِلاَّ نُصْحًا لَہُمْ وَحِفظًا عَلَیْہِمْ۔
(٣٦٣١٥) حضرت وہب بن منبہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی ایک راہب کے پاس سے گزرا اور پوچھا۔ اے راہب ! تیرا موت کو یاد کرنا کیسا ہے ؟ اس راہب نے کہا۔ میں جو قدم رکھتا ہوں یا اٹھاتا ہوں تو خود کو مردہ ہی سمجھتا ہوں۔ اس آدمی نے پوچھا۔ تیری نشاط کی حالت کیسی ہے ؟ راہب نے کہا : میں خیال نہیں کرتا کہ کوئی آدمی جنت، جہنم کا ذکر سنے اور اس پر ایک گھڑی بھی ایسی آئے کہ وہ نماز نہ پڑھے۔ اس پر اس آدمی نے کہا : میں تو نماز بھی پڑھتا ہوں اور روتا ہوں یہاں تک کہ میرے آنسوؤں سے سبزی اگتی ہے۔ راہب نے کہا۔ اگر تم ہنسو جبکہ تم اللہ کے سامنے اپنی خطاؤں کا اعتراف کرتے ہو تو یہ عمل اس سے بہتر ہے کہ تم رو رہے ہو جبکہ تم اپنے عمل پر گھمنڈ میں مبتلا ہو۔ بیشک گھمنڈ کرنے والے کی نماز اس کے سر سے اوپر نہیں جاتی۔ پھر آدمی نے کہا : تم مجھے وصیت کردو۔ تو راہب نے کہا : تم دنیا میں بےرغبتی اختیار کرو اور اہل دنیا سے دنیا نہ چھینو اور شہد کی مکھی کی طرح ہوجاؤ کہ اگر کھاتی ہے تو طیب کھاتی ہے اور اگر نکالتی ہے تو طیب نکالتی ہے اور اگر کسی شے پر گرتی ہے تو نہ اس کو نقصان دیتی ہے اور نہ اس کو توڑتی ہے۔ اور اللہ کے لیے ایسی خیر خواہی رکھ جیسی کتا، اپنے اہل کے ساتھ رکھتا ہے۔ کہ وہ اس کو بھوکا رکھتے ہیں اور اس کو مارتے ہیں مگر وہ ان کے لیے خیر خواہی اور حفاظت ہی کرتا ہے۔

36315

(۳۶۳۱۶) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ بُرْقَانَ ، قَالَ : بَلَغَنِی أَنَّ ابْنَ مُنَبِّہٍ کَانَ یَقُولُ : أَعْوَنُ الأَخْلاَقِ عَلَی الدِّینِ الزَّہَادَۃُ فِی الدُّنْیَا ، وَأَوْشَکُہَا رَدًی اتِّبَاعُ الْہَوَی ، وَمِنَ اتِّبَاعِ الْہَوَی الرَّغْبَۃُ فِی الدُّنْیَا ، وَمِنَ الرَّغْبَۃِ فِی الدُّنْیَا حُبُّ الْمَالِ وَالشَّرَفِ ، وَمِنْ حُبِّ الْمَالِ وَالشَّرَفِ اسْتِحْلاَلُ الْمَحَارِمِ ، وَمِنَ اسْتِحْلاَلِ الْمَحَارِمِ یَغْضَبُ اللَّہُ ، وَغَضَبُ اللہِ الدَّائُ الَّذِی لاَ دَوَائَ لَہُ إِلاَّ رِضْوَانَ اللہِ ، وَرِضْوَانُ اللہِ دَوَائٌ لاَ یَضُرُّ مَعَہُ دَائٌ ، وَمَنْ یُرِیدُ أَنْ یُرْضِیَ رَبَّہُ یُسْخِطُ نَفْسَہُ ، وَمَنْ لاَ یُسْخِطُ نَفْسَہُ لاَ یُرْضِی رَبَّہُ ، إنْ کَانَ کُلَّمَا ثَقُلَ عَلَی الإِنْسَاْن شَیْئٌ مِنْ دِینِہِ تَرَکَہُ أَوْشَکَ أَنْ لاَ یَبْقَی مَعَہُ شَیْئٌ۔
(٣٦٣١٦) حضرت جعفر بن برقان سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ مجھے یہ بات پہنچی کہ حضرت ابن منبہ کہا کرتے تھے۔ اخلاق میں سے سب سے بڑا معاون دین کے لیے دنیا میں بےرغبتی ہے۔ اور دین کے لیے سب سے زیادہ ردی بات، خواہشات کی پیروی ہے۔ اور خواہشات کی پیروی سے دنیا میں رغبت ہے اور دنیا میں رغبت سے مال وجاہ کی محبت ہے اور مال وجاہ کی محبت سے حرام کا حلال سمجھنا ہے اور حرام کو حلال سمجھنے سے خدا تعالیٰ ناراض ہوتے ہیں اور غضب خداوندی ایسی بیماری ہے جس کی رضا خداوندی کے علاوہ کوئی دوائی نہیں ہے۔ یہ ایسی دوا ہے جس کے ساتھ کوئی بیماری نقصان نہیں دیتی جو آدمی اپنے رب کو راضی کرنا چاہتا ہے وہ اپنے نفس کو ناراض کرے اور جو اپنے نفس کو ناراض نہیں کرتا۔ وہ اپنے رب کو راضی نہیں کرپاتا۔ اگر انسان دین کی بوجھ محسوس ہونے والی چیز چھوڑ دے گا تو قریب ہے کہ اس کے پاس کچھ بھی باقی نہ رہے۔

36316

(۳۶۳۱۷) حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ مَنْصُورِ بْنِ حَیَّانَ ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ أَبِی بَزَّۃَ ، قَالَ : سَمِعْتُ ابْنَ مُنَبِّہٍ یَقُولُ : إنَّا نَجِدُ فِی الْکُتُبِ ، أَنَّ اللَّہَ یَقُولُ : یَا ابْنَ آدَمَ إنَّک مَا عَبَدْتنِی وَرَجَوْتنِی فَإِنِّی غَافِرٌ لَک عَلَی مَا کَانَ ، وَحَقٌّ عَلَیَّ أَنْ لاَ أُضِلَّ عَبْدِی وَہُوَ حَرِیصٌ عَلَی الْہُدَی وَأَنَا الْحَکَمُ۔
(٣٦٣١٧) حضرت قاسم بن ابوبزہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے ابن منبہ کو کہتے سنا کہ ہم نے (سابقہ) کتب میں یہ بات پائی ہے کہ خدا تعالیٰ فرماتے ہیں : اے ابن آدم ! تم جب تک میری عبادت کرو اور مجھ سے امید رکھو تو جیسا بھی ہو میں تمہیں معاف کردوں گا اور یہ بات مجھ پر حق ہے کہ میں اپنے اس بندے کو گمراہ نہ کروں جو بندہ ہدایت کا حریص ہو۔ میں حکم ہوں۔

36317

(۳۶۳۱۸) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ مُبَارَکٍ ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنْ سِمَاکِ بْنِ الْفَضْلِ ، عَنِ ابْنِ مُنَبِّہٍ ، قَالَ : مَثَلُ الَّذِی یَدْعُو بِغَیْرِ عَمَلٍ مَثَلُ الَّذِی یَرْمِی بِغَیْرِ وَتْرٍ۔
(٣٦٣١٨) حضرت ابن منبہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں جو آدمی بغیر عمل کے دعا کرتا ہے اس کی مثال اس آدمی کی طرح ہے جو کمان کے بغیر تیر پھینکتا ہے۔

36318

(۳۶۳۱۹) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ سُلَیْمَانَ الضُّبَعِیِّ ، عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ الزُّبَیْرِ ، عَنِ ابْنِ مُنَبِّہٍ ، قَالَ : أَوْحَی اللہ إِلَی عُزَیْرٍ یَا عُزَیْرُ ، لاَ تَحْلِفْ بِی کَاذِبًا فَإِنِّی لاَ أَرْضَی عَمَّنْ یَحْلِفُ بِی کَاذِبًا ، یَا عُزَیْرُ بِرَّ ، وَالِدَیْک فَإِنَّہُ مَنْ بَرَّ وَالِدَیْہِ رَضِیت ، وَإِذَا رَضِیت بَارَکْت ، وَإِذَا بَارَکْت بَلَغَت النَّسْلَ الرَّابِعَ ، یَا عُزَیْرُ ، لاَ تَعُقَّ وَالِدَیْک فَإِنَّہُ مَنْ یَعُقُّ وَالِدَیْہِ غَضِبْت وَإِذَا غَضِبْت لَعَنْت ، وَإِذَا لَعَنْت بَلَغَت النَّسْلَ الرَّابِعَ۔
(٣٦٣١٩) حضرت ابن منبہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عزیر کی طرف وحی کی۔ اے عزیر ! تم مجھ پر جھوٹی قسم نہ کھاؤ۔ کیونکہ جو مجھ پر جھوٹی قسم کھاتا ہے میں اس سے راضی نہیں ہوتا۔ اے عزیر ! تم اپنے والدین کی فرمان برداری کرو۔ کیونکہ جو آدمی اپنے والدین کی فرمان برداری کرتا ہے۔ میں اس سے راضی ہوتا ہوں اور جب میں راضی ہوتا ہوں، برکت دیتا ہوں۔ اور جب میں برکت دیتا ہوں تو چوتھی نسل تک پہنچتی ہے۔ اے عزیر ! تم اپنے والدین کی نافرمانی نہ کرنا۔ کیونکہ جو اپنے والدین کی نافرمانی کرتا ہے۔ تو میں (اس سے) ناراض ہوتا ہوں اور جب میں ناراض ہوتا ہوں تو لعنت کرتا ہوں اور جب میں لعنت کرتا ہوں تو وہ چوتھی نسل تک جاتی ہے۔

36319

(۳۶۳۲۰) حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ بْنُ مُوسَی ، قَالَ : أَخْبَرَنَا صَالِحٌ الْفَزَارِیّ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ بْنِ مَیْمُونٍ ، عَنْ وَہْبِ بْنِ مُنَبِّہٍ، قَالَ : قَالَ دَاوُد : یَا رَبِ ، ابْنُ آدَمَ لَیْسَ مِنْہُ شَعْرَۃٌ إِلاَّ تَحْتَہَا مِنْک نِعْمَۃٌ ، وَفَوْقَہَا مِنْک نِعْمَۃٌ ، فَمِنْ أَیْنَ یُکَافِؤکَ بِمَا أَعْطَیْتَہُ ، قَالَ : فَأَوْحَی اللَّہُ إلَیْہِ : یَا دَاوُد ، إنِّی أُعْطِی الْکَثِیرَ وَأَرْضَی بِالْیَسِیرِ ، أداء شَکَرَ ذَلِکَ لِی أَنْ یَعْلَمَ أَنَّ مَا بِہِ مِنْ نِعْمَۃٍ مِنِّی۔
(٣٦٣٢٠) حضرت وہب بن منبہ سے روایت ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ حضرت داؤد نے عرض کیا۔ اے پروردگار ! آدم کے بیٹے کے ہر بال کے نیچے بھی آپ کی نعمت ہے اور اس کے اوپر بھی ایک نعمت ہے۔ پس وہ آپ کو، آپ کی عطاؤں کا بدلہ کہاں سے دیں گے ؟ راوی کہتے ہیں۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد کو وحی کی۔ بیشک میں کثیر عطا کرتا ہوں اور تھوڑے پر راضی ہوجاتا ہوں۔ میری ان نعمتوں کا ادائے شکر یہ ہے کہ یہ بات معلوم کی جائے کہ جو کوئی بھی نعمت ہے وہ میری طرف سے ہے۔

36320

(۳۶۳۲۱) حَدَّثَنَا عَفَّانُ بْنُ مُسْلِمٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، قَالَ : حَدَّثَنَا عَطَائُ بْنُ السَّائِبِ ، عَنْ وَہْبِ بْنِ مُنَبِّہٍ ، قَالَ : أَعْطَی اللَّہُ مُوسَی نُورًا یَکُونُ لِغَیْرِہِ نَارًا ، قَالَ : فَدَعَا مُوسَی ہَارُونَ ، فَقَالَ : إنَّ اللَّہَ وَہَبَ لِی نُورًا یَکُونُ لِغَیْرِی نَارًا ، وَإِنَّ مُوسَی وَہَبَہُ لِی ، وَإِنِّی أَہَبُہُ لَکُمَا قَالَ : فَکَانَ ابْنَا ہَارُونَ یُقَرِّبَانِ الْقُرْبَانَ لِبَنِی إسْرَائِیلَ ، قَالَ : فأحدثا شَیْئًا فَنَزَلَتِ النَّارُ فَاحْتَرَقَا ، قَالَ : فَقِیلَ لَہُمَا : یَا مُوسَی وَہَارُونُ ، کَذَا أَصْنَعُ بِمَنْ عَصَانِی مِنْ أَہْلِ طَاعَتِی فَکَیْفَ أَصْنَعُ بِمَنْ عَصَانِی مِنْ أَہْلِ مَعْصِیَتِی۔
(٣٦٣٢١) حضرت وہب بن منبہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ کو ایسا نور دیا تھا جو دوسروں کے لیے آگ ہوتا تھا۔ راوی کہتے ہیں پھر موسیٰ نے حضرت ہارون کو بلایا اور کہا۔ تحقیق اللہ تعالیٰ نے مجھے ایسا نور عطا کیا ہے جو دوسروں کے لیے آگ ہوتا ہے۔ اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے یہ مجھے ہدیہ کیا تھا اور میں یہ تم دونوں کو ہدیہ کرتا ہوں۔ راوی کہتے ہیں۔ چنانچہ حضرت ہارون کے دونوں بیٹے بنی اسرائیل کے لیے قربانی کرتے تھے۔ راوی کہتے ہیں۔ پھر ان دونوں نے کوئی بات نئی نکال دی تو آگ اتری اور ان کو جلا دیا۔ راوی کہتے ہیں۔ پھر ان سے کہا گیا۔ اے موسیٰ و ہارون ! میرے اہل طاعت میں سے جو میری نافرمانی کرتا ہے میں اس کے ساتھ اسی طرح کرتا ہوں۔ تو پھر میں اپنے نافرمانوں میں سے نافرمانی کرنے والے کے ساتھ کیسا سلوک کروں گا ؟ “

36321

(۳۶۳۲۲) حَدَّثَنَا عَفَّانُ بْنُ مُسْلِمٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا مَہْدِیٌّ ، قَالَ : حَدَّثَنَا عَبْدُ الْحَمِیدِ صَاحِبُ الزِّیَادِیِّ ، عَنِ ابْنِ مُنَبِّہٍ ، قَالَ : کَانَ فِیمَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ رَجُلٌ عَبَدَ اللَّہَ زَمَانًا ، ثُمَّ طَلَبَ إِلَی اللہِ حَاجَۃً وَصَامَ لِلَّہِ سَبْعِینَ سَبْتًا یَأْکُلُ کُلَّ سَبْتٍ إحْدَی عَشَرَ مَرَّۃً ، قَالَ : وَطَلَبَ إِلَی اللہِ حَاجَتَہُ فَلَمْ یُعْطَہَا ، فَأَقْبَلَ عَلَی نَفْسِہِ ، فَقَالَ : أَیَّتُہَا النَّفْسُ مِنْ قِبَلِکَ أُتِیتُ ، لَوْ کَانَ عِنْدَکِ خَیْرٌ لأُعْطِیتِ حَاجَتَکَ ، وَلَکِنْ لَیْسَ عِنْدَکِ خَیْرٌ ، قَالَ : فَنَزَلَ إلَیْہِ سَاعَتَئِذٍ مَلَکٌ ، فَقَالَ لَہُ : یَا ابْنَ آدَمَ ، إنَّ سَاعَتَکَ ہَذِہِ الَّتِی أزریت عَلَی نَفْسِکَ فِیہَا خَیْرٌ مِنْ عِبَادَتِکَ کُلِّہَا الَّتِی مَضَتْ ، وَقَدْ أَعْطَاک اللَّہُ حَاجَتَکَ الَّتِی سَأَلْت۔
(٣٦٣٢٢) حضرت ابن منبہ سے روایت ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ تم سے پہلے لوگوں میں ایک آدمی تھا اس نے ایک زمانہ اللہ کی عبادت کی۔ پھر اس نے اللہ تعالیٰ سے کوئی حاجت مانگی اور اس نے اللہ کے لیے ساٹھ ہفتے روزے رکھے۔ ہر ہفتہ گیارہ مرتبہ کھاتا تھا۔ راوی کہتے ہیں۔ اس نے اللہ سے کوئی حاجت مانگی اور اللہ تعالیٰ نے وہ حاجت اس کو نہ دی۔ چنانچہ وہ اپنے نفس کی طرف متوجہ ہوا اور اس نے کہا۔ اے نفس ! تیری وجہ سے مجھے دیا جاتا ہے۔ اگر تیرے پاس کوئی خیر ہوتی تو تجھے تیری حاجت دے دی جاتی۔ لیکن تیرے پاس کوئی خیر نہیں ہے۔ راوی کہتے ہیں۔ پس اسی وقت ایک فرشتہ نازل ہوا اور اس نے اس آدمی کو کہا۔ اے آدم کے بیٹے ! تیری یہ گھڑی جس میں تو نے اپنے نفس پر عتاب کیا وہ تیری سابقہ ساری عبادت سے بہتر ہے۔ تحقیق تجھے اللہ تعالیٰ نے تیری حاجت دے دی ہے۔

36322

(۳۶۳۲۳) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، قَالَ : حدَّثَنِی مَنْ لاَ أَتَّہِمُ ، عَنِ ابْنِ مُنَبِّہٍ ، أَنَّہُ جَلَسَ ہُوَ وَطَاوُسٌ وَنَحْوُہُمَا مِنْ أَہْلِ ذَلِکَ الزَّمَانِ فَذَکَرُوا أَیُّ أَمْرِ اللہِ أَسْرَعُ ، فَقَالَ بَعْضُہُمْ : قَوْلُ اللہِ کَلَمْحِ الْبَصَرِ ، وَقَالَ بَعْضُہُمْ : السَّرِیرُ حِینَ أُتِیَ بِہِ سُلَیْمَانُ ، فَقَالَ : ابْنُ مُنَبِّہٍ : أَسْرَعُ أَمْرِ اللہِ ، أَنَّ یُونُسَ عَلَی حَافَّۃِ السَّفِینَۃِ إذْ أَوْحَی اللَّہُ إِلَی نُونٍ فِی نِیلِ مِصْرَ ، قَالَ : فَمَا خَرَّ مِنْ حَافَّتِہَا إِلاَّ فِی جَوْفِہِ۔
(٣٦٣٢٣) حضرت ابن منبہ کے بارے میں روایت ہے کہ وہ، طاؤس اور ان جیسے اور اس زمانہ کے لوگوں کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ انھوں نے آپس میں اس بات کا ذکر چھیڑا کہ کون سا امر خداوندی سب سے تیز تھا ؟ تو ان میں سے بعض نے کہا : ارشاد خداوندی کَلَمْحِ الْبَصَرِ اور بعض نے کہا۔ تخت جب حضرت سلیمان کے پاس لایا گیا اس پر حضرت ابن منبہ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ کے حکموں میں سے تیز ترین یہ تھا کہ حصرت یونس، کشتی کے کنارے پہ تھے جب اللہ تعالیٰ نے مصر کے نیل کی مچھلی کو حکم دیا۔ ابن منبہ کہتے ہیں۔ پس وہ کشتی کے کنارے سے مچھلی کے پیٹ میں جا کر گرے۔

36323

(۳۶۳۲۴) حَدَّثَنَا الْمُحَارِبِیُّ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ سُلَیْمَانَ الْعَبْسِیِّ، عَنْ إدْرِیسَ بْنِ سِنَانٍ، عَنْ جَدِّہ وَہْبِ بْنِ مُنَبِّہٍ، قَالَ: کَانَ عَلَی مُوسَی یَوْمَ نَاجَی رَبَّہُ عِنْدَ الشَّجَرَۃِ جُبَّۃٌ مِنْ صُوفٍ وَتُبَّانٌ مِنْ صُوفٍ وَقَلَنْسُوَۃٌ مِنْ صُوفٍ۔
(٣٦٣٢٤) حضرت وہب بن منبہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ جس دن موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے پروردگار سے درخت کے پاس مناجات کی تھی اس دن انھوں نے اون کا جبہ، اُون کا جان گیا اور اون کی ٹوپی پہنی ہوئی تھی۔

36324

(۳۶۳۲۵) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا شُعْبَۃُ ، عَنْ عَوْفٍ قَالَ : قَالَ ابْنُ مُنَبِّہٍ : مِنْ خِصَالِ الْمُنَافِقِ أَنْ یُحِبَّ الْحَمْدَ وَیُبْغِضَ الذَّمَّ۔
(٣٦٣٢٥) حضرت ابن عوف سے روایت ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ حضرت ابن منبہ نے فرمایا : منافق کی خصلتوں میں سے یہ بات ہے کہ وہ تعریف کو پسند کرتا ہے اور مذمت کو ناپسند کرتا ہے۔

36325

(۳۶۳۲۶) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ الثَّقَفِیُّ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنْ کِتَابِ أَبِی قِلاَبَۃَ ، قَالَ : مَثَلُ الْعُلَمَائِ مَثَلُ النُّجُومِ الَّتِی یُہْتَدَی بِہَا ، وَالأَعْلاَمِ الَّتِی یُقْتَدَی بِہَا ، إذَا تَغَیَّبَتْ عَنْہُمْ تَحَیَّرُوا ، وَإِذَا تَرَکُوہَا ضَلُّوا۔
(٣٦٣٢٦) حضرت ابوقلابہ کی تحریر میں یہ بات تھی۔ فرمایا : علماء کی مثال، ان ستاروں کی مانند ہے جن سے راہ نمائی لی جاتی ہے۔ اور ان نشانیوں کی طرح ہے جن سے راہ یابی حاصل کی جاتی ہے۔ جب یہ ستارے لوگوں سے اوجھل ہوجاتے ہیں تو لوگ حیران ہوجاتے ہیں اور جب وہ ان ستاروں کو چھوڑ دیتے ہیں تو گمراہ ہوجاتے ہیں۔

36326

(۳۶۳۲۷) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ الثَّقَفِیُّ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنْ أَبِی قِلاَبَۃَ ، أَنَّہُ قَالَ فِی دُعَائِہِ : اللَّہُمَّ إنِّی أَسْأَلُک الطَّیِّبَاتِ وَتَرْکَ الْمُنْکَرَاتِ وَحُبَّ الْمَسَاکِینِ ، وَأَنْ تَتُوبَ عَلَیَّ ، وَإِذَا أَرَدْت بِعِبَادِکَ فِتْنَۃً أَنْ تَتَوَفَّانِی غَیْرَ مَفْتُونٍ۔
(٣٦٣٢٧) حضرت ابوقلابہ کے بارے میں روایت ہے کہ وہ اپنی دعا میں کہا کرتے تھے۔ اے اللہ ! میں آپ سے طیبات کا سوال کرتا ہوں اور ترک منکرات کا سوال کرتا ہوں اور مسکینوں کی محبت کا سوال کرتا ہوں اور یہ کہ آپ میری توبہ قبول کرلیں اور جب آپ اپنے بندوں کے ساتھ کسی آزمائش کا ارادہ کریں تو مجھے فتنہ میں مبتلا کیے بغیر موت دے دینا۔

36327

(۳۶۳۲۸) حَدَّثَنَا الثَّقَفِیُّ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنْ أَبِی قِلاَبَۃَ ، قَالَ : إنَّ اللَّہَ لَمَّا لَعَنَ إبْلِیسَ سَأَلَہُ النَّظِرَۃَ ، فَأَنْظَرَہُ إِلَی یَوْمِ الدِّینِ ، قَالَ : وَعِزَّتِکَ لاَ أَخْرُجُ مِنْ جَوْفِ ، أَوْ مِنْ قَلْبِ ابْنِ آدَمَ مَا دَامَ فِیہِ الرُّوحُ ، قَالَ : وَعِزَّتِی لاَ أَحْجُب عَنْہُ التَّوْبَۃَ مَا دَامَ فِیہِ الرُّوحُ۔
(٣٦٣٢٨) حضرت ابوقلابہ سے روایت ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جب ابلیس کو اللہ تعالیٰ نے ملعون قرار دیا تو اس نے اللہ تعالیٰ سے مہلت مانگی۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس کو قیامت تک مہلت دے دی۔ ابلیس نے کہا : تیری عزت کی قسم ! میں آدم کے بیٹے کے پیٹ یا دل میں تب تک رہوں گا جب تک اس میں روح ہوگی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : میری عزت کی قسم ! جب تک اس میں روح ہوگی میں اس سے توبہ بند نہیں کروں گا۔

36328

(۳۶۳۲۹) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَیْدٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا أَیُّوبُ قَالَ : قَالَ مُسْلِمُ بْنُ یَسَارٍ : لَوْ کَانَ أَبُو قِلاَبَۃَ مِنَ الْعُجْمِ کَانَ موبز موبزان۔
(٣٦٣٢٩) حضرت مسلم بن یسار کہتے ہیں کہ اگر حضرت ابوقلابہ عجمیوں میں سے ہوتے تو قاضی القضاۃ ہوتے۔

36329

(۳۶۳۳۰) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَیْدٍ ، قَالَ سَمِعْت أَیُّوبَ وَذَکَرَ أَبَا قِلاَبَۃَ ، فَقَالَ : کَانَ وَاللہِ مِنَ الْفُقَہَائِ وَذَوِی الأَلْبَابِ۔
(٣٦٣٣٠) حضرت حماد بن زید کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ایوب کو کہتے سنا اور وہ حضرت ابوقلابہ کا ذکر کررہے تھے۔ فرمایا : خدا کی قسم ! وہ ذی عقل اور فقہاء میں سے تھے۔

36330

(۳۶۳۳۱) حَدَّثَنَا یَعْمُرُ ، قَالَ : حدَّثَنَا ابْنُ مُبَارَکٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنْ أَبِی قِلاَبَۃَ ، قَالَ : خَیْرُ أُمُورِکُمْ أَوْسَاطُہَا۔ (ابو نعیم ۲۸۶)
(٣٦٣٣١) حضرت ابوقلابہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں۔ تمہارے کاموں میں سے بہترین کام درمیانہ کام ہے۔

36331

(۳۶۳۳۲) حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُوسَی ، قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَنْ أَبِی سِنَانٍ ، عَنْ وَہْبِ بْنِ مُنَبِّہٍ ، قَالَ : مَا الْخَلْقُ فِی قَبْضَۃِ اللہِ إِلاَّ کَخَرْدَلَۃٍ ہَاہُنَا مِنْ أَحَدِکُمْ۔
(٣٦٣٣٢) حضرت وہب بن منبہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں۔ ساری مخلوق اللہ کے قبضہ میں اس طرح ہے جیسے تم میں سے کسی کے سامنے رائی کا دانہ ہوتا ہے۔

36332

(۳۶۳۳۳) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : حدَّثَنَا إسْرَائِیلُ ، عَنْ أَبِی یَحْیَی عَنْ إیَاسِ بْنِ مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ: کَانَ أَفْضَلُہُمْ عِنْدَہُمْ ، یَعْنِی الْمَاضِینَ أَسْلَمَہُمْ صَدْرًا وَأَقَلَّہُمْ غِیبَۃً۔
(٣٦٣٣٣) حضرت ایاس بن معاویہ، اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ پہلے لوگوں کے ہاں افضل وہ ہوتا تھا جو سب سے زیادہ سلیم الصدر، کم غیبت کرنے والا ہوتا تھا۔

36333

(۳۶۳۳۴) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ الْحُبَابِ ، قَالَ : حدَّثَنِی عُقْبَۃُ بْنُ أَبِی یَزِیدَ الْقُرَشِیُّ ، قَالَ : سَمِعْتُ زَیْدَ بْنَ أَسْلَمَ یَذْکُرُ فِی قَوْلِ اللہِ : {وَالْمُسْتَغْفِرِینَ بِالأَسْحَارِ} قَالَ : مَنْ شَہِدَ صَلاَۃَ الصُّبْحِ۔
(٣٦٣٣٤) حضرت عقبہ بن ابی یزید کہتے ہیں کہ میں نے حضرت زید بن اسلم کو ارشادِ خداوندی { وَالْمُسْتَغْفِرِینَ بِالأَسْحَارِ } کے بارے میں کہتے سنا۔ انھوں نے فرمایا : جو لوگ صبح کی نماز میں حاضر ہوتے ہیں۔

36334

(۳۶۳۳۵) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، قَالَ : حَدَّثَنَا أَبُو ہَمَّامٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : رَحِمَ اللَّہُ عَبْدًا وقف عِنْدَ ہَمِّہِ ، فَإِنَّہُ لَیْسَ مِنْ عَبْدٍ یَعْمَلُ حَتَّی یَہُمَّ ، فَإِنْ کَانَ خَیْرًا أَمْضَاہُ ، وَإِنْ کَانَ شَرًّا کَفَّ عَنْہُ۔
(٣٦٣٣٥) حضرت حسن سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس بندے پر رحم فرمائے جو اپنے قصد و ارادہ پر کھڑا ہوجائے۔ کیونکہ جو بندہ بھی عمل کرتا ہے تو وہ ارادہ کرتا ہے۔ پھر اگر وہ ارادہ اچھا ہو تو بندہ اس کو کر گزرتا ہے اور اگر وہ ارادہ برا ہو تو بندہ اس سے رک جاتا ہے۔

36335

(۳۶۳۳۶) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ عِمْرَانَ الْقَصِیرِ ، قَالَ : سَأَلْتُ الْحَسَنَ عَنْ شَیْئٍ ، فَقُلْتُ : إنَّ الْفُقَہَائَ یَقُولُونَ کَذَا وَکَذَا ، قَالَ : وَہَلْ رَأَیْت فَقِیہًا بِعَیْنَیْک ، إنَّمَا الْفَقِیہُ الزَّاہِدُ فِی الدُّنْیَا ، الْبَصِیرُ بِدِینِہِ ، الْمُدَاوِمُ عَلَی عِبَادَۃِ رَبِّہِ۔
(٣٦٣٣٦) حضرت عمران قصیر سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت حسن سے کسی چیز کا سوال کیا تو میں نے کہا بیشک فقہاء یوں یوں کہتے ہیں۔ حضرت حسن نے فرمایا : کیا تو نے اپنی آنکھوں سے کوئی فقیر دیکھا ہے۔ فقیر تو وہ ہوتا ہے جو دنیا سے بےرغبت ہوتا ہے اور اپنے دین میں صاحب بصیرت ہوتا ہے اور اپنے رب کی عبادت پر مداومت کرنے والا ہوتا ہے۔

36336

(۳۶۳۳۷) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ الْمُغِیرَۃِ، عَنْ یُونُسَ قَالَ: قَالَ الْحَسَنُ: لاَ یَزَالُ الْعَبْدُ بِخَیْرٍ مَا عَلِمَ مَا الَّذِی یُفْسِدُ عَلَیْہِ عَمَلَہُ ، قَالَ یُونُسُ : إنَّ مِنْہُمْ مَنْ یَرَی أَنَّہُ عَلَی حَقٍّ ، وَمِنْہُمْ مَنْ تَغْلِبُ شَہْوَتُہُ۔
(٣٦٣٣٧) حضرت یونس سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت حسن نے فرمایا : بندہ تب خیر پر رہتا ہے جب تک وہ اپنے عمل کو خراب کرنے والی چیز کو جانتا ہے۔ حضرت یونس کہتے ہیں۔ بعض لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ وہ حق پر ہیں اور بعض وہ ہوتے ہیں جن پر ان کی شہوت غالب ہوتی ہے۔

36337

(۳۶۳۳۸) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ یَزِیدَ ، وَأَبِی الأَشْہَبِ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : کَانَ یُقَالَ : قَلْبُ الْمُؤْمِنِ وَرَائَ لِسَانِہِ ، فَإِذَا ہَمَّ أحدکم بِأَمْرٍ تَدَبَّرَہُ ، فَإِنْ کَانَ خَیْرًا تَکَلَّمَ بِہِ ، وَإِنْ کَانَ غَیْرَ ذَلِکَ سَکَتَ ، وَقَلْبُ الْمُنَافِقِ عَلَی طَرَفِ لِسَانِہِ ، فَإِذَا ہَمَّ بِشَیْئٍ تَکَلَّمَ بِہِ وَأَبْدَاہُ۔
(٣٦٣٣٨) حضرت حسن کے بارے میں روایت ہے کہ وہ کہا کرتے تھے۔ مومن کا دل اس کی زبان کے پیچھے ہوتا ہے۔ پس جب تم میں سے کوئی کسی کام کا ارادہ کرے تو وہ اس میں تدبر کرلے۔ پس اگر وہ خیر کا معاملہ ہو تو پھر اس کو بولے اور اگر اس کے علاوہ ہو تو خاموش رہے۔ اور منافق کا دل اس کی زبان کے کنارہ پر ہوتا ہے۔ پس وہ جب کسی شے کا ارادہ کرتا ہے تو اسے بول دیتا ہے اور ظاہر کردیتا ہے۔

36338

(۳۶۳۳۹) حَدَّثَنَا مُعَاوِیَۃُ بْنُ ہِشَامٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : إنَّ الْمُؤْمِنَ أَحْسَنَ الظَّنَّ بِرَبِّہِ فَأَحْسَنَ الْعَمَلَ ، وَإِنَّ الْمُنَافِقَ أَسَائَ الظَّنَّ بِرَبِّہِ فَأَسَائَ الْعَمَلَ۔
(٣٦٣٣٩) حضرت حسن سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ بیشک مومن اپنے رب کے ساتھ اچھا گمان رکھتا ہے تو عمل بھی اچھا کرتا ہے اور منافق اپنے رب کے ساتھ برا گمان رکھتا ہے تو عمل بھی برا کرتا ہے۔

36339

(۳۶۳۴۰) حَدَّثَنَا مُعَاوِیَۃُ بْنُ ہِشَامٍ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ رَجُلٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : أَطْلُبُ الْعِلْمَ طَلَبًا لاَ یَضُرُّ بِالْعِبَادَۃِ ، وَأَطْلُبُ الْعِبَادَۃَ طَلَبًا لاَ یَضُرُّ بِالْعِلْمِ ، فَإِنَّ مَنْ عَمِلَ بِغَیْرِ عِلْمٍ کَانَ مَا یُفْسِدُ أَکْثَرَ مِمَّا یُصْلِحُ۔
(٣٦٣٤٠) حضرت حسن سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ علم کی طلب ایسی کرو جو عبادت کے لیے نقصان دہ نہ ہو۔ اور عبادت کی طلب ایسی کرو جو علم کے لیے نقصان دہ نہ ہو۔ کیونکہ جو شخص علم کے بغیر عمل کرتا ہے تو وہ صحیح کام سے زیادہ خراب کام کرتا ہے۔

36340

(۳۶۳۴۱) حَدَّثَنَا قَبِیصَۃُ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ یُونُسَ ، قَالَ : کَانَ الْحَسَنُ رَجُلاً مَحْزُونًا۔
(٣٦٣٤١) حضرت یونس سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت حسن ایک غم گین آدمی تھے۔

36341

(۳۶۳۴۲) حَدَّثَنَا قَبِیصَۃُ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : لَقَدْ أَدْرَکْت أَقْوَامًا لاَ یَسْتَطِیعُونَ أَنْ یُسِرُّوا من الْعَمَلَ شَیْئًا إِلاَّ أَسَرُّوہُ۔
(٣٦٣٤٢) حضرت حسن سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ تحقیق میں نے ایسے لوگوں کو پایا ہے جو عملوں میں سے جس کو خفیہ کرنا چاہتے تھے اس کو خفیہ کرلیتے تھے۔

36342

(۳۶۳۴۳) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا ہِشَامٌ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : إنَّ الرَّجُلَ لَیَعْمَلُ الْحَسَنَۃَ فَتَکُونُ نُورًا فِی قَلْبِہِ وَقُوَّۃً فِی بَدَنِہِ ، وَإِنَّ الرَّجُلَ لَیَعْمَلُ السَّیِّئَۃَ فَتَکُونُ ظُلْمَۃً فِی قَلْبِہِ وَوَہْنًا فِی بَدَنِہِ۔
(٣٦٣٤٣) حضرت حسن سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ بیشک آدمی ایک نیکی کرتا ہے تو وہ آدمی کے دل میں نور اور اس کے بدن میں قوت بن جاتی ہے۔ اور بیشک آدمی ایک گناہ کرتا ہے تو وہ آدمی کے دل میں ظلمت اور اس کے بدن میں کمزوری بن جاتی ہے۔

36343

(۳۶۳۴۴) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ سُفْیَانَ بْنِ حُسَیْنٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : کَانَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إذَا الْتَقَوْا یَقُولُ الرَّجُلُ لِصَاحِبِہِ : ہَلْ أَتَاک أَنَّک وَارِدٌ ؟ فَیَقُولُ : نَعَمْ ، فَیَقُولُ : ہَلْ أَتَاک أَنَّک خَارِجٌ مِنْہَا ؟ فَیَقُولُ : لاَ ، فَیَقُولُ : فَفِیمَ الضَّحِکُ إذًا۔
(٣٦٣٤٤) حضرت حسن سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ کرام (رض) جب باہم ملتے تو ایک آدمی، اپنے ساتھی سے کہتا۔ کیا تمہیں یہ بات پہنچی ہے کہ تم وارد ہوگے۔ وہ کہتا ہے ہاں۔ پھر پہلا پوچھتا۔ کیا تمہیں یہ بات بھی پہنچی ہے کہ تم اس سے خارج ہو ؟ وہ کہتا۔ نہیں۔ اس پر پہلا کہتا۔ تو تب پھر کس بات کی وجہ سے ہنسی ہے ؟ “

36344

(۳۶۳۴۵) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ أَبِی ہِلاَلٍ ، قَالَ : حدَّثَنِی دَاوُد صَاحِبُ الْبَصْرِیِّ ، أَنَّ الْحَسَنَ ، قَالَ : وَایْمُ اللہِ مَا مِنْ عَبْدٍ قُسِمَ لَہُ رِزْقُ یَوْمٍ بِیَوْمٍ فَلَمْ یَعْلَمْ أَنَّہُ قَدْ خُیِّرَ لَہُ إِلاَّ عَاجِزٌ ، أَوْ غَبِیُّ الرَّأْیِ۔
(٣٦٣٤٥) حضرت حسن بصری کے ساتھی حضرت داؤد کہتے ہیں کہ حضرت حسن نے فرمایا : خدا کی قسم ! کوئی بندہ ایسا نہیں ہے جس کے لیے روز، روز کا رزق تقسیم کیا گیا ہے۔ لیکن وہ اس بات کو نہیں جانتا کہ اس کے لیے بہتر کیا گیا ہے۔ مگر عاجز اور کم ذہن۔

36345

(۳۶۳۴۶) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا مُبَارَکٌ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : وَاللہِ مَا ہِیَ بِأَشَرِّ أَیَّامِ الْمُؤْمِنِ أَیَّامٌ قُرِّبَ لَہُ فِیہَا مِنْ أَجَلِہِ وَذُکِّرَ مَا نَسِیَ مِنْ مَعَادِہِ وَکُفِّرَتْ بِہَا خَطَایَاہُ۔
(٣٦٣٤٦) حضرت حسن سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ خدا کی قسم ! یہ مومن کے بدترین ایام نہیں ہوتے۔ وہ ایام جس میں اس کے لیے اس کی مہلت کو قریب کیا جاتا ہے اور جس میں اس کو اپنے معاد میں سے بھولی ہوئی بات یاد آجاتی ہے اور جن دنوں میں اس کے گناہ معاف کیے جاتے ہیں۔

36346

(۳۶۳۴۷) حَدَّثَنَا عَفَّانُ بْنُ مُسْلِمٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، قَالَ : حَدَّثَنَا حُمَیْدٌ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : مَا رَأَیْت أَحَدًا أَشَدَّ تَوَلِّیًا مِنْ قَارِئٍ إذَا تَوَلَّی۔
(٣٦٣٤٧) حضرت حسن سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے قاری کے واپس پلٹنے سے زیادہ واپس پلٹنے والے کو نہیں دیکھا۔

36347

(۳۶۳۴۸) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا عَلِیُّ بْنُ زَیْدٍ وَثَابِتٌ وَحُمَیْدٌ ، عَنِ الْحَسَنِ ، أَنَّہُ قَالَ : عَلَی الصِّرَاطِ حَسَکٌ وَسَعْدَانُ ، الزَّلاَّلُونَ وَالزَّلاَّلاَتُ یَوْمَئِذٍ کَثِیرٌ۔
(٣٦٣٤٨) حضرت حسن کے بارے میں روایت ہے کہ انھوں نے فرمایا : پل صراط پر کانٹے اور خار دار پودے ہیں۔ اس دن پھسلنے والے مرد وعورت بہت زیادہ ہوں گے۔

36348

(۳۶۳۴۹) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ زَائِدَۃَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : إنَّ الرَّجُلَ لَیَطْلُبُ الْبَابَ مِنَ الْعِلْمِ فَیَعْمَلُ بِہِ فَیَکُونُ خَیْرًا لَہُ مِنَ الدُّنْیَا لَوْ کَانَتْ لَہُ فَجَعَلَہَا فِی الآخِرَۃِ۔
(٣٦٣٤٩) حضرت حسن سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ بیشک آدمی علم کا ایک باب حاصل کرتا ہے پھر اس پر عمل کرتا ہے تو یہ اس کے لیے اس تمام دنیا سے بہتر ہے جو اس کو ملے اور وہ اس کو اپنی آخرت کے لیے دے دے۔

36349

(۳۶۳۵۰) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ الْحُبَابِ ، قَالَ : أَخْبَرَنِی عُبَیْدُ اللہِ بْنُ شُمَیْطِ بْنِ عَجْلاَنَ ، قَالَ : أَخْبَرَنِی أَبِی ، أَنَّہُ سَمِعَ الْحَسَنَ یَقُولُ : إنَّ الْمُؤْمِنَ یُصْبِحُ حَزِینًا وَیُمْسِی حَزِینًا ، وَیَکْفِیہِ مَا یَکْفِی الْعُنَیْزَۃَ۔
(٣٦٣٥٠) حضرت حسن فرماتے ہیں بلاشبہ مومن صبح بھی غم گین حالت میں کرتا ہے اور مومن شام بھی غم گین حالت میں کرتا ہے اور مومن کو وہی کافی ہے جو عنیزہ کو کافی ہوتا ہے۔

36350

(۳۶۳۵۱) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَیْدٍ ، قَالَ : حدثنا أَیُّوبُ ، قَالَ سَمِعْت الْحَسَنَ یَقُولُ : إذَا رَأَیْت الرَّجُلَ یُنَافِسُ فِی الدُّنْیَا فَنَافِسْہُ فِی الآخِرَۃِ۔
(٣٦٣٥١) حضرت ایوب کہتے ہیں کہ میں نے حضرت حسن کو کہتے سنا کہ جب تو کسی آدمی کو دنیا میں رغبت کرتا دیکھے تو تو اس سے آخرت میں رغبت کیا کر۔

36351

(۳۶۳۵۲) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ أَبِی الأَشْہَبِ ، عَنِ الْحَسَنِ : {إنَّ عَذَابَہَا کَانَ غَرَامًا} قَالَ : عَلِمُوا أَنَّ کُلَّ غَرِیمٍ مُفَارِقٌ غَرِیمَہُ إِلاَّ غَرِیمَ جَہَنَّمَ۔
(٣٦٣٥٢) حضرت حسن سے {إنَّ عَذَابَہَا کَانَ غَرَامًا } کے بارے میں روایت ہے کہتے ہیں جان لو کہ ہر قرض خواہ، اپنے مقروض کی جان چھوڑ دیتا ہے۔ سوائے جہنم کے غریم (قرض خواہ) کے۔

36352

(۳۶۳۵۳) حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّیَالِسِیُّ ، عَنْ قُرَّۃَ ، قَالَ : سَمِعْتُ الْحَسَنَ یَقُولُ : {ظَہَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا کَسَبَتْ أَیْدِی النَّاسِ} قَالَ : أَفْسَدَہُمُ اللَّہُ بِذُنُوبِہِمْ فِی بَرِّ الأَرْضِ وَبَحْرِہَا بِأَعْمَالِہِمُ الْخَبِیثَۃِ لَعَلَّہُمْ یَرْجِعُونَ یَرْجِعُ مَنْ بَعْدَہُمْ۔
(٣٦٣٥٣) حضرت قرہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت حسن کو کہتے سنا : { ظَہَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا کَسَبَتْ أَیْدِی النَّاسِ } فرمایا : اللہ تعالیٰ نے ان کے گناہوں کی وجہ سے ان کے گندے عملوں کی وجہ سے خشک اور تر زمین میں ان کے لیے فساد برپا کردیا لَعَلَّہُمْ یَرْجِعُونَ یعنی ان کے بعد والے رجوع کریں۔

36353

(۳۶۳۵۴) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : بَلَغَنِی ، أَنَّ فِی کِتَابِ اللہِ : ابْنَ آدَمَ ثِنْتَانِ جَعَلْتُہُمَا لَک وَلَمْ یَکُونَا لَک : وَصِیَّۃٌ فِی مَالِکَ بِالْمَعْرُوفِ وَقَدْ صَارَ الْمِلْکُ لِغَیْرِکَ ، وَدَعْوَۃُ الْمُسْلِمِینَ لَک وَأَنْتَ فِی مَنْزِلٍ لاَ تَسْتَعْتِبُ فِیہِ مِنْ سء ، وَلاَ تَزِیدُ فِی حَسَنٍ۔
(٣٦٣٥٤) حضرت حسن سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ مجھے یہ بات پہنچی کہ اللہ کی (کسی) کتاب میں ہے آدم کے بیٹے ! میں نے دو چیزیں تیرے لیے کردی ہیں لیکن وہ تیرے لیے نہیں ہیں۔ تیرے مال میں معروف طریقہ سے وصیت۔ جبکہ ملکیت غیر کو حاصل ہوتی ہے اور مسلمانوں کا تیرے لیے دعا کرنا۔ جبکہ تو ایسی جگہ ہوتا ہے نہ تو تو کسی برائی کی وجہ سے تھکتا ہے اور نہ کسی اچھائی میں بڑھتا ہے۔

36354

(۳۶۳۵۵) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ، عَنْ یُونُسَ، فَقَالَ: لَمَّا تُوُفِّیَ سَعِیدُ بْنُ أَبِی الْحَسَنِ وَجَدَ عَلَیْہِ الْحَسَنُ وَجْدًا شَدِیدًا، فَکُلِّمَ فِی ذَلِکَ ، فَقَالَ: مَا سَمِعْت اللَّہَ عَابَ الْحُزْنَ عَلَی یَعْقُوبَ۔
(٣٦٣٥٥) حضرت یونس سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ جب حضرت سعید بن حسن کی وفات ہوئی تو حضرت حسن پر اس کی وجہ سے بہت گہرا غم ہوا۔ چنانچہ ان سے اس حوالہ سے بات کی گئی۔ تو فرمایا : میں نے وہ حالت سن رکھی ہے جو اللہ نے حضرت یعقوب کے غم کے بارے بیان کی ہے۔

36355

(۳۶۳۵۶) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : حدَّثَنَا أَبُو مُحَمَّدٍ الأَسَدِیُّ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : مَنْ دَخَلَ الْمَقَابِرَ ، فَقَالَ : اللَّہُمَّ رَبَّ الأَجْسَادِ الْبَالِیَۃِ وَالْعِظَامِ النَّخِرَۃِ الَّتِی خَرَجَتْ مِنَ الدُّنْیَا وَہِیَ بِکَ مُؤْمِنَۃٌ : أَدْخِلْ عَلَیْہَا رَوْحًا مِنْ عِنْدِکَ وَسَلاَمًا منی اسْتَغْفَرَ لَہُ کُلُّ مُؤْمِنٍ مَاتَ مُنْذُ خَلَقَ اللَّہُ آدَمَ۔
(٣٦٣٥٦) حضرت حسن سے روایت ہے وہ کہتے ہیں جو شخص قبرستان میں جائے اور یہ کہے : اے اللہ ! اے بوسیدہ جسموں کے پروردگار ! اور ان بوسیدہ ہڈیوں کے پروردگار جو دنیا سے اس حالت میں نکلی تھیں کہ آپ پر ایمان رکھتی تھیں۔ آپ ان پر اپنی طرف سے رحمت اور سلامتی نازل فرما۔ تو ایسے آدمی کے لیے پیدائش سے تب تک مرنے والا ہر مومن استغفار کرتا ہے۔

36356

(۳۶۳۵۷) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ مُبَارَکٍ ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ الْمُخْتَارِ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : إنَّ الْمُؤْمِنَ قَوَّامٌ عَلَی نَفْسِہِ یُحَاسِبُ نَفْسَہُ لِلَّہِ ، وَإِنَّمَا خَفَّ الْحِسَابُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ عَلَی قَوْمٍ حَاسَبُوا أَنْفُسَہُمْ فِی الدُّنْیَا ، وَإِنَّمَا شَقَّ الْحِسَابُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ عَلَی قَوْمٍ أَخَذُوا ہَذَا الأَمْرَ عن غَیْرِ مُحَاسَبَۃٍ ، إنَّ الْمُؤْمِنَ یَفْجَؤُہُ الشَّیْئُ فَیُعْجِبُہُ فَیَقُولُ : وَاللہِ إنِّی لأشْتَہِیک وَإِنَّک لَمِنْ حَاجَتِی ، وَلَکِنْ وَاللہِ مَا مِنْ وُصْلَۃٍ إلَیْک ، ہَیْہَاتَ حِیلَ بَیْنِی وَبَیْنَکَ ، وَیَفْرُطُ مِنْہُ الشَّیْئُ فَیَرْجِعُ إِلَی نَفْسِہِ فَیَقُولُ : مَا أَرَدْت إِلَی ہَذَا ، مَا لِی وَلِہَذَا ، مَا لِی عدد غیر ہذا وَاللہِ لاَ أَعُودُ إِلَی ہَذَا أَبَدًا إنْ شَائَ اللَّہُ ، إنَّ الْمُؤْمِنِینَ قَوْمٌ أَوْثَقَہُمُ الْقُرْآنُ وَحَالَ بَیْنَہُمْ وَبَیْنَ ہَلَکَتِہِمْ ، إنَّ الْمُؤْمِنَ أَسِیرٌ فِی الدُّنْیَا یَسْعَی فِی فِکَاکِ رَقَبَتِہِ ، لاَ یَأْمَنُ شَیْئًا حَتَّی یَلْقَی اللَّہَ ، یَعْلَمُ أَنَّہُ مَأْخُوذٌ عَلَیْہِ فِی ذَلِکَ کُلِّہِ۔
(٣٦٣٥٧) حضرت حسن سے روایت ہے وہ کہتے ہیں بیشک مومن اپنے نفس پر نگران ہوتا ہے اور وہ خدا کے لیے اپنے نفس کا محاسبہ کرتا ہے۔ اور قیامت کے دن حساب انہی لوگوں پر ہلکا ہوگا جو دنیا میں اپنے نفسوں کا محاسبہ کریں گے اور قیامت کے دن حساب انہی لوگوں پر مشکل ہوگا جو اس بات کا محاسبہ نہیں کرتے۔ بیشک مومن کے پاس کوئی چیز اچانک آتی ہے تو وہ اس کو اچھی لگتی ہے اور وہ کہتا ہے۔ خدا کی قسم ! مجھے تمہاری چاہت تھی۔ اور بیشک تم میری ضرورت کی چیز ہو۔ لیکن خدا کی قسم ! تیری طرف کوئی رابطہ نہیں تھا۔
اور ایمان والے سے کوئی چیز ضائع ہوتی ہے تو وہ اپنے نفس کی طرف رجوع کرتا ہے اور کہتا ہے۔ میں نے تو اس کا ارادہ نہیں کیا تھا ؟ مجھے اس سے کیا غرض ہے ؟ میرے پاس اس کے علاوہ بھی ایک تعداد ہے۔ خدا کی قسم ! میں اس کی طرف کبھی نہیں لوٹوں گا۔ ان شاء اللہ تعالیٰ ۔ یقیناً اہل ایمان وہ لوگ ہیں جن کو قرآن نے پختہ کیا ہے اور ان کے اور ان کے ہلاک شدہ سامان کے درمیان حائل ہے۔ مومن دنیا میں قیدی ہوتا ہے جو اپنی گردن چھڑانے میں کوشاں رہتا ہے اور خدا تعالیٰ سے ملنے تک کسی شے سے مامون نہیں ہوتا۔ وہ جانتا ہے کہ وہ اس سب میں قابل مواخذہ ہے۔

36357

(۳۶۳۵۸) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، قَالَ سَمِعْت عَبْدَ رَبِّہِ أَبَا کَعْبٍ یَقُولُ : سَمِعْت الْحَسَنَ یَقُولُ : الْمُؤْمِنُ فِی الدُّنْیَا کَالْغَرِیبِ لاَ یُنَافِسُ فِی عِزِّہَا ، وَلاَ یَجْزَعُ مِنْ ذُلِّہَا ، لِلنَّاسِ حَالٌ وَلَہُ حَالٌ ، وَجِّہُوا ہَذِہِ الْفُضُولَ حَیْثُ وَجَّہَہَا اللَّہُ۔ حدثنا أبو عَبْدُ الرَّحْمَنِ ، قَالَ : حدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ أَبِی شَیْبَۃَ ، قَالَ :
(٣٦٣٥٨) حضرت حسن فرماتے ہیں مومن دنیا میں مسافر کی طرح ہے جو دنیا کی عزت میں رغبت نہیں کرتا اور اس کی ذلت پر جزع نہیں کرتا۔ لوگوں کی ایک حالت ہوتی ہے اور اس کی بھی ایک حالت ہوتی ہے۔ ان برتریوں کو جس طرف اللہ نے متوجہ کیا ہے تم بھی ان کو اسی طرف متوجہ کردو۔

36358

(۳۶۳۵۹) حَدَّثَنَا عَفَّان ، قَالَ : حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، قَالَ حَدَّثَنَا زَکَرِیَّا ، قَالَ : سَمِعْتُ الْحَسَنَ یَقُولُ : إنَّ الإِیمَانَ لَیْسَ بِالتَّحَلِّی ، وَلاَ بِالتَّمَنِّی ، إنَّ الإِیمَانَ مَا وَقَرَ فِی الْقَلْبِ وَصَدَّقَہُ الْعَمَلُ۔
(٣٦٣٥٩) حضرت زکریا کہتے ہیں کہ میں نے حضرت حسن (رض) کو کہتے سنا کہ بیشک ایمان زینت اور تمنی کا نام نہیں ہے بلکہ ایمان وہ ہے جو دل میں بیٹھ جائے اور اس کی تصدیق عمل کرتا ہو۔

36359

(۳۶۳۶۰) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ یَمَانٍ ، عَنْ مَالِکِ بْنِ مِغْوَلٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جُحَادَۃَ ، قَالَ ، مَرَّ عَلَی الْحَسَنِ بِرْذَوْنٌ یُہَمْلِجُ ، فَقَالَ : أَوَّہُ قَدْ عَلِمْتُ أَنَّ السَّاعَۃَ إذَا أَقْبَلَتْ أَقْبَلَتْ بِغَمٍّ۔
(٣٦٣٦٠) حضرت محمد بن جحادہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت حسن کے پاس سے ایک غیر عربی گھوڑا ناز ونخرے سے چلتا ہوا گزرا تو آپ نے فرمایا : اوہ ! کیا تو جانتا ہے کہ جب قیامت آئے گی تو غم کے ساتھ آئے گی۔

36360

(۳۶۳۶۱) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ یَمَانٍ ، عَنْ مُبَارَکٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : إنَّ الْمُؤْمِنِینَ عَجَّلُوا الْخَوْفَ فِی الدُّنْیَا فَأَمَّنَہُمَ اللَّہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ، وَإِنَّ الْمُنَافِقِینَ أَخَّرُوا الْخَوْفَ فِی الدُّنْیَا فَأَخَافَہُمَ اللَّہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ۔
(٣٦٣٦١) حضرت حسن سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ بیشک اہل ایمان کے لیے دنیا میں پہلے ہی خوف مل جاتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ ان کو قیامت کے دن امن میں رکھے گا۔ اور بیشک منافقین نے خوف کو دنیا سے مؤخر کردیا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ ان کو قیامت کے دن خوفزدہ کریں گے۔

36361

(۳۶۳۶۲) حَدَّثَنَا ابْنُ یَمَانٍ ، عَنْ مُبَارَکٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : عَمِلَ الْقَوْمُ وَلَمْ یَتَمَنَّوْا۔
(٣٦٣٦٢) حضرت حسن سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ کچھ لوگوں نے عمل کیا لیکن انھوں نے تمنا نہیں کی۔

36362

(۳۶۳۶۳) حَدَّثَنَا ابْنُ یَمَانٍ ، عَنْ مُبَارَکٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ الْحَسَنَ یَقُولُ : إنَّ أَقْوَامًا بَکَتْ أَعْیُنُہُمْ وَلَمْ تَبْکِ قُلُوبُہُمْ، فَمَنْ بَکَتْ عَیْنَاہُ فَلْیَبْکِ قَلْبُہُ۔
(٣٦٣٦٣) حضرت مبارک سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت حسن کو کہتے سنا۔ بیشک کچھ لوگ ایسے ہیں کہ ان کی آنکھیں روتی ہیں لیکن ان کے دل نہیں روتے۔ پس جس آدمی کی آنکھیں روئیں تو اس کا دل بھی رونا چاہیے۔

36363

(۳۶۳۶۴) حَدَّثَنَا ابْنُ یَمَانٍ ، عَنْ مُبَارَکٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : أَکْیَسُہُمْ مَنْ بَکَی۔
(٣٦٣٦٤) حضرت حسن سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ پہلے لوگوں میں عقلمند ترین انسان وہ ہوتا تھا جو روتا تھا۔

36364

(۳۶۳۶۵) حَدَّثَنَا ابْنُ یَمَانٍ ، عَنْ أَبِی الأَشْہَبِ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : أَدْرَکْت أَقْوَامًا یَبْذُلُونَ أَوْرَاقَہُمْ وَیَخْزُنُونَ أَلْسِنَتَہُمْ ، ثُمَّ أَدْرَکْت مِنْ بَعْدِہِمْ أَقْوَامًا خَزَّنُوا أَوْرَاقَہُمْ وَأَرْسَلُوا أَلْسِنَتَہُمْ۔
(٣٦٣٦٥) حضرت حسن سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے ایسے لوگوں کو پایا ہے جو اپنے اوراق خرچ کرتے تھے اور اپنی زبانیں محفوظ رکھتے تھے۔ پھر میں نے ان کے بعد ایسے لوگوں کو پایا جو اپنے اوراق کو محفوظ رکھتے تھے اور اپنی زبانوں کو بھیجتے تھے۔

36365

(۳۶۳۶۶) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ یَمَانٍ ، عَنْ أَبِی الأَشْہَبِ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : حلَمَائُ إنْ جُہِلَ عَلَیْہِمْ لَمْ یَسْفَہُوا ، ہَذَا نَہَارُہُمْ فَکَیْفَ لَیْلُہُمْ ، خَیْرُ لَیْلٍ أَجْرُوا دُمُوعَہُمْ عَلَی خُدُودِہِمْ وَصَفُّوا أَقْدَامَہُمْ یَطْلُبُونَ إِلَی اللہِ فِی فِکَاکِ رِقَابِہِمْ۔
(٣٦٣٦٦) حضرت حسن سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حلماء (ایسے ہوتے ہیں کہ) اگر ان کے ساتھ جہالت کا مظاہرہ کیا جائے تو وہ بیوقوفی نہیں کرتے۔ یہ تو ان کا دن ہے۔ اور ان کی رات کیسی ہوتی ہے ؟ بہترین رات۔ وہ اپنے آنسو، اپنی گالوں پر بہاتے ہیں اور اپنے قدموں سے صفیں بناتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے اپنی گردنوں کے چھڑانے کی کوشش کرتے ہیں۔

36366

(۳۶۳۶۷) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ عَاصِمٍ ، قَالَ : مَا سَمِعْت الْحَسَنَ یَتَمَثَّلُ بِبَیْتِ شِعْرٍ إِلاَّ ہَذَا الْبَیْتَ : لَیْسَ مَنْ مَاتَ فَاسْتَرَاحَ بِمَیِّتٍ إنَّمَا الْمَیِّتُ مَیِّتُ الأَحْیَائِ۔ ثُمَّ قَالَ : صَدَقَ وَاللہِ ، إِنَّہُ لَیَکُونُ حَی وَہُوَ مَیِّتُ الْقَلْبِ۔
(٣٦٣٦٧) حضرت عاصم سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت حسن کو کبھی کسی شعر کو مثال بیان کرتے نہیں سنا۔ سوائے اس شعر کے
صرف وہی میت نہیں جو مرگیا اور راحت پا گیا
میت تو وہ ہوتا ہے جو زندہ میں میت ہوتا ہے
پھر راوی کہنے لگے : خدا کی قسم ! آپ نے سچ کہا۔ آپ زندہ تھے لیکن دل مردہ تھا۔

36367

(۳۶۳۶۸) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، قَالَ : مَا زَالَ الْحَسَنُ یَبْتَغِی الْحِکْمَۃَ حَتَّی نَطَقَ بِہَا۔
(٣٦٣٦٨) حضرت اعمش سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت حسن مسلسل حکمت کو تلاش کرتے رہتے تھے۔ جب انھیں حکمت کی بات حاصل ہوتی تو اسے بیان فرماتے۔

36368

(۳۶۳۶۹) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَیْدٍ ، قَالَ : حدثنا أَیُّوبُ ، عَنِ الْحَسَنِ ؛ فِی قَوْلِہِ : {لَکُمُ الْوَیْلُ مِمَّا تَصِفُونَ} قَالَ : ہِیَ وَاللہِ لِکُلِّ وَاصِفٍ کَذُوبٍ إِلَی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ الْوَیْلُ۔
(٣٦٣٦٩) حضرت حسن سے ارشاد خداوندی { لَـکُمُ الْوَیْلُ مِمَّا تَصِفُونَ } کے بارے میں روایت ہے۔ فرماتے ہیں : خدا کی قسم ! یہ ہر جھوٹے واصف کے لیے قیامت تک ویل وادی ہے۔

36369

(۳۶۳۷۰) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَنْ حَبِیبِ بْنِ الشَّہِیدِ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ لَمَّا خَلَقَ اللَّہُ آدَمَ وَذُرِّیَّتَہُ ، قَالَتِ الْمَلاَئِکَۃُ : إنَّ الأَرْضَ لاَ تَسَعُہُمْ ، فَقَالَ : إنِّی جَاعِلٌ مَوْتًا ، قَالَ : إذًا لاَ یُہَنِّئُہُمَ الْعَیْشُ ، قَالَ : إنِّی جَاعِلٌ أَمَلاً۔
(٣٦٣٧٠) حضرت حسن سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم اور ان کی اولاد کو پیدا فرمایا۔ تو فرشتوں نے کہا : یہ لوگ زمین میں نہیں سما سکیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : میں موت کو بھی پیدا کرنے والا ہوں۔ فرشتوں نے کہا : تب تو پھر ان کی زندگی میں خوشگواری نہیں ہوگی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : میں امید کو پیدا کرنے والا ہوں۔

36370

(۳۶۳۷۱) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ ، عَنِ الْعَلاَئِ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : تَفَکُّرُ سَاعَۃٍ خَیْرٌ مِنْ قِیَامِ لَیْلَۃٍ۔
(٣٦٣٧١) حضرت حسن سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ ایک گھڑی کا غور وفکر رات بھر کے قیام سے بہتر ہے۔

36371

(۳۶۳۷۲) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ أَبِی سُفْیَانَ السَّعْدِیِّ ، قَالَ : سَمِعْتُ الْحَسَنَ یَتَمَثَّلُ ہَذَا الْبَیْتَ : یَسُرُّ الْفَتَی مَا کَانَ قَدِمَ مِنْ تُقًی إذَا عَرَفَ الدَّائَ الَّذِی ہُوَ قَاتِلُہُ
(٣٦٣٧٢) حضرت ابوسفیان سعدی سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت حسن کو یہ شعر بطور مثال پڑھتے سنا۔ ” جوان آدمی کو وہ نیک عمل جو اس نے آگے بھیجا خوش کر دے گا۔ جب وہ اس بیماری کو پہچان لے گا جو اس کے لیے قاتل ہے۔ “

36372

(۳۶۳۷۳) حَدَّثَنَا الْحُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَنْ أَبِی مُوسَی ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : قَالَ : رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لأَصْحَابِہِ : أَنْتُمْ فِی النَّاسِ کَمِثْلِ الْمِلْحِ فِی الطَّعَامِ ، قَالَ : ثُمَّ یَقُولُ الْحَسَنُ : وَہَلْ یَطِیبُ الطَّعَامُ إِلاَّ بِالْمِلْحِ ، ثُمَّ یَقُولُ الْحَسَنُ : فَکَیْفَ بِقَوْمٍ قَدْ ذَہَبَ مِلْحُہُمْ۔
(٣٦٣٧٣) حضرت حسن سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے صحابہ (رض) سے فرمایا : ” تمہاری مثال لوگوں میں ایسی ہے جیسی کھانے میں نمک کی مثال ہوتی ہے۔ راوی کہتے ہیں۔ پھر حضرت حسن نے فرمایا : کھانا صرف نمک کے ساتھ ہی اچھا لگتا ہے ؟ حضرت حسن فرماتے ہیں : اس قوم کی حالت کیسی ہوگی جس کا نمک چلا جائے ؟ “

36373

(۳۶۳۷۴) حَدَّثَنَا الْحُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَنْ زَائِدَۃَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : أَدْرَکْتُہُمْ وَاللہِ إنْ کَانَ أَحَدُہُمْ لَیَعِیشُ عُمْرَہُ مَا طُوِیَ لَہُ ثَوْبٌ قَطُّ ، وَلاَ أَمَرَ أَہْلَہُ بِصَنْعَۃِ طَعَامٍ لَہُ قَطُّ ، وَلاَ حَالَ بَیْنَہُ وَبَیْنَ الأَرْضِ شَیْئٌ قَطُّ۔
(٣٦٣٧٤) حضرت حسن سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ خدا کی قسم ! میں نے ایسے لوگوں کو پایا ہے کہ ان میں سے ایک اپنی پوری عمر گزار دیتا لیکن اس کے کپڑوں کو کبھی نہیں لپیٹا جاتا تھا اور نہ ہی اس نے کبھی اپنے اہل کو کھانا بنانے کا کہا اور نہ ہی اس کے اور زمین کے درمیان کبھی کوئی چیز حائل ہوتی ہے۔

36374

(۳۶۳۷۵) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، قَالَ : أَخْبَرَنِی أَبُو الأَشْہَبِ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : لَمَّا عُرِضَ عَلَی آدَمَ ذُرِّیَّتُہُ رَأَی فَضْلَ بَعْضِہِمْ عَلَی بَعْضٍ ، فَقَالَ : رَبِّ لَوْ سَوَّیْت بَیْنَہُمْ ، قَالَ : یَا آدَم ، إنِّی أُحِبُّ أَنْ أُشْکَرَ ، یَرَی ذُو الْفَضْلِ فَضْلَہُ فَیَحْمَدُنِی وَیَشْکُرُنِی۔ (عبدالرزاق ۱۹۵۷۶)
(٣٦٣٧٥) حضرت حسن سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ جب حضرت آدم (علیہ السلام) پر ان کی اولاد پیش کی گئی تو آپ نے ان میں سے بعض کو بعض پر فضیلت والا دیکھا تو عرض کیا : اے میرے پروردگار ! اگر آپ ان کے درمیان برابری فرما دیتے ؟ ارشاد ہوا۔ اے آدم ! میں اس بات کو پسند کرتا ہوں کہ میرا شکر کیا جائے۔ فضیلت والا، اپنی فضیلت کو دیکھے تو میری تعریف کرے اور میرا شکر ادا کرے۔

36375

(۳۶۳۷۶) حَدَّثَنَا مُعَاوِیَۃُ بْنُ ہِشَامٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِی وَائِلٍ ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، قَالَ : مَا دَخَلَ بَیْتًا حِبَرَۃٌ إِلاَّ دَخَلَتْہُ غَبَرَۃٌ۔
(٣٦٣٧٦) حضرت مسروق سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ جس گھر میں بھی خوشی داخل ہوتی ہے اس گھر میں غبار بھی داخل ہوتا ہے۔

36376

(۳۶۳۷۷) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا عُمَرُ بْنُ حَمْزَۃَ ، قَالَ : أَخْبَرَنِی الْحَارِثُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِی ذُؤَیْبٍ ، قَالَ : قَالَتْ عَائِشَۃُ : مَا أَعْلَمُ رَجُلاً سَلَّمَہُ اللَّہُ مِنْ أُمُورِ النَّاسِ وَاسْتَقَامَ عَلَی طَرِیقَۃِ مَنْ کَانَ قَبْلَہُ اسْتِقَامَۃَ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ۔
(٣٦٣٧٧) حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ میں کسی ایسے آدمی کو نہیں جانتی جس کو اللہ نے لوگوں کے معاملہ سے محفوظ رکھا ہو۔ اور وہ اپنے سے پہلوں کے طریقہ پر استقامت اختیار کیے ہو جس طرح حضرت عبداللہ بن عمر (رض) نے استقامت فرمائی۔

36377

(۳۶۳۷۸) حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ عُمَرُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنْ سُفْیَانَ ، قَالَ : قَالَ رَجُلٌ لِمُحَمَّدِ بْنِ وَاسِعٍ : إنِّی لأحِبُّک فِی اللہِ ، قَالَ : أَحَبَّک الَّذِی أَحْبَبْتنِی لَہُ۔
(٣٦٣٧٨) حضرت سفیان سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے حضرت محمد بن واسع سے عرض کیا۔ میں آپ سے اللہ کے لیے محبت کرتا ہوں۔ انھوں نے جواب دیا جس کی وجہ سے تو مجھ سے محبت کرتا ہے وہ تجھ سے محبت کرے۔

36378

(۳۶۳۷۹) حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ عُمَرُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ {ذَلِکَ یَوْمُ التَّغَابُنِ} قَالَ : إذَا دَخَلَ أَہْلُ الْجَنَّۃِ الْجَنَّۃَ وَأَہْلُ النَّارِ النَّارَ۔
(٣٦٣٧٩) حضرت مجاہد سے { ذَلِکَ یَوْمُ التَّغَابُنِ } کے بارے میں روایت ہے وہ فرماتے ہیں (یہ وہ دن ہے) جب اہل جنت، جنت میں اور اہل جہنم، جہنم میں داخل ہوں گے۔

36379

(۳۶۳۸۰) حَدَّثَنَا قَبِیصَۃُ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ عُمَارَۃَ بْنِ الْقَعْقَاعِ ، عَنِ ابْنِ شُبْرُمَۃَ ، قَالَ ، مَا رَأَیْت حَیًّا أَکْثَرَ شَیْخًا فَقہًا مُتَعَبِّدًا مِنْ بَنِی ثَوْرٍ۔
(٣٦٣٨٠) حضرت ابن شبرمہ سے روایت ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ میں نے کوئی قبیلہ بنو ثور سے زیادہ شیوخ فقہاء اور عابدین والا نہیں دیکھا۔

36380

(۳۶۳۸۱) حَدَّثَنَا قَبِیصَۃُ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنِ الْعَلاَئِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ، عَنْ أَبِی یَعْلَی ، قَالَ : کَانَ فِینَا ثَلاَثُونَ رَجُلا ، مَا مِنْہُمْ رَجُلٌ دُونَ رَبِیعِ بْنِ خُثَیْمٍ۔
(٣٦٣٨١) حضرت ابویعلی سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ ہم میں تیس آدمی تھے۔ ان میں سے کوئی آدمی ربیع بن خیثم سے کم درجہ نہ تھا۔

36381

(۳۶۳۸۲) حَدَّثَنَا قَبِیصَۃُ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ عُتْبَۃَ الأَسَدِیِّ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، أَنَّہُ أُتِیَ بِخَبِیصٍ فَلَمْ یَأْکُلْہُ وَقَالَ : ہَذَا طَعَامُ الصِّبْیَانِ۔
(٣٦٣٨٢) حضرت ابراہیم کے بارے میں روایت ہے کہ ان کے پاس حلوہ لایا گیا تو انھوں نے وہ نہ کھایا اور فرمایا : یہ بچوں کا کھانا ہے۔

36382

(۳۶۳۸۳) حَدَّثَنَا قَبِیصَۃُ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِیزِ بْنِ رُفَیْعٍ الأَسَدِیِّ ، عَنِ ابْنِ مُنَبِّہٍ ، قَالَ : الإِیمَانُ عُرْیَانٌ ، وَلِبَاسُہُ التَّقْوَی ، وَمَالُہُ الْفِقْہُ ، وَزِینَتُہُ الْحَیَائُ۔
(٣٦٣٨٣) حضرت ابن منبہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ ایمان برہنہ ہوتا ہے اور اس کا لباس تقوی ہے اور اس کا مال فقہ ہے اور اس کی زینت حیا ہے۔

36383

(۳۶۳۸۴) حَدَّثَنَا قَبِیصَۃُ ، قَالَ : حدَّثَنَا یُونُسُ بْنُ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، قَالَ : کَانَ عَمْرُو بْنُ مَیْمُونٍ إذَا دَخَلَ الْمَسْجِدَ ذَکَرَ اللَّہَ۔
(٣٦٣٨٤) حضرت ابواسحاق سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت عمرو بن میمون جب مسجد میں داخل ہوتے تو خدا یاد آجاتا۔

36384

(۳۶۳۸۵) حَدَّثَنَا قَبِیصَۃُ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ طَاوُوسٍ ، قَالَ : إذَا تَعَلَّمْت فَتَعَلَّمْ لِنَفْسِکَ ، فَإِنَّ النَّاسَ قَدْ ذَہَبَتْ مِنْہُمَ الأَمَانَۃُ ، قَالَ : وَکَانَ یَعُدُّ الْحَدِیثَ حَرْفًا حَرْفًا۔
(٣٦٣٨٥) حضرت طاؤس سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ جب تم علم حاصل کرو تو تم اپنی ذات کے لیے علم حاصل کرو۔ کیونکہ لوگوں میں سے امانت ختم ہوگئی ہے۔ راوی کہتے ہیں۔ وہ حدیث کو ایک ایک حرف کرکے شمار کرتے تھے۔

36385

(۳۶۳۸۶) حَدَّثَنَا قَبِیصَۃُ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ أَبِی حَیَّانَ ، عَنْ أَبِیہِ عنْ شَیْخٍ لَہُمْ ، أَنَّہُ کَانَ إذَا سَمِعَ السَّائِلَ یَقُولُ : مَنْ یُقْرِضُ اللَّہَ قَرْضًا حَسَنًا قَالَ : سُبْحَانَ اللہِ وَالْحَمْدُ لِلَّہِ ، وَلاَ إلَہَ إِلاَّ اللَّہُ وَاللَّہُ أَکْبَرُ ، ہَذَا الْقَرْضُ الْحَسَنُ۔
(٣٦٣٨٦) ایک شیخ کے بارے میں روایت ہے کہ وہ جب کسی سوال کرنے والے کو سنتے جو کہتا کون اللہ کو قرض حسن دے گا۔ وہ فرماتے : سُبْحَانَ اللہِ وَالْحَمْدُ لِلَّہِ ، وَلاَ إلَہَ إِلاَّ اللَّہُ وَاللَّہُ أَکْبَرُ یہ قرض حسن ہے۔

36386

(۳۶۳۸۷) حَدَّثَنَا قَبِیصَۃُ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ سُرِّیَّۃِ الرَّبِیعِ ، قَالَ : کَانَ الرَّبِیعُ بْنُ خُثَیْمٍ یُحِبُّ الْحَلْوَی فَیَقُولُ لَنَا : اصْنَعُوا لِی طَعَامًا فَنَصْنَعُ لَہُ طَعَامًا کَثِیرًا فَیَدْعُو فَرُّوخًا وَفُلاَنًا فَیُطْعِمُہُمْ رَبِیعٌ بِیَدِہِ وَیَسْقِیہِمْ ، وَیَشْرَبُ ہُوَ فَضْلَ شَرَابِہِمَا ، فَیُقَالَ لَہُ : مَا یَدْرِیَانِ ہَذَانِ مَا تُطْعِمُہُمَا فَیَقُولُ : لَکِنَّ اللَّہَ یَدْرِی۔
(٣٦٣٨٧) حضرت سریہ ربیع سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت ربیع بن خیثم کو حلوہ پسند تھا۔ پس وہ ہمیں کہتے۔ میرے لیے کھانا بناؤ۔ چنانچہ ہم ان کے لیے بہت زیادہ کھانا تیار کرتے۔ پھر وہ حضرت فروخ اور فلاں کو بلا لیتے۔ اور حضرت ربیع ان کو اپنے ہاتھ سے کھلاتے پلاتے۔ اور خود ان کا بچا ہوا مشروب پیتے۔ حضرت ربیع کو کہا گیا۔ ان دونوں کو کیا پتہ، آپ ان کو کیا کھلاتے ہیں ؟ اس پر حضرت ربیع کہتے۔ لیکن اللہ تعالیٰ تو جانتا ہے۔

36387

(۳۶۳۸۸) حَدَّثَنَا مُعَاوِیَۃُ بْنُ ہِشَامٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ بختری الطَّائِیِّ ، قَالَ : کَانَ یَقُولُ : اغْبِطَ الأَحْیَائَ بِمَا تَغْبِطُ بِہِ الأَمْوَاتَ ، وَاعْلَمْ ، أَنَّ الْعِبَادَۃَ لاَ تَصْلُحُ إِلاَّ بِزُہْدٍ وَذُلِّ عِنْدَ الطَّاعَۃ وَاسْتَصْعِبْ عند مَعْصِیَۃٍ ، وَأَحِبَّ النَّاسَ عَلَی قَدْرِ تَقْوَاہُمْ۔
(٣٦٣٨٨) حضرت بختری طائی کے بارے میں روایت ہے کہ وہ کہا کرتے تھے۔ جن چیزوں کی وجہ سے مردے رشک کرتے ہیں اس کی وجہ سے زندے بھی رشک کریں۔ جان لو کہ عبادت زہد کے بغیر صحیح نہیں ہوتی اور نیکی کے وقت نرم ہوجا، گناہ کے وقت مشکل ہوجا اور لوگوں سے ان کے تقویٰ کے بقدر محبت کر۔

36388

(۳۶۳۸۹) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ آدَمَ ، قَالَ : حدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ حُمَیْدٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا إِسْحَاقَ یَقُولُ : أَقْرَأَ أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِیُّ الْقُرْآنَ فِی الْمَسْجِدِ أَرْبَعِینَ سَنَۃً۔
(٣٦٣٨٩) حضرت ابواسحق فرماتے ہیں کہ حضرت ابوعبدالرحمن سلمی نے مسجد میں چالیس سال تک قرآن پڑھایا۔

36389

(۳۶۳۹۰) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، عَنْ مُوسَی بْنِ قَیْسٍ ، عَنْ سَلَمَۃَ بْنِ کُہَیْلٍ ، قَالَ : لَوْ کَانَ الْمُؤْمِنُ عَلَی قَصَبَۃٍ فِی الْبَحْرِ لَقَیَّضَ اللَّہُ لَہُ مَنْ یُؤْذِیہِ۔
(٣٦٣٩٠) حضرت سلمہ بن کہیل سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ اگر مومن، سمندر کے اندر ایک کنارے پر ہوگا تو اللہ تعالیٰ (وہاں پر بھی) اس چیز کو مقرر کریں گے جو اس کو تکلیف دے۔

36390

(۳۶۳۹۱) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ مُحَمَّدِ بْنِ جَعْفَرٍ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ الْحَارِثِ ، عَنْ أَبِی کَثِیرٍ الزُّبَیْدِیِّ ، عَنِ ابْنِ عَمْرو قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إیَّاکُمْ وَالظُّلْمَ فَإِنَّ الظُّلْمَ ظُلُمَاتٌ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ۔
(٣٦٣٩١) حضرت ابن عمرو سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ” تم لوگ ظلم سے بچو کیونکہ ظلم قیامت کے دن ظلمات کی شکل میں ہوگا۔

36391

(۳۶۳۹۲) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَنْ زَائِدَۃَ ، عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ ، عَنْ مُحَارِبٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : الظُّلْمُ ظُلُمَاتٌ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ۔ (بخاری ۲۴۴۷۔ مسلم ۱۹۹۶)
(٣٦٣٩٢) حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” ظلم قیامت کے دن ظلمات کی شکل میں ہوگا۔

36392

(۳۶۳۹۳) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِی ظَبْیَانَ ، عَنْ جَرِیرٍ ، قَالَ : قَالَ لِی سَلْمَانُ : أَتَدْرِی مَا الظُّلُمَاتُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ہُوَ ظُلْمُ النَّاسِ بَیْنَہُمْ فِی الدُّنْیَا۔
(٣٦٣٩٣) حضرت جریر سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت سلمان نے مجھے پوچھا۔ کیا تو جانتا ہے کہ قیامت کے دن ظلمات کیا ہوں گی ؟ یہ لوگوں کا دنیا میں باہم ظلم کرنا ہے۔

36393

(۳۶۳۹۴) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنِ الْفَزَارِیِّ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنِ الْمِنْہَالِ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ الْحَارِثِ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : أَوْحَی اللَّہُ إِلَی دَاوُد علیہ السلام : قُلْ لِلظَّلَمَۃِ : لاَ یَذْکُرُونِی فَإِنَّہُ حَقٌّ عَلَیَّ أَنْ أَذْکُرَ مَنْ ذَکَرَنِی ، وَإِنَّ ذِکْرِی إیَّاہُمْ أَنْ أَلَعَنَہُمْ۔
(٣٦٣٩٤) حضرت ابن عباس سے روایت ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ حضرت داؤد کو اللہ تعالیٰ نے وحی کی کہ آپ ظالموں سے کہو۔ وہ مجھے یاد نہ کیا کریں۔ کیونکہ یہ مجھ پر حق ہے کہ جو مجھے یاد کرے میں اس کو یاد کروں اور ان ظالموں کو میرا یاد کرنا یہ ہے کہ میں ان پر لعنت کروں۔

36394

(۳۶۳۹۵) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا زُہَیْرٌ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ ثُمَامَۃَ بْنِ بِجَادٍ ، قَالَ : أَنْذَرْتُکُمْ سَوْفَ أَقُومُ سَوْفَ أُصَلِّی سَوْفَ أَصُومُ۔
(٣٦٣٩٥) حضرت ثمامہ بن بجاد سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں تمہیں (ایسی بات کرنے سے) ڈراتا ہوں کہ میں عنقریب قیام کروں گا۔ میں عنقریب نماز پڑھوں گا۔ میں عنقریب روزہ رکھوں گا۔

36395

(۳۶۳۹۶) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا زُہَیْرٌ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : لاَ تُؤَخِّرْ عَمَلَ الْیَوْمِ لِغَدٍ فَإِنَّک لاَ تَدْرِی مَا فِی غَدٍ۔
(٣٦٣٩٦) جناب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ میں سے ایک سے روایت ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ تم آج کا کام کل پر نہ چھوڑو۔ کیونکہ تمہیں کل کے دن کیا ہونے والا ہے اس کا پتہ نہیں ہے۔

36396

(۳۶۳۹۷) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا زُہَیْرٌ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سُوقَۃَ ، عَنْ أَبِی جَعْفَرٍ ، قَالَ : لَمْ یَکُنْ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَحَدٍ إِذَا سَمِعَ مِنْ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حَدِیثًا أَخَذَہ لاَ یَزِیدُ فِیہِ ، وَلاَ یَنْقُصُ مِنْہُ وَلا وَلاَ مِنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ۔
(٣٦٣٩٧) حضرت ابوجعفر سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ (رض) میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہیں تھا کہ جب وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کوئی حدیث سنتا تو اس کو لے لیتا۔ نہ اس میں زیادتی کرتا اور نہ اس سے کمی کرتا اور نہ ہی حضرت عبداللہ بن عمر سے۔

36397

(۳۶۳۹۸) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا مُوسَی بْنُ قَیْسٍ ، قَالَ : قَالَ لِی زِرٌّ : ارْحَلْ بِنَا إِلَی ہَذَا الْمَسْجِدِ نُسَبِّحُ ، یَعْنِی نُصَلِّی۔
(٣٦٣٩٨) حضرت موسیٰ بن قیس بیان کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ مجھے حضرت زر نے فرمایا : ہمارے ساتھ اس مسجد میں چلو۔ تاکہ ہم نماز پڑھیں۔

36398

(۳۶۳۹۹) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا مُوسَی بْنُ قَیْسٍ ، عَنْ سَلَمَۃَ بْنِ کُہَیْلٍ {لَئِنْ لَمْ یَنْتَہِ الْمُنَافِقُونَ وَالَّذِینَ فِی قُلُوبِہِمْ مَرَضٌ} قَالَ : أَصْحَابُ الْفَوَاحِشِ۔
(٣٦٣٩٩) حضرت سلمہ بن کہیل سے ارشادِ خداوندی { لَئِنْ لَمْ یَنْتَہِ الْمُنَافِقُونَ وَالَّذِینَ فِی قُلُوبِہِمْ مَرَضٌ} کے بارے میں روایت ہے۔ وہ کہتے ہیں (اس سے مراد) اصحاب الفواحش ہیں۔

36399

(۳۶۴۰۰) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ ، قَالَ : حدَّثَنَا مُوسَی بْنُ قَیْسٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ قَیْسٍ الْکِنْدِیِّ (فَإِذَا جَائَتِ الطَّامَّۃُ الْکُبْرَی) قَالَ : إذَا قِیلَ : اذْہَبُوا بِہِ إِلَی النَّارِ۔
(٣٦٤٠٠) حضرت عمرو بن قیس کندی سے روایت ہے : وہ { فَإِذَا جَائَتِ الطَّامَّۃُ الْکُبْرَی } کے بارے میں فرماتے ہیں کہ یہ تب ہوگا جب ارشاد ہوگا کہ ان کو جہنم کی طرف لے جاؤ۔

36400

(۳۶۴۰۱) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ صَالِحٍ ، عَنْ أَبِی حَیَّانَ ، قَالَ : مَرَّ ابْنُ مَسْعُودٍ عَلَی الَّذِینَ یَنْفُخُونَ الْکِیرَ فَسَقَطَ۔
(٣٦٤٠١) حضرت ابوحیان سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت ابن مسعود (رض) کا گزر ان لوگوں پر سے ہوا جو دھونکنی میں پھونک رہے تھے تو آپ گرپڑے۔

36401

(۳۶۴۰۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ ، عَنْ حَکِیمِ بْنِ جَابِرٍ ، قَالَ : قَالَ رَجُلٌ لِرَجُلٍ : أَوْصِنِی ، فَقَالَ : أَتْبِعِ السَّیِّئَۃَ الْحَسَنَۃَ تَمْحُہَا ، وَخَالِقَ النَّاسَ خُلُقًا حَسَنًا۔
(٣٦٤٠٢) حضرت حکیم بن جابر سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے دوسرے آدمی سے کہا : تم مجھے وصیت کرو۔ اس نے کہا : گناہ، کے بعد نیکی کرو۔ یہ اس گناہ کو مٹا دے گی اور لوگوں سے اخلاق حسنہ کے ساتھ ملو۔

36402

(۳۶۴۰۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ ، عَنْ قَیْسٍ ، عَنْ مِرْدَاسٍ الأَسْلَمِیِّ ، قَالَ : یَذْہَبُ الصَّالِحُونَ الأَوَّلُ فَالأَوَّلُ حَتَّی تَبْقَی حُثَالَۃٌ کَحُثَالَۃِ التَّمْرِ وَالشَّعِیرِ لاَ یَعْبَأُ اللَّہُ بِہِمْ شَیْئًا۔ (بخاری ۴۱۵۶)
(٣٦٤٠٣) حضرت مرداس اسلمی سے روایت ہے وہ کہتے ہیں۔ نیک لوگ ایک ایک کرکے چلے جائیں گے یہاں تک کہ کھجور اور جو کے بھوسہ کی طرح بھوسہ رہ جائے گا۔ اللہ تعالیٰ کو ان کی کوئی پروا نہ ہوگی۔

36403

(۳۶۴۰۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، قَالَ سَمِعْت زَیْدَ بْنَ أَسْلَمَ یَقُولُ فِی ہَذِہِ الآیَۃِ {لاَ تَخَافُوا وَلاَ تَحْزَنُوا} قَالَ : لاَ تَخَافُوا مَا أَمَامَکُمْ ، وَلاَ تَحْزَنُوا عَلَی مَا خَلَفْتُمْ وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّۃِ الَّتِی کُنْتُمْ تُوعَدُونَ ، قَالَ : الْبُشْرَی فِی ثَلاَثَۃِ مَوَاطِنَ : عِنْدَ الْمَوْتِ وَفِی الْقَبْرِ ، وَعِنْدَ الْبَعْثِ۔
(٣٦٤٠٤) حضرت سفیان سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت زید بن اسلم کو اس آیت { لاَ تَخَافُوا مَا أَمَامَکُمْ } کے بارے میں کہتے سنا کہ جو تمہارے آگے آنے والا ہے اس سے خوف نہ کھاؤ۔ اور جو پیچھے چھوڑ آئے ہو اس پر غم نہ کرو۔ وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّۃِ الَّتِی کُنْتُمْ تُوعَدُونَ فرمایا : بشارت تین جگہوں پر ہوگی۔ موت کے وقت۔ قبر میں۔ جی اٹھنے کے وقت۔

36404

(۳۶۴۰۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ مُوسَی بْنِ عُبَیْدَۃَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ کَعْبٍ ، قَالَ : إذَا أَرَادَ اللَّہُ بِعَبْدِہِ خَیْرًا فَقَّہَہُ فِی الدِّینِ وَزَہَّدَہُ فِی الدُّنْیَا وَبَصَّرَہُ عُیُوبَہُ ، وَمَنْ أُوتِیَہُنَّ فَقَدْ أُوتِیَ خَیْرَ الدُّنْیَا وَالآخِرَۃِ۔
(٣٦٤٠٥) حضرت محمد بن کعب سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ کسی بندے کے ساتھ خیر کا ارادہ کرتے ہیں تو اس کو دین میں سمجھ عطا کرتے ہیں اور دنیا سے بےرغبت بنا دیتے ہیں اور اس کو اپنے عیوب دکھا دیتے ہیں۔ جس شخص کو یہ چیزیں دے دی گئیں تو اس کو دنیا، آخرت کی خیر دے دی گئی۔

36405

(۳۶۴۰۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ جُعْفِیٍّ ، عَنْ عَدِیِّ بْنِ حَاتِمٍ ، قَالَ : مَا جَائَتِ الصَّلاَۃُ قَطُّ إِلاَّ وَأَنَا إلَیْہَا بِالأَشْوَاقِ ، وَلاَ جَائَتْ قَطُّ إِلاَّ وَأَنَا مُسْتَعِدٌّ۔
(٣٦٤٠٦) حضرت عدی بن حاتم سے روایت ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ نماز جب بھی آتی ہے تو مجھے اس کا شوق ہوتا ہے اور نماز جب بھی آتی ہے تو میں تیار ہوتا ہوں۔

36406

(۳۶۴۰۷) حَدَّثَنَا قُتَیْبَۃ بْنُ سَعِیدٍ قَالَ : حَدَّثَنَا یَعْقُوبُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ أَبِی حَازِمٍ ، أَنَّہُ قَالَ : انْظُرَ الَّذِی تُحِبُّ أَنْ یَکُونَ مَعَک فِی الآخِرَۃِ فَقَدِّمْہُ الْیَوْمَ ، وَانْظُرَ الَّذِی تَکْرَہُ أَنْ یَکُونَ مَعَک ثَمَّ فَاتْرُکْہُ الْیَوْمَ۔
(٣٦٤٠٧) حضرت ابوحازم کے بارے میں روایت ہے کہ انھوں نے فرمایا : تم دیکھو کہ جس چیز کو تم آخرت میں اپنے ساتھ ہونا پسند کرتے ہو تو پھر تم اس کو آج ہی آگے بھیج دو ۔ اور تم اس چیز کو دیکھو جس کا تم وہاں ساتھ ہونا پسند نہیں کرتے تو اس کو تم آج ہی ترک کردو۔

36407

(۳۶۴۰۸) حَدَّثَنَا سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنِ ابْنِ السَّائِبِ بْنِ بَرَکَۃٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَیْمُونٍ سَمِعَ أَبَا ذَرٍّ یَقُولُ : کُنْت أَمْشِی خَلْفَ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : أَلاَ أَدُلُّک عَلَی کَنْزٍ مِنْ کُنُوزِ الْجَنَّۃِ قُلْتُ : بَلَی ، قَالَ : لاَ حَوْلَ وَلاَ قُوَّۃَ إِلاَّ بِاللہِ۔ (ابن ماجہ ۳۸۲۵۔ احمد ۱۴۵)
(٣٦٤٠٨) حضرت عمرو بن میمون سے روایت ہے کہ انھوں نے حضرت ابوذر (رض) کو کہتے سنا۔ میں جناب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیچھے چل رہا تھا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” کیا میں تمہیں جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ کا نہ بتاؤں ؟ “ میں نے عرض کیا۔ کیوں نہیں۔ آپ نے فرمایا : لاَ حَوْلَ وَلاَ قُوَّۃَ إِلاَّ بِاللہِ

36408

(۳۶۴۰۹) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ أَبِی عُثْمَانَ ، عن أبی موسی قَالَ : کُنَّا مَعَ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَسَمِعَنِی وَأَنَا خَلْفَہُ ، وَأَنَا أَقُولُ : لاَ حَوْلَ وَلاَ قُوَّۃَ إِلاَّ بِاللہِ ، فَقَالَ : یَا عَبْد اللہِ بْن قَیْس : أَلاَ أَدُلُّکَ عَلَی کَنْزٍ مِنْ کُنُوزِ الْجَنَّۃ ؟ قُلْتُ : بَلَی ، قَالَ : لاَ حَوْلَ وَلاَ قُوَّۃَ إِلاَّ بِاللہِ۔
(٣٦٤٠٩) حضرت ابوموسیٰ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ ہم جناب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ تھے۔ میں آپ کے پیچھے تھا اور آپ نے مجھے سنا کہ میں کہہ رہا ہوں۔ لاَ حَوْلَ وَلاَ قُوَّۃَ إِلاَّ بِاللہِ ۔ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” اے عبداللہ بن قیس ! کیا میں تمہیں جنت کے خزانوں میں ایک خزانہ کا نہ بتاؤں ؟ “ میں نے عرض کیا۔ کیوں نہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : لاَ حَوْلَ وَلاَ قُوَّۃَ إِلاَّ بِاللہِ ۔

36409

(۳۶۴۱۰) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ الْحُبَابِ ، عَنْ کَثِیرِ بْنِ زَیْدٍ الْمَدِینِیِّ ، قَالَ : حدَّثَنِی الْمُطَّلِبُ بْنُ عَبْدِ اللہِ بْنِ حَنْطَبٍ ، عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِی وَقَّاصٍ ، قَالَ : لَقِیت أَبَا أَیُّوبَ الأَنْصَارِیَّ ، فَقَالَ لِی : أَلاَ آمُرُک بِمَا أَمَرَنِی بِہِ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ أُکْثِرَ مِنْ قَوْلِ لاَ حَوْلَ وَلاَ قُوَّۃَ إِلاَّ بِاللہِ فَإِنَّہُ کَنْزٌ مِنْ کُنُوزِ الْجَنَّۃِ۔ (طبرانی ۳۹۰۰)
(٣٦٤١٠) حضرت عامر بن سعد سے روایت ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ میری حضرت ابوایوب انصاری سے ملاقات ہوئی تو انھوں نے مجھے کہا۔ کیا میں تمہیں اس کام کا نہ کہوں جس کا مجھے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کہا تھا ؟ یہ کہ میں لاَ حَوْلَ وَلاَ قُوَّۃَ إِلاَّ بِاللہِ کثرت سے کہا کروں۔ کیونکہ یہ جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے۔

36410

(۳۶۴۱۱) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَامِرٍ الأَسْلَمِیِّ ، عَنْ أَبِی الزِّنَادِ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ سُلَیْمَانَ ، عَنْ زَیْدِ بْنِ ثَابِتٍ ، أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یَقُولُ : أَلاَ أَدُلُّکُمْ عَلَی کَنْزٍ مِنْ کُنُوزِ الْجَنَّۃِ تُکْثِرُونَ مِنْ لاَ حَوْلَ وَلاَ قُوَّۃَ إِلاَّ بِاللہِ۔ (طبرانی ۴۸۸۵۔ عبد بن حمید ۲۴۹)
(٣٦٤١١) حضرت زید بن ثابت سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرمایا کرتے تھے۔ ” کیا میں تمہیں جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ کا نہ بتاؤں ؟ تم لوگ لاَ حَوْلَ وَلاَ قُوَّۃَ إِلاَّ بِاللہِ ۔ کثرت سے پڑھا کرو۔

36411

(۳۶۴۱۲) حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ بْنُ مُوسَی ، عَنْ إسْرَائِیلَ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ کُمَیْلِ بْنِ زِیَادٍ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : لاَ حَوْلَ وَلاَ قُوَّۃَ إِلاَّ بِاللہِ کَنْزٌ مِنْ کُنُوزِ الْجَنَّۃِ۔ (نسائی ۱۰۱۹۰۔ احمد ۵۲۰)
(٣٦٤١٢) حضرت ابوہریرہ، جناب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کرتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : لاَ حَوْلَ وَلاَ قُوَّۃَ إِلاَّ بِاللہِ جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے۔

36412

(۳۶۴۱۳) حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُوسَی ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَۃَ ، عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ ، عَنْ أَبِی رَزِینٍ ، عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : لاَ حَوْلَ وَلاَ قُوَّۃَ إِلاَّ بِاللہِ کَنْزٌ مِنْ کُنُوزِ الْجَنَّۃِ۔ (احمد ۲۲۸۔ طبرانی ۳۷۱)
(٣٦٤١٣) حضرت معاذ بن جبل، جناب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کرتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : لاَ حَوْلَ وَلاَ قُوَّۃَ إِلاَّ بِاللہِ ۔ جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے۔

36413

(۳۶۴۱۴) حَدَّثَنَا قُتَیْبَۃُ بْنُ سَعِیدٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا یَعْقُوبُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ أَبِی حَازِمٍ ، قَالَ : انْظُرْ کُلَّ عَمَلٍ کَرِہْت الْمَوْتَ مِنْ أَجْلِہِ فَاتْرُکْہُ ثُمَّ لاَ یَضُرُکَ مَتَی مَا مِتَّ۔
(٣٦٤١٤) حضرت ابوحازم سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ تم ہر اس عمل کو دیکھو جس کی وجہ سے تم موت کو ناپسند کرتے ہو۔ پس تم اس کو چھوڑ دو ۔ پھر تم جب بھی مرو تمہیں کوئی نقصان نہیں ہوگا۔

36414

(۳۶۴۱۵) حَدَّثَنَا قُتَیْبَۃُ بْنُ سَعِیدٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا یَعْقُوبُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ أَبِی حَازِمٍ أَنَّہُ قَالَ : یَسِیرُ الدُّنْیَا یُشْغِلُ عَنْ کَثِیرِ الآخِرَۃِ ، ثُمَّ قَالَ : إنَّک تَجِدُ الرَّجُلَ یَشْغَلُ نَفْسَہُ بِہَمِّ غَیْرِہِ حَتَّی لَہُوَ أَشَدُّ اہْتِمَامًا مِنْ صَاحِبِ الْہَمِّ بِہَمِّ نَفْسِہِ۔
(٣٦٤١٥) حضرت ابوحازم کے بارے میں روایت ہے کہ وہ کہا کرتے تھے۔ تھوڑی سی دنیا، بہت زیادہ آخرت سے مشغول کردیتی ہے۔ پھر فرمایا : تم ایسے آدمی کو پاؤ گے جو غیر کی فکر میں اپنے آپ سے مشغول ہوگا۔ جبکہ اس کو دوسرے کی فکر سے زیادہ اپنے نفس کی فکر رکھنی چاہیے تھی۔

36415

(۳۶۴۱۶) حَدَّثَنَا قُتَیْبَۃُ بْنُ سَعِیدٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا یَعْقُوبُ ، عَنْ أَبِی حَازِمٍ ، أَنَّہُ قَالَ : تَجِدُ الرَّجُلَ یَعْمَلُ بِالْمَعَاصِی ، فَإِذَا قِیلَ لَہُ : تُحِبُّ الْمَوْتَ ، قَالَ : لاَ ، وَکَیْفَ ، وَعِنْدِی مَا عِنْدِی ، فَیُقَالَ لَہُ : أَفَلاَ تَتْرُکُ مَا تَعْمَلُ بِہِ مِنَ الْمَعَاصِی ، فَقَالَ : مَا أُرِیدُ تَرْکَہُ ، وَمَا أُحِبُّ أَنْ أَمُوتَ حَتَّی أَتْرُکَہُ۔
(٣٦٤١٦) حضرت ابوحازم کے بارے میں روایت ہے وہ کہا کرتے تھے کہ تم ایک آدمی کو دیکھتے ہو جو گناہ کررہا ہے۔ پس جب اس سے کہا جائے تمہیں موت پسند ہے ؟ وہ کہتا ہے۔ نہیں اور کیسے پسند ہو جبکہ میرے پاس جو ہے وہ ہے۔ پھر اس سے کہا جائے۔ کیا تم ان گناہ کے عملوں کو ترک نہیں کرتے ؟ تو وہ کہتا ہے میں ان کو چھوڑنا نہیں چاہتا۔ اور میں یہ بھی نہیں چاہتا کہ میں مر جاؤں۔ یہاں تک کہ میں ان کو چھوڑ دوں۔

36416

(۳۶۴۱۷) حَدَّثَنَا قُتَیْبَۃُ بْنُ سَعِیدٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا إبْرَاہِیمُ ، عَنْ أَبِی سَہْلٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ؛ فِی قَوْلِہِ : {إنَّ جَہَنَّمَ کَانَتْ مِرْصَادًا} قَالَ : تَرْصُدُہُمْ وَاللہِ ، قَالَ : وَبَیْنَمَا رَجُلٌ یَمُرُّ إذْ اسْتَقْبَلَہُ آخَرُ ، قَالَ : أَبَلَغَکَ أَنَّ بِالطَّرِیقِ رَصَدًا ؟ قَالَ : نَعَمْ ، قَالَ : فَخُذْ حَذَرَک إذًا۔
(٣٦٤١٧) حضرت حسن سے ارشادِ خداوندی {إنَّ جَہَنَّمَ کَانَتْ مِرْصَادًا } کے بارے میں روایت ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ خدا کی قسم ! جہنم، مجرموں کا گھات لگائے گی۔ فرمایا کہ اسی دوران ایک آدمی گزر رہا ہوگا کہ اس کے سامنے ایک آدمی آئے گا اور (اس سے) کہے گا۔ کیا تمہیں یہ بات پہنچی ہے کہ راستہ میں گھات لگا ہوا ہے ؟ وہ کہے گا۔ ہاں۔ پہلا آدمی کہے گا۔ پھر تم اپنا بچاؤ کرو۔

36417

(۳۶۴۱۸) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، قَالَ : رَأَیْتُ أَبَا سِنَانٍ یَوْمَ جُمُعَۃٍ وَعَیْنَاہُ تَسِیلاَنِ وَشَفَتَاہُ تَحَرَّکُ۔
(٣٦٤١٨) حضرت حسین بن علی بیان کرتے ہیں کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوسنان کو جمعہ کے دن دیکھا کہ ان کی آنکھیں بہہ رہی تھیں اور ان کے ہونٹ حرکت کررہے تھے۔

36418

(۳۶۴۱۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ جَعْفَرٍ ، عَنْ مَیْمُونٍ ، قَالَ : لاَ یَکُونُ الرَّجُلُ تَقِیًّا حَتَّی یُحَاسِبَ نَفْسَہُ أَشَدَّ مِنْ مُحَاسَبَۃِ الرَّجُلِ شَرِیکَہُ حَتَّی یَنْظُرَ مِنْ أَیْنَ مَطْعَمُہُ وَمَشْرَبُہُ وَمَکْسَبُہُ۔
(٣٦٤١٩) حضرت میمون سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ کوئی آدمی تب تک متقی نہیں بن سکتا جب تک کہ وہ اپنے نفس سے اس سے بھی سخت محاسبہ نہ کرے جیسا وہ اپنے شریک سے کرتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ دیکھے کہ اس کا کھانا، اس کا پینا، اس کا لباس کہاں سے ہے ؟ “

36419

(۳۶۴۲۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ فِی قَوْلِہِ : {مَنْ کَانَ یُرِیدُ الْحَیَاۃَ الدُّنْیَا وَزِینَتَہَا نُوَفِّ إلَیْہِمْ أَعْمَالَہُمْ فِیہَا وَہُمْ فِیہَا لاَ یُبْخَسُونَ} قَالَ : مَنْ عَمِلَ لِلدُّنْیَا وُفِّیہِ فِی الدُّنْیَا۔
(٣٦٤٢٠) حضرت سعید بن جبیر سے ارشادِ خداوندی { مَنْ کَانَ یُرِیدُ الْحَیَاۃَ الدُّنْیَا وَزِینَتَہَا نُوَفِّ إلَیْہِمْ أَعْمَالَہُمْ فِیہَا وَہُمْ فِیہَا لاَ یُبْخَسُونَ } کے بارے میں روایت ہے وہ کہتے ہیں جو شخص دنیا کے لیے عمل کرتا ہے تو اس کو دنیا میں ہی اس کا پورا بدلہ دے دیا جاتا ہے۔

36420

(۳۶۴۲۱) حَدَّثَنَا سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ ،قَالَ : قالَوا لاِبْنِ الْمُنْکَدِرِ : أَیُّ الْعَمَلِ أَحَبُّ إلَیْک ؟ قَالَ : إدْخَالُ السُّرُورِ عَلَی الْمُؤْمِنِ ، قَالُوا : فَمَا بَقِیَ مِمَّا تَسْتَلِذُّ ، قَالَ : الإِفْضَالُ عَلَی الإِخْوَانِ۔
(٣٦٤٢١) حضرت سفیان بن عیینہ بیان کرتے ہیں کہ لوگوں نے حضرت ابن المنکدر سے پوچھا آپ کو کون سا عمل سب سے زیادہ محبوب ہے ؟ انھوں نے فرمایا : مومن کو خوش کرنا۔ لوگوں نے پوچھا وہ کون سی چیز باقی رہ گئی ہے جس سے آپ لذت حاصل کریں ؟ انھوں نے فرمایا : بھائیوں کا اکرام۔

36421

(۳۶۴۲۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ عُمَارَۃَ بْنِ عُمَیْرٍ ، قَالَ : دَخَلَ قَیْسُ بْنُ السَّکَنِ الْمَسْجِدَ فَجَعَلَ یَنْظُرُ وَیَقُولُ : أَجَدَبَ الْمَسْجِدُ أَجَدَبَ الْمَسْجِدُ۔
(٣٦٤٢٢) حضرت عمارہ بن عمیر سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت قیس بن سکن مسجد میں داخل ہوئے اور دیکھنے لگ گئے پھر فرمایا : مسجد قحط زدہ ہوگئی، مسجد قحط زدہ ہوگئی۔

36422

(۳۶۴۲۳) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ مَالِکِ بْنِ مِغْوَلٍ ، عَنْ أَبِی حَصِینٍ ، قَالَ : قَالَ لِی : لَوْ رَأَیْتَ قَوْمًا رَأَیْتُہُمْ لَتَقَطَّعَتْ کَبِدُک عَلَیْہِمْ۔
(٣٦٤٢٣) حضرت مالک بن مغول، حضرت ابوحصین کے بارے میں روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے مجھے کہا : اگر تم ان لوگوں کو دیکھ لیتے جن کو میں نے دیکھا ہے تو تم ان پر اپنا کلیجہ ٹکڑے ٹکڑے کرلیتے۔

36423

(۳۶۴۲۴) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ أَبِی حَازِمٍ ، قَالَ : اکْتُمْ حَسَنَاتِکَ أَکْثَرَ مِمَّا تَکْتُمُ سَیِّئَاتِک۔
(٣٦٤٢٤) حضرت ابوحازم سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ تم اپنی نیکیوں کو اس سے زیادہ چھپاؤ کہ جتنا تم اپنی برائیوں کو چھپاتے ہو۔

36424

(۳۶۴۲۵) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ قَیْسٍ ، قَالَ : مَنْ قَرَأَ مِئَتَیْ آیَۃٍ وَہُوَ یَنْظُرُ فِی الْمُصْحَفِ لَمْ یَجِئْ أَحَدٌ فِی ذَلِکَ الْیَوْمِ بِأَفْضَلَ مِنْہُ۔
(٣٦٤٢٥) حضرت عمرو بن قیس سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ جو شخص قرآن پاک کی دو صد آیات کی تلاوت اس طرح کرتا ہے کہ وہ قرآن کو دیکھ رہا ہوتا ہے تو کوئی آدمی اس دن اس شخص سے افضل کام کرنے والا نہیں ہوتا۔

36425

(۳۶۴۲۶) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ عَمْرٍو قَالَ : مَا رَأَیْت أَحَدًا أَعْلَمَ بِفُتْیَا مِنْ جَابِرِ بْنِ زَیْدٍ ، وَسَمِعْتہ یَقُولُ : مَا أَمْلِکُ مِنَ الدُّنْیَا شَیْئًا إِلاَّ حِمَارًا۔
(٣٦٤٢٦) حضرت عمرو سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت جابر بن زید سے بڑا عالم فتویٰ نہیں دیکھا اور میں نے انھیں یہ کہتے سنا کہ میں دنیا میں سے صرف ایک گدھے کا مالک ہوں۔

36426

(۳۶۴۲۷) حَدَّثَنَا ابْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنِ الْعَلاَئِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ، عَنْ أَبِی الضُّحَی فِی قَوْلِہِ : {ألاَّ إنَّ أَوْلِیَائَ اللہِ لاَ خَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَلاَ ہُمْ یَحْزَنُونَ} قَالَ : ہُمَ الَّذِینَ إذَا رُؤُوا ذُکِرَ اللَّہُ۔
(٣٦٤٢٧) حضرت ابوالضحی سے ارشاد خداوندی { ألاَّ إنَّ أَوْلِیَائَ اللہِ لاَ خَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَلاَ ہُمْ یَحْزَنُونَ } کے بارے میں روایت ہے کہتے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جنہیں جب دیکھا جائے تو خدا یاد آجائے۔

36427

(۳۶۴۲۸) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ ، عَنْ مَالِکِ بْنِ مِغْوَلٍ عَمَّنْ حَدَّثَہُ ، قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللہِ : مَنْ سَرَّہُ أَنْ یَعْلَمَ مَا لَہُ عِنْدَ اللہِ فَلْیَنْظُرْ مَا لِلنَّاسِ عِنْدَہُ۔
(٣٦٤٢٨) حضرت عبداللہ فرماتے ہیں کہ جس آدمی کو یہ بات خوش کرتی ہے کہ وہ اللہ کے پاس موجود اپنی حالت کو دیکھے تو اس کو یہ دیکھنا چاہیے کہ اس کے پاس لوگوں کی کیا حالت ہے۔

36428

(۳۶۴۲۹) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ أَبِی بُکَیْرٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا شُعْبَۃُ ، عَنِ الْحَکَمِ ، عَنْ مُجَاہِدٍ : {إِلاَّ أَنْ تَقَطَّعَ قُلُوبُہُمْ} قَالَ: الْمَوْتُ۔
(٣٦٤٢٩) حضرت مجاہد سے {إِلاَّ أَنْ تَقَطَّعَ قُلُوبُہُمْ } کے بارے میں روایت ہے۔ فرمایا : یہ موت ہے۔

36429

(۳۶۴۳۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ طَارِقٍ ، عَنْ سَالِمٍ {وَاعْبُدْ رَبَّک حَتَّی یَأْتِیَک الْیَقِینُ} قَالَ : الْیَقِینُ : الْمَوْتُ۔
(٣٦٤٣٠) حضرت سالم سے { وَاعْبُدْ رَبَّک حَتَّی یَأْتِیَک الْیَقِینُ } کے بارے میں روایت ہے۔ فرمایا : الْیَقِینُ سے مراد موت ہے۔

36430

(۳۶۴۳۱) حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ ، قَالَ: حدَّثَنَا الرَّبِیعُ بْنُ الْمُنْذِرِ، عَنْ أَبِیہِ ، أَنَّ الرَّبِیعَ بْنَ خُثَیْمٍ جَاؤُوہُ بِرَمْلٍ، أَوِ اشْتُرِیَ لَہُ رَمْلٌ فَطُرِحَ فِی بَیْتِہِ ، أَوْ فِی دَارِہِ ، یَعْنِی یَجْلِسُ عَلَیْہِ۔
(٣٦٤٣١) حضرت ربیع بن منذر، اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت ربیع بن خثیم کے پاس لوگ کنکریاں لے کر آئے یا ان کے لیے کنکریاں خریدی گئیں پس یہ ان کے گھر یا ان کے کمرہ میں ڈالی گئیں۔ یعنی وہ اس پر بیٹھتے تھے۔

36431

(۳۶۴۳۲) حَدَّثَنَا ابْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ سُرِّیَّۃِ الرَّبِیعِ بْنِ خُثَیْمٍ ، قَالَتْ : کَانَ عَمَلُ الرَّبِیعِ سِرًّا۔
(٣٦٤٣٢) حضرت ربیع بن خثیم کی سریہ سے روایت ہے وہ کہتی ہیں کہ حضرت ربیع کا عمل مخفی ہوتا تھا۔

36432

(۳۶۴۳۳) حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا الْحَکَمُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِکِ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ مُطَرِّفِ بْنِ الشِّخِّیرِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ {مِنْ مَائٍ صَدِیدٍ} قَالَ : مَا یَسِیلُ بَیْنَ جِلْدِ الْکَافِرِ وَلَحْمِہِ۔
(٣٦٤٣٣) حضرت ابن عباس (رض) سے ارشادِ خداوندی { مِنْ مَائٍ صَدِیدٍ } کے بارے میں روایت ہے۔ وہ کہتے ہیں۔ یہ وہ پانی ہے جو کافر کی جلد اور اس کے گوشت کے درمیان چلتا ہے۔

36433

(۳۶۴۳۴) حَدَّثَنَا ہَوْذَۃُ بْنُ خَلِیفَۃَ ، قَالَ : حَدَّثَنَا عَوْفٌ ، عَنِ الْحَسَنِ : {یَوْمَئِذٍ یَتَذَکَّرُ الإِنْسَان وَأَنَّی لَہُ الذِّکْرَی یَقُولُ یَا لَیْتَنِی قَدَّمْت لِحَیَاتِی} قَالَ : عُلِمَ وَاللہِ ، أَنَّہُ صَادِفٌ ہُنَاکَ حَیَاۃٌ طَوِیلَۃٌ لاَ مَوْتَ فِیہَا آخر مَا عَلَیْہِ۔
(٣٦٤٣٤) حضرت حسن سے { یَوْمَئِذٍ یَتَذَکَّرُ الإِنْسَان وَأَنَّی لَہُ الذِّکْرَی یَقُولُ یَا لَیْتَنِی قَدَّمْت لِحَیَاتِی } کے بارے میں روایت ہے وہ کہتے ہیں۔ خدا کی قسم ! اس کو معلوم ہوجائے گا کہ وہ ایسی زندگی کے قریب ہے کہ جس میں آخرکار موت نہیں ہے۔

36434

(۳۶۴۳۵) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا أَبُو الأَشْہَبِ ، عَنِ الْحَسَنِ أَنَّ مَلِکًا مِنْ تِلْکَ الْمُلُوکِ حَضَرَتْہُ الْوَفَاۃُ ، فَأَطَافَ بِہِ أَہْلُ مَمْلَکَتِہِ فَقَالُوا : لِمَنْ تَدَعَ الْعِبَادَ وَالْبِلاَدَ بَعْدَکَ ؟ فَقَالَ : یَا أَیُّہَا الْقَوْمُ ، لاَ تَجْہَلُوا فَإِنَّکُمْ فِی مِلْکِ مَنْ لاَ یُبَالِی أَصَغِیرٌ أُخِذَ مِنْ مِلْکِہِ ، أَوْ کَبِیرٌ۔
(٣٦٤٣٥) حضرت حسن سے روایت ہے کہ بادشاہوں میں سے ایک بادشاہ تھا۔ اس کی موت کا وقت آیا تو اس کے اہل مملکت اس کے پاس آئے اور کہنے لگے۔ آپ، اپنے بعد شہروں اور لوگوں کو کس کے لیے چھوڑ رہے ہیں ؟ تو اس بادشاہ نے جواب دیا۔ اے لوگو ! تم جاہل نہ رہنا۔ تم سب اس ذات کی ملکیت میں ہو جس کو اس کی پروا نہیں ہے کہ اس کی ملک سے یہ چیز کوئی چھوٹا لے یا کوئی بڑا لے۔

36435

(۳۶۴۳۶) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ، عَنْ أَبِی الأَشْہَبِ، عَنِ الْحَسَنِ، قَالَ: لاَ یَزَالُ الْعَبْدُ بِخَیْرٍ إذَا قَالَ لِلَّہِ وَإِذَا عَمِلَ لِلَّہِ۔
(٣٦٤٣٦) حضرت حسن سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ جب تک آدمی اللہ کے لیے کہتا ہے اور جب تک آدمی اللہ کے لیے عمل کرتا ہے تب تک وہ خیر پر رہتا ہے۔

36436

(۳۶۴۳۷) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا أَبُو الأَشْہَبِ ، قَالَ : سَمِعْتُ الْحَسَنَ یَقُولُ : یَا ابْنَ آدَمَ ، إنَّ لَک سِرًّا ، وَإِنَّ لَک عَلاَنِیَۃً ، فَسِرُّک أَمْلَکُ بِکَ مِنْ عَلاَنِیَتِکَ ، وَإِنَّ لَک عَمَلاً وَإِنَّ لَکَ قَوْلاً فَعَمَلُک أَمْلَکُ بِکَ مِنْ قَوْلِک۔
(٣٦٤٣٧) حضرت ابوالاشہب بیان کرتے ہیں کہتے ہیں کہ میں نے حضرت حسن کو کہتے سنا : اے آدم کے بیٹے ! تیرا ایک پوشیدہ حال ہے اور ایک تیرا ظاہری حال ہے۔ پس تیرا پوشیدہ حال، تیرے ظاہر سے زیادہ تیرے قبضہ میں ہے۔ ایک تیرا عمل ہے اور ایک تیرا قول ہے۔ پس تیرا عمل، تیرے قول سے زیادہ تیرے قبضہ میں ہے۔

36437

(۳۶۴۳۸) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا أَبُو الأَشْہَبِ ، قَالَ سَمِعْت الْحَسَنَ یَقُولُ : یَا ابْنَ آدَمَ ، تُبْصِرُ الْقَذَی فِی عَیْنِ أَخِیک وَتَدَعُ الْجِذْلَ مُعْتَرِضًا فِی عَیْنِک۔
(٣٦٤٣٨) حضرت ابوالاشہب بیان کرتے ہیں کہتے ہیں کہ میں نے حضرت حسن کو کہتے سنا۔ اے ابن آدم ! تجھے اپنے بھائی کی آنکھ کا تنکا دکھائی دیتا ہے اور اپنی آنکھ میں موجود شہتیر بھی تو چھوڑ دیتا ہے۔

36438

(۳۶۴۳۹) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا عَطَائُ بْنُ السَّائِبِ ، أَنَّ أَبَا الْبَخْتَرِیِّ وَأَصْحَابَہُ کَانُوا إذَا سَمِعَ أَحَدُہُمْ یُثْنَی عَلَیْہِ ، أَوْ دَخَلَہُ عُجْبٌ ثَنَی مَنْکِبَیْہِ ، وَقَالَ : خَشَعْتُ لِلَّہِ۔
(٣٦٤٣٩) حضرت عطاء بن سائب بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابوالبختری اور ان کے ساتھی جب کسی کو اپنے بارے میں تعریف کہتے سنتے یا انھیں عجب محسوس ہوتا تو وہ اپنے کندھوں کو موڑ لیتے اور کہتے۔ میں اللہ کے لیے خشوع کرتا ہوں۔

36439

(۳۶۴۴۰) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَنْ ثَابِتٍ ، قَالَ قِیلَ لِلْحَسَنِ : یَا أَبَا سَعِیدٍ ، أَیَنَامُ الشَّیْطَانُ ، قَالَ : لَوْ غَفَلَ لَوَجَدَہَا کُلُّ مُؤْمِنٍ مِنْ قَلْبِہِ۔
(٣٦٤٤٠) حضرت ثابت سے روایت ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ حضرت حسن سے پوچھا گیا۔ اے ابوسعید ! کیا شیطان سوتا ہے ؟ انھوں نے فرمایا : اگر وہ غافل ہوتا تو اس بات کو ہر مومن اپنے دل میں محسوس کرتا۔

36440

(۳۶۴۴۱) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حَدَّثَنَا أَبُو الأَشْہَبِ ، قَالَ سَمِعْت الْحَسَنَ ، أَنَّہُ قَالَ : لِلشَّرِّ أَہْلٌ وَلِلْخَیْرِ أَہْلٌ وَمَنْ تَرَکَ شَیْئًا کُفِیَہُ۔
(٣٦٤٤١) حضرت ابوالاشہب بیان کرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ حضرت حسن بیان کرتے ہیں۔ شر کے اہل بھی ہیں اور خیر کے اہل بھی ہیں۔ جو شخص کسی چیز کو چھوڑ دیتا ہے تو اس کو اس کی کفایت ہوجاتی ہے۔

36441

(۳۶۴۴۲) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا ہِشَامٌ ، عَنْ حَفْصَۃَ ، عَنِ الرَّبِیعِ بْنِ زِیَادٍ ، عَنْ کَعْبٍ ، قَالَ : وَاللہِ مَا اسْتَقَرَّ لِعَبْدٍ ثَنَائٌ فِی الأَرْضِ حَتَّی یَسْتَقِرَّ لَہُ فِی أَہْلِ السَّمَائِ۔
(٣٦٤٤٢) حضرت کعب سے روایت ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ خدا کی قسم ! کسی بندہ کی تعریف زمین میں نہیں ٹھہرتی یہاں تک کہ وہ اس کے لیے آسمان میں قرار پکڑ لیتی ہے۔

36442

(۳۶۴۴۳) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا جُوَیْبِرٌ ، عَنِ الضَّحَّاکِ ، قَالَ : کَتَبَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ إِلَی أَبِی مُوسَی : أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ الْقُوَّۃَ فِی الْعَمَلِ أَنْ لاَ تُؤَخِّرُوا عَمَلَ الْیَوْمِ لِغَدٍ فَإِنَّکُمْ إذَا فَعَلْتُمْ ذَلِکَ تَدَارَکَتْ عَلَیْکُمَ الأَعْمَالُ فَلَمْ تَدْرُوا أَیُّہَا تَأْخُذُونَ فَأَضَعْتُمْ ، فَإِذَا خُیِّرْتُمْ بَیْنَ أَمْرَیْنِ أَحَدُہُمَا لِلدُّنْیَا وَالآخَرُ لِلآخِرَۃِ فَاخْتَارُوا أَمْرَ الآخِرَۃِ عَلَی أَمْرِ الدُّنْیَا ، فَإِنَّ الدُّنْیَا تَفْنَی ، وَإِنَّ الآخِرَۃَ تَبْقَی ، کُونُوا مِنَ اللہِ عَلَی وَجَلٍ وَتَعَلَّمُوا کِتَابَ اللہِ فَإِنَّہُ یَنَابِیعُ الْعِلْمِ وَرَبِیعُ الْقُلُوبِ۔
(٣٦٤٤٣) حضرت ضحاک سے روایت ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) نے حصرت ابوموسیٰ کو تحریر فرمایا : اما بعد ! بیشک عمل میں قوت ہے۔ تم آج کا کام کل پر نہ چھوڑنا۔ کیونکہ تم جب اس طرح کرو گے تو بہت سے اعمال تمہارے اوپر جمع ہوجائیں گے۔ تمہیں پتہ نہیں چلے گا کہ تم ان میں سے کس کو لو۔ پھر تم ضیاع کرو گے۔ پس جب تمہیں دو کاموں کے درمیان اختیار دیا جائے۔ ان میں سے ایک دنیا کے لیے ہو۔ اور دوسرا آخرت کے لیے ہو۔ تو تم آخرت کے کام کو دنیا کے کام پر ترجیح دو ۔ کیونکہ دنیا فانی ہے اور آخرت باقی ہے اور تم اللہ کی طرف سے خوف پر رہو۔ اور تم اللہ کی کتاب سیکھو۔ کیونکہ وہ علم کے چشمے ہیں اور دلوں کی بہار ہے۔

36443

(۳۶۴۴۴) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ قَابُوسَ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : مَنْ رَاء ی رَاء ی اللَّہُ بِہِ۔
(٣٦٤٤٤) حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے وہ کہتے ہیں جو شخص ریا کاری کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی اس کے ساتھ دکھلاوا کریں گے۔

36444

(۳۶۴۴۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ الأَوْزَاعِیِّ ، عَنْ حَسَّانَ بْنِ عَطِیَّۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ أَبِی زَکَرِیَّا ، قَالَ : بَلَغَنِی أَنَّ الرَّجُلَ إذَا رَاء ی بِشَیْئٍ مِنْ عَمَلِہِ أُحْبِطَ مَا کَانَ قَبْلَ ذَلِکَ۔
(٣٦٤٤٥) حضرت عبداللہ بن ابی زکریا سے روایت ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ مجھے یہ بات پہنچی کہ جب آدمی اپنے کسی عمل میں ریا کاری کرتا ہے تو اس کے اس سے پہلے والے عمل ضائع ہوجاتے ہیں۔

36445

(۳۶۴۴۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ سَلَمَۃَ بْنِ کُہَیْلٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ جُنْدُبًا الْعَلَقِیَّ یَقُولُ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَنْ یُسَمِّعْ یُسَمِّعُ اللَّہُ بِہِ وَمَنْ یُرَائِ یُرَائِ اللَّہُ بِہِ۔ (بخاری ۶۴۹۹۔ مسلم ۲۲۸۹)
(٣٦٤٤٦) حضرت جندب علقی فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ” جو شخص ناموری چاہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کو رسوا کرتے ہیں اور جو شخص ریا کاری کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ دکھلاوا کرتے ہیں۔

36446

(۳۶۴۴۷) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ بَہْدَلَۃَ ، قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا رَزِینٍ، قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللہِ: مَنْ یُسَمِّعْ یُسَمِّعُ اللَّہُ بِہِ ، وَمَنْ یُرَائِ یُرَائِ اللَّہُ بِہِ ، وَمَنْ تَوَاضَعَ تَخَشُّعًا رَفَعَہُ اللَّہُ ، وَمَنْ تَعَظَّمَ تَطَاوُلاً وَضَعَہُ اللَّہُ۔
(٣٦٤٤٧) حضرت عبداللہ فرماتے ہیں جو شخص ناموری چاہتا ہے تو اللہ اس کو رسوائی دیتے ہیں اور جو شخص ڈر کر تواضع اختیار کرتا ہے اللہ اس کو بلند کرتے ہیں اور جو دراز ہو کر بڑا بننا چاہتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو گرا دیتے ہیں۔

36447

(۳۶۴۴۸) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا الأَعْمَشُ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ ، عَنْ شَیْخٍ یُکَنَّی أَبَا یَزِیدَ ، قَالَ : سَمِعْتُ عَبْدَ اللہِ بْنَ عَمْرٍو یَقُولُ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَنْ یُسَمِّعَ النَّاسَ بِعَمَلِہِ سَمَّعَ اللَّہُ بِہِ سَامِعَ خَلْقِہِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَحَقَّرَہُ وَصَغَّرَہُ۔ (احمد ۲۲۳)
(٣٦٤٤٨) حضرت عبداللہ بن عمرو سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ” جو شخص لوگوں میں ناموری چاہتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو قیامت کے دن ساری مخلوق میں رسوا کرے گا اور اس کو حقیر اور صغیر کریں گے۔

36448

(۳۶۴۴۹) حَدَّثَنَا بَکْرُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، قَالَ : حدَّثَنَا عِیسَی بْنُ الْمُخْتَارِ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِی لَیْلَی ، عَنِ الْعَوْفِیِّ ، عَنْ أَبِی سَعِیدٍ ، عَنْ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : مَنْ سَمَّعَ سَمَّعَ اللَّہُ بِہِ وَمَنْ رَاء ی رَاء ی اللَّہُ بِہِ۔ (ترمذی ۲۳۸۱۔ ابن ماجہ ۴۲۰۶)
(٣٦٤٤٩) حضرت ابوسعید سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ” جو شخص ناموری چاہتا ہے تو اللہ اس کو رسوا کردیتا ہے اور جو شخص ریاکاری کرتا ہے تو اللہ اس کے ساتھ دکھلاوا کرتا ہے۔

36449

(۳۶۴۵۰) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَنْ زَائِدَۃَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : لَقَدْ أَدْرَکْت أَقْوَامًا مَا کَانُوا یَشْبَعُونَ ذَلِکَ الشِّبَعَ ، إنْ کَانَ أَحَدُہُمْ لَیَأْکُلُ حَتَّی إذَا رُدَّ نَفَسُہُ أَمْسَکَ ذَابِلاً نَاحِلاً مُقْبِلاً عَلَی شَأْنِہِ۔
(٣٦٤٥٠) حضرت حسن سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ تحقیق میں نے ایسے لوگوں کو پایا ہے جو اس طرح سے پیٹ سیراب کرکے نہیں کھاتے تھے۔ وہ لوگ کھانا کھانے کے بعد بھی کمزور، نحیف اور پہلے کی طرح چست ہوتے تھے۔

36450

(۳۶۴۵۱) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ ، عَنْ أَشْعَثَ ، قَالَ : کُنَّا إذَا دَخَلْنَا عَلَی الْحَسَنِ خَرَجْنَا ، وَمَا نَعُدُّ الدُّنْیَا شَیْئًا۔
(٣٦٤٥١) حصرت اشعث سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ جب ہم حضرت حسن کے پاس جاتے تو ہم اس حال میں باہر آتے کہ ہم دنیا کو کچھ نہیں سمجھتے تھے۔

36451

(۳۶۴۵۲) حَدَّثَنَا مُعْتَمِرُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ أَبِی الأَشْہَبِ ، عَنِ الْحَسَنِ : {وَحِیلَ بَیْنَہُمْ وَبَیْنَ مَا یَشْتَہُونَ} قَالَ : مِنَ الإِیمَانِ۔
(٣٦٤٥٢) حضرت حسن سے قرآن مجید کی آیت { وَحِیلَ بَیْنَہُمْ وَبَیْنَ مَا یَشْتَہُونَ } کے بارے میں منقول ہے کہ اس سے مراد ایمان سے محروم ہونا ہے۔

36452

(۳۶۴۵۳) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَنْ أَبِی مُوسَی ، قَالَ : قَالَ الْحَسَنُ : مِنْ أَشْرَاطِ ، أَوِ اقْتِرَابِ السَّاعَۃِ أَنْ یَأْتِیَ الْمَوْتُ خِیَارَکُمْ فَیَلْقُطَہُمْ کَمَا یَلْقُطُ أَحَدُکُمْ أَطَایبَ الرُّطَبِ مِنَ الطَّبَقِ۔
(٣٦٤٥٣) حضرت ابوموسیٰ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت حسن نے فرمایا : قرب قیامت کی علامات میں سے یہ بات ہے کہ موت تم میں سے بہتر لوگوں کو آئے اور ان کو اس طرح اچک لے جس طرح تم میں سے کوئی پلیٹ میں سے عمدہ کھجوریں اٹھا لیتا ہے۔

36453

(۳۶۴۵۴) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ سَلاَّمِ بْنِ مِسْکِینٍ ، قَالَ : قَالَ الْحَسَنُ : أَہِینُوا الدُّنْیَا فَوَاللہِ لأَہْنَأُ مَا تَکُونُ إذَا أَہَنْتہَا۔
(٣٦٤٥٤) حضرت سلام بن مسکین سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت حسن نے فرمایا : تم دنیا کی اہانت کرو۔ خدا کی قسم ! یہ تم پر اتنی ہی ہلکی ہوگی جتنا تم اس کو ہلکا کرو گے۔

36454

(۳۶۴۵۵) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِی عَدِیٍّ ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : صَوَامِعُ الْمُؤْمِنِینَ بُیُوتُہُمْ۔
(٣٦٤٥٥) حضرت حسن سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ اہل ایمان کے عبادت خانے ان کے گھر ہیں۔

36455

(۳۶۴۵۶) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ سُفْیَانَ بْنِ حُسَیْنٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ؛ فِی قَوْلِہِ : {فَضُرِبَ بَیْنَہُمْ بِسُورٍ لَہُ بَابٌ بَاطِنُہُ فِیہِ الرَّحْمَۃُ} قَالَ : الْجَنَّۃُ {وَظَاہِرُہُ مِنْ قِبَلِہِ الْعَذَابُ} قَالَ : النَّارُ۔
(٣٦٤٥٦) حضرت حسن سے ارشادِ خداوندی { فَضُرِبَ بَیْنَہُمْ بِسُورٍ لَہُ بَابٌ بَاطِنُہُ فِیہِ الرَّحْمَۃُ } کے بارے میں روایت ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس سے مراد جنت ہے۔ اور { وَظَاہِرُہُ مِنْ قِبَلِہِ الْعَذَابُ } سے مراد جہنم ہے۔

36456

(۳۶۴۵۷) حَدَّثَنَا ہَوْذَۃُ بْنُ خَلِیفَۃَ قَالَ : حَدَّثَنَا عَوْفٌ ، عَنِ الْحَسَنِ {یَوْمَئِذٍ یَتَذَکَّرُ الإِنْسَان وَأَنَّی لَہُ الذِّکْرَی یَقُولُ یَا لَیْتَنِی قَدَّمْت لِحَیَاتِی} قَالَ : عَلِمَ وَاللہِ أَنَّہُ صَادِف ہُنَاکَ حَیَاۃٌ طَوِیلَۃٌ لاَ مَوْتَ فِیہَا آخر ما عَلَیْہِ۔
(٣٦٤٥٧) حضرت حسن سے ارشادِ خداوندوی { یَوْمَئِذٍ یَتَذَکَّرُ الإِنْسَاْن وَأَنَّی لَہُ الذِّکْرَی یَقُولُ یَا لَیْتَنِی قَدَّمْت لِحَیَاتِی } کے بارے میں روایت ہے۔ فرماتے ہیں : خدا کی قسم ! وہ یہ بات جان لے گا کہ یہاں ایسی لمبی زندگی شروع ہونے والی ہے جس کی کوئی انتہاء نہیں۔

36457

(۳۶۴۵۸) حَدَّثَنَا مُعَاوِیَۃُ بْنُ ہِشَامٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ أَبِی حَازِمٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : یَأْتِی عَلَی النَّاسِ زَمَانٌ یَکُونُ حَدِیثُہُمْ فِی مَسَاجِدِہِمْ أَمْرَ دُنْیَاہُمْ ، لَیْسَ لِلَّہِ فِیہِ حَاجَۃٌ ، فَلاَ تُجَالِسُوہُمْ۔
(٣٦٤٥٨) حضرت حسن سے روایت ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ وہ اپنی مسجدوں میں اپنی دنیا کے امور کی بات کریں گے۔ اس میں خدا کے لیے کوئی حاجت نہیں ہوگی۔ پس تم ان کی مجلس اختیار نہ کرنا۔

36458

(۳۶۴۵۹) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ عُمَارَۃَ بْنِ الْقَعْقَاعِ ، عَنِ الْحَسَنِ ؛ فِی قَوْلِہِ : {فَلاَ یُخْرِجَنَّکُمَا مِنَ الْجَنَّۃِ فَتَشْقَی} قَالَ : عَنَی بِہِ شَقَائَ الدُّنْیَا فَلاَ تَلْقَی ابْنَ آدَمَ إِلاَّ شَقِیًّا نَاصِبًا۔
(٣٦٤٥٩) حضرت حسن سے ارشاد خداوندی { فَلاَ یُخْرِجَنَّکُمَا مِنَ الْجَنَّۃِ فَتَشْقَی } کے بارے میں روایت ہے وہ کہتے ہیں۔ اس سے خدا کی مراد ” دنیا کی بدبختی “ ہے۔ پس تو کسی ابن آدم کو نہیں ملے گا مگر یہ کہ وہ بدبخت اور نامراد ہوگا۔

36459

(۳۶۴۶۰) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَنْ أَبِی مُوسَی ، قَالَ : قرَأَ الْحَسَنُ ہَذِہِ الآیَۃَ {وَکَانَ أَبُوہُمَا صَالِحًا} قَالَ : مَا أَسْمَعُہُ ذَکَرَ فِی وَلَدِہِمَا خَیْرًا ، حَفِظَہُمَا اللَّہُ بِحِفْظِ أَبِیہِمَا۔
(٣٦٤٦٠) حضرت ابوموسیٰ سے روایت ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ حضرت حسن نے یہ آیت { وَکَانَ أَبُوہُمَا صَالِحًا } تلاوت کی۔ فرمایا : میں نے یہ بات سنی کہ اللہ نے ان کے بچے میں خیر کا ذکر کیا ہو۔ اللہ نے ان کی حفاظت ان کے والد کی وجہ سے فرمائی۔

36460

(۳۶۴۶۱) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ وَمُحَمَّدُ بْنُ أَبِی عَدِیٍّ، عَنْ حَبِیبِ بْنِ شَہِیدٍ، عَنِ الْحَسَنِ، قَالَ: لاَ إلَہَ إِلاَّ اللَّہُ ثَمَنُ الْجَنَّۃِ۔
(٣٦٤٦١) حضرت حسن سے روایت ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ لاَ إلَہَ إِلاَّ اللَّہُ جنت کی قیمت ہے۔

36461

(۳۶۴۶۲) حَدَّثَنَا خَلَفُ بْنُ خَلِیفَۃَ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ بْنِ أَبِی خَالِدٍ ، أَنَّ الْحَسَنَ کَانَ یَقُولُ : اتَّقَوْا فِیمَا حَرَّمَ اللَّہُ عَلَیْہِمْ وَأَحْسَنُوا فِیمَا رَزَقَہُمْ۔
(٣٦٤٦٢) حضرت اسماعیل بن ابی خالد سے روایت ہے کہ حضرت حسن کہا کرتے تھے۔ جو چیز اللہ نے لوگوں پر حرام کی ہے وہ اس سے ڈرتے ہیں اور جو چیز اللہ نے لوگوں کو دی ہے اس میں اچھائی کرتے ہیں۔

36462

(۳۶۴۶۳) حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ الْحَسَنِ {رَبَّنَا آتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَفِی الآخِرَۃِ حَسَنَۃً} قَالَ فِی الدُّنْیَا الْعِلْمُ وَالْعِبَادَۃُ ، وَفِی الآخِرَۃِ الْجَنَّۃُ۔
(٣٦٤٦٣) حضرت حسن سے ارشادِ باری تعالیٰ { رَبَّنَا آتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَفِی الآخِرَۃِ حَسَنَۃً } کے بارے میں روایت ہے۔ فرمایا : دنیا میں علم اور عبادت اور آخرت میں جنت۔

36463

(۳۶۴۶۴) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الْحَسَنِ {وَلاَ تَنْسَ نَصِیبَک مِنَ الدُّنْیَا} قَالَ : قَدِّمَ الْفَضْلَ وَأَمْسِکْ مَا یُبَلِّغُکَ۔
(٣٦٤٦٤) حضرت حسن سے ارشادِ باری تعالیٰ { وَلاَ تَنْسَ نَصِیبَک مِنَ الدُّنْیَا } کے بارے میں روایت ہے فرمایا : اضافی چیز آگے بھیج دو اور اتنی چیز روکو جو تمہیں (منزل پر) پہنچا دے۔

36464

(۳۶۴۶۵) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الْحَسَنِ {یَسْعَی نُورُہُمْ بَیْنَ أَیْدِیہِمْ وَبِأَیْمَانِہِمْ} قَالَ : عَلَی الصِّرَاطِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ۔
(٣٦٤٦٥) حضرت حسن سے ارشادِ باری تعالیٰ { یَسْعَی نُورُہُمْ بَیْنَ أَیْدِیہِمْ وَبِأَیْمَانِہِمْ } کے بارے میں روایت ہے۔ فرمایا : قیامت کے دن پل صراط پر یہ ہوگا۔

36465

(۳۶۴۶۶) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ أَبِی الأَشْہَبِ ، قَالَ : قرَأَ الْحَسَنُ حَتَّی بَلَغَ : {وَلاَ یَذْکُرُونَ اللَّہَ إِلاَّ قَلِیلاً} قَالَ: إنَّمَا قَلَّ لأَنَّہُ کَانَ لِغَیْرِ اللہِ۔
(٣٦٤٦٦) حضرت ابوالاشہب سے روایت ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ حضرت حسن نے قرأت شروع کی یہاں تک کہ { وَلاَ یَذْکُرُونَ اللَّہَ إِلاَّ قَلِیلاً } تک پہنچے۔ فرمایا : یہ تھوڑے صرف اس لیے ہیں کہ یہ غیر اللہ کے لیے (بہت) ہوتے ہیں۔

36466

(۳۶۴۶۷) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ أَبِی الأَشْہَبِ ، قَالَ : قرَأَ الْحَسَنُ : {التَّائِبُونَ الْعَابِدُونَ} قَالَ : تَابُوا مِنَ الشِّرْکِ وَبَرِئُوا مِنَ النِّفَاقِ۔
(٣٦٤٦٧) حضرت ابوالاشہب سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت حسن نے قرآن مجید کی آیت { التَّائِبُونَ الْعَابِدُونَ } تلاوت کی تو فرمایا : انھوں نے شرک سے توبہ کی اور وہ نفاق سے بری ہوئے۔

36467

(۳۶۴۶۸) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا أَبُو عَقِیلٍ بَشِیرُ بْنُ عُقْبَۃَ ، قَالَ : سَمِعْتُ الْحَسَنَ یَقُولُ : الْعُلَمَائُ ثَلاَثَۃٌ : مِنْہُمْ عَالِمٌ لِنَفْسِہِ وَلِغَیْرِہِ فَذَلِکَ أَفْضَلُہُمْ وَخَیْرُہُمْ ، وَمِنْہُمْ عَالِمٌ لِنَفْسِہِ فَحَسَنٌ ، وَمِنْہُمْ عالِمٌ لاَ لِنَفْسِہِ ، وَلاَ لِغَیْرِہِ فَذَلِکَ شَرُّہُمْ۔
(٣٦٤٦٨) حضرت حسن فرماتے ہیں۔ علماء تین طرح کے ہیں۔ بعض وہ علماء ہیں جو اپنے نفس کے لیے اور دوسروں کے لیے عالم ہیں۔ یہ علماء میں سے افضل اور بہتر ہیں۔ اور بعض وہ علماء ہیں جو اپنے نفس کے لیے عالم ہیں۔ یہ بھی بہتر ہیں۔ اور بعض علماء وہ ہیں جو نہ اپنے نفس کے لیے ہیں اور نہ کسی غیر کے لیے۔ یہ علماء میں سے بدترین ہیں۔

36468

(۳۶۴۶۹) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا أَبُو الأَشْہَبِ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : مَنِ اسْتَطَاعَ مِنْکُمْ أَنْ یَکُونَ إمَامًا لأَہْلِہِ إمَامًا لحیہ إمَامًا لِمَنْ وَرَائَ ذَلِکَ فَلْیَفْعَلْ ، فَإِنَّہُ لَیْسَ شَیْئٌ یُؤْخَذُ عَنْک إِلاَّ کَانَ لَک فِیہِ نَصِیبٌ۔
(٣٦٤٦٩) حضرت حسن سے روایت ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ تم میں سے جو شخص اس بات کی صلاحیت رکھتا ہے کہ وہ اپنے اہل کا، اپنے قبیلہ کا اور ان سے آگے والے لوگوں کا امام ہو تو اس کو یہ کام کرنا چاہیے۔ کیونکہ تم سے جو چیز بھی لی جائے گی اس میں تمہارا حصہ ہوگا۔

36469

(۳۶۴۷۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : أَدْرَکْت أَقْوَامًا یَعْزِمُونَ عَلَی أَہَالِیہِمْ أَنْ لاَ یَرُدُّوا سَائِلاً۔
(٣٦٤٧٠) حضرت حسن سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے ایسے لوگوں کو پایا ہے جو اپنے گھر والوں کو اس بات پر پکا کرتے تھے کہ وہ کسی سائل کو واپس نہیں کریں گے۔

36470

(۳۶۴۷۱) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، أنَّہُ تَلاَ : {وَاسْأَلْہُمْ عَنِ الْقَرْیَۃِ الَّتِی کَانَتْ حَاضِرَۃَ الْبَحْرِ إذْ یَعْدُونَ فِی السَّبْتِ إذْ تَأْتِیہِمْ حِیتَانُہُمْ یَوْمَ سَبْتِہِمْ شُرَّعًا} الآیَۃَ ، قَالَ : کَانَ حُوتٌ حَرَّمَہُ اللَّہُ علیہم فِی یَوْمٍ وَأَحَلَّہُ لَہُمْ فِی سِوَی ذَلِکَ ، فَکَانَ یَأْتِیہِمْ فِی الْیَوْمِ الَّذِی حُرِّمَ عَلَیْہِمْ کَأَنَّہُ الْمَخَاضُ ، مَا یَمْتَنِعُ مِنْ أَحَدٍ ، فَجَعَلُوا یَہُمُّونَ وَیُمْسِکُونَ حَتَّی أَخَذُوہُ فَأَکَلُوا وَاللہِ بِہَا أَوْخَمَ أَکْلَۃً أَکَلَہَا قَوْمُ لُوطٍ أَبْقَی خِزْیًا فِی الدُّنْیَا وَأَشَدَّ عُقُوبَۃً فِی الآخِرَۃِ ، وَایْمُ اللہِ لَلْمُؤْمِنُ أَعْظَمُ حُرْمَۃً عِنْدَ اللہِ مِنْ حُوتٍ ، وَلَکِنَّ اللَّہَ جَعَلَ مَوْعِدَ قَوْمِی السَّاعَۃَ ، وَالسَّاعَۃُ أَدْہَی وَأَمَرُّ۔
(٣٦٤٧١) حضرت حسن کے بارے میں روایت ہے کہ انھوں نے { وَاسْأَلْہُمْ عَنِ الْقَرْیَۃِ الَّتِی کَانَتْ حَاضِرَۃَ الْبَحْرِ إذْ یَعْدُونَ فِی السَّبْتِ إذْ تَأْتِیہِمْ حِیتَانُہُمْ یَوْمَ سَبْتِہِمْ شُرَّعًا } پوری آیت تلاوت کی۔ تو فرمایا : یہ ایک مچھلی تھی جس کو اللہ تعالیٰ نے ایک دن ان پر حرام کیا تھا اور اس کے علاوہ بقیہ دنوں میں اس کو لوگوں کے لیے حلال کیا تھا۔ پس یہ مچھلی ان کے پاس اس دن حاملہ اونٹنی کی طرح کی آجاتی تھیں۔ جو کسی کو نہیں روکتی تھی۔ چنانچہ ان لوگوں نے ارادہ کیا اور (اس کو) روکنا شروع کیا۔ یہاں تک کہ وہ اس کو پکڑ لیتے اور پھر کھالیتے۔ خدا کی قسم ! اس کھانے سے بڑھ کر کوئی کھانا نہیں ہے جو لوگوں نے کبھی کھایا ہو۔ اس نے دنیا میں رسوائی اور آخرت میں شدید ترین عذاب کو چھوڑ دیا۔ اور خدا کی قسم ! مومن تو خدا کے ہاں مچھلی سے زیادہ حرمت رکھتا ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے لوگوں کے لیے قیامت کے دن کا وعدہ کر رکھا ہے اور قیامت زیادہ وحشت ناک اور ہو کر رہنے والی ہے۔

36471

(۳۶۴۷۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، عَنْ مُحَمَّدٍ ، قَالَ : کُنَّا نَتَحَدَّثُ ، أَنَّ الْعَبْدَ إذَا أَرَادَ اللَّہُ بِہِ أَظُنُّہُ قَالَ خَیْرًا، جَعَلَ لَہُ زَاجِرًا مِنْ نَفْسِہِ یَأْمُرُہُ بِالْخَیْرِ ، وَیَنْہَاہُ عَنِ الْمُنْکَرِ۔
(٣٦٤٧٢) حضرت محمد سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ یہ بات کیا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ جب کسی بندہ کے ساتھ خیر کا ارادہ کرتے ہیں تو اس کے لیے اس کے اپنے نفس کی طرف سے ایک زاجر مقرر کردیتے ہیں جو اس کو خیر کا حکم دیتا ہے اور اس کو منکر سے روکتا ہے۔

36472

(۳۶۴۷۳) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ الحُبَابٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا عَبْدُ الْحَمِیدِ بْنُ عَبْدِ اللہِ بْنِ مُسْلِمِ بْنِ یَسَارٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا کُلْثُومُ بْنُ جَبْرٍ ، قَالَ : کَانَ الْمُتَمَنِّی بِالْبَصْرَۃِ یَقُولُ : فِقْہُ الْحَسَنِ وَوَرَعُ مُحَمَّدِ بْنِ سِیرِینَ وَعِبَادَۃُ طَلْقِ بْنِ حَبِیبٍ وَحِلْمُ ابْنِ یَسَارٍ۔
(٣٦٤٧٣) حضرت کلثوم بن جبیر سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ بصرہ میں متمنی کہا کرتا تھا۔ حضرت حسن کی فقہ، حضرت محمد بن سیرین کا ورع، حضرت طلق بن حبیب کی عبادت اور ابن یسار کا حلم (بےمثال) ہے۔

36473

(۳۶۴۷۴) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَیْدٍ ، عَنْ عَاصِمٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ مُوَرِّقًا الْعِجْلِیّ یَقُولُ : مَا رَأَیْت أَحَدًا أَفْقَہَ فِی وَرَعِہِ ، وَلاَ أَوْرَعَ فِی فِقْہِہِ مِنْ مُحَمَّدٍ ، وَقَالَ أَبُو قِلاَبَۃَ : اصْرِفُوہُ حَیْثُ شِئْتُمْ فَتَجِدُونَہُ أَشُدَّکُمْ وَرَعًا وَأَمْلَکَکُمْ لِنَفْسِہِ۔
(٣٦٤٧٤) حضرت مؤرق عجلی کہتے ہیں کہ میں نے حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بڑھ کر اپنی فقہ میں پرہیزگاری کرنے والا، اور اپنی پرہیزگاری میں فقہ رکھنے والا نہیں دیکھا۔ حضرت ابوقلابہ کہتے ہیں۔ تم اس کو جہاں بھی پھیر دو ۔ تو وہ تم اس کو سب سے زیادہ پرہیزگاری کرنے والا اور تم میں سے اپنے نفس کا سب سے زیادہ مالک ہوگا۔

36474

(۳۶۴۷۵) حَدَّثَنَا الثَّقَفِیُّ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنْ مُحَمَّدٍ ، قَالَ : لاَ أَعْلَمُ الدرن مِنَ الدِّینِ۔
(٣٦٤٧٥) حضرت محمد سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں دین میں کوئی میل کچیل نہیں جانتا۔

36475

(۳۶۴۷۶) حَدَّثَنَا عَفَّانُ بْنُ مُسْلِمٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا سَلاَّمُ بْنُ مِسْکِینٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا عِمْرَانُ بْنُ عَبْدِ اللہِ بْنِ طَلْحَۃَ الْخُزَاعِیُّ ، قَالَ : إنَّ نَفْسَ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ کَانَتْ أَہْوَنَ عَلَیْہِ فِی ذَاتِ اللہِ مِنْ نَفْسِ ذُبَابٍ۔
(٣٦٤٧٦) حضرت عمران بن عبداللہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت سعید بن مسیب کا نفس، اللہ کے معاملہ میں ان پر مکھی سے بھی زیادہ ہلکا تھا۔

36476

(۳۶۴۷۷) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَیْدٍ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ، أَنَّ سَعِیدَ بْنَ الْمُسَیَّبِ کَانَ یُکْثِرُ أَنْ یَقُولَ فِی مَجْلِسِہِ : اللَّہُمَّ سَلِّمْ سَلِّمْ۔
(٣٦٤٧٧) حضرت یحییٰ بن سعید سے روایت ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ حضرت سعید بن مسیب اپنی مجلس میں اکثر یہ کہا کرتے تھے۔ اے اللہ ! سلامتی فرما۔ اے اللہ ! سلامتی فرما۔

36477

(۳۶۴۷۸) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَۃَ ، عَنْ یَزِیدَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ الْحَارِثِ ، قَالَ : قَالَ کَعْبٌ : مَا نَظَرَ اللَّہُ إِلَی الْجَنَّۃِ قَطُّ إِلاَّ ، قَالَ : طِبْتِ لأَہْلِکَ فَازْدَادَتْ عَلَی مَا کَانَتْ طِیبًا حَتَّی یَدْخُلَہَا أَہْلُہَا۔ (طبرانی ۷۵)
(٣٦٤٧٨) حضرت کعب کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جنت کی طرف کبھی نہیں دیکھا مگر یہ کہ فرمایا : تم اپنے اہل کے لیے اچھی ہوجاؤ۔ چنانچہ وہ اپنی اچھائی کے باوجود مزید اچھی ہوتی ہے یہاں تک کہ اہل جنت جنت میں داخل ہوجائیں گے۔

36478

(۳۶۴۷۹) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، قَالَ : حَدَّثَنَا أَبُو عِمْرَانَ الْجَوْنِیُّ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ رَبَاحٍ الأَنْصَارِیِّ ، عَنْ کَعْبٍ ، قَالَ : قَالَ إبْرَاہِیمُ : یَا رَبِ ، إنِّی لَیَحْزُنُنِی أَنْ لاَ أَرَی أَحَدًا فِی الأَرْضِ یَعْبُدُک غَیْرِی ، فَبَعَثَ اللَّہُ مَلاَئِکَۃً تُصَلِّی مَعَہُ وَتَکُونُ مَعَہُ۔
(٣٦٤٧٩) حضرت کعب سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت ابراہیم نے عرض کیا۔ اے پروردگار ! مجھے اس بات سے غم ہوتا ہے کہ روئے زمین پر میرے علاوہ تیری عبادت کوئی نہ کرے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو بھیجا جو حضرت ابراہیم کے ساتھ ہوتے تھے اور ان کے ساتھ نماز پڑھتے تھے۔

36479

(۳۶۴۸۰) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ یَمَانٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ ثَوْبَانَ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ ضَمْرَۃَ ، عَنْ کَعْبٍ ، قَالَ : الدُّنْیَا مَلْعُونَۃٌ مَلْعُونٌ مَا فِیہَا إِلاَّ مُتَعَلِّمَ خَیْرٍ ، أَوْ مُعَلِّمَہُ۔
(٣٦٤٨٠) حضرت کعب سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ دنیا اور جو کچھ دنیا میں ہے وہ سارا کچھ ملعون ہے سوائے خیر کے سیکھنے اور سکھانے والے کے۔

36480

(۳۶۴۸۱) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، قَالَ : أَخْبَرَنِی عَلِیُّ بْنُ زَیْدٍ ، عَنْ مُطَرِّفٍ أنَّ کَعْبًا قَالَ فِی قَوْلِہِ : {وَفُرُشٍ مَرْفُوعَۃٍ} قَالَ : عَلَی مَسِیرَۃ أَرْبَعِینَ عَامًا۔
(٣٦٤٨١) حضرت مطرف سے روایت ہے کہ حضرت کعب نے ارشادِ خداوندی (وَفُرُشٍ مَرْفُوعَۃٍ ) کے بارے میں فرمایا : چالیس سال کی مسافت تک۔

36481

(۳۶۴۸۲) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا ہَمَّامٌ ، قَالَ : حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ أَسْلَمَ عْن عَطَائِ بْنِ یَسَارٍ ، عَنْ کَعْبٍ ، قَالَ : یُؤْتَی بِالرَّئِیسِ فِی الْخَیْرِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ فَیُقَالَ لَہُ : أَجِبْ رَبَّک ، فَیُنْطَلَقُ بِہِ إِلَی رَبِّہِ فَلاَ یُحْجَبُ عَنْہُ ، فَیُؤْمَرُ بِہِ إِلَی الْجَنَّۃِ فَیَرَی مَنْزِلَہُ وَمَنَازِلَ أَصْحَابِہِ الَّذِینَ کَانُوا یُجَامِعُونَہُ عَلَی الْخَیْرِ وَیُعِینُونَہُ عَلَیْہِ ، فَیُقَالَ لَہُ : ہَذِہِ مَنْزِلَۃُ فُلاَنٍ وَہَذِہِ مَنْزِلَۃُ فُلاَنٍ ، فَیَرَی مَا أَعَدَّ اللَّہُ لَہُ فِی الْجَنَّۃِ مِنَ الْکَرَامَۃِ ، وَیَرَی مَنْزِلَتَہُ أَفْضَلَ مِنْ مَنَازِلِہِمْ ، وَیُکْسَی مِنْ ثِیَابِ الْجَنَّۃِ وَیُوضَعُ عَلَی رَأْسِہِ تَاجٌ ، ویغلَّفہ مِنْ رِیحِ الْجَنَّۃِ ، وَیُشْرِقُ وَجْہُہُ حَتَّی یَکُونَ مِثْلَ الْقَمَرِ ، قَالَ ہَمَّامٌ : أَحْسَبُہُ ، قَالَ : لَیْلَۃَ الْبَدْرِ ، قَالَ : فَیَخْرُجُ فَلاَ یَرَاہُ أَہْلُ مَلأ إِلاَّ قَالُوا : اللَّہُمَّ اجْعَلْہُ مِنْہُمْ ، حَتَّی یَأْتِیَ أَصْحَابَہُ الَّذِینَ کَانُوا یُجَامِعُونَہُ عَلَی الْخَیْرِ وَیُعِینُونَہُ عَلَیْہِ فَیَقُولُ : أَبْشِرْ یَا فُلاَنُ ، فَإِنَّ اللَّہَ قَدْ أَعَدَّ لَک فِی الْجَنَّۃِ کَذَا ، وَأَعَدَّ لَک فِی الْجَنَّۃِ کَذَا وَکَذَا ، فَمَا زَالَ یُخْبِرُہُمْ بِمَا أَعَدَّ اللَّہُ لَہُمْ فِی الْجَنَّۃِ مِنَ الْکَرَامَۃِ حَتَّی یَعْلُوَ وُجُوہَہُمْ مِنَ الْبَیَاضِ مِثْلُ مَا عَلاَ وَجْہَہُ ، فَیَعْرِفُہُمَ النَّاسُ بِبَیَاضِ وُجُوہِہِمْ فَیَقُولُونَ : ہَؤُلاَئِ أَہْلُ الْجَنَّۃِ ، وَیُؤْتَی بِالرَّئِیسِ فِی الشَّرِّ فَیُقَالَ لَہُ : أَجِبْ رَبَّک ، فَیُنْطَلَقُ بِہِ إِلَی رَبِّہِ فَیُحْجَبُ عَنْہُ وَیُؤْمَرُ بِہِ إِلَی النَّارِ ، فَیَرَی مَنْزِلَتہُ وَمَنَازِلَ أَصْحَابِہِ ، فَیُقَالَ : ہَذِہِ مَنْزِلَۃُ فُلاَنٍ وَہَذِہِ مَنْزِلَۃُ فُلاَنٍ ، فَیَرَی مَا أَعَدَّ اللَّہُ لَہُ فِیہَا مِنَ الْہَوَانِ ، وَیَرَی مَنْزِلَتَہُ شَرًّا مِنْ مَنَازِلِہِمْ ، قَالَ : فَیَسْوَدُّ وَجْہُہُ وَتَزْرَقُّ عَیْنَاہُ ، وَیُوضَعُ عَلَی رَأْسِہِ قَلَنْسُوَۃٌ مِنْ نَارٍ ، فَیَخْرُجُ فَلاَ یَرَاہُ أَہْلُ مَلاَ إِلاَّ تَعَوَّذُوا بِاللہِ مِنْہُ ، فَیَأْتِی أَصْحَابَہُ الَّذِینَ کَانُوا یُجَامِعُونَہُ عَلَی الشَّرِّ وَیُعِینُونَہُ عَلَیْہِ ، قَالَ : فَیَقُولُونَ : نَعُوذُ بِاللہِ مِنْک ، قَالَ : فَیَقُولُ : مَا أَعَاذَکُمَ اللَّہُ مِنِّی ، فَیَقُولُ لَہُمْ : أَمَا تَذْکُرُ یَا فُلاَنُ کَذَا وَکَذَا ، فَیُذَکِّرُہُمَ الشَّرَّ الَّذِی کَانُوا یُجَامِعُونَہُ وَیُعِینُونَہُ عَلَیْہِ ، فَمَا یزَالَ یُخْبِرُہُمْ بِمَا أَعَدَّ اللَّہُ لَہُمْ فِی النَّارِ حَتَّی یَعْلُوَ وُجُوہَہُمْ مِنَ السَّوَادِ مِثْلُ مَا عَلاَ وَجْہَہُ ، فَیَعْرِفُہُمَ النَّاسُ بِسَوَادِ وُجُوہِہِمْ فَیَقُولُونَ : ہَؤُلاَئِ أَہْلُ النَّارِ۔
(٣٦٤٨٢) حضرت کعب سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ قیامت کے دن خیر میں سرداری کرنے والے ایک سردار کو لایا جائے گا اور اس کو کہا جائے گا۔ اپنے رب کو جواب دو ۔ پھر اس کو اس کے رب کی طرف لے جایا جائے گا اور اس سے حجاب نہیں کیا جائے گا۔ پھر اس کو جنت کی طرف جانے کا حکم دیا جائے گا چنانچہ وہ اپنی اور اپنے ساتھ خیر کے کاموں میں معاونت اور ہاتھ بٹانے والوں کی منزلیں دیکھے گا۔ اور اس کو کہا جائے گا یہ فلاں کی منزل ہے اور یہ فلاں کی منزل ہے۔ چنانچہ جو کچھ اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے جنت میں عزت ومقام تیار کیا ہوگا یہ اس کو دیکھے گا۔ اور یہ اپنی منزل کو دیگر لوگوں کی منزلوں سے افضل دیکھے گا۔ اور اس کو جنت کے کپڑے پہنائے جائیں گے۔ اور اس کے سر پر تاج رکھا جائے گا اور اس پر جنت کی ہوا چڑھائی جائے گی۔ اور اس کے چہرے کو اتنا چمکایا جائے گا کہ وہ چاند کی طرح ہوجائے گا ہمام راوی کا کہنا ہے۔ میرے خیال میں استاد نے کہا تھا۔ ماہِ تمام کی طرح ۔۔۔ ہوجائے گا۔ راوی کہتے ہیں۔ پھر وہ باہر آئے گا۔ اس کو جو لوگ بھی دیکھیں گے وہ یہی کہیں گے۔ اے اللہ اس کو ان میں سے کردے یہاں تک کہ یہ ان لوگوں کے پاس آئے گا جو اس کے ساتھ کارخیر میں معاونت اور شرکت کرتے تھے۔ اور کہے گا۔ اے فلاں ! تجھے خوشخبری ہو۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے تیرے لیے جنت میں ایسی ایسی تیاری کر رکھی ہے۔ اور تیرے لیے جنت میں یہ، یہ تیار کیا ہے۔ پس وہ ان لوگوں کو ان نعمتوں کے بارے میں بتاتا رہے گا جو اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے جنت میں بنا رکھی ہیں یہاں تک کہ ان کے چہروں پر بھی ایسی ہی سفیدی چڑھ جائے گی جیسی اس کے چہرے پر چڑھی ہوئی ہوگی۔ چنانچہ لوگ انھیں ان کے چہروں کی سفیدی سے پہچانیں گے اور کہیں گے۔ یہ لوگ اہل جنت ہیں۔
(اور شریروں کے سردار کو لایا جائے گا اور اس کو کہا جائے گا۔ تو اپنے رب کو جواب دے۔ پس اس کو اس کے رب کی طرف لے جایا جائے گا۔ پھر اس سے پردہ کردیا جائے گا اور اس کو جہنم کی طرف جانے کا حکم دیا جائے گا اور وہ (وہاں) اپنی اور اپنے ساتھیوں کی منزل دیکھے گا۔ اس کو کہا جائے گا۔ یہ فلاں کی منزل ہے اور یہ فلاں کی منزل ہے پس وہ وہاں خدا کی طرف سے تیار کردہ ذلت کو دیکھے گا اور وہ اپنی منزل دیگر تمام لوگوں سے بدتر دیکھے گا۔ راوی کہتے ہیں۔ اس پر اس کا چہرہ سیاہ اور آنکھیں نیلی ہوجائیں گی اور اس کے سر پر آگ کی ٹوپی رکھی جائے گی۔ پھر یہ باہر آئے گا تو اس کو جو جماعت بھی دیکھے گی وہ اس سے خدا کی پناہ مانگے گی۔ پھر وہ اپنے ان ساتھیوں کے پاس آئے گا جو اس کے ساتھ شر میں معاونت وشرکت کرتے تھے۔ راوی کہتے ہیں۔ وہ لوگ کہیں گے۔ ہم تجھ سے خدا کی پناہ مانگتے ہیں۔ راوی کہتے ہیں۔ وہ کہے گا۔ اللہ تعالیٰ تمہیں مجھ سے پناہ نہ دے پھر یہ ان سے کہے گا۔ اے فلاں ! یہ یہ بات یاد کر۔ چنانچہ یہ ان کو وہ تمام شرارتیں یاد دلائے گا جس کو یہ سب اکٹھے اور باہم معاونت سے کرتے تھے۔ یہ انھیں جہنم میں ان کے لیے تیار شدہ عذاب کی بات کرتا رہے گا۔ یہاں تک کہ اس کے چہرے پر چڑھی ہوئی سیاہی کی طرح ان کے چہرے پر بھی سیاہی چڑھ جائے گی اور لوگ ان کو ان کے چہرے کی سیاہی کی وجہ سے پہچان لیں گے اور لوگ کہیں گے۔ یہ جہنم والے ہیں۔

36482

(۳۶۴۸۳) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ ، قَالَ : قَالَ لَنَا أَبِی : إذَا رَأَی أَحَدُکُمْ شَیْئًا مِنْ زِینَۃِ الدُّنْیَا وَزَہْرَتِہَا فَلْیَأْتِ أَہْلَہُ فَلْیَأْمُرْہُمْ بِالصَّلاَۃِ وَلْیَصْطَبِرْ عَلَیْہَا ، فَإِنَّ اللَّہَ ، قَالَ لِنَبِیِّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : {وَلاَ تَمُدَّنَّ عَیْنَیْک إِلَی مَا مَتَّعْنَا بِہِ أَزْوَاجًا مِنْہُمْ} ثُمَّ قَرَأَ إِلَی آخِرِ الآیَۃِ۔
(٣٦٤٨٣) حضرت ہشام بن عروہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ ہمیں، میرے والد صاحب نے کہا تھا : جب تم میں سے کوئی دنیا کی زینت اور خوب صورتی کو دیکھے تو اس کو چاہیے کہ وہ اپنے گھر والوں کے پاس آئے اور ان کو نماز پڑھنے اور اس پر ٹھہرنے کا حکم دے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فرمایا : { وَلاَ تَمُدَّنَّ عَیْنَیْک إِلَی مَا مَتَّعْنَا بِہِ أَزْوَاجًا مِنْہُمْ } پھر آپ (رض) نے آخر تک یہ آیت تلاوت فرمائی۔

36483

(۳۶۴۸۴) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ، قَالَ: إذَا رَأَیْت الرَّجُلَ یَعْمَلُ الْحَسَنَۃَ فَاعْلَمْ، أَنَّ لَہَا عِنْدَہُ أَخَوَاتٍ، فَإِنَّ الْحَسَنَۃَ تَدُلُّ عَلَی أُخْتِہَا ، وَإِذَا رَأَیْتہ یَعْمَلُ السَّیِّئَۃَ فَاعْلَمْ ، أَنَّ لَہَا عِنْدَہُ أَخَوَاتٍ، فَإِنَّ السَّیِّئَۃَ تَدُلُّ عَلَی أُخْتِہَا۔
(٣٦٤٨٤) حضرت ہشام بن عروہ، اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے فرمایا : جب تم کسی آدمی کو نیکی کرتے دیکھو تو جان لو کہ اس کے پاس اور بھی نیکیاں ہیں کیونکہ نیکی، نیکی پر دلالت کرتی ہے۔ اور جب تم کسی آدمی کو گناہ کرتے دیکھو تو جان لو کہ اس کے پاس اور بھی گناہ ہیں کیونکہ گناہ گناہ پر دلالت کرتا ہے۔

36484

(۳۶۴۸۵) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ بُکَیْر ، قَالَ: حدَّثَنَا إبْرَاہِیمُ بْنُ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ طَاوُوسٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ: حُلو الدُّنْیَا مُرٌّ الآخِرَۃِ ، وَمُرُّ الدُّنْیَا حُلو الآخِرَۃِ۔
(٣٦٤٨٥) حضرت طاوس فرماتے ہیں کہ دنیا کی مٹھاس آخرت کی کرواہٹ ہے اور دنیا کی کرواہٹ آخرت کی مٹھاس ہے۔

36485

(۳۶۴۸۶) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللہِ الأَسَدِیُّ ، قَالَ: حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ رَجُلٍ ، عَنْ طَاوُوسٍ، قَالَ: إنَّ الْمُؤْمِنَ لاَ یَحْرُزُ دِینَہُ إِلاَّ حُفْرَتُہُ۔
(٣٦٤٨٦) حضرت طاوس فرماتے ہیں کہ مومن کے دین کو اس کی قبر ہی بچا سکتی ہے۔

36486

(۳۶۴۸۷) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، قَالَ : حدَّثَنِی نَافِعُ بْنُ عُمَرَ ، عَنْ بشر بْنِ عَاصِمٍ ، قَالَ : قَالَ طَاوُوسٌ : مَا رَأَیْت مِثْلَ أَحَدٍ أَمِنَ عَلَی نَفْسِہِ قَدْ رَأَیْت رَجُلاً لَوْ قِیلَ لِی : مَنْ أَفْضَلُ مَنْ تَعْرِفُ قُلْتُ : فُلاَنٌ لِذَلِکَ الرَّجُلِ ، فَمَکَثَ عَلَی ذَلِکَ ، ثُمَّ أَخَذَہُ وَجَعٌ فِی بَطْنِہِ فَأَصَابَہُ مِنْہُ شَیْئٌ فَاسْتَسَحَّ بَطْنَہُ عَلَیْہِ وَاشْتَہَاہُ فباحتہ فَرَأَیْتہ فِی نِطْعٍ مَا أَدْرِی أَیُّ طَاقَیْہِ أَسْرَعُ حَتَّی مَاتَ عَرَقًا۔
(٣٦٤٨٧) ۔۔۔گذارش : حضرت طاوس کے اس اثر کا ترجمہ بالکل واضح نہیں ہوسکا۔ مصنف ابن ابی شیبہ کے محقق محمد عوامہ اس اثر کے حاشیے میں فرماتے ہیں ” وتتمۃ الخبر لم یتضح لی معناہ “ ؟ ؟

36487

(۳۶۴۸۸) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ أَبِی ہَاشِمٍ ، عَنْ طَاوُوسٍ ، قَالَ : کَانَ قَمِیصُہُ فَوْقَ الإِزَارِ وَالرِّدَائُ فَوْقَ الْقَمِیصِ۔
(٣٦٤٨٨) حضرت ابو ہاشم فرماتے ہیں کہ حضرت طاوس کی قمیص ازار سے اوپر اور ان کی چادر قمیص سے اوپر ہوتی تھی۔

36488

(۳۶۴۸۹) حَدَّثَنَا الْمُحَارِبِیُّ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ طَاوُوسٍ ، قَالَ : أَلاَ رَجُلٌ یَقُومُ بِعَشْرِ آیَاتٍ مِنَ اللَّیْلِ فَیُصْبِحُ قَدْ کُتِبَ لَہُ مِئَۃُ حَسَنَۃٍ وَأَکْثَرُ مِنْ ذَلِکَ۔
(٣٦٤٨٩) حضرت طاوس فرماتے ہیں کہ جو شخص رات کو نماز میں دس آیات کی تلاوت کرے تو صبح میں اس کے لیے سو یا اس سے زیادہ نیکیاں لکھی جاتی ہیں۔

36489

(۳۶۴۹۰) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ أَبِی سِنَانٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ، قَالَ: التَّوَکُّلُ عَلَی اللہِ جِمَاعُ الإِیمَانِ۔
(٣٦٤٩٠) حضرت سعید بن جبیر (رض) فرماتے ہیں کہ اللہ پر توکل کرنا ایمان کی بنیاد ہے۔

36490

(۳۶۴۹۱) حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ أَبِی سِنَانٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ، أَنَّہُ کَانَ یَقُولُ : اللَّہُمَّ إنِّی أَسْأَلُک صِدْقَ التَّوَکُّلِ عَلَیْک وَحُسْنَ الظَّنِّ بِک۔
(٣٦٤٩١) حضرت سعید بن جبیر (رض) فرماتے تھے کہ اے اللہ ! میں تجھ سے تجھ پر سچے بھروسے کی صفت کا سوال کرتا ہوں اور تیرے ساتھ سچا گمان کرنے کا سوال کرتا ہوں۔

36491

(۳۶۴۹۲) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ بُکَیْرِ بْنِ عَتِیقٍ ، قَالَ سَقَیْت سَعِیدَ بْنَ جُبَیْرٍ شَرْبَۃً مِنْ عَسَلٍ فِی قَدَحٍ فَشَرِبَہَا ، ثُمَّ قَالَ : وَاللہِ لأسْأَلَنَّ ، عَنْ ہَذَا ، فَقُلْتُ : لِمَہْ ؟ فَقَالَ : شَرِبْتہ وَأَنَا أَسْتَلِذُّہُ۔
(٣٦٤٩٢) حضرت بکیر بن عتیق فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت سعید بن جبیر کو ایک پیالے میں شہد کا ایک گھونٹ پلایا تو انھوں نے مجھ سے فرمایا کہ خدا کی قسم ! مجھ سے اس کے بارے میں بھی سوال کیا جائے گا۔ میں نے کہا وہ کیوں ؟ انھوں نے فرمایا کہ میں نے اس کو پیا ہے اور اس سے لذت اٹھائی ہے۔

36492

(۳۶۴۹۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ ذَرٍّ ، قَالَ: قرَأْت کِتَابَ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ إِلَی أَبِی: یَا أَبَا عُمَرَ ، کُلُّ یَوْمٍ یَعِیشُ فِیہِ الْمُسْلِمُ فَہُوَ غَنِیمَۃٌ۔
(٣٦٤٩٣) حضرت عمر بن ذر کہتے ہیں کہ میں نے حضرت سعید بن جبیر کا وہ خط پڑھا جو انھوں نے میرے والد کی طرف لکھا، اس میں مکتوب تھا کہ ہر وہ دن جس میں مسلمان زندہ رہے وہ اس کے لیے غنیمت ہے۔

36493

(۳۶۴۹۴) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ یَمَانٍ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنْ جَعْفَرٍ ، عَنِ ابْنِ جُبَیْرٍ {بَلْ مَکْرُ اللَّیْلِ وَالنَّہَارِ} قَالَ مَرُّ اللَّیْلِ وَالنَّہَارِ۔
(٣٦٤٩٤) حضرت سعید بن جبیر قرآن مجید کی آیت { بَلْ مَکْرُ اللَّیْلِ وَالنَّہَارِ } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اس سے مراد دن اور رات کا گذرنا ہے۔

36494

(۳۶۴۹۵) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ یَمَانٍ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنْ جَعْفَرٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ، قَالَ : ذَاکِرُ اللہِ فِی الْغَافِلِینَ کَحَامِی الْمُحْتَسِبِینَ۔
(٣٦٤٩٥) حضرت سعید بن جبیر فرماتے ہیں کہ غفلت والوں میں اللہ کا ذکر کرنے والا ایسے ہے جیسے قیدیوں کی حفاظت کرنے والا۔

36495

(۳۶۴۹۶) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ یَمَانٍ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنْ جَعْفَرٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ {وَمَا ہُوَ بِالْہَزْلِ} قَالَ: وَمَا ہُوَ بِاللَّعِبِ۔
(٣٦٤٩٦) حضرت سعید بن جبیر قرآن مجید کی آیت { وَمَا ہُوَ بِالْہَزْلِ } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اس سے مراد لعب ہے۔

36496

(۳۶۴۹۷) حَدَّثَنَا ابْنُ یَمَانٍ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ سَلَمَۃَ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ {فَسُحْقًا لأَصْحَابِ السَّعِیرِ} قَالَ : وَادٍ فِی جَہَنَّمَ۔
(٣٦٤٩٧) حضرت سعید بن جبیر قرآن مجید کی آیت { فَسُحْقًا لأَصْحَابِ السَّعِیرِ } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اس سے مراد جہنم کی ایک وادی ہے۔

36497

(۳۶۴۹۸) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ مَالِکِ بْنِ مِغْوَلٍ ، عَنِ الرَّبِیعِ بْنِ أَبِی رَاشِدٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ : {یَا عِبَادِی الَّذِینَ آمَنُوا إنَّ أَرْضِی وَاسِعَۃٌ} قَالَ : مَنْ أُمِرَ بِمَعْصِیَۃٍ فَلْیَہْرُبْ۔
(٣٦٤٩٨) حضرت سعید بن جبیر قرآن مجید کی آیت { یَا عِبَادِی الَّذِینَ آمَنُوا إنَّ أَرْضِی وَاسِعَۃٌ} کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اللہ کی زمین بہت وسیع ہے، جیسے معصیت کا حکم دیا جائے وہ بھاگ جائے۔

36498

(۳۶۴۹۹) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا الأَصْبَغُ بْنُ زَیْدٍ ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ أَبِی أَیُّوبَ أنَّ سَعِیدَ بْنَ جُبَیْرٍ رَدَّدَ ہَذِہِ الآیَۃَ : {وَاتَّقُوا یَوْمًا تُرْجَعُونَ فِیہِ إِلَی اللہِ} بِضْعًا وَعِشْرِینَ مَرَّۃً۔
(٣٦٤٩٩) حضرت قاسم بن ابی ایوب فرماتے ہیں کہ حضرت سعید بن جبیر نے قرآن مجید کی آیت { وَاتَّقُوا یَوْمًا تُرْجَعُونَ فِیہِ إِلَی اللہِ } کو بیس سے زیادہ مرتبہ دہرایا۔

36499

(۳۶۵۰۰) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِِ ، عَنْ عَطَائٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ فِی قَوْلِہِ : {إنَّا ہُدْنَا إلَیْک} قَالَ : تُبْ
(٣٦٥٠٠) حضرت سعید بن جبیر قرآن مجید کی آیت {إنَّا ہُدْنَا إلَیْک } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ ہم نے توبہ کی۔

36500

(۳۶۵۰۱) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللہِ الزُّبَیْرِیُّ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ مُوسَی بْنِ أَبِی عَائِشَۃَ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ {بَلَ الإِنْسَان عَلَی نَفْسِہِ بَصِیرَۃٌ} قَالَ : شَاہِدٌ عَلَی نَفْسِہِ وَلَوَ اعْتَذَرَ۔
(٣٦٥٠١) حضرت سعید بن جبیر قرآن مجید کی آیت { بَلَ الإِنْسَان عَلَی نَفْسِہِ بَصِیرَۃٌ} کی تفسیر میں فرماتے ہیں انسان اپنے نفس پر گواہ خواہ عذر پیش کرلے۔

36501

(۳۶۵۰۲) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ أَبِی بِشْرٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ {لاَ جَرَمَ أَنَّ لَہُمُ النَّارَ وَأَنَّہُمْ مُفْرَطُونَ} قَالَ : مَنْسِیُّونَ مُضَیَّعُونَ۔
(٣٦٥٠٢) حضرت سعید بن جبیر قرآن مجید کی آیت { لاَ جَرَمَ أَنَّ لَہُمُ النَّارَ وَأَنَّہُمْ مُفْرَطُونَ } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ وہ بھلا دیجئے جائیں گے، ضائع کردیئے جائیں گے۔

36502

(۳۶۵۰۳) حَدَّثَنَا أَسْبَاطُ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَطَائٍ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ {وَنَکْتُبُ مَا قَدَّمُوا وَآثَارَہُمْ} قَالَ: مَا نَسوا۔
(٣٦٥٠٣) حضرت سعید بن جبیر قرآن مجید کی آیت { وَنَکْتُبُ مَا قَدَّمُوا وَآثَارَہُمْ } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ جو وہ بھول چکے۔

36503

(۳۶۵۰۴) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ أَبِی عُبَیْدَۃَ ، قَالَ : یَقُولُ ، یَعْنِی اللَّہَ تَبَارَکَ وَتَعَالَی : مَا بَالُ أَقْوَامٍ یَتَفَقَّہُونَ بِغَیْرِ عِبَادَتِی ، یَلْبَسُونَ مُسُوکَ الضَّأْنِ وَقُلُوبُہُمْ أَمَرُّ مِنَ الصَّبِرِ ، أَبِی یَغْتَرُّونَ أَمْ إیَّایَ یَخْدَعُونَ فَبِی حَلَفْت لأُتِیحَنَّ لَہُمْ فِتْنَۃً فِی الدُّنْیَا تَدَعُ الْحَلِیمَ مِنْہُمْ حَیْرَاناً۔ (ابن المبارک ۵۰)
(٣٦٥٠٤) حضرت ابو عبیدہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ان لوگوں کو کیا ہواجومیری عبادت کے بغیر سمجھدار بننا چاہتے ہیں ؟ وہ بھیڑ کی کھال اوڑھتے ہیں لیکن ان کے دل ایلوے (ایک کڑوا پھل) سے زیادہ کڑوے ہیں۔ کیا وہ میری وجہ سے دھوکے میں ہیں یا مجھے دھوکا دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ میں اپنی قسم کھا کر کہتاہوں کہ میں انھیں دنیا میں ایسے فتنے میں مبتلا کروں گا جو ان میں سے بردبار کو بھی حیران و سرگرداں کردے گا۔

36504

(۳۶۵۰۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إسْرَائِیلَ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِی عُبَیْدَۃَ ، أَنَّ جَبَّارًا مِنَ الْجَبَابِرَۃِ ، قَالَ : لاَ أَنْتَہِی حَتَّی أَنْظُرَ إِلَی مَنْ فِی السَّمَائِ ، قَالَ : فَسَلَّطَ اللَّہُ عَلَیْہِ أَضْعَفَ خَلْقِہِ فَدَخَلَتْ بَقَّۃٌ فِی أَنْفِہِ فَأَخَذَہُ الْمَوْتُ ، فَقَالَ : اضْرِبُوا رَأْسِی ، فَضَرَبُوہُ حَتَّی نَثَرُوا دِمَاغَہُ۔
(٣٦٥٠٥) حضرت ابو عبیدہ فرماتے ہیں کہ ایک متکبر اور سرکش شخص نے کہا کہ میں اس وقت تک ظلم سے باز نہیں آؤں گا جب تک میں آسمان میں موجود ساری مخلوق کو نہیں دیکھ لیتا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے اس پر اپنی ایک کمزور ترین مخلوق کو مسلط کردیا۔ ایک جوں اس کے ناک میں داخل ہوئی اور اس کی موت کا سبب بن گئی۔ وہ کہتا تھا کہ میرے سر پر مارو، لوگوں نے اس کے سر پر اتنامارا کہ اس کا دماغ ظاہر ہوگیا۔

36505

(۳۶۵۰۶) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ مِسْعَرٍ ، عَنْ رَبِیعٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا عُبَیْدَۃَ یَقُولُ : إنَّ الْحُکْمَ الْعَدْلَ لَیُسَکِّنُ الأَصْوَاتَ عَنِ اللہِ ، وَإِنَّ الْحُکْمَ الْجَائِرَ تَکْثُرُ مِنْہُ الشَّکَاۃُ إِلَی اللہِ۔
(٣٦٥٠٦) حضرت ابو عبیدہ فرماتے ہیں کہ انصاف کی حکومت اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والی آوازوں کو خاموش کر ا دیتی ہے اور ظلم والی حکومت سے اللہ کی طرف جانے والی شکایتیں بڑھ جاتی ہیں۔

36506

(۳۶۵۰۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِی عُبَیْدَۃَ {إنَّ ہَؤُلاَئِ لَشِرْذِمَۃٌ قَلِیلُونَ} قَالَ : کَانُوا سِتَّ مِئَۃِ أَلْفٍ وَسَبْعِینَ أَلْفًا۔
(٣٦٥٠٧) حضرت ابو عبیدہ قرآن مجید کی آیت {إنَّ ہَؤُلاَئِ لَشِرْذِمَۃٌ قَلِیلُونَ } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ وہ چھ لاکھ ستر ہزار لوگ تھے۔

36507

(۳۶۵۰۸) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ مِسْعَرٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ عَبْدَ الأَعْلَی التَّیْمِیَّ یَقُولُ : مَنْ أُوتِیَ مِنَ الْعِلْمِ مَا لاَ یُبْکِیہِ لخَلِیقٌ أَنْ لاَ یَکُونَ أُوتِیَ عِلْمًا یَنْفَعُہُ، لأَنَّ اللَّہَ نَعَتَ الْعُلَمَائَ، ثُمَّ قَرَأَ إِلَی قَوْلِہِ {یَبْکُونَ}۔ (ابن المبارک ۱۲۵)
(٣٦٥٠٨) حضرت ابو عبیدہ تیمی فرماتے ہیں کہ جسے وہ علم دے گیا جو اسے رونے پر نہ ابھارے وہ اس لائق ہے کہ اس کے بارے میں کہا جائے کہ اسے علم نافع عطا نہیں ہوا۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے علماء کی تعریف فرمائی ہے۔ پھر یہ آیت تلاوت فرمائی { اِنَّ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ مِنْ قَبْلِہٖٓ اِذَا یُتْلٰے عَلَیْھِمْ یَخِرُّوْنَ لِلْاَذْقَانِ سُجَّدًا٭ وَّ یَقُوْلُوْنَ سُبْحٰنَ رَبِّنَآ اِنْ کَانَ وَعْدُ رَبِّنَا لَمَفْعُوْلًا٭ وَ یَخِرُّوْنَ لِلْاَذْقَانِ یَبْکُوْنَ }

36508

(۳۶۵۰۹) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، قَالَ : قَالَ عَبْدُ الأَعْلَی التَّیْمِیِّ قَالَ : ما من أہل دار إِلاَّ ملک الموت یتصفحہم فی الیوم مرتین۔
(٣٦٥٠٩) حضرت عبد الاعلیٰ تیمی فرماتے ہیں کہ موت کا فرشتہ ہر گھر میں دن میں دو مرتبہ جھانکتا ہے۔

36509

(۳۶۵۱۰) حَدَّثَنَا ابْنِِ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ مِسْعَرٍ ، عَنْ عَبْدِ الأَعْلَی التَّیْمِیِّ ، قَالَ : الْجَنَّۃُ وَالنَّارُ لَقِنَتَا السَّمْعَ مِنْ بَنِی آدَمَ ، فَإِذَا سَأَلَ الرَّجُلُ الْجَنَّۃَ ، قَالَتْ : اللَّہُمَّ أَدْخِلْہُ فِیَّ ، وَإِذَا اسْتَعَاذَ مِنَ النَّارِ ، قَالَتْ : اللَّہُمَّ أَعِذْہُ مِنِّی۔
(٣٦٥١٠) حضرت عبد الاعلیٰ تیمی فرماتے ہیں کہ جنت اور دوزخ انسان کی باتوں کو سنتی ہیں، جب انسان جنت کا سوال کرتا ہے اور جنت کہتی ہے کہ اللہ ! اسے مجھ میں داخل فرما اور انسان جب جہنم سے پناہ مانگتا ہے تو جہنم کہتی ہے کہ اے اللہ ! اسے مجھ سے پناہ عطا فرما۔

36510

(۳۶۵۱۱) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، قَالَ : کَانَ أَبُو صَالِحٍ یَؤُمُّنَا ، فَکَانَ لاَ یُبَیِّنُ الْقِرَائَۃَ مِنَ الرِّقَّۃِ۔
(٣٦٥١١) حضرت اعمش فرماتے ہیں کہ حضرت ابو صالح ہمیں نماز پڑھایا کرتے تھے۔ بعض اوقات ان پر اتنی رقت طاری ہوجاتی کہ قراءت کو واضح نہ کرسکتے تھے۔

36511

(۳۶۵۱۲) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، عَنْ مِسْعَرٍ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِی صَالِحٍ ، قَالَ : یُحْشَرُ النَّاسُ ہَکَذَا وَوَضَعَ رَأْسَہُ وَأَمْسَکَ بِیَمِینِہِ عَلَی شِمَالِہِ عِنْدَ صَدْرِہِ۔
(٣٦٥١٢) حضرت ابو صالح نے ایک مرتبہ فرمایا کہ قیامت کے دن لوگوں کو یوں جمع کیا جائے گا، یہ فرماکر انھوں نے اپنا سر جھکایا اور سینے کے پاس اپنے دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر رکھا۔

36512

(۳۶۵۱۳) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِی صَالِحٍ {یَا وَیْلَنَا مَنْ بَعَثَنَا مِنْ مَرْقَدِنَا} قَالَ : کَانُوا یَرَوْنَ ، أَنَّ الْعَذَابَ یُخَفَّفُ ، عَنْ أَہْلِ الْقُبُورِ مَا بَیْنَ النَّفْخَتَیْنِ ، فَإِذَا جَائَتِ النَّفْخَۃُ الثَّانِیَۃُ ، قَالُوا : {یَا وَیْلَنَا مَنْ بَعَثَنَا مِنْ مَرْقَدِنَا}۔
(٣٦٥١٣) حضرت ابو صالح قرآن مجید کی آیت { یَا وَیْلَنَا مَنْ بَعَثَنَا مِنْ مَرْقَدِنَا } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ وہ خیال کرتے تھے کہ دونوں نفخوں کے درمیان اہل قبور سے عذاب کو کم کردیا جائے گا۔ جب دوسرا نفخہ آئے گا تو وہ کہیں گے { یَا وَیْلَنَا مَنْ بَعَثَنَا مِنْ مَرْقَدِنَا }۔

36513

(۳۶۵۱۴) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِی صَالِحٍ ، قَالَ : طُوبَی شَجَرَۃٌ فِی الْجَنَّۃِ لَوْ أَنَّ رَاکِبًا رَکِبَ حِقَّۃً ، أَوْ جَذَعَۃً فَأَطَافَ بِہَا مَا بَلَغَ الْمَوْضِعَ الَّذِی رَکِبَ فِیہِ حَتَّی یَقْتُلَہُ الْہَرَمُ۔
(٣٦٥١٤) حضرت ابو صالح فرماتے ہیں کہ طوبیٰ جنت میں ایک درخت ہے، اگر کوئی سوار کسی جوان اونٹ پر سوارہو اور اس درخت کا چکرلگانا چاہے تو وہ بوڑھا ہو کر مرجائے گا لیکن دوبارہ اس جگہ نہیں پہنچ سکتا جہاں سے چلا تھا۔

36514

(۳۶۵۱۵) حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ سُلَیْمَانَ الرَّازِیّ ، قَالَ : حدَّثَنَا أَبُو سِنَانٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃ ، عَنْ أَبِی صَالِحٍ ، قَالَ : یُحَاسِبُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ الَّذِینَ أَرْسَلَ إلَیْہِمَ الرُّسُلَ فَیُدْخِلُ الْجَنَّۃَ مَنْ أَطَاعَہُ وَیُدْخِلُ النَّارَ مَنْ عَصَاہُ : وَیَبْقَی قَوْمٌ مِنَ الْوِلْدَانِ وَالَّذِینَ ہَلَکُوا فِی الْفَتْرَۃِ وَمَنْ غُلِبَ عَلَی عَقْلِہِ ، فَیَقُولُ الرَّبُّ تَبَارَکَ وَتَعَالَی لَہُمْ : قَدْ رَأَیْتُمْ إنَّمَا أَدْخَلْت الْجَنَّۃَ مَنْ أَطَاعَنِی وَأَدْخَلْت النَّارَ مَنْ عَصَانِی ، وَإِنِّی آمُرُکُمْ أَنْ تَدْخُلُوا ہَذِہِ النَّارَ ، فَیَخْرُجُ لَہُمْ عُنُقٌ مِنْہَا ، فَمَنْ دَخَلَہَا کَانَتْ نَجَاتَہُ ، وَمَنْ نَکَصَ فَلَمْ یَدْخُلْہَا کَانَتْ ہَلَکَتَہُ۔
(٣٦٥١٥) حضرت ابو صالح فرماتے ہیں کہ قیامت کے دن ان لوگوں سے حساب لیا جائے گا جن کی طرف رسول بھیجے جاتے تھے۔ ان کی اطاعت کرنے والے جنت میں اور نافرمانی کرنے والے جہنم میں جائیں گے، پھر بچوں، فترتِ رسل کے زمانے میں انتقال کرجانے والوں اور مغلوب العقل لوگ باقی رہ جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ ان سے فرمائے گا کہ تم نے دیکھ لیا کہ میں نے اپنی اطاعت کرنے والوں کو جنت میں اور اپنی نافرمانی کرنے والوں کو جہنم میں داخل کردیا۔ میں تمہیں حکم دیتا ہوں کہ تم اس آگ میں داخل ہوجاؤ۔ پھر جہنم سے ان کے لیے کچھ گردنیں نکلیں گی، جو اس میں داخل ہونے لگے گا وہ نجات پالے گا اور جو پیچھے ہٹے گا وہ ہلاک ہوجائے گا۔

36515

(۳۶۵۱۶) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ ، عَنْ أَبِی صَالِحٍ {وُجُوہٌ یَوْمَئِذٍ نَاضِرَۃٌ} قَالَ : حَسَنَۃٌ {إلَی رَبِّہَا نَاظِرَۃٌ} قَالَ : تَنْتَظِرُ الثَّوَابَ مِنْ رَبِّہَا۔
(٣٦٥١٦) حضرت ابو صالح فرماتے ہیں کہ قرآن مجید کی آیت { وُجُوہٌ یَوْمَئِذٍ نَاضِرَۃٌ} سے مراد خوبصورت چہرے اور {إلَی رَبِّہَا نَاظِرَۃٌ} سے مراد یہ ہے کہ وہ اپنے رب سے بدلے کا انتظار کررہے ہوں گے۔

36516

(۳۶۵۱۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ یَحْیَی، أَنَّہُ کَانَ إذَا صَلَّی کَأَنَّہُ یُخَاطِبُ رَجُلاً مِنْ إقْبَالِہِ عَلَی صَلاَتِہِ۔
(٣٦٥١٧) حضرت یحییٰ جب نماز پڑھتے تھے تو نماز میں ایسی توجہ ہوتی جیسے کسی آدمی سے بات کررہے ہوں۔

36517

(۳۶۵۱۸) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ یَحْیَی ، قَالَ : کَانُوا إذَا کَانَتْ فِیہِمْ جِنَازَۃٌ عُرِفَ ذَلِکَ فِی وُجُوہِہِمْ أَیَّامًا۔
(٣٦٥١٨) حضرت یحییٰ بن وثاب فرماتے ہیں کہ اسلاف جب کسی جنازے کو دیکھتے تھے تو کئی دن تک ان کے چہروں پر اس کے آثار باقی رہتے تھے۔

36518

(۳۶۵۱۹) حَدَّثَنَا حُمَیْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، قَالَ : کَانَ یَحْیَی إذَا قَضَی الصَّلاَۃَ مَکَثَ سَاعَۃً تُعْرَفُ عَلَیْہِ کَآبَۃُ الصَّلاَۃِ۔
(٣٦٥١٩) حضرت یحییٰ بن وثاب جب نماز پوری کرلیتے تھے کافی دیر تک ان کے چہرے پر نماز کے آثار دکھائی دیتے تھے۔

36519

(۳۶۵۲۰) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ ضِرَارِ بْنِ مُرَّۃَ ، قَالَ : لَقِیت الضَّحَّاکَ بِخُرَاسَانَ وَعَلَیَّ فَرْوٌ لِی خَلِقٌ ، فَقَالَ الضَّحَّاکُ : قَالَ أَبُو إدْرِیسَ : قَلْبٌ نَقِیٌّ فِی ثِیَابٍ دَنِسَۃٍ خَیْرٌ مِنْ قَلْبٍ دَنِسٍ فِی ثِیَابٍ نَقِیَّۃٍ۔
(٣٦٥٢٠) حضرت ضرار بن مرہ کہتے ہیں کہ میں خراسان میں حضرت ضحاک سے ملا، اس وقت میرے بدن پر پرانالباس تھا۔ حضرت ضحاک نے مجھ سے فرمایا کہ حضرت ابو ادریس فرماتے ہیں کہ میلے کپڑوں میں موجود صاف دل صاف کپڑوں میں موجود میلے دل سے بہتر ہے۔

36520

(۳۶۵۲۱) حَدَّثَنَا عَبِیدَۃُ بْنُ حُمَیْدٍ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ طَلْحَۃَ الْیَامِیِّ، عَنْ أَبِی إدْرِیسَ رَجُلٌ مِنْ أَہْلِ الْیَمَنِ، قَالَ: کَانَ یَقُولُ : اللَّہُمَّ اجْعَلْ نَظَرِی عِبَرًا وَصَمْتِی تَفَکُّرًا وَمَنْطِقِی ذِکْرًا۔
(٣٦٥٢١) حضرت ابو ادریس دعا مانگا کرتے تھے کہ اے اللہ ! میرے دیکھنے کو عبرت، میری خاموشی کو تفکر اور میری گویائی کو ذکر بنا دے۔

36521

(۳۶۵۲۲) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، قَالَ : حدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ سُلَیْمٍ ، قَالَ : قَالَ أَبُو مُسْلِمٍ الْخَوْلاَنِیُّ : کَانَ النَّاسُ وَرَقًا لاَ شَوْکَ فِیہِ ، وَإِنَّہُمَ الْیَوْمَ شَوْکٌ لاَ وَرَقَ فِیہِ ، إنْ سَابَبْتَہُمْ سَابُّوک ، وَإِنْ نَاقَدْتَہُمْ نَاقَدُوکَ ، وَإِنْ تَرَکْتَہُمْ لَمْ یَتْرُکُوک۔
(٣٦٥٢٢) حضرت ابو مسلم خولانی فرماتے ہیں کہ لوگ ایک ایسے پتے کی طرح تھے جس میں کوئی کانٹا نہ ہو۔ آج وہ ایک ایسے کانٹے کی طرح ہیں جس میں کوئی پتہ نہیں ہے۔ اگر تم انھیں گالی دو گے تو وہ تمہیں خوب گالیاں دیں گے اور اگر تم ان کے عیب بیان کرو گے تو وہ تمہاری خوب برائی بیان کریں گے اور اگر تم انھیں چھوڑ دو گے تو وہ تمہیں نہیں چھوڑیں گے۔

36522

(۳۶۵۲۳) حَدَّثَنَا سَعِیدُ بْنُ شُرَحْبِیلَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا لَیْثُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنْ عُقَیْلٍ ، عَنِ ابْنِ شِہَابٍ ، قَالَ : جَلَسْت ذَاتَ یَوْمٍ إِلَی أَبِی إدْرِیسَ الْخَوْلاَنِیِّ وَہُوَ یَقُصُّ ، فَقَالَ : أَلاَ أُخْبِرُکُمْ بِمَنْ کَانَ أَطْیَبَ النَّاسِ طَعَامًا ، فَلَمَّا رَأَی النَّاسَ قَدْ نَظَرُوا إلَیْہِ ، قَالَ : إنَّ یَحْیَی بْنَ زَکَرِیَّا کَانَ أَطْیَبَ النَّاسِ طَعَامًا ، إنَّمَا کَانَ یَأْکُلُ مَعَ الْوَحْشِ کَرَاہِیَۃَ أَنْ یُخَالِطَ النَّاسَ فِی مَعَائِشِہِمْ۔
(٣٦٥٢٣) حضرت ابن شہاب فرماتے ہیں کہ ایک دن میں حضرت ابو ادریس خولانی کی مجلس میں بیٹھا وہ کوئی واقعہ بیان کررہے تھے۔ انھوں نے فرمایا کہ کیا میں تمہیں اس شخص کے بارے میں نہ بتاؤں جس کا کھانا تمام لوگوں میں زیادہ پاکیزہ تھا ؟ جب لوگوں نے ان کی طرف دیکھا تو فرمانے لگے کہ حضرت یحییٰ بن زکریا کا کھانا تمام لوگوں میں سب سے زیادہ پاکیزہ تھا۔ وہ تنہائی میں کھاتے تھے کیونکہ انھیں یہ بات پسند نہ تھی کہ وہ لوگوں کے ساتھ ان کی زندگی میں شریک ہوں۔

36523

(۳۶۵۲۴) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ الْمُغِیرَۃِ ، عَنْ حُمَیْدِ بْنِ ہِلاَلٍ قَالَ : قَالَ أَبُو مُسْلِمٍ الْخَوْلاَنِیُّ : مَا عَمِلْت عَمَلاً أُبَالِی مَنْ رَآنِی إِلاَّ حَاجَتِی إِلَی أَہْلِی وَحَاجَتِی إِلَی الْغَائِطِ۔
(٣٦٥٢٤) حضرت ابو مسلم خولانی فرماتے ہیں کہ میں نے دو اعمال کے سوا کوئی ایسا عمل نہیں کیا جس کے بارے میں مجھے اس بات کی پروا ہو کہ کوئی دیکھ لے گا ایک اپنی بیوی سے حاجت کا پورا کرنا اور دوسرا بیت الخلاء جانا۔

36524

(۳۶۵۲۵) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ الثَّقَفِیُّ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنْ أَبِی قِلاَبَۃَ ، عَنْ أَبِی إدْرِیسَ ، قَالَ : لاَ یَہْتِکُ اللَّہُ سَتْرَ عَبْدٍ فِی قَلْبِہِ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ مِنْ خَیْرٍ۔
(٣٦٥٢٥) حضرت ابو ادریس فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس بندے کی پردہ دری نہیں فرماتے جس کے دل میں ایک ذرے کے برابر بھی خیر موجود ہو۔

36525

(۳۶۵۲۶) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ عُمَیْرٍ ، عَنْ أَبِی مُسْلِمٍ الْخَوْلاَنِیِّ ، قَالَ : أَرْبَعٌ لاَ یُقْبَلْنَ فِی أَرْبَعٍ : مَالُ الْیَتِیمِ وَالْغُلُولُ وَالْخِیَانَۃُ وَالسَّرِقَۃُ لاَ یُقْبَلْنَ فِی حَجٍّ ، وَلاَ عُمْرَۃٍ ، وَلاَ جِہَادٍ ، وَذَکَرَ حَرْفًا آخَرَ۔
(٣٦٥٢٦) حضرت ابو مسلم خولانی فرماتے ہیں کہ چار چیزیں چار چیزوں میں قابل قبول نہیں یتیم کا مال، دھوکا ، خیانت اور چوری ، حج، عمرے، جہاد اور ایک چیز میں قابل قبول نہیں۔ (راوی نے چوتھی چیز کا نام نہیں لیا)

36526

(۳۶۵۲۷) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَنْ ثَابِتٍ ، قَالَ : قَالَ أَبُو عُثْمَانَ النَّہْدِیُّ : إنِّی لأَعْلَمُ حِینَ یَذْکُرُنِی رَبِّی ، قَالُوا : وَکَیْفَ ذَاکَ ، قَالَ : إنَّ اللَّہَ یَقُولُ : {فَاذْکُرُونِی أذْکُرْکُمْ} فَإِذَا ذَکَرْت اللَّہَ ذَکَرَنِی۔
(٣٦٥٢٧) حضرت ابو عثمان نہدی فرماتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ مجھے یاد فرماتے ہیں تو مجھے علم ہوجاتا ہے۔ ان سے لوگوں نے پوچھا کہ وہ کیسے ؟ انھوں نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ تم مجھے یاد کرو میں تمہیں یاد کروں گا۔ پس جب میں اللہ کو یاد کرتا ہوں تو اللہ تعالیٰ مجھے یاد فرماتے ہیں۔

36527

(۳۶۵۲۸) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا الْحَجَّاجُ بْنُ أَبِی زَیْنَبَ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا عُثْمَانَ یَقُولُ: مَا فِی الْقُرْآنِ آیَۃٌ أَرْجَی عِنْدِی لِہَذِہِ الأُمَّۃِ مِنْ قَوْلِہِ : {وَآخَرُونَ اعْتَرَفُوا بِذُنُوبِہِمْ خَلَطُوا عَمَلاً صَالِحًا وَآخَرَ سَیِّئًا}۔
(٣٦٥٢٨) حضرت ابو عثمان فرماتے ہیں کہ قرآن مجید کے اندر میرے خیال میں امت کے لیے اس سے زیادہ امید دلانے والی آیت کوئی نہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں { وَآخَرُونَ اعْتَرَفُوا بِذُنُوبِہِمْ خَلَطُوا عَمَلاً صَالِحًا وَآخَرَ سَیِّئًا }۔

36528

(۳۶۵۲۹) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ أَبِی الْعَالِیَۃِ {کَانُوا قَلِیلاً مِنَ اللَّیْلِ مَا یَہْجَعُونَ} قَالَ : قَلِیلاً مَا یَنَامُونَ لَیْلَۃً حَتَّی الصَّبَاحِ۔
(٣٦٥٢٩) حضرت ابو عالیہ قرآن مجید کی آیت { کَانُوا قَلِیلاً مِنَ اللَّیْلِ مَا یَہْجَعُونَ } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ وہ رات کو صبح تک بہت کم سوتے ہیں۔

36529

(۳۶۵۳۰) حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ أَبِی الْعَالِیَۃِ {لاَ یَمَسُّہُ إِلاَّ الْمُطَہَّرُونَ} قَالَ : لَیْسَ أَنْتُمْ ، أَنْتُمْ أَصْحَابُ الذُّنُوبِ۔
(٣٦٥٣٠) حضرت ابو عالیہ قرآن مجید کی آیت { لاَ یَمَسُّہُ إِلاَّ الْمُطَہَّرُونَ } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اس سے مراد تم نہیں تم تو گناہ والے ہو۔

36530

(۳۶۵۳۱) حَدَّثَنَا عَبَّادٌ، عَنْ عَوْفٍ، عَنْ أَبِی الْمِنْہَالِ أنَّ أَبَا الْعَالِیَۃِ رَأَی رَجُلاً یَتَوَضَّأُ، فَلَمَّا فَرَغَ، قَالَ: اللَّہُمَّ اجْعَلْنِی مِنَ التَّوَّابِینَ وَاجْعَلْنِی مِنَ الْمُتَطَہِّرِینَ ، فَقَالَ : إنَّ الطُّہُورَ بالْمَائِ حَسَنٌ ، وَلَکِنَّہُمُ الْمُطَہَّرُونَ مِنَ الذُّنُوبِ۔
(٣٦٥٣١) حضرت ابو عالیہ نے ایک آدمی کو دیکھا جو وضو کررہا تھا، جب وہ وضو کرچکا تو اس نے کہا کہ اے اللہ مجھے توبہ کرنے والوں میں سے بنا اور مجھے پاک ہونے والوں میں سے بنا۔ یہ سن کر حضرت ابو عالیہ نے فرمایا کہ پانی کے ذریعے پاکی حاصل کرنا اچھی بات ہے لیکن اصل بات گناہوں سے پاک ہونا ہے۔

36531

(۳۶۵۳۲) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ ، عَنِ التَّیْمِیِّ ، عَنْ رَجُلٍ ، عَنْ أَبِی الْعَالِیَۃِ ، أَنَّہُ کَانَ إذَا أَرَادَ أَنْ یَخْتِمَ الْقُرْآنَ آخِرَ النَّہَارِ أَخَّرَہُ إِلَی أَنْ یُمْسِی ، وَإِذَا أَرَادَ أَنْ یَخْتِمَہُ آخِرَ اللَّیْلِ أَخَّرَہُ إِلَی أَنْ یُصْبِحَ۔
(٣٦٥٣٢) حضرت ابو عالیہ کا معمول تھا کہ جب کبھی وہ دن کے آخری حصے میں قرآن مجید ختم کرنا چاہتے تو اسے شام تک مؤخر فرماتے اور اگر کبھی رات کے آخری حصے میں قرآن مجید ختم کرنے لگتے تو اسے صبح تک مؤخر فرماتے۔

36532

(۳۶۵۳۳) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ عُثْمَانَ ، عَنْ أَبِی الْعَالِیَۃِ ، قَالَ : قَالَ لِی أَصْحَابُ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لاَ تَعْمَلْ لِغَیْرِ اللہِ فَیَکِلَکَ اللَّہُ إِلَی مَنْ عَمِلْت لَہُ۔
(٣٦٥٣٣) حضرت ابو عالیہ فرماتے ہیں کہ مجھ سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب نے فرمایا کہ اللہ کے غیر کے لیے عمل نہ کرو ورنہ اللہ تمہیں اسی کے حوالے کردے گا جس کے لیے تم نے عمل کیا تھا۔

36533

(۳۶۵۳۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، قَالَ : سَمِعْتُ شَیْخًا یُقَالَ لَہُ : زُفَرُ یَذْکُرُ ، عَنْ قَیْسِ بْنِ حَبْتَرٍ ، قَالَ : الصَّعْقَۃُ مِنَ الشَّیْطَانِ۔
(٣٦٥٣٤) حضرت قیس بن حبتر فرماتے ہیں کہ صعقہ شیطان کی طرف سے ہے۔

36534

(۳۶۵۳۵) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَنْ مُوسَی الْجُہَنِیِّ ، عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِہِ ، قَالَ : مَا أَتَتْ عَلَی عَبْدٍ لَیْلَۃٌ قَطُّ إِلاَّ، قَالَتْ : ابْنَ آدَمَ ، أَحْدِثْ فِیَّ خَیْرًا فَإِنِّی لَنْ أَعُودَ عَلَیْک أَبَدًا۔
(٣٦٥٣٥) حضرت موسیٰ جہنی نقل کرتے ہیں کہ ہر آنے والی رات یہ اعلان کرتی ہے کہ اے ابن آدم ! مجھ میں خیر کا کام انجام دے دے کیونکہ میں دوبارہ کبھی تیرے پاس لوٹ کر نہیں آؤں گی۔

36535

(۳۶۵۳۶) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، أَنَّ الْحَسَنَ بْنَ الْحَکَمِ حَدَّثَہُ ، قَالَ : سَمِعْتُ حَمَّادًا یَقُولُ : سَمِعْت إبْرَاہِیمَ یَقُولُ : لَوْ أَنَّ عَبْدًا اکْتَتَمَ بِالْعِبَادَۃِ کَمَا یَکْتَتِمُ بِالْفُجُورِ لأظْہَرَ اللَّہُ ذَلِکَ مِنْہُ۔
(٣٦٥٣٦) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ اگر بندہ عبادت کو بھی اسی طرح چھپائے جس طرح گناہ کو چھپاتا ہے تو اللہ تعالیٰ پھر بھی اسے ظاہر کردے گا۔

36536

(۳۶۵۳۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : کَانُوا یَسْتَحْیُونَ الزِّیَادَۃَ وَیَکْرَہُونَ النُّقْصَانَ ، وَیَقُولُ : شَیْئٌ دِیمَۃٌ۔
(٣٦٥٣٧) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ اسلاف عبادت میں زیادہ کو مستحب قرار دیتے تھے اور کمی کو مکروہ بتاتے تھے۔

36537

(۳۶۵۳۸) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سُوقَۃَ ، قَالَ : زَعَمُوا ، أَنَّ إبْرَاہِیمَ کَانَ یَقُولُ : کُنَّا إذَا حَضَرْنَا جِنَازَۃً ، أَوْ سَمِعَنَّا بِمَیِّتٍ یُعْرَفُ ذَلِکَ فِینَا أَیَّامًا لأَنَّا قَدْ عَرَفْنَا ، أَنَّہُ قَدْ نَزَلَ بِہِ أَمْرٌ صَیَّرَہُ إِلَی الْجَنَّۃِ ، أَوِ النَّارِ، وَأَنَّکُمْ تَحَدَّثُونَ فِی جَنَائِزِکُمْ بِحَدِیثِ دُنْیَاکُمْ۔
(٣٦٥٣٨) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ جب ہم کسی جنازہ میں شریک ہوتے یا کسی کے انتقال کے بارے میں سنتے تو کئی دن تک ہم پر اس کے اثرات رہتے۔ کیونکہ ہم جانتے تھے کہ اب اس پر ایسا معاملہ وقوع پذیر ہوچکا ہے جو اسے جنت یا جہنم میں لے جاسکتا ہے۔ اور تم جنازوں میں دنیا کی باتیں کرتے ہو !

36538

(۳۶۵۳۹) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : بَیْنَا رَجُلٌ عَابِدٌ عِنْدَ امْرَأَۃٍ إذْ عَمَدَ فَضَرَبَ بِیَدِہِ عَلَی فَخِذِہَا ، قَالَ : فَأَخَذَ بِیَدِہِ فَوَضَعَہَا فِی النَّارِ حَتَّی نَشَّتْ۔
(٣٦٥٣٩) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ ایک عبادت گزار آدمی ایک عورت کے پاس تھا، اس کے دل میں برا خیال آیا اور اس نے عورت کی ران پر ہاتھ لگایا، پھر اسے تنبہ ہوا اور اس نے اپنے اس ہاتھ کو آگ میں رکھا یہاں تک کہ اس کا ہاتھ جل کر راکھ ہوگیا۔

36539

(۳۶۵۴۰) حَدَّثَنَا عَبْدُ السَّلاَمِ بْنُ حَرْبٍ ، عَنْ خَالِدِ بْنِ حَوْشَبٍ ، قَالَ : قَالَ إبْرَاہِیمُ : قَلَّمَا قَرَأْت ہَذِہِ الآیَۃَ إِلاَّ ذَکَرْت بَرْدَ الشَّرَابِ : {وَحِیلَ بَیْنَہُمْ وَبَیْنَ مَا یَشْتَہُونَ}۔
(٣٦٥٤٠) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ جب کبھی بھی میں یہ آیت پڑھتا ہوں مجھے ٹھنڈا پانی یاد آجاتا ہے { وَحِیلَ بَیْنَہُمْ وَبَیْنَ مَا یَشْتَہُونَ }۔

36540

(۳۶۵۴۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ زَکَرِیَّا الْعَبْدِیِّ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، أَنَّہُ بَکَی فِی مَرَضِہِ ، فَقَالُوا لَہُ : یَا أَبَا عِمْرَانَ ، مَا یُبْکِیک ، فَقَالَ : وَکَیْفَ لاَ أَبْکِی وَأَنَا أَنْتَظِرُ رَسُولاً مِنْ رَبِّی یُبَشِّرُنِی إمَّا بِہَذِہِ وَإِمَّا بِہَذِہِ۔
(٣٦٥٤١) حضرت ابراہیم نخعی اپنے مرض الوفات میں روئے تو لوگوں نے ان سے پوچھا کہ اے ابو عمران ! آپ کو کس چیز نے رلایا ؟ انھوں نے فرمایا کہ میں کیوں نہ روؤں حالانکہ میں اپنے رب کے قاصد کا انتظار کررہا ہوں تاکہ وہ مجھے یا تو اس چیز کی (جنت کی) یا اس چیز کی (جہنم کی) بشارت دے !

36541

(۳۶۵۴۲) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ وَاصِلٍ ، قَالَ : رَأَی إبْرَاہِیمُ أَمِیرَ حُلْوَانَ یَمُرُّ بِدَوَابِّہِ فِی زَرْعٍ ، فَقَالَ : الْجَوْرُ فِی طَرِیقٍ خَیْرٌ مِنَ الْجَوْرِ فِی الدِّینِ۔
(٣٦٥٤٢) حضرت واصل فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم نخعی نے حلوان کے امیر کو دیکھا کہ وہ اپنی سواریوں کو کھیت میں سے لے کر گزر رہا تھا، انھوں نے فرمایا کہ راستہ میں ظلم کرنا دین میں ظلم کرنے سے بہتر ہے۔

36542

(۳۶۵۴۳) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ فِی قَوْلِہِ : {حَمِیمًا وَغَسَّاقًا} قَالَ : الغساق : مَا یَتَقَطَّعُ مِنْ جُلُودِہِمْ ، وَمَا یَسِیلُ مِنْ بَشَرِہِمْ۔
(٣٦٥٤٣) حضرت ابراہیم قرآن مجید کی آیت { حَمِیمًا وَغَسَّاقًا } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ غساق وہ چیز ہے جو ان کی کٹی ہوئی کھالوں سے اس کی جلد پر بہے گی۔

36543

(۳۶۵۴۴) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، وَمُجَاہِدٍ {یُنَبَّأُ الإِنْسَان یَوْمَئِذٍ بِمَا قَدَّمَ وَأَخَّرَ} قَالاَ : بِأَوَّلِ عَمَلِہِ وَآخِرِہِ۔
(٣٦٥٤٤) حضرت ابراہیم اور حضرت مجاہد قرآن مجید کی آیت { یُنَبَّأُ الإِنْسَان یَوْمَئِذٍ بِمَا قَدَّمَ وَأَخَّرَ } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ انسان کے اس کے اول وآخر اعمال کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔

36544

(۳۶۵۴۵) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ {وَلَنُذِیقَنَّہُمْ مِنَ الْعَذَابِ الأَدْنَی دُونَ الْعَذَابِ الأَکْبَرِ} قَالَ: أَشْیَائُ یُصَابُونَ بِہَا فِی الدُّنْیَا۔
(٣٦٥٤٥) حضرت ابراہیم قرآن مجید کی آیت { وَلَنُذِیقَنَّہُمْ مِنَ الْعَذَابِ الأَدْنَی دُونَ الْعَذَابِ الأَکْبَرِ } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ یہ وہ چیزیں ہیں جو انھیں دنیا میں پیش آئیں گی۔

36545

(۳۶۵۴۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا الأَعْمَشُ ، قَالَ : کَانَ إبْرَاہِیمُ یَقْرَأُ فِی الْمُصْحَفِ فَإِذَا دَخَلَ عَلَیْہِ إنْسَانٌ غَطَّاہُ ، وَقَالَ : لاَ یَرَانِی أَقْرَأُ فِیہِ کُلَّ سَاعَۃٍ۔
(٣٦٥٤٦) حضرت اعمش فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم نخعی جب قرآن پڑھ رہے ہوتے اور ان کے پاس کوئی آدمی آتا تو اسے ڈھانپ دیتے اور فرماتے کہ میں نہیں چاہتا کہ وہ مجھے ہر وقت اس میں سے پڑھتا ہوادیکھے۔

36546

(۳۶۵۴۷) حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ مُعَاذٍ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، قَالَ : ذَکَرَ إبْرَاہِیمُ ، أَنَّہُ أَرْسَلَ إلَیْہِ الْمُخْتَارُ بْنُ أَبِی عُبَیْدٍ ، قَالَ : فَطَلَی وَجْہَہُ بِطِلاَئٍ وَشَرِبَ دَوَائً وَلَمْ یَأْتِہِمْ ، فَتَرَکُوہُ۔
(٣٦٥٤٧) حضرت ابن عون فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم سے کہا کہ گیا کہ انھیں مختار بن ابی عبید نے بلایا ہے، انھوں نے اپنے چہرے پر طلاء مل لیا، اور دوا پی اور اس کے پاس نہیں گئے۔ انھوں نے بھی انھیں چھوڑ دیا۔

36547

(۳۶۵۴۸) حَدَّثَنَا جَرِیرُ بْنُ عَبْدِ الْحَمِیدِ ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَمْرٍو الْفُقَیْمِیِّ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : مَنِ ابْتَغَی شَیْئًا مِنَ الْعِلْمِ یَبْتَغِی بِہِ اللہِ آتَاہُ اللَّہُ مِنْہُ مَا یَکْفِیہِ۔
(٣٦٥٤٨) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ جو شخص علم کو اللہ کی رضا کے لیے حاصل کرے گا اللہ تعالیٰ اسے وہ چیز عطا فرمائے گا جو اس کے لیے کافی ہوجائے گی۔

36548

(۳۶۵۴۹) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : الْخُشُوعُ فِی الْقَلْبِ۔
(٣٦٥٤٩) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ خشوع دل میں ہوتا ہے۔

36549

(۳۶۵۵۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : کَانَ مَنْ قَبْلَکُمْ أَشْفَقَ ثِیَابًا وَأَشْفَقَ قُلُوبًا۔
(٣٦٥٥٠) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ تم سے پہلے لوگ زیادہ پرانے کپڑوں والے اور زیادہ نرم دلوں والے ہوتے تھے۔

36550

(۳۶۵۵۱) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سُوقَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ ، إذَا قَالَ الرَّجُلُ حِینَ یُصْبِحُ : أَعُوذُ بِالسَّمِیعِ الْعَلِیمِ مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیمِ عَشْرَ مَرَّاتٍ أُجِیرَ مِنَ الشَّیْطَانِ إِلَی أَنْ یُمْسِی ، وَإذَا قَالَہُ مُمْسِیًا أُجِیرَ مِنَ الشَّیْطَانِ إِلَی أَنْ یُصْبِحَ۔
(٣٦٥٥١) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ جو شخص صبح کے وقت دس مرتبہ یہ کلمات پڑھے اللہ تعالیٰ شام تک اسے شیطان سے محفوظ رکھے گا اور جو شام کو پڑھے اللہ تعالیٰ صبح تک اسے شیطان سے محفوظ رکھے گا (ترجمہ) میں سننے والے اور جاننے والے اللہ کی پناہ چاہتا ہوں شیطان مردود کے شر سے۔

36551

(۳۶۵۵۲) حَدَّثَنَا ابْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنْ أَبِی عَوَانَۃَ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، قَالَ : کَانَ قَمِیصُ إبْرَاہِیمَ عَلَی ظَہْرِ الْقَدَمِ۔
(٣٦٥٥٢) حضرت مغیرہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم کی قمیص پاؤں کے تلوے پر ہوتی تھی۔

36552

(۳۶۵۵۳) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ زَائِدَۃَ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ {لَعَلَّہُمْ یَرْجِعُونَ} قَالَ : یَتُوبُونَ۔
(٣٦٥٥٣) حضرت ابراہیم قرآن مجید کی آیت { لَعَلَّہُمْ یَرْجِعُونَ } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ وہ توبہ کرتے ہیں۔

36553

(۳۶۵۵۴) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ حَفْصٍ ، عَنْ شَیْبَان ، عَنْ إسْمَاعِیلَ بْنِ أَبِی خَالِدٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : یَشْرُفُ قَوْمٌ فِی الْجَنَّۃِ عَلَی قَوْمٍ فِی النَّارِ فَیَقُولُونَ : مَا لَکُمْ فِی النَّارِ ، وَإِنَّمَا کُنَّا نَعْمَلُ بِمَا تُعَلِّمُونَا ، قَالُوا : کُنَّا نُعَلِّمُکُمْ ، وَلاَ نَعْمَلُ بِہِ۔
(٣٦٥٥٤) حضرت شعبی فرماتے ہیں کہ کچھ لوگ جنت سے جہنم میں جھانکیں گے تو وہاں انھیں کچھ لوگ نظر آئیں گے وہ ان سے کہیں گے کہ تم جہنم میں کیوں ہو ؟ ہم تو ان باتوں پر عمل کیا کرتے تھے جو تم ہمیں سکھاتے تھے ؟ ! وہ کہیں گے کہ ہم تمہیں تو سکھایا کرتے تھے لیکن خود عمل نہیں کیا کرتے تھے۔

36554

(۳۶۵۵۵) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ بْنِ سَالِمٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ {وَمَعَارِجَ عَلَیْہَا یَظْہَرُونَ} قَالَ : الدَّرَجُ۔
(٣٦٥٥٥) حضرت شعبی قرآن مجید کی آیت { وَمَعَارِجَ عَلَیْہَا یَظْہَرُونَ } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اس سے مراد سیڑھیاں ہیں۔

36555

(۳۶۵۵۶) حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ {وَمَعَارِجَ عَلَیْہَا یَظْہَرُونَ} قَالَ : الدَّرَجُ ، وَسُقُفًا ، قَالَ : الْجَزُوعُ وَزُخْرُفًا ، قَالَ : الذَّہَبُ۔
(٣٦٥٥٦) حضرت شعبی قرآن مجید کی آیت { وَمَعَارِجَ عَلَیْہَا یَظْہَرُونَ } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اس سے مراد سیڑھیاں ہیں۔ اور سُقُفًا سے مراد تنے ہیں اور زُخْرُفًا سے مراد سونا ہے۔

36556

(۳۶۵۵۷) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ مَالِکِ بْنِ مِغْوَلٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ عُبَیْدَ اللہِ بْنَ الْعَیْزَارِ ، قَالَ : إنَّ الأَقْدَامَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ کَمَثَلِ النَّبْلِ فِی الْقَرْنِ ، وَالسَّعِیدُ مَنْ وَجَدَ لِقَدَمَیْہِ مَوْضِعًا یَضَعُہُمَا ، وَعِنْدَ الْمِیزَانِ مَلَکٌ یُنَادِی : أَلاَ إنَّ فُلاَنَ بْنَ فُلاَنٍ ثَقُلَتْ مَوَازِینُہُ ، فَسَعِدَ سَعَادَۃً لاَ یَشْقَی بَعْدَہَا أَبَدًا ، أَلاَ إنَّ فُلاَنَ بْنَ فُلاَنٍ خَفَّتْ مَوَازِینُہُ فَشَقِیَ شَقَائً لاَ یَسْعَدُ بَعْدَہُ أَبَدًا۔
(٣٦٥٥٧) حضرت عبید اللہ بن عیزار فرماتے ہیں کہ قیامت کے دن پاؤں ایسے ہوں گے جیسے تیروں کے تھیلے میں تیر ہوتے ہیں۔ اس دن خوش نصیب وہ ہوگا جسے اپنا پاؤں رکھنے کے لیے جگہ مل جائے۔ میزان کے پاس ایک فرشتہ اعلان کررہا ہوگا کہ فلاں بن فلاں کا نامہ اعمال وزنی ہوگیا وہ آج خوش نصیب ہوگیا اور آج کے بعد کبھی وہ بدقسمتی کا شکار نہیں ہوگا۔ اور فلاں بن فلاں کے اعمال کا ترازو ہلکا ہوگیا اور وہ بدقسمت ہوگیا اور آج کے بعد کبھی سعادت کا چہرہ نہ دیکھ سکے گا۔

36557

(۳۶۵۵۸) حَدَّثَنَا الْمُحَارِبِیُّ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ، عَنْ رَجُلٍ مِنَ الأَنْصَارِ ، قَالَ : کَانَ یَقُولُ : لَنِعْمَۃُ اللہِ عَلَیَّ فِیمَا زَوَی عَنِّی مِنَ الدُّنْیَا أَعْظَمُ مِنْ نِعْمَتِہِ عَلَیَّ فِیمَا أَعْطَانِی مِنْہَا۔
(٣٦٥٥٨) ایک انصاری صاحب فرمایا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کی وہ دنیاوی نعمت جو اس نے مجھے عطا نہیں کی ، مجھے اللہ تعالیٰ کی اس نعمت سے زیادہ بالاتر محسوس ہوتی ہے جو اس نے مجھے عطا کی ہے۔

36558

(۳۶۵۵۹) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ إدْرِیسَ سَمِعَ أَبَاہُ وَعَمَّہُ یَذْکُرَانِ ، قَالاَ : کَانَ عَبْدُ الْمَلِکِ بْنُ إیَاسٍ مِمَّنْ سَمِعَ ثُمَّ سَکَتَ۔
(٣٦٥٥٩) حضرت عبد الملک بن ایاس ان لوگوں میں سے تھے جو سنتے اور خاموش ہوجاتے۔

36559

(۳۶۵۶۰) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، قَالَ : أَعْجَبُ أَہْلِ الْکُوفَۃِ إلَیَّ أَرْبَعَۃٌ : طَلْحَۃُ وَزُبَیْد وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، وَیَحْیَی بْنُ عَبَّادٍ۔
(٣٦٥٦٠) حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ اہل کوفہ میں مجھے سب سے پسندیدہ چار لوگ ہیں : طلحہ، زبید، محمد بن عبد الرحمن اور یحییٰ بن عباد۔

36560

(۳۶۵۶۱) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ لَیْثٍ ، قَالَ : قُلْتُ لِطَلْحَۃَ : إنَّ طَاوُوسًا کَانَ یَکْرَہُ الأَنِینَ ، قَالَ : فَمَا سُمِعَ لَہُ أَنِینٌ حَتَّی مَاتَ۔
(٣٦٥٦١) حضرت لیث فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت طلحہ سے کہا کہ حضرت طاوس رونے کی آواز کو ناپسند فرماتے تھے۔ انھوں نے کہا موت تک ان کے رونے کی آواز نہیں سنی گئی۔

36561

(۳۶۵۶۲) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ، عَنْ مِسْعَرٍ، قَالَ: أَعْطَانِی زَیْدٌ الْعَمِّیُّ کِتَابًا فِیہِ، أَنَّ رَجُلاً أَوْصَی ابْنَہُ، قَالَ: یَا بُنَی، کُنْ مِنْ نَأْیُہ مِمَّنْ نَأَی عَنْہُ تَغَنِّیًا وَنَزَاہَۃٌ، وَدُنُوِّہِ مِمَّنْ دَنَا مِنْہُ لِینٌ وَرَحْمَۃٌ، لَیْسَ نَأْیُہُ کِبَرًا، وَلاَ عَظَمَۃً، وَلَیْسَ دُنُوُّہُ خَدْعًا، وَلاَ خِیَانَۃً ، لاَ یُعَجِّلُ فِیمَا رَابَہُ ، وَیَعْفُو عَمَّا تَبَیَّنَ لَہُ ، لاَ یَغُرُّہُ ثَنَائُ مَنْ جَہِلَہُ، وَلاَ یَنْسَی إحْصَائَ مَا قَدْ عَمِلَہُ، إنْ ذُکِرَ خَافَ مِمَّا یَقُولُونَ، وَاسْتَغْفَرَ مِمَّا لاَ یَعْلَمُونَ، یَقُولُ رَبِّی أَعْلَمُ بِی مِنْ نَفْسِی، وَأَنَا أَعْلَمُ بِنَفْسِی مِنْ غَیْرِی ، یَسْأَلُ لِیَعْلَمَ ، وَیَنْطِقُ لِیَغْنَمَ ، وَیَصْمُتُ لِیَسْلَمَ ، وَیُخَالِطُ لِیَفْہَمَ، إنْ کَانَ فِی الْغَافِلِینَ کُتِبَ مِنَ الذَّاکِرِینَ وَإِنْ کَانَ فِی الْذَّاکِرینَ ، لَمْ یُکْتَبْ مِنَ الْغَافِلِینَ ، لأَنَّہُ یَذْکُرُ إذَا غَفَلُوا، وَلاَ یَنْسَی إذَا ذَکَرُوا، قَالَ حُسَیْنٌ: وَزَادَ فِیہِ ابْنُ عُیَیْنَۃَ: یَمْزُجُ الْعِلْمَ بِحِلْمِ زَہَادَتِہِ فِیمَا یَفْنَی کَرَغْبَتِہِ فِیمَا یَبْقَی۔
(٣٦٥٦٢) حضرت مسعر فرماتے ہیں کہ مجھے زید عمی نے ایک خط دیا جس میں لکھا تھا کہ ایک آدمی نے اپنے بیٹے کو نصیحت کی کہ اے میرے بیٹے ! ایسا شخص بن جا جو لوگوں سے بےنیازی اور پاکدامنی کے لیے دور رہے، نرمی اور رحمت اس کے قریب ہو، اس کا دور ہونا تکبر یا نخوت کی وجہ سے نہ ہو۔ اس کا قریب ہونا دھوکا دینے یا خیانت کرنے کے لیے نہ ہو۔ شک والا کام کرنے میں جلدی نہ کرے۔ جہاں تک ہوسکے معاف کردے۔ جو اسے نہ جانتا ہو اس کے تعریف کرنے سے دھوکا میں نہ پڑے اور جو وہ کرچکا ہے اسے نہ بھولے۔ اس کا ذکر کیا جائے تو لوگوں کی باتیں اسے خوف میں مبتلا کردیں اور جو وہ نہیں جانتے اس پر استغفار کرے۔ علم کے حصول کے لیے سوال کرے، فائدہ پہنچانے کے لیے بات کرے، سلامتی کے حصول کے لیے خاموش رہے، بات سمجھنے کے لیے میل جول رکھے، اگر وہ غافلین میں سے ہو تو ذاکرین میں سے شمار کیا جائے اور اگر ذاکرین میں سے ہو تو غافلین میں شمار نہ کیا جائے، اس لیے کہ لوگوں کی غفلت کے وقت ذکر کرتا ہو اور جب لوگ ذکر کریں اس وقت بھی اپنے رب کو نہ بھولے۔ ابن عتیبہ نے اس میں اضافہ کیا ہے کہ وہ علم کو بردباری کے ساتھ ملائے، فنا ہونے والی چیزوں میں اس کی بےرغبتی ان چیزوں میں رغبت جیسی ہو جو باقی رہنے والی ہیں۔

36562

(۳۶۵۶۳) حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا عَبْدُ السَّلاَمِ ، عَنْ یَزِیدَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنِ الْمِنْہَالِ ، عَنْ خَیْثَمَۃ ، عَنْ سُوَیْد بْنِ غَفَلَۃَ ، قَالَ : إذَا أَرَادَ اللَّہُ أَنْ یَنْسَی أَہْلُ النَّارِ جُعِلَ لِکُلِّ إنْسَانٍ مِنْہُمْ تَابُوتًا مِنْ نَارٍ عَلَی قَدْرِہِ ، ثُمَّ أُقْفِلَ عَلَیْہِ بِأَقْفَالٍ مِنْ نَارٍ فَلاَ یُضْرَبُ مِنْہُ عِرْقٌ إِلاَّ وَفِیہِ مِسْمَارٌ مِنْ نَارٍ ، ثُمَّ جُعِلَ ذَلِکَ التَّابُوتُ فِی تَابُوتٍ آخَرَ مِنْ نَارٍ ، ثُمَّ أُقْفِلَ عَلَیْہِ بِأَقْفَالٍ مِنْ نَارٍ ، ثُمَّ یُضْرَمُ بَیْنَہُمَا نَارٌ ، فَلاَ یَرَی أَحَدٌ مِنْہُمْ ، أَنَّ فِی النَّارِ أَحَدًا غَیْرَہُ ، فَذَلِکَ قولہ تعالی : {لَہُمْ مِنْ فَوْقِہِمْ ظُلَلٌ مِنَ النَّارِ وَمِنْ تَحْتِہِمْ ظُلَلٌ} وَذَلِکَ قولہ تعالی : {لَہُمْ مِنْ جَہَنَّمَ مِہَادٌ وَمِنْ فَوْقِہِمْ غَوَاشٍ وَکَذَلِکَ نَجْزِی الظَّالِمِینَ}۔
(٣٦٥٦٣) حضرت سوید بن غفلہ فرماتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ اہل جہنم کو بھلائے جانے کا ارادہ فرمائیں گے ہر ایک کے لیے اس کی جسامت کے بقدر ایک تابوت بنائیں گے پھر اس پر تالا لگا دیا جائے گا۔ اس تابوت میں آگ کے کیل ہوں گے۔ پھر اس تابوت کو آگ کے دوسرے تابوت میں ڈال دیا جائے گا۔ پھر اس پر آگ کے مزید تالے لگادیئے جائیں گے۔ پھر ان کے درمیان آگ بھڑکا دی جائے گی۔ پھر ہر شخص یہ سمجھے گا کہ آگ میں اس کے سوا کوئی نہیں ہے۔ اللہ رب العزت کے اس فرمان کا یہی مطلب ہے { لَہُمْ مِنْ فَوْقِہِمْ ظُلَلٌ مِنَ النَّارِ وَمِنْ تَحْتِہِمْ ظُلَلٌ} اور یہی مطلب ہے اس ارشاد ربانی کا { لَہُمْ مِنْ جَہَنَّمَ مِہَادٌ وَمِنْ فَوْقِہِمْ غَوَاشٍ وَکَذَلِکَ نَجْزِی الظَّالِمِینَ }۔

36563

(۳۶۵۶۴) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سُوقَۃَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْکَدِرِ ، قَالَ : إنَّ اللَّہَ لَیُصْلِحُ بِصَلاَحِ الْعَبْدِ وَلَدَہُ وَوَلَدَ وَلَدِہِ وَأَہْلَ دُوَیْرَتِہِ وَأَہْلَ الدُّوَیْرَاتِ حَوْلَہُ ، فَمَا یَزَالُونَ فِی حِفْظٍ مِنَ اللہِ مَا دَامَ بَیْنَہُمْ۔
(٣٦٥٦٤) حضرت محمد بن منکدر فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ بندے کی نیکی کی وجہ سے اس کی اولاد اور اس کے پوتے کو بھی بھلائی بھی عطا فرماتے ہیں، اس طرح اس کے گھر والوں کو اور اس کے گھر کے اردگرد کے گھر والوں کو بھی بھلائی عطا فرماتے ہیں۔ جب تک وہ نیک بندہ ان کے درمیان ہوتا ہے وہ اللہ کی حفاظت میں ہوتے ہیں۔

36564

(۳۶۵۶۵) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ یَمَانٍ ، عَنْ حَمْزَۃَ الزَّیَّاتِ ، عَنْ حُمْرَانَ بْنِ أَعْیَن ، عَنْ أَبِی حَرْبِ بْنِ أَبِی الأَسْوَدِ الدّیلِیِّ ، قَالَ : إنَّ الرَّجُلَ لَیُحْبَسُ عَلَی بَابِ الْجَنَّۃِ بِالذَّنْبِ عَمِلَہُ مِئَۃَ عَامٍ وَإِنَّہُ لَیَرَی أَزْوَاجَہُ وَخَدَمَہُ۔
(٣٦٥٦٥) حضرت ابو حرب بن ابی اسود دیلی فرماتے ہیں کہ آدمی کو اس کے گناہ کی وجہ سے جنت کے دروازے پر ایک سو سال کے لیے روک لیا جائے گا اور وہ جنت میں اپنی بیویوں اور خادموں کو دیکھے گا۔

36565

(۳۶۵۶۶) حَدَّثَنَا مُعَاوِیَۃُ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ بَخْتَرِیٍّ الطَّائِیِّ ، قَالَ : کَانَ یُقَالَ : أُغْبِطَ الأَحْیَائُ بِمَا یُغْبَطُ بِہِ الأَمْوَاتُ وَاعْلَمْ ، أَنَّ الْعِبَادَۃَ لاَ تَصْلُحُ إِلاَّ بِزُہْدٍ وَذُلٍّ عِنْدَ الطَّاعَۃِ ، وَاسْتَصْعِبْ عِنْدَ الْمَعْصِیَۃِ ، وَأَحِبَّ النَّاسَ عَلَی قَدْرِ تَقْوَاہُمْ۔
(٣٦٥٦٦) حضرت بختری طائی فرماتے ہیں کہ زندوں پر اس چیز کا رشک کرو جس کا مردوں پر رشک کیا جاتا ہے، یاد رکھو کہ عبادت زہد کے بغیر درست نہیں ہوتی۔ اطاعت کے وقت پست ہوجاؤ، معصیت کے وقت مشقت محسوس کرو، اور لوگوں سے ان کے تقویٰ کے مطابق محبت کرو۔

36566

(۳۶۵۶۷) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ مَالِکِ بْنِ مِغْوَلٍ ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ الْوَلِیدِ {فَإِذَا جَائَتِ الطَّامَّۃُ الْکُبْرَی} قَالَ : حینَ یُسَاقُ أَہْلُ الْجَنَّۃِ إِلَی الْجَنَّۃِ وَأَہْلُ النَّارِ إِلَی النَّارِ۔
(٣٦٥٦٧) حضرت قاسم بن ولید قرآن مجید کی آیت { فَإِذَا جَائَتِ الطَّامَّۃُ الْکُبْرَی } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ یہ اس موقع کی بات ہے جب جنت والوں کو جنت کی طرف اور جہنم والوں کو جہنم کی طرف لے جایا جائے گا۔

36567

(۳۶۵۶۸) حَدَّثَنَا الثَّقَفِیُّ، عَنْ أَیُّوبَ، عَنْ أَبِی قِلاَبَۃَ أَظُنُّہُ، عَنْ عُثْمَانَ، قَالَ: مَنْ عَمِلَ عَمَلاً کَسَاہُ اللَّہُ رِدَائَ عَمَلِہِ۔
(٣٦٥٦٨) حضرت عثمان بن عفان (رض) فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہر شخص کو اس کے عمل کی چادر پہنائیں گے۔

36568

(۳۶۵۶۹) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ بْنِ أَبِی خَالِدٍ ، قَالَ : قَالَ عُثْمَان بْنُ عَفَّانَ : مَنْ عَمِلَ عَمَلاً کَسَاہُ اللَّہُ رِدَائَہُ ، إنْ خَیْرٌ فَخَیْرٌ ، وَإِنْ شَرٌّ فَشَرٌّ۔
(٣٦٥٦٩) حضرت عثمان بن عفان (رض) فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہر شخص کو اس کے عمل کی چادر پہنائیں گے۔ اگر اچھا ہوگا تو اچھی چادر اور اگر برا ہوگا تو بری چادر۔

36569

(۳۶۵۷۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، وَیَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ بْنِ أَبِی خَالِدٍ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ رَافِعٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ عُثْمَانَ یَقُولُ : {وَجَائَتْ کُلُّ نَفْسٍ مَعَہَا سَائِقٌ وَشَہِیدٌ} قَالَ : سَائِقٌ یَسُوقُہَا إِلَی أَمْرِ اللہِ ، وَشَہِیدٌ یَشْہَدُ عَلَیْہَا بِمَا عَمِلَتْ۔
(٣٦٥٧٠) حضرت عثمان (رض) قرآن مجید کی آیت { وَجَائَتْ کُلُّ نَفْسٍ مَعَہَا سَائِقٌ وَشَہِیدٌ} کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ ایک ہانکنے والا ہر نفس کو اللہ کے امر کی طرف ہانکے گا اور ایک گواہ اس کے اعمال کی گواہی دے گا۔

36570

(۳۶۵۷۱) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ جَرِیرِ بْنِ حَازِمٍ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ خَیْثَمَۃ ، عَنْ عَدِیِّ بْنِ حَاتِمٍ ، قَالَ : أَیْمَنُ امْرِئٍ وَأَشْأَمُہُ مَا بَیْنَ لَحْیَیْہِ۔
(٣٦٥٧١) حضرت عدی بن حاتم (رض) فرماتے ہیں کہ آدمی کی سب سے مبارک اور سب سے منحوس چیز وہ ہے جو اس کے جبڑوں کے درمیان ہے۔

36571

(۳۶۵۷۲) حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ سُلَیْمَانَ الرَّازِیّ ، عَنْ أَبِی سِنَانٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ ، عَنْ عَدِیِّ بْنِ حَاتِمٍ ، قَالَ : إنَّکُمْ فِی زَمَانٍ مَعْرُوفُہُ مُنْکَرُ زَمَانٍ قَدْ خَلا ، وَمُنْکَرُہُ مَعْرُوفُ زَمَانٍ مَا أَتَی۔
(٣٦٥٧٢) حضرت عدی بن حاتم (رض) فرماتے ہیں کہ تم ایک ایسے زمانے میں ہو جس کی نیکی گزشتہ زمانے کی برائی ہے اور اس کی برائی آنے والے زمانے کی نیکی ہے۔

36572

(۳۶۵۷۳) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ مَالِکِ بْنِ مِغْوَلٍ ، عَنْ أَبِی مَنْصُورٍ ، عَنْ زَیْدِ بْنِ وَہْبٍ ، قَالَ : خَرَجْت إِلَی الْجَبَّانَۃِ فَجَلَسْت فِیہَا إِلَی جَنْبِ ْحَائِطٍ ، فَجَائَ رَجُلٌ إِلَی قَبْرٍ فَسَوَّاہُ ، ثُمَّ جَائَ فَجَلَسَ إلَی ، فَقُلْتُ : مَنْ ہَذَا ، فَقَالَ : أَخِی ، قَالَ : قُلْتُ : أَخٌ لَک ، قَالَ : أَخٌ لِی فِی الإِسْلاَمِ رَأَیْتہ الْبَارِحَۃَ فِیمَا یَرَی النَّائِمُ ، فَقُلْتُ : فُلاَنٌ قَدْ عِشْت الْحَمْدُ لِلَّہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ ، قَالَ : قَدْ قُلْتہَا ، لأَنْ أَکُونَ أَقْدَرَ عَلَی أَنْ أَقُولَہَا أَحَبُّ إلَیَّ مِنْ مِلْئِ الأَرْضِ ، وَمَا فِیہَا ، أَلَمْ تَرَ حِینَ کَانُوا یَدْفِنُونَنِی فَإِنَّ فُلاَنًا قَامَ فَصَلَّی رَکْعَتَیْنِ لأَنْ أَکُونَ أَقْدَرَ عَلَی أَنْ أُصَلِّیَہُمَا أَحَبُّ إلَیَّ مِنَ الدُّنْیَا ، وَمَا فِیہَا۔
(٣٦٥٧٣) حضرت زید بن وہب فرماتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ قبرستان گیا اور ایک دیوار کے ساتھ بیٹھ گیا۔ اتنے میں ایک آدمی آیا اور اس نے ایک قبر کو سیدھا کیا اور پھر میرے پاس بیٹھ گیا۔ میں نے اس سے پوچھا کہ یہ کس کی قبر ہے ؟ اس نے بتایا کہ یہ میرے بھائی کی قبر ہے۔ میں نے کہا کہ تمہارے بھائی کی ؟ اس نے کہا کہ یہ میرا اسلامی بھائی ہے۔ میں نے اسے رات کو خواب میں دیکھا اور میں نے اس سے کہا کہ اے فلاں تو زندہ رہے ! تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں۔ اس نے کہا کہ تو نے جو جملہ کہا ہے، اگر میں اس کے کہنے پر قادر ہوجاؤں تو یہ کہنے کے لیے ساری زمین بھی صدقہ کرنا پڑے تو صدقہ کردوں۔ کیا تم نے دیکھا کہ جب لوگ مجھے دفن کررہے تھے تو ایک آدمی نے کھڑے ہو کر دو رکعت نماز پڑھی تھی۔ اگر مجھے وہ دو رکعت پڑھنے کی قدرت مل جائے تو وہ مجھے دنیا اور جو کچھ دنیا میں ہے سب سے زیادہ محبوب ہوگا۔

36573

(۳۶۵۷۴) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ زَیْدِ بْنِ أَسْلَمَ ، عْن عَطَائِ بْنِ یَسَارٍ ، قَالَ : للمُقَنِّطِین حبسٌ یَطَأُ النَّاسَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ عَلَی وُجُوہِہِمْ۔
(٣٦٥٧٤) حضرت عطاء بن یسار فرماتے ہیں کہ اللہ کی رحمت سے مایوس ہونے والوں کو قیامت کے دن محبوس رکھا جائے گا اور لوگ ان کے چہروں کو روندیں گے۔

36574

(۳۶۵۷۵) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ مِسْعَرٍ ، قَالَ : حدَّثَنِی مُعَاوِیَۃُ بْنُ بَشِیرٍ ، قَالَ : أُرَاہُ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : قَالَ خَبَّابٌ: أَنَّہَا سَتَکُونُ صَیْحَاتٌ فَأَصِیخُوا لَہَا۔
(٣٦٥٧٥) حضرت خباب فرماتے ہیں کہ عنقریب چیخیں ہوں گی ان کے لیے تیاری کرلو۔

36575

(۳۶۵۷۶) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُلَیْمان عَنْ ثَابِتٍ ، قَالَ : قَالَ ابْنُ أَبِی لَیْلَی : طُفْت ہَذِہِ الأَمْصَارَ فَمَا رَأَیْت أکثر مُتَہَجِّدًا ، وَلاَ أَبْکَرَ عَلَی ذِکْرِ اللہِ مِنْ أَہْلِ الْبَصْرَۃِ۔
(٣٦٥٧٦) حضرت ابن ابی بکرہ فرماتے ہیں کہ میں نے ان شہروں میں چکر لگایا ہے، میں اہل بصرہ سے زیادہ تہجد گزار اور زیادہ ذکر کرنے والا کوئی نہیں دیکھا۔

36576

(۳۶۵۷۷) حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ أَبِی سِنَانٍ ، عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ ، عَنْ أَبِی عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِیِّ ، قَالَ : إنَّ الْمَلَکَ یَجِیئُ إِلَی أَحَدِکُمْ کُلَّ غَدَاۃٍ بِصَحِیفَۃٍ بَیْضَائَ فَلْیُمْلِ فِیہَا خَیْرًا ، فَإِذَا طَلَعَتِ الشَّمْسُ فَلْیُقِمْ لِحَاجَتِہِ ، ثُمَّ إذَا صَلَّی الْعَصْرَ فَلْیُمْلِ فِیہَا خَیْرًا فَإِنَّہُ إذَا أَمْلَی فِی أَوَّلِ صَحِیفَتِہِ وَآخِرِہَا خَیْرًا کَانَ عَسَی أَنْ یُکفی مَا بَیْنَہُمَا۔
(٣٦٥٧٧) حضرت ابو عبد الرحمن سلمی فرماتے ہیں کہ ہر صبح فرشتہ تمہارے پاس سفید نامہ اعمال لے کر آتا ہے اور اس میں خیر لکھواتا ہے، جب سورج طلوع ہوجاتا ہے تو وہ اپنی حاجت کے لیے اٹھ جاتا ہے اور جب وہ عصر کی نماز پڑھ لیتا ہے تو اس میں خیر لکھواتا ہے، پس جب اعمال نامے کے شروع اور آخر میں خیر ہو تو امید ہے کہ ان دونوں حصوں کی خیر درمیانی حصے کو بھی کفایت کرجائے گی۔

36577

(۳۶۵۷۸) حَدَّثَنَا ابْنُ یَمَانٍ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ ثَوْرٍ ، عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ ، قَالَ : یَمُرُّونَ عَلَی النَّارِ وَہِیَ خَامِدَۃٌ فَیَقُولُونَ : أَیْنَ النَّارُ الَّتِی وُعِدْنَا ، قَالَ : مَرَرْتُمْ عَلَیْہَا وَہِیَ خَامِدَۃٌ۔
(٣٦٥٧٨) حضرت خالد بن معدان کہتے ہیں کہ لوگ آگ کے پاس سے گزریں گے تو وہ بجھی ہوئی ہوگی۔ وہ کہیں گے وہ آگ کہاں ہے جس کا ہم سے وعدہ کیا گیا تھا ؟ ان سے کہا جائے گا کہ جب تم اس کے پاس سے گزرے تھے تو وہ بجھی ہوئی تھی۔

36578

(۳۶۵۷۹) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا مُوسَی بْنُ مُسْلِمٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَابِطٍ ، قَالَ : کَانَ سَعِیدُ بْنُ عامر بْنِ حُذَیْمٍ أَمِیرًا عَلَی مِصْرَ فَبَلَغَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ ، أَنَّہُ یَأْتِی عَلَیْہِ حِینٌ لاَ یُدَخَّنُ فِی تَنُّورِہِ ، فَبَعَثَ إلَیْہِ بِمَالٍ فَاشْتَرَی مَا یُصْلِحُہُ وَأَہْلَہُ ، ثُمَّ قَالَ لاِمْرَأَتِہِ : لَوْ أَنَّا أَعْطَیْنَاہَا تَاجِرًا لَعَلَّہُ أَنْ یُصِیبَ لَنَا فِیہَا، قَالَتْ : فَافْعَلْ قَالَ : فَتَصَدَّقَ بِہَا الرَّجُلُ وَأَعْطَاہَا حَتَّی لَمْ یَبْقَ مِنْہَا شَیْئٌ ، ثُمَّ احْتَاجُوا ، فَقَالَتْ لَہُ امْرَأَتُہُ : لَوْ أَنَّک نَظَرْت إِلَی تِلْکَ الدَّرَاہِمِ فَأَخَذْتہَا فَإِنَّا قَدَ احْتَجْنَا إلَیْہَا ، فَأَعْرَضَ عنہا ، ثُمَّ عَادَتْ ، فَقَالَتْ أَیْضًا ، فَأَعْرَضَ عنہا حَتَّی اسْتَبَانَ لَہَا ، أَنَّہُ قَدْ أَمْضَاہَا ، قَالَ : فَجَعَلَتْ تَلُومُہُ ، قَالَ : فَاسْتَعَانَ عَلَیْہَا بِخَالِدِ بْنِ الْوَلِیدِ فَکَلَّمَہَا ، فَقَالَ : إنَّک قَدْ آذَیْتہ فَکَأَنَّمَا أغراہا بِہِ ، فَقَالَتْ لَہُ أَیْضًا ، فَلَمَّا رَأَی ذَلِکَ الرَّجُلُ بَرَکَ عَلَی رُکْبَتَیْہِ ، فَقَالَ : مَا یَسُرُّنِی أَنْ أُحْبَسَ عَنِ الَعَنَق الأَوَّلِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ، وَلا أَنَّ لِی مَا ظَہَرَ عَلَی الأَرْضِ ، وَلَوْ أَنْ خَیِّرَۃ مِنَ الْخَیِّرَاتِ أَبْرَزَتْ أَصَابِعَہَا لأَہْلِ الأَرْضِ مِنْ فَوْقِ السَّمَاوَاتِ لَوُجِدَ رِیحُہُنَّ فَأَنَا أَدَعُہُنَّ لَکُنَّ لأَنْ أَدَعَکُنَّ لَہُنَّ أَحْرَی مِنْ أَنْ أَدَعَہُنَّ لَکُنَّ ، فَلَمَّا رَأَتْ ذَلِکَ کَفَّتْ عَنْہُ۔ (ابو نعیم ۲۴۴)
(٣٦٥٧٩) حضرت عبد الرحمن بن سابط فرماتے ہیں کہ حضرت سعید بن عامر بن حذیم مصر کے امیر تھے۔ حضرت عمر بن خطاب (رض) کو ان کے بارے میں معلوم ہوا کہ ان پر بعض اوقات ایسے بھی آتے ہیں کہ ان کا چولہا نہیں جلتا۔ حضرت عمر (رض) نے ان کے اور ان کے اہل و عیال کی کفالت کے لیے کچھ مال بھیجا۔ حضرت سعید بن عامر (رض) نے اپنی اہلیہ سے فرمایا کہ کیوں نہ ہم یہ مال ایسے تاجر کو دے دیں جو اس میں ہمارے لیے نفع کمائے ؟ ان کی اہلیہ نے فرمایا کہ آپ ایسا کرلیجئے۔ پھر آپ نے وہ مال صدقہ کردیا اور اپنے پاس کچھ بھی باقی نہ چھوڑا۔ پھر کچھ عرصے بعد انھیں احتیاج ہوئی اور مال کی ضرورت پڑی تو ان کی بیوی نے کہا کہ اگر آپ ان دراہم میں سے کچھ اپنے پاس رکھ چھوڑتے تو اچھا ہوتا آج ہمیں ان کی ضرورت ہے۔ حضرت سعید بن عامر (رض) نے ان کی بات پر توجہ نہ دی۔ ان کی اہلیہ نے پھر وہی بات دہرائی ، انھوں نے پھر اعراض کیا۔ پھر جب انھوں نے دیکھا کہ توجہ نہیں کررہے تو انھیں ملامت کرنے لگیں۔ حضرت سعید بن عامر (رض) نے حضرت خالد بن ولید (رض) سے مدد چاہی۔ حضرت خالد بن ولید (رض) نے ان سے بات کی اور فرمایا کہ تم نے حضرت سعید کو تکلیف پہنچائی ہے۔ حضرت سعید کی اہلیہ نے ان سے بھی یہی بات فرمائی۔ جب اس آدمی کو یہ بات معلوم ہوئی جس کو دراہم حاصل ہوئے تھے تو وہ گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا اور کہنے لگا کہ مجھے یہ بات بالکل پسند نہیں کہ قیامت کے دن مجھے پہلی جماعت میں داخل ہونے سے روک لیا جائے جبکہ اس کے بدلے میں مجھے دنیا کی ہر چیز ہی کیوں نہ مل جائے۔ اور اگر ایک حور اپنی انگلیاں زمین والوں کے لیے ظاہر کردے تو ان کی خوشبو سب کو محسوس ہوگی۔

36579

(۳۶۵۸۰) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَنْ مَالِکِ بْنِ مِغْوَلٍ ، قَالَ : مَرَّ رَجُلٌ بِرَبِیعِ بْنِ أَبِی رَاشِدٍ وَہُوَ جَالِسٌ عَلَی صُنْدُوقٍ مِنْ صَنَادِیقِ الْحَذَّائِین ، فَقَالَ : لَوْ دَخَلْت الْمَسْجِدَ فَجَالَسْت إخْوَانَک ، فَقَالَ لَہُ رَبِیعٌ : لَوْ فَارَقَ ذِکْرُ الْمَوْتِ قَلْبِی سَاعَۃً خَشِیت أَنْ یَفْسُدَ قَلْبِی۔
(٣٦٥٨٠) حضرت مالک بن مغول فرماتے ہیں کہ ایک آدمی ربیع بن راشد کے پاس سے گزرا، وہ موچیوں کے ایک کھوکھے کے پاس بیٹھے تھے۔ اس آدمی نے ان سے کہا کہ اگر آپ مسجد چلیں اور مسلمان بھائیوں سے بات چیت کریں تو اچھا ہو۔ حضرت ربیع نے ان سے فرمایا کہ اگر موت کی یاد ایک لمحے کے لیے بھی میرے دل سے جدا ہو تو میں سمجھتا ہوں کہ میرا دل خراب ہوجائے گا۔

36580

(۳۶۵۸۱) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ بْنِ شُعَیْبٍ ، قَالَ : کَانَ أَبِی زَمِیلَ رَبِیعِ بْنِ أَبِی رَاشِدٍ إِلَی مَکَّۃَ ، فَقَالَ ذَاتَ یَوْمٍ : لَوْ أَنِّی أَعْلَمُ أَحَبَّ الْعَمَلِ إِلَی رَبِّی لَعَلِّی أَتَکَلَّفُہُ ، قَالَ : فَرَأَی فِی مَنَامِہِ الشُّکْرَ وَالذِّکْرَ۔
(٣٦٥٨١) حضرت اسماعیل بن شعیب فرماتے ہیں کہ حضرت ابو زمیل ربیع بن راشد ایک مرتبہ مکہ کی طرف جارہے تھے، انھوں نے فرمایا کہ اگر مجھے معلوم ہوجائے کہ میرے رب کو میرا کون سا عمل سب سے زیادہ محبوب ہے تو میں اس کا بہت زیادہ اہتمام کروں گا۔ پھر انھوں نے خواب میں شکر اور ذکر کو دیکھا۔

36581

(۳۶۵۸۲) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ ذَرٍّ ، قَالَ : لَقِیَنِی رَبِیعُ بْنُ أَبِی رَاشِدٍ فِی السُّدَّۃِ فِی السُّوقِ فَأَخَذَ بِیَدِی فَصَافَحَنِی ، فَقَالَ : یَا أَبَا ذَرٍّ مَنْ سَأَلَ اللَّہَ رِضَاہُ فَقَدْ سَأَلَہُ أَمْرًا عَظِیمًا۔
(٣٦٥٨٢) حضرت عمر بن ذر کہتے ہیں کہ حضرت ربیع بن ابی راشد مجھے سدہ کے ایک بازار میں ملے۔ انھوں نے مجھ سے مصافحہ کیا اور فرمایا کہ اے ابو ذر ! جو شخص اللہ تعالیٰ سے اس کی رضا کو مانگتا ہے وہ اللہ سے درحقیقت بہت عظیم چیز مانگتا ہے۔

36582

(۳۶۵۸۳) حَدَّثَنَا خَلَفُ بْنُ خَلِیفَۃَ ، عَنْ عَوْنِ بْنِ شَدَّادٍ ، أَنَّ ہَرِمَ بْنَ حَیَّانَ الْعَبْدِیَّ لَمَّا نَزَلَ بِہِ الْمَوْتُ ، قَالُوا : لَہُ : یَا ہَرِمُ، أَوْصِنی، قَالَ: أُوصِیکُمْ أَنْ تَقْضُوا عَنِّی دَیْنِی، قَالُوا: بِمَ تُوصِی، قَالَ: فَتَلاَ آخِرَ سُورَۃِ النَّحْلِ {ادْعُ إِلَی سَبِیلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَالْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ} حَتَّی بَلَغَ {إنَّ اللَّہَ مَعَ الَّذِینَ اتَّقَوْا وَالَّذِینَ ہُمْ مُحْسِنُونَ}۔
(٣٦٥٨٣) حضرت عون بن شداد کہتے ہیں کہ جب ہرم بن حیان عبدی کے وصال کا وقت آیا تو لوگوں نے ان سے کہا کہ اے ہرم ! وصیت فرما دیجئے۔ انھوں نے کہا کہ میں تمہیں وصیت کرتا ہوں کہ تم میرا قرض ادا کردینا۔ پھر لوگوں نے کہا کہ آپ ہمیں کیسے زندگی گزارنے کی وصیت کرتے ہیں ؟ انھوں نے سورة النحل کی { ادْعُ إِلَی سَبِیلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَالْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ } سے لے کر {إنَّ اللَّہَ مَعَ الَّذِینَ اتَّقَوْا وَالَّذِینَ ہُمْ مُحْسِنُونَ } تک تلاوت فرمائی۔

36583

(۳۶۵۸۴) حَدَّثَنَا خَلَفُ بْنُ خَلِیفَۃَ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ بْنِ أَبِی خَالِدٍ ، قَالَ : قَالَ ہَرِمٌ : اللَّہُمَّ إنِّی أَعُوذُ بِکَ مِنْ شَرِّ زَمَانٍ یَتَمَرَّدُ فِیہِ صَغِیرُہُمْ وَیَأْمُلُ فِیہِ کَبِیرُہُمْ وَتَقْرُبُ فِیہِ آجَالُہُمْ۔
(٣٦٥٨٤) حضرت ہرم یہ دعا مانگا کرتے تھے کہ اے اللہ ! میں ایسے زمانے کے شر سے پناہ مانگتا ہوں جس میں ان کا جوان سرکشی کا شکار ہے، بوڑھا امیدوں میں مبتلا ہے اور ان کی موتیں قریب آگئیں ہیں۔

36584

(۳۶۵۸۵) حَدَّثَنَا خَلَفُ بْنُ خَلِیفَۃَ، عَنْ أَصْبَغَ الْوَرَّاقِ، عَنْ أَبِی نَضْرَۃَ ، أَنَّ عُمَرَ بَعَثَ ہَرِمَ بْنَ حَیَّانَ عَلَی الْخَیْلِ، فَغَضِبَ عَلَی رَجُلٍ فَأَمَرَ بِہِ فَوُجِئَتْ ، عُنُقُہُ ، ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَی أَصْحَابِہِ، فَقَالَ: لاَ جَزَاکُمَ اللَّہُ خَیْرًا، مَا نَصَحْتُمُونِی حِینَ قُلْتُ: وَلاَ کَفَفْتُمُونِی عَنْ غَضَبِی ، وَاللہِ لاَ آلِی لَکُمْ عَمَلاً ، ثُمَّ کَتَبَ إِلَی عُمَرَ: یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ ، لاَ طَاقَۃَ لِی بِالرَّعِیَّۃِ فَابْعَثْ إلَیَّ عَمَلَک۔
(٣٦٥٨٥) حضرت ابو نضرہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر نے حضرت ہرم بن حیان کو ایک لشکر کی قیادت دے کر روانہ فرمایا۔ پھر ہرم دشمنوں کے ایک آدمی پر غضب ناک ہوئے اور اسے قتل کرنے کا حکم دے دیا۔ پھر وہ اپنے ساتھیوں کی طرف متوجہ ہوئے اور ان سے فرمایا کہ اللہ تمہیں خیر سے محروم رکھے، جب میں نے یہ بات کی تو تم نے مجھے نصیحت کیوں نہ کی، اور تم نے مجھے میرے غصے سے کیوں نہ روکا، خدا کی قسم میں تمہارے کسی معاملے کا قائد نہیں بنوں گا۔ پھر انھوں نے حضرت عمرکو خط لکھا کہ اے امیر المومنین ! میں رعیت کے کسی کام کی طاقت نہیں رکھتا۔ آپ اس کام کے لیے کسی اور کو بھیج دیجئے۔

36585

(۳۶۵۸۶) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، أَنَّ ہَرِمَ بْنَ حَیَّانَ کَانَ یَقُولُ : لَمْ أَرَ مِثْلَ النَّارِ نَامَ ہَارِبُہَا ، وَلاَ مِثْلَ الْجَنَّۃِ نَامَ طَالِبُہَا۔
(٣٦٥٨٦) حضرت ہرم بن حیان فرمایا کرتے تھے کہ میں جہنم کو ایسی چیز نہیں سمجھتا جس سے بھاگنے والے کو نیند آئے اور جنت کو ایسی چیز نہیں سمجھتاجس کو حاصل کرنے والا سو پائے۔

36586

(۳۶۵۸۷) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، قَالَ : حدَّثَنِی سُلَیْمَانُ بْنُ الْمُغِیرَۃِ ، عَنْ حُمَیْدِ بْنِ ہِلاَلٍ ، قَالَ : کَانَ ہَرِمُ بْنُ حَیَّانَ عَامِلاً عَلَی بَعْضِ رَسَاتِیقِ الأَہْوَازِ فَاسْتَأْذَنَہُ رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِہِ إِلَی أَہْلِہِ ، فَأَبَی أَنْ یَأْذَنَ لَہُ ، قَالَ : فَقَامَ ہَرِمُ بْنُ حَیَّانَ یَخْطُبُ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ إذْ ، قَالَ الرَّجُلُ ہَکَذَا عَلَی أَنْفِہِ أَمْسَکَ عَلَی أَنْفِہِ فَأَشَارَ إلَیْہِ ہَرِمٌ بِیَدِہِ : اذْہَبْ ، فَانْطَلَقَ الرَّجُلُ حَتَّی أَتَی أَہْلَہُ فَقَضَی حَاجَتَہُ ، ثُمَّ رَجَعَ ، فَقَالَ لَہُ ہَرِمٌ : أَیْنَ کُنْت ، فَقَالَ : أَلَمْ تَرَ حِینَ قُمْت فَأَمْسَکْت عَلَی أَنْفِی فَأَشَرْتَ إلَیَّ بِیَدِکَ اذْہَبْ ، فَقَالَ ہَرِمٌ : أَخِّرْ رِجَالَ السُّوئِ لِزَمَانِ السُّوئِ۔
(٣٦٥٨٧) حمید بن ہلال (رض) فرماتے ہیں کہ حرم بن حیان ” اہواز “ علاقے کے بعض دیہاتوں کے گورنر تھے۔ ان سے ان کے کسی ساتھی نے اپنے گھر جانے کی اجازت طلب کی تو انھوں نے اجازت دینے سے انکار کردیا۔ ” حمید بن ہلال “ کہتے ہیں کہ ہرم بن حیان جمعہ کے خطبہ دے رہے تھے کہ اچانک ایک آدمی نے ناک پر ہاتھ رکھ کر اجازت طلب کی تو ” ہرم “ نے اس کو ہاتھ کے اشارے سے کہا کہ چلا جا۔ وہ نکلا یہاں تک کہ اپنے گھر آیا اور اپنی ضرورت کو پورا کرنے کے بعد لوٹا۔ ” ہرم “ نے اس سے پوچھا کہ ” آپ کہاں تھے “ تو اس نے جواب دیا کہ کیا آپ نے دیکھا نہیں تھا کہ جب میں نے کھڑا ہو کر ناک کو روک رکھا تھا تو آپ نے کہا تھا کہ چلا جا تو ہرم نے فرمایا کہ ” برے لوگوں کو برے زمانہ کے لیے چھوڑ دو ۔

36587

(۳۶۵۸۸) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، قَالَ : أَخْبَرَنِی غَالِبُ الْقَطَّانُ ، عَنْ بَکْرٍ ، قَالَ : إذَا کَانَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ لَمْ یَدَعِ اللَّہُ لِمُؤْمِنٍ حَاجَۃً إِلاَّ قَضَاہَا ، وَلاَ یَسْأَلُہُ إِلاَّ مَا یُوَافِقُ رِضَاہُ۔
(٣٦٥٨٨) بکر فرماتے ہیں کہ بروز قیامت اللہ تعالیٰ مومن کی ہر حاجت کو پورا کرے گا۔ اور اس کی مرضی کے موافق اس سے سوال کیا جائے گا۔

36588

(۳۶۵۸۹) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، قَالَ : حَدَّثَنَا سَعِیدٌ الْجُرَیْرِیُّ ، قَالَ : مَرَّ مُوَرِّقٌ الْعِجْلِیّ عَلَی مَجْلِسِ الْحَیِّ فَسَلَّمَ عَلَیْہِمْ ، فَرَدُّوا عَلَیْہِ السَّلاَمَ وَسَأَلُوہُ ، فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْحَیِّ : أکُلُّ حَالِکَ صَالِحٌ، قَالَ : وَدِدْنَا ، أَنَّ الْعُشْرَ مِنْہُ یَصْلُحُ۔
(٣٦٥٨٩) سعید جریری (رض) فرماتے ہیں کہ مورق العجلی قبیلہ حی کی مجلس سے گزرے تو ان کو سلام کیا۔ انھوں نے سلام کا جواب دیا اور ایک آدمی نے ان سے پوچھا کہ ” آپ کی حالت بالکل درست ہے ؟ “ تو انھوں نے جواب دیا کہ ” میں تو چاہتا ہوں کہ اس کا دسواں حصہ ہی ٹھیک ہوجائے۔

36589

(۳۶۵۹۰) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ، عَنْ حُصَیْنٍ، عَنْ بَکْرٍ، قَالَ: لاَ یَکُونُ الرَّجُلُ تَقِیًّا حَتَّی یَکُونَ تَقِیَّ الْغَضَبِ تَقِیَّ الطَّمَعِ۔
(٣٦٥٩٠) بکر (رض) فرماتے ہیں کہ آدمی پرہیزگار اس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک کہ غصہ اور لالچ سے نہ بچے۔

36590

(۳۶۵۹۱) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ سُلَیْمٍ ، عَنِ ابْنِ أَبِی نَجِیحٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ {فَلأَنْفُسِہِمْ یَمْہَدُونَ} قَالَ : فِی الْقَبْرِ۔
(٣٦٥٩١) مجاہد (رض) سے آیت کریمہ { فَلأَنْفُسِہِمْ یَمْہَدُونَ } کی تفسیر میں مروی ہے کہ یہ قبر کے بارے میں ہے۔

36591

(۳۶۵۹۲) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ مُجَاہِدٍ {وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہِ جَنَّتَانِ} قَالَ : مَنْ خَافَ اللَّہَ عِنْدَ مَقَامِہِ عَلَی الْمَعْصِیَۃِ فِی الدُّنْیَا۔
(٣٦٥٩٢) مجاہد سے آیت کریمہ { وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہِ جَنَّتَانِ } کے بارے میں مروی ہے کہ جو شخص دنیا میں گناہ پر اصرار کرنے سے اللہ سے ڈرے۔

36592

(۳۶۵۹۳) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، قَالَ : کُنْتُ إذَا رَأَیْت مُجَاہِدًا ظَنَنْت أَنَّہُ خربندۃ ، قَدْ ضَلَّ حِمَارُہُ فَہُوَ مُہْتَمٌّ۔
(٣٦٥٩٣) حضرت اعمش فرماتے ہیں کہ میں نے جب مجاہد کو دیکھا تو یہ سمجھا کہ شاید یہ کوئی کمہار ہے جس کا گدھا گم ہوگیا ہے جس کو یہ تلاش کررہا ہے۔

36593

(۳۶۵۹۴) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ آدَمَ ، قَالَ : حدَّثَنَا قُطْبَۃُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیزِ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، قَالَ : مَا مِنْ یَوْمٍ یَمْضِی مِنَ الدُّنْیَا إِلاَّ قَالَ : الْحَمْدُ لِلَّہِ الَّذِی أَخْرَجَنِی مِنَ الدُّنْیَا فَلاَ أَعُودُ إلَیْہَا أَبَدًا۔
(٣٦٥٩٤) حضرت مجاہد کا ارشاد ہے کہ جب بھی دنیا سے کوئی دن گزر جاتا ہے تو وہ یہ کہتا ہے کہ ” تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں کہ جس نے مجھے اس دنیا سے نکال دیا ہے اب میں کبھی اس کی طرف لوٹ کر نہیں آؤں گا۔

36594

(۳۶۵۹۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، عَنْ سُفْیَانَ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ مُجَاہِدٍ {نَأْتِی الأَرْضَ نَنْقُصُہَا مِنْ أَطْرَافِہَا} قَالَ: الْمَوْتُ۔
(٣٦٥٩٥) حضرت مجاہد (رض) سے { نَأْتِی الأَرْضَ نَنْقُصُہَا مِنْ أَطْرَافِہَا } کی تفسیر میں مذکور ہے کہ اس سے مراد موت ہے۔

36595

(۳۶۵۹۶) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، قَالَ : حدَّثَنَا الأَعْمَشُ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، قَالَ : کَانَ بِالْمَدِینَۃِ أَہْلُ بَیْتٍ ذُو حَاجَۃٍ عِنْدَہُمْ رَأْسُ شَاۃٍ ، فَأَصَابُوا شَیْئًا فَقَالُوا : لَوْ بَعَثْنَا بِہَذَا الرَّأْسِ إِلَی مَنْ ہُوَ أَحْوَجُ إلَیْہِ مِنَّا ، قَالَ : فَبَعَثُوا بِہِ فَلَمْ یَزَلْ یَدُورُ بِالْمَدِینَۃِ حَتَّی رَجَعَ إِلَی أَصْحَابِہِ الَّذِینَ خَرَجَ مِنْ عِنْدِہِمْ۔
(٣٦٥٩٦) حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ مدینہ میں ضرورت مند اہل بیت رہتے تھے۔ ان کے پاس بکری کا سر تھا۔ ان کو کچھ وسعت ہوئی تو انھوں نے سوچا کہ کیوں نہ ہم اس سر کو کسی اپنے سے زیادہ محتاج کو دے دیں۔ تو انھوں نے اس کو بھیج دیا تو وہ سر مدینہ کے گھروں میں گھومتا رہا حتی کہ انہی کے پاس لوٹ آیا کہ جن سے وہ نکلا تھا۔

36596

(۳۶۵۹۷) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، قَالَ : ذَہَبَ الْعُلَمَائُ فَمَا بَقِیَ إِلاَّ الْمُتَعَلِّمُونَ ، مَا الْمُجْتَہِدُ فِیکُمَ الْیَوْمَ إِلاَّ کَاللاَّعِبِ فِیمَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ۔
(٣٦٥٩٧) حضرت مجاہد (رض) فرماتے ہیں کہ علماء ختم ہوچکے ہیں اور صرف طالب علم ہی باقی رہ گئے ہیں۔ تم میں آج مجاہدہ کرنے والا ایسے ہی ہے کہ جیسے پہلے لوگوں میں کھیل کود کرنے والا۔

36597

(۳۶۵۹۸) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا مَالِکُ بْنُ مِغْوَلٍ ، عَنْ طَلْحَۃَ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، قَالَ : إذَا الْتَقَی الرَّجُلُ الرَّجُلَ فَضَحِکَ فِی وَجْہِہِ تَحَاتَّتْ عَنْہُمَا الذُّنُوبُ کَمَا یَنْثُرُ الرِّیحُ الْوَرَقَ الْیَابِسَ مِنَ الشَّجَرِ ، قَالَ: فَقَالَ رَجُلٌ إنَّ ہَذَا مِنَ الْعَمَلِ یَسِیرٌ ، قَالَ : فَقَالَ : مَا سَمِعْت قولہ تعالی : {لَوْ أَنْفَقْتَ مَا فِی الأَرْضِ جَمِیعًا مَا أَلَّفْتَ بَیْنَ قُلُوبِہِمْ}۔
(٣٦٥٩٨) حضرت مجاہد کا ارشاد ہے کہ جب کوئی آدمی دوسرے کو مل کر مسکراتا ہے تو اس کے گناہ ایسے ہی جھڑ جاتے ہیں کہ جیسے ہوا خشک پتوں کو جھاڑ دیتی ہے۔ راوی کہتے ہیں کہ کسی نے سوال کیا کہ یہ تو بہت چھوٹا سا عمل ہے۔ تو انھوں نے جواب دیا کہ کیا تو نے اللہ تعالیٰ کا ارشاد نہیں سنا : { لَوْ أَنْفَقْتَ مَا فِی الأَرْضِ جَمِیعًا مَا أَلَّفْتَ بَیْنَ قُلُوبِہِمْ } کہ اگر آپ روئے زمین کی تمام اشیاء بھی صرف کردیتے تو ان میں آپس میں الفت نہ پیدا کرسکتے۔

36598

(۳۶۵۹۹) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، قَالَ : أَعْجَبُ أَہْلِ الْکُوفَۃِ إلَیَّ أَرْبَعَۃٌ : طَلْحَۃُ وَزُبَیْدٌ وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، وَیَحْیَی بْنُ عَبَّادٍ۔
(٣٦٥٩٩) حضرت مجاہد (رض) فرماتے ہیں کہ مجھے اہل کوفہ میں چار آدمی سب سے اچھے لگتے ہیں : طلحہ، زبید، محمد بن عبدالرحمن اور یحییٰ بن عباد۔

36599

(۳۶۶۰۰) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، قَالَ : إنَّ الْمُسْلِمَ لَوْ لَمْ یُصِبْ مِنْ أَخِیہِ إِلاَّ أَنَّ حَیَائَہُ مِنْہُ یَمْنَعُہُ مِنَ الْمَعَاصِی۔
(٣٦٦٠٠) حضرت مجاہد (رض) فرماتے ہیں بیشک مسلمان اگر اپنے بھائی سے کوئی بھلائی نہ بھی ملے تو یہ بھلائی کافی ہے کہ وہ اس کی حیا کرتے ہوئے گناہ سے بچ جاتا ہے۔

36600

(۳۶۶۰۱) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، قَالَ : إنَّمَا الْفَقِیہُ مَنْ یَخَافُ اللَّہَ۔
(٣٦٦٠١) حضرت مجاہد (رض) کا ارشاد ہے کہ سمجھ والا شخص وہ ہے جو اللہ سے ڈرے۔

36601

(۳۶۶۰۲) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ مُجَاہِدٍ فِی قولہ تعالی : {تُوبُوا إِلَی اللہِ تَوْبَۃً نَصُوحًا} قَالَ : ہُوَ أَنْ یَتُوبَ ، ثُمَّ لاَ یَعُودَ۔
(٣٦٦٠٢) حضرت مجاہد سے قرآن پاک کی آیت { تُوبُوا إِلَی اللہِ تَوْبَۃً نَصُوحًا } کی تفسیر منقول ہے کہ وہ آدمی توبہ کرے اور پھر دوبارہ گناہ نہ کرے۔

36602

(۳۶۶۰۳) حَدَّثَنَا مُعْتَمِرُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ فی قولہ تعالی : {وَلَہُ أَسْلَمَ مَنْ فِی السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ طَوْعًا وَکَرْہًا} قَالَ : الطَّائِعُ الْمُؤْمِنُ۔
(٣٦٦٠٣) حضرت مجاہد سے اللہ تعالیٰ کے ارشاد { وَلَہُ أَسْلَمَ مَنْ فِی السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ طَوْعًا وَکَرْہًا } کے بارے میں منقول ہے کہ اس سے مراد تابع دار، مومن شخص ہے۔

36603

(۳۶۶۰۴) حَدَّثَنَا مُعْتَمِرُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ {کَانُوا قَلِیلاً مِنَ اللَّیْلِ مَا یَہْجَعُونَ} قَالَ : کَانُوا لاَ یَنَامُونَ کُلَّ اللَّیْلِ۔
(٣٦٦٠٤) حضرت مجاہد سے اللہ تعالیٰ کے ارشاد { کَانُوا قَلِیلاً مِنَ اللَّیْلِ مَا یَہْجَعُونَ } کے بارے میں منقول ہے کہ وہ لوگ تمام رات نہیں سوتے تھے۔

36604

(۳۶۶۰۵) حَدَّثَنَا فُضَیْلُ بْنُ عِیَاضٍ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ {حُورٌ مَقْصُورَاتٌ فِی الْخِیَامِ} قَالَ : مَقْصُورَاتٌ قُلُوبُہُنَّ وَأَبْصَارُہُنَّ وَأَنْفُسُہُنَّ عَلَی أَزْوَاجِہِنَّ فِی خِیَامِ اللُّؤْلُؤِ لاَ یُرِدْنَ غَیْرَہُمْ۔
(٣٦٦٠٥) حضرت مجاہد سے اللہ تعالیٰ کے ارشاد { حُورٌ مَقْصُورَاتٌ فِی الْخِیَامِ } کی تفسیر میں منقول ہے کہ وہ ایسی حوریں ہوں گی کہ جو موتیوں کے خیموں میں ہوں گی اور ان کے دل وجان اور آنکھیں صرف اپنے خاوندوں پر منحصر ہوں گی۔ وہ ان کے علاوہ کسی اور سے محبت نہیں کریں گی۔

36605

(۳۶۶۰۶) حَدَّثَنَا فُضَیْلُ بْنُ عِیَاضٍ ، عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِہِ ، عَنْ مُجَاہِدٍ {وَحُورٌ عِینٌ} قَالَ : یَحَارُ فِیہِنَّ الْبَصَرُ۔
(٣٦٦٠٦) حضرت مجاہد سے اللہ تعالیٰ کے ارشاد { وَحُورٌ عِینٌ} کے بارے میں منقول ہے کہ ان حوروں کے دیکھنے میں آنکھیں چندھیا رہی ہوں گی۔

36606

(۳۶۶۰۷) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ {وَاسْأَلُوا اللَّہَ مِنْ فَضْلِہِ} قَالَ : لَیْسَ بِعَرَضِ الدُّنْیَا۔
(٣٦٦٠٧) حضرت مجاہد سے اللہ تعالیٰ کے ارشاد { وَاسْأَلُوا اللَّہَ مِنْ فَضْلِہِ } کے بارے میں منقول ہے کہ اس سے دنیا کا مال مراد نہیں ہے۔

36607

(۳۶۶۰۸) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِِ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ {وَتَبَتَّلْ إلَیْہِ تَبْتِیلاً} قَالَ : أَخْلِصْ لَہُ إخْلاَصًا۔
(٣٦٦٠٨) حضرت مجاہد سے اللہ تعالیٰ کے ارشاد { وَتَبَتَّلْ إلَیْہِ تَبْتِیلاً } کی تفسیر میں منقول ہے کہ اللہ کے لیے اخلاص پیدا کرو۔

36608

(۳۶۶۰۹) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِِ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، قَالَ : مَا مِنْ مَیَّتٍ یَمُوتُ إِلاَّ تَبْکِی عَلَیْہِ الأَرْضُ أَرْبَعِینَ صَبَاحًا۔
(٣٦٦٠٩) حضرت مجاہد سے ارشاد منقول ہے کہ جب بھی کوئی مرتا ہے تو زمین چالیس دن اس پر روتی ہے۔

36609

(۳۶۶۱۰) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِِ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ {وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہِ جَنَّتَانِ} قَالَ : ہُوَ الرَّجُلُ یَذْکُرُ اللَّہَ عِنْدَ الْمَعَاصِی فَیَحْتَجِزُ عنہا۔
(٣٦٦١٠) حضرت مجاہد سے اللہ کے ارشاد { وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہِ جَنَّتَانِ } کی تفسیر میں منقول ہے کہ اس سے مراد وہ شخص ہے کہ جو بوقت گناہ اللہ کو یاد کرے اور گناہ سے احتراز کرلے۔

36610

(۳۶۶۱۱) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِِ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ فِی قَوْلِہِ : {یُطَافُ عَلَیْہِمْ بِآنِیَۃٍ مِنْ فِضَّۃٍ وَأَکْوَابٍ کَانَتْ قَوَارِیرَا قَوَارِیرَا مِنْ فِضَّۃٍ قَدَّرُوہَا تَقْدِیرًا} قَالَ : الآنِیَۃُ : الأَقْدَاحُ ، وَالأَکْوَابُ : الکوکَباتُ ، وَتَقْدِیرًا : أَنَّہَا لَیْسَتَ بِالْمَلأْی الَّتِی تَفِیضُ ، وَلاَ نَاقِصَۃَ الْقَدْرِ۔
(٣٦٦١١) حضرت مجاہد سے اللہ تعالیٰ کے ارشاد { یُطَافُ عَلَیْہِمْ بِآنِیَۃٍ مِنْ فِضَّۃٍ وَأَکْوَابٍ کَانَتْ قَوَارِیرَا قَوَارِیرَا مِنْ فِضَّۃٍ قَدَّرُوہَا تَقْدِیرًا } کی تفسیر میں منقول ہے کہ آنیہ سے مراد دینے کے برتن اور الاکواب سے مراد۔

36611

(۳۶۶۱۲) حَدَّثَنَا مُعْتَمِرُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنِ الْحَکَمِ بْنِ أَبَانَ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ فِی قولہ تعالی : {لِلَّذِینَ یَعْمَلُونَ السُّوئَ بِجَہَالَۃٍ ثُمَّ یَتُوبُونَ مِنْ قَرِیبٍ} قَالَ : الدُّنْیَا کُلُّہَا قَرِیبٌ ، کُلُّہَا جَہَالَۃٌ۔
(٣٦٦١٢) حصرت عکرمہ (رض) سے اللہ تعالیٰ ارشاد { لِلَّذِینَ یَعْمَلُونَ السُّوئَ بِجَہَالَۃٍ ثُمَّ یَتُوبُونَ مِنْ قَرِیبٍ } کی تفسیر میں منقول ہے کہ دنیا تمام کی تمام قریب ہے اور تمام کی تمام جہالت ہے۔

36612

(۳۶۶۱۳) حَدَّثَنَا مُعْتَمِرُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ رَجُلٍ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ {سِیمَاہُمْ فِی وُجُوہِہِمْ} قَالَ : السَّہَرُ۔
(٣٦٦١٣) حضرت عکرمہ (رض) فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ کے ارشاد { سِیمَاہُمْ فِی وُجُوہِہِمْ } سے مراد شب بیداری ہے۔

36613

(۳۶۶۱۴) حَدَّثَنَا حَکَّامُ الرَّازِیّ ، عَنْ أَبِی سِنَانٍ ، عَنْ ثَابِتٍ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ {وَاذْکُرْ رَبَّک إذَا نَسِیتَ} قَالَ : إذَا عَصَیْت ، وَقَالَ بَعْضُہُمْ : إذَا غَضِبْت۔
(٣٦٦١٤) حضرت عکرمہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ { وَاذْکُرْ رَبَّک إذَا نَسِیتَ } کا مطلب ہے کہ جب تو اللہ کی نافرمانی کرے اور بعض علماء فرماتے ہیں کہ جب تجھے غصہ آئے۔

36614

(۳۶۶۱۵) حَدَّثَنَا یُونُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَیْدٍ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ {وَبَلَغَتِ الْقُلُوبُ الْحَنَاجِرَ} قَالَ : إنَّ الْقُلُوبَ لَوْ تَحَرَّکَتْ ، أَوْ زَالَتْ خَرَجَتْ نَفْسُہُ ، وَلَکِنْ إنَّمَا ہُوَ الْفَزَعُ۔
(٣٦٦١٥) حضرت عکرمہ قرآن مجید کی آیت { وَبَلَغَتِ الْقُلُوبُ الْحَنَاجِرَ } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ دل اگر حرکت کریں تو سانس نکل جائے، وہ صرف گھبراہٹ ہوگی۔

36615

(۳۶۶۱۶) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ بُکَیْر ، قَالَ : أَخْبَرَنَا شُعْبَۃُ ، عَنْ سِمَاکٍ عَنْ عِکْرِمَۃَ {کَمَا یَئِسَ الْکُفَّارُ مِنْ أَصْحَابِ الْقُبُورِ} قَالَ : الْکُفَّارُ إذَا دَخَلُوا الْقُبُورَ فَعَایَنُوا مَا أَعَدَّ اللَّہُ لَہُمْ مِنَ الْخِزْیِ یَئِسُوا مِنْ رَحْمَۃِ اللہِ۔
(٣٦٦١٦) حضرت عکرمہ سے اللہ تعالیٰ کے ارشاد { کَمَا یَئِسَ الْکُفَّارُ مِنْ أَصْحَابِ الْقُبُورِ } کے بارے میں منقول ہے کہ کافر لوگ جب قبروں میں داخل ہوتے ہیں اور اس عذاب کو دیکھتے ہیں جو اللہ نے ان کے لیے تیار کر رکھا ہے تو وہ اللہ کی رحمت سے مایوس ہوجاتے ہیں۔

36616

(۳۶۶۱۷) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ أَبِی عَمْرو بَیَّاعِ الْمُلاَء ، عَنْ عِکْرِمَۃَ {إنَّ لَدَیْنَا أَنْکَالاً} قَالَ : قُیُودًا۔
(٣٦٦١٧) حضرت عکرمہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد {إنَّ لَدَیْنَا أَنْکَالاً } سے مراد بیڑیاں ہیں۔

36617

(۳۶۶۱۸) حَدَّثَنَا یَعْلَی بْنُ عُبَیْدٍ ، قَالَ : دَخَلْنَا عَلَی مُحَمَّدِ بْنِ سُوقَۃَ ، فَقَالَ : أُحَدِّثُکُمْ بِحَدِیثٍ لَعَلَّہُ یَنْفَعُکُمْ فَإِنَّہُ قَدْ نَفَعَنِی ، قَالَ : قَالَ لَنَا عَطَائُ بْنُ أَبِی رَبَاحٍ : یَا ابْنَ أَخِی ، إنَّ مَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ کَانَ یَکْرَہُ فُضُولَ الْکَلاَمُ مَا عَدَا کِتَابَ اللہِ تَعَالَی أَنْ تَقْرَأَہُ ، أَوْ أَمْرًا بِمَعْرُوفٍ ، أَوْ نَہْیًا ، عَنْ مُنْکَرٍ ، وَأَنْ تَنْطِقَ بِحَاجَتِکَ فِی مَعِیشَتِکَ الَّتِی لاَ بُدَّ لَک مِنْہَا ، أَتُنْکِرُونَ أَنَّ {عَلَیْکُمْ حَافِظِینَ کِرَامًا کَاتِبِینَ} وَأَنَّ {عَنِ الْیَمِینِ وَعَنِ الشِّمَالِ قَعِیدٌ مَا یَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ إِلاَّ لَدَیْہِ رَقِیبٌ عَتِیدٌ} أَمَا یَسْتَحْیِیْ أَحَدُکُمْ لَوْ نَشَرَ صَحِیفَتَہُ الَّتِی أَمْلَی صَدْرَ نَہَارِہِ وَأَکْثَرَ مَا فِیہَا لَیْسَ مِنْ أَمْرِ دِینِہِ ، وَلاَ دُنْیَاہُ۔
(٣٦٦١٨) حصرت یعلی بن عبید فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ محمد بن سوقہ ہمارے پاس آئے اور فرمایا کہ میں تم کو ایک بات بتاتا ہوں امید ہے کہ وہ تم کو نفع دے گی۔ اس لیے کہ اس بات سے مجھ کو نفع ہوا ہے۔ انھوں نے فرمایا کہ عطا بن رباح نے ہمیں فرمایا کہ ” اے میرے بھتیجے تم سے پہلے لوگ فضول باتوں سے بچتے تھے۔ سوائے اس کے کہ تو اللہ تعالیٰ کی کتاب قرآن پاک کی تلاوت کرے یا کسی نیک کام کا حکم کرے یا برائی سے روکے اور یہ کہ تو اپنی ضروری معیشت کو خاطر بقدر ضرورت بات کرے۔ کیا تم لوگ قرآن پاک کی آیت { عَلَیْکُمْ حَافِظِینَ کِرَامًا کَاتِبِینَ } اور { عَنِ الْیَمِینِ وَعَنِ الشِّمَالِ قَعِیدٌ مَا یَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ إِلاَّ لَدَیْہِ رَقِیبٌ عَتِیدٌ} کا انکار کرسکتے ہو۔ کیا تم کو اس بات سے حیا نہیں آتی کہ اگر تمہارے سارے دن کے اعمال ناموں کا صحیفہ کھولا جائے تو اس میں اکثر باتیں ایسی ہوں کہ جن کا نہ دین سے کوئی تعلق ہے اور نہ ہی دنیا سے۔

36618

(۳۶۶۱۹) حَدَّثَنَا مُعْتَمِرُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ عِمْرَانَ ، عَنِ الرُّدینی عَنْ یَحْیَی بْنِ یَعْمَُرَ ، قَالَ : مَا ہَاجَتِ الرِّیحُ إِلاَّ بِعَذَابٍ وَرَحْمَۃٍ۔
(٣٦٦١٩) حضرت یحییٰ بن یعمر فرماتے ہیں کہ تیز ہوا عذاب یا رحمت ہی کی وجہ سے چلتی ہے۔

36619

(۳۶۶۲۰) حَدَّثَنَا مُعْتَمِرُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ شَبِیبٍ ، عَنْ مُقَاتِلِ بْنِ حَیَّانَ {أَمِ اتَّخَذَ عِنْدَ الرَّحْمَن عَہْدًا} قَالَ : الْعَہْدُ الصَّلاَۃُ۔
(٣٦٦٢٠) حضرت مقاتل بن حیان فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد { أَمِ اتَّخَذَ عِنْدَ الرَّحْمَن عَہْدًا } سے مراد عہد نماز ہے۔

36620

(۳۶۶۲۱) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا مِسْعَرٌ ، عَنْ أَبِی عَوْنٍ ، قَالَ : کَانَ أَہْلُ الْخَیْرِ إذَا الْتَقَوْا یُوصِی بَعْضُہُمْ بَعْضًا بِثَلاَثٍ ، وَإِذَا غَابُوا کَتَبَ بَعْضُہُمْ إِلَی بَعْضٍ بِثَلاَثٍ : مَنْ عَمِلَ لآخِرَتِہِ کَفَاہُ اللَّہُ دُنْیَاہُ ، وَمَنْ أَصْلَحَ مَا بَیْنَہُ وَبَیْنَ اللہِ کَفَاہُ اللَّہُ النَّاسَ ، وَمِنْ أَصْلَحَ سَرِیرَتَہُ أَصْلَحَ اللَّہُ عَلاَنِیَتَہُ۔
(٣٦٦٢١) حضرت ابی عون فرماتے ہیں اچھے لوگ جب ملا کرتے تھے تو تین چیزوں کی نصیحت کیا کرتے تھے اور جب دور ہوتے تھے تو بھی تین چیزوں کو لکھ کر بھیجا کرتے تھے۔ 1 ۔ جو شخص آخرت کے لیے عمل کرتا ہے اللہ اس کی دنیا کی کفایت کرتا ہے۔ 2 ۔ جو شخص اپنے اور اللہ کے درمیان معاملات کو درست کرتا ہے اللہ اس کو لوگوں سے کفایت کرتا ہے۔ 3 ۔ جو شخص اپنی پوشیدہ حالت کو درست کرتا ہے اللہ اس کی ظاہری حالت کو بھی درست کردیتا ہے۔

36621

(۳۶۶۲۲) حَدَّثَنَا سَعِیدُ بْنُ شُرَحْبِیلَ ، عَنْ خَلاَّدِ بْنِ سُلَیْمَانَ الْحَضْرَمِیِّ ، قَالَ : سَمِعْتُ خَالِدَ بْنَ أَبِی عِمْرَانَ یَقُولُ : کَانَ عَبْدُ اللہِ بْنُ الزُّبَیْرِ لاَ یُفْطِرُ مِنَ الشَّہْرِ إِلاَّ ثَلاَثَۃَ أَیَّامٍ ، قَالَ خَالِدُ : مَکَثَ أَرْبَعِینَ سَنَۃً لَمْ یَنْزِعْ ثَوْبَہُ ، عَنْ ظَہْرِہِ۔
(٣٦٦٢٢) حضرت خالد بن ابی عمران فرماتے ہیں کہ عبداللہ بن زبیر مہینہ میں صرف تین دن افطار کرتے تھے۔ خالد فرماتے ہیں چالیس سال تک انھوں نے اپنی کمر سے کپڑا نہیں اتارا۔

36622

(۳۶۶۲۳) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا ابْنُ عَوْنٍ وَہِشَامٌ جَمِیعًا ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِیرِینَ ، قَالَ : کُنَّا عِنْدَ أَبِی عُبَیْدَۃَ بْنِ حُذَیْفَۃَ فِی قُبَّۃٍ لَہُ ، فَأَتَاہُ رَجُلٌ فَجَلَسَ مَعَہُ عَلَی فِرَاشِہِ ، فَسَارَّہُ بِشَیْئٍ لَمْ أَفْہَمْہُ ، فَقَالَ لَہُ أَبُو عُبَیْدَۃَ : فَإِنِّی أَسْأَلُک أَنْ تَضَعَ إصْبَعَک فِی ہَذِہِ النَّارِ ، وَکَانُونٌ بَیْنَ أَیْدِیہمْ فِیہِ نَارٌ ، فَقَالَ الرَّجُلُ : سُبْحَانَ اللہِ ، فَقَالَ لَہُ أَبُو عُبَیْدَۃَ : تَبْخَلُ عَلَیَّ بِإِصْبَعٍ مِنْ أَصَابِعِکَ فِی نَارِ الدُّنْیَا وَتَسْأَلُنِی أَنْ أَجْعَلَ جَسَدِی کُلَّہُ فِی نَارِ جَہَنَّمَ ، قَالَ : فَظَنَنَّا أَنَّہُ دَعَاہُ إِلَی الْقَضَائِ۔
(٣٦٦٢٣) محمد بن سیرین فرماتے ہیں کہ ہم ابوعبیدہ کے پاس ان کے گنبد میں بیٹھے ہوئے تھے تو ایک آدمی ان کے پاس آیا اور ان کے ساتھ ان کے بستر پر بیٹھ گیا۔ اس نے ابوعبیدہ (رض) سے پوشیدہ طور پر کوئی بات کی جو ہم نہ سمجھ سکے۔ ابوعبیدہ نے اس سے کہا کہ اپنی انگلی اس آگ میں ڈالو۔ ہمارے درمیان ایک انگیٹھی میں آگ جل رہی تھی۔ اس آدمی نے کہا ” سبحان اللہ “ تو ابوعبیدہ نے فرمایا کہ تو میرے لیے اس دنیا کی آگ میں ایک انگلی کے بارے میں بھی بخل کرتا ہے اور مجھ سے سوال کرتا ہے کہ میں اپنے تمام جسم کو جہنم کی آگ میں ڈال دوں۔ راوی کہتے ہیں کہ ہمارے خیال میں اس آدمی نے ابوعبیدہ کو قاضی بننے کی دعوت دی تھی۔

36623

(۳۶۶۲۴) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَیْدٍ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ، عَنِ الْقَاسِمِ ، أَنَّ عُبَیْدَ اللہِ بْنَ عَدِیٍّ بْنِ الْخِیَارِ ، قَالَ : اللَّہُمَّ سَلِّمْنَا وَسَلِّمَ الْمُؤْمِنِینَ مِنَّا۔
(٣٦٦٢٤) حضرت قاسم (رض) کا ارشاد ہے کہ عبید اللہ بن عدی بن خیار کا ارشاد ہے کہ ” اے اللہ ہمیں سلامتی میں رکھ اور مومنین کو ہم سے سلامتی میں رکھ۔

36624

(۳۶۶۲۵) حَدَّثَنَا ابْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ أَبِی سِنَانٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ عَبْدَ اللہِ بْنَ الْحَارِثِ یَقُولُ : الزَّبَانِیَۃُ رُؤُوسُہُمْ فِی السَّمَائِ وَأَرْجُلُہُمْ فِی الأَرْضِ۔
(٣٦٦٢٥) حضرت عبداللہ بن حارث فرماتے ہیں کہ ” الزبانیہ “ سے مراد فرشتے ہیں کہ جن کے سر آسمان میں اور پاؤں زمین میں ہیں۔

36625

(۳۶۶۲۶) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ {مَا یَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ} قَالَ : یُکْتَبُ مِنْ قَوْلِہِ الْخَیْرُ وَالشَّرُّ۔
(٣٦٦٢٦) حضرت ابن عباس سے اللہ تعالیٰ کے ارشاد { مَا یَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ } کی تفسیر منقول ہے کہ آدمی کی ہر اچھی اور بری بات لکھی جاتی ہے۔

36626

(۳۶۶۲۷) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ ، عَنْ عِمْرَانَ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ ، قَالَ : یُکْتَبُ مَا عَلَیْہِ وَمَالُہُ۔
(٣٦٦٢٧) حضرت عکرمہ (رض) سے مروی ہے کہ اس کے نفع اور نقصان کی ہر بات لکھی جاتی ہے۔

36627

(۳۶۶۲۸) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ ، عَنْ عَوْفٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ أَبِی الْحَسَنِ {کَانُوا قَلِیلاً مِنَ اللَّیْلِ مَا یَہْجَعُونَ} قَالَ : قَلَّ لَیْلَۃٌ أَتَتْ عَلَیْہِمْ ہَجَعُوہَا۔
(٣٦٦٢٨) حضرت سعید بن حسن سے اللہ تعالیٰ کے ارشاد { کَانُوا قَلِیلاً مِنَ اللَّیْلِ مَا یَہْجَعُونَ } کی تفسیر میں منقول ہے کہ بہت کم ہی کوئی ایسی رات آتی تھی کہ جس میں وہ سوتے ہوں۔

36628

(۳۶۶۲۹) حَدَّثَنَا عِیسَی بْنُ یُونُسَ ، عَنِ الأَوْزَاعِیِّ ، عَنْ حَسَّانَ بْنِ عَطِیَّۃَ ، قَالَ : بَیْنَمَا رَجُلٌ رَاکِبًا عَلَی حِمَارٍ إذْ عَثَرَ بِہِ ، فَقَالَ : تَعِسْت ، فَقَالَ : صَاحِبُ الْیَمِینِ : مَا ہِیَ بِحَسَنَۃٍ فَأَکْتُبُہَا ، وَقَالَ صَاحِبُ الشِّمَالِ : مَا ہِیَ بِسَیِّئَۃٍ فَاکْتُبْہَا ، فَنُودِیَ صَاحِبُ الشِّمَالِ ، إِنَّ مَا تَرَکَ صَاحِبُ الْیَمِینِ فَاکْتُبْہُ۔
(٣٦٦٢٩) حضرت حسان بن عطیہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ ایک آدمی گدھے پر سوار تھا اچانک وہ گرگیا تو اس نے کہا کہ میں گدھے سے گرگیا۔ تو دائیں جانب کے فرشتے نے کہا کہ یہ کوئی نیکی تو نہیں ہے کہ جس کو میں لکھوں اور بائیں جانب کے فرشتے نے کہا کہ یہ کون سی برائی ہے کہ جس کو میں لکھوں تو بائیں جانب کے فرشتہ کو آواز دی گئی کہ جس قول کو دایاں چھوڑ دے اس کو لکھ لو۔

36629

(۳۶۶۳۰) حَدَّثَنَا عِیسَی بْنُ یُونُسَ ، عَنِ الأَوْزَاعِیِّ ، عَنْ حَسَّانَ بْنِ عَطِیَّۃَ ، قَالَ : مَنْ عَادَی أَوْلِیَائَ اللہِ فَقَدْ آذَنَ اللَّہَ بِالْمُحَارَبَۃِ ، وَمَنْ حَالَتْ شَفَاعَتُہُ دُونَ حَدٍّ مِنْ حُدُودِ اللہِ فَقَدْ حَادَّ اللَّہَ فِی أَمْرِہِ ، وَمَنْ أَعَانَ عَلَی خُصُومَۃٍ لاَ عِلْمَ لَہُ بِہَا کَانَ فِی سَخَطِ اللہِ حَتَّی یَنْزِعَ ، وَمَنْ قَفَا مُؤْمِنًا بِمَا لاَ عِلْمَ لَہُ بِہِ وَقَفَہُ اللَّہُ فِی رَدْغَۃِ الْخَبَالِ حَتَّی یَجِیئَ مِنْہَا بِالْمَخْرَجِ ، وَمَنْ خَاصَمَ لِضَعِیفٍ حَتَّی یَثْبُتَ لَہُ حَقُّہُ ، ثَبَّتَ اللَّہُ قَدَمَیْہِ یَوْمَ تَزِلُّ الأَقْدَامُ ، وَقَالَ اللَّہُ : مَا تَرَدَّدْت فِی شَیْئٍ أُرِیدُہُ ، تَرْدَادِی فِی قَبْضِ نَفْسِ عَبْدِی الْمُؤْمِنِ یَکْرَہُ الْمَوْتَ وَأَکْرَہُ مُسَائَتَہِ وَلاَ بُدَّ لَہُ مِنْہُ۔ (بخاری ۶۵۰۲)
(٣٦٦٣٠) حضرت حسان بن عطیہ کا ارشاد ہے کہ جو شخص اللہ کے دوستوں سے دشمنی کرتا ہے تو اللہ اس سے اعلانِ جنگ کرتا ہے اور جس شخص کی سفارش اللہ کے قانون وحدود میں آڑے بنتی ہے تو وہ شخص اللہ کے حکم میں رکاوٹ بن رہا ہے اور جو کوئی شخض کسی ایسے جھگڑے کی معاونت کرتا ہے جس کا اس کو علم ہی نہیں تو وہ اس جھگڑے سے نکلنے تک اللہ کے غصہ میں رہتا ہے اور جو شخص کسی مسلمان پر ایسی تہمت لگاتا ہے جس کا اس کو علم ہی نہیں تو اللہ اس کو ہلاکت کی دلدل میں پھنسا دیتا ہے حتی کہ وہ خود اس سے راستہ نکال لے۔ اور جو کوئی شخص کسی کمزور کے حق میں جھگڑا کرتا ہے تاکہ اس کو اس کا حق دلوا دے تو اللہ ایسے دن کہ جب قدم لڑ کھڑائیں گے اس کو ثابت قدم رکھتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ میں جب کسی چیز کا ارادہ کرتا ہوں تو کوئی تردد نہیں کرتا۔ سوائے اپنے مومن بندے کی جان قبض کرنے کے وقت کیونکہ وہ موت اور اس کی تکلیف سے گھبراتا ہے جبکہ اس سے کوئی چارہ کار نہیں۔

36630

(۳۶۶۳۱) حَدَّثَنَا عِیسَی بْنُ یُونُسَ ، عَنِ الأَوْزَاعِیِّ ، عَنْ عَبْدِ رَبِّہِ بْنِ زیتون ، عَنِ ابْنِ مُحَیْرِیزٍ ، أَنَّہُ قَالَ : الْکَلاَمُ فِی الْمَسْجِدِ لَغْوٌ إِلاَّ لِمُصَلٍّ ، أَوْ ذَاکِرِ رَبِّہِ ، أَوْ سَائِلِ خَیْرٍ ، أَوْ مُعْطِیہ۔
(٣٦٦٣١) حضرت ابن محریریز فرماتے ہیں کہ مسجد میں نمازی یا اللہ کے ذکر یا کسی اچھی چیز کی طلب یا عطا کے علاوہ تمام باتیں لغو ہیں۔

36631

(۳۶۶۳۲) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ رَجَاء بْنِ أَبِی سَلَمَۃَ ، قَالَ : بَلَغَنِی ، أَنَّ ابْنَ مُحَیْرِیزٍ دَخَلَ عَلَی رَجُلٍ مِنَ الْبَزَّازِینَ فَاشْتَرَی مِنْہُ شَیْئًا ، فَقَالَ رَجُلٌ لِلْبَزَّازِ أَتَدْرِی مَنْ ہَذَا ہَذَا ابْنُ مُحَیْرِیزٍ ، فَقَامَ ، فَقَالَ : إنَّمَا جِئْنَا نَشْتَرِی بِدَرَاہِمِنَا ، لَیْسَ بِدِینِنَا۔
(٣٦٦٣٢) حضرت ابن محریز ایک مرتبہ ایک کپڑا فروش کے پاس گئے اور اس سے کچھ خریدا تو ایک آدمی نے کپڑے فروش سے کہا کہ یہ تو جانتا ہے یہ کون ہیں ؟ تو یہ ابن محریز ہیں تو وہ کپڑا فروش کھڑا ہوگیا۔ حضرت ابن محریز نے فرمایا کہ ہم اپنے دراہم کے بدلہ میں خریدنے آئے ہیں اپنے دین کے بدلے خریدنے نہیں آئے۔

36632

(۳۶۶۳۳) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ وُہَیْبٍ ، عَنْ مُوسَی بْنِ عُقْبَۃَ ، قَالَ : سَمِعْتُ ابْنَ مُحَیْرِیزٍ وَنَحْنُ مَعَہُ بِالرَّمْلَۃِ وَہُوَ یَقُولُ : أَدْرَکْت النَّاسَ وَإِذَا مَاتَ مِنْہُمَ الْمَیِّتُ مِنَ الْمُسْلِمِینَ ، قَالُوا : الْحَمْدُ لِلَّہِ الَّذِی تَوَفَّی فُلاَنًا عَلَی الإِسْلاَمِ ، ثُمَّ انْقَطَعَ ذَلِکَ فَلَیْسَ أَحَدٌ الْیَوْمَ یَقُولُ ذَلِکَ۔
(٣٦٦٣٣) حضرت موسیٰ بن عقبہ (رض) فرماتے ہیں کہ ہم ریتلی زمین میں تھے کہ میں نے ابن محریز (رض) کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ ” میں نے وہ لوگ بھی دیکھے ہیں جب کوئی مسلمان مرتا تو لوگ کہتے کہ تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں کہ میں نے فلاں شخص کو اسلام پر موت عطا کی۔ پھر یہ زمانہ ختم ہوگیا اور اب کوئی بھی اس طرح نہیں کہتا۔

36633

(۳۶۶۳۴) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَنْ مُجَمِّعِ بْنِ یَحْیَی ، قَالَ : کَانَ مُجَمِّعِ بْنُ جاریۃ یَقُولُ : اللَّہُمَّ إنِّی أَسْأَلُک مَوْتًا سَجِیحًا۔
(٣٦٦٣٤) حضرت مجمع بن جاربہ (رض) دعا کیا کرتے تھے کہ اے اللہ میں تجھ سے نرم وآسان موت کا سوال کرتا ہوں۔

36634

(۳۶۶۳۵) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ یَمَانٍ ، عَنْ أُسَامَۃَ بْنِ زَیْدٍ ، عَنْ أَبِیہِ فِی قَوْلِہِ : (خَافِضَۃٌ) مَنِ انْخَفَضَ یَوْمَئِذٍ لَمْ یَرْتَفِعْ أَبَدًا ، وَمَنَ ارْتَفَعَ یَوْمَئِذٍ لَمْ یَنْخَفِضْ أَبَدًا۔
(٣٦٦٣٥) حضرت اسامہ بن زید اپنے والد سے اللہ تعالیٰ کے ارشاد (خَافِضَۃٌ) کے بارے میں نقل کرتے ہیں کہ جو شخص اس دن پست ہوگیا وہ کبھی بھی بلند نہیں ہوسکے گا اور جو شخص اس دن بلندی حاصل کرے گا وہ کبھی بھی پست نہ ہوگا۔

36635

(۳۶۶۳۶) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ مُسْلِمٍ ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ أَوْسٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ أَوْسٍ، قَالَ : المحسنون الَّذِینَ لاَ یَظْلِمُونَ وَإِنْ ظُلِمُوا لَمْ یَنْتَصِرُوا۔
(٣٦٦٣٦) حضرت عمرو بن اوس (رض) فرماتے ہیں کہ احسان کرنے والے وہ لوگ ہوتے ہیں جو ظلم نہیں کرتے اور اگر ان پر ظلم کیا جائے تو بدلہ نہیں لیتے۔

36636

(۳۶۶۳۷) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنْ عِمْرَانَ ، عَنْ أَبِی الْعَلاَئِ بْنِ الشِّخِّیرِ ، قَالَ : قَالَ فُلاَنٌ : تَمْشُونَ عَلَی قُبُورِکُمْ قُلْتُ : نَعَمْ ، قَالَ : فَکَیْفَ تُمْطَرُونَ۔
(٣٦٦٣٧) حضرت ابو علاء بن الشخیر فرماتے ہیں کہ فلاں شخص نے کہا : تم لوگ تو اپنی قبروں پر چلتے ہو۔ میں نے کہا : ہاں۔ اس نے کہا : تو پھر کیسے تم پر بارش اترے ! ! !

36637

(۳۶۶۳۸) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مُسْلِمٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ فِی قولہ تعالی: {فَالْتَقَمَہُ الْحُوتُ} قَالَ : لَمَّا الْتَقَمَہُ ذَہَبَ بِہِ حَتَّی وَضَعَہُ فِی الأَرْضِ السَّابِعَۃِ فَسَمِعَ الأَرْضَ تُسَبِّحُ ، قَالَ: فَہَیَّجَتْہُ عَلَی التَّسْبِیحِ ، فَقَالَ: {لاَ إلَہَ إِلاَّ أَنْتَ سُبْحَانَک إنِّی کُنْت مِنَ الظَّالِمِینَ} قَالَ: فَأَخْرَجَہُ حَتَّی أَلْقَاہُ عَلَی الأَرْضِ بِلاَ شَعْرٍ ، وَلاَ ظُفُرٍ مِثْلُ الصَّبِیِّ الْمَنْفُوسِ ، فَأَنْبَتَ اللَّہُ عَلَیْہِ شَجَرَۃً تُظِلُّہُ ، وَیَأْکُلُ مِنْ تَحْتِہَا مِنْ حَشَرَاتِ الأَرْضِ ، فَبَیْنَمَا ہُوَ نَائِمٌ تَحْتَہَا فَتَسَاقَطَتْ عَلَیْہِ وَرَقُہَا قَدْ یَبِسَتْ ، فَشَکَا ذَلِکَ إِلَی رَبِّہِ، فَقِیلَ لَہُ : أَتَحْزَنُ عَلَی شَجَرَۃٍ ، وَلاَ تَحْزَنُ عَلَی مِئَۃِ أَلْفٍ ، أَوْ یَزِیدُونَ یُعَذَّبُونَ۔
(٣٦٦٣٨) حضرت ابن عباس اللہ تعالیٰ کے ارشاد { فَالْتَقَمَہُ الْحُوتُ } کے بارے میں فرماتے ہیں کہ جب پیغمبر کو مچھلی نے نگل لیا تو ان کو ساتویں زمین میں لے جا کر رکھ دیا۔ وہاں انھوں نے زمین کو تسبیح کرتے ہوئے سنا۔ اس بات نے ان کو تسبیح کرنے پر برانگیختہ کیا تو انھوں نے { لاَ إلَہَ إِلاَّ أَنْتَ سُبْحَانَک إنِّی کُنْت مِنَ الظَّالِمِینَ } کہنا شروع کیا۔ ابن عباس فرماتے ہیں کہ مچھلی نے پیغمبر کو نکالا اور زمین پر بغیر بالوں اور ناخنوں کے پیدائشی بچہ کی طرح ڈال دیا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے پاس ایک درخت سایہ کرنے کے لیے ان کے پاس اگا دیا۔ اور وہ اس درخت کے نیچے کیڑے مکوڑے کھایا کرتے تھے۔ ایک دفعہ وہ اس درخت کے سائے میں سوئے ہوئے تھے کہ اس درخت کا ایک پتہ جو کہ خشک ہوچکا تھا گرا تو پیغمبر (علیہ السلام) نے اپنے رب سے اس کی شکایت کی تو ان کو جواب ملا کہ تو ایک درخت پر تو بہت غم گین ہوتا ہے اور ایک لاکھ یا اس سے زائد پر غم گین کیوں نہیں ہوتا جن کو عذاب دیا جارہا ہے۔

36638

(۳۶۶۳۹) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا أَبُو ہِلاَلٍ مُحَمَّدُ بْنُ سُلَیْمٍ الرَّاسِبِیُّ ، عَنِ الْحَسَنِ قَالَ : قَالَ أَبُو الصَّہْبَائِ : طَلَبْت الْمَالَ مِنْ حِلِّہِ فَأَعْیَانِی إِلاَّ رِزْقَ یَوْمٍ بِیَوْمٍ ، فَعَلِمْت ، أَنَّہُ قَدْ خِیرَ لِی : وَایْمُ اللہِ مَا مِنْ عَبْدٍ أُوتِیَ رِزْقَ یَوْمٍ بِیَوْمٍ فَلَمْ یَظُنَّ ، أَنَّہُ قد خِیرَ لَہُ إِلاَّ کَانَ عَاجِزًا ، أَوْ غَبِیَّ الرَّأْیِ۔
(٣٦٦٣٩) حضرت ابوالصہبا فرماتے ہیں کہ میں نے مال کو حلال طریقہ سے تلاش کیا تو اس نے مجھے تھکا دیا سوائے یومیہ روزی کے تو میں نے جان لیا کہ میرے ساتھ بھلائی والا معاملہ کیا گیا ہے۔ اللہ کی قسم جس شخص کو یومیہ روزی دی جاتی ہے اور وہ یہ نہیں سمجھتا کہ اس کے ساتھ بھلائی والا معاملہ کیا گیا ہے تو وہ شخص ناقص رائے رکھتا ہے۔

36639

(۳۶۶۴۰) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا بُکَیْر بْنُ أَبِی السُّمَیْطِ ، قَالَ : حَدَّثَنَا قَتَادَۃُ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مُطَرِّفٍ ، أَنَّہُ کَانَ یَقُولُ : إنَّک لَتَلْقَی بَیْنَ الرَّجُلَیْنِ أَحَدُہُمَا أَکْثَرُ صَوْمًا وَصَلاَۃً ، وَالآخَرُ أَکْرَمُہُمَا عَلَی اللہِ بَوْنًا بَعِیدًا ، قَالُوا : وَکَیْفَ یَکُونُ ذَلِکَ یَا أَبَا جَزْئٍ ، قَالَ : یَکُونُ أَوْرَعَہُمَا فِی مَحَارِمِہِ۔
(٣٦٦٤٠) حضرت عبداللہ بن مطرف فرماتے ہیں کہ تو دو شخصوں کو دیکھے گا کہ ان میں سے ایک زیادہ نماز اور روزے والا ہوگا اور دوسرا ان میں سے اللہ کے نزدیک زیادہ معزز ہوگا لوگوں نے سوال کیا کہ اے ابا جزء یہ کیسے ہوسکتا ہے تو انھوں نے جواب دیا کہ وہ محرمات سے زیادہ بچنے والا ہوتا ہے۔

36640

(۳۶۶۴۱) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ جُوَیْبِرٍ ، عَنِ الضَّحَّاکِ فِی قَوْلِہِ : {وَبَشِّرَ الْمُخْبِتِینَ} قَالَ : الْمُتَوَاضِعِینَ۔
(٣٦٦٤١) حضرت ضحاک (رض) سے اللہ تعالیٰ کے ارشاد { وَبَشِّرَ الْمُخْبِتِینَ } کے بارے میں مروی ہے کہ اس سے مراد عاجزی کرنے والے لوگ ہیں۔

36641

(۳۶۶۴۲) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ جُوَیْبِرٍ ، عَنِ الضَّحَّاکِ {وَکَانُوا لَنَا خَاشِعِینَ} قَالَ : الذِّلَّۃُ لِلَّہِ۔
(٣٦٦٤٢) حضرت ضحاک (رض) اللہ تعالیٰ کے ارشاد { وَکَانُوا لَنَا خَاشِعِینَ } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ عاجزی صرف اللہ کے لیے ہے۔

36642

(۳۶۶۴۳) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنْ جُوَیْبِرٍ ، عَنِ الضَّحَّاکِ {یُصْہَرُ بِہِ مَا فِی بُطُونِہِمْ وَالْجُلُودُ} قَالَ : یُذَابُ بِہِ۔
(٣٦٦٤٣) حضرت ضحاک قرآن پاک کی آیت { یُصْہَرُ بِہِ مَا فِی بُطُونِہِمْ وَالْجُلُودُ } کی تفسیر کرتے ہیں کہ اس کے ذریعہ پگھلایا جائے گا۔

36643

(۳۶۶۴۴) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ یَمَانٍ ، عَنْ أَبِی سِنَانٍ ، عَنْ ثَابِتٍ ، عَنِ الضَّحَّاکِ {وَإِذَا مَرُّوا بِاللَّغْوِ مَرُّوا کِرَامًا} قَالَ : لَمْ یَکُنِ اللَّغْوُ مِنْ حَالِہِمْ ، وَلاَ بَالِہِمْ۔
(٣٦٦٤٤) حضرت ضحاک اللہ کے قول { وَإِذَا مَرُّوا بِاللَّغْوِ مَرُّوا کِرَامًا } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ لغو بات نہ ان کے دل میں ہوتی ہے اور نہ ہی حالت سے ظاہر ہوتی ہے۔

36644

(۳۶۶۴۵) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ الزُّبَیْرِ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ رَجُلٍ ، عَنِ الضَّحَّاکِ ، قَالَ : لَوْلاَ تِلاَوَۃُ الْقُرْآنِ لَسَرَّنِی أَنْ أَکُونَ مَرِیضًا۔
(٣٦٦٤٥) حضرت ضحاک فرماتے ہیں کہ اگر قرآن پاک کی تلاوت نہ ہوتی تو میں مریض بننا زیادہ پسند کرتا۔

36645

(۳۶۶۴۶) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنْ جُوَیْبِرٍ ، عَنِ الضَّحَّاکِ {فِی مَقَامٍ أَمِینٍ} قَالَ : أَمِنُوا الْمَوْتَ أَنْ یَمُوتُوا ، وَأَمِنُوا الْہَرَمَ أَنْ یَہْرَمُوا ، وَلاَ یَجُوعُوا ، وَلاَ یَعْرَوْا۔
(٣٦٦٤٦) حضرت ضحاک اللہ تعالیٰ کے ارشاد { فِی مَقَامٍ أَمِینٍ } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ وہ لوگ مرنے سے اور بڑھاپے سے محفوظ ہوں گے اور نہ تو ان کو بھوک لگے گی اور نہ ہی سردی لگے گی۔

36646

(۳۶۶۴۷) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ، عَنْ جُوَیْبِرٍ، عَنِ الضَّحَّاکِ {إنَّک کَادِحٌ إِلَی رَبِّکَ کَدْحًا} قَالَ: عَامِلٌ إِلَی رَبِّکَ عَمَلاً۔
(٣٦٦٤٧) حضرت ضحاک (رض) اللہ کے ارشاد {إنَّک کَادِحٌ إِلَی رَبِّکَ کَدْحًا } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اپنے رب کے لیے عمل کر۔

36647

(۳۶۶۴۸) حَدَّثَنَا یَعْلَی بْنُ عُبَیْدٍ ، عَنْ أَبِی بِسِطَامٍ ، عَنِ الضَّحَّاکِ (لَہُمَ الْبُشْرَی فِی الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا) قَالَ : یَعْلَمُ أَیْنَ ہُوَ قَبْلَ الْمَوْتِ۔
(٣٦٦٤٨) حضرت ضحاک قرآن پاک کی آیت { لَہُمُ الْبُشْرَی فِی الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ وہ یہ جان لے کہ موت سے قبل اس کا ٹھکانا کہاں ہے۔

36648

(۳۶۶۴۹) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ الْحُبَابِ ، قَالَ : حَدَّثَنَا أَبُو سِنَانٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ الضَّحَّاکَ بْنَ مُزَاحِمٍ یَقُولُ فِی قَوْلِہِ : {فَاسْتَبِقُوا الْخَیْرَاتِ إِلَی اللہِ مَرْجِعُکُمْ} قَالَ : أُمَّۃُ مُحَمَّدٍ الْبَرُّ وَالْفَاجِرُ۔
(٣٦٦٤٩) حضرت ضحاک بن مزاحم اللہ تعالیٰ کے ارشاد { فَاسْتَبِقُوا الْخَیْرَاتِ إِلَی اللہِ مَرْجِعُکُمْ } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اس سے مراد امت محمدیہ کا ہر اچھا اور برا فرد ہے۔

36649

(۳۶۶۵۰) حَدَّثَنَا یُونُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا دَاوُد بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا الْفَیْضِ یقول عَنِ الضَّحَّاکِ قَالَ : {إنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللَّہُ مِنَ الْمُتَّقِینَ} قَالَ : الَّذِینَ یَتَّقُونَ الشِّرْکَ۔
(٣٦٦٥٠) حضرت ابوالفیض (رض) حضرت ضحاک سے نقل کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے قول {إنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللَّہُ مِنَ الْمُتَّقِینَ } سے مراد وہ لوگ ہیں جو شرک سے بچتے ہیں۔

36650

(۳۶۶۵۱) حَدَّثَنَا یُونُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا دَاوُد بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ مَنْصُورِ بْنِ صَفِیَّۃَ ، قَالَ : حَدَّثَنِی أَشْرَسُ بْنُ حَسَّانِ الْکُوفِیُّ ، قَالَ : سَمِعْتُ وَہْبَ بْنَ مُنَبِّہٍ ، قَالَ : کَانَ ہَارُونُ ہُوَ الَّذِی یُجَمِّرُ الْکَنَائِسَ۔
(٣٦٦٥١) حضرت وہب بن منبہ فرماتے ہیں کہ ہارون (رض) وہ شخص تھے جو کنیسوں کو جلا دیا کرتے تھے۔

36651

(۳۶۶۵۲) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، قَالَ : حَدَّثَنَا ثَابِتٌ ، عَنْ مُسْلِمِ بْنِ یَسَارٍ ، أَنَّہُ قَالَ : ما أَدْرِی مَا حَسْبُ إیمَانِ عَبْدٍ لاَ یَدَعُ شَیْئًا یَکْرَہُہُ اللَّہُ۔
(٣٦٦٥٢) حضرت مسلم بن یسار کا ارشاد ہے کہ مجھے نہیں معلوم کہ اس شخص کے ایمان کا کیا درجہ ہوگا کہ جو ایسی چیزوں کو نہیں چھوڑتا کہ جن کو اللہ ناپسند کرتے ہیں۔

36652

(۳۶۶۵۳) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادٌ ، عَنْ ثَابِتٍ ، عَنْ مُسْلِمِ بْنِ یَسَارٍ ، قَالَ : کَانَ أَحَدُہُمْ إذَا بَرَّأَ قِیلَ لَہُ : لِیَہْنِکَ الطُّہْرُ۔
(٣٦٦٥٣) حضرت مسلم بن یسار فرماتے ہیں کہ اسلاف میں سے جب کوئی بیماری سے صحت یاب ہوتا تو اسے کہا جاتا تھا : بیماری سے پاک ہونا تمہارے لیے راحت کا سبب بنے۔

36653

(۳۶۶۵۴) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادٌ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا ثَابِتٌ ، أَنَّ أَبَا بَکْرٍ کَانَ یَتَمَثَّلُ ہَذَا الْبَیْتَ : لاَ تَزَالُ تَنْعَی حَبِیبًا حَتَّی تَکُونَہُ ۔۔۔ وَقَدْ یَرْجُو الْفَتَی رَجًا یَمُوتُ دُونَہُ۔
(٣٦٦٥٤) حضرت حماد فرماتے ہیں کہ ثابت نے بتایا ہے کہ ابوبکر کی مثال شعر کی سی ہے۔ ” تو ہمیشہ اپنے محبوب کو پکارتا رہا۔ یہاں تک کہ تو خود محبوب بن گیا، اور کبھی انسان ایسی چیز کی خواہش کرتا ہے کہ اس کے حصول سے قبل اس کو موت آجاتی ہے۔

36654

(۳۶۶۵۵) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، قَالَ : مَالِکُ بْنُ دِینَارٍ ، قَالَ : سَأَلْتُ جَابِرَ بْنَ زَیْدٍ ، قُلْتُ: قَوْلُ اللہِ تَعَالَی : {وَلَوْلاَ أَنْ ثَبَّتْنَاک لَقَدْ کِدْت تَرْکَنُ إلَیْہِمْ شَیْئًا قلِیلاً إذًا لأَذَقْنَاک ضِعْفَ الْحَیَاۃِ وَضِعْفَ الْمَمَاتِ ثُمَّ لاَ تَجِدُ لَک عَلَیْنَا نَصِیرًا} مَا ضِعْفُ الْحَیَاۃِ وَضِعْفُ الْمَمَاتِ ؟ قَالَ جَابِرٌ : ضِعْفُ عَذَابِ الدُّنْیَا وَضِعْفُ عَذَابِ الآخِرَۃِ ، ثُمَّ لاَ تَجِدُ لَک عَلَیْنَا نَصِیرًا۔
(٣٦٦٥٥) حضرت مالک بن دینار فرماتے ہیں کہ میں نے جابر بن زید سے اللہ کے ارشاد { وَلَوْلاَ أَنْ ثَبَّتْنَاک لَقَدْ کِدْت تَرْکَنُ إلَیْہِمْ شَیْئًا قلِیلاً إذًا لأَذَقْنَاک ضِعْفَ الْحَیَاۃِ وَضِعْفَ الْمَمَاتِ ثُمَّ لاَ تَجِدُ لَک عَلَیْنَا نَصِیرًا } میں ضعف الحیات اور ضعف الممات کی تفسیر پوچھی تو انھوں نے جواب دیا کہ دنیا کے عذاب کا دگنا اور آخرت کے عذاب کا دگنا مراد ہے۔ پھر تو اپنے لیے کوئی مددگار نہیں پائے گا۔

36655

(۳۶۶۵۶) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ الْمُغِیرَۃِ ، قَالَ سَمِعْت ثَابِتًا ، قَالَ : کُنَّا عِنْدَ جَابِرِ بْنِ زَیْدٍ فَرَأَی جَمَلاً ، فَقَالَ : لَوْ قُلْتُ لَکُمْ : إنِّی لاَ أَعْبُدُ ہَذَا الْجَمَلَ مَا أَمِنْت أَنْ أَعْبُدَہُ۔
(٣٦٦٥٦) حضرت ثابت (رض) فرماتے ہیں کہ ہم لوگ حضرت جابر بن زید کے پاس تھے آپ (رض) نے ایک اونٹ دیکھ کر فرمایا : اگر میں تم لوگوں سے کہوں کہ میں ہرگز اس اونٹ کی عبادت نہیں کروں گا میں پھر بھی مامون نہیں ہوں گا اس کی عبادت کے بچنے سے۔

36656

(۳۶۶۵۷) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَیْد ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : مَا أَشْبَہَ الْقَوْمَ بَعْضُہُمْ بِبَعْضٍ ، مَا أَشْبَہَ اللَّیْلَۃَ بِالْبَارِحَۃِ۔
(٣٦٦٥٧) حضرت حسن (رض) کا ارشاد ہے کہ قوم ایک دوسرے کے مشابہ نہیں ہوتی اور نہ ہی گزشتہ رات موجودہ کے مشابہہ ہوتی ہے۔

36657

(۳۶۶۵۸) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ شُعَیْبٍ ، عَنْ أَبِی الْعَالِیَۃِ ، قَالَ : أَکْثَرُ رَیَاحِینِ الْجَنَّۃِ الْحِنَّائُ۔
(٣٦٦٥٨) حضرت ابی العالیہ (رض) فرماتے ہیں کہ جنت کے اکثر خوشبو دار پودے سبز رنگ کے ہیں۔

36658

(۳۶۶۵۹) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ ، عَنْ عَبْدِ الْوَاحِدِ بْنِ زِیَادٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ الرَّبِیعِ بْنِ خُثَیْمٍ قَالَ : حَدَّثَنَا أَبُو عُبَیْدَۃَ بْنُ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : کَانَ الرَّبِیعُ بْنُ خُثَیْمٍ إذَا دَخَلَ عَلَی عَبْدِ اللہِ لَمْ یَکُنْ عَلَیْہِ یَوْمَئِذٍ إذْنٌ حَتَّی یَفْرُغَ کُلُّ وَاحِدٍ مِنْہُمَا مِنْ صَاحِبِہِ ، قَالَ : وَقَالَ لَہُ عَبْدُ اللہِ یَا أَبَا یَزِیدَ ، إنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَوْ رَآک أَحَبَّک ، وَمَا رَأَیْتُک إِلاَّ ذَکَرْت الْمُخْبِتِینَ۔ (احمد ۴۰۸۔ ابو نعیم ۱۰۶)
(٣٦٦٥٩) حضرت ابوعبید بن عبداللہ فرماتے ہیں کہ ربیع بن خثیم جب عبداللہ کے پاس آتے تو کسی کو ان کے پاس جانے کی اجازت نہ ہوتی تھی تاوقتیکہ وہ دونوں ایک دوسرے سے فارغ ہوجائیں۔ ابوعبیدہ کہتے ہیں کہ ان کو عبداللہ نے کہا کہ اے ابویزید اگر رسول اللہ آپ کو دیکھتے تو آپ سے محبت کرتے اور میں نے آپ کو عاجزین کا ذکر کرتے ہی دیکھا ہے۔

36659

(۳۶۶۶۰) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا مَالِکُ بْنُ مِغْوَلٍ ، عَنْ طَلْحَۃَ ، قَالَ : قِیلَ مَنِ الَّذِی یَسْمَنُ فِی الْخِصْبِ وَالْجَدْبِ ، وَمَنَ الَّذِی یَہْزَلُ فِی الْخِصْبِ وَالْجَدْبِ ، وَمَنَ الَّذِی ہُوَ أَحْلَی مِنَ الْعَسَلِ ، وَلاَ یَنْقَطِعُ ، قَالَ : أَمَّا الَّذِی یَسْمَنُ فِی الْخِصْبِ وَالْجَدْبِ فَالْمُؤْمِنُ الَّذِی إنْ أُعْطِیَ شَکَرَ ، وَإِنَ ابْتُلِیَ صَبَرَ ، وَأَمَّا الَّذِی یَہْزَلُ فِی الْخِصْبِ وَالْجَدْبِ فَالْکَافِرُ ، أَوِ الْفَاجِرُ إنْ أُعْطِیَ لَمْ یَشْکُرْ ، وَإِنَ ابْتُلِیَ لَمْ یَصْبِرْ ، وَأَمَّا الَّذِی ہُوَ أَحْلَی مِنَ الْعَسَلِ ، وَلاَ یَنْقَطِعُ فَہِیَ أُلْفَۃُ اللہِ الَّتِی أَلَّفَ بَیْنَ قُلُوبِ الْمُؤْمِنِینَ۔
(٣٦٦٦٠) حضرت طلحہ سے سوال کیا گیا کہ وہ کون سی چیز ہے جو قحط اور فراوانی دونوں حالتوں میں پھلتی پھولتی ہے ؟ اور وہ کون سی شے ہے جو قحط اور فراوانی دونوں صورتوں میں سوکھ جاتی ہے ؟ اور وہ کون سی چیز ہے جو شہد سے بھی میٹھی ہے اور کبھی ختم نہیں ہوتی ؟ تو انھوں نے جواب دیا کہ وہ چیز جو قحط اور فراوانی دونوں صورتوں میں پھلتی اور پھولتی ہے وہ مومن ہے کہ اگر اس کو مل جائے تو شکر کرتا ہے اور اگر آزمائش میں پڑجائے تو صبر کرتا ہے اور وہ چیز جو قحط اور فراوانی دونوں صورتوں میں سوکھ جاتی ہے وہ کافر ہے یا گناہ گار شخص ہے کہ جس کو دیا جائے تو شکر نہیں کرتا اور اگر آزمائش میں پڑجائے تو صبر نہیں کرتا۔ اور وہ چیز جو شہد سے بھی زیادہ میٹھی اور کبھی ختم نہ ہونے والی ہے اللہ تعالیٰ کی الفت ہے جس نے تمام مومنین کے دلوں میں محبت پیدا کردی ہے۔

36660

(۳۶۶۶۱) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَنْ ثَابِتٍ ، عَنْ أَبِی ثَامِرٍ وَکَانَ رَجُلاً عَابِدًا مِمَّنْ یَغْدُو إِلَی الْمَسْجِدِ فَرَأَی فِی الْمَنَامِ کَأَنَّ النَّاسَ قَدْ عُرِضُوا عَلَی اللہِ فَجِیئَ بِامْرَأَۃٍ عَلَیْہَا ثِیَابٌ رِقَاقٌ ، فَجَائَتْ رِیحٌ فَکَشَفْت ثِیَابَہَا ، فَأَعْرَضَ اللَّہُ عنہا ، وَقَالَ : اذْہَبُوا بِہَا إِلَی النَّارِ ، فَإِنَّہَا کَانَتْ مِنَ الْمُتَبَرِّجَاتِ حَتَّی انْتَہَی الأَمْرُ إلَیَّ ، فَقَالَ : دَعُوہُ فَإِنَّہُ کَانَ یُؤَدِّی حَقَّ الْجُمُعَۃِ۔
(٣٦٦٦١) حضرت ابوثامر سے مروی ہے جو کہ ایک عابد انسان تھے اور مسجد کو صبح سویرے چلے جایا کرتے تھے کہ انھوں نے خواب میں دیکھا کہ گویا لوگوں کو اللہ جل شانہ کے روبرو پیش کیا جارہا ہے۔ پس ایک عورت لائی گئی جس پر بہت باریک کپڑے تھے اچانک ہوا چلی اور اس کے کپڑے کھل گئے تو اللہ تعالیٰ نے اس سے روگردانی کرلی اور حکم دیا کہ اس کو جہنم میں لے جاؤ۔ کیونکہ یہ زینت کرنے والوں میں سے تھی یہاں تک کہ میری باری آئی تو اللہ جل شانہ نے فرمایا کہ اس کو چھوڑ دو کیونکہ یہ شخص جمعہ کا حق ادا کرتا تھا۔

36661

(۳۶۶۶۲) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَنْ ثَابِتٍ ، عَنْ أَبِی ثَامِرٍ زَعَمَ أَنَّ امْرَأَۃً ، قَالَتْ : وَاللہِ لاَ یُعَذِّبُنِی اللَّہُ أَبَدًا مَا سَرَقْت ، وَلاَ زَنَیْت ، وَلاَ قَتَلْت وَلَدِی ، وَلاَ أَتَیْتُ بِبُہْتَانٍ یَفْتَرِینَہُ بَیْنَ أَیْدِیہِنَّ وَأَرْجُلِہِنَ ، فَرَأَتْ فِی الْمَنَامِ ، أَنَّہُ قِیلَ لَہَا : قَوْمِی إِلَی مَقْعَدِکَ مِنَ النَّارِ یَا مُقَلِّلَۃَ الْکَثِیرِ مُکْثِرَۃَ الْقَلِیلِ ، وَآکِلَۃَ لَحْمِ الْجَارِ الْغَرِیبِ بِالْغَیْبِ ، قَالَتْ : یَا رَبِ ، بَلْ أَتُوبُ بَلْ أَتُوبُ۔
(٣٦٦٦٢) حضرت ابوثامر فرماتے ہیں کہ غالباً کسی عورت نے یہ دعویٰ کیا کہ اللہ تعالیٰ مجھے عذاب نہیں دیں گے کیونکہ میں نے نہ کبھی چوری کی اور نہ ہی کبھی زنا کیا اور نہ ہی کبھی میں نے اپنی اولاد کو قتل کیا اور نہ میں نے کوئی اپنی طرف سے الزام تراشا ہے تو اس نے خواب میں دیکھا کہ اس سے کہا جا رہا ہے کہ ” اٹھ اور اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے اے کم کو زیادہ اور زیادہ کو کم کرنے والی، اے پوشیدہ طور پر غریب پڑوسی کا گوشت کھانے والی، تو اس نے عرض کی کہ اے میرے رب بلکہ میں رجوع کرتی ہوں، میں رجوع کرتی ہوں۔

36662

(۳۶۶۶۳) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَنْ ثَابِتٍ ، أَنَّ أَبَا ثَامِرٍ رَأَی فِیمَا یَرَی النَّائِمُ : وَیْلٌ لِلْمُتَسَمِّنَاتِ مِنْ فَتْرَۃٍ فِی الْعِظَامِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ۔
(٣٦٦٦٣) حضرت ثابت فرماتے ہیں کہ ابوثامر نے خواب میں دیکھا کہ ہلاکت ہے ان عورتوں کے لیے قیامت کے دن جو کمزور ہڈیوں کے باوجود موٹی بنتی ہیں۔

36663

(۳۶۶۶۴) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَنْ ثَابِتٍ ، أَنَّ أَبَا ثَامِرٍ کَانَ رَجُلاً عَابِدًا ، فَنَامَ ذَاتَ لَیْلَۃٍ قَبْلَ أَنْ یُصَلِّیَ الْعِشَائَ ، فَأَتَاہُ مَلَکَانِ أَوْ رَجُلاَنِ فِی مَنَامِہِ فَقَعَدَ أَحَدُہُمَا عِنْدَ رَأْسِہِ وَالآخَرُ عِنْدَ رِجْلَیْہِ ، فَقَالَ : الَّذِی عِنْدَ رَأْسِہِ لِلَّذِی عِنْدَ رِجْلَیْہِ : الصَّلاَۃُ قَبْلَ النَّوْمِ تُرْضِی الرَّحْمَن وَتُسْخِطُ الشَّیْطَانَ ، وَقَالَ الَّذِی عِنْدَ رِجْلَیْہِ لِلَّذِی عِنْدَ رَأْسِہِ : إنَّ النَّوْمَ قَبْلَ الصَّلاَۃِ یُرْضِی الشَّیْطَانَ وَیُسْخَطُ الرَّحْمَن۔
(٣٦٦٦٤) حضرت ثابت سے مروی ہے کہ ابوثامر ایک عابد آدمی تھے تو ایک دن نماز عشاء پڑھنے سے قبل سوگئے۔ تو ان کے پاس دو فرشتے آئے یا دو آدمی خواب میں آئے اور ایک ان میں ان کے سر کے پاس اور دوسرا پاؤں کے پاس بیٹھ گیا۔ پھر سر والے نے پاؤں والے سے کہا کہ سونے سے قبل نماز پڑھنا رحمن کو راضی کرتا ہے اور شیطان کو ناراض کرتا ہے۔ اور پاؤں والے نے سر والے سے کہا کہ نماز سے قبل سوجانا یہ شیطان کو راضی کرتا ہے اور رحمن کو ناراض کرتا ہے۔

36664

(۳۶۶۶۵) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، قَالَ : حَدَّثَنَا ثَابِتٌ الْبُنَانِیُّ ، عَنْ صِلَۃَ بْنِ أَشَیْمَ ، أَنَّہُ قَالَ : وَاللہِ مَا أَدْرِی بِأَیِّ یَوْمِی أَنَا أَشَدُّ فَرَحًا : یَوْمٌ أُبَاکِرُ فِیہِ إِلَی ذِکْرِ اللہِ ، أَوْ یَوْمٌ خَرَجْت فِیہِ لِبَعْضِ حَاجَتِی فَعَرَضَ لِی ذِکْرُ اللہِ۔
(٣٦٦٦٥) حضرت صلہ بن اشیم (رض) فرماتے ہیں کہ میں نہیں جانتا کہ ان دو دنوں میں سے کون سا میرے لیے زیادہ خوشی کا باعث ہے۔ ایک وہ دن کہ جب میں اللہ کے ذکر سے دن کی ابتداء کروں اور ایک وہ دن کہ جب میں اپنی کسی حاجت کے لیے نکلوں تو مجھے اللہ کا ذکر درپیش ہو۔

36665

(۳۶۶۶۶) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ الْمُغِیرَۃِ ، عَنْ حُمَیْدِ بْنِ ہِلاَلٍ ، قَالَ کَانَ أَبُو رِفَاعَۃَ الْعَدَوِیُّ یَقُولُ : مَا عَزَبَتْ عَنِّی سُورَۃُ الْبَقَرَۃِ مُنْذُ عَلَّمَنِیہَا رَسُولُ اللہِ أَخَذْتُ مَعَہَا مَا أَخَذْتُ مِنَ الْقُرْآنِ ، وَمَا أَنْ وُجِعْت ظَہْرِی مِنْ قِیَامِ لَیْلٍ قَطُّ۔
(٣٦٦٦٦) حضرت ابورفاعہ (رض) فرماتے ہیں کہ جب سے مجھ کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سورة بقرہ سکھائی ہے اس وقت سے مجھے یہ سورت بھولی نہیں ہے اور جو کچھ میں نے پورے قرآن میں پایا وہ اس سورة میں بھی مذکور ہے اور میں نے کبھی بھی رات کے قیام کی وجہ سے کمر کی تکلیف محسوس نہیں کی۔

36666

(۳۶۶۶۷) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُلَیْمَانُ عَنْ حُمَیْدُ بْنُ ہِلاَلٍ ، قَالَ : قَالَ صِلَۃٌ رَأَیْتُ أَبَا رِفَاعَۃَ بَعْدَ مَا أُصِیبَ فِی النَّوْمِ عَلَی نَاقَۃٍ سَرِیعَۃٍ وَأَنَا عَلَی جَمَلٍ ثِقَالَ قَطُوفٍ ، وَأَنَا أَجِدُ عَلَی أَثَرِہِ ، قَالَ : فَیُعَرِّجُہَا عَلَیَّ فَأَقُولُ الآن أُسْمِعْہُ الصَّوْتَ فَیُسَرِّحُہَا وَأَنَا أَتْبَعُ أَثَرَہَا ، فَأُوِّلَتْ رُؤْیَایَ أَنْ آخُذَ طَرِیقَ أَبِی رِفَاعَۃَ فَأَنَا أَکُدُّ بَعْدَہُ الْعَمَلَ کَدًّا۔
(٣٦٦٦٧) حضرت صلہ فرماتے ہیں کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ حضرت ابو رفاعہ ایک تیز رفتار اونٹنی پر سوار ہوں اور میں ایک بوجھل اونٹ پر ہوں۔ میں ان کے پیچھے پیچھے چل رہا ہوں۔ وہ مجھے لے کر جھول رہا ہے۔ میرے اس خواب کی یہ تعبیر کی گئی کہ میں ابو رفاعہ کی پیروی کروں گا اور اس میں مشقت اٹھاؤں گا۔

36667

(۳۶۶۶۸) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ الْمُغِیرَۃِ ، قَالَ : حَدَّثَنَا حُمَیْدُ بْنُ ہِلاَلٍ ، قَالَ کَانَ أَبُو رِفَاعَۃَ ، أَوْ رَجُلٌ مِنْہُمْ یُسَخِّنُ فِی السَّفَرِ لأَصْحَابِہِ الْمَائَ وَیَعْمِدُ إِلَی الْبَارِدِ فَیَتَوَضَّأُ بِہِ ، ثُمَّ یَقُولُ : أَحسّوا مِنْ ہَذَا ، فَسَأحس مِنْ ہَذَا۔
(٣٦٦٦٨) حضرت حمید بن ہلال فرماتے ہیں کہ حضرت ابو رفاعہ سفر میں اپنے ساتھیوں کے لیے پانی گرم کرتے تھے اور خود ٹھنڈے پانی سے وضو کرتے تھے۔ پھر فرماتے کہ تم اسے محسوس کرو اور میں اسے محسوس کروں گا۔

36668

(۳۶۶۶۹) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُلَیْمَانُ ، قَالَ : قَالَ ثَابِتٌ ، قَالَ مُطَرِّفٌ : إنْ کَانَ أَحَدٌ مِنْ ہَذِہِ الأُمَّۃِ مُمْتَحَنَ الْقَلْبِ لَقَدْ کَانَ مَذْعُورٌ لَمُمْتَحَنَ الْقَلْبِ۔
(٣٦٦٦٩) حضرت مطرف (رض) فرماتے ہیں کہ اگر اس امت میں کوئی صاف اور پاکیزہ دل والا آدمی ہوتا تو وہ مذعور ہیں۔

36669

(۳۶۶۷۰) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُلَیْمَانُ ، عَنْ ثَابِتٍ ، قَالَ : قَالَ مُطَرِّفٌ : رَآنِی أَنَا وَمَذْعُورًا رَجُلٌ ، فَقَالَ : مَنْ سَرَّہُ أَنْ یَنْظُرَ إِلَی رَجُلَیْنِ مِنْ أَہْلِ الْجَنَّۃِ فَلْیَنْظُرْ إِلَی ہَذَیْنِ ، فَسَمِعَہَا مَذْعُورٌ فَرَأَیْتُ الْکَرَاہِیَۃَ فِی وَجْہِہِ ، ثُمَّ قَالَ : اللَّہُمَّ إنَّک تَعْلَمُنَا وَلاَ یَعْلَمُنَا۔
(٣٦٦٧٠) حضرت مطرف (رض) کا ارشاد ہے کہ میں اپنے آپ کو اور مذعور کو ایک آدمی شمار کرتا ہوں۔ پھر فرمایا کہ جس کو یہ بات اچھی لگے کہ وہ دو جنتی آدمیوں کو دیکھے تو وہ ان دونوں کو دیکھ لے۔ اس بات کو مذعور نے سن لیا تو میں نے ناپسندیدگی کے اثرات ان کے چہرے پر دیکھے۔ تو انھوں نے کہا کہ اے اللہ تو ہم کو جانتا ہے اور یہ ہم کو نہیں جانتا۔

36670

(۳۶۶۷۱) حَدَّثَنَا مُعْتَمِرُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ شُعَیب أَبِی زِیَادٍ ، عَنْ أَبِی رَجَائٍ ، قَالَ : کَانَ ہَذَا الْمَکَانُ مِنَ ابْنِ عَبَّاسٍ مَجْرَی الدُّمُوعِ مِثْلُ الشِّرَاکِ الْبَالِی مِنَ الدُّمُوعِ۔
(٣٦٦٧١) حضرت ابو رجاء (رض) فرماتے ہیں کہ ابن عباس کی آنسو بہنے کی جگہ آنسوؤں کے بہنے سے بوسیدہ تسموں کی طرح ہوچکی تھیں۔

36671

(۳۶۶۷۲) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ شِمْرِ بْنِ عَطِیَّۃَ ، عَنْ مُغِیرَۃَ بْنِ سَعْدِ بْنِ الأَخْرَمِ ، قَالَ : مَا خَرَجَ عَبْدُ اللہِ إِلَی السُّوقِ فَمَرَّ عَلَی الْحَدَّادِینَ فَرَأَی مَا یُخْرِجُونَ مِنَ النَّارِ إِلاَّ جَعَلَتْ عَیْنَاہُ تَسِیلاَنِ۔
(٣٦٦٧٢) حضرت مغیرہ بن سعد بن اخرم کا کہنا ہے کہ عبداللہ جب بازار میں لوہاروں کے پاس سے گزرتے تو ان کی آگ سے نکالی ہوئی چیزوں کو دیکھ کر ان کے آنسو نکل آیا کرتے تھے۔

36672

(۳۶۶۷۳) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِی صَالِحٍ، قَالَ: لَمَّا قَدِمَ أَہْلُ الْیَمَنِ فِی زَمَانِ أَبِی بَکْرٍ فَسَمِعُوا الْقُرْآنَ جَعَلُوا یَبْکُونَ ، فَقَالَ أَبُو بَکْرٍ : ہَکَذَا کُنَّا ، ثُمَّ قَسَتِ الْقُلُوبُ۔
(٣٦٦٧٣) حضرت ابی صالح فرماتے ہیں کہ جب اہل یمن ابوبکر کے زمانے میں تشریف لائے اور انھوں نے قرآن سنا تو رونے لگے۔ ابوبکر نے فرمایا ہم بھی اس طرح ہوا کرتے تھے پھر دل سخت ہوگئے۔

36673

(۳۶۶۷۴) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنْ دَاوُدَ ، عَنْ أَبِی نَضْرَۃَ ، عَنْ أَبِی سَعِیدٍ مَوْلَی أَبِی أُسَیْدَ ، قَالَ : کَانَ عُمَرُ إذَا صَلَّی أَخْرَجَ النَّاسَ مِنَ الْمَسْجِدِ فَأَخَذَ إلَیْنَا ، فَلَمَّا رَأَی أَصْحَابَہُ أَلْقَی الدِّرَّۃَ وَجَلَسَ ، فَقَالَ : ادْعُوا ، فَدَعَوْا ، قَالَ : فَجَعَلَ یَدْعُو وَیَدْعُو حَتَّی انْتَہَتِ الدَّعْوَۃُ إلَی ، فَدَعَوْت وَأَنَا مَمْلُوک ، فَرَأَیْتہ دَعَا وَبَکَی بُکَائً لاَ تَبْکِیہ الثَّکْلَی ، فَقُلْتُ فِی نَفْسِی : ہَذَا الَّذِی تَقُولُونَ کم ہو غَلِیظٌ۔
(٣٦٦٧٤) حضرت ابو اسید کے مولی ابوسعید سے منقول ہے کہ عمر نے جب نماز پڑھ لی تو لوگوں کو مسجد سے نکال دیا اور ہماری طرف کو چل پڑے۔ جب اپنے ساتھیوں کو دیکھا تو ” درۃ “ کو رکھا اور بیٹھ گئے، فرمانے لگے کہ دعا کرو تو وہ سب لوگ دعا کرنے لگے۔ پھر وہ باری باری دعا کرنے لگے۔ یہاں تک کہ دعا کی میری باری آگئی اور میں نے بھی دعا کی اور میں اس وقت غلام تھا۔ میں نے عمر (رض) کو دیکھا کہ انھوں نے دعا مانگی اور اتنا روئے کہ کوئی عورت جس کا بچہ گم ہوگیا ہو وہ بھی اتنا نہیں روتی۔ میں نے اپنے جی میں سوچا کہ ” کیا یہی وہ شخص ہے کہ جس کے بارے میں لوگ کہتے ہیں کہ بہت غصہ والا ہے۔

36674

(۳۶۶۷۵) حَدَّثَنَا ابْنُ مُبَارَکٍ ، عَنِ الرَّبِیعِ بْنِ أَنَسٍ ، عَنْ أَبِی دَاوُدَ ، عَنْ أُبَیِّ بْنِ کَعْبٍ ، قَالَ : عَلَیْکُمْ بِالسَّبِیلِ وَالسُّنَّۃِ ، فَإِنَّہُ لَیْسَ مِنْ عَبْدٍ عَلَی سَبِیلٍ وَسُنَّۃٍ ذَکَرَ الرَّحْمَن فَفَاضَتْ عَیْنَاہُ مِنْ خَشْیَۃِ اللہِ فَمَسَّتْہُ النَّارُ أَبَدًا، وَلَیْسَ مِنْ عَبْدٍ عَلَی سَبِیلٍ وَسُنَّۃٍ ذَکَرَ اللَّہَ فَاقْشَعَرَّ جِلْدُہُ مِنْ خَشْیَۃِ اللہِ إِلاَّ کَانَ مَثَلُہُ کَمَثَلِ شَجَرَۃٍ یَبِسَ وَرِقُہَا فَہِیَ کَذَلِکَ إذْ أَصَابَتْہَا رِیحٌ فَتَحَاتَّ وَرَقُہَا عنہا إِلاَّ تَحَاتَّتْ خَطَایَاہُ کَمَا یَتَحَاتُّ عن ہَذِہِ الشَّجَرَۃِ وَرِقُہَا ، وَإِنَّ اقْتِصَادًا فِی سُنَّۃٍ وَسَبِیلٍ خَیْرٌ مِنِ اجْتِہَادٍ فِی غَیْرِ سُنَّۃٍ وَسَبِیلٍ ، فَانْظُرُوا أَعْمَالَکُمْ ، فَإِنْ کَانَتِ اقْتِصَادًا وَاجْتِہَادًا أَنْ تَکُونَ عَلَی مِنْہَاجِ الأَنْبِیَائِ وَسُنَّتِہِمْ۔ (ابو نعیم ۲۵۲)
(٣٦٦٧٥) حضرت ابی بن کعب کا ارشاد ہے کہ تم پر سنت اور درست راستہ کو اختیار کرنا ضروری ہے۔ اس لیے کہ کوئی شخص بھی ایسا نہیں کہ جو سنت اور درست راستہ پر ہو اور اس کی خشیت الٰہی کی وجہ سے آنکھیں بہہ پڑیں پھر اس کو جہنم کی آگ چھوئے۔ اور کوئی بھی شخص ایسا نہیں جو سنت اور درست راہ پر ہو اور اس کی کھال اللہ کے خوف سے کانپ اٹھے مگر اس کی مثال ایسے درخت کی سی ہے کہ جو خشک ہوچکا تھا اور وہ اسی حالت میں تھا کہ اچانک ہوا چلی اور اس کے پتے کے پتے اس سے جھڑ کر گرگئے۔ اسی طرح اس کے بھی صرف گناہ اسی طرح جھڑ جاتے ہیں۔ سنت اور درست راستہ میں میانہ روی بہتر ہے سنت اور درست راستہ کے علاوہ میں جدوجہد کرنے سے بس تم اپنے اعمال کا جائزہ لو اگر ان میں میانہ روی اور مجاہدہ موجود ہے تو یہ اعمال انبیاء اور ان کی سنت پر ہی ہیں۔

36675

(۳۶۶۷۶) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِی وَقَّاصٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ شَدَّادٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ نَشِیجَ عُمَرَ وَأَنَا فِی آخِرِ الصَّفِّ وَہُوَ یَقْرَأُ سُورَۃَ یُوسُفَ : {إنَّمَا أَشْکُو بَثِّی وَحُزْنِی إِلَی اللہِ}۔
(٣٦٦٧٦) حضرت عبداللہ بن شداد فرماتے ہیں کہ میں نے عمر (رض) کی ہچکیوں کی آواز سنی جبکہ میں آخری صف میں تھا اور وہ سورة یوسف کی آیت {إنَّمَا أَشْکُو بَثِّی وَحُزْنِی إِلَی اللہِ } تلاوت کررہے تھے۔

36676

(۳۶۶۷۷) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا سُفْیَانُ بْنُ حُسَیْنٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللہِ أنَّ ابْنَ عُمَرَ قَرَأَ : {وَإِنْ تُبْدُوا مَا فِی أَنْفُسِکُمْ ، أَوْ تُخْفُوہُ یُحَاسِبْکُمْ بِہِ اللَّہُ} الآیَۃُ فَدَمَعَتْ عَیْنَاہُ فَبَلَغَ صَنِیعُہُ ابْنَ عَبَّاسٍ ، فَقَالَ : یَرْحَمُ اللَّہُ أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، لَقَدْ صَنَعَ کَمَا صَنَعَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حِین أُنْزِلَتْ ، فَنَسَخَتْہَا الآیَۃُ الَّتِی بَعْدَہَا {لَہَا مَا کَسَبَتْ وَعَلَیْہَا مَا اکْتَسَبَتْ}۔
(٣٦٦٧٧) حضرت سالم بن عبداللہ فرماتے ہیں کہ ابن عمر (رض) نے قرآن پاک کی آیت { وَإِنْ تُبْدُوا مَا فِی أَنْفُسِکُمْ ، أَوْ تُخْفُوہُ یُحَاسِبْکُمْ بِہِ اللَّہُ } پڑھی اور رونے لگے تو ان کو یہ عمل ابن عباس (رض) کو پہنچا تو انھوں نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ابوعبدالرحمن پر رحم کرے انھوں نے وہی کہا جو اس آیت کے نزول کے وقت اصحابِ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کیا تھا۔ پھر اس آیت کو بعد میں اس آیت نے منسوخ کردیا تھا : { لَہَا مَا کَسَبَتْ وَعَلَیْہَا مَا اکْتَسَبَتْ }

36677

(۳۶۶۷۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ مِسْعَرٍ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، عَنْ عَرْفَجَۃَ السُّلَمِیِّ قَالَ : قَالَ أَبُو بَکْرٍ : ابکو وَإِنْ لَمْ تَبْکُوا فَتَبَاکَوْا۔
(٣٦٦٧٨) حضرت ابوبکر (رض) کا ارشاد ہے کہ ” تم رویا کرو اگر رو نہ سکو تو رونے کی صورت بنا لیا کرو۔

36678

(۳۶۶۷۹) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنِی ابْنُ أَبِی مُلَیْکَۃَ ، قَالَ : أَخْبَرَنِی عَلْقَمَۃُ بْنُ وَقَّاصٍ ، قَالَ : کَانَ عُمَرُ یَقْرَأُ فِی صَلاَۃِ عِشَائِ الآخِرَۃِ بِسُورَۃِ یُوسُفَ وَأَنَا فِی مُؤَخِّرِ الصُّفُوفِ حَتَّی إذَا ذُکِرَ یُوسُفُ سَمِعْت نَشِیجَہُ۔
(٣٦٦٧٩) حضرت علقمہ بن وقاص فرماتے ہیں عمر عشاء کی نماز میں سورة یوسف تلاوت کیا کرتے تھے اور میں آخری صف میں تھا حتی کہ جب یوسف (علیہ السلام) کا ذکر آیا تو میں نے ان کی ہچکی کی آواز سنی۔

36679

(۳۶۶۸۰) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنِ الْمِنْہَالِ ، عَنْ شَقِیقِ بْنِ سَلَمَۃَ ، قَالَ : دَخَلْنَا عَلَی خَبَّابٍ نَعُودُہُ ، فَقَالَ فِی ہَذَا التَّابُوتِ ، ثَمَانُونَ أَلْفًا مَا شَدَدْتہَا بِخَیْطٍ ، وَلاَ مَنَعْتہَا مِنْ سَائِلٍ ، فَقَالُوا : عَلاَمَ تَبْکِی ، قَالَ مَضَی أَصْحَابِی وَلَمْ تُنْقِصْہُمُ الدُّنْیَا شَیْئًا وَبَقِینَا حَتَّی مَا نَجِدُ لَہَا مَوْضِعًا إِلاَّ التُّرَابَ۔
(٣٦٦٨٠) حضرت شقیق بن سلمہ فرماتے ہیں کہ ہم خباب کے پاس عیادت کے لیے آئے تو انھوں نے فرمایا کہ اس صندوق میں اسی ہزار ٨٠٠٠٠ گرہیں باندھ کر رکھی ہوئی ہیں اور میں نے ان سے کسی سائل کو نہیں روکا۔ ہم نے ان سے سوال کیا کہ آپ کس بات پر روتے ہیں تو انھوں نے جواب دیا کہ میرے ساتھی چلے گئے اور دنیا نے ان کا کچھ بھی نہیں بگاڑا تھا اور اب ہم باقی رہ گئے ہیں حتی کہ اب ہم اس کی سوائے مٹی کے اور کوئی جگہ نہیں دیکھتے۔

36680

(۳۶۶۸۱) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ مُوسَی بْنِ عُبَیْدَۃَ ، عَنْ أَخِیہِ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُبَیْدَۃَ ، قَالَ : رَأَتْ صَفِیَّۃُ زَوْجُ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَوْمًا قَرَؤُوا سَجْدَۃً فَسَجَدُوا ، فَنَادَتْہُمْ : ہَذَا السُّجُودُ وَالدُّعَائُ فَأَیْنَ الْبُکَائُ۔
(٣٦٦٨١) حضرت عبداللہ بن عبیدہ فرماتے ہیں کہ صفیہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیوی نے لوگوں کو دیکھا کہ انھوں نے آیت سجدہ تلاوت کی پھر سجدہ کیا تو انھوں نے آواز دی کہ یہ تو محض سجدہ اور دعا ہے لیکن رونا کہاں چلا گیا ؟ “

36681

(۳۶۶۸۲) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ دَاوُدَ اللَّیْثِیِّ ، قَالَ : حدَّثَنَا الْبَخْتَرِیُّ بْنُ زَیْدِ بْنِ خَارِجَۃَ ، أَنَّ رَجُلاً مِنَ الْعُبَّادِ مَرَّ عَلَی کُورِ حَدَّادٍ مَکْشُوفٍ ، فَقَامَ یَنْظُرُ إلَیْہِ فَمَکَثَ مَا شَائَ اللَّہُ أَنْ یَمْکُثَ ، ثُمَّ شَہِقَ شَہْقَۃً فَمَاتَ۔
(٣٦٦٨٢) حصرت بختری بن زیاد بن خارجہ فرماتے ہیں کہ عباد قبیلہ کا ایک آدمی کسی لوہار کی کھلی ہوئی دو کان کے پاس سے گزرا تو کھڑا ہو کر دیکھنے لگا۔ پھر جتنا دیر اللہ نے چاہا وہ دیکھتا رہا بالآخر ایک چیخ ماری اور مرگیا۔

36682

(۳۶۶۸۳) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ ہَاشِمٍ ، عَنِ ابْنِ أَبِی لَیْلَی ، عَنِ ابْنِ أَبِی مُلَیْکَۃَ ، قَالَ : رَأَیْتُ عَبْدَ اللہِ بْنَ عَمْرٍو وَہُوَ یَبْکِی فَنَظَرْت إلَیْہِ ، فَقَالَ : أَتَعْجَبُ أَبْکوا مِنْ خَشْیَۃِ اللہِ ، فَإِنْ لَمْ تَبْکُوا فَتَبَاکُوا حَتَّی یَقُولَ أَحَدُکُمْ : ایہْ ، ایہْ ، إنَّ ہَذَا الْقَمَرَ لَیَبْکِی مِنْ خَشْیَۃِ اللہِ تَعَالَی۔
(٣٦٦٨٣) حضرت ابن ابی ملیکہ (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) کو دیکھا کہ آپ (رض) رو رہے تھے۔ پس وہ مجھے دیکھ کر کہنے لگے۔ کیا تم تعجب کرتے ہو میرے اللہ کے خوف سے رونے پر۔ پس اگر تم رو نہیں سکتے تو کم از کم رونے کی صورت ہی بنا لو۔ یہاں تک کہ تم میں سے کوئی کہہ دے۔ اسے دیکھو اسے دیکھو۔ بیشک یہ چاند بھی اللہ کے خوف سے روتا ہے۔

36683

(۳۶۶۸۴) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا مِسْعَرٌ ، قَالَ : حَدَّثَنِی عَلْقَمَۃُ بْنُ مَرْثَدٍ ، عَنِ ابْنِ بُرَیْدَۃَ ، قَالَ : لَوْ عُدِلَ بُکَائُ أَہْلِ الأَرْضِ بِبُکَائِ دَاوُد مَا عَدَلَہُ ، وَلَوْ عُدِلَ بُکَائُ دَاوُد وَبُکَائُ أَہْلِ الأَرْضِ بِبُکَائِ آدَمَ حِینَ أُہْبِطَ إِلَی الأَرْضِ مَا عَدَلَہُ۔
(٣٦٦٨٤) حضرت ابن بریدہ کا ارشاد ہے کہ اگر تمام روئے زمین والوں کے رونے کا داؤد (علیہ السلام) کے رونے سے تقابل کیا جائے تو پھر بھی اس کے برابر نہیں ہوسکتا اور اگر داؤد (علیہ السلام) کے رونے کا اور تمام زمین والوں کے رونے کا آدم (علیہ السلام) کے رونے سے تقابل کیا جائے جس وقت ان کو زمین کی طرف اتار دیا گیا تھا تو پھر آدم (علیہ السلام) کا رونا بڑھ جائے گا۔

36684

(۳۶۶۸۵) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، قَالَ : کَانَ أَبُو صَالِحٍ یَؤُمُّنَا ، فَکَانَ لاَ یُجِیزُ الْقِرَائَۃَ مِنَ الرِّقَّۃِ۔
(٣٦٦٨٥) حضرت اعمش (رض) فرماتے ہیں کہ ابوصالح (رض) ہم کو نماز پڑھایا کرتے تھے اور رقت قلبی کی وجہ سے ان سے قراءت نہ کی جاتی تھی۔

36685

(۳۶۶۸۶) حَدَّثَنَا مُعَاوِیَۃُ بْنُ ہِشَامٍ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ الأَقْمَرِ قَالَ : حدَّثَنِی فُلاَنٌ : قَالَ : أَتَیْتُ رَبِیعَۃَ وَہُوَ یَبْکِی عَلَی الصَّلاَۃِ۔
(٣٦٦٨٦) حضرت علی بن احمر فرماتے ہیں کہ مجھ کو فلاں شخص نے بتایا ہے کہ میں ربیعہ کے پاس آیا تو وہ نماز میں رو رہے تھے۔

36686

(۳۶۶۸۷) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ رَبَاحٍ ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ مُحْرِزٍ ، أَنَّہُ کَانَ إذَا قَرَأَ ہَذِہِ الآیَۃَ بَکَی حَتَّی أَرَی أَنَّ قَصَصَ زُورِہِ سَیَنْدَقُّ : {وَسَیَعْلَمُ الَّذِینَ ظَلَمُوا أَیَّ مُنْقَلَبٍ یَنْقَلِبُونَ}۔
(٣٦٦٨٧) حصرت صفوان بن محرز کہتے ہیں کہ ربیعہ نے جب قرآن پاک کی آیت { وَسَیَعْلَمُ الَّذِینَ ظَلَمُوا أَیَّ مُنْقَلَبٍ یَنْقَلِبُونَ } تلاوت کی تو روپڑے حتی کہ مجھے اس طرح محسوس ہورہا تھا کہ ان کا سینہ پس رہا ہے۔

36687

(۳۶۶۸۸) حَدَّثَنَا ہَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ یَعْلَی بْنِ عَطَائٍ ، عَنْ أُمِّہِ وَکَانَتْ تَسْحَقُ الْکُحْلَ لِعَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو ، أَنَّہُ کَانَ یُطْفِئُ السِّرَاجَ وَیَبْکِی حَتَّی رُسِعَتْ عَیْنَاہُ۔
(٣٦٦٨٨) حضرت یعلی بن عطاء (رض) اپنی والدہ سے جو کہ عبداللہ بن عمرو کے لیے سرمہ پیسا کرتی تھیں نقل کرتے ہیں کہ عبداللہ بن عمرو چراغ کو بجھا دیا کرتے تھے اور رویا کرتے تھے حتی کہ ان کی آنکھیں خراب ہوگئیں۔

36688

(۳۶۶۸۹) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، عَن عَبِیْدَۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : قَالَ لِی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : اقْرَأْ عَلَیَّ الْقُرْآنَ ، قَالَ : قُلْتُ : یَا رَسُولَ اللہِ أَقْرَأُ عَلَیْک وَعَلَیْک أُنْزِلَ ، قَالَ: إنِّی أَشْتَہِی أَنْ أَسْمَعَہُ مِنْ غَیْرِی ، قَالَ: فَقَرَأْت النِّسَائَ حَتَّی إذَا بَلَغْت : {فَکَیْفَ إذَا جِئْنَا مِنْ کُلِّ أُمَّۃٍ بِشَہِیدٍ وَجِئْنَا بِکَ عَلَی ہَؤُلاَئِ شَہِیدًا} رَفَعْت رَأْسِی، أَوْ غَمَزَنِی رَجُلٌ إِلَی جَنْبِی فَرَأَیْتُ دُمُوعَہُ تَسِیلُ۔
(٣٦٦٨٩) حضرت عبداللہ فرماتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حکم دیا کہ مجھے تلاوت سناؤ تو انھوں نے عرض کیا کہ میں آپ کو سناؤں جبکہ آپ پر ہی تو اترا ہے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میں چاہتا ہوں کہ کسی دوسرے سے سنوں عبداللہ فرماتے ہیں کہ میں نے سورة النساء شروع کی یہاں تک کہ جب میں { فَکَیْفَ إذَا جِئْنَا مِنْ کُلِّ أُمَّۃٍ بِشَہِیدٍ وَجِئْنَا بِکَ عَلَی ہَؤُلاَئِ شَہِیدًا } پر پہنچا تو میں نے اپنا سر اٹھایا یا کسی نے مجھ کو ایک جانب سے ٹٹولا تو میں نے دیکھا کہ آپ کے آنسو بہہ رہے تھے۔

36689

(۳۶۶۹۰) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ حُصَیْنٍ ، عَنْ ہِلاَلِ بْنِ یَِسَافٍ ، عَنْ أَبِی حَیَّانَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ رَفَعَہُ بِنَحْوٍ مِنْہُ۔
(٣٦٦٩٠) حضرت عبداللہ (رض) سے مرفوعاً اسی طرح مروی ہے۔

36690

(۳۶۶۹۱) حَدَّثَنَا مُحَاضِرٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا الأَعْمَشُ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ التَّیْمِیِّ ، قَالَ : لَقَدْ أَدْرَکْت سِتِّینَ مِنْ أَصْحَابِ عَبْدِ اللہِ فِی مَسْجِدِنَا ہَذَا أَصْغَرُہُمَ الْحَارِثُ بْنُ سُوَیْد وَسَمِعْتہ یَقْرَأُ : {إذَا زُلْزِلَتْ} حَتَّی بَلَغَ {فَمَنْ یَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْرًا یَرَہُ} قَالَ : فَبَکی ، ثُمَّ قَالَ : إنْ ہَذَا لإحْصَاء شَدِیدٌ۔
(٣٦٦٩١) حضرت ابراہیم تیمی (رض) کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ (رض) کے ساٹھ ساتھیوں کو اس مسجد میں پایا جس میں سے سب سے چھوٹے ” حارث بن سوید “ تھے اور میں نے سنا کہ وہ {إذَا زُلْزِلَتْ۔۔۔ الخ } کی تلاوت کررہے تھے۔ یہاں تک کہ جب (فَمَنْ یَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْرًا یَرَہُ ) پر پہنچے تو رو پڑے پھر فرمایا کہ یہ تو بہت سخت حساب ہے۔

36691

(۳۶۶۹۲) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا سَلاَّمُ بْنُ مِسْکِینٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا الْحَسَنُ ، قَالَ : مَرَّ رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَی رَجُلٍ یَقْرَأُ آیَۃً وَیَبْکِی وَیُرَدِّدُہَا ، قَالَ : فَقَالَ : أَلَمْ تَسْمَعُوا إِلَی قَوْلِ اللہِ تَعَالَی : {وَرَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِیلاً} قَالَ : ہَذَا التَّرْتِیلُ۔
(٣٦٦٩٢) حضرت حسن سے مروی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ میں سے ایک شخص دوسرے کے پاس سے گزرا جو آیت کرسی پڑھ رہا تھا اور رو رہا تھا اور اسی کو بار بار پڑھ رہا تھا تو انھوں نے فرمایا کہ کیا تم لوگوں نے اللہ کا ارشاد { وَرَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِیلاً } نہیں سنا یہی ہے وہ ترتیل۔

36692

(۳۶۶۹۳) حَدَّثَنَا شَاذَانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا مَہْدِیُّ بْنُ مَیْمُونٍ ، عَنِ الْجُرَیْرِیِّ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ شَقِیقٍ الْعُقَیْلِیِّ ، قَالَ : سَمِعْتُ کَعْبًا یَقُولُ : لأَنْ أَبْکِی مِنْ خَشْیَۃِ اللہِ تَعَالَی حَتَّی یَسِیلَ دمعِی عَلَی وَجْنَتِی أَحَبُّ إلَیَّ مِنْ أَنْ أَتَصَدَّقَ بِوَزْنِی ذَہَبًا وَالَّذِی نَفْسُ کَعْبٍ بِیَدِہِ مَا مِنْ عَبْدٍ مُسْلِمٍ یَبْکِی مِنْ خَشْیَۃِ اللہِ حَتَّی تَقْطُرَ قَطْرَۃً مِنْ دُمُوعِہِ إلی الأَرْضِ فَتَمَسُّہُ النَّارُ أَبَدًا حَتَّی یَعُودَ قَطْرُ السَّمَائِ الَّذِی وَقَعَ إِلَی الأَرْضِ مِنْ حَیْثُ جَائَ وَلَنْ یَعُودَ أَبَدًا۔
(٣٦٦٩٣) حضرت عبداللہ بن شقیق العقیلی فرماتے ہیں کہ میں نے کعب (رض) کو کہتے ہوئے سنا کہ میں اللہ کے خوف سے روؤں یہاں تک کہ آنسو میرے رخسار پر بہنے لگیں یہ مجھ کو اس سے زیادہ پسند ہے۔ میں اپنے وزن کے بقدر سونا صدقہ کروں۔ قسم ہے اس ذات کی کہ جس کے قبضہ میں کعب (رض) کی جان ہے کہ جو بھی کوئی مسلمان اللہ کے خوف سے روتا ہے اور اس کے آنسو زمین پر گرتے ہیں اس کو جہنم کی آگ اس وقت تک نہیں چھو سکتی جب تک آسمان سے پانی کا زمین پر ٹپکا ہوا قطرہ دوبارہ اپنی جگہ پر نہ چلا جائے اور وہ ہرگز نہیں جاسکتا۔

36693

(۳۶۶۹۴) حَدَّثَنَا أَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا مَہْدِیُّ بْنُ مَیْمُونٍ ، قَالَ سَمِعْت مُحَمَّدًا یَقُولُ : کَانَ الرَّجُلُ مِنْ أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ تَأْتِی عَلَیْہِ الثَّلاَثَۃُ الأَیَّامُ لاَ یَجِدُ شَیْئًا یَأْکُلُہُ فَیَجِدُ الْجِلْدَۃَ فَیَشْوِیہَا فَیَجْتَزِئُ بِہَا ، وَإِذَا لَمْ یَجِدْ شَیْئًا عَمَدَ إِلَی حَجَرٍ فَشَدَّ بِہِ بَطْنَہُ۔
(٣٦٦٩٤) مہدی بن میمون (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے محمد کو فرماتے ہوئے سنا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا صحابی تین تین دن تک کھانے کی کوئی چیز نہیں پاتا تھا تو چمڑا لے کر اس کو بھون لیتا اور ٹکڑے کرلیتا اور جب کوئی چیز بھی نہ ملتی تو پتھروں سے اپنے پیٹ کو باندھ لیتا تھا۔

36694

(۳۶۶۹۵) حَدَّثَنَا ہَوْذَۃُ بْنُ خَلِیفَۃَ، قَالَ: حدَّثَنَا عَوْفٌ، عَنْ أَبِی الْوَرْدِ بْنِ ثُمَامَۃَ، عَنْ وَہْبِ بْنِ مُنَبِّہٍ، قَالَ: کَانَ فِی بَنِی إسْرَائِیلَ رِجَالٌ أَحْدَاثُ الأَسْنَانِ مَغْمُورُونَ فِیہِمْ ، قَدْ قَرَؤُوا الْکِتَابَ وَعَلِمُوا عِلْمًا ، وَإِنَّہُمْ طَلَبُوا بِقِرَائَتِہِمَ الشَّرَفَ وَالْمَالَ، وَإِنَّہُمَ ابْتَدَعُوا بِدَعًا أَخَذُوا بِہَا الشَّرَفَ وَالْمَالَ فِی الدُّنْیَا فَضَلُّوا وَأَضَلُّوا کَثِیرًا۔
(٣٦٦٩٥) حضرت وہب بن منبہ فرماتے ہیں کہ بنی اسرائیل میں چند جاہل نوجوان تھے۔ انھوں نے کتاب کو پڑھا اور علم حاصل کیا اور انھوں نے اس کے پڑھنے پر مال اور شرافت مانگنا شروع کردی۔ اور انھوں نے ہی اس بدعت کو شروع کیا۔ وہ اس کے بدلہ میں عزت اور مال دنیا میں طلب کرتے پس وہ خود بھی گمراہ ہوئے اور انھوں نے دوسروں کو بھی گمراہ کیا۔

36695

(۳۶۶۹۶) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ الْمُہَلَّبِ ، عَنْ خَالِدِ بْنِ صَالِحٍ ، عَنْ مُعَاوِیَۃَ بْنِ قُرَّۃَ ، قَالَ : قَالَ أَبُو الدَّرْدَائِ ، إنَّ الْقَلْبَ یَرْبُدُ کَمَا یَرْبُدُ الْحَدِیدُ ، قِیلَ : وَمَا جَلاَؤُہُ ، قَالَ : یُذْکَرُ اللَّہُ۔
(٣٦٦٩٦) حضرت ابوداؤد کا ارشاد ہے کہ دل کو بھی لوہے کی طرح زنگ لگ جاتا ہے۔ ان سے سوال کیا گیا کہ پھر اس کے لیے کیا علاج ہے تو انھوں نے جواب دیا کہ آدمی اللہ کا ذکر کرے۔

36696

(۳۶۶۹۷) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، قَالَ : حَدَّثَنِی عَبْدُ اللہِ بْنُ عُبَیْدِ بْنِ عُمَیْرٍ ، قَالَ : کَانَ لأَیُّوبَ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَخَوَانِ فَجَائَا جمیعا فَلَمْ یَسْتَطِیعَا أن یَدْنُوَا منہ مِنْ رِیحِہِ ، فَقَالَ : أَحَدُہُمَا لِلآخَرِ : لَوْ کَانَ اللَّہُ عَلِمَ لأَیُّوبَ خَیْرًا مَا بَلَغَ بِہِ ہَذَا ، فَجَزَعَ أَیُّوبُ مِنْ قَوْلِہِمَا جَزَعًا شَدِیدًا لَمْ یَجْزَعْہُ مِنْ شَیْئٍ قَطُّ ، فَقَالَ أَیُّوبُ : اللَّہُمَّ إنْ کُنْت تَعْلَمُ أَنِّی لَمْ أَبِتْ لَیْلَۃً قَطُّ شِبَعًا وَأَنَا أَعْلَمُ مَکَانَ جَائِعٍ فَصَدِّقْنِی ، فَصُدِّقَ وَہُمَا یَسْمَعَانِ ، ثُمَّ قَالَ : اللَّہُمَّ إنْ کُنْت تَعْلَمُ أَنِّی لَمْ أَلْبَسْ قَمِیصًا قَطُّ وَأَنَا أَعْلَمُ مَکَانَ عَارٍ فَصَدِّقْنِی فَصُدِّقَ وَہُمَا یَسْمَعَانِ، ثُمَّ خَرَّ سَاجِدًا ، ثُمَّ قَالَ : اللَّہُمَّ إنِّی لاَ أَرْفَعُ رَأْسِی حَتَّی تَکْشِفَ عَنِّی ، قَالَ : فَمَا رَفَعَ رَأْسَہُ حَتَّی کَشَفَ اللَّہُ عَنْہُ۔
(٣٦٦٩٧) حضرت عبداللہ بن عبید بن عمیر (رض) فرماتے ہیں کہ ایوب کے دو بھائی تھے۔ وہ دونوں اکٹھے آئے تو ایوب سے آنے والی بو کی وجہ سے اس کے قریب نہ ہوسکے تو ان میں سے ایک نے کہا کہ اگر اللہ تعالیٰ ایوب (علیہ السلام) میں کوئی بھلائی دیکھتے تو اس کو یہاں تک نہ پہنچاتے۔ تو ایوب (علیہ السلام) ان کے اس قول کی وجہ سے اتنا شدت سے روئے کہ اتنا کبھی نہ روئے تھے۔ پھر ایوب (علیہ السلام) نے فرمایا کہ ” اے اللہ اگر تو جانتا ہے میں کسی بھی رات پیٹ بھر کر نہیں سویا جبکہ میں ایک بھوکے کے مقام کو بھی جانتا ہوں تو تو میری تصدیق کر چنانچہ ان کی تصدیق کی گئی اور وہ دونوں سن رہے تھے۔ پھر انھوں نے دعا کی کہ اے اللہ ! اگر تو جانتا ہے کہ میں نے کبھی قمیص نہیں پہنی اور میں ننگے کے مقام کو بھی جانتا ہوں تو میری تصدیق کر چنانچہ اس کی تصدیق کی گئی اور وہ دونوں سن رہے تھے۔ پھر ایوب (علیہ السلام) سجدہ میں گرگئے پھر دعا کی کہ اے اللہ ! میں اس وقت تک سر نہیں اٹھاؤں گا کہ جب تک تو میرے غم کو نہیں دور کردے گا۔ پھر انھوں نے اس وقت تک اپنا سر نہیں اٹھایا کہ جب تک اللہ نے ان کا غم دور نہیں کردیا۔

36697

(۳۶۶۹۸) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِِ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ ہِلاَلِ بْنِ یَِسَافٍ قَالَ : حدِّثْت ، أَنَّ عِیسَی ابْنَ مَرْیَمَ علیہما السلام کَانَ یَقُولُ : إذَا تَصَدَّقَ أَحَدُکُمْ فَلِیُعْطِ بِیَمِینِہِ وَلِیُخْفِ مِنْ شِمَالِہِ ، وَإِذَا کَانَ یَوْمُ صَوْمِ أحَدِکُمْ فَلْیَدَّہِنْ وَلْیَمْسَحْ شَفَتَیْہِ مِنْ دُہْنِہِ حَتَّی یَنْظُرَ إلَیْہِ النَّاظِرُ فَلاَ یَرَی أَنَّہُ صَائِمٌ ، وَإِذَا صَلَّی فِی بَیْتِہِ فَلْیَتَّخِذ عَلَیْہِ سُتْرَۃً فَإِنَّہُ یَقْسِمُ الثَّنَائَ کَمَا یَقْسِمُ الرِّزْقَ۔
(٣٦٦٩٨) حضرت ہلال بن یوسف فرماتے ہیں کہ عیسیٰ (علیہ السلام) سے یہ بات منقول ہے کہ جب تم میں سے کوئی آدمی صدقہ کرے تو دائیں ہاتھ سے کرے اور اپنے بائیں ہاتھ سے بھی اس کو پوشیدہ رکھے۔ اور جب تم میں سے کسی کا روزے کا دن ہو تو تیل لگایا کرے اور اپنے ہونٹوں کو تیل سے مسح کرلیا کرے تاکہ دیکھنے والے کو یہ گمان نہ ہو کہ یہ روزے دار ہے۔ اور جب تم میں کوئی آدمی اپنے گھر میں نماز پڑھے تو کوئی سترہ ضرور بنا لیا کرے کیونکہ رزق کی طرح ثنا بھی تقسیم کی جاتی ہے۔

36698

(۳۶۶۹۹) حَدَّثَنَا سَعِیدُ بْنُ عَبْدِ اللہِ بْنِ الرَّبِیعِ بْنِ خُثَیْمٍ ، عَنْ نُسَیْرِ بْنِ ذُعْلُوقٍ ، عَنْ بَکْرِ بْنِ مَاعِزٍ ، قَالَ : کَانَ عَبْدُ اللہِ بْنُ مَسْعُودٍ إذَا رَأَی الرَّبِیعَ بْنَ خُثَیْمٍ مُقْبِلاً ، قَالَ : {بَشِّرَ الْمُخْبِتِینَ} أَمَّا وَاللہِ لَوْ رَآک رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لأَحَبَّک۔
(٣٦٦٩٩) حضرت بکر بن ماعز (رض) فرماتے ہیں کہ عبداللہ بن مسعود (رض) جب ربیع بن خثیم کو آتے ہوئے دیکھتے تو کہتے کہ عاجزی کرنے والوں کو خوشخبری سنا دو اللہ کی قسم اگر آپ کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دیکھتے تو آپ سے محبت کرتے۔

36699

(۳۶۷۰۰) حَدَّثَنَا سَعِیدُ بْنُ عَبْدِ اللہِ بْنِ الرَّبِیعِ بْنِ خُثَیْمٍ ، عَنْ نُسَیْرٍ ، عَنْ بَکْرِ بْنِ مَاعِزٍ ، قَالَ : جَائَتْ بِنْتُ الرَّبِیعِ بْنِ خُثَیْمٍ ، وَعِنْدَہُ أَصْحَابٌ لَہُ ، فَقَالَتْ : یَا أَبَتَاہُ أَذْہَبُ أَلْعَبُ ، قَالَ : لاَ ، فَقَالَ لَہُ أَصْحَابُہُ : یَا أَبَا یَزِیدَ ، اتْرُکْہَا ، قَالَ : لاَ یُوجَدُ فِی صَحِیفَتِی أَنِّی قُلْتُ لَہَا : اذْہَبِی الْعَبِی ، لَکِنَ اذْہَبِی فَقَوْلِی خَیْرًا وَافْعَلِی خَیْرًا۔
(٣٦٧٠٠) حضرت بکر بن ماعز (رض) فرماتے ہیں کہ ربیع بنت خثیم کی بیٹی آئی جس وقت ان کے پاس ساتھی بیٹھے ہوئے تھے تو اس نے پوچھا کہ اے ابا جان ! میں کھیلنے چلی جاؤں تو انھوں نے فرمایا کہ نہیں۔ ان کے ساتھیوں نے ان سے عرض کیا کہ اے ابویزید اس کو جانے دیجیے تو انھوں نے جواب دیا کہ میں نے اپنے صحیفہ میں یہ نہیں دیکھا کہ اس سے کہا گیا ہو کہ جا اور کھیل بلکہ اس میں ہے کہ جا اور اچھی بات کہہ اور اچھا کام کر۔

36700

(۳۶۷۰۱) حَدَّثَنَا سَعِیدُ بْنُ عَبْدِ اللہِ ، عَنْ نُسَیْرٍ ، عَنْ بَکْرٍ ، قَالَ : کَانَ الرَّبِیعُ یَقُولُ : یَا بَکْرُ بْنُ مَاعِزٍ یَا بَکْرُ اخْزُنْ عَلَیْک لِسَانَک إِلاَّ مِمَّا لَک ، وَلاَ عَلَیْک ، إِنِّی اتَّہَمْت النَّاسَ فِی دِینِی ، أَطِعَ اللَّہَ فِیمَا عَلِمْت ، وَمَا اسْتُؤْثِرَ بِہِ عَلَیْک فَکِلْہُ إِلَی عَالمِہِ ، لأَنَّا فِی الْعَمْدِ أَخْوَفُ مِنِّی عَلَیْکُمْ فِی الْخَطَأ ، مَا خَیْرُکُمَ الْیَوْمَ بِخَیْرِہِ ، وَلَکِنَّہُ خَیْرٌ مِنْ آخِرِ شَرٍّ مِنْہُ ، مَا کُلُّ مَا أَنْزَلَ اللَّہُ عَلَی مُحَمَّدٍ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَدْرَکْتُمْ ، وَلاَ کُلُّ مَا تَقْرَؤُونَ تَدْرُونَ مَا ہُوَ ، السَّرَائِرُ الَّتِی یخفینَ مِنَ النَّاسِ وَہُنَّ لِلَّہِ بَوَادٍ ، الْتَمِسُوا دَوَائَہَا ، ثُمَّ یَقُولُ لِنَفْسِہِ : وَمَا دَوَائَہَا أَنْ تَتُوبَ إِلَی اللہِ ، ثُمَّ لاَ تَعُودَ۔
(٣٦٧٠١) حضرت ربیع فرماتے تھے کہ اے بکر بن ماعز ! اپنی زبان کو مفید کاموں میں استعمال کرو۔ نقصان دہ باتوں سے بچو۔ میں لوگوں کو اپنی دین داری کے بارے میں لاعلم سمجھتا ہوں۔ ان چیزوں میں اللہ کی اطاعت کرو جنھیں تم جانتے ہو۔ جو بات تم تک پہنچے اسے اس کے جاننے والے پر موقوف کرو۔ اس لیے کہ جان بوجھ کر غلطی کرنا خطا سے زیادہ خطرناک ہے۔ تمہاری ہر چیز خیر نہیں بلکہ شر سے بہتر ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دی جانے والی تمام باتیں تم تک نہیں پہنچیں اور وہ سب کچھ جو تم پڑھتے ہو سمجھتے نہیں ہو۔ جو چیزیں لوگوں کے لیے پوشیدہ ہیں لوگوں کے لیے ظاہر ہیں۔ ان کا علاج ڈھونڈو پھر اپنے آپ سے خطاب کر کے فرماتے کہ اس کی دوا یہ ہے کہ اللہ کے دربار میں توبہ کرو اور پھر گناہ نہ کرو۔

36701

(۳۶۷۰۲) حَدَّثَنَا سَعِیدُ بْنُ عَبْدِ اللہِ ، عَنْ نُسَیْرِ بْنِ ذُعْلُوقٍ ، عَنْ بَکْرٍ ، قَالَ : لَمَّا انْتَہَی الرَّبِیعُ بْنُ خُثَیْمٍ إِلَی مَسْجِدِ قَوْمِہِ ، قَالُوا : لَہُ : یَا رَبِیعُ ، لَوْ قَعَدْت فَحَدِّثْنَا الْیَوْمَ ، قَالَ : فَقَعَدَ فَجَائَ حَجَرٌ فَشَجَّہُ ، فَقَالَ : {فَمَنْ جَائَہُ مَوْعِظَۃٌ مِنْ رَبِّہِ فَانْتَہَی فَلَہُ مَا سَلَفَ}۔
(٣٦٧٠٢) حضرت بکر فرماتے ہیں کہ جب ربیع بن خثیم اپنی قوم کی مسجد میں گئے تو ان کو لوگوں نے کہا کہ اے ربیع آج ہمارے پاس بیٹھ کر بات چیت کرو۔ بکر فرماتے ہیں کہ ربیع ان کے پاس بیٹھے تو کسی جگہ سے پتھر آیا اور اس نے ان کا سر زخمی کردیا تو انھوں نے فرمایا کہ { فَمَنْ جَائَہُ مَوْعِظَۃٌ مِنْ رَبِّہِ فَانْتَہَی فَلَہُ مَا سَلَفَ } کہ جس شخص کے پاس اپنے رب کی طرف سے نصیحت آگئی پھر وہ رک گیا۔

36702

(۳۶۷۰۳) حَدَّثَنَا سَعِیدُ بْنُ عَبْدِ اللہِ ، عَنْ نُسَیْرٍ ، عَنْ بَکْرٍ ، قَالَ : کَانَ الرَّبِیعُ بْنُ خُثَیْمٍ یَقُولُ : لاَ خَیْرَ فِی الْکَلاَمُ إِلاَّ فِی تِسْعٍ : تَہْلِیلُ اللہِ وَتَسْبِیحُ اللہِ وَتَکْبِیرُ اللہِ وَتَحْمِیدُ اللہِ وَسُؤَالُک الْخَیْرَ وَتَعَوُّذُک مِنَ الشَّرِّ وَأَمْرُک بِالْمَعْرُوفِ وَنَہْیُک ، عَنِ الْمُنْکَرِ وَقِرَائَتُک الْقُرْآنَ۔
(٣٦٧٠٣) حضرت ربیع بن خثیم فرماتے تھے کہ کسی کلام میں خیر نہیں سوائے نو چیزوں کے : اللہ کی تہلیل، اللہ کی تسبیح، اللہ کی تکبیر، اللہ کی حمد، اور تیرا کوئی اچھا سوال کرنا، اور تیرا شر سے پناہ مانگنا اور تیرا بھلائی کا حکم کرنا، اور تیرا برائی سے روکنا، اور تیرا قرآن پاک کی تلاوت کرنا۔

36703

(۳۶۷۰۴) حَدَّثَنَا سَعِیدُ بْنُ عَبْدِ اللہِ ، عَنْ نُسَیْرٍ ، عَنْ بَکْرٍ ، قَالَ : کَانَ الرَّبِیعُ إذَا قِیلَ لَہُ : کَیْفَ أَصْبَحْت یَا أَبَا یَزِیدَ ، یَقُولُ : أَصْبَحْنَا ضُعَفَائَ مُذْنِبِینَ نَأْکُلُ أَرْزَاقَنَا وَنَنْتَظِرُ آجَالَنَا۔
(٣٦٧٠٤) حضرت بکر فرماتے ہیں کہ جب ربیع سے پوچھا جاتا کہ آپ نے کیسی صبح کی اے ابویزید تو وہ جواب دیتے کہ ہم نے کمزوروں اور گناہ گاروں کی سی صبح کی۔ ہم اپنا رزق کھاتے ہیں اور اپنی موت کا انتظار کرتے ہیں۔

36704

(۳۶۷۰۵) حَدَّثَنَا سَعِیدُ بْنُ عَبْدِ اللہِ ، عَنْ نُسَیْرٍ ، عَنْ بَکْرٍ ، قَالَ : قَالَ ابْنُ الْکَوَّائِ لِرَبِیعِ بْنِ خُثَیْمٍ : مَا نَرَاک تَذُمُّ أَحَدًا ، وَلاَ تَعِیبُہُ ، قَالَ : وَیْلَک یَا ابْنَ الْکَوَّائِ ، مَا أَنَا عَنْ نَفْسِی بِرَاضٍ فَأَتَفَرَّغُ مِنْ ذَمِّی إِلَی ذَمِّ النَّاسِ ، إنَّ النَّاسَ خَافُوا اللَّہَ عَلَی ذُنُوبِ الْعِبَادِ وَأَمِنُوا عَلَی ذُنُوبِہِمْ۔
(٣٦٧٠٥) حضرت بکر فرماتے ہیں کہ ابن الکواء (رض) نے ربیع بن خثیم سے کہا کہ ہم آپ کو دیکھتے ہیں کہ نہ تو آپ کسی کی برائی بیان کرتے ہیں اور نہ ہی کسی پر کوئی عیب لگاتے ہیں۔ تو انھوں نے جواب دیا کہ تیرے لیے ہلاکت ہو اے ابن الکواء میں تو اپنے نفس سے بھی راضی نہیں کہ میں اپنی برائی سے فراغت پا کر لوگوں کی برائی کروں۔ لوگ بندوں کے گناہوں کی وجہ سے اللہ سے ڈرتے ہیں اور اپنے گناہوں سے بےخوف رہتے ہیں۔

36705

(۳۶۷۰۶) حَدَّثَنَا سَعِیدُ بْنُ عَبْدِ اللہِ ، عَنْ نُسَیْرٍ ، عَنْ بَکْرٍ ، قَالَ : کَانَ الرَّبِیعُ یَقُولُ : النَّاسُ رَجُلاَنِ : مؤمن ، وجاہل ، فأما المؤمن ؛ فلا تؤذہ ، وأما الجاہل ؛ فلا تجاہلہ۔
(٣٦٧٠٦) حضرت ربیع فرماتے ہیں کہ لوگ دو طرح کے ہیں مومن اور جاہل۔ مومن کو تکلیف نہ دو اور جاہل سے جہالت نہ کرو۔

36706

(۳۶۷۰۷) حَدَّثَنَا سَعِیدُ بْنُ عَبْدِ اللہِ ، عَنْ نُسَیْرٍ ، عَنْ بَکْرٍ ، قَالَ : کَانَ الرَّبِیعُ إذَا قِیلَ لَہُ : أَلاَ تُدَاوِی ، قَالَ : قَدْ أَرَدْت ذَلِکَ ، ثُمَّ ذَکَرْت عَادًا وَثُمَّودَ وَأَصْحَابَ الرَّسِّ وَقُرُونًا بَیْنَ ذَلِکَ کَثِیرًا ، فَعَرَفْت أنَّہُ قَدْ کَانَتْ فِیہِمْ أَوْجَاعٌ وَلَہُمْ أَطِبَّائُ فَمَاتَ الْمُدَاوِی وَالْمُدَاوَی۔
(٣٦٧٠٧) حضرت بکر (رض) سے مروی ہے کہ جب ربیع سے سوال کیا گیا کہ آپ دوا استعمال کیوں نہیں کرتے تو انھوں نے جواب دیا کہ اول میں نے اس کا ارادہ کیا تھا پھر میں قوم عاد اور قوم ثمود اور اصحابِ رس اور اس کے درمیان بہت سی اقوام کو یاد کیا تو مجھ کو یہ بات معلوم ہوگئی کہ ان لوگوں میں بھی تکالیف تھیں اور معالج بھی تھے۔ پس علاج کرنے والا اور کروانے والا دونوں ہی چل بسے ہیں۔

36707

(۳۶۷۰۸) حَدَّثَنَا سَعِیدُ بْنُ عَبْدِ اللہِ ، عَنْ نُسَیْرٍ ، عَنْ بَکْرٍ ، قَالَ : کَانَ الرَّبِیعُ یَقُولُ إذَا أَصْبَحَ : اعْمَلُوا خَیْرًا وَقُولُوا خَیْرًا وَدُومُوا عَلَی صَالِحٍ ، وَإِذَا أَسَأْتُمْ فَتُوبُوا وَإِذَا أَحْسَنْتُمْ فَزِیدُوا ، مَا عَلِمْتُمْ فَأَقِیمُوا ، وَمَا شَکَکْتُمْ فَکِلُوہُ إِلَی اللہِ ، الْمُؤْمِنُ فَلاَ تُؤْذُوہُ ، وَالْجَاہِلُ فَلاَ تَجَاہَلُوہُ ، وَلاَ یَطُلْ عَلَیْکُمَ الأَمَدُ فَتَقْسُوا قُلُوبُکُمْ ، وَلاَ تَکُونُوا کَالَّذِینَ ، قَالُوا : سَمِعْنَا وَہُمْ لاَ یَسْمَعُونَ۔
(٣٦٧٠٨) حضرت بکر (رض) فرماتے ہیں کہ ربیع بن خثیم صبح کو کہا کرتے تھے کہ اچھے اعمال کرو اور اچھی بات کہو۔ اور نیک آدمی کی صحبت پر مداومت کرو اور جب تم کوئی گناہ کرلو تو توبہ کرو اور جب تم کوئی نیکی کرلو تو مزید آگے بڑھو جو عمل کرو اس پر قائم رہو، اور جس چیز میں تم شک کرو اس کو اللہ کے سپرد کردو۔ مومن کو تکلیف نہ دو اور جاہل سے جہالت مت کرو۔ اور تمہاری امیدیں لمبی نہ ہونے پائیں ورنہ دل سخت ہوجائیں گے۔ { ولا تکونوا ۔۔۔ الخ } اور ان لوگوں کی طرح نہ ہوجاؤ جنہوں نے کہا کہ ہم نے سن لیا اور وہ نہیں سنتے تھے۔

36708

(۳۶۷۰۹) حَدَّثَنَا سَعِیدُ بْنُ عَبْدِ اللہِ ، عَنْ نُسَیْرٍ ، عَنْ بَکْرٍ ، قَالَ : کَانَ الرَّبِیعُ یَقُولُ : أَکْثِرُوا ذِکْرَ ہَذَا الْمَوْتِ الَّذِی لَمْ تَذُوقُوا قَبْلَہُ مِثْلَہُ۔
(٣٦٧٠٩) حضرت بکر (رض) فرماتے ہیں کہ ربیع (رض) فرماتے تھے کہ موت کو کثرت سے یاد کیا کرو جس سے قبل تم اس طرح کی تکلیف نہیں چکھو گے۔

36709

(۳۶۷۱۰) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، عَنْ عُمَیْرِ بْنِ إِسْحَاقَ ، قَالَ : أَدْرَکْت مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَکْثَرَ مِمَّنْ سَبَقَنِی مِنْہُمْ ، فَلَمْ أَرَ قَوْمًا أَہْوَنَ سِیرَۃً ، وَلاَ أَقَلَّ تَشْدِیدًا مِنْہُمْ۔
(٣٦٧١٠) حضرت عمیر بن اسحاق کا ارشاد ہے کہ جو لوگ مجھ سے پہلے گزر چکے ہیں میں نے ان سے زیادہ صحابہ کرام کو دیکھا ہے پس میں نے کوئی قوم بھی ان سے زیادہ بردبار اور نرمی کرنے والی نہیں دیکھی۔

36710

(۳۶۷۱۱) حَدَّثَنَا عِیسَی بْنُ یُونُسَ ، عَنِ الأَوْزَاعِیِّ ، عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِہِ ، عَنْ عَلِیٍّ ، قَالَ : إذَا مَالَتِ الأَفْیَائُ وَرَاحَتِ الأَرْوَاحُ فَاطْلُبُوا الْحَوَائِجَ إِلَی اللہِ فَإِنَّہَا سَاعَۃُ الأَوَّابِینَ وَقَرَأَ : {فَإِنَّہُ کَانَ لِلأَوَّابِینَ غَفُورًا}۔
(٣٦٧١١) حضرت علی کا ارشاد ہے کہ جب سائے ڈھل جائیں اور ہوائیں چلنے لگیں تو اپنی ضرورتوں کو اللہ سے مانگو کیونکہ یہ توبہ کرنے والوں کی گھڑی ہے اور قرآن کی یہ آیت تلاوت فرمائی : { فَإِنَّہُ کَانَ لِلأَوَّابِینَ غَفُورًا } بیشک اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والوں کو معاف کرنے والا ہے۔

36711

(۳۶۷۱۲) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ مَالِکِ بْنِ مِغْوَلٍ ، عَنْ أُکَیْلَ ، قَالَ : کَانَ بَیْنَ رَجُلٍ مِنَ الْحَیِّ وَبَیْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ یَزِیدَ شَیْئٌ، فَقَالَ لَہُ عَلْقَمَۃُ: أَکُنْت تَسُبُّنِی لَوْ سَبَبْتُک، قَالَ: لاَ۔ قَالَ: ہُوَ خَیْرٌ مِنِّی، ہُوَ أَکْثَرُ جِہَادًا مِنِّی۔
(٣٦٧١٢) حضرت اکیل فرماتے ہیں کہ قبیلہ حی اور عبدالرحمن بن یزید کے درمیان کچھ جھگڑا تھا تو ان کو علقمہ نے کہا کہ اگر میں آپ کو گالی دوں تو آپ مجھ کو گالی دیں گے ؟ تو انھوں نے جواب دیا کہ نہیں دوں گا۔ انھوں نے فرمایا کہ یہ آدمی مجھ سے اچھا ہے۔ اور مجھ سے زیادہ مجاہدہ والا ہے۔

36712

(۳۶۷۱۳) حَدَّثَنَا یُونُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا أَبُو عَوَانَۃَ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ بَہْدَلَۃَ ، قَالَ : کَانَ لأَبِی وَائِلٍ خُصٌّ یَکُونُ فِیہِ وَدَابَّتُہُ ، فَإِذَا أَرَادَ الْغَزْوَ نَقَضَ الْخُصَّ ، وَإِذَا رَجَعَ بَنَاہُ۔
(٣٦٧١٣) حضرت عاصم بن بہدلہ کہتے ہیں کہ ابی وائل (رض) کی ایک لکڑی کی جھونپڑی تھی جس میں وہ خود اور ان کی سواری ہوتی تھی۔ جب غزوہ کا ارادہ کرتے تو اس جھونپڑی کو گرا دیتے اور جب واپس آتے تو اس کو بنا لیتے۔

36713

(۳۶۷۱۴) حَدَّثَنَا یُونُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ زَیْدٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَالِکٍ ، عَنْ أَبِی الْجَوْزَائِ : {إنَّ جَہَنَّمَ کَانَتْ مِرْصَادًا} قَالَ : صَارَتْ۔
(٣٦٧١٤) حضرت ابوجوزاء (رض) سے قرآن پاک کی آیت {إنَّ جَہَنَّمَ کَانَتْ مِرْصَادًا } کی تفسیر میں مذکور ہے کہ آیت میں کانت سے مراد صارت ہے۔

36714

(۳۶۷۱۵) حَدَّثَنَا سَعِیدُ بْنُ خُثَیْمٍ ، عَنْ أَبِی حَیَّانَ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : دَخَلْنَا عَلَی سُوَیْد ، یَعْنِی ابْنَ مَثْعَبَۃَ وَہُوَ یَشْتَکِی ، فَقُلْنَا لَہُ : کَیْفَ تَجِدُک ؟ فَقَالَ : إنِّی لَفِی عَافِیَۃٍ مِنْ رَبِّی۔
(٣٦٧١٥) حضرت ابی حیان کے والد کا ارشاد ہے کہ ہم سوید یعنی ابن مثعبہ کے پاس گئے جبکہ وہ تکلیف میں تھے۔ ہم نے ان سے پوچھا کہ آپ خود کو کیسا محسوس کرتے ہیں تو انھوں نے جواب دیا کہ میں اپنے رب کی طرف سے عافیت میں ہوں۔

36715

(۳۶۷۱۶) حَدَّثَنَا مُحَاضِرٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا الأَعْمَشُ ، عَنْ یَزِیدَ بْنِ أَبِی زِیَادٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ الْحَارِثِ ، قَالَ : مَا مِنْ شَجَرَۃٍ صَغِیرَۃٍ ، وَلاَ کَبِیرَۃٍ ، وَلاَ مُغْرز إِبِرَۃٍ رَطْبَۃٍ ، وَلاَ یَابِسَۃٍ إِلاَّ مَلَکٌ مُوَکَّلٌ بِہَا یَأْتِی اللَّہَ بِعَمَلِہَا کُلَّ یَوْمٍ بِرُطُوبَتِہَا إذَا رَطُبَتْ ، وَیُبُوسَتِہَا إذَا یَبِسَتْ۔
(٣٦٧١٦) حضرت عبداللہ بن حارث کا ارشاد ہے کہ کوئی چھوٹا یا بڑا درخت اور کوئی سوئی کے گاڑنے کے بقدر خشک یا تر وتازہ جگہ ایسی نہیں جس پر فرشتہ مقرر نہ ہو۔ وہ اللہ کے پاس اس کے روزانہ کے اعمال نہ لے کرجاتا ہو۔ اس کی تروتازگی کے وقت کے اعمال بھی اور اس کی خشکی کی حالت کے اعمال بھی۔

36716

(۳۶۷۱۷) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَیْدٍ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ التَّیْمِیِّ ، قَالَ : إنْ کَانَ الرَّجُلُ مِنَ الْحَیِّ لِیَجِیئَ فَیَسُبَّ الْحَارِثَ بْنَ سُوَیْد فَیَسْکُتَ ، فَإِذَا سَکَتَ قَامَ فَنَفَضَ رِدَائَہُ فَدَخَلَ۔
(٣٦٧١٧) حضرت ابراہیم تیمی فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص حارث بن سوید کو برا بھلا کہتا تو خاموش رہتے۔ جب وہ خاموش ہوتا تو چادر جھاڑ کر چل دیتے۔

36717

(۳۶۷۱۸) حَدَّثَنَا الأَحْوَصُ بْنُ جَوَّابٍ، قَالَ: حدَّثَنَا یُونُسُ بْنُ أَبِی إِسْحَاقَ، عَنْ عَمَّارٍ الدُّہْنِیِّ، عَنْ وَہْبِ بْنِ مُنَبِّہٍ، قَالَ: أَوْحَی اللَّہُ إِلَی بَعْضِ أَوْلِیَائِہِ: إنِّی لَمْ أُحِلَّ رِضْوَانِی لأَہْلِ بَیْتٍ قَطُّ، وَلاَ لأَہْلِ دَارٍ قَطُّ، وَلاَ لأَہْلِ قَرْیَۃٍ قَطُّ فَأُحَوِّلُ عَنْہُمْ رِضْوَانِی حَتَّی یَتَحَوَّلُوا مِنْ رِضْوَانِی إِلَی سَخَطِی ، وَإِنِّی لَمْ أُحِلَّ سَخَطِی لأَہْلِ بَیْتٍ قَطُّ، وَلاَ لأَہْلِ دَارٍ قَطُّ، وَلاَ لأَہْلِ قَرْیَۃٍ قَطُّ فَأُحَوِّلُ، عَنْہُمْ سَخَطِی حَتَّی یَتَحَوَّلُوا مِنْ سَخَطِی إِلَی رِضْوَانِی۔
(٣٦٧١٨) حضرت وہب بن منبہ (رض) فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے کسی ولی پر وحی کی کہ میں کسی بھی گھر والوں یا مکان والوں یا بستی والوں پر اپنی رضا نازل کرکے اس وقت تک نہیں پھرتا کہ جب تک وہ خود میری رضا سے میری ناراضگی کی طرف نہ آجائیں اور میں کسی بھی مکان والوں یا گھر والوں یا بستی والوں پر اپنی ناراضگی اتار کر اس وقت تک نہیں پھرتا کہ جب تک وہ خود میری ناراضگی سے رضا مندی کی طرف نہ آجائیں۔

36718

(۳۶۷۱۹) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِی عُبَیْدَۃَ ، قَالَ: حدَّثَنَا أَبِی، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِی لَیْلَی، قَالَ: مَا عَلَی أَحَدِکُمْ إذَا خَلاَ أَنْ یَقُولَ لِجَلِیسَیْہِ: اسْمَعَا رَحِمَکُمَا اللَّہُ ، ثُمَّ یُمْلِی عَلَیْہِمَا خَیْرًا۔
(٣٦٧١٩) حضرت عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ فرماتے ہیں کہ تم کو اس میں کیا حرج ہے کہ جب وہ اکیلا ہو تو اپنے فرشتوں کو کہے کہ لکھو اللہ تم پر رحم کرے پھر ان کو اچھی چیز لکھوانا شروع کردے۔

36719

(۳۶۷۲۰) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : کان إذَا قَرَأَ : {أَلْہَاکُمُ التَّکَاثُرُ} قَالَ فِی الأَمْوَالِ وَالأَوْلاَدِ {حَتَّی زُرْتُمُ الْمَقَابِرَ کَلاَّ سَوْفَ تَعْلَمُونَ} قَالَ : وَعِیدٌ بَعْدَ وَعِیدٍ عِلْمَ الْیَقِینِ۔
(٣٦٧٢٠) حضرت حسن سے مروی ہے جب انھوں نے { أَلْہَاکُمُ التَّکَاثُرُ } پڑھا تو فرمایا کہ اموال اور اولاد میں مراد ہے پھر { حَتَّی زُرْتُمُ الْمَقَابِرَ کَلاَّ سَوْفَ تَعْلَمُونَ } پڑھا تو فرمایا کہ یہ تو وعید کے بعد دوسری وعید ہے۔ عِلْمَ الْیَقِینِ کی۔

36720

(۳۶۷۲۱) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : إذَا قَرَأَ ہَذِہِ الآیَۃَ {إنَّ اللَّہَ اشْتَرَی مِنَ الْمُؤْمِنِینَ أَنْفُسَہُمْ وَأَمْوَالَہُمْ} قَالَ : أَنْفُسٌ ہُوَ خَلَقَہَا وَأَمْوَالٌ ہُوَ رَزَقَہَا فَیَقْتُلُونَ وَیُقْتَلُونَ {وَعْدًا عَلَیْہِ حَقًّا فِی التَّوْرَاۃِ وَالإِنْجِیلِ}۔
(٣٦٧٢١) حضرت حسن (رض) نے جب یہ آیت پڑھی : {إنَّ اللَّہَ اشْتَرَی مِنَ الْمُؤْمِنِینَ أَنْفُسَہُمْ وَأَمْوَالَہُمْ } تو فرمایا کہ نفسوں کو تو پیدا ہی اس نے کیا ہے اور اموال کا رزق وہ خود ہی دیتا ہے۔ { وَعْدًا عَلَیْہِ حَقًّا فِی التَّوْرَاۃِ وَالإِنْجِیلِ }

36721

(۳۶۷۲۲) حَدَّثَنَا مُعَاوِیَۃُ بْنُ ہِشَامٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ رَجُلٍ عَنِ الرَّبِیعِ بْنِ خُثَیْمٍ قوْلُہُ : {یَا أَیُّہَا الإِنْسَان مَا غَرَّک بِرَبِّکَ الْکَرِیمِ} قَالَ : الْجَہْلُ۔
(٣٦٧٢٢) حضرت ربیع بن خثیم (رض) قرآنِ پاک کی آیت { یَا أَیُّہَا الإِنْسَان مَا غَرَّک بِرَبِّکَ الْکَرِیمِ } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ جہل نے دھوکا میں ڈال رکھا ہے۔

36722

(۳۶۷۲۳) حَدَّثَنَا جَرِیرُ بْنُ عَبْدِ الْحَمِیدِ ، عَنْ فُضَیْلِ بْنِ غَزْوَانَ ، قَالَ : کَانَ أَبُو جَعْفَرٍ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ یَزِیدَ یَذْہَبُ بِخَادِمِہِ إِلَی السُّوقِ فَیُلْقِی عَلَیْہَا الآیَۃَ بَعْدَ الآیَۃِ مِنَ الْقُرْآنِ یُعَلِّمُہَا ، وَکَانَ یَقُومُ مِنَ اللَّیْلِ إِلَی فِنَائِہِ فَیُلْقِیہ عَلَیْہَا۔
(٣٦٧٢٣) حضرت ابوجعفر محمد بن عبدالرحمن بن یزید (رض) اپنے ایک خادم کو بازار کی طرف لے جاتے تھے اور اس کو قرآن کی آیات سناتے اور سکھاتے تھے اور رات کو اس کی قیام گاہ کے پاس کھڑے ہو اس کو سناتے تھے۔

36723

(۳۶۷۲۴) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا الْمَسْعُودِیُّ ، عَنْ عَوْنِ بْنِ عَبْدِ اللہِ کَانَ یَقُولُ : أَلاَ إنَّ الْحِلْمَ وَالْحَیَائَ وَالْعِیَّ عِیُّ اللِّسَانِ ، لاَ عِیُّ الْقَلْبِ ، وَالْفِقْہَ مِنَ الإِیمَانِ ، وَہُنَّ مِمَّا یَنْقُصُ مِنَ الدُّنْیَا وَیَزِدْنَ فِی الآخِرَۃِ ، وَمَا یَزِدْنَ فِی الآخِرَۃِ أَکْثَرُ مِمَّا یَنْقُصُ مِنَ الدُّنْیَا إِلا أَنَّ الْفُحْشَ وَالْبَذَائَ وَالْبَیَانَ مِنَ النِّفَاقِ وَہُنَّ مِمَّا یَزِدْنَ فِی الدُّنْیَا وَیَنْقُصْنَ مِنَ الآخِرَۃِ ، وَمَا یَنْقُصْنَ مِنَ الآخِرَۃِ أَکْثَرُ مِمَّا یَزِدْنَ فِی الدُّنْیَا۔
(٣٦٧٢٤) حضرت عون بن عبداللہ فرماتے ہیں کہ خبردار بردباری، حیاء زبان کی عاجزی (نہ کہ دل کی) اور فقہ ایمان کا حصہ ہیں۔ اور اشیاء دنیا کم کرتی ہیں اور آخرت بڑھاتی ہیں اور اتنا دنیا نہیں گھٹاتی جتنا کہ آخرت کو بڑھاتی ہیں۔ خبردار بےحیائی، فحش گوئی اور بیان میں منافقت یہ چیزیں دنیا تو زیادہ کرتی ہیں لیکن آخرت گھٹا دیتی ہیں اور یہ دنیا اتنا نہیں بڑھاتیں جتنا آخرت کو کم کردیتی ہیں۔

36724

(۳۶۷۲۵) حَدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ عُبَیْدِ بْنِ مَسْرُوقٍ ، عَنْ مُنْذِرٍ الثَّوْرِیِّ عَنْ رَبِیعِ بْنِ خُثَیْمٍ {وَإِذَا الْعِشَارُ عُطِّلَتْ} قَالَ : تَخَلَّی مِنْہَا أَہْلُہَا فَلَمْ تَحْلِبْ وَلَمْ تُصَرَّ۔
(٣٦٧٢٥) حضرت ربیع بن خثیم قرآن مجید کی آیت { وَإِذَا الْعِشَارُ عُطِّلَتْ } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ مراد ہے کہ اونٹنیوں کے مالک نہ ان کا دودھ دھوئیں گے اور نہ ہی ان کے دودھ کی حفاظت کے لیے ان کے تھن باندھیں گے۔

36725

(۳۶۷۲۶) حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا الرَّبِیعُ بْنُ الْمُنْذِرِ ، عَنْ طَرِیف قَالَ : رَأَیْتُ رَبِیعَ بْنَ خُثَیْمٍ یَحْمِلُ عَرَقَۃً إِلَی بَیْتِ عَمَّتِہِ۔
(٣٦٧٢٦) حضرت طریف (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے ربیع بن خثیم کو کھجور کے پتوں کا ٹوکرا اپنی پھوپھی کے گھر لے جاتے ہوئے دیکھا۔

36726

(۳۶۷۲۷) حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا الرَّبِیعُ بْنُ الْمُنْذِرِ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ رَبِیعِ بْنِ خُثَیْمٍ ، قَالَ : مَا لَمْ یُرَدْ بِہِ وَجْہُ اللہِ یَضْمَحِلُّ۔
(٣٦٧٢٧) حضرت ربیع بن خثیم کا ارشاد ہے کہ جس کام میں اللہ کی رضا مقصود نہ ہو وہ نیست ونابود ہوجاتا ہے۔

36727

(۳۶۷۲۸) حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا أَبُو کُدَیْنَۃَ ، عَنْ مُطَرِّفٍ ، عَنِ الْمِنْہَالِ بْنِ عَمْرٍو ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ، قَالَ لَمَّا أُصِیبَ ابْنُ عُمَرَ ، قَالَ : مَا تَرَکْت خَلْفِی شَیْئًا مِنَ الدُّنْیَا آسَی عَلَیْہِ غَیْرَ ظَمَأِ الْہَوَاجِرِ وَغَیْرَ مَشْیٍ إِلَی الصَّلاَۃِ۔
(٣٦٧٢٨) حضرت سعید بن جبیر (رض) فرماتے ہیں کہ جب ابن عمر (رض) کو تکلیف پہنچی تو انھوں نے فرمایا کہ میں نے اپنے بعد کوئی ایسی چیز نہیں چھوڑی کی جس کی میں امید کروں سوائے سخت گرمی کی پیاس اور میرا نماز کی طرف چل کر جانا۔

36728

(۳۶۷۲۹) حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ بْنُ مُوسَی ، قَالَ : أَخْبَرَنَا شَیْبَانُ ، عَنْ آدَمَ بْنِ عَلِیٍّ ، قَالَ : سَمِعْتُ أَخَا بِلاَلٍ مُؤَذِّنِ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : النَّاسُ ثَلاَثَۃٌ أَثْلاَثٍ : فَسَالِمٌ وَغَانِمٌ وَشَاجِبٌ ، قَالَ : السَّالِمُ السَّاکِتُ ، وَالْغَانِمُ الَّذِی یَأْمُرُ بِالْخَیْرِ وَیَنْہَی ، عَنِ الْمُنْکَرِ ، فَذَلِکَ فِی زِیَادَۃٍ مِنَ اللہِ ، وَالشَّاجِبُ : النَّاطِقُ بِالْخَنَا وَالْمُعِینُ عَلَی الظُّلْمِ۔
(٣٦٧٢٩) حضرت آدم بن علی فرماتے ہیں کہ میں نے مؤذن رسول بلال بھائی کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ لوگ تین اقسام کے ہیں۔ ایک سالم دوسرا غانم اور تیسرا ہالک۔ پھر فرمایا کہ سالم تو وہ ہے جو چپ رہا اور غانم وہ ہے جس نے بھلائی کا حکم دیا اور برائی سے روکا پس یہ آدمی اللہ کی طرف سے نفع میں ہے اور ہلاک ہونے والا شخص وہ ہے جو بدزبانی کرے اور ظلم پر مدد کرے۔

36729

(۳۶۷۳۰) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، قَالَ : أَخْبَرَنِی إبْرَاہِیمُ عَنِ الرَّبِیعِ بْنِ أَبِی رَاشِدٍ ، قَالَ : کَانَ أَبِی مُعْجَبًا بِخَلَفِ بْنِ حَوْشَبٍ ، قَالَ : قُلْتُ لَہُ : یَا أَبَتِ : إنَّک لَتَعْجَبُ بِہَذَا الرَّجُلِ ، فَقَالَ : یَا بُنَیَّ ، إِنَّہُ نَشَأَ عَلَی طَرِیقَۃٍ حَسَنَۃٍ فَلَمْ یَزَلْ عَلَیْہَا ، قَالَ : وَکَانَ تَکَنَّی أَبَا مَرْزُوقٍ : فَقَالَ لَہُ رَبِیعٌ : حَوِّلْہَا ، قَالَ : فَقَالَ خَلْفٌ : فَاکْنِنِّی ، قَالَ : أَنْتَ أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ۔
(٣٦٧٣٠) حضرت ربیع بن ابی راشد (رض) فرماتے ہیں کہ میرے والد محترم خلف بن حوشب پر بہت تعجب کرتے تھے۔ میں نے ان سے عرض کیا کہ اے ابا جان آپ اس شخص پر تعجب کرتے ہیں ؟ تو انھوں نے جواب دیا کہ اے میرے بیٹے یہ شخص اچھے راستے پر چلا اور اسی پر قائم رہا۔ ابی راشد فرماتے ہیں کہ اس وقت ان کی کنیت ابومرزوق تھی تو ان کو ربیع (رض) نے کہا کہ آپ اس کنیت کو تبدیل کرلیں۔ ابی راشد کہتے ہیں کہ خلف (رض) نے ان سے کہا کہ پھر آپ ہی مجھے کوئی کنیت دے دیجیے تو انھوں نے کہا آپ ابوعبدالرحمن ہیں۔

36730

(۳۶۷۳۱) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَنْ أَبِی مُوسَی ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : قَالَ الإِسْلاَمُ ، وَمَا الإِسْلاَمُ ، قَالَ : الإِسْلاَمُ السِّرُّ وَالْعَلاَنِیَۃُ فِیہِ سَوَائٌ أَنْ یُسْلِمَ قَلْبُک لِلَّہِ ، وَأَنْ یَسْلَمَ مِنْک کُلُّ مُسْلِمٍ وَکُلُّ ذِی عَہْدٍ۔
(٣٦٧٣١) حضرت حسن (رض) کا ارشاد ہے کہ اسلام ! اسلام کیا ہے ؟ اسلام یہ ہے کہ پوشیدہ اور علانیہ دونوں حالتوں میں آدمی کا دل اللہ کے احکامات کے تابع ہو، اور تجھ سے ہر مسلمان اور معاہدے والا شخص محفوظ ہو۔

36731

(۳۶۷۳۲) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ الْحُرِّ ، قَالَ بَلَغَنِی : أَنَّ الْعَمَلَ فِی یَوْمِ الْقَدْرِ کَالْعَمَلِ فِی لَیْلَتِہِ۔
(٣٦٧٣٢) حضرت حسن بن حر فرماتے ہیں کہ مجھ کو یہ بات پہنچی ہے کہ لیلۃ القدر کی رات کو عمل کرنے کا جتنا ثواب ہے اتنا ہی اس دن کو عمل کرنے کا بھی ہے۔

36732

(۳۶۷۳۳) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمُحَارِبِیُّ ، عَنِ الْعَلاَئِ بْنِ الْمُسَیَّب ، عَنْ خَیْثَمَۃَ ، قَالَ : قَالَ عِیسَی ابْنُ مَرْیَمَ : لاَ تُخَبِّؤوا رِزْقَ الْیَوْمِ لِغَدٍ فَإِنَّ الَّذِی أَتَاک بِہِ الْیَوْمَ سَیَأْتِیک بِہِ غَدًا ، فَإِنْ قُلْتَ : وَکَیْفَ یَکُونُ ؟ فَانْظُرْ إِلَی الطَّیْرِ لاَ تَحْرُثُ ، وَلاَ تَزْرَعُ تَغْدُو وَتَرُوحُ إِلَی رِزْقِ اللہِ ، فَإِنْ قُلْتَ : وَمَا یَکْفِی الطَّیْرُ ؟ فَانْظُرْ إِلَی حُمُرِ وَحْشٍ وَبَقَرِ الْوَحْشِ تَغْدُو إِلَی رِزْقِ اللہِ وَتَرُوحُ شِبَاعًا۔
(٣٦٧٣٣) حضرت خیثمہ فرماتے ہیں کہ عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) کا ارشاد ہے کہ آج کے رزق میں سے کل کے لیے جمع نہ کرکے رکھو۔ اس لیے کہ جس ذات نے آج دیا ہے وہ کل بھی دے سکتی ہے۔ اگر تیرے ذہن میں سوال ہو کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے تو پرندوں کو دیکھ لے جو نہ تو ہل چلاتے ہیں اور نہ ہی کھیتی باڑی کرتے ہیں صبح کو نکلتے ہیں اور شام کو اللہ کے رزق کے ساتھ ہی واپس آتے ہیں۔ پھر اگر تو کہے کہ یہ پرندوں کی مثال کافی نہیں تو جنگلی گدھوں کو دیکھ لے اور نیل گائے کو دیکھ لے جو صبح اللہ کے رزق کی طرف نکلتے ہیں اور شام کو سیر ہو کر واپس آتے ہیں۔

36733

(۳۶۷۳۴) حَدَّثَنَا الْمُحَارِبِیُّ ، عَنْ مَالِکِ بْنِ مِغْوَلٍ ، قَالَ : حدَّثَنِی أَبُو یَعْفُورٍ ، عَنِ الْمُسَیَّبِ بْنِ رَافِعٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مَسْعُودٍ ، قَالَ : یَنْبَغِی لِحَامِلِ الْقُرْآنِ أَنْ یُعْرَفَ بِلَیْلِہِ إذَا النَّاسُ نَائِمُونَ ، وَبِنَہَارِہِ إذَا النَّاسُ مُفْطِرُونَ ، وَبِحُزْنِہِ إذَا النَّاسُ یَفْرَحُونَ ، وَبِبُکَائِہِ إذَا النَّاسُ یَضْحَکُونَ ، وَبِصَمْتِہِ إذَا النَّاسُ یَخْلِطُونَ ، وَبِخُشُوعِہِ إذَا النَّاسُ یَخْتَالُونَ ، وَیَنْبَغِی لِحَامِلِ الْقُرْآنِ أَنْ یَکُونَ بَاکِیًا مَحْزُونًا حَلِیمًا حَکِیمًا سِکِّیتًا ، وَلاَ یَنْبَغِی لِحَامِلِ الْقُرْآنِ أَنْ یَکُونَ ، قَالَ أَبُو بَکْرٍ ذَکَرَ کَلِمَۃً ، لاَ صَخَّابًا ، وَلاَ صَیَّاحًا ، وَلاَ حَدِیدًا۔
(٣٦٧٣٤) حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) کا اشاد ہے کہ حامل قرآن کو چاہیے کہ وہ اپنی رات سے پہچانا جائے جس وقت لوگ سو رہے ہوں اور اپنے دن سے بھی پہچانا جائے جس وقت لوگ صبح کا آغاز کررہے ہوں اور اپنے غم سے پہچانا جائے جب لوگ خوش ہو رہے ہوں، اور اپنے رونے سے پہچانا جائے جب لوگ ہنس رہے ہوں، اور اپنی خاموشی سے پہچانا جائے جس وقت لوگ باتوں میں مشغول ہوں، اور اپنے خشوع سے پہچانا جائے جس وقت لوگ تکبر کرتے ہوں اور حامل قرآن کے لیے مناسب ہے کہ وہ رونے والا، غمگین، بردبار، حکمت والا اور خاموش طبع ہو اور حامل قرآن کے لیے مناسب نہیں کہ وہ (حضرت ابوبکر فرماتے ہیں کہ یہ کلمات فرمائے) شور مچانے والا اور چیخنے چلانے والا اور غصہ کرنے والا ہو۔

36734

(۳۶۷۳۵) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ الْحُبَابِ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا أَبُو سِنَانٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ مُرَّۃَ ، قَالَ : جَائَ أَبُو وَائِلٍ یَعُودُ الرَّبِیعَ بْنَ خُثَیْمٍ ، فَقَالَ : مَا جِئْت إلَیْک إِلاَّ تَسَمعْت صَوْتَ النَّاعِیَۃِ ، فَقَالَ الرَّبِیعُ : مَا أَنَا إِلاَّ عَلَی شَہْرٍ یُکْتَبُ لِی فِیہِ خَمْسُونَ وَمِئَۃُ صَلاَۃٍ۔
(٣٦٧٣٥) حضرت عمرو بن مرہ فرماتے ہیں کہ ابو وائل (رض) ربیع بن خثیم کے پاس ان کی عیادت کے لیے تشریف لائے اور کہا کہ میں تو اس لیے آیا تھا کہ میں نے موت کی خبر دینے والے کی آواز سنی تھی تو ربیع نے جواب دیا کہ میں ایک ماہ سے ایسی حالت پر ہوں کہ میرے لیے ایک سو پچاس نمازوں ” ١٥٠“ کا ثواب لکھا جا رہا ہے۔

36735

(۳۶۷۳۶) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ آدَمَ ، قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، قَالَ : حَدَّثَنَا أَبُو جَعْفَرٍ الْخَطْمِیُّ ، أَنَّ جَدَّہُ عُمَیْرَ بْنَ حَبِیبٍ کَانَ یَقُومُ مِنَ اللَّیْلِ فَیَقُولُ ، الرَّحِیلَ أَیُّہَا النَّاسِ ، سَبَقْتُمْ إِلَی الْمَائِ ، الدُّلْجَۃَ الدُّلْجَۃَ ، مَنْ یَسْبِقُ إِلَی الْمَائِ یَظْمَأ ، وَمَنْ یَسْبِقُ إِلَی الشَّمْسِ یَضْحَ الرَّحِیلَ الرَّحِیلَ۔
(٣٦٧٣٦) حضرت ابوجعفر خطمی (رض) بیان کرتے ہیں کہ ان کے دادا محترم عمیر بن حبیب رات کو اٹھ کر کہا کرتے تھے کہ اے لوگو ! کوچ کرو تم کو پانی کی طرف بڑھا دیا گیا ہے۔ کوچ کرو کوچ کرو، جو شخص پانی کی طرف بڑھایا گیا وہ پیاسا رہ جاتا ہے اور جو شخص سورج کی طرف بڑھا گیا وہ دھوپ میں جلتا ہے۔ کوچ کرو، کوچ کرو۔

36736

(۳۶۷۳۷) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ آدَمَ ، قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَنْ أَبِی جَعْفَرٍ الْخَطْمِیِّ ، أَنَّ عمَیْرَ بْنَ حَبِیبٍ کَانَ لَہُ مَوْلًی یُعَلِّمُ بَنِیہِ الْقُرْآنَ وَالْکِتَابَ ، فَجَعَلَ یُذَاکِرُہُمُ النِّسَائَ وَالدُّنْیَا ، قَالَ : فَقَالَ لَہُ : یَا زِیَادُ ، لَقَدْ ظُلِّلَتْ عَلَی بَنِی قُبَّۃِ الشَّیْطَانِ ، اکْشِطُوہَا۔
(٣٦٧٣٧) حضرت عمیر بن حبیب (رض) کا ایک غلام تھا جو ان کے بیٹے کو قرآن اور کتاب کی تعلیم دیا کرتا تھا وہ ان سے دنیا اور عورتوں کی باتیں کرنے لگ جاتا تھا۔ تو اس کو عمیر بن حبیب نے کہا کہ اے زیاد ! تو نے تو ہمارے بچوں کے اوپر شیطان کا گنبد بنادیا ہے اس کو اتار دے۔

36737

(۳۶۷۳۸) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِی عدی ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، قَالَ : قَالَ مُسْلِمُ بْنُ یَسَارٍ : إذَا حَدَّثْت عَنِ اللہِ حَدِیثًا فَأَمْسِکْ فَاعْلَمْ مَا قَبْلَہُ ، وَمَا بَعْدَہُ۔
(٣٦٧٣٨) حضرت مسلم بن یسار (رض) فرماتے ہیں کہ جب تو اللہ تعالیٰ کی کسی بات کو نقل کرنے کا ارادہ کرے تو رک جا اور پہلے اس کا سیاق وسباق معلوم کرلے۔

36738

(۳۶۷۳۹) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَنْ سُفْیَانَ بْنِ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ عَاصِمٍ ، قَالَ : کَانَ عَامَّۃُ کَلاَمُ الحسن سُبْحَانَ اللہِ الْعَظِیمِ سُبْحَانَ اللہِ وَبِحَمْدِہِ۔
(٣٦٧٣٩) حضرت عاصم (رض) فرماتے ہیں کہ حسن (رض) کا اکثر کلام یہی ہوتا تھا : سُبْحَانَ اللہِ الْعَظِیمِ سُبْحَانَ اللہِ وَبِحَمْدِہِ ۔

36739

(۳۶۷۴۰) حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُوسَی ، قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِیِّ ، عَنْ مُطَرِّفِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ الشِّخِّیرِ ، قَالَ : مَنْ أَصْفَی صُفِّیَ لَہُ ، وَمَنْ خَلَّطَ خُلِّطَ عَلَیْہِ۔
(٣٦٧٤٠) حضرت مطرف بن عبداللہ بن شخیر (رض) فرماتے ہیں کہ جو شخص صفائِ قلب میں لگ جاتا ہے اس کو صفائی مل جاتی ہے اور جو شخص ملاوٹ اختیار کرتا ہے اس پر ملاوٹ ڈال دی جاتی ہے۔

36740

(۳۶۷۴۱) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَنْ زَائِدَۃَ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ عُمَیْرٍ ، قَالَ : أَوْصَی رَجُلٌ ابْنَہُ ، فَقَالَ : یَا بُنَی ، أَظْہِرَ الْیَأْسَ مِمَّا فِی أَیْدِی النَّاسِ فَإِنَّہُ غِنًی ، وَإِیَّاکَ وَطَلَبَ الْحَاجَاتِ فَإِنَّہُ فَقْر حَاضِرٌ ، وَإِیَّاکَ وَمَا یُعْتَذَرُ مِنْہُ بِالْقَوْلِ ، وَإِذَا صَلَّیْت فَصَلِّ صَلاَۃَ مُوَدِّعٍ لاَ تَرَی أَنَّک تَعُودُ ، وَإِنَ اسْتَطَعْت أَنْ تَکُونَ الْیَوْمَ خَیْرًا مِنْک أَمْسِ وَغَدًا خَیْرًا مِنْک الْیَوْمَ فَافْعَلْ۔
(٣٦٧٤١) حضرت عبدالملک بن عمیر (رض) کا ارشاد ہے کہ ایک آدمی نے اپنے بیٹے کو نصیحت کی کہ لوگوں کے ہاتھوں میں موجود چیز سے ناامیدی ظاہر کر اس لیے کہ یہی غنا ہے۔ اور اپنے آپ کو حاجات کے مانگنے سے بچا کیونکہ یہی اس زمانہ کا فقر ہے اور اپنے آپ کو ان باتوں سے بچا جن کی معذرت کرنی پڑے اور جب تو نماز پڑھے تو ایسی نماز پڑھ کہ جیسے یہ آخری نماز ہے یہ مت سمجھ کہ دوبارہ بھی موقع ملے گا۔ اور اگر تو اس طرح کرسکتا ہو تیرا آج کل سے بہتر اور آئندہ کا دن آج سے بہتر ہو تو اس طرح ضرور کر۔

36741

(۳۶۷۴۲) حَدَّثَنَا شَاذَانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا مَہْدِیُّ بْنُ مَیْمُونٍ ، عَنْ یُونُسَ بْنِ خَبَّابٍ ، قَالَ : قَالَ لِی مُجَاہِدٌ : أَلاَ أُنَبِّئُک بِالأَوَّابِ الْحَفِیظِ ، قُلْتُ : بَلَی ، قَالَ : ہُوَ الَّذِی یَذْکُرُ ذَنْبَہُ إذَا خَلاَ فَیَسْتَغْفِرُ اللَّہَ مِنْہُ۔
(٣٦٧٤٢) حضرت یونس بن خباب (رض) فرماتے ہیں کہ مجھ کو مجاہد نے فرمایا کہ میں تجھ کو توبہ کرنے والے اور حفاظت کرنے والے کے بارے میں نہ بتاؤں ؟ میں نے کہا کیوں نہیں تو انھوں نے جواب دیا کہ یہ وہ شخص ہوتا ہے جو اکیلے میں اپنے گناہوں کو یاد کرکے اللہ سے معافی مانگتا ہے۔

36742

(۳۶۷۴۳) حَدَّثَنَا الْحَسَنُ ، قَالَ سَمِعْت زُہَیْرًا أَبَا خَیْثَمَۃ ، قَالَ : حدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ الْہَمْدَانِیُّ ، قَالَ : کَانَ الْحَسَنُ ، یَعْنِی الْبَصْرِیَّ یُشَبَّہُ بِأَصْحَابِ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔
(٣٦٧٤٣) حضرت ابواسحاق ہمدانی (رض) فرماتے ہیں کہ حسن بصری (رض) آپ کے صحابہ کے بہت متشابہہ تھے۔

36743

(۳۶۷۴۴) حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُوسَی ، قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَنْ حُمَیْدٍ وَیُونُسَ بْنِ عُبَیْدٍ ، أَنَّہُمَا قَالاَ : قَدْ رَأَیْنَا الْفُقَہَائَ فَمَا رَأَیْنَا مِنْہُمْ أَحَدًا أَجْمَعِ مِنَ الْحَسَنِ۔
(٣٦٧٤٤) حضرت حمید (رض) اور یونس بن عبید (رض) فرماتے ہیں کہ ہم نے بہت سے فقہاء دیکھے ہیں لیکن ان میں حسن (رض) جیسا جامع شخصیت کا مالک نہیں دیکھا۔

36744

(۳۶۷۴۵) حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُوسَی ، قَالَ : حدَّثَنَا أَبُو ہِلاَلٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ رَبَاحٍ ، أَنَّ أَنَسَ بْنَ مَالِکٍ سُئِلَ عَنْ مَسْأَلَۃٍ ، فَقَالَ : عَلَیْکُمْ بِمَوْلاَنَا الْحَسَنِ فَاسْأَلُوہُ ، فَقَالُوا : نَسْأَلُک یَا أَبَا حَمْزَۃَ وَتَقُولُ : سَلُوا مَوْلاَنَا الْحَسَنَ ، فَقَالَ : إنَّا سَمِعْنَا وَسَمِعَ فَنَسِینَا وَحَفِظَ۔
(٣٦٧٤٥) حضرت انس مالک (رض) سے کوئی مسئلہ پوچھا گیا تو انھوں نے جواب دیا ہمارے غلام حسن سے دریافت کرو۔ لوگوں نے کہا کہ اے ابوحمزہ ہم آپ سے مسئلہ پوچھتے ہیں اور آپ کہتے ہیں کہ ہمارے غلام حسن سے پوچھو ؟ تو انھوں نے جواب دیا کہ ہم نے بھی سنا اور اس نے بھی سنا لیکن ہم بھول گئے اور اس نے یاد رکھا۔

36745

(۳۶۷۴۶) حَدَّثَنَا حُمَیْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ حَسَنٍ ، عَنْ مُوسَی الْقَارِئِ ، عَنْ طَلْحَۃَ بْنِ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : کَانَ زَاذَانُ یُعَلِّمُ بِلاَ شَیْئٍ۔
(٣٦٧٤٦) حضرت طلحہ بن عبداللہ فرماتے ہیں کہ ” زاذان “ بغیر کسی چیز کے تعلیم دیا کرتے تھے۔

36746

(۳۶۷۴۷) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ، قَالَ: حدَّثَنَا فَرَجُ بْنُ فَضَالَۃَ، عَنْ أَسَدِ بْنِ وَدَاعَۃَ، قَالَ: کَانَ شَدَّادُ بْنُ أَوْسٍ إذَا أَوَی إِلَی فِرَاشِہِ کَأَنَّہُ حَبَّۃُ قَمْحٍ عَلَی مِقْلَی، ثُمَّ یَقُولُ: اللَّہُمَّ إنَّ النَّارَ قَدْ مَنَعَتْنِی النَّوْمَ : ثُمَّ یَقُومُ إِلَی الصَّلاَۃِ۔
(٣٦٧٤٧) حضرت اسد بن وداعہ (رض) فرماتے ہیں کہ شداد بن اوس جب اپنے بستر پر جاتے تو یوں لگتا جیسے دانہ کڑاہی میں ہو پھر فرماتے کہ اے اللہ مجھ کو جہنم کی آگ نے سونے سے روک دیا ہے پھر نماز کی طرف کھڑے ہوجاتے۔

36747

(۳۶۷۴۸) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ ، عَنْ عُمَارَۃَ بْنِ الْقَعْقَاعِ ، عَنْ أَبِی زُرْعَۃَ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ ، قَالَ : أَجْوَدُ النَّاسِ مَنْ جَادَ عَلَی مَنْ لاَ یَرْجُو ثَوَابَہُ وَإِنَّ أَحْلَمَ النَّاسِ مَنْ عَفَا بَعْدَ الْقُدْرَۃِ ، وَإِنَّ أَبْخَلَ النَّاسِ الَّذِی یَبْخَلُ بِالسَّلاَمِ ، وَإِنَّ أَعْجَزَ النَّاسِ الَّذِی یَعْجَزُ فِی دُعَائِ اللہِ۔
(٣٦٧٤٨) حضرت عمر (رض) کا ارشاد ہے کہ لوگوں میں سے سب سے زیادہ سخی وہ شخص ہے جو اس پر سخاوت کرے کہ جس سے ثواب کی امید نہ ہو۔ اور لوگوں میں سے سب سے بردبار وہ شخص ہے جو قدرت کے باوجود معاف کردے اور لوگوں میں سے سب سے بخیل وہ شخص ہے کہ جو سلام کرنے میں بھی بخل کرے۔ اور لوگوں میں سے سب سے زیادہ عاجز وہ شخص ہے جو اللہ سے دعا کرنے میں بھی عاجز ہو۔

36748

(۳۶۷۴۹) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا سَلاَّمُ بْنُ مِسْکِینٍ : قَالَ سَمِعْت الْحَسَنَ یَقُولُ : إذَا نَامَ الْعَبْدُ فِی سُجُودِہِ بَاہَی اللَّہُ بِہِ الْمَلاَئِکَۃَ یَقُولُ : انْظُرُوا عَبْدِی یَعْبُدُنِی وَرُوحُہُ عِنْدِی۔
(٣٦٧٤٩) حضرت حسن (رض) کا ارشاد ہے کہ جب آدمی سجدہ میں سوجاتا ہے تو اللہ اس پر اپنے فرشتوں کے سامنے فخر کرتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ دیکھو میرے اس بندے کی طرف وہ میری عبادت کررہا ہے اور اس کی روح میرے پاس ہے۔

36749

(۳۶۷۵۰) حَدَّثَنَا أَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا ابْنُ أَبِی السُّمَیْطِ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ مُطَرِّفٍ قَالَ : لَفَضْلُ الْعِلْمِ أَحَبُّ إلَیَّ مِنْ فَضْلِ الْعِبَادَۃِ ، وَمَلاء دِینِکُمَ الْوَرَعُ۔
(٣٦٧٥٠) حضرت مطرف (رض) فرماتے ہیں کہ علم کا مرتبہ میرے نزدیک عبادت کے مرتبہ سے زیادہ ہے اور دین کا سرمایہ پرہیزگاری ہے۔

36750

(۳۶۷۵۱) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَنْ زَائِدَۃَ ، عَنْ رَجُلٍ مِنَ النَّخَعِ ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ ، قَالَ : یَوَدُّ أَہْلُ الْبَلاَئِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ، أَنَّ جُلُودَہُمْ کَانَتْ تُقْرَضُ بِالْمَقَارِیضِ۔
(٣٦٧٥١) حضرت ابن مسعود (رض) فرماتے ہیں کہ اہل مصیبت لوگ قیامت کے دن یہ تمنا کریں گے کہ کاش ان کے جسم قینچیوں سے کاٹ دیے جاتے۔

36751

(۳۶۷۵۲) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : لَقَدَ اسْتُخْلِفَ عُثْمَان ، وَمَا أُزُرُہُمْ إِلاَّ الْبُرُودُ ، وَمَا أَرْدِیَتُہُمْ إِلاَّ النِّمَارُ ، کَانَ أَحَدُہُمْ یَقُولُ لِصَاحِبِہِ : نَمِرَتِی خَیْرٌ مِنْ نَمِرَتِک۔
(٣٦٧٥٢) حضرت ہشام (رض) اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ عثمان (رض) خلیفہ بنے تو لوگوں کی ازار بند صرف چادر ہی ہوا کرتی تھی اور ان کی اوڑھنیاں بھی دھاری دار چادر کی ہی ہوتی تھیں۔ ان میں سے ایک دوسرے کو کہا کرتا تھا کہ میری چادر تیری چادر سے بہتر ہے۔

36752

(۳۶۷۵۳) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ جَرِیرٍ ، عَنْ حُمَیْدِ بْنِ ہِلاَلٍ ، قَالَ : قَالَ لَنَا أَبُو قَتَادَۃَ الْعَدَوِیُّ : عَلَیْکُمْ بِہَذَا الشَّیْخِ ، یَعْنِی الْحَسَنَ ، فَمَا رَأَیْتُ أَحَدًا أَشْبَہَ رَأْیًا بِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ مِنْہُ۔
(٣٦٧٥٣) حضرت ابوقتادہ (رض) عدوی نے فرمایا ہے کہ تم اس شیخ یعنی حسن بصری (رض) کی صحبت لازم پکڑو کیونکہ میں نے ان کی رائے سے زیادہ کسی کو بھی عمر بن خطاب (رض) کی رائے کے مشابہہ نہیں دیکھنا۔

36753

(۳۶۷۵۴) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ الْمُغِیرَۃِ ، عَنْ ثَابِتٍ ، قَالَ : قَالَ مُطَرِّفُ بْنُ عَبْدِ اللہِ : مَا کُنْت لأؤَمِّنَ عَلَی دُعَائِ أَحَدٍ حَتَّی أَسْمَعَ مَا یَقُولُ إِلاَّ الْحَسَنَ۔
(٣٦٧٥٤) حضرت مطرف (رض) فرماتے ہیں کہ میں کسی کی دعا پر بھی بغیر سنے آمین نہیں کہتا سوائے حسن بصری کی دعا کے۔

36754

(۳۶۷۵۵) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ الْمُغِیرَۃِ ، عَنْ ثَابِتٍ ، کَانَ أَبُو بَرْزَۃَ یَتَقَہَّلُ ، وَکَانَ عَائِدُ بْنُ عَمْرٍو الْمُزَنِیّ یَلْبَسُ لِبَاسًا حَسَنًا ، قَالَ : فَأَتَی أَحَدَہُمَا رَجُلٌ ، فَقَالَ : أَلَمْ تَرَ إِلَی أَخِیک یَلْبَسُ کَذَا وَکَذَا وَیَرْغَبُ، عَنْ لِبَاسِکَ ، قَالَ : وَمَنْ یَسْتَطِیعُ أَنْ یَکُونَ مِثْلَ فُلاَنٍ ، مِنْ فَضْلِ فُلاَنٍ کَذَا إنَّ مِنْ فَضْلِ فُلاَنٍ کَذَا ، إنْ مِنْ فَضْلِ فُلاَنٍ کَذَا ، قَالَ : وَأَتَی الآخَرَ ، فَقَالَ : مِثْلَ ذَلِکَ۔
(٣٦٧٥٥) حضرت ثابت (رض) فرماتے ہیں کہ ابوبرزہ (رض) آلودہ رہتے تھے اور عائد بن عمرو مزنی عمدہ لباس پہنا کرتے تھے۔ ان میں سے ایک کے پاس ایک آدمی آیا اور کہنے لگا کہ کیا آپ اپنے دوسرے بھائی کی طرف نہیں دیکھتے جو اس اس طرح کے کپڑے پہنتا ہے اور آپ کے لباس سے اعراض کرتا ہے ؟ تو اس نے جواب دیا کہ ان جیسا کون ہوسکتا ہے اس کی تو یہ یہ فضیلت بھی ہے، اس کو یہ یہ مرتبہ حاصل ہے۔ پھر وہ دوسرے کے پاس آیا تو اس نے بھی پہلے جیسا ہی جواب دیا۔

36755

(۳۶۷۵۶) حَدَّثَنَا عِیسَی بْنُ یُونُسَ ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ بْنِ أَبِی زِیَادٍ ، عَنْ شَہْرِ بْنِ حَوْشَبٍ ، عَنْ أَسْمَائَ بِنْتِ یَزِیدَ ، قَالَتْ : قَالَ : رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : اسْمُ اللہِ الأَعْظَمُ فِی ہَاتَیْنِ الآیَتَیْنِ : {وَإِلَہُکُمْ إلَہٌ وَاحِدٌ لاَ إلَہَ إِلاَّ ہُوَ الرَّحْمَن الرَّحِیمُ} وَفَاتِحَۃِ سُورَۃِ آلِ عِمْرَانَ {الم اللَّہُ لاَ إلَہَ إِلاَّ ہُوَ الْحَیُّ الْقَیُّومُ}۔
(٣٦٧٥٦) حضرت اسماء بنت یزید فرماتی ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ اللہ کا اسم اعظم ان دو آیتوں میں ہے : { وَإِلَہُکُمْ إلَہٌ وَاحِدٌ لاَ إلَہَ إِلاَّ ہُوَ الرَّحْمَن الرَّحِیمُ } اور سورة فاتحہ اور سورة آلِ عمران کی یہ آیت { الم اللَّہُ لاَ إلَہَ إِلاَّ ہُوَ الْحَیُّ الْقَیُّومُ }۔

36756

(۳۶۷۵۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حَدَّثَنَا مَالِکُ بْنُ مِغْوَلٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ بُرَیْدَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سَمِعَ رَجُلاً یَقُولُ : اللَّہُمَّ إنِّی أَسْأَلُکَ بِأَنَّک أَنْتَ اللَّہُ الأَحَدُ الصَّمَدُ الَّذِی لَمْ یَلِدْ وَلَمْ یُولَدْ وَلَمْ یَکُنْ لَہُ کُفُوًا أَحَدٌ ، فَقَالَ : لَقَدْ سَأَلْت اللَّہَ بِاسْمِہِ الأَعْظَمِ الَّذِی إذَا دُعِیَ بِہِ أَجَابَ ، وَإِذَا سُئِلَ بِہِ أَعْطَی۔
(٣٦٧٥٧) حضرت عبداللہ بن بریدہ (رض) اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کسی آدمی کو یہ دعا کرتے ہوئے سنا اللَّہُمَّ إنِّی أَسْأَلُکَ بِأَنَّک أَنْتَ اللَّہُ الأَحَدُ الصَّمَدُ الَّذِی لَمْ یَلِدْ وَلَمْ یُولَدْ وَلَمْ یَکُنْ لَہُ کُفُوًا أَحَدٌ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ تو نے اللہ تعالیٰ کے اس اسم اعظم کے ذریعہ دعا کی ہے کہ اگر اس کے ذریعہ دعا کی جائے تو قبول ہو اور اگر مانگا جائے تو عطا ہو۔

36757

(۳۶۷۵۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ أَبِی خُزَیْمَۃَ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ سِیرِینَ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ ، سَمِعَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَجُلاً یَقُولُ : اللَّہُمَّ إنِّی أَسْأَلُکَ بِأَنَّ لَک الْحَمْدَ لاَ إلَہَ إِلاَّ أَنْتَ وَحْدَک ، لاَ شَرِیکَ لَک ، الْمَنَّانُ بَدِیعُ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ ذُو الْجَلاَلِ وَالإِکْرَامِ، فَقَالَ: لَقَدْ سَأَلْت اللَّہَ بِاسْمِہِ الأَعْظَمِ الَّذِی إذَا سُئِلَ بِہِ أَعْطَی، وَإِذَا دُعِیَ بِہِ أَجَابَ۔
(٣٦٧٥٨) حضرت انس بن مالک (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کسی آدمی کو ان الفاظ سے دعا کرتے ہوئے سنا : اللَّہُمَّ إنِّی أَسْأَلُکَ بِأَنَّ لَک الْحَمْدَ لاَ إلَہَ إِلاَّ أَنْتَ وَحْدَک ، لاَ شَرِیکَ لَک ، الْمَنَّانُ بَدِیعُ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ ذُو الْجَلاَلِ وَالإِکْرَامِ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ تو نے اسم اعظم کے ذریعہ دعا کی ہے کہ جب اس کے ذریعہ مانگا جائے تو عطا ہو اور دعا کی جائے تو قبول ہو۔

36758

(۳۶۷۵۹) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، قَالَ : حدَّثَنَا مِسْعَرٌ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ مَیْسَرَۃَ ، عَنِ ابْنِ سَابِطٍ ، أنَّ دَاعِیًا دَعَا فِی عَہْدِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : إنِّی أَسَالُکَ بِاسْمِکَ الَّذِی لاَ إلَہَ إِلاَّ أَنْتَ الرَّحْمَن الرَّحِیمُ بَدِیعُ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ ، وَإِذَا أَرَدْت أَمْرًا فَإِنَّمَا تَقُولُ لَہُ کُنْ فَیَکُونُ ، فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لقد کِدْت ، أَوْ کَادَ أَنْ تَدْعُوَ اللَّہَ بِاسْمِہِ الأَعْظَمِ۔
(٣٦٧٥٩) حضرت ابن سابط (رض) سے مروی ہے کہ کسی دعا کرنے والے نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں یوں دعا کی : إنِّی أَسَالُکَ بِاسْمِکَ الَّذِی لاَ إلَہَ إِلاَّ أَنْتَ الرَّحْمَن الرَّحِیمُ بَدِیعُ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ ، وَإِذَا أَرَدْت أَمْرًا فَإِنَّمَا تَقُولُ لَہُ کُنْ فَیَکُونُ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ تو قریب تھا یا فرمایا کہ یہ آدمی قریب ہی تھا کہ اسم اعظم کے ذریعہ دعا کرتا۔

36759

(۳۶۷۶۰) حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمُقْرِیئُ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ أَبِی أَیُّوبَ ، قَالَ : حدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ ثَوْبَانَ ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ أَبِی رُقْیَۃَ ، عَنْ أَبِی الدَّرْدَائِ ، وَابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّہُمَا کَانَا یَقُولاَنِ : اسْمُ اللہِ الأَکْبَرُ رَبِّ رَبِّ۔
(٣٦٧٦٠) حضرت ابودرداء اور ابن عباس فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا اسم اعظم ” رب رب “ ہے۔

36760

(۳۶۷۶۱) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، عَنْ مِسْعَرٍ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ عُمَیْرٍ ، قَالَ : قرَأَ رَجُلٌ الْبَقَرَۃَ وَآلَ عِمْرَانَ ، فَقَالَ کَعْبٌ : لَقَدْ قَرَأَ سُورَتَیْنِ فِیہِمَا الاِسْمُ الَّذِی إذَا دُعِیَ بِہِ استجَابَ۔
(٣٦٧٦١) حضرت عبدالملک بن عمیر (رض) فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے سورة بقرہ اور آلِ عمران تلاوت کی تو کعب نے ارشاد فرمایا کہ اس شخص نے ایسی دو سورتیں تلاوت کی ہیں کہ جن میں ایسا اسم ہے کہ اگر اس کے ذریعہ دعا کی جائے تو قبول ہوتی ہے۔

36761

(۳۶۷۶۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ أَبِی ہِلاَلٍ ، عَنْ حَیَّانَ الأَعْرَجِ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ زَیْدٍ ، قَالَ : اسْمُ اللہِ الأَعْظَمُ اللَّہُ۔
(٣٦٧٦٢) حضرت جابر بن زید (رض) فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا اسم اعظم ” اللہ “ ہے۔

36762

(۳۶۷۶۳) حَدَّثَنَا سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ مِسْعَرٍ عَمَّنْ سَمِعَ الشَّعْبِیَّ یَقُولُ : اسْمُ اللہِ الأَعْظَمُ اللَّہُ ، ثُمَّ قَرَأ ، أَوْ قَرَأْتُ عَلَیْہِ {ہُوَ اللَّہُ الْخَالِقُ الْبَارِیئُ المُصَوِّر} إِلَی آخِرِہَا۔
(٣٦٧٦٣) حضرت شعبی (رض) فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا اسم اعظم ” اللہ “ ہے پھر انھوں نے یا میں نے ان کے سامنے { ہُوَ اللَّہُ الْخَالِقُ الْبَارِیئُ المُصَوِّر } سے لے کر آخر سورة تک تلاوت کی۔

36763

(۳۶۷۶۴) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُصْعَبٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا أَبُو بَکْرٍ ، عَنْ ضَمْرَۃَ ، أَنَّ أَبَا رَیْحَانَۃَ مَرَّ بِحِمْصٍ وَأَہْلُہَا یَقْتَسِمُونَہَا بَیْنَہُمْ ، فَسَمِعَ ضَوْضَاء ، فَقَالَ : مَا ہَذَا الضَوْضَائَ ؟ قَالَ : حِمْص یَقْتَسِمُہَا أَہْلَہَا بَیْنَہُم فَقَالَ : اللَّہُمَّ لاَ تَجْعَلْہَا عَلَیْہِمْ فِتْنَۃً ، فَمَا زَالَ یُرَدِّدُہَا حَتَّی لَمْ یُدْرَ مَتَی انْقَطَعَ صَوْتُہُ۔
(٣٦٧٦٤) حضرت ضمرہ (رض) فرماتے ہیں کہ ابوریحانہ (رض) ایک مرتبہ ایک غلہ کے قریب سے گزرے جسے غلے والے آپس میں تقسیم کررہے تھے۔ انھوں نے شور کی آواز سنی تو پوچھا کہ یہ شور کیسا ہے ؟ تو جواب دیا کہ یہ غلہ ہے جس کو غلے والے آپس میں تقسیم کررہے ہیں۔ تو انھوں نے دعا کی کہ اے اللہ ! اس غلہ کو ان کے لیے آزمائش نہ بنا اور اسی کو بار بار کہتے رہے۔ یہاں تک کہ نامعلوم کب ان کی آواز ختم ہوئی۔

36764

(۳۶۷۶۵) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُصْعَبٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا أَبُو بَکْرٍ ، عَنْ ضَمْرَۃَ ، أَنَّ أَبَا رَیْحَانَۃَ کَانَ مُرَابِطًا بِالْجَزِیرَۃِ فِی مَیَّافَارِقِینَ ، فَاشْتَرَی رَسَنًا مِنْ نَبَطِیٍّ مِنْ أَہْلِہَا بِأَفْلُسَ ، فَلَمَّا قَفَلَ ، وَکَانُوا بِالرَّسْتَنِ نَزَلَ عَنْ دَابَّتِہِ ، وَقَالَ لِغُلاَمِہِ : ہَلْ قَضَیْت النَّبَطِیَّ أَفْلُسَہُ ، قَالَ : لاَ ، قَالَ : فَاسْتَخْرَجَ نَفَقَۃً مِنْ نَفَقَتِہِ فَدَفَعَہَا إِلَی غُلاَمِہِ ، وَقَالَ لأَصْحَابِہِ : أَحْسِنُوا مَعُونَتَہُ عَلَی دَوَابِّہِ حَتَّی أَبْلُغَ أَہْلِی ، قَالُوا : یَا أَبَا رَیْحَانَۃَ ، وَمَا تُرِیدُ ؟ قَالَ : أُرِیدُ أَنْ آتِیَ غَرِیمِی فَأُؤَدِّ عَنِّی أَمَانَتِی، قَالَ: فَانْطَلَقَ حَتَّی أَتَی مَیَافَارْقِینَ ، ثُمَّ أَتَی إِلَی أَہْلِہِ بَعْدَ مَا قَضَی غَرِیمَہُ۔
(٣٦٧٦٥) حضرت حمزہ (رض) فرماتے ہیں کہ ابوریحانہ (رض) میافارقین کے جزیرہ میں قیام پذیر تھے۔ انھوں نے وہاں سے ایک نبطی کے گھر والوں سے ایک رسی خریدی۔ پھر جب قافلہ نکل پڑا اور مقام رسین تک لوگ پہنچ گئے تو اپنی سواری سے اترے اور اپنے غلام سے کہا کہ کیا تو نے اس نبطی کو پیسے دے دئیے تھے ؟ اس نے جواب دیا کہ نہیں۔ تو انھوں نے اپنے خرچہ میں سے کچھ خرچہ نکال کر باقی کا سامان غلام کو دیا اور اپنے ساتھیوں سے کہا کہ میرے گھر آنے تک اس سواری اور سامان کا خیال رکھنا۔ انھوں نے پوچھا کہ ابوریحانہ آپ کہاں چل دیے ؟ انھوں نے جواب دیا کہ میرا ارادہ ہے میں اپنے قرض خواہ کے پاس جا کر اس کی امانت اس کو واپس کردوں۔ پھر وہ نکل پڑے یہاں تک کہ میافارفقین آئے پھر اپنا قرضہ دے دینے کے بعد اپنے گھر واپس آئے۔

36765

(۳۶۷۶۶) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حَدَّثَنَا أَبُو الأَشْہَبِ ، عَنِ الْحَسَنِ {کَلاَّ بَلْ لاَ یَخَافُونَ الآخِرَۃَ} قَالَ : ہَذَا الَّذِی فَضَحَہُمْ۔
(٣٦٧٦٦) حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں { کَلاَّ بَلْ لاَ یَخَافُونَ الآخِرَۃَ } کی تفسیر میں کہ اسی چیز نے تم کو ہلاک کردیا ہے۔

36766

(۳۶۷۶۷) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، قَالَ : حَدَّثَنَا مَالِکُ بْنُ دِینَارٍ ، قَالَ : سَأَلْتُ عِکْرِمَۃَ ، قُلْتُ : قَوْلُ اللہِ {لَئِنْ لَمْ یَنْتَہِ الْمُنَافِقُونَ وَالَّذِینَ فِی قُلُوبِہِمْ مَرَضٌ} قَالَ : ہُمَ الزُّنَاۃُ۔
(٣٦٧٦٧) حضرت مالک بن دینار (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے عکرمہ (رض) سے اللہ کے ارشاد { لَئِنْ لَمْ یَنْتَہِ الْمُنَافِقُونَ وَالَّذِینَ فِی قُلُوبِہِمْ مَرَضٌ} کی تفسیر پوچھی تو انھوں نے جواب دیا کہ ان سے مراد زانی ہیں۔

36767

(۳۶۷۶۸) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا یُونُسُ ، عَنِ الْحَسَنِ ؛ فِی قولہ تعالی : {ہُوَ أَعْلَمُ بِکُمْ إذْ أَنْشَأَکُمْ مِنَ الأَرْضِ وَإِذْ أَنْتُمْ أَجِنَّۃٌ فِی بُطُونِ أُمَّہَاتِکُمْ} قَالَ : عَلِمَ اللَّہُ مِنْ کُلِّ نَفْسٍ مَا ہِیَ عَامِلَۃٌ ، وَمَا ہِیَ صَانِعَۃٌ وَإِلَی مَا ہِیَ صَائِرَۃٌ۔
(٣٦٧٦٨) حضرت حسن (رض) سے اللہ تعالیٰ کے ارشاد { ہُوَ أَعْلَمُ بِکُمْ إذْ أَنْشَأَکُمْ مِنَ الأَرْضِ وَإِذْ أَنْتُمْ أَجِنَّۃٌ فِی بُطُونِ أُمَّہَاتِکُمْ } کی تفسیر میں منقول ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر نفس کے بارے میں جانتا ہے کہ وہ کیا عمل کرے گا، اور کیا کام کرے گا، اور اس کا ٹھکانا کیا ہوگا۔

36768

(۳۶۷۶۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ مَالِکِ بْنِ الْحَارِثِ ، قَالَ : قَالَ عُمَرُ : التُّؤَدَۃُ فِی کُلِّ شَیْئٍ خَیْرٌ إِلاَّ مَا کَانَ مِنْ أَمْرِ الآخِرَۃِ۔
(٣٦٧٦٩) حضرت عمر (رض) نے ارشاد فرمایا : نرمی ہر معاملہ میں بہتر ہے سوائے ان معاملات کے جن کا تعلق آخرت سے ہے۔

36769

(۳۶۷۷۰) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ خَیْثَمَۃ ، عَنِ الْحَارِثِ بْنِ قَیْسٍ ، قَالَ : إذَا کُنْتَ فِی شَیْئٍ مِنْ أَمْرِ الدُّنْیَا فتواحَّ ، وَإِذَا کُنْت فِی شَیْئٍ مِنْ أَمْرِ الآخِرَۃِ فَامْکُثْ مَا اسْتَطَعْت ، وَإِذَا جَائَک الشَّیْطَانُ وَأَنْتَ تُصَلِّی ، فَقَالَ : إنَّک تُرَائِی ، فَزِدْ وَأَطِلْ۔
(٣٦٧٧٠) حضرت حارث بن قیس (رض) کا ارشاد ہے کہ جب تو کسی دنیا کے کام میں مشغول ہو تو جلدی سے نمٹا لے اور اگر آخرت کے کسی کام میں مشغول ہو تو جتنا ہوسکے ٹھہر کر سکون سے کر۔ اور جب تیرے پاس نماز میں شیطان آئے اور کہے کہ تو تو ریا کررہا ہے تو نماز زیادہ پڑھ اور لمبی کرکے پڑھ۔

36770

(۳۶۷۷۱) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا فِطْرٌ ، عَنْ مُنْذِرٍ ، عَنِ الرَّبِیعِ بْنِ خُثَیْمٍ ، أَنَّہُ جَائَہُ سَائِلٌ ، فَقَالَ : أَطْعِمُوہُ سُکَّرًا ، فَقَالَ : أَہْلُہُ : مَا یَصْنَعُ ہَذَا بِالسُّکْرِ ، فَقَالَ : لَکِنْ أَنَا أَصْنَعُ بِہِ۔
(٣٦٧٧١) حضرت ربیع بن خثیم (رض) کے بارے میں مروی ہے کہ ان کے پاس ایک مانگنے والا آیا تو انھوں نے کہا کہ اس کو شکر دے دو ان کے گھر والوں نے کہا کہ وہ شکر کا کیا کرے گا ؟ تو آپ نے جواب دیا کہ میں اس سے کچھ نہ کچھ کروں گا۔

36771

(۳۶۷۷۲) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ بُرْقَانَ ، قَالَ : حدَّثَنِی مَیْمُونُ بْنُ أَبِی جَرِیر ، قَالَ بَلَغَنِی ، أَنَّ رَجُلاً مِنْ بَنِی ابْنِ عُمَرَ اسْتَکْسَاہُ إزَارًا ، قَالَ : فذکروا إزارا ، قَالَ : اقْطَعْہُ ، ثُمَّ انْکُسْہُ ، قَالَ : فَتَکَرَّہَ ذَلِکَ الْفَتَی ، فَقَالَ لَہُ ابْنُ عُمَرَ : وَیْحَک ، انْظُرْ لاَ تَکُونُ مِنَ الْقَوْمِ الَّذِینَ یجعلون مَا رَزَقَہُمُ اللَّہُ فِی بُطُونِہِمْ وَعَلَی ظُہُورِہِمْ۔
(٣٦٧٧٢) حضرت میمون فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عمر (رض) کے ایک بیٹے نے انھیں ازار پہننے کو دیا۔ حضرت ابن عمر (رض) نے فرمایا کہ اس کو کاٹ کر پہنو۔ اس آدمی نے اس بات کو ناپسند کیا تو حضرت ابن عمر (رض) نے فرمایا کہ ان لوگوں میں سے نہ ہو جاؤ جو اللہ کے رزق کو پیٹ اور جسموں تک محدود رکھتے ہیں

36772

(۳۶۷۷۳) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا جَعْفَرٌ ، عَنْ مَیْمُونٍ ، أَنَّ أَبَا الدَّرْدَائِ ، قَالَ : وَیْلٌ لِلَّذِی لاَ یَعْلَمُ مَرَّۃً وَوَیْلٌ لِلَّذِی یَعْلَمُ ، ثُمَّ لاَ یَعْمَلُ سِتَّ مِرَارٍ۔
(٣٦٧٧٣) حضرت ابودرداء (رض) کا ارشاد ہے کہ نہ جاننے والے کے لیے ایک مرتبہ ہلاکت ہے اور جان کر عمل نہ کرنے والے کے لیے چھ مرتبہ ہلاکت ہے۔

36773

(۳۶۷۷۴) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ بُرْقَانَ ، قَالَ : حَدَّثَنِی أَیُّوبُ بْنُ رَاشِدٍ ، عَنْ وَہْبِ بْنِ مُنَبِّہٍ ، قَالَ : نَجِدُ فِی کِتَابِ اللہِ الْمُنَزَّلِ : أُنَاسٌ یَدِینُونَ بِغَیْرِ الْعِبَادَۃِ ، یَخْتِلُونَ الدُّنْیَا بِعَمَلِ الآخِرَۃِ ، یَلْبَسُونَ لِبَاسَ مُسُوکِ الضَّأْنِ ، قُلُوبُہُمْ کَقُلُوبِ الذِّئابِ ، أَلْسِنَتہمْ أَحْلَی مِنَ الْعَسَلِ ، وَأَنْفُسُہُمْ أَمَرُّ مِنَ الصَّبْرِ ، قَالَ : أَفَبِی یَغْتَرُّونَ ، وَإِیَّایَ یَخْدَعُونَ ، أَقْسَمْت لأَبْعَثَنَّ عَلَیْہِمْ فِتْنَۃً یَعُودُ الْحَلِیمُ فِیہَا حَیْرَانَ۔
(٣٦٧٧٤) حضرت وہب بن منبہ فرماتے ہیں کہ ہم نے اللہ تعالیٰ کی اتاری ہوئی کتاب میں یہ بات پڑھی ہے کہ لوگ ” بغیر عبادت کے ہی دین دار بنے بیٹھے ہیں، آخرت کے عمل میں بھی دنیا شامل کرلیتے ہیں، لوگ بھیڑ کی کھالوں کا لباس پہنتے ہیں جبکہ ان کے دل بھیڑیوں کی طرح ہیں، ان کی زبانیں شہد سے میٹھی ہیں جبکہ ان کے دل ایلوے سے بھی کڑوے ہیں۔ کیا یہ لوگ مجھ سے دغا بازی کرتے ہیں اور مجھ کو دھوکا دیتے ہیں کہ مجھے قسم ہے میں ان پر ایسا عذاب بھیجوں گا کہ ان کے بردبار لوگ بھی حیران ہوجائیں گے۔

36774

(۳۶۷۷۵) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، عَنْ جَعْفَرٍ ، عَنْ مَیْمُونٍ ، قَالَ : لاَ یَکُونُ الرَّجُلُ تَقِیًّا حَتَّی یُحَاسِبَ نَفْسَہُ أَشَدَّ مِنْ مُحَاسَبَۃِ شَرِیکِہِ حَتَّی یَعْلَمَ مَأْکَلَہُ وَمَطْعَمَہُ وَمَشْرَبَہُ وَمَلْبَسَہُ۔
(٣٦٧٧٥) حضرت میمون (رض) فرماتے ہیں کہ آدمی اس وقت تک پرہیزگار نہیں بن سکتا کہ جب تک اپنے نفس کا اس طرح محاسبہ نہ کرے جیسا کہ وہ اپنے شریک کا محاسبہ کرتا ہے۔ یہاں تک کہ اپنے کھانے، پینے اور لباس کے ذرائع کو نہ جان لے۔

36775

(۳۶۷۷۶) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ مُوسَی الأَنْصَارِیِّ ، عَنْ مُوسَی بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ یَزِیدَ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : کَانَ أَکْثَرُ النَّاسِ صَلاَۃً وَکَانَ لاَ یَصُومُ إِلاَّ یَوْمَ عَاشُورَائَ۔
(٣٦٧٧٦) حضرت عبداللہ بن یزید (رض) اپنے والد کے بارے میں نقل کرتے ہیں کہ وہ لوگوں میں سے زیادہ نمازی تھے اور صرف عاشورے کا روزہ رکھا کرتے تھے۔

36776

(۳۶۷۷۷) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، عَنْ سَلَمَۃَ بْنِ نُبَیْطٍ ، قَالَ : قَالَ : یَا بُنَی ، قُمْ فَصَلِّ مِنَ السَّحَرِ ، فَإِنْ لَمْ تَسْتَطِعْ فَلاَ تَدَعْ رَکْعَتَیَ الْفَجْرِ۔
(٣٦٧٧٧) حضرت سلمہ بن نسیط (رض) کا ارشاد ہے کہ اے میرے بیٹے اٹھ اور سحری کے وقت نماز پڑھا کر۔ اگر تجھ میں یہ قدرت نہ ہو تو فجر کی دو رکعتوں کو ہرگز نہ چھوڑ۔

36777

(۳۶۷۷۸) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا الأَعْمَشُ ، عَنْ یَزِیدَ بْنِ حَیَّانَ ، قَالَ : إنْ کَانَ عَنْبَسُ بْنُ عُقْبَۃَ التَّیْمِیُّ ، تَیْمُ الرَّبَابُ ، لَیَسْجُدُ حَتَّی إِنَّ الْعَصَافِیرَ لَیَقَعَنْ عَلَی ظَہْرِہِ وَیَنْزِلْنَ ، مَا یَحْسِبْنَہُ إِلاَّ جِذْمَ حَائِطٍ۔
(٣٦٧٧٨) حضرت یزید بن حیان (رض) فرماتے ہیں کہ عنبس بن عقبہ التیمی (رض) (یعنی تیم الر باب) جب سجدہ کرتے یہاں تک کہ چڑیاں ان کی کمر پر بیٹھ جاتیں اور اترتیں۔ چڑیاں ان کو محض ایک دیوار کا ٹکڑا ہی سمجھتی تھیں۔

36778

(۳۶۷۷۹) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا الرَّبِیعُ بْنُ الْمُنْذِرِ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنِ الرَّبِیعِ بْن خُثَیْمٍ فِی قولہ تعالی : {وَمَنْ یَتَّقِ اللَّہَ یَجْعَلْ لَہُ مَخْرَجًا} قَالَ : مِنْ کُلِّ أَمْرٍ ضَاقَ عَلَی النَّاسِ۔
(٣٦٧٧٩) حضرت ربیع بن خثیم (رض) سے اللہ تعالیٰ کے قول { وَمَنْ یَتَّقِ اللَّہَ یَجْعَلْ لَہُ مَخْرَجًا } کی تفسیر میں منقول ہے کہ ہر اس راستہ سے کہ جو لوگوں کے لیے مشکل ہو۔

36779

(۳۶۷۸۰) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ یَمَانٍ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنْ جَعْفَرٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ : {أَمَّنْ ہُوَ قَانِتٌ آنَائَ اللَّیْلِ سَاجِدًا وَقَائِمًا یَحْذَرُ الآخِرَۃَ} قَالَ : یَحْذَرُ عَذَابَ الآخِرَۃِ۔
(٣٦٧٨٠) حضرت سعید بن جبیر (رض) اللہ کے ارشاد { أَمَّنْ ہُوَ قَانِتٌ آنَائَ اللَّیْلِ سَاجِدًا وَقَائِمًا یَحْذَرُ الآخِرَۃَ } کے بارے میں فرماتے ہیں کہ آخرت کے عذاب سے ڈرتا ہے۔

36780

(۳۶۷۸۱) حَدَّثَنَا ابْنُ یَمَانٍ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ، أَوْ عَنِ الْحَسَنِ ؛ فِی قولہ تعالی : {لاَ یَحْزُنُہُمَ الْفَزَعُ الأَکْبَرُ} قَالَ : إذَا أَطْبَقَتِ النَّارُ عَلَیْہِمْ۔
(٣٦٧٨١) حضرت سعید بن جبیر (رض) یا حسن (رض) سے اللہ کے ارشاد { لاَ یَحْزُنُہُمَ الْفَزَعُ الأَکْبَرُ } کی تفسیر میں منقول ہے کہ جب ان کو آگ سے ڈھانپ دیا جائے گا۔

36781

(۳۶۷۸۲) حَدَّثَنَا قَبِیصَۃُ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ أَبِی بَکْرٍ الزُّبَیْدِیِّ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : مَا رَأَیْت حَیًّا أَکْثَرَ جُلُوسًا فِی الْمَسَاجِدِ مِنَ الثَّوْرِیِّینَ وَالْعُرَنِیِّینَ۔
(٣٦٧٨٢) حضرت ابوبکر زبیدی (رض) اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ میں نے کسی زندہ شخص کو بھی ثوریین اور عرنیین سے زیادہ مسجد میں قیام کرنے والا نہیں دیکھا۔

36782

(۳۶۷۸۳) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ أَبِی الأَشْہَبِ ، قَالَ : قَالَ الْحَسَنُ : یَا ابْنَ آدَمَ تُبْصِرُ الْقَذَی فِی عَیْنِ أَخِیک ، وَتَدَعُ الْجَذَلَ مُعْتَرِضًا فِی عَیْنِک۔
(٣٦٧٨٣) حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ اے ابن آدم ! تو اپنے بھائی کی آنکھ میں تنکے کو بھی دیکھتا ہے اور اپنی آنکھ میں پڑے شہتیر سے بھی درگزر کرجاتا ہے۔

36783

(۳۶۷۸۴) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ أَبِی الأَشْہَبِ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : کَانُوا یَقُولُونَ : إنَّ لِسَانَ الْحَکِیمِ مِنْ وَرَائِ قَلْبِہِ ، فَإِذَا أَرَادَ أَنْ یَقُولَ رَجَعَ إِلَی قَلْبِہِ ، فَإِنْ کَانَ لَہُ قَالَ ، وَإِنْ کَانَ عَلَیْہِ أَمْسَکَ ، وَإِنَّ الْجَاہِلَ قَلْبُہُ فِی طَرَفِ لِسَانِہِ لاَ یَرْجِعُ إِلَی قَلْبِہِ ، مَا أَتَی عَلَی لِسَانِہِ تَکَلَّمَ بِہِ۔
(٣٦٧٨٤) حضرت حسن (رض) کا ارشاد ہے کہ لوگوں کا مقولہ ہے کہ دانا آدمی کی زبان اس کے دل کے پیچھے (ماتحت) ہوتی ہے۔ جب وہ بولنے کا ارادہ کرتا ہے تو اپنے دل سے پوچھتا ہے۔ اگر اس کا نفع ہو تو بات کہہ دیتا ہے اور اگر نقصان ہو تو خاموش رہتا ہے۔ اور جاہل آدمی کا دل اس کی زبان سے ایک طرف میں ہوتا ہے وہ اپنے دل سے نہیں پوچھتا جو منہ میں آجائے کہہ دیتا ہے۔

36784

(۳۶۷۸۵) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ أَبِی الأَشْہَبِ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : قَالَ أَبُو الدَّرْدَائِ : مَنْ یُتْبِعْ نَفْسَہُ کُلَّ مَا یَرَی فِی النَّاسِ یَطُلْ حُزْنُہُ وَلاَ یُشْفَ غَیْظُہُ۔
(٣٦٧٨٥) حضرت ابودرداء (رض) فرماتے ہیں کہ جو اپنے نفس کو لوگوں کے پاس موجود اشیاء کے پیچھے لگا دیتا ہے اس کا غم زیادہ ہوجاتا ہے اور اس کا غصہ کم نہیں ہوتا۔

36785

(۳۶۷۸۶) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ أَبِی حَمْزَۃَ ، قَالَ : قُلْتُ لإِبْرَاہِیمَ : إنَّ فَرْقَدَ السَّبَخِیَّ لاَ یَأْکُلُ اللَّحْمَ ، وَلاَ یَأْکُلُ کَذَا ، فَقَالَ : کَانَ أَصْحَابُ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خَیْرًا مِنْہُ کَانُوا یَأْکُلُونَ اللَّحْمَ وَالسَّمْنَ وَکَذَا وَکَذَا۔
(٣٦٧٨٦) حضرت ابوحمزہ (رض) کا ارشاد ہے کہ میں نے ابراہیم (رض) سے عرض کی کہ ” فَرْقَدَ السَّبَخِیَّ “ نہ تو گوشت کھاتا ہے اور نہ ہی فلاں فلاں چیزیں کھاتا ہے۔ تو انھوں نے فرمایا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ اس سے اچھے تھے اور وہ گوشت اور گھی اور اسی طرح فلاں فلاں چیزیں بھی کھاتے تھے۔

36786

(۳۶۷۸۷) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ أَبِی الأَشْہَبِ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : یَا ابْنَ آدَمَ ، إنَّک لَنْ تُؤَاخَذَ إِلاَّ بِمَا رَکِبْت عَلَی عَمْد۔
(٣٦٧٨٧) حضرت حسن (رض) کا ارشاد ہے کہ اے ابن آدم ! تجھ سے صرف اس عمل کا مواخذہ ہوگا کہ جس کا تو نے عمداً ارتکاب کیا ہوگا۔

36787

(۳۶۷۸۸) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ أَبِی الأَشْہَبِ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : کَانَ أَہْلُ قَرْیَۃٍ أَوْسَعَ اللَّہُ عَلَیْہِمْ حَتَّی إِنَّہُمْ کَانُوا یَسْتَنْجُونَ بِالْخُبْزِ ، فَبَعَثَ اللَّہُ عَلَیْہِمَ الْجُوعَ حَتَّی أَنَّہُمْ کَانُوا یَأْکُلُونَ مَا یَقْعُدُونَ بِہِ۔
(٣٦٧٨٨) حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ ایک بستی والوں پر اللہ تعالیٰ نے وسعت کی یہاں تک وہ روٹیوں سے استنجاء کرنے لگے پھر اللہ تعالیٰ نے ان پر بھوک مسلط کی یہاں تک کہ وہ اسی کو کھانے لگے جس کو وہ گراتے تھے۔

36788

(۳۶۷۸۹) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ أَبِی الأَشْہَبِ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : کَانَ رَجُلٌ یُکْثِرُ غَشَیَانَ بَابِ عُمَرَ ، قَالَ : فَقَالَ لَہُ عُمَرُ : اذْہَبْ فَتَعَلَّمْ کِتَابَ اللہِ تَعَالَی قَالَ : فَذَہَبَ الرَّجُلُ فَفَقَدَہُ عُمَرُ ، ثُمَّ لَقِیَہُ لقاء ۃ فَکَأَنَّہُ عَاتَبَہُ ، فَقَالَ : وَجَدْت فِی کِتَابِ اللہِ مَا أَغْنَانِی عَنْ بَابِ عُمَرَ۔
(٣٦٧٨٩) حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ ایک آدمی اکثر عمر (رض) کے دروازے پر آیا کرتا تھا تو عمر (رض) نے اس سے کہا کہ جا اور اللہ کی کتاب سیکھ۔ حسن (رض) فرماتے ہیں کہ وہ آدمی چلا گیا اور عمر (رض) نے اس کو گم کردیا۔ پھر وہ عمر (رض) کو ایک دفعہ ملا تو عمر (رض) اس کو ڈانٹنے لگے تو اس نے جواب دیا کہ میں نے اللہ کی کتاب میں وہ چیز حاصل کی جس نے مجھ کو عمر (رض) کے دروازے سے مستغنی کردیا ہے۔

36789

(۳۶۷۹۰) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ أَبِی الأَشْہَبِ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : لاَ یَزَالُ الْعَبْدُ بِخَیْرٍ مَا لَمْ یُصِبْ کَبِیرَۃً تُفْسِدُ عَلَیْہِ قَلْبَہُ وَعَقْلَہُ ، قَالَ : وَقَالَ الْحَسَنُ : الإِیمَانَ الإِیمَانَ فَإِنَّہُ مَنْ کَانَ مُؤْمِنًا فَإِنَّ لَہُ عِنْدَ اللہِ شُفَعَائَ مُشَفَّعِینَ۔
(٣٦٧٩٠) حسن (رض) کا ارشاد ہے کہ آدمی ہمیشہ بھلائی ہی میں ہوتا ہے جب تک کہ وہ کوئی ایسا کبیرہ گناہ نہ کرلے کہ جو اس کی عقل ودل کو خراب کردے ؟ اور حضر تحسن کا ارشاد ہے ایمان تو ایمان ہے ! اس لیے کہ جو شخص مومن ہوتا ہے تو اللہ کے ہاں اس کے لیے شفاعت کرنے والے ہوتے ہیں جن کی شفاعت قبول کی جاتی ہے۔

36790

(۳۶۷۹۱) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ أَبِی الأَشْہَبِ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : مَنْ قَالَ قَوْلاً حَسَنًا وَعَمِلَ عَمَلاً حَسَنًا فَخُذُوا ، عَنْہُ ، وَمَنْ قَالَ قَوْلاً حَسَنًا وَعَمِلَ عَمَلاً سَیِّئًا فَلاَ تَأْخُذُوا عَنْہُ۔
(٣٦٧٩١) حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ جو شخص اچھی بات کرے اور اس کا عمل اچھا ہو اس سے بات قبول کرو اور جو شخص اچھی بات کرے اور عمل برا ہو تو اس سے بات کو قبول نہ کرو۔

36791

(۳۶۷۹۲) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ أَبِی الأَشْہَبِ ، قَالَ : قَالَ الْحَسَنُ : إنَّ مِنَ النِّفَاقِ اخْتِلاَفَ اللِّسَانِ وَالْقَلْبِ ، وَاخْتِلاَفَ السِّرِّ وَالْعَلاَنِیَۃِ ، وَاخْتِلاَفَ الدُّخُولِ وَالْخُرُوجِ۔
(٣٦٧٩٢) حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ منافقت میں سے ہے دل اور زبان کا اختلاف اور ظاہر اور پوشیدہ کا اختلاف اور اندر اور باہر کا اختلاف۔

36792

(۳۶۷۹۳) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ أَبِی ہِلاَلٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا حَفْصُ الضُّبَعِی ، قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللہِ بْنُ أَبِی مُلَیْکَۃَ : قَالَ عُمَرُ : یَا کعب حَدِّثْنَا عَنِ الْمَوْتِ ، قَالَ : نَعَمْ یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ ، غُصْنٌ کَثِیرُ الشَّوْکِ أُدْخِلَ فِی جَوْفِ رَجُلٍ فَأَخَذَتْ کُلُّ شَوْکَۃٍ بِعِرْقٍ ، ثُمَّ جَذَبَہُ رَجُلٌ شَدِیدُ الْجَذْبِ فَأَخَذَ مَا أَخَذَ وَأَبْقَی مَا أَبْقَی۔
(٣٦٧٩٣) حضرت عمر (رض) نے کعب (رض) سے عرض کی کہ اے کعب ہمیں موت کے بارے میں کچھ بتائیں تو انھوں نے جواب دیا کہ کیوں نہیں اے امیر المومنین ! یہ تو ٹہنی کی مثل ہے کہ جس کے بہت سے کانٹے ہوں جس کو کسی آدمی کے پیٹ میں داخل کردیا جائے اور ہر کانٹا رگ میں پیوست ہوجائے۔ پھر کوئی آدمی اس کو زور سے کھینچے اور جو نکال لے وہ تو نکال لے اور جو رہ جائے وہ رہ جائے۔

36793

(۳۶۷۹۴) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُصْعَبٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا الأَوْزَاعِیُّ ، عَنْ حَسَّانِ بْنِ عَطِیَّۃَ ، قَالَ : بَلَغَنِی ، أَنَّ اللَّہَ تَبَارَکَ وَتَعَالَی یَقُولُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ : یَا بَنِی آدَمَ ، إنَّا قَدْ أَنْصَتْنَا لَکُمْ مُنْذُ خَلَقْنَاکُمْ إِلَی یَوْمِکُمْ ہَذَا ، فَأَنْصِتُوا لَنَا نقرأ أَعْمَالُکُمْ عَلَیْکُمْ ، فَمَنْ وَجَدَ خَیْرًا فَلْیَحْمَدَ اللَّہَ ، وَمِنْ وَجَدَ شَرًّا فَلاَ یَلُومَنَّ إِلاَّ نَفْسَہُ ، فَإِنَّمَا ہِیَ أَعْمَالُکُمْ نَرُدُّہَا عَلَیْکُمْ۔
(٣٦٧٩٤) حضرت حسان بن عطیہ (رض) کا ارشاد ہے کہ مجھ کو یہ بات پہنچی ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ قیامت کے دن فرمائیں گے کہ اے ابن آدم ! جب سے ہم نے تم کو پیدا کیا ہے ہم تمہارے بارے میں خاموش رہے۔ پس آج تم خاموش رہو اور ہم تمہارے اعمال نامے کو سنائیں گے جو شخص اچھا اعمال نامہ دیکھے وہ اللہ کی تعریف کرے اور جو شخص برا اعمال نامہ دیکھے وہ صرف اپنے آپ کو ہی ملامت کرے۔ کیونکہ یہ تو تمہارے ہی اعمال نامے ہیں جو ہم تم کو واپس کررہے ہیں۔

36794

(۳۶۷۹۵) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُصْعَبٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا أَبُو بَکْرٍ ، عَنْ ضَمْرَۃَ ، أَنَّ أَبَا رَیْحَانَۃَ اسْتَأْذَنَ من صَاحِبِ مُسَلَّحَتِہِ أَنْ یَأْتِیَ أَہْلَہُ ، فَقَالَ : یَا أَبَا رَیْحَانَۃَ ، کَمْ تُرِیدُ أَنْ أُؤَجِّلَکَ ، قَالَ : لَیْلَۃً ، فَلَمَّا قَدِمَ أَتَی الْمَسْجِدَ فَلَمْ یَزَلْ یُصَلِّی حَتَّی أَصْبَحَ ، ثُمَّ دَعَا بِدَابَّتِہِ مُتَوَجِّہًا إِلَی مُسَلَّحَتِہِ فَقَالُوا : یَا أَبَا رَیْحَانَۃَ ، أَمَا اسْتَأْذَنْت إِلَی أَہْلِکَ ، فَقَالَ : إنَّمَا أَجَّلَنِی أَمِیرِی لَیْلَۃً ، فَلاَ أَکْذِبُ ، وَلاَ أُخْلِفُ ، قَالَ : فَانْصَرَفَ إِلَی مُسَلَّحَتِہِ وَلَمْ یَأْتِ أَہْلَہُ ، وَکَانَ مَنْزِلُ أَبِی رَیْحَانَۃَ بَیْتِ الْمَقْدِسِ۔
(٣٦٧٩٥) حضرت ضمرہ (رض) فرماتے ہیں کہ ابوریحانہ (رض) نے اپنے توپ والے رفیق سے گھر جانے کی اجازت مانگی۔ اس نے کہا کہ اے ابوریحانہ آپ کب تک واپس آجائیں گے۔ انھوں نے جو ابد یا کہ ایک رات میں۔ پھر جب آئے تو مسجد میں چلے گئے اور صبح تک نماز پڑھتے رہے۔ پھر اپنی سواری منگوائی اور توپ خانے کی طرف چل دئیے۔ لوگوں نے کہا کہ اے ابوریحانہ کیا آپ نے اپنے گھر جانے کی اجازت نہیں لی تھی ؟ انھوں نے جواب دیا کہ مجھ کو میرے امیر نے صرف ایک رات کی اجازت دی تھی۔ پس نہ تو میں جھوٹ بولتا ہوں اور نہ ہی وعدہ خلافی کرتا ہوں۔ راوی فرماتے ہیں کہ وہ اپنے توپ خانہ کی طرف چل نکلے اور اپنے گھر والوں کے پاس نہیں گئے اور ابوریحانہ کی منزل اس وقت بیت المقدس تھی۔

36795

(۳۶۷۹۶) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُصْعَبٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا الأَوْزَاعِیُّ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ أَبِی کَثِیرٍ ، أَنَّ عَبْدَ اللہِ بْنَ سَلاَمٍ صَکَّ غُلاَمًا لَہُ صَکَّۃً ، فَجَعَلَ یَبْکِی وَیَقُولُ : اقْتَصَّ مِنِّی ، وَیَقُولُ الْغُلاَمُ : لاَ أَقْتَصُّ مِنْک یَا سَیِّدِی ، قَالَ ابْنُ سَلاَمٍ : کُلُّ ذَنْبٍ یَغْفِرُہُ اللَّہُ إِلاَّ صَکَّۃَ الْوَجْہِ۔
(٣٦٧٩٦) حضرت یحییٰ بن کثیر فرماتے ہیں کہ عبداللہ بن سلام نے اپنے ایک غلام کو طمانچہ مارا۔ پس وہ رونے لگے اور کہنے لگے کہ مجھ سے بدلہ لے لے اور غلام کہنے لگا کہ اے سردار ! میں آپ سے بدلہ نہیں لوں گا تو ابن سلام نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ہر گناہ کو معاف کردے گا سوائے چہرے کے تھپڑ کے۔

36796

(۳۶۷۹۷) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِیِّ ، عَنْ مُطَرِّفٍ ، عَنْ کَعْبٍ ، قَالَ : مَا مِنْ عَبْدٍ إِلاَّ فِی رَأْسِہِ حِکْمَۃٌ ، فَإِنْ تَوَاضَعَ رَفَعَہُ اللَّہُ ، وَإِنْ تَکَبَّرَ وَضَعَہُ اللَّہُ۔
(٣٦٧٩٧) حضرت کعب (رض) فرماتے ہیں کہ ہر آدمی کی ابتداء میں قدر ومنزلت ہوتی ہے۔ پھر اگر وہ تواضع کرے تو اللہ اس کی قدر کو بڑھا دیتے ہیں اور اگر تکبر کرے تو اللہ اس کی قدر ومنزلت کو گرا دیتے ہیں۔

36797

(۳۶۷۹۸) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ؛ فِی قَوْلِ اللہِ تَعَالَی : {مَنْ یَعْمَلْ سُوئًا یُجْزَ بِہِ} قَالَ : قَالَ الْحَسَنُ : ذَاکَ لِمَنْ أَرَاْدَ اللَّہُ ہَوَانَہُ ، فَأَمَّا مَنْ أَرَاْدَ اللَّہُ کَرَامَتَہُ فَإِنَّہُ یَتَجَاوَزُ عَنْ سَیِّئَاتِہِ فِی أَصْحَابِ الْجَنَّۃِ {وَعْدَ الصِّدْقِ الَّذِی کَانُوا یُوعَدُونَ}۔
(٣٦٧٩٨) حضرت حسن (رض) سے اللہ تعالیٰ کے ارشاد { مَنْ یَعْمَلْ سُوئًا یُجْزَ بِہِ } کی تفسیر میں منقول ہے کہ جس کو اللہ کے ذلیل کرنے کا ارادہ کرلیا ہو۔ لیکن جس شخص کو عزت دینے کا ارادہ ہو تو اللہ تعالیٰ اس کی غلطیوں سے درگزر کردیتے ہیں اور جنت میں ٹھکانا دیتے ہیں جیسا کہ اللہ کا ارشاد ہے : { وَعْدَ الصِّدْقِ الَّذِی کَانُوا یُوعَدُونَ }۔

36798

(۳۶۷۹۹) حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ حَرْبٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا أَبُو ہِلاَلٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا أَبُو صَالِحٍ الْعُقَیْلِیُّ ، قَالَ : کَانَ أَبُو الْعَلاَئِ یَزِیدُ بْنُ عَبْدِ اللہِ بْنِ الشِّخِّیرِ یَقْرَأُ فِی الْمُصْحَفِ حَتَّی یُغْشَی عَلَیْہِ۔
(٣٦٧٩٩) حضرت ابوصالح فرماتے ہیں کہ ابوعلاء یزید بن عبداللہ بن الشخیر قرآن پڑھتے ہوئے بےہوش ہوجایا کرتے تھے۔

36799

(۳۶۸۰۰) حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ حَرْبٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَیْدٍ ، عَنْ سَعِیدٍ الْجُرَیْرِیِّ ، قَالَ : کَانَ أَبُو الْعَلاَئِ یَقْرَأُ فِی الْمُصْحَفِ ، فَکَانَ مُطَرِّفٌ یَقُولُ لَہُ أَحْیَانًا : أَغْنِ عَنَّا مُصْحَفُک سَائِرَ الْیَوْمِ۔
(٣٦٨٠٠) حضرت سعید جریری (رض) فرماتے ہیں کہ ابوالعلاء قرآن پڑھتے تو مطرف کہا کرتے تھے کہ تیرے مصحف نے ہم کو سارے دن سے مستغنی کردیا ہے۔

36800

(۳۶۸۰۱) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِِ ، عَنْ ہَارُونَ بْنِ عَنْتَرَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : سَأَلْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ: أَیُّ الْعَمَلِ أَفْضَلُ ، قَالَ: ذِکْرُ اللہِ أَکْبَرُ ، قَالَ : وَمَنْ أَبْطَأَ بِہِ عَمَلُہُ لَمْ یُسْرِعْ بِہِ حَسَبُہُ۔
(٣٦٨٠١) حضرت ہارون بن عنترہ اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ میں نے ابن عباس سے پوچھا کہ کون سا عمل سب سے بہتر ہے۔ انھوں نے جواب دیا کہ اللہ کا ذکر کرنا فرمایا کہ جس شخص کو اس کا عمل پیچھے ڈال دے اس کو اس کا حسب ونسب آگے نہیں بڑھا سکتا۔

36801

(۳۶۸۰۲) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِِ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْن أَبِی الْحُسَیْنِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : أَلاَ أَدُلُّکُمْ عَلَی خَیْرِ أَخْلاَقِ أَہْلِ الدُّنْیَا وَالآخِرَۃِ مَنْ عَفَا عَمَّنْ ظَلَمَہُ وَأَعْطَی مَنْ حَرَمَہُ وَوَصَلَ مَنْ قَطَعَہُ ، وَمَنْ أَحَبَّ أَنْ یُنْسَأَ لَہُ فِی عُمُرِہِ وَیُزَادَ لَہُ فِی مَالِہِ فَلْیَتَّقِ اللَّہَ رَبَّہُ وَلْیَصِلْ رَحِمَہُ۔ (طبرانی ۳۴۳۔ عبدالرزاق ۲۰۲۳۷)
(٣٦٨٠٢) حضرت عبداللہ بن ابی الحسین (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میں تم کو دنیا اور آخرت میں سب سے اچھے اخلاق والا نہ بتاؤں ؟ یہ وہ شخص ہے جو اس کو معاف کردے جس نے اس پر ظلم کیا ہو اور اس شخص کو عطا کرے جس نے اس کو محروم رکھا ہو اور اس سے رشتہ جوڑے جس نے قطع رحمی کی ہو اور جس شخص کو یہ اچھی بات اچھی لگتی ہے کہ اس کی عمر دراز اور عمل زیادہ ہو تو وہ اپنے اللہ سے ڈرے اور صلہ رحمی اختیار کرے۔

36802

(۳۶۸۰۳) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ حَمَّادُ بْنُ زَیْدٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَالِکٍ ، عَنْ أَبِی الْجَوْزَائِ {یَوْمَ ہُمْ عَلَی النَّارِ یُفْتَنُونَ} قَالَ : یُعَذَّبُونَ۔
(٣٦٨٠٣) حضرت ابوجوزا (رض) قرآنِ پاک کی آیت { یَوْمَ ہُمْ عَلَی النَّارِ یُفْتَنُونَ } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ یُعَذَّبُونَ یعنی ان کو عذاب دیا جائے گا۔

36803

(۳۶۸۰۴) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ سُلَیْمَانَ ، عن عمرو بن مالک ، عَنْ أَبِی الْجَوْزَائِ {وَیَخَافُونَ سُوئَ الْحِسَابِ} قَالَ : الْمُنَاقَشَۃُ فِی الأَعْمَالِ۔
(٣٦٨٠٤) حضرت ابوالجوزاء (رض) اللہ تعالیٰ کے ارشاد { وَیَخَافُونَ سُوئَ الْحِسَابِ } کی تفسیر میں کہتے ہیں کہ اس سے مراد اعمال میں مناقشہ ہے۔

36804

(۳۶۸۰۵) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا سَعِیدُ بْنُ زَیْدٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ مَالِکٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا الْجَوْزَائِ یَقُولُ : نَقْلُ الْحِجَارَۃِ أَہْوَنُ عَلَی الْمُنَافِقِ مِنْ قِرَائَۃِ الْقُرْآنِ ، وَقد قَالَ سَعِیدٌ : أَخَفُّ عَلَی الْمُنَافِقِ۔
(٣٦٨٠٥) حضرت ابوالجوزاء (رض) فرماتے ہیں کہ پتھروں کو منتقل کرنا منافق پر قرآن پاک کی تلاوت سے زیادہ آسان ہے اور سعید (رض) فرماتے ہیں کہ منافق پر زیادہ ہلکا ہے۔

36805

(۳۶۸۰۶) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا سَعِیدُ بْنُ زَیْدٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَالِکٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا الْجَوْزَائِ یَقُولُ فِی ہَذِہِ الآیَۃِ : {وَمَا خَلَقْت الْجِنَّ وَالإِنْسَ إِلاَّ لِیَعْبُدُونِ مَا أُرِیدُ مِنْہُمْ مِنْ رِزْقٍ ، وَمَا أُرِیدُ أَنْ یُطْعِمُونَ} قَالَ : أَنَا أَرْزُقُہُمْ وَأَنَا أُطْعِمُہُمْ ، مَا خَلَقْتہمْ إِلاَّ لِیَعْبُدُونِ۔
(٣٦٨٠٦) حضرت ابوالجوزاء (رض) فرماتے ہیں قرآن پاک کی اس آیت کی تفسیر میں { وَمَا خَلَقْت الْجِنَّ وَالإِنْسَ إِلاَّ لِیَعْبُدُونِ مَا أُرِیدُ مِنْہُمْ مِنْ رِزْقٍ ، وَمَا أُرِیدُ أَنْ یُطْعِمُونَ } کہ میں ہی ان کو رزق دیتا ہوں اور کھلاتا ہوں اور میں نے ان کو صرف اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے۔

36806

(۳۶۸۰۷) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا سَعِیدُ بْنُ زَیْدٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ مَالِکٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا الْجَوْزَائِ یَقُول : لَیْسَ لَہُمْ طَعَامٌ إِلاَّ مِنْ ضَرِیعٍ السَّلام کَیْفَ یَسْمَنُ مَنْ یَأْکُلُ الشَّوْکَ۔
(٣٦٨٠٧) حضرت ابوالجوزاء (رض) قرآنِ پاک کی آیت { لَیْسَ لَہُمْ طَعَامٌ إِلاَّ مِنْ ضَرِیعٍ } کی تلاوت پر فرمانے لگے کہ وہ شخص کس طرح موٹا ہوسکتا ہے کہ جو کانٹوں کو کھائے۔

36807

(۳۶۸۰۸) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ مُسْلِمٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ بْنِ مَیْسَرَۃَ ، قَالَ : غَزَا أَبُو أَیُّوبَ الْمَدِینَۃَ ، قَالَ : قُلْتُ : الْقُسْطَنْطِینِیَّۃ ، قَالَ : نَعَمْ ، قَالَ : فَمَرَّ بِقَاصٍّ یَقُصُّ وَہُوَ یَقُولُ : إذَا عَمِلَ الْعَبْدُ الْعَمَلَ فِی صَدْرِ النَّہَارِ عُرِضَ عَلَی أَہْلِ مَعَارِفِہِ مِنْ أَہْلِ الآخِرَۃِ مِنْ آخِرِ النَّہَارِ ، وَإِذَا عَمِلَ الْعَمَلَ فِی آخِرِ النَّہَارِ عُرِضَ عَلَی أَہْلِ مَعَارِفِہِ مِنْ أَہْلِ الآخِرَۃِ فِی صَدْرِ النَّہَارِ ، قَالَ : فَقَالَ أَبُو أَیُّوبَ : انْظُرْ مَا تَقُولُ ؟ قَالَ : فَقَالَ : وَاللہِ ، إِنَّہُ لَکُمَا أَقُولُ ، قَالَ : فَقَالَ أَبُو أَیُّوبَ : اللَّہُمَّ إنِّی أَعُوذُ بِکَ أَنْ تَفْضَحَنِی عِنْدَ عُبَادَۃَ بْنِ الصَّامِتِ ، وَسَعْدِ بْنِ عُبَادَۃَ بِمَا عَمِلْت بَعْدَہُمَا قَالَ : فَقَالَ الْقَاصُّ : وَاللہِ لاَ یَکْتُبُ اللَّہُ وِلاَیَتَہُ لِعَبْدٍ إِلاَّ سَتَرَ عَوْرَاتِہِ وَأَثْنَی عَلَیْہِ بِأَحْسَنِ عَمَلِہِ۔
(٣٦٨٠٨) حضرت محمد بن مسلم (رض) فرماتے ہیں کہ ابراہیم بن میسرہ (رض) نے بتایا کہ ابوایوب (رض) نے ایک شہر پر حملہ کیا۔ وہ فرماتے ہیں کہ میں نے پوچھا کہ کیا قسطنطنیہ پر حملہ کیا تھا ؟ تو انھوں نے جواب دیا کہ ہاں پھر فرماتے ہیں کہ ان کا ایک قصہ گو کے پاس سے گزر ہوا جو یہ کہہ رہا تھا کہ جب کوئی آدمی دن کے ابتدائی حصہ میں کوئی عمل کرتا ہے تو آخر دن میں اس کا عمل اس تمام جاننے والوں کو جو آخرت میں اس کے جاننے والے ہیں پیش کردیا جاتا ہے اور جب کوئی آدمی آخر دن میں کوئی عمل کرتا ہے تو اس کا عمل آخرت میں اس کے جاننے والے تمام لوگوں کے سامنے ابتدائے دن میں پیش کردیا جاتا ہے تو ابوایوب نے فرمایا کہ اس کو دیکھ کہ تو کیا کہہ رہا ہے ؟ تو اس نے جواب دیا کہ میں یہ بات آپ دونوں کو ہی تو کہہ رہا ہوں۔ ابوایوب انصاری (رض) نے دعا کی کہ اے اللہ میں تجھ سے عبادہ بن صامت اور سعد بن عبادہ کے سامنے اپنے ان کے بعد کیے ہوئے اعمال کی وجہ سے رسوا ہونے سے پناہ مانگتا ہوں۔ وہ فرماتے ہیں کہ اس قصہ گو نے کہا کہ اللہ کی قسم اللہ تعالیٰ اپنی دوستی جب کسی کے لیے لکھتا ہے تو اس کے عیوب پر پردہ ڈال دیتا ہے اور پھر اس نے ان کے اچھے اعمال کی تعریف کی۔

36808

(۳۶۸۰۹) حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ بْنُ مُوسَی ، قَالَ : أَخْبَرَنَا ہَمَّامٌ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ مُسْلِمِ بْنِ یَسَارٍ ، قَالَ : وَادِیَانِ عَرِیضَانِ لاَ یُدْرَکُ غَوْرُہُمَا سَلَکَ النَّاسُ فِیہِمَا فَاعْمَلْ عَمَلاً تَعْلَمُ ، أَنَّہُ لاَ یُنْجِیک إِلاَّ عَمَلٌ صَالِحٌ ، وَتَوَکَّلْ تَوَکُّلَ رَجُلٍ تَعْلَمُ ، أَنَّہُ لاَ یُصِیبُک إِلاَّ مَا کَتَبَ اللَّہُ لَک۔
(٣٦٨٠٩) حضرت مسلم بن یسار فرماتے ہیں کہ دو وادیاں ہیں جو چوڑی ہیں اور ان کی گہرائی بھی معلوم نہیں ہے۔ لوگ اس میں چل رہے ہیں۔ پس تو ایسا عمل کر کہ تو جانتا ہے کہ تیری نجات صرف نیک عمل میں ہے اور ایسا مردانہ توکل کر کہ تو جانتا ہے کہ تجھ کو معلوم ہے کہ تجھے صرف وہی تکلیف پہنچ سکتی ہے کہ جس کا تجھ سے اللہ نے وعدہ کیا ہے۔

36809

(۳۶۸۱۰) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا مَعْشَرٍ الَّذِی یَرْوِی ، عَنْ إبْرَاہِیمَ یُحَدِّثُ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : مَا مِنْ قَرْیَۃٍ إِلاَّ وَفِیہَا مَنْ یُدْفَعُ ، عَنْ أَہْلِہَا بِہِ ، وَإِنِّی لأَرْجُو أَنْ یَکُونَ أَبُو وَائِلٍ مِنْہُمْ۔
(٣٦٨١٠) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ ہر بستی میں ایسے لوگ ہوتے ہیں کہ جن کی وجہ سے اس بستی والوں سے عذاب ہٹا لیا جاتا ہے اور میں امید کرتا ہوں کہ ابو وائل انہی میں سے ہیں۔

36810

(۳۶۸۱۱) حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ الأَسَدِیُّ ، عَنْ عُقْبَۃَ بْنِ إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِی شَرَّاعَۃَ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ الْجزَّار {إِذَا القوا مِنْہَا مَکَانًا ضَیِّقًا} قَالَ : کَضِیقِ الزُّجِّ فِی الرُّمْحِ۔
(٣٦٨١١) حضرت یحییٰ بن جزار (رض) فرماتے ہیں قرآن پاک کی آیت {إِذَا القوا مِنْہَا مَکَانًا ضَیِّقًا } کی تفسیر میں کہ جیسے نیزے کا نچلا حصہ اوپر والے حصہ کے لیے تنگ ہوتا ہے۔

36811

(۳۶۸۱۲) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ الأَسَدِیُّ ، قَالَ : حدَّثَنَا ثَابِتُ بْنُ یَزِیدٍ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ أَبِی قِلاَبَۃَ ، قَالَ : قَالَ مُسْلِمُ بْنُ یَسَارٍ : لَوْ کُنْتَ بَیْنَ مَلِکٍ تَطْلُبُ حَاجَۃً لَسَرَّکَ أَنْ تَخْشَعَ لَہُ۔
(٣٦٨١٢) حضرت مسلم بن یسار فرماتے ہیں کہ اگر تو کسی بادشاہ کے سامنے کسی ضرورت کو مانگے گا تو تجھ کو یہ بات بھی اچھی لگے گی کہ تو اس کے لیے جھکے۔

36812

(۳۶۸۱۳) حَدَّثَنَا ہَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ الْمُغِیرَۃِ ، عَنْ حُمَیْدِ بْنِ ہِلاَلٍ ، عَنِ الْعَلاَئِ بْنِ زِیَادٍ الْعَدَوِیِّ ، قَالَ : رَأَیْتُ فِی النَّوْمِ کَأَنِّی أَرَی عَجُوزًا عَوْراء کَبِیرَۃَ الْعَیْنِ وَالأُخْرَی قَدْ کَادَتْ أَنْ تَذْہَبَ عَلَیْہَا مِنَ الزَّبَرْجَدِ وَالْحِلْیَۃِ شَیْئٌ عَجَبٌ ، فَقُلْتُ: مَا أَنْتِ؟ قَالَتْ: أَنَا الدُّنْیَا ، فَقُلْتُ: أَعُوذُ بِاللہِ مِنْ شَرِّکَ، قَالَتْ : فَإِنْ سَرَّک أَنْ یُعِیذَک اللَّہُ مِنْ شَرِّی فَأَبْغِضِ الدِّرْہَمَ۔
(٣٦٨١٣) حضرت علاء بن زیاد عدوی (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ میں ایک ادھیڑ عمر کانی بڑھیا کو دیکھ رہا ہوں اور اس کی دوسری آنکھ بس نکلنے کے قریب ہی تھی۔ اور اس کے اوپر زبرجد اور دوسرے کئی قسم کے عجیب و غریب زیورات تھے۔ میں نے پوچھا کہ تو کون ہے ؟ اس نے جواب دیا کہ میں دنیا ہوں۔ میں نے کہا کہ میں تیرے شر سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں۔ اس نے کہا کہ اگر تجھ کو یہ بات اچھی لگتی ہے کہ تجھے اللہ میرے شر سے بچائے تو درہم سے بغض رکھ۔

36813

(۳۶۸۱۴) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ، عَنْ سُفْیَانَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِینَارٍ، قَالَ: کَانَ جَابِرُ بْنُ زَیْدٍ مُسْلِمًا عِنْدَالدِّرْہَمِ۔
(٣٦٨١٤) حضرت مسلم بن دینار (رض) فرماتے ہیں کہ جابر بن زید دراہم سے پرہیز کرتے تھے۔

36814

(۳۶۸۱۵) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، عَنِ ابْنِ أَبِی عَرُوبَۃَ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ عَبْدِ رَبِّہِ ، عَنِ أَبِی عِیَاضٍ {وَنُقَلِّبُہُمْ ذَاتَ الْیَمِینِ وَذَاتَ الشِّمَالِ} قَالَ فِی کُلِّ عَامٍ مَرَّتَیْنِ۔
(٣٦٨١٥) حضرت ابوعیاض (رض) سے قرآن پاک کی آیت { وَنُقَلِّبُہُمْ ذَاتَ الْیَمِینِ وَذَاتَ الشِّمَالِ } کی تفسیر میں مروی ہے کہ سال میں دو مرتبہ بدلتے تھے۔

36815

(۳۶۸۱۶) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ زَکَرِیَّا ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ مَعْبَدٍ ، قَالَ : حدَّثَتْنِی أَسْمَائُ ابْنَۃُ عُمَیْسٍ ، أَنَّ جَعْفَرًا جَائَہَا إذْ ہُمْ بِالْحَبَشَۃِ وَہُوَ یَبْکِی ، فَقَالَتْ : مَا شَأْنُک ، قَالَ : رَأَیْتُ فَتًی مُتْرَفًا مِنَ الْحَبَشَۃِ جَسِیمًا مَرَّ عَلَی امْرَأَۃٍ فَطَرَحَ دَقِیقًا کَانَ مَعَہَا ، فََنسَفتْہُ الرِّیحُ ، قَالَتْ : أَکِلُک إِلَی یَوْمِ یَجْلِسُ الْمَلِکُ عَلَی الْکُرْسِیِّ فَیَأْخُذُ لِلْمَظْلُومِ مِنَ الظَّالِمِ۔
(٣٦٨١٦) حضرت اسماء بنت عمیس (رض) فرماتی ہیں کہ میرے پاس جعفر (رض) اس وقت آئے جب وہ حبشہ میں تھے اور وہ رو رہے تھے تو اسماء نے پوچھا کہ آپ کو کیا ہوا ہے ؟ انھوں نے جواب دیا کہ میں نے ایک آدمی کو دیکھا ہے ناز ونعم والا اور جسامت والا وہ ایک عورت کے پاس سے گزرا اور اس عورت کے پاس موجود آٹے کو اس نے گرا دیا۔ پھر اس آٹے کو ہوا اڑا کرلے گئی تو اسماء (رض) نے فرمایا کہ میں تو تجھ کو اس دن کے سپرد کرتی ہوں کہ جس دن بادشاہ کرسی پر بیٹھے گا اور ظالم سے مظلوم کا حق دلوائے گا۔

36816

(۳۶۸۱۷) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ طَلْحَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ بْنِ عَبْدِ الأَعْلَی ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الأَسْوَدِ ، قَالَ : إنِّی أَشُمُّ الرَّیْحَانَ أَذْکُرُ بِہِ الْجَنَّۃَ۔
(٣٦٨١٧) حضرت عبدالرحمن بن اسود (رض) فرماتے ہیں کہ میں ریحان خوشبو سونگھتا ہوں تو جنت یاد آتی ہے۔

36817

(۳۶۸۱۸) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ مَالِکِ بْنِ مِغْوَلٍ ، قَالَ : قَالَ رَجُلٌ لِلشَّعْبِیِّ : أَفْتِنَا أَیُّہَا الْعَالِمُ ، قَالَ : الْعَالِمُ مَنْ یَخَافُ اللَّہَ۔
(٣٦٨١٨) حضرت مالک بن مغول (رض) فرماتے ہیں کہ کسی آدمی نے شعبی سے کہا کہ ہمیں بتائیں کہ عالم کون ہے ؟ انھوں نے جواب دیا کہ عالم وہ ہے جو اللہ سے ڈرے۔

36818

(۳۶۸۱۹) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ قَیْسٍ ، قَالَ : کَانُوا یَکْرَہُونَ أَنْ یُعْطِی الرَّجُلُ صَبِیَّہُ شَیْئًا فَیُخْرِجُہُ فَیَرَاہُ الْمِسْکِینُ فَیَبْکِی عَلَی أَہْلِہِ وَیَرَاہُ الْیَتِیمُ فَیَبْکِی عَلَی أَہْلِہِ۔
(٣٦٨١٩) حضرت عمرو بن قیس (رض) کا ارشاد ہے کہ لوگ اس بات کو ناپسند سمجھتے تھے کہ کوئی آدمی اپنے بچہ کو کوئی چیز دے پھر وہ اس چیز کو لے کر باہر نکلے اور اس کو کوئی مسکین دیکھ لے اور اپنے گھر والوں کے پاس جا کر روئے یا کوئی یتیم دیکھ لے اور اپنے گھر والوں کے پاس جا کر روئے۔

36819

(۳۶۸۲۰) حَدَّثَنَا ابْنُ یَمَانٍ ، عَنْ سُفْیَانَ ، قَالَ : لاَ یَفْقَہُ عَبْدٌ حَتَّی یَعُدَّ الْبَلاَئَ نِعْمَۃً وَالرَّخَائَ مُصِیبَۃً۔
(٣٦٨٢٠) حضرت سفیان (رض) سے مروی ہے کہ کوئی آدمی اس وقت تک فقیہ نہیں شمار کیا جاسکتا کہ جب تک وہ مصیبت کو نعمت اور کشادگی کو مصیبت نہ سمجھنے لگے۔

36820

(۳۶۸۲۱) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ یَمَانٍ ، عَنْ سُفْیَانَ ، قَالَ : کَانَ یُعْجِبُہُمْ أَنْ یُفَرِّحُوا أَنْفُسَہُمْ۔
(٣٦٨٢١) حضرت سفیان (رض) فرماتے ہیں کہ لوگوں کو یہ بات عجیب محسوس ہوتی تھی کہ وہ اپنے نفسوں کو خوش کریں۔

36821

(۳۶۸۲۲) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ الْحُبَابِ ، قَالَ : حدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، قَالَ : سَمِعْتُ مَالِکَ بْنَ دِینَارٍ یَقُولُ : قَلْبٌ لَیْسَ فِیہِ حُزْنٌ مِثْلُ بَیْتٍ خَرِبٍ۔
(٣٦٨٢٢) حضرت مالک بن دینار (رض) فرماتے ہیں کہ جس دل میں کوئی غم نہ ہو وہ ویران گھر کی طرح ہے۔

36822

(۳۶۸۲۳) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ حُبَابٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ بْنُ شُمَیْطٍ ، عَنْ بُدَیْلِ بْنِ مَیْسَرَۃَ الْعُقَیْلِیِّ ، أَوْ مَطَرٍ الْوَرَّاقِ ، أَنَّہُ قَالَ : مَنْ عَرَفَ رَبَّہُ أَحَبَّہُ ، وَمَنْ أَبْصَرَ الدُّنْیَا زَہِدَ فِیہَا ، وَلاَ یَغْفُلُ الرجل الْمُؤْمِنُ حَتَّی یَلْہُوَ ، فَإِذَا تَفَکَّرَ حَزِنَ۔
(٣٦٨٢٣) بدیل بن میسرہ عقیلی یا مطر الوراق (رض) فرماتے ہیں کہ جس شخص نے رب کو پہچان لیا وہ اس سے محبت کرنے لگا اور جو شخص دنیا کو دل کی آنکھ سے دیکھ لیتا ہے وہ اس میں زہد اختیار کرلیتا ہے اور مومن جب تک بےکار کام میں نہ لگے غافل نہیں ہوتا۔ جب وہ سوچتا ہے تو غم گین ہوتا ہے۔

36823

(۳۶۸۲۴) حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ سُلَیْمَانَ الرَّازِیّ ، عَنْ أَبِی سیار ، عَنْ أَبِی حُصَیْنٍ ، قَالَ : مَثَلُ الَّذِی یَسْلُبُ الْیَتِیمَ وَیَکْسُو الأَرْمَلَۃَ مِثْلُ الَّذِی یَکْسِبُہُ مِنْ غَیْرِ حِلِّہِ وَیُنْفِقُہُ فِی غَیْرِ حِلِّہِ۔
(٣٦٨٢٤) حضرت حصین (رض) فرماتے ہیں کہ جو شخص کسی یتیم سے مال چھین کر کسی محتاج کو پہناتا ہے اس کی مثال اس شخض کی سی ہے جو حرام طریقہ سے کماتا ہے اور حرام جگہ پر خرچ کرتا ہے۔

36824

(۳۶۸۲۵) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ قَیْسٍ ، قَالَ : إنَّ اللَّہَ لَیَأْمُرُ فِی أَہْلِ الأَرْضِ بِالْعَذَابِ فَتَقُولُ الْمَلاَئِکَۃُ : یَا رَبِّ فِیہِمُ الصِّبْیَانُ۔ (دارمی ۳۳۴۵)
(٣٦٨٢٥) حضرت عمرو بن قیس (رض) فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ زمین پر بسنے والوں کے حق میں عذاب کا حکم کرتے ہیں تو فرشتے کہتے ہیں کہ اے اللہ ! ان میں تو بچے بھی ہیں۔

36825

(۳۶۸۲۶) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَنْ ثَابِتٍ ، قَالَ : کَانَ یُقَالَ : مَا أَکْثَرَ أَحَدٌ ذِکْرَ الْمَوْتِ إِلاَّ رُئِیَ ذَلِکَ فِی عَمَلِہِ۔
(٣٦٨٢٦) حضرت ثابت (رض) فرماتے ہیں کہ جب بھی کوئی آدمی موت کو کثرت سے یاد کرتا ہے تو یہ بات اس کے عمل میں ہی نظر آجاتی ہے۔

36826

(۳۶۸۲۷) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، قَالَ : کان ثَابِتٌ یَقُولُ : اللَّہُمَّ إنْ کُنْت أَعْطَیْت أَحَدًا الصَّلاَۃَ فِی قَبْرِہِ فَأَعْطِنِی الصَّلاَۃَ فِی قَبْرِی۔
(٣٦٨٢٧) حضرت ثابت (رض) دعا کیا کرتے تھے کہ اے اللہ اگر کسی کو قبر میں نماز کی اجازت ہو تو مجھے میری قبر میں نماز کی اجازت دے دے۔

36827

(۳۶۸۲۸) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا حُمَیْدٌ ، قَالَ : کُنَّا نَأْتِی أَنَسًا وَمَعَنَا ثَابِتٌ ، فَکُلَّمَا مَرَّ بِمَسْجِدٍ صَلَّی فِیہِ ، فَکُنَّا نَأْتِی أَنَسًا فَیَقُولُ: أَیْنَ ثَابِتٌ أَیْنَ ثَابِتٌ أَیْنَ ثَابِتٌ، إنَّ ثَابِتًا دُوَیْبَّۃٌ أُحِبُّہَا۔
(٣٦٨٢٨) حضرت حمید (رض) فرماتے ہیں کہ ہم انس (رض) کے پاس آیا کرتے تھے اور ہمارے ساتھ ثابت بھی ہوتے تھے۔ جب بھی وہ کسی مسجد سے گزرتے اس میں نماز پڑھتے۔ ہم انس (رض) کے پاس آتے تو وہ پوچھتے تھے کہ ثابت کہاں ہیں ؟ ثابت کہاں ہیں ؟ ثابت کہاں ہیں ؟ وہ ایسے شخص ہیں کہ جن سے میں محبت کرتا ہوں۔

36828

(۳۶۸۲۹) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَیْدٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : قَالَ أَنَسٌ : وَلَمْ یَقُلْ شَہِدْتہ : إنَّ لِکُلِّ شَیْئٍ مِفْتَاحًا ، وَإِنَّ ثَابِتًا مِنْ مَفَاتِیحِ الْخَیْرِ۔
(٣٦٨٢٩) حضرت حماد اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ انس (رض) کا ارشاد ہے (لیکن انھوں نے یہ نہیں کہا کہ میں بھی پاس تھا) کہ ہر چیز کی ایک چابی ہے اور ثابت بھلائی کی چابی ہے۔

36829

(۳۶۸۳۰) حَدَّثَنَا یَعْلَی بْنُ عُبَیْدٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ بْنُ أَبِی خَالِدٍ ، قَالَ : أَصَابَتْ بَنِی إسْرَائِیلَ مَجَاعَۃٌ ، فَمَرَّ رَجُلٌ عَلَی رَجُلٍ ، فَقَالَ : وَدِدْت ، أَنَّ ہَذَا الرَّمَلَ دَقِیقٌ لِی فَأُطْعِمُہُ بَنِی إسْرَائِیلَ ، قَالَ : فَأُعْطِیَ عَلَی نِیَّتِہِ۔
(٣٦٨٣٠) حضرت اسماعیل بن ابی خالد (رض) فرماتے ہیں کہ بنی اسرائیل کو ایک مرتبہ بھوک نے ستایا۔ ایک آدمی دوسرے کے پاس سے گزرا تو اس نے کہا کہ میری خواہش ہے کہ یہ صحرا آٹا بن جائے اور میں تمام بنی اسرائیل کو کھانا کھلاؤں تو اللہ تعالیٰ نے اس کی نیت پر اس کو اجر عطا کردیا۔

36830

(۳۶۸۳۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ الْمَسْعُودِیِّ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ أَبِی بُرْدَۃَ ، قَالَ : کَانَ یُقَالَ : الْحِکْمَۃُ ضَالَّۃُ الْمُؤْمِنِ یَأْخُذُہَا إذَا وَجَدَہَا۔
(٣٦٨٣١) حضرت سعید بن ابی بردہ (رض) فرماتے ہیں کہ کہا جاتا ہے کہ حکمت کی بات مومن کا گم شدہ سامان ہے جس جگہ پا لیتا ہے اس کو حاصل کرلیتا ہے۔

36831

(۳۶۸۳۲) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، قَالَ : {اقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُہُمْ} قَالَ : مَا یُوعَدُونَ۔
(٣٦٨٣٢) حضرت ابن جریج (رض) اللہ تعالیٰ کے ارشاد { اقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُہُمْ } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ جس چیز کا ان سے وعدہ کیا گیا ہے۔

36832

(۳۶۸۳۳) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنْ سُفْیَانَ ، قَالَ : الزُّہْدُ فِی الدُّنْیَا قِصَرُ الأَمَلِ ، وَلَیْسَ بِلُبْسِ الصُّوفِ وَذُکِرَ ، أَنَّ الأَوْزَاعِیَّ کَانَ یَقُولُ : الزُّہْدُ فِی الدُّنْیَا تَرْکُ الْمَحْمَدَۃِ ، یَقُولُ : تَعْمَلُ الْعَمَلَ لاَ تُرِیدُ أَنْ یَحْمَدَک النَّاسُ عَلَیْہِ ، وَذُکِرَ ، أَنَّ الزُّہْرِیَّ کَانَ یَقُولُ : الزُّہْدُ فِی الدُّنْیَا مَا لَمْ یَغْلِبَ الْحَرَامُ صَبْرَک ، وَمَا لَمْ یَغْلِبَ الْحَلاَلُ شُکْرَک۔
(٣٦٨٣٣) حضرت سفیان (رض) فرماتے ہیں کہ دنیا میں زہد امیدوں کو کم کرنے سے ہے تاکہ اون کے کپڑے پہننا۔ اور یہ بات بھی مذکور ہے کہ اوزاعی (رض) فرمایا کرتے تھے کہ دنیا میں زہد تعریف کو چھوڑ دینا ہے فرمایا کرتے تھے کہ تو آخرت کے لیے عمل کر یہ ارادہ نہ کر کہ لوگ تیری اس عمل پر تعریف کریں گے۔ اور زہری (رض) فرمایا کرتے تھے کہ دنیا میں زہد اس وقت تک ہے کہ جب تک حرام تیرے صبر پر غالب نہ آجائے اور حلال تیرے شکر پر غالب نہ آجائے۔

36833

(۳۶۸۳۴) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَیْدٍ ، عَنْ أَیُّوبَ ، قَالَ : کَانَ یَنْبَغِی لِلْعَالِمِ أَنْ یَضَعَ التُّرَابَ عَلَی رَأْسِہِ تَوَاضُعًا لِلَّہِ۔
(٣٦٨٣٤) حضرت ایوب فرماتے ہیں کہ عالم کے لیے مناسب ہے کہ عاجزی کے طور پر اپنے سر پر مٹی ڈالے۔

36834

(۳۶۸۳۵) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَنْ ثَابِتٍ ، قَالَ : عِنْدِی مِنَ الرُّخَصِ رُخَصٌ لَوْ حَدَّثْتُکُمْ بِہَا لاَتَّکَلْتُمْ۔
(٣٦٨٣٥) حضرت ثابت فرماتے ہیں کہ میرے پاس رخصت سے متعلقہ ایسی احادیث ہیں کہ اگر میں تم کو بیان کردوں تو تم عمل میں سست ہوجاؤ گے۔

36835

(۳۶۸۳۶) حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ ثَابِتٍ ، قَالَ : کَانَ رِجَالٌ مِنْ بَنِی عَدِیٍّ قَدْ أَدْرَکْت بَعْضَہُمْ إنْ کَانَ أَحَدُہُمْ لِیُصَلِّیَ حَتَّی مَا یأتی فِرَاشَہُ إِلاَّ حَبْوًا۔
(٣٦٨٣٦) حضرت ثابت فرماتے ہیں کہ میں نے بنی عدی کے بعض ایسے آدمیوں کو بھی دیکھا ہے کہ ان میں کوئی اس وقت تک نماز پڑھتا رہتا تھا جب تک کہ گھسٹ کر بستر تک آسکتا تھا۔

36836

(۳۶۸۳۷) حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ أَبِی سِنَانٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مَالِکٍ ، قَالَ : إنَّ لِلَّہِ فِی الأَرْضِ آنیۃ لاَ یَقْبَلُ مِنْہَا إِلاَّ الصُّلْبَ الرَّقِیقَ الصَّافِیَ ، قَالَ : الصُّلْبُ فِی طَاعَۃِ اللہِ ، الرَّقِیقُ عِنْدَ ذِکْرِ اللہِ ، الصَّافِی النَّقِیُّ مِنَ الدَّرَنِ۔
(٣٦٨٣٧) حضرت عبداللہ بن مالک فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے لیے زمین میں بعض برتن ایسے ہیں جن میں سے اللہ صرف سخت، نرم اور صاف کو قبول فرماتا ہے۔ یعنی جو اس کی اطاعت میں سخت ہوں۔ اس کے ذکر کے وقت نرم ہوں اور میل کچیل سے صاف ہوں۔

36837

(۳۶۸۳۸) حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ مُسْلِمٍ ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ أَوْسٍ ، قَالَ : کَانَ نَبِیٌّ مِنَ الأَنْبِیَائِ یَقُولُ : اللَّہُمَّ احْفَظْنِی بِمَا تَحْفَظُ بِہِ الصَّبِیَّ ، قَالَ : فَأَبْکَانِی۔
(٣٦٨٣٨) عثمان بن عبداللہ بن اوس (رض) فرماتے ہیں کہ نبیوں میں ایک نبی یوں دعا کرتے تھے کہ اے اللہ ! میری اس طرح حفاظت فرما کہ جس طرح بچے کی حفاظت کی جاتی ہے۔ فرماتے ہیں کہ مجھے اس بات سے رونا آگیا۔

36838

(۳۶۸۳۹) حَدَّثَنَا سَعِیدُ بْنُ شُرَحْبِیلَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا لَیْثُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ، عَنْ أَبِی أَیُّوبَ ، قَالَ : مَنْ أَرَاْدَ أَنْ یَعْظُمَ حِلْمُہُ وَیَکْثُرَ عِلْمُہُ فَلْیَجْلِسْ فِی غَیْرِ مَجْلِسِ عَشِیرَتِہِ۔
(٣٦٨٣٩) حضرت ابوایوب فرماتے ہیں کہ جو شخص یہ چاہتا ہے کہ اس کا حلم بڑھ جائے اور اس کا عمل زیادہ ہو تو اس کو چاہیے کہ اپنے قبیلہ کے علاوہ کسی کے پاس بیٹھا کرے۔

36839

(۳۶۸۴۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ أَبِی صَالِحٍ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، قَالَ : إنْ کُنَّا لَنَحْضُرُ الْجِنَازَۃَ ، فَمَا نَدْرِی مَنْ نُعَزِّی مِنْ وَجْدِ الْقَوْمِ۔
(٣٦٨٤٠) حضرت اعمش فرماتے ہیں کہ ہم لوگ جنازوں پر جایا کرتے تھے لیکن قوم کی حالت کی وجہ سے ہم کو یہ سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ تعزیت کس سے کریں۔

36840

(۳۶۸۴۱) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا أَشْرَسُ أَبُو شَیْبَانَ ، قَالَ : حَدَّثَنَا ثَابِتٌ الْبُنَانِیُّ ، قَالَ : لَقَدْ کُنَّا نَتْبَعُ الْجِنَازَۃَ فَمَا نَرَی حَوْلَ السَّرِیرِ إِلاَّ مُتَقَنِّعًا بَاکِیًا ، أَوْ مُتَفَکِّرًا کَأَنَّمَا عَلَی رُؤُوسِہِمَ الطَّیْرُ۔
(٣٦٨٤١) حضرت ثابت بنانی (رض) فرماتے ہیں کہ ہم جنازوں کے پیچھے جایا کرتے تھے۔ پس ہم تختہ کے اردگرد صرف سروں پر چادر اوڑھ کر رونے والوں کو ہی دیکھتے تھے یا کوئی بہت غمگین۔ گویا کہ ان کے سروں پر پرندے بیٹھے ہوں۔

36841

(۳۶۸۴۲) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ أَبِی قِلاَبَۃَ ، قَالَ : الْتَقَی رَجُلاَنِ فِی السُّوقِ ، فَقَالَ : أَحَدُہُمَا لِصَاحِبِہِ : یَا أَخِی ، تَعَالَ نَدْعُو اللَّہَ وَنَسْتَغْفِرْہُ فِی غَفْلَۃِ النَّاسِ لَعَلَّہُ یَغْفِرُ لَنَا ، فَفَعَلا ، فَقُضِی لأَحَدِہِمَا ، أَنَّہُ مَاتَ قَبْلَ صَاحِبِہِ ، فَأَتَاہُ فِی الْمَنَامِ ، فَقَالَ : یَا أَخِی ، أَشْعَرْت أَنَّ اللَّہَ غَفَرَ لَنَا عَشِیَّۃَ الْتَقَیْنَا فِی السُّوقِ۔
(٣٦٨٤٢) حضرت ابی قلابہ فرماتے ہیں کہ دو آدمی بازار میں ایک دوسرے سے ملے تو ایک نے کہا کہ اے میرے بھائی آؤ اللہ سے دعا و استغفار کرتے ہیں لوگوں کی غفلت میں ہوسکتا ہے ہماری بخشش ہوجائے تو انھوں نے اسی طرح کیا۔ پھر ان میں سے ایک کے متعلق فیصلہ کیا گیا اور وہ اپنے دوسرے ساتھی سے پہلے فوت ہوگیا۔ پھر وہ دوسرے کو خواب میں آیا اور کہا کہ اے میرے بھائی کیا آپ جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہماری اس رات بخشش کردی تھی جس رات ہم بازار میں ملے تھے ؟ “

36842

(۳۶۸۴۳) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ أَبِی زَیْنَبَ ، قَالَ : مَنْ أَتَی السُّوقَ لاَ یَأْتِیہَا إِلاَّ لِیَذْکُرَ اللَّہَ فِیہَا غُفِرَ لَہُ بِعَدَدِ مَنْ فِیہَا۔
(٣٦٨٤٣) حضرت ابی زینب (رض) فرماتے ہیں کہ جو شخص بازار میں صرف اللہ کا ذکر کرنے کے لیے آتا ہے اس کے لیے بازار میں موجود تمام افراد کے بقدر مغفرت کردی جاتی ہے۔

36843

(۳۶۸۴۴) حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ مَعْقِلٍ ، عَنْ مَالِکِ بْنِ دِینَارٍ ، قَالَ : أَبْکَانِی الْحَجَّاجُ فِی مَسْجِدِکُمْ ہَذَا وَہُوَ یَخْطُبُ فَسَمِعْتہ یَقُولُ : امْرُؤٌ زَوَّدَ نَفْسَہُ ، امْرُؤٌ وَعَظَ نَفْسَہُ ، امْرُؤٌ لَمْ یَأْتَمِنْ نَفْسَہُ عَلَی نَفْسِہِ ، امْرُؤٌ أَخَذَ مِنْ نَفْسِہِ لِنَفْسِہِ ، امْرُؤٌ کَانَ لِلِسَانِہِ وَقَلْبِہِ زَاجِرٌ مِنَ اللہِ تَعَالَی قَالَ : فَأَبْکَانِی۔
(٣٦٨٤٤) حضرت مالک بن دینار (رض) فرماتے ہیں کہ مجھ کو حجاج نے اس مسجد میں رلا دیا جب وہ خطبہ دے رہا تھا میں نے سنا کہ وہ کہہ رہا تھا کہ بعض لوگ اپنے کو زاد راہ بناتے ہیں اور بعض لوگ اپنے نفس کو نصیحت کرتے ہیں اور بعض لوگ اپنے نفس کو اپنے لیے امین نہ سمجھتے اور بعض لوگ اپنے لیے اپنے نفس میں حصہ بچا لیتے ہیں اور بعض لوگوں کا نفس ان کے دل اور زبان کو اللہ سے روکتا یعنی ڈراتا ہے۔ فرمایا کہ مجھے اس سے رونا آگیا۔

36844

(۳۶۸۴۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَہْلِ الشَّامِ یُکْنَی أَبَا عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : أَتَیْتُ طَاوُوسًا فَاسْتَأْذَنْت عَلَیْہِ فَخَرَجَ إلَیَّ شَیْخٌ کَبِیرٌ ظَنَنْت ، أَنَّہُ طَاوُوسٌ ، قُلْتُ : أَنْتَ طَاوُوسٌ ؟ قَالَ : لاَ ، أَنَا ابْنُہُ ، قُلْتُ : لَئِنْ کُنْت ابْنَہُ فَقَدْ خَرِفَ أَبُوک ، قَالَ : یَقُولُ ہُوَ : إنَّ الْعَالِمَ لاَ یَخْرَفُ ، قَالَ : قُلْتُ : اسْتَأْذِنْ لِی عَلَی أَبِیک ، قَالَ : فَاسْتَأْذَنَ لِی ، فَدَخَلَتْ عَلَیْہِ ، فَقَالَ الشَّیْخُ : سَلْ وَأَوْجِزْ ، فَقُلْتُ : إنْ أَوْجَزْت لِی أَوْجَزْت لَک ، فَقَالَ : لاَ تَسْأَلْ ، أَنَا أُعَلِّمُک فِی مَجْلِسِکَ ہَذَا الْقُرْآنَ وَالتَّوْرَاۃَ وَالإِنْجِیلَ : خَفِ اللَّہَ مَخَافَۃً حَتَّی لاَ یَکُونَ أَحَدٌ أَخْوَف عِنْدَکَ مِنْہُ ، وَارْجَہ رَجَائً ہُوَ أَشَدُّ مِنْ خَوْفِکَ إیَّاہُ ، وَأَحِبَّ لِلنَّاسِ مَا تُحِبُّ لِنَفْسِک۔
(٣٦٨٤٥) حضرت ابوعبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ میں طاؤس (رض) کے پاس آیا پھر میں ان کے پاس جانے کی اجازت طلب کی تو میرے پاس ایک بہت بوڑھا شخص آیا میں سمجھا کہ یہی طاؤس ہیں میں نے سوال کیا کہ آپ ہی طاؤس ہیں ؟ اس نے جواب دیا کہ نہیں میں تو ان کا بیٹا ہوں۔ میں نے کہا کہ اگر تو ان کا بیٹا ہے تو پھر تو تیرے والد صاحب کا ذہن خراب ہوچکا ہوگا۔ اس نے جواب دیا کہ والد صاحب فرماتے ہیں کہ عالم کی عقل خراب نہیں ہوتی۔ فرماتے ہیں کہ میں نے اس سے کہا کہ اپنے والد صاحب سے میرے لیے اجازت طلب کرو۔ فرماتے ہیں کہ مجھ کو اجازت مل گئی۔ پس میں ان کے پاس گیا تو انھوں نے کہا کہ پوچھو اور جلدی اور مختصر کلام کرو۔ میں نے کہا کہ اگر آپ جلدی کلام کرتے چلیں گے تو میں بھی مختصر کلام کروں گا۔ انھوں نے کہا کہ تو سوال نہ کر میں تجھ کو اس مجلس میں قرآن، توراۃ ، انجیل کی تعلیم دیے دیتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ سے اتنا ڈر کہ اس کے علاوہ کسی کا بھی خوف تجھے نہ رہے۔ اس کے خوف سے زیادہ تو اس سے امید رکھ اور لوگوں کے لیے وہی پسند کر جو اپنے لیے پسند کرتا ہے۔

36845

(۳۶۸۴۶) حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّیَالِسِیُّ ، عَنْ أَبِی حُرَّۃَ ، قَالَ : کَانَ الْحَسَنُ یُحِبُّ الْمُدَاوَمَۃَ فِی الْعَمَلِ ، قَالَ : وَقَالَ مُحَمَّدٌ : أَرَأَیْت إنْ نَشِطَ لَیْلَۃً وَکَسِلَ لَیْلَۃً ، فَلَمْ یَرَ بِہِ بَأْسًا۔
(٣٦٨٤٦) حضرت ابی حرہ (رض) کا ارشاد ہے کہ حسن (رض) عمل میں مداومت کو پسند کرتے تھے۔ ابی حرہ کہتے ہیں کہ محمد نے پوچھا کہ آپ کا کیا خیال ہے کہ ایک آدمی ایک رات نشاط اور انبساط سے عبادت کرے اور دوسری رات سستی سے کرے ؟ تو انھوں نے اس میں کوئی حرج محسوس نہیں کیا۔

36846

(۳۶۸۴۷) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللہِ بْنِ الزُّبَیْرِ ، عَنِ ابْنِ أَبِی رَوَّادٍ ، قَالَ : حدَّثَنِی أَبُو سَعِیدٍ ، عَنْ زَیْدِ بْنِ أَرَقْمَ ، قَالَ : اعْبُدَ اللَّہَ کَأَنَّک تَرَاہُ ، فَإِنْ کُنْت لاَ تَرَاہُ فَإِنَّہُ یَرَاک ، وَاحْسُبْ نَفْسَک فِی الْمَوْتَی ، وَاتَّقِ دَعْوَۃَ الْمَظْلُومِ فَإِنَّہَا مُسْتَجَابَۃٌ۔
(٣٦٨٤٧) حضرت زید بن ارقم کا ارشاد ہے کہ اللہ کی عبادت اس طرح کر جیسے کہ تو اسے دیکھ رہا ہے۔ پس اگر تو اسے نہیں دیکھ رہا تو وہ تو تجھے دیکھ ہی رہا ہے اور اپنے آپ کو مردوں میں شمار کر اور مظلوم کی بددعا سے بچ اس لیے کہ وہ ضرور قبول ہوتی ہے۔

36847

(۳۶۸۴۸) حَدَّثَنَا یُونُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ زَیْدٍ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنْ أَبِی قِلاَبَۃَ ، عَنْ أَبِی مُسْلِمٍ الْخَوْلاَنِیِّ ، قَالَ : الْعُلَمَائُ ثَلاَثَۃٌ : رَجُلٌ عَاشَ بِعِلْمِہِ وَعَاشَ بِہِ النَّاسُ مَعَہُ ، وَرَجُلٌ عَاشَ بِعِلْمِہِ وَلَمْ یَعِشْ بِہِ معہ أَحَدٌ غَیْرُہُ ، وَرَجُلٌ عَاشَ النَّاسُ بِعِلْمِہِ وَأَہْلَکَ نَفْسَہُ۔
(٣٦٨٤٨) حضرت ابی مسلم خولانی (رض) فرماتے ہیں کہ علماء تین قسم کے ہوتے ہیں ایک وہ کہ اس نے خود بھی اپنے علم سے جلا حاصل کی اور لوگوں نے بھی نفع اٹھایا اور دوسرے وہ کہ اس نے تو نفع اٹھایا لیکن لوگوں نے نفع نہیں اٹھایا اور تیسرے وہ علماء ہیں کہ لوگوں نے ان سے نفع حاصل کیا لیکن وہ خود ہلاک ہوگئے۔

36848

(۳۶۸۴۹) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا زُرَیْک بْنُ أَبِی زُرَیْکٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ الْحَسَنَ یَقُولُ : یَا ابْنَ آدَمَ ، ضَعْ قَدَمَک عَلَی أَرْضِکَ وَاعْلَمْ ، أَنَّہَا بَعْدَ قَلِیلٍ قَبْرُک۔
(٣٦٨٤٩) حضرت زریک بن ابی زریک (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے حسن (رض) کو فرماتے ہوئے سنا کہ اے ابن آدم ! اپنے قدم اپنی زمین پر رکھ اور یہ بات ذہن نشین کرلے کہ کچھ مدت کے بعد یہی تیری قبر ہوگی۔

36849

(۳۶۸۵۰) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا زُرَیْکُ بْنُ أَبِی زُرَیْکٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ الْحَسَنَ وَہُوَ یَقُولُ : یَا ابْنَ آدَمَ ، إنَّک نَاظِرٌ إِلَی عَمَلِکَ فزن خَیْرَہُ وَشَرَّہُ ، وَلاَ تُحَقِّرْ شَیْئًا مِنَ الْخَیْرِ وَإِنْ ہُوَ صَغُرَ ، فَإِنَّک إذَا رَأَیْتہ سَرَّک مَکَانَہُ ، وَلاَ تُحَقِّرْ شَیْئًا مِنَ الشَّرِّ فَإِنَّک إذَا رَأَیْتہ سَائَک مَکَانَہُ ، رَحِمَ اللَّہُ عَبْدًا کَسَبَ طَیِّبًا وَأَنْفَقَ قَصْدًا وَوَجَّہَ فَضْلا ، وَجِّہُوا ہَذِہِ الْفُضُولَ حَیْثُ وَجَّہَہَا اللَّہُ ، وَضَعُوہَا حَیْثُ أَمَرَ اللَّہُ بِہَا أَنْ تُوضَعَ ، فَإِنَّ مَنْ قَبْلَکُمْ کَانُوا یَشْتَرُونَ أَنْفُسَہُمْ بِالْفَضْلِ مِنَ اللہِ ، وَإِنَّ ہَذَا الْمَوْتَ قَدْ أَضَرَّ بِالدُّنْیَا فَفَضَحَہَا ، فَوَاللہِ مَا وُجِدَ بَعْدُ ذُو لُبٍّ فَرِحًا۔
(٣٦٨٥٠) حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ اے ابن آدم ! تو اپنے عمل کو دیکھ رہا ہے پس اس میں سے اچھے اور برے کا وزن کرکے دیکھ لے اور کسی بھی بھلائی کو حقیر نہ سمجھ اگرچہ وہ چھوٹی سی ہی کیوں نہ ہو اس لیے کہ جب تو اس کے مرتبہ کو دیکھے گا تو خوش ہوگا اور کسی بھی حقیر گناہ کو حقیر نہ سمجھ کیونکہ جب تو اس کے مقام کو دیکھے گا تو برا محسوس کرے گا اللہ تعالیٰ اس شخص پر رحم فرمائیں کہ جس نے حلال طریقہ سے مال کمایا اور میانہ روی سے خرچ کیا اور زائد کو لوٹا دیا۔ اس زائد کو اسی جگہ لوٹایا کرو جہاں اللہ نے لوٹایا ہے اور اس کو اسی جگہ رکھو جہاں اللہ نے رکھنے کا حکم دیا ہے۔ پس تحقیق تم سے قبل لوگوں نے اللہ کے فضل کے بدلہ میں اپنی جانوں کو بیچ دیا تھا اور یہ موت دنیا کے بہت زیادہ قریب ہوئی۔ پس اس نے دنیا کو ذلیل کردیا اللہ کی قسم کسی جاندار نے بھی اس کے بعد خوشی نہیں دیکھی۔

36850

(۳۶۸۵۱) حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ أَبِی سِنَانٍ ، عَنِ ابْنِ أَبِی الْہُذَیْلِ ، عَنْ أَبِی الْعُبَیْدَیْنِ ، قَالَ : إنْ ضَنُّوا عَلَیْک بِالْمُفلطَحَۃِ فَخُذْ رَغِیفَک وَرِدْ نَہْرَک وَأَمْسِکْ عَلَیْک دِینَک۔
(٣٦٨٥١) حضرت ابی العبیدین (رض) فرماتے ہیں کہ اگر لوگ تجھے بیلنے سے پیس دیں پھر بھی اپنا حصہ لے اور اپنے حق کا مطالبہ کر اور اپنے دین کو بھی محفوظ رکھ۔

36851

(۳۶۸۵۲) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ أَبِی حَازِمٍ ، عَنِ الْمِنْہَالِ ، قَالَ : قَالَ عَلِیٌّ : حَرَامٌ عَلَی کُلِّ نَفْسٍ أَنْ تَخْرُجَ مِنَ الدُّنْیَا حَتَّی تَعْلَمَ إِلَی أَیْنَ مَصِیرُہَا۔
(٣٦٨٥٢) حضرت علی (رض) فرماتے ہیں کہ ہر نفس پر دنیا کو چھوڑنا حرام ہے جب تک کہ وہ یہ نہ جان لے کہ اس کا انجام کیا ہوگا۔

36852

(۳۶۸۵۳) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا مُبَارَکٌ بْنُ فَضَالۃ ، قَالَ : حَدَّثَنَا بَکْرٌ ، عَنْ عَدِیِّ بْنِ أَرْطَاۃَ ، عَنْ رَجُلٍ کَانَ مِنْ صَدْرِ ہَذِہِ الأُمَّۃِ ، قَالَ : کَانُوا إذْ أَثْنُوا عَلَیْہِ فَسَمِعَ ذَلِکَ ، قَالَ : اللَّہُمَّ لاَ تُؤَاخِذُنِی بِمَا یَقُولُونَ ، وَاغْفِرْ لِی مَا لاَ یَعْلَمُونَ۔
(٣٦٨٥٣) حضرت عدی بن ارطاۃ (رض) اس امت کے کسی ابتدائی آدمی کے بارے میں نقل کرتے ہیں کہ لوگ جب ان کی تعریف کرتے تھے تو انھوں نے سن لیا تو دعا کی کہ اے اللہ ! جو یہ کہتے ہیں کہ میرا اس میں مواخذہ نہ کرنا اور جو یہ نہیں جانتے وہ معاف کردینا۔

36853

(۳۶۸۵۴) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا مُبَارَکٌ ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَمْرٍو الْفُقَیْمِیِّ ، عَنْ مُنْذِرٍ الثَّوْرِیِّ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِیِّ ابْنِ الْحَنَفِیَّۃِ ، قَالَ : لَیْسَ بِحَکِیمٍ مَنْ لَمْ یُعَاشِرْ بِالْمَعْرُوفِ ، مَنْ لَمْ یَجِدْ بُدًّا یَجْعَلُ اللَّہُ لَہُ فَرَجًا وَمَخْرَجًا۔
(٣٦٨٥٤) حضرت محمد بن علی ابن حنیفہ فرماتے ہیں جو نیکی والی زندگی نہ گزارے وہ عقلمند نہیں ہے اور جو کوئی چارہ کار نہیں پاتا تو اللہ اس کے لیے نکلنے کا راستہ اور کشادگی پیدا فرما دیتے ہیں۔

36854

(۳۶۸۵۵) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ مُفَضِّلٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا عُمَارَۃُ بْنُ غَزِیَّۃَ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُمَرَ بْنِ قَتَادَۃَ ، عَنْ محمود بْنِ لَبِیدٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إنَّ اللَّہَ إذَا أَحَبَّ عَبْدًا حَمَاہُ الدُّنْیَا کَمَا یَظَلُّ أَحَدُکُمْ یَحْمِی سَقِیمَہُ الْمَائَ۔
(٣٦٨٥٥) حضرت محمود بن ربیع (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ جس سے محبت کرتے ہیں اس کو دنیا سے اسی طرح بچاتے ہیں جس طرح تم میں سے کوئی شخص اپنے کسی بیمار کو پانی سے بچاتا ہے۔ ترمذی ٢٠٣٦۔ احمد ٤٢٧

36855

(۳۶۸۵۶) حَدَّثَنَا عَبَّادٌ، عَنْ شُعْبَۃَ، عَنْ حُصَیْنٍ، عَنْ ہِلاَلِ بْنِ یَِسَافٍ، قَالَ: لَیْسَ بَأَسرَّ لِلْمُؤْمِنِ مِنْ أَنْ یَخْلُوَ وَحْدَہُ۔
(٣٦٨٥٦) حضرت حصین (رض) ہلال بن یساف سے روایت کرتے ہیں کہ مومن کو تنہائی سے زیادہ کوئی چیز اچھی نہیں لگتی۔

36856

(۳۶۸۵۷) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ مَالِکِ بْنِ مِغْوَلٍ ، قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللہِ : الدُّنْیَا دَارُ مِنْ لاَ دَارَ لَہُ ، وَمَالُ مِنْ لاَ مَالَ لَہُ ، وَلَہَا یَعْمَلُ مِنْ لاَ عَقْلَ لَہُ۔
(٣٦٨٥٧) حضرت عبداللہ فرماتے ہیں کہ دنیا اس کا گھر ہے کہ جس کا کوئی گھر نہیں اور اس کا مال ہے کہ جس کا کوئی مال نہیں اور اس دنیا کے لیے وہی شخص عمل کرتا ہے جس میں عقل نہیں۔

36857

(۳۶۸۵۸) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ بْنِ سَعِیدٍ الْجُعْفِیِّ ، قَالَ : قَالَ عِیسَی ابْنُ مَرْیَمَ علیہما السلام : بَیْتِی الْمَسْجِدُ ، وَطِیبِی الْمَائُ ، وَإِدَامِی الْجُوعُ ، وَشِعَارِی الْخَوْفُ ، وَدَابَّتِی رِجْلاَی ، وَمُصْطَلاَیَ فِی الشِّتَائِ مَشَارِقُ الصَّیْفِ ، وَسِرَاجِی بِاللَّیْلِ الْقَمَرُ ، وَجُلَسَائِی الزَّمْنَی وَالْمَسَاکِینُ ، وَأُمْسِی وَلَیْسَ لِی شَیْئٌ ، وَأُصْبِحُ وَلَیْسَ لِی شَیْئٌ ، وَأَنَا بِخَیْرٍ ، فَمَنْ أَغْنَی مِنِّی۔
(٣٦٨٥٨) حضرت عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) کا ارشاد ہے کہ میرا گھر مسجد ہے اور میری خوشبو پانی ہے اور میرا سالن بھوک ہے اور میرا شعار خوفِ خدا ہے اور میری سواری میرے پاؤں ہیں۔ اور گرمیوں میں جس جگہ سورج نکلتا ہے وہی میری سردیوں میں تاپنے کی جگہ ہے۔ اور میرا چراغ چاند ہے اور میرے اہل مجلس کمزور اور مسکین ہیں اور میں شام اس حالت میں کرتا ہوں کہ میرے پاس کوئی چیز نہیں ہوتی اور میں صبح اس حالت میں کرتا ہوں میرے پاس کوئی چیز نہیں ہوتی اور بالکل ٹھیک ہوں تو پھر مجھ سے زیادہ غنی کون ہوسکتا ہے ؟ “

36858

(۳۶۸۵۹) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ ، عَنْ حَبِیبِ بْنِ أَبِی ثَابِتٍ ، أَنَّ نَاسًا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالُوا : یَا رَسُولَ اللہِ ، إنَّا نَعْمَلُ أَعْمَالاً فِی السِّرِّ فَنَسْمَعُ النَّاسَ یَتَحَدَّثُونَ بِہَا فَیُعْجِبُنَا أَنْ نُذْکَرَ بِخَیْرٍ ، فَقَالَ : لَکُمْ أَجْرَانِ : أَجْرُ السِّرِّ وَأَجْرُ الْعَلاَنِیَۃِ۔ (طیالسی ۲۴۳۰۔ ابن حبان ۳۷۵)
(٣٦٨٥٩) حضرت حبیب بن ابی ثابت (رض) فرماتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ کرام نے سوال کیا کہ اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم کوئی کام چھپ کر کرتے ہیں پھر ہم لوگوں کو اس کے بارے میں باتیں کرتے ہوئے سنتے ہیں تو ہم کو ہمارا بھلائی میں ذکر کیا جانا اچھا محسوس ہوتا ہے ؟ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جواب دیا کہ تمہارے لیے دو اجر ہیں ایک پوشیدہ کا اجر اور ایک علانیہ کا اجر۔

36859

(۳۶۸۶۰) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا یُونُسُ بْنُ عُبَیْدٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا الْحَسَنُ ، أَنَّ رَجُلَیْنِ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَاتَ أَحَدُہُمَا قَبْلَ صَاحِبِہِ بِجُمُعَۃٍ فَفَضَّلُوا الَّذِی مَاتَ وَکَانَ فِی أَنْفُسِہِمْ أَفْضَلَ مِنَ الآخَرِ ، فَذُکِرَ ذَلِکَ لِرَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : أَلَیْسَ بَقِیَ الآخَرُ بَعْدَ الأَوَّلِ جُمُعَۃً ، صَلَّی کَذَا وَکَذَا صَلاَۃً ، قَالَ : فَکَأَنَّہُ فَضَّلَ الثانی۔
(٣٦٨٦٠) حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دو صحابیوں میں سے ایک دوسرے سے ایک جمعہ پہلے فوت ہوگیا تو لوگوں نے مرنے والے کو فضیلت دی۔ ان کے ذہنوں میں تھا کہ یہ دوسرے سے بہتر ہے۔ پھر یہ بات رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بیان کی گئی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کہ کیا دوسرا اول سے ایک جمعہ زیادہ نہیں زندہ رہا اور اس نے اتنی اتنی نمازیں زیادہ پڑھیں۔ گویا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دوسرے کو اس اوّل پر ترجیح دے رہے تھے۔

36860

(۳۶۸۶۱) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللہِ بْنِ الزُّبَیْرِ ، قَالَ : حدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خَالِدٍ الضَّبِّیُّ ، عَنْ شَیْخٍ ، عَنْ أَبِی الدَّرْدَائِ ، أَنَّہُ قَالَ : تَعَوَّذُوا بِاللہِ مِنْ خُشُوعِ النِّفَاقِ ، قَالَ : قِیلَ : یَا أَبَا الدَّرْدَائِ ، وَمَا خُشُوعُ النِّفَاقِ ، قَالَ أَنْ تَرَی الْجَسَدَ خَاشِعًا وَالْقَلْبَ لَیْسَ بِخَاشِعٍ۔
(٣٦٨٦١) حضرت ابودرداء (رض) فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ سے منافقت والے خشوع سے پناہ مانگو۔ سوال کیا گیا کہ اے ابودرداء خشوع میں منافقت کیا چیز ہے ؟ تو جواب دیا کہ تو دیکھے کہ جسم میں تو خشوع ہے لیکن دل میں خشوع نہیں ہے۔

36861

(۳۶۸۶۲) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللہِ الأَسَدِیُّ ، قَالَ: حدَّثَنَا حَسَنٌ، عَنْ أَبِیہِ، عَنْ زَیْدٍ الْعَمِّیِّ، قَالَ: لَمَّا قِیلَ لِدَاوُدَ: قَدْ غُفِرَ لَک ، قَالَ : فَکَیْفَ لِی بِالرَّجُلِ ، قَالَ : قِیلَ لَہُ : نَسْتَوْہِبُک مِنْہُ فَیَہَبَک لَنَا ، فَإِنَّہَا لَتُرْجَی فِی الدُّنیا۔
(٣٦٨٦٢) حضرت زید عمی فرماتے ہیں کہ جب حضرت داؤد (علیہ السلام) سے کہا گیا کہ آپ کی مغفرت کردی گئی تو انھوں نے کہا کہ اس آدمی کا کیا ہوگا۔ ان سے کہا گیا کہ ہم نے آپ کو اس سے طلب کیا تو اس نے آپ کو ہمیں دے دیا۔ یہ دنیا میں زیادہ قابل امید ہے۔

36862

(۳۶۸۶۳) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا أَبَانُ بْنُ یَزِیدَ الْعَطَّارُ ، قَالَ : حَدَّثَنَا قَتَادَۃُ : قَالَ حَدَّثَنا أَبُو الْعَالِیَۃِ الرِّیَاحِیُّ ، عَنْ حَدِیثِ سَہْلِ بْنِ حَنْظَلَۃَ الْعَبْشَمِیِّ أَنَّہُ قَالَ : مَا اجْتَمَعَ قَوْمٌ یَذْکُرُونَ اللَّہَ إِلاَّ نَادَی مُنَادٍ مِنَ السَّمَائِ : قُومُوا مَغْفُورًا لَکُمْ ، قَدْ بُدِّلَتْ سَیِّئَاتُکُمْ حَسَنَاتٍ۔
(٣٦٨٦٣) حضرت سہل بن حنظلہ عبسی فرماتے ہیں کہ جب بھی کوئی قوم اللہ کے ذکر کے لیے اکٹھی ہوتی ہے تو آسمان سے ایک منادی آواز دیتا ہے کہ اٹھو تمہاری مغفرت کردی گئی اور تمہاری غلطیوں کو اچھائیوں سے تبدیل کردیا گیا۔

36863

(۳۶۸۶۴) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللہِ بْنِ الزُّبَیْرِ ، قَالَ : حدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِیزِ بْنُ أَبِی رَوَّادٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُبَیْدِ بْنِ عُمَیْرٍ ، قَالَ : کَانَ ، یُقَالَ : الْعِلْمُ ضَالَّۃُ الْمُؤْمِنِ یَغْدُو فِی طَلَبِہِ ، فَإِذَا أَصَابَ مِنْہُ شَیْئًا حَوَاہُ۔
(٣٦٨٦٤) حضرت عبداللہ بن عبید بن عمیر کا ارشاد ہے کہ کہا جاتا تھا کہ علم مومن کا گمشدہ سامان ہے۔ یہ اس کی طلب میں صبح نکلتا ہے اور جب کچھ نہ کچھ مل جاتا ہے تو جمع کرلیتا ہے۔

36864

(۳۶۸۶۵) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللہِ الأَسَدِیُّ ، قَالَ : حدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِیزِ بْنُ أَبِی رَوَّادٍ ، أَنَّ أَصْحَابَ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ظَہَرَ فِیہِمَ الْمِزَاحُ وَالضَّحِکَ ، فَأَنْزَلَ اللَّہُ تَعَالَی : {أَلَمْ یَأْنِ لِلَّذِینَ آمَنُوا أَنْ تَخْشَعَ قُلُوبُہُمْ لِذِکْرِ اللہِ} إِلَی آخِرِ الآیَۃِ۔
(٣٦٨٦٥) حضرت عبدالعزیز ابی رواد (رض) فرماتے ہیں کہ اصحابِ پیغمبر (رض) کی عادات میں کچھ مزاح اور ہنسی ظاہر ہونے لگی تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : { أَلَمْ یَأْنِ لِلَّذِینَ آمَنُوا أَنْ تَخْشَعَ قُلُوبُہُمْ لِذِکْرِ اللہِ } آخر آیت تک۔ ” کیا ایمان والوں کے لیے وہ وقت نہیں آگیا کہ ان کے دل اللہ کے ذکر سے ڈر جائیں۔

36865

(۳۶۸۶۶) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : حدَّثَنَا ابْنُ أَبِی رَوَّادٍ ، أَنَّ قَوْمًا صَحِبُوا عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِیزِ ، فَقَالَ : عَلَیْکُمْ بِتَقْوَی اللہِ وَحْدَہُ لاَ شَرِیکَ لَہُ ، وَإِیَّایَ وَالْمِزَاحَ ، فَإِنَّہُ یَجُرُّ الْقَبِیحَ وَیُورِثُ الضَّغِینَۃَ ، وَتَجَالَسُوا بِالْقُرْآنِ وَتَحَدَّثُوا بِہِِِِ ، فَإِنْ ثَقُلَ عَلَیْکُمْ فَحَدِیثٌ مِنْ حَدِیثِ الرِّجَالِ ، سِیرُوا بِاسْمِ اللہِ۔
(٣٦٨٦٦) حضرت ابن ابی رواد فرماتے ہیں کہ ایک قوم عمر بن عبدالعزیز (رض) کی مصاحب ہوئی تو انھوں نے فرمایا کہ صرف ایک اللہ سے ڈرو جس کا کوئی شریک نہیں ہے اور اپنے کو مزاح سے بچاؤ، اس لیے کہ یہ مزاح قبیح باتیں پیدا کرتا ہے اور کینہ پیدا کرتا ہے۔ اور قرآن کی مجالس لگایا کرو اور اس ہی سے متعلقہ باتیں کیا کرو۔ پھر اگر تم کو بوجھل محسوس ہو تو لوگوں کی باتوں میں کوئی بات کرلیا کرو۔ اللہ کے نام کے ساتھ زمین پر چلو۔

36866

(۳۶۸۶۷) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللہِ الأَسَدِیُّ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ عَائِشَۃَ ، أَنَّہَا کَتَبَتْ إِلَی مُعَاوِیَۃَ : أُوصِیک بِتَقْوَی اللہِ فَإِنَّک إنِ اتَّقَیْت اللَّہَ کَفَاک النَّاسَ فَإِنَ اتَّقَیْت النَّاسَ لَمْ یُغْنُوا ، عَنْک مِنَ اللہِ شَیْئًا ، فَعَلَیْک بِتَقْوَی اللہِ أَمَّا بَعْدُ۔
(٣٦٨٦٧) حضرت عائشہ (رض) نے معاویہ کی طرف خط بھیجا کہ میں تم کو اللہ سے ڈرنے کی وصیت کرتی ہوں۔ اس لیے اگر تو اللہ سے ڈرے گا تو وہ لوگوں سے تیری کفایت کرے گا اور اگر تو لوگوں سے ڈرے گا تو وہ تیری اللہ سے کفایت نہیں کرسکیں گے۔ پس تیرے اوپر اللہ کا ڈر لازم ہے۔ ” اما بعد “

36867

(۳۶۸۶۸) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ ، قَالَ : مَا تَجَرَّعَ عَبْدٌ جَرْعَۃً أَفْضَلَ عِنْدَ اللہِ أَجْرًا مِنْ جَرْعَۃٍ کَظَمَہَا لِلَّہِ ابْتِغَائَ وَجْہِ اللہِ۔ (بخاری ۱۳۱۸)
(٣٦٨٦٨) حضرت عبداللہ بن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ کسی آدمی نے بھی اجر کے اعتبار سے اللہ کے ہاں اس شخص سے زیادہ بہتر گھونٹ نہیں پیا کہ جس نے صرف اللہ کی رضا کے لیے اور اس کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے غصہ پی لیا ہو۔

36868

(۳۶۸۶۹) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ بُرْدٍ ، عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ مُوسَی ، قَالَ : لاَ تُعَلَّمُ للدنیا ، وَلاَ تَفْقَہُ لِلرِّیَائِ ، وَلاَ تَکُونَنَّ ضَحَّاکًا مِنْ غَیْرِ عَجَبٍ ، وَلاَ مَشَّائً فِی غَیْرِ أَرَبٍ۔
(٣٦٨٦٩) حضرت سلیمان بن موسیٰ (رض) فرماتے ہیں کہ دنیا کے لیے تعلیم مت سیکھ اور ریا کاری کے لیے فقہ مت حاصل کر۔ اور ہرگز بغیر کسی تعجب کے مت ہنس اور نہ ہی بغیر کسی ضرورت کے سفر کر۔

36869

(۳۶۸۷۰) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ، عَنْ صَالِحِ بْنِ رُسْتُمَ، عَنِ ابْنِ أَبِی مُلَیْکَۃَ، قَالَ: صَحِبْت ابْنَ عَبَّاسٍ مِنْ مَکَّۃَ إِلَی الْمَدِینَۃِ وَمِنَ الْمَدِینَۃِ إِلَی مَکَّۃَ ، فَکَانَ إذَا نَزَلَ مَنْزِلاً قَامَ شَطْرَ اللَّیْلِ فَأَکْثَرَ فِی ذَلِکَ النَّشِیجَ ، قُلْتُ: وَمَا النَّشِیجُ ، قَالَ : النَّحِیبُ وَالْبُکَائُ ، وَیَقْرَأُ : {وَجَائَتْ سَکْرَۃُ الْمَوْتِ بِالْحَقِّ ذَلِکَ مَا کُنْت مِنْہُ تَحِیدُ}۔
(٣٦٨٧٠) حضرت ابن ابی ملیکہ (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے ابن عباس کے ساتھ مکہ سے مدینہ اور مدینہ سے مکہ کا سفر کیا ہے۔ ابن عباس جب بھی کسی جگہ پڑاؤ کرتے تو رات کو قیام فرماتے اور اس میں بہت روتے۔ میں نے سوال کیا کہ یہ آواز کیسی ہوتی تھی ؟ جواب دیا کہ رونے، دھونے کی آواز ہوتی تھی اور قرآن پاک کی آیت { وَجَائَتْ سَکْرَۃُ الْمَوْتِ بِالْحَقِّ ذَلِکَ مَا کُنْت مِنْہُ تَحِیدُ } تلاوت فرمایا کرتے تھے۔

36870

(۳۶۸۷۱) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللہِ الأَسَدِیُّ ، قَالَ : حدَّثَنَا إسْرَائِیلُ ، عَنْ أَبِی حَصِینٍ ، عَنْ خَیْثَمَۃ ، قَالَ : کَانَ عِیسَی ابْنُ مَرْیَمَ علیہما السلام ، وَیَحْیَی ابْنَیْ خَالَۃٍ ، وَکَانَ عِیسَی یَلْبَسُ الصُّوفَ ، وَکَانَ یَحْیَی یَلْبَسُ الْوَبَرَ ، وَلَمْ یَکُنْ لِوَاحِدٍ مِنْہُمَا دِینَارٌ ، وَلاَ دِرْہَمٌ ، وَلاَ عَبْدٌ ، وَلاَ أَمَۃٌ ، وَلاَ مَأْوًی یَأْوِیَانِ إلَیْہِ ، أَیْنَمَا جَنَّہُمَا اللَّیْلُ أَوَیَا، فَلَمَّا أَرَادَا أَنْ یَفْتَرِقَا، قَالَ لَہُ یَحْیَی: أَوْصِنِی، قَالَ: لاَ تَغْضَبْ، قَالَ: لاَ أَسْتَطِیعُ إِلاَّ أَنْ أَغْضَبَ، قَالَ : لاَ تَقْتَنِ مَالاً ، قَالَ : أَمَّا ہَذَا فَعَسَی۔
(٣٦٨٧١) حضرت خثیمہ (رض) فرماتے ہیں کہ عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) اور یحییٰ (علیہ السلام) دونوں خالہ زاد تھے اور عیسیٰ (علیہ السلام) اون کا کپڑا پہنتے تھے اور یحییٰ (علیہ السلام) اونٹ کی کھال کا کپڑا پہنتے تھے اور ان میں سے کسی کے پاس بھی نہ کوئی درہم ہوتا تھا اور نہ ہی دینار ہوتا تھا اور نہ ہی کوئی غلام ہوتا تھا اور نہ ہی کوئی باندی ہوتی تھی اور نہ ہی کوئی ایسا ٹھکانا ہوتا تھا کہ جہاں وہ پناہ گزین ہوسکیں۔ جس جگہ بھی رات ہوجاتی وہیں ٹھہر جاتے۔ پھر جب جدا ہونے کا ارادہ کرتے تو عیسیٰ (علیہ السلام) کو یحییٰ عرض کرتے کہ مجھے کوئی وصیت کردیں تو وہ کہتے کہ غصہ مت کرنا تو یحییٰ (علیہ السلام) کہتے کہ میں غصہ کرنے پر قابو نہیں کرسکتا تو عیسیٰ (علیہ السلام) کہتے کہ مال کو جمع مت کرنا تو یحییٰ (علیہ السلام) جواب دیتے کہ البتہ یہ کام آسان ہے۔

36871

(۳۶۸۷۲) حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُوسَی، قَالَ: حدَّثَنَا أَبُو ہِلاَلٍ، عَنْ قَتَادَۃَ فِی قَوْلِ اللہِ تَعَالَی: {وَکَأْسٍ مِنْ مَعِینٍ} قَالَ : کَأْسٌ مِنْ خَمْرٍ جَارِیَۃٍ۔
(٣٦٨٧٢) حضرت قتادہ (رض) سے قرآن پاک کی آیت { وَکَأْسٍ مِنْ مَعِینٍ } کی تفسیر میں منقول ہے کہ یہ گلاس بہتی ہوئی شراب سے پر ہوں گے۔

36872

(۳۶۸۷۳) حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُوسَی ، قَالَ : حدَّثَنَا سَعِیدُ بْنُ زَیْدٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا سَعِیدُ بْنُ إیَاسٍ الْجُرَیْرِیُّ ، قَالَ : حَدَّثَنَا أَبُو الْعَلاَئِ ، أَنَّ رَجُلاً مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَدْرَکَتْہُ الْوَفَاۃُ فَجَعَلَ یَقُولُ : وَا لَہْفَاہُ وَا لَہْفَاہُ ، فَقِیلَ لَہُ : لم تَلَہَّفُ ؟ فَقَالَ : إنِّی سَأَلْت رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قُلْتُ : مَا یَکْفِینِی مِنَ الدُّنْیَا ، قَالَ : خَادِمٌ وَمَرْکَبٌ ، فَلاَ أَنَا سَکَتُّ فَلَمْ أَسْأَلْہُوَلاَ أَنَا حِینَ سَأَلْتُہُ انْتَہَیْت إِلَی قَوْلِہِ ، وَأَصَبْت مِنَ الدُّنْیَا وَفِی یَدِی مَا فِی یَدِی وَجَائَنِی الْمَوْتُ۔
(٣٦٨٧٣) حضرت ابوالعلاء (رض) فرماتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ میں سے کسی کی وفات کا وقت قریب آیا تو کہنے لگا کہ ہائے افسوس، ہائے افسوس۔ ان سے پوچھا گیا آپ کس بات پر افسوس کررہے ہیں تو اس نے جواب دیا کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا کہ مجھ کو دنیا میں کیا چیز کافی ہوگی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جواب دیا کہ ایک غلام اور ایک سواری۔ پس نہ تو میں خاموش ہی رہا کہ سوال نہ کرتا اور نہ جس وقت میں نے سوال کیا اس پر عمل کیا اور میں نے دنیا حاصل کی اور میری ملک میں اتنا اتنا مال ہے اور مجھ کو موت نے آن گھیرا ہے۔

36873

(۳۶۸۷۴) حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُوسَی ، قَالَ : حدَّثَنَا شَیْبَانُ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، قَالَ : آیَۃٌ أُنْزِلَتْ فِی ہَذِہِ الأمۃ : {قل أَؤُنَبِّئُکُمْ بِخَیْرٍ مِنْ ذَلِکُمْ} قَالَ عُمَرُ : الآنَ یَا رَبُّ۔
(٣٦٨٧٤) حضرت مجاہد (رض) فرماتے ہیں کہ اس امت کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی { قل أَؤُنَبِّئُکُمْ بِخَیْرٍ مِنْ ذَلِکُمْ } تو عمر (رض) نے فرمایا کہ اے اللہ اس وقت۔

36874

(۳۶۸۷۵) حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُوسَی ، قَالَ : حدَّثَنَا سَعِیدُ بْنُ زَیْدٍ أَخُو حَمَّادِ بْنِ زَیْدٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا عُثْمَان الشَّحَّامُ، قَالَ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ وَاسِعٍ ، قَالَ : قَدِمْت مِنْ مَکَّۃَ فَإِذَا عَلَی الْخَنْدَقِ قَنْطَرَۃٌ ، فَأَخَذْت فَانْطُلِقَ بِی إِلَی مَرْوَانَ بْنِ الْمُہَلَّبِ ، وَہُوَ أَمِیرٌ عَلَی الْبَصْرَۃِ ، فَرَحَّبَ بِی ، وَقَالَ : حَاجَتُک یَا أَبَا عبْدِ اللہِ ، قُلْتُ : حَاجَتِی إنِ اسْتَطَعْت أَنْ أَکُونَ کَمَا قَالَ أَخُو بَنِی عَدِیٍّ ، قَالَ : وَمَنْ أَخُو بَنِی عَدِیٍّ ؟ قَالَ : الْعَلاَئُ بْنُ زِیَادٍ ، قَالَ : اسْتَعْمَلَ صَدِیقٌ لَہُ مَرَّۃً عَلَی عَمَلٍ فَکَتَبَ إلَیْہِ : أَمَّا بَعْدُ ، فَإِنَ اسْتَطَعْت أَنْ لاَ تَبِیتَ إِلاَّ وَظَہْرُک خَفِیفٌ، وَبَطْنُک خَمِیصٌ ، وَکَفُّک نَقِیَّۃٌ مِنْ دِمَائِ الْمُسْلِمِینَ وَأَمْوَالِہِمْ ، فَإِنَّک إنْ فَعَلَتْ ذَلِکَ لَمْ یَکُنْ عَلَیْک سَبِیلٌ {إنَّمَا السَّبِیلُ عَلَی الَّذِینَ یَظْلِمُونَ النَّاسَ وَیَبْغُونَ فِی الأَرْضِ} الآیَۃُ ، قَالَ مَرْوَانُ : صَدَقَ وَاللہِ وَنَصَحَ ، ثُمَّ قَالَ : حَاجَتُک یَا أَبَا عَبْدِ اللہِ ، قُلْتُ : حَاجَتِی أَنْ تُلْحِقَنِی بِأَہْلِی ، قَالَ : فَقَالَ : نَعَمْ۔
(٣٦٨٧٥) حضرت محمد بن واسع فرماتے ہیں کہ میں مکہ سے آیا تو راستہ میں خندق پر ایک پل تھا میں اس پل پر چل پڑا۔ وہ پل مجھے مروان بن مہلب کے پاس لے گیا جو بصرہ کے امیر تھے۔ انھوں نے مجھے مرحبا کہا اور فرمایا اے عبداللہ آپ کی کوئی حاجت ہو ؟ میں نے کہا کہ میری حاجت یہ ہے کہ اسی طرح ہوجاؤں کہ جس طرح بنی عدی کے بھائی نے کہا تھا۔ انھوں نے سوال کیا کہ بنی عدی کے بھائی کون ہیں ؟ تو میں نے جواب دیا کہ ” علاء بن یزید “ ہیں۔ علاء بن یزید نے کہا ہے کہ ان کے کسی دوست کو کسی کام پر عامل مقرر کرنے کو کہا گیا تو انھوں نے جواب دیا کہ ” اما بعد “ اگر تو طاقت رکھے کہ تو رات اس حالت میں گزارے کہ تیری کمر ہلکی ہو اور تیرا پیٹ خالی ہو اور تیری ہتھیلیاں مسلمانوں کے خون اور اموال سے پاک ہوں تو اگر تو نے یہ کام کرلیا تو تجھ پر کوئی راستہ نہیں۔ راستہ تو ان لوگوں پر ہے کہ جو لوگوں پر ظلم کرتے ہیں اور زمین میں زیادتی کرتے ہیں۔ مروان نے کہا کہ بالکل سچ فرمایا اور نصیحت کی۔ پھر مروان نے پوچھا کہ آپ کی کوئی ضرورت ہے ابوعبداللہ ؟ تو میں نے کہا کہ میری ضرورت یہ ہے کہ تو مجھے میرے گھر والوں سے ملا دے۔ تو اس نے جواب دیا کہ کیوں نہیں۔

36875

(۳۶۸۷۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ أَبِی الْیَسَعِ ، عَنْ عَلْقَمَۃَ بْنِ مَرْثَدٍ ، عَنِ ابْنِ سَابِطٍ ، قَالَ : إنَّ فِی الْجَنَّۃِ لَشَجَرَۃً لَمْ یَخْلُقَ اللَّہُ مِنْ صَوْتٍ حَسَنٍ إِلاَّ وَہُوَ فِی جِذْمِہَا تَلَذُّذُہُمْ وَتَنَعُّمُہُمْ۔
(٣٦٨٧٦) حضرت ابن سابط (رض) فرماتے ہیں کہ جنت میں ایک ایسا درخت ہے کہ اللہ نے تمام اچھی آوازیں اس ہی کی جڑ سے پیدا کی ہیں جو جنتیوں کو محظوظ کرے گا اور آسودہ کرے گا۔

36876

(۳۶۸۷۷) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ زَیْدٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : إِنَّ ثَلاَثَۃَ عُلَمَائَ اجْتَمَعُوا فَقَالُوا لأَحَدِہِمْ : مَا أَمَلُکَ ؟ قَالَ : مَّا یَأْتِی عَلَیَّ شَہْرٌ إِلاَّ ظَنَنْت أَنِّی أَمُوتُ فِیہِ ، قَالُوا : إنَّ ہَذَا الأَمَلَ ، فَقَالُوا لِلآخَرِ : مَا أَمَلُک ، قَالَ : مَا تَأْتِی عَلَیَّ جُمُعَۃٌ إِلاَّ ظَنَنْت أَنِّی أَمُوتُ فِیہَا ، قَالُوا لِلثَّالِثِ : وَمَا أَمَلُک ؟ قَالَ : وَمَا أَمَلُ مَنْ نَفْسُہُ بِیَدِ غَیْرِہِ۔
(٣٦٨٧٧) حضرت حسن (رض) کا ارشاد ہے کہ تین علماء اکٹھے ہوئے تو انھوں نے ایک دوسرے سے کہا کہ تیری امید کتنی ہے ؟ تو ایک نے جواب دیا کہ میرا خیال ہے کہ میں ایک مہینہ زندہ رہ سکوں پھر مر جاؤں گا۔ تو انھوں نے کہا کہ یہ تو بڑی امید ہے۔ پھر دوسرے سے پوچھا کہ تجھے کتنی امید ہے ؟ اس نے جواب دیا کہ میرا خیال ہے کہ میں ایک جمعہ تک رہ سکوں گا پھر مر جاؤں گا۔ انھوں نے تیسرے سے سوال کیا کہ تیری کیا امید ہے ؟ تو اس نے جواب دیا کہ اس شخص کو کیا امید ہوسکتی ہے کہ جس کی جان ہی کسی دوسرے کے پاس ہو ؟ “

36877

(۳۶۸۷۸) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ مُفَضَّلٍ ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : کَانَ یَضْرِبُ مَثَلَ ابْنِ آدَمَ مَثَلُ رَجُلٍ حَضَرَتْہُ الْوَفَاۃُ ، فَحَضَرَہ أَہْلُہُ وَعَمَلُہُ ، فَقَالَ لأَہْلِہِ : امْنَعُونِی ، قَالُوا : إنَّمَا کُنَّا نَمْنَعُک مِنْ أَمْرِ الدُّنْیَا ، فَأَمَّا ہَذَا فَلاَ نَسْتَطِیعُ أَنْ نَمْنَعَک مِنْہُ ، فَقَالَ لِمَالِہِ : أَنْتَ تَمْنَعُنِی ؟ قَالَ : إنِّی کُنْت زَیْنتک زَیَّنْت فِی الدُّنْیَا ، أَمَّا ہَذَا فَلاَ أَسْتَطِیعُ أَنْ أَمْنَعَک مِنْہُ ، قَالَ : فَوَثَبَ عَمَلُہُ ، فَقَالَ : أَنَا صَاحِبُک الَّذِی أَدْخُلُ مَعَک قَبْرَک وَأَزُولُ مَعَک حَیْثُمَا زُلْت ، قَالَ : أَمَا وَاللہِ لَوْ شَعَرْت لَکُنْت آثَرَ الثَّلاَثَۃِ عِنْدِی ، قَالَ : قَالَ الْحَسَنُ : فَالآنَ فَآثِرُوہُ عَلَی مَا سِوَاہُ۔
(٣٦٨٧٨) حضرت حسن (رض) کا ارشاد ہے کہ ابن آدم کی مثال اس شخص کی سی ہے کہ جس کی موت کا وقت قریب آگیا تو اس کے اہل و عیال اور اس کا مال اور عمل اس کے پاس آئے تو اس نے اپنے اہل و عیال سے کہا کہ اس موت کو مجھ سے دور کرو تو انھوں نے جواب دیا کہ ہم تو دنیا کے امور میں سے منع کرسکتے ہیں لیکن اس موت کو نہیں روک سکتے۔ پھر اس نے اپنے مال سے کہا کہ مجھ سے اس کو دور کرو تو اس نے جواب دیا کہ میں تو تیری صرف دنیا ہی کی زینت تھا لیکن اس امر کو میں تجھ سے دور نہیں کرسکتا۔ پھر اس کے عمل نے اس کو بھروسہ دلایا کہ میں ہی تیرا وہ ساتھی ہوں کہ تیرے ساتھ قبر میں داخل ہوجاؤں گا اور جس جگہ بھی تو جائے گا میں تیرے ساتھ ہوں گا تو اس آدمی نے کہا کہ کاش میں پہلے یہ بات مان لیتا کہ تو میرے نزدیک ان سب سے زیادہ مؤثر ہے۔ راوی فرماتے ہیں کہ حسن (رض) نے فرمایا کہ ابھی ہی سے اس کو دوسروں پر ترجیح دو ۔

36878

(۳۶۸۷۹) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنْ کُرْدُوسٍ الثَّعْلَبِیِّ ، قَالَ : مَکْتُوبٌ فِی التَّوْرَاۃِ : اتَّقِ تُوقَہُ ، إنَّمَا التَّوَقِّی بِالتَّقْوَی ، ارْحَمُوا تُرْحَمُوا ، تُوبُوا یُتَب عَلَیْکُمْ۔
(٣٦٨٧٩) حضرت کردوس ثعلبی (رض) فرماتے ہیں کہ توراۃ میں یہ بات لکھی ہے کہ اللہ سے ڈرو بچ جاؤ گے۔ کیونکہ بچاؤ صرف تقویٰ میں ہی ہے۔ رحم کرو تم پر بھی رحم کیا جائے گا۔ توبہ کرو تمہاری توبہ قبول کی جائے گی۔

36879

(۳۶۸۸۰) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا الْجُرَیْرِیُّ ، عَنْ أَبِی نَضْرَۃَ ، أَنَّ رَجُلاً دَخَلَ الْجَنَّۃَ فَرَأَی مَمْلُوکَہُ فَوْقَہُ مِثْلَ الْکَوْکَبِ ، فَقَالَ : وَاللہِ یَا رَبِّ إنَّ ہَذَا مَمْلُوکِی فِی الدُّنْیَا ، فَمَا أَنْزَلَہُ ہَذِہِ الْمَنْزِلَۃَ ، قَالَ : کَانَ ہَذَا أَحْسَنَ عَمَلاً مِنْک۔
(٣٦٨٨٠) حضرت ابی نضرہ (رض) سے مروی ہے کہ ایک آدمی پر میں داخل ہوا تو اس نے اپنے غلام کو اپنے سے اوپر ستارے کی طرح دیکھا تو اس نے سوال کیا کہ اے اللہ یہ تو میرا دنیا میں غلام تھا اس کو اس مرتبہ پر کس نے پہنچا دیا تو اللہ نے جواب دیا کہ اس کے عمل تجھ سے اچھے تھے۔

36880

(۳۶۸۸۱) حَدَّثَنَا سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ مَالِکِ بْنِ مِغْوَلٍ ، عَنْ أَبِی حَصِینٍ ، قَالَ : لَوْ رَأَیْت الَّذِی رَأَیْت لاَحْتَرَقَتْ کَبِدُک عَلَیْہِمْ ، وَقَالَ إبْرَاہِیمُ : إنْ کَانَ اللَّیْلُ لَیَطُولُ عَلَیَّ حَتَّی أُصْبِحَ فَأَرَاہُ۔
(٣٦٨٨١) حضرت ابو حصین (رض) فرماتے ہیں کہ اگر تم وہ دیکھو جو میں نے دیکھا ہے تو تمہارا جگر جل کر راکھ ہوجائے۔ حضرت ابراہیم (رض) نے فرمایا : اگر رات مجھ پر طویل ہوجائے حتیٰ کہ میں صبح کرلوں تو میں اس چیز کو دیکھوں گا۔

36881

(۳۶۸۸۲) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا أَبُو مُوسَی التَّمِیمِیُّ، قَالَ: تُوُفِّیَتِ النَّوَارُ امْرَأَۃُ الْفَرَزْدَقِ، فَخَرَجَ فِی جِنَازَتِہَا وُجُوہُ أَہْلِ الْبَصْرَۃِ ، وَخَرَجَ فِیہَا الْحَسَنُ ، فَقَالَ الْحَسَنُ لِلْفَرَزْدَقِ : مَا أَعْدَدْت لِہَذَا الْیَوْمِ یَاأَبَا فِرَاسٍ ، قَالَ : شَہَادَۃَ أَنْ لاَ إلَہَ إِلاَّ اللَّہُ مُنْذُ ، ثَمَانِینَ سَنَۃً ، قَالَ : فَلَمَّا دُفِنَتْ قَامَ عَلَی قَبْرِہَا ، فَقَالَ : أَخَافُ وَرَائَ الْقَبْرِ إنْ لَمْ یُعَافِنِی إذَا جَائَنِی یَوْمَ الْقِیَامَۃِ قَائِدٌ لَقَدْ خَابَ مِنْ أَوْلاَدِ دارم مَنْ مَشَی أَشَدُّ مِنَ الْقَبْرِ الْتِہَابًا وَأَضْیَقَا عَنِیفٌ وَسَوَّاقٌ یَسُوقُ الْفَرَزْدَقَا إِلَی النَّارِ مَغْلُولَ الْقِلاَدَۃِ أَزْرَقَا
(٣٦٨٨٢) حضرت ابوموسیٰ تیمی (رض) فرماتے ہیں کہ ” نوار “ فرزدق کی بیوی کا انتقال ہوگیا تو اس کے جنازہ میں بصرہ کے بہت سے لوگ چلے۔ اور ان میں حسن (رض) بھی تھے۔ حسن (رض) نے فرزدق سے پوچھا کہ اے ابو فراس تو نے اس دن کے لیے کیا تیار کر رکھا ہے ؟ اس نے جواب دیا کہ اسی ” ٨٠“ سال سے اس بات کی گواہی کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے۔ راوی فرماتے ہیں کہ جب اس کی بیوی کو قبر میں دفن کردیا گیا تو فرزدق اس کی قبر پر کھڑا ہوگیا اور یہ شعر پڑھے :
١۔ اگر مجھ سے عافیت والا معاملہ نہ ہوا تو قبر کے بعد قبر سے بھی زیادہ آگ اور تنگی سے میں ڈرتا ہوں۔
٢۔ کہ جب بروز قیامت ایک سخت ہانکنے والا اور ایک قائد فرزدق کو ہانک رہے ہوں گے۔
٣۔ اولادِ دارم میں سے وہ شخص برباد ہوگیا کہ جس کو اندھا کرکے، طوق پہنا کر جہنم کی طرف لے جایا گیا۔

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔