hadith book logo

HADITH.One

HADITH.One

Urdu

Support

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Ibn Abi Shaybah

21. ادب کا بیان

ابن أبي شيبة

25811

حَدَّثنا أَبو بَکْر عَبْد اللہ بنُ مُحَمَّد بن أبی شَیْبۃ قَالَ : (۲۵۸۱۲) حدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، وَوَکِیعٌ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ تَمِیمِ بْنِ سَلَمَۃَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ ہِلاَلٍ ، عَنْ جَرِیرٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَنْ یُحْرَمُ الرِّفْقَ یُحْرَمُ الْخَیْرَ۔ (مسلم ۲۰۰۳۔ ابوداؤد ۴۷۷۶)
(٢٥٨١٢) حضرت جریر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جو شخص نرمی سے محروم ہے وہ ساری کی ساری بھلائی سے محروم ہے۔

25812

(۲۵۸۱۳) حَدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنِ الْمِقْدَامِ بْنِ شُرَیْحٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : سَأَلْتُ عَائِشَۃَ رضی اللہ عنہا عَنِ الْبَِدَاوَۃِ فَقَالَتْ : کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَبْدُو إِلَی ہَذِہِ التِّلاَعِ ، وَإِنَّہُ أَرَادَ الْبَدَاوَۃَ مَرَّۃً ، فَأَرْسَلَ إلَیَّ نَاقَۃً مُحَرَّمَۃً مِنْ إبِلِ الصَّدَقَۃِ ، فَقَالَ لِی : یَا عَائِشَۃُ ، ارْفُقِی فَإِنَّ الرِّفْقَ لَمْ یَکُنْ فِی شَیْئٍ إلاَّ زَانَہُ ، وَلاَ نُزِعَ مِنْ شَیْئٍ قَطُّ إلاَّ شَانَہُ۔ (ابوداؤد ۲۴۷۰۔ احمد ۶/۵۸)
(٢٥٨١٣) حضرت شریح فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ سے صحرا میں مقام ہونے سے متعلق سوال کیا ؟ آپ نے فرمایا : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان ٹیلوں کی طرف جاتے تھے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک مرتبہ صحرا میں جانے کا ارادہ کیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صدقہ کی اونٹنیوں میں سے ایک سرکش اونٹنی میری طرف بھیجی اور مجھ سے فرمایا : اے عائشہ ! نرمی اختیار کرو ، اس لیے کہ نرمی جس چیز میں بھی ہوتی ہے اسے خوبصورت بنا دیتی ہے اور کسی چیز سے نرمی نہیں کھینچی جاتی مگر وہ بدصورت ہوجاتی ہے۔

25813

(۲۵۸۱۴) حَدَّثَنَا سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنِ ابْنِ أَبِی مُلَیْکَۃَ ، عَنْ یَعْلَی بْنِ مَمْلَکٍ ، عَنْ أُمِّ الدَّرْدَائِ ، عَنْ أَبِی الدَّرْدَائِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَنْ أُعْطِیَ حَظَّہُ مِنَ الرِّفْقِ ، أُعْطِیَ حَظَّہُ مِنَ الْخَیْرِ ، وَمَنْ مُنِعَ حَظَّہُ مِنَ الرِّفْقِ ، مُنِعَ حَظَّہُ مِنَ الْخَیْرِ۔ (بخاری ۴۶۴۔ ترمذی ۲۰۰۲)
(٢٥٨١٤) حضرت ابو الدرداء فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جس شخص کو نرمی میں سے حصہ دیا گیا تو اس کو بھلائی میں سے حصہ دیا گیا۔ اور جس شخص کو نرمی سے محروم رکھا گیا اس کو بھلائی سے محروم رکھا گیا۔

25814

(۲۵۸۱۵) حَدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِی إسْمَاعِیلَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ ہِلاَلٍ ، عَنْ جَرِیرٍ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : مَنْ یُحْرَمُ الرِّفْقَ یُحْرَمُ الْخَیْرَ۔
(٢٥٨١٥) حضرت جریر فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جو شخص بھلائی سے محروم رکھا گیا وہ بھلائی سے محروم رکھا گیا۔

25815

(۲۵۸۱۶) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِی إسْمَاعِیلَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ ہِلاَلٍ ، عَنْ جَرِیرٍ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِنَحْوِہِ۔
(٢٥٨١٦) حضرت جریر سے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مذکورہ ارشاد اس سند سے بھی منقول ہے۔

25816

(۲۵۸۱۷) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : بَلَغَنِی أَنَّہُ مَکْتُوبٌ فِی التَّوْرَاۃِ ، الرِّفْقُ رَأْسُ الْحِکْمَۃِ۔
(٢٥٨١٧) حضرت ہشام فرماتے ہیں کہ ان کے والد حضرت عروہ نے ارشاد فرمایا : مجھے یہ خبر پہنچی ہے کہ توراۃ میں یوں لکھا ہوا تھا : نرمی حکمت کی بنیاد ہے۔

25817

(۲۵۸۱۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، حدثنا ابن أبی خالد، عَنْ قَیْسٍ، قَالَ: کَانَ یُقَالُ: مَنْ یُؤْتَی الرِّفْقَ فِی الدُّنْیَا یَنْفَعْہُ فِی الآخِرَۃِ۔
(٢٥٨١٨) حضرت ابن ابی خالد فرماتے ہیں کہ حضرت قیس نے ارشاد فرمایا : یوں بیان کیا جاتا تھا۔ جس شخص کو دنیا میں نرم برتاؤ دیا گیا تو یہ آخرت میں اس کو نفع پہنچائے گا۔

25818

(۲۵۸۱۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ ثَوْرٍ ، عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إنَّ اللَّہَ رَفِیقٌ یُحِبُّ الرِّفْقَ ، وَیُعْطِی عَلَیْہِ ، وَیُعِینُ عَلَیْہِ مَا لاَ یُعِینُ عَلَی الْعَنْفِ۔
(٢٥٨١٩) حضرت خالد بن معدان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : بیشک اللہ نرم برتاؤ والے ہیں، نرمی کو پسند فرماتے ہیں۔ اور اس پر اپنی عطاء سے نوازتے ہیں اور نرمی کی صورت میں مدد فرماتے ہیں جو کہ سختی کی صورت میں نہیں فرماتے ۔

25819

(۲۵۸۲۰) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَنْ یُونُسَ وَحُمَیْدٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مُغَفَّلٍ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إنَّ اللَّہَ رَفِیقٌ یُحِبُّ الرِّفْقَ وَیَرْضَاہُ ، وَیُعْطِی عَلَیْہِ مَا لاَ یُعْطِی عَلَی الْعَنْفِ۔ (بخاری ۶۷۲۔ ابوداؤد ۴۷۷۴)
(٢٥٨٢٠) حضرت عبداللہ بن مغفل فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : بیشک اللہ نرم برتاؤ والے ہیں اور نرمی کو پسند فرماتے ہیں اور اس سے راضی ہوتے ہیں اور نرمی کی صورت میں جو انعام دیتے ہیں وہ سختی کی صورت میں نہیں عطاء فرماتے۔

25820

(۲۵۸۲۱) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ سَعِیدٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ رَجُلٌ مِنْ بَلیّ ، قَالَ : دَخَلْت مَعَ أَبِی عَلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَانْتَجَاہُ دُونِی ، فَقُلْت لَہُ : یَا أَبَتِ ، أَیُّ شَیْئٍ قَالَ لَکَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ؟ فَقَالَ : قَالَ لِی : إذَا ہَمَمْت بِالأَمْرِ فَعَلَیْک بِالتُّؤَدَۃِ ، حَتَّی یَأْتِیَک اللَّہُ بِالْمَخْرَجِ مِنْ أَمْرِک۔ (بخاری ۸۸۸)
(٢٥٨٢١) امام زہری فرماتے ہیں کہ ایک بلوی آدمی فرماتے ہیں کہ میں اپنے والد کے ساتھ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا۔ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے سرگوشی فرمائی۔ تو میں نے اپنے والد سے پوچھا : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کیا بات کہی ؟ تو انھوں نے فرمایا : جب تم کسی کام کا ارادہ کرو تو محبت کرنے کو لازم پکڑ لو یہاں تک کہ اللہ تمہارے معاملہ کا کوئی نہ کوئی حل نکال دے گا۔

25821

(۲۵۸۲۲) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَص ، عَنْ سِمَاکٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إنَّ اللَّہَ تَعَالَی رَفِیقٌ یُحِبُّ الرِّفْقَ ، وَیُعْطِی عَلَیْہِ مَا لاَ یُعْطِی عَلَی الْعَنْفِ۔
(٢٥٨٢٢) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : بیشک اللہ تعالیٰ نرم برتاؤ کرنے والے ہیں اور نرمی کو پسند فرماتے ہیں اور نرمی کی صورت میں وہ کچھ دیتے ہیں جو سختی کی صورت میں عطا نہیں فرماتے ۔

25822

(۲۵۸۲۳) حَدَّثَنَا سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ زِیَادِ بْنِ عِلاَقَۃَ سَمِعَہُ مِنْ أُسَامَۃَ بْنِ شَرِیکٍ ، قَالَ : قَالَ رَجُلٌ : یَا رَسُولَ اللہِ ، مَا خَیْرُ مَا أُعْطِیَ الْعَبْدُ ؟ قَالَ : خُلُقٌ حَسَنٌ۔
(٢٥٨٢٣) حضرت اسامہ بن شریک فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے پوچھا ! اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ایک بندے کو سب سے بہترین چیز کیا دی گئی ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” اچھا اخلاق۔ “

25823

(۲۵۸۲۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، وَمِسْعَرٍ ، عَنْ زِیَادِ بْنِ عِلاَقَۃَ ، عَنْ أُسَامَۃَ بْنِ شَرِیکٍ ، قَالُوا : یَا رَسُولَ اللہِ، مَا أَفْضَلُ مَا أُعْطِیَ الْمُسْلِمُ ؟ قَالَ : خُلُقٌ حَسَنٌ۔ (طیالسی ۱۲۳۳۔ طبرانی ۴۷۰)
(٢٥٨٢٤) حضرت اسامہ بن شریک فرماتے ہیں کہ لوگوں نے پوچھا : اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! مسلمان کو سب سے افضل چیز کیا مرحمت کی گئی ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اچھا اخلاق۔

25824

(۲۵۸۲۵) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ زَکَرِیَّا بْنِ سِیَاہٍ أَبِی یَحْیَی ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ رِیَاحٍ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ عُمَارَۃَ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَۃَ ، قَالَ : کُنْتُ فِی مَجْلِسٍ فِیہِ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَأَبُو سَمُرَۃَ جَالِسٌ أَمَامِی ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إنَّ الْفُحْشَ وَالتَّفَحُّشَ لَیْسَا مِنَ الإِسْلاَمِ فِی شَیْئٍ ، وَإِنَّ أَحْسَنَ النَّاسِ إسْلاَمًا أَحْسَنُہُمْ خُلُقًا۔ (طبرانی ۲۰۷۲)
(٢٥٨٢٥) حضرت جابر بن سمرہ فرماتے ہیں کہ میں ایسی مجلس میں تھا جس میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی موجود تھے ۔ اور حضرت ابو سمرہ میرے آگے بیٹھے ہوئے تھے۔ پس رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : بیشک بداخلاقی اور بدکلامی دونوں کا اسلام میں کوئی حصہ بھی نہیں، اور لوگوں میں بہترین اسلام والا وہ شخص ہے جو ان میں اچھے اخلاق والا ہے۔

25825

(۲۵۸۲۶) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، وَوَکِیعٌ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ شَقِیقٍ ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو ، قَالَ : لَمْ یَکُنْ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَاحِشًا ، وَلاَ مُتَفَحِّشًا ، وَکَانَ یَقُولُ : إنَّ مِنْ خِیَارِکُمْ مَحَاسِنُکُمْ أَخْلاَقًا۔ (بخاری ۳۵۵۹۔ مسلم ۱۸۱۰)
(٢٥٨٢٦) حضرت مسروق فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمرو نے ارشاد فرمایا : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نہ تو بدخلق تھے اور نہ ہی بدکلامی کرنے والے تھے۔ اور فرمایا کرتے تھے : بیشک تم میں سے بہترین لوگ وہ ہیں جو اچھے اخلاق والے ہیں۔

25826

(۲۵۸۲۷) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو ، عَنْ أَبِی سَلَمَۃَ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : أَکْمَلُ النَّاسِ إیمَانًا وَأَفْضَلُ الْمُؤْمِنِینَ إیمَانًا أَحْسَنُہُمْ خُلُقًا ، وَخِیَارُکُمْ خِیَارُکُمْ لِنِسَائِہِمْ۔ (ابوداؤد ۴۶۵۱۔ احمد ۲/۲۵۰)
(٢٥٨٢٧) حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : لوگوں میں کامل ترین ایمان والے، اور مؤمنین میں افضل ایمان والے وہ لوگ ہیں جو ان میں سب سے اچھے اخلاق والے ہیں۔ اور تم میں سب سے بہترین وہ لوگ ہیں جو اپنی بیویوں کے لیے اچھے ہیں۔

25827

(۲۵۸۲۸) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ ، عَنْ خَالِدٍ ، عَنْ أَبِی قِلاَبَۃَ ، عَنْ عَائِشَۃَ ، قَالَتْ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : أَکْمَلُ الْمُؤْمِنِینَ إیمَانًا ، أَحْسَنُہُمْ خُلُقًا ، وَأَلْطَفُہُمْ بِأَہْلِہِ۔ (ترمذی ۲۶۱۲۔ حاکم ۵۳)
(٢٥٨٢٨) حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : مومنین میں کامل ترین ایمان والاوہ شخص ہے جو ان سب میں سب سے اچھے اخلاق والا ہو اور اپنے گھر والوں پر سب سے زیادہ مہربان ہو۔

25828

(۲۵۸۲۹) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ ، عَنْ دَاوُدَ ، عَنْ مَکْحُولٍ ، عَنْ أَبِی ثَعْلَبَۃَ الْخُشَنِیِّ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إنَّ أَحَبَّکُمْ إلَیَّ وَأَقْرَبَکُمْ مِنِّی یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ، أَحَاسِنُکُمْ أَخْلاَقًا ، وَإِنَّ أَبْعَدَکُمْ مِنِّی وَأَبْغَضَکُمْ إلَیَّ ، مَسَاوِئکُمْ أَخْلاَقًا ، الثَّرْثَارُونَ ، الْمُتَشَدِّقُونَ ، الْمُتَفَیْہِقُونَ۔(احمد ۴/۱۹۳۔ ابن حبان ۴۸۲)
(٢٥٨٢٩) حضرت ابو ثعلبہ الخشنی فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : بیشک قیامت کے دن میرے سب سے زیادہ قریب اور سب سے زیادہ محبوب وہ شخص ہوگا جو تم میں سے سب سے زیادہ اچھے اخلاق والا ہوگا۔ اور بیشک مجھ سے دور اور سب سے زیادہ مبغوضی وہ شخص ہوگا جو تم میں برے اخلاق والا ، بکواس کرنے والا، فحش کلام کرنے والا، اور تکبر کرنے والا ہوگا۔

25829

(۲۵۸۳۰) حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمُقْرِئُ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ أَبِی أَیُّوبَ ، عَنِ ابْنِ عَجْلاَنَ ، عَنِ الْقَعْقَاعِ ، عَنْ أَبِی صَالِحٍ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: أَکْمَلُ الْمُؤْمِنِینَ إیمَانًا أَحْسَنُہُمْ خُلُقًا۔ (احمد ۲/۵۲۷۔ دارمی ۲۷۹۲)
(٢٥٨٣٠) حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : مومنین میں کامل ترین ایمان والے وہ لوگ ہیں جو ان میں اچھے اخلاق والے ہیں۔

25830

(۲۵۸۳۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ مَعْبَدِ بْنِ خَالِدٍ ، عَنْ حَارِثَۃَ بْنِ وَہْبٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لاَ یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ الْجَوَّاظُ ، وَلاَ الْجَعْظَرِیُّ ، وَالْجَوَّاظُ : الْفَظُّ الْغَلِیظُ۔ (مسلم ۲۱۹۰۔ ابوداؤد ۴۷۶۸)
(٢٥٨٣١) حضرت حارثہ بن وہب فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : بد خلق اور بدکلام جنت میں داخل نہیں ہوگا۔ جو اظّ سے مراد، بدخو بد کردار ہے۔

25831

(۲۵۸۳۲) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ أَبِی بَزَّۃَ ، عَنْ عَطَائٍ الْکَیْخَارَانِیِّ ، عَنْ أُمِّ الدَّرْدَائِ ، عَنْ أَبِی الدَّرْدَائِ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : مَا مِنْ شَیْئٍ أَثْقَلُ فِی الْمِیزَانِ مِنْ خُلُقٍ حَسَنٍ۔ (ابوداؤد ۴۷۶۶۔ احمد ۶/۴۴۶)
(٢٥٨٣٢) حضرت ابو الدردائ فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ترازو میں اچھے اخلاق سے زیادہ کوئی چیز وزنی نہیں ہوگی۔

25832

(۲۵۸۳۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ حَبِیبِ بْنِ أَبِی ثَابِتٍ ، عَنْ مَیْمُونِ بْنِ أَبِی شَبِیبٍ ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : یَا مُعَاذُ ، وَقَدْ قَالَ وَکِیعٌ بِأَخَرَۃٍ : یَا أَبَا ذَرٍّ ، أَتْبِعِ السَّیِّئَۃَ الْحَسَنَۃَ تَمْحُہَا ، وَخَالِقِ النَّاسَ خُلُقًا حَسَنًا۔
(٢٥٨٣٣) حضرت میمون بن ابی شعیب فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اے معاذ ، اور حضرت وکیع نے دوسرے موقع پر ارشاد فرمایا : اے ابو ذر ! برائی کے بعد نیکی کرلیا کرو۔ یہ نیکی برائی کو مٹا دے گی۔ اور لوگوں کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آؤ۔

25833

(۲۵۸۳۴) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْکَدِرِ ، عَنْ عُرْوَۃَ ، عَنْ عَائِشَۃَ ، قَالَتْ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إنَّ شِرَارَ النَّاسِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ الَّذِی یُتَّقَی مَخَافَۃَ فُحْشِہِ۔ (بخاری ۶۰۵۴۔ ابوداؤد ۴۷۵۸)
(٢٥٨٣٤) حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : بیشک قیامت کے دن بدترین لوگ وہ ہوں گے جن کی فحش باتوں کے ڈر سے بچا جاتا ہے۔

25834

(۲۵۸۳۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِی الأَحْوَص ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : أَلأَمُ أَخْلاَقِ الْمُؤْمِنِ : الْفُحْشُ۔
(٢٥٨٣٥) حضرت ابو الاحوص فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود نے ارشاد فرمایا : مومن کا گھٹیا اخلاق فحش گوئی ہے۔

25835

(۲۵۸۳۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ ، عَنْ حَکِیمِ بْنِ جَابِرٍ ، قَالَ : قَالَ رَجُلٌ لِرَجُلٍ : أَوْصِنِی ، قَالَ : أَتْبِعِ السَّیِّئَۃَ الْحَسَنَۃَ تَمْحُہَا ، وَخَالِقِ النَّاسَ خُلُقًا حَسَنًا۔ (ترمذی ۱۹۸۷)
(٢٥٨٣٦) حضرت حکیم بن جابر فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے دوسرے آدمی سے کہا : مجھے کچھ نصیحت کردو، اس شخص نے کہا : برائی کے بعد نیکی کرلیا کرو یہ نیکی اس برائی کو مٹا دے گی۔ اور لوگوں کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آیاکرو۔

25836

(۲۵۸۳۷) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ ثَابِتِ بْنِ عُبَیْدٍ ، قَالَ : کَانَ زَیْدُ بْنُ ثَابِتٍ مِنْ أَفْکَہِ النَّاسِ إذَا خَلاَ مَعَ أَہْلِہِ ، وَأَزْمَتِہِ إذَا جَلَسَ مَعَ الْقَوْمِ۔
(٢٥٨٣٧) حضرت ثابت بن عبید فرماتے ہیں کہ حضرت زید بن ثابت لوگوں میں سب سے زیادہ خوش طبع ہوتے جب وہ خلوت میں اپنے گھر والوں کے ساتھ ہوتے، اور سب سے زیادہ باوقار اور کم گو تھے جب لوگوں کے ساتھ بیٹھتے ۔

25837

(۲۵۸۳۸) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِی الضُّحَی ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، عَنْ عَائِشَۃَ ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ لَہَا : یَا عَائِشَۃُ ، لاَ تَکُونِی فَاحِشَۃً۔ (مسلم ۱۱۔ احمد ۶/۲۲۹)
(٢٥٨٣٨) حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھ سے ارشاد فرمایا : اے عائشہ : تم فحش گو مت بنو۔

25838

(۲۵۸۳۹) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ زَکَرِیَّا ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنِ الْجَدَلِیِّ أَبِی عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : قُلْتُ لِعَائِشَۃَ : کَیْفَ کَانَ خُلُقُ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ؟ قَالَتْ : کَانَ أَحْسَنَ النَّاسِ خُلُقًا ، لَمْ یَکُنْ فَاحِشًا ، وَلاَ مُتَفَحِّشًا ، وَلاَ سَخَّابًا فِی الأَسْوَاقِ۔ (احمد ۶/۲۳۶۔ ابن حبان ۶۴۴۳)
(٢٥٨٣٩) حضرت ابو عبداللہ جدلی فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ سے پوچھا : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اخلاق کیسے تھے ؟ آپ نے ارشاد فرمایا : آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگوں میں سب سے اچھے اخلاق والے تھے ۔ نہ بدکردار تھے اور نہ ہی بدکلام اور نہ ہی بازار میں شور شرابا کرنے والے تھے۔

25839

(۲۵۸۴۰) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَص ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ جُہَیْنَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : خَیْرُ مَا أُعْطِیَ الْمُؤْمِنُ خُلُقٌ حَسَنٌ ، وَشَرُّ مَا أُعْطِیَ الرَّجُلُ قَلبٌ سُوئٌ فِی صُورَۃٍ حَسَنَۃٍ۔
(٢٥٨٤٠) قبیلہ جھینہ کے ایک آدمی فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : مومن کو سب سے بہتر چیز جو عطا کی گئی وہ اچھا اخلاق ہے۔ اور سب سے بری چیز جو آدمی کو عطا کی گئی وہ خوبصورت چہرے میں بُرا دل ہے۔

25840

(۲۵۸۴۱) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ الْمِقْدَامِ بْنِ شُرَیْحٍ ، عَنْ أَبِیہِ الْمِقْدَامِ بْنِ شُرَیْحٍ ، عَنْ أَبِیہِ شُرَیْحٍ ، عَنْ جَدِّہِ ہَانِئِ بْنِ یَزِیدَ، قَالَ: قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللہِ، أَخْبِرْنِی بِشَیْئٍ یُوجِبُ لِی الْجَنَّۃَ، قَالَ: عَلَیْک بِحُسْنِ الْکَلاَمِ، وَبَذْلِ الطَّعَامِ۔ (ابوداؤد ۴۹۱۶۔ نسائی ۵۹۴۰)
(٢٥٨٤١) حضرت ہانی ٔ بن شریح فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! مجھے کوئی ایسی چیز بتلائیے جو میرے لیے جنت کو واجب کر دے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم پر کلام کی عمدگی اور کھانا کھلانا لازم ہے۔

25841

(۲۵۸۴۲) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ سَعِیدٍ ، عَنْ جَدِّہِ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لَنْ تَسَعُوا النَّاسَ بِأَمْوَالِکُمْ فَلْیَسَعْہُمْ مِنْکُمْ بَسْطُ وَجْہٍ ، وَحُسْنُ خُلُقٍ۔ (بزار ۱۹۷۷)
(٢٥٨٤٢) حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : تم لوگ ہرگز اپنے مالوں کے ذریعہ لوگوں سے مقابلہ مت کرو ، پس چاہیے کہ تم ان سے خوشگوار چہرے اور اچھے اخلاق میں مقابلہ کرو۔

25842

(۲۵۸۴۳) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : قَالَ عُمَرُ : حَسَبُ الرَّجُلِ : دِینُہُ ، وَمُرُوئَتُہُ : خُلُقُہُ ، وَأَصْلُہُ : عَقْلُہُ۔
(٢٥٨٤٣) امام شعبی فرماتے ہیں کہ حضرت عمر نے ارشاد فرمایا : آدمی کا حسب اس کا دین ہے۔ اور اس کی مروت اس کا اخلاق ہے۔ اور اس کی اصل اس کی عقل ہے۔

25843

(۲۵۸۴۴) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ الْحُبَابِ ، عَنْ مُعَاوِیَۃَ بْنِ صَالِحٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنِی عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ جُبَیْرٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، أَنَّہُ سَمِعَ النَّوَّاسَ بْنَ سَمْعَانَ الأَنْصَارِیَّ ، قَالَ : سَأَلْتُ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنِ الْبِرِّ وَالإِثْمِ قَالَ : الْبِرُّ حُسْنُ الْخُلُقِ ، وَالإِثْمُ مَا حَاکَ فِی نَفْسِکَ ، وَکَرِہْت أَنْ یَطَّلِعَ عَلَیْہِ النَّاسُ۔ (بخاری ۲۹۵۔ مسلم ۱۹۸۰)
(٢٥٨٤٤) حضرت نواس بن سمعان انصاری فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نیکی اور گناہ کے متعلق سوال کیا ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : نیکی اچھا اخلاق ہے اور گناہ وہ ہے جو تیرے دل میں کھٹکے اور تم یہ ناپسند کرو کہ لوگ اس پر واقف ہوں۔

25844

(۲۵۸۴۵) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ ، قَالَ : حَدَّثَنَا أَبُو التَّیَّاحِ ، قَالَ : حَدَّثَنَا أَنَسٌ ، قَالَ : کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَحْسَنَ النَّاسِ خُلُقًا۔ (مسلم ۲۶۷۔ احمد ۳/۲۱۲)
(٢٥٨٤٥) حضرت انس فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگوں میں سب سے اچھے اخلاق کے حامل تھے۔

25845

(۲۵۸۴۶) حَدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ خَلَفِ بْنِ حَوْشَبٍ ، عَنْ مَیْمُونِ بْنِ مِہْرَانَ ، قَالَ : قُلْتُ لأُمِّ الدَّرْدَائِ : ما سَمِعْت مِنَ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ شیئا ؟ قَالَتْ : نَعَمْ ، دَخَلْت عَلَیْہِ وَہُوَ جَالِسٌ ، أَوْ قَالَتْ فِی الْمَسْجِدِ ، أَوْ ذَکَرَتْ غَیْرَہُ فَسَمِعْتہ یَقُولُ : أَوَّلُ مَا یُوضَعُ فِی الْمِیزَانِ الْخُلُقُ الْحَسَنُ۔ (طبرانی ۶۴۷)
(٢٥٨٤٦) حضرت میمون بن مھران فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ام الدرداء سے پوچھا : کیا آپ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کوئی حدیث سنی ؟ انھوں نے فرمایا : جی ہاں ! میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئی، اس حال میں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیٹھے ہوئے تھے یا فرمایا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مسجد میں تھے یا کوئی اور بات ذکر فرمائی۔ پس میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یوں فرماتے ہوئے سُنا : ترازو میں سب سے پہلے اچھے اخلاق کو رکھا جائے گا۔

25846

(۲۵۸۴۷) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : مَکْتُوبٌ فِی التَّوْرَاۃِ : یَکُونُ وَجْہُک بَسْطًا وَکَلِمَتُک طَیِّبَۃً تَکُونُ أَحَبَّ إلَی النَّاسِ مِنَ الَّذِینَ یُعْطُونَہُمُ الْعَطَائَ۔
(٢٥٨٤٧) حضرت ہشام بن عروہ فرماتے ہیں کہ ان کے والد حضرت عروہ نے ارشاد فرمایا : توراۃ میں یوں لکھا ہے کہ آدمی کو چاہیے کہ اس کا چہرہ خوشگوار ہو اور اس کی بات پاکیزہ ہو۔ تو وہ لوگوں کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب ہوجائے گا جس کو وہ انعام سے نوازتے ہیں۔

25847

(۲۵۸۴۸) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ سُہَیْلٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ دِینَارٍ ، عَنْ أَبِی صَالِحٍ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : الإِیمَانُ بِضْعٌ وَسِتُّونَ بَابًا ، أَوْ بِضْعٌ وَسَبْعُونَ بَابًا أَعْظَمُہَا لاَ إلَہَ إلاَّ اللَّہُ ، وَأَدْنَاہَا إمَاطَۃُ الأَذَی عَنِ الطَّرِیقِ، وَالْحَیَائُ شُعْبَۃٌ مِنَ الإِیمَانِ۔(بخاری ۹۔ مسلم ۵۸)
(٢٥٨٤٨) حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ایمان کے ساٹھ سے اوپر دروازے ہیں، یا فرمایا : ایمان کے ستر سے کچھ اوپر دروازے ہیں۔ ان میں سب سے عظیم ترین ! لا الہ الا اللّٰہ کا کہنا ہے۔ اور سب سے ادنی ترین ! راستہ سے تکلیف دہ چیز کا ہٹا دینا ہے۔ اور حیا بھی ایمان کا ایک شعبہ ہے۔

25848

(۲۵۸۴۹) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، أنہ قَالَ :سَمِعَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَجُلاً یَعِظُ أَخَاہُ فِی الْحَیَائِ ، فَقَالَ : الْحَیَائُ مِنَ الإِیمَانِ۔ (مسلم ۵۹۔ احمد ۲/۹)
(٢٥٨٤٩) حضرت سالم اپنے والد سے نقل فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک آدمی کو سنا کہ وہ اپنے بھائی کو حیا کے بارے میں نصیحت کررہا تھا۔ اس پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : حیاء ایمان میں سے ہے۔

25849

(۲۵۸۵۰) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنِ ابْنِ عَجْلاَنَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ دِینَارٍ ، عَنْ أَبِی صَالِحٍ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : الْحَیَائُ شُعْبَۃٌ مِنَ الإِیمَانِ۔ (ابن ماجہ ۵۷۔ نسائی ۱۱۷۳۷)
(٢٥٨٥٠) حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : حیا ایمان کا ایک شعبہ ہے۔

25850

(۲۵۸۵۱) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ یُونُسَ ، قَالَ : ذَکَرَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِی بَکْرَۃَ ، قَالَ : قَالَ أَشَجُّ بَنِی عَصَرَ : قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إنَّ فِیک لَخُلُقَیْنِ یُحِبُّہُمَا اللَّہُ ، قَالَ : قُلْتُ : مَا ہُمَا ؟ قَالَ : الْحِلْمُ وَالْحَیَائُ ، قَالَ : قُلْتُ : أَقَدِیمًا کَانَ أَوْ حَدِیثًا ؟ قَالَ : لاَ بَلْ قَدِیمًا ، قُلْتُ : الْحَمْدُ لِلَّہِ الَّذِی جَبَلَنِی عَلَی خُلُقَیْنِ یُحِبُّہُمَا اللَّہُ۔ (نسائی ۷۷۴۶۔ احمد ۴/۲۰۶)
(٢٥٨٥١) حضرت اشج بنو عصر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : بیشک تمہارے میں دو خصلتیں ایسی ہیں اللہ جن سے محبت فرماتے ہیں۔ راوی کہتے ہیں : میں نے پوچھا : وہ دونوں کیا ہیں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : عجز و انکساری اور حیا۔ میں نے پوچھا : یہ پرانی ہیں یا جدید ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : نہیں بلکہ پرانی ہیں، میں نے کہا : سب تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے میری فطرت میں دو خصلتیں رکھیں جو اللہ کو محبوب ہیں۔

25851

(۲۵۸۵۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ خَالِدِ بْنِ رَبَاحٍ ، عَنْ أَبِی السَّوَّارِ ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَیْنٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : الْحَیَائُ خَیْرٌ کُلُّہُ۔ (بخاری ۶۱۱۷۔ احمد ۴/۴۲۶)
(٢٥٨٥٢) حضرت عمران بن حصین فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : حیا ساری کی ساری بھلائی ہے۔

25852

(۲۵۸۵۳) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ حَبِیبٍ ، عَنْ مَیْمُونِ بْنِ أَبِی شَبِیبٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: إنَّ اللَّہَ یُحِبُّ الْحَیِیَّ الْحَلِیمَ المتعفف، وَیُبْغِضُ الْفَاحِشَ الْبَذِیئَ السَّائِلَ الْمُلْحِفَ۔
(٢٥٨٥٣) حضرت میمون بن ابی شبیب فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : بیشک اللہ حیا دار، بردبار، سفید پوش کو پسند فرماتے ہیں۔ اور فحش کلام کرنے والے، اور لوگوں سے چمٹ کر مانگنے والے کو مبغوض رکھتے ہیں۔

25853

(۲۵۸۵۴) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو ، عَنْ أَبِی سَلَمَۃَ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : الْحَیَائُ مِنَ الإِیمَانِ ، وَالإِیمَانُ فِی الْجَنَّۃِ ، وَالْبَذَائُ مِنَ الْجَفَائِ ، وَالْجَفَائُ فِی النَّارِ۔ (ترمذی ۲۰۰۹۔ احمد ۲/۵۰۱)
(٢٥٨٥٤) حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : حیاء ایمان میں سے ہے۔ اور ایمان جنت میں ہوگا۔ اور بد گوئی

25854

(۲۵۸۵۵) حَدَّثَنَا شَبَابَۃُ ، قَالَ : حدَّثَنَا شُعْبَۃُ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ مَوْلًی لأَنَسٍ یُقَالُ لَہُ عَبْدُ اللہِ ، قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ یَقُولُ : کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَشَدَّ حَیَائً مِنْ عَذْرَاء فِی خِدْرِہَا ، وَکَانَ إذَا کَرِہَ شَیْئًا عَرَفْنَاہُ فِی وَجْہِہِ۔ (بخاری ۳۵۶۲۔ احمد ۳/۹۱)
(٢٥٨٥٥) حضرت ابو سعید خدری فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) زیادہ حیا دار تھے باکرہ عورت سے اس کی شرم میں ۔ اور جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کسی چیز کو ناپسند سمجھتے تو ہم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چہرے میں اس کے اثرات پہچان لیتے۔

25855

(۲۵۸۵۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ ، عَنْ قَیْسٍ ، قَالَ : دَخَلَ عُیَیْنَۃُ عَلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَلَمْ یَسْتَأْذِنْ ، فَقَالَتْ عَائِشَۃُ : یَا رَسُولَ اللہِ ، مَنْ ہَذَا ؟ قَالَ : ہَذَا أَحْمَقُ مُطَاعٌ فِی قَوْمِہِ ، قَالَ : ثُمَّ أُتِیَ بِشَرَابٍ فَاسْتَتَرَ ، ثُمَّ شَرِبَ فَقَالَ : یَا رَسُولَ اللہِ ، مَا ہَذَا ؟ قَالَ : ہَذَا الْحَیَائُ خُلَّۃٌ فِیہِمْ أُعْطُوہَا وَمُنِعتموہا۔
(٢٥٨٥٦) حضرت قیس فرماتے ہیں کہ حضرت عیینہ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آنا چاہا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کو اجازت نہیں دی۔ حضرت عائشہ نے پوچھا : اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! یہ کون شخص ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : یہ بیوقوف ہے جس کی قوم میں اطاعت کی جاتی ہے۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس پینے کی کوئی چیز لائی گئی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو چھپا کر نوش فرمایا، تو وہ شخص کہنے لگا : یہ کیا طریقہ ہے ؟ اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : یہ حیا ان کے درمیان ایک خصلت ہے جو ان لوگوں کو عطا کی گئی ہے۔ اور تمہیں اس سے محروم رکھا گیا ہے۔

25856

(۲۵۸۵۷) حَدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ رِبْعِیٍّ ، عَنْ أَبِی مَسْعُودٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: آخِرُ مَا أَدْرَکَ النَّاسُ مِنْ کَلاَمِ النُّبُوَّۃِ: إذَا لَمْ تَسْتَحْیِ فَافْعَلْ مَا شِئْت۔(بخاری ۳۴۸۳۔ احمد ۴/۱۲۲)
(٢٥٨٥٧) حضرت ابو مسعود فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : آخری بات جو لوگوں نے کلام نبوت سے حاصل کی وہ یہ ہے : جب تم حیا نہ کرو تو جو چاہے کرو۔

25857

(۲۵۸۵۸) حَدَّثَنَا عِیسَی بْنُ یُونُسَ ، عَنِ الأَحْوَص بْنِ حَکِیمٍ ، عَنْ أَبِی عَوْنٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : قِلَّۃُ الْحَیَائِ کُفْرٌ۔
(٢٥٨٥٨) حضرت سعید بن مسیب فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : حیا کا تھوڑا ہونا کفر ہے۔

25858

(۲۵۸۵۹) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ جَرِیرٍ ، عَنْ یَعْلَی بْنِ حَکِیمٍ ، قَالَ : أَکْثَرُ ظَنِّی أَنَّہُ عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ، قَالَ : قَالَ ابْنُ عُمَرَ : إنَّ الْحَیَائَ وَالإِیمَانَ قُرِنَا جَمِیعًا ، فَإِذَا رُفِعَ أَحَدُہُمَا رُفِعَ الآخَرُ۔ (حاکم ۲۲)
(٢٥٨٥٩) حضرت سعید بن جبیر فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عمر نے ارشاد فرمایا : یقیناً حیا اور ایمان دونوں اکٹھے ملے ہوئے ہیں، پس جب ان میں سے ایک اٹھتا ہے تو دوسرا بھی اٹھ جاتا ہے۔

25859

(۲۵۸۶۰) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ حُصَیْنٍ ، عَنْ بَکْرٍ ، قَالَ : الْحَیَائُ مِنَ الإِیمَانِ ، وَالإِیمَانُ فِی الْجَنَّۃِ ، وَالْبَذَائُ مِنَ الْجَفَائِ ، وَالْجَفَائُ فِی النَّارِ۔
(٢٥٨٦٠) حضرت حصین فرماتے ہیں کہ حضرت بکر نے ارشاد فرمایا : حیاء ایمان میں سے ہے اور ایمان جنت میں ہوگا۔ بےحیائی جفا ہے اور جفا جہنم میں لے جاتی ہے۔

25860

(۲۵۸۶۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ شَرِیکٍ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ (وَسَیِّدًا) ، قَالَ : الْحَلِیمُ۔
(٢٥٨٦١) حضرت سالم فرماتے ہیں کہ حضرت سعید بن جبیر کہ سورة آل عمران کی آیت میں سَیِّدًا سے مراد بردبار ہے۔

25861

(۲۵۸۶۲) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ الْحُبَابِ ، قَالَ : أَخْبَرَنِی مَالِکُ بْنُ أَنَسٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنِی سَلَمَۃُ بْنُ صَفْوَانَ ، عَنْ یَزِیدَ بْنِ طَلْحَۃَ بْنِ رُکَانَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إنَّ لِکُلِّ شَیْئٍ خُلُقًا ، وَخُلُقُ الإِیمَانِ الْحَیَائُ۔ (ابن ماجہ ۴۱۸۱)
(٢٥٨٦٢) حضرت یزید بن طلحہ بن رکانہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : بیشک ہر چیز کا کوئی نہ کوئی خلق ہوتا ہے اور ایمان کا خلق حیا ہے۔

25862

(۲۵۸۶۳) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنِ الأَشْعَث ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إنَّ مِنَ الْحَیَائِ ضَعْفًا ، وَإِنَّ مِنْہُ وَقَارًا لِلَّہِ۔
(٢٥٨٦٣) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : حیا کی ایک قسم کمزوری کا سبب ہے اور ایک قسم اللہ کی طرف سے ملنے والی عزت کا سبب ہے۔

25863

(۲۵۸۶۴) حَدَّثَنَا سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِینَارٍ ، عَنْ أَبِی قَابُوسَ مَوْلًی لِعَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو یَبْلُغُ بِہِ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : الرَّاحِمُونَ یَرْحَمُہُمُ الرَّحْمَان ، ارْحَمُوا من فی الأَرْضِ یَرْحَمُکُمْ مَنْ فِی السَّمَائِ۔ (ابوداؤد ۴۹۰۲۔ ترمذی ۱۹۲۴)
(٢٥٨٦٤) حضرت عبداللہ بن عمرو فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : رحم کرنے والوں پر رحمن بھی رحم فرماتا ہے، تم لوگ زمین میں رہنے والوں پر رحم کھاؤ، آسمان والا بھی تم پر رحم کرے گا۔

25864

(۲۵۸۶۵) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنْ نَافِعِ بْنِ جُبَیْرٍ ، عَنْ جَرِیرٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لاَ یَرْحَمُ اللَّہُ مَنْ لاَ یَرْحَمُ النَّاسَ۔ (مسلم ۱۸۰۹)
(٢٥٨٦٥) حضرت جریر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اللہ اس شخص پر رحم نہیں کرتا جو لوگوں پر رحم نہیں کرتا۔

25865

(۲۵۸۶۶) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِی ظَبْیَانَ ، عَنْ جَرِیرٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لاَ یَرْحَمُ اللَّہُ مَنْ لاَ یَرْحَمُ النَّاسَ۔
(٢٥٨٦٦) حضرت جریر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اللہ اس شخص پر رحم نہیں کرتا جو لوگوں پر رحم نہیں کرتا۔

25866

(۲۵۸۶۷) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ زَیْدِ بْنِ وَہْبٍ ، عَنْ جَرِیرٍ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِمِثْلِہِ۔ (بخاری ۷۳۷۶۔ ترمذی ۱۹۲۲)
(٢٥٨٦٧) حضرت جریر سے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مذکورہ ارشاد اس سند سے بھی منقول ہے۔

25867

(۲۵۸۶۸) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنِ ابْنِ أَبِی نَجِیحٍ ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ بْنِ عَامِرٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو یَرْوِیہِ ، قَالَ : مَنْ لَمْ یَرْحَمْ صَغِیرَنَا ، وَیَعْرِفْ حَقَّ کَبِیرِنَا ، فَلَیْسَ مِنَّا۔ (ابوداؤد ۴۹۰۴۔ احمد ۲/۴۲۲)
(٢٥٨٦٨) حضرت عبید اللہ بن عامر فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمرو سے مروی ہے کہ آپ نے ارشاد فرمایا : جو شخص ہمارے چھوٹوں پر رحم نہیں کرتا اور ہمارے بڑوں کا حق نہیں پہچانتا ، پس وہ ہم میں سے نہیں۔

25868

(۲۵۸۶۹) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ أَبِی عُثْمَانَ مَوْلَی الْمُغِیرَۃِ بْنِ شُعْبَۃَ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الصَّادِقَ الْمَصْدُوقَ أَبَا الْقَاسِمِ ، صَاحِبَ ہَذِہِ الْحُجْرَۃِ : لاَ تُنْزَعُ الرَّحْمَۃُ إلاَّ مِنْ شَقِیٍّ ، قَالَ شُعْبَۃُ : وَجَدْتہ مَکْتُوبًا عِنْدِی۔ (احمد ۲/۳۰۱۔ طیالسی ۲۵۲۹)
(٢٥٨٦٩) حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ میں نے ابو القاسم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو کہ صادق و مصدوق ہیں اور اس حجرے والے ہیں کو فرماتے ہوئے سنا : رحمت نہیں چھینی جاتی مگر بدبخت سے، حضرت شعبہ فرماتے ہیں : میں نے اس روایت کو اپنے پاس لکھا ہوا بھی پایا۔

25869

(۲۵۸۷۰) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلیَۃَ ، عَنْ زِیَادِ بْنِ مِخْرَاقٍ ، عَنْ مُعَاوِیَۃَ بْنِ قُرَّۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، أَنَّ رَجُلاً ، قَالَ لِلنَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إنِّی لأَذْبَحُ الشَّاۃَ وَأنا أَرْحَمُہَا ، أَوْ قَالَ : إنِّی لأَرْحَمُ الشَّاۃَ إذَا ذَبَحْتہَا ، فَقَالَ : إنَّ الشَّاۃَ إِنْ رَحِمْتہَا رَحِمَک اللَّہُ مَرَّتَیْنِ۔ (بخاری ۳۷۳۔ احمد ۳/۴۳۶)
(٢٥٨٧٠) حضرت قرہ فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا : میں نے بکری کو ذبح کیا اس حال میں کہ میں نے اس پر بہت رحم کھایا یا یوں عرض کیا : یقیناً میں نے بکری پر بہت رحم کھایا جب میں نے اس کو ذبح کیا۔ اس پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : بیشک اگر تو نے بکری پر رحم کھایا تو اللہ تجھ پر رحم کرے گا ۔ آپ نے دو مرتبہ یہ ارشاد فرمایا۔

25870

(۲۵۸۷۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ قُرَّۃَ بْنِ خَالِدٍ السَّدُوسِیِّ ، عَنْ أَبِی الْعَلاَئِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ الشِّخِّیرِ ، عَنْ أَخِیہِ مُطَرِّفِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ الشِّخِّیرِ ، قَالَ : إنَّ اللَّہَ لَیَرْحَم بِرَحْمَۃِ الْعُصْفُورِ۔
(٢٥٨٧١) حضرت ابو العلاء بن عبداللہ بن الشخیر فرماتے ہیں کہ ان کے بھائی حضرت مطرف بن عبداللہ بن الشخیر نے ارشاد فرمایا : یقیناً اللہ رحم کرتا چڑیا پر رحم کرنے سے۔

25871

(۲۵۸۷۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، وَعَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ ، عَنْ قَیْسٍ ، عَنْ جَرِیرٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُول اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لاَ یَرْحَمُ اللَّہُ مَنْ لاَ یَرْحَمُ النَّاسَ۔
(٢٥٨٧٢) حضرت جریر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اللہ اس شخص پر رحم نیں کرتا جو لوگوں پر رحم نہیں کرتا۔

25872

(۲۵۸۷۳) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا الأَعْمَشُ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِی عُبَیْدَۃَ ، قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللہِ : ارْحَمْ مَنْ فِی الأَرْضِ یَرْحَمْکَ مَنْ فِی السَّمَائِ۔
(٢٥٨٧٣) حضرت ابو عبیدہ فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود نے ارشاد فرمایا : تو زمین والوں پر رحم کر آسمان والا تجھ پر رحم کرے گا۔

25873

(۲۵۸۷۴) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ، عَنْ ہِشَامٍ، عَنْ أَبِیہِ، قَالَ: بَلَغَنِی، أَنَّہُ مَکْتُوبٌ فِی التَّوْرَاۃِ کَمَا تَرْحَمُونَ تُرْحَمُونَ۔
(٢٥٨٧٤) حضرت ہشام بن عروہ فرماتے ہیں کہ ان کے والد حضرت عروہ نے ارشاد فرمایا : بیشک توراۃ میں لکھا ہوا ہے کہ جیسے تم رحم کرو گے تم پر رحم کیا جائے گا۔

25874

(۲۵۸۷۵) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ أَبِی عُثْمَانَ ، عَنْ أُسَامَۃَ بْنِ زَیْدٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إنَّمَا یَرْحَمُ اللَّہُ مِنْ عِبَادِہِ الرُّحَمَائَ۔
(٢٥٨٧٥) حضرت اسامہ بن زید فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : بیشک اللہ اپنے رحم کرنے والے بندوں پر رحم کرتا ہے۔

25875

(۲۵۸۷۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ وعلی بن ہَاشِمٍ ، عَنِ ابْنِ أَبِی لَیْلَی ، عَنْ عَطَائٍ ، عَنْ جَابِرٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَنْ لاَ یَرْحَمْ لاَ یُرْحَمْ۔
(٢٥٨٧٦) حضرت جابر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جو شخص رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جاتا۔

25876

(۲۵۸۷۷) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ عَطَائِ بْنِ یَزِیدَ ، عَنْ أَبِی أَیُّوبَ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، قَالَ : لاَ یَحِلُّ لِمُسْلِمٍ أَنْ یَہْجُرَ أَخَاہُ فَوْقَ ثَلاَثٍ ، یَلْتَقِیَانِ فیَصُدُّ ہَذَا وَیَصُدُّ ہَذَا ، وَخَیْرُہُمَا الَّذِی یَبْدَأُ بِالسَّلاَمِ۔ (مسلم ۱۹۸۴۔ ترمذی ۱۹۳۲)
(٢٥٨٧٧) حضرت ابو ایوب انصاری فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنے بھائی سے تین دن سے زیادہ قطع تعلقی کرے۔ وہ دونوں آپس میں ملیں تو یہ اس سے اعراض کرے اور وہ اس سے اعراض کرے اور ان دونوں میں بہتر وہ ہے جو سلام میں پہل کرلے۔

25877

(۲۵۸۷۸) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ آدَم ، عَنْ إسرَائیل ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : لاَ یَحِلُّ لِمُسْلِمٍ أَنْ یَہْجُرَ أَخَاہُ فَوْقَ ثَلاَثٍ۔ (بخاری ۲۴۶۔ ابویعلی ۷۱۶)
(٢٥٨٧٨) حضرت سعد فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنے بھائی سے تین دن سے زیادہ تک قطع تعلق کرے۔

25878

(۲۵۸۷۹) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ عُمَارَۃَ بْنِ عُمَیر ، عَنْ أَبِی الأَحْوَص ، قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللہِ : لاَ ہِجْرَۃَ بَیْنَ الْمُسْلِمَینِ فَوْقَ ثَلاَثٍ۔
(٢٥٨٧٩) حضرت ابو الاحوص فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود نے ارشاد فرمایا : دو مسلمانوں کے درمیان تین دن سے زیادہ قطع تعلقی جائز نہیں ۔

25879

(۲۵۸۸۰) حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمُقْرِئُ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ أَبِی أَیُّوبَ ، عَنْ خَالِدِ بْنِ یَزِیدَ ، عَنْ عَامِرِ بْنِ یَحْیَی الْمَعَافِرِیِّ ، عَنْ فَضَالَۃَ بْنِ عُبَیْدٍ صَاحِبِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : مَنْ ہَاجَرَ أَخَاہُ فَوْقَ ثَلاَثٍ ، فَہُوَ فِی النَّارِ إلاَّ أَنْ یَتَدَارَکَہُ اللَّہُ مِنْہُ بِتَوْبَۃٍ۔
(٢٥٨٨٠) حضرت عامر بن یحییٰ معافری فرماتے ہیں کہ حضرت فضالہ بن عبید نے جو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابی ہیں ارشاد فرمایا : جو شخص اپنے بھائی سے تین دن سے زائد قطع تعلقی کرتا ہے تو وہ جہنم میں ہوگا مگر یہ کہ وہ اس بات کا تدارک توبہ کے ذریعہ کرلے۔

25880

(۲۵۸۸۱) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ، عَنْ سُفْیَانَ بْنِ حُسَیْنٍ ، عَنْ أَنَسٍ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، قَالَ: أَلاَ لاَ تَبَاغَضُوا، وَلاَ تَحَاسَدُوا، وَلاَ تَدَابَرُوا، وَکُونُوا عِبَادَ اللہِ إخْوَانًا، وَلاَ یَہْجُرَنَّ أَحَدُکُمْ أَخَاہُ فَوْقَ ثَلاَثَۃِ أَیَّامٍ۔ (بخاری ۶۰۶۵۔ مسلم ۱۹۸۳)
(٢٥٨٨١) حضرت انس فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : خبردار ! تم آپس میں بغض مت رکھو، اور تم حسد مت کرو، اور نہ ایک دوسرے سے پیٹھ پھرو، اور اللہ کے بندو ! بھائی بھائی بن جاؤ اور تم میں سے کوئی بھی اپنے بھائی سے تین دن سے زائد تک قطع تعلقی مت کرے۔

25881

(۲۵۸۸۲) حَدَّثَنَا عُبَیْدُ بْنُ سَعِیدٍ الْقُرَشِیُّ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ یَزِیدَ بْنِ خُمَیْرٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ سُلَیْمَ بْنَ عَامِرٍ یُحَدِّثُ عَنْ أَوْسَطَ بْنِ إسْمَاعِیلَ بْنِ أَوْسَطَ ، أَنَّہُ سَمِعَ أَبَا بَکْرٍ یَقُولُ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لاَ تَحَاسَدُوا ، وَلاَ تَبَاغَضُوا ، وَلاَ تَقَاطَعُوا ، وَلاَ تَدَابَرُوا ، وَکُونُوا عِبَادَ اللہِ إخْوَانًا۔ (ابن ماجہ ۳۸۴۹۔ طیالسی ۵)
(٢٥٨٨٢) حضرت ابوبکر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : تم لوگ آپس میں حسد مت کرو، اور نہ ہی قطع تعلقی کرو، اور نہ ایک دوسرے سے پیٹھ پھیرو، اور اللہ کے بندو ! بھائی بھائی بن جاؤ۔

25882

(۲۵۸۸۳) حَدَّثَنَا سَہْلُ بْنُ یُوسُفَ ، عَنِ التَّیْمِیِّ ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ : لاَ ہِجْرَۃَ بَیْنَ الْمُسْلِمَینِ فَوْقَ ثَلاَثٍ۔
(٢٥٨٨٣) حضرت تیمی فرماتے ہیں کہ حضرت انس نے ارشاد فرمایا : دو مسلمانوں کے درمیان تین دن سے زائد قطع تعلقی جائز نہیں ہے۔

25883

(۲۵۸۸۴) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ شَابُورَ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، قَالَ : مَرَّ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِقَوْمٍ یَجُرُّونَ حَجَرًا فَقَالَ : مَا ہَذِہِ ؟ قَالُوا : حَجَرُ الأَشِدَّائِ ، قَالَ : أَلاَ أُخْبِرُکُمْ بِأَشَدِّ مِنْ ہَذَا ؟ الَّذِی یَکُونُ بَیْنَہُ وَبَیْنَ أَخِیہِ فَیَغْلِبُ شَیْطَانَہُ فَیَأْتِیہِ فَیُکَلِّمُہُ۔ (بزار ۲۰۵۳)
(٢٥٨٨٤) حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چند لوگوں کے پاس سے گزرے جو ایک پتھر کھینچ رہے تھے۔ آپ نے پوچھا : یہ کیا ہے ؟ انھوں نے عرض کیا : بہت زیادہ بھاری پتھر ہے ! آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کیا میں تمہیں اس سے بھی زیادہ سخت چیز کے بارے میں نہ بتلاؤں ؟ وہ یہ ہے کہ دو بھائیوں کے درمیان قطع تعلقی ہو ، پس وہ شیطان پر غالب آجاتا ہے کہ وہ اپنے بھائی کے پاس آتا ہے اور اس سے بات شروع کرتا ہے۔

25884

(۲۵۸۸۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، عَنْ إسْمَاعِیلَ، عَنْ قَیْسٍ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ: لاَ یَحِلُّ لِمُسْلِمٍ أَنْ یَہْجُرَ أَخَاہُ فَوْقَ ثَلاَثَۃِ أَیَّامٍ۔
(٢٥٨٨٥) حضرت قیس فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود نے ارشاد فرمایا : کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنے بھائی سے تین دن سے زائد تک قطع تعلقی رکھے۔

25885

(۲۵۸۸۶) حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ ہِلاَلٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لاَ یَحِلُّ لِمُسْلِمٍ أَنْ یَہْجُرَ أَخَاہُ فَوْقَ ثَلاَثٍ۔ (مسلم ۱۹۸۴۔ ابوداؤد ۴۸۷۸)
(٢٥٨٨٦) حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے بھائی سے تین دن سے زائد تک قطع تعلقی رکھے۔

25886

(۲۵۸۸۷) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ التَّیْمِیِّ ، عَنِ الْحَارِثِ بْنِ سُوَیْد ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَا تَعُدُّونَ الصُّرَعَۃَ فِیکُمْ ؟ قَالَ : الَّذِی لاَ یَصْرَعُہُ الرِّجَالُ ، قَالَ : لاَ وَلَکِنَّہُ الَّذِی یَمْلِکُ نَفْسَہُ عِنْدَ الْغَضَبِ۔ (مسلم ۲۰۱۴۔ ابوداؤد ۴۷۴۶)
(٢٥٨٨٧) حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : تم لوگ پہلوان کسے کہتے ہو ؟ صحابہ نے عرض کیا : وہ شخص جسے بہت سے آدمی بھی نہ پچھاڑ سکیں ۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : نہیں ، بلکہ وہ شخص جو غصہ کے وقت اپنے نفس کو قابو رکھے وہ اصل پہلوان ہے۔

25887

(۲۵۸۸۸) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ طَاوُوسٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : یَسِّرُوا ، وَلاَ تُعَسِّرُوا ، قَالَہَا ثَلاَثًا فَإِذَا غَضِبْتَ فَاسْکُتْ۔ (بزار ۱۵۲)
(٢٥٨٨٨) حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : تم لوگ آسانی پیدا کرو، مشکل پیدا مت کرو، یہ بات آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تین مرتبہ ارشاد فرمائی، پھر فرمایا : پس جب تجھے غصہ آجائے تو خاموش ہوجا۔

25888

(۲۵۸۸۹) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنِ الأَحْنَفِ بْنِ قَیْسٍ ، عَنِ ابْنِ عَمٍّ لَہُ مِنْ تَمِیمٍ ، عَنْ جَارِیَۃَ بْنِ قُدَامَۃَ ، أَنَّہُ قَالَ : یَا رَسُولَ اللہِ ، قُلْ لِی قَوْلاً وَأَقِلَّ لَعَلِّی أَعِیہِ ، قَالَ : لاَ تَغْضَبْ ، فَأَعَادَ عَلَیْہِ مِرَارًا کُلُّ ذَلِکَ یَقُولُ : لاَ تَغْضَبْ۔ (احمد ۳/۴۸۴)
(٢٥٨٨٩) حضرت جاریہ بن قدامہ فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! مجھے کچھ نصیحت کردیں اور مختصر نصیحت ہو تاکہ میں اس کو محفوظ کرسکوں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تو غصہ مت کیا کر، آپ نے بار بار اپنا سوال دہرایا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہر بار یہی بات ارشاد فرمائی : تو غصہ مت کیا کر۔

25889

(۲۵۸۹۰) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنِ الأَحْنَفِ بْنِ قَیْسٍ ، عَنْ جَارِیَۃَ بْنِ قُدَامَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَمٍّ لَہُ مِنْ بَنِی تَمِیمٍ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، مِثْلَہُ۔ (طبرانی ۲۱۰۴)
(٢٥٨٩٠) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مذکورہ ارشاد اس سند سے بھی منقول ہے۔

25890

(۲۵۸۹۱) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ عَدِیِّ بْنِ ثَابِتٍ ، عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ صُرَدٍ ، قَالَ : اسْتَبَّ رَجُلاَنِ عِنْدَ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَجَعَلَ أَحَدُہُمَا تَحْمَرُّ عَیْنَاہُ وَتَنْتَفِخُ أَوْدَاجُہُ ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إنِّی لأَعْرِفُ کَلِمَۃً لَوْ قَالَہَا ہَذَا لَذَہَبَ عَنْہُ الَّذِی یَجِدُ : أَعُوذُ بِاللَّہِ مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیمِ فَقَالَ : الرَّجُلُ : وَہَلْ تَرَی بِی مِنْ جُنُونٍ۔ (مسلم ۲۰۱۵۔ ابوداؤد ۴۷۴۸۱)
(٢٥٨٩١) حضرت سلیمان بن صرد فرماتے ہیں کہ دو آدمیوں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ایک دوسرے کو سب و شتم کیا پس ان دونوں میں سے ایک کی آنکھیں سرخ ہوگئیں اور اس کی گردن کی رگیں پھول گئیں۔ اس پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : میں ایک ایسا کلمہ جانتا ہوں کہ اگر یہ شخص اس کو پڑھ لے تو اس کا غصہ ختم ہوجائے۔ وہ کلمہ یہ ہے : أَعُوذُ بِاللَّہِ مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیمِ ۔ میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں شیطان مردود سے، پس وہ آدمی کہنے لگا کیا تم مجھے مجنون سمجھتے ہو ؟

25891

(۲۵۸۹۲) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَنْ زَائِدَۃَ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ عُمَیْرٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِی لَیْلَی ، عَنْ مُعَاذٍ ، قَالَ : اسْتَبَّ رَجُلاَنِ عِنْدَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَغَضِبَ أَحَدُہُمَا غَضَبًا شَدِیدًا حَتَّی أَنَّہُ لَیُخَیَّلُ إلَیَّ أَنَّ أَنْفَہُ یَتَمَزَّعُ ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إنِّی لأَعْرِفُ کَلِمَۃً لَوْ قَالَہَا ہَذَا الْغَضْبَانُ لَذَہَبَ غَضَبُہُ : أَعُوذُ بِاللَّہِ الْعَظِیمِ مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیمِ۔ (ابوداؤد ۴۷۴۷۔ ترمذی ۳۴۵۲)
(٢٥٨٩٢) حضرت معاذ فرماتے ہیں کہ دو آدمیوں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ایک دوسرے کو گالیاں دیں، پس ان میں سے ایک کو بہت سخت غصہ آگیا یہاں تک کہ مجھے خیال آنے لگا کہ کہیں غصہ سے اس کی ناک ہی نہ پھٹ پڑے اس پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : میں ایک ایسا کلمہ جانتا ہوں اگر یہ غصہ میں مبتلا شخص اس کلمہ کو پڑھ لے تو اس کا غصہ ختم ہوجائے ، وہ کلمہ یہ ہے : میں اللہ کی پناہ لیتا ہوں جو عظیم ذات ہے، شیطان مردود سے۔

25892

(۲۵۸۹۳) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَنْ زَائِدَۃَ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ زَیْدٍ ، عَنْ أَبِی نَضْرَۃَ ، عَنْ أَبِی سَعِیدٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : اتَّقُوا الْغَضَبَ فَإِنَّہَا جَمْرَۃٌ تُوقَدُ فِی قَلْبِ ابْنِ آدَمَ ، أَلَمْ تَرَ إلَی انْتِفَاخِ أَوْدَاجِہِ وَحُمْرَۃِ عَیْنَیْہِ ، فَمَنْ أَحَسَّ مِنْ ذَلِکَ شَیْئًا فَلْیَلْزِقْ بِالأَرْضِ۔ (بخاری ۲۸۴۲۔ مسلم ۱۲۱)
(٢٥٨٩٣) حضرت ابو سعید خدری فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یوں ارشاد فرماتے ہوئے سُنا : تم لوگ غصہ سے بچو۔ بیشک یہ انگارہ ہے جو ابن آدم کے دل میں سلگتا ہے۔ کیا تم غصہ میں مبتلا شخص کی پھولی ہوئی رگیں اور اس کی سرخ آنکھیں نہیں دیکھتے ؟ پس جو شخص تھوڑا سا بھی غصہ محسوس کرے تو اس کو چاہیے کہ وہ زمین پر لیٹ جائے۔

25893

(۲۵۸۹۴) حَدَّثَنَا دَاوُد بْنُ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا مَالِکُ بْنُ أَنَسٍ ، عَنِ ابْنِ شِہَابٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لَیْسَ الشَّدِیدُ بِالصُّرَعَۃِ ، إنَّمَا الشَّدِیدُ الَّذِی یَمْلِکُ نَفْسَہُ عِنْدَ الْغَضَبِ۔ (بخاری ۶۱۱۴۔ مسلم ۱۰۷)
(٢٥٨٩٤) حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : نہیں ہے طاقت ور پہلوان جو لوگوں کو پچھاڑ دے بلکہ طاقت ور پہلوان تو وہ ہے جو اپنے نفس کو غصہ کے وقت میں قابو رکھے۔

25894

(۲۵۸۹۵) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ حُمَیْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، أَنَّہُ أَتَی النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَجُل ، فَقَالَ : أَوْصِنِی بِکَلِمَۃٍ ، وَلاَ تُکْثِرْ عَلَیَّ ، قَالَ : اجْتَنِبِ الْغَضَبَ ، فَأَعَادَ عَلَیْہِ فَقَالَ : اجْتَنِبِ الْغَضَبَ ، فَأَعَادَ عَلَیْہِ فَقَالَ : اجْتَنِبِ الْغَضَبَ۔ (احمد ۵/۴۰۸۔ مالک ۹۰۶)
(٢٥٨٩٥) حضرت حمید بن عبد الرحمن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ایک صحابی سے نقل کرتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا۔ مجھے چند کلمات کی وصیت فرما دیجئے اور مجھ پر کثرت مت کیجئے گا ۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : غصہ سے اجتناب کرو، اس نے پھر اپنا سوال دہرایا : آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : غصہ سے اجتناب کرو، اس شخص نے پھر اپنا سوال دہرایا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : غصہ سے اجتناب کرو۔

25895

(۲۵۸۹۶) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ أَبِی سَلَمَۃَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، أَنَّ عَبْدَ الرَّحْمَن بن عوف عَادَ أَبَا الرَّدَّادِ فَقَالَ : خَیْرُہُمْ وَأَوْصَلُہُمْ أَبُو مُحَمَّدٍ یَعْنِی ابْنَ عَوْفٍ ، سَمِعْت رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : قَالَ اللَّہُ : أَنَا اللَّہُ وَأَنَا الرَّحْمَان ، وَہِیَ الرَّحِمُ ، شَقَقْت لَہَا اسْمًا مِنِ اسْمِی ، فَمَنْ وَصَلَہَا وَصَلْتُہْ ، وَمَنْ قَطَعَہَا بَتَتُّہُ۔ (ترمذی ۱۹۰۷۔ ابوداؤد ۱۶۹۱)
(٢٥٨٩٦) حضرت ابو سلمہ بن عبدالرحمن فرماتے ہیں کہ حضرت عبد الرحمن بن عوف نے حضرت ابو الرداد کی عیادت کی اور فرمایا : لوگوں میں بہترین شخص وہ ہے جو سب سے زیادہ صلہ رحمی کرنے والا ہو۔ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یوں ارشاد فرماتے ہوئے سنا : اللہ نے فرمایا ! میں اللہ ہوں اور میں رحمن ہوں اور یہی رحم ہے میں نے اپنے نام میں سے ایک نام مشتق کردیا ۔ پس جو شخص صلہ رحمی کرے گا تو میں اس کو جوڑ دوں گا اور جو شخص قطع تعلقی کرے گا تو میں اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر دوں گا۔

25896

(۲۵۸۹۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ مُعَاوِیَۃَ بْنِ أَبِی مُزَرِّدٍ ، عَنْ یَزِیدَ بْنِ رُومَانَ ، عَنْ عُرْوَۃَ ، عَنْ عَائِشَۃَ ، قَالَتْ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : الرَّحِمُ مُعَلَّقَۃٌ بِالْعَرْشِ ، تَقُولُ : مَنْ وَصَلَنِی وَصَلَہُ اللَّہُ ، وَمَنْ قَطَعَنِی قَطَعَہُ اللَّہُ۔ (بخاری ۵۹۸۹۔ مسلم ۱۹۸۱)
(٢٥٨٩٧) حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : رشتہ داری اللہ کے عرش سے معلق ہے اور یوں کہتی ہے : جو شخص اپنے رشتہ داروں سے صلہ رحمی کا معاملہ کرے گا تو اللہ اس پر مہربانی کرے گا ، اور جو قطع تعلقی کرے گا تو اللہ اس سے رحمت کو منقطع کر دے گا۔

25897

(۲۵۸۹۸) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ عَوْفٍ ، عَنْ زُرَارَۃَ بْنِ أَوْفَی ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ سَلاَمٍ ، قَالَ : لَمَّا قَدِمَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْمَدِینَۃَ انْجَفَلَ النَّاسُ نَحْوَہُ فَأَتَیْتہ ، فَلَمَّا نَظَرْت إلَیْہِ عَرَفْت أَنَّ وَجْہَہُ لَیْسَ بوَجْہِ کَذَّابٍ ، فَکَانَ أَوَّلَ شَیْئٍ سَمِعْتہ یَقُولُ: یَا أَیُّہَا النَّاسُ ، أَفْشُوا السَّلاَمَ ، وَصِلُوا الأَرْحَامَ ، وَأَطْعِمُوا الطَّعَامَ، وَصَلُّوا بِاللَّیْلِ وَالنَّاسُ نِیَامٌ۔ (ترمذی ۲۴۸۵۔ احمد ۵/۴۵۱)
(٢٥٨٩٨) حضرت عبداللہ بن سلام فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ تشریف لائے ، تو لوگ جلدی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس حاضر ہوئے ، آپ کہتے ہیں کہ میں بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا جب میں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف دیکھا تو میں نے پہچان لیا کہ بیشک آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا چہرہ کسی جھوٹے کا چہرہ نہیں ہے اور سب سے پہلی بات جو میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے ہوئے سنی وہ یہ تھی کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے لوگو ! سلام کو پھیلاؤ، اور صلہ رحمی کرو اور کھانا کھلاؤ، اور رات کو نماز پڑھو ، اس حال میں کہ لوگ سو رہے ہوں۔

25898

(۲۵۸۹۹) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ عَطَائِ بْنِ أَبِی مَرْوَانَ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ کَعْبٍ ، قَالَ : وَالَّذِی فَلَقَ الْبْحَر لِبَنِی إسْرَائِیلَ ، إنَّ فِی التَّوْرَاۃِ مَکْتُوبا : ابْنَ آدَمَ ، اتَّقِ رَبَّک ، وَابْرَرْ وَالِدَیْک ، وَصِلْ رَحِمَک ، أَمُدُّ لَکَ فِی عُمْرِکَ ، وَأُیَسِّرُ لَکَ یُسْرَک ، وَأَصْرِفُ عَنْک عُسْرَک۔
(٢٥٨٩٩) حضرت ابو مروان فرماتے ہیں کہ حضرت کعب نے فرمایا : قسم ہے اس ذات کی جس نے بنی اسرائیل کے لیے سمندر کو پھاڑا، توراۃ میں لکھا ہوا ہے، اے ابن آدم ! اپنے رب سے ڈر، اپنے والدین سے نیکی کا معاملہ کر، اور پنے رشتہ داروں سے صلہ رحمی کا معاملہ کر ، میں تیری عمر میں اضافہ کر دوں گا، اور میں تیرے لیے آسانیاں پیدا کر دوں گا اور میں تیری مشکلوں کو تجھ سے پھیر دوں گا۔

25899

(۲۵۹۰۰) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ مَغْرَائَ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : مَنِ اتَّقَی رَبَّہُ وَوَصَلَ رَحِمَہُ نُسِئَ لَہُ فِی عُمْرِہِ ، وَثَرَا مَالُہُ ، وَأَحَبَّہُ أَہْلُہُ۔ (بخاری ۵۹۸۵)
(٢٥٩٠٠) حضرت مغرائ فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عمر نے ارشاد فرمایا : جو شخص اپنے رب سے ڈرتا ہو اور اپنے رشتہ داروں سے صلہ رحمی کا معاملہ کرتا ہو، تو اس کی عمر دراز کر د ی جاتی ہے اور اس کے مال میں اضافہ ہوتا ہے اور اس کے گھر والے اس سے محبت کرتے ہیں۔

25900

(۲۵۹۰۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ أَبِی عَاصِمٍ الثَّقَفِیِّ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ قَارِبٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ عَبْدَ اللہِ بْنَ عَمْرٍو یَقُولُ بِلِسَانٍ لَہُ ذُلَقٍ : إنَّ الرَّحِمَ مُعَلَّقَۃٌ بِالْعَرْشِ تُنَادِی بِلِسَانٍ لَہَا ذُلَقٍ : اللَّہُمَّ صِلْ مَنْ وَصَلَنِی ، وَاقْطَعْ مَنْ قَطَعَنِی۔ (طیالسی ۲۲۵۰)
(٢٥٩٠١) حضرت عبداللہ بن قارب فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن عمرو کو ان کی فصیح زبان سے یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ رشتہ داری اللہ کے عرش سے معلق ہے اور اپنی فصیح زبان سے یوں دعا کرتی ہے۔ اے اللہ ! تو مہربانی فرما اس شخص پر جو صلہ رحمی کا معاملہ کرے، اور تو بھی رحمت کو منقطع کر دے اس شخص سے جو قطع تعلقی کا معاملہ کرے۔

25901

(۲۵۹۰۲) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا قَتَادَۃُ ، عَنْ أَبِی ثُمَامَۃَ الثَّقَفِیِّ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو ، أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : تُوضَعُ الرَّحِمُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ، وَلَہَا حُجْنَۃٌ کَحُجْنَۃِ الْمِغْزَلِ ، تَکَلَّمُ بِأَلْسِنَۃ طُلَقٍ ذُلَقٍ ، فَتَصِلُ مَنْ وَصَلَہَا ، وَتَقْطَعُ مَنْ قَطَعَہَا۔ (احمد ۲/۱۸۹)
(٢٥٩٠٢) حضرت عبداللہ بن عمرو فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : رشتہ داری کو قیامت کے دن رکھا جائے گا اس حال میں کہ اس کے سر میں لوہا ہوگا جیسا کہ تکلہ کے سر میں لوہا ہوتا ہے اور یہ انتہا کی فصیح زبان سے بات کرے اور کہے گی ۔ پس تو بھی مہربانی کر جو مجھے جوڑتا ہے اور تو بھی رحمت کو منقطع کر دے اس شخص پر جو مجھے توڑتا ہے۔

25902

(۲۵۹۰۳) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الْجَبَّارِ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ کَعْبٍ الْقُرَظِیِّ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : الرَّحِمُ شُجْنَۃٌ مِنَ الرَّحْمَن ، تَجِیئُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ، تَقُولُ: یَا رَبِّ قُطِعْتُ ، یَا رَبِّ ظُلِمْتُ ، یَا رَبِّ أُسِیئَ إلَیَّ۔ (بخاری ۶۵۔ احمد ۲/۲۹۵)
(٢٥٩٠٣) حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : رشتہ داری رحمن کی ذات سے مختلط ہے یہ قیامت کے دن آئے گی اور کہے گی۔ اے پروردگار، مجھے توڑا گیا، اے پروردگار ! مجھ پر ظلم کیا گیا، اے پروردگار ! مجھ سے برا سلوک روا رکھا گیا۔

25903

(۲۵۹۰۴) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ الْحُبَابِ ، قَالَ : حدَّثَنَا مُوسَی بْنُ عُبَیْدَۃَ ، قَالَ : حَدَّثَنَا الْمُنْذِرُ بْنُ جَہْمٍ الأَسْلَمِیُّ ، عَنْ نَوْفَلِ بْنِ مُسَاحِقٍ ، عَنْ أُمِّ سَلَمَۃَ ، قَالَتْ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : الرَّحِمُ شُجْنَۃٌ آخِذَۃٌ بِحُجْزَۃِ الرَّحْمَن تُنَاشِدُ حَقَّہَا فَیَقُولُ : أَلاَ تَرْضِینَ أَنْ أَصِلَ مَنْ وَصَلَکِ ، وَأَقْطَعَ مَنْ قَطَعَکِ ، مَنْ وَصَلَکِ فَقَدْ وَصَلَنِی ، وَمَنْ قَطَعَکِ فَقَدْ قَطَعَنِی۔ (طبرانی ۹۷۰)
(٢٥٩٠٤) حضرت ام سلمہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : رشتہ داری ایک شاخ کی طرح ہے جو رحمن سے التجا کرکے اپنے حق کے بارے میں پکارتی ہے پس یوں کہتی ہے : کیا تو خوش نہیں کہ میں جوڑتی ہوں اس شخص کو جو تجھ سے جڑتا ہے اور میں توڑتی ہوں اس شخص سے جو تجھ سے تڑتا ہے ؟ جو شخص تجھ سے جڑتا ہے وہ مجھے بھی جوڑتا ہے، اور جو تجھ سے توڑتا ہے وہ مجھے بھی توڑتا ہے۔

25904

(۲۵۹۰۵) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : حدَّثَنَا فِطْرٌ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إنَّ الرَّحِمَ مُعَلَّقَۃٌ بِالْعَرْشِ وَلَیْسَ الْمُوَاصِلُ بِالْمُکَافِئِ ، وَلَکِنَّ الْمُوَاصِل الَّذِی إذَا انْقَطَعَتْ رَحِمُہُ وَصَلَہَا۔ (احمد ۲/۱۹۳۔ ابن حبان ۴۴۵)
(٢٥٩٠٥) حضرت عبداللہ بن عمرو فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : بیشک رشتہ داری اللہ کے عرش سے نکلتی ہوئی ہے اور صلہ رحمی کرنے والا نہیں ہے جو برابری کا معاملہ کرتا ہے۔ لیکن صلہ رحمی کرنے والا تو وہ شخص ہے کہ جب کوئی اس سے رشتہ داری توڑتا ہے تو وہ اس سے جوڑتا ہے۔

25905

(۲۵۹۰۶) حَدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ سِمَاکٍ ، عَنْ زَوْجِ دُرَّۃَ ، عَنْ دُرَّۃَ ، قَالَتْ : قُلْتُ : یَا رَسُولَ اللہِ ، مَنْ أَتْقَی النَّاسِ ؟ قَالَ : آمِرُہُمْ بِالْمَعْرُوفِ وَأَنْہَاہُمْ عَنِ الْمُنْکَرِ ، وَأَوْصَلُہُمْ لِلرَّحِمِ۔ (طبرانی ۶۵۷۔ احمد ۶/۴۳۲)
(٢٥٩٠٦) حضرت دُرّۃ فرماتی ہیں کہ میں نے پوچھا : اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! لوگوں میں سے سب سے زیادہ پرہیزگار کون شخص ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو ان میں سب سے زیادہ نیکی کا حکم کرنے والا ہو اور برائی سے روکنے والا ہو، اور رشتہ داروں سے صلہ رحمی کا معاملہ کرنے والا ہو۔

25906

(۲۵۹۰۷) حَدَّثَنَا جَرِیرُ بْنُ عَبْدِ الْحَمِیدِ ، عَنْ سُہَیْلِ بْنِ أَبِی صَالِحٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لاَ یَجْزِی وَلَدٌ وَالِدَہُ إلاَّ أَنْ یَجِدَہُ مَمْلُوکًا فَیَشْتَرِیَہُ فَیُعْتِقَہُ۔
(٢٥٩٠٧) حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : کوئی لڑکا اپنے والد کا بدلہ نہیں چکا سکتا ، مگر یہ کہ وہ اپنے والد کو غلام پائے پھر اس کو خرید کر آزاد کر دے۔

25907

(۲۵۹۰۸) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَنِ الشَّیْبَانِیِّ ، عَنِ الْوَلِیدِ بْنِ الْعَیْزَارِ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إیَاسٍ أَبِی عَمْرٍو الشَّیْبَانِیِّ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ ، قَالَ : قُلْتُ : یَا رَسُولَ اللہِ ، أَیُّ الأَعْمَالِ أَفْضَلُ ؟ قَالَ : الصَّلاَۃُ لِمِیقَاتِہَا ، قَالَ : قُلْتُ : ثُمَّ أَیُّ ؟ قَالَ : بِرُّ الْوَالِدَیْنِ۔
(٢٥٩٠٨) حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ میں نے پوچھا : اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! کون سا عمل افضل ترین ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : نماز کو اس کے وقت میں ادا کرنا۔ میں نے پوچھا : پھر کون سا عمل افضل ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : والدین سے نیک سلوک کرنا۔

25908

(۲۵۹۰۹) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ ، عَنْ أَبِی عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ أَبِی الدَّرْدَائِ ، قَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : الْوَالِدُ أَوْسَطُ أَبْوَابِ الْجَنَّۃِ ، فَإِنْ شِئْتَ فَاحْفَظْہُ ، وَإِنْ شِئْتَ فَضَیِّعْہُ۔ (ترمذی ۱۹۰۰۔ احمد ۵/۱۹۶)
(٢٥٩٠٩) حضرت ابو الدردائ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے ہوئے سنا کہ باپ جنت کا درمیانی دروازہ ہے، پس اگر تو چاہے تو اس کی حفاظت کر اور اگر چاہے تو اس کو ضائع کر دے۔

25909

(۲۵۹۱۰) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : لِلأُمِّ ثُلُثَا الْبِرِّ وَلِلأََبِ الثُّلُثُ۔
(٢٥٩١٠) حضرت ہشام فرماتے ہیں کہ حضرت حسن نے ارشاد فرمایا : ماں کا حصہ اچھے سلوک میں سے دو تہائی کے برابر ہے اور باپ کا ایک تہائی کے برابر ہے۔

25910

(۲۵۹۱۱) حَدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ بْنِ عَلِیٍّ ، عَنْ أَبِی سَلاَمَۃَ السُّلامِیِّ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : أُوصِی امْرَئًا بِأُمِّہِ ثَلاَثًا أُوصِی امْرَئًا بِأَبِیہِ ، أُوصِی امْرَئًا بِمَوْلاَہُ الَّذِی یَلِیہِ ، وَإِنْ کَانَ عَلَیْہِ مِنْہُ أَذًی یُؤْذِیہِ۔ (احمد ۴/۳۱۱۔ طبرانی ۴۱۸۴)
(٢٥٩١١) حضرت ابو السلام ہ السلامی فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ایک آدمی کو اپنی ماں سے حسن سلوک کے بارے میں تین مرتبہ وصیت کی گئی، اور اپنے باپ سے حسن سلوک کے بارے میں وصیت کی گئی، اور اس کو اپنے آقا کے بارے میں وصیت کی گئی اگرچہ وہ اس کو اذیت ہی دیتا ہو۔

25911

(۲۵۹۱۲) حَدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ عُمَارَۃَ بْنِ الْقَعْقَاعِ ، وَابْنِ شُبْرُمَۃَ ، عَنْ أَبِی زُرْعَۃَ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : جَائَ رَجُلٌ إلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ : یَا رَسُولَ اللہِ ، نَبِّئْنِی بِأَحَقِّ النَّاسِ مِنِّی بِحُسْنِ الصُّحْبَۃِ ، فَقَالَ: نَعَمْ ، وَأَبِیک لَتُنَبَّأَنَّ ، أُمُّک ، قَالَ : ثُمَّ مَنْ ؟ قَالَ : أُمُّک ، قَالَ : ثُمَّ مَنْ ؟ قَالَ : أَبُوکَ۔ (مسلم ۱۹۷۴۔ بخاری ۵۹۷۱)
(٢٥٩١٢) حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آکر عرض کیا اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! مجھے بتلائیے کہ لوگوں میں سب سے زیادہ میرے حسن سلوک کا کون حقدار ہے ؟ اس پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جی ہاں ! تیرے باپ کی قسم ! تجھے ضرور خبر دی جائے گی ، تیری ماں سب سے زیادہ حقدار ہے۔ اس شخص نے پوچھا : پھر کون ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تیری ماں اس نے پوچھا : پھر کون ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تیری ماں ! اس نے پوچھا : پھر کون ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تیرا باپ۔

25912

(۲۵۹۱۳) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ عُمَارَۃَ أَبِی سَعِیدٍ ، قَالَ : قُلْتُ لِلْحَسَنِ : إلَی مَا یَنْتَہِی الْعُقُوقُ ؟ قَالَ : أَنْ تُحَرِّمَہُمَا وَتَہْجُرَہُمَا وَتَحُدَّ النَّظَرَ إلَی وَجْہِ وَالِدَیْک ، یَا عُمَارَۃُ ، کَیْفَ الْبِرُّ لَہُمَا۔
(٢٥٩١٣) حضرت عمارہ ابو سعید فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت حسن سے پوچھا : کہ والدین کی نافرمانی کی انتہا کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا : یہ کہ تم ان کو محروم کردو اور ان سے قطع تعلقی کرو اور تم ان دونوں پر غصہ کی نظر ڈالو۔ اے عمارہ ! ان کے ساتھ کیسا نیک سلوک ہوا !۔

25913

(۲۵۹۱۴) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ أَسْمَائَ بْنِ عُبَیْدٍ ، عَنْ یُونُسَ بْنِ عُبَیْدٍ ، قَالَ : یُرْجَی لِلْمُرْہَقِ بِالْبِرِّ الْجَنَّۃُ ، وَیُخَافُ عَلَی المتألہ بِالْعُقُوقِ النَّارُ۔
(٢٥٩١٤) حضرت یونس بن عبید فرماتے ہیں کہ والدین کی فرمان برداری کرنے والے کے لیے جنت کی امید ہے اور والدین کی نافرمانی کرنے والے کے لیے جہنم کا طوف ہے۔

25914

(۲۵۹۱۵) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : بِرُّ الْوَالِدَیْنِ یُجْزِئُ مِنَ الْجِہَادِ۔ (بخاری ۳۰۰۴۔ مسلم ۱۹۷۵)
(٢٥٩١٥) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : والدین سے نیک سلوک کرنا جہاد کا جز ہے۔

25915

(۲۵۹۱۶) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا سُلَیْمَانُ التَّیْمِیُّ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ مَسْعُودٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : مَا مِنْ مُسْلِمٍ لَہُ أَبَوَانِ فَیُصْبِحُ وَہُوَ مُحْسِنٌ إلَیْہِمَا إلاَّ فَتَحَ اللَّہُ لَہُ بَابَیْنِ مِنَ الْجَنَّۃِ ، وَلاَ یُمْسِی وَہُوَ مُسِیئٌ إلَیْہِمَا إلاَّ فَتَحَ اللَّہُ لَہُ بَابَیْنِ مِنَ النَّارِ ، وَلاَ سَخِطَ عَلَیْہِ وَاحِدٌ مِنْہُمَا فَیَرْضَی اللَّہُ عَنْہُ حَتَّی یَرْضَی عَنْہُ ، قَالَ: قُلْتُ : وَإِنْ کَانَا ظَالِمَیْنِ ؟ قَالَ : وَإِنْ کَانَا ظَالِمَیْنِ۔
(٢٥٩١٦) حضرت سعد بن مسعود فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عباس نے ارشاد فرمایا : جس مسلمان کے والدین زندہ ہوں اور وہ صبح کرے ان دونوں سے نیک سلوک کرتے ہوئے تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت کے دو دروازے کھول دیتے ہیں اور جو کوئی مسلمان شام کرے ان دونوں سے برا سلوک کرتے ہوئے تو اللہ اس کے لیے جہنم کے دو دروازے کھول دیتے ہیں اور جب ان دونوں میں سے کوئی ایک اس سے ناراض ہو تو اللہ اس سے راضی نہیں ہوتے یہاں تک کہ وہ اس ناراض کو راضی کرے، راوی کہتے ہیں : میں نے پوچھاـ: اگرچہ وہ دونوں ظالم ہوں ؟ آپ نے فرمایا : ہاں ! اگرچہ وہ دونوں ظالم ہوں۔

25916

(۲۵۹۱۷) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ یَزِیدَ بْنِ أَبِی زِیَادٍ ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِی الْجَعْدِ ، وَمُجَاہِدٍ ، عَنْ أَبِی سَعِیدٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لاَ یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ عَاقٌ ، وَلاَ مُدْمِنُ خَمْرٍ ، وَلاَ مَنَّانٌ۔
(٢٥٩١٧) حضرت ابو سعید فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : نافرمان ہمیشہ شراب پینے والا، اور احسان جتلانے والا جنت میں داخل نہ ہوگا۔

25917

(۲۵۹۱۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ مُعَاوِیَۃَ بْنِ إِسْحَاقَ ، عَنْ عُرْوَۃَ بْنِ الزُّبَیْرِ ، قَالَ : مَا بَرَّ وَالِدَہُ مَنْ شَدَّ الطَّرْفَ إلَیْہِ۔
(٢٥٩١٨) حضرت معاویہ بن اسحاق فرماتے ہیں کہ حضرت عروہ بن زبیر نے ارشاد فرمایا : جس نے اپنے والد کی طرف سخت نظر سے دیکھا اس نے فرمان برداری نہیں کی۔

25918

(۲۵۹۱۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ : {فَلاَ تَقُلْ لَہُمَا أُفٍّ} قَالَ : إذَا بَلَغَا مِنَ الْکِبَرِ مَا کَانَ یَلِیَانِ مِنْہُ فِی الصِّغَرِ فَلاَ یَقُلْ لَہُمَا أُفٍّ۔
(٢٥٩١٩) حضرت لیث فرماتے ہیں کہ حضرت مجاہد نے اس آیت کا معنی یوں بیان کیا، آیت { فَلاَ تَقُلْ لَہُمَا أُفٍّ } جب وہ دونوں بڑھاپے کو کہ وہ حرکتیں کرنے لگیں جو یہ بچپن میں کیا کرتا تھا تو یہ ان دونوں کو اُف مت کہے۔

25919

(۲۵۹۲۰) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ طَلْحَۃَ بْنِ مُعَاوِیَۃَ بْنِ جَاہِمۃ السُّلَمِیِّ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : أَتَیْتُ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقُلْت : یَا رَسُولَ اللہِ ، إنِّی أُرِیدُ الْجِہَادَ مَعَک فِی سَبِیلِ اللہِ ، قَالَ : فَقَالَ : أُمُّکَ حَیَّۃٌ ؟ قَالَ : قُلْتُ : نَعَمْ ، یَا رَسُولَ اللہِ ، قَالَ : الْزَمْ رِجْلَیْہَا فَثَمَّ الْجَنَّۃُ۔ (ابن ماجہ ۲۷۸۱۔ حاکم ۱۵۱)
(٢٥٩٢٠) حضرت محمد بن طلحہ بن معاویہ بن جاھمۃ السلمی فرماتے ہیں کہ ان کے والد نے فرمایا : کہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آیا اور میں نے عرض کیا :ـ اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! میں آپ کے ساتھ اللہ کے راستہ میں جہاد کے لیے جانا چاہتا ہوں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا :ـ کیا تمہاری والدہ زندہ ہیں ؟ میں نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! جی ہاں، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ان کے پاؤں کو لازم پکڑ لو (خدمت کرو) پس وہاں جنت ہے۔

25920

(۲۵۹۲۱) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا ہِشَامُ بْنُ عُرْوَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ {فَلاَ تَقُلْ لَہُمَا أُفٍّ} قَالَ : لاَ تَمْنَعْہُمَا شَیْئًا أَرَادَاہُ ، أَوْ قَالَ : أَحَبَّاہُ۔
(٢٥٩٢١) حضرت ہشام بن عروہ فرماتے ہیں کہ ان کے والد حضرت عروہ بن زبیر نے اس آیت کی تفسیر یوں بیان فرمائی۔ آیت { فَلاَ تَقُلْ لَہُمَا أُفٍّ } ترجمہ : تم ان دونوں کو ” اُف “ تک مت کہو، فرمایا : اس کا مطلب ہے جب وہ دونوں کسی کام کے کرنے کا ارادہ کریں یا کوئی ان کو کوئی چیز پسند ہو تو ان دونوں کو روکو مت۔

25921

(۲۵۹۲۲) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنِ الْحَکَمِ ، عَنْ مَیْمُونِ بْنِ أَبِی شَبِیبٍ ، قَالَ : قیلَ لِمُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ مَا حَقُّ الْوَالِدِ عَلَی الْوَلَدِ ؟ قَالَ : لَوْ خَرَجْت مِنْ أَہْلِکَ وَمَالِکَ مَا أَدَّیْت حَقَّہُمَا قَالَ شُعْبَۃُ : وَإِنَّمَا حَدَّثَنِی بِہِ مَنْصُورُ بْنُ زَاذَانَ ، عَنِ الْحَکَمِ۔
(٢٥٩٢٢) حضرت میمون بن ابی شبیب فرماتے ہیں کہ حضرت معاذ بن جبل سے پوچھا گیا : اولاد پر والد کا کیا حق ہے ؟ آپ نے فرمایا : اگر تم ان کے لیے اپنے گھر والوں سے اور اپنے مال سے نکل جاؤ تب بھی تم نے ان کا حق ادا نہیں کیا۔ حضرت شعبہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث حضرت منصور بن زاذان نے حضت حکم سے بھی نقل کی ہے۔

25922

(۲۵۹۲۳) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِی الْجَعْدِ ، عَنْ نُبَیْطِ بْنِ شَرِیط ، عَنْ جَابَانَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : لاَ یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ عَاقٌ ، وَلاَ مُدْمِنُ خَمْرٍ ، وَلاَ مَنَّانٌ۔ (نسائی ۵۱۸۲۔ احمد ۲/۲۰۱)
(٢٥٩٢٣) حضرت عبداللہ بن عمرو فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : نافرمان، ہمیشہ شراب پینے والا اور احسان جتلانے والا جنت میں داخل نہیں ہوں گے۔

25923

(۲۵۹۲۴) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ إِسْحَاقَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : رَحِمَ اللَّہُ وَالِدًا أَعَانَ وَلَدَہُ عَلَی بِرِّہِ۔
(٢٥٩٢٤) امام شعبی فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اللہ اس والد پر رحم فرمائیں جو اپنے بچے کی نیکی کرنے میں مدد کرے۔

25924

(۲۵۹۲۵) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، وَعَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ، عَنْ أَبِی بَکْرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ ، عَنْ عَمْرَۃَ ، عَنْ عَائِشَۃَ ، قَالَتْ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَا زَالَ جِبْرِیلُ یُوصِینِی بِالْجَارِ حَتَّی ظَنَنْت أَنَّہُ سَیُوَرِّثُہُ۔ (بخاری ۶۰۱۴۔ مسلم ۲۰۲۵)
(٢٥٩٢٥) حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : حضرت جبرائیل مجھے مسلسل پڑوسی کے بارے میں وصیت کرتے رہے، یہاں تک کہ مجھے گمان ہونے لگا کہ وہ اس کو وراثت میں حقدار بنادیں گے۔

25925

(۲۵۹۲۶) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، عَنْ بَشِیر بْن سَلْمَانَ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، قَالَ : کُنَّا جُلُوسًا عِنْدَ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو فَقَالَ : إنِّی سَمِعْت رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُوصِی بِالْجَارِ حَتَّی حسبنا ، أَوْ رَأَیْنَا ، أَنَّہُ سَیُوَرِّثُہُ۔ (احمد ۲/۱۶۰)
(٢٥٩٢٦) حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ ہم لوگ حضرت عبداللہ بن عمرو کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ آپ نے فرمایا : یقیناً میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سنا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پڑوسی کے متعلق وصیت فرما رہے تھے۔ یہاں تک کہ ہمیں گمان ہوا یا ہماری یہ رائے ہوئی کہ عنقریب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کو وراثت میں حقدار بنادیں گے۔

25926

(۲۵۹۲۷) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَص ، عَنْ أَبِی حَصِینٍ ، عَنْ أَبِی صَالِحٍ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَنْ کَانَ یُؤْمِنُ بِاللَّہِ وَالْیَوْمِ الآخِرِ فَلاَ یُؤْذِی جَارَہُ۔ (بخاری ۶۰۱۸۔ مسلم ۶۸)
(٢٥٩٢٧) حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جو شخص اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اس کو چاہیے کہ وہ اپنے پڑوسی کو تکلیف مت پہنچائے۔

25927

(۲۵۹۲۸) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا سَلاَّمُ بْنُ مِسْکِینٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا شَہْرُ بْنُ حَوْشَبٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ یُوسُف بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ سَلاَمٍ أَنْ رَجُلاً أَتَی النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ : آذَانِی جَارِی ، فَقَالَ : اصْبِرْ ، ثُمَّ أَتَاہُ الثَّانِیَۃَ فَقَالَ : آذَانِی جَارِی ، فَقَالَ : اصْبِرْ ، ثُمَّ أَتَاہُ الثَّالِثَۃَ فَقَالَ : آذَانِی جَارِی ، فَقَالَ : اعْمَدْ إلَی مَتَاعِکَ فَاقْذِفْہُ فِی السِّکَّۃِ ، فَإِذَا مَرَّ بِکَ أَحَدٌ فَقُلْ : آذَانِی جَارِی ، فَتَحِقُّ عَلَیْہِ اللَّعْنَۃُ ، أَوْ تَجِبُ عَلَیْہِ اللَّعَنْۃُ۔ (بخاری ۱۲۵۔ طبرانی ۳۵۶)
(٢٥٩٢٨) حضرت محمد بن یوسف بن عبداللہ بن سلام فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آیا اور کہنے لگا : میرے پڑوسی نے مجھے تکلیف پہنچائی ۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : صبر کرو۔ پھر وہ دوسری مرتبہ آیا اور کہنے لگا ! میرے پڑوسی نے مجھے تکلیف پہنچائی، اس پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : صبر کرو، پھر وہ تیسری مرتبہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا اور کہنے لگا ! میرے پڑوسی نے مجھے تکلیف پہنچائی ۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جاؤ اور اپنا سامان گلی میں پھینک دو ، اور جب تمہارے پاس سے کوئی بھی شخص گزرے تو اس کو کہو ! میرے پڑوسی نے مجھے تکلیف پہنچائی، پس اس پر لعنت ہوگی یا یوں فرمایا : اس پر لعنت واجب ہوجائے گی۔

25928

(۲۵۹۲۹) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ فَرَاہِیجَ ، قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا ہُرَیْرَۃَ یُحَدِّثُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : أَوْصَانِی جِبْرِیلُ بِالْجَارِ حَتَّی ظَنَنْت أَنَّہُ یُوَرِّثُہُ۔ (ابن ماجہ ۳۶۷۴۔ احمد ۲/۲۵۹)
(٢٥٩٢٩) حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے پڑوسی کے بارے میں وصیت کی یہاں تک کہ مجھے گمان ہونے لگا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کو وارث قرار دے دیں گے۔

25929

(۲۵۹۳۰) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنِ ابْنِ عَجْلاَنَ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ أَبِی سَعِیدٍ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : اللَّہُمَّ إنِّی أَعُوذُ بِکَ مِنْ جَارِ سُوئٍ فِی دَارِ الْمُقَامَۃِ ، فَإِنَّ جَارَ الْبَادِیَۃِ یَتَحَوَّلُ۔ (بخاری ۱۱۷۔ ابن حبان ۱۰۳۳)
(٢٥٩٣٠) حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یوں دعا فرمائی ! اے اللہ ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں رہنے کے گھر میں برے پڑوسی سے، اس لیے کہ گاؤں کا پڑوسی بدلتا رہتا ہے۔

25930

(۲۵۹۳۱) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ ، عَنْ یَزِیدَ بْنِ أَبِی حَبِیبٍ ، عَنْ سِنَانِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : مَا ہُوَ بِمُؤْمِنٍ مَنْ لَمْ یَأْمَنْ جَارُہُ بَوَائِقَہُ۔ (ابویعلی ۴۲۳۶)
(٢٥٩٣١) حضرت انس بن مالک فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : وہ شخص کامل مومن نہیں ہے جس کا پڑوسی اس کی تکالیف سے محفوظ نہ ہو۔

25931

(۲۵۹۳۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا الأَوْزَاعِیُّ ، عَنْ عَبْدَۃَ بْنِ أَبِی لُبَابَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لاَ قَلِیلَ مَنْ آذَی الْجَارَ۔ (طبرانی ۲۳)
(٢٥٩٣٢) حضرت عبدہ بن ابی لبابہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اس شخص کا تھوڑا سا ایمان بھی نہیں جو پڑوسی کو تکلیف پہنچائے۔

25932

(۲۵۹۳۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ بُرْقَانَ ، عَنْ مَیْمُونَ بْنِ مِہْرَانَ ، قَالَ : کَانَ رَجُلٌ مِنَ الْمُسْلِمِینَ یَصُومُ ، فَکَانَ یَجْعَلُ لِسُحُورِہِ قُرْصًا فَجَائَتِ الشَّاۃُ فَأَخَذَتِ الْقُرْصَ ، فَقَامَتِ الْمَرْأَۃُ فَفَکَّتْ لِحْیَیَ الشَّاۃِ فَأَخَذَتِ الْقُرْصَ ، فَثَغَتِ الشَّاۃُ فَقَالَ : الرَّجُلُ : مَا یُدْرِیک مَا بَلَغَ ثِغَاہَا مِنْ أَذَی جَارِک۔
(٢٥٩٣٣) حضرت میمون بن مہران فرماتے ہیں کہ مسلمانوں میں سے ایک آدمی سحری کے لیے روٹی کا ایک ٹکڑا رکھتا تھا ۔ پس بکری آئی اور اس نے روٹی کا ٹکڑ ا لے لیا، اتنے میں اس کی بیوی نے کھڑے ہو کر اس سے محلہ دار کی بکری کو باندھ دیا اور اس سے روٹی کا ٹکڑا لے لیا، تو بکری نے چیخنا چلانا شروع کردیا۔ اس آدمی نے کہا : کیا تو جانتی ہے کہ اس کی چیخنے سے بھی پڑوسی کو تکلیف پہنچے گی ؟

25933

(۲۵۹۳۴) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : أَخْبَرَنِی جَارُ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، أَنَّہُ کَانَ یُرْمی بِالأَرْجَامِ وَالْجِیَف فَقَالَ : یَا مَعْشَرَ قُرَیْشٍ ، أَیُّ مُجَاوَرَۃٍ ہَذِہِ ؟۔ (ابن سعد ۲۰۱)
(٢٥٩٣٤) حضرت عروہ فرماتے ہیں کہ مجھے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پڑوسی نے بتلایا : کہ وہ مردار اور پتھر پھینکا کرتا تھا ؟ اس پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے گروہ قریش ! یہ کیسی ہمسائیگی ہے ؟

25934

(۲۵۹۳۵) حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ ، عَنْ أَبِی مَالِکٍ الأَشْجَعِیِّ ، عَنْ رِبْعِیٍّ ، عَنْ حُذَیْفَۃَ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : کُلُّ مَعْرُوفٍ صَدَقَۃٌ۔ (احمد ۵/۳۹۷)
(٢٥٩٣٥) حضرت ربعی بن حراش فرماتے ہیں کہ حضرت حذیفہ نے ارشاد فرمایا : ہر نیکی صدقہ ہے۔

25935

(۲۵۹۳۶) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللہِ : کُلُّ مَعْرُوفٍ صَدَقَۃٌ۔
(٢٥٩٣٦) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود نے ارشاد فرمایا : ہر نیکی صدقہ ہے۔

25936

(۲۵۹۳۷) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ زَیْدٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: رَأْسُ الْعَقْلِ بَعْدَ الإِیمَانِ بِاللَّہِ مُدَارَاۃُ النَّاسِ ، وَلَنْ یَہْلِکَ رَجُلٌ بَعْدَ مَشْورَۃٍ ، وَأَہْلُ الْمَعْرُوفِ فِی الدُّنْیَا ہُمْ أَہْلُ الْمَعْرُوفِ فِی الآخِرَۃِ۔ (بیہقی ۱۰۹)
(٢٥٩٣٧) حضرت سعید بن المسیب فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اللہ پر ایمان لانے کے بعد عقل کی بنیاد لوگوں سے میل ملاپ کرنا ہے، اور آدمی ہرگز ہلاک نہیں ہوتا مشورے کے بعد، اور جو دنیا میں بھلائی والے لوگ ہیں وہی آخرت میں بھلائی والے ہیں۔

25937

(۲۵۹۳۸) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ أَبِی عُثْمَانَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : أَہْلُ الْمَعْرُوفِ فِی الدُّنْیَا ہُمْ أَہْلُ الْمَعْرُوفِ فِی الآخِرَۃِ ، وَأَہْلُ الْمُنْکَرِ فِی الدُّنْیَا ہُمْ أَہْلُ الْمُنْکَرِ فِی الآخِرَۃِ۔
(٢٥٩٣٨) حضرت ابو عثمان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : دنیا میں بھلائی والے وہی آخرت میں بھلائی والے ہوں گے اور دنیا میں برے لوگ آخرت میں برائی والے ہوں گے۔

25938

(۲۵۹۳۹) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ الأَسْوَدِ ، عَنْ مُجَاہِدٍ، قَالَ: مَنْ صَنَعَ مَعْرُوفًا إلَی غَنِیٍّ وَفَقِیرٍ، فَہُوَ صَدَقَۃٌ۔
(٢٥٩٣٩) حضرت عثمان بن اسود فرماتے ہیں کہ حضرت مجاہد نے ارشاد فرمایا : جو شخص کسی امیر یا فقیر سے بھلائی کا معاملہ کرتا ہے تو یہ بھی صدقہ ہے۔

25939

(۲۵۹۴۰) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا عَبْدُ الْجَبَّارِ بْنُ عَبَّاسٍ ، عَنْ عَدِیِّ بْنِ ثَابِتٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ یَزِیدَ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : کُلُّ مَعْرُوفٍ صَدَقَۃٌ۔ (بخاری ۲۳۱۔ احمد ۴/۳۰۷)
(٢٥٩٤٠) حضرت عبداللہ بن یزید فرماتے ہںْ کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ہر نیکی صدقہ ہے۔

25940

(۲۵۹۴۱) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَسَنٍ الأَزْدِیُّ، قَالَ: حدَّثَنَا عَبْدُالْحَمِیدِ الْبَصْرِیُّ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْکَدِرِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : کُلُّ مَعْرُوفٍ صَدَقَۃٌ۔(بخاری ۶۰۲۱۔ ترمذی ۱۹۷۰)
(٢٥٩٤١) حضرت جابر بن عبداللہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ہر نیکی صدقہ ہے۔

25941

(۲۵۹۴۲) حَدَّثَنَا مَالِکٌ ، عَنْ أَبِی عَوَانَۃَ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ زِرٍّ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : کُلُّ مَعْرُوفٍ صَدَقَۃٌ۔
(٢٥٩٤٢) حضرت زر فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود نے ارشاد فرمایا : ہر بھلائی صدقہ ہے۔

25942

(۲۵۹۴۳) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا سُفْیَانُ بْنُ حُسَیْنٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْکَدِرِ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللہِ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : مَنْ عَالَ ثَلاَثَ بَنَاتٍ یَکْفِیہِنَّ وَیَرْحَمُہُنَّ وَیَرْفِقُ بِہِنَّ ، فَہُوَ فِی الْجَنَّۃِ ، أَوْ قَالَ : مَعِی فِی الْجَنَّۃِ۔ (احمد ۳/۳۰۳۔ ابویعلی ۲۲۰۷)
(٢٥٩٤٣) حضرت جابربن عبداللہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جو شخص تین لڑکیوں کی پرورش کرے اور ان کی کفایت کرے اور ان پر رحم کرے اور ان کے ساتھ نرمی والا معاملہ کرے تو وہ شخص جنت میں ہوگا یا یوں فرمایا : کہ وہ شخص جنت میں میرے ساتھ ہوگا۔

25943

(۲۵۹۴۴) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ أَبِی مَالِکٍ الأَشْجَعِیِّ ، عَنْ زِیَادِ بْنِ حُدَیْرٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَنْ وُلِدَتْ لَہُ ابْنَۃٌ فَلَمْ یَئِدْہَا وَلَمْ یُہِنْہَا ، وَلَمْ یُؤْثِرْ وَلَدَہُ عَلَیْہَا ، یَعْنِی الذُّکُورَ ، أَدْخَلَہُ اللَّہُ الْجَنَّۃَ۔ (ابوداؤد ۵۱۰۳۔ حاکم ۱۷۷)
(٢٥٩٤٤) حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جس شخص کے ہاں بیٹی پیدا ہوئی نہ اس نے اسے زندہ درگور کیا اور نہ ہی اس کو ذلیل کیا اور نہ اپنے بیٹے کو اس پر ترجیح دی تو اللہ تعالیٰ اس شخص کو جنت میں داخل کرے گا۔

25944

(۲۵۹۴۵) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشَ ، عَنِ الرَّقَاشِیِّ ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَنْ کَانَ لَہُ ابْنَتَانِ ، أَوْ أُخْتَانِ فَأَحْسَنَ إلَیْہِمَا مَا صَحِبَتَاہُ کُنْت أَنَا وَہُوَ فِی الْجَنَّۃِ کَہَاتَیْنِ - یَعْنِی کالسَّبَّابَۃِ وَالْوُسْطَی۔ (مسلم ۲۰۲۷۔ ترمذی ۱۹۱۴)
(٢٥٩٤٥) حضرت انس فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جس شخص کی دو بیٹیاں یا دو بہنیں ہوں اور یہ ان دونوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرے جب تک وہ اس کی صحبت میں رہیں تو میں اور وہ شخص قیامت میں اس طرح ہوں گے، اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے شہادت اور درمیانی انگلی کو ساتھ ملایا۔

25945

(۲۵۹۴۶) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ فِطْرٍ ، عَنْ شُرَحْبِیلَ بْنِ سَعد ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَنْ أَدْرَکَتْ لَہُ ابْنَتَانِ فَأَحْسَنَ إلَیْہِمَا مَا صَحِبَتَاہُ ، أَوْ صَحِبَہُمَا ، أَدْخَلَہُ اللَّہُ الْجَنَّۃَ بِہِمَا۔ (ابن ماجہ ۳۶۷۰۔ احمد ۱/۲۳۵)
(٢٥٩٤٦) حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جس شخص کی دو بیٹیاں ہوں اور وہ ان دونوں سے اچھا برتاؤ کرے، جب تک یہ دونوں اس کی صحبت میں ہوں تو اللہ تعالیٰ ان دونوں کی وجہ سے اس شخص کو جنت میں داخل فرمائیں گے۔

25946

(۲۵۹۴۷) حَدَّثَنَا دَاوُد بْنُ عَبْدِاللہِ، قَالَ: حدَّثَنَا عَبْدُالْعَزِیزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ سُہَیْلِ بْنِ أَبِی صَالِحٍ السَّمَّانِ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مُکْمِلٍ ، عَنْ أَیُّوبَ بْنِ بَشِیرٍ الْمُعَاوِیِّ ، عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ ، أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : لاَ یَکُونُ لأَحَدِکُمْ ثَلاَثُ بَنَاتٍ ، أَوْ ثَلاَثُ أَخَوَاتٍ فَیُحْسِنُ إلَیْہِنَّ إلاَّ دَخَلَ الْجَنَّۃَ۔
(٢٥٩٤٧) حضرت ابو سعید خدری فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : تم میں سے جس شخص کی تین بیٹیاں یا تین بہنیں ہوں، پھر وہ ان سے اچھا سلوک کرے تو اللہ تعالیٰ ضرور ان کو جنت میں داخل فرمائیں گے۔

25947

(۲۵۹۴۸) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللہِ الأَسَدِیُّ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الْعَزِیزِ ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ بن أَبِی بَکْرٍ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَنْ عَالَ جَارِیَتَیْنِ حَتَّی تَبْلُغَا جَائَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ أَنَا وَہُوَ ہَکَذَا وَضَمَّ إصْبَعَیْہِ۔ (مسلم ۲۰۲۷۔ ترمذی ۱۹۱۴)
(٢٥٩٤٨) حضرت انس فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جو دو بچیوں کی پرورش کرے، یہاں تک کہ وہ دونوں بالغ ہوگئیں وہ شخص قیامت کے دن آئے گا اس حال میں کہ میں اور وہ اس طرح ہوں گے، اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی دونوں انگلیوں کو ملایا۔

25948

(۲۵۹۴۹) حَدَّثَنَا مُصْعَبُ بْنُ الْمِقْدَامِ ، قَالَ : حدَّثَنَا مِنْدَلٌ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ نَبْہَانَ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَنْ کَانَ لَہُ ثَلاَثُ بَنَاتٍ فَصَبَرَ عَلَی لاَوَائِہِنَّ وَسَرَّائِہِنَّ وَضَرَّائِہِنَّ أَدْخَلْنہُ الْجَنَّۃَ بِفَضْلِ رَحْمَتِہِ إیَّاہُنَّ ، قَالَ رَجُلٌ : واثنتان ؟ قَالَ : وَاثْنَتَانِ ، قَالَ رَجُلٌ : وَوَاحِدَۃٌ ؟ قَالَ : وَوَاحِدَۃٌ۔ (احمد ۲/۳۳۵۔ حاکم ۱۷۶)
(٢٥٩٤٩) حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جس شخص کی تین بیٹیاں ہوں اور وہ ان کی خوشی غمی پر صبر کرے تو یہ بیٹیاں اس کو اللہ کی رحمت کے فضل سے جنت میں داخل کروائیں گی تو ایک آدمی کہنے لگا : اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! اور اگر دو بیٹیاں ہوں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : دو ہوں تب بھی، اس آدمی نے کہا : اگر ایک ہو ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اگر ایک ہو تب بھی۔

25949

(۲۵۹۵۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ مِسْعَرٍ ، عَنْ ثَابِتِ بْنِ عُبَیْدٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِی لَیْلَی ، قَالَ : مَرَّ بِی عَمْرُو بْنُ بُلَیْلٍ وَأَنَا مُتَصَبِّحٌ فِی النَّخْلِ فَحَرَّکَنِی بِرِجْلِہِ فَقَالَ : أَتَرْقُدُ فِی السَّاعَۃِ الَّتِی یَنْتَشِرُ فِیہَا عِبَادُ اللہِ۔
(٢٥٩٥٠) حضرت عبد الرحمن بن أبی لیلیٰ فرماتے ہیں کہ حضرت عمرو بن بلیل میرے پاس سے گزرے اور میں کھجور کے باغ میں صبح کے وقت سو رہا تھا۔ آپ نے اپنے پاؤں سے مجھے ہلایا اور فرمایا : کیا تم اس وقت میں سو رہے ہو جس میں اللہ کے بندے منتشر ہوتے ہیں ؟

25950

(۲۵۹۵۱) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : کَانَ الزُّبَیْرُ یَنْہَی بَنِیہِ عَنِ التَّصَبُّحِ ، قَالَ : وَقَالَ عُرْوَۃُ : إنِّی لأَسْمَعُ بِالرَّجُلِ یَتَصَبَّحُ فَأَزْہَدُ فِیہِ۔
(٢٥٩٥١) حضرت عروہ بن زبیر فرماتے ہیں کہ ان کے والد حضرت زبیر اپنے بیٹوں کو صبح کے وقت سونے سے روکتے تھے اور حضرت عروہ نے فرمایا : بیشک میں نے ایک آدمی کے بارے سناجو صبح سوتا تھا کہ آپ اس کو حقیر سمجھتے تھے۔

25951

(۲۵۹۵۲) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ طَلْحَۃَ بْنِ یَحْیَی ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ فَرُّوخَ ، عَنْ طَلْحَۃَ بْنِ عُبَیْدِ اللہِ ، أَنَّہُ مَرَّ بِابْنٍ لَہُ قد تَصَبَّحَ ، فَذَکَرَ أَنَّہُ قَفَدہ ، وَنَہَاہُ عَنْ ذَلِکَ۔
(٢٥٩٥٢) حضرت عبداللہ بن فروخ فرماتے ہیں کہ حضرت طلحہ بن عبید اللہ اپنے بیٹے کے پاس سے گزرے اس حال میں کہ وہ صبح کے وقت سو رہا تھا انھوں نے اس کے سر پر چپت لگائی اور اس کو سونے سے منع کیا۔

25952

(۲۵۹۵۳) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِی سُفْیَانَ ، قَالَ : الْتَقَی ابْنُ الزُّبَیْرِ وَعُبَیْدُ بْنُ عُمَیْرٍ فَتَذَاکَرَا شَیئًا فَقَالَ لَہُ الآخَرُ : أَمَا عَلِمْت أَنَّ الأَرْضَ تَعِجُّ إلَی رَبِّہَا مِنْ نَوْمَۃِ عُلَمَائِہَا۔
(٢٥٩٥٣) حضرت ابو سفیان فرماتے ہیں کہ حضرت ابن زبیر اور حضرت عبید بن عمیر آپس میں ملے اور آپس میں کچھ مذاکرہ کیا، پھر دوسرے نے ان کو کہا، کیا تم جانتے ہو کہ زمین اپنے رب کو چیخ کر علماء کی نیند کے بارے میں بتلاتی ہے۔

25953

(۲۵۹۵۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : قَالَ الزُّبَیْرُ : إنِّی لأَزْہَدُ فِی الرَّجُلِ یَتَصَبَّحُ۔
(٢٥٩٥٤) حضرت عروہ بن زبیر فرماتے ہیں کہ حضرت زبیر نے ارشاد فرمایا : بیشک میں صبح سونے والے شخص کو حقیر سمجھتا ہوں۔

25954

(۲۵۹۵۵) حَدَّثَنَا مَعْنُ بْنُ عِیسَی، عَنْ خَالِدِ بْنِ أَبِی بَکْرٍ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ، قَالَ: کَانَ سَالِمٌ لاَ یَتَصَبَّحُ، وَکَانَ یَقِیلُ۔
(٢٥٩٥٥) حضرت عبید اللہ فرماتے ہیں کہ حضرت سالم صبح نہیں سوتے تھے اور بہت کم نیند کرتے تھے۔

25955

(۲۵۹۵۶) حَدَّثَنَا مَعْنُ بْنُ عِیسَی ، عَنْ خَالِدِ بْنِ أَبِی بَکْرٍ ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ بْنِ عَبْدِ اللہِ مِثْلُہُ۔
(٢٥٩٥٦) حضرت عبید اللہ سے مذکورہ حدیث اس سند کے ساتھ بھی منقول ہے۔

25956

(۲۵۹۵۷) حَدَّثَنَا عِیسَی بْنُ یُونُسَ ، عَنِ الأَوْزَاعِیِّ ، عَنْ مَکْحُولٍ مِثْلُہُ۔
(٢٥٩٥٧) حضرت مکحول سے بھی مذکورہ حدیث منقول ہے۔

25957

(۲۵۹۵۸) حَدَّثَنَا سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ، عَنِ الْقَاسِمِ ، عَنْ عَائِشَۃَ ، أَنَّہَا کَانَتْ تَصَبَّحُ۔
(٢٥٩٥٨) حضرت قاسم فرماتے ہیں کہ حضرت عائشہ صبح کے وقت سوتی تھیں۔

25958

(۲۵۹۵۹) حَدَّثَنَا شَبَابَۃُ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ الشَّمَّاسِ ، قَالَ : أَتَیْتُ أُمَّ سَلَمَۃَ فَوَجَدْتہَا نَائِمَۃً - یَعْنِی بَعْدَ الصُّبْحِ۔
(٢٥٩٥٩) حضرت عبداللہ بن شماس فرماتے ہیں کہ میں حضرت ام سلمہ کے پاس آیا تو میں نے ان کو سویا ہوا پایا صبح کی نماز کے بعد۔

25959

(۲۵۹۶۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، أَنَّ عَائِشَۃَ کَانَتْ إذَا طَلَعَتِ الشَّمْسُ نَامَتْ نَوْمَۃَ الضُّحَی۔
(٢٥٩٦٠) حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ جب سورج طلوع ہوجاتا تو حضرت عائشہ صبح کی نیند سو جاتیں۔

25960

(۲۵۹۶۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إسْرَائِیلَ، عَنْ عَبْدِ الأَعْلَی، قَالَ: أَتَیْتُ سَعِیدَ بْنَ جُبَیْرٍ فَوَجَدْتہ نَائِمًا نَوْمَۃَ الضُّحَی۔
(٢٥٩٦١) حضرت عبد الاعلیٰ فرماتے ہیں کہ میں حضرت سعید بن جبیر کے پاس آیا تو میں نے ان کو صبح کی نیند کرتے ہوئے پایا۔

25961

(۲۵۹۶۲) قَالَ : قَالَ : حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ ، قَالَ :حَدَّثَنَا أَیُّوبُ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ ، أَنَّہُ کَانَ یَتَصَبَّحُ۔
(٢٥٩٦٢) حضرت ایوب فرماتے ہیں کہ حضرت ابن سیرین صبح کے وقت سویا کرتے تھے۔

25962

(۲۵۹۶۳) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنْ أَبِی یَزِیدَ الْمَدِینِیِّ ، قَالَ : غَدَا عُمَرُ عَلَی صُہَیْبٍ فَوَجَدَہُ مُتَصَبِّحًا ، فَقَعَدَ حَتَّی اسْتَیْقَظَ ، فَقَالَ صُہَیْبٌ : أَمِیرُ الْمُؤْمِنِینَ قَاعِدٌ عَلَی مَقْعَدَتِہِ وَصُہَیْبٌ نَاعِمٌ مُتَصَبِّحٌ ، فَقَالَ لَہُ عُمَرُ : مَا کُنْت أُحِبُّ أَنْ تَدَعَ نَوْمَۃً تَرْفُقُ بِکَ ۔
(٢٥٩٦٣) حضرت ابو یزید مدینی فرماتے ہیں کہ حضرت عمر حضرت صہیب کے پاس صبح کے وقت آئے تو انھیں صبح کے وقت سویا ہوا پایا۔ آپ بیٹھ گئے یہاں تک کہ وہ بیدار ہوگئے تو حضرت صہیب نے فرمایا : امیر المؤمنین اپنی جگہ پر بیٹھے ہوئے ہیں اور صہیب ہے کہ وہ صبح کی نیند سویا ہوا ہے ؟ حضرت عمر نے ان سے فرمایا : میں نے یہ بات پسند نہیں کی کہ میں تمہیں میٹھی نیند سے اٹھاؤں۔

25963

(۲۵۹۶۴) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : کَانَ الزُّبَیْرُ شَدِیدًا عَلَی النِّسَائِ ، وَکَانَ یُکَسِّرُ عَلَیْہِنَّ عِیدَانَ الْمشَاحِبِ۔
(٢٥٩٦٤) حضرت عروہ فرماتے ہیں کہ حضرت زبیر عورتوں پر بہت سخت تھے ، اور ان پر کپڑے سکھانے والی لکڑیاں توڑتے تھے۔

25964

(۲۵۹۶۵) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، قَالَ : کَانَ عُمَرُ یَضْرِبُ النِّسَائَ وَالْخَدَمَ۔
(٢٥٩٦٥) امام زہری فرماتے ہیں کہ حضرت عمر عورتوں اور خادموں کو مارا کرتے تھے۔

25965

(۲۵۹۶۶) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ یَعْلَی بْنِ عَطَائٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرو ، قَالَ : لاَ تَضْرِبْ خَادِمَک وَاضْرِبِ امْرَأَتَکَ وَوَلَدَک۔
(٢٥٩٦٦) حضرت عطاء فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمرو نے ارشاد فرمایا : تم اپنے خادم کو مت مارو ، اپنی بیوی اور بچوں کو مار لیا کرو۔

25966

(۲۵۹۶۷) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ، عَنِ الْقَاسِمِ ، أَنَّ رِجَالاً نُہُوا عَنْ ضَرْبِ النِّسَائِ ، وَقِیلَ : لَنْ یَضْرِبَ خِیَارُکُمْ ، قَالَ الْقَاسِمُ : وَکَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خَیْرَہُمْ کَانَ لاَ یَضْرِبُ۔ (ابوداؤد ۲۱۳۹۔ بیہقی ۳۰۴)
(٢٥٩٦٧) حضرت یحییٰ بن سعید فرماتے ہیں کہ حضرت قاسم نے ارشاد فرمایا : بیشک آدمیوں کو عورتوں کے مارنے سے منع کیا گیا اور کہا گیا : تمہارے بہترین لوگ ہرگز نہیں مارتے، حضرت قاسم نے فرمایا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگوں میں سب سے بہترین تھے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نہیں مارتے تھے۔

25967

(۲۵۹۶۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ عَائِشَۃَ ، قَالَتْ : مَا ضَرَبَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خَادِمًا لَہُ ، وَلاَ امْرَأَۃً ، وَلاَ ضَرَبَ شَیْئًا بِیَدِہِ۔ (مسلم ۱۸۱۴۔ ابوداؤد ۴۷۵۳)
(٢٥٩٦٨) حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نہ کبھی کسی خادم کو مارا اور نہ ہی کسی عورت کو، اور اپنے ہاتھ سے بھی نہیں مارا۔

25968

(۲۵۹۶۹) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ سُلَیْمٍ الطَّائِفِیُّ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ بْنِ کَثِیرٍ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ لَقِیطِ بْنِ صَبِرَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لاَ تَضْرِبَنَّ ظَعِینَتَکَ ضَرْبَک أَمَتِک۔
(٢٥٩٦٩) حضرت لقیط بن صبرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : تم ہرگز اپنی بیویوں کو اپنی باندیوں کی طرح مت مارو۔

25969

(۲۵۹۷۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ حَبِیبِ بْنِ أَبِی ثَابِتٍ ، عَنْ مَیْمُونِ بْنِ أَبِی شَبِیبٍ ، قَالَ : قَالَ عَمَّارٌ : مَنْ ضَرَبَ عَبْدَہُ ظَالِمًا أُقِیدَ مِنْہُ۔
(٢٥٩٧٠) حضرت میمون بن ابی شبیب فرماتے ہیں کہ حضرت عمار نے ارشاد فرمایا : جس شخص نے اپنے غلام کو ظلماً مارا تو اس وجہ سے اس کو بیڑیاں پہنائی جائیں گی۔

25970

(۲۵۹۷۱) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ زَمْعَۃَ ، قَالَ : خَطَبَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، ثُمَّ ذَکَرَ النِّسَائَ فَوَعَظَہُمْ فِیہِنَّ فَقَالَ : إلاَمَ یَجْلِدُ أَحَدُکُمُ امْرَأَتَہُ جَلْدَ الأَمَۃِ ، ولَعَلَّہُ أَنْ یُضَاجِعَہَا مِنْ آخِرِ یَوْمِہِ۔ (بخاری ۴۹۴۲۔ مسلم ۲۱۹۱)
(٢٥٩٧١) حضرت عبداللہ بن زمعہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خطبہ دیا پھر عورتوں کا ذکر فرمایا اور ان کے بارے میں وعظ و نصیحت فرمائی، اور فرمایا : ہوسکتا ہے کہ تم میں سے کوئی ایک اپنی بیوی کو باندیوں کی طرح مارے اور پھر شاید دن کے آخری حصہ میں اس سے ہمبستری کرے۔

25971

(۲۵۹۷۲) حَدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنِ الرُّکَیْنِ ، عَنْ نُعَیْمِ بْنِ حَنْظَلَۃَ ، عَنْ عَمَّارٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَنْ کَانَ لَہُ وَجْہَانِ فِی الدُّنْیَا کَانَ لَہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ لِسَانَانِ مِنْ نَارٍ۔ (ابوداؤد ۴۸۴۰۔ دارمی ۲۷۶۴)
(٢٥٩٧٢) حضرت عمار فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جس شخص کے دنیا میں دو چہرے ہوں گے تو قیامت کے دن اس کی آگ کی دو زبانیں ہوں گی۔

25972

(۲۵۹۷۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَامِرٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، أَنَّ رَجُلاً سَلَّمَ عَلَی النَّبِیِّ ثَلاَثَ مَرَّاتٍ فَلَمْ یَرُدَّ عَلَیْہِ فَقِیلَ لَہُ : لِمَ ؟ فَقَالَ : إِنَّہُ ذُو وَجْہَیْنِ۔
(٢٥٩٧٣) امام زہری فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تین مرتبہ سلام کیا لیکن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو جواب نہیں دیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس بارے میں پوچھا گیا ! تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : بیشک وہ دو رخا شخص ہے۔

25973

(۲۵۹۷۴) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِی صَالِحٍ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : تَجِدُ مِنْ شَرِّ النَّاسِ عِنْدَ اللہِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ذُو الْوَجْہَیْنِ۔ (بخاری ۶۰۵۸۔ ترمذی ۲۰۲۵)
(٢٥٩٧٤) حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا ! تو قیامت کے دن اللہ کے نزدیک لوگوں میں سب سے بدترین شخص دو چہرے والوں کو پائے گا۔

25974

(۲۵۹۷۵) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ آدَمَ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ ، قَالَ : قَالَ لَقَمِنٌ ذُو الْوَجْہَیْنِ لاَ یَکُونَ عِنْدَ اللہِ أَمِینًا۔ (بخاری ۳۱۳۔ احمد ۲/۳۶۵)
(٢٥٩٧٥) حضرت عکرمہ فرماتے ہیں کہ حضرت لقمان نے ارشاد فرمایا : دو چہرے والا شخص اللہ کے نزدیک امانت دار نہیں ہوگا۔

25975

(۲۵۹۷۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ الْمَسْعُودِیِّ ، عَنْ مَالِکِ بْنِ أَسْمَائَ بْنِ خَارِجَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : سَمِعْتُ ابْنَ مَسْعُودٍ یَقُولُ : إنَّ ذَا اللِّسَانَیْنِ لَہُ لِسَانَانِ مِنْ نَارٍ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ۔ (طبرانی ۹۱۶۸)
(٢٥٩٧٦) حضرت مالک بن اسماء بن خارجہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن مسعود کو یوں فرماتے ہوئے سُنا : بیشک دو زبانوں والے کی قیامت کے دن آگ کی دو زبانیں ہوں گی۔

25976

(۲۵۹۷۷) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، قَالَ : رَآنِی إبْرَاہِیمُ وَأَنَا أَتَمَخَّطُ بِیَمِینِی فَنَہَانِی وَقَالَ : عَلَیْک بِیَسَارِکَ ، وَلاَ تَعْتَادَنَّ تَمْتَخِطُ بِیَمِینِک۔
(٢٥٩٧٧) حضرت اعمش فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم نے مجھے دیکھا کہ میں اپنے داہنے ہاتھ سے ناک صاف کررہا تھا، تو آپ نے مجھے منع فرمایا : اور فرمایا : تم پر بایاں ہاتھ لازم ہے اور تم دائیں ہاتھ سے ناک صاف کرنے کی عادت مت بناؤ۔

25977

(۲۵۹۷۸) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِہِ ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، عَنْ عَائِشَۃَ ، قَالَتْ: کَانَت یَمِینُ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِطَعَامِہِ وَصَلاَتِہِ، وَکَانَت شِمَالُہُ لِمَا سِوَی ذَلِکَ۔ (بخاری ۱۶۸۔ مسلم ۶۶)
(٢٥٩٧٨) حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا داہنا ہاتھ کھانے اور نماز کے لیے اور بایاں ہاتھ ان کے علاوہ کاموں کے لیے تھا۔

25978

(۲۵۹۷۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ مُسَافِرٍ ، عَنْ رُزَیْقِ بْنِ سَوَّارٍ ، أَنَّ الْحَسَنَ بْنَ عَلِیٍّ امْتَخَطَ بِیَمِینِہِ۔
(٢٥٩٧٩) حضرت رزیق بن سوار فرماتے ہیں کہ حضرت حسن بن علی نے اپنے داہنے ہاتھ سے ناک صاف کی۔

25979

(۲۵۹۸۰) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ إبْرَاہِیمَ، قَالَ: کَانُوا یَکْرَہُونَ أَنْ یَمْتخِطَ الرَّجُلُ بِیَمِینِہِ۔
(٢٥٩٨٠) حضرت اعمش فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم نے ارشاد فرمایا : صحابہ مکروہ سمجھتے تھے کہ آدمی اپنے داہنے ہاتھ سے ناک صاف کرے۔

25980

(۲۵۹۸۱) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، عَنِ الْحَکَمِ أَبِی مُعَاذٍ ، قَالَ : رَأَیْتُ الْحَسَنَ یَتَمَخَّطُ بِیَمِینِہِ۔
(٢٥٩٨١) حضرت حکم ابو المعاذ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت حسن کو دیکھا کہ انھوں نے اپنے داہنے ہاتھ سے ناک صاف کی۔

25981

(۲۵۹۸۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ ابْنِ أَبِی لَیلَی ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ شُرَحْبِیلَ ، عَنْ قَیْسِ بْنِ سَعْدٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : الرَّجُلُ أَحَقُّ بِصَدْرِ دَابَّتِہِ۔
(٢٥٩٨٢) حضرت قیس بن سعد فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : آدمی اپنے جانور کے سینہ پر سوار ہونے کا زیادہ حق دار ہے۔

25982

(۲۵۹۸۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ بْنِ رَافِعٍ ، عَن مُحَمَّدِ بْنِ یَحْیَی بْنِ حَبَّانَ ، عَنْ عَمِّہ ، عَنْ أَبِی سَعِید قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : الرَّجُلُ أَحَقُّ بِصَدْرِ دَابَّتِہِ وَإِذَا رَجَعَ إلَی مَجْلِسِہِ ، فَہُوَ أَحَقُّ بِہِ۔ (مسلم ۱۷۱۵۔ ابوداؤد ۴۸۱۹)
(٢٥٩٨٣) حضرت ابو سعد فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : آدمی اپنے جانور کے سینہ پر سوار ہونے کا زیادہ حق دار ہے اور جب وہ اپنے بیٹھنے کی جگہ پر واپس لوٹے تو وہ اس جگہ کا زیادہ حق دار ہے۔

25983

(۲۵۹۸۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، عَنْ سُفْیَانَ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إبْرَاہِیمَ، قَالَ: کَانَ یُقَالُ: الرَّجُلُ أَحَقُّ بِصَدْرِ دَابَّتِہِ وَفِرَاشِہِ۔
(٢٥٩٨٤) حضرت منصور فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم نے ارشاد فرمایا : یوں کہا جاتا تھا : کہ آدمی اپنے جانور کے سینہ پر سوار ہونے کا اور اپنے بستر کا زیادہ حق دار ہے۔

25984

(۲۵۹۸۵) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الفُضَیْل ، عَنْ سُفْیَانَ الْعَطَّارِ ، قَالَ : رَأَیْتُ الشَّعْبِیَّ مُرْتَدِفًا خَلْفَ رَجُلٍ ، قَالَ : وَکَانَ یَقُولُ : صَاحِبُ الدَّابَّۃِ أَحَقُّ بِمُقَدَّمِہَا۔
(٢٥٩٨٥) حضرت سفیان عطار فرماتے ہیں کہ میں نے امام شعبی کو دیکھا کہ وہ ایک آدمی کے پیچھے سواری پر بیٹھے ہوئے تھے اور فرما رہے تھے ۔ سواری والا آگے بیٹھنے کا زیادہ حقدار ہے۔

25985

(۲۵۹۸۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ جَرِیرِ بْنِ حَازِمٍ ، عَنْ عِیسَی بْنِ عَاصِمٍ ، قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللہِ ، الرَّجُلُ أَحَقُّ بِصَدْرِ دَابَّتِہِ : وَالرَّجُلُ أَحَقُّ بِصَدْرِ فِرَاشِہِ۔
(٢٥٩٨٦) حضرت عیسیٰ بن عاصم فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود نے ارشاد فرمایا : آدمی اپنے جانور کے سینہ پر سوار ہونے کا زیادہ حقدار ہے، اور آدمی اپنے بستر کا زیادہ حقدار ہے۔

25986

(۲۵۹۸۷) حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ مُعَاذٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا حَبِیبُ بْنُ شَہِیدٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ بُرَیْدَۃَ ، أَنَّ مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ أَتَی النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِدَابَّۃٍ لِیَرْکَبَہَا ، فَقَالَ لہ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : رَبُّ الدَّابَّۃِ أَحَقُّ بِصَدْرِہَا ، قَالَ : فَقَالَ مُعَاذٌ : فَہِیَ لَکَ یَا نَبِیَّ اللہِ ، فَرَکِبَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَأَرْدَفَ مُعَاذًا۔ (ترمذی ۲۷۷۳۔ ابوداؤد ۲۵۶۵)
(٢٥٩٨٧) حضرت عبداللہ بن بریدہ فرماتے ہیں کہ حضرت معاذ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس سواری کا جانور لائے ، تاکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس پر سوار کریں، تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے فرمایا : جانور کا مالک اس کے سینہ پر سوار ہونے کا زیادہ حقدار ہے، حضرت معاذ نے عرض کیا : اے اللہ کے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! یہ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے ہے۔ تب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس پر سوار ہوگئے اور حضرت معاذ کو اپنے پیچھے بٹھا لیا۔

25987

(۲۵۹۸۸) حَدَّثَنَا شَبَابَۃ ، قَالَ: حدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ الْمُغِیرَۃِ ، قَالَ: رَأَیْتُ حُمَیْدَ بْنَ ہِلاَلٍ وَالْحَسَنَ ، وَابْنَ سِیرِینَ، وَعَطَائً وَبَکْرَ بْنَ عَبْدِ اللہِ لاَ یُحْفُونَ شَوَارِبَہُمْ۔
(٢٥٩٨٨) حضرت سلیمان بن مغیرہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت حمید بن ھلال، حضرت حسن ، حضرت ابن سیرین ، حضرت عطائ ، اور حضرت بکر بن عبداللہ کو دیکھا یہ سب حضرات اپنی مونچھیں نہیں کترواتے تھے۔

25988

(۲۵۹۸۹) حَدَّثَنَا مَعْنُ بْنُ عِیسَی ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ ہِلاَلٍ ، قَالَ : رَأَیْتُ سَعِیدَ بْنَ الْمُسَیَّبِ وَعُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِیزِ وَسَالِمًا وَعُرْوَۃَ بْنَ الزُّبَیْرِ وَجَعْفَرَ بْنَ الزُّبَیْرِ وَعُبَیْدَ اللہِ بْنَ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُتْبَۃَ وَأَبَا بَکْرِ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ ہِشَامٍ لاَ یُحْفُونَ شَوَارِبَہُمْ جِدًّا ، یَأْخُذُونَ مِنْہَا أَخْذًا حَسَنًا۔
(٢٥٩٨٩) حضرت محمد بن ھلال فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت سعید بن المسیب ، حضرت عمر بن عبد العزیز ، حضرت سالم ، حضرت عروہ بن زبیر ، حضرت جعفر بن زبیر، حضرت عبداللہ بن عبداللہ بن عتبہ ، اور حضرت ابوبکر بن عبد الرحمن بن حارث بن ہشام کو دیکھا یہ سب حضرات اپنی مونچھوں کو مبالغے سے نہیں کترواتے تھے اور ان کو خوبصورتی سے سنوار لیتے تھے۔

25989

(۲۵۹۹۰) حَدَّثَنَا مَعْنُ بْنُ عِیسَی ، عَن ثَابِتِ بْنِ قَیْسٍ ، عَنِ نَافِعَ بْنَ جُبَیْرٍ ، وَعِرَاک بن مَالِکَ : مِثْلَہ۔
(٢٥٩٩٠) حضرت نافع بن جبیر اور حضرت عراک بن مالک سے بھی مذکورہ حدیث اس سند سے منقول ہے۔

25990

(۲۵۹۹۱) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنْ زَمْعَۃَ ، عَنِ ابْنِ طَاوُوسٍ ، عَنْ سِمَاکِ بْنِ یَزِیدَ ، قَالَ : کَانَ عَلِیٌّ یَأْخُذُ مِنْ لِحْیَتِہِ مِمَّا یَلِی وَجْہَہُ۔
(٢٥٩٩١) حضرت سماک بن یزید فرماتے ہیں کہ حضرت علی اپنی داڑھی کے اس حصہ سے بال اتارتے تھے جو حصہ ان کے چہرہ سے ملا ہوا تھا۔

25991

(۲۵۹۹۲) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ أَیُّوبَ مِنْ وَلَدِ جَرِیرٍ ، عَنْ أَبِی زُرْعَۃَ ، قَالَ : کَانَ أَبُو ہُرَیْرَۃَ یَقْبِضُ عَلَی لِحْیَتِہِ ، ثُمَّ یَأْخُذُ مَا فَضَلَ عَنِ الْقُبْضَۃِ۔
(٢٥٩٩٢) حضرت ابو زرعہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابوہریرہ اپنی داڑھی کو مٹھی میں پکڑتے تھے، پھر جو حصہ مٹھی سے زائد ہوتا اس کو کاٹ دیتے۔

25992

(۲۵۹۹۳) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ عَطَائَ بْنَ أَبِی رَبَاحٍ ، قَالَ : کَانُوا یُحِبُّونَ أَنْ یُعْفُوا اللِّحْیَۃَ إلاَّ فِی حَجٍّ ، أَوْ عُمْرَۃٍ ، وَکَانَ إبْرَاہِیمُ یَأْخُذُ مِنْ عَارِضِ لِحْیَتِہِ۔
(٢٥٩٩٣) حضرت منصور فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عطاء بن ابی رباح کو فرماتے ہوئے سنا کہ صحابہ پسند کرتے تھے کہ وہ اپنی داڑھیوں کو بڑھائیں سوائے حج یا عمرے میں، اور حضرت ابراہیم اپنے داڑھی کے کنارے چھانٹ لیتے تھے۔

25993

(۲۵۹۹۴) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنِ ابْنِ طَاوُوسٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، أَنَّہُ کَانَ یَأْخُذُ مِنْ لِحْیَتِہِ ، وَلاَ یُوجِبُہُ۔
(٢٥٩٩٤) حضرت ابن طاؤس فرماتے ہیں کہ ان کے والد حضرت طاؤس اپنی داڑھی کو چھانٹ لیتے تھے اور وہ اس میں رعایت نہیں کرتے تھے۔

25994

(۲۵۹۹۵) حَدَّثَنَا عَائِذُ بْنُ حَبِیبٍ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : کَانُوا یُرَخِّصُونَ فِیمَا زَادَ عَلَی الْقُبْضَۃِ مِنَ اللِّحْیَۃِ أَنْ یُؤْخَذَ مِنْہَا۔
(٢٥٩٩٥) حضرت اشعث فرماتے ہیں کہ حضرت حسن نے ارشاد فرمایا : صحابہ ایک قبضہ سے زیادہ داڑھی میں رخصت دیتے تھے کہ اس کو چھانٹ لیا جائے ۔

25995

(۲۵۹۹۶) حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ الْعَقَدِیُّ ، عَنْ أَفْلَحَ ، قَالَ : کَانَ الْقَاسِمُ إذَا حَلَقَ رَأْسَہُ أَخَذَ مِنْ لِحْیَتِہِ وَشَارِبِہِ۔
(٢٥٩٩٦) حضرت افلح فرماتے ہیں کہ حضرت قاسم جب اپنا سر منڈواتے تو اپنی داڑھی اور مونچھ کو بھی چھانٹ لیتے تھے۔

25996

(۲۵۹۹۷) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ ہَاشِمٍ ، وَوَکِیعٌ ، عَنِ ابْنِ أَبِی لَیْلَی ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، أَنَّہُ کَانَ یَأْخُذُ مَا فَوْقَ الْقُبْضَۃِ ، وَقَالَ وَکِیعٌ : مَا جَازَ الْقُبْضَۃَ۔
(٢٥٩٩٧) حضرت نافع فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عمر ایک قبضہ سے زائد داڑھی کو چھانٹ لیتے تھے اور حضرت وکیع نے یہ الفاظ بیان فرمائے کہ جب داڑھی قبضہ سے تجاوز کر جاتی تو اس کو چھانٹ لیتے۔

25997

(۲۵۹۹۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ أَبِی ہِلاَلٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، قَالَ : قَالَ جَابِرٌ : لاَ نَأْخُذُ مِنْ طُولِہَا إلاَّ فِی حَجٍّ ، أَوْ عُمْرَۃٍ۔
(٢٥٩٩٨) حضرت قتادہ فرماتے ہیں کہ حضرت جابر نے ارشاد فرمایا : ہم داڑھی کی لمبائی کو سوائے حج یا عمرے کے نہیں چھانٹتے تھے ۔

25998

(۲۵۹۹۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ أَیُّوبَ ، عَنْ أَبِی زُرْعَۃَ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، أَنَّہُ کَانَ یَأْخُذُ مِنْ لِحْیَتِہِ مَا جَازَ الْقُبْضَۃَ۔
(٢٥٩٩٩) حضرت ابو زرعہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابوہریرہ کی داڑھی جب ایک قبضہ سے تجاوز کر جاتی تو وہ اس کو چھانٹ لیتے تھے۔

25999

(۲۶۰۰۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، عَنْ أَبِی ہِلاَلٍ، قَالَ: سَأَلْتُ الْحَسَنَ، وَابْنَ سِیرِینَ فَقَالاَ: لاَ بَأْسَ بِہِ أَنْ تَأْخُذَ مِنْ طُولِ لِحْیَتِک۔
(٢٦٠٠٠) حضرت ابو ھلال فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت حسن بصری اور حضرت ابن سیرین دونوں حضرات سے اس بارے میں پوچھا : تو ان دونوں حضرات نے فرمایا : اس میں کوئی حرج نہیں ہے کہ تم اپنی داڑھی کی لمبائی کو چھانٹ لو۔

26000

(۲۶۰۰۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، عَنْ سُفْیَانَ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إبْرَاہِیمَ، قَالَ: کَانُوا یُبَطِّنُونَ لِحَاہُمْ وَیَأْخُذُونَ مِنْ عَوَارِضِہَا۔
(٢٦٠٠١) حضرت منصور فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم نے ارشاد فرمایا : صحابہ ٹھوڑی کے نیچے کے بال چھانٹ لیتے تھے اور داڑھی کے کناروں کے بال بھی چھانٹتے تھے۔

26001

(۲۶۰۰۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ حُسَیْنٍ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، أَنَّہُ کَرِہَ أَنْ یَتَحَذَّفَ کِلْ أو کِرد یَرْکُوش۔
(٢٦٠٠٢) حضرت مغیرہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم نے داڑھی کے کناروں کو کاٹنے اور برابر کرنے کو مکروہ قرار دیا ہے۔

26002

(۲۶۰۰۳) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : انْہَکُوا الشَّوَارِبَ وَاعْفُوا اللِّحَی۔ (بخاری ۵۸۹۳۔ مسلم ۲۲۲)
(٢٦٠٠٣) حضرت ابن عمر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : مونچھیں کاٹنے میں مبالغہ کرو اور داڑھی کو بڑھاؤ۔

26003

(۲۶۰۰۴) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ یُوسُفَ بْنِ صُہَیْبٍ ، عَنْ حَبِیبِ بْنِ یَسَارٍ ، عَنْ زَیْدِ بْنِ أَرْقَمَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لَیْسَ مِنَّا مَنْ لَمْ یَأْخُذْ مِنْ شَارِبِہِ۔ (ترمذی ۲۷۶۱)
(٢٦٠٠٤) حضرت زید بن ارقم فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جو اپنی مونچھ کو نہ چھانٹے وہ ہم میں سے نہیں۔

26004

(۲۶۰۰۵) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ عُثْمَانَ الْحَاطِبِیِّ ، قَالَ : رَأَیْتُ ابْنَ عُمَرَ یُحْفِی شَارِبَہُ۔
(٢٦٠٠٥) حضرت عثمان حاطبی فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عمر کو مونچھیں کاٹنے میں مبالغہ کرتے ہوئے دیکھا۔

26005

(۲۶۰۰۶) حَدَّثَنَا کَثِیرُ بْنُ ہِشَامٍ ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ بُرْقَانَ ، عَنْ حَبِیبٍ ، قَالَ : رَأَیْتُ ابْنَ عُمَرَ قَدْ جَزَّ شَارِبَہُ کَأَنَّہُ قَدْ حَلَقَہُ۔
(٢٦٠٠٦) حضرت حبیب فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عمر کو دیکھا تحقیق انھوں نے اپنی مونچھ کو کاٹا اور بالکل مونڈ دیا۔

26006

(۲۶۰۰۷) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ الْحَسَنِ وَمُحَمَّدٍ أَنَّہُمَا کَانَا یُحْفِیَانِ شَوَارِبَہُمَا۔
(٢٦٠٠٧) حضرت ہشام فرماتے ہیں کہ حضرت حسن اور حضرت محمد یہ دونوں حضرات اپنی مونچھوں کو مبالغہ کے ساتھ کاٹتے تھے۔

26007

(۲۶۰۰۸) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ، قَالَ : رَأَیْتُ عَبْدَ اللہِ یُحْفِی شَارِبَہُ۔
(٢٦٠٠٨) حضرت یحییٰ بن سعید فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن مسعود کو مونچھ کاٹنے میں مبالغہ کرتے ہوئے دیکھا۔

26008

(۲۶۰۰۹) حَدَّثَنَا قَبِیصَۃُ بْنُ عُقْبَۃَ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَجْلاَنَ ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ بْنِ أَبِی رَافِعٍ ، قَالَ: رَأَیْتُ أَبَا سَعِیدٍ وَرَافِعَ بْنَ خَدِیجٍ وَسَلَمَۃَ بْنَ الأَکْوَعِ ، وَابْنَ عُمَرَ وَجَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللہِ وَأَبَا أُسَیْدَ یُنْہِکُونَ شَوَارِبَہُمَا أَخَا الْحَلْقِ۔
(٢٦٠٠٩) حضرت عبید اللہ بن ابی رافع فرماتے ہیں میں نے حضرت ابوسعید اور حضرت رافع بن خدیج ، حضرت سلمہ بن اکوع ، حضرت ابن عمر ، حضرت جابر بن عبداللہ اور جندب ابو سد کو دیکھا یہ سب حضرات اپنی مونچھوں کو بالکل سرے سے کٹوا دیتے سر منڈھوانے کی طرح۔

26009

(۲۶۰۱۰) حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا ہُرَیْمٌ ، عَنِ ابْنِ عَجْلاَنَ ، عَنْ مَکْحُولٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو ، قَالَ : أُمِرْنَا أَنْ نَبْشُرَ الشَّوَارِبَ بَشْرًا۔
(٢٦٠١٠) حضرت مکحول فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمرو نے ارشاد فرمایا : ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ ہم اپنی مونچھیں کٹوا دیں یہاں تک کہ جلد بالکل واضح نظر آئے۔

26010

(۲۶۰۱۱) حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِیزِ بْنِ عُمَرَ ، قَالَ : سُئِلَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیزِ : مَا السُّنَّۃُ فِی قص الشَّارِبِ ؟ قَالَ : یُقَصُّ حَتَّی یَبْدُوَ الإِطَارُ وَیُقْطَعُ فَضْلُ الشَّارِبَیْنِ۔
(٢٦٠١١) حضرت عبد العزیز بن عمر فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن عبد العزیز سے پوچھا گیا : مونچھ کے کاٹنے میں سنت طریقہ کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا : اتنی کاٹو کہ لمبائی ظاہر ہوجائے اور مگر جو ہونٹوں سے زائد ہو اس کو کاٹ لو۔

26011

(۲۶۰۱۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ مَعْقِلٍ ، عَنْ مَیْمُونٍ ، قَالَ : کَانَ ابْنُ عُمَرَ یَعْتَرِضُ شَارِبَہُ فَیَجُزُّہُ کَمَا یَجُزُّ الْغَنَمَ۔
(٢٦٠١٢) حضرت میمون فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عمر اپنی مونچھوں کو چوڑائی میں نکالتے اور پھر ان کو کاٹ دیتے جیسے بکری کے بال کاٹے جاتے ہیں۔

26012

(۲۶۰۱۳) حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا أَبُو الْعُمَیْسِ ، عَنْ عَبْدِ المجید بْنِ سُہَیْلٍ ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ بْنِ عبد اللہ بن عُتْبَۃَ ، قَالَ : جَائَ رَجُلٌ مِنَ الْمَجُوسِ إلَی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : قد حَلَقَ لِحْیَتَہُ ، وَأَطَالَ شَارِبَہُ ، فَقَالَ لَہُ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَا ہَذَا ؟ قَالَ : ہَذَا فِی دِینِنَا، قَالَ: فِی دِینِنَا أَنْ نَجُزَّ الشَّارِبَ، وَأَنْ نُعْفِیَ اللِّحْیَۃَ۔ (مسلم ۲۲۲۔ احمد ۲/۳۶۶)
(٢٦٠١٣) حضرت عبید اللہ بن عبداللہ بن عتبہ فرماتے ہیں کہ اہل مجوس میں سے ایک آدمی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آیا، اس نے اپنی داڑھی کو حلق کروایا ہوا تھا اور مونچھوں کو لمبا کیا ہو اتھا۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے پوچھا : یہ کیا ہے ؟ اس نے کہا : ہمارے دین میں ایسا ہی ہے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : لیکن ہمارے دین میں طریقہ یہ ہے کہ ہم مونچھ کو کاٹ دیں اور داڑھی کو بڑھائیں۔

26013

(۲۶۰۱۴) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَنْ زَائِدَۃَ ، عَنْ سِمَاکٍ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : أَخْذُ الشَّارِبِ مِنَ الدِّینِ۔ (ترمذی ۲۷۶۰۔ احمد ۱/۳۰۱)
(٢٦٠١٤) حضرت عکرمہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عباس نے ارشاد فرمایا : مونچھ کا چھانٹنا دین میں سے ہے۔

26014

(۲۶۰۱۵) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ آدَمَ ، عَنْ حَسَنٍ ، عَنْ سِمَاکٍ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ قَالَ : کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُصُّ مِنْ شَارِبِہِ ، وَکَانَ إِبْرَاہِیمُ ، خَلِیلُ اللہِ ، یَقُصُّ شَارِبَہُ ، أَوْ مِنْ شَارِبِہِ۔
(٢٦٠١٥) حضرت عکرمہ فرماتے ہںِ کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی مونچھ یا فرمایا اپنی مونچھوں کو کاٹ لیتے تھے۔

26015

(۲۶۰۱۶) حَدَّثَنَا عَائِذُ بْنُ حَبِیبٍ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ ، عَنْ جَابِرٍ ، قَالَ : کُنَّا نُؤْمَرُ أَنْ نُوَفِّیَ السِّبَالَ ، وَنَأْخُذَ مِنَ الشَّوَارِبِ۔ (ابوداؤد ۴۱۹۸۔ احمد ۵/۲۶۵)
(٢٦٠١٦) حضرت ابو الزبیر فرماتے ہیں کہ حضرت جابر نے ارشاد فرمایا : ہمیں حکم دیا جاتا تھا کہ ہم داڑھی کے اگلے حصّہ کے بالوں کو بڑھائیں اور مونچھوں کو چھانٹیں۔

26016

(۲۶۰۱۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ زَکَرِیَّا ، عَنْ مُصْعَبِ بْنِ شَیْبَۃَ ، عَنْ طَلْقِ بْنِ حَبِیبٍ ، عَنِ ابن الزُّبَیْرِ ، عَنْ عَائِشَۃَ ، قَالَتْ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مِنَ الْفِطْرَۃِ قَصُّ الشَّارِبِ ، وَإِعْفَائُ اللِّحْیَۃِ۔ (بخاری ۶۲۸۷۔ مسلم ۱۶۶۳)
(٢٦٠١٧) حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : مونچھوں کا کاٹنا اور داڑھی کا بڑھانا فطرت میں سے ہے۔

26017

(۲۶۰۱۸) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ عَبَّادِ بْنِ تَمِیمٍ ، عَنْ عَمِّہِ ، قَالَ : رَأَیْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مُسْتَلْقِیًا فِی الْمَسْجِد ، قَدْ وَضَعَ إحْدَی رِجْلَیْہِ عَلَی الأُخْرَی۔
(٢٦٠١٨) حضرت عباد کے چچا حضرت عبداللہ بن زید کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مسجد میں چت لیٹے ہوئے دیکھا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس وقت اپنے ایک پاؤں کو دوسرے پر رکھا ہوا تھا۔

26018

(۲۶۰۱۹) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَجْلاَنَ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ مَالِکٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : دَخَلَ عَلَی عُمَرَ أَو رُئِی مُسْتَلْقِیًا وَاضِعًا إحْدَی رِجْلَیْہِ عَلَی الأُخْرَی۔
(٢٦٠١٩) حضرت عبداللہ بن مالک فرماتے ہیں کہ وہ حضرت عمر کے پاس آئے یا آپ کو چت لیٹے ہوئے دیکھا گیا اس حال میں کہ آپ اپنے ایک پاؤں کو دوسرے پاؤں پر رکھے ہوئے تھے۔

26019

(۲۶۰۲۰) حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ سُفْیَانَ بْنِ حُسَیْنٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِیزِ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ الْحَارِثِ ، أَنَّہُ رَأَی أُسَامَۃَ بْنَ زَیْدٍ جَالِسًا وَاضِعًا إحْدَی رِجْلَیْہِ عَلَی الأُخْرَی۔
(٢٦٠٢٠) حضرت عبداللہ بن عبداللہ بن حارث فرماتے ہیں کہ انھوں نے حضرت اسامہ بن زید کو دیکھا اس حال میں کہ وہ اپنے ایک پاؤں کو دوسرے پاؤں پر رکھ کر بیٹھے ہوئے تھے۔

26020

(۲۶۰۲۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، عَنْ أُسَامَۃَ، عَنْ نَافِعٍ، قَالَ : کَانَ ابْنُ عُمَرَ یَضْطَجِعُ فَیَضَعُ إحْدَی رِجْلَیْہِ عَلَی الأُخْرَی۔
(٢٦٠٢١) حضرت نافع فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عمر لیٹ جاتے پھر اپنے ایک پاؤں کو دوسرے پاؤں پر رکھ لیتے۔

26021

(۲۶۰۲۲) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ أُسَامَۃَ ، عَنْ نَافِعٍ : قَالَ ابْنُ عُمَرَ یَسْتَلْقِی عَلَی قَفَاہُ وَیَضَعُ إحْدَی رِجْلَیْہِ عَلَی الأُخْرَی لاَ یَرَی بِذَلِکَ بَأْسًا ، وَیَفْعَلُہُ وَہُوَ جَالِسٌ لاَ یَرَی بِذَلِکَ بَأْسًا۔
(٢٦٠٢٢) حضرت نافع فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عمر گُدّی پر چیت لیٹ جاتے اور اپنے ایک پاؤں کو دوسرے پاؤں پر رکھ لیتے اور وہ اس بات میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے، اور وہ اس حال میں بیٹھتے بھی تھے اور اس طرح بیٹھنے میں بھی کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے۔

26022

(۲۶۰۲۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إسْرَائِیلَ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ ، قَالَ : إنَّمَا یَنْہَی عَنْ ذَلِکَ أَہْلُ الْکِتَابِ ، وَقَالَ عَامِرٌ وَمُحَمَّدُ بْنُ عَلِیٍّ : لاَ بَأْسَ بہ۔
(٢٦٠٢٣) حضرت جابر فرماتے ہیں کہ حضرت عکرمہ نے ارشاد فرمایا : بیشک اہل کتاب اس طرح بیٹھنے سے منع کرتے تھے اور حضرت عامر اور حضرت محمد بن علی نے فرمایا : کہ اس میں کوئی حرج نہیں۔

26023

(۲۶۰۲۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ ابْنِ الغَسِیل ، قَالَ : حدَّثَنِی عَمْرُو بْنُ أَبِی عَمْرٍو ، أَنَّ بِلاَلاً فَعَلَہُ : وَضَعَ إحْدَی رِجْلَیْہِ عَلَی الأُخْرَی۔
(٢٦٠٢٤) حضرت عمرو بن ابی عمرو فرماتے ہیں کہ حضرت بلال نے ایسا کیا کہ اپنے ایک پاؤں کو دوسرے پاؤں پر رکھ لیا۔

26024

(۲۶۰۲۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِیزِ الْمَاجِشُونِ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ، أَنَّ عُمَرَ وَعُثْمَانَ کَانَا یَفْعَلاَنِہِ۔ (بخاری ۴۷۵۔ ابوداؤد ۴۸۳۴)
(٢٦٠٢٥) حضرت سعید بن المسیب فرماتے ہیں کہ حضرت عمر اور حضرت عثمان دونوں حضرات اس طریقہ سے بیٹھتے تھے۔

26025

(۲۶۰۲۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الأَسْوَدِ ، عَنْ عَمِّہِ، قَالَ: رَأَیْتُ ابْنَ مَسْعُودٍ فِی الأَرَاکِ مُسْتَلْقِیًا وَاضِعًا إحْدَی رِجْلَیْہِ عَلَی الأُخْرَی وَہُوَ یَقُولُ: {رَبَّنَا لاَ تَجْعَلْنَا فِتْنَۃً لِلْقَوْمِ الظَّالِمِینَ}۔
(٢٦٠٢٦) حضرت عبد الرحمن بن اسود کے چچا فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن مسعود کو پیلو کے درخت کے نیچے گوٹ مار کر بیٹھے ہوئے دیکھا کہ آپ اپنی ایک ٹانگ کو دوسری ٹانگ پر رکھے ہوئے تھے اور یہ دعا پڑھ رہے تھے۔ (اے ہمارے رب ہمیں ظالم قوم کے لیے فتنہ نہ بنا) ۔

26026

(۲۶۰۲۷) حَدَّثَنَا ابْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ عِمْرَانَ - یَعْنِی ابْنَ مُسْلِمٍ - قَالَ : رَأَیْتُ أَنَسًا وَاضِعًا إحْدَی رِجْلَیْہِ عَلَی الأُخْرَی ۔
(٢٦٠٢٧) حضرت عمران بن مسلم فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت انس کو دیکھا اس حال میں کہ انھوں نے اپنی ایک ٹانگ کو دوسری پر رکھا ہوا تھا۔

26027

(۲۶۰۲۸) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنِ الْعَوَّامِ ، عَنِ الْحَکَمِ ، قَالَ : سَأَلْتُ أَبَا مِجْلَزٍ عَنِ الرَّجُلِ یَجْلِسُ ، وَیَضَعُ إحْدَی رِجْلَیْہِ عَلَی الأُخْرَی فَقَالَ : لاَ بَأْسَ بِہِ ، إنَّمَا ہُوَ شَیْئٌ کَرِہَتْہُ الْیَہُودُ ، قَالُوا : إِنَّہُ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضَ فِی سِتَّۃِ أَیَّامٍ ، ثُمَّ اسْتَوَی یَوْمَ السَّبْتِ فَجَلَسَ تِلْکَ الْجِلْسَۃَ۔
(٢٦٠٢٨) حضرت حکم فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابو مجلز سے ایسے آدمی کے بارے میں پوچھا : جو بیٹھ کر اپنے ایک پاؤں کو دوسرے پاؤں پر رکھ لے ؟ آپ نے فرمایا : اس میں کوئی حرج کی بات نہیں ۔ بیشک یہ تو ایسی چیز ہے جس کو یہود مکروہ سمجھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں : اللہ تعالیٰ نے آسمان اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا پھر وہ ساتویں دن مستوی ہوا اور اس انداز میں بیٹھ گیا۔

26028

(۲۶۰۲۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ أَبِی ہِلاَلٍ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ ، أَنَّ ہَارُونَ بْنَ رِئَابٍ ، قَالَ لَہُ وَہُوَ جَالِسٌ عَلَی سَرِیرِہِ وَاضِعًا إحْدَی رِجْلَیْہِ عَلَی الأُخْرَی : یُکْرَہُ ہَذَا یَا أَبَا بَکْرٍ ؟ قَالَ : لاَ۔
(٢٦٠٢٩) حضرت ابن سیرین فرماتے ہیں کہ حضرت ہارون ابن رئاب نے ان سے پوچھا اس حال میں کہ وہ اپنی ایک ٹانگ کو دوسرے پر رکھے ہوئے تھے ؟ اے ابوبکر ! کیا تم اس کو مکروہ سمجھتے ہو ؟ آپ نے فرمایا : نہیں۔

26029

(۲۶۰۳۰) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ حُبَابٍ ، قَالَ : حدَّثَنِی الرَّبِیعُ بْنُ الْمُنْذِرِ ، قَالَ : حَدَّثَنِی أَبِی ، قَالَ : رَأَیْتُ مُحَمَّدَ بْنَ الْحَنَفِیَّۃِ وَاضِعًا إحْدَی رِجْلَیْہِ عَلَی الأُخْرَی۔
(٢٦٠٣٠) حضرت ربیع بن المنذر فرماتے ہیں کہ میرے والد حضرت منذر نے ارشاد فرمایا : میں نے حضرت محمد ابن حنفیہ کو ایک ٹانگ دوسری پر رکھے ہوئے دیکھا۔

26030

(۲۶۰۳۱) حَدَّثَنَا حُمَیْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ إسْرَائِیلَ ، قَالَ : قیلَ لَہُ : أَرَأَیْت الشَّعْبِیَّ یَضَعُ إحْدَی رِجْلَیْہِ عَلَی الأُخْرَی ؟ قَالَ : نَعَمْ۔
(٢٦٠٣١) حضرت حمید بن عبد الرحمن فرماتے ہیں کہ حضرت اسرائیل سے پوچھا گیا ! کیا آپ نے حضرت شعبی کو ایک پاؤں دوسرے پر رکھے ہوئے دیکھا ہے ؟ آپ نے فرمایا : جی ہاں۔

26031

(۲۶۰۳۲) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ حُصَیْنٍ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ بْنِ أبی إسْمَاعِیلَ رَاشِدٍ ، قَالَ : اسْتَلْقَیْت فَرَفَعْت إحْدَی رِجْلَیْ عَلَی رُکْبَتِی ، فَرَمَانِی سَعِیدٌ بِحَصَیَاتٍ ، ثُمَّ قَالَ : إنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ کَانَ یَنْہَی عَنْ ہَذَا۔
(٢٦٠٣٢) حضرت اسماعیل بن ابو اسماعیل راشد فرماتے ہیں کہ میں چت لیٹا پھر میں نے اپنی ٹانگ کو اپنے گھٹنے پر بلند کرلیا۔ اس پر حضرت سعید نے مجھے چند چھوٹی کنکریاں ماریں، پھر فرمایا : حضرت ابن عباس اس طرح لیٹنے سے منع فرماتے تھے ۔

26032

(۲۶۰۳۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ أَبِی ہِلاَلٍ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، أَنَّہُ کَرِہَ أَنْ یَضْطَجِعَ وَیَضَعَ إحْدَی رِجْلَیْہِ عَلَی الأُخْرَی۔
(٢٦٠٣٣) حضرت ابن سیرین فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عباس مکروہ سمجھتے تھے کہ وہ لیٹ جائیں اور اپنی ایک ٹانگ کو دوسری ٹانگ پر رکھ لیں۔

26033

(۲۶۰۳۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إِسْمَاعِیل ، عَنْ وَاصِلٍ ، أَنَّ جَرِیرًا جَلَسَ وَوََضَعَ إحْدَی رِجْلَیْہِ عَلَی الأُخْرَی فَقَالَ لَہُ کَعْبٌ : ضَعْہَا ، فَإن ہَذَا لاَ یَصْلُحُ لِبَشَرٍ۔
(٢٦٠٣٤) حضرت واصل فرماتے ہیں کہ حضرت جریر بیٹھ گئے اور پھر اپنی ایک ٹانگ کو دوسری پر رکھ لیا، اس پر حضرت کعب نے ان سے فرمایا : اس کو نیچے رکھو، بیشک کسی انسان کے لیے یوں بیٹھنا مناسب نہیں ہے۔

26034

(۲۶۰۳۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مُرَّۃَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ عُتْبَۃَ بْنِ فَرْقَدٍ ، أَنَّ کَعْبًا ، قَالَ لَہُ : ضَعْہَا ، فَإِنَّ ہَذَا لاَ یَصْلُحُ لِبَشَرٍ۔
(٢٦٠٣٥) حضرت عمرو بن عتبہ بن فرقد فرماتے ہیں کہ حضرت کعب نے ان سے ارشاد فرمایا : اس کو نیچے رکھو، بیشک کسی انسان کے لیے یہ مناسب نہیں ہے۔

26035

(۲۶۰۳۶) حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ مُعَاذٍ ، عَنْ حَبِیبٍ ، قَالَ : رَآنِی مُحَمَّدٌ وَقَدْ وَضَعْت رِجْلِی ہَکَذَا وَوَضَعَ قَدَمَہُ الْیُمْنَی عَلَی فَخِذِہِ الْیُسْرَی ، قَالَ : فَقَالَ : ارْفَعْہَا ، قَدْ تَوَاطَؤُوا عَلَی الْکَرَاہِیَۃِ لَہَا ، قَالَ : فَذَکَرْت لِلْحَسَنِ ، قَالَ : کَانَتِ الْیَہُودُ یَکْرَہُونَہُ فَخَالَفَہُمُ الْمُسْلِمُونَ۔
(٢٦٠٣٦) حضرت حبیب فرماتے ہیں کہ حضرت محمد نے مجھے دیکھا کہ میں نے اپنی ٹانگ اس طرح رکھی ہوئی تھی کہ اپنا دایاں پاؤں اپنی بائیں ران پر رکھا ہوا تھا، آپ نے فرمایا : اس کو ہٹاؤ۔ تحقیق تمام صحابہ نے اس کے مکروہ ہونے پر اتفاق کیا ہے۔ راوی کہتے ہیں : میں نے یہ بات حضرت حسن کے سامنے ذکر کی، آپ نے فرمایا : یہود اس کو مکروہ سمجھتے تھے اور مسلمانوں نے تو ان کی مخالفت کی۔

26036

(۲۶۰۳۷) حَدَّثَنَا حُمَیْدٌ ، عَنْ حَسَنٍ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، أَنَّہُ کَرِہَ أَنْ یَجْلِسَ الرَّجُلُ فَیَضَعَ عَقِبَہُ عَلَی فَخِذِہِ وقال : ہُوَ التَّوَرُّکُ۔
(٢٦٠٣٧) حضرت مغیرہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم مکروہ سمجھتے تھے کہ آدمی اپنے گھٹنے کو اپنی ران پر رکھے اور فرمایا : یہ تو سرین پر بیٹھنا ہوا۔

26037

(۲۶۰۳۸) حَدَّثَنَا حُمَیْدٌ ، عَنْ حَسَنٍ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، أَنَّہُ نَہَی عَنْہُ۔
(٢٦٠٣٨) حضرت لیث فرماتے ہیں کہ حضرت مجاہد اس طرح بیٹھنے سے منع فرماتے تھے۔

26038

(۲۶۰۳۹) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ طَاوُوسٍ ، أَنَّہُ کَرِہَ التَّرَبُّعَ وَقَالَ : جِلْسَۃُ مَمْلَکَۃٍ۔
(٢٦٠٣٩) حضرت لیث فرماتے ہیں کہ حضرت طاؤس گوٹ مار کر بیٹھنے کو ناپسند سمجھتے تھے اور فرماتے : یہ شاہانہ انداز ہے۔

26039

(۲۶۰۴۰) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنِ الْمُجَالِدِ ، قَالَ : أَخْبَرَنِی عَامِرٌ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : قَالَ الْعَبَّاسُ لابْنِہِ عَبْدِ اللہِ بن عباس : یَا بُنَیَّ ، إنِّی أَرَی أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ یُقَرِّبُک ، وَیَسْتَشِیرُک مَعَ أُنَاسٍ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَیَخْلُو بِکَ ، فَاحْفَظْ عَنِّی ثَلاَثًا : اتَّقِ اللَّہَ لاَ یُجَرِّبَنَّ عَلَیْک کِذْبَۃً ، وَلاَ تُفْشِیَنَّ لَہُ سِرًّا ، وَلاَ تَغتَابنَّ عِنْدَہُ أَحَدًا ، قَالَ : فَقُلْت لابْنِ عَبَّاسٍ : یَا أَبَا عَبَّاسٍ ، کُلُّ وَاحِدَۃٍ مِنْہُنَّ خَیْرٌ مِنْ أَلْفٍ ، قَالَ : وَمِنْ عَشَرَۃِ آلاَفٍ۔
(٢٦٠٤٠) حضرت عامر فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عباس نے ارشاد فرمایا : کہ حضرت عباس نے مجھ سے کہا : اے میرے بیٹے ! میں امیر المؤمنین کو دیکھتا ہوں کہ وہ تجھے اپنے قریب کرتے ہیں ، اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب کے ساتھ تجھ سے بھی مشورہ طلب کرتے ہیں اور تیرے ساتھ خلوت کرتے ہیں پس تو میری طرف سے تین باتیں محفوظ کرلے۔ تم بچو اس بات سے کہ وہ تم پر جھوٹ کو آزمائیں اور تم ہرگز کبھی بھی ان کے راز کو فاش مت کرنا اور ان کے سامنے کبھی کسی کی غیبت مت کرنا۔ راوی کہتے ہیں میں نے حضرت ابن عباس سے عرض کیا کہ ان میں سے ہر ایک ایک ہزار سے بہتر ہے۔ آپ نے فرمایا : بلکہ دس ہزار سے بہتر ہے۔

26040

(۲۶۰۴۱) حَدَّثَنَا عَبْدُاللہِ بْنُ إدْرِیسَ، عَنِ ابْنِ عَجْلاَنَ، عَنْ إبْرَاہِیمَ بْنِ مُرَّۃَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ شِہَابٍ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ: لاَ تَعْتَرِضْ فِیمَا لاَ یَعْنِیک ، وَاعْتَزِلْ عَدُوَّک ، وَاحْتَفِظْ مِنْ خَلِیلک إلاَّ الأَمِین ، فَإِنَّ الأَمِین لاَ یُعَادِلُہُ شَیْئٌ، لاَ تَصْحَبِ الْفَاجِرَ فَیُعَلِّمُک مِنْ فُجُورِہِ ، وَلاَ تُفْشِ إلَیْہِ بسِرّک ، وَاسْتَشِرْ فِی أَمْرِکَ الَّذِینَ یَخْشَوْنَ اللَّہَ۔
(٢٦٠٤١) حضرت محمد بن شھاب فرماتے ہیں کہ حضرت عمر نے ارشاد فرمایا؛ اس کام کے پیچھے مت پڑو جو تمہیں فائدہ نہ پہنچائے اور اپنے دشمن سے بچو اور اپنے دوست سے بچو سوائے امانت دار شخص کے۔ اس لیے کہ قوم میں سے امانت دار شخص کی برابری کوئی چیز نہیں کرسکتی اور بدکار کی صحبت اختیار مت کرو۔ اس لیے کہ وہ اپنی بدکاری میں سے تمہیں بھی سکھلا دے گا اور اس کے سامنے اپنے کسی راز کو فاش مت کرو اور اپنے معاملہ میں ان لوگوں سے مشورہ مانگو جو اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہیں۔

26041

(۲۶۰۴۲) حَدَّثَنَا الثَّقَفِیُّ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنْ أَبِی قِلاَبَۃَ ، قَالَ : لاَ تُحَدِّثْ بِالْحَدِیثِ مَنْ لاَ یَعْرِفُہُ ، فَإِنَّ مَنْ لاَ یَعْرِفُہُ یَضُرُّہُ ، وَلاَ یَنْفَعُہُ۔
(٢٦٠٤٢) حضرت ایوب فرماتے ہیں کہ حضرت ابو قلابہ نے ارشاد فرمایا : تم اس شخص کو اپنی بات مت بتاؤ، جو اس کے بارے میں کچھ نہیں جانتا۔ اس لیے کہ جو اس معاملہ کے بارے میں کچھ نہیں جانتا وہ نقصان پہنچائے گا، اور کم ازکم کوئی فائدہ بھی نہیں پہنچائے گا۔

26042

(۲۶۰۴۳) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : حدَّثَنَا حُمَیْدٌ الطَّوِیلُ ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ : کُنْتُ مَعَ الْغِلْمَانِ فَمَرَّ عَلَیْنَا النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَسَلَّمَ عَلَیْنَا ، ثُمَّ بَعَثَنِی فِی حَاجَۃٍ وَجَلَسَ فِی جِدَارٍ ، أَوْ فِی ظِلٍّ حَتَّی أَتَیْتہ فَأَبْلَغْتہ حَاجَتَہُ ، فَلَمَّا أَتَیْتُ أُمَّ سُلَیْمٍ ، قَالَتْ : مَا حَبَسَک الْیَوْمَ ؟ قُلْتُ : بَعَثَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی حَاجَۃٍ ، قَالَتْ : مَا ہِیَ ؟ قُلْتُ : أَنَّہَا سِرٌّ ، قَالَتْ : فَاحْفَظْ سِرَّ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : فَمَا حَدَّثْت بِہَا أَحَدًا قَطُّ۔ (بخاری ۱۱۳۹۔ مسلم ۱۴۵)
(٢٦٠٤٣) حضرت انس فرماتے ہیں کہ میں بچوں کے ساتھ تھا کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے پاس سے گزرے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں سلام کیا، پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے کسی کام کے لیے بھیج دیا اور دیوار کے سائے میں بیٹھ گئے یہاں تک میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آگیا ۔ میں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس کام کے بارے میں بتلایا۔ پھر جب میں حضرت ام سلیم کے پاس آیا تو انھوں نے کہا : آج کس بات نے تمہیں روکے رکھا ؟ میں نے کہا کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے کسی کام بھیج دیا تھا۔ انھوں نے پوچھا : کیا کام تھا ؟ میں نے کہا : بیشک وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا راز ہے۔ آپ نے فرمایا : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے راز کی حفاظت کرو۔ حضرت انس فرماتے ہیں : میں نے کسی کو بھی اس کے بارے میں نہیں بتلایا۔

26043

(۲۶۰۴۴) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنِ غِیَاثٍ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ أَبِی ہُبَیْرَۃَ یَحْیَی بْنِ عَبَّادٍ ، قَالَ : الْمُسْلِمُ مِرْآۃُ أَخِیہِ ، فَإِذَا أَخَذَ عَنْہُ شَیْئًا فَلْیُرِہِ۔
(٢٦٠٤٤) حضرت لیث فرماتے ہیں کہ حضرت ابو ہبیرہ یحییٰ بن عباد نے ارشاد فرمایا : مسلمان اپنے بھائی کا آئینہ ہے جب وہ اس سے کوئی چیز لے تو اسے چاہیے کہ وہ اس کو بھی دکھلا دے۔

26044

(۲۶۰۴۵) حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ ، عَنْ غَالِبٍ ، قَالَ : سَأَلْتُ الْحَسَنَ أو سَأَلَہُ رَجُلٌ عَنِ الرَّجُلِ یَأْخُذُ عَنِ الرَّجُلِ الشَّیْئَ فَیَقُولُ : لاَ یَکُنْ بِکَ السُّوئُ ، أَوْ صُرِفَ عَنْک السُّوئَ ، قَالَ : فَقَالَ : یَقُولُ : لاَ یَکُنْ بِکَ السُّوئُ فَإِنَّہُ إِلاَّ یَکُنْ بہ خَیْرٌ مِنْ أَنْ یَکُونَ بِہِ ثُمَّ یُصْرَفُ۔
(٢٦٠٤٥) حضرت حسن سے سوال کیا گیا کہ اگر ایک آدمی دوسرے سے کوئی چیز لے اور اسے کہے کہ تیرے پاس کوئی برائی نہ رہے یا برائی تجھ سے دور کردی جائے تو اس کا کیا حکم ہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ یہ کہے ک ہ تیرے پاس برائی نہ رہے۔

26045

(۲۶۰۴۶) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ بُرْدٍ ، عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ مُوسَی ، قَالَ : قَالَ عُمَرُ : إذَا أَخَذَ أَحَدُکُمْ عَنْ أَخِیہِ شَیْئًا فَلْیُرِہِ إِیَّاہ۔
(٢٦٠٤٦) حضرت سلیمان بن موسیٰ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر نے ارشاد فرمایا : جب تم میں سے کوئی ایک اپنے بھائی سے کوئی چیز لے تو اس کو چاہیے کہ وہ اس کو بھی دکھلا دے۔

26046

(۲۶۰۴۷) حَدَّثَنَا عِیسَی بْنُ یُونُسَ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ عُبَیْدِ اللہِ التَّیْمِیِّ ، قَالَ : سَمِعْتُ أَبِی یَقُولُ : سَمِعْت أَبَا ہُرَیْرَۃَ یَقُولُ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : أَحَدُکُمْ مِرْآۃُ أَخِیہِ ، فَإِذَا رَأَی أَذًی فَلْیُمِطْہُ عَنْہُ۔ (بخاری ۲۳۹۔ ابوداؤد ۴۸۸۲)
(٢٦٠٤٧) حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : تم میں سے ہر ایک اپنے بھائی کا آئینہ ہے، پس جب وہ کوئی تکلیف دہ چیز دیکھے تو اس کو اس سے دور کر دے۔

26047

(۲۶۰۴۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، عَنْ شُعْبَۃَ، عَنْ یَحْیَی بْنِ الْحُصَیْنِ، عَنْ طَارِقِ بْنِ شِہَابٍ، قَالَ: کَانَ بَیْنَ خَالِدِ بْنِ الْوَلِیدِ وَبَیْنَ سَعْدٍ کَلاَمٌ ، قَالَ : فَتَنَاوَلَ رَجُلٌ خَالِدًا عِنْدَ سَعْدٍ ، قَالَ : فَقَالَ : سَعْدٌ : مَہْ ، فَإِنَّ مَا بَیْنَنَا لَمْ یَبْلُغْ دِینَنَا۔
(٢٦٠٤٨) حضرت طارق بن شھاب فرماتے ہیں کہ حضرت خالد بن ولید اور حضرت سعد کے درمیان کچھ تلخ کلامی ہوئی ، تو ایک آدمی حضرت سعد کے پاس حضرت خالد کو بُرا بھلا کہنے لگا، حضرت سعد نے فرمایا : رک جاؤ، بیشک جو لڑائی ہمارے درمیان ہے وہ ہمارے دین تک نہیں پہنچتی !

26048

(۲۶۰۴۹) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ شَقِیقٍ ، عَنْ زَیْدِ بْنِ صُوحَانَ ، قَالَ : قَالَ عُمَرُ : مَا یَمْنَعُکُمْ إذَا رَأَیْتُمُ الرَّجُلَ یَخْرِقُ أَعْرَاضَ النَّاسِ أن لاَ تُغَیِّرُوا عَلَیْہِ؟ قَالُوا: نَتَّقِی لِسَانَہُ، قَالَ: ذَاکَ أَدْنَی أَنْ تَکُونُوا شُہَدَائَ۔
(٢٦٠٤٩) حضرت زید بن صوحان فرماتے ہیں کہ حضرت عمر نے ارشاد فرمایا : تمہیں کس چیز نے روک دیا کہ جب تم نے ایک آدمی کو دیکھا کہ وہ لوگوں کی عزتیں خراب کررہا ہے اور تمہیں اس پر غیرت تک نہیں آئی ، لوگوں نے عرض کیا : ہم تو اس کی زبان سے بچتے ہیں۔ آپ نے فرمایا : یہ تو اور بھی گھٹیا بات ہے کہ تم گواہ بن رہے ہو۔

26049

(۲۶۰۵۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ بْنِ أَبِی خَالِدٍ ، عَنْ قَیْسٍ ، أَنَّ عَمْرَو بْنَ الْعَاصِ مَرَّ عَلَی بَغْلٍ مَیِّتٍ فَقَالَ لأَصْحَابِہِ : إِنْ یَأْکُلْ أَحَدُکُمْ مِنْ ہَذَا حَتَّی یَمْلاَ بَطْنَہُ خَیْرٌ مِنْ أَنْ یَأْکُلَ لَحْمَ أَخِیہِ الْمُسْلِمِ۔
(٢٦٠٥٠) حضرت قیس فرماتے ہیں کہ حضرت عمرو بن العاص ایک مردار خچر کے پاس سے گزرے تو اپنے اصحاب سے فرمایا کہ تم میں سے کوئی ایک اس کو کھائے یہاں تک کہ اس کا پیٹ بھر جائے یہ بہت بہتر ہے اس بات سے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کا گوشت کھائے۔

26050

(۲۶۰۵۱) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : حَدَّثَنَا الْعَلاَئُ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، عَنْ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، أَنَّہُ قَالَ لَہُ : مَا الْغِیبَۃُ یَا رَسُولَ اللہِ ؟ قَالَ : ذِکْرُک أَخَاک بِمَا یَکْرَہُ ، قَالَ : أَفَرَأَیْت إِنْ کَانَ فِی أَخِی مَا أَقُولُ یَا رَسُولَ اللہِ ؟ قَالَ : إِنْ کَانَ فِی أَخِیک مَا تَقُولُ ، فَقَدِ اغْتَبْتہ ، وَإِنْ لَمْ یَکُنْ فِیہِ مَا تَقُولُ ، فَقَدْ بَہَتَّہُ۔ (مسلم ۲۰۰۱۔ ابوداؤد ۴۸۴۱)
(٢٦٠٥١) حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا : اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! غیبت کیا چیز ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کہ تو اپنے بھائی کی وہ بات ذکر کرے جس کو وہ ناپسند کرتا ہو، آپ نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ کی کیا رائے ہے اس بارے میں کہ میں جو کچھ کہہ رہا ہوں اگر وہ بات میرے بھائی میں موجود ہو تو ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم جو بات کرتے ہو اگر وہ تمہارے بھائی میں موجود ہے تو تحقیق تم نے اس کی غیبت بیان کی اور جو بات تم کرتے ہو اگر وہ تمہارے بھائی میں موجود نہیں ہے تو تحقیق تم نے اس پر بہتان باندھا ہے۔

26051

(۲۶۰۵۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ ابْنِ أَبِی لَیْلَی ، عَنِ الْحَکَمِ ، عَنِ ابْنٍ لأَبِی الدَّرْدَائِ ، أَنَّ رَجُلاً وَقَعَ فِی رَجُلٍ فَرَدَّ عَنْہُ آخَرُ فَقَالَ أَبُو الدَّرْدَائِ : سَمِعْت رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : مَنْ ذَبَّ عَنْ عِرْضِ أَخِیہِ کَانَ لَہُ حِجَابًا مِنَ النَّارِ۔ (ترمذی ۱۹۳۱۔ احمد ۶/۴۵۰)
(٢٦٠٥٢) حضرت حکم فرماتے ہیں کہ حضرت ابو الدردائ کے ایک بیٹے نے ارشاد فرمایا : کہ ایک آدمی نے کسی آدمی کی غیبت بیان کی تو دوسرے آدمی نے اس کو روک دیا۔ اس پر حضرت ابو الدردائ نے ارشاد فرمایا : کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یوں فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص اپنے بھائی کی عزت کا دفاع کرے گا تو یہ اس کے لیے جہنم سے آڑ بن جائے گی ۔

26052

(۲۶۰۵۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ مِسْعَرٍ ، عَنْ عَوْنٍ ، قَالَ : وَقَعَ رَجُلٌ فِی رَجُلٍ فَرَدَّ عَلَیْہِ آخَرُ فَقَالَتْ أُمُّ الدَّرْدَائِ : لَقَدْ غَبَطْتُک ، إِنَّہُ مَنْ ذَبَّ عَنْ عِرْضِ أَخِیہِ ، وَقَاہُ اللَّہُ ، قَالَ مِسْعَرٌ : نَفْحَ ، أَوْ لَفْحَ النَّارِ۔
(٢٦٠٥٣) حضرت عون فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے کسی آدمی کی غیبت بیان کی تو دوسرے آدمی نے اس کی بات واپس لوٹا دی۔ اس پر حضرت ام الدردائ نے ارشاد فرمایا : تحقیق مجھے تجھ پر رشک ہے۔ اس لیے کہ جو شخص اپنے بھائی کی عزت کا دفاع کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس شخص کو جہنم کی ہوا کے جھونکے سے یا جہنم کی جلا دینی والی آگ سے محفوظ فرمائیں گے۔

26053

(۲۶۰۵۴) حَدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللہِ : إذَا قُلْتَ مَا فِی الرَّجُلِ فَلَمْ تُزَکِّہِ۔
(٢٦٠٥٤) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود نے ارشاد فرمایا : جب تم نے وہ بات بیان کی جو آدمی میں موجود ہو تو تم نے اس کی پاکی بیان نہیں کی۔

26054

(۲۶۰۵۵) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ زِیَادِ بْنِ عِلاَقَۃَ ، عَنْ أُسَامَۃَ بْنِ شَرِیکٍ ، قَالَ : شَہِدْت الأَعْرَابَ یَسْأَلُونَ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : عَلَیْنَا حَرَجٌ فِی کَذَا وَکَذَا ؟ فَقَالَ : عِبَادَ اللہِ ، وَضَعَ اللَّہُ الْحَرَجَ إلاَّ مَنِ اقْتَرَضَ مِنْ عِرْضِ أَخِیہِ شَیْئًا فَذَلِکَ الَّذِی حَرَجٌ۔
(٢٦٠٥٥) حضرت زیاد بن علاقہ فرماتے ہیں کہ حضرت اسامہ بن شریک نے ارشاد فرمایا : میں حاضر تھا کہ بدؤں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا : کہ اس طرح اور اس طرح کرنے میں ہم پر گناہ ہوگا ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ! اللہ کے بندو ! اللہ نے گناہ ہٹا دیا ہے مگر جو کوئی شخص اپنے بھائی کی غیبت کرتا ہے تو اس کی وجہ سے وہ گناہ گار ہوا۔

26055

(۲۶۰۵۶) حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ مُعَاوِیَۃَ بْنِ قُرَّۃَ ، قَالَ : لَوْ رَأَیْت أَقْطَعَ فَذَکَرْتہ فَقُلْت الأَقْطَعُ کَانَتْ غِیبَۃً ، قَالَ : فَذَکَرْتہ لأَبِی إِسْحَاقَ فَقَالَ : صَدَقَ۔
(٢٦٠٥٦) حضرت شعبہ فرماتے ہیں کہ حضرت معاویہ بن قرہ نے ارشاد فرمایا : اگر تو کسی ہاتھ کٹے کو دیکھے پھر تو نے اس کا یوں ذکر فرمایا : کہ ہاتھ کٹا تو یہ بھی غیبت ہوگی۔ راوی کہتے ہیں کہ میں نے یہ بات حضرت ابو اسحاق کے سامنے ذکر کی ، تو آپ نے فرمایا : انھوں نے سچ کہا۔

26056

(۲۶۰۵۷) حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَبْدِ الْوَارِثِ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ بَکْرٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ أَبُو مُوسَی الأَشْعَرِیُّ : لَوْ رَأَیْت رَجُلاً یَرْضَعُ شَاۃً فِی الطَّرِیقِ فَسَخِرْت مِنْہُ خِفْت أَنْ لاَ أَمُوتَ حَتَّی أَرْضَعَہَا۔
(٢٦٠٥٧) حضرت عبداللہ بن بکر فرماتے ہیں کہ حضرت ابو موسیٰ اشعری نے ارشاد فرمایا : اگر میں کسی آدمی کو دیکھوں کہ وہ راستہ میں بکری کا دودھ پی رہا ہے اور پھر اس کا مذاق بناؤں ، تو مجھے خوف ہے کہ مجھے موت نہیں آئے گی یہاں تک کہ میں بھی راستہ میں بکری کا دودھ پیوں۔

26057

(۲۶۰۵۸) حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ بْنُ مُوسَی ، قَالَ : أَخْبَرَنَا حَسَنٌ ، عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ ، قَالَ : إذَا قُلْتَ مَا ہُوَ فِیہِ ، وَہُوَ لاَ یَسْمَعُ ، فَقَدِ اغْتَبْتہ ، وَإِذَا قُلْتَ مَا لَیْسَ فِیہِ ، فَقَدْ بَہَتَّہُ۔
(٢٦٠٥٨) حضرت شعبی فرماتے ہیں کہ حضرت ابن مسعود نے ارشاد فرمایا : جب تم اپنے بھائی کے بارے میں وہ بات کرتے ہو جو اس میں موجود ہے اور وہ اس کو نہیں سن رہا تو تحقیق تم نے اس کی غیبت کی، اور جب تم نے وہ بات کی جو اس میں موجود نہیں تو تحقیق تم نے اس پر بہتان باندھا۔

26058

(۲۶۰۵۹) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللہِ : لَوْ سَخِرْت مِنْ کَلْبٍ لَخَشِیت أَنْ أَکُونَ کَلْبًا۔
(٢٦٠٥٩) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود نے ارشاد فرمایا : اگر میں کسی کتے کا مذاق اڑاؤں تو مجھے خوف ہے کہ میں بھی کتا نہ بن جاؤں گا۔

26059

(۲۶۰۶۰) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللہِ : الْبَلاَئُ مُوَکَّلٌ بِالْقَوْلِ۔
(٢٦٠٦٠) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود نے ارشاد فرمایا : مصیبتیں تو باتوں کی وجہ سے مسلط ہوتی ہیں۔

26060

(۲۶۰۶۱) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، عَن أَبِی الضُّحَی ، عَنْ مَسْرُوقٍ، قَالَ: إذَا قُلْتَ مَا فِیہِ، فَقَدِ اغْتَبْتہ ، وَإِنْ قُلْتَ مَا لَیْسَ فِیہِ ، فَقَدْ بَہَتَّہ۔
(٢٦٠٦١) حضرت ابوا لضحیٰ فرماتے ہیں کہ حضرت مسروق نے ارشاد فرمایا : جب تم نے ایسی بات کہی جو اس شخص میں موجود تھی تو تحقیق تم نے اس کی غیبت بیان کی اور جب تم نے ایسی بات کہی جو اس شخص میں موجود نہیں تھی تو تم نے اس پر بہتان باندھا۔

26061

(۲۶۰۶۲) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنِ ابْنِ عَجْلاَنَ ، عَنِ الْحَارِثِ ، قَالَ : کُنْتُ أَخِذًا بِیَدِ إبْرَاہِیمَ وَنَحْنُ نُرِید الْمَسْجِدَ ، قَالَ : فَذَکَرْت رَجُلاً فَاغْتَبْتہ ، قَالَ فَقَالَ لی إبْرَاہِیمُ : ارْجِعْ فَتَوَضَّأْ ، کَانُوا یَعُدُّونَ ہَذَا ہُجْرًا۔
(٢٦٠٦٢) حضرت ابن عجلان فرماتے ہیں کہ حضرت حارث نے ارشاد فرمایا : کہ میں حضرت ابراہیم کا ہاتھ پکڑے ہوئے تھا اور ہم دونوں کا مسجد جانے کا ارادہ تھا اتنے میں میں نے ایک آدمی کا ذکر کیا اور اس کی غیبت کی تو حضرت ابراہیم نے مجھ سے فرمایا : واپس جاؤ اور وضو کرو ، صحابہ اس کو فحش گوئی شمار کرتے تھے۔

26062

(۲۶۰۶۳) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ ، عَنْ عُرْوَۃَ ، أَنَّہُ کَانَ لَہُ مُشْطٌ مِنْ عِظَامِ الْفِیلِ وَمَدْہَنٌ مِنْ عِظَامِ الْفِیلِ۔
(٢٦٠٦٣) حضرت ہشام بن عروہ فرماتے ہیں کہ حضرت عروہ کے پاس ہاتھی کی ہڈیوں کی کنگھی تھی اور ہاتھی کی ہڈیوں سے بنی ہوئی تیل کی شیشی تھی۔

26063

(۲۶۰۶۴) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ ، عَنْ ہِشَامٍ ، قَالَ : رَأَیْتُ أَبِی یَدَّہِنُ فِی مَدْہَنٍ مِنْ عِظَامِ الْفِیلِ۔
(٢٦٠٦٤) حضرت ہشام فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے والد حضرت عروہ کو دیکھا کہ وہ ہاتھی کی ہڈی سے بنی ہوئی تیل کی شیشی میں سے تیل لگاتے تھے۔

26064

(۲۶۰۶۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، أَنَّہُ کَانَ لَہُ مَدْہَنٌ مِنْ عَاجٍ یَدَّہِنُ فِیہِ۔
(٢٦٠٦٥) حضرت ہشام فرماتے ہیں کہ ان کے والد حضرت عروہ کے پاس ہاتھی کی ہڈی سے بنی ہوئی تیل کی شیشی تھی جس میں سے وہ تیل لگاتے تھے۔

26065

(۲۶۰۶۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ أُسَامَۃَ بْنِ زَیْدٍ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ بْنِ أُمَیَّۃَ ، عَنْ أُمہِ ، عَنْ سُرِّیَّۃٍ لِعُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِیزِ ، قَالَتْ : أَتَیْتہ بِمَدْہَنٍ مِنْ عَاجٍ ، أَوْ مُشْطٍ مِنْ عَاجٍ فَکَرِہَہُ وَقَالَ : ہُوَ مَیْتَۃٌ۔
(٢٦٠٦٦) حضرت اسماعیل بن امیہ اپنی والدہ سے نقل فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن عبد العزیز کی رازدان نے بتلایا کہ میں ان کے پاس ہاتھی کے دانت کی بنی ہوئی تیل کی شیشی لے کرگئی یا کنگھی تو آپ نے اس کو ناپسند کیا اور فرمایا یہ تو مردار ہے۔

26066

(۲۶۰۶۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَطَائٍ ، أَنَّہُ کَرِہَ الْعَاجَ۔
(٢٦٠٦٧) حضرت ابن جریج فرماتے ہیں کہ حضرت عطائ نے ہاتھی کے دانت کو ناپسند فرمایا۔

26067

(۲۶۰۶۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ طَاوُوسٍ ، أَنَّہُ کَرِہَ الْعَاجَ۔
(٢٦٠٦٨) حضرت لیث فرماتے ہیں کہ حضرت طاؤس نے ہاتھی کے دانت کو ناپسند فرمایا۔

26068

(۲۶۰۶۹) حَدَّثَنَا عَبْدُ السَّلاَمِ بْنُ حَرْبٍ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ طَاوُوسٍ ، أَنَّہُ کَرِہَ الْعَاجَ کُلَّہُ ، وَأَنْ یُتَّخَذَ مِنْہُ مِشْطًا۔
(٢٦٠٦٩) حضرت لیث فرماتے ہیں کہ حضرت طاؤس نے ہاتھی کے دانت کو بہرصورت ناپسند فرمایا، اور اس بات کو بھی کہ اس کی کنگھی بنائی جائے۔

26069

(۲۶۰۷۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ أَبِی خُزَیْمَۃَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : نَہَی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنِ التَّرَجُّلِ إلاَّ غِبًّا۔ (ابوداؤد ۴۱۵۶۔ ترمذی ۱۷۵۶)
(٢٦٠٧٠) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کنگھی کرنے کو منع فرماتے تھے مگر گاہے گاہے۔

26070

(۲۶۰۷۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ جُوَیْرِیَۃَ بْنِ أَسْمَائَ ، عَنْ نَافِعٍ ، أَنَّ ابْنَ عُمَرَ کَانَ رُبَّمَا ادَّہَنَ فِی الْیَوْمِ مَرَّتَیْنِ۔
(٢٦٠٧١) حضرت نافع فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عمر کبھی کبھار دن میں دو مرتبہ تیل لگایا کرتے تھے۔

26071

(۲۶۰۷۲) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا سَعِید ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : نَہَی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنِ التَّرَجُّلِ إلاَّ غِبًّا۔
(٢٦٠٧٢) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کنگھی کرنے کو منع فرماتے تھے مگر گاہے گاہے۔

26072

(۲۶۰۷۳) حَدَّثَنَا یُونُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا أَبُو ہِلاَلٍ ، عَنْ شَیْبَۃَ بْنِ ہِشَامٍ ، عَنْ مُغِیرَۃَ بْنِ الْحَارِثِ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : التَّرَجُّلُ غِبًّا۔
(٢٦٠٧٣) حضرت مغیرہ بن حارث فرماتے تھے کہ حضرت ابوہریرہ نے ارشاد فرمایا : کنگھی کبھی کبھار کیا کرو۔

26073

(۲۶۰۷۴) حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِی عَدِیٍّ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، عَنْ مُحَمَّدٍ ، قَالَ : کَانُوا یَکْرَہُونَ التَّرَجُّلَ کُلَّ یَوْمٍ۔
(٢٦٠٧٤) حضرت ابن عون فرماتے ہیں کہ حضرت محمد نے ارشاد فرمایا : صحابہ روزانہ کنگھی کرنے کو مکروہ سمجھتے تھے۔

26074

(۲۶۰۷۵) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، وَعَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، قَالاَ : حدَّثَنَا عُبَید اللہِ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إذَا کَانَ ثَلاَثَۃٌ فَلاَ یَتَسَارَّ اثْنَانِ دُونَ الآخَرِ ، وَقَالَ ابْنُ نُمَیْرٍ : یَتَنَاج۔ (مسلم ۱۷۱۷۔ احمد ۲/۱۴۱)
(٢٦٠٧٥) حضرت ابن عمر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جب تین افراد ہوں تو ان میں دو تیسرے کے علاوہ سرگوشی ہرگز مت کریں اور حضرت ابن نمیر نے یتناج کا لفظ نقل فرمایا بمعنی سرگوشی کرنا۔

26075

(۲۶۰۷۶) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَص ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ أَبِی وَائِلٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إذَا کنا ثَلاَثَۃً أَنْ یَتَنَاجَی اثْنَانِ دُونَ وَاحِدٍ أَجْلَ أَنْ یُحْزِنَہُ حَتَّی یَخْتَلِطَ بِالنَّاسِ۔ (مسلم ۱۷۱۸۔ بخاری ۶۲۹۰)
(٢٦٠٧٦) حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے منع فرمایا کہ جب تین افراد ہوں تو ان میں سے دو تیسرے کے علاوہ سرگوشی نہ کریں اس وجہ سے وہ اس کو غم گین کریں گے یہاں تک کہ وہ لوگوں میں مل جائے۔

26076

(۲۶۰۷۷) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَص ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنِ الأَحْوَص ، قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللہِ : إذَا کَانَ ثَلاَثَۃُ نَفَرٍ فلا یَنْتَجِی اثْنَانِ دُونَ وَاحِدٍ ، فَإِنَّ ذَلِکَ یَسُوئُہُ۔
(٢٦٠٧٧) حضرت ابو الاحوص فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود نے ارشاد فرمایا جب تین افراد کا گروہ ہو تو دو شخص تیسرے کو چھوڑ کر سرگوشی نہ کریں، پس بیشک یہ بات اس کو تکلیف میں مبتلا کر دے گی۔

26077

(۲۶۰۷۸) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ أَبِی سَعِیدٍ ، قَالَ : رَأَیْتُ ابْنَ عُمَرَ وَہُوَ یُنَاجِی رَجُلاً ، فَأَدْخَلْت رَأْسِی بَیْنَہُمَا فَضَرَبَ ابْنُ عُمَرَ صَدْرِی وَقَالَ : إذَا رَأَیْت اثْنَیْنِ یَتَنَاجَیَانِ فَلاَ تَدْخُلْ بَیْنَہُمَا إلاَّ بِإِذْنِہِمَا۔
(٢٦٠٧٨) حضرت سعید بن ابی سعید فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عمر کو دیکھا کہ وہ کسی آدمی سے سرگوشی کر رہے تھے میں نے بھی اپنا سر ان دونوں کے درمیان داخل کردیا تو حضرت ابن عمر نے میرے سینہ پر مارا اور فرمایا : جب تم دو آدمیوں کو سرگوشی کرتے ہوئے دیکھو تو ان دونوں کے درمیان مت گھسو مگر ان کی اجازت سے۔

26078

(۲۶۰۷۹) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِی صَالِحٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : إذَا کَانَ الْقَوْمُ أَرْبَعَۃً فَلاَ بَأْسَ أَنْ یَتَنَاجَی اثْنَانِ دُونَ صَاحِبَیْہِمَا۔ (ابوداؤد ۴۸۱۸)
(٢٦٠٧٩) حضرت ابو صالح فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عمر نے ارشاد فرمایا : جب چار افراد ہوں تو کوئی حرج نہیں ہے کہ دو افراد اپنے ساتھیوں کو چھوڑ کر سرگوشی کریں۔

26079

(۲۶۰۸۰) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ عَمْرٍو سَمِعَ جَابِرًا یَقُولُ : مَرَّ رَجُلٌ فِی الْمَسْجِدِ بِسِہَامٍ فَقَالَ لَہُ : رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : أَمْسِکْ بِنِصَالِہَا۔
(٢٦٠٨٠) حضرت جابر فرماتے ہیں کہ ایک آدمی مسجد میں تیر لے کر گزرا، تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے فرمایا : اس کے پھل کو اپنے سے چمٹا لو۔

26080

(۲۶۰۸۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ بُرَیْدِ بْنِ عَبْدِ اللہِ ، عَنْ أَبِی بُرْدَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : إذَا مَرَّ أَحَدُکُمْ فِی الْمَسْجِدِ بِنَبْلٍ فَلْیُمْسِکْ بِنِصَالِہَا۔
(٢٦٠٨١) حضرت ابو بردہ فرماتے ہیں کہ ان کے والد نے ارشاد فرمایا : جب تم میں کوئی مسجد میں تیر لے کر گزرے تو اس کو چاہیے کہ اس کے پھل کو اپنے سے چمٹا لے۔

26081

(۲۶۰۸۲) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : حدَّثَنَا عَاصِمٌ ، عَنِ الْحَسَنِ ، أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَأَی قَوْمًا یَتَعَاطَوْنَ سَیْفًا مَشْہُورًا فَقَالَ : لَعَنَ اللَّہُ ہَؤُلاَئِ ، فَقُلْت للحسن : إنَّہُ کَانَ فِی الْمَسْجِدِ ، فَقَالَ : لاَ ، بَلْ فِی رَحْبَۃٍ مِنْ رِحَابِ الْمَسْجِدِ۔ (احمد ۵/۴۱۔ حاکم ۲۹۰)
(٢٦٠٨٢) حضرت انس فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے چند لوگوں کو دیکھا کہ وہ سونتی ہوئی تلوار لے رہے ہیں تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ان پر اللہ لعنت کرے۔ راوی کہتے ہیں ! میں نے حضرت حسن سے پوچھا : کیا وہ مسجد میں تھے ؟ آپ نے فرمایا : نہیں ، بلکہ مسجد کے صحنوں میں سے ایک صحن میں تھے۔

26082

(۲۶۰۸۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، عَنْ سُفْیَانَ، عَنْ لَیْثٍ، عَنْ مُجَاہِدٍ، قَالَ: مَلْعُونٌ مَنْ نَاوَلَ أَخَاہُ السَّیْفَ مَسْلُولاً فِی الْمَسْجِدِ۔
(٢٦٠٨٣) حضرت لیث فرماتے ہیں کہ حضرت مجاہد نے ارشاد فرمایا : ملعون ہے وہ شخص جو مسجد میں اپنے بھائی کو سونتی ہوئی تلوار پکڑائے۔

26083

(۲۶۰۸۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ أَسْلَمَ الْمُنْقِرِیِّ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبْزَی ، أَنَّہُ کَرِہَ سَلَّ السَّیْفِ فِی الْمَسْجِدِ۔
(٢٦٠٨٤) حضرت اسلم المنقری فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عبد الرحمن بن ابزی مسجد میں تلوار سونت لینے کو مکروہ سمجھتے تھے۔

26084

(۲۶۰۸۵) حَدَّثَنَا سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْکَدِرِ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : سَمِعْتُہُ یَقُولُ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَنْ نَاوَلَ أَخَاہُ السَّیْفَ فَلْیَغْمِدْہُ۔
(٢٦٠٨٥) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جو اپنے بھائی سے تلوار پکڑے تو اس کو چاہیے کہ وہ تلوار نیام میں کرلے۔

26085

(۲۶۰۸۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ ، عَنْ جَابِرٍ ، قَالَ : نَہَی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ یُتَعَاطَی السَّیْفُ مَسْلُولاً۔ (ترمذی ۲۱۶۳۔ ابوداؤد ۲۵۸۱)
(٢٦٠٨٦) حضرت جابر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سونتی ہوئی تلوار لینے سے منع فرمایا۔

26086

(۲۶۰۸۷) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ زَیْدِ بْنِ جُدْعَانَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : نَہَی النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ یُتَعَاطَی السَّیْفُ مَسْلُولاً ، وَمَرَّ بِقَوْمٍ یَتَعَاطَوْنَ سَیْفًا مَسْلُولاً فَقَالَ : أَلَمْ أَنْہَکُمْ عن ہَذَا ؟ لَعَنَ اللَّہُ مَنْ فَعَلَ ہَذَا۔ (احمد ۳/۳۶۱)
(٢٦٠٨٧) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سونتی ہوئی تلوار لینے سے منع فرمایا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگوں کے پاس سے گزرے جو سونتی ہوئی تلوار لے رہے تھے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کیا میں نے تمہیں ایسا کرنے سے منع نہیں کیا تھا ؟ اللہ لعنت کرے اس شخص پر جو یہ کرے۔

26087

(۲۶۰۸۸) حَدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ زَیْدِ بْنِ جُدْعَانَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لاَ یَقُمْ رَجُلٌ لِرَجُلٍ ، وَلَکِنْ لِیُوسِعْ لَہُ۔
(٢٦٠٨٨) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : کوئی آدمی کسی آدمی کے لیے کھڑا نہ ہو البتہ اسے چاہیے کہ وہ اس کے لیے کشادگی پیدا کر دے۔

26088

(۲۶۰۸۹) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : لاَ یُقِیمَنَّ أَحَدُکُمْ أَخَاہُ مِنْ مَجْلِسِہِ ، ثُمَّ یَجْلِسَ فِیہِ ، قَالَ : وَکَانَ ابْنُ عُمَرَ إذَا قَامَ لَہُ الرَّجُلُ عن مَجْلِسِہِ لَمْ یَجْلِسْ فِیہِ۔ (مسلم ۱۷۱۴۔ احمد ۲/۸۹)
(٢٦٠٨٩) حضرت ابن عمر فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : تم میں سے کوئی بھی اپنے بھائی کو اس کی جگہ سے نہ اٹھائے کہ پھر اس کی جگہ میں بیٹھ جائے۔
راوی کہتے ہیں : حضرت ابن عمر کے لیے جب کوئی شخص اپنی جگہ سے کھڑا ہوجاتا تو آپ اس جگہ نہیں بیٹھتے تھے۔

26089

(۲۶۰۹۰) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ وَأَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لاَ یُقِیمَنَّ الرَّجُلُ الرَّجُلَ عَنْ مَقْعَدِہِ ثُمَّ یَقْعُدَ فِیہِ ، وَلَکِنْ تَفَسَّحُوا وَتَوَسَّعُوا۔ (مسلم ۱۷۱۴۔ احمد ۲/۱۶)
(٢٦٠٩٠) حضرت ابن نمیر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : کوئی بھی ! دوسرے آدمی کو اس کی جگہ سے نہ اٹھائے کہ پھر اس کی جگہ میں بیٹھ جائے، البتہ تم لوگ کشادگی اور وسعت پیدا کرو۔

26090

(۲۶۰۹۱) حَدَّثَنَا شَبَابَۃُ بْنُ سَوَّارٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا شُعْبَۃُ ، عَنْ عَبْدِ رَبِّہِ بْنِ سَعِیدٍ ، عَنْ مَوْلًی لأَبِی مُوسَی ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ أَبِی الْحَسَنِ ، عَنْ أَبِی بَکْرَۃَ ، أَنَّہُ دُعِیَ إلَی شَہَادَۃٍ فَقَامَ لَہُ رَجُلٌ مِنْ مَجْلِسِہِ فَقَالَ لَہُ : إنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَہَی إذَا قَامَ الرَّجُلُ لِلرَّجُلِ عَنْ مَجْلِسِہِ أَنْ یَجْلِسَ فِیہِ ، وَنَہَی النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ یَمْسَحَ الرَّجُلُ یَدَہُ بِثَوْبِ مَنْ لاَ یَکْسُو۔ (ابوداؤد ۴۷۹۴۔ احمد ۵/۴۴)
(٢٦٠٩١) حضرت سعید بن ابی الحسن فرماتے ہیں کہ حضرت ابو بکرہ کو گواہی کے لیے بلایا گیا تو ایک آدمی ان کے لیے اپنی جگہ سے کھڑا ہوگیا تو آپ نے اس سے فرمایا، بیشک رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے منع فرمایا ہے اس بات سے کہ جب ایک آدمی دوسرے آدمی کے لیے اپنی جگہ سے کھڑا ہوجائے تو وہ شخص اس کی جگہ بیٹھ جائے اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے منع فرمایا کہ آدمی اپنا ہاتھ پھیرے اس شخص کے کپڑے کے ساتھ جس کو اس نے پہنا نہیں ہے۔

26091

(۲۶۰۹۲) حَدَّثَنَا یُونُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، قَالَ: حدَّثَنَا فُلَیْحٌ ، عَنْ أَیُّوبَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ یَعْقُوبَ بْنِ أَبِی یَعْقُوبَ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لاَ یَقُومُ الرَّجُلُ لِلرَّجُلِ عَنْ مَجْلِسِہِ ، وَلَکِنِ افْسَحُوا یَفْسَحَ اللَّہُ لَکُمْ۔ (احمد ۲/۳۳۸)
(٢٦٠٩٢) حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : کوئی آدمی کسی آدمی کے لیے اپنی جگہ سے کھڑا نہ ہو البتہ تم کشادگی کرو اللہ تمہارے لیے کشادگی فرمائیں گے۔

26092

(۲۶۰۹۳) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَص ، عَنْ عَطَائٍ ، عَنْ أَبِی الْبَخْتَرِیِّ ، قَالَ : کَانَ یُکْرَہُ أَنْ یَقُومَ الرَّجُلُ مِنْ مَجْلِسِہِ لِلرَّجُلِ لِیَجْلِسَ فِیہِ۔
(٢٦٠٩٣) حضرت ابو البختری کہ اس بات کو مکروہ سمجھا جاتا کہ ایک آدمی کسی آدمی کے لیے اپنی جگہ سے کھڑا ہوجائے تاکہ وہ اس کی جگہ میں بیٹھ جائے۔

26093

(۲۶۰۹۴) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ مِسْعَرٍ ، عَنْ أَبِی الْعَنْبَسِ ، عَنْ أَبِی الْعَدَبَّسِ ، عَنْ أَبِی مَرْزُوقٍ ، عَنْ أَبِی غَالِبٍ ، عَنْ أَبِی أُمَامَۃَ ، قَالَ : خَرَجَ عَلَیْنَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مُتَوَکِّئًا عَلَی عَصًا ، فَقُمْنَا إلَیْہِ فَقَالَ : لاَ تَقُومُوا کَمَا تَقُومُ الأَعَاجِمُ یُعَظِّمُ بَعْضُہَا بَعْضًا۔ (ابوداؤد ۵۱۸۷۔ ابن ماجہ ۳۸۳۶)
(٢٦٠٩٤) حضرت ابو امامہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے پاس تشریف لائے (اس حال میں کہ) لاٹھی کو سہارا لگائے ہوئے تھے تو ہم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اکرام میں کھڑے ہوگئے۔ اس پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : تم لوگ عجمیوں کی طرح کھڑے مت ہوا کرو۔ وہ لوگ اس طرح ایک دوسرے کی تعظیم کرتے ہیں۔

26094

(۲۶۰۹۵) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ حَبِیبِ بْنِ شَہِیدٍ ، عَنْ أَبِی مِجْلَزٍ ، قَالَ : دَخَلَ مُعَاوِیَۃُ بَیْتًا فِیہِ عَبْدُ اللہِ بْنُ عَامِرٍ، وَعَبْدُ اللہِ بْنُ الزُّبَیْرِ ، فَقَامَ عَبْدُ اللہِ بْنُ عَامِرٍ وَلَمْ یَقُمْ عَبْدُ اللہِ بْنُ الزُّبَیْرِ فَقَالَ مُعَاوِیَۃُ لابْنِ عَامِرٍ : اجْلِسْ ، فَإِنِّی سَمِعْت رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : مَنْ سَرَّہُ أَنْ یَتَمَثَّلَ لَہُ الرِّجَالُ قِیَامًا فَلْیَتَبَوَّأْ مَقْعَدَہُ مِنَ النَّارِ۔ (ترمذی ۲۷۵۵۔ ابوداؤد ۵۱۸۶)
(٢٦٠٩٥) حضرت ابو مجلز فرماتے ہیں کہ حضرت معاویہ ایک گھر میں داخل ہوئے جس میں حضرت عبداللہ بن عامر اور حضرت عبداللہ بن زبیر موجود تھے، حضرت عبداللہ بن عامر ، تو کھڑے ہوگئے اور حضرت عبداللہ بن زبیر کھڑے نہیں ہوئے۔ اس پر حضرت معاویہ نے حضرت عبداللہ بن عامر سے فرمایا : بیٹھ جاؤ اس لیے کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یوں فرماتے ہوئے سنا جو شخص اس بات کو پسند کرے کہ آدمی اس کے لیے کھڑے ہوں تو وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے۔

26095

(۲۶۰۹۶) عَفَّان ، قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَنْ حُمَیْدٍ ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ : مَا کَانَ شَخْصٌ أَحَبَّ إلَیْہِمْ مِنْ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَکَانُوا إذَا رَأَوْہُ لَمْ یَقُومُوا لِمَا یَعْلَمُونَ مِنْ کَرَاہِیَتِہِ لِذَلِکَ۔ (ترمذی ۲۷۵۴)
(٢٦٠٩٦) حضرت حمید فرماتے ہیں کہ حضرت انس نے ارشاد فرمایا : کہ صحابہ کے نزدیک رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے زیادہ کوئی محبوب شخص نہیں تھا اور جب وہ لوگ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیکھتے تھے تو کھڑے نہیں ہوتے تھے اس لیے کہ وہ لوگ اس وجہ سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ناپسندیدگی کو جانتے تھے۔

26096

(۲۶۰۹۷) حَدَّثَنَا عِیسَی بْنُ یُونُسَ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ طَارِقٍ ، قَالَ : کُنَّا جُلُوسًا عِنْدَ الشَّعْبِیِّ ، فَجَائَ جَرِیرُ بْنُ یَزِیدَ ، فَدَعَا لَہُ الشَّعْبِیُّ بِوِسَادَۃٍ فَقُلْنَا لَہُ : یَا أَبَا عَمْرٍو نَحْنُ عِنْدَکَ أَشْیَاخٌ ، دَعَوْت لِہَذَا الْغُلاَمِ بِوِسَادَۃٍ ؟ فَقَالَ : إنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : إذَا أَتَاکُمْ کَرِیمُ قَوْمٍ فَأَکْرِمُوہُ۔
(٢٦٠٩٧) حضرت طارق فرماتے ہیں کہ ہم لوگ حضرت شعبی کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ حضرت جریر بن یزید تشریف لائے تو حضرت شعبی نے ان کے لیے تکیہ منگوایا، تو ہم نے آپ سے کہا : اے ابو عمرو ! ہم آپ کے پاس بڑے لوگ ہیں اور آپ اس بچے کے لیے تکیہ منگوا رہے ہیں ؟ تو انھوں نے کہا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جب تمہارے پاس پاس قوم کا معزز شخص آئے تو تم اس کا اکرام کرو۔

26097

(۲۶۰۹۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنِ طَارِق ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إذَا أَتَاکُمْ کَرِیمُ قَوْمٍ فَأَکْرِمُوہُ۔ (ابوداؤد ۵۱۱)
(٢٦٠٩٨) حضرت شعبی فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا جب تمہارے پاس قوم کا معزز شخص آئے تو تم اس کا اکرام کرو۔

26098

(۲۶۰۹۹) حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا حَسَنُ بْنُ صَالِحٍ ، عَنْ عَاصِمٍ ، قَالَ : طَرَحَ أَبُو قِلاَبَۃَ لِرَجُلٍ وِسَادَۃً فَقَالَ أَبُو قِلاَبَۃَ : إِنَّہُ کَانَ یُقَالُ : لاَ تَرُدَّ عَلَی أَخِیک کَرَامَتَہُ۔
(٢٦٠٩٩) حضرت عاصم فرماتے ہیں کہ حضرت ابو قلابہ نے ایک آدمی کے لیے تکیہ لگوایا اور فرمایا، یا یوں کہا جاتا تھا کہ تم اپنے بھائی پر اس کے اکرام کو رد مت کرو۔

26099

(۲۶۱۰۰) حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إسْمَاعِیلَ ، عَنْ جَعْفَرٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : دَخَلَ عَلِیٌّ وَرَجُلٌ ، فَطَرَحَ لَہُمَا وِسَادَتَیْنِ ، فَجَلَسَ عَلِیٌّ وَلَمْ یَجْلِسِ الآخَرُ ، فَقَالَ عَلِیٌّ : لاَ یَرُدُّ الْکَرَامَۃَ إلاَّ حِمَارٌ۔
(٢٦١٠٠) حضرت جعفر کے والد فرماتے ہیں کہ حضرت علی اور ایک آدمی ان کے پاس تشریف لائے تو ان دونوں کے لیے تکیے لگوائے گئے حضرت علی تو بیٹھ گئے اور دوسرا آدمی نہیں بیٹھا ، اس پر حضرت علی نے ارشاد فرمایا : بیٹھ جاؤ اکرام واپس نہیں کرتا مگر گدھا۔

26100

(۲۶۱۰۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ الْحَسَنِ ، عَنْ سِمَاکٍ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : خُذِ الْحُکْمَ مِمَّنْ سَمِعْتہ ، فَإِنَّمَا ہُوَ مِثْلُ الرَّمْیَۃِ مِنْ غَیْرِ رَامٍ۔
(٢٦١٠١) حضرت عکرمہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عباس نے ارشاد فرمایا : تم کسی بات کی سمجھ اسی سے حاصل کرو جس سے تم نے بات کو سنا، اس لیے کہ اس کی مثال اس تیر کی ہے جو کسی اور نے چلایا ہو۔

26101

(۲۶۱۰۲) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا زَکَرِیَّا بْنُ أَبِی زَائِدَۃَ ، قَالَ : حَدَّثَنِی عَلِیُّ بْنُ الأَقْمَرِ ، أَنَّ أَبَا جُحَیْفَۃَ کَانَ یَقُولُ : جَالِسُوا الْکُبَرَائَ ، وَخَالِطُوا الْحُکَمَائَ ، وَسَائِلُوا الْعُلَمَائَ۔
(٢٦١٠٢) حضرت علی بن اقمر فرماتے ہیں کہ حضرت ابو جحیفہ ارشاد فرمایا کرتے تھے کہ تم بڑے لوگوں کی مجلس اختیار کرو، اور عقل مندوں سے ملا کرو، اور علماء سے سوال کیا کرو۔

26102

(۲۶۱۰۳) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَنْ أَبِی جَعْفَرٍ الْخَطْمِیِّ ، أَنَّ جَدَّہُ وَہُوَ عُمَیْرُ بْنُ حَبِیبٍ أَوْصَی بَنِیہِ فَقَالَ : یَا بَنِیَّ ، إیَّاکُمْ وَمُجَالَسَۃَ السُّفَہَائِ ، فَإِنَّ مُجَالَسَتَہُمْ دَائٌ ، إِنَّہُ مَنْ یَحْلُمُ ، عَنِ السَّفِیہِ یُسَرَّ بِحِلْمِہِ ، وَمَنْ یُحبہ یَنْدَمُ ، وَمَنْ لاَ یَقَرُّ بِقَلِیلِ مَا یَجِیئُ بِہِ السَّفِیہُ یَقَرُّ بِالْکَثِیرِ ، وَإِذَا أَرَادَ أَحَدُکُمْ أَنْ یَأْمُرَ بِالْمَعْرُوفِ وَیَنْہَی عَنِ الْمُنْکَرِ فَلْیُوَطِّنْ نَفْسَہُ عَلَی الصَّبْرِ عَلَی الأَذَی ، فَإِنَّہُ مَنْ یَصْبِرُ لاَ یَجِدُ لِلأَذَی مَسًّا۔
(٢٦١٠٣) حضرت ابو جعفر الخطمی فرماتے ہیں کہ ان کے دادا حضرت عمیر بن حبیب نے اپنے بیٹے کو وصیت فرمائی : کہ اے میرے بیٹھے ! تم بیوقوفوں کی صحبت اختیار کرنے سے بچو پس بیشک ان کی صحبت تو بیماری ہے، اور جو شخص بیوقوف سے درگزر کرتا ہے تو اس کی درگزر کی وجہ سے اس کو خوشی ملتی ہے اور جو بیوقوف سے محبت کرتا ہے تو وہ شرمندہ ہوتا ہے، اور جو شخص بیوقوف کی تھوڑی بات سے بھی آنکھ ٹھنڈی نہیں کرتا تو اس کی آنکھ کثرت سے ٹھنڈی ہوتی ہے ، اور تم میں کوئی ارادہ کرے نیکی کے حکم کرنے کا اور برائی سے روکنے کا تو اس کو چاہیے کہ وہ اپنے نفس کو تکلیف پر صبر کرنے کا عادی بنادے ۔ اس لیے کہ جو شخص صبر کرتا ہے تو اس کو تکلیف محسوس نہیں ہوتی۔

26103

(۲۶۱۰۴) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنْ أَبِی قِلاَبَۃَ ، قَالَ : قَالَ أَبُو الدَّرْدَائِ : إنَّ مِنْ فِقْہِ الرَّجُلِ مَمْشَاہُ وَمَدْخَلَہُ ، قَالَ أَبُو قِلاَبَۃَ : قَاتَلَ اللَّہُ الشَّاعِرَ حَیْثُ یَقُولُ : عَنِ الْمَرْئِ لاَ تَسْأَلْ وأبصر قَرِینَہُ وَ کُلُّ قَرِینٍ بِالْمُقَارَنِ مُہْتَدِی
(٢٦١٠٤) حضرت ابو قلابہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابو الدردائ نے ارشاد فرمایا : بیشک آدمی کا چلنا اور اس کی مجلس کا تعلق اس کی سمجھ داری سے ہے۔
ابو قلابہ نے نصیحت کے انداز میں فرمایا : اللہ شاعر کو ہلاک کرے کہ اس نے یوں کہا :
آدمی کے بارے میں کسی سے مت پوچھ بلکہ اس کے ساتھیوں کو دیکھ۔۔۔
ہر ساتھی اپنے ساتھیوں کے ذریعہ ہی ہدایت یافتہ ہوتا ہے۔۔۔

26104

(۲۶۱۰۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، عَنْ سُفْیَانَ، عن أبی إسحاق، عَنْ مُرَّۃَ، أَوْ ہُبَیْرَۃَ، قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللہِ: اعْتَبِرُوا النَّاسَ بِأخْدانِہِمْ۔
(٢٦١٠٥) حضرت مرہ یا حضرت ابن ھبیرہ فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود نے ارشاد فرمایا : لوگوں کے دوستوں کے ذریعے ان کا اعتبار کرو۔

26105

(۲۶۱۰۶) حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ مَیْمُونٍ الْجُہَنِیِّ أَبی مَنْصُورا ، قَالَ : سَمِعْتُ إبْرَاہِیمَ یَقُولُ : إذَا دَخَلَ أَحَدُکُمْ بَیْتًا فَأَیْنَمَا أَجْلَسُوہُ فَلْیَجْلِسْ ، ہُمْ أَعْلَمُ بِعَوْرَۃِ بَیْتِہِمْ۔
(٢٦١٠٦) حضرت ابو منصور میمون الجھنی فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابراہیم کو یوں فرماتے ہوئے سنا کہ جب تم میں سے کوئی کسی کے گھر میں داخل ہو تو وہ لوگ جہاں اس کو بٹھائیں تو اس کو چاہیے کہ وہ بیٹھ جائے اس لیے کہ وہ لوگ اپنے گھر کے پردہ کے متعلق زیادہ جانتے ہں ۔

26106

(۲۶۱۰۷) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ بْنِ أَبِی خَالِدٍ ، قَالَ : رَأَیْتُ شُرَیْحًا یَمْشِی مُخْتَصِرًا۔
(٢٦١٠٧) حضرت اسماعیل بن ابی خالد فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت شریح کو دیکھا کہ وہ اپنی کوکھ پر ہاتھ رکھ کر چل رہے تھے۔

26107

(۲۶۱۰۸) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ الثَّقَفِیُّ ، عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّائِ ، عَنْ حُمَیْدِ بْنِ ہِلاَلٍ ، قَالَ : إنَّمَا یُکْرَہُ الاخْتِصَارُ فِی الصَّلاَۃِ لأَنَّ إبْلِیسَ أُہْبِطَ مُخْتَصِرًا۔
(٢٦١٠٨) حضرت خالد حذائ فرماتے ہیں کہ حضرت حمید بن ھلال نے ارشاد فرمایا : کہ نماز میں کوکھ پر ہاتھ رکھنا مکروہ ہے۔ اس لیے کہ ابلیس کو زمین پر اتارا گیا تھا اس حال میں کہ اس نے اپنی کوکھ پر ہاتھ رکھا ہوا تھا۔

26108

(۲۶۱۰۹) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنِ الْحَکَمِ بْنِ عَطِیَّۃَ ، قَالَ : سَمِعْتُ الْحَسَنَ یَقُولُ إذَا حَدَّثَ الرَّجُلُ الرَّجُلَ بِحَدِیثٍ وَقَالَ : اکْتُمْ عَلَیَّ ، فَہِیَ أَمَانَۃٌ۔
(٢٦١٠٩) حضرت حکم بن عطیہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت حسن کو یوں فرماتے ہوئے سنا کہ جب کوئی آدمی دوسرے آدمی کو کوئی بات بیان کرکے یوں کہے کہ میری بات کو چھپانا تو یہ بات امانت ہوگی۔

26109

(۲۶۱۱۰) حَدَّثَنَا ابْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ مِثْلُہُ۔
(٢٦١١٠) امام شعبی سے مذکورہ ارشاد اس سند سے بھی منقول ہے۔

26110

(۲۶۱۱۱) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ آدَمَ ، قَالَ : حدَّثَنَا ابْنُ أَبِی ذِئْبٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَطَائٍ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ جَابِرِ بْنِ عَتِیکٍ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : إذَا حَدَّثَ الرَّجُلُ الرَّجُلَ بِالْحَدِیثِ ، ثُمَّ الْتَفَتَ فَہِیَ أَمَانَۃٌ۔ (ابوداؤد ۴۸۳۵۔ ترمذی ۱۹۵۹)
(٢٦١١١) حضرت جابر بن عبداللہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جب کوئی آدمی دوسرے آدمی کو کوئی بات بیان کرے پھر وہ ادھر ادھر دیکھے تو یہ امانت ہوگی۔

26111

(۲۶۱۱۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِی وَائِلٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إیَّاکُمْ وَالْکَذِبَ ، فَإِنَّ الْکَذِبَ یَہْدِی إلَی الْفُجُورِ ، وَإِنَّ الْفُجُورَ یَہْدِی إلَی النَّارِ ، وَإِنَّ الرَّجُلَ لَیَکْذِبُ وَیَتَحَرَّی الْکَذِبَ حَتَّی یُکْتَبَ عِنْدَ اللہِ کَذَّابًا ، وَعَلَیْکُمْ بِالصِّدْقِ ، فَإِنَّ الصِّدْقَ بِرٌّ ، وَالْبِرُّ یَہْدِی إلَی الْجَنَّۃِ ، وَإِنَّ الرَّجُلَ یَصْدُقُ وَیَتَحَرَّی الصِّدْقَ حَتَّی یُکْتَبَ عِنْدَ اللہِ صِدِّیقًا۔ (مسلم ۱۰۵۔ ابوداؤد ۴۹۵۰)
(٢٦١١٢) حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : تم جھوٹ سے بچو پس بیشک جھوٹ فسق کی طرف لے جاتا ہے اور فسق جہنم کی طرف لے جاتا ہے، اور بیشک ایک آدمی جھوٹ بولتا ہے اور جھوٹ کو اپنا لیتا ہے یہاں تک کہ وہ اللہ کے ہاں جھوٹا لکھ دیا جاتا ہے اور تم پر سچ بولنا لازم ہے، پس بیشک سچ نیکی کی طرف راستہ دکھاتا ہے اور نیکی جنت کا راستہ دکھاتی ہے اور بیشک کوئی آدمی سچ بولتا ہے اور سچ کو اپنا لیتا ہے یہاں تک کہ وہ اللہ کے ہاں سچا لکھ دیا جاتا ہے۔

26112

(۲۶۱۱۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ ، عَنْ مُرَّۃَ بْنِ شَرَاحِیلَ ، قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللہِ : إنَّ الرَّجُلَ لَیَصْدُقُ وَیَتَحَرَّی الصِّدْقَ حَتَّی مَا یَکُونُ لِلْفُجُورِ فِی قَلْبِہِ مَوْضِعُ إبْرَۃٍ یَسْتَقِرُّ فِیہِ ، وَإِنَّہُ لَیَکْذِبُ وَیَتَحَرَّی الْکَذِبَ حَتَّی مَا یَکُونُ لِلصِّدْقِ فِی قَلْبِہِ مَوْضِعُ إبْرَۃٍ یَسْتَقِرُّ فِیہِ۔
(٢٦١١٣) حضرت مرہ بن شراحیل فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود نے ارشاد فرمایا : بیشک کوئی آدمی سچ بولتا ہے اور سچ کو اپنا لیتا ہے یہاں تک کہ اس کے دل میں سوئی کے ناکہ کے برابر جگہ میں فسق ہوتا ہے تو یہ سچ اس میں بھی اپنی جگہ بنا لیتا ہے اور بیشک کوئی آدمی جھوٹ بولتا ہے اور جھوٹ کو اپنا لیتا ہے یہاں تک کہ اس کے دل میں سوئی کے ناکہ کے برابر نیکی ہوتی ہے تو یہ جھوٹ اس میں بھی اپنی جگہ بنا لیتا ہے۔

26113

(۲۶۱۱۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، عَن عَبْدِ اللہِ ، وَعَنْ مُجَاہِدٍ، عَنْ أَبِی مَعْمَرٍ، عَنْ عَبْدِ اللہِ، وَعَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ ، عَنْ أَبِی الْبَخْتَرِیِّ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : لاَ یَصْلُحُ الْکَذِبُ فِی جَدٍّ ، وَلاَ ہَزْلٍ ، ثُمَّ تَلاَ عَبْدُ اللہِ {اتَّقُوا اللَّہَ وَکُونُوا مَعَ الصَّادِقِینَ}۔ (دارمی ۲۷۱۵)
(٢٦١١٤) حضرت ابراہیم ، حضرت ابو معمر اور حضرت ابو البختری یہ سب حضرات فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود نے ارشاد فرمایا؛ سنجیدگی اور مذاق مں ت جھوٹ بولنا درست نہیں ہے، پھر حضرت عبداللہ نے یہ آیت تلاوت فرمائی۔ (ترجمہ): اللہ سے ڈرو اور ہو جاؤ سچے لوگوں کے ساتھ۔

26114

(۲۶۱۱۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ ، عَنْ قَیْسٍ ، قَالَ : قَالَ أَبُو بَکْرٍ : إیَّاکُمْ وَالْکَذِبَ فَإِنَّہُ مُجَانِبُ الإِیمَانَ۔
(٢٦١١٥) حضرت حسین فرماتے ہیں کہ حضرت ابوبکر نے ارشاد فرمایا : تم لوگ جھوٹ سے بچو پس بیشک یہ ایمان کو دور کرنے والا ہے۔

26115

(۲۶۱۱۶) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ مَالِکِ بْنِ الْحَارِثِ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ یَزِیدَ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : الْمُؤْمِنُ یُطْوَی عَلَی الْخِلاَلِ کُلِّہَا غَیْرِ الْخِیَانَۃِ وَالْکَذِبِ۔
(٢٦١١٦) حضرت عبد الرحمن بن یزید فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود نے ارشاد فرمایا : مومن تمام خصلتوں کا عادی بن سکتا ہے سوائے خیانت اور جھوٹ کے۔

26116

(۲۶۱۱۷) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ سَلَمَۃَ بْنِ کُہَیْلٍ ، عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ سَعْدٍ ، قَالَ : الْمُؤْمِنُ یُطْبَعُ عَلَی الْخِلاَلِ کُلِّہَا غَیْرِ الْخِیَانَۃِ وَالْکَذِبِ۔ (بزار ۱۱۳۹۔ ابو یعلی ۷۰۷)
(٢٦١١٧) حضرت مصعب بن سعد فرماتے ہیں کہ حضرت سعد نے ارشاد فرمایا : مومن تمام خصلتوں کا عادی بن سکتا ہے سوائے خیانت اور جھوٹ کے۔

26117

(۲۶۱۱۸) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ بْنُ أَبِی خَالِدٍ ، قَالَ : ذُکِرَ عِنْدَ عَامِرٍ ، أَنَّ الْمُنَافِقَ الَّذِی إذَا حَدَّثَ کَذَبَ ، فَقَالَ عَامِرٌ : لاَ أَدْرِی مَا تَقُولُونَ ؟ إِنْ کَانَ کَذَّابًا ، فَہُوَ مُنَافِقٌ۔
(٢٦١١٨) حضرت اسماعیل بن ابی خالد فرماتے ہیں کہ حضرت عامر کے پاس ذکر کیا گیا کہ بیشک منافق جب بات کرتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے۔ اس پر حضرت عامر نے ارشاد فرمایا : میں نہیں جانتا کہ تم لوگ کیا کہہ رہے ہو اگر وہ جھوٹا ہے تو وہ منافق ہے۔

26118

(۲۶۱۱۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ حَبِیبٍ ، عَنْ مَیْمُونِ بْنِ أَبِی شَبِیبٍ ، عَنْ عُمَرَ ، قَالَ : لاَ تَبْلُغُ حَقِیقَۃَ الإِیمَانِ حَتَّی تَدَعَ الْکَذِبَ فِی الْمِزَاحِ۔
(٢٦١١٩) حضرت میمون بن شبیب فرماتے ہیں کہ حضرت عمر نے ارشاد فرمایا : کہ تم ایمان کی حقیقت کو نہیں پہنچ سکتے یہاں تک کہ تم مزاح میں بھی جھوٹ بولنا چھوڑ دو ۔

26119

(۲۶۱۲۰) حَدَّثَنَا یَزِیدُ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا عَوْنٌ ، قَالَ : ذُکِرَ الْکَذِبُ عِنْدَ مُحَمَّدٍ فِی الْحَرْبِ ، أَنَّہُ لاَ بَأْسَ بِہِ ، فَقَالَ مُحَمَّدٌ : لاَ أَعْلَمُ الْکَذِبَ إلاَّ حَرَامًا۔
(٢٦١٢٠) حضرت عون فرماتے ہیں کہ امام محمد کے پاس سے ذکر کیا گیا کہ جنگ میں جھوٹ بولنے میں کوئی حرج نہیں۔ اس پر حضرت محمد نے فرمایا : میں تو جھوٹ کے بارے میں اتنا جانتا ہوں کہ وہ حرام ہے۔

26120

(۲۶۱۲۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا الأَعْمَشُ ، قَالَ : حُدِّثْت عَنْ أَبِی أُمَامَۃَ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : یُطْوَی الْمُؤْمِنُ عَلَی الْخِلاَلِ کُلِّہَا غَیْرِ الْخِیَانَۃِ وَالْکَذِبِ۔ (احمد ۵/۲۵۲)
(٢٦١٢١) حضرت ابو امامہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : مومن تمام خصلتوں کا عادی بن سکتا ہے سوائے خیانت اور جھوٹ کے۔

26121

(۲۶۱۲۲) حَدَّثَنَا شَبَابَۃُ ، عَنِ اللَّیْثِ ، عَنِ ابْنِ عَجْلاَنَ ، أَنَّ رَجُلاً مِنْ مَوَالِی عَبْدِ اللہِ بْنِ عَامِرٍ بن رَبیعۃ العدوی ، حَدَّثَہُ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَامِرٍ ، أَنَّہُ قَالَ : دَعَتْنِی أُمِّی یَوْمًا وَرَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَاعِدٌ فِی بَیْتِنَا ، فَقَالَتْ : ہَا تَعَالَ أُعْطِیک ، فَقَالَ لَہَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : وَمَا أَرَدْت أَنْ تُعْطِیَہُ ؟ قَالَتْ : تَمْرًا ، فَقَالَ لَہَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : أَمَا إنَّک لَوْ لَمْ تُعْطِہِ شَیْئًا کُتِبَتْ عَلَیْکِ کِذْبَۃٌ۔ (ابوداؤد ۴۹۵۲۔ احمد ۳/۴۴۷)
(٢٦١٢٢) حضرت عبداللہ بن عامر فرماتے ہیں کہ ایک دن میری والدہ نے مجھے بلایا اس حال میں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے گھر میں بیٹھے ہوئے تھے۔ وہ کہنے لگیں، یہاں آؤ میں تمہیں کچھ دوں گی۔ اس پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم نے اس کو کیا دینے کا ارادہ کیا ہے ؟ انھوں نے فرمایا : کھجور کا ، تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے فرمایا : اگر تم اس کو کوئی چیز نہیں دیتی تو تم پر جھوٹ کا وبال لکھ دیا جاتا۔

26122

(۲۶۱۲۳) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا الأَعْمَشُ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مُرَّۃَ ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : أَرْبَعٌ مَنْ کُنَّ فِیہِ ، فَہُوَ مُنَافِقٌ خَالِصٌ ، وَمَنْ کَانَتْ فِیہِ خَلَّۃٌ مِنْہُنَّ کَانَتْ فِیہِ خَلَّۃٌ مِنْ نِفَاقٍ حَتَّی یَدَعَہَا : إذَا حَدَّثَ کَذَبَ ، وَإِذَا وَعَدَ أَخْلَفَ ، وَإِذَا عَاہَدَ غَدَرَ ، وَإِذَا خَاصَمَ فَجَرَ۔ (مسلم ۱۰۶۔ ابو داؤد ۴۶۵۵)
(٢٦١٢٣) حضرت عبداللہ بن عمرو فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : چار چیزیں ایسی ہیں کہ جس میں بھی پائی جائیں تو وہ شخص خالص منافق ہے اور جس میں ان میں سے ایک عادت ہو تو اس میں نفاق کی ایک عادت ہے یہاں تک کہ وہ اس کو بھی چھوڑ دے وہ یہ ہیں : جب بات کرے تو جھوٹ بولے، اور جب وعدہ کرے تو اس کی خلاف ورزی کرے اور جب معاہدہ کرے تو دھوکا دے اور جب جھگڑا کرے تو گالم گلوچ پر اتر آئے۔

26123

(۲۶۱۲۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ عُمَارَۃَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ یَزِیدَ ، قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللہِ : اعْتَبِرُوا الْمُنَافِقَ بِثَلاَثٍ : إذَا حَدَّثَ کَذَبَ ، وَإِذَا وَعَدَ أَخْلَفَ ، وَإِذَا عَاہَدَ غَدَرَ۔ (نسائی ۱۱۷۵۴)
(٢٦١٢٤) حضرت عبد الرحمن بن یزید فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود نے ارشاد فرمایا : تم منافق میں تین باتوں کا اعتبار کرو۔ جب وہ بات کرے تو جھوٹ بولے، اور جب وعدہ کرے تو اس کی خلاف ورزی کرے اور جب معاملہ کرے تو دھوکا دے۔

26124

(۲۶۱۲۵) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ سِمَاکٍ ، عَن صُبَیح بْنِ عَبْدِ اللہِ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو ، قَالَ : ثَلاَثٌ مَنْ کُنَّ فِیہِ فَہُوَ مُنَافِقٌ : إذَا حَدَّثَ کَذَبَ وَإِذَا وَعَدَ أَخْلَفَ وَإِذَا اُؤْتُمِنَ خَانَ: قَالَ : وَتَلاَ ہَذِہِ الآیَۃَ : {وَمِنْہُمْ مَنْ عَاہَدَ اللَّہَ لَئِنْ آتَانَا مِنْ فَضْلِہِ } إلَی قَوْلِہِ : { نِفَاقًا فِی قُلُوبِہِمْ } إلَی قَوْلِہِ : { بِمَا کَانُوا یَکْذِبُونَ } (التوبۃ: ۷۵ تا ۷۷)
(٢٦١٢٥) حضرت صبیح بن عبداللہ فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمرو نے ارشاد فرمایا : تین چیزیں ایسی ہیں جس میں بھی پائی جائیں تو وہ منافق ہوگا۔ جب وہ بات کرے تو جھوٹ بولے ، اور جب وعدہ کرے تو اس کی خلاف ورزی کرے اور جب امانت رکھوائی جائے تو خیانت کرے اور آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی۔ ترجمہ : ” اور انھیں میں وہ لوگ بھی ہیں جنھوں نے اللہ سے یہ عہد کیا تھا کہ اگر وہ اپنے فضل سے ہمں ی نوازے گا تو ہم ضرور صدقہ کریں گے اور یقیناً نیک لوگوں میں شامل ہوجائیں گیں لیکن جب اللہ نے ان کو اپنے فضل سے نوازا تو اس میں بخل کرنے لگے اور منہ موڑ کر چل دئیے۔ نتیجہ یہ کہ اللہ نے سزا کے طور پر نفاق ان کے دلوں میں اس دن تک کے لیے جما دیا جس دن وہ اللہ سے جا کر ملیں گے، کیونکہ انھوں نے اللہ سے جو وعدہ کیا تھا اس کی خلاف ورزی کی اور کیونکہ وہ جھوٹ بولا کرتے تھے۔ “

26125

(۲۶۱۲۶) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَنْ یَزِیدَ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : ثَلاَثٌ مَنْ کُنَّ فِیہِ ، فَہُوَ مُنَافِقٌ : الَّذِی إذَا حَدَّثَ کَذَبَ ، وَإِذَا وَعَدَ أَخْلَفَ ، وَإِذَا اُؤْتُمِنَ خَانَ۔ (بخار ی۳۳۔ ترمذی ۲۶۳۱)
(٢٦١٢٦) حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : تین چیزیں ایسی ہیں کہ جس میں بھی پائی جائیں تو وہ منافق ہوگا۔ وہ یہ ہیں کہ جب بات کرے تو جھوٹ بولے اور جب وعدہ کرے تو اس کی خلاف ورزی کرے اور جب اس کے پاس امانت رکھوائی جائے تو وہ خیانت کرے۔

26126

(۲۶۱۲۷) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، قَالَ : ثَلاَثٌ مَنْ کُنَّ فِیہِ ، فَہُوَ مُنَافِقٌ ، وَإِنْ صَامَ وَصَلَّی وَقَالَ إِنِّی مُسْلِمٍ : إذَا حَدَّثَ کَذَبَ ، وَإِذَا اؤْتُمِنَ خَانَ ، وَإِذَا وَعَدَ أَخْلَفَ۔
(٢٦١٢٧) حضرت لیث فرماتے ہیں کہ حضرت مجاہد نے ارشاد فرمایا : تین چیزیں ایسی ہیں کہ جس میں بھی پائی جائیں تو وہ منافق ہوگا اگرچہ وہ نماز پڑھے اور روزہ رکھے اور کہے کہ بیشک میں مسلمان ہوں ، وہ یہ ہیں کہ جب بات کرے تو جھوٹ بولے، اور جب امانت رکھوائی جائے تو وہ خیانت کرے اور جب وعدہ کرے تو اس کی خلاف ورزی کرے۔

26127

(۲۶۱۲۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ حَبِیبٍ ، عَنْ مَیْمُونِ بْنِ أَبِی شَبِیبٍ ، عَنِ الْمُغِیرَۃِ بْنِ شُعْبَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَنْ حَدَّثَ عَنِّی بِحَدِیثٍ وَہُوَ یُرَی ، أَنَّہُ کَذِبٌ ، فَہُوَ أَحَدُ الْکَاذِبَِیْنِ۔ (ترمذی ۲۶۶۲۔ احمد ۴/۲۵۲)
(٢٦١٢٨) حضرت مغیرہ بن شعبہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جو شخص میری طرف سے کوئی حدیث بیان کرے اور وہ جانتا ہے کہ وہ جھوٹا ہے ، تو وہ دو میں سے ایک جھوٹا ہے۔

26128

(۲۶۱۲۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنِ الْحَکَمِ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِی لَیْلَی ، عَنْ سَمُرَۃََ بْنِ جُنْدَبٍ ، قَالَ : قَالَ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَنْ حَدَّثَ عَنِّی حَدِیثًا وَہُوَ یُرَی ، أَنَّہُ کَذِبٌ ، فَہُوَ أَحَدُ الْکَاذِبَیْنِ۔ (ابن ماجہ ۳۹۔ احمد ۲۰)
(٢٦١٢٩) حضرت سمرہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جو شخص میری طرف سے کوئی حدیث بیان کرے اور وہ جانتا ہے کہ وہ جھوٹا ہے ، تو وہ دو میں سے ایک جھوٹا ہے۔

26129

(۲۶۱۳۰) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ ہَاشِمٍ ، عَنِ ابْنِ أَبِی لَیْلَی ، عَنِ الْحَکَمِ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِی لَیْلَی ، عَنْ عَلِیٍّ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِمِثْلِ حَدِیثِ سَمُرَۃَ۔ (ابن ماجہ ۳۸)
(٢٦١٣٠) حضرت علی سے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مذکورہ ارشاد اس سند سے منقول ہے۔

26130

(۲۶۱۳۱) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، قَالَ : حدَّثَنِی خُبَیْبٌ ، عَنْ حَفْصِ بْنِ عَاصِمٍ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : کَفَی بِالْمَرْئِ کَذِبًا أَنْ یُحَدِّثَ بِکُلِّ مَا سَمِعَ۔ (مسلم ۵۔ ابوداؤد ۴۹۵۳)
(٢٦١٣١) حضرت حفص بن عاصم فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیے کافی ہے کہ وہ ہر سنی ہوئی بات آگے بیان کر دے۔

26131

(۲۶۱۳۲) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنِ التَّیْمِیِّ ، عَنْ أَبِی عُثْمَانَ ، قَالَ : قَالَ عُمَرُ : حَسْبُ امْرِئٍ مِنَ الْکَذِبِ أَنْ یُحَدِّثَ بِکُلِّ مَا سَمِعَ۔
(٢٦١٣٢) حضرت ابو عثمان فرماتے ہیں کہ حضرت عمر نے ارشاد فرمایا : آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیے اتنی بات کافی ہے کہ وہ ہر سنی ہوئی بات کو آگے بیان کر دے۔

26132

(۲۶۱۳۳) حَدَّثَنَا ابْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِی الأَحْوَص ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : بحسْبِ امْرِئٍ مِنَ الْکَذِبِ أَنْ یُحَدِّثَ بِکُلِّ مَا سَمِعَ۔
(٢٦١٣٣) حضرت ابو الاحوص فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود نے ارشاد فرمایا : آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیے اتنی بات کافی ہے کہ وہ ہر سنی ہوئی بات آگے بیان کر دے۔

26133

(۲۶۱۳۴) حَدَّثَنَا حَرَمِیُّ بْنُ عُمَارَۃَ بْنِ أَبِی حَفْصَۃَ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ رَجُلٍ ، قَالَ : قَالَ شُرَیْحٌ : الْحِلْمُ کَنْزٌ مُوفَّرٌ۔
(٢٦١٣٤) حضرت شعبہ ایک آدمی سے نقل کرتے ہیں کہ حضرت شریح نے ارشاد فرمایا : بردباری بہت بڑا خزانہ ہے۔

26134

(۲۶۱۳۵) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَان بْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَۃَ ، عَنْ عَاصِمٍ الأَحْوَلِ ، قَالَ : قَالَ الشَّعْبِیُّ : زَیَّنَ الْعِلْمَ حِلْمُ أَہْلِہِ۔
(٢٦١٣٥) حضرت عاصم احول فرماتے ہیں کہ امام شعبی نے ارشاد فرمایا : علم کی زینت اس کے علم کی بردباری سے ہے۔

26135

(۲۶۱۳۶) حَدَّثَنَا عِیسَی بْنُ یُونُسَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : قَالَ مُعَاوِیَۃُ : لاَ حِلْمَ إلاَّ التَجَارِب۔
(٢٦١٣٦) حضرت ہشام فرماتے ہیں کہ حضرت عروہ نے ارشاد فرمایا : بردباری نہیں حاصل ہوتی مگر تجربوں سے۔

26136

(۲۶۱۳۷) حَدَّثَنَا ابْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنْ زَمْعَۃَ ، عَنْ سَلَمَۃَ بْنِ وَہْرَام ، عَنْ طَاوُوسٍ ، قَالَ : مَا جُعِلَ الْعِلْمُ ، أَوَ مَا حُمِلَ الْعِلْمُ فِی مِثْلِ جِرَابِ حِلْمٍ۔
(٢٦١٣٧) حضرت سلمہ بن وھرام فرماتے ہیں کہ حضرت طاؤس نے ارشاد فرمایا : علم برے حلم کی مانند نہیں اٹھایا جاسکتا۔

26137

(۲۶۱۳۸) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ زَیْدٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ بُرْدًا ، عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ مُوسَی ، قَالَ : مَا جُمِعَ شَیْئٌ إلَی شَیْئٍ أَزْیَنَ مِنْ عِلْمٍ إلَی حِلْمٍ۔
(٢٦١٣٨) حضرت برد فرماتے ہیں کہ حضرت سلیمان بن موسیٰ نے ارشاد فرمایا : کوئی چیز کسی چیز میں جمع ہو کر مزین نہیں ہوئی جتنا علم حلم کے ساتھ جمع ہو کر مزین ہوتا ہے۔

26138

(۲۶۱۳۹) حَدَّثَنَا عَفَّانُ، قَالَ: حدَّثَنَا عَرْعَرَۃُ بْنُ الْبِرِنْدِ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ، عَنِ الْحَسَنِ، قَالَ: قَالَ الأَحْنَفُ بْنُ قَیْسٍ: إنِّی لَسْت بِحَلِیمٍ ، وَلَکِنِّی أَتَحَالَمُ۔
(٢٦١٣٩) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ حضرت احنف بن قیس نے ارشاد فرمایا : بیشک میں بردبار نہیں ہوں، لیکن میں تکلف سے بردباری ظاہر کرتا ہوں۔

26139

(۲۶۱۴۰) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ عبد اللہِ، قَالَ: لاَ تَنْشُرْ بَزَّک إلاَّ عِنْدَ مَنْ یبغیہ۔ (احمد ۳۶۰)
(٢٦١٤٠) حضرت منصور فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود نے ارشاد فرمایا : تم اپنے خزانے کو مت پھیلایا کرو مگر اس شخص کے سامنے جو اس کو تلاش کرے۔

26140

(۲۶۱۴۱) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، عَنْ شُعْبَۃَ، عَنِ الأَعْمَش، عَنْ مُسْلِم، عَن مَسْروق قَالَ: لاَ تَنْشُرْ بَزَّک إلاَّ عِنْدَ مَنْ یُرِیدُہُ۔
(٢٦١٤١) حضرت مسلم فرماتے ہیں کہ حضرت مسروق نے ارشاد فرمایا؛ تو اپنے علم کے خزانے کو مت پھیلا مگر اس شخص کے سامنے جو اس کا طالب ہو۔

26141

(۲۶۱۴۲) حَدَّثَنَا الثَّقَفِیُّ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنْ أَبِی قِلاَبَۃَ ، قَالَ : لاَ تُحَدِّثْ بِالْحَدِیثِ إلاَّ مَنْ یَعْرِفُہُ ، فَإِنَّ مَنْ لاَ یَعْرِفُہُ یَضُرُّہُ ، وَلاَ یَنْفَعُہُ۔
(٢٦١٤٢) حضرت ایوب فرماتے ہیں کہ حضرت ابو قلابہ نے ارشاد فرمایا : تو حدیث بیان مت کر مگر اس شخص کو جو اس کے مرتبہ کو پہچانتا ہو، پس بیشک جو اس کے مرتبہ کو نہیں پہچانتا یہ بات اس کو نقصان پہنچائے گی اس کو نفع نہیں پہنچائے گی۔

26142

(۲۶۱۴۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، عَنْ شُعْبَۃَ، عَنْ عَمَّارٍ الدُّہْنِیِّ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ، قَالَ: لاَ أَنْشُرُ بَزِّی عِنْدَ مَنْ لاَ یُرِیدُہُ۔
(٢٦١٤٣) حضرت عمار الدھنی فرماتے ہیں کہ حضرت سعید بن جبیر نے ارشاد فرمایا : میں اپنا خزانہ نہیں پھیلاتا مگر اس شخص کے سامنے جو اس کا طالب ہو۔

26143

(۲۶۱۴۴) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ مِسْعَرٍ ، عَنْ عُبَیْدِ بْنِ الْحَسَنِ ، عَنِ ابْنِ مَعْقِلٍ ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ ، قَالَ : لاَ تَنْشُرْ سِلْعَتَکَ إلاَّ عِنْدَ مَنْ یُرِیدُہَا۔
(٢٦١٤٤) حضرت ابن معقل فرماتے ہیں کہ حضرت ابن مسعود نے ارشاد فرمایا : تو اپنے سامان کو مت پھیلا مگر اس شخص کے سامنے جو اس کا طالب ہو۔

26144

(۲۶۱۴۵) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ آدَمَ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُثْمَانَ بْنِ خُثَیْمٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: خَیْرُ أَکْحَالِکُمُ الإِثْمِدُ ، یَجْلُو الْبَصَرَ ، وَیُنْبِتُ الشَّعْرَ۔
(٢٦١٤٥) حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : تمہارے سرموں میں سب سے بہترین اثمد ہے، جو بینائی کو روشن کرتا ہے اور بالوں کو اگاتا ہے۔

26145

(۲۶۱۴۶) حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ، عَنْ إسْمَاعِیلَ بْنِ مُسْلِمٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْکَدِرِ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : عَلَیْکُمْ بِالإثْمدِ عِنْدَ النَّوْمِ فَإِنَّہُ یَشُدُّ الْبَصَرَ وَیُنْبِتُ الشَّعْرَ۔
(٢٦١٤٦) حضرت جابر فرماتے ہں ف کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یوں فرماتے ہوئے سنا کہ سونے کے وقت اثمد سرمہ کو لازم پکڑ لو اس لیے کہ وہ بینائی تیز کرتا ہے اور بالوں کو اگاتا ہے۔

26146

(۲۶۱۴۷) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ حَفْصَۃَ ، عَنْ أَنَسٍ ، أَنَّہُ کَانَ یَکْتَحِلُ ثَلاَثًا فِی کُلِّ عَیْنٍ۔
(٢٦١٤٧) حضرت حفصہ فرماتی ہیں کہ حضرت انس ہر آنکھ میں تین مرتبہ سرمہ لگاتے تھے۔

26147

(۲۶۱۴۸) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ ، أَنَّہُ کَانَ یَکْتَحِلُ اثْنَتَیْنِ فِی ذِہِ ، وَاثْنَتَیْنِ فِی ذِہِ ، وَوَاحِدَۃً بَیْنَہُمَا۔
(٢٦١٤٨) حضرت عاصم فرماتے ہیں کہ حضرت ابن سیرین اس آنکھ میں دو مرتبہ اور اس آنکھ میں دو مرتبہ سرمہ لگاتے تھے اور ایک مرتبہ ان دونوں کے درمیان میں لگاتے تھے۔

26148

(۲۶۱۴۹) حَدَّثَنَا عِیسَی بْنُ یُونُسَ ، عَنْ عَبْدِ الْحَمِیدِ بْنِ جَعْفَرٍ ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ أَبِی أَنَسٍ ، قَالَ : کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَکْتَحِلُ بِالإثْمدِ ، یَکْتَحِلُ الْیُمْنَی ثَلاَثَۃَ مَرَاوِدَ وَالْیُسْرَی مِرْوَدَیْنِ۔
(٢٦١٤٩) حضرت عمران بن ابی انس فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اثمد سرمہ آنکھوں میں لگاتے تھے۔ تین سلائیاں دائیں آنکھ میں اور دو سلائیاں بائیں آنکھ میں لگاتے تھے۔

26149

(۲۶۱۵۰) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ عَبَّادِ بْنِ مَنْصُورٍ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : کَانَ لِلنَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مُکْحُلَۃٌ یَکْتَحِلُ مِنْہَا ثَلاَثَۃً فِی کُلِّ عَیْنٍ۔
(٢٦١٥٠) حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ایک سرمہ دانی تھی، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس سے ہر آنکھ میں تین سلائیاں لگاتے تھے۔

26150

(۲۶۱۵۱) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحَارِثِیُّ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، عَنِ النَّضْرِ بْنِ أَنَسٍ ، أَنَّہُ قَالَ فِی الْکُحْلِ : أَمَّا أَنَا فَإِنِّی أَکْتَحِلُ ثَلاَثًا ہَاہُنَا ، وَثَلاَثًا ہَاہُنَا ، وَوَاحِدَۃً بَیْنَہُمَا فَذَکرت ذلک لمحمد فَقَالَ : أَمَّا أَنا فَإِنِّی أَکتَحِلُ ثَلاَثًا ہَاہُنَا واثنتین ہَاہُنَا وَوَاحِدَۃً بَیْنَہُمَا۔
(٢٦١٥١) حضرت ابن عون فرماتے ہیں کہ حضرت نضر بن انس نے سرمہ لگانے کے بارے میں ارشاد فرمایا : بہرحال میں تو اس آنکھ میں تین سلائیاں لگاتا ہوں اور تین اس آنکھ میں اور ایک ان دونوں کے درمیان میں، راوی کہتے ہیں ، میں نے یہ حضرت محمد کے سامنے ذکر کیا تو آپ نے فرمایا : میں تو اس آنکھ میں تین سلائیاں اور اس آنکھ میں دو سلائیاں لگاتا ہوں اور ایک سلائی ان دونوں کے درمیان میں۔

26151

(۲۶۱۵۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ مَالِکِ بْنِ مِغْوَلٍ ، عَنْ أَبِی مَعْشَرٍ ، عَنْ أَبِی الْمُغِیرَۃِ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : مَنِ اکْتَحَلَ فَلْیُوتِرْ۔ (ابوداؤد ۳۶۔ احمد ۲/۳۵۱)
(٢٦١٥٢) حضرت ابو المغیرہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابوہریرہ نے ارشاد فرمایا : جو شخص سرمہ لگائے تو اس کو چاہیے کہ وہ طاق عدد اختیار کرے ۔

26152

(۲۶۱۵۳) حَدَّثَنَا عَائِذُ بْنُ حَبِیبٍ ، عَنْ سَدیرٍ ، قَالَ : کُنْتُ عِنْدَ أَبِی جَعْفَرٍ ، فَلَمَّا أَرَدْت أَنْ أَرْکَبَ أَخَذَ بِالرِّکَابِ وَقَالَ : مَا عَلَیْک أَنْ أُؤْجَرَ ، وَلَیْسَ بِہِ بَأْسٌ۔
(٢٦١٥٣) حضرت سدیر فرماتے ہیں کہ میں حضرت ابو جعفر کے پاس تھا جب میں نے سواری پر سوار ہونے کا ارادہ کیا تو آپ نے لگام کو پکڑ لیا، اور فرمایا : تجھے پسند نہیں کہ مجھے اجر ملے، اور اس میں کوئی حرج نہیں۔

26153

(۲۶۱۵۴) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنِ الأَجْلَحِ ، عَنْ عَامِرٍ ، قَالَ : دَعَا عُمَرُ زَیْدَ بْنَ صُوحَانَ ، فَضَفَنَہُ عَلَی الرَّحْلِ کَمَا تَضْفِنُونَ أَنْتُمْ أُمَرَائَکُمْ ، ثُمَّ الْتَفَتَ إلَی النَّاسِ فَقَالَ : افْعَلُوا بِزَیْدٍ وَأَصْحَابِہِ مِثْلَ ہَذَا۔
(٢٦١٥٤) حضرت عامر فرماتے ہیں کہ حضرت عمر نے زید بن صوحان کو بلایا پھر ان کو سواری پر سوار کیا جیسا کہ تم لوگ اپنے امراء کو سوار کرتے ہو، پھر آپ لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا : تم لوگ زید اور اس کے اصحاب سے ایسا معاملہ کرو۔

26154

(۲۶۱۵۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ بْنِ مُہَاجِرٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، قَالَ : رُبَّمَا أَمْسَکَ لِی ابْنُ عَبَّاسٍ ، أَوِ ابْنُ عُمَرَ بِالرِّکَابِ۔
(٢٦١٥٥) حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ کبھی کبھار حضرت ابن عباس یا حضرت ابن عمر میری سواری کی لگام پکڑ لیتے تھے۔

26155

(۲۶۱۵۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ أَبِی قَیْسٍ ، قَالَ : رَأَیْتُ إبْرَاہِیمَ غُلاَمًا أَعْوَرَ آخِذًا لِعَلْقَمَۃَ بِالرِّکَابِ ، أَحْسَبُہُ ، قَالَ : یَوْمَ الجُمُعَۃ۔
(٢٦١٥٦) حضرت ابو قیس فرماتے ہیں میں نے ابراہیم کو دیکھا کہ وہ کانے بچے تھے اور حضرت علقمہ کی سواری کی لگام کو پکڑے ہوئے تھے۔ راوی کہتے ہیں کہ میرا خیال ہے، جمعہ کے دن کا کہا۔

26156

(۲۶۱۵۷) حَدَّثَنَا عَفَّانُ، قَالَ: حدَّثَنَا مَہْدِیُّ بْنُ مَیْمُونٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ صُبَیْحٍ الْحَنَفِیُّ ، وَذَہَبَ لِیَرْکَبَ فَأَخَذَ رَجُلٌ بِرِکَابِہِ فَقَالَ : بَلَغَنِی أَنَّ مُطَرِّفًا کَانَ یَقُولُ : مَا کُنْت لأَمْنَعَ أَخًا لِی یُرِیدُ کَرَامَتِی أَنْ یُکْرِمَنِی۔
(٢٦١٥٧) حضرت مہدی بن میمون فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن صبیح حنفی گئے تاکہ وہ اپنی سواری پر سوار ہوں تو ایک آدمی نے لگام کو پکڑ لیا تو آپ نے فرمایا کہ حضرت مطرف فرمایا کرتے تھے کہ میں اپنے کسی بھی بھائی کو منع نہیں کروں گا جو میرے اکرام کرنے کا اراہ کرنا چاہے وہ میرا اکرام کرلے۔

26157

(۲۶۱۵۸) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَیْدٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا غَالِبٌ الْقَطَّانُ ، قَالَ : أَرَدْت یَوْمًا أَنْ أَرْکَبَ حِمَارًا ، فَجَائَ شُعَیْبٌ یَمْسِکُ بِالرِّکَابِ ، فَسَأَلْت الْحَسَنَ فَقَالَ : اقْبَلْ کَرَامَۃَ أَخِیک۔
(٢٦١٥٨) حضرت غالب قطان فرماتے ہیں کہ میں نے ایک دن گدھے پر سوار ہونے کا ارادہ کیا تو حضرت شعیب آئے اور انھوں نے لگام کو پکڑ لیا۔ میں نے اس بارے میں حضرت حسن سے پوچھا ؟ آپ نے فرمایا : اپنے بھائی کے اکرام کو قبول کرلے۔

26158

(۲۶۱۵۹) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ بْنِ الأَخْنَسِ ، عَنِ الْوَلِیدِ بْنِ عَبْدِ اللہِ ، عَنْ یُوسُفَ بْنِ مَاہَکَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَنِ اقْتَبَسَ عِلْمًا مِنَ النُّجُومِ اقْتَبَسَ شُعْبَۃً مِنَ السِّحْرِ ، زَادَ مَا زَادَ۔ (ابوداؤد ۳۹۰۰۔ ابن ماجہ ۳۷۲۶)
(٢٦١٥٩) حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جس شخص نے ستاروں کا علم سیکھا تو اس نے جادو گری کا ایک شعبہ سیکھ لیا، جتنا وہ بڑھے گا جادو گری بھی بڑھ جائے گی۔

26159

(۲۶۱۶۰) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : لاَ بَأْسَ أَنْ یَتَعَلَّمَ مِنَ النُّجُومِ وَالْقَمَرِ مَا یَہْتَدِی بِہِ۔
(٢٦١٦٠) حضرت منصور فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم نے ارشاد فرمایا : کوئی حرج نہیں ہے علم نجوم اور چاند کا علم سیکھنے میں جو اس کے ذریعہ راستہ معلوم کرے۔

26160

(۲۶۱۶۱) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ الْحُبَابِ ، قَالَ : حدَّثَنِی یَحْیَی بْنُ أَیُّوبَ ، قَالَ : حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ طَاوُوسٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : یَنْظُرُونَ فِی النُّجُومِ وَفِی حُرُوفِ أَبِی جَادٍ ، قَالَ : أَرَی أُولَئِکَ قَوْمًا لاَ خَلاَقَ لَہُمْ۔
(٢٦١٦١) حضرت طاؤس فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عباس نے ارشاد فرمایا : وہ لوگ ستاروں اور حروف ابجد میں غور و فکر کرتے ہیں۔ آپ نے فرمایا : میری رائے ہے کہ ان لوگوں کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہے۔

26161

(۲۶۱۶۲) حَدَّثَنَا غَسَّانُ بْنُ مُضَرَ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ یَزِیدَ ، عَنْ أَبِی نَضْرَۃَ ، قَالَ : قَالَ عُمَرُ : تَعَلَّمُوا مِنْ ہَذِہِ النُّجُومِ مَا تَہْتَدُونَ بِہِ فِی ظُلْمَۃِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ ، ثُمَّ أَمْسِکُوا۔
(٢٦١٦٢) حضرت ابو نضرہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر نے ارشاد فرمایا : تم لوگ ان ستاروں کا علم سیکھو اور اس کے ذریعہ سمندر اور زمین کے اندھیروں میں راستہ معلوم کیا کرو پھر تم رک جاؤ۔

26162

(۲۶۱۶۳) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، أَنَّہُ کَانَ یَضْرِبُ وَلَدَہُ عَلَی اللَّحْنِ۔
(٢٦١٦٣) حضرت نافع فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عمر اپنے بیٹے کو غلطی کرنے پر مارتے تھے۔

26163

(۲۶۱۶۴) حَدَّثَنَا عِیسَی بْنُ یُونُسَ ، عَنْ ثَوْرٍ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ زَیْدٍ ، قَالَ : کَتَبَ عُمَرُ إلَی أَبِی مُوسَی : أَمَّا بَعْدُ فَتَفَقَّہُوا فِی السُّنَّۃِ وَتَفَقَّہُوا فِی الْعَرَبِیَّۃِ۔
(٢٦١٦٤) حضرت عمر بن زید فرماتے ہیں کہ حضرت عمر نے حضرت ابو موسیٰ اشعری کو خط لکھا اور فرمایا : حمد و صلوۃ کے بعد، تم لوگ سنت میں سمجھ بوجھ پیدا کرو، اور عربی زبان میں بھی سمجھ بوجھ پیدا کرو۔

26164

(۲۶۱۶۵) حَدَّثَنَا عِیسَی بْنُ یُونُسَ ، عَنِ الأَوْزَاعِیِّ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ أَبِی کَثِیرٍ ، قَالَ : قَالَ سُلَیْمَانُ بْنُ دَاوُد لاِبْنِہِ : مَنْ أَرَاْدَ أَنْ یَغِیظَ عَدُوَّہُ فَلاَ یَرْفَعَ الْعَصَا ، عَنْ وَلَدِہِ۔
(٢٦١٦٥) حضرت یحییٰ بن ابی کثیر فرماتے ہیں کہ حضرت سلیمان بن داؤد نے اپنے بیٹے سے ارشاد فرمایا : جو شخص اپنے دشمن کو غصہ دلانا چاہے تو اس کو چاہیے کہ اپنے بچوں سے لاٹھی مت اٹھائے۔

26165

(۲۶۱۶۶) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، عَنْ مُحَمَّدٍ ، قَالَ : کَانُوا یَقُولُونَ : أَکْرِمْ وَلَدَک وَأَحْسِنْ أَدَبَہُ۔
(٢٦١٦٦) حضرت ابن عون فرماتے ہیں کہ حضرت محمد نے ارشاد فرمایا : صحابہ فرمایا کرتے تھے کہ اپنے بچے کی عزت کرو اور اس کو اچھا ادب سکھلاؤ۔

26166

(۲۶۱۶۷) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ، قَالَ: سُئِلَ مُحَمَّدٌ عَنِ النَّحْوِ، قَالَ: لاَ أَعْلَمُ بِہِ بَأْسًا إِنْ لَمْ یَکُنْ فِیہِ بَغْیٌ۔
(٢٦١٦٧) حضرت ابن عون فرماتے ہیں کہ حضرت امام محمد سے اس بارے میں پوچھا ؟ آپ نے فرمایا : میں کوئی حرج نہیں سمجھتا اگر اس میں کوئی سرکشی نہ ہو۔

26167

(۲۶۱۶۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ زِیَادِ بْنِ فَیَّاضٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَیْمُونٍ ، أَنَّہُ کَرِہَ لاَ بِحَمْدِ اللہِ۔
(٢٦١٦٨) حضرت زیاد بن فیاض فرماتے ہیں کہ حضرت عمرو بن میمون یوں کہنے کو مکروہ سمجھتے تھے، نہیں، اللہ کا شکر ہے۔

26168

(۲۶۱۶۹) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : کَانَ یُکْرَہُ أَنْ یَقُولَ الرَّجُلُ لاَ بِحَمْدِ اللہِ وَلَکِنْ قُولُوا : نَعَمْ بِحَمْدِ اللَّہِ۔
(٢٦١٦٩) حضرت مغیرہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم مکروہ سمجھتے تھے یوں کہنے کو۔۔۔ نہیں، اللہ کا شکر ہے۔ اور فرماتے ہیں کہ یوں کہا کرو۔ جی ہاں ! اللہ کا شکر ہے۔

26169

(۲۶۱۷۰) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : کَانَ یُقَالُ : یُکْرَہُ أَنْ یَقُولَ الرَّجُلُ لاَ بِحَمْدِ اللہِ وَلَکِنْ یَقُولُ : لاَ وَالْحَمْدُ لِلَّہِ۔
(٢٦١٧٠) امام اعمش فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم نے یوں ارشاد فرمایا : کہ کہا جاتا تھا کہ آدمی کا یوں کہنا مکروہ ہے۔ کہ نہیں، اللہ کا شکر کیسا تھا، بلکہ یوں کہا کرو، نہیں، اللہ ہی کا شکر ہے۔

26170

(۲۶۱۷۱) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ دِینَارٍ ، عَنْ ہِشَامٍ ، أَنَّ مُحَمَّدًا کَانَ إذَا قَلَّمَ أَظْفَارَہُ دَفَنَہَا۔
(٢٦١٧١) حضرت ہشام فرماتے ہیں کہ امام محمد جب اپنے ناخن کاٹتے تو ان کو دفن فرما دیتے۔

26171

(۲۶۱۷۲) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : حدَّثَنَا ہِشَامُ بْنُ حَسَّانٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا حَبِیبُ بْنُ شَہِیدٍ ، عَنْ مُعَاوِیَۃَ بْنِ قُرَّۃَ ، قَالَ : اسْتَأْذَنْت عَلَی مُسْلِمِ بْنِ یَسَارٍ فَجَلَست ثُمَّ أَذِنَ لِی ، فَدَخَلْت عَلَیْہِ فَقَالَ : لَقَدَ اسْتَأْذَنْت عَلَیَّ وَإِنِّی لأدْفِنُ بَعْضَ وَلَدِی ، قَالَ : وَکَانَ بَعْضُ نِسَائِہِ أَسْقَطَتْ فَدَفَنَہُ۔
(٢٦١٧٢) حضرت معاویہ بن قرہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت مسلم بن یسار سے اجازت چاہی ، پس میں بیٹھ گیا، پھر تھوڑی دیر بعد آپ نے مجھے اجازت دی تو میں ان کے پاس داخل ہوگیا تو آپ نے فرمایا : تحقیق تم نے اجازت طلب کی تھی اور میں اس وقت اپنے ایک بچے کو دفن کررہا تھا۔ راوی کہتے ہیں کہ ان کی عورت کا حمل ساقط ہوگیا تھا تو انھوں نے اس بچے کو دفن کردیا۔

26172

(۲۶۱۷۳) حَدَّثَنَا مَعْنُ بْنُ عِیسَی ، عَنْ یَزِیدَ بْنِ عَبْدِ الْمَلِکِ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِیٍّ ، أَنَّہُ أَمَرَ حَجَّامًا یَحْجُمُہُ أَنْ یُفْرِغَ مَحْجَمَۃَ دَمٍ لِکَلْبٍ یَلَغُہَا۔
(٢٦١٧٣) حضرت یزید بن عبد الملک فرماتے ہیں کہ حضرت محمد بن علی نے پچھنے لگانے والے کو پچھنے لگانے کا حکم دیا اور فرمایا کہ یہ پچھنوں کا خون کتے کو ڈال دینا وہ اس کو چاٹ لے گا۔

26173

(۲۶۱۷۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ عَبْدِ الْجَبَّارِ بْنِ عَبَّاسٍ ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ بَنِی ہَاشِمٍ ، أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَمَرَ بِدَفْنِ الشَّعْرِ وَالظُّفْرِ وَالدَّمِ۔ (بخاری ۲۰۹۴۔ بزار ۲۹۶۸)
(٢٦١٧٤) قبیلہ بنو ہاشم کے ایک شخص بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بال، ناخن اور خون کو دفن کرنے کا حکم دیا۔

26174

(۲۶۱۷۵) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، عَنْ حَسَنِ بْنِ صَالِحٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ بْنِ مُہَاجِرٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، أنَّہُ کَانَ إذَا قَلَّمَ أَظْفَارَہُ دَفَنَہَا ، أَوْ أَمَرَ بِہَا فَدُفِنَتْ۔
(٢٦١٧٥) حضرت ابراہیم بن مہاجر فرماتے ہیں کہ حضرت مجاہد جب اپنے ناخن کاٹتے تو ان کو دفن فرما دیتے، یا ان کو دفن کرنے کا حکم دیتے۔

26175

(۲۶۱۷۶) حدَّثَنَا أَبُو بَکْرٍ الْحَنَفِیُّ ، عَنْ أَفْلَحَ ، عَنِ الْقَاسِمِ ، أَنَّہُ کَانَ یَدْفِنُ شَعْرَہُ بِمِنًی۔
(٢٦١٧٦) حضرت افلح فرماتے ہیں کہ حضرت قاسم نے اپنے بالوں کو مٹی میں دفن فرما دیا۔

26176

(۲۶۱۷۷) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ مَہْدِیٍّ ، قَالَ : دَخَلْنَا عَلَی مُحَمَّدِ بْنِ سِیرِینَ یَوْمَ جُمُعَۃٍ بَعْدَ الْعَصْرِ ، فَدَعَا بِمِقْصٍ فَقَلَّمَ أَظْفَارَہُ فَجَمَعَہَا ، قَالَ مَہْدِیٌّ : فَأَنْبَأَنَا ہِشَامٌ ، أَنَّہُ کَانَ یَأْمُرُ بِہَا أَنْ تُدْفَنَ۔
(٢٦١٧٧) حضرت مہدی فرماتے ہیں کہ ہم لوگ جمعہ کے دن عصر کے بعد حضرت محمد بن سیرین کے پاس گئے، تو آپ نے قینچی منگوائی پھر اپنے ناخن کاٹے اور جمع کیے۔ مہدی کہتے ہیں کہ مجھے حضرت ہشام نے خبر دی کہ آپ نے ان کو دفنانے کا حکم دیا۔

26177

(۲۶۱۷۸) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنْ أَبِی بُرْدَۃَ ، قَالَ : دَخَلْت مَسْجِدَ الْمَدِینَۃِ فَإِذَا عَبْدُ اللہِ بْنُ سَلاَمٍ ، فَسَلَّمْت ثُمَّ جَلَسْت ، فَقَالَ : یَا ابْنَ أَخِی ، إنَّک جَلَسْت وَنَحْنُ نُرِیدُ الْقِیَامَ۔
(٢٦١٧٨) حضرت ابو بردہ فرماتے ہیں کہ میں مدینہ کی مسجد میں داخل ہوا تو حضرت عبداللہ بن سلام بیٹھے ہوئے تھے، تو میں نے سلام کیا پھر میں بیٹھ گیا۔ اس پر آپ نے فرمایا : اے میرے بھتیجے ! تم بیٹھ گئے اور ہمارا تو اٹھنے کا ارادہ ہے۔

26178

(۲۶۱۷۹) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ أَشْعَثَ ، قَالَ : حدَّثَنِی رَجُلٌ ، أَنَّ رَجُلاً جَلَسَ إلَی الْحَسَنِ فَقَالَ لَہُ : جَلَسْت إلَیْنَا عَلَی حِینِ قِیَامٍ مِنَّا ، أَفَتَأْذَنُ۔
(٢٦١٧٩) حضرت اشعث ایک آدمی سے نقل کرتے ہیں کہ ایک شخص حضرت حسن کے پاس بیٹھ گیا، تو آپ نے اس سے کہا : تم ہمارے اٹھنے کے وقت ہمارے پاس بیٹھ گئے ہو، تمہاری طرف سے اجازت ہے ! اٹھنے کی ؟

26179

(۲۶۱۸۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ عِمْرَانَ، عَنْ أَبِی مِجْلَزٍ ، قَالَ: إذَا جَلَسَ إلَیْک رَجُلٌ مُتَعَمِّدًا فَلاَ تَقُمْ حَتَّی تَسْتَأْذِنَہُ۔
(٢٦١٨٠) حضرت عمران فرماتے ہیں کہ حضرت ابو مجلز نے ارشاد فرمایا : جب کوئی شخص قصداً تمہارے پاس بیٹھے تو تم اس سے اجازت لینے سے پہلے مت اٹھو۔

26180

(۲۶۱۸۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ رَجُلٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ مِثْلُہُ۔
(٢٦١٨١) حضرت ابراہیم سے مذکورہ ارشاد اسی سند سے منقول ہے۔

26181

(۲۶۱۸۲) حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ ، عَنْ أَبِی حَنِیفَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْتَشِرِ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ ، قَالَ: مَا جَلَسَ إلَی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَحَدٌ فَقَامَ حَتَّی یَقُومَ۔
(٢٦١٨٢) حضرت انس بن مالک فرماتے ہیں کہ کوئی بھی آدمی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس نہیں بیٹھا یہاں تک کہ وہ کھڑا ہوتا تو آپ کھڑے ہوتے ۔

26182

(۲۶۱۸۳) حَدَّثَنَا أَزْہَرُ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ، عَنْ مُحَمَّدٍ، قَالَ: کَانَ لاَ یَرَی بَأْسًا إذَا جَلَسَ الرَّجُلُ إلَی الرَّجُلِ أَنْ یَقُومَ، وَلاَ یَسْتَأْذِنَہُ۔
(٢٦١٨٣) حضرت ابن عون فرماتے ہیں کہ حضرت محمد اس بات میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے کہ جب کوئی آدمی کسی آدمی کے پاس بیٹھے تو وہ بغیر اجازت کے کھڑا ہوجائے ۔

26183

(۲۶۱۸۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ مُوسَی بْنِ نَافِعٍ ، قَالَ : قعَدْت إلَی سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ، فَلَمَّا أَرَادَ أَنْ یَقُومَ ، قَالَ : أَتَأْذَنُونَ ؟ إنَّکُمْ جَلَسْتُمْ إلَیَّ۔
(٢٦١٨٤) حضرت موسیٰ بن نافع فرماتے ہیں کہ میں حضرت سعید بن جبیر کے پاس بیٹھا ہوا تھا جب آپ نے اٹھنے کا ارادہ کیا تو فرمایا : تم لوگ میرے پاس بیٹھے ہوئے ہو، کیا تمہاری اجازت ہے ؟

26184

(۲۶۱۸۵) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَص ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ رِبْعِیٍّ ، قَالَ : حدَّثَنِی رَجُلٌ مِنْ بَنِی عَامِرٍ اسْتَأْذَنَ عَلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَہُوَ فِی بَیْتٍ فَقَالَ : أَلِجُ ؟ فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِخَادِمِہِ : اخْرُجْ إلَی ہَذَا فَعَلِّمْہُ الاسْتِئْذَانَ وَقُلْ لَہُ : قُلِ السَّلاَمُ عَلَیْکُمْ أَدْخُلُ ؟ فَسَمِعَہُ الرَّجُلُ فَقَالَ : السَّلاَمُ عَلَیْکُمْ أَدْخُلُ ؟ فَأَذِنَ لَہُ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَدَخَلَ۔ (بخاری ۱۰۸۴۔ ابوداؤد ۵۱۳۴)
(٢٦١٨٥) حضرت ربعی فرماتے ہیں کہ بنو عامر کے ایک شخص نے مجھ سے بیان کیا کہ اس نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اجازت طلب کی اس حال میں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) گھر میں تھے، اس شخص نے کہا : کیا میں آجاؤں ؟ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے خادم سے کہا : اس کے پاس جاؤ اور اس کو اجازت طلب کرنے کا طریقہ سکھلاؤ۔ اس کو کہو کہ یوں کہے : السلام علیکم، کیا میں داخل ہو جاؤں ؟ اس آدمی نے یہ سن لیا اور کہا : السلام علیکم : کیا میں داخل ہو جاؤں ؟ پس نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے داخل ہونے کی اجازت دے دی اور وہ داخل ہوگیا۔

26185

(۲۶۱۸۶) حَدَّثَنَا سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَجْلاَنَ سَمِعَ عَامِرَ بْنَ عَبْدِ اللہِ بْنِ الزُّبَیْرِ یَقُولُ : حدَّثَتْنِی رَیْحَانَۃُ ، أَنَّ أَہْلَہَا أَرْسَلُوہَا إلَی عُمَرَ ، فَدَخَلَتْ عَلَیْہِ بِغَیْرِ إذْنٍ ، فَعَلَّمَہَا فَقَالَ لَہَا : اخْرُجِی فَسَلِّمِی ، فَإِذَا رُدَّ عَلَیْک فَاسْتَأْذِنِی۔
(٢٦١٨٦) حضرت عامر بن عبداللہ بن زبیر فرماتے ہیں کہ حضرت ریحانہ (رض) نے بیان فرمایا : کہ میرے گھر والوں نے مجھے حضرت عمر کے پاس بھیجا، تو میں آپ کے پاس بغیر اجازت کے داخل ہوگئی۔ آپ نے مجھے اجازت کا طریقہ سکھلایا اور فرمایا : باہر جاؤ پھر سلام کرو اور جب تمہیں سلام کا جواب دیا جائے تو پھر اجازت مانگو۔

26186

(۲۶۱۸۷) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ وَاصِلِ بْنِ السَّائِبِ ، عَنْ أَبِی سَوْرَۃَ ، عَنْ أَبِی أیُّوبَ الأَنْصَارِیِّ ، قَالَ : قلْنا یَا رَسُولَ اللہِ ، ہَذَا السَّلاَمُ فَمَا الاسْتِئْنَاسُ ، قَالَ : یَتَکَلَّمُ الرَّجُلُ بِتَسْبِیحَۃٍ وَتَکْبِیرَۃٍ وَتَحْمِیدَۃٍ ، وَیَتَنَحْنَحُ ، وَیُؤْذِنُ أَہْلَ الْبَیْتِ۔ (ابن ماجہ ۳۷۰۷)
(٢٦١٨٧) حضرت ابو ایوب انصاری فرماتے ہںَ کہ ہم لوگوں نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! یہ تو سلام کرنا ہے پس اجازت کیسے طلب کی جائے گی ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : آدمی سبحان اللہ، اللہ اکبر، الحمد للہ کہہ لے اور کھنکھار لے اور گھر والوں کو اجازت دے۔

26187

(۲۶۱۸۸) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ مُحَمَّدٍ الْقُرَشِیُّ أَبُو زُکَیْرٍ سَمِعَ زَیْدَ بْنَ أَسْلَمَ یَقُولُ : بَعَثَنِی أَبِی إلَی ابْنِ عُمَرَ فَقُلْت : أَلِجُ ؟ فَقَالَ : لاَ تَقُلْ ہَکَذَا ، وَلَکِنْ قُلْ : السَّلاَمُ عَلَیْکُمْ ، فَإِذَا قِیلَ وَعَلَیْکُمْ ، فَادْخُلْ۔
(٢٦١٨٨) حضرت زید بن اسلم فرماتے ہیں کہ میرے والد نے مجھے حضرت ابن عمر کے پاس بھیجا تو میں نے ان کو کہا : کیا میں آجاؤں ؟ آپ نے فرمایا : تم اس طرح مت کہو اور یوں کہو : السلام علیکم : جب تمہیں کہہ دیا جائے، وعلیکم السلام، تو تم داخل ہو جاؤ۔

26188

(۲۶۱۸۹) حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ عَیَّاشٍ ، عَنِ الْمُغِیرَۃِ ، عَنِ الْحَارِثِ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ نُجَیٍّ ، عَنْ عَلِیٍّ ، قَالَ : کَانَ لِی مِنَ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَدْخَلاَنِ : مَدْخَلٌ بِاللَّیْلِ ، وَمَدْخَلٌ بِالنَّہَارِ ، فَکُنْت إذَا أَتَیْتہ وَہُوَ یُصَلِّی یَتَنَحْنَحُ لِی۔
(٢٦١٨٩) حضرت عبداللہ بن نجی فرماتے ہیں کہ حضرت علی نے ارشاد فرمایا : نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس میں دو مرتبہ جاتا تھا۔ ایک مرتبہ دن میں اور ایک مرتبہ رات میں، پس میں جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آتا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز پڑھ رہے ہوتے، تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرے لیے کھنکھار دیتے۔

26189

(۲۶۱۹۰) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ یَزِیدَ بْنِ أَبِی زِیَادٍ ، قَالَ : اسْتَأْذَنْت عَلَی عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِی لَیْلَی وَہُوَ یُصَلِّی بِالظَّلاَمِ فَفَتَحَ لِی۔
(٢٦١٩٠) حضرت یزید بن ابی زیاد فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عبد الرحمن بن ابی لیلیٰ سے اجازت مانگی اس حال میں کہ وہ اندھیرے میں نماز پڑھ رہے تھے، تو آپ نے میرے لیے دروازہ کھول دیا۔

26190

(۲۶۱۹۱) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ حُصَیْنٍ ، عَنْ ہِلاَلِ بْنِ یَِسَافٍ ، عَنْ زُہْرَۃَ بْنِ حُمِیضَۃَ ، قَالَ : رَدَفْت أَبَا بَکْرٍ فَکُنَّا نَمُرُّ بِالْقَوْمِ فَنُسَلِّمُ عَلَیْہِمْ فَیَرُدُّونَ عَلَیْنَا أَکْثَرَ مِمَّا نُسَلِّمُ ، فَقَالَ أَبُو بَکْرٍ : مَا زَالَ النَّاسُ غَالِبِینَ لَنَا مُنْذُ الْیَوْمِ۔
(٢٦١٩١) حضرت زہرہ بن حمیضہ فرماتے ہیں کہ میں سواری پر حضرت ابوبکر کے پیچھے بیٹھا ہوا تھا کہ چند لوگوں پر ہمارا گزر ہوا تو ہم نے ان پر سلام کیا، تو انھوں نے ہمارے سلام کا جواب خوب بڑھا کردیا۔ اس پر حضرت ابوبکر نے فرمایا : کہ آج کے دن تو لوگ ثواب میں ہم پر غالب آ رہے ہیں۔

26191

(۲۶۱۹۲) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ وَأَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ مَیْسَرَۃَ ، عَنْ زَیْدِ بْنِ وَہْبٍ ، عَنْ عُمَر ، قَالَ : کُنْتُ رِدْفَ أَبِی بَکْرٍ فَذَکَرَ ، مِثْلَہُ ، ثُمَّ قَالَ : لَقَدْ فَضَلَنَا النَّاسُ الْیَوْمَ بِخَیْرٍ کَثِیرٍ۔
(٢٦١٩٢) حضرت زید بن وہب فرماتے ہیں کہ حضرت عمر نے ارشاد فرمایا : میں حضرت ابوبکر کے پیچھے سواری پر سوار تھا، پھر انھوں نے مذکورہ حدیث ذکر کی ، اور فرمایا : کہ لوگ آج ثواب میں ہم سے آگے بڑھ گئے۔

26192

(۲۶۱۹۳) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا الأَعْمَشُ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ ، عَنْ أَبِی الْبَخْتَرِیِّ ، قَالَ : جَائَ رَجُلٌ إِلَی عَلِی فَقَالَ : السَّلاَمُ عَلَیْک یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ وَرَحْمَۃُ اللہِ وَبَرَکَاتُہُ ، فَقَالَ : وَعَلَیْکُمْ فَظَنَّ أَنَّہُ لَمْ یَسْمَعْ فَقَالَ: السَّلاَمُ عَلَیْک یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ وَرَحْمَۃُ اللہِ وَبَرَکَاتُہُ ، فَقَالَ : وَعَلَیْکُمْ ، فَقَالَ : أَلاَ تَرُدُّ عَلَیَّ لِمَا أَقُولُ لَکَ؟ قَالَ : أَلَیْسَ قَدْ فَعَلْت ؟۔
(٢٦١٩٣) حضرت ابو البختری فرماتے ہیں کہ ایک آدمی حضرت علی کے پاس آیا، اور کہا : اے امیر المؤمنین : السلام علیک ورحمۃ اللہ وبرکاتہ، آپ نے فرمایا : وعلیکم ، وہ آدمی سمجھا کہ آپ نے سنا نہیں۔ اس نے پھر کہا : اے امیرالمؤمنین ! السلام علیک ورحمۃ اللہ وبرکاتہ، آپ نے فرمایا : وعلیکم، اس آدمی نے کہا : آپ مجھے ویسے جواب کیوں نہیں دے رہے جیسا کہ میں نے آپ کو کہا ؟ آپ نے فرمایا : کیا میں نے ایسا نہیں کیا ؟

26193

(۲۶۱۹۴) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ ، قَالَ : حدَّثَنِی سَعِیدُ بْنُ أَبِی سَعِیدٍ الْمَقْبُرِیُّ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ، أَنَّ رَجُلاً دَخَلَ الْمَسْجِدَ وَرَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ جَالِسٌ فِی نَاحِیَۃِ الْمَسْجِدِ ، فَصَلَّی ، ثُمَّ جَائَ فَسَلَّمَ عَلَیْہِ فَقَالَ : وَعَلَیْک السَّلاَمُ۔ (بخاری ۶۲۵۱۔ ترمذی ۲۶۹۲)
(٢٦١٩٤) حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ ایک آدمی مسجد میں داخل ہوا اس حال میں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مسجد کے کونے میں بیٹھے ہوئے تھے، اس آدمی نے نماز پڑھی پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سلام کیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : وعلیک السلام، تجھ پر بھی سلام ہو۔

26194

(۲۶۱۹۵) حَدَّثَنَا حُمَیْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ مُوسَی بْنِ عُبَیْدَۃَ ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ أَبِی أَنَسٍ ، عَنْ مَالِکِ بْنِ أَوْسِ بْنِ الْحَدَثَانِ ، قَالَ : قدِمَ أَبُو ذَرٍّ مِنَ الشَّامِ فَدَخَلَ الْمَسْجِدَ وَفِیہِ عُثْمَانُ فَقَالَ : السَّلاَمُ عَلَیْکُمْ ، فَقَالَ : وَعَلَیْکُمُ السَّلاَمُ ، کَیْفَ أَنْتَ یَا أَبَا ذَرٍّ ؟ قَالَ : بِخَیْرٍ ، کَیْفَ أَنْتَ یَا عُثْمَانُ ؟۔ قَالَ : بِخَیر۔
(٢٦١٩٥) حضرت مالک بن اوس بن حمد ثان فرماتے ہیں کہ حضرت ابو ذر شام سے واپس آئے اور مسجد میں داخل ہوگئے۔ اس حال میں کہ حضرت عثمان بھی مسجد میں تھے۔ آپ نے فرمایا : السلام علیکم، انھوں نے جواب دیا : وعلیکم السلام، اے ابو ذر، کیسے ہو تم ؟ انھوں نے فرمایا : خیریت سے ہوں، تم کیسے ہو ؟ اے عثمان ! آپ نے جواب میں کہا، میں بھی خیریت سے ہوں۔

26195

(۲۶۱۹۶) حَدَّثَنَا کَثِیرُ بْنُ ہِشَامٍ ، عَنْ جَعْفَرٍ ، عَنْ مَیْمُونٍ ، أَنَّ رَجُلاً سَلَّمَ عَلَی سَلْمَانَ الْفَارِسِیِّ فَقَالَ : السَّلاَمُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللہِ وَبَرَکَاتُہُ ، فَقَالَ : سَلْمَانُ : حَسْبُک حَسْبُک ، ثُمَّ رَدَّ عَلَیہ الَّذِی قَالَ ، ثُمَّ زَادَ أُخْرَی ، فَقَالَ لَہُ الرَّجُلُ : أَتَعْرِفُنِی یَا أَبَا عَبْدِ اللہِ ؟ فَقَالَ : أَمَّا رُوحِی فَقَدْ عَرَفَ رُوحَک۔
(٢٦١٩٦) حضرت میمون فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے حضرت سلمان فارسی کو سلام کیا اور کہا : السلام علیک و رحمۃ اللہ وبرکاتہ ، حضرت سلمان نے کہا، کافی ہے کافی ہے، پھر آپ نے ویسے ہی اس کو جواب دیا جیسا کہ اس شخص نے سلام کیا تھا، پھر چند اور کلمات کا اضافہ فرمایا : اس پر اس شخص نے آپ سے پوچھا : اے ابو عبداللہ ! کیا آپ مجھے جانتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا : میری روح تمہاری روح کو جانتی ہے۔

26196

(۲۶۱۹۷) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، أَنَّہُ کَانَ یَرُدُّ السَّلاَمَ کَمَا یُقَالَ لَہُ : السَّلاَمُ عَلَیْکُمْ۔
(٢٦١٩٧) حضرت نافع فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عمر ویسے ہی سلام کا جواب دیتے تھے جیسے ان کو سلام کہا جاتا تھا، مثلاً السلام علیکم۔

26197

(۲۶۱۹۸) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنِ الْجَلْدِ بْنِ أَیُّوبَ ، عَنْ مُعَاوِیَۃَ بْنِ قُرَّۃَ ، قَالَ : أَوْصَانِی أَبِی ، قَالَ: إذَا سُلِّمَ عَلَیْک، فَلاَ تَقُلْ : وَعَلَیْک ، قُلْ : وَعَلَیْکُمْ ، فَإِنَّ مَعَہُ مَلاَئِکَۃٌ۔
(٢٦١٩٨) حضرت معاویہ بن قرہ فرماتے ہیں کہ میرے والد نے مجھے وصیت فرمائی کہ جب تمہیں سلام کیا جائے تو جواب میں وعلیک مت کہہ۔ بلکہ وعلیکم۔ کہو۔ اس لیے کہ اس شخص کے ساتھ فرشتے بھی ہوتے ہیں۔

26198

(۲۶۱۹۹) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ أَبِی حَیَّانَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الرَّحَّالِ ، قَالَ : کَانَ الرَّبِیعُ بْنُ خُثَیْمٍ إذَا رَدَّ السَّلاَمَ یَقُولُ : وَعَلَیْکُمْ یَعْنِی یَنْوِی الرَّدَّ عَلَی مَا سُلِّمَ عَلَیْہِ۔
(٢٦١٩٩) حضرت عبد الرحمن الرحال فرماتے ہیں کہ حضرت ربیع بن خثیم جب سلام کا جواب دیتے تو یوں کہتے : وعلیکم اور سلام کرنے والے پر جواب کی نیت کرلیتے۔

26199

(۲۶۲۰۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، أَنَّ شُرَیْحًا إذَا رَدَّ قَالَ : وَعَلَیْکُمْ۔
(٢٦٢٠٠) حضرت ابو اسحاق فرماتے ہیں کہ حضرت شریح جب سلام کا جواب دیتے تو یوں کہتے : وعلیکم : یعنی تم پر بھی ہو۔

26200

(۲۶۲۰۱) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ زَید بن وَہب ، أَنَّہُ کَانَ إذَا سُلِّمَ عَلَیْہِ قَالَ : وَعَلَیْکُمُ السَّلاَمُ وَرَحْمۃ اللہ وَبَرَکَاتُہ وَمَغْفِرَتہ۔
(٢٦٢٠١) حضرت اعمش فرماتے ہیں کہ حضرت زید بن وھب کو جب سلام کیا جاتا تو آپ یوں جواب دیتے ۔ وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ وبرکاتہ و مغفرتہ۔

26201

(۲۶۲۰۲) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ إبْرَاہِیمَ، قَالَ: إذَا رَدَّ الرَّجُلُ فَلْیَقُلْ: وَعَلَیْکُمْ - یَعْنِی مَعَہُ الْمَلاَئِکَۃُ۔
(٢٦٢٠٢) حضرت اعمش فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم نے ارشاد فرمایا : جب کوئی آدمی سلام کا جواب دے تو اس کو چاہیے کہ وہ جمع کا صیغہ استعمال کرے اور یوں کہے وعلیکم، اس لے ب کہ آدمی کے ساتھ فرشتے بھی ہوتے ہیں۔

26202

(۲۶۲۰۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ ، وَابْنُ عَوْنٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، أَنَّہُ کَانَ إذَا رَدَّ ، قَالَ : وَعَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللہِ۔
(٢٦٢٠٣) حضرت اسماعیل اور حضرت ابن عون یہ دونوں حضرات فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم جب سلام کا جواب دیتے تو یوں کہتے، وعلیکم ورحمۃ اللہ۔

26203

(۲۶۲۰۴) حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ مُعَاذٍ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، قَالَ : کَانَ مُحَمَّدٌ إذَا رَدَّ ، قَالَ : وَعَلَیْکُمْ۔
(٢٦٢٠٤) حضرت ابن عون فرماتے ہیں کہ امام محمد جب سلام کا جواب دیتے تو یوں کہتے : وعلیکم۔

26204

(۲۶۲۰۵) حَدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ غَالِبٍ ، قَالَ : إنَّا لَجُلُوسٌ بِبَابِ الْحَسَنِ إذْ جَائَہُ رَجُلٌ ، فَقَالَ : حَدَّثَنِی أَبِی ، عَنْ جَدِّی ، قَالَ : بَعَثَنِی أَبِی إلَی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ : ائْتِہِ فَأَقْرِئْہُ السَّلاَمَ ، فَأَتَیْتہ فَقُلْت : إنَّ أَبِی یُقْرِئُک السَّلاَمَ ، فَقَالَ : وَعَلَیْک وَعَلَی أَبِیک السَّلاَمُ۔ (ابوداؤد ۵۱۸۹۔ احمد ۵/۳۶۶)
(٢٦٢٠٥) حضرت غالب فرماتے ہیں کہ ہم لوگ حضرت حسن بصری کے دروازے پر بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک آدمی آیا اور کہنے لگا : میرے والد نے میرے دادا سے نقل کیا ہے کہ انھوں نے فرمایا : کہ میرے والد نے مجھے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس بھیجا اور کہا : کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس جاؤ اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو میرا سلام کہنا، پس میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا میں نے کہا کہ میرے والد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سلام کہہ رہے ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : علیک و علی ابیک السلام۔ تجھ پر اور تیرے والد پر سلام ہو۔

26205

(۲۶۲۰۶) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِی الْمُجَالِدِ ، عَنِ ابْنِ أَبِی أَوْفَی ، قَالَ : قُلْتُ لَہُ : إنَّ بَنِی أَخِیک یُقْرِئُونَک السَّلاَمَ ، ثُمَّ أَہْلَ الْمَسْجِدِ ، قَالَ : وَعَلَیْک وَعَلَیْہِمْ۔
(٢٦٢٠٦) حضرت محمد بن ابو المخالد فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن ابی اوفی سے عرض کیا : آپ کے بھتیجوں نے آپ کو سلام کہا ہے پھر مسجد والوں نے بھی۔ آپ نے جواب دیا۔ وَعَلَیْک وَعَلَیْہِمْ ۔

26206

(۲۶۲۰۷) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، عَنِ الأَسْوَدِ ، قَالَ : قَالَ لی عَبْدُ اللہِ : إذَا لَقِیت عُمَرَ ، أَوْ کَلِمَۃٌ نَحْوُہَا ، فَأَقْرِئْہُ السَّلاَمَ ، قَالَ : فَلَقِیتہ فَأَقْرَأْتہ فَقَالَ : عَلَیْہِ ، أَوْ وَعَلَیْہِ السَّلاَمُ وَرَحْمَۃُ اللہِ۔
(٢٦٢٠٧) حضرت اسود فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود نے مجھ سے ارشاد فرمایا : جب تم حضرت عمر سے ملو تو ان کو سلام کہنا۔ راوی کہتے ہیں کہ جب میں آپ سے ملا تو میں نے ان کو سلام کہا۔ آپ نے یوں جواب دیا۔ وعلیہ یا یوں جواب دیا، وعلیہ السلام ورحمۃ اللہ۔

26207

(۲۶۲۰۸) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ زَکَرِیَّا ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنْ أَبِی سَلَمَۃَ ، أَنَّ عَائِشَۃَ حَدَّثَتْہُ ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ لَہَا : إنَّ جِبْرِیلَ یَقْرَأُ عَلَیْک السَّلاَمَ ، فَقَالَتْ : وَعَلَیْہِ السَّلاَمُ وَرَحْمَۃُ اللہِ۔ (بخاری ۶۲۵۳۔ ترمذی ۲۶۹۳)
(٢٦٢٠٨) حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھ سے فرمایا : بیشک جبرائیل تمہیں سلام کہہ رہے ہیں۔ آپ نے یوں جواب دیا وعلیہ السلام ورحمۃ اللہ۔

26208

(۲۶۲۰۹) حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ مُعَاذٍ وَأَبُو أُسَامَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، قَالَ : کَانَ مُحَمَّدٌ إذَا قِیلَ لَہُ إنَّ فُلاَنًا یُقْرِئُک السَّلاَمَ ، قَالَ : وَعَلَیْک وَعَلَیْہِ السَّلاَمُ۔
(٢٦٢٠٩) حضرت ابن عون فرماتے ہیں کہ جب امام سے کہا جاتا کہ فلاں شخص نے آپ کو سلام کہا ہے تو آپ یوں جواب دیتے، وعلیک وعلیہ السلام۔

26209

(۲۶۲۱۰) حَدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنِ الجلدِ بْنِ أَیُّوبَ ، عَنْ مُعَاوِیَۃَ بْنِ قُرَّۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : أوْصَانِی أَبِی ، قَالَ : إذَا لَقِیت رَجُلاً فَلاَ تَقُلْ : السَّلاَمُ عَلَیْک ، قُلْ : السَّلاَمُ عَلَیْکُمْ۔
(٢٦٢١٠) حضرت معاویہ بن قرہ فرماتے ہیں کہ میرے والد نے مجھے وصیت فرمائی کہ جب تم کسی آدمی سے ملاقات کرو تو اسے السلام علیک مت کہو، یوں کہو السلام علیکم۔

26210

(۲۶۲۱۱) حَدَّثَنَا کَثِیرُ بْنُ ہِشَامٍ ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ بُرْقَانَ ، عَنْ زِیَادِ بْنِ بَیَانٍ ، عَنْ مَیْمُونِ بْنِ مِہْرَانَ ، أَنَّ رَجُلاً سَلَّمَ عَلَی أَبِی بَکْرٍ فَقَالَ : السَّلاَمُ عَلَیْک یَا خَلِیفَۃَ رَسُولِ اللہِ ، فَقَالَ أَبُو بَکْرٍ : مِنْ بَیْنِ ہَؤُلاَئِ أَجْمَعِینَ۔
(٢٦٢١١) حضرت میمون بن مہران فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے حضرت ابوبکر کو یوں سلام کیا۔ اے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلیفہ ! السلام علیک۔ اس پر حضرت ابوبکر نے فرمایا : ان سب کے درمیان صرف مجھے ؟ !

26211

(۲۶۲۱۲) حَدَّثَنَا حُمَیْدُ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ الرُّؤَاسِیُّ، عَنْ حَسَنِ بْنِ صَالِحٍ، عَنْ إبْرَاہِیمَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْتَشِرِ، عَنْ خَالِدِ بْنِ أبی الصَّلْتِ ، قَالَ : دَخَلَ ابْنُ سِیرِینَ عَلَی ابْنِ ہُبَیْرَۃَ فَقَالَ : السَّلاَمُ عَلَیْکُمْ ، فَقَالَ : ابْنُ ہُبَیْرَۃَ: مَا ہَذَا السَّلاَمُ؟ فَقَالَ: ہَکَذَا کَانَ یُسَلَّمُ عَلَی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔ (ترمذی ۲۶۸۹۔ ابوداؤد ۵۱۵۳)
(٢٦٢١٢) حضرت خالد بن ابی الصلت فرماتے ہیں کہ حضرت ابن سیرین حضرت ابن ھبیرہ کے پاس تشریف لائے اور کہا : السلام علیکم، اس پر حضرت ابن ھبیرہ نے فرمایا : یہ سلام کا کون سا طریقہ ہے ؟ آپ نے فرمایا : اسی طرح رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سلام کیا جاتا تھا۔

26212

(۲۶۲۱۳) حَدَّثَنَا حُمَیْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ مُوسَی بْنِ عُبَیْدَۃَ ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ أَبِی أَنَسٍ ، عَنْ مَالِکِ بْنِ أَوْسِ بْنِ الْحَدَثَانِ ، قَالَ : قدِمَ أَبُو ذَرٍّ مِنَ الشَّامِ فَدَخَلَ الْمَسْجِدَ وَفِیہِ عُثْمَانُ ، فَقَالَ : السَّلاَمُ عَلَیْکُمْ۔
(٢٦٢١٣) حضرت مالک بن اوس بن حدثان فرماتے ہیں کہ حضرت ابو زر شام سے تشریف لائے تو مسجد میں داخل ہوئے، مسجد میں حضرت عثمان موجود تھے۔ آپ نے فرمایا : السلام علیکم۔

26213

(۲۶۲۱۴) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ آدَمَ ، قَالَ : حدَّثَنَا حَسَن ، عَنْ سَلَمَۃَ بْنِ کُہَیْلٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : جَائَ عمر إلَی بَابِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ : السَّلاَمُ عَلَی رَسُولِ اللہِ ، السَّلاَمُ عَلَیْکُمْ۔ (بخاری ۱۰۸۵۔ احمد ۱/۳۲۵)
(٢٦٢١٤) حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ حضرت عمر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دروازے پر تشریف لائے اور فرمایا : رسول اللہ پر سلام ہو، السلام علیکم۔

26214

(۲۶۲۱۵) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ آدَمَ ، عَنْ حَسَنٍ ، عَنْ مُجَالِدٍ ، قَالَ : کَانَ یُسَلَّمُ عَلَی عُمَرَ السَّلاَمُ عَلَیْک یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ ، السَّلاَمُ عَلَیْکُمْ یَعْنِی عَلَی مَنْ عِنْدَہُ۔
(٢٦٢١٥) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ حضرت مجالد حضرت عمر کو یوں سلام کرتے تھے ۔ اے امیر المؤمنین ! السلام علیک، السلام علیکم، یعنی ان لوگوں پر بھی جو آپ کے پاس ہیں۔

26215

(۲۶۲۱۶) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِی عَدِیٍّ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، قَالَ : کَانَ مُحَمَّدٌ یَکْرَہُ أَنْ یَقُولَ السَّلاَمُ عَلَیْک حَتَّی یَقُولَ السَّلاَمُ عَلَیْکُمْ۔
(٢٦٢١٦) حضرت ابن عون فرماتے ہیں کہ امام محمد یوں کہنے کو مکروہ سمجھتے تھے : السلام علیک، یہاں تک کہ یوں کہا جائے۔ السلام علیکم۔

26216

(۲۶۲۱۷) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : إذَا سَلَّمَ الرَّجُلُ عَلَی الرَّجُلِ ، وَإِنْ کَانَ وَحْدَہُ فَلْیَقُلِ السَّلاَمُ عَلَیْکُمْ - یَعْنِی مَعَہُ الْمَلاَئِکَۃُ۔
(٢٦٢١٧) حضرت اعمش فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم نے ارشاد فرمایا : جب کوئی آدمی کسی آدمی کو سلام کرے اگرچہ وہ اکیلا بھی ہو تو اس کو یوں کہے : السلام علیکم ، کیونکہ اس کے ساتھ ملائکہ بھی ہوتے ہیں۔

26217

(۲۶۲۱۸) أَبُو أُسَامَۃَ، عَنْ عَبْدِ الْمُؤْمِنِ، قَالَ: سَلَّمْت عَلَی رَجُلٍ یَمْشِی مَعَ مُسْلِمِ بْنِ یَسَارٍ فَقُلْت: السَّلاَمُ عَلَیْک، فَقَالَ لِی مُسْلِمٌ : مَہْ ، فَقُلْت : إنِّی عَرَفْتہ ، فَقَالَ : وَإِنْ إذَا سَلَّمْت فَقُلْ : السَّلاَمُ عَلَیْکُمْ ، فَإِنَّ مَعَہُ حَفَظَۃٌ۔
(٢٦٢١٨) حضرت عبد المومن فرماتے ہیں کہ میں نے ایک آدمی کو سلام کیا جو حضرت مسلم بن یسار کے ساتھ چل رہا تھا ۔ میں نے یوں کہا : السلام علیک، اس پر حضرت مسلم نے مجھ سے فرمایا : رک جاؤ۔ میں نے کہا : میں اس کو جانتا ہوں۔ آپ نے فرمایا : اگرچہ پہچانتے ہو ۔ جب تم سلام کرو تو یوں کہا کرو : السلام علیکم، اس لیے کہ اس شخص کے ساتھ نگران فرشتے بھی ہوتے ہیں۔

26218

(۲۶۲۱۹) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنْ أَبِی غِفَارٍ ، عَنْ أَبِی عُثْمَانَ ، قَالَ : جَائَ رَجُلٌ إلَی سَلْمَانَ ، فَقَالَ : إنَّ فُلاَنًا یُقْرِئُک السَّلاَمَ ، فَقَالَ : مُذْ کَمْ ؟ فَذَکَرَ أَیَّامًا فَقَالَ : أَمَا لَوْ لَمْ تَفْعَلْ لَکَانَتْ أَمَانَۃً تُؤَدِّیہَا۔
(٢٦٢١٩) حضرت ابو عثمان فرماتے ہیں کہ ایک آدمی حضرت سلمان کے پاس آیا اور کہنے لگا : بیشک فلاں آدمی نے آپ کو سلام کیا ہے۔ آپ نے پوچھا : کتنے دن پہلے ؟ اس نے دن ذکر کیے آپ نے فرمایا : اگر تم ایسا نہ کرتے تو یہ امانت تھی جس کا ادا کرنا تمہارے لیے ضروری تھا۔

26219

(۲۶۲۲۰) حَدَّثَنَا حُمَیْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ حَسَنٍ ، عَنْ عَبْدِ الأَعْلَی ، عَنِ ابْنِ الْحَنَفِیَّۃِ ؛ فِی الرَّجُلِ یَقُولُ : أقْرِئْ فُلاَنًا السَّلاَمَ ، قَالُوا : ہِیَ أَمَانَۃٌ إلاَّ أَنْ یَنْسَی۔
(٢٦٢٢٠) حضرت عبد الاعلیٰ فرماتے ہیں کہ حضرت ابن حنفیہ نے ایک آدمی کے بارے میں کہا کہ فلاں کو سلام کہہ دینا اور فرمایا : یہ امانت ہے مگر یہ کہ وہ شخص بھول جائے۔

26220

(۲۶۲۲۱) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ عَاصِمٍ ، قَالَ : قُلْتُ لأَبِی مِجْلَزٍ : قَوْلُ الرَّجُلِ لِلرَّجُلِ : أَقْرِئْ فُلاَنًا السَّلاَمَ ، وَلاَ حَرَجَ ، قَالَ : ہِیَ أَمَانَۃٌ ، وَإذَا قَالَ : أُبَلِّغُ عَنْک ، کَانَ فِی سَعَۃٍ۔
(٢٦٢٢١) حضرت عاصم فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابومجلز سے پوچھا کہ ایک آدمی کا دوسرے آدمی کو یوں کہنا : کہ فلاں کو سلام کہہ دینا اور کوئی حرج نہیں ۔ آپ نے فرمایا : یہ امانت ہوگی اور جب یوں کہے۔ میں تمہاری طرف سے سلام پہنچا دوں ؟ آپ نے فرمایا : اس میں گنجائش ہوگی۔

26221

(۲۶۲۲۲) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنْ أَبِی غِفَارٍ ، عَنْ أَبِی تَمِیمَۃَ الْہُجَیْمِیِّ ، عَنْ أَبِی جُرَیٍّ الْہُجَیْمِیِّ ، قَالَ : أَتَیْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقُلْت : عَلَیْک السَّلاَمُ یَا رَسُولَ اللہِ ، قَالَ : لاَ تَقُلْ : عَلَیْک السَّلاَمُ ، فَإِنَّ عَلَیْک السَّلاَمُ تَحِیَّۃُ الْمَوْتَی۔
(٢٦٢٢٢) حضرت ابو جری الہجیمی فرماتے ہیں کہ میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا اور میں نے یوں کہا : علیک السلام، یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : علیک السلام، مت کہو۔ اس لیے کہ علیک السلام تو مردوں کا سلام ہے۔

26222

(۲۶۲۲۳) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، أَنَّ رَجُلاً سَلَّمَ عَلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ : عَلَیْک السَّلاَمُ یَا نبی اللہِ ، فَکَرِہَ ذَلِکَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَقَالَ : تِیکَ تَحِیَّۃُ الْمَوْتَی۔
(٢٦٢٢٣) حضرت قتادہ فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر یوں سلام کیا : علیک السلام یا نبی اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، تو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو ناپسند کیا اور ارشاد فرمایا : یہ تو مردوں کا سلام ہے۔

26223

(۲۶۲۲۴) حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ ، عَنْ حَسَنٍ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ طَاوُوسٍ ، أَنَّہُ کَرِہَ أَنْ یَقُولَ : عَلَیْکُمُ السَّلاَمُ ، إنَّمَا قَالَ : {وَسَلاَمٌ عَلَی الْمُرْسَلِینَ}۔
(٢٦٢٢٤) حضرت لیث فرماتے ہیں کہ حضرت طاؤس یوں سلام کرنے کو مکروہ سمجھتے تھے۔ علیکم السلام، فرماتے : بیشک یوں کہے، سلام علی المرسلین۔

26224

(۲۶۲۲۵) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنِ ابْنِ عَجْلاَنَ ، عَنْ نَافِعٍ ، قَالَ : کُنْتُ أَسِیرُ مَعَ عَبْدِ اللہِ بْنِ أَبِی زَکَرِیَّا فِی أَرْضِ الرُّومِ ، فَبَالَتْ دَابَّتِی ، فَقَامَتْ فَبَالَتْ ، فَلَحِقْتُہُ فَقَالَ : أَلاَ سَلَّمْتَ ؟ فَقُلْت : إنَّمَا فَارَقْتُک الآنَ ، قَالَ : وَإِنْ فَارَقْتَنِی ، کَانَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَتَسَایَرُونَ فَتَفْرُقُ بَیْنَہُمُ الشَّجَرَۃُ فَیَلْتَقُونَ فَیُسَلِّمُ بَعْضُہُمْ عَلَی بَعْضٍ۔
(٢٦٢٢٥) حضرت نافع فرماتے ہیں کہ میں حضرت عبداللہ بن ابی زکریا کے ساتھ روم کے علاقہ میں سفر کررہا تھا کہ میری سواری کے جانور کو پیشاب آیا تو اس جانور نے کھڑے ہو کر پیشاب کیا، پھر میں دوبارہ آپ کے ساتھ جا ملا۔ آپ نے فرمایا : تم نے سلام کیوں نہیں کیا ؟ میں نے عرض کیا : میں ابھی تو آپ سے جدا ہوا تھا۔ آپ نے فرمایا : اگرچہ ابھی تم مجھ سے جدا ہوئے ۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ سفر کر رہے ہوتے تھے کہ ان کے درمیان درخت جدائی کردیتے تھے جب وہ دوبارہ اکٹھے ہوتے تو ان میں سے بعض بعض کو سلام کرتے تھے۔

26225

(۲۶۲۲۶) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ الأَسْوَدِ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، قَالَ : کَانَ الرَّجُلاَنِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَتَسَایَرَانِ فَتَفْرُقُ بَیْنَہُمَا الشَّجَرَۃُ فَیَلْتَقِیَانِ فَیُسَلِّمُ أَحَدُہُمَا عَلَی الآخَرِ۔
(٢٦٢٢٦) حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ میں سے دو آدمی اکٹھے سفر کر رہے تھے کہ ان کے درمیان کوئی درخت تفریق کردیتا پھر جب وہ دوبارہ ملتے تو ان میں سے ایک دوسرے پر سلام کرتا تھا۔

26226

(۲۶۲۲۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ ، عَنْ أَبِی الْبَخْتَرِیِّ ، وَسَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ أَنَّہُمَا کَانَا یَشْکِیَانِ بُطُونَہُمَا فَیَجِیئَانِ فَیُسَلِّمَانِ۔
(٢٦٢٢٧) حضرت عمرو بن مرہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابو البختری اور حضرت سعید بن جبیر ، دونوں کو پیٹ کی تکلیف ہو رہی تھی، یہ دونوں واپس آتے ، اور دوبارہ ایک دوسرے کو سلام کرتے۔

26227

(۲۶۲۲۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ : کَانَ لاَ یُفَارِقُنِی إلاَّ عَلَی سَلاَمٍ ، أَجِیئُ ، ثُمَّ أَذْہَبُ فَیُسَلِّمُ عَلَیَّ ، ثُمَّ أَجِیئُ ، ثُمَّ أَذْہَبُ فَیُسَلِّمُ عَلَیَّ۔
(٢٦٢٢٨) حضرت اعمش فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم مجھ سے جدا نہیں ہوتے مگر سلام کر کے ، میں آتا پھر میں جاتا تو وہ مجھے سلام کرتے، پھر میں آتا پھر میں جاتا تو وہ مجھے سلام کرتے۔

26228

(۲۶۲۲۹) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنِ الْعَوَّامِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ التَّیْمِیِّ ، قَالَ : إِنْ کَانَ الرَّجُلُ مِنْہُمْ لَیُفَارِقُ صَاحِبَہُ ، مَا یَحُولُ بَیْنَہُ إلاَّ شَجَرَۃٌ ، ثُم یَلقَاہُ فَیُسَلِّمُ عَلَیہ۔
(٢٦٢٢٩) حضرت عوّام فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم تیمی نے ارشاد فرمایا : اگر مسلمانوں کا ایک آدمی اپنے ساتھی سے جدا ہوجائے اور ان دونوں کے درمیان ایک درخت حائل ہو اور پھر وہ دوبارہ ملیں تو یہ اپنے ساتھی کو سلام کرے۔

26229

(۲۶۲۳۰) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ سِمَاکٍ ، قَالَ : تَذَاکَرُوا الْمُصَافَحَۃَ فَقَالَ النُّعْمَانُ بْنُ حُمَیْدٍ : دَخَلْت عَلَی سَلْمَانَ مَعَ خَالِی عَبَّادِ بْنِ شُرَحْبِیلَ ، فَلَمَّا رَآہُ صَافَحَہُ سَلْمَانُ۔
(٢٦٢٣٠) حضرت سماک فرماتے ہیں کہ لوگوں کے درمیان مصافحہ پر بات چیت ہو رہی تھی کہ حضرت نعمان بن حمید نے فرمایا : کہ میں اپنے ماموں حضرت عباد بن شرحبیل کے ساتھ حضرت سلمان پر داخل ہوا جب آپ نے ان کو دیکھا تو حضرت سلمان نے ان سے مصافحہ کیا۔

26230

(۲۶۲۳۱) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، وَابْنُ نُمَیْرٍ ، عَنِ الأَجْلَحِ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنِ الْبَرَائِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَا مِنْ مُسْلِمَیْنِ یَلْتَقِیَانِ فَیَتَصَافَحَانِ إلاَّ غُفِرَ لَہُمَا قَبْلَ أَنْ یَتَفَرَّقَا۔ (ابوداؤد ۵۱۷۰۔ ابن ماجہ ۳۷۰۳)
(٢٦٢٣١) حضرت برائ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : دو مسلمان آپس میں ملاقات نہیں کرتے، پھر وہ مصافحہ کرتے ہیں، مگر یہ کہ ان دونوں کے جدا ہونے سے پہلے ان کی مغفرت کردی جاتی ہے۔

26231

(۲۶۲۳۲) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنْ حَنْظَلَۃَ السَّدُوسِیِّ ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ : قلْنَا : یَا رَسُولَ اللہِ ، أَیُصَافِحُ بَعْضُنَا بَعْضًا ؟ قَالَ : نَعَمْ۔ (ترمذی ۲۷۲۸۔ احمد ۳/۱۹۸)
(٢٦٢٣٢) حضرت انس فرماتے ہیں کہ ہم لوگوں نے عرض کیا۔ اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! کیا ہم میں سے بعض بعض سے مصافحہ کرلیا کریں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ہاں۔

26232

(۲۶۲۳۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ أَنَسٍ ، أَنَّ أَصْحَابَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : کَانَ یُصَافِحُ بَعْضُہُمْ بَعْضًا۔ (بخاری ۶۲۶۳۔ ترمذی ۲۷۲۹)
(٢٦٢٣٣) حضرت انس فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ ایک دوسرے سے مصافحہ کرتے تھے۔

26233

(۲۶۲۳۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ غَالِبٍ ، قَالَ: قُلْتُ لِلشَّعْبِیِّ : إنَّ ابْنَ سِیرِینَ کَانَ یَکْرَہُ الْمُصَافَحَۃَ ، قَالَ: فَقَالَ الشَّعْبِیُّ : کَانَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَتَصَافَحُونَ ، وَإِذَا قَدِمَ أَحَدُہُمْ مِنْ سَفَرٍ عَانَقَ صَاحِبَہُ۔
(٢٦٢٣٤) حضرت غالب فرماتے ہیں کہ میں نے امام شعبی کے سامنے ذکر کیا کہ حضرت ابن سیرین مصافحہ کرنے کو مکروہ سمجھتے ہیں۔ اس پر امام شعبی نے فرمایا : کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ ایک دوسرے سے مصافحہ کیا کرتے تھے اور جب ان میں سے کوئی سفر سے واپس آتا تو وہ اپنے ساتھی سے گلے ملتا تھا۔

26234

(۲۶۲۳۵) حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ مُعَاذٍ ، قَالَ : سَأَلْتُ ابْنَ عَوْنٍ ، عَنِ الْمُصَافَحَۃِ ، قَالَ : کَانَ مُحَمَّدٌ لاَ یَفْعَلُہُ بِنَا ، وَلاَ نَفْعَلُہُ بِہِ ، وَکَانَ إذَا مَدَّ رَجُلٌ یَدَہُ ، لَمْ یَمْنَعْ یَدَہُ مِنْ أَحَدٍ۔
(٢٦٢٣٥) حضرت معاذ بن معاذ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عون سے مصافحہ کے متعلق پوچھا ؟ آپ نے فرمایا : امام محمد ہمارے ساتھ نہیں کرتے تھے اور نہ ہم ان سے کرتے تھے اور جب کوئی آدمی اپنا ہاتھ بڑھا دیتا تو وہ کسی سے اپنا ہاتھ روکتے بھی نہیں تھے۔

26235

(۲۶۲۳۶) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنِ ابْنِ الأَسْوَدِ ، قَالَ : إنَّ مِنْ تَمَامِ التَّحِیَّۃِ الْمُصَافَحَۃَ۔
(٢٦٢٣٦) حضرت لیث فرماتے ہیں کہ حضرت ابن الاسود نے ارشاد فرمایا : بیشک مصافحہ کرنا سلام کو مکمل کرتا ہے۔

26236

(۲۶۲۳۷) حَدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنِ الأَسْوَدِ ، قَالَ : إنَّ مِنْ تَمَامِ التَّحِیَّۃِ الْمُصَافَحَۃَ۔
(٢٦٢٣٧) حضرت ابو اسحاق فرماتے ہیں کہ حضرت اسود نے ارشاد فرمایا : بیشک مصافحہ کرنا سلام کو مکمل کرنا ہے۔

26237

(۲۶۲۳۸) حَدَّثَنَا ابْنُ مُبَارَکٍ ، عَنْ یَحْیَی بن أَیُّوبَ ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ بْنِ زَحْرٍ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ یَزِیدَ ، عَنِ الْقَاسِمِ ، عَنْ أَبِی أُمَامَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : تَمَامُ تَحِیَّتِکُمُ الْمُصَافَحَۃُ۔ (ترمذی ۲۷۳۱)
(٢٦٢٣٨) حضرت ابو امامہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : تمہارا مکمل سلام مصافحہ ہے۔

26238

(۲۶۲۳۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ أَبِی عَبْدِ اللہِ الْعَسْقَلاَنِیِّ ، قَالَ : أَخْبَرَنِی مَنْ رَأَی ابْنَ مُحَیْرِیزٍ یُصَافِحُ نَصْرَانِیًّا فِی مَسْجِدِ دِمَشْقَ۔
(٢٦٢٣٩) حضرت ابو عبداللہ العسقلانی فرماتے ہیں کہ مجھے اس شخص نے خبر دی جس نے حضرت ابن محیریز کو دیکھا کہ آپ نے دمشق کی مسجد میں ایک نصرانی سے ہاتھ ملایا۔

26239

(۲۶۲۴۰) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِی عَدِیٍّ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، أَنَّہُ کَانَ یَکْرَہُ أَنْ یُصَافِحَ الْمُسْلِمُ الْیَہُودِیَّ ، وَالنَّصْرَانِیَّ۔
(٢٦٢٤٠) حضرت اشعث فرماتے ہیں کہ حضرت حسن بصری مسلمان کے کسی یہودی یا نصرانی سے ہاتھ ملانے کو مکروہ سمجھتے تھے۔

26240

(۲۶۲۴۱) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : إنَّمَا الْمُشْرِکُونَ نَجَسٌ فَلاَ تُصَافِحُوہُمْ ، فَمَنْ صَافَحَہُمْ فَلْیَتَوَضَّأْ۔
(٢٦٢٤١) حضرت اشعث فرماتے ہیں کہ حضرت حسن نے ارشاد فرمایا : بیشک مشرکین تو نجس ہیں ان سے مصافحہ مت کرو، جس شخص نے ان سے مصافحہ کرلیا تو اس کو چاہیے کہ وہ وضو کرلے۔

26241

(۲۶۲۴۲) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ ، عَنْ عَطَائٍ ، قَالَ : سَأَلْتُہ عَنْ مُصَافَحَۃِ الْمَجُوسِیِّ فَکَرِہَ ذَلِکَ۔
(٢٦٢٤٢) حضرت عبد الملک فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عطائ سے مجوسی سے مصافحہ کرنے کے متعلق سوال کیا ؟ تو آپ نے اس کو مکروہ سمجھا۔

26242

(۲۶۲۴۳) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَنِ الأَجْلَحِ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ تَلَقَّی جَعْفَرَ بْنَ أَبِی طَالِبٍ فَالْتَزَمَہُ ، وَقَبَّلَ مَا بَیْنَ عَیْنَیْہِ۔ (ابوداؤد ۵۱۷۸۔ حاکم ۶۲۴)
(٢٦٢٤٣) امام شعبی فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت جعفر بن ابی طالب سے ملے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو چمٹا لیا اور ان کی دونوں آنکھوں کے درمیان آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بوسہ لیا۔

26243

(۲۶۲۴۴) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ حَجَّاجِ بْنِ دِینَارٍ ، عَنْ عُتْبَۃَ بن أَبِی عُثْمَانَ ، أَنَّ عُمَرَ اعْتَنَقَ حُذَیْفَۃَ۔
(٢٦٢٤٤) حضرت عتبہ بن ابی عثمان فرماتے ہیں کہ حضرت عمر نے حضرت حذیفہ سے مصافحہ کیا۔

26244

(۲۶۲۴۵) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ أَبِی بَلْجٍ ، قَالَ : رَأَیْتُ عَمْرَو بْنَ مَیْمُونٍ وَالأَسْوَدَ بْنَ ہلال الْتَقَیَا وَاعْتَنَقَ کُلٌّ مِنْہُمَا صَاحِبَہُ۔
(٢٦٢٤٥) حضرت ابو بلج فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عمرو بن میمون اور حضرت اسود بن ھلال کو ملتے ہوئے دیکھا۔ ان دونوں نے آپس میں معانقہ فرمایا۔

26245

(۲۶۲۴۶) حَدَّثَنَا مُعْتَمِرُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ عَبَّادِ بْنِ عَبَّادٍ ، قَالَ : رَأَیْتُ أَبَا مِجْلَزٍ وَخَالِدًا الأَثْبَجَ الْتَقَیَا ، فَاعْتَنَقَ کُلٌّ مِنْہُمَا صَاحِبَہُ۔
(٢٦٢٤٦) حضرت عباد بن عباد فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابو مجلز اور حضرت خالد اثبج کو دیکھا کہ جب دونوں ملے تو انھوں نے ایک دوسرے سے معانقہ کیا۔

26246

(۲۶۲۴۷) حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ ، عَنْ إیَاسِ بْنِ دَغْفَلٍ ، قَالَ : رَأَیْتُ أَبَا نَضْرَۃَ قَبَّلَ خَدَّ الْحَسَنِ۔
(٢٦٢٤٧) حضرت ایاس بن دغفل فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابو نضرہ کو دیکھا آپ نے حضرت حسن بصری کے رخسارکا بوسہ لیا۔

26247

(۲۶۲۴۸) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا ثَابِتٌ ، عَنْ مُعَاذَۃَ الْعَدَوِیَّۃِ ، قَالَتْ : کَانَ أَصْحَابُ صِلَۃِ بْنِ أَشْیَمَ إذَا دَخَلُوا عَلَیْہِ یَلْتزِم بَعْضُہُمْ بَعْضًا۔
(٢٦٢٤٨) حضرت معاذۃ العدویہ فرماتی ہیں کہ حضرت صلہ بن اشیم کے اصحاب جب آپ کے پاس آتے تھے تو ان میں سے بعض بعض سے گلے ملتے تھے۔

26248

(۲۶۲۴۹) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ الْحُبَابِ ، قَالَ : حدَّثَنَا جَرِیرُ بْنُ حَازِمٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا الْحَسَنُ ، عَنِ الْمُہَاجِرِ بْنِ قُنْفُذٍ ، أَنَّہُ سَلَّمَ عَلَی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَہُوَ یَبُولُ فَلَمْ یَرُدَّ عَلَیْہِ حَتَّی فَرَغَ۔ (ابوداؤد ۱۸۔ ابن ماجہ ۳۵۰)
(٢٦٢٤٩) حضرت مہاجر بن قنفذ فرماتے ہیں کہ انھوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سلام کیا اس حال میں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پیشاب کر رہے تھے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو جواب نہیں دیا، یہاں تک کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فارغ ہوگئے۔

26249

(۲۶۲۵۰) حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنِ الضَّحَّاکِ بْنِ عُثْمَانَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : مَرَّ رَجُلٌ عَلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَہُوَ یَبُولُ ، فَسَلَّمَ عَلَیْہِ فَلَمْ یَرُدَّ عَلَیْہِ۔ (مسلم ۱۱۵۔ ترمذی ۹۰)
(٢٦٢٥٠) حضرت ابن عمر فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس سے گزرا اس حال میں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پیشاب کر رہے تھے ۔ اس نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سلام کیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو سلام کا جواب نہیں دیا۔

26250

(۲۶۲۵۱) حَدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ بْنُ عَیَّاشٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ زِیَادٍ الأَلْہَانِیِّ ، عَنْ أَبِی أُمَامَۃَ ، قَالَ : أَمَرَنَا نَبِیُّنَا صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ نُفْشِیَ السَّلاَمَ۔ (ابن ماجہ ۳۶۹۳۔ طبرانی ۷۵۲۴)
(٢٦٢٥١) حضرت ابو امامہ فرماتے ہیں کہ ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں حکم دیا کہ ہم سلام کو پھیلائیں۔

26251

(۲۶۲۵۲) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَص ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ الْحَارِثِ ، عَنْ عَلِیٍّ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لِلْمُسْلِمِ عَلَی الْمُسْلِمِ یُسَلِّمُ عَلَیْہِ إذَا لَقِیَہُ۔
(٢٦٢٥٢) حضرت علی فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : مسلمان کا مسلمان پر حق ہے جب بھی اس سے ملے تو اس کو سلام کرے۔

26252

(۲۶۲۵۳) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَمْرٍو ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : اعْبُدُوا الرَّحْمَان ، وَأَفْشُوا السَّلاَمَ۔ (بخاری ۹۸۱۔ ابن ماجہ ۳۶۹۴)
(٢٦٢٥٣) حضرت عبداللہ بن عمرو فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : تم رحمن کی عبادت کرو اور سلام کو پھیلاؤ۔

26253

(۲۶۲۵۴) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ عَوْفٍ ، عَنْ زُرَارَۃَ بْنِ أَوْفَی ، قَالَ : حدَّثَنِی عَبْدُ اللہِ بْنُ سَلاَمٍ ، قَالَ : لَمَّا قَدِمَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْمَدِینَۃَ انْجَفَلَ النَّاسُ قِبَلَہُ ، وَقِیلَ : قَدِمَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَجِئْت فِی النَّاسِ لأَنْظُرَ ، فَلَمَّا تَبَیَّنْت وَجْہَہُ ، عَرَفْت أَنَّ وَجْہَہُ لَیْسَ بِوَجْہِ کَذَّابٍ ، فَکَانَ أَوَّلَ شَیْئٍ سَمِعْتہ یَتَکَلَّمُ بِہِ أَنْ قَالَ : یَا أَیُّہَا النَّاسُ ، أَفْشُوا السَّلاَمَ۔
(٢٦٢٥٤) حضرت عبداللہ بن سلام فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ تشریف لائے تو لوگ جلدی سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آگئے اور کہا جارہا تھا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آگئے۔ آپ فرماتے ہیں کہ میں بھی لوگوں کے ساتھ آیا تاکہ میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیکھوں۔ جب میں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا چمکتا ہوا چہرہ دیکھا تو میں نے پہچان لیا کہ بیشک یہ چہرہ کسی جھوٹے کا چہرہ نہیں ہے اور سب سے پہلی بات جو میں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے ہوئے سنی وہ یہ تھی کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے لوگو ! سلام کو پھیلاؤ۔

26254

(۲۶۲۵۵) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَنِ الشَّیْبَانِیِّ ، عَنْ أَشْعَثَ بْنِ أَبِی الشَّعْثَائِ الْمُحَارِبِیِّ ، عَنْ مُعَاوِیَۃَ بْنِ سُوَیْد ، عَنِ الْبَرَائِ بْنِ عَازِبٍ ، قَالَ : أَمَرَنَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِإِفْشَائِ السَّلاَمِ۔
(٢٦٢٥٥) حضرت براء بن عازب فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں سلام کو پھیلانے کا حکم دیا۔

26255

(۲۶۲۵۶) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، وَابْنُ نُمَیْرٍ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِی صَالِحٍ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ ، لاَ تَدْخُلُوا الْجَنَّۃَ حَتَّی تُؤْمِنُوا ، وَلاَ تُؤْمِنُوا حَتَّی تَحَابُّوا ، أَلاَ أَدُلُّکُمْ عَلَی أَمْرٍ إذَا فَعَلْتُمُوہُ تَحَابَبْتُمْ ؟ أَفْشُوا السَّلاَمَ ۔ (مسلم ۹۳۔ ترمذی ۲۶۸۸)
(٢٦٢٥٦) حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ ٔ قدرت میں میری جان ہے کہ تم لوگ جنت میں داخل نہ ہو گے، یہاں تک کہ تم ایمان لے آؤ اور تم ایمان نہیں لاؤ گے، یہاں تک کہ تم آپس میں محبت کرنے لگو، کیا میں تمہاری ایک معاملہ پر راہنمائی نہ کروں کہ جب تم یہ کام کرو گے تو تم آپس میں محبت کرنے لگو گے ؟ تم سلام کرنے کو رواج دو ۔

26256

(۲۶۲۵۷) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ إِسْحَاقَ ، عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ عَلِیٍّ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إنَّ فِی الْجَنَّۃِ غُرَفًا تُرَی ظُہُورُہَا مِنْ بُطُونِہَا ، وَبُطُونُہَا مِنْ ظُہُورِہَا ، فَقَامَ أَعْرَابِیٌّ فَقَالَ : لِمَنْ ہِیَ یَا رَسُولَ اللہِ ؟ قَالَ : ہِیَ لِمَنْ قَالَ طَیَّبَ الْکَلاَمَ ، وَأَطْعَمَ الطَّعَامَ ، وَأَفْشَی السَّلاَمَ ، وَصَلَّی بِاللَّیْلِ وَالنَّاسُ نِیَامٌ۔ (ترمذی ۱۲۳۔ ابویعلی ۴۳۴)
(٢٦٢٥٧) حضرت علی فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : بیشک جنت میں بالا خانے ہیں جن کا ظاہر ان کے باطن سے دکھائی دیتا ہے اور ان کا باطن ان کے ظاہر سے دکھائی دیتا ہے۔ اس پر ایک دیہاتی کھڑا ہو کر کہنے لگا، اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! یہ بالاخانے کسی کے لیے ہوں گے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : یہ اس شخص کے لیے ہوں گے جو پاکیزہ کلام کرے اور کھانا کھلائے ، اور سلام کو پھیلائے، اور رات کے وقت نماز پڑھے جب لوگ سو رہے ہوں۔

26257

(۲۶۲۵۸) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : حدَّثَنَا شَیْبَانُ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ أَبِی کَثِیرٍ ، عَنْ یَعیش بن الْوَلِیدِ ، عَنْ مَوْلًی لِلزُّبَیْرِ ، عَنِ الزُّبَیْرِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : أَلاَ أُنَبِّئُکُمْ بِأَمْرٍ إذَا فَعَلْتُمُوہُ تَحَابَبْتُمْ ؟ أَفْشُوا السَّلاَمَ بَیْنَکُمْ۔ (احمد ۱۶۴۔ بیہقی ۲۳۲)
(٢٦٢٥٨) حضرت زبیر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : کیا میں تمہیں کسی معاملہ پر خبردار نہ کروں کہ جب تم وہ کام کرو گے تو آپس میں محبت کرنے لگو گے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم اپنے درمیان سلام کو رواج دو ۔

26258

(۲۶۲۵۹) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ زَیْدِ بْنِ وَہْبٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : إنَّ السَّلاَمَ اسْمٌ مِنْ أَسْمَائِ اللہِ فَأَفْشُوہُ۔
(٢٦٢٥٩) حضرت زید بن وھب فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود نے ارشاد فرمایا : یقیناً سلام اللہ کے ناموں میں سے ایک نام ہے تو اس کو پھیلاؤ۔

26259

(۲۶۲۶۰) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنِ الْمِنْہَالِ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : إِنْ کُنْت لأَخْرُجُ إلَی السُّوقِ وَمَا لِی حَاجَۃٌ إلاَّ أَنْ أُسَلِّمَ وَیُسَلَّمَ عَلَیَّ۔
(٢٦٢٦٠) حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عمر نے ارشاد فرمایا : میں اس بازار کی طرف جاتا تھا حالانکہ میری کوئی ضرورت نہیں ہوئی تھی، مگر صرف اس وجہ سے کہ میں سلام کروں اور مجھے سلام کا جواب دیا جائے۔

26260

(۲۶۲۶۱) حَدَّثَنَا حَفْصٌ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ أَبِی عُثْمَانَ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ، قَالَ: إنَّ أَبْخَلَ النَّاسِ الَّذِی یَبْخَلُ بِالسَّلاَمِ۔
(٢٦٢٦١) حضرت ابو عثمان فرماتے ہیں کہ حضرت ابوہریرہ نے ارشاد فرمایا : بیشک لوگوں میں بخیل ترین وہ شخص ہے جو سلام کرنے میں بخل کرے۔

26261

(۲۶۲۶۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ عَمَّارٍ الدُّہْنِیِّ ، عَنْ رَجُلٍ ، عَنْ کُرَیْبٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، أَنَّہُ کَتَبَ إلَی رَجُلٍ مِنْ أَہْلِ الْکِتَابِ : السَّلاَمُ عَلَیْک۔
(٢٦٢٦٢) حضرت کریب فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عباس نے اہل کتاب میں سے ایک آدمی کو خط لکھا : تو اس میں اس کو سلام لکھا : السلام علیک۔

26262

(۲۶۲۶۳) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : إذَا کَتَبْت إلَی الْیَہُودِیِّ وَالنَّصْرَانِیِّ فِی الْحَاجَۃِ فَابْدَأْہُ بِالسَّلاَمِ ، وَقَالَ مُجَاہِدٌ : اکْتُبِ السَّلاَمُ عَلَی مَنِ اتَّبَعَ الْہُدَی۔
(٢٦٢٦٣) حضرت منصور فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم نے ارشاد فرمایا : جب تم میں سے کوئی کسی یہودی اور نصرانی کو کسی ضرورت کے بارے میں خط لکھے تو اس کو چاہیے کہ یہ سلام میں پہل کرے اور حضرت مجاہد نے فرمایا : یوں سلام لکھیں، والسَّلاَمُ عَلَی مَنِ اتَّبَعَ الْہُدَی۔

26263

(۲۶۲۶۴) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا الْمَسْعُودِیُّ ، عَنْ عَوْنِ بْنِ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : سَأَلَ مُحَمَّدُ بْنُ کَعْبٍ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِیزِ عَنِ ابْتِدَائِ أَہْلِ الذِّمَّۃِ بِالسَّلاَمِ فَقَالَ : تَرُدُّ عَلَیْہِمْ ، وَلاَ تَبْتَدِئہُمْ ، فَقُلْت : فَکَیْفَ تَقُولُ أَنْتَ ؟ فقَالَ : مَا أَرَی بَأْسًا أَنْ تَبْتَدِئہُمْ ، قُلْتُ : لِمَ ؟ قَالَ : لِقَوْلِ اللہِ {فَاصْفَحْ عَنْہُمْ وَقُلْ سَلاَمٌ فَسَوْفَ یَعْلَمُونَ}۔
(٢٦٢٦٤) حضرت عون بن عبداللہ فرماتے ہیں کہ حضرت محمد بن کعب نے حضرت عمر بن عبد العزیز سے ذمیوں کو سلام کرنے میں پہل کرنے کے بارے میں پوچھا ؟ آپ نے فرمایا : ان کو سلام کا جواب دیا جائے گا اور تم ان پر سلام میں پہل نہ کرو۔ میں نے پوچھا : آپ یہ کیا کہہ رہے ہیں ؟ آپ نے فرمایا : اس میں کوئی حرج نہیں کہ تم بھی ان پر سلام میں پہل کرو۔ میں نے پوچھا : کیوں ؟ آپ نے فرمایا : اللہ رب العزت کے اس قول کی وجہ سے۔ ترجمہ : تم ان سے درگزر کرو اور یوں کہو : سلام، پس عنقریب وہ جان لیں گے۔

26264

(۲۶۲۶۵) حَدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ بْنُ عَیَّاشٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ زِیَادٍ الأَلْہَانِیِّ وَشُرَحْبِیلُ بْنُ مُسْلِمٍ ، عَنْ أَبِی أُمَامَۃَ ، أَنَّہُ کَانَ لاَ یَمُرُّ بِمُسْلِمٍ ، وَلاَ یَہُودِیٍّ ، وَلاَ نَصْرَانِیٍّ إلاَّ بَدَأَہُ بِالسَّلاَمِ۔
(٢٦٢٦٥) حضرت محمد بن زیاد الالھانی اور حضرت شرحبیل بن مسلم یہ دونوں حضرات فرماتے ہیں کہ حضرت ابو امامہ کسی مسلمان، یہودی اور نصرانی کے پاس سے نہیں گزرتے تھے مگر یہ کہ آپ سلام میں پہل کرتے تھے۔

26265

(۲۶۲۶۶) حَدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ بْنُ عَیَّاشٍ ، عَنِ ابْنِ عَجْلاَنَ ، أَنَّ عَبْدَ اللہِ وَأَبَا الدَّرْدَائِ وَفَضَالَۃَ بْنَ عُبَیْدٍ کَانُوا یَبْدَؤُونَ أَہْلَ الشِّرْکِ بِالسَّلاَمِ۔
(٢٦٢٦٦) حضرت ابن عجلان فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود ، حضرت ابو الدردائ اور حضرت فضالہ بن عبید یہ سب حضرات مشرکین سے سلام کرنے میں پہل کرتے تھے۔

26266

(۲۶۲۶۷) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ یَمَانٍ ، عَنِ ابْنِ عَجْلاَنَ ، عَنْ أَبِی عِیسَی ، قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللہِ : إنَّ مِنْ رَأْسِ التَّوَاضُعِ أَنْ تَبْدَأَ بِالسَّلاَمِ مَنْ لَقِیتَ۔
(٢٦٢٦٧) حضرت ابو عیسیٰ فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود نے ارشاد فرمایا : یقیناً عاجزی کی بنیاد کی یہ بات ہے کہ جب تم کسی سے ملو تو سلام میں ابتداء کرو۔

26267

(۲۶۲۶۸) حَدَّثَنَا عَفَان قَالَ : حدَّثَنَا عَبْدُ الوَاحِدِ بْنُ زِیَادٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا عَاصِمٌ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : کَتَبَ أَبُو بُرْدَۃَ إلَی رَجُلٍ مِنْ أَہْلِ الذِّمَّۃِ یُسَلِّمُ عَلَیْہِ ، فَقِیلَ لَہُ : لِمَ قُلْتُ لَہُ ؟ فَقَالَ : إِنَّہُ بَدَأَنِی بِالسَّلاَمِ۔
(٢٦٢٦٨) امام شعبی فرماتے ہیں کہ حضرت ابو بردہ نے ایک ذمی کی طرف خط لکھا اور اس کو سلام کہا، ان سے اس بارے میں پوچھا گیا : کہ آپ نے اسے سلام کیوں کیا ؟ آپ نے فرمایا : بیشک اس نے سلام میں ابتداء کی تھی۔

26268

(۲۶۲۶۹) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ بَکْرٍ السَّہْمِیُّ ، عَنْ حَاتِمِ بْنِ أَبِی صَغِیرَۃَ ، عَنْ عَطِیَّۃَ وَکَانَ کَاتِبًا لِعَبْدِ اللہِ بْنِ مُطَرِّفِ بْنِ الشِّخِّیرِ ، قَالَ : سَمِعْتُ عَبْدَ اللہِ بْنَ مُطَرِّفِ بْنِ الشِّخِّیرِ یَقُولُ : مَا عَلَی وجہ الأَرْضِ رَجُلٌ یَبْدَأُ آخَرَ بِالسَّلاَمِ إلاَّ کَانَ ذَلِکَ صَدَقَۃً عَلَیْہِ إلَی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ۔
(٢٦٢٦٩) حضرت عطیہ جو حضرت عبداللہ بن مطرف بن الشخیر کے کاتب ہیں فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن مطرف بن الشخیر کو یوں ارشاد فرماتے ہوئے سنا : نہیں ہے زمین پر کوئی شخص جو سلام میں پہل کرے مگر یہ قیامت کے دن اس شخص کے لیے صدقہ بن جائے گا۔

26269

(۲۶۲۷۰) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ زَیْدِ بْنِ وَہْبٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : إنَّ الرَّجُلَ إذَا مَرَّ بِالْقَوْمِ فَسَلَّمَ عَلَیْہِمْ فَرَدُّوا عَلَیْہِ کَانَ لَہُ فَضْلُ دَرَجَۃٍ عَلَیْہِمْ لأَنَّہُ أَذْکَرَہُمُ السَّلاَمَ۔
(٢٦٢٧٠) حضرت زید بن وھب فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود نے ارشاد فرمایا : جو شخص کسی قوم پر گزرا اور اس نے ان کو سلام کیا پھر ان لوگوں نے اس کو سلام کا جواب دیا تو اس شخص کو ان لوگوں پر ایک درجہ فضیلت حاصل ہوگی اس لیے کہ اس نے ان کو سلام یاد دلایا ہے۔

26270

(۲۶۲۷۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ الْمَسْعُودِیِّ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ الأَقْمَرِ ، عَنْ أَبِی عَاصِمٍ ، قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللہِ : الْبَادِئُ بِالسَّلاَمِ یُرْبِی عَلَی صَاحِبِہِ فِی الأَجْرِ۔
(٢٦٢٧١) حضرت ابو عاصم فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود نے ارشاد فرمایا : سلام میں پہل کرنے والا اپنے ساتھی سے اجر میں بڑھا ہوا ہوتا ہے۔

26271

(۲۶۲۷۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنْ شُرَیْحٍ ، قَالَ : مَا الْتَقَی رَجُلاَنِ قَطُّ إلاَّ کَانَ أَوْلاَہُمَا بِاللَّہِ الَّذِی یَبْدَأُ بِالسَّلاَمِ۔
(٢٦٢٧٢) امام شعبی فرماتے ہیں کہ حضرت شریح نے ارشاد فرمایا : کبھی بھی دو مسلمان آپس میں ملاقات نہیں کرتے مگر ان دونوں میں اللہ کے قریب وہ شخص ہوگا جو سلام میں پہل کرے۔

26272

(۲۶۲۷۳) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ مُسْلِمٍ ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، عَنْ عَائِشَۃَ ، أَنَّہُ أَتَی النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَاسٌ مِنَ الْیَہُودِ فَقَالُوا : السَّامُ عَلَیْک یَا أَبَا الْقَاسِمِ ، فَقَالَ : وَعَلَیْکُمْ۔ (مسلم ۱۱۔ احمد ۲۲۹)
(٢٦٢٧٣) حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس یہود کے کچھ لوگ آئے اور انھوں نے یوں کہا : السام علیک۔ تم پر موت طاری ہو۔ اے ابو القاسم ! آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم لوگوں پر بھی ہو۔

26273

(۲۶۲۷۴) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ وَمُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: إذَا سَلَّمَ عَلَیْکُمْ أَحَدٌ مِنْ أَہْلِ الْکِتَابِ فَقُولُوا: وَعَلَیْکُمْ۔ (مسلم ۱۷۰۵۔ ابوداؤد ۵۱۶۵)
(٢٦٢٧٤) حضرت انس فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جب اہل کتاب میں سے تمہیں کوئی سلام کرے تو تم یوں جواب دو ۔ وعلیکم۔

26274

(۲۶۲۷۵) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ ، عَنْ یَزِیدَ بْنِ أَبِی حَبِیبٍ ، عَنْ مَرْثَدِ بْنِ عَبْدِ اللہِ الْیَزَنِیِّ ، عَنْ أَبِی عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْجُہَنِیِّ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إنِّی رَاکِبٌ غَدًا إلَی یَہُود فَلاَ تَبْدَؤُوہُمْ بِالسَّلاَمِ ، فَإِذَا سَلَّمُوا عَلَیْکُمْ فَقُولُوا : وَعَلَیْکُمْ۔ (ابن ماجہ ۳۶۹۹۔ احمد ۴/۱۴۴)
(٢٦٢٧٥) حضرت ابو عبد الرحمن الجھنی فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : بیشک کل میں یہود کے پاس جاؤں گا، تو تم لوگ سلام میں پہل مت کرنا اور جب وہ تمہیں سلام کریں تو تم یوں کہنا۔ وعلیکم۔

26275

(۲۶۲۷۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ دِینَارٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إنَّ الْیَہُودَ إذَا لَقُوکُمْ وَقَالُوا : السَّامُ عَلَیْکُمْ ، فَقُولُوا لَہُمْ : وَعَلَیْکُمْ۔
(٢٦٢٧٦) حضرت ابن عمر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : بیشک یہودی جب بھی تم سے ملیں اور السام علیکم کہیں تو تم یوں جواب دو ۔ وعلیکم۔

26276

(۲۶۲۷۷) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ وَوَکِیعٌ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، عَنْ حُمَیْدِ بْنِ زَادَوَیْہِ ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ : نُہِینَا ، أَوْ أُمِرْنَا أَنْ لاَ نَزِیدَ أَہْلَ الْکِتَابِ عَلَی وَعَلَیْکُمْ۔ (احمد ۳/۱۱۳)
(٢٦٢٧٧) حضرت حمید بن زادویہ فرماتے ہیں کہ حضرت انس نے ارشاد فرمایا : ہمیں منع کیا گیا یا ہمیں حکم دیا گیا کہ ہم اہل کتاب کو سلام کا جواب دینے میں علیکم پر کچھ بھی اضافہ نہ کریں۔

26277

(۲۶۲۷۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ عَبْدِ الْحَمِیدِ بْنِ جَعْفَرٍ ، عَنْ یَزِیدَ بْنِ أَبِی حَبِیبٍ ، عَنْ مَرْثَدِ بْنِ عَبْدِ اللہِ الْیَزَنِیِّ ، عَنْ أَبِی بَصْرَۃَ الْغِفَارِیِّ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إنَّا غَادُونَ إلَی یَہُودَ فَلاَ تَبْدَؤُوہُمْ بِالسَّلاَمِ ، فَإِنْ سَلَّمُوا فَقُولُوا : وَعَلَیْکُمْ۔ (مسندہ ۶۶۸)
(٢٦٢٧٨) حضرت ابو بصرہ الغفاری فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : بیشک ہم کل یہود کے پاس جائیں گے تو تم لوگ ان سے سلام میں پہل مت کرنا ، پس اگر وہ تمہیں سلام کریں تو یوں جواب دینا۔ وعلیکم۔

26278

(۲۶۲۷۹) حَدَّثَنَا حُمَیْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ حَسَنٍ ، عَنْ سِمَاکٍ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : مَنْ سَلَّمَ عَلَیْکُمْ مِنْ خَلْقِ اللہِ فَرُدُّوا عَلَیْہِمْ ، وَإِنْ کَانَ یَہُودِیًّا ، أَوْ نَصْرَانِیًّا ، أَوْ مَجُوسِیًّا۔
(٢٦٢٧٩) حضرت عکرمہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عباس نے ارشاد فرمایا : اللہ کی مخلوق میں سے جو کوئی بھی تم کو سلام کرے تو تم اس کو سلام کا جواب دو اگرچہ وہ یہودی ہو یا نصرانی ہو یا مجوسی ہو۔

26279

(۲۶۲۸۰) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ، عَنْ مَعَنْ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ: إذَا سَلَّمَ عَلَیْک الرَّجُلُ مِنْ أَہْلِ الْکِتَابِ فَقُلْ وَعَلَیْک۔
(٢٦٢٨٠) حضرت معن فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم نے ارشاد فرمایا : جب اہل کتاب میں سے کوئی آدمی تمہیں سلام کرے تو تم اس کو یوں جواب دو ۔ وعلیک۔

26280

(۲۶۲۸۱) حَدَّثَنَا حُمَیْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ زُہَیْرٍ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ عَامِرٍ ، قَالَ : إذَا سَلَّمَ عَلَیْکُمْ یَہُودِیٌّ ، أَوْ نَصْرَانِیٌّ فَقُولُوا : وَعَلَیْکُمْ۔
(٢٦٢٨١) حضرت جابر فرماتے ہیں کہ حضرت عامر نے ارشاد فرمایا : جب کوئی یہودی یا نصرانی تمہیں سلام کرے تو تم یوں جواب دو ۔ وعلیکم۔

26281

(۲۶۲۸۲) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ سُلَیْمٍ ، عَنْ زَمْعَۃَ ، عَنْ سَلَمَۃ بْنِ وَہْرَام ، عَنْ طَاوُوسٍ ، قَالَ : کَانَ إذَا سَلَّمَ عَلَیْہِ الْیَہُودِیُّ وَالنَّصْرَانِیُّ ، قَالَ : عَلاَک السَّلاَمُ۔
(٢٦٢٨٢) حضرت سلمہ بن وھرام فرماتے ہیں کہ حضرت طاؤس کو جب کوئی یہودی اور عیسائی سلام کرتا تو آپ یوں جواب دیتے، علاک السلام (ترجمہ :) تجھ پر سلام بلند ہو۔

26282

(۲۶۲۸۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ ، وَعَنْ أَبِی مَعْشَرٍ، عَنْ إبْرَاہِیمَ، وَعَنْ حَمَّادٍ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالاَ : إذَا قُلْتَ حَیَّاک اللَّہُ ، فَقُلْ : بِالسَّلاَمِ۔
(٢٦٢٨٣) حضرت عاصم اور حضرت حماد دونوں حضرات بالترتیب فرماتے ہیں کہ حضرت ابن سیرین اور حضرت ابراہیم ان دونوں حضرات نے ارشاد فرمایا : جب تو یوں کہے حیَّاک اللہ۔ اللہ تجھے زندہ رکھے۔ تو تم اس کے ساتھ سلام بھی کرو۔

26283

(۲۶۲۸۴) حَدَّثَنَا مُعْتَمِرُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ عَبْدِ الْمَجِیدِ ، قَالَ : کَانَ الحسن یَکْرَہُ أَنْ یَقُولَ الرَّجُلُ حَیَّاک اللَّہُ إلاَّ أَنْ یَقُولَ : بِالسَّلاَمِ۔
(٢٦٢٨٤) حضرت عبد الحمید فرماتے ہیں کہ حضرت حسن بصری یوں کہنے کو مکروہ سمجھتے تھے : حَیَّاک اللَّہُ ۔ مگر یہ کہ وہ سلام بھی کہے۔

26284

(۲۶۲۸۵) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَنَْابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سُوقَۃَ ، قَالَ : جَائَنَا مَیْمُونُ بْنُ مِہْرَانَ فَقَالَ لَہُ رَجُلٌ حَیَّاک اللَّہُ فَقَالَ : لاَ تَقُلْ ہَکَذَا ، ہَذِہِ تَحِیَّۃُ الشَّبابِّ ، وَلَکِنْ قُلْ : حَیَّاکُمَ اللَّہُ بِالسَّلاَمِ۔
(٢٦٢٨٥) حضرت محمد بن سوقہ فرماتے ہیں حضرت میمون بن مہران ہمارے پاس تشریف لائے تو ایک آدمی نے ان سے یوں کہا : حَیَّاک اللَّہُ ۔ اللہ آپ کو زندہ رکھے۔ آپ نے فرمایا : ایسے مت کہو۔ یہ تو نوجوانوں کا سلام ہے۔ لیکن یوں کہو۔ حَیَّاکُمَ اللَّہُ بِالسَّلاَمِ ۔

26285

(۲۶۲۸۶) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : کَانُوا یَسْتَحِبُّونَ إذَا قَالَ الرَّجُلُ لِلرَّجُلِ حَیَّاک اللَّہُ أَنْ یَقُولَ : بِالسَّلاَمِ۔
(٢٦٢٨٦) حضرت اعمش فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم نے ارشاد فرمایا : صحابہ پسند کرتے تھے کہ جب ایک آدمی کسی آدمی کو یوں کہے، حَیَّاک اللَّہُ ۔ تو وہ سلام بھی ساتھ کہے۔

26286

(۲۶۲۸۷) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا مِسْعَرٌ ، قَالَ : حَدَّثَنِی عَلْقَمَۃُ بْنُ مَرْثَدٍ ، عَنْ عَطَائِ بْنِ أَبِی رَبَاحٍ ، أَنَّہُ کَرِہَ ، أَوْ قَالَ : کَانَ یُکْرَہُ السَّلاَمُ بِالْیَدِ وَلَمْ یَرَ بِالرَّأْسِ بَأْسًا۔
(٢٦٢٨٧) حضرت علقمہ بن مرثد فرماتے ہیں کہ حضرت عطاء بن ابی رباح ہاتھ کے اشارے سے سلام کرنے کو مکروہ سمجھتے تھے اور سر سے اشارہ کرنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے۔

26287

(۲۶۲۸۸) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنْ حُمَیْدٍ ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ : أَتَانَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ صِبْیَانٌ فَسَلَّمَ عَلَیْنَا۔ (بخاری ۶۲۴۷۔ ابوداؤد ۵۱۶۱)
(٢٦٢٨٨) حضرت انس فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم بچوں کے پاس تشریف لائے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں سلام کیا۔

26288

(۲۶۲۸۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ حُبَیبِّ بْنِ حُجْرٍ القیسی ، عَنْ ثَابِتٍ ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ : مَرَّ عَلَیْنَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ صِبْیَانٌ فَقَالَ : السَّلاَمُ عَلَیْکُمْ یَا صِبْیَانُ۔ (احمد ۳/۱۸۳۔ دارقطنی ۶۲۷)
(٢٦٢٨٩) حضرت انس فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے پاس سے گزرے اس حال میں کہ ہم بچے تھے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے بچو ! السلام علیکم۔

26289

(۲۶۲۹۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنِ الْحَکَمِ ، عَنْ شُرَیْحٍ ، أَنَّہُ کَانَ یُسَلِّمُ عَلَی الصِّبْیَانِ۔
(٢٦٢٩٠) حضرت حکم فرماتے ہیں کہ حضرت شریح بچوں کو سلام کیا کرتے تھے۔

26290

(۲۶۲۹۱) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ، عَنْ حَجَّاجٍ، عَنِ الْحَکَمِ، أَنَّ شُرَیْحًا کَانَ یَمُرُّ عَلَی الصِّبْیَانِ فَیُسَلِّمُ عَلَیْہِمْ۔
(٢٦٢٩١) حضرت حکم فرماتے ہیں کہ حضرت شریح جب بچوں پر گزرتے تھے تو آپ انھیں سلام کرتے تھے۔

26291

(۲۶۲۹۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ وَحَفْصٌ ، عَنْ حَنَشِ بْنِ الْحَارِثِ ، قَالَ : کَانَ عَمْرُو بْنُ مَیْمُونٍ یَمُرُّ عَلَیْنَا وَنَحْنُ صِبْیَانٌ فَیُسَلِّمُ عَلَیْنَا۔
(٢٦٢٩٢) حضرت حنش بن حارث فرماتے ہیں کہ حضرت عمرو بن میمون ہم بچوں کے پاس سے گزرتے تھے تو ہم پر سلام کرتے تھے۔

26292

(۲۶۲۹۳) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ، عَنْ أُبَیّ بن عَبْداللہِ قَالَ: کَانَ إِبرَاہِیم یَمُرُّ عَلَیْنَا وَنَحْنُ صِبْیَانٌ فَیُسَلِّمُ عَلَیْنَا۔
(٢٦٢٩٣) حضرت اُبیّ بن عبداللہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم جب ہم بچوں کے پاس سے گزرتے تھے تو آپ ہمیں سلام کرتے تھے۔

26293

(۲۶۲۹۴) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِی عَدِیٍّ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، قَالَ : کَانَ مُحَمَّدٌ یُسَلِّمُ عَلَی الصِّبْیَانِ ، وَلاَ یُسْمِعُہُمْ۔
(٢٦٢٩٤) حضرت ابن عون فرماتے ہیں کہ حضرت محمد بچوں پر سلام کرتے تھے اور ان کو سناتے نہیں تھے۔

26294

(۲۶۲۹۵) حَدَّثَنَا سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنِ ابْنِ أَبِی حُسَیْنٍ سَمِعَہُ مِنْ شَہْرٍ یَقُولُ : أَخْبَرَتْہُ أَسْمَائُ بِنْتُ یَزِیدَ ، قَالَتْ : مَرَّ عَلَیْنَا النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی نِسْوَۃٍ فَسَلَّمَ عَلَیْنَا۔ (ترمذی ۲۶۹۷۔ ابوداؤد ۵۱۶۲)
(٢٦٢٩٥) حضرت اسماء بنت یزید فرماتی ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم عورتوں پر گزرے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں سلام کیا۔

26295

(۲۶۲۹۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ طَارِقٍ التَّیْمِیِّ ، عَنْ جَرِیرٍ ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَرَّ عَلَی نِسْوَۃٍ فَسَلَّمَ عَلَیْہِنَّ۔ (احمد ۳/۳۶۳۔ ابویعلی ۷۵۰۶)
(٢٦٢٩٦) حضرت جریر فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عورتوں کے پاس سے گزرے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان پر سلام کیا۔

26296

(۲۶۲۹۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، أَنَّ ابْنَ عُمَرَ مَرَّ عَلَی امْرَأَۃٍ فِی ظلۃ فَسَلَّمَ عَلَیْہَا۔
(٢٦٢٩٧) حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عمر ایک عورت پر گزرے جو سایہ میں بیٹھی ہوئی تھی آپ نے اس کو سلام کیا۔

26297

(۲۶۲۹۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ بِشرِ بن حَرب قَالَ : رَأَیت ابن عُمَر مَرَّ عَلَی امْرَأَۃٍ فَسَلَّمَ عَلَیْہَا۔
(٢٦٢٩٨) حضرت بشر بن حرب فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عمر کو دیکھا کہ آپ ایک عورت کے پاس سے گزرے تو آپ نے اس کو سلام کیا۔

26298

(۲۶۲۹۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ ابن ذَرٍّ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، أَنَّ عُمَرَ مَرَّ عَلَی نِسْوَۃٍ فَسَلَّمَ عَلَیْہِنَّ۔
(٢٦٢٩٩) حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ حضرت عمر عورتوں پر سے گزرے تو آپ نے ان کو سلام کیا۔

26299

(۲۶۳۰۰) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ زُرْزُر ، قَالَ : سَأَلْتُ عَطَائً عَنِ السَّلاَمِ عَلَی النِّسَائِ فَقَالَ : إِنْ کُنَّ شَوَابَّ فَلاَ۔
(٢٦٣٠٠) حضرت زر فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عطائ سے عورتوں کو سلام کرنے کے بارے میں پوچھا ؟ آپ نے فرمایا : اگر وہ عورتیں جوان ہوں تو پھر نہ کرو۔

26300

(۲۶۳۰۱) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، قَالَ : قُلْتُ لِمُحَمَّدٍ : أُسَلِّمُ عَلَی الْمَرْأَۃِ ؟ قَالَ : لاَ أَعْلَمُ بِہِ بَأْسًا۔
(٢٦٣٠١) حضرت ابن عون فرماتے ہیں کہ میں نے امام محمد سے پوچھا : کہ کیا عورت کو سلام کیا جاسکتا ہے ؟ آپ نے فرمایا : میں اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتا۔

26301

(۲۶۳۰۲) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنِ الْحَسَنِ ، أَنَّہُ کَانَ لاَ یَرَی أَنْ یُسَلِّمَ الرَّجُلُ عَلَی الْمَرْأَۃِ إلاَّ أَنْ یَدْخُلَ عَلَیْہَا فِی بَیْتِہَا فَیُسَلِّمَ عَلَیْہَا۔
(٢٦٣٠٢) حضرت عمرو فرماتے ہیں کہ حضرت حسن بصری عورتوں کو سلام کرنے کی رائے نہیں رکھتے تھے ، مگر یہ کہ وہ اس عورت کے گھر میں داخل ہو تو اس کو سلام کرسکتا ہے۔

26302

(۲۶۳۰۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِیزِ بْنِ قُرَیْرٍ ، قَالَ : جَائَ رَجُلٌ إلَی الْحَسَنِ فَقَالَ : أُسَلِّمُ عَلَی النِّسَائِ ؟ قَالَ : الْحَقْ بِأَہْلِک۔
(٢٦٣٠٣) حضرت عبد العزیز قریر فرماتے ہیں کہ ایک آدمی حضرت حسن کے پاس آیا، اور پوچھا : کیا عورتوں کو سلام کیا جاسکتا ہے ؟ آپ نے فرمایا : تو اپنے گھر والی کے ساتھ مل جا کر ۔

26303

(۲۶۳۰۴) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَنْ زَائِدَۃَ ، عَنِ الْحَسَنِ عن عُبَیْدِ اللہِ ، قَالَ : کَانَ عَمْرُو بْنُ مَیْمُونٍ یُسَلِّمُ عَلَی النِّسَائِ وَالصِّبْیَانِ۔
(٢٦٣٠٤) حضرت عبید اللہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمرو بن میمون عورتوں اور بچوں کو سلام کیا کرتے تھے۔

26304

(۲۶۳۰۵) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ عُثْمَانَ، قَالَ: رَأَیْتُ مُوسَی بْنَ طَلْحَۃَ مَرَّ عَلَی نِسْوَۃٍ جُلُوسٍ فَسَلَّمَ عَلَیْہِنَّ۔
(٢٦٣٠٥) حضرت عمرو بن عثمان فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت موسیٰ بن طلحہ کو دیکھا کہ آپ بیٹھی ہوئی عورتوں کے پاس سے گزرے تو انھیں سلام کیا۔

26305

(۲۶۳۰۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، قَالَ : سَأَلْتُ الْحَکَمَ ، وَحَمَّادًا ، عَنِ السَّلاَمِ عَلَی النِّسَائِ فَکَرِہَہُ حماد عَلَی الشَّابَّۃِ وَالْعَجُوزِ ، وَقَالَ الْحَکَمُ : کَانَ شُرَیْحٌ یُسَلِّمُ عَلَی کُلِّ أَحَدٍ ، قُلْتُ : النِّسَائُ ؟ قَالَ : عَلَی کُلِّ أَحَدٍ۔
(٢٦٣٠٦) حضرت شعبہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت حکم اور حضرت حماد دونوں سے عورتوں کو سلام کرنے کے متعلق سوال کیا ؟ تو حضرت حماد نے بوڑھی اور جوان عورتوں پر سلام کرنے کو مکروہ سمجھا اور حضرت حکم نے فرمایا : حضرت شریح ہر ایک کو سلام کیا کرتے تھے، میں نے پوچھا : عورتوں کو بھی ؟ آپ نے فرمایا : ہر ایک کو سلام کرتے تھے۔

26306

(۲۶۳۰۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ الأَوْزَاعِیِّ ، عَنْ یَحْیَی ، عَنْ أَبِی قِلاَبَۃَ ، قَالَ : قَالَ أَبُو مَسْعُودٍ لأَبِی عَبْدِ اللہِ ، أَوْ قَالَ أَبُو عَبْدِ اللہِ لأَبِی مَسْعُودٍ : مَا سَمِعْت النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ فِی زَعَمُوا ؟ ، قَالَ : سَمِعْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : بِئْسَ مَطِیَّۃُ الرَّجُلِ : زَعَمُوا۔ (احمد ۵/۴۰۱۔ طحاوی ۱۸۵)
(٢٦٣٠٧) حضرت ابی قلابہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابو مسعود نے حضرت ابو عبداللہ سے پوچھا یا حضرت ابوعبداللہ نے حضرت ابو مسعود سے پوچھا : کہ تم نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے لفظ زعموا کے بارے میں کچھ سنا ہے ؟ آپ نے فرمایا : میں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یوں فرماتے ہوئے سنا کہ آدمی کی بدترین سواری یہ ہے کہ وہ کہے لوگ یہ سمجھتے ہیں۔

26307

(۲۶۳۰۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ، أَنَّہُ کَرِہَ زَعَمُوا۔
(٢٦٣٠٨) حضرت منصور فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود ” زعموا “ کہنے کو مکروہ سمجھتے تھے۔

26308

(۲۶۳۰۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ وَسُفْیَانُ ، عَنْ عَبْدِ رَبِّہِ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، أَنَّہُ کَرِہَ زَعَمُوا ، ثُمَّ قَرَأَ سُفْیَانُ {زَعَمَ الَّذِینَ کَفَرُوا}۔
(٢٦٣٠٩) حضرت عبدربہ فرماتے ہیں کہ حضرت مجاہد لفظ ” زعموا “ کے استعمال کرنے کو مکروہ سمجھتے تھے، پھر حضرت سفیان نے قرآن کی یہ آیت تلاوت فرمائی۔ زعم الذین کفروا۔

26309

(۲۶۳۱۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ شُرَیْحٍ ، قَالَ : زَعَمُوا زَامِلَۃُ الْکَذِبِ۔
(٢٦٣١٠) حضرت اعمش فرماتے ہیں کہ حضرت شریح نے لفظ ” زعموا “ کے بارے میں فرمایا کہ یہ جھوٹ کے تابع ہے۔

26310

(۲۶۳۱۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ قَیس ، عن أَبِی یَحیَی ، عن مُجَاہِد ، عن ابن عَون قَال : زَعَمُوا زَامِلَۃُ الْکَذِبِ ، فَلاَ تَکُونَنَّ لِلْکَذِبِ زَامِلَۃ۔
(٢٦٣١١) حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عون نے لفظ ” زعموا “ کے بارے میں فرمایا : یہ جھوٹ کے تابع ہے۔ اور تم ہرگز جھوٹ کے تابع مت بنو۔

26311

(۲۶۳۱۲) حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ سَعْدٍ أَبُو دَاوُدَ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ ہَانِئٍ ، قَالَ : قَالَ لِی أَبِی : یَا بُنَیَّ ، ہَبْ لِی من الْحَدِیثِ زَعَمُوا وَسَوْفَ۔
(٢٦٣١٢) حضرت یحییٰ بن ھانی فرماتے ہیں کہ میرے والد نے مجھے کہا : اے میرے بیٹے : اپنے کلام میں دو لفظوں کو استعمال کرنے سے بچو ۔ اور وہ یہ ہیں۔ ” زعموا “ اور ” سوف “ ۔

26312

(۲۶۳۱۳) حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِی عُبَیْدَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ وَثَّابٍ ، قَالَ : قَالَ لِی شُرَیْحٌ : إنَّ زَعَمُوا کُنْیَۃُ الْکَذِبِ۔
(٢٦٣١٣) حضرت یحییٰ بن وثاب فرماتے ہیں کہ حضرت شریح نے مجھ سے فرمایا : بیشک ” زعموا “ جھوٹ کی کنیت ہے۔

26313

(۲۶۳۱۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ مِسْعَرٍ ، عَنْ حَبِیبٍ ، قَالَ : سَأَلْتُ أَبَا قِلاَبَۃَ فَقَالَ : زَعَمُوا۔
(٢٦٣١٤) حضرت حبیب فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابو قلابہ سے سوال کیا ؟ تو آپ نے فرمایا : ” زعموا “ ۔

26314

(۲۶۳۱۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ قُرَّۃَ ، قَالَ : سَمِعْتُ الْحَسَنَ یَقُولُ : زَعَمُوا وَاللَّہِ۔
(٢٦٣١٥) حضرت قرہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت حسن کو بارہا یوں فرماتے ہوئے سنا : ” زعموا واللّٰہ “۔

26315

(۲۶۳۱۶) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ ثَابِتٍ ، قَالَ : قُلْتُ لابْنِ عُمَرَ : أَنُہِیَ ، عَنْ نَبِیذِ الْجَرِّ ، فَقَالَ : زَعَمُوا ذَلِکَ ، قَالَ : قُلْتُ : أَنْتَ سَمِعْتہ مِنْ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ؟ فَقَالَ : زَعَمُوا ذَلِکَ۔
(٢٦٣١٦) حضرت ثابت فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عمر سے پوچھا : کیا گھڑوں میں بنی ہوئی نبیذ سے منع کیا گیا ہے ؟ تو آپ نے فرمایا : ان لوگوں نے یوں کہا اور لفظ ” زعموا “ کا استعمال فرمایا۔ راوی کہتے ہیں : میں نے پوچھا : کیا آپ نے یہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا ہے ؟ آپ نے فرمایا : ان لوگوں نے یوں کہا ہے۔ اور لفظ ” زعموا “ کا آپ نے استعمال فرمایا۔

26316

(۲۶۳۱۷) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، أَنَّہُ سُئِلَ عَنْ شَیْئٍ فَقَالَ : زَعَمُوا۔
(٢٦٣١٧) حضرت مغیرہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم سے کسی چیز کے بارے میں سوال کیا جاتا ؟ تو آپ فرماتے : ان لوگوں نے یوں کہا : اور لفظ ” زعموا “ کا استعمال فرماتے۔

26317

(۲۶۳۱۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، قَالَ : سَأَلْتُ الْقَاسِمَ عَنِ الرَّجُلِ یُوتِرُ عَلَی رَاحِلَتِہِ ، قَالَ : زَعَمُوا أَنَّ ابْنَ عُمَرَ کَانَ یُوتِرُ بِالأَرْضِ۔
(٢٦٣١٨) حضرت ابن عون فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت قاسم سے اس آدمی کے بارے میں سوال کیا جو سواری پر وتر پڑھ لے ؟ آپ نے فرمایا : لوگ یوں کہتے ہیں کہ حضرت ابن عمر زمین پر وتر پڑھتے تھے اور آپ نے لفظ ” زعموا “ کا استعمال فرمایا۔

26318

(۲۶۳۱۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ عُثْمَانَ الثَّقَفِیِّ ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِی الْجَعْدِ ، عَنِ ابْنِ أبی عَمْرَۃ ، قَالَ : قیلَ یَا رَسُولَ اللہِ ، کَیْفَ أَصْبَحْت ؟ قَالَ : بِخَیْرٍ مِنْ قَوْمٍ لَمْ یَشْہَدُوا جِنَازَۃً وَلَمْ یَعُودُوا مَرِیضًا۔ (طبرانی ۷۳۲۹)
(٢٦٣١٩) حضرت ابو عمرہ فرماتے ہیں کہ پوچھا گیا : اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ نے کس حالت میں صبح کی ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : خیریت کے ساتھ اس قوم میں جو جنازے میں حاضر نہیں ہوتے اور نہ ہی مریض کی عیادت کرتے ہیں۔

26319

(۲۶۳۲۰) حَدَّثَنَا عِیسَی بْنُ یُونُسَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مُسْلِمٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَابِطٍ ، عَنْ جَابِرٍ ، قَالَ : قُلْتُ: کَیْفَ أَصْبَحْت یَا رَسُولَ اللہِ ؟ قَالَ : بِخَیْرٍ مِنْ رَجُلٍ لَمْ یُصْبِحْ صَائِمًا وَلَمْ یَعُدْ سَقِیمًا۔
(٢٦٣٢٠) حضرت جابر فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ نے کس حالت میں صبح کی ؟ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : خیر کے ساتھ اس آدمی سے بہتر جس نے صبح نہیں کی روزے دار کی حالت میں اور نہ کسی بیمار کی عیادت کی۔

26320

(۲۶۳۲۱) حَدَّثَنَا جَرِیرُ بْنُ عَبْدِ الْحَمِیدِ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ خَیْثَمَۃَ ، قَالَ : سَأَلْتُ عَائِشَۃَ : کَیْفَ أَصْبَحْت ؟ قَالَتْ : بِنِعْمَۃٍ مِنَ اللہِ۔
(٢٦٣٢١) حضرت خیثمہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ سے پوچھا : آپ نے کس حال میں صبح کی ؟ آپ نے فرمایا : اللہ کی نعمتوں کے ساتھ۔

26321

(۲۶۳۲۲) حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ مُعَاذٍ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، قَالَ : مَرَرْت بِعَامِرٍ الشَّعْبِیِّ وَہُوَ جَالِسٌ بِفِنَائِہِ فَقُلْت : کَیْفَ أَنْتَ؟ فَقَالَ : کَانَ شُرَیْحٌ إذَا قِیلَ لَہُ : کَیْفَ أَنْتَ ؟ قَالَ : بِنِعْمَۃٍ وَمَدَّ إصْبَعَہُ السَّبَّابَۃَ إلَی السَّمَائِ۔
(٢٦٣٢٢) حضرت ابن عون فرماتے ہیں کہ میں حضرت عامر شعبی کے پاس سے گزرا اس حال میں کہ وہ اپنے گھر کے صحن میں بیٹھے ہوئے تھے، تو میں نے پوچھا : آپ کیسے ہیں ؟ آپ نے فرمایا : جب حضرت شریح سے پوچھا جاتا کہ آپ کیسے ہیں ؟ تو وہ فرماتے : اس کی نعمتوں میں ہوں، اپنی شہادت کی انگلی سے آسمان کی طرف اشارہ کرتے تھے۔

26322

(۲۶۳۲۳) حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ مُعَاذٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا ابْنُ عَوْنٍ ، قَالَ : حدَّثَنِی بَکْرٌ ، قَالَ : قَالَ : قَالَ رَجُلٌ لأَبِی تَمِیمَۃَ الہُجَیمِی : کَیْفَ أَنْتُمْ ؟ قَالَ : بَیْنَ نِعْمَتَیْنِ : بَیْنَ ذَنْبٍ مَسْتُورٍ ، وَثَنَائٍ لاَ یَعْلَمُ بِہِ أَحَدٌ مِنْ ہَؤُلاَئِ النَّاسِ ، وَاللَّہِ مَا بَلَغْتُہُ ، وَلاَ أَنَا بِذَلِکَ۔
(٢٦٣٢٣) حضرت بکیر فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے حضرت ابو تمیمہ الہجیمی سے پوچھا : آپ کیسے ہیں ؟ ّآپ نے فرمایا : دو نعمتوں کے درمیان ہوں : ایک تو چھپے ہوئے گناہوں کے درمیان ہوں اور ایسی تعریف کے درمیان ہوں کہ ان لوگوں میں سے کوئی بھی اس کو نہیں جانتا اور اللہ کی قسم میں بھی اس تک نہیں پہنچا اور نہ میں اس قابل ہوں۔

26323

(۲۶۳۲۴) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، قَالَ : سَمِعْتُ إبْرَاہِیمَ وَسُلِّمَ عَلَیْہِ فَقَالَ : وَعَلَیْکُمْ ، فقیل لہ : کَیْفَ أَنْتَ ؟ قَالَ : بِنِعْمَۃٍ مِنَ اللہِ۔
(٢٦٣٢٤) حضرت مغیرہ فرماتے ہیں کہ جب حضرت ابراہیم کو سلام کیا جاتا تو آپ یوں جواب دیتے وعلیکم اور جب ان سے پوچھا جاتا : آپ کیسے ہیں ؟ تو آپ جواب دیتے اللہ کی نعمت میں ہوں۔

26324

(۲۶۳۲۵) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ آدَمَ ، قَالَ : حدَّثَنَا إبْرَاہِیمُ بْنُ حُمَیْدٍ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ بْنِ أَبِی خَالِدٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، أَنَّ رَجُلاً ، قَالَ لَہُ : کَیْفَ أَصْبَحْت یَا أَبَا عَمْرٍو ؟ فَقَالَ : بِنِعْمَۃٍ ، قُلْتُ : مِمَّنْ ؟ قَالَ : مِنَ اللہِ۔
(٢٦٣٢٥) حضرت اسماعیل بن ابی خالد فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے امام شعبی سے پوچھا : اے ابو عمرو ! آپ نے کس حالت میں صبح کی ؟ آپ نے فرمایا : نعمتوں میں۔ میں نے پوچھا : کس کی نعمت میں ؟ آپ نے فرمایا : اللہ کی نعمتوں میں۔

26325

(۲۶۳۲۶) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، قَالَ : کَانَ عَلِیٌّ إذَا سُئِلَ وَہُوَ مَرِیضٌ ، کَیْفَ أَنْتَ ؟ قَالَ : بِشَرٍّ : وَقَرَأَ ہَذِہِ الآیَۃَ : {وَنَبْلُوکُمْ بِالشَّرِّ وَالْخَیْرِ فِتْنَۃً}۔
(٢٦٣٢٦) حضرت مغیرہ فرماتے ہیں کہ حضرت علی سے جب بیماری کی حالت میں پوچھا جاتا کہ آپ کیسے ہیں ؟ آپ فرماتے بہت بری حالت میں اور یہ آیت تلاوت فرماتے۔ ترجمہ : اور ہم تمہیں آزمائیں گے خیر اور شر کے ساتھ۔

26326

(۲۶۳۲۷) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ أَیُّوبَ ، قَالَ : لَقِیَ رَجُلٌ عِکْرِمَۃَ بِالْمَدِینَۃِ فَقَالَ : کَیْفَ أَنْتَ ؟ قَالَ : أَنَا بِشَرٍّ یَدَایَ مُتَشَقِّقَتَانِ وَأَنَا کَذَا وَأَنَا وَکَذَا، قَالَ: وَکَانَ یَتَأَوَّلُ ہَذِہِ الآیَۃَ: {وَنَبْلُوکُمْ بِالشَّرِّ وَالْخَیْرِ فِتْنَۃً وَإِلَیْنَا تُرْجَعُونَ}۔
(٢٦٣٢٧) حضرت ایوب فرماتے ہیں کہ میں نے ایک آدمی کو دیکھا کہ وہ حضرت عکرمہ سے مدینہ میں ملا، اور پوچھا : آپ کیسے ہیں ؟ آپ نے فرمایا : بری حالت میں ہوں، میرے دونوں ہاتھ پھٹے ہوئے ہیں اور میں اس طرح اور اس طرح ہوں۔ راوی فرماتے ہیں کہ آپ اس آیت کی تاویل کرتے تھے۔ { وَنَبْلُوکُمْ بِالشَّرِّ وَالْخَیْرِ فِتْنَۃً وَإِلَیْنَا تُرْجَعُونَ }۔

26327

(۲۶۳۲۸) حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُوسَی ، قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ ، أَنَّ أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِیّ کَانَ إذَا قِیلَ لَہُ : کَیْفَ أَنْتَ ؟ قَالَ : بِخَیْرٍ نَحْمَدُ اللَّہَ ، قَالَ عَطَائٌ : فَذَکَرْت ذَلِکَ لأَبِی الْبَخْتَرِیِّ فَقَالَ : أَنَّی أَخْذُہَا ؟ ثَلاَثًا۔
(٢٦٣٢٨) حضرت عطاء بن مبارک فرماتے ہیں کہ حضرت ابو عبد الرحمن سلمی سے جب پوچھا جاتا : کہ آپ کیسے ہیں ؟ تو آپ فرماتے خیریت کے ساتھ اور ہم اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں۔ حضرت عطاء فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابو البختری کے سامنے یہ ذکر کیا تو آپ نے تین مرتبہ فرمایا : انھوں نے یہ طریقہ کہاں سے لیا ؟

26328

(۲۶۳۲۹) حَدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، قَالَ : لَقِیَ رَجُلٌ مُحَمَّدًا فَقَالَ : کَیْفَ أَنْتَ ؟ قَالَ : بِشَرٍّ ، أَجُوعُ فَلاَ أَسْتَطِیعُ أَنْ أَشْبَعَ ، وَأَعْطَشُ فَلاَ أَسْتَطِیعُ أَنْ أُرْوَی۔
(٢٦٣٢٩) حضرت ابن عون فرماتے ہیں کہ ایک آدمی امام محمد سے ملا اور پوچھا : آپ کیسے ہیں ؟ آپ نے فرمایا : بہت بری حالت میں ہوں۔ مجھے بھوک لگتی ہے اور میں اتنی طاقت نہیں رکھتا کہ میں سیر ہو سکوں اور مجھے پیاس لگتی ہے اور میں طاقت نہیں رکھتا کہ میں پیاس بجھا لوں۔

26329

(۲۶۳۳۰) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ زَائِدَۃَ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : کَانُوا یَکْرَہُونَ أَنْ تُوطَأَ أَعْقَابُہُمْ۔ (دارمی ۵۲۴)
(٢٦٣٣٠) حضرت منصور فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم نے ارشاد فرمایا : صحابہ اس بات کو ناپسند کرتے تھے کہ ان کے پیچھے چلا جائے ۔

26330

(۲۶۳۳۱) حَدَّثَنَا سُوَیْد بْنُ عَمْرٍو الْکَلْبِیُّ ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَۃَ ، عَنْ ثَابِتٍ ، عنْ شُعَیْبِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : مَا رُئِیَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَأْکُلُ مُتَّکِئًا قَطُّ ، وَلاَ یَطَأُ عَقِبَیہِ رَجُلاَنِ۔ (ابوداؤد ۳۷۶۴۔ احمد ۲/۱۶۵)
(٢٦٣٣١) حضرت عبداللہ بن عمرو فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کبھی نہیں دیکھا گیا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ٹیک لگا کر کھانا کھایا ہو اور نہ ہی کبھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیچھے دو آدمی چلے۔

26331

(۲۶۳۳۲) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ التَّیْمِیِّ ، عَنِ الْحَارِثِ بْنِ سُوَیْد ، أَنَّ عَمَّارًا دَعَا عَلَی رَجُلٍ فَقَالَ : اللَّہُمَّ إِنْ کَانَ کَاذِبًا فَابْسُطْ لَہُ الدُّنْیَا وَاجْعَلْہُ مَوْطِأَ الْعَقِبَیْنِ۔
(٢٦٣٣٢) حضرت حارث بن سوید فرماتے ہیں کہ حضرت عمار نے ایک آدمی کو یوں بد دعا دی۔ اے اللہ ! اگر یہ شخص جھوٹا ہے تو تو اس کے لیے دنیا کو کشادہ کر دے اور اس کو ایسا بنا دے کہ اس کے پیچھے پیچھے لوگ چلیں۔

26332

(۲۶۳۳۳) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ مِسْعَرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ قَیْسٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ أَبِی قُرَّۃَ الْکِنْدِیِّ ، قَالَ : انْطَلَقَ سَلْمَانُ، وَأَبِی حَتَّی أَتَیَا دَارَ سَلْمَانَ ، وَدَخَلَ سَلْمَانُ الدَّارَ فَقَالَ: السَّلاَمُ عَلَیْکُمْ ، ثُمَّ أَذِنَ لأَبِی قُرَّۃَ۔
(٢٦٣٣٣) حضرت عمرو بن ابی قرۃ الکندی فرماتے ہیں کہ حضرت سلمان اور میرے والد چلے یہاں تک کہ یہ دونوں حضرت سلمان کے گھر پہنچے اور حضرت سلمان گھر میں داخل ہوئے اور فرمایا : السلام علیکم ، پھر آپ نے ابو قرہ کو داخل ہونے کی اجازت دی۔

26333

(۲۶۳۳۴) حَدَّثَنَا ابن فُضَیْلٌ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ ، عَنْ عَطَائٍ ، قَالَ : إذَا دَخَلْت عَلَی أَہْلِکَ فَقُلْ : السَّلاَمُ عَلَیْکُمْ تَحِیَّۃً مِنْ عِنْدِ اللہِ مُبَارَکَۃً طَیِّبَۃً۔
(٢٦٣٣٤) حضرت عبد الملک فرماتے ہیں کہ حضرت عطائ نے ارشاد فرمایا : جب تم اپنے گھر والوں پر داخل ہو تو یوں کہو : السلام علیکم : ترجمہ : سلام نیک دعا ہے اللہ کے یہاں سے برکت والی ستھری۔

26334

(۲۶۳۳۵) حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ ، عَنْ حُصَیْنٍ ، عَنْ أَبِی مَالِکٍ الْغِفَارِیِّ ، قَالَ : إذَا دَخَلْت عَلَی أَہْلِکَ فَقُلْ : السَّلاَمُ عَلَیْکُمْ۔
(٢٦٣٣٥) حضرت حصین فرماتے ہیں کہ حضرت ابو مالک الغفاری نے ارشاد فرمایا : جب تو اپنے گھر والوں پر داخل ہو تو یوں کہہ، السلام علیکم۔

26335

(۲۶۳۳۶) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ الْحُبَابِ ، عَنْ أَبِی خَلْدَۃَ ، قَالَ : دَخَلْت مَعَ أَبِی الْعَالِیَۃِ بَیْتَہُ فَسَلَّمَ وَلَیْسَ فِیہِ أَحَدٌ ، وَقَالَ شَیْئًا لَمْ أَفْہَمْہُ۔
(٢٦٣٣٦) حضرت ابو خلدہ فرماتے ہیں کہ میں حضرت ابو العالیہ کے ساتھ ان کے گھر میں داخل ہوا تو آپ نے سلام کیا حالانکہ گھر میں کوئی نہیں تھا اور کچھ کلمات پڑھے جن کو میں سمجھ نہیں سکا۔

26336

(۲۶۳۳۷) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبرنا ابْنُ عَوْنٍ ، عَنْ مُحَمَّدٍ فِی قَوْلِہِ تَعَالَی : {وَالَّذِینَ لَمْ یَبْلُغُوا الْحُلُمَ مِنْکُمْ} قَالَ : کَانَ أَہْلُونَا یُعَلِّمُونَا أَنْ نُسَلِّمَ ، وَکَانَ أَحَدُنَا إذَا جَائَ یَقُولُ : السَّلاَمُ عَلَیْکُمْ ، أَیَدْخُلُ فُلاَنٌ ؟۔
(٢٦٣٣٧) حضرت ابن عون فرماتے ہیں کہ امام محمد نے اللہ رب العزت کے اس قول : { وَالَّذِینَ لَمْ یَبْلُغُوا الْحُلُمَ مِنْکُمْ } ترجمہ : اور تم میں سے وہ لوگ جو بلوغ کو پہنچ چکے ہیں۔
اس کے بارے میں ارشاد فرمایا : کہ ہمارے گھر والے ہمیں سکھاتے تھے کہ ہم سلام کریں اور جب ہم میں کوئی آتا تو وہ یوں کہتا۔ السلام علیکم۔ کیا فلاں داخل ہوجائے ؟۔

26337

(۲۶۳۳۸) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللہِ الأَسَدِیُّ ، قَالَ : حدَّثَنَا مَعْقِلٌ ، عَنْ عَبْدِ الْکَرِیمِ ، قَالَ : کَانَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیزِ إذَا دَخَلَ بَیْتًا ، قَالَ : بِسْمِ اللہِ وَالْحَمْدُ لِلَّہِ ، وَلاَ قُوَّۃَ إلاَّ بِاَللَّہِ وَالسَّلاَمُ عَلَی نَبِیِّ اللہِ ، اللَّہُمَّ افْتَحْ لِی أَبْوَابَ رَحْمَتِکَ {وَأَدْخِلْنِی مُدْخَلَ صِدْقٍ وَأَخْرِجْنِی مُخْرَجَ صِدْقٍ وَاجْعَلْ لِی مِنْ لَدُنْک سُلْطَانًا نَصِیرًا} وَہَبْ لِی مِنْ لَدُنْک رَحْمَۃً ، إنَّک أَنْتَ الْوَہَّابُ ، اللَّہُمَّ احْفَظْنِی مِنْ فَوْقِی أَنْ أُخْتَطَفَ ، وَمِنْ تَحْتِ رِجْلِی أَنْ یُخْسَفَ بِی ، وَعَنْ یَمِینِی ، وَعَنْ شِمَالِی مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیمِ۔
(٢٦٣٣٨) حضرت عبد الکریم فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن عبد العزیز جب گھر میں داخل ہوتے تو یہ کلمات کہتے۔ ترجمہ : اللہ کے نام کے ساتھ داخل ہوتا ہیں۔ اور سب تعریفیں اللہ کے لیے ہیں ، نیکی کرنے کی طاقت نہیں ہے مگر اللہ کی مدد سے، اور اللہ کے نیا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر سلام ہو، اے اللہ ! تو میرے لیے اپنی رحمت کے دروازے کھول دے، اور تو مجھے سچائی کی جگہ میں داخل فرما اور مجھے سچائی کی جگہ نکال اور خالص کر دے میرے لیے اپنی جناب سے واضح مدد اور اپنی طرف سے مجھے رحمت عطا فرما، بیشک تو بہت عطا فرمانے والا ہے۔ اے اللہ ! تو اوپر سے میری حفاظت فرما اس بات سے کہ میں اچک لیا جاؤں، اور میری دونوں ٹانگوں کے نیچے سے بھی میری حفاظت فرما اس بات سے کہ میں اس میں دھنس جاؤں، اور میرے دائیں اور بائیں سے بھی حفاظت فرما شیطان مردود سے۔

26338

(۲۶۳۳۹) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ ، عَنْ أَبِی عُبَیْدَۃَ ، قَالَ : کَانَ عَبْدُ اللہِ إذَا دَخَلَ دَارَہُ اسْتَأْنَسَ وَتَکَلَّمَ ، ثُمَّ رَفَعَ صَوْتَہُ۔
(٢٦٣٣٩) حضرت ابو عبیدہ فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود جب اپنے گھر مں داخل ہوتے تو مانوس ہوتے اور بات کرتے پھر اپنی آواز کو بلند کرتے۔

26339

(۲۶۳۴۰) حَدَّثَنَا ابْنُ المُبَارَکِ ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، أَنَّ یَہُودِیًّا حَلَبَ لِلنَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَاقَۃً فَقَالَ : اللَّہُمَّ جَمِّلْہُ ، فَاسْوَدَّ شَعْرُہُ۔ (ابوداؤد ۴۹۲)
(٢٦٣٤٠) حضرت قتادہ فرماتے ہیں کہ ایک یہودی نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے اونٹنی کا دودھ دھویا۔ اس پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو یوں دعا دی : اے اللہ ! تو اس کو خوبصورت بنا دے، پس اس کے بال سیاہ ہوگئے۔

26340

(۲۶۳۴۱) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : لاَ بَأْسَ أَن تَقُول للیَہُودِی ہَدَاکَ اللہ۔
(٢٦٣٤١) حضرت منصور فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم نے ارشاد فرمایا : اس میں کوئی حرج نہیں ہے کہ تم یہودی کو یوں کہو : ھداک اللہ۔ اللہ تمہیں ہدایت دے۔

26341

(۲۶۳۴۲) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : جَائَ یَہُودِیٌّ إلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ : ادْعُ اللَّہَ لِی ، فَقَالَ : کَثَّرَ اللَّہُ مَالَک وَوَلَدَک وَأَصَحَّ جِسْمَک وَأَطَالَ عُمْرَک۔
(٢٦٣٤٢) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ ایک یہودی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آیا اور کہنے لگا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ سے میرے حق میں دعا فرما دیجئے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ تیرے حال اور تیری اولاد کو بڑھا دے اور تیرے جسم کو صحت مند کر دے اور تیری عمر کو لمبا کر دے۔

26342

(۲۶۳۴۳) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ، عَنْ أَبِی سِنَانٍ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ، قَالَ: لَوْ قَالَ لِی فِرْعَوْنُ بَارَکَ اللَّہُ فِیک لَقُلْت وَفِیک۔
(٢٦٣٤٣) حضرت ابو سنان فرماتے ہیں کہ حضرت سعید بن جبیر نے ارشاد فرمایا : اگر فرعون بھی مجھے کہے : بارک اللّٰہ فیک : اللہ تجھ میں برکت دے تو میں بھی کہوں گا اور تجھ میں بھی۔

26343

(۲۶۳۴۴) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ ، عَنْ جَابِرٍ ، قَالَ : سَأَلْتُہ عَنِ الرَّجُلِ یَسْتَأْذِنُ عَلَیَّ ، وَلاَ یُسَلِّمُ آذَنُ لَہُ ؟ قَالَ : أَکْرَہُ أَنْ آذَنَ لَہُ وَالنَّاسُ یَفْعَلُونَہُ۔
(٢٦٣٤٤) حضرت ابو الزبیر فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت جابر سے اس آدمی کے بارے میں سوال کیا : جو مجھ سے اجازت تو طلب کرے اور سلام نہ کرے کیا میں اسے اجازت دے دوں ؟ آپ نے فرمایا : میں ناپسند کرتا ہوں کہ میں اس کو اجازت دوں اور لوگ تو ایسے ہی کرتے ہیں۔

26344

(۲۶۳۴۵) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ ، عَنْ عَطَائٍ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : لاَ تَأْذَنُوا حَتَّی تُؤْذَنُوا بِالسَّلاَمِ۔
(٢٦٣٤٥) حضرت عطائ فرماتے ہیں کہ حضرت ابوہریرہ نے ارشاد فرمایا : تم اجازت نہ دو ، یہاں تک کہ سلام کے ذریعہ تم سے اجازت مانگی جائے۔

26345

(۲۶۳۴۶) حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ عَیَّاشٍ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِی الأَحْوَص ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : إذَا دُعِیت ، فَہُوَ إذْنُک ، فَسَلِّمْ ، ثُمَّ ادْخُلْ۔
(٢٦٣٤٦) حضرت ابو الاحوص فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود نے ارشاد فرمایا : جب تجھے بلایا گیا ہو تو یہ تیرے لیے اجازت ہے، پس سلام کر پھر داخل ہوجا۔

26346

(۲۶۳۴۷) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنِ الْجُرَیْرِیِّ ، عَنِ ابْنِ بُرَیْدَۃَ ، قَالَ : اسْتَأْذَنَ رَجُلٌ عَلَی رَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَہُوَ قَائِمٌ عَلَی الْبَابِ فَقَالَ : أَدْخُلُ ، ثَلاَثَ مَرَّاتٍ ، وَہُوَ یَنْظُرُ إلَیْہِ ، فَلَمْ یَأْذَنْ لَہُ ، ثُمَّ قَالَ : السَّلاَمُ عَلَیْکُمْ أَدْخُلُ ، فَقَالَ : ادْخُلْ ، ثُمَّ قَالَ : لَوْ أَقَمْت إلَی اللَّیْلِ تَقُولُ أَدْخُلُ ، مَا أَذِنْت لَکَ حَتَّی تَبْدَأَ بِالسَّلاَمِ۔
(٢٦٣٤٧) حضرت ابن بریدہ فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ میں سے کسی صحابی سے اجازت مانگی اس حال میں کہ وہ دروازے پر کھڑے ہوئے تھے۔ اس شخص نے تین مرتبہ کہا۔ کیا میں داخل ہو جاؤں ؟ آپ اس کی طرف دیکھ رہے تھے مگر س کو اجازت نہیں دی۔ پھر اس نے ان سے یوں پوچھا : السلام علیکم کیا میں داخل ہو جاؤں ؟ آپ نے اس سے کہا : داخل ہو جاؤ ۔ پھر فرمایا : اگر تم پوری رات بھی کھڑے ہو کر کہتے رہتے کہ کیا میں داخل ہو جاؤں ؟ تو میں تمہیں اجازت نہ دیتا یہاں تک کہ تم سلام سے ابتداء کرتے۔

26347

(۲۶۳۴۸) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ صَالِحٍ القُدادی ، قَالَ : بَعَثَنِی أَہْلِی إلَی سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ بِہَدِیَّۃٍ ، فَانْتَہَیْت إلَی الْبَابِ وَہُوَ یَتَوَضَّأُ فَقُلْتُ : أَدْخُلُ ؟ فَسَکَتَ ثَلاَثًا ، قَالَ : قُلْ : السَّلاَمُ عَلَیْکُمْ ، قَالَ : فَدَخَلْت فَقَالَ : لَمْ أَرَک تَہْتَدِی إلَی السُّنَّۃِ فَعَلَّمْتُک۔
(٢٦٣٤٨) حضرت صالح القدادی فرماتے ہیں کہ میرے گھر والوں نے مجھے حضرت سعید بن جبیر کے پاس ہدیہ دے کر بھیجا، میں ان کے دروازے پر پہنچا اس حال میں کہ وہ وضو فرما رہے تھے۔ میں نے کہا : کیا میں داخل ہو جاؤں ؟ پس وہ تین دفعہ خاموش رہے۔ فرمایا : یوں کہو : السلام علیکم۔ راوی کہتے ہیں، پھر میں داخل ہوگیا تو آپ نے فرمایا : میں نے تمہیں سنت کے راستہ پر چلتے ہوئے نہیں دیکھا لہٰذا میں نے تمہیں سنت سکھا دی۔

26348

(۲۶۳۴۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْکَدِرِ ، عَنْ جَابِرٍ ، قَالَ : اسْتَأْذَنْت النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ : مَنْ ہَذَا ؟ فَقُلْت : أَنَا ، فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : أَنَا أَنَا۔ (بخاری ۶۲۵۰۔ مسلم ۳۸)
(٢٦٣٤٩) حضرت جابر فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اجازت طلب کی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا : یہ کون شخص ہے ؟ میں نے کہا : میں ہوں۔ اس پر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میں میں ! میں میں کیا ہوتا ہے۔

26349

(۲۶۳۵۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ عِمْرَانَ ، عَنْ أَبِی مِجْلَزٍ ، قَالَ : کَانَ ابْنُ عُمَرَ إذَا اسْتَأْذَنَ فَقِیلَ لَہُ : ادْخُلْ بِسَلاَمٍ ، رَجَعَ ، قَالَ : لاَ أَدْرِی أَدْخُلُ بِسَلاَمٍ ، أَوْ بِغَیْرِ سَلاَمٍ۔
(٢٦٣٥٠) حضرت ابو مجلز فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عمر جب اجازت طلب کرتے اور ان کو یوں کہہ دیا جاتا، کہ سلامتی کے ساتھ داخل ہوجاؤ، تو آپ واپس لوٹ جاتے اور فرماتے میں نہیں جانتا کہ میں سلامتی کے ساتھ ہوں گا یا بغیر سلامتی کے ؟

26350

(۲۶۳۵۱) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ یُونُسَ ، عَنْ أَبِی الجَراح ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَہْلِ الْحِجَازِ ، قَالَ : قالَتِ امْرَأَتِی: ائْتِنِی بِأَبِی ہُرَیْرَۃَ حَتَّی أَسْتَفْتِیَہُ ، عَنْ بَعْضِ شأنی، فَأَتَیْتہ، فَجَائَ مَعِی، فَلَمَّا انْتَہَیْنَا إلَی الْبَابِ ، قَالَ: ادْخُلِ الدَّارَ، فَدَخَلْت فَقُلْت : ہَذَا أَبُو ہُرَیْرَۃَ قَدْ جَائَ فَقَالَ : السَّلاَمُ عَلَیْکُمْ أَدْخُلُ ، فَقُلْنَا : ادْخُلْ بِسَلاَمٍ ، فَعَادَ فَقَالَ : السَّلاَمُ عَلَیْکُمْ أَدْخُلُ ، فَقُلْنَا : ادْخُلْ بِسَلاَمٍ ، قَالَ : قُولُوا : ادْخُلْ ، فَقَالَ : السَّلاَمُ عَلَیْکُمْ أَدْخُلُ ؟ فَقُلْنَا لَہُ : ادْخُلْ ، فَدَخَلَ۔
(٢٦٣٥١) حضرت ابو الجراح فرماتے ہیں کہ اہل حجاز میں سے ایک آدمی نے بیان کیا کہ میری بیوی نے مجھے کہا : تم حضرت ابوہریرہ کو میرے پاس لے آؤ یہاں تک کہ میں ان سے اپنے متعلق فتویٰ پوچھ لوں ، پس میں آپ کے پاس آیا تو آپ میرے ساتھ آگئے، جب ہم دروازے پر پہنچے تو آپ نے فرمایا : گھر میں داخل ہو جاؤ ، تو میں داخل ہوگیا اور میں نے کہا : یہ حضرت ابوہریرہ آگئے ہیں۔ آپ نے فرمایا : السلام علیکم : کیا میں داخل ہو جاؤں ؟ ہم نے کہا : آپ سلامتی کے ساتھ داخل ہوجائیں۔ آپ نے دو بارہ کہا : السلام علیکم، کیا میں داخل ہو جاؤں ؟ ہم نے پھر کہا : آپ سلامتی کے ساتھ داخل ہوجائیں۔ آپ نے فرمایا : تم لوگ یوں کہو کہ داخل ہوجائیں۔ آپ نے پوچھا : السلام علیکم، کیا میں داخل ہو جاؤں ؟ ہم نے ان سے کہا : داخل ہوجائیں ۔ پس آپ داخل ہوگئے۔

26351

(۲۶۳۵۲) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنْ عِکْرِمَۃَ ، قَالَ : إذَا دَخَلْت بَیْتًا لَیْسَ فِیہِ أَحَدٌ فَقُلْ : السَّلاَمُ عَلَیْنَا وَعَلَی عِبَادِ اللہِ الصَّالِحِینَ۔
(٢٦٣٥٢) حضرت عمرو فرماتے ہیں کہ حضرت عکرمہ نے ارشاد فرمایا : جب تم ایسے گھر میں داخل ہو جس میں کوئی نہ ہو تو تم یوں کہو : (السَّلاَمُ عَلَیْنَا وَعَلَی عِبَادِ اللہِ الصَّالِحِینَ ) سلامتی ہو ہم پر اور اللہ کے نیک بندوں پر۔

26352

(۲۶۳۵۳) حَدَّثَنَا حُمَیْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ؛ فِی الرَّجُلِ یَدْخُلُ فِی الْبَیْتِ ، أَوْ فِی الْمَسْجِدِ لَیْسَ فِیہِ أَحَدٌ ، قَالَ : یَقُولُ : السَّلاَمُ عَلَیْنَا وَعَلَی عِبَادِ اللہِ الصَّالِحِینَ۔
(٢٦٣٥٣) حضرت نافع فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عمر نے اس آدمی کے بارے میں جو کسی گھر یا مسجد میں داخل ہو اور وہاں کوئی نہ ہو یوں ارشاد فرمایا : کہ وہ شخص یوں کہے۔ (السَّلاَمُ عَلَیْنَا وَعَلَی عِبَادِ اللہِ الصَّالِحِینَ ) ۔

26353

(۲۶۳۵۴) حَدَّثَنَا أَبو الأَحوص ، عَن مَنْصُورٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالَ : قُل : السَّلاَمُ عَلَیْنَا وَعَلَی عِبَادِ اللہِ الصَّالِحِینَ۔
(٢٦٣٥٤) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ تم یہ کہو : ہم پر اور اللہ کے نیک بندوں پر سلامتی ہو۔

26354

(۲۶۳۵۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ أَبِی سِنَانٍ ، عَنْ مَاہَانَ فِی قَوْلِہِ تَعَالَی : {فَإِذَا دَخَلْتُمْ بُیُوتًا فَسَلِّمُوا عَلَی أَنْفُسِکُمْ تَحِیَّۃً مِنْ عِنْدِ اللہِ مُبَارَکَۃً طَیِّبَۃً} قَالَ : تَقُولُ : السَّلاَمُ عَلَیْنَا مِنْ رَبِّنَا۔
(٢٦٣٥٥) حضرت ابو سنان فرماتے ہیں کہ حضرت ماھان نے اللہ رب العزت کے اس قول : { فَإِذَا دَخَلْتُمْ بُیُوتًا فَسَلِّمُوا عَلَی أَنْفُسِکُمْ تَحِیَّۃً مِنْ عِنْدِ اللہِ مُبَارَکَۃً طَیِّبَۃً } کے بارے میں یوں ارشاد فرمایا : کہ وہ آدمی یوں سلام کرے : (السَّلاَمُ عَلَیْنَا مِنْ رَبِّنَا) ہم پر ہمارے رب کی طرف سے سلامتی ہو۔

26355

(۲۶۳۵۶) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ، عَنْ عَبْدِالْکَرِیمِ، عَنْ مُجَاہِدٍ، قَالَ: تَقُولُ: السَّلاَمُ عَلَیْنَا، وَعَلَی عِبَادِ اللہِ الصَّالِحِینَ۔
(٢٦٣٥٦) حضرت عبدالکریم فرماتے ہیں کہ حضرت مجاہد یوں فرماتے تھے : السَّلاَمُ عَلَیْنَا، وَعَلَی عِبَادِ اللہِ الصَّالِحِینَ ۔

26356

(۲۶۳۵۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ عَبْدِ الْکَرِیمِ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، قَالَ : إِذَا دَخَلْتَ بَیْتًا ، لَیْسَ فِیہِ أَحَدٌ ، فَقُلْ بِسْمِ اللہِ ، الْحَمْدُ لِلَّہِ ، السَّلاَمُ عَلَیْنَا ، وَعَلَی عِبَادِ اللہِ الصَّالِحِینَ۔
(٢٦٣٥٧) حضرت عبد الکریم فرماتے ہیں کہ حضرت مجاہد نے ارشاد فرمایا : جب تم کسی گھر میں داخل ہو جہاں کوئی بھی نہ ہو تو تم یوں کہو : ” اللہ کے نام کے ساتھ داخل ہوتا ہوں ۔ سب تعریفیں اللہ کے لیے ہیں۔ ہم پر اور اللہ کے نیک بندوں پر سلامتی ہو۔ “

26357

(۲۶۳۵۸) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ، عَنْ عَبْدِالْمَلِکِ ، عَنْ عَطَائٍ ، قَالَ: إذَا لَمْ یَکُنْ فِیہِ أَحَدٌ فَقُلْ: السَّلاَمُ عَلَیْنَا مِنْ رَبِّنَا۔
(٢٦٣٥٨) حضرت عبد الملک فرماتے ہیں کہ حضرت عطائ نے ارشاد فرمایا : جب گھر میں کوئی نہ ہو تو یوں کہا کرو۔ السلام علینا من ربنا۔ ہم پر ہمارے رب کی طرف سے سلامتی ہو۔

26358

(۲۶۳۵۹) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، قَالَ: حدَّثَنَا ابْنُ عَوْنٍ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ ، أَنَّ رَجُلاً کَتَبَ لابْنِ عُمَرَ: بِسْمِ اللہِ لِفُلاَنٍ، فَقَالَ : ابْنُ عُمَرَ : مَہْ ، إنَّ اسْمَ اللہِ ہُوَ لَہُ وَحْدَہُ۔
(٢٦٣٥٩) حضرت ابن سیرین فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے حضرت ابن عمر کو خط میں یوں لکھا : اللہ کے نام کے ساتھ فلاں شخص کے لیے، اس پر حضرت ابن عمر نے فرمایا : رک جاؤ۔ یقیناً اللہ کا نام صرف اسی کے لیے خاص ہے۔

26359

(۲۶۳۶۰) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : کَانَ یُکْرَہُ أَنْ یُکْتَبَ أَوَّلَ الرِّسَالَۃِ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمَن الرَّحِیمِ لِفُلاَنٍ ، وَلاَ یَرَی بَأْسًا أَنْ یُکْتَبَ فِی أول والعُنْوان۔
(٢٦٣٦٠) حضرت مغیرہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم خط کے شروع میں یوں لکھنے کو مکروہ سمجھتے تھے ۔ بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم لفلان۔ اور اس کو پتہ کے شروع میں لکھنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے۔

26360

(۲۶۳۶۱) حَدَّثَنَا ابْنُ مَہْدِیٍّ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَۃَ، عَنْ حُمَیْدٍ، عَنْ بَکْرٍ، قَالَ: أکْتُبْ إلَی فُلاَنٍ، وَلاَ أکْتُبْ لِفُلاَنٍ۔
(٢٦٣٦١) حضرت حمید فرماتے ہیں کہ حضرت بکر نے ارشاد فرمایا : یوں لکھا کرو۔ (الی فلان) فلاں آدمی کی طرف ، یوں مت لکھا کرو ۔ لِفلان۔ یعنی فلاں آدمی کے لیے۔

26361

(۲۶۳۶۲) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ یَمَانٍ ، عَنْ إسْرَائِیلَ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ بْنِ سَلمان ، عَنْ دِینَارٍ ، عَنِ ابْنِ الْحَنَفِیَّۃِ ، قَالَ : لاَ بَأْسَ أَنْ یَکْتُبَ : بِسْمِ اللہِ لِفُلاَنٍ۔
(٢٦٣٦٢) حضرت دینار فرماتے ہیں کہ حضرت ابن حنفیہ نے ارشاد فرمایا : کہ بسم اللّٰہ لفلان لکھنے میں کوئی حرج کی بات نہیں ہے۔

26362

(۲۶۳۶۳) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ یَمَانٍ ، عَنْ إسْرَائِیلَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ مِثْلُہُ۔
(٢٦٣٦٣) امام شعبی سے مذکورہ ارشاد اس سند سے منقول ہے۔

26363

(۲۶۳۶۴) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، أَنَّہُ قَالَ : إذَا کَتَبَ کَتَبَ : السَّلاَمُ عَلَیْک فِیمَا أَحْمَدُ اللَّہَ الَّذِی لاَ إلَہَ إلاَّ ہُوَ وَہُوَ لِلْحَمْدِ أَہْلٌ تَبَارَکَ وَتَعَالَی : {لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ وَہُوَ عَلَی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیرٌ}۔
(٢٦٣٦٤) حضرت منصور فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم جب خط لکھتے تو یوں لکھتے : السلام علیک۔ ترجمہ : اس میں میں اللہ کی حمد بیان کرتا ہوں جس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور وہی حمد کا اہل ہے۔ اس کی ذات بابرکت اور بلند ہے۔ اس ہی کا ملک اور اس ہی کی تعریف ہے اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔

26364

(۲۶۳۶۵) حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سُوقَۃَ ، قَالَ : أَتَیْتُ نُعَیْمَ بْنَ أَبِی ہِنْدٍ فَأَخْرَجَ إلَیَّ صَحِیفَۃً فَإِذَا فِیہَا مِنْ أَبِی عُبَیْدَۃَ بْنِ الْجَرَّاحِ وَمُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ إلَی عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ سَلاَمٌ عَلَیْک أَمَّا بَعْدُ فَکَتَبَ إلَیْہِمَا مِنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ إلَی أَبِی عُبَیْدَۃَ بْنِ الْجَرَّاحِ وَمُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ سَلاَمٌ عَلَیْکُمَا أَمَّا بَعْدُ۔
(٢٦٣٦٥) حضرت محمد بن سوقہ فرماتے ہیں کہ میں حضرت نعیم بن ابی ھند کے پاس آیا تو آپ نے مجھے ایک صحیفہ نکال کر دکھایا اس میں یوں لکھا ہوا تھا۔ ابو عبیدہ بن جراح اور معاذ بن جبل کی جانب سے حضرت عمر بن خطاب کی طرف ۔ آپ پر سلامتی ہو ۔ اما بعد : حمدو صلوۃ کے بعد اور پھر جب حضرت عمر نے ان دونوں کو خط کا جواب لکھا تو وہ یوں تھا۔ عمر بن خطاب کی جانب سے حضرت ابو عبیدہ بن جراح اور حضرت معاذ بن جبل کی طرف، تم دونوں پر سلام ہو، اما بعد۔

26365

(۲۶۳۶۶) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ زَکَرِیَّا بْنِ أَبِی زَائِدَۃَ ، عَنِ الْعَبَّاسِ بْنِ ذَرِیحٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : کَتَبَتْ عَائِشَۃُ إلَی مُعَاوِیَۃَ : أَمَّا بَعْدُ۔
(٢٦٣٦٦) امام شعبی فرماتے ہیں کہ حضرت عائشہ نے حضرت معاویہ کی طرف خط لکھا تو اس میں لکھا : اما بعد۔

26366

(۲۶۳۶۷) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنْ أَبِی قِلاَبَۃَ ، قَالَ : حدَّثَنِی مَنْ قَرَأَ کِتَابَ عُثْمَانَ ، أَوْ مَنْ قُرِیء عَلَیْہِ: أَمَّا بَعْدُ۔
(٢٦٣٦٧) حضرت ابو قلابہ فرماتے ہیں کہ مجھے اس شخص نے بیان کیا جس نے حضرت عثمان کا خط پڑھا یا اس پر حضرت عثمان کا خط پڑھا گیا۔ آپ نے یوں لکھا تھا، اما بعد۔

26367

(۲۶۳۶۸) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ ، قَالَ : قرَأْت رَسَائِلَ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کُلَّمَا انْقَضَتْ قِصَّۃٌ ، قَالَ : أَمَّا بَعْدُ۔ (بخاری ۷۔ مسلم ۱۳۹۳)
(٢٦٣٦٨) حضرت عبدہ بن سلیمان فرماتے ہیں کہ حضرت ہشام بن عروہ نے ارشاد فرمایا : کہ میں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خطوط پڑھے جب بھی کوئی بات ختم ہوتی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ” اما بعد “

26368

(۲۶۳۶۹) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا زَکَرِیَّا ، قَالَ : سَمِعْتُ عَامِرًا یَقُولُ : قَالَ زِیَادٌ : إنَّ فَصْلَ الْخِطَابِ الَّذِی أُعْطِیَ دَاوُد أَمَّا بَعْدُ۔
(٢٦٣٦٩) حضرت عامر فرماتے ہیں کہ حضرت زیاد نے ارشاد فرمایا : بیشک حضرت داؤد کو یہ فصل خطاب عطا کیا گیا تھا ” اما بعد “۔

26369

(۲۶۳۷۰) حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ بُرْقَانَ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِیزِ ، أَنَّہُ کَتَبَ فِی رِسَالَۃٍ: أَمَّا بَعْدُ ، ثُمَّ قَالَ : کَانَ فِی رَسَائِلِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَمَّا بَعْدُ۔
(٢٦٣٧٠) حضرت جعفر بن برقان فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن عبد العزیز نے خط میں یوں لکھا ” امابعد “ پھر ارشاد فرمایا : نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خطوط میں بھی یوں لکھا ہوتا تھا ” اما بعد “۔

26370

(۲۶۳۷۱) حَدَّثَنَا مُعَاوِیَۃُ بْنُ ہِشَامٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ زَیْدِ بْنِ أَسْلَمَ ، قَالَ : أَرْسَلَنِی أَبِی إلَی ابْنِ عُمَرَ فَرَأَیْتہ یَکْتُبُ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمَن الرَّحِیمِ أَمَّا بَعْدُ۔
(٢٦٣٧١) حضرت زید بن اسلم فرماتے ہیں کہ میرے والد نے مجھے حضرت ابن عمر کے پاس بھیجا میں نے ان کو دیکھا کہ وہ خط لکھ رہے تھے اور یوں لکھا کہ : بِسْمِ اللہِ الرَّحْمَن الرَّحِیمِ أَمَّا بَعْدُ ۔

26371

(۲۶۳۷۲) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، قَالَ : قرَأْت فِی رَسَائِلَ مِنْ رَسَائِلِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کُلَّمَا انْقَضَی أَمْرٌ ، قَالَ : أَمَّا بَعْدُ۔ (بخاری ۱۱۲۱)
(٢٦٣٧٢) حضرت ابو اسامہ فرماتے ہیں کہ حضرت ہشام نے ارشاد فرمایا کہ میں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خطوط میں سے کچھ خطوط پڑھے جب بھی کوئی بات مکمل ہوتی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے : ” اما بعد “۔

26372

(۲۶۳۷۳) حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ سَعْدٍ أَبُو دَاوُدَ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنِ الأَسْوَدِ بْنِ قَیْسٍ ، عَنْ ثَعْلَبَۃَ بْنِ عِبَادٍ ، عَنْ سَمُرَۃََ ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خَطَبَ فَقَالَ : أَمَّا بَعْدُ۔ (ابن حبان ۲۸۵۶۔ ابن خزیمۃ ۱۳۹۷)
(٢٦٣٧٣) حضرت سمرہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خطبہ دیا اور فرمایا : ” اما بعد “۔

26373

(۲۶۳۷۴) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، وَابْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، أَنَّ أَبَا حُمَیْدٍ السَّاعِدِیَّ حَدَّثَہُ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خَطَبَ فَقَالَ : أَمَّا بَعْدُ۔ (بخاری ۹۲۵۔ مسلم ۱۴۶۴)
(٢٦٣٧٤) حضرت ابو حمید الساعدی فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خطبہ دیا اور فرمایا : ” اما بعد “۔

26374

(۲۶۳۷۵) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، قَالَ : حدَّثَنَا ہِشَامُ بْنُ عُرْوَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ عَائِشَۃَ ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ تَکَلَّمَ فَقَالَ : أَمَّا بَعْدُ۔ (بخاری ۴۱۴۱۔ مسلم ۲۱۳۷)
(٢٦٣٧٥) حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بات کی اور فرمایا : اما بعد۔

26375

(۲۶۳۷۶) حَدَّثَنَا مَیْمُونٌ الزَّعْفَرَانِیُّ ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ جَابِرٍ ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خَطَبَ فَقَالَ : أَمَّا بَعْدُ۔ (مسلم ۵۹۲۔ احمد ۳/۳۱۰)
(٢٦٣٧٦) حضرت جابر فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خطبہ دیا اور فرمایا ” اما بعد “۔

26376

(۲۶۳۷۷) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ عُمَیْرٍ ، عَنْ رِبْعِیِّ بْنِ حِرَاشٍ ، عَنِ الطُّفَیْلِ بْنِ سَخْبَرَۃَ أَخٍ لعَائِشَۃَ مِنَ الرَّضَاعَۃِ ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : أَمَّا بَعْدُ۔ (ابن ماجہ ۲۱۱۸۔ حاکم ۳)
(٢٦٣٧٧) حضرت طفیل بن سخبرہ جو حضرت عائشہ کے رضاعی بھائی ہیں فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : أَمَّابَعْدُ ۔

26377

(۲۶۳۷۸) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ أَبِی حَیَّانَ ، عَنْ یَزِیدَ بْنِ حَیَّانَ ، عَنْ زَیْد بْنِ أَرْقَمَ ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خَطَبَہُمْ فَقَالَ : أَمَّا بَعْدُ۔ (مسلم ۱۸۷۴۔ ابوداؤد ۴۹۳۴)
(٢٦٣٧٨) حضرت زید بن ارقم فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ کو خطبہ دیا اور فرمایا : أَمَّابَعْدُ ۔

26378

(۲۶۳۷۹) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ ، عَنِ ابْنِ أَبِی لَیْلَی ، قَالَ : کَتَبَ أَبُو الدَّرْدَائِ إلَی مَسْلَمَۃَ بْنِ مَخْلَدٍ وَہُوَ أَمِیرٌ بِمِصْرَ : أَمَّا بَعْدُ۔
(٢٦٣٧٩) حضرت ابن ابی لیلیٰ فرماتے ہیں کہ حضرت ابو الدردائ نے حضرت مسلمہ بن مخلد کو خط لکھا جو کہ مصر کے امیر تھے اور اس میں لکھا : أَمَّابَعْدُ ۔

26379

(۲۶۳۸۰) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ ہُبَیْرَۃَ ، قَالَ : کَتَبَ أَبُو الدَّرْدَائِ إلَی سَلْمَانَ : أَمَّا بَعْدُ ۔ وَکَتَبَ سَلْمَانُ إلَی أَبِی الدَّرْدَائِ أَمَّا بَعْدُ۔
(٢٦٣٨٠) حضرت عبداللہ بن ھبیرہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابو الدردائ نے حضرت سلمان کو خط میں لکھا ” اما بعد “ اور حضرت سلمان نے حضرت ابو الدردائ کو خط میں لکھا ” أَمَّا بَعْدُ “۔

26380

(۲۶۳۸۱) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ بْنِ أَبِی خَالِدٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ أَبِی بُرْدَۃَ ، قَالَ : کَتَبَ عُمَرُ إلَی أَبِی مُوسَی : أَمَّا بَعْدُ۔
(٢٦٣٨١) حضرت سعید بن ابی بردہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر نے حضرت ابو موسیٰ کو خط میں یوں لکھا : أَمَّابَعْدُ ۔

26381

(۲۶۳۸۲) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ إِسْحَاقَ ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ الْقُرَشِیِّ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُکَیْمٍ ، قَالَ : خَطَبَنَا أَبُو بَکْرٍ فَقَالَ : أَمَّا بَعْدُ۔
(٢٦٣٨٢) حضرت عبداللہ بن عکیم فرماتے ہیں کہ حضرت ابوبکر نے ہمیں خطبہ دیا اور فرمایا : أَمَّابَعْدُ ۔

26382

(۲۶۳۸۳) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ دِلاَفٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ عَمِّ أَبِیہِ بِلاَلِ بْنِ الْحَارِثِ ، قَالَ : خَطَبَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ فَقَالَ : أَمَّا بَعْدُ۔
(٢٦٣٨٣) حضرت بلال بن حارث فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب نے خطبہ دیا اور فرمایا : أَمَّابَعْدُ ۔

26383

(۲۶۳۸۴) حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ مُعَاذٍ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، عَنْ مُحَمَّدٍ ، قَالَ : کَتَبَ أَبُو مُوسَی إلَی عَامِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ الَّذِی کَانَ یُدْعَی ابْنَ عَبْدِ الْقَیْسِ : أَمَّا بَعْدُ۔
(٢٦٣٨٤) امام محمد فرماتے ہیں کہ حضرت ابو موسیٰ نے حضرت عامر بن عبداللہ کو جو حضرت ابن عبد القیس کے نام سے پکارے جاتے تھے کو خط میں یوں لکھا۔ أَمَّابَعْدُ ۔

26384

(۲۶۳۸۵) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ، عَن عَلْقَمَۃَ، قَالَ: أَقْبَلْت مَعَ عَبْدِاللہِ مِنَ السَّیْلَحین فَصَحِبَہُ دَہَّاقِینَ مِنْ أَہْلِ الْحِیرَۃِ ، فَلَمَّا دَخَلُوا الْکُوفَۃَ أَخَذُوا فِی طَرِیقٍ غَیْرِ طَرِیقِہِمْ ، فَالْتَفَتَ إلَیْہِمْ فَرَآہُمْ قَدْ عَدَلُوا ، فَأَتْبَعَہُمُ السَّلاَمَ ، فَقُلْت : أَتُسَلِّمُ عَلَی ہَؤُلاَئِ الْکُفَّارِ ، فَقَالَ : نَعَمْ إِنَّہُم صَحِبُونِی وَلِلصُّحْبَۃِ حَقٌّ۔
(٢٦٣٨٥) حضرت علقمہ فرماتے ہیں کہ میں حضرت عبداللہ بن مسعود کے ساتھ سلیحین مقام سے آ رہا تھا، کہ مقام حیرہ کے کچھ تاجر بھی آپ کے ساتھ ہو لیے، جب یہ لوگ کوفہ میں داخل ہوئے تو انھوں نے اس راستہ کو چھوڑ کر دوسرا راستہ پکڑ لیا تو آپ ان کی طرف متوجہ ہوئے اور آپ نے ان کو دیکھا کہ وہ راستہ سے ہٹ گئے ہیں تو آپ نے ان کو سلام کیا، میں نے پوچھا : کیا آپ نے ان کافروں کو سلام کیا ؟ آپ نے فرمایا : بیشک ان لوگوں نے میرا ساتھ اختیار کیا اور ساتھی کا بھی کچھ حق ہے۔

26385

(۲۶۳۸۶) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ حَمَّادٍ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، عَن عَلْقَمَۃَ ، قَالَ : مَا زَادَہُمْ عَبْدُ اللہِ عَنِ الإِشَارَۃِ۔
(٢٦٣٨٦) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ حضرت علقمہ نے فرمایا کہ حضرت عبداللہ بن مسعود نے ان کو اشارے سے زیادہ کچھ نہیں کہا۔

26386

(۲۶۳۸۷) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ الثَّقَفِیُّ ، عَنْ شُعَیْبِ بْنِ الْحَبْحَابِ ، قَالَ : کُنْتُ مَعَ عَلِیِّ بْنِ عَبْدِ اللہِ الْبَارِقِیِّ ، فَمَرَّ عَلَیْنَا یَہُودِیٌّ ، أَوْ نَصْرَانِیٌّ عَلَیْہِ کَارَۃٌ مِنْ طَعَامٍ ، فَسَلَّمَ عَلَیْہِ عَلِیٌّ ، فَقَالَ شُعَیْبٌ : فَقُلْت : إِنَّہُ یَہُودِیٌّ، أَوْ نَصْرَانِیٌّ ، فَقَرَأَ عَلِیٌّ آخِرَ سُورَۃِ الزُّخْرُفِ {وَقِیلِہِ یَا رَبِّ إنَّ ہَؤُلاَئِ قَوْمٌ لاَ یُؤْمِنُونَ فَاصْفَحْ عَنْہُمْ وَقُلْ سَلاَمٌ فَسَوْفَ یَعْلَمُونَ}۔
(٢٦٣٨٧) حضرت شعیب بن حبحاب فرماتے ہیں کہ میں حضرت علی بن عبداللہ البارقی کے ساتھ تھا کہ ہمارے پاس سے ایک یہودی یا نصرانی گزرا جس کے پاس کھانے کا بوجھ تھا۔ حضرت علی نے اس کو سلام کیا۔ اس پر حضرت شعیب کہتے ہیں کہ میں نے فرمایا : یہ تو یہودی یا نصرانی ہے ! تو حضرت علی نے سورة زخرف کے آخری حصہ کی تلاوت فرمائی۔ ترجمہ : قسم ہے رسول کے اس کہے کی کہ اے رب یہ لوگ ہیں کہ یقین نہیں لاتے ، سو تو منہ پھیر لے ان کی طرف سے اور کہہ سلام ہے۔ اب آخر کو وہ معلوم کرلیں گے۔

26387

(۲۶۳۸۸) حَدَّثَنَا کَثِیرُ بْنُ ہِشَامٍ ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ بُرْقَانَ ، قَالَ : حدَّثَنَا مَعْمَر ، قَالَ : بَلَغَنِی ، أَنَّ أَبَا ہُرَیْرَۃَ مَرَّ عَلَی یَہُودِیٍّ فَسَلَّمَ ، فَقِیلَ لَہُ : إِنَّہُ یَہُودِیٌّ ، فَقَالَ : یَا یَہُودِیُّ ، رُدَّ عَلَیَّ سَلاَمِی ، وَأَدْعُو لَکَ ، قَالَ : قَدْ رَدَدْتہ ، قَالَ : اللَّہُمَّ کَثِّرْ مَالَہُ وَوَلَدَہُ۔
(٢٦٣٨٨) حضرت معمر فرماتے ہیں کہ مجھے خبر پہنچی کہ حضرت ابوہریرہ ایک یہودی کے پاس سے گزرے اور اس کو سلام کیا۔ آپ کو بتلایا گیا : یہ تو یہودی ہے ! آپ نے فرمایا : اے یہودی مجھے میرا سلام لوٹا دو اور میں تمہارے لیے دعا کرتا ہوں۔ اس یہودی نے کہا کہ تحقیق میں نے اس کو لوٹا دیا۔ آپ نے یوں دعا فرمائی۔ اے اللہ ! اس کے مال اور اولاد کو بڑھا دے۔

26388

(۲۶۳۸۹) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَص ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ مُحَمَّدٍ ، قَالَ : یُسَلِّمُ الرَّاکِبُ عَلَی الْمَاشِی ، وَالْمَاشِی عَلَی الْقَاعِدِ ، فَإِذَا الْتَقَیَا بَدَأَ خیرہما۔
(٢٦٣٨٩) حضرت عاصم فرماتے ہیں کہ امام محمد نے ارشاد فرمایا : سوار پیدل چلنے والے کو سلام کرے گا ، اور پیدل چلنے والا بیٹھے ہوئے کو سلام کرے گا اور جب دو شخص ایک ہی حالت میں ملیں تو ان میں سے بہتر ہی سلام میں پہل کرے گا۔

26389

(۲۶۳۹۰) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ حُصَیْنٍ ، قَالَ : کُنْتُ أَنَا وَالشَّعْبِیُّ فَلَقِینَا رَجُلاً رَاکِبًا ، فَبَدَأَہُ الشَّعْبِیُّ بِالسَّلاَمِ فَقُلْت : أَتَبْدَؤُہُ وَنَحْنُ رَاجِلاَنِ وَہُوَ رَاکِبٌ ؟ فَقَالَ : لَقَدْ رَأَیْت شُرَیْحًا یُسَلِّمُ عَلَی الرَّاکِبِ۔
(٢٦٣٩٠) حضرت حصین فرماتے ہیں کہ میں اور امام شعبی ایک سوار آدمی سے ملے تو امام شعبی نے سلام میں پہل کی، میں نے عرض کیا۔ آپ سلام میں پہل کررہے ہیں حالانکہ ہم دونوں پیدل ہیں اور وہ سوار ہے ؟ آپ نے فرمایا : میں نے حضرت شریح کو دیکھا تھا کہ آپ نے سوار کو سلام کیا۔

26390

(۲۶۳۹۱) حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ ، عَنْ بُرْدٍ ، عَنْ مَکْحُولٍ وَسُلَیْمَانَ بْنِ مُوسَی ، قَالاَ : یُسَلِّمُ الصَّغِیرُ علی الْکَبِیرِ ، وَالْقَائِمُ عَلَی الْقَاعِدِ ، وَیُسَلِّمُ الرَّاکِبُ عَلَی الْمَاشِی ، وَالْقَلِیلُونَ عَلَی الْکَثِیرِینَ۔
(٢٦٣٩١) حضرت برد فرماتے ہیں کہ حضرت مکحول اور حضرت سلیمان بن موسیٰ ان دونوں حضرات نے ارشاد فرمایا : چھوٹا بڑے کو سلام کرے گا، اور کھڑا شخص بیٹھے ہوئے کو سلام کرے گا، اور سوار شخص پیدل چلنے والے کو سلام کرے گا، اور تھوڑے لوگ زیادہ لوگوں کو سلام کریں گے۔

26391

(۲۶۳۹۲) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَنْ أَبِی حَیَّانَ التَّیْمِیِّ ، عَنْ أَبِی الزِّنْبَاعِ ، عَنْ أَبِی الدِّہْقَانَۃِ ، قَالَ : قیلَ لِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ : إنَّ ہَاہُنَا غُلاَمًا مِنْ أَہْلِ الْحِیرَۃِ ، لَمْ یُرَ قَطُّ أَحْفَظُ مِنْہُ ، وَلاَ أَکْتُبُ مِنْہُ ، فَإِنْ رَأَیْت أَنْ تَتَّخِذَہُ کَاتِبًا بَیْنَ یَدَیْک، إذَا کَانَتْ لَکَ الْحَاجَۃُ شَہِدَک، قَالَ: فَقَالَ عُمَرُ: قَدِ اتَّخَذْت إذًا بِطَانَۃً مِنْ دُونِ الْمُؤْمِنِینَ۔
(٢٦٣٩٢) حضرت ابو الدھقانہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب سے کہا گیا : بیشک یہاں اہل حیرہ کا ایک لڑکا ہے۔ اس سے زیادہ مضبوط حافظہ والا اور اس سے اچھا کوئی بھی کاتب نہیں دیکھا گیا۔ اگر آپ کی رائے ہو تو آپ اس کو اپنے امور کے لیے کاتب رکھ لیں ؟ جب بھی آپ کو ضرورت ہوگی وہ آپ کے پاس حاضر ہوجائے گا۔ حضرت عمر نے فرمایا؛ تحقیق اس صورت میں تو میں مومنین کے علاوہ کسی اور کو ہم نشین بنانے والا ہوں گا۔

26392

(۲۶۳۹۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ الْمَسْعُودِیِّ ، عَنِ الْقَاسِمِ ، قَالَ : کَانَ لِعَبْدِ اللہِ کَاتِبٌ نَصْرَانِیٌّ۔
(٢٦٣٩٣) حضرت قاسم فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود کا کاتب نصرانی تھا۔

26393

(۲۶۳۹۴) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ سِمَاکٍ ، عَنْ عِیَاضٍ الأَشْعَرِیِّ ، أَنَّ أَبَا مُوسَی کَانَ لَہُ کَاتِبٌ نَصْرَانِیٌّ۔
(٢٦٣٩٤) حضرت عیاض اشعری فرماتے ہیں کہ حضرت ابو موسیٰ کا کاتب نصرانی تھا۔

26394

(۲۶۳۹۵) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ شَقِیقٍ ، قَالَ : جَائَنَا کِتَابُ أَبِی بَکْرٍ وَنَحْنُ بِالْقَادِسِیَّۃِ ، وَکَتَبَ عَبْدُ اللہِ بْنُ الأَرْقَمِ۔
(٢٦٣٩٥) حضرت شقیق فرماتے ہیں کہ ہمارے پاس حضرت ابوبکر کا خط آیا ۔ اس حال میں کہ ہم قادسیہ میں تھے تو حضرت عبداللہ بن ارقم نے اس کا جواب لکھا۔

26395

(۲۶۳۹۶) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ مُحَمَّدٍ ، أنَّ عُبَیْدَ اللہِ بْنِ أَبِی رَافِعٍ کَاتِبِ عَلِیٍّ أَخْبَرَہُ۔
(٢٦٣٩٦) حضرت حسن بن محمد فرماتے ہیں کہ حضرت عبید اللہ بن ابو رافع جو حضرت علی کے کاتب ہیں انھوں نے آپ کو خبر دی۔

26396

(۲۶۳۹۷) حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ، عَنْ إبْرَاہِیمَ بْنِ إسْمَاعِیلَ، عَنِ الزُّہْرِیِّ، عَنْ عُبَیْدِ بْنِ السَّبَّاقِ، عَنْ زَیْدِ بْنِ ثَابِتٍ، أَنَّ أَبَا بَکْرٍ، قَالَ لَہُ: قدْ کُنْتَ تَکْتُبُ الْوَحْیَ لِرَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَاجْمَعِ الْقُرْآنَ فَاکْتُبْہُ۔ (بخاری ۴۶۷۹۔ ترمذی ۳۱۰۳)
(٢٦٣٩٧) حضرت زید بن ثابت فرماتے ہیں کہ حضرت ابوبکر نے ان سے ارشاد فرمایا : کہ تم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے وحی بھی لکھا کرتے تھے، پس تم ہی قرآن کو جمع کرو، تو میں نے قرآن لکھا۔

26397

(۲۶۳۹۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إسْرَائِیلَ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ عَامِرٍ ، عَنْ کَاتِبٍ لِعَلِی۔
(٢٦٣٩٨) حضرت جابر فرماتے ہیں کہ حضرت جابر نے حضرت علی کے کاتب سے روایت نقل فرمائی۔

26398

(۲۶۳۹۹) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنِ الْمُسَیَّبِ بْنِ رَافِعٍ، قَالَ: حدَّثَنِی وَرَّادٌ کَاتِبُ الْمُغِیرَۃِ بْنِ شُعْبَۃَ۔
(٢٦٣٩٩) حضرت مسیب بن رافع فرماتے ہیں کہ مجھے حضرت وراد نے حدیث بیان کی جو حضرت مغیرہ بن شعبہ کے کاتب تھے۔

26399

(۲۶۴۰۰) حَدَّثَنَا سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنْ بَجَالَۃَ ، قَالَ : کُنت کَاتِبًا لِجَِزِی بْنِ مُعَاوِیَۃَ۔
(٢٦٤٠٠) بجالہ کہتے ہیں کہ میں جزی بن معاویہ کا کاتب تھا۔

26400

(۲۶۴۰۱) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ بَکْرٍ السَّہْمِیُّ ، عَنْ حَاتِمِ بْنِ أَبِی صَغِیرَۃَ ، عَنْ عَطِیَّۃَ ، کَاتِبٍ لِعَبْدِ اللہِ بْنِ مُطَرِّفٍ۔
(٢٦٤٠١) حضرت حاتم بن ابی مغیرہ حضرت عطیہ سے روایت نقل کرتے ہیں جو حضرت عبداللہ بن مطرف کے کاتب تھے۔

26401

(۲۶۴۰۲) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا شُعْبَۃُ ، عَنْ مَنصُور ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ ، أَنَّ الْعَلاَئَ بْنَ الْحَضْرَمِیِّ کَتَبَ إلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَبَدَأَ بِنَفْسِہِ۔ (ابوداؤد ۵۰۹۲۔ حاکم ۶۳۶)
(٢٦٤٠٢) حضرت ابن سیرین فرماتے ہیں کہ حضرت علاء بن الحضرمی نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خط لکھا تو آپ نے اپنی ذات سے ابتدا کی۔

26402

(۲۶۴۰۳) حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ مُعَاذٍ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، عَنْ مُحَمَّدٍ ، قَالَ : کَتَبَ أَبُو مُوسَی : مِنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ قَیْسٍ إلَی عَامِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ۔
(٢٦٤٠٣) امام محمد فرماتے ہیں کہ حضرت ابو موسیٰ نے یوں خط لکھا ! عبداللہ بن قیس کی جانب سے عامر بن عبداللہ کی طرف۔

26403

(۲۶۴۰۴) حَدَّثَنَا عِیسَی بْنُ یُونُسَ ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ بُرْقَانَ ، عَنْ مَیْمُونِ بْنِ مِہْرَانَ ، أَنَّ ابْنَ عُمَرَ کَتَبَ إلَی عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فَکَتَبَ : مِنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ إلَی عُمَرَ ، قَالَ جَعْفَرٌ : قَالَ مَیْمُونٌ : إنَّمَا ہُوَ شَیْئٌ یُعَظِّمُ بِہِ الأَعَاجِمُ بَعْضُہَا بَعْضًا۔
(٢٦٤٠٤) حضرت میمون بن مہران فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عمر نے حضرت عمر کو خط لکھا تو آپ نے یوں لکھا : عبداللہ بن عمر کی جانب سے حضرت عمر کی طرف۔ فرماتے ہیں کہ حضرت میمون نے ارشاد فرمایا : بیشک یہ ایسی چیز ہے کہ عجمی اس کے ذریعہ ایک دوسرے کو فضیلت دیتے ہیں۔

26404

(۲۶۴۰۵) حَدَّثَنَا مُعْتَمِرُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ کَہْمَسٍ ، قَالَ : قَالَ لِی عَبْدُ اللہِ بْنُ مُسْلِمِ بْنِ یَسَارٍ : أَوَ حَرَجٌ عَلَیَّ أَلاَ أَبْدَأَ بِہِ فِی الْکِتَابِ ، فَإِنَّہُ لاَ یُبْدَأُ إلاَّ بِأَمِینٍ وَیَبْدَأُ الرَّجُلُ بِأَبِیہِ۔
(٢٦٤٠٥) حضرت کہمس فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسلم بن یسار نے مجھ سے کہا : کیا مجھ پر حرج ہے اس بات میں کہ میں خط میں اس طرح ابتدا نہ کروں ؟ ! اس لیے کہ وہ خط کی ابتدا نہیں کرتے تھے مگر امانت دار سے اور آدمی تو اپنے والد سے ابتدا کرتا ہے۔

26405

(۲۶۴۰۶) حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ مُعَاذٍ ، قَالَ : کَتَبْت إلَی شُعْبَۃَ بِبَغْدَادَ فَبَدَأْت بِاسْمِہِ ، فَکَتَبَ إلَیَّ یَنْہَانِی وَیَذْکُرُ أَنَّ الْحَکَمَ کَانَ یَکْرَہُہُ۔
(٢٦٤٠٦) حضرت معاذ بن معاذ فرماتے ہیں کہ میں نے بغداد میں حضرت شعبہ کو خط لکھا اور اپنے نام سے ابتدا کی، تو آپ نے مجھے خط لکھ کر ایسا کرنے سے منع فرمایا اور ذکر کیا کہ حضرت حکم اس کو مکروہ سمجھتے تھے۔

26406

(۲۶۴۰۷) حَدَّثَنَا عِیسَی بْنُ یُونُسَ ، عَنِ الأَوْزَاعِیِّ ، عَنْ شَیْخٍ ، أَنَّ زَیْدَ بْنَ ثَابِتٍ کَتَبَ إلَی مُعَاوِیَۃَ فَبَدَأَ بِمُعَاوِیَۃَ۔
(٢٦٤٠٧) حضرت اوزاعی نے کسی شیخ سے نقل کیا کہ حضرت زید بن ثابت نے حضرت معاویہ کو خط لکھاتو حضرت معاویہ کے نام سے ابتدا کی۔

26407

(۲۶۴۰۸) حَدَّثَنَا عِیسَی بْنُ یُونُسَ ، عَنِ الأَوْزَاعِیِّ ، قَالَ : کَانَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیزِ یُکْتَبُ إلَیْہِ فَیُبْدَأَ بِہِ ، فَلَمْ یَرَ بِہِ بَأْسًا۔
(٢٦٤٠٨) حضرت اوزاعی فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن عبد العزیز کو جب خط لکھا جاتا تھا تو آپ کے نام ہی سے ابتدا کی جاتی تھی اور آپ نے اس میں کوئی حرج نہیں سمجھا۔

26408

(۲۶۴۰۹) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ ، قَالَ : کَانَتْ لابْنِ عُمَرَ حَاجَۃٌ إلَی مُعَاوِیَۃَ ، فَأَرَادَ أَنْ یَکْتُبَ إلَیْہِ فَقَالُوا : لَوْ بَدَأْت بِہِ ، فَلَمْ یَزَالُوا بِہِ حَتَّی کَتَبَ : بِسْمِ اللہِ الرَّحْمَن الرَّحِیمِ إلَی مُعَاوِیَۃَ۔
(٢٦٤٠٩) حضرت ابن سیرین فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عمر کو حضرت معاویہ سے کوئی کام تھا، تو آپ نے ان کو خط لکھنے کا ارادہ فرمایا، لوگوں نے کہا : اگر آپ ان کے نام سے خط لکھیں تو اچھا ہوگا اور ان لوگوں نے مسلسل یہی بات کہی یہاں تک کہ آپ نے لکھا، بسم اللہ الرحمن الرحیم، حضرت معاویہ کی طرف۔

26409

(۲۶۴۱۰) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ یُونُسَ ، قَالَ : کَتَبَ رَجُلٌ کِتَابًا مِنَ الْحَسَنِ إلَی صَالِحِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ فَکَتَبَ : بِسْمِ اللہِ الرَّحْمَن الرَّحِیمِ مِنَ الْحَسَنِ إلَی صَالِحٍ ، فَقَالَ : الرَّجُلُ : یَا أَبَا سَعِیدٍ ، لَوْ بَدَأْت بِہِ ، فَبَدَأَ بِہِ۔
(٢٦٤١٠) حضرت یونس فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے حضرت حسن کی جانب سے صالح بن عبد الرحمن کی طرف خط لکھا تو اس نے یوں لکھا، بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ حسن کی جانب سے صالح کی طرف، تو ایک آدمی نے کہا : اے ابو سعید اگر آپ اس کے نام سے ابتدا کرتے تو اچھا ہوتا، تو آپ نے اس شخص کے نام سے ابتدا کی۔

26410

(۲۶۴۱۱) حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ الْمَکِّیِّ ، عَنِ الْحَسَنِ وَالنَّخَعِیِّ أَنَّہُمَا لَمْ یَرَیَا بَأْسًا أَنْ یَکْتُبَ الرَّجُلُ إلَی الرَّجُلِ فَیَبْدَأَ بِہِ۔
(٢٦٤١١) حضرت اسماعیل مکی فرماتے ہیں کہ حضرت حسن بصری اور حضرت نخعی یہ دونوں حضرات اس بات میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے کہ ایک آدمی کسی آدمی کو خط لکھے تو اس کے نام سے خط کی ابتدا کرے۔

26411

(۲۶۴۱۲) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ یَمَانٍ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ أَبِی فَزَارَۃَ ، عَنِ الْحَکَمِ ، قَالَ : لاَ بَأْسَ أَنْ تَبْدَأَ بِغَیْرِکَ إذَا کَتَبْت إلَیْہِ۔
(٢٦٤١٢) حضرت ابوفزارہ فرماتے ہیں کہ حضرت حکم نے ارشاد فرمایا : اس میں کوئی حرج نہیں کہ تم جس کی طرف خط لکھ رہے ہو اس کے نام سے خط کی ابتدا کرو۔

26412

(۲۶۴۱۳) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ عَطَائِ بْنِ أَبِی مَیْمُونَۃَ ، قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا رَافِعٍ یُحَدِّثُ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، أَنَّ زَیْنَبَ کَانَ اسْمُہَا بَرَّۃَ ، فَقِیلَ لَہَا : تُزَکِّی نَفْسَہَا ، فَسَمَّاہَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ زَیْنَبَ۔ (مسلم ۱۷۔ احمد ۲/۴۳۰)
(٢٦٤١٣) حضرت ابو رافع فرماتے ہیں کہ حضرت ابوہریرہ نے ارشاد فرمایا : کہ حضرت زینب کا نام برّہ تھا ۔ ان کو کہا گیا کہ تم نے اپنے نفس کی پاکیزگی بیان کی ! پس رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کا نام زینب رکھ دیا۔

26413

(۲۶۴۱۴) حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُوسَی ، قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، أَنَّ ابْنَۃً لِعُمَرَ کَانَ یُقَالُ لَہَا عَاصِیَۃُ، فَسَمَّاہَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ جَمِیلَۃَ۔(مسلم ۱۵۔ ابوداؤد ۴۹۱۳)
(٢٦٤١٤) حضرت نافع فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عمر نے ارشاد فرمایا : کہ حضرت عمر کی ایک بیٹی تھی جس کا نام عاصیہ تھا، پس رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کا نام جمیلہ رکھ دیا۔

26414

(۲۶۴۱۵) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ ، عَنِ الْعَلاَئِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ، عَنْ خَیْثَمَۃَ ، قَالَ : کَانَ اسْمُ أَبِی فِی الْجَاہِلِیَّۃِ عَزِیزًا ، فَسَمَّاہُ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَبْدَ الرَّحْمَن۔ (احمد ۴/۱۷۸۔ ابن حبان ۵۸۲۸)
(٢٦٤١٥) حضرت خیثمہ فرماتے ہیں کہ میرے والد کا نام زمانہ جاہلیت میں عزیز تھا، پس رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کا نام عبدالرحمن رکھ دیا۔

26415

(۲۶۴۱۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إذَا سَمِعَ الاِسْمَ الْقَبِیحَ حَوَّلَہُ إلَی مَا ہُوَ أَحْسَنُ مِنْہُ۔ (ترمذی ۲۸۳۹)
(٢٦٤١٦) حضرت عروہ بن زبیر فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب کوئی بُرا نام سنتے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس نام کو اچھے نام سے تبدیل فرما دیتے۔

26416

(۲۶۴۱۷) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا الْمَسْعُودِیُّ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ مَوْلَی آلِ طَلْحَۃَ ، عَنْ کُرَیْبٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : کَانَ اسْمُ جُوَیْرِیَۃَ بَرَّۃَ ، فَحَوَّلَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اسْمَہَا۔ (احمد ۱/۳۱۶)
(٢٦٤١٧) حضرت کریب فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عباس نے ارشاد فرمایا کہ حضرت جویریہ کا نام برہ تھا، پس رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کا نام تبدیل فرما دیا۔

26417

(۲۶۴۱۸) حَدَّثَنَا حُمَیدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، أَنَّ رَجُلاً کَانَ اسْمُہُ الْحُبَابَ ، فَسَمَّاہُ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَبْدَ اللہِ وَقَالَ: الْحُبَابُ شَیْطَانٌ ، وَکَانَ اسْمُ رَجُلٍ الْمُضْطَجِعَ فَسَمَّاہُ الْمُنْبَعِثَ۔ (ابن سعد ۵۴۱)
(٢٦٤١٨) حضرت عروہ بن زبیر فرماتے ہیں کہ ایک آدمی کا نام حباب تھا پس رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کا نام عبداللہ رکھا اور فرمایا : حباب تو شیطان ہے۔ حضرت عروہ نے فرمایا : ایک آدمی کا نام مضطجع تھا پس رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کا نام منبعث رکھا۔

26418

(۲۶۴۱۹) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا زَکَرِیَّا ، عَنْ عَامِرٍ ، قَالَ : لَمْ یُدْرِکِ الإِسْلاَمَ مِنْ عُصَاۃِ قُرَیْشٍ غَیْرُ مُطِیعٍ ، وَکَانَ اسْمُہُ الْعَاصِیَ ، فَسَمَّاہُ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مُطِیعًا۔ (مسلم ۱۴۰۔ احمد ۳/۴۱۲)
(٢٦٤١٩) حضرت عامر فرماتے ہیں کہ قریش کے گناہ گاروں اور نافرمانوں میں سے سوائے حضرت مطیع کے کسی نے اسلام کو نہیں قبول کیا اور ان کا نام عاصی تھا پس رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کا نام مطیع رکھا۔

26419

(۲۶۴۲۰) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ یَعْلَی أَبُو الْمُحَیَّاۃِ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ عُمَیْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنِی ابْنُ أَخِی عَبْدِ اللہِ بْنِ سَلاَمٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ سَلاَمٍ ، قَالَ : قَدِمْت عَلَی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَلَیْسَ اسْمِی عَبْدَ اللہِ بْنَ سَلاَمٍ ، فَسَمَّانِی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَبْدَ اللہِ بْنَ سَلاَمٍ۔ (ترمذی ۳۲۵۶۔ حاکم ۴۱۳)
(٢٦٤٢٠) حضرت عبداللہ بن سلام فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا اور میرا نام عبداللہ بن سلام نہیں تھا، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے میرا نام عبداللہ بن سلام رکھا۔

26420

(۲۶۴۲۱) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ الْمِقْدَامِ بْنِ شُرَیْحٍ ، عَنِ الْمِقْدَامِ بْنِ شُرَیْحٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ جَدِّہِ ہَانِئِ بْنِ شُرَیْحٍ ، قَالَ : وَفَدَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی قَوْمِہِ فَسَمِعَہُمْ یُسَمُّونَ رَجُلاً عَبْدَ الْحَجَرِ ، فَقَالَ لَہُ : مَا اسْمُک ؟ قَالَ: عَبْدُ الْحَجَرِ ، فَقَالَ لَہُ : رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إنَّمَا أَنْتَ عَبْدُ اللہِ۔
(٢٦٤٢١) حضرت ھانی بن شریح فرماتے ہیں کہ ایک قوم وفد لے کر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئی پس آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سنا کہ ان لوگوں نے ایک آدمی کو عبد الحجر کے نام سے پکارا ، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس شخص سے پوچھا : تیرا نام کیا ہے ؟ اس نے کہا : عبد الحجر، تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے فرمایا : بیشک تم تو عبداللہ (اللہ کے بندے) ہو۔

26421

(۲۶۴۲۲) حَدَّثَنَا ہَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ ، قَالَ : حدَّثَنَا أَبُو عَقِیلٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا مُجَالِدُ بْنُ سَعِیدٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، قَالَ : لَقِیت عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ فَقَالَ : مَنْ أَنْتَ ؟ فَقُلْت : مَسْرُوقُ بْنُ الأَجْدَعِ ، فَقالَ عُمَر : سَمِعْت رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : الأَجْدَعُ شَیْطَانٌ۔ (ابوداؤد ۴۹۱۸۔ بزار ۳۱۸)
(٢٦٤٢٢) حضرت مسروق فرماتے ہیں کہ میں حضرت عمر بن خطاب سے ملا تو آپ نے پوچھا ! تم کون ہو ؟ میں نے عرض کیا : کہ مسروق بن اجدع ہوں۔ اس پر حضرت عمر نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یوں فرماتے سنا کہ اجدع تو شیطان ہے۔

26422

(۲۶۴۲۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، أَنَّہُ کَرِہَ عَبْدُ رَبِّہِ۔
(٢٦٤٢٣) حضرت اعمش فرماتے ہیں کہ حضرات ابن عمر نے عبد ربہ نام رکھنے کو ناپسند کیا۔

26423

(۲۶۴۲۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ قَیْسٍ الأسدی ، عَنْ عَبْدِ الْکَرِیمِ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، أَنَّہُ کَرِہَ عَبْدُ رَبِّہِ۔
(٢٦٤٢٤) حضرت عبد الکریم فرماتے ہیں کہ حضرت مجاہد نے عبد ربہ نام کو ناپسند کیا۔

26424

(۲۶۴۲۵) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنِ ابْنِ أَبِی نَجِیحٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، قَالَ : کَرِہَ اللَّہُ مَالکًا۔
(٢٦٤٢٥) حضرت ابن ابی نجیح فرماتے ہیں کہ حضرت مجاہد نے ارشاد فرمایا : کہ اللہ نے مالک نام رکھنے کو ناپسند فرمایا۔

26425

(۲۶۴۲۶) حَدَّثَنَا مُعْتَمِرُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنِ الرُّکَیْنِ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ سَمُرَۃََ ، قَالَ : نَہَانَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ نُسَمِّیَ رَقِیقَنَا أَرْبَعَۃَ أَسْمَائٍ : أَفْلَحَ وَنَافِعًا وَرَبَاحًا وَیَسَارًا۔ (مسلم ۱۶۸۵۔ ابوداؤد ۴۹۲۰)
(٢٦٤٢٦) حضرت سمرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں اپنے غلاموں کے چار نام رکھنے سے منع فرمایا : وہ نام یہ ہیں۔ أفلح، نافع، رباح، اور یسار۔

26426

(۲۶۴۲۷) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَیْدٍ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِی سُفْیَانَ ، عَنْ جَابِرٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إِنِّی عَسَیت إِنْ شَائَ اللَّہُ أَنْ أَنْہَی أُمَّتِی أَنْ یُسَمُّوا نَافِعًا وَأَفْلَحَ وَبَرَکَۃً ، قَالَ الأَعْمَشُ : لاَ أَدْرِی ذَکَرَ رَافِعًا أَمْ لاَ ، لأِنَّ الرَّجُلَ إذَا جَائَ یَقُولُ : أَثَمَّ بَرَکَۃٌ ، فَیَقُولُونَ : لاَ۔ (بخاری ۸۳۳۔ ابوداؤد ۴۹۲۱)
(٢٦٤٢٧) حضرت جابر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اگر اللہ نے چاہا تو میں عنقریب اپنی امت کو ان ناموں کے رکھنے سے منع کروں گا۔ نافع، افلح، اور برکۃ۔ حضرت اعمش فرماتے ہیں کہ مجھے معلوم نہیں کہ راوی نے رافع نام ذکر کیا یا نہیں۔ اس لیے کہ جب کوئی آدمی آ کر پوچھتا : کیا برکۃ یہاں ہے ؟ تو گھر والے کہتے ہیں : نہیں۔

26427

(۲۶۴۲۸) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، عَنْ أَبِی خَلْدَۃَ ، عَنْ أَبِی الْعَالِیَۃِ ، قَالَ : تَفْعَلُونَ شَرًّا مِنْ ذَلِکَ ، تُسَمُّونَ أَوْلاَدَکُمْ أَسْمَائَ الأَنْبِیَائِ ، ثُمَّ تَلْعُنْونَہُمْ۔
(٢٦٤٢٨) حضرت ابو خلدہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابو العالیہ نے ارشاد فرمایا : تم لوگ یہ بہت برا کرتے ہو ! کہ اپنے بچوں کے نام انبیاء کے نام پر رکھتے ہو پھر ان کو لعن طن کرتے ہو۔

26428

(۲۶۴۲۹) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ، عَنِ ابْنِ أَبِی نَجِیحٍ، عَنْ مُجَاہِدٍ، قَالَ: أَحَبُّ الأَسْمَائِ إلَی اللہِ عَبْدُاللہِ، وَعَبْدُالرَّحْمَن۔
(٢٦٤٢٩) حضرت ابن ابی نجیح فرماتے ہیں کہ حضرت مجاہد نے ارشاد فرمایا : اللہ کے نزدیک پسندیدہ ترین نام یہ ہیں۔ عبداللہ اور عبد الرحمن۔

26429

(۲۶۴۳۰) حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِی عَدِیٍّ ، عَنْ دَاوُدَ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ، قَالَ : أَحَبُّ الأَسْمَائِ إلیہ أَسْمَائُ الأَنْبِیَائِ۔
(٢٦٤٣٠) حضرت داؤد فرماتے ہیں کہ حضرت سعید بن المسیب نے ارشاد فرمایا : اللہ رب العزت کے نزدیک پسندیدہ نام انبیاء کے نام ہیں۔

26430

(۲۶۴۳۱) حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا الْعُمَرِیُّ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : أَحَبُّ الأَسْمَائِ إلَی اللہِ عَبْدُ اللہِ ، وَعَبْدُ الرَّحْمَن۔ (مسلم ۱۶۸۲۔ ابوداؤد ۴۹۱۰)
(٢٦٤٣١) حضرت ابن عمر فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اللہ رب العزت کے نزدیک پسندیدہ ترین نام یہ ہیں۔ عبداللہ اور عبد الرحمن۔

26431

(۲۶۴۳۲) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ ، قَالَ : حدَّثَنَا أَبُو عَوَانَۃَ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، أَنَّ ابْنَ الْحَنَفِیَّۃِ کَانَ یُکَنَّی أَبَا الْقَاسِمِ۔
(٢٦٤٣٢) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ حضرت ابن حنفیہ کو ابو القاسم کنیت سے پکارا جاتا تھا۔

26432

(۲۶۴۳۳) حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ بْنُ الْحَسَنِ ، قَالَ : حدَّثَنَا أَبُو عَوَانَۃَ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : کَانَ مُحَمَّدُ بْنُ الأَشْعَث وَکَانَ ابْنَ أُخْتِ عَائِشَۃَ وَکَانَ یُکَنَّی أَبَا الْقَاسِمِ۔
(٢٦٤٣٣) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں حضرت محمد بن اشعث جو حضرت عائشہ کے بھانجے تھے ان کو ابو القاسم کنیت سے پکارا جاتا تھا۔

26433

(۲۶۴۳۴) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ فِطْرٍ ، عَنْ مُنْذِرٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَنَفِیَّۃِ ، قَالَ : قَالَ عَلِیٌّ لِلنَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إِنْ وُلِدَ لِی غُلاَمٌ بَعْدَکَ أُسَمِّیہِ بِاسْمِکَ وَأُکَنِّیہِ بِکُنْیَتِکَ ؟ قَالَ : نَعَمْ۔ (ابوداؤد ۴۹۲۸)
(٢٦٤٣٤) حضرت محمد بن حنفیہ فرماتے ہیں کہ حضرت علی نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا : اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد میرے کوئی لڑکا پیدا ہوا تو کیا میں اس کا نام آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نام پر اور اس کی کنیت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نیت پر رکھ دوں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ہاں۔

26434

(۲۶۴۳۵) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : لاَ تَتْرُکُوا النَّارَ فِی بُیُوتِکُمْ حِینَ تَنَامُونَ۔ (بخاری ۶۲۹۳۔ مسلم ۱۵۹۶)
(٢٦٤٣٥) حضرت ابن عمر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : تم لوگ سوتے وقت اپنے گھروں میں آگ کو جلتا ہوا مت چھوڑو۔

26435

(۲۶۴۳۶) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ بُرَیْدِ بْنِ عَبْدِ اللہِ ، عَنْ أَبِی بُرْدَۃَ ، عَنْ أَبِی مُوسَی ، قَالَ : احْتَرَقَ بَیْتٌ بِالْمَدِینَۃِ عَلَی أَہْلِہِ ، فَحُدِّثَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِشَأْنِہِمْ فَقَالَ : إنَّمَا ہَذِہِ النَّارُ عَدُوٌّ لَکُمْ ، فَإِذَا نِمْتُمْ فَأَطْفِئُوہَا عَنْکُمْ۔ (بخاری ۶۲۹۴۔ مسلم ۱۵۹۶)
(٢٦٤٣٦) حضرت ابوبردہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابو موسیٰ نے ارشاد فرمایا : مدینہ میں ایک گھر جل گیا تو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان گھرو الوں کی حالت بیان کی گئی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : بیشک آگ تمہاری دشمن ہے، پس جب تم سونے لگو تو اس کو بجھا دو ۔

26436

(۲۶۴۳۷) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ ، عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ ، عَنْ جَابِرٍ ، قَالَ : أَمَرَنَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَنَہَانَا ، فَأَمَرَنَا أَنْ نُطْفِئَ سُرُجَنَا۔ (بخاری ۶۲۹۶۔ مسلم ۱۵۹۴)
(٢٦٤٣٧) حضرت جابر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں کچھ حکم ارشاد فرمایے اور چند باتوں سے منع فرمایا : آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں حکم دیا کہ ہم اپنے چراغوں کو بجھا دیا کریں۔

26437

(۲۶۴۳۸) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ ، عَنْ عَطَائٍ ، قَالَ : کَانَ یُکْرَہُ أَنْ نَدَعَ السُّراجَ حَتَّی نُصْبِحَ۔
(٢٦٤٣٨) حضرت عبدالملک فرماتے ہیں کہ حضرت عطائ چراغ کو صبح تک جلتا ہوا چھوڑ دینے کو مکروہ سمجھتے تھے۔

26438

(۲۶۴۳۹) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ الْقَطَّانُ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِی یَحْیَی ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ أَبِی سَعِیدٍ ، قَالَ : قَالَ لنا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَوْمَ الْحُدَیْبِیَۃِ : لاَ تُوقِدُوا نَارًا بِلَیْلٍ ، ثُمَّ قَالَ : أَوْقِدُوا وأطفئوا فَإِنَّہُ لَنْ یُدْرِکَ قَوْمٌ مُدَّکُمْ ، وَلاَ صَاعَکُمْ۔ (نسائی ۸۸۵۵۔ احمد ۳/۲۶)
(٢٦٤٣٩) حضرت ابو سعید فرماتے ہیں کہ غزوہ حدیبیہ کے دن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں ارشاد فرمایا : تم رات کے وقت آگ مت جلاؤ، پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم جلاؤ اور آگ بجھا دو ۔ کیونکہ کوئی قوم تمہارے مد اور تمہارے صاع کو نہیں پا سکے گی۔

26439

(۲۶۴۴۰) حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ طَلْحَۃَ ، عَنْ أَسْبَاطِ بْنِ نَصْرٍ ، عَنْ سِمَاکٍ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : إذَا نِمْتُمْ فَأَطْفِئُوہَا۔ (بخاری ۱۲۲۲۔ ابوداؤد ۵۲۰۵)
(٢٦٤٤٠) حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جب تم سونے لگو تو آگ کو بجھا دو ۔

26440

(۲۶۴۴۱) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ أَبِی الْعُمَیْسِ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِی زِیَادٍ ، عَنْ أُمِّ وَلَدٍ لِعَبْدِاللہِ بْنِ مَسْعُودٍ، قَالَتْ : کَانَ عَبْدُ اللہِ یَأْمُرُ بِدَارِہِ فَتُکْنَسُ حَتَّی لَوِ الْتَمَسْت فِیہَا تَبِنَۃً ، أَوْ قَصَبَۃً مَا قَدَرْت عَلَیْہَا۔
(٢٦٤٤١) حضرت ابو زیاد فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود کی ام ولد باندی نے فرمایا : کہ حضرت عبداللہ بن مسعود گھر کے بارے میں حکم دیتے تھے پس گھر میں جھاڑو دی جاتی، یہاں تک کہ تم گھر میں بھوسہ یا لکڑی کا ٹکڑا بھی تلاش کرنا چاہتے تو تم اس کی قدرت نہ رکھتے !

26441

(۲۶۴۴۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ سُرِّیَّۃِ الرَّبِیعِ ، قَالَتْ : کَانَ الرَّبِیعُ یَأْمُرُ بِالدَّارِ تُنَظَّفُ کُلَّ یَوْمٍ۔
(٢٦٤٤٢) حضرت سریۃ الربیع فرماتی ہیں کہ حضرت ربیع روزانہ گھر کو صاف کرنے کا حکم دیتے تھے۔

26442

(۲۶۴۴۳) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا مَنْصُورٌ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ ، قَالَ : لَمَّا قَدِمَ الأَشْعَرِیُّ الْبَصْرَۃَ ، قَالَ لَہُمْ : فیما تقولون إنَّ أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ بَعَثَنِی إلَیْکُمْ لأَعَلِّمَکُمْ سُنَّتَکُمْ وَأُنَظِّفَ لَکُمْ طُرُقَکُمْ۔
(٢٦٤٤٣) حضرت ابن سیرین فرماتے ہیں کہ جب حضرت ابو موسیٰ اشعری بصرہ تشریف لائے تو آپ نے ان لوگوں سے فرمایا : بیشک امیر المؤمنین نے مجھے تمہارے پاس بھیجا ہے کہ میں تمہیں تمہارے طریقے سکھاؤں اور میں تمہارے راستوں کو صاف کروں۔

26443

(۲۶۴۴۴) حَدَّثَنَا سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنْ مُحَمَّدٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا ہُرَیْرَۃَ یَقُولُ : قَالَ أَبُو الْقَاسِمِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : سَمُّوا بِاسْمِی ، وَلاَ تَکَنَّوْا بِکُنْیَتِی۔ (بخاری ۳۵۳۹۔ مسلم ۱۶۸۴)
(٢٦٤٤٤) حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابو القاسم (ﷺ) نے ارشاد فرمایا : تم میرے نام پر نام رکھ لو اور میری کنیت اختیار مت کرو۔

26444

(۲۶۴۴۵) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِی سُفْیَانَ ، عَنْ جَابِرٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : تَسَمَّوْا بِاسْمِی ، وَلاَ تَکَنَّوْا بِکُنْیَتِی۔ (احمد ۳۱۳۔ ابویعلی ۱۹۱۸)
(٢٦٤٤٥) حضرت جابر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : تم میرے نام پر اپنے نام رکھ لو اور میری کنیت اختیار مت کرو۔

26445

(۲۶۴۴۶) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ الثَّقَفِیُّ ، عَنْ حُمَیْدٍ ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ : کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِالْبَقِیعِ ، فَنَادَی رَجُلٌ آخَرَ یَا أَبَا الْقَاسِمِ ، فَالْتَفَتَ إلَیْہِ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ : إنِّی لَمْ أَعْنِکَ یَا رَسُولَ اللہِ ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : تَسَمَّوْا بِاسْمِی ، وَلاَ تَکَنَّوْا بِکُنْیَتِی۔ (بخاری ۲۱۲۰۔ مسلم ۱۶۸۲)
(٢٦٤٤٦) حضرت انس فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جنت البقیع میں تھے کہ ایک آدمی نے دوسرے آدمی کو یوں پکارا ۔ اے ابو القاسم، تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کی طرف متوجہ ہوئے، وہ کہنے لگا : اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! میں نے آپ کو مراد نہیں لیا۔ اس پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم میرے نام پر اپنے نام کو رکھ لو اور میری کنیت کو اختیار مت کرو۔

26446

(۲۶۴۴۷) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنْ جَابِرٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: تَسَمَّوا بِاسْمِی ، وَلاَ تَکَنَّوْا بِکُنْیَتِی ، فَإِنَّمَا جُعِلْت قَاسِمًا أَقْسِمُ بَیْنَکُمْ۔ (بخاری ۶۱۸۷۔ مسلم ۱۶۸۳)
(٢٦٤٤٧) حضرت جابر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : تم میرے نام پر اپنے نام رکھ لو اور میری کنیت اختیار مت کرو۔ اس لیے کہ مجھے قاسم بنایا گیا ہے میں تمہارے درمیان تقیسم کروں گا۔

26447

(۲۶۴۴۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ عَبْدِ الْکَرِیمِ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِی عَمْرَۃَ ، عَنْ عَمِّہِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لاَ تَجْمَعُوا بَیْنَ اسْمِی وَکُنْیَتِی۔ (احمد ۵/۳۶۴۔ ابن سعد ۱۰۷)
(٢٦٤٤٨) حضرت عبد الرحمن بن ابی عمرہ کے چچا فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : تم میرے نام اور میری کنیت کو جمع مت کرو۔

26448

(۲۶۴۴۹) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْکَدِرِ سَمِعَ جَابِرًا یَقُولُ : وُلِدَ لِرَجُلٍ مِنَّا غُلاَمٌ ، قَالَ : فَسَمَّاہُ الْقَاسِمَ ، قَالَ : فَقُلْنَا : لاَ نُکَنِّیہِ أَبَا الْقَاسِمِ ولاَ نُنْعِمُہُ عَیْنًا ، فَأَتَی رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَذَکَرَ لَہُ ذَلِکَ فَقَالَ : أَسْم ابْنَک عَبْدَ الرَّحْمَن۔ (بخاری ۶۱۸۶۔ مسلم ۱۶۸۴)
(٢٦٤٤٩) حضرت محمد بن منکدر فرماتے ہیں کہ حضرت جابر نے ارشاد فرمایا : کہ ہم میں سے ایک آدمی کے بیٹا پیدا ہوا تو اس نے اس کا نام قاسم رکھا۔ اس پر ہم نے کہا ! کہ ہم تجھے ابو القاسم کی کنیت سے نہیں پکاریں گے اور اس کے ذریعہ سے ہم تیری آنکھ کو ٹھنڈک نہیں پہنچائیں گے، پس وہ شخص رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آیا اور اس نے یہ بات آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے ذکر کی ۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اپنے بیٹے کا نام عبد الرحمن رکھ لو۔

26449

(۲۶۴۵۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، قَالَ : قُلْتُ لِمُحَمَّدٍ : أَکَانَ یُکْرَہُ أَنْ یُکَنَّی الرَّجُلُ بِأَبِی الْقَاسِمِ ، وَإِنْ لَمْ یَکُنِ اسْمُہُ مُحَمَّدًا ؟ قَالَ : نَعَمْ۔
(٢٦٤٥٠) حضرت ابن عون فرماتے ہیں کہ میں نے امام محمد سے پوچھا : کیا آدمی کی کنیت ابو القاسم رکھنا مکروہ ہے اگرچہ اس کا نام محمد نہ ہو ؟ آپ نے فرمایا : جی ہاں ! ۔

26450

(۲۶۴۵۱) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ سُلَیْمَانَ الأَحْوَلِ ، قَالَ : کُنَّا نَطُوفُ وَمَعَنَا مِقْسَمٌ فَجَعَلَ طَاوُوسٌ یُحَدِّثُہُ وَیَقُولُ إِیہًا فَقُلْنَا : أَبُو الْقَاسِمِ ، فَقَالَ : وَاللَّہِ لاَ أَکْنِیہِ بِہَا۔
(٢٦٤٥١) حضرت سلیمان احول فرماتے ہیں کہ ہم لوگ طواف کر رہے تھے اس حال میں کہ حضرت مقسم ہمارے ساتھ تھے ، اور حضرت طاؤس باتیں کر رہے تھے۔ انھوں نے فرمایا : خاموش ہو جاؤ، ہم نے کہا : ابو القاسم : تو حضرت طاؤس نے فرمایا : اللہ کی قسم ! میں اس کنیت کو نہیں رکھتا۔

26451

(۲۶۴۵۲) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنْ أَبِی قِلاَبَۃَ ، عَنْ أَبِی الْمُہَلَّبِ ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَیْنٍ ، قَالَ : بَیْنَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی بَعْضِ أَسْفَارِہِ وَامْرَأَۃٌ مِنَ الأَنْصَارِ عَلَی نَاقَۃٍ ، فَضَجِرَتْ فَلَعَنَتْہَا ، فَسَمِعَ ذَلِکَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ : خُذُوا مَا عَلَیْہَا وَدَعُوہَا فَإِنَّہَا مَلْعُونَۃٌ ، قَالَ عِمْرَانُ بْنُ حُصَیْنٍ : فَکَأَنِّی أَرَاہَا تَجُولُ فِی السُّوقِ مَا یَعْرِضُ لَہَا أَحَدٌ۔ (مسلم ۲۰۰۴۔ ابوداؤد ۲۵۵۴)
(٢٦٤٥٢) حضرت عمران بن حصن فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کسی سفر میں تھے اور انصار کی ایک عورت اونٹنی پر تھی کہ اس اونٹنی نے تنگ کیا تو اس عورت نے اونٹنی کو لعنت کی، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ سنا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو کچھ اس پر ہے وہ لے لو اور اس کو چھوڑو ، بیشک یہ تو ملعونہ ہے ، حضرت عمران بن حصین فرماتے ہیں گویا کہ میں اسے دیکھ رہا ہوں کہ وہ بازاروں میں چکر لگا رہی ہے اور کوئی بھی اس کو خریدنے کے لیے نہیں دیکھ رہا۔

26452

(۲۶۴۵۳) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ أَخْبَرَنَا سُلَیْمَانُ التَّیْمِیُّ ، عَنْ أَبِی عُثْمَانَ ، عَنْ أَبِی بَرْزَۃَ ، أَنَّ جَارِیَۃً بَیْنَمَا ہِیَ عَلَی بَعِیرٍ ، أَوْ رَاحِلَۃٍ عَلَیْہَا مَتَاعٌ لِلْقَوْمِ بَیْنَ جَبَلَیْنِ فَتَضَایَقَ بِہَا الْجَبَلُ ، فَأَتَی عَلَیْہَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَلَمَّا أَبْصَرَتْہُ جَعَلَتْ تَقُولُ : حل اللَّہُمَّ الْعَنْہُ حَلَّ اللَّہُمَّ الْعَنْہُ ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَنْ صَاحِبُ الرَّاحِلَۃِ ؟ لاَ یَصْحَبُنَا بَعِیرٌ ، أَوْ رَاحِلَۃٌ عَلَیْہَا لَعَنْۃٌ مِنَ اللہِ ، أَوْ کَمَا قَالَ۔ (مسلم ۲۰۰۵۔ احمد ۴/۴۱۹)
(٢٦٤٥٣) حضرت ابو برزہ فرماتے ہیں کہ ہمارے درمیان ایک باندی تھی جو اونٹ یا کسی سواری پر سوار تھی اور اس اونٹ پر چند لوگوں کا سامان تھا جو دو پہاڑوں کے درمیان سے گزر رہا تھا، پس پہاڑنے اس کا راستہ تنگ کردیا۔ اتنے میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کے پاس آئے۔ جب عورت نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیکھا تو اس نے اونٹ کو کہنا شروع کردیا، چل چل۔ اے اللہ ! اس پر لعنت فرما، چل چل۔ اے اللہ ! اس پر لعنت فرما۔ اس پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اس سواری کا مالک کون ہے ؟ ہمارے ساتھ وہ اونٹ یا سواری نہیں چلے گی جس پر اللہ کی لعنت ہو یا جیسا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا۔

26453

(۲۶۴۵۴) حَدَّثَنَا شَبَابَۃُ ، قَالَ : حدَّثَنَا لَیْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَجْلاَنَ، عَنْ أَبِیہِ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ، قَالَ: بَیْنَمَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَسِیرُ فِی نَاسٍ مِنْ أَصْحَابِہِ إذْ لَعَنْ رَجُلٌ مِنْہُمْ بَعِیرَہُ ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَنْ لَعَنْ بَعِیرَہُ ؟ فَقَالَ: أَنَا یَا رَسُولَ اللہِ، قَالَ: أَخِّرْہُ عَنَّا، فَقَدْ أُجِبْت۔ (احمد ۲/۴۲۸)
(٢٦٤٥٤) حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ اس درمیان رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے صحابہ میں سے چند لوگوں کے درمیان سفر کر رہے تھے، کہ ان میں سے ایک آدمی نے اپنے اونٹ کو لعنت کی ۔ اس پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کس نے اپنے اونٹ کو لعنت کی ؟ اس شخص نے کہا : اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! میں نے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اس کو ہمارے سے دور کردو ۔ تحقیق تمہاری دعا قبول ہوگئی ہے۔

26454

(۲۶۴۵۵) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ شِمْرٍ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ وَثَّابٍ ، عَنْ عَائِشَۃَ ، أَنَّہَا قُرِّبَ إلَیْہَا بَعِیرًا لِتَرْکَبَہُ ، فَالْتَوَی عَلَیْہَا فَلَعَنَتْہُ ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لاَ تَرْکَبِیہِ فَإِنَّک لَعَنْتِیہِ۔ (احمد ۶/۲۵۷۔ ابویعلی ۴۷۱۶)
(٢٦٤٥٥) حضرت یحییٰ بن وثاب فرماتے ہیں کہ حضرت عائشہ کے قریب ایک اونٹ کیا گیا تاکہ آپ اس پر سوار ہوجائیں پس اس اونٹ نے آپ پر سوار ہونا دشوار کردیا تو آپ نے اس پر لعنت کی، اس پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم اس پر سوار مت ہو کیونکہ تم نے اس کو لعنت کی ہے۔

26455

(۲۶۴۵۶) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنِ الْجُرَیْرِیِّ ، عَنْ أَبِی عُثْمَانَ ، قَالَ : بَیْنَمَا عُمَرُ یَسِیرُ فِی أصْحَابِہِ وَفِی الْقَوْمِ رَجُلٌ یَسِیرُ عَلَی بَعِیرٍ لَہُ مِنَ الْقَوْمِ یَضَعُہُ حَیْثُ یَشَائُ ، فَلاَ أَدْرِی بِمَا الْتَوَی عَلَیْہِ فَلَعَنْہُ ، فَقَالَ عُمَرُ : مَنْ ہَذَا اللاَّعِنُ ؟ قَالُوا : فُلاَنٌ ، قَالَ : تَخَلَّفْ عَنَّا أَنْتَ وَبَعِیرُک ، لاَ تَصْحَبُنَا رَاحِلَۃٌ مَلْعُونَۃٌ۔
(٢٦٤٥٦) حضرت ابو عثمان فرماتے ہیں کہ اس درمیان کہ حضرت عمر اپنے ساتھیوں میں سفر کر رہے تھے کہ لوگوں میں ایک شخص جو اپنے اونٹ پر سفر کررہا تھا اور قوم میں سے جو چاہتا اس کو سامان رکھ دیتا ، میں نہیں جانتا کہ اس پر کیا دشواری آئی کہ اس نے اونٹ کو لعنت کی، اس پر حضرت عمر نے پوچھا : یہ لعنت کرنے والا کون شخص ہے ؟ لوگوں نے کہا : فلاں شخص ہے۔ آپ نے فرمایا : تو اور تیرا اونٹ ہم سے دور ہوجائیں ہم کسی ملعون سواری کو اپنے ساتھ نہیں رکھیں گے۔

26456

(۲۶۴۵۷) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ بُرْدِ بْنِ سِنَانٍ ، عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ مُوسَی ، قَالَ : إنَّ لِکُلِّ شَیْئٍ شَرَفًا ، وَأَشْرَفُ الْمَجَالِسِ مَا اسْتَقْبَلَ بِہِ الْقِبْلَۃَ ، وقَالَ : مَا رَأَیْت سُفْیَانَ یَجْلِسُ إلاَّ مُسْتَقْبِلَ الْقِبْلَۃِ۔
(٢٦٤٥٧) حضرت سلیمان بن موسیٰ فرماتے ہیں کہ بیشک ہر چیز کے لیے عزت و بزرگی ہے۔ معزز ترین مجلس وہ ہیں جن میں قبلہ رخ ہو کر بیٹھا جاتا ہے اور آپ نے فرمایا : میں نے حضرت سفیان کو قبلہ رخ کے سوا بیٹھے ہوئے نہیں دیکھا۔

26457

(۲۶۴۵۸) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِی عَدِیٍّ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، قَالَ : کَانَ مُحَمَّدٌ إذَا نَامَ اسْتَقْبَلَ الْقِبْلَۃَ وَرُبَّمَا اسْتَلْقَی۔
(٢٦٤٥٨) حضرت ابن عون فرماتے ہیں کہ امام محمد جب سوتے تو قبلہ رخ ہو کر سوتے اور کبھی کبھی چت ہو کر بھی لیٹ جاتے۔

26458

(۲۶۴۵۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ مِسْعَرٍ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ یَزِیدَ ، أَنَّ ابْنَ مَسْعُودٍ جَلَسَ مُسْتَقْبِلَ الْقِبْلَۃِ۔
(٢٦٤٥٩) حضرت عبد الرحمن بن یزید فرماتے ہیں کہ حضرت ابن مسعود قبلہ رخ ہو کر بیٹھے۔

26459

(۲۶۴۶۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِاللہِ الشُّعَیْثِیِّ ، عَنْ مَکْحُولٍ ، قَالَ: أَفْضَلُ الْمَجَالِسِ مُسْتَقْبِلَ الْقِبْلَۃِ۔
(٢٦٤٦٠) حضرت محمد بن عبداللہ شعیثی فرماتے ہیں کہ حضرت مکحول نے ارشاد فرمایا : مجلسوں میں افضل ترین مجلس وہ ہے جس میں قبلہ رخ ہو کر بیٹھا جائے۔

26460

(۲۶۴۶۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، عَنْ ثَوْرٍ، عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ مُوسَی، قَالَ: لِکُلِّ شَیْئٍ سَیِّدٌ، وَسَیِّدُ الْمَجَالِسِ مُسْتَقْبِلَ الْقِبْلَۃِ۔
(٢٦٤٦١) حضرت ثور فرماتے ہیں کہ حضرت سلیمان بن موسیٰ نے ارشاد فرمایا : کہ ہر چیز کا کوئی سردار ہوتا ہے مجلسوں کی سردار وہ مجلس ہے جس میں قبلہ رخ ہو کر بیٹھا جائے۔

26461

(۲۶۴۶۲) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنِ الْجُرَیْرِیِّ ، عَنْ أَبِی الْعَلاَئِ ، قَالَ : مَا أُعْطِیَ عَبْدٌ بَعْدَ الإِسْلاَمِ أَفْضَلَ مِنْ عَقْلٍ صَالِحٍ یُرْزَقُہُ۔
(٢٦٤٦٢) حضرت جریری فرماتے ہیں کہ حضرت ابو العلائ نے ارشاد فرمایا : کسی بندہ کو اسلام کے بعد نیک عقل سے بڑھ کر افضل کوئی چیز عطا نہیں کی گئی۔ جس کے ذریعہ وہ رزق حاصل کرتا ہو۔

26462

(۲۶۴۶۳) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا زَکَرِیَّا ، عَنْ عَامِرٍ ، قَالَ : قَالَ عُمَرُ : حَسْبُ الرَّجُلِ دِینُہُ وَمُرُوئَتُہُ: خُلُقُہُ ، وَأَصْلُہُ : عَقْلُہُ۔
(٢٦٤٦٣) حضرت عامر فرماتے ہیں کہ حضرت عمر نے ارشاد فرمایا : آدمی کی خاندانی شرافت اس کا دین ہے اور اس کی مروت اس کے اخلاق ہیں اور اس کا منبع اس کی عقل ہے۔

26463

(۲۶۴۶۴) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ أَبِی السَّفَرِ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنْ زِیَادِ بْنِ حُدِیرٍ ، عَنْ عُمَرَ بِنَحْوِہِ۔
(٢٦٤٦٤) حضرت عمر کا مذکورہ ارشاد اس سند سے بھی منقول ہے۔

26464

(۲۶۴۶۵) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، قَالَ : {فَإِنْ آنَسْتُمْ مِنْہُمْ رُشْدًا} قَالَ : عَقْلاً۔
(٢٦٤٦٥) حضرت منصور فرماتے ہیں کہ حضرت مجاہد نے ارشاد فرمایا : کہ آیت { فَإِنْ آنَسْتُمْ مِنْہُمْ رُشْدًا } میں عقل مراد ہے۔

26465

(۲۶۴۶۶) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ بْنُ أَبِی خَالِدٍ ، عَنْ عَامِرٍ ، قَالَ : قَالَ عُمَرُ : حَسْبُ الْمَرْئِ دِینُہُ وَمُرُوئَتُہُ ، خُلُقُہُ ، وَأَصْلُہُ : عَقْلُہُ۔
(٢٦٤٦٦) حضرت عامر فرماتے ہیں کہ حضرت عمر نے ارشاد فرمایا : آدمی کی خاندانی شرافت اس کا دین ہے اور اس کی مروت اس کے اخلاق ہیں ، اور اس کا منبع اس کی عقل ہے۔

26466

(۲۶۴۶۷) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ قَابُوسَ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ فِی قَوْلِہِ تَعَالَی : {قَسَمٌ لِذِی حِجْرٍ} قَالَ : لذی النُّہَی وَالْعَقْلِ۔
(٢٦٤٦٧) حضرت قابوس کے والد فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عباس نے اللہ رب العزت کے اس قول { قَسَمٌ لِذِی حِجْرٍ } ترجمہ : قسم عقل مندوں کے لیے، کے بارے میں ارشاد فرمایا : دانش مند اور عقل والے مراد ہیں۔

26467

(۲۶۴۶۸) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ فِی قَوْلِہِ: {قَسَمٌ لِذِی حِجْرٍ} قَالَ: لِذِی لُبٍّ وَلِذِی عَقْلٍ۔
(٢٦٤٦٨) حضرت عاصم فرماتے ہیں کہ حضرت عکرمہ نے اللہ رب العزت کے اس قول : { قَسَمٌ لِذِی حِجْرٍ } کے بارے میں ارشاد فرمایا : کہ دانش مند اور عقل مند لوگ مراد ہیں۔

26468

(۲۶۴۶۹) حَدَّثَنَا خَلَفُ بْنُ خَلِیفَۃَ ، عَن ہِلاَلِ بن خَبَّاب ، عَن مُجاہِد : {قَسَمٌ لِذِی حِجْرٍ} قَالَ : لِذِی عَقْلٍ۔
(٢٦٤٦٩) حضرت ھلال بن خباب فرماتے ہیں کہ حضرت مجاہد نے اللہ رب العزت کے اس قول { قَسَمٌ لِذِی حِجْرٍ } کے بارے میں ارشاد فرمایا : کہ عقل مند لوگ مراد ہیں۔

26469

(۲۶۴۷۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن سُفیان ، عن الأَغَر ، عَنْ خَلِیفَۃَ بْنِ حُصَیْنٍ ، عَنْ أَبِی نَصْرٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ {قَسَمٌ لِذِی حِجْرٍ} : لِذِی لُبٍّ۔
(٢٦٤٧٠) حضرت ابو نصر فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عباس نے اللہ رب العزت کے اس قول { قَسَمٌ لِذِی حِجْرٍ } کے بارے میں یوں ارشاد فرمایا : کہ دانش مند لوگ مراد ہیں۔

26470

(۲۶۴۷۱) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ ، عَنْ جُوَیْبِرٍ ، عَنِ الضَّحَّاکِ {قَسَمٌ لِذِی حِجْرٍ} قَالَ : لِذِی عَقْلٍ۔
(٢٦٤٧١) حضرت جویبر فرماتے ہیں کہ حضرت ضحاک نے اللہ رب العزت کے اس قول { قَسَمٌ لِذِی حِجْرٍ } کے بارے میں ارشاد فرمایا : کہ عقل مند لوگ مراد ہیں۔

26471

(۲۶۴۷۲) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ جَدِّہِ ، قَالَ : نَہَی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، عَنْ نَتْفِ الشَّیْبِ وَقَالَ : ہُوَ نُورُ الْمُؤْمِنِ۔ (ترمذی ۲۸۲۱۔ ابن ماجہ ۳۷۲۱)
(٢٦٤٧٢) حضرت عبداللہ بن عمرو فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سفید بال اکھیڑنے سے منع کیا اور فرمایا : یہ مومن کا نور ہے۔

26472

(۲۶۴۷۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ أَیُّوبَ السِّخْتِیَانِیِّ ، عَنْ یُوسُفَ ، عَنْ طَلْقِ بْنِ حَبِیبٍ ، أَنَّ حَجَّامًا أَخَذَ مِنْ شَارِبِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَرَأَی شَیْبَۃً فِی لِحْیَتِہِ ، فَأَہْوَی إلَیْہَا ، فَأَخَذَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِیَدِہِ وَقَالَ : مَنْ شَابَ شَیْبَۃً فِی الإِسْلاَمِ کَانَتْ لَہُ نُورًا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ۔ (ترمذی ۱۶۳۵۔ ابن سعد ۴۳۳)
(٢٦٤٧٣) حضرت طلق بن حبیب فرماتے ہیں کہ حجام نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مونچھ کو چھانٹا اس نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی داڑھی میں ایک سفید بال دیکھا تو اس کو کاٹنا چاہا، تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کا ہاتھ پکڑلیا اور ارشاد فرمایا : جو شخص اسلام میں بوڑھا ہو تو قیامت کے دن اس کے لیے ایک نور ہوگا۔

26473

(۲۶۴۷۴) حَدَّثَنَا ابْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنِ الْمُثَنَّی ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ أَنَسٍ ، أَنَّہُ کَانَ یَکْرَہُ نَتْفَ الشَّیْبِ۔ (مسلم ۱۰۴)
(٢٦٤٧٤) حضرت قتادہ فرماتے ہیں کہ حضرت انس سفید بالوں کے اکھیڑنے کو مکروہ سمجھتے تھے۔

26474

(۲۶۴۷۵) حَدَّثَنَا ابْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ، قَالَ : عُذِّبَ رَجُلٌ فِی نَتْفِ الشَّیْبِ۔
(٢٦٤٧٥) حضرت قتادہ فرماتے ہیں کہ حضرت سعید بن جبیر نے ارشاد فرمایا : سفید بال اکھیڑنے کی وجہ سے آدمی کو عذاب دیا جائے گا۔

26475

(۲۶۴۷۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ حُمَیْدٍ الأَعْرَجِ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، قَالَ : کَانَ یَقُولُ : لاَ تَنْتِفُوا الشَّیْبَ فَإِنَّہُ نُورٌ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ۔
(٢٦٤٧٦) حضرت حمید اعرج فرماتے ہیں کہ حضرت مجاہد فرمایا کرتے تھے کہ تم سفید بالوں کو مت اکھیڑو۔ بیشک یہ قیامت کے دن نور ہوگا۔

26476

(۲۶۴۷۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ أَبِی مَعْشَرٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، أَنَّہُ کَرِہَ نَتْفَ الشَّیْبِ وَلَمْ یَرَ بِقَصِّہِ بَأْسًا۔
(٢٦٤٧٧) حضرت ابو معشر فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم نے سفید بال اکھیڑنے کو مکروہ قرار دیا اور اس کو کاٹنے میں کوئی حرج نہیں سمجھا۔

26477

(۲۶۴۷۸) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : سَمِعْتُ عَبْدَ اللہِ بْنَ عُمَرَ یَقُولُ : الْقُعُودُ بَیْنَ الظِّلِّ وَالشَّمْسِ مَقْعَدُ الشَّیْطَانِ۔
(٢٦٤٧٨) امام شعبی فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن عمرو کو یوں فرماتے ہوئے سنا کہ سائے اور سورج کے درمیان میں بیٹھنا شیطان کے بیٹھنے کا طریقہ ہے۔

26478

(۲۶۴۷۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، قَالَ : نَہَی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ یَقْعُدَ الرَّجُلُ بَیْنَ الظِّلِّ وَالشَّمْسِ۔ (بخاری ۱۱۷۴۔ عبدالرزاق ۱۹۸۰۰)
(٢٦٤٧٩) حضرت قتادہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس بات سے منع فرمایا کہ کوئی آدمی سائے اور سورج کے درمیان میں بیٹھے۔

26479

(۲۶۴۸۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ ، عَنْ زِیَادٍ مَوْلَی بَنِی مَخْزُومٍ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : حرْفُ الظِّلِّ مَقْعَدُ الشَّیْطَانِ۔ (ابوداؤد ۴۷۸۸۔ احمد ۲/۳۸۳)
(٢٦٤٨٠) حضرت زیاد جو بنو محزوم کے آزاد کردہ غلام ہیں فرماتے ہیں کہ حضرت ابوہریرہ نے ارشاد فرمایا : سائے کا کنارہ شیطان کے بیٹھنے کی جگہ ہے۔

26480

(۲۶۴۸۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ قُرَّۃَ ، عَنْ نُفَیْعٍ الْجَمَّالِ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ، قَالَ: حرْفُ الظِّلِّ مَقِیلُ الشَّیْطَانِ۔
(٢٦٤٨١) حضرت نفیع الجمال فرماتے ہیں کہ حضرت سعید بن المسیب نے ارشاد فرمایا : سایہ کا کناری شیطان کے قیلولہ کرنے کی جگہ ہے۔

26481

(۲۶۴۸۲) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ الْجَعْدِ ، قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ وَاسِعٍ ، عَنْ أَبِی عِیَاضٍ ، عَنْ عُبَیْدِ بْنِ عُمَیْرٍ ، قَالَ : حَدُّ الظِّلِّ وَالشَّمْسِ مَقَاعِدُ الشَّیْطَانِ۔
(٢٦٤٨٢) حضرت ابو عیاض فرماتے ہیں کہ حضرت عبید بن عمیر نے ارشاد فرمایا : کہ سورج اور سایہ کا کنارہ شیطان کے بیٹھنے کی جگہیں ہیں۔

26482

(۲۶۴۸۳) حَدَّثَنَا عَبْدُالأَعْلَی، عَنْ خَالِدٍ، عَنْ عِکْرِمَۃَ فِی الَّذِی یَقْعُدُ بَیْنَ الظِّلِّ وَالشَّمْسِ: قَالَ ذَاکَ مَقْعَدُ الشَّیْطَانِ۔
(٢٦٤٨٣) حضرت خالد فرماتے ہیں کہ حضرت عکرمہ نے اس شخص کے بارے میں جو سورج اور سائے کے درمیان بیٹھے ہوں ارشاد فرمایا کہ وہ تو شیطان کے بیٹھنے کی جگہ ہے۔

26483

(۲۶۴۸۴) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ الْحُبَابِ ، عَنْ أَبِی الْمُنِیبِ ، عَنِ ابْنِ بُرَیْدَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، أَنَّہُ نَہَی أَنْ یُقْعَدَ بَیْنَ الشَّمْسِ وَالظِّلِّ۔ (ابن ماجہ ۳۷۲۔ حاکم ۲۷۲)
(٢٦٤٨٤) حضرت بریدہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سایہ اور سورج کے درمیان بیٹھنے سے منع فرمایا۔

26484

(۲۶۴۸۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُدَیْرٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ عِکْرِمَۃَ یَقُولُ : مَنِ اسْتَمَعَ حَدِیث قَوْمٍ وَہُمْ لَہُ کَارِہُونَ صُبَّ فِی أُذُنِہِ الآنُکُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ یَعْنِی الرَّصَاصَ۔ (بخاری ۷۰۴۲۔ ابوداؤد ۴۹۸۵)
(٢٦٤٨٥) حضرت عمران بن حدیر فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عکرمہ کو یوں فرماتے ہوئے سنا جو شخص کسی قوم کی بات کو غور سے سنے اور وہ اس کو ناپسند کریں تو قیامت کے دن اس شخص کے کانوں میں سیسہ ڈالا جائے گا۔

26485

(۲۶۴۸۶) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ الْمُبَارَکِ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ أَبِی أَیُّوبَ ، عَنْ عَطَائِ بْنِ دِینَارٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لاَ تَتَّخِذُوا ظُہُورَ الدَّوَابِّ کَرَاسِیَ لأَحَادِیثِکُمْ ، فَرُبَّ رَاکِبِ مَرْکُوبَۃٍ ہِیَ خَیْرٌ مِنْہُ وَأَطْوَعُ لِلَّہِ وَأَکْثَرُ ذِکْرًا۔ (احمد ۳/۴۴۰۔ دارمی ۲۶۶۸)
(٢٦٤٨٦) حضرت عطاء بن دینار فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : تم اپنے جانوروں کی پشتوں کو اپنی باتوں کے لیے کرسیاں مت بناؤ۔ اس لیے کہ بہت سی سواریاں سوار سے بہتر ہوتی ہیں کہ وہ اللہ کی فرمان بردار بہت زیادہ ذکر کرنے والی ہوتی ہیں۔

26486

(۲۶۴۸۷) حَدَّثَنَا ابْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ سَعِیدٍ الزُّبَیْدِیِّ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ التَّیْمِیِّ ، أَنَّ عُمَرَ کَرِہَ الْوُقُوفَ عَلَی الدَّابَّۃِ۔
(٢٦٤٨٧) حضرت ابراہیم تیمی فرماتے ہیں کہ عمر نے جانور کو زیادہ دیر تک کھڑا رکھنے کو مکروہ قرار دیا ۔

26487

(۲۶۴۸۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، عَنْ کَامِل، عَن حَبِیب قَالَ: کَانَ یَکرہ طُول الْوُقُوفِ عَلَی الدَّابَّۃِ وَأَنْ تُضْرَبَ وَہِیَ محسنۃ۔
(٢٦٤٨٨) حضرت کامل فرماتے ہیں کہ حضرت حبیب سواری کو زیادہ دیر تک کھڑا رکھنے کو اور اس کو مارنے کو مکروہ سمجھتے تھے حالانکہ وہ احسان کرنے والی ہوتی ہے۔

26488

(۲۶۴۸۹) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ، عَنْ مُوسَی الْجُہَنِیِّ، قَالَ: رَأَیْتُ الشَّعْبِیَّ وَطَلْحَۃَ مُتَوَاقِفَیْنِ عَلَی دَارِ سَعْدِ بْنِ طَلْحَۃَ۔
(٢٦٤٨٩) حضرت موسیٰ جھنی فرماتے ہیں کہ میں نے امام شعبی اور حضرت طلحہ کو دیکھا کہ وہ دونوں حضرت سعد بن طلحہ کے گھر کھڑے ہوئے تھے۔

26489

(۲۶۴۹۰) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا دَاوُد بْنُ أَبِی ہِنْدٍ ، عَنْ أَبِی نَضْرَۃَ ، عَنْ أَبِی سَعِیدٍ ، أَنَّ أَبَا مُوسَی اسْتَأْذَنَ عَلَی عُمَرَ ثَلاَثًا فَلَمْ یَأْذَنْ لَہُ ، قَالَ: فَانْصَرَفَ فَأَرْسَلَ إلَیْہِ عُمَرُ : مَا رَدَّک؟ قَالَ : اسْتَأْذَنْت الاِسْتِئْذَانَ الَّذِی أَمَرَنَا بِہِ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ثَلاَثًا ، فَإِنْ أُذِنَ لَنَا دَخَلْنَا ، وَإِنْ لَمْ یُؤْذَنْ لَنَا رَجَعْنَا ، قَالَ : لِتَأْتِینَّ عَلَی ہَذَا بِبَیِّنَۃٍ ، أَوْ لأَفْعَلَنَّ وَأَفْعَلَنَّ ، فَأَتَی مَجْلِسَ قَوْمِہِ فَنَاشَدَہُمْ ، فَشَہِدُوا لَہُ ، فَخَلَّی عَنْہُ۔ (بخاری ۲۰۶۲۔ مسلم ۳۵)
(٢٦٤٩٠) حضرت ابو سعید فرماتے ہیں کہ حضرت ابو موسیٰ اشعری نے حضرت عمر سے تین مرتبہ اجازت طلب کی پس آپ نے ان کو اجازت نہیں دی تو آپ واپس لوٹ آئے۔ حضرت عمر نے ان کو قاصد بھیج کر بلایا اور پوچھا ؟ کسی چیز نے تمہیں واپس لوٹایا ؟ انھوں نے فرمایا : میں نے تین مرتبہ اجازت طلب کی جس کا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں حکم دیا تھا کہ اگر ہمیں اجازت مل جائے تو ہم داخل ہوں اور اگر اجازت نہ ملے تو ہم واپس لوٹ آئیں۔ حضرت عمر نے فرمایا : تم اس بات پر کوئی گواہی لاؤ۔ ورنہ میں ایسا اور ایسا کروں گا، (میں تمہیں سزا دوں گا) تو وہ لوگوں کی ایک مجلس میں آئے اور لوگوں کو قسم دے کر اس بارے میں پوچھا تو انھوں نے ان کے حق میں گواہی دی پھر حضرت عمر نے ان کو چھوڑ دیا۔

26490

(۲۶۴۹۱) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : قَالَ عَلِیٌّ : الأُولَی إذن ، وَالثَّانِیَۃُ مُؤَامَرَۃٌ ، وَالثَّالِثَۃُ عَزْمَۃٌ ، إمَّا أَنْ یُؤْذَنُوا وَإِمَّا أَنْ یُرَدُّوا۔
(٢٦٤٩١) حضرت حسن بصری فرماتے ہیں کہ حضرت علی نے ارشاد فرمایا : پہلی مرتبہ اجازت ہوتی ہے ، اور دوسری مرتبہ مشورہ ہوتا ہے اور تیسری مرتبہ پختہ عزم ہوتا ہے یا تو وہ اجازت دیں یا وہ لوٹا دیں ۔

26491

(۲۶۴۹۲) حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ الأَزْرَقُ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : الاِسْتِئْذَانُ ثَلاَثٌ ، فَإِنْ أُذِنَ لَکَ وَإِلاَّ فَارْجِعْ۔
(٢٦٤٩٢) حضرت ہشام فرماتے ہیں کہ حضرت حسن بصری نے ارشاد فرمایا : اجازت تین بار طلب کی جاتی ہے اگر تمہیں اجازت دے دی جائے تو ٹھیک ورنہ واپس لوٹ جاؤ۔

26492

(۲۶۴۹۳) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ؛ فِی الْقَوْمِ یَسْتَأْذِنُونَ ، قَالَ : قَالَ : إِنْ قَالَ رَجُلٌ مِنْہُمُ السَّلاَمُ عَلَیْکُمْ أَنَدْخُلُ ، أَجْزَأَ ذَلِکَ عَنْہُمْ۔
(٢٦٤٩٣) حضرت ہشام فرماتے ہیں کہ حضرت حسن بصری نے ان لوگوں کے بارے میں جو اجازت طلب کرنا چاہتے ہیں یوں ارشاد فرمایا : اگر ان میں سے ایک آدمی بھی یوں کہہ دے، السلام علیکم۔ کیا ہم داخل ہوجائیں ؟ تو یہ سب کی طرف سے کافی ہوجائے گا۔

26493

(۲۶۴۹۴) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، قَالَ : دَخَلْنَا عَلَی أَبِی رَزِینٍ وَنَحْنُ ذُو عَدَدٍ ، فَکَانَ کُلُّ إنْسَانٍ مِنَّا یُسَلِّمُ وَیَسْتَأْذِنُ ، فَقَالَ : إِنَّہُ إذَا أُذِنَ لأَوَّلِکُمْ أُذِنَ لآخِرِکُمْ۔
(٢٦٤٩٤) حضرت مغیرہ فرماتے ہیں کہ ہم لوگ حضرت ابو رزین کی خدمت میں آئے اس حال میں کہ ہم کافی تعداد میں تھے اور ہم میں سے ہر ایک شخص سلام کررہا تھا اور اجازت طلب کررہا تھا۔ اس پر آپ نے فرمایا : بیشک جب تم میں پہلے کو اجازت دے دی گئی تو باقی سب کو اجازت دے دی گئی۔

26494

(۲۶۴۹۵) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ سُلَیْمَانَ التَّیْمِیِّ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ ، قَالَ : عَطَسَ رَجُلاَنِ عِنْدَ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَشَمَّتَ ، أَوْ سَمَّتَ أَحَدَہُمَا وَلَمْ یُشَمِّتِ الآخَرَ ، فَقِیلَ : یَا رَسُولَ اللہِ ، عَطَسَ عِنْدَکَ رَجُلاَنِ فَشَمَّتَ أَحَدَہُمَا وَلَمْ تُشَمِّتِ الآخَرَ ، فَقَالَ : إنَّ ہَذَا حَمِدَ اللَّہَ ، وَإِنَّ ہَذَا لَمْ یَحْمَدِ اللَّہَ۔ (بخاری ۶۲۲۱۔ مسلم ۲۲۹۲)
(٢٦٤٩٥) حضرت انس بن مالک فرماتے ہیں کہ دو آدمیوں کو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس چھینک آئی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان میں سے ایک کو تو یرحمک اللہ کہہ کر دعا دی اور دوسرے کو یرحمک اللہ نہیں کہا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا گیا : اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس دو آدمیوں کو چھینک آئی ۔ ان میں سے ایک کو تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یرحمک اللہ کہہ کر دعا دی اور دوسرے کو یرحمک اللہ نہیں کہا ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اس نے الحمد للہ کہا تھا اور اس نے الحمد للہ نہیں کہا۔

26495

(۲۶۴۹۶) حَدَّثَنَا قَاسِمُ بْنُ مَالِکٍ الْمُزَنِیّ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ کُلَیْبٍ ، عَنْ أَبِی بُرْدَۃَ ، قَالَ : دَخَلْت عَلَی أَبِی مُوسَی وَہُوَ فِی بَیْتِ بِنْتِ الْفَضْلِ فَعَطَسْت فَلَمْ یُشَمِّتْنِی وَعَطَسَتْ فَشَمَّتَہَا ؟ فَرَجَعْت إلَی أُمِّی فَأَخْبَرْتُہَا ، فَلَمَّا جَائَہَا ، قَالَتْ : عَطَسَ عِنْدَکَ ابْنِی فَلَمْ تُشَمِّتْہُ وَعَطَسَتْ فَشَمَّتَّہَا ، قَالَ : إنَّ ابْنَک عَطَسَ وَلَمْ یَحْمَدِ اللَّہَ فَلَمْ أُشَمِّتْہُ ، وَعَطَسَتْ ہذہ وَحَمِدَتِ اللَّہَ فَشَمَّتُّہَا ، وَسَمِعْت رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : إذَا عَطَسَ أَحَدُکُمْ فَحَمِدَ اللَّہَ فَشَمِّتُوہُ ، وَإِذَا لَمْ یَحْمَدِ اللَّہَ فَلاَ تُشَمِّتُوہُ۔ (بخاری ۹۴۱۔ مسلم ۲۲۹۲)
(٢٦٤٩٦) حضرت ابو بردہ فرماتے ہیں کہ میں حضرت ابو موسیٰ کے پاس آیا اس حال میں کہ آپ بنت فضل کے گھر میں تھے، پس مجھے چھینک آئی تو آپ نے مجھے یرحمک اللہ نہیں کہا اور بنت فضل کو چھینک آئی تو آپ نے اس کو یرحمک اللہ کہا۔ میں اپنی والدہ کے پاس واپس آیا اور میں نے انھیں اس بارے میں بتایا جب وہ آپ کی خدمت میں آئیں تو کہا : بیشک میرے بیٹے کو آپ کے پاس چھینک آئی تو آپ نے اس کو تو یرحمک اللہ نہیں کہا ، اور اس لڑکی کو چھینک آئی تو آپ نے اس کو یرحمک اللہ کہا۔ آپ نے فرمایا : تیرے بیٹے کو چھینک آئی اور اس نے الحمد للہ نہیں کہا تو میں نے بھی اسے یرحمک اللہ نہیں کہا ، اور اس لڑکی کو چھینک آئی تو اس نے الحمد للہ کہا تو میں نے بھی اسے یرحمک اللہ کے ذریعہ جواب دیا اور میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یوں فرماتے ہوئے سنا کہ جب تم میں کسی کو چھینک آئے اور وہ الحمد للہ کہے تو تم اسے یرحمک اللہ کہہ کر دعا دو اور جب وہ الحمد للہ نہ کہے تو تم بھی یرحمک اللہ مت کہو۔

26496

(۲۶۴۹۷) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو ، عَنْ أَبِی سَلَمَۃَ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مِنْ حَقِّ الْمُسْلِمِ عَلَی الْمُسْلِمِ تَشْمِیتُ الْعَاطِسِ إذَا حَمِدَ اللَّہَ۔ (مسلم ۱۷۰۴)
(٢٦٤٩٧) حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : مسلمان کا مسلمان پر حق ہے : کہ چھینکنے والا جب الحمد للہ کہے تو اسے یرحمک اللہ کہہ کر دعا دے۔

26497

(۲۶۴۹۸) حَدَّثَنَا یَعْلَی بْنُ عُبَیْدٍ ، عَنْ أَبِی مُنَیْنٍ ، عَنْ أَبِی حَازِمٍ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : کُنَّا جُلُوسًا عِنْدَ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَعَطَسَ رَجُلٌ فَحَمِدَ اللَّہَ فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : یَرْحَمُک اللَّہُ ، ثُمَّ عَطَسَ آخَرُ فَسَکَتَ ، فَلَمْ یَقُلْ لَہُ شَیْئًا ، فَقَالَ : یَا رَسُولَ اللہِ ، عَطَسَ ہَذَا فَقُلْت لَہُ : رَحِمَک اللَّہُ ، وَعَطَسْت فَلَمْ تَقُلْ لِی شَیْئًا ؟ فَقَالَ : إنَّ ہَذَا حَمِدَ اللَّہَ وَأَنْتَ سَکَتَّ۔ (بخاری ۹۳۰)
(٢٦٤٩٨) حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ ہم لوگ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک آدمی کو چھینک آئی اس نے الحمد للہ کہا تو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کہا یرحمک اللہ، پھر دوسرے کو چھینک آئی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خاموش رہے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے کچھ نہیں فرمایا : اس آدمی نے کہا : اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! اس کو چھینک آئی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو یرحمک اللہ کہہ کر دعا دی اور مجھے چھینک آئی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے کچھ دعا نہیں دی ! آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اس نے الحمد للہ کہا تھا اور تو خاموش رہا ۔

26498

(۲۶۴۹۹) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَوَائٍ، عَنْ غَالِبٍ، قَالَ: کَانَ الْحَسَنُ، وَابْنُ سِیرِینَ لاَ یُشَمِّتَانِ الْعَاطِسَ حَتَّی یَحْمَدَاللَّہَ۔
(٢٦٤٩٩) حضرت غالب فرماتے ہیں کہ حضرت حسن بصری اور حضرت ابن سیرین یہ دونوں حضرات چھینکنے والے کو یرحمک اللہ کہہ کر دعا نہیں دیتے تھے یہاں تک کہ وہ الحمد للہ کہہ لیتا۔

26499

(۲۶۵۰۰) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ ، قَالَ : عَطَسَ رجل عِنْدَ الْقَاسِمِ فَقَالَ لَہُ الْقَاسِمُ : قُلْ : الْحَمْدُ لِلَّہِ ، فَلَمَا قَالَ شَمَّتَہُ۔
(٢٦٥٠٠) حضرت عبید اللہ فرماتے ہیں کہ ایک آدمی کو حضرت قاسم کے پاس چھینک آئی، تو حضرت قاسم نے اس سے فرمایا : الحمد للہ کہو، جب اس نے کہا تو آپ نے اسے یرحمک اللہ کہہ کر دعا دی۔

26500

(۲۶۵۰۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ سَالِمٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو ، أَنَّ رَجُلاً عَطَسَ عِنْدَہُ فَشَمَّتَہُ ، ثُمَّ عَطَسَ فَشَمَّتَہُ ، ثُمَّ عَادَ فِی الثَّالِثَۃِ فَقَالَ : إنَّک مَضْنُوکٌ۔
(٢٦٥٠١) حضرت نعمان بن سالم فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمرو کے پاس ایک آدمی کو چھینک آئی تو آپ نے اسے یرحمک اللہ کہہ کر دعا دی، پھر اسے دوبارہ چھینک آئی تو آپ نے پھر یرحمک اللہ کہا، پھر اسے تیسری بار چھینک آئی تو آپ نے فرمایا : بیشک تو زکام میں مبتلا ہے۔

26501

(۲۶۵۰۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ فِطْرٍ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنِ الْحَارِثِ ، عَنْ عَلِیٍّ ، قَالَ : شَمِّتِ الْعَاطِسَ مَا بَیْنَکَ وَبَیْنَہُ ثَلاَثًا ، فَإِنْ زَادَ ، فَہُوَ رِیحٌ۔
(٢٦٥٠٢) حضرت حارث فرماتے ہیں کہ حضرت علی نے ارشاد فرمایا : تم چھینکنے والے کو یرحمک اللہ کہو جب وہ تمہارے سامنے تین مرتبہ چھینکے اگر وہ زیادہ چھینکتا ہے تو یہ بیماری ہے۔

26502

(۲۶۵۰۳) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ الْحُبَابِ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ بْنِ عَمَّارٍ ، قَالَ : حدَّثَنِی إیَاسُ بْنُ سَلَمَۃَ بْنِ الأَکْوَعِ ، أَنَّ أَبَاہُ حَدَّثَہُ ، أَنَّ رَجُلاً عَطَسَ عِنْدَ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ : رَحِمَک اللَّہُ ، ثُمَّ عَطَسَ الثَّانِیَۃَ ، فَقَالَ : ہُوَ مَزْکُومٌ۔ (مسلم ۲۲۹۲۔ ابوداؤد ۴۹۹۸)
(٢٦٥٠٣) حضرت ایاس بن سلمہ فرماتے ہیں کہ ان کے والد حضرت سلمہ بن اکوع نے ارشاد فرمایا : کہ ایک آدمی کو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس چھینک آئی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : یرحمک اللہ، پھر دوسری مرتبہ اسے پھر چھینک آئی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : یہ تو زکام میں مبتلا ہے۔

26503

(۲۶۵۰۴) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ ، عَنْ مُصْعَبِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ ذُؤَیْبٍ ، قَالَ : عَطَسَ رَجُلٌ عِنْدَ ابْنِ الزُّبَیْرِ فَشَمَّتَہُ ، ثُمَّ عَطَسَ فَشَمَّتَہُ ، ثُمَّ عَطَسَ الثَّالِثَۃَ فَشَمَّتَہُ ، ثُمَّ عَطَسَ فِی الرَّابِعَۃِ فَقَالَ لَہُ : ابْنُ الزُّبَیْرِ : إنَّک مَضْنُوکٌ فَامْتَخِط۔
(٢٦٥٠٤) حضرت مصعب بن عبد الرحمن بن ذؤیب فرماتے ہیں کہ ایک آدمی کو حضرت ابن زیبر کے پاس چھینک آئی تو آپ نے اسے یرحمک اللہ کہہ کر دعا دی۔ اسے پھر چھینک آئی، تو آپ نے دوبارہ یرحمک اللہ کہہ کر دعا دی اسے تیسری مرتبہ پھر چھینک آئی تو آپ نے اسے یرحمک اللہ کہہ کر دعا دی، پھر جب چوتھی مرتبہ اسے چھینک آئی تو حضرت عبداللہ بن زبیر نے اس سے فرمایا : بیشک تم تو زکام میں مبتلا ہو تم اپنی ناک صاف کرو۔

26504

(۲۶۵۰۵) حَدَّثَنَا جَرِیرُ بْنُ عَبْدِ الْحَمِیدِ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : قَالَ عَمْرُو بْنُ الْعَاصِ : إذَا عَطَسَ أَحَدُکُمْ ثَلاَثَ مَرَّاتٍ فَشَمِّتُوہُ ، فَإِنْ زَادَ فَلاَ تُشَمِّتُوہُ ، فَإِنَّمَا ہُوَ دَائٌ یَخْرُجُ مِنْ رَأْسِہِ۔
(٢٦٥٠٥) امام شعبی فرماتے ہیں کہ حضرت عمرو بن العاص نے ارشاد فرمایا : جب تم میں کسی کو تین مرتبہ چھینک آئے تو تم اسے یرحمک اللہ کہہ کر دعا دو ، اور اگر زیادہ مرتبہ آئے تو اسے یرحمک اللہ مت کہو کیونکہ یہ تو بیماری ہے جو اس کے سر سے نکلتی ہے۔

26505

(۲۶۵۰۶) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جَعْفَرِ بْنِ الزُّبَیْرِ ، أَنَّ رَجُلاً عَطَسَ عِنْدَ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَشَمَّتَہُ ، ثُمَّ عَطَسَ فَشَمَّتَہُ ، ثُمَّ عَطَسَ فَشَمَّتَہُ ، ثُمَّ عَطَسَ الرَّابِعَۃَ فَقَالَ لَہُ : النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إنَّک مَضْنُوکٌ فَامْتَخِط۔
(٢٦٥٠٦) حضرت محمد بن جعفر بن زبیر فرماتے ہیں کہ ایک آدمی کو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس چھینک آئی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے یرحمک اللہ کہہ کر دعا دی پھر اسے چھینک آئی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یرحمک اللہ کہہ کر دعا دی، اسے پھر چھینک آئی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یرحمک اللہ کہہ کر دعا دی، پھر جب چوتھی مرتبہ اسے چھینک آئی تو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے فرمایا : تم تو زکام میں مبتلا ہو، جاؤ جا کر اپنی ناک صاف کرو۔

26506

(۲۶۵۰۷) حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ الأَزْرَقُ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ؛ فِی الرَّجُلِ یَعْطِسُ مِرَارًا ، قَالَ : شَمِّتْہُ مَرَّۃً وَاحِدَۃً۔
(٢٦٥٠٧) حضرت ہشام فرماتے ہیں کہ حضرت حسن بصری نے اس شخص کے بارے میں جسے بار بار چھینک آرہی ہو یوں ارشاد فرمایا : کہ تم اسے ایک مرتبہ ہی یرحمک اللہ کہہ دو ۔

26507

(۲۶۵۰۸) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، قَالَ یُجْزِئُہُ أَنْ یُشَمِّتَہُ مَرَّۃً وَاحِدَۃً۔
(٢٦٥٠٨) حضرت منصور فرماتے ہیں کہ حضرت مجاہد نے ارشاد فرمایا : ایسے شخص کو ایک مرتبہ یرحمک اللہ کہہ دینا کافی ہے۔

26508

(۲۶۵۰۹) حَدَّثَنَا مُعْتَمِرُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ أَبِی الْمُنَبِّہِ ، قَالَ : سَأَلْتُ الْحَسَنَ عَنِ الرَّجُلِ یَحْتَاجُ إلَی الدُّخُولِ عَلَی أَہْلِ الذِّمَّۃِ مِنْ مَطَرٍ ، أَوْ بَرْدٍ ، أَیَسْتَأْذِنُ عَلَیْہِمْ ؟ قَالَ : نَعَمْ۔
(٢٦٥٠٩) حضرت ابو المنذر فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت حسن بصری سے اس آدمی کے متعلق پوچھا : جو ٹھنڈ یا بارش کی وجہ سے ذمیوں کے پاس جانے کا محتاج ہے ، کیا وہ ان سے اجازت طلب کرے ؟ آپ نے فرمایا : جی ہاں !۔

26509

(۲۶۵۱۰) حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ مُعَاذٍ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، قَالَ : قُلْتُ لِمُحَمَّدٍ : کَیْفَ أَسْتَأْذِنُ عَلَی أَہْلِ الْکِتَابِ ؟ قَالَ : إِنْ شِئْتَ قُلْتَ : السَّلاَمُ عَلَی مَنِ اتَّبَعَ الْہُدَی أَلِجُ ؟۔
(٢٦٥١٠) حضرت ابن عون فرماتے ہیں کہ میں نے امام محمد سے پوچھا کہ میں اہل کتاب سے کیسے اجازت مانگوں ؟ آپ نے فرمایا : اگر تم چاہو تو یوں کہو : ہدایت کی پیروی کرنے والوں پر سلام ہو ، کیا میں داخل ہو جاؤں ؟

26510

(۲۶۵۱۱) حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ، عَن حُصَیْنٍ، عَنْ أَبِی مَالِکٍ الْغِفَارِیِّ ، قَالَ: إذَا دَخَلْت بَیْتًا فِیہِ الْمُشْرِکُونَ فَقُلْ: السَّلاَمُ عَلَیْنَا وَعَلَی عِبَادِ اللہِ الصَّالِحِینَ، یَحْسَبُونَ أَنَّک قَدْ سَلَّمْت عَلَیْہِمْ، وَقَدْ صَرَفْت السَّلاَمَ عَنہُمْ۔
(٢٦٥١١) حضرت حصین فرماتے ہیں کہ حضرت ابو مالک غفاری نے ارشاد فرمایا : جب تم کسی ایسے گھر میں داخل ہو جس میں مشرکین موجود ہوں تو تم یوں کہو : السَّلاَمُ عَلَیْنَا وَعَلَی عِبَادِ اللہِ الصَّالِحِینَ ۔ ترجمہ : ہم پر اور اللہ کے نیک بندوں پر سلام ہو، وہ سمجھیں گے کہ تم نے ان کو سلام کیا حالانکہ تم نے ان سے سلام کو پیری دیا ہے۔

26511

(۲۶۵۱۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن سُفْیَانَ ، عَن مَنْصُورٍ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، عَن عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ یَزِیدَ ، أَنَّہُ کَانَ یَسْتَأْذِنُ عَلَی أَہْلِ الذِّمَّۃِ۔
(٢٦٥١٢) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ حضرت عبد الرحمن بن یزید ذمیوں پر داخل ہونے سے پہلے اجازت طلب کرتے تھے۔

26512

(۲۶۵۱۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، عَن سُفْیَانَ، عَنْ أَبِی سِنَانٍ، عَن سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ، قَالَ: لاَ تَدْخُلْ عَلَی أَہْلِ الْکِتَابِ إلاَّ بِإِذْنٍ۔
(٢٦٥١٣) حضرت ابو سنان فرماتے ہیں کہ حضرت سعید بن جبیر نے ارشاد فرمایا : تم اہل کتاب پر بھی بغیر جازت کے داخل مت ہو۔

26513

(۲۶۵۱۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن سُفْیَانَ ، عَن حَمَّادٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، عَنِ الأَسْوَدِ ، أَنَّہُ کَانَ یَقُولُ : أندرآیم۔
(٢٦٥١٤) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ حضرت اسود فرماتے تھے کہ کیا میں اندر آ جاؤں ؟

26514

(۲۶۵۱۵) حَدَّثَنَا مُعْتَمِرُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ أَبِی الْمُنَبِّہِ ، عَنِ ابْنِ أَبِی نَجِیحٍ ، عَن مُجَاہِدٍ ، قَالَ : عَطَسَ رَجُلٌ عِنْدَ ابْنِ عُمَرَ فَقَالَ: أَشْہَبُ، قَالَ ابْنُ عُمَرَ: أَشْہَبُ اسْمُ شَیْطَانٍ، وَضَعَہُ إبْلِیسُ بَیْنَ الْعَطْسَۃِ وَالْحَمْدُ لِلَّہِ لِیُذْکَرَ۔
(٢٦٥١٥) حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ ایک آدمی کو حضرت ابن عمر کے پاس چھینک آئی تو اس نے کہا : اشھب۔ حضرت ابن عمر نے فرمایا : اشھب شیطان کا نام ہے، جو اس نے چھینک اور الحمد للہ کے درمیان رکھا ہے تاکہ اس کا ذکر ہوجائے۔

26515

(۲۶۵۱۶) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَن مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، أَنَّہُ کَانَ یَکْرَہَ أَنْ یَقُولَ : أَشْہَبُ ، إذَا عَطَسَ۔
(٢٦٥١٦) حضرت مغیرہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم مکروہ سمجھتے تھے کہ جب چھینک آئے تو یوں کہا جائے : اشھب۔

26516

(۲۶۵۱۷) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِ ، عَن حُصَیْنٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : إذَا عَطَسَ وَہُوَ وَحْدَہُ فَلْیَقُلِ : الْحَمْدُ لِلَّہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ ، ثُمَّ یَقُولُ : یَرْحَمُنَا اللَّہُ وَإِیَّاکُمْ ، فَإِنَّہُ یُشَمِّتُہُ مَنْ سَمِعَہُ مِنْ خَلْقِ اللہِ۔
(٢٦٥١٧) حضرت حصین فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم نے ارشاد فرمایا : جب کسی شخص کو چھینک آئے اس حال میں کہ وہ تنہا ہو تو اس کو چاہیے کہ وہ یوں کہے : الْحَمْدُ لِلَّہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ ۔ پھر یوں کہے : یَرْحَمُنَا اللَّہُ وَإِیَّاکُمْ ۔ اس سے کہ اللہ کی مخلوق میں سے جس نے اس کی چھینک کو سنا ہوگا تو اس نے یرحمک اللہ کہہ کر اس کو دعا دی ہوگی۔

26517

(۲۶۵۱۸) حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ عَیَّاشٍ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ أَبِی وَائِلٍ ، قَالَ : إذَا عَطَسْت وَأَنْتَ وَحْدَک فَرُدَّ عَلَی مَنْ مَعَک یَعْنِی مِنَ الْمَلاَئِکَۃِ۔
(٢٦٥١٨) حضرت عاصم فرماتے ہیں کہ حضرت ابو وائل نے ارشاد فرمایا : جب تجھے چھینک آئے اور تو تنہا ہو ، تو تو جواب دے ان کو جو تیرے ساتھ ہیں یعنی ملائکہ کو۔

26518

(۲۶۵۱۹) حَدَّثَنَا علی بْنُ مُسْہِرٍ ، عَنِ ابْنِ أَبِی لَیْلَی ، عَنْ عِیسَی ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِی لَیْلَی ، عَنْ عَلِیٍّ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إذَا عَطَسَ أَحَدُکُمْ فَلْیَقُلْ : الْحَمْدُ لِلَّہِ ، وَلْیَرُدَّ عَلَیْہِ مَنْ حَوْلَہُ رَحِمَک اللَّہُ ، وَلْیَرُدَّ عَلَیْہِمْ : یَہْدِیکُمُ اللَّہُ وَیُصْلِحُ بَالَکُمْ۔ (ترمذی ۲۷۴۱۔ احمد ۵/۱۲۲)
(٢٦٥١٩) حضرت علی فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جب تم میں کسی کو چھینک آئے تو وہ یوں کہے : الحمد للہ اور چاہیے کہ اس کے اردگرد والے لوگ اسے جواب میں یوں کہیں : رحمک اللہ اور ان کو یوں جواب دیا جائے گا : یَہْدِیکُمُ اللَّہُ وَیُصْلِحُ بَالَکُمْ ۔

26519

(۲۶۵۲۰) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ ، عَنْ أَبِی عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : إذَا عَطَسَ أَحَدُکُمْ فَلْیَقُلِ : الْحَمْدُ لِلَّہِ ، وَلْیَقُلْ مَنْ عِندَہُ : یَرْحَمُک اللَّہُ ، وَلْیَرُدَّ عَلَیْہِمْ : یَغْفِرُ اللَّہُ لَنَا وَلَکُمْ۔ (بخاری ۹۳۴۔ حاکم ۲۶۶)
(٢٦٥٢٠) حضرت ابو عبد الرحمن فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود نے ارشاد فرمایا : جب تم میں کسی کو چھینک آئے تو وہ یوں کہے : اَلْحَمْدُ لِلّٰہ ۔ اور جو لوگ اس کے پاس ہیں وہ جواب میں یوں کہیں : یَرْحَمُکَ اللّٰہ۔ اور چاہیے کہ ان کو جواب میں یوں کہا جائے : یَغْفِرُ اللَّہُ لَنَا وَلَکُمْ ۔

26520

(۲۶۵۲۱) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ، قَالَ: کَانَ أَصحَاب عَبد اللہ إذَا عَطَسَ الرَّجُل، فَقَالَ الْحَمْدُ لِلَّہِ قَالُوا : یَرْحَمُنَا اللَّہُ وَإِیَّاک ، وَیَقُول ہُو : یَغْفِرُ اللَّہُ لَنَا وَلَکُمْ۔
(٢٦٥٢١) امام اعمش فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم نے ارشاد فرمایا : کہ حضرت عبداللہ بن مسعود کے اصحاب میں سے کسی آدمی کو چھینک آتی تو وہ یوں کہتا : الْحَمْدُ لِلَّہِ ۔ وہ لوگ یوں جواب دیتے۔ یَرْحَمُنَا اللَّہُ وَإِیَّاک اور پھر وہ شخص جواب میں یوں کہتا : یَغْفِرُ اللَّہُ لَنَا وَلَکُمْ ۔

26521

(۲۶۵۲۲) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنِ ابْنِ عَجْلاَنَ ، عَن نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، أَنَّہُ کَانَ إذَا شَمَّتَ الْعَاطِسَ ، قَالَ : یَرْحَمُنَا اللَّہُ وَإِیَّاکُمْ ، فَإِذَا عَطَسَ ہُوَ فَشُمِّتَ ، قَالَ : یَغْفِرُ اللَّہُ لَنَا وَلَکُمْ وَیَرْحَمُنَا وَإِیَّاکُمْ۔
(٢٦٥٢٢) حضرت نافع فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عمر جب کسی چھینکنے والے کو یَرْحَمُکَ اللّٰہ کہتے تو وہ جواب میں یوں کہتا : یَرْحَمُنَا اللَّہُ وَإِیَّاکُمْ ۔ اور جب آپ کو چھینک آتی اور آپ کو یَرْحَمُکَ اللّٰہ کہہ کر دعا دی جاتی تو آپ یوں فرماتے : یَغْفِرُ اللَّہُ لَنَا وَلَکُمْ وَیَرْحَمُنَا وَإِیَّاکُمْ ۔

26522

(۲۶۵۲۳) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنِ ابْنِ عَجْلاَنَ ، عَنِ الْحَارِثِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : کَانَ عَبْدُ اللہِ إذَا عَطَسَ فَشُمِّتَ ، قَالَ : یَغْفِرُ اللَّہُ لَنَا وَلَکُمْ۔
(٢٦٥٢٣) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ جب حضرت عبداللہ بن مسعود کو چھینک آنے کے بعد یرحمک اللّٰہ کہہ کر دعا دی جاتی تو آپ جواب میں یوں فرماتے۔ یَغْفِرُ اللَّہُ لَنَا وَلَکُمْ ۔

26523

(۲۶۵۲۴) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : کَانَ إذَا شَمَّتُوا الْعَاطِسَ ، قَالُوا : یَغْفِرُ اللَّہُ لَنَا وَلَکُمْ۔
(٢٦٥٢٤) حضرت اعمش فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم نے ارشاد فرمایا : صحابہ جب چھینکنے والے کو دعا دیتے تو یوں کہتے : یَغْفِرُ اللَّہُ لَنَا وَلَکُمْ ۔

26524

(۲۶۵۲۵) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنِ الْحَجَّاجِ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنِ الْحَارِثِ ، عَنْ عَلِیٍّ ، قَالَ : إذَا شَمَّتَّ الْعَاطِسَ فَقُلْ : یَرْحَمُک اللَّہُ ، وَیَقُولُ ہُوَ : یَہْدِیکُمُ اللَّہُ وَیُصْلِحُ بَالَکُمْ۔
(٢٦٥٢٥) حضرت حارث فرماتے ہیں کہ حضرت علی نے ارشاد فرمایا : جب کوئی چھینکنے والے کو دعا دے تو یوں کہے : یَرْحَمُک اللَّہُ ۔ اور وہ جواب میں یوں کہے : یَہْدِیکُمَ اللَّہُ وَیُصْلِحُ بَالَکُمْ ۔

26525

(۲۶۵۲۶) حَدَّثَنَا سُوَیْد بْنُ عَمْرٍو ، قَالَ : أَخْبَرَنَا الْمَاجِشُونُ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ دِینَارٍ ، عَنْ أَبِی صَالِحٍ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : إذَا رَدَّ فَلْیَقُلْ : یَہْدِیکُمُ اللَّہُ وَیُصْلِحُ بَالَکُمْ۔ (بخاری ۶۲۲۴۔ احمد ۲/۳۵۳)
(٢٦٥٢٦) حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا؛ جب چھینک والا جواب دے تو یوں کہے : یَہْدِیکُمُ اللَّہُ وَیُصْلِحُ بَالَکُمْ ۔

26526

(۲۶۵۲۷) حَدَّثَنَا عَائِذُ بْنُ حَبِیبٍ ، عَن طَلْحَۃَ بْنِ یَحْیَی ، قَالَ : سَمِعْتُ عُرْوَۃَ بْنَ الزُّبَیْرِ ، وَیَحْیَی وَعِیسَی بْنَ أَبِی طَلْحَۃَ وَإِبْرَاہِیمَ بْنَ مُحَمَّدِ بْنِ طَلْحَۃَ یقولون إذَا عَطَسَ أَحَدُکُمْ فَقِیلَ لَہُ : یَرْحَمُک اللَّہُ ، قَالَ: یَہْدِیکُمُ اللَّہُ وَیُصْلِحُ بَالَکُمْ۔
(٢٦٥٢٧) حضرت طلحہ بن یحییٰ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عروہ بن زبیر، حضرت یحییٰ ، حضرت عیسیٰ بن ابی طلحہ، حضرت ابراہیم بن محمد بن طلحہ ان سب حضرات کو یوں فرماتے ہوئے سنا؛ جب تم میں سے کسی کو چھینک آئے تو اسے یوں کہا جائے گا : یَرْحَمُکَ اللّٰہ ۔ اور وہ جواب میں یوں کہے : یَہْدِیکُمُ اللَّہُ وَیُصْلِحُ بَالَکُمْ ۔

26527

(۲۶۵۲۸) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ الْمُبَارَکِ ، عَن یُونُسَ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، قَالَ : حدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ ، عَن مَرْوَانَ بْنِ الْحَکَمِ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الأَسْوَدِ بْنِ عَبْدِ یَغُوثَ ، عَن أُبَیٍّ ، أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : إنَّ مِنَ الشِّعْرِ حِکْمَۃً۔
(٢٦٥٢٨) حضرت ابی ّ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : یقیناً بعض شعر پر حکمت ہوتے ہیں۔

26528

(۲۶۵۲۹) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ، عَنِ الزُّہْرِیِّ، عَن عُرْوَۃَ، أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، قَالَ: مِنَ الشِعْرِ حِکْمَۃٌ۔
(٢٦٥٢٩) حضرت عروہ بن زبیر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : یقیناً بعض شعر پر حکمت ہوتے ہیں۔

26529

(۲۶۵۳۰) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، قَالَ : حدَّثَنَا زَائِدَۃُ ، عَن سِمَاکٍ ، عَن عِکْرِمَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یَقُولُ : إنَّ مِنَ الشِّعْرِ حُکْمًا۔
(٢٦٥٣٠) حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ارشاد فرمایا کرتے تھے۔ یقیناً بعض شعر فائدہ مند ہوتے ہیں۔

26530

(۲۶۵۳۱) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ أَبِی بُکَیر ، قَالَ : حدَّثَنَا حُسَامُ بْنُ الْمِصَکِّ ، عَنِ ابْنِ بُرَیْدَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إنَّ مِنَ الشِّعْرِ حُکْمًا۔
(٢٦٥٣١) حضرت بریدہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : یقیناً بعض شعر فائدہ مند ہوتے ہیں۔

26531

(۲۶۵۳۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن ہِشَامٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : إنَّ مِنَ الشِّعْرِ حُکْمًا۔
(٢٦٥٣٢) حضرت عروہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : یقیناً بعض شعر فائدہ مند ہوتے ہیں۔

26532

(۲۶۵۳۳) حَدَّثَنَا سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ بْنِ مَیْسَرَۃَ ، عَنِ ابْنِ الشَّرِیدِ ، أَوْ یَعْقُوبَ بْنِ عَاصِمٍ سَمِعَ أَحَدُہُمَا الشَّرِیدَ یَقُولُ : أَرْدَفَنِی النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خَلْفَہُ فَقَالَ : ہَلْ مَعَک مِنْ شِعْرِ أُمَیَّۃَ بْنِ أَبِی الصَّلْتِ شَیْئٌ؟ قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: ہِیہِ ، فَأَنْشَدْتہ بَیْتًا فَقَالَ : ہِیہِ ، فَلَمْ یَزَلْ یَقُولُ : ہِیہِ ہِیہِ حَتَّی أَنْشَدْتہ مِئَۃ۔
(٢٦٥٣٣) حضرت ابن شرید یا حضرت یعقوب بن عاصم ان دونوں میں سے ایک فرماتے ہیں کہ حضرت شرید نے فرمایا کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سواری پر مجھے اپنے پیچھے بٹھایا ۔ اور فرمایا : کیا تمہیں امیہ بن ابی صلت کے شعرکے کچھ اشعار یاد ہیں ؟ میں نے کہا : جی ہاں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : سناؤ تو میں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایک شعر سنا دیا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اور سناؤ، مسلسل آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہتے رہے۔ اور سناؤ اور سناؤ ! یہاں تک کہ میں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سو اشعار سنا دیئے۔

26533

(۲۶۵۳۴) حَدَّثَنَا طَلْقُ بْنُ غَنَّامٍ ، عَن قَیْسٍ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، عَن عَبِیدَۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : إنَّ مِنَ الشِّعْرِ حُکْمًا ، وَإِنَّ مِنَ الْبَیَانِ سِحْرًا۔
(٢٦٥٣٤) حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : یقیناً بعض اشعار پر حکمت ہوتے ہیں اور یقیناً بعض بیان جادو کا اثر رکھتے ہیں۔

26534

(۲۶۵۳۵) حَدَّثَنَا عِیسَی بْنُ یُونُسَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ یَعْلَی ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الشَّرِیدِ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : أَنْشَدْت رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِئَۃ قَافِیَۃٍ مِنْ شِعْرِ أُمَیَّۃَ بْنِ أَبِی الصَّلْتِ یَقُولُ بَیْنَ کُلِّ قَافِیَۃٍ : ہِیہِ ، وَقَالَ : إِنْ کَادَ لَیُسْلِمُ۔
(٢٦٥٣٥) حضرت شرید فرماتے ہں س کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو امیہ بن ابی صلت کے اشعار میں سے سو قافیہ سنائے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہر قافیہ کے درمیان فرماتے۔ اور سناؤ ۔ اور فرمایا : قریب تھا کہ وہ اسلام لے آتا۔

26535

(۲۶۵۳۶) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ، عَن مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ ، عَن یَعْقُوبَ بْنِ عُتْبَۃ ، عَن عِکْرِمَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صَدَّقَ أُمَیَّۃَ بْنَ أَبِی الصَّلْتِ فِی شَیْئٍ مِنْ شِعْرِہِ ، أَوْ قَالَ فِی بَیْتَیْنِ مِنْ شِعْرِہِ، فَقَالَ : زُحَلٌ وَثَوْرٌ تَحْتَ رِجْلِ یَمِینِہ وَالنَّسْرُ لِلاُخْرَی وَلَیْثٌ مُرْصَدُ قالَ : فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : صَدَقَ۔ وَالشَّمْسُ تَطْلُعُ کُلَّ آخِرِ لَیْلَۃٍ حَمْرَائَ یُصْبِحُ لَوْنُہَا یَتَوَرَّدُ فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : صَدَقَ۔
(٢٦٥٣٦) حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے امیہ بن ابی صلت کے اشعار میں سے ایک یا دو اشعار کی تصدیق کی ۔ اس نے یوں شعر کہا : ” زحل اور ثور اس کے دائیں پاؤں کے نیچے ہے اور نسر اس کے بائیں پاؤں کے نیچے ہے۔ اور لیث اس کی تاک میں ہے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اس نے سچ کہا۔ دوسرا شعر یہ ہے : سورج رات کے آخری حصے میں اس طرح طلوع ہوتا ہے کہ وہ سرخ ہوتا ہے اور اس کا رنگ گلابی ہونے لگتا ہے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اس نے سچ کہا۔

26536

(۲۶۵۳۷) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَن زَائِدَۃَ ، عَن سِمَاکٍ ، عَن عِکْرِمَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَتَمَثَّلُ مِنَ الأَشْعَارِ :وَیَأْتِیک بِالأَخْبَارِ مَنْ لَمْ تُزَوِّدْ۔
(٢٦٥٣٧) حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس شعر کو پڑھا کرتے تھے۔ (ترجمہ) زمانہ تیرے پاس ایسی خبریں لائے گا جو تجھے پہلے حاصل نہیں ہوں گی۔

26537

(۲۶۵۳۸) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَن زَائِدَۃَ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ عُمَیْرٍ ، عَن مُوسَی بْنِ طَلْحَۃَ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : إنَّ أَصْدَقَ کَلِمَۃٍ ، قَالَہَا شَاعِرٌ کَلِمَۃُ لَبِیدٍ ، ثُمَّ تَمَثَّلَ أَوَّلَہُ وَتَرَکَ آخِرَہُ : أَلاَ کُلُّ شَیْئٍ مَا خَلاَ اللَّہَ بَاطِلٌ۔ وَکَادَ أُمَیَّۃُ بْنُ أَبِی الصَّلْتِ أَنْ یُسْلِمَ۔
(٢٦٥٣٨) حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : بلاشبہ سچی ترین بات جو کسی شاعر نے کہی وہ لبید کی بات ہے۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے شعر کا پہلا مصرعہ پڑھا اور اس کا دوسرا مصرعہ چھوڑ دیا۔ مصرعہ یہ ہے ( ترجمہ) اللہ کے سوا ہر چیز باطل اور فانی ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : قریب تھا کہ امیہ بن ابی صلت اسلام لے آتا۔

26538

(۲۶۵۳۹) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، عَن سُفْیَانَ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ عُمَیْرٍ ، عَنْ أَبِی سَلَمَۃَ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إنَّ أَصْدَقَ کَلِمَۃٍ ، قَالَہَا الشَّاعِرُ کَلِمَۃُ لَبِیَدٍ :أَلاَ کُلُّ شَیْئٍ مَا خَلاَ اللَّہَ بَاطِلٌ۔وَکَادَ أُمَیَّۃُ بْنُ أَبِی الصَّلْتِ یُسْلِمَ۔
(٢٦٥٣٩) حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : یقیناً سچی ترین بات جو کسی شاعر نے کہی وہ لبید کا یہ مصرعہ ہے ( ترجمہ) اللہ کے سوا ہر چیز باطل اور فانی ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : قریب تھا کہ امیہ بن ابی صلت اسلام لے آتا۔

26539

(۲۶۵۴۰) حَدَّثَنَا عَبْدَۃَ بْنِ سُلَیْمَانَ ، عَنْ أَبِی حیان ، عَن حَبِیبِ بْنِ أَبِی ثَابِتٍ ، أَنَّ حَسَّانَ بْنَ ثَابِتٍ أَنْشَدَ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَبْیَاتًا فَقَالَ : شَہِدْت بِإِذْنِ اللہِ أَنَّ مُحَمَّدًا وَأَنَّ أَبَا یَحْیَی وَیَحْیَی کِلاَہُمَا وَأَنَّ أَخَا الأَحْقَافِ إذَا قَامَ فِیہُمُ رَسُولُ الَّذِی فَوْقَ السَّمَاوَاتِ مِنْ عَلُ لَہُ عَمَلٌ فِی دِینِہِ مُتَقَبَّلُ یَقُولُ بِذَاتِ اللہِ فِیہِمْ وَیَعْدِلُ
(٢٦٥٤٠) حضرت حبیب بن ابی ثابت فرماتے ہیں کہ حضرت حسان بن ثابت نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ اشعار سنائے۔ (ترجمہ) میں اللہ کے حکم سے گواہی دیتا ہوں کہ محمد اس اللہ کے رسول ہیں جو آسمانوں کے اوپر ہے۔ حضرت یحییٰ اور ان کے والد (حضرت زکریا ) دونوں کا عمل اس دین میں قابل قبول ہے۔ اسی طرح حضرت ہود کا عمل بھی جب وہ لوگوں میں کھڑے ہو کر انھیں دین کی دعوت دیا کرتے تھے۔

26540

(۲۶۵۴۱) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ ، عَن مُجَالِدٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : اسْتَأْذَنَ حَسَّانُ النَّبِیَّ فِی قُرَیْشٍ ، قَالَ : کَیْفَ تَصْنَعُ بِنَسَبِی فِیہِمْ ؟ قَالَ : أَسُلُّک مِنْہُمْ کَمَا تُسَلُّ الشَّعْرَۃُ مِنَ الْعَجِینِ۔
(٢٦٥٤١) امام شعبی فرماتے ہیں کہ حضرت حسان نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے قریش کے بارے میں اشعار کہنے کی اجازت مانگی ، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم ایسا کیسے کرسکتے ہو حالانکہ میرا نسب بھی ان ہی میں سے ہے۔ انھوں نے عرض کیا۔ میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان میں سے ایسے نکال لوں گا جیسا کہ آٹے سے بال کو نکال لیا جاتا ہے۔

26541

(۲۶۵۴۲) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ ، عَن مُجَالِدٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : ذُکِرَ عِنْدَ عَائِشَۃَ حَسَّانُ فَقِیلَ لَہَا : إِنَّہُ قَدْ أَعَانَ عَلَیْک وَفَعَلَ وَفَعَلَ ، فَقَالَتْ : مَہْلاً ، فَإِنِّی سَمِعْت رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : إنَّ اللَّہَ یُؤَیِّدُ حَسَّانَ فِی شِعْرِہِ بِرُوحِ الْقُدُسِ۔
(٢٦٥٤٢) امام شعبی فرماتے ہیں کہ حضرت عائشہ کے سامنے حضرت حسان کا ذکر ہوا تو آپ سے کہا گیا : بیشک انھوں نے تو آپ کے خلاف مدد کی اور ایسا اور ایسا کیا۔ حضرت عائشہ نے فرمایا : چھوڑو، یقیناً میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یوں فرماتے ہوئے سنا : اللہ تعالیٰ نے حسان کی شعر کہنے میں روح القدس یعنی حضرت جبرائیل کے ذریعے مدد فرمائی۔

26542

(۲۶۵۴۳) حَدَّثَنَا عِیسَی بْنُ یُونُسَ ، عَن مُجَالِدٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : اہْجُ الْمُشْرِکِینَ , فَإِنَّ رُوحَ الْقُدُسِ مَعَک۔
(٢٦٥٤٣) امام شعبی فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : مشرکین کی ہجو بیان کرو۔ یقیناً روح القدس حضرت جبرائیل تمہارے ساتھ ہیں۔

26543

(۲۶۵۴۴) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، عَن ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، أَنَّ حَسَّانَ بْنَ ثَابِتٍ سَأَلَ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ یَہْجُوَ أَبَا سُفْیَانَ ، قَالَ : فَکَیْفَ بِقَرَابَتِی ؟ قَالَ : وَالَّذِی أَکْرَمَک لأسُلَّنَّکَ مِنْہُمْ سَلَّ الشَّعْرِ مِنَ الْعَجِینِ۔
(٢٦٥٤٤) حضرت عروہ بن زبیر فرماتے ہیں کہ حضرت حسان بن ثابت نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ابو سفیان کی ہجو کرنے کے بارے میں پوچھا : آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کیسے کرو گے وہ تو میرے قریبی رشتہ دار ہیں ؟ آپ نے فرمایا : قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو معزز بنایا۔ میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایسے کھچن لوں گا جیسے آٹے میں سے بال کھینچ لیا جاتا ہے۔

26544

(۲۶۵۴۵) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَنِ الشَّیْبَانِیِّ ، عَنْ عَدِیِّ بْنِ ثَابِتٍ ، عَنِ الْبَرَائِ بْنِ عَازِبٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِحَسَّانَ بْنِ ثَابِتٍ : اہْجُ الْمُشْرِکِینَ , فَإِنَّ جِبْرِیلَ مَعَک۔
(٢٦٥٤٥) حضرت براء بن عازب فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حسان بن ثابت سے فرمایا : مشرکین کی ہجو بیان کرو ۔ بیشک حضرت جبرائیل تمہارے ساتھ ہیں۔

26545

(۲۶۵۴۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِی خَالِدٍ الْوَالِبِیِّ ، قَالَ : کُنَّا نُجَالِسُ أَصْحَابَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَتَنَاشَدُونَ الأَشْعَارَ وَیَذْکُرُونَ أَمْرَ الْجَاہِلِیَّۃِ۔
(٢٦٥٤٦) حضرت اعمش فرماتے ہیں کہ حضرت ابو خالد والبی نے ارشاد فرمایا کہ ہم لوگ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب کی مجلسوں میں بیٹھا کرتے تھے تو وہ لوگ اشعار پڑھا کرتے تھے اور جاہلیت کے واقعات یاد کرتے تھے۔

26546

(۲۶۵۴۷) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عن أسامۃ , عَن نَافِعٍ ، قَالَ : کَانَت لِعَبْدِ اللہِ بن رواحۃ جَارِیَۃٌ ، فَکَانَ یُکَاتِمُ امْرَأَتَہُ غَشَیَانَہَا ، قَالَ : فَوَقَعَ عَلَیْہَا ذَاتَ یَوْمٍ ، فَجَائَ إلَی امْرَأَتِہِ فَاتَّہَمَتْہُ أَنْ یَکُونَ وَقَعَ عَلَیْہَا ، فَأَنْکَرَ ذَلِکَ فَقَالَتْ لہ : اقْرَأْ إذًا الْقُرْآنَ ، فَقَالَ : شَہِدْت بِإِذْنِ اللہِ أَنَّ مُحَمَّدًا وَأَنَّ أَبَا یَحْیَی وَیَحْیَی کِلاَہُمَا رَسُولُ الَّذِی فَوْقَ السَّمَاوَاتِ مِنْ عَلُ لَہُ عَمَلٌ فِی دِینِہِ مُتَقَبَّلُ فَقَالَتْ : أَولَی لکَ۔
(٢٦٥٤٧) حضرت نافع فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن رواحۃ کی ایک باندی تھی۔ آپ اس سے جماع کرنے کو اپنی بیوی سے چھپاتے تھے۔ ایک دن آپ نے اس اسے جماع کیا اور جب اپنی بیوی کے پاس آئے تو اس نے آپ پر الزام لگایا کہ آپ نے اس باندی سے جماع کیا ہے ؟ آپ نے اس کا انکار کیا تو آپ کی بیوی نے آپ سے کہا : اگر ایسی بات ہے تو قرآن پڑھو : آپ نے یہ اشعار پڑھ دیئے۔ (ترجمہ) میں اللہ کے حکم سے گواہی دیتا ہوں کہ محمد اس اللہ کے رسول ہیں جو آسمانوں کے اوپر ہے۔ حضرت یحییٰ اور ان کے والد دونوں کا عمل اس دین میں قابل قبول ہے۔ اس نے کہا : تم سچے ہو۔

26547

(۲۶۵۴۸) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، عَن مِسْعَرٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ ، عَن خَیْثَمَۃَ ، قَالَ أَتَی عُمَرَ شَاعِرٌ فَقَالَ : أُنْشِدُک ، فَاسْتَنْشَدَہُ ، فَجَعَلَ ہُوَ یُنْشِدُہُ ، فَذَکَرَ مُحَمَّدًا فَقَالَ : غَفَرَ اللَّہُ لِمُحَمَّدٍ بِمَا صَبَرَ ، قَالَ : یَقُولُ عُمَرُ : قَدْ فَعَلَ ، ثُمَّ أَبَا بَکْرٍ جَمِیعًا وَعُمَرَ ، فَقَالَ : مَا شَائَ اللَّہُ۔
(٢٦٥٤٨) حضرت خیثمہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر کے پاس ایک شاعر آیا اور کہنے لگا : کیا آپ کو شعر سناؤں ؟ آپ نے شعر سنانے کا کہا : تو وہ شعر سنا رہا تھا کہ اس نے حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ذکر کیا اور کہا : اللہ تعالیٰ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے درجات بلند فرمائے آپ نے تکالیف پر بہت صبر کیا۔ حضرت عمر نے فرمایا : تحقیق آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایسا ہی کیا پھر اس نے یہ مصرعہ پڑھا۔ آپ نے فرمایا : جو اللہ نے چاہا۔

26548

(۲۶۵۴۹) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَن مُصْعَبِ بْنِ سُلَیْمٍ ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ : تَمَثَّلَ الْبَرَائُ بَیْتًا مِنْ شِعْرٍ فَقُلْت : تُمَثِّلُ أَخِی بِبَیْتٍ مِنْ شِعْرٍ لاَ تَدْرِی لَعَلَّہُ آخِرُ شَیْئٍ تَکَلَّمْت بِہِ ، قَالَ : لاَ أَمُوتُ عَلَی فِرَاشِی ، لَقَدْ قَتَلْت مِنَ الْمُشْرِکِینَ وَالْمُنَافِقِینَ مِئَۃ إلاَّ رَجُلاً۔
(٢٦٥٤٩) حضرت انس فرماتے ہیں کہ حضرت برائ ایک شعر گنگنا رہے تھے، میں نے ان سے کہا کہ آپ شعر گنگنا رہے ہیں، اگر آپ کو اس حالت میں موت آگئی تو کیا ہوگا۔ انھوں نے جواب دیا کہ میں اپنے بستر پر نہیں مروں گا۔ میں نے ننانوے مشرکوں اور منافقوں کو قتل کیا ہے۔

26549

(۲۶۵۵۰) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِی خَالِدٍ الْوَالِبِیِّ ، قَالَ : کُنْتُ أَجْلِسُ مَعَ أَصْحَابِ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَلَعَلَّہُمْ لاَ یَذْکُرُونَ إلاَّ الشِّعْرَ حَتَّی یَتَفَرَّقُوا۔
(٢٦٥٥٠) امام شعبی فرماتے ہیں کہ حضرت ابو خالد والبی نے ارشاد فرمایا : میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ کے ساتھ بیٹھا کرتا تھا۔ بعض اوقات وہ اپی مجالس میں صرف اشعار کا ہی تذکرہ کیا کرتے تھے۔

26550

(۲۶۵۵۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ الْحَسَنِ ، عَنْ أَبِی الْجَحَّافِ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ کَانَ أَبُو بَکْرٍ شَاعِرًا ، وَکَانَ عُمَرُ شَاعِرًا ، وَکَانَ عَلِیٌّ شَاعِرًا۔
(٢٦٥٥١) امام شعبی نے ارشاد فرمایا : حضرت ابوبکر شاعر تھے، حضرت عمر شاعر تھے اور حضرت علی بھی شاعر تھے۔

26551

(۲۶۵۵۲) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا مُجَالِدٌ ، قَالَ : أَخْبَرَنَی عَامِرٌ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا رِبْعِیُّ بْنُ حِرَاشٍ ، أَنَّہُ أَتَی عُمَرَ فِی نَفَرٍ مِنْ غَطَفَانَ فَذَکَرُوا الشِّعْرَ فَقَالَ عُمَرُ : أَیُّ شُعَرَائِکُمْ أَشْعَرُ ؟ فَقَالُوا : أَنْتَ أَعْلَمُ یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ ، قَالَ : فَقَالَ عُمَرُ : مَنِ الَّذِی یَقُولُ : أَتَیْتُک عَارِیًّا خَلِقًا ثِیَابِی عَلَی خَوْفٍ تُظَنُّ بِی الظُّنُونُ فَأَلْفَیْت الأَمَانَۃَ لَمْ تَخُنْہَا کَذَلِکَ کَانَ نُوحٌ لاَ یَخُونُ قُلنا النَّابِغَۃُ , ثُمَّ قَالَ مِثْلَ ذَلِکَ ، ثُمَّ قَالَ : مَنِ الَّذِی یَقُولُ : حَلَفْت فَلَمْ أَتْرُکْ لِنَفْسِکَ رِیبَۃً وَلَیْسَ وَرَائَ اللہِ لِلْمَرْئِ مَذْہَبُ ثُمَّ قَالَ : مَنِ الَّذِی یَقُولُ : إلاَ سُلَیْمَانَ إذْ قَالَ الإِلَہُ لَہُ قُمْ فِی الْبَرِیَّۃِ فَازْجُرْہَا عَلی الْفَنَدِ قلْنَا : النَّابِغَۃُ ، قَالَ : ہَذَا أَشْعَرُ شُعَرَائِکُمْ۔
(٢٦٥٥٢) حضرت عامر فرماتے ہیں کہ حضرت ربعی بن حراش نے ارشاد فرمایا : میں غطفان کے لشکر میں حضرت عمر کے پاس آیا تو وہ لوگ شعروں کا تذکرہ کر رہے تھے۔ حضرت عمر نے فرمایا : تمہارے شعراء میں سب سے بڑا شاعر کون سا ہے ؟ ان لوگوں نے جواب دیا : امیر المؤمنین ! آپ زیادہ جانتے ہیں۔ اس پر حضرت عمر نے فرمایا : یہ شعر کس نے کہا ؟ (ترجمہ) میں تیرے پاس اس حال میں آیا کہ میں ننگے پاؤں تھا اور میرے کپڑے پرانے تھے۔ بہت سے اندیشوں نے مجھے گھیرا ہوا تھا۔ میں اپنی امانت کو اس حال میں پایا کہ تو نے اس میں خیانت نہ کی تھی۔ حضرت نوح بھی خیانت نہ کیا کرتے تھے۔
ہم لوگوں نے جواب دیا : نابغہ نے، آپ پھر ایسے ہی فرمایا اور پوچھا : یہ شعر کس نے کہا ؟ (ترجمہ) میں قسم کھاتا ہوں تاکہ تیرے دل میں کوئی شک باقی نہ رہے۔ اور اللہ کے سوا تو آدمی کا کوئی مذہب نہیں ہے۔
پھر آپ نے فرمایا : یہ شعر کس نے کہا ؟ (ترجمہ) سوائے سلیمان کہ جب اللہ تعالیٰ نے ان سے کہا لوگوں میں کھڑے ہوجاؤ اور انھیں دنیا کے فانی ہونے کا درس دو ۔
ہم نے جواب دیا : نابغہ نے۔ آپ نے فرمایا : یہ تمہارے شعراء میں سب سے بڑا شاعر ہے۔

26552

(۲۶۵۵۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن سُفْیَانَ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ أَبِی الضُّحَی ، أَنَّ أَبَا بَکْرٍ اسْتَنْشَدَ مَعْدِی کَرِبَ فَأَنْشَدَہُ ، وَقَالَ : مَا اسْتَنْشَدْت فِی الإِسْلاَمِ أَحَدًا قَبْلَک۔
(٢٦٥٥٣) حضرت ابوضحی فرماتے ہیں کہ حضرت ابوبکر نے معدی کرب سے شعر سنانے کا مطالبہ کیا، اور فرمایا : میں نے اسلام لانے کے بعد تجھ سے پہلے کسی سے بھی شعر سنانے کا مطالبہ نہیں کیا۔

26553

(۲۶۵۵۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن سَعِیدِ بْنِ حَسَّانَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُبَیْدِ بْنِ عُمَیْرٍ ، قَالَ : قَالَ أَبُو بَکْرٍ : رُبَّمَا قَالَ الشَّاعِرُ الْکَلِمَۃَ الْحِکَمِیَّۃَ۔
(٢٦٥٥٤) حضرت عبداللہ بن عبید بن عمیر فرماتے ہیں کہ حضرت ابوبکر نے ارشاد فرمایا : کبھی کبھار شاعر پر حکمت بات کہہ دیتا ہے۔

26554

(۲۶۵۵۵) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَن زَکَرِیَّا ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَن ہَانِئٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ عَلِیًّا یَقُولُ : اشْدُدْ حَیَازِیمَکَ لِلْمَوْتِ وَلاَ تَجْزَعْ مِنَ الْمَوْتِ فإنَّ الْمَوْتَ لاَقِیکَا إذَا حَلَّ بِوَادِیکَا
(٢٦٥٥٥) حضرت ھانی فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت علی کو یہ شعر پڑھتے ہوئے سُنا :(ترجمہ) تو اپنے سینہ کو موت کے لیے تیار کر لے۔۔۔اس لیے کہ موت تجھ سے ملاقات کرنے والی ہے اور تو ہرگز موت سے نہ ڈر۔۔۔جب موت تیری وادی میں اتر آئے۔

26555

(۲۶۵۵۶) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَن یَزِیدَ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ ، قَالَ : قَالَ عَلِیُّ بْنُ أَبِی طَالِبٍ لِلْمُرَادِیِّ : أُرِیدُ حَیَاتَہُ وَیُرِیدُ قَتْلِی عَذِیرَک مِنْ خَلِیِّکَ مِنْ مُرَادِ
(٢٦٥٥٦) حضرت ابن سیرین فرماتے ہیں کہ حضرت علی بن ابی طالب نے عبد الرحمن بن ملجم مرادی سے یوں کہا : (ترجمہ) میں اس کی زندگی کا ارادہ کرتا ہوں اور وہ میرے قتل کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ تم قبیلہ مراد میں سے کسی ایسے دوست کو لاؤ جو تمہارا عذر تسلیم کرے۔

26556

(۲۶۵۵۷) حَدَّثَنَا یَعلی بْنُ عُبَیْدٍ ، عَنْ أَبِی حَیَّانَ ، عَن مُجَمِّعٍ ، قَالَ : بَنَی عَلِیٌّ سِجْنًا فَسَمَّاہُ نَافِعًا ، ثُمَّ بَدَا لَہُ فَکَسَّرَہُ وَبَنَی أَحْصَنَ مِنْہُ ، ثُمَّ قَالَ بَیْتَ شِعْرٍ : أَلَمْ تَرَونی کَیِّسًا مُکَیَّسًا بَنَیْت بَعْدَ نَافِعٍ مُخَیَّسًا
(٢٦٥٥٧) حضرت مجمع فرماتے ہیں کہ حضرت علی نے ایک جیل بنائی اور اس کا نام نافع رکھا پھر آپ کے ذہن میں کوئی خیال آیا تو آپ نے اسے توڑ کر اس سے بھی مضبوط جیل بنائی پھر آپ نے یہ شعر کہا :(ترجمہ) کیا میں تمہیں صاحب عقل اور معروف عقلمند نہیں لگتا۔ میں نے نافع جیل کے بعد مخیس جیل بنادی۔

26557

(۲۶۵۵۸) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَن دَاوُد ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، أَنَّ عُمَرَ کَتَبَ إلَی الْمُغِیرَۃِ أَنْ یَسْتَنْطِق الشُّعَرَائَ عَندَہُ۔
(٢٦٥٥٨) امام شعبی فرماتے ہیں کہ حضرت عمر نے حضرت مغیرہ کو خط لکھا کہ وہ شعراء کو اپنے پاس بلا کر ان سے شعرسنیں۔

26558

(۲۶۵۵۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن سُفْیَانَ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ أَبِی بَشِیر ، عَن عِکْرِمَۃَ ، قَالَ : کُنْتُ أَسِیرُ مَعَ ابْنِ عَبَّاسٍ وَنَحْنُ مُنْطَلِقُونَ إلَی عَرَفَاتٍ ، فَکُنْت أُنْشِدُہُ الشِّعْرَ ، وَیَفْتَحُہُ عَلَیَّ۔
(٢٦٥٥٩) حضرت عبد الملک بن ابی بشیر فرماتے ہیں کہ حضرت عکرمہ نے ارشاد فرمایا : کہ میں حضرت ابن عباس کے ساتھ چل رہا تھا اور ہم لوگ عرفات کے میدان کی طرف جا رہے تھے۔ اور میں شعر پڑھ رہا تھا آپ میری غلطیاں درست فرما رہے تھے۔

26559

(۲۶۵۶۰) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَن شُعْبَۃَ ، عَن قَتَادَۃَ ، عَن مُطَرِّفِ بْنِ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : خَرَجْت مَعَ عِمْرَانَ بْنِ حُصَیْنٍ إلَی الْکُوفَۃِ ، فَکَانَ لاَ یَأْتِی عَلَیْہِ یَوْمٌ إلاَّ أَنْشَدَنَا فِیہِ الشِّعْرَ۔
(٢٦٥٦٠) حضرت قتادہ فرماتے ہیں کہ حضرت مطرف بن عبداللہ نے ارشاد فرمایا : کہ میں حضرت عمران بن حصین کے ساتھ کوفہ کی جانب نکلا۔ پس ان پر کوئی دن نہیں گزرتا تھا مگر یہ کہ وہ ہمیں شعر سناتے تھے۔

26560

(۲۶۵۶۱) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَن مُحَمَّدِ بْنِ سِیرِینَ ، عَن کَثِیرِ بْنِ أَفْلَحَ ، قَالَ : کَانَ أخِرُ مَجْلِسٍ جَلَسْنَا فِیہِ مَعَ زَیْدِ بْنِ ثَابِتٍ مَجْلِسًا تَنَاشَدْنَا فِیہِ الشِّعْرَ۔
(٢٦٥٦١) امام محمد بن سیرین فرماتے ہیں کہ حضرت کثیر بن افلح نے ارشاد فرمایا : سب سے آخری مجلس جس میں ہم حضرت زید بن ثابت کے ساتھ بیٹھے تھے وہ مجلس تھی جس میں ہم نے اشعار پڑھے تھے۔

26561

(۲۶۵۶۲) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ ، عَن ہِشَامٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ عَائِشَۃَ ، قَالَتْ : قدِمْنَا الْمَدِینَۃَ وَہِیَ وَبِیئۃٌ فَاشْتَکَی أَبُو بَکْرٍ وَاشْتَکَی بِلاَلٌ ، قَالَتْ : فَکَانَ أَبُو بَکْرٍ تعنی إذَا أَفَاقَ یَقُولُ : کُلُّ امْرِئٍ مُصْبِحٌ فِی أَہْلِہِ وَالْمَوْتُ أَدْنَی مِنْ شِرَاکِ نَعْلِہِ قالَتْ : وَکَانَ بِلاَلٌ إذَا أَفَاقَ یَقُولُ : أَلاَ لَیْتَ شِعْرِی ہَلْ أَبِیتَنَّ لَیْلَۃً وہَلْ أَرِدَنَّ یَوْمًا مِیَاہَ مِجَنَّۃٍ بِوَادٍ وَحَوْلِی إذْخِرٌ وَجَلِیلُ وَہَلْ یَبْدُوَنَّ لِی شَامَۃٌ وَطَفِیلُ
(٢٦٥٦٢) حضرت عروہ فرماتے ہیں کہ حضرت عائشہ نے ارشاد فرمایا : ہم لوگ مدینہ آئے اس حال میں کہ مدینہ وباء زدہ جگہ تھی، پس حضرت ابوبکر اور حضرت بلال بیمار ہوگئے ۔ جب حضرت ابوبکر صحت مند ہوئے تو آپ یہ شعر پڑھتے تھے :(ترجمہ) ہر آدمی اپنے گھروالوں میں صبح کرتا ہے اس حال میں کہ موت اس کی جوتی کے تسمہ سے بھی قریب ہوتی ہے۔
اور جب حضرت بلال صحت مند ہوئے تو وہ یہ شعر پڑھا کرتے تھے۔ (ترجمہ) کاش اے میرے شعر : میں رات گزاروں مکہ کی وادی میں اس حال میں کہ میرے اردگرد اذخر اور ثمامہ کی گھاس ہو۔ اور کیا میں کسی دن مجنّہ کے پانی کی جگہ اتروں گا اور کیا میرے سامنے شامہ اور طفیل چشمے ظاہر ہوں گے۔

26562

(۲۶۵۶۳) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ، عَن ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ، عَنْ أَبِیہِ، عَنْ عَائِشَۃَ، قَالَتْ: کَانَتْ تَتَمَثَّلُ ہَذَیْنِ الْبَیْتَیْنِ مِنْ قَوْلِ لَبِیَدٍ: ذَہَبَ الَّذِینَ یُعَاشُ فِی أَکْنَافِہِمْ یَتَأَکَّلُونَ مَشِیحَۃً وَخِیَانَۃً وَبَقِیت فِی خَلَفٍ کَجِلْدِ الأَجْرَبِ وَیُعَابُ قَائِلُہُمْ وَإِنْ لَمْ یَشْغَبْ
(٢٦٥٦٣) حضرت عروہ فرماتے ہیں کہ حضرت عائشہ لبید کے اشعار میں سے اکثر ان دو مصرعوں کو پڑھا کرتی تھیں۔ (ترجمہ) وہ لوگ چلے گئے جن کی حفاظت میں زندگی گزاری جاتی تھی۔ اور میں باقی رہ گئی پیچھے خارش زدہ اونٹ کی کھال کی طرح۔ اور لوگ چغلیاں اور خیانت کرتے ہیں۔ اور کہنے والے کو عیب لگایا جاتا ہے اگرچہ وہ فساد نہ پھیلاتا ہو۔

26563

(۲۶۵۶۴) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ ، عَن ہِشَامٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ عَائِشَۃَ ، قَالَتْ : کَانَ عُمَرُ یَتَمَثَّلُ بِہَذَا الْبَیْتِ : إلَیْک تَعْدُو قَلِقًا وَضِینُہَا مُعْترِضًا فِی بَطْنِہَا جَنِینُہَا۔ مُخَالِفًا دِینَ النَّصَارَی دِینہَا۔
(٢٦٥٦٤) حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ حضرت عمر اس شعر کو پڑھا کرتے تھے۔ (ترجمہ) وہ تیرے پاس پریشان ہو کر اس حال میں بھاگتی ہوئے آئے گی کہ اس کے پیٹ کا بچہ تکلیف اٹھائے گا۔ اس کا دین نصاریٰ کے دین کے مخالف ہوگا۔

26564

(۲۶۵۶۵) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَن مُسْلِمٍ ، عَن مَسْرُوقٍ ، عَنْ عَائِشَۃَ ، قَالَتْ : دَخَلَ عَلَیْہَا حَسَّانُ بْنُ ثَابِتٍ بَعْدَ مَا کُفَّ بَصَرُہُ ، فَقِیلَ لَہَا ، أَتُدْخِلِینَ عَلَیْک ہَذَا الَّذِی قَالَ اللَّہُ : {وَالَّذِی تَوَلَّی کِبْرَہُ مِنْہُمْ لَہُ عَذَابٌ عَظِیمٌ} قَالَتْ : أَوَلَیْسَ فِی عَذَابٍ عَظِیمٍ ، قَدْ کُفَّ بَصَرُہُ ، قَالَ : فَأَنْشَدَہَا بَیْتًا ، قَالَہُ لاِبْنَتِہِ : حَصَانٌ رَزَانٌ مَا تُزَنُّ بِرِیبَۃٍ وَتُصْبِحُ غَرْثَی مِنْ لُحُومِ الْغَوَافِلِ قالَتْ : لَکِنَّ أَنْتَ لَسْت کَذَلِکَ۔
(٢٦٥٦٥) حضرت مسروق فرماتے ہیں کہ حضرت عائشہ کے پاس حضرت حسان بن ثابت اپنی بینائی چلے جانے کے بعد آئے۔ حضرت عائشہ کو بتایا گیا کہ آپ کے پاس وہ شخص آیا ہے جس کے بارے میں اللہ رب العزت نے یوں فرمایا : کہ جس نے اٹھایا اس کا بڑا بوجھ اس کے لیے بڑا عذاب ہے ؟ ! آپ نے فرمایا : کیا وہ بڑے عذاب میں نہیں ہے کہ تحقیق اس کی بینائی چلی گئی ۔ راوی کہتے ہیں کہ پھر حضرت حسان نے حضرت عائشہ کے بارے میں شعر سنایا جو اپنی بیٹی کے لیے کہا تھا۔ (ترجمہ) وہ پاکدامن ہیں، بےعیب ہیں، کسی برے کام کا انھوں نے ارتکاب نہیں کیا۔ وہ پاکدامن عورتوں کے عزت پر انگلی نہیں اٹھاتیں۔ حضرت عائشہ نے فرمایا : لیکن تم ایسے نہیں ہو۔

26565

(۲۶۵۶۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن سُفْیَانَ ، عَنْ أَبِی فَزَارَۃَ ، عَنِ الْحَکَمِ ، أَنَّ عَبْدَ الرَّحْمَن بْنَ أَبِی لَیْلَی أَنْشَدَ شِعْرًا فِی الْمَسْجِدِ وَالْمُؤَذِّنُ یُقِیمُ۔
(٢٦٥٦٦) حضرت حکم فرماتے ہںٌ کہ حضرت عبد الرحمن بن ابی لیلیٰ نے مسجد میں شعر پڑھے اس حال میں کہ مؤذن اقامت کہہ رہا تھا۔

26566

(۲۶۵۶۷) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَن ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : مَا رَأَیْت أَحَدًا أَعْلَمَ بِشِعْرٍ ، وَلاَ فَرِیضَۃٍ ، وَلاَ أَعْلَمَ بِفِقْہٍ مِنْ عَائِشَۃَ۔
(٢٦٥٦٧) حضرت ہشام بن عروہ فرماتے ہیں کہ ان کے والد حضرت عروہ نے ارشاد فرمایا : میں نے حضرت عائشہ سے زیادہ کسی کو اشعار ، فرائض اور فقہ کو جاننے والا نہیں دیکھا۔

26567

(۲۶۵۶۸) حَدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَن فُرَاتٍ ، عَن سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ، قَالَ : (الْقَانِعُ) السَّائِلُ ، ثُمَّ أَنْشَدَ بیت شَمَّاخٍ وَقَالَ: لَمَالُ الْمَرْئِ یُصْلِحُہُ فیغنی ۔۔۔ مَفَاقِرُہُ أَعَفُّ مِنَ الْقَنُوعِ۔
(٢٦٥٦٨) حضرت فرّات فرماتے ہیں کہ حضرت سعید بن جبیر نے ارشاد فرمایا : کہ قرآن مجید میں القانع سے مراد سوال کرنے والا ہے۔ پھر آپ نے شماخ کا یہ شعر پڑھا۔ (ترجمہ) آدمی کا مال درستی پیدا کرتا ہے اور اس کے فقر کو مالداری سے بدل کر اسے سوال کرنے والوں کے مقابلے میں عفیف بنادیتا ہے۔

26568

(۲۶۵۶۹) حَدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَن بَیَانٍ ، عَنْ عَامِرٍ {فَإِذَا ہُمْ بِالسَّاہِرَۃِ} قَالَ : بِالأَرْضِ ، ثُمَّ أَنْشَدَ بیتا لأُمَیَّۃِ : فأتانا بلَحْمٍ بسَاہِرَۃٍ وَبَحْر
(٢٦٥٦٩) حضرت بیان فرماتے ہیں کہ حضرت عامر نے قرآن کی آیت : { فَإِذَا ہُمْ بِالسَّاہِرَۃِ } کے بارے میں ارشاد فرمایا : ساھرۃ سے مراد زمین ہے۔ پھر آپ نے امیہ کے شعر کا یہ مصرعہ پڑھا۔ (ترجمہ) وہ ہمارے پاس زمین اور سمندر کے گوشت کے ساتھ آیا۔

26569

(۲۶۵۷۰) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ عَاصِمٍ ، قَالَ : مَا سَمِعت الْحَسَنَ یَتَمَثَّلُ بِبَیْتٍ مِنْ شِعْرٍ قَطُّ إلاَّ ہَذَا الْبَیْتَ : لَیْسَ مَنْ مَاتَ فَاسْتَرَاحَ بِمَیِّتٍ إنَّمَا الْمَیِّتُ مَیِّتُ الأَحْیَائِ ثُمَّ قَالَ : صَدَقَ وَاللَّہِ ، إِنَّہُ لَیَکُونُ حَیًّا وَہُوَ مَیِّتُ الْقَلْبِ۔
(٢٦٥٧٠) حضرت عاصم فرماتے ہیں کہ میں نے کبھی بھی حضرت حسن بصری کو کسی شعر کے مصرعہ کو بطور تمثیل پڑھتے ہوئے نہیں سنا سوائے اس شعر کے : (ترجمہ) اصل مردہ وہ نہیں جو مرگیا اور آرام پا گیا اصل مردہ تو وہ ہے جو زندگی میں مردہ ہے۔
پھر آپ نے فرمایا : اللہ کی قسم ! شاعر نے سچ کہا : بیشک وہ زندہ ہے اس حال میں کہ دل مردار ہے۔

26570

(۲۶۵۷۱) حَدَّثَنَا سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَن ہِشَامٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ أَبِی یَقُولُ : تَرَکْتہَا یَعْنِی عَائِشَۃَ قَبْلَ أَنْ تَمُوتَ بِثَلاَثِ سِنِینَ ، وَمَا رَأَیْت أَحَدًا أَعْلَمَ بِکِتَابِ اللہِ ، وَلاَ بِسُنَّۃٍ ، عَن رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَلاَ بِشِعْرٍ ، وَلاَ فَرِیضَۃٍ مِنْہَا۔
(٢٦٥٧١) حضرت ہشام فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے والد حضرت عروہ کو یوں فرماتے ہوئے سنا کہ میں نے حضرت عائشہ کو ان کی وفات سے تین سال قبل چھوڑا ۔ اور میں نے کسی کو بھی آپ سے زیادہ قرآن مجید ، رسول اللہ کی سنت، اشعار اور فرائض کا جاننے والے کوئی نہیں دیکھا۔

26571

(۲۶۵۷۲) حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ ، قَالَ : الطَّیَالِسِیُّ ، عَن مِسْمَعِ بْنِ مَالِکٍ الْیَرْبُوعِیِّ ، قَالَ : سَمِعْتُ عِکْرِمَۃَ یَقُولُ : کَانَ ابْنُ عَبَّاسٍ إذَا سُئِلَ عَن شَیْئٍ مِنَ الْقُرْآنِ أَنْشَدَ أشْعَارًا مِنْ أَشْعَارِہِمْ۔
(٢٦٥٧٢) حضرت عکرمہ فرماتے ہیں کہ جب حضرت ابن عباس سے قرآن مجید میں سے کسی چیز کے متعلق سوال کیا جاتا ۔ تو آپ اہل عرب کے اشعار میں سے کوئی شعر پڑھتے۔

26572

(۲۶۵۷۳) حَدَّثَنَا حُسَین بْنُ عَلِیٍّ ، عَنِ ابْنِ أَبْجَرَ ، قَالَ : مَرَّ عَامِرٌ بِرَجُلَیْنِ عِنْدَ مَجْمَعِ طَرِیقَیْنِ وَہُمَا یَغتَبَانہ وَیَقَعَانِ فِیہِ فَقَالَ : ہَنِیئًا مَرِیئًا غَیْرَ دَائِ مُخَامِرٍ لِعَزَّۃَ مِنْ أَعْرَاضِنَا مَا اسْتَحَلَّتِ
(٢٦٥٧٣) حضرت ابن ابجبر فرماتے ہیں کہ حضرت عامر کا گزر دو آدمیوں کے قریب سے ہوا جو دو راستوں کے چلنے کی جگہ کے پاس تھے۔ اور وہ دونوں آپ کی غیبت کر رہے تھے اور آپ میں عیب نکال رہے تھے۔ اس پر آپ نے یہ شعر پڑھا :(ترجمہ) بالکل ٹھیک ہیں، خوشحال ہیں اور کسی بیماری کا شکار بھی نہیں، پھر بھی وہ ہماری عزتوں کو اچھالتے ہیں۔

26573

(۲۶۵۷۴) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ وَاضِحٍ ، عَن مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ ، عَن یَزِیدَ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ قُسَیْطٍ ، عَنْ أَبِی الْحَسَنِ الْبَرَّادِ ، قَالَ : لَمَّا نَزَلَتْ ہَذِہِ الآیَۃُ {وَالشُّعَرَائُ یَتَّبِعُہُمَ الْغَاوُونَ} جَائَ عَبْدُ اللہِ بْنُ رَوَاحَۃَ وَکَعْبُ بْنُ مَالِکٍ وَحَسَّانُ بْنُ ثَابِتٍ إلَی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَہُمْ یَبْکُونَ ، فَقَالُوا : یَا رَسُولَ اللہِ ، أَنْزَلَ اللَّہُ ہَذِہِ الآیَۃَ وَہُوَ یَعْلَمُ أَنَّا شُعَرَائُ ، فَقَالَ : اقَرَؤُوا مَا بَعْدَہَا : {إلاَ الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ} أَنْتُمْ {وَانْتَصَرُوا} أَنْتُمْ۔
(٢٦٥٧٤) حضرت یزید بن عبداللہ بن قسیط فرماتے ہیں کہ حضرت ابو الحسن برّاد نے ارشاد فرمایا : جب یہ آیت نازل ہوئی ۔ ” اور رہے شعراء تو ان کے پیچھے بہکے ہوئے لوگ چلتے ہیں۔ “ تو حضرت عبداللہ بن رواحہ ، حضرت کعب بن مالک اور حضرت حسان بن ثابت ، یہ تینوں حضرات روتے ہوئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آئے اور عرض کیا : یا رسول اللہ ! اللہ رب العزت نے یہ آیت اتاری اس حال میں کہ وہ جانتے ہیں کہ ہم لوگ شاعر ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم اس کے بعد والی آیت بھی پڑھو : مگر وہ جو ایمان لائے اور نیک اعمال کیے۔ تم لوگ ہو۔ ترجمہ : وہ لوگ کامیاب ہوئے۔ یہ بھی تم لوگ ہو۔

26574

(۲۶۵۷۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن سُفْیَانَ ، عَن سَلَمَۃَ، عَن عِکْرِمَۃَ: {وَالشُّعَرَائُ یَتَّبِعُہُمَ الْغَاوُونَ} قَالَ: عُصَاۃُ الْجِنِّ۔
(٢٦٥٧٥) حضرت سلمہ فرماتے ہیں کہ حضرت عکرمہ نے قرآن مجید کی آیت { وَالشُّعَرَائُ یَتَّبِعُہُمَ الْغَاوُونَ } کے متعلق یوں ارشاد فرمایا کہ اس سے نافرمان جن مراد ہیں۔

26575

(۲۶۵۷۶) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَنْ أَبِی جَعْفَرٍ الْخَطْمِیِّ ، أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یَبْنِی الْمَسْجِدَ ، وَعَبْدُ اللہِ بْنُ رَوَاحَۃَ یَقُولُ : أَفْلَحَ مَنْ یُعَالِجُ الْمَسَاجِدَا۔ وَرَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : قَدْ أَفْلَحَ مَنْ یُعَالِجُ الْمَسَاجِدَا۔ یَتْلُو الْقُرْآنَ قَائِمًا وَقَاعِدَا۔ وَرَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : وَیَتْلُو الْقُرْآنَ قَائِمًا وَقَاعِدَا۔ وَہُمْ یَبْنُونَ الْمَسْجِدَ۔
(٢٦٥٧٦) حضرت ابو جعفرخطمی فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مسجد کی تعمیر کرانے میں مصروف تھے اور حضرت عبداللہ بن رواحہ یہ شعر پڑھ رہے تھے :
(ترجمہ) کامیاب ہوگیا جس نے مسجد بنانے کی محنت کی۔
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : تحقیق فلاح پا گیا جس نے مسجد بنانے کی کوشش کی۔
انھوں نے یہ مصرعہ پڑھا۔
(ترجمہ) وہ قرآن پڑھتا ہے کھڑے ہو کر اور بیٹھ کر۔
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : وہ قرآن کی تلاوت کرتا ہے کھڑے ہو کر اور بیٹھ کر ۔
اس موقع پر صحابہ مسجد کی تعمیر کر رہے تھے۔

26576

(۲۶۵۷۷) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، حدَّثَنَا مُجَالِدٌ ، عَنْ عَامِرٍ ، أَنَّ حَارِثَۃَ بْنَ بَدْرٍ التَّیْمِیَّ مِنْ أَہْلِ الْبَصْرَۃِ ، قَالَ : أَلاَ أَبْلِغَنْ ہَمْدَانَ إِمَّا لَقِیتہَا سَلاَما فَلاَ یَسْلَمُ عَدُوٌّ یَعِیبُہَا لَعَمْرُ یَمِینًا إنَّ ہَمْدَانَ تَتَّقِی الإلَہُ وَیَقْضِی بِالْکِتَابِ خَطِیبُہَا وقال : فشَیَّب رَأْسِی وَاسْتَخَفَّ حَلومَنَا رُعُودُ الْمَنَایَا حَوْلَہَا وَبُرُوقُہَا وَإِنَّا لَتَسْتَحْلِی الْمَنَایَا نُفُوسُنَا وَنَتْرُکُ أُخْرَی مَرَّۃً مَا نَذُوقُہَا قالَ عَامِرٌ : فَحُدِّثَ بِہَذَا الْحَدِیثِ عَبْدُ اللَّہُ بْنُ جَعْفَرٍ ، فقَالَ : کُنَّا نَحْنُ أَحَقَّ بِہَذِہِ الأَبْیَاتِ مِنْ ہَمَدَانَ۔
(٢٦٥٧٧) حضرت عامر فرماتے ہیں کہ حضرت حارثہ بن بدر تمیمی جو کہ بصری ہیں انھوں نے یہ شعر پڑھا : (ترجمہ) جب تم ہمدان سے ملاقات کرو تو انھیں ہماری طرف سے سلام دینا اور پیغام دینا کہ ہمدان کو عیب دار کرنے والا دشمن سالم نہیں رہ سکتا۔ میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ ہمدان والے اللہ سے ڈرتے ہیں اور ان کا خطیب کتاب اللہ کی روشنی میں فیصلہ کرتا ہے۔
اور یہ شعر پڑھا :(ترجمہ) میرے سر کے بال سفید ہوگئے اور ہماری عقلوں کو موت کی کڑک اور چمک نے ہلکا کردیا۔ ہمارے دل موت کو میٹھا سمجھتے ہیں اور زندگی کو کڑوا۔
حضرت عامر فرماتے ہیں : یہ بات حضرت عبداللہ بن جعفر کو بیان کی گئی تو آپ نے فرمایا : ہم لوگ ہمدان سے زیادہ ان اشعار کے حقدار تھے۔

26577

(۲۶۵۷۸) حَدَّثَنَا یَزِیدُ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْمَلِکِ بْنُ قُدَامَۃَ الْجُمَحِیُّ ، قَالَ : حَدَّثَنِی عُمَر بْنُ شُعَیْبٍ ، أَخو عَمْرُو بْنُ شُعَیْبٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ جَدِّہِ ، قَالَ : لَمَّا رَفَعَ النَّاسُ أَیْدِیَہُمْ مِنْ صِفِّینَ ، قَالَ عَمْرُو بْنُ الْعَاصِ : شَبَّتِ الْحَرْبُ فَأَعْدَدْت لَہَا یَصِلُ الشَّدَّ بِشَدٍّ فَإِذَا جُرْشُعٌ أَعْظَمُہُ جُفْرَتْہُ مُفْرَعَ الْحَارِکِ ملویَّ الثبج ونت الْخَیْلُ مِنَ الشد مَعَجْ فَإِذَا ابْتَلَّ مِنَ الْمَائِ حدج قالَ : وَقَالَ عَبْدُ اللہِ بْنُ عَمْرٍو : لَوْ شَہِدْت جَمَلٌ مَقَامِی وَمَشْہَدِی بِصِفِّینَ یَوْمًا شَابَ مِنْہَا الذَّوَائِبُ غَدَاۃَ أَتَی أَہْلُ الْعِرَاقِ کَأَنَّہُمْ وَجِئْنَاہُمْ بِرَدًی کَأَنَّ صُفُوفَنَا وَدَارَتْ رَحَانَا وَاسْتَدَارَتْ رَحَاہُمْ إذَا قُلْتَ قَدْ وَلَّوْا سِرَاعًا بَدَتْ لَنَا فَقَالُوا لَنَا إنَّا نَرَی أَنْ تُبَایِعُوا سَحَابُ رَبِیعٍ رفَّعتہ الْجَنَائِبُ مِنَ الْبَحْرِ مَدُّ مَوْجُہِ مُتَرَاکِبُ سَرَاۃَ النَّہَار مَا تُوَالّی الْمَنَاکِبُ کَتَائِبُ مِنْہُمْ فَارْجَحَنَّتْ کَتَائِبُ عَلِیًّا فَقُلْنَا بَلْ نَرَی أَنْ تُضَارَبُوا
(٢٦٥٧٨) حضرت عبداللہ بن عمرو فرماتے ہیں کہ جب لوگوں نے صفین جنگ سے اپنے ہاتھ کھڑے کرلیے تو حضرت عمرو بن العاص نے یہ اشعار کہے :(ترجمہ) جب جنگ نے زور پکڑا تو میں نے اس کے لیے اپنے کندھوں اور سینے کو تیار کرلیا۔ جب تیز چلنے کی وجہ سے گھوڑے سست پڑجائیں گے تو سختی کا مقابلہ سختی سے ہوگا۔ میرا گھوڑا چوڑے سینے والا اور بڑے پیٹ والا ہے۔ اس کا قد درمیانہ ہے اور جب وہ کسی دیکھتا ہے یا آواز سنتا ہے تو اپنے کان کھڑے کرلیتا ہے۔
اور حضرت عبداللہ بن عمرو نے یہ اشعار پڑھے :(ترجمہ) اگر جمل نامی عورت صفیں میں میری بہادری کو دیکھ لیتا تو اس کے بال سفید ہوجاتے ۔ جب عراق والے اس طرح حملہ آور ہوئے جیسے گھٹا چھاتی ہے۔ ہم اپنے دشمنوں کو نیست ونابود کرنے کے لیے اس طرح آئے ہیں کہ ہمارے لشکر سمندر کی موجوں کی طرح ہیں۔ دن کے روشن ہونے پر ہمارے اور ان کے درمیان جب جنگ تیز ہوئی تو نہ کسی نے پیٹھ پھیر نہ کوئی فرار ہوا۔ جب کوئی کہے کہ وہ تیزی سے پیٹھ پھیر گئے تو اتنی دیر میں ان کے مزید لشکر ظاہر ہوجاتے ہیں۔ وہ یہ کہتے ہیں کہ حضرت علی کے ہاتھ پر بعتی کرلو، ہم کہتے ہیں کہ ہم جنگ کریں گے۔ (محمد عوامہ کی تحقیق کے مطابق ان اشعار کی نسبت ان جلیل القدر صحابہ کی طرف درست نہیں۔ انھوں نے اپنے اس موقف کو بہت سے دلائل سے ثابت کیا ہے۔ دیکھیے۔ مصنف ابن ابی شیبہ ج ١٣ صفحہ ٣٠٤)

26578

(۲۶۵۷۹) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَن حَمْزَۃَ أَبِی عِمَارَۃَ ، قَالَ : قَالَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیزِ لِعُبَیْدِ اللہِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُتْبَۃَ : مَالَک وَلِلشِّعْرِ ؟ قَالَ : وَہَلْ یَسْتَطِیعُ الْمَصْدُورُ إلاَّ أَنْ یَنْفُثَ۔
(٢٦٥٧٩) حضرت حمزہ ابو عمارہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن عبد العزیز نے حضرت عبید اللہ بن عبداللہ بن عتبہ سے فرمایا : تمہیں شعر سے کیا تعلق ؟ انھوں نے کہا جو چیز سینے میں ہو اسے نکالے بغیر گزارہ نہیں۔

26579

(۲۶۵۸۰) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَن مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، قَالَ : کنت إذَا لَقِیت عُبَیْدَ اللہِ بْنَ عَبْدِ اللہِ فَکَأَنَّمَا أُفَجِّرُ بِہِ بَحْرًا۔
(٢٦٥٨٠) امام زہری فرماتے ہیں کہ میں نے جب بھی حضرت عبید اللہ بن عبداللہ سے ملاقات کی گویا میں نے کسی سمندر میں انقلاب پیدا کردیا ہو۔

26580

(۲۶۵۸۱) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ ، عَنِ الْوَلِیدِ بْنِ جُمَیْعٍ ، عَنْ أَبِی سَلَمَۃَ ، قَالَ : لَمْ یَکُنْ أَصْحَابُ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مُتَحَزِّقین ، وَلاَ مُتَمَاوِتِینَ ، وَکَانُوا یَتَنَاشَدُونَ الشِّعْرَ فِی مَجَالِسِہِمْ ، وَیَذْکُرُونَ أمْرَ جَاہِلِیَّتِہِمْ ، فَإِذَا أُرِیدَ أَحَدُہُمْ عَلَی شَیْئٍ مِنْ دِینِہِ دَارَتْ حَمَالِیقُ عَیْنَیْہِ کَأَنَّہُ مَجْنُونٌ۔
(٢٦٥٨١) حضرت ابو سلمہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ بخل کرنے والے نہیں تھے اور نہ ہی عبادت کی ادائیگیوں میں کمزوری دکھانے والے تھے۔ وہ اپنی مجلسوں میں اشعار پڑھا کرتے تھے، اور زمانہ جاہلیت کے واقعات ذکر کرتے تھے۔ اور جب ان میں سے کسی کے دین کو نشانہ بنانے کا ارادہ کیا جاتا تو ان کے پیٹوں کا اندرونی حصہ ایسے گھومتا تھا گویا کہ وہ شخص مجنون ہو۔

26581

(۲۶۵۸۲) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ ، عَنِ ابْنِ شُبْرُمَۃَ ، قَالَ : سَمعتہ یَقُول کَانَ الفَرَزْدَق مِن أَشْعَر النَّاس۔
(٢٦٥٨٢) حضرت محمد بن فضیل فرماتے ہیں کہ حضرت ابن شبرمہ نے ارشاد فرمایا : فرزدق سب سے بڑا شاعر تھا۔

26582

(۲۶۵۸۳) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ ، عَنِ أَبی سُفیَان السَّعدِی ، قَالَ : سَمِعْتُ الْحَسَنَ یَتَمَثَّلُ ہَذَا الْبَیْتَ : یَسُرُّ الْفَتَی مَا کَانَ قَدَّمَ مِنْ تُقًی إذَا عَرَفَ الدَّائَ الَّذِی ہُوَ قَاتِلُہْ۔
(٢٦٥٨٣) حضرت ابو سفیان سعدی فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت حسن بصری کو کسی شاعر کا یہ شعر پڑھتے ہوئے سنا : (ترجمہ) جب آدمی مہلک بیماری کی پہچان حاصل کرلے گا تو اسے اپنے تقویٰ اور پرہیزگاری پر خوشی ہوگی۔

26583

(۲۶۵۸۴) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ ، قَالَ : حدَّثَنَا أَبُو عَوَانَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ بْنِ مُہَاجِرٍ ، عَنْ عَامِرٍ ، عَنْ عَائِشَۃَ ، قَالَتْ : کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إذَا اسْتَرَاثَ الْخَبَرَ تَمَثَّلَ بِبَیْتِ طَرَفَۃَ : وَیَأْتِیک بِالأَخْبَارِ مَنْ لَمْ تُزَوِّدْ۔
(٢٦٥٨٤) حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بات پہنچنے میں تاخیر ہوجاتی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) طرفہ بن عبد کا یہ شعر پڑھتے : اور زمانہ تمہارے پاس وہ خبریں لائے گا جو تمہیں حاصل نہیں ہیں۔

26584

(۲۶۵۸۵) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِیہِ، قَالَ: کُنْتُ أُجَالِسُ أَصْحَابَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَعَ أَبِی فِی الْمَسْجِدِ فَیَتَنَاشَدُونَ الأَشْعَارَ ، وَیَذْکُرُونَ حَدِیثَ الْجَاہِلِیَّۃِ۔
(٢٦٥٨٥) حضرت عبد الرحمن کے والد فرماتے ہیں کہ میں اپنے والد کے ساتھ مسجد میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ کی مجلس میں بیٹھا کرتا تھا وہ لوگ اشعار پڑھتے تھے اور زمانہ جاہلیت کی باتیں ذکر کرتے۔

26585

(۲۶۵۸۶) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا شَرِیکٌ ، عَن سِمَاکِ بْنِ حَرْبٍ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَۃَ ، قَالَ : کُنَّا نَأْتِی النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَیَجْلِسُ أَحَدُنَا حَیْثُ یَنْتَہِی، وَکَانُوا یَتَذَاکَرُونَ الشِّعْرَ وَحَدِیثَ الْجَاہِلِیَّۃِ عِنْدَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَلاَ یَنْہَاہُمْ ، وَرُبَّمَا تَبَسَّمَ۔
(٢٦٥٨٦) حضرت جابر بن سمرۃ فرماتے ہیں کہ ہم لوگ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آتے تھے۔ اور ہم میں ہر کوئی مجلس کے آخری حصہ تک بیٹھتا تھا۔ اور صحابہ شعر پڑھتے اور زمانہ جاہلیت کے واقعات کا ذکر کرتے ۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے ، اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کو منع نہیں کرتے اور کبھی کبھار مسکرا دیتے۔

26586

(۲۶۵۸۷) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا شُعْبَۃُ ، عَن قَتَادَۃَ ، عَن مُطَرِّفٍ ، قَالَ : صَحِبْت عِمْرَانَ بْنَ حُصَیْنٍ فِی سَفَرٍ ، فَمَا کَانَ یَوْمٌ إلاَّ یُنْشِدُ فِیہِ شِعْرًا۔
(٢٦٥٨٧) حضرت مطرف فرماتے ہیں کہ میں سفر میں حضرت عمران بن حصین کے ساتھ تھا۔ کوئی دن ایسا نہیں گزرا جس میں آپ نے شعر نہ پڑھا ہو۔

26587

(۲۶۵۸۸) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا ہِشَامٌ ، قَالَ : سَأَلَ رَجُلٌ مُحَمَّدًا وَہُوَ فِی الْمَسْجِدِ وَالرَّجُلُ یُرِیدُ أَنْ یُصَلِّیَ : أَیَتَوَضَّأُ مَنْ یُنْشِدُ الشِّعْرَ ؟ وَیُنْشِدُ الشِّعْرَ فِی الْمَسْجِدِ ؟ قَالَ : وَأَنْشَدَہُ أَبْیَاتًا مِنْ شِعْرِ حَسَّانَ ذَلِکَ الرَّقِیقِ ، ثُمَّ افْتَتَحَ الصَّلاَۃَ۔
(٢٦٥٨٨) حضرت ہشام فرماتے ہیں کہ کسی آدمی نے جو نماز پڑھنے کا ارادہ کررہا تھا اس نے حضرت محمد سے یہ سوال کیے اس حال میں کہ آپ مسجد میں تھے کیا شعر پڑھنے والا دوبارہ وضو کرے گا ؟ اور مسجد میں شعر پڑھا جاسکتا ہے ؟ راوی کہتے ہیں کہ آپ نے حضرت حسان بن ثابت کے ان فصیح اشعار کو پڑھا پھر آپ نے نماز شروع کردی۔

26588

(۲۶۵۸۹) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ آدَمَ ، عَن حَمَّادِ بْنِ زَیْدٍ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ زَیْدِ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِی بَکْرَۃَ ، عَنِ الأَسْوَدِ بْنِ سَرِیعٍ ، قَالَ : قُلْتُ : یَا رَسُولَ اللہِ ، إنِّی مَدَحْت اللَّہَ مَدْحَۃً وَمَدَحْتُک أُخْرَی ، قَالَ : ہَاتِ , وَابْدَأْ بِمَدْحِکَ اللَّہَ۔
(٢٦٥٨٩) حضرت اسود بن سریع فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کی : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! یقیناً میں نے اللہ کی مدح و تعریف میں بھی اشعار کہے ہیں، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : سناؤ ، اور جو تم نے اللہ کی مدح بیان کی ہے اس سے ابتدا کرو۔

26589

(۲۶۵۹۰) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا دَیْلَمُ بْنُ غَزْوَانَ ، قَالَ : حَدَّثَنَا ثَابِتٌ ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ : حَضَرَتْ حَرْبًا فَقَالَ عَبْدُ اللہِ بْنُ رَوَاحَۃَ : یَا نَفْسُ أَلاَ أَرَاک تَکْرَہِینَ الْجَنَّۃَ أَحْلِفُ بِاَللَّہِ لَتَنْزِلَنَّہْ طَائعۃ أَو لَتکرہِنَّہ
(٢٦٥٩٠) حضرت ثابت فرماتے ہیں کہ حضرت انس نے ارشاد فرمایا : میں جنگ میں حاضر تھا کہ حضرت عبداللہ بن رواحہ نے کہا : اے نفس ! میں دیکھ رہا ہوں کہ تجھے جنت میں جانا پسند نہیں۔ میں اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ تجھے جنت میں جانا ہوگا خواہ خوش ہو کر جا یا ناخوش ہو کر۔

26590

(۲۶۵۹۱) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ زَیْدِ بْنِ جُدْعَانَ ، عَنِ الْقَاسِمِ ، عَنْ عَائِشَۃَ ، قَالَتْ : تَمَثَّلْت بِہَذَا الْبَیْتِ ، وَأَبُو بَکْرٍ یَقْضِی : وَأَبْیَضُ یُسْتَسْقَی الْغَمَامُ بِوَجْہِہِ ثِمَالْ الْیَتَامَی عِصْمَۃٌ لِلأََرَامِلِ فَقَالَ أَبُو بَکْرٍ : ذَاکَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔
(٢٦٥٩١) حضرت قاسم فرماتے ہیں کہ حضرت عائشہ نے ارشاد فرمایا : اس حال میں کہ حضرت ابوبکر فیصلہ فرما رہے تھے اور میں یہ شعر پڑھ رہی تھی۔ (ترجمہ) وہ سفید چہرے والا جس کی ذات کے وسیلہ سے بادل مانگے جاتے ہیں۔ وہ یتیموں کی پناہ گاہ اور بیواؤں کی عزت و آبرو ہیں۔
حضرت ابوبکر نے فرمایا : وہ تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں۔

26591

(۲۶۵۹۲) حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ ، عَن مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، أَنَّ رسول اللہ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَمْ یَقُلْ شَیْئًا مِنَ الشِّعْرِ إلاَّ قَدْ قِیلَ لہ إلاَّ ہَذَا : ہَذَا الْحِمَالُ لاَ حِمَالُ خَیْبَرْ ہَذَا أَبَرَّ رَبَّنَا وَأَطْہَرْ
(٢٦٥٩٢) امام زہری فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کبھی کوئی شعر نہیں کہا سوائے اس شعر کے : (ترجمہ) یہ بوجھ خیبر کے بوجھ کی طرح نہیں ہے۔ یہ ہمارے رب کی طرف سے پاکیزہ اور برکت والا ہے۔ (یہ شعر آپ نے مسجد نبوی کی تعمیر کے وقت کہا تھا)

26592

(۲۶۵۹۳) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنِ الْبَرَائِ ، قَالَ : رَأَیْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَوْمَ الْخَنْدَقِ ، وَکَانَ کَثِیرَ شَعْرِ الصَّدْرِ وَہُوَ یَرْتَجِزُ بِرَجَزِ عَبْدِ اللہِ بْنِ رَوَاحَۃَ وَہُوَ یَقُولُ : اللَّہُمَّ لَوْلاَ أَنْتَ مَا اہْتَدَیْنَا وَلاَ تَصَدَّقْنَا وَلاَ صَلَّیْنَا فَأَنْزِلَنْ سَکِینَۃً عَلَیْنَا وَثَبِّتِ الأَقْدَامَ إِنْ لاَقَیْنَا إنَّ الأُلَی قَدْ بَغَوْا عَلَیْنَا وَإِنْ أَرَادُوا فِتْنَۃً أَبَیْنَا
(٢٦٥٩٣) حضرت براء بن عازب فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو غزوہ خندق کے دن دیکھا اس حال میں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سینہ مبارک پر بالوں کی ایک لکیر تھی، اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عبداللہ بن رواحہ کے ان اشعار کو بطور رجز پڑھ رہے تھے۔ اور فرما رہے تھے۔
اے اللہ ! اگر آپ کا فضل نہ ہوتا تو ہم ہدایت یافتہ نہ ہوتے۔
اور نہ ہم صدقہ کرنے اور نہ ہم نماز پڑھتے۔
پس تو ہم پر رحمت و سکینہ نازل فرما
اور دشمن سے ملاقات ہونے کی صورت میں ہمیں ثابت قدمی عطا فرما۔
یقیناً ان لوگوں نے ہم پر سرکشی کی ۔
اور اگر وہ ہمارے خلاف فتنہ پیدا کریں گے تو ہم قبول نہیں کریں گے۔

26593

(۲۶۵۹۴) حَدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنِ الْبَرَائِ ، قَالَ : مَا وَلَّی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ دُبُرَہُ یَوْمَ حُنَیْنٍ ، قَالَ : وَالْعَبَّاسُ ، وَأَبُو سُفْیَانَ آخِذَانِ بِلِجَامِ بَغْلَتِہِ وَہُوَ یَقُولُ : أَنَا النَّبِیُّ لاَ کَذِبْ أَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبْ
(٢٦٥٩٤) حضرت براء بن عازب فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غزوہ حنین کے دن پیٹھ پھیر کر نہیں بھاگے۔ اور حضرت عباس اور حضرت ابو سفیان نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خچر کی لگام پکڑی ہوئی تھی اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرما رہے تھے کہ : میں نبی ہوں، اس میں کوئی جھوٹ نہیں ہے۔ میں عبد المطلب کا بیٹا ہوں۔

26594

(۲۶۵۹۵) حَدَّثَنَا سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنِ الأَسْوَدِ بْنِ قَیْسٍ ، عَن جُنْدَبِ بْنِ سُفْیَانَ ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ فِی غَارٍ فَنُکِبَ فَقَالَ : ہَلْ أَنْتِ إلاَّ إصْبَعٌ دُمِیتِ وَفِی سَبِیلِ اللہِ مَا لَقِیتِ۔
(٢٦٥٩٥) حضرت جندب بن سفیان فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کسی غزوہ میں چوٹ لگ گئی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تو تو محض ایک انگلی ہے جس سے خود بہہ رہا ہے اور تجھے اللہ کے راستے میں چوٹ آئی ہے۔

26595

(۲۶۵۹۶) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا حُمَیْدٌ ، عَنْ أَنَسٍ ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : إنَّ الْعَیْشَ عَیْشُ الآخِرَہْ فَاغْفِرْ لِلأََنْصَارِ وَالْمُہَاجِرَہْ
(٢٦٥٩٦) حضرت انس فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا :
یقیناً زندگی تو آخرت کی زندگی ہے۔
اے اللہ ! تو انصار اور مہاجرین کی مغفرت فرما۔

26596

(۲۶۵۹۷) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ أَبِی الْمُعَلَّی ، عَن سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، أَنَّہُ کَانَ یَقْرَأُ (دَارَسْت) وَیَقُولُ : دَارِسٌ کَطَعْمِ الصَّابِ وَالْعَلْقَمِ۔
(٢٦٥٩٧) حضرت سعید بن جبیر فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عباس اس آیت کو یوں پڑھتے تھے :{ دارست }۔ اور اس شعر سے استشہاد فرماتے : (ترجمہ) دارس صاب اور علقم کے ذائقہ کی طرف کڑوا ہے۔

26597

(۲۶۵۹۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن ثَابِتٍ بْنِ أَبِی صَفِیَّۃَ ، عَن شَیْخٍ یُکَنَّی أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : الزَّنِیمُ : اللَّئِیمُ الْمُلْزِقُ ، ثُمَّ أَنْشَدَ ہَذَا الْبَیْتَ : زَنِیمٌ تَدَاعَاہُ الرِّجَالُ زِیَادَۃً کَمَا زِیدَ فِی عَرْضِ الأَدِیمِ الأَکَارِعُ
(٢٦٥٩٨) حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ قرآن مجید میں مستعمل لفظ زنیم سے مراد کمینہ ہے۔ پھر آپ نے یہ شعر پڑھا۔ (ترجمہ) کمینے آدمی کی کمینگی کو لوگ اس طرح بڑھا کر بیان کرتے ہیں جیسے چمڑے کو کشادہ کیا جاتا ہے۔

26598

(۲۶۵۹۹) حَدَّثَنَا مَالِکُ بْنُ إسْمَاعِیلَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا مَسْعُودُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ ، عَنِ ابْنِ عِبَادٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، أَنَّ رَجُلاً مِنْ بَنِی لَیْثٍ أَتَی النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ : یَا رَسُولَ اللہِ ، أُنْشِدُک ؟ قَالَ : لاَ ، فَأَنْشَدَہُ فِی الرَّابِعَۃِ مَدْحَۃً لَہُ فَقَالَ : إِنْ کَانَ أَحَدٌ مِنَ الشُّعَرَائِ یُحْسِنُ ، فَقَدْ أَحْسَنْت۔
(٢٦٥٩٩) حضرت عباد فرماتے ہیں کہ قبیلہ بنو لیث کا ایک آدمی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آیا اور کہا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! کیا میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو شعر سناؤں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تین مرتبہ فرمایا : نہیں : پھر چوتھی مرتبہ اجازت ملنے کی صورت میں انھوں نے مدحیہ اشعار سنائے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اگر کوئی شاعر نیکی کرتا ہے تو تو نے نیکی کی ہے۔

26599

(۲۶۶۰۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن مِسْعَرٍ ، عَن قَتَادَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : مَا کُنْت أَدْرِی مَا قَوْلُہُ : {رَبَّنَا افْتَحْ بَیْنَنَا وَبَیْنَ قَوْمِنَا بِالْحَقِّ} حَتَّی سَمِعْت بِنْتَ ذِی یَزَنٍ تَقُولُ : تَعَالَی أُفَاتِحْک۔
(٢٦٦٠٠) حضرت قتادہ فرماتے ہی کہ حضرت ابن عباس نے ارشاد فرمایا : میں اللہ رب العزت کے قول : { رَبَّنَا افْتَحْ بَیْنَنَا وَبَیْنَ قَوْمِنَا بِالْحَقِّ } کے بارے میں نہیں جانتا تھا کہ اس کا کیا مطلب ہے۔ یہاں تک کہ میں نے بنت ذی یزن کو کہتے ہوئے سنا : آؤ میں تمہارا فیصلہ کروں۔

26600

(۲۶۶۰۱) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ بِشْرٍ، عَن مُجَالِدٍ، عَنْ عَامِرٍ، أَنَّ ابْنَ الزُّبَیْرِ اسْتَنْشَدَ أَبْیَاتَ خَالِدٍ وَہُوَ یَطُوفُ بِالْبَیْتِ۔
(٢٦٦٠١) حضرت عامر فرماتے ہیں کہ حضرت زبیر نے جبکہ وہ بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے، حضرت خالد کے اشعار پڑھوائے ۔

26601

(۲۶۶۰۲) حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ ، عَن ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ ، قَالَ : کَانَ ابْنُ الزُّبَیْرِ یَحْمِلُ عَلَیْہِمْ حَتَّی یُخْرِجَہُمْ مِنَ الأَبْوَابِ وَیَقُولُ : لَوْ کَانَ قَرْنِی وَاحِدًا کَفَیْتہ ؛ ویقول: ولَسْنَا عَلَی الأَعْقَابِ تَدْمَی کُلُومُنَا وَلَکِنْ عَلَی أَقْدَامِنَا تَقْطُرُ الدِّما
(٢٦٦٠٢) حضرت ہشام بن عروہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابن زبیر نے اپنے مخالفین پر حملہ کردیا یہاں تک کہ ان کو دروازوں سے باہر نکال دیا۔ اور آپ نے یہ رجز پڑھا :(ترجمہ) اگر مجھے اپنے جیسا ایک اور مل جاتا تو میرے لیے کافی ہوتا۔
اور یہ شعر پڑھ رہے تھے۔ (ترجمہ) ہم وہ لوگ نہیں ہیں جن کی کمروں سے خون ٹپکتا ہے، ہمارا خون تو ہمارے پیروں پر گرتا ہے۔

26602

(۲۶۶۰۳) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، قَالَ : حدَّثَنَا ہِشَامٌ ، عَنْ أَبِیہِ ، أَنَّ أَہْلَ الشَّامِ کَانُوا یُقَاتِلُونَ ابْنَ الزُّبَیْرِ وَیَصِیحُونَ بِہِ : یَا ابْنَ ذَاتِ النِّطَاقَیْنِ ، فَقَالَ : ابْنُ الزُّبَیْرِ : وتِلْکَ شَکَاۃٌ ظَاہِرٌ عَنک عَارُہَا فَقَالَتْ أَسْمَائُ : عَیَّرُوک بِہِ ؟ قَالَ : نَعَمْ ، قَالَتْ : فَہُوَ وَاللَّہِ حَقٌ۔
(٢٦٦٠٣) حضرت ہشام بن عروہ فرماتے ہیں کہ حضرت عروہ بن زبیر نے ارشاد فرمایا : کہ شام والے حضرت ابن زبیر سے قتال کر رہے تھے اور چیخ چیخ کر پکار رہے تھے : اے ذات نطاقین کے بیٹے (دو پٹکے باندھنے والی عورت کے بیٹے) ۔
حضرت ابن زبیر نے فرمایا :(ترجمہ) یہ وہ بیماری ہے جس کا عار تجھ سے ظاہر ہورہا ہے۔
حضرت اسمائ نے پوچھا : کیا وہ لوگ اس سے تجھے عار دلاتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا : جی ہاں حضرت اسمائ نے فرمایا : اللہ کی قسم ! یہ حق ہے۔

26603

(۲۶۶۰۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن سُفْیَانَ ، عَن رَجُلٍ ، أَنَّ ابْنَ الزُّبَیْرِ کَانَ یُنْشِدُ الشِّعْرَ وَہُوَ یَطُوفُ بِالْبَیْتِ۔
(٢٦٦٠٤) حضرت سفیان کسی شیخ سے نقل کرتے ہیں کہ حضرت ابن زبیر بیت اللہ کے طواف کے دوران شعر پڑھ رہے تھے۔

26604

(۲۶۶۰۵) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَن دَاوُد ، أَنَّ سَعِیدَ بْنَ الْمُسَیَّبِ ، قَالَ : لاَ تَطْلُعُ الشَّمْسُ حَتَّی یَصْحَبَہَا ثَلاَثُ مِئَۃِ مَلَکٍ وَسَبْعُونَ مَلَکًا ، أَمَا سَمِعْت أُمَیَّۃَ بْنَ أَبِی الصَّلْتِ یَقُولُ : لَیْسَتْ بِطَالِعَۃٍ لَنَا فِی رِسْلِہَا إلاَ مُعَذَّبَۃً وَإِلاَّ تُجْلَدُ
(٢٦٦٠٥) حضرت داؤد فرماتے ہیں کہ حضرت سعید بن مسیب نے ارشاد فرمایا : سورج طلوع نہیں ہوتا یہاں تک کہ اس کے ساتھ تین سو ستر فرشتے ہوتے ہیں۔ کیا تم نے امیہ بن ابی صلت کو کہتے ہوئے نہیں سنا :
یہ سورج ہم پر اپنی خوشی سے طلوع نہیں ہوتا بلکہ اسے عذاب دیا جاتا ہے اور اسے کوڑے مارے جاتے ہیں۔

26605

(۲۶۶۰۶) حَدَّثَنَا حَفْصٌ، عَن مُجَالِدٍ، عَنِ الشَّعْبِیِّ، قَالَ: کَانَ یَکْرَہُ أَنْ یَکْتُبَ أَمَامَ الشِّعْرِ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمَن الرَّحِیمِ۔
(٢٦٦٠٦) حضرت مجالد فرماتے ہیں کہ امام شعبی شعر کے آغاز میں بسم اللہ الرحمن الرحیم لکھنے کو مکروہ سمجھتے تھے۔

26606

(۲۶۶۰۷) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، وَأَبُو مُعَاوِیَۃَ ، وَوَکِیعٌ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِی صَالِحٍ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لأَنْ یَمْتَلِئَ جَوْفُ الرَّجُلِ قَیْحًا حَتَّی یَرِیہِ ، خَیْرٌ لَہُ مِنْ أَنْ یَمْتَلِئَ شِعْرًا ، إلاَّ أَنْ حَفْصًا لَمْ یَقُلْ : جوف۔
(٢٦٦٠٧) حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : کہ تم میں سے کسی کے پیٹ کا پیپ سے پر ہو کر خراب ہوجانا اس سے بہتر ہے کہ وہ شعر و شاعری سے پر ہو۔ حضرت حفص نے اس حدیث کو بیان کرتے ہوئے لفظ جوف کا ذکر نہیں کیا۔

26607

(۲۶۶۰۸) حَدَّثَنَا یُونُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا لَیْثُ بْنُ سَعْدٍ ، عَن سَعِیدِ بْنِ عَبْدِ اللہِ ، عَن یُحَنَّسَ مَوْلَی مُصْعَبِ بْنِ الزُّبَیْرِ ، عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ ، قَالَ : بَیْنَمَا نَحْنُ عِنْدَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بالعرج إذْ عَرَضَ شَاعِرٌ یُنْشِدُ فَقَالَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: خُذُوا الشَّیْطَانَ أَوِ أَمْسِکُوا الشَّیْطَانَ لأَنْ یَمْتَلِئَ جَوْفُ الرَّجُلِ قَیْحًا خَیْرٌ لَہُ مِنْ أَنْ یَمْتَلِئَ شِعْرًا۔ (بخاری ۳۵۸۸۔ مسلم ۱۷۶۹)
(٢٦٦٠٨) حضرت ابو سعید خدری فرماتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس وادیٔ عرج میں بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک شاعر نے اپنا کلام پیش کرنا شروع کردیا ۔ اس پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اس شیطان کو پکڑو یا یوں فرمایا کہ اس شیطان کو روکو ۔ اس لیے کہ تم میں سے کسی کے پیٹ کا پیپ سے بھر جانا اس سے بہتر ہے کہ وہ شعر و شاعری سے بھرا ہوا ہو۔

26608

(۲۶۶۰۹) حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ بْنُ مُوسَی ، عَن حَنْظَلَۃَ ، عَن سَالِمٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لأَنْ یَمْتَلِئَ الرَّجُلُ قَیْحًا خَیْرٌ لَہُ مِنْ أَنْ یَمْتَلِئَ شِعْرًا۔ (بخاری ۶۱۵۴۔ احمد ۲/۹۶)
(٢٦٦٠٩) حضرت ابن عمر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : کہ ایک آدمی کا پیٹ پیپ سے پُر ہوجانا اس سے بہتر ہے کہ وہ شعر و شاعری سے پُر ہو۔

26609

(۲۶۶۱۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن سُفْیَان ، عَن سَلَمَۃَ بْنِ کُہَیْلٍ ، عَنْ أَبِی الزَّعْرَائِ ، قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللہِ : لأَنْ یَمْتَلِئَ جَوْفُ الرَّجُلِ قَیْحًا خَیْرٌ مِنْ أَنْ یَمْتَلِئَ شِعْرًا۔
(٢٦٦١٠) حضرت ابو الز عرا فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود نے ارشاد فرمایا : کہ ایک آدمی کے پیٹ کا پیپ سے پُر ہوجانا اس سے بہتر ہے کہ وہ شعر و شاعری سے پُر ہو۔

26610

(۲۶۶۱۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَن شُعْبَۃَ ، عَن سَعْدِ بْنِ إِبْرَاہِیمَ ، عَن أَبِیہِ ، عَن عُثْمَانَ ، قَالَ : لأَنْ یَمْتَلِئَ جَوْفُ الرَّجُلِ قَیْحًا خَیْرٌ لَہُ مِنْ أَنْ یَمْتَلِئَ شِعْرًا۔
(٢٦٦١١) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ حضرت عثمان نے ارشاد فرمایا : کہ کسی آدمی کے پیٹ کا پیپ سے پُر ہوجانا اس سے بہتر ہے کہ وہ شعر و شاعری سے پُر ہو۔

26611

(۲۶۶۱۲) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَن ہِشَامِ بْنِ عَائِذٍ ، عَنْ أَبِی صَالِحٍ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : لأَنْ یَمْتَلِئَ جَوْفُ الرَّجُلِ قَیْحًا خَیْرٌ مِنْ أَنْ یَمْتَلِئَ شِعْرًا۔
(٢٦٦١٢) حضرت ابو صالح فرماتے ہیں کہ حضرت ابوہریرہ نے ارشاد فرمایا : کہ کسی آدمی کے پیٹ کا پیپ سے پُر ہوجانا اس سے بہتر ہے کہ وہ پیپ سے پُر ہو۔

26612

(۲۶۶۱۳) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ بْنِ أَبِی خَالِدٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ حُرَیْثٍ ، قَالَ : قَالَ عُمَر : لأَنْ یَمْتَلِئَ جَوْفُ الرَّجُلِ قَیْحًا خَیْرٌ لَہُ مِنْ أَنْ یَمْتَلِئَ شِعْرًا۔
(٢٦٦١٣) حضرت عمرو بن حریث فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب نے ارشاد فرمایا : کہ کسی آدمی کے پیٹ کا پیپ سے پُر ہوجانا اس بات سے بہتر ہے کہ وہ شعر و شاعری سے پُر ہو۔

26613

(۲۶۶۱۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِی الضُّحَی ، عَن مَسْرُوقٍ ، أَنَّہُ تَمَثَّلَ مَرَّۃً بِبَیْتِ شِعْرٍ فَسَکَتَ عَن آخِرِہِ وَقَالَ : إنِّی لأَکْرَہُ أَنْ یُکْتَبَ فِی صَحِیفَتِی بَیْتُ شِعْرٍ۔
(٢٦٦١٤) حضرت ابو الضحی فرماتے ہیں کہ حضرت مسروق نے ایک مرتبہ کسی شعر کا ایک مصرعہ پڑھا اور دوسرا مصرعہ پڑھنے سے خاموش ہوگئے، اور فرمایا : کہ میں ناپسند کرتا ہوں کہ میرے نامہ اعمال میں شعر کا ایک مصرعہ بھی لکھا جائے۔

26614

(۲۶۶۱۵) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا الأَسْوَدُ بْنُ شَیْبَانَ ، قَالَ : حَدَّثَنَا أَبُو نَوْفَلِ بْنُ أَبِی عَقْرَبٍ ، قَالَ : سَأَلْتُ عَائِشَۃَ : ہَلْ کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُتسَامَعُ عَندَہُ الشِّعْرُ ، قَالَتْ : کَانَ أَبْغَضَ الْحَدِیثِ إلَیْہِ۔ (ابوداؤد ۱۴۷۷۔ احمد ۱۳۴)
(٢٦٦١٥) حضرت ابو نوفل بن ابو عقرب فرماتے ہیں کہ حضرت عائشہ سے سوال کیا گیا کہ کیا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاں اشعار سنائے جاتے تھے ؟ آپ نے جواب دیا : آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نزدیک سب سے مبغوض ترین بات شعر کہنا تھی۔

26615

(۲۶۶۱۶) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَن شُعْبَۃَ ، عَنِ الْعَوَّامِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ، قَالَ: کَانُوا یَکْرَہُونَ مِنَ الشِّعْرِ مَا ضَاہَی الْقُرْآنَ۔
(٢٦٦١٦) حضرت عوام فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم نے ارشاد فرمایا : کہ صحابہ اس شعر کو انتہائی ناپسند کرتے تھے جو قرآن مجید کے مشابہ ہو۔

26616

(۲۶۶۱۷) حَدَّثَنَا الأَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا شُعْبَۃُ ، عَن قَتَادَۃَ ، عَن یُونُسَ بْنِ جُبَیْرٍ ، عَن مُحَمَّدِ بْنِ سَعْدٍ ، عَن سَعْدٍ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لأَنْ یَمْتَلِئَ جَوْفُ أَحَدِکُمْ قَیْحًا یَرِیہِ ، خَیْرٌ لَہُ مِنْ أَنْ یَمْتَلِئَ شِعْرًا۔ (مسلم ۱۷۶۹۔ احمد ۱/۱۷۵)
(٢٦٦١٧) حضرت سعد فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : کہ تم میں سے کسی کا پیٹ کا پیپ سے پُر ہوجانا اس سے بہتر ہے کہ وہ شعر و شاعری سے پُر ہو۔

26617

(۲۶۶۱۸) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ بَکْرٍ السَّہْمِیُّ ، قَالَ : سَمِعْتُ حَبِیبَ بْنَ شَہِیدٍ یَذْکُرُ ، عَن مُعَاوِیَۃَ بْنِ قُرَّۃَ ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ قَالَ : مَا یَسُرُّنِی أَنَّ لِی بِمَا أَعْلَمُ مِنْ مَعَارِیضِ الْقَوْلِ مِثْلَ أَہْلِی وَمَالِی ، أَوَلاَ یَحسَبُون أَنِّی أَوَدُّ أَنَّ لِی مِثل أَہلِی وَمالِی وَددتُ أَنَّ لِی مِثل أَہلِی وَمالِی ، ثُمَّ مِثْلَ أَہْلِی وَمَالِی ۔
(٢٦٦١٨) حضرت عمر فرماتے ہیں کہ کلام کا جو ہیر پھیر میں جانتا ہوں مجھے پسند نہیں کہ میرے لیے اس جتنا مال اور عیال ہوں مجھے پسند نہیں اور لوگ یہ گمان نہیں کرتے کہ میں خواہش کرتا ہوں کہ میرے لیے میرے اہل اور عیال کے مثل ہو اور میں خواہش کرتا ہوں کہ میرے لیے میرے اہل اور مال کے مثل ہو پھر میرے اہل اور مال کا مثل ہو۔

26618

(۲۶۶۱۹) حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ مُعَاذٍ ، عَنِ التَّیْمِیِّ ، عَنْ أَبِی عُثْمَانَ ، قَالَ : قَالَ عُمَرُ : إنَّ فِی الْمَعَارِیضِ مَا یَکُفُّ ، أَوْ یَعِفُّ الرَّجُلَ عَنِ الْکَذِبِ۔
(٢٦٦١٩) حضرت ابو عثمان فرماتے ہیں کہ حضرت عمر نے ارشاد فرمایا : کہ تو ریہ آدمی کو جھوٹ سے بچاتا ہے یا یوں فرمایا : کہ جھوٹ کی شرمندگی سے بچاتا ہے۔

26619

(۲۶۶۲۰) حَدَّثَنَا عُقْبَۃُ بْنُ خَالِدٍ ، عَن شُعْبَۃَ ، عَن قَتَادَۃَ ، عَن مُطَرِّفِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ الشِّخِّیرِ ، عَن عِمْرَانَ بْنِ حُصَیْنٍ ، قَالَ : إنَّ فِی الْمَعَارِیضِ لَمَنْدُوحَۃً عَنِ الْکَذِبِ۔ (ابن عدی ۴۹۔ بیہقی ۱۹۹)
(٢٦٦٢٠) حضرت مطرف بن شخیر فرماتے ہیں کہ حضرت عمران بن حصین نے ارشاد فرمایا : کہ تو ریہ کے ذریعہ جھوٹ سے بچا جاسکتا ہے۔

26620

(۲۶۶۲۱) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَن مَنْصُورٍ ، قَالَ : بَلَغَنِی عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، أَنَّہُ قَالَ : مَا أُحِبُّ لِی بِالْمَعَارِیضِ کَذَا وَکَذَا۔
(٢٦٦٢١) حضرت منصور فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عباس نے ارشاد فرمایا : کہ میں پسند نہیں کرتا کہ میرے لیے تو ریہ کے عوض اتنا اور اتنا مال ہو۔

26621

(۲۶۶۲۲) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَن مَنْصُورٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : کَانَ لَہُمْ کَلاَمٌ یَتَکَلَّمُونَ بِہِ یَدْرَؤُونَ بِہِ عنْ أَنْفُسِہِمْ مَخَافَۃَ الْکَذِبِ۔
(٢٦٦٢٢) حضرت منصور فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم نے ارشاد فرمایا : کہ صحابہ ایسا کلام کرتے تھے کہ اس کلام کے ذریعے خود سے جھوٹ کے خدشہ کو دور کرتے تھے۔

26622

(۲۶۶۲۳) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَن حَبِیبِ بْنِ شَہِیدٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ سَعِیدٍ ، قَالَ : قَالَ حُمَیْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ : مَا أُحِبُّ أَنَّ لِی بِنَصِیبِی مِنَ الْمَعَارِیضِ مِثْلَ أَہْلِی وَمَالِی ، وَلَعَلَّکُمْ تَرَوْنَ أَنِّی لاَ أُحِبُّ أَنَّ لِی مِثْلَ أَہْلِی وَمَالِی، وَوَدِدْت أَنَّ لِی مِثْلَ أَہْلِی وَمَالِی۔
(٢٦٦٢٣) حمید بن عبدالرحمن فرماتے ہیں کہ میں خواہش نہیں ہے کہ میرے لیے کلام کے ہیر پھیر مں و میرے مال اور میرے اہل کے مثل ہو۔ تمہارا خیال ہے کہ میں پسند نہیں کرتا کہ میرے لیے میرے اہل اور میرے مال کے مثل ہو اور میری خواہش ہے کہ میرے لیے میرے اہل اور میرے مال کے مثل ہو۔

26623

(۲۶۶۲۴) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنِ الْعَلاَئِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : لاَ تَقُلْ لِصَاحِبِکَ یَا حِمَارُ ، یَا کَلْبُ ، یَا خِنْزِیرُ ، فَیَقُولَ لَکَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ : أَتَرَانِی خُلِقْت کَلْبًا ، أَوْ حِمَارًا ، أَوْ خِنْزِیرًا ؟۔
(٢٦٦٢٤) حضرت علاء بن مسیب فرماتے ہیں کہ حضرت مسیب نے ارشاد فرمایا : کہ تم اپنے ساتھی کو یوں مت کہو ۔ اے گدھے، اے کتے، اے خنزیر، پس وہ قیامت کے دن تمہیں یوں کہے گا۔ تمہارا میرے بارے میں کیا خیال ہے کیا مجھے کتا یا گدھا یا خنزیر پیدا کیا گیا تھا ؟

26624

(۲۶۶۲۵) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَن لَیْثٍ ، عَن مُجَاہِدٍ ، قَالَ : اسْتَسْقَی مُوسَی لِقَوْمِہِ فَقَالَ : اشْرَبُوا یَا حَمِیرُ ، قَالَ : فَقَالَ اللَّہُ لَہُ : لاَ تُسَمِّ عِبَادِی حَمِیرًا۔
(٢٦٦٢٥) حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم کے لیے پانی مانگا پھر ان سے کہا : اے گدھو ! پیو اس پر اللہ رب العزت نے ان سے فرمایا : میرے بندوں کو گدھے کے نام سے مت پکارو۔

26625

(۲۶۶۲۶) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : کَانُوا یَقُولُونَ : إذَا قَالَ الرَّجُلُ لِلرَّجُلِ : یَا حِمَارُ یَا کَلْبُ یَا خِنْزِیرُ ، قَالَ لَہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ : أَتَرَانِی خَلَقْتُہ کَلْبًا ، أَوْ حِمَارًا ، أَوْ خِنْزِیرًا ؟۔
(٢٦٦٢٦) حضرت اعمش فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم نے ارشاد فرمایا : کہ جب کوئی شخص کسی کو یوں کہتا : اے گدھے، اے کتے، اے خنزیر، تو صحابہ اس شخص کو کہا کرتے تھے۔ کہ اللہ قیامت کے دن تمہیں یوں فرمائیں گے : کہ تمہارا میرے بارے میں کیا خیال ہے کہ میں نے اس کو کتا یا گدھا یا خنزیر پیدا کیا تھا ؟

26626

(۲۶۶۲۷) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ، عَن دَاوُد بْنِ أَبِی ہِنْدٍ، عَن بَکْرِ بْنِ عَبْدٍالْمُزَنِیّ، عَنْ عَلْقَمَۃَ بْنِ عَبْدِاللہِ، أَنَّ ابْنَ عُمَرَ قَالَ لِرَجُلٍ کَلَّمَ صَاحِبَہُ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ وَالإِمَامُ یَخْطُبُ : أَمَّا أَنْتَ فَحِمَارٌ ، وَأَمَّا صَاحِبُک فَلاَ جُمُعَۃَ لَہُ۔
(٢٦٦٢٧) حضرت علقمہ بن عبداللہ فرماتے ہیں کہ ایک دن جمعہ کے خطبہ کے دوران ایک شخص دوسرے سے باتیں کررہا تھا۔ نماز سے فارغ ہونے کے بعد حضرت ابن عمر نے اس سے کہا کہ تم گدھے ہو اور تمہارے اس ساتھی کا جمعہ نہیں ہوا۔

26627

(۲۶۶۲۸) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ أَبِی عُثْمَانَ ، عَن سَعْدٍ ، وَأَبِی بَکْرَۃَ ، کِلاَہُمَا یَقُولُ : سَمِعَتْہ أُذُنَایَ ، وَوَعَاہُ قَلْبِی مُحَمَّدًا صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : مَنِ ادَّعَی إلَی غَیْرِ أَبِیہِ ، وَہُوَ یَعْلَمُ أَنَّہُ غَیْرُ أَبِیہِ ، فَالْجَنَّۃُ عَلَیْہِ حَرَامٌ۔ (مسلم ۱۱۵۔ ابن ماجہ ۲۶۱۰)
(٢٦٦٢٨) حضرت سعد اور حضرت ابو بکرہ یہ دونوں حضرات فرماتے ہیں کہ ہمارے کانوں نے سنا اور ہمارے دل نے اس بات کو محفوظ کیا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو شخص کسی کو غیر باپ کی طرف منسوب کرے حالانکہ وہ جانتا ہے کہ وہ اس کا باپ نہیں ہے تو جنت اس شخص پر حرام ہے۔

26628

(۲۶۶۲۹) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَن شُعْبَۃَ ، عَنِ الْحَکَمِ ، عَن مُجَاہِدٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو ، رَفَعَہُ ، قَالَ : مَنِ ادَّعَی إلَی غَیْرِ أَبِیہِ فَلَنْ یَرِیحَ رِیحَ الْجَنَّۃِ ، فَلَمَّا رَأَی ذَلِکَ نُعَیْمُ بْنُ أَبِی أُمَیَّۃَ ، وَکَانَ مُعَاوِیَۃُ أَرَادَ أَنْ یَدَّعِیَہُ ، قَالَ لِمُعَاوِیَۃَ : إنَّمَا أَنَا سَہْمٌ مِنْ کِنَانَتِکَ ، فَاقْذِفْنِی حَیْثُ شِئْت۔ (ابن ماجہ ۲۶۱۱۔ احمد ۱۷۱)
(٢٦٦٢٩) حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمر نے مرفوعاً حدیث بیان فرمائی کہ جو شخص کسی کو غیر باپ کی طرف منسوب کرے ، وہ ہرگز جنت کی خوشبو نہیں سونگھ سکے گا۔ جب نعیم بن ابی امیہ نے یہ معاملہ دیکھا اس حال میں کہ حضرت معاویہ کا ارادہ تھا کہ وہ اس کو غیر باپ کی طرف منسوب کریں تو اس نے حضرت معاویہ سے فرمایا : بیشک میں تو آپ کے ترکش کا ایک تیر ہوں آپ جہاں چاہیں مجھے پھینک دیں۔

26629

(۲۶۶۳۰) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو ، عَنْ أَبِی سَلَمَۃَ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَنْ تَوَلَّی غَیْرَ مَوَالِیہِ فَعَلَیْہِ لَعَنَۃُ اللہِ وَالْمَلاَئِکَۃِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِینَ۔ (مسلم ۱۱۴۶۔ ابوداؤد ۵۰۷۳)
(٢٦٦٣٠) حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : کہ جو شخص اپنے آقا کے علاوہ کسی سے تعلق رکھے تو اس پر اللہ کی، ملائکہ کی اور تمام لوگوں کی لعنت ہو۔

26630

(۲۶۶۳۱) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا سَعِیدُ بْنُ أَبِی عَرُوبَۃَ ، عَن قَتَادَۃَ ، عَن شَہْرِ بْنِ حَوْشَبٍ ، عَنْ عَبْدٗ الرَّحْمَنِ بْنِ غَنْمٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ خَارِجَۃَ ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خَطَبَہُمْ وَہُوَ عَلَی رَاحِلَتِہِ ، وَإِنَّ رَاحِلَتَہُ لَتَقْصَعُ بِجَرَّتِہَا ، وَإِنَّ لُعَابَہَا یَسِیلُ بَیْنَ کَتِفَیَّ فَقَالَ : مَنِ ادَّعَی إلَی غَیْرِ أَبِیہِ ، أَوْ تَوَلَّی غَیْرَ مَوَالِیہِ فَعَلَیْہِ لَعَنَۃُ اللہِ ، لاَ یُقْبَلُ مِنْہُ صَرْفٌ ، وَلاَ عَدْلٌ ، أَوْ قَالَ : عَدْلٌ ، وَلاَ صَرْفٌ۔
(٢٦٦٣١) حضرت عمرو بن خارجہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں سے خطاب فرمایا اس حال میں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سواری پر تھے اور سواری کا جانور جگالی کررہا تھا اور اس کی رال اس کے کندھوں کے درمیان بہہ رہی تھی، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو کسی کو غیر باپ کی طرف منسوب کرلے، یا جو شخص اپنے آقا کے علاوہ کسی سے تعلق جوڑے تو اس پر اللہ کی لعنت ہے۔ اور اس کی کوئی فرض عبادت اور نفلی عبادت قبول نہیں کی جائے گی۔

26631

(۲۶۶۳۲) حَدَّثَنَا شَبَابَۃُ ، قَالَ : حدَّثَنَا ابْنُ أَبِی ذِئْبٍ ، عَنِ الْحَارِثِ ، عَنْ أَبِی سَلَمَۃَ ، عَن سَعِیدِ بْنِ زَیْدٍ ، قَالَ : أَشْہَدُ عَلَی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سَمِعْتہ یَقُولُ : مَنْ تَوَلَّی مَوْلًی بِغَیْرِ إذْنِہِ فَعَلَیْہِ لَعَنَۃُ اللہِ۔
(٢٦٦٣٢) حضرت سعید بن زید فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر گواہ بنتا ہوں کہ میں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یوں فرماتے ہوئے سنا کہ جو شخص اپنے آقا کی اجازت کے بغیر کیل کو آقا بنائے تو اس پر اللہ کی لعنت ہو۔

26632

(۲۶۶۳۳) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مُرَّۃَ ، عَنْ أَبِی مَعْمَرٍ ، قَالَ : قَالَ أَبُو بَکْرٍ : کَفَرَ بِاللَّہِ مَنِ ادَّعَی نَسَبًا لاَ یُعْلَمُ ، وَتَبَرَّأَ مِنْ نَسَبٍ ، وَإِنْ دَقَّ۔ (دارمی ۲۸۶۳۔ احمد ۲۱۵)
(٢٦٦٣٣) حضرت ابو معمر فرماتے ہیں کہ حضرت ابوبکر نے ارشاد فرمایا : اپنے نسب کو چھوڑ کر کسی دوسرے خاندان کی طرف منسوب ہونے والے نے کفر کیا۔

26633

(۲۶۶۳۴) حَدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ بْنُ عَیَّاشٍ ، عَن شُرَحْبِیلَ بْنِ مُسْلِمٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا أُمَامَۃَ الْبَاہِلِیَّ یَقُولُ : سَمِعْت رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : مَنِ ادَّعَی إلَی غَیْرِ أَبِیہِ وَانْتَمَی إلَی غَیْرِ مَوَالِیہِ ، فَعَلَیْہِ لَعَنَۃُ اللہِ التَّابِعَۃ إلَی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ۔ (ترمذی ۲۱۲۰۔ ابوداؤد ۲۸۶۲)
(٢٦٦٣٤) حضرت ابو امامہ باھلی فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یوں ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ جو کسی کو غیر باپ کی طرف منسوب کرائے اور جو خود کو اپنے آقا کے علاوہ کسی سے منسوب کرے تو اس پر قیامت کے دن تک مسلسل اللہ کی لعنت ہو۔

26634

(۲۶۶۳۵) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا وُہَیْبٌ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُثْمَانَ ، عَن سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : مَنِ ادَّعَی إلَی غَیْرِ أَبِیہِ ، أَوْ تَوَلَّی غَیْرَ مَوَالِیہِ ، فَعَلَیْہِ لَعَنَۃُ اللہِ وَالْمَلاَئِکَۃِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِینَ۔ (احمد ۱/۳۲۸۔ ابویعلی ۲۵۴۰)
(٢٦٦٣٥) حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جو کسی غیر باپ کی طرف اپنی نسبت کرے یا جو اپنے آقا کے علاوہ کسی سے تعلق جوڑے تو اس پر اللہ کی اور ملائکہ کی اور تمام لوگوں کی لعنت ہو۔

26635

(۲۶۶۳۶) حَدَّثَنَا سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَن زِرٍّ ، قَالَ : أَتَیْتُ صَفْوَانَ بْنَ عَسَّالٍ الْمُرَادِیَّ فَقَالَ لِی : مَا جَائَ بِکَ ؟ فَقُلْت : ابْتِغَائَ الْعِلْمِ ، قَالَ : فَإِنَّ الْمَلاَئِکَۃَ تَضَعُ أَجْنِحَتَہَا لِطَالِبِ الْعِلْمِ۔
(٢٦٦٣٦) حضرت عاصم فرماتے ہیں کہ حضرت زر نے ارشاد فرمایا : کہ میں نے حضرت صفوان بن عسال مرادی کی خدمت میں حاضر ہوا ، آپ نے مجھ سے پوچھا : کس لیے آئے ہو ؟ میں نے عرض کیا علم حاصل کرنے کے لیے۔ آپ نے فرمایا : بلاشبہ ملائکہ اپنے پروں کو طالب علم کے لیے بچھاتے ہیں۔

26636

(۲۶۶۳۷) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَن شِمْرِ ، عَن سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : مُعَلِّمُ الْخَیْرِ یَسْتَغْفِرُ لَہُ کُلُّ شَیْئٍ حَتَّی الْحُوتُ فِی الْبَحْرِ۔ (دارمی ۳۴۳۔ عبدالبر ۱۸۰)
(٢٦٦٣٧) حضرت سعید بن جبیر فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عباس نے ارشاد فرمایا : خیر کی بات سکھلانے والے کے لیے ہر چیز دعائے مغفرت کرتی ہے حتی کہ سمندر میں مچھلیاں بھی۔

26637

(۲۶۶۳۸) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِ ، عَن ہَارُونَ بْنِ عَنتَرَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : مَا یسْلُک رَجُلٌ طَرِیقًا یَلْتَمِسُ فِیہَا الْعِلْمَ إلاَّ سَہَّلَ اللَّہُ لَہُ طَرِیقًا إلَی الْجَنَّۃِ۔ (ابوداؤد ۳۶۳۸۔ دارمی ۳۴۵)
(٢٦٦٣٨) حضرت عنترہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عباس نے ارشاد فرمایا : کہ کوئی آدمی کسی راستہ پر نہیں چلتا کہ اس میں علم تلاش کرے مگر یہ کہ اللہ رب العزت اس کے لیے جنت کا راستہ آسان فرما دیتے ہیں۔

26638

(۲۶۶۳۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ قَیْسٍ الْمُلاَئِیِّ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : فَضْلُ الْعِلْمِ خَیْرٌ مِنْ فَضْلِ الْعِبَادَۃِ ، وَمِلاَکُ دِینِکُمُ الْوَرَعُ۔ (حاکم ۹۲۔ بزار ۲۹۶۹)
(٢٦٦٣٩) حضرت عمرو بن قیس فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا؛ کہ علم کی فضیلت عبادت کی فضیلت سے بہتر ہے۔ اور تمہارے دین کی بنیاد تقویٰ ہے۔

26639

(۲۶۶۴۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا ابْنُ عَوْنٍ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ ، عَنِ الأَحْنَفِ ، قَالَ : قَالَ عُمَرُ : تَفَقَّہُوا قَبْلَ أَنْ تُسَوَّدُوا۔ (دارمی ۲۵۰)
(٢٦٦٤٠) حضرت احنف فرماتے ہیں کہ حضرت عمر نے ارشاد فرمایا : علم حاصل کرو قبل ازیں کہ تمہیں سردار بنایا جائے۔

26640

(۲۶۶۴۱) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِی صَالِحٍ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَنْ سَلَکَ طَرِیقًا یَلْتَمِسُ فِیہِ عِلْمًا ، سَہَّلَ اللَّہُ لَہُ طَرِیقًا إلَی الْجَنَّۃِ۔ (مسلم ۲۰۷۴۔ ابوداؤد ۳۶۳۸)
(٢٦٦٤١) حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جو شخص کسی راستہ پر چلے تاکہ علم حاصل کرے، اللہ رب العزت اس کے لیے جنت کے راستہ کو آسان فرما دیتے ہیں۔

26641

(۲۶۶۴۲) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَن لَیْثٍ ، عَن طَاوُوس ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : مَنْہُومَانِ لاَ یَشْبَعَانِ : طَالِبُ عِلْمٍ وَطَالِبُ دُنْیَا۔ (دارمی ۳۳۴)
(٢٦٦٤٢) حضرت طاؤس فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عباس نے ارشاد فرمایا : کہ دو حریص ایسے ہیں جو کبھی سیر نہیں ہوتے : علم کا خواہش مند اور دنیا کا خواہش مند۔

26642

(۲۶۶۴۳) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَن شَقِیق ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : تَعَلَّمُوا ، فَإِنَّ أَحَدَکُمْ لاَ یَدْرِی مَتَی یُخْتل إلَیْہِ۔
(٢٦٦٤٣) حضرت شقیق فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود نے ارشاد فرمایا : علم حاصل کرو اس لیے کہ کوئی نہیں جانتا کہ وہ کب اس کا محتاج ہوجائے !

26643

(۲۶۶۴۴) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَن تَمِیمِ بْنِ سَلَمَۃَ ، عَنْ أَبِی عُبَیْدَۃَ ، قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللہِ : اغْدُ عَالِمًا ، أَوْ مُتَعَلِّمًا ، وَلاَ تَغْدُ بَیْنَ ذَلِکَ۔
(٢٦٦٤٤) حضرت ابو عبیدہ فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود نے ارشاد فرمایا : تو صبح کر عالم بن کر یا سیکھنے والا بن کر، اس کے علاوہ تو تیسرابن کر صبح مت کر۔

26644

(۲۶۶۴۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن مِسْعَرٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ ، عَن سَالِمِ بْنِ أَبِی الْجَعْدِ ، قَالَ : قَالَ أَبُو الدَّرْدَائِ : تَعَلَّمُوا قَبْلَ أَنْ یُرْفَعَ الْعِلْمُ ، فَإِنَّ الْعَالِمَ وَالْمُتَعَلِّمَ فِی الأَجْرِ سَوَائٌ۔
(٢٦٦٤٥) حضرت سالم بن ابو الجعد فرماتے ہیں کہ حضرت ابو الدردائ نے ارشاد فرمایا : علم سیکھو قبل ازیں کہ علم اٹھا لیا جائے۔ بیشک جاننے والا اور سیکھنے والا دونوں اجر میں برابر ہیں۔

26645

(۲۶۶۴۶) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَن سَالِمٍ، قَالَ: قَالَ أَبُو الدَّرْدَائِ: مُعَلِّمُ الْعِلْمِ وَمُتَعَلِّمُہُ فِی الأَجْرِ سَوَائٌ۔
(٢٦٦٤٦) حضرت سالم فرماتے ہیں کہ حضرت ابو الدردائ نے ارشاد فرمایا : علم کا سکھلانے والا اور سیکھنے والا دونوں اجر میں برابر ہیں۔

26646

(۲۶۶۴۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن سُفْیَانَ ، عَنْ أَبِی الزَّعْرَائِ ، عَنْ أَبِی الأَحْوَصِ ، قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللہِ : إنَّ الرَّجُلَ لاَ یُولَدُ عَالِمًا ، وَإِنَّمَا الْعِلْمُ بِالتَّعَلُّمِ۔
(٢٦٦٤٧) حضرت ابو الاحوص فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود نے ارشاد فرمایا : کہ بیشک کوئی بھی آدمی عالم بن کر پیدا نہیں ہوتا بیشک علم تو سیکھنے سے حاصل ہوتا ہے۔

26647

(۲۶۶۴۸) حَدَّثَنَا دَاوُد ، عَن سُفْیَانَ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ الأَقْمَرِ ، عَنْ أَبِی الأَحْوَصِ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ مِثْلُہُ۔
(٢٦٦٤٨) حضرت عبداللہ بن مسعود کا مذکورہ ارشاد اس سند سے بھی منقول ہے۔

26648

(۲۶۶۴۹) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا التیمی ، عَن سَیَّارٍ ، عَنْ عَائِذِ اللہِ ، قَالَ : الَّذِی یَتَتَبَّعُ الأَحَادِیثَ لِیُحَدِّثَ بِہَا لاَ یَجِدُ رِیحَ الْجَنَّۃِ۔
(٢٦٦٤٩) حضرت سیار فرماتے ہیں کہ حضرت عائذ اللہ نے ارشاد فرمایا : جو شخص احادیث اس لیے تلاش کرتا ہے تاکہ وہ لوگوں کو بیان کرے تو وہ شخص جنت کی خوشبو بھی نہیں پائے گا۔

26649

(۲۶۶۵۰) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَن سُفْیَانَ ، عَن بُرْدٍ ، عَن مَکْحُولٍ ، قَالَ: مَنْ طَلَبَ الْحَدِیثَ لیجاری بِہِ السُّفَہَائَ، أَوْ لِیُمَارِیَ بِہِ الْعُلَمَائَ ، أَوْ لِیَصْرِفَ بِہِ وُجُوہَ النَّاسِ إلَیْہِ ، فَہُوَ فِی النَّارِ۔ (دارمی ۳۷۴)
(٢٦٦٥٠) حضرت برد فرماتے ہیں کہ حضرت مکحول نے ارشاد فرمایا : کہ جو شخص علم حدیث حاصل کرتا ہے اس نیت سے کہ وہ اس کے ذریعہ بیوقوفوں سے جھگڑا کرے یا اس کے ذریعہ علماء پر فخر کرے یا اس کے ذریعہ لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرے تو وہ شخص جہنم میں ہوگا۔

26650

(۲۶۶۵۱) حَدَّثَنَا سُرَیْجُ بْنُ النُّعْمَانِ ، قَالَ : حدَّثَنَا فُلَیْحٌ ، عَنْ أَبِی طِوَالَۃَ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مَعْمَرٍ ، عَن سَعِیدِ بْنِ یَسَارٍ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَنْ تَعَلَّمَ عِلْمًا مِمَّا یُبْتَغَی بِہِ وَجْہُ اللہِ لاَ یَتَعَلَّمُہُ إلاَّ لِیُصِیبَ بِہِ عَرَضًا مِنَ الدُّنْیَا لَمْ یَجِدْ عَرْفَ الْجَنَّۃِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ - یَعْنِی رِیحَہَا۔ (ابوداؤد ۳۶۵۶۔ ابن ماجہ ۲۵۲)
(٢٦٦٥١) حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جس نے اس علم کو جس سے اللہ تعالیٰ کی رضا طلب کی جاتی ہے ، اس غرض سے سیکھا کہ وہ اس کے ذریعہ دنیا کی متاع حاصل کرے تو قیامت کے دن اسے جنت کی خوشبو بھی میسر نہیں ہوگی۔

26651

(۲۶۶۵۲) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَن مُجَالِدٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : مَا عَلِمْت أَحَدًا مِنَ النَّاسِ کَانَ أَطْلَبَ لِلْعِلْمِ فِی أُفُقٍ مِنَ الآفَاقِ مِنْ مَسْرُوقٍ۔
(٢٦٦٥٢) حضرت مجالد فرماتے ہیں کہ امام شعبی نے ارشاد فرمایا : کہ میں لوگوں میں سے کسی کو نہیں جانتا کہ اس نے علم طلب کرنے کے لیے حضرت مسروق سے زیادہ دنیا میں سفر کیا ہو۔

26652

(۲۶۶۵۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، عَن سُفْیَانَ، عَن رَجُلٍ لَمْ یُسَمِّہِ، أَنَّ مَسْرُوقًا رَحَلَ فِی حَرْفٍ، وَأَنَّ أَبَا سَعِیدٍ رَحَلَ فِی حَرْفٍ۔
(٢٦٦٥٣) حضرت سفیان کسی شخص سے جس کا انھوں نے نام بیان نہیں کیا، نقل کرتے ہیں کہ طلب علم کے لیے حضرت مسروق ایک کنارے میں روانہ ہوئے اور حضرت ابو سعید دوسرے کنارے میں روانہ ہوئے۔

26653

(۲۶۶۵۴) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ صَالِحٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : حدَّثَنَا الشَّعْبِیُّ بِحَدِیثٍ ، ثُمَّ قَالَ لِی : أَعْطَیْتُکَہُ بِغَیْرِ شَیْئٍ ، وَإِنْ کَانَ الرَّاکِبُ لَیَرْکَبُ إلَی الْمَدِینَۃِ فِیمَا دُونَہُ۔ (بخاری ۵۰۸۳۔ مسلم ۲۴۱)
(٢٦٦٥٤) حضرت صالح فرماتے ہیں کہ امام شعبی نے ہمیں ایک حدیث بیان کی پھر ارشاد فرمایا : میں نے تمہیں یہ حدیث بغیر کسی چیز کے عطا کردی ، وگرنہ ایک سوار اس سے بھی کم کے لیے مدینہ تک کا سفر کرتا تھا۔

26654

(۲۶۶۵۵) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَن رَجُلٍ ، قَالَ : قَالَ لِی الشَّعْبِیُّ أحَادِیثٌ أَعْطَیْنَاکہَا بِغَیْرِ شَیْئٍ ، وَإِنْ کَانَ الرَّاکِبُ لَیَرْکَبُ فِیمَا دُونَہَا إلَی الْمَدِینَۃِ۔
(٢٦٦٥٥) حضرت عبدہ بن سلیمان فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے بیان کیا کہ امام شعبی نے مجھ سے فرمایا : کہ بہت سی احادیث ہم نے تمہیں بغیر کسی چیز کے عطا کردی ہیں وگرنہ ایک سوار مدینہ تک اس سے بھی کم کے لیے سفر کرتا تھا۔

26655

(۲۶۶۵۶) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ الْحُبَابِ ، عَن شُعْبَۃَ ، عَن عُمَارَۃَ ، عَنْ أَبِی مِجْلَزٍ ، عَن قَیْسِ بْنِ عُبَادٍ ، قَالَ : خَرَجْت إلَی الْمَدِینَۃِ أَطْلُبُ الْعِلْمَ وَالشَّرَفَ۔
(٢٦٦٥٦) حضرت ابو مجلز فرماتے ہیں کہ حضرت قیس بن عباد نے ارشاد فرمایا : کہ میں مدینہ کی طرف نکلا تاکہ میں علم اور اعزاز طلب کروں۔

26656

(۲۶۶۵۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ إیَاسٍ ، عَنْ أَبِی نَضْرَۃَ ، عَنْ أَبِی سَعِیدٍ ، قَالَ : تَحَدَّثُوا ، فَإِنَّ الْحَدِیثَ یَہِیجُ الْحَدِیثَ۔
(٢٦٦٥٧) حضرت ابو نضرہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابو سعید نے ارشاد فرمایا : آپس میں حدیث بیان کیا کرو، اس لیے کہ حدیث ہی حدیث کو ابھارتی ہے۔

26657

(۲۶۶۵۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا کَہْمَسُ بْنُ الْحَسَنِ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ بُرَیْدَۃَ ، قَالَ : قَالَ عَلِیٌّ : تَزَاوَرُوا وَتَذَاکَرُوا الْحَدِیثَ فَإِنَّکُمْ إِنْ لاَ تَفْعَلُوا یَدْرُسْ۔
(٢٦٦٥٨) حضرت عبداللہ بن بریدہ فرماتے ہیں کہ حضرت علی نے ارشاد فرمایا : باہم ملاقات کیا کرو ۔ اور حدیث کا مذاکرہ کیا کرو اگر تم ایسا نہیں کرو گے تو حدیث مٹ جائے گی۔

26658

(۲۶۶۵۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا فِطْرٌ ، عَن شَیْخٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ عِکْرِمَۃَ یَقُولُ : تَذَاکَرُوا الْحَدِیثَ ، فَإِنَّ إحْیَائَہُ ذِکْرُہُ۔ (دارمی ۶۱۹)
(٢٦٦٥٩) حضرت عکرمہ فرماتے ہیں حدیث کا مذاکرہ کیا کرو، بیشک اس کا مذاکرہ کرنا اس کو زندہ رکھنا ہے۔

26659

(۲۶۶۶۰) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ بْنِ رَجَائٍ ، أَنَّہُ کَانَ یَأْتِی صِبْیَانَ الْکُتَّابِ فَیَعْرِضُ عَلَیْہِمْ حَدِیثَہُ کَیْ لاَ یَنْسَی۔
(٢٦٦٦٠) حضرت اعمش فرماتے ہیں کہ حضرت اسماعیل بن رجائ لکھنے والے بچوں کے پاس تشریف لاتے تھے اور ان کے سامنے اپنی حدیثیں پیش کرتے تاکہ آپ ان کو بھول نہ جائیں۔

26660

(۲۶۶۶۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا عِیسَی بْنُ الْمُسَیَّبِ ، قَالَ : سَمِعْتُ إبْرَاہِیمَ یَقُولُ : إذَا سَمِعْت حَدِیثًا فَحَدِّثْ بہ حِینَ تَسْمَعُہُ ، وَلَوْ أَنْ تُحَدِّثَ بِہ مَنْ لاَ یَشْتَہِیہِ ، فَإِنَّہُ یَکُونُ کَالْکِتَابِ فِی صَدْرِک۔
(٢٦٦٦١) حضرت عیسیٰ بن مسیب فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابراہیم کو یوں فرماتے ہوئے سُنا کہ جب تم کوئی حدیث سنو تو تم اس کو بیان کردیا کرو جب بھی تم نے اس کو سناہو، اور اگر ایسا معاملہ ہو کہ تم نے اسے ایسے شخص کے سامنے بیان کردیا جو اس کا خواہش مند نہیں ہے تو یہ تمہارے سینہ میں کتاب کی طرح محفوظ ہوجائے گی۔

26661

(۲۶۶۶۲) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَن یَزِیدَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِی لَیْلَی ، قَالَ : إحْیَائُ الْحَدِیثِ مُذَاکَرَتُہُ ، فَقَالَ لَہُ عَبْدُ اللہِ بْنُ شَدَّادٍ : کَمْ مِنْ حَدِیثٍ قَدْ أَحْیَیْتہ فِی صَدْرِی۔
(٢٦٦٦٢) حضرت یزید فرماتے ہیں کہ حضرت عبد الرحمن بن ابی لیلیٰ نے ارشاد فرمایا : کہ علم حدیث کی بقا مذاکرہ کرنے میں ہے۔ اس پر حضرت عبداللہ بن شداد نے ان سے فرمایا : کہ کتنی احادیث ایسی ہیں جو تم نے میرے سینہ میں باقی رکھی ہیں۔

26662

(۲۶۶۶۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ: حدَّثَنَا الأَعْمَشُ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : آفَۃُ الْعِلْمِ النِّسْیَانُ، وَإِضَاعَتُہُ أَنْ تُحَدِّثَ بِہِ غَیْرَ أَہْلِہِ۔ (دارمی ۶۲۴)
(٢٦٦٦٣) حضرت اعمش فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : علم کی آفت بھولنا ہے ، اور علم کا ضائع کرنا یہ ہے کہ اس کو نااہل کے سامنے بیان کیا جائے۔

26663

(۲۶۶۶۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ أَبِی الْعُمَیْسِ ، عَنِ الْقَاسِمِ ، قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللہِ : آفَۃُ الْعِلْمِ النِّسْیَانُ۔
(٢٦٦٦٤) حضرت قاسم فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود نے ارشاد فرمایا : علم کی آفت بھولنا ہے۔

26664

(۲۶۶۶۵) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، وَأَبُو أُسَامَۃَ ، عَن عُبَیْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ ، عَن نَافِعٍ ، عَن سَعِیدِ بْنِ أَبِی ہِنْدٍ، عَنْ أَبِی مُوسَی، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: مَنْ لَعِبَ بِالنَّرْدِ، فَقَدْ عَصَی اللَّہَ وَرَسُولَہُ۔ (مالک ۹۵۸۔ احمد ۴/۳۹۴)
(٢٦٦٦٥) حضرت ابو موسیٰ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جس نے چوسر کھیلی اس نے اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نافرمانی کی۔

26665

(۲۶۶۶۶) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، وَأَبُو أُسَامَۃَ ، عَن سُفْیَانَ ، عَنْ عَلْقَمَۃَ بْنِ مَرْثَدٍ ، عَن سُلَیْمَانَ بْنِ بُرَیْدَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : مَنْ لَعِبَ بِالنَّرْدَشِیرِ فَکَأَنَّمَا غَمَسَ یَدَہُ فِی لَحْمِ خِنْزِیرٍ وَدَمِہِ۔ (بخاری ۱۲۷۱۔ مسلم ۱۷۷۰)
(٢٦٦٦٦) حضرت بریدہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جس شخص نے چوسر کھیلی گویا کہ اس نے اپنا ہاتھ خنزیر کے گوشت اور خون میں ڈبو دیا۔

26666

(۲۶۶۶۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن سُفْیَانَ ، عَنْ عَلْقَمَۃَ بْنِ مَرْثَدٍ ، عَنِ ابْنِ بُرَیْدَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَذَکَرَ مِثْلَہُ۔ (احمد ۵/۳۵۲)
(٢٦٦٦٧) حضرت سلیمان بن بریدہ سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مذکورہ ارشاد اس سند سے بھی منقول ہے۔

26667

(۲۶۶۶۰۸) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنِ ابْنِ أَبِی عَرُوبَۃَ ، عَن قَتَادَۃَ ، قَالَ : بَلَغَنَا أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، سُئِلَ عَنِ اللَّعِبِ بِالْکَعْبَیْنِ فَقَالَ : إِنَّہَا مَیْسِرُ الأَعَاجِمِ ، قَالَ : وَکَانَ قَتَادَۃُ یَکْرَہُ اللَّعِبَ بِکُلِّ شَیْئٍ حَتَّی یَکْرَہَ اللَّعِبَ بِالْعَصَا۔ (احمد ۱/۴۴۶۔ بیہقی ۲۱۵)
(٢٦٦٦٨) حضرت قتادہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نرد کے مہروں کے ساتھ کھیلنے کے متعلق سوال کیا گیا ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : بیشک یہ تو عجمیوں کا جوا ہے۔ راوی کہتے ہیں کہ حضرت قتادہ ہر چیز کے ساتھ کھیلنے کو مکروہ سمجھتے تھے یہاں تک کہ لاٹھی کے ساتھ کھیلنے کو بھی۔

26668

(۲۶۶۶۹) حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ وَجَرِیرٌ ، عَنِ الرُّکَیْنِ ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ حَسَّانَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ حَرْمَلَۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : نَہَی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، عَنِ الضَّرْبِ بِالْکِعَابِ۔
(٢٦٦٦٩) حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے چوسر کے مہروں کے ساتھ کھیلنے سے منع فرمایا۔

26669

(۲۶۶۷۰) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَن سَعِیدِ بْنِ أَبِی عَرُوبَۃَ ، عَن قَتَادَۃَ ، عَنْ أَبِی أَیُّوبَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو ، قَالَ : مَثَلُ الَّذِی یَلْعَبُ بِالْکَعْبَیْنِ ، وَلاَ یُقَامِرُ کَمَثَلِ الْمُدَّہِنِ بِشَحْمِہِ ، وَلاَ یَأْکُلُ لَحْمَہُ۔
(٢٦٦٧٠) حضرت ابو ایوب فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمرو نے ارشاد فرمایا : کہ مثال اس شخص کی جو چوسر کے دو مہروں سے کھیلتا ہے اور جوا نہیں لگاتا اس شخص کی سی ہے جو خنزیر کی چربی کا تیل تو لگاتا ہو اور اس کا گوشت نہ کھاتا ہو۔

26670

(۲۶۶۷۱) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَن حَبِیبِ بْنِ أَبِی عَمْرَۃَ ، عَن مُجَاہِدٍ ، عَنِ ابْنِ عُمر قَالَ : لأَنْ أَضَعَ یَدِی فِی لَحْمِ خِنْزِیرٍ أَحَبُّ إلَیَّ مِنْ أَنْ أَلْعَبَ بِالنَّرْدِ۔
(٢٦٦٧١) حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عمر نے ارشاد فرمایا : کہ میں اپنا ہاتھ خنزیر کے گوشت میں ڈالوں یہ میرے نزدیک زیادہ پسندیدہ ہے اس بات سے کہ میں چوسر کھیلوں۔

26671

(۲۶۶۷۲) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَن مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ ، عَن بُرْدِ بْنِ مَعْمَرِ بْنِ یَزِیدَ ، قَالَ : سَأَلْتُ عَائِشَۃَ رضی اللہ عنہا عَنِ النَّرْدَشِیرِ ، قَالَتْ : قَبَّحَ اللَّہُ النَّرْدَشِیرَ وَقَبَّحَ مَنْ لَعِبَ بِہَا۔
(٢٦٦٧٢) حضرت برد بن معمر بن یزید فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ سے چوسر کے متعلق سوال کیا ؟ آپ نے فرمایا : اللہ نے چوسر کو بھلائی سے دور کیا اور اللہ تعالیٰ نے اس کے کھیلنے والے کو بھی بھلائی سے دور کیا۔

26672

(۲۶۶۷۳) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ بْنِ سُمَیْعٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا أَبُو الأَشْعَثِ النَّخَعِیُّ ، قَالَ : سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ یَقُولُ : لأَنْ یَتَلَطَّخَ الرَّجُلُ بِدَمِ خِنْزِیرٍ حَتَّی یَسْتَوْسِعَ مِنہ خَیْرٌ لَہُ مِنْ أَنْ یَلْعَبَ بِالْکِعَابِ۔
(٢٦٦٧٣) حضرت ابو اشعث نخعی فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عباس کو یوں فرماتے ہوئے سنا کہ کوئی خنزیر کے خون میں آلودہ ہوجائے یہ بہتر ہے اس سے کہ وہ چوسر کھیلے۔

26673

(۲۶۶۷۴) حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إسْمَاعِیلَ ، عَنْ جَعْفَرٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : قَالَ عَلِیٌّ : النَّرْدُ ، أَوِ الشِّطْرَنْجُ مِنَ الْمَیْسِرِ۔
(٢٦٦٧٤) حضرت جعفر کے والد فرماتے ہیں کہ حضرت علی نے ارشاد فرمایا : کہ چوسر اور شطرنج جوا ہیں۔

26674

(۲۶۶۷۵) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَن مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ ، عَن نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : کَانَ إذَا وَجَدَ نَرْدًا فِی بَیْتٍ کَسَّرَہَا وَضَرَبَ مَنْ لَعِبَ بِہَا۔
(٢٦٦٧٥) حضرت نافع فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عمر نے ارشاد فرمایا : کہ جب کسی کے گھر میں چوسر کے مہرے پائے جاتے تو اس گھر کو توڑ دیا جاتا تھا اور جو شخص یہ کھیلتا تو اس کو مارا جاتا تھا۔

26675

(۲۶۶۷۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ: حدَّثَنَا مِسْعَرٌ وَسُفْیَانُ ، عَنْ عَبْدِالْمَلِکِ بْنِ عُمَیْرٍ، عَنْ أَبِی الأَحْوَصِ، قَالَ سُفْیَانُ: عَنْ عَبْدِ اللہِ ، وَقَصَّرَ بِہِ مِسْعَرٌ : إیَّاکُمْ وَہَذِہِ الْکِعَابَ الْمَوْسُومَۃَ الَّتِی تُزْجَرُ زَجْرًا ، فَإِنَّہَا مِنَ الْمَیْسِرِ۔
(٢٦٦٧٦) حضرت مسعر حضرت عبد الملک بن عمیر سے نقل کرتے ہیں کہ حضرت ابو الاحوص نے ارشاد فرمایا : جبکہ حضرت سفیان حضرت عبد الملک بن عمیر سے اور وہ حضرت ابوالاحوص سے نقل کرتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود نے ارشاد فرمایا : کہ تم ان نشان لگے مہروں سے بچو جن سے تمہیں ڈانٹا جاتا ہے، اس لیے کہ یہ جوا ہے۔

26676

(۲۶۶۷۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا أُسَامَۃَ بْنُ زِید ، عَن سَعِیدِ بْنِ أَبِی ہِنْدٍ سَمِعَہُ مِنْہُ ، عَنْ أَبِی مُوسَی ، قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَنْ لَعِبَ بِالنَّرْدِ ، فَقَدْ عَصَی اللَّہَ وَرَسُولَہُ۔
(٢٦٦٧٧) حضرت ابو موسیٰ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جس شخص نے چوسر کھیلی تحقیق اس نے اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نافرمانی کی۔

26677

(۲۶۶۷۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، قَالَ: حدَّثَنَا سَلاَّمُ بْنُ مِسْکِینٍ، عَن قَتَادَۃَ، عَنْ أَبِی أَیُّوبَ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: مَنْ لَعِبَ بِالنَّرْدِ قِمَارًا ، کَانَ کَآکِلِ لَحْمِ الْخِنْزِیرِ ، وَمَنْ لَعِبَ بِہَا غَیْرِ قِمَارٍ کَانَ کَالْمُدَّہِنِ بِوَدَکِ الْخِنْزِیرِ۔
(٢٦٦٧٨) حضرت ابو ایوب فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمرو نے ارشاد فرمایا : جس شخص نے چوسر کھیلی جوئے کے لیے گویا وہ خنزیر کا گوشت کھانے والے کی طرح ہے اور جو یہ کھیلے بغیر جوئے کے، گویا وہ خنزیر کی چربی کا تیل لگانے والے کی طرح ہے۔

26678

(۲۶۶۷۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا معمر ، عَن بَسَّامٍ ، قَالَ : سَأَلْتُ أَبَا جَعْفَرٍ عَنِ اللَّعِبِ بِالنَّرْدِ فَکَرِہَہُ۔
(٢٦٦٧٩) حضرت بسام فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابو جعفر سے چوسر کے متعلق پوچھا ؟ تو آپ نے اسے مکروہ کہا۔

26679

(۲۶۶۸۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، قَالَ: حدَّثَنَا کَامِلٌ أَبُو الْعَلاَئِ، قَالَ: سَمِعْتُ صَلْتًا الدِّہَان مُنْذُ أَرْبَعِینَ سَنَۃً، عَنْ عَلِیٍّ، قَالَ: لأَنْ أَطْلِی بِجِوَائِ قِدْرٍ أَحَبُّ إلَیَّ مِنْ أَطْلِی بِخَلُوقٍ، وَلأَنْ أَقْلِبَ جَمْرَتَیْنِ أَحَبُّ إلَیَّ مِنْ أَنْ أَقْلِبَ کَعْبَیْنِ۔
(٢٦٦٨٠) حضرت صلت الدھان فرماتے ہیں کہ حضرت علی نے ارشاد فرمایا : میں ہانڈی کے نیچے رکھے جانے والے چمڑے کو ملوں یہ مجھے زیادہ پسند ہے اس سے کہ میں زعفران سے بنی ہوئی خوشبو ملوں۔ اور میں آگ کے دو انگاروں کو الٹ پلٹ کروں یہ مجھے زیادہ پسند ہے اس سے کہ میں چوسر کے مہروں کو الٹ پلٹ کروں۔

26680

(۲۶۶۸۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ بْنُ الْوَلِیدِ ، عَن فُضَیْلِ بْنِ مُسْلِمٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ عَلِیٍّ ، أَنَّہُ کَانَ إذَا مَرَّ بِہِمْ وَہُمْ یَلْعَبُونَ بِالنَّرْدِشِیرِ عَقَلَہُمْ إلَی نِصْفِ النَّہَارِ۔
(٢٦٦٨١) حضرت مسلم فرماتے ہیں کہ حضرت علی کا گزر چند لوگوں پر ہوا اس حال میں کہ وہ چوسر کھیل رہے تھے۔ آپ نے ان کو نصف النھار تک سزا دی۔

26681

(۲۶۶۸۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا فُضَیْلُ بْنُ مَرْزُوقٍ ، عَن مَیْسَرَۃَ النَّہْدِیِّ ، قَالَ : مَرَّ عَلِیٌّ عَلَی قَوْمٍ یَلْعَبُونَ بِالشِّطْرَنْجِ ، فَقَالَ : {مَا ہَذِہِ التَّمَاثِیلُ الَّتِی أَنْتُمْ لَہَا عَاکِفُونَ}۔
(٢٦٦٨٢) حضرت میسرہ نھدی فرماتے ہیں کہ حضرت علی کا چند لوگوں پر گزر ہوا جو شطرنج کھیل رہے تھے۔ آپ نے فرمایا : یہ کسی مورتیاں ہیں جن پر تم جمے بیٹھے ہو ؟ !

26682

(۲۶۶۸۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا مَعْمَرٌ ، عَن بَسَّامٍ ، عَنْ أَبِی جَعْفَرٍ ، أَنَّہُ کَرِہَ اللَّعِبَ بِالشِّطْرَنْجِ۔
(٢٦٦٨٣) حضرت بسام فرماتے ہیں کہ حضرت ابو جعفر نے شطرنج کھیلنے کو مکروہ سمجھا۔

26683

(۲۶۶۸۴) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ ہَاشِم ، عَنِ ابْنِ أَبِی لَیْلَی ، عَنِ الْحَکَمِ فِی الشِّطْرَنْجِ ، قَالَ : کَانُوا یُنْزِلُونَ النَّاظِرَ إلَیْہَا کَالنَّاظِرِ إلَی لَحْمِ الْخِنْزِیرِ ، وَالَّذِی یُقْلِبُہَا کَالَّذِی یُقْلِبُ لَحْمَ الْخِنْزِیرِ۔
(٢٦٦٨٤) حضرت ابن ابی لیلیٰ فرماتے ہیں کہ حضرت حکم نے شطرنج کے بارے میں ارشاد فرمایا : کہ صحابہ اس کی طرف دیکھنے والے کو خنزیر کا گوشت دیکھنے والے کے مرتبہ میں رکھتے تھے۔ اور جو شخص اس کے پانسوں کو پلٹتا تھا اس کو خنزیر کا گوشت پلٹنے والے کے درجہ میں رکھتے تھے۔

26684

(۲۶۶۸۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا إبْرَاہِیمُ بْنُ إسْمَاعِیلَ بْنُ مُجَمِّعٍ ، عَن عُبَیْدٍ مَوْلَی سَلَمَۃَ بْنِ الأَکْوَعِ ، عن سَلَمَۃَ بْنِ الأَکْوَعِ أَنَّہُ کَانَ یَنْہَی بَنِیہِ عَنِ اللَّعِبِ بِأَرْبَعَۃَ عَشَرَ أَشَدَّ النَّہْیِ۔
(٢٦٦٨٥) حضرت عبید جو حضرت سلمہ بن اکوع کے آزاد کردہ غلام ہیں فرماتے ہیں کہ حضرت سلمہ بن اکوع نے اپنے بیٹوں کو بہت سختی سے چودہ گوٹ کھیلنے سے منع فرمایا۔

26685

(۲۶۶۸۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا إسْرَائِیلُ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَن نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : کَانَ ابْنُ عُمَرَ یَنْہَی عَنِ اللَّعِبِ بِالشُّہَارْدَۃِ۔
(٢٦٦٨٦) حضرت نافع فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عمر چودہ گوٹ کھیلنے سے منع فرماتے تھے۔

26686

(۲۶۶۸۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ الْعُمَرِیِّ ، عَن نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، أَنَّہُ مَرَّ عَلَی قَوْمٍ یَلْعَبُونَ بِأَرْبَعَۃَ عَشَرَ فَکَسَّرَہَا عَلَی رَأْسِ أَحَدِہِمْ۔
(٢٦٦٨٧) حضرت نافع فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عمر کا گزر چند لوگوں پر ہوا جو چودہ گوٹ کھیل رہے تھے ۔ آپ نے اس کو ان میں سے کسی کے سر پر مار کر توڑ دیا۔

26687

(۲۶۶۸۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا إبْرَاہِیمُ بْنُ إسْمَاعِیلَ بْنِ مُجَمِّعٍ ، عَنْ عَبْدِ الْکَرِیمِ أَبِی أُمَیَّۃَ ، عَن أُمِّ قُثُم قَالَتْ : دَخَلَ عَلَیْنَا عَلِیٌّ وَنَحْنُ نَلْعَبُ بِأَرْبَعَۃَ عَشَرَ فَقَالَ : مَا ہَذَا ؟ فَقُلْنَا : نَحْنُ صِیَامٌ نَتَلَہَّی بِہِ ، قَالَ : أَفَلاَ أَشْتَرِی لَکُمْ بِدِرْہَمٍ جَوْزًا تَلْہُونَ بِہِ وَتَدَعُونَہَا ، قَالَ : فَاشْتَرَی لَنَا بِدِرْہَمٍ جَوْزًا۔
(٢٦٦٨٨) حضرت عبد الکریم بن ابی امیہ فرماتے ہیں کہ حضرت اُم قثم نے ارشاد فرمایا : کہ حضرت علی ہم پر داخل ہوئے اس حال میں کہ ہم چودہ گوٹ کھیل رہے تھے ؟ آپ نے پوچھا : یہ کیا کر رہے ہو ؟ ! ہم نے کہا : کہ ہم روزے سے ہیں تو اس کے ساتھ ہم اپنا دل بہلا رہے ہیں ! آپ نے فرمایا : کیا میں تمہارے لیے ایک درھم کے اخروٹ نہ خرید لوں تم اس کے ساتھ دل بھی بہلانا اور تم اس کی دعوت بھی کرنا ؟ راوی فرماتے ہیں کہ آپ نے پھر ہمارے لیے ایک درہم کے اخروٹ خریدے۔

26688

(۲۶۶۸۹) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَن بَسَّامٍ ، عَنْ أَبِی جَعْفَرٍ ، قَالَ : کَانَ عَلِیُّ بْنُ الْحُسَیْنِ یُلاَعِبُ أَہْلَہُ بِالشُّہَارْدَۃِ۔
(٢٦٦٨٩) حضرت ابو جعفر فرماتے ہیں کہ حضرت علی بن حسین اپنی گھر والی کے ساتھ چودہ گوٹ کھیلتے تھے۔

26689

(۲۶۶۹۰) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ الْحُبَابِ ، قَالَ : حدَّثَنی الضَّحَّاکُ بْنُ عُثْمَانَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَی نَافِعٌ ، أَنَّ ابْنَ عُمَرَ دَخَلَ عَلَی جَارِیَتَیْنِ لَہُ تَلْعَبَانِ بِالشُّہَارْدَۃِ فَضَرَبَہُمَا بہا حَتَّی تَکَسَّرَتْ۔
(٢٦٦٩٠) حضرت نافع فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عمر اپنی دو باندیوں پر داخل ہوئے اس حال میں کہ وہ چودہ گوٹ کھیل رہی تھیں۔ آپ نے اسی سے ان دونوں کو مارا یہاں تک کہ وہ ٹوٹ گئی۔

26690

(۲۶۶۹۱) حَدَّثَنَا صَفْوَانُ بْنُ عِیسَی ، عَن یَزِیدَ بْنِ أَبِی عُبَیْدٍ ، قَالَ : کَانَ سَلَمَۃُ بْنُ الأَکْوَعِ یَنْہَی بَنِیہِ أَنْ یَلْعَبُوا بِأَرْبَعَۃَ عَشَرَ ، وَیَقُولُ : إنَّہُمْ یَکْذِبُونَ فِیہَا وَیَفْجُرُونَ۔
(٢٦٦٩١) حضرت یزید بن ابی عبید فرماتے ہیں کہ حضرت سلمہ بن اکوع اپنے بیٹوں کو چودہ گوٹ کھیلنے سے منع کرتے تھے اور فرماتے کہ یہ لوگ اس میں جھوٹ بولتے ہیں اور جھوٹی قسمیں اٹھاتے ہیں۔

26691

(۲۶۶۹۲) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ بْنِ عَبْدِ الْمَلِکِ ، عَن سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ، أَنَّہُ کَرِہَ اللَّعِبَ بِالشُّہَارْدَۃِ۔
(٢٦٦٩٢) حضرت اسماعیل بن عبد الملک فرماتے ہیں کہ حضرت سعید بن جبیر چودہ گوٹ کھیلنے کو مکروہ سمجھتے تھے۔

26692

(۲۶۶۹۳) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَن لَیْثٍ ، عَن طَاوُوس ، قَالَ : کَانَ یَکْرَہُ الْقِمَارَ وَیَقُولُ : إِنَّہُ مِنَ الْمَیْسِرِ حَتَّی لَعِبِ الصِّبْیَانِ بِالْجَوْزِ وَالْکِعَابِ۔
(٢٦٦٩٣) حضرت لیث فرماتے ہیں کہ حضرت طاؤس سٹے کو مکروہ سمجھتے تھے اور فرماتے ہیں کہ یہ بھی جوا ہے۔ یہاں تک کہ آپ بچوں کے اخروٹ اور چوسر کے مہروں سے کھیلنے کو بھی مکروہ سمجھتے تھے۔

26693

(۲۶۶۹۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ نَجِیحٍ ، قَالَ : رَأَیْتُ ابْنَ سِیرِینَ مَرَّ عَلَی غِلْمَانٍ یَوْمَ الْعِیدِ بالْمِرْبَد وَہُمْ یَتَقَامَرُونَ بِالْجَوْزِ ، فَقَالَ : یَا غِلْمَانُ ، لاَ تُقَامِرُوا ، فَإِنَّ الْقِمَارَ مِنَ الْمَیْسِرِ۔
(٢٦٦٩٤) حضرت حماد بن نجیح فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن سیرین کو دیکھا کہ وہ عید کے دن دو لڑکوں کے پاس سے گزرے تھے جو اونٹوں کے باڑے کے پاس اخروٹ میں سٹہ بازی لگا رہے تھے۔ آپ نے فرمایا : اے بچو ! سٹہ مت لگاؤ۔ اس لیے کہ سٹہ بازی بھی جوا ہے۔

26694

(۲۶۶۹۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن سُفْیَانَ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ ، قَالَ : کُلُّ شَیْئٍ فِیہِ خَطَرٌ ، فَہُوَ مِنَ الْمَیْسِرِ۔
(٢٦٦٩٥) حضرت عاصم فرماتے ہیں کہ حضرت محمد بن سیرین نے ارشاد فرمایا : ہر وہ بازی جس میں خطرہ ہو وہ جوا ہے۔

26695

(۲۶۶۹۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن سُفْیَانَ ، عَن لَیْثٍ ، عَنْ عَطَائٍ ، وَمُجَاہِدٍ ، وَطَاوُوس ، أَوِ اثْنَیْنِ مِنْہُمْ ، قَالاََ : کُلُّ شَیْئٍ مِنَ الْقِمَارِ ، فَہُوَ مِنَ الْمَیْسِرِ حَتَّی لَعِبِ الصِّبْیَانِ بِالْجَوْزِ۔
(٢٦٦٩٦) حضرت لیث فرماتے ہیں کہ حضرت عطائ اور حضرت مجاہد اور حضرت طاؤس یا ان میں سے دو حضرات نے فرمایا : کہ سٹہ بازی کی ہر قسم جوا ہے یہاں تک کہ بچوں کا اخروٹ کے ساتھ کھیلنا بھی جوا ہے۔

26696

(۲۶۶۹۷) حَدَّثَنَا جَرِیرُ بْنُ عَبْدِ الْحَمِیدِ ، عَنْ أَسْلَمَ الْمُنْقِرِیِّ ، قَالَ : کَانَ سَعِیدُ بْنُ جُبَیْرٍ إذَا مَرَّ عَلَی أَصْحَابِ النَّرْدِ لَمْ یُسَلِّمْ عَلَیْہِمْ۔
(٢٦٦٩٧) حضرت اسلم منقری فرماتے ہیں کہ حضرت سعید بن جبیر جب چوسر کھیلنے والوں پر گزرتے تو آپ انھیں سلام نہیں کرتے تھے۔

26697

(۲۶۶۹۸) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَن یَزِیدَ بْنِ أَبِی زِیَادٍ ، عَن زِیَادِ بْنِ حُدَیْرٍ ، أَنَّہُ مَرَّ عَلَی قَوْمٍ یَلْعَبُونَ بِالنَّرْدِ فَسَلَّمَ وَہُوَ لاَ یَعْلَمُ ، ثُمَّ رَجَعَ فَقَالَ : رُدُّوا عَلَیَّ سَلاَمِی۔
(٢٦٦٩٨) حضرت یزید بن أبو زیاد فرماتے ہیں کہ حضرت زیاد بن حدیر کا گزر چند لوگوں پر ہوا جو چوسر کھیل رہے تھے آپ نے لاعلمی میں انھیں سلام کردیا۔ پھر آپ دوبارہ واپس آئے اور فرمایا : مجھے میرا سلام واپس لوٹا دو ۔

26698

(۲۶۶۹۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن أُمِّ غُرَابٍ ، عَن بُنَانَۃَ ، أَنَّ عُثْمَانَ کَانَ یَتَمَطَّرُ فِی أَوَّلِ مَطْرَۃٍ۔
(٢٦٦٩٩) حضرت بنانہ فرماتی ہیں کہ حضرت عثمان پہلی بارش میں نہاتے تھے۔

26699

(۲۶۷۰۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ الْمُؤَمِّلِ ، عَنِ ابْنِ أَبِی مُلَیْکَۃَ ، أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ کَانَ یَتَمَطَّرُ ، یُخْرِجُ ثِیَابَہُ حَتَّی یُخْرِجَ سَرْجَہُ فِی أَوَّلِ مَطْرَۃٍ۔
(٢٦٧٠٠) حضرت ابن ابی ملیکہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عباس بارش میں نہاتے تھے، اپنے کپڑے نکلواتے، یہاں تک کہ اپنی زین بھی پہلی بارش میں نکلواتے تھے۔

26700

(۲۶۷۰۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ الرَّبِیعِ ، عَن یَزِیدَ بْنِ أَبَانَ ، عَنْ أَنَسٍ ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یَتَمَطَّرُ فِی أَوَّلِ مَطْرَۃٍ۔
(٢٦٧٠١) حضرت انس فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پہلی بارش میں نہایا کرتے تھے۔

26701

(۲۶۷۰۲) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ ، عَن سعد بْنِ رَزِینٍ عَمَّنْ حَدَّثَہُ ، عَنْ عَلِیٍّ ، أَنَّہُ کَانَ إذَا رأی الْمَطَرَ خَلَعَ ثِیَابَہُ وَجَلَسَ ، وَیَقُولُ : حدِیثُ عَہْدٍ بِالْعَرْشِ۔
(٢٦٧٠٢) حضرت سعد بن رزین اپنے کسی شیخ سے نقل کرتے ہیں کہ حضرت علی جب بارش دیکھتے تو اپنے کپڑے اتار دیتے اور بیٹھ جاتے اور فرماتے : یہ عرش سے پہلی بات ہے۔

26702

(۲۶۷۰۳) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، قَالَ : حَدَّثَنَا ثَابِتٌ ، قَالَ : حَدَّثَنَا أَنَسٌ ، قَالَ : أَصَابَنَا وَنَحْنُ مَعَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَطَرٌ ، قَالَ : فَخَرَجَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَحَسَرَ ثَوْبَہُ عَنہُ حَتَّی أَصَابَہُ ، فَقُلْنَا : یَا رَسُولَ اللہِ ، لِمَ صَنَعْت ہَذَا ؟ قَالَ : لأَنَّہُ حَدِیثُ عَہْدٍ بِرَبِّہِ۔ (ابوداؤد ۵۰۵۹۔ مسلم ۶۱۵)
(٢٦٧٠٣) حضرت انس سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ تھے کہ بارش شروع ہوگئی۔ آپ نے اپنے جسم مبارک کو بارش میں بھیگنے دیا اور فرمایا کہ یہ اللہ تعالیٰ سے گفتگو ہے۔

26703

(۲۶۷۰۴) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ بَکْرٍ السَّہْمِیُّ ، قَالَ : حدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ أَبِی صَغِیرَۃَ ، عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ سَالِمٍ ، أَنَّ عَمْرَو بْنَ أَوْسٍ أَخْبَرَہُ ، أَنَّ أَبَاہُ أَوْسًا أَخْبَرَہُ ، قَالَ : إنَّا لَقُعُودٌ عِنْدَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَہُوَ یَقُصُّ عَلَیْنَا وَیُذَکِّرُنَا۔ (ابن ماجہ ۳۹۲۹۔ احمد ۸)
(٢٦٧٠٤) حضرت عمرو بن اوس فرماتے ہیں کہ ان کے والد حضرت اوس نے ارشاد فرمایا : کہ ہم لوگ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس بیٹھے ہوئے تھے اس حال میں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمیں قصہ بیان فرما رہے تھے اور ہمیں وعظ و نصیحت فرما رہے تھے۔

26704

(۲۶۷۰۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن مَالِکِ بْنِ مِغْوَلٍ ، قَالَ : قَالَ أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِیُّ : لاَ تُجَالِسُوا مِنَ الْقُصَّاصِ إلاَّ أَبَا الأَحْوَصِ۔
(٢٦٧٠٥) حضرت مالک بن مغول فرماتے ہیں کہ حضرت ابو عبد الرحمن سلمی نے ارشاد فرمایا : کہ تم لوگ حضرت ابو الاحوص کے سوا کسی بھی قصہ گو کی مجلس اختیار مت کرو۔

26705

(۲۶۷۰۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ ، قَالَ : ذَکَرُوا عِنْدَ الشَّعْبِیِّ الْجُلُوسَ مَعَ الْقُصَّاصِ کَعَدْلِ عِتْقِ رَقَبَۃٍ ، فَقَالَ : لأَنْ أُعْتِقَ رَقَبَۃً أَحَبُّ إلَیَّ مِنْ أَنْ أَجْلِسَ مَعَ الْقُصَّاصِ أَرْبَعَۃَ أَشْہُرٍ۔
(٢٦٧٠٦) حضرت اسماعیل فرماتے ہیں کہ چند لوگوں نے امام شعبی سے یہ بات ذکر کی کہ قصہ گو کے پاس بیٹھنا غلام آزاد کرنے کے برابر ہے ! اس پر آپ نے ارشاد فرمایا : میں ایک غلام آزاد کروں یہ میرے نزدیک زیادہ پسندیدہ ہے اس سے کہ میں چار مہینہ تک قصہ گو کے ساتھ ہم مجلس ہوں۔

26706

(۲۶۷۰۷) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَن مُغِیرَۃَ ، قَالَ : کَانَ إبْرَاہِیمُ التَّیْمِیُّ یُذَکِّرُ فِی مَنْزِلِ أَبِی وَائِلٍ ، فَجَعَلَ أَبُو وَائِلٍ یَنْتَفِضُ کَمَا یَنْتَفِضُ الطَّیْرُ۔
(٢٦٧٠٧) حضرت مغیرہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم حضرت ابو وائل کے گھر وعظ و نصیحت فرمایا کرتے تھے۔ اور حضرت ابو وائل ایسے کانپتے تھے جیسا کہ پرندے کانپتے ہیں۔

26707

(۲۶۷۰۸) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، قَالَ : کَانَ الْحَسَنُ یَقُصُّ ، وَکَانَ سَعِیدُ بْنُ جُبَیْرٍ یَقُصُّ۔
(٢٦٧٠٨) حضرت مغیرہ فرماتے ہیں کہ حضرت حسن بصری قصہ سناتے تھے اور حضرت سعید بن جبیر قصہ سناتے تھے۔

26708

(۲۶۷۰۹) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَن دَاوُد بْنِ سَابُورَ ، عَن مُجَاہِدٍ ، قَالَ : کُنَّا نَفْخَرُ عَلَی النَّاسِ بِأَرْبَعَۃٍ : بِفَقِیہِنَا وَبِقَاصِّنَا وَبِمُؤَذِّنِنَا وَبِقَارِئِنَا ، فَقِیہُنَا ابْنُ عَبَّاسٍ ، وَمُؤَذِّنُنَا أَبُو مَحْذُورَۃَ ، وَقَاصُّنَا عُبَیْدُ بْنُ عُمَیْرٍ ، وَقَارِئُنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ السَّائِبِ۔
(٢٦٧٠٩) حضرت داؤد بن شابور فرماتے ہیں کہ حضرت مجاہد نے ارشاد فرمایا : کہ ہم لوگوں پر چار اشخاص کے ذریعہ فخر کرتے تھے۔ فقیہ کے ذریعہ، قصہ گو کے ذریعہ، مؤذن کے ذریعہ اور قرآن پڑھنے والے کے ذریعہ، اور ہمارے فقیہ حضرت عبداللہ بن عباس تھے۔ اور ہمارے مؤذن حضرت ابو محذورہ تھے اور ہمارے قصہ گو حضرت عبید بن عمیر تھے اور ہمارے قرآن پڑھنے والے حضرت عبداللہ بن سائب تھے۔

26709

(۲۶۷۱۰) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَن مُجَاہِدٍ ، عَن یَزِیدَ بْنِ شَجَرَۃَ ، أَنَّہُ کَانَ یَقُصُّ ، وَکَانَ یُوَافِقُ قَوْلُہُ فِعْلَہُ۔
(٢٦٧١٠) حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ حضرت یزید بن شجرہ وعظ و نصیحت فرماتے تھے اور آپ کا قول آپ کے فعل کے موافق ہوتا تھا۔

26710

(۲۶۷۱۱) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا شُعْبَۃُ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ مَیْسَرَۃَ ، عَن کُرْدُوسٍ ، قَالَ : کَانَ یَقُصُّ ، فقَالَ: حَدَّثَنِی رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : لأَنْ أَجْلِسَ فِی مِثْلِ ہَذَا الْمَجْلِسِ أَحَبُّ إلَیَّ مِنْ أَنْ أُعْتِقَ أَرْبَعَ رِقَابٍ ، یَعْنِی الْقَصَصَ۔ (احمد ۳/۴۷۴)
(٢٦٧١١) حضرت عبد الملک بن میسرہ فرماتے ہیں کہ حضرت کردوس قصہ گوئی کے ذریعہ وعظ و نصیحت کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ مجھے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کسی صحابی نے بیان کیا کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : کہ میں قصہ گو کی مجلس میں بیٹھوں یہ مجھے زیادہ پسندیدہ ہے اس سے کہ مں ے چار غلام آزاد کروں۔

26711

(۲۶۷۱۲) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ حَجَّاجٍ ، عَنْ عَطَائٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : رَأَیْتُ تَمِیمًا الدَّارِیَّ یَقُصُّ فِی عَہْدِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رضی اللہ عَنہما۔
(٢٦٧١٢) حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت تمیم داری کو دیکھا کہ وہ حضرت عمر بن خطاب کے زمانے میں قصہ گوئی کے ذریعہ وعظ و نصیحت فرماتے تھے۔

26712

(۲۶۷۱۳) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَیْدٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ حَبِیبِ بْنِ أَبِی ثَابِتٍ ، قَالَ : رَأَیْتُ مُحَمَّدَ بْنَ کَعْبٍ الْقُرَظِیَّ یَقُصُّ۔
(٢٦٧١٣) حضرت عبداللہ بن حبیب بن ابی ثابت فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت محمد بن کعب قرضی کو وعظ و نصیحت کرتے ہوئے دیکھا۔

26713

(۲۶۷۱۴) حَدَّثَنَا مُعَاوِیَۃُ بْنُ ہِشَامٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَن عُبَیْدِ اللہِ ، عَن نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : لَمْ یُقَصَّ زَمَانَ أَبِی بَکْرٍ ، وَلاَ عُمَرَ ، إنَّمَا کَانَ الْقَصَصُ زَمَنَ الْفِتْنَۃِ۔
(٢٦٧١٤) حضرت نافع فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عمر نے ارشاد فرمایا : کہ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کے زمانے میں قصہ گوئی نہیں کی جاتی تھی یہ تو فتنے کے زمانے میں شروع ہوئے۔

26714

(۲۶۷۱۵) حَدَّثَنَا مُعَاوِیَۃُ بْنُ ہِشَامٍ ، قَالَ: حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَن سَعِیدٍ الْجُرَیْرِیِّ، عَنْ أَبِی عُثْمَانَ ، قَالَ: کَتَبَ عَامِلٌ لِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ إلَیْہِ ، أَنَّ ہَاہُنَا قَوْمًا یَجْتَمِعُونَ فَیَدْعُونَ لِلْمُسْلِمِینَ وَلِلأَمِیرِ ، فَکَتَبَ إلَیْہِ عُمَرُ : أَقْبِلْ وَأَقْبِلْ بِہِمْ مَعَک ، فَأَقْبَلَ ، وَقَالَ عُمَرُ لِلْبَوَّابِ : أَعِدَّ لِی سَوْطًا ، فَلَمَّا دَخَلُوا عَلَی عُمَرَ أَقْبَلَ عَلَی أَمِیرِہِمْ ضَرْبًا بِالسَّوْطِ ، فَقَالَ : یَا أمیر المؤمنین ، إنَّا لَسْنَا أُولَئِکَ الَّذِینَ یَعْنِی أُولَئِکَ قَوْمٌ یَأْتُونَ مِنْ قِبَلِ الْمَشْرِقِ۔
(٢٦٧١٥) حضرت ابو عثمان فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب کے کسی گورنر نے آپ کو خط لکھا کہ بیشک یہاں چند لوگ ہیں جو جمع ہوتے ہیں اور مسلمانوں اور امیر کے لیے دعا کرتے ہیں۔ اس پر حضرت عمر نے ان کو خط کا جواب لکھا کہ آپ بھی آئیں اور اپنے ساتھ ان لوگوں کو بھی میرے پاس لائیں ، پس وہ آگئے ۔ حضرت عمر نے دربان سے کہا : میرے لیے کوڑا تیار کرو۔ پس جب وہ لوگ حضرت عمر پر داخل ہوئے تو آپ نے ان کے امیر کو ایک کوڑا مارا۔ اس پر اس نے کہا : اے امیر المؤمنین ! بیشک ہم وہ لوگ نہیں ہیں جو آپ سمجھ رہے ہیں، یہ تو وہ لوگ ہیں جو مشرق کی جانب سے آئے ہیں۔

26715

(۲۶۷۱۶) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ ، عَن سُفْیَانَ ، عَنْ أَبِی حَصِینٍ ، عَنْ أَبِی عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، أَنَّ عَلِیًّا رَأَی رَجُلاً یَقُصُّ ، فقَالَ : عَلِمْت النَّاسِخَ وَالْمَنْسُوخَ ؟ قَالَ : لاَ قَالَ : ہَلَکْت وَأَہْلَکْت۔
(٢٦٧١٦) حضرت ابو عبد الرحمن فرماتے ہیں کہ حضرت علی نے ایک آدمی کو دیکھا جو وعظ و نصیحت کررہا تھا آپ نے اس سے پوچھا کیا تجھے ناسخ اور منسوخ معلوم ہیں ؟ اس نے جواب دیا : نہیں ۔ آپ نے فرمایا : تو خود بھی ہلاک ہوا اور تو نے دوسروں کو بھی ہلاک کردیا۔

26716

(۲۶۷۱۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن سُفْیَانَ ، عَنْ أَبِی سِنَانٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ أَبِی الْہُذَیْلِ ، عَنْ عَبْدِاللہِ بْنِ خَبَّابٍ ، قَالَ: رَآنِی أَبِی وَأَنَا عِنْدَ قَاصٍّ ، فَلَمَّا رَجَعت أَخَذَ الْہِرَاوَۃَ ، قَالَ : قَرْنٌ قَدْ طَالَعَ الْعَمَالِقَۃَ۔
(٢٦٧١٧) حضرت عبداللہ بن خباب فرماتے ہیں کہ میرے والد نے مجھے دیکھا کہ میں قصہ گو کے پاس ہوں۔ جب میں واپس لوٹا تو انھوں نے لاٹھی پکڑی اور فرمایا : یہ سینگ ہے جو عمالقہ کے ساتھ طلوع ہوا۔

26717

(۲۶۷۱۸) حَدَّثَنَا ابْنُ مَہْدِیٍّ، عَن سُفْیَانَ، عَنْ أَبِیہِ، قَالَ: سَمِعْتُ إبْرَاہِیمَ التَّیْمِیَّ، قَالَ: إنَّمَا حَمَلَنِی عَلَی مَجْلِسِی ہَذَا أَنِّی رُؤیت کَأَنِّی أُقَسِّمُ رَیْحَانًا ، فَذَکَرْت ذَلِکَ لإِبْرَاہِیمَ فَقَالَ : إنَّ الرَّیْحَانَ لَہُ مَنْظَرٌ وَطَعْمُہُ مُرٌّ۔
(٢٦٧١٨) حضرت ابراہیم تیمی فرماتے ہیں کہ مجھے اس مجلس کے قائم کرنے پر اس بات نے ابھارا کہ میں نے خواب میں دیکھا گویا میں لوگوں کے درمیان ریحان تقسیم کررہا ہوں ۔ پھر میں نے یہ خواب حضرت ابراہیم نخعی کے سامنے ذکر کیا، تو آپ نے فرمایا : بیشک ریحان ہوتا خوبصورت ہے مگر اس کا ذائقہ کڑوا ہوتا ہے۔

26718

(۲۶۷۱۹) حَدَّثَنَا شَبَابَۃُ بْنُ سَوَّارٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا شُعْبَۃُ ، قَالَ : حَدَّثَنَی عُقْبَۃُ بْنُ حُرَیْثٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ ، وَجَائَ رَجُلٌ قَاصٌّ وَجَلَسَ فِی مَجْلِسِہِ فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ : قُمْ مِنْ مَجْلِسِنَا ، فَأَبَی أَنْ یَقُومَ ، فَأَرْسَلَ ابْنُ عُمَرَ إلَی صَاحِبِ الشُّرَطِ : أَقِمِ الْقَاصَّ ، فَبَعَثَ إلَیْہِ فَأَقَامَہُ۔
(٢٦٧١٩) حضرت عقبہ بن حریث فرماتے ہیں کہ ایک قصہ گو شخص آیا اور حضرت ابن عمر کی مجلس میں بیٹھ گیا۔ حضرت ابن عمر نے فرمایا : ہماری مجلس سے اٹھ جا۔ تو اس نے کھڑے ہونے سے انکار کردیا۔ حضرت ابن عمر نے کو توال کی طرف پیغام بھیجا کہ اس قصہ گو کو اٹھاؤ۔ تو اس نے کسی کو بھیج کر اس کو اٹھوا دیا۔

26719

(۲۶۷۲۰) حَدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ أَبِی وَائِلٍ ، عَنْ عَلْقَمَۃَ ، قَالَ : قیلَ لَہُ : أَلاَ تَقُصُّ عَلَیْنَا ؟ قَالَ : إنِّی أَکْرَہُ أَنْ آمُرَکُمْ بِمَا لاَ أَفْعَلُ۔
(٢٦٧٢٠) حضرت ابو وائل فرماتے ہیں کہ حضرت علقمہ سے پوچھا گیا : کہ آپ ہمیں وعظ و نصیحت کیوں نہیں فرماتے ؟ آپ نے فرمایا کہ میں ناپسند کرتا ہوں کہ میں تمہیں اس بات کا حکم دوں جو میں خود نہیں کرتا۔

26720

(۲۶۷۲۱) حَدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ أَبِی سِنَانٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ أَبِی الْہُذَیْلِ ، عَن خَبَّابٍ ، قَالَ : رَأَی ابْنَہُ عِنْدَ قَاصٍّ ، فَلَمَّا رَجَعَ اتَّزَرَ وَأَخَذَ السَّوْطَ وَقَالَ : أَمَعَ الْعَمَالِقَۃِ ، ہَذَا قَرْنٌ قَدْ طَلَعَ۔
(٢٦٧٢١) حضرت عبداللہ بن ابی الھذیل فرماتے ہیں کہ حضرت ذباب نے اپنے بیٹے کو ایک قصہ گو کے پاس دیکھا جب وہ یہ گناہ کر کے لوٹا تو آپ نے کوڑا پکڑا اور فرمایا : کیا عمالقے کے ساتھ ہو ؟ ! یہ شیطان کا سینگ بھی طلوع ہوگیا !

26721

(۲۶۷۲۲) حَدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، عَن مُجَاہِدٍ ، قَالَ : دَخَلَ قَاصٌّ فَجَلَسَ قَرِیبًا مِنَ ابْنِ عُمَرَ فَقَالَ لَہُ : قُمْ ، فَأَبَی أَنْ یَقُومَ ، فَأَرْسَلَ إلَی صَاحِبِ الشُّرَطِ ، فَأَرْسَلَ إلَیْہِ شُرْطِیًّا فَقَامَ۔
(٢٦٧٢٢) حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ کوئی قصہ گو شخص آیا اور حضرت ابن عمر کے قریب بیٹھ گیا۔ آپ نے اس سے فرمایا : اٹھ جاؤ تو اس نے اٹھنے سے انکار کردیا۔ آپ نے کو توال کی طرف قاصد بھیجا۔ تو اس نے سپاہی کو بھیج کر اسے اٹھا دیا۔

26722

(۲۶۷۲۳) حَدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ ، قَالَ : بَلَغَ عُمَرَ ، أَنَّ رَجُلاً یَقُصُّ بِالْبَصْرَۃِ فَکَتَبَ إلَیْہِ : {الر تِلْکَ آیَاتُ الْکِتَابِ الْمُبِینِ إنَّا أَنْزَلْنَاہُ قُرْآنًا عَرَبِیًّا لَعَلَّکُمْ تَعْقِلُونَ نَحْنُ نَقُصُّ عَلَیْک أَحْسَنَ الْقَصَصِ} إلَی آخِرِ الآیَۃِ ، قَالَ : فَعَرَفَ الرَّجُلُ فَتَرَکَہُ۔
(٢٦٧٢٣) حضرت ابن سیرین فرماتے ہیں کہ حضرت عمر کو یہ خبر پہنچی کہ ایک آدمی بصرہ میں قصہ گوئی کے ذریعہ وعظ و نصیحت کرتا ہے۔ پس آپ نے اس کو خط لکھا : الر، یہ واضح کتاب کی آیتیں ہیں۔ ہم نے قرآن کو عربی میں نازل کیا تاکہ تم سمجھ لو۔ ہم تم پر بہترین واقعات بیان کرتے ہیں۔ راوی فرماتے ہیں ، کہ وہ شخص سمجھ گیا اور اس نے قصہ گوئی چھوڑ دی۔

26723

(۲۶۷۲۴) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ ، عَن أُکَیْلٍ ، قَالَ : قَالَ إبْرَاہِیمُ : مَا أَحَدٌ مِمَّنْ یَذْکُرُ أَرْجَی فِی نَفْسِی أَنْ یَسْلَمَ مِنْہُ یَعْنِی إبْرَاہِیمَ التَّیْمِیَّ ، وَلَوَدِدْت ، أَنَّہُ یَسْلَمُ مِنْہُ کَفَافًا لاَ عَلَیْہِ ، وَلاَ لَہُ۔
(٢٦٧٢٤) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ وعظ و نصیحت کرنے والا اگر برابری کا رتبہ بھی پالے تو غنیمت ہے یعنی نہ کچھ اس کے حق میں ہو اور نہ خلاف۔

26724

(۲۶۷۲۵) حَدَّثَنَا ابْنُ مَہْدِیٍّ ، عَن سُفْیَانَ ، عَن سَلَمَۃَ ، عَنْ أَبِی الدَّرْدَائِ - جَارٍ لِسَلَمَۃَ - قَالَ : قُلْتُ لِعَائِشَۃَ أَوْ قَالَ لَہَا رَجُلٌ : آتِیَ الْقَاصَّ یَدْعُو لِی ، فَقَالَتْ : لأَنْ تَدْعُوَ لِنَفْسِکَ خَیْرٌ مِنْ أَنْ یَدْعُوَ لَکَ الْقَاصُّ۔
(٢٦٧٢٥) حضرت ابو الدردائ فرماتے ہیں جو حضرت سلمہ کے پڑوسی ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ سے پوچھا : یا آپ سے کسی شخص نے پوچھا : کیا میں قصہ گو کے پاس اس لیے آسکتا ہوں تاکہ وہ میرے لیے دعا کرے ؟ آپ نے فرمایا : تم خود اپنے لیے دعا کرو یہ بہتر ہے اس سے کہ تمہارے لیے قصہ گو دعا کرے۔

26725

(۲۶۷۲۶) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَن عُبَیْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ ، عَن نَافِعٍ ، قَالَ : لَمْ یَکُنْ قَاصٌّ فِی زَمَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَلاَ زَمَنِ أَبِی بَکْرٍ، وَلاَ زَمَنِ عُمَرَ، وَلاَ فِی زَمَنِ عُثْمَانَ۔ (ابن ماجہ ۳۷۵۴۔ ابن حبان ۶۲۶۱)
(٢٦٧٢٦) حضرت عبید اللہ بن عمر فرماتے ہیں کہ حضرت نافع نے ارشاد فرمایا : کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں کوئی قصہ گو نہیں تھا نہ ہی حضرت ابوبکر کے زمانے میں نہ حضرت عمر کے زمانے میں اور نہ ہی حـضرت عثمان کے زمانے میں۔

26726

(۲۶۷۲۷) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ الْحُبَابِ ، حَدَّثَنَا مُعَاوِیَۃُ بْنُ صَالِحٍ ، قَالَ : حدَّثَنَی یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ الْکَلاَعِیُّ ، عَن جُبَیْرِ بْنِ نُفَیْرٍ الْحَضْرَمِیِّ ، أَنَّ أُمَّ الدَّرْدَائِ بَعَثَتْہُ إلَی نَوْفَلِ بْنِ فُلاَنٍ وَقَاصٍّ مَعَہُ ، یَقُصَّانِ فِی الْمَسْجِدِ ، فَقَالَتْ : قُلْ لَہُمَا : لِیَتَّقِیَا اللَّہَ وَتَکُنْ مَوْعِظَتُہُمَا لِلنَّاسِ لأَنْفُسِہِمَا۔
(٢٦٧٢٧) حضرت جبیر بن کثیر حضرمی فرماتے ہیں کہ حضرت ام الدردائ نے ان کو نوفل بن فلاں کی طرف بھیجا جو کسی خطیب کے ساتھ مسجد میں بیٹھ کر وعظ و نصیحت فرما رہے تھے۔ آپ نے فرمایا : ان دونوں سے کہو کہ تم دونوں اللہ سے ڈرو۔ اور چاہیے کہ تمہارا لوگوں کو وعظ و نصیحت کرنا اپنی ذات کے لیے ہوجائے۔

26727

(۲۶۷۲۸) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَن مِسْعَرٍ ، عَن عُبَیْدِ بْنِ الْحَسَنِ ، عَنِ ابْنِ مَعْقِلٍ ، قَالَ : کَانَ رَجُلٌ لاَ یَزَالُ یَقُصُّ فَقَالَ لَہُ ابْنُ مَسْعُودٍ : انْشُرْ سِلْعَتَکَ عَلَی مَنْ یُرِیدُہَا۔
(٢٦٧٢٨) حضرت عبید بن حسن فرماتے ہیں کہ حضرت ابن معقل نے ارشاد فرمایا : کہ ایک آدمی ہمیشہ وعظ و نصیحت کرتا رہتا تھا۔ حضرت ابن مسعود نے اس سے فرمایا : تم اپنا سامان اس کے سامنے پھیلاؤ جو اس کا ارادہ رکھتا ہو۔

26728

(۲۶۷۲۹) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ ، عَن یَزِیدَ بْنِ أَبِی زِیَادٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِی لَیْلَی ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : قبَّلْنَا یَدَ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔ (ابوداؤد ۲۶۴۰۔ احمد ۲۳)
(٢٦٧٢٩) حضرت ابن عمر فرماتے ہیں کہ ہم لوگوں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاتھ مبارک کا بوسہ لیا۔

26729

(۲۶۷۳۰) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَن یَزِیدَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِی لَیْلَی ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِمِثْلِہِ۔
(٢٦٧٣٠) حضرت ابن عمر سے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مذکورہ ارشاد اس سند سے بھی منقول ہے۔

26730

(۲۶۷۳۱) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ وَغُنْدَرٌ ، وَأَبُو أُسَامَۃَ ، عَن شُعْبَۃَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ سَلِمَۃَ ، عَن صَفْوَانَ بْنِ عَسَّالٍ ، أَنَّ قَوْمًا مِنَ الْیَہُودِ قَبَّلُوا یَدَ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَرِجْلَیْہِ۔ (ترمذی ۲۷۳۳۔ احمد ۴/۲۳۹)
(٢٦٧٣١) حضرت عبداللہ بن سلمہ فرماتے ہیں کہ حضرت صفوان بن عسال نے ارشاد فرمایا : کہ یہود کے کچھ لوگوں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاتھ اور پاؤں کا بوسہ لیا۔

26731

(۲۶۷۳۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن سُفْیَانَ ، عَن زِیَادِ بْنِ فَیَّاضٍ ، عَن تَمِیمِ بْنِ سَلَمَۃَ ، أَنَّ أَبَا عُبَیْدَۃَ قَبَّلَ یَدَ عُمَرَ ، قَالَ تَمِیمٌ : وَالْقُبْلَۃُ سُنَّۃٌ۔ (بیہقی ۱۰۱)
(٢٦٧٣٢) حضرت زیاد بن فیاض فرماتے ہیں کہ حضرت تمیم بن سلمہ نے ارشاد فرمایا : کہ حضرت ابو عبیدہ نے حضرت عمر کے ہاتھ کا بوسہ لیا۔ اور حضرت تمیم نے فرمایا : کہ بوسہ لینا سنت ہے۔

26732

(۲۶۷۳۳) حَدَّثَنَا سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ، عَن مَالِکٍ، عَن طَلْحَۃَ، قَالَ: قبَّلَ خَیْثَمَۃُ یَدِی، قَالَ مَالِکٌ: وَقَبَّلَ طَلْحَۃُ یَدِی۔
(٢٦٧٣٣) حضرت مالک فرماتے ہیں کہ حضرت طلحہ نے ارشاد فرمایا : کہ حضرت خیثمہ نے میرے ہاتھ کا بوسہ لیا۔ اور حضرت مالک فرماتے ہیں کہ حضرت طلحہ نے میرے ہاتھ کا بوسہ لیا۔

26733

(۲۶۷۳۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن سُفْیَانَ ، عَن لَیْثٍ ، عَن مُجَاہِدٍ ، أَنَّہُ کَرِہَ أَنْ یَقُولَ الرَّجُلُ : ذَیّا۔
(٢٦٧٣٤) حضرت لیث فرماتے ہیں کہ حضرت مجاہد آدمی کے ذیّ کہنے کو مکروہ سمجھتے تھے۔

26734

(۲۶۷۳۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن سُفْیَانَ ، عَنْ أَبِی سُعَادٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَنَفِیَّۃِ ، أَنَّہُ سَمِعَ رَجُلاً یَقُولُ: یَا ہَنَاۃُ ، فَنَہَاہُ۔
(٢٦٧٣٥) حضرت ابو سعاد فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن محمد ابن حنفیہ نے کسی آدمی کو یوں کہتے ہوئے سنا : ” اوئے “۔ تو آپ نے اسے منع فرمایا۔

26735

(۲۶۷۳۶) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَن عِیسَی بْنِ الْمُسَیَّبِ ، أَنَّہُ کَرِہَ کُلَّ شَیْئٍ یَکُونُ آخِرُہُ : وَیْہِ۔
(٢٦٧٣٦) حضرت حفص فرماتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ بن مسیب ہر اس چیز کو ناپسند سمجھتے تھے جس کے آخر میں لفظ ویہ آتا ہو۔

26736

(۲۶۷۳۷) حَدَّثَنَا ابْنُ یُونُسَ ، عَنِ الأَوْزَاعِیِّ ، عَن مُوسَی بْنِ سُلَیْمَانَ ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُخَیْمِرَۃَ ، قَالَ : قَالَ لُقْمَانُ لابْنِہِ وَہُوَ یَعِظُہُ : یَا بُنَیَّ ، إیَّاکَ وَالتَّقَنُّعَ فَإِنَّہُ مَخْوَفَۃٌ بِاللَّیْلِ مَذَلَّۃٌ ، أَوْ مَذَمَّۃٌ بِالنَّہَارِ۔
(٢٦٧٣٧) حضرت قاسم بن مخیمرہ فرماتے ہیں کہ حضرت لقمان (علیہ السلام) نے اپنے بیٹے سے فرمایا : اس حال میں کہ آپ (علیہ السلام) اسے وعظ و نصیحت کر رہے تھے : اے میرے بیٹے ! سر پر کپڑا لپیٹنے سے بچو، اس لیے کہ یہ رات میں خوف کا باعث اور دن میں ذلالت یا مذمت کا باعث بنتا ہے۔

26737

(۲۶۷۳۸) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ یَمَانٍ ، عَن سَہْلِ بْنِ خَلِیفَۃَ ، عَن عُبَیْدَۃَ ، قَالَ : رَأَیْتُ طَاوُوسًا عَلَیْہِ مُقَنَّعَۃٌ مِثْلُ مُقَنَّعَۃِ الرُّہْبَانِ۔
(٢٦٧٣٨) حضرت عبیدہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت طاؤس کو دیکھا انھوں نے راہبوں کی طرح سر پر کپڑا لپیٹا ہوا تھا راہبوں کی طرح۔

26738

(۲۶۷۳۹) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ، عَنْ أَبِی الْعَلاَئِ، قَالَ: رَأَیْتُ الْحَسَنَ بْنَ عَلِیٍّ یُصَلِّی مُقَنِّعًا رَأْسَہُ۔ (عبدالرزاق ۱۹۸۴۰۔ بزار ۲۸۸۶)
(٢٦٧٣٩) حضرت ابو العلاء فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت حسن بن علی کو دیکھا کہ وہ اپنے سر پر کپڑا لپیٹ کر نماز پڑھا رہے تھے۔

26739

(۲۶۷۴۰) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَن عُبَیْدِ اللہِ ، أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : مَنْ نَامَ وَفِی یَدِہِ رِیحُ غَمَرٍ فَأَصَابَہُ شَیْئٌ فَلاَ یَلُومَنَّ إلاَّ نَفْسَہُ۔
(٢٦٧٤٠) حضرت عبید اللہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جو شخص اس حال میں سوئے کہ اس کے ہاتھ میں گوشت کی چکناہٹ کی بو ہو پھر اسے کوئی تکلیف پہنچ جائے تو وہ ہرگز ملامت نہ کرے مگر اپنے ہی نفس کو۔

26740

(۲۶۷۴۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن سُفْیَانَ ، عَن وَاصِلٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : إنَّ الشَّیْطَانَ یَحْضُرُ الدَّسَمَ۔
(٢٦٧٤١) حضرت واصل فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم نے ارشاد فرمایا : کہ یقیناً شیطان چکنائی میں موجود ہوتا ہے۔

26741

(۲۶۷۴۲) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا زُہَیْرٌ ، عَن سُہَیْلٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَنْ نَامَ وَفِی یَدِہِ غَمَرٌ لَمْ یَغْسِلْہُ فَأَصَابَہُ شَیْئٌ فَلاَ یَلُومَنَّ إلاَّ نَفْسَہُ۔ (ابوداؤد ۳۸۴۸۔ ترمذی ۱۸۵۹)
(٢٦٧٤٢) حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا جو شخص اس حال میں سوئے کہ اس کے ہاتھ میں گوشت کی چکناہٹ کی بو ہو اس نے اسے دھویا نہ ہو پھر اسے کوئی تکلیف پہنچ جائے تو وہ ہرگز ملامت نہ کرے مگر اپنے ہی نفس کو۔

26742

(۲۶۷۴۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن سُفْیَانَ ، عَن حَبِیبِ بْنِ أَبِی ثَابِتٍ ، عَن مَیْمُونِ بْنِ أَبِی شَبِیبٍ ، قَالَ : قَالَ صَعْصَعَۃُ لابْنِ أَخِیہِ : إنِّی کُنْت أَحَبَّ إلَی أَبِیک مِنْک فَأَنْتَ أَحَبُّ إلَیَّ مِنِ ابْنِی ، إذَا لَقِیت الْمُؤْمِنَ فَخَالِطْہُ ، وَإِذَا لَقِیت الْفَاجِرَ فَخَالِقْہُ۔
(٢٦٧٤٣) حضرت میمون بن ابو شبیب فرماتے ہیں کہ حضرت صعصعہ نے اپنے بھتیجے سے فرمایا : بیشک میں تیرے باپ کے نزدیک تجھ سے زیادہ پسندیدہ ہوں۔ اور تو میرے نزدیک میرے بےٹ سے زیادہ پسندیدہ ہے۔ جب تو کسی مومن سے ملے تو اس کے ساتھ مل جل کر رہ اور جب تو کسی بدکار سے ملے تو اس کے ساتھ خوش اخلاقی سے پیش آ۔

26743

(۲۶۷۴۴) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَیْدٍ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَن یَحْیَی بْنِ وَثَّابٍ ، عَن رَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : الْمُؤْمِنُ الَّذِی یُخَالِطُ النَّاسَ وَیَصْبِرُ عَلَی أَذَاہُمْ أَفْضَلُ مِنَ الَّذِی لاَ یُخَالِطُ النَّاسَ ، وَلاَ یَصْبِرُ عَلَی أَذَاہُمْ۔ (ترمذی ۲۵۰۷۔ احمد ۲/۴۳)
(٢٦٧٤٤) حضرت یحییٰ بن وثاب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کسی صحابی سے نقل کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : وہ مومن جو لوگوں کے ساتھ مل جل کر رہتا ہے اور ان کی تکلیفوں پر صبر کرتا ہے یہ افضل ہے اس شخص سے جو نہ لوگوں کے ساتھ مل جل کر رہتا ہے اور نہ ان کی تکلیفوں پر صبر کرتا ہے۔

26744

(۲۶۷۴۵) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَن حَبِیبِ بْنِ أَبِی ثَابِتٍ عن عبد اللہ بن باہ ، قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللہِ بْنُ مَسْعُودٍ : خَالِطُوا النَّاسَ وَزَایِلُوہُمْ وَصَافِحُوہُمْ وَدِینُکُمْ فلاَ تَکْلِمُونَہُ۔ (طبرانی ۹۷۵۷)
(٢٦٧٤٥) حضرت عبداللہ بن باہ فرماتے ہیں کہ لوگوں کے ساتھ ملو اور ان سے جدا ہوجاؤ۔ اور ان سے مصافحہ کرو اور تمہارا دین تم اس کے متعلق ان سے بات چیت نہ کرو۔

26745

(۲۶۷۴۶) حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ مُعَاذٍ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، قَالَ : حدَّثَنِی مُسْلِمٌ الْبَطِینُ ، عنْ إبْرَاہِیمَ التَّیْمِیِّ ، عَنْ أَبہ: ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَیْمُونٍ ، قَالَ : مَا أَخْطَأَنِی ابْنُ مَسْعُودٍ خَمِیسًا إلاَّ أَتَیْتہ فِیہِ ، قَالَ: فَمَا سَمِعْتہ یَقُولُ لِشَیْئٍ قَطُّ ، قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَلَمَّا کَانَ ذَاتَ عَشِیَّۃٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، قَالَ : فَنَکَّسَ ، قَالَ : فَنَظَرْت إلَیْہِ وَہُوَ قَائِمٌ مُنحَلَّۃً أَزْرَارُ قَمِیصِہِ ، قَدَ اغْرَوْرَقَتْ عَیْنَاہُ وَانْتَفَخَتْ أَوْدَاجُہُ، قَالَ : أَوْ دُونَ ذَلِکَ ، أَوْ فَوْقَ ذَلِکَ ، أَوْ قَرِیبًا مِنْ ذَلِکَ ، أَوْ شَبِیہًا بِذَلِکَ۔ (احمد ۱/۴۵۲۔ دارمی ۲۷۰)
(٢٦٧٤٦) حضرت عمرو بن میمون فرماتے ہیں کہ میں ہر جمعرات کو حضرت عبداللہ بن مسعود کی خدمت میں آیا کرتا تھا۔ میں نے کبھی بھی آپ کو کسی معاملہ میں یوں فرماتے ہوئے نہیں سنا کہ ” رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا :“ پس ایک شام کو آپ نے فرمایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا ہے۔ اس پر آپ کی حالت بدل گئی میں نے دیکھا کہ آپ کھڑے ہوگئے اس حال میں کہ آپ کی قمیص کے بٹن کھلے ہوئے ہیں۔ اور آپ کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ اور آپ کی رگیں پھول گئیں۔ آپ نے فرمایا : کہ یا تو اس سے کم فرمایا یا اس سے زیادہ یا اس کے قریب یا اس جیسا ارشاد فرمایا۔

26746

(۲۶۷۴۷) حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ مُعَاذٍ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ ، قَالَ : کَانَ أَنَسُ بْنُ مَالِکٍ إذَا حَدَّثَ عَن رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حَدِیثًا فَفَرَغَ مِنْہُ ، قَالَ : أَوْ کَمَا قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔ (دارمی ۲۷۶۔ احمد ۲۰۵)
(٢٦٧٤٧) حضرت ابن سیرین فرماتے ہیں کہ حضرت انس بن مالک جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی کوئی حدیث بیان کرکے فارغ ہوتے تو فرماتے کہ ” یا جیسا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا۔ “

26747

(۲۶۷۴۸) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : حدَّثَ بِحَدِیثٍ فَقِیلَ لَہُ : أَتَرْفَعُ ہَذَا ؟ فَقَالَ : دُونَہُ أَحَبُّ إلَیْنَا إِنْ کَانَ خَطَأٌ فِی ذَلِکَ ، أَوْ زِیَادَۃٌ ، أَوْ نُقْصَانٌ کَانَ أَحَبَّ إلَیْنَا۔
(٢٦٧٤٨) حضرت عاصم فرماتے ہیں کہ امام شعبی نے ایک حدیث بیان فرمائی ۔ آپ سے پوچھا گیا کہ کیا آپ یہ حدیث مرفوعاً بیان فرما رہے ہیں ؟ آپ نے فرمایا : اس سے کم بیان کرنا ہمارے نزدیک زیادہ پسندیدہ ہے۔ اس لیے کہ اگر اس میں کوئی غلطی ہو یا کچھ زیادتی یاکمی ہو تو یہ ہمارے نزدیک زیادہ پسندیدہ ہے۔

26748

(۲۶۷۴۹) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَن شُعْبَۃَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ ، عَنِ ابْنِ أَبِی لَیْلَی ، قَالَ : قلْنَا لِزَیْدِ بْنِ أَرْقَمَ : حَدِّثْنَا ، قَالَ : کَبِرْنَا وَنَسِینَا ، وَالْحَدِیثُ علَی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ شَدِیدٌ۔ (ابن ماجہ ۲۵۔ احمد ۳۷۰)
(٢٦٧٤٩) حضرت ابن ابو لیلیٰ فرماتے ہیں کہ ہم لوگوں نے حضرت زید بن ارقم سے درخواست کی کہ آپ ہمیں حدیث بیان کیجئے۔ آپ نے فرمایا : کہ ہم بوڑھے ہوگئے اور ہم بھول گئے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حدیث بیان کرنا تو بہت سخت معاملہ ہے۔

26749

(۲۶۷۵۰) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ آدَمَ ، عَن حَمَّادِ بْنِ زَیْدٍ ، عَن یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ، عَنِ السَّائِبِ بْنِ یَزِیدَ ، قَالَ : خَرَجْت مَعَ سَعْدِ بْنِ مَالِکٍ مِنَ الْمَدِینَۃِ إلَی مَکَّۃَ ، فَمَا سَمِعْتہ یُحَدِّثُ حَدِیثًا حَتَّی رَجَعْنا۔
(٢٦٧٥٠) حضرت سائب بن یزید فرماتے ہیں کہ میں حضرت سعد بن مالک کے ساتھ مدینہ منورہ سے مکہ کی طرف نکلا ، پس میں نے انھیں کوئی حدیث بیان کرتے ہوئے نہیں سنا یہاں تک کہ ہم واپس لوٹ آئے۔

26750

(۲۶۷۵۱) حَدَّثَنَا شَبَابَۃُ ، قَالَ : حدَّثَنَا شُعْبَۃُ ، قَالَ : حَدَّثَنَا تَوْبَۃُ الْعَنْبَرِیُّ ، قَالَ : قَالَ لِی الشَّعْبِیُّ : أَرَأَیْت الْحَسَنَ حِینَ یَقُولُ ، قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لَقَدْ جَلَسْت إلَی ابْنِ عُمَرَ ، فَمَا سَمِعْتہ یُحَدِّثُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إلاَّ حَدِیثًا ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أُتِیَ بِضَبٍّ فَقَالَ : إِنَّہُ لَیْسَ مِنْ طَعَامِی ، وَأَمَّا أَنْتُمْ فَکُلُوہُ۔ (بخاری ۷۲۶۷۔ مسلم ۱۵۴۳)
(٢٦٧٥١) حضرت توبہ عنبری فرماتے ہیں کہ امام شعبی نے مجھ سے فرمایا کہ تمہاری حضرت حسن بصری کے بارے میں کیا رائے ہے جب وہ فرماتے ہیں کہ ” رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا ! “ حالانکہ میں حضرت ابن عمر کی مجلس میں بیٹھا ہوں میں نے انھیں کبھی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی کوئی حدیث بیان کرتے ہوئے نہیں سنا ، سوائے ایک حدیث کے جو آپ نے بیان فرمائی کہ : نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس گوہ لائی گئی تو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : بیشک یہ میرا کھانا نہیں ہے، رہے تم تو تم اسے کھالو۔

26751

(۲۶۷۵۲) حَدَّثَنَا أَبُو بَکر ، قَالَ : حَدَّثَنَا شُعْبَۃُ ، قَالَ : حدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ أَبِی السَّفَرِ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : جَلَسْت إلَی ابْنِ عُمَرَ سَنَۃً فَمَا سَمِعْتہ یُحَدِّثُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِشَیْئٍ۔ (ابن ماجہ ۲۶۔ احمد ۲/۱۵۷)
(٢٦٧٥٢) حضرت عبداللہ بن ابو السفر فرماتے ہیں کہ امام شعبی نے ارشاد فرمایا کہ میں ایک سال تک حضرت ابن عمر کی مجلس میں بیٹھا ، میں نے انھیں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی کوئی حدیث بیان کرتے ہوئے نہیں سنا۔

26752

(۲۶۷۵۳) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَن شُعْبَۃَ ، عَن سَعْدِ بْنِ إِبْرَاہِیمَ ، عَن أَبِیہِ ، قَالَ : قَالَ عُمَرَ لابْنِ مَسْعُودٍ وَلأَبِی الدَّرْدَائِ وَلأَبِی مَسْعُودٍ وَعُقْبَۃَ بْنِ عَمْرٍو : أَحْسَبُ مَا ہَذَا الْحَدِیثُ ، عَن رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، قَالَ : وَأَحْسَبُہُ حَبَسَہُمْ بِالْمَدِینَۃِ حَتَّی أُصِیبَ۔
(٢٦٧٥٣) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب حضرت ابن مسعود ، حضرت ابو الدرداء اور حضرت ابو مسعو ، عقبہ بن عمرو سے احادیث کے بارے میں سوال کیا کرتے تھے۔ آپ نے اپنی شہادت تک ان حضرات کو مدینے میں ہی رکھا تھا۔

26753

(۲۶۷۵۴) حَدَّثَنَا سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، سَمِعَ سَہْلَ بْنَ سَعْدٍ یَقُولُ : اطَّلَعَ رَجُلٌ مِنْ جُحْرٍ فِی حُجْرَۃِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَمَعَہُ مِدْرًی یَحُکُّ بِہِ رَأْسَہُ فَقَالَ : لَوْ أَعْلَمُ أَنَّک تَنْظُرُ لَطَعَنْتُ بِہِ فِی عَیْنِکَ : إنَّمَا الاِسْتِئْذَانُ مِنَ الْبَصَرِ۔ (بخاری ۶۲۴۱۔ مسلم ۱۶۹۸)
(٢٦٧٥٤) حضرت سھل بن سعد فرماتے ہیں کہ کسی شخص نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حجرے میں سوراخ سے جھانکا ، اس حال میں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس کنگھی تھی جس سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنا سر کھجلا رہے تھے ۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اگر مجھے معلوم ہوتا کہ تو دیکھ رہا ہے تو میں یہ کنگھی تیر آنکھ میں مار دیتا۔ اس لیے کہ اجازت تو آنکھ کی وجہ سے ہی مانگی جاتی ہے۔

26754

(۲۶۷۵۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن بَرَکَۃَ بْنِ یَعْلَی التَّیْمِیِّ ، عَنْ أَبِی سُوَیْد الْعَبْدِیِّ ، قَالَ : کُنَّا بِبَابِ ابْنِ عُمَرَ نَسْتَأْذِنُ عَلَیْہِ ، فَحَانَتْ مِنِّی الْتِفَاتَۃٌ ، فَرَآنِی فَقَالَ : أَیُّکُمُ اطَّلَعَ فِی دَارِی ؟ قَالَ قُلْتُ : أَنَا أَصْلَحَک اللَّہُ ، حَانَتْ مِنِّی الْتِفَاتَۃٌ فَنَظَرْت ، قَالَ : وَیْحَک لَکَ أنْ تَطَّلِعَ فِی دَارِی!۔
(٢٦٧٥٥) حضرت ابو سوید عبدی فرماتے ہیں کہ ہم لوگ حضرت ابن عمر کے دروازے پر ان سے اجازت طلب کر رہے تھے کہ میری نگاہ پڑگئی اور انھوں نے مجھے دیکھ لیا اور فرمایا تم میں سے کس نے میرے گھر میں جھانکا ؟ میں نے عرض کیا : میں نے ۔۔۔ اللہ آپ کو درست رکھے ۔۔۔کہ اچانک میری نظر پڑگئی تو میں نے دیکھ لیا۔ آپ نے فرمایا : ہلاکت ہو ! تو نے کیوں میرے گھر میں جھانکا ؟ !

26755

(۲۶۷۵۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن سُفْیَانَ ، عَن مَنْصُورٍ ، عَن طَلْحَۃَ ، عَنِ الْہُذَیْلِ بْنِ شُرَحْبِیلَ ، أَنَّ سَعْدًا اسْتَأْذَنَ عَلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَأَدْخَلَ رَأْسَہُ ، فَقَالَ النبی صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إنَّمَا جُعِلَ الاِسْتِئْذَانُ مِنْ أَجْلِ النَّظَرِ۔ (ابوداؤد ۵۱۳۱۔ طبرانی ۵۳۸۶)
(٢٦٧٥٦) حضرت ھذیل بن شرحبیل فرماتے ہیں کہ حضرت سعد نے اپنا سر داخل کر کے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اجازت مانگی ۔ اس پر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : بیشک اجازت طلب کرنا تو نظر کی وجہ سے مقرر کیا گیا ہے۔

26756

(۲۶۷۵۷) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ عَوْفٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَنْ سَبَقَہُ بَصَرُہُ إلَی الْبُیُوتِ ، فَقَدْ دَمَرَ یَعْنِی دَخَلَ۔
(٢٦٧٥٧) حضرت حسن سے روایت ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس نے پہلے ہی گھر میں جھانک کر دیکھ لیا تو گویا کہ وہ داخل ہوگیا۔

26757

(۲۶۷۵۸) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَن طَلْحَۃَ ، عَن ہُزَیْلٍ ، قَالَ : جَائَ رَجُلٌ فَوَقَفَ عَلَی بَابِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَسْتَأْذِنُ ، فَقَامَ عَلَی الْبَابِ ، فَقَالَ لہ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : ہَکَذَا ، عَنک ہَکَذَا ، فَإِنَّمَا الاِسْتِئْذَانُ مِنَ النَّظَرِ۔
(٢٦٧٥٨) حضرت ھزیل فرماتے ہیں کہ ایک آدمی آیا اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دروازے پر کھڑے ہو کر اجازت طلب کرنے لگا۔ وہ بالکل دروازے پر کھڑا ہوا تھا اس پر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : یہاں سے یہاں آ جاؤ۔ اس لیے کہ اجازت تو آنکھ کی وجہ سے مانگی جاتی ہے۔

26758

(۲۶۷۵۹) حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ ، عَن سُلَیْمَانَ بْنِ بِلاَلٍ ، عَن سُہَیْلٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لَوْ أَنَّ أَحَدًا اطَّلَعَ عَلَی نَاسٍ بِغَیْرِ إذْنِہِمْ حَلَّ لَہُمْ أَنْ یَفْقَؤُوا عَیْنَہُ۔ (بخاری ۶۸۸۸۔ مسلم ۱۶۹۹)
(٢٦٧٥٩) حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اگر کوئی شخص بغیر اجازت کے کچھ لوگوں پر جھانکے تو ان کے لیے حلال ہے کہ وہ اس کی آنکھ پھوڑ دیں۔

26759

(۲۶۷۶۰) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا حُمَیْدٌ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ ، أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ فِی بَیْتِہِ ، فَاطَّلَعَ رَجُلٌ مِنْ خَلَلِ الْبَابِ ، فَسَدَّدَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ علیہ بِمِشْقَصٍ ، فَتَأَخَّرَ الرَّجُلُ۔ (بخاری ۶۲۴۲۔ مسلم ۱۶۹۹)
(٢٦٧٦٠) حضرت انس بن مالک فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) گھر میں تھے کہ کسی آدمی نے دروازے کے شگاف سے جھانکا۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس پر نیزے کا پھل پھینک دیا تو وہ آدمی پیچھے ہٹ گیا۔

26760

(۲۶۷۶۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن سُفْیَانَ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَن مُسْلِمِ بْنِ نَذِیرٍ ، قَالَ : اسْتَأْذَنَ رَجُلٌ عَلَی حُذَیْفَۃَ فَأَدْخَلَ رَأْسَہُ فَقَالَ لَہُ حُذَیْفَۃُ : قَدْ أَدْخَلْت رَأْسَک فَأَدْخِلْ إِسْتَک۔
(٢٦٧٦١) حضرت مسلم بن نذیر فرماتے ہیں کہ کسی آدمی نے حضرت حذیفہ سے اپنا سر داخل کر کے اجازت مانگی ۔ اس پر حضرت حذیفہ نے اس سے فرمایا : تو نے اپنا سر داخل کر ہی لیا ہے تو اپنی سرین بھی داخل کرلے ! !

26761

(۲۶۷۶۲) حَدَّثَنَا شَرِیکٌ بْنُ عَبْدِ اللہِ ، عَن سِمَاکٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللہِ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَنْ کَذَبَ عَلَیَّ مُتَعَمِّدًا فَلْیَتَبَوَّأْ مَقْعَدَہُ مِنَ النَّارِ۔ (بخاری ۶۸۸۸۔ ترمذی ۲۶۵۹)
(٢٦٧٦٢) حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جو شخص جان بوجھ کر میری طرف جھوٹی بات کی نسبت کرے تو اس کو چاہیے کہ وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے۔

26762

(۲۶۷۶۳) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَنْ کَذَبَ عَلَیَّ مُتَعَمِّدًِا فَلْیَتَبَوَّأْ مَقْعَدَہُ مِنَ النَّارِ۔ (بخاری ۱۰۸۔ مسلم ۱۰)
(٢٦٧٦٣) حضرت انس فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جو شخص جان بوجھ کر میری طرف جھوٹی بات کی نسبت کرے تو اس کو چاہیے کہ وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے۔

26763

(۲۶۷۶۴) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنِ الْحَکَمِ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِی لَیْلَی ، عَنْ عَلِیٍّ مِثْلُ حَدِیثِ ابْنِ فُضَیْلٍ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَن حَبِیبٍ۔ (بزار ۶۲۱)
(٢٦٧٦٤) ایک اور سند سے یونہی منقول ہے۔

26764

(۲۶۷۶۵) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، عَنِ الأَوْزَاعِیِّ ، عَن حَسَّانَ بْنِ عَطِیَّۃَ ، عَنْ أَبِی کَبْشَۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَنْ کَذَبَ عَلَیَّ مُتَعَمِّدًا فَلْیَتَبَوَّأْ مَقْعَدَہُ مِنَ النَّارِ۔ (بخاری ۳۴۶۱۔ ترمذی ۲۶۶۹)
(٢٦٧٦٥) حضرت عبداللہ بن عمر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : کہ جو شخص جان بوجھ کر میری طرف جھوٹ کی نسبت کرے تو اس کو چاہیے کہ وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے۔

26765

(۲۶۷۶۶) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَن شُعْبَۃَ ، عَنْ جَامِعِ بْنِ شَدَّادٍ ، عَنْ عَامِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ الزُّبَیْرِ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : قُلْتُ لِلزُّبَیْرِ : یَا أَبَتِی ، مَالِی لاَ أَسْمَعُک تُحَدِّثُ عَن رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَمَا أسْمَعُ ابْنَ مَسْعُودٍ وَفُلاَنًا وَفُلاَنًا ؟ فَقَالَ : أما إنِّی لَمْ أُفَارِقْہُ مُنْذُ أَسْلَمْت ، وَلَکِنِّی سَمِعْت مِنْہُ کَلِمَۃً : مَنْ کَذَبَ عَلَیَّ مُتَعَمِّدًا فَلْیَتَبَوَّأْ مَقْعَدَہُ مِنَ النَّارِ۔ (بخاری ۱۰۷۔ ابوداؤد ۳۶۴۳)
(٢٦٧٦٦) حضرت عبداللہ بن زبیر فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے والد حضرت زبیر سے پوچھا : اے ابا جان ! میں نے کبھی آپ کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حدیث بیان کرتے ہوئے نہیں سنا جیسا کہ میں حضرت ابن مسعود اور فلاں، فلاں کو بیان کرتے ہوئے سنتا ہوں ؟ آپ نے فرمایا : میں جب سے اسلام لایا میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جدا نہیں ہوا لیکن میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ایک بات سنی کہ جو شخص جان بوجھ کر میری طرف جھوٹ کی نسبت کرے تو اس کو چاہیے کہ وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے۔

26766

(۲۶۷۶۷) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا زَکَرِیَّا ، عَن خَالِدِ بْنِ سَلَمَۃَ ، عَن مُسْلِمٍ مَوْلَی خَالِدِ بْنِ عُرْفُطَۃَ ، أَنَّ خَالِدَ بْنَ عُرْفُطَۃَ ذَکَرَ الْمُخْتَارَ فَقَالَ : کَذَّابٌ ، وَسَمِعْت رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : مَنْ کَذَبَ عَلَیَّ مُتَعَمِّدًا فَلْیَتَبَوَّأْ مَقْعَدَہُ مِنْ جَہَنَّمَ۔ (احمد ۵/۲۹۲۔ ابویعلی ۶۸۳۳)
(٢٦٧٦٧) حضرت مسلم جو حضرت خالد بن عرفطہ کے آزاد کردہ غلام ہیں فرماتے ہیں کہ حضرت خالد بن عرفطہ نے مختار کا ذکر کیا اور فرمایا کہ وہ تو کذاب (جھوٹا) ہے۔ اور میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یوں ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص جان بوجھ کر میری طرف جھوٹی بات منسوب کرے تو اس کو چاہیے کہ وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے۔

26767

(۲۶۷۶۸) حَدَّثَنَا یَحیَی بْنُ یَعْلَی التَّیْمِیُّ ، عَن مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ ، عَن مَعْبَدِ بْنِ کَعْبٍ ، عَنْ أَبِی قَتَادَۃَ ، قَالَ : سَمِعْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ عَلَی ہَذَا الْمِنْبَرِ : إیَّاکُمْ وَکَثْرَۃَ الْحَدِیثِ عَلَیَّ ، فَمَنْ قَالَ فَلْیَقُلْ حَقًّا ، أَوْ صِدْقًا ، وَمَنْ تَقَوَّلَ عَلَیَّ مَا لَمْ أَقُلْ فَلْیَتَبَوَّأْ مَقْعَدَہُ مِنَ النَّارِ۔ (احمد ۵/۲۹۷۔ دارمی ۲۳۷)
(٢٦٧٦٨) حضرت ابو قتادہ فرماتے ہیں میں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس منبر پر یوں فرماتے ہوئے سنا کہ تم لوگ کثرت سے میری حدیث بیان کرنے سے بچو۔ اور جو بیان کرتا ہے تو اس کو چاہیے کہ وہ حق یا سچ بیان کرے ، جو شخص میری طرف وہ بات منسوب کرتا ہے جو میں نے نہیں کہی ، تو اس کو چاہیے کہ وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے۔

26768

(۲۶۷۶۹) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، وَأَبُو أُسَامَۃَ ، قَالَ : حدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ بْنُ عُمَرَ، عَنْ أَبِی بَکْرِ بْنِ سَالِمٍ، عَنْ أَبِیہِ، عَنْ جَدِّہِ ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : إنَّ الَّذِی یَکْذِبُ عَلَیَّ یُبْنَی لَہُ بَیْتٌ فِی النَّارِ۔ (احمد ۲/۲۲۔ طبرانی ۱۳۱۵۴)
(٢٦٧٦٩) حضرت عبداللہ بن عمر فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جو شخص میری طرف جھوٹ کی نسبت کرتا ہے تو اس کے لیے جہنم میں ایک گھر تعمیر کردیا جاتا ہے۔

26769

(۲۶۷۷۰) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَن شُعْبَۃَ ، عَن مَنْصُورٍ ، عَن رِبْعِیِّ بْنِ حِرَاشٍ ، أَنَّہُ سَمِعَ عَلِیًّا یَخْطُبُ یَقُولُ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: لاَ تَکْذِبُوا عَلَیَّ، فَإِنَّہُ مَنْ یَکْذِبْ عَلَیَّ یَلِجَ النَّارَ۔(بخاری ۱۰۶۔ مسلم ۱۲۳)
(٢٦٧٧٠) حضرت ربعی بن حراش فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت علی کو خطبہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ آپ نے خطبہ دیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ تم لوگ میرے خلاف جھوٹ مت گھڑو بیشک جو شخص مجھ پر جھوٹ گھڑے گا وہ جہنم میں داخل ہوگا۔

26770

(۲۶۷۷۱) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا ہَمَّامٌ ، قَالَ : حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ أَسْلَمَ ، عَنْ عَطَائِ بْنِ یَسَارٍ ، عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَنْ کَذَبَ عَلَیَّ ، أَحْسَبُہُ قَالَ : مُتَعَمِّدًا ، فَلْیَتَبَوَّأْ مَقْعَدَہُ مِنَ النَّارِ۔ (مسلم ۲۲۹۸۔ احمد ۳/۴۴)
(٢٦٧٧١) حضرت ابو سعید خدری فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جو شخص میری طرف جھوٹ کی نسبت کرے۔۔۔ راوی کہتے ہیں میرا گمان ہے کہ یوں بھی کہا۔۔۔جان بوجھ کر تو اس کو چاہیے کہ وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے۔

26771

(۲۶۷۷۲) حَدَّثَنَا أَسْبَاطُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، عَن مُطَرِّفٍ ، عَنْ عَطِیَّۃَ ، عَنْ أَبِی سَعِیدٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَنْ کَذَبَ عَلَیَّ مُتَعَمِّدًا فَلْیَتَبَوَّأْ مَقْعَدَہُ مِنَ النَّارِ۔ (ابن ماجہ ۳۷)
(٢٦٧٧٢) حضرت ابو سعید فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : کہ جو شخص جان بوجھ کر میری طرف جھوٹ کی منسوب کرے تو اس کو چاہیے کہ وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے۔

26772

(۲۶۷۷۳) حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمُقُْرِیء ، عَن سَعِیدِ بْنِ أَبِی أَیُّوبَ ، قَالَ : حدَّثَنَی بَکْرُ بْنُ عَمْرٍو ، عَنْ أَبِی عُثْمَانَ مُسْلِمِ بْنِ یَسَارٍ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَنْ تَقَوَّلَ عَلَیَّ مَا لَمْ أَقُلْ فَلْیَتَبَوَّأْ مَقْعَدَہُ مِنَ النَّارِ۔ (بخار ی۱۱۰۔ مسلم ۱۰)
(٢٦٧٧٣) حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جو شخص میری طرف وہ بات منسوب کرے جو میں نے نہیں کہی۔ تو اس کو چاہیے کہ وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے۔

26773

(۲۶۷۷۴) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَن شُعْبَۃَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ ، عَن مُرَّۃَ ، عَن رَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ قَامَ فِینَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : قدْ رَأَیْتُمُونِی وَسَمِعْتُمْ مِنِّی وَسَتُسْأَلُونَ عَنی، فَمَنْ کَذَبَ عَلَیَّ فَلْیَتَبَوَّأْ مَقْعَدَہُ مِنَ النَّارِ۔ (احمد ۵/۴۱۲)
(٢٦٧٧٤) حضرت مرہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کسی صحابی نے بیان کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے درمیان کھڑے ہوئے اور ارشاد فرمایا : تحقیق تم نے مجھے دیکھا اور میری باتوں کو سنا، عنقریب تم سے میری باتوں کی بابت سوال کیا جائے گا پس جو شخص جان بوجھ کر میری طرف جھوٹ کی نسبت کرے تو اس کو چاہیے کہ وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے۔

26774

(۲۶۷۷۵) قَال حُدِّثْت عَن ہُشَیْمٍ ، عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ ، عَنْ جَابِرٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَنْ کَذَبَ عَلَیَّ مُتَعَمِّدًا فَلْیَتَبَوَّأْ مَقْعَدَہُ مِنَ النَّارِ۔ (ابن ماجہ ۳۳۔ دارمی ۲۳۱)
(٢٦٧٧٥) حضرت جابر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جو شخص جان بوجھ کر میری طرف جھوٹ کی نسبت کرے تو وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے۔

26775

(۲۶۷۷۶) حدَّثَنَا یَزِیدُ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا سُلَیْمَانُ التَّیْمِیُّ ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَنْ کَذَبَ عَلَیَّ مُتَعَمِّدًا فَلْیَتَبَوَّأْ مَقْعَدَہُ مِنَ النَّارِ ، وَرُبَّمَا قَالَ : فَلْیَتَبَوَّأْ مَقْعَدَہُ مِنَ النَّارِ مُتَعَمِّدًا۔ (نسائی ۵۹۱۴۔ احمد ۳/۱۱۶)
(٢٦٧٧٦) حضرت انس فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جو شخص جان بوجھ کر میری طرف جھوٹ کو منسوب کرے تو اس کو چاہیے کہ وہ اپنا ٹھکانا جہنم کو بنا لے اور کبھی یوں بھی فرمایا : کہ اس کو چاہیے کہ وہ جان بوجھ کر اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے۔

26776

(۲۶۷۷۷) حَدَّثَنَا سُوَیْد بْنُ عَمْرو ، قَالَ : حدَّثَنَا أَبُو عَوَانَۃَ ، عَنْ عَبْدِ الأَعْلَی ، عَن سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ، عنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَنْ کَذَبَ عَلَیَّ مُتَعَمِّدًا فَلْیَتَبَوَّأْ مَقْعَدَہُ مِنَ النَّارِ۔ (ترمذی ۲۹۵۱۔ احمد ۱/۲۹۳)
(٢٦٧٧٧) حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جو شخص جان بوجھ کر میری طرف جھوٹ کو منسوب کرے تو اس کو چاہیے کہ وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے۔

26777

(۲۶۷۷۸) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا سَعِیدُ بْنُ عُبَیْدٍ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ رَبِیعَۃَ ، عَنِ الْمُغِیرَۃِ بْنِ شُعْبَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إنَّ کَذِبًا عَلَیَّ لَیْسَ کَکَذِبِ أَحَدِکُمْ ، فَمَنْ کَذَبَ عَلَیَّ مُتَعَمِّدًا فَلْیَتَبَوَّأْ مَقْعَدَہُ مِنَ النَّارِ۔ (بخاری ۱۲۹۱۔ مسلم ۱۵)
(٢٦٧٧٨) حضرت مغیرہ بن شعبہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : یقیناً میرے خلاف جھوٹ گھڑ نا کسی ایک کے خلاف جھوٹ گھڑنے کی طرح نہیں ہے ، پس جس شخص نے جان بوجھ کر مجھ پر جھوٹ بولا تو وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے۔

26778

(۲۶۷۷۹) حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرٍ قَالَ : وَجَدْت فِی کِتَاب أَبی مُحَمَّدِ بْنِ أَبِی شَیْبَۃَ : عَنْ عَبْدِ الْحَمِیدِ بْنِ جَعْفَرٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ مَحمُود بن لَبِید ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّان ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَنْ کَذَبَ عَلَیَّ مُتَعَمِّدًا فَلْیَتَبَوَّأْ مَقْعَدَہُ مِنَ النَّارِ۔ (احمد ۱/۷۰۔ بزار ۳۸۴)
(٢٦٧٧٩) حضرت عثمان بن عفان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جس نے جان بوجھ کر مجھ پر جھوٹ بولا تو وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے۔

26779

(۲۶۷۸۰) حَدَّثَنَا یَعْلَی بْنُ عُبَیْدٍ ، عَن أَبِی حَیَّانَ ، عَن یَزِیدَ بْنِ حَیَّانَ ، عَن زَیْدِ بْنِ أَرْقَمَ ، قَالَ : سَمِعْتُہُ یَقُولُ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَنْ کَذَبَ عَلَیَّ مُتَعَمِّدًا فَلْیَتَبَوَّأْ مَقْعَدَہُ مِنَ النَّارِ۔ (احمد ۴/۳۶۶۔ طبرانی ۵۰۱۷)
(٢٦٧٨٠) حضرت زید بن ارقم فرماتے ہیں میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یوں ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ جس نے جان بوجھ کر مجھ پر جھوٹ بولا تو وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے۔

26780

(۲۶۷۸۱) حدَّثَنَا أَبُو بَکْرٍ عَبْدُ اللہِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِی شَیْبَۃَ ، قَالَ : حدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَن مُغِیرَۃَ ، عَنْ أَبِی رَزِینٍ ، قَالَ: قِیلَ لِلْعَبَّاسِ : أَنْتَ أَکْبَرُ ، أَوْ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ؟ قَالَ : ہُوَ أَکْبَرُ مِنِّی وَوُلِدْت أَنَا قَبْلَہُ۔ (حاکم ۳۲۰)
(٢٦٧٨١) حضرت ابو رزین عقیلی فرماتے ہیں کہ حضرت عباس سے پوچھا گیا کہ آپ بڑے ہں ل یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ؟ آپ نے فرمایا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مجھ سے بڑے ہیں۔ اور میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے پیدا ہوا ۔

26781

(۲۶۷۸۲) حَدَّثَنَا ابْنُ مَہْدِیٍّ ، عَن سُفْیَانَ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : قیلَ لأَبِی وَائِلٍ : أَیُّکُمَا أَکْبَرُ ؟ أَنْتَ أَکْبَرُ ، أَوِ الرَّبِیعُ بْنُ خُثَیْمٍ ؟ قَالَ : أَنَا أَکْبَرُ مِنْہُ سِنًّا وَہُوَ أَکْبَرُ مِنِّی عَقْلاً۔
(٢٦٧٨٢) حضرت سفیان کے والد فرماتے ہیں کہ حضرت ابو وائل سے پوچھا گیا : تم دونوں میں سے کون بڑا ہے۔ آپ بڑے ہیں یا حضرت ربیع بن خثیم ؟ آپ نے فرمایا : میں ان سے عمر میں بڑا ہوں اور وہ مجھ سے عقل و دانش کے اعتبار سے بڑے ہیں۔

26782

(۲۶۷۸۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن سُفْیَانَ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ أَبِی وَائِلٍ بِنَحْوٍ مِنْہُ۔
(٢٦٧٨٣) حضرت ابو وائل کا مذکورہ ارشاد اس سند سے بھی منقول ہے۔

26783

(۲۶۷۸۴) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِیٍّ ، عَن سُفْیَانَ ، عَن حَبِیبِ بْنِ أَبِی ثَابِتٍ ، عَن مُجَاہِدٍ ، عَنْ أَبِی مَعْمَرٍ ، عَنِ الْمِقْدَادِ بْنِ الأَسْوَدِ قَالَ : أَمَرَنَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ نَحْثُوَ فِی وُجُوہِ الْمَدَّاحِینَ التُّرَابَ۔ (مسلم ۲۲۹۷۔ احمد ۶/۵)
(٢٦٧٨٤) حضرت مقداد بن اسود فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں حکم دیا کہ ہم تعریف کرنے والوں کے چہروں پر مٹی ڈال دیں۔

26784

(۲۶۷۸۵) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَن شُعْبَۃَ ، عَن مَنْصُورٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، عَن ہَمَّامِ بْنِ الْحَارِثِ ، أَنَّ رَجُلاً جَعَلَ یَمْدَحُ عُثْمَانَ ، فَعَمَدَ الْمِقْدَادُ فَجَثَا عَلَی رُکْبَتَیْہِ ، قَالَ : وَکَانَ رَجُلاً ضَخْمًا ، قَالَ : فَجَعَلَ یَحْثُو فِی وَجْہِہِ الْحَصَی ، فَقَالَ لَہُ عُثْمَانُ : مَا شَأْنُک ؟ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إذَا رَأَیْتُمُ الْمَدَّاحِینَ فَاحْثُوا فِی وُجُوہِہِمُ التُّرَابَ۔ (مسلم ۲۲۹۷۔ احمد ۶/۵)
(٢٦٧٨٥) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ حضرت ھمام بن حارث نے ارشاد فرمایا کہ کوئی شخص حضرت عثمان کی تعریف کررہا تھا، تو حضرت مقداد سہارا لے کر اپنے گھٹنوں کے بل دو زانوں ہو کر بیٹھے ، وہ ایک فربہ آدمی تھے۔ پس آپ نے تعریف کرنے والے کے منہ کی طرف کنکریاں پھینکنا شروع کردیں۔ اس پر حضرت عثمان نے ان سے پوچھا : آپ کو کیا ہوا ؟ آپ نے کہا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جب تم تعریف کرنے والوں کو دیکھو تو ان کے منہ میں مٹی ڈال دو ۔

26785

(۲۶۷۸۶) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَن شُعْبَۃَ ، عَن سَعْدِ بْنِ إبْرَاہِیمَ ، عَن مَعْبَدٍ الْجُہَنِیِّ ، عَن مُعَاوِیَۃَ ، قَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : إیَّاکُمْ وَالتَّمَادُحَ فَإِنَّہُ الذَّبْحُ۔ (احمد ۴/۹۸۔ طبرانی ۸۱۵)
(٢٦٧٨٦) حضرت معاویہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یوں ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ تم لوگ ایک دوسرے کی تعریف کرنے سے بچو اس لیے کہ یہ ذبح کرنے کے مترادف ہے۔

26786

(۲۶۷۸۷) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِ ، عَن عِمْرَانَ بْنِ مُسْلِمٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ التَّیْمِیِّ ، عَنْ أَبِیہِ قَالَ : کُنَّا قُعُودًا عِنْدَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ ، فَدَخَلَ عَلَیْہِ رَجُلٌ فَسَلَّمَ عَلَیْہِ ، فَأَثْنَی عَلَیْہِ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ فِی وَجْہِہِ ، فَقَالَ لہ عُمَرُ : عَقَرْت الرَّجُلَ عَقَرَک اللَّہُ ، تُثْنِی عَلَیْہِ فِی وَجْہِہِ فِی دِینِہِ۔
(٢٦٧٨٧) حضرت ابراہیم تیمی کے والد فرماتے ہیں کہ ہم لوگ حضرت عمر بن خطاب کے پاس بیٹھے تھے کہ آپ کے پاس ایک شخص داخل ہوا ، اس نے آپ کو سلام کہا، پھر لوگوں میں سے ایک آدمی نے اس کے منہ پر اس کی تعریف کی۔ اس پر حضرت عمر نے اس شخص سے کہا : تو نے اس آدمی کو ہلاک کردیا ، اللہ تجھے ہلاک کرے، تو اس کے سامنے اس کے دین کی تعریف کررہا ہے ؟

26787

(۲۶۷۸۸) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ قَالَ : حدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ بْنُ عُمَرَ ، عَن زَیْدِ بْنِ أَسْلَمَ ، عَنْ أَبِیہِ أَسْلَمَ ، قَالَ : سَمِعْتُ عُمَرَ یَقُولُ : الْمَدِیحُ الذَّبْحُ۔ (بخاری ۳۳۶)
(٢٦٧٨٨) حضرت اسلم فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر کو یوں فرماتے ہوئے سنا کہ تعریف کرنا ذبح کرنے کے مترادف ہے۔

26788

(۲۶۷۸۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِی الأَحْوَصِ قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللہِ : إذَا طَلَبَ أَحَدُکُمُ الْحَاجَۃَ فَلْیَطْلُبْہَا طَلَبًا یَسِیرًا، وَلاَ یَأْتِی الرَّجُلَ فَیُثْنِیَ عَلَیْہِ فِی وَجْہِہِ فَیَقْطَعَ ظَہْرَہُ فَلاَ یَمْنَعُہُ شَیْئًا۔
(٢٦٧٨٩) حضرت ابو الاحوص فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود نے ارشاد فرمایا : جب تم میں سے کوئی ضرورت کی درخواست کرنا چاہے تو اس کو چاہیے کہ وہ ہلکی سی درخواست کرے ۔ ایسا نہ کرے کہ وہ ایک آدمی کے پاس آئے اور اس کے چہرے پر تو اس کی تعریف کرے اور اس کی پیٹھ پیچھے اسے نظر انداز کرے، اس لیے کہ وہ آدمی اس سے کوئی چیز بھی نہیں روک سکتا۔

26789

(۲۶۷۹۰) حَدَّثَنَا شَبَابَۃُ بْنُ سَوَّارٍ قَالَ : حدَّثَنَا شُعْبَۃُ ، عَن خَالِدٍ الْحَذَّائِ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِی بَکْرَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ قَالَ : مَدَحَ رَجُلٌ رَجُلاً عِنْدَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ لَہُ : النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : وَیْحَک ، قَطَعْت عُنُقَ صَاحِبِکَ مِرَارًا ، ثُمَّ قَالَ : إِنْ کَانَ أَحَدکم مَادِحًا أَخَاہُ لاَ مَحَالَۃَ فَلْیَقُلْ لَہُ : أَحْسَبُ ، وَلاَ أُزَکِّی عَلَی اللہِ أَحَدًا۔ (مسلم ۲۲۹۶۔ ابن ماجہ ۳۷۴۴)
(٢٦٧٩٠) حضرت عبد الرحمن بن ابی بکرہ فرماتے ہیں کہ ان کے والد حضرت ابو بکرہ نے ارشاد فرمایا : کہ کسی نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے کسی شخص کی تعریف کی ۔ اس پر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس تعریف کرنے والے کو کئی مرتبہ کہا کہ ہلاکت ہو تو نے اپنے ساتھی کی گردن کاٹ دی ۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اگر تم میں کوئی اپنے بھائی کی تعریف کرتا ، تو کوئی حرج نہیں اس کو چاہیے کہ وہ یوں کہے : میرا خیال ہے اور میں اللہ کے مقابلہ میں کسی کو پاک و صاف نہیں بتاتا۔

26790

(۲۶۷۹۱) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، عَن شُعْبَۃَ ، عَنْ عَاصِمٍ قَالَ : قُلْتُ لغنیم : أَیُکْرَہُ لِلرَّجُلِ أَنْ یَمْدَحَ أَخَاہُ وَہُوَ شَاہِدٌ؟ قَالَ: نَعَمْ ، فَقُلْت : وَإِنْ کَانَ غَائِبًا ؟ قَالَ : کَانَ یُقَالُ : لاَ تَمْدَحْ أَخَاک۔
(٢٦٧٩١) حضرت عاصم فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت غنیم سے پوچھا : کیا آدمی کے لیے مکروہ ہے کہ وہ اپنے بھائی کی موجودگی میں اس کی تعریف بیان کرے ؟ آپ نے فرمایا : جی ہاں ! میں نے پوچھا : اگر وہ شخص موجود نہ ہو تو ؟ آپ نے فرمایا کہ یوں کہا جاتا تھا کہ تم اپنے بھائی کی مدح مت کرو۔

26791

(۲۶۷۹۲) حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ عُمَرُ بْنُ سَعْدٍ ، عَن سُفْیَانَ، عَن لَیْثٍ، عَن طَاوُوس، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: لاَ أُزَکِّی بعد النبی صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَحَدًا۔
(٢٦٧٩٢) حضرت طاؤس فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عباس نے ارشاد فرمایا : کہ میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد کسی کو پاک و صاف نہیں گردانتا۔

26792

(۲۶۷۹۳) حَدَّثَنَا یُونُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ الْحَکَمِ ، عَنْ عَطَائِ بْنِ أَبِی رَبَاحٍ ، أَنَّ رَجُلاً کَانَ یَمْدَحُ رَجُلاً عِنْدَ ابْنِ عُمَرَ ، فَجَعَلَ ابْنُ عُمَرَ یَحْثُو التُّرَابَ نَحْوَ وَجْہِہِ بِأَصَابِعِہِ ، وَقَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إذَا رَأَیْتُمُ الْمَادِحِینَ فَاحْثُوا فِی أَفْوَاہِہِمُ التُّرَابَ ؟۔ (احمد ۲/۹۴۔ ابن حبان ۵۷۷۰)
(٢٦٧٩٣) حضرت عطاء بن ابو رباح فرماتے ہیں کہ کوئی آدمی حضرت ابن عمر کے پاس کسی آدمی کی تعریف بیان کررہا تھا تو حضرت ابن عمر نے اپنی انگلیوں کے ذریعہ اس کے چہرے پر مٹی ڈالنا شروع کردی ، اور کہا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ جب تم تعریف کرنے والوں کو دیکھو تو ان کے منہ میں مٹی ڈال دو ۔

26793

(۲۶۷۹۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَن مَنْصُورٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، عَن ہَمَّامٍ قَالَ : جَائَ رَجُلٌ فَأَثْنَی عَلَی عُثْمَانَ فِی وَجْہِہِ فَأَخَذَ الْمِقْدَادُ بْنُ الأَسْوَدِ تُرَابًا فَحَثَاہُ فِی وَجْہِہِ ، وَقَالَ : إنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : إذَا لَقِیتُمُ الْمَدَّاحِینَ فَاحْثُوا فِی وُجُوہِہِمُ التُّرَابَ۔ (مسلم ۲۲۹۷۔ ابوداؤد ۴۷۷۱)
(٢٦٧٩٤) حضرت ھمام فرماتے ہیں کہ ایک آدمی آیا اور اس نے حضرت عثمان کے منہ پر ان کی تعریف کی، اس پر حضرت مقداد بن اسود نے مٹی اٹھائی اور اس کے منہ میں ڈال دی۔ اور فرمایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا تھا کہ جب تم تعریف کرنے والوں سے ملو تو ان کے چہروں میں مٹی ڈالنا۔

26794

(۲۶۷۹۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن سُفْیَانَ ، عَن عِمْرَانَ بْنِ مُسْلِمٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ التَّیْمِیِّ ، عَنْ أَبِیہِ قَالَ : کُنَّا جُلُوسًا عِنْدَ عُمَرَ فَأَثْنَی رَجُلٌ عَلَی رَجُلٍ فِی وَجْہِہِ حِینَ أَدْبَرَ فَقَالَ عمر : عَقَرْت الرَّجُلَ ، عَقَرَک اللَّہُ۔
(٢٦٧٩٥) حضرت ابراہیم کے والد حضرت یزید بن شریک فرماتے ہیں کہ ہم لوگ حضرت عمر کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ کسی شخص نے دوسرے شخص کی اس کے منہ پر تعریف کی۔ جب وہ لوٹ گیا، تو حضرت عمر نے فرمایا : تو نے آدمی کو ہلاک کردیا اللہ تجھے بھی ہلاک کرے۔

26795

(۲۶۷۹۶) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ زَیْدٍ ، عَن سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لَنْ یَہْلَکَ امْرُؤٌ بَعْدَ مَشْورَۃٍ۔
(٢٦٧٩٦) حضرت سعید بن مسیب فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : آدمی ہرگز مشورہ کرنے کے بعد ہلاک نہیں ہوگا۔

26796

(۲۶۷۹۷) حَدَّثَنَا عِیسَی بْنُ یُونُسَ ، عَنِ الأَوْزَاعِیِّ ، عَن یَحْیَی بْنِ أَبِی کَثِیرٍ قَالَ : قَالَ سُلَیْمَانُ بْنُ دَاوُد لابْنِہِ : یَا بُنَیَّ ، لاَ تَقْطَعْ أَمْرًا حَتَّی تُؤَامِرَ مُرْشِدًا ، فَإِنَّک إذَا فَعَلْت ذَلِکَ لَمْ تَحْزَنْ عَلَیْہِ۔
(٢٦٧٩٧) حضرت یحییٰ بن ابی کثیر فرماتے ہیں کہ حضرت سلیمان بن داؤد نے اپنے بیٹے کو فرمایا : اے میرے بیٹے ! کسی معاملہ کو شروع مت کرنا یہاں تک کہ کسی رہنما سے مشورہ کرلینا، جب تم ایسا کرو گے تو کبھی اس معاملہ میں غم گین نہیں ہو گے۔

26797

(۲۶۷۹۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، عَن سُفْیَانَ، عَن رَجُلٍ، عَنِ الضَّحَّاکِ قَالَ: مَا أَمَرَ اللَّہُ نَبِیَّہُ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِالْمُشَاوَرَۃِ إلاَّ لِمَا یَعْلَمَ فِیہَا مِنَ الْفَضْلِ ، ثُمَّ تَلاَ {وَشَاوِرْہُمْ فِی الأَمْرِ}۔
(٢٦٧٩٨) حضرت ضحاک فرماتے ہیں کہ اللہ رب العزت نے اپنے نبی کو مشورے کا حکم نہیں دیا مگر اس وجہ سے کہ اللہ اس کی فضیلت کو جانتے تھے۔ پھر آپ نے آیت تلاوت فرمائی ۔ ترجمہ : اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے معاملہ کے بارے میں مشورہ کریں۔

26798

(۲۶۷۹۹) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ قَالَ : إذَا اخْتَلَفَ النَّاسُ فِی شَیْئٍ فَانْظُرْ کَیْفَ صَنَعَ فِیہِ عُمَرُ فَإِنَّہُ کَانَ لاَ یَصْنَعُ شَیْئًا حَتَّی یَسْأَلَ وَیُشَاوِرَ۔
(٢٦٧٩٩) حضرت اشعث فرماتے ہیں کہ امام شعبی نے ارشاد فرمایا : جب لوگ کسی چیز کے بارے میں اختلاف کریں تو تم دیکھو کہ اس معاملہ میں حضرت عمر نے کیا کیا۔ اس لیے کہ آپ کوئی کام نہیں کرتے تھے یہاں تک کہ اس کے بارے میں پوچھ لیتے اور مشورہ کرلیتے۔

26799

(۲۶۸۰۰) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، عَنْ إیَاسِ بْنِ دَغْفَلٍ قَالَ : حدَّثَنَا الْحَسَنُ قَالَ : مَا تشَاوَرَ قَوْمٌ إلاَّ ہُدُوا لأَرْشَدِ أَمْرِہِمْ۔
(٢٦٨٠٠) حضرت ایاس بن دغفل فرماتے ہیں کہ حضرت حسن بصری نے ارشاد فرمایا : کہ کسی قوم نے باہم مشورہ نہیں کیا مگر یہ کہ ان کو اس مسئلہ کی بہترین صورت سجھا دی گئی۔

26800

(۲۶۸۰۱) حَدَّثَنَا عِیسَی بْنُ یُونُسَ ، عَنْ عَبْدِ الْحَمِیدِ بْنِ جَعْفَرٍ قَالَ : حدَّثَنَی أَبُو مُصْعَبٍ الأَنْصَارِیُّ ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : اطْلُبُوا الْحَوَائِجَ إلَی حِسَانِ الْوُجُوہِ۔
(٢٦٨٠١) حضرت ابو مصعب انصاری فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : تم لوگ بہترین لوگوں سے ضروریات کو طلب کرو۔

26801

(۲۶۸۰۲) حَدَّثَنَا عِیسَی بْنُ یُونُسَ ، عَن طَلْحَۃَ ، عَنْ عَطَائٍ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : ابْتَغُوا الْخَیْرَ عِنْدَ حِسَانِ الْوُجُوہِ۔ (ابن ابی الدنیا ۵۳)
(٢٦٨٠٢) حضرت عطائ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : تم بھلائی بہترین لوگوں کے پاس تلاش کرو۔

26802

(۲۶۸۰۳) حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ بْنُ مُوسَی ، عَنِ ابْنِ أَبِی ذِئْبٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْتَمِسُوا الْمَعْرُوفَ عِنْدَ حِسَانِ الْوُجُوہِ۔ (طبرانی ۹۸۳)
(٢٦٨٠٣) امام زہری فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : تم بھلائی بہترین لوگوں کے پاس تلاش کرو۔

26803

(۲۶۸۰۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالَ: کَانُوا یَکْرَہُونَ إذَا اجْتَمَعُوا أَنْ یُخْرِجَ الرَّجُلُ أَحْسَنَ حَدِیثِہِ۔
(٢٦٨٠٤) حضرت ابن عون فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم نے ارشاد فرمایا : کہ صحابہ مکروہ سمجھتے تھے کہ جب وہ جمع ہوں تو ایک آدمی اپنی بہترین بات کو بیان کرے۔

26804

(۲۶۸۰۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ أَبِی ہِلاَلٍ ، عَنِ ابْنِ بُرَیْدَۃَ ، قَالَ عُمَرُ : مَا تَعَلَّمَ الرَّجُلُ الْفَارِسِیَّۃَ إلاَّ خَبث ، وَلاَ خَبث إلاَّ نَقَصَتْ مُرُوئَتُہُ۔
(٢٦٨٠٥) حضرت ابن بریدہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر نے ارشاد فرمایا : آدمی نے فارسی نہیں سیکھی مگر یہ کہ وہ خبیث ہوگیا اور کوئی خبیث نہیں ہوتا مگر یہ کہ اس کی مروت میں کمی آجاتی ہے۔

26805

(۲۶۸۰۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن ثَوْرٍ ، عَنْ عَطَائٍ قَالَ : لاَ تَعَلَّمُوا رَطَانَۃَ الأَعَاجِمِ ، وَلاَ تَدْخُلُوا عَلَیْہِمْ کَنَائِسَہُمْ ، فَإِنَّ السَّخَطَۃ تَنْزِلُ عَلَیْہِمْ۔
(٢٦٨٠٦) حضرت ثور فرماتے ہیں کہ حضرت عطائ نے ارشاد فرمایا : کہ تم لوگ عجمیوں کی زبان مت سیکھو اور ان کی عبادت گاہوں میں داخل مت ہو، اس لیے کہ ان پر اللہ کی ناراضگی اترتی ہے۔

26806

(۲۶۸۰۷) حَدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَن دَاوُد بْنِ أَبِی ہِنْدٍ ، أَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ سَعْدِ بْنِ أَبِی وَقَّاصٍ سَمِعَ قَوْمًا یَتَکَلَّمُونَ بِالْفَارِسِیَّۃِ فَقَالَ : مَا بَالُ الْمَجُوسِیَّۃِ بَعْدَ الْحَنِیفِیَّۃِ۔
(٢٦٨٠٧) حضرت داؤد بن ابی ھند فرماتے ہیں کہ حضرت محمد بن سعد بن ابو وقاص نے چند لوگوں کو فارسی زبان میں بات کرتے ہوئے سنا تو ارشاد فرمایا : کہ لوگوں کو کیا ہوا کہ مسلمان ہونے کے بعد مجوسی ہوگئے۔

26807

(۲۶۸۰۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ أَبِی خَلْدَۃَ قَالَ : کَلَّمَنِی أَبُو الْعَالِیَۃِ بِالْفَارِسِیَّۃِ۔
(٢٦٨٠٨) حضرت ابو خلدہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابو العالیہ نے مجھ سے فارسی میں بات کی ۔

26808

(۲۶۸۰۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ النَّہَّاسِ بْنِ قَہْمٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ شَیْخًا بِمَکَّۃَ یَقُولُ : أَشْرَفَ أَبُو ہُرَیْرَۃَ مِنْ ہَذَا الْبَابِ عَلَی ہَذَا السُّوقِ فَقَالَ : یَا بَنِی فَرُّوخَ ، سحت وداست۔
(٢٦٨٠٩) حضرت نھ اس بن قھم فرماتے ہیں کہ مکہ مکرمہ کے کسی شیخ نے بیان کیا کہ حضرت ابوہریرہ اس دروازے سے اس بازار میں تشریف لائے اور فرمایا : اے بنو فروخ ! سحت وداست۔

26809

(۲۶۸۱۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن شُعْبَۃَ ، عَن مُحَمَّدِ بْنِ زِیَادٍ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أُتِیَ بِتَمْرٍ مِنَ الصَّدَقَۃِ ، فَتَنَاوَلَ الْحَسَنُ بْنُ عَلِیٍّ تَمْرَۃً فَلاَکَہَا فِی فِیہِ ، فَقَالَ لَہُ : النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : کِخْ کِخْ ، لاَ تَحِلُّ لَنَا الصَّدَقَۃُ۔
(٢٦٨١٠) حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس صدقہ کی کھجوریں لائی گئیں تو حضرت حسن بن علی نے ایک کھجور لے لی اور منہ میں چبانے لگے۔ اس پر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے فرمایا : کخ کخ۔ نکالو نکالو۔ ہمارے لیے صدقہ حلال نہیں ہے۔

26810

(۲۶۸۱۱) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَن حَبِیبِ بْنِ أَبِی عَمْرَۃَ ، عَن مُنْذِرٍ الثَّوْرِیِّ قَالَ : سَأَلَ رَجُلٌ ابْنَ الْحَنَفِیَّۃِ ، عَنِ الْجُبْنِ فَقَالَ: یَا جَارِیَۃُ، اذْہَبِی بِہَذَا الدِّرْہَمِ فَاشْتَرِی بِہِ ینیرا، فَاشْتَرَتْ بِہِ ینیرا، ثُمَّ جَائَتْ بِہِ یَعْنِی الْجُبْنَ۔
(٢٦٨١١) حضرت منذرثوری فرماتے ہیں کہ کسی آدمی نے حضرت ابن حنفیہ سے پنیر مانگا ؟ آپ نے فرمایا : اے باندی یہ درہم لے جاؤ اور اس کا پنیر خرید لاؤ، پس وہ اس درہم کا پنیر خرید کرلے آئی۔

26811

(۲۶۸۱۲) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَن بُرْدٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ قِیلَ لَہُ : أَیَکْتَنِی الرَّجُلُ قَبْلَ أَنْ یُولَدَ لَہُ ؟ قَالَ : کَانَ رِجَالٌ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَکْتَنُوا قَبْلَ أَنْ یُولَدَ لَہُمْ۔
(٢٦٨١٢) حضرت برد فرماتے ہیں کہ حضرت زہری سے پوچھا گیا : کہ آدمی بچہ پیدا ہونے سے پہلے کنت اختیار کرسکتا ہے ؟ آپ نے فرمایا : کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعض صحابہ اولاد ہونے سے پہلے ہی اپنی کنیت اختیار کرلیتے تھے۔

26812

(۲۶۸۱۳) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، عَن عَلْقَمَۃَ قَالَ: کَنَّانِی عَبْدُ اللہِ بِأَبِی شِبْلٍ، وَکَانَ عَلْقَمَۃُ لاَ یُولَدُ لَہُ۔
(٢٦٨١٣) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ حضرت علقمہ نے ارشاد فرمایا : کہ حضرت عبداللہ بن مسعود نے میری کنیت ابو شبل رکھی، حالانکہ حضرت علقمہ کی کوئی اولاد نہیں تھی۔

26813

(۲۶۸۱۴) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ الأَسَدِیُّ ، عَنْ أَبِی عَوَانَۃَ ، عَن ہِلاَلِ بْنِ أَبِی حُمَیْدٍ قَالَ : کَنَّانِی عُرْوَۃُ قَبْلَ أَنْ یُولَدَ لِی۔
(٢٦٨١٤) حضرت ابو عوانہ فرماتے ہیں کہ حضرت ھلال بن ابی حمید نے ارشاد فرمایا : کہ حضرت عروہ نے میرے ہاں بچہ پیدا ہونے سے پہلے ہی میری کنیت رکھ دی۔

26814

(۲۶۸۱۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن ہِشَامٍ ، عَن مَوْلًی لِلزُّبَیْرِ ، عَنْ عَائِشَۃَ ، أَنَّہَا قَالَتْ لِلنَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : یَا رَسُولَ اللہِ ، کُلُّ أَزْوَاجِکَ قَدْ کَنَّیْتہ غَیْرِی ، قَالَ : فَأَنْتِ أُمُّ عَبْدِ اللہِ۔ (بخاری ۸۵۱۔ ابوداؤد ۴۹۳۱)
(٢٦٨١٥) حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ میں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! میرے سوا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی تمام بیبیوں کی کنیت رکھی ہوئی ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم ام عبداللہ ہو۔

26815

(۲۶۸۱۶) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ أَبِی بُکَیْرٍ قَالَ : حدَّثَنَا زُہَیْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِیلٍ ، عَن حَمْزَۃَ بْنِ صُہَیْبٍ ، أَنَّ عُمَرَ قَالَ لِصُہَیْبٍ : مَا لَکَ تَکْتَنِی بِأَبِی یَحْیَی وَلَیْسَ لَکَ وَلَدٌ ؟ قَالَ : کَنَّانِی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِأَبِی یَحْیَی۔ (ابن ماجہ ۳۷۳۸۔ احمد ۱۶)
(٢٦٨١٦) حضرت حمزہ بن صھیب فرماتے ہیں کہ حضرت عمر نے حضرت صھیب سے فرمایا : کہ تم نے اپنی کنیت ابو یحییٰ کیوں رکھی ہے، حالانکہ تمہارا تو کوئی لڑکا نہیں ہے ؟ آپ نے جواب دیا : کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے میری کنیت ابو یحییٰ رکھی تھی۔

26816

(۲۶۸۱۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن شُعْبَۃَ ، عَنْ أَبِی التَّیَّاحِ ، عَنْ أَنَسٍ قَالَ : کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَأْتِینَا ، فَکَانَ یَقُولُ لأَخٍ لِی صَغِیرٍ : یَا أَبَا عُمَیْرٍ ، مَا فَعَلَ النُّغَیْرُ ؟۔
(٢٦٨١٧) حضرت انس فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے پاس تشریف لاتے تھے اور میرے چھوٹے بھائی سے فرماتے تھے کہ اے ابو عمیر چڑیا کا کیا ہوا۔

26817

(۲۶۸۱۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن سُفْیَانَ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ عَامِرٍ قَالَ : لاَ بَأْسَ أَنْ یَکْتَنِیَ الرَّجُلُ قَبْلَ أَنْ یُولَدَ لَہُ۔
(٢٦٨١٨) حضرت جابر فرماتے ہیں کہ حضرت عامر نے ارشاد فرمایا : کہ آدمی کا بچہ پیدا ہونے سے قبل ہی کنیت اختیار کرلینا اس میں کوئی حرج نہیں ۔

26818

(۲۶۸۱۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن مِسْعَرٍ ، عَن شَیْخٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ ، أَوْ جَابِرًا قَالَ : کَانَ فِی کَلاَمِ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ تَرْتِیلٌ ، أَوْ تَرْسِیلٌ۔ (ابوداؤد ۴۸۰۵)
(٢٦٨١٩) حضرت ابن عمر یا حضرت جابر ان دونوں حضرات میں سے کوئی ایک فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کلام میں خوش الحانی یا وضاحت ہوتی تھی۔

26819

(۲۶۸۲۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، عَنْ أَبِی الْعُمَیْسِ، عَنْ عَطِیَّۃَ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: الإنْبِعَاق فِی الْکَلاَمِ مِنْ شَقَاشِقِ الشَّیْطَانِ۔
(٢٦٨٢٠) حضرت عطیہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عمر نے ارشاد فرمایا : زیادہ فصیح کلام شیطان کے منہ کے جھاگ کی طرح ہے۔

26820

(۲۶۸۲۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن سُفْیَانَ ، عَن أُسَامَۃَ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَن عُرْوَۃَ ، عَنْ عَائِشَۃَ رضی اللہ عنہا قَالَتْ : کَانَ کَلاَمُ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَلاَمًا فَصْلاً ، یَفْہَمُہُ کُلُّ مَنْ سَمِعَہُ۔ (ابوداؤد ۴۸۰۶۔ ترمذی ۳۶۳۹)
(٢٦٨٢١) حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کلام ایسا واضح ہوتا تھا ہر سننے والا اس کو سمجھ جاتا تھا۔

26821

(۲۶۸۲۲) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا نَافِعُ بْنُ عُمَرَ الْجُمَحِیُّ ، عَن بِشْرِ بْنِ عَاصِمٍ ، عَنْ أبِیہِ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو - قَالَ نَافِعٌ : أُرَاہُ رَفَعَہُ - قَالَ : إنَّ اللَّہَ یَبْغُضُ الْبَلِیغَ مِنَ الرِّجَالِ الَّذِی یَتَخَلَّلُ بِلِسَانِہِ تَخَلُّلَ الْبَاقِرَۃِ بِلِسَانِہَا۔ (ابوداؤد ۴۹۶۶۔ ترمذی ۲۸۵۳)
(٢٦٨٢٢) حضرت عبداللہ بن عمرو مرفوعاً بیان کرتے ہیں کہ اللہ رب العزت آدمیوں میں سے اس آدمی سے دشمنی رکھتے ہیں جو زبان ہلا ہلا کر فصیح کلام کرتا ہے گائیوں کے زبان سے چارہ ہلانے کی طرح۔

26822

(۲۶۸۲۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ قَالَ : حدَّثَنَا ابْنُ أَبِی خَالِدٍ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ عُمَیْرٍ قَالَ : قَامَ رَجُلٌ فَتَکَلَّمَ بَیْنَ یَدَیِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حَتَّی أَزْبَدَ شِدْقَاہُ فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : تَعَلَّمُوا ، وَإِیَّاکُمْ وَشَقَاشِقَ الْکَلاَمِ ، فَإِنَّ شَقَاشِقَ الْکَلاَمِ مِنَ شَقَائِقِ الشَّیْطَانِ۔
(٢٦٨٢٣) حضرت عبد الملک بن عمیر فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے کھڑے ہو کر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے کلام کیا یہاں تک کہ اس نے اپنے منہ سے جھاگ نکالا ، اس پر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : تم سیکھو اور منہ پھاڑ کر کلام کرنے سے بچو، اس لیے کہ منہ پھاڑ کر کلام کرنا شیطان کے منہ سے نکلنے والے جھاگ کی طرح ہے۔

26823

(۲۶۸۲۴) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ، عَن یَزِیدَ، عَنْ أَبِی جَعْفَرٍ، أَنَّہُ کَانَ یَکْرَہُ أَنْ یُسْمِعَ الْمُبْتَلَی التَّعْوِیذَ مِنَ الْبَلاَئِ۔
(٢٦٨٢٤) حضرت ابو جعفر نے مصیبت میں مبتلا شخص کو اعوذ باللہ سنانا مکروہ قرار دیا ہے۔

26824

(۲۶۸۲۵) حَدَّثَنَا سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ عَبْدِ الْکَرِیمِ ، عَن مُجَاہِدٍ قَالَ : کَانَ یَکْرَہُ أَنْ یَقُولَ اللَّہُمَّ لاَ تَبْتَلِنِی إلاَّ بِالَّتِی ہِیَ أَحْسَنُ وَیَقُولُ : قَالَ اللَّہُ تَعَالَی : (وَنَبْلُوکُمْ بِالشَّرِّ وَالْخَیْرِ فِتْنَۃً)۔
(٢٦٨٢٥) حضرت عبد الکریم فرماتے ہیں کہ حضرت مجاہد یوں دعا کرنے کو مکروہ سمجھتے تھے، اے اللہ ! تو مجھے آزمائش میں مت ڈال مگر اس چیز کے ساتھ جو بہت بہترین ہو ، اور فرماتے کہ اللہ رب العزت نے فرمایا ہے کہ : ترجمہ : اور ہم تمہیں آزمائیں گے شر اور بھلائی کے ساتھ۔

26825

(۲۶۸۲۶) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ مُبَارَکٍ، عَن مَعْمَرٍ، عَنِ ابْنِ طَاوُوس، عَنْ أَبِیہِ، أَنَّہُ کَانَ إذَا اجْتَمَعَتْ عَندَہُ الرَّسَائِلُ أَمَرَ بِہَا فَأُحْرِقَتْ۔
(٢٦٨٢٦) حضرت ابن طاؤس فرماتے ہیں کہ حضرت طاؤس کے پاس جب بہت زیادہ خطوط جمع ہوجاتے تو آپ ان کو جلانے کا حکم دیتے اور ان کو جلا دیا جاتا۔

26826

(۲۶۸۲۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن سُفْیَانَ ، عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ قَیْسٍ ، أَنَّ عَبِیدَۃَ أَوْصَی أَنْ تُمْحَی کُتُبُہُ۔
(٢٦٨٢٧) حضرت نعمان بن قیس فرماتے ہیں کہ حضرت عبیدہ نے وصیت فرمائی کی ان کے خطوط کو مٹا دیا جائے۔

26827

(۲۶۸۲۸) حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ ، عَن کَہْمَسٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مُسْلِمِ بْنِ یَسَارٍ ، عَن مُسْلِمِ بْنِ یَسَارٍ قَالَ : کَانَ إذَا جَائَہُ الْکِتَابُ مَحَا مَا کَانَ فِیہِ مِنْ ذِکْرِ اللہِ ، ثُمَّ أَلْقَاہُ۔
(٢٦٨٢٨) حضرت عبداللہ بن مسلم بن یسار فرماتے ہیں کہ حضرت مسلم بن یسار کے پاس جب خط آتا تو آپ اللہ کے ذکر کو اس میں سے مٹا دیتے پھر اس کو پھینک دیتے ۔

26828

(۲۶۸۲۹) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ جَامِعِ بْنِ شَدَّادٍ ، عَنِ الأَسْوَدِ بْنِ ہِلاَلٍ قَالَ : أُتِیَ عَبْدَ اللہِ بِصَحِیفَۃٍ فِیہَا حَدِیثٌ ، فَأَتَی بِمَائٍ فَمَحَاہَا ، ثُمَّ غَسَلَہَا ، ثُمَّ أَمَرَ بِہَا فَأُحْرِقَتْ۔
(٢٦٨٢٩) حضرت اسود بن ھلال فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود کے پاس ایک صحیفہ لایا گیا جس میں کچھ حدیثیں تھیں۔ آپ نے پانی منگوایا، پہلے اسے مٹایا پھر اسے دھو دیا، پھر آپ نے اسے جلانے کا حکم دیا تو اسے جلا دیا گیا۔

26829

(۲۶۸۳۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ قَالَ : قُلْتُ لِعَبِیدَۃَ : وَجَدْت کِتَابًا أَقْرَؤُہُ ؟ قَالَ : لاَ۔ (ابوداؤد ۱۴۸۰)
(٢٦٨٣٠) حضرت ابن سیرین فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عبیدہ سے پوچھا کہ مجھے ایک خط ملا ہے کیا میں اس کو پڑھ لوں ؟ آپ نے فرمایا : نہیں۔

26830

(۲۶۸۳۱) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ ، عَنِ الْوَلِیدِ بْنِ ثَعْلَبَۃَ الطَّائِیِّ ، عَنِ الضَّحَّاکِ ، أَنَّہُ کَانَ یَکْرَہُ أَنْ یُکْتَبَ الْحَدِیثُ فِی الْکَرَارِیسِ۔
(٢٦٨٣١) حضرت ولید بن ثعلبہ طائی فرماتے ہیں کہ حضرت ضحاک کاپیوں میں حدیث لکھنے کو مکروہ سمجھتے تھے۔

26831

(۲۶۸۳۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ الْوَلِیدِ بْنِ ثَعْلَبَۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ مُؤَذِّنِ الضَّحَّاکِ ، عَنِ الضَّحَّاکِ قَالَ : لاَ تَتَّخِذُوا لِلْحَدِیثِ کَرَارِیسَ کَکَرَارِیسِ الْمُصْحَفِ۔
(٢٦٨٣٢) حضرت عبداللہ جو حضرت ضحاک کے مؤذن ہیں فرماتے ہیں کہ حضرت ضحاک نے ارشاد فرمایا : کہ تم حدیث کے لیے مصحف کی کاپیوں کی طرح کاپیاں مت بناؤ۔

26832

(۲۶۸۳۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ الْحَسَنِ ، عَن لَیْثٍ ، عَن مُجَاہِدٍ ، أَنَّہُ کَرِہَ الْکَرَارِیسَ۔
(٢٦٨٣٣) حضرت لیث فرماتے ہیں کہ حضرت مجاہد نے کاپیوں میں حدیث لکھنے کو مکروہ سمجھا۔

26833

(۲۶۸۳۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، عَنْ أَبِی عَوَانَۃَ، عَن سُلَیْمَانَ بْنِ أَبِی الْعَتِیکِ، عَنْ أَبِی مَعْشَرٍ، عَنْ إبْرَاہِیمَ، أَنَّہُ کَرِہَہَا۔
(٢٦٨٣٤) حضرت ابو معشر فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم نے کاپیوں میں حدیث لکھنے کو مکروہ سمجھا۔

26834

(۲۶۸۳۵) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ ہَاشِمٍ ، عَنِ ابْنِ أَبِی لَیْلَی ، عَن عِیسَی ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِی لَیْلَی قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: لاَ تَسُبُّوا اللَّیْلَ، وَلاَ النَّہَارَ، وَلاَ الشَّمْسَ، وَلاَ الْقَمَرَ، وَلاَ الرِّیحَ، فَإِنَّہَا تُبْعَثُ عَذَابًا عَلَی قَوْمٍ ، وَرَحْمَۃً عَلَی آخَرِینَ۔ (ابویعلی ۲۱۹۱)
(٢٦٨٣٥) حضرت عبد الرحمن بن ابی لیلیٰ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : کہ تم گالی مت دو رات کو نہ ہی دن کو ، نہ سورج کو نہ چاند کو اور نہ ہی ہوا کو۔ اس لیے کہ انھیں ایک قوم پر عذاب بنا کر بھیجا گیا اور دوسری قوم پر رحمت بنا کر بھیجا گیا۔

26835

(۲۶۸۳۶) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ ، عَنِ الأَوْزَاعِیِّ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ قَالَ : حدَّثَنَا ثَابِتٌ الزُّرَقِیُّ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لاَ تَسُبُّوا الرِّیحَ فَإِنَّہَا مِنْ رُوحِ اللہِ ، تَأْتِی بِالرَّحْمَۃِ وَالْعَذَابِ ، وَلَکِنْ سَلُوا اللَّہَ مِنْ خَیْرِہَا ، وَتَعَوَّذُوا بِاللَّہِ مِنْ شَرِّہَا۔ (ابوداؤد ۵۰۵۶۔ احمد ۲۶۸)
(٢٦٨٣٦) حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : کہ تم ہوا کو برا بھلا مت کہو، اس لیے کہ یہ اللہ کی مہربانی ہے، رحمت بھی لاتی ہے اور عذاب بھی، لیکن تم اللہ سے اس کی بھلائی کا سوال کرو اور اس کے شر سے اللہ کی پناہ مانگو۔

26836

(۲۶۸۳۷) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ عَاصِمٍ الأَحْوَلِ ، عَنِ الْحَسَنِ ، أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ فِی سَیْرٍ ، فَہَبَّتْ رِیحٌ ، فَکَشَفَتْ عَن رَجُلٍ قَطِیفَۃً کَانَتْ عَلَیْہِ ، فَلَعَنَہَا فَقَالَ لَہُ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : ألَعَنْتہَا ؟ قَالَ : یَا رَسُولَ اللہِ ، کَشَفَتْ قَطِیفَتِی ، فَقَالَ : إذَا رَأَیْتہَا فَسَلِ اللَّہَ مِنْ خَیْرِہَا ، وَتَعَوَّذْ بِاللَّہِ مِنْ شَرِّہَا ، وَلاَ تَلْعَنْہَا فَإِنَّہَا مَأْمُورَۃٌ۔ (ابوداؤد ۴۸۷۲۔ ترمذی ۱۹۷۸)
(٢٦٨٣٧) حضرت حسن بصری فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سفر میں تھے کہ ہوا چل پڑی اور ایک آدمی کی چادر اس وجہ سے کھل گئی تو اس نے ہوا کو لعن طعن کی، اس پر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے فرمایا : کیا تم نے ہوا کو لعنت کی ہے ؟ اس نے کہا : اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! میری چادر کھل گئی ! آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جب تم ہوا دیکھو تو اللہ سے اس کی بھلائی کا سوال کرو، اور اس کے شر سے اللہ کی پناہ مانگو ، اور اس کو لعنت مت کرو اس لیے کہ یہ تو اللہ کی طرف سے مامور ہے۔

26837

(۲۶۸۳۸) حَدَّثَنَا شَبَابَۃُ قَالَ : حدَّثَنَا شُعْبَۃُ ، عَنِ الْہَیْثمِ قَالَ : رَأَی عَاصِمُ بْنُ ضَمْرَۃَ قَوْمًا یَتَّبِعُونَ رَجُلاً فَقَالَ : إِنَّہَا فِتْنَۃٌ لِلْمَتْبُوعِ مَذَلَّۃٌ لِلتَّابِعِ۔
(٢٦٨٣٨) حضرت ھیثم فرماتے ہیں کہ حضرت عاصم نے چند لوگوں کو دیکھا جو کسی آدمی کے پیچھے چل رہے تھے ۔ آپ نے فرمایا : بیشک یہ فتنہ ہے اس شخص کے لیے جس کے پیچھے چلا جا رہا ہے اور ذلت ہے پیچھے چلنے والوں کے لیے۔

26838

(۲۶۸۳۹) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنِ الْعَوَّامِ ، عَن حَبِیبِ بْنِ أَبِی ثَابِتٍ قَالَ : تَبعَ ابْنَ مَسْعُودٍ نَاسٌ فَجَعَلُوا یَمْشُونَ خَلْفَہُ فَقَالَ : أَلَکُمْ حَاجَۃٌ ؟ قَالُوا : لاَ ، قَالَ : ارْجِعُوا فَإِنَّہَا ذِلَّۃٌ لِلتَّابِعِ فِتْنَۃٌ لِلْمَتْبوعِ۔
(٢٦٨٣٩) حضرت حبیب بن ابی ثابت فرماتے ہیں کہ کچھ لوگ حضرت ابن مسعود کے پیچھے آئے اور آپ کے پیچھے چلنے لگے، آپ نے پوچھا : کیا تم لوگوں کو کوئی کام ہے ؟ انھوں نے عرض کیا : نہیں، آپ نے فرمایا : واپس لوٹ جاؤ ، اس لیے کہ یہ پیچھے آنے والے کے لیے ذلت ہے اور جس کے پیچھے چلا جا رہا ہے اس کے لیے فتنہ ہے۔

26839

(۲۶۸۴۰) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَن ہَارُونَ بْنِ عَنتَرَۃَ ، عَن سُلَیْمِ بْنِ حَنْظَلَۃَ قَالَ : أَتَیْنَا أُبَیَّ بْنَ کَعْبٍ لِنَتَحَدَّثَ عِندَہُ ، فَلَمَّا قَامَ قُمْنَا نَمْشِی مَعَہُ ، فَلَحِقَہُ عُمَرُ فَرَفَعَ عَلَیْہِ الدِّرَّۃَ فَقَالَ : یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ ، اعْلَمْ مَا تَصْنَعُ ؟ قَالَ : إنَّمَا تَرَی فِتْنَۃً لِلْمَتْبُوعِ ذِلَّۃً لِلتَّابِعِ۔
(٢٦٨٤٠) حضرت سلیم بن حنظلہ فرماتے ہیں کہ ہم لوگ حضرت ابی بن کعب کے پاس آئے تاکہ ہم ان کے پاس گفتگو کریں۔ جب آپ اٹھ گئے تو ہم بھی اٹھ کر ان کے ساتھ چلنے لگے۔ پس حضرت عمر ان سے ملے اور ان پر درّہ اٹھایا۔ آپ نے فرمایا : اے امیر المؤمنین ! جان لیں آپ جو کر رہے ہیں ! انھوں نے فرمایا : بیشک یہ جو تم دیکھ رہے ہو یہ متبوع کے لیے فتنہ ہے اور تابع کے لیے ذلت ہے۔

26840

(۲۶۸۴۱) حَدَّثَنَا سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ عَاصِمٍ قَالَ : لَم یَکُن ابن سِرِین یَتْرک أَحَدًا یَمشِی مَعَہُ۔
(٢٦٨٤١) حضرت عاصم فرماتے ہیں کہ حضرت ابن سیرین کسی کو نہیں چھوڑتے تھے کہ وہ ان کے ساتھ چل سکے۔

26841

(۲۶۸۴۲) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ عَاصِمٍ قَالَ : کَانَ أَبُو الْعَالِیَۃِ إذَا جَلَسَ إلَیْہِ أَکْثَرُ مِنْ أَرْبَعَۃٍ قَامَ۔
(٢٦٨٤٢) حضرت عاصم فرماتے ہیں کہ حضرت ابو العالہَ کے پاس جب چار سے زیادہ لوگ بیٹھ جاتے تو آپ کھڑے ہوجاتے۔

26842

(۲۶۸۴۳) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ قَالَ : حدَّثَنَا مِسْعَرٌ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ عُمَیْرٍ ، عَن مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ ، عَن سَعْدٍ قَالَ : یَا بَنِیَّ ، تَعَلَّمُوا الرَّمْیَ فَإِنَّہُ خَیْرُ لَعِبِکُمْ۔
(٢٦٨٤٣) حضرت مصعب بن سعد فرماتے ہیں کہ حضرت سعد نے ارشاد فرمایا : اے میرے بیٹے ! تیر اندازی سیکھو، اس لیے کہ یہ تمہارا بہترین کھیل ہے۔

26843

(۲۶۸۴۴) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَن مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَن مُحَمَّدِ بْنِ إبْرَاہِیمَ، عَن رَافِعِ بْنِ سَالِمٍ الْفَزَارِیِّ قَالَ: مَرَّ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ بِنَا فَقَالَ : ارْمُوا ، فَإِنَّ الرَّمْیَ عُدَّۃٌ وَجَلاَدَۃٌ۔
(٢٦٨٤٤) حضرت رافع بن سالم فزاری فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب ہمارے پاس سے گزرے تو ارشاد فرمایا : کہ تیر اندازی کرو، اس لیے کہ تیر اندازی دشمن کے خلاف تیاری اور ہمت و استقلال ہے۔

26844

(۲۶۸۴۵) حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ بْنُ مُوسَی ، عَن طَلْحَۃَ بْنِ یَحْیَی ، عَنْ أَبِی بُرْدَۃَ قَالَ : قَالَ سَعِیدُ بْنُ الْعَاصِ : إذَا عَلَّمْت وَلَدِی الْقُرْآنَ وَأَحْجَجْتُہُ وَزَوَّجْتہ ، فَقَدْ قَضَیْت حَقَّہُ ، وَبَقِیَ حَقِّی عَلَیْہِ۔
(٢٦٨٤٥) حضرت ابو بردہ فرماتے ہیں کہ حضرت سعید بن عاصی نے ارشاد فرمایا : کہ جب میں نے اپنے بچہ کو قرآن سکھلا دیا اور میں نے اس کو حج کروا دیا اور اس کا نکاح کرو ا دیا تو میں نے اس کا حق ادا کردیا اور اس پر میرا حق باقی رہ گیا۔

26845

(۲۶۸۴۶) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَن لَیْثٍ ، عَن مُجَاہِدٍ قَالَ : لاَ تَحْضُرُ الْمَلاَئِکَۃُ شَیْئًا مِنْ لَہْوِکُمْ غَیْرَ الرِّہَانِ وَالرَّمْیِ ، نِعْمَ مُلْتَہَی الْمُؤْمِنِ الْقَوْسُ وَالنَّبْلُ۔
(٢٦٨٤٦) حضرت لیث فرماتے ہیں کہ حضرت مجاہد نے ارشاد فرمایا : کہ فرشتے تمہارے کھیلوں میں حاضر نہیں ہوتے سوائے دوڑ اور تیر اندازی کے۔ مومن کا بہترین کھیل تیر اور کمان کے ساتھ ہے۔

26846

(۲۶۸۴۷) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَن حَجَّاجٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ جَدِّہِ ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَرَّ عَلَی أُنَاسٍ من أَسْلم یَرْمُونَ فَقَالَ : خُذُوا وَأَنَا مَعَ ابْنِ الأَدْرَعِ ، فَقَالُوا : یَا رَسُولَ اللہِ ، نَأْخُذُ وَأَنْتَ مَعَ بَعْضِنَا دُونَ بَعْضٍ ، فَقَالَ : خُذُوا وَأَنَا مَعَکُمْ یَا بَنِی إسْمَاعِیلَ۔ (بخاری ۲۸۹۹۔ احمد ۴/۵۰)
(٢٦٨٤٧) حضرت عبداللہ بن عمرو فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا قبیلہ اسلم کے چند لوگوں پر سے گزر ہوا جو تیر اندازی کر رہے تھے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم پکڑو اور میں ابن الادرع کے ساتھ ہوں۔ اس پر ان لوگوں نے کہا : اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ہم کیسے قابو کریں حالانکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم میں سے بعض کو چھوڑ کر بعض کے ساتھ ہیں ! آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے بنو اسماعیل ! تم پکڑو میں تم سب کے ساتھ ہوں۔

26847

(۲۶۸۴۸) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ، عَنْ عَبْدِاللہِ بْنِ سَعِیدٍ، عَنْ أَبِیہِ، عَنِ ابن أَبِی حَدْرَدٍ الأَسْلَمِیِّ قَالَ: مَرَّ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِنَاسٍ مِنْ أَسْلَمَ وَہُمْ یَتَنَاضَلُونَ فَقَالَ: ارْمُوا یَا بَنِی إسْمَاعِیلَ، فَإِنَّ أَبَاکُمْ کَانَ رَامِیًا، ارْمُوا وَأَنَا مَعَ ابْنِ الأَدْرَعِ، فَأَمْسَکَ الْقَوْمُ بِأَیْدِیہِمْ فَقَالَ: مَا لَکُمْ لاَ تَرْمُونَ؟ قَالُوا: یَا رَسُولَ اللہِ، أَنَرْمِی وَقَدْ قُلْتَ: أَنَا مَعَ ابْنِ الأَدْرَعِ ، وَقَدْ عَلِمْنَا أَنَّ حِزْبَک لاَ یُغْلَبُ؟ قَالَ: ارْمُوا وَأَنَا مَعَکُمْ کُلِّکُمْ۔ (مسند ۶۲۹)
(٢٦٨٤٨) حضرت ابن ابو حدردا سلمی فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا گزر قبیلہ اسلم کے چند لوگوں کے پاس سے ہوا اس حال میں کہ وہ لوگ باہم تیر اندازی کا مقابلہ کر رہے تھے۔ اس پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے بنو اسماعیل ! تیر اندازی کرو، بیشک تمہارا باپ بھی تیر انداز تھا۔ اور تم تیر چلاؤ اور میں ابن الادرع کے ساتھ ہوں، تو لوگوں نے اپنے ہاتھوں کو روک لیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تمہیں کیا ہوا کہ تم نہیں چلا رہے ؟ انھوں نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ہم کیسے تیر چلائیں ؟ حالانکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کہا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو ابن الادرع کے ساتھ ہیں، اور تحقق ہم جانتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا لشکر کبھی مغلوب نہیں ہوسکتا ! آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم تیر چلاؤ میں تم سب کے ساتھ ہوں۔

26848

(۲۶۸۴۹) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ سَعِیدٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَن رَجُلٍ مِنْ أَسْلَمَ یُقَالُ لَہُ ابْنُ الأَدْرَعِ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : تَمَعْدَدُوا وَاخْشَوْشِنُوا وَانْتَضِلُوا وَامْشُوا حُفَاۃً۔ (طبرانی ۸۴)
(٢٦٨٤٩) قیلہ اسلم کے ایک شخص جن کا نام ابن الادرع ہیں وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : قبیلہ معد کا طرز زندگی اختیار کرو، اور موٹا اور کھردرا (کپڑا) پہنو اور باہم تیر اندازی کا مقابلہ کرو اور ننگے پیر چلا کرو۔

26849

(۲۶۸۵۰) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ قَالَ : أَخْبَرَنَا الدَّسْتَوَائِیُّ ، عَن یَحْیَی بْنِ أَبِی کَثِیرٍ ، عَنْ أَبِی سَلاَّمٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ الأَزْرَقِ ، عَن عُقْبَۃَ بْنِ عَامِرٍ الْجُہَنِیِّ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : إنَّ اللَّہَ لَیُدْخِلُ بِالسَّہْمِ الْوَاحِدِ الثَّلاَثَۃَ الْجَنَّۃَ : صَانِعَہُ یَحْتَسِبُ فِی صَنْعَتِہِ الْخَیْرَ ، وَالرَّامِیَ بِہِ ، وَالْمُمِدَّ بِہِ ، وَقَالَ : ارْمُوا وَارْکَبُوا، وَإِنْ تَرْمُوا أَحَبُّ إلَیَّ مِنْ أَنْ تَرْکَبُوا ، وَکُلُّ مَا یَلْہُو بِہِ الْمَرْئُ الْمُسْلِمُ بَاطِلٌ إلاَّ رَمْیَہُ بِقَوْسِہِ ، وَتَأْدِیبَہُ فَرَسَہُ، وَمُلاَعَبَتَہُ أَہْلَہُ ، فَإِنَّہُنَّ مِنَ الْحَقِّ۔
(٢٦٨٥٠) حضرت عقبہ بن عامر جہنی فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : کہ یقیناً اللہ تعالیٰ ایک تیر کی وجہ سے تین لوگوں کو جنت میں داخل کریں گے ، تیر کے بنانے والے کو جس نے ثواب کی نیت سے اس کو بنایا۔ اور اس کے چلانے والے کو اور تیر کے پکڑانے والے کو، اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تیر اندازی کرو اور سواری کرو۔ اور تمہارا تیر اندازی کرنا میرے نزدیک تمہارے سوار ہونے سے زیادہ پسندیدہ ہے۔ اور وہ تمام کھیل جو مسلمان بندہ کھیلتا ہے وہ باطل ہیں۔ سوائے اس کے کہ وہ اپنے کمان کے ذریعہ تیر چلاتا ہو ، یا اپنے گھوڑے کو سدھاتا ہو یا اپنی بیوی کے ساتھ تفریح کرتا ہو، بیشک یہ تمام چیزیں حق میں سے ہیں۔

26850

(۲۶۸۵۱) حَدَّثَنَا عِیسَی بْنُ یُونُسَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ یَزِیدَ بْنِ جَابِرٍ قَالَ : حدَّثَنَا أَبُو سَلاَّمٍ الدِّمَشْقِیُّ ، عَن خَالِدِ بْنِ زَیْدٍ الْجُہَنِیِّ ، عَن عُقْبَۃَ بْنِ عَامِرٍ ، عَن رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَذَکَرَہُ نَحْوَہُ إلاَّ أَنَّہُ قَالَ : وَمُنَبِّلَہُ۔ (ابوداؤد ۲۵۰۵۔ احمد ۴/۱۴۶)
(٢٦٨٥١) حضرت عقبہ بن عامر سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مذکورہ ارشاد اس سند سے بھی منقول ہے۔ مگر یہ کہ اس سند میں منبلہ کے الفاظ بھی ہیں۔

26851

(۲۶۸۵۲) حَدَّثَنَا ابْنُ مُبَارَکٍ ، عَنِ الأَوْزَاعِیِّ ، عَن بِلاَلِ بْنِ سَعْدٍ قَالَ : أَدْرَکْتہمْ یَشْتَدُّونَ بَیْنَ الأَغْرَاضِ وَیَضْحَکُ بَعْضُہُمْ إلَی بَعْضٍ ، فَإِذَا کَانَ اللَّیْلُ کَانُوا رُہْبَانًا۔
(٢٦٨٥٢) امام اوزاعی فرماتے ہیں کہ حضرت بلال بن سعد نے ارشاد فرمایا : کہ میں نے صحابہ کو پایا اس حال میں کہ وہ لوگ اپنے مقاصد کے بارے میں بہت سخت تھے۔ اور ان میں سے بعض بعض کے ساتھ مذاق کرتے تھے اور جب رات ہوتی، تو وہ سب کے سب عبادت گزار بن جاتے۔

26852

(۲۶۸۵۳) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ إبْرَاہِیمَ التَّیْمِیِّ، عَنْ أَبِیہِ قَالَ: رَأَیْتُ حُذَیْفَۃَ یَشْتدُّ بَیْنَ الْہَدَفَیْنِ۔
(٢٦٨٥٣) حضرت ابراہیم تیمی کے والد فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت حذیفہ کو دیکھا آپ دو نشانوں کے درمیان حملہ کرتے تھے۔

26853

(۲۶۸۵۴) حَدَّثَنَا أَبُو بَکْر بْنُ عَیَّاشٍ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ أَبِی الْعَدَبَّسِ ، قَالَ : سَمِعْتُ عُمَرَ یَقُولُ : أَخِیفُوا الْہَوَامَّ قَبْلَ أَنْ تُخِیفَکُمْ ، وَانْتَضِلُوا وَتَمَعْدَدُوا وَاخْشَوْشِنُوا وَاجْعَلُوا الرَّأْسَ رَأْسَیْنِ ، وَفَرِّقُوا عَنِ الْمَنِیَّۃِ ، وَلاَ تُلِثُّوا بِدَارٍ مُعْجِزَۃٍ ، وَأَخِیفُوا الْحَیَّاتِ قَبْلَ أَنْ تُخِیفَکُمْ وَأَصْلِحُوا مَثَاوِیَکُمْ۔
(٢٦٨٥٤) حضرت ابو العدبّس فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر کو یوں فرماتے ہوئے سنا کہ تم حشرات کو ڈراؤ قبل ازیں کہ وہ تمہیں خوف زدہ کریں اور تم باہم تیر اندازی کا مقابلہ کیا کرو، اور قبیلہ معد کی طرز زندگی اختیار کرو اور موٹا ، کھردرا کپڑا پہنو، اور اپنے مال کو ہلاک ہونے سے بچاؤ، اور تم ایسی جگہ اقامت اختیار مت کرو جہاں تمہارا رزق تنگ ہو اور تم سانپوں کو ڈراؤ قبل ازیں کہ وہ تمہیں خوف زدہ کریں اور اپنے گھر والوں کو درست رکھو۔

26854

(۲۶۸۵۵) حَدَّثَنَا زِیَادُ بْنُ الرَّبِیعِ ، عَن یُونُسَ بْنِ عُبَیْدٍ ، عَنْ أَبِی قِلاَبَۃَ ، أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ کَانَ إذَا خَرَجَ مِنْ بَیْتِہِ إلَی الْمَسْجِدِ عَرَفَ جِیرَانُ الطَّرِیقِ ، أَنَّہُ قَدْ مَرَّ مِنْ طِیبِ رِیحِہِ۔
(٢٦٨٥٥) حضرت ابو قلابہ فرماتے ہیں کہ جب حضرت ابن عباس اپنے گھر سے مسجد کی طرف نکلتے تو راستہ کے پڑوسی آپ کی مہکتی خوشبو سے پہچان لیتے کہ حضرت ابن عباس گزرے ہیں۔

26855

(۲۶۸۵۶) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ أَبِی الْعُمَیْسِ ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ قَالَ : کَانَ عَبْدُ اللہِ یَتَطَیَّبُ بِطِیبٍ فِیہِ مِسْکٌ۔
(٢٦٨٥٦) حضرت قاسم بن عبد الرحمن فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود ایسی خوشبو لگاتے تھے جس میں مشک کی آمیزش ہوتی تھی۔

26856

(۲۶۸۵۷) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ حَفْصٍ قَالَ : أَخْبَرَنَا ابْنُ أَبِی ذِئْبٍ ، عَن عُثْمَانَ بْنِ عُبَیْدِ اللہِ مَوْلًی لِسَعْدِ بْنِ أَبِی وَقَّاصٍ قَالَ : رَأَیْتُ ابْنَ عُمَرَ وَأَبَا ہُرَیْرَۃَ وَأَبَا قَتَادَۃَ وَأَبَا أُسَیْدَ السَّاعِدِیَّ یَمُرُّونَ عَلَیْنَا وَنَحْنُ فِی الْکُتَّابِ فَنَجِدُ مِنْہُمْ رِیحَ الْعَبِیرِ وَہُوَ الْخَلُوقُ۔
(٢٦٨٥٧) حضرت عثمان بن عبیداللہ جو حضرت سعد بن ابی وقاص کے آزاد کردہ غلام ہیں وہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عمر ، حضرت ابوہریرہ ، حضرت ابو قتادہ اور حضرت ابو اسید ساعدی کو دیکھا ، یہ حضرات ہم پر سے گزرتے تھے اس حال میں کہ ہم مکتب میں ہوتے تھے تو ہم ان سے عبیر کی خوشبو سونگھتے تھے جو زعفران ملی خوشبو ہے۔

26857

(۲۶۸۵۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ قَالَ : حدَّثَنَا الأَعْمَشُ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالَ : کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُعْرَفُ بِرِیحِ الطِّیبِ إذَا أَقْبَلَ۔ (عبدالرزاق ۷۹۳۴۔ ابن سعد ۳۹۸)
(٢٦٨٥٨) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب تشریف لاتے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بہت پاکیزہ خوشبو آتی تھی۔

26858

(۲۶۸۵۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن مِسْعَرٍ ، عَن مُحَمَّدِ بْنِ جُحَادَۃَ ، عَن طَلْحَۃَ بْنِ مُصَرِّفٍ قَالَ : کَانَ ابْنُ مَسْعُودٍ یُعْرَفُ بِرِیحِ الطِّیبِ۔
(٢٦٨٥٩) حضرت طلحہ بن مصرف فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود سے بہت پاکیزہ خوشبو آتی تھی۔

26859

(۲۶۸۶۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ الْمَسْعُودِیِّ ، عَن سُلَیْمَانَ بْنِ مِینَائَ ، عَن نُفَیْعٍ مَوْلَی عَبْدِ اللہِ قَالَ : کَانَ عَبْدُ اللہِ مِنْ أَطْیَبِ النَّاسِ رِیحًا ، وَأَنْقَاہُمْ ثَوْبًا أَبْیَضَ۔
(٢٦٨٦٠) حضرت نفیع جو حضرت عبداللہ بن مسعود کے آزاد کردہ غلام ہیں، وہ فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ لوگوں میں سب سے پاکیزہ خوشبو والے اور سب سے صاف سفید کپڑوں والے تھے۔

26860

(۲۶۸۶۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن مُحَمَّدِ بْنِ قَیْسٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ قَالَ : کَانَ عَبْدُ اللہِ بْنُ جَعْفَرٍ یَسْحَقُ الْمِسْکَ ، ثُمَّ جَعَلَہُ عَلَی یَافُوخِہِ۔
(٢٦٨٦١) امام شعبی فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن جعفر مشک کو کوٹ کر اس کا سفوف بناتے پھر اس کو اپنے سر کے اوپر کے حصہ میں ڈال لیتے۔

26861

(۲۶۸۶۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ خَرَجَ یَوْمَ عِیدٍ ، فَمَرَّ بِالنِّسَائِ ، فَوَجَدَ رِیحَ رَأْسِ امْرَأَۃٍ فَقَالَ : مَنْ صَاحِبَۃُ ہَذَا ؟ أَمَا لَوْ عَرَفْتہَا لَفَعَلْت وَفَعَلْت ، إنَّمَا تَطَیَّبُ الْمَرْأَۃُ لِزَوْجِہَا، فَإِذَا خَرَجَتْ لَبِسَتْ أُطَیْمِرَہَا ، أَوْ أُطَیْمِرَ خَادِمِہَا ، فَتَحَدَّثَ النِّسَائُ ، أَنَّہَا قَامَتْ عَن حَدَثٍ۔
(٢٦٨٦٢) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب عید کے دن نکلے، آپ کا گزر عورتوں کے پاس سے ہوا، تو آپ کو کسی عورت کے سر سے خوشبو محسوس ہوئی، آپ نے پوچھا : یہ خوشبو والی عورت کون ہے ؟ اگر میں نے اس کو پہچان لیا تو میں اس کو ایسی اور ایسی سزادوں گا، اس لیے کہ عورت صرف اپنے خاوند کے لیے خوشبو لگا سکتی ہے۔ اور جب وہ نکلے تو اپنے کوئی بوسیدہ یا اپنی خادمہ کے بوسیدہ کپڑے پہن لے، اس پر عورتوں نے بتایا کہ یہ عورت حدث کی وجہ سے اٹھی ہے۔

26862

(۲۶۸۶۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن ثَابِتِ بْنِ عُمَارَۃَ ، عَن غُنَیْمِ بْنِ قَیْسٍ ، عَنْ أَبِی مُوسَی قَالَ : أَیُّمَا امْرَأَۃٍ استعْطرَتْ ، ثُمَّ خَرَجَتْ لتُوجَدَ رِیحُہَا فَہِی فَاعِلَۃ ، وَکُل عَین فَاعِلَۃ۔
(٢٦٨٦٣) حضرت غنیم بن قیس فرماتے ہیں کہ حضرت ابو موسیٰ نے فرمایا : جو کوئی عورت خوشبو لگائے، پھر وہ نکلے تاکہ اس کی خوشبو پھیلے، پس یہ عورت زنا کرنے والی ہے اور ہر آنکھ زنا کرنے والی ہوگی۔

26863

(۲۶۸۶۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانُ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُبَیْدِ اللہِ ، عَنْ عُبَیْدٍ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : أَیُّمَا امْرَأَۃٍ تَطَیَّبَتْ ثُمَّ خَرَجَتْ إلَی الْمَسْجِدِ لِیُوجَدَ رِیحُہَا ، لَمْ تُقْبَلْ لَہَا صَلاَۃٌ حَتَّی تَغْتَسِلَ اغْتِسَالَہَا مِنَ الْجَنَابَۃِ۔ (ابوداؤد ۴۱۷۱۔ احمد ۲/۲۴۶)
(٢٦٨٦٤) حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جو کوئی عورت خوشبو لگائے پھر مسجد کی طرف نکلے تاکہ اس کی خوشبو محسوس کی جائے، تو اس کی نماز قبول نہیں ہوتی یہاں تک کہ وہ جنابت کے غسل کی طرح غسل کرلے۔

26864

(۲۶۸۶۵) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ ، عَن مُحَمَّدِ بْنِ عَجْلاَنَ ، عَن یَعْقُوبَ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ الأَشَجِّ ، عَن بُسْرِ بْنِ سَعِیدٍ ، عَن زَیْنَبَ امْرَأَۃِ عَبْدِ اللہِ قَالَتْ : قَالَ لَنَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إذَا خَرَجَتْ إحْدَاکُنَّ إلَی الْمَسْجِدِ فَلاَ تَمَسَّ طِیبًا۔ (مسلم ۳۲۸۔ احمد ۶/۳۶۳)
(٢٦٨٦٥) حضرت زینب جو حضرت عبداللہ بن مسعود کی زوجہ ہیں وہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں ارشاد فرمایا : جب تم میں سے کوئی عورت مسجد کی طرف نکلے تو اس کو چاہیے کہ وہ خوشبو مت لگائے۔

26865

(۲۶۸۶۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ أَبِی الْعُمَیْسِ ، عَنِ الْقَاسِمِ بن أَبِی بَزَّۃَ ، عَنْ أَبِی عُبَیْدَۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مَسْعُودٍ ، أَنَّہُ وَجَدَ مِنِ امْرَأَتِہِ رِیحَ مِجْمَرٍ وَہِیَ بِمَکَّۃَ ، فَأَقْسَمَ عَلَیْہَا أَلاَ تَخْرُجَ تِلْکَ اللَّیْلَۃَ۔
(٢٦٨٦٦) حضرت ابو عبیدہ فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود نے اپنی بیوی سے عود کی خوشبو محسوس کی اس حال میں کہ وہ مکہ میں تھی، آپ نے اس کو قسم دی کہ وہ اس رات نہیں نکلے گی۔

26866

(۲۶۸۶۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن کَثِیرِ بْنِ زَیْدٍ ، عَن عُثْمَانَ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ سُرَاقَۃَ ، عَن أُمِّہِ قَالَتْ : نَزَلَ بِی حَمَوِیٌّ فَمَسِسْت طِیبًا ، ثُمَّ خَرَجْت فَأَرْسَلَتْ إلَیَّ حَفْصَۃُ : إنَّمَا الطِّیبُ لِلْفِرَاشِ۔
(٢٦٨٦٧) حضرت عثمان بن عبداللہ بن سراقہ فرماتے ہیں کہ میری والدہ نے ارشاد فرمایا : کہ میرے دیور نے میرے پاس قیام کیا تو میں نے خوشبو لگائی پھر میں نکلی، تو حضرت حفصہ نے میری طرف قاصد کے ذریعے پیغام بھیجا کہ بیشک خوشبو تو خاوند کے لیے لگائی جاتی ہے۔

26867

(۲۶۸۶۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، أَنَّ امْرَأَتَہُ اسْتَأْذَنَتْہُ أَنْ تَأْتِیَ أَہْلَہَا ، فَأَذِنَ لَہَا فَوَجَدَ بِہَا رِیحُ دُخْنۃ فحبسہا ، وَقَالَ : إنَّ الْمَرْأَۃَ إذَا تَطَیَّبَتْ ثُمَّ خَرَجَتْ فَإِنَّمَا طِیبُہَا شَنَارٌ فِیہِ نَارٌ۔
(٢٦٨٦٨) حضرت اعمش فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم سے ان کی بیوی نے اپنے گھر والوں کے پاس جانے کی اجازت مانگی تو آپ نے اسے اجازت دے دی۔ پھر آپ کو اس سے دھونی کی خوشبو محسوس ہوئی تو آپ نے اس کو روک دیا اور فرمایا : بیشک عورت جب خوشبو لگائے پھر گھر سے نکلے، تو اس کی خوشبو میں ایسا فتنہ ہے جس میں آگ ہے۔

26868

(۲۶۸۶۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن مُوسَی بْنِ عُبَیْدَۃَ ، عَن مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْکَدِرِ قَالَ : زَارَتْ أَسْمَائُ أُخْتَہَا عَائِشَۃَ ، وَالزُّبَیْرُ غَائِبٌ ، فَدَخَلَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَوَجَدَ رِیحَ طِیبٍ فَقَالَ : مَا عَلَی امْرَأَۃٍ أَنْ لاَ تَطَیَّبَ وَزَوْجُہَا غَائِبٌ۔ (طبرانی ۲۸۰)
(٢٦٨٦٩) حضرت محمد بن منکدر فرماتے ہیں کہ حضرت اسمائ اپنی بہن حضرت عائشہ سے ملاقات کے لیے آئیں اس حال میں کہ حضرت زبیر موجود نہیں تھے۔ پس نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) داخل ہوئے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پاکیزہ خوشبو محسوس کی، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : عورت کے لیے درست نہیں ہے کہ وہ خوشبو لگائے جبکہ اس کا خاوند موجود نہ ہو۔

26869

(۲۶۸۷۰) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ، عَنِ ابْنِ عَجْلاَنَ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ دِینَارٍ، عَنْ أَبِی صَالِحٍ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: الإِیمَانُ سِتُّونَ ، أَوْ سَبْعُونَ ، أَوْ بِضْعَۃٌ وَاحِدُ الْعَدَدَیْنِ: أَعْلاَہَا شَہَادَۃُ أَنْ لاَ إلَہَ إلاَّ اللَّہُ ، وَأَدْنَاہَا إمَاطَۃُ الأَذَی عَنِ الطَّرِیقِ ، وَالْحَیَائُ شُعْبَۃٌ مِنَ الإِیمَانِ۔ (بخاری ۹۔ مسلم ۶۳)
(٢٦٨٧٠) حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ ایمان کے ساٹھ یا ستر یا کچھ زائد شعبے ہیں۔ ان دونوں میں سے ایک عدد ارشاد فرمایا۔۔۔ ان میں سے بلند ترین لا الہ الا اللہ کی گواہی دینا ہے اور سب سے آسان تکلیف دہ چیز کو راستہ سے ہٹانا ہے ، اور حیاء بھی ایمان کا حصہ ہے۔

26870

(۲۶۸۷۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ أَبَانَ بْنِ صَمْعَۃَ ، عَنْ أَبِی الْوَازِعِ ، عَنْ أَبِی بَرْزَۃَ قَالَ : قُلْتُ : یَا رَسُولَ اللہِ ، دُلَّنِی عَلَی عَمَلٍ أَنْتَفِعُ بِہِ ، قَالَ : نَحِّ الأَذَی عَن طَرِیقِ الْمُسْلِمِینَ۔ (مسلم ۲۰۲۱۔ ابن ماجہ ۳۶۸۱)
(٢٦٨٧١) حضرت ابو برزہ فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! میری کسی ایسے عمل پر راہنمائی فرما دیجئے جس پر عمل کرنے سے مجھے فائدہ ہو، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کہ مسلمانوں کے راستہ سے تکلیف دہ چیز کو ہٹاؤ۔

26871

(۲۶۸۷۲) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ قَالَ : أَخْبَرَنَا جَرِیرُ بْنُ حَازِمٍ قَالَ : حَدَّثَنَا بَشَّارُ بْنُ أَبِی سَیْفٍ ، عَنِ الْوَلِیدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَن عِیَاضِ بْنِ غُطَیْفٍ ، عَنْ أَبِی عُبَیْدَۃَ ، قَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : مَنْ عَادَ مَرِیضًا ، أَوْ أَنْفَقَ عَلَی أَہْلِہِ ، أَوْ مَازَ أَذًی عَن طَرِیقٍ فَحَسَنَۃٌ بِعَشْرَۃِ أَمْثَالِہَا۔
(٢٦٨٧٢) حضرت ابو عبیدہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یوں ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ جو شخص مریض کی عیادت کرے یا اپنے گھر والوں پر مال خرچ کرے یا راستہ سے تکلیف دہ چیز کو ہٹا دے تو ایک نیکی کا بدلہ دس کے برابر ہوگا۔

26872

(۲۶۸۷۳) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَن یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ، عَن مُحَمَّدِ بْنِ یَحْیَی بْنِ حَبَّانَ قَالَ : خَرَجَ رَجُلٌ مَعَ مُعَاذٍ ، فَجَعَلَ لاَ یَرَی أَذًی فِی طَرِیقٍ إلاَّ نَحَّاہُ ، فَلَمَّا رَأَی ذَلِکَ الرَّجُلُ جَعَلَ لاَ یَمُرُّ بِشَیْئٍ إلاَّ نَحَّاہُ ، فَقَالَ لَہُ : مَا حَمَلَک عَلَی ہَذَا ؟ قَالَ : الَّذِی رَأَیْتُک تَصْنَعُ ، قَالَ : أَصَبْت ، أَوْ أَحْسَنْت ، إِنَّہُ مَنْ أَمَاطَ أَذًی ، عَن طَرِیقٍ کُتِبَتْ لَہُ حَسَنَۃٌ ، وَمَنْ کُتِبَتْ لَہُ حَسَنَۃٌ دَخَلَ الْجَنَّۃَ۔
(٢٦٨٧٣) حضرت محمد بن یحییٰ بن حبان فرماتے ہیں کہ ایک آدمی حضرت معاذ کے ساتھ نکلا، وہ شخص راستہ میں کوئی بھی تکلیف دہ چیز دیکھتا تو اسے ہٹا دیتا، جب آپ نے اس شخص کو دیکھا کہ یہ جو بھی تکلیف دو چیز دیکھتا ہے تو اس کو راستہ سے ہٹا دیتا ہے ، تو آپ نے اس سے پوچھا کہ کس بات نے تجھے اس فعل پر ابھارا ؟ اس نے کہا : کہ مں نے آپ کو ایسا کرتے ہوئے دیکھا تھا۔ آپ نے جواب دیا : تحقیق تو نے ٹھیک کیا یا یوں فرمایا : کہ تو نے اچھا کام کیا۔ اس لیے کہ جو شخص راستہ سے تکلیف دہ چیز ہٹاتا ہے تو اس کے لیے ایک نیکی لکھ دی جاتی ہے اور جس کے لیے ایک نیکی لکھ دی جائے تو وہ جنت میں داخل ہوگا۔

26873

(۲۶۸۷۴) حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُوسَی ، قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا ہِلاَلٍ قَالَ : حَدَّثَنَا قَتَادَۃُ ، عَنْ أَنَسٍ قَالَ : کَانَتْ شَجَرَۃٌ عَلَی طَرِیقِ النَّاسِ، فَکَانَتْ تُؤْذِیہِمْ، فَعَزَلَہَا رَجُلٌ، عَن طَرِیقِ النَّاسِ، قَالَ: قَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: فَلَقَدْ رَأَیْتہ یَتَقَلَّبُ فِی ظِلِّہَا فِی الْجَنَّۃِ۔ (احمد ۱۵۴۔ ابویعلی ۳۰۴۸)
(٢٦٨٧٤) حضرت قتادہ فرماتے ہیں کہ حضرت انس نے ارشاد فرمایا : کہ لوگوں کے راستہ میں ایک درخت تھا جو لوگوں کی تکلیف کا باعث تھا، پس کسی آدمی نے راستہ سے اسے ہٹا دیا، تو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کہ تحقیق میں نے اسے خواب میں دیکھا کہ وہ جنت میں اس درخت کے سایہ کے نیچے گھوم رہا تھا۔

26874

(۲۶۸۷۵) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِی صَالِحٍ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : کَانَ عَلَی طَرِیقٍ غُصْنُ شَجَرَۃٍ یُؤْذِی النَّاسَ ، فَأَمَاطَہَا رَجُلٌ فَأُدْخِلَ الْجَنَّۃَ۔ (ابن ماجہ ۳۶۸۲)
(٢٦٨٧٥) حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : کہ ایک راستہ میں درخت کی ٹہنی تھی جو لوگوں کی تکلیف کا باعث بنتی تھی ، پس کسی آدمی نے اسے ہٹا دیا تو اس وجہ سے اسے جنت میں داخل کردیا گیا۔

26875

(۲۶۸۷۶) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ قَالَ : أَخْبَرَنَا ہِشَامُ بْنُ حَسَّانَ ، عَن وَاصِلٍ مَوْلَی أَبِی عُیَیْنَۃَ ، عَن یَحْیَی بْنِ عَقِیلٍ، عَن یَحْیَی بْنِ یَعْمُرَ، عَنْ أَبِی ذَرٍّ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: عُرِضَتْ عَلَیَّ أُمَّتِی بِأَعْمَالِہَا، حَسَنِہَا وَسَیِّئِہَا ، فَرَأَیْت فِی مَحَاسِنِ أَعْمَالِہَا الأَذَی یُنَحَّی عَنِ الطَّرِیقِ ، وَرَأَیْت فِی سَیِّیء أَعْمَالِہَا النُّخَامَۃُ فِی الْمَسْجِدِ لاَ تُدْفَنُ۔ (مسلم ۳۹۰۔ احمد ۵/۱۸۰)
(٢٦٨٧٦) حضرت ابوذر فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : کہ مجھ پر میری امت کے اچھے اور برے اعمال پیش کیے گئے تو میں نے ا ن کے اچھے اعمال میں سے یہ دیکھا کہ وہ راستہ سے تکلیف دہ چیز ہٹانا تھا اور میں نے ان کے برے اعمال میں دیکھا کہ وہ مسجد میں تھوک کر اس پر مٹی نہ ڈالنا تھا۔

26876

(۲۶۸۷۷) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ قَالَ : حدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ بن قَیْسٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ سَعْدًا یَقُولُ : اتَّقُوا ہَذِی الْمُلاَعِن ، ثُمَّ قَالَ إسْمَاعِیلُ : یَعْنِی التَّحَشُّشَ عَلَی ظَہْرِ الطَّرِیقِ۔
(٢٦٨٧٧) حضرت اسماعیل بن قیس فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت سعد کو یوں فرماتے ہوئے سنا کہ ان ملعون جگہوں سے بچو۔ پھر حضرت اسماعیل نے فرمایا یعنی راستہ کے درمیان قضائے حاجت کرنے سے۔

26877

(۲۶۸۷۸) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ عَوْنِ بْنِ عَبْدِ اللہِ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ : إیَّاکُمْ وَالْمُلاَعن ، قَالُوا : وَمَا الْمُلاَعِنُ ؟ قَالَ : قَارِعَۃُ الْجُلُوسِ عَلَی الطَّرِیقِ وَتَحْتَ الشَّجَرَۃِ یَسْتَظِلُّ تَحْتَہَا الرَّاکِبُ۔ (مسلم ۲۲۶۔ ابوداؤد ۲۶)
(٢٦٨٧٨) حضرت عون بن عبداللہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابوہریرہ نے ارشاد فرمایا کہ تم ان ملعون جگہوں سے بچو۔ تو لوگوں نے پوچھا : ملعون جگہیں کیا ہیں ؟ آپ نے فرمایا کہ راستہ کے درمیان بیٹھنے اور اس درخت کے نیچے بیٹھنے سے جن کے نیچے سوار سایہ حاصل کرتے ہیں۔

26878

(۲۶۸۷۹) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ قَالَ : أَخْبَرَنَا ہِشَامٌ ، عَنِ الْحَسَنِ ، عَنْ جَابِرٍ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لاَ تَنْزِلُوا عَلَی جَوَادِّ الطَّرِیقِ ، وَلاَ تَقْضُوا عَلَیْہَا الْحَاجَاتِ۔
(٢٦٨٧٩) حضرت جابر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : تم راستے کے درمیان میں قیام کرنے سے بچو اور نہ ہی ان جگہوں پر قضائے حاجت کرو۔

26879

(۲۶۸۸۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن شُعْبَۃَ ، عَن خُلَیْدِ بْنِ جَعْفَرٍ ، عَنْ أَبِی نَضْرَۃَ ، عَنْ أَبِی سَعِیدٍ ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ذَکَرَ الْمِسْکُ فَقَالَ : ہُوَ أَطْیَبُ طِیبِکُمْ۔ (مسلم ۱۷۶۶)
(٢٦٨٨٠) حضرت ابو سعید فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مشک کا ذکر کیا اور فرمایا کہ یہ تمہاری خوشبوؤں میں پاکیزہ ترین خوشبو ہے۔

26880

(۲۶۸۸۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، عَن ابْنِ سِیرِینَ ، عَن ابن عُمَر قَالَ : أَطْیَب طیبکم : الْمِسْکَ۔
(٢٦٨٨١) حضرت ابن سیرین فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عمر نے ارشاد فرمایا : تمہاری خوشبوؤں میں پاکیزہ ترین خوشبو مشک ہے۔

26881

(۲۶۸۸۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ بْنِ إسْمَاعِیلَ ، عَن عُبَیْدٍ مَوْلَی سَلَمَۃَ ، عَن سَلَمَۃَ ، أَنَّہُ کَانَ إذَا تَوَضَّأَ أَخَذَ الْمِسْکَ فَمَسَحَ بِہِ وَجْہَہُ وَیَدَیْہِ۔
(٢٦٨٨٢) حضرت سلمہ جب وضو کرتے تو مشک خوشبو لیتے اور اسے اپنے چہرے اور ہاتھوں پر مل لیتے۔

26882

(۲۶۸۸۳) حَدَّثَنَا وَکِیعُ ، عَن مُحَمَّدِ بْنِ قَیْسٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ قَالَ : کَانَ عَبْدُ اللہِ بْنُ جَعْفَرٍ یَسْحَقُ الْمِسْکَ ، ثُمَّ یَجْعَلُہُ عَلَی یَافُوخِہِ۔
(٢٦٨٨٣) امام شعبی فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن جعفر مشک کو پیس کر اس کا سفوف بناتے پھر اسے اپنے سر کے اوپر والے حصہ میں ڈال لیتے۔

26883

(۲۶۸۸۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ الرَّبِیعِ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ قَالَ : لاَ بَأْسَ بِالْمِسْکِ لِلْحَیِّ وَالْمَیِّتِ۔
(٢٦٨٨٤) حضرت ربیع فرماتے ہیں کہ حضرت ابن سیرین نے ارشاد فرمایا کہ زندہ اور مردہ کے مشک لگانے میں کوئی حرج نہیں۔

26884

(۲۶۸۸۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ ابْنِ أَبِی رَوَّادٍ ، عَنِ الضَّحَّاکِ قَالَ : الْمِسْکُ مَیْتَۃٌ وَدَمٌ۔
(٢٦٨٨٥) حضرت ابن ابی روّاد فرماتے ہیں کہ حضرت ضحاک نے ارشاد فرمایا : کہ مشک تو مردار اور خون ہے۔

26885

(۲۶۸۸۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن سُفْیَانَ ، عَن لَیْثٍ ، عَن مُجَاہِدٍ ، أَنَّہُ کَرِہَ أَنْ یُجْعَلَ الْمِسْکُ فِی الْمُصْحَفِ۔
(٢٦٨٨٦) حضرت لیث فرماتے ہیں کہ حضرت مجاہد نے قرآن مجید کے نسخہ میں مشک لگانے کو مکروہ سمجھا۔

26886

(۲۶۸۸۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ الرَّبِیعِ ، عَنِ الْحَسَنِ ، أَنَّہُ کَانَ یَکْرَہُ الْمِسْکَ لِلْحَیِّ وَالْمَیِّتِ۔
(٢٦٨٨٧) حضرت ربیع فرماتے ہیں کہ حضرت حسن بصری زندہ اور مردہ کے مشک لگانے کو مکروہ سمجھتے تھے۔

26887

(۲۶۸۸۸) حَدَّثَنَا ابْنُ مَہْدِیٍّ ، عَن سُفْیَانَ ، عَن عِمْرَانَ بْنِ مُسْلِمٍ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ عُمَارَۃَ قَالَ : جَائَ أَبُو أَیُّوبَ ، فَأَرَادَ أَنْ یَبِیتَ عَلَی سَطْحٍ لَنَا أَجْلَحَ ، قَالَ : کِدْت أَنْ أَبَیْت اللَّیْلَۃَ لاَ ذِمَّۃَ لِی۔
(٢٦٨٨٨) حضرت علی بن عمارہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابو ایوب آئے اور انھوں نے ارادہ کیا کہ وہ ہماری بغیر دیوار کی چھت پر رات گزاریں ، فرمایا کہ قریب ہے کہ میں رات گزاروں اس حال میں کہ میری کوئی ذمہ داری نہیں۔

26888

(۲۶۸۸۹) حَدَّثَنَا مَرْوَانُ ، عَنِ الْعَلاَء بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ قَالَ : سَأَلْتُ مُجَاہِدًا عَنِ الرَّجُلِ یَنَامُ فَوْقَ السَّطْحِ لَیْسَ عَلَیْہِ حَائِطٌ ، فَقَالَ مُجَاہِدٌ : إنَّمَا قِیلَ ذَاکَ لِمَنْ سَقَطَ فَمَات۔
(٢٦٨٨٩) حضرت علاء بن عبد الرحمن فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت مجاہد سے سوال کیا اس شخص کے بارے میں جو بغیر دیوار والی چھت پر سو جائے ؟ حضرت مجاہد نے فرمایا : یہ تو اس شخص کو کہا جاتا ہے جو گرتا ہے تو مرجاتا ہے۔

26889

(۲۶۸۹۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ ابْنِ عَمْرِو بْنِ عَلْقَمَۃَ ، عَنِ ابْنِ أَبِی حُسَیْنٍ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لاَ تَقْطَعْ مَنْ کَانَ یَصِلُ أَبَاک ، یُطْفَأْ بِذَلِکَ نُورُک ، إنَّ وِدَّک وِدُّ أَبِیک۔ (مسلم۱۱۔ ابوداؤد ۵۱۰۰)
(٢٦٨٩٠) حضرت ابن ابی حسین فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ قطع رحمی مت کرو اس سے جس سے تمہارے والد صلہ رحمی کرتے تھے، اس سے تمہارا نور بجھ جائے گا اس لیے کہ تمہارا تعلق دار تمہارے والد کا تعلق دار ہے۔

26890

(۲۶۸۹۱) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَن ہَارُونَ بْنِ عَنتَرَۃَ ، عَنْ عَوْنِ بْنِ عَبْدِ اللہِ قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللہِ : صِلْ مَنْ کَانَ أَبُوک یُوَاصِلُ ، فَإِنَّ صِلَۃً للْمَیِّتِ فِی قَبْرِہِ أَنْ تَصِلَ مَنْ کَانَ یُوَاصِلُ۔
(٢٦٨٩١) حضرت عون بن عبداللہ فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود نے ارشاد فرمایا : کہ اس کے ساتھ صلح رحمی کرو جس کے ساتھ تمہارے والد صلہ رحمی کرتے تھے اس لیے کہ قبر میں موجود میت سے صلح رحمی یہی ہے کہ تم اس شخص سے صلہ رحمی کرو جس سے یہ صلہ رحمی کرتا تھا۔

26891

(۲۶۸۹۲) حَدَّثَنَا عَفَّانُ قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَن ثَابِتٍ ، عَن بِلاَلٍ ، عَنْ أَبِیہِ قَالَ : إن مِنْ صِلَۃِ الرَّجُلِ أَبَاہُ أَنْ یَصِلَ إخْوَانَہُ الَّذِینَ کَانَ یَصِلُہُمْ ، قَالَ حَمَّادٌ : أَحْسَبُہُ ، عَنْ أَبِی مُوسَی ، قِیلَ لِحَمَّادٍ : بِلاَلُ بْنُ أَبِی بُرْدَۃَ ؟ قَالَ : نَعَمْ۔
(٢٦٨٩٢) حضرت بلال فرماتے ہیں کہ ان کے والد حضرت ابو بردہ نے ارشاد فرمایا : کہ بیشک آدمی کی اپنے والد سے صلہ رحمی یہ ہے کہ وہ اس کے بھائیوں سے صلہ رحمی کرے جن سے وہ خود صلہ رحمی کرتا تھا۔
حضرت حماد فرماتے ہیں کہ میرا گمان ہے کہ یہ حضرت ابو موسیٰ سے مروی ہے اور حضرت حماد سے پوچھا گیا کہ کیا بلال بن ابو بردہ مراد ہیں۔ آپ نے فرمایا : جی ہاں۔

26892

(۲۶۸۹۳) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ قَالَ : حدَّثَنَا ہِشَامٌ ، عَنْ أَبِیہِ قَالَ : مَکْتُوبٌ فِی التَّوْرَاۃِ : أَحْبِبْ حَبِیبَک وَحَبِیبَ أَبِیک۔
(٢٦٨٩٣) حضرت ہشام فرماتے ہیں کہ ان کے والد حضرت عروہ نے ارشاد فرمایا : کہ تو رات میں یوں لکھا ہے کہ تم اپنے محبوب اور اپنے والد کے محبوب سے محبت کرو۔

26893

(۲۶۸۹۴) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ قَالَ : أَخْبَرَنَا أَبُو عَقِیلٍ قَالَ : حَدَّثَنَا سَلَمَۃُ بْنُ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ قَالَ : تَرِّبُوا صُحُفَکُمْ أَنْجَحُ لَہَا۔
(٢٦٨٩٤) حضرت سلمہ بن عبداللہ بن عمر فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب نے ارشاد فرمایا : تم اپنے صحیفوں پر مٹی چھڑک لیا کرو، یہ اس کے مقصد میں کامیابی ہے۔

26894

(۲۶۸۹۵) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ قَالَ : أَخْبَرَنَا بَقِیَّۃُ قَالَ : حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ الدِّمَشْقِیِّ ، عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ ، عَنْ جَابِرٍ، أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : تَرِّبُوا صُحُفَکُمْ أَنْجَحُ لَہَا وَالتُّرَابُ مُبَارَکٌ۔ (ترمذی ۲۷۱۳۔ ابن ماجہ ۳۷۷۴)
(٢٦٨٩٥) حضرت جابر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : کہ تم اپنے صحیفوں پر مٹی چھڑک لیا کرو، یہ اس کے مقصد میں کامیابی ہے، اور مٹی بابرکت چیز ہے۔

26895

(۲۶۸۹۶) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ قَالَ : أَخْبَرَنَا أَبُو شَیْبَۃَ ، عَن رَجُلٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : تَرِّبُوا صُحُفَکُمْ أَعْظَمُ لِلْبَرَکَۃِ۔
(٢٦٨٩٦) امام شعبی فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : تم اپنے صحیفوں پر مٹی چھڑک لیا کرو، یہ بہت برکت کا باعث ہے۔

26896

(۲۶۸۹۷) حَدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنِ الْعَبَّاسِ بْنِ ذُرَیْحٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ قَالَ : قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ : إنِّی لأَرَی لِجَوَابِ الْکِتَابِ عَلَیَّ حَقًّا کَرَدِّ السَّلاَمِ۔ (ابن عدی ۱۷۶)
(٢٦٨٩٧) امام شعبی فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عباس نے ارشاد فرمایا کہ میں سمجھتا ہوں کہ خط کا جواب دینا مجھ پر سلام کے جواب دینے کی طرح لازم ہے۔

26897

(۲۶۸۹۸) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ عَاصِمٍ الأَحْوَلِ ، عَنْ عَامِرٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ : مَا کُنْت أُبَالِی لَوْ کُنْت عَاشِرَ عَشَرَۃٍ عَلَی دَابَّۃٍ بَعْدَ أَنْ تُطِیقَنَا۔
(٢٦٨٩٨) حضرت عامر فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عمر نے ارشاد فرمایا؛ کہ میں پروا نہیں کرتا کہ میں کسی سواری پر دس کا دسواں ہوں اس بات کے بعد کہ وہ ہمیں اٹھانے کی طاقت رکھتا ہو۔

26898

(۲۶۸۹۹) حَدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَن خَالِدٍ ، عَن عِکْرِمَۃَ ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ تَلَقَّاہُ غُلاَمَانِ مِنْ بَنِی عَبْدِ الْمُطَّلِبِ ، فَحَمَلَ وَاحِدًا بَیْنَ یَدَیْہِ وَالآخَرَ خَلْفَہُ۔ (عبدالرزاق ۱۹۴۸۲)
(٢٦٨٩٩) حضرت عکرمہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بنو عبد المطلب کے دو لڑکے ملے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان میں سے ایک کو اپنے آگے اور دوسرے کو پیچھے سوار کرلیا۔

26899

(۲۶۹۰۰) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَن حَبِیبِ بْنِ الشَّہِیدِ ، عَنِ ابْنِ أَبِی مُلَیْکَۃَ قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللہِ بْنُ جَعْفَرٍ لابْنِ الزُّبَیْرِ : أَتَذْکُرُ إذْ تَلَقَّیْنَا رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَا وَأَنْتَ ، وَابْنُ عَبَّاسٍ ؟ قَالَ : نَعَمْ ، فَحَمَلَنَا وَتَرَکَک۔ (مسلم ۱۸۸۵۔ احمد ۱/۲۰۳)
(٢٦٩٠٠) حضرت ابن ابی ملیکہ فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن جعفر نے حضرت ابن زبیر سے فرمایا کہ کیا تمہیں یاد ہے کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مجھے ، تمہیں اور ابن عباس کو ملے تھے ؟ آپ نے فرمایا : ہاں ، تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہم دونوں کو سوار کرلیا تھا اور تمہیں چھوڑ دیا تھا۔

26900

(۲۶۹۰۱) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ، عَنْ عَاصِمٍ قَالَ: حدَّثَنَا مُوَرِّقُ الْعِجْلِیّ قَالَ: حَدَّثَنَی عَبْدُ اللہِ بْنُ جَعْفَرٍ قَالَ: کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إذَا قَدِمَ مِنْ سَفَرٍ تُلُقِّیَ بِنَا ، قَالَ: فَتُلُقِّیَ بِی ، وَبِالْحَسَنِ، أَوْ بِالْحُسَیْنِ ، قَالَ : فَحَمَلَ أَحَدَنَا بَیْنَ یَدَیْہِ ، وَالآخَرَ خَلْفَہُ ، حَتَّی دَخَلْنَا الْمَدِینَۃَ۔ (ابوداؤد ۲۵۵۹۔ احمد ۲۰۳)
(٢٦٩٠١) حضرت عبداللہ بن جعفر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب کسی سفر سے واپس آتے اور ہم سے ملاقات ہوجاتی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مجھ سے اور حضرت حسن یا حضرت حسین سے ملتے پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک کو اپنے آگے اور دوسرے کو اپنے پیچھے سوار کرلیتے یہاں تک کہ ہم مدینہ منورہ میں داخل ہوجاتے۔

26901

(۲۶۹۰۲) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَن سُفْیَانَ الْعَطَّارِ ، قَالَ : رَأَیْتُ الشَّعْبِیَّ مُرْتَدِفًا خَلْفَ رَجُلٍ ، قَالَ : وَکَانَ یَقُولُ : صَاحِبُ الدَّابَّۃِ أَحَقُّ بِمُقَدَّمِہَا۔
(٢٦٩٠٢) حضرت سفیان بن عطار فرماتے ہیں کہ میں نے امام شعبی کو دیکھا کہ وہ سواری پر کسی آدمی کے پیچھے بیٹھے ہوتے تھے اور فرما رہے تھے کہ سواری کا مالک آگے بیٹھنے کا زیادہ حقدار ہے۔

26902

(۲۶۹۰۳) حَدَّثَنَا عَبْدُالْوَہَّابِ الثَّقَفِیُّ، عَن خَالِدٍ، عَن مُحَمَّدِ بْنِ سِیرِینَ، أَنَّہُ کَانَ یَکْرَہُ أَنْ یَرْکَبَ ثَلاَثَۃٌ عَلَی دَابَّۃٍ۔
(٢٦٩٠٣) حضرت خالد فرماتے ہیں کہ حضرت محمد بن سیرین ایک سواری پر تین آدمیوں کے سوار ہونے کو مکروہ سمجھتے تھے۔

26903

(۲۶۹۰۴) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنِ الأَجْلَحِ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ قَالَ : أَیُّمَا ثَلاَثَۃٍ رَکِبُوا عَلَی دَابَّۃٍ فَأَحَدُہُمْ مَلْعُونٌ۔
(٢٦٩٠٤) حضرت اجلح فرماتے ہیں کہ امام شعبی نے فرمایا کہ جو کوئی بھی تین آدمی ایک سواری پر سوار ہوئے تو ان میں سے ایک ملعون ہوگا۔

26904

(۲۶۹۰۵) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَن جِبْرِیلَ بْنِ أَحْمَرَ ، عَنِ ابْنِ بُرَیْدَۃَ قَالَ : رَآنِی أَبِی رِدْفَ ثَالِثٍ فَقَالَ : مَلْعُونٌ۔
(٢٦٩٠٥) حضرت ابن بریدہ فرماتے ہیں کہ میرے والد نے مجھے دیکھا کہ میں سوار کے پیچھے تیسرا سوار تھا تو آپ نے فرمایا : ملعون شخص۔

26905

(۲۶۹۰۶) حَدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ جَابِر ، عَنْ عَامِرٍ قَالَ : خَرَجْتُ إلَی الْحِیرَۃِ أَنْظُرُ إلَی الْفِیلِ ، فَرَأَیْت الْحَارِثَ الأَعْوَرَ رَاکِبًا وَخَلْفَہُ رِدْفٌ ، قَالَ : فَقَالَ : لَوْ صَلُحَ ثَلاَثَۃٌ حَمَلْنَاک۔
(٢٦٩٠٦) حضرت جابر فرماتے ہیں کہ حضرت عامر نے ارشاد فرمایا : کہ میں حیرہ مقام کی طرف نکلا تاکہ میں ہاتھی دیکھوں، پس میں نے حضرت حارث اعور کو سوار دیکھا اس حالت میں کہ ان کے پیچھے کوئی سوار تھا ۔ آپ نے فرمایا : اگر یہ سواری تیسرے کی صلاحیت رکھتی تو ہم آپ کو بھی سوار کرلیتے۔

26906

(۲۶۹۰۷) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ ، عَن حسن ، عَن مُہَاجِرِ بْنِ قُنْفُذٍ قَالَ : کُنَّا نَتَحَدَّثُ مَعَہُ إذْ مَرَّ ثَلاَثَۃٌ عَلَی حِمَارٍ ، فَقَالَ لِلآخِرِ مِنْہُمْ : انْزِلْ لَعَنَک اللَّہُ ، قَالَ : فَقِیلَ لَہُ : تَلْعَنُ ہَذَا الإِِنْسَان ؟ قَالَ : فَقَالَ : إنَّا قَدْ نُہِینَا عَن ہَذَا : أَنْ یَرْکَبَ الثَّلاَثَۃُ عَلَی الدَّابَّۃِ۔ (طبرانی ۷۸۲)
(٢٦٩٠٧) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ حضرت مہاجر بن قنفذ نے ارشاد فرمایا کہ ہم لوگ آپس میں گفتگو کر رہے تھے کہ اتنے میں ایک گدھے پر سوار تین لوگ گزرے۔ ان میں سے ایک نے دوسرے کو کہا : اتر جا اللہ تجھ پر لعنت کرے، اس لعنت کرنے والے کو کہا گیا کہ تو انسان کو لعنت کرتا ہے ؟ اس نے جواب دیا کہ ہمیں اس بات سے منع کیا گیا ہے کہ ایک جانور پر تین لوگ سوار ہوں۔

26907

(۲۶۹۰۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ أَبِی الْعَنْبَسِ ، عَن زَاذَانَ قَالَ : رَأَی ثَلاَثَۃً عَلَی بَغْلٍ فَقَالَ لِیَنْزِلْ أَحَدُکُمْ ، فَإِنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَعَنَ الثَّالِثَ۔ (ابوداؤد ۲۹۹)
(٢٦٩٠٨) حضرت ابو العنبس فرماتے ہیں کہ حضرت زاذان نے ایک خچر پر تین لوگوں کو سوار دیکھا آپ نے فرمایا : کہ چاہیے کہ تم میں سے ایک اتر جائے، اس لیے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تیسرے سوار پر لعنت فرمائی ہے۔

26908

(۲۶۹۰۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن بَشِیرِ بْنِ سَلْمَانَ ، عَن سَیَّارِ أَبِی الْحَکَمِ ، عَن طَارِقِ بْنِ شِہَابٍ قَالَ : کَانَ عَبْدُ اللہِ إذَا صَلَّی الْفَجْرَ لَمْ یَدَعْ أَحَدًا مِنْ أَہْلِہِ صَغِیرًا ، وَلاَ کَبِیرًا یُطرِق حَتَّی تَطْلُعَ الشَّمْسُ۔
(٢٦٩٠٩) حضرت طارق بن شھاب فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود جب فجر کی نماز پڑھ لیتے تو اپنے گھر میں کسی چھوٹے اور بڑے کو سونے کے لیے نہیں چھوڑتے تھے یہاں تک کہ سورج طلوع ہوجاتا۔

26909

(۲۶۹۱۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن فُضَیْلِ بْنِ غَزْوَانَ ، عَن مُہَاجِرِ بْنِ شَمَّاسٍ ، عَنْ عَمِّہِ قَالَ : کُنْتُ أَخْرُجُ إلَی جَبَّانَۃٍ مِنْ ہَذِہِ الْجَبَابِینِ أَنْصِبُ بِفَخٍّ لِی ، فَخَرَجْت ثَلاَثَ غَدَوَاتٍ أَرَی رَجُلاً بَعْدَ الْفَجْرِ جَالِسًا فِی مَکَان، قُلْتُ: یَا عَبْدَ اللہِ ، مَنْ أَنْتَ ؟ قَالَ : أَنَا حُذَیْفَۃُ بْنُ الْیَمَانِ ، قَالَ : قُلْتُ : أَیُّ شَیْئٍ تَصْنَعُ ہَاہُنَا ؟ قَالَ : أَنْظُرُ إلَی الشَّمْسِ مِنْ أَیْنَ تَطْلُعُ ؟۔
(٢٦٩١٠) حضرت مہاجر بن شماس کے چچا فرماتے ہیں کہ میں تین دن تک فجر کے بعد ایک بلند جگہ ایک آدمی کو بیٹھا دیکھتا رہا۔ میں نے اس سے پوچھا کہ اے اللہ کے بندے تم کون ہو ؟ انھوں نے کہا میں حذیفہ بن یمان ہوں۔ میں نے کہا کہ تم یہاں کیا کر رہے ہو ؟ انھوں نے کہا کہ مں دیکھ رہا ہوں کہ سورج کہاں سے طلوع ہوتا ہے ؟

26910

(۲۶۹۱۱) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ قَالَ: حدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ قَالَ: حَدَّثَنی قَیْسُ بْنُ أَبِی حَازِمٍ، عَن مُدْرِکِ بْنِ عَوْفٍ قَالَ: مَرَرْت عَلَی بِلاَلٍ وَہُوَ بِالشَّامِ جَالِسٌ غُدْوَۃً، فَقُلْت: مَا یُجلسک یَا أَبَا عَبْدِ اللہِ، قَالَ: أَنْتَظِرُ طُلُوعَ الشَّمْسِ۔
(٢٦٩١١) حضرت مدرک بن عوف فرماتے ہیں کہ میرا گزر حضرت بلال پر ہوا اس حال میں کہ وہ شام میں تھے اور صبح کے وقت بیٹھے ہوئے تھے۔ میں نے پوچھا : اے ابو عبداللہ ! کس چیز نے آپ کو یہاں بٹھایا ہوا ہے ؟ آپ نے فرمایا : میں سورج کے طلوع ہونے کا انتظار کررہا ہوں۔

26911

(۲۶۹۱۲) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِ ، عَن سِمَاکٍ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَۃَ ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ إذَا صَلَّی الْفَجْرَ جَلَسَ فِی مُصَلاَّہُ حَتَّی تَطْلُعَ الشَّمْسُ۔
(٢٦٩١٢) حضرت جابر بن سمرہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب فجر کی نماز پڑھ لیتے تو اپنی جگہ پر بیٹھے رہتے یہاں تک کہ سورج طلوع ہوجاتا ۔

26912

(۲۶۹۱۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن سَلَمَۃَ ، عَنِ الضَّحَّاکِ قَالَ : عَجَبًا لأَصْحَابِ عَبْدِ اللہِ ، إنَّہُمْ یَنْظُرُونَ إلَی الشَّمْسِ مِنْ حَیْثُ تَطْلُعُ ، أَوَلاَ یَعْلَمُونَ أَنَّ الْفَجْرَ إذَا طَلَعَ مِنْ مَوْضِعٍ طَلَعَتْ مِنْہُ الشَّمْسُ۔
(٢٦٩١٣) حضرت سلمہ فرماتے ہیں کہ حضرت ضحاک نے ارشاد فرمایا : کہ حضرت عبداللہ کے اصحاب پر تعجب ہے ! کہ وہ سورج کی طرف غور سے دیکھتے ہیں جب وہ طلوع ہوتا ہے۔ کیا انھیں معلوم نہیں کہ صبح جس جگہ سے طلوع ہوتی ہے اسی جگہ سے سورج بھی طلوع ہوتا ہے۔

26913

(۲۶۹۱۴) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، عَنْ أَبِی بِشْرٍ ، عَن جُنْدُبِ بْنِ عَبْدِ اللہِ الْبَجَلِیِّ ، ثُمَّ الْقَسْرِیِّ قَالَ : اسْتَأْذَنْت عَلَی حُذَیْفَۃَ ثَلاَثَ مَرَّاتٍ فَلَمْ یُؤْذَنْ لِی فَرَجَعْت : فَإِذَا رَسُولُہُ قَدْ لَحِقَنِی فَقَالَ : مَا رَدَّک ؟ قُلْتُ : ظَنَنْت أَنَّک نَائِمٌ ؟ قَالَ : مَا کُنْت لأَنَامَ حَتَّی أَنْظُرَ مِنْ أَیْنَ تَطْلُعُ الشَّمْسُ قَالَ : فَحَدَّثْتُ بِہِ مُحَمَّدًا فَقَالَ : قَدْ فَعَلَہُ غَیْرُ وَاحِدٍ مِنْ أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔
(٢٦٩١٤) حضرت جندب بن عبداللہ بجلی قسری فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت حذیفہ سے تین مرتبہ اجازت چاہی، انھوں نے اجازت نہیں دی تو میں واپس لوٹ گیا، اتنے میں آپ کا قاصد مجھے ملا۔ اس نے پوچھا : کہ کس چیز نے آپ کو واپس لوٹا دیا ؟ میں نے عرض کیا : کہ میں سمجھا کہ آپ سو رہے ہیں۔ آپ نے فرمایا : میں سوتا نہیں ہوں یہاں تک کہ میں دیکھ لوں کہ سورج کہاں سے طلوع ہوتا ہے۔ راوی کہتے ہیں۔ میں نے یہ حدیث امام محمد سے بیان کی۔ تو آپ نے فرمایا : کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بہت سے صحابہ نے یہ عمل کیا ہے۔

26914

(۲۶۹۱۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن سُفْیَانَ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ أَبِی جَعْفَرٍ قَالَ : لاَ تَبِتْ فِی بَیْتٍ وَحْدَک ، فَإِنَّ الشَّیْطَانَ أَشَدُّ مَا یَکُونُ وَلَعًا۔
(٢٦٩١٥) حضرت جابر فرماتے ہیں کہ حضرت ابو جعفر نے ارشاد فرمایا : کہ تم گھر میں تنہا رات مت گزارو۔ اس لیے کہ شیطان سب سے زیادہ انسان کو اس وقت اکساتا ہے جب وہ اکیلا رات گزارتا ہے۔

26915

(۲۶۹۱۶) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَطَائٍ قَالَ : نَہَی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ یُسَافِرَ الرَّجُلُ وَحْدَہُ ، أَوْ یَبِیتَ فِی بَیْتٍ وَحْدَہُ۔ (ابوداؤد ۳۱۱۔ احمد ۹۱)
(٢٦٩١٦) حضرت عطائ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آدمی کو تنہا سفر کرنے سے یا تنہا رات گزارنے سے منع فرمایا۔

26916

(۲۶۹۱۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ عَاصِمِ بن مُحَمَّد ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لَوْ یَعْلَمُ أَحَدُکُمْ مَا فِی الْوَحْدَۃِ مَا سَارَ أَحَدُکُمْ بِاللَّیْلِ۔ (بخاری ۲۹۹۸۔ ترمذی ۱۶۷۳)
(٢٦٩١٧) حضرت ابن عمر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اگر تم میں کوئی جان لیتا جو تنہائی میں نقصان ہے تو تم میں کوئی رات میں سفر نہ کرتا۔

26917

(۲۶۹۱۸) حَدَّثَنَا ابْنُ مَہْدِیٍّ ، عَن سُفْیَانَ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَن مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ یَزِیدَ قَالَ : کَانَ أَبِی لاَ یَأْتَمِن عَلَی حَدِیثِہِ أَہْلَہُ ، کَانَ یَخْلُو ہُوَ وَأَصْحَابُہُ فِی غُرْفَۃٍ یَتَحَدَّثُونَ۔
(٢٦٩١٨) حضرت محمد بن عبداللہ بن یزید فرماتے ہیں کہ میرے والد اپنی باتوں کے سلسلہ میں گھر والوں پر اعتماد نہیں کرتے تھے۔ اور وہ اور ان کے دوست کمرے میں تنہا بیٹھ کر باتیں کرتے تھے۔

26918

(۲۶۹۱۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن سُفْیَانَ ، عَن سَلَمَۃَ ، عَن عِیسَی بْنِ عَاصِمٍ ، عَن زِرٍّ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : الطِّیَرَۃُ شِرْکٌ ، الطِّیَرَۃُ شِرْکٌ ، وَمَا مِنَّا إلاَّ ، وَلَکِنَّ اللَّہَ یُذْہِبُہُ بِالتَّوَکُّلِ۔ (ابوداؤد ۳۹۰۵۔ ابن ماجہ ۳۵۳۸)
(٢٦٩١٩) حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : بدفالی شرک ہے۔ بدفالی شرک ہے۔ اور ہم میں سے ہر ایک کو کوئی نہ کوئی حادثہ پیش آ ہی جاتا ہے۔ لیکن اللہ توکل کرنے کی وجہ سے اس کو رفع فرما دیتے ہیں۔

26919

(۲۶۹۲۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن سُفْیَانَ ، عَن حَبِیبِ بْنِ أَبِی ثَابِتٍ ، عَن عُرْوَۃَ بْنِ عَامِرٍ قَالَ : سُئِلَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنِ الطِّیَرَۃِ فَقَالَ : أَحْسَنُہَا الْفَأْلُ ، وَلاَ تَرُدَّ مُسْلِمًا ، فَإِذَا رَأَی أَحَدُکُمْ مِنْ ذَلِکَ مَا یَکْرَہُ فَلْیَقُلْ : اللَّہُمَّ لاَ یَأْتِی بِالْحَسَنَاتِ ، وَلاَ یَدْفَعُ السَّیِّئَاتِ إلاَّ أَنْتَ ، وَلاَ حَوْلَ وَلاَ قُوَّۃَ إلاَّ بِک۔ (ابوداؤد ۳۹۱۴۔ بیہقی ۱۳۹)
(٢٦٩٢٠) حضرت عروہ بن عامر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بدفالی کے متعلق پوچھا گیا ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اس میں اچھی تو نیک فال ہے اور یہ مسلمان سے کوئی چیز نہیں ہٹا سکتی اور جب تم میں کوئی ایسی بات دیکھے جس کو وہ ناپسند کرتا ہو تو اس کو چاہیے کہ وہ یہ دعا پڑھ لے۔ ترجمہ : اے اللہ ! تیرے سوا کوئی بھی اچھائی کو پہنچا نہیں سکتا اور نہ کوئی برائی کو دور کرسکتا ہے۔ اور گناہوں سے بچنے کی طاقت اور نیکی کرنے کی قوت صرف ترای مدد سے ہے۔

26920

(۲۶۹۲۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ أَبِی جُنَابٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لاَ عَدْوَی ، وَلاَ طِیَرَۃَ ، وَلاَ ہَامَۃَ ، فَقَامَ إلَیْہِ رَجُلٌ فَقَالَ : یَا رَسُولَ اللہِ ، الْبَعِیرُ یَکُونُ بِہِ الْجَرَبُ فَتُجْرَبُ بِہِ الإِبِلُ ؟ قَالَ : ذَلِکَ الْقَدَرُ ، فَمَنْ أَجْرَبَ الأَوَّلَ ؟۔ (بخاری ۵۷۱۷۔ مسلم ۱۷۴۲)
(٢٦٩٢١) حضرت ابن عمر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : چھوت کی کوئی حقیقت نہیں، بدفالی کی کوئی حقیقت نہیں، اور ہامہ کی کوئی حقیقت نہیں۔ ایک بدوی شخص کھڑا ہوا اور کہنے لگا۔ اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! کسی ایک اونٹ کو خارش لگی ہو تو وہ تمام اونٹوں کو خارش لگا دیتا ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : یہ بھی تقدیر ہے ورنہ پہلے کو کس نے خارش لگائی ؟

26921

(۲۶۹۲۲) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِ ، عَن سِمَاکٍ ، عَن عِکْرِمَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لاَ عَدْوَی لاَ طِیَرَۃَ ، وَلاَ ہَامَۃَ وَلاَ صَفَرَ۔ (احمد ۲۲۹)
(٢٦٩٢٢) حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : چھوت کی کوئی حقیقت نہیں، بدفالی کی کوئی حقیقت نہیں، اور ہامہ کی کوئی حقیقت نہیں اور صفر کی کوئی حقیقت نہیں۔

26922

(۲۶۹۲۳) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنِ الْجُرَیرِیِّ ، عَنِ الْمُضَارِبِ بْنِ حَزْنٍ قَالَ : قُلْتُ لأَبِی ہُرَیْرَۃَ : أَسَمِعْت مِنْ نَبِیِّکَ شَیْئًا فَحَدِّثْنِیہِ ، قَالَ : نَعَمْ ، قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لاَ عَدْوَی ، وَلاَ طِیَرَۃَ ، وَلاَ ہَامَۃَ ، وَخَیْرُ الطِّیَرَۃِ الْفَأْلُ ، وَالْعَیْنُ حَقٌّ۔ (بخاری ۵۷۴۰۔ احمد ۲/۴۸۷)
(٢٦٩٢٣) حضرت مضارب بن حزن فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوہریرہ کی خدمت میں عرض کی : آپ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کوئی حدیث سنی ہے تو بیان کیجئے۔ آپ نے فرمایا : جی ہاں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : چھوت کی کوئی حقیقت نہیں ، بدفالی کی کوئی حقیقت نہیں، ہامہ کی کوئی حقیقت نہیں اور بہترین فال تو نیک شگونی ہے اور نظر لگنا برحق ہے۔

26923

(۲۶۹۲۴) حَدَّثَنَا عَلِی بْنُ مُسْہِرٍ ، عَن مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو ، عَنْ أَبِی سَلَمَۃَ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ : کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُحِبُّ الْفَأْلَ الْحَسَنَ وَیَکْرَہُ الطِّیَرَۃَ۔ (ابن ماجہ ۳۵۳۶۔ ابن حبان ۶۱۲۱)
(٢٦٩٢٤) حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نیک فال کو پسند کرتے تھے۔ اور بدفالی کو ناپسند کرتے تھے۔

26924

(۲۶۹۲۵) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ قَالَ : أَخْبَرَنَا شُعْبَۃُ ، عَن قَتَادَۃَ ، عَنْ أَنَسٍ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لاَ عَدْوَی ، وَلاَ طِیَرَۃَ ، وَأُحِبُّ الْفَأْلَ الصَّالِحَ۔ (بخاری ۵۷۵۶۔ ابن ماجہ ۳۵۳۷)
(٢٦٩٢٥) حضرت قتادہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : چھوت کی کوئی حقیقت نہیں، بدفالی کی کوئی حقیقت نہیں اور میں نیک فال کو پسند کرتا ہوں۔

26925

(۲۶۹۲۶) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللہِ : لاَ تَضُر الطِّیَرَۃُ إلاَّ مَنْ تَطَیَّرَ۔
(٢٦٩٢٦) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود نے ارشاد فرمایا : بدفالی نقصان نہیں پہنچاتی مگر اس شخص کو جو بدفالی مراد لیتا ہے۔

26926

(۲۶۹۲۷) حَدَّثَنَا کَثِیرُ بْنُ ہِشَامٍ قَالَ : حدَّثَنَا الْفُرَاتُ بْنُ سُلَیمَانَ ، عَنْ عَبْدِ الْکَرِیمِ ، عَن زِیَادِ بْنِ أَبِی مَرْیَمَ قَالَ : خَرَجَ سَعْدُ بْنُ أَبِی وَقَّاصٍ فِی سَفَرٍ ، قَالَ : فَأَقْبَلَتِ الظِّبَائُ نَحْوَہُ حَتَّی إذَا دَنَتْ مِنْہُ رَجَعَتْ ، فَقَالَ لَہُ رَجُلٌ : أَیُّہَا الأَمِیرُ ، ارْجِعْ ، فَقَالَ لَہُ : سَعْدٌ : أَخْبِرْنِی مِنْ أَیُّہَا تَطَیَّرْت ؟ أَمِنْ قُرُونِہَا حِینَ أَقْبَلَتْ أَمْ مِنْ أَدْبَارِہَا حِینَ أَدْبَرَتْ ؟ ، ثُمَّ قَالَ سَعْدٌ عِنْدَ ذَلِکَ : إنَّ الطِّیَرَۃَ لَشُعْبَۃٌ مِنَ الشِّرْکِ۔
(٢٦٩٢٧) حضرت زیاد بن ابی مریم فرماتے ہیں کہ حضرت سعد بن ابی وقاص کسی سفر میں تشریف لے گئے۔ پس ایک ہرن آپ کی طرف آئی یہاں تک کہ جب وہ آپ کے قریب ہوئی تو واپس لوٹ گئی۔ اس پر کسی شخص نے آپ سے کہا : اے امیر آپ واپس لوٹ جائیں۔ حضرت سعد نے اس سے فرمایا : مجھے بتلاؤ تم نے کس چیز سے بدشگونی لی ؟ کیا اس کے آنے سے جب وہ میری طرف آئی ؟ یا اس کے پلٹ جانے سے کہ جب وہ پلٹ کر چلی گئی ؟ پھر اس وقت حضرت سعد نے یہ بھی ارشاد فرمایا : یقیناً بدفالی شرک کی شاخ ہے۔

26927

(۲۶۹۲۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن سُفْیَانَ ، عَن مَرْزُوقِ أبی بُکَیْر التَّیْمِیِّ ، عَن عِکْرِمَۃَ ، أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ لُزِقَ بِمَجْذُومٍ فَقُلْت لَہُ : تَلْزَقُ بِمَجْذُومٍ ؟ قَالَ : فَأَمْضِ ، وَقَالَ : لَعَلَّہُ خَیْرٌ مِنِّی وَمِنْک۔
(٢٦٩٢٨) حضرت عکرمہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عباس جذام میں مبتلا شخص سے چمٹ گئے۔ میں نے ان سے پوچھا : کہ آپ جذام میں مبتلا شخص سے چمٹ گئے ؟ آپ نے فرمایا : جانے دو ہوسکتا ہے وہ مجھ سے اور تم سے بہتر ہو۔

26928

(۲۶۹۲۹) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَن عُبَیْدِ اللہِ بْنِ أَبِی یَزِیدَ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَن سِبَاعِ بْنِ ثَابِتٍ ، عَن أُمِّ کُرْزٍ قَالَتْ قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : أَقِرُّوا الطَّیْرَ عَلَی مَکِنَاتِہَا۔ (ابوداؤد ۸۲۸۔ طیالسی ۱۶۳۴)
(٢٦٩٢٩) حضرت ام کرز فرماتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : بدفالی کو اپنی جگہ برقرار رکھو۔ (وہ نفع و نقصان نہیں پہنچاتی) ۔

26929

(۲۶۹۳۰) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، عَن سُلَیْمَانَ بْنِ الْقَاسِمِ ، عَن أُمِّہِ قَالَ : سَأَلَتْ أُمُّ سَعِیدٍ سُرِّیَّۃَ عَلِیٍّ : ہَلْ کَانَ الْحَسَنُ وَالْحُسَیْنُ یَتَطَیَّرَانِ ؟ قَالَتْ : کَانَا یَحُسَّانِ وَیَمْضِیَانِ۔
(٢٦٩٣٠) حضرت سلیمان بن قاسم کی والدہ فرماتی ہیں کہ میں نے حضرت ام سعید جو کہ حضرت علی کی خادمہ ہیں ان سے سوال کیا کہ کیا حضرت حسن اور حضر تحسین یہ دونوں حضرات بد شگونی لیتے تھے ؟ آپ نے فرمایا : وہ دونوں حضرات اس کو محسوس کرتے تھے اور پھر بھی اپنا کام جاری رکھتے تھے۔

26930

(۲۶۹۳۱) حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ عَوْفٍ ، عَن حَیَّانَ ، عَن قَطَنِ بْنِ قَبِیصَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : الْعِیَافَۃُ وَالطِّیَرَۃُ وَالطَّرْقُ مِنَ الْجِبْتِ۔ (ابوداؤد ۳۹۰۲۔ احمد ۳/۴۷۷)
(٢٦٩٣١) حضرت قبیصہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : پرندوں کی آوازوں سے شگون لینا، بدفالی اور پیشین گوئی کے لیے کنکریاں پھینکنا شیطان کا طریقہ ہے۔

26931

(۲۶۹۳۲) حَدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ عُمَیْرٍ ، عَن رَجَائِ بْنِ حَیْوَۃَ ، عَنْ أَبِی الدَّرْدَائِ قَالَ : ثَلاَثٌ مَنْ کُنَّ فِیہِ ، فَہُوَ مُنَافِقٌ : مَنْ تَکَہَّنَ ، أَوِ اسْتَقْسَمَ ، أَوْ رَجَعَتْہُ طِیَرَۃٌ مِنْ سَفَرٍ۔
(٢٦٩٣٢) حضرت رجاء بن حیوہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابو الدردائ نے ارشاد فرمایا : تین خصلتیں جس شخص میں بھی پائی جائیں تو وہ منافق ہوگا : جو کاہنوں جیسی بات کرے یا جوئے کے تیروں کے ذریعہ تقسیم چاہے یا بدفالی لیتے ہوئے سفر سے لوٹ آئے۔

26932

(۲۶۹۳۳) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ الْجَعْدِ ، عَن یَزِیدَ بْنِ إِبْرَاہِیمَ ، عَن أَبِی الزُّبَیْرِ ، عَنْ جَابِرٍ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لاَ غَولَ ، وَلاَ صَفَرَ۔ (مسلم ۱۷۴۵۔ احمد ۳/۲۹۳)
(٢٦٩٣٣) حضرت جابر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : غول (جنوں کا شکل بدل کر راستہ سے گمراہ کردینا) کی کوئی حقیقت نہیں اور صفر کی کوئی حقیقت نہیں۔

26933

(۲۶۹۳۴) حَدَّثَنَا شَرِیکٌ وَہُشَیْمٌ ، عَن یَعْلَی بْنِ عَطَائٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الشَّرِیدِ ، عَنْ أَبِیہِ قَالَ : کَانَ فِی وَفْدِ ثَقِیفٍ رَجُلٌ مَجْذُومٌ ، فَأَرْسَلَ إلَیْہِ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إنَّا قَدْ بَایَعْناک فَارْجِعْ۔
(٢٦٩٣٤) حضرت شرید فرماتے ہیں کہ قبیلہ ثقیف کے وفد میں کوئی شخص جذام میں مبتلا تھا۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کی طرف قاصد بھیج کر پیغام بھجوایا کہ ہم نے تجھ سے بیعت لے لی، تم واپس لوٹ جاؤ۔

26934

(۲۶۹۳۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ سَعِیدٍ ، عَن مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو بْنِ عُثْمَانَ ، عَنْ أَمَۃِ فَاطِمَۃَ بِنْتِ حُسَیْنٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: لاَ تُدِیمُوا النَّظَرَ إلَی الْمَجْذُومِینَ۔
(٢٦٩٣٥) حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : تم لوگ کوڑھ میں مبتلا لوگوں کو مسلسل مت دیکھو۔

26935

(۲۶۹۳۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ النَّہَّاسِ بْنِ قَہْمٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ شَیْخًا بِمَکَّۃَ یُحَدِّثُ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : فِرَّ مِنَ الْمَجْذُومِ فِرَارَک مِنَ الأَسَدِ۔
(٢٦٩٣٦) حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جذام زدہ شخص سے ایسے بھاگو جیسے شیر سے بھاگتے ہو۔

26936

(۲۶۹۳۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ بْنِ مُسْلِمٍ ، عَنِ الْوَلِیدِ بْنِ عَبْدِ اللہِ ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَرَّ عَلَی مَجْذُومٍ فَخَمَّرَ أَنْفَہُ فَقِیلَ لَہُ : یَا رَسُولَ اللہِ ، أَلَیْسَ قُلْتَ : لاَ عَدْوَی ، وَلاَ طِیَرَۃَ ؟ قَالَ : بَلَی۔
(٢٦٩٣٧) حضرت ولید بن عبداللہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جذام زدہ شخص پر گزرے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی ناک کو ڈھانک لیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا گیا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! کیا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نہیں فرمایا تھا : چھوت کی کوئی حقیقت نہیں ، بدفالی کی کوئی حقیقت نہیں ؟ ! آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کیوں نہیں۔

26937

(۲۶۹۳۸) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَن مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو ، عَنْ أَبِی سَلَمَۃَ ، عَنْ أبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لاَ یُورِدُ الْمُمْرِضَ عَلَی الْمُصِحِّ۔ (مسلم ۱۰۴۔ ابن ماجہ ۳۵۴۱)
(٢٦٩٣٨) حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : بیمار کو تندرست کے پاس مت لاؤ۔

26938

(۲۶۹۳۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن أُسَامَۃَ بْنِ زَیْدٍ ، عَن نَافِعِ بْنِ جُبَیْرٍ قَالَ : قَالَ کَعْبٌ لِعَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو : ہَلْ تَطَیَّرُ ؟ قَالَ : نَعَمْ ، قَالَ : فَمَا تَقُولُ ؟ قَالَ : أَقُولُ اللَّہُمَّ لاَ طَیْرَ إلاَّ طَیْرُک ، وَلاَ خَیْرَ إلاَّ خَیْرُک ، وَلاَ رَبَّ لَنَا غَیْرَک قَالَ : أَنْتَ أَفْقَہُ الْعَرَبِ۔
(٢٦٩٣٩) حضرت نافع بن جبیر فرماتے ہیں کہ حضرت کعب نے حضرت عبداللہ بن عمرو سے پوچھا : کیا بدشگونی ہوتی ہے ؟ آپ نے فرمایا : جی ہاں ! انھوں نے پوچھا : پھر آپ کیا دعا پڑھتے ہو ؟ آپ نے فرمایا میں یہ دعا کرتا ہوں۔ ترجمہ : اے اللہ ! کوئی بدفالی نہیں سوائے تیری بدفالی کے ۔ اور کوئی خیر نہیں سوائے تیری خیر کے۔ اور تیرے سوا ہمارا کوئی پروردگار نہیں۔ حضرت کعب نے فرمایا : تم عرب کے سب سے بڑے فقیہ ہو۔

26939

(۲۶۹۴۰) حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ بْنُ سَوَائٍ ، عَن خَالِدِ الْحَذَّائِ ، عَنْ أَبِی قِلاَبَۃَ ، أَنَّہُ کَانَ یُعْجِبُہُ أَنْ یُتَّقَی الْمَجْذُومُ۔
(٢٦٩٤٠) حضرت خالد حذاء فرماتے ہیں کہ حضرت ابو قلابہ پسند کرتے تھے کہ جذام زدہ شخص سے بچا جائے۔

26940

(۲۶۹۴۱) حَدَّثَنَا غَسَّانُ بْنُ مُضَرَ ، عَن سَعِیدِ بْنِ یَزِیدَ ، عَن عِکْرِمَۃَ قَالَ : مَا لَکُمْ لاَ تَسْأَلُونَنَا أَفْلَسْتُمْ ؟۔
(٢٦٩٤١) حضرت سعید بن یزید فرماتے ہیں کہ حضرت عکرمہ نے ارشاد فرمایا : تمہیں کیا ہوا کہ تم سوال نہیں کرتے ؟ کیا تم طالب علم نہیں ہو ؟

26941

(۲۶۹۴۲) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَن مِسْعَرٍ ، عَن سَعْدِ بْنِ إبْرَاہِیمَ قَالَ : قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ : مَا سَأَلَنِی رَجُلٌ عَن مَسْأَلَۃٍ إلاَّ عَرَفْت ، فَقِیہٌ ہُوَ ، أَوْ غَیْرُ فَقِیہٍ۔
(٢٦٩٤٢) حضرت سعد بن ابراہیم فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عباس نے ارشاد فرمایا : مجھ سے کسی بھی شخص نے سوال نہیں کیا مگر میں نے پہچان لیا کہ وہ فقیہ ہے یا غیر فقیہ۔

26942

(۲۶۹۴۳) حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ سَعْدٍ ، عَن سُفْیَانَ ، عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ ، عَن سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ قَالَ : مَا أَحَدٌ یَسْأَلُنِی؟۔
(٢٦٩٤٣) حضرت عطاء بن سائب فرماتے ہیں کہ حضرت سعید بن جبیر نے ارشاد فرمایا : کوئی مجھ سے پوچھنے والا نہیں ؟

26943

(۲۶۹۴۴) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ عَمْرٍو قَالَ : قَالَ لَنَا عُرْوَۃُ : ائْتُونِی فَتَلَقَّوْا مِنِّی۔
(٢٦٩٤٤) حضرت عمرو فرماتے ہیں کہ حضرت عروہ نے ہمیں ارشاد فرمایا : میرے پاس آؤ اور مجھ سے علم حاصل کرو۔

26944

(۲۶۹۴۵) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ قَالَ : کَانَ عُرْوَۃُ یَتَأَلَّفُ النَّاسَ عَلَی حَدِیثِہِ۔
(٢٦٩٤٥) امام زہری فرماتے ہیں کہ حضرت عروہ لوگوں کو اپنی باتوں سے مانوس کرتے تھے۔

26945

(۲۶۹۴۶) حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ سَعْدٍ ، عَن سُفْیَانَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ السَّائِبِ ، عَن زَاذَانَ قَالَ : سَأَلْتُ ابْنَ مَسْعُودٍ عَنْ أَشْیَائَ مَا أَحَدٌ یَسْأَلُنِی عنہا۔
(٢٦٩٤٦) حضرت عبداللہ بن سائب فرماتے ہیں کہ حضرت زاذان نے ارشاد فرمایا : کہ میں نے حضرت ابن مسعود سے چند اشیاء کے بارے میں پوچھا کہ کسی نے مجھ سے ان کے متعلق سوال نہیں کیا۔

26946

(۲۶۹۴۷) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِ ، عَن سِمَاکٍ ، عَن خَالِدِ بن عَرْعَرَۃ ، قَالَ : أَتَیْتُ الرَّحْبَۃَ فَإِذَا أَنَا بِنَفَرٍ جُلُوسٍ قَرِیبًا مِنْ ثَلاَثِینَ ، أَوْ أَرْبَعِینَ رَجُلاً فَقَعَدْتُ مَعَہُمْ ، فَخَرَجَ عَلَیْنَا عَلِیٌّ ، فَمَا رَأَیْتہ أَنْکَرَ أَحَدًا مِنَ الْقَوْمِ غَیْرِی فَقَالَ : أَلاَ رَجُلٌ یَسْأَلُنِی فَیَنْتَفِعُ وَیَنْتَفِعُ جُلَسَاؤُہُ۔
(٢٦٩٤٧) حضرت خالد بن عرعرہ فرماتے ہیں کہ میں کسی کشادہ میدان میں گیا تو میں نے وہاں تیس یا چالیس کے قریب آدمیوں کو بیٹھا ہوا پایا ، تو میں بھی ان کے ساتھ بیٹھ گیا۔ اتنے میں حضرت علی ہمارے پاس تشریف لائے ۔ راوی کہتے ہیں کہ میں نے نہیں دیکھا کہ انھوں نے لوگوں میں سے کسی کو میرے سوا نہ پہچانا ہو۔ پھر آپ نے فرمایا : کیا کوئی ایسا شخص نہیں جو مجھ سے سوال کر کے فائدہ اٹھائے اور اس کے ہمنشین بھی فائدہ اٹھائیں۔

26947

(۲۶۹۴۸) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَن یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ قَالَ : نُرَاہ عَن سَعید بن المُسَیّب لَمْ یَکُنْ أَحَدٌ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ سَلُونِی إلاَّ عَلِیُّ بْنُ أَبِی طَالِبٍ۔
(٢٦٩٤٨) حضرت سعید بن المسیب فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ میں حضرت علی بن ابی طالب کے سوا کوئی بھی نہیں تھا، جو یوں کہتا ہو کہ مجھ سے سوال کرو۔

26948

(۲۶۹۴۹) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَن مُجَالِدٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنْ جَابِرٍ ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ أَتَی النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِکِتَابٍ أَصَابَہُ مِنْ بَعْضِ الْکُتُبِ ، فَقَالَ : یَا رَسُولَ اللہِ ، إنِّی أَصَبْتُ کِتَابًا حَسَنًا مِنْ بَعْضِ أَہْلِ الْکِتَابِ ، قَالَ : فَغَضِبَ ، وَقَالَ : أَمُتَہَوِّکُونَ فِیہَا یَا ابْنَ الْخَطَّابِ ، وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ ، لَقَدْ جِئْتُکُمْ بِہَا بَیْضَائَ نَقِیَّۃً ، لاَ تَسْأَلُوہُمْ عَن شَیْئٍ فَیُخْبِرُوکُمْ بِحَقٍّ فَتُکَذِّبُوا بِہِ ، أَوْ بِبَاطِلٍ فَتُصَدِّقُوا بِہِ ، وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ ، لَوْ کَانَ مُوسَی کان حَیًّا الیَوم مَا وَسِعَہُ إلاَّ أَنْ یَتَّبِعَنی۔
(٢٦٩٤٩) حضرت جابر فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس اہل کتاب کی کتاب کا کوئی صفحہ لائے اور فرمایا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! مجھے اہل کتاب کی ایک بہت اچھی کتاب ملی ہے۔ راوی کہتے ہیں : آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غضبناک ہوگئے اور فرمایا : اے ابن خطاب ! کیا تم اس بارے میں ابھی حیرت زدہ ہو ؟ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے کہ تحقیق میں تمہارے پاس واضح اور روشن دین لے کر آیا ہوں۔ تم اہل کتاب سے کسی بھی چیز کے متعلق سوال مت کرو کہ وہ تمہیں حق بات بتلائیں گے اور تم اس کو جھٹلا دو گے، یا وہ تمہیں باطل بات بتلائیں گے اور تم اس کی تصدیق کردو گے، قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے۔ اگر آج حضرت موسیٰ بھی زندہ ہوتے تو ان کے لیے میری اتباع کے سوا کوئی چارہ نہ ہوتا۔

26949

(۲۶۹۵۰) حَدَّثَنَا ابْنُ مَہْدِیٍّ، عَن سُفْیَانَ، عَن سَعْدِ بْنِ إِبْرَاہِیمَ، عَن عَطَائِ بْنِ یَسَارٍ قَالَ: کَانَتِ الْیَہُودُ تَجِیئُ إلَی الْمُسْلِمِینَ فَیُحَدِّثُونَہُمْ فَیَسْتَحْسِنُونَ، أَوْ قَالَ: یَسْتَحِبُّونَ، فَذَکَرُوا ذَلِکَ لِرَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ : لاَ تُصَدِّقُوہُمْ ، وَلاَ تُکَذِّبُوہُمْ قُولُوا : {آمَنَّا بِاَللَّہِ وَمَا أُنْزِلَ إلَیْنَا وَمَا أُنْزِلَ إلَیْکُمْ} إلَی آخِرِ الآیَۃِ۔
(٢٦٩٥٠) حضرت عطاء بن یسار فرماتے ہیں کہ یہودی مسلمانوں کے پاس آتے تھے اور ان کو اپنی کتابوں سے باتیں بتلایا کرتے جو مسلمانوں کو اچھی لگتی تھیں۔ پس صحابہ نے یہ بات رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے ذکر فرمائی۔ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : تم نہ ان کی تصدیق کرو اور نہ ہی ان کو جھٹلاؤ۔ تم یوں کہہ دیا کرو۔ ہم ایمان لائے اللہ پر ، اور اس چیز پر جو اس نے ہماری طرف نازل کی اور اس چیز پر جو اس نے تمہاری طرف نازل کی۔ آیت کے آخر تک۔

26950

(۲۶۹۵۱) حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ وَرْدَانَ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَن عِکْرِمَۃَ قَالَ : قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ : تَسْأَلُونَ أَہْلَ الْکِتَابِ عَن کُتُبِہِمْ وَعَندَکُمْ کِتَابُ اللہِ أَقْرَبُ الْکُتُبِ عَہْدًا بِاللَّہِ تَقْرَؤُونَہُ مَحْضًا لَمْ یَشُبْ۔ (بخاری ۲۶۸۵)
(٢٦٩٥١) حضرت عکرمہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عباس نے ارشاد فرمایا : تم لوگ اہل کتاب سے ان کی کتابوں کے متعلق پوچھتے ہو حالانکہ تمہارے پاس خود کتاب اللہ موجود ہے ، جو تمام کتابوں میں اللہ کے عہد کے زیادہ قریب ہے، تم محض اس لیے قرآن پڑھتے ہو کہ دھوکا نہ دے دیا جائے۔

26951

(۲۶۹۵۲) حَدَّثَنَا یَعْلَی قَالَ : حدَّثَنَا الأَعْمَشُ ، عَن عُمَارَۃَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ یَزِیدَ قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللہِ : لاَ تَسْأَلُوا أَہْلَ الْکِتَابِ عَن شَیْئٍ فَتُکَذِّبُوا بِحَقٍّ ، أَوْ تُصَدِّقُوا بِبَاطِلٍ ، فَإِنَّہُمْ لَنْ یَہْدُوکُمْ وَیَضِلُّونَ أَنْفُسَہُمْ ، وَلَیْسَ أَحَدٌ مِنْہُمْ إلاَّ فِی قَلْبِہِ تَالِیَۃٌ تَدْعُوہُ إلَی دَیْنِہِ کَتَالِیَۃِ الْمَالِ۔
(٢٦٩٥٢) حضرت عبد الرحمن بن یزید فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود نے ارشاد فرمایا : تم اہل کتاب سے کسی بھی چیز کے متعلق مت پوچھا کرو کہ تم حق بات کو جھٹلا دو گے یا غلط بات کی تصدیق کردو گے۔ بیشک وہ تمہیں ہرگز سیدھی راہ نہیں دکھائیں گے۔ انھوں نے تو خود کو غلط راہ پر ڈالا ہوا ہے۔ ان میں سے ہر ایک کے دل میں خواہش ہے جو اسے اس کے دین کی طرف بلاتی ہے مال کی خواہش کی طرح۔

26952

(۲۶۹۵۴) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَنِ الرَّبِیعِ بْنِ سَعْدٍ قَالَ : رَأَیْتُ جَابِرًا یَکْتُبُ عِنْدَ ابْنِ سَابِطٍ فِی أَلْوَاحٍ۔
(٢٦٩٥٣) حضرت ربیع بن سعد فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت جابر کو دیکھا کہ وہ حضرت ابن سابط کے پاس تختیوں میں لکھ رہے تھے۔

26953

(۲۶۹۵۴) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ حَرْمَلَۃَ قَالَ : کُنْتُ سَیِّئَ الْحِفْظِ ، فَرَخَّصَ لِی سَعِیدُ بْنُ الْمُسَیَّبِ فِی الْکِتَابِ۔
(٢٦٩٥٤) حضرت یحییٰ بن سعید فرماتے ہیں کہ حضرت عبد الرحمن بن حرملہ نے ارشاد فرمایا کہ میں کمزور حافظہ کا مالک تھا۔ تو حضرت سعید بن مسیب نے مجھے لکھنے کی رخصت دے دی۔

26954

(۲۶۹۵۵) حَدَّثَنَا الضَّحَّاکُ بْنُ مَخْلَدٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ سُفْیَانَ ، عَنْ عَمِّہِ ، أَنَّہُ سَمِعَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ یَقُولُ : قیِّدُوا الْعِلْمَ بِالْکِتَابِ۔ (دارمی ۴۹۷)
(٢٦٩٥٥) حضرت عبد الملک بن سفیان کے چچا فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر بن خطاب کو یوں فرماتے ہوئے سنا : علم کو لکھ کر محفوظ کرو۔

26955

(۲۶۹۵۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، عَنْ عِکْرِمَۃَ بْنِ عَمَّارٍ، عَنْ یَحْیَی بْنِ أَبِی کَثِیرٍ قَالَ: قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: قیِّدُوا الْعِلْمَ بِالْکِتَابِ۔
(٢٦٩٥٦) حضرت یحییٰ بن ابی کثیر فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عباس نے ارشاد فرمایا : علم کو لکھ کر محفوظ کرو۔

26956

(۲۶۹۵۷) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ ، عَن عُبَیْدِ اللہِ بْنِ الأَخْنَسِ ، عَنِ الْوَلِیدِ بْنِ عَبْدِ اللہِ ، عَن یُوسُفَ بْنِ مَاہَکَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ : کُنْتُ أَکْتُبُ کُلَّ شَیْئٍ أَسْمَعُہُ مِنْ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَأُرِیدُ حِفْظَہُ ، فَنَہَتْنِی قُرَیْشٌ عَن ذَلِکَ وقَالُوا : تَکْتُبُ کُلَّ شَیْئٍ تَسْمَعُہُ مِنْ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَرَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَتَکَلَّمُ فِی الرِّضَا وَالْغَضَبِ قَالَ : فَأَمْسَکْت فَذَکَرْت ذَلِکَ لِلنَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَأَشَارَ بِیَدِہِ إلَی فِیہِ فَقَالَ : اکْتُبْ فَوَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ : مَا یَخْرُجُ مِنْہُ إلاَّ حَقٌّ۔ (دارمی ۴۸۴۔ احمد ۲/۱۹۲)
(٢٦٩٥٧) حضرت یوسف بن ماھک فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمرو نے ارشاد فرمایا : کہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنی ہوئی ہر حدیث لکھ لیا کرتا تھا تاکہ میں اس کو یاد رکھوں۔ قریش نے مجھے ایسا کرنے سے روک دیا۔ اور کہنے لگے ، کہ تم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ہر فرمودہ بات لکھ لیتے ہو ؟ حالانکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کبھی خوشی کی حالت میں ہوتے ہیں اور کبھی غصہ کی حالت میں ! آپ فرماتے ہیں : کہ میں لکھنے سے رک گیا اور میں نے یہ بات نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے ذکر کی۔ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی زبان کی طرف اشارہ کر کے فرمایا : لکھ لیا کرو۔ پس قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے اس زبان سے صرف حق بات نکلتی ہے۔

26957

(۲۶۹۵۸) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَن مِسْعَرٍ ، عَن مَعْن قَالَ : أَخْرَجَ إلَیَّ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللہِ کِتَابًا وَحَلَفَ لِی أَنَّہُ خَطُّ أَبِیہِ بِیَدِہِ۔
(٢٦٩٥٨) حضرت معن فرماتے ہیں کہ حضرت عبد الرحمن بن عبداللہ نے میرے سامنے ایک کتاب نکالی، اور قسم اٹھا کر فرمایا کہ یہ میرے والد کے ہاتھ کی لکھی ہوئی ہے۔

26958

(۲۶۹۵۹) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَن مَنْصُورٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالَ : لاَ بَأْسَ بِکِتَابِ الأَطْرَافِ۔
(٢٦٩٥٩) حضرت منصور فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم نے ارشاد فرمایا : کناروں پر لکھنے میں کوئی حرج نہیں۔

26959

(۲۶۹۶۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن أَبِی کِبْران قَالَ : سَمِعت الضَحَاک یَقُول إِذَا سَمِعت شَیئًا فَاکتُبہ وَلَو فی حائط۔
(٢٦٩٦٠) حضرت ابو کبران فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ضحاک کو یوں فرماتے ہوئے سنا کہ جب تم کوئی بات سنو تو اسے لکھ لیا کرو اگرچہ دیوار پر ہی لکھو۔

26960

(۲۶۹۶۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن حُسَیْنِ بْنِ عُقَیْلٍ قَالَ : أَمْلَی عَلَیَّ الضَّحَّاکُ مَنَاسِکَ الْحَجِّ۔
(٢٦٩٦١) حضرت حسین بن عقیل فرماتے ہیں کہ حضرت ضحاک نے مجھے حج کے مناسک کی املاء کروائی۔

26961

(۲۶۹۶۲) حَدَّثَنَا وَکِیعُ ، عَن عُمْرَانَ بْنِ حُدَیْرٍ ، عَنْ أَبِی مِجْلَزٍ ، عَن بَشِیرِ بْنِ نَہِیکٍ قَالَ : کُنْتُ أَکْتُبُ مَا أَسْمَعُہُ مِنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، فَلَمَّا أَرَدْت أَنْ أُفَارِقَہُ أَتَیْتہ بِکِتَابِی فَقُلْت ہَذَا سَمِعْتہ مِنْک ؟ قَالَ : نَعَمْ۔
(٢٦٩٦٢) حضرت بشیر بن نھیک فرماتے ہیں کہ میں حضرت ابوہریرہ سے جو بھی حدیث سنتا تھا اسے لکھ لیا کرتا تھا۔ جب میں نے ان سے جدا ہونے کا ارادہ کیا تو میں اپنی لکھی ہوئی کا پی لایا اور میں نے عرض کیا : یہ وہ روایات ہیں جو میں نے آپ سے سنی ہیں ؟ آپ نے فرمایا : جی ہاں !۔

26962

(۲۶۹۶۳) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ آدَمَ ، عَن حَمَّادِ بْنِ زَیْدٍ ، عَن یَحْیَی بْنِ عَتِیقٍ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ قَالَ : کُنْتُ أَلْقَی عَبِیْدَۃَ بِالأَطْرَافِ فَأَسْأَلُہُ۔
(٢٦٩٦٣) حضرت یحییٰ بن عتیق فرماتے ہیں کہ حضرت ابن سیرین نے ارشاد فرمایا : میں نے عبیدہ کو اطراف لکھوا دیے ہیں تم ان سے پوچھ لو۔

26963

(۲۶۹۶۴) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، عَن عُثْمَانَ بْنِ حَکِیمٍ ، عَن سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ، أَنَّہُ کَانَ یَکُونُ مَعَ ابْنِ عَبَّاسٍ ، فَیَسْمَعُ مِنْہُ الْحَدِیثَ فَیَکْتُبُہُ فِی وَاسِطَۃِ الرَّحْلِ ، فَإِذَا نَزَلَ نَسَخَہُ۔
(٢٦٩٦٤) حضرت سعید بن جبیر فرماتے ہیں کہ میں حضرت ابن عباس کے ساتھ تھا، میں ان سے جو حدیث بھی سنتا اس کو پالان کے اگلے حصہ میں لکھ لیتا، جب میں اترا تو میں نے اسے کاپی میں نقل کرلیا۔

26964

(۲۶۹۶۵) حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ حَرْبٍ قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَیْدٍ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنْ أَبِی قِلاَبَۃَ قَالَ : الْکِتَابُ أَحَبُّ إلَیَّ مِنَ النِّسْیَانِ۔
(٢٦٩٦٥) حضرت ایوب فرماتے ہیں کہ حضرت ابو قلابہ نے ارشاد فرمایا : کہ لکھنا میرے نزدیک بھولنے سے زیادہ پسندیدہ ہے۔

26965

(۲۶۹۶۶) حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ حَرْبٍ قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَیْدٍ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنْ أَبِی الْمَلِیحِ قَالَ : یَعِیبُونَ عَلَیْنَا الْکِتَابَ وَقَدْ قَالَ اللَّہُ تَعَالَی : {عِلْمُہَا عِنْدَ رَبِّی فِی کِتَابٍ}۔
(٢٦٩٦٦) حضرت ایوب فرماتے ہیں کہ حضرت ابو الملیح نے ارشاد فرمایا کہ لوگ ہمارے لکھنے پر عیب لگاتے ہیں حالانکہ اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا : ترجمہ : اس کا علم میرے رب کے پاس کتاب میں ہے۔

26966

(۲۶۹۶۷) حَدَّثَنَا حَفْصٌ، عَن مُجَالِدٍ، عَنِ الشَّعْبِیِّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللہِ، أَنَّہُ کَانَ إذَا سَمِعَ شَیْئًا کَتَبَہُ۔
(٢٦٩٦٧) امام شعبی فرماتے ہیں کہ حضرت عبد الرحمن بن عبداللہ جب بھی کوئی حدیث سنتے تو اسے لکھ لیتے۔

26967

(۲۶۹۶۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ حَنَشٍ قَالَ: رَأَیْتُہُمْ عِنْدَ الْبَرَائِ یَکْتُبُونَ عَلَی أَکُفِّہِمْ بِالْقَصَبِ۔
(٢٦٩٦٨) حضرت عبداللہ بن حنش فرماتے ہیں کہ میں نے لوگوں کو دیکھا کہ وہ اپنے ہاتھوں پر قلموں کے ساتھ لکھ رہے تھے۔

26968

(۲۶۹۶۹) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَن شُعْبَۃَ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ یَسَارٍ قَالَ : سَمِعَتْ عَلِیًّا یَخْطُبُ یَقُولُ : أَعْزِمُ عَلَی کُل مَنْ کَانَ عَندَہُ کِتَابٌ إلاَّ رَجَعَ فَمَحَاہُ ، فَإِنَّمَا ہَکَذَا النَّاسُ حَیْثُ تَتَبَّعُوا أَحَادِیثَ عُلَمَائِہِمْ وَتَرَکُوا کِتَابَ رَبِّہِمْ۔
(٢٦٩٦٩) حضرت عبداللہ بن یسار فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت علی کو خطبہ دیتے ہوئے سنا آپ نے ارشاد فرمایا : پختہ ارادہ کرلے ہر وہ شخص جس کے پاس کوئی لکھی ہوئی کتاب ہو کہ وہ لوٹ کر اسے مٹا دے گا۔ اس لیے کہ پہلے لوگ ہلاک ہوئے اس وجہ سے کہ انھوں نے اپنے علماء کی باتوں کو تو تلاش کیا اور اپنے رب کی کتاب کو چھوڑ دیا۔

26969

(۲۶۹۷۰) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَن کَہْمَسَ ، عَنْ أَبِی نَضْرَۃَ قَالَ : قلْنَا لأَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ : لَوِ اکْتَبْتَنَا الْحَدِیثَ ؟ فَقَالَ : لاَ نُکْتِبُکُمْ ، خُذُوا عَنَّا کَمَا أَخَذْنَا عَن نَبِیِّنَا صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔
(٢٦٩٧٠) حضرت ابو نضرہ فرماتے ہیں کہ ہم نے حضرت ابو سعیدخدری کی خدمت میں عرض کیا : اگر آپ اجازت دیں تو ہم حدیث لکھ لیا کریں۔ آپ نے فرمایا؛ ہم تمہیں نہیں لکھوائیں گے ، تم ہم سے حدیث حاصل کرو ، جیسے ہم نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے حدیث حاصل کی تھی۔

26970

(۲۶۹۷۱) حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ أَبِی مَالِکٍ الأَشْجَعِیِّ ، عَن سُلَیْمَانَ بْنِ الأَسْوَدِ الْمُحَارِبِیِّ قَالَ : کَانَ ابْنُ مَسْعُودٍ یَکْرَہُ کِتَابَ الْعِلْمِ۔
(٢٦٩٧١) حضرت سلیمان بن اسود محاربی فرماتے ہیں کہ حضرت ابن مسعود علم کے لکھنے کو مکروہ سمجھتے تھے۔

26971

(۲۶۹۷۲) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَن مُغِیرَۃَ قَالَ : کَانَ عُمَرُ یَکْتُبُ إلَی عُمَّالِہِ : لاَ تُخَلِّدُنَّ عَلَیَّ کِتَابًا۔
(٢٦٩٧٢) حضرت مغیرہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر اپنے گورنروں کو خط لکھتے تھے کہ ہمیشہ مجھے خط نہ لکھتے رہاکرو۔

26972

(۲۶۹۷۳) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَن مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالَ : قَالَ لِی عَبِیْدَۃُ : لاَ تُخَلِّدُنَّ عَلَیَّ کِتَابًا۔
(٢٦٩٧٣) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ حضرت عبیدہ نے مجھے ارشاد فرمایا : کہ تم ہمیشہ مجھے خط مت لکھا کرو۔

26973

(۲۶۹۷۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن طَلْحَۃَ بْنِ یَحْیَی ، عَنْ أَبِی بُرْدَۃَ قَالَ : کَتَبْت عَنْ أَبِی کِتَابًا کَبِیرًا فَقَالَ : ائْتِنِی بِکُتُبِکَ ، فَأَتَیْتہ بِہَا فَغَسَلَہَا۔
(٢٦٩٧٤) حضرت ابو بردہ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے والد سے بہت بڑی کتاب لکھی۔ انھوں نے فرمایا : اپنی کتابیں میرے پاس لاؤ۔ میں ان کے پاس لے آیا تو انھوں نے ان کو دھو دیا۔

26974

(۲۶۹۷۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ الْحَکَمِ بْنِ عَطِیَّۃَ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ قَالَ : إنَّمَا ضَلَّتْ بَنُو إسْرَائِیلَ بِکُتُبٍ وَرِثُوہَا عَن آبَائِہِمْ۔
(٢٦٩٧٥) حضرت حکم بن عطیہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابن سیرین نے ارشاد فرمایا : کہ بنو اسرائیل ان کتابوں کی وجہ سے ہلاک ہوئے جو انھیں اپنے آباؤ اجداد سے ورثہ میں ملی تھیں۔

26975

(۲۶۹۷۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، أَنَّ مَرْوَانَ دَعَا زَیْدَ بْنَ ثَابِتٍ وَقَوْمًا یَکْتُبُونَ وَہُوَ لاَ یَدْرِی، فَأَعْلَمُوہُ فَقَالَ : أَتَدْرُونَ لَعَلَّ کُلَّ شَیْئٍ حَدَّثْتُکُمْ لَیْسَ کَمَا حَدَّثْتُکُمْ۔
(٢٦٩٧٦) امام شعبی فرماتے ہیں کہ مروان نے حضرت زید بن ثابت کو بلایا اس حال میں کہ لوگ لکھ رہے تھے اور آپ نہیں جانتے تھے ۔ پس لوگوں نے آپ کو بتلایا تو آپ نے فرمایا : شاید کہ وہ حدیثیں جو میں نے تمہیں بیان کیں وہ ایسی نہ ہوں جیسے میں نے تمہیں بیان کی ہیں۔

26976

(۲۶۹۷۷) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ جَامِعِ بْنِ شَدَّادٍ، عَنِ الأَسْوَدِ بْنِ ہِلاَلٍ قَالَ: أُتِیَ عَبْدُ اللہِ بِصَحِیفَۃٍ فِیہَا حَدِیثٌ ، فَدَعَا بِمَائٍ فَمَحَاہَا ، ثُمَّ غَسَلَہَا ، ثُمَّ أَمَرَ بِہَا فَأُحْرِقَتْ ، ثُمَّ قَالَ : أُذَکِّرُ بِاللَّہِ رَجُلاً یَعْلَمُہَا عِنْدَ أَحَدٍ إلاَّ أَعْلَمَنِی بِہِ ، وَاللَّہِ لَوْ أَعْلَمُ أَنَّہَا بِدیر ہِنْد لاَنْتَعَلْتُ إلَیْہَا ، بِہَذَا ہَلَکَ أَہْلُ الْکِتَابِ قَبْلَکُمْ حَتَّی نَبَذُوا کِتَابَ اللہِ وَرَائَ ظُہُورِہِمْ کَأَنَّہُمْ لاَ یَعْلَمُونَ۔
(٢٦٩٧٧) حضرت اسود بن ہلال فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ کے پاس ایک صحیفہ لایا گیا جس میں لکھی ہوئی تحریر تھی۔ انھوں نے پانی منگوا کر اسے صاف کیا اور پھر جلانے کا حکم دیا۔ پھر فرمایا کہ جس شخص کے باے میں تمہیں علم ہو کہ اس کے پاس حدیث لکھی ہوئی ہے تو مجھے ضرور بتاؤ۔ خدا کی قسم ! اگر مجھے پتہ چلے کہ دیرہند میں کوئی لکھی ہوئی حدیث ہے کہ میں پیدل جا کر اس کو مٹاؤں گا پہلی امتیں اسی وجہ سے ہلاک ہوئیں کہ انھوں نے اللہ کی کتاب کو پس پشت ڈال دیا تھا۔

26977

(۲۶۹۷۸) حَدَّثَنَا مُعْتَمِرُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَن کَہْمَسٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مُسْلِمٍ ، عَنْ أَبِیہِ قَالَ : کُلُّ الْکِتَابِ أَکْرَہُ ، قَالَ : أَرَاہُ یَعْنِی مَا کَانَ فِیہِ مِنْ ذِکْرِ اللہِ ، قُلْتُ لِمُعْتَمِرٍ : یَعْنِی الْخَاتَمَ ؟ قَالَ : نَعَمْ۔
(٢٦٩٧٨) حضرت عبداللہ بن مسلم فرماتے ہیں کہ ان کے والد حضرت مسلم نے ارشاد فرمایا : میں ہر طرح کے لکھنے کو مکروہ سمجھتا ہوں۔ راوی کہتے ہیں میرا گمان ہے کہ یوں فرمایا : جس کتابت میں اللہ کا ذکر لکھا جائے اس کو بھی۔ امام ابوبکر فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت معتمر سے پوچھا : مہر کو بھی ؟ انھوں نے کہا : جی ہاں !

26978

(۲۶۹۷۹) حَدَّثَنَا مُعَاذٌ قَالَ : حدَّثَنَا ابْنُ عَوْنٍ ، عَنِ الْقَاسِمِ ، أَنَّہُ کَانَ لاَ یَکْتُبُ الْحَدِیثَ۔
(٢٦٩٧٩) حضرت ابن عون فرماتے ہیں کہ حضرت قاسم حدیث نہیں لکھتے تھے۔

26979

(۲۶۹۸۰) حَدَّثَنَا سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ أَیُّوبَ ، قَالَ : سَمِعْتُ سَعِیدَ بْنَ جُبَیْرٍ قَالَ : کُنَّا نَخْتَلِفُ فِی أَشْیَائَ فَکَتَبْتہَا فِی کِتَابٍ ، ثُمَّ أَتَیْتُ بِہَا ابْنَ عُمَرَ أَسْأَلُہُ عنہا خَفِیًّا ، فَلَوْ عَلِمَ بِہَا کَانَتِ الْفَیْصَلُ فِیمَا بَیْنِی وَبَیْنَہُ۔
(٢٦٩٨٠) حضرت ایوب فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت سعید بن جبیر کو یوں فرماتے ہوئے سنا کہ ہم لوگ کچھ مسائل میں اختلاف کر رہے تھے، تو میں نے ان کو ایک کاپی میں لکھ لیا۔ پھر میں اس کو حضرت ابن عمر کے پاس لے آیا۔ ان سے ان مسائل کے بارے میں سوال کیا اس تحریر کر چھپاتے ہوئے کہ اگر انھیں اس بارے میں پتہ چل جاتا تو یہ میرے اور ان کے درمیان جدائی کا سبب بن جاتا۔

26980

(۲۶۹۸۱) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَن شُعْبَۃَ ، عَنِ الْحَکَمِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالَ : قَالَ عَبِیْدَۃُ : لاَ تُخَلِّدُنَّ عَلَیَّ کِتَابًا۔
(٢٦٩٨١) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ حضرت عبیدہ نے ارشاد فرمایا : کہ تم ہمیشہ مجھے مت لکھتے رہا کرو۔

26981

(۲۶۹۸۲) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ، عَن ہَارُونَ بْنِ عَنتَرَۃَ، عَنْ أَبِیہِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّہُ رَخَّصَ لَہُ أَنْ یَکْتُبَ وَلَمْ یَکَدْ۔
(٢٦٩٨٢) حضرت عنترہ فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عباس نے مجھے لکھنے کی رخصت دی اور منع نہیں فرمایا۔

26982

(۲۶۹۸۳) حَدَّثَنَا أَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ قَالَ : حدَّثَنَا عُمَارَۃُ بْنُ زَاذَانَ قَالَ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ الْحَکَمِ ، عَنْ عَطَائِ بْنِ أَبِی رَبَاحٍ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : مَا مِنْ رَجُلٍ حَفِظَ عِلْمًا فَسُئِلَ عَنہُ فَکَتَمَہُ إلاَّ جِیئَ بہ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ مُلَجَّمًا بِلِجَامٍ مِنْ نَارٍ۔ (ابوداؤد ۳۶۵۰۔ ابن حبان ۹۵)
(٢٦٩٨٣) حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جس کسی آدمی نے علم کو محفوظ کیا، پھر اس بارے میں اس سے پوچھا گیا اور اس نے علم کو چھپالیا تو قیامت کے دن اس شخص کو اس حال میں لایا جائے گا کہ اسے آگ کی لگام ڈالی ہوئی ہوگی۔

26983

(۲۶۹۸۴) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَن حَجَّاجٍ ، عَنْ عَطَائٍ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ : مَنْ کَتَمَ عِلْمًا عِندَہُ أَلْجَمَہُ اللَّہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ بِلِجَامٍ مِنْ نَارٍ۔ (احمد ۴۹۹)
(٢٦٩٨٤) حضرت عطائ فرماتے ہیں کہ حضرت ابوہریرہ نے ارشاد فرمایا : جو شخص اپنے علم کو چھپائے گا تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس شخص کو آگ کی لگام پہنائیں گے۔

26984

(۲۶۹۸۵) حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ مُعَاذٍ قَالَ : حدَّثَنَا ابْنُ عَوْنٍ قَالَ : کَان مِمَّنْ یَتَّبِعُ أَنْ یُحَدِّثَ بِالْحَدِیثِ کَمَا سَمِعَ : محمد بْنُ سِیرِینَ وَالْقَاسِمُ بْنُ مُحَمَّدٍ وَرَجَائُ بْنُ حَیْوَۃَ ، وَکَانَ مِمَّنْ لاَ یَتَّبِعُ ذَلِکَ : الْحَسَنُ وَإِبْرَاہِیمُ وَالشَّعْبِیُّ ، قَالَ ابْنُ عَوْنٍ : فَقُلْتُ لِمُحَمَّدٍ : إنَّ فُلاَنًا لاَ یَتَّبِعُ أَنْ یُحَدِّثَ بِالْحَدِیثِ کَمَا سَمِعَ ، فَقَالَ : أمَّا أَنَّہُ لَوِ اتَّبَعَہُ کَانَ خَیْرًا لَہُ۔
(٢٦٩٨٥) حضرت ابن عون فرماتے ہیں کہ حضرت محمد بن سیرین ، حضرت قاسم بن محمد اور حضرت رجاء بن حیوہ ان لوگوں میں سے تھے جو اس بات کی کوشش کرتے تھے کہ وہ حدیث کو ویسے ہی بیان کریں جیسے انھوں نے سنی ۔ اور حضرت حسن بصری ، حضرت ابراہیم اور حضرت شعبی ان لوگوں میں سے تھے جو اس بات کی کوشش نہیں کرتے تھے۔ حضرت ابن عون فرماتے ہیں کہ میں نے امام محمد سے عر ض کیا : بیشک فلاں شخص اس بات کی کوشش نہیں کرتا کہ وہ حدیث کو ویسے ہی بیان کرے جیسے اس نے سنا۔ آپ نے فرمایا : اگر وہ ایسا کرلے تو یہ اس کے لیے بہتر ہے۔

26985

(۲۶۹۸۶) حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَن عُمَارَۃَ ، عَنْ أَبِی مَعْمَرٍ ، أَنَّہُ کَانَ یَتْبَعُ اللَّحْنَ فِی الْحَدِیثِ کَیْ یَجِیئُ بِہِ کَمَا سَمِعَ۔
(٢٦٩٨٦) حضرت عمارہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابو معمر حدیث میں ہونے والی غلطی کے بعد صحیح الفاظ کو دہرا لیتے تھے تاکہ ویسے ہی بیان کرسکیں جیسے انھوں نے سنی۔

26986

(۲۶۹۸۷) حَدَّثَنَا صَفْوَان ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الْحَسَنِ وَالشَّعْبِیِّ أَنَّہُمَا کَانَا لاَ یَرَیَانِ بَأْسًا بِتَقْدِیمِ الْحَدِیثِ وَتَأْخِیرِہِ ، وَکَانَ ابْنُ سِیرِینَ یَتَکَلَّفُہُ کَمَا سَمِعَہ۔
(٢٦٩٨٧) حضرت اشعث فرماتے ہیں کہ حضرت حسن بصری اور حضرت شعبی یہ دونوں حضرات حدیث کو مقدم اور مؤخر کردینے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے۔ اور حضرت ابن سیرین اس بات میں تکلیف کرتے تھے کہ حدیث کو جیسے سنا ویسے بیان کریں۔

26987

(۲۶۹۸۸) حَدَّثَنَا سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ، عَنْ إسْمَاعِیلِ بْنِ أُمَیَّۃَ قَالَ: کُنَّا نُرِیدُ نَافِعًا عَلَی إقَامَۃِ اللَّحْنِ فِی الْحَدِیثِ فَیَأْبَی۔
(٢٦٩٨٨) حضرت اسماعیل بن امیہ فرماتے ہیں کہ ہم نے حضرت نافع کے پاس حدیث میں غلطی پر ٹھہرنے کا ارادہ کیا تو آپ نے انکار کردیا۔

26988

(۲۶۹۸۹) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنِ الأَعْمَشِ قَالَ : قلْت لأَبِی الضُّحَی : الْمُصَوِّرُونَ ، قَالَ : الْمُصَوِّرِینَ۔
(٢٦٩٨٩) حضرت اعمش فرماتے ہیں کہ ہم نے حضرت ابو الضحی سے پوچھا : المصورون الفاظ ہیں ؟ آپ نے فرمایا : المصورین ہیں۔

26989

(۲۶۹۹۰) حَدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ عَامِرٍ قَالَ : قُلْتُ لَہُ : أَسْمَعُ اللَّحْنَ فِی الْحَدِیثِ ؟ قَالَ : أَقِمْہُ۔
(٢٦٩٩٠) حضرت جابر فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عامر سے پوچھا : میں حدیث میں غلطی کو سنوں تو کیا کروں ؟ آپ نے فرمایا : اس کو درست کرو۔

26990

(۲۶۹۹۱) حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، أَنَّہُ کَانَ لاَ یَرَی بَأْسًا أَنْ یَجْعَلَ الرَّجُلُ فِی یَدِہِ الْخَیْطَ یَسْتَذْکِرُ بِہِ الرَّجُلُ فِی الشَّیْئِ۔
(٢٦٩٩١) حضرت اشعث فرماتے ہیں کہ حضرت حسن بصری اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے کہ آدمی اپنے ہاتھ میں دھاگہ باندھے تاکہ اس کے ذریعے آدمی کسی کام کی یاد دہانی کرے۔

26991

(۲۶۹۹۲) حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ ، عَن مَنْصُورِ بْنِ أَبِی الأَسْوَدِ ، عَن مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، أَنَّہُ کَرِہَ أَنْ یُرْبَطَ الْخَیْطُ فِی الْخَاتَمِ یَسْتَذْکِرُ بِہِ الْحَاجَۃَ۔
(٢٦٩٩٢) حضرت مغیرہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم نے انگوٹھی میں دھاگہ باندھنے کو مکروہ سمجھا کہ اس کے ذریعہ کسی کام کی یاد دہانی ہوجائے۔

26992

(۲۶۹۹۳) ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عُبَیْدِ اللہِ ، عَن مَغْرَائَ الْعَبْدِیِّ ، عَن شُرَیْحٍ ، أَنَّہُ سَمِعَ صَوْتَ دُفٍّ فَقَالَ : إنَّ الْمَلاَئِکَۃَ لاَ یَدْخُلُونَ بَیْتًا فِیہِ دُفٌّ۔
(٢٦٩٩٣) حضرت مغراء عبدی فرماتے ہیں کہ حضرت شریح نے دف کی آواز سنی تو فرمایا : بیشک ملائکہ اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں دف ہو۔

26993

(۲۶۹۹۴) یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ ، وَابْنُ مَہْدِیٍّ ، عَن سُفْیَانَ ، عَن عِمْرَانَ بْنِ مُسْلِمٍ قَالَ : قَالَ لِی خَیْثَمَۃُ : أَمَا سَمِعْت سُوَیْدًا یَقُولُ : لاَ تَدْخُلُ الْمَلاَئِکَۃُ بَیْتًا فِیہِ دُفٌّ۔
(٢٦٩٩٤) حضرت عمران بن مسلم فرماتے ہیں کہ حضرت خیثمہ نے مجھ سے فرمایا : کیا تم نے حضرت سوید کو یہ فرماتے ہوئے نہیں سنا کہ : ملائکہ اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں دف ہو ؟ !

26994

(۲۶۹۹۵) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ ، عَن سُفْیَانَ ، عَن مَنْصُورٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالَ : کَانَ أَصْحَابُ عَبْدِ اللہِ یَسْتَقْبِلُونَ الْجَوَارِیَ فِی الأَزِقَّۃِ مَعَہُنَّ الدُّفُوفَ فَیَشُقُّونَہَا۔
(٢٦٩٩٥) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود کے اصحاب گلیوں میں ان بچیوں کے پاس آتے تھے جن کے پاس دف ہوتی تھی اور یہ اس کو توڑ دیتے تھے۔

26995

(۲۶۹۹۶) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَن یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ، عَن سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، أَنَّ إبْرَاہِیمَ اخْتُتِنَ بِالْقَدُّومِ وَہُوَ ابْنُ مِئَۃ وَعِشْرِینَ سَنَۃً ، ثُمَّ عَاشَ بَعْدَ ذَلِکَ ، ثَمَانِینَ سَنَۃً۔(بخاری ۳۳۵۶۔ مسلم ۱۸۳۹)
(٢٦٩٩٦) حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم نے قدوم مقام پر ایک سو بیس سال کی عمر میں ختنہ کیا، پھر آپ اس کے بعد اسّی سال تک زندہ رہے۔

26996

(۲۶۹۹۷) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ ، عَن یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ، عَن سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ قَالَ : کَانَ إبْرَاہِیمُ أَوَّلَ النَّاسِ أَضَافَ الضَّیْفَ ، وَأَوَّلَ النَّاسِ قَصَّ شَارِبَہُ وَقَلَّمَ أَظْفَارَہُ وَاسْتَحَدَّ ، وَأَوَّلَ النَّاسِ اخْتُتِنَ ، وَأَوَّلَ النَّاسِ رَأَی الشَّیْبَ فَقَالَ : یَا رَبِّ ، مَا ہَذَا ؟ قَالَ : الْوَقَارُ ، قَالَ : رَبِّ زِدْنِی وَقَارًا۔ (مالک۴۔ ابن عدی ۱۵۱۱)
(٢٦٩٩٧) حضرت سعید بن مسیب فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم سب سے پہلے شخص تھے جنہوں نے مہمان کی ضیافت کی اور سب سے پہلے شخص تھے جنہوں نے مونچھ کاٹی، اور اپنے ناخنوں کو کاٹا، اور شرمگاہ کے بال صاف کیے، اور پہلے شخص تھے جنہوں نے ختنہ کیا ، اور پہلے شخص تھے جنہوں نے سفید بال دیکھے۔ تو کہنے لگے : اے میرے پروردگار ! یہ کیا چیز ہے ؟ اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا : یہ عزت و وقار ہے۔ آپ نے عرض کیا ! پروردگار ! میرے وقار میں اضافہ فرما۔

26997

(۲۶۹۹۸) حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ ، عَن حَجَّاجٍ ، عَن رَجُلٍ ، عَنْ أَبِی الْمَلِیحِ ، عَن شَدَّادِ بْنِ أَوْسٍ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : الْخِتَانُ سُنَّۃٌ لِلرِّجَالِ مَکْرُمَۃٌ لِلنِّسَائِ۔ (طبرانی ۷۱۱۲۔ احمد ۷۵)
(٢٦٩٩٨) حضرت شداد بن اوس فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ختنہ کرنا آدمیوں کے لیے سنت ہے اور عورتوں کے لیے عزت کی چیز ہے۔

26998

(۲۶۹۹۹) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَن سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : خَمْسٌ مِنَ الْفِطْرَۃِ فَذَکَرَ الْخِتَانَ۔
(٢٦٩٩٩) حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : پانچ چیزیں فطرت میں سے ہیں۔ اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ختنہ کا بھی ذکر فرمایا۔

26999

(۲۷۰۰۰) حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ، عَنْ إسْرَائِیلَ، عَن مَنْصُورٍ، عَن مُجَاہِدٍ وَإِبْرَاہِیمَ ، قَالاَ: الْخِتَانُ من السُنَّۃِ۔ (ابن حبان ۳۵۴۔ بزار ۹۹۰)
(٢٧٠٠٠) حضرت منصور فرماتے ہیں کہ حضرت مجاہد اور حضرت ابراہیم ان دونوں حضرات نے ارشاد فرمایا : کہ ختنہ کرنا سنت ہے۔

27000

(۲۷۰۰۱) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَن شُعْبَۃَ ، عَن مَنْصُورٍ ، عَن مَالِکِ بْنِ الْحَارِثِ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُرَحْبِیلَ ، أَنَّ عَبْدَ اللہِ قَالَ : إنَّ اللَّہَ یُحِبُّ أَنْ تُقْبَلَ رُخَصُہُ کَمَا یُحِبُّ أَنْ تُؤْتَی عَزَائِمُہُ۔ (طبرانی ۱۰۰۳)
(٢٧٠٠١) حضرت عمرو بن شرحبیل فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود نے ارشاد فرمایا : یقیناً اللہ رب العزت رخصتوں کے قبول کیے جانے کو پسند فرماتے ہیں جیسے عزیمتوں پر عمل کرنے کو پسند کرتے ہیں۔

27001

(۲۷۰۰۲) حَدَّثَنَا غُنْدَرُ ، عَن شُعْبَۃَ ، عَنِ الْحَکَمِ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، عَن عَلْقَمَۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ قَالَ : إنَّ اللَّہَ یُحِبُّ أَنْ تُؤْتَی رُخَصُہُ کَمَا یُحِبُّ أَنْ تُؤْتَی عَزَائِمُہُ۔
(٢٧٠٠٢) حضرت علقمہ فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود نے ارشاد فرمایا : یقیناً اللہ رب العزت رخصتوں پر عمل کیے جانے کو محبوب رکھتے ہیں جیسے عزیمتوں پر عمل کرنے کو محبوب رکھتے ہیں۔

27002

(۲۷۰۰۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن سُفْیَانَ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَن تَمِیمِ بْنِ سَلَمَۃَ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ : إنَّ اللَّہَ یُحِبُّ أَنْ تُؤْتَی مَیَاسِرُہُ کَمَا یُحِبُّ أَنْ تُؤْتَی عَزَائِمُہُ۔ (احمد ۱۰۸۔ ابن حبان ۲۷۴۲)
(٢٧٠٠٣) حضرت تمیم بن سلمہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عمر نے ارشاد فرمایا : یقیناً اللہ رب العزت آسانیوں پر عمل کرنے کو محبوب رکھتے ہیں جیسے عزیمتوں پر عمل کرنے کو محبوب رکھتے ہیں۔

27003

(۲۷۰۰۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن سُفْیَانَ ، عَنْ أَبِیہِ قَالَ : ذَکَرْتہ لِعَبْدِ الرَّحْمَنِ الرَّحَّالِ قَالَ : قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ : إنَّ اللَّہَ یُحِبُّ أَنْ تُؤْتَی مَیَاسِرُہُ کَمَا یُحِبُّ أَنْ تُؤْتَی عَزَائِمُہُ۔
(٢٧٠٠٤) حضرت سفیان کے والد فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عبد الرحمن رحال کے سامنے ذکر کیا کہ حضرت ابن عباس نے ارشاد فرمایا : یقیناً اللہ رب العزت آسانیوں پر عمل کرنے کو محبوب رکھتے ہیں جیسے عزیمتوں پر عمل کرنے کو محبوب رکھتے ہیں۔

27004

(۲۷۰۰۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن مُوسَی بْنِ عُبَیْدَۃَ ، عَن مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْکَدِرِ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إنَّ اللَّہَ یُحِبُّ أَنْ تُقْبَلَ رُخَصُہُ کَمَا یُحِبُّ أَنْ تُؤْتَی فَرِیضَتُہُ۔
(٢٧٠٠٥) حضرت محمد بن منکدر فرماتے ہیں ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : یقیناً اللہ رب العزت رخصتوں پر عمل کرنے کو محبوب رکھتے ہیں جیسے فرائض کے انجام دینے کو محبوب رکھتے ہیں۔

27005

(۲۷۰۰۶) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَن حُصَیْنٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَن مَسْرُوقٍ قَالَ : إنَّ اللَّہَ یُحِبُّ أَنْ تُؤْتَی رُخَصُہُ کَمَا یُحِبُّ أَنْ تُؤْتَی عَزَائِمُہُ۔
(٢٧٠٠٦) امام شعبی فرماتے ہیں کہ حضرت مسروق نے ارشاد فرمایا : یقیناً اللہ رب العزت رخصتوں پر عمل کرنے کو محبوب رکھتے ہیں جیسے عزیمتوں پر عمل کرنے کو محبوب رکھتے ہیں۔

27006

(۲۷۰۰۷) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنِ الْعَوَّامِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ التَّیْمِیِّ قَالَ : إنَّ اللَّہَ یُحِبُّ أَنْ تُؤْتَی مَیَاسِرُہُ کَمَا یُحِبُّ أَنْ یُطَاعَ فی عَزَائِمِہِ۔
(٢٧٠٠٧) حضرت عوام فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم تیمی نے ارشاد فرمایا : یقیناً اللہ رب العزت آسانیوں پر عمل کرنے کو ایسے ہی محبوب رکھتے ہیں جیسے عزیمتوں کی پیروی کیے جانے کو محبوب رکھتے ہیں۔

27007

(۲۷۰۰۸) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَن نَضْرَ بْنِ عَرَبِی ، عَنْ عَطَائٍ قَالَ : إذَا تَنَازَعَک أَمْرَانِ ، فَاحْمِلِ الْمُسْلِمِینَ عَلَی أَیْسَرِہِمَا۔
(٢٧٠٠٨) حضرت نضر بن عربی فرماتے ہیں : کہ حضرت عطائ نے ارشاد فرمایا : جب دو معاملے تجھ سے جھگڑا کریں تو ان میں سے آسان کا بار تو مسلمانوں پر ڈال دے۔

27008

(۲۷۰۰۹) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، عَن ہِشَامٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ عَائِشَۃَ رضی اللہ عنہا قَالَتْ : مَا خُیِّرَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَیْنَ أَمْرَیْنِ أَحَدُہُمَا أَیْسَرُ مِنَ الآخَرِ إلاَّ أَخَذَ الَّذِی ہُوَ أَیْسَرُ۔ (مسلم ۱۸۱۴۔ احمد ۳۱)
(٢٧٠٠٩) حضرت عروہ بن زبیر فرماتے ہیں کہ حضرت عائشہ نے ارشاد فرمایا : جب کبھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کسی دو کاموں میں اختیار دیا گیا درآنحالیکہ ان میں سے ایک دوسرے سے آسان ہوتا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان میں سے آسان کام کا انتخاب فرماتے۔

27009

(۲۷۰۱۰) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَن لَیْثٍ ، عَن طَاوُوس ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : یَسِّرُوا ، وَلاَ تُعَسِّرُوا۔
(٢٧٠١٠) حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : آسانی پیدا کرو اور مشکل پیدا مت کرو۔

27010

(۲۷۰۱۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن شُعْبَۃَ ، عَن سَعِیدِ بْنِ أَبِی بُرْدَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ جَدِّہِ ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَمَّا بَعَثَہُ ہُوَ وَمُعَاذًا إلَی الْیَمَنِ قَالَ : یَسِّرَا ، وَلاَ تُعَسِّرَا۔ (بخاری ۳۰۳۸۔ مسلم ۱۳۵۹)
(٢٧٠١١) حضرت ابو بردہ کے والد فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب انھیں اور حضرت معاذ کو یمن والوں کی طرف بھیجا تو ارشاد فرمایا : تم دونوں آسانی پیدا کرنا اور مشکل پیدا مت کرنا۔

27011

(۲۷۰۱۲) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ عَوْفٍ ، عَن زِیَادِ بْنِ مِخْرَاقٍ ، عَنْ أَبِی کِنَانَۃَ ، عَنْ أَبِی مُوسَی قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : ابْنُ أُخْتِ الْقَوْمِ مِنہم۔ (احمد ۳۹۶۔ بزار ۱۵۸۲)
(٢٧٠١٢) حضرت ابو موسیٰ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : قوم کا بھانجا انھیں سے ہوتا ہے۔

27012

(۲۷۰۱۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن شُعْبَۃَ ، عَن قَتَادَۃَ ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : ابْنُ أُخْتِ الْقَوْمِ مِنْ أَنْفُسِہِمْ۔ (بخاری ۳۵۲۸۔ مسلم ۷۳۵)
(٢٧٠١٣) حضرت انس فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : قوم کا بھانجا انہی میں شمار ہوتا ہے۔

27013

(۲۷۰۱۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن شُعْبَۃَ ، قَالَ : قُلْتُ لِمُعَاوِیَۃَ بْنِ قُرَّۃَ : سَمِعْت أَنَسَ بْنَ مَالِکٍ یَقُولُ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِلنُّعْمَانِ بْنِ مُقَرِّنٍ : ابْنُ أُخْتِ الْقَوْمِ مِنْ أَنْفُسِہِمْ قَالَ : نَعَمْ۔(نسائی ۲۳۹۳۔ احمد ۲۲۲)
(٢٧٠١٤) حضرت انس بن مالک فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت نعمان بن مقرن سے پوچھا : کیا قوم کا بھانجا انہی میں سے شمار ہوتا ہے ؟ انھوں نے عرض کیا : جی ہاں۔

27014

(۲۷۰۱۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن سُفْیَانَ ، عَنِ ابْنِ خُثَیْمٍ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ بْنِ عُبَیْدِ اللہِ بْنِ رِفَاعَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ جَدِّہِ قَالَ : جَمَعَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قُرَیْشًا فَقَالَ : ہَلْ فِیکُمْ مِنْ غَیْرِکُمْ ؟ قَالُوا : لاَ إلاَّ ابْنُ أُخْتِنَا وَحَلِیفُنَا وَمَوْلاَنَا ، فَقَالَ : ابْنُ أُخْتِکُمْ مِنْکُمْ ، وَحَلِیفُکُمْ مِنْکُمْ ، وَمَوْلاَکُمْ مِنْکُمْ۔ (بخاری ۷۵۔ احمد ۳۴۰)
(٢٧٠١٥) حضرت رفاعہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قبیلہ قریش کو جمع کیا اور پوچھا : کیا تم میں کوئی غیر تو موجود نہیں ہے ؟ لوگوں نے عرض کیا : نہیں ، سوائے ہمارے بھانجوں ، ہمارے حلیفوں اور ہمارے غلاموں کے ، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تمہارے بھانجے تم ہی میں سے ہیں، تمہارے حلیف تم ہی میں سے ہیں ، اور تمہارے غلام بھی تم ہی میں سے ہیں۔

27015

(۲۷۰۱۶) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَن مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو ، عَنْ أَبِی سَلَمۃَ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : حَدِّثُوا عَن بَنِی إسْرَائِیلَ ، وَلاَ حَرَجَ۔ (ابوداؤد ۳۶۵۴۔ احمد ۵۰۲)
(٢٧٠١٦) حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اسرائیلی روایات بیان کرو اس میں کوئی حرج نہیں۔

27016

(۲۷۰۱۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ الرَّبِیعِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنِ ابْنِ سَابِطٍ ، عَنْ جَابِرٍ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : تَحَدَّثُوا عَن بَنِی إسْرَائِیلَ فَإِنَّہُ کَانَتْ فِیہِمْ أَعَاجِیبُ۔
(٢٧٠١٧) حضرت جابر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اسرائیلی روایات آپس میں بیان کرو کیونکہ اس میں عجیب و غریب باتیں ہوتی ہیں۔

27017

(۲۷۰۱۸) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، عَنِ الأَوْزَاعِیِّ ، عَن حَسَّانَ بْنِ عَطِیَّۃَ ، عَنْ أَبِی کَبْشَۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : حَدِّثُوا عَن بَنِی إسْرَائِیلَ ، وَلاَ حَرَجَ۔
(٢٧٠١٨) حضرت عبداللہ بن عمرو فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اسرائیلی روایات بیان کرو اس میں کوئی حرج نہیں ۔

27018

(۲۷۰۱۹) حَدَّثَنَا عَفَّانُ قَالَ : حدَّثَنَا ہَمَّامٌ ، عَن زَیْدِ بْنِ أَسْلَمَ ، عَنْ عَطَائِ بْنِ یَسَارٍ ، عَنْ أَبِی سَعِیدٍ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : حَدِّثُوا عَن بَنِی إسْرَائِیلَ ، وَلاَ حَرَجَ۔ (احمد ۳۹)
(٢٧٠١٩) حضرت ابو سعید فرماتے ہیں کہ بنو اسرائیل کی طرف سے روایات بیان کرو، اس میں کوئی حرج نہیں۔

27019

(۲۷۰۲۰) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ ، عَن یَزِیدَ بْنِ أَبِی زِیَادٍ ، عَن عِکْرِمَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ : لَعَنَ اللَّہُ الْمُتَخَنِّثِینَ مِنَ الرِّجَالِ ، وَالْمُتَرَجِّلاَت مِنَ النِّسَائِ قَالَ : قُلْتُ لِعِکْرِمَۃَ : مَا الْمُتَرَجِّلاَتُ ؟ قَالَ : الْمُتَشَبِّہَاتُ بِالرِّجَالِ۔ (بخاری ۵۸۸۵۔ ابوداؤد ۴۰۹۴)
(٢٧٠٢٠) حضرت عکرمہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عباس نے ارشاد فرمایا : اللہ رب العزت نے آدمیوں میں سے مخنث بننے والوں پر اور عورتوں میں مرد کی مشابہت اختیار کرنے والیوں پر لعنت کی۔ راوی کہتے ہیں میں نے حضرت عکرمہ سے پوچھا : مترجلات سے کیا مراد ہے ؟ انھوں نے فرمایا : مردوں کی مشابہت اختیار کرنے والی عورتیں مراد ہیں۔

27020

(۲۷۰۲۱) حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إسْمَاعِیلَ ، عَنْ جَہْضَمِ بْنِ عَبْدِ اللہِ ، عَمنْ حَدَّث ، عَنْ أَبِی سَلَمَۃَ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ : لَعَنَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْمُتَخَنِّثِینَ مِنَ الرِّجَالِ الَّذِینَ یَتَشَبَّہُونَ بِالنِّسَائِ ، وَالْمُتَرَجِّلاَت مِنَ النِّسَائِ اللاَتِی یَتَشَبَّہْنَ بِالرِّجَالِ۔ (ابوداؤد ۴۰۹۵۔ احمد ۱۷۱۵)
(٢٧٠٢١) حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان مخنث مردوں پر جو عورتوں کی مشابہت اختیار کرتے ہیں اور ان مرد نما عورتوں پر جو مردوں کی مشابہت اختیار کرتی ہیں ، لعنت فرمائی۔

27021

(۲۷۰۲۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن ہِشَامٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَن زَیْنَبَ بِنْتِ أُمِّ سَلَمَۃَ ، عَن أُمِّ سَلَمَۃَ ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ دَخَلَ عَلَیْہَا فَسَمِعَ مُخَنَّثًا وَہُوَ یَقُولُ لِعَبْدِ اللہِ بْنِ أَبِی أُمَیَّۃَ أَخِیہَا : إِنْ یَفْتَحِ اللَّہُ الطَّائِفَ غَدًا دَلَلْتُک عَلَی امْرَأَۃٍ تُقْبِلُ بِأَرْبَعٍ وَتُدْبِرُ بِثَمَانٍ ، فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : أَخْرِجُوہُمْ مِنْ بُیُوتِکُمْ۔ (مسلم ۱۷۱۵۔ ابوداؤد ۴۸۹۱)
(٢٧٠٢٢) حضرت ام سلمہ فرماتی ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے پاس تشریف لائے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مخنث کی آواز سنی جو اپنے بھائی عبداللہ بن ابی امیہ سے یوں کہہ رہا تھا : اگر اللہ تعالیٰ نے کل کو طائف فتح کیا تو میں تیری راہنمائی کروں گا ایسی عورت پر جو آتی ہے چار پہلوؤں پر اور جاتی ہے آٹھ پہلوؤں پر۔ تو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم ان کو اپنے گھروں سے نکال دو ۔

27022

(۲۷۰۲۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إسْرَائِیلَ ، عَنِ الْوَلِیدِ بْنِ الْعَیْزَارِ ، عَن عِکْرِمَۃَ ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ لاَ یَدْخُلُ بَیْتًا فِیہِ مُخَنَّثٌ۔
(٢٧٠٢٣) حضرت عکرمہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس گھر میں داخل نہیں ہوتے تھے جس میں مخنث ہوتا۔

27023

(۲۷۰۲۴) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَنِ الأَجْلَحِ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ قَالَ : لَعَنَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْمُتَشَبِّہِینَ مِنَ الرِّجَالِ بِالنِّسَائِ ، وَالْمُتَشَبِّہَات مِنَ النِّسَائِ بِالرِّجَالِ۔
(٢٧٠٢٤) امام شعبی فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان مردوں پر جو عورتوں کی مشابہت اختیار کریں اور ان عورتوں پر جو مردوں کی مشابہت اختیار کریں ، لعنت فرمائی۔

27024

(۲۷۰۲۵) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ قَالَ : حدَّثَنَا أَبُو حَیَّانَ ، عَن یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ یَرْفَعُہُ إلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : لُعِنَ مِنَ الرِّجَالِ الْمُتَشَبِّہُ بِالنِّسَائِ وَلُعِنَ مِنَ النِّسَائِ الْمُتَشَبِّہَۃُ الْمُتَرَجِّلَۃُ۔
(٢٧٠٢٥) حضرت حسن بصری نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مرفوعاً حدیث بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ان مردوں پر جو عورتوں کی مشابہت اختیار کریں لعنت کی گئی ہے، اور ان عورتوں پر جو مردوں کی مشابہت اختیار کریں لعنت کی گئی ہے۔

27025

(۲۷۰۲۶) حَدَّثَنَا حُمَیْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَن حَسَنٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ بْنِ عَبْدِ الأَعْلَی ، عَن سُوَیْد بْنِ غَفَلَۃَ قَالَ : الْمُتَشَبِّہَۃُ بِالرِّجَالِ مِنَ النِّسَائِ ، لَیْسَتْ مِنَّا وَلَسْنَا مِنْہَا۔
(٢٧٠٢٦) حضرت ابراہیم بن عبدا لاعلیٰ فرماتے ہیں کہ حضرت سوید بن غفلہ نے ارشاد فرمایا : عورتوں میں سے مردوں کی مشابہت اختیار کرنے والیاں ہم میں سے نہیں اور ہم ان میں سے نہیں ۔

27026

(۲۷۰۲۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ قَالَ : حدَّثَنَا الأَعْمَشُ ، عَنْ أَبِی سُفْیَانَ ، عَنْ جَابِرٍ قَالَ : جَائَ رَجُلٌ إلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ : یَا رَسُولَ اللہِ ، أَیُّ الْمُسْلِمِینَ أَفْضَلُ ؟ فَقَالَ : مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِہِ وَیَدِہِ۔ (مسلم ۶۵۔ احمد ۳۷۲)
(٢٧٠٢٧) حضرت جابر فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آیا اور عرض کیا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! افضل ترین مسلمان کون ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس کے ہاتھ اور زبان سے مسلمان محفوظ رہیں۔

27027

(۲۷۰۲۸) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَن شُعْبَۃَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ الْحَارِثِ ، عَنْ أَبِی کَثِیرٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ : قامَ رَجُلٌ فَقَالَ : یَا رَسُولَ اللہِ ، أَیُّ الإِسْلاَمِ أَفْضَلُ ، قَالَ : أَنْ یَسْلَمَ الْمُسْلِمُونَ مِنْ یَدِکَ وَلِسَانِک۔ (مسلم ۶۴۔ احمد ۳۶۳۹۱)
(٢٧٠٢٨) حضرت عبداللہ بن عمرو فرماتے ہیں کہ ایک صحابی نے کھڑے ہو کر سوال کیا : اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! افضل ترین اسلام کیا ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : یہ کہ تمہارے ہاتھ اور تمہاری زبان سے مسلمان محفوظ ہوں۔

27028

(۲۷۰۲۹) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَن شُعْبَۃَ ، عَنِ الْحَکَمِ ، قَالَ : سَمِعْتُ عُرْوَۃَ بْنَ النَّزَّالِ یُحَدِّثُ عَن مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ لَہُ : أَلاَ أَدُلُّک عَلَی أَمْلَکِ ذَلِکَ کُلِّہِ ، قَالَ : قُلْتُ : یَا رَسُولَ اللہِ ، قَوْلُک أَلاَ أَدُلُّکَ عَلَی أَمْلَکِ ذَلِکَ کُلِّہِ قَالَ : فَأَشَارَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِیَدِہ إلَی لِسَانِہِ ، قَالَ : قُلْتُ : یَا رَسُولَ اللہِ ، وَإِنَّا لَنُؤَاخَذُ بِمَا نَتَکَلَّمُ بِہِ ، قَالَ : ثَکِلَتْک أُمُّک یا مُعَاذُ ، وَہَلْ یَکُبُّ النَّاسَ عَلَی مَنَاخِرِہِمْ إلاَّ حَصَائِدُ أَلْسِنَتِہِمْ ، قَالَ شُعْبَۃُ : وَقَالَ الْحَکَمُ : وَحَدَّثَنِی بِہِ مَیْمُونُ بْنُ أَبِی شَبِیبٍ ، وَسَمِعْتہ مِنْہُ مُنْذُ أَرْبَعِینَ سَنَۃً۔ (ترمذی ۲۶۱۶۔ احمد ۲۳۳)
(٢٧٠٢٩) حضرت معاذ بن جبل فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے ارشاد فرمایا : کیا میں تمہیں ان تمام چیزوں کی جڑ نہ بتادوں ؟ آپ کہتے ہیں : میں نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کہنا کہ میں تمہیں تمام چیزوں کی جڑ نہ بتادوں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی زبان کی طرف اشارہ کیا۔ میں نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ہم اپنی زبان سے جو بھی لفظ نکالتے ہیں ان سب پر مؤاخذہ ہوگا ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے معاذ ! تمہیں تمہاری ماں گم پائے۔ لوگوں کو جہنم میں پیشانی کے بل گرانے والی چیز اسی زبان کی کھیتیاں ہوں گی۔

27029

(۲۷۰۳۰) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَن یَزِیدَ بْنِ حَیَّانَ ، عَن عَنبَس بْنِ عُقْبَۃَ قَالَ عَبْدُ اللہِ : وَالَّذِی لاَ إلَہَ غَیْرُہُ ، مَا عَلَی الأَرْضِ شَیْئٌ أَحْوَجُ إلَی طُولِ سِجْنٍ مِنْ لِسَانٍ۔ (ابوداؤد ۱۵۹)
(٢٧٠٣٠) حضرت عنبس بن عقبہ فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود نے ارشاد فرمایا : قسم ہے اس ذات کی جس کے سوا کوئی معبود نہیں، زمین پر زبان سے زیادہ کوئی چیز بھی لمبی قید کی محتاج نہیں۔

27030

(۲۷۰۳۱) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنِ ابْنِ عَجْلاَنَ ، عَن زَیْدِ بْنِ أَسْلَمَ ، عَنْ أَبِیہِ قَالَ : دَخَلَ عُمَرُ عَلَی أَبِی بَکْرٍ وَہُوَ آخِذٌ بِلِسَانِہِ ہَکَذَا ، یَقُولُ : ہَا إنَّ ذَا أَوْرَدَنِی الْمَوَارِدَ۔
(٢٧٠٣١) حضرت اسلم فرماتے ہیں کہ حضرت عمر حضرت ابوبکر پر داخل ہوئے اس حال میں کہ انھوں نے اپنی زبان کو پکڑا ہوا تھا اور یوں فرما رہے تھے ۔ بیشک یہ ہی ہے جس نے مجھے مصیبتوں کے گھاٹ اتارا۔

27031

(۲۷۰۳۲) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَن شُعْبَۃَ ، عَن یَعْلَی بْنِ عَطَائٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ سُفْیَانَ ، عَنْ أَبِیہِ قَالَ : قُلْتُ : یَا رَسُولَ اللہِ ، أَیُّ شَیْئٍ أَتْقَی ؟ فَأَشَارَ بِیَدِہِ إلَی لِسَانِہِ۔ (ترمذی ۲۴۱۰۔ احمد ۳۸۴)
(٢٧٠٣٢) حضرت عبداللہ بن سفیان فرماتے ہیں کہ ان کے والد حضرت سفیان نے فرمایا : کہ میں نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! میں کن چیزوں سے بچوں ؟ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جواب میں اپنی زبان کی طرف اشارہ فرمایا۔

27032

(۲۷۰۳۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن سُفْیَانَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ دِینَارٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ : أَحَقُّ مَا طَہَّرَ الْمُسْلِمُ لِسَانَہُ۔
(٢٧٠٣٣) حضرت عبداللہ بن دینار فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عمر نے ارشاد فرمایا : کہ سب سے زیادہ حقدار چیز جس کو مسلمان پاکیزہ رکھے وہ اس کی زبان ہے۔

27033

(۲۷۰۳۴) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ أَبِی أُمَامَۃَ بْنِ سَہْلٍ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لاَ یَقُلْ أَحَدُکُمْ : إنِّی خَبِیثُ النَّفْسِ ، وَلْیَقُلْ ، إنِّی لَقِسُ النَّفْسِ۔ (بخاری ۶۱۸۰)
(٢٧٠٣٤) حضرت ابو امامہ بن سھل فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : تم میں سے کوئی یوں مت کہے کہ : میں برے نفس والا یا بدباطن ہوں بلکہ وہ یوں کہے میں معیوب نفس والا ہوں۔

27034

(۲۷۰۳۵) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَن ہِشَامٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ عَائِشَۃَ رضی اللہ عنہا ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : لاَ یَقُلْ أَحَدُکُمْ : خَبُثَتْ نَفْسِی ، وَلْیَقُلْ : لَقِسَتْ نَفْسِی۔ (بخاری ۶۱۷۹۔ مسلم ۱۶)
(٢٧٠٣٥) حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : تم میں کوئی یوں مت کہے : میں بدباطن ہوں بلکہ کہے کہ میں معیوب نفس والا ہوں۔

27035

(۲۷۰۳۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، عَن مِسْعَرٍ، عَن سِمَاکٍ الْحَنَفِیِّ ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ یَکْرَہُ أَنْ یَقُولَ : إنِّی کَسْلاَنُ۔
(٢٧٠٣٦) حضرت سماک حنفی فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عباس یوں کہنے کو کہ میں سست ہوں، مکروہ سمجھتے تھے۔

27036

(۲۷۰۳۷) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِی رَاشِدٍ ، أَنَّ أُخْتًا لِعُبَیْدِ بْنِ عُمَیْرٍ اسْتَشْفَعَتْ لِرَجُلٍ عَلَیْہِ فَقَالَتْ : إنَّمَا ہُوَ بِاللَّہِ وَبِکَ ، فَغَضِبَ فَقَالَ : إنَّمَا ہُوَ بِاللَّہِ۔
(٢٧٠٣٧) حضرت ابو راشد فرماتے ہیں کہ حضرت عبید بن عمیر کی بہن نے ان سے کسی آدمی کی سفارش کی ۔ تو یوں کہا : بیشک وہی ہے اللہ کی قسم اور آپ کی قسم۔ آپ کو غصہ آگیا اور فرمایا بیشک وہی ہے اللہ کی قسم۔

27037

(۲۷۰۳۸) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَن سُفْیَانَ ، عَن مُخْتَارٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِیزِ یَکْرَہُ أَنْ یَقُولَ : اللَّہُمَّ تَصَدَّقَ عَلَیَّ ، وَلَکِنْ لِیَقُلْ : اللَّہُمَّ امْنُنْ عَلَیَّ۔
(٢٧٠٣٨) حضرت مختار فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر بن عبد العزیز کو سنا کہ وہ یوں کہنے کو مکروہ سمجھتے تھے کہ اے اللہ ! تو ہم پر صدقہ فرما۔ لیکن یوں کہا کرتے : اے اللہ ! ہم پر احسان فرما۔

27038

(۲۷۰۳۹) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ قَالَ : أَخْبَرَنَا ہِشَامٌ ، عَن حَفْصَۃَ ، عَنِ الرَّبِیعِ بْنِ زِیَادٍ ، عَن کَعْبٍ قَالَ : وَاللَّہِ مَا اسْتَقَامَ لِعَبْدٍ ثَنَائٌ فِی الأَرْضِ حَتَّی اسْتَقَرَّ لَہُ فِی أَہْلِ السَّمَائِ۔
(٢٧٠٣٩) حضرت ربیع بن زیاد فرماتے ہیں کہ حضرت کعب نے ارشاد فرمایا : کہ دنیا میں کسی بندے کی تعریف مستقل نہیں ہوتی یہاں تک کہ آسمان والوں میں بھی اس کی وہ تعریف قرار پکڑ لیتی ہے۔

27039

(۲۷۰۴۰) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ قَالَ : أَخْبَرَنَا الْعَوَّامُ بْنُ حَوْشَبٍ قَالَ : الْتَقَیْت أَنَا وَإِیَاسُ بْنُ مُعَاوِیَۃَ بِذَاتِ عِرْقٍ فَذَکَرْنَا إبْرَاہِیمَ التَّیْمِیَّ فَقَالَ إیَاسٌ : لَوْلاَ کَرَامَتُہُ عَلَیَّ لأَثْنَیْتُ عَلَیْہِ فَقُلْت : ہَلْ تَعْرِفُہُ ؟ قَالَ : نَعَمْ ، قُلْتُ : فَلِمَ تَکْرَہُ الثَّنَائَ عَلَیْہِ ، قَالَ : إِنَّہُ کَانَ یُقَالُ : إنَّ الثَّنَائَ مِنَ الْجَزَائِ۔
(٢٧٠٤٠) حضرت عوام بن حوشب فرماتے ہیں کہ میری اور حضرت ایاس بن معاویہ کی ذات عرق مقام پر ملاقات ہوئی تو ہم نے حضرت ابراہیم تیمی کا ذکر کیا ۔ حضرت ایاس فرمانے لگے : اگر ان کی میرے دل میں عزت نہ ہوتی تو میں ضرور ان کی تعریف کرتا میں نے پوچھا : کیا آپ انہں ی جانتے ہیں ؟ انھوں نے کہا : جی ہاں ! میں نے پوچھا : پھر آپ ان کی تعریف کرنے کو برا کیوں سمجھ رہے ہیں ؟ انھوں نے فرمایا : اس لیے کہ یوں کہا جاتا ہے کہ تعریف کرنا اجرت دینے کے مترادف ہے۔

27040

(۲۷۰۴۱) حَدَّثَنَا مُعَاذٌ ، عَن حُمَیْدٍ ، عَنْ أَنَسٍ قَالَ : قالَتِ الْمُہَاجِرُونَ : یَا رَسُولَ اللہِ ، مَا رَأَیْنَا مِثْلَ قَوْمٍ قَدِمْنَا عَلَیْہِمْ أَحْسَنَ بَذْلاً مِنْ کَثِیرٍ ، وَلاَ أَحْسَنَ مُوَاسَاۃً فِی قَلِیلٍ ، کَفَوْنَا المؤنۃ ، وَأَشْرَکُونَا فِی الْمَہْنَأِ ، قَدْ خَشِینَا أَنْ یَذْہَبُوا بِالأَجْرِ کُلِّہِ ، فَقَالَ : لاَ ، مَا أَثْنَیْتُمْ عَلَیْہِمْ وَدَعَوْتُمُ اللَّہَ لَہُمْ۔ (بخاری ۲۱۷۔ ابوداؤد ۴۷۷۹)
(٢٧٠٤١) حضرت انس فرماتے ہیں کہ مہاجرین نے فرمایا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! جس قوم کے پاس ہم آئے ہیں ہم نے ان سے زیادہ اچھا کثرت سے خرچ کرنے والا اور تھوڑا ہونے کے باوجود غمخواری کرنے میں ان سے اچھا کسی کو نہیں دیکھا۔ انھوں نے ہمارا خرچہ برداشت کیا ، اور ہمیں اپنی خوشیوں میں شریک کیا۔ ہمیں ڈر ہے کہ سارے کا سارا اجر یہ لوگ ہی لے جائیں گے۔ اس پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : نہیں ! ایسی بات نہیں۔ بہرحال تم ان کی تعریف مت کرو، اور تم اللہ سے ان کے حق میں دعا کرو۔

27041

(۲۷۰۴۲) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ قَالَ : أَخْبَرَنَا أَشْعَثُ بْنُ سَوَّارٍ ، عَن کُرْدُوسٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ قَالَ : إنَّ لِلْقُلُوبِ نَشَاطًا وَإِقْبَالاً ، وَإِنَّ لَہَا لَتَوْلِیَۃً وَإِدْبَارًا ، فَحَدِّثُوا النَّاسَ مَا أَقْبَلُوا عَلَیْکُمْ۔
(٢٧٠٤٢) حضرت کردوس فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود نے ارشاد فرمایا : بیشک دلوں کے لیے بھی بشاشت اور توجہ بھی ہوتی ہے، اور سستی اور اکتاہٹ بھی ہوتی ہے ، تم لوگوں کو وہ بات بیان کرو جس سے وہ تمہاری طرف متوجہ ہوں۔

27042

(۲۷۰۴۳) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَن عُثْمَانَ بْنَ غِیَاثٍ ، عَنْ أَبِی السَّلِیْلِ قَالَ : قدِمَ عَلَیْنَا رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَکَانُوا یَجْتَمِعُونَ عَلَیْہِ ، فَصَعِدَ عَلَی ظَہْرِ بَیْتٍ فَحَدَّثَہُمْ۔
(٢٧٠٤٣) حضرت ابو السلیل فرماتے ہیں کہ ہمارے پاس نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ایک صحابی تشریف لائے تو لوگ ان کے پاس جمع ہوگئے۔ وہ گھر کی چھت پر چڑھے اور انھوں نے لوگوں کو حدیث بیان کی۔

27043

(۲۷۰۴۴) حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ قَالَ : أَخْبَرَنَا أَبُو الْعُمَیْسِ ، عَنْ أَبِی طَلْحَۃَ قَالَ : قَدِمَ أَنَسُ بْنُ مَالِکٍ الْکُوفَۃَ فَاجْتَمَعَنا عَلَیْہِ ، قَالَ : فَقُلْنَا : حَدِّثْنَا مَا سَمِعْت مِنْ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : وَہُوَ یَقُولُ : أَیُّہَا النَّاسُ ، انْصَرِفُوا عَنی ، حَتَّی أَلْجَأْنَاہُ إلَی حَائِطِ الْقَصْرِ فَقَالَ : لَوْ تَعْلَمُونَ مَا أَعْلَمُ لَبَکَیْتُمْ کَثِیرًا وَلَضَحِکْتُمْ قَلِیلاً أَیُّہَا النَّاسُ ، انْصَرِفُوا عَنی ، فَانْصَرَفْنَا عَنہُ۔ (احمد ۱۸۰)
(٢٧٠٤٤) حضرت ابو طلحہ فرماتے ہیں کہ حضرت انس بن مالک کوفہ تشریف لائے تو ہم لوگ ان کے پاس جمع ہوگئے۔ ہم نے عرض کی کہ آپ ہمیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنی ہوئی کوئی حدیث بیان کریں۔ آپ نے فرمایا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے تھے : اے لوگو ! میرے پاس سے جاؤ، یہاں تک کہ ہم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو انتہائی مجبور کردیتے پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے : جو میں جانتا ہوں اگر وہ بات تم جان لیتے تو تم زیادہ روتے اور تھوڑا ہنستے۔ اے لوگو ! میرے پاس سے چلے جاؤ تو ہم آپ کے پاس سے واپس لوٹ آئے۔

27044

(۲۷۰۴۵) حَدَّثَنَا عَفَّانُ قَالَ : حدَّثَنَا أَبُو ہِلاَلٍ قَالَ : حَدَّثَنَا الْحَسَنُ قَالَ : حَدِّثُوا النَّاسَ مَا أَقْبَلُوا عَلَیْکُمْ بِوُجُوہِہِمْ ، فَإِذَا الْتَفَتُوا فَاعْلَمُوا أَنَّ لَہُمْ حَاجَاتٍ۔ (دارمی ۴۴۹)
(٢٧٠٤٥) حضرت ابو ہلال فرماتے ہیں کہ حضرت حسن بصری نے ارشاد فرمایا : تم لوگوں کو وہ بات بیان کرو جس سے وہ تمہاری طرف متوجہ ہوجائیں، جب وہ تمہاری طرف متوجہ ہوں تو جان لو کہ ان کی ضرورتیں بھی ہیں۔

27045

(۲۷۰۴۶) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَن شَقِیقٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ قَالَ : کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَتَخَوَّلُنَا بِالْمَوْعِظَۃِ مَخَافَۃَ السَّآمَۃِ عَلَیْنَا۔ (مسلم ۲۱۷۲۔ احمد ۴۲۵)
(٢٧٠٤٦) حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے اکتا جانے کے اندیشے سے وعظ و نصیحت میں وقفہ فرمایا کرتے تھے۔

27046

(۲۷۰۴۷) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَن مَنْصُورٍ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، عَن عَلْقَمَۃَ ، أَنَّہُ کَانَ إذَا رَأَی مِنْ أَصْحَابِہِ ہَشَاشًا یَعْنِی انْبِسَاطًا ذَکَّرَہُمْ۔
(٢٧٠٤٧) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ حضرت علقمہ جب اپنے شاگردوں کو ہشاش بشاش دیکھتے تو ان کو وعظ و نصیحت فرماتے ۔

27047

(۲۷۰۴۸) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، وَابْنُ عُیَیْنَۃَ ، وَأَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَن مُحَمَّدِ بْنِ عَجْلاَنَ ، عَن بُکَیْر بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ الأَشَجِّ ، عَن مَعْمَرٍ ، عَن عُبَیْدِ اللہِ بْنِ عَدِیِّ بْنِ الْخِیَارِ قَالَ : قَالَ عُمَرُ : لاَ تُبَغِّضُوا اللَّہَ إلَی عِبَادِہِ ، یَکُونُ أَحَدُکُمْ إمَامًا فَیُطَوِّلُ عَلَیْہِمْ مَا ہُمْ فِیہِ ، وَیَکُونُ أَحَدُکُمْ قَاصًّا فَیُطَوِّلُ عَلَیْہِمْ مَا ہُمْ فِیہِ۔
(٢٧٠٤٨) حضرت عبید اللہ بن عدی بن خیار فرماتے ہیں کہ حضرت عمر نے ارشاد فرمایا : تم لوگ اللہ عزوجل کو اس کے بندوں کے سامنے مبغوض مت بناؤ۔ تم میں کوئی امام ہوتا ہے تو وہ ان پر نماز اتنی لمبی کردیتا ہے۔ اور کوئی خطیب ہوتا ہے تو وہ ان پر اپنی بات اتنی طویل کردیتا ہے۔

27048

(۲۷۰۴۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن مُوسَی بْنِ عُبَیْدَۃَ ، عَن مُحَمَّدِ بْنِ ثَابِتٍ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إذَا قَالَ الرَّجُلُ لأَخِیہِ : جَزَاک اللَّہُ خَیْرًا ، فَقَدْ أَبْلَغَ فِی الثَّنَائِ۔ (ترمذی ۲۰۳۵)
(٢٧٠٤٩) حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جب تم میں کوئی اپنے بھائی کو یوں کہے : اللہ تمہیں بہترین بدلہ عطا فرمائے تو اس نے تعریف میں مبالغہ کیا۔

27049

(۲۷۰۵۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن أُسَامَۃَ بْنِ زَیْدٍ ، عَن طَلْحَۃَ بْنِ عُبَیْدِ اللہِ بْنِ کَرِیزٍ قَالَ : قَالَ عُمَرُ : لَوْ یَعْلَمُ أَحَدُکُمْ مَا لَہُ فِی قَوْلِہِ لأَخِیہِ : جَزَاک اللَّہُ خَیْرًا ، لأَکْثَرَ مِنْہَا بَعْضُکُمْ لِبَعْضٍ۔
(٢٧٠٥٠) حضرت طلحہ بن عبید اللہ بن کریز فرماتے ہیں کہ حضرت عمر نے ارشاد فرمایا : اگر تم میں کوئی جان لیتا کہ اس کے اپنے بھائی کو یہ کلمات ۔۔۔ اللہ تمہیں بہترین بدلہ عطا فرمائے۔۔۔ کہنے میں کیا ثواب ہے تو تم ایک دوسرے سے زیادہ اس کلمہ کو کہتے۔

27050

(۲۷۰۵۱) حَدَّثَنَا سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنِ الْبَرَائِ قَالَ : کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إذَا أَخَذَ مَضْجَعَہُ قَالَ : اللَّہُمَّ إلَیْک أَسْلَمْت نَفْسِی ، وَإِلَیْک وَجَّہْت وَجْہِی ، وَإِلَیْک فَوَّضْت أَمْرِی ، وَإِلَیْک أَلْجَأْت ظَہْرِی ، رَغْبَۃً وَرَہْبَۃً إلَیْک ، لاَ مَلْجَأَ وَلاَ مَنْجَی مِنْک إلاَّ إلَیْک ، آمَنْت بِکِتَابِکَ الَّذِی أَنْزَلْت ، وَبِنَبِیِّکَ الَّذِی أَرْسَلْت ، أَوْ برَسُولِکَ الَّذِی أَرْسَلْت۔ (بخاری ۶۳۱۳۔ ترمذی ۳۳۹۴)
(٢٧٠٥١) حضرت برائ فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب اپنے سونے کی جگہ پر لیٹتے تو یہ دعا پڑھتے : ترجمہ : اے اللہ ! میں نے اپنی جان تیرے ہی سپرد کی، اور میں نے اپنا چہرہ تیری ہی طرف کردیا اور میں نے اپنا معاملہ بھی تیرے ہی سپرد کردیا اور تجھے ہی میں نے اپنا پشت پناہ بنا لیا تیری رحمت کی رغبت کرتے ہوئے اور تیرے عذاب سے ڈرتے ہوئے اور تیری رحمت کے سوا کوئی ٹھکانا اور جائے پناہ نہیں اور جو کتاب تو نے اتاری ہے میں اس پر ایمان لایا اور جو نبی یا رسول تو نے بھیجا ہے اس پر بھی ایمان لایا۔

27051

(۲۷۰۵۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن سُفْیَانَ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ عُمَیْرٍ ، عَن رِبْعِیٍّ ، عَن حُذَیْفَۃَ قَالَ : کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إذَا نَامَ قَالَ : اللَّہُمَّ بِاسْمِکَ أَحْیَا وَأَمُوتُ ، فَإِذَا اسْتَیْقَظَ قَالَ : الْحَمْدُ لِلَّہِ الَّذِی أَحْیَانَا بَعْدَ مَا أَمَاتَنَا وَإِلَیْہِ النُّشُورُ۔ (بخاری ۶۳۱۲۔ ترمذی ۳۴۱۷)
(٢٧٠٥٢) حضرت حذیفہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب سونے کا ارادہ کرتے تو یہ دعا فرماتے اے اللہ ! میں تیرا ہی نام لے کر مرتا ہوں اور جیتا ہوں۔ اور جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیدار ہوتے تو یہ دعا فرماتے : اللہ کا شکر ہے جس نے ہمیں مارنے کے بعد جگا دیا اور اسی کی طرف مرنے کے بعد لوٹنا ہے۔

27052

(۲۷۰۵۳) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ ، عَنْ أَبِیہِ قَالَ : کُنْتُ قَاعِدًا عِنْدَ عَمَّارٍ فَأَتَاہُ رَجُلٌ فَقَالَ : أَلاَ أُعَلِّمُک کَلِمَاتٍ ، قَالَ کَأَنَّہُ یَرْفَعُہُنَّ إلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إذَا أَخَذْت مَضْجَعَک مِنَ اللَّیْلِ فَقُلْ : اللَّہُمَّ أَسْلَمْت نَفْسِی إلَیْک ، وَوَجَّہْت وَجْہِی إلَیْکَ ، وَفَوَّضْت أَمْرِی إلَیْک ، وَأَلْجَأْت ظَہْرِی إلَیْک ، آمَنْت بِکِتَابِکَ الْمُنْزَلِ ، وَنَبِیِّکَ الْمُرْسَلِ ، نَفْسِی خَلَقْتہَا ، لَکَ مَحْیَاہَا وَمَمَاتُہَا ، فَإِنْ کَفَتَّہا فَارْحَمْہَا ، وَإِنْ أَخَّرْتہَا فَاحْفَظْہَا بِحِفْظِ الإِیمَانِ۔
(٢٧٠٥٣) حضرت سائب فرماتے ہیں کہ میں حضرت عمار کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ آپ کے پاس کوئی شخص آیا ۔ آپ نے فرمایا : کیا میں تجھے چند کلمات نہ سکھا دوں ؟ راوی کہتے ہیں گویا کہ آپ یہ کلمات نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حوالہ سے بیان فرما رہے تھے کہ جب تو رات کو اپنے بستر پر لیٹے تو یوں کہہ : اے اللہ ! میں نے اپنی جان تیرے سپرد کی، اور میں نے اپنا چہرہ تیری طرف کردیا اور میں نے اپنا معاملہ تیرے سپرد کردیا اور میں نے تجھے اپنا پشت پناہ بنا لیا ۔ میں ایمان لایا تیری نازل کردہ کتاب پر ، اور تیرے بھیجے ہوئے نبی پر ، میری جان کو تو نے ہی پیدا کیا، تیرے لیے ہی اس کا جینا اور اس کا مرنا ہے۔ اگر تو اس کو موت دے تو اس پر رحم کرنا اور اگر تو اس کی موت کو مؤخر کرے تو اس کی حفاظت کرنا ایمان محفوظ رکھنے کے ساتھ۔

27053

(۲۷۰۵۴) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَن شُعْبَۃَ ، عَن یَعْلَی بْنِ عَطَائٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ عَمْرَو بْنَ عَاصِمٍ یُحَدِّثُ أَنَّہُ سَمِعَ أَبَا ہُرَیْرَۃَ ، أَنَّ أَبَا بَکْرٍ قَالَ لِلنَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : أَخْبِرْنِی بِشَیْئٍ أَقُولُہُ إذَا أَمْسَیْت وَإِذَا أَصْبَحْت ، قَالَ: قُلِ اللَّہُمَّ ، عَالِمَ الْغَیْبِ وَالشَّہَادَۃِ ، فَاطِرَ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ ، رَبَّ کُلِّ شَیْئٍ وَمَلِیکَہُ ، أَشْہَدُ أَنْ لاَ إلَہَ إلاَّ أَنْتَ ، أَعُوذُ بِکَ مِنْ شَرِّ نَفْسِی وَمِنَ الشَّیْطَانِ وَشِرْکِہِ ، قُلْہُ إذَا أَصْبَحْت وَإِذَا أَمْسَیْت ، وَإِذَا أَخَذْت مَضْجَعَک۔ (نسائی ۷۷۱۵۔ دارمی ۲۶۸۹)
(٢٧٠٥٤) حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابوبکر نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں عرض کی، کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مجھے کوئی ایسی دعا بتلا دیجئے جو میں صبح و شام پڑھا کروں ۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : یہ دعا پڑھو : اے اللہ ! پوشیدہ اور ظاہر باتوں کے جاننے والے، آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے والے، ہر چیز کے پروردگار اور بادشاہ ۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ تیرے سوا کوئی معبود برحق نہیں، میں تیری پناہ لیتا ہوں اپنے نفس کے شر سے ، اور شیطان سے اور اس کے شریکوں سے ، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم یہ کلمات پڑھو جب تم صبح کرو اور جب شام کرو، اور جب اپنے بستر پر لٹہ جاؤ۔

27054

(۲۷۰۵۵) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَن شُعْبَۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ أَبِی السَّفَرِ ، قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا بَکْرِ بْنَ أَبِی مُوسَی یُحَدِّثُ عَنِ الْبَرَائِ ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ إذَا اسْتَیْقَظَ قَالَ : الْحَمْدُ لِلَّہِ الَّذِی أَحْیَانَا بَعْدَ مَا أَمَاتَنَا وَإِلَیْہِ النُّشُورُ ، قَالَ شُعْبَۃُ : ہَذَا ، أَوْ نَحْوَ ہَذَا وَإِذَا نَامَ قَالَ : اللَّہُمَّ بِاسْمِکَ أَحْیَا وَبِاسْمِکَ أَمُوتُ۔ (مسلم ۲۰۸۳۔ احمد ۳۰۲)
(٢٧٠٥٥) حضرت برائ فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب بیدار ہوتے تو یہ دعا پڑھتے : اللہ کا شکر ہے جس نے مجھے مارنے کے بعد زندہ کیا۔ اور جب آپ سونے کا ارادہ کرتے تو یہ دعا پر ھتے : اے اللہ ! میں تیرا نام لے کر زندہ رہتا ہوں اور تیرا نام لے کر ہی مرتا ہوں۔

27055

(۲۷۰۵۶) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ قَالَ : حدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ بْنُ عُمَرَ ، عَن سَعِیدِ بْنِ أَبِی سَعِیدٍ الْمَقْبُرِیِّ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : إذَا أَرَادَ أَحَدُکُمْ أَنْ یَضْطَجِعَ عَلَی فِرَاشِہِ فَلْیَنْزِعْ دَاخِلَۃَ إزَارِہِ ، ثُمَّ لِیَنْفُضْ بِہَا فِرَاشَہُ فَإِنَّہُ لاَ یَدْرِی مَا خَلَّفَہُ عَلَیْہِ ، ثُمَّ لِیَضْطَجِعْ عَلَی شِقِّہِ الأَیْمَنِ ، ثُمَّ لِیَقُلْ ، بِاسْمِکَ رَبِّی وَضَعْت جَنْبِی وَبِکَ أَرْفَعُہُ ، فَإِنْ أَمْسَکْت نَفْسِی فَارْحَمْہَا ، وَإِنْ أَرْسَلْتَہَا فَاحْفَظْہَا بِمَا تَحْفَظُ بِہِ عِبَادَک الصَّالِحِینَ۔ (بخاری ۷۳۹۳۔ ترمذی ۳۴۰۱)
(٢٧٠٥٦) حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جب تم میں سے کوئی اپنے بستر پر لیٹنے کا ارادہ کرے تو اس کو چاہیے کہ وہ اپنے نیچے کے زائد کپڑے اتار دے، پھر وہ اپنے بستر کو جھاڑے۔ اس لیے کہ وہ نہیں جانتا کہ اس کے پیچھے بستر پر کیا چیز تھی۔ پھر اسے چاہیے کہ وہ داہنی کروٹ پر لیٹ جائے ، پھر یہ دعا پڑھے : میرے رب تیرا نام لے کر میں نے اپنا پہلو رکھا اور تیرا نام لے کر ہی میں اسے اٹھاؤں گا، پس اگر تو میرے نفس کو موت دے تو اس پر رحم فرمانا۔ اور اگر تو اس کو زندہ چھوڑ دے تو اس کی حفاظت کرنا ایسی حفاظت جو تو اپنے نیک بندوں کی کرتا ہے۔

27056

(۲۷۰۵۷) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَن شُعْبَۃَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ ، عَن سَعْدِ بْنِ عُبَیْدَۃَ ، عَنِ الْبَرَائِ بْنِ عَازِبٍ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، أَنَّہُ قَالَ لِرَجُلٍ : إذَا أَخَذْت مَضْجَعَک فَقُلْ : اللَّہُمَّ أَسْلَمْت نَفْسِی إلَیْک ، وَوَجَّہْت وَجْہِی إلَیْک ، وَفَوَّضْت أَمْرِی إلَیْک ، وَأَلْجَأْت ظَہْرِی إلَیْک رَغْبَۃً وَرَہْبَۃً إلَیْک ، لاَ مَنْجَی ، وَلاَ مَلْجَأَ مِنْک إلاَّ إلَیْک ، آمَنْت بِکِتَابِکَ الَّذِی أَنْزَلْت ، وَنَبِیِّکَ الَّذِی أَرْسَلْت ، فَإِنْ مُتَّ ، مُتَّ عَلَی الْفِطْرَۃِ۔ (بخاری ۲۴۷۔ مسلم ۲۰۸۱)
(٢٧٠٥٧) حضرت براء بن عازب فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک صحابی سے ارشاد فرمایا : جب تم اپنے بستر پر لیٹنے لگو تو یہ دعا پڑھو۔ اے اللہ ! میں نے اپنی جان تیرے سپرد کردی اور میں نے اپنا چہرہ تیری طرف کردیا اور اپنا معاملہ تیرے سپرد کردیا اور میں نے تجھے اپنا پشت پناہ بنا لیا تیری رحمت کی رغبت کرتے ہوئے اور تیرے عذاب کے خوف کی وجہ سے اور تیری پکڑ سے بچنے کا تیری رحمت کے سوا کوئی ٹھکانا اور کوئی جائے پناہ نہیں اور جو کتاب تو نے اتاری ہے اس پر میں ایمان لایا اور جو نبی تو نے بھیجا ہے اس پر بھی ایمان لایا ۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اگر تیری موت واقع ہوگئی تو تو فطرت اسلام پر مرا۔

27057

(۲۷۰۵۸) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَن حَبِیبٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ بَابَاہُ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ : مَنْ قَالَ حِینَ یَأْوِی إلَی فِرَاشِہِ، لاَ إلَہَ إلاَّ اللَّہُ وَحْدَہُ، لاَ شَرِیکَ لَہُ، لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ وَہُوَ عَلَی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیرٌ، سُبْحَانَ اللہِ وَبِحَمْدِہِ الحَمدُ للہ ، لاَ إلَہَ إلاَّ اللَّہُ ، اللَّہُ أَکْبَرُ ، غُفِرْت ذُنُوبُہُ ، وَإِنْ کَانَتْ مِثْلَ زَبَدِ الْبَحْرِ۔ (ابن حبان ۵۵۲۸)
(٢٧٠٥٨) حضرت عبداللہ بن باباہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابوہریرہ نے ارشاد فرمایا : جو شخص بستر پر لیٹتے ہوئے یہ دعا پڑھے : اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں وہ تنہا ہے اس کا کوئی شریک نہیں اسی کا ملک ہے اور اسی کے لیے تعریف و شکر ہے اور اس کی ذات ہر چیز پر قادر ہے، اللہ پاک ہے تمام عیوب سے اور اپنی تعریف کے ساتھ ہے، سب تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں، اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، اللہ سب سے بڑا ہے۔ تو اس شخص کے گناہوں کی مغفرت کردی جائے گی اگرچہ سمندر کی جھاگ کے برابر ہوں۔

27058

(۲۷۰۵۹) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ قَالَ: حدَّثَنَا زُہَیْرٌ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ، عَن فَرْوَۃَ بْنِ نَوْفَلٍ، عَنْ أَبِیہِ، أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ لَہُ : مَجِیئٌ مَا جَائَ بِکَ ؟ قَالَ : جِئْت یَا رَسُولَ اللہِ تُعَلِّمُنِی شَیْئًا عِنْدَ مَنَامِی، قَالَ: إذَا أَخَذْت مَضْجَعَک فَاقْرَأْ {قُلْ یَا أَیُّہَا الْکَافِرُونَ} ثُمَّ نَمْ عَلَی خَاتِمَتِہَا فَإِنَّہَا بَرَائَۃٌ مِنَ الشِّرْکِ۔ (ابوداؤد ۵۰۱۶۔ دارمی ۳۴۲۷)
(٢٧٠٥٩) حضرت نوفل فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے فرمایا : آئے ہوئے تمہیں کیا چیز لائی ؟ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! میں آیا ہوں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مجھے سوتے وقت پڑھنے کے لیے کوئی دعا سکھا دیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جب تم اپنے بستر پر لیٹ جاؤ تو تم سورة الکافرون پڑھو، پھر اس کے ختم کرنے پر سو جاؤ۔ اس لیے کہ یہ سورت شرک سے بری ہونے کا پروانہ ہے۔

27059

(۲۷۰۶۰) حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ أَبِی مَالِکٍ الأَشْجَعِیِّ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ نَوْفَلٍ الأَشْجَعِیِّ ، عَنْ أَبِیہِ قَالَ : قُلْتُ : یَا رَسُولَ اللہِ ، أَخْبِرْنِی بِشَیْئٍ أَقُولُہُ إذَا أَصْبَحْتُ وَإِذَا أَمْسَیْتُ ؟ قَالَ : اقْرَأْ {قُلْ یَا أَیُّہَا الْکَافِرُونَ} ثُمَّ نَمْ عَلَی خَاتِمَتِہَا فَإِنَّہَا بَرَائَۃٌ مِنَ الشِّرْکِ۔
(٢٧٠٦٠) حضرت نوفل اشجعی فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کی : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! مجھے کوئی ایسی دعا بتلا دیجئے جو میں صبح و شام پڑھا کروں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم سورة الکافرون پڑھا کرو، پھر اس کے ختم ہونے پر سو جایا کرو۔ اس لیے کہ یہ شرک سے بری ہونے کا پروانہ ہے۔

27060

(۲۷۰۶۱) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ قَالَ : حدَّثَنَا زُہَیْرٌ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ عَلِیٍّ قَالَ : إذَا أَخَذْتَ مَضْجَعَک فَقُلْ : بِسْمِ اللہِ وَفِی سَبِیلِ اللہِ وَعَلَی مِلَّۃِ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَحِینَ تُدْخِلُ الْمَیِّتَ قَبْرَہُ۔
(٢٧٠٦١) حضرت عاصم فرماتے ہیں کہ حضرت علی نے ارشاد فرمایا : جب تو اپنے بستر پر لیٹ جائے تو یہ دعا پڑھ : اللہ کے نام کے ساتھ، اور اللہ کے راستہ میں اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ملت پر ۔ اور جب تو میت کو اس کی قبر میں داخل کرے اس وقت بھی یہ دعا پڑھ لے۔

27061

(۲۷۰۶۲) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ قَالَ : أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَن سَوَائٍ ، عَن حَفْصَۃَ ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ إذَا أَخَذَ مَضْجَعَہُ قَالَ : رَبِّ قِنِی عَذَابَک یَوْمَ تَبْعَثُ عِبَادَک۔ (ابوداؤد ۵۰۰۶۔ احمد ۲۸۸)
(٢٧٠٦٢) حضرت حفصہ فرماتی ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب اپنے بستر پر لیٹ جاتے تو یہ دعا پڑھتے : میرے پروردگار ! مجھے اپنے عذاب سے بچا جس روز تو اپنے بندوں کو دوبارہ اٹھائے گا۔

27062

(۲۷۰۶۳) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنِ الْبَرَائِ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِرَجُلٍ : یَا فُلاَنُ ، إذَا أَوَیْت إلَی فِرَاشِکَ فَقُلْ : اللَّہُمَّ أَسْلَمْت نَفْسِی إلَیْک ، وَوَجَّہْت وَجْہِی إلَیْک وَوَلَّیْت ظَہْرِی إلَیْک ، لاَ مَلْجَأَ وَلاَ مَنْجَی مِنْک إلاَّ إلَیْک ، آمَنْتُ بِکِتَابِکَ الَّذِی أَنْزَلْت ، وَنَبِیِّکَ الَّذِی أَرْسَلْت فَإِنَّک مِتَّ مِنْ لَیْلَتِکَ مِتَّ عَلَی الْفِطْرَۃِ ، فَإِنْ أَصْبَحْت أَصَبْتَ خَیْرًا۔ (بخاری ۷۴۸۸۔ احمد ۲۹۹)
(٢٧٠٦٣) حضرت براء بن عازب فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کسی صحابی سے فرمایا : اے فلاں ! جب تو اپنے بستر پر لیٹ جائے تو یہ دعا پڑھ : اے اللہ ! میں نے اپنی جان کو تیرے سپرد کردیا اور میں نے اپنا چہرہ بھی تیری طرف کردیا اور میں نے تجھے ہی اپنا پشت پناہ بنا لیا۔ تیرے عذاب سے بچنے کے لیے تیری رحمت کے سوا کوئی ٹھکانا اور کوئی جائے پناہ نہیں جو کتاب تو نے نازل کی ہے میں اس پر ایمان لایا اور جو نبی تو نے بھیجا ہے میں اس پر ایمان لایا ۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اگر اس رات کو تیری موت واقع ہوگئی تو تو فطرت اسلام پر مرا، اور اگر تو نے صبح کی تو تو نے خیر کو پا لیا۔

27063

(۲۷۰۶۴) حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ ، عَنِ الأَفْرِیقِیِّ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ یَزِیدَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ لِرَجُلٍ مِنَ الأَنْصَارِ : کَیْفَ تَقُولُ حِینَ تُرِیدُ أَنْ تَنَامَ ؟ قَالَ : أَقُولُ بِاسْمِکَ وَضَعْت جَنْبِی فَاغْفِرْ لِی قَالَ : قَدْ غُفِرَ لَک۔ (نسائی ۱۰۶۰۶۔ احمد ۱۷۳)
(٢٧٠٦٤) حضرت عبداللہ بن عمرو فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک انصاری صحابی سے پوچھا : جب تم سونے کا ارادہ کرتے ہو تو کیا دعا پڑھتے ہو ؟ انھوں نے عرض کیا : میں یوں پڑھتا ہوں : تیرا نام لے کر میں نے اپنے پہلو کو رکھا پس تو میری مغفرت فرما دے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تحقیق تیری مغفرت کردی گئی۔

27064

(۲۷۰۶۵) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَن زَائِدَۃَ ، عَن مَنْصُورٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالَ : کَانَ أَصْحَابُنَا یَأْمُرُونَنَا وَنَحْنُ غِلْمَانٌ إذَا أَوَیْنَا إلَی فِرَاشِنَا أَنْ نُسَبِّحَ ثَلاَثًا وثَلاَثِینَ ، وَنَحْمَدَ ثَلاَثًا وَثَلاَثِینَ ، وَنُکَبِّرَ أَرْبَعًا وَثَلاَثِینَ۔
(٢٧٠٦٥) حضرت منصور فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم نے ارشاد فرمایا : کہ ہمارے اصحاب ہمیں حکم دیتے اس حال میں کہ ہم بچے تھے کہ ہم جب اپنے بستروں پر لیٹ جائیں تو ہم تینتیس مرتبہ سبحان اللہ، تینتیس مرتبہ الحمد للہ اور چونیسں مرتبہ اللہ اکبر کہیں۔

27065

(۲۷۰۶۶) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَن زَائِدَۃَ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنِ الْمُسَیَّبِ ، عَن حَفْصَۃَ قَالَتْ : کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إذَا أَخَذَ مَضْجَعَہُ وَضَعَ یَدَہُ الْیُمْنَی تَحْتَ خَدِّہِ الأَیْمَنِ۔
(٢٧٠٦٦) ام المؤمنین حضرت حفصہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب اپنے بستر پر لیٹتے تو اپنا داہنا ہاتھ اپنے داہنے رخسار کے نیچے رکھ لیتے۔

27066

(۲۷۰۶۷) حَدَّثَنَا عُبَیْدُ بْنُ سَعِیدٍ ، عَن شُعْبَۃَ ، عَنْ أَبِی المُؤَمِّلِ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَن عُرْوَۃَ ، عَنْ عَائِشَۃَ ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ إذَا صَلَّی رَکْعَتَیِ الْفَجْرِ اضْطَجَعَ وَوَضَعَ یَدَہُ الْیُمْنَی تَحْتَ خَدِّہِ الأَیْمَنِ۔ (بخاری ۶۲۶۔ مسلم ۱۲۱)
(٢٧٠٦٧) حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب فجر کی دو رکعات پڑھ لیتے تو لیٹ جاتے اور اپنا داہنا ہاتھ اپنے داہنے رخسار کے نیچے رکھ لیتے۔

27067

(۲۷۰۶۸) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَن زَکَرِیَّا ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنِ الْبَرَائِ قَالَ : کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إذَا نَامَ تَوَسَّدَ یَمِینَہُ تَحْتَ خَدِّہِ وَیَقُولُ : قِنِی عَذَابَک یَوْمَ تَبْعَثُ عِبَادَک۔ (احمد ۲۹۰)
(٢٧٠٦٨) حضرت براء بن عازب فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب سونے لگتے تو اپنے دائیں ہاتھ کو اپنے رخسار کے نیچے رکھ لیتے اور یہ دعا پڑھتے تھے : اے اللہ ! مجھے اپنے عذاب سے بچا جس دن تو اپنے بندوں کو دوبارہ اٹھائے گا۔

27068

(۲۷۰۶۹) حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ بْنُ مُوسَی قَالَ : أَخْبَرَنَا إسْرَائِیلُ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِی عُبَیْدَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، أَنَّہُ کَانَ إذَا نَامَ قَالَ : اللَّہُمَّ قِنِی عَذَابَک یَوْمَ تَجْمَعُ عِبَادَک ، وَکَانَ یَضَعُ یَمِینَہُ تَحْتَ خَدِّہِ۔ (ترمذی ۲۵۵۔ احمد ۳۹۴)
(٢٧٠٦٩) حضرت براء بن عازب فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب سونے کا ارادہ کرتے تو یہ دعا پڑھتے : اے اللہ ! مجھے اپنے عذاب سے بچا جس دن تو اپنے بندوں کو جمع کرے گا۔ اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنا دایاں ہاتھ اپنے رخسار کے نیچے رکھ لیتے تھے۔

27069

(۲۷۰۷۰) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ قَالَ : حدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ ، عَن سَعِیدِ بْنِ أَبِی سَعِیدٍ الْمَقْبُرِیِّ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : إذَا أَرَادَ أَحَدُکُمْ أَنْ یَضْطَجِعَ عَلَی فِرَاشِہِ فَلْیَضْطَجِعْ عَلَی شِقِّہِ الأَیْمَنِ۔
(٢٧٠٧٠) حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جب تم میں سے کوئی اپنے بستر پر لیٹنے کا ارادہ کرے تو اس کو چاہیے کہ وہ داہنے پہلو پر لیٹے۔

27070

(۲۷۰۷۱) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ ، عَن سُفْیَانَ ، عَن سَلَمَۃَ بْنِ کُہَیْلٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبْزَی ، عَنْ أَبِیہِ قَالَ : کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إذَا أَصْبَحَ قَالَ : أَصْبَحْنَا عَلَی فِطْرَۃِ الإِسْلاَمِ ، وَکَلِمَۃِ الإِخْلاَصِ ، وَدِینِ نَبِیِّنَا مُحَمَّدٍ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَمِلَّۃِ أَبِینَا إبْرَاہِیمَ حَنِیفًا مُسْلِمًا وَمَا کَانَ مِنَ الْمُشْرِکِینَ۔ (احمد ۴۰۷۔ دارمی ۲۶۸۸)
(٢٧٠٧١) حضرت عبد الرحمن بن ابزی فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب صبح کرتے تو یہ دعا پڑھتے : ترجمہ : ہم نے صبح کی فطرت اسلام پر اور کلمہ اخلاص پر ، اور ہمارے نبی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دین پر اور ہمارے والد حضرت ابراہیم کی ملت پر جو پکے مسلمان تھے اور مشرکین میں سے نہیں تھے۔

27071

(۲۷۰۷۲) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ قَالَ : حدَّثَنَا مِسْعَرٌ قَالَ : حَدَّثَنِی أَبُو عَقِیلٍ ، عَن سَابِقٍ ، عَنْ أَبِی سَلاَّمٍ خَادِمِ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : مَا مِنْ مُسْلِمٍ ، أَوْ إنْسَانٍ ، أَوْ عَبْدٍ یَقُولُ حِینَ یُمْسِی وَیُصْبِحُ ثَلاَثَ مَرَّاتٍ : رَضِیت بِاللَّہِ رَبًّا وَبِالإِسْلاَمِ دِینًا وَبِمُحَمَّدٍ نَبِیًّا إلاَّ کَانَ حَقًّا عَلَی اللہِ أَنْ یُرْضِیَہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ۔ (ابن ماجہ ۳۸۷۰)
(٢٧٠٧٢) حضرت ابو سلام جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خادم ہیں وہ فرماتے ہں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : کوئی مسلمان یا کوئی انسان یا کوئی بندہ صبح و شام تین مرتبہ یہ کلمات نہیں پڑھتا : ترجمہ ! میں اللہ کو رب مان کر ، اسلام کو دین مان کر اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نبی مان کر راضی ہوں۔ مگر یہ کہ اللہ پر اس کا حق ہے کہ قیامت کے دن اللہ اس کو راضی کردیں گے۔

27072

(۲۷۰۷۳) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِ ، عَن مَنْصُورٍ ، عَن رِبْعِیِّ بْنِ حِرَاشٍ ، عَن رَجُلٍ مِنَ النَّخْعِ ، عَن سَلْمَانَ قَالَ : مَنْ قَالَ إذَا أَصْبَحَ : اللَّہُمَّ أَنْتَ رَبِّی لاَ شَرِیکَ لَکَ ، أَصْبَحْنَا وَأَصْبَحَ الْمُلْکُ لِلَّہِ ، وَالْحَمْدُ لِلَّہِ لاَ شَرِیکَ لَہُ وَإِذَا أَمْسَی مِثْلُ ذَلِکَ ، کَانَ کَفَّارَۃً لِمَا أحْدَثَ بَیْنَہُمَا۔
(٢٧٠٧٣) حضرت ربعی بن حراش قبیلہ نخع کے کسی آدمی سے نقل کرتے ہیں کہ حضرت سلمان فارسی نے ارشاد فرمایا : جو شخص صبح کے وقت یہ کلمات پڑھے : ترجمہ : اے اللہ ! تو میرا پروردگار ہے تیرا کوئی شریک نہیں۔ ہم نے صبح کی اور تمام ملک نے اللہ کے لیے صبح کی اور سب تعریفیں اللہ کے لیے ہیں۔ اس کا کوئی شریک نہیں۔ اور جو شخص شام کے وقت بھی ایسے ہی پڑھے تو یہ دعا کفارہ بن جائے گی ان گناہوں کے لیے جو ان دونوں کے مابین سرزد ہوئے۔

27073

(۲۷۰۷۴) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ، عَن حُصَیْنٍ، عَن تَمِیمِ بْنِ سَلَمَۃَ، عَنْ عَبْدِاللہِ بْنِ سَبْرَۃَ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّہُ کَانَ یَقُولُ إذَا أَصْبَحَ وَأَمْسَی : اللَّہُمَّ اجْعَلْنِی مِنْ أَفْضَلِ عِبَادِکَ الْغَدَاۃَ ، أَوِ الْعَشِیَّۃَ نَصِیبًا مِنْ خَیْرٍ تَقْسِمُہُ ، أو نُورًا تَہْدِی بِہِ، أو رَحْمَۃً تَنْشُرُہَا، أو رِزْقًا تَبْسُطُہُ، أو ضر تَکْشِفُہُ، أو بَلاَئً تدْفَعُہُ، أو فِتْنَۃً تَصْرِفُہَا، أو شَرًّا تَدْفَعُہُ۔
(٢٧٠٧٤) حضرت عبداللہ بن سبرہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عمر صبح و شام یہ دعا پڑھا کرتے تھے۔ ترجمہ : اے اللہ ! تو مجھے بنا دے اپنے افضل ترین بندوں میں سے صبح یا شام کے وقت حصہ دیتے ہوئے اس بھلائی میں سے جس کو تو تقسیم کرے گا یا اس نور میں سے جس کے ذریعہ تو ہدایت دے گا یا اس رحمت میں سے جس کو تو بانٹے گا یا اس رزق میں سے جس کو تو عطا کرے گا یا اس تکلیف سے جس کو تو ہٹا دے گا یا اس مصیبت سے جس کو تو دفع کرے گا یا اس فتنہ سے جس کو تو پھیر دے گا یا اس شر سے جس کو تو دفع کر دے گا۔

27074

(۲۷۰۷۵) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَن حُصَیْنٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ قَالَ : قُلْتُ لِسَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ : مَا تَقُولُون إذَا أَصْبَحْتُمْ وَأَمْسَیْتُمْ مِمَّا تَدْعُونَ بِہِ ؟ قَالَ : تَقُولُ : أَعُوذُ بوجہ اللہِ الْکَرِیمِ ، وَبِسْمِ اللہِ الْعَظِیمِ ، وَکَلِمَۃِ اللہِ التَّامَّۃِ ، مِنْ شَرِّ السَّآمَّۃِ وَالْعامَّۃِ ، وَمِنْ شَرِّ مَا خَلَقْت أَیْ رَبِّی ، وَشَرِّ مَا أَنْتَ آخِذٌ بِنَاصِیَتِہِ ، وَمِنْ شَرِّ ہَذَا الْیَوْمِ ، وَمِنْ شَرِّ مَا بَعْدَہُ ، وَشَرِّ الدُّنْیَا وَالآخِرَۃِ۔
(٢٧٠٧٥) حضرت عمرو بن مرہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت سعید بن مسیب سے پوچھا : جب آپ لوگ صبح و شام کرتے تھے۔ تو آپ لوگ کون سی دعا پڑھتے تھے ؟ آپ نے فرمایا : ہم لوگ یہ دعا پڑھتے تھے : ہم اللہ کے معزز چہرے کی اور اللہ کے عظیم نام کی اور اللہ کے مکمل کلمہ کی پناہ لیتے ہیں ، موت اور عام چیزوں کے شر سے، اور اے پروردگار جو مخلوق تو نے پیدا کی اس کے شر سے اور جس کی پیشانی تیرے قبضہ میں ہے اس کے شر سے ، اور اس دن کے شر سے جو اس کے بعد ہے اس کے شر سے، اور دنیا اور آخرت کے شر سے۔

27075

(۲۷۰۷۶) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، عَن مُوسَی الْجُہَنِیِّ قَالَ : حدَّثَنِی رَجُلٌ ، عَن سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ، أَنَّہُ قَالَ : مَنْ قَالَ (فَسُبْحَانَ اللہِ حِینَ تُمْسُونَ وَحِینَ تُصْبِحُونَ) حَتَّی یَفْرُغَ مِنَ الآیَۃِ ثَلاَثَ مَرَّاتٍ ، أَدْرَکَ مَا فَاتَہُ مِنْ یَوْمِہِ ، وَمَنْ قَالَہَا لَیلاً أَدْرَکَ مَا فَاتَہُ مِنْ یَوْمِہِ۔ (ابوداؤد ۵۰۳۷)
(٢٧٠٧٦) حضرت موسیٰ جہنی کسی شخص سے نقل کرتے ہیں کہ حضرت سعید بن جبیر نے ارشاد فرمایا : جو شخص یہ آیت پڑھے : ترجمہ : اللہ کی پاکی بیان کرو جب تم شام کرو اور جب تم صبح کرو۔ یہاں تک کہ تین مرتبہ آیت پڑھ کر فارغ ہوجائے تو وہ پالے گا اس عمل کا ثواب جو اس کا رات کو فوت ہوگیا تھا اور اگر رات میں یہ آیت پڑھے تو وہ پالے گا اس عمل کا ثواب جو اس کا دن میں فوت ہوگیا تھا۔

27076

(۲۷۰۷۷) حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُوسَی قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَنْ سُہَیْل بن أبی صالح ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنِ أبی عیاش قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَنْ قَالَ حِینَ یُصْبِحُ لاَ إلَہَ إلاَّ اللَّہُ وَحْدَہُ لاَ شَرِیکَ لَہُ ، لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ وَہُوَ عَلَی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیرٌ کَانَ لَہُ کَعَدْلِ رَقَبَۃٍ مِنْ وَلَدِ إسْمَاعِیلَ ، وَکُتِبَ لَہُ بہا عَشْرُ حَسَنَاتٍ ، وَحُطَّ عَنہُ بِہَا عَشْرُ سَیِّئَاتٍ ، وَرُفِعَتْ لَہُ بِہَا عَشْرُ دَرَجَاتٍ ، وَکَانَ فِی حِرْزٍ مِنَ الشَّیْطَانِ حَتَّی یُمْسِیَ ، وَإِذَا أَمْسَی مِثْلَ ذَلِکَ حَتَّی یُصْبِحَ۔ (ابن ماجہ ۳۸۶۷۔ احمد ۶۰)
(٢٧٠٧٧) حضرت ابو عیاش فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جو شخص صبح کے وقت یہ کلمات پڑھے : ترجمہ : اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، اسی کا ملک ہے اور اسی کے لیے تعریف ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ تو اس شخص کو حضرت اسماعیل کی اولاد میں سے ایک غلام آزاد کرنے کے برابر ثواب ملے گا اور اس کے لیے دس نیکیاں لکھ دی جائیں گی ، اور اس کے دس گناہوں کو مٹا دیا جائے گا اور دس درجات بلند کیے جائیں گے اور وہ شیطان سے حفاظت میں رہے گا یہاں تک کہ وہ شام کرلے ۔ اور جب وہ شام کو یہ کلمات پڑھے گا تو اسی جیسا ثواب ملے گا یہاں تک کہ وہ صبح کرلے۔

27077

(۲۷۰۷۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن سَعِیدِ بْنِ صَالِحٍ ، عَن رَجُلٍ لَمْ یُسَمِّہِ ، أَنَّ عُمَرَ کَتَبَ : لاَ تُخَلِّلُوا بِالْقَصَبِ۔
(٢٧٠٧٨) حضرت سعید بن صالح کسی آدمی سے نقل کرتے ہیں کہ حضرت عمر نے خط لکھا کہ تم لوگ گنے کا سرکہ مت بناؤ۔

27078

(۲۷۰۷۹) حَدَّثَنَا عِیسَی بْنُ یُونُسَ ، عَنْ أَبِی بَکْرٍ الغسََّانِیِّ ، عَن ضَمُرَۃَ بْنِ حَبِیبٍ قَالَ : نَہَی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنِ السِّوَاکِ بِعُودِ الرَّیْحَانِ وَالرُّمَّانِ ، وَقَالَ یُحَرِّکُ عِرْقَ الْجُذَامِ۔
(٢٧٠٧٩) حضرت ضمرہ بن حبیب فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ناز بو اور انار کی لکڑی کو مسواک بنانے سے منع کیا اور فرمایا : یہ کوڑھ کی رگ کو تحریک دیتی ہے۔

27079

(۲۷۰۸۰) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ آدَمَ قَالَ : حدَّثَنَا إسْرَائِیلُ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنِ الْبَرَائِ قَالَ : مَرَّ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَی مَجْلِسٍ لِلأََنْصَارِ فَقَالَ : إِنْ أَبَیْتُمْ أَنْ لاَ تَجْلِسُوا فَاہْدُوا السَّبِیلَ ، وَردوا السَّلام ، وَأَعِینُوا الْمَظْلُومَ۔ (ترمذی ۲۷۲۶۔ احمد ۲۸۲)
(٢٧٠٨٠) حضرت براء بن عازب فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انصار کی ایک مجلس پر سے گزرے تو فرمایا : اگر تم بیٹھنے پر اصرار کرتے ہو تو سیدھا راستہ دکھاؤ (مسافر کو) اور سلام کا جواب دو ، اور مظلوم کی مدد کرو۔

27080

(۲۷۰۸۱) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ قَالَ : حدَّثَنَا مُوسَی بْنُ عُبَیْدَۃ ، عَنْ أَیُّوبَ بْنِ خَالِدٍ ، عَن مَالِکِ بْنِ التَّیْہَانِ قَالَ : اجْتَمَعَتْ جَمَاعَۃٌ مِنَّا عِنْدَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقُلْنَا : یَا رَسُولَ اللہِ ، إنَّا أَہْلُ سَافِلَۃٍ وَأَہْلُ عَالِیَۃٍ ، نَجْلِسُ ہَذِہِ الْمَجَالِسَ فَمَا تَأْمُرُنَا ؟ قَالَ : أَعْطُوا الْمَجَالِسَ حَقَّہَا ، قُلْنَا وَمَا حَقہَا : قَالَ : غُضُّوا أَبْصَارَکُمْ ، وَرُدُّوا السَّلاَمَ ، وَأَرْشِدُوا الأَعْمَی ، وَأْمُرُوا بِالْمَعْرُوفِ ، وَانْہَوْا عَنِ الْمُنْکَرِ۔ (مسند ۶۸۵)
(٢٧٠٨١) حضرت مالک بن تیھان فرماتے ہیں کہ ہم میں سے ایک جماعت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس جمع ہوئی اور ہم نے عرض کیا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ہم لوگ شہر کے زیریں اور بالائی حصہ کے لوگ ہیں۔ ہم ان مجلسوں میں بیٹھتے ہیں پس آپ اس بارے میں ہمیں کس چیز کا حکم دیتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا : تم لوگ مجلسوں کو ان کا حق ادا کرو۔ ہم نے پوچھا : ان کا حق کیا ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اپنی نظروں کو جھکاؤ ، سلام کا جواب دو ، اور اندھے کو راستہ دکھلاؤ، نیکی کا حکم کرو اور برائی سے منع کرو۔

27081

(۲۷۰۸۲) حَدَّثَنَا عَفَّانُ قَالَ : حدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِیَادٍ قَالَ : حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ حَکِیمٍ قَالَ : حَدَّثَنَی إِسْحَاقُ بْنُ عَبْدِ اللہِ بْنِ أَبِی طَلْحَۃَ قَالَ : حَدَّثَنِی أَبِی قَالَ : قَالَ أَبُو طَلْحَۃَ : کُنَّا جُلُوسًا بِالأَفْنِیَۃِ ، فَمَرَّ بِنَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ : مَا لَکُمْ وَلِمَجَالِسِ الصُّعُدَاتِ اجتنبوا مجالس الصُّعُدَاتِ ؟ قَالَ : قُلْنَا : یَا رَسُولَ اللہِ ، إنَّا جَلَسْنَا بِغَیْرِ مَا بَأْسٍ نَتَذَاکَرُ وَنَتَحَدَّثُ ، قَالَ : فأَعْطُوا الْمَجَالِسَ حَقَّہَا ، قَالَ : قُلْنَا : وَمَا حَقُّہَا یَا رَسُولَ اللہِ ؟ قَالَ : غَضُّ الْبَصَرِ ، وَرَدُّ السَّلاَمِ ، وَحُسْنُ الْکَلاَمِ۔ (احمد ۳۰۔ ابویعلی ۱۴۱۷)
(٢٧٠٨٢) حضرت ابو طلحہ فرماتے ہیں کہ ہم لوگ کشادہ صحن میں بیٹھے ہوئے تھے کہ اتنے میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ہمارے پاس سے گزر ہوا ، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم کیوں راستوں میں مجلس لگاتے ہو ؟ تم راستوں کی مجلسوں سے بچو، ہم نے عرض کیا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ہم بغیر گناہ کے بیٹھتے ہیں۔ صرف آپس میں گفتگو اور بات چیت کرتے ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : پھر مجلسوں کو ان کا حق دو ، ہم نے پوچھا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! مجلسوں کا حق کیا ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : نظر کا جھکانا، سلام کا جواب دینا ، اور بہترین کلام کرنا۔

27082

(۲۷۰۸۳) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، عَن مَالِکِ بْنِ مِغْوَلٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ قَالَ : مَا جَلَسَ الرَّبِیعُ بْنُ خُثَیْمٍ مَجْلِسًا مُنْذُ تَأَزَّرَ بِإِزَارٍ ، قَالَ : أَخَافُ أَنْ یُظْلَمَ رَجُلٌ فَلاَ أنصرہ ، أَوْ یَفْتَرِی رَجُلٌ عَلَی رَجُلٍ فَأُکَلَّفُ الشَّہَادَۃَ عَلَیْہِ ، وَلاَ أَغُضُّ الْبَصَرَ ، وَلاَ أَہْدِی السَّبِیلَ ، أَوْ تَقَعُ الْحَامِلَۃُ فَلاَ أَحْمِلُ عَلَیْہَا۔
(٢٧٠٨٣) امام شعبی فرماتے ہیں کہ حضرت ربیع بن خثیم نے جب سے لنگی باندھی ہے، کبھی کسی مجلس میں نہیں بیٹھے اور فرمایا : کہ مجھے خوف ہے کہ کسی شخص پر ظلم کیا جائے اور میں اس کی مدد نہ کرسکوں یا کوئی شخص کسی شخص پر جھوٹ باندھے اور مجھے اس پر گواہی کا مکلف بنادیا جائے اور میں نظر کو نہ جھکا سکوں اور مسافر کو راستہ نہ بتاسکوں یا کوئی سوار گرجائے تو میں اس کو سوا رنہ کرسکوں۔

27083

(۲۷۰۸۴) حَدَّثَنَا ہُشَیم ، عَنِ الْعَوَّامِ ، عَنِ ابْنِ أَبِی الْہُذَیْلِ قَالَ : کَانُوا یَکْرَہُونَ إذَا اتَّخَذُوا الْمَجَالِسَ أَنْ یعروہا لِلسُّفَہَائِ۔
(٢٧٠٨٤) حضرت عوام فرماتے ہیں کہ حضرت ابو الھذیل نے ارشاد فرمایا : صحابہ جب مجالس قائم کرتے ہیں تو وہ بیوقوفوں کو نظر انداز کیے جانے کو ناپسند کرتے تھے۔

27084

(۲۷۰۸۵) حَدَّثَنَا مَحْبُوبُ الْقَوَارِیرِیُّ ، عَنِ الصَّعْبِ بْنِ حَکِیمٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ جَدِّہِ قَالَ : أَتَیْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ فَجَعَلَ یَقُولُ : یَا ابْنَ أَخِی ، ثُمَّ سَأَلَنِی فَانْتَسَبْت لَہُ ، فَعَرَفَ ، أَنَّ أَبِی لَمْ یُدْرِکِ الإِسْلاَمَ ، فَجَعَلَ یَقُولُ : یَا بُنَیَّ یَا بُنَیَّ۔
(٢٧٠٨٥) حضرت شریک بن غلہ فرماتے ہیں کہ میں حضرت عمر بن خطاب کے پاس تھا تو آپ مجھے کہتے تھے : اے میرے بھتیجے ! پھر انھوں نے مجھ سے پوچھا : تو میں نے ان کو اپنا نسب بیان کیا۔ انھوں نے جان لیا کہ میرے والد نے اسلام قبول نہیں کیا ۔ پھر آپ نے یوں کہنا شروع کردیا : اے میرے بیٹے اے میرے بیٹے۔

27085

(۲۷۰۸۶) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ قَالَ : حدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ ، عَن قَیْسٍ ، عَنِ الْمُغِیرَۃِ بْنِ شُعْبَۃَ قَالَ : مَا سَأَلَ أَحَدٌ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنِ الدَّجَّالِ ، أَکْثَرَ مِمَّا سَأَلْتُہُ ، فَقَالَ : أَیْ بُنَیَّ ، وَمَا یُصِیبُک مِنْہُ۔ (مسلم ۱۶۹۳۔ ابن ماجہ ۴۰۷۳)
(٢٧٠٨٦) حضرت قیس فرماتے ہیں کہ حضرت مغیرہ بن شعبہ نے ارشاد فرمایا : کسی نے بھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دجال کے بارے میں اتنا نہیں پوچھا جتنا میں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کے بارے میں پوچھا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے میرے بیٹے ! تجھے اس سے کوئی مصیبت نہیں پہنچے گی۔

27086

(۲۷۰۸۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن ہِشَامٍ ، عَنْ أَبِی وَجْزَۃَ السَّعْدِیِّ ، عَن رَجُلٍ مِنْ مُزَیْنَۃَ ، عَن عُمَرَ بْنِ أَبِی سَلَمَۃَ ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أُتِیَ بِطَعَامٍ فَقَالَ : یَا عُمَرُ یَا بُنَیَّ ، سَمِّ اللَّہَ وَکُلْ بِیَمِینِکَ وَکُلْ مِمَّا یَلِیک۔ (ابوداؤد ۳۷۷۱۔ احمد ۲۶)
(٢٧٠٨٧) حضرت عمر بن ابی سلمہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس کھانا لایا گیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے عمر ، اے میرے بیٹے ! اللہ کا نام لو اور دائیں ہاتھ سے کھانا کھاؤ اور اپنے سامنے سے کھاؤ۔

27087

(۲۷۰۸۸) حَدَّثَنَا عَفَّانُ قَالَ : حدَّثَنَا أَبُو عَوَانَۃَ ، عَنِ الْجَعْدِ أَبِی عُثْمَانَ ، عَنْ أَنَسٍ ، أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ لَہُ : یَا بُنَیَّ۔ (مسلم ۱۶۹۳۔ ابوداؤد ۴۹۲۵)
(٢٧٠٨٨) حضرت انس فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اے میرے بیٹے۔

27088

(۲۷۰۸۹) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، عَن عُمَارَۃَ بْنِ زَاذَانَ ، عَن مَکْحُولٍ الأَزْدِیِّ قَالَ : سُئِلَ ابْنُ عُمَرَ عَنِ الرَّجُلِ یُحْرِمُ مِنْ سَمَرْقَنْدَ ، أَوْ مِنْ خُرَاسَانَ ، أَوْ مِنَ الْکُوفَۃِ فَقَالَ : یَا لَیْتَنَا نَنْفَلِتُ مِنْ وَقْتِنَا یَا بُنَیَّ۔
(٢٧٠٨٩) حضرت مکحول ازدی فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عمر سے اس آدمی کے متعلق پوچھا گیا جس کو سمر قند یا خراسان یا کوفہ سے روک دیا گیا تھا، آپ نے فرمایا : اے میرے بیٹے ! کاش ہم نے بھی وقت سے چھٹکارا پا لیا ہوتا۔

27089

(۲۷۰۹۰) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَن شُعْبَۃَ ، عَنْ أَبِی جَمْرَۃَ قَالَ : حدَّثَنَا إیَاسٌ عن قَتَادَۃَ ، عَن قَیْسِ بْنِ عُبَادٍ ، أَنَّ أُبَیَّ بْنَ کَعْبٍ قَالَ لَہُ : یَا بُنَیَّ ، لاَ یَسُوئُک اللَّہُ۔
(٢٧٠٩٠) حضرت قیس بن عباد فرماتے ہیں کہ حضرت ابی بن کعب نے ان سے ارشاد فرمایا : اے میرے بیٹے ! اللہ تمہارا برا نہ کرے۔

27090

(۲۷۰۹۱) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَن قَابُوسَ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ عَلِیٍّ ، أَنَّہُ قَالَ : یَا بُنَیَّ۔
(٢٧٠٩١) حضرت قابوس کے والد فرماتے ہیں کہ حضرت علی نے کہا : اے میرے بیٹے۔

27091

(۲۷۰۹۲) حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ سُلَیْمَانَ الرَّازِیّ ، عَن نُعَیْمٍ قَالَ : سَأَلْتُ عَاصِمًا ، عَن قَوْلِ اللہِ : {فَنَادَاہَا مِنْ تَحْتِہَا} قَالَ : {مِنْ تَحْتَہَا} مَفْتُوحَۃً ، قُلْتُ : عَمَّنْ تَرْوِی ؟ قَالَ : عَن زِرٍّ یَا بُنَیَّ۔
(٢٧٠٩٢) حضرت نعیم فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عاصم سے اللہ رب العزت کے قول { فَنَادَاہَا مِنْ تَحْتِہَا } کے متعلق پوچھا : تو آپ نے فرمایا : { مِنْ تَحْتَہَا } ہے فتح کے ساتھ۔ میں نے پوچھا : آپ نے کس سے روایت کی ؟ انھوں نے فرمایا : اے میرے بیٹے ! حضرت زر سے !

27092

(۲۷۰۹۳) حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الزِّبْرِقَانِ ، قَالَ : قَالَ لِی أَبُو وَائل یَا بُنَیَّ۔
(٢٧٠٩٣) حضرت زبرقان فرماتے ہیں کہ حضرت ابو وائل نے مجھ سے فرمایا : اے میرے لاڈلے بیٹے !

27093

(۲۷۰۹۴) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عُبَیْدِ اللہِ قَالَ : قُلْتُ لابْنِ صَاحِبٍ لِی : یَا بُنَیَّ ، فَکَرِہَ ذَلِکَ إبْرَاہِیمُ۔
(٢٧٠٩٤) حضرت حسن بن عبید اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے کسی ساتھی کے بیٹے کو کہا : اے میرے بیٹے ! تو حضرت ابراہیم نے اس کو مکروہ سمجھا۔

27094

(۲۷۰۹۵) حَدَّثَنَا مُعَاوِیَۃُ بْنُ ہِشَامٍ قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَن مُحَارِبٍ ، عَنِ شُتَیر بن شَکَل أَنَ امْرَأَۃً قَالَتْ لَہُ : یَا بُنَیَّ ، فَقَالَ : وَلَدْتنِی ، قَالَتْ : لاَ ، قَالَ : فَأَرْضَعْتنِی ؟ قَالَتْ : لاَ ، قَالَ : فَلِمَ تَکْذِبِینَ ؟۔
(٢٧٠٩٥) حضرت محارب فرماتے ہیں کہ حضرت شتیر بن شکل کو کسی عورت نے کہا : اے میرے بیٹے ! تو آپ نے کہا : کیا تم نے مجھے جنا ہے ؟ اس عورت نے کہا : نہیں ! آپ نے پوچھا : کا تم نے مجھے دودھ پلایا ہے ؟ اس نے کہا : نہیں۔ آپ نے فرمایا : پھر تم جھوٹ کیوں بولتی ہو۔

27095

(۲۷۰۹۶) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ بْنُ حُسَیْنٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَن حُمَیْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَن أُمِّہِ قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: لَمْ یَکْذِبْ مَنْ قَالَ خَیْرًا، أَوْ نَمَی خَیْرًا، أَوْ أَصْلَحَ بَیْنَ اثْنَیْنِ۔ (بخاری ۲۶۹۲۔ مسلم ۲۰۱۱)
(٢٧٠٩٦) حضرت ام کلثوم بنت عقبہ بن ابی معیط فرماتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جھوٹ نہیں بولا جس نے خیر کی بات کہی یا خیر کو پھیلایا یا دو آدمیوں کے درمیان صلح کروائی۔

27096

(۲۷۰۹۷) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللہِ الأَسَدِیُّ ، عَن سُفْیَانَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُثْمَانَ بْنِ خُثَیْمٍ ، عَن شَہْرٍ ، عَنْ أَسْمَائِ بِنْتِ یَزِیدَ قَالَتْ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لاَ یَصْلُحُ الْکَذِبُ إلاَّ فِی ثَلاَثٍ : کذب الرَّجُلِ امْرَأَتَہُ لِیُرْضِیَہَا ، أَوْ إصْلاَحٌ بَیْنَ النَّاسِ ، أَوْ کَذِبٌ فِی الْحَرْبِ۔ (ترمذی ۱۹۳۹۔ احمد ۴۶۱)
(٢٧٠٩٧) حضرت اسماء بنت یزید فرماتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جھوٹ بولنا درست نہیں ہے مگر تین جگہوں پر ! آدمی کا اپنی بیوی سے جھوٹ بولنا تاکہ وہ اسے خوش کرے یا لوگوں کے درمیان صلح کرانے کے لیے یا جنگ میں جھوٹ بولنا۔

27097

(۲۷۰۹۸) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ قَالَ : أَخْبَرَنَا ہِشَامُ بْنُ حَسَّانَ ، عَن مُحَمَّدِ بْنِ وَاسِعٍ ، عَنْ أَبِی صَالِحٍ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَنْ سَتَرَ أَخَاہُ الْمُسْلِمَ فِی الدُّنْیَا سَتَرَہُ اللَّہُ فِی الدُّنْیَا وَالآخِرَۃِ ، وَمَنْ نَفَّسَ عَنْ أَخِیہِ کُرْبَۃً مِنْ کُرَبِ الدُّنْیَا نَفَّسَ اللَّہُ عَنہُ کُرْبَۃً مِنْ کُرَبِ یَوْمِ الْقِیَامَۃِ ، وَاللَّہُ فِی عَوْنِ الْعَبْدِ مَا کَانَ الْعَبْدُ فِی عَوْنِ أَخِیہِ۔ (عبدالرزاق ۱۸۹۳۳۔ احمد ۵۱۴)
(٢٧٠٩٨) حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جو شخص دنیا میں اپنے مسلمان بھائی کی ستر پوشی کرے گا اللہ رب العزت آخرت میں اس کی ستر پوشی فرمائیں گے اور جو شخص اپنے بھائی سے دنیا کی مصیبتوں میں سے کوئی مصیبت دور کرے گا تو اللہ رب العزت اس سے قا مت کے دن کی تکلیفوں کو دور فرمائیں گے اور اللہ رب العزت اس بندے کی مدد میں ہوتے ہیں جو شخص اپنے کسی بھائی کی مدد کرنے میں لگا ہوا ہو۔

27098

(۲۷۰۹۹) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِی صَالِحٍ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَنْ نَفَّسَ عَن مُسْلِمٍ کُرْبَۃً مِنْ کُرَبِ الدُّنْیَا نَفَّسَ اللَّہُ عَنہُ کُرْبَۃً مِنْ کُرَبِ الآخِرَۃِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ، وَمَنْ سَتَرَ مُسْلِمًا سَتَرَہُ اللَّہُ فِی الدُّنْیَا وَالآخِرَۃِ ، وَمَنْ یَسَّرَ عَلَی مُعْسِرٍ یَسَّرَ اللَّہُ عَلَیْہِ فِی الدُّنْیَا وَالآخِرَۃِ ، وَاللَّہُ فِی عَوْنِ الْعَبْدِ مَا کَانَ الْعَبْدُ فِی عَوْنِ أَخِیہِ۔ (ابوداؤد ۴۸۵۴۔ حاکم ۳۷۷)
(٢٧٠٩٩) حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جو شخص کسی مسلمان سے دنیا کی مصیبتوں میں سے کوئی مصیبت دور کرے گا، تو اللہ رب العزت قیامت کے دن اس سے آخرت کی تکلیفوں میں سے کوئی تکلیف دور فرما دیں گے، اور جو شخص کسی مسلمان کی ستر پوشی کرے گا تو اللہ رب العزت دنیا اور آخرت میں اس کی ستر پوشی فرمائیں گے ، اور جو شخص کسی تنگ دست پر آسانی کرے گا تو اللہ رب العزت دنیا اور آخرت میں اس پر آسانیاں فرمائیں گے اور اللہ اس بندے کی مدد میں ہوتے ہیں جو اپنے کسی بھائی کی مدد میں لگا ہوا ہوتا ہے۔

27099

(۲۷۱۰۰) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَن زَیْدِ بْنِ وَہْبٍ قَالَ أُتِیَ ابْنُ مَسْعُودٍ فَقِیلَ لَہُ : ہَذَا فُلاَنٌ تَقْطُرُ لِحْیَتُہُ خَمْرًا ، فَقَالَ عَبْدُ اللہِ : إنَّا قَدْ نُہِینَا عَنِ التَّجَسُّسِ ، وَلَکِنْ إِنْ یَظْہَرَ لَنَا مِنْہُ شَیْئٌ نَأْخُذْہُ بِہِ۔
(٢٧١٠٠) حضرت زید بن وھب فرماتے ہیں کہ حضرت ابن مسعود کے پاس کسی کو پکڑ کر لایا گیا اور آپ کو بتلایا گیا کہ اس فلاں کی داڑھی سے شراب کے قطرے ٹپک رہے ہیں ! اس پر حضرت عبداللہ بن مسعود نے ارشاد فرمایا : یقیناً ہمیں ٹوہ لگانے سے منع کیا گیا ہے۔ لیکن اگر کوئی معاملہ ہمارے سامنے ظاہر ہوجائے تو پھر ہم اس کا مؤاخذہ کریں گے ۔

27100

(۲۷۱۰۱) حَدَّثَنَا الثَّقَفِیُّ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنْ أَبِی قِلاَبَۃَ ، عَنْ أَبِی إدْرِیسَ قَالَ : لاَ یَہْتِکُ اللَّہُ سِتْرَ عَبْدٍ فِی قَلْبِہِ مِثْقَالُ ذَرَّۃٍ مِنْ خَیْرٍ۔
(٢٧١٠١) حضرت ابو قلابہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابو ادریس نے ارشاد فرمایا : اللہ تعالیٰ اس بندے کی پردہ پوشی نہیں کرتے جس کے دل میں ذرہ برابر بھی بھلائی ہو۔

27101

(۲۷۱۰۲) حَدَّثَنَا عَفَّانُ قَالَ : حَدَّثَنَا ہَمَّامٌ ، قَالَ : سَمِعْتُ إِسْحَاقَ بْنَ عَبْدِ اللہِ بْنِ أَبِی طَلْحَۃَ قَالَ : حدَّثَنِی شَیْبَۃُ الْخُضْرِی ، أَنَّہُ شَہِدَ عُرْوَۃَ یُحَدِّثُ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِیزِ ، عَنْ عَائِشَۃَ رضی اللہ عنہا ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : لاَ یَسْتُرُ اللَّہُ عَلَی عَبْدٍ فِی الدُّنْیَا إلاَّ سَتَرَ اللہ عَلَیْہِ فِی الآخِرَۃِ۔ (مسلم ۲۰۰۲۔ احمد ۱۴۵)
(٢٧١٠٢) ام المؤمنین حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اللہ رب العزت دنیا میں کسی بندے کی ستر پوشی نہیں کرتے مگر آخرت میں اس کی پردہ پوشی کریں گے۔

27102

(۲۷۱۰۳) حَدَّثَنَا عِیسَی بْنُ یُونُسَ ، عَنِ الأَوْزَاعِیِّ ، عَنْ عَبْدِ الْوَاحِدِ بْنِ قَیْسٍ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ : مَنْ أَطْفَأَ عَن مُؤْمِنٍ سیئۃ فَکَأَنَّمَا أَحْیَا مَوْؤُودَۃً ۔
(٢٧١٠٣) حضرت عبد الواحد بن قیس فرماتے ہیں کہ حضرت ابوہریرہ نے ارشاد فرمایا : جو شخص کسی مؤمن کی برائی کو دبائے گا تو گویا اس نے زندہ درگور کی ہوئی بچی کو زندہ کیا۔

27103

(۲۷۱۰۴) حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُوسَی قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَن سَعِیدٍ الْجَرِیرِیِّ ، عَنْ أَبِی نَضْرَۃَ ، عَن أُسَیْرِ بْنِ جَابِرٍ ، أَنَّ أُوَیْسًا الْقَرَنِیَّ کَانَ إذَا حَدَّثَ وَقَعَ حَدِیثُہُ مِنْ قُلُوبِنَا مَوْقِعًا لاَ یَقَعُہُ حَدِیثُ غَیْرِہِ۔
(٢٧١٠٤) حضرت اسیر بن جابر فرماتے ہیں کہ حضرت اویس قرنی جب بیان فرماتے تو جتنی ان کی بات ہمارے دل میں اثر انداز ہوتی تھی کسی اور کی اتنی اثر انداز نہیں ہوتی۔

27104

(۲۷۱۰۵) حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُوسَی قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَن یسار بْنِ سَلاَمَۃَ ، عَن شَہْرِ بْنِ حَوْشَبٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، أَنَّہُ قَالَ : إذَا حَدَّثَ الرَّجُلُ الْقَوْمَ فإن حدیثہ یَقَعُ مِنْ قُلُوبِہِمْ مَوْقِعَہُ مِنْ قَلْبِہِ۔
(٢٧١٠٥) حضرت شھر بن حوشب فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عباس نے ارشاد فرمایا : جب کوئی آدمی لوگوں میں بیان کرتا ہے تو اس کی بات ان لوگوں کے دلوں میں اس کی دلی کیفیت کے مطابق ہی اثر انداز ہوتی ہے۔

27105

(۲۷۱۰۶) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنْ أَبِی غَفَّارٍ ، عَنْ أَبِی تَمِیمَۃَ الْہُجَیْمِیِّ ، عَنْ أَبِی جُرَیٍّ الْہُجَیْمِیِّ قَالَ : أَتَیْتُ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : قُلْتُ : أَنْتَ رَسُولُ اللہِ ؟ قَالَ : نَعَمْ ، قَالَ : قُلْتُ : یَا رَسُولَ اللہِ ، اعْہَدْ إلَیَّ ، قَالَ : لاَ تَسُبَّ أَحَدًا ، قَالَ : فَمَا سَبَبْت أَحَدًا عَبْدًا ، وَلاَ حُرًّا ، وَلاَ شَاۃً ، وَلاَ بَعِیرًا۔
(٢٧١٠٦) حضرت ابوجُری ّ ھجیمی فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آیا اور میں نے پوچھا : کیا آپ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جی ہاں ! میں نے عرض کی : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! مجھے کوئی وصیت فرما دیجئے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کسی کو گالی مت دو ، آپ فرماتے ہیں : پھر میں نے کسی کو گالی نہیں دی، نہ غلام کو نہ کسی آزاد کو ، نہ کسی بکری اور نہ ہی کسی اونٹ کو۔

27106

(۲۷۱۰۷) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَن شُعْبَۃَ ، عَن سَعْدِ بْنِ إبْرَاہِیمَ ، عَن حُمَیْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ عبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : إنَّ أَکْبَرَ الذَّنْبِ عِنْدَ اللہِ أَنْ یَسُبَّ الرَّجُلُ وَالِدَیْہِ ، قَالُوا : وَکَیْفَ یَسُبُّ الرَّجُلُ وَالِدَیْہِ ؟ قَالَ : یَسُبُّ أَبَا الرَّجُلِ فَیَسُبُّ أَبَاہُ ، وَیَسُبُّ أُمَّہُ فَیَسُبُّ أُمَّہُ۔ (بخاری ۵۹۷۳۔ ابوداؤد ۵۰۹۸)
(٢٧١٠٧) حضرت عبداللہ بن عمرو فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : یقیناً اللہ کے نزدیک سب سے بڑا گناہ یہ ہے کہ آدمی اپنے والدین کو گالی دے۔ صحابہ نے عرض کیا : آدمی کیسے اپنے والدین کو گالی دے سکتا ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : وہ کسی آدمی کے باپ کو گالی دیتا ہے تو وہ بدلے میں اس کے باپ کو گالی دیتا ہے۔ یہ کسی آدمی کی ماں کو گالی دیتا ہے تو وہ بدلہ میں اس کی ماں کو گالی دیتا ہے۔

27107

(۲۷۱۰۸) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنِ ابْنِ أَبِی نَجِیحٍ ، عَنْ أَبِیہِ قَالَ : یَبْلُغُ بِہِ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : إنَّ من أَرْبَی الرِّبَا تَفَضُّلُ الرَّجُلِ فِی عَرْضِ أَخِیہِ بِالشَّتْمِ ، وَإِنَّ أَکْبَرَ الْکَبَائِرِ شَتْمُ الرَّجُلِ وَالِدَیْہِ ، قِیلَ : یَا رَسُولَ اللہِ ، وَکَیْفَ یَشْتُمُ وَالِدَیْہِ ؟ قَالَ : یَسُبُّ النَّاسَ فَیَسْتَسِبُّ النَّاسُ بِہِمَا۔ (طبرانی ۸۹۹)
(٢٧١٠٨) حضرت ابو نجیع فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : بیشک برا سود یہ ہے کہ آدمی اپنے بھائی کی عزت خراب کرنے میں حد سے گزر جائے اور سب سے بڑا گناہ یہ ہے کہ آدمی اپنے والدین کو گالی دے ۔ پوچھا گیا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! کیسے کوئی اپنے والدین کو گالی دے سکتا ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : وہ لوگوں کو گالی دیتا ہے تو وہ جواباً اس کے والدین کو گالی دیتے ہیں۔

27108

(۲۷۱۰۹) حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ عَیَّاشٍ ، عَنْ عَاصِمٍ قَالَ : مَا رَأَیْت أَبَا وَائِلٍ سَابَّ شَیْئًا قَطُّ إلاَّ أَنَّہُ ذَکَرَ الْحَجَّاجَ مَرَّۃً فَقَالَ : اللَّہُمَّ أَطْعِمْہُ طَعَامًا مِنْ ضَرِیعٍ لاَ یُسْمِنُ ، وَلاَ یُغْنِی مِنْ جُوعٍ ، ثُمَّ قَالَ : إِنْ کَانَ أَحَبَّ إلَیْک۔
(٢٧١٠٩) حضرت عاصم فرماتے ہیں کہ میں نے کبھی حضرت ابو وائل کو گالی دیتے ہوئے نہیں دیکھا مگر حجاج بن یوسف کا ذکر کرتے ہوئے ایک مرتبہ آپ نے کہا : اے اللہ ! تو اس کو خار دار درخت کا کھانا کھلا دے ۔ نہ یہ موٹا ہو اور نہ ہی اس کی بھوک مٹے۔ پھر آپ نے فرمایا : اگرچہ وہ تجھے پسند ہو۔

27109

(۲۷۱۱۰) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَن حَجَّاجٍ ، عَن فُضَیْلٍ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، عَن عَلْقَمَۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ قَالَ : لاَ یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ مَنْ کَانَ فِی قَلْبِہِ مِثْقَالُ حَبَّۃِ خَرْدَلٍ مِنْ کِبْرٍ۔
(٢٧١١٠) حضرت علقمہ فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود نے ارشاد فرمایا : وہ شخص جنت میں داخل نہیں ہوگا جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر تکبر ہو۔

27110

(۲۷۱۱۱) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ ، عَنِ الأَغَرِّ أَبِی مُسْلِمٍ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : یَقُولُ اللَّہُ : الْعَظَمَۃُ إزَارِی ، وَالْکِبْرِیَائُ رِدَائِی ، فَمَنْ نَازَعَنی وَاحِدًا مِنْہُمَا أَلْقَیْتہ فِی النَّارِ۔
(٢٧١١١) حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اللہ رب العزت فرماتے ہیں : عظمت میری ازار ہے اور کبریائی میری چادر ہے۔ جو شخص ان میں سے جس کو مجھ سے چھیننے کی کوشش کرے گا میں اس کو جہنم میں ڈال دوں گا۔

27111

(۲۷۱۱۲) حَدَّثَنَا عَفَّانُ قَالَ : حدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِیزِ بْنُ مُسْلِمٍ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، عَن عَلْقَمَۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لاَ یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ أَحَدٌ فِی قَلْبِہِ مِثْقَالُ حَبَّۃِ خَرْدَلٍ مِنْ کِبْرٍ ، وَلاَ یَدْخُلُ النَّارَ أَحَدٌ فِی قَلْبِہِ مِثْقَالُ حَبَّۃِ خَرْدَلٍ مِنْ إیمَانٍ۔ (مسلم ۹۳۔ ابوداؤد ۴۰۸۸)
(٢٧١١٢) حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جنت میں داخل نہیں ہوگا کوئی ایک جس کے دل میں دانہ کے برابر تکبر ہو اور جہنم میں داخل نہیں ہوگا کوئی ایک جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر ایمان ہو۔

27112

(۲۷۱۱۳) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَنْ أَبِی حَیَّانَ ، عَنْ أَبِیہِ قَالَ : الْتَقَی عَبْدُ اللہِ بْنُ عَمْرٍو ، وَابْنُ عُمَرَ فَانْتَجَیَا بَیْنَہُمَا ، ثُمَّ انْصَرَفَ کُلُّ وَاحِدٍ مِنْہُمَا إلَی أَصْحَابِہِ فَانْصَرَفَ ابْنُ عُمَرَ وَہُوَ یَبْکِی ، فَقَالُوا لَہُ : مَا یُبْکِیک ؟ قَالَ : أَبْکَانِی الَّذِی زَعَمَ ہَذَا ، أَنَّہُ سَمِعَہُ مِنْ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لاَ یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ أَحَدٌ فِی قَلْبِہِ مِثْقَالُ حَبَّۃِ خَرْدَلٍ مِنْ کِبْرٍ۔ (احمد ۱۶۴)
(٢٧١١٣) حضرت سعید بن حیان تیمی فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمرو اور حضرت عبداللہ بن عمر دونوں کی ملاقات ہوئی تو ان دونوں نے آپس میں سرگوشی کی، پھر ان دونوں میں سے ہر ایک اپنے اصحاب کی طرف لوٹ گیا۔ اور حضرت ابن عمر لوٹے اس حال میں کہ آپ رو رہے تھے۔ لوگوں نے آپ سے پوچھا : کس چیز نے آپ کو رلا دیا ؟ آپ نے فرمایا : مجھے رلایا اس شخص نے جو کہتا ہے کہ اس نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یوں فرماتے ہوئے سنا : جنت میں داخل نہیں ہوگا کوئی ایک جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر تکبر ہوگا۔

27113

(۲۷۱۱۴) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنِ ابْنِ عَجْلاَنَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ جَدِّہِ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : یَجِیئُ الْمُتَکَبِّرُونَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ذَرًّا مِثْلَ صُوَرِ الرِّجَالِ ، یَعْلُوہُمْ کُلُّ شَیْئٍ مِنَ الصَّغَارِ ، قَالَ : ثُمَّ یُسَاقُونَ إلَی سِجْنِ فی جَہَنَّمَ یُقَالُ لَہُ بُولَسَ ، تَعْلُوہُمْ نَارُ الأَنْیَارِ ، یُسْقَوْنَ مِنْ طِینَۃِ الْخَبَالِ ، عُصَارَۃِ أَہْلِ النَّارِ۔ (ترمذی ۲۴۹۲۔ احمد ۱۷۹)
(٢٧١١٤) حضرت عبداللہ بن عمرو فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : متکبرین قیامت کے دن آئیں گے چھوٹی چیونٹیوں کی طرح جن کی شکلیں آدمیوں کی مانند ہوں گی۔ ہر قسم کی ذلت ان پر غالب آجائے گی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : پھر اس جہنم میں ایک قید خانے کی طرف ہانکا جائے گا جس کا نام بولس ہے۔ اللہ کی بڑی آگ ان پر چڑھ جائے گی۔ انھیں اہل جہنم کا بچا ہوا پانی پلایا جائے گا۔

27114

(۲۷۱۱۵) ابْنُ إدْرِیسَ ، وَابْنُ عُیَیْنَۃَ ، وَأَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرَِِ ، عَنِ ابْنِ عَجْلاَنَ ، عَن بُکَیْر بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ الأَشَجِّ ، عَن مَعْمَرِ بْنِ أَبِی حُیَیَّۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَدِیِّ بْنِ الْخِیَارِ قَالَ : قَالَ عُمَرُ : إنَّ الْعَبْدَ إذَا تَعَظَّمَ وَعَدَا طَوْرَہُ وَہَصَہُ اللَّہُ إلَی الأَرْضِ ، وَقَالَ : اخْسَأْ أَخْسَأَکَ اللَّہُ ، فَہُوَ فِی نَفْسِہِ کَبِیرٌ ، وَفِی أَنْفُسِ النَّاسِ صغیر حتی لہو أحقر عند الناس من خنزیر۔
(٢٧١١٥) حضرت عبید اللہ بن عدی بن خیار فرماتے ہیں کہ حضرت عمر نے ارشاد فرمایا : یقیناً جب کوئی مغرور ہوجائے اور اپنی حد سے تجاوز کرلے، تو اللہ رب العزت اس کو زمین پر پٹخ دیتے ہیں۔ اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تو دھتکارتا ہے تو اللہ تجھے دھتکار دیتے ہیں کہ وہ اپنی نظر میں بڑا ہوتا ہے اور لوگوں کی نظروں میں چھوٹا ہوتا ہے یہاں تک کہ وہ لوگوں کے سامنے خنزیر سے بھی زیادہ حقیر ہوجاتا ہے۔

27115

(۲۷۱۱۶) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَن شُعْبَۃَ ، عَن یَعْلَی بْنِ عَطَائٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ نَافِعَ بْنَ عَاصِمٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ : لاَ یَدْخُلُ حَظِیرَۃَ الْقُدْسِ مُتَکَبِّرٌ۔
(٢٧١١٦) حضرت نافع بن عاصم فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمرو نے ارشاد فرمایا : تکبر کرنے والا جنت میں داخل نہیں ہوگا۔

27116

(۲۷۱۱۷) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، عَن ہَمَّامِ بْنِ الْحَارِثِ ، عَن حُذَیْفَۃَ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لاَ یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ قَتَّاتٌ۔ (بخاری ۶۰۵۶۔ مسلم ۱۶۹)
(٢٧١١٧) حضرت حذیفہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : چغل خور جنت میں داخل نہیں ہوگا۔

27117

(۲۷۱۱۸) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَنِ الشَّیْبَانِیِّ ، عَن وَاصِلٍ ، عَن شَقِیقٍ ، عَن حُذَیْفَۃَ قَالَ : کُنَّا نَتَحَدَّثُ : أنہ لاَ یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ قَتَّاتٌ۔ (مسلم ۱۰۱۔ احمد ۱۶۸)
(٢٧١١٨) حضرت شقیق فرماتے ہیں کہ حضرت حذیفہ نے ارشاد فرمایا : کہ ہم حدیث بیان کرتے تھے کہ یقیناً چغل خور جنت میں داخل نہیں ہوگا۔

27118

(۲۷۱۱۹) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنِ الأَعْمَشِ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَیْمُونٍ قَالَ : لَمَّا رَفَعَ اللَّہُ مُوسَی نَجِیًّا رَأَی رَجُلاً مُتَعَلِّقًا بِالْعَرْشِ فَقَالَ : یَا رَبِّ ، مَنْ ہَذَا ؟ فَقَالَ : عَبْدٌ مِنْ عِبَادِی صَالِحٌ ، إِنْ شِئْتَ أَخْبَرْتُک بِعَمَلِہِ ، قَالَ : یَا رَبِّ ، أَخْبِرْنِی ، قَالَ : کَانَ لاَ یَمْشِی بِالنَّمِیمَۃِ۔
(٢٧١١٩) حضرت ابو اسحاق فرماتے ہیں کہ حضرت عمرو بن میمون نے ارشاد فرمایا : جب اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کو سرگوشی کے لیے عزت بخشی تو آپ نے ایک آدمی کو عرش سے چمٹے ہوئے دیکھا۔ آپ نے پوچھا : اے پروردگار ! یہ کون شخص ہے ؟ اللہ رب العزت نے فرمایا : میرے نیک بندوں میں سے ایک بندہ ہے۔ اگر تم چاہو تو میں تمہیں اس کے عمل کے متعلق خبر دوں۔ آپ نے فرمایا : اے پروردگار ! مجھے خبر دیجئے۔ اللہ رب العزت نے فرمایا : یہ شخص چغل خوری نہیں کرتا تھا۔

27119

(۲۷۱۲۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ قَالَ : حدَّثَنَا الأَعْمَشُ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، عَن عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ یَزِیدَ قَالَ : کَانَتْ لَنَا جَارِیَۃٌ أَعْجَمِیَّۃٌ ، فَمَرِضَتْ فَجَعَلَتْ تَقُولُ عِنْدَ الْمَوْتِ : ہَذَا فُلاَنٌ تَمَرَّغَ فِی الْحَمْأَۃِ ، فَلَمَّا أَنْ مَاتَتْ سَأَلْنَا عَنِ الرَّجُلِ ، قَالَ : فَقَالَ : مَا کَانَ بِہِ بَأْسٌ إلاَّ أَنَّہُ کَانَ یَمْشِی بِالنَّمِیمَۃِ۔
(٢٧١٢٠) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ حضرت عبد الرحمن بن یزید نے ارشاد فرمایا : ہمارے پاس ایک عجمی باندی تھی وہ بیمار ہوگئی ۔ اس نے موت کے وقت یہ کہنا شروع کردیا : یہ فلاں شخص گندی بدبودار مٹی میں پلٹیاں کھا رہا ہے۔ جب وہ مرگئی تو ہم نے اس آدمی کے متعلق پوچھا ؟ تو انھوں نے کہا : اس میں کوئی خرابی نہیں تھی سوائے اس بات کے کہ وہ چغل خوری کرتا تھا۔

27120

(۲۷۱۲۱) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَن یَزِیدَ بْنِ أَبِی زِیَادٍ ، عَن مُجَاہِدٍ وَسَالِمِ بْنِ أَبِی الْجَعْدَ ، عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لاَ یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ مَنَّانٌ۔
(٢٧١٢١) حضرت ابو سعیدخدری فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : احسان جتلانے والا جنت میں داخل نہیں ہوگا۔

27121

(۲۷۱۲۲) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَن شُعْبَۃَ ، عَن یَعْلَی بْنِ عَطَائٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ نَافِعَ بْنَ عَاصِمٍ یُحَدِّثُ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ : لاَ یَدْخُلُ حَظِیرَۃَ الْقُدْسِ مَنَّانٌ۔
(٢٧١٢٢) حضرت نافع بن عاصم بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمرو نے ارشاد فرمایا : احسان جتلانے والا جنت میں داخل نہیں ہوگا۔

27122

(۲۷۱۲۳) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَن شُعْبَۃَ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ مُدْرِکٍ ، عَنْ أَبِی زُرْعَۃَ ، عَن خَرَشَۃَ بْنِ الْحُرِّ ، عَنْ أَبِی ذَرٍّ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : ثَلاَثَۃٌ لاَ یُکَلِّمُہُمُ اللَّہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ، وَلاَ یَنْظُرُ إلَیْہِمْ ، وَلاَ یُزَکِّیہِمْ وَلَہُمْ عَذَابٌ أَلِیمٌ ، قَالَ : فَقَرَأَہَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ثَلاَثَ مَرَّاتٍ ، فَقَالَ أَبُو ذَرٍّ : خَابُوا وَخَسِرُوا ، مَنْ ہُمْ یَا رَسُولَ اللہِ ؟ قَالَ : الْمُسْبِلُ وَالْمَنَّانُ وَالْمُنْفِقُ سِلْعَتَہُ بِالْحَلِفِ الْکَاذِبِ۔ (مسلم ۱۷۱۔ ابوداؤد ۴۰۸۵۔ احمد ۱۴۸)
(٢٧١٢٣) حضرت ابو ذر فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : تین شخص ایسے ہیں کہ اللہ رب العزت قیامت کے دن نہ ان سے بات کریں گے ۔ نہ ان کی طرف رحمت کی نظر سے دیکھیں گے ، نہ ان کو پاک صاف کریں گے اور ان کے لیے دردناک عذاب ہوگا۔ راوی فرماتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تین مرتبہ یہ بات دہرائی۔ حضرت ابو ذر نے فرمایا : یہ لوگ نامراد و خسارے میں ہوئے۔ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! وہ کون لوگ ہیں ؟ ّآپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تہبند کو لٹکانے والا ، احسان جتلانے والا، اور اپنے سامان کو جھوٹی قسم کے ذریعہ فروخت کرنے والا۔

27123

(۲۷۱۲۴) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَن شُعْبَۃَ ، عَن مَنْصُورٍ ، عَن سَالِمِ بْنِ أَبِی الْجَعْدِ ، عَن نُبَیْطِ بْنِ شَرِیطٍ ، عَنْ جَابَانَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لاَ یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ مَنَّانٌ۔
(٢٧١٢٤) حضرت عبداللہ بن عمرو فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : احسان جتانے والا شخص جنت میں داخل نہیں ہوگا۔

27124

(۲۷۱۲۵) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَیْمُونٍ قَالَ : لَمَّا رَفَعَ اللَّہُ مُوسَی نَجِیًّا رَأَی رَجُلاً مُتَعَلِّقًا بِالْعَرْشِ فَقَالَ : یَا رَبِّ ، مَنْ ہَذَا ؟ قَالَ : عَبْدٌ مِنْ عِبَادِی صَالِحٌ ، إِنْ شِئْتَ أَخْبَرْتُک بِعَمَلِہِ، قَالَ : یَا رَبِّ ، أَخْبِرْنِی ، قَالَ : کَانَ لاَ یَحْسُدُ النَّاسَ مَا آتَاہُمُ اللَّہُ مِنْ فَضْلِہِ۔
(٢٧١٢٥) حضرت ابو اسحاق فرماتے ہیں کہ حضرت عمرو بن میمون نے ارشاد فرمایا : جب اللہ رب العزت نے حضرت موسیٰ کو سرگوشی کے لیے عزت بخشی، تو آپ نے ایک آدمی کو عرش سے چمٹا ہوا دیکھا۔ آپ نے پوچھا : اے پروردگار ! یہ کون شخص ہے ؟ اللہ رب العزت نے فرمایا : میرے بندوں میں سے نیک بندہ ہے۔ اگر تم چاہو تو میں تمہیں اس کے عمل کے متعلق بتلاؤں ؟ آپ نے عرض کی، اے پروردگار ! مجھے بتلائیے۔ اللہ رب العزت نے فرمایا : یہ شخص لوگوں سے حسد نہیں کرتا ان چیزوں میں جو اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو اپنے فضل سے عطا کی تھیں۔

27125

(۲۷۱۲۶) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَن یَزِیدَ الرَّقَاشِیِّ ، عَنْ أَنَسٍ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إنَّ الْحَسَدَ لَیَأْکُلُ الْحَسَنَاتِ کَمَا تَأْکُلُ النَّارُ الْحَطَبَ۔ (ابن ماجہ ۴۲۱۰۔ ابویعلی ۳۶۴۴)
(٢٧١٢٦) حضرت انس فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : یقیناً حسد نیکیوں کو ایسے ہی کھا جاتا ہے جیسے آگ لکڑیوں کو کھا جاتی ہے۔

27126

(۲۷۱۲۷) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَن یَزِیدَ الرَّقَاشِیِّ ، عَنِ الْحَسَنِ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : کَادَ الْحَسَدُ أَنْ یَغْلِبَ الْقَدَرَ ، وَکَادَتِ الْفَاقَۃُ أَنْ تَکُونَ کُفْرًا۔
(٢٧١٢٧) حضرت حسن بصری فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : قریب ہے کہ حسد تقدیر پر غالب آجائے اور قریب ہے کہ فقر و فاقہ کفر کا سبب بن جائے۔

27127

(۲۷۱۲۸) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَن شُعْبَۃَ ، عَنْ أَبِی رَجَائٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، {وَلاَ یَجِدُونَ فِی صُدُورِہِمْ حَاجَۃً مِمَّا أُوتُوا} قَالَ : الْحَسَدُ۔
(٢٧١٢٨) حضرت ابو رجائ فرماتے ہیں کہ حضرت حسن بصری نے اس آیت کے متعلق : ترجمہ : اور نہیں پاتے اپنے دلوں میں کوئی حاجت اس چیز کی جو انھیں دی جائے۔ آپ نے فرمایا : حسد مراد ہے۔

27128

(۲۷۱۲۹) حَدَّثَنَا عَبْدُ السَّلاَمِ ، عَن مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ فِی قَوْلِہِ تَعَالَی : {وَالَّذِینَ إذَا أَنْفَقُوا لَمْ یُسْرِفُوا وَلَمْ یَقْتُرُوا وَکَانَ بَیْنَ ذَلِکَ قَوَامًا} قَالَ: لاَ یُجِیعُہُمْ، وَلاَ یُعَرِّیہِمْ، وَلاَ یُنْفِقُ نَفَقَۃً یَقُولُ النَّاسُ: إِنَّہ أَسْرَفَ فِیہَا۔
(٢٧١٢٩) حضرت مغیرہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم نے اللہ رب العزت کے اس قول کے مطابق :
ترجمہ : اور وہ لوگ جب خرچ ہیں تو نہ اسراف کرتے ہیں اور نہ بخل کرتے ہیں اور ہوتا ہے ان کا خرچ کرنا ان دونوں کے درمیان اعتدال سے۔ آپ نے فرمایا : نہ وہ ان کو بھوکا رکھتے ہیں اور نہ ان کو لباس سے محروم کرتے ہیں اور نہ ہی ایسے طور پر خرچ کرتے ہیں کہ لوگ کہنے لگے کہ اس نے اس معاملہ میں فضول خرچی کی۔

27129

(۲۷۱۳۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن سُفْیَانَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ قَیْسٍ ، عَنِ الْمِنْہَالِ ، عَن سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ : {وَمَا أَنْفَقْتُمْ مِنْ شَیْئٍ فَہُوَ یُخْلِفُہُ وَہُوَ خَیْرُ الرَّازِقِینَ} قَالَ : فِی غَیْرِ إسْرَافٍ ، وَلاَ تَقْتِیرٍ۔
(٢٧١٣٠) حضرت منھال فرماتے ہیں کہ حضرت سعید بن جبیر نے اللہ رب العزت کے اس قول کے مطابق : ” اور جو خرچ کردیتے ہو تم کوئی بھی چیز تو وہ اس کی جگہ اور دیتا ہے تم کو اور وہ سب سے بہتر رزق عطا فرمانے والا ہے۔ “
آپ نے فرمایا : یہ صورت اسراف اور کنجوسی کے علاوہ میں ہے۔

27130

(۲۷۱۳۱) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنِ الْحَکَمِ ، عَن یَحْیَی بْنِ الْجَزَّارِ ، عَنْ أَبِی الْعُبَیْدَیْنِ ، أَنَّہُ سَأَلَ ابْنَ مَسْعُودٍ عَنِ التَّبْذِیرِ فَقَالَ : إنْفَاقُ الْمَالِ فِی غَیْرِ حَقِّہِ۔
(٢٧١٣١) حضرت یحییٰ بن جزار فرماتے ہیں کہ حضرت ابو العبید ین نے حضرت ابن مسعود سے فضول خرچی کے متعلق پوچھا : تو آپ نے فرمایا : مال کو حق کے علاوہ جگہ میں خرچ کرنا فضول خرچی ہے۔

27131

(۲۷۱۳۲) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَن حَمَّادِ بْنِ سَلَمَۃَ ، عَن دَاوُد قَالَ : قُلْتُ لِلْحَسَنِ : أَشْتَرِی لامْرَأَتِی فِی السَّنَۃِ طِیبًا بِعِشْرِینَ دِرْہَمًا أَسَرَفٌ ہَذَا ؟ قَالَ : لَیْسَ ہَذَا بِسَرَفٍ۔
(٢٧١٣٢) حضرت داؤد فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت حسن بصری سے پوچھا : کہ میں نے سال میں اپنی بیوی کے لیے بیس درہم کی خوشبو خریدی کیا یہ اسراف ہے ؟ آپ نے فرمایا : یہ اسراف نہیں ہے۔

27132

(۲۷۱۳۳) حَدَّثَنَا سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ بْنَ مَیْسَرَۃَ ، عَن طَاوُوس ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ : الْبَسْ مَا شِئْت وَکُلْ مَا شِئْت مَا أَخْطَأَتْک خِلَّتَانِ : سَرَفٌ ، أَوْ مَخِیلَۃٌ۔
(٢٧١٣٣) حضرت طاؤس فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عباس نے ارشاد فرمایا : جو چاہو پہنو اور جو چاہو کھاؤ۔ لیکن دو عادتوں سے بچنا ایک فضول خرچی اور دوسری فخر۔

27133

(۲۷۱۳۴) حَدَّثَنَا یَعْلَی بْنُ عُبَیْدٍ ، عَن مُحَمَّدِ بْنِ سُوقَۃَ ، عَن سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ قَالَ : سَأَلَہُ رَجُلٌ ، عَنْ إضَاعَۃِ الْمَالِ ، قَالَ : أَنْ یَرْزُقَک اللَّہُ رِزْقًا فَتُنْفِقُہُ فِیمَا حَرَّمَ عَلَیْک۔
(٢٧١٣٤) حضرت محمد بن سوقہ فرماتے ہیں کہ حضرت سعید بن جبیر سے کسی آدمی نے مال ضائع کرنے کے متعلق پوچھا ؟ آپ نے فرمایا : مال ضائع کرنا یہ ہے کہ اللہ رب العزت تجھے رزق عطا کریں اور تم اس کو ان کاموں میں خرچ کرو جو اللہ نے تم پر حرام کیے ہیں۔

27134

(۲۷۱۳۵) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنِ الْعَوَّامِ قَالَ : قَالَ کَعْبٌ : أَنْفِقُوا لِخَلْفٍ یَأْتِیکُمْ۔
(٢٧١٣٥) حضرت عوام فرماتے ہیں کہ حضرت کعب نے ارشاد فرمایا : خرچ کرو، اس کا بدل تمہیں مل جائے گا۔

27135

(۲۷۱۳۶) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، عَن سُکَیْنِ بْنِ عَبْدِ الْعَزِیزِ ، عَنِ الْہَجَرِیِّ ، عَنْ أَبِی الأَحْوَصِ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَا عَالَ مَنِ اقْتَصَدَ۔ (احمد ۴۴۷۔ طبرانی ۱۰۱۱۸)
(٢٧١٣٦) حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جس نے میانہ روی کی وہ محتاج نہیں ہوا۔

27136

(۲۷۱۳۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن یُوسُفَ ، عَنْ أَبِی السَّرِیَّۃِ بن الْحَسَنِ قَالَ : لَیْسَ فِی الطَّعَامِ إسْرَافٌ۔
(٢٧١٣٧) حضرت یوسف فرماتے ہیں کہ حضرت ابو السریہ بن حسن نے ارشاد فرمایا : کھانے میں اسراف نہیں ہے۔

27137

(۲۷۱۳۸) حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ ، عَنْ أَبِی الْعُمَیْسِ ، عَن زِیَادٍ مَوْلَی مُصْعَبٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، أَنَّ أَصْحَابَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سَأَلُوہُ : مَا نَفَقَتنَا عَلَی أَہْلِینَا ؟ فَقَالَ : مَا أَنْفَقْتُمْ عَلَی أَہْلِیکُمْ فِی غَیْرِ إسْرَافٍ ، وَلاَ تَقْتِیرٍ ، فَہُوَ فِی سَبِیلِ اللہِ۔ (بیہقی ۶۵۵۴)
(٢٧١٣٨) حضرت حسن بصری فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا کہ جو ہم اپنے گھر والوں پر خرچ کرتے ہیں اس کی کیا حیثیت ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو مال تم اپنے گھر والوں پر بغیر اسراف اور بغیر کنجوسی کے خرچ کرتے ہو وہ اللہ کے راستہ میں شمار ہوتا ہے۔

27138

(۲۷۱۳۹) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَن شُعْبَۃَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ الْحَارِثِ ، عَنْ أَبِی کَثِیرٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : إیَّاکُمْ وَالشُّحَّ فَإِنَّہُ أَہْلَکَ مَنْ قَبْلَکُمْ أَمَرَہُمْ بِالْقَطِیعَۃِ فَقَطَعُوا ، وَبِالْبُخْلِ فَبَخِلُوا ، وَبِالْفُجُورِ فَفَجَرُوا۔ (ابوداؤد ۱۶۹۵۔ احمد ۱۹۱)
(٢٧١٣٩) حضرت عبداللہ بن عمرو فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : تم لالچ کرنے سے بچو : کیونکہ لالچ نے پہلے لوگوں کو قطع رحمی پر ابھارا انھوں نے قطع رحمی کی، بخل پر ابھارا انھوں نے بخل کیا اور بےحیائی پر ابھارا انھوں نے بےحیائی کی۔

27139

(۲۷۱۴۰) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَن مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو ، عَن صَفْوَانَ بْنِ سُلَیْمٍ ، عَن حُصَیْنِ بْنِ اللَّجْلاَجِ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لاَ یَجْتَمِعُ الشُّحُّ وَالإِیمَانُ فِی جَوْفِ رَجُلِ مُسْلِمٍ۔
(٢٧١٤٠) حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : بخل اور ایمان کسی مسلمان آدمی کے اندر جمع نہیں ہوسکتے۔

27140

(۲۷۱۴۱) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، عَن مُوسَی بْنِ عُلَیٍّ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِیزِ بْنِ مَرْوَانَ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : شَرُّ مَا فِی الرَّجُلِ شُحٌّ ہَالِعٌ وَجُبْنٌ خَالِعٌ۔ (ابوداؤد ۲۵۰۳۔ احمد ۳۰۲)
(٢٧١٤١) حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا؛ آدمی میں پائی جانے والی بری عادت : حد سے زیادہ کنجوسی اور دل دہلا دینے والی بزدلی ہے۔

27141

(۲۷۱۴۲) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَن مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْکَدِرِ ، عَنْ جَابِرٍ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لَوْ قَدْ جَائَ مَالُ الْبَحْرَیْنِ لَقَدْ أَعْطَیْتُک کَذَا وَکَذَا فَأَتَیْت أَبَا بَکْرٍ فَقُلْت : تَبْخَلُ عَنی ، قَالَ : وَأَیُّ دَائٍ أَدْوَأُ مِنَ الْبُخْلِ ؟ مَا سَأَلْتِی مِنْ مَرَّۃٍ إلاَّ وَأَنَا أُرِیدُ أَنْ أُعْطِیَک۔ (بخاری ۲۵۹۸۔ مسلم ۱۸۰۶)
(٢٧١٤٢) حضرت جابر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اگر بحرین کا مال آگیا تو میں تجھے اتنا اور اتنا مال عطا کروں گا۔ راوی کہتے ہیں۔ میں حضرت ابوبکر کے پاس آیا۔ اور میں نے کہا : آپ مجھ سے بخل کر رہے ہیں ؟ انھوں نے فرمایا : کون سی بیماری ہے جو بخل سے زیادہ خطرناک ہے ؟ تم نے مجھ سے ایک مرتبہ بھی نہیں مانگا مگر یہ کہ میں نے ارادہ کرلیا کہ میں تمہیں عطا کر دوں گا۔

27142

(۲۷۱۴۳) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ جَامِعِ بْنِ شَدَّادٍ ، عَنِ الأَسْوَدِ بْنِ ہِلاَلٍ قَالَ : جَائَ رَجُلٌ إلَی عَبْدِ اللہِ فَقَالَ : خَشِیَتْ أَنْ تُصِیبَنِی ہَذِہِ الآیَۃُ {وَمَنْ یُوقَ شُحَّ نَفْسِہِ} الآیَۃَ ، مَا أَسْتَطِیعُ أَنْ أُعْطِیَ شَیْئًا أُطِیقُ مَنْعَہُ ، قَالَ عَبْدُ اللہِ : ذَاکَ الْبُخْلُ ، وَبِئْسَ الشَّیْئُ الْبُخْلُ۔
(٢٧١٤٣) حضرت اسود بن ھلال فرماتے ہیں کہ ایک شخص حضرت عبداللہ بن مسعود کی خدمت میں آ کر کہنے لگا : مجھے ڈر ہے کہ میں قرآن مجید کی اس آیت { وَمَنْ یُوقَ شُحَّ نَفْسِہِ } کا مصداق نہیں بن پاؤں گا کیونکہ مجھ میں چیزوں کو خرچ کرنے کی طاقت نہیں بلکہ روکنے کی طاقت ہے۔ حضرت عبداللہ نے فرمایا کہ یہ بخل ہے اور بخل بدترین چیز ہے۔

27143

(۲۷۱۴۴) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَن کَہْمَسٍ ، عَنْ أَبِی الْعَلاَئِ ، عَنِ ابْنِ الأَحْمَسِ قَالَ : قلْت لأَبِی ذَرٍّ : حَدِیثٌ بَلَغَنِی عَنک تُحَدِّثُہ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ؟ ، قَالَ : سَمِعْتُہُ مِنْہُ وَقُلْتہ ، فَذَکَرَ ثَلاَثَۃً یَشْنَؤُہُمُ اللَّہُ : الْبَخِیلُ وَالْمَنَّانُ وَالْمُخْتَالُ۔
(٢٧١٤٤) حضرت ابو ذر سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : تین لوگ ایسے ہیں کہ اللہ رب العزت کا ان پر غصہ ہوگا : بخیل شخص، احسان جتانے والا اور تکبر کرنے والا۔

27144

(۲۷۱۴۵) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ عَاصِمِ ، عَنْ أَبِی عُثْمَانَ ، وَعَبْدِ اللہِ بْنِ الْحَارِثِ ، عَن زَیْدِ بْنِ أَرْقَمَ ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یَقُولُ : اللَّہُمَّ إنِّی أَعُوذُ بِکَ مِنَ الْبُخْلِ۔
(٢٧١٤٥) حضرت زید بن ارقم فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ دعا مانگا کرتے تھے : ترجمہ؛ اے اللہ ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں بخل کرنے سے۔

27145

(۲۷۱۴۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إسْرَائِیلَ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَیْمُونٍ ، عَن عُمَرَ ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یَتَعَوَّذُ مِنَ الْبُخْلِ۔
(٢٧١٤٦) حضرت عمر فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بخل سے پناہ مانگتے تھے۔

27146

(۲۷۱۴۷) حَدَّثَنَا شَبَابَۃُ قَالَ : حدَّثَنَا یُونُسُ بْنُ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَیْمُونٍ ، عَن عُمَرَ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، مِثْلَہُ۔
(٢٧١٤٧) حضرت عمر سے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مذکورہ ارشاد اس سند سے بھی منقول ہے۔

27147

(۲۷۱۴۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، عَن ہِشَامَ، عَن قَتَادَۃَ ، عَنْ أَنَسٍ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یَتَعَوَّذُ مِنَ الْبُخْلِ۔
(٢٧١٤٨) حضرت انس فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بخل سے پناہ مانگا کرتے تھے۔

27148

(۲۷۱۴۹) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عن حجاج ، عَن سُلَیْمَانَ بْنِ سُحَیْمٍ ، عَن طَلْحَۃَ بْنِ عُبَیْدِ اللہِ بْنِ کَرِیزٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: إنَّ اللَّہَ جَوَادٌ یُحِبُّ الْجُود، وَیُحِبُّ مَعَالِیَ الأَخْلاَقِ وَیَکْرَہُ سَفْسَافَہَا۔ (عبدالرزاق ۲۰۱۵۰۔ حاکم ۶۲۸)
(٢٧١٤٩) حضرت طلحہ بن عبید اللہ بن کریز فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : یقیناً اللہ رب العزت فیاض ہیں اور فیاضی کو پسند کرتے ہیں اور بلند اخلاق کو پسند کرتے ہیں اور اخلاق کی گراوٹ کو ناپسند کرتے ہیں۔

27149

(۲۷۱۵۰) حَدَّثَنَا عِیسَی بْنُ یُونُسَ ، عَنِ الأَوْزَاعِیِّ ، عَن یَحْیَی بْنِ أَبِی کَثِیرٍ قَالَ : کَانَ لِلنَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ من سَعْدِ بْنِ عُبَادَۃَ جَفْنَۃٌ تَدُورُ مَعَہُ حَیْثُمَا دَارَ مِنْ نِسَائِہِ ، وَکَانَ یَقُولُ فِی دُعَائِہِ : اللَّہُمَّ ارْزُقْنِی مَالاً فَإِنَّہُ لاَ یُصْلِحُ الْفِعَالَ إلاَّ الْمَالُ۔
(٢٧١٥٠) حضرت یحییٰ بن ابی کثیر فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حضرت سعد بن عبادہ کی طرف سے ایک پیالہ ملا تھا جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ہی گھومتا تھا جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی ازواج مطہرات کے پاس چکر لگاتے تھے۔ اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی دعا میں یوں فرماتے تھے : اے اللہ ! مجھے مال عطاء فرما : اس لیے کہ کوئی کارنامہ انجام نہیں دیا جاسکتا مگر مال سے۔

27150

(۲۷۱۵۱) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَن ہِشَامٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، أَنَّ سَعْدَ بْنَ عُبَادَۃَ کَانَ یَدْعُو اللَّہُمَّ ہَبْ لِی حَمْدًا وَہَبْ لِی مَجْدًا ، ولاَ مَجْدَ إلاَّ بِفِعَالٍ ، وَلاَ فِعَالَ إلاَّ بِمَالٍ ، اللَّہُمَّ لاَ یُصْلِحُنِی الْقَلِیلُ ، وَلاَ أَصْلُحُ عَلَیْہِ۔ (ابن سعد ۶۱۴۔ حاکم ۲۵۳)
(٢٧١٥١) حضرت عروہ فرماتے ہیں کہ حضرت سعد بن عبادہ دعا فرمایا کرتے تھے : ترجمہ : اے اللہ ! تو مجھے شکر کی توفیق عطا فرما اور عزت و بزرگی عطا فرما اور عزت و بزرگی حاصل نہیں ہوتی مگر کسی کارنامہ کی وجہ سے اور کارنامہ نہیں ہوتا مگر مال کے ذریعہ ۔ اے اللہ ! تھوڑا مال مجھے نفع نہیں پہنچا سکتا اور نہ میں اس پر مصالحت کرتا ہوں۔

27151

(۲۷۱۵۲) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ قَالَ : حدَّثَنَا ہِشَامٌ ، عَنْ أَبِیہِ قَالَ : أَدْرَکْت سَعْدَ بْنَ عُبَادَۃَ وَہُوَ یُنَادِی عَلَی أُطُمِہِ : مَنْ أَحَبَّ شَحْمًا ، ولَحْمًا فَلْیَأْتِ سَعْدَ بْنَ عُبَادَۃَ ، ثُمَّ أَدْرَکْت ابْنَہُ بَعْدَ ذَلِکَ یَدْعُو بِہِ ، وَلَقَدْ کُنْت أَمْشِی فِی طَرِیقِ الْمَدِینَۃِ وَأَنَا شَابٌّ فَمَرَّ عَلَیَّ عَبْدُ اللہِ بْنُ عُمَرَ مُنْطَلِقًا إلَی أَرْضِہِ بالغابۃ ، فَقَالَ : یَا فَتَی ، انْظُرْ ہَلْ تَرَی عَلَی أُطُمِ سَعْدِ بْنِ عُبَادَۃَ أَحَدًا یُنَادِی ، فَنَظَرْت فَقُلْت : لاَ ، فَقَالَ : صَدَقْت۔
(٢٧١٥٢) حضرت عروہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت سعد بن عبادہ کو پایا کہ وہ اپنے بلند مکان پر یوں ندا لگا رہے تھے : جو شخص چربی اور گوشت کو محبوب رکھتا ہے اس کو چاہیے کہ وہ سعد بن عبادہ کے پاس آجائے۔ راوی فرماتے ہیں : پھر اس کے بعد میں نے ان کے بیٹے کو یہ ندا لگاتے ہوئے پایا۔ اور میں زمانہ جوانی میں مدینہ کے راستہ میں چل رہا تھا کہ مجھ پر حضرت عبداللہ بن عمر کا گزر ہوا جو جنگل میں اپنی زمین کی طرف جا رہے تھے۔ آپ نے فرمایا : اے جوان ! ذرا دیکھو کہ کوئی سعد بن عبادہ کے بلند گھر میں ندا لگا رہا ہے ؟ میں نے دیکھا۔ میں نے عرض کیا : نہیں۔ آپ نے فرمایا : تم نے سچ کہا۔

27152

(۲۷۱۵۳) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ قَالَ : حدَّثَنَا ہِشَامٌ ، عَنْ أَبِیہِ قَالَ : کَانَ قَیْسُ بْنُ سَعْدِ بْنِ عُبَادَۃَ ارْتَحَلَ نَحْوَ الْمَدِینَۃِ وَمَعَہُ أَصْحَابٌ ، فَجَعَلَ یَنْحَرُ کُلَّ یَوْمٍ جَزُورًا حَتَّی بَلَغَ صِرَارَ۔
(٢٧١٥٣) حضرت عروہ فرماتے ہیں کہ حضرت قیس بن سعد بن عبادہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ مدینہ کی طرف روانہ ہوئے۔ تو آپ روزانہ اونٹ ذبح کرتے تھے یہاں تک کہ آپ مدینہ کے قریب حرار مقام تک پہنچ گئے۔

27153

(۲۷۱۵۴) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ جَرِیرِ بْنِ حَازِمٍ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ قَالَ : کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إذَا أَمْسَی قَسَمَ نَاسًا مِنْ أَہْلِ الصُّفَّۃِ بَیْنَ أُنَاسٍ مِنْ أَصْحَابِہِ ، فَکَانَ الرَّجُلُ یَذْہَبُ بِالرَّجُلِ ، وَالرَّجُلُ بِالرَّجُلَیْنِ ، وَالرَّجُلُ بِالثَّلاَثَۃِ حَتَّی ذَکَرَ عَشَرَۃً ، قَالَ : وَکَانَ سَعْدُ بْنُ عُبَادَۃَ یَرْجِعُ إلَی أَہْلِہِ کل لیلۃ بِثَمَانِینَ منہم یُعَشِّیہِمْ۔
(٢٧١٥٤) حضرت ابن سیرین فرماتے ہیں کہ جب شام ہوجاتی تو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اصحابِ صفہ کو صحابہ کے درمیان تقسیم فرما دیتے۔ پھر ایک صحابی ایک کو لے جاتے اور ایک صحابی دو لوگوں کو لے جاتے اور ایک صحابی تین لوگوں کو لے جاتے ۔ یہاں تک کہ آپ نے دس کا ذکر کیا۔ اور فرمایا : حضرت سعد بن عبادہ ہر رات کو ان میں سے آٹھ لوگوں کو لے کر لوٹتے اور ان کو رات کا کھانا کھلاتے۔

27154

(۲۷۱۵۵) حَدَّثَنَا یَعْلَی ، عَن مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَن عُبَیْدِ اللہِ بْنِ عَبْدِ اللہِ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ : کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَجْوَدَ مِنَ الرِّیحِ الْمُرْسَلَۃِ۔ (بخار ی۳۲۲۰۔ احمد ۲۳۰)
(٢٧١٥٥) حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چلتی ہوئی ہوا سے بھی زیادہ فیاض تھے۔

27155

(۲۷۱۵۶) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ آدَمَ قَالَ : حدَّثَنَا إبْرَاہِیمُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَن عُبَیْدِ اللہِ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ : کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَجْوَدَ النَّاسِ بِالْخَیْرِ ، وَکَانَ أَجْوَدَ مَا یَکُونُ حِینَ یَلْقَاہُ جِبْرِیلُ۔ (بخاری ۱۹۰۲۔ مسلم ۱۸۰۳)
(٢٧١٥٦) حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگوں میں خیر کے اعتبار سے سب سے زیادہ فیاض تھے۔ اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سخاوت اور زیادہ بڑھ جاتی تھی جب سے حضرت جبرائیل آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ملاقات کرتے تھے۔

27156

(۲۷۱۵۷) حَدَّثَنَا مَعْنُ بْنُ عِیسَی، عَن سَلَمَۃَ بْنِ أَبِی یَحْیَی الأَنْصَارِیِّ قَالَ: رَأَیْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِکٍ یَجْلِسُ إلَی سَارِیَۃٍ۔
(٢٧١٥٧) حضرت سلمہ بن ابو یحییٰ انصاری فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت انس بن مالک کو لکڑی کے ستون سے ٹیک لگا کر بیٹھے ہوئے دیکھا۔

27157

(۲۷۱۵۸) حَدَّثَنَا مَعْنُ بْنُ عِیسَی ، عَنِ الْمُخْتَارِ بْنِ سَعْدٍ قَالَ : رَأَیْتُ الْقَاسِمَ بْنَ مُحَمَّدٍ یَجْلِسُ إلَی سَارِیَۃٍ۔
(٢٧١٥٨) حضرت مختار بن سعد فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت قاسم بن محمد کو لکڑی کے ستون سے ٹیک لگا کر بیٹھے ہوئے دیکھا۔

27158

(۲۷۱۵۹) حَدَّثَنَا مَعْنُ بْنُ عِیسَی ، عَن ثَابِتِ بْنِ قَیْسٍ قَالَ : رَأَیْتُ نَافِعَ بْنَ جُبَیْرٍ یَجْلِسُ إلَی سَارِیَۃٍ۔
(٢٧١٥٩) حضرت ثابت بن قیس فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت نافع بن جبیر کو لکڑی کے ستون سے ٹیک لگا کر بیٹھے ہوئے دیکھا۔

27159

(۲۷۱۶۰) حَدَّثَنَا مَعْنُ بْنُ عِیسَی ، عَن خَالِدِ بْنِ أَبِی بَکْرٍ قَالَ : رَأَیْتُ عُبَیْدَ اللہِ بْنَ عَبْدِ اللہِ یَجْلِسُ إلَی سَارِیَۃٍ۔
(٢٧١٦٠) حضرت خالد بن ابوبکر فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عبید اللہ بن عبداللہ کو لکڑی کے ستون سے ٹیک لگا کر بیٹھے ہوئے دیکھا۔

27160

(۲۷۱۶۱) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ قَالَ : کَانَ إبْرَاہِیمُ لاَ یَجْلِسُ إلَی أُسْطُوَانَۃٍ۔
(٢٧١٦١) حضرت اعمش فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم ستون سے ٹیک لگا کر نہیں بیٹھتے تھے۔

27161

(۲۷۱۶۲) حَدَّثَنَا مَعَن ، عَن خَالِدِ بْنِ أَبِی بَکْرٍ قَالَ : لَمْ أَرَ سَالِمَ بْنَ عَبْدِ اللہِ یَجْلِسُ إلَی سَارِیَۃٍ۔
(٢٧١٦٢) حضرت خالد بن ابوبکر فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت سالم بن عبداللہ کو ستون سے ٹیک لگا کر بیٹھے ہوئے نہیں دیکھا۔

27162

(۲۷۱۶۳) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ قَالَ : نَزَلَ عَلَیْنَا أَبُو قَتَادَۃَ الأَنْصَارِیُّ ، فَانْقَضَّ کَوْکَبٌ ، فَأَتْبَعْناہُ أَبْصَارَنَا ، فَنَہَانَا عَن ذَلِکَ۔ (احمد ۲۹۹۔ حاکم ۲۸۶)
(٢٧١٦٣) حضرت ابن سیرین فرماتے ہیں کہ حضرت ابو قتادہ انصاری ہمارے مہمان بنے۔ اتنے میں ایک ستارہ ٹوٹ گیا تو ہم اسے دیکھنے لگے تو آپ نے ہمیں اس سے منع فرمایا۔

27163

(۲۷۱۶۴) حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ مُعَاذٍ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، أَنَّہُ کَانَ لاَ یَرَی بَأْسًا أَنْ یُتْبَعَ الرَّجُلُ بَصَرَہُ الْکَوْکَبَ إذَا رمی بِہِ۔
(٢٧١٦٤) حضرت اشعث فرماتے ہیں کہ حضرت حسن بصری کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے کہ جب ستارہ کو مارا جائے تو آدمی اس کے پیچھے اپنی نظر دوڑائے۔

27164

(۲۷۱۶۵) حَدَّثَنَا قَبِیصَۃُ ، عَن سُفْیَانَ ، عَن ہِشَامٍ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ الْحَارِثِ ، عَنْ أَبِی قَتَادَۃَ مِثْلُ حَدِیثِ عَبْدِ الرَّحِیمِ ، عَنْ عَاصِمٍ۔
(٢٧١٦٥) حضرت عبداللہ بن حارث سے بھی حضرت ابو قتادہ کا وہ ارشاد جو حضرت عاصم سے نقل کیا، منقول ہے۔

27165

(۲۷۱۶۶) حَدَّثَنَا ہَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ ، قَالَ : حدَّثَنَا أَبُو عَقِیلٍ قَالَ : حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ خَالِدٍ الْقُرَشِیُّ ، قَالَ : سَمِعْتُ زَیْدَ بْنَ عَلِیٍّ یُحَدِّثُ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ جَدِّہِ ، عَنْ عَلِیٍّ ، أَنَّہُ کَانَ إذَا رَأَی الْکَوْکَبَ مُنْقَضًّا قَالَ : اللَّہُمَّ صَوِّبْہُ وَأَصِبْ بِہِ ، وَقِنَا شَرَّ مَا یَتْبَعُ۔
(٢٧١٦٦) حضرت علی جب ٹوٹتا ہوا ستارہ دیکھتے تو یہ دعا کرتے : اے اللہ ! تو اس کو درست فرما اور اس کے ذریعہ درستگی فرما اور ہمیں بچا اس چیز کے شر سے جس کے یہ پیچھے ہے۔

27166

(۲۷۱۶۷) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ قَالَ : حدَّثَنَا شُعْبَۃُ ، عَن خَالِدٍ الْحَذَّائِ ، عَن غَیْلاَنَ بْنِ جَرِیرٍ ، عَن مُطَرِّفٍ قَالَ : لاَ یَکْذِبَن أَحَدُکُمْ مَرَّتَیْنِ ، یَقُولُ لِلشَیْئٍ : لاَ شَیْئَ ، لَیْسَ بِشَیْئٍ۔
(٢٧١٦٧) حضرت غیلان بن جریر فرماتے ہیں کہ حضرت مطرف نے ارشاد فرمایا : تم میں کوئی ہرگز دو مرتبہ جھوٹ مت بولے کہ وہ کسی چیز کے متعلق یوں کہے : کوئی چیز نہیں، وہ کوئی چیز نہیں۔

27167

(۲۷۱۶۸) حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ مُعَاذٍ قَالَ : أَخْبَرَنَا ابْنُ عَوْنٍ ، عَن مُحَمَّدٍ قَالَ : کَانَ یَقُولُ : إنَّ ہَذَا الْعِلْمَ دِینٌ فَانْظُرُوا عَمَّنْ تَأْخُذُونَہُ۔ (دارمی ۴۱۹)
(٢٧١٦٨) حضرت ابن عون فرماتے ہیں کہ حضرت محمد بن سیرین فرمایا کرتے تھے۔ یقیناً یہ علم دین ہے تم غور کرلیا کرو کہ تم اس کو کس سے حاصل کر رہے ہو۔

27168

(۲۷۱۶۹) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَن مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالَ : کَانَ یَکْرَہ أَنْ یَقُولُ : لَیْسَ فِی الْبَیْتِ أَحَدٌ ، وَلاَ بَأْسَ أَنْ یَقُولَ : لَیْسَ فِی الْبَیْتِ أَحَدٌ مِنَ النَّاسِ۔
(٢٧١٦٩) حضرت مغیرہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم مکروہ سمجھتے تھے یوں کہنے کو کہ گھر میں کوئی نہیں ہے اور فرماتے کہ : یوں کہنے میں کوئی حرج نہیں کہ گھر میں کوئی شخص بھی موجود نہیں ہے۔

27169

(۲۷۱۷۰) حَدَّثَنَا عَفَّانُ قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَیْدٍ قَالَ : أَیُّوبُ قَالَ : حَدَّثَنَا سَعِیدُ بْنُ جُبَیْرٍ ذَاتَ یَوْمٍ حَدِیثًا فَقُمْت إلَیْہِ فَقُلْت : أَعِدْہُ ، فَقَالَ : إِنِّی مَا کُلُّ سَاعَۃٍ أَحْلِبُ فَأَشْرَبُ۔
(٢٧١٧٠) حضرت ایوب فرماتے ہیں کہ ایک دن حضرت سعید بن جبیر نے ہمیں حدیث بیان کی۔ میں نے کھڑے ہو کر آپ سے عرض کیا : آپ اس کو دوبارہ دہرا دیں۔ آپ نے فرمایا : میں ہر وقت دودھ دوھ کر پی نہیں سکتا۔

27170

(۲۷۱۷۱) حَدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ بْنُ عَیَّاشٍ ، عَنْ عَبْدِ الْجَبَّارِ ، قَالَ : سَمِعْتُ ابْنَ شِہَابٍ یَقُولُ : تَرْدَادُ الْحَدِیثِ أَشَدُّ مِنْ نَقْلِ الْحِجَارَۃِ۔
(٢٧١٧١) حضرت عبد الجبار فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن شھاب کو یوں فرماتے ہوئے سنا : حدیث کو دہرانا پتھروں کے اٹھانے سے زیادہ سخت ہے۔

27171

(۲۷۱۷۲) حَدَّثَنَا یَعْلَی قَالَ: حدَّثَنَا أَبُو حَیَّانَ، عَنْ عَبَایَۃَ قَالَ: وَضَّأْت ابْنَ عُمَرَ فَقُمْت، عَن یَمِینِہِ أُفْرِغُ عَلَیْہِ الْمَائَ، فَلَمَّا فَرَغَ صَعَّدَ فِیَّ بَصَرَہُ فَقَالَ: مِنْ أَیْنَ أَخَذَتْ ہَذَا الأَدَبَ؟ فَقُلْت: مِنْ جَدِّی رَافِعٍ، قَالَ: قَالَ: ہنیئا لک۔
(٢٧١٧٢) حضرت عبایہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عمر کو وضو کروایا تو میں ان کی دائیں جانب کھڑا ہوگیا اور میں نے ان پر پانی ڈالا۔ جب آپ فارغ ہوئے تو آپ نے مجھ پر نظر ڈالی اور فرمایا : تم نے یہ ادب کہاں سے سیکھا ؟ میں نے کہا : اپنے دادا حضرت نافع سے ، انھوں نے فرمایا : تمہیں مبارک ہو۔

27172

(۲۷۱۷۳) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَن حَمَّادِ بْنِ زَیْدٍ ، عَن لَیْثٍ ، عَن مُجَاہِدٍ قَالَ : إذَا لَقِیْتَ أَخَاک فَلاَ تَسْأَلْہُ مِنْ أَیْنَ جِئْت ؟ وَلاَ أَیْنَ تَذْہَبُ ؟ وَلاَ تَحُدُّ النَّظَرَ إلَی أَخِیک۔
(٢٧١٧٣) حضرت لیث فرماتے ہیں کہ حضرت مجاہد نے ارشاد فرمایا : جب تم اپنے بھائی سے ملو تو اس سے مت پوچھو ! کہ تم کہاں سے آئے ؟ اور نہ یہ پوچھو کہ تم کہا جا رہے ہو ؟ اور نہ تم اپنے بھائی کی طرف گھور کردیکھو۔

27173

(۲۷۱۷۴) حَدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَن حَجَّاجِ الصَّوَافِّ قَالَ : حدَّثَنَی یَحْیَی بْنُ أَبِی کَثِیرٍ قَالَ : بَلَغَنِی ، أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یَقُولُ : إذَا مَرَّ أَحَدُکُمْ بِہَدَفٍ مَائِلٍ ، أَوْ صَدَفٍ ہَائِلٍ فَلْیُسْرِعِ الْمَشْیَ وَلْیَسْأَلِ اللَّہَ الْمُعَافَاۃَ۔
(٢٧١٧٤) حضرت یحییٰ بن ابی کثیر فرماتے ہیں کہ مجھے یہ حدیث پہنچی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جب تم میں کوئی جھکی ہوئی دیوار یا جھکی ہوئی چوٹی کے پاس سے گزرے تو اس کو چاہیے کہ وہ جلدی چلے ، اور اللہ رب العزت سے عفو و درگزر کا سوال کرے۔

27174

(۲۷۱۷۵) حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إسْمَاعِیلَ ، عَن عِمْرَانَ الْقَصِیرِ قَالَ : أَخْبَرَنِی سَعِیدُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَن یَزِیدَ بْنِ نَعَامَۃَ الضَّبِّیِّ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إذَا آخَی الرَّجُلُ الرَّجُلَ فَلْیَسْأَلْہُ ، عَنِ اسْمِہِ وَاسْمِ أَبِیہِ وَمِمَّنْ ہُوَ ، فَإِنَّہُ أَوْصَلُ لِلْمَوَدَّۃِ۔ (ابو نعیم ۱۸۱)
(٢٧١٧٥) حضرت یزید بن نعامہ ضبی فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جب ایک آدمی دوسرے آدمی سے بھلائی کا معاملہ کرے تو اس کو چاہیے کہ وہ اس سے اس کا نام اور اس کے والد کا نام پوچھ لے اور یہ پوچھ لے کہ وہ کس قبیلہ سے ہے ؟ اس لیے کہ یہ بات محبت کو زیادہ کرنے والی ہے۔

27175

(۲۷۱۷۶) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنِ ابْنِ أَبِی نَجِیحٍ ، عَن مُجَاہِدٍ ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَأَی رَجُلاً فَسَأَلَ عَنہُ ، فَقَالَ رَجُلٌ : أَنَا أَعْرِفُ وَجْہَہُ ، فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لَیْسَ تِلْکَ بِمَعْرِفَۃٍ۔
(٢٧١٧٦) حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کسی آدمی کو دیکھا تو اس کے متعلق سوال کیا ؟ تو ایک شخص کہنے لگا : میں اس کا چہرہ پہچانتا ہوں۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : یہ پہچاننا تو نہ ہوا۔

27176

(۲۷۱۷۷) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، وَیَزِیدُ ، عَنْ مِسْعَرٍ ، عَنْ عُبَیْدِ بْنِ الْحَسَنِ ، عَنِ ابْنِ مَعْقِلٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : نَفَقَۃُ الرَّجُلِ عَلَی أَہْلِہِ صَدَقَۃٌ۔
(٢٧١٧٧) حضرت ابن معقل فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : آدمی کا اپنے گھر والوں پر خرچ کرنا صدقہ ہے۔

27177

(۲۷۱۷۸) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ قَالَ : إنَّ مِنَ النَّفَقَۃِ الَّتِی تُضَاعَفُ بِسَبْعِمِئَۃِ ضِعْفِ نَفَقَۃِ الرَّجُلِ عَلَی نَفْسِہِ وَأَہْلِ بَیْتِہِ۔
(٢٧١٧٨) حضرت عاصم فرماتے ہیں کہ امام شعبی نے ارشاد فرمایا : بیشک وہ نفقہ جس کا سات سو گنا ثواب ملتا ہے : وہ آدمی کا اپنی ذات پر اور اپنے گھر والوں پر خرچ کرنا ہے۔

27178

(۲۷۱۷۹) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ قَالَ : أَخْبَرَنَا شُعْبَۃُ ، عَنْ عَدِیِّ بْنِ ثَابِتٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ یَزِیدَ ، عَنْ أَبِی مَسْعُودٍ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : نَفَقَۃُ الرَّجُلِ عَلَی أَہْلِہِ صَدَقَۃٌ۔ (بخاری ۵۵۔ مسلم ۶۹۵)
(٢٧١٧٩) حضرت ابو مسعود فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : آدمی کا اپنے گھر والوں پر خرچ کرنا صدقہ ہے۔

27179

(۲۷۱۸۰) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ قَالَ : أَخْبَرَنَا جَرِیرُ بْنُ حَازِمٍ قَالَ : حَدَّثَنَا بَشَّارُ بْنُ أَبِی سَیْفٍ ، عَنِ الْوَلِیدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَن عِیَاضِ بْنِ غُطَیْفٍ قَالَ : دَخَلْنَا عَلَی أَبِی عُبَیْدَۃَ بْنِ الْجَرَّاحِ فَقَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : مَنْ أَنْفَقَ عَلَی أَہْلِہِ ، أَوْ مَازَ أَذًی عَن طَرِیقٍ فَہی حَسَنَۃٌ بِعَشْرِ أَمْثَالِہَا۔
(٢٧١٨٠) حضرت عیاض بن غطیف فرماتے ہیں کہ ہم لوگ حضرت ابو عبیدہ بن جراح کے پاس آئے ، آپ نے فرمایا : میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یوں فرماتے ہوئے سنا : جو شخص اپنے گھر والوں پر خرچ کرے یا راستہ سے تکلیف دہ چیز ہٹا دے تو یہ نیکی دس نیکیوں کے برابر ہے۔

27180

(۲۷۱۸۱) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ قَالَ : حدَّثَنَا ہِشَامُ بْنُ عُرْوَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ أَبِی مُرَاوِحَ ، عَنْ أَبِی ذَرٍّ قَالَ : قُلْتُ : یَا رَسُولَ اللہِ ، أَیُّ الأَعْمَالِ أَفْضَلُ ؟ قَالَ : إیمَانٌ بِاللَّہِ وَجِہَادٌ فِی سَبِیلِہِ ، قَالَ : قُلْتُ : أَیُّ الرِّقَابِ أَفْضَلُ ؟ قَالَ : أَنْفَسُہَا عِنْدَ أَہْلِہَا وَأَغْلاَہَا ، ثَمَنًا ، قُلْتُ : فَإِنْ لَمْ أَطِقْ ذَلِکَ ؟ قَالَ : تُعِینُ صَانِعًا ، أَوْ تَصْنَعُ لأَخْرَقَ ، قَالَ : فَإِنْ لَمْ أَسْتَطِعْ ؟ قَالَ : فَدَعِ النَّاسَ مِنَ الشَّرِّ ، فَإِنَّہَا صَدَقَۃٌ تَصَدَّقُ بِہَا عَلَی نَفْسِک۔
(٢٧١٨١) حضرت ابوذر غفاری فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کی : یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! کون سا عمل افضل ترین ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ پر ایمان لانا، اور اس کے راستہ میں جہاد کرنا ، میں نے پوچھا : کون سا غلام افضل ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو اپنے گھر والوں سے اچھا سلوک کرے اور اس کی قیمت بھی زیادہ ہو۔ میں نے پوچھا؛ اگر میں اس کی طاقت نہ رکھتا ہوں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : پھر تم کسی کام کرنے والے کی مدد کرویا کسی بیوقوف سے اچھا سلوک کرو۔ میں نے کہا : اگر میں اس کی بھی استطاعت نہ رکھوں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : لوگوں کو برائی سے بچاؤ ، اس لیے کہ یہ ایسا صدقہ ہے جو تم اپنی ذات پر کرتے ہو۔

27181

(۲۷۱۸۲) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَن شُعْبَۃَ ، عَن سَعِیدِ بْنِ أَبِی بُرْدَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ جَدِّہِ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : عَلَی کُلِّ مُسْلِمٍ صَدَقَۃٌ ، قَالَ : قِیلَ أَرَأَیْت إِنْ لَمْ یَجِدْ ؟ قَالَ : یَعْمَلُ بِیَدَیْہِ فَیَنْفَعُ نَفْسَہُ وَیَتَصَدَّقُ ، قَالَ : أَرَأَیْت إِنْ لَمْ یَسْتَطِعْ ؟ قَالَ : یُعِینُ ذَا الْحَاجَۃِ الْمَلْہُوفَ ، قَالَ : أَرَأَیْت إِنْ لَمْ یَسْتَطِعْ ؟ قَالَ: یَأْمُرُ بِالْمَعْرُوفِ أو الخیر ، قَالَ : أَرَأَیْت إِنْ لَمْ یَفْعَلْ ؟ قَالَ : یُمْسِکُ عَنِ الشَّرِّ فَإِنَّہَا صَدَقَۃٌ۔ (بخاری ۱۴۴۵۔ مسلم ۶۹۹)
(٢٧١٨٢) حضرت ابو بردہ کے والد فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ہر مسلم پر صدقہ کرنا ضروری ہے۔ راوی کہتے ہیں : پوچھا گیا : آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی کیا رائے ہے اگر کوئی صدقہ کے لیے کچھ بھی نہ پائے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : وہ اپنے ہاتھ سے کام کر کے خود کو بھی نفع پہنچائے اور صدقہ بھی کرے۔ کسی نے پوچھا : اگر وہ اس کی طاقت نہ رکھتا ہو ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : وہ شخص کسی ستم رسیدہ حاجت مند کی مدد کر دے۔ کسی نے پوچھا : اگر وہ اس کی طاقت بھی نہ رکھتا ہو ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : وہ نیکی یا بھلائی کا حکم دے۔ کسی نے پوچھا : اگر وہ اس کی طاقت بھی نہ رکھتا ہو ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : وہ برائی سے روک دے پس بیشک یہ بھی صدقہ ہے۔

27182

(۲۷۱۸۳) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَن دِینَارٍ التَّمَّارِ ، عَنْ عَوْنِ بْنِ عَبْدِ اللہِ قَالَ : کَانَ عَبْدُ اللہِ یَمْشِی مَعَ نَاسٍ مِن أَصْحَابِہِ ذَاتَ یَوْمٍ فَانْقَطَعَ شِسْعُ نَعْلِہِ فَاسْتَرْجَعَ ، فَقَالَ لَہُ بَعْضُ الْقَوْمِ : یَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، تَسْتَرْجِعُ عَلَی سَیْرٍ ؟ قَالَ : مَا بِی أن لاَ تَکُونَ السُّیُورُ کَثِیرًا وَلَکِنَّہَا مُصِیبَۃٌ۔
(٢٧١٨٣) حضرت عون بن عبداللہ فرماتے ہیں کہ ایک دن حضرت عبداللہ بن مسعود اپنے اصحاب میں سے چند لوگوں کے ساتھ چل رہے تھے کہ آپ کی جوتی کا تسمہ ٹوٹ گیا۔ اس پر آپ نے انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھا۔ لوگوں میں سے کسی نے آپ سے کہا : اے ابو عبد الرحمن ! آپ ایک تسمہ پر انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا : مجھے افسوس نہیں کیونکہ تسمہ تو بہت ہیں لیکن یہ مصیبت ہی ہے۔

27183

(۲۷۱۸۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن سُفْیَانَ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ خَلِیفَۃَ ، عَن عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ ، أَنَّہُ انْقَطَعَ شِسْعُہُ فَاسْتَرْجَعَ ، وَقَالَ : کُلُّ مَا سَائَک ، فَہُوَ مُصِیبَۃٌ۔
(٢٧١٨٤) حضرت عبداللہ بن خلیفہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب کی جوتی کا تسمہ ٹوٹ گاہ تو آپ نے انا اللہ وانا الیہ راجعون پڑھی ۔ اور فرمایا : ہر وہ چیز جو تمہیں بری معلوم ہو وہ مصیبت و تکلیف ہے۔

27184

(۲۷۱۸۵) حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ بْنُ مُوسَی قَالَ : أَخْبَرَنَا شَیْبَانُ ، عَن مَنْصُورٍ ، عَن مُجَاہِدٍ ، عَن سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ قَالَ : انْقَطَعَ قُبَالُ نَعْلِ عُمَرَ فَقَالَ : إنَّا لِلَّہِ وَإِنَّا إلَیْہِ رَاجِعُونَ ، فَقَالُوا : یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ ، أَفِی قُبَالِ نَعْلِکَ ؟ قَالَ : نَعَمْ ، کُلُّ شَیْئٍ أَصَابَ الْمُؤْمِنَ یَکْرَہُہُ ، فَہُوَ مُصِیبَۃٌ۔
(٢٧١٨٥) حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ حضرت سعید بن مسیب نے ارشاد فرمایا : حضرت عمر کی جوتی کا تسمہ ٹوٹ گیا، اس پر آپ نے انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھی۔ لوگوں نے کہا : اے امیر المؤمنین ! کیا جوتی کا تسمہ ٹوٹنے کی صورت میں بھی ؟ آپ نے فرمایا : جی ہاں۔ ہر وہ چزہ جو مومن کو تکلیف پہنچائے اور وہ اسے برا سمجھے تو یہ مصیبت ہے۔

27185

(۲۷۱۸۶) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالَ : حدَّثَنَا جَرِیرُ بْنُ حَازِمٍ ، عَنْ عَائِشَۃَ رضی اللہ عنہا قَالَتْ : قُولُوا : خَاتَمُ النَّبِیِّینَ ، وَلاَ تَقُولُوا : لاَ نَبِیَّ بَعْدَہُ۔
(٢٧١٨٦) حضرت محمد فرماتے ہیں کہ حضرت عائشہ نے ارشاد فرمایا : تم یوں کہو کہ خاتم النبیین ہیں۔ یوں مت کہو : آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد کوئی نبی نہیں۔

27186

(۲۷۱۸۷) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَن مُجَالِدٍ قَالَ : أَخْبَرَنَا عَامِرٌ قَالَ : قَالَ رَجُلٌ عِنْدَ الْمُغِیرَۃِ بْنِ شُعْبَۃَ : صَلَّی اللَّہُ عَلَی مُحَمَّدٍ خَاتَمِ الأَنْبِیَائِ ، لاَ نَبِیَّ بَعْدَہُ ، قَالَ الْمُغِیرَۃُ : حَسْبُک إذَا قُلْتَ : خَاتَمُ الأَنْبِیَائِ ، فَإِنَّا کُنَّا نُحَدِّثُ، أَنَّ عِیسَی خَارِجٌ ، فَإِنْ ہُوَ خَرَجَ ، فَقَدْ کَانَ قَبْلَہُ وَبَعْدَہُ۔
(٢٧١٨٧) حضرت عامر فرماتے ہیں کہ کسی شخص نے حضرت مغر ہ بن شعبہ کے پاس یوں درود پڑھا۔ اللہ رحمت بھیجے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جو خاتم النبیین (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں اور ان کے بعد کوئی نبی نہیں۔ حضرت مغیرہ نے فرمایا : تمہارے لیے اتنا کہنا کافی ہے کہ خاتم الانبیاء ہیں اس لیے کہ ہم گفتگو کرتے تھے کہ حضرت عیسیٰ نکلنے والے ہیں۔ پس جب وہ نکل آئیں گے تو وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے بھی تھے اور بعد میں بھی ہوئے۔

27187

(۲۷۱۸۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، عَن یُونُسَ، عَنِ الزُّہْرِیِّ قَالَ: نَہَی النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، عَن قَتْلِ النَّمْلِ وَالنَّحْلِ۔ (ابوداؤد ۵۲۲۵۔ احمد ۳۳۲)
(٢٧١٨٨) حضرت زہری فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے چیونٹی اور شہد کی مکھی کو مارنے سے منع فرمایا ہے۔

27188

(۲۷۱۸۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن حَمَّادٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالَ : إذَا آذَاک النَّمْلَ فَاقْتُلْہُ۔
(٢٧١٨٩) حضرت حماد فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم نے ارشاد فرمایا : جب چیونٹی تمہیں تکلیف پہنچائے تو تم اسے مار دو ۔

27189

(۲۷۱۹۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن خَالِدِ بْنِ دِینَارٍ قَالَ : رَأَیْتُ أَبَا الْعَالِیَۃِ رَأَی نَمْلاً عَلَی بِسَاطٍ فَقَتَلَہُنَّ۔
(٢٧١٩٠) حضرت خالد بن دینار فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابو العالیہ کو دیکھا کہ انھوں نے اپنے بچھونے پر چیونٹیوں کو دیکھا تو انھیں مار دیا۔

27190

(۲۷۱۹۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ بْنِ نَافِعٍ ، عَن سُلَیْمَانَ الأَحْوَلِ ، عَن طَاوُوس قَالَ : إنَّا لَنُفرِّقَ النَّمْلَ بِالْمَائِ یَعْنِی إذَا آذَتْنَا۔
(٢٧١٩١) حضرت سلیمان بن احول فرماتے ہیں کہ حضرت طاؤس نے ارشاد فرمایا : ہم چیونٹیوں کو پانی کے ذریعہ منتشر کردیتے ہیں یعنی جب وہ ہمیں تکلیف پہنچاتی ہیں۔

27191

(۲۷۱۹۲) حَدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ بْنُ عَیَّاشٍ ، عَن ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ قَالَ : قَالَ لِی أَبِی : کَتَبْت ؟ قَالَ : قُلْتُ : نَعَمْ ، قَالَ : عَارَضْت ؟ قُلْتُ : لاَ ، قَالَ : لَمْ تَکْتُبْ۔ (رامھرمزی ۷۱۸)
(٢٧١٩٢) حضرت ہشام بن عروہ فرماتے ہیں کہ میرے والد حضرت عروہ نے مجھے پوچھا : کیا تو نے لکھا ہے ؟ میں نے کہا : جی ہاں ! انھوں نے پوچھا : کیا تم نے اس کو دوسری حدیث سے ملا کر دیکھا ؟ میں نے کہا : نہیں۔ انھوں نے فرمایا : تم نہ لکھو۔

27192

(۲۷۱۹۳) حَدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ بْنُ عَیَّاشٍ، عَن سَوَّارَ بْنِ عَبْدِ اللہِ قَالَ: کَانَ مُحَمَّدٌ یَکْرَہُ أَنْ یَرْفَعَ قَصَّۃً لاَ یَعْلَمُ مَا فِیہَا۔
(٢٧١٩٣) حضرت سوار بن عبداللہ فرماتے ہیں کہ حضرت محمد مکروہ سمجھتے تھے کہ وہ کوئی ایسا واقعہ بیان کریں جس کے بارے میں وہ نہیں جانتے۔

27193

(۲۷۱۹۴) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَن شُعْبَۃَ ، قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا إِسْحَاقَ یُحَدِّثُ قَالَ : کَانَ عَبْدُ اللہِ یَکْرَہُ أَنْ یَبْزُقَ الرَّجُلُ عَن یَمِینِہِ فِی غَیْرِ صَلاَۃٍ ، فَقَالَ لہ أَبَانُ : عَمَّنْ ؟ فَقَالَ : عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ یَزِیدَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ۔
(٢٧١٩٤) حضرت ابو اسحاق فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود مکروہ سمجھتے تھے کہ آدمی نماز کے علاوہ میں بھی دائیں طرف تھوک پھینکے۔
حضرت ابان نے راوی سے پوچھا : آپ نے کس سے نقل کیا : انھوں نے فرمایا : حضرت عبد الرحمن بن یزید سے انھوں نے حضرت عبداللہ بن مسعود سے۔

27194

(۲۷۱۹۵) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ قَالَ : کَانَ ابْنُ سِیرِینَ لَہُ بَابٌ عَن یَسَارِہِ مَسْدُودٌ ، وَکَانَ یَلْتَفِتُ إلَیْہِ فَیَبْزُقُ فِیہِ۔
(٢٧١٩٥) حضرت ابن عون فرماتے ہیں کہ حضرت ابن سیرین کے بائیں جانب ایک بند دروازہ تھا۔ آپ وہاں جا کر اس جگہ تھوکا کرتے تھے۔

27195

(۲۷۱۹۶) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، عَن مِسْعَر ، عَن سَعْدِ بْنِ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : سَمِعْتُہُ یَقُولُ : مِنْ عَقْلِ الرَّجُلِ مَوْضِعُ بُزَاقِہِ۔
(٢٧١٩٦) حضرت مسعر فرماتے ہیں کہ حضرت سعد بن ابراہیم نے ارشاد فرمایا : آدمی کی عقلمندی میں ہے کہ وہ کس جگہ تھوکتا ہے۔

27196

(۲۷۱۹۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن مِسْعَرٍ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ یَزِیدَ قَالَ : کَانَ عَبْدُ اللہِ جَالِسًا مُسْتَقْبِلَ الْقِبْلَۃِ ، فأَرَادَ أَنْ یَبْزُقَ عَن شِمَالِہِ وَکَانَ مَشْغُولاً فَکَرِہَ أَنْ یَبْزُقَ عَن یَمِینِہِ۔
(٢٧١٩٧) حضرت عبد الرحمن بن یزید فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود قبلہ رخ ہو کر بیٹھے ہوئے تھے۔ آپ نے اپنے بائیں جانب تھوکنے کا ارادہ کیا تو وہ جگہ بھری ہوئی تھی۔ پس آپ نے دائیں جانب تھوکنے کو مکروہ سمجھا۔

27197

(۲۷۱۹۸) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَن حُمَیْدِ بْنِ ہِلاَلٍ ، أَنَّ مُعَاذًا تَفَلَ ذَاتَ یَوْمٍ ، عَن یَمِینِہِ ، ثُمَّ قَالَ : ہاہ ، مَا صَنَعْت ہَذَا مُنْذُ صَحِبْت النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، أَوْ قَالَ : مُنْذُ أَسْلَمْت۔
(٢٧١٩٨) حضرت حمید بن ھلال فرماتے ہیں کہ حضرت معاذ نے ایک دن اپنے دائیں جانب تھوک دیا پھر فرمایا : آہ افسوس ! جب سے میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صحبت میں آیا ہوں یا فرمایا : جب سے اسلام لایا ہوں، میں نے ایسا نہیں کیا۔

27198

(۲۷۱۹۹) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ قَالَ : حدَّثَنَا أَبُو ہِلاَلٍ ، عَن حُمَیْدِ بْنِ ہِلاَلٍ قَالَ : بَزَقَ أَبُو بَکْرٍ أو تَفَلَ عَن یَمِینِہِ فِی مِرْضَۃٍ مَرِضَہَا ، فَقَالَ : مَا فَعَلْتہ إلاَّ مَرَّۃً ، أَوْ قَالَ : غَیْرَ ہَذِہِ الْمَرَّۃِ۔
(٢٧١٩٩) حضرت حمید بن ھلال فرماتے ہیں کہ حضرت ابوبکر نے اپنے مرض الوفات میں دائیں طرف تھوک دیا۔ اور فرمایا : میں نے ایسا کبھی نہیں کیا مگر صرف ایک مرتبہ یا یوں فرمایا : میں نے ایک مرتبہ کے علاوہ ایسا کبھی نہیں کیا۔

27199

(۲۷۲۰۰) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ قَالَ : اعْتَذَرْت إلَی إبْرَاہِیمَ مِنْ شَیْئٍ بَلَغَہُ عَنی ، فَقَالَ : لاَ تَعْتَذِرْ ، قَدْ عَذَرْنَاک غَیْرَ مُعْتَذِرٍ۔
(٢٧٢٠٠) حضرت ابن عون فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابرہیم کے سامنے اس خبر سے اظہارِ برأت کی جو انھیں میرے متعلق پہنچی تھی۔ آپ نے فرمایا : تم عذر پیش مت کرو، ہم نے تمہارا عذر قبول کرلیا، عذر پیش کرنے سے پہلے ہی۔

27200

(۲۷۲۰۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ قَالَ : حدَّثَنَا الأَعْمَشُ ، عَن سُلَیْمَانَ بْنِ مَیْسَرَۃَ ، عَن طَارِقِ بْنِ شِہَابٍ ، عَن رَافِعِ بْنِ أَبِی رَافِعٍ الطَّائِیِّ قَالَ : أَتَیْتُ أَبَا بَکْرٍ فَقُلْت : أَمَرْتَنِی بِمَا أَمَرْتَنِی بِہِ وَدَخَلْتَ فِیمَا دَخَلْتُ فِیہِ ، فَمَا زَالَ یَعْتَذِرُ إلَیَّ حَتَّی عَذَرْتہ۔
(٢٧٢٠١) حضرت رافع بن ابو رافع طائی فرماتے ہیں کہ میں حضرت ابوبکر کے پاس آیا اور میں نے کہا : آپ نے مجھے جو بھی حکم دیا تھا وہ دے دیا اور میں نے جہاں داخل ہونا تھا میں داخل ہوگیا۔ پھر آپ نے مسلسل عذر پیش کرتے رہے یہاں تک کہ میں نے ان کا عذر قبول کرلیا۔

27201

(۲۷۲۰۲) حَدَّثَنَا حَفْصٌ، وَابْنُ نُمَیْرٍ، وَوَکِیعٌ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالَ قَالَ عَبْدُ اللہِ اتَّقُوا، وَقَالَ حَفْصٌ: إیَّاکُمْ وَالْمَعَاذِرَ ، فَإِنَّ کَثِیرًا مِنْہَا کَذِبٌ۔
(٢٧٢٠٢) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود نے ارشاد فرمایا : عذر کرنے سے بچو۔ اس لیے کہ اس میں بہت زیادہ جھوٹ ہوتا ہے۔

27202

(۲۷۲۰۳) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِاللہِ الأَسَدِیُّ، عَن سُفْیَانَ، عَن طَارِقٍ، عَنِ الشَّعْبِیِّ قَالَ: خَرَجَ إلَیْنَا شُرَیْحٌ یَعْتَذِرُ۔
(٢٧٢٠٣) حضرت طارق فرماتے ہیں کہ امام شعبی نے ارشاد فرمایا : کہ حضرت شریح ہمارے پاس عذر پیش کرنے کے لیے تشریف لائے۔

27203

(۲۷۲۰۴) حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّیَالِسِیُّ ، عَن شُعْبَۃَ قَالَ : کُنْتُ أَمْشِی مَعَ الْحَکَمِ فَرَأَیْنَا أَبَا مَعْشَرٍ فَقَالَ الْحَکَمُ : إنَّ ہَذَا قَدْ بَلَغَہُ عَنی شَیْئٌ أَنِّی قُلْتہ ، وَلاَ وَاللَّہِ الَّذِی لاَ إلَہَ إلاَّ ہُوَ مَا قُلْتہ ، قَالَ : فَلَمَّا جَائَ أَبُو مَعْشَرٍ اعْتَذَرَ إلَیْہِ الْحَکَمُ ، وَقَالَ : قَدْ حَلَفْت لِشُعْبَۃَ أَنِّی لَمْ أَقُلِ الَّذِی بَلَغَک عَنی۔
(٢٧٢٠٤) حضرت شعبہ فرماتے ہیں کہ میں حضرت حکم کے ساتھ چل رہا تھا، اتنے میں ہم نے حضرت ابو معشر کو دیکھا، حضرت حکم نے فرمایا : بیشک ان کو میرے بارے میں یہ بات پہنچی ہے کہ میں نے ان کے متعلق کچھ کہا ہے۔ نہیں ! اللہ کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں ، میں نے ایسا کچھ نہیں کہا۔ راوی کہتے ہیں : جب حضرت ابو معشر آئے تو حضرت حکم نے ان کے سامنے عذر پیش کیا اور فرمایا : تحقیق میں نے شعبہ کے سامنے قسم اٹھائی ہے کہ جو بات آپ کو میری طرف سے پہنچی ہے وہ میں نے نہیں کہی۔

27204

(۲۷۲۰۵) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ، عَنْ عَمِّہِ، قَالَ: سَمِعْتُ الشَّعْبِیَّ یَقُولُ: أَتَانِی إبْرَاہِیمُ یَعْتَذِرُ إلَیَّ مِنْ أَمْرٍ مَا بَلَغَنِی عَنہُ۔
(٢٧٢٠٥) امام شعبی فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم میرے پاس تشریف لائے اور آپ نے میرے سامنے اس بات کا عذر پیش کیا جو مجھے ان کی طرف سے پہنچی تھی۔

27205

(۲۷۲۰۶) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، عَن مُوسَی بن عَلِی ، عَنْ أَبِیہِ أَنَّ رَجُلاً اکتَنَی بِأَبِی عِیسَی : فَقالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إِنَّ عِیسَی لاَ أَب لَہ۔
(٢٧٢٠٦) حضرت موسیٰ بن عُلیّ فرماتے ہیں کہ ان کے والد حضرت علی نے ارشاد فرمایا : کسی آدمی نے ابو عیسیٰ کنیت اختیار کی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : یقیناً عیسیٰ کے والد نہیں تھے۔

27206

(۲۷۲۰۷) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، عَن عَبد اللہِ بْنُ عُمَرَ بْنُ حَفص ، عَن زَیْدِ بْنِ أَسْلَمَ ، عَنْ أَبِیہِ أَنَّ عُمَر ضَرَبَ ابنًا لَہ اکتَنَی بِأَبِی عِیسَی ، وَقَال : إِنَّ عِیسَی لَیسَ لَہُ أَب۔ (عبدالرزاق ۱۹۸۵۷)
(٢٧٢٠٧) حضرت اسلم فرماتے ہیں کہ حضرت عمر نے اپنے ایک بیٹے کو مارا جس نے ابو عیسیٰ کنیت اختیار کی اور فرمایا : یقیناً حضرت عیسیٰ کے کوئی والد نہیں تھے۔

27207

(۲۷۲۰۸) حَدَّثَنَا عَفَّانُ قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَن حُمَیْدٍ ، عَنِ الْحَسَنِ قَالَ : کَثْرَۃُ الضَّحِکِ تُمِیتُ الْقَلْبَ۔ (بخاری ۲۵۲۔ ابن ماجہ ۴۲۱۷)
(٢٧٢٠٨) حضرت حمید فرماتے ہیں کہ حضرت حسن بصری نے ارشاد فرمایا : زیادہ ہنسنا دل کو مردہ کردیتا ہے۔

27208

(۲۷۲۰۹) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، عَن حَمَّادِ بْنِ سَلَمَۃَ ، عَن ثَابِتٍ ، عَنِ الْحَسَنِ قَالَ : ضَحِکُ الْمُؤْمِنِ غَفْلَۃٌ مِنْ قَلْبِہِ۔
(٢٧٢٠٩) حضرت ثابت فرماتے ہیں کہ حضرت حسن بصری نے ارشاد فرمایا : مومن کا ہنسنا اس کے دل کے غافل ہونے کی نشانی ہے۔

27209

(۲۷۲۱۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن مِسْعَرٍ ، عَنْ عَوْنٍ قَالَ : کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لاَ یَضْحَکُ إلاَّ تَبَسُّمًا ، وَلاَ یَلْتَفِتُ إلاَّ مَعًا۔
(٢٧٢١٠) حضرت عون فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہنستے نہیں تھے مگر مسکرا کر اور متوجہ نہیں ہوتے تھے مگر مکمل طور پر۔

27210

(۲۷۲۱۱) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَن زَائِدَۃَ ، عَن مَنْصُورٍ ، عَن مُجَاہِدٍ قَالَ : بَلَغَ عُمَرَ ، أَنَّ عَامِلاً لَہُ لاَ یَقِیلْ ، فَکَتَبَ إلَیْہِ عُمَرُ : قِلْ ، فَإِنِّی حُدِّثْتُ أَنَّ الشَّیْطَانَ لاَ یَقِیلُ ، قَالَ مُجَاہِدٌ : إنَّ الشَّیَاطِینَ لاَ یَقِیلُونَ۔
(٢٧٢١١) حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ حضرت عمر کو خبر ملی کہ ان کا مقرر کردہ گورنر قیلولہ نہیں کرتا۔ حضرت عمر نے اس کو خط لکھا : قیلولہ کیا کرو، اس لیے کہ مجھے بیان کیا گیا ہے کہ بیشک شیطان قیلولہ نہیں کرتا۔ حضرت مجاہد نے فرمایا : بیشک شیاطین قیلولہ نہیں کرتے۔

27211

(۲۷۲۱۲) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ وَوَکِیعٌ قَالَ : حدَّثَنَا مِسْعَرٌ قَالَ : حَدَّثَنَی ثَابِتُ بْنُ عُبَیْدٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِی لَیْلَی ، عَن خَوَّاتِ بْنِ جُبَیْرٍ وَکَانَ بَدْرِیًّا قَالَ : نَوْمُ أَوَّلِ النَّہَارِ خُرْقٌ ، وَأَوْسَطُہُ خُلُقٌ ، وَآخِرُہُ حُمْقٌ۔
(٢٧٢١٢) حضرت عبد الرحمن بن ابی لیلیٰ فرماتے ہیں کہ حضرت خوات بن جبیر جو بدری صحابی ہیں انھوں نے ارشاد فرمایا : دن کے ابتدائی حصہ میں سونا بےوقوفی ہے اور دن کے درمیان میں سونا فطرت ہے اور دن کے آخری حصہ میں سونا حماقت ہے۔

27212

(۲۷۲۱۳) حَدَّثَنَا عِیسَی بْنُ یُونُسَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ یَزِیدَ بْنِ جَابِرٍ ، عَن مَکْحُولٍ ، أَنَّہُ کَانَ یَکْرَہُ النَّوْمَ بَعْدَ الْعَصْرِ ، وَقَالَ : یَخَافُ عَلَی صَاحِبِہِ مِنْہُ الْوَسْوَاسَ۔
(٢٧٢١٣) حضرت عبد الرحمن بن یزید بن جابر فرماتے ہیں کہ حضرت مکحول عصر کے بعد سونے کو مکروہ سمجھتے تھے اور فرماتے : ایسا کرنے پر وسوسوں میں مبتلا ہوجانے کا اندیشہ ہے۔

27213

(۲۷۲۱۴) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَن مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو ، عَنْ أَبِی سَلَمَۃَ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ : مَرَّ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِرَجُلٍ مُنْبَطِحٍ عَلَی بَطْنِہِ ، فَقَالَ : إنَّ ہَذِہِ ضَجْعَۃٌ لاَ یُحِبُّہَا اللَّہُ۔ (ترمذی ۲۷۶۸۔ احمد ۲۸۷)
(٢٧٢١٤) حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا گزر کسی آدمی کے پاس سے ہوا جو پیٹ کے بل لیٹا ہو اتھا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : بیشک یہ وہ لیٹنا ہے جسے اللہ پسند نہیں فرماتے۔

27214

(۲۷۲۱۵) حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُوسَی قَالَ : حدَّثَنَا شَیْبَانُ ، عَن یَحْیَی بْنِ أَبِی کَثِیرٍ ، عَنْ أَبِی سَلَمَۃَ ، أَنَّ یَعِیشَ بْنَ قَیْسِ بْنِ طِخْفَۃَ حَدَّثَہُ ، عَنْ أَبِیہِ قَالَ : وَکَانَ أَبِی مِنْ أَصْحَابِ الصُّفَّۃِ ، قَالَ : بَیْنَا أَنَا نَائِمٌ عَلَی بَطْنِی مِنَ السَّحَرِ إذْ دَفَعَنی رَجُلٌ بِرِجْلِہِ فَقَالَ : ہَذِہِ ضَجْعَۃٌ یُبْغِضُہَا اللَّہُ ، فَرَفَعْت رَأْسِی فَإِذَا ہُوَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔ (ابوداؤد ۵۰۰۱۔ احمد ۴۲۹)
(٢٧٢١٥) حضرت یعیش بن قیس بن طخفہ فرماتے ہیں کہ میرے والد اصحاب صفہ میں سے تھے وہ فرماتے ہیں کہ اس درمیان کہ میں صبح کے وقت پیٹ کے بل لیٹا ہوا تھا کہ اچانک کسی آدمی نے مجھے اپنی ٹانگ ماری اور فرمایا : یہ وہ لیٹنا جسے اللہ تعالیٰ پسند نہیں فرماتے۔ آپ فرماتے ہیں کہ میں نے سر اٹھا کر دیکھا تو وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تھے۔

27215

(۲۷۲۱۶) حَدَّثَنَا یُونُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالَ : حدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِیَادٍ قَالَ : حَدَّثَنَا عَاصِمُ بْنُ کُلَیْبٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : کُلُّ خُطْبَۃٍ لَیْسَ فِیہَا تَشَہُّدٌ کَالْیَدِ الْجَذْمَائِ۔ (ترمذی ۱۱۰۶۔ ابوداؤد ۴۸۰۸)
(٢٧٢١٦) حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ہر وہ خطبہ جس میں کلمہ شہادت نہ ہو وہ مفلوج ہاتھ کی مانند ہے۔

27216

(۲۷۲۱۷) حَدَّثَنَا أَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَنْ عَطَائٍ ، عَنْ أَبِی الْبَخْتَرِیِّ قَالَ : کُلُّ حَاجَۃٍ لَیْسَ فِیہَا تَشَہُّدٌ فَہِیَ بَتْرَائُ۔
(٢٧٢١٧) حضرت عطائ فرماتے ہیں کہ حضرت ابو البختری نے ارشاد فرمایا : ہر وہ ضرورت جس میں کلمہ شہادت نہ ہو تو وہ دم بریدہ ہے۔

27217

(۲۷۲۱۸) حَدَّثَنَا أَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، قَالَ : سَمِعت حُمَیْدَ بْنَ ہِلاَلٍ یَقول : کُل خطبۃ لَیْسَ فِیہَا تَشَہُّدٌ فَہِیَ بَتْرَائُ۔
(٢٧٢١٨) حضرت حماد بن سلمہ فرماتے ہیں کہ حضرت حمید بن ھلال نے ارشاد فرمایا : ہر وہ خطبہ جس میں کلمہ شہادت نہ ہو تو وہ دم بریدہ ہے۔

27218

(۲۷۲۱۹) حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ بْنُ مُوسَی ، عَنِ الأَوْزَاعِیِّ ، عَن قُرَّۃَ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ أَبِی سَلَمَۃَ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : کُلُّ کَلاَمٍ ذِی بَالٍ لاَ یُبْدَأُ فِیہِ بِالْحَمْدِ لِلَّہِ ، فَہُوَ أَقْطَعُ۔ (ابوداؤد ۴۸۰۷۔ احمد ۳۵۹)
(٢٧٢١٩) حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ہر وہ شاندار کلام جس کی ابتدا لحمد للہ سے نہ کی جائے تو وہ نامکمل ہے۔

27219

(۲۷۲۲۰) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، عَن حَمَّادِ بْنِ سَلَمَۃَ ، عَنْ أَبِی الْمُہَزَّمِ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، أَنَّہُ رَأَی رَجُلاً یَشْتَدُّ خَلْفَہُ غُلاَمٌ فَقَالَ : احْمِلْہُ فَإِنَّہُ أَخُوک الْمُسْلِمُ ، وَرُوحُہُ مِثْلُ رُوحِک۔
(٢٧٢٢٠) حضرت ابو المھزم فرماتے ہیں کہ حضرت ابوہریرہ نے کسی آدمی کو دیکھا جس کے پیچھے ایک لڑکا بھاگ رہا تھا، آپ نے فرمایا؛ اس کو بھی سوار کرلو ۔ بیشک یہ تمہارا مسلمان بھائی ہے اور اس کی روح بھی تمہاری روح کی طرح ہے۔

27220

(۲۷۲۲۱) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، عَن یُوسُفَ بْنِ الْمُہَاجِرِ قَالَ : رَأَیْتُ أَبَا جَعْفَرٍ رَاکِبًا عَلَی بَغْلٍ ، أَوْ بَغْلَۃٍ مَعَہُ غُلاَمٌ یَمْشِی جَنَبَتیہ۔
(٢٧٢٢١) حضرت یوسف بن مہاجر فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابو جعفر کو دیکھا اس حال میں کہ وہ خچر یا خچرنی پر سوار تھے اور ان کے ساتھ ایک بچہ تھا جو ان کے دائیں بائیں جانب چل رہا تھا۔

27221

(۲۷۲۲۲) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَن شُعْبَۃَ قَالَ حَدَّثَتْنِی شُمَیْسَۃُ ، قَالَتْ : سَمِعْت عَائِشَۃَ ، وَسُئلت عَنْ أَدَبِ الْیَتِیمِ فَقَالَتْ : إنِّی لأَضْرِبُ أَحَدَہُمْ حَتَّی یَنْبَسِطَ۔
(٢٧٢٢٢) حضرت شمیسہ (رض) فرماتی ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ کو یوں فرماتے ہوئے سنا کہ ان سے یتیم بچہ کو اد ب سکھانے کے متعلق سوال کیا گیا ؟ آپ نے فرمایا : بیشک میں ان میں سے کسی کو اتنا ماروں گی کہ وہ خوش ہوجائے۔

27222

(۲۷۲۲۳) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنِ الْحَسَنِ الْعُرَنِیِّ ، أَنَّ رَجُلاً قَالَ لِلنَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مِمَّ أَضْرِبُ یَتِیمِی ؟ قَالَ : اضْرِبْہُ مِمَّا کُنْت ضَارِبًا مِنْہُ وَلَدَک۔ (طبری ۲۶۰)
(٢٧٢٢٣) حضرت حسن عرنی فرماتے ہیں کسی صحابی نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا : میں یتیم کو کس حد تک مار سکتا ہوں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم اس کو اتنا مارو جتنا تم اپنے بچہ کو مارتے ہو۔

27223

(۲۷۲۲۴) حَدَّثَنَا عَفَّانُ قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَنْ أَبِی جَعْفَرٍ الْخَطْمِیِّ ، أَنَّ أَبَاہُ سَأَلَ سَعِیدَ بْنَ الْمُسَیَّبِ ، أَوْ قَالَ : أَرْسِلْ مَوْلًی لَہُ وَأَنَا مَعَہُ یَسْأَلُہُ : مِمَّ یَضْرِبُ الرَّجُلُ یَتِیمَہُ ؟ قَالَ : مِمَّ یَضْرِبُ الرَّجُلُ وَلَدَہُ ، قَالَ أَبُو جَعْفَرٍ : وَسَأَلَ مُحَمَّدَ بْنَ کَعْبٍ فَقَالَ مِثْلُ ذَلِکَ۔
(٢٧٢٢٤) حضرت ابو جعفر خطمی فرماتے ہیں کہ ان کے والد نے حضرت سعید بن مسیب سے سوال کیا یا یوں فرمایا : کہ انھوں نے اپنے غلام کو بھیجا اور میں ان کے ساتھ تھا کہ آدمی یتیم کو کس حد تک مار سکتا ہے ؟ آپ نے فرمایا : جتنا آدمی اپنے بچہ کو مار سکتا ہے۔ حضرت ابو جعفر فرماتے ہیں : کہ انھوں نے حضرت محمد بن کعب سے پوچھا : انھوں نے بھی یہی ارشاد فرمایا۔

27224

(۲۷۲۲۵) حَدَّثَنَا أَزْہَرُ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، عَن مُحَمَّدٍ قَالَ : قرَأْت کِتَابًا فِیہِ مَا شَائَ اللَّہُ وَالأَمِیرُ فَقَالَ : مَا شَائَ الأَمِیرُ بَعْدَ اللہِ۔
(٢٧٢٢٥) حضرت ابن عون فرماتے ہیں کہ حضرت محمد نے ارشاد فرمایا : کہ میں نے ایک کتاب پڑھی جس میں یوں لکھا تھا : جو اللہ نے چاہا اور امیر نے، آپ نے فرمایا : امیر نے اللہ کے بعد چاہا۔

27225

(۲۷۲۲۶) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَن شُعْبَۃَ ، عَن مَنْصُورٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ یَسَارٍ ، عَن حُذَیْفَۃَ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لاَ تَقُولُوا : مَا شَائَ اللَّہُ وَشَائَ فُلاَنٌ ، وَلَکِنْ قُولُوا : مَا شَائَ اللَّہُ ، ثُمَّ شَائَ فُلاَنٌ۔ (ابوداؤد ۴۹۴۱۔ احمد ۳۸۴)
(٢٧٢٢٦) حضرت حذیفہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : تم یوں مت کہو : جو اللہ نے چاہا اور فلاں نے چاہا، لیکن یوں کہہ لیا کرو جو اللہ نے چاہا پھر فلاں نے چاہا۔

27226

(۲۷۲۲۷) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَنِ الأَجْلَحِ ، عَن یَزِیدَ بْنِ الأَصَمِّ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ : جَائَ رَجُلٌ إلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَحَدَّثَہُ بِبَعْضِ الْکَلاَمِ فَقَالَ : مَا شَائَ اللَّہُ وَشِئْت ، فَقَالَ : جَعَلْتَنِی وَاللہ عَدْلاً ، لاَ بَلْ مَا شَائَ اللَّہُ۔ (ابن ماجہ ۲۱۱۷۔ احمد ۲۱۴)
(٢٧٢٢٧) حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آیا، اس نے کچھ بات بیان کی اور فرمایا : جو اللہ نے چاہا اور آپ نے چاہا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم نے مجھے اللہ کے برابر کردیا۔ نہیں بلکہ یوں کہو : جو اللہ نے چاہا۔

27227

(۲۷۲۲۸) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَن سَالِمٍ ، عَن زُرْعَۃَ بْنِ مُسْلِمِ بْنِ جَرْہَدٍ ، عَنْ جَدِّہِ ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَبْصَرَہُ فِی الْمَسْجِدِ وَعَلَیْہِ بُرْدَۃٌ قَدِ انْکَشَفَ فَخِذُہُ فَقَالَ : إنَّ الْفَخِذَ مِنَ الْعَوْرَۃِ۔ (ترمذی ۲۷۹۸۔ ابوداؤد ۴۰۱۰)
(٢٧٢٢٨) حضرت جرہد اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں، فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مسجد میں ان کو دیکھا اس حال میں کہ ان پر چاد ر تھی اور ان کی ران کھلی ہوئی تھی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : بیشک ران ستر کا حصہ ہے۔

27228

(۲۷۲۲۹) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ آدَمَ قَالَ : حدَّثَنَا ابْنُ صَالِحٍ ، عَن مَنْصُورٍ قَالَ : قَالَ عُمَرُ : فَخْذُ الرَّجُلِ مِنَ الْعَوْرَۃِ۔
(٢٧٢٢٩) حضرت منصور فرماتے ہیں کہ حضرت عمر نے ارشاد فرمایا : آدمی کی ران ستر کا حصہ ہے۔

27229

(۲۷۲۳۰) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَن مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، أَنَّہُ کَانَ یَقُولُ : الْفَخِذُ مِنَ الْعَوْرَۃِ۔
(٢٧٢٣٠) حضرت مغیرہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم فرمایا کرتے تھے : ران ستر کا حصہ ہے۔

27230

(۲۷۲۳۱) حَدَّثَنَا مُعْتَمِرُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَن لَیْثٍ ، عَن مُجَاہِدٍ قَالَ : خُرُوجُ الْفَخْذِ فِی الْمَسْجِدِ مِنَ الْعَوْرَۃِ۔
(٢٧٢٣١) حضرت لیث فرماتے ہیں کہ حضرت مجاہد نے ارشاد فرمایا : مسجد میں ران کا کھلنا ستر کا حصہ ہے۔

27231

(۲۷۲۳۲) حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ ، عَنْ إسْرَائِیلَ ، عَنْ أَبِی یَحْیَی ، عَن مُجَاہِدٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : الْفَخْذُ مِنَ الْعَوْرَۃِ۔ (ترمذی ۲۷۹۶۔ احمد ۲۷۵)
(٢٧٢٣٢) حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ران ستر کا حصہ ہے۔

27232

(۲۷۲۳۳) حَدَّثَنَا جَعفَر بْنُ عَوْنٍ ، عَنْ أَبِی الْعُمَیْسِ ، عَنْ عَوْنِ بْنِ أَبِی جُحَیْفَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ آخَی بَیْنَ سَلْمَانَ ، وَأَبِی الدَّرْدَائِ۔ (بخاری ۱۹۶۸۔ ترمذی ۲۴۱۳)
(٢٧٢٣٣) حضرت ابو جحیفہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت سلمان اور حضرت ابو الدردائ کے درمیان بھائی چارہ قائم کیا۔

27233

(۲۷۲۳۴) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، عَن ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ ، عَن بَشِیرِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ کَعْبِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ : کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ آخَی بَیْنَ الزُّبَیْرِ وَبَیْنَ کَعْبِ بْنِ مَالِکٍ۔ (ابن سعد ۱۰۲)
(٢٧٢٣٤) حضرت بشیر بن عبد الرحمن بن کعب بن مالک فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت زبیر اور حضرت کعب بن مالک کے درمیان بھائی چارہ قائم کیا۔

27234

(۲۷۲۳۵) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَن زَائِدَۃَ ، عَنْ أَبِی فَرْوَۃَ قَالَ : قَالَ ابْنُ أَبِی لَیْلَی : کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ آخَی بَیْنَ زَیْدٍ وحَمْزَۃَ ۔
(٢٧٢٣٥) حضرت ابن ابی لیلیٰ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت زید اور حضرت حمزہ کے درمیان بھائی چارہ قائم کیا۔

27235

(۲۷۲۳۶) حَدَّثَنَا قَبِیصَۃُ ، عَن حَمَّادِ بْنِ سَلَمَۃَ ، عَن ثَابِتٍ ، عَنْ أَنَسٍ ، أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ آخَی بَیْنَ أَبِی طَلْحَۃَ وَبَیْنَ أَبِی عُبَیْدَۃَ بْنِ الْجَرَّاحِ۔ (حاکم ۲۶۸)
(٢٧٢٣٦) حضرت انس فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت ابو طلحہ اور حضرت ابوعبیدہ بن جراح کے درمیان بھائی چارہ قائم کیا۔

27236

(۲۷۲۳۷) حَدَّثَنَا عَفَّانُ قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَن ثَابِتٍ ، عَن شَہْرِ بْنِ حَوْشَبٍ ، أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ آخَی بَیْنَ عَوْفِ بْنِ مَالِکٍ وَالصَّعْبِ بْنِ جَثَّامَۃَ۔
(٢٧٢٣٧) حضرت شھر بن حوشب فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عوف بن مالک اور حضرت صعب بن جثامہ کے درمیان بھائی چارہ قائم کیا۔

27237

(۲۷۲۳۸) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، عَنِ الْحَجَّاجِ ، عَنِ الْحَکَمِ ، عَن مِقْسَمٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ لِعَلِیٍّ ، أَنتَ أَخِی وَصَاحِبِی۔ (ترمذی ۳۷۲۰۔ احمد ۲۳۰)
(٢٧٢٣٨) حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت علی سے فرمایا : تم میرے بھائی اور میرے ساتھی ہو۔

27238

(۲۷۲۳۹) حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ مُعَاذٍ قَالَ : أَخْبَرَنَا حُمَیْدٌ ، عَنْ أَنَسٍ ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ آخَی بَیْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ وَسَعْدِ بْنِ الرَّبِیعِ۔ (بخاری ۲۰۴۹۔ احمد ۲۷۱)
(٢٧٢٣٩) حضرت انس فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عبد الرحمن بن عوف اور حضرت سعد بن ربیع کے درمیان بھائی چارہ قائم کیا۔

27239

(۲۷۲۴۰) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، عَن مُحَمَّدٍ قَالَ : مَا تَرَکَ الرَّجُلُ أَنْ یَأْخُذَ مِنْ دِرْہَمِ صَدِیقِہِ۔
(٢٧٢٤٠) حضرت ابن عون فرماتے ہیں کہ حضرت محمد نے ارشاد فرمایا : آدمی نہیں چھوڑتا کہ وہ اپنے دوست کے دراہم لے لیتا ہے۔

27240

(۲۷۲۴۱) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَن نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ : لَقَدْ رَأَیْتنَا وَمَا الرَّجُلُ الْمُسْلِمُ بِأَحَقَّ بِدِینَارِہِ ، وَلاَ دِرْہَمِہِ مِنْ أَخِیہِ الْمُسْلِمِ۔
(٢٧٢٤١) حضرت نافع فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عمر نے ارشاد فرمایا : ہم نے خود کو دیکھا کہ مسلمان آدمی اپنے درہم اور دینار کا اپنے مسلمان بھائی سے زیادہ حق دار نہیں تھا۔

27241

(۲۷۲۴۲) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، عَنِ الأَسْوَدِ قَالَ : قَالَ لَہُ عَلْقَمَۃُ : یَا أَبَا عَمْرٍو ، فَقَالَ : لَبَّیْکَ ، فَقَالَ لَہُ : عَلْقَمَۃُ : لبِّیْ یَدَیْک۔
(٢٧٢٤٢) حضرت اسود فرماتے ہیں کہ حضرت علقمہ نے ان کو پکارا۔ اے ابو عمرو ؟ آپ نے کہا : لبیک : میں حاضر ہوں۔ حضرت علقمہ نے آپ سے کہا : اپنے دونوں ہاتھ حاضر کرو۔

27242

(۲۷۲۴۳) حَدَّثَنَا عَفَّانُ قَالَ : حدَّثَنَا أَبُو عَوَانَۃَ ، عَن مُغِیرَۃَ ، عَنْ أَبِی وَائِلٍ قَالَ : کَانَ إذَا دُعِیَ قَالَ : لَبَّیِ اللَّہَ ، وَلاَ یَقُولُ : لَبَّیْکَ۔
(٢٧٢٤٣) حضرت مغیرہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابو وائل نے ارشاد فرمایا : جب کسی کو پکارا جائے تو وہ یوں کہے : اللہ نے مجھے حاضر کردیا یوں نہ کہے : میں حاضر ہوں۔

27243

(۲۷۲۴۴) حَدَّثَنَا ابْنُ مَہْدِیٍّ ، عَن سُفْیَانَ ، عَن سَعْدِ بْنِ یُوسُفَ بْنِ یَعْقُوبَ قَالَ : قالُوا لِطَاوُوس فِی عَبْدٍ لَہُ فَقَالَ : مَا لَہُ مَالٌ أکاتبہ ، وَلاَ ہُوَ صَالِحٌ فَأُزَوِّجُہُ ، وَکَانَ یَکْرَہُ الضَّرْبَ ، وَیَقُولُ : الْقَیْدُ۔
(٢٧٢٤٤) حضرت سعد بن یوسف بن یعقوب فرماتے ہیں کہ چند لوگوں نے حضرت طاؤس سے اپنے کسی غلام کے متعلق عرض کیا : نہ تو اس کے پاس مال ہے کہ میں اس کو مکاتب بنا دوں نہ ہی وہ نیک ہے کہ میں اس کی شادی کر دوں اور وہ شخص مارنے کو ناپسند کرتا تھا : آپ نے فرمایا : اس کو قید کردو۔

27244

(۲۷۲۴۵) حَدَّثَنَا ابْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ بْنِ طَہْمَانَ عَمَّنْ حَدَّثَہُ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ ، أَنَّہُ کَانَ یَکْرَہُ أَنْ یَجْعَلَ الرَّجُلُ فِی عُنُقِ غُلاَمِہِ الرَّایَۃَ۔
(٢٧٢٤٥) حضرت ابراہیم بن طھمان اپنے کسی شیخ سے نقل کرتے ہیں کہ حضرت جابر بن عبداللہ بچہ کی گردن میں طوق ڈالنے کو مکروہ سمجھتے تھے۔

27245

(۲۷۲۴۶) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَن ہِشَامٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، أَنَّہُ کَانَ یَکْرَہُ أَنْ یَجْعَلَ الرَّجُلُ فِی عُنُقِ غُلاَمِہِ الْبَرَّایَۃَ۔
(٢٧٢٤٦) حضرت ہشام فرماتے ہیں کہ حضرت حسن بصری مکروہ سمجھتے تھے کہ آدمی اپنے بچہ کی گردن میں طوق ڈالے۔

27246

(۲۷۲۴۷) حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِی زَائِدَۃٍ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، عَن مَسْرُوقٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ، أَنَّہُ قَالَ لِرَجُلٍ وَذَکَرَ امْرَأَتَہُ فَقَالَ : قیِّدْہَا۔
(٢٧٢٤٧) حضرت مسروق فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود نے اس آدمی سے فرمایا : جس نے اپنی بیوی کا ذکر کیا تھا کہ تم اسے قید کردو۔

27247

(۲۷۲۴۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن أُسَامَۃَ بْنِ زَیْدٍ ، عَن مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْکَدِرِ ، عَنْ جَابِرٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : سَلُوا اللَّہَ عِلْمًا نَافِعًا وَتَعَوَّذُوا بِاللَّہِ مِنْ عِلْمٍ لاَ یَنْفَعُ۔ (بخار ی۳۲۲۰۔ احمد ۲۳۰)
(٢٧٢٤٨) حضرت جابر فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یوں فرماتے ہوئے سنا کہ تم لوگ اللہ رب العزت سے نفع پہنچانے والے علم کا سوال کرو اور اللہ رب العزت کی پناہ مانگو ایسے علم سے جو نفع نہ پہنچائے۔

27248

(۲۷۲۴۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن شُعْبَۃَ ، عَن غَالِبٍ الْعَبْدِیِّ ، عَن رَجُلٍ مِنْ بَنِی نمیر ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ جَدِّہِ ، أَوْ جَدِّ أَبِیہِ قَالَ : قُلْتُ : یَا رَسُولَ اللہِ ، إنَّ أَبِی یُقْرِئُک السَّلاَمَ ، قَالَ : عَلَیْک وَعَلَی أَبِیک السَّلاَمُ ، قُلْتُ : یَا رَسُولَ اللہِ ، إنَّ قَوْمِی یُرِیدُونَ أَنْ یُعَرِّفُونِی ، قَالَ : لاَ بُدَّ مِنْ عَرِیفٍ ، وَالْعَرِیفُ فِی النَّارِ۔
(٢٧٢٤٩) حضرت غالب عبدی فرماتے ہیں کہ قبیلہ بنو نمیر کے ایک شخص اپنے دادا سے نقل کرتے ہیں کہ انھوں نے فرمایا : میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! میرے والد آپ کو سلام کہتے ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تجھ پر اور تیرے والد پر بھی سلام ہو۔ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! میری قوم چاہتی ہے کہ وہ مجھے نگران مقرر کر دے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : نگران لازمی ہے۔ اور نگران جہنم میں ہوگا۔

27249

(۲۷۲۵۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ أََبِی سَعِید ، عَن رَجُلٍ لَمْ یَکُنْ یُسَمِّہِ سَمِعَ أَنَسًا یَقُولُ : وَیْلٌ لِلْعُرَفَائِ وَالنُّقَبَائِ ، وَیْلٌ لِلأمَنَائِ ، وَدَّ أَحَدُہُمْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ لَوْ کَانَ مُعَلَّقًا بِالثُّرَیَّا۔ (احمد ۵۳۱۔ ابویعلی ۶۱۸۹)
(٢٧٢٥٠) حضرت ابو سعید کسی آدمی سے نقل کرتے ہیں جس کا انھوں نے نام بیان نہیں کیا۔ اس نے حضرت انس کو یوں فرماتے ہوئے سنا : منتظمین نگرانوں کے لیے ہلاکت ہے اور ان میں کوئی آرزو کرے گا کہ کاش وہ ثریا ستارے سے چمٹ جائے۔

27250

(۲۷۲۵۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن عِمْرَانَ بْنِ حُدَیْرٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ شَقِیقٍ ، عَن حَبِیبِ بْنِ حَیْدَۃَ قَالَ : لأَنْ أُقْطَعَ أَحَبُّ إلَیَّ مِنْ أَنْ أَکُونَ عَرِیفًا عَلَی عَشْرَۃٍ سَنَۃً۔
(٢٧٢٥١) حضرت عبداللہ بن شقیق فرماتے ہیں کہ حضرت حبیب بن حیدہ نے ارشاد فرمایا : مجھے ٹکڑے ٹکڑے کردیا جائے یہ زیادہ پسندیدہ ہے اس سے کہ مجھے دس آدمیوں پر ایک سال کے لیے نگران مقرر کردیا جائے۔

27251

(۲۷۲۵۲) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، عَن عُثْمَانَ بْنِ حَکِیمٍ قَالَ : أَخْبَرَنِی عَبْدُ اللہِ بْنُ عُثْمَانَ ، عَنْ رَجُلُ مِنْ بَنِی سَلُولَ ، أَنَّہُ دَعَاہُ قَوْمُہُ لِیُعَرِّفُوہُ ، وَاخْتَارُوہُ لِذَلِکَ ، فَأَبَی وَامْتَنَعَ ، فَذَہَبَ إلَی عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو فَشَاوَرَہُ وَاسْتَأْمَرَہُ فَقَالَ : لاَ تَعْرِفَنَّ عَلَیْہِمْ فَجَاؤوا بِالْغَدْوَی فَلَمْ یَزَالُوا حَتَّی أَلْزَمُوہَا إیَّاہُ ، فَذَہَبَ إلَی عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو فَأَخْبَرَہُ ، أَنَّہُ قَدْ أُکْرِہَ فَقَالَ : أَوَّلُہَا شُفْعَۃٌ وَأَوْسَطُہَا خِیَانَۃٌ وَآخِرُہَا عَذَابُ النَّارِ۔
(٢٧٢٥٢) حضرت عثمان بن حکیم فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عثمان جو قبیلہ بنو سلول کے آدمی ہیں وہ فرماتے ہیں کہ میری قوم نے مجھے بلایا تاکہ وہ مجھے نگران مقرر کریں اور اس عہدے کے لیے منتخب کریں۔ آپ نے انکار کردیا اور اس کو چھوڑ دیا۔ آپ حضرت عبداللہ بن عمرو کے پاس گئے آپ نے ان سے مشورہ کیا اور ان کی رائے مانگی۔ انھوں نے فرمایا : تم ہرگز ان پر نگران مت بننا، وہ لوگ اگلی صبح پھر آپ کے پاس آگئے اور مسلسل اصرار کرتے رہے یہاں تک کہ انھوں نے آپ کو اس کے لیے مقرر کردیا۔ آپ حضرت عبداللہ بن عمرو کے پاس گئے اور انھیں بتلایا کہ مجھے مجبور کردیا گیا۔ اس پر انھوں نے فرمایا : اس کی ابتدا تو سفارش ہے اور اس کا درمیان خیانت ہے اور اس کی انتہاء جہنم کا عذاب ہے۔

27252

(۲۷۲۵۳) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ، عَن غَالِبٍ قَالَ: إنَّا لَجُلُوسٌ إذْ رَجُلٌ دَخَلَ فَقَالَ: حَدَّثَنِی أَبِی، عَنْ جَدِّی، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَنِ ابْتَدَأَ قَوْمًا بِسَلاَمٍ فَضَلَہُمْ بِعَشْرِ حَسَنَاتٍ ، وَقَالَ: بَعَثَنِی أَبِی إلَی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَقَالَ : ائْتِہِ فَأُقْرِئْہُ السَّلاَمَ ، وَقُلْ لَہُ ہُوَ یَطْلُبُ إلَیْک أَنْ تَجْعَلَ لَہُ الْعِرَافَۃُ مِنْ بَعْد ، قَالَ : الْعِرَافَۃُ حَقٌّ ، الْعِرَافَۃُ حَقٌّ ، وَلاَ بُدَّ مِنْ عُرَفَائَ ، وَلَکِنَّ الْعَرِیفَ بِمَنْزِلَۃٍ قَبِیحَۃٍ۔(ابوداؤد ۵۱۸۹۔ بزار ۸۰۸)
(٢٧٢٥٣) حضرت غالب فرماتے ہیں کہ ہم لوگ بیٹھے ہوئے تھے کہ اتنے میں ایک آدمی داخل ہوا اور کہا کہ میرے دادا فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جو شخص لوگوں سے سلام میں پہل کرے تو وہ ان سے دس نیکیوں میں بڑھ جائے گا۔ راوی کہتے ہیں : میرے والد نے مجھے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس بھیجا اور فرمایا : کہ جا کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سلام کہو۔ اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہو میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے درخواست کرتا ہوں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مجھے اپنے بعد نگران مقرر فرما دیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : نگرانی و انتظام برحق ہے۔ نگرانی و انتظام برحق ہے۔ نگران بنانا ضروری ہے، لیکن نگران برے مرتبہ میں ہوگا۔

27253

(۲۷۲۵۴) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ قَالَ : حدَّثَنَا قُرَّۃُ ، عَن حُمَیْدِ بْنِ ہِلاَلٍ قَالَ : قَالَ أَبُو السَّوَّارِ : وَاللَّہُ لَوَدِدْت أَنَّ حَدَقَتِی فِی حِجْرِی مَکَانَ الْعِرَافَۃِ۔
(٢٧٢٥٤) حضرت حمید بن ھلال فرماتے ہیں کہ حضرت ابو السوار نے ارشاد فرمایا : اللہ کی قسم ! میں پسند کرتا ہوں کہ میری آنکھ کی سیاہی ، میری آنکھ کے حلقہ میں پھیل جائے نگران بننے کے بجائے۔

27254

(۲۷۲۵۵) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ قَالَ : حدَّثَنَا سَلاَّمُ بْنُ مِسْکِینٍ ، عَن مُحَمَّدِ بْنِ وَاسِعٍ ، عَنِ الْمَہْرِیِّ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ : قَالَ لِی : یَا مَہْرِیُّ ، لاَ تَکُنْ جَابِیًا ، وَلاَ عَرِیفًا ، وَلاَ شُرْطِیًّا۔
(٢٧٢٥٥) حضرت مہری فرماتے ہیں کہ حضرت ابوہریرہ نے مجھے ارشاد فرمایا : اے مہری ! تم مت بنو خراج وصول کرنے والا ، نہ ہی نگران اور نہ ہی سپاہی۔

27255

(۲۷۲۵۶) حَدَّثَنَا الثَّقَفِیُّ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَن مُحَمَّدٍ قَالَ : کَانَ عَبِیْدَۃُ عَرِیفَ قَوْمِہِ۔
(٢٧٢٥٦) حضرت محمد فرماتے ہیں کہ حضرت عبیدہ اپنی قوم کے نگران تھے۔

27256

(۲۷۲۵۷) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ ، عَن قُرَّۃَ قَالَ : کَانَ أَبُو السَّوَّارِ عَرِیفًا فِی زَمَنِ الْحَجَّاجِ۔
(٢٧٢٥٧) حضرت قرۃ فرماتے ہیں کہ حضرت ابو السوار حجاج کے زمانے میں نگران مقرر تھے۔

27257

(۲۷۲۵۸) حَدَّثَنَا غَسَّانُ بْنُ مُضَرَ ، عَن سَعِیدِ بْنِ یَزِیدَ ، عَنْ أَبِی نَضْرَۃَ ، عَنْ جَابِرٍ قَالَ : لَمَّا وَلِیَ عُمَرُ الْخِلاَفَۃَ فَرَضَ الْفَرَائِضَ ، وَدَوَّنَ الدَّوَاوِینَ ، وَعَرَّفَ الْعُرَفَائَ ، قَالَ جَابِرٌ : فَعَرَّفَنِی عَلَی أَصْحَابِی۔
(٢٧٢٥٨) حضرت جابر فرماتے ہیں کہ جب حضرت عمر بن خطاب کو خلافت ملی تو آپ نے حصے مقرر فرمائے اور دیوان مدون کروائے اور نگران مقرر کیے۔ حضرت جابر نے فرمایا : کہ آپ نے مجھے میرے ساتھیوں پر نگران مقرر کیا۔

27258

(۲۷۲۵۹) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ قَالَ : حدَّثَنَا یُونُسُ بْنِ أَبِی إِسْحَاقَ قَالَ : رَأَیْتُ سَعِید بْنَ وَہْب وَکَانَ عَرِیفَ قَوْمِہِ۔
(٢٧٢٥٩) حضرت یونس بن ابی اسحاق فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت سعید بن وھب کو دیکھا کہ وہ اپنی قوم کے نگران تھے۔

27259

(۲۷۲۶۰) حَدَّثَنَا مَرْحُومُ بن عَبْدِ العزیز ، عَنْ أَبِیہِ : کَانَ أَبُو السَّوَّارِ عَرِیفَ بَنِی عَدِیٍّ۔
(٢٧٢٦٠) حضرت عبد العزیز فرماتے ہیں کہ حضرت ابو السوار قبیلہ بنو عدی کے نگران تھے۔

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔