hadith book logo

HADITH.One

HADITH.One

Urdu

Support

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Ibn Abi Shaybah

40. غزوات کا بیان

ابن أبي شيبة

37688

(۳۷۶۸۹) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِی إِسْمَاعِیلَ ، قَالَ : حَدَّثَنِی سَعِیدُ بْنُ جُبَیْرٍ ، قَالَ : أَقْبَلَ أَبُو یَکْسُومَ صَاحِبُ الْحَبَشَۃِ وَمَعَہُ الْفِیلُ ، فَلَمَّا انْتَہَی إِلَی الْحَرَمِ ، بَرَکَ الْفِیلُ ، فَأَبَی أَنْ یَدْخُلَ الْحَرَمَ ، قَالَ : فَإِذَا وُجِّہَ رَاجِعًا أَسْرَعَ رَاجِعًا ، وَإِذَا أُرِیدَ عَلَی الْحَرَمِ أَبَی ، فَأُرْسِلَ عَلَیْہِمْ طَیْرٌ صِغَارٌ بِیضٌ ، فِی أَفْوَاہِہَا حِجَارَۃٌ أَمْثَالُ الْحِمَّصِ ، لاَ تَقَعُ عَلَی أَحَدٍ إِلاَّ ہَلَکَ۔
(٣٧٦٨٩) حضرت سعید بن جُبیر بیان فرماتے ہیں کہ حبشہ کا امیر ابو یکسوم آیا اور اس کے ساتھ ہاتھی (بھی) تھے۔ پس جب وہ حرم تک پہنچا تو (اس کا) ہاتھی بیٹھ گیا اور اس نے حرم میں داخل ہونے سے انکار کردیا۔ راوی کہتے ہیں جب ابو یکسوم ہاتھی واپسی کے لیے متوجہ کرتا تو ہاتھی خوب تیز رفتار واپس چلتا اور جب حرم کا ارادہ کیا جاتا تو ہاتھی انکار دیتا۔ پس ان پر سفید رنگ کے چھوٹے چھوٹے پرندے بھیجے گئے جن کے منہ میں چنوں کے برابر پتھر تھے وہ پتھر جس پر بھی گرتے اس کو ہلاک کردیتے۔

37689

(۳۷۶۹۰) قَالَ أَبُو أُسَامَۃَ : فَحَدَّثَنِی أَبُو مَکِینٍ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ ، قَالَ : فَأَظَلَّتْہُمْ مِنَ السَّمَائِ ، فَلَمَّا جَعَلَہُمُ اللَّہُ کَعَصْفٍ مَأْکُولٍ ، أَرْسَلَ اللَّہُ غَیْثًا ، فَسَالَ بِہِمْ حَتَّی ذَہَبَ بِہِمْ إِلَی الْبَحْرِ۔
(٣٧٦٩٠) حضرت عکرمہ بیان کرتے ہیں کہ ان پرندوں نے لوگوں پر آسمان سے سایہ کردیا۔ پس جب اللہ تعالیٰ نے ان کو کھائے ہوئے بھوسے کی طرح کردیا تو اللہ تعالیٰ نے ایک سیلاب بھیجا۔ وہ سیلاب ان کو بہا کرلے گیا یہاں تک کہ وہ سیلاب انھیں سمندر میں لے گیا۔

37690

(۳۷۶۹۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ؛ {طَیْرًا أَبَابِیلَ} قَالَ : کَانَ لَہَا خَرَاطِیمُ کَخَرَاطِیمِ الطَّیْرِ ، وَأَکُفَّ کَأَکُفِّ الْکِلاَبِ۔
(٣٧٦٩١) حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ انھوں نے { طَیْرًا أَبَابِیلَ } کی تفسیر میں فرمایا۔ ان کے ناک پرندوں کے ناک کی طرح تھے اور ان کی ہتھیلیاں کتوں کی ہتھیلیوں کی طرح تھیں۔

37691

(۳۷۶۹۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ الأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِی سُفْیَانَ ، عَنْ عُبَیْدِ بْنِ عُمَیْرٍ ، قَالَ : طَیْرٌ سُودٌ تَحْمِلُ الْحِجَارَۃَ بِمَنَاقِیرِہَا وَأَظَافِیرِہَا۔
(٣٧٦٩٢) حضرت عبید بن عمیر سے روایت ہے کہ یہ سیاہ رنگ کے پرندے تھے جنہوں نے اپنی چونچوں اور پنجوں میں پتھر اٹھائے ہوئے تھے۔

37692

(۳۷۶۹۳) حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُوسَی ، عَنْ شَیْبَانَ ، عَنْ یَحْیَی ، قَالَ : أَخْبَرَنِی أَبُو سَلَمَۃَ ، أَنَّ أَبَا ہُرَیْرَۃَ أَخْبَرَہُ ؛ أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَکِبَ رَاحِلَتَہُ فَخَطَبَ ، فَقَالَ : إِنَّ اللَّہَ حَبَسَ عَنْ مَکَّۃَ الْفِیلَ ، وَسَلَّطَ عَلَیْہَا رَسُولَہُ وَالْمُؤْمِنِینَ۔ (بخاری ۱۱۲۔ مسلم ۹۸۹)
(٣٧٦٩٣) حضرت ابوہریرہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی سواری پر سوار ہوئے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے مکہ کو ہاتھیوں (والوں) سے روکے (محفوظ) رکھا اور اس مکہ پر اپنے رسول کو اور اہل ایمان کو تسلط عطا فرمایا۔

37693

(۳۷۶۹۴) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِی سُفْیَانَ ، عَنْ عُبَیْدِ بْنِ عُمَیْرٍ ، قَالَ : لَمَّا أَرَادَ اللَّہُ أَنْ یُہْلِکَ أَصْحَابَ الْفِیلِ ، بَعَثَ عَلَیْہِمْ طَیْرًا أُنْشِئَتْ مِنَ الْبَحْرِ أَمْثَالَ الْخَطَاطِیفِ ، کُلُّ طَیْرٍ مِنْہَا یَحْمِلُ ثَلاَثَۃَ أَحْجَارٍ مُجَزَّعَۃٍ : حَجَرَیْنِ فِی رِجْلَیْہِ ، وَحَجَرًا فِی مِنْقَارِہِ ، قَالَ : فَجَائَتْ حَتَّی صَفَّتْ عَلَی رُؤُوسِہِمْ ، ثُمَّ صَاحَتْ ، فَأَلْقَتْ مَا فِی أَرْجُلِہَا وَمَنَاقِیرِہَا ، فَمَا یَقَعُ حَجَرٌ عَلَی رَأْسِ رَجُلٍ إِلاَّ خَرَجَ مِنْ دُبُرِہِ ، وَلاَ یَقَعُ عَلَی شَیْئٍ مِنْ جَسَدِہِ إِلاَّ خَرَجَ مِنَ الْجَانِبِ الآخَرِ ، قَالَ : وَبَعَثَ اللَّہُ رِیحًا شَدِیدَۃً ، فَضَرَبَتِ الْحِجَارَۃَ فَزَادَتْہَا شِدَّۃً ، قَالَ : فَأُہْلِکُوا جَمِیعًا۔
(٣٧٦٩٤) حضرت عبید بن عمیر سے روایت ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے اصحاب الفیل کو ہلاک کرنے کا ارادہ فرمایا تو اللہ تعالیٰ نے ان پر ان پرندوں کو بھیجا جن کو سمندر سے نکالا گیا تھا اور وہ ابابیلوں کے مشابہ تھے۔ ان میں سے ہر ایک پرندہ سفید و سیاہ رنگ کے تین پتھر اٹھائے ہوا تھا۔ دو پتھر اس کے پاؤں میں تھے اور ایک پتھر اس کی چونچ میں ۔ راوی کہتے ہیں۔ پس وہ پرندے آئے یہاں تک کہ انھوں نے اصحاب الفیل کے سروں پر صفیں بنالیں۔ پھر انھوں نے آواز نکالی اور جو پتھر ان کے پنجوں اور چونچوں میں تھے وہ انھوں نے پھینک دیے۔ پس کوئی پتھر کسی آدمی کے سر پر نہیں گرتا تھا مگر یہ کہ اس کی دبر سے خارج ہوتا۔ اور آدمی کے جسم کے کسی حصہ پر نہیں لگتا تھا مگر یہ کہ دوسری جانب سے نکل آتا تھا۔ راوی کہتے ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے تیز آندھی بھیجی اس نے (بھی) پتھر مارے پس پتھروں کی شدت بڑھ گئی۔ راوی کہتے ہیں۔ پس وہ تمام لوگ ہلاک کردیئے گئے۔

37694

(۳۷۶۹۵) حدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، قَالَ : حَدَّثَنَا مُجَالِدٌ ، قَالَ : حَدَّثَنَا عَامِرٌ ، قَالَ : انْطَلَقَ عُمَرُ إِلَی یَہُودٍ ، فَقَالَ : أُنْشِدُکُمَ اللَّہَ ، الَّذِی أَنْزَلَ التَّوْرَاۃَ عَلَی مُوسَی ، ہَلْ تَجِدُونَ مُحَمَّدًا فِی کُتُبِکُمْ ؟ قَالُوا : نَعَمْ ، قَالَ : فَمَا یَمْنَعُکُمْ أَنْ تَتَّبِعُوہُ ؟ فَقَالُوا : إِنَّ اللَّہَ لَمْ یَبْعَثْ رَسُولاً إِلاَّ کَانَ لَہُ مِنْ الْمَلاَئِکَۃِ کِفْلٌ ، وَإِنَّ جِبْرِیلَ کِفْلُ مُحَمَّدٍ ، وَہُوَ الَّذِی یَأْتِیہِ ، وَہُوَ عَدُوُّنَا مِنْ بَیْنِ الْمَلاَئِکَۃِ ، وَمِیکَائِیلُ سِلْمُنَا ، فَلَوْ کَانَ مِیکَائِیلُ ہُوَ الَّذِی یَأْتِیہِ أَسْلَمْنَا ۔ قَالَ : فَإِنِّی أَنْشُدُکُمْ بِاللہِ الَّذِی أَنْزَلَ التَّوْرَاۃَ عَلَی مُوسَی ، مَا مَنْزِلَتُہُمَا مِنْ رَبِّ الْعَالَمِینَ ؟ قَالُوا : جِبْرِیلُ عَنْ یَمِینِہِ وَمِیکَائِیلُ عَنْ یَسَارِہِ ، قَالَ عُمَرُ : فَإِنِّی أَشْہَدُ مَا یَتَنَزَّلاَنِ إِلاَّ بِإِذْنِ اللہِ ، وَمَا کَانَ مِیکَائِیلُ لِیُسَالِمَ عَدُوَّ جِبْرِیلَ ، وَمَا کَانَ جِبْرِیلُ لِیُسَالِمَ عَدُوَّ مِیکَائِیلَ۔ فَبَیْنَمَا ہُوَ عِنْدَہُمْ ، إِذْ جَائَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالُوا : ہَذَا صَاحِبُک یَابْنَ الْخَطَّابِ ، فَقَامَ إِلَیْہِ ، فَأَتَاہُ وَقَدْ أُنْزِلَ عَلَیْہِ : {مَنْ کَانَ عَدُوًّا لِجِبْرِیلَ فَإِنَّہُ نَزَّلَہُ عَلَی قَلْبِکَ بِإِذْنِ اللہِ} إِلَی قَوْلِہِ : {فَإِنَّ اللَّہَ عَدُوٌّ لِلْکَافِرِینَ}۔
(٣٧٦٩٥) حضرت عامر فرماتے ہیں کہ حضرت عمر یہود کے پاس گئے اور کہا میں تمہیں اس خدا کی قسم دیتا ہوں جس نے موسیٰ پر توراۃ اتاری۔ کیا تم محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (کی صفات) کو اپنی کتابوں میں پاتے ہو ؟ یہود نے کہا ۔ ہاں ۔ حضرت عمر نے فرمایا۔ پھر تمہیں ان کی اتباع کرنے سے کیا شئی روکتی ہے ؟ یہود نے کہا : اللہ تعالیٰ نے کوئی رسول مبعوث نہیں فرمایا مگر یہ کہ فرشتوں میں سے اس کا کوئی ساتھی ہوتا ہے۔ اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ساتھی جبرائیل ہے اور وہی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آتا ہے۔ اور فرشتوں میں سے یہ ہمارے دشمن ہیں۔ اور میکائیل سے ہماری مصالحت ہے۔ پس اگر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس میکائیل آیا کرتے تو ہم اسلام لے آتے۔ حضرت عمر نے فرمایا۔ میں تمہیں اس خدا کی قسم دیتا ہوں جس نے موسیٰ پر توراۃ نازل کی ہے۔ ان دونوں فرشتوں کی رب العالمین کے ہاں کیا قدر ومنزلت ہے ؟ یہود نے کہا۔ جبرائیل اللہ تعالیٰ کے دائیں طرف ہے اور میکائیل اللہ تعالیٰ کے بائیں طرف ہے۔ حضرت عمر نے فرمایا۔ پس بیشک میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ دونوں فرشتے اللہ تعالیٰ کے حکم ہی سے نازل ہوتے ہیں۔ اور میکائیل ایسا نہیں ہے جو جبرائیل کے دشمنوں سے مصالحت رکھتا ہو اور نہ ہی جبرائیل ایسا ہے کہ وہ میکائیل کے دشمنوں سے مصالحت رکھتا ہو۔ حضرت عمر ، یہود کے پاس ہی موجود تھے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے تو یہود نے کہا۔ یہ تمہارے ساتھی ہیں۔ اے ابن خطاب ! پس حضرت عمر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف کھڑے ہوئے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے درآنحالیکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر یہ آیات نازل ہوچکی تھیں۔ { مَنْ کَانَ عَدُوًّا لِجِبْرِیلَ فَإِنَّہُ نَزَّلَہُ عَلَی قَلْبِکَ بِإِذْنِ اللہِ ۔۔۔إِلَی قَوْلِہِ۔۔۔ فَإِنَّ اللَّہَ عَدُوٌّ لِلْکَافِرِینَ }۔

37695

(۳۷۶۹۶) حَدَّثَنَا قُرَادٌ أَبُو نُوحٍ، قَالَ: أَخْبَرَنَا یُونُسُ بْنُ أَبِی إِسْحَاقَ، عَنْ أَبِی بَکْرِ بْنِ أَبِی مُوسَی، عَنْ أَبِیہِ، قَالَ خَرَجَ أَبُو طَالِبٍ إِلَی الشَّامِ، وَخَرَجَ مَعَہُ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَأَشْیَاخٌ مِنْ قُرَیْشٍ، فَلَمَّا أَشْرَفُوا عَلَی الرَّاہِبِ، ہَبَطُوا فَحَلُّوا رِحَالَہُمْ، فَخَرَجَ إِلَیْہِمَ الرَّاہِبُ، وَکَانُوا قَبْلَ ذَلِکَ یَمُرُّونَ بِہِ فَلاَ یَخْرُجُ إِلَیْہِمْ وَلاَ یَلْتَفِتُ ، قَالَ : فَہُمْ یَحِلُّونَ رِحَالَہُمْ ، فَجَعَلَ یَتَخَلَّلُہُمْ حَتَّی جَائَ فَأَخَذَ بِیَدِ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : ہَذَا سَیِّدُ الْعَالَمِینَ ، ہَذَا رَسُولُ رَبِّ الْعَالَمِینَ ، ہَذَا یَبْعَثُہُ اللَّہُ رَحْمَۃً لِلْعَالَمِینَ ، فَقَالَ لَہُ أَشْیَاخٌ مِنْ قُرَیْشٍ: مَا عِلْمُکَ؟ قَالَ: إِنَّکُمْ حِینَ أَشْرَفْتُمْ مِنَ الْعَقَبَۃِ لَمْ یَبْقَ شَجَرٌ ، وَلاَ حَجَرٌ إِلاَّ خَرَّ سَاجِدًا، وَلاَ یَسْجُدُونَ إِلاَّ لِنَبِی ، وَإِنِّی لأَعْرِفُہُ بِخَاتَمِ النُّبُوَّۃِ أَسْفَلَ مِنْ غُضْرُوفِ کَتِفِہِ مِثْلَ التُّفَّاحَۃِ۔ ثُمَّ رَجَعَ وَصَنَعَ لَہُمْ طَعَامًا ، فَلَمَّا أَتَاہُمْ بِہِ وَکَانَ ہُوَ فِی رَعِیَّۃِ الإِبِلِ ، قَالَ : أَرْسِلُوا إِلَیْہِ ، فَأَقْبَلَ وَعَلَیْہِ غَمَامَۃٌ تُظِلُّہُ ، قَالَ : اُنْظُرُوا إِلَیْہِ ، عَلَیْہِ غَمَامَۃٌ تُظِلُّہُ ، فَلَمَّا دَنَا مِنَ الْقَوْمِ ، وَجَدَہُمْ قَدْ سَبَقُوا إِلَی فَیْئِ الشَّجَرَۃِ ، فَلَمَّا جَلَسَ مَالَ فَیْئُ الشَّجَرَۃِ عَلَیْہِ ، فَقَالَ : اُنْظُرُوا إِلَی فَیْئِ الشَّجَرَۃِ مَالَ عَلَیْہِ۔ قَالَ : فَبَیْنَمَا ہُوَ قَائِمٌ عَلَیْہِمْ وَہُوَ یُنَاشِدُہُمْ أَنْ لاَ یَذْہَبُوا بِہِ إِلَی الرُّومِ ، فَإِنَّ الرُّومَ لَوْ رَأَوْہُ عَرَفُوہُ بِالصِّفَۃِ فَقَتَلُوہُ ، فَالْتَفَتَ فَإِذَا ہُوَ بِتِسْعَۃِ نَفَرٍ قَدْ أَقْبَلُوا مِنَ الرُّومِ ، فَاسْتَقْبَلَہُمْ ، فَقَالَ: مَا جَائَ بِکُمْ؟ قَالُوا: جِئْنَا، أَنَّ ہَذَا النَّبِیَّ خَارِجٌ فِی ہَذَا الشَّہْرِ، فَلَمْ یَبْقَ فِی طَرِیقٍ إِلاَّ قَدْ بُعِثَ إِلَیْہِ نَاسٌ، وَإِنَّا أُخْبِرْنَا خَبَرَہُ فَبُعِثْنَا إِلَی طَرِیقِکَ ہَذَا، فَقَالَ لَہُمْ: مَا خَلَّفْتُمْ خَلْفَکُمْ أَحَدًا ہُوَ خَیْرٌ مِنْکُمْ؟ قَالُوا: لاَ، إِنَّمَا أُخْبِرْنَا خَبَرَہُ بِطَرِیقِکَ ہَذَا، قَالَ: أَفَرَأَیْتُمْ أَمْرًا أَرَادَ اللَّہُ أَنْ یَقْضِیَہُ، ہَلْ یَسْتَطِیعُ أَحَدٌ مِنَ النَّاسِ رَدَّہُ؟ قَالُوا: لاَ، قَالَ: فَتَابَعُوہُ وَأَقَامُوا مَعَہُ۔ فَأَتَاہُمْ فَقَالَ : أَنْشُدُکُمْ بِاللہِ أَیُّکُمْ وَلِیُّہُ ؟ قَالَ أَبُو طَالِبٍ : أَنَا ، فَلَمْ یَزَلْ یُنَاشِدُہُ حَتَّی رَدَّہُ أَبُو طَالِبٍ ، وَبَعَثَ مَعَہُ أَبُو بَکْرٍ بِلاَلاً ، وَزَوَّدَہُ الرَّاہِبُ مِنَ الْکَعْکِ وَالزَّیْتِ۔ (ترمذی ۳۶۲۰۔ حاکم ۶۱۵)
(٣٧٦٩٦) حضرت ابوبکر بن ابو موسیٰ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ ابو طالب شام کی طرف نکلے۔ اور ان کے ہمراہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قریش کے چند بڑی عمر کے لوگ تھے۔ پس جب یہ لوگ راہب کے پاس پہنچے۔ انھوں نے پڑاؤ ڈالا اور یہ اپنی سواری سے اترے۔ تو راہب ان کی طرف آیا۔ اور اس سے پہلے یہ لوگ راہب کے پاس سے گزرتے تھے لیکن وہ ان کی طرف نہیں آتا تھا اور نہ ہی ان کی طرف توجہ کرتا تھا۔ راوی کہتے ہیں : یہ لوگ اپنی سواریوں سے اتر رہے تھے تو راہب نے ان کے درمیان پھرنا شروع کیا۔ یہاں تک کہ راہب نے آ کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ہاتھ پکڑ لیا اور کہا۔ یہ جہانوں کے سردار ہیں اور یہ جہانوں کے پروردگار کے رسول ہیں۔ اور ان کو اللہ تعالیٰ نے رحمۃ للعالمین بنا کر مبعوث فرمایا ہے۔ قریش کے لوگوں نے راہب سے کہا۔ تمہیں کیا علم ہے ؟ اس نے کہا ۔ جب تم لوگ گھاٹی سے بلند ہوئے تو کوئی درخت اور پتھر باقی نہیں رہا مگر یہ کہ اس نے جھک کر سجدہ کیا۔ اور یہ چیزیں انبیاء ہی کو سجدہ کرتی ہیں اور میں ان کو مہر نبوت کی وجہ سے پہچانتا ہوں جو مہر ان کے کندھے کی نرم ہڈی کے نیچے مثل سیب کے ہے۔
٢۔ پھر راہب لوٹا اور اس نے ان (قافلہ والوں) کے لیے کھانا تیار کیا ۔ پس جب وہ قافلہ والوں کے پاس کھانا لے کر آیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اونٹوں کی حفاظت پر (مامور) تھے۔ راہب نے کہا۔ ان کی طرف (کوئی آدمی) بھیجو۔ پس آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایک بادل سایہ کیے ہوئے تھا۔ راہب نے کہا۔ تم انھیں دیکھو ! ان پر ایک بادل ہے جس نے ان پر سایہ کیا ہوا ہے۔ پھر جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگوں کے قریب پہنچے اور لوگ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے ہی درخت کے سایہ میں تھے۔ پس جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیٹھے تو درخت کا سایہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف مائل ہوگیا۔ راہب نے کہا۔ تم درخت کے سایہ کی طرف دیکھو وہ (بھی) ان کی طرف جھک گیا ہے۔
٣۔ راوی کہتے ہیں : جب راہب قافلہ والوں کے پاس کھڑا تھا اور ان سے مطالبہ کررہا تھا کہ قافلے والے ان کو روم لے کر نہ جائیں۔ کیونکہ رومی لوگ انھیں دیکھ لیں گے تو انھیں (ان کی) صفات کی وجہ سے پہچان جائیں گے اور انھیں قتل کردیں گے۔ اس دوران اس نے مڑ کر دیکھا تو نو (٩) افراد کا گروہ جو کہ روم سے آیا تھا ، موجود تھا۔ راہب نے ان کی طرف رُخ پھیرا اور پوچھا۔ تمہیں کیا چیز یہاں لائی ہے ؟ انھوں نے کہا : ہمیں یہ بات پہنچی ہے کہ یہ نبی اسی شہر سے نکلے گا۔ پس کوئی راستہ باقی نہیں رہا مگر یہ کہ اس کی طرف لوگوں کو بھیج دیا گیا ہے۔ اور ہمیں اس کے متعلق خبر دی گئی ہے اور ہمیں تمہارے اس راستہ کی طرف بھیجا گیا ہے۔ راہب نے ان افراد سے کہا۔ تم لوگوں نے اپنے پیچھے کسی کو خود سے بہتر چھوڑا ہے ؟ انھوں نے کہا : نہیں ! ہمیں تو ان کی خبر کے بارے میں آپ کے راستہ کی طرف ہی مطلع کیا گیا ہے۔ راہب نے کہا : تم مجھے اس معاملہ کے بارے میں خبر دو جس کو اللہ تعالیٰ نے پورا کرنے کا ارادہ کرلیا ہے تو کیا لوگوں میں سے کوئی اس کو رد کرنے کی طاقت رکھتا ہے ؟ انھوں نے کہا : نہیں ! راوی کہتے ہیں : پس ان لوگوں نے راہب کی بات مان لی اور اسی کے پاس ٹھہر گئے۔
٤۔ پھر راہب قافلہ والوں کے پاس آیا اور کہا : میں تمہیں اللہ کی قسم دیتا ہوں ! اس (بچہ) کا ولی کون ہے ؟ ابو طالب نے کہا : میں ان کا ولی ہوں۔ پس راہب مسلسل ابو طالب سے مطالبہ کرتا رہا یہاں تک کہ ابو طالب نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو واپس کردیا اور حضرت ابوبکر نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ حضرت بلال کو بھیجا۔ راہب نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو زاد راہ کے لیے کیک اور زیتون پیش کیے۔

37696

(۳۷۶۹۷) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ عَطَائٍ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ؛ إِنَّہُ لَمْ تَکُنْ قَبِیلَۃٌ مِنَ الْجِنِّ إِلاَّ وَلَہُمْ مَقَاعِدُ لِلسَّمْعِ ، قَالَ : فَکَانَ إِذَا نَزَلَ الْوَحْیُ سَمِعَتِ الْمَلاَئِکَۃُ صَوْتًا کَصَوْتِ الْحَدِیدَۃِ أَلْقَیْتہَا عَلَی الصَّفَا، قَالَ : فَإِذَا سَمِعَتْہُ الْمَلاَئِکَۃُ خَرُّوا سُجَّدًا ، فَلَمْ یَرْفَعُوا رُؤُوسَہُمْ حَتَّی یَنْزِلَ ، فَإِذَا نَزَلَ ، قَالَ بَعْضُہُمْ لِبَعْضٍ: مَاذَا قَالَ رَبُّکُمْ ؟ فَإِنْ کَانَ مِمَّا یَکُونُ فِی السَّمَائِ ، قَالُوا : الْحَقَّ وَہُوَ الْعَلِیُّ الْکَبِیرُ ، وَإِنْ کَانَ مِمَّا یَکُونُ فِی الأَرْضِ مِنْ أَمْرِ الْغَیْبِ ، أَوْ مَوْتٍ ، أَوْ شَیْئٍ مِمَّا یَکُونُ فِی الأَرْضِ تَکَلَّمُوا بِہِ ، فَقَالُوا : یَکُونُ کَذَا وَکَذَا ، فَتَسْمَعُہُ الشَّیَاطِینُ ، فَیُنْزِلُونَہُ عَلَی أَوْلِیَائِہِمْ۔ فَلَمَّا بَعَثَ اللَّہُ مُحَمَّدًا صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ دُحِرُوا بِالنُّجُومِ ، فَکَانَ أَوَّلَ مَنْ عَلِمَ بِہَا ثَقِیفٌ ، فَکَانَ ذُو الْغَنَمِ مِنْہُمْ یَنْطَلِقُ إِلَی غَنَمِہِ فَیَذْبَحُ کُلَّ یَوْمٍ شَاۃً ، وَذُو الإِبِلِ یَنْحَرُ کُلَّ یَوْمٍ بَعِیرًا ، فَأَسْرَعَ النَّاسُ فِی أَمْوَالِہِمْ ، فَقَالَ بَعْضُہُمْ لِبَعْضٍ : لاَ تَفْعَلُوا ، فَإِنْ کَانَتِ النُّجُومُ الَّتِی یُہْتَدِی بِہَا وَإِلاَّ فَإِنَّہُ أَمْرٌ حَدَثَ ، فَنَظَرُوا فَإِذَا النُّجُومُ الَّتِی یُہْتَدِی بِہَا کَمَا ہِی ، لَمْ یُرْمَ مِنْہَا بِشَیْئٍ ، فَکَفُّوا ، وَصَرَفَ اللَّہُ الْجِنَ ، فَسَمِعُوا الْقُرْآنَ ، فَلَمَّا حَضَرُوہُ ، قَالُوا : أَنْصِتُوا ، قَالَ : وَانْطَلَقَتِ الشَّیَاطِینُ إِلَی إِبْلِیسَ فَأَخْبَرُوہُ ، فَقَالَ : ہَذَا حَدَثٌ حَدَثَ فِی الأَرْضِ ، فَأْتُونِی مِنْ کُلِّ أَرْضٍ بِتُرْبَۃٍ ، فَلَمَّا أَتَوْہُ بِتُرْبَۃِ تِہَامَۃَ ، قَالَ : ہَاہُنَا الْحَدَثُ۔
(٣٧٦٩٧) حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ جنات کا کوئی قبیلہ نہیں تھا مگر یہ کہ ان کے لیے (آسمانی باتیں) سُننے کے لیے نشستیں تھیں۔ فرماتے ہیں : پس جب وحی نازل ہوتی تو فرشتے ایسی آواز سنتے جیسے اس لوہے کی آواز ہوتی ہے جس کو آپ صاف پتھر پر پھینکیں۔ فرماتے ہیں : پس جب فرشتے یہ آواز سنتے تو سجدہ میں گرپڑتے۔ وحی کے نازل ہونے تک وہ اپنے سر نہ اٹھاتے۔ پھر جب وحی نازل ہو چکتی تو بعض فرشتے ، بعض فرشتوں سے کہتے۔ تمہارے رب نے کیا کہا ہے ؟ پس اگر وحی کسی آسمانی معاملہ میں ہوتی تو فرشتے کہتے۔ حق کہا ہے اور وہ ذات بلند اور بڑی ہے اور اگر وحی کسی زمینی معاملہ میں۔ غیبی امر یا موت یا کوئی بھی زمینی معاملہ، ہوتی تو فرشتے باہم گفتگو کرتے اور کہتے کہ یوں یوں ہوگا۔ ان باتوں کو شیاطین سُن لیتے اور پھر یہ باتیں اپنے اولیاء (دوستوں) کو آ کر کہتے۔ پس جب اللہ تعالیٰ نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مبعوث فرمایا تو شیاطین کو ستاروں کے ذریعہ ہلاک کیا گیا۔ سب سے پہلے جس کو اس بات کا (ستارے گرنے کا) علم ہوا وہ (قبیلہ) ثقیف تھا۔ پس ان میں سے بکریوں والا اپنی بکریوں کے پاس جاتا اور ہر روز ایک بکری ذبح کردیتا۔ اور اونٹوں والا ہر روز ایک اونٹ ذبح کردیتا۔ پس لوگوں نے اپنے میں جلدی کرنا شروع کی ۔ تو ان میں سے بعض نے بعض سے کہا۔ (ایسا) نہ کرو۔ اگر تو یہ راہنمائی والے ستارے ہیں (تو پھر ٹھیک) وگرنہ یہ کوئی نئے حادثہ کی وجہ سے ہے۔ پس لوگوں نے دیکھا تو راہنمائی والے ستارے تو ویسے ہی تھے۔ ان میں سے کچھ بھی نہیں پھنکاک گیا تھا۔ لوگ رُک گئے۔ اور اللہ تعالیٰ نے جنات کو پھیرا اور انھوں نے قرآن کو سُنا۔ پس جب جنات (تلاوت) قرآن پر حاضر ہوئے تو انھوں نے کہا۔ خاموش ہو جاؤ۔ ابن عباس فرماتے ہیں۔ شیاطین ، ابلیس کے پاس گئے اور جا کر اس کو خبر دی اس نے کہا : زمین میں یہی واقعہ رونما ہوا ہے۔ پس تم میرے پاس ہر زمین کی مٹی لاؤ۔ شیاطین جب ابلیس کے پاس تہامہ کی مٹی لائے تو اس نے کہا ۔ یہیں پر یہ نیا واقعہ رونما ہوا ہے۔

37697

(۳۷۶۹۸) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ إِدْرِیسَ ، وَأَبُو أُسَامَۃَ ، وَغُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ سَلِمَۃَ ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ عَسَّالٍ ، قَالَ : قَالَ یَہُودِیٌّ لِصَاحِبِہِ : اذْہَبْ بِنَا إِلَی ہَذَا النَّبِیِّ ، فَقَالَ صَاحِبُہُ : لاَ تَقُلْ نَبِیٌّ ، فَإِنَّہُ لَوْ قَدْ سَمِعَک کَانَ لَہُ أَرْبَعُ أَعْیُنٍ ، قَالَ : فَأَتَیَا رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَسَأَلاَہُ عَنْ تِسْعِ آیَاتٍ بَیِّنَاتٍ ، فَقَالَ : لاَ تُشْرِکُوا بِاللہِ شَیْئًا ، وَلاَ تَزْنُوا ، وَلاَ تَسْرِقُوا ، وَلاَ تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِی حَرَّمَ اللَّہُ إِلاَّ بِالْحَقِ ، وَلاَ تَمْشُوا بِبَرِیئٍ إِلَی ذِی سُلْطَانٍ فَیَقْتُلَہُ ، وَلاَ تَسْحَرُوا ، وَلاَ تَأْکُلُوا الرِّبَا ، وَلاَ تَقْذِفُوا الْمُحْصَنَۃَ ، وَلاَ تُوَلُّوا لِلْفِرَارِ یَوْمَ الزَّحْفِ ، وَعَلَیْکُمْ خَاصَّۃً یَہُودُ : لاَ تَعْدُوا فِی السَّبْتِ ، قَالَ : فَقَبَّلُوا یَدَیْہِ وَرِجْلَیْہِ ، وَقَالُوا : نَشْہَدُ أَنَّک نَبِیٌّ حَقٌ ، قَالَ : فَمَا یَمْنَعُکُمْ أَنْ تَتَّبِعُونِی ؟ قَالُوا : إِنَّ دَاوُدَ دَعَا لاَ یَزَالُ فِی ذُرِّیَّتِہِ نَبِیٌّ ، وَإِنَّا نَخَافُ أَنْ تَقْتُلَنَا یَہُودُ۔ (احمد ۲۳۹۔ حاکم ۱۰)
(٣٧٦٩٨) حضرت صفوان بن عسال روایت کرتے ہیں کہ ایک یہودی نے اپنے ساتھی سے کہا۔ ہمیں اس نبی کے پاس لے چلو ! اس کے ساتھی نے کہا : نہیں ! نبی مت کہو کیونکہ اگر انھوں نے تجھے سُن لیا تو ان کی چار آنکھیں ہوجائیں گی۔ راوی کہتے ہیں : وہ دونوں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انھوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نو کھلی نشانیوں کے بارے میں سوال کیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا۔ تم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اور زنا نہ کرو اور چوری نہ کرو اور اس جان کو قتل نہ کرو جس کو اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہے مگر حق کی وجہ سے ۔ اور کسی قوت والے کے پاس بےگناہ کی چغلی نہ کرو کہ وہ اس بےگناہ کو قتل کر دے اور جادو نہ کرو۔ اور سود نہ کھاؤ۔ اور پاکدامن عورت پر تہمت زنی مت کرو اور جنگ کے دن بھاگنے کے لیے پیٹھ مت پھیرو۔ اور اے خواص یہود تم پر یہ بھی لازم ہے کہ ہفتہ کے دن میں تعدی نہ کرو۔ راوی کہتے ہیں : یہودیوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاتھ، پاؤں چومے اور عرض کرنے لگے۔ ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ نبی برحق ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم لوگوں کو میری اتباع سے کیا چیز مانع ہے ؟ کہنے لگے : حضرت داؤد نے دعا مانگی تھی کہ ان کی ذریت میں مسلسل نبوت رہے ۔ اور ہمیں اس بات کا خوف ہے کہ ہمیں یہودی قتل کردیں گے۔

37698

(۳۷۶۹۹) حدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَنْ زَائِدَۃَ ، عَنْ ہِشَامِ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : أُنْزِلَ عَلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَہُوَ ابْنُ أَرْبَعِینَ سَنَۃً ، ثُمَّ مَکَثَ بِمَکَّۃَ ثَلاَثَ عَشْرَۃَ سَنَۃً ، وَکَانَ بِالْمَدِینَۃِ عَشْرَ سِنِینَ ، فَقُبِضَ وَہُوَ ابْنُ ثَلاَثٍ وَسِتِّینَ۔
(٣٧٦٩٩) حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر وحی کا نزول ہوا جبکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چالیس سال کی عمر کے تھے پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ میں تیرہ سال ٹھہرے اور مدینہ میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دس سال رہے پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات ہوئی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عمر مبارک تریسٹھ سال کی تھی۔

37699

(۳۷۷۰۰) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَنْ زَائِدَۃَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، قَالَ : قَالَ الْحَسَنُ : أُنْزِلَ عَلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَہُوَ ابْنُ أَرْبَعِینَ سَنَۃً ، فَمَکَثَ بِمَکَّۃَ عَشْرَ سِنِینَ ، وَبِالْمَدِینَۃِ عَشْرَ سِنِینَ۔
(٣٧٧٠٠) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر وحی کا نزول ہوا جبکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عمر مبارک چالیس سال کی تھی پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ میں دس سال ٹھہرے اور مدینہ میں دس سال ٹھہرے۔

37700

(۳۷۷۰۱) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ، عَنْ ہِشَامٍ، قَالَ: حدَّثَنَا شَیْبَانُ، عَنْ یَحْیَی، عَنْ أَبِی سَلَمَۃَ، عَنْ عَائِشَۃَ، وَابْنِ عَبَّاسٍ؛ أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَبِثَ بِمَکَّۃَ عَشْرَ سِنِینَ ، یَنْزِلُ عَلَیْہِ الْقُرْآنُ ، وَبِالْمَدِینَۃِ عَشْرًا۔ (بخاری ۴۴۶۴۔ احمد ۲۹۶)
(٣٧٧٠١) حضرت عائشہ اور ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ میں دس سال ٹھہرے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر قرآن نازل ہوتا تھا اور مدینہ میں دس سال ٹھہرے۔

37701

(۳۷۷۰۲) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ خَالِدٍ ، عَنْ عَمَّارٍ مَوْلَی بَنِی ہَاشِمٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : تُوُفِّیَ النَّبِیُّ علیہ الصلاۃ والسلام وَہُوَ ابْنُ خَمْسٍ وَسِتِّینَ۔
(٣٧٧٠٢) حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات ہوئی جبکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عمر مبارک پینسٹھ سال کی تھی۔

37702

(۳۷۷۰۳) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ، عَنْ سَعِیدٍ ؛ أَنَّ النَّبِیَّ علیہ الصلاۃ والسلام أُنْزِلَ عَلَیْہِ الْقُرْآنُ وَہُوَ ابْنُ ثَلاَثٍ وَأَرْبَعِینَ ، وَأَقَامَ بِمَکَّۃَ عَشْرًا ، وَبِالْمَدِینَۃِ عَشْرًا ، وَتُوُفِّیَ وَہُوَ ابْنُ ثَلاَثٍ وَسِتِّینَ۔
(٣٧٧٠٣) حضرت سعید سے روایت ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر قرآن کا نزول ہوا جبکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عمر مبارک تینتالیس سال کی تھی اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دس سال مکہ میں قیام پذیر رہے اور دس سال مدینہ میں ۔ اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات ہوئی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عمر تریسٹھ سال کی تھی۔

37703

(۳۷۷۰۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ خَالِدٍ ، عَنْ عَمَّارٍ مَوْلَی بَنِی ہَاشِمٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بُعِثَ وَہُوَ ابْنُ أَرْبَعِینَ ، وَأَقَامَ بِمَکَّۃَ خَمْسَ عَشْرَۃَ ، وَبِالْمَدِینَۃِ عَشْرًا ، فَقُبِضَ وَہُوَ ابْنُ خَمْسٍ وَسِتِّینَ۔
(٣٧٧٠٤) حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مبعوث ہوئے جبکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عمر مبارک چالیس سال کی تھی اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ میں پندرہ سال اور مدینہ میں دس سال قیام پذیر رہے۔ پس جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات ہوئی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عمر مبارک پینسٹھ سال کی تھی۔

37704

(۳۷۷۰۵) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا الْعَلاَئُ بْنُ صَالِحٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا الْمِنْہَالُ بْنُ عَمْرٍو ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ، أَنَّ رَجُلاً أَتَی ابْنَ عَبَّاسٍ ، فَقَالَ : أُنْزِلَ عَلَی النَّبِیِّ علیہ الصلاۃ والسلام عَشْرًا بِمَکَّۃَ وَعَشْرًا بِالْمَدِینَۃِ ، فَقَالَ : مَنْ یَقُولُ ذَلِکَ ، لَقَدْ أُنْزِلَ عَلَیْہِ بِمَکَّۃَ عَشْرًا وَخَمْسًا وَسِتِّینَ وَأَکْثَرَ۔
(٣٧٧٠٥) حضرت سعید بن جبیر بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی حضرت ابن عباس کے خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے کہا : نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر دس سال مکہ میں اور دس سال مدینہ میں قرآن کا نزول ہوا ہے ؟ آپ نے فرمایا : یہ کس نے کہا ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر مکہ میں دس سال اور پینسٹھ سال سے زیادہ نزول قرآن ہوا ہے۔

37705

(۳۷۷۰۶) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ؛ أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أُنْزِلَ عَلَیْہِ وَہُوَ ابْنُ أَرْبَعِینَ سَنَۃً ، فَأَقَامَ بِمَکَّۃَ ثَلاَثَ عَشْرَۃَ ، وَبِالْمَدِینَۃِ عَشْرَ سِنِینَ ، وَتُوُفِّیَ وَہُوَ ابْنُ ثَلاَثٍ وَسِتِّینَ۔
(٣٧٧٠٦) حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر قرآن کا نزول ہوا جبکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عمر چالیس سال کی تھی ۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ میں تیرہ سال اور مدینہ میں دس سال اقامت پذیر رہے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات ہوئی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عمر مبارک تریسٹھ سال کی تھی۔

37706

(۳۷۷۰۷) حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ بِلاَلٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِی رَبِیعَۃُ بْنُ أَبِی عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِکٍ ، یَقُولُ : بُعِثَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَی رَأْسِ أَرْبَعِینَ ، فَأَقَامَ بِمَکَّۃَ عَشْرًا ، وَبِالْمَدِینَۃِ عَشْرًا ، وَتُوُفِّیَ عَلَی رَأْسِ سِتِّینَ سَنَۃً۔
(٣٧٧٠٧) حضرت انس بن مالک بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو چالیس سال کی عمر میں مبعوث کیا گیا پس آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دس سال مکہ میں اور دس سال مدینہ میں مقیم رہے اور ساٹھ سال کی عمر میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وفات پائی۔

37707

(۳۷۷۰۸) حدَّثَنَا عَفَّانَ ، قَالَ : حَدَّثَنَا وُہَیْبٌ ، قَالَ : حَدَّثَنَا خَالِدٌ الْحَذَّائُ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ شَقِیقٍ ؛ أَنَّ رَجُلاً سَأَلَ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَتَی کُنْتَ نَبِیًّا ؟ قَالَ : کُنْتُ نَبِیًّا وَآدَمُ بَیْنَ الرُّوحِ وَالْجَسَدِ۔ (احمد ۶۶۔ ابن ابی عاصم ۲۹۱۸)
(٣٧٧٠٨) حضرت عبداللہ بن شقیق روایت کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا۔ آپ کب سے نبی (بنائے گئے) ہیں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جوابًا فرمایا : میں نبی تھا جبکہ آدم روح اور جسد کے درمیان تھے۔

37708

(۳۷۷۰۹) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ الشَّیْبَانِیِّ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ شَدَّادِ بْنِ الْہَادّ ، قَالَ : نَزَلَ جِبْرِیلُ عَلَی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَغَمَّہُ ثُمَّ قَالَ لَہُ : اقْرَأْ ، قَالَ : وَمَا أَقْرَأُ ؟ قَالَ : فَغَمَّہُ ، ثُمَّ قَالَ لَہُ : اقْرَأْ ، قَالَ : وَمَا أَقْرَأُ ؟ قَالَ : {اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِی خَلَقَ} ، فَأَتَی خَدِیجَۃَ فَأَخْبَرَہَا بِاَلَّذِی رَأَی ، فَأَتَتْ وَرَقَۃَ بْنَ نَوْفَلٍ فَذَکَرَتْ ذَلِکَ لَہُ ، فَقَالَ لَہَا : ہَلْ رَأَی زَوْجُک صَاحِبَہُ فِی حَضَرٍ ؟ قَالَتْ : نَعَمْ ، قَالَ : فَإِنَّ زَوْجَک نَبِیٌّ وَسَیُصِیبُہُ مِنْ أُمَّتِہِ بَلاَئٌ۔
(٣٧٧٠٩) حضرت عبداللہ بن شداد بن الہاد سے روایت ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس حضرت جبرائیل تشریف لائے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ڈھانپ لیا پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا : پڑھو ! آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میں کیا پڑھوں ؟ راوی کہتے ہیں۔ جبرائیل نے پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ڈھانپ لیا اور کہا : پڑھو ! آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میں کیا پڑھوں ؟ جبرائیل نے کہا : { اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِی خَلَقَ } آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت خدیجہ کے پاس تشریف لائے اور جو کچھ دیکھا تھا۔ اس کی حضرت خدیجہ کو خبر دی۔ وہ ورقہ بن نوفل کے پاس حاضر ہوئیں اور ان کے سامنے یہ بات ذکر کی۔ ورقہ نے خدیجہ سے کہا : کیا تمہارے شوہر نے اپنے اس ساتھی کو حضر میں دیکھا ہے ؟ خدیجہ نے کہا : ہاں ! ورقہ نے کہا : پھر (تو) تیرا شوہر نبی ہے اور ان کو عنقریب اپنی امت کی طرف سے آزمائش آئے گی۔

37709

(۳۷۷۱۰) حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا إسْرَائِیلُ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِی مَیْسَرَۃَ ؛ أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ إِذَا بَرَزَ سَمِعَ مَنْ یُنَادِیہِ : یَا مُحَمَّدُ ، فَإِذَا سَمِعَ الصَّوْتَ انْطَلَقَ ہَارِبًا ، فَأَتَی خَدِیجَۃَ فَذَکَرَ ذَلِکَ لَہَا ، فَقَالَ : یَا خَدِیجَۃُ ، قَدْ خَشِیتُ أَنْ یَکُونَ قَدْ خَالَطَ عَقْلِی شَیْئٌ ، إِنِّی إِذَا بَرَزْتُ أَسْمَعُ مَنْ یُنَادِی، فَلاَ أَرَی شَیْئًا ، فَأَنْطَلِقُ ہَارِبًا ، فَإِذَا ہُوَ عِنْدِی یُنَادِینِی ، فَقَالَتْ : مَا کَانَ اللَّہُ لِیَفْعَلَ بِکَ ذَلِکَ ، إِنَّک مَا عَلِمْتُ تَصْدُقُ الْحَدِیثَ ، وَتُؤَدِّی الأَمَانَۃَ ، وَتَصِلُ الرَّحِمَ ، فَمَا کَانَ اللَّہُ لِیَفْعَلَ بِکَ ذَلِکَ۔ فَأَسَرَّتْ ذَلِکَ إِلَی أَبِی بَکْرٍ ، وَکَانَ نَدِیمًا لَہُ فِی الْجَاہِلِیَّۃِ ، فَأَخَذَ أَبُو بَکْرٍ بِیَدِہِ ، فَانْطَلَقَ بِہِ إِلَی وَرَقَۃَ ، فَقَالَ : وَمَا ذَاکَ ؟ فَحَدَّثَہُ بِمَا حَدَّثَتْہُ خَدِیجَۃُ ، فَأَتَی وَرَقَۃَ فَذَکَرَ ذَلِکَ لَہُ ، فَقَالَ وَرَقَۃُ : ہَلْ تَرَی شَیْئًا ؟ قَالَ : لاَ ، وَلَکِنِّی إِذَا بَرَزْتُ سَمِعْتُ النِّدَائَ ، فَلاَ أَرَی شَیْئًا ، فَأَنْطَلِقُ ہَارِبًا ، فَإِذَا ہُوَ عِنْدِی ، قَالَ : فَلاَ تَفْعَلْ ، فَإِذَا سَمِعْتَ النِّدَائَ فَاثْبُتْ حَتَّی تَسْمَعَ مَا یَقُولُ لَک۔ فَلَمَّا بَرَزَ سَمِعَ النِّدَائَ : یَا مُحَمَّدُ ، قَالَ : لَبَّیْکَ ، قَالَ : قُلْ : أَشْہَدُ أَنْ لاَ إِلَہَ إِلاَّ اللَّہُ ، وَأَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَرَسُولُہُ ، ثُمَّ قَالَ لَہُ : قُلَ : {الْحَمْدُ لِلَّہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ ، الرَّحْمَن الرَّحِیمِ ، مَالِکِ یَوْمِ الدِّینِ} حَتَّی فَرَغَ مِنْ فَاتِحَۃِ الْکِتَابِ ، ثُمَّ أَتَی وَرَقَۃَ فَذَکَرَ ذَلِکَ لَہُ ، فَقَالَ لَہُ وَرَقَۃُ : أَبْشِرْ ، ثُمَّ أَبْشِرْ ، ثُمَّ أَبْشِرْ ، فَإِنِّی أَشْہَدُ أَنَّک الرَّسُولُ الَّذِی بَشَّرَ بِہِ عِیسَی عَلَیْہِ السَّلاَمُ : {بِرَسُولٍ یَأْتِی مِنْ بَعْدِی اسْمُہُ أَحْمَدُ} ، فَأَنَا أَشْہَدُ أَنَّک أَنْتَ أَحْمَدُ ، وَأَنَا أَشْہَدُ أَنَّک مُحَمَّد ، وَأَنَا أَشْہَدُ أَنَّک رَسُولُ اللہِ ، وَلَیُوشِکُ أَنْ تُؤْمَرَ بِالْقِتَالِ ، وَلَئِنْ أُمِرْتَ بِالْقِتَالِ وَأَنَا حَیٌّ لأُقَاتِلَنَّ مَعَک ، فَمَاتَ وَرَقَۃُ ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : رَأَیْتُ الْقَسَّ فِی الْجَنَّۃِ ، عَلَیْہِ ثِیَابٌ خُضْرٌ۔
(٣٧٧١٠) حضرت ابو میسرہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب کھلی جگہ میں آئے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آواز دینے والے کو سنتے جو آپ کو آواز دیتا۔ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! پس جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ آواز سنتے تو آپ دوڑتے ہوئے چلنے لگتے۔ پس آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت خدیجہ کے پاس تشریف لائے اور ان کے سامنے یہ بات ذکر کی اور فرمایا : اے خدیجہ ! مجھے ڈر لگتا ہے کہ میری عقل میں کوئی چیز خلط ہوگئی ہے۔ میں جب کھلی جگہ کی طرف نکلتا ہوں تو میں کسی منادی کو سنتا ہوں لیکن مجھے کوئی چیز دکھائی نہیں دیتی پس میں دوڑا ہوا چلا آیا۔ ناگہاں وہ منادی میرے ساتھ ہی تھا اور وہ مجھے آواز دے رہا تھا۔ حضرت خدیجہ نے عرض کیا۔ اللہ تعالیٰ آپ کو ایسا نہیں کرے گا۔ آپ کو جتنا میں جانتی ہوں تو آپ سچ بات کی تصدیق کرتے ہیں اور امانت کو ادا کرتے ہیں اور صلہ رحمی کرتے ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ایسا نہیں کرے گا۔ حضرت خدیجہ نے یہ بات خفیہ طور پر حضرت ابوبکر سے بیان کردی۔ ابوبکر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے جاہلیت کے زمانہ میں دوست تھے۔ حضرت ابوبکر نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ہاتھ پکڑا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ورقہ کے پاس لے گئے۔ ورقہ نے پوچھا : کیا بات ہے ؟ آپ نے وہ ساری بات بیان کی جو حضرت خدیجہ نے آپ کو بتائی تھی۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ورقہ کے پاس آئے اور یہ واقعہ ذکر کیا ہے۔ ورقہ نے پوچھا ؟ آپ نے کچھ دیکھا ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : نہیں ! لیکن جب میں باہر نکلتا ہوں تو ایک آواز سنتا ہوں اور مجھے کوئی چیز دکھائی نہیں دی تو میں دوڑا ہوا چلا پس ناگہاں وہ منادی میرے ساتھ ہی تھا۔ ورقہ نے کہا : آپ (ایسا) نہ کریں۔ پس جب آپ آواز سنیں تو رُک جائیں یہاں تک کہ جو بات وہ آپ سے کہتا ہے اس کو سُن لیں۔
پھر جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کھلی جگہ کی طرف نکلے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آواز سُنی : اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میں حاضر ! منادی نے کہا : کہیے ! میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ پھر منادی نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا { الْحَمْدُ لِلَّہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ ، الرَّحْمَن الرَّحِیمِ ، مَالِکِ یَوْمِ الدِّینِ } فاتحہ شریف کے آخر تک پڑھایا۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ورقہ کے پاس تشریف لائے اور اس کے سامنے یہ بات ذکر کی تو ورقہ نے کہا : تمہیں بشارت ہو پھر تمہیں بشارت ہو پھر تمہیں بشارت ہو۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ ہی وہی رسول ہیں جن کی بشارت عیسیٰ نے دی تھی۔ (فرمایا تھا) ایسا رسول جو میرے بعد آئے گا اور اس کا نام احمد ہوگا۔ پس میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ احمد ہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ محمد ہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں۔ اور قریب ہے کہ آپ کو قتال (جہاد) کا حکم دیا جائے اور اگر آپ کو قتال کا حکم دیا گیا اور میں زندہ ہوا تو البتہ ضرو ر بالضرور میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی معیت میں قتال کروں گا۔ پھر (اس کے بعد) ورقہ فوت ہوگئے ۔ رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : میں نے اس عیسائی عالم کو جنت کے اندر سبز کپڑوں میں دیکھا ہے۔

37710

(۳۷۷۱۱) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : ابْتَعَثَ اللَّہُ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَرَّۃً لإِدْخَالِ رَجُلٍ الْجَنَّۃَ ، قَالَ : فَمَرَّ عَلَی کَنِیسَۃٍ مِنْ کَنَائِسِ الْیَہُودِ ، فَدَخَلَ إِلَیْہِمْ وَہُمْ یَقْرَؤُونَ سِفْرَہُمْ ، فَلَمَّا رَأَوْہُ أَطْبَقُوا السِّفْرَ وَخَرَجُوا ، وَفِی نَاحِیَۃٍ مِنَ الْکَنِیسَۃِ رَجُلٌ یَمُوتُ ، قَالَ : فَجَائَ إِلَیْہِ ، فَقَالَ : إِنَّمَا مَنَعَہُمْ أَنْ یَقَرَؤُوا أَنَّک أَتَیْتَہُمْ وَہُمْ یَقْرَؤُونَ نَعْتَ نَبِیٍّ ، ہُوَ نَعْتُک ، ثُمَّ جَائَ إِلَی السِّفْرِ فَفَتَحَہُ ، ثُمَّ قَرَأَ ، فَقَالَ : أَشْہَدُ أَنْ لاَ إِلَہَ إِلاَّ اللَّہُ ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللہِ ، ثُمَّ قُبِضَ ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : دُونَکُمْ أَخَاکُمْ ، قَالَ : فَغَسَّلُوہُ ، وَکَفَّنُوہُ ، وَحَنَّطُوہُ ، ثُمَّ صَلَّی عَلَیْہِ۔
(٣٧٧١١) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ایک مرتبہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایک آدمی کو جنت میں داخل کرنے کے لیے بھیجا۔ راوی کہتے ہیں : پس آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہود کی عبادت گاہوں میں سے ایک عبادت گاہ کے پاس سے گزرے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے پاس تشریف لے گئے اس وقت وہ لوگ اپنی کتاب پڑھ رہے تھے۔ جب انھوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیکھا تو کتاب کو بند کردیا اور باہر نکل گئے۔ عبادت گاہ کے ایک کونہ میں ایک آدمیمرنے کے قریب پڑا ہوا تھا ۔ راوی کہتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس آدمی کے پاس تشریف لائے تو اس آدمی نے عرض کیا۔ ان لوگوں (یہود) کو پڑھنے سے اس بات نے منع کیا ہے کہ آپ ان کے پاس تشریف لائے ہیں اور یہ لوگ (اس وقت) ایک نبی کی صفات پڑھ رہے تھے۔ جو کہ آپ ہی ہیں۔ پھر وہ آدمی کتاب کے پاس آیا ۔ اس کو کھولا اور پڑھا تو کہا۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں۔ پھر اس آدمی کی روح قبض ہوگئی۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا ’؛ اپنے بھائی کو سنبھالو۔ راوی کہتے ہیں : پھر صحابہ نے اس کو غسل دیا اور کفن دیا اور حنوط لگایا پھر اس پر جنازہ پڑھا گیا۔

37711

(۳۷۷۱۲) حَدَّثَنَا یُونُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَنْ ثَابِتٍ ، عَنْ أَنَسٍ ؛ أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَتَاہُ جِبْرِیلُ وَہُوَ یَلْعَبُ مَعَ الْغِلْمَانِ، فَأَخَذَہُ فَصَرَعَہُ، فَشَقَّ عَنْ قَلْبِہِ، فَاسْتَخْرَجَ الْقَلْبَ، ثُمَّ اسْتَخْرَجَ عَلَقَۃً مِنْہُ ، فَقَالَ : ہَذَا حَظُّ الشَّیْطَانِ مِنْک ، ثُمَّ غَسَلَہُ فِی طَسْتٍ مِنْ ذَہَبٍ بِمَائِ زَمْزَمَ ، ثُمَّ لأَمَہُ، ثُمَّ أَعَادَہُ فِی مَکَانِہِ ، قَالَ : وَجَائَ الْغِلْمَانُ یَسْعَوْنَ إِلَی أُمِّہِ ، یَعْنِی ظِئْرَہُ ، فَقَالُوا : إِنَّ مُحَمَّدًا قَدْ قُتِلَ ، قَالَ : فَاسْتَقْبَلُوہُ وَہُوَ مُنْتَقِعُ اللَّوْنِ ، قَالَ أَنَسٌ : لَقَدْ کُنْتُ أَرَی أَثَرَ الْمِخْیَطِ فِی صَدْرِہِ۔ (مسلم ۱۴۷۔ احمد ۱۲۱)
(٣٧٧١٢) حضرت انس سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس حضرت جبرائیل آئے جبکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بچوں کے ساتھ کھیل رہے تھے۔ جبرائیل نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پکڑا اور زمین پر لٹا دیا پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا سینہ مبارک شق کیا اور قلب مبارک کو باہر نکالا پھر قلب مبارک سے ایک لوتھڑا نکالا اور فرمایا۔ یہ آپ کے (دل میں) سے شیطان کا حصہ ہے۔ پھر جبرائیل نے دل کو ایک سونے کے طشت میں ماء زمزم سے دھویا پھر جبرائیل نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دل کو سیا پھر اس کو اس کی جگہ میں واپس رکھ دیا۔ راوی کہتے ہیں : بچے دوڑتے ہوئے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امی، دائی، کے پاس آئے اور کہا : محمد قتل کردیئے گئے ہیں۔ راوی کہتے ہیں : لوگ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف آئے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا رنگ بدلا ہوا تھا ۔ حضرت انس کہتے ہیں کہ میں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سینہ میں سُوئی کے اثرات دیکھے۔

37712

(۳۷۷۱۳) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ مُحَمَّدُ بْنُ أَبِی حَفْصَۃَ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ أَبِی سَلَمَۃَ ، عَنْ جَابِرٍ ، قَالَ : احْتَبَسَ الْوَحْیُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی أَوَّلِ أَمْرِہِ ، وَحُبِّبَ إِلَیْہِ الْخَلاَئُ ، فَجَعَلَ یَخْلُو فِی حِرَائَ ، فَبَیْنَمَا ہُوَ مُقْبِلٌ مِنْ حِرَائَ ، قَالَ : إٍِذَا أَنَا بِحِسٍّ فَوْقِی فَرَفَعْتُ رَأْسِی ، فَإِذَا أَنَا بِشَیْئٍ عَلَی کُرْسِیٍّ ، فَلَمَّا رَأَیْتُہُ جُئِثْتُ إِلَی الأَرْضِ ، وَأَتَیْتُ أَہْلِی بِسُرْعَۃٍ ، فَقُلْتُ : دَثِّرُونِی دَثِّرُونِی ، فَأَتَانِی جِبْرِیلُ ، فَجَعَلَ یَقُولُ : {یَا أَیُّہَا الْمُدَّثِّرُ ، قُمْ فَأَنْذِرْ ، وَرَبَّک فَکَبِّرْ ، وَثِیَابَک فَطَہِّرْ ، وَالرُّجْزَ فَاہْجُرْ}۔ (بخاری ۳۲۳۸۔ مسلم ۱۴۳)
(٣٧٧١٣) حضرت جابر کہتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر شروع شروع میں وحی بند ہوگئی تھی اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خلوت محبوب ہوگئی پس آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حِرا میں خلوت گزین ہوجاتے۔ پس اسی دوران آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حرا کے سامنے تھے ، فرمایا : جب میں نے اپنے اوپر سے ہلکی آواز سُنی تو میں نے اپنا سر اٹھایا ۔ تو مجھے اچانک کرسی پر کوئی چیز دکھائی دی پس جب میں نے اسے دیکھا تو گھبرا کر زمین کی طرف دیکھا اور میں اپنے گھر والوں کے پاس جلدی جلدی آیا اور میں نے کہا۔ مجھے کمبل اوڑھا دو ، مجھے کمبل اوڑھا دو ۔ پھر میرے پاس جبرائیل آئے اور انھوں نے کہنا شروع کیا : { یَا أَیُّہَا الْمُدَّثِّرُ ، قُمْ فَأَنْذِرْ ، وَرَبَّک فَکَبِّرْ ، وَثِیَابَک فَطَہِّرْ ، وَالرُّجْزَ فَاہْجُرْ }۔

37713

(۳۷۷۱۴) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی بْنُ عَبْدِ الأَعْلَی ، عَنْ دَاوُدَ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ فِی قَوْلِہِ : {یَا أَیُّہَا الْمُدَّثِّرُ} ، قَالَ : دُثِّرْتَ ہَذَا الأَمْرَ فَقُمْ بِہِ ، وَقَوْلِہُ : {یَا أَیُّہَا الْمُزَّمِّلُ} ، قَالَ : زُمِّلْتَ ہَذَا الأَمْرَ فَقُمْ بِہِ۔ (ابن جریر ۱۲۴)
(٣٧٧١٤) حضرت عکرمہ سے قول خداوندی { یَا أَیُّہَا الْمُدَّثِّرُ } کے بارے میں منقول ہے فرمایا : تجھے یہ معاملہ اوڑھا دیا گیا ہے پس تو اس کو لے کر کھڑا ہوجا۔ اور قول خداوندی { یَا أَیُّہَا الْمُزَّمِّلُ } کے بارے میں منقول ہے کہ تمہیں یہ معاملہ لپیٹ دیا گیا ہے پس تم اس کو لے کر کھڑے ہو جاؤ۔

37714

(۳۷۷۱۵) حدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَنِ الأَجْلَحِ ، عَنِ الذَّیَّالِ بْنِ حَرْمَلَۃَ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : اجْتَمَعَتْ قُرَیْشٌ یَوْمًا ، فَقَالُوا : اُنْظُرُوا أَعْلَمَکُمْ بِالسِّحْرِ وَالْکِہَانَۃِ وَالشِّعْرِ ، فَلْیَأْتِ ہَذَا الرَّجُلَ الَّذِی فَرَّقَ جَمَاعَتَنَا، وَشَتَّتْ أَمْرَنَا ، وَعَابَ دِینَنَا ، فَلْیُکَلِّمْہُ ، وَلْیَنْظُرْ مَاذَا یَرُدُّ عَلَیْہِ ، فَقَالُوا : مَا نَعْلَمُ أَحَدًا غَیْرَ عُتْبَۃَ بْنَ رَبِیعَۃَ ، فَقَالُوا : أَنْتَ یَا أَبَا الْوَلِید۔ فَأَتَاہُ عُتْبَۃُ ، فَقَالَ : یَا مُحَمَّدُ ، أَنْتَ خَیْرٌ ، أَمْ عَبْدُ اللہِ ؟ فَسَکَتَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، ثُمَّ قَالَ : أَنْتَ خَیْرٌ ، أَمْ عَبْدُ الْمُطَّلِبِ ؟ فَسَکَتَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : إِنْ کُنْتَ تَزْعُمُ أَنَّ ہَؤُلاَئِ خَیْرٌ مِنْک ، فَقَدْ عَبَدُوا الآلِہَۃَ الَّتِی عِبْتَ ، وَإِنْ کُنْتَ تَزْعُمُ أَنَّک خَیْرٌ مِنْہُمْ فَتَکَلَّمْ حَتَّی نَسْمَعَ قَوْلَک ، إِنَّا وَاللہِ مَا رَأَیْنَا سَخْلَۃً قَطُّ أَشْأَمَ عَلَی قَوْمِہِ مِنْک ، فَرَّقْتَ جَمَاعَتَنَا ، وَشَتَّتَ أَمْرَنَا ، وَعِبْتَ دِینَنَا ، وَفَضَحْتَنَا فِی الْعَرَبِ ، حَتَّی لَقَدْ طَارَ فِیہِمْ أَنَّ فِی قُرَیْشٍ سَاحِرًا ، وَأَنَّ فِی قُرَیْشٍ کَاہِنًا ، وَاللہِ مَا نَنْتَظِرُ إِلاَّ مِثْلَ صَیْحَۃِ الْحُبْلَی ، أَنْ یَقُومَ بَعْضُنَا لِبَعْضٍ بِالسُّیُوفِ حَتَّی نَتَفَانَی۔ أَیُّہَا الرَّجُلُ ، إِنْ کَانَ إِنَّمَا بِکَ الْبَائَۃُ ، فَاخْتَرْ أَیَّ نِسَائِ قُرَیْشٍ فَلْنُزَوِّجُک عَشْرًا ، وَإِنْ کَانَ إِنَّمَا بِکَ الْحَاجَۃُ ، جَمَعْنَا لَک حَتَّی تَکُونَ أَغْنَی قُرَیْشٍ رَجُلاً وَاحِدًا ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : أَفَرَغْتَ ؟ قَالَ : نَعَمْ ، فَقَرَأَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : بسم اللہ الرَّحْمَن الرحیم {حم تَنْزِیلٌ مِنَ الرَّحْمَن الرَّحِیمِ} حَتَّی بَلَغَ : {فَإِنْ أَعْرَضُوا فَقُلْ أَنْذَرْتُکُمْ صَاعِقَۃً مِثْلَ صَاعِقَۃِ عَادٍ وَثُمَّودَ} فَقَالَ لَہُ عُتْبَۃُ : حَسْبُک حَسْبُک ، مَا عِنْدَکَ غَیْرُ ہَذَا ؟ قَالَ : لاَ ، فَرَجَعَ إِلَی قُرَیْشٍ ، فَقَالُوا : مَا وَرَائَک ؟ قَالَ : مَا تَرَکْتُ شَیْئًا أَرَی أَنَّکُمْ تُکَلِّمُونَہُ بِہِ إِلاَّ وَقَدْ کَلَّمْتُہُ بِہِ ، فَقَالُوا : فَہَلْ أَجَابَک ؟ قَالَ : نَعَمْ ؛ قَالَ: لاَ ، وَالَّذِی نَصَبَہَا بَیِّنَۃً مَا فَہِمْتُ شَیْئًا مِمَا قَالَ ، غَیْرَ أَنَّہُ أَنْذَرَکُمْ صَاعِقَۃً مِثْلَ صَاعِقَۃِ عَادٍ وَثُمَّودَ ، قَالُوا: وَیْلَک، یُکَلِّمُک رَجُلٌ بِالْعَرَبِیَّۃِ لاَ تَدْرِی مَا قَالَ، قَالَ: لاَ وَاللہِ، مَا فَہِمْتُ شَیْئًا مِمَا قَالَ غَیْرَ ذِکْرِ الصَّاعِقَۃِ۔ (عبد بن حمید ۱۱۲۳۔ ابو یعلی ۱۸۱۲)
(٣٧٧١٥) حضرت جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ ایک دن قریش اکٹھے ہوئے اور انھوں نے کہا : اپنے میں سے سب سے زیادہ جادو، کہانت اور شعر بنانے والے کو دیکھو اور پھر وہ شخص اس آدمی کے پاس آئے جس نے ہماری جماعت میں تفریق ڈالی ہے اور ہمارے معاملہ کو ٹوٹ پھوٹ کا شکار کردیا ہے اور ہمارے دین میں عیب نکالا ہے۔ پھر وہ شخص اس سے گفتگو کرے اور دیکھے کہ یہ اس کو کیا جواب دیتے ہیں۔ لوگوں نے کہا : مجھے عتبہ بن ربیعہ کے علاوہ کسی کے بارے میں علم نہیں ہے۔ لوگوں نے کہا : اے ابوالولید تم ہی ہو۔
پس یہ عتبہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا۔ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! تم بہتر ہو یا عبداللہ ؟ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خاموش رہے۔ پھر اس نے کہا : تم بہتر ہو یا عبد المطلب ؟ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پھر خاموش رہے۔ پھر عتبہ بولا : اگر تمہارا خیال یہ ہے کہ یہ لوگ تم سے بہتر ہیں تو تحقیق ان لوگوں نے تو ان معبودان کی عبادت کی ہے جن کو تم عیب دار کہتے ہو۔ اور اگر تمہارا خیال یہ ہے کہ تم ان سے بہتر ہو تو پھر تم بولو تاکہ ہم تمہاری سُن سکیں۔ ہم نے تو بخدا اپنی قوم پر تم سے زیادہ منحوس کوئی بکری کا بچہ (بھی) نہیں دیکھا۔ تم نے ہماری جمعیت میں تفریق ڈال دی ہے اور ہمارے معاملہ کو ٹوٹ پھوٹ کا شکار کردیا ہے۔ اور ہمارے دین میں عیب نکالا ہے اور تم نے ہمیں عرب میں رسوا کردیا ہے حتی کہ یہ بات عرب میں گردش کر رہی ہے کہ قریش میں ایک جادو گر ہے اور قریش میں ایک کاہن ہے۔ بخدا ! ہم نہیں انتظار کر رہے مگر حاملہ کی چیخ کی مثل کا تاکہ ہم میں سے بعض ، بعض کے لیے تلواریں لے کر کھڑے ہوجائیں یہاں تک کہ ہم سب فنا ہوجائیں۔
اے آدمی ! اگر تجھے شوق مردانگی ہے تو تم قریش کی عورتوں میں سے جسے چاہو پسند کرلو۔ ہم تمہاری دس شادیاں کردیں گے اور اگر تمہیں کوئی (مالی) ضرورت ہے تو ہم تمہارے لیے (اتنا) جمع کردیں گے کہ تم سارے قریش میں سے اکیلے ہی سب سے زیادہ غنی ہو جاؤ گے۔
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کیا تم بات کرچکے ہو ؟ عتبہ نے کہا : ہاں ! تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قراءت فرمائی۔ بسم اللہ الرَّحْمَن الرحیم { حم تَنْزِیلٌ مِنَ الرَّحْمَن الرَّحِیمِ } یہاں تک کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس آیت تک پہنچے۔ { فَإِنْ أَعْرَضُوا فَقُلْ أَنْذَرْتُکُمْ صَاعِقَۃً مِثْلَ صَاعِقَۃِ عَادٍ وَثَمُودَ } تو عتبہ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا۔ بس کرو۔ بس کرو۔ اس کے سوا تمہارے پاس کچھ ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : نہیں ! عتبہ، قریش کے پاس واپس لوٹا۔ قریش نے پوچھا : تمہارے پیچھے (کی) کیا (خبر) ہے ؟ عتبہ نے کہا : میں نے کوئی چیز نہیں چھوڑی جس کے بارے میں میرا خیال ہو کہ تم نے ان سے اس کے بارے میں گفتگو کرنی ہے مگر یہ کہ میں نے ان سے اس کے بارے میں گفتگو کرلی ہے۔ قریش نے کہا۔ پھر کیا انھوں نے تمہیں جواب دیا ہے۔ عتبہ نے کہا : ہاں ! (پھر) عتبہ نے کہا : قسم اس ذات کی جس نے خانہ کعبہ کو نصب کیا ہے مجھے ان کی کہی ہوئی باتوں میں سے کچھ بھی سمجھ نہیں آیا ۔ صرف یہ بات (سمجھ آئی) کہ وہ تمہیں عاد اور ثمود کی کڑک سے ڈراتے ہیں۔ قریش نے کہا : تم ہلاک ہو جاؤ۔ ایک آدمی تمہارے ساتھ عربی میں گفتگو کرتا ہے اور تم نہیں جانتے کہ اس نے کیا کہا ہے۔ عتبہ نے کہا۔ بخدا ! مجھے ان کی گفتوا میں سے کڑک کے سوا کچھ سمجھ نہیں آیا۔

37715

(۳۷۷۱۶) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو ، عَنْ أَبِی سَلَمَۃَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ ، قَالَ : مَا رَأَیْتُ قُرَیْشًا أَرَادُوا قَتْلَ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، إِلاَّ یَوْمًا ائْتَمَرُوا بِہِ وَہُمْ جُلُوسٌ فِی ظِلِّ الْکَعْبَۃِ ، وَرَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُصَلِّی عِنْدَ الْمَقَامِ ، فَقَامَ إِلَیْہِ عُقْبَۃُ بْنُ أَبِی مُعَیْطٍ فَجَعَلَ رِدَائَہُ فِی عُنُقِہِ ، ثُمَّ جَذَبَہُ حَتَّی وَجَبَ لِرُکْبَتَیْہِ سَاقِطًا ، وَتَصَایَحَ النَّاسُ فَظَنُّوا أَنَّہُ مَقْتُولٌ ، فَأَقْبَلَ أَبُو بَکْرٍ یَشْتَدُّ ، حَتَّی أَخَذَ بِضَبْعَیْ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ وَرَائِہِ ، وَہُوَ یَقُولُ : {أَتَقْتُلُونَ رَجُلاً أَنْ یَقُولَ رَبِّی اللَّہُ}؟ ثُمَّ انْصَرَفُوا عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔ فَقَامَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَصَلَّی ، فَلَمَّا قَضَی صَلاَتَہُ ، مَرَّ بِہِمْ وَہُمْ جُلُوسٌ فِی ظِلِّ الْکَعْبَۃِ ، فَقَالَ : یَا مَعْشَرَ قُرَیْشٍ ، أَمَا وَالَّذِی نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہِ ، مَا أُرْسِلْتُ إِلَیْکُمْ إِلاَّ بِالذَّبْحِ ، وَأَشَارَ بِیَدِہِ إِلَی حَلْقِہِ ، قَالَ : فَقَالَ لَہُ أَبُو جَہْلٍ : یَا مُحَمَّدُ ، مَا کُنْتَ جَہُولاً ، قَالَ : فَقَالَ لَہُ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : أَنْتَ مِنْہُمْ۔ (ابو یعلی ۷۳۰۱)
(٣٧٧١٦) حضرت عمرو بن العاص سے روایت ہے کہ میں نے قریش کو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارادہ کرتے (کبھی) نہیں دیکھا تھا۔ مگر ایک دن جب وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف سازش کر رہے تھے اور وہ کعبہ کے سایہ میں بیٹھے ہوئے تھے۔ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مقام ابراہیم کے پاس نماز ادا فرما رہے تھے۔ پس عقبہ بن ابی معیط کھڑا ہوا اور اپنی چادر کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی گردن میں ڈالا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کھینچا یہاں تک کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے گھٹنوں کے بل گرنے لگے۔ لوگوں نے شورو غل کیا تو لوگوں نے یہ گمان کیا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مقتول ہوگئے ہیں۔ حضرت ابوبکر سختی کے ساتھ آگے بڑھے یہاں تک کہ انھوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بغلوں کے پیچھے سے پکڑ لیا اور فرمانے لگے۔ { أَتَقْتُلُونَ رَجُلاً أَنْ یَقُولَ رَبِّی اللَّہُ }
پھر لوگ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہٹ گئے۔
پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کھڑے ہوئے اور نماز پڑھی پس جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز پڑھ چکے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قریش کے پاس سے گزرے جبکہ وہ کعبہ کے سایہ میں بیٹھے ہوئے تھے ۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے گروہ قریش ! خبردار ! قسم اس ذات کی جس کے قبضے میں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جان ہے۔ مجھے تمہاری طرف نہیں بھیجا گیا مگر ذبح کے ساتھ ۔ اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے ہاتھ سے اپنے حلق کی طرف اشارہ فرمایا : راوی کہتے ہیں : ابو جہل نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا : اے محمد ! تم تو جاہل نہیں تھے۔ راوی کہتے ہیں : آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تو بھی ان میں سے ہے۔

37716

(۳۷۷۱۷) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنْ دَاوُدَ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : مَرَّ أَبُو جَہْلٍ ، فَقَالَ : أَلَمْ أَنْہَکَ ؟ فَانْتَہَرَہُ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ لَہُ أَبُو جَہْلٍ : لِمَ تَنْتَہِرُنِی یَا مُحَمَّدُ ؟ وَاللہِ لَقَدْ عَلِمْتَ مَا بِہَا رَجُلٌ أَکْبَرُ نَادِیًا مِنِّی ۔ قَالَ ، فَقَالَ جِبْرِیلُ : {فَلْیَدْعُ نَادِیَہُ} قَالَ ، فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ : وَاللہِ أَنْ لَوْ دَعَا نَادِیَہُ لأَخَذَتْہُ زَبَانِیَۃُ الْعَذَابِ۔ (ترمذی ۳۳۴۹۔ احمد ۳۲۹)
(٣٧٧١٧) حضرت ابن علی سے روایت ہے کہ ابو جہل گزرا اور اس نے کہا۔ کیا میں نے تمہیں منع نہیں کیا تھا ؟ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو ڈانٹ پلا دی۔ ابو جہل نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا : اے محمد ! تم مجھے کیوں ڈانٹتے ہو ؟ بخدا تمہیں معلوم ہے کہ قریش میں کوئی شخص مجھ سے بڑی مجلس والا نہیں ہے۔ راوی کہتے ہیں : حضرت جبرائیل نے فرمایا : { فَلْیَدْعُ نَادِیَہُ } راوی کہتے ہیں کہ ابن عباس فرماتے ہیں۔ بخدا اگر ابو جہل اپنی مجلس (والوں) کو بلاتا تو اس کو عذاب کے فرشتے زبانیہ پکڑ لیتے۔

37717

(۳۷۷۱۸) حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَیْمُونٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مَسْعُودٍ ، قَالَ : کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُصَلِّی فِی ظِلِّ الْکَعْبَۃِ ، قَالَ : فَقَالَ أَبُو جَہْلٍ وَنَاسٌ مِنْ قُرَیْشٍ ، وَنُحِرَتْ جَزُورٌ فِی نَاحِیَۃِ مَکَّۃَ ، قَالَ : فَأَرْسَلُوا فَجَاؤُوا مِنْ سَلاَہَا ، فَطَرَحُوہُ عَلَیْہِ ، قَالَ : فَجَائَتْ فَاطِمَۃُ حَتَّی أَلْقَتْہُ عَنْہُ ، قَالَ : فَکَانَ یَسْتَحِبُّ ثَلاَثًا ، یَقُولُ : اللَّہُمَّ عَلَیْک بِقُرَیْشٍ ، اللَّہُمَّ عَلَیْک بِقُرَیْشٍ ، اللَّہُمَّ عَلَیْک بِقُرَیْشٍ : بِأَبِی جَہْلِ بْنِ ہِشَامٍ ، وَعُتْبَۃَ بْنِ رَبِیعَۃَ ، وَشَیْبَۃَ بْنِ رَبِیعَۃَ ، وَالْوَلِیدِ بْنِ عُتْبَۃَ ، وَأُمَیَّۃَ بْنِ خَلَفٍ ، وَعُقْبَۃَ بْنِ أَبِی مُعَیْطٍ۔ قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللہِ : فَلَقَدْ رَأَیْتُہُمْ قَتْلَی فِی قَلِیبِ بَدْرٍ ۔ قَالَ أبُو إِسْحَاقَ : وَنَسِیتُ السَّابِعَ۔ (بخاری ۲۹۳۴۔ مسلم ۱۴۱۹)
(٣٧٧١٨) حضرت عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کعبہ کے سایہ میں نماز پڑھ رہے تھے۔ راوی کہتے ہیں۔ ابو جہل اور قریش کے لوگوں نے کہا : اس وقت مکہ کے کسی محلہ میں اونٹ ذبح ہوا تھا۔ راوی کہتے ہیں۔ انھوں نے (کسی کو) بھیجا پس یہ اونٹ کی اوجری لے کر آئے اور انھوں نے اس کو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر پھینک دیا ۔ راوی کہتے ہیں : حضرت فاطمہ نے آ کر اس کو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہٹایا ۔ راوی کہتے ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تین مرتبہ یہ بات دہرائی ۔ اے اللہ ! قریش کو پکڑ ، اے اللہ ! قریش کو پکڑ۔ اے اللہ ! قریش کو پکڑ۔ ابو جہل بن ہشام کو۔ عتبہ بن ربیعہ کو۔ شبہہ بن ربیعہ کو۔ ولید بن عتبہ کو ، امیہ بن خلف کو اور عقبہ بن ابی معیط کو۔ راوی کہتے ہیں : کہ حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ میں نے ان سب کو قلیب بدر میں مقتول حالت میں دیکھا ۔ ابو اسحاق کہتے ہیں کہ مجھے ساتویں آدمی کا نام بھول گیا ہے۔

37718

(۳۷۷۱۹) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، قَالَ : حدَّثَنَا الأَعْمَشُ ، قَالَ : حَدَّثَنَا عَبَّادٌ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : لَمَّا أَنْ مَرِضَ أَبُو طَالِبٍ دَخَلَ عَلَیْہِ رَہْطٌ مِنْ قُرَیْشٍ ، فِیہِمْ أَبُو جَہْلٍ ، قَالَ : فَقَالُوا : إِنَّ ابْنَ أَخِیک یَشْتُمُ آلِہَتَنَا ، وَیَفْعَلُ وَیَفْعَلُ ، وَیَقُولُ وَیَقُولُ ، فَلَوْ بَعَثْتَ إِلَیْہِ فَنَہَیْتَہُ ، فَبَعَثَ إِلَیْہِ ، أَوَ قَالَ : جَائَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَدَخَلَ الْبَیْتَ ، وَبَیْنَہُ وَبَیْنَ أَبِی طَالِبٍ مَجْلِسُ رَجُلٍ ، قَالَ : فَخَشِیَ أَبُو جَہْلٍ إِنْ جَلَسَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِلَی جَنْبِ أَبِی طَالِبٍ أَنْ یَکُونَ أَرَقَّ لَہُ عَلَیْہِ ، فَوَثَبَ فَجَلَسَ فِی ذَلِکَ الْمَجْلِسِ، وَلَمْ یَجِدَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَجْلِسًا قُرْبَ عَمِّہِ ، فَجَلَسَ عِنْدَ الْبَابِ۔ قَالَ أَبُوطَالِبٍ: أَیَ ابْنَ أَخِی، مَا بَالُ قَوْمِکَ یَشْکُونَک؟ یَزْعُمُونَ أَنَّک تَشْتُمُ آلِہَتَہُمْ، وَتَقُولُ وَتَقُولُ، وَتَفْعَلُ وَتَفْعَلُ، قَالَ: فَأَکْثَرُوا عَلَیْہِ مِنَ اللَّحْوِ، قَالَ: فَتَکَلَّمَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: یَا عَمِ، إِنِّی أُرِیدُہُمْ عَلَی کَلِمَۃٍ وَاحِدَۃٍ یَقُولُونَہَا ، تَدِینُ لَہُمْ بِہَا الْعَرَبُ ، وَتُؤَدِّی إِلَیْہِمْ بِہَا الْعَجَمُ الْجِزْیَۃَ ، قَالَ : فَفَزِعُوا لِکَلِمَتِہِ وَلِقَوْلِہِ، قَالَ: فَقَالَ الْقَوْمُ: کَلِمَۃٌ وَاحِدَۃٌ، نَعَمْ، وَأَبِیک وَعَشْرًا، وَمَا ہِیَ؟ قَالَ أَبُو طَالِبٍ: وَأَیُّ کَلِمَۃٍ ہِیَ یَا ابْنَ أَخِی؟ قَالَ: لاَ إِلَہَ إِلاَّ اللَّہُ، قَالَ: فَقَامُوا فَزِعِینَ یَنْفُضُونَ ثِیَابَہُمْ، وَہُمْ یَقُولُونَ: {أَجَعَلَ الآلِہَۃَ إِلَہًا وَاحِدًا ، إِنَّ ہَذَا لَشَیْئٌ عُجَابٌ} ، قَالَ : وَقَرَأَ مِنْ ہَذَا الْمَوْضِعِ إِلَی قَوْلِہِ : {لَمَّا یَذُوقُوا عَذَابِ}۔
(٣٧٧١٩) حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ جب ابو طالب کا مرض (الوفات) شروع ہوا تو ان کے پاس قریش کا ایک گروہ حاضر ہوا جن میں ابو جہل بھی تھا۔ راوی کہتے ہیں۔ انھوں نے (ابو طالب سے) کہا۔ آپ کا بھتیجا ہمارے معبودوں کو گالیاں دیتا ہے۔ اور یہ یہ کرتا ہے اور یہ یہ کہتا ہے۔ اگر (اس کی طرف کسی کو) بھیج دیں اور اس کو منع کردیں (تو اچھا ہو) ابو طالب نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف (کسی کو) بھیجا۔ یا راوی کہتے ہیں کہ : نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لے آئے اور گھر میں داخل ہوئے۔ ابو طالب اور آپ کے درمیان ایک آدمی کی نشست کی جگہ تھی۔ راوی کہتے ہیں : ابو جہل کوا س بات کا خوف ہوا کہ اگر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، ابو طالب کے پہلو میں بیٹھ گئے تو یہ چیز ابو طالب کو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نرم کر دے گی۔ پس ابو جہل اچھل کر اس نشست پر بیٹھ گیا۔ اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنے چچا کے قریب کوئی نشست نہ ملی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دروازہ کے پاس ہی بیٹھ گئے۔
ابو طالب نے کہا ! اے بھتیجے ! کیا وجہ ہے کہ آپ کی قوم آپ کے بارے میں شکایت کررہی ہے ؟ ان کا خیال ہے کہ آپ ان کے معبودان کو برا بھلا کہتے ہیں اور یہ یہ کہتے ہیں اور یہ یہ کرتے ہیں۔ راوی کہتے ہیں۔ قریش نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر خوب ملامت کی۔ راوی کہتے ہیں : پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے گفتگو کی اور فرمایا : اے چچا جان ! میں انھیں ایسے کلمہ پر بلانا چاہتا ہوں جس کو یہ کہہ لیں گے تو عرب ان کے لیے فرمان بردارہو جائیں گے اور عجم ان کی طرف اپنے جزیہ بھیجیں گے۔ راوی کہتے ہیں : قریش آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بات سُن کر حیران ہوگئے۔ راوی کہتے ہیں : لوگوں نے کہا : ایک کلمہ ! ہاں ! تیرے باپ کی قسم ! دس (کلمہ بھی ایسے کہلوا لو) وہ کیا کلمہ ہے ؟ ابو طالب نے پوچھا اے بھتیجے ! وہ کون سا کلمہ ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : لاَ إِلَہَ إِلاَّ اللَّہُ ۔ راوی بیان کرتے ہیں۔ سب قریشی گھبرا کر اٹھ گئے اور اپنے کپڑوں کو جھاڑنے لگے اور وہ کہہ رہے تھے۔ { أَجَعَلَ الآلِہَۃَ إِلَہًا وَاحِدًا ، إِنَّ ہَذَا لَشَیْئٌ عُجَابٌ}
راوی کہتے ہیں کہ انھوں نے۔ { لَمَّا یَذُوقُوا عَذَابِ } تک قراءت کی۔

37719

(۳۷۷۲۰) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ زِیَادٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا أَبُو صَخْرَۃَ جَامِعُ بْنُ شَدَّادٍ ، عَنْ طَارِقٍ الْمُحَارِبِیِّ، قَالَ: رَأَیْتُ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِسُوقِ ذِی الْمَجَازِ ، وَأَنَا فِی بَیَّاعَۃٍ أَبِیعُہَا، قَالَ : فَمَرَّ وَعَلَیْہِ جُبَّۃٌ لَہُ حَمْرَائُ ، وَہُوَ یُنَادِی بِأَعْلَی صَوْتِہِ : أَیُّہَا النَّاسُ ، قُولُوا لاَ إِلَہَ إِلاَّ اللَّہُ تُفْلِحُوا ، وَرَجُلٌ یَتْبَعُہُ بِالْحِجَارَۃِ ، قَدْ أَدْمَی کَعْبَیْہِ وَعُرْقُوبَیْہِ ، وَہُوَ یَقُولُ یَا أَیُّہَا النَّاسُ، لاَ تُطِیعُوہُ فَإِنَّہُ کَذَّابٌ، قَالَ: قُلْتُ : مَنْ ہَذَا ؟ قَالُوا : ہَذَا غُلاَمُ بَنِی عَبْدِ الْمُطَّلِبِ ، قُلْتُ : فَمَنْ ہَذَا الَّذِی یَتْبَعُہُ یَرْمِیہِ بِالْحِجَارَۃِ ؟ قَالُوا : عَمُّہُ عَبْدُ الْعُزَّی ، وَہُوَ أَبُو لَہَبٍ۔ (بخاری ۱۴۹۔ حاکم ۲۳۱۱)
(٣٧٧٢٠) حضرت طارق محاربی بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ذوالمجاز کے بازار میں دیکھا۔ اور میں وہاں کوئی چیز فروخت کرنے کے لیے گیا تھا۔ فرماتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (وہاں سے) گزرے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر سُرخ رنگ کا جُبہ تھا ۔ اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بآواز بلند یہ ندا کر رہے تھے۔ ” اے لوگو ! لا الہ الا اللّٰہ کہہ لو۔ تم کامیاب ہو جاؤ گے۔ “ اور ایک آدمی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیچھے پتھر لے کر آ رہا تھا اور اس نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ٹخنے اور ایڑیوں کو خون آلود کردیا تھا اور وہ شخص کہہ رہا تھا۔ اے لوگو ! اس کے پیچھے نہ لگنا ! کیونکہ یہ جھوٹا ہے۔ راوی کہتے ہیں۔ میں نے پوچھا ؟ یہ نوجوان کون ہے ؟ لوگوں نے کہا ۔ یہ بنی عبد المطلب کا لڑکا ہے۔ میں نے پوچھا : یہ آدمی کون ہے جو اس کے پیچھے پتھر مار رہا ہے ؟ لوگوں نے کہا۔ اس کا چچا عبدا لعزی ہے اور یہی ابو لہب ہے۔

37720

(۳۷۷۲۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَۃَ ، عَنْ ثَابِتٍ ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لَقَدْ أُوذِیتُ فِی اللہِ وَمَا یُؤْذَی أَحَدٌ ، وَلَقَدْ أُخِفْتُ فِی اللہِ وَمَا یُخَافُ أَحَدٌ ، وَلَقَدْ أَتَتْ عَلَیَّ ثَالِثَۃٌ مِنْ بَیْنِ یَوْمٍ وَلَیْلَۃٍ ، وَمَا لِی وَلِبِلاَلٍ طَعَامٌ یَأْکُلُہُ ذُو کَبِدٍ إِلاَّ مَا وَارَاہُ إِبِطُ بِلاَلٍ۔
(٣٧٧٢١) حضرت انس سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : مجھے اللہ (کی راہ) میں اتنی اذیت دی گئی ہے کہ کسی کو اتنی اذیت نہیں دی گئی اور مجھے اللہ (کے راستہ) میں اتنا خوف زدہ کیا گیا ہے کہ کسی کو اتنا خوف زدہ نہیں کیا گیا۔ اور تحقیق مجھ پر تین دن رات ایسے بھی آئے کہ میرے اور بلال کے لیے کھانے کی اتنی چیز بھی نہیں ہوتی تھی جس کو کوئی ذی روح کھا سکے مگر وہ مقدار جس کو بلال کی بغل چھپاتی تھی۔

37721

(۳۷۷۲۲) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ مُنْذِرٍ ، عَنِ ابْنِ الْحَنَفِیَّۃِ ؛ فِی قَوْلِہِ : {وَلَیَحْمِلُنَّ أَثْقَالَہُمْ وَأَثْقَالًا مَعَ أَثْقَالِہِمْ} قَالَ : کَانَ أَبُو جَہْلٍ وَصَنَادِیدُ قُرَیْشٍ یَتَلَقَّوْنَ النَّاسَ إِذَا جَاؤُوا إِلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُسْلِمُونَ ، فَیَقُولُونَ : إِنَّہُ یُحَرِّمُ الْخَمْرَ ، وَیُحَرِّمُ الزِّنَا ، وَیُحَرِّمُ مَا کَانَتْ تَصْنَعُ الْعَرَبُ ، فَارْجِعُوا ، فَنَحْنُ نَحْمِلُ أَوْزَارَکُمْ ، فَنَزَلَتْ ہَذِہِ الآیَۃُ : {وَلَیَحْمِلُنَّ أَثْقَالَہُمْ}۔
(٣٧٧٢٢) حضرت ابن الحنفیہ سے قول خداوندی { وَلَیَحْمِلُنَّ أَثْقَالَہُمْ وَأَثْقَالًا مَعَ أَثْقَالِہِمْ } کی تفسیر میں منقول ہے۔ فرمایا : ابو جہل اور سردارانِ قریش لوگوں سے راستہ میں ملاقات کرتے جبکہ لوگ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف اسلام لانے کے لیے حاضر ہوتے اور لوگوں سے کہتے۔ یہ خمر کو حرام قرار دیتا ہے اور زنا کو حرام قرار دیتا ہے۔ جو چیزیں عرب کرتے تھے یہ انھیں حرام قرار دیتا ہے۔ پس تم لوٹ جاؤ۔ ہم تمہارے بوجھ کو اٹھائیں گے تو اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ { وَلَیَحْمِلُنَّ أَثْقَالَہُمْ }

37722

(۳۷۷۲۳) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ حُمَیْدٍ ، عَنْ أَنَسٍ ؛ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ شُجَّ فِی وَجْہِہِ ، وَکُسِرَتْ رُبَاعِیَّتُہُ ، وَرُمِیَ رَمْیَۃً عَلَی کَتِفِہِ ، فَجَعَلَ یَمْسَحُ الدَّمَ عْن وَجْہِہِ ، وَیَقُولُ : کَیْفَ تُفْلِحُ أُمَّۃٌ فَعَلَتْ ہَذَا بِنَبِیِّہَا وَہُوَ یَدْعُوہُمْ إِلَی اللہِ ؟ فَأَنْزَلَ اللَّہُ : {لَیْسَ لَک مِنَ الأَمْرِ شَیْئٌ ، أَوْ یَتُوبَ عَلَیْہِمْ ، أَوْ یُعَذِّبَہُمْ فَإِنَّہُمْ ظَالِمُونَ}۔ (ترمذی ۳۰۰۲۔ احمد ۲۰۱)
(٣٧٧٢٣) حضرت انس سے روایت ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سر مبارک میں زخم آیا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے کے چار دانت شہید ہوگئے اور ایک تیر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کندھے پر لگا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے چہرے سے خون کو پونچھ رہے تھے اور فرما رہے تھے۔ وہ امت کس طرح کامیاب ہوسکتی ہے جس نے اپنے نبی کے ساتھ یہ رویہ اختیار کیا حالانکہ وہ نبی ان کو اللہ کی طرف بلاتا ہے ؟ تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : { لَیْسَ لَک مِنَ الأَمْرِ شَیْئٌ ، أَوْ یَتُوبَ عَلَیْہِمْ ، أَوْ یُعَذِّبَہُمْ فَإِنَّہُمْ ظَالِمُونَ }۔

37723

(۳۷۷۲۴) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، حَدَّثَنَا مُجَالِدٌ ، عَنْ عَامِرٍ ، قَالَ : قالَتْ قُرَیْشٌ لِرَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إِنْ کُنْتَ نَبِیًّا کَمَا تَزْعُمُ ، فَبَاعِدْ جَبَلَیْ مَکَّۃَ ، أَخْشَبَیْہَا ہَذَیْنِ مَسِیرَۃَ أَرْبَعَۃِ أَیَّامٍ ، أَوْ خَمْسَۃٍ ، فَإِنَّہَا ضَیِّقَۃٌ حَتَّی نَزْرَعَ فِیہَا وَنَرْعَی ، وَابْعَثْ لَنَا آبَائَنَا مِنَ الْمَوْتَی حَتَّی یُکَلِّمُونَا ، وَیُخْبِرُونَا أَنَّک نَبِیٌّ ، وَاحْمِلْنَا إِلَی الشَّامِ ، أَوْ إِلَی الْیَمَنِ ، أَوْ إِلَی الْحِیرَۃِ ، حَتَّی نَذْہَبَ وَنَجِیئَ فِی لَیْلَۃٍ ، کَمَا زَعَمْتَ أَنَّک فَعَلْتَہُ ، فَأَنْزَلَ اللَّہُ : {وَلَوْ أَنَّ قُرْآنًا سُیِّرَتْ بِہِ الْجِبَالُ ، أَوْ قُطِّعَتْ بِہِ الأَرْضُ ، أَوْ کُلِّمَ بِہِ الْمَوْتَی}۔ (ابن جریر ۱۵۱)
(٣٧٧٢٤) حضرت عامر روایت کرتے ہیں کہ قریش نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا : اگر تم نبی ہو ! جیسا کہ تمہارا خیال ہے تو پھر تم مکہ کے ان دو پہاڑوں کو ، جن پر پانی جمع نہیں رہتا، چار یا پانچ دن کی مسافت تک دور کردو ۔ کیونکہ یہ تنگ ہیں۔ تاکہ ہم اس میں کھیتی باڑی کریں اور ہم اس کو چراگاہ بنائیں۔ اور ہمارے فوت شدہ آباء کوا اٹھاؤ تاکہ وہ ہم سے باتیں کریں اور ہمیں بتائیں کہ آپ نبی ہیں۔ اور آپ ہمیں شام ، یمن اور حیرۃ کی طرف اٹھائیں تاکہ ہم ایک ہی رات میں آئیں اور جائیں۔ جیسا کہ آپ کا گمان ہے کہ آپ نے ایسا کیا ہے۔ تو اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : { وَلَوْ أَنَّ قُرْآنًا سُیِّرَتْ بِہِ الْجِبَالُ ، أَوْ قُطِّعَتْ بِہِ الأَرْضُ ، أَوْ کُلِّمَ بِہِ الْمَوْتَی }۔

37724

(۳۷۷۲۵) حدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُوسَی الأَشْیَبِ ، قَالَ : حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا ثَابِتٌ ، عَنْ أَنَسٍ ؛ أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : أُتِیتُ بِالْبُرَاقِ ، وَہُوَ دَابَّۃٌ أَبْیَضُ فَوْقَ الْحِمَارِ وَدُونَ الْبَغْلِ ، یَضَعُ حَافِرَہُ عِنْدَ مُنْتَہَی طَرَفِہِ ، فَرَکِبْتُہُ ، فَسَارَ بِی حَتَّی أَتَیْتُ بَیْتَ الْمَقْدِسِ ، فَرَبَطْتُ الدَّابَّۃَ بِالْحَلَقَۃِ الَّتِی کَانَ یَرْبِطُ بِہَا الأَنْبِیَائُ ، ثُمَّ دَخَلْتُ فَصَلَّیْتُ فِیہِ رَکْعَتَیْنِ ، ثُمَّ خَرَجْتُ فَجَائَنِی جِبْرِیلُ بِإِنَائٍ مِنْ خَمْرٍ وَإِنَائٍ مِنْ لَبَنٍ ، فَاخْتَرْتُ اللَّبَنَ ، فَقَالَ جِبْرِیلُ : أَصَبْتَ الْفِطْرَۃَ۔ قَالَ : ثُمَّ عُرِجَ بِنَا إِلَی السَّمَائِ الدُّنْیَا ، فَاسْتَفْتَحَ جِبْرِیلُ ، فَقِیلَ : مَنْ أَنْتَ ؟ فَقَالَ : جِبْرِیلُ ، قِیلَ : وَمَنْ مَعَک؟ قَالَ : مُحَمَّد ، فَقِیلَ : وَقَدْ أُرْسِلَ إِلَیْہِ ؟ فَقَالَ : قَدْ أُرْسِلَ إِلَیْہِ ، فَفُتِحَ لَنَا ، فَإِذَا أَنَا بِآدَمَ ، فَرَحَّبَ وَدَعَا لِی بِخَیْرٍ ، ثُمَّ عُرِجَ بِنَا إِلَی السَّمَائِ الثَّانِیَۃِ ، فَاسْتَفْتَحَ جِبْرِیلُ ، فَقِیلَ : وَمَنْ أَنْتَ ؟ قَالَ : جِبْرِیلُ ، فَقِیلَ : وَمَنْ مَعَک ؟ قَالَ : مُحَمَّد ، فَقِیلَ : وَقَدْ أُرْسِلَ إِلَیْہِ ؟ قَالَ : قَدْ أُرْسِلَ إِلَیْہِ ، فَفُتِحَ لَنَا ، فَإِذَا أَنَا بِابْنَیَ الْخَالَۃِ یَحْیَی وَعِیسَی ، فَرَحَّبَا وَدَعَوا لِی بِخَیْرٍ۔ ثُمَّ عُرِجَ بِنَا إِلَی السَّمَائِ الثَّالِثَۃِ، فَاسْتَفْتَحَ جِبْرِیلُ، فَقِیلَ: مَنْ أَنْتَ؟ فَقَالَ: جِبْرِیلُ ، فَقِیلَ: وَمَنْ مَعَک؟ قَالَ: مُحَمَّدٌ ، قَالُوا : وَقَدْ أُرْسِلَ إِلَیْہِ ؟ قَالَ : قَدْ أُرْسِلَ إِلَیْہِ ، فَفُتِحَ لَنَا ، فَإِذَا أَنَا بِیُوسُفَ ، وَإِذَا ہُوَ قَدْ أُعْطِیَ شَطْرَ الْحُسْنِ، فَرَحَّبَ وَدَعَا لِی بِخَیْرٍ ، ثُمَّ عُرِجَ بِنَا إِلَی السَّمَائِ الرَّابِعَۃِ، فَاسْتَفْتَحَ جِبْرِیلُ، فَقِیلَ: مَنْ أَنْتَ؟ قَالَ: جِبْرِیلُ ، فَقِیلَ : وَمَنْ مَعَک ؟ قَالَ : مُحَمَّدٌ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالُوا : وَقَدْ أُرْسِلَ إِلَیْہِ ؟ قَالَ: قَدْ أُرْسِلَ إِلَیْہِ ، فَفُتِحَ لَنَا ، فَإِذَا أَنَا بِإِدْرِیسَ ، فَرَحَّبَ وَدَعَا لِی بِخَیْرٍ ، ثُمَّ قَالَ : یَقُولُ اللَّہُ : {وَرَفَعَنَاہُ مَکَانًا عَلِیًّا}۔ ثُمَّ عُرِجَ بِنَا إِلَی السَّمَائِ الْخَامِسَۃِ ، فَاسْتَفْتَحَ جِبْرِیلُ ، فَقِیلَ : مَنْ أَنْتَ ؟ قَالَ : جِبْرِیلُ ، فَقِیلَ : وَمَنْ مَعَک ؟ فَقَالَ : مُحَمَّد ، فَقِیلَ : وَقَدْ بُعِثَ إِلَیْہِ ؟ قَالَ : قَدْ بُعِثَ إِلَیْہِ ، فَفُتِحَ لَنَا ، فَإِذَا أَنَا بِہَارُونَ ، فَرَحَّبَ بِی وَدَعَا لِی بِخَیْرٍ ، ثُمَّ عُرِجَ بِنَا إِلَی السَّمَائِ السَّادِسَۃِ ، فَاسْتَفْتَحَ جِبْرِیلُ ، فَقِیلَ : مَنْ أَنْتَ ؟ قَالَ : جِبْرِیلُ ، فَقِیلَ : وَمَنْ مَعَک ؟ قَالَ مُحَمَّد ، فَقِیلَ : وَقَدْ بُعِثَ إِلَیْہِ ؟ قَالَ : قَدْ بُعِثَ إِلَیْہِ ، فَفُتِحَ لَنَا ، فَإِذَا أَنَا بِمُوسَی ، فَرَحَّبَ وَدَعَا لِی بِخَیْرٍ۔ ثُمَّ عُرِجَ بِنَا إِلَی السَّمَائِ السَّابِعَۃِ ، فَاسْتَفْتَحَ جِبْرِیلُ ، فَقِیلَ : مَنْ أَنْتَ ؟ فَقَالَ : جِبْرِیلُ ، فَقِیلَ : وَمَنْ مَعَک ؟ قَالَ : مُحَمَّد ، فَقِیلَ : وَقَدْ بُعِثَ إِلَیْہِ ؟ قَالَ : قَدْ بُعِثَ إِلَیْہِ ، فَفُتِحَ لَنَا ، فَإِذَا أَنَا بِإِبْرَاہِیمَ ، وَإِذَا ہُوَ مُسْتَنِدٌ إِلَی الْبَیْتِ الْمَعْمُورِ ، وَإِذَا ہُوَ یَدْخُلُہُ کُلَّ یَوْمٍ سَبْعُونَ أَلْفَ مَلَکٍ ، لاَ یَعُودُونَ إِلَیْہِ۔ ثُمَّ ذَہَبَ بِی إِلَی سِدْرَۃِ الْمُنْتَہَی ، فَإِذَا وَرَقُہَا کَآذَانِ الْفِیَلَۃِ ، وَإِذَا ثَمَرُہَا أَمْثَالُ الْقِلاَلِ ، فَلَمَّا غَشِیَہَا مِنْ أَمْرِ اللہِ مَا غَشِیَہَا تَغَیَّرَتْ ، فَمَا أَحَدٌ مِنْ خَلْقِ أللہِ یَسْتَطِیعُ أَنْ یَصِفَہَا مِنْ حُسْنِہَا ، قَالَ : فَأَوْحَی اللَّہُ إِلَیَّ مَا أَوْحَی ، وَفَرَضَ عَلَیَّ فِی کُلِّ یَوْمٍ وَلَیْلَۃٍ خَمْسِینَ صَلاَۃً ، فَنَزَلْتُ حَتَّی انْتَہَیْتُ إِلَی مُوسَی ، فَقَالَ : مَا فَرَضَ رَبُّک عَلَی أُمَّتِکَ؟ قَالَ: قُلْتُ: خَمْسِینَ صَلاَۃً فِی کُلِّ یَوْمٍ وَلَیْلَۃٍ ، فَقَالَ: ارْجِعْ إِلَی رَبِّکَ ، فَاسْأَلْہُ التَّخْفِیفَ، فَإِنَّ أُمَّتَکَ لاَ تُطِیقُ ذَلِکَ ، فَإِنِّی قَدْ بَلَوْتُ بَنِی إِسْرَائِیلَ وَخَبَرْتُہُمْ ، قَالَ : فَرَجَعْتُ إِلَی رَبِّی ، فَقُلْتُ لَہُ : رَبِّ خَفِّفْ عَنْ أُمَّتِی ، فَحَطَّ عَنِّی خَمْسًا ، فَرَجَعْتُ إِلَی مُوسَی ، فَقَالَ : مَا فَعَلْتَ ؟ فَقُلْتُ : حَطَّ عَنِّی خَمْسًا ، قَالَ : إِنَّ أُمَّتَکَ لاَ تُطِیقُ ذَلِکَ ، فَارْجِعْ إِلَی رَبِّکَ ، فَاسْأَلْہُ التَّخْفِیفَ لأُمَّتِکَ ، فَلَمْ أَزَلْ أَرْجِعُ بَیْنَ رَبِّی وَبَیْنَ مُوسَی عَلَیْہِ السَّلاَمُ ، فَیَحُطُّ عَنِّی خَمْسًا خَمْسًا ، حَتَّی قَالَ : یَا مُحَمَّدُ ، ہِیَ خَمْسُ صَلَوَاتٍ فِی کُلِّ یَوْمٍ وَلَیْلَۃٍ ، بِکُلِّ صَلاَۃٍ عَشْرٌ ، فَتِلْکَ خَمْسُونَ صَلاَۃً ، وَمَنْ ہَمَّ بِحَسَنَۃٍ فَلَمْ یَعْمَلْہَا ، کُتِبَتْ لَہُ حَسَنَۃً ، فَإِنْ عَمِلَہَا کُتِبَتْ لَہُ عَشْرًا ، وَمَنْ ہَمَّ بِسَیِّئَۃٍ وَلَمْ یَعْمَلْہَا ، لَمْ تُکْتَبْ لَہُ شَیْئًا ، فَإِنْ عَمِلَہَا کُتِبَتْ سَیِّئَۃً وَاحِدَۃً۔ فَنَزَلْتُ حَتَّی انْتَہَیْتُ إِلَی مُوسَی ، فَأَخْبَرْتُہُ ، فَقَالَ : ارْجِعْ إِلَی رَبِّکَ ، فَاسْأَلْہُ التَّخْفِیفَ لأُمَّتِکَ ، فَإِنَّ أُمَّتَکَ لاَ تُطِیقُ ذَلِکَ ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لَقَدْ رَجَعْتُ إِلَی رَبِّی حَتَّی اسْتَحْیَیْتُ۔ (مسلم ۱۴۵۔ ابویعلی ۳۳۶۲)
(٣٧٧٢٥) حضرت انس سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا :” میرے پاس براق کو لایا گیا۔ یہ ایک سفید جانور تھا۔ گدھے سے اونچا اور خچر سے چھوٹا تھا۔ اپنا قدم وہاں رکھتا تھا جہاں نظر پڑتی تھی۔ پس میں اس پر سوار ہوا اور یہ جانور مجھے لے کر چلا یہاں تک کہ مں چ بیت المقدس میں پہنچا۔ اور میں نے جانور کو اس حلقہ کے ساتھ باندھا جس حلقہ کے ساتھ انبیاء باندھا کرتے تھے۔ پھر میں بیت المقدس میں داخل ہوا اور میں نے وہاں دو رکعات نماز پڑھی پھر میں وہاں سے نکلا تو جبرائیل میرے پاس ایک برتن شراب کا اور ایک برتن دودھ کا لائے۔ میں نے دودھ کا انتخاب کرلیا۔ تو جبرائیل نے کہا۔ آپ نے فطرت سلیمہ کے مطابق درست کام کیا ہے۔
٢۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں : پھر ہمیں آسمان دنیا پر لے جایا گیا۔ اور جبرائیل نے دروازہ کھولنے کا کہا : پوچھا گیا :ـ تم کون ہو ؟ جبرائیل نے کہا : جبرائیل ہوں۔ پوچھا گیا۔ اور آپ کے ساتھ کون ہے ؟ جبرائیل نے کہا۔ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! پوچھا گیا ۔ ان کی طرف بھیجا گیا تھا ؟ جبرائیل نے کہا۔ تحقیق ان کی طرف بھیجا گیا تھا۔ پھر ہمارے لیے دروازہ کھول دیا گیا۔ تو ناگہاں میں آدم سے ملا ۔ انھوں نے مجھے مرحبا کہا اور میرے لیے خیر کی دعا کی۔ پھر ہمیں دوسرے آسمان کی طرف چڑھایا گیا۔ جبرائیل نے دروازہ کھولنے کا کہا۔ پوچھا گیا۔ تم کون ہو ؟ جبرائیل نے کہا : جبرائیل ۔ پوچھا گیا : آپ کے ساتھ کون ہے ؟ جبرائیل نے کہا۔ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! پوچھا گیا۔ ان کی طرف بھیجا گیا تھا ؟ جبرائیل نے کہا۔ ان کی طرف بھیجا گیا تھا۔ پھر ہمارے لیے دروازہ کھول دیا گیا۔ تو ناگہاں میں اپنے دو خالہ زاد یحییٰ اور عیسیٰ سے ملا۔ ان دونوں نے مجھے مرحبا کہا اور میرے لیے دعائے خیر کی۔
٣۔ پھر ہمیں تیسرے آسمان کی طرف چڑھایا گیا۔ جبرائیل نے دروازہ کھولنے کا کہا۔ تو پوچھا گیا ۔ تم کون ہو ؟ انھوں نے کہا : جبرائیل ! پھر پوچھا گیا۔ آپ کے ساتھ کون ہے ؟ جبرائیل نے کہا : محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! فرشتوں نے پوچھا۔ ان کی طرف بھیجا گیا تھا ؟ جبرائیل نے کہا۔ تحقیق ان کی طرف بھیجا گیا تھا۔ پس ہمارے لیے دروازہ کھول دیا گیا۔ پس اچانک میں یوسف سے ملا ۔ اور انھیں تو حسن کا ایک بڑا حصہ دیا گیا ہے۔ انھوں نے مجھے مرحبا کہا اور میرے لیے دعاء خیر کی۔ پھر ہمیں چوتھے آسمان پر لے جایا گیا تو جبرائیل نے دروازہ کھولنے کا کہا۔ پوچھا گیا ۔ تم کون ہو ؟ انھوں نے کہا۔ جبرائیل ہوں۔ پوچھا گیا۔ تمہارے ساتھ کون ہے ؟ جبرائیل نے کہا : محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! فرشتوں نے کہا۔ ان کی طرف بھیجا گیا تھا ؟ جبرائیل نے کہا : تحقیق ان کی طرف بھیجا گیا تھا۔ پھر ہمارے لیے (دروازہ) کھول دیا گیا تو اچانک میری حضرت ادریس سے ملاقات ہوئی۔ انھوں نے مجھے مرحبا کہا اور میرے لیے دعائے خیر کی۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔ ورفعناہُ مکاناً علیًا۔
٤۔ پھر ہمیں پانچویں آسمان کی طرف اٹھایا گیا۔ جبرائیل نے (دروازہ) کھولنے کا کہا۔ پوچھا گیا۔ تم کون ہو ؟ انھوں نے کہا : جبرائیل ہوں۔ پوچھا گیا : اور آپ کے ساتھ کون ہے ؟ انھوں نے کہا : محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ہیں۔ پوچھا گیا ۔ ان کی طرف بھیجا گیا تھا ؟ جبرائیل نے کہا۔ ان کی طرف بھیجا گیا تھا۔ پھر ہمارے لیے (دروازہ) کھول دیا گیا۔ پس اچانک میری ملاقات حضرت ہارون سے ہوئی ۔ انھوں نے مجھے مرحبا کہا اور میرے لیے دعائے خیر کی۔ پھر ہمیں چھٹے آسمان کی طرف چڑھایا گیا۔ جبرائیل نے (دروازہ) کھولنے کا کہا تو پوچھا گیا ۔ تم کون ہو ؟ انھوں نے جواب دیا۔ جبرائیل ہوں۔ پوچھا گا ۔ اور آپ کے ساتھ کون ہے ؟ انھوں نے کہا : محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں۔ پوچھا گیا ۔ (کیا) ان کی طرف بھیجا گیا تھا ؟ جبرائیل نے کہا۔ تحقیق ان کی طرف بھیجا گیا تھا۔ پھر ہمارے لیے (دروازہ) کھول دیا گیا ۔ تو اچانک میری ملاقات حضرت موسیٰ سے ہوئی انھوں نے مجھے مرحبا کہا اور میرے لیے دعائے خیر کی۔
٥۔ پھر ہمیں ساتویں آسمان کی طرف اٹھایا گیا۔ پس جبرائیل نے (دروازہ) کھولنے کا کہا تو پوچھا گیا۔ تم کون ہو ؟ انھوں نے جواب دیا۔ جبرائیل ہوں۔ پھر پوچھا گیا۔ اور آپ کے ساتھ کون ہے ؟ نہوں نے کہا : محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں۔ پھر پوچھا گیا۔ (کیا) ان کی طرف بھیجا گیا تھا ؟ جبرائیل نے کہا۔ تحقیق ان کی طرف بھیجا گیا تھا۔ پھر ہمارے لیے (دروازہ) کھول دیا گیا تو اچانک میں حضرت ابراہیم سے ملا ۔ اور وہ بیت المعمور کے ساتھ ٹیک لگاکر بیٹھے ہوئے تھے۔ اور (یہ وہ جگہ ہے کہ جب) اس میں ہر روز ستر ہزار فرشتے داخل ہوتے ہیں جو پھر دوبارہ نہیں آئیں گے۔
٦۔ پھر مجھے سدرۃ المنتہٰی پر لے جایا گیا۔ پس اس کے پتے ہاتھی کے کانوں کی طرح تھے اور اس کے پھل مٹکوں کے مثل تھے۔ پس جب اس کو امر خداوندی نے جس طرح ڈھانپنا تھا ڈھانپ لیا۔ تو وہ متغیر ہوگیا۔ خلقِ خدا میں سے کوئی بھی اس کے وصف کو بیان کرنے کی استطاعت نہیں رکھتا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں : پھر اللہ تعالیٰ نے میری طرف وحی کی جو وحی کی۔ اور مجھ پر ہر دن رات میں پچاس نمازیں فرض فرمائیں۔
٧۔ میں (وہاں سے) نیچے اترا یہاں تک کہ میں موسیٰ تک پہنچا تو انھوں نے پوچھا۔ آپ کے رب نے آپ کی امت پر کیا فرض کیا ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں۔ میں نے کہا : ہر دن رات میں پچاس نمازیں فرض کی ہیں۔ موسیٰ نے کہا۔ اپنے رب کی طرف واپس جائیے اور رب سے کمی کا سوال کئے ک ۔ کیونکہ آپ کی امت اس کی طاقت نہیں رکھتی۔ کیونکہ میں نے بنی اسرائیل کو آزمایا ہے اور جانچا ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں میں اپنے پروردگار کے حضور واپس لوٹا اور میں نے ان سے عرض کی۔ اے میرے پروردگار ! میری امت پر تخفیف فرما۔ پس اللہ تعالیٰ نے مجھے پانچ نمازیں چھوڑ دیں۔ پھر میں موسیٰ کی طرف واپس ہوا۔ تو انھوں نے پوچھا۔ کیا کیا ہے ؟ میں نے کہا : اللہ تعالیٰ نے مجھے پانچ نمازیں چھوڑ دی ہیں۔ موسیٰ نے کہا۔ تیری امت اس کی (بھی) طاقت نہیں رکھتی۔ پس آپ اپنے پروردگار کے پاس واپس جائیے اور اپنے پروردگار سے اپنی امت کے لیے تخفیف کا سوال کیجئے۔ پھر میں مسلسل اپنے پروردگار اور موسیٰ کے درمیان مراجعت کرتا رہا۔ اور اللہ تعالیٰ مجھے پانچ پانچ نمازیں چھوڑتے رہے یہاں تک کہ حق تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : اے محمد ! ہر دن رات میں یہ پانچ نمازیں ہیں۔ ہر نماز کے بدلے میں دس (گُنا اجر) ہے۔ پس یہ (ثواب کے اعتبار سے) پچاس نمازیں ہیں۔ اور جو کوئی شخص نیکی کے کام کا ارادہ کرے لیکن نیکی کے کام کو کرے نہیں۔ اس کے لیے ایک نیکی لکھی جائے گی۔ اور اگر وہ اس نیکی کے کام کو کرلے گا تو اس کے لیے دس نیکیاں لکھی جائیں گی۔ اور جو کوئی شخص برے کام کا ارادہ کرے گا لیکن اس بُرے کام کو نہ کرے تو اس کے کچھ نہیں لکھا جائے گا اور اگر وہ اس برے کام کو کرلے گا تو اس کے لیے ایک گناہ لکھا جائے گا۔
٨۔ پھر میں (وہاں سے) اُترا یہاں تک کہ میں موسیٰ کے پاس پہنچا اور میں نے ان کو یہ بات بتائی تو انھوں نے کہا۔ آپ اپنے پروردگار کے پاس واپس جائیے اور اپنے پروردگار سے اپنی امت کے لیے تخفیف کا سوال کیجئے ۔ کیونکہ آپ کی امت اس کی (بھی) طاقت نہیں رکھتی۔ تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : البتہ تحقیق میں اپنے رب کی طرف (اتنا) واپس پلٹا ہوں یہاں تک کہ (اب) مجھے حیا آتی ہے۔

37725

(۳۷۷۲۶) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکِ ، عَنْ مَالِکِ بْنِ صَعْصَعَۃَ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ؛ بِنَحْوٍ مِنْہُ ، أَوْ شَبِیہٍ بِہِ۔ (بخاری ۳۲۰۷۔ مسلم ۱۴۹)
(٣٧٧٢٦) حضرت مالک بن صعصہ ، نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کے مثل یا اسے مشابہ بیان کرتے ہیں۔

37726

(۳۷۷۲۷) حَدَّثَنَا ہَوْذَۃُ بْنُ خَلِیفَۃَ ، قَالَ : حدَّثَنَا عَوْفٌ ، عَنْ زُرَارَۃَ بْنِ أَوْفَی ، قَالَ : قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ ، قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لَمَّا کَانَ لَیْلَۃَ أُسْرِیَ بِی ، أَصْبَحْتُ بِمَکَّۃَ ، قَالَ : فَظِعْتُ بِأَمْرِی ، وَعَرَفْتُ أَنَّ النَّاسَ مُکَذِّبِیَّ ، فَقَعَدَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مُعْتَزِلاً حَزِینًا ، فَمَرَّ بِہِ أَبُو جَہْلٍ ، فَجَائَ حَتَّی جَلَسَ إِلَیْہِ ، فَقَالَ کَالْمُسْتَہْزِئِ : ہَلْ کَانَ مِنْ شَیْئٍ ؟ قَالَ : نَعَمْ ، قَالَ : وَمَا ہُوَ ؟ قَالَ : أُسْرِیَ بِی اللَّیْلَۃَ ، قَالَ: إِلَی أَیْنَ ؟ قَالَ : إِلَی بَیْتِ الْمَقْدِسِ ، قَالَ : ثُمَّ أَصْبَحْتَ بَیْنَ أَظْہُرِنَا ؟ قَالَ : نَعَمْ ، فَلَمْ یَرَ أَنَّ یُکَذِّبَہُ ، مَخَافَۃَ أَنْ یَجْحَدَ الْحَدِیثَ إِنْ دَعَا قَوْمَہُ إِلَیْہِ ، قَالَ : أَتُحَدِّثُ قَوْمَک مَا حَدَّثْتَنِی إِنْ دَعَوْتُہُمْ إِلَیْک ؟ قَالَ : نَعَمْ ، قَالَ، ہَیَّا مَعَاشِرَ بَنِی کَعْبِ بْنِ لُؤَیٍّ ، ہَلُمَّ ، قَالَ : فَتَنَفَّضَتِ الْمَجَالِسُ ، فَجَاؤُوا حَتَّی جَلَسُوا إِلَیْہِمَا، فَقَالَ : حَدِّثْ قَوْمَک مَا حَدَّثْتَنِی۔ قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إِنِّی أُسْرِیَ بِی اللَّیْلَۃَ ، قَالُوا : إِلَی أَیْنَ ؟ قَالَ : إِلَی بَیْتِ الْمَقْدِسِ ، قَالُوا : ثُمَّ أَصْبَحْتَ بَیْنَ ظَہْرَانَیْنَا ؟ قَالَ : نَعَمْ ، قَالَ : فَمِنْ بَیْنِ مُصَفِّقٍ ، وَمِنْ بَیْنِ وَاضِعٍ یَدَہُ عَلَی رَأْسِہِ مُتَعَجِّبًا لِلْکَذِبِ ، زَعَمَ ، وَقَالُوا : أَتَسْتَطِیعُ أَنْ تَنْعَتَ لَنَا الْمَسْجِدَ ؟ قَالَ : وَفِی الْقَوْمِ مَنْ سَافَرَ إلَی ذَلِکَ الْبَلَدِ وَرَأَی الْمَسْجِدَ، قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : فَذَہَبْتُ أَنْعَتُ لَہُمْ، فَمَا زِلْتُ أَنْعَتُ وَأَنْعَتُ، حَتَّی الْتَبَسَ عَلَیَّ بَعْضُ النَّعْتِ ، فَجِیئَ بِالْمَسْجِدِ وَأَنَا أَنْظُرُ إلَیْہِ ، حَتَّی وُضِعَ دُونَ دَارِ عُقَیْلٍ ، أَوْ دَارِ عِقَاْلٍ ، فَنَعَتُّہُ وَأَنَا أَنْظُرُ إلَیْہِ ، فَقَالَ الْقَوْمُ : أَمَّا النَّعْتُ فَوَاللہِ لَقَدْ أَصَابَ۔
(٣٧٧٢٧) حضرت زرارہ بن اوفی روایت کرتے ہیں کہ ابن عباس نے فرمایا : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جس رات کو مجھے اسراء کروایا گیا میں نے (اس کی) صبح مکہ میں کی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں۔ میں اپنے معاملہ (معراج) کی وجہ سے گھبرایا ہوا تھا اور میں جانتا تھا کہ لوگ مجھے جھٹلائیں گے۔ پس آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) علیحدہ اور غم گین ہو کر بیٹھ گئے تو ابو جہل آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس سے گزرا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا یہاں تک کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس بیٹھ گیا اور استہزاء کرنے والے کی طرح پوچھا : کیا کچھ (نئی) بات ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ہاں ابو جہل نے پوچھا : کیا بات ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : مجھے آج کی رات سیر کروائی گئی ہے۔ ابو جہل نے پوچھا : کہاں کی ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : بیت المقدس کی طرف۔ ابو جہل نے کہا۔ پھر (سیر کے بعد) آپ نے صبح ہمارے درمیان کی ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ہاں ! ابو جہل کی رائے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تکذیب کی نہ ہوئی۔ اس بات سے ڈرتے ہوئے کہ اگر وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قوم کو بلائے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس بات کا انکار نہ کردیں۔ ابو جہل نے کہا۔ اگر میں تمہاری قوم کو تمہاری طرف بلاؤں تو کیا تم انھیں بھی وہ بات بیان کروگے جو تم نے مجھے بیان کی ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ہاں ! ابو جہل نے کہا : اے بنی کعب بن لوی کی جماعتو ! آ جاؤ۔ راوی کہتے ہیں۔ پس تمام لوگ آگئے یہاں تک کہ لوگ ان دونوں کے پاس بیٹھ گئے۔ تو ابو جہل نے کہا۔ جو بات آپ نے مجھے بیان کی تھی وہ بات اپنی قوم کے سامنے بیان کرو۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : مجھے آج کی رات سیر کروائی گئی ہے۔ لوگوں نے پوچھا : کہاں کی ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : بیت المقدس کی۔ لوگوں نے کہا۔ پھر آپ نے صبح ہمارے درمیان کی ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ہاں ! راوی کہتے ہیں : کچھ لوگ، تالیاں بجانے لگے اور کچھ لوگوں نے اس بات کو جھوٹ سمجھ کر تعجب کرتے ہوئے اپنے ہاتھوں کو اپنے سر پر رکھ لیا۔ اور کہا : کیا آپ ہمارے لیے مسجد (اقصیٰ ) کی نعت (صفت) بیان کرسکتے ہیں ؟ راوی کہتے ہیں کہ لوگوں میں افراد بھی تھے جنہوں نے اس شہر کا سفر کیا تھا اور مسجد اقصیٰ کو دیکھا تھا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں۔ پس میں نے ان کے لیے (مسجد کی) صفت بیان کرنا شروع کی۔ اور میں مسلسل صفت بیان کرتا رہا۔ یہاں تک کہ بعض اوصافِ مسجد مجھ پر ملتبس ہوگئے تو مسجد کو (سامنے) لایا گیا اور میں مسجد کو دیکھنے لگا۔ یہاں تک کہ مسجد کو دارعقیل یا دارعقال سے پرے رکھ دیا گیا۔ پس میں نے مسجد کی نعت (صفت) بیان کی جبکہ میں مسجد کی طرف دیکھ رہا تھا۔ لوگوں نے کہا ۔ (مسجد کی) صفت تو بخدا بالکل درست (بیان کی) ہے۔

37727

(۳۷۷۲۸) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ زِرٍّ ، عَنْ حُذَیْفَۃَ بْنِ الْیَمَانِ ؛ أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أُتِیَ بِالْبُرَاقِ ، ہُوَ دَابَّۃٌ أَبْیَضُ طَوِیلٌ ، یَضَعُ حَافِرَہُ عِنْدَ مُنْتَہَی طَرَفِہِ ، قَالَ : فَلَمْ یُزَایِلْ ظَہْرَہُ ہُوَ وَجِبْرِیلُ ، حَتَّی أَتَیَا بَیْتَ الْمَقْدِسِ ، وَفُتِحَتْ لَہُمَا أَبْوَابُ السَّمَائِ فَرَأَی الْجَنَّۃَ وَالنَّارَ۔ قَالَ : وَقَالَ حُذَیْفَۃُ : وَلَمْ یُصَلِّ فِی بَیْتِ الْمَقْدِسِ ، قَالَ زِرٌّ : فَقُلْتُ : بَلَی ، قَدْ صَلَّی ، قَالَ حُذَیْفَۃُ : مَا اسْمُک یَا أَصْلَعُ ؟ فَإِنِّی أَعْرِفُ وَجْہَک ، وَلاَ أَدْرِی مَا اسْمُک ؟ قَالَ : قُلْتُ : زِرُّ بْنُ حُبَیْشٍ ، قَالَ : فَقَالَ : وَمَا یُدْرِیکَ ؟ وَہَلْ تَجِدُہُ صَلَّی ؟ قَالَ : قُلْتُ : یَقُولُ اللَّہُ : {سُبْحَانَ الَّذِی أَسْرَی بِعَبْدِہِ لَیْلاً مِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إلَی الْمَسْجِدِ الأَقْصَی الَّذِی بَارَکْنَا حَوْلَہُ لِنُرِیَہُ مِنْ آیَاتِنَا ، إِنَّہُ ہُوَ السَّمِیعُ الْبَصِیرُ}۔ قَالَ : وَہَلْ تَجِدُہُ صَلَّی ؟ إِنَّہُ لَوْ صَلَّی فِیہِ صَلَّیْنَا فِیْہِ ، کَمَا نُصَلِّی فِی الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ، وَقِیلَ لِحُذَیْفَۃَ : وَرَبَطَ الدَّابَّۃَ بِالْحَلَقَۃِ الَّتِی یَرْبِطُ بِہَا الأَنْبِیَائُ ؟ فَقَالَ حُذَیْفَۃُ : أَوَکَانَ یَخَافُ أَنْ تَذْہَبَ ، وَقَدْ أَتَاہُ اللَّہُ بِہَا ؟۔
(٣٧٧٢٨) حضرت زر، حضرت حذیفہ بن یمان سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس براق لائی گئی۔ یہ ایک طویل سفید رنگ کا جانور تھا جو منتہی نظر پر قدم رکھتا تھا۔ راوی کہتے ہیں : پس آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور جبرائیل اس کی پشت پر سوار رہے یہاں تک کہ دونوں بیت المقدس پہنچ گئے اور ان کے لیے آسمانوں کے دروازے کھول دیئے گئے پس آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جنت اور جہنم کو دیکھا۔
راوی کہتے ہیں : حضرت حذیفہ نے فرمایا : آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بیت المقدس میں نماز ادا نہیں کی۔ حضرت زر کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا۔ کیوں نہیں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نماز پڑھی ہے۔ حضرت حذیفہ نے فرمایا : اے گنجے ! تیرا نام کیا ہے ؟ میں تیری شکل سے واقف ہوں لیکن تیرے نام سے واقف نہیں ہوں ؟ حضرت زر کہتے ہیں۔ میں نے جواباً کہا : زر بن حبیش۔ راوی کہتے ہیں۔ اس نے کہا : ارشاد خداوندی ہے۔ { سُبْحَانَ الَّذِی أَسْرَی بِعَبْدِہِ لَیْلاً مِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إلَی الْمَسْجِدِ الأَقْصَی الَّذِی بَارَکْنَا حَوْلَہُ لِنُرِیَہُ مِنْ آیَاتِنَا ، إِنَّہُ ہُوَ السَّمِیعُ الْبَصِیرُ }
حضرت حذیفہ نے فرمایا : کیا تم نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو (وہاں) نماز پڑھتے ہوئے پایا ہے ؟ اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیت المقدس میں نماز پڑھتے تو ہم (بھی) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہمراہ نماز پڑھتے جیسا کہ ہم مسجد حرام میں نماز پڑھتے ہیں۔ حضرت حذیفہ سے کہا گیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جانور کو اس کڑے کے ساتھ باندھا جس کے ساتھ انبیاء باندھا کرتے تھے ؟ حضرت حذیفہ نے فرمایا : کیا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس بات کا خوف تھا کہ وہ چلا جائے گا حالانکہ اس کو تو اللہ تعالیٰ لائے تھے ؟

37728

(۳۷۷۲۹) حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُوسَی ، قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ زَیْدِ بْنِ جُدْعَانَ ، عَنْ أَبِی الصَّلْتِ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : رَأَیْتُ لَیْلَۃَ أُسْرِیَ بِی ، لَمَّا انْتَہَیْنَا إِلَی السَّمَائِ السَّابِعَۃِ ، فَنَظَرْتُ فَوْقِی فَإِذَا أَنَا بِرَعْدٍ وَبَرْقٍ وَصَوَاعِقَ ، قَالَ : وَأَتَیْتُ عَلَی قَوْمٍ بُطُونُہُمْ کَالْبُیُوتِ ، فِیہَا الْحَیَّاتُ تُرَی مِنْ خَارِجِ بُطُونِہِمْ ، فَقُلْتُ : مَنْ ہَؤُلاَئِ یَا جِبْرِیلُ ؟ قَالَ ، ہَؤُلاَئِ أَکَلَۃُ الرِّبَا ، فَلَمَّا نَزَلْتُ إِلَی السَّمَائِ الدُّنْیَا ، نَظَرْت أَسْفَلَ شَیئٍ فَإِذَا بِرَہْجٍ وَدُخَانٍ وَأَصْوَاتٍ ، فَقُلْتُ : مَا ہَذَا یَا جِبْرِیلُ؟ قَالَ: ہَذِہِ الشَّیَاطِینُ یَحُومُونَ عَلَی أَعْیُنِ بَنِی آدَمَ، لاَ یَتَفَکَّرُوا فِی مَلَکُوتِ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ، وَلَوْلاَ ذَاکَ لَرَأَوْا الْعَجَائِبَ۔ (ابن ماجہ ۲۲۷۳۔ احمد ۳۵۳)
(٣٧٧٢٩) حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ” جس رات مجھے سیر کروائی گئی ۔ میں نے دیکھا کہ جب ہم ساتویں آسمان تک پہنچے تو میں نے اپنے اوپر کو نظر اٹھائی تو مجھے گرج، بجلی اور کڑک دکھائی دیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں کہ میں ایک گروہ کے پاس آیا ان کے پیٹ گردنوں کی طرح تھے اور ان میں سانپ تھے جو باہر سے نظر آ رہے تھے۔ میں نے پوچھا : اے جبرائیل ! یہ کون لوگ ہیں ؟ جبرائیل نے کہا : یہ سود خور لوگ ہیں۔ پھر جب میں آسمان دنیا کی طرف اترا تو میں نے نیچے دیکھا۔ مجھے گرد، دھواں اور آوازیں سنائی دیں۔ میں نے پوچھاـ: اے جبرائیل ! یہ کیا ہے ؟ جبرائیل نے کہا : یہ شیاطین ہیں جو بنی آدم کی آنکھوں کو فریب دیتے ہیں۔ وہ آسمانوں اور زمین کی نشانیوں میں تفکر نہیں کرتے۔ اگر یہ چیزیں نہ ہوتیں تو بنی آدم کو عجائبات دکھائی دیتے۔

37729

(۳۷۷۳۰) حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُوسَی ، قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا سُلَیْمَانُ التَّیْمِیُّ، وَثَابِتٌ الْبُنَانِیُّ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : أَتَیْتُ عَلَی مُوسَی لَیْلَۃَ أُسْرِیَ بِی عِنْدَ الْکَثِیبِ الأَحْمَرِ ، وَہُوَ قَائِمٌ یُصَلِّی فِی قَبْرِہِ۔ (مسلم ۱۶۵۔ احمد ۱۴۸)
(٣٧٧٣٠) حضرت انس سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جس رات مجھے سیر کروائی گئی ۔ اس رات میں سُرخ ٹیلے کے پاس حضرت موسیٰ پر سے گزرا تو وہ اپنی قبر مبارک میں کھڑے نماز پڑھ رہے تھے۔

37730

(۳۷۷۳۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَۃَ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ زَیْدٍ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَرَرْت لَیْلَۃَ أُسْرِیَ بِی عَلَی قَوْمٍ تُقْرَضُ شِفَاہُہُمْ بِمَقَارِیضَ مِنْ نَارٍ ، فَقُلْتُ : مَنْ ہَؤُلاَئِ ؟ قِیلَ : ہَؤُلاَئِ خُطَبَائُ مِنْ أَہْلِ الدُّنْیَا ، مِمَّنْ کَانُوا یَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَیَنْسَوْنَ أَنْفُسَہُمْ وَہُمْ یَتْلُونَ الْکِتَابَ ، أَفَلاَ یَعْقِلُونَ ؟۔ (احمد ۱۲۰۔ ابویعلی ۳۹۸۳)
(٣٧٧٣١) حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جس رات مجھے سیر کروائی گئی اس رات میں ایک ایسی قوم پر سے گزرا جن کے ہونٹوں کو جہنم کی قینچیوں سے کاٹا جا رہا تھا۔ میں نے پوچھا : یہ کون لوگ ہیں ؟ بتایا گیا کہ یہ اہل دنیا کے وہ خطیب ہیں جو لوگوں کو نیکی کا حکم کرتے تھے اور اپنے آپ کو بھول جاتے تھے۔ اور کتاب کی تلاوت کرتے تھے۔ کیا یہ لوگ عقل نہیں رکھتے ؟

37731

(۳۷۷۳۲) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ الشَّیْبَانِیِّ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ شَدَّادٍ ، قَالَ : لَمَّا أُسْرِیَ بِالنَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أُتِیَ بِدَابَّۃٍ فَوْقَ الْحِمَارِ وَدُونَ الْبَغْلِ ، یَضَعُ حَافِرَہُ عِنْدَ مُنْتَہَی طَرَفِہِ ، یُقَالُ لَہُ : بُرَاقٌ، فَمَرَّ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِعِیرٍ لِلْمُشْرِکِینَ فَنَفَرَتْ ، فَقَالُوا : یَا ہَؤُلاَئِ ، مَا ہَذَا ؟ قَالُوا : مَا نَرَی شَیْئًا ، مَا ہَذِہِ إِلاَّ رِیحٌ ، حَتَّی أَتَی بَیْتَ الْمَقْدِسِ ، فَأُتِیَ بِإِنَائَیْنِ ؛ فِی وَاحِدٍ خَمْرٌ ، وَفِی الآخَرِ لَبَنٌ ، فَأَخَذَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اللَّبَنَ ، فَقَالَ لَہُ جِبْرِیلُ : ہُدِیتَ وَہُدِیْتْ أُمَّتُک۔ ثُمَّ سَارَ إِلَی مِصْرَ۔
(٣٧٧٣٢) حضرت عبداللہ بن شداد سے روایت ہے کہ جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو رات کو سیر کروائی گئی تو ایک گدھے سے بڑا ، خچر سے چھوٹا ایک جانور لایا گیا۔ وہ اپنی منتہی نظر پر اپنا قدم رکھتا تھا۔ اس کو براق کہا جاتا تھا۔ پس اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مشرکین کے اونٹوں کے قافلے کے پاس سے گزرے تو وہ بدک گئے مشرکین نے کہا : یارو ! یہ کیا ہے ؟ انھوں نے جواب دیا۔ ہمیں تو کوئی چیز دکھائی نہیں دیتی۔ یہ تو فقط ہوا ہے۔ یہاں تک کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیت المقدس پہنچ گئے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس دو برتن لائے گئے۔ ایک میں شراب تھی اور دوسرے میں دودھ تھا۔ پس نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دودھ (والا برتن) پکڑ لیا تو جبرائیل نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کہا۔ آپ کی راہ راست کی طرف راہنمائی کی گئی ہے اور آپ کی امت کو درست راہنمائی کی گئی ہے۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) شہر کی طرف چلے۔

37732

(۳۷۷۳۳) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنْ حُمَیْدٍ ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لَمَّا انْتَہَیْتُ إلَی السِّدْرَۃِ ، إِذَا وَرَقُہَا مِثْلُ آذَانِ الْفِیَلَۃِ ، وَإِذَا نَبْقُہَا أَمْثَالُ الْقِلاَلِ ، فَلَمَّا غَشِیَہَا مِنْ أَمْرِ اللہِ مَا غَشِیَ تَحَوَّلَتْ ، فَذَکَرْتُ الْیَاقُوتَ۔
(٣٧٧٣٣) حضرت انس سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جب میں سدرۃ کے پاس پہنچا تو (میں نے دیکھا کہ) اس کے پتے ہاتھی کے کانوں کی طرح تھے اور اس کے بیر مٹکوں کی طرح تھے پس جب اس کو اللہ تعالیٰ نے جس طرح ڈھانپ لیا تو وہ بدل گئی پس مجھے یاقوت یاد آگیا۔

37733

(۳۷۷۳۴) حَدَّثَنَا ابْنُ یَمَانٍ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ سَلَمَۃَ بْنِ کُہَیْلٍ ، عَنْ غَزْوَانَ ، قَالَ : سِدْرَۃُ الْمُنْتَہَی صُبْرُ الْجَنَّۃِ۔
(٣٧٧٣٤) حضرت غزوان سے روایت ہے کہ سدرۃ المنتہیٰ جنت کا وسط ہے۔

37734

(۳۷۷۳۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ سَلَمَۃَ بْنِ کُہَیْلٍ ، عَنِ الْحَسَنِ الْعُرَنِیِّ ، عَنْ ہُذَیْلِ بْنِ شُرَحْبِیلَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ؛ فِی قَوْلِہِ: (سِدْرَۃِ الْمُنْتَہَی) قَالَ: صُبْرُ الْجَنَّۃِ، یَعْنِی وَسَطَہَا، عَلَیْہَا فُضُولُ السُّنْدُسِ وَالإِسْتَبْرَقِ۔
(٣٧٧٣٥) حضرت عبداللہ ارشاد خداوندی۔ سدرۃ المنتہیٰ کے بارے میں فرماتے ہیں۔ یہ جنت کا وسط ہے۔ اور اس پر ریشم اور نفیس قسم کے پردے ہیں۔

37735

(۳۷۷۳۶) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ مَیْسَرَۃَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ ، عَنْ کَعْبٍ ، قَالَ : سِدْرَۃِ الْمُنْتَہَی یَنْتَہِی إِلَیْہَا أَمْرُ کُلِّ نَبِیٍّ وَمَلَکٍ۔
(٣٧٧٣٦) حضرت کعب سے روایت ہے کہ سدرۃ المنتہیٰ وہ مقام ہے جہاں پر ہر نبی اور فرشتہ کا معاملہ منتہی ہوتا ہے۔

37736

(۳۷۷۳۷) حدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللہِ الأَسَدِیُّ ، عَنْ إِسْرَائِیلَ ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ الْمُغِیرَۃِ ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِی الْجَعْدِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَعْرِضُ نَفْسَہُ عَلَی النَّاسِ بِالْمَوْقِفِ ، یَقُولُ : أَلاَ رَجُلٌ یَعْرِضُنِی عَلَی قَوْمِہِ ؟ فَإِنَّ قُرَیْشًا قَدْ مَنَعُونِی أَنْ أُبَلِّغَ کَلاَمَ رَبِّی ، قَالَ : فَأَتَاہُ رَجُلٌ مِنْ ہَمْدَانَ ، فَقَالَ: وَمِمَّنْ أَنْتَ ؟ قَالَ : مِنْ ہَمْدَانَ ، قَالَ : وَعِنْدَ قَوْمِکَ مَنَعَۃٌ ؟ قَالَ : نَعَمْ ، قَالَ : فَذَہَبَ الرَّجُلُ، ثُمَّ إِنَّہُ خَشِیَ أَنْ یَخْفِرَہُ قَوْمُہُ ، فَرَجَعَ إِلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : أَذْہَبُ فَأَعْرِضُ عَلَی قَوْمِی ، ثُمَّ آتِیکَ مِنْ قَابِلٍ ، ثُمَّ ذَہَبَ وَجَائَتْ وُفُودُ الأَنْصَارِ فِی رَجَبٍ۔ (بخاری ۱۵۷۔ ترمذی ۲۹۲۵)
(٣٧٧٣٧) حضرت جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے آپ کو لوگوں کے سامنے موقف میں پیش فرماتے : اور کہتے : کیا کوئی ایسا شخص ہے جو مجھے اپنی قوم پر پیش کرے۔ کیونکہ قریش نے تو مجھے اس بات سے منع کیا ہے کہ میں اپنے رب کے کلام کی تبلیغ کروں۔ راوی کہتے ہیں : پس آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ہمدان کا ایک آدمی حاضر ہوا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا : تم کس سے ہو ؟ اس نے جواب دیا۔ ہمدان سے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا : تمہاری قوم کے پاس منعہ (قوت و شوکت) ہے ؟ اس آدمی نے عرض کیا۔ جی ہاں ! راوی کہتے ہیں : وہ آدمی چلا گیا پھر اس کو یہ خوف ہوا کہ اس کی قوم اس کے ساتھ عہد شکنی کرے گی۔ پس وہ آدمی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا۔ میں جاتا ہوں اور میں اپنی قوم پر (آپ کی ذات کو) پیش کروں گا پھر میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئندہ سال آؤں گا۔ پھر وہ آدمی چلا گیا اور رجب کے مہینہ میں انصار کے وفد حاضر خدمت ہوئے۔

37737

(۳۷۷۳۸) حدَّثَنَا وَکِیعُ بْنُ الْجَرَّاحِ ، قَالَ : حَدَّثَنَا شُعْبَۃُ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ ، قَالَ : أَتَیْتُ إِبْرَاہِیمَ ، فَسَأَلْتُہُ ؟ فَقَالَ : أَوَّلُ مَنْ أَسْلَمَ أَبُو بَکْرٍ۔
(٣٧٧٣٨) حضرت عمرو بن مرہ روایت کرتے ہیں کہ میں ابراہیم کی خدمت میں حاضر ہوا اور میں نے ان سے پوچھا ؟ تو انھوں نے جواب دیا۔ سب سے پہلے ابوبکر اسلام لائے۔

37738

(۳۷۷۳۹) حَدَّثَنَا شَیْخٌ لَنَا ، قَالَ : أَخْبَرَنَا مُجَالِدٌ ، عَنْ عَامِرٍ ، قَالَ : سَأَلْتُ ، أَوْ سُئِلَ ابْنُ عَبَّاسٍ : أَیُّ النَّاسِ کَانَ أَوَّلَ إِسْلاَمًا ؟ فَقَالَ : أَمَا سَمِعْتَ قَوْلَ حَسَّانِ بْنِ ثَابِتٍ : إِذَا تَذَکَّرْتَ شَجْوًا مِنْ أَخِی ثِقَۃ ٍفَاذْکُرْ أَخَاک أَبَا بَکْرٍ بِمَا فَعَلاَ خَیْرَ الْبَرِیَّۃِ أَتْقَاہَا وَأَعْدَلَہَا إِلاَّ النَّبِیَّ وَأَوْفَاہَا بِمَا حَمَلاَ وَالثَّانِیَ التَّالِیَ الْمَحْمُودَ مَشْہَدُہ ُوَأَوَّلَ النَّاسِ مِنْہُمْ صَدَّقَ الرَّسْلاَ
(٣٧٧٣٩) حضرت عامر روایت کرتے ہیں کہ میں نے ابن عباس سے پوچھا : یا فرمایا : ابن عباس سے سوال کیا گیا : کہ لوگوں میں سے سب سے پہلے اسلام کون لایا تھا ؟ انھوں نے جواب دیا ۔ کیا تم نے حسان بن ثابت کا قول نہیں سُنا۔ (ترجمہ) ” جب تجھے اپنے معتمد بھائی سے پہنچا ہو اغم یاد آئے ۔ تو تُو اپنے بھائی ابوبکر کے کئے ہوئے کو یاد کرنا ۔ جو کہ مخلوق میں سے بہترین ، سب سے بڑا متقی اور عادل ہے۔ سوائے نبی کے، اور اپنی ذمہ داری کو پورا کرنے والا ہے۔ اور دوسرا (صاحب ایمان) پیروکار ہے، اور اس کی گواہی پسندیدہ ہے۔ اور لوگوں مں ر سے سب سے پہلے رسول کی تصدیق کرنے والا ہے۔ “

37739

(۳۷۷۴۰) حدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، قَالَ : حَدَّثَنَا ہِشَامُ بْنُ عُرْوَۃَ ، قَالَ : أَخْبَرَنِی أَبِی ، قَالَ : أَسْلَمَ أَبُو بَکْرٍ یَوْمَ أَسْلَمَ وَلَہُ أَرْبَعُونَ أَلْفَ دِرْہَمٍ۔
(٣٧٧٤٠) حضرت ہشام بن عروہ سے روایت ہے کہ وہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں۔ جس دن حضرت ابوبکر اسلام لائے تو ان کے پاس چالیس ہزار درہم تھے۔

37740

(۳۷۷۴۱) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، قَالَ : أَوَّلُ مَنْ أَظْہَرَ الإِسْلاَمَ سَبْعَۃٌ : رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَأَبُو بَکْرٍ ، وَبِلاَلٌ ، وَخَبَّابٌ ، وَصُہَیْبٌ ، وَعَمَّارٌ ، وَسُمَیَّۃُ أُمُّ عَمَّارٍ ، فَأَمَّا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَمَنَعَہُ عَمُّہُ ، وَأَمَّا أَبُو بَکْرٍ فَمَنَعَہُ قَوْمُہُ ، وَأُخِذَ الآخَرُونَ فَأُلْبِسُوا أَدْرَاعَ الْحَدِیدِ ، ثُمَّ صَہَرُوہُمْ فِی الشَّمْسِ ، حَتَّی بَلَغَ الْجَہْدُ مِنْہُمْ کُلَّ مَبْلَغٍ ، فَأَعْطَوْہُمْ مَا سَأَلُوا ، فَجَائَ إِلَی کُلِّ رَجُلٍ مِنْہُمْ قَوْمُہُ بِأَنْطَاعِ الأُدْمِ فِیہَا الْمَائُ ، فَأَلْقُوہُمْ فِیہَا ، ثُمَّ حُمِلُوا بِجَوَانِبِہِ إِلاَّ بِلاَلاً ، فَلَمَّا کَانَ الْعَشِیُّ ، جَائَ أَبُو جَہْلٍ فَجَعَلَ یَشْتُمُ سُمَیَّۃَ وَیَرْفُثُ ، ثُمَّ طَعنہا فَقَتَلَہَا ، فَہِیَ أَوَّلُ شَہِیدٍ اُسْتُشْہِدَ فِی الإِسْلاَمِ ، إِلاَّ بِلاَلاً ، فَإِنَّہُ ہَانَتْ عَلَیْہِ نَفْسُہُ فِی اللہِ حَتَّی مَلُّوا ، فَجَعَلُوا فِی عُنُقِہِ حَبْلاً ، ثُمَّ أَمَرُوا صِبْیَانَہُمْ فَاشْتَدُّوا بِہِ بَیْنَ أخْشَبَیْ مَکَّۃَ ، وَجَعَلَ یَقُولُ : أَحَدٌ أَحَدٌ۔
(٣٧٧٤١) حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ شروع میں اسلام کا اظہار کرنے والے سات لوگ تھے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، حضرت ابوبکر ، حضرت بلال ، حضرت خباب ، حضرت صہیب ، حضرت عمار ، ام عمار حضرت سمیہ ۔
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے (کفار کے لئے) ان کے چچا مانع بن گئے اور حضرت ابوبکر کی طرف سے (کفار کے لئے) ان کی قوم مانع بن گئی اور دیگر لوگ پکڑ لیے گئے اور انھیں لوہے کی قمیصیں پہنائی گئیں۔ پھر کفار نے ان کو سورج میں تپنے کے لیے چھوڑ دیا ۔ حتی کہ ان کی مشقت انتہا درجہ کو پہنچ گئی تو انھوں نے سوال کیا ان کے سوال کو پورا کردیا۔ پس ان میں سے ہر آدمی کی قوم اس کے پاس آئی جس میں پانی تھا اور انھیں اس میں ڈال دیا۔ پھر اس کی اطراف سے اٹھا لیا۔ سوائے حضرت بلال کے۔ پھر جب رات ہوئی تو ابو جہل آیا اور حضرت سمیّہ کو سبّ و شتم کرنے لگا پھر ابو جہل نے ان کو نیزہ مارا اور قتل کردیا۔ پس یہ اسلام میں شہید ہونے والی پہلی شہیدہ ہیں۔ سو حضرت بلال نے اپنی جان کو اللہ کے لیے بےوقعت سمجھ لیا ۔ یہاں تک کہ مشرکین بےتاب ہوگئے اور انھوں نے آپ کی گردن میں رسی ڈال دی پھر مشرکین نے اپنے بچوں کو حکم دیا اور انھوں نے حضرت بلال کو مکہ کے پہاڑوں کے درمیان گھسیٹنا شروع کیا۔ اور حضرت بلال نے احدٌ احدٌ کہنا شروع کیا۔

37741

(۳۷۷۴۲) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ؛ مِثْلَہُ۔ (ابن ابی عاصم ۲۸۰)
(٣٧٧٤٢) حضرت مجاہد سے بھی ایسی روایت منقول ہے۔

37742

(۳۷۷۴۳) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : أَعْطُوہُمْ مَا سَأَلُوا إِلاَّ خَبَّابًا ، فَجَعَلُوا یُلْصِقُونَ ظَہْرَہُ بِالرَّضْفِ ، حَتَّی ذَہَبَ مَائُ مَتْنَیْہِ۔
(٣٧٧٤٣) حضرت شعبی کہتے ہیں کہ حضرت خباب کے سوا باقی نے جو سوال کیا اس کو انھوں نے پورا کردیا۔ تو مشرکین نے حضرت خباب کی پشت کو گرم پتھروں پر رکھ دیا یہاں تک کہ ان کی کمر کا پانی ختم ہوگیا۔ (شاید کمر کی چربی کا پگھلنا مراد ہے)

37743

(۳۷۷۴۴) حَدَّثَنَا سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ إِسْمَاعِیلَ ، عَنْ قَیْسٍ ، قَالَ : اشْتَرَی أَبُو بَکْرٍ ، یَعْنِی بِلاَلاً ، بِخَمْسَۃِ أَوَاقٍ وَہُوَ مَدْفُونٌ بِالْحِجَارَۃِ ، قَالُوا : لَوْ أَبَیْتَ إِلاَّ أُوقِیَّۃً لَبِعْنَاکَہُ ، فَقَالَ : لَوْ أَبَیْتُمْ إِلاَّ مِئَۃَ أُوقِیَّۃٍ لأَخَذْتُہُ۔
(٣٧٧٤٤) حضرت قیس کہتے ہیں کہ ابوبکر نے حضرت بلال کو پانچ اوقیہ کے عوض خریدا جبکہ وہ پتھروں کے نیچے دبے ہوئے تھے۔ مشرکین نے کہا کہ اگر آپ اس کو ایک اوقیہ پر خریدنے کے لیے تیار ہوجائیں تو ہم (تب بھی) یہ آپ کو بیچ دیں گے۔ حضرت ابوبکر نے فرمایا : اگر تم سو اوقیہ پر بیچنے کے لیے تیار ہو جاؤ تو میں (تب بھی) اس کو خریدوں گا۔

37744

(۳۷۷۴۵) حَدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ مِسْعَرٍ ، عَنْ قَیْسٍ ، عَنْ طَارِقِ بْنِ شِہَابٍ ، قَالَ : کَانَ خَبَّابٌ مِنَ الْمُہَاجِرِینَ ، وَکَانَ مِمَّنْ یُعَذَّبُ فِی اللہِ۔
(٣٧٧٤٥) حضرت طارق بن شہاب سے روایت ہے کہ حضرت خباب مہاجرین میں سے تھے اور ان افراد میں سے تھے جنہیں اللہ کے لیے عذاب دیا گیا۔

37745

(۳۷۷۴۶) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : سَمِعْتُ کُرْدُوسًا ، یَقُولُ : أَلاَ إِنَّ خَبَّابَ بْنَ الأَرَتِّ أَسْلَمَ سَادِسَ سِتَّۃٍ ، کَانَ لَہُ سُدُسٌ مِنَ الإِسْلاَمِ۔
(٣٧٧٤٦) ابن فضیل اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے کردوس کو کہتے سُنا کہ حضرت خباب بن الارت چھٹے نمبر پر اسلام لائے اور آپ کا اسلام میں چھٹا حصہ تھا۔

37746

(۳۷۷۴۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِی لَیْلَی الْکِنْدِیِّ ، قَالَ : جَائَ خَبَّابٌ إِلَی عُمَرَ ، فَقَالَ : اُدْنُہُ ، فَمَا أَجِدَ أَحَدًا أَحَقَّ بِہَذَا الْمَجْلِسِ مِنْک إِلاَّ عَمَّارًا ، قَالَ : فَجَعَلَ خَبَّابٌ یُرِیہِ آثَارًا فِی ظَہْرِہِ مِمَّا عَذَّبَہُ الْمُشْرِکُونَ۔
(٣٧٧٤٧) حضرت ابو لیلیٰ کندی کہتے ہیں کہ حضرت خباب ، حضرت عمر کے پاس تشریف لائے تو حضرت عمر نے فرمایا : قریب ہوجائیے کیونکہ میں اس نشست کا آپ سے زیادہ حق دار حضرت عمار کے سوا کسی کو نہیں پاتا ۔ راوی کہتے ہیں : پس حضرت خباب حضرت عمر کو مشرکین کی طرف سے دیئے گئے عذاب کے اپنی پشت پر اثرات دکھانے لگے۔

37747

(۳۷۷۴۸) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ أَبِی بُکَیْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا زَائِدَۃُ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ زِرٍّ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : أَوَّلُ مَنْ أَظْہَرَ إِسْلاَمَہُ سَبْعَۃٌ : رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَأَبُو بَکْرٍ ، وَعَمَّارٌ ، وَأُمُّہُ سُمَیَّۃُ ، وَصُہَیْبٌ ، وَبِلاَلٌ ، وَالْمِقْدَادُ ، فَأَمَّا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَمَنَعَہُ اللَّہُ بِعَمِّہِ أَبِی طَالِبٍ ، وَأَمَّا أَبُو بَکْرٍ فَمَنَعَہُ اللَّہُ بِقَوْمِہِ ، وَأَمَّا سَائِرُہُمْ فَأَخَذَہُمَ الْمُشْرِکُونَ فَأَلْبَسُوہُمْ أَدْرَاعَ الْحَدِیدِ وَصَہَرُوہُمْ فِی الشَّمْسِ ، فَمَا مِنْہُمْ أَحَدٌ إِلاَّ وَأَتَاہُمْ عَلَی مَا أَرَادُوا إِلاَّ بِلاَلاً ، فَإِنَّہُ ہَانَتْ عَلَیْہِ نَفْسُہُ فِی اللہِ ، وَہَانَ عَلَی قَوْمِہِ ، فَأَعْطُوہُ الْوِلْدَانَ فَجَعَلُوا یَطُوفُونَ بِہِ فِی شِعَابِ مَکَّۃَ ،وَہُوَ یَقُولُ : أَحَدٌ أَحَدٌ۔
(٣٧٧٤٨) حضرت عبداللہ سے روایت ہے کہ سب سے پہلے جنہوں نے اپنے اسلام کو ظاہر کیا وہ سات افراد تھے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، حضرت ابوبکر ، حضرت عمار ، ان کی والدہ حضرت سُمیّہ ، حضرت بلال ، حضرت صہیب حضرت مقداد ، پس رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اللہ تعالیٰ نے ان کے چچا ابو طالب کے ذریعہ (مشرکین سے) بچایا اور حضرت ابوبکر کو اللہ تعالیٰ نے ان کی قوم کے ذریعہ سے (مشرکین سے) بچایا۔ اور جو باقی حضرات تھے انھیں مشرکین نے پکڑ لیا اور انھیں مشرکین نے لوہے کی قمیضیں پہنا دیں اور انھیں سورج میں جلنے کے لیے چھوڑ دیا۔ پھر ان میں سے سوائے حضرت بلال کے کوئی نہیں تھا مگر یہ کہ اس نے مشرکین کے ارادہ کی موافقت کرلی۔ حضرت بلال نے اپنی جان کو اللہ کے لیے بےوقعت سمجھ لیا۔ اور یہ اپنی قوم پر بھی بےوقعت تھے۔ پس مشرکین نے حضرت بلال کو بچوں کے سپرد کردیا اور انھوں نے آپ کو گھاٹیوں میں پھرانا شروع کیا اور حضرت بلال کہتے جا رہے تھے۔ احدٌ احدٌ۔

37748

(۳۷۷۴۹) حدَّثَنَا شَبَابَۃُ ، قَالَ : حَدَّثَنَا شُعْبَۃُ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ ، عَنْ أَبِی حَمْزَۃَ مَوْلَی الأَنْصَارِ ، عَنْ زَیْدِ بْنِ أَرْقَمَ ، قَالَ : أَوَّلُ مَنْ أَسْلَمَ مَعَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلِیٌّ۔
(٣٧٧٤٩) حضرت زید بن ارقم سے روایت ہے کہ سب سے پہلے جو شخص رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہمرا ہ اسلام لایا وہ حضرت علی تھے۔

37749

(۳۷۷۵۰) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ إِدْرِیسَ ، عَنْ أَبِی مَالِکٍ الأَشْجَعِیِّ ، عَنْ سَالِمٍ ، قَالَ : قُلْتُ لاِبْنِ الْحَنَفِیَّۃِ : أَبُو بَکْرٍ کَانَ أَوَّلَ الْقَوْمِ إِسْلاَمًا ؟ قَالَ : لاَ ، قُلْتُ : فِیمَ عَلاَ أَبُو بَکْرٍ وَسَبَقَ ، حَتَّی لاَ یُذْکَرَ أَحَدٌ غَیْرُ أَبِی بَکْرٍ ؟ قَالَ : کَانَ أَفْضَلَہُمْ إِسْلاَمًا حِینَ أَسْلَمَ حَتَّی لَحِقَ بِرَبِّہِ۔
(٣٧٧٥٠) حضرت سالم سے روایت ہے کہ میں نے ابن الحنفیہ سے پوچھا۔ لوگوں میں سے سب سے پہلے حضرت ابوبکر اسلام لائے تھے ؟ انھوں نے فرمایا : نہیں ! میں نے عرض کیا : پھر حضرت ابوبکر نے کس بنیاد پر عالی مرتبہ حاصل کیا۔ اور سبقت لے گئے یہاں تک کہ حضرت ابوبکر صدیق کے علاوہ کسی کا ذکر ہی نہیں ہوتا ؟ انھوں نے جواب دیا کہ حضرت ابوبکر صدیق جب اسلام لائے تو وہ لوگوں میں سے سب سے افضل اسلام لانے والے تھے تاآنکہ وہ اپنے پروردگار سے جا ملے۔

37750

(۳۷۷۵۱) حدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ حُبَابٍ ، عَنِ ابْنِ لَہِیعَۃَ ، قَالَ : أَخْبَرَنِی یَزِیدُ بْنُ عَمْرٍو الْمَعَافِرِیُّ ، قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا ثَوْرٍ الْفَہْمِیَّ ، یَقُولُ : قَدِمَ عَلَیْنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عُدَیْسٍ الْبَلَوِیُّ ، وَکَانَ مِمَّنْ بَایَعَ تَحْتَ الشَّجَرَۃِ ، فَصَعِدَ الْمِنْبَرَ ، فَحَمِدَ اللَّہَ وَأَثْنَی عَلَیْہِ ، ثُمَّ ذَکَرَ عُثْمَانَ ، فَقَالَ أَبُو ثَوْرٍ : فَدَخَلْتُ عَلَی عُثْمَانَ وَہُوَ مَحْصُورٌ ، فَقَالَ : إِنِّی لَرَابِعُ الإِسْلاَمِ۔
(٣٧٧٥١) حضرت یزید بن عمرو معافری کہتے ہیں کہ میں نے ابو ثور فہمی کو کہتے سُنا ۔ ہمارے پاس حضرت عبد الرحمن بن عدیس بلوی۔ یہ ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی درخت کے نیچے بیعت کی تھی۔ تشریف لائے ۔ منبر پر چڑھے اور اللہ تعالیٰ کی حمدو ثنا بیان کی پھر حضرت عثمان کا ذکر فرمایا : حضرت ابو ثور فرماتے ہیں کہ میں حضرت عثمان کے پاس حاضر ہوا جبکہ وہ محصور تھے۔ تو انھوں نے فرمایا : میں چوتھا اسلام قبول کرنے والا ہوں۔

37751

(۳۷۷۵۲) حدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ ، قَالَ : أَسْلَمَ الزُّبَیْرُ وَہُوَ ابْنُ سِتَّ عَشَرَۃَ سَنَۃً ، وَلَمْ یَتَخَلَّفْ عَنْ غُزَاۃٍ غَزَاہَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔
(٣٧٧٥٢) حضرت ہشام بن عروہ سے روایت ہے کہ حضرت زبیر اسلام لائے جبکہ ان کی عمر سولہ سال کی تھی اور وہ کسی ایسے غزوہ سے پیچھے نہیں رہے جس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جہاد فرمایا ہے۔

37752

(۳۷۷۵۳) حدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، قَالَ : حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ الْمُغِیرَۃِ ، قَالَ : حَدَّثَنَا حُمَیْدُ بْنُ ہِلاَلٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ الصَّامِتِ ، عَنْ أَبِی ذَرٍّ ، قَالَ : خَرَجْنَا مِنْ قَوْمِنَا غِفَارٍ أَنَا وَأَخِی أُنَیْسٌ وَأُمُّنَا ، وَکَانُوا یُحِلُّونَ الشَّہْرَ الْحَرَامَ ، فَانْطَلَقْنَا حَتَّی نَزَلْنَا عَلَی خَالٍ لَنَا ، ذِی مَالٍ وَذِی ہَیْئَۃٍ طَیِّبَۃٍ ، قَالَ : فَأَکْرَمَنَا خَالُنَا وَأَحْسَنَ إِلَیْنَا ، فَحَسَدَنَا قَوْمُہُ ، فَقَالُوا : إِنَّک إِذَا خَرَجْتَ مِنْ أَہْلِکَ خَالَفَ إِلَیْہِمْ أُنَیْسٌ ، قَالَ : فَجَائَ خَالُنَا فَنَثَی عَلَیْنَا مَا قِیلَ لَہُ ، قَالَ : قُلْتُ : أَمَّا مَا مَضَی مِنْ مَعْرُوفِکَ فَقَدْ کَدَّرْتَہُ ، وَلاَ جِمَاعَ لَک فِیمَا بَعْدُ ، قَالَ : فَقَرَّبْنَا صِرْمَتَنَا فَاحْتَمَلْنَا عَلَیْہَا ، قَالَ : وَغَطَّی رَأْسَہُ فَجَعَلَ یَبْکِی۔ قَالَ : فَانْطَلَقْنَا حَتَّی نَزَلْنَا بِحَضْرَۃِ مَکَّۃَ ، قَالَ : فَنَافَرَ أُنَیْسٌ عَنْ صِرْمَتِنَا وَعَنْ مِثْلِہَا ، قَالَ : فَأَتَیَا الْکَاہِنَ فَخَیَّرَ أُنَیْسًا ، قَالَ : فَأَتَانَا أُنَیْسٌ بِصِرْمَتِنَا وَمِثْلِہَا مَعَہَا ، قَالَ : وَقَدْ صَلَّیْتُ یَا ابْنَ أَخِی قَبْلَ أَنْ أَلْقَی رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِثَلاَثِ سِنِینَ ، قَالَ : قُلْتُ : لِمَنْ ؟ قَالَ : لِلَّہِ ، قَالَ : قُلْتُ : فَأَیْنَ کُنْتَ تُوَجِّہُ ؟ قَالَ: حَیْثُ وَجَّہَنِی اللَّہُ أُصَلِّی عِشَائً ، حَتَّی إِذَا کَانَ آخِرَ اللَّیْلِ أُلْقِیتُ کَأَنِّی خِفَائٌ حَتَّی تَعْلُونِی الشَّمْسُ۔ قَالَ : قَالَ أُنَیْسٌ : لِی حَاجَۃٌ بِمَکَّۃَ فَاکْفِنِی حَتَّی آتِیَکَ ، قَالَ : فَانْطَلَقَ فَرَاثَ عَلَیَّ ، ثُمَّ أَتَانِی ، فَقُلْتُ : مَا حَبَسَک ؟ قَالَ : لَقِیتُ رَجُلاً بِمَکَّۃَ عَلَی دِینِکَ ، یَزْعُمُ أَنَّ اللَّہَ أَرْسَلَہُ ، قَالَ : قُلْتُ : فَمَا یَقُولُ النَّاسُ لَہُ ؟ قَالَ : یَزْعُمُونَ أَنَّہُ سَاحِرٌ ، وَأَنَّہُ کَاہِنٌ ، وَأَنَّہُ شَاعِرٌ ، قَالَ أُنَیْسٌ : فَوَاللہِ لَقَدْ سَمِعْت قَوْلَ الْکَہَنَۃِ فَمَا ہُوَ بِقَوْلِہِمْ ، وَلَقَدْ وَضَعْتُ قَوْلَہُ عَلَی أَقْرَائِ الشِّعْرِ فَلاَ یَلْتَئِمُ عَلَی لِسَانِ أَحَدٍ أَنَّہُ شِعْرٌ ، وَاللہِ إِنَّہُ لَصَادِقٌ ، وَإِنَّہُمْ لَکَاذِبُونَ ، وَکَانَ أُنَیْسٌ شَاعِرًا۔ قَالَ : قُلْتُ : اکْفِنِی أَذْہَبُ فَأَنْظُرُ ، قَالَ : نَعَمْ ، وَکُنْ مِنْ أَہْلِ مَکَّۃَ عَلَی حَذَرٍ فَإِنَّہُمْ قَدْ شَنَّفُوا لَہُ ، وَتَجَہَّمُوا لَہُ ، قَالَ : فَانْطَلَقْتُ حَتَّی قَدِمْتَ مَکَّۃَ ، قَالَ : فَتَضَیَّفْتُ رَجُلاً مِنْہُمْ ، قَالَ : قُلْتُ : أَیْنَ ہَذَا الَّذِی تَدْعُونَہُ الصَّابِئَ ؟ قَالَ : فَأَشَارَ إِلَیَّ ، قَالَ : الصَّابِء ، قَالَ : فَمَالَ عَلَیَّ أَہْلُ الْوَادِی بِکُلِّ مَدَرَۃٍ وَعَظْمٍ ، حَتَّی خَرَرْتُ مَغْشِیًّا عَلَیَّ ، قَالَ : فَارْتَفَعْتُ حِینَ ارْتَفَعْتُ وَکَأَنِّی نُصُبٌ أَحْمَرُ ، قَالَ : فَأَتَیْتُ زَمْزَمَ فَغَسَلْتُ عَنِّی الدِّمَائَ وَشَرِبْتُ مِنْ مَائِہَا۔ قَالَ : فَبَیْنَمَا أَہْلُ مَکَّۃَ فِی لَیْلَۃٍ قَمْرَائَ ، إِضْحِیَانٍ إِذْ ضَرَبَ اللَّہُ عَلَی أَصْمِخَتِہِمْ ، قَالَ : فَمَا یَطُوفُ بِالْبَیْتِ أَحَدٌ مِنْہُمْ غَیْرَ امْرَأَتَیْنِ ، قَالَ : فَأَتَتَا عَلَیَّ وَہُمَا یَدْعُوَانِ إِسَافًا وَنَائِلَۃَ ، قُلْتُ : أَنْکِحَا أَحَدَہُمَا الأُخْرَی ، قَالَ : فَمَا ثَنَاہُمَا ذَلِکَ عَنْ قَوْلِہِمَا ، قَالَ : فَأَتَتَا عَلَیَّ ، فَقُلْتُ : ہَنٌ مِثْلُ الْخَشَبَۃِ غَیْرَ أَنِّی لَمْ أَکْنِ ، قَالَ : فَانْطَلَقَتَا تُوَلْوِلاَنِ ، وَتَقُولاَنِ : لَوْ کَانَ ہَاہُنَا أَحَدٌ مِنْ أَنْفَارِنَا۔ قَالَ : فَاسْتَقْبَلَہُمَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَأَبُو بَکْرٍ وَہُمَا ہَابِطَانِ مِنْ الْجَبَلِ ، قَالَ : مَا لَکُمَا ؟ قَالَتَا : الصَّابِئُ بَیْنَ الْکَعْبَۃِ وَأَسْتَارِہَا ، قَالاَ : مَا قَالَ لَکُمَا ؟ قَالَتَا : قَالَ لَنَا کَلِمَۃً تَمْلأُ الْفَمَ۔ قَالَ : وَجَائَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حَتَّی انْتَہَی إِلَی الْحَجَرِ فَاسْتَلَمَہُ ہُوَ وَصَاحِبُہُ ، قَالَ : وَطَافَ بِالْبَیْتِ ، ثُمَّ صَلَّی صَلاَتَہُ ، قَالَ : فَأَتَیْتُہُ حِینَ قَضَی صَلاَتَہُ ، قَالَ : فَکُنْتُ أَوَّلَ مَنْ حَیَّاہُ بِتَحِیَّۃِ الإِسْلاَمِ ، قَالَ : وَعَلَیْک وَرَحْمَۃُ اللہِ ، مِمَّنْ أَنْتَ ؟ قُلْتُ : مِنْ غِفَارٍ ، قَالَ : فَأَہْوَی بِیَدِہِ نَحْوَ رَأْسِہِ ، قَالَ : قُلْتُ فِی نَفْسِی کَرِہَ أَنِّی انْتَمَیْتُ إِلَی غِفَارٍ ، قَالَ : فَذَہَبْتُ آخُذُ بِیَدِہِ ، قَالَ : فَقَدَعَنِی صَاحِبُہُ ، وَکَانَ أَعْلَمَ بِہِ مِنِّی ، فَرَفَعَ رَأْسَہُ ، فَقَالَ : مَتَی کُنْتَ ہَہُنَا ؟ قَالَ : قُلْتُ : قَدْ کُنْت ہَہُنَا مُنْذُ عَشْرٍ مِنْ بَیْنِ یَوْمٍ وَلَیْلَۃٍ ، قَالَ : فَمَنْ کَانَ یُطْعِمُک ؟ قَالَ : قُلْتُ : مَا کَانَ لِی طَعَامٌ غَیْرُ مَائِ زَمْزَمَ ، فَسَمِنْتُ حَتَّی تَکَسَّرَتْ عُکَنُ بَطْنِی ، وَمَا وَجَدْتُ عَلَی کَبِدِی سُخْفَۃَ جُوعٍ ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إِنَّہَا مُبَارَکَۃٌ ، إِنَّہَا طَعَامُ طُعْمٍ ، قَالَ : فَقَالَ صَاحِبُہُ : ائْذَنْ لِی فِی إِطْعَامِہِ اللَّیْلَۃَ۔ فَانْطَلَقَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَأَبُو بَکْرٍ ، فَانْطَلَقْت مَعَہُمَا ، قَالَ : فَفَتَحَ أَبُو بَکْرٍ بَابًا ، فَقَبَضَ إِلَیَّ مِنْ زَبِیبِ الطَّائِفِ ، قَالَ : فَذَاکَ أَوَّلُ طَعَامٍ أَکَلْتُہُ بِہَا ، قَالَ : فَلَبِثْتُ مَا لَبِثْتُ ، أَوْ غَبَّرْتُ ، ثُمَّ لَقِیتُ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إِنِّی قَدْ وُجِّہْتُ إِلَی أَرْضٍ ذَاتِ نَخْلٍ ، وَلاَ أَحْسَبُہَا إِلاَّ یَثْرِبَ ، فَہَلْ أَنْتَ مُبَلِّغٌ عَنِّی قَوْمَک ، لَعَلَّ اللَّہَ أَنْ یَنْفَعَہُمْ بِکَ ، وَأَنْ یَأْجُرَک فِیہِمْ ؟ قُلْتُ : نَعَمْ۔ فَانْطَلَقْتُ حَتَّی أَتَیْتُ أُنَیْسًا ، فَقَالَ : مَا صَنَعْتَ ؟ قُلْتُ : صَنَعْتُ أَنِّی أَسْلَمْتُ وَصَدَّقْتُ ، قَالَ أُنَیْسٌ : وَمَا بِی رَغْبَۃٌ عَنْ دِینِکَ ، إِنِّی قَدْ أَسْلَمْتُ وَصَدَّقْتُ ، قَالَ : فَأَتَیْنَا أُمَّنَا ، فَقَالَتْ : مَا بِی رَغْبَۃٌ عَنْ دِینِکُمَا ، فَإِنِّی قَدْ أَسْلَمْتُ وَصَدَّقْتُ ، قَالَ : فَاحْتَمَلْنَا حَتَّی أَتَیْنَا قَوْمَنَا غِفَارًا ، قَالَ : فَأَسْلَمَ بَعْضُہُمْ قَبْلَ أَنْ یَقْدَمَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْمَدِینَۃَ ، قَالَ : وَکَانَ یَؤُمُّہُمْ إِیْمَائُ بْنُ رَحَضَۃَ ، وَکَانَ سَیِّدَہُمْ ، قَالَ : وَقَالَ بَقِیَّتُہُمْ إِذَا قَدِمَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَسْلَمْنَا ، قَالَ : فَقَدِمَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْمَدِینَۃَ ، فَأَسْلَمَ بَقِیَّتُہُمْ۔ قَالَ : وَجَائَتْ أَسْلَمُ ، فَقَالُوا : إِخْوَانُنَا نُسْلِمُ عَلَی الَّذِی أَسْلَمُوا عَلَیْہِ ، قَالَ : فَأَسْلَمُوا ، قَالَ : فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : غِفَارٌ غَفَرَ اللَّہُ لَہَا ، وَأَسْلَمُ سَالَمَہَا اللَّہُ۔ (مسلم ۱۹۱۹۔ احمد ۱۷۴)
(٣٧٧٥٣) حضرت ابو ذر بیان فرماتے ہیں کہ میں، میرا بھائی اُنیس اور میری والدہ ہم اپنی قوم غفار سے نکلے ۔ قوم والے حرمت والے مہینوں کو حلال سمجھتے تھے۔ پس ہم چل دیئے یہاں تک کہ ہم اپنے ایک مالدار اور اچھی حالت والے ماموں کے ہاں اترے۔ فرماتے ہیں : انھوں نے ہمارا اکرام کیا اور ہمارے ساتھ اچھا معاملہ کیا۔ ان کی قوم ہم سے حسد کرنے لگی اور انھوں نے کہا۔ اگر تم اپنے اہل خانہ سے نکلو تو انیس ان کے ساتھ تمہارے (معاملہ کے) برخلاف معاملہ کرے گا۔ ابو ذر کہتے ہیں۔ پس ہمارے ماموں ہمارے پاس آئے اور جو انھیں کہا گیا تھا انھوں نے وہ ہمیں بیان کردیا۔ ابو ذر کہتے ہیں : میں نے کہا : آپ نے پہلے جو اچھا کام کیا تھا (اکرام اور احسان) آپ نے (اب) اس کو مکدر کردیا ہے (ہم) آپ کے پاس اب کے بعد جمع نہیں ہوں گے۔ فرماتے ہیں کہ ہم اپنے اونٹوں کے قریب ہوئے اور ہم ان پر سوار ہوگئے۔ ابو ذر کہتے ہیں۔ انھوں نے (ماموں نے) اپنا سر ڈھانپ لیا اور رونا شروع کردیا۔
٢۔ ابو ذر کہتے ہیں : ہم چلتے رہے یہاں تک کہ ہم شہر مکہ میں آ کر اترے۔ ابو ذر کہتے ہیں۔ پس انیس نے اپنے اونٹوں کے گلہ اور ویسے ہی دوسرے اونٹوں کے گلہ کے درمیان مفاخرت کی۔ ابو ذر کہتے ہیں۔ پھر وہ دونوں (اُنیس اور دوسرے گلہ کا مالک) ایک کاہن کے پاس گئے تو اس نے انیس کو درست قرار دیا۔ فرماتے ہیں کہ پھر انیس ہمارے پاس اپنے اونٹوں کا گلہ اور اسی جیسا ایک اور گلہ لے کر آئے۔
٣۔ ابو ذر فرماتے ہیں : اے بھتیجے ! ت حقیقی میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ملاقات کرنے سے تین سال قبل نماز پڑھی ہے۔ راوی کہتے ہیں : میں نے عرض کیا۔ (آپ نے) کس کے لیے نماز پڑھی ؟ انھوں نے فرمایا : اللہ کے لئے۔ راوی کہتے ہیں : میں نے عرض کیا : آپ کس طرف رُخ کرتے تھے ؟ انھوں نے فرمایا : جس طرف اللہ تعالیٰ میرا رُخ فرما دیتے میں عشاء پڑھ لیتا۔ یہاں تک کہ جب رات کا آخری حصہ ہوتا تو میں یوں پایا جاتا جیسا کہ میں چادر ہوں یہاں تک کہ مجھ پر سورج بلند ہوتا۔
٤۔ ابو ذر فرماتے ہیں کہ (مجھے) اُنیس نے کہا : مجھے مکہ میں کام ہے پس تم میرے واپس آنے تک میری ذمہ داریاں نبھاؤ۔ فرماتے ہیں : پس وہ چلے گئے اور انھوں نے دیر کردی۔ میرے پاس آئے اور میں نے کہا : تمہیں کس چیز نے روکے رکھا ؟ انھوں نے کہا : میں نے مکہ میں ایک آدمی سے ملاقات کی ہے جو تیرے (والے) دین پر ہے اور اس کا خیال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو رسول بنایا ہے۔ ابو ذر کہتے ہیں۔ میں نے پوچھا : لوگ انھیں کیا کہتے ہیں ؟ اُنیس نے کہا : لوگوں کا گمان یہ ہے کہ وہ جادو گر ہے، وہ کاہن ہے، اور وہ شاعر ہے۔ اُنیس نے کہا : بخدا ! میں نے کاہنوں کا کلام سُنا (ہوا) ہے لیکن وہ (کلام) کاہنوں کا کلام نہیں ہے۔ اور میں نے ان کے کلام کو شعر کی انواع میں رکھ کر دیکھا ہے تو وہ کسی کی زبان سے (بھی) شعر کے طور پر اداء ہونا مشکل ہے۔ بخدا ! وہ آدمی سچا ہے اور لوگ جھوٹے ہیں۔ حضرت انیس شاعر (بھی) تھے۔
٥۔ ابو ذر کہتے ہیں : میں نے کہا : تم میری جگہ کفایت (ذمہ داری) کرو۔ میں جا کر دیکھتا ہوں۔ بھائی نے کہا : ٹھیک ہے۔ لیکن اہل مکہ سے بچ کر رہنا کیونکہ وہ اس آدمی کو ناپسند کرتے ہیں اور ان کے ساتھ بد کلامی سے پیش آتے ہیں ابو ذر فرماتے ہیں۔ میں چل دیا یہاں تک کہ میں مکہ میں پہنچا۔ فرماتے ہیں۔ میں ان میں سے ایک آدمی کے پاس مہمان بن گیا۔ فرماتے ہیں میں نے پوچھا : وہ شخص کہاں ہے جس کو تم صابی کہہ کر پکارتے ہو۔ ابو ذر فرماتے ہیں : اس نے (لوگوں کو) میری طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ (پکڑو اس) صابی کو۔ ابو ذر فرماتے ہیں کہ پس اہل وادی نے مجھ پر مٹی کے ڈھیلے اور لوہے وغیرہ ہر چیز کے ساتھ برس پڑے یہاں تک کہ میں بےہوش ہر کر گرپڑا۔ فرماتے ہیں : پس جب مجھ سے اٹھا گیا۔ میں اٹھا۔ تو (مجھے یوں لگا) گویا کہ میں سُرخ تصویر ہوں۔ ابو ذر فرماتے ہیں۔ پس میں زمزم کے پاس آیا اور میں نے خود سے خون کو دھویا اور مائِ زمزم کو پیا۔
٦۔ ابو ذر کہتے ہیں؛: پس ایک روشن و صاف چاندنی رات کو اللہ تعالیٰ نے اہل مکہ پر نیند طاری کردی۔ فرماتے ہیں : اہل مکّہ میں سے دو عورتوں کے سوا کوئی بیت اللہ کا طواف کرنے نہ آیا۔ ابو ذر کہتے ہیں : وہ دونوں عورتیں میرے پاس آئیں جبکہ وہ اساف اور نائلہ کو پکار رہی تھیں۔ میں نے کہا : ان دونوں میں سے ایک کا نکاح دوسرے سے کردو۔ فرماتے ہیں : یہ بات (بھی) انھیں ان کی گفتگو سے نہ روک سکی ۔ فرماتے ہیں : پھر دونوں میرے پاس آئیں تو میں نے کہا : لکڑی کی طرح ہیں۔ یہ بات میں نے صاف صاف کہہ دی۔ ابو ذر کہتے ہیں : پس وہ دونوں عورتیں چل پڑیں۔ چیخ و پکار کرتی ہوئی کہتی جا رہی تھیں۔ اگر یہاں پر ہماری قوم میں سے کوئی ہوتا تو ۔۔۔
٧۔ ابو ذر کہتے ہیں : ان عورتوں کو آگے سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور حضرت ابوبکر ملے جبکہ یہ عورتیں پہاڑ سے اتر رہی تھیں۔ انھوں نے پوچھا۔ تمہیں کیا ہوا ہے ؟ عورتوں نے جواب دیا۔ ایک صابی کعبہ کے پردوں میں موجود ہے۔ انھوں نے پوچھا : اس نے تمہیں کیا کہا ہے ؟ عورتوں نے جواب دیا : اس نے ایسی بات کہی ہے جس سے منہ بھر جاتا ہے۔
٨۔ ابو ذر کہتے ہیں : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے یہاں تک کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حجر اسود کے پاس پہنچے پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اور ابوبکر نے حجر اسود کا استلام کیا۔ ابو ذر کہتے ہیں : آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بیت اللہ کا طواف کیا پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نماز پڑھی۔ ابو ذر کہتے ہیں۔ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی نماز مکمل کرلی تو میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا۔ ابو ذر کہتے ہیں : میں پہلا شخص تھا جس نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اسلام کا سلام پیش کیا تھا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جواباً فرمایا : تم پر بھی سلام اور اللہ کی رحمت ہو۔ تم کس (قبیلہ) سے ہو ؟ میں نے عرض کیا : غفار سے۔ ابو ذر کہتے ہیں : آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنا دست مبارک سے اپنے سر کی طرف اشارہ کیا۔ فرماتے ہیں : میں نے دل میں کہا : آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے میری قبیلہ غفار کی نسبت کرنے کو ناپسند کیا ہے۔ کہتے ہیں : میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ہاتھ پکڑنے کے لیے بڑھا۔ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابی (ابو بکر ) نے مجھے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روک دیا۔ وہ مجھ سے زیادہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے واقف تھے۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنا سر مبارک اٹھایا اور کہا : تم یہاں پر کب سے ہو ؟ فرماتے ہیں : میں نے کہا۔ میرے یہاں قیام کی رات ، دن ملا کر دس کی گنتی پوری ہوچکی ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا : تمہیں کھانا کون کھلاتا تھا ؟ فرماتے ہیں : میں نے عرض کیا۔ زمزم کے پانی کے سوا میرے لیے کوئی کھانا نہیں م ہے۔ میں (اس کے استعمال سے) موٹا ہوگیا ہوں یہاں تک کہ میرے پیٹ کی سلوٹیں ٹوٹ گئی ہیں۔ اور مجھے بھوک کی وجہ سے اپنے کلیجہ میں کمزوری محسوس نہیں ہوتی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : یہ بابرکت پانی ہے یہ پانی خوراک والا کھانا ہے۔ ابو ذر کہتے ہیں۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھی نے کہا۔ آپ مجھے اس کی مہمان نوازی کی آج رات کے لیے اجازت عنایت فرما دیں۔
٩۔ پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ابوبکر چل پڑے اور میں بھی ان کے ہمراہ چل پڑا۔ ابو ذر کہتے ہیں۔ پھر ابوبکر نے ایک دوروازہ کھولا اور میرے لیے طائف کا کشمش پکڑا ۔ ابو ذر فرماتے ہیں۔ یہ میرا پہلا کھانا تھا جو میں نے مکہ میں کھایا۔ فرماتے ہیں : پھر میں ٹھہرا جتنا ٹھہرا۔ یا فرمایا : جتنا ٹھہرنا تھا۔ پھر میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ملاقات کی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : بلاشبہ تحقیق مجھے ایک کھجوروں والی زمین کی طرف متوجہ کیا ہے۔ اور میرے گمان کے مطابق وہ یثرب ہی ہے۔ پس کیا تم اپنی قوم کو میری طرف سے تبلیغ کرو گے ؟ ہوسکتا ہے اللہ تعالیٰ ا ن کو آپ کے ذریعہ سے نفع دیں اور آپ کا ان کو اجر دیں ؟ میں نے عرض کیا : جی ہاں !
١٠۔ پھر میں چل پڑا یہاں تک کہ میں (بھائی) اُنیس کے پاس پہنچا۔ انھوں نے پوچھا : تم نے کیا کیا ہے ؟ میں نے کہا۔ میں نے یہ کیا ہے کہ اسلام لے آیا ہوں اور تصدیق (رسالت) کی ہے۔ اُنیس نے کہا۔ مجھے تمہارے دین سے کوئی اعراض نہیں ہے۔ میں بھی اسلام لے آیا ہوں اور میں نے بھی تصدیق کردی ہے۔ ابو ذر کہتے ہیں۔ پس ہم اپنی والدہ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو والدہ نے (بھی) کہا۔ مجھے تم دونوں کے دین سے کوئی اعراض نہیں ہے۔ میں بھی اسلام لا چکی ہوں اور میں نے بھی تصدیق کردی ہے۔ ابو ذر فرماتے ہیں : پھر ہم لوگ سواریوں پر سوار ہوئے یہاں تک کہ ہم اپنی قوم غفار میں پہنچے۔ ابو ذر کہتے ہیں۔ بعض قوم غفار کے لوگ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مدینہ تشریف لانے سے پہلے اسلام لے آئے۔ ابو ذر کہتے ہیں۔ ان مسلمانوں کو أیماء بن رَخَصہ، جو کہ قوم کے سردار تھے۔ امامت کرواتے تھے۔ فرماتے ہیں : باقی لوگوں نے کہا : جب اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائیں گے تو ہم اسلام لے آئیں گے۔ ابو ذر کہتے ہیں : پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ منورہ تشریف لائے تو بقیہ لوگ بھی مسلمان ہوگئے۔
١١۔ ابو ذر کہتے ہیں : قبیلہ اسلم آیا تو انھوں نے کہا : (تم) ہمارے بھائی ہو۔ جو لوگ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اسلام لائے ہیں ہم ان پر سلامتی (کی دعا) کرتے ہیں۔ ابو ذر کہتے ہیں : پھر تمام لوگ مسلمان ہوگئے۔ ابو ذر کہتے ہیں : پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے تو فرمایا : (قبیلہ) غفار ؟ اللہ اس کی مغفرت کرے۔ اور (قبیلہ) اسلم ! اللہ اس کو سلامت رکھے۔

37753

(۳۷۷۵۴) حدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ یَعْلَی الأَسْلَمِیُّ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ الْمُؤَمَّلِ ، عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ ، عَنْ جَابِرٍ ، قَالَ : کَانَ أَوَّلُ إِسْلاَمِ عُمَرَ ، قَالَ : قَالَ عُمَرُ : ضَرَبَ أُخْتِی الْمَخَاضُ لَیْلاً ، فَأُخْرِجْتُ مِنَ الْبَیْتِ ، فَدَخَلْتُ فِی أَسْتَارِ الْکَعْبَۃِ فِی لَیْلَۃٍ قَارَّۃٍ ، قَالَ : فَجَائَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَدَخَلَ الْحِجْرَ وَعَلَیْہِ نَعْلاَہُ ، فَصَلَّی مَا شَائَ اللَّہُ ، ثُمَّ انْصَرَفَ ، قَالَ : فَسَمِعْتُ شَیْئًا لَمْ أَسْمَعْ مِثْلَہُ ، فَخَرَجْتُ فَاتَّبَعْتُہُ ، فَقَالَ : مَنْ ہَذَا ؟ فَقُلْتُ : عُمَرَ ، قَالَ : یَا عُمَرُ ، مَا تَتْرُکُنِی نَہَارًا ، وَلاَ لَیْلاً ، قَالَ : فَخَشِیتُ أَنْ یَدْعُوَ عَلَیَّ ، قَالَ : فَقُلْتُ : أَشْہَدُ أَنْ لاَ إِلَہَ إلاَّ اللَّہُ ، وَأَنَّک رَسُولُ اللہِ ، قَالَ : فَقَالَ : یَا عُمَرُ ، اُسْتُرْہُ ، قَالَ : فَقُلْتُ : وَالَّذِی بَعَثَک بِالْحَقِّ لأَعْلِنَنَّہُ کَمَا أَعْلَنْتُ الشِّرْکَ۔
(٣٧٧٥٤) حضرت جابر سے روایت ہے کہ حضرت عمر کے اسلام کا اوّل (زمانہ) تھا۔ فرماتے ہیں۔ حضرت عمر بیان کرتے ہیں۔ ایک رات میری بہن کو اونٹنی نے مارا تو مجھے گھر سے نکال دیا گیا۔ پس میں ایک ٹھنڈی رات کو کعبہ کے پردوں میں داخل ہوا۔ حضرت عمر کہتے ہیں۔ پس نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے اور آپ حجر اسود پر داخل ہوئے جبکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جوتے پہنے ہوئے تھے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نماز پڑھی جتنی دیر اللہ تعالیٰ نے چاہا پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) واپس مڑے۔ حضرت عمر کہتے ہیں۔ میں نے ایسی شئی سُنی جس کی مثل میں نے (پہلے) نہیں سُنی تھی۔ پس میں نکلا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیچھے ہو لیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا : یہ کون ہے ؟ میں نے عرض کیا۔ عمر ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے عمر ! تو مجھے دن کو چھوڑتا ہے اور نہ ہی رات کو ۔ حضرت عمر کہتے ہیں : مجھے اس بات کا خوف ہوا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرے لیے بد دعا کردیں گے۔ فرماتے ہیں : میں نے کہا : میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور بلاشبہ آپ اللہ کے رسول ہیں۔ فرماتے ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے عمر ! اس کو چھپاؤ۔ فرماتے ہیں : میں نے عرض کیا۔ قسم اس ذات کی ! جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے۔ البتہ میں ضرور بالضرور اس کا یوں ہی اعلان کروں گا جیسا کہ میں نے شرک کا اعلان کیا تھا۔

37754

(۳۷۷۵۵) حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ إِدْرِیسَ ، عَنْ حُصَیْنٍ ، عَنْ ہِلاَلِ بْنِ یَِسَاف ، قَالَ : أَسْلَمَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ بَعْدَ أَرْبَعِینَ رَجُلاً ، وَإِحْدَی عَشْرَۃَ امْرَأَۃً۔
(٣٧٧٥٥) حضرت ہلال بن یساف سے روایت ہے کہ حضرت عمر چالیس مردوں اور گیارہ عورتوں کے بعد اسلام لائے تھے۔

37755

(۳۷۷۵۶) حدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ أَبِی نَعَامَۃَ ، سَمِعَہُ مِنْ خَالِدِ بْنِ عُمَیْرٍ ، عَنْ عُتْبَۃَ بْنِ غَزْوَانَ ، قَالَ : لَقَدْ رَأَیْتُنِی مَعَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سَابِعَ سَبْعَۃٍ۔
(٣٧٧٥٦) حضرت عتبہ بن غزوان سے منقول ہے۔ فرماتے ہیں۔ تحقیق میں نے خود کو اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہمراہ سات کا ساتواں دیکھا ہے۔

37756

(۳۷۷۵۷) حدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِی عُبَیْدَۃَ ، قَالَ : حَدَّثَنِی أَبِی ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللہِ : لَقَدْ رَأَیْتُنِی سَادِسَ سِتَّۃٍ ، مَا عَلَی ظَہْرِ الأَرْضِ مُسْلِمٌ غَیْرُنَا۔
(٣٧٧٥٧) حضرت قاسم بن عبد الرحمن اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عبداللہ فرماتے ہیں تحقیق میں نے خود کو چھ میں چھٹا دیکھا ہے۔ زمین کی پشت پر ہمارے سوا کوئی مسلمان ظاہر نہیں ہوا تھا۔

37757

(۳۷۷۵۸) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُتْبَۃَ ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، قَالَ : کَانَ أَوَّلُ مَنْ أَفْشَی الْقُرْآنَ بِمَکَّۃَ مِنْ فِی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَبْدُ اللہِ بْنُ مَسْعُودٍ ، وَأَوَّلُ مَنْ بَنَی مَسْجِدًا یُصَلَّی فِیہِ عَمَّارُ بْنُ یَاسِرٍ ، وَأَوَّلُ مَنْ أَذَّنَ بِلاَلٌ ، وَأَوَّلُ مَنْ رَمَی بِسَہْمٍ فِی سَبِیلِ اللہِ سَعْدُ بْنُ مَالِکَ ، وَأَوَّلُ مَنْ قُتِلَ مِنَ الْمُسْلِمِینَ مِہْجَعٌ ، وَأَوَّلُ مَنْ عَدَا بِہِ فَرَسُہُ فِی سَبِیلِ اللہِ الْمِقْدَادُ ، وَأَوَّلُ حَیٍّ أَدَّی الصَّدَقَۃَ مِنْ قِبَلِ أَنْفُسِہِمْ بَنُو عُذْرَۃَ ، وَأَوَّلُ حَیٍّ أُلِّفُوا مَعَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ جُہَیْنَۃُ۔
(٣٧٧٥٨) حضرت قاسم بن عبد الرحمن سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے منہ مبارک سے سب سے پہلے جس نے مکہ میں قرآن پھیلایا وہ حضرت عبداللہ بن مسعود تھے۔ اور سب سے پہلے جس نے مسجد بنائی جس میں نماز پڑھی گئی وہ عمار بن یاسر تھے۔ اور سب سے پہلے جس نے اذان دی وہ حضرت بلال تھے۔ اور سب سے پہلے جس نے راہ خدا میں تیر پھینکا وہ سعد بن مالک تھے۔ اور سب سے پہلے مسلمانوں میں سے جس کو قتل کیا گیا وہ حضرت مہجع تھے۔ اور سب سے پہلے جس شخص نے راہ خدا میں اپنا گھوڑا دوڑایا ہے وہ حضرت مقداد تھے۔ اور سب سے پہلے جس قبیلہ نے اپنی جانوں کی طرف سے صدقہ دیا وہ بنو عذرہ تھا۔ اور سب سے پہلے جو قبیلہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ مؤلَّف (ساتھ ملا) ہوا وہ جہینہ تھا۔

37758

(۳۷۷۵۹) حدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِکِ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو فَزَارَۃَ، قَالَ: أَبْصَرَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ زَیْدَ بْنَ حَارِثَۃَ غُلاَمًا ذَا ذُؤَابَۃٍ، قَدْ أَوْقَفَہُ قَوْمُہُ بِالْبَطْحَائِ یَبِیعُونَہُ، فَأَتَی خَدِیجَۃَ، فَقَالَ: رَأَیْتُ غُلاَمًا بِالْبَطْحَائِ قَدْ أَوْقَفُوہُ لِیَبِیعُوہُ، وَلَوْ کَانَ لِی ثَمَنُہُ لاَشْتَرَیْتُہُ، قَالَتْ: وَکَمْ ثَمَنُہُ؟ قَالَ: سَبْعُ مِئَۃٍ، قَالَتْ: خُذْ سَبْعَ مِئَۃٍ، وَاذْہَبْ فَاشْتَرِہِ، فَاشْتَرَاہُ، فَجَائَ بِہِ إِلَیْہَا، قَالَ: أَمَا إِنَّہُ لَوْ کَانَ لِی لأَعْتَقْتُہُ، قَالَتْ: فَہُوَ لَک فَأَعْتَقَہُ۔ (ابن عساکر ۳۵۲)
(٣٧٧٥٩) حضرت ابو فزارہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت زید بن حارثہ کو زلفوں والے غلام کی حالت میں دیکھا جبکہ ان کو ان کی قوم نے بطحاء میں فروخت کرنے کے لیے کھڑا کیا ہوا تھا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت خدیجہ کے پاس تشریف لائے اور فرمایا : میں نے بطحاء میں ایک غلام کو دیکھا ہے جس کو لوگوں نے فروخت کرنے کے لیے کھڑا کیا ہے۔ اگر میرے پاس اس کی قیمت ہوتی تو میں اس کو خرید لیتا۔ حضرت خدیجہ نے عرض کیا۔ اس کی قیمت کیا ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : سات سو۔ حضرت خدیجہ نے کہا : سات سو لے لیں اور جائیں اس کو خرید لیں۔ پس آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو خرید لیا اور اس کو لے کر حضرت خدیجہ کے پاس تشریف لائے اور فرمایا۔ بات یہ ہے کہ اگر یہ میرا ہوتا تو میں اس کو آزاد کردیتا ۔ حضرت خدیجہ نے عرض کیا۔ یہ غلام آپ کا ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو آزاد کردیا۔

37759

(۳۷۷۶۰) حدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ بْنُ مُوسَی ، قَالَ : أَخْبَرَنَا إِسْرَائِیلُ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِی قُرَّۃَ الْکِنْدِیِّ ، عَنْ سَلْمَانَ ، قَالَ : کُنْتُ مِنْ أَبْنَائِ أَسَاوِرَۃِ فَارِسَ ، وَکُنْتُ فِی کُتَّابٍ وَمَعِی غُلاَمَانِ ، وَکَانَا إِذَا رَجَعَا مِنْ عِنْدِ مُعَلِّمِہِمَا أَتَیَا قَسًّا ، فَدَخَلاَ عَلَیْہِ ، فَدَخَلْتُ مَعَہُمَا ، فَقَالَ : أَلَمْ أَنْہَکُمَا أَنْ تَأْتِیَانِی بِأَحَدٍ ؟ قَالَ : فَجَعَلْتُ أَخْتَلِفُ إِلَیْہِ ، حَتَّی إِذَا کُنْتُ أَحَبَّ إِلَیْہِ مِنْہُمَا ، قَالَ : فَقَالَ لِی : إِذَا سَأَلَکَ أَہْلُکَ : مَنْ حَبَسَکَ ؟ فَقُلْ : مُعَلِّمِی ، وَإِذَا سَأَلَکَ مُعَلِّمُکَ : مَنْ حَبَسَکَ ؟ فَقُلْ : أَہْلِی۔ ثُمَّ إِنَّہُ أَرَادَ أَنْ یَتَحَوَّلَ ، فَقُلْتُ لَہُ : أَنَا أَتَحَوَّلُ مَعَکَ ، فَتَحَوَّلْتُ مَعَہُ ، فَنَزَلْنَا قَرْیَۃً ، فَکَانَتِ امْرَأَۃٌ تَأْتِیہِ ، فَلَمَّا حُضِرَ ، قَالَ لِی : یَا سَلْمَانُ : احْفُرْ عِنْدَ رَأْسِی ، فَحَفَرْتُ عِنْدَ رَأْسِہِ ، فَاسْتَخْرَجْتُ جَرَّۃً مِنْ دَرَاہِمَ ، فَقَالَ لِی : صُبَّہَا عَلَی صَدْرِی ، فَصَبَبْتُہَا عَلَی صَدْرِہِ ، فَکَانَ یَقُولُ : وَیْلٌ لاِقْتِنَائِی ، ثُمَّ إِنَّہُ مَاتَ ، فَہَمَمْتُ بِالدَّرَاہِمِ أَنْ آخُذَہَا ، ثُمَّ إِنِّی ذَکَرْتُ فَتَرَکْتُہَا ، ثُمَّ إِنِّی آذَنْتُ الْقِسِّیسِینَ وَالرُّہْبَانَ بِہِ فَحَضَرُوہُ ، فَقُلْتُ لَہُمْ : إِنَّہُ قَدْ تَرَکَ مَالاً ، قَالَ : فَقَامَ شَبَابٌ فِی الْقَرْیَۃِ ، فَقَالُوا : ہَذَا مَالُ أَبِینَا ، فَأَخَذُوہُ۔ قَالَ: فَقُلْتُ لِلرُّہْبَانِ : أَخْبِرُونِی بِرَجُلٍ عَالِمٍ أَتَّبِعْہُ ، قَالُوا: مَا نَعْلَمُ فِی الأَرْضِ رَجُلاً أَعْلَمَ مِنْ رَجُلٍ بِحِمْصَ، فَانْطَلَقْتُ إِلَیْہِ ، فَلَقِیتُہُ ، فَقَصَصْتُ عَلَیْہِ الْقِصَّۃَ ، قَالَ : فَقَالَ : أَوَ مَا جَائَ بِکَ إِلاَّ طَلَبُ الْعِلْمِ ؟ قُلْتُ : مَا جَائَ بِی إِلاَّ طَلَبُ الْعِلْمِ ، قَالَ : فَإِنِّی لاَ أَعْلَمُ الْیَوْمَ فِی الأَرْضِ أَعْلَمَ مِنْ رَجُلٍ یَأْتِی بَیْتَ الْمَقْدِسِ کُلَّ سَنَۃٍ ، إِنِ انْطَلَقْتَ الآنَ وَجَدْتَ حِمَارَہُ ، قَالَ : فَانْطَلَقْتُ فَإِذَا أَنَا بِحِمَارِہِ عَلَی بَابِ بَیْتِ الْمَقْدِسِ ، فَجَلَسْتُ عِنْدَہُ، وَانْطَلَقَ ، فَلَمْ أَرَہُ حَتَّی الْحَوْلِ ، فَجَائَ ، فَقُلْتُ لَہُ : یَا عَبْدَ اللہِ ، مَا صَنَعْتَ بِی ؟ قَالَ : وَإِنَّک لَہَاہُنَا ؟ قُلْتُ : نَعَمْ ، قَالَ : فَإِنِّی وَاللہِ مَا أَعْلَمُ الْیَوْمَ رَجُلاً أَعْلَمَ مِنْ رَجُلٍ خَرَجَ بِأَرْضِ تَیْمَائَ ، وَإِنْ تَنْطَلِقِ الآنَ تُوَافِقْہُ ، وَفِیہِ ثَلاَثُ آیَاتٍ : یَأْکُلُ الْہَدِیَّۃَ ، وَلاَ یَأْکُلُ الصَّدَقَۃَ ، وَعِنْدَ غُضْرُوفِ کَتِفِہِ الْیُمْنَی خَاتَِمُ النُّبُوَّۃِ ، مِثْلُ بَیْضَۃِ الْحَمَامَۃِ ، لَوْنُہَا لَوْنُ جِلْدِہِ۔ قَالَ : فَانْطَلَقْتُ ، تَرْفَعُنِی أَرْضٌ وَتَخْفِضُنِی أُخْرَی ، حَتَّی مَرَرْتُ بِقَوْمٍ مِنَ الأَعْرَابِ ، فَاسْتَعْبَدُونِی فَبَاعُونِی ، حَتَّی اشْتَرَتْنِی امْرَأَۃٌ بِالْمَدِینَۃِ ، فَسَمِعْتُہُمْ یَذْکُرُونَ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَکَانَ الْعَیْشُ عَزِیزًا ، فَقُلْتُ لَہَا : ہَبِی لِی یَوْمًا ، قَالَتْ : نَعَمْ ، فَانْطَلَقْتُ ، فَاحْتَطَبْتُ حَطَبًا فَبِعْتُہُ ، وَصَنَعْتُ طَعَامًا ، فَأَتَیْتُ بِہِ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَکَانَ یَسِیرًا ، فَوَضَعْتُہُ بَیْنَ یَدَیْہِ ، فَقَالَ : مَا ہَذَا ؟ قُلْتُ : صَدَقَۃٌ ، قَالَ : فَقَالَ لأَصْحَابِہِ : کُلُوا ، وَلَمْ یَأْکُلْ ، قَالَ : قُلْتُ : ہَذَا مِنْ عَلاَمَتِہِ۔ ثُمَّ مَکَثْتُ مَا شَائَ اللَّہُ أَنْ أَمْکُثَ ، ثُمَّ قُلْتُ لِمَوْلاَتِی : ہَبِی لِی یَوْمًا ، قَالَتْ : نَعَمْ ، فَانْطَلَقْتُ فَاحْتَطَبْتُ حَطَبًا فَبِعْتُہُ بِأَکْثَرَ مِنْ ذَلِکَ ، وَصَنَعْتُ بِہِ طَعَامًا ، فَأَتَیْتُ بِہِ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَہُوَ جَالِسٌ بَیْنَ أَصْحَابِہِ، فَوَضَعْتُہُ بَیْنَ یَدَیْہِ، قَالَ: مَا ہَذَا؟ قُلْتُ: ہَدِیَّۃٌ، فَوَضَعَ یَدَہُ، وَقَالَ لأَصْحَابِہِ: خُذُوا بِاسْمِ اللہِ، وَقُمْتُ خَلْفَہُ ، فَوَضَعَ رِدَائَہُ ، فَإِذَا خَاتَِمُ النُّبُوَّۃِ ، فَقُلْتُ : أَشْہَدُ أَنَّک رَسُولُ اللہِ ، قَالَ : وَمَا ذَاکَ ؟ فَحَدَّثْتُہُ عَنِ الرَّجُلِ ، ثُمَّ قُلْتُ : أَیَدْخُلُ الْجَنَّۃَ یَا رَسُولَ اللہِ ؟ فَإِنَّہُ حَدَّثَنِی أَنَّک نَبِیٌّ ، قَالَ : لَنْ یَدْخُلَ الْجَنَّۃَ إِلاَّ نَفْسٌ مُسْلِمَۃٌ۔
(٣٧٧٦٠) حضرت سلمان بیان کرتے ہیں کہ میں فارس کے گھڑ سواروں کی اولاد میں سے تھا۔ اور میں ایک مکتب میں تھا اور میرے ساتھ دو لڑکے (اور) تھے۔ جب یہ دونوں لڑکے اپنے مُعلِّم (استاد) کے پاس سے واپس آئے تو ایک پادری کے پاس آئے اور اس پر داخل ہوئے۔ پس میں بھی ان کے ہمراہ اس پادری پر داخل ہوا۔ پادری نے کہا۔ کیا میں نے تم دونوں (لڑکوں) کو اس بات سے منع نہیں کیا تھا کہ تم میرے پاس کسی کو لے کر آؤ ؟ حضرت سلمان فرماتے ہیں : میں نے اس پادری کے پاس آنا جانا شروع کیا۔ یہاں تک کہ میں اس کو ان دونوں لڑکوں سے زیادہ محبوب ہوگیا۔ حضرت سلمان کہتے ہیں۔ پادری نے مجھے کہا : جب تجھ سے تیرے گھر والے سوال کریں کہ تمہیں کس نے روکے رکھا ؟ تو تم کہنا۔ میرے استاد نے۔ اور جب تم سے تمہارا استاد پوچھے۔ تمہیں کس نے روکے رکھا ؟ تو تم کہنا : میرے گھر والوں نے ۔
٢۔ پھر اس پادری نے (وہاں سے) منتقل ہونے کا ارادہ کیا۔ تو میں نے اس پادری سے کہا۔ میں (بھی) آپ کے ساتھ نقل مکانی کروں گا۔ پس میں نے اس کے ہمراہ نقل مکانی کی اور ہم ایک بستی میں اترے۔ پس ایک عورت (وہاں پر) اس کے پاس آتی تھی۔ پھر جب اس پادری کی مرگ کا وقت قریب ہوا تو اس پادری نے مجھے کہا۔ اے سلمان ! میرے سر کے پاس گڑھا کھودو۔ میں نے اس کے پاس گڑھا کھودا تو درہموں کا ایک گھڑا نکلا۔ پادری نے مجھ سے کہا۔ اس گھڑے کو میرے سینہ پر انڈیل دو ۔ میں نے وہ گھڑا اس کے سینہ پر انڈیل دیا۔ پھر پادری کہنے لگا۔ ہلاکت ہو میری ذخیرہ اندوزی کی۔ پھر وہ پادری مرگیا۔ میں نے دراہم کو لینے کا ارادہ کیا۔ پھر مجھے اس کی بات یاد آئی تو میں نے دراہم کو چھوڑ دیا۔ پھر میں نے پادریوں اور عبادت گزاروں کو اس میت کی خبر دی تو وہ اس کے پاس حاضر ہوئے ۔ میں نے ان حاضرین سے کہا۔ یہ اس میت نے کچھ مال چھوڑا ہے۔ حضرت سلمان کہتے ہیں : بستی میں سے کچھ نوجوان کھڑے ہوگئے اور انھوں نے کہا : یہ تو ہمارے باپ کا مال ہے۔ پس انھوں نے وہ مال لے لیا۔
٣۔ حضرت سلمان کہتے ہیں میں نے عبادت گزاروں سے کہا۔ مجھے کسی صاحب علم آدمی کا بتاؤ تاکہ میں اس کے پیچھے چلوں۔ انھوں نے جواب دیا۔ ہمیں روئے زمین پر حمص کے آدمی سے بڑا صاحب علم معلوم نہیں ہے۔ سو میں اس کی طرف چل دیا اور میں نے اس سے ملاقات کی۔ اور اس کو یہ سارا قصہ سُنایا۔ حضرت سلمان کہتے ہیں۔ اس نے کہا۔ کیا تمہیں صرف علم کی طلب (یہاں) لائی ہے ؟ میں نے جواباً کہا۔ مجھے صرف علم کی طلب ہی (یہاں) لائی ہے۔ اس نے کہا : میں تو آج روئے زمین پر اس ایک آدمی سے بڑا کسی کو عالم نہیں جانتا جو آدمی ہر سال بیت المقدس میں آتا ہے۔ اگر تم ابھی چل پڑو گے تو اس کے گدھے کو موجود پاؤ گے۔ حضرت سلمان کہتے ہیں۔ میں چل پڑا تو اچانک میں نے بیت المقدس کے دروازہ پر اس کے گدھے کو موجود پایا۔ پس میں اس کے پاس بیٹھ گیا اور وہ آدمی چل دیا۔ میں نے اس آدمی کو پورا سال نہیں دیکھا۔ پھر وہ آدمی آیا تو میں نے اس سے کہا : اے بندۂِ خدا ! تو نے میرے ساتھ کیا کیا ہے ؟ اس نے پوچھا : اور (کیا) تم یہیں پر (رہے) ہو ؟ میں نے جواب دیا : ہاں ! اس نے کہا : مجھے تو، بخدا ! اس آدمی سے بڑے عالم کا پتہ نہیں ہے جو کہ ارض تیماء میں ظاہر ہوا ہے۔ اگر تم ابھی چل پڑو گے تو تم اس کو پالو گے اور اس میں تین نشانیاں ہوں گی۔ وہ شخص ہدیہ کھائے گا۔ اور صدقہ نہیں کھائے گا۔ اور اس کے داہنے کندھے کی نرم ہڈی کے پاس مہر نبوت ہوگی۔ جو کہ کبوتری کے انڈے کے مشابہ ہوگی اور اس کا رنگ کھال والا ہوگا۔
٤۔ حضرت سلمان کہتے ہیں : پس میں چلا درآنحالیکہ مجھے زمین کی پستی اور بلندی متاثر کرتی رہی۔ یہاں تک میں دیہاتی لوگوں کے پاس سے گزرا تو انھوں نے مجھے غلام بنا لیا پھر انھوں نے مجھے بیچ دیا۔ یہاں تک کہ مجھے مدینہ میں ایک عورت نے خرید لیا۔ میں نے لوگوں کو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ذکر کرتے ہوئے سُنا۔ زندگی بہت سخت گزر رہی تھی۔ میں نے اس عورت سے کہا : تم مجھے ایک دن ہدیہ کردو۔ اس نے کہا۔ ٹھیک ہے۔ میں چلا گیا اور لکڑیاں چُنی۔ اور ان کو فروخت کیا ۔ اور کھانا تیار کیا۔ پھر اس کھانے کو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں لے کر حاضر ہوا۔ وہ کھانا تھوڑا سا تھا۔ میں نے وہ کھانا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے رکھ دیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا : یہ کیا ہے ؟ میں نے عرض کیا۔ صدقہ ہے : کہتے ہیں : آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے صحابہ سے فرمایا : کھاؤ۔ اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خود تناول نہیں فرمایا : فرماتے ہیں۔ میں نے کہا : یہ اس شخص کی علامات میں سے ہے۔
٥۔ پھر جتنی دیر اللہ نے چاہا ٹھہرا رہا پھر میں نے اپنی مالکن سے کہا۔ تم مجھے ایک دن ہدیہ کردو۔ اس نے کہا۔ ٹھیک ہے۔ میں چل پڑا اور لکڑیاں اکٹھی کیں اور انھیں پہلے سے زیادہ قیمت پر فروخت کیا اور اس رقم کا کھانا تیار کیا۔ کھانا لے کر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے صحابہ کے درمیان تشریف فرما تھے۔ میں نے وہ کھانا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے رکھ دیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا۔ یہ کیا ہے ؟ میں نے عرض کیا۔ ہدیہ ہے۔ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنا دست مبارک میں داخل کیا اور اپنے صحابہ کرام سے فرمایا۔ اللہ کا نام لے کر شروع کردو۔
٦۔ اور میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیچھے والی جانب کھڑا ہوا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی چادر مبارک ہٹائی تو اچانک مجھے مہر نبوت دکھائی دی ۔ میں نے کہا۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا۔ یہ کیا معاملہ ہے ؟ میں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس آدمی کے بارے میں بیان کیا پھر میں نے پوچھا۔ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! کیا وہ شخص جنت میں جائے گا ؟ کیونکہ اس نے مجھے یہ بیان کیا تھا کہ آپ نبی ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جواباً ارشاد فرمایا۔ جنت میں صرف مؤمن جان ہی داخل ہوگی۔

37760

(۳۷۷۶۱) حدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا جَرِیرُ بْنُ حَازِمٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِیرِینَ ، عَنْ أَبِی عُبَیْدَۃَ بْنِ حُذَیْفَۃَ ؛ أَنَّ رَجُلاً ، قَالَ : قُلْتُ : أَسْأَلُ عَنْ حَدِیثٍ عَنْ عَدِیِّ بْنِ حَاتِمٍ وَأَنَا فِی نَاحِیَۃِ الْکُوفَۃِ ، فَأَکُونُ أَنَا الَّذِی أَسْمَعُہُ مِنْہُ ، فَأَتَیْتُہُ ، فَقُلْتُ : أَتَعْرِفُنِی ؟ قَالَ : نَعَمْ ، أَنْتَ فُلاَنُ بْنُ فُلاَنٍ ، وَسَمَّاہُ بِاسْمِہِ ، قُلْتُ : حَدَّثَنِی ، قَالَ : بُعِثَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَکَرِہْتُہُ أَشَدَّ مَا کَرِہْتُ شَیْئًا قَطُّ ، فَانْطَلَقْتُ حَتَّی أَنْزِلَ أَقْصَی أَہْلِ الْعَرَبِ مِمَّا یَلِی الرُّومَ ، فَکَرِہْتُ مَکَانِی أَشَدَّ مِمَّا کَرِہْتُ مَکَانِی الأَوَّلَ ، فَقُلْتُ : لآَتِیَنَّ ہَذَا الرَّجُلَ ، فَإِنْ کَانَ کَاذِبًا لاَ یَضُرُّنِی ، وَإِنْ کَانَ صَادِقًا لاَ یَخْفَی عَلَیَّ۔ فَقَدِمْتُ الْمَدِینَۃَ ، فَاسْتَشْرَفَنِی النَّاسُ ، وَقَالُوا : جَائَ عَدِیُّ بْنُ حَاتِمٍ ، فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : یَا عَدِیُّ بْنُ حَاتِمٍ ، أَسْلِمْ تَسْلَمْ ، قُلْتُ : إِنِّی مِنْ أَہْلِ دِینٍ ، قَالَ : أَنَا أَعْلَمُ بِدِینِکَ مِنْک ، قَالَ : قُلْتُ : أَنْتَ أَعْلَمُ بِدِینِی مِنِّی ؟ قَالَ : نَعَمْ ، أَنَا أَعْلَمُ بِدِینِکَ مِنْک ، قُلْتُ : أَنْتَ أَعْلَمُ بِدِینِی مِنِّی ؟ قَالَ : نَعَمْ ، قَالَ : أَلَسْتَ رَکُوسِیًّا ؟ قُلْتُ : بَلَی ، قَالَ : أَوَلَسْتَ تَرْأَسُ قَوْمَک ؟ قُلْتُ : بَلَی ، قَالَ : أَوَلَسْتَ تَأْخُذُ الْمِرْبَاعَ ؟ قُلْتُ : بَلَی ، قَالَ : ذَلِکَ لاَ یَحِلُّ لَک فِی دِینِکَ ، قَالَ : فَتَوَاضَعْتُ مِنْ نَفْسِی۔ قَالَ : یَا عَدِیَّ بْنَ حَاتِمٍ ، أَسْلِمْ تَسْلَمْ ، فَإِنِّی مَا أَظُنُّ ، أَوْ أَحْسَبُ أَنَّہُ یَمْنَعُک مِنْ أَنْ تُسْلِمَ إِلاَّ خَصَاصَۃُ مَنْ تَرَی حوْلِی ، وَأَنَّک تَرَی النَّاسَ عَلَیْنَا إِلْبًا وَاحِدًا ، وَیَدًا وَاحِدَۃً ، فَہَلْ أَتَیْتَ الْحِیرَۃَ ؟ قُلْتُ : لاَ ، وَقَدْ عَلِمْتُ مَکَانَہَا ، قَالَ : یُوشِکُ الظَّعِینَۃُ أَنْ تَرْتَحِلَ مِنَ الْحِیرَۃِ حَتَّی تَطُوفَ بِالْبَیْتِ بِغَیْرِ جِوَارٍ ، وَلَتُفْتَحَنَّ عَلَیْکُمْ کُنُوزُ کِسْرَی بْنِ ہُرْمُزَ ، قَالَہَا ثَلاَثًا ، یُوشِکُ أَنْ یَہُمَّ الرَّجُلُ مَنْ یَقْبَلُ صَدَقَتَہُ۔ فَلَقَدْ رَأَیْتُ الظَّعِینَۃَ تَخْرُجُ مِنَ الْحِیرَۃِ حَتَّی تَطُوفَ بِالْبَیْتِ بِغَیْرِ جِوَارٍ ، وَلَقَدْ کُنْتُ فِی أَوَّلِ خَیْلٍ أَغَارَتْ عَلَی الْمَدَائِنِ، وَلَتَحِینُ الثَّالِثَۃُ، إِنَّہُ لَقَوْلُ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَہُ لِی۔ (احمد ۲۵۷۔ ابن حبان ۶۶۷۹)
(٣٧٧٦١) حضرت ابو عبیدہ بن حذیفہ روایت کرتے ہیں کہ ایک آدمی کہتا ہے۔ میں نے کہا میں عدی بن حاتم کی خبر کے بارے میں پوچھتا ہوں اور میں کوفہ کی ایک بستی میں تھا تاکہ میں اس بات کو خود ان سے سننے والا ہو جاؤں۔ پس میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا اور میں نے عرض کاس۔ کیا آپ مجھے پہچانتے ہیں ؟ انھوں نے جواب میں کہا : ہاں ! تم فلاں بن فلاں ہو۔ اور نام لے کر بتایا۔ میں نے کہا : آپ مجھے بات بیان کریں۔ انھوں نے فرمایا : نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مبعوث کیا گیا تو مجھے یہ بات اس قدر ناپسند گزری کہ جتنا میں نے کسی چیز کو (کبھی) ناپسند کیا تھا۔ پس میں چل دیا۔ یہاں تک کہ میں اہل عرب کے آخری حصہ پر، جو روم سے ملحق ہے، جا کر اترا۔ پھر مجھے اپنی وہ جگہ پہلی جگہ سے بھی زیادہ ناپسند ہوگئی۔ تو میں نے کہا : میں ضرور بالضرور اس آدمی کے پاس جاؤں گا۔ پس اگر وہ جھوٹا ہے تو وہ مجھے نقصان نہیں پہنچا پائے گا۔ اور اگر وہ سچا ہے تو پھر مجھ پر واضح ہوجائے گا۔
٢۔ پس میں مدینہ میں حاضر ہوا۔ لوگوں نے میری طرف اہتمام سے دیکھا اور کہنے لگے۔ عدی بن حاتم آگیا ہے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے عدی ! اسلام لے آؤ ، سلامتی پا جاؤ گے۔ میں نے عرض کیا۔ میں بھی ایک دین والا ہوں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میں تیرے دین کا تجھ سے زیادہ عالم ہوں۔ فرماتے ہیں : میں نے کہا : آپ میرے دین کے مجھ سے (بھی) زیادہ جاننے والے ہیں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ہاں ! میں تیرے دین کا تجھ سے زیادہ جاننے والا ہوں۔ میں نے (دوبارہ) عرض کیا۔ آپ میرے دین کے مجھ سے بھی زیادہ جاننے والے ہیں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ہاں ! (پھر) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کیا تم رکوسی (عیسائیت اور صائبیت کے مابین مذہب) نہیں ہو ؟ میں نے کہا : کیوں نہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کیا تم اپنی قوم کے سردار نہیں ہو ؟ میں نے کہا۔ کیوں نہیں ۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کیا تم ایک ربع نہیں وصول کرتے ؟ میں نے کہا : کیوں نہیں ! آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : یہ تمہارے دین میں تمہارے لیے حلال نہیں ہے۔ عدی کہتے ہیں : میں اندر ہی اندر خود کو گھٹیا سمجھتا رہا۔
٣۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے عدی بن حاتم ! اسلام لے آؤ سلامتی پا جاؤ گے۔ میرا خیال یا میرا گمان یہی ہے کہ تمہیں اسلام لانے سے صرف یہ بات مانع ہے کہ تم میرے ارد گرد فقراء کو دیکھ رہے ہو۔ اور تم ہمارے خلاف لوگوں کو متحد اور متفق پاتے ہو۔ کیا تم حیرہ میں گئے ہو ؟ میں نے عرض کیا : نہیں ! لیکن مجھے اس کی جگہ معلوم ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : قریب ہے وہ وقت کہ ایک مسار عورت حیرہ سے بغیر کسی ہمسفر کے روانہ ہو کر بیت اللہ کا طواف کرے گی۔ اور البتہ ضرور بالضرور تم پر کسریٰ بن ہرمز کے خزانے کھول دیئے جائیں گے۔ یہ بات آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تین مرتبہ دہرائی۔ قریب ہے وہ وقت کہ آدمی ایسے شخص کو ڈھونڈے گا جو اس کی زکوۃ قبول کرلے گا۔
٤۔ پس تحقیق میں (عدی) نے مسافر عورت کو دیکھا کہ وہ ہمسفر کے بغیر حیرہ سے نکل کر بیت اللہ کا طواف کرنے کو آئی۔ اور تحقیق میں مدائن پر لشکر کشی کرنے والے گھڑ سواروں میں تھا۔ اور البتہ تیری بات کا وقت (بھی) آجائے گا۔ کیونکہ یہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بات ہے جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے ارشاد فرمائی تھی۔

37761

(۳۷۷۶۲) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا یُونُسُ بْنُ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنِ الْمُغِیرَۃِ بْنِ شُبَیْلِ بْنِ عَوْفٍ ، عَنْ جَرِیرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : لَمَّا أَنْ دَنَوْتُ مِنَ الْمَدِینَۃِ ، أَنَخْتُ رَاحِلَتِی ، ثُمَّ حَلَلْتُ عَیْبَتِی ، وَلَبِسْتُ حُلَّتِی ، فَدَخَلْتُ وَرَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَخْطُبُ ، فَسَلَّمْتُ عَلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَرَمَانِی النَّاسُ بِالْحَدَقِ ، قَالَ : فَقُلْتُ لِجَلِیسٍ لِی : یَا عَبْدَ اللہِ ، ہَلْ ذَکَرَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ أَمْرِی شَیْئًا ؟ قَالَ : نَعَمْ ، ذَکَرَک بِأَحْسَنِ الذِّکْرِ ، قَالَ : بَیْنَمَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَخْطُبُ إِذْ عَرَضَ لَہُ فِی خُطْبَتِہِ ، فَقَالَ : إِنَّہُ سَیَدْخُلُ عَلَیْکُمْ مِنْ ہَذَا الْفَجِّ ، أَوْ مِنْ ہَذَا الْبَابِ مِنْ خَیْرِ ذِی یَمَنٍ ، أَلاَ وَإِنَّ عَلَی وَجْہِہِ مَسَحَۃُ مَلَکٍ ، قَالَ جَرِیرٌ : فَحَمِدْتُ اللَّہَ عَلَی مَا أَبْلاَنِی۔
(٣٧٧٦٢) حضرت جریربن عبداللہ سے روایت ہے : فرماتے ہیں : جب میں مدینہ کے قریب آیا تو میں نے اپنی اونٹنی کو بٹھایا پھر میں نے اپنا معمولی لباس اتارا اور اپنی عمدہ پوشاک پہنی اور میں اندر آیا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خطبہ ارشاد فرما رہے تھے۔ میں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سلام کیا۔ تو لوگوں نے مجھے گھورنا شروع کردیا۔ فرماتے ہیں : میں نے اپنے ساتھی سے پوچھا : اے اللہ کے بندے ! کیا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے میرے معاملہ میں کسی بات کا ذکر فرمایا ہے ؟ انھوں نے کہا : ہاں ! آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تمہارا بہت اچھا ذکر کیا ہے۔ فرمایا : آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خطبہ ارشاد فرما رہے تھے کہ اس دوران ارشاد فرمایا : بلاشبہ عنقریب تم پر اس طرف سے ، یا فرمایا : اس دروازہ سے یمن والوں میں بہترین شخص داخل ہوگا۔ خبردار ! اس کے چہرے پر شاہی اثرات ہوں گے۔ حضرت جریر فرماتے ہیں۔ پس میں نے اللہ کی تعریف کی اس بات پر جس کے ساتھ اللہ نے آزمایا۔

37762

(۳۷۷۶۳) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، قَالَ : حَدَّثَنَا ہِشَامُ بْنُ عُرْوَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، وَفَاطِمَۃُ ، عَنْ أَسْمَائَ ، قَالَتْ : صَنَعْتُ سُفْرَۃَ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی بَیْتِ أَبِی بَکْرٍ ، حِیْنَ أَرَادَ أَنْ یُہَاجِرَ إِلَی الْمَدِینَۃِ ، قَالَتْ : فَلَمْ نَجِدْ لِسُفْرَتِہِ ، وَلاَ لِسِقَائِہِ مَا نَرْبِطُہُمَا بِہِ ، فَقُلْتُ لأَبِی بَکْرٍ: وَاللہِ مَا أَجِدُ شَیْئًا أَرْبِطُ بِہِ إِلاَّ نِطَاقِی ، قَالَتْ: فَقَالَ: شُقِّیہِ بِاثْنَیْنِ ، فَارْبِطِی بِوَاحِدٍ السِّقَائَ ، وَبِالآخَرِ السُّفْرَۃَ ، فَلِذَلِکَ سُمِّیتُ ذَاتَ النِّطَاقَیْنِ۔ (بخاری ۵۳۸۸۔ احمد ۳۴۶)
(٣٧٧٦٣) حضرت اسمائ بیان فرماتی ہیں۔ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مدینہ کی طرف ہجرت کرنے کا ارادہ فرمایا تو میں نے ابوبکر کے گھر میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے توشہ دان تیار کیا۔ بیان کرتی ہیں کہ ہمیں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے توشہ دان اور پانی کی مشک کے لیے کوئی چیز نہیں ملی جس سے ہم ان دونوں کو باندھتے۔ میں نے ابوبکر سے کہا : بخدا ! مجھے باندھنے کے لیے کوئی چیز (رسی وغیرہ) نہیں ملتی سوائے اپنے پٹکے کے۔ فرماتی ہیں : سیدنا صدیق اکبر نے فرمایا : اسی (پٹکے) کو دو حصوں میں پھاڑ لو۔ اور ایک کے ذریعہ سے پانی کی مشک کو باندھ دو اور دوسرے سے توشہ دان کو۔ اسی وجہ سے حضرت اسمائ کا نام ذات النطاقین معروف ہوگیا۔

37763

(۳۷۷۶۴) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، عَنْ عُمَیْرِ بْنِ إِسْحَاقَ ، قَالَ : لَمَّا خَرَجَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَأَبُو بَکْرٍ ، یَعْنِی إِلَی الْمَدِینَۃِ ، تَبِعَہُمَا سُرَاقَۃُ بْنُ مَالِکٍ ، فَلَمَّا أَتَاہُمَا ، قَالَ : ہَذَانِ فَرَّ قُرَیْشٍ ، لَوْ رَدَدْتُ عَلَی قُرَیْشٍ فَرَّہَا ، قَالَ : فَعَطَفَتْ فَرَسُہُ عَلَیْہِمَا ، فَسَاخَتِ الْفَرَسُ ، فَقَالَ : اُدْعُوا اللَّہَ أَنْ یُخْرِجَہَا ، وَلاَ أَقْرَبَکُمَا ، قَالَ : فَخَرَجَتْ ، فَعَادَ حَتَّی فَعَلَ ذَلِکَ مَرَّتَیْنِ ، أَوْ ثَلاَثًا ، قَالَ : فَکَفَّ ، ثُمَّ قَالَ : ہَلُمَّا إِلَی الزَّادِ وَالْحُمْلاَنِ ، فَقَالاَ : لاَ نُرِیدُ ، وَلاَ حَاجَۃَ لَنَا فِی ذَلِکَ۔
(٣٧٧٦٤) حضرت عمر بن اسحاق روایت کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور حضرت ابوبکر مدینہ کی طرف نکلے تو سراقہ بن مالک بھی ان کے پیچھے ہو لیا ۔ پس جب ان کے پاس آیا تو کہنے لگا۔ یہی دو شخص قریش کو مطلوب ہیں۔ کاش میں قریش کو ان کے مطلوبہ افراد واپس لوٹا دوں۔ راوی کہتے ہیں : اس نے اپنا گھوڑا ان دو حضرات کی طرف دوڑایا تو گھوڑا زمین میں دھنس گیا۔ سراقہ نے کہا۔ آپ دونوں اللہ سے دعا کریں کہ وہ گھوڑے کو باہر نکال دے۔ میں آپ لوگوں کے قریب نہیں آؤں گا۔ راوی کہتے ہیں : پس گھوڑا باہر نکل گیا۔ تو سراقہ نے پھر پہلے والی حرکت کی ۔ حتی کہ یہ دو یا تین مرتبہ ہوا۔ راوی کہتے ہیں۔ پھر سراقہ رُک گیا۔ پھر کہنے لگا۔ آپ آئیں۔ یہ توشہ اور سواری لے لیں۔ انھوں نے جواب دیا۔ ہمارا ارادہ نہیں ہے اور ہمیں اس کی ضرورت بھی نہیں ہے۔

37764

(۳۷۷۶۵) حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ بْنُ مُوسَی ، قَالَ : أَخْبَرَنَا إِسْرَائِیلُ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنِ الْبَرَائِ بْنِ عَازِبٍ ، قَالَ : اشْتَرَی أَبُو بَکْرٍ مِنْ عَازِبٍ رَحْلاً بِثَلاَثَۃَ عَشَرَ دِرْہَمًا ، فَقَالَ أَبُو بَکْرٍ لِعَازِبٍ : مُرِ الْبَرَائَ فَلْیَحْمِلْہُ إِلَی رَحْلِی ، فَقَالَ لَہُ عَازِبٌ : لاَ ، حَتَّی تُحَدِّثَنَا کَیْفَ صَنَعْتَ أَنْتَ وَرَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حَیْثُ خَرَجْتُمَا وَالْمُشْرِکُونَ یَطْلُبُونَکُمَا۔ قَالَ : رَحَلْنَا مِنْ مَکَّۃَ ، فَأَحْیَیْنَا لَیْلَتَنَا وَیَوْمَنَا حَتَّی أَظْہَرْنَا ، وَقَامَ قَائِمُ ألظَّہِیرَۃِ ، فَرَمَیْتُ بِبَصَرِی ہَلْ أَرَی مِنْ ظِلٍّ نَأْوِی إِلَیْہِ ، فَإِذَا أَنَا بِصَخْرَۃٍ ، فَانْتَہَیْنَا إِلَیْہَا ، فَإِذَا بَقِیَّۃُ ظِلٍّ لَہَا ، فَنَظَرْتُ بِقُبَّۃِ ظِلٍّ لَہَا فَسَوَّیْتُہُ ، ثُمَّ فَرَشْتُ لِرَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیہِ فَرْوَۃً ، ثُمَّ قُلْتُ : اضْطَجِعْ یَا رَسُولَ اللہِ ، فَاضْطَجَعَ ، ثُمَّ ذَہَبْتُ أَنْفُضُ مَا حَوْلِی ہَلْ أَرَی مِنَ الطَّلَبِ أَحَدًا ، فَإِذَا أَنَا بِرَاعِی غَنَمٍ یَسُوقُ غَنَمَہُ إِلَی الصَّخْرَۃِ ، یُرِیدُ مِنْہَا الَّذِی أُرِیدُ ، فَسَأَلْتُہُ فَقُلْتُ : لِمَنْ أَنْتَ یَا غُلاَمُ ؟ فَقَالَ : لِرَجُلٍ مِنْ قُرَیْشٍ ، قَالَ : فَسَمَّاہُ ، فَعَرَفْتُہُ۔ فَقُلْتُ : ہَلْ فِی غَنَمِکَ مِنْ لَبَنٍ ؟ قَالَ : نَعَمْ ، قُلْتُ : ہَلْ أَنْتَ حَالِبٌ لِی ؟ قَالَ : نَعَمْ ، قَالَ : فَأَمَرْتُہُ فَاعْتَقَلَ شَاۃً مِنْ غَنَمِہِ ، فَأَمَرْتُہُ أَنْ یَنْفُضَ ضَرْعَہَا مِنَ الْغُبَارِ ، ثُمَّ أَمَرْتُہُ أَنْ یَنْفُضَ کَفَّیْہِ ، فَقَالَ : ہَکَذَا ، فَضَرَبَ إِحْدَی یَدَیْہِ بِالأُخْرَی ، فَحَلَبَ کُثْبَۃً مِنْ لَبَنٍ ، وَمَعِیَ لِرَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِدَاوَۃٌ عَلَی فَمِہَا خِرْقَۃٌ ، فَصَبَبْتُ عَلَی اللَّبَنِ حَتَّی بَرَدَ أَسْفَلُہُ، فَأَتَیْتُ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَوَافَقْتُہُ قَدَ اسْتَیْقَظَ، فَقُلْتُ : اشْرَبْ یَا رَسُولَ اللہِ ، فَشَرِبَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حَتَّی رَضِیتُ۔ ثُمَّ قُلْتُ : أَنَی الرَّحِیلُ ، یَا رَسُولَ اللہِ ، فَارْتَحَلْنَا وَالْقَوْمُ یَطْلُبُونَنَا ، فَلَمْ یُدْرِکْنَا أَحَدٌ مِنْہُمْ غَیْرَ سُرَاقَۃَ بْنِ مَالِکٍ بْنِ جَعْشَمٍ ، عَلَی فَرَسٍ لَہُ ، فَقُلْتُ : ہَذَا الطَّلَبُ قَدْ لَحِقَنَا یَا رَسُولَ اللہِ وَبَکَیْتُ ، فَقَالَ : مَا یُبْکِیک ؟ فَقُلْتُ : أَمَا وَاللہِ ، مَا عَلَی نَفْسِی أَبْکِی ، وَلَکِنِّی أَبْکِی عَلَیْک ، قَالَ : فَدَعَا عَلَیْہِ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : اللَّہُمَّ اکْفِنَاہُ بِمَا شِئْتَ ، قَالَ : فَسَاخَتْ بِہِ فَرَسُہُ فِی الأَرْضِ إِلَی بَطْنِہَا ، فَوَثَبَ عَنْہَا ، ثُمَّ قَالَ : یَا مُحَمَّدُ ، قَدْ عَلِمْتُ أَنَّ ہَذَا عَمَلُکَ ، فَادْعُ اللَّہَ أَنْ یُنْجِیَنِی مِمَّا أَنَا فِیہِ ، فَوَاللہِ لأَعْمِیَنَّ عَلَی مَنْ وَرَائِی مِنَ الطَّلَبِ ، وَہَذِہِ کِنَانَتِی ، فَخُذْ سَہْمًا مِنْہُمَا ، فَإِنَّک سَتَمُرُّ عَلَی إِبِلِی وَغَنَمِی بِمَکَانِ کَذَا وَکَذَا ، فَخُذْ مِنْہَا حَاجَتَکَ ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لاَ حَاجَۃَ لَنَا فِی إِبِلِکَ ، وَانْصَرَفَ عَنْ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَدَعَا لَہُ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَانْطَلَقَ رَاجِعًا إِلَی أَصْحَابِہِ وَمَضَی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَأَنَا مَعَہُ حَتَّی قَدِمْنَا الْمَدِینَۃَ لَیْلاً ، فَتَنَازَعَہُ الْقَوْمُ ، أَیُّہُمْ یَنْزِلُ عَلَیْہِ ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إِنِّی أَنْزِلُ اللَّیْلَۃَ عَلَی بَنِی النَّجَّارِ ، أَخْوَالِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ ، أُکْرِمُہُمْ بِذَلِکَ ، فَخَرَجَ النَّاسُ حَتَّی دَخَلَ الْمَدِینَۃَ ، وَفِی الطَّرِیقِ وَعَلَی الْبُیُوتِ الْغِلْمَانُ وَالْخَدَمُ : جَائَ مُحَمَّدٌ ، جَائَ رَسُولُ اللہِ ، فَلَمَّا أَصْبَحَ انْطَلَقَ فَنَزَلَ حَیْثُ أُمِرَ۔ قَالَ : وَکَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَدْ صَلَّی نَحْوَ بَیْتِ الْمَقْدِسِ سِتَّۃَ عَشَرَ شَہْرًا ، أَوْ سَبْعَۃَ عَشَرَ شَہْرًا ، وَکَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُحِبُّ أَنْ یُوَجَّہَ نَحْوَ الْکَعْبَۃِ ، فَأَنْزَلَ اللَّہُ : (قَدْ نَرَی تَقَلُّبَ وَجْہِکَ فِی السَّمَائِ ، فَلَنُوَلِّیَنَّکَ قِبْلَۃً تَرْضَاہَا ، فَوَلِّ وَجْہَکَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ) قَالَ : فَوُجِّہَ نَحْوَ الْکَعْبَۃِ ، وَقَالَ السُّفَہَائُ مِنَ النَّاسِ : (مَا وَلاَہُمْ عَنْ قِبْلَتِہِمَ الَّتِی کَانُوا عَلَیْہَا ، قُلْ لِلَّہِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ ، یَہْدِی مَنْ یَشَائُ إلَی صِرَاطٍ مُسْتَقِیمٍ) قَالَ : وَصَلَّی مَعَ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَجُلٌ ، ثُمَّ خَرَجَ بَعْدَ مَا صَلَّی ، فَمَرَّ عَلَی قَوْمٍ مِنَ الأَنْصَارِ وَہُمْ رُکُوعٌ فِی صَلاَۃِ الْعَصْرِ نَحْوَ بَیْتِ الْمَقْدِسِ ، فَقَالَ : ہُوَ یَشْہَدُ أَنَّہُ صَلَّی مَعَ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَأَنَّہُ قَدْ وُجِّہَ نَحْوَ الْکَعْبَۃِ ، قَالَ : فَانْحَرَفَ الْقَوْمُ حَتَّی وُجِّہُوا نَحْوَ الْکَعْبَۃِ۔ قَالَ الْبَرَائُ : وَکَانَ نَزَلَ عَلَیْنَا مِنَ الْمُہَاجِرِینَ مُصْعَبُ بْنُ عُمَیْرٍ ، أَخُو بَنِی عَبْدِ الدَّارِ بْنِ قُصَی ، فَقُلْنَا لَہُ : مَا فَعَلَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ؟ فَقَالَ : ہُوَ مَکَانُہُ وَأَصْحَابُہُ عَلَی أَثَرِی ، ثُمَّ أَتَانَا بَعْدُ عَمْرٌو بْنِ أُمِّ مَکْتُومٍ ، أَخُو بَنِی فِہْرٍ الأَعْمَی ، فَقُلْنَا لَہُ: مَا فَعَلَ مَنْ وَرَائِکَ؛ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابُہُ؟ فَقَالَ : ہُمْ عَلَی أَثَرِی ، ٍثُمَّ أَتَانَا بَعْدَہُ عَمَّارُ بْنُ یَاسِرٍ ، وَسَعْدُ بْنُ أَبِی وَقَّاصٍ ، وَعَبْدُ اللہِ بْنُ مَسْعُودٍ ، وَبِلاَلٌ، ثُمَّ أَتَانَا عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ مِنْ بَعْدِہِمْ فِی عِشْرِینَ رَاکِبًا ، ثُمَّ أَتَانَا بَعْدَہُمْ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَأَبُو بَکْرٍ مَعَہُ ، فَلَمْ یَقْدَمْ عَلَیْنَا حَتَّی قَرَأْتُ سُوَرًا مِنْ سُوَرِ الْمُفَصَّلِ ، ثُمَّ خَرَجْنَا حَتَّی نَتَلَقَّی الْعِیرَ، فَوَجَدْنَاہُمْ قَدْ حُذِّرُوا۔ (بخاری ۲۴۳۹۔ مسلم ۲۳۱۰)
(٣٧٧٦٥) حضرت براء بن عازب سے روایت ہے کہ حضرت ابوبکر نے حضرت عازب سے ایک سامانِ سفر تیرہ درہموں میں خریدا۔ حضرت ابوبکر نے حضرت عازب سے کہا۔ آپ براء کو حکم دیں کہ وہ اس کو میرے کجاوہ تک اٹھا کرلے آئے۔ حضرت عازب نے حضرت صدیق اکبر سے کہا۔ نہیں ! یہاں تک کہ آپ ہمیں بتائیں کہ آپ نے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کیا کیا تھا۔ جب آپ لوگ نکلے تھے اور مشرکین تمہیں تلاش کر رہے تھے۔
٢۔ حضرت ابوبکر نے فرمایا : ہم نے مکہ سے کوچ کیا تو ہم ایک رات اور دن جاگ کر چلتے رہے یہاں تک کہ ہمیں دوپہر ہوگئی اور زوال کا وقت ہوگیا۔ میں نے نظر دوڑائی کہ کیا مجھے کوئی سایہ دکھائی دیتا ہے جس کی طرف ہم ٹھکانا پکڑیں تو اچانک مجھے ایک چٹان دکھائی دی پس ہم اس کی طرف پہنچے ۔ اس کا کچھ سایہ باقی تھا۔ میں نے اس کے بقیہ سایہ کو دیکھا اور اس (کی جگہ) کو درست کیا پھر میں نے اس سایہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے چمڑا بچھایا۔ پھر میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! لیٹ جائیے۔ پس آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لیٹ گئے۔ پھر میں نے اپنے ارد گرد میں دیکھ بھال شروع کردی کہ کیا مجھے کوئی متلاشی دکھائی دیتا ہے تو اچانک مجھے ایک چرواہا دکھائی دیا جو اپنی بکریوں کو اسی چٹان کی طرف ہانک رہا تھا۔ اس کا چٹان سے وہی مقصد تھا جو میرا مقصود تھا۔ میں نے اس سے پوچھا : میں نے کہا : اے لڑکے ! تم کس کے ہو ؟ اس نے جواب دیا۔ قریش کے ایک آدمی کا۔ ابوبکر فرماتے ہیں۔ اس غلام نے آدمی کا نام لیا تو میں اس کو پہچان گیا۔
٣۔ میں نے پوچھا : کیا تمہاری بکریوں میں دودھ ہے ؟ اس نے جواب دیا : ہاں ! میں نے کہا : کیا تم میرے لیے دودھ نکال دو گے ؟ اس نے کہا : ہاں ! حضرت ابوبکر کہتے ہیں : میں نے اس کو حکم دیا تو اس نے ایک بکری اپنی بکریوں میں سے قابو کرلی۔ پھر میں نے اس کو بکری کے تھنوں سے غبار جھاڑنے کا حکم دیا۔ پھر میں نے اس کو حکم دیا کہ وہ اپنی ہتھیلیوں کو جھاڑے ۔ اس نے کہا : یوں ؟ پھر اس نے اپنے ایک ہاتھ سے دوسرے کو مارا پھر اس نے تھوڑا سا دودھ دوہا۔ میرے پاس رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے پانی کا ایک برتن تھا جس کے منہ پر کپڑا بندھا ہوا تھا۔ میں نے دودھ پر بہا دیا یہاں تک کہ وہ نیچے سے ٹھنڈا ہوگیا۔ پھر میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا تو میں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس حال میں پایا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیدار ہوچکے تھے۔ میں نے عرض کیا۔ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! نوش فرمائیے۔ تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نوش فرمایا یہاں تک کہ میں خوش ہوگیا۔
٤۔ پھر میں نے عرض کیا۔ اے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خدا ! کوچ کرنے کا وقت آگیا ہے۔ پھر ہم نے کوچ کیا حالانکہ لوگ ہماری تلاش میں تھے۔ ان لوگوں میں سے سراقہ بن مالک بن جعشم کے سوا ہمیں کسی نے نہیں پایا۔ وہ اپنے گھوڑے پر سوار تھا۔ میں نے عرض کیا۔ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! یہ متلاشی ہم تک پہنچ گیا ہے۔ اور میں (یہ کہہ کر) رو پڑا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تمہیں کیا بات رلا رہی ہے ؟ میں نے عرض کیا۔ بخدا ! میں اپنی جان (کے خوف سے) نہیں رو رہا لیکن مجھے آپ (کی جان) پر رونا آ رہا ہے۔ ابوبکر فرماتے ہیں۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سراقہ کے لیے بد دعا فرمائی اور کہا۔ اے اللہ ! تو اس کو ہماری طرف سے جس طرح تو چاہے ۔ کافی ہوجا۔ حضرت ابوبکر فرماتے ہیں۔ پس سراقہ کا گھوڑا پیٹ تک زمین میں دھنس گیا ۔ سراقہ نے گھوڑے سے چھلانگ لگائی ۔ پھر اس نے کہا۔ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! مجھے معلوم ہے کہ یہ آپ ہی کا کام ہے۔ پس آپ اللہ سے دعا کریں کہ وہ مجھے اس مصیبت سے نجات دے دے۔ بخدا ! میں اپنے پچھلے متلاشیوں پر (اس بات کو) ضرور پوشیدہ رکھوں گا۔ اور یہ میرا ترکش ہے آپ اس میں سے تیر لے لیں۔ اور آپ عنقریب فلاں جگہ پر میرے اونٹ اور بکریوں پر سے گزریں گے آپ ان میں سے بھی اپنی ضرورت کا لے لیجئے گا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ہمیں تیرے اونٹوں کی ضرورت نہیں ۔ پھر وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے واپس مڑا۔ اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے لیے دعا فرمائی۔ سراقہ واپس اپنے ساتھیوں میں چلا گیا۔
٥۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چلتے رہے اور میں بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہمراہ تھا۔ یہاں تک کہ ہم رات کے وقت مدینہ میں پہنچے۔ لوگوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں جھگڑا شروع کیا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کس کے گھر میں اتریں گے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : آج کی رات میں بنی نجار میں اتروں گا جو کہ عبد المطلب کے ماموں ہیں۔ میں انھیں یہ اعزاز دوں گا۔ پھر لوگ چل نکلے یہاں تک کہ مدینہ میں داخل ہوگئے۔ راستہ میں گھروں پر بچے اور خدام کھڑے کہہ رہے تھے۔ محمد آگئے، اللہ کے رسول آگئے۔ پھر جب صبح ہوئی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چل پڑے تاآنکہ جہاں پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مامور تھے وہاں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پڑاؤ ڈالا۔
٦۔ حضرت ابوبکر فرماتے ہیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بیت المقدس کی طرف منہ کر کے سولہ یا سترہ مہینے نماز پڑھی تھی۔ اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ بات محبوب تھی کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قبلہ رُخ (کا حکم) کردیا جائے تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائی۔ { قَدْ نَرَی تَقَلُّبَ وَجْہِکَ فِی السَّمَائِ ، فَلَنُوَلِّیَنَّکَ قِبْلَۃً تَرْضَاہَا ، فَوَلِّ وَجْہَکَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ }
صدیق اکبر فرماتے ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قبلہ رُخ (کا حکم) کردیا گیا تو بیوقوف لوگوں نے اعتراض کیا۔ { مَا وَلاَّہُمْ عَنْ قِبْلَتِہِمُ الَّتِی کَانُوا عَلَیْہَا ، قُلْ لِلَّہِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ ، یَہْدِی مَنْ یَشَائُ إلَی صِرَاطٍ مُسْتَقِیمٍ }۔
٧۔ حضرت ابوبکر فرماتے ہیں۔ ایک آدمی نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہمراہ نماز پڑھی۔ پھر وہ نماز پڑھنے کے بعد باہر نکلا اور انصار کی ایک قوم پر گزرا جو کہ عصر کی نماز میں بیت المقدس کی طرف رُخ کیے ہوئے تھے۔ تو اس آدمی نے کہا کہ وہ گواہی دیتا ہے کہ اس نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہمراہ نماز ادا کی ہے اور بلاشبہ تحقیق آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قبلہ رُخ (کا حکم) کردیا گیا ہے۔ حضرت ابوبکر فرماتے ہیں۔ پس وہ تمام لوگ پھرگئے یہاں تک کہ وہ تمام قبلہ رُخ ہوگئے۔
٨۔ حضرت برائ فرماتے ہیں۔ ہمارے پاس مہاجرین میں سے بنی عبد الدار بن قصی کے بھائی حضرت مصعب بن عمیر تشریف لائے۔ ہم نے ان سے پوچھا۔ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کیا کیا ہے ؟ انھوں نے جواباً کہا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی جگہ پر ہی ہیں۔ اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ میرے پیچھے (آ رہے) ہیں۔ پھر ہمارے پاس ان کے بعد حضرت عمرو بن مکتوم تشریف لائے جو کہ بنی فہر کے بھائی تھے اور نابینا تھے۔ تو ہم نے ان سے پوچھا۔ آپ کے پیچھے جو، رسولِ خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے صحابہ ہیں انھوں نے کیا (ارادہ) کیا ہے ؟ انھوں نے جواب دیا۔ وہ لوگ میرے پیچھے ہیں۔ پھر ان کے بعد ہمارے پاس حضرت عمار بن یاسر اور سعد بن ابی وقاص ، عبداللہ بن مسعود اور بلال تشریف لائے پھر ان کے بعد حضرت عمر بن خطاب بیس سواروں کی معیت تشریف لائے پھر ان کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے ہاں تشریف لائے اور ان کے ساتھ حضرت ابوبکر تھے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے ہاں تشریف نہیں لائے تھے یہاں تک کہ میں نے مفصل سورتوں میں سے کچھ سورتیں پڑھ لیں۔ پھر ہم باہر نکلے تاآنکہ ہماری ملاقات قافلہ سے ہوئی تو ہم نے ان کو چوکنا اور چوکس پایا۔

37765

(۳۷۷۶۶) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا شُعْبَۃُ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، قَالَ : سَمِعْتُ الْبَرَائَ ، یَقُولُ : أَوَّلُ مَنْ قَدِمَ عَلَیْنَا مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مُصْعَبُ بْنُ عُمَیْرٍ ، وَابْنُ أُمِّ مَکْتُومٍ ، فَجَعَلاَ یُقْرِئَانِ النَّاسَ الْقُرْآنَ ، ثُمَّ جَائَ عَمَّارٌ ، وَبِلاَلٌ ، وَسَعْدٌ ، ثُمَّ جَائَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ فِی عِشْرِینَ رَاکِبًا ، ثُمَّ جَائَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : فَمَا رَأَیْتُ أَہْلَ الْمَدِینَۃِ فَرِحُوا بِشَیْئٍ قَطُّ فَرَحَہُمْ بِہِ ، قَالَ : فَمَا قَدِمَ أَحَدٌ حَتَّی قَرَأْتُ : {سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الأَعْلَی} فِی سُوَرٍ مِنَ الْمُفَصَّلِ۔
(٣٧٧٦٦) حضرت ابو اسحاق فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت برائ کو کہتے سُنا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ کرام میں سے سب سے پہلے ہمارے پاس مصعب بن عمیر اور ابن ام مکتوم تشریف لائے اور ان دونوں نے لوگوں کو قرآن پڑھانا شروع کیا۔ پھر حضرت عمار ، بلال اور سعد تشریف لائے پھر حضرت عمر بن خطاب بیس سواروں کی جمعیت میں تشریف لائے۔ پھر رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے۔ راوی کہتے ہیں۔ میں نے اہل مدینہ کو اس بات سے زیادہ کسی چیز پر فرحاں و شاداں نہیں دیکھا۔ برائ کہتے ہیں۔ (ابھی) کوئی ایک بھی صحابی نہیں آیا تھا اور میں نے { سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الأَعْلَی } مفصل سورتوں میں پڑھ لی تھی۔

37766

(۳۷۷۶۷) حَدَّثَنَا أَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ زَیْدٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، أَنَّ سُرَاقَۃَ بْنِ مَالِکٍ الْمُدْلِجِیِّ ، حَدَّثَہُمْ؛ أَنَّ قُرَیْشًا جَعَلَتْ فِی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَأَبِی بَکْرٍ أَرْبَعِینَ أُوقِیَّۃً، قَالَ : فَبَیْنَمَا أَنَا جَالِسٌ إِذْ جَائَنِی رَجُلٌ ، فَقَالَ : إِنَّ الرَّجُلَیْنِ الَّذَیْنِ جَعَلَتْ قُرَیْشٌ فِیہِمَا مَا جَعَلَتْ قَرِیبٌ مِنْکَ ، بِمَکَانِ کَذَا وَکَذَا ، قَالَ : فَأَتَیْتُ فَرَسِی ، وَہُوَ فِی الرَّعْیِّ ، فَنَفَرْتُ بِہِ ، ثُمَّ أَخَذْتُ رُمْحِی ، قَالَ : فَرَکِبْتُہُ ، قَالَ : فَجَعَلْتُ أَجُرُّ الرُّمْحَ مَخَافَۃَ أَنْ یُشْرِکَنِی فِیہِمَا أَہْلُ الْمَائِ ، قَالَ : فَلَمَّا رَأَیْتُہُمَا ، قَالَ أَبُو بَکْرٍ: ہَذَا بَاغٍ یَبْغِینَا ، فَالْتَفَتَ إِلَیَّ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : اللَّہُمَّ اکْفِنَاہُ بِمَا شِئْتَ ، قَالَ : فَوَحِلَ فَرَسِی ، وَإِنِّی لَفِی جَلَدٍ مِنَ الأَرْضِ ، فَوَقَعْتُ عَلَی حَجَرٍ ، فَانْقَلَبْتُ ، فَقُلْتُ : ادْعُ الَّذِی فَعَلَ بِفَرَسِی مَا أَرَی أَنْ یُخَلِّصَہَا ، وَعَاہَدَہُ أَنْ لاَ یَعْصِیَہُ ، قَالَ : فَدَعَا لَہُ ، فَخَلَّصَ الْفَرَسَ ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : أَوَاہِبُہُ أَنْتَ لِی ؟ فَقُلْتُ : نَعَمْ ، فَقَالَ : فَہَاہُنَا ، قَالَ : فَعَمِّ عَنَّا النَّاسَ۔ وَأَخَذَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ طَرِیقَ السَّاحِلِ مِمَّا یَلِی الْبَحْرَ ، قَالَ : فَکُنْتُ أَوَّلَ النَّہَارِ لَہُمْ طَالِبًا، وَآخِرَ النَّہَارِ لَہُمْ مَسْلَحَۃً ، وَقَالَ لِی : إِذَا اسْتَقْرَرْنَا بِالْمَدِینَۃِ ، فَإِنْ رَأَیْتَ أَنْ تَأْتِیَنَا فَأْتِنَا ، قَالَ : فَلَمَّا قَدِمَ الْمَدِینَۃَ ، وَظَہَرَ عَلَی أَہْلِ بَدْرٍ وَأُحُدٍ ، وَأَسْلَمَ النَّاسُ وَمَنْ حَوْلَہُمْ ، قَالَ سُرَاقَۃُ : بَلَغَنِی أَنَّہُ یُرِیدُ أَنْ یَبْعَثَ خَالِدَ بْنَ الوَلِیدِ إِلَی بَنِی مُدْلِجٍ ، قَالَ : فَأَتَیْتُہُ ، فَقُلْتُ لَہُ : أَنْشُدُکَ النِّعْمَۃَ ، فَقَالَ الْقَوْمُ : مَہْ ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : دَعُوہُ ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَا تُرِیدُ ؟ فَقُلْتُ : بَلَغَنِی أَنَّکَ تُرِیدُ أَنْ تَبْعَثَ خَالِدَ بْنَ الوَلِیدِ إِلَی قَوْمِی ، فَأَنَا أُحِبُّ أَنْ تُوَادِعَہُمْ ، فَإِنْ أَسْلَمَ قَوْمُہُمْ أَسْلَمُوا مَعَہُمْ ، وَإِنْ لَمْ یُسْلِمُوا لَمْ تَخْشُنْ صُدُورُ قَوْمِہِمْ عَلَیْہِمْ ، فَأَخَذَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِیَدِ خَالِدِ بْنِ الوَلِیدِ ، فَقَالَ لَہُ : اذْہَبْ مَعَہُ ، فَاصْنَعْ مَا أَرَادَ۔ فَذَہَبَ إِلَی بَنِی مُدْلِجٍ ، فَأَخَذُوا عَلَیْہِمْ أَنْ لاَ یُعِینُوا عَلَی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَإِنْ أَسْلَمَتْ قُرَیْشٌ أَسْلَمُوا مَعَہُمْ ، فَأَنْزَلَ اللَّہُ : {وَدُّوا لَوْ تَکْفُرُونَ کَمَا کَفَرُوا} حَتَّی بَلَغَ : {إِلاَّ الَّذِینَ یَصِلُونَ إِلَی قَوْمٍ بَیْنَکُمْ وَبَیْنَہُمْ مِیثَاقٌ ، أَوْ جَاؤُوکُمْ حَصِرَتْ صُدُورُہُمْ أَنْ یُقَاتِلُوکُمْ ، أَوْ یُقَاتِلُوا قَوْمَہُمْ ، وَلَوْ شَائَ اللَّہُ لَسَلَّطَہُمْ عَلَیْکُمْ فَلَقَاتَلُوکُمْ}۔ قَالَ الْحَسَنُ : فَاَلَّذِینَ حَصِرَتْ صُدُورُہُمْ بَنُو مُدْلِجٍ ، فَمَنْ وَصَلَ إِلَی بَنِی مُدْلِجٍ مِنْ غَیْرِہِمْ کَانَ فِی مِثْلِ عَہْدِہِمْ۔ (بخاری ۳۹۰۶۔ احمد ۱۷۵)
(٣٧٧٦٧) حضرت حسن سے روایت ہے کہ سراقہ بن مالک المدلجی نے لوگوں کو بیان کیا کہ قریش نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور حضرت ابوبکر کے متعلق چالیس اوقیہ مقرر فرمائی ۔ کہتے ہیں۔ میں بیٹھا ہوا تھا کہ اس دوران ایک آدمی میرے پاس آیا اور اس نے کہا۔ وہ آدمی جن کے بارے میں قریش نے اپنا اعلانِ (انعام) کیا ہے۔ تمہارے قریب ہیں۔ فلاں جگہ پر، کہتے ہیں۔ میں اپنے گھوڑے کے پاس آیا اور گھوڑا چَر رہا تھا۔ میں اس کو لے کر دوڑا پھر میں نے اپنے نیزے کو پکڑا۔ کہتے ہیں : میں اس پر سوار ہوگیا۔ اور میں نے اس ڈر سے نیزے کو کھینچنا شروع کیا کہ کہیں ان دونوں کے بارے میں میرے ساتھ کوئی شریک نہ ہوجائے۔ فرماتے ہیں۔ پس جب میں نے ان دونوں کو دیکھ لیا تو حضرت ابوبکر نے فرمایا : یہ متلاشی ہے جو ہیں ہ تلاش کررہا ہے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا : اے اللہ ! جس طرح تو چاہتا ہے اس کو ہمارے طرف سے کافی ہوجا۔ سراقہ کہتے ہیں۔ میرا گھوڑا زمین میں دھنس گیا حالانکہ میں سخت زمین میں تھا۔ اور میں ایک پتھر پر گرا اور پلٹی کھائی تو میں نے عرض کیا۔ آپ اس ہستی سے دعا کریں جس نے میرے گھوڑے کے ساتھ جو کیا ہے میں اس کو دیکھ رہا ہوں۔ کہ وہ اس کو یہاں سے نکال دے۔ کہتے ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سراقہ کے لیے دُعا کی تو گھوڑا باہر آگیا ۔ پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کیا تم یہ مجھے ہدیہ کرتے ہو ؟ میں نے عرض کیا۔ جی ہاں ! آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : پس یہاں ہی رہو پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : لوگوں سے ہماری حالت کو مخفی رکھنا۔
٢۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سمندر کے ساتھ ساحل کا راستہ پکڑ لیا۔ کہتے ہیں۔ میں دن کے آغاز میں ان کا متلاشی تھا اور دن کے آخر میں ان کا محافظ تھا۔ اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے فرمایا : جب ہم مدینہ کو اپنا سفر بنالیں تو اگر تمہاری رائے ہو تو ہمارے پاس آنا۔ سراقہ کہتے ہیں۔ پھر جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ میں تشریف لائے اور اہل بدر، اہل احد پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو غلبہ حاصل ہوا۔ لوگ اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گرد والوں نے اسلام قبول کرلیا۔ سراقہ کہتے ہیں۔ مجھے یہ بات پہنچی کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بنی مدلج کی طرف حضرت خالد بن الولید کو بھیجنے کا ارادہ کر رہے ہیں۔ کہتے ہیں میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور میں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا۔ میں آپ کو انعام (کا وعدہ) یاد دلاتا ہوں لوگ کہنے لگے۔ رک جاؤ ! رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اس کو چھوڑ دو ۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تمہارا کیا ارادہ ہے ؟ میں نے عرض کیا۔ مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ آپ میری قوم کی طرف خالد بن ولید کو بھیجنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اور مجھے یہ بات محبوب ہے کہ آپ ان کے ساتھ عہد و پیمان کرلیں۔ پھر اگر ان کی قوم ایمان لے آئی تو وہ بھی ایمان لے آئیں گے۔ اور اگر ان کی قوم ایمان نہ لائی تو پھر ان پر ان کی قوم کے دل سخت نہیں ہوں گے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت خالد بن ولید کا ہاتھ پکڑا اور ان سے فرمایا : اس کے ساتھ جاؤ اور جو یہ چاہتا ہے وہی معاملہ کرو۔
٣۔ پس حضرت خالد بن ولید بنی مدلج کی طرف تشریف لے گئے اور ان سے یہ پیمان لیا کہ وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف مدد نہیں کریں گے۔ اگر قریش اسلام لے آئے تو وہ بھی ان کے ساتھ اسلام لے آئیں گے۔ (اس پر) اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل کیں۔
{ وَدُّوا لَوْ تَکْفُرُونَ کَمَا کَفَرُوا ۔۔۔حَتَّی بَلَغَ ۔۔۔ إِلاَّ الَّذِینَ یَصِلُونَ إِلَی قَوْمٍ بَیْنَکُمْ وَبَیْنَہُمْ مِیثَاقٌ ، أَوْ جَاؤُوکُمْ حَصِرَتْ صُدُورُہُمْ أَنْ یُقَاتِلُوکُمْ ، أَوْ یُقَاتِلُوا قَوْمَہُمْ ، وَلَوْ شَائَ اللَّہُ لَسَلَّطَہُمْ عَلَیْکُمْ فَلَقَاتَلُوکُمْ }۔
حضرت حسن فرماتے ہیں۔ وہ لوگ جن کے بارے میں حصرت صدورھم کہا گیا وہ بنو مدلج ہیں۔ جو شخص بنی مدلج کے پاس پہنچ گیا سو وہ بھی ان کے جیسے معاہدہ میں ہوگا۔

37767

(۳۷۷۶۸) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا ہَمَّامٌ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا ثَابِتٌ ، عَنْ أَنَسٍ ؛ أَنَّ أَبَا بَکْرٍ حَدَّثَہُ ، قَالَ : قُلْتُ لِلنَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ فِی الْغَارِ : لَوْ أَنَّ أَحَدَہُمْ یَنْظُرُ إِلَی قَدَمَیْہِ لأَبْصَرَنَا تَحْتَ قَدَمَیْہِ ، قَالَ : یَا أَبَا بَکْرٍ ، مَا ظَنُّک بِاثْنَیْنِ اللَّہُ ثَالِثُہُمَا۔
(٣٧٧٦٨) حضرت انس سے روایت ہے کہ حضرت ابوبکر نے ان سے بیان کیا کہ جب ہم غار میں تھے تو میں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا۔ اگر ان لوگوں میں سے کوئی بھی اپنے قدموں کی طرف نظر کرے تو البتہ ہمیں اپنے قدموں کے نیچے پالے گا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے ابوبکر ! تیرا ان دو آدمیوں کے بارے میں کیا گمان ہے جن کا تیسرا خدا ہو۔

37768

(۳۷۷۶۹) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، قَالَ : حدَّثَنَا ہِشَامٌ ، عَنْ أَبِیہِ ؛ أَنَّ عَبْدَ اللہِ بْنَ أَبِی بَکْرٍ کَانَ الَّذِی یَخْتَلِفُ بِالطَّعَامِ إِلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَأَبِی بَکْرٍ وَہُمَا فِی الْغَارِ۔
(٣٧٧٦٩) حضرت ہشام اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن ابوبکر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور حضرت ابوبکر کے پاس کھانا لے کر جایا کرتے تھے جبکہ وہ دونوں غار میں تھے۔

37769

(۳۷۷۷۰) حَدَّثَنَا شَبَابَۃُ ، عَنْ وَرْقَائَ ، عَنِ ابْنِ أَبِی نَجِیحٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ؛ فِی قَوْلِہِ : {إِلاَّ تَنْصُرُوہُ} ، ثُمَّ ذَکَرَ مَا کَانَ مِنْ أَوَّلِ شَأْنِہِ حِینَ بُعِثَ ، یَقُولُ : فَاَللَّہُ فَاعِلٌ ذَلِکَ بِہِ ، نَاصِرُہُ کَمَا نَصَرَہُ ثَانِیَ اثْنَیْنِ۔
(٣٧٧٧٠) حضرت مجاہد سے {إِلاَّ تَنْصُرُوہُ } کی تفسیر کے بارے میں منقول ہے کہ انھوں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اول وقت کی حالت کا ذکر فرمایا۔ اور کہا : اللہ پاک ان کی مدد کرے گا۔ اللہ اس کا مددگار ہے جس طرح دو میں سے دوسرے نے اس کی مدد کی۔

37770

(۳۷۷۷۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ شَرِیکٍ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ بْنِ مُہَاجِرٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، قَالَ : مَکَثَ أَبُو بَکْرٍ مَعَ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی الْغَارِ ثَلاَثًا۔
(٣٧٧٧١) حضرت مجاہد سے منقول ہے کہ حضرت ابوبکر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہمراہ غار میں تین (دن) ٹھہرے تھے۔

37771

(۳۷۷۷۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ نَافِعِ بْنِ عُمَرَ ، عَنْ رَجُلٍ ، عَنْ أَبِی بَکْرٍ؛ أَنَّہُمَا لَمَّا انْتَہَیَا إِلَی الْغَارِ، قَالَ: إِذًا جُحْرٌ، قَالَ : فَأَلْقَمَہُ أَبُو بَکْرٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ رِجْلَہُ ، فَقَالَ : یَا رَسُولَ اللہِ ، إِنْ کَانَتْ لَدْغَۃٌ ، أَوْ لَسْعَۃٌ کَانَتْ بِی۔
(٣٧٧٧٢) حضرت ابوبکر سے روایت ہے کہ جب یہ دونوں (نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، ابوبکر ) غار کے پاس پہنچے۔ فرماتے ہیں : وہاں پر سوراخ تھے۔ راوی کہتے ہیں : حضرت ابوبکر نے اس سوراخ میں اپنی ایڑی کو داخل کرلیا۔ اور فرمایا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! اگر کوئی ڈسنے یا ڈنک مارنے والا ہو تو مجھے ملے گا۔

37772

(۳۷۷۷۳) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ إِسْرَائِیلَ ، عَنْ سِمَاکٍ ، عَنِ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ؛ {کُنْتُمْ خَیْرَ أُمَّۃٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ}، قَالَ: ہُمَ الَّذِینَ ہَاجَرُوا مَعَ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِلَی الْمَدِینَۃِ۔
(٣٧٧٧٣) حضرت ابن عباس { کُنْتُمْ خَیْرَ أُمَّۃٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہمراہ مدینہ کی طرف ہجرت کی۔

37773

(۳۷۷۷۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ مُوسَی بْنِ عُلَیِّ بْنِ رَبَاحٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : سَمِعْتُ مَسْلَمَۃَ بْنَ مَخْلَدٍ ، یَقُولُ : وُلِدْتُ حِینَ قَدِمَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَقُبِضَ وَأَنَا ابْنُ عَشْرٍ۔
(٣٧٧٧٤) حضرت مسلمہ بن مخلَّد فرماتے ہیں۔ جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے تو میری ولادت ہوئی اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات ہوئی تو میں دس سال کا تھا۔

37774

(۳۷۷۷۵) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، سَمِعَ أَنَسًا ، یَقُولُ : قدِمَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْمَدِینَۃَ وَأَنَا ابْنُ عَشْرٍ ، وَقُبِضَ وَأَنَا ابْنُ عِشْرِینَ ، وَکُنَّ أُمَّہَاتِی یَحْثُثْنَنِی عَلَی خِدْمَتِہِ۔
(٣٧٧٧٥) حضرت انس فرماتے ہیں : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ منورہ میں تشریف لائے تو میں دس سال کا تھا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات ہوئی تو میں بیس سال کا تھا اور میری مائیں مجھے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت کی ترغیب دیا کرتی تھیں۔

37775

(۳۷۷۷۶) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَۃَ ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ؛ أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَمَّا ہَاجَرَ إِلَی الْمَدِینَۃِ ، ہُوَ وَأَبُو بَکْرٍ ، وَعَامِرُ بْنُ فُہَیْرَۃَ ، قَالَ : اسْتَقْبَلَتْہُمْ ہَدِیَّۃُ طَلْحَۃَ إِلَی أَبِی بَکْرٍ فِی الطَّرِیقِ ، فِیہَا ثِیَابٌ بِیضٌ ، فَدَخَلَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَأَبُو بَکْرٍ فِیہَا الْمَدِینَۃَ۔
(٣٧٧٧٦) حضرت ہشام بن عروہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، حضرت ابوبکر صدیق اور عامر بن فہیرہ نے مدینہ کی طرف ہجرت کی۔ کہتے ہیں : تو حضرت طلحہ کا ہدیہ راستہ میں حضرت ابوبکر کو ملا جس میں سفید کپڑے تھے۔ پس رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور حضرت ابوبکر ان کپڑوں میں مدینہ میں داخل ہوئے۔

37776

(۳۷۷۷۷) حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ مُسْہِرٍ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ، عَنْ أَبِیہِ، عَنْ أَسْمَائَ ابْنَۃِ أَبِی بَکْرٍ؛ أَنَّہَا ہَاجَرَتْ إِلَی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَہِیَ حُبْلَی بِعَبْدِ اللہِ بْنِ الزُّبَیْرِ ، فَوَضَعَتْہُ بِقُبَائَ ، فَلَمْ تُرْضِعْہُ حَتَّی أَتَتْ بِہِ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَأَخَذَہُ فَوَضَعَہُ فِی حِجْرِہِ ، فَطَلَبُوا تَمْرَۃً لِیُحَنِّکُوہُ حَتَّی وَجَدُوہَا فَحَنَّکُوہُ ، فَکَانَ أَوَّلَ شَیْئٍ دَخَلَ بَطْنَہُ رِیقُ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَسَمَّاہُ عَبْدَ اللہِ۔
(٣٧٧٧٧) حضرت اسما بنت ابی بکر روایت کرتی ہیں کہ انھوں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف اس حالت میں ہجرت کی کہ وہ عبداللہ بن زبیر کو حمل میں اٹھائے ہوئے تھی۔ پس قباء کے مقام پر یہ حمل وضع ہوا۔ تو انھوں نے نومولود کو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس پہنچنے تک دودھ پلایا، یہاں تک کہ اس کو لے کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئیں ۔ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو پکڑا اور اسے اپنی گود مبارک میں رکھا۔ لوگوں نے کھجور کی تلاش شروع کی۔ تاکہ اس کو تحنیک دے سکیں۔ پس سب سے پہلی شئی جو ان کے پیٹ میں داخل ہوئی وہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تھوک تھی۔ اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کا نام عبداللہ رکھا۔

37777

(۳۷۷۷۸) حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنِ ، عَنْ أَبِی الْعُمَیْسِ ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللہِ : إِنَّ أَوَّلَ مَنْ ہَاجَرَ مِنْ ہَذِہِ الأُمَّۃِ غُلاَمَانِ مِنْ قُرَیْشٍ۔
(٣٧٧٧٨) حضرت عبد الرحمن بن عبداللہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبداللہ فرماتے ہیں۔ اس امت میں سب سے پہلے ہجرت کرنے والے دو قریشی نوجوان تھے۔

37778

(۳۷۷۷۹) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ أَبِی ہِلاَلٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ، قَالَ : قُلْتُ لَہُ : مَا فَرْقُ مَا بَیْنَ الْمُہَاجِرِینَ الأَوَّلِینَ وَالآخِرِینَ ؟ قَالَ : فَرَقُ مَا بَیْنَہُمَا الْقِبْلَتَانِ ، فَمَنْ صَلَّی مَعَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْقِبْلَتَیْنِ فَہُوَ مِنَ الْمُہَاجِرِینَ الأَوَّلِینَ۔
(٣٧٧٧٩) حضرت قتادہ، سعید بن مسیب کے بارے میں بیان کرتے ہیں کہ میں نے ان سے پوچھا : پہلے مہاجرین اور بعد کے مہاجرین میں حدِ فاصل کیا بات ہے ؟ انھوں نے جواب دیا۔ ان دونوں کے درمیان حدِ فاصل دو قبلے ہیں۔ پس جس آدمی نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہمراہ دونوں قبلوں کی طرف منہ کر کے نماز پڑھی تو وہ مہاجرین اولین میں سے ہے۔

37779

(۳۷۷۸۰) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا ثَابِتٌ ، عَنْ أَنَسٍ ؛ أَنَّ أَبَا بَکْرٍ کَانَ رَدِیفَ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ مَکَّۃَ إِلَی الْمَدِینَۃِ ، وَکَانَ أَبُو بَکْرٍ یَخْتَلِفُ إِلَی الشَّامِ ، فَکَانَ یُعْرَفُ ، وَکَانَ النَّبِیُّ علیہ الصلاۃ والسلام لاَ یُعْرَفُ ، فَکَانُوا یَقُولُونَ : یَا أَبَا بَکْرٍ ، مَنْ ہَذَا الْغُلاَمُ بَیْنَ یَدَیْک ؟ فَیَقُولُ : ہَادٍ یَہْدِیَنِی السَّبِیلَ ، قَالَ : فَلَمَّا دَنَوْا مِنَ الْمَدِینَۃِ نَزَلاَ الْحَرَّۃَ ، وَبَعَثَ إِلَی الأَنْصَارِ فَجَاؤُوا ، قَالَ : فَشَہِدْتُہُ یَوْمَ دَخَلَ الْمَدِینَۃَ ، فَمَا رَأَیْتُ یَوْمًا کَانَ أَحْسَنَ ، وَلاَ أَضْوَأَ مِنْ یَوْمٍ دَخَلَ عَلَیْنَا فِیہِ ، وَشَہِدْتُ یَوْمَ مَاتَ ، فَمَا رَأَیْتُ یَوْمًا کَانَ أَقْبَحَ ، وَلاَ أَظْلَمَ مِنْ یَوْمٍ مَاتَ فِیہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔ (احمد ۱۲۲۔ حاکم ۱۲)
(٣٧٧٨٠) حضرت انس سے روایت ہے کہ حضرت ابوبکر ، مکہ سے لے کر مدینہ تک نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ردیف تھے۔ اور حضرت ابوبکر شام کی طرف آیا جایا کرتے تھے۔ تو آپ پہچانے جاتے تھے۔ اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پہچانے نہیں جاتے تھے۔ تو لوگ پوچھتے تھے۔ اے ابوبکر ! آپ کے آگے یہ نوجوان کون ہیں ؟ حضرت ابوبکر فرماتے۔ یہ رہبر ہیں مجھے راستہ دکھاتے ہیں۔ راوی کہتے ہیں۔ پس جب دونوں مدینہ کے قریب پہنچے۔ دونوں حرہ میں اترے۔ انصار کی طرف کسی کو بھیجا گیا تو وہ بھی تشریف لے آئے۔ حضرت انس کہتے ہیں۔ میں نے اس دن میں بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیکھا جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ میں داخل ہوئے تھے۔ تو میں نے کوئی دن اس دن سے زیادہ خوبصورت اور روشن نہیں دیکھا جس دن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے ہاں تشریف لائے۔ اور پھر جس دن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات ہوئی میں تب بھی حاضر تھا تو میں نے کوئی دن اس دن سے زیادہ بُرا اور اندھیرے والا نہیں دیکھا جس میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات ہوئی۔

37780

(۳۷۷۸۱) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ حُصَیْنٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ شَدَّادٍ ، قَالَ : کَتَبَ کِسْرَی إلَی بَاذَامَ : إِنِّی نُبِّئْتُ أَنَّ رَجُلاً یَقُولُ شَیْئًا لاَ أَدْرِی مَا ہُوَ ، فَأَرْسِلْ إلَیْہِ ، فَلْیَقْعُدْ فِی بَیْتِہِ ، وَلاَ یَکُنْ مِنَ النَّاسِ فِی شَیْئٍ ، وَإِلاَّ فَلْیُوَاعِدْنِی مَوْعِدًا أَلْقَاہُ بِہِ ، قَالَ : فَأَرْسَلَ بَاذَامُ إِلَی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَجُلَیْنِ حَالِقِی لِحَاہُمَا ، مُرْسِلِی شَوَارِبِہِمَا ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَا یَحْمِلُکُمَا عَلَی ہَذَا ؟ قَالَ : فَقَالاَ لَہُ : یَأْمُرُنَا بِہِ الَّذِی یَزْعُمُونَ أَنَّہُ رَبُّہُمْ ، قَالَ : فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لَکِنَّا نُخَالِفُ سُنَّتَکُمْ ، نَجُزُّ ہَذَا ، وَنُرْسِلُ ہَذَا۔ قَالَ : فَمَرَّ بِہِ رَجُلٌ مِنْ قُرَیْشٍ طَوِیلُ الشَّارِبِ ، فَأَمَرَہُ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ یَجُزَّہُمَا۔ قَالَ : فَتَرَکَہُمَا بِضْعًا وَعِشْرِینَ یَوْمًا ، ثُمَّ قَالَ : اذْہَبَا إِلَی الَّذِی تَزْعُمُونَ أَنَّہُ رَبُّکُمَا ، فَأَخْبِرَاہُ أَنَّ رَبِّی قَتَلَ الَّذِی یَزْعُمُ أَنَّہُ رَبُّہُ ، قَالاَ : مَتَی ؟ قَالَ : الْیَوْمَ ، قَالَ : فَذَہَبَا إِلَی بَاذَامَ فَأَخْبَرَاہُ الْخَبَرَ ، قَالَ : فَکَتَبَ إِلَی کِسْرَی ، فَوَجَدُوا الْیَوْمَ ہُوَ الَّذِی قُتِلَ فِیہِ کِسْرَی۔
(٣٧٧٨١) حضرت عبداللہ بن شداد سے روایت ہے کہ کسریٰ نے باذام کو لکھا کہ مجھے خبر دی گئی ہے۔ کہ ایک آدمی وہ بات کہتا ہے جو مجھے معلوم نہیں ہے۔ پس تم اس کی طرف کسی کو بھیجو تاکہ وہ اپنے گھر میں سکون کرے اور لوگوں میں کسی بات کو نہ پھیلائے وگرنہ میرے ساتھ کوئی وقت اور جگہ مقرر کرلے میں اس سے وہاں ملوں گا۔ راوی کہتے ہیں۔ باذام نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس دو داڑھی منڈے ہوئے آدمیوں کو بھیجا جن کی مونچھیں لمبی تھیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تمہیں اس بات پر کس نے ابھارا ہے ؟ راوی کہتے ہیں : ان دونوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا۔ کہ ہمیں اس نے اس بات کا حکم دیا ہے جو لوگوں کے گمان کے مطابق ان کا پروردگار ہے۔ راوی کہتے ہیں : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : لیکن ہم تمہارے طریقہ کی مخالفت کرتے ہیں۔ ہم اس کو (مونچھوں کو) صاف کرتے ہیں اور اس (داڑھی) کو بڑھاتے ہیں۔ راوی کہتے ہیں : آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس سے ایک دراز مونچھوں والا قریشی مرد گزرا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو حکم دیا کہ انھیں کاٹ دو ۔
راوی کہتے ہیں : آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان قاصدوں کو بیس سے کچھ اوپر دن چھوڑے رکھا۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : تم دونوں اس کے پاس جاؤ جس کو تم اپنا پروردگار گمان کرتے ہو اور اس کو بتاؤ کہ میرے رب نے اس شخص کو قتل کردیا ہے جو اپنے گمان میں رب بنا ہوا تھا۔ ان آدمیوں نے پوچھا : یہ کب ہوا ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : آج کے دن ۔ راوی کہتے ہیں : پس یہ دونوں باذام کی طرف گئے اور جا کر اس کو یہ خبر دی۔ راوی کہتے ہیں : اس نے کسریٰ کو خط لکھا تو انھوں نے کسریٰ کے قتل کو آج ہی کے دن میں رونما پایا۔

37781

(۳۷۷۸۲) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ حَرْمَلَۃَ الأَسْلَمِیِّ ، قَالَ : سَمِعْتُ سَعِیدَ بْنَ الْمُسَیَّبِ ، یَقُولُ : کَتَبَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إلَی کِسْرَی وَقَیْصَرَ وَالنَّجَاشِیِّ : أَمَّا بَعْدُ ، {تَعَالَوْا إلَی کَلِمَۃٍ سَوَائٍ بَیْنَنَا وَبَیْنَکُمْ ، أَلاَ نَعْبُدَ إلاَّ اللَّہَ ، وَلاَ نُشْرِکَ بِہِ شَیْئًا ، وَلاَ یَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللہِ ، فَإِنْ تَوَلَّوْا فَقُولُوا اشْہَدُوا بِأَنَّا مُسْلِمُونَ}۔ قَالَ سَعِیدُ بْنُ الْمُسَیَّبِ : فَمَزَّقَ کِسْرَی الْکِتَابَ وَلَمْ یَنْظُرْ فِیہِ ، قَالَ نَبِیُّ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مُزِّقَ وَمُزِّقَتْ أُمَّتُہُ ، فَأَمَّا النَّجَاشِیُّ فَآمَنَ ، وَآمَنَ مَنْ کَانَ عِنْدَہُ ، وَأَرْسَلَ إِلَی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُہْدِیہِ حُلَّۃً ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : اُتْرُکُوہُ مَا تَرَکَکُمْ۔ وَأَمَّا قَیْصَرُ ؛ فَقَرَأَ کِتَابَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : ہَذَا کِتَابٌ لَمْ أَسْمَعْ بِہِ بَعْدَ سُلَیْمَانَ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (بسم اللہ الرَّحْمَن الرحیم) ، ثُمَّ أَرْسَلَ إلَی أَبِی سُفْیَانَ وَالْمُغِیرَۃِ بْنِ شُعْبَۃَ ، وَکَانَا تَاجِرَیْنِ بِأَرْضِہِ ، فَسَأَلَہُمَا عَنْ بَعْضِ شَأْنِ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَسَأَلَہُمَا مَنْ تَبِعَہُ ، فَقَالاَ : تَبِعَہُ النِّسَائُ وَضَعَفَۃُ النَّاسِ ، فَقَالَ : أَرَأَیْتُمَا الَّذِینَ یَدْخُلُونَ مَعَہُ یَرْجِعُونَ ؟ قَالاَ : لاَ ، قَالَ : ہُوَ نَبِیٌّ ، لَیَمْلِکَنَّ مَا تَحْتَ قَدَمِی، لَوْ کُنْتُ عِنْدَہُ لَقَبَّلْتُ قَدَمَیْہِ۔ (سعید بن منصور ۲۴۸۰)
(٣٧٧٨٢) حضرت سعید بن المسیب فرماتے ہیں : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کسریٰ ، قیصر اور نجاشی کو خط لکھا۔ اما بعد ! ” ایک ایسی بات کی طرف آجاؤ جو ہم تم میں مشترک ہے (اور وہ یہ ہے) کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں اور اللہ کو چھوڑ کر ہم ایک دوسرے کو رب نہ بنائیں “ پھر بھی اگر وہ منہ موڑیں تو کہہ دو ” گواہ رہنا ہم مسلمان ہیں۔
حضرت سعید بن المسیب فرماتے ہیں : کسریٰ نے خط کو پھاڑ دیا اور اس کو دیکھا ہی نہیں۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : وہ خود پھٹ گیا ہے اور اس کی امت بھی پھٹ گئی ہے۔ اور نجاشی نے ایمان قبول کرلیا اور اس کے پاس جو لوگ تھے وہ بھی ایمان لے آئے۔ اور اس نے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ایک جوڑا ہدیہ میں بھیجا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جب تک وہ تمہیں چھوڑے رکھے تم بھی ا ن کو چھوڑ دو ۔ اور قیصر نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا خط پڑھا اور کہا۔ میں نے سلیمان نبی کے خط کے بعد بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم والا خط نہیں سُنا۔ پھر اس نے ابو سفیان اور مغیرہ بن شعبہ کی طرف قاصد بھیجا۔ یہ دونوں ارض قیصر میں تاجر کی حیثیت سے موجود تھے۔ قیصر نے ان سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعض احوال کے متعلق سوال کیا۔ اور ان سے یہ سوال کیا ۔ کون لوگ اس کے تابع دار ہیں ؟ انھوں نے جواب دیا : ان کے پیچھے چلنے والے کمزور لوگ اور عورتیں ہیں۔ پھر اس نے پوچھا : یہ بتاؤ ! جو لوگ اس کے پاس گئے ہیں وہ واپس پلٹے ہیں ؟ انھوں نے جواب دیا۔ نہیں ! قیصرنے کہا ۔ یہ شخص نبی ہے۔ میرے قدموں کے نیچے والے حصہ زمین پر یہ شخص ضرور بالضرور تمکن حاصل کرے گا۔ اگر میں اس کے پاس ہوتا تو میں اس کے قدم چوم لیتا۔

37782

(۳۷۷۸۳) حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِیلَ ، عَنْ یَعْقُوبَ ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ عَمْرٍو ، قَالَ : بَعَثَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَرْبَعَۃَ نَفَرٍ إِلَی أَرْبَعَۃِ وُجُوہٍ : رَجُلاً إِلَی کِسْرَی ، وَرَجُلاً إِلَی قَیْصَرَ ، وَرَجُلاً إِلَی الْمُقَوْقَسِ ، وَبَعَثَ عَمْرَو بْنَ أُمَیَّۃَ إِلَی النَّجَاشِیِّ ، فَأَصْبَحَ کُلُّ رَجُلٍ مِنْہُمْ یَتَکَلَّمُ بِلِسَانِ الْقَوْمِ الَّذِینَ بُعِثَ إِلَیْہِمْ ، فَلَمَّا أَتَی عَمْرُو بْنُ أُمَیَّۃَ النَّجَاشِیَّ وَجَدَ لَہُمْ بَابًا صَغِیرًا یَدْخُلُونَ مِنْہُ مُکَفِّرِینَ ، فَلَمَّا رَأَی عَمْرُو ذَلِکَ وَلَّی ظَہْرَہُ الْقَہْقَرَی ، قَالَ : فَشَقَّ ذَلِکَ عَلَی الْحَبَشَۃِ فِی مَجْلِسِہِمْ عِنْدَ النَّجَاشِیِّ ، حَتَّی ہَمُّوا بِہِ ، حَتَّی قَالُوا لِلنَّجَاشِیِّ : إِنَّ ہَذَا لَمْ یَدْخُلْ کَمَا دَخَلْنَا ، قَالَ : مَا مَنَعَک أَنْ تَدْخُلَ کَمَا دَخَلُوا ؟ قَالَ : إِنَّا لاَ نَصْنَعُ ہَذَا بِنَبِیِّنَا ، وَلَوْ صَنَعَنَاہُ بِأَحَدٍ صَنَعَنَاہُ بِہِ ، قَالَ : صَدَقَ ، قَالَ : دَعُوہُ۔ قَالُوا لِلنَّجَاشِیِّ : ہَذَا یَزْعُمُ أَنَّ عِیسَی مَمْلُوکٌ ، قَالَ : فَمَا تَقُولُ فِی عِیسَی ؟ قَالَ : کَلِمَۃُ اللہِ وَرُوحُہُ ، قَالَ : مَا اسْتَطَاعَ عِیسَی أَنْ یَعْدُوَ ذَلِکَ۔
(٣٧٧٨٣) حضرت جعفر بن عمرو کہتے ہیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے چار افراد کو چار افراد کی طرف قاصد بنا کر بھیجا۔ ایک آدمی کو کسریٰ کی طرف۔ ایک آدمی کو قیصر کی طرف، ایک آدمی کو مقوقس کی طرف اور عمرو بن امیہ کو نجاشی کی طرف۔ ان میں سے ہر ایک آدمی اس قوم کی زبان بولنے والا ہوگیا جن کی طرف انھیں (قاصد بنا کر) بھیجا گیا تھا۔ پس جب حضرت عمرو بن امیہ ، نجاشی کے پاس تشریف لائے، تو انھوں نے ان کے ہاں ایک چھوٹا دروازہ پایا جس میں سے لوگ جھک کر گزرتے تھے۔ پس جب حضرت عمرو نے یہ دیکھا تو آپ الٹے پاؤں واپس ہو لئے۔ راوی کہتے ہیں : یہ بات نجاشی کی مجلس میں بیٹھے حبشی لوگوں کو شاق گزری یہاں تک کہ انھوں نے ان کا ارادہ کیا۔ اور یہاں تک کہ انھوں نے نجاشی بادشاہ سے کہا۔ یہ آدمی اس طرح اندر نہیں داخل ہوا جس طرح ہم داخل ہوتے ہیں۔ نجاشی نے پوچھا۔ تمہیں لوگوں کی طرح اندر داخل ہونے سے کس چیز نے منع کیا ہے ؟ حضرت عمرو نے فرمایا : ہم یہ کام اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ نہیں کرتے اور اگر ہم یہ کام کسی کے ساتھ کرتے تو ہم اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ یہ کام کرتے۔ نجاشی نے کہا۔ اس نے سچ کہا ہے اور نجاشی نے کہا۔ اس کو چھوڑ دو ۔
لوگوں نے نجاشی سے کہا۔ اس آدمی کا گمان ہے کہ عیسیٰ مملوک ہیں۔ نجاشی نے پوچھا : تم عیسیٰ کے بارے میں کیا کہتے ہو ؟ حضرت عمرو نے فرمایا : وہ اللہ کا کلمہ اور روح اللہ ہیں۔ نجاشی نے کہا۔ عیسیٰ اس بات سے آگے نہیں بڑھ سکتے۔ (یعنی واقعۃً ایسا ہی ہے)

37783

(۳۷۷۸۴) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ مُجَالِدٍ ، قَالَ : کَتَبَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِلَی جَدِّی ، وَہَذَا کِتَابُہُ عِنْدَنَا : بِسْمِ اللہِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ ، مِنْ مُحَمَّدٍ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِلَی عُمَیْرِ ذِی مُرَّانَ ، وَإِلَی مَنْ أَسْلَمَ مِنْ ہَمْدَانَ ، سَلاَمٌ عَلَیْکُمْ ، فَإِنِّی أَحْمَدُ إِلَیْکُمُ اللَّہَ الَّذِی لاَ إلَہَ إلاَّ ہُوَ ، أَمَّا بَعْدُ ذَلِکُمْ ، فَإِنَّہُ بَلَغَنَا إِسْلاَمُکُمْ مَرْجِعَنَا مِنْ أَرْضِ الرُّومِ ، فَأَبْشِرُوا فَإِنَّ اللَّہَ قَدْ ہَدَاکُمْ بِہُدَاہُ ، وَأَنَّکُمْ إِذَا شَہِدْتُمْ أَنْ لاَ إلَہَ إِلاَّ اللَّہُ ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللہِ ، وَأَقَمْتُمُ الصَّلاَۃَ ، وَآتَیْتُمُ الزَّکَاۃَ ، فَإِنَّ لَکُمْ ذِمَّۃَ اللہِ ، وَذِمَّۃَ مُحَمَّدٍ رَسُولِ اللہِ عَلَی دِمَائِکُمْ وَأَمْوَالِکُمْ وَأَرْضِ الْبَوْنِ الَّتِی أَسْلَمْتُمْ عَلَیْہَا ، سَہْلِہَا وَجَبَلِہَا وَعُیُونِہَا وَمَرَاعِیہَا ، غَیْرَ مَظْلُومِینَ ، وَلاَ مُضَیَّقًا عَلَیْکُمْ ، فَإِنَّ الصَّدَقَۃَ لاَ تَحِلُّ لِمُحَمَّدٍ وَأَہْلِ بَیْتِہِ ، وَإِنَّمَا ہِیَ زَکَاۃٌ تُزَکُّونَ بِہَا أَمْوَالَکُمْ لِفُقَرَائِ الْمُسْلِمِینَ ، وَإِنَّ مَالِکَ بْنَ مُرَارَۃَ الرَّہَاوِیَّ حَفِظَ الْغَیْبَ ، وَبَلَّغَ الْخَبَرَ ، وَآمُرُک بِہِ یَا ذَا مُرَّانَ خَیْرًا ، فَإِنَّہُ مَنْظُورٌ إِلَیْہِ ۔ وَکَتَبَ عَلِیُّ بْنُ أَبِی طَالِبٍ : وَالسَّلاَمُ عَلَیْکُمْ ، وَلَیُحَیِّیْکُمْ رَبُّکُمْ۔ (ابوداؤد ۳۰۲۱۔ ابویعلی ۶۸۲۹)
(٣٧٧٨٤) حضرت مجاہد فرماتے ہیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے میرے دادا کو خط تحریر فرمایا تھا۔ اور یہ ہمارے پاس آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نامہ مبارک ہے۔ ” شروع اللہ کے نام سے جو نہایت مہربان اور رحم کرنے والا ہے۔ یہ خط ذی مُرَّان عمیر کی طرف اور ہمدان کے مسلمانوں کی طرف ہے۔ تم پر سلام ہو ! میں تمہارے سامنے اس اللہ کی تعریف کرتا ہوں جس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔ اس کے بعد ! ہمیں ارض روم سے واپسی پر تمہارے اسلام کی خبر پہنچی ہے۔ پس تمہارے لیے بشارت ہو کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں اپنی ہدایت میں سے ہدایت بخشی ہے۔ اور جب تم نے لوگوں اس بات کی گواہی دی کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور محمد اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں۔ اور تم نے نماز کو قائم کیا اور تم نے زکوۃ کو ادا کیا۔ تو پس تمہارے لیے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا تمہارے اموال اور خون پر ذمہ ہے اور وہ درمیانی زمین جس پر تم اسلام لائے ہو اس کا ہموار رقبہ، اس کے پہاڑ، اس کے چشمے اور اس کی چراگاہیں تمہاری ہیں۔ نہ تم پر ظلم کیا جائے گا اور نہ تمہیں تنگ کیا جائے گا۔ پس بلاشبہ صدقہ (کا مال) محمد اور اہل بیت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے حلال نہیں ہے۔ یہ تو وہ زکوۃ ہے جس کے ذریعہ تم اپنے مالوں کو یہ زکوۃ مسلمانوں فقراء کو دے کر پاک کرو گے۔ بیشک مالک بن مرارہ رہاوی نے غیب کی باتوں کو یاد کیا اور خبر کو آگے پہنچایا ۔ اور اے ذی مران ! میں تمہیں اس کے ساتھ خیر کا حکم کرتا ہوں کیونکہ یہ منظور نظر ہے۔ اور یہ خط علی بن ابی طالب نے لکھا ہے۔ والسلام علیکم۔ تمہارا رب تم پر سلامتی بھیجے۔

37784

(۳۷۷۸۵) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ إِسْمَاعِیلَ بْنِ أَبِی خَالِدٍ ، عَنْ قَیْسِ بْنِ أَبِی حَازِمٍ ، قَالَ : بَعَثَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِلَی خَثْعَمَ ، لِقَوْمٍ کَانُوا فِیہِمْ ، فَلَمَّا غَشِیَہُمَ الْمُسْلِمُونَ اسْتَعْصَمُوا بِالسُّجُودِ، قَالَ: فَسَجَدُوا، قَالَ: فَقُتِلَ بَعْضُہُمْ، فَبَلَغَ ذَلِکَ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: أَعْطُوہُمْ نِصْفَ الْعَقْلِ لِصَلاَتِہِمْ ، ثُمَّ قَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : أَلاَ إِنِّی بَرِیئٌ مِنْ کُلِّ مُسْلِمٍ مَعَ مُشْرِکٍ۔
(٣٧٧٨٥) حضرت قیس بن ابی حازم سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خثعم قبیلہ کی طرف انہی میں سے کچھ لوگوں کو قاصد بنا کر بھیجا۔ پس جب مسلمانوں نے ان کو ڈھانپ (گھیر) لیا تو ان لوگوں نے سجدوں کے ذریعہ حفاظت طلب کی (یعنی سجدوں سے اپنا اسلام ظاہر کیا) ۔ راوی کہتے ہیں : پس ان لوگوں نے سجدہ کیا۔ راوی کہتے ہیں : پھر بھی مسلمانوں نے بعض ساجدین کو قتل کردیا۔ یہ بات رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک پہنچی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ان کی نمازوں کی وجہ سے ان کی نصف دیت ادا کرو۔ پھر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : خبردار ! جو مسلمان مشرک کے ہمراہ رہ رہا ہے میں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس سے بری ہوں۔

37785

(۳۷۷۸۶) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِی ظَبْیَانَ ، عَنْ أُسَامَۃَ ، قَالَ : بَعَثَنَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی سَرِیَّۃٍ ، فَصَبَّحْنَا الْحُرَقَاتِ مِنْ جُہَیْنَۃَ ، فَأَدْرَکْتُ رَجُلاً ، فَقَالَ : لاَ إِلَہَ إِلاَّ اللَّہُ فَطَعَنْتُہُ ، فَوَقَعَ فِی نَفْسِی مِنْ ذَلِکَ ، فَذَکَرْتُہُ لِلنَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : قَالَ لاَ إِلَہَ إِلاَّ اللَّہُ وَقَتَلْتَہُ ؟ قَالَ : قُلْتُ : یَا رَسُولَ اللہِ ، إِنَّمَا قَالَہَا فَرَقًا مِنَ السِّلاَحِ ، قَالَ : فَلاَ شَقَقْتَ عَنْ قَلْبِہِ حَتَّی تَعْلَمَ أَقَالَہَا فَرَقًا مِنَ السِّلاَحِ ، أَمْ لاَ ؟ فَمَا زَالَ یُکَرِّرُہَا حَتَّی تَمَنَّیْتُ أَنِّی أَسْلَمْتُ یَوْمَئِذٍ۔
(٣٧٧٨٦) حضرت اسامہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں ایک سریہ میں روانہ فرمایا : ہم نے جہینہ قبیلہ میں سے ایک آدمی کو پالیا تو اس نے لاَ إِلَہَ إِلاَّ اللَّہُ کہا۔ میں نے اس کو نیزہ مار دیا۔ پھر یہ بات میرے دل میں ٹھہر گئی تو میں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کا ذکر کیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اس نے لاَ إِلَہَ إِلاَّ اللَّہُ کہا اور تم نے پھر بھی اس کو قتل کردیا ؟ راوی کہتے ہیں۔ میں نے عرض کیا۔ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! اس نے تو اسلحہ سے ڈر کر یہ کلمہ کہا تھا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : تو نے اس کا دل کیوں نہ چیرا تاکہ تجھے معلوم ہوجاتا کہ اس نے یہ کلمہ اسلحہ کے ڈر سے کہا ہے کہ نہیں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ بات اتنی مرتبہ دوہرائی کہ میرے دل میں یہ آرزو ہوئی کہ (کاش) میں آج ہی اسلام لایا ہوتا۔

37786

(۳۷۷۸۷) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْحَکَمِ بْنِ ثَوْبَانَ ، عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ ؛ أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَعَثَ عَلْقَمَۃَ بْنَ مُحْرِزٍ عَلَی بَعْثٍ أَنَا فِیہِمْ ، فَلَمَّا انْتَہَی إِلَی رَأْسِ غُزَاتِہِ ، أَوْ کَانَ بِبَعْضِ الطَّرِیقِ ، اسْتَأْذَنَتْہُ طَائِفَۃٌ مِنَ الْجَیْشِ فَأَذِنَ لَہُمْ ، وَأَمَّرَ عَلَیْہِمْ عَبْدَ اللہِ بْنَ حُذَافَۃَ بْنِ قَیْسٍ السَّہْمِی ، فَکُنْتُ فِیمَنْ غَزَا مَعَہُ ، فَلَمَّا کُنَّا بِبَعْضِ الطَّرِیقِ أَوْقَدَ الْقَوْمُ نَارًا لِیَصْطَلُوا ، أَوْ لِیَصْنَعُوا عَلَیْہَا صَنِیعًا لَہُمْ ، فَقَالَ عَبْدُ اللہِ ، وَکَانَتْ فِیہِ دُعَابَۃٌ : أَلَیْسَ لِی عَلَیْکُمَ السَّمْعُ وَالطَّاعَۃُ ؟ قَالُوا : بَلَی ، قَالَ : فَمَا أَنَا بِآمِرِکُمْ شَیْئًا إِلاَّ صَنَعْتُمُوہُ ؟ قَالُوا : نَعَمْ ، قَالَ : فَإِنِّی أَعْزِمُ عَلَیْکُمْ إِلاَّ تَوَاثَبْتُمْ فِی ہَذِہِ النَّارِ ، قَالَ : فَقَامَ نَاسٌ فَتَحَجَّزُوا ، فَلَمَّا ظَنَّ أَنَّہُمْ وَاثِبُونَ ، قَالَ : أَمْسِکُوا عَلَی أَنْفُسِکُمْ ، فَإِنَّمَا کُنْتُ أَمْزَحُ مَعَکُمْ ، فَلَمَّا قَدِمْنَا ذَکَرُوا ذَلِکَ لِرَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : مَنْ أَمَرَکُمْ مِنْہُمْ بِمَعْصِیَۃٍ ، فَلاَ تُطِیعُوہُ۔
(٣٧٧٨٧) حضرت ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے علقمہ بن محرز کو ایک وفد میں امیر بنا کر بھیجا۔ میں بھی اس وفد میں تھا۔ پس جب یہ راستہ میں تھے یا یوں فرمایا کہ کچھ راستہ طے کرچکے تھے تو ان سے لشکر کے ایک گروہ نے اجازت مانگی ۔ انھوں نے ان کو اجازت دے دی۔ اور ان پر عبداللہ بن حذافہ بن قیس سہمی کو امیر مقرر فرما دیا۔ میں بھی ان لوگوں میں شامل تھا جنہوں نے ان کے ہمراہ جہاد میں حصہ لیا تھا۔ پس جب ہم کچھ راستہ طے کرچکے تو لوگوں نے آگ جلائی تاکہ ہاتھ پاؤں گرم کریں یا اس آگ پر کوئی کھانا وغیرہ بنائیں۔ عبداللہ (امیر قافلہ) کہنے لگے۔ یہ مذاق و ہنسی کرتے تھے۔ کیا تم پر میری بات کا سننا اور ماننا واجب نہیں ہے ؟ لوگوں نے کہا : کیوں نہیں ! تو عبداللہ نے کہا : پس میں تمہیں جو بھی حکم دوں گا تم اس کی تعمیل کرو گے ؟ لوگوں نے کہا : ہاں ! عبداللہ نے کہا : میں تمہں تاکیداً یہ حکم دیتا ہوں کہ تم اس آگ میں کود جاؤ ۔ راوی کہتے ہیں : کچھ لوگ کھڑے ہوئے اور اس کے لیے تیار ہوگئے۔ پھر جب عبداللہ کو یقین ہونے لگا کہ یہ لوگ کود جائیں گے تو انھوں نے کہا : تم لوگ ٹھہر جاؤ۔ میں تو تمہارے ساتھ محض مزاح کررہا تھا۔ پھر جب واپس آئے تو ہم نے یہ واقعہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے ذکر کیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا۔ تمہیں، ان (امرائ) میں سے جو گناہ کا حکم دے تو تم اس کی بات نہ مانو۔

37787

(۳۷۷۸۸) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَنِ الأَجْلَحِ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ أَبِی الْہُذَیْلِ ، قَالَ : بَعَثَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خَالِدَ بْنَ الْوَلِیدِ إِلَی الْعُزَّی ، فَجَعَلَ یَضْرِبُہَا بِسَیْفِہِ ، وَیَقُولُ : یَا عُزًّ کُفْرَانَکِ لاَ سُبْحَانَکِ إِنِّی رَأَیْتُ اللَّہَ قَدْ أَہَانَکِ (نسائی ۱۱۵۴۷۔ ابویعلی ۸۹۸)
(٣٧٧٨٨) حضرت عبداللہ بن ابی الہذیل کہتے ہیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت خالد بن ولید کو عُزیٰ کی طرف بھیجا۔ پس حضرت خالد عُزیّٰ کو تلواریں مار رہے تھے اور کہہ رہے تھے۔
اے عُزیّٰ ! تم قابل انکار ہو نہ کہ قابل تقدیس، میں نے دیکھ لیا ہے کہ تجھے اللہ نے رسوا کردیا ہے۔

37788

(۳۷۷۸۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ عُثْمَانَ بْنِ مَوْہَبٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا بُرْدَۃَ ، یَقُولُ : کَتَبَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِلَی رَجُلٍ مِنْ أَہْلِ الْکِتَابِ : أُسِلْمٌّ أَنْتَ ، قَالَ : فَلَمْ یَفْرُغَ النَّبِیُّ علیہ الصلاۃ والسلام مِنْ کِتَابِہِ حَتَّی أَتَاہُ کِتَابٌ مِنْ ذَلِکَ الرَّجُلِ ؛ أَنَّہُ یَقْرَأُ عَلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیہِ السَّلاَمَ ، فَرَدَّ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَیْہِ السَّلاَمَ فِی أَسْفَلِ کِتَابِہِ۔
(٣٧٧٨٩) حضرت ابو بردہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اہل کتاب میں سے ایک آدمی کو خط لکھا۔ راوی کہتے ہیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، ابھی اپنے خط (لکھوانے) سے فارغ نہیں ہوئے تھے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس اسی آدمی کا خط آگیا کہ وہ آدمی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر سلامتی کی دعا کررہا تھا۔ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے خط کے آخر میں اس کے سلام کا جواب دیا۔

37789

(۳۷۷۹۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ قُرَّۃَ بْنِ خَالِدٍ السَّدُوسِیُّ ، عَنْ یَزِیدَ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ الشِّخِّیرِ ، قَالَ : کُنَّا جُلُوسًا بِہَذَا الْمِرْبَدِ بِالْبَصْرَۃِ ، فَجَائَ أَعْرَابِیٌّ مَعَہُ قِطْعَۃٌ مِنْ أَدِیمٍ ، أَوْ قِطْعَۃٌ مِنْ جِرَابٍ ، فَقَالَ : ہَذَا کِتَابٌ کَتَبَہُ لِی النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : فَأَخَذْتُہُ ، فَقَرَأْتُہُ عَلَی الْقَوْمِ ، فَإِذَا فِیہِ : بِسْمِ اللہِ الرَّحْمَن الرَّحِیمِ ، مِنْ مُحَمَّدٍ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِبَنِی زُہَیْرِ بْنِ أُقَیْشٍ : إِنَّکُمْ إِنْ أَقَمْتُمُ الصَّلاَۃَ ، وَآتَیْتُمُ الزَّکَاۃَ ، وَأَعْطَیْتُمْ مِنَ الْمَغَانِمِ الْخُمُسَ ، وَسَہْمَ النَّبِیِّ ، وَالصَّفِیَّ ، فَأَنْتُمْ آمِنُونَ بِأَمَانِ اللہِ وَأَمَانِ رَسُولِہِ ، قَالَ : فَمَا سَمِعْتَ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ شَیْئًا ؟ ، قَالَ : سَمِعْتُہُ یَقُولُ : صَوْمُ شَہْرِ الصَّبْرِ ، وَثَلاَثَۃِ أَیَّامٍ مِنْ کُلِّ شَہْرٍ یُذْہِبْنَ وَحَرَ الصَّدْرِ۔ (ابوداؤد ۲۹۹۲۔ احمد ۷۸)
(٣٧٧٩٠) حضرت یزید بن عبداللہ بن شخیر سے روایت ہے کہ ہم بصرہ میں اس باڑے میں بیٹھے ہوئے تھے۔ تو ایک دیہاتی آیا اس کے پاس چمڑے یا کھال کا ایک ٹکڑا تھا۔ اس آدمی نے کہا۔ یہ وہ خط ہے جو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے تحریر فرمایا تھا۔ راوی کہتے ہیں۔ میں نے اس خط کو پکڑا اور لوگوں کو پڑھ کر سنایا۔ اس میں یہ تحریر تھا۔ بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم۔ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) محمد کی طرف سے بنی زہیر بن اقیش کی طرف۔ بلاشبہ اگر تم لوگ نماز کو قائم کرو اور زکوۃ کو ادا کرو اور غنائم میں سے خمس، سہم النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور حاکم کا منتخب حصہ ادا کرو تو تمہیں اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا امان حاصل ہوگا۔ راوی نے پوچھا۔ تم نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کوئی بات سُنی ہے ؟ اعرابی نے کہا۔ میں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کہتے سُنا ہے کہ ماہ صبر کے روزے اور ہر ماہ تین دن کے روزے سینہ کے وساوس کو ختم کردیتے ہیں۔

37790

(۳۷۷۹۱) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ إِدْرِیسَ ، عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جَعْفَرِ بْنِ الزُّبَیْرِ ؛ أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَعَثَ عَبْدَ اللہِ بْنَ أُنَیْسٍ إِلَی خَالِدِ بْنِ سُفْیَانَ ، قَالَ : فَلَمَّا دَنَوْتُ مِنْہُ ، وَذَلِکَ فِی وَقْتِ الْعَصْرِ ، خِفْتُ أَنْ یَکُونَ دُونَہُ مُحَاوَلَۃٌ ، أَوْ مُزَاوَلَۃٌ ، فَصَلَّیْتُ وَأَنَا أَمْشِی۔
(٣٧٧٩١) حضرت محمد بن جعفر بن زبیر سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عبداللہ بن انیس کو خالد بن سفیان کی طرف بھیجا۔ راوی کہتے ہیں۔ پس جب میں ان کے قریب پہنچا۔ اور یہ عصر کا وقت تھا۔ مجھے ڈر ہوا کہ ان سے پہلے ہی کوئی مشغولیت یا آغاز کار ہوجائے تو میں نے چلتے ہوئے نماز پڑھ لی۔

37791

(۳۷۷۹۲) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، قَالَ : حدَّثَنَا إِسْمَاعِیلُ ، عَنْ قَیْسٍ ، قَالَ : بَعَثَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَمْرًا عَلَی جَیْشِ ذَاتِ السَّلاَسِلِ إِلَی لَخْمٍ وَجُذَامٍ وَمَسَایِفِ الشَّامِ ، قَالَ : وَکَانَ فِی أَصْحَابِہِ قِلَّۃٌ ، قَالَ : فَقَالَ لَہُمْ عَمْرُو : لاَ یُوقِدَنَّ أَحَدٌ مِنْکُمْ نَارًا ، فَشَقَّ ذَلِکَ عَلَیْہِمْ ، فَکَلَّمُوا أَبَا بَکْرٍ أَنْ یُکَلِّمَ عَمْرًا فَکَلَّمَہُ ، فَقَالَ : لاَ یُوقِدُ أَحَدٌ نَارًا إِلاَّ أَلْقَیْتَہُ فِیہَا ، فَقَاتَلَ الْعَدُوَّ فَظَہَرَ عَلَیْہِمْ ، وَاسْتَبَاحَ عَسْکَرَہُمْ ، فَقَالَ النَّاسُ : أَلاَ نَتْبَعُہُمْ ؟ فَقَالَ : لاَ ، إِنِّی أَخْشَی أَنْ یَکُونَ لَہُمْ وَرَائَ ہَذِہِ الْجِبَالِ مَادَّۃٌ یَقْتَطِعُونَ الْمُسْلِمِینَ ، فَشَکَوْہُ إِلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حِینَ رَجَعُوا ، فَقَالَ : صَدَقُوا یَا عَمْرُو ؟ قَالَ : کَانَ فِی أَصْحَابِی قِلَّۃٌ فَخَشِیتُ أَنْ یَرْغَبَ الْعَدُوُّ فِی قَتْلِہِمْ ، فَلَمَّا أَظْہَرَنِی اللَّہُ عَلَیْہِمْ ، قَالُوا : اتْبَعْہُمْ ، قُلْتُ : أَخْشَی أَنْ تَکُونَ لَہُمْ وَرَائَ ہَذِہِ الْجِبَالِ مَادَّۃٌ یَقْتَطِعُونَ بِہَا الْمُسْلِمِینَ ، قَالَ : فَکَأَنَّ النَّبِیّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حَمِدَ أَمْرَہُ۔
(٣٧٧٩٢) حضرت قیس سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ذات السلاسل کے لشکر کو لخم، جذام اور مسایف شام کی طرف حضرت عمرو کی امارت میں روانہ فرمایا۔ راوی کہتے ہیں۔ ان کے ساتھیوں کی قلت تھی۔ راوی کہتے ہیں۔ حضرت عمرو نے لوگوں سے کہا۔ تم میں سے کوئی شخص آگ روشن نہ کرے۔ یہ بات لوگوں کو بہت شاق گزری تو لوگوں نے حضرت ابوبکر سے بات کی۔ کہ وہ حضرت عمرو سے بات کریں۔ حضرت ابوبکر نے حضرت عمرو سے اس کے بارے میں بات کی تو آپ نے فرمایا : جو شخص آگ روشن کرے گا تو میں اس شخص کو اسی آگ میں دھکیل دوں گا۔ پھر حضرت عمرو نے دشمن سے لڑائی کی تو ان پر غلبہ پایا اور ان کے لشکر کی جڑ اکھاڑ ڈالی۔ لوگوں نے پوچھا : کیا ہم دشمن کا پیچھا نہ کریں ؟ حضرت عمرو نے فرمایا : نہیں ! مجھے اس بات کا خوف ہے کہ کہیں اس پہاڑ کے پیچھے ان کی کمک موجود نہ ہو۔ جس کے ذریعہ سے وہ مسلمانوں کو ٹکڑے کردیں ۔ جب لوگ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت اقدس میں واپس لوٹے تو انھوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے حضرت عمرو کی شکایت کی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا : اے عمرو ! یہ سچ کہہ رہے ہیں ؟ حضرت عمرو نے عرض کیا۔ میرے ساتھیوں کی قلّت تھی۔ مجھے یہ ڈر ہوا کہ دشمن ان میں ان کی قلت کی وجہ سے رغبت کرے گا (اس لیے آگ جلانے سے منع کیا) پس جب اللہ تعالیٰ نے مجھے ان پر غلبہ عطا کیا تو ان لوگوں نے کہا۔ ان کا پیچھا کرو۔ میں نے کہا؛ مجھے یہ خوف ہے کہ اس پہاڑ کی اوٹ میں دشمن کی کمک موجود ہوگی جو مسلمانوں کے ٹکڑے کر دے گی۔ راوی کہتے ہیں۔ گویا کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عمرو کی بات کی تعریف فرمائی۔

37792

(۳۷۷۹۳) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، قَالَ : حدَّثَنَا إِسْمَاعِیلُ ، عَنْ قَیْسٍ ؛ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ لِبِلاَلٍ : أَجَہَّزْتَ الرَّکْبَ ، أَوِ الرَّہْطَ الْبَجَلِیِّینَ ؟ قَالَ : لاَ ، قَالَ : فَجَہِّزْہُمْ ، وَابْدَأْ بِالأَحْمَسِیِّینَ قَبْلَ الْقَسْرِیِّینَ۔
(٣٧٧٩٣) حضرت قیس سے روایت ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت بلال سے پوچھا : کیا تم نے سواروں کو یا گروہ کو سامان سفر دے دیا ہے۔ انھوں نے جواب دیا۔ نہیں ! آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ پھر تم انھیں سامان دو اور پختہ مذہب لوگوں جو جبری لوگوں سے پہلے شروع کرو۔

37793

(۳۷۷۹۴) حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ بْنُ مُوسَی ، قَالَ : أَخْبَرَنَا إِسْرَائِیلُ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ؛ أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَتَبَ إِلَی رِعْیَۃَ السُّحَیْمِیِّ بِکِتَابٍ ، فَأَخَذَ کِتَابَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَرَقَّعَ بِہِ دَلْوَہُ ، فَبَعَثَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سَرِیَّۃً ، فَأَخَذُوا أَہْلَہُ وَمَالَہُ ، وَأَفْلَتَ رِعْیَۃُ عَلَی فَرَسٍ لَہُ عُرْیَانًا لَیْسَ عَلَیْہِ شَیْئٌ ، فَأَتَی ابْنَتَہُ وَکَانَتْ مُتَزَوِّجَۃً فِی بَنِی ہِلاَلٍ۔ قَالَ : وَکَانُوا أَسْلَمُوا فَأَسْلَمَتْ مَعَہُمْ ، وَکَانُوا دَعُوہُ إِلَی الإِسْلاَمِ۔ قَالَ : فَأَتَی ابْنَتَہُ ، وَکَانَ مَجْلِسُ الْقَوْمُ بِفِنَائِ بَیْتِہَا ، فَأَتَی الْبَیْتَ مِنْ وَرَائِ ظَہْرِہِ ، فَلَمَّا رَأَتْہُ ابْنَتُہُ عُرْیَانًا أَلْقَتْ عَلَیْہِ ثَوْبًا ، قَالَتْ : مَالَکَ ؟ ، قَالَ : کُلُّ الشَّرِ ، مَا تُرِکَ لِی أَہْلٌ ، وَلاَ مَالٌ ، قَالَ : أَیْنَ بَعْلُکِ ؟ قَالَتْ : فِی الإِبِلِ ، قَالَ : فَأَتَاہُ فَأَخْبَرَہُ ، قَالَ : خُذْ رَاحِلَتِی بِرَحْلِہَا ، وَنُزَوِّدُک مِنَ اللَّبَنِ ، قَالَ : لاَ حَاجَۃَ لِی فِیہِ ، وَلَکِنْ أَعْطِنِی قَعُودَ الرَّاعِی وَإِدَاوَۃً مِنْ مَائٍ ، فَإِنِّی أُبَادِرُ مُحَمَّدًا لاَ یَقْسِمُ أَہْلِی وَمَالِی ، فَانْطَلَقَ وَعَلَیْہِ ثَوْبٌ إِذَا غَطَّی بِہِ رَأْسَہُ خَرَجَتْ اسْتُہُ ، وَإِذَا غَطَّی بِہِ اسْتَہُ خَرَجَ رَأْسُہُ۔ فَانْطَلَقَ حَتَّی دَخَلَ الْمَدِینَۃَ لَیْلا ً، فَکَانَ بِحِذَائِ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَلَمَّا صَلَّی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْفَجْرَ ، قَالَ لَہُ : یَا رَسُولَ اللہِ ، اُبْسُطْ یَدَک فَلأُبَایِعْک ، فَبَسَطَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَدَہُ ، فَلَمَّا ذَہَبَ رِعْیَۃُ لِیَمْسَحَ عَلَیْہَا ، قَبَضَہَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، ثُمَّ قَالَ لَہُ رِعْیَۃُ : یَا رَسُولَ اللہِ ، اُبْسُطْ یَدَک ، قَالَ : وَمَنْ أَنْتَ ؟ قَالَ : رِعْیَۃُ السُّحَیْمِیُّ ، قَالَ : فَأَخَذَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِعَضُدِہِ فَرَفَعَہَا ، ثُمَّ قَالَ : أَیُّہَا النَّاسُ ، ہَذَا رِعْیَۃُ السُّحَیْمِیُّ الَّذِی کَتَبْتُ إِلَیْہِ فَأَخَذَ کِتَابِی فَرَقَّعَ بِہِ دَلْوَہُ ، فَأَسْلَمَ۔ ثُمَّ قَالَ : یَا رَسُولَ اللہِ ، أَہْلِی وَمَالِی ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : أَمَّا مَالُک فَقَدْ قُسِّمَ بَیْنَ الْمُسْلِمِینَ ، وَأَمَّا أَہْلُک فَانْظُرْ مَنْ قَدَرْت عَلَیْہِ مِنْہُمْ ، قَالَ : فَخَرَجْتُ فَإِذَا ابْنٌ لِی قَدْ عَرَفَ الرَّاحِلَۃَ ، وَإِذَا ہُوَ قَائِمٌ عِنْدَہَا ، فَأَتَیْتَ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقُلْتُ : ہَذَا ابْنِی ، فَأَرْسَلَ مَعِی بِلاَلاً ، فَقَالَ : انْطَلِقْ مَعَہُ فَسَلْہُ : أَبُوکَ ہُوَ ؟ فَإِنْ قَالَ نَعَمْ ، فَادْفَعْہُ إِلَیْہِ ، قَالَ : فَأَتَاہُ بِلاَلٌ ، فَقَالَ : أَبُوک ہُوَ ؟ فَقَالَ : نَعَمْ ، فَدَفَعَہُ إِلَیْہِ ، قَالَ : فَأَتَی بِلاَلٌ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : وَاللہِ ، مَا رَأَیْتُ أَحَدًا مِنْہُمَا مُسْتَعْبِرًا إِلَی صَاحِبِہِ ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : ذَلِکَ جَفَائُ الأْعَرَابِ۔ (احمد ۲۸۵۔ طبرانی ۴۶۳۵)
(٣٧٧٩٤) حضرت شعبی سے روایت ہے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے رعی السحیمی کی طرف ایک خط لکھا۔ اس نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا خط پکڑا اور اس سے اپنے ڈول کو سی لیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک لشکر روانہ کیا۔ انھوں نے (جا کر) اس کے اہل و عیال اور مال پر قبضہ کرلیا۔ اور رعیہ اپنے ایک گھوڑے پر ننگی حال میں جبکہ اس پر کچھ بھی نہیں تھا سوار ہوا۔ پس یہ اپنی بیٹی کے پاس آیا۔ اور اس کی یہ بیٹی بنی ہلال میں متزوج تھی۔ راوی کہتے ہیں۔ یہ اپنی بیٹی کے پاس آیا۔ اور اس کی بیٹی کے گھر کے صحن میں لوگوں کی مجلس سجتی تھی۔ تو یہ گھر کی پشت کی طرف سے آیا۔ جب اس کو اس کی بیٹی نے عریاں حالت میں دیکھا تو اس نے اس پر کپڑا پھینک دیا۔ اور پوچھا ۔ تمہیں کیا ہوگیا ہے ؟ رعیہ نے جواب دیا۔ مکمل شر واقع ہوگیا ہے۔ میرے لیے میرے اہل اور مال نہیں چھوڑا گیا۔ پھر رعیہ نے پوچھا۔ تیرا شوہر کیا ں ہے ؟ بیٹی نے جواب دیا۔ اونٹوں میں۔ راوی کہتے ہیں۔ پھر اس کا شوہر آیا اور رعیہ نے اس کو ساری بات بتائی۔ اس نے کہا : یہ میری سواری کجاوہ سمیت لے لو اور میں قوت میں تمہیں دودھ بھی دیتا ہوں ؟ رعیہ نے کہا۔ مجھے اس کی ضرورت نہیں ہے لیکن تم مجھے ایک جوان اونٹ اور پانی کا برتن دے دو تاکہ میں جلدی سے محمد کے پاس پہنچونکہ کہیں وہ میرے اہل و عیال اور مال کو تقسیم نہ کر دے۔ پس وہ اس حالت میں وہاں سے چلا کہ اس پر ایک کپڑا تھا۔ جب وہ اس کپڑے سے اپنا سر ڈھانپتا تھا تو اس کی سرین کھل جاتی تھی۔ اور جب وہ اپنی سرین کو ڈھانپتا تھا تو اس کا سر کھل جاتا تھا۔ پس یہ چلتا رہا۔ یہاں تک کہ رات کے وقت یہ مدینہ میں داخل ہوا۔ پھر یہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے محاذات میں پہنچ گیا۔ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فجر کی نماز پڑھ چکے تو اس نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا۔ یا رسول اللہ ! اپنا ہاتھ پھیلائیں تاکہ میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیعت کروں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنا دست مبارک پھیلایا۔ پس جب رعیہ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دست مبارک پر اپنا ہاتھ رکھنا چاہا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے ہاتھ کو واپس کھینچ لیا۔ رعیہ نے پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا۔ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! اپنا ہاتھ پھیلائیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا۔ تم کون ہو ؟ اس نے جواب دیا۔ رعیۃ السُّحَیمی ہوں۔ راوی کہتے ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کی کلائی سے پکڑ کر اس کی کلائی کو بلند کیا پھر فرمایا : اے لوگو ! یہ رعیۃ السُحیمی ہے جس کی طرف میں نے خط لکھا تو اس نے میرا خط لے کر اس سے اپنا ڈول سی لیا اب اسلام لے آیا ہے۔ پھر رعیہ نے عرض کیا۔ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! میرے اہل و عیال اور میرا مال ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تیرا مال تو مسلمانوں میں تقسیم کردیا گیا ہے۔ اور تیرے اہل و عیال۔ پس ان میں سے تو جس پر قادر ہو ان کو دیکھ لو (مل جائیں گے) رعیہ کہتے ہیں۔ میں باہر آیا تو میرا بیٹا جو کہ کجاوہ پہچان چکا تھا۔ وہ کجاوے کے پاس کھڑا ہوا تھا۔ پس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور میں نے عرض کای۔ یہ میرا بیٹا ہے۔ پھر میرے ساتھ حضرت بلال کو بھیجا گیا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اس کے ساتھ چلے جاؤ اور اس لڑکے سے پوچھو۔ تمہارا والد یہی ہے ؟ پس اگر وہ کہے : ہاں ! تو وہ لڑکا اس کو دے دو ۔ راوی کہتے ہیں۔ حضرت بلال اس جوان کے پاس آئے اور اس سے پوچھا : تمہارا باپ یہی ہے ؟ نوجوان نے جواب دیا : ہاں ! حضرت بلال نے وہ جوان رعیہ کے حوالہ کردیا۔ راوی کہتے ہیں۔ حضرت بلال نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس تشریف لائے اور فرمایا : بخدا ! میں نے ان دونوں میں سے کسی ایک کو اپنے ساتھی کے دیدار پر روتے ہوئے نہیں دیکھا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : یہی تو اہل دیہات کا اکھڑ پن ہے۔

37794

(۳۷۷۹۵) حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ بْنُ مُوسَی ، قَالَ : أَخْبَرَنَا إِسْرَائِیلُ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِی بُرْدَۃَ ، عَنْ أَبِی مُوسَی، قَالَ : أَمَرَنَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ نَنْطَلِقَ مَعَ جَعْفَرِ بْنِ أَبِی طَالِبٍ إِلَی أَرْضِ النَّجَاشِیِّ ، قَالَ : فَبَلَغَ ذَلِکَ قَوْمَنَا ، فَبَعَثُوا عَمْرَو بْنَ الْعَاصِ وَعُمَارَۃَ بْنَ الْوَلِید ، وَجَمَعُوا لِلنَّجَاشِیِّ ہَدِیَّۃً ، فَقَدِمْنَا وَقَدِمَا عَلَی النَّجَاشِی ، فَأَتَوْہُ بِہَدِیَّتِہِ فَقَبِلَہَا ، وَسَجَدُوا لَہُ ، ثُمَّ قَالَ لَہُ عَمْرُو بْنُ الْعَاصِ : إِنَّ قَوْمًا مِنَّا رَغِبُوا عَنْ دِینِنَا ، وَہُمْ فِی أَرْضِکَ ، فَقَالَ لَہُمَ النَّجَاشِیُّ : فِی أَرْضِی ؟ قَالُوا : نَعَمْ ، فَبَعَثَ إِلَیْنَا۔ فَقَالَ لَنَا جَعْفَرٌ : لاَ یَتَکَلَّمُ مِنْکُمْ أَحَدٌ ، أَنَا خَطِیبُکُمَ الْیَوْمَ ، قَالَ : فَانْتَہَیْنَا إِلَی النَّجَاشِیِّ وَہُوَ جَالِسٌ فِی مَجْلِسِہِ ، وَعَمْرُو بْنُ الْعَاصِ عَنْ یَمِینِہِ ، وَعُمَارَۃُ عَنْ یَسَارِہِ وَالْقِسِّیسُونَ وَالرُّہْبَانُ جُلُوسٌ سِمَاطَیْنِ ، وَقَدْ قَالَ لَہُ عَمْرُو بْنُ الْعَاصِ وَعُمَارَۃُ : إِنَّہُمْ لاَ یَسْجُدُونَ لَکَ۔ قَالَ : فَلَمَّا انْتَہَیْنَا إِلَیْہِ ، زَبَرَنَا مَنْ عِنْدَہُ مِنَ الْقِسِّیسِینَ وَالرُّہْبَانِ : اُسْجُدُوا لِلْمَلِکِ ، فَقَالَ جَعْفَرٌ : لاَ نَسْجُدُ إِلاَّ لِلَّہِ ، فَلَمَّا انْتَہَیْنَا إِلَی النَّجَاشِیِّ ، قَالَ ، مَا یَمْنَعُکَ أَنْ تَسْجُدَ ؟ قَالَ : لاَ نَسْجُدُ إِلاَّ لِلَّہِ ، قَالَ لَہُ النَّجَاشِی : وَمَا ذَاکَ ؟ قَالَ : إِنَّ اللَّہَ بَعَثَ فِینَا رَسُولَہُ ، وَہُوَ الرَّسُولُ الَّذِی بَشَّرَ بِہِ عِیسَی ابْنُ مَرْیَمَ عَلَیْہِمَا السَّلاَمُ : {بِرَسُولٍ یَأْتِی مِنْ بَعْدِی اسْمُہُ أَحْمَدُ} ، فَأَمَرَنَا أَنْ نَعْبُدَ اللَّہَ ، وَلاَ نُشْرِکَ بِہِ شَیْئًا ، وَنُقِیمَ الصَّلاَۃَ ، وَنُؤْتِیَ الزَّکَاۃَ ، وَأَمَرَنَا بِالْمَعْرُوفِ ، وَنَہَانَا عَنِ الْمُنْکَرِ ، قَالَ : فَأَعْجَبَ النَّجَاشِیَّ قَوْلُہُ۔ فَلَمَّا رَأَی ذَلِکَ عَمْرُو بْنُ الْعَاصِ ، قَالَ : أَصْلَحَ اللَّہُ الْمَلِکَ ، إِنَّہُمْ یُخَالِفُونَکَ فِی ابْنِ مَرْیَمَ عَلَیْہِ السَّلاَمُ ، فَقَالَ النَّجَاشِیُّ لِجَعْفَرٍ : مَا یَقُولُ صَاحِبُکَ فِی ابْنِ مَرْیَمَ ؟ قَالَ : یَقُولُ فِیہِ قَوْلَ اللہِ : ہُوَ رُوحُ اللہِ وَکَلِمَتُہُ ، أَخْرَجَہُ مِنَ الْبَتُولِ الْعَذْرَائِ الَّتِی لَمْ یَقْرَبْہَا بَشَرٌ ، قَالَ : فَتَنَاوَلَ النَّجَاشِیُّ عُودًا مِنَ الأَرْضِ ، فَقَالَ : یَا مَعْشَرَ الْقِسِّیسِینَ وَالرُّہْبَانِ ، مَا یَزِیدُ مَا یَقُولُ ہَؤُلاَئِ عَلَی مَا تَقُولُونَ فِی ابْنِ مَرْیَمَ مَا یَزِنُ ہَذِہِ ، مَرْحَبًا بِکُمْ ، وَبِمَنْ جِئْتُمْ مِنْ عِنْدِہِ ، فَأَنَا أَشْہَدُ أَنَّہُ رَسُولُ اللہِ ، وَالَّذِی بَشَّرَ بِہِ عِیسَی ابْنُ مَرْیَمَ ، وَلَوْلاَ مَا أَنَا فِیہِ مِنَ الْمُلْکِ لأَتَیْتُہُ حَتَّی أَحْمِلَ نَعْلَیْہِ ، اُمْکُثُوا فِی أَرْضِی مَا شِئْتُمْ ، وَأَمَرَ لَنَا بِطَعَامٍ وَکِسْوَۃٍ ، وَقَالَ : رُدُّوا عَلَی ہَذَیْنِ ہَدِیَّتَہُمَا۔ قَالَ: وَکَانَ عَمْرُو بْنُ الْعَاصِ رَجُلاً قَصِیرًا، وَکَانَ عُمَارَۃُ بْنُ الْوَلِیدِ رَجُلاً جَمِیلاً، قَالَ: فَأَقْبَلاَ فِی الْبَحْرِ إِلَی النَّجَاشِیِّ ، قَالَ: فَشَرِبُوا ، قَالَ : وَمَعَ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ امْرَأَتُہُ ، فَلَمَّا شَرِبُوا الْخَمْرَ ، قَالَ عُمَارَۃُ لِعَمْرٍو: مُرَ امْرَأَتَکَ فَلْتُقَبِّلْنِی ، فَقَالَ لَہُ عَمْرٌو : أَلاَ تَسْتَحْی ، فَأَخَذَہُ عُمَارَۃُ فَرَمَی بِہِ فِی الْبَحْرِ ، فَجَعَلَ عَمْرٌو یُنَاشِدُہُ حَتَّی أَدْخَلَہُ السَّفِینَۃَ ، فَحَقَدَ عَلَیْہِ عَمْرٌو ذَلِکَ ، فَقَالَ عَمْرٌو لِلنَّجَاشِیِّ : إِنَّک إِذَا خَرَجْتَ خَلَفَ عُمَارَۃُ فِی أَہْلِکَ ، قَالَ : فَدَعَا النَّجَاشِیُّ بِعُمَارَۃَ فَنَفَخَ فِی إِحْلِیلِہِ فَصَارَ مَعَ الْوَحْشِ۔ (ابوداؤد ۳۱۹۷۔ حاکم ۳۰۹)
(٣٧٧٩٥) حضرت ابو موسیٰ سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں حضرت جعفر بن ابی طالب کے ہمراہ ارض ِ نجاشی کی طرف ہجرت کرنے کا حکم ارشاد فرمایا۔ ابو موسیٰ کہتے ہیں۔ یہ بات ہماری قوم کو معلوم ہوئی تو انھوں نے عمرو بن العاص اور عمارہ بن الولید کو بھیجا۔ اور نجاشی کے لیے تحائف اکٹھے کئے۔ پس ہم بھی (وہاں) پہنچے اور وہ دونوں بھی پہنچے۔ یہ دونوں اس کے پاس ہدایا لے کر حاضر ہوئے تو اس نے ان ہدایا کو قبول کرلیا۔ ان لوگوں (قاصدین قریش) نے اس کو سجدہ کیا۔ پھر عمرو بن العاص نے نجاشی سے کہا۔ ہماری قوم میں سے کچھ لوگ اپنے دین سے پھرگئے ہیں اور وہ (اس وقت) تمہاری زمین میں ہیں۔ نجاشی نے ان سے پوچھا۔ میری زمین میں ؟ قاصدین نے کہا : جی ہاں ! پھر نجاشی نے ہماری طرف (آدمی) بھیجا۔
٢۔ حضرت جعفر نے ہمیں کہا۔ تم میں سے کوئی نہ بولے آج تمہارا خطیب میں ہوں۔ راوی کہتے ہیں۔ پس ہم نجاشی کے پاس پہنچے۔ اور اپنی مجلس میں بیٹھا ہو اتھا۔ عمرو بن العاص اس کے دائیں طرف اور عمارہ اس کے بائیں طرف بیٹھاہو اتھا۔ عباد اور زاہد لوگ دو صفیں بنا کر بٹھے۔ ہوئے تھے۔ عمرو بن العاص اور عمارہ نے نجاشی سے کہہ دیا تھا ۔ کہ یہ لوگ تمہیں سجدہ نہیں کریں گے۔
٣۔ راوی کہتے ہیں۔ پس جب ہم اس کے پاس پہنچے تو اس کے پاس موجود زاہدوں اور عباد نے ہمیں روک دیا کہ بادشاہ کو سجدہ کرو۔ حضرت جعفر نے فرمایا : ہم اللہ کے سوا کسی اور کو سجدہ نہیں کرتے۔ پھر جب ہم نجاشی کے پاس پہنچے تو نجاشی نے پوچھا۔ تجھے سجدہ کرنے سے کس چیز نے منع کیا ؟ حضرت جعفر نے جواب دیا۔ ہم اللہ کے سوا کسی کو سجدہ نہیں کرتے۔ نجاشی نے حضرت جعفر سے پوچھا۔ یہ کیا (وجہ) ہے ؟ حضرت جعفر نے فرمایا۔ اللہ تعالیٰ نے ہمارے درمیان اپنے ایک رسول کو مبعوث فرمایا ہے۔ اور یہ وہی رسول ہے جس کی بشارت حضرت عیسیٰ بن مریم نے دی تھی۔ (بِرَسُولٍ یَأْتِی مِنْ بَعْدِی اسْمُہُ أَحْمَدُ ) پس اس رسول نے ہمیں حکم دیا کہ ہم اللہ ہی کی عبادت کریں اور ہم اس کے ساتھ کسی کو بھی شریک نہ کریں اور ہم نماز قائم کریں اور زکوۃ ادا کریں اور اس رسول نے ہمیں اچھائی کا حکم دیا اور برائی سے منع کیا۔ راوی کہتے ہیں : نجاشی کو حضرت جعفر کی بات نے تعجب میں ڈال دیا۔
٤۔ جب عمرو بن العاص نے یہ حالت دیکھی تو بولا۔ اللہ تعالیٰ بادشاہ کو سلامت رکھے ! یہ لوگ حضرت عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) میں آپ کی مخالفت کرتے ہیں۔ نجاشی نے حضرت جعفر سے پوچھا۔ تمہارا ساتھی (نبی) عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) کے بارے میں کیا کہتا ہے ؟ حضرت جعفر نے فرمایا۔ وہ حضرت عیسیٰ کے بارے میں خدا کا یہ کلام کہتے ہیں۔ کہ وہ اللہ کی روح اور اس کا کلمہ ہیں۔ اللہ پاک نے ان کو اس کنواری زاہدہ عورت سے پیدا کیا ہے جس کے قریب کوئی بندہ بشر نہیں گیا۔ راوی کہتے ہیں۔ نجاشی نے زمین سے ایک لکڑی (تنکا) اٹھائی اور کہا۔ اے جماعت عُبَّاد و زُہَّاد ! حضرت عیسیٰ بن مریم کے بارے میں جو بات تم کہتے ہو ۔ ان لوگوں کی کہی ہوئی بات تمہاری بات سے اس لکڑی کے وزن سے بھی زیادہ نہیں ہے۔ تمہیں آنا مبارک ہو اور اس کو بھی مبارک ہو جس کے پاس سے تم آئے ہو۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ خدا کا رسول ہے اور وہی رسول ہے جس کی بشارت حضرت عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) نے دی تھی۔ اگر میں ان حکومتی احوال میں نہ ہوتا تو میں اس کے پاس حاضر ہوتا تاکہ میں اس کے جوتے اٹھاتا۔ جتنی دیر تمہارا دل چاہے تم میری زمین میں رہو ۔ پھر نجاشی نے ہمارے لیے کھانے اور کپڑوں کا حکم دیا اور کہا۔ ان دونوں (قاصدین قریش) کو ان کے ہدایا واپس کردو۔
٥۔ راوی کہتے ہیں : عمرو بن العاص پستہ قد آدمی تھا۔ اور عمارہ بن الولید ایک خوبرو نوجوان تھا۔ راوی کہتے ہیں : یہ دونوں نجاشی کے سامنے سمندر میں آئے۔ راوی کہتے ہیں۔ پھر انھوں نے شراب پی۔ کہتے ہیں۔ عمرو بن العاص کے ہمراہ اس کی بیوی بھی تھی۔ تو جب انھوں نے شراب نوشی کی تو عمارہ نے عمرو سے کہا۔ اپنی بیوی کو حکم دو کہ وہ مجھے بوسہ دے۔ عمرو نے عمارہ کو کہا۔ تمہیں شرم نہیں آتی۔ پس عمارہ نے عمرو کو پکڑا اور اس کو سمندر میں پھینکنے چلا تو عمرو نے اس کو مسلسل دہائی دینی شروع کی یہاں تک کہ عمارہ نے عمرو کو کشتی میں داخل کردیا۔ اس بات پر عمرو نے عمارہ کو موقع پا کر نقصان پہنچانے کا ارادہ کیا۔ تو عمرو نے نجاشی سے کہا۔ جب تم باہر جاتے ہو تو عمارہ تمہارے گھر والوں کے پاس آتا جاتا ہے۔ راوی کہتے ہیں۔ نجاشی نے عمارہ کو بلا بھیجا اور اس کی پیشاب کی نالی میں پھونک مروا دی پس عمارہ وحشیوں کے ساتھ ہوگیا۔

37795

(۳۷۷۹۶) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ إِسْمَاعِیلَ بْنِ أَبِی خَالِدٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : لَمَّا قَدِمَ جَعْفَرٌ مِنْ أَرْضِ الْحَبَشَۃِ ، لَقِیَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ أَسْمَائَ بِنْتَ عُمَیْسٍ ، فَقَالَ لَہَا : سَبَقْنَاکُمْ بِالْہِجْرَۃِ ، وَنَحْنُ أَفْضَلُ مِنْکُمْ ، قَالَتْ : لاَ أَرْجِعُ حَتَّی آتِیَ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : فَدَخَلَتْ عَلَیْہِ ، فَقَالَتْ : یَا رَسُولَ اللہِ ، لَقِیتُ عُمَرَ ، فَزَعَمَ أَنَّہُ أَفْضَلُ مِنَّا ، وَأَنَّہُمْ سَبَقُونَا بِالْہِجْرَۃِ ، قَالَتْ : قَالَ نَبِیُّ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : بَلْ أَنْتُمْ ہَاجَرْتُمْ مَرَّتَیْنِ۔ قَالَ إِسْمَاعِیلُ : فَحَدَّثَنِی سَعِیدُ بْنُ أَبِی بُرْدَۃَ ، قَالَ : قَالَتْ یَوْمَئِذٍ لِعُمَرَ : مَا ہُوَ کَذَلِکَ ، کُنَّا مُطرَّدِینَ بِأَرْضِ الْبُعَدَائِ الْبُغَضَائِ ، وَأَنْتُمْ عِنْدَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَعِظُ جَاہِلَکُمْ ، وَیُطْعِمُ جَائِعَکُمْ۔
(٣٧٧٩٦) حضرت شعبی سے روایت ہے کہ جب حضرت جعفر ارض حبشہ سے واپس تشریف لائے تو حضرت عمر بن خطاب ، اسماء بنت عمیس سے ملے تو اس سے کہا۔ ہم نے تم سے پہلے ہجرت کی ہے اور ہم تم سے افضل ہیں۔ حضرت اسمائ نے فرمایا : میں تب تک واپس نہیں جاؤں گی جب تک رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نہ مل لوں۔ راوی کہتے ہیں۔ وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا۔ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! میری حضرت عمر سے ملاقات ہوئی ہے تو ان کا گمان یہ ہے کہ وہ ہم سے افضل ہیں۔ اور یہ کہ انھوں نے ہم سے پہلے ہجرت کی ہے۔ فرماتی ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : (نہیں) بلکہ تم لوگوں نے دو مرتبہ ہجرت کی ہے۔
حضرت اسماعیل کہتے ہیں۔ سعید بن ابی بردہ نے مجھے بیان کیا کہ حضرت اسمائ نے اس دن حضرت عمر سے کہا۔ ایسا نہیں ہے (کیونکہ) ہم لوگ قابل نفرت اور دور کی زمین میں بالکل الگ کئے ہوئے تھے جبکہ تم لوگ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس تھے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تم میں سے ناواقف کو وعظ کہتے اور تمہارے بھوکے کو کھانا کھلاتے۔

37796

(۳۷۷۹۷) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنْ أَبِیہِ فِی قَوْلِہِ : {تَرَی أَعْیُنَہُمْ تَفِیضُ مِنَ الدَّمْعِ مِمَّا عَرَفُوا مِنَ الْحَقِّ} قَالَ : نَزَلَ ذَلِکَ فِی النَّجَاشِیِّ۔
(٣٧٧٩٧) حضرت ہشام اپنے والد سے ارشاد خداوندی { تَرَی أَعْیُنَہُمْ تَفِیضُ مِنَ الدَّمْعِ مِمَّا عَرَفُوا مِنَ الْحَقِّ } کے بارے میں روایت کرتے ہیں کہ یہ آیت نجاشی کے بارے میں نازل ہوئی تھی۔

37797

(۳۷۷۹۸) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَنِ الأَجْلَحِ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : أُتِیَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حِینَ افْتَتَحَ خَیْبَرَ ، فَقِیلَ لَہُ : قَدْ قَدِمَ جَعْفَرٌ مِنْ عِنْدِ النَّجَاشِیِّ ، قَالَ : مَا أَدْرِی بِأَیِّہِمَا أَنَا أَفْرَحُ ، بِقُدُومِ جَعْفَرٍ ، أَوْ بِفَتْحِ خَیْبَرَ ؟ ثُمَّ تَلَقَّاہُ فَالْتَزَمَہُ ، وَقَبَّلَ مَا بَیْنَ عَیْنَیْہِ۔
(٣٧٧٩٨) حضرت شعبی سے روایت ہے کہ جب خیبر فتح ہوا تو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ خبر دی گئی اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا گیا کہ حضرت جعفر ، نجاشی کے پاس سے واپس آگئے ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ مجھے معلوم نہیں ہو رہا کہ میں ان دونوں باتوں میں سے کس پر (زیادہ) خوش ہوں۔ حضرت جعفر کے آنے پر یا خیبر کے فتح ہونے پر۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے ملے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو اپنے ساتھ چمٹا لیا اور ان کی آنکھوں کے درمیان بوسہ دیا۔

37798

(۳۷۷۹۹) حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیزِ ، قَالَ : حَدَّثَنِی الزُّہْرِیُّ ، قَالَ : حَدَّثَنِی أَبُو بَکْرِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ ہِشَامٍ الْمَخْزُومِیُّ ، قَالَ : دَعَا النَّجَاشِیُّ جَعْفَرَ بْنَ أَبِی طَالِبٍ ، وَجَمَعَ لَہُ رُؤُوسَ النَّصَارَی ، ثُمَّ قَالَ لِجَعْفَرٍ : اقْرَأْ عَلَیْہِمْ مَا مَعَک مِنَ الْقُرْآنِ ، فَقَرَأَ عَلَیْہِمْ (کہیعص) فَفَاضَتْ أَعْیُنُہُمْ ، فَنَزَلَتْ : {تَرَی أَعْیُنَہُمْ تَفِیضُ مِنَ الدَّمْعِ مِمَّا عَرَفُوا مِنَ الْحَقِّ}۔
(٣٧٧٩٩) حضرت ابوبکر بن عبد الرحمن روایت کرتے ہیں کہ نجاشی نے جعفر بن ابی طالب کو بلایا ۔ اور ان کے لیے بہت سے عیسائیوں کو جمع کیا پھر حضرت جعفر سے کہا۔ تمہارے پاس قرآن میں سے جو ہے وہ ان پر پڑھو۔ حضرت جعفر نے ان پر کھیعص کی تلاوت کی تو ان کی آنکھیں بہہ پڑیں اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ { تَرَی أَعْیُنَہُمْ تَفِیضُ مِنَ الدَّمْعِ مِمَّا عَرَفُوا مِنَ الْحَقِّ }

37799

(۳۷۸۰۰) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ ؛ أَنَّہُ ذُکِرَ عِنْدَہُ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ ، قَالَ رَجُلٌ : إِنَّہُمْ یَسُبُّونَہُ ، قَالَ : وَیْحَہُمْ ، یَسُبُّونَ رَجُلاً دَخَلَ عَلَی النَّجَاشِیِّ فِی نَفَرٍ مِنْ أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَکُلُّہُمْ أَعْطَاہُ الْفِتْنَۃَ غَیْرَہُ ، قَالُوا : وَمَا الْفِتْنَۃُ الَّتِی أَعْطَوْہَا ؟ قَالَ : کَانَ لاَ یَدْخُلُ عَلَیْہِ أَحَدٌ إِلاَّ أَوْمَأَ إِلَیْہِ بِرَأْسِہِ ، فَأَبَی عُثْمَان ، فَقَالَ : مَا مَنَعَکَ أَنْ تَسْجُدَ کَمَا سَجَدَ أَصْحَابُکَ ؟ فَقَالَ : مَا کُنْتُ لأَسْجُدَ لأَحَدٍ دُونَ اللہِ۔
(٣٧٨٠٠) حضرت ابن سیرین کے بارے میں منقول ہے کہ ان کے ہاں حضرت عثمان بن عفان کا ذکر ہوا تو ایک آدمی نے کہا۔ لوگ تو ان پر سب و شتم کرتے ہیں۔ ابن سیرین نے کہا ہلاکت ہو ان لوگوں پر کہ وہ ایسے آدمی پر سب و شتم کرتے ہیں۔ کہ جو نجاشی کے پاس اصحاب محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ایک جماعت کے ہمراہ داخل ہوا تھا۔ تو ان میں سے ہر ایک نے آزمائش اپنے غیر کے حوالہ کردی۔ لوگوں نے پوچھا : وہ کیا آزمائش تھی جو انھوں نے حوالہ کی۔ ابن سیرین نے کہا۔ نجاشی کے پاس جو بھی جاتا تھا تو وہ اپنا سر جھکا کر داخل ہوتا تھا۔ حضرت عثمان نے اس سے نکار کردیا تو نجاشی نے ان سے کہا۔ جس طرح تیرے ساتھیوں نے کیا ہے تمہیں ویسے کرنے سے کس نے منع کیا ہے۔ انھوں نے جواب دیا۔ میں اللہ کے سوا کسی کو سجدہ نہیں کیا کرتا۔

37800

(۳۷۸۰۱) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ الْحُبَابِ ، قَالَ : حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ وَاقِدٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ بُرَیْدَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ؛ أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ غَزَا تِسْعَ عَشْرَۃَ غَزْوَۃً ، قَاتَلَ فِی ثَمَانٍ۔ (مسلم ۱۴۴۸)
(٣٧٨٠١) حضرت عبداللہ بن بریدہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انیس غزوات لڑے۔ اور آٹھ میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قتال کیا۔

37801

(۳۷۸۰۲) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ الْحُبَابِ ، قَالَ : حدَّثَنِی لَیْثُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ سُلَیْمٍ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ أَبِی بُسْرَۃَ ، عَنِ الْبَرَائِ بْنِ عَازِبٍ ؛ أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ غَزَا تِسْعَ عَشْرَۃَ غَزْوَۃً۔
(٣٧٨٠٢) حضرت براء بن عازب سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انیس غزوات لڑے ہیں۔

37802

(۳۷۸۰۳) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ آدَمَ ، قَالَ : حدَّثَنَا زُہَیْرٍ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ زَیْدِ بْنِ أَرْقَمَ ، سَمِعَہُ مِنْہُ ؛ أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ غَزَا تِسْعَ عَشْرَۃَ غَزْوَۃً ، قَالَ أَبُو إِسْحَاقَ : فَسَأَلْتُ زَیْدَ بْنَ أَرْقَمَ : کَمْ غَزَوْتَ مَعَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ؟ قَالَ : سَبْعَ عَشْرَۃَ۔ (بخاری ۳۹۴۹۔ مسلم ۹۱۶)
(٣٧٨٠٣) حضرت زید بن ارقم سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انیس غزوات کئے۔ ابو اسحاق کہتے ہیں میں نے زید بن ارقم سے سوال کیا کہ آپ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہمراہ کتنے غزوات میں شرکت کی ہے ؟ انھوں نے جواب دیا۔ سترہ غزوات میں۔

37803

(۳۷۸۰۴) حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ بْنُ مُوسَی ، قَالَ : أَخْبَرَنَا إِسْرَائِیلُ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنِ الْبَرَائِ ، قَالَ : غَزَوْتُ مَعَ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خَمْسَ عَشْرَۃَ غَزْوَۃً ، وَأَنَا وَعَبْدُ اللہِ بْنُ عُمَرَ لِدَۃٌ۔ (بخاری ۴۴۷۲۔ ابن حبان ۷۱۷۶)
(٣٧٨٠٤) حضرت براء سے روایت ہے کہ میں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہمراہ پندرہ غزوات میں شرکت کی ہے۔ میں اور عبداللہ بن عمر ہم عمر ہیں۔

37804

(۳۷۸۰۵) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ الْحُبَابِ ، قَالَ : حدَّثَنِی حُسَیْنُ بْنُ وَاقِدٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِی مَطَرٌ الْوَرَّاقُ ، عَنْ قَتَادَۃَ ؛ أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ غَزَا تِسْعَ عَشْرَۃَ ، قَاتَلَ فِی ثَمَانٍ : یَوْمَ بَدْرٍ ، وَیَوْمَ أُحُدٍ ، وَیَوْمَ الأَحْزَابِ، وَیَوْمَ قُدَیْدٍ ، وَیَوْمَ خَیْبَرَ ، وَیَوْمَ فَتْحِ مَکَّۃَ ، وَیَوْمَ مَاء لبَنِی الْمُصْطَلِقِ ، وَیَوْمَ حُنَیْنٍ۔
(٣٧٨٠٥) حضرت قتادہ سے منقول ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انیس غزوات لڑے ، جن میں سے آٹھ غزوات میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قتال (لڑائی) بھی کیا۔ غزوہ بدر، غزوہ احد، غزوہ احزاب، غزوہ قدید ، غزوہ خیبر، فتح مکہ، غزوہ بنی المصطلق، غزوہ حنین۔

37805

(۳۷۸۰۶) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ مُجَالِدٍ ، عَنْ زِیَادِ بْنِ عِلاَقَۃَ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِی وَقَّاصٍ ، قَالَ : لَمَّا قَدِمَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْمَدِینَۃَ ، جَائَتْ جُہَیْنَۃُ ، فَقَالَتْ : إِنَّک قَدْ نَزَلْتَ بَیْنَ أَظْہُرِنَا ، فَأَوْثِقْ لَنَا حَتَّی نَأْمَنَکَ وَتَأْمَنَنَا ، فَأَوْثَقَ لَہُمْ وَلَمْ یُسْلِمُوا ، فَبَعَثَنَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی رَجَبٍ ، وَلاَ نَکُونُ مِئَۃً ، وَأَمَرَنَا أَنْ نُغِیرَ عَلَی حَیٍّ مِنْ کِنَانَۃَ إِلَی جَنْبِ جُہَیْنَۃَ ، قَالَ : فَأَغَرْنَا عَلَیْہِمْ ، وَکَانُوا کَثِیرًا ، فَلَجَأْنَا إِلَی جُہَیْنَۃَ ، فَمَنَعُونَا وَقَالُوا : لِمَ تُقَاتِلُونَ فِی الشَّہْرِ الْحَرَامِ ؟ فَقُلْنَا : إِنَّمَا نُقَاتِلُ مَنْ أَخْرَجَنَا مِنَ الْبَلَدِ الْحَرَامِ فِی الشَّہْرِ الْحَرَامِ ، فَقَالَ بَعْضُنَا لِبَعْضٍ : مَا تَرَوْنَ ؟ فَقَالُوا : نَأْتِی رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَنُخْبِرُہُ، وَقَالَ قَوْمٌ : لاَ ، بَلْ نُقِیمُ ہَاہُنَا ، وَقُلْتُ أَنَا فِی أُنَاسٍ مَعِی : لاَ ، بَلْ نَأْتِی عِیرَ قُرَیْشٍ ہَذِہِ فَنُصِیبُہَا ، فَانْطَلَقْنَا إِلَی الْعِیرِ ، وَکَانَ الْفَیْئُ إِذْ ذَاکَ : مَنْ أَخَذَ شَیْئًا فَہُوَ لَہُ ، فَانْطَلَقْنَا إِلَی الْعِیرِ ، وَانْطَلَقَ أَصْحَابُنَا إِلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرُوہُ الْخَبَرَ ، فَقَامَ غَضْبَانَ مُحْمَرًّا لَوْنُہُ وَوَجْہُہُ ، فَقَالَ : ذَہَبْتُمْ مِنْ عِنْدِی جَمِیعًا، وَجِئْتُمْ مُتَفَرِّقِینَ ؟ إِنَّمَا أَہْلَکَ مَنْ کَانَ قَبْلَکُمَ الْفُرْقَۃُ ، لأَبْعَثَنَّ عَلَیْکُمْ رَجُلاً لَیْسَ بِخَیْرِکُمْ ، أَصْبَرُکُمْ عَلَی الْجُوعِ وَالْعَطَشِ ، فَبَعَثَ عَلَیْنَا عَبْدَ اللہِ بْنَ جَحْشٍ الأَسَدِیَّ ، فَکَانَ أَوَّلَ أَمِیرٍ فِی الإِسْلاَمِ۔
(٣٧٨٠٦) حضرت سعد بن ابو وقاص سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ میں تشریف لائے تو (آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس) قبیلہ جہینہ والے آئے اور کہا۔ چونکہ آپ ہمارے درمیان فروکش ہوچکے ہیں پس آپ ہمارے ساتھ معاہدہ کرلیں تاکہ ہم آپ کی طرف سے مامون رہیں۔ اور آپ ہماری طرف سے مامون رہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے معاہدہ کرلیا۔ اور ان لوگوں نے اسلام قبول نہیں کیا۔ پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں ماہ رجب میں ایک لشکر کی شکل میں بھیجا۔ حالانکہ ہم لوگ سو کی تعداد میں بھی نہیں تھے۔ تاکہ ہم جہینہ قبیلہ کے پہلو میں موجود قبیلہ کنانہ پر حملہ کریں۔ راوی کہتے ہیں۔ ہم نے بنو کنانہ پر حملہ کیا تو وہ لوگ کثیر تعداد میں تھے۔ پس ہم نے جہینہ قبیلہ میں (آ کر) پناہ لی تو انھوں نے ہمیں پناہ سے روک دیا اور کہا۔ تم لوگوں نے شہر حرام میں کیوں لڑائی کی ہے ؟ ہم نے کہا : ہم نے انھیں لوگوں سے لڑائی کی ہے جنہوں نے ہمیں بلد حرام (مکہ) سے شہر حرام میں نکالا تھا۔ ہم میں سے بعض لوگوں نے بعض سے پوچھا۔ تمہاری کیا رائے ہے ؟ انھوں نے جواب دیا۔ ہم اللہ کے پیغمبر کے پاس جاتے ہیں اور جا کر انھیں یہ بات بتاتے ہیں۔ اور ایک گروہ نے کہا : نہیں ! بلکہ ہم یہیں قیام کرتے ہیں۔ اور میں نے چند لوگوں کی معیت میں یہ بات کہی کہ نہیں بلکہ قریش کے اس قافلہ کے پاس چلتے ہیں اور اس پر حملہ کرتے ہیں۔ پس ہم قافلہ کی طرف چل پڑے۔ اس وقت فئی یہ تھا کہ جو کوئی جس چیز کو لے لے تو وہ اسی کی ہے۔ پس ہم قافلہ کی طرف چل دیئے۔ اور ہمارے (بقیہ) ساتھی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف چلے گئے اور انھوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ساری بات بتائی۔ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غصہ کی حالت میں کھڑے ہوگئے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چہرہ مبارک اور رنگ مبارک میں سرخی ظاہر ہونے لگی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم لوگ میرے پاس سے اکٹھے گئے تھے اور تم متفرق طور پر واپس لوٹے ہو ؟ تم سے پہلے لوگوں کو گروہ بندی نے ہی ہلاک کیا ہے۔ میں تم پر ضرور بالضرور ایسے شخص کو امیر بنا کر بھیجوں گا جو تم میں سے (زیادہ) بہتر (بھی) نہیں۔ اور بھوک پیاس میں تم سب سے زیادہ صبر کرنے والا ہے۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہم پر عبداللہ بن جحش کو امیر بنا کر بھیجا۔ یہ صاحب اسلام میں پہلے امیر بنے۔

37806

(۳۷۸۰۷) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ؛ فِی قَوْلِہِ : {وَلاَ تُقَاتِلُوہُمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ حَتَّی یُقَاتِلُوکُمْ فِیہِ} فَأَمَرَ نَبِیَّہُ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ لاَ یُقَاتِلُوہُمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ، إلاَّ أَنْ یَبْدَؤُوا فِیہِ بِقِتَالٍ، ثُمَّ نَسَخَتْہَا: {یَسْأَلُونَک عَنِ الشَّہْرِ الْحَرَامِ قِتَالٍ فِیہِ} نَسَخَہَا ہَاتَانِ الآیَتَانِ؛ قَوْلُہُ: {فَإِذَا انْسَلَخَ الأَشْہُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِکِینَ حَیْثُ وَجَدْتُمُوہُمْ ، وَخُذُوہُمْ وَاحْصُرُوہُمْ}۔ (ابن جریر ۱۹۲)
(٣٧٨٠٧) حضرت قتادہ، ارشاد خداوندی { وَلاَ تُقَاتِلُوہُمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ حَتَّی یُقَاتِلُوکُمْ فِیہِ } کے بارے میں فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو یہ حکم دیا تھا کہ وہ مشرکین سے مسجد حرام کے پاس نہ لڑیں اِلَّا یہ کہ مشرکین ہی مسجد حرام میں لڑائی کا آغاز کردیں۔ پھر اس آیت کو اس آیت نے منسوخ کردیا۔ { یَسْأَلُونَک عَنِ الشَّہْرِ الْحَرَامِ قِتَالٍ فِیہِ }
ان دونوں آیات کو ارشاد ، خداوندی : { فَإِذَا انْسَلَخَ الأَشْہُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِکِینَ حَیْثُ وَجَدْتُمُوہُمْ ، وَخُذُوہُمْ وَاحْصُرُوہُمْ } نے منسوخ کردیا۔

37807

(۳۷۸۰۸) حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِیلَ، عَنْ جَعْفَرٍ، عَنْ أَبِیہِ، قَالَ: کَانَتْ بَدْرٌ لِسَبْعَ عَشْرَۃَ مِنْ رَمَضَانَ، فِی یَوْمِ جُمُعَۃٍ۔
(٣٧٨٠٨) حضرت جعفر اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ بدر کا واقعہ ، جمعہ کے روز، سترہ رمضان کو واقع ہوا تھا۔

37808

(۳۷۸۰۹) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ یَحْیَی ، عَنْ عَمْرِو بْنِ عَامِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ الزُّبَیْرِ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ عَامِرِ بْنِ رَبِیعَۃَ الْبَدْرِیِّ ، قَالَ : کَانَتْ بَدْرٌ یَوْمَ الاِثْنَیْنِ ، لِسَبْعَ عَشْرَۃَ مِنْ رَمَضَانَ۔
(٣٧٨٠٩) حضرت عامر بن ربیعہ بدری بیان کرتے ہیں کہ بدر کا واقعہ بروز پیر، سترہ رمضان کو رونما ہوا تھا۔

37809

(۳۷۸۱۰) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، عَنِ الأَسْوَدِ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : قَالَ : تَحَرُّوہَا لإِحْدَی عَشْرَۃَ تَبْقَی صَبِیحَۃَ بَدْرٍ۔
(٣٧٨١٠) حضرت عبداللہ سے روایت ہے۔ صحابہ کرام نے بدر کا قصد چاند کے طلوع سے گیارہ راتیں پہلے کیا تھا۔

37810

(۳۷۸۱۱) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ، قَالَ: حدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ شَیْبَۃَ، قَالَ: سَأَلْتُ أَبَا بَکْرِ بْنَ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ ہِشَامٍ : أَیُّ لَیْلَۃٍ کَانَتْ لَیْلَۃَ بَدْرٍ ؟ فَقَالَ : ہِیَ لَیْلَۃُ الْجُمُعَۃِ ، لِسَبْعِ عَشْرَۃَ لَیْلَۃً مَضَتْ مِنْ رَمَضَانَ۔
(٣٧٨١١) عمرو بن شیبہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے ابوبکر بن عبد الرحمن سے پوچھا : بدر کا واقعہ کس رات کو رونما ہوا ؟ انھوں نے جواب دیا۔ شبِ جمعہ کو۔ اور رمضان کی سترہ تاریخ کو۔

37811

(۳۷۸۱۲) حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ، عَنْ زَکَرِیَّا، عَنْ عَامِرٍ، قَالَ: إِنَّ بَدْرًا إِنَّمَا کَانَتْ بِئْرًا لِرَجُلٍ یُدْعَی بَدْرًا۔
(٣٧٨١٢) حضرت عامر بیان فرماتے ہیں کہ بدر (کی جگہ پر) ایک آدمی کا کنواں تھا ۔ جس آدمی کا نام بھی بدر تھا۔

37812

(۳۷۸۱۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنِ ابْنِ خُثَیْمٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، قَالَ : لَمْ تُقَاتِلَ الْمَلاَئِکَۃُ إِلاَّ یَوْمَ بَدْرٍ۔
(٣٧٨١٣) حضرت مجاہد بیان کرتے ہیں کہ ملائکہ نے صرف بدر کے دن ہی قتال کیا تھا۔

37813

(۳۷۸۱۴) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ مِسْعَرٍ ، عَنْ أَبِی عَوْنٍ ، عَنْ أَبِی صَالِحٍ الْحَنَفِیِّ ، عَنْ عَلِیٍّ ، قَالَ : قیلَ لأَبِی بَکْرٍ الصِّدِّیقِ وَلِی ، یَوْمَ بَدْرٍ : مَعَ أَحَدِکُمَا جِبْرِیلُ ، وَمَعَ الآخَرِ مِیکَائِیلُ ، وَإِسْرَافِیلُ مَلَکٌ عَظِیمٌ یَشْہَدُ الْقِتَالَ ، أَوْ یَقِفُ فِی الصَّفِّ۔
(٣٧٨١٤) حضرت علی سے روایت ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق سے اور مجھے یوم بدر میں کہا گیا کہ تم میں سے ایک کے ہمراہ جبرائیل اور دوسرے کے ہمراہ میکائیل ہے اور اسرافیل بڑا فرشتہ بھی قتال میں حاضر ہے۔ یا فرمایا : وہ بھی صف میں کھڑا ہے۔

37814

(۳۷۸۱۵) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو اللَّیْثِیِّ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ جَدِّہِ ، قَالَ : خَرَجَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِلَی بَدْرٍ ، حَتَّی إِذَا کَانَ بِالرَّوْحَائِ خَطَبَ النَّاسَ ، فَقَالَ : کَیْفَ تَرَوْنَ ؟ قَالَ أَبُو بَکْرٍ : یَا رَسُولَ اللہِ ، بَلَغَنَا أَنَّہُمْ بِکَذَا وَکَذَا ، قَالَ : ثُمَّ خَطَبَ النَّاسَ ، فَقَالَ : کَیْفَ تَرَوْنَ ؟ فَقَالَ عُمَرُ مِثْلَ قَوْلِ أَبِی بَکْرٍ ، ثُمَّ خَطَبَ ، فَقَالَ : مَا تَرَوْنَ ؟ فَقَالَ سَعْدُ بْنُ مُعَاذٍ : إیَّانَا تُرِیدُ ، فَوَالَّذِی أَکْرَمَکَ وَأَنْزَلَ عَلَیْکَ الْکِتَابَ مَا سَلَکْتُہَا قَطُّ ، وَلاَ لِی بِہَا عِلْمٌ ، وَلَئِنْ سِرْتَ حَتَّی تَأْتِیَ بَرْکَ الْغِمَادِ مِنْ ذِی یَمَنٍ لَنَسِیرَنَّ مَعَکَ ، وَلاَ نَکُونُ کَاَلَّذِینَ قَالُوا لِمُوسَی مِنْ بَنِی إِسْرَائِیلَ : اذْہَبْ أَنْتَ وَرَبُّک فَقَاتِلاَ ، إِنَّا ہَاہُنَا قَاعِدُونَ ، وَلَکِنِ اذْہَبْ أَنْتَ وَرَبُّکَ فَقَاتِلاَ إِنَّا مَعَکُمَا مُتَّبِعُونَ ، وَلَعَلَّکَ أَنْ تَکُونَ خَرَجْتَ لأَمْرٍ ، وَأَحْدَثَ اللَّہُ إِلَیْک غَیْرَہُ ، فَانْظُرَ الَّذِی أَحْدَثَ اللَّہُ إِلَیْکَ فَامْضِ لَہُ ، فَصِلْ حِبَالَ مَنْ شِئْتَ ، وَاقْطَعْ حِبَالَ مَنْ شِئْتَ، وَسَالِمْ مَنْ شِئْتَ ، وَعَادِ مَنْ شِئْتَ ، وَخُذْ مِنْ أَمْوَالِنَا مَا شِئْتَ ، فَنَزَلَ الْقُرْآنُ عَلَی قَوْلِ سَعْدٍ : {کَمَا أَخْرَجَک رَبُّکَ مِنْ بَیْتِکَ بِالْحَقِّ ، وَإِنَّ فَرِیقًا مِنَ الْمُؤْمِنِینَ لَکَارِہُونَ} إِلَی قَوْلِہِ: {وَیَقْطَعَ دَابِرَ الْکَافِرِینَ} وَإِنَّمَا خَرَجَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُرِیدُ غَنِیمَۃَ مَا مَعَ أَبِی سُفْیَانَ ، فَأَحْدَثَ اللَّہُ لِنَبِیِّہِ الْقِتَالَ۔
(٣٧٨١٥) حضرت محمد بن عمرو اپنے والد کے واسطے سے اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بدر کی طرف نکلے یہاں تک کہ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مقامِ روحاء پر پہنچے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں کو خطبہ دیا اور پوچھا تم لوگوں کی کیا رائے ہے ؟ حضرت ابوبکر نے جواباً عرض کیا۔ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ہمیں یہ خبر ملی ہے کہ وہ فلاں جگہ میں اور اتنی مقدار میں ہیں۔ راوی کہتے ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پھر لوگوں کو خطبہ ارشاد فرمایا اور پوچھا : تم لوگوں کی کیا رائے ہے ؟ تو حضرت عمر نے (بھی) حضرت ابوبکر کی طرح جواب دیا۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خطبہ ارشاد فرمایا اور پوچھا۔ تم لوگوں کی کیا رائے ہے ؟ تو حضرت سعد بن معاذ نے جواباً عرض کیا۔ آپ کی مراد ہم ہیں ؟ قسم اس ذات کی ! جس نے آپ کو عزت بخشی اور آپ پر کتاب کو نازل کیا۔ میں اس راہ پر کبھی نہیں چلا اور نہ ہی مجھے اس کا علم ہے۔ لیکن اگر چلتے چلتے ذی یمن مقام میں برک غماد تک بھی پہنچ جائیں گے تو البتہ ہم ضرور بالضرور آپ کے ہمراہ چلتے رہیں گے۔ اور ہم ان لوگوں کی مثال نہیں بنیں گے۔ جنہوں نے بنی اسرائیل میں سے (ہو کر) موسیٰ سے کہا۔ { اذْہَبْ أَنْتَ وَرَبُّک فَقَاتِلاَ ، إِنَّا ہَاہُنَا قَاعِدُونَ }۔
بلکہ (ہم یہ کہیں گے) آپ اور آپ کا رب جا کر قتال کرے اور ہم آپ کے ہمراہ پیروی کرنے والے ہوں گے۔ اور ہوسکتا ہے کہ آپ کسی کام کے لیے نکلے ہوں اور اللہ تعالیٰ نے آپ کے لیے کسی دوسرے امر کو رونما کر دے۔ پس آپ اس موملہ کو دیکھیں جس کو اللہ تعالیٰ آپ کے لیے رونما کرے اور آپ اسی کو پورا کریں۔ سو جس سے آپ چاہیں تعلق قائم کریں اور جس سے آپ چاہیں تعلق کاٹ لیں۔ اور جس سے چاہیں صلح کرلیں اور جس سے چاہیں دشمنی کرلیں۔ اور ہمارے اموال میں سے جو دل چاہے لے لیں۔ حضرت سعد کی بات پر یہ آیت قرآنی نازل ہوئی۔ { کَمَا أَخْرَجَک رَبُّکَ مِنْ بَیْتِکَ بِالْحَقِّ ، وَإِنَّ فَرِیقًا مِنَ الْمُؤْمِنِینَ لَکَارِہُونَ سے لے کر وَیَقْطَعَ دَابِرَ الْکَافِرِینَ }
اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارادہ ابو سفیان کے پاس موجود مال غنیمت بنا کرلینا تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کے لیے قتال کا واقعہ رونما کردیا۔

37815

(۳۷۸۱۶) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی بْنُ عَبْدِ الأَعْلَی ، عَنْ دَاوُدَ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : لَمَّا کَانَ یَوْمُ بَدْرٍ ، قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَنْ صَنَعَ کَذَا وَکَذَا فَلَہُ کَذَا وَکَذَا ، قَالَ : فَتَسَارَعَ فِی ذَلِکَ شُبَّانُ الرِّجَالِ ، وَبَقِیَتِ الشُّیُوخُ تَحْتَ الرَّایَاتِ ، فَلَمَّا کَانَتِ الْغَنَائِمُ جَاؤُوا یَطْلُبُونَ الَّذِی جُعِلَ لَہُمْ ، فَقَالَ الشُّیُوخُ : لاَ تَسْتَأْثِرُونَ عَلَیْنَا ، فَإِنَّا کُنَّا رِدْأَکُمْ وَکُنَّا تَحْتَ الرَّایَاتِ ، وَلَوَ انْکَشَفْتُمَ انْکَشَفْتُمْ إِلَیْنَا ، فَتَنَازَعُوا ، فَأَنْزَلَ اللَّہُ : {یَسْأَلُونَک عَنِ الأَنْفَالِ} إِلَی قَوْلِہِ : {وَأَطِیعُوا اللَّہَ وَرَسُولَہُ إِنْ کُنْتُمْ مُؤْمِنِینَ}۔ (ابوداؤد ۲۷۳۱۔ ابن حبان ۵۰۹۳)
(٣٧٨١٦) حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ جب بدر کا دن تھا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جو شخص یہ یہ کام کرے تو اس کے لیے یہ یہ ہے۔ راوی کہتے ہیں : یہ بات سن کر جوان آدمی تیزی دکھانے لگے۔ اور صرف بوڑھے افراد جھنڈوں کے نیچے رہ گئے۔ پھر جب غنیمتیں (اکٹھی) ہوئں ی تو یہ جوان اپنا اپنا (مقررہ) اجر لینے کے لیے آگئے۔ بوڑھوں نے کہا۔ تم لوگ ہم پر زیادتی کے مستحق نہیں ہو ۔ کیونکہ ہم تو تمہارے مددگار تھے اور ہم جھنڈوں کے نیچے تھے۔ اگر تم واپس پلٹے تو تم ہمارے طرف ہی واپس پلٹے۔ پس یہ لوگ آپس میں جھگڑنے لگے۔ تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں۔ { یَسْأَلُونَک عَنِ الأَنْفَالِ } سے لے کر { وَأَطِیعُوا اللَّہَ وَرَسُولَہُ إِنْ کُنْتُمْ مُؤْمِنِینَ } تک۔

37816

(۳۷۸۱۷) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ دَاوُدَ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ أَبِی طَلْحَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ؛ {سَیُہْزَمُ الْجَمْعُ} ، قَالَ : کَانَ ذَلِکَ یَوْمَ بَدْرٍ ، قَالُوا : نَحْنُ جَمِیعٌ مُنْتَصِرٌ ، فَنَزَلَتْ ہَذِہِ الآیَۃُ۔
(٣٧٨١٧) حضرت ابن عباس آیت قرآنی { سَیُہْزَمُ الْجَمْعُ } کی تفسیر میں فرماتے ہیں۔ یہ واقعہ یوم بدر کو ہوا تھا۔ کفار نے کہا۔ نَحْنُ جَمِیعٌ مُنْتَصِرٌ تو اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔

37817

(۳۷۸۱۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ أَبِی جَعْفَرٍ ، عَنِ الرَّبِیعِ ، عَنْ أَبِی الْعَالِیَۃِ ؛ {سَیُہْزَمُ الْجَمْعُ وَیُوَلُّونَ الدُّبُرَ} قَالَ : یَوْمَ بَدْرٍ۔
(٣٧٨١٨) حضرت ابو العالیہ سے قرآن مجید کی آیت { سَیُہْزَمُ الْجَمْعُ وَیُوَلُّونَ الدُّبُرَ } کی تفسیر میں منقول ہے۔ فرماتے ہیں۔ یہ بدر کا دن تھا۔

37818

(۳۷۸۱۹) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ دَاوُدَ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ أَبِی طَلْحَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ؛ {حَتَّی إِذَا فَتَحْنَا عَلَیْہِمْ بَابًا ذَا عَذَابٍ شَدِیدٍ ، إِذَا ہُمْ فِیہِ مُبْلِسُونَ} قَالَ : ذَاکَ یَوْمُ بَدْرٍ۔
(٣٧٨١٩) حضرت ابن عباس سے قرآن مجید کی آیت { حَتَّی إِذَا فَتَحْنَا عَلَیْہِمْ بَابًا ذَا عَذَابٍ شَدِیدٍ ، إِذَا ہُمْ فِیہِ مُبْلِسُونَ } کے بارے میں منقول ہے کہ یہ یوم بدر کا واقعہ ہے۔

37819

(۳۷۸۲۰) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ ؛ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یَثِبُ فِی الدِّرْعِ یَوْمَ بَدْرٍ ، وَیَقُولُ : ہُزِمَ الْجَمْعُ ، ہُزِمَ الْجَمْعُ۔ (بخاری ۲۹۱۵۔ احمد ۳۲۹)
(٣٧٨٢٠) حضرت عکرمہ سے روایت ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بدر کے دن زرہ پہنے ہوئے تھے اور خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہہ رہے تھے۔ لشکروں کو شکست ہوگی لشکروں کو شکست ہوگی۔

37820

(۳۷۸۲۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إِسْرَائِیلَ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ حَارِثَۃَ بْنِ مُضَرِّبٍ ، عَنْ عَلِیٍّ ، قَالَ : لَقَدْ رَأَیْتُنَا یَوْمَ بَدْرٍ وَنَحْنُ نَلُوذُ بِرَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَہُوَ أَقْرَبُنَا إِلَی الْعَدُوِّ۔
(٣٧٨٢١) حضرت علی سے روایت ہے کہ البتہ تحقیق مں ن نے بدر کے دن اپنے آپ (یعنی صحابہ ) کو دیکھا کہ ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اوٹ میں پناہ لے رہے تھے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم میں سے سب سے زیادہ دشمن کے قریب تھے۔

37821

(۳۷۸۲۲) حَدَّثَنَا الثَّقَفِیُّ ، عَنْ خَالِدٍ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ ؛ أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ یَوْمَ بَدْرٍ : ہَذَا جِبْرِیلُ آخِذٌ بِرَأْسِ فَرَسِہِ ، عَلَیْہِ أَدَاۃُ الْحَرْبِ۔
(٣٧٨٢٢) حضرت عکرمہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بدر کے دن ارشاد فرمایا : یہ جبرائیل ہے، اپنے گھوڑے کے سر کو پکڑے ہوئے ہے، اس پر آلات حرب ہیں۔

37822

(۳۷۸۲۳) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، عَنْ عُمَیْرِ بْنِ إِسْحَاقَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : تَسَوَّمُوا ، فَإِنَّ الْمَلاَئِکَۃَ قَدْ تَسَوَّمَتْ ، قَالَ : فَہُوَ أَوَّلُ یَوْمٍ وَضَعَ الصُّوفَ۔
(٣٧٨٢٣) حضرت عمیر بن اسحاق سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : نشان لگا لو کیونکہ فرشتوں نے بھی نشان لگا رکھے ہیں۔ راوی کہتے ہیں کہ اس دن پہلی مرتبہ اون استعمال کی گئی۔

37823

(۳۷۸۲۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إِسْرَائِیلَ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ حَارِثَۃَ بْنِ مُضَرِّبٍ الْعَبْدِیِّ ، عَنْ عَلِیٍّ ، قَالَ : کَانَ سِیمَا أَصْحَابِ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَوْمَ بَدْرٍ الصُّوفُ الأَبْیَضُ۔
(٣٧٨٢٤) حضرت علی سے روایت ہے کہ یوم بدر کو اصحابِ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی علامت سفید رنگ کی اون تھا۔

37824

(۳۷۸۲۵) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِی ہِنْدٍ ، عَنْ عَامِرٍ ، قَالَ : لَمَّا کَانَ یَوْمُ بَدْرٍ تَحَدَّثَ الْمُسْلِمُونَ أَنَّ کُرْزَ بْنَ جَابِرٍ یُمِدُّ الْمُشْرِکِینَ ، فَشَقَّ ذَلِکَ عَلَی الْمُسْلِمِینَ ، فَنَزَلَتْ : {بَلَی إِنْ تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا وَیَأْتُوکُمْ مِنْ فَوْرِہِمْ ہَذَا ، یُمْدِدْکُمْ رَبُّکُمْ بِخَمْسَۃِ آلاَفٍ مِنَ الْمَلاَئِکَۃِ مُسَوِّمِینَ} یَقُولُ : إِنْ أَمَدَّہُمْ کُرْزٌ أَمَدَدْتُکُمْ بِہَؤُلاَئِ الْمَلاَئِکَۃِ ، فَلَمْ یُمْدِدْہُمْ کُرْزٌ بِشَیْئٍ۔ (طبری ۷۶)
(٣٧٨٢٥) حضرت عامر روایت کرتے ہیں کہ جب بدر کا دن تھا تو مسلمان کہنے لگے۔ کرز بن جابر ، مشرکین کی مدد کررہا ہے۔ تو یہ بات مسلمانوں پر شاق گزری۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ { بَلَی إِنْ تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا وَیَأْتُوکُمْ مِنْ فَوْرِہِمْ ہَذَا ، یُمْدِدْکُمْ رَبُّکُمْ بِخَمْسَۃِ آلاَفٍ مِنَ الْمَلاَئِکَۃِ مُسَوِّمِینَ }۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ۔ اگر مشرکین کی مدد کُرز کرے گا تو میں ان فرشتوں کے ذریعہ سے تمہاری مدد کروں گا۔ پھر کرز نے مشرکین کی مدد نہیں کی۔

37825

(۳۷۸۲۶) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِی عَدِیٍّ ، عَنْ دَاوُدَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، وَسَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ؛ {وَیُنَزِّلُ عَلَیْکُمْ مِنَ السَّمَائِ مَائً لِیُطَہِّرَکُمْ بِہِ} قَالاَ : طَشٌّ یَوْمَ بَدْرٍ۔
(٣٧٨٢٦) حضرت شعبی اور سعید بن مسیب قرآن مجید کی آیت { وَیُنَزِّلُ عَلَیْکُمْ مِنَ السَّمَائِ مَائً لِیُطَہِّرَکُمْ بِہِ } کے بارے میں فرماتے ہیں کہ اس سے مراد یوم بدر کی ہلکی بارش ہے۔

37826

(۳۷۸۲۷) حَدَّثَنَا أَبُومُعَاوِیَۃَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِی سُفْیَانَ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: کُنْتُ أَمَیحُ أَصْحَابِی الْمَائَ یَوْمَ بَدْرٍ۔ (بخاری ۲۲۰۸)
(٣٧٨٢٧) حضرت جابر سے روایت ہے کہ میں بدر کے دن اپنے ساتھیوں کے لیے پانی بھر رہا تھا۔

37827

(۳۷۸۲۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا الأَعْمَشُ ، عَنْ أَبِی الضُّحَی ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ؛ {یَوْمَ نَبْطِشُ الْبَطْشَۃَ الْکُبْرَی} قَالَ : یَوْمَ بَدْرٍ۔
(٣٧٨٢٨) حضرت عبداللہ سے روایت ہے کہ انھوں نے آیت قرآنی { یَوْمَ نَبْطِشُ الْبَطْشَۃَ الْکُبْرَی } کے بارے میں فرمایا : کہ یہ بدر کا دن ہے۔

37828

(۳۷۸۲۹) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنِ الزُّہْرِیِّ، عَنْ عَبْدِاللہِ بْنِ ثَعْلَبَۃَ بْنِ صُعَیْرٍ الْعُذْرِیِّ؛ أَنَّ أَبَا جَہْلٍ قَالَ یَوْمَ بَدْرٍ : اللَّہُمَّ أَقْطَعُنَا لِلرَّحِمِ ، وَآتَانَا بِمَا لاَ یُعْرَفُ ، فَأَحِنْہُ الْغَدَاۃَ ، قَالَ : فَکَانَ ذَلِکَ اسْتِفْتَاحًا مِنْہُ ، فَنَزَلَتْ ہَذِہِ الآیَۃُ : {إِنْ تَسْتَفْتِحُوا فَقَدْ جَائَ کُمَ الْفَتْحُ ، وَإِنْ تَنْتَہُوا فَہُوَ خَیْرٌ لَکُمْ} الآیَۃَ۔ (احمد ۴۳۱۔ حاکم ۳۲۸)
(٣٧٨٢٩) حضرت عبداللہ بن ثعلبہ عذری سے روایت ہے کہ ابو جہل نے بدر کے دن کہا۔ اے اللہ ! جو آدمی ہم میں سے زیادہ قطع رحمی کرنے والا اور غیر معروف کا زیادہ مرتکب ہے تو اس کو ہلاک کر دے۔ راوی کہتے ہیں۔ یہ بات ابو جہل کی طرف سے طلب فتح کی تھی۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ {إِنْ تَسْتَفْتِحُوا فَقَدْ جَائَ کُمُ الْفَتْحُ ، وَإِنْ تَنْتَہُوا فَہُوَ خَیْرٌ لَکُمْ }

37829

(۳۷۸۳۰) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ إِسْمَاعِیلَ بْنِ أَبِی خَالِدٍ ، عَنْ قَیْسِ بْنِ أَبِی حَازِمٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مَسْعُودٍ ؛ أَنَّہُ أَتَی أَبَا جَہْلٍ یَوْمَ بَدْرٍ ، وَبِہِ رَمَقٌ ، قَالَ : قَدْ أَخْزَاکَ اللَّہُ ، قَالَ : ہَلْ أَعَمَدُ مِنْ رَجُلٍ قَتَلْتُمُوہُ۔ (بخاری ۳۹۶۱)
(٣٧٨٣٠) حضرت عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ وہ بدر کے دن ابو جہل کے پاس آئے درآنحالیکہ اس میں ہلکی سی رمق باقی تھی۔ تو ابن مسعود نے فرمایا۔ تحقیق اللہ تعالیٰ نے تجھے ذلیل کردیا ہے۔ ابو جہل نے کہا جن لوگوں کو تم نے قتل کیا ہے ان میں سب سے اہم میں ہوں۔

37830

(۳۷۸۳۱) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ جَدِّہِ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ ، قَالَ: إِنِّی لَفِی الصَّفِّ یَوْمَ بَدْرٍ، فَالْتَفَتُّ عَنْ یَمِینِی، وَعَنْ شِمَالِی، فَإِذَا غُلاَمَانِ حَدِیثَا السِّنِّ ، فَکَرِہْتُ مَکَانَہُمَا، فَقَالَ لِی أَحَدُہُمَا سِرًّا مِنْ صَاحِبِہِ : أَیْ عَمِ ، أَرِنِی أَبَا جَہْلٍ ، قَالَ : قُلْتُ : مَا تُرِیدُ مِنْہُ ؟ قَالَ : إِنِّی جَعَلْتُ لِلَّہِ عَلَیَّ إِنْ رَأَیْتُہُ أَنْ أَقْتُلَہُ ، قَالَ : فَقَالَ الآخَرُ أَیْضًا سِرًّا مِنْ صَاحِبِہِ : أَیْ عَمِ ، أَرِنِی أَبَا جَہْلٍ ، قَالَ : قُلْتُ : وَمَا تُرِیدُ مِنْہُ ؟ قَالَ : جَعَلْتُ لِلَّہِ عَلَیَّ إِنْ رَأَیْتُہُ أَنْ أَقْتُلَہُ ، قَالَ : فَمَا سَرَّنِی بِمَکَانِہِمَا غَیْرُہُمَا ، قَالَ : قُلْتُ : ہُوَ ذَاکَ ، قَالَ : وَأَشَرْتُ لَہُمَا إِلَیْہِ ، فَابْتَدَرَاہُ کَأَنَّہُمَا صَقْرَانِ ، وَہُمَا ابْنَا عَفْرَائَ حَتَّی ضَرَبَاہُ۔ (بخاری ۳۱۴۱)
(٣٧٨٣١) حضرت عبد الرحمن بن عوف سے روایت ہے کہ بدر کے دن میں صف میں کھڑا تھا۔ میں نے اپنے دائیں، بائیں نظر دوڑائی تو دو کم عمر لڑکے دکھائی دیئے۔ میں نے ان کے کھڑا ہونے کو ناپسند کیا۔ ان لڑکوں میں سے ایک نے اپنے ساتھی سے خفیہ مجھ سے کہا۔ اے چچا جان ! مجھے ابو جہل دکھا دیجئے۔ عبد الرحمن بن عوف فرماتے ہیں۔ میں نے پوچھا۔ تمہیں اس سے کیا مطلب ہے ؟ لڑکے نے جواب دیا۔ میں نے اللہ کا نام لے کر یہ نذر مانی ہے کہ اگر میں اس کو دیکھ لوں گا تو میں اس کو قتل کروں گا۔ عبد الرحمن بن عوف کہتے ہیں۔ دوسرے لڑکے نے بھی اپنے ساتھی سے خفیہ کہا۔ اے چچا جان ! مجھے ابو جہل دکھا دیجئے۔ عبد الرحمن کہتے ہیں۔ میں نے پوچھا۔ تمہیں اس سے کیا مطلب ہے ؟ اس لڑکے نے جواب دیا ۔ میں نے خدا کا نام لے کر یہ نذر مانی ہے کہ اگر میں اس کو دیکھ لوں گا تو میں اس کو قتل کروں گا۔ عبد الرحمن کہتے ہیں۔ (یہ بات سن کر) مجھے ان دونوں کی جگہ کسی اور کا ہونا پسند نہ آیا۔ فرماتے ہیں۔ میں نے کہا : ابو جہل یہ ہے۔ فرماتے ہیں : میں نے ان دونوں کے لیے ابو جہل کی طرف اشارہ کیا ۔ پس وہ دونوں اس پر جھپٹ پڑے گویا کہ وہ شکرے ہیں۔ اور یہ دونوں عفراء کے بیٹے تھے۔ یہاں تک کہ انھوں نے ابو جہل کو مار دیا۔

37831

(۳۷۸۳۲) حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَیْمُونٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ؛ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یَقُولُ : اللَّہُمَّ عَلَیْک بِقُرَیْشٍ ثَلاَثًا : بِأَبِی جَہْلِ بْنِ ہِشَامٍ ، وَعُتْبَۃَ بْنِ رَبِیعَۃَ ، وَشَیْبَۃَ بْنِ رَبِیعَۃَ ، وَالْوَلِیدِ بْنِ عُتْبَۃَ ، وَأُمَیَّۃَ بْنِ خَلَفٍ ، وَعُقْبَۃَ بْنِ أَبِی مُعَیْطٍ ، قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللہِ : فَلَقَدْ رَأَیْتُہُمْ قَتْلَی فِی قَلِیبِ بَدْرٍ۔
(٣٧٨٣٢) حضرت عبداللہ سے روایت ہے کہ بنی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ارشاد فرمایا کرتے تھے۔ اے اللہ ! تو قریش کو پکڑ۔ تین بار۔ ابو جہل بن ہشام کو پکڑ، عتبہ بن ربیعہ کو پکڑ، شیبہ بن ربیعہ کو پکڑ، ولید بن عتبہ کو پکڑ، امیہ بن خلف کو پکڑ، اور عقبہ بن ابی معیط کو پکڑ۔ راوی کہتے ہیں : حضرت عبداللہ بیان فرماتے ہیں کہ میں نے ان کفار کو بدر کے کنویں میں مقتول دیکھا۔

37832

(۳۷۸۳۳) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ جَرِیرِ بْنِ حَازِمٍ ، عَنْ أَخِیہِ یَزِیدَ بْنِ حَازِمٍ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ مَوْلَی ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : لَمَّا نَزَلَ الْمُسْلِمُونَ بَدْرًا وَأَقْبَلَ الْمُشْرِکُونَ ، نَظَرَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِلَی عُتْبَۃَ بْنِ رَبِیعَۃَ وَہُوَ عَلَی جَمَلٍ لَہُ أَحْمَرَ ، فَقَالَ : إِنْ یَکُ عِنْدَ أَحَدٍ مِنَ الْقَوْمِ خَیْرٌ فَعِنْدَ صَاحِبِ الْجَمَلِ الأَحْمَرِ ، إِنْ یُطِیعُوہُ یَرْشُدُوا ، فَقَالَ عُتْبَۃُ : أَطِیعُونِی ، وَلاَ تُقَاتِلُوا ہَؤُلاَئِ الْقَوْمَ ، فَإِنَّکُمْ إِنْ فَعَلْتُمْ لَمْ یَزَلْ ذَاکَ فِی قُلُوبِکُمْ ، یَنْظُرُ الرَّجُلُ إِلَی قَاتِلِ أَخِیہِ وَقَاتِلِ أَبِیہِ ، فَاجْعَلُوا فِیَّ جُبْنَہَا وَارْجِعُوا۔ قَالَ : فَبَلَغَتْ أَبَا جَہْلٍ ، فَقَالَ : انْتَفَخَ وَاللہِ سَحْرُہُ حَیْثُ رَأَی مُحَمَّدًا وَأَصْحَابَہُ ، وَاللہِ مَا ذَاکَ بِہِ ، وَإِنَّمَا ذَاکَ لأَنَّ ابْنَہُ مَعَہُمْ ، وَقَدْ عَلِمَ أَنَّ مُحَمَّدًا وَأَصْحَابَہُ أَکْلَۃُ جَزُورٍ لَوْ قَدِ الْتَقَیْنَا ، قَالَ : فَقَالَ عُتْبَۃُ : سَیَعْلَمُ الْمُصَفِّرُ اسْتِہِ مَنِ الْجَبَانُ الْمُفْسِدُ لِقَوْمِہِ ، أَمَا وَاللہِ إِنِّی لأَرَی تَحْتَ الْقِشَعِ قَوْمًا لَیَضْرِبُنَّکُمْ ضَرْبًا یَدْعُونَ لَکُمُ الْبَقِیعَ ، أَمَا تَرَوْنَ کَأَنَّ رُؤُوسَہُمْ رُؤُوسُ الأَفَاعِی ، وَکَأَنَّ وُجُوہَہُمَ السُّیُوفُ ؟ قَالَ : ثُمَّ دَعَا أَخَاہُ وَابْنَہُ وَمَشَی بَیْنَہُمَا ، حَتَّی إِذَا فَصَلَ مِنَ الصَّفِّ دَعَا إِلَی الْمُبَارَزَۃِ۔
(٣٧٨٣٣) حضرت ابن عباس کے آزاد کردہ غلام حضرت عکرمہ بیان کرتے ہیں کہ جب مسلمان بدر میں اترے اور مشرکین سامنے آئے ۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عتبہ بن ربیعہ کو دیکھا۔ وہ اپنے سرخ رنگ کے اونٹ پر سوار تھا۔ تو فرمایا : اگر کفار میں سے کسی کے پاس خیر (کی بات) ہے تو وہ اس سُرخ رنگ والے اونٹ والے کے پاس ہے۔ اگر یہ کفار اس کی بات مان لیں گے تو اچھے رہیں گے۔ عتبہ نے (لوگوں سے) کہا۔ تم لوگ میری بات مانو اور ان لوگوں (مسلمانوں) سے لڑائی نہ کرو۔ کیونکہ اگر تم نے لڑائی لڑی تو یہ بات تمہارے دلوں میں مسلسل باقی رہے گی۔ یعنی ایک آدمی اپنے بھائی اور اپنے والد کے قاتل کو (زندہ) دیکھتا پھرے گا۔ تم لوگ اس لڑائی کی بزدلی مجھ پر ڈال دو اور لوٹ جاؤ۔ راوی کہتے ہیں : یہ بات ابو جہل تک پہنچی تو اس نے کہا : بخدا ! عتبہ نے جب سے محمد اور اس کے صحابہ کو دیکھا ہے بزدل ہوگیا ہے۔ بخدا ! (جو یہ کہہ رہا ہے) یہ بات نہیں ہے۔ بلکہ بات یہ ہے کہ اس کا بیٹا ان کے ہمراہ ہے۔ حالانکہ اس کو معلوم بھی ہے کہ اگر ہم محمد اور اس کے اصحاب سے لڑیں تو وہ کم عدد لوگ ہیں۔ راوی کہتے ہیں : عتبہ نے کہا : عنقریب اپنی سرین کو زرد کرنے والا جان لے گا کہ اپنی قوم میں فساد ڈالنے والا کون شخص بزدل ہے۔ بخدا ! میں تو ان ملبوسات کے نیچے ایسی قوم کو دیکھ رہا ہوں جو تمہیں ضرور بالضرور اس طرح مارے گی کہ وہ تمہارے لیے بقیع کو پکاریں گے۔ کیا تمہیں دکھائی نہیں دیتا کہ ان کے سر، سانپوں کے سروں کی طرح (بلند) ہیں اور ان کے چہرے تلواروں کی طرح ہں س ؟ راوی کہتے ہیں : پھر اس نے اپنے بھائی اور اپنے بیٹے کو بلایا اور ان کے درمیان چلنے لگا یہاں تک کہ جب وہ صف سے نکل گیا تو اس نے مبارزت کی دعوت دی۔

37833

(۳۷۸۳۴) حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ بْنُ مُوسَی ، قَالَ : أَخْبَرَنَا إِسْرَائِیلُ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ حَارِثَۃَ بْنِ مُضَرِّبٍ ، عَنْ عَلِیٍّ ، قَالَ : لَمَّا قَدِمْنَا الْمَدِینَۃَ ، فَأَصَبْنَا مِنْ ثِمَارِہَا اجْتَوَیْنَاہَا وَأَصَابَنَا وَعْکٌ ، وَکَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَتَخَبَّرُ عَنْ بَدْرٍ ، قَالَ : فَلَمَّا بَلَغَنَا أَنَّ الْمُشْرِکِینَ قَدْ أَقْبَلُوا ، سَارَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِلَی بَدْرٍ ، وَبَدْرُ بِئْرٌ ، فَسَبَقْنَا الْمُشْرِکِینَ إِلَیْہَا ، فَوَجَدْنَا فِیہَا رَجُلَیْنِ مِنْہُمْ ؛ رَجُلاً مِنْ قُرَیْشٍ ، وَمَوْلًی لِعُقْبَۃَ بْنِ أَبِی مُعَیْطٍ ، فَأَمَّا الْقُرَشِیُّ فَانْفَلَتَ إِلَیْہَا ، وَأَمَّا الْمَوْلَی فَأَخَذْنَاہُ ، فَجَعَلْنَا نَقُولُ لَہُ : کَمَ الْقَوْمُ؟ فَیَقُولُ : ہُمْ وَاللہِ کَثِیرٌ عَدَدُہُمْ ، شَدِیدٌ بَأْسُہُمْ ، فَجَعَلَ الْمُسْلِمُونَ إِذَا قَالَ ذَاکَ ضَرَبُوہُ ، حَتَّی انْتَہَوْا بِہِ إِلَی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ لَہُ : کَمَ الْقَوْمُ ؟ فَقَالَ : ہُمْ وَاللہِ کَثِیرٌ عَدَدُہُمْ ، شَدِیدٌ بَأْسُہُمْ ، فَجَہَدَ الْقَوْمُ عَلَی أَنْ یُخْبِرَہُمْ کَمْ ہُمْ ، فَأَبَی۔ ثُمَّ إِنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سَأَلَہُ : کَمْ یَنْحَرُونَ ؟ فَقَالَ : عَشْرًا کُلَّ یَوْمٍ ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : الْقَوْمُ أَلْفٌ ، کُلُّ جَزُورٍ لِمِئَۃٍ وَتَبَعِہَا۔ ثُمَّ إِنَّہُ أَصَابَنَا مِنَ اللَّیْلِ طَشٌّ مِنْ مَطَرٍ ، فَانْطَلَقْنَا تَحْتَ الشَّجَرِ وَالْحَجَفِ نَسْتَظِلُّ تَحْتَہَا مِنَ الْمَطَرِ ، قَالَ : وَبَاتَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَیْلَتَئِذٍ یَدْعُو رَبَّہُ ، فَلَمَّا طَلَعَ الْفَجْرُ نَادَی : الصَّلاَۃَ عِبَادَ اللہِ ، فَجَائَ النَّاسُ مِنْ تَحْتِ الشَّجَرِ وَالْحَجَفِ ، فَصَلَّی بِنَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَحَرَّضَ عَلَی الْقِتَالِ ، ثُمَّ قَالَ : إِنَّ جَمْعَ قُرَیْشٍ عِنْدَ ہَذِہِ الضِّلَعَۃِ الْحَمْرَائِ مِنَ الْجَبَلِ ، فَلَمَّا أَنْ دَنَا الْقَوْمُ مِنَّا وَصَافَفْنَاہُمْ، إِذَا رَجُلٌ مِنْہُمْ عَلَی جَمَلٍ أَحْمَرَ یَسِیرُ فِی الْقَوْمِ ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : یَا عَلِیُّ ، نَادِ لِی حَمْزَۃَ ، وَکَانَ أَقْرَبَہُمْ إِلَی الْمُشْرِکِینَ ؛ مَنْ صَاحِبُ الْجَمَلِ الأَحْمَرِ ، وَمَا یَقُولُ لَہُمْ ۔ ثُمَّ قَالَ لَہُمْ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: إِنْ یَکُ فِی الْقَوْمِ أَحَدٌ، فَعَسَی أَنْ یَکُونَ صَاحِبَ الْجَمَلِ الأَحْمَرِ ، فَجَائَ حَمْزَۃُ، فَقَالَ: ہُوَ عُتْبَۃُ بْنُ رَبِیعَۃَ، وَہُوَ یَنْہَی عَنِ الْقِتَالِ، وَیَقُولُ لَہُمْ: یَا قَوْمُ ، إِنِّی أَرَی قَوْمًا مُسْتَمِیتِینَ ، لاَ تَصِلُونَ إِلَیْہِمْ وَفِیکُمْ خَیْرٌ ، یَا قَوْمُ ، اِعْصِبُوا اللَّوْمَ بِرَأْسِی ، وَقُولُوا : جَبُنَ عُتْبَۃُ ، وَقَدْ عَلِمْتُمْ أَنِّی لَسْتُ بِأَجْبَنِکُمْ۔ فَسَمِعَ ذَلِکَ أَبُو جَہْلٍ ، فَقَالَ : أَنْتَ تَقُولُ ہَذَا ، لَوْ غَیْرُکَ قَالَ ہَذَا أَعْضَضْتُہُ ، لَقَدْ مُلِئَتْ رِئَتُکَ وَجَوْفُکَ رُعْبًا ، فَقَالَ عُتْبَۃُ : إِیَّایَ تُعَیِّرُ یَا مُصَفِّرَ اسْتِہِ ، سَتَعْلَمُ الْیَوْمَ أَیُّنَا أَجْبَنُ ؟۔ قَالَ : فَبَرَزَ عُتْبَۃُ ، وَأَخُوہُ شَیْبَۃُ ، وَابْنُہُ الْوَلِیدُ حَمِیَّۃً ، فَقَالُوا : مَنْ مُبَارِزٌ ؟ فَخَرَجَ فِتْیَۃٌ مِنَ الأَنْصَارِ سِتَّۃٌ ، فَقَالَ عُتْبَۃُ : لاَ نُرِیدُ ہَؤُلاَئِ ، وَلَکِنْ یُبَارِزُنَا مِنْ بَنِی عَمِّنَا ، مِنْ بَنِی عَبْدِ الْمُطَّلِبِ ، قَالَ : فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : قُمْ یَا عَلِیُّ ، قُمْ یَا حَمْزَۃُ ، قُمْ یَا عُبَیْدَۃُ بْنَ الْحَارِثِ ، فَقَتَلَ اللَّہُ عُتْبَۃَ بْنَ رَبِیعَۃَ ، وَشَیْبَۃَ بْنَ رَبِیعَۃَ ، وَالْوَلِیدَ بْنَ عُتْبَۃَ ، وَجُرِحَ عُبَیْدَۃُ بْنُ الْحَارِثِ ، فَقَتَلْنَا مِنْہُمْ سَبْعِینَ وَأَسَرْنَا سَبْعِینَ۔ قَالَ : فَجَائَ رَجُلٌ مِنَ الأَنْصَارِ قَصِیرٌ بِالْعَبَّاسِ أَسِیرًا ، فَقَالَ الْعَبَّاسُ : إِنَّ ہَذَا وَاللہِ مَا أَسَرَنِی ، لَقَدْ أَسَرَنِی رَجُلٌ أَجْلَحُ مِنْ أَحْسَنِ النَّاسِ وَجْہًا ، عَلَی فَرَسٍ أَبْلَقَ ، مَا أَرَاہُ فِی الْقَوْمِ ، فَقَالَ الأَنْصَارِیُّ : أَنَا أَسَرْتُہُ یَا رَسُولَ اللہِ ، فَقَالَ لَہُ : اُسْکُتْ ، لَقَدْ أَیَّدَکَ اللَّہُ بِمَلَکٍ کَرِیمٍ ، قَالَ عَلِیٌّ : فَأُسِرَ مِنْ بَنِی عَبْدِ الْمُطَّلِبِ الْعَبَّاسُ، وَعَقِیلٌ ، وَنَوْفَلُ بْنُ الْحَارِثِ۔ (ابوداؤد ۲۶۵۸۔ احمد ۱۱۷)
(٣٧٨٣٤) حضرت علی سے روایت ہے کہ جب ہم مدینہ میں آئے اور ہم نے وہاں کے پھل کھائے تو وہ ہمیں موافق نہ آئے اور ہمیں شدید بخار آگیا۔ اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بدر کے بارے میں تحقیق کر رہے تھے۔ راوی کہتے ہیں : پس جب ہمیں یہ بات پہنچی کہ مشرکین آ رہے ہیں تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بدر کی طرف چل پڑے۔ بدر ایک کنویں کا نام ہے۔ سو ہم مشرکین سے پہلے بدر میں پہنچ گئے تو ہم نے وہاں مشرکین میں سے دو آدمیوں کو پایا۔ ایک آدمی قریش میں سے تھا اور ایک عقبہ بن ابی معیط کا آزاد کردہ غلام تھا۔ جو قریشی تھا وہ تو قریش کی طرف بھاگ گیا اور جو آزاد کردہ غلام تھا اس کو ہم نے پکڑ لیا۔ اور ہم نے اس سے یہ پوچھنا شروع کیا۔ کتنے لوگ ہیں ؟ وہ جواب میں کہتا۔ بخدا ! وہ بہت زیادہ تعداد میں ہیں۔ اور ان کی پکڑ بہت سخت ہے۔ جب اس نے یہ بات کہی تو مسلمانوں نے اس کو مارنا شروع کیا۔ یہاں تک کہ وہ اس کو لے کر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں پہنچے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے پوچھا : کتنے لوگ ہیں ؟ اس آدمی نے جواباً کہا : بخدا ! یہ بہت زیادہ تعداد میں ہیں اور شدید پکڑ والے ہیں۔ سو لوگوں نے اس بات کی بہت کوشش کی کہ وہ بتادے کہ مشرکین کی تعداد کتنی ہے لیکن اس آدمی نے (مسلسل) انکار کیا۔
٢۔ پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے پوچھا : تم کتنے اونٹ ذبح کرتے ہو ؟ اس آدمی نے جواباً کہا : ہر روز دس اونٹ ذبح کرتے ہیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : یہ لوگ ایک ہزار کی تعداد میں ہیں۔ ہر ایک اونٹ سو کے لگ بھگ کے لیے (کافی) ہوتا ہے۔
٣۔ پھر ہمیں رات کے وقت ہلکی سی بارش محسوس ہوئی تو ہم درختوں اور ڈھالوں کی طرف بارش سے بچاؤ کرتے ہوئے چل دیے۔ راوی کہتے ہیں : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس رات دعا مانگتے رہے۔ پس جب فجر طلوع ہوگئی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے منادی فرمائی۔ اے بندگان خدا ! نماز کا خیال کرو۔ پس لوگ درختوں اور ڈھالوں میں سے (نکل کر) آئے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں نماز پڑھائی اور لڑائی پر ابھارا۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : پہاڑوں کی اس سُرخ مثلث کے پاس قریش کی جماعت موجود ہے۔
٤۔ پھر جب یہ لوگ ہمارے قریب ہوئے اور ہم نے صفیں ترتیب دیں تو ان میں سے ایک آدمی سرخ رنگ کے اونٹ پر سوار مشرکین میں چل رہا تھا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا۔ اے علی ! حمزہ کو میری طرف سے آواز دو ۔ یہ مشرکین کے زیادہ قریب تھے۔ کہ یہ سرخ اونٹ والا کون شخص ہے اور یہ کیا کہہ رہا ہے ؟ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں سے فرمایا۔ اگر لوگوں (مشرکین) میں سے کسی کے پاس خیر ہے تو ہوسکتا ہے کہ وہ (صاحب خیر) یہی سرخ اونٹ والا شخص ہو۔ پھر حضرت حمزہ تشریف لائے اور فرمایا : یہ شخص عتبہ بن ربیعہ ہے۔ اور یہ لوگوں کو لڑائی سے منع کررہا ہے اور انھیں یہ کہہ رہا ہے۔ اے میری قوم ! میں ایسی قوم کو دیکھ رہا ہوں جو موت کی متمنی ہے اور تم ان تک اس حالت میں نہیں پہنچ سکتے کہ تم میں کوئی خیر (یعنی فتح) ہو۔ اے میری قوم ! ملامت کو میرے سر باندھو اور یہ کہہ لینا۔ عتبہ بزدل ہوگیا ہے۔ حالانکہ تمہیں اس بات کا علم ہے کہ میں تم سے زیادہ بزدل نہیں ہوں۔
٥۔ پس یہ بات ابو جہل نے سُنی تو اس نے کہا۔ تُو یہ بات کہہ رہا ہے ؟ اگر تمہارے سوا کوئی اور شخص یہ بات کرتا تو میں اس کو کٹوا دیتا۔ تحقیق تیرا پھیپھڑا اور پیٹ رعب سے بھر دیا گیا ہے۔ عتبہ نے کہا ۔ اے اپنی سرین کو پیلا کرنے والے ! تو مجھے عار دلاتا ہے۔ عنقریب آج کے دن تو جان جائے گا کہ ہم میں سے کون زیادہ بزدل ہے ؟
٦۔ راوی کہتے ہیں پھر عتبہ اور اس کا بھائی شیبہ اور اس کا بیٹاو لید، غیرت کھاتے ہوئے سامنے آئے اور کہنے لگے۔ کون مقابل آئے گا ؟ تو انصاریوں سے چھ جوان باہر نکلے تو عتبہ نے کہا۔ ہمیں ان لوگوں سے مطلب نہیں ہے۔ بلکہ ہمارے مقابل ہمارے چچا زاد، بنی عبد المطلب میں سے کوئی آئے۔ راوی کہتے ہیں : پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ” اے علی ! کھڑے ہو جاؤ۔ اے حمزہ ! کھڑے ہو جاؤ۔ اے عبیدۃ بن الحارث ! کھڑے ہو جاؤ۔ “ پس اللہ تعالیٰ نے ، عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ اور ولید بن عتبہ کو ہلاک کیا اور حضرت عبیدہ بن الحارث کو زخم آگئے۔ اور ہم نے مشرکین میں سے ستر کو قتل کیا اور ستر کو قیدی بنایا۔
٧۔ راوی کہتے ہیں : پھر انصار میں سے ایک پستہ قد آدمی عباس کو قید کر کے لائے۔ عباس کہنے لگے۔ بلاشبہ، بخدا ! مجھے اس انصاری نے قید نہیں کیا۔ بلکہ مجھے ایک گنجے آدمی نے جو بہت خوبصورت چہرے والا تھا۔ قید کیا ہے اور وہ سفید و سیاہ داغ والے گھوڑے پر سوار تھا۔ مں اس آدمی کو (آپ کے) لشکر میں نہیں دیکھ رہا۔ انصاری نے عرض کیا۔ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! میں نے ہی اس کو قیدی بنایا ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انصاری سے کہا : خاموش ہو جاؤ۔ تحقیق اللہ تعالیٰ نے معزز فرشتہ کے ذریعہ تمہاری تائید کی ہے۔ حضرت علی فرماتے ہیں بنو عبد المطلب میں سے عباس، عقیل اور نوفل بن الحارث قیدی بنائے گے۔

37834

(۳۷۸۳۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا إِسْرَائِیلُ ، عَنْ سِمَاکٍ ، عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : أَصَبْتُ سَیْفًا یَوْمَ بَدْرٍ فَأَعْجَبَنِی ، فَقُلْتُ : یَا رَسُولَ اللہِ ، ہَبْہُ لِی ، فَنَزَلَتْ : {یَسْأَلُونَک عَنِ الأَنْفَالِ} الآیَۃَ۔ (مسلم ۳۴۔ احمد ۱۸۱)
(٣٧٨٣٥) حضرت مصعب بن سعد، اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ مجھے بدر کے دن ایک تلوار ملی تو وہ مجھے پسند آئی۔ میں نے عرض کیا۔ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! یہ مجھے ہدیۃً دے دیجئے ۔ تو اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ { یَسْأَلُونَک عَنِ الأَنْفَالِ }۔

37835

(۳۷۸۳۶) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ؛ أَنَّ أَبَا جَہْلٍ ہُوَ الَّذِی اسْتَفْتَحَ یَوْمَ بَدْرٍ ، فَقَالَ : اللَّہُمَّ أَیُّنَا کَانَ أَفْجَرَ بِکَ ، وَأَقْطَعَ لِرَحِمِہِ ، فَأَحِنْہُ الْیَوْمَ ، فَأَنْزَلَ اللَّہُ : {إِنْ تَسْتَفْتِحُوا ، فَقَدْ جَائَ کُمُ الْفَتْحُ}۔
(٣٧٨٣٦) حضرت زہری : سے روایت ہے کہ ابو جہل ہی نے بدر کے دن فتح کا مطالبہ کیا تھا اور کہا تھا۔ اے اللہ ! ہم میں سے جو زیادہ گناہ گار اور زیادہ قطع رحمی کرنے والا ہے تو اس کو آج (بدر) کے دن ہلاک کر دے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں۔ {إِنْ تَسْتَفْتِحُوا ، فَقَدْ جَائَ کُمُ الْفَتْحُ }۔

37836

(۳۷۸۳۷) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا یُونُسُ بْنُ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنِ الْعَیْزَارِ بْنِ حُرَیْثٍ ، قَالَ : نَادَی مُنَادِی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَوْمَ بَدْرٍ : لَیْسَ لأَحَدٍ مِنَ الْقَوْمِ ، یَعْنِی أَمَانًا إِلاَّ أَبَا الْبَخْتَرِی ، فَمَنْ کَانَ أَسَرَہُ فَلْیُخَلِّ سَبِیلَہُ ، فَإِنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَدْ أَمَّنَہُ ، فَوَجَدُوہُ قَدْ قُتِلَ۔
(٣٧٨٣٧) حضرت عیزار بن حریث بیان کرتے ہیں کہ بدر کے دن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے منادی نے ندا کی۔ لوگوں (مشرکین) میں سے کسی کو بھی سوائے ابو البختری کے۔ امن نہیں حاصل ہے۔ پس جس کسی نے ابو البختری کو قید کیا ہے وہ اس کو رہا کر دے۔ کیونکہ رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو امان دیا ہے۔ پھر لوگوں نے ان کو مقتول پایا۔

37837

(۳۷۸۳۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ أَبِی ہَاشِمٍ الْوَاسِطِیِّ ، عَنْ أَبِی مِجْلَزٍ ، عَنْ قَیْسِ بْنِ عُبَادٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا ذَرٍّ یُقْسِمُ : لَنَزَلَتْ ہَؤُلاَئِ الآیَاتُ فِی ہَؤُلاَئِ الرَّہْطِ السِّتَّۃِ یَوْمَ بَدْرٍ : عَلِیٍّ ، وَحَمْزَۃَ ، وَعُبَیْدَۃَ بْنِ الْحَارِثِ ، وَعُتْبَۃَ ، وَشَیْبَۃَ ابْنَیْ رَبِیعَۃَ ، وَالْوَلِیدِ بْنِ عُتْبَۃَ : {ہَذَانِ خَصْمَانِ اخْتَصَمُوا فِی رَبِّہِمْ}۔ (بخاری ۳۹۶۸۔ مسلم ۳۴)
(٣٧٨٣٨) حضرت قیس بن عباد سے روایت ہے کہ میں نے ابو ذر کو قسم کھا کر کہتے سُنا کہ یہ (آئندہ) آیات بدر کے دن ان چھ افراد کے بارے میں نازل ہوئی ہیں۔ علی ، حمزہ اور عبیدہ بن الحارث ، اور عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ اور ولید بن عتبہ۔ (آیات یہ ہیں) { ہَذَانِ خَصْمَانِ اخْتَصَمُوا فِی رَبِّہِمْ }۔

37838

(۳۷۸۳۹) حَدَّثَنَا قُرَادٌ أَبُو نُوحٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا عِکْرِمَۃُ بْنُ عَمَّارٍ الْعِجْلِیُّ ، قَالَ : حَدَّثَنَا سِمَاکٌ الْحَنَفِیُّ أَبُو زُمَیْلٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا ابْنُ عَبَّاسٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِی عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ ، قَالَ : لَمَّا کَانَ یَوْمُ بَدْرٍ ، نَظَرَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِلَی أَصْحَابِہِ ، وَہُمْ ثَلاَثُ مِئَۃٍ وَنَیِّفٌ ، وَنَظَرَ إِلَی الْمُشْرِکِینَ فَإِذَا ہُمْ أَلْفٌ وَزِیَادَۃٌ ، فَاسْتَقْبَلَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْقِبْلَۃَ ، ثُمَّ مَدَّ یَدَیْہِ ، وَعَلَیْہِ رِدَاؤُہُ وَإِزَارُہُ ، ثُمَّ قَالَ : اللَّہُمَّ أَیْنَ مَا وَعَدْتَنِی ، اللَّہُمَّ إِنْ تُہْلِکْ ہَذِہِ الْعِصَابَۃَ مِنْ أَہْلِ الإِسْلاَمِ لاَ تُعْبَدْ فِی الأَرْضِ أَبَدًا ، قَالَ : فَمَا زَالَ یَسْتَغِیثُ رَبَّہُ وَیَدْعُوہُ حَتَّی سَقَطَ رِدَاؤُہُ ، فَأَتَاہُ أَبُو بَکْرٍ ، قَالَ : فَأَخَذَ رِدَائَہُ فَرَدَّاہُ ، ثُمَّ الْتَزَمَہُ مِنْ وَرَائِہِ ، ثُمَّ قَالَ : یَا نَبِیَّ اللہِ ، کَفَاکَ مُنَاشَدَتَکَ رَبَّکَ ، فَإِنَّہُ سَیُنْجِزُ لَکَ مَا وَعَدَکَ ، فَأَنْزَلَ اللَّہُ : {إِذْ تَسْتَغِیثُونَ رَبَّکُمْ فَاسْتَجَابَ لَکُمْ أَنِّی مُمِدُّکُمْ بِأَلْفٍ مِنَ الْمَلاَئِکَۃِ مُرْدِفِینَ} فَلَمَّا کَانَ یَوْمَئِذٍ وَالْتَقَوْا ، ہَزَمَ اللَّہُ الْمُشْرِکِینَ ، فَقُتِلَ مِنْہُمْ سَبْعُونَ رَجُلا ، وَأُسِرَ مِنْہُمْ سَبْعُونَ رَجُلا ، فَاسْتَشَارَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَبَا بَکْرٍ، وَعُمَرَ ، وَعَلِیًّا ، فَقَالَ أَبُو بَکْرٍ : یَا نَبِیَّ اللہِ ، ہَؤُلاَئِ بَنُو الْعَمِّ وَالْعَشِیرَۃِ وَالإِخْوَانِ ، فَإِنِّی أَرَی أَنْ تَأْخُذَ مِنْہُمَ الْفِدْیَۃَ ، فَیَکُونُ مَا أَخَذْنَا مِنْہُمْ قُوَّۃً عَلَی الْکُفَّارِ ، وَعَسَی اللَّہُ أَنْ یَہْدِیَہُمْ فَیَکُونُوا لَنَا عَضُدًا۔ فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَا تَرَی یَا ابْنَ الْخَطَّابِ ؟ قُلْتُ : وَاللہِ مَا أَرَی الَّذِی رَأَی أَبُو بَکْرٍ ، وَلَکِنْ أَرَی أَنْ تُمَکِّنَنِی مِنْ فُلاَنٍ ، قَرِیبًا لِعُمَرَ ، فَأَضْرِبَ عُنُقَہُ ، وَتُمَکِّنَ عَلِیًّا مِنْ عَقِیلٍ فَیَضْرِبَ عُنُقَہُ ، وَتُمَکِّنَ حَمْزَۃَ مِنْ أَخِیہِ فُلاَنٍ فَیَضْرِبَ عُنُقَہُ ، حَتَّی یَعْلَمَ اللَّہُ أَنَّہُ لَیْسَ فِی قُلُوبِنَا ہَوَادَۃٌ لِلْمُشْرِکِینَ ، ہَؤُلاَئِ صَنَادِیدُہُمْ ، وَأَئِمَّتُہُمْ ، وَقَادَتُہُمْ۔ فَہَوِیَ نَبِیُّ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا قَالَ أَبُو بَکْرٍ ، وَلَمْ یَہْوَ مَا قُلْتُ ، فَأَخَذَ مِنْہُمَ الْفِدَائَ۔ فَلَمَّا کَانَ مِنَ الْغَدِ ، قَالَ عُمَرُ : غَدَوْتُ إِلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَإِذَا ہُوَ قَاعِدٌ ، وَأَبُو بَکْرٍ یَبْکِیَانِ ، قَالَ : قُلْتُ : یَا رَسُولَ اللہِ : أَخْبِرْنِی مَاذَا یُبْکِیکَ أَنْتَ وَصَاحِبُکَ ؟ فَإِنْ وَجَدْتُ بُکَائً بَکَیْتُ ، وَإِنْ لَمْ أَجِدْ بُکَائً تَبَاکَیْتُ لِبُکَائِکُمَا ، فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : الَّذِی عَرَضَ عَلَیَّ أَصْحَابُکُمْ مِنَ الْفِدَائِ ، لَقَدْ عُرِضَ عَلَیَّ عَذَابُکُمْ أَدْنَی مِنْ ہَذِہِ الشَّجَرَۃِ ، لِشَجَرَۃٍ قَرِیبَۃٍ ، وَأَنْزَلَ اللَّہُ : {مَا کَانَ لِنَبِیٍّ أَنْ یَکُونَ لَہُ أَسْرَی حَتَّی یُثْخِنَ فِی الأَرْضِ ، تُرِیدُونَ عَرَضَ الدُّنْیَا} إِلَی قَوْلِہِ : {لَوْلاَ کِتَابٌ مِنَ اللہِ سَبَقَ لَمَسَّکُمْ فِیمَا أَخَذْتُمْ} مِنَ الْفِدَائِ {عَذَابٌ عَظِیمٌ} ثُمَّ أَحَلَّ لَہُمَ الْغَنَائِمَ۔ فَلَمَّا کَانَ یَوْمُ أُحُدٍ مِنَ الْعَامِ الْمُقْبِلِ ، عُوقِبُوا بِمَا صَنَعُوا یَوْمَ بَدْرٍ مِنْ أَخْذِہِم الْفِدَائَ ، فَقُتِلَ مِنْہُمْ سَبْعُونَ ، وَفَرَّ أَصْحَابُ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَکُسِرَتْ رَبَاعِیَتُہُ ، وَہُشِّمَتِ الْبَیْضَۃُ عَلَی رَأْسِہِ ، وَسَالَ الدَّمُ عَلَی وَجْہِہِ ، وَأَنْزَلَ اللَّہُ : {أَوَ لَمَّا أَصَابَتْکُمْ مُصِیبَۃٌ قَدْ أَصَبْتُمْ مِثْلَیْہَا قُلْتُمْ أَنَّی ہَذَا ، قُلْ ہُوَ مِنْ عِنْدِ أَنْفُسِکُمْ ، إِنَّ اللَّہَ عَلَی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیرٌ} ، بِأَخْذِکُمُ الْفِدَائَ۔
(٣٧٨٣٩) حضرت عمر بن خطاب سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ جب بدر کا دن تھا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے صحابہ کی طرف دیکھا۔ تو وہ تین سو سے کچھ زیادہ تھے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مشرکین کو دیکھا تو وہ ایک ہزار سے کچھ زیادہ تھے۔ پس آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنا رُخ مبارک قبلہ کی جانب کرلیا پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے دونوں ہاتھ پھیلا دیے۔ اور (اس وقت) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی چادر اور ازار بند تھا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عرض کیا۔ اے اللہ ! آپ نے جو مجھ سے وعدہ کیا ہے وہ کہاں ہے ؟ اے اللہ ! اگر اہل اسلام میں سے یہ جماعت ہلاک ہوگئی تو (پھر) آپ کی اس دھرتی پر کبھی عبادت نہیں کی جائے گی۔ راوی کہتے ہیں : آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مسلسل اپنے رب سے مدد طلب کرتے رہے اور اللہ سے دعا کرتے رہے یہاں تک کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی چادر مبارک گرگئی۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس حضرت ابوبکر حاضر ہوئے۔ راوی کہتے ہیں : حضرت ابوبکر نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی چادر پکڑ لی اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو (دوبارہ) چادر پہنائی۔ پھر حضرت ابوبکر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیچھے سے ساتھ لگ گئے پھر کہا : اے پیغمبر خدا ! آپ نے اپنے پروردگار سے جو مطالبہ کرلیا ہے کافی ہے۔ آپ کا پروردگار عنقریب آپ کے ساتھ کئے ہوئے وعدہ کو پورا کر دے گا۔ پس اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی {إِذْ تَسْتَغِیثُونَ رَبَّکُمْ فَاسْتَجَابَ لَکُمْ أَنِّی مُمِدُّکُمْ بِأَلْفٍ مِنَ الْمَلاَئِکَۃِ مُرْدِفِینَ }۔
٢۔ پھر جب یہ دن (بدر کا) آیا اور باہم آمنا سامنا ہوا تو اللہ تعالیٰ نے مشرکین کو شکست دی پس ان میں سے ستر آدمیوں کو قتل کیا گیا اور ستر آدمیوں کو ان میں سے قیدی بنایا گیا۔ پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت ابوبکر حضرت عمر اور حضرت علی سے مشورہ کیا۔ تو حضرت ابوبکر نے عرض کیا۔ اے پیغمبر خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! یہ (قیدی) لوگ (ہمارے) چچا زاد، قوم اور بھائیوں میں سے ہیں۔ میری رائے یہ ہے کہ آپ ان سے فدیہ لے لیں۔ پس ان سے ہم جو (فدیہ) لیں گے وہ کفار پر قوت ہوگا اور ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو ہدایت دے دے تو یہ لوگ ہمارے لیے دست وبازو بن جائیں گے۔
٣۔ پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے خطاب کے بیٹے ! تمہاری کیا رائے ہے ؟ میں نے عرض کیا۔ بخدا ! میری رائے وہ نہیں ہے جو حضرت ابوبکر کی رائے ہے۔ لیکن میری رائے یہ ہے کہ آپ فلاں شخص ، عمر کا رشتہ دار ، کو میرے حوالہ کریں تاکہ میں اس کی گردن مار ڈالوں۔ اور حضرت علی کے حوالہ عقیل کو کریں تاکہ وہ اس کی گردن اڑا دیں۔ تاکہ اللہ تعالیٰ کو معلوم ہوجائے کہ ہمارے دلوں میں مشرکین کے لیے کوئی رحمدلی نہیں ہے۔ یہ لوگ مشرکین کے سرغنہ، لیڈر اور راہنما ہیں۔
٤۔ جو بات حضرت ابوبکر نے پیش فرمائی تھی وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پسند آگئی اور جو بات میں نے عرض کی تھی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو وہ پسند نہ آئی اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مشرکین سے فدیہ وصول کرلیا۔
٥۔ پھر اگلا دن ہوا تو حضرت عمر فرماتے ہیں۔ تو میں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں صبح کے وقت حاضر ہوا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور حضرت ابوبکر دونوں بیٹھے ہوئے رو رہے تھے۔ فرماتے ہیں : میں نے عرض کیا۔ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! مجھے بتائیے ! آپ کو اور آپ کے ساتھی کو کیا چیز رلا رہی ہے ؟ اگر مجھے رونے کی بات معلوم ہوئی تو میں بھی روؤں گا وگرنہ آپ دونوں کے رونے کی وجہ سے میں بتکلف ہی رو لوں گا۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : تمہارے ساتھیوں نے جو فدیہ کے بارے میں میرے سامنے رائے پیش کی تو تحقیق مجھے اس درخت (قریب میں موجود درخت کی طرف اشارہ فرمایا) سے بھی قریب تمہارا عذاب پیش کیا گیا۔ اور اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں۔ { مَا کَانَ لِنَبِیٍّ أَنْ یَکُونَ لَہُ أَسْرَی حَتَّی یُثْخِنَ فِی الأَرْضِ ، تُرِیدُونَ عَرَضَ الدُّنْیَا } سے لے کر { لَوْلاَ کِتَابٌ مِنَ اللہِ سَبَقَ لَمَسَّکُمْ فِیمَا أَخَذْتُمْ } یعنی فدیہ { عَذَابٌ عَظِیمٌ} پھر صحابہ کے لیے غنیمتوں کو حلال کردیا گیا۔
٦۔ پھر جب اگلے سال احد کا دن آیا تو صحابہ کرام نے بدر کے دن جو فدیہ لیا تھا اس کا صحابہ کو بدلہ دیا گیا۔ پس صحابہ میں ستر شہید ہوئے اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ بھاگ گئے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے والی رباعی ٹوٹ گئی اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سر مبارک پر موجود خود ٹوٹ گئی اور خون آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ے رُخ مبارک پر بہہ پڑا اور اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی { أَوَ لَمَّا أَصَابَتْکُمْ مُصِیبَۃٌ قَدْ أَصَبْتُمْ مِثْلَیْہَا قُلْتُمْ أَنَّی ہَذَا ، قُلْ ہُوَ مِنْ عِنْدِ أَنْفُسِکُمْ ، إِنَّ اللَّہَ عَلَی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیرٌ} یعنی فدیہ لے کر۔

37839

(۳۷۸۴۰) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنْ أَبِیہِ ؛ أَنَّ رُقَیَّۃَ بِنْتَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ تُوُفِّیَتْ، فَخَرَجَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِلَی بَدْرٍ، وَہِیَ امْرَأَۃُ عُثْمَانَ، فَتَخَلَّفَ عُثْمَان، وَأُسَامَۃُ بْنُ زَیْدٍ یَوْمَئِذٍ ، فَبَیْنَمَا ہُمْ یَدْفِنُونَہَا إِذْ سَمِعَ عُثْمَانُ تَکْبِیرًا ، فَقَالَ : یَا أُسَامَۃُ ، اُنْظُرْ مَا ہَذَا التَّکْبِیرُ؟ فَنَظَرَ، فَإِذَا ہُوَ زَیْدُ بْنُ حَارِثَۃَ عَلَی نَاقَۃِ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْجَدْعَائِ ، یُبَشِّرُ بِقَتْلِ أَہْلِ بَدْرٍ مِنَ الْمُشْرِکِینَ ، فَقَالَ الْمُنَافِقُونَ : لاَ وَاللہِ مَا ہَذَا بِشَیْئٍ ، مَا ہَذَا إِلاَّ الْبَاطِلُ ، حَتَّی جِیئَ بِہِمْ مُصَفَّدِینَ مُغَلَّلِینَ۔ (حاکم ۲۱۷۔ بیہقی ۱۷۴)
(٣٧٨٤٠) حضرت ہشام ، اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رقیہ بنت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وفات پا گئیں۔ اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بدر کی طرف نکلے ہوئے تھے۔ یہ حضرت عثمان کی اہلیہ تھیں۔ پس حضرت عثمان اور حضرت اسامہ بن زید اس دن پیچھے رہ گئے۔ پھر جب یہ لوگ حضرت زید کو دفن کر رہے تھے تو اس دوران حضرت عثمان نے تکبیر کی آواز سُنی۔ تو حضرت عثمان نے کہا : اے اسامہ ! یہ تکبیر کی آواز کیسی ؟ حضرت اسامہ نے دیکھا وہ حضرت زید بن حارثہ تھے جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جدعاء (ناک کٹی) اونٹنی پر سوار تھے اور اہل بدر مشرکوں کی ہلاکت کی بشارت دے رہے تھے۔ (اس پر) منافقین نے کہا : بخدا ! یہ کوئی (معتبر) بات نہیں ہے۔ یہ محض جھوٹ ہے۔ یہاں تک کہ مشرکین کو مقید کر کے اور خوب کس کر لایا گیا۔

37840

(۳۷۸۴۱) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ ، عَنْ عَبِیدَۃَ السَّلْمَانِیِّ ، قَالَ : أُسِرَ یَوْمَ بَدْرٍ مِنَ الْمُشْرِکِینَ سَبْعُونَ رَجُلاً ، وَقُتِلَ مِنْہُمْ سَبْعُونَ ، فَجَمَعَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الأَنْصَارَ فَخَیَّرَہُمْ ، فَقَالَ : مَا شِئْتُمْ ، إِنْ شِئْتُمْ اُقْتُلُوہُمْ ، وَیُقْتَلُ مِنْکُمْ عِدَّتُہُمْ ، وَإِنْ شِئْتُمْ أَخَذْتُمْ فِدَائَہُمْ ، فَتَقَوَّیْتُمْ بِہِ فِی سَبِیلِ اللہِ ، قَالُوا : یَا رَسُولَ اللہِ ، نَأْخُذُ الْفِدَائَ نَتَقَوَّی بِہِ فِی سَبِیلِ اللہِ ، وَیُقْتَلُ مِنَّا عِدَّتُہُمْ ، قَالَ : فَقُتِلَ مِنْہُمْ عِدَّتُہُمْ یَوْمَ أُحُدٍ۔ (عبدالرزاق ۹۴۰۲)
(٣٧٨٤١) حضرت عبیدہ اسلمی بیان کرتے ہیں کہ بدر کے دن مشرکین میں سے ستر افراد قید کئے گئے اور ستر مشرکین قتل کئے گئے۔ پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انصار کو جمع فرمایا اور ان کو (قیدیوں کے بارے میں) اختیار دیا اور فرمایا۔ جو تم چاہو گے (وہی ہوگا) اگر تم چاہو گے تو تم انھیں قتل کردو اور تم میں سے ان کی تعداد کے بقدر قتل کئے جائیں گے۔ اور اگر چاہو تو تم فدیہ لے لو۔ تاکہ تم اس کے ذریعہ راہ خدا میں تقویت پاؤ۔ انصار نے کہا۔ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ہم فدیہ لیتے ہیں جس کے ذریعہ ہم راہ خدا میں تقویت حاصل کریں گے اور ہم میں اس کے بقدر قتل کئے جائیں۔ راوی کہتے ہیں : پس کفار کی تعداد کے بقدر صحابہ میں سے یوم احد کو قتل ہوگئے۔

37841

(۳۷۸۴۲) حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الْحَفَرِیُّ ، عَنِ ابْنِ أَبِی زَائِدَۃَ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ ، عَنْ عَبِیْدَۃَ ، عَنْ عَلِیٍّ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ؛ بِنَحْوِ حَدِیثِ عَبْدِ الرَّحِیمِ۔ (ترمذی ۱۵۶۷۔ حاکم ۱۴۰)
(٣٧٨٤٢) حضرت علی بھی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عبد الرحیم کی حدیث کی طرح کی حدیث روایت کرتے ہیں۔

37842

(۳۷۸۴۳) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، قَالَ : حدَّثَنَا الأَعْمَشُ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ زَیْدِ بْنِ یُثَیْعٍ ، قَالَ : کَانَ أَبُو بَکْرٍ مَعَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَوْمَ بَدْرٍ عَلَی الْعَرِیشِ ، قَالَ : فَجَعَلَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَدْعُو ، یَقُولُ : اللَّہُمَّ اُنْصُرْ ہَذِہِ الْعِصَابَۃَ ، فَإِنَّک إِنْ لَمْ تَفْعَلْ لَمْ تُعْبَدْ فِی الأَرْضِ ، فَقَالَ أَبُو بَکْرٍ : بَعْضَ مُنَاشَدَتِکَ رَبَّک ، فَوَاللہِ لَیُنْجِزَنَّ لَک الَّذِی وَعَدَکَ۔
(٣٧٨٤٣) حضرت زید بن یثیع سے روایت ہے کہ بدر کے دن حضرت ابوبکر ، نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہمراہ چھپر پر تھے۔ راوی کہتے ہیں : نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دعا مانگنی شروع کی اور فرمایا : ” اے اللہ ! اس جماعت کی مدد فرما۔ اگر تو مدد نہیں کرے گا تو دھرتی پر تیری عبادت نہیں کی جائے گی۔ “ حضرت ابوبکر نے عرض کیا : یہ آپ کی اپنے رب کے ساتھ مناجات ہیں۔ بخدا ! اللہ تعالیٰ ضرور بالضرور آپ کے ساتھ کیا ہوا وعدہ پورا فرمائے گا۔

37843

(۳۷۸۴۴) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ أَبِی بَکْرٍ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَعْدِ بْنِ زُرَارَۃَ ، قَالَ : قُدِمَ بِأُسَارَی بَدْرٍ ، وَسَوْدَۃُ بِنْتُ زَمْعَۃَ زَوْجُ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عِنْدَ آلِ عَفْرَائَ فِی مَنَاحَتِہِمْ، عَلَی عَوْفٍ وَمُعَوِّذٍ ابْنَیْ عَفْرَائَ، وَذَلِکَ قَبْلَ أَنْ یُضْرَبَ عَلَیْہِنَّ الْحِجَابُ ، قَالَتْ : قُدِمَ بِالأُسَارَی فَأَتَیْتُ مَنْزِلِی ، فَإِذَا أَنَا بِسُہَیْلِ بْنِ عَمْرٍو فِی نَاحِیَۃِ الْحُجْرَۃِ ، مَجْمُوعَۃً یَدَاہُ إِلَی عُنُقِہِ ، فَلَمَّا رَأَیْتُہُ مَا مَلَکْتُ نَفْسِی أَنْ قُلْتُ : أَبَا یَزِیدَ ، أَعْطَیْتُمْ بِأَیْدِیکُمْ ، أَلاَ مُتُّمْ کِرَامًا ، قَالَتْ : فَوَاللہِ مَا نَبَّہَنِی إِلاَّ قَوْلُ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ دَاخِلِ الْبَیْتِ : أَیْ سَوْدَۃُ : أَعَلَی اللہِ وَعَلَی رَسُولِہِ ؟ قُلْتُ : یَا رَسُولَ اللہِ ، وَاللہِ إِنْ مَلَکْتُ نَفْسِی حَیْثُ رَأَیْتُ أَبَا یَزِیدَ أَنْ قُلْتُ مَا قُلْتُ۔ (حاکم ۲۲)
(٣٧٨٤٤) حضرت یحییٰ بن عبداللہ سے روایت ہے کہ بدر کے قیدیوں کو لایا گیا۔ اس وقت ، نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زوجہ، حضرت سودہ بنت زمعہ ، عفراء کے بیٹوں عوف اور معوِّذ کی سوگ منانے والی عورتوں کے ساتھ آل عفراء کے ساتھ تشریف فرما تھیں۔ یہ عورتوں پر حجاب کا حکم اترنے سے پہلے کا واقعہ ہے۔ سودہ کہتی ہیں : قیدیوں کو لایا گیا۔ تو میں اپنے گھر کی طرف آئی تو مجھے اچانک ، حجرہ کے کونے میں سہیل بن عمرو دکھائی دیا درآنحالیکہ اس کے دونوں ہاتھ اس کی گردن کے ساتھ جمع (باندھے) کئے ہوئے تھے۔ پس جب میں نے اس کو دیکھا۔ تو میرا خود پر قابو نہ رہا اور میں نے کہہ دیا۔ ابو یزید ! تم نے اپنے ہاتھوں سے (اپنا آپ) حوالہ کردیا ہے۔ تم لوگ عزت کی موت کیوں نہ مرگئے۔ حضرت سودہ فرماتی ہیں۔ بخدا ! مجھے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی گھر سے آنے والی آواز کے سوا کسی نے تنبیہ نہیں کی۔ کہ ” اے سودہ ! کیا اللہ اور اس کے رسول سے بھی اوپر ؟ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ؟ بخدا ! جب میں نے ابو یزید کو دیکھا تو میرا خود پر قابو نہ رہا کہ جو میں نے کہنا تھا وہ میں نے کہہ دیا۔

37844

(۳۷۸۴۵) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ ، عَنْ أَبِی عُبَیْدَۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : لَمَّا کَانَ یَوْمُ بَدْرٍ ، قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَا تَقُولُونَ فِی ہَؤُلاَئِ الأُسَارَی ؟ قَالَ أَبُو بَکْرٍ : یَا رَسُولَ اللہِ ، قَوْمُکَ وَأَصْلُکَ ، اسْتَبْقِہِمْ وَاسْتَتِبْہُمْ ، لَعَلَّ اللَّہَ أَنْ یَتُوبَ عَلَیْہِمْ ، وَقَالَ عُمَرُ : یَا رَسُولَ اللہِ ، کَذَّبُوکَ وَأَخْرَجُوکَ ، قَدِّمْہُمْ نَضْرِبْ أعَنَاقَہُمْ ، وَقَالَ عَبْدُ اللہِ بْنُ رَوَاحَۃَ : یَا رَسُولَ اللہِ ، أَنْتَ فِی وَادٍ کَثِیرِ الْحَطَبِ ، فَأَضْرِمَ الْوَادِیَ عَلَیْہِمْ نَارًا ، ثُمَّ أَلْقِہِمْ فِیہِ ، فَقَالَ الْعَبَّاسُ : قَطَعَ اللَّہُ رَحِمَکَ ، قَالَ ، فَسَکَتَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَلَمْ یَرُدَّ عَلَیْہِمْ ، ثُمَّ قَامَ فَدَخَلَ۔ فَقَالَ أُنَاسٌ : یَأْخُذُ بِقَوْلِ أَبِی بَکْرٍ ، وَقَالَ أُنَاسٌ : یَأْخُذُ بِقَوْلِ عُمَرَ ، وَقَالَ أُنَاسٌ : یَأْخُذُ بِقَوْلِ عَبْدِ اللہِ بْنِ رَوَاحَۃَ ، ثُمَّ خَرَجَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : إِنَّ اللَّہَ لَیُلَیِّنُ قُلُوبَ رِجَالٍ فِیہِ ، حَتَّی تَکُونَ أَلْیَنَ مِنَ اللَّبَنِ ، وَإِنَّ اللَّہَ لَیُشَدِّدُ قُلُوبَ رِجَالٍ فِیہِ ، حَتَّی تَکُونَ أَشَدَّ مِنَ الْحِجَارَۃِ ، وَإِنَّ مَثَلَکَ یَا أَبَا بَکْرٍ مَثَلُ إِبْرَاہِیمَ ، قَالَ : (فَمَنْ تَبِعَنِی فَإِنَّہُ مِنِّی ، وَمَنْ عَصَانِی فَإِنَّکَ غَفُورٌ رَحِیمٌ) وَإِنَّ مَثَلَکَ یَا أَبَا بَکْرٍ کَمَثَلِ عِیسَی ، قَالَ : {إِنْ تُعَذِّبْہُمْ فَإِنَّہُمْ عِبَادُکَ ، وَإِنْ تَغْفِرْ لَہُمْ فَإِنَّکَ أَنْتَ الْعَزِیزُ الْحَکِیمُ} وَإِنَّ مَثَلَکَ یَا عُمَرُ مَثَلُ مُوسَی، قَالَ {رَبَّنَا اطْمِسْ عَلَی أَمْوَالِہِمْ، وَاشْدُدْ عَلَی قُلُوبِہِمْ، فَلاَ یُؤْمِنُوا حَتَّی یَرَوْا الْعَذَابَ الأَلِیمَ} وَإِنَّ مَثَلَکَ یَا عُمَرُ مَثَلُ نُوحٍ ، قَالَ : {رَبِّ لاَ تَذَرْ عَلَی الأَرْضِ مِنَ الْکَافِرِینَ دَیَّارًا} أَنْتُمْ عَالَۃٌ فَلاَ یَنْفَلِتَنَّ أَحَدٌ مِنْہُمْ إِلاَّ بِفِدَائٍ ، أَوْ ضَرْبَۃِ عُنُقٍ۔ فَقَالَ ابْنُ مَسْعُودٍ : یَا رَسُولَ اللہِ ، إِلاَّ سُہَیْلَ بْنَ بَیْضَائَ ، فَإِنِّی قَدْ سَمِعْتُہُ یَذْکُرُ الإِسْلاَمَ ، قَالَ : فَسَکَتَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَمَا رَأَیْتُنِی فِی یَوْمٍ أَخْوَفَ أَنْ تَقَعَ عَلَیَّ حِجَارَۃٌ مِنَ السَّمَائِ مِنِّی فِی ذَلِکَ الْیَوْمِ ، حَتَّی قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إِلاَّ سُہَیْلَ بْنَ بَیْضَائَ ، فَأَنْزَلَ اللَّہُ : {مَا کَانَ لِنَبِیٍّ أَنْ یَکُونَ لَہُ أَسْرَی حَتَّی یُثْخِنَ فِی الأَرْضِ} إِلَی آخِرِ الآیَۃِ۔
(٣٧٨٤٥) حضرت عبداللہ سے روایت ہے کہ جب بدر کا دن تھا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا : تم لوگوں کی اسیران بدر کے بارے میں کیا رائے ہے ؟ حضرت ابوبکر نے فرمایا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! (یہ لوگ) آپ کی قوم و قبیلہ کے ہیں۔ آپ ان کی بقاء اور ان کی توبہ کے طلب گار بنیے۔ شاید کہ اللہ تعالیٰ ان کی طرف رجوع کرلے (یعنی ہدایت دے دے) ۔ اور حضرت عمر نے فرمایا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ان لوگوں نے آپ کی تکذیب کی اور انھوں نے آپ کو (شہر سے) باہر نکالا۔ انھیں آگے کریں تاکہ ہم ان کی گردن زنی کریں۔ اور حضرت عبداللہ بن رواحہ نے عرض کیا۔ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ ایسی وادی میں ہیں جہاں لکڑیاں بہت زیادہ ہیں۔ پس آپ ان پر اس وادی کو آگ سے دہکا دیں پھر آپ انھیں اس دہکتی آگ میں ڈال دیں۔ (اس پر) عباس نے کہا۔ اللہ تیرے رشتہ کو کاٹ دے۔ راوی کہتے ہیں : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خاموش ہوگئے اور صحابہ کو کوئی جواب نہیں دیا پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کھڑے ہوئے اور اندر چلے گئے۔ لوگوں نے کہنا شروع کیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت ابوبکر کا قول لیں گے اور (بعض) لوگوں نے کہا : آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت عمر کا قول لیں گے ۔ اور (بعض) لوگوں نے کہا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت عبداللہ بن رواحہ کا قول لیں گے۔ پھر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) باہر تشریف لائے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :
” بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے ان (قیدیوں) کے بارے بعض مردوں کے دلوں کو نرم کردیا ہے۔ یہاں تک وہ دودھ سے بھی زیادہ نرم ہوگئے ہیں۔ اور کچھ لوگوں کے دلوں کو اللہ تعالیٰ نے ا ن کے بارے میں سخت کردیا ہے۔ یہاں تک کہ وہ پتھر سے بھی زیادہ سخت ہوگئے ہیں اور اے ابوبکر ! تیری مثال تو حضرت ابراہیم کی طرح ہے۔ انھوں نے کہا تھا۔ { فَمَنْ تَبِعَنِی فَإِنَّہُ مِنِّی ، وَمَنْ عَصَانِی فَإِنَّکَ غَفُورٌ رَحِیمٌ}۔
اور تیری مثال۔ اے ابوبکر ! حضرت عیسیٰ کی طرح ہے۔ انھوں نے کہا تھا۔ {إِنْ تُعَذِّبْہُمْ فَإِنَّہُمْ عِبَادُکَ ، وَإِنْ تَغْفِرْ لَہُمْ فَإِنَّکَ أَنْتَ الْعَزِیزُ الْحَکِیمُ }۔
اور تیری مثال، اے عمر ! موسیٰ کی طرح ہے۔ انھوں نے کہا تھا۔ { رَبَّنَا اطْمِسْ عَلَی أَمْوَالِہِمْ ، وَاشْدُدْ عَلَی قُلُوبِہِمْ ، فَلاَ یُؤْمِنُوا حَتَّی یَرَوُا الْعَذَابَ الأَلِیمَ }
اور اے عمر ! تیری مثال حضرت نوح کی طرح ہے انھوں نے کہا تھا ۔ { رَبِّ لاَ تَذَرْ عَلَی الأَرْضِ مِنَ الْکَافِرِینَ دَیَّارًا }۔
تم لوگ (اس وقت) مفلس ہو پس ان میں سے کوئی بھی رہائی نہیں پائے گا۔ مگر فدیہ کے ساتھ یا گردن مارنے کے ساتھ۔
حضرت ابن مسعود نے عرض کیا۔ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! سہیل بن بیضاء کو مستثنیٰ کر دیجئے کیونکہ میں نے اس کو اسلام کا ذکر کرتے ہوئے سُنا ہے۔ ابن مسعود کہتے ہیں : آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سکوت اختیار فرما لیا۔ ” پس مجھے اس دن سے زیادہ کسی دن یہ خوف لاحق نہیں ہوا کہ (کہیں) مجھ پر آسمان سے پتھر (نہ) گرپڑیں۔ “ یہاں تک کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ سہیل بن بیضاء کو استثناء ہے۔ (اس پر) اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ { مَا کَانَ لِنَبِیٍّ أَنْ یَکُونَ لَہُ أَسْرَی حَتَّی یُثْخِنَ فِی الأَرْضِ } آخر آیت تک۔

37845

(۳۷۸۴۶) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ ، عَنْ شُعْبَۃَ، عَنِ الْحَکَمِ ، قَالَ: لَمْ یَقْتُلْ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَوْمَ بَدْرٍ صَبْرًا، إِلاَّ عُقْبَۃَ بْنَ أَبِی مُعَیْطٍ۔ (ابوداؤد ۲۶۷۹۔ بیہقی ۶۴)
(٣٧٨٤٦) حضرت حکم سے روایت ہے۔ فرماتے ہیں : کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بدر کے دن قید کر کے صرف عقبہ بن ابی معیط کو قتل کیا۔

37846

(۳۷۸۴۷) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ أَبِی بِشْرٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ؛ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَمْ یَقْتُلْ یَوْمَ بَدْرٍ صَبْرًا إِلاَّ ثَلاَثَۃً : عُقْبَۃَ بْنَ أَبِی مُعَیْطٍ ، وَالنَّضْرَ بْنَ الْحَارِثِ ، وَطُعَیْمَۃَ بْنَ عَدِی ، وَکَانَ النَّضْرُ أَسَرَہُ الْمِقْدَادُ۔
(٣٧٨٤٧) حضرت سعید بن جبیر سے منقول ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بدر کے دن تین آدمیوں کو قید کر کے قتل فرمایا۔ عقبہ بن ابی معیط، نضر بن الحارث اور طعیمہ بن عدی کو۔ اور نضر بن حارث کو مقداد نے قید کیا تھا۔

37847

(۳۷۸۴۸) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ آدَمَ ، قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ؛ أَنَّ رَجُلاً أَسَرَ أُمَیَّۃَ بْنَ خَلَفٍ ، فَرَآہُ بِلاَلٌ فَقَتَلَہُ۔
(٣٧٨٤٨) حضرت ہشام بن عروہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے امیہ بن خلف کو قید کرلیا۔ پھر اس کو حضرت بلال نے دیکھا تو قتل کردیا۔

37848

(۳۷۸۴۹) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : حدَّثَنَا زُہَیْرٌ ، قَالَ : حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ التَّیْمِیُّ ، أَنَّ أَنَسًا حَدَّثَہُمْ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَنْ یَنْظُرُ مَا صَنَعَ أَبُو جَہْلٍ ؟ قَالَ : فَانْطَلَقَ ابْنُ مَسْعُودٍ فَوَجَدَہُ قَدْ ضَرَبَہُ ابْنَا عَفْرَائَ حَتَّی بَرَدَ ، قَالَ : أَنْتَ أَبُو جَہْلٍ ، فَأَخَذَ بِلِحْیَتِہِ ، قَالَ : وَہَلْ فَوْقَ رَجُلٍ قَتَلْتُمُوہُ ، أَوْ : رَجُلٍ قَتَلَہُ قَوْمُہُ۔ (بخاری ۳۹۶۲۔ مسلم ۱۱۸)
(٣٧٨٤٩) حضرت سلیمان تیمی بیان کرتے ہیں کہ حضرت انس نے انھیں بیان کیا ۔ کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ابو جہل کے ساتھ جو کچھ ہوا ہے اس کو کون دیکھے گا ؟ راوی کہتے ہیں : حضرت ابن مسعود چل دیئے تو انھوں نے اس کو اس حالت میں پایا کہ اس کو عفراء کے دو بیٹوں نے ایسا مارا تھا کہ وہ ٹھنڈا ہوگیا تھا۔ ابن مسعود نے کہا۔ تو ابو جہل ہے۔ اور آپ نے اس کی داڑھی کو پکڑا۔ میں ان لوگوں میں سب سے بلند ہوں جنھیں تم نے قتل کیا ہے۔

37849

(۳۷۸۵۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ جَرِیرِ بْنِ حَازِمٍ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ ، قَالَ : أَقْعَصَ أَبَا جَہْلٍ ابْنَا عَفْرَائَ ، وَذَفَّفَ عَلَیْہِ ابْنُ مَسْعُودٍ۔
(٣٧٨٥٠) حضرت ابن سیرین کہتے ہیں کہ ابو جہل پر موت اتارنے والی ضرب تو عفراء کے دو بیٹوں نے لگائی اور اس کو (آخری طور پر) ابن مسعود نے موت کے گھاٹ اتارا۔

37850

(۳۷۸۵۱) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ الْمُغِیرَۃِ ، عَنْ ثَابِتٍ ، قَالَ : قَالَ أَصْحَابُ أَبِی جَہْلٍ لأَبِی جَہْلٍ وَہُوَ یَسِیرُ إِلَی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَوْمَ بَدْرٍ : أَرَأَیْتَ مَسِیرَکَ إِلَی مُحَمَّدٍ ؟ أَتَعْلَمُ أَنَّہُ نَبِیٌّ ؟ قَالَ : نَعَمْ ، وَلَکِنْ مَتَی کُنَّا تَبَعًا لِعَبْدِ مَنَافٍ ؟۔
(٣٧٨٥١) حضرت ثابت سے منقول ہے کہ ابو جہل کے ساتھیوں نے ابو جہل سے کہا۔ جبکہ وہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف بدر کے دن چل رہا تھا۔ محمد کی طرف اپنے جانے کا ہمیں بھی بتاؤ۔ کیا تم جانتے ہو کہ وہ نبی ہیں ؟ ابو جہل نے کہا : ہاں ! لیکن ہم عبد مناف کے پیرو کب سے ہیں ؟

37851

(۳۷۸۵۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا أَبِی ، وَإِسْرَائِیلُ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِی عُبَیْدَۃَ ، قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللہِ : انْتَہَیْتُ إِلَی أَبِی جَہْلٍ یَوْمَ بَدْرٍ ، وَقَدْ ضُرِبَتْ رِجْلُہُ وَہُوَ صَرِیعٌ ، وَہُوَ یَذُبُّ النَّاسَ عَنْہُ بِسَیْفِہِ ، فَقُلْتُ : الْحَمْدُ لِلَّہِ الَّذِی أَخْزَاکَ یَا عَدُوَّ اللہِ ، قَالَ : ہَلْ ہُوَ إِلاَّ رَجُلٌ قَتَلَہُ قَوْمُہُ ، قَالَ : فَجَعَلْتُ أَتَنَاوَلُہُ بِسَیْفٍ لِی غَیْرِ طَائِلٍ ، فَأَصَبْتُ یَدَہُ ، فَنَدَرَ سَیْفَہُ ، فَأَخَذْتُہُ فَضَرَبْتُہُ بِہِ حَتَّی بَرَدَ ، ثُمَّ خَرَجْتُ حَتَّی أَتَیْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَأَنَّمَا أَقَلُّ مِنَ الأَرْضِ ، یَعْنِی مِنَ السُّرْعَۃِ ، فَأَخْبَرْتُہُ ، فَقَالَ : آللَّہِ الَّذِی لاَ إِلَہَ إِلاَّ ہُوَ ؟ فَرَدَّدَہَا عَلَیَّ ثَلاَثًا ، فَخَرَجَ یَمْشِی مَعِی حَتَّی قَامَ عَلَیْہِ ، فَقَالَ : الْحَمْدُ لِلَّہِ الَّذِی أَخْزَاکَ یَا عَدُوَّ اللہِ ، ہَذَا کَانَ فِرْعَوْنَ ہَذِہِ الأُمَّۃِ۔ قَالَ وَکِیعٌ : زَادَ فِیہِ أَبِی ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِی عُبَیْدَۃَ ، قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللہِ : فَنَفَّلَنِی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سَیْفَہُ۔
(٣٧٨٥٢) حضرت عبداللہ سے روایت ہے ، فرماتے ہیں : میں بدر والے دن ابو جہل کے پاس پہنچا جبکہ اس کے پاؤں پر ضرب لگی ہوئی تھی اور وہ نیم مردہ حالت میں تھا اور وہ خود سے لوگوں کو اپنی تلوار کے ذریعہ سے ہٹا رہا تھا۔ میں نے کہا۔ اے دشمن خدا ! تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے تجھے رسوا کیا ہے۔ کہا : کہ وہ ایسا شخص ہے جس کو اس کی قوم نے قتل کیا ہے۔ عبداللہ کہتے ہیں۔ پس میں نے اس کو اپنی چھوٹی سی تلوار سے لینا شروع کیا اور میں اس کے ہاتھ تک پہنچ گیا تو اس کی تلوار گرگئی۔ میں نے وہ تلوار پکڑ لی اور ابو جہل کو اسی تلوار کے ذریعہ سے مارا یہاں تک کہ وہ ٹھنڈا ہوگیا۔ پھر میں (وہاں سے) نکلا اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں (اس طرح) حاضر ہو اگویا کہ مجھے زمین سے اٹھایا گیا ہے (یعنی تیزی سے گیا) اور میں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خبردی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کیا واقعی ہی ؟ الذی لا الہ الا ھو ؟ یہ بات آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھ پر تین مرتبہ دہرائی پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرے ہمراہ چلتے ہوئے باہر تشریف لائے یہاں تک کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس پر کھڑے ہوئے اور فرمایا؛ اے دشمن خدا ! تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے تجھے رسوا کیا۔ یہ شخص اس امت کا فرعون تھا۔ حضرت وکیع کہتے ہیں۔ میرے والد نے بواسطہ ابو اسحاق از ابو عبیدہ یہ اضافہ کیا ہے کہ عبداللہ کہتے ہیں۔ پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے اس کی تلوار عطا فرمائی۔

37852

(۳۷۸۵۳) حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا إِسْرَائِیلُ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِی عُبَیْدَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : لَقَدْ قُلِّلُوا فِی أَعْیُنِنَا یَوْمَ بَدْرٍ ، حَتَّی قُلْتُ لِصَاحِبٍ لِی إِلَی جَنْبِی : کَمْ تَرَاہُمْ ؟ تَرَاہُمْ سَبْعِینَ ۔ قَالَ : أُرَاہُمْ مِئَۃ ، حَتَّی أَخَذْنَا مِنْہُمْ رَجُلاً فَسَأَلْنَاہُ ، فَقَالَ : کُنَّا أَلْفًا۔
(٣٧٨٥٣) حضرت ابو عبیدہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ البتہ تحقیق ہماری آنکھوں میں بدر کے دن (کفار کو) کم مقدار میں ظاہر کیا گیا یہاں تک کہ میں نے اپنے پہلو میں موجود ایک صاحب سے پوچھا : تمہارے خیال میں یہ کتنے ہیں ؟ تمہارے خیال میں یہ ستر ہوں گے۔ اس نے جواب دیا۔ میرے خیال میں یہ ایک سو کی تعداد میں ہیں یہاں تک کہ ہم نے ان میں سے ایک آدمی کو پکڑا اور ہم نے اس سے پوچھا۔ تو اس نے بتایا ۔ کہ ہم ایک ہزار کی تعداد میں ہیں۔

37853

(۳۷۸۵۴) حَدَّثَنَا شَاذَانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ زَیْدٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ، قَالَ : قُتِلَ یَوْمَ بَدْرٍ خَمْسَۃُ رِجَالٍ مِنَ الْمُہَاجِرِینَ ، مِنْ قُرَیْشٍ ؛ مِہْجَعٌ مَوْلَی عُمَرَ ، یَحْمِلُ یَقُولُ : أَنَا مِہْجَعٌ ، وَإِلَی رَبِّی أَجْزَعُ ، وَقُتِلَ ذُو الشِّمَالَیْنِ ، وَابْنُ بَیْضَائَ ، وَعُبَیْدَۃُ بْنُ الْحَارِثِ ، وَعَامِرُ بْنُ أَبِی وَقَّاصٍ۔
(٣٧٨٥٤) حضرت سعید بن مسیب کہتے ہیں، بدر کے دن قریش میں سے پانچ مہاجرین قتل ہوئے حضرت عمر کے آزاد کردہ غلام مہجع۔ یہ صاحب یہ کہتے ہوئے حملہ آور ہوئے۔ میں مہجع ہوں اور اپنے رب کی طرف ہی ڈرتے ہوئے لپکتا ہوں۔ اور ذوالشمالین، ابن بیضائ، عبیدہ بن حارث اور عامر بن ابی وقاص قتل ہوئے۔

37854

(۳۷۸۵۵) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، قَالَ : حدَّثَنِی سُلَیْمَانُ بْنُ الْمُغِیرَۃِ ، قَالَ : حَدَّثَنَا ثَابِتٌ ، قَالَ : إِنَّ مَعَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ الْحَرْبَۃَ یَوْمَ بَدْرٍ ، وَلاَ یُؤْتَی بِأَسِیرٍ إِلاَّ أَوْجَرَہَا إِیَّاہُ ، قَالَ : فَلَمَّا أُخِذَ الْعَبَّاسُ ، قَالَ لآخِذِہِ : أَتَدْرِی مَنْ أَنَا ؟ قَالَ : لاَ ، قَالَ : أَنَا عَمُّ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَلاَ تَذْہَبْ بِی إِلَی عُمَرَ ، قَالَ : فَأَمْسَکَہُ، وَأُخِذَ عَقِیلٌ ، وَقَالَ لآخِذِہِ : تَدْرِی مَنْ أَنَا ؟ قَالَ : لاَ ، قَالَ : أَنَا ابْنُ عَمِّ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : فَأَمْسَکَ النَّاسُ۔
(٣٧٨٥٥) حضرت ثابت کہتے ہیں کہ بدر کے دن حضرت عمر کے پاس ایک نیزہ تھا۔ جب بھی کوئی قیدی لایا جاتا تو حضرت عمر یہ نیزہ اس کے منہ میں مارتے۔ راوی کہتے ہیں : جب عباس کو پکڑا گیا تو انھوں نے اپنے پکڑنے والے سے کہا۔ تم مجھے جانتے ہو ؟ اس آدمی نے جواب دیا۔ نہیں ! عباس نے کہا۔ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا چچا ہوں۔ پس تم مجھے عمر کے پاس نہ لے کر جاؤ۔ راوی کہتے ہیں : وہ آدمی رک گیا۔ پھر عقیل کو پکڑا گیا تو انھوں نے اپنے پکڑنے والے سے کہا۔ تم مجھے جانتے ہو ؟ اس نے جواب دیا : نہیں ! عقیل نے کہا۔ میں رسول اللہ کا چچا زاد ہوں۔ راوی کہتے ہیں : پھر لوگ رک گئے۔

37855

(۳۷۸۵۶) حَدَّثَنَا عِیسَی بْنُ یُونُسَ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ أَبِیہِ ، یَعْنِی جَدَّہُ ، عَنْ ذِی الْجَوْشَنِ الضَّبَابِیِّ ، قَالَ : أَتَیْتُ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَعْدَ أَنْ فَرَغَ مِنْ أَہْلِ بَدْرٍ بِابْنِ فَرَسٍ لِی ، یُقَالُ لَہَا : الْقَرْحَائُ ، فَقُلْتُ : یَا مُحَمَّدُ ، إِنِّی قَدْ أَتَیْتُکَ بِابْنِ الْقَرْحَائِ لِتَتَّخِذَہُ ، قَالَ : لاَ حَاجَۃَ لِی فِیہِ ، وَإِنْ أَرَدْتَ أَنْ أُقِیضَکَ بِہِ الْمُخْتَارَۃَ مِنْ دُرُوعِ بَدْرٍ فَعَلْتُ ، قُلْتُ : مَا کُنْتُ أُقِیضُکَ الْیَوْمَ بِغُرَّۃٍ لاَ حَاجَۃَ لِی فِیہِ ، ثُمَّ قَالَ : یَا ذَا الْجَوْشَنِ ، أَلاَ تُسْلِمُ فَتَکُونَ مِنْ أَوَّلِ ہَذَا الأَمْرِ ، قُلْتُ : لاَ ، قَالَ : وَلِمَ ؟ قُلْتُ : إِنِّی رَأَیْتُ قَوْمَکَ وَلِعُوا بِکَ ، قَالَ : فَکَیْفَ مَا بَلَغَکَ عَنْ مَصَارِعِہِمْ ؟ قُلْتُ : قَدْ بَلَغَنِی ، قَالَ : فَأَنَّی یُہْدَی بِکَ ؟ قُلْتُ : إِنْ تَغْلِبْ عَلَی الْکَعْبَۃِ وَتَقْطُنْہَا، قَالَ : لَعَلَّک إِنْ عِشْتَ أَنْ تَرَی ذَلِکَ۔ ثُمَّ قَالَ : یَا بِلاَلُ ، خُذْ حَقِیبَۃَ الرَّجُلِ ، فَزَوِّدْہُ مِنَ الْعَجْوَۃِ ، فَلَمَّا أَدْبَرْتُ ، قَالَ : أَمَا إِنَّہُ خَیْرُ فُرْسَانِ بَنِی عَامِرٍ ، قَالَ : فَوَاللہِ ، إِنِّی بِأَہْلِی بِالْعَوْذَائِ إِذْ أَقْبَلَ رَاکِبٌ ، فَقُلْتُ : مِنْ أَیْنَ أَنْتَ ؟ قَالَ: مِنْ مَکَّۃَ، قَالَ: قُلْتُ: مَا فَعَلَ النَّاسُ ؟ قَالَ : قَدْ وَاللہِ غَلَبَ عَلَیْہَا مُحَمَّدٌ وَقَطَنَہَا ، فَقُلْتُ : ہَبِلَتْنِی أُمِّی ، لَوْ أُسْلِمُ یَوْمَئِذٍ ، ثُمَّ أَسْأَلُہُ الْحِیرَۃَ لأَقْطَعَنِیہَا ، قَالَ : وَاللہِ لاَ أَشْرَبُ الدَّہْرَ مِنْ کُوزٍ ، وَلاَ یَضْرِطُ الدَّہْرَ تَحْتِی بِرْذَوْنٌ۔ (مسند ۵۵۹)
(٣٧٨٥٦) حضرت ذی الجوشن سے روایت ہے کہ میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں جبکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اہل بدر سے فارغ ہوگئے تھے۔ اپنے ایک گھوڑے کے بچے کو لے کر حاضر ہوا۔ جس گھوڑے کا نام ۔ القرحائ۔ تھا اور میں نے عرض کیا۔ اے محمد ! میں آپ کے پاس اس قرحاء کا بچہ لے کر آیا ہوں تاکہ یہ آپ لے لیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : مجھے اس کی ضرورت نہیں ہے اگر تم اس کے بدلہ میں مجھ سے بدر کی زرہ میں سے منتخب ذرہ بدلہ میں لینا چاہتے ہو تو پھر میں یہ لے سکتا ہوں۔ میں نے عرض کیا۔ میں آج آپ سے اس گھوڑے کے عوض کچھ نہیں لوں گا۔ مجھے اس کی ضرورت نہیں ہے۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے ذو الجوشن ! کیا تم اسلام نہیں لے آئے تاکہ تم اس معاملہ (دین) کے پہلوں میں سے ہو جاؤ ؟ میں نے جواب دیا : نہیں ! آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کیوں ؟ میں نے کہا : میں آپ کی قوم کو دیکھتا ہوں کہ وہ آپ کے درپے ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تمہیں ان کے پچھاڑے ہوئے (مُردوں) کے بارے میں کیسی خبر پہنچی ہے ؟ میں نے کہا : وہ تو مجھے پہنچی ہی ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : پھر کب تیرے ذریعہ سے ہدایت دی جائے گی ؟ میں نے کہا ۔ اگر آپ کو مکہ پر غلبہ اور وہاں پر آباد ہونا میسر آگیا ۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ہوسکتا ہے کہ تو اس بات کو دیکھنے تک زندہ رہے۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے بلال ! اس آدمی کا توشہ دان پکڑو اور اس کو توشہ میں عجوہ دے دو ۔ پھر جب رُخ پھیر کر مڑا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ خبردار ! یہ بنو عامر کا بہترین گھڑ سوار ہے۔ راوی کہتے ہیں : بخدا ! میں عوذاء مقام پر اپنے گھر والوں کے ساتھ تھا کہ ایک سوار سامنے آیا ۔ میں نے پوچھا۔ تم کہاں سے آئے ہو ؟ اس نے جواب دیا ۔ مکہ سے میں نے پوچھا۔ (وہاں) لوگوں کا کیا ہوا ؟ اس آدمی نے کہا بخدا ! مکہ پر محمد کا غلبہ ہوگیا ہے اور وہ وہاں پر آباد ہوگئے ہیں۔ میں نے کہا۔ میری ماں مجھے گم پائے۔ کاش میں اس دن اسلام لے آتا۔ پھر میں ان سے حیرہ کی سلطنت بھی مانگتا تو مجھے مل جاتی۔ خدا کی قسم ! میں کبھی صراحی سے نہیں پیوں گا اور میرے نیچے کبھی گھوڑا نہیں آئے گا۔

37856

(۳۷۸۵۷) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ إِسْرَائِیلَ ، عَنْ سِمَاکٍ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : قیلَ لِرَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حِینَ فَرَغَ مِنْ بَدْرٍ : عَلَیْکَ بِالْعِیرِ لَیْسَ دُونَہَا شَیْئٌ ، فَنَادَاہُ الْعَبَّاسُ وَہُوَ أَسِیرٌ فِی وَثَاقِہِ : لاَ یَصْلحُّ ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لِمَہْ ؟ قَالَ : إِنَّ اللَّہَ وَعَدَکَ إِحْدَی الطَّائِفَتَیْنِ ، وَقَدْ أَعْطَاکَ مَا وَعَدَکَ۔ (ترمذی ۳۰۸۰۔ احمد ۲۲۹)
(٣٧٨٥٧) حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بدر سے فارغ ہوئے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا گیا۔ آپ پر قافلہ لازم ہے اس کے سوا کوئی چیز نہیں ۔ (یعنی قافلہ کو بھی قابو کریں) پس آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عباس نے۔۔۔ وہ بیڑی میں جکڑے ہوئے تھے۔۔۔ آواز دی۔ یہ درست نہیں ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا۔ کیوں ؟ عباس نے کہا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ سے دو جماعتوں میں سے ایک کا وعدہ کیا تھا۔ سو اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنا (کیا ہوا) وعدہ عطا کردیا ہے۔

37857

(۳۷۸۵۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ وَلَدِ الزُّبَیْرِ ، قَالَ : کَانَ عَلَی الزُّبَیْرِ یَوْمَ بَدْرٍ عِمَامَۃٌ صَفْرَائُ ، مُعْتَجِرًا بِہَا ، فَنَزَلَتِ الْمَلاَئِکَۃُ وَعَلَیْہِمْ عَمَائِمُ صُفْرٌ۔
(٣٧٨٥٨) حضرت زبیر کی اولاد میں سے ایک آدمی روایت کرتے ہیں کہ یوم بدر میں حضرت زبیر ایک زرد رنگ عمامہ پہنے ہوئے تھے اور اس کا پلہ منہ پر لیا ہوا تھا۔ پس فرشتے بھی اس حالت میں اترے کہ ان پر زرد رنگ کے عمامہ تھے۔

37858

(۳۷۸۵۹) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنْ عَبَّادِ بْنِ حَمْزَۃَ ، عَنِ الزُّبَیْرِ ؛ بِنَحْوٍ مِنْہُ۔
(٣٧٨٥٩) حضرت زبیر سے بھی ایسی روایت ہے۔

37859

(۳۷۸۶۰) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ، عَنْ ہِشَامٍ، عَنْ أَبِیہِ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ؛ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَقَفَ عَلَی قَلِیبِ بَدْرٍ، فَقَالَ: ہَلْ وَجَدْتُمْ مَا وَعَدَ رَبُّکُمْ حَقًّا؟ ثُمَّ قَالَ: إِنَّہُمَ الآنَ لَیَسْمَعُونَ مَا أَقُولُ۔(بخاری ۳۹۸۰۔ مسلم ۶۴۳)
(٣٧٨٦٠) حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بدر کے کنویں پر کھڑے ہوئے اور فرمایا : کیا تم نے اس بات کو حق پا لیا جو تمہارے رب نے تم سے وعدہ کیا تھا۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : یہ (مُردے) اس وقت جو بات کہہ رہا ہوں اس کو سُن رہے ہیں۔

37860

(۳۷۸۶۱) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، قَالَ : لَمْ یَکُنْ مَعَ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَوْمَ بَدْرٍ إِلاَّ فَرَسَانِ ، کَانَ عَلَی أَحَدِہِمَا الزُّبَیْرُ۔
(٣٧٨٦١) حضرت ہشام سے روایت ہے کہ یوم بدر کو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہمراہ دو گھوڑے تھے۔ ان میں سے ایک پر حضرت زبیر تھے۔

37861

(۳۷۸۶۲) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ إِدْرِیسَ ، عَنْ مُطَرِّفٍ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنِ الْبَرَائِ ، قَالَ : عُرِضْتُ أَنَا ، وَابْنُ عُمَرَ عَلَی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَوْمَ بَدْرٍ فَاسْتُصْغِرْنَا ، وَشَہِدْنَا أُحُدًا۔
(٣٧٨٦٢) حضرت برائ سے روایت ہے کہ یوم بدر کو مجھے اور ابن عمر کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے پیش کیا گیا تو ہمیں چھوٹا سمجھا گیا اور ہم احد میں شریک ہوئے۔

37862

(۳۷۸۶۳) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَنْ ثَابِتٍ ، عَنْ أَنَسٍ ؛ أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ شَاوَرَ حِینَ بَلَغَہُ إِقْبَالُ أَبِی سُفْیَانَ ، قَالَ : فَتَکَلَّمَ أَبُو بَکْرٍ ، فَأَعْرَضَ عَنْہُ ، ثُمَّ تَکَلَّمَ عُمَرُ ، فَأَعْرَضَ عَنْہُ ، فَقَالَ سَعْدُ بْنُ عُبَادَۃَ : إِیَّانَا تُرِیدُ یَا رَسُولَ اللہِ ؟ وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ لَوْ أَمَرْتَنَا أَنْ نُخِیضَہَا الْبَحْرَ لأَخَضْنَاہَا ، وَلَوْ أَمَرْتنَا أَنْ نَضْرِبَ أَکْبَادَہَا إِلَی بَرْکِ الْغِمَادِ لَفَعَلْنَا ، قَالَ : فَنَدَبَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ النَّاسَ۔ قَالَ : فَانْطَلَقُوا حَتَّی نَزَلُوا بَدْرًا وَرَدَتْ عَلَیْہِمْ رَوَایَا قُرَیْشٍ ، وَفِیہِمْ غُلاَمٌ أَسْوَدُ لِبَنِی الْحَجَّاجِ ، فَأَخَذُوہُ ، فَکَانَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَسْأَلُونَہُ عَنْ أَبِی سُفْیَانَ وَأَصْحَابِہِ ، فَیَقُولُ : مَا لِی عِلْمٌ بِأَبِی سُفْیَانَ ، وَلَکِنْ ہَذَا أَبُو جَہْلٍ ، وَعُتْبَۃُ ، وَشَیْبَۃُ ، وَأُمَیَّۃُ بْنُ خَلَفٍ ، فَإِذَا قَالَ ذَلِکَ ضَرَبُوہُ ، فَإِذَا ضَرَبُوہُ ، قَالَ : نَعَمْ ، أَنَا أُخْبِرُکُمْ ، ہَذَا أَبُو سُفْیَانَ ، فَإِذَا تَرَکُوہُ ، قَالَ : مَا لِی بِأَبِی سُفْیَانَ عِلْمٌ ، وَلَکِنْ ہَذَا أَبُو جَہْلٍ ، وَعُتْبَۃُ ، وَشَیْبَۃُ ، وَأُمَیَّۃُ بْنُ خَلَفٍ فِی النَّاسِ ، فَإِذَا قَالَ ہَذَا أَیْضًا ضَرَبُوہُ۔ وَرَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَائِمٌ یُصَلِّی ، فَلَمَّا رَأَی ذَلِکَ انْصَرَفَ ، قَالَ : وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ ، إِنَّکُمْ لَتَضْرِبُونَہُ إِذَا صَدَقَکُمْ ، وَتَتْرُکُونَہُ إِذَا کَذَبَکُمْ ، قَالَ : وَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : ہَذَا مَصْرَعُ فُلاَنٍ ، یَضَعُ یَدَہُ عَلَی الأَرْضِ ہَاہُنَا وَہَاہُنَا ، فَمَا مَاطَ أَحَدُہُمْ عَنْ مَوْضِعِ یَدِ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔ (مسلم ۱۴۰۳۔ ابوداؤد ۲۶۷۴)
(٣٧٨٦٣) حضرت انس سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جب ابو سفیان کے آنے کی خبر پہنچی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مشورہ فرمایا۔ راوی کہتے ہیں۔ حضرت ابوبکر نے گفتگو کی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے اعراض کیا پھر حضرت عمر نے کلام شروع کیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے (بھی) اعراض کیا۔ پھر حضرت سعد بن عبادہ نے عرض کیا۔ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ کی مراد ہم ہیں ؟ قسم اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے اگر آپ ہمیں گھوڑے سمندر میں ڈالنے کا حکم دیں گے تو البتہ ہم گھوڑوں کو سمندر میں ڈال دیں گے۔ اور اگر آپ ہمیں برک غماد تک گھوڑے دوڑانے کا حکم دیں گے تو ہم یہ بھی کریں گے۔ راوی کہتے ہیں۔ پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں کو آمادہ فرمایا۔
٢۔ راوی کہتے ہیں۔ پس صحابہ چل پڑے یہاں تک کہ وہ بدر میں جا کر اترے تو ان کے پاس قریش کے پانی بھرنے والے اونٹ آپہنچے اور ان میں بنو حجاج کا ایک کالا غلام بھی تھا۔ پس صحابہ نے ان کو پکڑ لیا۔ اصحابِ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے ابو سفیان اور اس کے ساتھیوں کے بارے میں سوال کیا۔ اس نے جواب دیا ۔ مجھے ابو سفیان کا کوئی علم نہیں ہے لیکن یہ ابو جہل، عتبہ، شیبہ اور امیہ بن خلف (آ رہے) ہیں۔ پس یہ غلام جب یہ بات کہتا تو صحابہ کرام اس کو مارتے۔ اور جب صحابہ کرام اس کو مارتے تو وہ کہتا۔ ہاں ! میں بتاتا ہوں ۔ یہ ابو سفیان (آ رہا) ہے۔ پھر جب صحابہ کرام اس کو چھوڑ دیتے تو وہ پھر کہتا۔ مجھے ابو سفیان کا کوئی علم نہیں ہے لیکن یہ ابو جہل، عتبہ، شیبہ، اور امیہ بن خلف لوگوں کے ساتھ (آ رہے) ہیں۔ پھر جب وہ یہ بات کہتا تو صحابہ کرام پھر اس کو مارتے۔
٣۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کھڑے نماز ادا فرما رہے تھے۔ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ معاملہ دیکھا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مڑے اور فرمایا : اور جب یہ تمہارے ساتھ جھوٹ بولتا ہے تو تم اس کو چھوڑ دیتے ہو۔ راوی کہتے ہیں۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : یہ فلاں کی جائے قتل ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنا ہاتھ زمین پر رکھ کر فرمایا : یہاں ، یہاں۔ پس آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعیین کردہ جگہ سے کوئی کافر ادھر ادھر (قتل) نہیں ہوا۔

37863

(۳۷۸۶۴) حَدَّثَنَا شَبَابَۃُ بْنُ سَوَّارٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ الْمُغِیرَۃِ ، عَنْ ثَابِتٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا أَنَسٌ ، قَالَ : کُنَّا مَعَ عُمَرَ بَیْنَ مَکَّۃَ وَالْمَدِینَۃِ نَتَرَائَی الْہِلاَلَ ، فَرَأَیْتُہُ وَکُنْتُ حَدِیدَ الْبَصَرِ ، فَجَعَلْتُ أَقُولُ لِعُمَرَ : مَا تَرَاہُ ؟ وَجَعَلَ عُمَرُ یَنْظُرُ وَلاَ یَرَاہُ ، فَقَالَ عُمَرُ : سَأَرَاہُ وَأَنَا مُسْتَلْقٍ عَلَی فِرَاشِی ، ثُمَّ أَنْشَأَ یُحَدِّثُنَا عَنْ أَہْلِ بَدْرٍ ، قَالَ : إِنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَیُرِی مَصَارِعَ أَہْلِ بَدْرٍ بِالأَمْسِ ، یَقُولُ : ہَذَا مَصْرَعُ فُلاَنٍ غَدًا إِنْ شَائَ اللَّہُ ، وَہَذَا مَصْرَعُ فُلاَنٍ غَدًا إِنْ شَائَ اللَّہُ ، قَالَ : فَوَالَّذِی بَعَثَہُ بِالْحَقِّ مَا أَخْطَأُوا تِلْکَ الْحُدُودَ یُصْرَعُونَ عَلَیْہَا۔ ثُمَّ جُعِلُوا فِی بِئْرٍ ، بَعْضُہُمْ عَلَی بَعْضٍ ، فَانْطَلَقَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حَتَّی انْتَہَی إِِلَیْہِمْ ، فَقَالَ : یَا فُلاَنُ بْنَ فُلاَنٍ ، وَیَا فُلاَنُ بْنَ فُلاَنٍ : ہَلْ وَجَدْتُمْ مَا وَعَدَکُمَ اللَّہُ وَرَسُولُہُ حَقًّا ؟ فَقَالَ عُمَرُ : یَا رَسُولَ اللہِ ، کَیْفَ تُکَلِّمُ أَجْسَادًا لاَ أَرْوَاحَ فِیہَا ؟ قَالَ : مَا أَنْتُمْ بِأَسْمَعَ لِمَا أَقُولُ مِنْہُمْ ، غَیْرَ أَنَّہُمْ لاَ یَسْتَطِیعُونَ یَرُدُّونَ عَلَیَّ شَیْئًا۔ (احمد ۲۶۔ ابویعلی ۱۳۵)
(٣٧٨٦٤) حضرت انس سے روایت ہے کہ ہم حضرت عمر کے ساتھ مکہ، مدینہ کے درمیان چاند دیکھ رہے تھے۔ میری نظر تیز تھی۔ سو میں نے چاند دیکھ لیا۔ میں نے حضرت عمر سے کہنا شروع کیا۔ آپ نے چاند نہیں دیکھا ؟ حضرت عمر دیکھتے رہے لیکن انھیں نظر نہیں آیا ۔ تو انھوں نے فرمایا : مجھے بھی عنقریب نظر آجائے گا۔ میں اپنے بستر پر چت لیٹا ہوا تھا۔ پھر حضرت عمر نے ہمیں اہل بدر کے بارے میں بیان کرنا شروع کیا اور فرمایا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اہل بدر کے قتل گاہ پچھلی رات دکھا دئیے گئے تھے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : انشاء اللہ یہ جگہ کل فلاں شخص کی مقتل ہوگی اور یہ جگہ انشاء اللہ فلاں شخص کی مقتل ہوگی۔ حضرت عمر کہتے ہیں۔ قسم اس ذات کی جس نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا۔ وہ کفار انہی حدود پر قتل کئے گئے۔ ان سے خطاء نہیں ہوئے۔ پھر مقتولین کفار کو کنویں میں ایک دوسرے پر ڈال کر پھینک دیا گیا۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چلے یہاں تک کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے پاس پہنچے۔ اور فرمایا : اے فلاں بن فلاں ! اے فلاں بن فلاں ! اللہ، اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جو تمہارے ساتھ وعدہ کیا ہے تم نے اس کو برحق پایا ؟ حضرت عمر نے عرض کیا۔ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ ان جسموں سے کیسے کلام فرما رہے ہیں جن میں روحیں نہیں ہیں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو بات میں کہہ رہا ہوں تم اس کو ان سے زیادہ نہیں سُن رہے ۔ لیکن یہ بات ہے کہ وہ مجھے کوئی جواب نہیں دے سکتے۔

37864

(۳۷۸۶۵) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا سُلَیْمَانُ التَّیْمِیُّ ، عَنْ أَبِی مِجْلَزٍ ، عَنْ قَیْسِ بْنِ عُبَادٍ ، قَالَ : تَبَارَزَ عَلِیٌّ ، وَحَمْزَۃُ ، وَعُبَیْدَۃُ بْنُ الْحَارِثِ ، وَعُتْبَۃُ بْنُ رَبِیعَۃَ ، وَشَیْبَۃُ بْنُ رَبِیعَۃَ ، وَالْوَلِیدُ بْنُ عُتْبَۃَ ، فَنَزَلَتْ فِیہِمْ : {ہَذَانِ خَصْمَانِ اخْتَصَمُوا فِی رَبِّہِمْ}۔ (بخاری ۳۹۶۵۔ نسائی ۱۱۳۴۲)
(٣٧٨٦٥) حضرت قیس بن عباد سے روایت ہے کہ حضرت علی ، حضرت حمزہ اور حضرت عبیدہ بن الحارث نے عتبہ بن ربیعہ ، شیبہ بن ربیعہ اور ولید بن عتبہ کے ساتھ مبارزت کی تو ان کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی۔ { ہَذَانِ خَصْمَانِ اخْتَصَمُوا فِی رَبِّہِمْ }۔

37865

(۳۷۸۶۶) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا یُونُسُ ، عَنْ أَبِی السَّفَرِ ، قَالَ : نَادَی مُنَادِی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَوْمَ بَدْرٍ : مَنْ أَسَرَ أُمَّ حَکِیمٍ بِنْتَ حِزَامٍ فَلْیُخَلِّ سَبِیلَہَا ، فَإِنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَدْ أَمَّنَہَا ، فَأَسَرَہَا رَجُلٌ مِنَ الأَنْصَارِ وَکَتَفَہَا بِذُؤَابَتِہَا ، فَلَمَّا سَمِعَ مُنَادِیَ رَسُولِ اللہِ خَلَّی سَبِیلَہَا۔
(٣٧٨٦٦) حضرت ابو السفر سے روایت ہے کہ بدر کے دن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے منادی نے آواز دی کہ جس کسی نے ام حکیم بنت حزام کو قید کیا ہوا ہے وہ اس کو آزاد کر دے کیونکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو امان دے دی ہے۔ ایک انصاری آدمی نے ان کو قید کیا تھا اور ان کے ہاتھوں کو پچھلی طرف ان کے بالوں کے ساتھ باندھا ہوا تھا۔ پس جب انھوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے منادی کو سُنا تو انھوں نے اس کو آزاد کردیا۔

37866

(۳۷۸۶۷) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ دَاوُدَ ، عَنْ أَبِی نَضْرَۃَ : {وَمَنْ یُوَلِّہِمْ یَوْمَئِذٍ دُبُرَہُ إِلاَّ مُتَحَرِّفًا لِقِتَالٍ ، أَوْ مُتَحَیِّزًا إِلَی فِئَۃٍ} نَزَلَتْ یَوْمَ بَدْرٍ ، وَلَمْ یَکُنْ لَہُمْ أَنْ یَنْحَازُوا ، وَلَوْ انْحَازُوا لَمْ یَنْحَازُوا إِلاَّ إِلَی الْمُشْرِکِینَ۔ (ابوداؤد ۲۶۴۱۔ نسائی ۸۶۵۴)
(٣٧٨٦٧) حضرت ابو نضرہ سے روایت ہے۔ { وَمَنْ یُوَلِّہِمْ یَوْمَئِذٍ دُبُرَہُ إِلاَّ مُتَحَرِّفًا لِقِتَالٍ ، أَوْ مُتَحَیِّزًا إِلَی فِئَۃٍ } یہ آیت یوم بدر کو نازل ہوئی اور اہل ایمان کے لیے بھاگنے کی کوئی راہ نہیں تھی۔ اور اگر وہ بھاگتے تو مشرکین ہی کی طرف بھاگنا ہوتا۔

37867

(۳۷۸۶۸) حَدَّثَنَا شَبَابَۃُ بْنُ سَوَّارٍ ، عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ الْمُغِیرَۃِ ، عَنْ ثَابِتٍ ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ : کَانَ ابْنُ عَمَّتِی حَارِثَۃُ انْطَلَقَ مَعَ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَوْمَ بَدْرٍ ، فَانْطَلَقَ غُلاَمًا نَظَّارًا ، مَا انْطَلَقَ لِقِتَالٍ ، فَأَصَابَہُ سَہْمٌ فَقَتَلَہُ، فَجَائَتْ عَمَّتِی أُمُّہُ إِلَی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَتْ : یَا رَسُولَ اللہِ ، ابْنِی حَارِثَۃُ ، إِنْ یَکُ فِی الْجَنَّۃِ صَبَرْتُ وَاحْتَسَبْتُ ، وَإِلاَّ فَسَتَرَی مَا أَصْنَعُ ، فَقَالَ : یَا أُمَّ حَارِثَۃَ ، إِنَّہَا جِنَانٌ کَثِیرَۃٌ ، وَإِنَّ حَارِثَۃَ فِی الْفِرْدَوْسِ الأَعْلَی۔ (احمد ۲۱۵۔ طبرانی ۳۲۳۴)
(٣٧٨٦٨) حضرت انس سے روایت ہے کہ بدر کے دن میری پھوپھی کا بیٹا حارثہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ چلا۔ اور یہ لڑکا محض دیکھنے کے لیے چلا تھا۔ یہ لڑائی کے لیے نہیں چلا تھا۔ اس کو ایک تیر لگ گیا اور اس نے اس کو قتل کردیا۔ پس اس کی والدہ جو کہ میری پھوپھی تھی۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس حاضر ہوئی اور کہا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! میرا بیٹا حارثہ اگر تو جنت میں ہے تو میں صبر کرتی ہوں اور ثواب کی امید کرتی ہوں ۔ وگرنہ آپ دیکھ لیں گے کہ میں کیا کرتی ہوں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے ام حارثہ ! سُنو ! جنتیں تو بہت سی ہیں۔ لیکن حارثہ فردوس اعلی میں ہے۔

37868

(۳۷۸۶۹) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنِ الْوَلِیدِ بْنِ جُمَیْعٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا أَبُو الطُّفَیْلِ ، قَالَ : حَدَّثَنَا حُذَیْفَۃُ بْنُ الْیَمَانِ ، قَالَ : مَا مَنَعَنِی أَنْ أَشْہَدَ بَدْرًا إِِلاَّ أَنِّی خَرَجْتُ أَنَا ، وَأَبِی حُسَیْلٌ ، قَالَ : فَأَخَذَنَا کُفَّارُ قُرَیْشٍ ، فَقَالُوا : إِنَّکُمْ تُرِیدُونَ مُحَمَّدًا ؟ فَقُلْنَا : مَا نُرِیدُہُ ، مَا نُرِیدُ إِلاَّ الْمَدِینَۃَ ، فَأَخَذُوا مِنَّا عَہْدَ اللہِ وَمِیثَاقَہُ لَنَنْصَرِفَنَّ إِلَی الْمَدِینَۃِ ، وَلاَ نُقَاتِلُ مَعَہُ ، فَأَتَیْنَا رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرْنَاہُ الْخَبَرَ ، فَقَالَ : انْصَرِفَا نَفِی لَہُمْ، وَنَسْتَعِینُ اللَّہَ عَلَیْہِمْ۔
(٣٧٨٦٩) حضرت حذیفہ بن یمان سے روایت ہے کہ میری بدر میں حاضری سے یہ بات مانع ہوئی کہ میں اور ابو حسیل نکلے۔ فرماتے ہیں : تو ہمیں کفارِ قریش نے پکڑ لیا۔ اور انھوں نے کہا : تم لوگ محمد کا ارادہ رکھتے ہو ؟ ہم نے کہا : ہمارا ارادہ محمد کی طرف (جانے کا) نہیں ہے۔ ہمارا ارادہ تو صرف مدینہ (میں جانے کا) ہے۔ اس پر کفار نے ہم سے خدا کا عہد و پیمان لیا کہ ہم ضرور بالضرور مدینہ کی طرف جائیں گے اور ہم محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہمراہ قتال نہیں کریں گے۔ پھر ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے اور ہم نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ بات بتلائی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم دونوں چلے جاؤ۔ ہم ان کے لیے بہت ہیں۔ ہم ان کے خلاف اللہ تعالیٰ سے مدد کے طالب ہں ۔

37869

(۳۷۸۷۰) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا ابْنُ الْغَسِیلِ ، عَنْ حَمْزَۃَ بْنِ أَبِی أُسَیْدَ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَوْمَ بَدْرٍ حِینَ صَفَفْنَا لِقُرَیْشٍ وَصَفُّوا لَنَا : إِذَا أَکْثَبُوکُمْ فَارْمُوہُمْ بِالنَّبْلِ۔ (بخاری ۲۹۰۰۔ ابوداؤد ۲۶۵۶)
(٣٧٨٧٠) حضرت حمزہ بن ابی اسید اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ سول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بدر کے دن، جبکہ ہم نے قریش کے خلاف صف بندی کرلی اور قریش نے ہمارے خلاف صف بندی کرلی : فرمایا : جب وہ تمہارے قریب آئیں گے تب تم ان پر نیزہ بازی کرنا۔

37870

(۳۷۸۷۱) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : کَانَ طَلْحَۃُ صَاحِبَ رَایَۃِ الْمُشْرِکِینَ یَوْمَ بَدْرٍ ، فَقَتَلَہُ عَلِیُّ بْنُ أَبِی طَالِبٍ مُبَارَزَۃً۔
(٣٧٨٧١) حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ بدر کے دن طلحہ مشرکین کی طرف سے جھنڈا بردار تھا پس اس کو حضرت علی بن ابی طالب نے مبارزۃً قتل فرمایا تھا۔

37871

(۳۷۸۷۲) حَدَّثَنَا الثَّقَفِیُّ ، عَنْ خَالِدٍ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ ؛ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ یَوْمَ بَدْرٍ : مَنْ لَقِیَ مِنْکُمْ أَحَدًا مِنْ بَنِی ہَاشِمٍ فَلاَ یَقْتُلْہُ ، فَإِنَّہُمْ أُخْرِجُوا کُرْہًا۔
(٣٧٨٧٢) حضرت عکرمہ سے روایت ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بدر کے دن ارشاد فرمایا تھا۔ تم میں سے جو کوئی بنو ہاشم کو ملے تو وہ ان کو قتل نہ کرے کیونکہ انھیں زبردستی (جنگ میں) نکالا گیا ہے۔

37872

(۳۷۸۷۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إِسْرَائِیلَ ، عَنْ أَبِی الْہَیْثُمَّ ، قَالَ إِبْرَاہِیمُ التَّیْمِیُّ ؛ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَتَلَ رَجُلاً مِنَ الْمُشْرِکِینَ مِنْ قُرَیْشٍ یَوْمَ بَدْرٍ ، وَصَلَبَہُ إِلَی شَجَرَۃٍ۔
(٣٧٨٧٣) حضرت ابراہیم تیمی سے روایت ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بدر کے دن قریش کے ایک مشرک کو قتل کیا اور اس کو درخت پر لٹکا دیا۔

37873

(۳۷۸۷۴) حَدَّثَنَا عَائِذُ بْنُ حَبِیبٍ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنِ الْحَکَمِ ، عَنْ مِقْسَمٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ؛ أَنَّ أَہْلَ بَدْرٍ کَانُوا ثَلاَثُ مِئَۃٍ وَثَلاَثَۃَ عَشَرَ ، الْمُہَاجِرُونَ مِنْہُمْ خَمْسَۃٌ وَسَبْعُونَ ، وَکَانَتْ ہَزِیمَۃُ بَدْرٍ لِسَبْعَ عَشْرَۃَ مِنْ رَمَضَانَ لَیْلَۃَ جُمُعَۃٍ۔
(٣٧٨٧٤) حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ اہل بدر تین سو تیرہ تھے۔ ان میں پچھتر مہاجرین تھے اور بدر (میں کفار) کی شکست شبِ جمعہ سترہ رمضان کو ہوئی تھی۔

37874

(۳۷۸۷۵) حَدَّثَنَا عَائِذُ بْنُ حَبِیبٍ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنِ الْبَرَائِ ، قَالَ : کَانَ أَہْلُ بَدْرٍ ثَلاَثُ مِئَۃٍ وَبِضْعَۃَ عَشَرَ ، الْمُہَاجِرُونَ مِنْہُمْ سِتَّۃٌ وَسَبْعُونَ۔ (احمد ۲۴۸۔ بزار ۱۷۸۳)
(٣٧٨٧٥) حضرت برائ سے روایت ہے کہ تین سو دس سے کچھ اوپر تھے اور ان میں مہاجرین کی تعداد چھہتر تھی۔

37875

(۳۷۸۷۶) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ زَکَرِیَّا ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنِ الْبَرَائِ بْنِ عَازِبٍ ، قَالَ : کَانَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَوْمَ بَدْرٍ بِضْعَۃَ عَشَرَ وَثَلاَثُ مِئَۃٍ ، وَکُنَّا نَتَحَدَّثُ أَنَّہُمْ عَلَی عِدَّۃِ أَصْحَابِ طَالُوتَ الَّذِینَ جَاوَزُوا مَعَہُ النَّہَرَ ، وَمَا جَاوَزَ مَعَہُ إِلاَّ مُؤْمِنٌ۔ (بخار ی۳۹۵۷)
(٣٧٨٧٦) حضرت براء بن عازب سے روایت ہے کہ بدر کے دن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ کی تعداد تین سو دس سے کچھ اوپر تھی اور ہم باہم یہ گفتگو کرتے تھے کہ ان کی تعداد حضرت طالوت کے ان ساتھیوں جتنی ہے جنہوں نے حضرت طالوت کے ساتھ نہر کو پار کیا تھا۔ اور حضرت طالوت کے ساتھ صرف مومنوں نے ہی نہر پار کی تھی۔

37876

(۳۷۸۷۷) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ ، عَنْ عَبِیْدَۃَ ، قَالَ : عِدَّۃُ الَّذِینَ شَہِدُوا مَعَ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَدْرًا کَعِدَّۃِ الَّذِینَ جَاوَزُوا مَعَ طَالُوتَ النَّہَرَ ، عِدَّتُہُمْ ثَلاَثُ مِئَۃٍ وَثَلاَثَۃَ عَشَرَ۔
(٣٧٨٧٧) حضرت عبیدہ سے روایت ہے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہمراہ بدر میں حاضر ہونے والوں کی تعداد حضرت طالوت کے ہمراہ نہر پار کرنے والوں جتنی تھی اور ان کی تعداد تین سو تیرہ تھی۔

37877

(۳۷۸۷۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ ثَابِتِ بْنِ عُمَارَۃَ ، عَنْ غُنَیْمِ بْنِ قَیْسٍ ، عَنْ أَبِی مُوسَی ، قَالَ : کَانَ عِدَّۃُ أَصْحَابِ طَالُوتَ یَوْمَ جَالُوتَ ثَلاَثُ مِئَۃٍ وَبِضْعَۃَ عَشَرَ۔
(٣٧٨٧٨) حضرت ابو موسیٰ سے روایت ہے۔ یوم جالوت کو حضرت طالوت کے ساتھیوں کی تعداد تین سو دس سے کچھ اوپر تھی۔

37878

(۳۷۸۷۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، وَإِسْرَائِیلُ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنِ الْبَرَائِ بْنِ عَازِبٍ ، قَالَ : کَانَ عِدَّۃُ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ثَلاَثُ مِئَۃٍ وَبِضْعَۃَ عَشَرَ ، وَکَانُوا یُرَوْنَ أَنَّہُمْ عِدَّۃُ أَصْحَابِ طَالُوتَ یَوْمَ جَالُوتَ ، الَّذِینَ جَاوَزُوا مَعَہُ النَّہَرَ ، وَمَا جَاوَزَ مَعَہُ النَّہَرَ إِلاَّ مُؤْمِنٌ۔
(٣٧٨٧٩) حضرت براء بن عازب سے روایت ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ کی تعداد (یوم بدر کو) تین سو دس سے کچھ اوپر تھی۔ اور صحابہ کا خیال یہ تھا کہ وہ اس تعداد میں ہیں جس تعداد نے یوم جالوت کو حضرت طالوت کے ہمراہ نہر کو پار کیا تھا۔ اور ان کے ہمراہ نہر کو صرف اہل ایمان ہی نے پار کیا تھا۔

37879

(۳۷۸۸۰) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ، عَنْ مُعَاذِ بْنِ رِفَاعَۃَ بْنِ رَافِعٍ الأَنْصَارِیِّ ؛ أَنَّ مَلَکًا أَتَی رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : کَیْفَ أَصْحَابُ بَدْرٍ فِیکُمْ ؟ فَقَالَ : أَفْضَلُ النَّاسِ ، فَقَالَ الْمَلَکُ : وَکَذَلِکَ مَنْ شَہِدَ بَدْرًا مِنَ الْمَلاَئِکَۃِ۔
(٣٧٨٨٠) حضرت معاذ بن رفاعہ بن رافع انصاری سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس فرشتہ حاضر ہوا اور اس نے کہا۔ صحابہ میں اصحابِ بدر کا کیا مقام ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : یہ سب سے افضل لوگ ہیں۔ فرشتہ نے عرض کیا۔ فرشتوں میں یہی مقام ان فرشتوں کا ہے جو بدر کی جنگ میں شریک ہوئے ہیں۔

37880

(۳۷۸۸۱) حَدَّثَنَا سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ مُحَمَّدٍ ، أَنَّ عُبَیْدَ اللہِ بْنَ أَبِی رَافِعٍ کَاتِبَ عَلِیٍّ أَخْبَرَہُ ، أَنَّہُ سَمِعَ عَلِیًّا ، یَقُولُ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إِنَّہُ قَدْ شَہِدَ بَدْرًا ، یَعْنِی حَاطِبَ بْنَ أَبِی بَلْتَعَۃَ ، وَمَا یَدْرِیکَ لَعَلَّ اللَّہَ قَدَ اطَّلَعَ عَلَی أَہْلِ بَدْرٍ ، فَقَالَ : اعْمَلُوا مَا شِئْتُمْ فَقَدْ غَفَرْتُ لَکُمْ۔
(٣٧٨٨١) حضرت علی فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : بلاشبہ یہ، حاطب بن ابی بلتعہ ، بدر میں شریک ہوچکا ہے۔ اور تمہیں کیا معلوم ہے : شاید اللہ تعالیٰ نے اہل بدر کے دل پر جھانک کر فرمایا : تم جو کچھ چاہو کرو۔ تحقیق میں نے تمہیں بخش دیا ہے۔

37881

(۳۷۸۸۲) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ حُصَیْنٍ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَیْدَۃَ ، عَنْ أَبِی عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، قَالَ : سَمِعْتُ عَلِیًّا : یَقُولُ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : أَوَلَیْسَ مِنْ أَہْلِ بَدْرٍ ؟ وَمَا یُدْرِیکَ لَعَلَّ اللَّہَ اطَّلَعَ إِلَی أَہْلِ بَدْرٍ ، فَقَالَ : اعْمَلُوا مَا شِئْتُمْ فَقَدْ وَجَبَتْ لَکُمُ الْجَنَّۃُ۔ (بخاری ۳۰۸۱۔ مسلم ۱۹۴۲)
(٣٧٨٨٢) حضرت علی فرماتے ہیں : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : کیا یہ ، حاطب اہل ِ بدر میں سے نہیں ہیں ؟ اور تمہیں کیا خبر ہے ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اہل بدر کے دلوں میں جھانک کر دیکھا ہو تو فرمایا : تم جو چاہو کرو۔ تحقیق تمہارے لیے جنت واجب ہوگئی ہے۔

37882

(۳۷۸۸۳) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا عُمَرُ بْنُ حَمْزَۃَ ، قَالَ : أَخْبَرَنِی سَالِمٌ ، قَالَ : أَخْبَرَنِی ابْنُ عُمَرَ ؛ أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ لِعُمَرَ : وَمَا یُدْرِیکَ ، لَعَلَّ اللَّہَ قَدَ اطَّلَعَ إِلَی أَہْلِ بَدْرٍ ، فَقَالَ : اعْمَلُوا مَا شِئْتُمْ۔ (احمد ۱۰۹۔ ابویعلی ۵۴۹۷)
(٣٧٨٨٣) حضرت ابن عمر بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عمر سے کہا : تمہیں کیا خبر ہے ، ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اہل بدر کے دلوں میں جھانک کر دیکھا تو فرمایا : تم جو چاہو کرو ؟

37883

(۳۷۸۸۴) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ أَبِی النَّجُودِ ، عَنْ أَبِی صَالِحٍ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إِنَّ اللَّہَ تَبَارَکَ وَتَعَالَی اطَّلَعَ إِلَی أَہْلِ بَدْرٍ ، فَقَالَ : اعْمَلُوا مَا شِئْتُمْ فَقَدْ غَفَرْتُ لَکُمْ۔
(٣٧٨٨٤) حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے اہل بدر پر جھانک کر دیکھا تو فرمایا : تم جو چاہو کرو تحقیق میں نے تمہیں بخش دیا ہے۔

37884

(۳۷۸۸۵) حَدَّثَنَا شَبَابَۃُ بْنُ سَوَّارٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا لَیْثٌ ، عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ ، عَنْ جَابِرٍ ؛ أَنَّ عَبْدًا لِحَاطِبِ بْنِ أَبِی بَلْتَعَۃَ جَائَ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَشْتَکِی حَاطِبًا ، فَقَالَ : یَا رَسُولَ اللہِ ، لَیَدْخُلَنَّ حَاطِبٌ النَّارَ ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : کَذَبْتَ ، لاَ یَدْخُلُہَا ، إِنَّہُ قَدْ شَہِدَ بَدْرًا وَالْحُدَیْبِیَۃَ۔
(٣٧٨٨٥) حضرت جابر سے روایت ہے کہ حاطب بن ابی بلتعہ کا غلام نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حضرت حاطب کی شکایت کرنے کے لیے آیا اور عرض کیا۔ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! حاطب ضرور بالضرور آگ میں داخل کیا جائے گا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تو جھوٹ بولتا ہے۔ حاطب ، آگ میں نہیں جائے گا۔ (کیونکہ) تحقیق وہ بدر اور حدیبیہ میں حاضر ہوا ہے۔

37885

(۳۷۸۸۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ، عَنْ عَبَایَۃَ بْنِ رِفَاعَۃَ ، عَنْ جَدِّہِ رَافِعِ بْنِ خَدِیجٍ ، قَالَ : جَائَ جِبْرَائِیلُ ، أَوْ مَلَکٌ إِلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : مَا تَعُدُّونَ مَنْ شَہِدَ بَدْرًا فِیکُمْ ؟ قَالَ : خِیَارُنَا ، قَالَ : کَذَلِکَ ہُمْ عِنْدَنَا خِیَارُ الْمَلاَئِکَۃِ۔ (ابن ماجہ ۱۶۰۔ احمد ۴۶۵)
(٣٧٨٨٦) حضرت رافع بن خدیج بیان کرتے ہیں کہ جبرائیل یا کوئی دوسرا فرشتہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے پوچھا : جو لوگ بدر میں حاضر ہوئے ہیں۔ انھیں آپ کیا شمار کرتے ہیں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اپنے میں افضل شمار کرتے ہیں۔ اس نے جواب میں کہا : اسی طرح وہ فرشتے ہمارے ہاں بہترین فرشتے ہیں۔

37886

(۳۷۸۸۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ رَجُلٍ ، عَنِ الضَّحَّاکِ ؛ { وَمَنْ یُوَلِّہِمْ یَوْمَئِذٍ دُبُرَہُ } قَالَ : ہَذَا یَوْمَ بَدْرٍ خَاصَّۃً۔
(٣٧٨٨٧) حضرت ضحاک سے { وَمَنْ یُوَلِّہِمْ یَوْمَئِذٍ دُبُرَہُ } کے بارے میں منقول ہے کہ یہ حکم خاص طور پر بدر کے دن تھا۔

37887

(۳۷۸۸۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ الرَّبِیعِ ، عَنِ الْحَسَنِ ؛ {وَمَنْ یُوَلِّہِمْ یَوْمَئِذٍ دُبُرَہُ إِلاَّ مُتَحَرِّفًا لِقِتَالٍ ، أَوْ مُتَحَیِّزًا إِلَی فِئَۃٍ} قَالَ : ہَذَا یَوْمَ بَدْرٍ خَاصَّۃً ، لَیْسَ الْفِرَارُ مِنَ الزَّحْفِ مِنَ الْکَبَائِرِ۔
(٣٧٨٨٨) حضرت حسن { وَمَنْ یُوَلِّہِمْ یَوْمَئِذٍ دُبُرَہُ إِلاَّ مُتَحَرِّفًا لِقِتَالٍ ، أَوْ مُتَحَیِّزًا إِلَی فِئَۃٍ } کے بارے میں منقول ہے کہ یہ یوم بدر کی خاصیت تھی۔ لشکر سے فرار کبیرہ گناہوں میں سے نہیں ہے۔

37888

(۳۷۸۸۹) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، قَالَ : جَعَلَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِدَائَ الْعَرَبِیِّ یَوْمَ بَدْرٍ أَرْبَعِینَ أُوقِیَّۃً ، وَجَعَلَ فِدَائَ الْمَوْلَی عِشْرِینَ أُوقِیَّۃً ، الأُوقِیَّۃُ أَرْبَعُونَ دِرْہَمًا۔
(٣٧٨٨٩) حضرت ابراہیم سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عربی (آقا) کا فدیہ، یوم بدر کو چالیس اوقیہ اور غلام کا فدیہ بیس اوقیہ مقرر فرمایا تھا۔ ایک اوقیہ چالیس درہم کا ہوتا ہے۔

37889

(۳۷۸۹۰) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنْ أَبِی الزِّنَادِ ، قَالَ : کَانَ الصَّفِیُّ یَوْمَ بَدْرٍ سَیْفَ عَاصِمِ بْنِ مُنَبِّہِ بْنِ الْحَجَّاجِ۔
(٣٧٨٩٠) حضرت ابو الزناد سے منقول ہے کہ بدر کے دن عاص بن منبہ بن حجاج کی تلوار صفی (وہ مقدار جو حاکم تقسیم غنیمت سے قبل اپنے لیے مقرر کرے) بنی تھی۔

37890

(۳۷۸۹۱) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جُبَیْرٍ ، عَنْ جُبَیْرِ بْنِ مُطْعِمٍ ، قَالَ : قدِمْتُ عَلَی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی فِدَائِ أَہْلِ بَدْرٍ۔ (بخاری ۳۰۵۰۔ احمد ۸۴)
(٣٧٨٩١) حضرت جبیر بن مطعم سے روایت ہے کہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں اہل بدر کے فدیہ میں حاضر ہو اتھا۔

37891

(۳۷۸۹۲) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، عَنْ أَبِی الْعَالِیَۃِ ، قَالَ : کُنَّا نَتَحَدَّثُ أَنَّ قَوْلَہُ : {یَوْمَ نَبْطِشُ الْبَطْشَۃَ الْکُبْرَی} یَوْمَ بَدْرٍ ، وَالدُّخَانُ قَدْ مَضَی۔
(٣٧٨٩٢) حضرت ابو العالیہ سے روایت ہے کہ ہم باہم یہ گفتگو کرتے تھے کہ { یَوْمَ نَبْطِشُ الْبَطْشَۃَ الْکُبْرَی } سے مراد بدر کا دن ہے اور دھواں جا چکا ہے۔

37892

(۳۷۸۹۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا إِسْرَائِیلُ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِی عُبَیْدَۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : اشْتَرَکْنَا یَوْمَ بَدْرٍ أَنَا ، وَعَمَّارٌ ، وَسَعْدٌ فِیمَا أَصَبْنَا یَوْمَ بَدْرٍ ، فَأَمَّا أَنَا ، وَعَمَّارٌ فَلَمْ نَجِئْ بِشَیْئٍ ، وَجَائَ سَعْدٌ بِأَسِیرَیْنِ۔
(٣٧٨٩٣) حضرت عبداللہ سے روایت ہے کہ بدر کے دن ہم تینوں، عمار، سعد اور میں حاصل ہونے والی غنیمت میں مشترک ہوگئے۔ میں اور عمار تو کچھ بھی نہ لائے جبکہ حضرت سعد دو قیدی بنا کر لائے۔

37893

(۳۷۸۹۴) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو ، عَنْ عَطَائٍ ، قَالَ : کَانَ سُہَیْلُ بْنُ عَمْرٍو رَجُلاً أَعْلَمَ مِنْ شَفَتِہِ السُّفْلَی ، فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ لِرَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَوْمَ أُسِرَ بِبَدْرٍ : یَا رَسُولَ اللہِ ، اِنْزَعْ ثَنِیَّتَیْہِ السُّفْلَیَیْنِ فَیُدْلَعَ لِسَانُہُ ، فَلاَ یَقُومَ عَلَیْک خَطِیبًا بِمَوْطِنٍ أَبَدًا ، فَقَالَ : لاَ أُمَثِّلُ ، فَیُمَثِّلَ اللَّہُ بِی۔
(٣٧٨٩٤) حضرت عطاء سے روایت ہے کہ سہیل بن عمرو ایک ایسا آدمی تھا جس کا نچلا ہونٹ پھٹا ہوا تھا۔ جب وہ بدر کے دن قید کر کے لایا گیا تو حضرت عمر بن خطاب نے عر ض کیا۔ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! اس کے سامنے والے نچلے دو دانت اکھیڑ دیجئے تاکہ اس کی زبان باہر نکل آئے اور یہ آپ کی مخالفت میں کسی بھی جگہ بات نہ کرسکے ۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میں مثلہ نہیں کرتا کہ (بدلہ میں) اللہ تعالیٰ میرا مثلہ فرمائے۔

37894

(۳۷۸۹۵) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِی صَالِحٍ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لَمْ تَحِلَّ الْغَنَائِمُ لِقَوْمٍ سُودِ الرُّؤُوسِ قَبْلَکُمْ ، کَانَتْ نَارٌ تَنْزِلُ مِنَ السَّمَائِ فَتَأْکُلُہَا ، فَلَمَّا کَانَ یَوْمُ بَدْرٍ أَسْرَعَ النَّاسُ فِی الْغَنَائِمِ ، فَأَنْزَلَ اللَّہُ : {لَوْلاَ کِتَابٌ مِنَ اللہِ سَبَقَ لَمَسَّکُمْ فِیمَا أَخَذْتُمْ عَذَابٌ عَظِیمٌ ، فَکُلُوا مِمَّا غَنِمْتُمْ حَلاَلاً طَیِّبًا}۔
(٣٧٨٩٥) حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : تم سے پہلے سیاہ رنگ سروں والوں کے لیے غنیمتیں حلال نہیں تھیں۔ آسمان سے آگ اترتی تھی اور غنائم کو کھا لیتی تھی۔ پھر جب بدر کا دن آیا تو لوگوں نے غنائم مں جلد بازی شروع کی۔ تو اللہ نے یہ آیت نازل کی۔ { لَوْلاَ کِتَابٌ مِنَ اللہِ سَبَقَ لَمَسَّکُمْ فِیمَا أَخَذْتُمْ عَذَابٌ عَظِیمٌ ، فَکُلُوا مِمَّا غَنِمْتُمْ حَلاَلاً طَیِّبًا }۔

37895

(۳۷۸۹۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حَدَّثَنَا الْمَسْعُودِیُّ ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، قَالَ : أَوَّلُ مَنِ اُسْتُشْہِدَ مِنَ الْمُسْلِمِینَ یَوْمَ بَدْرٍ مِہْجَعٌ۔
(٣٧٨٩٦) حضرت قاسم بن عبد الرحمن سے روایت ہے کہ بدر کے دن اہل اسلام میں سب سے پہلے شہید ہونے والے حضرت مہجع تھے۔

37896

(۳۷۸۹۷) حَدَّثَنَا جَرِیرُ بْنُ عَبْدِ الْحَمِیدِ ، عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : مَکَرَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِالْمُشْرِکِینَ یَوْمَ أُحُدٍ ، وَکَانَ أَوَّلَ یَوْمٍ مَکَرَ فِیہِ بِہِمْ۔
(٣٧٨٩٧) حضرت شعبی سے منقول ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے احد کے دن مشرکین کے ساتھ چال چلی تھی۔ اور یہ پہلا دن تھا جس میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے ساتھ چال چلی تھی۔

37897

(۳۷۸۹۸) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، قَالَ : حدَّثَنَا ہِشَامُ بْنُ عُرْوَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ عَائِشَۃَ ، قَالَتْ : لَمَّا کَانَ یَوْمُ أُحُدٍ ہُزِمَ الْمُشْرِکُونَ وَصَاحَ إِبْلِیسُ : أَیْ عِبَادَ اللہِ ، أُخْرَاکُمْ ، قَالَ : فَرَجَعَتْ أُولاَہُمْ فَاجْتَلَدَتْ ہِیَ وَأُخْرَاہُمْ ، قَالَ : فَنَظَرَ حُذَیْفَۃُ فَإِذَا ہُوَ بِأَبِیہِ الْیَمَانِ ، فَقَالَ : عِبَادَ اللہِ ، أَبِی أَبِی ، قَالَتْ : فَوَاللہِ مَا احْتَجَزُوا حَتَّی قَتَلُوہُ، فَقَالَ حُذَیْفَۃُ : غَفَرَ اللَّہُ لَکُمْ ، قَالَ عُرْوَۃُ : فَوَاللہِ مَا زَالَتْ فِی حُذَیْفَۃَ بَقِیَّۃُ خَیْرٍ حَتَّی لَحِقَ بِاللہِ۔
(٣٧٨٩٨) حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ جب احد کا دن تھا، مشرکین کو شکست ہوئی تو شیطان نے آواز لگائی : اے بندگانِ خدا اپنے پیچھے والوں کو دیکھو۔ آگے کے لوگ پیچھے گئے تو پیچھے والوں کے ساتھ مل گئے۔ راوی کہتے ہیں۔ اس دوران حضرت حذیفہ نے دیکھا کہ وہ اپنے والد کے مقابل تھے تو انھوں نے کہا۔ اے بندگانِ خدا ! میرے والد۔ میرے والد۔ حضرت عائشہ کہتی ہیں۔ بخدا ! صحابہ کرام نہ رکے یہاں تک کہ صحابہ نے انھیں قتل کردیا۔ تو حضرت حذیفہ نے کہا۔ اللہ تمہاری مغفرت کرے۔ عروہ کہتے ہیں۔ بخدا ! حضرت حذیفہ میں خیر باقی رہی یہاں تک کہ وہ اللہ سے جا ملے۔

37898

(۳۷۸۹۹) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِی ہِنْدٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : لَمَّا کَانَ یَوْمُ أُحُدٍ وَانْصَرَفَ الْمُشْرِکُونَ ، فَرَأَی الْمُسْلِمُونَ بِإِخْوَانِہِمْ مُثْلَۃً سَیِّئَۃً ، جَعَلُوا یَقْطَعُونَ آذَانَہُمْ وَآنَافَہُمْ ، وَیَشُقُّونَ بُطُونَہُمْ، فَقَالَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لَئِنْ أَنَالَنَا اللَّہُ مِنْہُمْ لَنَفْعَلَنَّ وَلَنَفْعَلَنَّ ، فَأَنْزَلَ اللَّہُ : {وَإِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوا بِمِثْلِ مَا عُوقِبْتُمْ بِہِ ، وَلَئِنْ صَبَرْتُمْ لَہُوَ خَیْرٌ لِلصَّابِرِینَ} فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : بَلْ نَصْبِرُ۔ (ابن جریر ۱۹۵۔ احمد ۱۳۵)
(٣٧٨٩٩) حضرت شعبی کہتے ہیں کہ جب احد کا دن تھا اور مشرکین واپس ہوگئے تھے تو مسلمانوں نے اپنے بھائیوں کو بدترین مثلہ کی حالت میں دیکھا۔ مشرکین نے مسلمانوں کے کانوں اور ناکوں کو کاٹا تھا اور ان کے پیٹ چاک کیے تھے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ نے کہا : اگر اللہ تعالیٰ نے ہمیں ان پر دسترس دی تو ضرور بالضرور ہم بھی ان کے ساتھ (یہی رویہ) اختیار کریں گے۔ اور یہی رویہ اختیار کریں گے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی۔ { وَإِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوا بِمِثْلِ مَا عُوقِبْتُمْ بِہِ ، وَلَئِنْ صَبَرْتُمْ لَہُوَ خَیْرٌ لِلصَّابِرِینَ } آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : بلکہ ہم صبر کریں گے۔

37899

(۳۷۹۰۰) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ ہَاشِمٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ، قَالَ : سَمِعْتُہُ یَقُولُ : کَانَ سَعْدٌ أَشَدَّ الْمُسْلِمِینَ بَأْسًا یَوْمَ أُحُدٍ۔
(٣٧٩٠٠) حضرت سعید بن مسیب بیان کرتے ہیں کہ احد کی جنگ میں مسلمانوں میں سے سب سے زیادہ لڑائی لڑنے والے حضرت سعد تھے۔

37900

(۳۷۹۰۱) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، عَنْ عُمَیْرِ بْنِ إِسْحَاقَ ؛ أَنَّ النَّاسَ انْجَفَلُوا عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَوْمَ أُحُدٍ ، وَسَعْدُ بْنُ مَالِکٍ یَرْمِی ، وَفَتًی یَنبِّلُ لَہُ ، فَکُلَّمَا فَنِیَتْ نَبْلُہُ ، دَفَعَ إِلَیْہِ نَبْلَہُ ، ثُمَّ قَالَ : اِرْمِہِ أَبَا إِسْحَاقَ ، فَلَمَّا کَانَ بَعْدُ طَلَبُوا الْفَتَی فَلَمْ یَقْدِرُوا عَلَیْہِ۔
(٣٧٩٠١) حضرت عمیر بن اسحاق سے روایت ہے۔ جنگ احد میں لوگ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دور رہ گئے تھے اور حضرت سعد بن مالک تیر اندازی کر رہے تھے۔ اور ایک جوان انھیں تیر اندازی کے لیے تیر پکڑا رہا تھا۔ پس جونہی ایک تیر چلتا تو وہ دوسرا تیر حضرت سعد کے حوالے کردیتے۔ پھر اس نے کہا۔ اے ابو اسحاق ! اس پر تیر پھینکو۔ پھر بعد میں لوگوں نے اس (تیر پکڑانے والے) جوان کو تلاش کیا ۔ لیکن لوگوں کو اس جوان پر قدرت نہ ہوئی (یعنی نہیں ملا) ۔

37901

(۳۷۹۰۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاہِیمَ ، عَن عَبْدِ اللہِ بْنِ شَدَّادٍ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ أَبِی طَالِبٍ ، قَالَ : مَا سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُفَدِّی أَحَدًا بِأَبَوَیْہِ إِلاَّ سَعْدًا ، فَإِنِّی سَمِعْتُہُ یَقُولُ یَوْمَ أُحُدٍ : ارْمِ سَعْدُ ، فِدَاکَ أَبِی وَأُمِّی۔
(٣٧٩٠٢) حضرت علی بن ابی طالب سے روایت ہے کہ میں نے سعد کے علاوہ کسی آدمی کے لیے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنے والدین کے فدا کہنے کو نہیں سُنا۔ میں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو احد کے دن سُنا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرما رہے تھے۔ اے سعد ! تیر پھینکو، میرے ماں ، باپ تم پر قربان ہوں۔

37902

(۳۷۹۰۳) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ، قَالَ : سَمِعْتُ سَعْدًا ، یَقُولُ : جَمَعَ لِی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَبَوَیْہِ یَوْمَ أُحُدٍ۔
(٣٧٩٠٣) حضرت سعد بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے احد کے دن میرے لیے اپنے ماں ، باپ کو جمع (کر کے قربان ہونے کا) فرمایا۔

37903

(۳۷۹۰۴) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، وَأَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ مِسْعَرٍ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاہِیمَ ، عَن أَبِیہِ ، عَنْ سَعْدٍ ، قَالَ : رَأَیْتُ عَنْ یَمِینِ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَعَنْ شِمَالِہِ یَوْمَ أُحُدٍ رَجُلَیْنِ ، عَلَیْہِمَا ثِیَابٌ بَیَاضٌ ، لَمْ أَرَہُمَا قَبْلُ ، وَلاَ بَعْدُ۔
(٣٧٩٠٤) حضرت سعد کہتے ہیں میں نے احد کے روز نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دائیں جانب اور بائیں جانب دو آدمیوں کو دیکھا جن پر سفدں رنگ کے کپڑے تھے۔ میں نے ان کو اس سے پہلے اور اس کے بعد (کبھی) نہیں دیکھا۔

37904

(۳۷۹۰۵) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، عَنْ عُمَیْرِ بْنِ إِسْحَاقَ ، قَالَ : کَانَ حَمْزَۃُ یُقَاتِلُ بَیْنَ یَدَیْ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَوْمَ أُحُدٍ بِسَیْفَیْنِ ، وَیَقُولُ : أَنَا أَسَدُ اللہِ ، قَالَ : فَجَعَلَ یُقْبِلُ وَیُدْبِرُ ، فَعَثَرَ ، فَوَقَعَ عَلَی قَفَاہُ مُسْتَلْقِیًا وَانْکَشَطَ ، وَانْکَشَفَتِ الدِّرْعُ عَنْ بَطْنِہِ ، فَأَبْصَرَہُ الْعَبْدُ الْحَبَشِیُّ فَزَرَّقَہُ بِرُمْحٍ ، أَوْ حَرْبَۃٍ فَنَفَذَہُ بِہَا۔
(٣٧٩٠٥) حضرت عمیر بن اسحاق سے روایت ہے کہ حضرت حمزہ ، احد کی جنگ میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے دو تلوار کے ساتھ قتال کر رہے تھے اور کہہ رہے تھے۔ میں خدا کا شیر ہوں۔ راوی کہتے ہیں۔ حضرت حمزہ ، آگے، پیچھے آ جا رہے تھے کہ آپ کو ٹھوکر لگی اور آپ اپنی گردن کے بَل چت گرگئے اور دور ہوگئے اور حضرت حمزہ کے پیٹ پر سے زرہ کھل گئی۔ تو آپ کو ایک حبشی غلام نے دیکھ لیا اور اس نے آپ کو ایک تیر یا نیزہ مارا جو آپ کے پار گزر گیا۔

37905

(۳۷۹۰۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ؛ {وَلاَ تَحْسَبَنَّ الَّذِینَ قُتِلُوا فِی سَبِیلِ اللہِ أَمْوَاتًا ، بَلْ أَحْیَائٌ عِنْدَ رَبِّہِمْ یُرْزَقُونَ} قَالَ : لَمَّا أُصِیبَ حَمْزَۃُ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ ، وَمُصْعَبُ بْنُ عُمَیْرٍ یَوْمَ أُحُدٍ ، قَالُوا : لَیْتَ إِخْوَانَنَا یَعْلَمُونَ مَا أَصَبْنَا مِنَ الْخَیْرِ کَیْ یَزْدَادُوا رَغْبَۃً ، فَقَالَ اللَّہُ : أَنَا أُبَلِّغُ عَنْکُمْ ، فَنَزَلَتْ : {وَلاَ تَحْسَبَنَّ الَّذِینَ قُتِلُوا فِی سَبِیلِ اللہِ أَمْوَاتًا}) إِلَی قَوْلِہِ : {الْمُؤْمِنِینَ}۔
(٣٧٩٠٦) حضرت سعید بن جبیر، { وَلاَ تَحْسَبَنَّ الَّذِینَ قُتِلُوا فِی سَبِیلِ اللہِ أَمْوَاتًا ، بَلْ أَحْیَائٌ عِنْدَ رَبِّہِمْ یُرْزَقُونَ } کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں۔ جب احد کے دن حضرت حمزہ بن عبد المطلب اور مصعب بن عمیر شہید ہوگئے تو انھوں نے کہا۔ ہم جس خیر کو پاچکے ہیں۔ کاش ! اس کی خبر ہمارے بھائیوں کو ہوجائے تاکہ وہ مزید رغبت کریں۔ تو اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا۔ میں یہ بات تمہاری طرف سے (ان کو) پہنچا دوں گا۔ پھر یہ آیت نازل ہوئی۔ { وَلاَ تَحْسَبَنَّ الَّذِینَ قُتِلُوا فِی سَبِیلِ اللہِ أَمْوَاتًا } سے لے کر { الْمُؤْمِنِینَ } تک ۔

37906

(۳۷۹۰۷) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ الْحُبَابِ ، عَنْ أُسَامَۃَ بْنِ زَیْدٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا الزُّہْرِیُّ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ ؛ أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَرَّ بِحَمْزَۃَ یَوْمَ أُحُدٍ وَقَدْ مُثِّلَ بِہِ ، فَوَقَفَ عَلَیْہِ ، فَقَالَ : لَوْلاَ أَنِّی أَخْشَی أَنْ تَجِدَ صَفِیَّۃُ فِی نَفْسِہَا ؛ لَتَرَکْتُہُ حَتَّی تَأْکُلَہُ الْعَافِیَۃُ ، فَیُحْشَرَ مِنْ بُطُونِہَا ، ثُمَّ دَعَا بِنَمِرَۃٍ ، فَکَانَتْ إِذَا مُدَّتْ عَلَی رَأْسِہِ بَدَتْ رِجْلاَہُ ، وَإِذَا مُدَّتْ عَلَی رِجْلَیْہِ بَدَا رَأْسُہُ ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مُدُّوہَا عَلَی رَأْسِہِ ، وَاجْعَلُوا عَلَی رِجْلَیْہِ الْحَرْمَلَ ، وَقَلَّتِ الثِّیَابُ ، وَکَثُرَتِ الْقَتْلَی ، فَکَانَ الرَّجُلُ وَالرَّجُلاَنِ وَالثَّلاَثَۃُ یُکَفَّنُونَ فِی الثَّوْبِ ، وَکَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَسْأَلُ أَیُّہُمْ أَکْثَرُ قُرْآنًا ، فَیُقَدِّمُہُ۔ (ابوداؤد ۳۱۲۸۔ احمد ۱۲۸)
(٣٧٩٠٧) حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ احد کے دن نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت حمزہ کے پاس سے گزرے۔ درآنحالیکہ انھیں مثلہ کیا گیا تھا۔ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے پاس کھڑے ہوگئے اور فرمایا۔ اگر مجھے اس بات کا خوف نہ ہوتا کہ حضرت صفیہ اپنے دل میں یہ بات رکھ لیں گی تو میں حمزہ کو (یونہی) چھوڑ دیتا تاکہ اس کو چرند پرند اور مویشی کھا جائیں پھر یہ قیامت کو ان کے پیٹ سے اکٹھے ہو کر زندہ ہوں۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک سفید و سیاہ دھاریوں والا کمبل منگوایا۔ وہ کمبل جب حمزہ کے سر مبارک پر ڈالا جاتا تو آپ کے پاؤں کھل جاتے اور جب اس کو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاؤں کی طرف کھینچا جاتا تو آپ کا سر کھل جاتا۔ اس پر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا۔ یہ کمبل ان کے سر کی طرف کھینچ لو اور ان کے پاؤں پر اسپند بوٹی ڈال دو ۔ کپڑے کم پڑگئے اور مقتولین زیادہ ہوگئے۔ پس ایک ، دو اور تین آدمیوں کو ایک کپڑے میں کفن دیا گیا۔ اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پوچھتے تھے۔ ان میں زیادہ قرآن والا (حافظ) کون ہے ؟ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کو مقدم فرماتے۔

37907

(۳۷۹۰۸) حَدَّثَنَا شَبَابَۃُ ، قَالَ : حدَّثَنَا لَیْثُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنِ ابْنِ شِہَابٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ کَعْبِ بْنِ مَالِکٍ ، أَنَّ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللہِ أَخْبَرَہُ ؛ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یَجْمَعُ بَیْنَ الرَّجُلَیْنِ مِنْ قَتْلَی أُحُدٍ فِی الثَّوْبِ الْوَاحِدِ ، ثُمَّ یَقُولُ : أَیُّہُمْ أَکْثَرُ أَخْذًا لِلْقُرْآنِ ؟ فَإِذَا أُشِیرَ لَہُ إِلَی أَحَدِہِمَا ، قَدَّمَہُ فِی اللَّحْدِ ، وَقَالَ : أَنَا شَہِیدٌ عَلَی ہَؤُلاَئِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ، وَأَمَرَ بِدَفْنِہِمْ بِدِمَائِہِمْ ، وَلَمْ یُصَلِّ عَلَیْہِمْ وَلَمْ یُغَسَّلُوا۔
(٣٧٩٠٨) حضرت جابر بن عبداللہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) احد کے مقتولین میں سے دو دو آدمیوں کو ایک کپڑے میں اکٹھا کرتے تھے ۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پوچھتے۔ ان میں سے قرآن مجید کو زیادہ جاننے والا کون ہے ؟ پس جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان میں سے ایک کی طرف اشارہ کیا جاتا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کو قبر میں پہلے اتارتے اور فرماتے۔ میں ان لوگوں پر قیامت کے دن گواہ ہوں گا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مقتولین کو ان کے خون سمیت دفن کرنے کا حکم دیا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان پر جنازہ بھی نہیں پڑھایا اور انھیں غسل بھی نہیں دیا گیا۔

37908

(۳۷۹۰۹) حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ بْنُ مُوسَی ، قَالَ : حدَّثَنَا أُسَامَۃُ بْنُ زَیْدٍ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : رَجَعَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَوْمَ أُحُدٍ ، فَبَیْنَمَا نِسَائُ بَنِی عَبْدِ الأَشْہَلِ یَبْکِینَ عَلَی ہَلْکَاہُنَّ ، فَقَالَ : لَکِنَّ حَمْزَۃَ لاَ بَوَاکِیَ لَہُ ، فَجِئْنَ نِسَائُ الأَنْصَارِ یَبْکِینَ عَلَی حَمْزَۃَ ، وَرَقَدَ فَاسْتَیْقَظَ ، فَقَالَ : یَا وَیْحَہُنَ إِنَّہُنَّ لَہَاہُنَا حَتَّی الآنَ ؟ مُرُوہُنَّ فَلْیَرْجِعْنَ ، وَلاَ یَبْکِینَ عَلَی ہَالِکٍ بَعْدَ الْیَوْمِ۔
(٣٧٩٠٩) حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) احد کے دن جب واپس تشریف لائے تو بنی عبد الاشہل کی عورتیں اپنے مقتولین پر رو رہی تھیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : لیکن حمزہ پر کوئی رونے والی نہیں ہیں۔ تو انصار کی عورتیں، حضرت حمزہ پر رونے کے لیے آگئیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سوئے ہوئے تھے، جاگ اٹھے اور فرمایا : اے ہلاکت والیو ! یہ عورتیں ابھی تک یہاں ہیں، ان کو حکم دو کہ یہ واپس ہوجائیں اور آج کے بعد کسی ہلاک ہونے والے پر نہ روئیں۔

37909

(۳۷۹۱۰) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ شَقِیقٍ ، عَنْ خَبَّابٍ ، قَالَ : ہَاجَرْنَا مَعَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَبْتَغِی وَجْہَ اللہِ ، فَوَجَبَ أَجْرُنَا عَلَی اللہِ ، فَمِنَّا مَنْ مَضَی لَمْ یَأْکُلْ مِنْ أَجْرِہِ شَیْئًا ، مِنْہُمْ مُصْعَبُ بْنُ عُمَیْرٍ قُتِلَ یَوْمَ أُحُدٍ ، فَلَمْ یُوجَدْ لَہُ شَیْئٌ یُکَفَّنُ فِیہِ إِلاَّ نَمِرَۃٌ ، کَانُوا إِذَا وَضَعُوہَا عَلَی رَأْسِہِ خَرَجَتْ رِجْلاَہُ ، وَإِذَا وَضَعُوہَا عَلَی رِجْلَیْہِ خَرَجَ رَأْسُہُ ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : اجْعَلُوہَا مِمَّا یَلِی رَأْسَہُ ، وَاجْعَلُوا عَلَی رِجْلَیْہِ مِنَ الإِذْخِرِ ، وَمِنَّا مَنْ أَیْنَعَتْ لَہُ ثَمَرَتُہُ فَہُوَ یَہْدِبُہَا۔
(٣٧٩١٠) حضرت خباب سے روایت ہے کہ ہم نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہمراہ ہجرت کی اور ہم خدا تعالیٰ کی رضا کے متلاشی تھے۔ پس ہمارا اجر تو اللہ پر واجب ہوگیا۔ پھر ہم میں سے بعض وہ تھے جنہوں نے اپنے اجر میں سے کچھ نہیں کھایا۔ انہی میں سے مصعب بن عمیر ہیں جو جنگ احد میں شہید ہوئے تھے اور ان کو کفن دینے کے لیے بھی سوائے ایک چادر کے کچھ میسر نہ ہوا۔ جب صحابہ کرام یہ چادر ان کے سر پر ڈالتے تھے تو ان کے پاؤں کُھل جاتے تھے۔ اور جب اس کو پاؤں کی طرف کھینچتے تھے تو آپ کا سر مبارک کھل جاتا تھا اس پر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : یہ چادر اس کے سر کی طرف کردو اور اس کے پاؤں پر اذخر (بوٹی) ڈال دو ۔ اور ہم میں سے بعض وہ تھے جن کے لیے ان کے (اجر کے) پھل پک گئے سو وہ انھیں کاٹ رہے ہیں۔

37910

(۳۷۹۱۱) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ الْحُبَابِ ، قَالَ : حدَّثَنِی مُحَمَّدُ بْنُ صَالِحٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِی یَزِیدُ بْنُ زَیْدٍ مَوْلَی أَبِی أُسَیْدَ الْبَدْرِیِّ ، عَنْ أَبِی أُسَیْدٍ ، قَالَ : إِنَّا مَعَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَی قَبْرِ حَمْزَۃَ ، فَمُدَّتِ النَّمِرَۃُ عَلَی رَأْسِہِ فَانْکَشَفَتْ رِجْلاَہُ ، فَجُذِبَتْ عَلَی رِجْلَیْہِ فَانْکَشَفَ رَأْسُہُ ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مُدُّوہَا عَلَی رَأْسِہِ ، وَاجْعَلُوا عَلَی رِجْلَیْہِ شَجَرَ الْحَرْمَلِ۔
(٣٧٩١١) حضرت ابی اسید سے روایت ہے۔ ہم نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہمراہ حضرت حمزہ کی قبر پر تھے۔ پس چادر حضرت حمزہ کے سر کی طرف کھینچی گئی تو آپ کے پاؤں کھل گئے۔ پھر چادر آپ کے پاؤں کی طرف کھینچی گئی تو آپ کا سر مبارک کھل گیا۔ اس پر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : یہ چادر ان کے سر کی طرف کھینچ دو اور ان کے پاؤں پر حرمل کے پتے ڈال دو ۔

37911

(۳۷۹۱۲) حَدَّثَنَا عِیسَی بْنُ یُونُسَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ أَشْیَاخٍ مِنَ الأَنْصَارِ ، قَالُوا : أُتِیَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَوْمَ أُحُدٍ بِعَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَرَامٍ ، وَعَمْرِو بْنِ جَمُوحٍ قَتِیلَیْنِ ، فَقَالَ: ادْفِنُوہُمَا فِی قَبْرٍ وَاحِدٍ ، فَإِنَّہُمَا کَانَا مُتَصَافِیَیْنِ فِی الدُّنْیَا۔
(٣٧٩١٢) انصار کے کچھ شیوخ بیان کرتے ہیں کہ احد کے دن ، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس عبداللہ بن عمرو بن حرام اور عمرو بن جموح کو مقتول حالت میں لایا گیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا۔ ان دونوں کو ایک قبر میں دفن کردو اس لیے کہ یہ دنیا میں باہم مخلص تعلق رکھتے تھے۔

37912

(۳۷۹۱۳) حَدَّثَنَا عِیسَی بْنُ یُونُسَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ ، قَالَ : أَخْبَرَنِی أَبِی ، عَنْ رِجَالٍ مِنْ بَنِی سَلِمَۃَ، قَالُوا: لَمَّا صَرَفَ مُعَاوِیَۃُ عَیْنَہُ الَّتِی تَمُرُّ عَلَی قُبُورِ الشُّہَدَائِ ، جَرَتْ عَلَیْہِمَا ، فَبَرَزَ قَبْرُہُمَا ، فَاسْتُصْرِخَ عَلَیْہِمَا ، فَأَخْرَجْنَاہُمَا یَتَثَنَّیَانِ تَثَنِّیًا کَأَنَّمَا مَاتَا بِالأَمْسِ، عَلَیْہِمَا بُرْدَتَانِ قَدْ غُطِّیَ بِہِمَا عَلَی وُجُوہِہِمَا، وَعَلَی أَرْجُلِہِمَا مِنْ نَبَاتِ الإِذْخِرِ۔
(٣٧٩١٣) بنو سلمہ کے کچھ لوگ بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت امیر معاویہ نے شہداء کی قبر کے پاس سے گزرنے والا چشمہ جاری فرمایا تو وہ چشمہ دو شہیدوں کی قبر پر سے گزرا تو ان کی قبر کھل گئی۔ پس لوگوں نے ان کے بارے میں فریاد کی تو ہم نے ان دونوں کو باہر نکالا ۔ وہ دونوں یوں لپٹے ہوئے تھے کہ گویا کل ہی مرے ہیں۔ ان پر دو چادریں تھیں۔ جن کے ذریعہ سے ان کے چہروں کو ڈھانپ دیا گیا تھا اور ان کے قدموں پر اذخر کی بوٹی پڑی ہوئی تھی۔

37913

(۳۷۹۱۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنِ الأَسْوَدِ بْنِ قَیْسٍ ، عَنْ نُبَیْحٍ ، عَنْ جَابِرٍ ، قَالَ : قَالَ لِی أَبِی عَبْدُ اللہِ : أَیْ بنِیَّ ، لَوْلاَ نُسَیَّاتٌ أُخَلِّفُہُنَّ مِنْ بَعْدِی مِنْ أَخَوَاتٍ وَبَنَاتٍ ، لأَحْبَبْتُ أَنْ أُقَدِّمَکَ أَمَامِی ، وَلَکِنْ کُنَّ فِی نِظَارِی الْمَدِینَۃِ ، قَالَ : فَلَمْ أَلْبَثْ أَنْ جَائَتْ بِہِمَا عَمَّتِی قَتِیلَیْنِ ، یَعْنِی أَبَاہُ وَعَمَّہُ ، قَدْ عَرَضَتْہُمَا عَلَی بَعِیرٍ۔
(٣٧٩١٤) حضرت جابر سے روایت ہے کہ مجھے میرے والد عبداللہ نے کہا۔ اے میرے بیٹے ! اگر یہ چھوٹی بہنیں اور بیٹیاں، جنہیں میں پیچھے چھوڑ رہا ہوں، نہ ہوتی تو میں اس بات کو پسند کرتا کہ تجھے اپنے سے آگے کرتا۔ لیکن (اب) تم مدینہ میں میرے نظیر بن کر رہو ۔ راوی کہتے ہیں۔ پھر جلد ہی میری پھوپھی ان دونوں کو ۔۔۔ ان کے والد اور چچا کو ۔۔۔ مقتول حالت میں لے آئی۔ ان دونوں کو اس نے اونٹ پر ڈالا ہوا تھا۔

37914

(۳۷۹۱۵) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ ہَاشِمٍ ، عَنِ ابْنِ أَبِی لَیْلَی ، عَنِ الْحَکَمِ ، عَنْ مِقْسَمٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : قُتِلَ رَجُلٌ مِنَ الْمُشْرِکِینَ یَوْمَ أُحُدٍ ، فَأَرَادَ الْمُشْرِکُونَ أَنْ یَدُوہُ فَأَبَی ، فَأَعْطَوْہُ حَتَّی بَلَغَ الدِّیَۃَ فَأَبَی۔
(٣٧٩١٥) حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ احد کے دن مشرکین میں سے ایک آدمی قتل کردیا گیا تو مشرکین نے اس کی دیت دینے کا ارادہ کیا، ورثاء کی طرف سے انکار ہو تو انھوں نے دیت کے بقدر دینے کا فیصلہ کیا لیکن پھر بھی انکار ہوا۔

37915

(۳۷۹۱۶) حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا إِبْرَاہِیمُ بْنُ إِسْمَاعِیلَ ، قَالَ : أَخْبَرَنِی عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ ثَابِتٍ ، وَدَاوُد بْنُ الْحُصَیْنِ ، عَنْ الْفَارِسِیِّ مَوْلَی بَنِی مُعَاوِیَۃَ ؛ أَنَّہُ ضَرَبَ رَجُلاً یَوْمَ أُحُدٍ فَقَتَلَہُ ، وَقَالَ : خُذْہَا وَأَنَا الْغُلاَمُ الْفَارِسِیُّ ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَا مَنَعَک أَنْ تَقُولَ : الأَنْصَارِی وَأَنْتَ مِنْہُمْ ؟ إِنَّ مَوْلَی الْقَوْمِ مِنْہُمْ۔
(٣٧٩١٦) بنی معاویہ کے ایک آزاد کردہ غلام فارسی سے روایت ہے کہ انھوں نے احد کے دن ایک آدمی کو مارا اور قتل کردیا ، اور کہا، اس کو پکڑ لو۔ میں تو فارسی غلام ہوں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تیں ن انصاری کہنے سے کس نے روکا۔ حالانکہ تم انہی میں سے ہو۔ قوم کا آزاد کردہ غلام اسی قوم میں سے شمار ہوتا ہے۔

37916

(۳۷۹۱۷) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا حُمَیْدٌ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ ؛ أَنَّ عَمَّہُ غَابَ عَنْ قِتَالِ بَدْرٍ ، فَقَالَ : غِبْتُ عَنْ أَوَّلِ قِتَالٍ قَاتَلَہُ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْمُشْرِکِینَ ، وَاللَّہِ لَئِنْ أَرَانِی اللَّہُ قِتَالَ الْمُشْرِکِینَ ، لَیَرَیَنَّ اللَّہُ مَا أَصْنَعُ ، فَلَمَّا کَانَ یَوْمُ أُحُدٍ انْکَشَفَ الْمُسْلِمُونَ ، فَقَالَ : اللَّہُمَّ إِنِّی أَعْتَذِرُ إِلَیْکَ مِمَّا صَنَعَ ہَؤُلاَئِ ، یَعْنِی الْمُسْلِمِینَ ، وَأَبْرَأُ إِلَیْکَ مِمَّا جَائَ بِہِ ہَؤُلاَئِ ، یَعْنِی الْمُشْرِکِینَ ، وَتَقَدَّمَ فَلَقِیَہُ سَعْدٌ بِأُخْرَاہَا مَا دُونَ أُحُدٍ ، فَقَالَ سَعْد : أَنَا مَعَکَ ، قَالَ سَعْدٌ : فَلَمْ أَسْتَطِعْ أَصْنَعُ مَا صَنَعَ ، وَوُجِدَ بِہِ بِضْعٌ وَثَمَانُونَ مِنْ ضَرْبَۃٍ بِسَیْفٍ ، وَطَعْنَۃٍ بِرُمْحٍ ، وَرَمْیَۃٍ بِسَہْمٍ ، فَکُنَّا نَقُولُ فِیہِ وَفِی أَصْحَابِہِ نَزَلَتْ : {فَمِنْہُمْ مَنْ قَضَی نَحْبَہُ وَمِنْہُمْ مَنْ یَنْتَظِرُ}۔
(٣٧٩١٧) حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ ان کے چچا ، بدر کی لڑائی میں غیر موجود تھے تو وہ فرماتے تھے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مشرکین کے ساتھ جو پہلی لڑائی لڑی ہے میں اس سے پیچھے رہ گیا ہوں۔ بخدا ! اگر اللہ تعالیٰ نے مجھے (اب) مشرکین کے ساتھ لڑائی دکھا دی تو میں بھی اللہ تعالیٰ کو اپنا طرز عمل دکھا دوں گا۔ پس جب احد کا دن تھا اور مسلمان چھٹ گئے تو انھوں نے کہا : اے اللہ ! ان لوگوں (مسلمان) نے جو کچھ کیا ہے میں اس پر آپ سے معذرت کرتا ہوں۔ اور یہ لوگ (مشرکین) جو کچھ لے کر آئے ہیں میں آپ کے سامنے اس سے برأت کرتا ہوں۔ اور (یہ کہہ کر) وہ آگے بڑھے۔ تو انھیں حضرت سعد ملے اور حضرت سعد نے کہا۔ میں (بھی) تمہارے ساتھ ہوں۔ حضرت سعد کہتے ہیں، جو انھوں نے کیا وہ میں نہ کرسکا۔ ان کے جسم پر تلواروں کی ضربیں، نیزوں کے وار اور تیروں کے نشانات اَسّی سے کچھ اوپر پائے گئے تھے۔ اور ہم کہا کرتے تھے کہ ان کے اور ان کے ساتھیوں کے بارے میں ہی یہ آیت نازل ہوئی ہے۔ { فَمِنْہُمْ مَنْ قَضَی نَحْبَہُ وَمِنْہُمْ مَنْ یَنْتَظِرُ }۔

37917

(۳۷۹۱۸) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا ہَمَّامٌ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، وَسَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ؛ أَنَّ قَتْلَی أُحُدٍ غُسِّلُوا۔
(٣٧٩١٨) حضرت حسن اور سعید بن مسیب سے روایت ہے کہ احد کے مقتولین کو غسل دیا گیا تھا۔

37918

(۳۷۹۱۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إِسْمَاعِیلَ بْنِ أَبِی خَالِدٍ ، عَنْ قَیْسِ بْنِ أَبِی حَازِمٍ ، قَالَ : رَأَیْتُ یَدَ طَلْحَۃَ بْنِ عُبَیْدِ اللہِ شَلاَئَ ، وَقَی بِہَا النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَوْمَ أُحُدٍ۔
(٣٧٩١٩) حضرت قیس بن ابی حازم سے روایت ہے کہ میں نے طلحہ بن عبید اللہ کے ہاتھ کو شل دیکھا۔ اس ہاتھ کے ذریعہ سے انھوں نے احد کے دن نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حفاظت کی اور بچاؤ کیا تھا۔

37919

(۳۷۹۲۰) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ زَکَرِیَّا ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : قُتِلَ حَمْزَۃُ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ یَوْمَ أُحُدٍ، وَقُتِلَ حَنْظَلَۃُ بْنُ الرَّاہِبِ الَّذِی طَہَّرَتْہُ الْمَلاَئِکَۃُ یَوْمَ أُحُدٍ۔
(٣٧٩٢٠) حضرت شعبی سے منقول ہے کہ حمزہ بن عبد المطلب کو احد کے دن قتل کیا گیا اور حنظلہ ابن الراہب کو، جنہیں فرشتوں نے غسل دیا تھا ۔۔۔ احد کے دن قتل کیا گیا۔

37920

(۳۷۹۲۱) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ إِدْرِیسَ ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : عُرِضْتُ عَلَی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَوْمَ أُحُدٍ وَأَنَا ابْنُ أَرْبَعَ عَشْرَۃَ فَاسْتَصْغَرَنِی ، وَعُرِضْتُ عَلَیْہِ یَوْمَ الْخَنْدَقِ وَأَنَا ابْنُ خَمْسَ عَشْرَۃَ فَأَجَازَنِی ، قَالَ نَافِعٌ : فَحَدَّثْتُ بِہِ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِیزِ ، فَقَالَ : ہَذَا حَدٌّ بَیْنَ الصَّغِیرِ وَالْکَبِیرِ ، فَکَتَبَ إِلَی عُمَّالِہِ : أَنْ یَفْرِضُوا لاِبْنِ خَمْسَ عَشْرَۃَ فِی الْمُقَاتِلَۃِ ، وَلاِبْنِ أَرْبَعَ عَشْرَۃَ فِی الذُّرِّیَّۃِ۔
(٣٧٩٢١) حضرت ابن عمر سے روایت ہے۔ مجھے احد کے دن نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں پیش کیا گیا ۔ جبکہ میری عمر چودہ سال کی تھی۔ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے چھوٹا سمجھا اور (پھر) مجھے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر خندق کے دن پیش کیا گیا۔ جبکہ میری عمر پندرہ سال کی تھی۔ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے (شرکتِ جہاد کی) اجازت مرحمت فرما دی۔ حضرت نافع کہتے ہیں۔ میں نے یہ حدیث حضرت عمر بن عبد العزیز کو بیان فرمائی تو انھوں نے کہا : یہ (مقدارِ عمر) چھوٹے، بڑے کے درمیان حد فاصل ہے۔ پھر انھوں نے اپنے عامل کو یہ تحریر لکھ کر بھیجی کہ پندرہ سال والے کے لیے مقاتلین میں اور چودہ سال والے کے لیے ذریۃ میں حصہ مقرر کریں۔

37921

(۳۷۹۲۲) حَدَّثَنَا یَعْلَی بْنُ عُبَیْدٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو ، عَنْ سَعْدِ بْنِ الْمُنْذِرِ ، قَالَ : خَرَجَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِلَی أُحُدٍ ، فَلَمَّا خَلَّفَ ثَنِیَّۃَ الْوَدَاعِ فَنَظَرَ خَلْفَہُ فَإِذَا کَتِیبَۃٌ خَشْنَائُ ، فَقَالَ : مَنْ ہَؤُلاَئِ؟ قَالُوا: عَبْدُ اللہِ بْنُ أُبَیِّ ابْنُ سَلُولَ وَمَوَالِیہِ مِنَ الْیَہُودِ ، قَالَ : أَقَدْ أَسْلَمُوا ؟ قَالُوا : لاَ ، بَلْ عَلَی دِینِہِمْ ، قَالَ : مُرُوہُمْ فَلْیَرْجِعُوا فَإِنَّا لاَ نَسْتَعِینُ بِالْمُشْرِکِینَ عَلَی الْمُشْرِکِینَ۔
(٣٧٩٢٢) حضرت سعد بن المنذر سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) احد کی طرف نکلے ۔ پس جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ثنیۃ الوداع کو پار کیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنے پیچھے ایک سخت رو لشکر دکھائی دیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا۔ یہ کون لوگ ہیں ؟ لوگوں نے بتایا۔ عبداللہ بن ابی بن سلول اور اس کے حمایتی یہودی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا۔ کیا انھوں نے اسلام قبول کرلیا ہے ؟ لوگوں نے کہا : نہیں ! بلکہ یہ اپنے دین پر ہی قائم ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : انھیں کہہ دو کہ واپس چلے جاؤ۔ اس لیے کہ ہم مشرکین کے خلاف مشرکین سے مدد طلب نہیں کرتے۔

37922

(۳۷۹۲۳) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ إِدْرِیسَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُمَرَ بْنِ قَتَادَۃَ ؛ أَنَّ قَتَادَۃَ بْنَ النُّعْمَانِ سَقَطَتْ عَیْنُہُ عَلَی وَجْنَتِہِ یَوْمَ أُحُدٍ ، فَرَدَّہَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَکَانَتْ أَحْسَنَ عَیْنٍ وَأَحَدَّہَا۔
(٣٧٩٢٣) حضرت عاصم بن عمر بن قتادہ سے روایت ہے کہ قتادہ بن نعمان کی آنکھ احد کے دن نکل کر ان کے رخسار پر گرگئی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو واپس رکھ دیا۔ تو یہ آنکھ (دوسری آنکھ سے) زیادہ حسین اور تیز نظر والی تھی۔

37923

(۳۷۹۲۴) حَدَّثَنَا مُعْتَمِرُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ رَجُلٍ ، عَنْ جَابِرٍ ؛ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَمَرَ بِالْقَتْلَی یَوْمَ أُحُدٍ فَزِمِّلُوا بِدِمَائِہِمْ ، وَأَنْ یُقَدَّمَ أَکْثَرُہُمْ أَخْذًا لِلْقُرْآنِ ، وَأَنْ یُدْفَنَ اثْنَانِ فِی قَبْرٍ ، قَالَ : فَدَفَنْتُ أَبِی وَعَمِّی فِی قَبْرٍ۔ (ابن ماجہ ۱۵۱۴۔ عبدالرزاق ۶۶۳۳)
(٣٧٩٢٤) حضرت جابر سے روایت ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے احد کے دن کے مقتولین کے بارے میں حکم فرمایا : تو ان کو ان کے خون سمیت کپڑوں میں لپیٹ دیا گیا اور یہ بھی فرمایا کہ ان میں سے زیادہ قرآن والے کو مقدم کیا جائے اور دو آدمیوں کو ایک قبر میں داخل کیا جائے۔ راوی کہتے ہیں۔ پس میں نے اپنے والد اور چچا کو ایک ہی قبر میں دفن کیا۔

37924

(۳۷۹۲۵) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ حُبَابٍ ، عَنْ مُوسَی بْنِ عُبَیْدَۃَ ، قَالَ : حدَّثَنِی مُحَمَّدُ بْنُ ثَابِتٍ ؛ أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ یَوْمَ أُحُدٍ : أَقْدِمْ مُصْعَبُ ، فَقَالَ لَہُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ : یَا رَسُولَ اللہِ ، أَلَمْ یُقْتَلْ مُصْعَبٌ ؟ قَالَ : بَلَی ، وَلَکِنْ مَلَکٌ قَامَ مَکَانَہُ ، وَتَسَمَّی بِاسْمِہِ۔
(٣٧٩٢٥) حضرت محمد بن ثابت سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے احد کے دن ارشاد فرمایا : اے مصعب ! آگے بڑھو ! حضرت عبد الرحمن نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا۔ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! کیا مصعب قتل نہیں ہوگئے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کیوں نہیں ؟ لیکن ان کی جگہ ایک فرشتہ کھڑا ہے اور وہ انہی کے نام سے مسمّٰی ہے۔

37925

(۳۷۹۲۶) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَۃَ ، عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : کُنَّ النِّسَائُ یَوْمَ أُحُدٍ یُجْہِزْنَ عَلَی الْجَرْحَی ، وَیَسْقِینَ الْمَائَ ، وَیُدَاوِینَ الْجَرْحَی۔
(٣٧٩٢٦) حضرت عبداللہ سے روایت ہے کہ احد کے دن (مسلمان) عورتیں، (کفار) زخمیوں کو مار رہی تھیں اور (مسلمانوں) کو پانی پلا رہی تھیں اور (مسلمان) زخمیوں کو دوائی دے رہی تھیں۔

37926

(۳۷۹۲۷) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا ثَابِتٌ ، عَنْ أَنَسٍ ؛ أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَخَذَ سَیْفًا یَوْمَ أُحُدٍ ، فَقَالَ : مَنْ یَأْخُذُ مِنِّی ہَذَا ؟ فَبَسَطُوا أَیْدِیَہُمْ ، فَجَعَلَ کُلُّ إِنْسَانٍ مِنْہُمْ یَقُولُ : أَنَا أَنَا ، فَقَالَ : فَمَنْ یَأْخُذُہُ بِحَقِّہِ ؟ قَالَ : فَأَحْجَمَ الْقَوْمُ ، فَقَالَ سِمَاکٌ أَبُو دُجَانَۃَ : أَنَا آخُذُہُ بِحَقِّہِ ، قَالَ : فَأَخَذَہُ ، فَفَلَقَ بِہِ ہَامَ الْمُشْرِکِینَ۔ (مسلم ۱۹۱۷۔ احمد ۱۲۳)
(٣٧٩٢٧) حضرت انس سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے احد کے دن تلوار پکڑی اور فرمایا۔ اس کو مجھ سے کون لے گا ؟ لوگوں نے ہاتھ آگے کئے۔ اور ہر آدمی کہنے لگا۔ میں، میں (لوں گا) ۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ا تلوار کو اس کے حق (کی ادائیگی) کے بدلہ میں کون لے گا ؟ راوی کہتے ہیں۔ پھر لوگ رک گئے ۔ اور سماک ابو دجانہ نے کہا۔ میں اس تلوار کو اس کے حق (کی ادائیگی) کے بدلہ میں لیتا ہوں۔ راوی کہتے ہیں : پھر ابو دجانہ نے وہ تلوار پکڑ لی اور اس کے ذریعہ بہت سے مشرکین کی کھوپڑیاں پھاڑ ڈالیں۔

37927

(۳۷۹۲۸) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِذَا رَأَی أُحُدًا ، قَالَ : ہَذَا جَبَلٌ یُحِبُّنَا وَنُحِبُّہُ۔ (مسلم ۹۹۳)
(٣٧٩٢٨) حضرت ہشام اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب احد کو دیکھتے تو ارشاد فرماتے۔ یہ وہ پہاڑ ہے جو ہم سے محبت کرتا ہے اور ہم اس سے محبت کرتے ہیں۔

37928

(۳۷۹۲۹) حَدَّثَنَا ہَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ ، قَالَ : حدَّثَنَا شُعْبَۃُ ، عَنِ الْحَکَمِ ، قَالَ : لَمْ یُصَلَّ عَلَیْہِمْ وَلَمْ یُغَسَّلُوا ، یَعْنِی قَتْلَی أُحُدٍ۔
(٣٧٩٢٩) حضرت حکم سے روایت ہے کہ احد کے مقتولین پر نماز نہیں پڑھی گئی تھی اور نہ ہی ان کو غسل دیا گیا تھا۔

37929

(۳۷۹۳۰) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ زَکَرِیَّا ، عَنْ عَامِرٍ ، قَالَ : أُصِیبَ یَوْمَ أُحُدٍ أَنْفُ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَرَبَاعِیَتُہُ ، وَزَعَمَ أَنَّ طَلْحَۃَ وَقَی رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِیَدِہِ ، فَضُرِبَ فَشَلَّتْ إِصْبَعَہُ۔ (ابن سعد ۲۱۷)
(٣٧٩٣٠) حضرت عامر سے روایت ہے کہ احد کے دن نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ناک مبارک پر چوٹ آئی اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے والے چار دندان مبارک زخمی ہوئے۔ اور راوی کا خیال یہ ہے کہ حضرت طلحہ نے اپنے ہاتھ سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا بچاؤ کیا تھا۔ اور انھیں نیزے لگے اور ان کی انگلی شل ہوگئی۔

37930

(۳۷۹۳۱) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ بَکْرٍ التَّیْمِیُّ ، عَنْ حُمَیْدٍ ، عَنْ أَنَسٍ ، عَنْ أَبِی طَلْحَۃَ ، قَالَ : کُنْتُ فِیمَنْ أُنْزِلَ عَلَیْہِ النُّعَاسُ یَوْمَ أُحُدٍ ، حَتَّی سَقَطَ سَیْفِی مِنْ یَدَیَّ مِرَارًا۔
(٣٧٩٣١) حضرت ابو طلحہ سے روایت ہے۔ میں ان لوگوں میں سے تھا جن پر احد کے دن اونگھ طاری ہوئی تھی۔ یہاں تک کہ کئی مرتبہ تلوار میرے ہاتھ سے گرگئی۔

37931

(۳۷۹۳۲) حَدَّثَنَا أَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، قَالَ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ زَیْدٍ ، وَثَابِتٌ ، عَنْ أَنَسٍ ؛ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَمَّا رَہِقَہُ الْمُشْرِکُونَ یَوْمَ أُحُدٍ ، قَالَ : مَنْ یَرُدُّہُمْ عَنَّا وَہُوَ فِی الْجَنَّۃِ ، فَقَامَ رَجُلٌ مِنَ الأَنْصَارِ فَقَاتَلَ حَتَّی قُتِلَ ، ثُمَّ قَامَ آخَرُ یَرُدُّہُمْ حَتَّی قُتِلَ حَتَّی قُتِلَ سَبْعَۃٌ ، فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَا أَنْصَفْنَا أَصْحَابَنَا۔ (مسلم ۱۴۱۵۔ ابویعلی ۳۳۰۶)
(٣٧٩٣٢) حضرت انس سے روایت ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جب احد کے دن مشرکین نے ڈھانپ لیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو ان مشرکین کو ہم سے واپس کر دے گا وہ جنت میں جائے گا۔ پس انصار میں سے ایک صاحب کھڑے ہوئے اور لڑے یہاں تک کہ وہ صاحب قتل ہوگئے۔ پھر ایک اور صاحب کھڑے ہوئے اور مشرکین کو ہٹانے لگے یہاں تک کہ وہ بھی قتل ہوگئے۔ حتی کہ سات لوگ قتل ہوگئے۔ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ہم نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ اچھا نہیں کیا۔

37932

(۳۷۹۳۳) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ حُبَابٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا مُوسَی بْنُ عُبَیْدَۃَ ، قَالَ : أَخْبَرَنِی عَبْدُ اللہِ بْنُ عُبَیْدَۃَ ، عَنْ أَبِی صَالِحٍ مَوْلَی أُمِّ ہَانِئٍ ؛ أَنَّ الْحَارِثَ بْنَ سُوَیْدٌ بَایَعَ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَآمَنَ بِہِ ، ثُمَّ لَحِقَ بِأَہْلِ مَکَّۃَ وَشَہِدَ أُحُدًا فَقَاتَلَ الْمُسْلِمِینَ ، ثُمَّ أُسْقِطَ فِی یَدِہِ فَرَجَعَ إِلَی مَکَّۃَ ، فَکَتَبَ إِلَی أَخِیہِ جُلاَسِ بْنِ سُوَیْدٍ : یَا أَخِی ، إِنِّی قَدْ نَدِمْتُ عَلَی مَا کَانَ مِنِّی ، فَأَتُوبُ إِلَی اللہِ ، وَأَرْجِعُ إِلَی الإِسْلاَمِ ، فَاذْکُرْ ذَلِکَ لِرَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَإِنْ طَمِعْتَ لِی فِی تَوْبَۃٍ فَاکْتُبْ إِلَی ، فَذَکَرَہُ لِرَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَأَنْزَلَ اللَّہُ : {کَیْفَ یَہْدِی اللَّہُ قَوْمًا کَفَرُوا بَعْدَ إِیمَانِہِمْ} قَالَ : فَقَالَ قَوْمٌ مِنْ أَصْحَابِہِ مِمَّنْ کَانَ عَلَیْہِ : یَتَمَنَّعُ ، ثُمَّ یُرَاجَعُ إِلَی الإِسْلاَمِ ، فَأَنْزَلَ اللَّہُ : {إِنَّ الَّذِینَ کَفَرُوا بَعْدَ إِیمَانِہِمْ ، ثُمَّ ازْدَادُوا کُفْرًا، لَنْ تُقْبَلَ تَوْبَتُہُمْ وَأُولَئِکَ ہُمُ الضَّالُّونَ}۔ (نسائی ۳۵۳۱۔ احمد ۲۴۷)
(٣٧٩٣٣) ام ہانی کے مولیٰ ابو صالح سے روایت ہے کہ حارث بن سوید نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاتھ پر بیعت کی اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لایا۔ پھر وہ اہل مکہ کے ساتھ مل گیا اور (انہی کی طرف سے) احد میں شریک ہوا۔ اور مسلمانوں سے قتال کیا پھر اس کو شرمندگی ہوئی اور وہ مکہ لوٹ گیا اور اپنے بھائی جُلاس بن سوید کو خط لکھا۔ اے میرے بھائی ! جو کچھ مجھ سے سرزد ہوا ہے میں اس پر نادم ہوں پس میں اللہ سے توبہ کرتا ہوں اور اسلام کی طرف رجوع کرتا ہوں۔ تم یہ بات رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے ذکر کرو اور اگر تمہیں میری توبہ (کی قبولیت) کے بارے میں امید ہو تو مجھے خط لکھ دو ۔ جلاس نے یہ بات آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے ذکر کی تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ { کَیْفَ یَہْدِی اللَّہُ قَوْمًا کَفَرُوا بَعْدَ إِیمَانِہِمْ } تو اس پر اس کے سابقہ ساتھیوں میں سے کچھ لوگ کہنے لگے ہمارے خلاف اپنی قوم کی معاونت کرتا ہے پھر اسلام کی طرف رجوع کرتا ہے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی : {إِنَّ الَّذِینَ کَفَرُوا بَعْدَ إِیمَانِہِمْ ، ثُمَّ ازْدَادُوا کُفْرًا ، لَنْ تُقْبَلَ تَوْبَتُہُمْ وَأُولَئِکَ ہُمُ الضَّالُّونَ }

37933

(۳۷۹۳۴) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ حُبَابٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا مُوسَی بْنُ عُبَیْدَۃَ ، قَالَ : أَخْبَرَنِی مُحَمَّدُ بْنُ کَعْبٍ الْقُرَظِیُّ ؛ أَنَّ عَلِیًّا لَقِیَ فَاطِمَۃَ یَوْمَ أُحُدٍ ، فَقَالَ : خُذِی السَّیْفَ غَیْرَ مَذْمُومٍ ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : یَا عَلِیُّ، إِنْ کُنْتَ أَحْسَنْتَ الْقِتَالَ الْیَوْمَ ، فَقَدْ أَحْسَنَہُ أَبُو دُجَانَۃَ ، وَمُصْعَبُ بْنُ عُمَیْرٍ ، وَالْحَارِثُ بْنُ الصِّمَّۃِ، وَسَہْلُ بْنُ حُنَیْفٍ ؛ ثَلاَثَۃٌ مِنَ الأَنْصَارِ ، وَرَجُلٌ مِنْ قُرَیْشٍ۔
(٣٧٩٣٤) حضرت محمد بن کعب قرظی بیان کرتے ہیں کہ حضرت علی احد کے دن حضرت فاطمہ سے ملے اور فرمایا : تلوار پکڑو۔ اس حال میں کہ اس کی مذمت نہیں کی گئی۔ اس پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے علی ! اگر آج کے دن ۔۔۔ احد کے دن ۔۔۔ تم نے بہترین لڑائی کی ہے تو تحقیق ابو دجانہ، مصعب بن عمیر اور حارث بن صمہ اور سہل بن حنیف نے بھی بہترین لڑائی کی ہے۔ (یعنی) تین انصاریوں نے اور ایک قریشی آدمی نے۔

37934

(۳۷۹۳۵) حَدَّثَنَا سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنْ عِکْرِمَۃَ ، قَالَ : جَائَ عَلِیٌّ بِسَیْفِہِ ، فَقَالَ : خُذِیہِ حَمِیدًا ، فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إِنْ کُنْتَ أَحْسَنْتَ الْقِتَالَ الْیَوْمَ ، فَقَدْ أَحْسَنَہُ سَہْلُ بْنُ حُنَیْفٍ ، وَعَاصِمُ بْنُ ثَابِتٍ ، وَالْحَارِثُ بْنُ الصِّمَّۃِ ، وَأَبُو دُجَانَۃَ ، فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَنْ یَأْخُذُ ہَذَا السَّیْفَ بِحَقِّہِ ؟ فَقَالَ أَبُو دُجَانَۃَ : أَنَا ، وَأَخَذَ السَّیْفَ فَضَرَبَ بِہِ حَتَّی جَائَ بِہِ قَدْ حَنَاہُ ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : أَعْطَیْتَہُ حَقَّہُ ؟ قَالَ : نَعَمْ۔
(٣٧٩٣٥) حضرت عکرمہ سے روایت ہے کہ حضرت علی اپنی تلوار لے کر تشریف لائے اور فرمایا : (فاطمہ) تعریف کی ہوئی تلوار پکڑ لو۔ (اس پر) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اگر تم نے آج کے دن بہترین لڑائی لڑی ہے تو تحقیق سہل بن حنیف، عاصم بن ثابت اور حارث بن صمَّہ اور ابو دجانہ نے بھی بہترین لڑائی لڑی ہے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اس تلوار کو اس کے حق (کی ادائیگی) کے بدلے میں کون لے گا ؟ حضرت ابو دجانہ نے کہا۔ میں (لوں گا) اور پھر انھوں نے تلوار پکڑی اور اس کو چلایا یہاں تک کہ جب ابو دجانہ وہ تلوار لے کر (واپس) آئے تو انھوں نے اس کو موڑ ڈالا تھا۔ تو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : تم نے تلوار کو اس کا حق دے دیا ہے ؟ انھوں نے جواب دیا : جی ہاں !

37935

(۳۷۹۳۶) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ یَزِیدَ بْنِ أَبِی زِیَادٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ نَوْفَلٍ ؛ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اسْتَقْبَلَہُ رَجُلٌ مِنَ الْمُشْرِکِینَ یَوْمَ أُحُدٍ مُصْلِتًا یَمْشِی ، فَاسْتَقْبَلَہُ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَمْشِی ، فَقَالَ : أَنَا النَّبِیُّ غَیْر الْکَذِبْ أَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبْ قَالَ : فَضَرَبَہُ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَتَلَہُ۔
(٣٧٩٣٦) حضرت عبداللہ بن حارث بن نوفل سے روایت ہے کہ احد کے دن نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے ایک مشرک تلوار سونتے ہوئے چل رہا تھا۔ تو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی چلتے ہوئے اس کے سامنے تشریف لے گئے اور فرمایا؛ میں جھوٹا نبی نہیں ہوں۔ میں عبد المطلب کا بیٹا ہوں۔
راوی کہتے ہیں۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو ضرب لگائی اور اس کو قتل کردیا۔

37936

(۳۷۹۳۷) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا عَطَائُ بْنُ السَّائِبِ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ؛ أَنَّ امْرَأَۃً دَفَعَتْ إِلَی ابْنِہَا یَوْمَ أُحُدٍ السَّیْفَ ، فَلَمْ یُطِقْ حَمْلَہُ ، فَشَدَّتْہُ عَلَی سَاعِدِہِ بِنِسْعَۃٍ ، ثُمَّ أَتَتْ بِہِ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَتْ : یَا رَسُولَ اللہِ ، ہَذَا ابْنِی یُقَاتِلُ عَنْکَ ، فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : أَیْ بُنَیَّ احْمِلْ ہَاہُنَا ، أَیْ بُنَیَّ احْمِلْ ہَاہُنَا ، فَأَصَابَتْہُ جِرَاحَۃٌ ، فَصُرِعَ ، فَأُتِیَ بِہِ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : أَیْ بُنَیَّ ، لَعَلَّک جَزِعْتَ ؟ قَالَ : لاَ یَا رَسُولَ اللہِ۔
(٣٧٩٣٧) حضرت شعبی سے منقول ہے کہ ایک عورت نے احد کے دن اپنے بیٹے کو تلوار دی تو وہ لڑکا تلوار اٹھانے کی طاقت نہیں رکھتا تھا ۔ پس اس عورت نے تلوار اس لڑکے کے بازو رپر رسی کے ذریعہ سے باندھ دی پھر وہ عورت اس لڑکے کو لے کر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا۔ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! یہ میرا بیٹا ہے اور یہ آپ کی طرف سے قتال کرے گا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو فرمایا : اے بیٹے ! اس طرف حملہ کرو۔ اے بیٹے ! اس طرف حملہ کرو۔ پھر اس لڑکے کو زخم لگ گیا اور وہ گرگیا ۔ پھر اس لڑکے کو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس لایا گیا ۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کہا۔ اے بیٹے ! شاید کہ تم ڈر گئے ہو ؟ اس نے عرض کیا۔ نہیں۔ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) !

37937

(۳۷۹۳۸) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا عَطَائُ بْنُ السَّائِبِ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ ؛ أَنَّ النِّسَائَ کُنَّ یَوْمَ أُحُدٍ خَلْفَ الْمُسْلِمِینَ ، یُجْہِزْنَ عَلَی جَرْحَی الْمُشْرِکِینَ ، فَلَوْ حَلَفْتُ یَوْمَئِذٍ لَرَجَوْتُ أَنْ أَبَرَّ ، أَنَّہُ لَیْسَ أَحَدٌ مِنَّا یُرِیدُ الدُّنْیَا حَتَّی أَنْزَلَ اللَّہُ : {مِنْکُمْ مَنْ یُرِیدُ الدُّنْیَا وَمِنْکُمْ مَنْ یُرِیدُ الآخِرَۃَ ، ثُمَّ صَرَفَکُمْ عَنْہُمْ لِیَبْتَلِیَکُمْ}۔ فَلَمَّا خَالَفَ أَصْحَابُ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَعَصَوْا مَا أُمِرُوا بِہِ ، أُفْرِدَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی تِسْعَۃٍ ، سَبْعَۃٍ مِنَ الأَنْصَارِ وَرَجُلَیْنِ مِنْ قُرَیْشٍ ، وَہُوَ عَاشِرُہُمْ ، فَلَمَّا رَہِقُوہُ، قَالَ : رَحِمَ اللَّہُ رَجُلاً رَدَّہُمْ عَنَّا ، قَالَ : فَقَامَ رَجُلٌ مِنَ الأَنْصَارِ فَقَاتَلَ سَاعَۃً حَتَّی قُتِلَ ، فَلَمَّا رَہِقُوہُ أَیْضًا ، قَالَ : یَرْحَمُ اللَّہُ رَجُلاً رَدَّہُمْ عَنَّا ، فَلَمْ یَزَلْ یَقُولُ حَتَّی قُتِلَ السَّبْعَۃُ ، فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِصَاحِبَیْہِ : مَا أَنْصَفْنَا أَصْحَابَنَا۔ فَجَائَ أَبُو سُفْیَانَ ، فَقَالَ : اُعْلُ ہُبَلُ ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : قُولُوا : اللَّہُ أَعْلَی وَأَجَلُّ ، فَقَالَ أَبُو سُفْیَانَ : لَنَا عُزَّی ، وَلاَ عُزَّی لَکُمْ ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : قُولُوا : اللَّہُ مَوْلاَنَا ، وَالْکَافِرُونَ لاَ مَوْلَی لَہُمْ ، فَقَالَ أَبُو سُفْیَانَ : یَوْمٌ بِیَوْمِ بَدْرٍ۔ یَوْمٌ لَنَا وَیَوْمٌ عَلَیْنَا وَیَوْمٌ نُسَائُ وَیَوْمٌ نُسَر ُحَنْظَلَۃُ بِحَنْظَلَۃَ ، وَفُلاَنٌ بِفُلاَنٍ ، وَفُلاَنٌ بِفُلاَنٍ ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لاَ سَوَائً ، أَمَّا قَتْلاَنَا فَأَحْیَائٌ یُرْزَقُونَ ، وَقَتْلاَکُمْ فِی النَّارِ یُعَذَّبُونَ ، ثُمَّ قَالَ أَبُو سُفْیَانَ : قَدْ کَانَ فِی الْقَوْمِ مُثْلَۃٌ ، وَإِنْ کَانَتْ بِغَیْرِ مَلأٍ مِنِّی ، مَا أَمَرْتُ وَلاَ نَہَیْتُ ، وَلاَ أَحْبَبْتُ وَلاَ کَرِہْتُ ، وَلاَ سَائَنِی وَلاَ سَرَّنِی ، قَالَ : فَنَظَرُوا فَإِذَا حَمْزَۃُ قَدْ بُقِرَ بَطْنُہُ ، وَأَخَذَتْ ہِنْدُ کَبِدَہُ فَلاَکَتْہَا ، فَلَمْ تَسْتَطِعْ أَنْ تَأْکُلَہَا ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : أَکَلَتْ مِنْہُ شَیْئًا ؟ قَالُوا : لاَ ، قَالَ : مَا کَانَ اللَّہُ لِیُدْخِلَ شَیْئًا مِنْ حَمْزَۃَ النَّارَ۔ فَوَضَعَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حَمْزَۃَ فَصَلَّی عَلَیْہِ ، وَجِیئَ بِرَجُلٍ مِنَ الأَنْصَارِ فَوُضِعَ إِلَی جَنْبِہِ فَصَلَّی عَلَیْہِ ، فَرُفِعَ الأَنْصَارِیُّ وَتُرِکَ حَمْزَۃُ ، ثُمَّ جِیئَ بِآخَرَ فَوَضَعَہُ إِلَی جَنْبِ حَمْزَۃَ فَصَلَّی عَلَیْہِ ، ثُمَّ رُفِعَ وَتُرِکَ حَمْزَۃُ ، ثُمَّ جِیئَ بِآخَرَ فَوَضَعَہُ إِلَی جَنْبِ حَمْزَۃَ فَصَلَّی عَلَیْہِ ، ثُمَّ رُفِعَ وَتُرِکَ حَمْزَۃُ ، حَتَّی صَلَّی عَلَیْہِ یَوْمَئِذٍ سَبْعِینَ صَلاَۃً۔ (احمد ۴۶۳۔ ابن سعد ۱۳)
(٣٧٩٣٨) حضرت ابن مسعود سے روایت ہے کہ احد کے دن مسلمانوں کے پیچھے عورتیں تھیں جو مشرکین کے زخمیوں کو مار رہی تھیں۔ پس اگر میں اس دن قسم کھاتا تو میں حانث نہ ہوتا کہ : ہم میں سے کوئی ایک بھی دنیا کا ارادہ نہیں کرتا تھا۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ { مِنْکُمْ مَنْ یُرِیدُ الدُّنْیَا وَمِنْکُمْ مَنْ یُرِیدُ الآخِرَۃَ ، ثُمَّ صَرَفَکُمْ عَنْہُمْ لِیَبْتَلِیَکُمْ }
٢۔ پھر جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ نے اختلاف کیا اور حکم کے برخلاف عمل کیا اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نو (٩) افراد کے درمیان۔۔۔ جن میں سے سات انصاری اور دو قریشی تھے ۔۔۔ خالی چھوڑ دیا گیا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان افراد میں دسویں تھے۔ پھر جب مشرکین نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ڈھانپ لیا ۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ تعالیٰ اس آدمی پر رحم کرے جو انھیں ہم سے دور کر دے ۔ راوی کہتے ہیں : انصار میں سے ایک صاحب کھڑے ہوئے اور انھوں نے کچھ دیر قتال کیا یہاں تک کہ وہ قتل ہوگئے پھر مشرکین نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ڈھانپ لیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ تعالیٰ اس آدمی پر رحم کرے جو انہں ی (مشرکین کو) ہم سے دور کر دے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ بات مسلسل کہتے رہے یہاں تک کہ سات افراد قتل ہوگئے پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے دو ساتھیوں سے فرمایا : ہم نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ انصاف نہیں کیا۔
٣۔ پھر ابو سفیان آیا اور اس نے کہا۔ ہُبل بلند ہو ! آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم (صحابہ ) کہو۔ اللہ تعالیٰ بلند ہے اور بزرگی والا ہے۔ پھر ابو سفیان نے کہا۔ ہمارے لیے عُزّی ہے اور تمہارے لیے کوئی عُزّی نہیں ہے۔ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے (صحابہ سے) فرمایا : تم کہو : اللہ ہمارا مولیٰ ہے اور کافروں کا کوئی مولیٰ نہیں ہے۔ پھر ابو سفیان نے کہا۔ (یہ) دن بدر کے دن کے بدلہ میں ہے۔
ایک دن ہمارے حق میں اور ایک دن ہمارے خلاف ہے
ایک دن ہمارے ساتھ بُرا ہوتا ہے اور ایک دن ہمیں خوش کردیا جاتا ہے۔
حنظلہ کا قتل حنظلہ کے بدلہ میں ہے اور فلاں، فلاں کے بدلہ میں۔ اور فلاں، فلاں کے بدلہ میں ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے (جواباً ) ارشاد فرمایا : یہ برابری نہیں ہے۔ بہرصورت ہمارے جو مقتولین ہیں۔ وہ تو زندہ ہیں اور انھیں رزق دیا جاتا ہے اور تمہارے مقتولین جہنم میں عذاب دیئے جا رہے ہیں۔
٤۔ پھر ابو سفیان نے کہا۔ لوگوں میں مثلہ کا عمل (پایا گیا) ہے اگرچہ یہ مجھ سے مشورہ کئے بغیر ہوا ہے۔ نہ میں نے حکم دیا ہے اور نہ میں نے منع کیا ہے۔ نہ میں نے (اس کو) پسند کیا ہے اور نہ میں نے ناپسند کیا ہے۔ اور یہ چیز نہ تو مجھے بُری محسوس ہوئی ہے اور نہ ہی اچھی محسوس ہوئی ہے۔ راوی کہتے ہیں : پھر لوگوں نے دیکھا کہ حضرت حمزۃ کا پیٹ چاک کردیا گیا ہے اور ہندہ نے آپ کا کلیجہ لیا اور اس کو چبایا۔ لیکن وہ کلیجہ نہ کھا سکی۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا۔ ہندہ نے کلیجہ میں سے کچھ کھایا ہے ؟ لوگوں نے جواب دیا : نہیں ! آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے حمزہ کی کسی چیز کو جہنم میں داخل کرنا نہیں چاہا۔
٥۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت حمزہ (کی میت) کو رکھا اور اس پر نماز جنازہ پڑھی اور پھر ایک انصاری صاحب (مقتول صحابی ) کو لایا گیا اور انھیں حضرت حمزہ کے پہلو میں رکھا گیا پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نماز جنازہ پڑھی پھر انصاری کی میت اٹھا دی گئی اور حضرت حمزہ کی میت رہنے دی گئی اور پھر ایک اور میت لائی گئی اور اس کو حضرت حمزہ کے پہلو میں رکھ دیا گیا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس میت پر نماز جنازہ پڑھی۔ پھر دوسری میت اٹھا دی گئی اور حضرت حمزہ کی رہنے دی گئی پھر ایک اور میت لائی گئی اور اس کو حضرت حمزہ کے پہلو میں رکھا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس پر نماز جنازہ پڑھی پھر یہ میت اٹھا لی گئی اور حضرت حمزہ کو رہنے دیا گیا۔ یہاں تک کہ اس دن حضرت حمزہ پر ستر مرتبہ نماز جنازہ پڑھی گئی۔

37938

(۳۷۹۳۹) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَرْوَانَ ، عَنْ عُمَارَۃَ بْنِ أَبِی حَفْصَۃَ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ ، قَالَ : شُجَّ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی وَجْہِہِ یَوْمَ أُحُدٍ ، وَکُسِرَتْ رَبَاعِیَتُہُ ، وَذُلِقَ مِنَ الْعَطَشِ ، حَتَّی جَعَلَ یَقَعُ عَلَی رُکْبَتَیْہِ ، وَتَرَکَہُ أَصْحَابُہُ ، فَجَائَ أُبَیُّ بْنُ خَلَفٍ یَطْلُبُہُ بِدَمِ أَخِیہِ أُمَیَّۃَ بْنِ خَلَفٍ ، فَقَالَ : أَیْنَ ہَذَا الَّذِی یَزْعُمُ أَنَّہُ نَبِیٌّ ، فَلْیَبْرُزْ لِی ، فَإِنَّہُ إِنْ کَانَ نَبِیًّا قَتَلَنِی ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: أَعْطُونِی الْحَرْبَۃَ ، فَقَالُوا : یَا رَسُولَ اللہِ ، وَبِکَ حَرَاکٌ ؟ فَقَالَ : إِنِّی قَدَ اسْتَسْقَیْتُ اللَّہَ دَمَہُ ، فَأَخَذَ الْحَرْبَۃَ ، ثُمَّ مَشَی إِلَیْہِ فَطَعَنَہُ فَصَرَعَہُ عَنْ دَابَّتِہِ ، وَحَمَلَہُ أَصْحَابُہُ فَاسْتَنْقَذُوہُ ، فَقَالُوا لَہُ : مَا نَرَی بِکَ بَأْسًا ، قَالَ : إِنَّہُ قَدَ اسْتَسْقَی اللَّہَ دَمِی ، إِنِّی لأَجِدُ لَہَا مَا لَوْ کَانَتْ عَلَی رَبِیعَۃَ وَمُضَرَ لَوَسِعَتْہُمْ۔
(٣٧٩٣٩) حضرت عکرمہ سے روایت ہے کہ احد کے دن، نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سر مبارک میں زخم آگیا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے والے چار دانت مبارک شہید ہوگئے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پیاس کی وجہ سے لبِ دم ہوگئے۔ یہاں تک کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) گھٹنوں کے بل جھکنے لگے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے علیحدہ ہوگئے۔ تو ابی بن خلف، اپنے بھائی امیہ بن خلف کے خون کا مطالبہ کرتا ہوا آیا اور کہنے لگا۔ کہاں ہے وہ آدمی ! جو گمان کرتا ہے کہ وہ نبی ہے۔ میرے ساتھ مبارزت کرے۔ پس اگر وہ نبی ہوا تو وہ مجھے قتل کر دے گا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : مجھے نیزہ دے دو ۔ صحابہ نے عرض کیا۔ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ میں حرکت ہے ؟ (یعنی آپ تو پیاسے ہیں) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ۔ بلاشبہ میں نے اللہ تعالیٰ سے اس کے خون کے ذریعہ سے سیرابی طلب کی ہے۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نیزہ پکڑا اور اس کی طرف چل دیئے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو نیزہ مارا اور اس کو اس کی سواری سے گرا دیا۔ اُبی بن خلف کے ساتھیوں نے اس کو اٹھا لیا اور اس کو بچا کرلے گے اور انھوں نے اس کو کہا۔ ہمارے خیال میں تو تمہیں کچھ بھی نہیں ہوا ؟ اس نے جواب دیا۔ بلاشبہ انھوں (نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) نے اللہ تعالیٰ سے میرے خون کے ذریعہ سیرابی مانگی ہے۔ پس میں وہ تکلیف محسوس کررہا ہوں کہ اگر وہ قبیلہ ربیعہ اور قبیلہ مضر کے لیے ہوتی تو ان کو بھی کفایت کر جاتی۔

37939

(۳۷۹۴۰) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنِ الزُّبَیْرِ ، مِثْلَہُ۔
(٣٧٩٤٠) حضرت زبیر سے بھی اس کے مثل روایت منقول ہے۔

37940

(۳۷۹۴۱) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : حدَّثَنَا أَبُو بَکْرٍ ، عَنْ یَزِیدَ ، عَنْ مِقْسَمٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : لَمَّا قُتِلَ حَمْزَۃُ یَوْمَ أُحُدٍ ، أَقْبَلَتْ صَفِیَّۃُ تَطْلُبُہُ ، لاَ تَدْرِی مَا صَنَعَ ، قَالَ : فَلَقِیَتْ عَلِیًّا ، وَالزُّبَیْرَ ، فَقَالَ عَلِیٌّ لِلزُّبَیْرِ : اُذْکُرْہُ لأُمِّکَ ، وَقَالَ الزُّبَیْرُ : لاَ ، بَلَ اُذْکُرْہُ أَنْتَ لِعَمَّتِکَ ، قَالَتْ : مَا فَعَلَ حَمْزَۃُ ؟ قَالَ : فَأَرَیَاہَا أَنَّہُمَا لاَ یَدْرِیَانِ ، قَالَ : فَجَائَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : إِنِّی لأَخَافُ عَلَی عَقْلِہَا ، قَالَ : فَوَضَعَ یَدَہُ عَلَی صَدْرِہَا ، وَدَعَا لَہَا ، قَالَ : فَاسْتَرْجَعَتْ وَبَکَتْ ، قَالَ : ثُمَّ جَائَ فَقَامَ عَلَیْہِ ، وَقَدْ مُثِّلَ بِہِ ، فَقَالَ : لَوْلاَ جَزَعُ النِّسَائِ لَتَرَکْتُہُ حَتَّی یُحْشَرَ مِنْ حَوَاصِلِ الطَّیْرِ وَبُطُونِ السِّبَاعِ ، قَالَ : ثُمَّ أَمَرَ بِالْقَتْلَی فَجَعَلَ یُصَلِّی عَلَیْہِمْ ، قَالَ : فَیَضَعُ تِسْعَۃً وَحَمْزَۃَ ، فَیُکَبِّرُ عَلَیْہِمْ سَبْعَ تَکْبِیرَاتٍ ، ثُمَّ یُرْفَعُونَ وَیُتْرَکُ حَمْزَۃُ ، ثُمَّ یُجَائُ بِتِسْعَۃٍ ، فَیُکَبِّرُ عَلَیْہِمْ سَبْعًا حَتَّی فَرَغَ مِنْہُمْ۔ (ابن ماجہ ۱۵۱۳۔ طبرانی ۲۹۳۶)
(٣٧٩٤١) حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ جب احد کے دن حضرت حمزہ قتل ہوگئے تو حضرت صفیہ انھیں تلاش کرنے کو آئیں۔ انھیں خبر نہیں تھی کہ کیا ہوا ہے۔ راوی کہتے ہیں : ان کی ملاقات حضرت علی اور زبیر سے ہوئی۔ حضرت علی نے حضرت زبیر سے کہا۔ اپنی والدہ کو حضرت حمزہ کے بارے میں بتاؤ۔ حضرت زبیر نے کہا۔ نہیں ! بلکہ آپ انھیں اپنے چچا کے بارے میں بتاؤ۔ حضرت صفیہ کہنے لگی۔ حمزہ نے کیا کیا ہے ؟ راوی کہتے ہیں : ان دونوں (علی ، زبیر ) نے اسے یہ ظاہر کیا کہ انھیں خبر نہیں ہے۔ راوی کہتے ہیں : پھر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے اور فرمایا : مجھے اس کی عقل پر خوف ہے۔ راوی کہتے ہیں : پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنا دست مبارک ان کے سینہ پر رکھا اور ان کے لیے دُعا کی۔ راوی کہتے ہیں۔ پھر حضرت صفیہ نے اناللہ پڑھا اور رو پڑیں ۔ راوی کہتے ہیں : پھر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے اور حضرت حمزہ کے پاس کھڑے ہوئے۔ درآنحالیکہ ان کا مثلہ کیا گیا تھا۔ اور فرمایا : اگر عورتوں کا رونا دھونا نہ ہوتا تو میں ان (حمزہ) کو یونہی چھوڑ دیتا تاکہ یہ میدان محشر میں پرندوں کے پوٹوں اور درندوں کے پیٹوں سے جمع ہو کر آتے۔ راوی کہتے ہیں۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے شہداء کے بارے میں حکم دیا : اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان پر نماز جنازہ پڑھنی شروع کی۔ راوی کہتے ہیں : پس آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نو افراد کو اور ساتھ حضرت حمزہ کو رکھا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان پر سات تکبیرات میں جنازہ پڑھا۔ پھر باقی میتیں اٹھا دی گئیں اور حمزہ کو چھوڑ دیا گیا پھر نو افراد کو لایا گیا اور ان پر سات تکبیرات کے ساتھ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جنازہ پڑھا یہاں تک کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے فارغ ہوگئے۔

37941

(۳۷۹۴۲) حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیزِ ، قَالَ : حَدَّثَنَا الزُّہْرِیُّ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ کَعْبِ بْنِ مَالِکٍ ، عَنْ أَبِیہِ ؛ أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ یَوْمَ أُحُدٍ : مَنْ رَأَی مَقْتَلَ حَمْزَۃَ ؟ فَقَالَ رَجُلٌ أَعْزَلُ : أَنَا رَأَیْتُ مَقْتَلَہُ ، قَالَ : فَانْطَلِقْ فَأَرِنَاہُ ، فَخَرَجَ حَتَّی وَقَفَ عَلَی حَمْزَۃَ ، فَرَآہُ قَدْ بُقِرَ بَطْنُہُ ، وَقَدْ مُثِّلَ بِہِ ، فَقَالَ : یَا رَسُولَ اللہِ ، مُثِّلَ بِہِ وَاللہِ ، فَکَرِہَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ یَنْظُرَ إِلَیْہِ ، وَوَقَفَ بَیْنَ ظَہْرَانَیِ الْقَتْلَی ، فَقَالَ : أَنَا شَہِیدٌ عَلَی ہَؤُلاَئِ الْقَوْمِ ، لُفُّوہُمْ فِی دِمَائِہِمْ ، فَإِنَّہُ لَیْسَ جَرِیحٌ یُجْرَحُ ، إِلاَّ جُرْحُہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ یَدْمَی ، لَوْنُہُ لَوْنُ الدَّمِ ، وَرِیحُہُ رِیحُ الْمِسْک ، قَدِّمُوا أَکْثَرَ الْقَوْمِ قُرْآنًا ، فَاجْعَلُوہُ فِی اللَّحْدِ۔
(٣٧٩٤٢) حضرت عبد الرحمن بن کعب بن مالک، اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے احد کے دن ارشاد فرمایا : حمزہ کا مقتل کس نے دیکھا ہے ؟ ایک نہتے شخص نے کہا۔ میں نے حمزہ کا مقتل دیکھا ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ چلو اور ہمیں ان کا مقتل دکھاؤ۔ پس وہ شخص نکلا یہاں تک کہ وہ حضرت حمزہ کی لاش پر آ کر کھڑا ہوا اور اس نے حمزہ کو دیکھا کہ ان کے پیٹ کو پھاڑا گیا ہے اور ان کا مثلہ بنایا گیا ہے۔ تو اس آدمی نے عرض کیا۔ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! بخدا ! ان کا تو مثلہ کیا گیا ہے۔ پس نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حمزہ کی طرف دیکھنے کو ناپسند کیا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مقتولین کے درمیان کھڑے ہوگئے اور فرمایا : میں بذات خود ان لوگوں پر گواہ ہوں ۔ انھیں ان کے خون سمیت لپیٹ دو ۔ کیونکہ (ان میں سے) کوئی بھی مجروح، جس کو زخمی کیا گیا ہے۔ قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کا زخم خون برسا رہا ہوگا۔ اس کا رنگ خون کا رنگ ہوگا اور اس کی خوشبو مشک کی خوشبو ہوگی۔ ان لوگوں میں سے زیادہ قرآن والے کو مقدم کرو اور اس کو (پہلے) لحد میں داخل کرو۔

37942

(۳۷۹۴۳) حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ حَرْبٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَیْدٍ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنْ حُمَیْدِ بْنِ ہِلاَلٍ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ ہِشَامِ بْنِ عَامِرٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : اشْتُکِیَ إِلَی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ شِدَّۃَ الْجِرَاحِ یَوْمَ أُحُدٍ ، فَقَالَ : احْفِرُوا ، وَأَوْسِعُوا ، وَأَحْسِنُوا ، وَادْفِنُوا فِی الْقَبْرِ الاِثْنَیْنِ وَالثَّلاَثَۃَ ، وَقَدِّمُوا أَکْثَرَہُمْ قُرْآنًا ، فَقَدَّمُوا أَبِی بَیْنَ یَدَیْ رَجُلَیْنِ۔ (ابوداؤد ۳۲۰۷۔ احمد ۱۹)
(٣٧٩٤٣) حضرت سعید بن ہشام ، اپنے والد سے روایت کرے ہیں کہ احد کے دن نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مقتولین کی کثرت کا کہا گیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : قبریں کھودو اور کھلی کھودو اور بہترین بناؤ۔ اور ایک قبر میں، دو یا تین افراد کو دفن کردو۔ مُردوں میں سے زیادہ قرآن والے کو مقدم کرو۔ پس لوگوں نے میرے والد کو دو آدمیوں سے مقدم کیا۔

37943

(۳۷۹۴۴) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ عَدِیِّ بْنِ ثَابِتٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ یَزِیدَ ، عَنْ زَیْدِ بْنِ ثَابِتٍ ، قَالَ : لَمَّا خَرَجَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِلَی أُحُدٍ ، خَرَجَ مَعَہُ نَاسٌ ، فَرَجَعُوا ، قَالَ : فَکَانَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیہِمْ فِرْقَتَیْنِ ؛ قَالَتْ فِرْقَۃٌ : نَقْتُلُہُمْ ، وَفِرْقَۃٌ قَالَتْ : لاَ نَقْتُلُہُمْ ، فَنَزَلَتْ : {فَمَا لَکُمْ فِی الْمُنَافِقِینَ فِئَتَیْنِ وَاللَّہُ أَرْکَسَہُمْ بِمَا کَسَبُوا} قَالَ : فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إِنَّہَا طَیْبَۃُ ، وَإِنَّہَا تَنْفِی الْخَبَثَ ، کَمَا تَنْفِی النَّارُ خَبَثَ الْفِضَّۃِ۔
(٣٧٩٤٤) حضرت زید بن ثاب سے روایت ہے کہ جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) احد کی طرف نکلے تو کچھ (منافق) لوگ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ نکلے پھر واپس آگئے۔ راوی کہتے ہیں : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ ، ایسے لوگوں کے بارے میں دو گروہوں میں بٹ گئے۔ ایک جماعت نے کہا۔ ہم ان سے قتال کریں گے ۔ اور دوسری جماعت نے کہا۔ ہم ان سے قتال نہیں کریں گے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی : { فَمَا لَکُمْ فِی الْمُنَافِقِینَ فِئَتَیْنِ وَاللَّہُ أَرْکَسَہُمْ بِمَا کَسَبُوا }
راوی کہتے ہیں : آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : یہ طیبہ ہے اور یہ خباثت کو یوں ختم کردیتا ہے۔ جیسا کہ آگ چاندی کی گندگی کو ختم کردیتی ہے۔

37944

(۳۷۹۴۵) حَدَّثَنَا کَثِیرُ بْنُ ہِشَامٍ، قَالَ: حدَّثَنَا ہِشَامُ الدَّسْتَوَائِیُّ، عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: صُرِخَ إِلَی قَتْلاَنَا یَوْمَ أُحُدٍ ، إِذْ أَجْرَی مُعَاوِیَۃُ الْعَیْنَ ، فَاسْتَخْرَجْنَاہُمْ بَعْدَ أَرْبَعِینَ سَنَۃً لَیِّنَۃً أَجْسَادُہُمْ ، تَتَثَنَّی أَطْرَافُہُمْ۔
(٣٧٩٤٥) حضرت جابر سے روایت ہے کہ جب حضرت معاویہ نے چشمہ جاری فرمایا تو ہمارے احد کے شہداء بارے میں فریاد ہوئی پس ہم نے انھیں چالیس سال (کا عرصہ گزرنے) کے بعد نکالا۔ ان کے جسم ان اعضاء کے ساتھ لپٹے ہوئے تھے۔

37945

(۳۷۹۴۶) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَنْ ثَابِتٍ ، عَنْ أَنَسٍ ، عَنْ أَبِی طَلْحَۃَ ، قَالَ : رَفَعْتُ رَأْسِی یَوْمَ أُحُدٍ فَجَعَلْتُ أَنْظُرُ ، فَمَا أَرَی أَحَدًا مِنَ الْقَوْمِ إِلاَّ یَمِیدُ تَحْتَ حَجَفَتِہِ مِنَ النُّعَاسِ۔
(٣٧٩٤٦) حضرت ابو طلحہ سے روایت ہے کہ میں نے احد کے دن سر اوپر کر کے دیکھنا شروع کیا۔ تو مجھے صحابہ میں سے کوئی ایک بھی نظر نہ آیا مگر یہ کہ وہ اونگھ کی وجہ سے اپنی ڈھال کے نیچے جھٹکے کھا رہا تھا۔

37946

(۳۷۹۴۷) حَدَّثَنَا مَالِکٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا یَعْقُوبُ بْنُ عَبْدِ اللہِ ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ أَبِی الْمُغِیرَۃِ ، عَنِ ابْنِ أَبْزَی ، قَالَ : بَارَزَ عَلِیٌّ یَوْمَ أُحُدٍ مِنْ بَنِی شَیْبَۃَ طَلْحَۃَ وَمُسَافِعًا ، قَالَ : وَسَمَّی إِنْسَانًا آخَرَ ، قَالَ : فَقَتَلَہُمْ سِوَی مَنْ قَتَلَ مِنَ النَّاسِ ، فَقَالَ لِفَاطِمَۃَ حَیْثُ نَزَلَ : خُذِی السَّیْفَ غَیْرَ ذَمِیمٍ ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لَئِنْ کُنْتَ أَبْلَیْتَ ، فَقَدْ أَبْلَی فُلاَنٌ الأَنْصَارِیُّ ، وَفُلاَنٌ الأَنْصَارِیُّ ، وَفُلاَنٌ الأَنْصَارِیُّ حَتَّی انْقَطَعَ نَفَسُہُ ، أَوْ کَادَ یَنْقَطِعُ نَفَسُہُ۔
(٣٧٩٤٧) حضرت ابن ابزی سے روایت ہے کہ احد کے دن حضرت علی نے بنی شیبہ میں سے طلحہ اور مسافع کے ساتھ مبارزت کی۔ راوی کہتے ہیں : ایک اور آدمی کا نام بھی (استاد) نے لیا تھا۔ راوی کہتے ہیں : پس حضرت علی نے جو عام لوگوں (کفار) کو قتل کیا تھا ان کے سوا ان تینوں کو بھی قتل کردیا۔ پھر جب آپ واپس تشریف لائے تو حضرت فاطمہ سے کہا۔ بغیر مذمت کے تلوار کو پکڑو۔ تو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اگر تم نے عمدگی سے قتال کیا ہے تو فلاں انصاری نے بھی اور فلاں انصاری نے بھی اور فلاں انصاری نے بھی بہترین قتال کیا ہے۔ یہاں تک کہ اپنی جان ختم کردی یا جان ختم کرنے کے قریب ہوگئے۔

37947

(۳۷۹۴۸) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ أَبِی غَنِیَّۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنِ الْحَکَمِ ، قَالَ : لَمَّا کُسِرَتْ رَبَاعِیَۃُ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَوْمَ أُحُدٍ ، قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : اشْتَدَّ غَضَبُ اللہِ عَلَی ثَلاَثَۃٍ ؛ عَلَی مَنْ زَعَمَ أَنَّہُ مَلِکُ الأَمْلاَک ، وَاشْتَدَّ غَضَبُ اللہِ عَلَی مَنْ کَسَرَ رَبَاعِیَۃَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَأَثَّرَ فِی وَجْہِہِ ، وَاشْتَدَّ غَضَبُ اللہِ عَلَی مَنْ زَعَمَ أَنَّ لِلَّہِ وَلَدًا۔
(٣٧٩٤٨) حضرت حکم سے روایت ہے کہ جب احد کے دن نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے والے چار دندان مبارک شہید ہوگئے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تین لوگوں پر اللہ کا غضب شدید ہے۔ اس آدمی پر جو خود کو بادشاہوں کا بادشاہ گمان کرتا ہے۔ اور اس آدمی پر بھی اللہ کا غضب شدید ہے جس نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دندان کو شہید کیا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چہرہ کو زخمی کیا۔ اور خدا کا غضب اس آدمی پر بھی شدید ہے جو یہ گمان کرتا ہے کہ خدا کا بیٹا ہے۔

37948

(۳۷۹۴۹) حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا مَالِکُ بْنُ أَنَسٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ أَبِی بَکْرٍ ، عَنْ رَجُلٍ ، قَالَ : ہُشِّمَتِ الْبَیْضَۃُ عَلَی رَأْسِ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَوْمَ أُحُدٍ ، وَکُسِرَتْ رَبَاعِیَتُہُ ، وَجُرِحَ فِی وَجْہِہِ ، وَدُووِیَ بِحَصِیرٍ مُحَرَّقٍ ، وَکَانَ عَلِیُّ بْنُ أَبِی طَالِبٍ یَنْقُلُ إِلَیْہِ الْمَائَ فِی الْحَجَفَۃِ۔ (بخاری ۲۴۳)
(٣٧٩٤٩) ایک آدمی روایت کرتے ہیں کہ احد کے دن نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سر مبارک پر خود ٹوٹ گئی اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دندان شہید ہوگئے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا چہرہ مبارک زخمی ہوگیا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جلی ہوئی چٹائی کے ذریعہ دوا کی گئی۔ اور علی بن ابی طالب ، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ڈھال میں پانی لا رہے تھے۔

37949

(۳۷۹۵۰) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، قَالَ : حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَیْدٍ ، عَنْ أَیُّوبَ ، قَالَ : قَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِی بَکْرٍ لأَبِی بَکْرٍ : رَأَیْتُکَ یَوْمَ أُحُدٍ فَصُغتُ عَنْکَ ، قَالَ : فَقَالَ أَبُو بَکْرٍ : لَکِنِّی لَوْ رَأَیْتُکَ مَا صُغتُ عَنْکَ۔
(٣٧٩٥٠) حضرت ایوب سے روایت ہے کہ عبد الرحمن بن ابی بکر نے حضرت ابوبکر سے کہا۔ میں نے احد کے دن آپ کو دیکھا تھا لیکن میں نے آپ سے اعراض کیا۔ راوی کہتے ہیں : حضرت ابوبکر نے فرمایا : لیکن اگر میں تمہیں دیکھتا تو میں تم سے اعراض نہ کرتا۔

37950

(۳۷۹۵۱) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ جَدِّہِ ، عَنْ عَائِشَۃَ ، قَالَتْ : خَرَجْتُ یَوْمَ الْخَنْدَقِ أَقْفُو آثَارَ النَّاسِ ، فَسَمِعْتُ وَئِیدَ الأَرْضِ وَرَائِی ، فَالْتَفَتُّ ، فَإِذَا أَنَا بِسَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ وَمَعَہُ ابْنُ أَخِیہِ الْحَارِثُ بْنُ أَوْسٍ ، یَحْمِلُ مِجَنَّہُ ، فَجَلَسْتُ إِلَی الأَرْضِ ، قَالَتْ : فَمَرَّ سَعْدٌ وَعَلَیْہِ دِرْعٌ ، قَدْ خَرَجَتْ مِنْہَا أَطْرَافُہُ ، فَأَنَا أَتَخَوَّفُ عَلَی أَطْرَافِ سَعْدٍ ، قَالَتْ : وَکَانَ مِنْ أَعْظَمِ النَّاسِ وَأَطْوَلِہِمْ ، قَالَتْ: فَمَرَّ یَرْتَجِزُ ، وَہُوَ یَقُولُ : لَبِّثْ قَلِیلاً یُدْرِکِ الْہَیْجَا حَمَلْ مَا أَحْسَنَ الْمَوْتَ إِذَا حَانَ الأَجَلْ قَالَتْ : فَقُمْتُ ، فَاقْتَحَمْتُ حَدِیقَۃً ، فَإِذَا فِیہَا نَفَرٌ مِنَ الْمُسْلِمِینَ ، فِیہِمْ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ ، وَفِیہِمْ رَجُلٌ عَلَیْہِ تَسْبِغَۃٌ لَہُ ، تَعْنِی الْمِغْفَرَ ، قَالَ : فَقَالَ عُمَرُ : وَیْحَکِ ، مَا جَائَ بِکِ ؟ وَیْحَکِ ، مَا جَائَ بِکِ ؟ وَاللہِ إِنَّکِ لَجَرِیئَۃٌ ، مَا یُؤَمِّنُکِ أَنْ یَکُونَ تَحَوُّزٌ وَبَلاَئٌ ؟ قَالَتْ : فَمَا زَالَ یَلُومُنِی حَتَّی تَمَنَّیْتُ أَنَّ الأَرْضَ انْشَقَّتْ فَدَخَلْتُ فِیہَا ، قَالَتْ : فَرَفَعَ الرَّجُلُ التَّسْبِغَۃَ عَنْ وَجْہِہِ ، فَإِذَا طَلْحَۃُ بْنُ عُبَیْدِ اللہِ ، قَالَ ، فَقَالَ : یَا عُمَرُ ، وَیْحَک ، قَدْ أَکْثَرْتَ مُنْذُ الْیَوْمَ ، وَأَیْنَ التَّحَوُّزُ ، أَوِ الْفِرَارُ إِلاَّ إِلَی اللہِ۔ قَالَتْ : وَیَرْمِی سَعْدًا رَجُلٌ مِنَ الْمُشْرِکِینَ مِنْ قُرَیْشٍ یُقَالُ لَہُ : حِبَّانُ بْنُ الْعَرِقَۃِ بِسَہْمٍ ، فَقَالَ : خُذْہَا وَأَنَا ابْنُ الْعَرِقَۃِ ، فَأَصَابَ أَکْحَلَہُ فَقَطَعَہُ ، فَدَعَا اللَّہَ ، فَقَالَ : اللَّہُمَّ لاَ تُمِتْنِی حَتَّی تُقِرَّ عَیْنِی مِنْ قُرَیْظَۃَ ، وَکَانُوا حُلَفَائَہُ وَمَوَالِیَہُ فِی الْجَاہِلِیَّۃِ ، قَالَتْ : فَرَقَأَ کَلْمُہُ ، وَبَعَثَ اللَّہُ الرِّیحَ عَلَی الْمُشْرِکِینَ : (وَکَفَی اللَّہُ الْمُؤْمِنِینَ الْقِتَالَ وَکَانَ اللَّہُ قَوِیًّا عَزِیزًا) فَلَحِقَ أَبُو سُفْیَانَ بِتِہَامَۃَ ، وَلَحِقَ عُیَیْنَۃُ بْنُ بَدْرِ بْنِ حِصْنٍ وَمَنْ مَعَہُ بِنَجْدٍ ، وَرَجَعَتْ بَنُو قُرَیْظَۃَ فَتَحَصَّنُوا فِی صَیَاصِیہِمْ ، وَرَجَعَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِلَی الْمَدِینَۃِ ، فَأَمَرَ بِقُبَّۃٍ ، فَضُرِبَتْ عَلَی سَعْدٍ فِی الْمَسْجِدِ ، وَوُضِعَ السِّلاَحُ۔ قَالَتْ : فَأَتَاہُ جِبْرِیلُ ، فَقَالَ : أَقَدْ وَضَعْتَ السِّلاَحَ ؟ وَاللہِ مَا وَضَعَتِ الْمَلاَئِکَۃُ السِّلاَحَ ، فَاخْرُجْ إِلَی بَنِی قُرَیْظَۃَ فَقَاتِلْہُمْ ، فَأَمَرَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِالرَّحِیلِ وَلَبِسَ لاَمَتَہُ ، فَخَرَجَ فَمَرَّ عَلَی بَنِی غَنْمٍ ، وَکَانُوا جِیرَانَ الْمَسْجِدِ ، فَقَالَ : مَنْ مَرَّ بِکُمْ ؟ فَقَالُوا : مَرَّ بِنَا دِحْیَۃُ الْکَلْبِی ، وَکَانَ دِحْیَۃُ تُشْبِہُ لِحْیَتُہُ وَسِنَّتُہُ وَوَجْہُہُ بِجِبْرِیلَ ، فَأَتَاہُمْ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَحَاصَرَہُمْ خَمْسَۃً وَعِشْرِینَ یَوْمًا ، فَلَمَّا اشْتَدَّ حَصْرُہُمْ وَاشْتَدَّ الْبَلاَئُ عَلَیْہِمْ ، قِیلَ لَہُمْ : انْزِلُوا عَلَی حُکْمِ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَاسْتَشَارُوا أَبَا لُبَابَۃَ ، فَأَشَارَ إِلَیْہِمْ بِیَدِہِ أَنَّہُ الذَّبْحُ ، فَقَالُوا : نَنْزِلُ عَلَی حُکْمِ ابْنِ مُعَاذٍ ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : انْزِلُوا عَلَی حُکْمِ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ ، فَنَزَلُوا ، وَبَعَثَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِلَی سَعْدٍ ، فَحُمِلَ عَلَی حِمَارٍ لَہُ إِکَافٌ مِنْ لِیفٍ ، وَحَفَّ بِہِ قَوْمُہُ ، فَجَعَلُوا یَقُولُونَ : یَا أَبَا عَمْرٍو ، حُلَفَاؤُکَ وَمَوَالِیکَ ، وَأَہْلُ النِّکَایَۃِ وَمَنْ قَدْ عَلِمْتَ ، قَالَتْ : لاَ یَرْجِعُ إِلَیْہِمْ قَوْلاً ، حَتَّی إِذَا دَنَا مِنْ دَارِہِمَ الْتَفَتَ إِلَی قَوْمِہِ ، فَقَالَ : قَدْ أَنَی لِسَعْدٍ أَنْ لاَ یُبَالِیَ فِی اللہِ لَوْمَۃَ لاَئِمٍ ، فَلَمَّا طَلَعَ عَلَی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ أَبُو سَعِیدٍ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : قُومُوا إِلَی سَیِّدِکُمْ فَأَنْزِلُوہُ ، قَالَ عُمَرُ : سَیِّدُنَا اللَّہُ ، قَالَ : أَنْزِلُوہُ ، فَأَنْزَلُوہُ۔ قَالَ لَہُ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : اُحْکُمْ فِیہِمْ ، قَالَ : فَإِنِّی أَحْکُمُ فِیہِمْ أَنْ تُقْتَلَ مُقَاتِلَتُہُمْ ، وَتُسْبَی ذَرَارِیُّہُمْ ، وَتُقَسَّمَ أَمْوَالُہُمْ ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لَقَدْ حَکَمْتَ فِیہِمْ بِحُکْمِ اللہِ وَحُکْمِ رَسُولِہِ ، قَالَ : ثُمَّ دَعَا اللَّہَ سَعْدٌ ، فَقَالَ : اللَّہُمَّ إِنْ کُنْتَ أَبْقَیْتَ عَلَی نَبِیِّکَ مِنْ حَرْبِ قُرَیْشٍ شَیْئًا فَأَبْقِنِی لَہَا ، وَإِنْ کُنْتَ قَطَعْتَ الْحَرْبَ بَیْنَہُ وَبَیْنَہُمْ فَاقْبِضْنِی إِلَیْکَ ، فَقَالَ : فَانْفَجَرَ کَلْمُہُ ، وَکَانَ قَدْ بَرَأَ حَتَّی مَا بَقِیَ مِنْہُ إِلاَّ مِثْلُ الْخُرْصِ۔ قَالَتْ : فَرَجَعَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَرَجَعَ سَعْدٌ إِلَی قُبَّتِہِ الَّتِی کَانَ ضَرَبَ عَلَیْہِ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَتْ : فَحَضَرَہُ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَأَبُو بَکْرٍ ، وَعُمَرُ ، قَالَتْ : فَوَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ ، إِنِّی لأَعْرِفُ بُکَائَ أَبِی بَکْرٍ مِنْ بُکَائِ عُمَرَ وَأَنَا فِی حُجْرَتِی ، وَکَانُوا کَمَا قَالَ اللَّہُ تَعَالَی : {رُحَمَائُ بَیْنَہُمْ} قَالَ عَلْقَمَۃُ : فَقُلْتُ : أَیْ أُمَّہْ ، فَکَیْفَ کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَصْنَعُ؟ قَالَتْ : کَانَتْ عَیْنُہُ لاَ تَدْمَعُ عَلَی أَحَدٍ ، وَلَکِنَّہُ کَانَ إِذَا وَجَدَ فَإِنَّمَا ہُوَ آخِذٌ بِلِحْیَتِہِ۔
(٣٧٩٥١) حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ میں خندق کے دن، لوگوں کے آثار قدم کی پیروی کرتے ہوئے باہر نکلی۔ پس میں نے اپنے پیچھے لوگوں کی آہٹ سُنی۔ میں نے توجہ کی تو وہ سعد بن عبادہ تھے اور ان کے ساتھ ان کے بھتیجے حارث بن اوس تھے۔ جنہوں نے اپنی ڈھال اٹھائی ہوئی تھی۔ پس میں زمین پر بیٹھ گئی ۔ فرماتی ہیں : پس حضرت سعد گزر گئے اور انھوں نے زرہ پہنی ہوئی تھی۔ اور اس کے کنارے باہر نکلے ہوئے تھے۔ اور مجھے حضرت سعد کے کناروں سے خوف آ رہا تھا۔ فرماتی ہیں : یہ صاحب لوگوں میں سے بڑے جثہ والے اور لمبے تھے۔ فرماتی ہیں : پھر وہ رجز پڑھتے ہوئے اور یہ کہتے ہوئے گزر گئے۔
” تھوڑی دیر ٹھہر جاؤ جنگ کو زور پکڑنے دو ۔ جب وقت مقرر آجائے تو موت کتنی اچھی ہوتی ہے۔ “
٢۔ فرماتی ہیں۔ پھر میں کھڑی ہوئی اور ایک باغیچہ میں گھس گئی تو وہاں مسلمانوں کے چند افراد تھے۔ جن میں عمر بن خطاب بھی تھے اور ان میں ایک آدمی وہ بھی تھا جس پر خود تھی ۔ راوی کہتے ہیں۔۔۔ حضرت عمر نے کہا : عجیب بات ہے ! تمہیں کیا چیز لے آئی ہے ؟ عجیب بات ہے ! تمہیں کیا چیز لے آئی ہے ؟ بخدا ! تم بہت جری ہو۔ تمہیں کس چیز نے فرار اور آزمائش سے مامون کردیا ہے ؟ عائشہ فرماتی ہیں : حضرت عمر مجھے مسلسل ملامت کرتے رہے یہاں تک کہ میں نے تمنا کی کہ زمین شق ہوجائے اور میں اس میں داخل ہو جاؤں۔ فرماتی ہیں۔ پھر (دوسرے) آدمی نے اپنے چہرے سے خود اتاری تو وہ طلحہ بن عبید اللہ تھے۔ راوی کہتے ہیں : انھوں نے کہا : اے عمر ! تم پر افسوس ہے آج تم نے بہت زیادہ ملامت کی ہے۔ فرار اور آزمائش اللہ کے سوا کس کی طرف ہوسکتا ہے۔
٣۔ عائشہ فرماتی ہیں۔ مشرکین قریش میں سے ایک آدمی نے، جس کو حبان بن العرقۃ کہا جاتا تھا۔ حضرت سعد کو تیر مارا اور کہا۔ اس کو لے لو۔ میں ابن العرقۃ ہوں۔ وہ تیر حضرت سعد کی بازو کی رگ میں لگا اور اس نے وہ رگ کاٹ دی۔ سعد نے اللہ سے دعا کی ۔ اے اللہ ! تو مجھے موت نہ دینا یہاں تک کہ تو بنو قریظہ سے میری آنکھوں کو ٹھنڈا کر دے۔ یہ لوگ سعد کے جاہلیت میں حلیف اور ساتھی تھے۔ عائشہ کہتی ہیں۔ پھر ان کے زخم کا خون بند ہوگیا۔ اور اللہ تعالیٰ نے مشرکین پر ہوا بھیج دی۔ وکفی اللّٰہ المؤمنین القتال وکان اللّٰہ قویاً عزیزاً ۔
پس ابو سفیان تہامہ کے علاقہ کے ساتھ جا ملا اور عیینہ بن بدر بن حصن اور اس کے ساتھی نجد کے علاقہ کے ساتھ جا ملے اور بنو قریظہ واپس ہوگئے اور اپنے قلعوں میں قلعہ بند ہوگئے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ کی طرف واپس تشریف لے آئے اور حکم دیا تو حضرت سعد کے لیے مسجد میں خیمہ لگایا گیا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسلحہ وغیرہ رکھ دیا۔
٤۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس حضرت جبرائیل آئے اور عرض کیا۔ کیا آپ نے اسلحہ اتار دیا ہے ؟ بخدا ! فرشتوں نے تو اسلحہ نہیں اتارا۔ پس آپ بنو قریظہ کی طرف چلئے اور ان سے قتال کیجئے۔ تو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کوچ کا حکم دیا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنا سامانِ حضر زیب تن فرمایا اور نکل پڑے ۔ اور (جب) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بنو غنم کے پاس سے گزرے۔۔۔ یہ لوگ مسجد کے پڑوسی تھے ۔۔۔ تو پوچھا : کون تمہارے پاس سے گزرا ہے ؟ انھوں نے جواباً عرض کیا۔ ہمارے پاس سے حضرت دحیہ کلبی گزرے ہیں۔ حضرت دحیہ کی داڑھی اور چہرے کی شکل حضرت جبرائیل سے مشابہ تھی پھر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، بنو قریظہ کے پاس پہنچے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پچیس دن تک ان کا محاصرہ فرمایا۔ پس جب بنو قریظہ کا محاصرہ شدید ہوگیا اور ان پر مصیبت سخت ہوگئی تو انھیں کہا گیا ۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فیصلہ پر تسلیم ہو جاؤ۔ انھوں نے ابو لبابہ سے مشورہ کیا تو انھوں نے اپنے ہاتھ سے انھیں یہ اشارہ کیا کہ فیصلہ تو ذبح کا ہے۔ بنو قریظہ نے کہا۔ ہم ابن معاذ کے فیصلہ پر اترتے ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم سعد بن معاذ کے فیصلہ پر (ہی) اُتر آؤ۔ پس وہ لوگ اتر آئے۔
٥۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت سعد کی طرف کسی کو بھیجا اور انھیں گدھے پر سوار کیا گیا جس پر کھجور کی چھال کا پالان تھا اور ان کی قوم نے انھیں گھیر لیا۔ اور یہ کہنے لگے۔ اے ابو عمرو ! (یہ لوگ) تیرے حلیف اور تیرے ساتھی ہیں۔ اور تیری پہچان کے لوگ ہیں۔ عائشہ کہتی ہیں۔ حضرت سعد نے ان کو کچھ جواب نہیں دیا۔ یہاں تک کہ جب سعد ان کے گھروں کے پاس پہنچے تو فرمایا : اب سعد کے لیے وہ وقت آپہنچا ہے کہ سعد ، اللہ کے بارے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پروا نہ کرے۔
٦۔ پھر جب وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے ہوئے ابو سعید کہتے ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اپنے سردار کے لیے کھڑے ہو جاؤ اور اس کو نیچے اتارو۔ حضرت عمر نے کہا۔ ہمارا سردار اللہ تعالیٰ ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : انھیں اتارو۔ پس لوگوں نے انھیں نیچے اتارا۔
٧۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت سعد سے فرمایا : ان کے بارے میں فیصلہ کرو۔ انھوں نے عرض کیا : میں ان کے بارے میں یہ فیصلہ صادر کرتا ہوں کہ ان کے لڑنے والوں کو قتل کردیا جائے اور ان کی عورتوں ، بچوں کو قیدی بنایا جائے اور ان کے اموال کو تقسیم کرلیا جائے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا۔ بیشک تو نے ان کے بارے میں اللہ اور اس کے رسول کے فیصلہ کے مطابق (ہی) فیصلہ کیا ہے۔ راوی کہتے ہیں : پھر حضرت سعد نے اللہ سے دعا کی۔ اور فرمایا۔ اے اللہ ! اگر تو نے اپنے نبی کے خلاف قریش کی کوئی جنگ باقی رکھی ہوئی ہے تو تُو مجھے بھی اس کے لیے باقی رکھ۔ اور اگر تو نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قریش کے درمیان جنگ ختم کردی ہے تو تو مجھے اپنی طرف اٹھا لے۔ راوی کہتے ہیں۔ پس ان کا زخم پھوٹ پڑا۔ اور وہ زخم (پہلے) ختم ہوگیا تھا اور صرف ایک چھوٹے سے سوراخ جتنا رہ گیا تھا۔
٨۔ عائشہ کہتی ہیں۔ پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) واپس تشریف لے آئے اور حضرت سعد بھی اس خیمہ میں واپس آگئے جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے لیے لگوایا تھا۔ فرماتی ہیں : پھر سعد کے پاس نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور حضرت ابوبکر حضرت عمر حاضر ہوئے۔ کہتی ہیں : قسم اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے میں حضرت ابوبکر کے رونے کو حضرت عمر کے رونے سے علیحدہ پہچان لیتی تھی حالانکہ میں حجرہ میں ہوتی تھی ۔ اور یہ صحابہ ایسے تھے جیسا اللہ کا ارشاد ہے۔ رحماء بینھم علقمہ کہتے ہیں۔ میں نے کہا۔ اماں جان ! آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا کرتے تھے ؟ عائشہ نے فرمایا : آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آنکھں ل کسی پر آنسو نہیں بہاتی تھیں لیکن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جب کسی کا غم ہوتا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی داڑھی پکڑتے تھے۔

37951

(۳۷۹۵۲) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو ، قَالَ : حَدَّثَنِی عَاصِمُ بْنُ عُمَرَ بْنِ قَتَادَۃَ ، قَالَ : لَمَّا نَامَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حِینَ أَمْسَی ، أَتَاہُ جِبْرِیلُ ، أَوَ قَالَ : مَلَکٌ ، فَقَالَ : مَنْ رَجُلٌ مِنْ أُمَّتِکَ مَاتَ اللَّیْلَۃَ ، اسْتَبْشَرَ بِمَوْتِہِ أَہْلُ السَّمَائِ ؟ فَقَالَ : لاَ ، إِلاَّ أَنْ یَکُونَ سَعْدٌ ، فَإِنَّہُ أَمْسَی دَنِفًا ، مَا فَعَلَ سَعْدٌ ؟ قَالُوا : یَا رَسُولَ اللہِ ، قَدْ قُبِضَ ، وَجَائَ قَوْمُہُ فَاحْتَمَلُوہُ إِلَی دَارِہِمْ ، قَالَ : فَصَلَّی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْفَجْرَ ، ثُمَّ خَرَجَ ، وَخَرَجَ النَّاسُ ، فَبَتَّ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ النَّاسَ مَشْیًا ، حَتَّی إِنَّ شُسُوعَ نِعَالِہِمْ لَتُقْطَعُ مِنْ أَرْجُلِہِمْ ، وَإِنَّ أَرْدِیَتَہُمْ لَتَسْقُطُ عَنْ عَوَاتِقِہِمْ ، فَقَالَ رَجُلٌ : یَا رَسُولَ اللہِ ، بَتَتَّ النَّاسَ ، فَقَالَ : إِنِّی أَخْشَی أَنْ تَسْبِقَنَا إِلَیْہِ الْمَلاَئِکَۃُ کَمَا سَبَقَتْنَا إِلَی حَنْظَلَۃَ۔ قَالَ مُحَمَّدٌ : فَأَخْبَرَنِی أَشْعَثُ بْنُ إِسْحَاقَ ، قَالَ : فَحَضَرَہُ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَہُوَ یُغَسَّلُ ، قَالَ : فَقَبَضَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رُکْبَتَیْہِ ، فَقَالَ : دَخَلَ مَلَکٌ وَلَمْ یَکُنْ لَہُ مَجْلِسٌ ، فَأَوْسَعْتُ لَہُ ، وَأُمُّہُ تَبْکِی وَہِیَ تَقُولُ : وَیْلَ أُمِّ سَعْدٍ سَعْدًا ۔۔۔ بَرَاعَۃً وَجَدًّا۔ بَعْدَ أَیَادٍ یَا لَہُ وَمَجْدًا ۔۔۔ مُقَدَّمٌ سَدَّ بِہِ مَسَدًّا۔ فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : کُلُّ الْبَوَاکِی یَکْذِبْنَ إِلاَّ أُمَّ سَعْدٍ ، قَالَ مُحَمَّدٌ : وَقَالَ نَاسٌ مِنْ أَصْحَابِنَا : إِنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَمَّا خَرَجَ لِجِنَازَتِہِ ، قَالَ نَاسٌ مِنَ الْمُنَافِقِینَ : مَا أَخَفَّ سَرِیرَ سَعْدٍ ، أَوْ جِنَازَۃَ سَعْدٍ ؟ قَالَ : فَحَدَّثَنِی سَعْدُ بْنُ إِبْرَاہِیمَ ، أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ یَوْمَ مَاتَ سَعْدٌ : لَقَدْ نَزَلَ سَبْعُونَ أَلْفَ مَلَکٍ شَہِدُوا جِنَازَۃَ سَعْدٍ ، مَا وَطِئُوا الأَرْضَ قَبْلَ یَوْمَئِذٍ ۔ قَالَ مُحَمَّدٌ : فَسَمِعْتُ إِسْمَاعِیلَ بْنَ مُحَمَّدِ بْنِ سَعْدٍ ، وَدَخَلَ عَلَیْنَا الْفُسْطَاطَ ، وَنَحْنُ نَدْفِنُ وَاقِدَ بْنَ عَمْرِو بْنِ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ ، فَقَالَ : أَلاَ أُحَدِّثُکُمْ بِمَا سَمِعْتُ أَشْیَاخَنَا ؟ سَمِعْتُ أَشْیَاخَنَا یُحَدِّثُونَ ، أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ یَوْمَ مَاتَ سَعْدٌ : لَقَدْ نَزَلَ سَبْعُونَ أَلْفَ مَلَکٍ شَہِدُوا جِنَازَۃَ سَعْدٍ ، مَا وَطِئُوا الأَرْضَ قَبْلَ یَوْمَئِذٍ۔ قَالَ مُحَمَّدٌ : فَأَخْبَرَنِی أَبِی ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ عَائِشَۃَ ، قَالَتْ : مَا کَانَ أَحَدٌ أَشَدَّ فَقْدًا عَلَی الْمُسْلِمِینَ بَعْدَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَصَاحِبَیْہِ ، أَوْ أَحَدِہِمَا مِنْ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ۔ قَالَ مُحَمَّدٌ : وَحَدَّثَنِی مُحَمَّدُ بْنُ الْمُنْکَدِرِ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ شُرَحْبِیلَ ؛ أَنَّ رَجُلاً أَخَذَ قَبْضَۃً مِنْ تُرَابِ قَبْرِ سَعْدٍ یَوْمَئِذٍ ، فَفَتَحَہَا بَعْدُ فَإِذَا ہُوَ مِسْکٌ۔ قَالَ مُحَمَّدٌ : وَحَدَّثَنِی وَاقِدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ سَعْدٍ ، قَالَ : وَکَانَ وَاقِدٌ مِنْ أَحْسَنِ النَّاسِ وَأَطْوَلِہِمْ ، قَالَ : دَخَلْتُ عَلَی أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ ، قَالَ ، فَقَالَ لِی : مَنْ أَنْتَ ؟ قُلْتُ : أَنَا وَاقِدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ ، قَالَ : یَرْحَمُ اللَّہُ سَعْدًا ، إِنَّک بِسَعْدٍ لَشَبِیہٌ ، ثُمَّ قَالَ : یَرْحَمُ اللَّہُ سَعْدًا ، کَانَ مِنْ أَجْمَلِ النَّاسِ وَأَطْوَلِہِمْ ، قَالَ : بَعَثَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَعْثًا إِلَی أُکَیْدِرِ دُومَۃَ ، فَبَعَثَ إِلَیْہِ بِجُبَّۃِ دِیبَاجٍ مَنْسُوجٍ فِیہَا ذَہَبٌ ، فَلَبِسَہَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَامَ عَلَی الْمِنْبَرِ ، فَجَلَسَ فَلَمْ یَتَکَلَّمْ ، فَجَعَلَ النَّاسُ یَلْمِسُونَ الْجُبَّۃَ وَیَتَعَجَّبُونَ مِنْہَا ، فَقَالَ : أَتَعْجَبُونَ مِنْہَا ؟ قَالُوا : یَا رَسُولَ اللہِ ، مَا رَأَیْنَا ثَوْبًا أَحْسَنَ مِنْہُ ، قَالَ : فَوَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ لَمَنَادِیلُ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ فِی الْجَنَّۃِ أَحْسَنُ مِمَّا تَرَوْنَ۔ (ابن سعد ۴۲۳۔ حاکم ۲۰۵)
(٣٧٩٥٢) حضرت عاصم بن عمر بن قتادہ سے روایت ہے کہ جب رات ہوئی تو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سو گئے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس جبرائیل آئے یا فرمایا : کوئی فرشتہ آیا اور پوچھا : آپ کی امت میں سے کون سا آدمی آج رات وفات پا گیا ہے۔ آسمان والوں کو اس کی موت پر خوشی ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : سعد کے ساتھ کیا ہوا ؟ صحابہ نے بتایا۔ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! وہ فوت ہوگیا ہے۔ اور ان کی قوم والے آئے تھے اور انھیں اپنے محلہ کی طرف لے گئے ہیں۔ راوی کہتے ہیں۔ پس آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نماز فجر پڑھی اور پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چل نکلے اور لوگ بھی (آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ) چل نکلے ۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں کو (تیز) چلا کر تھکا دیا۔ یہاں تک کہ لوگوں کے تسمے ان کے پاؤں سے گرگئے اور ان کی چادریں ان کے کندھوں سے گرگئیں۔ ایک آدمی نے عرض کیا۔ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ نے لوگوں کو (تیز) چلا کر تھکا دیا ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : مجھے اس بات کا ڈر تھا کہ کہیں فرشتے سعد کی طرف ہم سے سبقت نہ کر جائیں جیسا کہ وہ حنظلہ کی طرف ہم سے سبقت کر گئے تھے۔
٢۔ محمد کہتے ہیں مجھے اشعث بن اسحاق نے بتایا کہ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کے پاس پہنچے جبکہ انھیں غسل دیا جا رہا تھا۔ راوی کہتے ہیں : پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے گھٹنے اکٹھے کرلیے اور فرمایا : ایک فرشتہ آیا ہے اور اس کے لیے بیٹھنے کی جگہ نہیں تھی پس میں نے اس کے لیے جگہ چھوڑی ہے۔ حضرت سعد کی والدہ رو رہی تھیں اور شعر کہہ رہی تھیں۔
آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ تمام رونے والیاں کذب بیانی کرتی ہیں سوائے اُمِ سعد کے۔
٣۔ محمد کہتے ہیں ہمارے ساتھیوں میں سے بعض لوگوں نے بتایا کہ جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت سعد کے جنازہ کے لیے نکلے تو منافقین میں سے بعض لوگوں نے کہا۔ سعد کا تختہ کتنا ہلکا ہے ، یا کہا : سعد کا جنازہ کتنا ہلکا ہیـ؟ راوی کہتے ہیں : مجھے سعد بن ابراہیم نے بیان کیا کہ جس دن حضرت سعد فوت ہوئے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : تحقیق ستر ہزار فرشتے اترے ہیں جو سعد کے جنازہ میں شریک ہوئے ہیں۔ انھوں نے اس دن سے پہلے (کبھی) زمین کو نہیں روندا تھا۔
٤۔ محمد کہتے ہیں : پھر میں نے اسماعیل بن محمد بن سعد کو سنا ۔۔۔ جبکہ وہ ہمارے پاس خیمہ میں داخل ہوئے اور ہم واقد بن عمرو بن سعد بن معاذ کو دفن کر رہے تھے ۔۔۔ انھوں نے کہا : کیا میں تمہیں وہ بات نہ بیان کروں جو میں نے اپنے شیوخ سے سُنی ہیَ ؟ میں نے اپنے شیوخ کو بادن کرتے سُنا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت سعد کی وفات کے دن ارشاد فرمایا : بلاشبہ ستر ہزار فرشتے سعد کے جنازہ میں آسمان سے اتر کر شریک ہوئے ہیں جنہوں نے اس دن سے پہلے زمین کو نہیں روندا تھا۔
٥۔ محمد کہتے ہیں مجھے میرے والد نے بواسطہ اپنے والد، حضرت عائشہ سے بیان کیا کہ مسلمانوں کو نبی کریم اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دو ساتھیوں (ابو بکر و عمر) یا ان میں سے ایک کے جانے کے بعد، حضرت سعد بن معاذ سے بڑھ کر کسی کی کمی کا شدت سے احساس نہیں ہوا۔
٦۔ محمد کہتے ہیں : مجھے محمد بن منکدر نے محمد بن شرحبیل کے حوالہ سے بیان کیا کہ ایک شخص نے حضرت سعد کی قبر سے اس دن (دفن کے دن) ایک مٹھی مٹی لے لی اور پھر بعد میں اس کو کھولا تو وہ مشک تھی۔
٧۔ محمد کہتے ہیں : اور مجھے واقد بن عمرو بن سعد نے (بھی) بیان کیا۔ راوی کہتے ہیں۔ واقد، خوبصورت اور دراز قد لوگوں میں سے تھے ۔۔۔ واقد کہتے ہیں : میں حضرت انس بن مالک کی خدمت میں حاضر ہوا۔ کہتے ہیں : انھوں نے مجھ سے کہا : تم کون ہو ؟ میں نے جواب دیا۔ میں واقد بن عمرو بن سعد بن معاذ ہوں ۔ انس کہنے لگے۔ اللہ تعالیٰ سعد پر رحم کرے۔ تم تو بلاشبہ سعد کے مشابہ ہو۔ پھر انھوں نے کہا۔ اللہ تعالیٰ سعد پر رحم کرے ۔ (عام) لوگوں سے دراز قد اور خوبصورت تھے۔ انس کہنے لگے : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اکیدر دومہ کی طرف ایک وفد بھیجا تو اس نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف ایک ریشمی جبہ بھیجا جس میں سونا، بُنا ہوا تھا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس جبہ کو زیب تن فرمایا پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) منبر پر کھڑے ہوئے اور پھر بیٹھ گئے لیکن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کوئی بات نہیں کی۔ لوگوں نے اس جُبہ کو ہاتھ لگانا شروع کیا اور اس کو تعجب سے دیکھا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا : کیا تم لوگ اس جبہ کو تعجب سے دیکھتے ہو ؟ لوگوں نے عرض کیا۔ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ہم نے اس سے خوبصورت کپڑا نہیں دیکھا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : قسم اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے ! جو کپڑا تم دیکھ رہے ہو، سعد بن معاذ کے جنت میں جو رومال ہیں وہ اس سے بھی خوبصورت ہیں۔

37952

(۳۷۹۵۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنِ الْبَرَائِ ، قَالَ : أُہْدِیَ لِلنَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ثَوْبُ حَرِیرٍ ، فَجَعَلُوا یَتَعَجَّبُونَ مِنْ لِینِہِ ، فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لَمَنَادِیلُ سَعْدٍ فِی الْجَنَّۃِ أَلْیَنُ مِمَّا تَرَوْنَ۔
(٣٧٩٥٣) حضرت برائ سے روایت ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ریشم کا کپڑا ہدیہ دیا گیا تو لوگوں نے اس کی ملائمی کو تعجب سے دیکھنا شروع کیا۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : تم جو کچھ دیکھ رہے ہو، سعد کے جنت کے رومال اس سے بھی زیادہ نرم ہیں۔

37953

(۳۷۹۵۴) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ آدَمَ ، قَالَ : حدَّثَنَا زُہَیْرٌ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، قَالَ : سَمِعْتُ الْمُہَلَّبَ بْنَ أَبِی صُفْرَۃَ ، یَقُولُ ، وَذَکَرَ الْحَرُورِیَّۃَ وَتَبْیِیتَہُمْ ، فَقَالَ : قَالَ أَصْحَابُ مُحَمَّدٍ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَوْمَ حُفِرَ الْخَنْدَقُ ، وَہُوَ یَخَافُ أَنْ یُبَیِّتَہُمْ أَبُو سُفْیَانَ : إِنْ بُیِّتُّمْ ، فَإِنَّ دَعْوَاکُمْ حم لاَ یُنْصَرُونَ۔
(٣٧٩٥٤) حضرت ابو اسحاق کہتے ہیں میں نے مہلب بن ابی صفرہ کو ۔۔۔جبکہ وہ حروریہ اور ان کے شب خون کا ذکر کر رہے تھے۔۔۔ کہتے سُنا۔ کہ اصحاب محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خندق والے دن فرمایا : اور (اس وقت) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خوف تھا کہ ابو سفیان شب خون مارے گا۔ اگر تم پر شب خون مارا جائے تو تم یہ کہنا۔ حم لاَ یُنْصَرُونَ ۔

37954

(۳۷۹۵۵) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : لَقَدَ اہْتَزَّ الْعَرْشُ لِحُبِّ لِقَائِ اللہِ سَعْدًا قَالَ : إِنَّمَا یَعْنِی السَّرِیرَ ، قَالَ : {وَرَفَعَ أَبَوَیْہِ عَلَی الْعَرْشِ} قَالَ : تَفَسَّخَتْ أَعْوَادُہُ ، قَالَ: دَخَلَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَبْرَہُ فَاحْتَبَسَ ، فَلَمَّا خَرَجَ ، قَالُوا: یَا رَسُولَ اللہِ ، مَا حَبَسَکَ؟ قَالَ : ضُمَّ سَعْدٌ فِی الْقَبْرِ ضَمَّۃً ، فَدَعَوْتُ اللَّہَ أَنْ یَکْشِفَ عَنْہُ۔
(٣٧٩٥٥) حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ اللہ تعالیٰ کی سعد سے ملاقات پر عرش جھوم گیا۔ یعنی تخت۔۔۔ فرمایا : { وَرَفَعَ أَبَوَیْہِ عَلَی الْعَرْشِ } راوی کہتے ہیں۔ تخت کی لکڑیاں جدا جدا ہوگئیں۔ راوی کہتے ہیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، حضرت سعد کی قبر میں داخل ہوئے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وہاں ٹھہر گئے پھر جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) باہر تشریف لائے تو لوگوں نے عرض کیا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! کس بات کی وجہ سے آپ اندر ٹھہرے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : سعد کی قبر کو ملایا گیا تو میں نے اللہ سے اس کیفیت کے ختم ہونے کی دعا کی۔

37955

(۳۷۹۵۶) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ إِدْرِیسَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِی سُفْیَانَ ، عَنْ جَابِرٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لَقَدَ اہْتَزَّ الْعَرْشُ لِمَوْتِ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ۔
(٣٧٩٥٦) حضرت جابر سے روایت ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : بلاشبہ، سعد بن معاذ کی موت پر عرش جھوم گیا ہے۔

37956

(۳۷۹۵۷) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِیلُ بْنُ أَبِی خَالِدٍ ، عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ رَاشِدٍ ، عَنِ امْرَأَۃٍ مِنَ الأَنْصَارِ ، یُقَالُ لَہَا : أَسْمَائُ بِنْتُ زَیْدِ بْنِ سَکَنٍ ، قَالَتْ : لَمَّا خُرِجَ بِجِنَازَۃِ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ صَاحَتْ أُمُّہُ ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لأُمِّ سَعْدٍ : أَلاَ یَرْقَأُ دَمْعُکِ ، وَیَذْہَبُ حُزْنُکِ ؟ إِنَّ ابْنَکِ أَوَّلُ مَنْ ضَحِکَ اللَّہُ لَہُ ، وَاہْتَزَّ لَہُ الْعَرْشُ۔
(٣٧٩٥٧) حضرت اسماء بنت یزید بن سکن سے روایت ہے کہ جب حضرت سعد کا جنازہ لے کر نکلا گیا تو آپ کی والدہ نے چیخ ماری۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت سعد کی والدہ سے فرمایا : کیا تمہارے آنسو بند نہیں ہوں گے اور تمہارا غم ختم نہیں ہوگا ؟ حالانکہ تیرا بیٹا پہلا شخص ہے جس کو دیکھ کر اللہ تعالیٰ نے ضحک فرمایا : اور اس کی وجہ سے عرش جھوم گیا۔

37957

(۳۷۹۵۸) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ جَدِّہِ ، عَنْ عَائِشَۃَ ، قَالَتْ : قَدِمْنَا فِی حَجٍّ ، أَوْ عُمْرَۃٍ فَتُلُقِّینَا بِذِی الْحُلَیْفَۃِ ، وَکَانَ غِلْمَانُ الأَنْصَارِ یَتَلَقَّوْنَ أَہَالِیَہُمْ ، فَلَقُوا أُسَیْدَ بْنَ حُضَیْرٍ ، فَنَعَوْا لَہُ امْرَأَتَہُ فَتَقَنَّعَ ، فَجَعَلَ یَبْکِی ، فَقُلْتُ : غَفَرَ اللَّہُ لَکَ ، أَنْتَ صَاحِبُ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَلَکَ مِنَ السَّابِقَۃِ وَالْقِدَمِ مَالَکَ ، وَأَنْتَ تَبْکِی عَلَی امْرَأَۃٍ ، قَالَتْ : فَکَشَفَ رَأْسَہُ ، فَقَالَ : صَدَقْتِ لَعَمْرِی ، لَیَحُقَّنَّ أَنْ لاَ أَبْکِیَ عَلَی أَحَدٍ بَعْدَ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ ، وَقَدْ قَالَ لَہُ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا قَالَ ، قُلْتُ : وَمَا قَالَ لَہُ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ؟ قَالَ : لَقَدَ اہْتَزَّ الْعَرْشُ لِوَفَاۃِ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ ، قَالَتْ : وَہُوَ یَسِیرُ بَیْنِی وَبَیْنَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔
(٣٧٩٥٨) حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ ہم حج یا عمرہ کے سلسلہ میں آئے اور ذوالحلیفہ سے ہمارا استقبال کیا گیا۔ انصار کے بچے اپنے گھر والوں کا استقبال کیا کرتے تھے۔ لوگ حضرت اسید ابن حضیر سے ملے اور انھیں ان کی اہلیہ کی وفات کی خبر دی۔ انھوں نے سر پر کپڑا کرلیا اور رونا شروع کردیا۔ میں نے ان سے کہا : اللہ تعالیٰ تمہاری بخشش کریں۔ تم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھی ہو اور تمہیں سبقت اور قدامت میں بھی ایک مقام حاصل ہے اور تم ایک عورت پر رو رہے ہو ؟ عائشہ کہتی ہیں۔ انھوں نے اپنا سر کھول دیا اور کہا : میری عمر کی قسم ! آپ نے سچ کہا ہے۔ حضرت سعدبن معاذ کے بعد کسی پر بھی رونے کا حق باقی نہیں ہے۔ ا ن کے بارے میں تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جو فرما دیا تھا فرما دیا تھا۔ میں نے پوچھا : آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے بارے میں کیا کہا تھا۔ انھوں نے کہا۔ (یہ کہا تھا) بلاشبہ ! سعد بن معاذ کی وفات پر عرش بھی جھوم گیا ہے۔ عائشہ کیتر ہیں۔ اُسید ، میرے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے درمیان چل رہے تھے۔

37958

(۳۷۹۵۹) حَدَّثَنَا ہَوْذَۃُ بْنُ خَلِیفَۃَ ، عَنْ عَوْفٍ، عَنْ أَبِی نَضْرَۃَ، عَنْ أَبِی سَعِیدٍ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، قَالَ : اہْتَزَّ الْعَرْشُ لِمَوْتِ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ۔
(٣٧٩٥٩) حضرت ابو سعید ، نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کرتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : بیشک سعد بن معاذ کی موت پر عرش جھوم اٹھا ہے۔

37959

(۳۷۹۶۰) حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ بْنُ مُوسَی ، عَنْ إِسْرَائِیلَ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ رَجُلٍ حَدَّثَہُ ، عَنْ حُذَیْفَۃَ ، قَالَ : لَمَّا مَاتَ سَعْدُ بْنُ مُعَاذٍ ، قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : اہْتَزَّ الْعَرْشُ لِرُوحِ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ۔
(٣٧٩٦٠) حضرت حذیفہ سے روایت ہے کہ جب حضرت سعد بن معاذ کی موت واقع ہوئی تو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : حضرت سعد بن معاذ کی روح سے عرش جھوم اٹھا ہے۔

37960

(۳۷۹۶۱) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، قَالَ : حدَّثَنَا ہِشَامُ بْنُ عُرْوَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ عَائِشَۃَ ، قَالَتْ : أُصِیبَ أَکْحَلُ سَعْدٍ یَوْمَ الْخَنْدَقِ ، رَمَاہُ رَجُلٌ یُقَالُ لَہُ ابْنُ الْعَرِقَۃِ ، قَالَتْ : فَحَوَّلَہُ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِلَی الْمَسْجِدِ ، وَضَرَبَ عَلَیْہِ خَیْمَۃً لِیَعُودَہُ مِنْ قَرِیبٍ۔ (بخاری ۴۶۳۔ مسلم ۶۶)
(٣٧٩٦١) حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ خندق والے دن حضرت سعد کی بازو کی رگ زخمی ہوگئی تھی۔ آپ کو ایک ابن العرقہ نامی شخص نے تیر مارا تھا۔ عائشہ کہتی ہیں۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو مسجد کی طرف منتقل کردیا اور ان پر ایک خیمہ لگا دیا گیا تاکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کی قریب ہی سے عیادت کرسکیں۔

37961

(۳۷۹۶۲) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ عَائِشَۃَ ؛ فِی قَوْلِہِ : {إِذْ جَائُ وکُمْ مِنْ فَوْقِکُمْ وَمِنْ أَسْفَلَ مِنْکُمْ، وَإِذْ زَاغَتِ الأَبْصَارُ، وَبَلَغَتِ الْقُلُوبُ الْحَنَاجِرَ} قَالَتْ: کَانَ ذَاکَ یَوْمَ الْخَنْدَقِ۔ (بخاری ۴۱۰۳۔ مسلم ۲۳۱۶)
(٣٧٩٦٢) حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ {إِذْ جَائُ وکُمْ مِنْ فَوْقِکُمْ وَمِنْ أَسْفَلَ مِنْکُمْ ، وَإِذْ زَاغَتِ الأَبْصَارُ ، وَبَلَغَتِ الْقُلُوبُ الْحَنَاجِرَ } یہ حالت خندق والے دن کی تھی۔

37962

(۳۷۹۶۳) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ؛ أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صَافَّ الْمُشْرِکِینَ یَوْمَ الْخَنْدَقِ ، قَالَ ، وَکَانَ یَوْمًا شَدِیدًا لَمْ یَلْقَ الْمُسْلِمُونَ مِثْلَہُ قَطُّ ، قَالَ : وَرَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ جَالِسٌ ، وَأَبُو بَکْرٍ مَعَہُ جَالِسٌ ، وَذَلِکَ زَمَانُ طَلْعِ النَّخْلِ ، قَالَ : وَکَانُوا یَفْرَحُونَ بِہِ إِذَا رَأَوْہُ فَرَحًا شَدِیدًا ، لأَنَّ عَیْشَہُمْ فِیہِ ، قَالَ ، فَرَفَعَ أَبُو بَکْرٍ رَأْسَہُ فَبَصُرَ بِطَلْعَۃٍ ، وَکَانَتْ أَوَّلَ طَلْعَۃٍ رُئِیَتْ ، قَالَ : فَقَالَ ہَکَذَا بِیَدِہِ : طَلْعَۃٌ یَا رَسُولَ اللہِ ، مِنَ الْفَرَحِ ، قَالَ : فَنَظَرَ إِلَیْہِ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَتَبَسَّمَ ، وَقَالَ : اللَّہُمَّ لاَ تَنْزِعْ مِنَّا صَالِحَ مَا أَعْطَیْتَنَا ، أَوْ صَالِحًا أَعْطَیْتَنَا۔
(٣٧٩٦٣) حضرت ہشام بن عروہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ خندق کے دن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مشرکین کے مقابل صف بندی فرمائی۔ راوی کہتے ہیں : یہ بہت سخت دن تھا۔ مسلمانوں نے اس جیسا دن کبھی نہیں دیکھا تھا۔ راوی کہتے ہیں : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف فرما تھے اور حضرت ابوبکر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ تشریف فرما تھے اور یہ وقت کھجوروں کی پیداواری کا تھا۔ راوی کہتے ہیں۔ لوگ کھجور کے زمانہ کو دیکھ کر بہت خوش ہوتے تھے کیونکہ ان کی زندگی (کا مدار ہی) اس پر تھا۔ راوی کہتے ہیں : پھر ابوبکر نے سر اٹھایا تو انھیں کھجور کا شگوفہ دکھائی دیا۔ یہ پہلا دکھائی دینے والا شگوفہ تھا۔ راوی کہتے ہیں : انھوں نے خوشی کی وجہ سے اپنے ہاتھ سے اشارہ کر کے کہا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! شگوفہ۔ راوی کہتے ہیں : آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کی طرف دیکھ کر تبسم فرمایا۔ اے اللہ ! جو صالح چیز تو ہمیں عطا کرے وہ ہم سے واپس نہ چھیننا۔

37963

(۳۷۹۶۴) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُرَحْبِیلَ ، قَالَ : لَمَّا أُصِیبَ سَعْدُ بْنُ مُعَاذٍ بِالرَّمْیَۃِ یَوْمَ الْخَنْدَقِ ، وَجَعَلَ دَمُہُ یَسِیلُ عَلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَجَائَ أَبُو بَکْرٍ ، فَجَعَلَ یَقُولُ : وَا انْقِطَاعُ ظَہْرَاہُ ، فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَہْ یَا أَبَا بَکْرٍ ، فَجَائَ عُمَرُ ، فَقَالَ : إِنَّا لِلَّہِ وَإِنَّا إلَیْہِ رَاجِعُونَ۔
(٣٧٩٦٤) حضرت عمرو بن شرحبیل سے روایت ہے کہ جب حضرت سعد بن معاذ کو خندق والے دن تیر لگ گیا اور ان کا خون نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر بہنے لگا تو حضرت ابوبکر حاضر ہوئے اور کہنے لگے۔ ان کی کمر ٹوٹ گئی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ابوبکر ! ٹھہر جاؤ۔ پھر حضرت عمر حاضر ہوئے اور کہا : انا للہ وانا الیہ راجعون۔

37964

(۳۷۹۶۵) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : کَانَ فِی أَصْحَابِ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَجُلٌ یُقَالُ لَہُ : مَسْعُود ، وَکَانَ نَمَّامًا ، فَلَمَّا کَانَ یَوْمُ الْخَنْدَقِ بَعَثَ أَہْلُ قُرَیْظَۃَ إِلَی أَبِی سُفْیَانَ: أَنَ ابْعَثْ إِلَیْنَا رِجَالاً یَکُونُونَ فِی آطَامِنَا ، حَتَّی نُقَاتِلَ مُحَمَّدًا مِمَّا یَلِی الْمَدِینَۃَ ، وَتُقَاتِلَ أَنْتَ مِمَّا یَلِی الْخَنْدَقَ ، فَشَقَّ ذَلِکَ عَلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، أَنْ یُقَاتَلَ مِنْ وَجْہَیْنِ ، فَقَالَ لِمَسْعُودٍ : یَا مَسْعُودُ ، إِنَّا نَحْنُ بَعَثْنَا إِلَی بَنِی قُرَیْظَۃَ : أَنْ یُرْسِلُوا إِلَی أَبِی سُفْیَانَ ، فَیُرْسِلَ إِلَیْہِمْ رِجَالاً ، فَإِذَا أَتَوْہُمْ قَتَلُوہُمْ ، قَالَ : فَمَا عَدَا أَنْ سَمِعَ ذَلِکَ مِنَ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : فَمَا تَمَالَکَ حَتَّی أَتَی أَبَا سُفْیَانَ فَأَخْبَرَہُ ، فَقَالَ : صَدَقَ وَاللہِ مُحَمَّدٌ ، مَا کَذَبَ قَطُّ ، فَلَمْ یَبْعَثْ إِلَیْہِمْ أَحَدًا۔
(٣٧٩٦٥) حضرت ہشام ، اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھیوں میں ایک صاحب تھے جنہیں ” مسعود “ کہا جاتا تھا۔ یہ بہت چغل خور تھے۔ پس جب خندق کا دن تھا تو بنو قریظہ نے ابو سفیان کی طرف پیغام بھیجا ۔ تم ہماری طرف کچھ بندے بھیج دو جو ہمارے قلعوں میں (مورچہ زن) ہوں تاکہ ہم محمد کے ساتھ مدینہ کی (اندرونی) طرف سے قتال کریں اور تم لوگ خندق کی طرف سے قتال کرو۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دو جانب سے لڑنا مشکل محسوس ہوا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مسعود سے کہا۔ اے مسعود ! ہم نے بنو قریظہ کی طرف یہ پیغام بھیجا ہے کہ وہ ابو سفیان کی طرف اپنے افراد بھیجیں جب ابو سفیان ان کی طرف اپنے آدمی بھیجے گا تو بنو قریظہ والے ان کو قتل کردیں گے۔ جب مسعودنے یہ بات سنی تو ان سے صبر نہ ہوا اور انھوں نے یہ بات جا کر ابوسفیان کو بتادی۔ ابوسفیان نے کہا کہ خدا کی قسم ! محمد نے ہمیشہ سچ کہا کبھی جھوٹ نہیں بولا۔ چنانچہ اس نے بنو قریظہ کی طرف کسی کو نہیں بھیجا۔ (حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ عمل جنگی تدبیر کا حصہ تھا) ۔

37965

(۳۷۹۶۶) حَدَّثَنَا وَکِیعُ بْنُ الْجَرَّاحِ ، قَالَ : حدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ أَیْمَنَ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : مَکَثَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابُہُ یَحْفِرُونَ الْخَنْدَقَ ثَلاَثًا ، مَا ذَاقُوا طَعَامًا ، فَقَالُوا : یَا رَسُولَ اللہِ ، إِنَّ ہَاہُنَا کُدْیَۃً مِنَ الْجَبَلِ ، یَعْنِی قِطْعَۃً مِنَ الْجَبَلِ ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : رُشُّوا عَلَیْہَا الْمَائَ ، فَرَشُّوہَا ، ثُمَّ جَائَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَأَخَذَ الْمِعْوَلَ ، أَوِ الْمِسْحَاۃَ ، ثُمَّ قَالَ : بِسْمِ اللہِ ، ثُمَّ ضَرَبَ ثَلاَثًا فَصَارَتْ کَثِیبًا ، قَالَ جَابِرٌ : فَحَانَتْ مِنِّی الْتِفَاتَۃٌ ، فَرَأَیْتُ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَدْ شَدَّ عَلَی بَطْنِہِ حَجَرًا۔ (بخاری ۴۱۰۱۔ دارمی ۴۲)
(٣٧٩٦٦) حضرت جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ تین دن اس حالت میں خندق کھودتے رہے کہ انھوں نے کھانا چکھا بھی نہیں۔ پھر صحابہ نے عرض کیا۔ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! پہاڑ کا کوئی سخت حصہ آگیا ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اس پر پانی چھڑکو۔ پس صحابہ کرام نے اس قطعہ پر پانی کا چھڑکاؤ کیا پھر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے اور کدال یا پھاؤڑا ہاتھ میں لیا اور فرمایا : بسم اللہ۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تین ضربیں لگائیں تو وہ قطعہ ریت کا ڈھیر بن گیا۔ حضرت جابر کہتے ہیں : فَحَانَتْ مِنِّی الْتِفَاتَۃٌ تو میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیکھا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے پیٹ مبارک پر پتھر باندھا ہوا تھا۔

37966

(۳۷۹۶۷) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِِ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنِ الْبَرَائِ ، قَالَ : رَأَیْتُ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَوْمَ الْخَنْدَقِ یَنْقُلُ التُّرَابَ ، حَتَّی وَارَی التُّرَابُ شَعْرَ صَدْرِہِ ، وَہُوَ یَرْتَجِزُ بِرَجَزِ عَبْدِ اللہِ بْنِ رَوَاحَۃَ یَقُولُ: اللَّہُمَّ لَوْ لاَ أَنْتَ مَا اہْتَدَیْنَا فَأَنْزِلَنْ سَکِینَۃً عَلَیْنَا إِنَّ الأُلَی قَدْ بَغَوْا عَلَیْنَا وَلاَ تَصَدَّقْنَا وَلاَ صَلَّیْنَا وَثَبِّتِ الأَقْدَامَ إِنْ لاَقَیْنَا وَإِنْ أَرَادُوا فِتْنَۃً أَبَیْنَا
(٣٧٩٦٧) حضرت برائ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خندق والے دن مٹی ڈھوتے ہوئے دیکھا ۔ یہاں تک کہ مٹی نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سینہ مبارک کے بالوں کو چھپا دیا تھا۔ اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عبداللہ بن رواحہ کے رجز کو پڑھ رہے تھے اور فرما رہے تھے :
” اے اللہ ! اگر تو نہ ہوتا تو ہم راہ راست پر نہ آتے، اور نہ ہم صدقہ دیتے اور نہ نماز پڑھتے۔ “
” پس تو ہم پر سکینہ کو نازل فرما، اور قدموں کو ثابت رکھ اگر ہماری ملاقات (دشمن سے) ہو۔ “
” بلاشبہ ان لوگوں نے ہم پر سرکشی کی ہے، اور اگر وہ فتنہ چاہیں گے تو اہم انکار کریں گے۔ “

37967

(۳۷۹۶۸) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنْ حُمَیْدٍ ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ : خَرَجَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ غَدَاۃً بَارِدَۃً ، وَالْمُہَاجِرُونَ وَالأَنْصَارُ یَحْفِرُونَ الْخَنْدَقَ ، فَلَمَّا نَظَرَ إِلَیْہِمْ ، قَالَ : إِنَّ الْعَیْشَ عَیْشُ الآخِرَۃِ فَاغْفِرْ لِلأَنْصَارِ وَالْمُہَاجِرَہْ فَأَجَابُوہُ : نَحْنُ الَّذِینَ بَایَعُوا مُحَمَّدَا عَلَی الْجِہَادِ مَا بَقِینَا أَبَدَا
(٣٧٩٦٨) حضرت انس سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک ٹھنڈی صبح کو باہر تشریف لائے۔ مہاجرین و انصار خندق کھود رہے تھے۔ تو جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نظر ان پر پڑی تو فرمایا :
” بلاشبہ زندگی تو آخرت کی زندگی ہے۔ پس (اے اللہ ! ) تو انصار اور مہاجرین کی مغفرت فرما۔ “
صحابہ کرام نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جواباً کہا :” ہم وہ لوگ ہیں جنہوں نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیعت کی ۔ فریضہ جہاد پر جب تک ہم باقی رہیں۔ “

37968

(۳۷۹۶۹) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا ابْنُ أَبِی ذِئْبٍ ، عَنِ الْمَقْبُرِیِّ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : حُبِسْنَا یَوْمَ الْخَنْدَقِ عَنِ الظُّہْرِ ، وَالْعَصْرِ ، وَالْمَغْرِبِ ، وَالْعِشَائِ حَتَّی کُفِینَا ذَلِکَ ، وَذَلِکَ قَوْلُ اللہِ : {وَکَفَی اللَّہُ الْمُؤْمِنِینَ الْقِتَالَ ، وَکَانَ اللَّہُ قَوِیًّا عَزِیزًا} فَقَامَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَأَمَرَ بِلاَلاً فَأَقَامَ ، ثُمَّ صَلَّی الظُّہْرَ کَمَا کَانَ یُصَلِّیہَا قَبْلَ ذَلِکَ ، ثُمَّ أَقَامَ الْعَصْرَ فَصَلاَہَا کَمَا کَانَ یُصَلِّیہَا قَبْلَ ذَلِکَ ، ثُمَّ أَقَامَ فَصَلَّی الْمَغْرِبَ کَمَا کَانَ یُصَلِّیہَا قَبْلَ ذَلِکَ ، ثُمَّ أَقَامَ فَصَلَّی الْعِشَائَ کَمَا کَانَ یُصَلِّیہَا قَبْلَ ذَلِکَ ، وَذَلِکَ قَبْلَ أَنْ یَنْزِلَ : {فَإِنْ خِفْتُمْ فَرِجَالاً ، أَوْ رُکْبَانًا}۔
(٣٧٩٦٩) حضرت عبد الرحمن بن ابو سعید خدری اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ خندق کے دن ہمیں ظہر، عصر اور مغرب ، عشا سے محبوس رکھا گیا ۔ یہاں تک کہ ہمیں اس سے کفایت دے دی گئی۔ یہی ارشاد خداوندی (کا معنی) ہے۔ { وَکَفَی اللَّہُ الْمُؤْمِنِینَ الْقِتَالَ ، وَکَانَ اللَّہُ قَوِیًّا عَزِیزًا } پھر نبی کریم کھڑے ہوئے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت بلال کو حکم دیا۔ انھوں نے اقامت کہی۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ظہر کی نماز پڑھی ، جیسا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس سے پہلے ظہر کی نماز پڑھتے تھے۔ پھر حضرت بلال نے عصر کے لیے اقامت کہی اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عصر کی نماز بھی ادا کی جس طرح آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، عصر کی نماز پہلے پڑھتے تھے۔ پھر حضرت بلال نے اقامت کہی اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مغرب کی نماز ادا فرمائی جیسا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس سے پہلے مغرب پڑھتے تھے۔ پھر حضرت بلال نے اقامت کہی اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عشا کی نماز ادا کی جس طرح آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس سے پہلے عشاء ادا کرتے تھے۔ اور یہ واقعہ { فَإِنْ خِفْتُمْ فَرِجَالاً ، أَوْ رُکْبَانًا } کے نازل ہونے سے پہلے کا ہے۔

37969

(۳۷۹۷۰) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ، عَنْ سَعِیدٍ ، أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَمْ یُصَلِّ یَوْمَ الْخَنْدَقِ الظُّہْرَ ، وَالْعَصْرَ حَتَّی غَابَتِ الشَّمْسُ۔
(٣٧٩٧٠) حضرت سعید سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خندق کے دن غروب شمس تک ظہر اور عصر ادا نہیں کی تھی۔

37970

(۳۷۹۷۱) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ إِدْرِیسَ ، عَنْ أَبِی مَعْشَرٍ ، قَالَ : جَائَ الْحَارِثُ بْنُ عَوْفٍ ، وَعُیَیْنَۃُ بْنُ حِصْنٍ ، فَقَالاَ لِرَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَامَ الْخَنْدَقِ : نَکُفُّ عَنْکَ غَطَفَانَ ، عَلَی أَنْ تُعْطِیَنَا ثِمَارَ الْمَدِینَۃِ ، قَالَ : فَرَاوَضُوہُ حَتَّی اسْتَقَامَ الأَمْرُ عَلَی نِصْفِ ثِمَارِ الْمَدِینَۃِ ، فَقَالُوا : اُکْتُبْ بَیْنَنَا وَبَیْنَکَ کِتَابًا ، فَدَعَا بِصَحِیفَۃٍ، قَالَ : وَالسَّعْدَانِ ؛ سَعْدُ بْنُ مُعَاذٍ ، وَسَعْدُ بْنُ عُبَادَۃَ جَالِسَانِ ، فَأَقْبَلاَ عَلَی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالاَ : أَشَیْئٌ أَتَاکَ عَنِ اللہِ ، لَیْسَ لَنَا أَنْ نَعْرِضَ فِیہِ ؟قَالَ : لاَ ، وَلَکِنِّی أَرَدْتُ أَنْ أَصْرِفَ وُجُوہَ ہَؤُلاَئِ عَنِّی، وَیَفْرُغَ وَجْہِی لِہَؤُلاَئِ ، قَالَ : قَالاَ لَہُ : مَا نَالَتْ مِنَّا الْعَرَبُ فِی جَاہِلِیَّتِنَا شَیْئًا إِلاَّ بِشِرًی ، أَوْ قِرًی۔ (بخاری ۲۹۳۱۔ مسلم ۴۳۶)
(٣٧٩٧١) حضرت ابو معشر سے روایت ہے کہ حارث بن عوف اور عیینہ بن حصن آئے اور انھوں نے عام خندق میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا۔ ہم آپ سے غطفان کو روک کر رکھیں گے اس شرط پر کہ آپ ہمیں مدینہ کے پھل دیں گے۔ راوی کہتے ہیں : پھر انھوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کمی بیشی کی بات کی اور معاملہ مدینہ کے نصف پھلوں پر طے ہوگیا۔ انھوں نے کہا۔ ہمارے اور اپنے مابین آپ کوئی تحریر لکھ دیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کاغذ منگوایا ۔ راوی کہتے ہیں : سعد بن معاذ اور سعد بن عبادہ دونوں تشریف فرما تھے۔ وہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف متوجہ ہوئے اور عرض کیا۔ کیا آپ کے پاس اللہ کی طرف سے کوئی ایسی بات آئی ہے جس سے ہم اعراض نہیں کرسکتے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : نہیں ! الیکن میرا ارادہ ہے کہ میں ان لوگوں کے چہروں کو خود سے پھیر دوں اور میں اپنے چہرے کو ان کے لیے فارغ کرنا چاہتا ہوں۔ راوی کہتے ہیں۔ دونوں صحابیوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا۔ ہماری جاہلیت کے زمانہ میں عرب نے کبھی ہم سے کچھ نہیں لیا تھا۔ سوائے خریداری اور مہمان نوازی کے۔

37971

(۳۷۹۷۲) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا ہِشَامُ بْنُ حَسَّانَ ، عَنْ مُحَمَّدٍ ، عَنْ عَبِیْدَۃَ ، عَنْ عَلِیٍّ ؛ أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ یَوْمَ الْخَنْدَقِ : حَبَسُونَا عَنِ الصَّلاَۃِ الْوُسْطَی ، صَلاَۃِ الْعَصْرِ ، مَلأَ اللَّہُ بُیُوتَہُمْ وَقُبُورَہُمْ نَارًا۔
(٣٧٩٧٢) حضرت علی سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خندق والے دن ارشاد فرمایا : انھوں (مشرکین) نے ہمیں صلوۃ وسطی یعنی عصر کی نماز سے روکا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے گھروں اور ان کی قبروں کو آگ سے بھر دے۔

37972

(۳۷۹۷۳) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، وَابْنُ إِدْرِیسَ ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ: عَرَضَنِی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَوْمَ الْخَنْدَقِ وَأَنَا ابْنُ خَمْسَ عَشْرَۃَ فَأَجَازَنِی ۔ إِلاَّ أَنَّ ابْنَ إِدْرِیسَ قَالَ : عُرِضْتُ۔
(٣٧٩٧٣) حضرت ابن عمر سے روایت ہے۔ مجھے خندق والے دن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس پیش کیا گیا اور میری عمر پندرہ سال تھی۔ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے اجازت عنایت فرما دی۔ ابن ادریس کی روایت میں عُرِضت ہے۔

37973

(۳۷۹۷۴) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنْ أَبِیہِ ؛ أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ یَوْمَ الْخَنْدَقِ : مَنْ رَجُلٌ یَذْہَبُ فَیَأْتِینَا بِخَبَرِ بَنِی قُرَیْظَۃَ ؟ فَرَکِبَ الزُّبَیْرُ فَجَائَہُ بِخَبَرِہِمْ ، ثُمَّ عَادَ ، فَقَالَ ثَلاَثَ مَرَّاتٍ : مَنْ یَجِیئُنِی بِخَبَرِہِمْ ؟ فَقَالَ الزُّبَیْرُ : نَعَمْ ، قَالَ : وَجَمَعَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِلزُّبَیْرِ أَبَوَیْہِ ، فَقَالَ : فِدَاکَ أَبِی وَأُمِّی ، وَقَالَ لِلزُّبَیْرِ : لِکُلِّ نَبِیٍّ حَوَارِی ، وَحِوَارِیِّ الزُّبَیْرُ ، وَابْنُ عَمَّتِی۔
(٣٧٩٧٤) حضرت ہشام، اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خندق والے دن ارشاد فرمایا : کون آدمی جائے گا اور ہمیں بنو قریظہ کی خبر لا کر دے گا ؟ حضرت زبیر سوار ہوگئے اور بنو قریظہ کے بارے میں خبر لے آئے۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ بات دہرائی اور تین مرتبہ فرمایا۔ کون مجھے ان کی خبر لا کر دے گا ؟ تو حضرت زبیر نے کہا : جی ہاں ! راوی کہتے ہیں : نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت زبیر کے لیے اپنے والدین کو جمع فرما کر ارشاد فرمایا : تم پر میرے ماں، باپ قربان ہوں اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت زبیر سے فرمایا : ہر نبی کا کوئی حواری ہوتا ہے اور میرا حواری زبیر اور میری پھوپھی کا بیٹا ہے۔

37974

(۳۷۹۷۵) حَدَّثَنَا ہَوْذَۃُ بْنُ خَلِیفَۃَ ، قَالَ : حدَّثَنَا عَوْفٌ ، عَنْ مَیْمُونٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا الْبَرَائُ بْنُ عَازِبٍ ، قَالَ : لَمَّا کَانَ حَیْثُ أَمَرَنَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ نَحْفِرَ الْخَنْدَقَ ، عَرَضَ لَنَا فِی بَعْضِ الْجَبَلِ صَخْرَۃٌ عَظِیمَۃٌ شَدِیدَۃٌ ، لاَ تَدْخُلُ فِیہَا الْمَعَاوِلُ ، فَاشْتَکَیْنَا ذَلِکَ إِلَی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَجَائَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَلَمَّا رَآہَا أَخَذَ الْمِعْوَلَ وَأَلْقَی ثَوْبَہُ ، وَقَالَ : بِسْمِ اللہِ ، ثُمَّ ضَرَبَ ضَرْبَۃً فَکَسَرَ ثُلُثَہَا ، فَقَالَ : اَللَّہُ أَکْبَرُ ، أُعْطِیتُ مَفَاتِیحَ الشَّامِ ، وَاللہِ إِنِّی لأَبْصِرُ قُصُورَہَا الْحُمْرَ السَّاعَۃَ ، ثُمَّ ضَرَبَ الثَّانِیَۃَ فَقَطَعَ ثُلُثًا آخَرَ ، فَقَالَ : اللَّہُ أَکْبَرُ ، أُعْطِیتُ مَفَاتِیحَ فَارِسَ ، وَاللہِ إِنِّی لأُبْصِرُ قَصْرَ الْمَدَائِنِ الأَبْیَضَ ، ثُمَّ ضَرَبَ الثَّالِثَۃَ ، فَقَالَ : بِسْمِ اللہِ ، فَقَطَعَ بَقِیَّۃَ الْحَجَرِ ، وَقَالَ : اللَّہُ أَکْبَرُ ، أُعْطِیتُ مَفَاتِیحَ الْیَمَنِ ، وَاللہِ إِنِّی لأَبْصِرُ أَبْوَابَ صَنْعَائَ۔ (احمد ۳۰۳۔ ابویعلی ۱۶۸۱)
(٣٧٩٧٥) حضرت براء بن عازب سے روایت ہے کہ جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں حکم دیا کہ ہم خندق کھودیں تو ایک پہاڑ کے اندر ہمارے سامنے ایک بڑی چٹان آگئی۔ جس میں کدالیں داخل نہیں ہوتی تھیں۔ ہم نے اس بات کی شکایت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے کی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے۔ پس جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے چٹان کو دیکھا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کدال ہاتھ میں لی اور اپنا کپڑا رکھ دیا۔ اور فرمایا : بسم اللہ۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک ضرب لگائی تو ایک تہائی چٹان ٹوٹ گئی۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ اکبر ! شام کی چابیاں عطا کردی گئیں ہیں۔ بخدا ! مجھے اس وقت اس کے سرخ محلات دکھائی دے رہے ہیں۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دوسری ضرب لگائی ۔ تو ایک تہائی چٹان مزید ٹوٹ گئی۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ اکبر ! فارس (کے خزانوں) کی چابیاں عطا کردی گئی ہیں۔ بخدا ! مجھے مدائن کا سفید محل دکھائی دے رہا ہے۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تیسری ضرب لگائی اور فرمایا : بسم اللہ ! تو بقیہ چٹان بھی ٹوٹ گئی اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ اکبر ! یمن (کے خزانوں) کی کنجیاں عطا کردی گئی ہیں۔ بخدا ! مجھے صنعاء کے دروازے دکھائی دے رہے ہیں۔

37975

(۳۷۹۷۶) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ، قَالَ: أَخْبَرَنَا أَبُو الزُّبَیْرِ، عَنْ نَافِعِ بْنِ جُبَیْرٍ، عَنْ أَبِی عُبَیْدَۃَ، عَنْ عَبْدِاللہِ؛ أَنَّ الْمُشْرِکِینَ شَغَلُوا النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَوْمَ الْخَنْدَقِ عَنْ أَرْبَعِ صَلَوَاتٍ ، حَتَّی ذَہَبَ مِنَ اللَّیْلِ مَا شَائَ اللَّہُ ، فَأَمَرَ بِلاَلا ، فَأَذَّنَ وَأَقَامَ الظُّہْرَ ، ثُمَّ أَقَامَ فَصَلَّی الْعَصْرَ ، ثُمَّ أَقَامَ فَصَلَّی الْمَغْرِبَ ، ثُمَّ أَقَامَ فَصَلَّی الْعِشَائَ۔
(٣٧٩٧٦) حضرت عبداللہ سے روایت ہے کہ مشرکین نے خندق والے دن نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو چار نماز سے مشغول رکھا یہاں تک کہ رات کا جتنا حصہ اللہ نے چاہا گزر گیا پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت بلال کو حکم دیا ۔ انھوں نے اذان دی اور اقامت کہی اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ظہر کی نماز پڑھی پھر حضرت بلال نے اقامت کہی اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عصر کی نماز پڑھی پھر حضرت بلال نے اقامت کہی اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مغرب کی نماز پڑھی پھر حضرت بلال نے اقامت کہی اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عشاء کی نماز پڑھی۔

37976

(۳۷۹۷۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ عَبْدِ الْکَرِیمِ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ ؛ أَنَّ صَفِیَّۃَ کَانَتْ مَعَ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَوْمَ الْخَنْدَقِ۔
(٣٧٩٧٧) حضرت عکرمہ سے روایت ہے کہ حضرت صفیہ خندق والے دن نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہمراہ تھیں۔

37977

(۳۷۹۷۸) حَدَّثَنَا وَکِیعُ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ عَبْدِ الْکَرِیمِ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ ، قَالَ : لَمَّا کَانَ یَوْمُ الْخَنْدَقِ قَامَ رَجُلٌ مِنَ الْمُشْرِکِینَ ، فَقَالَ : مَنْ یُبَارِزُ ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : قُمْ یَا زُبَیْرُ ، فَقَالَتْ صَفِیَّۃُ : یَا رَسُولَ اللہِ ، وَاحِدِی ، فَقَالَ : قُمْ یَا زُبَیْرُ ، فَقَامَ الزُّبَیْرُ ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : أَیُّہُمَا عَلاَ صَاحِبَہُ قَتَلَہُ ، فَعَلاَہُ الزُّبَیْرُ فَقَتَلَہُ ، ثُمَّ جَائَ بِسَلَبِہِ ، فَنَفَّلَہُ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِیَّاہُ۔
(٣٧٩٧٨) حضرت عکرمہ سے روایت ہے کہ جب خندق کا دن تھا اور مشرکین میں سے ایک آدمی کھڑا ہوا اور پوچھا : کون مبارز بنے گا ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے زبیر ! کھڑے ہو جاؤ۔ حضرت صفیہ نے عرض کیا۔ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! میرا ایک بیٹا ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے زبیر ! کھڑے ہو جاؤ۔ پس حضرت زبیر کھڑے ہوگئے تو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ان دونوں میں سے جو اپنے ساتھی سے بلند ہوگا وہ دوسرے کو قتل کر دے گا۔ پس حضرت زبیر ، اس سے بلند ہوگئے تو انھوں نے اس کو قتل کردیا۔ پھر حضرت زبیر ، اس مقتول کا سامان لے کر آئے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وہ سامان انہی کو عطا کردیا۔

37978

(۳۷۹۷۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ جَرِیرِ بْنِ حَازِمٍ ، عَنْ یَعْلَی بْنِ حَکِیمٍ ، وَالزُّبَیْرِ بْنِ الْخِرِّیتِ ، وَأَیُّوبَ السِّخْتِیَانِیِّ کُلِّہِمْ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ ؛ أَنَّ نَوْفَلاً ، أَوِ ابْنَ نَوْفَلٍ ، تَرَدَّی بِہِ فَرَسُہُ یَوْمَ الْخَنْدَقِ فَقُتِلَ ، فَبَعَثَ أَبُو سُفْیَانَ إِلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِدِیَتِہِ ، مِئَۃً مِنَ الإِبِلِ ، فَأَبَی النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَقَالَ : خُذُوہُ ، فَإِنَّہُ خَبِیثُ الدِّیَۃِ ، خَبِیثُ الْجِیفَۃِ۔
(٣٧٩٧٩) حضرت عکرمہ سے روایت ہے کہ نوفل بن نوفل کو خندق والے دن اس کے گھوڑے نے گرا دیا اور وہ قتل ہوگیا ۔ پس ابو سفیان نے اس کی دیت سو اونٹ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف بھیجی تو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انکار فرما دیا اور فرمایا : اس کو پکڑ لو۔ کیونکہ اس کی دیت بھی خبیث ہے اور اس کی لاش بھی خبیث ہے۔

37979

(۳۷۹۸۰) حَدَّثَنَا سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنْ عِکْرِمَۃَ ؛ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَعَثَ خَوَّاتَ بْنَ جُبَیْرٍ إِلَی بَنِی قُرَیْظَۃَ عَلَی فَرَسٍ یُقَالُ لَہُ : جَنَاحٌ۔ (بخاری ۴۱۱۷۔ مسلم ۱۳۸۹)
(٣٧٩٨٠) حضرت عکرمہ سے روایت ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خوَّات بن جبیر کو بنو قریظہ کی طرف ایک جناح نامی گھوڑے پر سوار کر کے بھیجا۔

37980

(۳۷۹۸۱) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، وَعَبْدَۃُ ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ عَائِشَۃَ ، قَالَتْ : لَمَّا رَجَعَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَوْمَ الْخَنْدَقِ ، وَوَضَعَ السِّلاَحَ وَاغْتَسَلَ ، أَتَاہُ جِبْرِیلُ ، وَقَدْ عَصَبَ رَأْسَہُ الْغُبَارُ ، فَقَالَ : وَضَعْتَ السِّلاَحَ ؟ فَوَاللہِ مَا وَضَعْتُہُ ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : فَأَیْنَ ؟ قَالَ : ہَاہُنَا ، وَأَوْمَأَ إِلَی بَنِی قُرَیْظَۃَ ، قَالَ : فَخَرَجَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِلَیْہِمْ۔
(٣٧٩٨١) حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یوم الخندق سے واپس تشریف لائے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسلحہ رکھ دیا اور غسل فرما لیا۔ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس جبرائیل حاضر ہوئے اور ان کے سر پر غبار تھا تو انھوں نے فرمایا۔ آپ نے اسلحہ رکھ دیا ہے۔ بخدا ! میں نے تو اسلحہ نہیں رکھا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : پھر کدھر ؟ حضرت جبرائیل نے جواب دیا۔ اِدھر ! اور انھوں نے بنو قریظہ کی طرف اشارہ کیا ۔ راوی کہتے ہیں پھر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بنو قریظہ کی طرف نکل پڑے۔

37981

(۳۷۹۸۲) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَوْمَ قُرَیْظَۃَ : الْحَرْبُ خَِدْعَۃٌ۔
(٣٧٩٨٢) حضرت ہشام، اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یوم قریظہ کو فرمایا : جنگ دھوکا ہے۔

37982

(۳۷۹۸۳) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، أَخْبَرَنَا ہِشَامٌ ، عَنْ مُحَمَّدٍ ، قَالَ : عَاہَدَ حُیَیُّ بْنُ أَخْطَبَ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ لاَ یُظَاہِرَ عَلَیْہِ أَحَدًا، وَجَعَلَ اللَّہَ عَلَیْہِ کَفِیلاً، قَالَ: فَلَمَّا کَانَ یَوْمُ قُرَیْظَۃَ، أُتِیَ بِہِ وَبِابْنِہِ سَلْمًا ، قَالَ : فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : أَوْفِی الْکَفِیلَ ، فَأَمَرَ بِہِ فَضُرِبَتْ عُنُقَہُ ، وَعُنُقَ ابْنِہِ۔
(٣٧٩٨٣) حضرت محمد سے روایت ہے کہ حیی بن اخطب نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس شرط پر معاہدہ کیا کہ وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف کسی کی مدد نہیں کرے گا اور اس بات پر اس نے اللہ تعالیٰ کو کفیل بنایا ۔ راوی کہتے ہیں۔ پھر جب بنو قریظہ کا دن آیا۔ اس کو اور اس کے بیٹے کو لایا گیا ۔ راوی کہتے ہیں : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کیا انھیں کفیل کے بدلے میں لایا گیا ہے۔ پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے بارے میں حکم دیا ۔ پس اس کی اور اس کے بیٹے کی گردن مار دی گئی۔

37983

(۳۷۹۸۴) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُرْوَۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ الزُّبَیْرِ ، عَنِ الزُّبَیْرِ ، قَالَ : جَمَعَ لِی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَیْنَ أَبَوَیْہِ یَوْمَ قُرَیْظَۃَ ، فَقَالَ : فِدَاک أَبِی وَأُمِّی۔
(٣٧٩٨٤) حضرت زبیر سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بنو قریظہ والے دن میرے لیے (دعا میں) اپنے والدین کو جمع فرما کر ارشاد فرمایا : تم پر میرے ماں، باپ قربان ہوں۔

37984

(۳۷۹۸۵) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِِبْرَاہِیمَ ، عَن أَبِی أُمَامَۃَ بْنِ سَہْلٍ ، سَمِعَہُ یَقُولُ : سَمِعْتُ أَبَا سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ ، یَقُولُ : نَزَلَ أَہْلُ قُرَیْظَۃَ عَلَی حُکْمِ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ ، قَالَ : فَأَرْسَلَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِلَی سَعْدٍ ، قَالَ : فَأَتَاہُ عَلَی حِمَارٍ ، قَالَ : فَلَمَّا أَنْ دَنَا قَرِیبًا مِنَ الْمَسْجِدِ ، قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : قُومُوا إِلَی سَیِّدِکُمْ ، أَوْ خَیْرِکُمْ ، ثُمَّ قَالَ : إِنَّ ہَؤُلاَئِ نَزَلُوا عَلَی حُکْمِکَ ، قَالَ : تُقْتَلُ مُقَاتِلَتُہُمْ ، وَتُسْبَی ذَرَارِیُّہُمْ ، قَالَ : فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : قَضَیْتَ بِحُکْمِ الْمَلِکِ ، وَرُبَّمَا قَالَ : قَضَیْتَ بِحُکْمِ اللہِ۔ (بخاری ۴۱۲۱۔ مسلم ۱۳۸۸)
(٣٧٩٨٥) حضرت ابو سیدط خدری سے روایت ہے کہ اہل قریظہ، حضرت سعد بن معاذ کے فیصلہ پر اترے ۔ راوی کہتے ہیں : آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت سعد کی طرف کسی کو بھیجا۔ حضرت سعد ، ایک گدھے پر تشریف لائے۔ راوی کہتے ہیں : پھر جب حضرت سعد ، مسجد کے قریب پہنچے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ” اپنے سردار “ یا فرمایا : ” اپنے میں سے بہترین شخص۔ “ کی تعظیم میں کھڑے ہو جاؤ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ بلاشبہ یہ لوگ تمہارے فیصلہ پر اترے ہیں۔ حضرت معاذ نے فرمایا : ان لوگوں کے لڑنے والوں کو قتل کردیا جائے اور ان کی عورتوں، بچوں کو قید کرلیا جائے ۔ راوی کہتے ہیں : آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : تم نے مالک (الملک) کے فیصلہ کے مطابق فیصلہ کیا ہے۔ کبھی راوی یہ قول نقل کرتے ہیں : تم نے خدا کے فیصلہ کے مطابق فیصلہ کیا ہے۔

37985

(۳۷۹۸۶) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ ، قَالَ : أَخْبَرَنِی أَبِی ؛ أَنَّہُمْ نَزَلُوا عَلَی حکْمِ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَرَدُّوا الْحُکْمَ إِلَی سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ ، فَحَکَمَ فِیہِمْ سَعْدُ بْنُ مُعَاذٍ : أَنْ تُقْتَلَ مُقَاتِلَتُہُمْ ، وَتُسْبَی النِّسَائُ وَالذُّرِّیَّۃُ ، وَتُقَسَّمُ أَمْوَالُہُمْ ، قَالَ ہِشَامٌ : قَالَ أَبِی : فَأُخْبِرْتُ ، أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : لَقَدْ حَکَمْتَ فِیہِمْ بِحُکْمِ اللہِ۔
(٣٧٩٨٦) حضرت ہشام بن عروہ، اپنے والد سے بیان کرتے ہیں کہ بنو قریظہ ، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فیصلہ پر اترے۔ پھر انھوں نے فیصلہ کرنے کو، حضرت سعد بن معاذ کی طرف لوٹا دیا۔ تو حضرت سعد ابن معاذ نے ان کے بارے میں یہ فیصلہ فرمایا : کہ ان کے مقاتلین کو قتل کردیا جائے اور ان کی عورتوں، بچوں کو قید کردیا جائے اور ان کے اموال کو تقسیم کردیا جائے۔ ہشام کہتے ہیں۔ میرے والد نے بتایا ہے کہ مجھے خبر ملی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : (اے معاذ ! ) تو نے ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق فیصلہ کیا ہے۔

37986

(۳۷۹۸۷) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَنْ زَائِدَۃَ ، عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ ، عَنْ عَامِرٍ ، قَالَ : رَمَی أَہْلُ قُرَیْظَۃَ سَعْدَ بْنَ مُعَاذٍ ، فَأَصَابُوا أَکْحَلَہُ ، فَقَالَ : اللَّہُمَّ لاَ تُمِتْنِی حَتَّی تَشْفِیَنِی مِنْہُمْ ، قَالَ : فَنَزَلُوا عَلَی حُکْمِ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ ، فَحَکَمَ أَنْ تُقْتَلَ مُقَاتِلَتُہُمْ وَتُسْبَی ذَرَارِیُّہُمْ ، قَالَ : فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : بِحُکْمِ اللہِ حَکَمْتَ۔
(٣٧٩٨٧) حضرت عامر سے روایت ہے کہ بنو قریظہ نے حضرت سعد بن معاذ کو تیر مارا۔ اور انھوں نے آپ کے بازو کی رگ کو زخمی کردیا۔ حضرت معاذ نے دعا مانگی۔ اے اللہ ! تو مجھے موت نہ دینا یہاں تک کہ تو مجھے ان سے شفاء دے دے۔ راوی کہتے ہیں۔ پھر وہ لوگ حضرت معاذ بن سعد کے فیصلہ پر اتر (راضی ہو) گئے۔ پس آپ نے یہ فیصلہ فرمایا : کہ ان کے مقاتلین کو قتل کردیا جائے اور ان کی عورتوں ، بچوں کو قیدی بنایا جائے۔ راوی کہتے ہیں۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم نے خدا کے حکم کے مطابق فیصلہ کیا ہے۔

37987

(۳۷۹۸۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إِسْمَاعِیلَ ، عَنْ ابْنِ أَبِی أَوْفَی ، یَقُولُ : دَعَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَی الأَحْزَابِ ، فَقَالَ : اللَّہُمَّ مُنْزِلَ الْکِتَابِ ، سَرِیعَ الْحِسَابِ ، ہَازِمَ الأَحْزَابِ اہْزِمْہُمْ وَزَلْزِلْہُمْ۔
(٣٧٩٨٨) حضرت ابن ابی اوفی سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے احزاب (کفار کے لشکروں) پر یہ بددعا فرمائی۔ اے اللہ ! کتاب کو نازل کرنے والی ذات ، جلد حساب لینے والی ذات، لشکروں کو شکست دینے والی ذات، ان کو شکست دے اور ان کو ہلا کر رکھ دے۔

37988

(۳۷۹۸۹) حَدَّثَنَا کَثِیرُ بْنُ ہِشَامٍ ، عَنْ جَعْفَرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ الأَصَمِّ ، قَالَ : لَمَّا کَشَفَ اللَّہُ الأَحْزَابَ ، وَرَجَعَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِلَی بَیْتِہِ ، فَأَخَذَ یَغْسِلُ رَأْسَہُ ، أَتَاہُ جِبْرِیلُ ، فَقَالَ : عَفَا اللَّہُ عَنْکَ ، وَضَعْتَ السِّلاَحَ وَلَمْ تَضَعْہُ مَلاَئِکَۃُ السَّمَائِ ؟ ائْتِنَا عِنْدَ حِصْنِ بَنِی قُرَیْظَۃَ ، فَنَادَی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی النَّاسِ : أَنَ ائْتُوا حِصْنَ بَنِی قُرَیْظَۃَ ، ثُمَّ اغْتَسَلَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَأَتَاہُمْ عِنْدَ الْحِصْنِ۔ (ابن سعد ۷۵)
(٣٧٩٨٩) حضرت یزید بن اصم سے روایت ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے لشکروں کو دور کردیا اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، اپنے گھر ی طرف لوٹ گئے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنا سر مبارک دھونا شروع کیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس جبرائیل حاضر ہوئے اور کہا۔ اللہ تعالیٰ آپ سے درگزر فرمائے۔ آپ نے اسلحہ رکھ دیا ہے۔ حالانکہ آسمان کے فرشتوں نے اسلحہ نہیں رکھا ؟ آپ ہمارے ساتھ بنو قریظہ کے قلعہ کی طرف تشریف لائیے۔ تو نیا کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں میں منادی کروائی کہ بنو قریظہ کے قلعہ پر پہنچو۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غسل فرمایا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی ان لوگوں کے پاس قلعہ پر تشریف لے گئے۔

37989

(۳۷۹۹۰) حَدَّثَنَا عِیسَی بْنُ یُونُسَ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، قَالَ : کَتَبْتُ إِلَی نَافِعٍ أَسْأَلُہُ عَنْ دُعَائِ الْمُشْرِکِینَ ، فَکَتَبَ إِلَیَّ : أَخْبَرَنِی عَبْدُ اللہِ بْنُ عُمَرَ ؛ أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَغَارَ عَلَی بَنِی الْمُصْطَلِقِ ، وَہُمْ غَارُّونِ ، وَنَعَمُہُمْ تُسْقَی عَلَی الْمَائِ ، فَکَانَتْ جُوَیْرِیَۃُ بِنْتُ الْحَارِثِ مِمَّا أَصَابُوا ، وَکُنْتُ فِی الْخَیْلِ۔
(٣٧٩٩٠) حضرت عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بنو المصطلق پر حملہ کیا جبکہ وہ غافل تھے اور ان کے جانور پانی پر آئے ہوئے تھے اور جویریہ بنت الحارث بھی متاثرین میں سے تھی اور میں گھوڑ سواروں میں تھا۔

37990

(۳۷۹۹۱) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ إِسْحَاقَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا یَحْیَی بْنُ أَیُّوبَ ، قَالَ : حَدَّثَنِی رَبِیعَۃُ بْنُ أَبِی عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ یَحْیَی بْنِ حَبَّانَ ، عَنِ ابْنِ مُحَیْرِیزٍ ، قَالَ : دَخَلْتُ أَنَا ، وَأَبُو صِرْمَۃَ الْمَازِنِیُّ عَلَی أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ فَسَأَلْنَاہُ عَنِ الْعَزْلِ ؟ فَقَالَ : أَسَرْنَا کَرَائِمَ الْعَرَبِ ، أَسَرْنَا نِسَائَ بَنِی عَبْدِ الْمُصْطَلِقِ ، فَأَرَدْنَا الْعَزْلَ، وَرَغِبْنَا فِی الْفِدَائِ ، فَقَالَ بَعْضُنَا : أَتَعْزِلُونَ وَرَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَیْنَ أَظْہُرِکُمْ ؟ فَأَتَیْنَاہُ ، فَقُلْنَا : یَا رَسُولَ اللہِ ، أَسَرْنَا کَرَائِمَ الْعَرَبِ ، أَسَرْنَا نِسَائَ بَنِی الْمُصْطَلِقِ ، فَأَرَدْنَا الْعَزْلَ ، وَرَغِبْنَا فِی الْفِدَائِ ، فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لاَ عَلَیْکُمْ أَنْ لاَ تَفْعَلُوا ، فَإِنَّہُ لَیْسَ مِنْ نَسَمَۃٍ کَتَبَ اللَّہُ عَلَیْہَا أَنْ تَکُونَ إِلَی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ إِلاَّ وَہِیَ کَائِنَۃٌ۔ (نسائی ۵۰۴۵۔ مالک ۹۵)
(٣٧٩٩١) حضرت ابن محیریز کہتے ہیں کہ میں اور ابو صرمہ مازنی، حضرت ابو سعید خدری کے پاس حاضر ہوئے اور ہم نے ان سے عزل کے بارے میں پوچھا۔ انھوں نے جواب میں ارشاد فرمایا : ہم نے عرب کی صاحب زادیاں قید کی تھی ہم نے بنو المصطلق کی عورتوں کو قید کیا اور ہم نے (ان کے ساتھ) عزل کا ارادہ کیا اور فدیہ لینے میں رغبت ظاہر کی۔ ہم میں سے بعض لوگوں نے کہا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہارے درمیان موجود ہیں اور تم عزل کرتے ہو ؟ تو ہم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ہم نے کہا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ہم نے عرب کی صاحبزادیاں قید کی ہیں۔ ہم نے بنو المصطلق کی عورتیں قیدی بنائی ہیں۔ اور ہم عزل کا ارادہ رکھتے ہیں اور فدیہ لینے میں رغبت رکھتے ہیں۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : نہیں ! تم یہ کام نہ کرو۔ کیونکہ قیامت تک کوئی بھی جان جس کے ہونے کو اللہ تعالیٰ نے لکھ دیا ہے وہ بہرحال ہو کر رہے گی۔

37991

(۳۷۹۹۲) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، قَالَ : حدَّثَنَا ہِشَامٌ ، عَنْ أَبِیہِ ؛ أَنَّ أَصْحَابَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی غَزْوَۃِ بَنِی الْمُصْطَلِقِ لَمَّا أَتَوْا الْمَنْزِلَ ، وَقَدْ جَلاَ أَہْلُہُ ، أَجْہَضُوہُمْ ، وَقَدْ بَقِیَ دَجَاجٌ فِی الْمَعْدِنِ ، فَکَانَ بَیْنَ غِلْمَانٍ مِنَ الْمُہَاجِرِینَ وَغِلْمَانٍ مِنَ الأَنْصَارِ قِتَالٌ ، فَقَالَ غِلْمَانٌ مِنَ الْمُہَاجِرِینَ : یَا لَلْمُہَاجِرِینَ ، وَقَالَ غِلْمَانٌ مِنَ الأَنْصَارِ : یَا لَلأَنْصَارِ ، فَبَلَغَ ذَلِکَ عَبْدَ اللہِ بْنَ أُبَیِّ ابْنَ سَلُولَ ، فَقَالَ : أَمَا وَاللہِ لَوْ أَنَّہُمْ لَمْ یُنْفِقُوا عَلَیْہِمَ انْفَضُّوا مِنْ حَوْلِہِ ، أَمَا وَاللہِ : (لَئِنْ رَجَعَنَّا إِلَی الْمَدِینَۃِ لَیُخْرِجَنَّ الأَعَزُّ مِنْہَا الأَذَلَّ) فَبَلَغَ ذَلِکَ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَأَمَرَہُمْ بِالرَّحِیلِ ، فَکَأَنَّہُ یَشْغَلُہُمْ ، فَأَدْرَکَ رَکْبًا مِنْ بَنِی عَبْدِ الأَشْہَلِ فِی الْمَسِیرِ ، فَقَالَ لَہُمْ : أَلَمْ تَعْلَمُوا مَا قَالَ الْمُنَافِقُ عَبْدُ اللہِ بْنُ أُبَیٍّ ؟ قَالُوا : وَمَاذَا قَالَ یَا رَسُولَ اللہِ ؟ قَالَ : قَالَ : أَمَا وَاللہِ لَوْ لَمْ تُنْفِقُوا عَلَیْہِمْ لاَنْفَضُّوا مِنْ حَوْلِہِ ، أَمَا وَاللہِ لَئِنْ رَجَعَنَّا إِلَی الْمَدِینَۃِ لَیُخْرِجَنَّ الأَعَزُّ مِنْہَا الأَذَلَّ ، قَالُوا : صَدَقَ یَا رَسُولَ اللہِ ، فَأَنْتَ وَاللہِ الْعَزِیزُ ، وَہُوَ الذَّلِیلُ۔
(٣٧٩٩٢) حضرت ہشام، اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ غزوہ بنو المصطلق میں جب منزل پر پہنچے۔
تو مہاجرین اور انصار کے کم عمر لڑکوں میں کوئی جھگڑا ہوگیا۔ مہاجرین کے لڑکوں نے کہا۔ یا للمہاجرین۔ اور انصار کے لڑکوں نے کہا۔ یا للانصار۔ یہ خبر عبداللہ بن ابی بن سلول کو پہنچی تو اس نے کہا۔ ہاں ! بخدا ! اگر انصار ، مہاجرین پر خرچہ نہ کرتے تو وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گرد سے چلے جاتے۔ ہاں ! بخدا ! اگر ہم مدینہ کی طرف واپس لوٹ گئے تو البتہ ضرور بالضرور عزت والے مدینہ سے ذلت والوں کو نکال دیں گے۔ پس یہ بات نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پہنچی۔ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ کو کوچ کرنے کا حکم دیا۔ گویا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انھیں مشغول کر رہے تھے۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دوران سفر بنو عبد الاشہل میں ایک سوار جماعت کو پایا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انھیں فرمایا : تمہیں معلوم نہیں ہے کہ منافق عبداللہ بن ابی نے کیا کہا ہے ؟ انھوں نے پوچھا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! اس نے کیا کہا ہیَ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اس نے کہا ہے۔ ہاں ! بخدا ! اگر تم (انصار) ان (مہاجرین) پر خرچ نہ کرو تو یہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس سے چلے جائیں گے۔ ہاں۔ بخدا ! اگر ہم مدینہ واپس گئے تو البتہ ضرور بالضرور عزت والے ، مدینہ سے ذلت والوں کو باہر نکال دیں گے۔ انھوں نے کہا : یا رسول اللہ ! سچ کہا۔ آپ اور اللہ تعالیٰ عزت والے جبکہ وہ ذلیل ہے۔

37992

(۳۷۹۹۳) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، قَالَ : سَمِعْتُ قَتَادَۃَ یُحَدِّثُ ، عَنْ أَنَسٍ ؛ أَنَّہُ قَالَ فِی ہَذِہِ الآیَۃِ : {إنَّا فَتَحْنَا لَک فَتْحًا مُبِینًا} ، قَالَ : الْحُدَیْبِیَۃُ۔ (بخاری ۴۸۳۴۔ مسلم ۱۴۱۳)
(٣٧٩٩٣) حضرت انس سے آیت مبارکہ {إنَّا فَتَحْنَا لَک فَتْحًا مُبِینًا } کے بارے میں روایت ہے کہ اس سے مراد حدیبیہ ہے۔

37993

(۳۷۹۹۴) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، قَالَ : حدَّثَنَا ہِشَامٌ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : خَرَجَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِلَی الْحُدَیْبِیَۃِ ، وَکَانَتِ الْحُدَیْبِیَۃُ فِی شَوَّالٍ ، قَالَ : فَخَرَجَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حَتَّی إِذَا کَانَ بِعُسْفَانَ ، لَقِیَہُ رَجُلٌ مِنْ بَنِی کَعْبٍ ، فَقَالَ : یَا رَسُولَ اللہِ ، إِنَّا تَرَکْنَا قُرَیْشًا وَقَدْ جَمَعَتْ لَکَ أَحَابِیشَہَا تُطْعِمُہَا الْخَزِیرَ ، یُرِیدُونَ أَنْ یَصُدُّوکَ عَنِ الْبَیْتِ ، فَخَرَجَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حَتَّی إِذَا تَبَرَّزَ مِنْ عُسْفَانَ ، لَقِیَہُمْ خَالِدُ بْنُ الْوَلِیدِ طَلِیعَۃً لِقُرَیْشٍ ، فَاسْتَقْبَلَہُمْ عَلَی الطَّرِیقِ ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : ہَلُمَّ ہَاہُنَا ، فَأَخَذَ بَیْنَ سَرْوَعَتَیْنِ ، یَعْنِی شَجَرَتَیْنِ ، وَمَالَ عَنْ سَنَنِ الطَّرِیقِ حَتَّی نَزَلَ الْغَمِیمَ۔ فَلَمَّا نَزَلَ الْغَمِیمَ خَطَبَ النَّاسَ ، فَحَمِدَ اللَّہَ وَأَثْنَی عَلَیْہِ بِمَا ہُوَ أَہْلُہُ ، ثُمَّ قَالَ : أَمَّا بَعْدُ ، فَإِنَّ قُرَیْشًا قَدْ جَمَعَتْ لَکُمْ أَحَابِیشَہَا تُطْعِمُہَا الْخَزِیرَ ، یُرِیدُونَ أَنْ یَصُدُّونَا عَنِ الْبَیْتِ ، فَأَشِیرُوا عَلَیَّ بِمَا تَرَوْنَ ؟ أَنْ تَعْمِدُوا إِلَی الرَّأْسِ ، یَعْنِی أَہْلَ مَکَّۃَ ، أَمْ تَرَوْنَ أَنْ تَعْمِدُوا إِلَی الَّذِینَ أَعَانُوہُمْ ، فَنُخَالِفُہُمْ إِلَی نِسَائِہِمْ وَصِبْیَانِہِمْ ، فَإِنْ جَلَسُوا جَلَسُوا مَوْتُورِینَ مَہْزُومِینَ ، وَإِنْ طَلَبُونَا طَلَبُونَا طَلَبًا مُتَدَارِیًا ضَعِیفًا ، فَأَخْزَاہُمَ اللَّہُ ؟۔ فَقَالَ أَبُو بَکْرٍ : یَا رَسُولَ اللہِ ، نَرَی أَنْ تَعْمِدَ إِلَی الرَّأْسِ ، فَإِنَّ اللَّہَ مُعِینُکَ ، وَإِنَّ اللَّہَ نَاصِرُکَ ، وَإِنَّ اللَّہَ مُظْہِرُکَ ، قَالَ الْمِقْدَادُ بْنُ الأَسْوَدِ وَہُوَ فِی رَحْلِہِ : إِنَّا وَاللہِ یَا رَسُولَ اللہِ ، لاَ نَقُولُ لَکَ کَمَا قَالَتْ بَنُو إِسْرَائِیلَ لِنَبِیِّہَا : {اذْہَبْ أَنْتَ وَرَبُّکَ فَقَاتِلاَ ، إِنَّا ہَاہُنَا قَاعِدُونَ} وَلَکِنِ اذْہَبْ أَنْتَ وَرَبُّکَ فَقَاتِلاَ ، إِنَّا مَعَکُمْ مُقَاتِلُونَ۔ فَخَرَجَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حَتَّی إِذَا غَشِیَ الْحَرَمَ وَدَخَلَ أَنْصَابَہُ ، بَرَکَتْ نَاقَتُہُ الْجَدْعَائُ ، فَقَالُوا: خَلأَتْ، فَقَالَ: وَاللہِ مَا خَلأَتْ، وَمَا الْخَلأُ بِعَادَتِہَا، وَلَکِنْ حَبَسَہَا حَابِسُ الْفِیلِ عَنْ مَکَّۃَ، لاَ تَدْعُونِی قُرَیْشٌ إِلَی تَعْظِیمِ الْمَحَارِمِ فَیَسْبِقُونِی إِلَیْہِ ، ہَلُمَّ ہَاہُنَا لأَصْحَابِہِ ، فَأَخَذَ ذَاتَ الْیَمِینِ فِی ثَنِیَّۃٍ تُدْعَی ذَاتَ الْحَنْظَلِ ، حَتَّی ہَبَطَ عَلَی الْحُدَیْبِیَۃِ ، فَلَمَّا نَزَلَ اسْتَقَی النَّاسُ مِنَ الْبِئْرِ ، فَنَزَفَتْ وَلَمْ تَقُمْ بِہِمْ ، فَشَکَوْا ذَلِکَ إِلَیْہِ فَأَعْطَاہُمْ سَہْمًا مِنْ کِنَانَۃِ ، فَقَالَ : اِغْرِزُوہُ فِی الْبِئْرِ ، فَغَرَزُوہُ فِی الْبِئْرِ ، فَجَاشَتْ وَطَمَا مَاؤُہَا حَتَّی ضَرَبَ النَّاسُ بِالْعَطَنِ۔ فَلَمَّا سَمِعَتْ بِہِ قُرَیْشٌ أَرْسَلُوا إِلَیْہِ أَخَا بَنِی حُلَیْسٍ ، وَہُوَ مِنْ قَوْمٍ یُعَظِّمُونَ الْہَدْیَ ، فَقَالَ : ابْعَثُوا الْہَدْیَ ، فَلَمَّا رَأَی الْہَدْیَ لَمْ یُکَلِّمْہُمْ کَلِمَۃً ، وَانْصَرَفَ مِنْ مَکَانِہِ إِلَی قُرَیْشٍ ، فَقَالَ : یَا قَوْمُ الْقَلاَئِدُ وَالْبُدْنُ وَالْہَدْی ، فَحَذَّرَہُمْ وَعَظَّمَ عَلَیْہِمْ ، فَسَبُّوہُ وَتَجَہَّمُوہُ ، وَقَالُوا : إِنَّمَا أَنْتَ أَعْرَابِیٌّ جِلْفٌ لاَ نَعْجَبُ مِنْکَ ، وَلَکِنَّا نَعْجَبُ مِنْ أَنْفُسِنَا إِذْ أَرْسَلْنَاکَ ، اِجْلِسْ۔ ثُمَّ قَالُوا لِعُرْوَۃِ بْنِ مَسْعُودٍ : انْطَلِقْ إِلَی مُحَمَّدٍ ، وَلاَ نُؤْتَیَنَّ مِنْ وَرَائِکَ ، فَخَرَجَ عُرْوَۃُ حَتَّی أَتَاہُ ، فَقَالَ : یَا مُحَمَّدُ ، مَا رَأَیْتُ رَجُلاً مِنَ الْعَرَبِ سَارَ إِلَی مِثْلِ مَا سِرْت إِلَیْہِ ، سِرْتَ بِأَوْبَاشِ النَّاسِ إِلَی عِتْرَتِکَ وَبَیْضَتِکَ الَّتِی تَفَلَّقَتْ عَنْک لِتُبِیدَ خَضْرَائَہَا ، تَعْلَمُ أَنِّی قَدْ جِئْتُکَ مِنْ عِنْدِ کَعْبِ بْنِ لُؤَیٍّ ، وَعَامِرِ بْنِ لُؤَی ، قَدْ لَبِسُوا جُلُودَ النُّمُورِ عِنْدَ الْعُوذِ الْمَطَافِیلِ یُقْسِمُونَ بِاللہِ لاَ تَعْرِضُ لَہُمْ خُطَّۃً إِلاَّ عَرَضُوا لَکَ أَمْرَّ مِنْہَا۔ فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إِنَّا لَمْ نَأْتِ لِقِتَالٍ ، وَلَکِنَّا أَرَدْنَا أَنْ نَقْضِیَ عُمْرَتَنَا وَنَنْحَرَ ہَدْیَنَا ، فَہَلْ لَکَ أَنْ تَأْتِیَ قَوْمَکَ ، فَإِنَّہُمْ أَہْلُ قَتَبٍ ، وَإِنَّ الْحَرْبَ قَدْ أَخَافَتْہُمْ ، وَإِنَّہُ لاَ خَیْرَ لَہُمْ أََنْ تَأْکُلَ الْحَرْبُ مِنْہُمْ إِلاَّ مَا قَدْ أَکَلَتْ ، فَیُخَلُّونَ بَیْنِی وَبَیْنَ الْبَیْتِ ، فَنَقْضِی عُمْرَتَنَا وَنَنْحَرُ ہَدْیَنَا ، وَیَجْعَلُونَ بَیْنِی وَبَیْنَہُمْ مُدَّۃً ، نُزِیلُ فِیہَا نِسَائَہُمْ وَیَأْمَنُ فِیہَا سَرْبُہُمْ ، وَیُخَلُّونَ بَیْنِی وَبَیْنَ النَّاسِ ، فَإِنِّی وَاللہِ لأُقَاتِلَنَّ عَلَی ہَذَا الأَمْرِ الأَحْمَرَ وَالأَسْوَدَ حَتَّی یُظْہِرَنِی اللَّہُ ، أَوْ تَنْفَرِدَ سَالِفَتِی ، فَإِنْ أَصَابَنِی النَّاسُ فَذَاکَ الَّذِی یُرِیدُونَ ، وَإِنْ أَظْہَرَنِی اللَّہُ عَلَیْہِمَ اخْتَارُوا ؛ إِمَّا قَاتَلُوا مُعَدِّینَ ، وَإِمَّا دَخَلُوا فِی السِّلْمِ وَافِرِینَ۔ قَالَ : فَرَجَعَ عُرْوَۃُ إِلَی قُرَیْشٍ ، فَقَالَ : تَعْلَمُنَّ وَاللہِ مَا عَلَی الأَرْضِ قَوْمٌ أَحَبُّ إِلَیَّ مِنْکُمْ ، إِنَّکُمْ لإِخْوَانِی وَأَحَبَّ النَّاسِ إِلَیَّ ، وَلَقَدَ اسْتَنْصَرْتُ لَکُمُ النَّاسَ فِی الْمَجَامِعِ ، فَلَمَّا لَمْ یَنْصُرُوکُمْ أَتَیْتُکُمْ بِأَہْلِی حَتَّی نَزَلْتُ مَعَکُمْ إِرَادَۃَ أَنْ أُوَاسِیَکُمْ ، وَاللہِ مَا أُحِبُّ الْحَیَاۃَ بَعْدَکُمْ ، تَعْلَمُنَّ أَنَّ الرَّجُلَ قَدْ عَرَضَ نِصْفًا فَاقْبَلُوہُ ، تَعْلَمُنَّ أَنِّی قَدْ قَدِمْتُ عَلَی الْمُلُوک ، وَرَأَیْتُ الْعُظَمَائَ ، فَأُقْسِمُ بِاللہِ إِنْ رَأَیْتُ مَلِکًا ، وَلاَ عَظِیمًا أَعْظَمَ فِی أَصْحَابِہِ مِنْہُ ، إِنْ یَتَکَلَّمَ مِنْہُمْ رَجُلٌ حَتَّی یَسْتَأْذِنَہُ ، فَإِنْ ہُوَ أَذِنَ لَہُ تَکَلَّمَ ، وَإِنْ لَمْ یَأْذَنْ لَہُ سَکَتَ ، ثُمَّ إِنَّہُ لَیَتَوَضَّأُ فَیَبْتَدِرُونَ وَضُوئَہُ یَصُبُّونَہُ عَلَی رُؤُوسِہِمْ ، یَتَّخِذُونَہُ حَنَانًا۔ فَلَمَّا سَمِعُوا مَقَالَتَہُ أَرْسَلُوا إِلَیْہِ سُہَیْلَ بْنَ عَمْرٍو ، وَمِکْرَزَ بْنَ حَفْصٍ ، فَقَالُوا : انْطَلِقُوا إِلَی مُحَمَّدٍ ، فَإِنْ أَعْطَاکُمْ مَا ذَکَرَ عُرْوَۃُ ، فَقَاضِیَاہُ عَلَی أَنْ یَرْجِعَ عَامَہُ ہَذَا عَنَّا ، وَلاَ یَخْلُصَ إِلَی الْبَیْتِ ، حَتَّی یَسْمَعَ مَنْ یَسْمَعُ بِمَسِیرِہِ مِنَ الْعَرَبِ ؛ أَنَّا قَدْ صَدَدْنَاہُ ، فَخَرَجَ سُہَیْلٌ ، وَمِکْرَزٌ حَتَّی أَتَیَاہُ وَذَکَرَا ذَلِکَ لَہُ ، فَأَعْطَاہُمَا الَّذِی سَأَلاَ ، فَقَالَ : اُکْتُبُوا : بِسْمِ اللہِ الرَّحْمَن الرَّحِیمِ ، قَالُوا : وَاللہِ لاَ نَکْتُبُ ہَذَا أَبَدًا ، قَالَ : فَکَیْفَ ؟ قَالُوا : نَکْتُبُ بِاسْمِکَ اللَّہُمَّ ، قَالَ : وَہَذِہِ فَاکْتُبُوہَا ، فَکَتَبُوہَا ، ثُمَّ قَالَ : اُکْتُبْ : ہَذَا مَا قَاضَی عَلَیْہِ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللہِ ، فَقَالُوا : وَاللہِ مَا نَخْتَلِفُ إِلاَّ فِی ہَذَا ، فَقَالَ : مَا أَکْتُبُ ؟ فَقَالُوا : انْتَسِبْ ، فَاکْتُبْ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : وَہَذِہِ حَسَنَۃٌ ، اُکْتُبُوہَا ، فَکَتَبُوہَا۔ وَکَانَ فِی شَرْطِہِمْ ، أَنَّ بَیْنَنَا الْعَیْبَۃَ الْمَکْفُوفَۃَ ، وَأَنَّہُ لاَ إِغْلاَلَ ، وَلاَ إِسْلاَلَ۔ قَالَ أَبُو أُسَامَۃَ : الإِغْلاَلُ الدُّرُوعُ ، وَالإِسْلاَلُ السُّیُوفُ ، وَیَعْنِی بِالْعَیْبَۃِ الْمَکْفُوفَۃِ أَصْحَابَہُ یَکُفُّہُمْ عَنْہُمْ۔ وَأَنَّہُ مَنْ أَتَاکُمْ مِنَّا رَدَدْتُمُوہُ عَلَیْنَا ، وَمَنْ أَتَانَا مِنْکُمْ لَمْ نَرْدُدْہُ عَلَیْکُمْ ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : وَمَنْ دَخَلَ مَعِی فَلَہُ مِثْلُ شَرْطِی ، فَقَالَتْ قُرَیْشٌ : مَنْ دَخَلَ مَعَنا فَہُوَ مِنَّا ، لَہُ مِثْلُ شَرْطِنَا ، فَقَالَتْ بَنُو کَعْبٍ : نَحْنُ مَعَکَ یَا رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَقَالَتْ بَنُو بَکْرٍ : نَحْنُ مَعَ قُرَیْشٍ۔ فَبَیْنَمَا ہُمْ فِی الْکِتَابِ إِذْ جَائَ أَبُو جَنْدَلٍ یَرْسُفُ فِی الْقُیُودِ ، فَقَالَ الْمُسْلِمُونَ : ہَذَا أَبُو جَنْدَلٍ ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : ہُوَ لِی ، وَقَالَ سُہَیْلٌ : ہُوَ لِی ، وَقَالَ سُہَیْلٌ : اقْرَأَ الْکِتَابَ ، فَإِذَا ہُوَ لِسُہَیْلٍ ، فَقَالَ أَبُو جَنْدَلٍ : یَا رَسُولَ اللہِ ، یَا مَعْشَرَ الْمُسْلِمِینَ ، أُرَدُّ إِلَی الْمُشْرِکِینَ ؟ فَقَالَ عُمَرُ : یَا أَبَا جَنْدَلٍ ، ہَذَا السَّیْفُ ، فَإِنَّمَا ہُوَ رَجُلٌ وَرَجُلٌ ، فَقَالَ سُہَیْلٌ : أَعَنْتَ عَلَیَّ یَا عمَرُ ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِسُہَیْلٍ: ہَبْہُ لِی ، قَالَ: لاَ ، قَالَ : فَأَجِزْہُ لِی ، قَالَ: لاَ ، قَالَ مِکْرَزٌ: قَدْ أَجَزْتُہُ لَکَ یَا مُحَمَّدُ، فَلَمْ یُہَجْ۔ (بخاری ۲۷۳۱۔ ابوداؤد ۲۷۵۹)
(٣٧٩٩٤) حضرت ہشام، اپنے والد سے روایت کرتے ہیں۔ کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حدیبیہ کی طرف چلے۔ واقعہ حدیبیہ ماہ شوال میں پیش آیا تھا۔ راوی کہتے ہیں : پس رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چل پڑے یہاں تک کہ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عسفان مقام پر پہنچے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بنی کعب کا ایک آدمی ملا اور اس نے کہا۔ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ہم نے قریش کو اس حالت میں چھوڑا ہے کہ انھوں نے آپ کے لیے اپنے مختلف النسل لوگوں کو جمع کیا ہے اور نہیں خزیر (قیمہ اور آٹا کا مرکب) کھلاتے ہیں۔ ان کا ارادہ یہ ہے کہ وہ آپ کو بیت اللہ سے روک دیں گے۔ پس آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نکل پڑے یہاں تک کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عسفان مقام سے باہر تشریف لائے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قریش کے جاسوس خالد بن ولید ملے اور راستہ میں ان کا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے آمنا سامنا ہوگیا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے (صحابہ کو) فرمایا : ادھر آ جاؤ ! پس آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دو درختوں کے درمیان ہوگئے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہموار راستہ سے ہٹ گئے یہاں تک کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غمیم پہنچے۔
٢۔ پس جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غمیم میں فروکش ہوئے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں کو خطاب فرمایا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ تعالیٰ کی تعریف کی اور اللہ تعالیٰ کے شایان شان، ثنا بیان کی۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اما بعد ! بلاشبہ قریش نے تمہارے لیے اپنے متفرق گروہوں کو جمع کیا ہے اور اس کو خزیر (خاص مرکب غذا) کھلانا شروع کیا ہے۔ اور ان کا ارادہ یہ ہے کہ وہ ہمیں بیت اللہ سے روک ڈالیں۔ تو تم مجھے اپنی رائے سے مطلع کرو ؟ تم لوگ سردار (یعنی اہل مکہ) کی طرف (مقابلہ کے لئے) جانا چاہتے ہو یا تم لوگ ان کے معاونین کی طرف (مقابلہ کے لئے) جانا چاہتے ہو تاکہ ہم ان کو واپس ان کی عورتوں اور بچوں کے پاس پہنچا دیں۔ پس اگر وہ بیٹھ جائیں گے تو وہ اس حالت میں بیٹھیں گے کہ وہ بےبس اور شکست خوردہ ہوں گے۔ اور اگر وہ ہم سے (مقابلہ کا) مطالبہ کریں گے تو وہ ہم سے ایک کمزور اور نرم مطالبہ کریں گے پھر اللہ تعالیٰ انھیں رسوا کر دے گا۔
٣۔ حضرت ابوبکر نے فرمایا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ہماری رائے تو یہ ہے کہ ہم سردار کی طرف پیش قدمی کرتے ہیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے معین ہیں اور آپ کے مددگار ہیں اور آپ کو غالب کرنے والے ہیں۔ حضرت مقداد بن الاسود نے فرمایا۔۔۔ جبکہ وہ اپنے کجاوہ میں تھے۔۔۔ بخدا ! یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ہم آپ سے ایسی بات نہیں کہیں گے جیسا کہ بنی اسرائیل نے اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہی تھی کہ { اذْہَبْ أَنْتَ وَرَبُّکَ فَقَاتِلاَ ، إِنَّا ہَاہُنَا قَاعِدُونَ } بلکہ ہم تو کہیں گے۔ آپ اور آپ کا رب جا کر لڑے اور ہم آپ کے ہمراہ لڑیں گے۔
٤۔ پس رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (وہاں سے) نکلے یہاں تک کہ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حرم کے قریب پہنچے اور اس کی حدود میں داخل ہوئے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جدعاء اونٹنی بیٹھ گئی۔ لوگوں نے کہا۔ یہ اونٹنی اڑ گئی ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : خدا کی قسم ! اونٹنی اڑی نہیں ہے اور نہ ہی اڑنا اس کی عادت ہے بلکہ اس کو تو اس ذات نے روکا ہے جس نے ہاتھیوں کو مکہ سے روکا تھا۔ (پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا) (اگر) قریش مجھے تعظیم محارم کے لیے دعوت دیں گے تو وہ اس عمل میں مجھ پر سبقت نہیں پاسکیں گے (آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ سے فرمایا) ادھر آؤ۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ذات الحنظل نامی چوٹی کے دائیں جانب کا راستہ پکڑ لیا یہاں تک کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حدیبیہ پر پہنچے۔ پس جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وہاں پر پڑاؤ ڈالا تو لوگوں نے ایک کنواں سے پانی لینا شروع کیا۔ ابھی تمام لوگ سیراب نہیں ہوئے تھے کہ کنواں خالی ہوگیا ۔ لوگوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے اس بات کی شکایت کی۔ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں کو ترکش میں سے ایک تیر نکال کردیا اور فرمایا : اس تیر کو کنویں میں گاڑھ دو ۔ لوگوں نے اس تیر کو کنویں میں گاڑا تو کنواں پانی سے ابلنے لگا اور اس کا پانی اوپر آگیا یہاں تک کہ لوگ خوب سیراب ہوگئے۔
٥۔ جب قریش کو اس بات کی خبر ہوئی تو انھوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف بنو حلیس کے بھائی کو بھیجا۔۔۔ یہ اس قوم کا فرد تھا جن کے ہاں ہدی کی تعظیم ہوتی تھی ۔۔۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ہدی کو کھڑا کردو۔ پس جب اس نے ہدی (کے جانور کو) دیکھا تو کوئی بھی بات نہیں کی۔ اور اپنی جگہ سے ہی قریش کی طرف پھر گیا۔ اور (جا کر) کہا : اے میری قوم ! قلائد، اونٹ اور ہدی کے جانوروں (کا احترام کرو) ۔ اس نے قریش کو خوب ڈرایا اور ان پر کڑی تنقید کی قریش نے اس کو گالیاں دیں اور اس سے ترش رو ہوگئے اور کہنے لگے۔ تم تو بیوقوف دیہاتی ہو۔ ہمیں تم سے کوئی تعجب نہیں ہے۔ بلکہ تجھے بھیجنے پر ہمیں اپنے آپ پر تعجب ہے۔ بیٹھ جاؤ۔
٦۔ پھر قریش نے عروہ بن مسعود کو کہا۔ تم محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف جاؤ اور ہم تمہارے پیچھے نہیں آئیں گے تو عروہ (وہاں سے) نکلا یہاں تک کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا اور کہا۔ اے محمد ! میں نے سارے عرب میں کوئی ایسا آدمی نہیں دیکھا جو آپ کی طرح (بھروسہ کر کے) چلا ہو ۔ تم مختلف لوگوں کو لے کر اپنے اس قوم و قبیلہ کی طرف آئے ہو۔ یقین کرو ! میں تمہارے پاس کعب بن لوی، اور عامر بن لوی کے ہاں سے آیا ہوں۔ انھوں نے اپنے بیوی بچوں کے سامنے چیتوں کا لباس پہن کر اللہ کے نام کی قسمیں کھائی ہیں۔ کہ : آپ ان کے سامنے جو بات رکھو گے وہ اس سے بھی سخت تر بات آپ کے سامنے رکھیں گے۔
٧۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ہم لوگ لڑنے کے لیے نہیں آئے بلکہ ہمارا ارادہ تو یہ ہے کہ ہم اپنا عمرہ پوراکریں گے اور اپنے ہدی کے جانور نحر کریں۔ تو کیا تم اپنی قوم کے پاس جاؤ گے کیونکہ وہ بھی پالان والے (یعنی کمزور) ہیں اور جنگیں انھیں بھی کھا چکی ہیں۔ اور ان کے لیے بھی اس بات میں کوئی خیر نہیں ہے کہ جنگ ان کو مزید کھائے۔ پس وہ میرے اور بیت اللہ کے درمیان سے ہٹ جائیں تاکہ ہم اپنا عمرہ ادا کریں اور اپنے ہدی کے جانور نحر کریں۔ اور یہ لوگ میرے اور اپنے درمیان ایک مدت رکھ لیں۔ اور یہ لوگ میرے اور لوگوں کے درمیان سے ہٹ جائیں۔ خدا کی قسم ! میں تو اس معاملہ (کلمہ کے معاملہ) میں ہر سُرخ اور سیاہ کے ساتھ لڑوں گا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ مجھے غالب کر دے یا میں خود بھی اس راہ میں قتل کردیا جاؤں۔ پس اگر لوگ مجھے قتل کردیں گے تو یہی لوگوں کی مراد ہے اور اگر اللہ تعالیٰ مجھے ان پر غلبہ دے تو پھر انھیں اختیار ہوگا یا تو خوب تیاری کے ساتھ لڑیں گے اور یا فوج در فوج اسلام میں داخل ہوجائیں گے۔
٨۔ راوی کہتے ہیں : پھر عروہ، قریش کی طرف واپس آیا اور اس نے کہا۔ یقین کرلو ! بخدا ! مجھے روئے زمین پر تم سے زیادہ محبوب کوئی قوم نہیں ف۔ تم مجھے تمام لوگوں سے زیادہ محبوب ہو اور میرے بھائی ہو۔۔۔ اور میں نے مجامع میں تمہاری مدد کے لیے لوگوں کو بلایا لیکن جب وہ لوگ تمہاری مدد کے لیے نہیں آئے۔ تو میں اپنے گھر والوں کے ساتھ تمہارے پاس آگیا اور میں نے یہ سوچ کر تمہارے ہاں پڑاؤ ڈالا تاکہ میں تمہارے لیے مواسات کرسکوں۔ خدا کی قسم ! تمہارے بعد مجھے زندگی سے کوئی محبت نہیں ہے۔ تم لوگ یقین کرلو ! کہ اس آدمی (محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) نے انصاف کی بات پیش کی ہے تم اس بات کو قبول کرلو۔ یقین کرو ! میں کئی بادشاہوں کے ہاں گیا ہوں اور میں نے کئی وڈیروں کو دیکھا ہے میں بقسم یہ بات کہتا ہوں کہ میں نے کوئی بادشاہ یا وڈیرہ، اپنے ساتھیوں میں اتنا باعظمت نہیں دیکھا جتنا آپ کو دیکھا۔ آپ سے اجازت حاصل کئے بغیر کوئی آدمی گفتگو نہیں کرتا۔ جب آپ اجازت گفتگو دیتے ہیں تو بولنے والا بولتا ہے اور اگر آپ اجازت نہیں ا دیتے تو خاموش رہتا ہے پھر جب آپ وضو کرتے ہیں تو آپ کے ساتھی آپ کے دھو ون کو جلدی سے ہاتھوں ہاتھ لیتے ہیں اور اپنے سروں پر بہاتے ہیں اور اس کو برکت کی چیز سمجھتے ہیں۔
٩۔ پس جب اہل مکہ نے اس کی بات سُنی تو انھوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سہیل بن عمرو اور مکرز بن حفص کو بھیجا اور کہا۔ تم لوگ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف جاؤ پھر اگر وہ تمہیں وہی کچھ (تأثر) دے جو عروہ نے ذکر کیا ہے تو تم اس کو یہ فیصلہ سُنا دینا کہ وہ اس سال ہمارے ہاں سے لوٹ جائں ۔ اور بیت اللہ تک نہ آئیں تاکہ جو کوئی عربی بھی ان کے سفر عمرہ کے بارے میں سُنے تو وہ یہ بات بھی سُنے کہ ” ہم نے اس (محمد) کو بیت اللہ سے روک دیا ہے “ سہیل اور مکرز چل پڑے یہاں تک کہ وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں پہنچے اور انھوں نے یہ بات آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ذکر کی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو ان کے سوال کے مطابق جواب عطا فرمایا اور کہا۔ لکھو : بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ وہ کہنے لگے ۔ بخدا ! یہ الفاظ تو ہم کبھی بھی نہیں لکھیں گے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا۔ پھر کیا لکھو گے ؟ انھوں نے کہا۔ ہم تو یہ الفاظ لکھیں گے۔ باسمک اللّٰھم۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : یہی لکھ لو۔ پھر انھوں نے یہ جملہ لکھا۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : لکھو، کہ یہ وہ تحریر ہے جس پر محمد رسول اللہ کے ساتھ فیصلہ ہوا ہے وہ لوگ کہنے لگے ۔ خدا کی قسم ! ہمارا اسی بات میں تو تم سے اختلاف ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا۔ میں کیسے لکھواؤں ؟ انھوں نے کہا : آپ اپنا نسب بیان کر کے تحریر لکھوائیں۔ کہ محمد بن عبداللہ۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : یہ بھی اچھی بات ہے اسی کو لکھ لو۔ تو انھوں نے یہ جملہ لکھ لیا۔
١٠۔ اور ان کی شرائط میں یہ بات بھیتی کہ ہمارے درمیان آپس میں صلح و صفائی رہے گی۔ نہ کوئی خیانت (کرے گا) اور نہ کوئی خفیہ جھوٹ اور تلوار سونتے گا۔
١١۔ اور یہ بھی شر ط تھی کہ ہم میں سے جو تمہارے پاس آئے گا ۔ اسے تم ہمارے پاس واپس بھیجو گے۔ اور جو شخص تم میں سے ہمارے پاس آئے گا ہم اس کو تمہارے پاس واپس نہیں لوٹائیں گے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جو کوئی میرے ساتھ داخل (ملنا چاہے) ہوگا تو اس کے لیے بھی میری شرط کے موافق شرط ہوگی۔ اس پر قریش نے کہا۔ جو ہمارے ساتھ داخل (ملنا چاہے) ہوگا وہ ہمارا ساتھی شمار ہوگا۔ اور اس کے لیے بھی ہمارے والی شرطیں ہوں گی۔ پھر بنو کعب نے کہا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ اور بنو بکر نے کہا۔ ہم قریش کے ساتھ ہیں۔
١٢۔ ابھی مسلمان اور اہل مکہ، تحریر لکھ رہے تھے کہ اس دوران حضرت ابو جندل بیڑیوں میں جکڑے ہوئے حاضر ہوئے۔ مسلمانوں نے کہا۔ یہ ابو جندل آگئے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : یہ میرے (پاس ہوں گے) ۔ سہیل نے کہا۔ یہ میرے پاس ہوں گے۔ سہیل نے کہا ۔ تحریر پڑھیں۔ تو اس تحریر کی رو سے وہ سہیل کے حق میں چلے گئے۔ حضرت ابو جندل نے عرض کیا۔ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! اے گروہ مسلمین ! مجھے مشرکین کی طرف واپس کیا جائے گا ؟ حضرت عمر نے فرمایا : اے ابو جندل ! یہ ہے تلوار ! دو بندے ہی تو ہیں۔ سہیل نے کہا۔ اے عمر ! تم نے میرے خلاف معاونت کی ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سہیل سے کہا یہ شخص مجھے ہدیہ کردو۔ سُہیل نے کہا : نہیں ! آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : مجھے تم اس کو رکھنے کی اجازت دے دو ۔ سہیل نے کہا نہیں۔ مکرز نے کہا۔ اے محمد ! میں تمہیں اس کے رکھنے کی اجازت دیتا ہوں۔

37994

(۳۷۹۹۵) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ إِدْرِیسَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ عُرْوَۃَ بْنِ الزُّبَیْرِ ، عَنْ مَرْوَانَ؛ أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خَرَجَ عَامَ صَدُّوہُ ، فَلَمَّا انْتَہَی إِلَی الْحُدَیْبِیَۃِ اضْطَرَبَ فِی الْحِلِّ ، وَکَانَ مُصَلاَّہُ فِی الْحَرَمِ ، فَلَمَّا کَتَبُوا الْقَضِیَّۃَ وَفَرَغُوا مِنْہَا ، دَخَلَ النَّاسُ مِنْ ذَلِکَ أَمْرٌ عَظِیمٌ ، قَالَ : فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : یَا أَیُّہَا النَّاسُ ، انْحَرُوا ، وَاحْلِقُوا ، وَأَحِلُّوا ، فَمَا قَامَ رَجُلٌ مِنَ النَّاسِ ، ثُمَّ أَعَادَہَا فَمَا قَامَ أَحَدٌ مِنَ النَّاسِ ، فَدَخَلَ عَلَی أُمِّ سَلَمَۃَ ، فَقَالَ : مَا رَأَیْتِ مَا دَخَلَ عَلَی النَّاسِ ؟ فَقَالَتْ : یَا رَسُولَ اللہِ ، اذْہَبْ ، فَانْحَرْ ہَدْیَک ، وَاحْلِقْ ، وَأَحِلَ ، فَإِنَّ النَّاسَ سَیُحِلُّونَ ، فَنَحَرَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَحَلَقَ ، وَأَحَلَّ۔ (احمد ۳۲۳)
(٣٧٩٩٥) حضرت مروان سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ۔۔۔ جس سال مشرکین نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو روکا۔۔۔ اس سال چلے پس جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حدیبیہ تک پہنچے ۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حِل میں ہی مجبوراً روک دیا گیا۔ جبکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارادہ حرم میں نماز کا تھا۔ پس جب لوگوں نے فیصلہ تحریر کردیا اور اس تحریر سے فارغ ہوگئے تو لوگ اس فیصلہ سے بہت دل برداشتہ ہوئے۔ راوی کہتے ہیں : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اے لوگو ! نحر کرو اور حلق کرواؤ اور حلال ہو جاؤ۔ کوئی آدمی بھی کھڑا نہ ہوا ۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ بات دوبارہ ارشاد فرمائی۔ لیکن پھر کوئی آدمی نہ کھڑا ہوا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت ام سلمہ کے پاس تشریف لائے اور فرمایا : لوگوں کی جو حالت ہوچکی ہے اس میں تمہاری کیا رائے ہے ؟ انھوں نے عرض کیا۔ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ جا کر اپنی ہدی کو نحر کریں اور حلق کروا کر حلال ہوجائیں۔ لوگ بھی حلال ہوجائیں گے۔ پس رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نحر کیا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حلق کروا کر حلال ہوگئے۔

37995

(۳۷۹۹۶) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ زَکَرِیَّا ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنِ الْبَرَائِ ، قَالَ : لَمَّا حُصِرَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنِ الْبَیْتِ ، صَالَحَہُ أَہْلُ مَکَّۃَ عَلَی أَنْ یَدْخُلَہَا فَیُقِیمَ بِہَا ثَلاَثًا ، وَلاَ یَدْخُلَہَا إِلاَّ بِجُلُبَّانِ السِّلاَحِ : السَّیْفِ وَقِرَابِہِ ، وَلاَ یَخْرُجَ مَعَہُ بِأَحَدٍ مِنْ أَہْلِہَا ، وَلاَ یَمْنَعَ أَحَدًا أَنْ یَمْکُثَ بِہَا مِمَّنْ کَانَ مَعَہُ ، فَقَالَ لِعَلِیٍّ : اُکْتُبَ الشَّرْطَ بَیْنَنَا : بِسْمِ اللہِ الرَّحْمَن الرَّحِیمِ ، ہَذَا مَا قَاضَی عَلَیْہِ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللہِ ، فَقَالَ الْمُشْرِکُونَ : لَوْ نَعْلَمُ أَنَّکَ رَسُولُ اللہِ تَابَعْنَاکَ ، وَلَکِنِ اکْتُبْ : مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : فَأَمَرَ عَلِیًّا أَنْ یَمْحُوَہَا ، فَقَالَ عَلِیٌّ : لاَ وَاللہِ ، لاَ أَمْحُوہَا ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : أَرِنِی مَکَانَہَا ، فَأَرَاہُ مَکَانَہَا ، فَمَحَاہَا ، وَکَتَبَ : ابْنُ عَبْدِ اللہِ ، فَأَقَامَ فِیہَا ثَلاَثَۃَ أَیَّامٍ ، فَلَمَّا کَانَ یَوْمُ الثَّالِثِ ، قَالُوا لِعَلِیٍّ : ہَذَا آخِرُ یَوْمٍ مِنْ شَرْطِ صَاحِبِکَ ، فَمُرْہُ فَلْیَخْرُجْ ، فَحَدَّثَہُ بِذَلِکَ ، فَقَالَ : نَعَمْ ، فَخَرَجَ۔ (بخاری ۲۶۹۸۔ مسلم ۱۴۱۰)
(٣٧٩٩٦) حضرت برائ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بیت اللہ سے روک دیا گیا (تو اس وقت) اہل مکہ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس بات پر مصالحت کرلی کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (آئندہ سال) مکہ میں داخل ہوں گے اور وہاں پر تین دن قیام کریں گے اور مکہ میں صرف اسلحہ کے تھیلے کو ، جس میں تلوار اور زرہ ہوگی ۔۔۔ لے کر آئیں گے اور اہل مکہ میں سے کسی کو لے کر نہیں جائیں گے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ جو لوگ ہوں گے ان میں سے کسی کو یہاں ٹھہرنے سے آپ منع نہیں کریں گے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت علی سے فرمایا : ” ہمارے درمیان معاہدہ تحریر کرو۔ بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم۔ یہ وہ شرائط ہیں جن پر محمدرسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صلح کی ہے۔ “ مشرکین کہنے لگے۔ اگر ہم آپ کو اللہ کا رسول ، مانتے تو ہم آپ کے متبع بن جاتے لیکن (چونکہ ہم نہیں مانتے لہٰذا) آپ یوں لکھیں۔ محمد بن عبداللہ۔ راوی کہتے ہیں : آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت علی کو حکم دیا کہ پہلی والی عبارت مٹا دو ۔ حضرت علی فرمانے لگے۔ نہیں ! خدا کی قسم ! میں اس کو نہیں مٹاؤں گا۔ اس پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : مجھے وہ جگہ دکھاؤ۔ حضرت علی نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو وہ جگہ دکھائی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس جملہ کو مٹا دیا۔ اور (اس کی جگہ) لکھا۔ ابن عبداللہ۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے (اگلے سال) تین دن مکہ میں قیام فرمایا۔ جب تیسرا دن آیا تو مشرکین نے حضرت علی سے کہا۔ یہ تمہارے ساتھی کی شرط کے مطابق آخری دن ہے پس تم ان سے کہو کہ وہ مکہ سے باہر چلے جائیں۔ حضرت علی نے یہ بات نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ہاں ! پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) باہر نکل گئے۔

37996

(۳۷۹۹۷) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ زَکَرِیَّا ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنِ الْبَرَائِ، قَالَ: نَزَلْنَا یَوْمَ الْحُدَیْبِیَۃِ ، فَوَجَدْنَا مَائَہَا قَدْ شَرِبَہُ أَوَائِلُ النَّاسِ ، فَجَلَسَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَی الْبِئْرِ ، ثُمَّ دَعَا بِدَلْوٍ مِنْہَا ، فَأَخَذَ مِنْہُ بِفِیہِ، ثُمَّ مَجَّہُ فِیہَا وَدَعَا اللَّہَ ، فَکَثُرَ مَاؤُہَا حَتَّی تَرَوَّی النَّاسُ مِنْہَا۔
(٣٧٩٩٧) حضرت براء بن عازب سے روایت ہے کہ ہم نے (جب) حدیبیہ کے دن پڑاؤ کیا تو ہم نے اس کے کنویں کو اس حال میں پایا کہ (ہم سے) پہلے والے لوگ اس سے پی چکے تھے۔ پس آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کنویں کے منڈیر پر تشریف فرما ہوئے پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس میں سے ایک ڈول منگوایا اور اس میں سے اپنے منہ مبارک میں پانی لیا اور پھر اس پانی کو دوبارہ ڈول میں کلی کردیا اور اللہ سے دعا کی۔ تو اس کنویں کا پانی اتنا زیادہ ہوگیا کہ سارے لوگ اس سے سیراب ہوگئے۔

37997

(۳۷۹۹۸) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنْ عَطَائٍ ، قَالَ : خَرَجَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مُعْتَمِرًا فِی ذِی الْقَعْدَۃِ وَمَعَہُ الْمُہَاجِرِونَ وَالأََنْصَارُ حَتَّی أَتَی الْحُدَیْبِیَۃَ ، فَخَرَجَتْ إِلَیْہِ قُرَیْشٌ فَرَدُّوہُ عَنِ الْبَیْتِ ، حَتَّی کَانَ بَیْنَہُمْ کَلاَمُ وَتَنَازُعٌ ، حَتَّی کَادَ یَکُونُ بَیْنَہُمْ قِتَالٌ ، قَالَ : فَبَایَعَ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَصْحَابُہُ وَعِدَّتُہُمْ أَلْفٌ وَخَمْسُ مِئَۃٍ تَحْتَ الشَّجَرَۃِ ، وَذَلِکَ یَوْمُ بَیْعَۃِ الرُّضْوَانِ ، فَقَاضَاہُمَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَتْ قُرَیْشٌ : نُقَاضِیکَ عَلَی أَنْ تَنْحَرَ الْہَدْیَ مَکَانَہُ ، وَتَحْلِقَ وَتَرْجِعَ ، حَتَّی إِذَا کَانَ الْعَامُ الْمُقْبِلُ نُخَلِّی لَکَ مَکَّۃَ ثَلاَثَۃَ أَیَّامٍ ، فَفَعَلَ۔ قَالَ : فَخَرَجُوا إِلَی عُکَاظٍ ، فَأَقَامُوا فِیہَا ثَلاَثًا ، وَاشْتَرَطُوا عَلَیْہِ أَنْ لاَ یَدْخُلَہَا بِسِلاَحٍ إِلاَّ بِالسَّیْفِ ، وَلاَ تَخْرُجَ بِأَحَدٍ مِنْ أَہْلِ مَکَّۃَ إِنْ خَرَجَ مَعَکَ ، فَنَحَرَ الْہَدْیَ مَکَانَہُ ، وَحَلَقَ وَرَجَعَ ، حَتَّی إِذَا کَانَ فِی قَابِلِ فِی تِلْکَ الأَیَّامِ دَخَلَ مَکَّۃَ ، وَجَائَ بِالْبُدْنِ مَعَہُ ، وَجَائَ النَّاسُ مَعَہُ ، فَدَخَلَ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ ، فَأَنْزَلَ اللَّہُ عَلَیْہِ : {لَقَدْ صَدَقَ اللَّہُ رَسُولَہُ الرُّؤْیَا بِالْحَقِّ ، لَتَدْخُلُنَّ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ إِنْ شَائَ اللَّہُ آمِنِینَ} قَالَ : وَأَنْزَلَ اللَّہُ عَلَیْہِ : {الشَّہْرُ الْحَرَامُ بِالشَّہْرِ الْحَرَامِ وَالْحُرُمَاتُ قِصَاصٌ ، فَمَنِ اعْتَدَی عَلَیْکُمْ فَاعْتَدُوا عَلَیْہِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدَی عَلَیْکُمْ} فَإِنْ قَاتَلُوکُمْ فِی الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ فَقَاتِلُوہُمْ ، فَأَحَلَّ اللَّہُ لَہُمْ إِنْ قَاتَلُوہُ فِی الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ أَنْ یُقَاتِلَہُمْ فِیْہِ ، فَأَتَاہُ أَبُو جَنْدَلِ بْنُ سُہَیْلِ بْنِ عَمْرٍو ، وَکَانَ مُوثَقًا ، أَوْثَقَہُ أَبُوہُ ، فَرَدَّہُ إِلَی أَبِیہِ۔
(٣٧٩٩٨) حضرت عطاء سے منقول ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ذوالقعدہ میں عمرہ کرنے کے لیے نکلے ۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ مہاجرین و انصار کی ایک جماعت بھی تھی۔ یہاں تک کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خیبر میں پہنچے۔ پس آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس قریش کے لوگ آگئے تاکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بیت اللہ سے واپس کردیں اس دوران ان کے درمیان سخت گفتگو اور نزاع کھڑا ہوگیا۔ قریب تھا کہ یہ لوگ باہم لڑ پڑتے۔ راوی کہتے ہیں : نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے صحابہ سے ایک درخت کے نیچے بیعت لی۔ صحابہ کی تعداد ایک ہزار پانچ سو تھی۔ یہی بیعت رضوان کا دن کہلاتا ہے۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قریش کے ساتھ مصالحت فرمائی۔ قریش نے کہا۔ ہم آپ کے ساتھ اس شرط پر صلح کرتے ہیں کہ آپ ہدی کے جانور یہیں ذبح کردیں اور حلق کر کے لوٹ جائیں۔ اور جب آئندہ سال آئے گا تو ہم آپ کو تین دن تک مکہ میں رہنے کی اجازت دیں گے۔ پس آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ بات مان لی ۔ راوی کہتے ہیں : پھر لوگ عکاظ کی طرف نکل گئے اور انھوں نے وہاں پر تین دن قیام کیا۔ مشرکین نے یہ بھی شرط رکھی تھی کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ میں تلوار کے علاوہ کوئی اسلحہ لے کر داخل نہیں ہوں گے۔ اور اہل مکہ میں سے اگر کوئی آپ کے ساتھ جانا چاہے گا تو آپ اسے لے کر نہیں جائیں گے۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہدی کے جانور کو اسی جگہ نحر کردیا اور حلق کروا کر واپس تشریف لے آئے۔ جب آئندہ سال کے یہی ایام آئے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ میں داخل ہوئے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے ہمراہ کئی اونٹ لے کر تشریف لائے اور بہت سے لوگ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہمراہ تھے۔ پس یہ لوگ مسجد حرام میں داخل ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے یہ کلمات نازل فرمائے۔ { لَقَدْ صَدَقَ اللَّہُ رَسُولَہُ الرُّؤْیَا بِالْحَقِّ ، لَتَدْخُلُنَّ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ إِنْ شَائَ اللَّہُ آمِنِینَ } راوی کہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت بھی نازل فرمائی۔ { الشَّہْرُ الْحَرَامُ بِالشَّہْرِ الْحَرَامِ وَالْحُرُمَاتُ قِصَاصٌ ، فَمَنِ اعْتَدَی عَلَیْکُمْ فَاعْتَدُوا عَلَیْہِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدَی عَلَیْکُمْ } یعنی اگر وہ تم سے مسجد حرام میں لڑیں تو تم بھی ان سے لڑو۔ پس اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے یہ بات حلال کردی ہے کہ اگر وہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مسجد حرام مں ت لڑیں تو آپ بھی مسجد حرام میں ان سے لڑیں۔ ابو جندل بن سہیل بن عمرو، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے جبکہ وہ بندھے ہوئے تھے اور انھیں ان کے والد نے باندھا تھا ۔ لیکن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انھیں ان کے والد کی طرف رد کردیا۔

37998

(۳۷۹۹۹) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ ہَاشِمٍ ، عَنِ ابْنِ أَبِی لَیْلَی ، عَنِ الْحَکَمِ ، عَنْ مِقْسَمٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : قدِمَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابُہُ فِی الْہُدْنَۃِ الَّتِی کَانَتْ قَبْلَ الصُّلْحِ الَّذِی کَانَ بَیْنَہُ وَبَیْنَہُمْ ، قَالَ : وَالْمُشْرِکُونَ عِنْدَ بَابِ النَّدْوَۃِ مِمَّا یَلِی الْحِجْرَ ، وَقَدْ تَحَدَّثُوا أَنَّ بِرَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابِہِ جُہْدًا وَہُزْلاً ، فَلَمَّا اسْتَلَمُوا ، قَالَ لَہُمْ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إِنَّہُمْ قَدْ تَحَدَّثُوا أَنَّ بِکُمْ جُہْدًا وَہُزْلاً ، فَارْمُلُوا ثَلاَثَۃَ أَشْوَاطٍ حَتَّی یَرَوْا أَنَّ بِکُمْ قُوَّۃً ، قَالَ : فَلَمَّا اسْتَلَمُوا الْحَجَرَ رَفَعُوا أَرْجُلَہُمْ فَرَمَلُوا ، حَتَّی قَالَ بَعْضُہُمْ لِبَعْضٍ : أَلَیْسَ زَعَمْتُمْ أَنَّ بِہِمْ ہُزْلاً وَجُہْدًا ، وَہُمْ لاَ یَرْضَوْنَ بِالْمَشْیِ حَتَّی یَسْعَوْا سَعْیًا ؟۔ (احمد ۳۵۶۔ طبرانی ۱۲۰۷۷)
(٣٧٩٩٩) حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ ، مشرکین اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے درمیان ہونے والی صلح کے بعد تشریف لائے۔ راوی کہتے ہیں : مشرکین حجر اسود سے متصل باب الندوۃ کے پاس موجود تھے اور باہم یہ گفتگو کر رہے تھے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ کو کمزوری اور لاغری لاحق ہوگئی ہے۔ تو جب صحابہ نے استلام کیا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ سے فرمایا : یہ لوگ باہم یہ گفتگو کر رہے ہیں کہ تمہیں کمزوری اور لاغری لاحق ہوچکی ہے۔ پس تم تین چکروں میں رمل کرو۔ تاکہ وہ دیکھ لیں کہ تم قوی ہو۔ راوی کہتے ہں ت : جب صحابہ نے استلام کیا تو قدم اٹھاتے ہی انھوں نے رمل شروع کردیا۔ اس پر مشرکین میں سے بعض نے بعض سے کہا۔ تمہارا تو خیال یہ نہیں تھا کہ انھیں کمزوری اور لاغری لاحق ہوچکی ہے۔ جبکہ یہ لوگ تو خالی چلنے پر راضی نہیں ہیں جب تک کہ دوڑ نہ لیں۔

37999

(۳۸۰۰۰) حَدَّثَنَا یُونُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا مُجَمِّعُ بْنُ یَعْقُوبَ ، قَالَ : حَدَّثَنِی أَبِی ، عَنْ عَمِّہِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ یَزِیدَ ، عَنْ مُجَمِّعِ بْنِ جَارِیَۃَ ، قَالَ : شَہِدْتُ الْحُدَیْبِیَۃَ مَعَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَلَمَّا انْصَرَفْنَا عَنْہَا إِذَا النَّاسُ یُوجِفُونَ الأَبَاعِرَ ، فَقَالَ بَعْضُ النَّاسِ لِبَعْضٍ : مَا لِلنَّاسِ ؟ فَقَالُوا : أُوحِیَ إِلَی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : فَخَرَجْنَا نُوجِفُ مَعَ النَّاسِ حَتَّی وَجَدْنَا رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَاقِفًا عِنْدَ کُرَاعِ الْغَمِیمِ ، فَلَمَّا اجْتَمَعَ إِلَیْہِ بَعْضُ مَا یُرِیدُ مِنَ النَّاسِ ، قَرَأَ عَلَیْہِمْ : (إنَّا فَتَحْنَا لَک فَتْحًا مُبِینًا) فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِہِ : یَا رَسُولَ اللہِ ، أَوَفَتْحٌ ہُوَ ؟ قَالَ : إِیْ ، وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ ، إِنَّہُ لَفَتْحٌ ، قَالَ : فَقُسِّمَتْ عَلَی أَہْلِ الْحُدَیْبِیَۃِ ، عَلَی ثَمَانیَۃَ عَشَرَ سَہْمًا ، وَکَانَ الْجَیْشُ أَلْفًا وَخَمْسَ مِئَۃٍ ، وَثَلاَثُ مِئَۃ فَارِسٍ ، فَکَانَ لِلْفَارِسِ سَہْمَانِ۔
(٣٨٠٠٠) حضرت مجمع بن جاریہ سے روایت ہے کہ میں، حدیبیہ میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہمراہ تھا۔ پس جب ہم حدیبیہ سے واپس پلٹے تو لوگوں نے اونٹوں کو تیز رفتار سے بھگانا شروع کیا۔ پھر بعض صحابہ نے بعض سے پوچھا۔ لوگوں کو کیا ہوگیا ہے ؟ انھوں نے جواب دیا۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر وحی نازل ہوئی ہے۔ راوی کہتے ہیں : پھر ہم بھی لوگوں کے ہمراہ سواریاں دوڑاتے ہوئے نکلے یہاں تک کہ ہم نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کراع غمیم نامی پہاڑ کے پاس کھڑے پایا۔ پس جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آپ کے مطلوبہ افراد جمع ہوگئے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ آیت تلاوت فرمائی۔ {إنَّا فَتَحْنَا لَک فَتْحًا مُبِینًا }
آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ میں سے ایک صاحب نے عرض کیا۔ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! کیا یہ فتح ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ہاں ! قسم اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے۔ بلاشبہ یہ فتح ہے۔ راوی کہتے ہیں : پس اہل حدیبیہ پر اٹھارہ حصوں میں یہ فتح تقسیم کی گئی ۔ لشکر کی تعداد پندرہ سو تھی۔ اور تین سو (ان میں) گھڑ سوار تھے ۔ اور گھڑ سوار کو دو حصے ملے تھے۔

38000

(۳۸۰۰۱) حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ بْنُ مُوسَی ، عَنْ مُوسَی بْنِ عُبَیْدَۃَ ، عَنْ إِیَاسِ بْنِ سَلَمَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی غَزْوَۃِ الْحُدَیْبِیَۃِ ، فَنَحَرَ مِئَۃَ بَدَنَۃٍ ، وَنَحْنُ سَبْعَ عَشْرَۃَ مِئَۃ ، وَمَعَہُمْ عِدَّۃُ السِّلاَحِ وَالرِّجَالِ وَالْخَیْلِ ، وَکَانَ فِی بُدْنِہِ جَمَلٌ ، فَنَزَلَ الْحُدَیْبِیَۃَ فَصَالَحَتُہُ قُرَیْشٌ عَلَی أَنَّ ہَذَا الْہَدْیَ مَحَلُّہُ حَیْثُ حَبَسْنَاہُ۔ (ابن سعد ۱۰۲)
(٣٨٠٠١) حضرت ایاس بن سلمہ، اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ غزوہ حدیبیہ میں نکلے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک صد جانور نحر کئے۔ ہماری تعداد سترہ سو تھی اور ان کے پاس، اسلحہ ، افراد اور گھوڑوں کی تیاری بھی تھی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے جانوروں میں اونٹ بھی تھا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حدیبیہ میں پڑاؤ ڈالا تو قریش نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس بات پر صلح کرلی کہ ہم نے جہاں پر ہدی کے جانوروں کو روکا ہے وہیں پر ان کو حلال کردیا جائے۔

38001

(۳۸۰۰۲) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِیزِ بْنُ سِیَاہٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا حَبِیبُ بْنُ أَبِی ثَابِتٍ ، عَنْ أَبِی وَائِلٍ ، عَنْ سَہْلِ بْنِ حُنَیْفٍ ، قَالَ : لَقَدْ کُنَّا مَعَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَوْ نَرَی قِتَالاً لَقَاتَلْنَا ، وَذَلِکَ فِی الصُّلْحِ الَّذِی کَانَ بَیْنَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَبَیْنَ الْمُشْرِکِینَ ، فَجَائَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ فَأَتَی رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : یَا رَسُولَ اللہِ ، أَلَسْنَا عَلَی حَقٍّ وَہُمْ عَلَی بَاطِلٍ ؟ قَالَ : بَلَی ، قَالَ : أَلَیْسَ قَتْلاَنَا فِی الْجَنَّۃِ وَقَتْلاَہُمْ فِی النَّارِ ؟ قَالَ : بَلَی ، قَالَ : فَفِیمَ نُعْطِی الدَّنِیَّۃَ ، وَنَرْجِعُ وَلَمَّا یَحْکُمَ اللَّہُ بَیْنَنَا وَبَیْنَہُمْ ؟ قَالَ : یَابْنَ الْخَطَّابِ ، إِنِّی رَسُولُ اللہِ ، وَلَنْ یُضَیِّعَنِی اللَّہُ أَبَدًا ، قَالَ : فَانْطَلَقَ عُمَرُ ، وَلَمْ یَصْبِرْ ، مُتَغَیِّظًا حَتَّی أَتَی أَبَا بَکْرٍ ، فَقَالَ : یَا أَبَا بَکْرٍ ، أَلَسْنَا عَلَی حَقٍّ وَہُمْ عَلَی بَاطِلٍ ؟ قَالَ : بَلَی ، قَالَ : أَلَیْسَ قَتْلاَنَا فِی الْجَنَّۃِ وَقَتْلاَہُمْ فِی النَّارِ ؟ قَالَ : بَلَی ، قَالَ : فَعَلَی مَ نُعْطِی الدَّنِیَّۃَ فِی دِینِنَا ، وَنَرْجِعُ وَلَمَّا یَحْکُمَ اللَّہُ بَیْنَنَا وَبَیْنَہُمْ؟ قَالَ : یَا ابْنَ الْخَطَّابِ ، إِنَّہُ رَسُولُ اللہِ ، وَلَنْ یُضَیِّعَہُ اللَّہُ أَبَدًا ، قَالَ : فَنَزَلَ الْقُرْآنُ عَلَی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِالْفَتْحِ ، فَأَرْسَلَ إِلَی عُمَرَ فَأَقْرَأَہُ إیَّاہُ ، فَقَالَ : یَا رَسُولَ اللہِ ، أَوَفَتْحٌ ہُوَ ؟ قَالَ : نَعَمْ ، فَطَابَتْ نَفْسُہُ وَرَجَعَ۔ (بخاری ۳۱۸۲۔ مسلم ۱۴۱۱)
(٣٨٠٠٢) حضرت سہل بن حنیف سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہمراہ تھے۔ اگر ہماری رائے قتال کی ہوجاتی تو ہم قتال کرتے ۔ یہ اس صلح کے دوران کی بات ہے جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مشرکین کے درمیان ہوئی تھی۔ حضرت عمر بن خطاب آئے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا۔ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! کیا ہم لوگ حق پر نہیں ہیں اور وہ لوگ باطل پر نہیں ہیں ؟ ّ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : کیوں نہیں ! پھر حضرت عمر نے پوچھا۔ کیا ہمارے مقتولین جنت میں اور ان کے مقتولین جہنم میں نہیں جائیں گے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کیوں نہیں ! حضرت عمر نے عرض کیا۔ پھر ہم ایسی گھٹیا بات کہہ کر کیوں لوٹ رہے ہیں ؟ ابھی تک اللہ تعالیٰ نے ہمارے اور ان کے درمیان فیصلہ نہیں کیا ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : خطاب کے بیٹے ! میں اللہ کا رسول ہوں۔ اللہ تعالیٰ مجھے ہرگز ضائع نہیں کریں گے۔
راوی کہتے ہیں۔ پھر حضرت عمر کو صبر نہ آیا اور وہ غصہ کی حالت میں چل دیئے اور حضرت ابوبکر کے پاس حاضر ہوئے اور عرض کیا۔ اے ابوبکر ! کیا ہم لوگ حق پر اور وہ لوگ باطل پر نہیں ہیں ؟ حضرت ابوبکر نے فرمایا : کیوں نہیں ! حضرت عمر نے پوچھا۔ کیا ہمارے مقتولین جنت میں اور ان کے مقتولین جہنم میں نہیں جائیں گے ؟ حضرت ابوبکر نے فرمایا : کیوں نہیں۔ حضرت عمر نے کہا۔ پھر ہم اپنے دین کے متعلق ایسی گھٹیا بات کہہ کر کیوں جا رہے ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ نے ابھی تک ہمارے اور ان کے درمیان فیصلہ نہیں کیا ؟ حضرت ابوبکر نے کہا۔ خطاب کے بیٹے ! وہ خدا کے رسول ہیں اور اللہ تعالیٰ ان کو کبھی ضائع نہیں کریں گے۔ راوی کہتے ہیں۔ پھر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر فتح (کے وعدہ کے) ساتھ قرآن نازل ہوا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عمر کی طرف آدمی بھیجا اور (بلا کر) انھیں یہ قرآن پڑھایا۔ حضرت عمر نے عرض کیا۔ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! کیا یہ فتح ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ہاں ! اس پر حضرت عمر کا دل خوش ہوگیا اور وہ لوٹ گئے۔

38002

(۳۸۰۰۳) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَنْ ثَابِتٍ ، عَنْ أَنَسٍ ؛ أَنَّ قُرَیْشًا صَالَحُوا النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیہِمْ سُہَیْلُ بْنُ عَمْرٍو ، فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِعَلِیٍّ : اُکْتُبْ : بِسْمِ اللہِ الرَّحْمَن الرَّحِیمِ ، فَقَالَ سُہَیْلٌ : أَمَّا بِسْمِ اللہِ الرَّحْمَن الرَّحِیمِ فَمَا نَدْرِی مَا بِسْمِ اللہِ الرَّحْمَن الرَّحِیمِ ، وَلَکِنِ اُکْتُبْ بِمَا نَعْرِفُ : بِاسْمِکَ اللَّہُمَّ ، فَقَالَ : اُکْتُبْ مِنْ مُحَمَّدٍ رَسُولِ اللہِ ، قَالُوا : لَوْ عَلِمْنَا أَنَّکَ رَسُولُ اللہِ اتَّبَعَنَاکَ ، وَلَکِنِ اُکْتُبَ اسْمَکَ وَاسْمَ أَبِیکَ ، فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : اُکْتُبْ : مِنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللہِ ، فَاشْتَرَطُوا عَلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّ مَنْ جَائَ مِنْکُمْ لَمْ نَرُدَّہُ عَلَیْکُمْ ، وَمَنْ جَائَکُمْ مِنَّا رَدَدْتُمُوہُ عَلَیْنَا ، فَقَالُوا : یَا رَسُولَ اللہِ ، أَتَکْتُبُ ہَذَا ؟ قَالَ : نَعَمْ ، إِنَّہُ مَنْ ذَہَبَ مِنَّا إِلَیْہِمْ فَأَبْعَدَہُ اللَّہُ ، وَمَنْ جَائَنَا مِنْہُمْ سَیَجْعَلُ اللَّہُ لَہُ فَرَجًا وَمَخْرَجًا۔ (بخاری ۴۱۵۴۔ مسلم ۱۴۸۴)
(٣٨٠٠٣) حضرت انس سے روایت ہے کہ قریش نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مصالحت کی جبکہ ان (مصالحت کرنے والوں) میں سہیل بن عمرو بھی تھا۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت علی سے فرمایا : لکھو ! بِسْمِ اللہِ الرَّحْمَن الرَّحِیمِ سہیل نے کہا یہ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمَن الرَّحِیمِ ہم نہیں جانتے۔ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمَن الرَّحِیمِ کیا ہے۔ ہاں وہ بات لکھو جس کو ہم جانتے ہیں۔ بِاسْمِکَ اللّٰھُمَّ ۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : لکھو ! محمد رسول اللہ کی طرف سے۔ وہ کہنے لگے۔ اگر ہم آپ کو اللہ کا رسول مانتے تو ہم آپ کی اتباع ہی کرلیتے۔ ہاں اپنا اور اپنے والد کا نام لکھو۔ اس پر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : یہ لکھو ! محمد بن عبداللہ کی طرف سے۔ پھر مشرکین قریش نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر یہ شرط لگائی کہ تم میں سے جو آدمی (ہمارے پاس) آئے گا ہم اس کو تمہیں واپس نہیں کریں گے۔ اور ہم میں سے جو آدمی تمہارے پاس آئے گا تو تم اس کو ہماری طرف واپس کرو گے۔ صحابہ نے عرض کیا۔ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! کیا یہ بات بھی لکھی جائے گی ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ہاں ! جو آدمی ہم میں سے ان ی طرف جائے گا تو اللہ اس کو دور کر دے گا۔ اور جو ہمارے پاس ان میں سے آئے گا تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے راہ اور مخرج پیدا کر دے گا۔

38003

(۳۸۰۰۴) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ عَمْرٍو ، سَمِعَ جَابِرًا ، یَقُولُ : کُنَّا یَوْمَ الْحُدَیْبِیَۃِ أَلْفًا وَأَرْبَعَ مِئَۃ ، فَقَالَ لَنَا : أَنْتُمَ الْیَوْمَ خَیْرُ أَہْلِ الأَرْضِ۔
(٣٨٠٠٤) حضرت جابر بیان کرتے ہیں کہ ہم یوم الحدیبیہ کو چودہ سو کی تعداد میں تھے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں ارشاد فرمایا : آج کے دن تم لوگ اہل زمین میں سب سے زیادہ بہتر ہو۔

38004

(۳۸۰۰۵) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ عُرْوَۃَ ، عَنِ الْمِسْوَرِ ، وَمَرْوَانَ ؛ أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَامَ الْحُدَیْبِیَۃِ خَرَجَ فِی بِضْعَ عَشْرَۃَ مِئَۃٍ مِنْ أَصْحَابِہِ ، فَلَمَّا کَانَ بِذِی الْحُلَیْفَۃِ قَلَّدَ الْہَدْیَ ، وَأَشْعَرَ، وَأَحْرَمَ۔
(٣٨٠٠٥) حضرت مسور اور مروان سے روایت ہے کہ حدیبیہ کے سال نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک ہزار سے کچھ زیادہ تعداد میں اپنے صحابہ کے ہمراہ نکلے پس جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ذوالحلیفہ میں تھے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہدی کو مقلد کیا اور شعار کرکے احرام باندھا۔

38005

(۳۸۰۰۶) حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ بْنُ مُوسَی ، عَنْ مُوسَی بْنِ عُبَیْدَۃَ ، عَنْ إِیَاسِ بْنِ سَلَمَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : بَعَثَتْ قُرَیْشٌ سُہَیْلَ بْنَ عَمْرٍو ، وَحُوَیْطِبَ بْنَ عَبْدِ الْعُزَّی ، وَمِکْرَزَ بْنَ حَفْصٍ إِلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِیُصَالِحُوہُ ، فَلَمَّا رَآہُمْ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیہِمْ سُہَیْلٌ ، قَالَ : قَدْ سَہُلَ مِنْ أَمْرِکُمْ ، الْقَوْمُ یَأْتُونَ إِلَیْکُمْ بِأَرْحَامِہِمْ ، وَسَائِلُوکُمُ الصُّلْحَ ، فَابْعَثُوا الْہَدْیَ ، وَأَظْہِرُوا التَّلْبِیَۃِ ، لَعَلَّ ذَلِکَ یُلَیِّنُ قُلُوبَہُمْ ، فَلَبَّوْا مِنْ نَوَاحِی الْعَسْکَرِ ، حَتَّی ارْتَجَّتْ أَصْوَاتُہُمْ بِالتَّلْبِیَۃِ ، قَالَ : فَجَاؤُوہُ فَسَأَلُوا الصُّلْحَ۔ قَالَ : فَبَیْنَمَا النَّاسُ قَدْ تَوَادَعُوا ، وَفِی الْمُسْلِمِینَ نَاسٌ مِنَ الْمُشْرِکِینَ ، وَفِی الْمُشْرِکِینَ نَاسٌ مِنَ الْمُسْلِمِینَ ، فَقِیلَ : أَبُو سُفْیَانَ ، فَإِذَا الْوَادِی یَسِیلُ بِالرِّجَالِ وَالسِّلاَحِ ، قَالَ : قَالَ إِیَاسٌ : قَالَ سَلَمَۃُ : فَجِئْتُ بِسِتَّۃٍ مِنَ الْمُشْرِکِینَ مُسَلَّحِینَ أَسُوقُہُمْ ، مَا یَمْلِکُونَ لأَنْفُسِہِمْ نَفْعًا ، وَلاَ ضَرًّا ، فَأَتَیْنَا بِہِمُ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَلَمْ یَسْلُبْ ، وَلَمْ یَقْتُلْ ، وَعَفَا ، قَالَ : فَشَدَدْنَا عَلَی مَا فِی أَیْدِی الْمُشْرِکِینَ مِنَّا ، فَمَا تَرَکْنَا فِیہِمْ رَجُلاً مِنَّا إِلاَّ اسْتَنْقَذْنَاہُ ، قَالَ : وَغُلِبْنَا عَلَی مَنْ فِی أَیْدِینَا مِنْہُمْ۔ ثُمَّ إِنَّ قُرَیْشًا أَتَتْ سُہَیْلَ بْنَ عَمْرٍو ، وَحُوَیْطِبَ بْنَ عَبْدِ الْعُزَّی ، فَوَلُوا صُلْحَہُمْ ، وَبَعَثَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلِیًّا ، وَطَلْحَۃَ ، فَکَتَبَ عَلِیٌّ بَیْنَہُمْ : بِسْمِ اللہِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ ، ہَذَا مَا صَالَحَ عَلَیْہِ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللہِ قُرَیْشًا ، صَالَحَہُمْ عَلَی أَنَّہُ لاَ إِغْلاَلَ ، وَلاَ إِسْلاَلَ ، وَعَلَی أَنَّہُ مَنْ قَدِمَ مَکَّۃَ مِنْ أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ حَاجًّا ، أَوْ مُعْتَمِرًا ، أَوْ یَبْتَغِی مِنْ فَضْلِ اللہِ ، فَہُوَ آمِنٌ عَلَی دَمِہِ وَمَالِہِ ، وَمَنْ قَدِمَ الْمَدِینَۃَ مِنْ قُرَیْشٍ مُجْتَازًا إِلَی مِصْرَ وَإِلَی الشَّامِ ، یَبْتَغِی مِنْ فَضْلِ اللہِ ، فَہُوَ آمِنٌ عَلَی دَمِہِ وَمَالِہِ ، وَعَلَی أَنَّہُ مَنْ جَائَ مُحَمَّدًا مِنْ قُرَیْشٍ فَہُوَ رَدٌّ ، وَمَنْ جَائَہُمْ مِنْ أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ فَہُوَ لَہُمْ۔ فَاشْتَدَّ ذَلِکَ عَلَی الْمُسْلِمِینَ ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَنْ جَائَہُمْ مِنَّا فَأَبْعَدَہُ اللَّہُ ، وَمَنْ جَائَنَا مِنْہُمْ رَدَدْنَاہُ إِلَیْہِمْ ، یَعْلَمُ اللَّہُ الإِسْلاَمَ مِنْ نَفْسِہِ یَجْعَلُِ اللَّہُ لَہُ مَخْرَجًا۔ وَصَالَحُوہُ عَلَی أَنَّہُ یَعْتَمِرُ عَامًا قَابِلاً فِی مِثْلِ ہَذَا الشَّہْرِ ، لاَ یَدْخُلُ عَلَیْنَا بِخَیْلٍ ، وَلاَ سِلاَحٍ ، إِلاَّ مَا یَحْمِلُ الْمُسَافِرُ فِی قِرَابِہِ ، فَیَمْکُثُ فِیہَا ثَلاَثَ لَیَالٍ ، وَعَلَی أَنَّ ہَذَا الْہَدْیَ حَیْثُ حَبَسْنَاہُ فَہُوَ مَحِلُّہُ ، لاَ یُقْدِمُہُ عَلَیْنَا ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : نَحْنُ نَسُوقُہُ ، وَأَنْتُمْ تَرُدُّونَ وَجْہَہُ۔ (طبری ۹۶)
(٣٨٠٠٦) حضرت ایاس بن سلمہ ، اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ قریش نے سہیل بن عمرو، حویطب ابن عبد العزی اور مکرز بن حفص کو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف بھیجا تاکہ وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے صلح کریں۔ پس جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان میں سہیل کو دیکھا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : تمہارا معاملہ آسان ہوگیا ہے۔ لوگ تمہارے پاس اپنے رشتوں کے ہمراہ آ رہے ہیں۔ اور تم سے صلح کا سوال کر رہے ہیں۔ پس ہدی کے جانوروں کو کھڑا کردو اور تلبیہ کو ظاہر کرو۔ شاید کہ یہ ان کے دلوں کو نرم کر دے۔ صحابہ کرام نے لشکر کے اطراف سے تلبیہ بلند کیا یہاں تک کہ ان کے تلبیہ میں ان کی آوازوں سے گونج پیدا ہوگئی ۔ راوی کہتے ہیں : پس مشرکین آئے اور انھوں نے صلح کی بات کی۔
٢۔ راوی کہتے ہیں : اس دوران جبکہ یہ لوگ باہم۔ مسلمانوں کے لشکر میں مشرکین اور مشرکین کے لشکر میں مسلمان موجود تھے۔ کہا گیا : ابو سفیان ! ! ! اچانک وادی لوگوں اور اسلحہ سے بہنے لگی۔ راوی کہتے ہیں : ایاس بیان کرتے ہیں کہ سلمہ نے کہا۔ میں نے مشرکین میں سے چھ مسلح افراد کو ہانک لیا درآنحالیکہ وہ اپنے لیے کسی نفع اور نقصان کے مالک نہیں تھے ۔ ہم انھیں لے کر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انھیں قتل کیا اور نہ مال چھینا بلکہ معاف فرما دیا۔ راوی کہتے ہیں : پھر مشرکین کے قبضہ میں ہمارے جو ساتھی تھے ہم نے ان کے بارے میں سختی کی اور مشرکین کے قبضہ میں ان میں سے کسی کو بھی نہیں چھوڑا بلکہ چھڑا لیا۔ راوی کہتے ہیں : ہمارے قبضہ میں جو ان کے افراد تھے ہم ان پر غالب رہے۔
٣۔ پھر قریش، سہیل بن عمرو اور حویطب بن عبد العزی کے پاس گئے اور انھیں اپنی صلح کا متولی بنایا۔ اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت علی اور حضرت طلحہ کو بھیجا۔ حضرت علی نے ان کے درمیان فیصلہ تحریر کیا۔ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمَن الرَّحِیمِ ۔ یہ وہ تحریر ہے جس پر محمد رسول اللہ نے قریش سے صلح کی ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے اس بات پر صلح کی ہے کہ نہ تو دھوکا دہی ہوگی اور نہ ہی شرائط کی خلاف ورزی اور یہ بھی شرط ہے کہ اصحابِ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں سے جو آدمی حج وعمرہ کرنے یا اللہ کی رضا کے لیے مکہ مکرمہ آئے گا تو اس کے خون اور مال کو امن ہوگا۔ اور قریش میں سے جو شخص مدینہ میں مصر یا شام کی طرف جانے کے لیے آئے اور اللہ کے فضل کا متلاشی ہو تو اس کا مال اور خون بھی مامون ہوگا۔ اور یہ شرط بھی تھی کہ قریش میں سے جو شخص محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے گا تو واپس کیا جائے گا اور جو شخص محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ میں سے قریش کی طرف آئے گا تو وہ انہی کے پاس ہوگا۔
٤۔ یہ بات اہل اسلام پر بہت شاق گزری۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جو شخص ان میں سے ہماری طرف آئے گا تو ہم اس کو ان کی طرف واپس کردیں گے (حالانکہ) اللہ تعالیٰ اس کے دل سے اسلام کو جانتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس کے لیے راہ بنا دے گا۔
٥۔ قریش نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس بات پر صلح کی کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آئندہ سال انہی مہینوں میں عمرہ کریں گے (لیکن) ہمارے پاس گھوڑے اور اسلحہ لے کر نہیں آئیں گے سوائے اس مقدار کے جو ایک مسافر اپنے تھیلے میں رکھتا ہے۔ اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (آئندہ سال) مکہ میں تین دن قیام کریں گے۔ اور یہ شرط بھی تھی کہ اس ہدی کو جہاں پر ہم نے روکا ہے وہیں پر اس کو حلال کریں۔ ان کو مزید آگے نہیں ہانکیں گے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا۔ ہم تو اس کو ہانکیں گے اور تم اس کو واپس موڑ دینا۔

38006

(۳۸۰۰۷) حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ بْنُ مُوسَی ، عَنْ مُوسَی بْنِ عُبَیْدَۃَ ، قَالَ : حدَّثَنِی إِیَاسُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : بَعَثَتْ قُرَیْشٌ خَارِجَۃَ بْنَ کُرْزٍ یَطَّلِعُ لَہَمْ طَلِیعَۃً ، فَرَجَعَ حَامِدًا یُحْسِنُ الثَّنَائَ ، فَقَالُوا لَہُ : إِنَّک أَعْرَابِیٌّ ، قَعْقَعُوا لَکَ السِّلاَحَ فَطَارَ فُؤَادُکَ ، فَمَا دَرَیْتَ مَا قِیلَ لَکَ وَمَا قُلْتَ ، ثُمَّ أَرْسَلُوا عُرْوَۃَ بْنَ مَسْعُودٍ فَجَائَہُ ، فَقَالَ : یَا مُحَمَّدُ ، مَا ہَذَا الْحَدِیثُ ؟ تَدْعُو إِلَی ذَاتِ اللہِ ، ثُمَّ جِئْتَ قَوْمَکَ بِأَوْبَاشِ النَّاسِ ، مَنْ تَعْرِفُ وَمَنْ لاَ تَعْرِفُ ، لِتَقْطَعَ أَرْحَامَہُمْ ، وَتَسْتَحِلَّ حُرْمَتَہُمْ وَدِمَائَہُمْ وَأَمْوَالَہُمْ ، فَقَالَ : إِنِّی لَمْ آتِ قَوْمِی إِلاَّ لأَصِلَ أَرْحَامَہُمْ ، یُبَدِّلُہُمُ اللَّہُ بِدِینٍ خَیْرٍ مِنْ دِینِہِمْ ، وَمَعَایِشَ خَیْرٍ مِنْ مَعَایِشِہِمْ ، فَرَجَعَ حَامِدًا بِحُسْنِ الثَّنَائَ۔ قَالَ : قَالَ إِیَاسٌ ، عَنْ أَبِیہِ : فَاشْتَدَّ الْبَلاَئُ عَلَی مَنْ کَانَ فِی یَدِ الْمُشْرِکِینَ مِنَ الْمُسْلِمِینَ ، قَالَ : فَدَعَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عُمَرَ ، فَقَالَ : یَا عُمَرُ ، ہَلْ أَنْتَ مُبَلِّغٌ عَنِّی إِخْوَانَکَ مِنْ أُسَارَی الْمُسْلِمِینَ ؟ فَقَالَ : لاَ ، یَا نَبِیَّ اللہِ ، وَاللہِ مَا لِی بِمَکَّۃَ مِنْ عَشِیرَۃٍ ، غَیْرِی أَکْثَرُ عَشِیرَۃً مِنِّی ، فَدَعَا عُثْمَانَ فَأَرْسَلَہُ إِلَیْہِمْ ، فَخَرَجَ عُثْمَانُ عَلَی رَاحِلَتِہِ ، حَتَّی جَائَ عَسْکَرَ الْمُشْرِکِینَ ، فَعَبِثُوا بِہِ ، وَأَسَاؤُوا لَہُ الْقَوْلَ ، ثُمَّ أَجَارَہُ أَبَانُ بْنُ سَعِیدِ بْنِ الْعَاصِ ، ابْنُ عَمِّہِ ، وَحَمَلَہُ عَلَی السَّرْجِ وَرَدِفَہُ ، فَلَمَّا قَدِمَ ، قَالَ : یَابْنَ عَمِّ ، مَا لِی أَرَاک مُتَحَشِّفًًا ؟ أَسْبِلْ ، قَالَ : وَکَانَ إِزَارُہُ إِلَی نِصْفِ سَاقَیْہِ ، فَقَالَ لَہُ عُثْمَانُ : ہَکَذَا إِزْرَۃُ صَاحِبِنَا ، فَلَمْ یَدَعْ أَحَدًا بِمَکَّۃَ مِنْ أُسَارَی الْمُسْلِمِینَ ، إِلاَّ أَبْلَغَہُمْ مَا قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔ قَالَ سَلَمَۃُ : فَبَیْنَمَا نَحْنُ قَائِلُونَ ، نَادَی مُنَادِی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : أَیُّہَا النَّاسُ ، الْبَیْعَۃَ ، الْبَیْعَۃَ ، نَزَلَ رُوحُ الْقُدُسِ ، قَالَ : فَسِرْنَا إِلَی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَہُوَ تَحْتَ شَجَرَۃِ سَمُرَۃٍ ، فَبَایَعْنَاہُ ، وَذَلِکَ قَوْلُ اللہِ : {لَقَدْ رَضِیَ اللَّہُ عَنِ الْمُؤْمِنِینَ إِذْ یُبَایِعُونَکَ تَحْتَ الشَّجَرَۃِ} قَالَ : فَبَایَعَ لِعُثْمَانَ إِحْدَی یَدَیْہِ عَلَی الأُخْرَی ، فَقَالَ النَّاسُ : ہَنِیئًا لأَبِی عَبْدِ اللہِ ، یَطُوفُ بِالْبَیْتِ وَنَحْنُ ہَاہُنَا ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لَوْ مَکَثَ کَذَا وَکَذَا سَنَۃً ، مَا طَافَ حَتَّی أَطُوفَ۔
(٣٨٠٠٧) حضرت ایاس بن سلمہ، اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ قریش نے خارجہ بن کرز کو اپنے لیے جاسوسی کرنے کے لیے بھیجا۔ تو وہ (صحابہ کرام کی) تعریفیں کرتے ہوئے واپس پلٹا۔ تو قریش نے اس سے کہا۔ تو دیہاتی آدمی ہے۔ انھوں نے تجھے اسلحہ کی جھنکار سنائی تو تیرا دل اڑ گیا۔ پس تجھے کچھ پتہ نہیں چلا کہ تجھے کیا کیا گیا اور تو نے کیا کہا۔ پھر قریش نے عروہ بن مسعود کو بھیجا۔ وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا ۔ اے محمد ! یہ کیا بات ہے ؟ تو خدا کی ذات کی طرف بلاتا ہے اور پھر تو اپنی قوم کے پاس اوباش لوگوں کو لاتا ہے۔ جن میں سے بعض کو تو جانتا ہے اور بعض کو نہیں جانتا۔۔۔ تاکہ تو ان سے قطع رحمی کرے اور ان کی حرمتوں، خون اور اموال کو حلال کرے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : میں تو اپنی قوم کے پاس صرف اس لیے آیا ہوں تاکہ میں ان سے صلح رحمی کروں۔ اللہ ان کو ان کے دین کے بدلہ ایک اس سے بہتر دین اور ان کی معیشت سے بہتر معیشت دیتا ہے۔ پس (یہ بات سن کر) وہ بھی تعریفیں کرتے ہوئے لوٹا۔ راوی کہتے ہیں : حضرت ایاس اپنے والد سے روایت کرتے ہیں، مشرکین کے قبضہ میں جو مسلمان موجود تھے ان پر مصائب کی شدت اور بڑھ گئی۔ راوی کہتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عمر کو بلایا اور اشارہ فرمایا۔ اے عمر ! کیا اپنے مسلمان قیدی بھائیوں کو تم اپنی طرف سے پیغام پہنچا (آؤ) گے۔ حضرت عمر نے عرض کیا۔ اے اللہ کے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! میرا تو مکہ میں کوئی بڑا خاندان نہیں ہے۔ جبکہ میرے علاوہ لوگ مجھ سے زیادہ وہاں خاندانی روابط رکھتے ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عثمان کو بلایا اور ان کو اہل مکہ کی طرف روانہ کیا۔ حضرت عثمان ، اپنی سواری پر سوار ہو کر نکلے یہاں تک کہ آپ مشرکین کے لشکر کے پاس پہنچے۔ انھوں نے آپ سے لا یعنی باتیں شروع کیں۔ اور بیہودہ گفتگو کی۔ لیکن پھر حضرت عثمان کو ابان بن سعد بن العاص نے ۔۔۔ جو حضرت عثمان کا چچا زاد تھا ۔۔۔ پناہ دی ۔ اور انھیں اپنی زین پر سوار کیا اور خود آپ کے پیچھے سوار ہوگیا پھر جب یہ کچھ آگے بڑھے تو اس نے کہا۔ اے چچا زاد ! کیا وجہ ہے کہ میں تجھے پرانے کپڑے پہنے ہوئے دیکھ رہا ہوں ؟ شلوار نیچے کرو (یعنی ٹخنے ڈھانپ لو) ۔ راوی کہتے ہیں : حضرت عثمان کی ازار نصف پنڈلی تک تھی ۔۔۔ حضرت عثمان نے جواباً اس کو ارشاد فرمایا : ہمارے صاحب (نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) کی ازار بھی اسی طرح ہوتی ہے۔ پھر حضرت عثمان نے مسلمان قیدیوں میں سے کسی کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا پیغام پہنچائے بیرے نہیں چھوڑا (یعنی سب کو پیغام دیا) حضرت سلمہ فرماتے ہیں۔ اس دوران جبکہ ہم قیلولہ کر رہے تھے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے منادی نے آواز دی۔ اے لوگو ! بیعت (محمد) بیعت ! روح القدس نازل ہوئے ہیں۔ راوی کہتے ہیں : پس ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف چل دئیے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک کیکر کے درخت کے نیچے تشریف فرما تھے۔ ہم نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیعت کی۔ اسی کا ذکر اس آیت میں ہے۔ { لَقَدْ رَضِیَ اللَّہُ عَنِ الْمُؤْمِنِینَ إِذْ یُبَایِعُونَکَ تَحْتَ الشَّجَرَۃِ }
راوی کہتے ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عثمان کے لیے بیعت اس طرح لی کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنا ایک ہاتھ دوسرے پر رکھ لیا۔ لوگ کہنے لگے۔ ابو عبداللہ کی خوش قسمتی ہے۔ وہ بیت اللہ کا طواف کررہا ہے اور ہم یہاں پر ہیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اگر وہ کئی سال بھی وہاں رہے تب بھی طواف نہیں کرے گا جب تک میں طواف نہیں کروں گا۔

38007

(۳۸۰۰۸) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِی یَحْیَی ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ أَبِی سَعِیدٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَوْمَ الْحُدَیْبِیَۃِ : لاَ تُوقِدُوا نَارًا بِلَیْلٍ ، ثُمَّ قَالَ : أَوْقِدُوا وَاصْطَنِعُوا ، فَإِنَّہُ لَنْ یُدْرِکَ قَوْمٌ بَعْدَکُمْ مُدَّکُمْ ، وَلاَ صَاعَکُمْ۔
(٣٨٠٠٨) حضرت ابو سعید سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حدیبیہ کے دن ارشاد فرمایا : تم لوگ رات کے وقت آگ نہ جلانا۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : آگ جلاؤا ور (کھانا) بناؤ۔ تمہارے بعد کوئی قوم تمہارے مُد اور صاع (کے ثواب) کو نہیں پا سکے گی۔

38008

(۳۸۰۰۹) حَدَّثَنَا ابْنُ إِدْرِیسَ ، عَنْ حُصَیْنٍ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنْ جَابِرٍ ، قَالَ : أَصَابَ النَّاسَ عَطَشٌ یَوْمَ الْحُدَیْبِیَۃِ ، قَالَ : فَجَہَشَ النَّاسُ إِلَی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : فَوَضَعَ یَدَہُ فِی الرَّکْوَۃِ ، فَرَأَیْتُ الْمَائَ مِثْلَ الْعُیُونِ ، قَالَ : قُلْتُ : کَمْ کُنْتُمْ ؟ قَالَ : لَوْ کُنَّا مِئَۃَ أَلْفٍ لَکَفَانَا ، کُنَّا خَمْسَ عَشْرَۃَ مِئَۃ۔ (بخاری ۳۵۷۶۔ مسلم ۱۲۸۴)
(٣٨٠٠٩) حضرت جابر سے روایت ہے کہ حدیبیہ کے دن لوگوں کو شدید پیاس لگی ۔ راوی کہتے ہیں : لوگ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف لپکے۔ چنانچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنا ہاتھ چمڑے کے برتن میں رکھا تو میں نے پانی کو چشموں کی طرح دیکھا۔ حضرت سالم کہتے ہیں کہ میں نے حضرت جابر سے پوچھا : تم لوگ کتنی تعداد میں تھے۔ انھوں نے جواب دیا۔ اگر ہم ایک لاکھ بھی ہوتے تو وہ پانی ہمیں کفایت کرجاتا (ویسے) ہم پندرہ سو کی تعداد میں تھے۔

38009

(۳۸۰۱۰) حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیزِ الأَنْصَارِیُّ ، قَالَ : حَدَّثَنِی ابْنُ شِہَابٍ، قَالَ : حَدَّثَنِی عُرْوَۃُ بْنُ الزُّبَیْرِ ؛ أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خَرَجَ عَامَ الْحُدَیْبِیَۃِ فِی أَلْفٍ وَثَمَانِ مِئَۃٍ ، وَبَعَثَ بَیْنَ یَدَیْہِ عَیْنًا لَہُ مِنْ خُزَاعَۃَ ، یُدْعَی نَاجِیَۃَ ، یَأْتِیہِ بِخَبَرِ الْقَوْمُ ، حَتَّی نَزَلَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ غَدِیرًا بِعُسْفَانَ ، یُقَالُ لَہُ : غَدِیرُ الأَشْطَاطِ ، فَلَقِیَہُ عَیْنَہُ بِغَدِیرِ الأَشْطَاطِ ، فَقَالَ : یَا مُحَمَّدُ ، تَرَکْتُ قَوْمَکَ ؛ کَعْبَ بْنَ لُؤَیٍّ ، وَعَامِرَ بْنَ لُؤَیٍّ قَدَ اسْتَنْفَرُوا لَکَ الأَحَابِیشَ ، وَمَنْ أَطَاعَہُمْ ، قَدْ سَمِعُوا بِمَسِیرِکَ ، وَتَرَکْتُ عِبْدَانَہُمْ یُطْعَمُونَ الْخَزِیرَ فِی دُورِہِمْ ، وَہَذَا خَالِدُ بْنُ الْوَلِیدِ فِی خَیْلٍ بَعَثُوہُ۔ فَقَامَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : مَاذَا تَقُولُونَ ؟ مَاذَا تَأْمُرونَ ؟ أَشِیرُوا عَلَیَّ ، قَدْ جَائَکُمْ خَبَرُ قُرَیْشٍ ، مَرَّتَیْنِ ، وَمَا صَنَعَتْ ، فَہَذَا خَالِدُ بْنُ الْوَلِیدِ بِالْغَمِیمِ ، قَالَ لَہُمْ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : أَتَرَوْنَ أَنْ نَمْضِیَ لِوَجْہِنَا ، مَنْ صَدَّنَا عَنِ الْبَیْتِ قَاتَلْنَاہُ ؟ أَمْ تَرَوْنَ أَنْ نُخَالِفَ ہَؤُلاَئِ إِلَی مَنْ تَرَکُوا وَرَائَہُمْ، فَإِنِ اتَّبَعَنَا مِنْہُمْ عُنُقٌ قَطَعَہُ اللَّہُ ، قَالُوا : یَا رَسُولَ اللہِ ، الأَمْرُ أَمْرُکَ ، وَالرَّأْیُ رَأْیُکَ ، فَتَیَامَنُوا فِی ہَذَا الْعَصَلِ ، فَلَمْ یَشْعُرْ بِہِ خَالِدٌ ، وَلاَ الْخَیْلُ الَّتِی مَعَہُ حَتَّی جَاوَزَ بِہِمْ قَتَرَۃَ الْجَیْشِ۔ وَأَوْفَتْ بِہِ نَاقَتُہُ عَلَی ثَنِیَّۃٍ تَہْبِطُ عَلَی غَائِطِ الْقَوْمِ ، یُقَالُ لَہُ بَلْدَحُ ، فَبَرَکَتْ ، فَقَالَ : حَلْ حَلْ ، فَلَمْ تَنْبَعِثْ ، فَقَالُوا : خَلأَتِ الْقَصْوَائُ ، قَالَ : إِنَّہَا وَاللہِ مَا خَلأَتْ ، وَلاَ ہُوَ لَہَا بِخُلُقٍ ، وَلَکِنْ حَبَسَہَا حَابِسُ الْفِیلِ ، أَمَّا وَاللہِ لاَ یَدْعُونِی الْیَوْمَ إِلَی خُطَّۃٍ ، یُعَظِّمُونَ فِیہَا حُرْمَۃً ، وَلاَ یَدْعُونِی فِیہَا إِلَی صِلَۃٍ إِلاَّ أَجَبْتُہُمْ إِلَیْہَا ، ثُمَّ زَجَرَہَا فَوَثَبَتْ ، فَرَجَعَ مِنْ حَیْثُ جَائَ ، عَوْدَہُ عَلَی بَدْئِہِ ، حَتَّی نَزَلَ بِالنَّاسِ عَلَی ثَمَدٍ مِنْ ثِمَادِ الْحُدَیْبِیَۃِ ظَنُونٍ، قَلِیلِ الْمَائِ، یَتَبَرَّضُ النَّاسُ مَائَہَا تَبَرَّضًا، فَشَکَوْا إِلَی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قِلَّۃَ الْمَائِ، فَانْتَزَعَ سَہْمًا مِنْ کِنَانَتِہِ، فَأَمَرَ رَجُلاً فَغَرَزَہُ فِی جَوْفِ الْقَلِیبِ، فَجَاشَ بِالْمَائِ حَتَّی ضَرَبَ النَّاسُ عَنْہُ بِعَطَنٍ۔ فَبَیْنَمَا ہُوَ عَلَی ذَلِکَ إِذْ مَرَّ بِہِ بُدَیْلُ بْنُ وَرْقَائَ الْخُزَاعِیُّ فِی رَکْبٍ مِنْ قَوْمِہِ مِنْ خُزَاعَۃَ ، فَقَالَ : یَا مُحَمَّدُ ، ہَؤُلاَئِ قَوْمُکَ قَدْ خَرَجُوا بِالْعُوذِ الْمَطَافِیلِ ، یُقْسِمُونَ بِاللہِ لَیَحُولُنَّ بَیْنَکَ وَبَیْنَ مَکَّۃَ حَتَّی لاَ یَبْقَی مِنْہُمْ أَحَدٌ ، قَالَ : یَا بُدَیْلُ ، إِنِّی لَمْ آتِ لِقِتَالِ أَحَدٍ ، إِنَّمَا جِئْتُ أَقْضِی نُسُکِی وَأَطُوفُ بِہَذَا الْبَیْتِ ، وَإِلاَّ فَہَلْ لِقُرَیْشٍ فِی غَیْرِ ذَلِکَ ، ہَلْ لَہُمْ إِلَی أَنْ أُمَادَّہُمْ مُدَّۃً یَأْمَنُونَ فِیہَا وَیَسْتَجِمُّونَ ، وَیُخَلُّونَ فِیمَا بَیْنِی وَبَیْنَ النَّاسِ ، فَإِنْ ظَہَرَ فِیہَا أَمْرِی عَلَی النَّاسِ کَانُوا فِیہَا بِالْخِیَارِ : أَنْ یَدْخُلُوا فِیمَا دَخَلَ فِیہِ النَّاسُ ، وَبَیْنَ أَنْ یُقَاتِلُوا وَقَدْ جَمَعُوا وَأَعَدُّوا ، قَالَ بُدَیْلٌ : سَأَعْرِضُ ہَذَا عَلَی قَوْمِکَ۔ فَرَکِبَ بُدَیْلٌ حَتَّی مَرَّ بِقُرَیْشٍ ، فَقَالُوا : مِنْ أَیْنَ ؟ قَالَ : جِئْتُکُمْ مِنْ عِنْدِ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَإِنْ شِئْتُمْ أَخْبَرْتُکُمْ مَا سَمِعْتُ مِنْہُ فَعَلْتُ ، فَقَالَ أُنَاسٌ مِنْ سُفَہَائِہِمْ : لاَ تُخْبِرْنَا عَنْہُ شَیْئًا ، وَقَالَ نَاسٌ مِنْ ذَوِی أَسْنَانِہِمْ وَحُکَمَائِہِمْ : بَلْ أَخْبِرْنَا مَا الَّذِی رَأَیْتَ ؟ وَمَا الَّذِی سَمِعْتَ ؟ فَاقْتَصَّ عَلَیْہِمْ بُدَیْلٌ قِصَّۃَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَمَا عَرَضَ عَلَیْہِمْ مِنَ الْمُدَّۃِ ، قَالَ : وَفِی کُفَّارِ قُرَیْشٍ یَوْمَئِذٍ عُرْوَۃُ بْنُ مَسْعُودٍ الثَّقَفِیُّ ، فَوَثَبَ ، فَقَالَ : یَا مَعْشَرَ قُرَیْشٍ ، ہَلْ تَتَّہِمُونَنِی فِی شَیْئٍ ؟ أَوَلَسْتُ بِالْوَلَدِ ؟ أَوَلَسْتُمْ بِالْوَالِد ؟ أَوَلَسْتُ قَدَ اسْتَنْفَرْتُ لَکُمْ أَہْلَ عُکَاظٍ ، فَلَمَّا بَلَحُوا عَلَیَّ نَفَرْتُ إِلَیْکُمْ بِنَفْسِی وَوَلَدِی وَمَنْ أَطَاعَنِی ، قَالُوا : بَلَی ، قَدْ فَعَلْتَ ، قَالَ : فَاقْبَلُوا مِنْ بُدَیْلٍ مَا جَائَکُمْ بِہِ ، وَمَا عَرَضَ عَلَیْکُمْ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَابْعَثُونِی حَتَّی آتِیَکُمْ بِمُصَادِقِہَا مِنْ عِنْدِہِ ، قَالُوا : فَاذْہَبْ۔ فَخَرَجَ عُرْوَۃُ حَتَّی نَزَلَ بِرَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِالْحُدَیْبِیَۃِ ، فَقَالَ : یَا مُحَمَّدُ ، ہَؤُلاَئِ قَوْمُکَ ؛ کَعْبُ بْنُ لُؤَیٍّ ، وَعَامِرُ بْنُ لُؤَیٍّ قَدْ خَرَجُوا بِالْعُوذِ الْمَطَافِیلِ ، یُقْسِمُونَ : لاَ یُخَلُّونَ بَیْنَکَ وَبَیْنَ مَکَّۃَ حَتَّی تُبِیدَ خَضْرَائَہُمْ ، وَإِنَّمَا أَنْتَ مِنْ قِتَالِہِمْ بَیْنَ أَحَدِ أَمْرَیْنِ : أَنْ تَجْتَاحَ قَوْمَکَ ، فَلَمْ تَسْمَعْ بِرَجُلٍ قَطَّ اجْتَاحَ أَصْلَہُ قَبْلَکَ ، وَبَیْنَ أَنْ یُسْلِمَکَ مَنْ أَرَی مَعَکَ ، فَإِنِّی لاَ أَرَی مَعَکَ إِلاَّ أَوْبَاشًا مِنَ النَّاسِ ، لاَ أَعْرِفُ أَسْمَائَہُمْ ، وَلاَ وُجُوہَہُمْ۔ فَقَالَ أَبُو بَکْرٍ، وَغَضِبَ: اُمْصُصْ بَظْرَ اللاَّتِ، أَنَحْنُ نَخْذُلُہُ، أَوْ نُسْلِمُہُ؟ فَقَالَ عُرْوَۃُ: أَمَّا وَاللہِ لَوْلاَ یَدٌ لَکَ عِنْدِی لَمْ أَجْزِکَ بِہَا لأَجَبْتُکَ فِیمَا قُلْتَ ، وَکَانَ عُرْوَۃُ قَدْ تَحَمَّلَ بِدِیَۃٍ ، فَأَعَانَہُ أَبُو بَکْرٍ فِیہَا بِعَوْنٍ حَسَنٍ۔ وَالْمُغِیرَۃُ بْنُ شُعْبَۃَ قَائِمٌ عَلَی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَعَلَی وَجْہِہِ الْمِغْفَرُ ، فَلَمْ یَعْرِفْہُ عُرْوَۃُ ، وَکَانَ عُرْوَۃُ یُکَلِّمُ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَکُلَّمَا مَدَّ یَدَہُ ، یَمَسُّ لِحْیَۃَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَرَعَہَا الْمُغِیرَۃُ بِقَدَحٍ کَانَ فِی یَدِہِ ، حَتَّی إِذَا أَحْرَجَہُ ، قَالَ : مَنْ ہَذَا ؟ قَالُوا : ہَذَا الْمُغِیرَۃُ بْنُ شُعْبَۃَ ، قَالَ عُرْوَۃُ : أَنْتَ بِذَاکَ یَا غُدَرُ ، وَہَلْ غَسَلْتَ عَنْکَ غَدْرَتَکَ إِلاَّ أَمْسَ بِعُکَاظٍ ؟۔ فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِعُرْوَۃِ بْنِ مَسْعُودٍ مِثْلَ مَا قَالَ لِبُدَیْلٍ۔ فَقَامَ عُرْوَۃُ ، فَخَرَجَ حَتَّی جَائَ إِلَی قَوْمِہِ ، فَقَالَ : یَا مَعْشَرَ قُرَیْشٍ ، إِنِّی قَدْ وَفَدْتُ عَلَی الْمُلُوک ، عَلَی قَیْصَرَ فِی مُلْکِہِ بِالشَّامِ ، وَعَلَی النَّجَاشِیِّ بِأَرْضِ الْحَبَشَۃِ ، وَعَلَی کِسْرَی بِالْعِرَاقِ ، وَإِنِّی وَاللہِ مَا رَأَیْتَ مَلِکًا ہُوَ أَعْظَمُ فِیمَنْ ہُوَ بَیْنَ ظَہْرَیْہِ مِنْ مُحَمَّدٍ فِی أَصْحَابِہِ ، وَاللہِ مَا یَشُدُّونَ إِلَیْہِ النَّظَرَ ، وَمَا یَرْفَعُونَ عِنْدَہُ الصَّوْتَ ، وَمَا یَتَوَضَّأُ مِنْ وَضُوئٍ إِلاَّ ازْدَحَمُوا عَلَیْہِ ، أَیُّہُمْ یَظْفَرُ مِنْہُ بِشَیْئٍ ، فَاقْبَلُوا الَّذِی جَائَکُمْ بِہِ بُدَیْلٌ؛ فَإِنَّہَا خُطَّۃُ رُشْدٍ۔ قَالُوا : اجْلِسْ ، وَدَعَوْا رَجُلاً مِنْ بَنِی الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ مَنَافٍ ، یُقَالُ لَہُ : الْحُلَیْسُ ، فَقَالُوا : انْطَلِقْ ، فَانْظُرْ مَا قِبَلُ ہَذَا الرَّجُلِ ، وَمَا یَلْقَاکَ بِہِ ، فَخَرَجَ الْحُلَیْسُ ، فَلَمَّا رَآہُ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مُقْبِلاً عَرَفَہُ ، قَالَ : ہَذَا الْحُلَیْسُ ، وَہُوَ مِنْ قَوْمٍ یُعَظِّمُونَ الْہَدْی ، فَابْعَثُوا الْہَدْیَ فِی وَجْہِہِ ، فَبَعَثُوا الْہَدْیَ فِی وَجْہِہِ ، قَالَ ابْنُ شِہَابٍ : فَاخْتَلَفَ الْحَدِیثُ فِی الْحُلَیْسِ ، فَمِنْہُمْ مَنْ یَقُولُ : جَائَہُ ، فَقَالَ لَہُ مِثْلَ مَا قَالَ لِبُدَیْلٍ وَعُرْوَۃَ ، وَمِنْہُمْ مَنْ قَالَ لَمَّا رَأَی الْہَدْیَ رَجَعَ إِلَی قُرَیْشٍ ، فَقَالَ : لَقَدْ رَأَیْتُ امْرئًا لَئِنْ صَدَدْتُمُوہُ إِنِّی لَخَائِفٌ عَلَیْکُمْ أَنْ یُصِیبَکُمْ عَنْتٌ ، فَأَبْصِرُوا بَصَرَکُمْ۔ قَالُوا : اجْلِسْ ، وَدَعَوْا رَجُلاً مِنْ قُرَیْشٍ یُقَالُ لَہُ : مِکْرَزُ بْنُ حَفْصِ بْنِ الأَحْنَفِ ، مِنْ بَنِی عَامِرِ بْنِ لُؤَی ، فَبَعَثُوہُ ، فَلَمَّا رَآہُ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : ہَذَا رَجُلٌ فَاجِرٌ یَنْظُرُ بِعَیْنٍ ، فَقَالَ لَہُ مِثْلَ مَا قَالَ لِبُدَیْلٍ وَلأَصْحَابِہِ فِی الْمُدَّۃِ ، فَجَائَہُمْ فَأَخْبَرَہُمْ ، فَبَعَثُوا سُہَیْلَ بْنَ عَمْرٍو مِنْ بَنِی عَامِرِ بْنِ لُؤَیٍّ یُکَاتِبُ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَی الَّذِی دَعَا إِلَیْہِ ، فَجَائَہُ سُہَیْلُ بْنُ عَمْرٍو ، فَقَالَ : قَدْ بَعَثَتْنِی قُرَیْشٌ إِلَیْکَ أُکَاتِبُکَ عَلَی قَضِیَّۃٍ ، نَرْتَضِی أَنَا وَأَنْتَ ، فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : نَعَمَ ، اُکْتُبْ : بِسْمِ اللہِ الرَّحْمَن الرَّحِیمِ ، قَالَ : قَالَ : مَا أَعْرِفُ اللَّہَ ، وَلاَ أَعْرِفُ الرَّحْمَنَ ، وَلَکِنْ أَکْتُبَ کَمَا کُنَّا نَکْتُبُ : بِاسْمِکَ اللَّہُمَّ ، فَوَجَدَ النَّاسُ مِنْ ذَلِکَ ، وَقَالُوا : لاَ نُکَاتِبُکَ عَلَی خُطَّۃٍ حَتَّی تُقِرَّ بِالرَّحْمَان الرَّحِیمِ ، قَالَ سُہَیْلٌ : إِذًا لاَ أُکَاتِبُہُ عَلَی خُطَّۃٍ حَتَّی أَرْجِعَ ، قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : اُکْتُبْ : بِاسْمِکَ اللَّہُمَّ ، ہَذَا مَا قَاضَی عَلَیْہِ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللہِ ، قَالَ : لاَ أُقِرُ ، لَوْ أَعْلَمُ أَنَّکَ رَسُولُ اللہِ مَا خَالَفْتُکَ ، وَلاَ عَصَیْتُکَ ، وَلَکِنْ اُکْتُبْ : مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللہِ ، فَوَجَدَ النَّاسُ مِنْہَا أَیْضًا ، قَالَ : اُکْتُبْ : مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللہِ ۔ سُہَیْلُ بْنُ عَمْرٍو۔ فَقَامَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ ، فَقَالَ : یَا رَسُولَ اللہِ ، أَلَسْنَا عَلَی الْحَقِّ ، أَوَلَیْسَ عَدُوُّنَا عَلَی بَاطِلٍ ؟ قَالَ : بَلَی ، قَالَ : فَعَلَی مَ نُعْطِی الدَّنِیَّۃَ فِی دِینِنَا ؟ قَالَ : إِنِّی رَسُولُ اللہِ ، وَلَنْ أَعْصِیَہُ ، وَلَنْ یُضَیِّعَنِی ، وَأَبُو بَکْرٍ مُتَنَحٍّ نَاحِیَۃً ، فَأَتَاہُ عُمَرُ ، فَقَالَ : یَا أَبَا بَکْرٍ ، فَقَالَ : نَعَمْ ، قَالَ : أَلَسْنَا عَلَی الْحَقِّ ، أَوَلَیْسَ عَدُوُّنَا عَلَی بَاطِلٍ ؟ قَالَ: بَلَی ، قَالَ : فَعَلَی مَ نُعْطِی الدَّنِیَّۃَ فِی دِینِنَا ؟ قَالَ : دَعْ عَنْکَ مَا تَرَی یَا عُمَرُ ، فَإِنَّہُ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَلَنْ یُضَیِّعَہُ اللَّہُ ، وَلَنْ یَعْصِیَہُ۔ وَکَانَ فِی شَرْطِ الْکِتَابِ أَنَّہُ: مَنْ کَانَ مِنَّا فَأَتَاکَ ، فَإِنْ کَانَ عَلَی دِینِکَ رَدَدْتَہُ إِلَیْنَا ، وَمَنْ جَائَنَا مِنْ قِبَلِکَ رَدَدْنَاہُ إِلَیْکَ، قَالَ: أَمَا مَنْ جَائَ مِنْ قِبَلِی فَلاَ حَاجَۃَ لِی بِرَدِّہِ، وَأَمَّا الَّتِی اشْتَرَطْتَ لِنَفْسِکَ فَتِلْکَ بَیْنِی وَبَیْنَکَ۔ فَبَیْنَمَا النَّاسُ عَلَی ذَلِکَ الْحَالِ إِذْ طَلَعَ عَلَیْہِمْ أَبُو جَنْدَلِ بْنُ سُہَیْلِ بْنِ عَمْرٍو ، یَرْسُفُ فِی الْحَدِیدِ ، قَدْ خَلاَ لَہُ أَسْفَلُ مَکَّۃَ مُتَوَشِّحًا السَّیْفَ ، فَرَفَعَ سُہَیْلٌ رَأْسَہُ ، فَإِذَا ہُوَ بِابْنِہِ أَبِی جَنْدَلٍ ، فَقَالَ : ہَذَا أَوَّلُ مَنْ قَاضَیْتُکَ عَلَی رَدِّہِ ، فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : یَا سُہَیْلُ ؛ إِنَّا لَمْ نَقْضِ الْکِتَابَ بَعْدُ ، قَالَ : وَلاَ أُکَاتِبُکَ عَلَی خُطَّۃٍ حَتَّی تَرُدَّہُ ، قَالَ : فَشَأْنُکَ بِہِ ، قَالَ : فَبَہَشَ أَبُو جَنْدَلٍ إِلَی النَّاسِ ، فَقَالَ : یَا مَعْشَرَ الْمُسْلِمِینَ ، أُرَدُّ إِلَی الْمُشْرِکِینَ یَفْتِنُونَنِی فِی دِینِی ؟ فَلَصِقَ بِہِ عُمَرُ وَأَبُوہُ آخِذٌ بِیَدِہِ یَجْتَرُّہُ ، وَعُمَرُ یَقُولُ: إِنَّمَا ہُوَ رَجُلٌ ، وَمَعَک السَّیْفُ ، فَانْطَلَقَ بِہِ أَبُوہُ۔ فَکَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَرُدُّ عَلَیْہِمْ مَنْ جَائَ مِنْ قِبَلِہِمْ یَدْخُلُ فِی دِینِہِ ، فَلَمَّا اجْتَمَعُوا نَفَرٌ فِیہِمْ أَبُو بَصِیرٍ وَرَدَّہُمْ إِلَیْہِمْ ، أَقَامُوا بِسَاحِلِ الْبَحْرِ ، فَکَانُوا قَطَعُوا عَلَی قُرَیْشٍ مَتْجَرَہُمْ إِلَی الشَّامِ ، فَبَعَثُوا إِلَی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إِنَّا نَرَاہَا مِنْک صِلَۃً ، أَنْ تَرُدَّہُمْ إِلَیْک وَتَجْمَعَہُمْ ، فَرَدَّہُمْ إِلَیْہِ۔ وَکَانَ فِیمَا أَرَادَہُمَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی الْکِتَابِ : أَنْ یَدَعُوہُ یَدْخُلُ مَکَّۃَ ، فَیَقْضِی نُسُکَہُ ، وَیَنْحَرُ ہَدْیَہُ بَیْنَ ظَہْرَیْہِمْ ، فَقَالُوا : لاَ تَحَدَّثُ الْعَرَبُ أَنَّکَ أَخَذْتَنَا ضَغْطَۃً أَبَدًا ، وَلَکِنِ ارْجِعْ عَامَکَ ہَذَا ، فَإِذَا کَانَ قَابِلٌ أَذِنَّا لَکَ ، فَاعْتَمَرْتَ وَأَقَمْتَ ثَلاَثًا۔ وَقَامَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ لِلنَّاسِ : قُومُوا فَانْحَرُوا ہَدْیَکُمْ ، وَاحْلِقُوا وَأَحِلُّوا ، فَمَا قَامَ رَجُلٌ وَلاَ تَحَرَّکَ ، فَأَمَرَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ النَّاسَ بِذَلِکَ ثَلاَثَ مَرَّاتٍ ، فَمَا تَحَرَّکَ رَجُلٌ وَلاَ قَامَ مِنْ مَجْلِسِہِ ، فَلَمَّا رَأَی النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ذَلِکَ دَخَلَ عَلَی أُمِّ سَلَمَۃَ ، وَکَانَ خَرَجَ بِہَا فِی تِلْکَ الْغَزْوَۃِ ، فَقَالَ : یَا أُمَّ سَلَمَۃَ ، مَا بَالُ النَّاسِ ، أَمَرْتُہُمْ ثَلاَثَ مِرَارٍ أَنْ یَنْحَرُوا ، وَأَنْ یَحْلِقُوا ، وَأَنْ یَحِلُّوا ، فَمَا قَامَ رَجُلٌ إِلَی مَا أَمَرْتُہُ بِہِ ؟ قَالَتْ : یَا رَسُولَ اللہِ ، اُخْرُجْ أَنْتَ فَاصْنَعْ ذَلِکَ ، فَقَامَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حَتَّی یَمَّمَ ہَدْیَہُ ، فَنَحَرَہُ ، وَدَعَا حَلاَقًا فَحَلَقَہُ ، فَلَمَّا رَأَی النَّاسَ مَا صَنَعَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَثَبُوا إِلَی ہَدْیِہِمْ فَنَحَرُوہُ ، وَأَکَبَّ بَعْضُہُمْ یَحْلِقُ بَعْضًا ، حَتَّی کَادَ بَعْضُہُمْ أَنْ یَغُمَّ بَعْضًا مِنَ الزِّحَامِ۔ قَالَ ابْنُ شِہَابٍ : وَکَانَ الْہَدْیُ الَّذِی سَاقَہُ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابُہُ سَبْعِینَ بَدَنَۃً۔ قَالَ ابْنُ شِہَابٍ : فَقَسَّمَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خَیْبَرَ عَلَی أَہْلِ الْحُدَیْبِیَۃِ ، عَلَی ثَمَانیَۃَ عَشَرَ سَہْمًا ، لِکُلِّ مِئَۃِ رَجُلٍ سَہْمٌ۔
(٣٨٠١٠) حضرت عروہ بن زبیر سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حدیبیہ کے دن اٹھارہ سو کی تعداد کو لے کر نکلے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے آگے بنو خزاعہ کے ایک شخص ۔۔۔ جس کا نام ناجیہ تھا۔۔۔ کو بھیجا تاکہ وہ لوگوں کی خبر لائے۔ یہاں تک کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مقام عسفان کے کنویں پر پہنچے جس کا نام غدیر اشطاط تھا۔ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنا جاسوس غدیر اشطاط پر ملا اور اس نے کہا : اے محمد ! میں نے تیری قوم ۔۔۔ کعب بن لؤی اور عامر بن لؤی ۔۔۔ کو اس حال میں چھوڑا ہے کہ انھوں نے آپ کے لیے متفرق لوگوں کو اور جو کوئی ان کی مانتا ہے ان کو نفیر عام کیا ہے۔ انھوں نے تیرے چلنے کی خبر سن لی ہے۔ اور میں نے ان کے غلاموں کو اس حال میں چھوڑا ہے کہ انھیں گھروں میں خزیر (خاص کھانا) کھلایا جاتا ہے۔ اور خالد بن ولید کو تو انھوں نے یہ سامنے گھڑ سواروں کی جماعت کے ہمراہ بھیجا ہے۔
٢۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کھڑے ہوئے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے (صحابہ سے) پوچھا۔ تم کیا کہتے ہو ؟ تمہارا کیا حکم ہے ؟ مجھے بتاؤ۔ قریش اور ان کی تیاریوں کی خبر تمہیں دو مرتبہ پہنچ چکی ہے۔ اور یہ مقام غمیم میں خالد بن ولید بھی پہنچ چکا ہے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ سے پوچھا۔ کیا تمہاری رائے یہ ہے کہ ہم اپنے رُخ پر چلتے رہیں اور جو کوئی ہمیں بیت اللہ سے روکے ہم اس سے لڑائی کریں۔ یا تمہاری رائے یہ ہے کہ ہم ان کے برخلاف ان کے پچھلوں کی طرف بڑھیں۔ پھر اگر ان میں سے کوئی جماعت پیچھے آئے گی تو اللہ تعالیٰ اس کو توڑ دے گا۔ صحابہ نے عرض کیا۔ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! حُکم، آپ کا حکم ہے۔ اور رائے بھی آپ کی رائے ہے۔ پھر یہ لوگ اس ٹیلے کے دائیں بائیں چل دیئے۔ اس بات کا خالد اور اس کے ہمراہ لشکر کو پتہ نہیں چلا۔ یہاں تک کہ یہ لوگ لشکر کے غبار کو کر اس کر گئے۔
٣۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اونٹنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایک بلند ٹیلے سے ایک پست زمین کی طرف لے گئی۔ جس کا نام بلدح تھا۔ اور (وہاں جا کر) بیٹھ گئی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : حَلْ حَلْ ۔ لیکن وہ اونٹنی نہیں اٹھی۔ لوگوں نے کہا۔ قصوائ (اونٹنی کا نام ہے) اڑ گئی ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : بخدا یہ اونٹنی نہیں اَڑی اور نہ ہی اڑنا اس کی عادت ہے لیکن اس کو ہاتھیوں کو روکنے والے نے روک دیا ہے۔ سنو ! بخدا اگر آج کے دن وہ مجھے کسی مقام کی طرف ۔۔۔جس کا وہ بہت احترام کرتے ہیں ۔۔۔ بلائیں گے یا مجھے وہ کسی صلہ رحمی کی طرف بلائیں گے تو میں انھیں مثبت جواب دوں گا۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اونٹنی کو دوڑایا تو وہ اچھل پڑی پس آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے قدم کے نشانات پر وہیں واپس ہوگئے جہاں سے تشریف لائے تھے۔ یہاں تک کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگوں کو لے کر حدیبیہ کے ایک مقام پر فروکش ہوئے جہاں پر پانی اتنا قلیل تھا کہ لوگ تھوڑا تھوڑا پانی لے رہے تھے۔ تو (اس پر) لوگوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پانی کی قلت کی شکایت کی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے ترکش میں سے ایک تیر نکالا اور ایک آدمی کو حکم دیا اور اس نے اس تیر کو کنویں کے درمیان میں گاڑ دیا۔ پس پانی نے اتنا جوش مارا کہ لوگ اس پانی سے خوب سیراب ہوگئے۔
٤۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ابھی اسی حالت میں تھے کہ بدیل بن ورقاء خزاعی، اپنی قوم خزاعہ کے ایک گروہ کے ہمراہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس سے گزرا اور اس نے کہا۔ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! یہ تیری قوم کے لوگ عورتوں اور بچوں سمیت نکل چکے ہیں اور وہ خدا کے نام پر اس بات کی قسم کھا رہے ہیں کہ ضرور بالضرور تیرے اور مکہ کے درمیان حائل ہوں گے یہاں تک کہ ان میں سے کوئی ایک بھی نہ بچے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اے بدیل ! میں تو کسی کے ساتھ بھی لڑنے نہیں آیا۔ میں تو صرف اس لیے آیا ہوں تاکہ اپنے افعال عبادت ادا کرسکوں اور اس خانہ خدا کا طواف کروں۔ اور اگر یہ کام نہ ہو تو پھر کیا قریش کا کوئی اور ارادہ ہے ؟ کیا وہ اس بات پر راضی ہیں کہ میں ان کے ساتھ ایک مدت طے کرلوں جس میں وہ مامون رہیں گے اور اتنی مدت تک وہ اکٹھے بھی ہوجائیں۔ اور اس دوران وہ مجھے اور لوگوں کو کھلا چھوڑ دیں۔ اگر میرا معاملہ لوگوں پر غالب آگیا تو انھیں اس بات کا اختیار ہوگا ۔ چاہے تو لوگوں کی طرح یہ بھی دین میں داخل ہوجائیں اور چاہے تو یہ لڑائی کرلیں درآنحالیکہ انھوں نے اپنی تعداد بڑھا کر خوب تیاری کرلی ہوگی۔ بدیل نے کہا۔ میں یہ بات آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قوم کو پیش کروں گا۔
٥۔ پس بدیل سوار ہو کر (چل پڑا) یہاں تک کہ وہ قریش کے پاس سے گزرا تو قریش نے اس سے پوچھا۔ تم کہاں سے آ رہے ہو ؟ بدیل نے کہا۔ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس سے آ رہا ہوں۔ اور اگر تم چاہو تو میں تمہیں اس بات کی خبر دیتا ہوں جو میں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سُنی اور کہی ہے۔ قریش مں ت سے بیوقوف قسم کے لوگوں نے کہا۔ تم ہمیں اس کی بات نہ بتاؤ جو تم دیکھ کر اور سن کر آئے ہو۔ بدیل نے انھیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ پیش آنے والا واقعہ بیان کیا اور جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مدت کی پیش کش کی تھی وہ بیان کی۔ راوی کہتے ہیں : اس دن قریش (کے اس گروہ) میں عروہ بن مسعود ثقفی بھی موجود تھا۔ وہ اچھل پڑا اور اس نے کہا۔ اے گروہ قریش ! کیا تم مجھ پر کسی شئی کی تہمت لگاتے ہو۔ کیا میں (تمہارا) بچہ نہیں ہوں ؟ اور کیا تم (میرے) والد نہیں ہو ؟ کیا میں نے تمہارے لیے اہل عکاظ سے مدد طلب نہیں کی اور جب انھوں نے مجھے منع کردیا تو مں ش خود اور اپنے بچوں اور ما تحتوں کو لے کر تمہارے پاس نہیں آگیا۔ انھوں نے جواباً کہا : کیوں نہیں ! تو نے ایسا ہی کیا ہے۔ عروہ نے کہا : پھر تم بدیل کی اس بات کو قبول کرلو جو وہ تمہارے پاس لے کر آیا ہے اور جو تمہارے اوپر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پیش کی ہے۔ اور تم مجھے بھیجو تاکہ میں تمہارے پاس اس خیر کی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے توفیق لے کر آؤں۔ قریش نے (اس سے) کہا۔ چل جا۔
٦۔ عروہ وہاں سے نکلا یہاں تک کہ وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس مقام حدیبیہ مں اُترا اور اس نے کہا ۔ اے محمد ! یہ تیری قوم۔۔۔ کعب بن لوی اور عامر بن لوی۔۔۔ کے لوگ ہیں جو عورتوں اور بچوں سمیت باہر نکلے ہیں۔ انھوں نے قسم اٹھائی ہے کہ یہ لوگ تجھے مکہ کی طرف راستہ نہیں دیں گے حتی کہ ان کے نوجوان ہلاک ہوجائیں ۔ اور اب آپ کو اپنی قوم سے لڑائی کی دو صورتیں ہیں۔ (ایک تو یہ ہے کہ) تو اپنی قوم کو (لڑائی کر کے) نیست و نابود کر دے اور تو نے کسی آدمی کے بارے میں نہیں سنا ہوگا کہ اس نے تجھ سے پہلے اپنی قوم کو تباہ و برباد کیا ہو۔ اور (دوسری صورت یہ ہے کہ) جن کو میں آپ کے ہمراہ دیکھ رہا ہوں یہ آپ کو حوالہ کردیں ۔ مجھے تو تمہارے ہمراہ اجنبی قسم کے متفرق لوگ نظر آ رہے ہیں۔ مجھے تو ان کے ناموں اور شکلوں سے بھی معرفت نہیں ہے۔
٧۔ حضرت ابوبکر ۔۔۔ کو غصہ آگیا اور ۔۔۔ارشاد فرمایا : تم لات کی فرج چوسو۔ کیا ہم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو رسوا کریں گے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حوالہ کریں گے ؟ عروہ نے کہا : بخدا ! اگر تمہارا مجھ پر احسان نہ ہوتا جس کا میں نے بدلہ نہیں دیا۔ تو میں تمہیں تمہاری بات کا ضرور جواب دیتا۔
٨۔ حضرت مغیرہ بن شعبہ ، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس کھڑے ہوئے تھے اور ان کے چہرے پر خود تھی۔ (جس کی وجہ سے) عروہ نے ان کو نہ پہچانا۔ اور عروہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ باتیں کررہا تھا۔ اور جب بھی عروہ اپنا ہاتھ پھیلاتا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی داڑھی مبارک کو چھوتا۔ حضرت مغیرہ کے ہاتھ میں جو نیزہ تھا آپ نے اس کے ساتھ عروہ کو خبردار کیا۔ جب مغیرہ نے عروہ کو پریشان کیا تو اس نے پوچھا۔ یہ کون ہے ؟ لوگوں نے بتایا ۔ کہ یہ مغیرہ بن شعبہ ہیں۔ عروہ نے کہا۔ اے عہد شکن ! تم یہاں ہو۔ تم نے کل مقام عکاظ میں اپنی عہد شکنی کو خود سے کیوں نہ دھو ڈالا ؟ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عروہ بن مسعود کو وہی بات کہی جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بدیل سے کہی تھی۔
٩۔ عروہ وہاں سے کھڑا ہوا اور چل دیا یہاں تک کہ وہ اپنی قوم میں آیا اور اس نے کہا۔ اے گروہ قریش ! میں شاہوں کے دربار میں بھی گیا ہوں۔ میں قیصر کے پاس اس کے ملک شام میں گیا ہوں اور نجاشی کے پاس ارض حبشہ میں گیا ہوں اور عراق میں کسریٰ کے پاس بھی گیا ہوں۔ (لیکن) بخدا میں کسی بادشاہ کو اپنے لوگوں میں اس قدر عظمت والا نہیں دیکھا جس قدر میں محمد کو اس کے صحابہ میں باعظمت دیکھا ہے۔ بخدا وہ محمد کی طرف نظر گاڑھ کر نہیں دیکھتے اور اس کے پاس آواز اونچی نہیں کرتے۔ اور محمد جس پانی سے وضو کرتا ہے تو اس کے ساتھی اس دھو ون پر جمع ہوجاتے ہیں کہ کس کو اس میں سے کتنا حصہ ملتا ہے ؟ پس بدیل جو خبر تمہارے پاس لایا ہے اس کو قبول کرلو کیونکہ یہ سمجھ داری والا معاملہ ہے۔
١٠۔ قریش نے کہا : تم بیٹھ جاؤ۔ اور قریش نے بنی حارث بن عبد مناف کے ایک آدمی کو بلایا جس کا نام ” حُلَیس “ تھا اور (اس کو) کہا۔ تم جاؤ اور جو تمہیں اس آدمی (نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) کی طرف سے نظر آئے اور معلوم ہو اس کو دیکھو۔
١١۔ حُلیس وہاں سے نکلا۔ پس جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو آتے ہوئے دیکھا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو پہچان لیا اور ارشاد فرمایا : یہ ” حُلیس ہے۔ اور یہ ان لوگوں میں سے ہے جو ہدی کی تعظیم کرتے ہیں۔ پس تم اس کے رُخ پر ہدی کو چلا دو ۔ “ صحابہ نے اس کے رُخ پر ہدی کو چلا دیا۔ ابن شہاب کہتے ہیں۔ حُلیس کے بارے میں احادیث (میں بیان) مختلف نقل ہوا ہے۔ بعض راویوں نے بیان کیا ہے کہ وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا تھا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو وہی بات ارشاد فرمائی جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بدیل اور عروہ سے کہی تھی۔ اور بعض راوی بیان کرتے ہیں کہ جب اس نے ہدی (کے جانور کو) دیکھا تو وہ قریش کی طرف واپس چل دیا اور اس نے (قریش سے) کہا۔ یقیناً میں ایسی بات دیکھی ہے کہ اگر تم ان کو روکو گے تو مجھے خوف ہے کہ تم غلطی کا ارتکاب کرو گے۔ پس (اب) تم اپنا معاملہ خود ہی دیکھ لو۔
١٢۔ قریش نے (اس سے بھی) کہا۔ تم بیٹھ جاؤ اور قریش کے ایک آدمی کو بلایا۔ جس کا نام ” مکرز بن حفص بن الاخیف “ تھا۔ یہ شخص بنو عامر بن لؤی سے تعلق رکھتا تھا۔ اور اس کو بھیجا۔ پس جب اس کو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دیکھا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا۔ یہ ایک فاجر آدمی ہے جو آنکھ سے دیکھتا ہے۔ اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو بھی مدت کے بارے میں ویسی بات کہی جیسی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بدیل اور اس کے دیگر ساتھیوں سے کہی تیے۔ مکرز وہاں سے مشرکین کے پاس واپس آیا اور اس نے (آ کر) انھیں خبر دی۔
١٣۔ اس پر قریش نے بنو عامر بن لؤی کے سہیل بن عمرو کو بھیجا تاکہ وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے وہ بات تحریر کروائے جس کی طرف آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دعوت دے رہے ہیں۔ سہیل بن عمرو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا اور کہا۔ مجھے قریش نے آپ کی طرف اس لیے بھیجا ہے تاکہ میں آپ سے ایسا فیصلہ تحریر کرواؤں جس پر میں اور آپ راضی ہوں۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ہاں (ٹھیک ہے) ، لکھو، بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم۔ راوی کہتے ہیں : سہیل بن عمرو کہنے لگا۔ میں تو اللہ کو نہیں جانتا اور نہ ہی مجھے رحمن کی معرفت ہے۔ لیکن میں تو ایسے ہی لکھوں گا جیسا کہ ہم لکھتے ہیں۔ یعنی۔ باسمک اللّٰہم۔ لوگوں کو اس بات پر غصہ آگیا اور کہنے لگے۔ ہم تمہارے ساتھ کسی بھی طرح کی مکاتبت نہیں کریں گے یہاں تک کہ تو رحمٰن و رحیم کا اقرا ر کرے۔ سہیل نے کہا : پھر تو میں تمہارے ساتھ کسی طرح کی مکاتبت نہیں کروں گا اور لوٹ جاؤں گا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : لکھو۔ باسمک اللّٰھم۔ یہ وہ تحریر ہے جس پر ” محمد رسول اللہ “ نے باہم صلح کی ہے۔ سہیل نے کہا۔ میں اس بات کا اقرار نہیں کرتا۔ اگر میں آپ کو اللہ کا رسول جانتا ہوتا تو میں آپ کی مخالفت نہ کرتا اور نہ ہی آپ کی نافرمانی کرتا۔ لیکن میں تو ” محمد بن عبداللہ “ لکھوں گا۔ اس بات پر بھی لوگوں کو غصہ آیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : تم لکھو۔ (محمد بن عبداللہ ، سہیل بن عمرو)
١٤۔ اس پر حضرت عمر بن خطاب کھڑے ہوگئے اور عرض کیا۔ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! کیا ہم حق پر نہیں ہیں ؟ اور کیا ہمارا دشمن باطل پر نہیں ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ کیوں نہیں (ایسا ہی ہے) ۔ حضرت عمر نے عرض کیا۔ پھر ہم کس بنیاد پر اپنے دین میں یہ گھٹیا پن گوارا کر رہے ہیں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : میں خدا کا رسول ہوں۔ اور میں ہرگز اس کی نافرمانی نہیں کروں گا۔ اور وہ ہرگز مجھے ضائع نہیں ہونے دے گا۔ حضرت ابوبکر ایک کونے میں گوشہ نشین تھے۔ کہ حضرت عمر ان کے پاس پہنچے اور کہا۔ اے ابوبکر ! انھوں نے فرمایا : جی ہاں ! حضرت عمر نے کہا : کیا ہم حق پر نہیں ہیں ؟ اور کیا ہمارا دشمن باطل پر نہیں ہیں ؟ حضرت ابوبکر نے فرمایا : کیوں نہیں (ایسا ہی ہے) حضرت عمر نے کہا۔ تو پھر کس وجہ سے ہم اپنے دین میں یہ گھٹیا پن گوارا کر رہے ہیں۔ حضرت ابوبکر نے فرمایا : اے عمر ! اپنا یہ خیال چھوڑ دو ۔ اس لیے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں ؟ اللہ پاک، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہرگز ضائع نہیں ہونے دیں گے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ تعالیٰ کی ہرگز نافرمانی نہیں کریں گے۔
١٥۔ اور اس خط کی شرائط میں ایک بات یہ بھی تھی کہ ہم میں سے جو تمہارے پاس آ جائے۔۔۔ اگرچہ وہ تمہارے دین پر ہو ۔۔۔ تم اس کو ہماری طرف واپس کرو گے۔ اور تمہارے پاس سے جو ہمارے ہاں آئے گا ہم اس کو تمہاری طرف واپس ۔۔۔ نہیں کریں گے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو شخص میری جانب سے (تمہاری طرف) آئے گا مجھے اس کی واپسی کی ضرورت نہیں ہے۔ اور جو تو نے اپنے لیے شرائط ٹھہرائی ہے یہ میرے اور تیرے درمیان (عہد) ہے۔
١٦۔ لوگ ابھی اسی حالت میں تھے کہ اچانک مسلمانوں کو ابو جندل بن سہیل بن عمرو بیڑیوں میں گھسٹتا ہوا دکھائی دیا۔ پس سہیل نے اپنا سر اوپر اٹھایا تو ناگہاں اس کا اپنا بیٹا ابو جندل تھا۔ سہیل نے کہا : یہ پہلا شخص ہے جس کی واپسی پر میں نے تیرے ساتھ صلح کی ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اے سہیل ! ہم تو ابھی تحریر سے فارغ ہی نہیں ہوئے ۔ سہیل نے کہا۔ جب تک آپ اس کو واپس نہیں کرتے ہیں آپ سے خط و کتابت ہی نہیں کرتا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اس کا معاملہ تیرے حوالہ ہے۔ راوی کہتے ہیں۔ ابو جندل ، مسلمانوں کی طرف تیز چل کر آیا اور اس نے کہا۔ اے جماعتِ مسلمین ! مجھے مشرکین کی طرف واپس کیا جا رہا ہے جبکہ وہ مجھے میرے دین کے بارے میں فتنہ میں مبتلا کریں گے ؟ حضرت عمر اس کے ساتھ چپک گئے اور اس کے والد نے اس کا ہاتھ پکڑا اور اس کو کھینچ لیا۔ حضرت عمر کہنے لگے۔ ایک ہی تو بندہ ہے اور تمہارے پاس تلوار بھی ہے۔ لیکن ان کا والد انھیں ساتھ لے گیا۔
١٧۔ پس نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان لوگوں کو مشرکین کی طرف واپس بھیجتے تھے جو مشرکین کی طرف سے دین اسلام قبول کر کے آتے تھے۔ پس جب یہ واپس ہونے والے افراد ایک جماعت کی شکل اختیار کر گئے اور انہی میں ابو البصیر بھی تھے۔۔۔ درآنحالیکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کو واپس بھیجتے رہے تھے۔ تو یہ لوگ سمندر کے ساحل پر ٹھہر گئے اور انھوں نے قریش کے شام کی طرف جانے والے قافلوں کو لوٹنا شروع کردیا۔ اس پر قریش نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف (آدمی) بھیجا کہ ہمیں تم سے صلہ رحمی کی امید ہے۔ آپ ان (مفرور) لوگوں کو اپنے پاس واپس بلا لیں اور اپنے پاس اکٹھا کرلیں۔ پس آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انھیں اپنی طرف واپس بلا لیا۔
١٨۔ اور تحریر میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے سامنے جو ارادہ ظاہر کیا تھا اس میں یہ بات بھی تھی کہ قریش کے لوگ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو چھوڑیں تاکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ میں داخل ہوں اور اپنے مناسک کو ادا کریں اور ان کے ہاں اپنے ہدی کے جانور نحر کریں۔ قریش نے کہا۔ نہیں ! عرب کے لوگ ہمیں ہمیشہ کے لیے کہیں یہ طعنہ نہ دیں کہ آپ نے ہمارے ساتھ چستی کا مظاہرہ کر دکھایا ہے۔ لیکن آپ اس سال واپس جائیں اور جب آئندہ سال ہوگا تو ہم آپ کو اجازت دیں گے آپ عمرہ بھی ادا فرمائیں اور تین دن قیام بھی فرمائیں۔
١٩۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (وہاں سے) کھڑے ہوئے اور لوگوں سے ارشاد فرمایا : ” اٹھو اور اپنے ہدی کے جانور نحر کردو۔ اور حلق کروا لو اور حلال ہو جاؤ۔ “ (یہ بات سن کر) کوئی آدمی کھڑا ہوا اور نہ ہی کسی نے کوئی حرکت کی۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں کو اس بات کا تین مرتبہ حکم ارشاد فرمایا :َ لیکن کوئی آدمی بھی اپنی جگہ سے اٹھا اور نہ ہی کسی نے کوئی حرکت کی۔ جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ صورت حال دیکھی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت ام سلمہ کے پاس تشریف لے گئے ۔۔۔ حضرت ام سلمہ اس سفر میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہمراہ تشریف لائی تھیں۔ اور فرمایا : ” اے ام سلمہ ! لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ میں نے ان کو تین مرتبہ اس بات کا حکم دیا ہے کہ وہ نحر کرلیں اور حلق کروا لیں اور حلال ہوجائیں۔ لیکن کوئی آدمی بھی میرے حکم کو پورا کرنے کے لیے نہیں اٹھا ؟ “ حضرت ام سلمہ نے عرض کیا۔ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ باہر تشریف لے جائیں اور یہ کام (پہلے خود) کریں۔ پس رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (وہاں سے) اٹھے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے ہدی کے جانور کی طرف قصد کیا اور اس کو نحر فرمایا۔ اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حلق کرنے والے کو بلایا اور اس نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (کے سر مبارک) کو حلق کیا۔ پس جب لوگوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس عمل کو دیکھا تو اپنی اپنی ہدی کی طرف لپک پڑے اور اس کو نحر کردیا۔ اور بعض ، بعض کے اوپر جھک گئے اور حلق کرنے لگے۔ یہاں تک کہ قریب تھا کہ بعض ، بعض کو بھیڑ کی وجہ سے نیچے دے دیتے۔
٢٠۔ ابن شہاب کہتے ہیں۔ ہدی کے وہ جانور جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ نے ساتھ لیے تھے ۔ وہ ستر تھے۔
٢١۔ ابن شہاب کہتے ہیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خیبر کو اہل حدیبیہ پر اٹھارہ حصوں میں تقسیم کیا تھا۔ ہر ایک سو افراد کے لیے ایک حصہ تھا۔

38010

(۳۸۰۱۱) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ أَبِی الْعُمَیْسِ ، عَنْ عَطَائٍ ، قَالَ : کَانَ مَنْزِلُ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَوْمَ الْحُدَیْبِیَۃِ فِی الْحَرَمِ۔
(٣٨٠١١) حضرت عطاء سے روایت ہے کہ حدیبیہ کے دن نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پڑاؤ کا مقام حرم تھا۔

38011

(۳۸۰۱۲) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ ، عَنْ شَرِیکٍ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنِ الْبَرَائِ ، قَالَ : کُنَّا یَوْمَ الْحُدَیْبِیَۃِ أَلْفًا وَأَرْبَعَ مِئَۃٍ۔
(٣٨٠١٢) حضرت برائ بیان فرماتے ہیں۔ کہ حدیبیہ کے روز ہم لوگوں کی تعداد چودہ سو تھی۔

38012

(۳۸۰۱۳) حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ بْنُ مُوسَی ، قَالَ : أَخْبَرَنَا مُوسَی بْنُ عُبَیْدَۃَ ، قَالَ : أَخْبَرَنِی أَبُو مُرَّۃَ مَوْلَی أُمِّ ہَانِئٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : لَمَّا کَانَ الْہَدْیُ دُونَ الْجِبَالِ الَّتِی تَطْلُعُ عَلَی وَادِی الثَّنِیَّۃِ ، عَرَضَ لَہُ الْمُشْرِکُونَ ، فَرَدُّوا وُجُوہَ بُدْنِہِ ، فَنَحَرَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حَیْثُ حَبَسُوہُ وَہِیَ الْحُدَیْبِیَۃُ ، وَحَلَقَ وَائْتَسَی بِہِ نَاسٌ فَحَلَقُوا ، وَتَرَبَّصَ آخَرُونَ ، قَالُوا : لَعَلَّنَا نَطُوفُ بِالْبَیْتِ ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : رَحِمَ اللَّہُ الْمُحَلِّقِینَ ، قِیلَ : وَالْمُقَصِّرِینَ ، قَالَ : رَحِمَ اللَّہُ الْمُحَلِّقِینَ ثَلاَثًا۔
(٣٨٠١٣) حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ جب ہدی کے جانور (ابھی) ان پہاڑوں سے پیچھے تھے جن پہاڑوں پر ثنیۃ وادی دکھائی دیتی ہے۔ تو مشرکین آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے آئے اور انھوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہدی کے جانوروں کے رُخ پھیر دیئے۔ پس رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو اسی مقام پر نحر کیا جہاں پر مشرکین نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو روکا تھا۔ اور یہ مقام حدیبیہ تھا۔ اور (پھر) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حلق فرمایا اور لوگوں نے بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نقش قدم پر چلتے ہوئے حلق کروایا ۔ اور کچھ دیگر لوگ انتظار میں رہے۔ اور انھوں نے کہا۔ ہوسکتا ہے کہ ہم بیت اللہ کا طواف کرلیں۔ (اس پر) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اللہ تعالیٰ حلق کروانے والوں پر رحم فرمائے۔ (آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے) کہا گیا۔ اور قصر کروانے والے ۔۔۔ ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے (پھر) ارشاد فرمایا : اللہ تعالیٰ حلق کروانے والوں پر رحم فرمائے۔ یہ بات آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تین مرتبہ ارشاد فرمائی۔

38013

(۳۸۰۱۴) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا الدَّسْتَوَائِیُّ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ أَبِی کَثِیرٍ ، عَنْ أَبِی إِبْرَاہِیمَ الأَنْصَارِیِّ ، عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ ؛ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حَلَقَ یَوْمَ الْحُدَیْبِیَۃِ ہُوَ وَأَصْحَابُہُ ، إِلاَّ عُثْمَانَ وَأَبَا قَتَادَۃَ ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : یَرْحَمُ اللَّہُ الْمُحَلِّقِینَ ، قَالُوا : وَالْمُقَصِّرِینَ ، یَا رَسُولَ اللہِ ؟ قَالَ : یَرْحَمُ اللَّہُ الْمُحَلِّقِینَ ، قَالُوا : وَالْمُقَصِّرِینَ ، یَا رَسُولَ اللہِ ؟ قَالَ : یَرْحَمُ اللَّہُ الْمُحَلِّقِینَ ، قَالُوا : وَالْمُقَصِّرِینَ ، یَا رَسُولَ اللہِ ؟ قَالَ : وَالْمُقَصِّرِینَ۔
(٣٨٠١٤) حضرت ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے صحابہ نے حدیبیہ کے دن حلق کروایا سوائے عثمان اور ابو قتادہ کے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اللہ تعالیٰ سر منڈانے (حلق) والوں پر رحم کرے۔ لوگوں نے سوال کیا۔ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! اور کتروانے والوں پر ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے (دوبارہ) ارشاد فرمایا : اللہ تعالیٰ سر منڈانے (حلق) والوں پر رحم فرمائے۔ صحابہ نے (سہ بارہ) سوال کیا۔ اور بال کترانے والوں پر ؟ یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ نے ارشاد فرمایا : اللہ تعالیٰ سر منڈانے (حلق) والوں پر رحم فرمائے۔ صحابہ نے عرض کیا۔ اور کتروانے والوں پر ؟ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ نے فرمایا : کتروانے والوں پر (بھی رحم فرمائے) ۔

38014

(۳۸۰۱۵) حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ بْنُ مُوسَی ، قَالَ : أَخْبَرَنَا مُوسَی بْنُ عُبَیْدَۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرِو بْنِ أَسْلَمَ ، عْن نَاجِیَۃَ بْنِ جُنْدُبِ بْنِ نَاجِیَۃَ ، قَالَ : لَمَّا کُنَّا بِالْغَمِیمِ لَقِیَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خَبَرَ قُرَیْشٍ ، أَنَّہَا بَعَثَتْ خَالِدَ بْنَ الْوَلِیدِ فِی جَرِیدَۃِ خَیْلٍ ، تَتَلَقَّی رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَکَرِہَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ یَلْقَاہُ ، وَکَانَ بِہِمْ رَحِیمًا ، فَقَالَ : مَنْ رَجُلٌ یَعْدِلُنَا عَنِ الطَّرِیقِ ؟ فَقُلْتُ : أَنَا ، بِأَبِی أَنْتَ وَأُمِّی یَا رَسُولَ اللہِ ، قَالَ : فَأَخَذْتُ بِہِمْ فِی طَرِیقٍ قَدْ کَانَ حَزْنٌ ؛ بِہَا فَدَافِدٌ وَعِقَابٌ ، فَاسْتَوَتْ بِی الأَرْضُ حَتَّی أَنْزَلْتُہُ عَلَی الْحُدَیْبِیَۃِ ، وَہِیَ نَزَحٌ ، قَالَ : فَأَلْقَی فِیہَا سَہْمًا ، أَوْ سَہْمَیْنِ مِنْ کِنَانَتِہِ ، ثُمَّ بَصَقَ فِیہَا ، ثُمَّ دَعَا ، قَالَ : فَعَادَتْ عُیُونُہَا حَتَّی إِنِّی لأََقُولُ ، أَوْ نَقُولُ : لَوْ شِئْنَا لاَغْتَرَفْنَا بِأَقْدَاحِنَا۔ (طبرانی ۱۷۲۷)
(٣٨٠١٥) حضرت ناجیہ بن جندب بن ناجیہ روایت کرتے ہیں کہ جب ہم مقام غمیم میں (پہنچے) تھے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قریش کی اطلاع ملی کہ انھوں نے خالد بن ولید کو گھڑ سواروں کے ایک دستہ کے ہمراہ روانہ کیا ہے۔ جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ملاقات کرنے والا تھا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس بات کو ناپسند فرمایا کہ آپ ان سے ملاقات کریں۔ کیونکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان پر بہت رحم کھاتے تھے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : کون آدمی ہے جو ہمیں اس راستہ سے ہٹا دے ؟ (یعنی دوسرے راستہ پر لے جائے) میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں۔ میں لے جاؤں گا۔ فرماتے ہیں : پس میں نے انھیں ایک ایسے کٹھن راستہ پر ڈال دیا۔ جس میں گھاٹیاں اور اتار چڑھاؤ تھا۔ پھر جب ہموار زمین آئی تو میں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مقام حدیبیہ میں پڑاؤ کروایا اور اس جگہ کا پانی ختم تھا۔ ناجیہ فرماتے ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے کنویں میں اپنے ترکش سے ایک یا دو ترا ڈالے پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس میں اپنا لعاب مبارک ڈالاپھر دعا فرمائی۔ راوی کہتے ہیں : پس اس کے چشمے لوٹ آئے یہاں تک کہ میں نے ۔۔۔یا ہم لوگوں نے ۔۔۔ کہا اگر ہم چاہیں تو اپنے پیالے (برتن) سے پانی بھر لیں۔

38015

(۳۸۰۱۶) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ ، عَنِ ابْنِ أَبِی نَجِیحٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ؛ أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ یَوْمَ الْحُدَیْبِیَۃِ : یَرْحَمُ اللَّہُ الْمُحَلِّقِینَ ، قَالُوا : یَا رَسُولَ اللہِ ، وَالْمُقَصِّرِینَ ؟ قَالَ : یَرْحَمُ اللَّہُ الْمُحَلِّقِینَ ثَلاَثًا ، قَالُوا : وَالْمُقَصِّرِینَ ، یَا رَسُولَ اللہِ ؟ قَالَ : وَالْمُقَصِّرِینَ ، قَالُوا : یَا رَسُولَ اللہِ ، مَا بَالُ الْمُحَلِّقِینَ ظَاہَرْتَ لَہُمُ التَّرَحُّمَ ؟ قَالَ : إِنَّہُمْ لَمْ یَشُکُّوا۔
(٣٨٠١٦) حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حدیبیہ کے دن ارشاد فرمایا : اللہ پاک سر منڈانے والوں پر رحم فرمائے۔ صحابہ نے سوال کیا : یا رسول اللہ ! بال کتروانے والوں پر ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے (دوبارہ) ارشاد فرمایا : اللہ تعالیٰ سر منڈانے والوں پر رحم فرمائے۔۔۔ یہ بات آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تین مرتبہ ارشاد فرمائی۔۔۔ صحابہ نے عرض کیا۔ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! قصر کروانے والوں پر ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : قصر کروانے والوں پر (بھی رحم فرما) ۔ صحابہ نے عرض کیا۔ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! سر منڈانے (حلق) والوں کی کیا وجہ تھی کہ آپ نے ان پر رحم کی دعا زیادہ (تین بار) فرمائی ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : انھوں نے کسی درجہ میں بھی شک نہیں کیا۔

38016

(۳۸۰۱۷) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ جَامِعِ بْنِ شَدَّادٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ عَبْدَ الرَّحْمَن بْنَ أَبِی عَلْقَمَۃَ ، قَالَ : سَمِعْتُ عَبْدَ اللہِ بْنَ مَسْعُودٍ ، قَالَ : أَقْبَلْنَا مَعَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنَ الْحُدَیْبِیَۃِ ، فَذَکَرُوا أَنَّہُمْ نَزَلُوا دَہَاسًا مِنَ الأَرْضِ ، یَعْنِی بِالدَّہَاسِ الرَّمْلَ ، قَالَ : فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَنْ یَکْلَؤُنَا ؟ قَالَ : فَقَالَ بِلاَلٌ : أَنَا ، قَالَ : فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إِذًا نَنَامُ ، قَالَ : فَنَامُوا حَتَّی طَلَعَتِ الشَّمْسُ ، فَاسْتَیْقَظَ أُنَاسٌ فِیہِمْ فُلاَنٌ وَفُلاَنٌ وَفِیہِمْ عُمَرُ ، قَالَ : فَقُلْنَا : اہْضِبُوا ، یَعْنِی تَکَلَّمُوا ، قَالَ : فَاسْتَیْقَظَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : افْعَلُوا کَمَا کُنْتُمْ تَفْعَلُونَ ، قَالَ : فَفَعَلْنَا ، قَالَ : کَذَلِکَ فَافْعَلُوا لِمَنْ نَامَ ، أَوْ نَسِیَ۔ قَالَ : وَضَلَّتْ نَاقَۃُ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَطَلَبْتُہَا ، قَالَ : فَوَجَدْتُ حَبْلَہَا قَدْ تَعَلَّقَ بِشَجَرَۃٍ ، فَجِئْتُ إِلَی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَرَکِبَ فَسِرْنَا ، قَالَ : وَکَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِذَا نَزَلَ عَلَیْہِ الْوَحْیُ اشْتَدَّ ذَلِکَ عَلَیْہِ ، وَعَرَفْنَا ذَلِکَ فِیہِ ، قَالَ : فَتَنَحَّی مُنْتَبِذًا خَلْفَنَا ، قَالَ : فَجَعَلَ یُغَطِّی رَأْسَہُ بِثَوْبِہِ ، وَیَشْتَدُّ ذَلِکَ عَلَیْہِ حَتَّی عَرَفْنَا أَنَّہُ قَدْ أُنْزِلَ عَلَیْہِ ، فَأَتَوْنَا فَأَخْبَرُونَا أَنَّہُ قَدْ أُنْزِلَ عَلَیْہِ : {إِنَّا فَتَحْنَا لَک فَتْحًا مُبِینًا}۔
(٣٨٠١٧) حضرت عبداللہ بن مسعود بیان فرماتے ہیں کہ ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہمراہ حدیبیہ سے (واپس) آئے۔ صحابہ بیان کرتے ہیں کہ ہم ریتلی زمین پر اترے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ہمیں کون بیدار کرے گا ؟ حضرت بلال نے عرض کیا۔ میں بیدار کروں گا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : پھر تو ہم سوتے ہیں۔ تمام لوگ سوئے رہے یہاں تک کہ سورج طلوع ہوگیا۔ تو کچھ لوگ ۔۔۔ جن میں فلاں، فلاں اور حضرت عمر تھے ۔۔۔ بیدار ہوگئے۔ ہم نے کہا (آپس میں) باتیں کرو۔ اس پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بھی آنکھ مبارک کھل گئی اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم جس طرح کر رہے تھے ویسے ہی کرتے رہو (یعنی باتیں کرلو) ۔ راوی کہتے ہیں : ہم نے پھر وہی کیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جو کوئی سویا ہو یا اس کو نماز بھول گئی ہو تو تم اس کے ساتھ یہی کچھ کرو۔ راوی بیان کرتے ہیں : کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اونٹنی گم ہوگئی تو میں اس کی تلاش میں نکلا فرماتے ہیں کہ میں نے اس کو اس حال میں پایا کہ اس کی رسی ایک درخت کے ساتھ اڑی ہوئی تھی۔ پس میں (اسے لے کر) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس حاضر ہوا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس پر سوار ہوئے اور ہم روانہ ہوگئے۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر وحی نازل ہوتی تھی تو آپ کو اس حالت میں شدت ہوتی تھی۔ اور ہمیں یہ شدت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر محسوس ہوتی تھی۔ فرماتے ہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے پیچھے ایک طرف ہو کر کھڑے ہوگئے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے سر مبارک کو اپنے کپڑے سے ڈھانپ لیا۔ اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر سخت شدت کے آثار ظاہر ہوئے یہاں تک کہ ہم سمجھ گئے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر وحی نازل ہو رہی ہے۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے پاس تشریف لائے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ے ہمیں بتایا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر وحی نازل ہوئی ہے۔ {إِنَّا فَتَحْنَا لَک فَتْحًا مُبِینًا }۔

38017

(۳۸۰۱۸) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ شَیْبَانَ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ أَبِی کَثِیرٍ ، عَنْ أَبِی سَعِیدٍ مَوْلَی الْمَہْرِیِّ ، أَنَّ أَبَا سَعِیدٍ أَخْبَرَہُ ؛ أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ لَہُمْ فِی غَزْوَۃٍ غَزَاہَا بَنِی لِحْیَانَ : لِیَنْبَعِثْ مِنْ کُلِّ رَجُلَیْنِ رَجُلٌ ، وَالأَجْرُ بَیْنَہُمَا۔ (مسلم ۱۵۰۷۔ احمد ۱۳۷)
(٣٨٠١٨) حضرت ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ کرام کو بنی لحیان کے ساتھ کئے گئے غزوہ میں ارشاد فرمایا۔ تم میں سے ہر دو آدمیوں میں سے ایک نکل جائے۔ اور اجر ان دونوں کو ملے گا۔

38018

(۳۸۰۱۹) حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا إِبْرَاہِیمُ بْنُ إِسْمَاعِیلَ الأَنْصَارِیُّ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، قَالَ : أَخْبَرَنِی عَمْرٌو ، أَوْ عُمَرُ بْنُ أُسَیْدَ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ؛ أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَعَثَ عَشْرَۃَ رَہْطٍ سَرِیَّۃً عَیْنًا ، وَأَمَّرَ عَلَیْہِمْ عَاصِمَ بْنَ ثَابِتٍ ، فَخَرَجُوا حَتَّی إِذَا کَانُوا بِالْہَدَّۃِ ذُکِرُوا لِحَیٍّ مِنْ ہُذَیْلٍ ، یُقَالُ لَہُمْ بَنُو لِحْیَانَ ، فَبَعَثَ إِلَیْہِمْ مِئَۃَ رَجُلٍ رَامِیًا ، فَوَجَدُوا مَأْکَلَہُمْ حَیْثُ أَکَلُوا التَّمْرَ ، فَقَالُوا : ہَذِا نَوَی یَثْرِبَ ، ثُمَّ اتَّبَعُوا آثَارَہُمْ ، حَتَّی إِذَا أَحَسَّ بِہِمْ عَاصِمٌ وَأَصْحَابُہُ لَجَؤُوا إِلَی جَبَلٍ ، فَأَحَاطَ بِہِمَ الآخَرُونَ ، فَاسْتَنْزَلُوہُمْ وَأَعْطَوْہُمَ الْعَہْدَ ، فَقَالَ عَاصِمٌ : وَاللہِ لاَ أَنْزِلُ عَلَی عَہْدِ کَافِرٍ ، اللَّہُمَّ أَخْبِرْ نَبِیَّک عَنَّا ، وَنَزَلَ إِلَیْہِ ابْنُ دَثِنَۃَ الْبَیَاضِیُّ۔ (بخاری ۳۰۴۵۔ ابوداؤد ۲۶۵۳)
(٣٨٠١٩) حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دس افراد پر مشتمل ایک جاسوس سریہ روانہ فرمایا اور ان پر عاصم بن ثابت کو امیر مقرر فرمایا۔ پس یہ لوگ نکلے یہاں تک کہ جب یہ لوگ مقام ہدہ میں تھے تو (ان کے بارے میں) ہذیل کی ایک شاخ بنو لحیان سے ذکر کیا گیا تو انھوں نے ان کی طرف ایک سو تیر انداز مرد بھیجے۔ ان تیر اندازوں نے ان کے کھانے کے مقام کو ۔۔۔ جہاں انھوں نے کھجوریں کھائی تھیں۔۔۔ دیکھا تو بولے، یہ تو یثرب کی (کھجوروں کی) گٹھلیاں ہیں۔ پھر وہ لوگ ان کے نشانات قدم پر چلے یہاں تک کہ جب عاصم اور ان کے ساتھیوں کو ان کے آنے کا احساس ہوا تو انھوں نے ایک پہاڑ کی طرف پناہ پکڑی۔ اور دوسرے لوگوں (تیر اندازوں) نے ان کا احاطہ کرلیا اور ان سے نیچے اترنے کو کہا۔ اور انھیں عہد (امان) دیا۔ تو حضرت عاصم نے فرمایا : میں کسی کافر کے عہد (امان) پر نیچے نہیں اتروں گا۔ اے اللہ ! تو اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہمارے بارے میں خبر پہنچا دے اور ابن دثنہ بیاظی اس کی طرف اتر گیا۔

38019

(۳۸۰۲۰) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : بَعَثَنَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی سَرِیَّۃٍ إِلَی نَجْدٍ ، قَالَ : فَأَصَبْنَا نَعَمًا کَثِیرَۃً ، قَالَ : فَنَفَّلَنَا صَاحِبُنَا الَّذِی کَانَ عَلَیْنَا بَعِیرًا بَعِیرًا ، ثُمَّ قَدِمْنَا عَلَی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِمَا أَصَبْنَا ، فَکَانَتْ سُہْمَانُنَا بَعْدَ الْخُمُسِ اثْنَیْ عَشَرَ بَعِیرًا ، اثْنَیْ عَشَرَ بَعِیرًا ، فَکَانَ لِکُلِّ رَجُلٍ مِنَّا ثَلاَثَۃَ عَشَرَ بَعِیرًا بِالْبَعِیرِ الَّذِی نَفَّلَنَا صَاحِبُنَا ، فَمَا عَابَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَی صَاحِبِنَا مَا حَاسَبَنَا بِہِ فِی سُہْمَانِنَا۔ (ابوداؤد ۲۷۳۷۔ بیہقی ۳۱۲)
(٣٨٠٢٠) حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں نجد کی طرف ایک سریہ میں روانہ کیا۔ ابن عمر بیان کرتے ہیں۔ ہمیں (وہاں سے) بہت زیادہ چیزیں غنیمت میں ملیں۔ راوی کہتے ہیں۔ پس ہمیں ہمارے ساتھی نے جو ہم پر امیر تھا۔ ایک ایک اونٹ عطیہ میں دے دیا۔ پھر ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس وہ اشیاء لے کر پہنچے۔ تو ہمیں پھر خمس کے اخراج کے بعد جو حصہ ملا وہ بارہ، بارہ اونٹ تھے۔ پس ہم میں سے ہر ایک آدمی کو اس اونٹ سمیت جو ہمارے ساتھی نے ہمیں عطیہ میں دیا تھا۔ تیرہ اونٹ ملے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمارے ساتھی سے اس اونٹ کے حساب پر کوئی بات نہیں کی۔

38020

(۳۸۰۲۱) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : بَعَثَنَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی سَرِیَّۃٍ إِلَی نَجْدٍ ، فَبَلَغَتْ سُہْمَانُنَا اثْنَیْ عَشَرَ بَعِیرًا ، وَنَفَّلَنَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَعِیرًا بَعِیرًا۔ (ابوداؤد ۲۷۳۷۔ بیہقی ۳۱۲)
(٣٨٠٢١) حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں نجد کی طرف ایک سریہ میں روانہ فرمایا۔ تو ہمارے حصوں میں بارہ بارہ اونٹ آئے۔ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں ایک ایک اونٹ عطیہ فرمایا۔

38021

(۳۸۰۲۲) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ حَجَّاجِ بْنِ أَرْطَاۃَ ، عَنْ مَکْحُولٍ ، عنْ زِیَادِ بْنِ جَارِیَۃَ ، عَنْ حَبِیبِ بْنِ مَسْلَمَۃَ ، قَالَ : کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُنَفِّلُ مِنَ الْمَغْنَمِ فِی بِدَایَتِہِ الرُّبُعَ ، وَفِی رَجْعَتِہِ الثُّلُثَ۔ (طبرانی۳۵۲۷)
(٣٨٠٢٢) حضرت حبیب بن سلمہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آغاز میں غنیمت میں سے ایک ربع کو عطیہ کرتے تھے پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آخر میں ایک تہائی میں سے عطیہ کرتے تھے۔

38022

(۳۸۰۲۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ عَیَّاشِ بْنِ أَبِی رَبِیعَۃَ الزُّرَقِیِّ ، عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ مُوسَی ، عَنْ مَکْحُولٍ الشَّامِیِّ ، عَنْ أَبِی سَلاَّمٍ الأَعْرَجِ ، عَنْ أَبِی أُمَامَۃَ الْبَاہِلِیِّ ، عَنْ عُبَادَۃَ بْنِ الصَّامِتِ ؛ أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَفَّلَ فِی الْبَدْأَۃِ الرُّبُعَ ، وَفِی الرَّجْعَۃِ الثُّلُثَ۔ (ترمذی ۱۵۶۱۔ ابن ماجہ ۲۸۵۲)
(٣٨٠٢٣) حضرت عبادہ بن صامت سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آغاز میں ایک چوتھائی میں سے اور بعد میں ایک تہائی سے عطیہ دیتے تھے۔

38023

(۳۸۰۲۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سَعِیدُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیزِ التَّنُوخِیُّ ، عَنْ مَکْحُولٍ ، عَنْ زِیَادِ بْنِ جَارِیَۃَ ، عَنْ حَبِیبِ بْنِ مَسْلَمَۃَ ، قَالَ : شَہِدْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَفَّلَ الثُّلُثَ۔ (احمد ۱۵۹۔ حاکم ۴۳۲)
(٣٨٠٢٤) حضرت حبیب بن مسلمہ سے روایت ہے کہ میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہمراہ (جہاد میں) شریک ہوا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے (غنیمت کے) ثلث میں سے عطیہ دیا۔

38024

(۳۸۰۲۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ یَزِیدَ بْنِ یَزِیدَ بْنِ جَابِرٍ ، عَنْ مَکْحُولٍ ، عَنْ زِیَادِ بْنِ جَارِیَۃَ ، عَنْ حَبِیبِ بْنِ مَسْلَمَۃَ؛ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَفَّلَ الثُّلُثَ بَعْدَ الْخُمُسِ۔(ابوداؤد ۲۷۴۲۔ احمد ۱۵۹)
(٣٨٠٢٥) حضرت حبیب بن مسلمہ سے روایت ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے (غنیمت میں سے) خمس کے بعد ایک تہائی میں سے عطیہ دیا۔

38025

(۳۸۰۲۶) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو ، قَالَ : تَذَاکَرَ أَبُو سَلَمَۃَ ، وَیَحْیَی بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، وَعَبْدُ الْمَلِکِ بْنُ الْمُغِیرَۃِ ، وَأَنَا مَعَہُمَ الأَنْفَالَ ، فَأَرْسَلُوا إلَی سَعِیدٌ بْنِ الْمُسَیَّبِ یَسْأَلُونَہُ عَنْ ذَلِکَ ، فَجَائَ الرَّسُولُ، فَقَالَ: أَبَی أَنْ یُخْبِرَنِی شَیْئًا، قَالَ: فَأَرْسَلَ سَعِیدٌ غُلاَمَہُ، فَقَالَ: إِنَّ سَعِیدًا یَقُولُ لَکُمْ: إِنَّکُمْ أَرْسَلْتُمْ تَسْأَلُونَنِی عَنِ الأَنْفَالِ ، وَإِنَّہُ لاَ نَفْلَ بَعْدَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔ (طبری ۱۷۷۔ ابن حبان ۴۸۳۵)
(٣٨٠٢٦) حضرت محمد بن عمرو بیان کرتے ہیں کہ ابو سلمہ، یحییٰ بن عبد الرحمن اور عبد الملک بن مغیرہ۔۔۔ اور میں بھی ان کے ہمراہ تھا۔۔۔ آپس میں انفال ۔۔۔ عطایا ۔۔۔ کے بارے میں مذاکرہ کر رہے تھے ۔ تو انھوں نے سعید بن مسیب کی طرف یہ بات پوچھنے کے لیے بھیجا۔ تو (ان کا) قاصد واپس آیا اور اس نے کہا کہ سعید نے مجھے کچھ بھی بتانے سے انکار کردیا ہے ۔۔۔ راوی کہتے ہیں : پھر سعید نے اپنا غلام بھیجا اور اس نے (آکر) کہا۔ سعید، تمہیں کہہ رہے ہیں۔ کہ تم نے میرے پاس انفال ۔۔۔ عطایا۔۔۔ کے بارے میں پوچھنے کے لیے قاصد بھیجا تھا۔ حالانکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد انفال ۔۔۔ عطایا۔۔۔ نہیں ہیں۔

38026

(۳۸۰۲۷) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ یَزِیدَ بْنِ جَابِرٍ ، عَنْ مَکْحُولٍ ، قَالَ : حدَّثَنِی الْحَجَّاجُ بْنُ عَبْدِ اللہِ النَّصْرِیُّ ، قَالَ : النَّفَلُ حَقٌّ ، نَفَّلَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔ (طبرانی ۳۱۹۸۔ ابو نعیم ۱۹۵۳)
(٣٨٠٢٧) حجاج بن عبداللہ نصری بیان کرتے ہیں کہ عطیہ برحق ہے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عطیہ عطا فرمایا۔

38027

(۳۸۰۲۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، عَنْ أَبِی جَعْفَرٍ، عَنْ قَتَادَۃَ، عَنْ أَنَسٍ؛ {إِنَّا فَتَحْنَا لَک فَتْحًا مُبِینًا} قَالَ: خَیْبَرَ۔ (حاکم ۴۵۹)
(٣٨٠٢٨) حضرت انس (آیت قرآنی) {إِنَّا فَتَحْنَا لَک فَتْحًا مُبِینًا } کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں کہ یہ خیبر (والی فتح) ہے۔

38028

(۳۸۰۲۹) حَدَّثَنَا ہَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ ، قَالَ : حدَّثَنَا عِکْرِمَۃُ بْنُ عَمَّارٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِی إِیَاسُ بْنُ سَلَمَۃَ ، قَالَ : أَخْبَرَنِی أَبِی ، قَالَ : بَارَزَ عَمِّی یَوْمَ خَیْبَرَ مَرْحَبًا الْیَہُودِیَّ ، فَقَالَ مَرْحَبٌ : قَدْ عَلِمَتْ خَیْبَرُ أَنِّی مَرْحَبُ شَاکِی السِّلاَحِ بَطَلٌ مُجَرَّبُ إِذَا الْحُرُوبُ أَقْبَلَتْ تَلَہَّبُ فَقَالَ عَمِّی عَامِرٌ : قَدْ عَلِمَتْ خَیْبَرُ أَنِّی عَامِرٌ شَاکِی السِّلاَحِ بَطَلٌ مُغَامِرٌ فَاخْتَلَفَا ضَرْبَتَیْنِ ، فَوَقَعَ سَیْفُ مَرْحَبٍ فِی تُرْسِ عَامِرٍ ، فَرَجَعَ السَّیْفُ عَلَی سَاقِہِ فَقَطَعَ أَکْحَلَہُ ، فَکَانَتْ فِیہَا نَفْسُہُ ، قَالَ سَلَمَۃُ : فَلَقِیتُ مِنْ صَحَابَۃِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالُوا : بَطَلَ عَمَلُ عَامِرٍ ، قَتَلَ نَفْسَہُ ، قَالَ سَلَمَۃُ : فَجِئْتُ إِلَی نَبِیِّ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَبْکِی ، قُلْتُ : یَا رَسُولَ اللہِ ، بَطَلَ عَمَلُ عَامِرٍ ؟ قَالَ : مَنْ قَالَ ذَلِکَ ؟ قُلْتُ : أُنَاسٌ مِنْ أَصْحَابِکَ ، قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : کَذَبَ مَنْ قَالَ ذَلِکَ ، بَلْ لَہُ أَجْرُہُ مَرَّتَیْنِ : حِینَ خَرَجَ إِلَی خَیْبَرَ جَعَلَ یَرْجُزُ بِأَصْحَابِ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَفِیہِمَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، یَسُوقُ الرِّکَابَ ، وَہُوَ یَقُولُ : تَاللہِ لَوْلاَ اللہِ مَا اہْتَدَیْنَا وَلاَ تَصَدَّقْنَا وَلاَ صَلَّیْنَا إِنَّ الَّذِینَ قَدْ بَغَوْا عَلَیْنَا إِذَا أَرَادُوا فِتْنَۃً أَبَیْنَا وَنَحْنُ عَنْ فَضْلِکَ مَا اسْتَغْنَیْنَا فَثَبِّتِ الأَقْدَامَ إِنْ لاَقَیْنَا وَأَنْزِلَنْ سَکِینَۃً عَلَیْنَا فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَنْ ہَذَا ؟ قَالَ : عَامِرٌ ، یَا رَسُولَ اللہِ ، قَالَ : غَفَرَ لَک رَبُّک ، قَالَ : وَمَا أَسْتَغْفَرَ لإِنْسَانٍ قَطُّ یَخُصُّہُ إِلاَّ اُسْتُشْہِدَ ، فَلَمَّا سَمِعَ ذَلِکَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ ، قَالَ : یَا رَسُولَ اللہِ ، لَوْلاَ مَا مَتَّعْتَنَا بِعَامِرٍ ، فَقَامَ فَاسْتُشْہِدَ۔ قَالَ سَلَمَۃُ : ثُمَّ إِنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَرْسَلَنِی إِلَی عَلِیٍّ ، فَقَالَ : لأُعْطِیَنَّ الرَّایَۃَ الْیَوْمَ رَجُلاً یُحِبُّ اللَّہَ وَرَسُولَہُ ، أَوْ یُحِبُّہُ اللَّہُ وَرَسُولُہُ ، قَالَ : فَجِئْتُ بِہِ أَقُودُہُ أَرْمَدَ ، قَالَ : فَبَصَقَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی عَیْنَیْہِ ، ثُمَّ أَعْطَاہُ الرَّایَۃَ ، فَخَرَجَ مَرْحَبٌ یَخْطُرُ بِسَیْفِہِ ، فَقَالَ : قَدْ عَلِمَتْ خَیْبَرُ أَنِّی مَرْحَبُ شَاکِی السِّلاَحِ بَطَلٌ مُجَرَّبُ إِذَا الْحُرُوبُ أَقْبَلَتْ تَلَہَّبُ فَقَالَ عَلِیُّ بْنُ أَبِی طَالِبٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ : أَنَا الَّذِی سَمَّتْنِی أُمِّی حَیْدَرَہْ کَلَیْثِ غَابَاتٍ کَرِیہِ الْمَنْظَرَہْ أُوفِیہِمْ بِالصَّاعِ کَیْلَ السَّنْدَرَہْ فَفَلَقَ رَأْسَ مَرْحَبٍ بِالسَّیْفِ ، وَکَانَ الْفَتْحُ عَلَی یَدَیْہِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ۔
(٣٨٠٢٩) حضرت ایاس بن سلمہ بیان کرتے ہیں کہ مجھے میرے والد نے خبر دی کہ میرے چچا نے خیبر کے دن مرحب یہودی سے مبارزت کی تو مرحب نے کہا۔ ع
ترجمہ : ” خیبر (کا خطہ) جانتا ہے کہ میں مرحب ہوں۔ اسلحہ سے لیس ایک مجرب بہادر ہوں۔ جب جنگیں آتیں ہیں تو وہ شعلہ وار ہوجاتا ہے۔ “
اس پر میرے چچا نے یہ شعر کہا۔ ع
ترجمہ : ” تحقیق خیبر (کا خطہ) مجھے جانتا ہے کہ میں عام ہوں۔ اسلحہ سے لیس اور جان پر کھیلنے والا سپوت ہوں۔ “
پس دونوں (کی) ضربیں ایک دوسرے پر شروع ہوگئیں۔ اور مرحب کی تلوار حضرت عامر کی ڈھال میں آپڑی۔ (جس کی وجہ سے) حضرت عامر کی تلوار ان کی پنڈلی پر آ لگی اور اس نے ان کی رگ کو کاٹ دیا۔ حضرت سلمہ کہتے ہیں۔ میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ سے ملا تو انھوں نے کہا : عامر کے اعمال ضائع ہوگئے۔ انھوں نے خود کو قتل کیا ہے۔ حضرت سلمہ کہتے ہیں۔ میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں روتا ہوا حاضر ہوا اور میں نے عرض کیا ۔ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! کیا عامر کے اعمال ضائع ہوگئے ہیں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کس نے یہ بات کہی ہے ؟ میں نے عرض کیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھیوں میں سے کچھ لوگوں نے ۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جس نے یہ بات کہی ہے جھوٹ کہی ہے۔ بلکہ اس کے لیے تو دوہرا اجر ہے۔
جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خیبر کی طرف روانہ ہوئے تو حضرت عامر ، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ کو رجز کہہ رہے تھے۔ اور انھیں صحابہ میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی موجود تھے۔ حضرت عامر رکاب کو ہانک رہے تھے اور کہہ رہے تھے۔ ع ۔
بخدا ! اگر خدا نے ہمیں ہدایت نہ دی ہوتی ۔ تو ہم صدقہ بھی نہ کرتے اور نمازیں بھی نہ پڑھتے۔
بیشک وہ لوگ جنہوں نے ہم پر سرکشی کی۔ جب وہ کسی فتنہ کا ارادہ کرتے ہیں تو ہم انکار کردیتے ہیں۔
ہم تیرے فضل سے مستغنی نہیں ہوسکتے پس اگر ہماری (دشمن سے) ملاقات ہوجائے تو تو ہمیں ثابت قدم رکھ۔ اور ہم پر سکینہ نازل فرما۔
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا ۔ یہ کون ہے ؟ کسی نے عرض کیا۔ عامر ہے۔ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : تمہارا پروردگار تمہاری مغفرت فرمائے۔ راوی کہتے ہیں : آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جس آدمی کے لیے بھی خصوصیت کے ساتھ استغفار کیا وہ آدمی شہید ہی ہوا۔ پس جب یہ بات حضرت عمر بن خطاب نے سُنی تو انھوں نے عرض کیا۔ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ نے ہمیں حضرت عامر سے مزید کیوں مستفید نہ ہونے دیا۔ پھر حضرت عامر (میدان جنگ میں مبارزت کے جواب میں) کھڑے ہوئے اور شہید ہوگئے۔
٦۔ حضرت سلمہ کہتے ہیں۔ پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے حضرت علی کی طرف بھیجا اور فرمایا : آج کے دن میں یہ جھنڈا ایسے آدمی کو دوں گا جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے ۔۔۔ یا فرمایا ۔۔۔ جس سے اللہ اور اس کے رسول محبت کرتے ہیں۔ سلمہ کہتے ہیں : پس میں حضرت علی کو اس حال میں چلا کر لایا کہ ان کو آشوب چشم تھا ۔ راوی کہتے ہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی آنکھ میں اپنا لعاب مبارک ڈالا پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انھیں جھنڈا عطا فرمایا۔ مرحب اپنی تلوار کو اوپر نیچے ہلاتا ہوا باہر نکلا اور کہہ رہا تھا۔
تحقیق خربا (کے لوگ) مجھے جانتے ہیں کہ میں مرجر ہوں، اسلحہ سے لیس تجربہ کار سپوت ہوں۔ جب جنگیں آگے بڑھتی ہیں تو میں شعلہ وار ہوجاتا ہوں۔
حضرت علی نے جواباً ارشاد فرمایا : ع
” میں وہ شخص ہوں کہ میری ماں نے میرا نام حیدر (شیر) رکھا ہے۔ جنگل کے شیر کی طرح نہایت مہیب ہوں اور میں دشمنوں کے پیمانہ کے ساتھ پورا ناپ کردیتا ہوں۔ “
پھر حضرت علی نے مرحب کے سر کو (دو حصوں میں) تلوار سے پھاڑ دیا۔ اور یہ فتح حضرت علی کے ہاتھ سے حاصل ہوئی۔

38029

(۳۸۰۳۰) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ، عَنْ جُبَیْرِ بْنِ مُطْعِمٍ ، قَالَ : قسَمَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سَہْمَ ذَوِی الْقُرْبَی مِنْ خَیْبَرَ عَلَی بَنِی ہَاشِمٍ وَبَنِی الْمُطَّلِبِ ، قَالَ : فَمَشَیْت أَنَا وَعُثْمَان بْنُ عَفَّانَ حَتَّی دَخَلْنَا عَلَیْہِ ، فَقُلْنَا : یَا رَسُولَ اللہِ ، ہَؤُلاَئِ إِخْوَتُک مِنْ بَنِی ہَاشِمٍ ، لاَ یُنْکَرُ فَضْلُہُمْ لِمَکَانِکَ الَّذِی وَضَعَک اللَّہُ بِہِ مِنْہُمْ ، أَرَأَیْتَ إِخْوَتَنَا مِنْ بَنِی الْمُطَّلِبِ أَعْطَیْتَہُمْ دُونَنَا ، وَإِنَّمَا نَحْنُ وَہُمْ بِمَنْزِلَۃٍ وَاحِدَۃٍ فِی النَّسَبِ ، فَقَالَ : إِنَّہُمْ لَمْ یُفَارِقُونَا فِی الْجَاہِلِیَّۃِ وَالإِسْلاَمِ۔
(٣٨٠٣٠) حضرت جبیر بن مطعم بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خیبر میں سے ذوی القربیٰ کے حصے کو بنو ہاشم اور بنو عبد المطلب پر تقسیم فرمایا۔ راوی کہتے ہیں : پس میں اور حضرت عثمان بن عفان ، نکلے یہاں تک کہ ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ہم نے عرض کیا۔ یا رسول اللہ ! یہ آپ بنی ہاشم کے جو بھائی ہیں۔ ان کی اس فضیلت کا انکار نہیں کیا جاسکتا جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو ان میں بھیج کر عطا فرمائی ہے۔ لیکن آپ ہمارے بنی عبد المطلب کے بھائیوں کو کیسا دیکھتے ہیں۔ آپ نے انھیں ہم سے تھوڑا عطا فرمایا ہے۔ حالانکہ ہم اور وہ ، نسب کے اعتبار سے ایک ہی مرتبہ کے ہیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا۔ انھوں نے ہمارا حالت اسلام اور جاہلیت میں کبھی ساتھ نہیں چھوڑا۔

38030

(۳۸۰۳۱) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَنْ ثَابِتٍ ، عَنْ أَنَسٍ ؛ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ لاَ یُغِیرُ حَتَّی یُصْبِحَ فَیَسْتَمِعَ ، فَإِنْ سَمِعَ أَذَانًا أَمْسَکَ ، وَإِنْ لَمْ یَسْمَعْ أَذَانًا أَغَارَ ، قَالَ فَأَتَی خَیْبَرَ وَقَدْ خَرَجُوا مِنْ حُصُونِہِمْ ، فَتَفَرَّقُوا فِی أَرْضِیہِمْ ، مَعَہُمْ مَکَاتِلُہُمْ وَفُؤُوسُہُمْ وَمُرُورُہُمْ ، فَلَمَّا رَأَوْہُ، قَالُوا : مُحَمَّدٌ وَالْخَمِیسُ ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : اللَّہُ أَکْبَرُ ، خَرِبَتْ خَیْبَرُ : إِنَّا إذَا نَزَلْنَا بِسَاحَۃِ قَوْمٍ فَسَائَ صَبَاحُ الْمُنْذَرِینَ ، فَقَاتَلَہُمْ حَتَّی فَتَحَ اللَّہُ عَلَیْہِ ، فَقَسَمَ الْغَنَائِمَ ، فَوَقَعَتْ صَفِیَّۃُ فِی سَہْمِ دِحْیَۃَ الْکَلْبِی۔ فَقِیلَ لِرَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إِنَّہُ قَدْ وَقَعَتْ جَارِیَۃٌ جَمِیلَۃٌ فِی سَہْمِ دِحْیَۃَ الْکَلْبِی ، فَاشْتَرَاہَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِسَبْعَۃِ أَرْؤُسٍ ، فَبَعَثَ بِہَا إِلَی أُمِّ سُلَیْمٍ تُصْلِحُہَا ، قَالَ : وَلاَ أَعْلَمُ إِلاَّ إِنَّہُ قَالَ : وَتَعْتَدُّ عِنْدَہَا ، فَلَمَّا أَرَادَ الشُّخُوصَ ، قَالَ النَّاسُ : مَا نَدْرِی اتَّخَذَہَا سُرِّیۃً ، أَمْ تَزَوَّجَہَا ؟ فَلَمَّا رَکِبَ سَتَرَہَا وَأَرْدَفَہَا خَلْفَہُ ، فَأَقْبَلُوا حَتَّی إِذَا دَنَوْا مِنَ الْمَدِینَۃِ أَوْضَعُوا ، وَکَذَلِکَ کَانُوا یَصْنَعُونَ إِذَا رَجَعُوا فَدَنَوْا مِنَ الْمَدِینَۃِ ، فَعَثَرَتْ نَاقَۃُ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَسَقَطَ وَسَقَطَتْ ، وَنِسَائُ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَنْظُرْنَ مُشْرِفَاتٍ ، فَقُلْنَ : أَبْعَدَ اللَّہُ الْیَہُودِیَّۃَ وَأَسْحَقَہَا ، فَسَتَرَہَا وَحَمَلَہَا۔ (بخاری ۹۴۷۔ ابوداؤد ۲۹۹۰)
(٣٨٠٣١) حضرت انس سے روایت ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (کسی بستی پر) حملہ نہیں کرتے تھے یہاں تک کہ صبح ہوجائے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سماعت کرلیں۔ پس اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اذان کی آواز سنائی دیتی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رک جاتے اور اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اذان کی آواز نہ سنتے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (بستی پر) حملہ آور ہوجاتے۔ راوی کہتے ہیں : پس آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (جب) خیبر کے علاقہ میں تشریف لائے تو (اس وقت) وہ لوگ اپنے قلعوں سے باہر نکل چکے تھے اور اپنی زمینوں میں پھیل گئے تھے ۔ اور ان کے ہمراہ زنبیل، کلہاڑیاں اور پھاؤڑے وغیرہ تھے۔ پس جب انھوں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیکھا تو بولے۔ محمد اور لشکر ! ! !
نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ” اللہ اکبر۔ خیبر برباد ہوگیا۔ جب ہم کسی قوم کے علاقہ میں پڑاؤ ڈال دیتے ہیں تو پھر ڈرائے ہوئے (آگاہ کردہ) لوگوں کی صبح بہت بری ہوتی ہے۔ “ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے ساتھ لڑائی کی یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فتح عطا فرمائی اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غنائم کو تقسیم فرمایا۔ صفیہ، حضرت دحیہ کلبی کے حصے میں آئیں۔ تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا گیا۔ کہ حضرت دحیہ کلبی کے حصہ میں ایک خوبصورت لونڈی آئی ہے۔ پس رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو سات غلاموں کے عوض خرید لیا اور انھیں حضرت ام سلیم کی طرف بھیج دیا تاکہ وہ انھیں درست کریں ۔ راوی کہتے ہیں : میرے علم کے مطابق آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تھا۔ یہ ان کے پاس عدت گزاریں۔ پھر جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے (وہاں سے) روانگی کا قصد فرمایا۔ تو لوگ کہنے لگے۔ نامعلوم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صفیہ کو بطور قیدی کے پکڑا یا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے شادی کی ہے ؟ پس جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سوار ہوئے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صفیہ کو باپردہ کر کے انھیں اپنے پیچھے سوار کیا۔ پھر لوگ چل پڑے یہاں تک کہ جب مدینہ کے قریب پہنچے تو لوگوں نے جانوروں کو تیز دوڑایا ۔۔۔ لوگوں کی عادت یہی تھی کہ جب وہ (سفر سے) واپسی کرتے اور مدینہ کے قریب پہنچتے تو یونہی کرتے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اونٹنی کو ٹھوکر لگی تو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) گرپڑے اور صفیہ بھی گرگئیں۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیویاں منتظر ہو کر دیکھ رہی تھیں۔ تو انھوں نے کہا۔ اللہ تعالیٰ یہودیہ (صفیہ) کو دور کرے اور برباد کرے۔ پھر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صفیہ کو باپردہ کیا اور ان کو (اونٹنی پر) سوار کیا۔

38031

(۳۸۰۳۲) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا ابْنُ عَوْنٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ سَعِیدٍ ، عَنْ أَبِی طَلْحَۃَ ، قَالَ : کُنْتُ رِدْفَ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَوْمَ خَیْبَرَ ، فَلَمَّا انْتَہَیْنَا وَقَدْ خَرَجُوا بِالْمَسَاحِی ، فَلَمَّا رَأَوْنَا ، قَالُوا : مُحَمَّدٌ وَاللہِ ، مُحَمَّدٌ وَالْخَمِیسُ ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : اللَّہُ أَکْبَرُ ، إِنَّا إِذَا نَزَلْنَا بِسَاحَۃِ قَوْمٍ فَسَائَ صَبَاحُ الْمُنْذَرِینَ۔ (احمد ۲۹۔ طبرانی ۴۷۰۳)
(٣٨٠٣٢) حضرت ابو طلحہ سے روایت ہے کہ خیبر کے دن میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیچھے بیٹھا ہوا تھا۔ جب ہم (خیبر) پہنچے تو وہ لوگ (اپنے کھیتوں میں) بیلچوں کے ساتھ نکل چکے تھے۔ پس جب انھوں نے ہمیں دیکھا تو کہنے لگے۔ محمد ! بخدا ! محمد اور لشکر ؟ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اللہ اکبر ! جب ہم کسی قوم کے صحن میں اترتے ہیں تو پھر ڈرائے ہوئے لوگوں کی صبح بہت بری ہوتی ہے۔

38032

(۳۸۰۳۳) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا دَاوُد بْنُ أَبِی ہِنْدٍ ، عَنْ عَامِرٍ ؛ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَکْرَی خَیْبَرَ بِالشَّطْرِ ، ثُمَّ بَعَثَ ابْنَ رَوَاحَۃَ عِنْدَ الْقِسْمَۃِ فَخَیَّرَہُمْ ۔
(٣٨٠٣٣) حضرت عامر سے روایت ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خیبر کے ایک حصہ کو کرایہ پر دیا پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابن رواحہ کو تقسیم کے وقت بھیجا اور آپ نے انھیں اختیار دیا۔

38033

(۳۸۰۳۴) حَدَّثَنَا ہَوْذَۃُ بْنُ خَلِیفَۃَ ، قَالَ : حدَّثَنَا عَوْفٌ ، عَنْ مَیْمُونٍ أَبِی عَبْدِ اللہِ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ بُرَیْدَۃَ الأَسْلَمِیِّ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : لَمَّا نَزَلَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِحَضْرَۃِ خَیْبَرَ ، فَزِعَ أَہْلُ خَیْبَرَ ، وَقَالُوا : جَائَ مُحَمَّدٌ فِی أَہْلِ یَثْرِبَ ، قَالَ : فَبَعَثَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ بِالنَّاسِ فَلَقِیَ أَہْلَ خَیْبَرَ ، فَرَدُّوہُ وَکَشَفُوہُ ہُوَ وَأَصْحَابَہُ ، فَرَجَعُوا إِلَی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُجِبْنَ أَصْحَابَہُ وَیُجِبْنَہُ أَصْحَابُہُ ، قَالَ : فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لأُعْطِیَنَّ اللِّوَائَ غَدًا رَجُلاً یُحِبُّ أللَّہَ وَرَسُولَہُ ، وَیُحِبُّہُ اللَّہُ وَرَسُولُہُ۔ قَالَ: فَلَمَّا کَانَ الْغَدُ تَصَادَرَ لَہَا أَبُو بَکْرٍ ، وَعُمَرُ ، قَالَ: فَدَعَا عَلِیًّا وَہُوَ یَوْمَئِذٍ أَرْمَدُ ، فَتَفَلَ فِی عَیْنِہِ وَأَعْطَاہُ اللِّوَائَ ، قَالَ : فَانْطَلَقَ بِالنَّاسِ ، قَالَ : فَلَقِیَ أَہْلَ خَیْبَرَ وَلَقِیَ مَرْحَبًا الْخَیْبَرِیَّ ، وَإِذَا ہُوَ یَرْتَجِزُ وَیَقُولُ : قَدْ عَلِمَتْ خَیْبَرُ أَنِّی مَرْحَبُ إِذَا اللُّیُوثُ أَقْبَلَتْ تَلَہَّبُ شَاکِی السِّلاَحِ بَطَلٌ مُجَرَّبُ أَطْعَنُ أَحْیَانًا وَحِینًا أَضْرِبُ قالَ : فَالْتَقَی ہُوَ وَعَلِیٌّ ، فَضَرَبَہُ ضَرْبَۃً عَلَی ہَاہَتِہِ بِالسَّیْفِ ، عَضَّ السَّیْفُ مِنْہَا بِالأَضْرَاسِ ، وَسَمِعَ صَوْتَ ضَرْبَتِہِ أَہْلُ الْعَسْکَرِ ، قَالَ : فَمَا تَتَامَّ آخِرُ النَّاسِ حَتَّی فُتِحَ لأَوَّلِہِمْ۔ (نسائی ۸۴۰۳۔ احمد ۳۵۸)
(٣٨٠٣٤) حضرت عبداللہ بن بریدہ اسلمی ، اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خیبر کے علاقہ میں فروکش ہوئے تو اہل خیبر گھبرا گئے اور کہنے لگے۔ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! اہل یثرب کے ہمراہ آگئے ہیں۔ راوی کہتے ہیں : پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عمر بن خطاب کو چند لوگوں کے ہمراہ بھیجا وہ اہل خیبر سے ملے لیکن اہل خیبر نے انھیں اور ان کے ساتھیوں کو واپس کردیا پس یہ لوگ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں اس حالت میں حاضر ہوئے کہ حضرت عمر اپنے ساتھیوں کو بزدل کہہ رہے تھے اور ان کے ساتھی انھیں بزدلی کا کہہ رہے تھے۔ راوی کہتے ہیں : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : میں جھنڈا کل ایسے آدمی کے ہاتھ میں دوں گا جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے اور اللہ اور اس کا رسول اس (آدمی) سے محبت کرتے ہیں۔
راوی کہتے ہیں : پس جب اگلا دن آیا تو حضرت ابوبکر اور عمر اس جھنڈے کے امیدوار تھے۔ راوی کہتے ہیں : آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت علی کو بلایا۔ حضرت علی اس وقت آشوب چشم میں مبتلا تھے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی آنکھ میں تھتکارا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو عَلَم تھما دیا۔ حضرت علی لوگوں کو لے کر چل دئیے ۔ راوی بیان کرتے ہیں : حضرت علی کا سامنا اہل خیبر سے ہوا اور مرحب خیبری سے آپ کا سامنا ہوا تو وہ یہ رجز پڑھتے ہوئے کہہ رہا تھا۔ ع
تحقیق خیبر والے جانتے ہیں کہ میں مرحب ہوں، اسلحہ سے لیس اور تجربہ کار بہادر ہوں۔
جب شیر آگے بڑھتے ہیں تو میں شعلہ وار ہوجاتا ہوں، کبھی نیزہ بازی کرتا ہوں اور کبھی تلوار بازی۔
راوی بیان کرتے ہیں : پھر حضرت علی اور مرحب کا ٹکراؤ ہوا تو حضرت علی نے اس کی کھوپڑی پر تلوار کے ساتھ ایسی ضرب لگائی ۔ کہ تلوار نے اس کی کھوپڑی سے داڑھوں تک کاٹ کر رکھ دیا۔ اور آپ کی ضرب کی آواز تمام لشکر نے سُنی مسلمانوں کے لشکر کے ابتدائی حصہ کو اللہ تعالیٰ نے فتح عطا کردی۔

38034

(۳۸۰۳۵) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا سَعِیدُ بْنُ أَبِی عَرُوبَۃَ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ أَبِی نَضْرَۃَ ، عَنْ أَبِی سَعِیدٍ، قَالَ : خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ مَکَّۃَ إِلَی خَیْبَرَ فِی ثِنْتَیْ عَشْرَۃَ بَقِیَتْ مِنْ رَمَضَانَ ، فَصَامَ طَائِفَۃٌ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَأَفْطَرَ آخَرُونَ ، فَلَمْ یَعِبْ ذَلِکَ۔
(٣٨٠٣٥) حضرت ابو سعید سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہمرا ہ مکہ سے خیبر کی طرف نکلے جبکہ رمضان میں سے بارہ دن باقی تھے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھیوں میں سے بعض نے روزہ رکھا اور بعض نے روزہ چھوڑ دیا۔ لیکن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کسی پر طعن نہیں فرمایا۔

38035

(۳۸۰۳۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ الْمَسْعُودِیِّ ، عَنِ الْحَکَمِ ؛ أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَسَمَ لِجَعْفَرٍ وَأَصْحَابِہِ یَوْمَ خَیْبَرَ ، وَلَمْ یَشْہَدُوا الْوَقْعَۃَ۔
(٣٨٠٣٦) حضرت حکم بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت جعفر اور ان کے ساتھیوں کو خیبر کے دن تقسیم میں شامل فرمایا۔ حالانکہ یہ لوگ جنگ خیبر میں شریک نہیں تھے۔

38036

(۳۸۰۳۷) حَدَّثَنَا شَاذَانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَنْ سُہَیْلٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : قَالَ عُمَرُ : إِنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : لأَدْفَعَنِ اللِّوَائَ غَدًا إِلَی رَجُلٍ یُحِبُّ اللَّہَ وَرَسُولَہُ ، یَفْتَحُ اللَّہُ بِہِ ، قَالَ عُمَرُ : مَا تَمَنَّیْت الإِمْرَۃَ إِلاَّ یَوْمَئِذٍ ، فَلَمَّا کَانَ الْغَدُ تَطَاوَلْتُ لَہَا ، قَالَ : فَقَالَ : یَا عَلِیُّ ، قُمَ اذْہَبْ فَقَاتِلْ ، وَلاَ تَلْفِتْ حَتَّی یَفْتَحَ اللَّہُ عَلَیْک ، فَلَمَّا قَفَّی ، کَرِہَ أَنْ یَلْتَفِتَ ، فَقَالَ : یَا رَسُولَ اللہِ ، عَلاَمَ أُقَاتِلُہُمْ ؟ قَالَ : حَتَّی یَقُولُوا : لاَ إِلَہَ إِلاَّ اللَّہُ ، فَإِذَا قَالَوہَا حَرُمَتْ دِمَاؤُہُمْ وَأَمْوَالُہُمْ إِلاَّ بِحَقِّہَا۔ (مسلم ۱۸۷۱۔ احمد ۳۸۴)
(٣٨٠٣٧) حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ حضرت عمر بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : کل میں جھنڈا ایسے آدمی کو دوں گا جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہوگا ۔ اللہ پاک اس کے ذریعہ فتح عطا فرمائیں گے۔ حضرت عمر کہتے ہیں۔ میں نے امارت کی تمنا اس دن کے سوا کبھی نہیں کی۔ پھر جب اگلا دن (کل کا دن) آیا تو میں اس کو اونچا ہو کر دیکھنے لگا۔ حضرت عمر کہتے ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اے علی ! کھڑے ہو جاؤ، جاؤ اور جا کر لڑو۔ کسی طرف توجہ نہ کرنا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ تیرے (ہاتھ) پر فتح دے دیں۔ پس حضرت علی نے رُخ پھیرا تو انھوں نے (واپس) مڑنا ناپسند کیا ۔ عرض کیا۔ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! میں ان کفار سے کس بات پر لڑوں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا۔ (لڑو) یہاں تک کہ وہ کہہ دیں۔ لا الہ الا اللّٰہ۔ پس جب وہ یہ بات کہہ دیں تو ان کے اموال اور ان کے خون محفوظ ہوجائیں گے سوائے کسی حق کی صورت میں۔

38037

(۳۸۰۳۸) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ ہَاشِمٍ ، عَنْ ابْنِ أَبِی لَیْلَی ، عَنِ الْمِنْہَالِ ، وَالْحَکَمِ ، وَعِیسَی ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِی لَیْلَی ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : قَالَ عَلِیٌّ : مَا کُنْتُ مَعَنا یَا أَبَا لَیْلَی بِخَیْبَرَ ؟ قُلْتُ : بَلَی وَاللہِ ، لَقَدْ کُنْت مَعَکُمْ ، قَالَ : فَإِنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَعَثَ أَبَا بَکْرٍ فَسَارَ بِالنَّاسِ ، فَانْہَزَمَ حَتَّی رَجَعَ إِلَیْہِ ، وَبَعَثَ عُمَرَ فَانْہَزَمَ بِالنَّاسِ حَتَّی انْتَہَی إِلَیْہِ ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لأُعْطِیَنَّ الرَّایَۃَ رَجُلاً یُحِبُّ اللَّہَ وَرَسُولَہُ ، وَیُحِبُّہُ اللَّہُ وَرَسُولُہُ ، یَفْتَحُ اللَّہُ لَہُ ، لَیْسَ بِفَرَّارٍ ، قَالَ : فَأَرْسَلَ إِلَیَّ فَدَعَانِی ، فَأَتَیْتُہُ وَأَنَا أَرْمَدُ لاَ أُبْصِرُ شَیْئًا ، فَدَفَعَ إِلَیَّ الرَّایَۃَ ، فَقُلْتُ : یَا رَسُولَ اللہِ ، کَیْفَ وَأَنَا أَرْمَدُ لاَ أُبْصِرُ شَیْئًا ؟ قَالَ : فَتَفَلَ فِی عَیْنِی ، ثُمَّ قَالَ : اللَّہُمَ ، اکْفِہِ الْحَرَّ وَالْبَرْدَ ، قَالَ : فَمَا آذَانِی بَعْدُ حَرٌّ ، وَلاَ بَرْدٌ۔
(٣٨٠٣٨) حضرت عبد الرحمن بن ابی لیلیٰ ، اپنے والد سے روایت کرتے ہیں حضرت علی نے کہا۔ اے ابو لیلیٰ ! تم خیبر میں ہمارے ساتھ نہیں تھے ؟ میں نے عرض کای : کیوں نہیں ! بخدا میں تو تمہارے ساتھ تھا۔ (پھر) حضرت علی نے فرمایا۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت ابوبکر کو بھیجا اور وہ لوگوں کو لے کر (میدان کی طرف) چلے لیکن پسپا ہوگئے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف واپس تشریف لے آئے۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عمر کو بھیجا وہ بھی لوگوں کے ہمراہ پسپا ہوگئے یہاں تک کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف واپس آگئے۔ اس پر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا۔ (اب) میں یہ جھنڈا ایسے آدمی کو دوں گا جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے اور اللہ اور اس کے رسول اس سے محبت کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس کے ہاتھ پر فتح عطا فرمائے گا۔ وہ بھاگنے والا آدمی نہیں ہے۔ حضرت علی فرماتے ہیں۔۔۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے میری طرف آدمی بھیجا اور مجھے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بلایا۔ میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں اس حال میں حاضر ہوا کہ میں آشوب چشم میں مبتلا تھا۔ اور مجھے کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے جھنڈا عطا فرمایا۔ میں نے عرض کیا۔ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! (یہ مجھے آپ) کیسے دے رہے ہیں ؟ جبکہ مجھے تو آشوب چشم ہے اور میں کچھ نہیں دیکھ رہا۔ حضرت علی کہتے ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے میری آنکھوں میں لعاب دہن ڈالا پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دعا فرمائی۔ اے اللہ ! تو ان کو سردی اور گرمی سے کافی ہوجا۔ حضرت علی فرماتے ہیں۔ مجھے اس کے بعد کبھی سردی یا گرمی نے تکلیف نہیں دی۔

38038

(۳۸۰۳۹) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ ، عَنْ یَزِیدَ بْن أَبِی حَبِیبٍ ، عَنْ أَبِی مَرْزُوقٍ مَوْلَی تُجِیبَ ، قَالَ : غَزَوْنَا مَعَ رُوَیْفِعِ بْن ثَابِتٍ الأَنْصَارِیِّ نَحْوَ الْمَغْرِبِ ، فَفَتَحْنَا قَرْیَۃً ، یُقَالُ لَہَا جَرْبَۃُ ، قَالَ : فَقَامَ فِینَا خَطِیبًا ، فَقَالَ : إِنِّی لاَ أَقُولُ فِیکُمْ إِلاَّ مَا سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ فِینَا یَوْمَ خَیْبَرَ: مَنْ کَانَ یُؤْمِنُ بِاللہِ وَالْیَوْمِ الآخِرِ فَلاَ یَسْقِیَنَّ مَائُہُ زَرْعَ غَیْرِہِ ، وَلاَ یَبِیعَنَّ مَغْنَمًا حَتَّی یُقْسَمَ، وَلاَ یَرْکَبَنَّ دَابَّۃً مِنْ فَیْئِ الْمُسْلِمِینَ ، فَإِذَا أَعْجَفَہَا رَدَّہَا فِیہِ ، وَلاَ یَلْبَسْ ثَوْبًا مِنْ فَیْئٍ حَتَّی إِذَا أَخْلقَہُ رَدَّہُ فِیہِ۔
(٣٨٠٣٩) تجیب کے غلام حضرت ابو مرزوق سے روایت ہے کہ ہم نے رویفع بن ثابت انصاری کے ہمراہ مغرب کی طرف ایک غزوہ لڑا۔ اور ہم نے ایک بستی ۔۔۔ جس کو جَربَہْ کہا جاتا تھا ۔۔۔ کو فتح کرلیا۔ راوی کہتے ہیں : ہم میں ایک خطیب صاحب کھڑے ہوئے اور انھوں نے کہا۔ میں تم سے وہی بات کروں گا جو میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سُنی اور وہ بات آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں خیبر کے دن ارشاد فرمائی تھی۔ (وہ بات یہ ہے) ” جو شخص اللہ پر، یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے تو اس کا پانی ہرگز دوسرے کی کھیتی کو سیراب نہ کرے اور وہ غنیمت میں سے تقسیم ہونے سے قبل کچھ نہ بیچے۔ اور نہ ہی مسلمانوں کے مال فئی کے کسی جانور پر اس طرح سوار ہو کہ جب وہ جانور کمزور ہوجائے تو یہ اس کو واپس مال فئی میں داخل کر دے۔ اور نہ ہی مسلمانوں کے مال فئی سے اس طرح کوئی کپڑا پہنے کہ جب وہ کپڑے پرانا کر دے تو اس کو مال فئی میں واپس کر دے۔

38039

(۳۸۰۴۰) حَدَّثَنَا ہَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ ، قَالَ : حدَّثَنَا عِکْرِمَۃُ بْنُ عَمَّارٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِی سِمَاکٌ الْحَنَفِیُّ أَبُو زُمَیْلٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِی عَبْدُ اللہِ بْنُ عَبَّاسٍ، قَالَ: حَدَّثَنِی عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ ، قَالَ: لَمَّا کَانَ یَوْمُ خَیْبَرَ أَقْبَلَ نَفَرٌ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالُوا : فُلاَنٌ شَہِیدٌ ، فُلاَنٌ شَہِیدٌ ، حَتَّی مَرُّوا عَلَی رَجُلٍ ، فَقَالُوا : فُلاَنٌ شَہِیدٌ ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : کَلاَّ ، إِنِّی رَأَیْتُہُ فِی النَّارِ فِی بُرْدَۃٍ غَلَّہَا ، أَوْ فِی عَبَائَۃٍ غَلَّہَا، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : یَابْنَ الْخَطَّابِ ، اذْہَبْ فَنَادِ فِی النَّاسِ : أَنَّہُ لاَ یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ إِلاَّ الْمُؤْمِنُونَ ، قَالَ : فَخَرَجْتُ فَنَادَیْتُ : أَنَّہُ لاَ یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ إِلاَّ الْمُؤْمِنُونَ۔ (مسلم ۱۰۷۔ احمد ۴۷)
(٣٨٠٤٠) حضرت عمر بن خطاب سے روایت ہے کہ خیبر کا دن تھا اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ کا ایک گروہ (آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں) حاضر ہوا اور وہ لوگ کہنے لگے۔ فلاں شہید ہے، فلاں شہید ہے۔ یہاں تک کہ وہ ایک آدمی کے پاس پہنچے اور انھوں نے کہا (یہ) فلاں بھی شہید ہے۔ تو (اس پر) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ہرگز نہیں ! میں نے اس آدمی کو جہنم میں دیکھا ہے اس چادر میں یا اس عباء میں جو اس نے مال غنیمت سے خیانت کی۔ پھر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اے ابن خطاب ! جاؤ اور لوگوں میں یہ منادی کردو کہ جنت میں صرف صاحب ایمان ہی داخل ہوں گے۔ حضرت عمر کہتے ہیں۔ پس میں وہاں سے نکلا اور میں نے منادی کی، کہ جنت میں صرف صاحب ایمان ہی داخل ہوں گے۔

38040

(۳۸۰۴۱) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ الْحُبَابِ ، قَالَ : حدَّثَنَا رَافِعُ بْنُ سَلَمَۃَ الأَشْجَعِیُّ ، قَالَ : حَدَّثَنِی حَشْرَجُ بْنُ زِیَادٍ الأَشْجَعِیُّ ، عَنْ جَدَّتِہِ أُمِّ أَبِیہِ ؛ أَنَّہَا غَزَتْ مَعَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَامَ خَیْبَرَ سَادِسَۃُ سِتِّ نِسْوَۃٍ ، فَبَلَغَ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَبَعَثَ إِلَیْنَا ، فَقَالَ : بِأَمْرِ مَنْ خَرَجْتُنَّ ؟ وَرَأَیْنَا فِیہِ الْغَضَبَ، فَقُلْنَا : یَا رَسُولَ اللہِ ، خَرَجْنَا وَمَعَنَا دَوَائٌ نُدَاوِی بِہِ ، وَنُنَاوِلُ السِّہَامَ ، وَنَسْقِی السَّوِیقَ ، وَنَغْزِلُ الشَّعْرَ ، نُعِینُ بِہِ فِی سَبِیلِ اللہِ ، فَقَالَ لَنَا : أَقِمْنَ ، فَلَمَّا أَنْ فَتَحَ اللَّہُ عَلَیْہِ خَیْبَرَ قَسَمَ لَنَا کَمَا قَسَمَ لِلرِّجَالِ۔
(٣٨٠٤١) حضرت حشرج بن زیاد اشجعی اپنی دادی سے بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہمراہ چھ عورتوں کے ساتھ خیبر کے دن جہاد میں شرکت کی، پھر یہ بات رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پہنچ گئی تو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہماری طرف قاصد بھیجا اور پوچھا کہ تم کس کے کہنے پر (جہاد میں) نکلی ہو ؟ ہم نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس سوال میں غصہ محسوس کیا تو ہم نے کہا۔ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ہم (جہاد میں) نکلی ہیں اور ہمارے پاس دوائیں بھی ہیں جن کے ذریعہ ہم علاج کریں گی۔ اور ہم تیر پکڑائیں گی اور ستو پلائیں گی اور ہم وہ شعر کہیں گی۔ جن کے ذریعہ سے ہم راہ خدا میں (مجاہدین کی) مدد کریں گی۔ اس پر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا۔ پھر تم (یہیں) رہو۔ پھر جب اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خیبر کی جنگ میں فتح نصیب فرمائی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مردوں کو جس طرح حصہ دیا، اسی طرح ہمیں بھی حصہ دیا۔

38041

(۳۸۰۴۲) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ زَیْدٍ ، قَالَ : حدَّثَنِی عُمَیْرُ مَوْلَی آبِی اللَّحْمِ ، قَالَ : شَہِدْتُ خَیْبَرَ وَأَنَا عَبْدٌ مَمْلُوکٌ ، فَلَمَّا فَتَحُوہَا أَعْطَانِی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سَیْفًا ، فَقَالَ : تَقَلَّدْ ہَذَا ، وَأَعْطَانِی مِنْ خُرْثِیِّ الْمَتَاعِ ، وَلَمْ یَضْرِبْ لِی بِسَہْمٍ۔
(٣٨٠٤٢) حضرت عمیر مولیٰ ابی اللحم روایت کرتے ہیں کہ میں خیبر کے جہاد میں شریک تھا اور میں ایک مملوکہ غلام تھا۔ جب صحابہ کرام نے خیبر کو فتح کرلیا تو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے ایک تلوار عطا فرمائی۔ اور ارشاد فرمایا۔ یہ تلوار لٹکا لو اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے غنیمت میں سے عطیہ دیا لیکن میرا (پورا) حصہ نہیں نکالا۔

38042

(۳۸۰۴۳) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ ، عَنْ بَرِیدِ بْنِ عَبْدِ اللہِ ، عَنْ أَبِی بُرْدَۃَ ، عَنْ أَبِی مُوسَی ، قَالَ : قدِمْنَا عَلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَعْدَ فَتْحِ خَیْبَرَ بِثَلاَثٍ ، فَقَسَمَ لَنَا ، وَلَمْ یَقْسِمْ لأَحَدٍ لَمْ یَشْہَدَ الْفَتْحَ غَیْرَنَا۔
(٣٨٠٤٣) حضرت ابو موسیٰ سے روایت ہے۔ فرماتے ہیں کہ ہم خیبر کے فتح ہونے کے تین (دن) بعد نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمارا بھی تقسیم میں حصہ رکھا۔ ہمارے سوا جو لوگ اس فتح میں شریک نہیں ہوئے تھے ان میں سے کسی کو بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حصہ نہیں دیا۔

38043

(۳۸۰۴۴) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا ہِشَامٌ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ ، قَالَ : لَمَّا کَانَ یَوْمُ خَیْبَرَ ذَبَحَ النَّاسُ الْحُمُرَ ، فَأَغْلُوا بِہَا الْقُدُورَ ، فَأَمَرَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَبَا طَلْحَۃَ ، فَنَادَی : إِنَّ اللَّہَ وَرَسُولَہُ یَنْہَیَانِکُمْ عَنْ لُحُومِ الْحُمُرِ الأَہْلِیَّۃِ ، فَإِنَّہَا رِجْسٌ ، فَکُفِئَتِ الْقُدُورُ۔
(٣٨٠٤٤) حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ خیبر کے دن لوگوں نے گدھوں کو ذبح کیا اور ان کو ہانڈیوں میں ڈال کر جوش دیا جا رہا تھا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابو طلحہ کو حکم دیا اور انھوں نے یہ منادی کی۔ ” بیشک اللہ اور اس کے رسول نے تمہیں پالتو گدھوں کے گوشت سے منع کردیا ہے۔ کیونکہ یہ نجس ہیں۔ “ پس (یہ سنتے ہی) ہانڈیاں الٹا دی گئیں۔

38044

(۳۸۰۴۵) حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ حُمَیْدِ بْنِ ہِلاَلٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْن مُغَفَّلٍ ، قَالَ : سَمِعْتُہُ یَقُولُ : دُلِّیَ جِرَابٌ مِنْ شَحْمٍ یَوْمَ خَیْبَرَ ، قَالَ : فَالْتَزَمْتُہُ ، وَقُلْتُ : ہَذَا لاَ أُعْطِی أَحَدًا مِنْہُ شَیْئًا ، قَالَ : فَالْتَفَتُّ ، فَإِذَا النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَتَبَسَّمُ ، فَاسْتَحْیَیْتُ۔
(٣٨٠٤٥) حضرت عبداللہ بن مغفل سے روایت ہے کہ غزوہ خیبر کے دن مجھے چربی کے ایک تھیلے کے بارے میں بتایا گیا عبداللہ کہتے ہیں کہ میں اس سے چمٹ گیا اور میں نے کہا۔ میں اس میں سے کسی کو کچھ بھی نہیں دوں گا۔ عبداللہ کہتے ہیں۔ پھر میں نے مڑ کر دیکھا تو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کھڑے مسکرا رہے تھے۔ مجھے (اس پر) بہت شرمندگی ہوئی۔

38045

(۳۸۰۴۶) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ ضَمْرَۃَ الْفَزَارِیِّ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ أَبِی سَلِیطٍ ، عَنْ أَبِیہِ أَبِی سَلِیطٍ ، وَکَانَ بَدْرِیًّا ، قَالَ : لَقَدْ أَتَی نَہْیُ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ أَکْلِ الْحُمُرِ ، وَإِنَّ الْقُدُورَ لَتَغْلِی بِہَا ، قَالَ : فَکَفَأْنَاہَا عَلَی وُجُوہِہَا۔
(٣٨٠٤٦) حضرت عبداللہ بن ابی سلیط، اپنے والد ابی سلیط سے روایت کرتے ہیں ۔۔۔ اور ان کے والد بدری صحابی ہیں ۔۔۔ یہ کہتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے پالتو گدھے کے کھانے کے ممانعت اس حال میں (ہم تک) پہنچی جبکہ ہانڈیوں میں یہی گوشت ابل رہا تھا۔۔۔ ابی سلیط کہتے ہیں ۔۔۔ پس ہم نے ہانڈیوں کو اوندھے منہ گرا دیا۔

38046

(۳۸۰۴۷) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ یَزِیدَ بْنِ جَابِرٍ، قَالَ: حدَّثَنَا الْقَاسِمُ وَمَکْحُولٌ ، عَنْ أَبِی أُمَامَۃَ؛ أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَہَی یَوْمَ خَیْبَرَ عَنْ أَکْلِ الْحِمَارِ الأَہْلِی ، وَعَنْ کُلِّ ذِی نَابٍ مِنَ السِّبَاعِ ، وَأَنْ تُوطَأَ الْحَبَالَی حَتَّی یَضَعْنَ ، وَعَنْ أَنْ تُبَاعَ السِّہَامُ حَتَّی تُقْسَمَ ، وَأَنْ تُبَاعَ الثَمَرَۃُ حَتَّی یَبْدُوَ صَلاَحُہَا، وَلَعَنَ یَوْمَئِذٍ الْوَاصِلَۃَ وَالْمَوْصُولَۃَ، وَالْوَاشِمَۃَ وَالْمَوْشُومَۃَ ، وَالْخَامِشَۃَ وَجْہَہَا، وَالشَّاقَّۃَ جَیْبَہَا۔
(٣٨٠٤٧) حضرت ابو امامہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جنگ خیبر کے دن پالتو گدھے کے کھانے سے منع کیا اور ہر کچلی والے درندے کے کھانے سے منع کیا۔ اور اس بات سے منع کیا کہ حاملہ عورت سے وضع حمل سے قبل وطی کی جائے اور مال غنیمت کے حصہ کے تقسیم ہونے سے قبل بیچنے سے منع کیا ۔ اور پھل کو اس کی صلاحیت ظاہر ہونے سے پہلے بیچنے سے منع کیا۔ اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس دن دوسری عورت کے بال لگانے والی اور لگوانے والی عورت پر لعنت فرمائی اور اسی طرح گودنے والی اور گودوانے والی عورت پر لعنت فرمائی اور اپنا چہرہ نوچنے والی پر لعنت فرمائی اور اپنا گریبان چاک کرنے والے پر بھی لعنت فرمائی۔

38047

(۳۸۰۴۸) حَدَّثَنَا ہَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ ، قَالَ : حدَّثَنَا عِکْرِمَۃُ بْنُ عَمَّارٍ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ أَبِی کَثِیرٍ ، عَنْ أَبِی سَلَمَۃَ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : لَمَّا کَانَ یَوْمُ خَیْبَرَ أَصَابَ النَّاسَ مَجَاعَۃٌ ، وَأَخَذُوا الْحُمُرَ الإِنْسِیَّۃِ ، فَذَبَحُوہَا وَمَلَؤُوا مِنْہَا الْقُدُورَ ، فَبَلَغَ ذَلِکَ نَبِیَّ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ جَابِرٌ : فَأَمَرَنَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَکَفَأْنَا الْقُدُورَ ، وَقَالَ : إِنَّ اللَّہَ سَیَأْتِیکُمْ بِرِزْقٍ ہُوَ أَحَلُّ مِنْ ذَا وَأَطْیَبُ ، فَکَفَأْنَا الْقُدُورَ یَوْمَئِذٍ وَہِیَ تَغْلِی ، فَحَرَّمَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَوْمَئِذٍ لُحُومَ الْحُمُرِ الإِنْسِیَّۃِ وَلُحُومَ الْبِغَالِ ، وَکُلَّ ذِی نَابٍ مِنَ السِّبَاعِ ، وَکُلَّ ذِی مِخْلَبٍ مِنَ الطَّیْرِ ، وَحَرَّمَ الْمُجَثَّمَۃَ ، وَالْخُلْسَۃَ ، وَالنُّہْبَۃَ۔
(٣٨٠٤٨) حضرت جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ جب جنگ خیبر کا دن تھا تو لوگوں کو (شدید) بھوک نے آلیا۔ لوگوں نے پالتو گدھوں کو پکڑا اور انھیں ذبح کر کے ان کے گوشت سے ہانڈیوں کو بھر دیا۔ یہ خبر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پہنچی تو حضرت جابر بیان کرتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں حکم دیا پس ہم نے ہانڈیوں کو الٹ دیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اللہ تعالیٰ عنقریب تمہیں ایسا رزق دے گا جو اس سے زیادہ حلال اور طیب ہوگا۔ پس ہم نے ان ہانڈیوں کو اس حال میں الٹ دیا جبکہ وہ جوش دے رہی تھیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس دن پالتو گدھوں اور خچروں کے گوشت کو حرام قرار دیا اور اسی طرح آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کچلی والے ہر درندے کو حرام قرار دیا اور پنجے سے شکار کرنے والے ہر پرندے کو حرام قرار دیا۔ اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجثمہ (وہ بکری جس کو پتھر مار مار کر ہلاک کیا جائے) ، جھپٹی ہوئی چیز اور لوٹی ہوئی چیز کو حرام قرار دیا۔

38048

(۳۸۰۴۹) حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ ، قَالَ : حدَّثَنَا نُعَیْمُ بْنُ حَکِیمٍ ، عَنْ أَبِی مَرْیَمَ ، عْن عَلِیٍّ ، قَالَ : سَارَ رَسُولُ اللہِ إِلَی خَیْبَرَ ، فَلَمَّا أَتَاہَا بَعَثَ عُمَرَ وَمَعَہُ النَّاسُ ، إِلَی مَدِینَتِہِمْ ، أَوْ إِلَی قَصْرِہِمْ ، فَقَاتَلُوہُمْ ، فَلَمْ یَلْبَثُوا أَنِ انْہَزَمَ عُمَرُ وَأَصْحَابُہُ ، فَجَائَ یُجَبِّنُہُمْ وَیُجَبِّنُونَہُ ، فَسَائَ ذَلِکَ رَسُولَ اللہِ ، فَقَالَ : لأَبْعَثَنَّ إِلَیْہِمْ رَجُلاً یُحِبُّ اللَّہَ وَرَسُولَہُ ، وَیُحِبُّہُ اللَّہُ وَرَسُولُہُ ، یُقَاتِلُہُمْ حَتَّی یَفْتَحَ اللَّہُ لَہُ ، لَیْسَ بِفَرَّارٍ ، فَتَطَاوَلَ النَّاسُ لَہَا ، وَمَدُّوا أَعْنَاقَہُمْ ، یُرُونَہُ أَنْفُسَہُمْ ، رَجَائَ مَا قَالَ ، فَمَکَثَ سَاعَۃً ، ثُمَّ قَالَ : أَیْنَ عَلِیٌّ ؟ فَقَالُوا : ہُوَ أَرْمَدُ ، فَقَالَ : ادْعُوہُ لِی ، فَلَمَّا أَتَیْتُہُ ، فَتَحَ عَیْنَیَّ ، ثُمَّ تَفَلَ فِیہِمَا ، ثُمَّ أَعْطَانِی اللِّوَائَ ، فَانْطَلَقْتُ بِہِ سَعْیًا ، خَشْیَۃَ أَنْ یُحْدِثَ رَسُولُ اللہِ فِیہِمْ حَدَثًا ، أَوْ فِی ، حَتَّی أَتَیْتُہُمْ فَقَاتَلْتُہُمْ ، فَبَرَزَ مَرْحَبٌ یَرْتَجِزُ ، وَبَرَزْت لَہُ أَرْتَجِزُ کَمَا یَرْتَجِزُ ، حَتَّی الْتَقَیْنَا ، فَقَتَلَہُ اللَّہُ بِیَدَی ، وَانْہَزَمَ أَصْحَابُہُ ، فَتَحَصَّنُوا وَأَغْلَقُوا الْبَابَ ، فَأَتَیْنَا الْبَابَ ، فَلَمْ أَزَلْ أُعَالِجُہُ حَتَّی فَتَحَہُ اللَّہُ۔ (حاکم ۳۷)
(٣٨٠٤٩) حضرت علی سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خیبر کی طرف سفر فرمایا پس جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خیبر میں پہنچ گئے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عمر اور ان کے ہمراہ کچھ لوگوں کو اہل خیبر کے شہر یا قلعہ کی طرف روانہ فرمایا۔ انھوں نے (جا کر) ان کے ساتھ لڑائی کی ۔ لیکن کچھ ہی دیر میں یہ مسلمانوں کا گروہ ۔۔۔ حضرت عمر اور ان کے ساتھی ۔۔۔ پسپا ہوگیا۔ پس حضرت عمر ، اپنے ساتھیوں کو اور ان کے ساتھی حضرت عمر کو بزدلی کا طعنہ دیتے ہوئے (آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں) واپس آئے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ بات ناگوار گزری اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا۔ ” اب میں ضرور یہود کی طرف ایسا آدمی بھیجوں گا جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہوگا اور اللہ اور اس کے رسول بھی اس سے محبت کرتے ہوں گے۔ وہ ان کے ساتھ لڑتا رہے گا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اسی کے ہاتھ پر فتح عطا فرمائیں گے۔ وہ آدمی بھاگنے والا نہیں ہوگا۔ “ (یہ بات سن کر) بہت سے لوگ اس کے امیدوار بن گئے اور اپنی گردنیں دراز کرنے لگے، اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کہے ہوئے کو اپنے بارے میں دیکھنے کے منتظر ہوگئے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کچھ دیر خاموش رہے پھر ارشاد فرمایا : علی کہاں ہے ؟ لوگوں نے عرض کیا۔ وہ تو آشوب چشم میں مبتلا ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اس کو میرے پاس بلاؤ۔ پھر جب میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا ۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے میری آنکھیں کھولیں اور ان میں اپنا لعاب مبارک ڈالا۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے جھنڈا عطا فرمایا۔ اور میں اس جھنڈے کو لے کر دوڑتا ہوا چلا کہ مبادا میرے بارے میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دل میں کوئی خیال نہ آجائے یا کسی اور کے بارے میں کوئی خیال نہ آجائے۔ یہاں تک کہ میں دشمنوں کے پاس پہنچ گیا اور میں نے ان کے ساتھ قتال کیا۔ مرحب یہودی رجزیہ اشعار پڑھتا ہوا مبارزت کے لیے آیا تو میں بھی اس کے جواب میں رجزیہ اشعار پڑھتے ہوئے مبارزت کے لیے باہر نکلا پھر ہماری باہم مڈبھیڑ ہوگئی تو اللہ تعالیٰ نے اس کو میرے ہاتھ سے قتل کروا دیا۔ اور اس کے ساتھی پسپا ہوگئے اور قلعہ بند ہوگئے انھوں نے دروازہ بند کرلیا۔ ہم دروازہ پر پہنچے پس میں نے مسلسل دروازہ پر ضرب لگائی یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو کھول دیا۔

38049

(۳۸۰۵۰) حَدَّثَنَا یَعْلَی بْنُ عُبَیْدٍ، قَالَ: حدَّثَنَا أَبُو مُنَیْنٍ، عَنْ أَبِی حَازِمٍ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ، قَالَ: قَالَ نَبِیُّ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: لأَدْفَعَن الْیَوْمَ الرَّایَۃَ إِلَی رَجُلٍ یُحِبُّہُ اللَّہُ وَرَسُولُہُ ، فَتَطَاوَلَ الْقَوْمُ ، فَقَالَ: أَیْنَ عَلِیٌّ؟ فَقَالُوا: یَشْتَکِی عَیْنَہُ ، فَدَعَاہُ فَبَزَقَ فِی کَفَّیْہِ ، وَمَسَحَ بِہِمَا عَیْنَ عَلِیٍّ ، ثُمَّ دَفَعَ إِلَیْہِ الرَّایَۃَ ، فَفَتَحَ اللَّہُ عَلَیْہِ یَوْمَئِذٍ۔
(٣٨٠٥٠) حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ اللہ کے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : آج کے دن میں ایک ایسے آدمی کے ہاتھ میں جھنڈا دوں گا کہ جس سے اللہ اور اس کے رسول محبت کرتے ہیں۔ اس پر لوگوں نے اوپر اوپر اٹھ کر دیکھنا شروع کیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا۔ علی کہاں ہے ؟ لوگوں نے کہا : ان کی آنکھ میں شکایت ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت علی کو بلایا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی دونوں ہتھیلیوں پر تھوکا اور ان کو حضرت علی کی آنکھ پر پھیرا پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت علی کو جھنڈا حوالہ کردیا۔ پس اللہ تعالیٰ نے اسی دن حضرت علی کے ہاتھ پر فتح عطا فرمائی۔

38050

(۳۸۰۵۱) حَدَّثَنَا ابْنُ إِدْرِیسَ ، عَنْ مَالِکِ بْنِ أَنَسٍ ، عَنْ زَیْدِ بْنِ أَسْلَمَ ، عْن أَبِیہِ ، قَالَ : سَمِعْتُ عُمَرَ ، یَقُولُ : لَوْلاَ أَنْ یُتْرُکَ آخَرُ النَّاسِ لاَ شَیْئَ لَہُمْ ، مَا افْتَتَحَ الْمُسْلِمُونَ قَرْیَۃً مِنْ قُرَی الْکُفَّارِ إِلاَّ قَسَمْتُہَا بَیْنَہُمْ سُہْمَانًا کَمَا قَسَمَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خَیْبَرَ سُہْمَانًا ، وَلَکِنِّی أَرَدْتُ أَنْ تَکُونَ جَرِیَّۃً تَجْرِی عَلَی الْمُسْلِمِینَ ، وَکَرِہْتُ أَنْ یُتْرُکَ آخِرُ النَّاسِ لاَ شَیْئَ لَہُ۔
(٣٨٠٥١) حضرت عمر بیان کرتے ہیں کہ اگر یہ ضابطہ نہ ہوتا کہ لشکر کے آخری حصہ کو کچھ نہ ملے تو مسلمان کافروں کی جو بستی بھی فتح کرتے میں اسے مسلمانوں کے درمیان حصوں میں تقسیم کردیتا جیسے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خیبر کو مسلمانوں میں حصوں میں تقسیم فرما دیا۔ لیکن میں چاہتا ہوں کہ ایک اصول مسلمانوں میں چلتا رہے۔ اور میں اس بات کو ناپسند کرتا ہوں کہ بعد کے لوگوں کو کچھ نہ دیا جائے۔

38051

(۳۸۰۵۲) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنِ الْحَکَمِ ، عَنْ مِقْسَمٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : سَبَی رَجُلٌ امْرَأَۃً یَوْمَ خَیْبَرَ ، فَحَمَلَہَا خَلْفَہُ فَنَازَعَتْہُ قَائِمَ سَیْفِہِ ، فَقَتَلَہَا ، فَأَبْصَرَہَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : مَنْ قَتَلَ ہَذِہِ ؟ فَأَخْبَرُوہُ ، فَنَہَی عَنْ قَتْلِ النِّسَائِ۔
(٣٨٠٥٢) حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے خیبر کے دن ایک عورت کو قید کیا اور اس کو اپنے پیچھے سوار کرلیا۔ اس عورت نے اس آدمی کی تلوار کے قبضہ پر جھگڑا کیا تو اس آدمی نے اس عورت کو قتل کردیا۔ پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس عورت کو (مقتول) دیکھا تو ارشاد فرمایا۔ اس عورت کو کس نے قتل کیا ہے ؟ لوگوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بتایا ۔ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عورتوں کے قتل کرنے سے منع فرمایا۔

38052

(۳۸۰۵۳) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ، عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ، عَنِ الزُّہْرِیِّ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ کَعْبِ بْنِ مَالِکٍ؛ أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَہَی النَّفَرَ الَّذِینَ بَعَثَ إِلَی ابْنِ أَبِی الْحُقِیقِ بِخَیْبَرَ لِیَقْتُلُوہُ، فَنَہَاہُمْ عَنْ قَتْلِ النِّسَائِ وَالْوِلْدَانِ۔
(٣٨٠٥٣) حضرت عبداللہ بن کعب بن مالک سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس لشکر کو جسے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابن ابی الحقیق کو خیبر میں قتل کرنے کے لیے بھیجا تھا۔ اس کو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس بات سے منع فرمایا تھا کہ عورتوں اور بچوں کو قتل کرے۔

38053

(۳۸۰۵۴) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ الْمُغِیرَۃِ ، قَالَ : حَدَّثَنَا ثَابِتٌ الْبُنَانِیُّ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ رَبَاحٍ، قَالَ : وَفَدَتْ وُفُودٌ إِلَی مُعَاوِیَۃَ وَفِینَا أَبُو ہُرَیْرَۃَ ، وَذَلِکَ فِی رَمَضَانَ ، فَجَعَلَ بَعْضُنَا یَصْنَعُ لِبَعْضٍ الطَّعَامَ ، قَالَ : فَکَانَ أَبُو ہُرَیْرَۃَ مِمَّنْ یَصْنَعُ لَنَا فَیُکْثِرُ فَیَدْعُونَا إِلَی رَحْلِہِ ، قَالَ : قُلْتُ : أَلاَ أَصْنَعُ لأَصْحَابِنَا فَأَدْعُوہُمْ إِلَی رَحْلِی ، قَالَ : فَأَمَرْت بِطَعَامٍ فَصُنِعَ ، وَلَقِیت أَبَا ہُرَیْرَۃَ مِنَ الْعَشِّی ، فَقُلْتُ : الدَّعْوَۃُ عِنْدِی اللَّیْلَۃَ ، قَالَ: أَسَبَقَتْنِی ؟ قَالَ : قُلْتُ : نَعَمْ ، قَالَ : فَدَعَوْتُہُمْ فَہُمْ عِنْدِی ، قَالَ : قَالَ أَبُو ہُرَیْرَۃَ : أَلاَ أُعَلِّلْکُمْ بِحَدِیثٍ مِنْ حَدِیثِکُمْ یَا مَعْشَرَ الأَنْصَارِ ؟ قَالَ : ثُمَّ ذَکَرَ فَتْحَ مَکَّۃَ۔ قَالَ : أَقْبَلَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حَتَّی دَخَلَ مَکَّۃَ ، وَبَعَثَ الزُّبَیْرَ بْنَ الْعَوَّامِ عَلَی إِحْدَی الْمُجَنِّبَتَیْنِ ، وَبَعَثَ خَالِدَ بْنَ الْوَلِیدِ عَلَی الْمُجَنِّبَۃِ الأُخْرَی ، وَبَعَثَ أَبَا عُبَیْدَۃَ عَلَی الْحُسَّرِ ، فَأَخَذُوا بَطْنَ الْوَادِی ، قَالَ : وَرَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی کَتِیبَۃٍ ، قَالَ : فَنَادَانِی ، قَالَ : یَا أَبَا ہُرَیْرَۃَ ، قُلْتُ : لَبَّیْکَ یَا رَسُولَ اللہِ ، قَالَ : اہْتِفْ لِی بِالأَنْصَارِ ، وَلاَ یَأْتِنِی إِلاَّ أَنْصَارِیٌّ ، قَالَ : فَہَتَفْتُ بِہِمْ ، قَالَ : فَجَاؤُوا حَتَّی أَطَافُوا بِہِ۔ قَالَ : وَقَدْ وَبَّشَتْ قُرَیْشٌ أَوْبَاشًا لَہَا وَأَتْبَاعًا ، قَالُوا : نُقدِّمَ ہَؤُلاَئِ ، فَإِنْ کَانَ لَہُمْ شَیئٌ کُنَا مَعَہُمْ ، وَإِنْ أُصِیبُوا أَعْطَیْنَا الَّذِی سُئِلْنَا۔ فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِلأَنْصَارِ حِینَ أَطَافُوا بِہِ : أَتَرَوْنَ إِلَی أَوْبَاشِ قُرَیْشٍ وَأَتْبَاعِہِمْ ؟ ثُمَّ قَالَ بِیَدَیْہِ إِحْدَاہُمَا عَلَی الأُخْرَی : اُحْصُدُوہُمْ ، ثُمَّ ضَرَبَ سُلَیْمَانَ بِحَرْفِ کَفِّہِ الْیُمْنَی عَلَی بَطْنِ کَفِّہِ الْیُسْرَی : اُحْصُدُوہُمْ حَصْدًا حَتَّی تُوَافُونِی بِالصَّفَا ، قَالَ : فَانْطَلَقْنَا ، فَمَا أَحَدٌ مِنَّا یَشَائُ أَنْ یَقْتُلَ مِنْہُمْ أَحَدًا إِلاَّ قَتَلَہُ ، وَأَمَّا أَحَدٌ مِنْہُمْ یُوَجِّہُ إِلَیْنَا شَیْئًا ، فَقَالَ أَبُو سُفْیَانَ : یَا رَسُولَ اللہِ ، أُبِیحَتْ خَضْرَائُ قُرَیْشٍ ، لاَ قُرَیْشَ بَعْدَ ہَذَا الْیَوْمِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَنْ أَغْلَقَ بَابَہُ فَہُوَ آمِنٌ ، وَمَنْ دَخَلَ دَارَ أَبِی سُفْیَانَ فَہُوَ آمِنٌ ، قَالَ : فَغَلَّقَ النَّاسُ أَبْوَابَہُمْ۔ قَالَ : فَأَقْبَلَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حَتَّی اسْتَلَمَ الْحَجَرَ وَطَافَ بِالْبَیْتِ ، فَأَتَی عَلَی صَنَمٍ إِلَی جَنْبِ الْبَیْتِ یَعْبُدُونَہُ ، وَفِی یَدِہِ قَوْسٌ وَہُوَ آخِذٌ بِسِیَۃِ الْقَوْسِ ، فَجَعَلَ یَطْعُنْ بِہَا فِی عَیْنِہِ وَیَقُولُ : {جَائَ الْحَقُّ وَزَہَقَ الْبَاطِلُ ، إِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَہُوقًا} حَتَّی إِذَا فَرَغَ مِنْ طَوَافِہِ أَتَی الصَّفَا فَعَلاَہَا حَیْثُ یَنْظُرُ إِلَی الْبَیْتِ ، فَرَفَعَ یَدَیْہِ وَجَعَلَ یَحْمَدُ اللَّہَ وَیَذْکُرُہُ ، وَیَدْعُو بِمَا شَائَ أَنْ یَدْعُوَ ، قَالَ : وَالأَنْصَارُ تَحْتَہُ ، قَالَ : تَقُولُ الأَنْصَارُ بَعْضُہَا لِبَعْضٍ : أَمَّا الرَّجُلُ فَأَدْرَکَتْہُ رَغْبَۃٌ فِی قَرْیَتِہِ وَرَأْفَۃٌ بِعَشِیرَتِہِ۔ قَالَ : قَالَ أَبُو ہُرَیْرَۃَ : وَجَائَ الْوَحْیُ ، وَکَانَ إِذَا جَائَ الْوَحْیُ لَمْ یَخْفَ عَلَیْنَا ، فَلَیْسَ أَحَدٌ مِنَ النَّاسِ یَرْفَعُ طَرْفَہُ إِلَی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حَتَّی یَقْضِیَ ، فَلَمَّا قَضَی الْوَحْیُ ، قَالُ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : یَا مَعْشَرَ الأَنْصَارِ ، قَالُوا : لَبَّیْکَ یَا رَسُولَ اللہِ ، قَالَ : قُلْتُمْ : أَمَّا الرَّجُلُ فَأَدْرَکَتْہُ رَغْبَۃٌ فِی قَرْیَتِہِ وَرَأْفَۃٌ بِعَشِیرَتِہِ ، قَالُوا : قَدْ قُلْنَا ذَاکَ یَا رَسُولَ اللہِ ، قَالَ : فَمَا اسَمِی إِذًا ؟ کَلاً إِنِّی عَبْدُ اللہِ وَرَسُولُہُ ، ہَاجَرْت إِلَی اللہِ وَإِلَیْکُمْ ، الْمَحْیَا مَحْیَاکُمْ وَالْمَمَاتُ مَمَاتُکُمْ ، قَالَ : فَأَقْبَلُوا إِلَیْہِ یَبْکُونَ ، یَقُولُونَ : وَاللہِ یَا رَسُولَ اللہِ ، مَا قُلْنَا الَّذِی قُلْنَا إِلاَّ لِلضَّنِّ بِاللہِ وَبِرَسُولِہِ ، قَالَ : فَإِنَّ اللَّہَ وَرَسُولَہُ یَعْذُرَانِکُمْ وَیُصَدِّقَانِکُمْ۔ (مسلم ۱۴۰۵۔ ابوداؤد ۱۸۶۷)
(٣٨٠٥٤) حضرت عبداللہ بن رباح بیان کرتے ہیں کہ حضرت معاویہ کی طرف کچھ وفود گئے اور ہم میں حضرت ابوہریرہ بھی تھے۔ یہ رمضان کے دنوں کی بات ہے۔ پس ہم میں سے بعض، بعض کے لیے کھانے کی دعوت کا اہتمام کرتے۔ راوی کا بیان ہے۔ حضرت ابوہریرہ ان میں سے تھے جو ہمارے لیے بہت زیادہ کھانے کی دعوت کا اہتما م کرتے تھے۔ اور ہمیں اپنے کجاوہ (منزل) کی طرف بلا لیتے تھے۔ راوی کہتے ہیں کہ میں نے (دل میں) کہا کہ کیوں نہ میں اپنے ساتھیوں کے لیے دعوت کا اہتمام کروں اور انھیں اپنے کجاوہ کی طرف بُلاؤں ۔ کہتے ہیں : پس میں نے کھانے کا کہا اور وہ تیار کرلیا گیا اور شام کو حضرت ابوہریرہ سے میری ملاقات ہوئی تو میں نے (ان سے) کہا ۔ آج کی رات میری طرف دعوت ہے۔ انھوں نے (آگے سے) فرمایا : کیا تم مجھ پر (آج) سبقت لے گئے ہو ؟ کہتے ہیں : میں نے کہا : جی ہاں ! راوی کہتے ہیں : پس میں نے سب کو بلایا اور وہ میرے پاس آگئے۔ حضرت ابوہریرہ کہنے لگے۔ اے گروہ انصار ! کیا میں تمہیں، تمہاری باتوں میں سے ہی کچھ سُناؤں ؟ راوی کہتے ہیں کہ پھر انھوں نے فتح مکہ کا (واقعہ) ذکر کیا۔
٢۔ حضرت ابوہریرہ کہنے لگے : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چلے یہاں تک کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ میں داخل ہوگئے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے میمنہ اور میسرہ میں سے ایک لشکر پر حضرت زبیر کو مقرر فرمایا اور حضرت خالد بن الولید کو دوسرے لشکر پر مقرر فرمایا۔ اور حضرت ابو عبیدہ کو خالی ہاتھ لوگوں پر مقرر فرمایا۔ پھر وہ لوگ وادی کے آنگن میں داخل ہوگئے۔ ابوہریرہ بیان کرتے ہیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک چھوٹے سے لشکر میں تھے۔ فرماتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے آواز دی ۔ فرمایا۔ اے ابوہریرہ ! میں نے عرض کیا۔ میں حاضر ہوں۔ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میرے لیے انصار کو آواز دو ۔ میرے پاس صرف میرے انصار (صحابہ) ہی آئیں۔ ابوہریرہ کہتے ہیں۔ پس میں نے انھیں آواز دی۔ کہتے ہیں : وہ سب حاضر ہوگئے یہاں تک کہ انھوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنے جھرمٹ میں لے لیا۔
٣۔ راوی کہتے ہیں : قریش نے اپنے بہت سے پیرو اور متفرق لوگوں کو جمع کر رکھا تھا۔ اور قریش کہہ رہے تھے۔ ہم ان لوگوں کو (پہلے) آگے بھیجیں گے پس اگر ان کو کچھ (فائدہ) ملا تو ہم ان کے ساتھ شریک ہوں گے اور اگر یہ لوگ مارے گئے تو ہم سے جو سوال کیا گیا ہم وہ دے چکے ہوں گے۔
٤۔ جب انصار نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنے جھرمٹ میں لیا ہوا تھا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے فرمایا تھا۔ قریش کے پیرو اور ان متفرق لوگوں کے بارے میں تمہاری کیا رائے ہے ؟ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے ہاتھوں میں سے ایک دوسرے کے ساتھ مار کر اشارہ فرماتے ہوئے کہا۔ ان کو مار ڈالو۔۔۔ سلمان راوی نے بھی اپنے دائیں ہتھیلی کے کنارے کو بائیں ہتھیلی پر مارا ۔۔۔ ان کو خوب مارو یہاں تک کہ تم مجھے صفاء پر ملو ۔ راوی کہتے ہیں۔ پھر ہم اس حالت میں روانہ ہوئے کہ ہم سے جو کوئی بھی اُن (اتباعِ قریش) میں سے کسی کو قتل کرنا چاہے تو اس کو قتل کرسکتا تھا۔ اور ان مں سے کوئی بھی ہمیں کچھ نہیں کہہ سکتا تھا۔ ابو سفیان نے (نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے) عرض کیا۔ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! قریش کے عوام کو مباح قرار دیا گیا ہے ؟ (پھر تو) آج کے بعد قریش (باقی) نہیں ہوں گے۔۔۔ راوی کہتے ہیں : آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جو شخص اپنا دروازہ بند کرلے گا وہ مامون ہوگا اور جو شخص ابو سفیان کے گھر میں داخل ہوجائے گا وہ بھی مامون ہوگا۔ راوی کہتے ہیں : پھر لوگوں نے اپنے اپنے دروازے بند کرلیے۔
٥۔ ابوہریرہ کہتے ہیں۔ پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آگے بڑھے یہاں تک کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حجر اسود کا استلام کیا اور بیت اللہ کا طواف کیا۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیت اللہ کی ایک جانب رکھے ہوئے بُت کی طرف آئے جس کی مشرکین مکہ عبادت کرتے تھے۔ اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاتھ میں (اس وقت) کمان تھی اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو ٹیڑھی جانب سے پکڑا ہوا تھا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس قوس (کمان) کو اس بت کی آنکھ میں مارنا شروع کیا اور ارشاد فرمایا : حق آن پہنچا اور باطل مٹ گیا اور یقیناً باطل ایسی چیز ہے جو مٹنے والی ہے۔ پھر جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) طواف سے فارغ ہوئے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صفا پہاڑی کی طرف آئے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس پر اس جگہ تک بلند ہوئے جہاں سے بیت اللہ دکھائی دیتا ہے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے ہاتھ بلند کئے اور اللہ تعالیٰ کی تعریف اور خدا کا ذکر کرنے لگے اور جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مانگنا مطلوب تھا وہ کچھ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مانگا ۔۔۔ ابوہریرہ کہتے ہیں : انصار آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نیچے تھے ۔ راوی کہتے ہیں : انصار ایک دوسرے سے کہنے لگے۔ اس آدمی (نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) کو اپنی بستی میں رغبت اور اپنی قوم سے محبت نے آلیا ہے۔
٦۔ راوی کہتے ہیں : ابوہریرہ فرماتے ہیں : (اسی دوران) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر وحی آگئی۔ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر وحی آتی تھی تو یہ بات ہم پر مخفی نہ رہتی تھی۔ اور اس کیفیت (نزول وحی) کے ختم ہونے تک لوگوں میں سے کوئی بھی شخص آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف نظر اٹھا کر نہیں دیکھ سکتا تھا۔ پس جب وحی (کی کیفیت) ختم ہوگئی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا۔ اے گروہ انصار ! انصار نے جواباً عرض کات۔ ہم حاضر ہیں یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : تم نے یہ بات کہی ہے کہ اس آدمی کو، اس کی بستی کی رغبت اور اس کی قوم کی محبت نے آلیا ہے ۔۔۔ انصار نے عرض کیا۔ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ہم نے (واقعی) یہ بات کہی ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا۔ اس وقت میرا نام کیا ہوگا ؟ ہرگز نہیں ! میں تو اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں۔ میں نے اللہ کی طرف اور تمہاری طرف ہجرت کی ہے۔ زندگی تمہارے ساتھ ہوگی اور موت بھی تمہارے ساتھ ہوگی۔ راوی کہتے ہیں : انصار نے (یہ بات سن کر) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف رخ کر کے رونا شروع کردیا اور کہنے لگے۔ بخدا ! اے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! جو بات ہم نے کہی ہے وہ محض اللہ اور اس کے رسول پر ناز کی وجہ سے کہی ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : بیشک اللہ اور اس کا رسول تمہاری معذرت کو قبول کرتے ہیں اور تمہاری تصدیق کرتے ہیں۔

38054

(۳۸۰۵۵) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو ، عَنْ أَبِی سَلَمَۃَ ، وَیَحْیَی بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ حَاطِبٍ ، قَالاَ : کَانَتْ بَیْنَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَبَیْنَ الْمُشْرِکِینَ ہُدْنَۃٌ ، فَکَانَ بَیْنَ بَنِی کَعْبٍ وَبَیْنَ بَنِی بَکْرٍ قِتَالٌ بِمَکَّۃَ ، فَقَدِمَ صَرِیخٌ لِبَنِی کَعْبٍ عَلَی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : اللہُمَّ إِنِّی نَاشِدٌ مُحَمَّدًا حِلْفَ أَبِینَا وَأَبِیہِ الأَتْلَدَا فَانْصُرْ ہَدَاک اللَّہُ نَصْرًا أَعْتَدَا وَادْعُ عِبَادَ اللہِ یَأْتُوا مَدَدَا فَمَرَّتْ سَحَابَۃٌ فَرَعَدَتْ ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إنَّ ہَذِہِ لَتَرْعَدُ بِنَصْرِ بَنِی کَعْبٍ ، ثُمَّ قَالَ لِعَائِشَۃَ : جَہِّزِینِی ، وَلاَ تُعْلِمَنَّ بِذَلِکَ أَحَدًا ، فَدَخَلَ عَلَیْہَا أَبُو بَکْرٍ فَأَنْکَرَ بَعْضَ شَأْنِہَا ، فَقَالَ : مَا ہَذَا ، قَالَتْ : أَمَرَنِی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ أُجَہِّزَہُ ، قَالَ : إلَی أَیْنَ ، قَالَتْ : إلَی مَکَّۃَ ، قَالَ : فَوَاللہِ مَا انْقَضَتِ الْہُدْنَۃُ بَیْنَنَا وَبَیْنَہُمْ بَعْدُ ، فَجَائَ أَبُو بَکْرٍ إلَی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَذَکَرَ لَہُ ، فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إنَّہُمْ أَوَّلُ مَنْ غَدَرَ ، ثُمَّ أَمَرَ بِالطَّرِیقِ فَحُبِسَتْ ، ثُمَّ خَرَجَ وَخَرَجَ الْمُسْلِمُونَ مَعَہُ ، فَغُمَّ لأَہْلِ مَکَّۃَ لاَ یَأْتِیہِمْ خَبَرٌ ، فَقَالَ أَبُو سُفْیَانَ لِحَکِیمِ بْنِ حِزَامٍ : أَیْ حَکِیمُ ، وَاللہِ لَقَدْ غَمَّنَا وَاغْتَمَمْنَا ، فَہَلْ لَکَ أَنْ تَرْکَبَ مَا بَیْنَنَا وَبَیْنَ مَرْوٍ ، لَعَلَّنَا أَنْ نَلْقَی خَبَرًا ، فَقَالَ لَہُ بُدَیْلُ بْنُ وَرْقَائَ الْکَعْبِیُّ مِنْ خُزَاعَۃَ : وَأَنَا مَعَکُمْ ، قَالاَ : وَأَنْتَ إِنْ شِئْتَ ، قَالَ : فَرَکِبُوا حَتَّی إذَا دَنَوْا مِنْ ثَنِیَّۃِ مَرْوٍ أَظْلَمُوا فَأَشْرَفُوا عَلَی الثَّنِیَّۃِ ، فَإِذَا النِّیرَانُ قَدْ أَخَذَتِ الْوَادِیَ کُلَّہُ ، قَالَ أَبُو سُفْیَانَ لِحَکِیمٍ : مَا ہَذِہِ النِّیرَانُ ، قَالَ بُدَیْلُ بْنُ وَرْقَائَ : ہَذِہِ نِیرَانُ بَنِی عَمْرٍو ، جَوَّعَتْہَا الْحَرْبُ ، قَالَ أَبُو سُفْیَانَ : لأوَأَبِیک لَبَنُو عَمْرٍو أَذَلُّ وَأَقَلُّ مِنْ ہَؤُلاَئِ ، فَتَکَشَّفَ عَنْہُمُ الأَرَاک ، فَأَخَذَہُمْ حَرَسُ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَفَرٌ مِنَ الأَنْصَارِ وَکَانَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ تِلْکَ اللَّیْلَۃَ عَلَی الْحَرَسِ ، فَجَاؤُوا بِہِمْ إِلَیْہِ ، فَقَالُوا : جِئْنَاک بِنَفَرٍ أَخَذْنَاہُمْ مِنْ أَہْلِ مَکَّۃَ، فَقَالَ عُمَرُ وَہُوَ یَضْحَکُ إِلَیْہِمْ : وَاللہِ لَوْ جِئْتُمُونِی بِأَبِی سُفْیَانَ مَا زِدْتُمْ ، قَالَوا : قَدْ وَاللہِ أَتَیْنَاک بِأَبِی سُفْیَانَ ، فَقَالَ : احْبِسُوہُ ، فَحَبَسُوہُ حَتَّی أَصْبَحَ ، فَغَدَا بِہِ عَلَی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقِیلَ لَہُ: بَایِعْ ، فَقَالَ : لاَ أَجِدُ إِلاَّ ذَاکَ ، أَوْ شَرًّا مِنْہُ ، فَبَایَعَ ، ثُمَّ قِیلَ لِحَکِیمِ بْنِ حِزَامٍ : بَایِعْ ، فَقَالَ : أُبَایِعُک ، وَلاَ أَخِرُّ إِلاَّ قَائِمًا ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : أَمَّا مِنْ قَبْلِنَا فَلَنْ تَخِرَّ إِلاَّ قَائِمًا۔ فَلَمَّا وَلَّوْا ، قَالَ أَبُو بَکْرٍ : أَیْ رَسُولَ اللہِ ، إِنَّ أَبَا سُفْیَانَ رَجُلٌ یُحِبُّ السَّمَاعَ ، یَعْنِی الشَّرَفَ ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَنْ دَخَلَ دَارَ أَبِی سُفْیَانَ فَہُوَ آمِنٌ إِلاَّ ابْنَ خَطَلٍ ، وَمِقْیَسَ بْنَ صُبَابَۃَ اللَّیْثِیَّ ، وَعَبْدَ اللہِ بْنَ سَعْدِ بْنِ أَبِی سَرْحٍ ، وَالْقَیْنَتَیْنِ ، فَإِنْ وَجَدْتُمُوہُمْ مُتَعَلِّقِینَ بِأَسْتَارِ الْکَعْبَۃِ فَاقْتُلُوہُمْ ، قَالَ : فَلَمَّا وَلَّوْا ، قَالَ أَبُو بَکْرٍ : یَا رَسُولَ اللہِ ، لَوْ أَمَرْت بِأَبِی سُفْیَانَ فَحَبَسَ عَلَی الطَّرِیقِ ، وَأَذَّنَ فِی النَّاسِ بِالرَّحِیلِ ، فَأَدْرَکَہُ الْعَبَّاسُ ، فَقَالَ : ہَلْ لَک إِلَی أَنْ تَجْلِسَ حَتَّی تَنْظُرَ ؟ قَالَ : بَلَی ، وَلَمْ یَکُنْ ذَلِکَ إِلاَّ لِیَرَی ضَعْفَۃً فَیَسْأَلَہُمْ ، فَمَرَّتْ جُہَیْنَۃُ ، فَقَالَ : أَیْ عَبَّاسُ ، مَنْ ہَؤُلاَئِ ؟ قَالَ : ہَذِہِ جُہَیْنَۃُ ، قَالَ : مَا لِی وَلِجُہَیْنَۃَ ؟ وَاللہِ مَا کَانَتْ بَیْنِی وَبَیْنَہُمْ حَرْبٌ قَطُّ ، ثُمَّ مَرَّتْ مُزَیْنَۃُ ، فَقَالَ : أَیْ عَبَّاسُ ، مَنْ ہَؤُلاَئِ ؟ قَالَ : ہَذِہِ مُزَیْنَۃُ ، قَالَ : مَا لِی وَلِمُزَیْنَۃَ ، وَاللہِ مَا کَانَتْ بَیْنِی وَبَیْنَہُمْ حَرْبٌ قَطُّ ، ثُمَّ مَرَّتْ سُلَیْمٌ ، فَقَالَ : أَیْ عَبَّاسُ ، مَنْ ہَؤُلاَئِ ؟ قَالَ : ہَذِہِ سُلَیْمٌ ، قَالَ : ثُمَّ جَعَلَتْ تَمُرُّ طَوَائِفُ الْعَرَبِ ، فَمَرَّتْ عَلَیْہِ أَسْلَمُ وَغِفَارٌ فَیَسْأَلُ عَنْہَا فَیُخْبِرُہُ الْعَبَّاسُ۔ حَتَّی مَرَّ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی أُخْرَیَاتِ النَّاسِ ، فِی الْمُہَاجِرِینَ الأَوَّلِینَ وَالأَنْصَارِ ، فِی لأمۃٍ تَلْتَمِعُ الْبَصَرَ ، فَقَالَ : أَیْ عَبَّاسُ ، مَنْ ہَؤُلاَئِ ؟ قَالَ : ہَذَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابُہُ ، فِی الْمُہَاجِرِینَ الأَوَّلِینَ وَالأَنْصَارِ ، قَالَ : لَقَدْ أَصْبَحَ ابْنُ أَخِیک عَظِیمَ الْمُلْکِ ، قَالَ : لاَ وَاللہِ ، مَا ہُوَ بِمُلْکٍ ، وَلَکِنَّہَا النُّبُوَّۃُ ، وَکَانُوا عَشَرَۃَ آلاَفٍ ، أَوِ اثْنَیْ عَشَرَ أَلْفًا۔ قَالَ : وَدَفَعَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الرَّایَۃَ إِلَی سَعْدِ بْنِ عُبَادَۃَ ، فَدَفَعَہَا سَعْدٌ إِلَی ابْنِہِ قَیْسِ بْنِ سَعْدٍ ، وَرَکِبَ أَبُو سُفْیَانَ فَسَبَقَ النَّاسَ حَتَّی اطَّلَعَ عَلَیْہِمْ مِنَ الثَّنِیَّۃِ ، قَالَ لَہُ أَہْلُ مَکَّۃَ : مَا وَرَائَک ؟ قَالَ : وَرَائِی الدَّہْمُ ، وَرَائِی مَا لاَ قِبَلَ لَکُمْ بِہِ ، وَرَائِی مَنْ لَمْ أَرَ مِثْلَہُ ، مَنْ دَخَلَ دَارِی فَہُوَ آمِنٌ ، فَجَعَلَ النَّاسُ یَقْتَحِمُونَ دَارَہِ ، وَقَدِمَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَوَقَفَ بِالْحَجُونِ بِأَعْلَی مَکَّۃَ ، وَبَعَثَ الزُّبَیْرَ بْنَ الْعَوَّامِ فِی الْخَیْلِ فِی أَعْلَی الْوَادِی ، وَبَعَثَ خَالِدَ بْنَ الْوَلِیدِ فِی الْخَیْلِ فِی أَسْفَلِ الْوَادِی ، وَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إِنَّکِ لَخَیْرُ أَرْضِ اللہِ وَأَحَبُّ أَرْضِ اللہِ إِلَی اللہِ ، وَإِنِّی وَاللہِ لَوْ لَمْ أُخْرَجْ مِنْک مَا خَرَجْتُ ، وَإِنَّہَا لَمْ تَحِلَّ لأَحَدٍ کَانَ قَبْلِی ، وَلاَ تَحِلُّ لأَحَدٍ بَعْدِی ، وَإِنَّمَا أُحِلَّتْ لِی سَاعَۃً مِنَ النَّہَارِ ، وَہِیَ سَاعَتِی ہَذِہِ ، حَرَامٌ لاَ یُعْضَدُ شَجَرُہَا ، وَلاَ یُحْتَشُّ حَبْلُہَا ، وَلاَ یَلْتَقِطُ ضَالَّتَہَا إِلاَّ مُنْشِدٌ ، فَقَالَ لَہُ رَجُلٌ یُقَالُ لَہُ : شَاہٌ ، وَالنَّاسُ یَقُولُونَ : قَالَ لَہُ الْعَبَّاسُ : یَا رَسُولَ اللہِ ، إِلاَّ الإِذْخِرَ ، فَإِنَّہُ لِبُیُوتِنَا وَقُبُورِنَا وَقُیُونِنَا ، أَوْ لِقُیُونِنَا وَقُبُورِنَا۔ فَأَمَّا ابْنُ خَطَلٍ فَوُجِدَ مُتَعَلِّقًا بِأَسْتَارِ الْکَعْبَۃِ فَقُتِلَ ، وَأَمَّا مِقْیَسُ بْنُ صُبَابَۃَ فَوَجَدُوہُ بَیْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃِ فَبَادَرَہُ نَفَرٌ مِنْ بَنِی کَعْبٍ لِیَقْتُلُوہُ ، فَقَالَ ابْنُ عَمِّہِ نُمَیْلَۃُ : خَلُّوا عَنْہُ ، فَوَاللہِ لاَ یَدْنُو مِنْہُ رَجُلٌ إِلاَّ ضَرَبْتُہُ بِسَیْفِی ہَذَا حَتَّی یَبْرُدَ ، فَتَأَخَّرُوا عَنْہُ فَحَمْلَ عَلَیْہِ بِسَیْفِہِ فَفَلَقَ بِہِ ہَامَتَہُ ، وَکَرِہَ أَنْ یَفْخَرَ عَلَیْہِ أَحَدٌ۔ ثُمَّ طَافَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِالْبَیْتِ ، ثُمَّ دَخَلَ عُثْمَانُ بْنُ طَلْحَۃَ ، فَقَالَ : أَیْ عُثْمَان ، أَیْنَ الْمِفْتَاحُ ؟ فَقَالَ : ہُوَعِنْدَ أُمِّی سُلاَفَۃَ ابْنَۃِ سَعْدٍ ، فَأَرْسَلَ إِلَیْہَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَتْ : لاَ وَاللاَتِ وَالْعُزَّی ، لاَ أَدْفَعُہُ إِلَیْہِ أَبَدًا ، قَالَ : إِنَّہُ قَدْ جَائَ أَمْرٌ غَیْرُ الأَمْرِ الَّذِی کُنَّا عَلَیْہِ ، فَإِنَّک إِنْ لَمْ تَفْعَلِی قُتِلْتُ أَنَا وَأَخِی ، قَالَ : فَدَفَعَتْہُ إِلَیْہِ ، قَالَ : فَأَقْبَلَ بِہِ حَتَّی إِذَا کَانَ وِجَاہَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، عُثِرَ فَسَقَطَ الْمِفْتَاحُ مِنْہُ ، فَقَامَ إِلَیْہِ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَأَحْنَی عَلَیْہِ ثَوْبَہُ ، ثُمَّ فَتْحَ لَہُ عُثْمَان ، فَدَخَلَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْکَعْبَۃَ ، فَکَبَّرَ فِی زَوَایَاہَا وَأَرْجَائِہَا ، وَحَمِدَ اللَّہَ ، ثُمَّ صَلَّی بَیْنَ الأُسْطُوَانَتَیْنِ رَکْعَتَیْنِ ، ثُمَّ خَرَجَ فَقَامَ بَیْنَ الْبَابَیْنِ ، فَقَالَ عَلِیٌّ : فَتَطَاوَلْت لَہَا وَرَجَوْت أَنْ یَدْفَعَ إِلَیْنَا الْمِفْتَاحَ ، فَتَکُونُ فِینَا السِّقَایَۃُ وَالْحِجَابَۃُ ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : أَیْنَ عُثْمَان ؟ ہَاکُمْ مَا أَعْطَاکُمَ اللَّہُ ، فَدَفَعَ إِلَیْہِ الْمِفْتَاحَ۔ ثُمَّ رَقَی بِلاَلٌ عَلَی ظَہْرِ الْکَعْبَۃِ فَأَذَّنَ ، فَقَالَ خَالِدُ بْنُ أُسَیْدٍ : مَا ہَذَا الصَّوْتُ ؟ قَالَوا : بِلاَلُ بْنُ رَبَاحٍ ، قَالَ : عَبْدُ أَبِی بَکْرٍ الْحَبَشِیُّ؟ قَالَوا: نَعَمْ ، قَالَ : أَیْنَ ؟ قَالَوا : عَلَی ظَہْرِ الْکَعْبَۃِ ، قَالَ : عَلَی مَرْقِبَۃِ بَنِی أَبِی طَلْحَۃَ؟ قالَوا : نَعَمْ ، قَالَ : مَا یَقُولُ ؟ قَالَوا : یَقُولُ : أَشْہَدُ أَنْ لاَ إِلَہَ إِلاَّ اللَّہُ ، وَأَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللہِ ، قَالَ : لَقَدْ أَکْرَمَ اللَّہُ أَبَا خَالِدٍ عَنْ أَنْ یَسْمَعَ ہَذَا الصَّوْتَ ، یَعَنْی أَبَاہُ ، وَکَانَ مِمَّنْ قُتِلَ یَوْمَ بَدْرٍ فِی الْمُشْرِکِینَ۔ وَخَرَجَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِلَی حُنَیْنٍ ، وَجَمَعَتْ لَہُ ہَوَازِنُ بِحُنَیْنٍ ، فَاقْتَتَلُوا ، فَہُزِمَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ اللَّہُ : {وَیَوْمَ حُنَیْنٍ إِذْ أَعْجَبَتْکُمْ کَثْرَتُکُمْ فَلَمْ تُغْنِ عَنْکُمْ شَیْئًا} ثُمَّ أَنْزَلَ اللَّہُ سَکِینَتَہُ عَلَی رَسُولِہِ وَعَلَی الْمُؤْمِنِینَ ، فَنَزَلَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ دَابَّتِہِ، فَقَالَ : اللَّہُمَّ إِنَّک إِنْ شِئْت لَمْ تُعْبَدْ بَعْدَ الْیَوْمِ ، شَاہَتِ الْوُجُوہُ ، ثُمَّ رَمَاہُمْ بِحَصْبَائَ کَانَتْ فِی یَدِہِ ، فَوَلَّوْا مُدْبِرِینَ ، فَأَخَذَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ السَّبْیَ وَالأَمْوَالَ ، فَقَالَ لَہُمْ : إِنْ شِئْتُمْ فَالْفِدَائُ ، وَإِنْ شِئْتُمْ فَالسَّبْیُ ، قَالُوا : لَنْ نُؤْثِرَ الْیَوْمَ عَلَی الْحَسَبِ شَیْئًا ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إِذَا خَرَجْتُ فَاسْأَلُونِی ، فَإِنِّی سَأُعْطِیکُمَ الَّذِی لِی ، وَلَنْ یَتَعَذَّرَ عَلَیَّ أَحَدٌّ مِنَ الْمُسْلِمِینَ ، فَلَمَّا خَرَجَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صَاحُوا إِلَیْہِ ، فَقَالَ : أَمَّا الَّذِی لِی فَقَدْ أَعْطَیْتُکُمُوہُ ، وَقَالَ الْمُسْلِمُونَ مِثْلَ ذَلِکَ إِلاَّ عُیَیْنَۃَ بْنَ حِصْنِ بْنِ حُذَیْفَۃَ بْنِ بَدْرٍ ، فَإِنَّہُ قَالَ : أَمَّا الَّذِی لِی فَإِنِّی لاَ أُعْطِیہِ ، قَالَ : أَنْتَ عَلَی حَقِّکَ مِنْ ذَلِکَ ، قَالَ : فَصَارَتْ لَہُ یَوْمَئِذٍ عَجُوزٌ عَوْرَائُ۔ ثُمَّ حَاصَرَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَہْلَ الطَّائِفِ قَرِیبًا مِنْ شَہْرٍ ، فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ : أَیْ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، دَعَنْی فَأَدْخُلْ عَلَیْہِمْ ، فَأَدْعُوہُمْ إِلَی اللہِ ، قَالَ : إِنَّہُمْ إِذَا قَاتَلُوک ، فَدَخَلَ عَلَیْہِمْ عُرْوَۃُ فَدَعَاہُمْ إِلَی اللہِ ، فَرَمَاہُ رَجُلٌ مِنْ بَنِی مَالِکٍ بِسَہْمٍ فَقَتَلَہُ ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مِثْلُہُ فِی قَوْمِہِ مِثْلُ صَاحِبِ یَاسِینَ ، وَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : خُذُوا مَوَاشِیَہُمْ وَضَیِّقُوا عَلَیْہِمْ۔ ثُمَّ أَقْبَلَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَاجِعًا حَتَّی إِذَا کَانَ بِنَخْلَۃٍ ، جَعَلَ النَّاسُ یَسْأَلُونَہُ ، قَالَ أَنَسٌ : حَتَّی انْتَزَعُوا رِدَائَہُ عَنْ ظَہْرِہِ ، فَأَبْدَوْا عَنْ مِثْلِ فِلْقَۃَ الْقَمَرِ ، فَقَالَ : رُدُّوا عَلَیَّ رِدَائِی ، لاَ أَبَا لَکُمْ ، أَتَبْخَلُونَنِی ، فَوَاللہِ أَنْ لَوْ کَانَ مَا بَیْنَہُمَا إِبِلاً وَغَنَمًا لأَعْطَیْتُکُمُوہُ ، فَأَعْطَی الْمُؤَلَّفَۃَ یَوْمَئِذٍ مِئَۃً مِئَۃً مِنَ الإِبِلِ، وَأَعْطَی النَّاسَ۔ فَقَالَتِ الأَنْصَارُ عِنْدَ ذَلِکَ ، فَدَعَاہُمْ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : قُلْتُمْ کَذَا وَکَذَا ؟ أَلَمْ أَجِدْکُمْ ضُلاَّلاً فَہَدَاکُمَ اللَّہُ بِی ؟ قَالَوا : بَلَی ، قَالَ : أَوَلَمْ أَجِدْکُمْ عَالۃً فَأَغْنَاکُمْ اللَّہُ بَی ؟ قَالُوا : بَلَی ، قَالَ : أَلَمْ أَجِدْکُمْ أَعْدَائً فَأَلَّفَ اللَّہُ بَیْنَ قُلُوبِکُمْ بِی ؟ قَالَوا : بَلَی ، قَالَ : أَمَا إِنَّکُمْ لَوْ شِئْتُمْ قُلْتُمْ : قَدْ جِئْتَنَا مَخْذُولاً فَنَصَرْنَاک ، قَالَوا : اللَّہُ وَرَسُولُہُ أَمَنَّ ، قَالَ : لَوْ شِئْتُمْ قُلْتُمْ : جِئْتَنَا طَرِیدًا فَآوَیْنَاک ، قَالَوا : اللَّہُ وَرَسُولُہُ أَمَنَّ ، وَلَوْ شِئْتُمْ لَقُلْتُمْ : جِئْتنَا عَائِلاً فَآسَیْنَاک ، قَالَوا : اللَّہُ وَرَسُولُہُ أَمَنَّ ، قَالَ : أَفَلاَ تَرْضَوْنَ أَنْ یَنْقَلِبَ النَّاسُ بِالشَّائِ وَالْبَعِیرِ ، وَتَنْقَلِبُونَ بِرَسُولِ اللہِ إِلَی دِیَارِکُمْ ؟ قَالَوا : بَلَی ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : النَّاسُ دِثَارٌ ، وَالأَنْصَارُ شِعَارٌ۔ وَجَعَلَ عَلَی الْمَقَاسِمِ عَبَّادَ بْنَ وَقْشٍ أَخَا بَنِی عَبْدِ الأَشْہَلِ ، فَجَائَ رَجُلٌ مِنْ أَسْلَمَ عَارِیًّا لَیْسَ عَلَیْہِ ثَوْبٌ ، فَقَالَ : اُکْسُنِی مِنْ ہَذِہِ الْبُرُودِ بُرْدَۃً ، قَالَ : إِنَّمَا ہِیَ مَقَاسِمُ الْمُسْلِمِینَ ، وَلاَ یَحِلُّ لِی أَنْ أُعْطِیَک مِنْہَا شَیْئًا، فَقَالَ قَوْمُہُ : اُکْسُہُ مِنْہَا بُرْدَۃً ، فَإِنْ تَکَلَّمَ فِیہَا أَحَدٌ ، فَہِیَ مِنْ قِسْمِنَا وَأُعْطِیَّاتِنَا ، فَأَعْطَاہُ بُرْدَۃً ، فَبَلَغَ ذَلِکَ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : مَا کُنْتُ أَخْشَی ہَذَا عَلَیْہِ ، مَا کُنْتُ أَخْشَاکُمْ عَلَیْہِ ، فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللہِ ، مَا أَعْطَیْتُہُ إِیَّاہَا ، حَتَّی قَالَ قَوْمُہُ : إِنْ تَکَلَّمَ فِیہَا أَحَدٌ فَہِیَ مِنْ قِسْمِنَا وَأُعْطِیَّاتِنَا ، فَقَالَ : جَزَاکُمَ اللَّہُ خَیْرًا ، جَزَاکُمَ اللَّہُ خَیْرًا۔ (ترمذی ۳۹۲۵۔ ابن حبان ۳۷۰۸)
(٣٨٠٥٥) حضرت ابو سلمہ اور یحییٰ بن عبد الرحمن بن حاطب دونوں بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مشرکین (مکہ) کے درمیان جنگ بندی کا وقفہ تھا۔ اور بنو کعب بنو بکر کے درمیان مکہ میں لڑائی ہوگئی۔ بنی کعب کی طرف سے ایک فریادی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے کہا۔ ع
اے خدا ! میں محمد کو اپنے اور اس کے آباء کی پرانی قسم دیتا ہوں۔
کہ تم مدد کرو۔ اللہ تمہیں ہدایت دے۔ سخت مدد اور اللہ کے بندوں کو بلاؤ وہ مدد کے لیے آئیں گے۔
٢۔ پس ایک بادل گزرا اور وہ کڑکا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا۔ یہ بادل بنو کعب کی مدد کے لیے کھڑک رہا ہے۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عائشہ سے فرمایا : میرا سامان تیار کرو۔ اور کسی کو یہ بات نہ بتانا۔ پس (اسی دوران) حضرت عائشہ کے پاس حضرت ابوبکر تشریف لائے اور انھوں نے امی عائشہ کی حالت کو متغیر پایا تو انھوں نے پوچھا : یہ کیا ہے ؟ حضرت عائشہ نے جواب دیا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے حکم فرمایا ہے کہ میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا سامان تیار کروں۔ حضرت ابوبکر نے پوچھا۔ کہاں کے لیے ؟ حضرت عائشہ نے جواب دیا۔ مکہ کے لیے ۔ حضرت ابوبکر نے کہا۔ بخدا ! ابھی تک ہمارے اور ان کے درمیان جنگ بندی کا وقفہ ختم تو نہیں ہوا۔ پھر حضرت ابوبکر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے یہ بات ذکر کی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا۔ ان لوگوں نے پہلے غدر کیا ہے۔
٣۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے راستہ بند کرنے کا حکم دیا پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور دیگر مسلمان نکل پڑے اور اہل مکہ کو یوں گھیر لیا کہ ان کو کوئی خبر نہ مل سکی۔ ابو سفیان نے حکیم بن حزام سے کہا۔ اے حکیم ! بخدا ! ہم لوگوں کو گھیر لیا گیا ہے اور ہم ڈھک چکے ہیں۔ کیا تم اس کام کے لیے تیار ہو۔ کہ ہم یہاں سے مرالظہران تک سوار ہو کر (حالات) دیکھیں۔ شاید ہمیں کوئی خبر مل جائے۔ قبیلہ خزاعہ کے بدیل بن ورقاء کعبی نے کہا۔ میں بھی تمہارے ساتھ چلوں۔ ابو سفیان اور حکم نے کہا۔ اگر تم چاہو تو چل پڑو۔ راوی کہتے ہیں۔ پس یہ لوگ سوار ہو کر جب مرالظہران کی پہاڑی کے قریب پہنچے۔ اور گاٹی پر چڑھ گئے۔
٤۔ پس جب یہ پیلو کے درخت سے آگے گزرے تو انھیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پہرہ داروں نے ۔۔۔ انصاری صحابہ کی ایک جماعت نے پکڑ لیا۔ اس رات حضرت عمر بن خطاب پہرہ داروں پر ذمہ دار تھے۔ پہرہ دار صحابہ ان کو ۔۔۔ ابو سفیان وغیرہ کو لے کر حضرت عمر کے پاس حاضر ہوئے۔ اور آ کر کہنے لگے۔ ہم آپ کے پاس اہل مکہ میں سے چند لوگ پکڑ کر لائے ہیں۔ حضرت عمر۔۔۔ انھیں دیکھ کر ہنسنے لگے اور ۔۔۔ فرمایا : خدا کی قسم ! اگر تم میرے پاس ابو سفیان کو لے آتے تو بھی کچھ زیادہ نہ ہوتا۔ پہرہ دار صحابہ نے کہا : خدا کی قسم ! ہم آپ کے پاس ابو سفیان ہی کو لائے ہیں۔ (اس پر) حضرت عمر نے فرمایا : اس کو بند کرلو۔ صحابہ نے ابو سفیان کو بند کرلیا۔ یہاں تک کہ صبح ہوگئی پھر حضرت عمر ابو سفیان کو لے کر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ ابو سفیان سے کہا گیا۔ بیعت (اسلام) کرلو۔ ابو سفیان نے کہا ۔۔۔ میں اس وقت یہی صورت یا اس سے بھی بدتر صورت ہی موجود پاتا ہوں۔ پھر اس نے (آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے) بیعت کرلی۔ پھر حکیم بن حزام سے کہا گیا۔ تم (بھی) بیعت کرلو۔ اس نے کہا : میں آپ سے بیعت کرتا ہوں۔ لیکن میں کھڑا ہی رہوں گا۔ راوی کہتے ہیں : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : تم ہماری طرف سے بھی کھڑے رہنے کو قبول کرو۔
٥۔ پس جب یہ لوگ واپس ہوئے تو حضرت ابوبکر نے عرض کیا۔ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ابو سفیان ایک ایسا آدمی ہے جو شہرت کو پسند کرتا ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو شخص ابو سفیان کے گھر میں داخل ہوجائے وہ مامون ہے سوائے ابن خطل ، مقیس بن صبابہ اللیثی، عبداللہ بن سعد بن سرح اور دو باندیاں۔ اگر تم ان (مستثنیٰ ) لوگوں کو کعبہ کے غلافوں میں بھی چمٹا ہوا پاؤ تو بھی ان کو قتل کر ڈالو۔ راوی کہتے ہیں۔ پھر جب یہ لوگ واپس ہوئے تو حضرت ابوبکر نے عرض کیا۔ اگر آپ ابو سفیان کے بارے میں حکم دیں کہ اس کو راستہ میں روک دیا جائے اور پھر آپ لوگوں کو کوچ کرنے کا حکم دیں۔ پس حضرت عباس نے ابوسفیان کو راستہ میں پالیا (اور روک دیا) حضرت عباس نے ابو سفیان سے کہا۔ کیا تم بیٹھو گے تاکہ کچھ نظارہ کرو ؟ ابو سفیان نے کہا : کیوں نہیں ! اور یہ (راستہ میں روکنا اور نظارہ دکھانا) سب کچھ صرف اس لیے تھا کہ ابو سفیان ان کی کثرت کو دیکھے اور ان کے بارے میں پوچھے۔
٦۔ اسی دوران قبیلہ جہینہ کے لوگ گزرے تو ابو سفیان نے پوچھا : اے عباس ! یہ کون ہیں ؟ حضرت عباس نے جواب دیا : یہ جہینہ کے لوگ ہیں۔ ابو سفیان نے کہا۔ مجھے اجہینہ والوں سے کیا مطلب ؟ خدا کی قسم ! میری اور ان کی کبھی جنگ نہیں ہوئی۔ پھر قبیلہ مزینہ کے لوگ گزرے تو ابوسفیان نے پوچھا۔ اے عباس ! یہ کون ہیں ؟ حضرت عباس نے کہا۔ یہ قبیلہ مزینہ کے لوگ ہیں۔ ابو سفیان نے کہا۔ مجھے مزینہ سے کیا مطلب ؟ خدا کی قسم ! مزینہ اور میرے درمیان کبھی جنگ نہیں ہوئی۔ پھر قبیلہ سلیم کے لوگ گزرے تو ابو سفیان نے کہا۔ اے عباس ! یہ کون ہیں ؟ حضرت عباس نے کہا۔ یہ قبیلہ سلیم کے لوگ ہیں۔ راوی کہتے ہیں : پھر (اس طرح) عرب کے گروہ گزرتے رہے اس دوران قبیلہ اسلم اور غفار بھی گزرے۔ ابو سفیان نے ان کے بارے میں پوچھا۔ اور حضرت عباس اس کو بتاتے رہے۔
٧۔ یہاں تک کہ تمام لوگوں کے آخر میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مہاجرین اولین اور انصار کے ہمراہ لڑائی کے سامان کے ساتھ گزرے جو آنکھوں کو چندھیا رہا تھا۔ ابو سفیان نے کہا ۔ اے عباس ، یہ کون ہیں ؟ حضرت عباس نے فرمایا : یہ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان کے صحابہ ہیں جو مہاجرین اولین اور انصار کے ہمراہ ہیں۔ ابو سفیان کہنے لگا۔ میرا بھتیجا تو بڑی بادشاہی والا ہوگیا ہے۔ حضرت عباس نے کہا۔ نہیں ! بخدا ! یہ بادشاہی نہیں ہے بلکہ یہ نبوت ہے۔ یہ لوگ دس ہزار یا بارہ ہزار کی تعداد میں تھے۔
٨۔ راوی کہتے ہیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جھنڈا حضرت سعد بن عبادہ کو دیا اور پھر انھوں نے اپنے بیٹے قیس بن سعد کو دے دیا۔ اور ابو سفیان سوار ہو کر لوگوں سے آگے نکل گیا یہاں تک کہ اس نے پہاڑی سے اہل مکہ کو دیکھا۔ اہل مکہ نے اس سے پوچھا۔ تیرے پیچھے کیسا لشکر ہے ؟ اس نے جواب دیا ۔ میرے پیچھے بہت بڑی تعداد ہے۔ میرے پیچھے وہ لشکر ہے جس کی تمہیں طاقت نہیں میرے پیچھے ایسا لشکر ہے کہ جس کی مثال میں نے نہیں دیکھی۔ جو شخص میرے گھر میں داخل ہوجائے گا۔ وہ امن پا جائے گا۔ پس لوگوں نے حضرت ابوسفیان کے گھر میں زبردستی گھسنا شروع کردیا۔
٩۔ پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ کے بالائی حصہ میں مقام حجون پر ٹھہر گئے اور حضرت زبیر بن عوام کو گھڑ سواروں کے امیر کے طور پر وادی کے بالائی حصہ سے بھیجا۔ اور حضرت خالد بن الولید کو گھڑ سواروں پر مقرر فرما کر وادی کے نچلے حصہ میں بھیجا۔ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا۔ ” تحقیق تو (مکہ) خدا کی زمین کا بہترین حصہ ہے اور خدا تعالیٰ کی زمین میں سے خدا تعالیٰ کو محبوب ترین حصہ ہے۔ بخدا ! اگر مجھے تجھ سے نکالا جاتا تو میں ہرگز نہ نکلتا۔ اور (فرمایا) یہ قطعہ زمین مجھ سے پہلے کسی کے لیے بھی حلال نہیں کار گیا تھا اور نہ ہی میرے بعد اور کسی کے لیے حلال کیا جائے گا ۔ میرے لیے یہ دن کی ایک گھڑی کے لیے حلال کیا گیا ہے۔ اور یہ موجودہ گھڑی ہے۔ یہ مکہ حرام ہے اس کے درخت کو نہیں کاٹا جائے گا اور اس کے حبل (لوبیان کے مشابہ پھل) کو نہیں کاٹا جائے گا اور اس کی گمشدہ چیز کو کوئی بھی نہیں اٹھائے گا الا یہ کہ وہ اس کا اعلان کرنے کے لیے اٹھائے۔ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ایک آدمی نے ۔۔۔ جس کو شاہ کہا جاتا تھا ۔۔۔ کہا : بعض لوگوں نے کہا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے حضرت عباس نے کہا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! اذخر کو مستثنیٰ کر دیجئے۔ کیونکہ وہ تو ہمارے گھروں ، قبروں اور لوہاروں کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ یا فرمایا : ہمارے لوہاروں اور قبروں کے استعمال میں آتی ہے۔
١٠۔ پھر ابن خطل کو کعبہ کے پردوں کے ساتھ چمٹا ہوا پایا گیا تو اس کو قتل کردیا گیا اور مقیس بن صبابہ کو صحابہ نے صفا اور مروہ کے درمیان پایا تو بنو کعب کی ایک جماعت اس کی طرف لپکی تاکہ اس کو قتل کر دے۔ لیکن اس کے چچا زاد نمیلہ نے کہا۔ اس کو تم چھوڑ دو ۔ خدا کی قسم کوئی آدمی اس کے قریب نہیں آئے گا مگر یہ کہ میں اس کو اپنی اس تلوار کے ذریعہ مار کر ٹھنڈا کر دوں گا۔ لوگ اس سے پیچھے ہٹ گئے اس کے بعد اس نے اپنی تلوار سے اس (مقیس) پر حملہ کیا اور تلوار سے اس کی کھوپڑی کو پھاڑ ڈالا۔ اور اس کو یہ بات ناپسند تھی کہ کوئی (دوسرا) مسلمان آدمی اس کے قتل پر فخر کرے۔
١١۔ پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بیت اللہ کا طواف کیا پھر عثمان بن طلحہ آئے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے (ان سے) کہا۔ اے عثمان ! چابی کہاں ہے ؟ انھوں نے جواب دیا۔ وہ تو میری والدہ کے پاس ہے یعنی سلافہ بنت سعد کے پاس ۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس عورت کی طرف عثمان کو بھیجا تو اس نے جواب میں کہا۔ نہ ” لات اور عُزیّٰ کی قسم ! میں یہ چابی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حوالہ نہیں کروں گی۔ عثمان نے کہا۔ (امی) اب ہماری حالت پہلے والی نہیں رہی۔ اگر تم چابی حوالہ نہ کرو گی تو میں اور میرا بھائی قتل ہوجائیں گے۔ راوی کہتے ہیں۔ پھر اس نے چابی بیٹے کے حوالہ کردی۔ راوی کہتے ہیں : وہ یہ چابی لے کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف آئے یہاں تک کہ جب وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے پہنچے اور ان سے چابی گرگئی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کی طرف کھڑے ہوئے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس پر اپنا کپڑا لٹکایا پھر عثمان نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بیت اللہ کا دروازہ کھول کردیا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیت اللہ کے اندر تشریف لے گئے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بیت اللہ کے کونوں اور کناروں میں اللہ کی بڑائی اور تعریف بیان کی پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دو ستونوں کے درمیان دو رکعات نماز ادا فرمائی۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) باہر تشریف لائے اور چوکھٹوں کے درمیان کھڑے ہوگئے۔ حضرت علی کہتے ہیں۔ میں چابی کو بلند ہو کر دیکھنے لگا اور مجھے اس (کے حاصل ہونے) کی امید ہوئی کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ چابی ہمیں حوالہ فرمائیں گے پس ہمارے ہاں بیت اللہ کا سقایہ اور چوکیداری جمع ہوجائے گی لیکن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا۔ عثمان کہاں ہیں ؟ یہ لو جو تمہیں خدا نے دیا ہے۔ (یہ کہہ کر) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے چابی ان کے حوالہ کردی۔
١٢۔ پھر حضرت بلال بیت اللہ کی چھت پر چڑھے اور آپ نے اذان دی۔ تو خالد بن اُسِید نے پوچھا۔ یہ کون سی آواز ہے ؟ لوگوں نے کہا۔ بلال بن رباح (کی آواز ہے) ۔ خالد کہنے لگا ابوبکر کا حبشی غلام ؟ لوگوں نے کہا : ہاں ! کہنے لگا۔ کہاں ہے وہ ؟ لوگوں نے کہا۔ بیت اللہ کی چھت پر۔ خالد نے پوچھا : بنو ابی طلحہ کے مقام عزت پر ؟ لوگوں نے جواب دیا : ہاں ! خالد نے پوچھا : بلال کیا کہہ رہا ہے ؟ لوگوں نے بتایا کہ وہ کہہ رہا ہے۔ اشھد ان لا الہ الا اللّٰہ۔ اور اشھد ان محمدًا رسول اللّٰہ۔ خالد کہنے لگا ۔ اللہ تعالیٰ نے ابو خالد کو اس آواز کے سننے سے محفوظ رکھ کر عزت دی۔ ابو خالد سے اس کا اپنا باپ مراد تھا اور یہ جنگ بدر میں مشرکین کے ہمراہ قتل کیا گیا تھا۔
١٣۔ پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حنین کی طرف نکل پڑے۔ حنین میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (سے مقابلہ) کے لیے قبیلہ ہوازن اکٹھا ہوا۔ اور انھوں نے لڑائی لڑی (عارضی طور پر) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ کو شکست ہوئی ۔ ارشاد خداوندی ہے۔ (ترجمہ) ۔ ” اور حنین کے دن جب تمہاری تعداد کی کثرت نے تمہیں مگن کردیا تھا مگر وہ کثرت تعداد تمہارے کچھ کام نہ آئی۔ “ پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اور اہل ایمان پر سکینہ نازل فرمائی۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی سواری سے نیچے تشریف لائے اور یہ دعا مانگی۔ اے اللہ ! اگر آپ چاہتے ہیں، آج کے بعد آپ کی عبادت نہ کی جائے۔ چہروں کو بدصورت فرما۔ پھر آپ نے فریق مخالف کی طرف وہ کنکریاں پھینک دیں جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاتھ میں تھیں۔ جس پر وہ لوگ پیٹھ پھیر کر بھاگ گئے۔ تو جناب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قیدیوں اور اموال پر قبضہ فرما لیا۔ اور پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے کہا۔ اگر تم چاہو تو فدیہ دے دو اور اگر چاہو تو قید ہو جاؤ۔ ان لوگوں نے کہا۔ آج کے دن ہم اپنے حسب پر کسی بات کو پسند نہیں کرتے۔ (اس پر) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جب میں نکلوں تو تم مجھ سے سوال کرنا میں تمہیں اپنا حصہ دے دوں گا اور مسلمانوں میں سے بھی کوئی میری بات کو نہیں روکے گا پھر جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (باہر) نکلے تو وہ لوگ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف لپکے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو میرا حصہ ہے وہ تو میں نے تمہیں دے دیا۔ اور دیگر مسلمانوں نے بھی یہی بات ان لوگوں سے کہی سوائے عیینہ بن حصن بن حذیفہ بن بدر کے۔ انھوں نے کہا۔ جو میرا حصہ ہے میں تو وہ نہیں دوں گا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تمہیں اس میں سے تمہارا حق ملے گا۔ راوی کہتے ہیں : پس اس دن انھیں ایک بھینگی بوڑھی حصہ میں ملی۔
١٤۔ پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے طائف والوں کا تقریباً ایک مہینہ تک محاصرہ فرمایا۔ پھر حضرت عمر بن خطاب نے عرض کیا۔ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ مجھے اجازت دیں میں ان کے پاس جاتا ہوں اور انھیں اللہ کی طرف دعوت دوں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ تب تو وہ لوگ تمہیں قتل کردیں گے پھر حضرت عروہ ان اہل طائف کے پاس گئے اور انھیں اللہ کی طرف دعوت دی تو بنو مالک میں سے ایک آدمی نے حضرت عروہ کو تیر مار کر قتل کر ڈالا۔ تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : عروہ کی مثال اپنی قوم میں ایسی ہے جیسا کہ یاسین کا ساتھی۔ پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ان کے جانوروں پر قبضہ کرلو اور ان پر تنگی کردو۔
١٥۔ پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) واپسی کے لیے چل پڑے یہاں تک کہ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نخلہ مقام کے پاس پہنچے تو لوگوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کرنا شروع کردیا۔ حضرت انس کہتے ہیں۔ یہاں تک کہ ان لوگوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی چادر مبارک آپ کے کندھے سے اتار ڈالی اور انھوں نے (گویا) چاند کا ٹکڑا ظاہر کردیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا۔ ” مجھے میری چادر واپس کردو۔ کیا تم لوگ مجھ پر کنجوسی کا الزام لگاتے ہوتے ہو۔ بخدا اگر میرے پاس اونٹ اور بکریاں ہوتی تو میں تمہیں دے دیتا ” پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مؤلفۃ القلوب کو اس دن سو سو اونٹ دیئے اور دیگر لوگوں کو بھی عطا فرمایا۔
١٦۔ اس پر انصار نے بھی کچھ کہا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو بلایا اور فرمایا۔ کیا تم نے یہ یہ بات کہی ہے ؟ کیا میں نے تمہیں گمراہ نہیں پایا تھا کہ پھر اللہ تعالیٰ نے تمہیں میرے ذریعہ سے ہدایت دی ؟ انصار نے جواباً کہا۔ کیوں نہیں ! پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا۔ کیا میں نے تمہیں تنگ دست نہیں پایا کہ پھر اللہ تعالیٰ نے تمہیں میرے ذریعہ سے مالدار کردیا۔ انصار نے جواباً کہا۔ کیوں نہیں ! پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا۔ کیا میں نے تمہیں باہم دشمن نہیں پایا تھا کہ پھر اللہ تعالیٰ نے تمہارے دلوں میں میرے ذریعے محبت ڈالی ؟ انصار نے جواباً کہا : کیوں نہیں ! ۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ہاں اگر تم چاہو تو تم بھی یوں کہو کہ آپ بھی تو ہمارے پاس بےیارو مدد گار آئے تھے اور پھر ہم نے آپ کی نصرت کی۔ انصار نے کہا۔ (نہیں) اللہ اور اس کے رسول کا احسان زیادہ ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کہا۔ اگر تم چاہو تو تم بھی یوں کہہ سکتے ہو کہ آپ ہمارے پاس نکالے ہوئے آئے تھے تو ہم نے آپ کو ٹھکانا دیا تھا۔ انصار نے جواباً کہا۔ (نہیں) اللہ اور اس کے رسول کا احسان زیادہ ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اگر تم چاہو تو کہہ سکتے ہو کہ آپ بھی ہمارے پاس تنگدست آئے تھے پھر ہم نے آپ کے ساتھ غمخواری کی تھی انصار نے جواباً کہا۔ اللہ اور اس کے رسول کا احسان زیادہ ہے۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا۔ کیا تم اس بات پر راضی نہیں ہو کہ لوگ تو بکریاں اور اونٹ لے جائیں اور تم اپنے گھروں میں رسول خدا کو لے کر پلٹو ؟ انصار نے عرض کیا۔ کیوں نہیں ! اس پر جناب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : دیگر لوگ تو اوپر والا کپڑا ہیں اور انصار جسم کے ساتھ کا کپڑا ہیں۔
١٧۔ (راوی کہتے ہیں) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بنو عبد الاشہل کے حلیف عباد بن وقش کو تقسیم شدہ چیزوں پر مقرر فرمایا۔ تو (ان کے پاس) قبیلہ اسلم کا ایک ننگا آدمی آیا جس پر کوئی کپڑا نہیں تھا۔ اس نے آ کر کہا۔ مجھے ان چادروں میں سے ایک چادر پہنا دو ۔ عباد نے جواباً کہا۔ یہ تو مسلمانوں کے تقسیم شدہ حصے ہیں۔ اور میرے لیے یہ بات حلال نہیں ہے کہ میں ان میں سے تجھے کچھ دوں۔ (یہ سن کر) اسلم قبیلہ کے دیگر (مسلمان) لوگوں نے کہا۔ ان میں سے اس کو ایک چادر دے دو ۔ پھر اگر کسی نے اس کے بارے میں بات کی تو یہ ہماری تقسیم اور حصہ میں سے ہوگی۔ عباد نے اس سائل کو ایک چادر دے دی۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ بات پہنچ گئی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : مجھے تمہارے بارے میں اس بات کا خدشہ نہیں تھا۔ عباد نے جواب دیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! میں نے یہ چادر اس کو نہیں دی یہاں تک کہ اس کی قوم نے کہا کہ اگر کسی نے اس کے بارے میں بات کی تو وہ ہماری تقسیم اور حصوں میں سے شمار کرلی جائے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ اللہ تعالیٰ تمہیں بہتر بدلہ دے، اللہ تعالیٰ تمہیں بہتر بدلہ دے۔

38055

(۳۸۰۵۶) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ أَبِی السَّوَادِئِ ، عَنِ ابْنِ سَابِطٍ ؛ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَاوَلَ عُثْمَانَ بْنَ طَلْحَۃَ الْمِفْتَاحَ مِنْ وَرَائِ الثَّوْبِ۔ (عبدالرزاق ۹۰۷۳)
(٣٨٠٥٦) حضرت ابن سابط سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عثمان بن طلحہ کو کپڑے کے پیچھے سے (کعبہ کی) چابی عطا کی) ۔

38056

(۳۸۰۵۷) حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ حَرْبٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَیْدٍ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ ، قَالَ : لَمَّا وَادَعَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَہْلَ مَکَّۃَ ، وَکَانَتْ خُزَاعَۃُ حُلَفَائَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی الْجَاہِلِیَّۃِ ، وَکَانَتْ بَنُو بَکْرٍ حُلَفَائَ قُرَیْشٍ ، فَدَخَلَتْ خُزَاعَۃُ فِی صُلْحِ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَدَخَلَتْ بَنُو بَکْرٍ فِی صُلْحِ قُرَیْشٍ ، فَکَانَ بَیْنَ خُزَاعَۃَ وَبَیْنَ بَنِی بَکْرٍ قِتَالٌ ، فَأَمَدَّتْہُمْ قُرَیْشٌ بِسِلاَحٍ وَطَعَامٍ ، وَظَلَّلُوا عَلَیْہِمْ ، فَظَہَرَتْ بَنُو بَکْرٍ عَلَی خُزَاعَۃَ ، وَقَتَلُوا فِیہِمْ ، فَخَافَتْ قُرَیْشٌ أَنْ یَکُونُوا قَدْ نَقَضُوا ، فَقَالُوا لأَبِی سُفْیَانَ : اذْہَبْ إِلَی مُحَمَّدٍ فَأَجِزِ الْحِلْفَ وَأَصْلِحْ بَیْنَ النَّاسِ۔ فَانْطَلَقَ أَبُو سُفْیَانَ حَتَّی قَدِمَ الْمَدِینَۃَ ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : قَدْ جَائَکُمْ أَبُو سُفْیَانَ ، وَسَیَرْجِعُ رَاضِیًا بِغَیْرِ حَاجَتِہِ ، فَأَتَی أَبَا بَکْرٍ ، فَقَالَ : یَا أَبَا بَکْرٍ ، أَجِزِ الْحِلْفَ وَأَصْلِحْ بَیْنَ النَّاسِ ، أَوَ قَالَ : بَیْنَ قَوْمِکَ ، قَالَ : لَیْسَ الأَمْرُ إِلَیَّ ، الأَمْرُ إِلَی اللہِ وَإِلَی رَسُولِہِ ، قَالَ : وَقَدْ قَالَ لَہُ فِیمَا قَالَ : لَیْسَ مِنْ قَوْمٍ ظَلَّلُوا عَلَی قَوْمٍ وَأَمَدُّوہُمْ بِسِلاَحٍ وَطَعَامٍ ، أَنْ یَکُونُوا نَقَضُوا ، فَقَالَ أَبُو بَکْرٍ : الأَمْرُ إِلَی اللہِ وَإِلَی رَسُولِہِ۔ ثُمَّ أَتَی عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ ، فَقَالَ لَہُ نَحْوًا مِمَا قَالَ لأَبِی بَکْرٍ ، قَالَ : فَقَالَ لَہُ عُمَرُ : أَنَقَضْتُمْ ؟ فَمَا کَانَ مِنْہُ جَدِیدًا فَأَبْلاَہُ اللَّہُ ، وَمَا کَانَ مِنْہُ شَدِیدًا ، أَوْ مَتِینًا فَقَطَعَہُ اللَّہُ ، فَقَالَ أَبُو سُفْیَانَ : مَا رَأَیْتُ کَالْیَوْمِ شَاہِدَ عَشِیرَۃٍ ، ثُمَّ أَتَی فَاطِمَۃَ ، فَقَالَ : یَا فَاطِمَۃُ ، ہَلْ لَک فِی أَمْرٍ تَسُودِینَ فِیہِ نِسَائَ قَوْمِکَ ، ثُمَّ ذَکَرَ لَہَا نَحْوًا مِمَّا ذَکَرَ لأَبِی بَکْرٍ ، فَقَالَتْ : لَیْسَ الأَمْرُ إِلَی ، الأَمْرُ إِلَی اللہِ وَإِلَی رَسُولِہِ ، ثُمَّ أَتَی عَلِیًّا ، فَقَالَ لَہُ نَحْوًا مِمَا قَالَ لأَبِی بَکْرٍ ، فَقَالَ لَہُ عَلِیٌّ : مَا رَأَیْتُ کَالْیَوْمِ رَجُلاً أَضَلَّ ، أَنْتَ سَیِّدُ النَّاسِ ، فَأَجِزْ الْحِلْفَ وَأَصْلِحْ بَیْنَ النَّاسِ ، قَالَ : فَضَرَبَ إِحْدَی یَدَیْہِ عَلَی الأُخْرَی ، وَقَالَ : قَدْ أَجْرَتُ النَّاسَ بَعْضُہُمْ مِنْ بَعْضٍ۔ ثُمَّ ذَہَبَ حَتَّی قَدِمَ عَلَی مَکَّۃَ فَأَخْبَرَہُمْ بِمَا صَنَعَ ، فَقَالُوا : وَاللہِ مَا رَأَیْنَا کَالْیَوْمِ وَافِدَ قَوْمٍ ، وَاللہِ مَا أَتَیْتَنَا بِحَرْبٍ فَنَحْذَرَ ، وَلاَ أَتَیْتَنَا بِصُلْحٍ فَنَأْمَنَ ، ارْجِعْ۔ قَالَ: وَقَدِمَ وَافِدُ خُزَاعَۃَ عَلَی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرَہُ بِمَا صَنَعَ الْقَوْمُ ، وَدَعَا إِلَی النُّصْرَۃِ، وَأَنْشَدَہُ فِی ذَلِکَ شِعْرًا : لاَہُمَّ إِنِّی نَاشِدٌ مُحَمَّدًا وَوَالِدًا کُنْتَ وَکُنَّا وَلَدًا وَنَقَضُوا مِیثَاقَک الْمُؤَکَّدَا وَزَعَمْتْ أَنْ لَسْتُ أَدْعُو أَحَدًا وَہُمْ أَتَوْنَا بِالْوَتِیرِ ہُجَّدًا حِلْفَ أَبِینَا وَأَبِیہِ الأَتْلَدَا إِنَّ قُرَیْشًا أَخْلَفُوکَ الْمَوْعِدَا وَجَعَلُوا لِی بِکَدَائٍ رُصَّدَا فَہُمْ أَذَلُّ وَأَقَلُّ عَدَدَا نَتْلُو الْقُرْآنَ رُکَّعًا وَسُجَّدًا ثُمَّتَ أَسْلَمْنَا وَلَمْ نَنْزِعْ یَدًا فَانْصُرْ رَسُولَ اللہِ نَصْرًا أَعْتَدَا وَابْعَثْ جُنُودَ اللہِ تَأْتِی مَدَدًا فِیہِمْ رَسُولُ اللہِ قَدْ تَجَرَّدَا فِی فَیْلَقٍ کَالْبَحْرِ یَأْتِی مُزْبِدَا إِنْ سِیمَ خَسْفًا وَجْہُہُ تَرَبَّدَا قالَ حَمَّادٌ : ہَذَا الشِّعْرُ بَعْضُہُ عَنْ أَیُّوبَ ، وَبَعْضُہُ عَنْ یَزِیدَ بْنِ حَازِمٍ ، وَأَکْثَرُہُ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أسْحَاقَ ، ثُمَّ رَجَعَ إِلَی حَدِیثِ أَیُّوبَ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ۔ قَالَ : قَالَ حَسَّانُ بْنُ ثَابِتٍ : أَتَانِی وَلَمْ أَشْہَدْ بِبَطْحَائِ مَکَّۃ رِجَالُ بَنِی کَعْبٍ تُحَزَّ رِقَابُہَا وَصَفْوَانُ عُودٌ حُزَّ مِنْ وَدَقٍ اسْتِہِ فَذَاکَ أَوَانُ الْحَرْبِ شُدَّ عِصَابُہَا فَلاَ تَجْزَعَنْ یَاابْنَ أَمِّ مُجَالِدٍ فَقَدْ صَرَّحَتْ صِرْفًا وأََعَصل نَابہَا فَیَا لَیْتَ شِعْرِی ہَلْ یَنَالَنَّ مَرَّۃً سُہَیْلَ بْنَ عَمْرٍو حَوْبَہَا وَعِقَابَہَا قالَ : فَأَمَرَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِالرَّحِیلِ ، فَارْتَحَلُوا ، فَسَارُوا حَتَّی نَزَلُوا مَرًّا ، قَالَ : وَجَائَ أَبُو سُفْیَانَ حَتَّی نَزَلَ مَرًّا لَیْلاً ، قَالَ : فَرَأَی الْعَسْکَرَ وَالنِّیرَانَ ، فَقَالَ : مَنْ ہَؤُلاَئِ ؟ فَقِیلَ : ہَذِہِ تَمِیمٌ ، مَحَّلَتْ بِلاَدَہَا فَانْتَجَعَتْ بِلاَدَکُمْ ، قَالَ : وَاللہِ ، لَہَؤُلاَئِ أَکْثَرُ مِنْ أَہْلِ مِنًی ، أَوْ قَالَ : مِثُلُ أَہْلِ مِنًی ، فَلَمَّا عَلِمَ أَنَّہُ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : دُلُّونِی عَلَی الْعَبَّاسِ ، فَأَتَی الْعَبَّاسَ فَأَخْبَرَہُ الْخَبَرَ ، وَذَہَبَ بِہِ إِلَی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَرَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی قُبَّۃٍ لَہُ ، فَقَالَ لَہُ : یَا أَبَا سُفْیَانَ ، أَسْلِمْ تَسْلَمْ ، فَقَالَ : کَیْفَ أَصْنَعُ بِاللاَّتِ وَالْعُزَّی ؟۔ قَالَ أَیُّوبُ : فَحَدَّثَنِی أَبُو الْخَلِیلِ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ، قَالَ : قَالَ لَہُ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ ، وَہُوَ خَارِجٌ مِنَ الْقُبَّۃِ فِی عُنُقِہِ السَّیْفُ : إِخْرَ عَلَیْہَا ، أَمَّا وَاللہِ أَنْ لَوْ کُنْت خَارِجًا مِنَ الْقُبَّۃِ مَا قُلْتہَا أَبَدًا۔ قَالَ : قَالَ أَبُو سُفْیَانَ : مَنْ ہَذَا ؟ قَالَوا : عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ۔ ثُمَّ رَجَعَ إلَی حَدِیثِ أَیُّوبَ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ۔ فَأَسْلَمَ أَبُو سُفْیَانَ ، وَذَہَبَ بِہِ الْعَبَّاسُ إلَی مَنْزِلِہِ ، فَلَمَّا أَصْبَحُوا ثَارَ النَّاسُ لِطَہُورِہِمْ ، قَالَ : فَقَالَ أَبُو سُفْیَانَ : یَا أَبَا الْفَضْلِ ، مَا لِلنَّاسِ ؟ أُمِرُوا بِشَیْئٍ ؟ قَالَ : لاَ ، وَلَکِنَّہُمْ قَامُوا إِلَی الصَّلاَۃِ ، قَالَ : فَأَمَرَہُ الْعَبَّاسُ فَتَوَضَّأَ ، ثُمَّ ذَہَبَ بِہِ إِلَی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَلَمَّا دَخَلَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الصَّلاَۃَ کَبَّرَ ، فَکَبَّرَ النَّاسُ ، ثُمَّ رَکَعَ فَرَکَعُوا ، ثُمَّ رَفَعَ فَرَفَعُوا ، فَقَالَ أَبُو سُفْیَانَ : مَا رَأَیْتُ کَالْیَوْمِ طَاعَۃَ قَوْمٍ جَمَعَہُمْ مِنْ ہَاہُنَا وَہَاہُنَا ، وَلاَ فَارِسَ الأَکارِمَ ، وَلاَ الرُّومَ ذَاتَ الْقُرُونِ ، بِأَطْوَعَ مِنْہُمْ لَہُ۔ قَالَ حَمَّادٌ : وَزَعَمَ یَزِیدُ بْنُ حَازِمٍ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ ؛ أَنَّ أَبَا سُفْیَانَ قَالَ : یَا أَبَا الْفَضْلِ ، أَصْبَحَ ابْنُ أَخِیک وَاللہِ عَظِیمَ الْمُلْکِ ، قَالَ : فَقَالَ لَہُ الْعَبَّاسُ : إِنَّہُ لَیْسَ بِمُلْکٍ وَلَکِنَّہَا النُّبُوَّۃُ ، قَالَ : أَوْ ذَاکَ ، أَوْ ذَاکَ۔ ثُمَّ رَجَعَ إِلَی حَدِیثِ أَیُّوبَ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ۔ قَالَ : قَالَ أَبُو سُفْیَانَ : وَاصَبَاحَ قُرَیْشٍ ، قَالَ : فَقَالَ الْعَبَّاسُ : یَا رَسُولَ اللہِ ، لَوْ أَذِنْتَ لِی فَأَتَیْتُہُمْ ، فَدَعَوْتُہُمْ ، فَأَمَّنْتُہُمْ ، وَجَعَلْتَ لأَبِی سُفْیَانَ شَیْئًا یُذْکَرُ بِہِ ، فَانْطَلَقَ الْعَبَّاسُ ، فَرَکِبَ بَغْلَۃَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الشَّہْبَائَ وَانْطَلَقَ ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : رُدُّوا عَلَیَّ أَبِی ، رُدُّوا عَلَیَّ أَبِی، فَإِنَّ عَمَّ الرَّجُلِ صِنْوُ أَبِیہِ ، إِنِّی أَخَافُ أَنْ تَفْعَلَ بِہِ قُرَیْشٌ مَا فَعَلَتْ ثَقِیفٌ بِعُرْوَۃِ بْنِ مَسْعُودٍ ، دَعَاہُمْ إِلَی اللہِ فَقَتَلُوہُ ، أَمَا وَاللہِ لَئِنْ رَکِبُوہَا مِنْہُ لأَضْرِمَنَّہَا عَلَیْہِمْ نَارًا۔ فَانْطَلَقَ الْعَبَّاسُ حَتَّی قَدِمَ مَکَّۃَ ، فَقَالَ : یَا أَہْلَ مَکَّۃَ ، أَسْلِمُوا تَسْلَمُوا ، قَدَ اسْتَبْطِنْتُمْ بِأَشْہَبَ بَاذِلٍ ، وَقَدْ کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَعَثَ الزُّبَیْرَ مِنْ قِبَلِ أَعْلَی مَکَّۃَ ، وَبَعَثَ خَالِدَ بْنَ الْوَلِیدِ مِنْ قِبَلِ أَسْفَلِ مَکَّۃَ ، فَقَالَ لَہُمُ الْعَبَّاسُ : ہَذَا الزُّبَیْرُ مِنْ قِبَلِ أَعْلَی مَکَّۃَ ، وَہَذَا خَالِدٌ مِنْ قِبَلِ أَسْفَلِ مَکَّۃَ ، وَخَالِدٌ مَا خَالِدٌ ؟ وَخُزَاعَۃُ الْمُجَدَّعَۃُ الأُنُوفِ ، ثُمَّ قَالَ : مَنْ أَلْقَی سِلاَحَہُ فَہُوَ آمِنٌ ، ثُمَّ قَدِمَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَتَرَامَوْا بِشَیْئٍ مِنَ النَّبْلِ۔ ثُمَّ إِنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ظَہَرَ عَلَیْہِمْ ، فَأَمَّنَ النَّاسَ إِلاَّ خُزَاعَۃَ مِنْ بَنِی بَکْرٍ ، فَذَکَرَ أَرْبَعَۃً : مِقْیَسَ بْنَ صَبَابَۃَ ، وَعَبْدَ اللہِ بْنَ أَبِی سَرْحٍ ، وَابْنَ خَطَلٍ ، وَسَارَۃَ مَوْلاَۃَ بَنِی ہَاشِمٍ ، قَالَ حَمَّادٌ : سَارَۃُ ، فِی حَدِیثِ أَیُّوبَ ، وَفِی حَدِیثِ غَیْرِہِ : قَالَ : فَقَتَلَہُمْ خُزَاعَۃُ إِلَی نِصْفِ النَّہَارِ ، وَأَنْزَلَ اللَّہُ : {أَلاَ تُقَاتِلُونَ قَوْمًا نَکَثُوا أَیْمَانَہُمْ وَہَمُّوا بِإِخْرَاجِ الرَّسُولِ وَہُمْ بَدَؤُوکُمْ أَوَّلَ مَرَّۃٍ ، أَتَخْشَوْنَہُمْ ، فَاللَّہُ أَحَقُّ أَنْ تَخْشَوْہُ إِنْ کُنْتُمْ مُؤْمِنِینَ ، قَاتِلُوہُمْ یُعَذِّبْہُمُ اللَّہُ بِأَیْدِیکُمْ وَیُخْزِہِمْ ، وَیَنْصُرْکُمْ عَلَیْہِمْ ، وَیَشْفِ صُدُورَ قَوْمٍ مُؤْمِنِینَ} قَالَ : خُزَاعَۃُ ، {وَیُذْہِبْ غَیْظَ قُلُوبِہِمْ} قَالَ : خُزَاعَۃُ ، {وَیَتُوبُ اللَّہُ عَلَی مَنْ یَشَائُ} قَالَ : خُزَاعَۃُ۔
(٣٨٠٥٧) حضرت عکرمہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب اہل مکہ کے ساتھ صلح کی اور قبیلہ خزاعہ والے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے جاہلیت میں بھی حلیف تھے اور بنو بکر قریش کے حلیف تھے۔ لہٰذا (اس صلح میں بھی) خزاعہ والے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صلح میں داخل ہوگئے اور بنو بکر قریش کی صلح میں داخل ہوگئے۔ پھر بنو خزاعہ اور بنو بکر میں کوئی لڑائی ہوئی تو قریش نے بنو بکر کی اسلحہ اور کھانے کے ساتھ خوب مدد کی۔ اور (گویا) ان پر سایہ فگن ہوگئے۔ پس بنو بکر، قبیلہ خزاعہ پر غالب آگئے اور بنو بکر نے قبیلہ خزاعہ کے بہت لوگ قتل کئے۔ پھر قریش کو یہ خیال ہوا کہ وہ اپنا عہد (جناب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ کیا ہو) توڑ چکے ہیں۔ تو انھوں نے ابو سفیان سے کہا۔ جاؤ محمد کی طرف اور معاہدہ کی تجدید کرو ا لو اور لوگوں میں صلح کروا لو۔
٢۔ ابو سفیان چل پڑا یہاں تک کہ وہ مدینہ میں پہنچا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا۔ تحقیق تمہارے پاس ابوسفیان آ رہا ہے اور عنقریب وہ اپنی حاجت (پوری کئے) بغیر واپس پلٹے گا۔ چنانچہ ابو سفیان، حضرت ابوبکر کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا۔ اے ابوبکر ! معاہدہ کو برقرار رکھو اور لوگوں کے درمیان صلح ہی رہنے دو ۔ یا یہ الفاظ کہے کہ ۔۔۔ اپنی قوم کے درمیان صلح ہی رہنے دو ۔ حضرت ابوبکر نے جواب دیا۔ یہ معاملہ میرے بس میں نہیں ہے یہ تو اللہ اور اس کے رسول کے بس میں ہے۔ راوی کہتے ہیں : ابو سفیان نے جو باتیں حضرت ابوبکر سے کہیں ان میں یہ بات بھی تھی کہ۔ یہ بات نہیں ہے کہ اگر کسی قوم نے دوسری قوم کو اسلحہ اور کھانے کے ذریعہ سے مدد کی ہو اور ان پر سایہ کیا ہو تو وہ عہد کو توڑنے والے ہوں۔ حضرت ابوبکر نے جواب دیا۔ یہ معاملہ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بس میں ہے۔
٣۔ پھر ابو سفیان حضرت عمر بن خطاب کے پاس آیا اور ان سے بھی ویسی باتیں کہیں جیسی باتیں اس نے حضرت ابوبکر سے کہی تھیں۔ راوی کہتے ہیں۔ حضرت عمر نے اس سے پوچھا۔ کیا تم نے عہد توڑ دیا ہے ؟ پس اس بارے میں جو نئی بات تھی اس کو اللہ تعالیٰ نے پرانا کردیا ہے اور جو مضبوط اور سخت بات تھی اس کو اللہ تعالیٰ نے توڑ ڈالا ہے۔ ابو سفیان کہتا ہے میں نے اس د ن کی طرح قوم کو نہیں دیکھا ؟ پھر ابو سفیان حضرت فاطمہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا۔ اے فاطمہ ! کیا تم وہ کام کرو گی جس میں تم اپنی قوم کی خواتین کی سیادت کرو۔ پھر ابو سفیان نے ان سے بھی ویسی بات ذکر کی جیسی بات اس نے حضرت ابوبکر سے کہی تھی۔ حضرت فاطمہ نے جواب دیا۔ یہ معاملہ میرے اختیار میں نہیں ہے (بلکہ) یہ معاملہ تو اللہ اور اس کے رسول کے اختیار میں ہے۔ پھر ابو سفیان، حضرت علی کی خدمت میں حاضر ہوا اور ویسی بات ہی کہی جیسی بات حضرت ابوبکر سے کہی تھی۔ حضرت علی نے اس کو جواب دیا۔ میں نے آج کے دن (کے آدمی) کی طرح کوئی گمراہ آدمی نہیں دیکھا ! تم تو لوگوں کے سردار ہو پس تم معاہدہ کو برقرار رکھو اور لوگوں کے درمیان صلح کرواؤ۔ راوی کہتے ہیں۔ ابو سفیان نے اپنا ایک ہاتھ دوسرے ہاتھ پر مارا اور کہنے لگا۔ تحقیق میں نے لوگوں میں سے بعض کو بعض سے پناہ دے دی ہے۔
٤۔ پھر ابو سفیان چل پڑا یہاں تک کہ وہ اہل مکہ کے پاس پہنچا اور انھیں وہ بات بتلائی جو اس نے سرانجام دی تھی۔ تو انھوں نے (آگے سے) کہا۔ خدا کی قسم ! ہم نے آج کے دن (کے آدمی) کی طرح کوئی قوم کا نمائندہ نہیں دیکھا۔ بخدا ! نہ تو تم جنگ کی خبر ہمارے پاس لائے ہو کہ ہم (اس سے) بچاؤ کریں اور نہ ہی تم ہمارے پاس صلح کی خبر لے کر آئے ہو کہ ہم مامون ہوجائیں۔ (لہٰذا) تم واپس جاؤ۔
٥۔ راوی کہتے ہیں : (اتنے میں) قبیلہ خزاعہ کا نمائندہ وفد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں پہنچ گیا اور اس نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مشرکین مکہ کے کئے کی خبر سنائی اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مدد کے لیے بلایا اور اس بات کو اس نے ان شعروں میں بیان کیا۔
اے اللہ ! محمد کو اپنے اور ان کے آباء کا پرانا عہد یاد دلاتا ہوں۔
اور (یہ بات کہ) آپ والد ہیں اور ہم بیٹے ہیں۔ بلاشبہ قریش نے آپ کے ساتھ وعدہ خلافی کی ہے۔
اور انھوں نے آپ کے پختہ عہد کو توڑ ڈالا ہے اور انھوں نے ہمارے لیے مقما کداء میں گھات لگایا ہے۔
اور انھوں نے یہ سمجھا ہے کہ میں کسی کو (مدد کے لئے) نہیں بلاؤں گا ۔ حالانکہ وہ لوگ تو تعداد میں تھوڑے اور ذلیل ہیں۔
وہ لوگ ہم پر مقام ونیر میں صبح کو حملہ آور ہوئے جبکہ ہم رکوع اور سجدہ کی حالت میں قرآن مجید کی تلاوت کر رہے تھے۔
ہم نے اسلام قبول کیا ہے اور اپنا ہاتھ واپس نہیں کھینچا۔ پس ۔۔۔ اے اللہ کے رسول۔۔۔ خوب سخت مدد کیجئے۔
اور آپ اللہ کے لشکروں کو ابھاریں پس یہ آپ کے پاس مدد کیلئے ایسے سمندروں کی طرح آئیں گے جو جھاگ مار رہا ہو۔
اور ان میں اللہ کے رسول بھی ہوں جن کی تلوار نیام سے باہر ہو ۔ کہ اگر وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات کو نقصان پہنچانا چاہیں تو آپ کا چہرہ غضب کی وجہ سے تمتمانے لگے۔
حماد راوی کہتے ہیں۔ ان اشعار میں سے بعض حضرت ایوب (کی روایت) سے ہیں اور بعض دیگر اشعار حضرت یزید بن حازم (کی روایت) سے ہیں اور ان میں سے اکثر اشعار محمد بن اسحق (کی روایت) سے ہیں۔ پھر راوی دوبارہ ایوب کی عکرمہ سے روایت کی طرف لوٹے۔
٦۔ اور فرمایا : حضرت حسان بن ثابت نے شعر کہے۔
” مجھے افسوس ہے کہ ہم مکہ کی وادی میں بنو کعب کے ان لوگوں کی مدد نہ کرسکے جن کی گردنیں کاٹی جا رہی تھیں، صفوان اس بوڑھے اونٹ کی مانند ہے جس کی سرین کے سوراخ کو کشادہ کیا گیا ہو، پس یہ تو جنگ کا وقت تھا جس میں جنگ کو خوب بھڑکایا گیا تھا، اے ام مجالد کے بٹے ک ! جب جنگ کا میدان گرم ہوجائے اور لڑائی اپنی تیزی دکھانے لگے تو ہم سے مامون ہو کے نہ بیٹھ جا، کاش میرے اشعار، میرے نیزے کی نوک اور میرے نیزے کی سزا سہیل بن عمرو کو جا پہنچتی۔ “
٧۔ راوی کہتے ہیں۔ پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کوچ کرنے کا حکم ارشاد فرمایا تو لوگوں نے کوچ کرلیا اور روانہ ہو کر چل دیئے یہاں تک کہ صحابہ مقام مرالظہران میں اترے۔ راوی کہتے ہیں : ابو سفیان (بھی) آ رہا تھا یہاں تک کہ وہ بھی رات کے وقت مقام مرالظہران میں اترا۔ راوی کہتے ہیں : اس نے لشکر اور آگ کو دیکھا تو پوچھنے لگا۔ یہ کون لوگ ہیں ؟ کسی نے (جواباً ) کہا یہ بنو تمیم ہیں ان کے علاقوں میں خشک سالی آگئی ہے اور یہ تمہارے علاقوں میں گزر بسر کے لیے آئے ہیں۔ ابو سفیان نے کہا۔ بخدا ! یہ لوگ تو اہل منیٰ سے بھی زیادہ ہیں۔ یا یہ کہا : اہل منیٰ کے مثل ہیں۔ پھر جب اس کو اس بات کا علم ہوا کہ یہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (کا لشکر) ہے تو اس نے کہا۔ حضرت عباس کی طرف میری راہ نمائی کرو۔ چنانچہ یہ حضرت عباس کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اس وقت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے قبہ میں تشریف فرما تھے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابو سفیان سے کہا۔ اے ابو سفیان ! اسلام لے آؤ۔ سلامتی پا جاؤ گے۔ اس نے آگے سے جواب دیا۔ میں لات اور عزی کا کیا کروں گا ؟
٨۔ راوی ایوب کہتے ہیں کہ مجھے ابو الخلیل نے یہ روایت سعید بن جبیر کے حوالہ سے بیان کی کہ حضرت عمر بن خطاب نے ابو سفیان سے کہا : حضرت عمر قبہ سے باہر تھے اور ان کی گردن میں تلوار تھی۔ اس پر لید کر دے۔ ہاں بخدا ! اگر تم قبہ سے باہر ہوتے تو میں تمہیں یہ بات کبھی نہ کہتا۔
٩۔ راوی کہتے ہیں۔ ابو سفیان نے پوچھا۔ یہ کون شخص ہے ؟ صحابہ کرام نے جواب دیا یہ عمر بن خطاب ہے۔
١٠۔ پھر راوی حضرت ایوب کی عکرمہ سے روایت کی طرف متوجہ ہوئے۔
١١۔ پھر ابو سفیان نے اسلام قبول کرلیا اور حضرت عباس انھیں لے کر اپنی منزل کی طرف چل پڑے۔ پھر جب صبح ہوئی تو لوگ اپنے اپنے وضو کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے ۔ راوی کہتے ہیں : ابو سفیان نے پوچھا : اے ابو الفضل ! لوگوں کو کیا ہوگیا ہے ؟ انھیں کس کام کا حکم دیا گیا ہے ؟ حضرت عباس نے جواب دیا : نہیں ! بلکہ یہ لوگ نماز قائم کرنے کے لیے اٹھے ہیں۔ راوی کہتے ہیں : پھر حضرت عباس نے ابو سفیان کو کہا تو انھوں نے بھی وضو کیا اور پھر حضرت عباس انھیں لے کر جناب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں پہنچ گئے ۔ پس جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز میں شروع ہوئے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تکبیر کہی اور لوگوں نے بھی تکبیر کہی ۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے رکوع کیا اور لوگوں نے بھی رکوع کیا۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سر مبارک اٹھایا اور لوگوں نے اپنے سروں کو اٹھایا ۔ (یہ منظر دیکھ کر) ابو سفیان نے کہا ۔ میں نے آج کے دن (کی اطاعت) سے بڑھ کر کسی قوم کی شروع سے آخر تک ، ساری جماعت کی ایسی اطاعت نہیں دیکھی۔ نہ تو فارس کے معززین کی اور نہ ہی مقتدر روم کی۔ کہ وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت سے زیادہ مطیع ہوں۔
١٢۔ حماد راوی کہتے ہیں : یزید بن حازم حضرت عکرمہ سے یہ روایت بیان کرتے ہیں کہ ابو سفیان نے کہا۔ اے ابو الفضل ! خدا کی قسم ! تیرا بھتیجا تو بڑی بادشاہی کا مالک ہوگیا ہے۔ راوی کہتے ہیں : حضرت عباس نے ابو سفیان سے کہا۔ یہ بادشاہت نہیں ہے بلکہ یہ تو نبوت ہے۔ ابو سفیان نے کہا : ہاں وہی ہے، ہاں وہی ہے۔
١٣۔ پھر راوی عکرمہ کے واسطہ سے ایوب کی طرف لوٹے اور کہا۔ ابو سفیان نے کہا۔ قریش کی صبح کیسی ہے ؟ راوی کہتے ہیں : حضرت عباس نے عرض کیا۔ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! اگر آپ مجھے اجازت دیں تو میں ان کے پاس جاؤں اور انھیں دعوت دوں اور میں انھیں امن دے دوں۔ آپ ابو سفیان کے لیے کوئی ایسی چیز مقرر فرما دیں ۔ جس سے ان کو یاد کیا جائے۔ چنانچہ حضرت عباس چل پڑے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کالے سفید بالوں والی پیشانی کے خچر پر سوار ہو کر چل پڑے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا۔ میرے باپ کو میری طرف واپس کرو۔ میرے باپ کو میری طرف واپس کرو۔ کیونکہ آدمی کا چچا آدمی کے والد کے مثل ہوتا ہے۔ مجھے اس بات کا خوف ہے کہ قریش ان کے ساتھ وہی معاملہ کریں گے جو قبیلہ ثقیف نے عروہ بن مسعود کے ساتھ کیا تھا۔ کہ انھوں نے تو ثقفا والوں کو اللہ کی طرف دعوت دی اور انھوں نے عروہ کو قتل کردیا۔ خبردار ! بخدا اگر وہ لوگ حضرت عباس کے خلاف کھڑے ہوئے تو میں انھیں آگ میں جلا دوں گا۔
١٤۔ پس حضرت عباس (وہاں سے) چلے یہاں تک کہ مکہ میں پہنچ گئے اور فرمایا : اے مکہ والو ! اسلام لے آؤ، سلامتی پا جاؤ گے۔ تم لوگوں کو ایک شدید معاملہ درپیش ہوچکا ہے۔ ” تحقیق جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت زبیر کو مکہ کے بالائی طرف سے بھیجا تھا اور حضرت خالد بن الولید کو مکہ کے نچلے حصہ کی طرف روانہ فرمایا تھا۔ چنانچہ حضرت عباس نے ان لوگوں سے کہا۔ یہ مکہ کے بالائی حصہ سے زبیر آ رہے ہیں اور مکہ کے تحتانی حصہ سے حضرت خالد بن الولید آ رہے ہیں۔ اور خالد کے بارے میں جانتے ہو کہ خالد، کون خالد ؟ اور خزاعہ قبیلہ جن کے ناک کٹے ہوئے ہیں۔ پھر آپ سے فرمایا : جو کوئی اپنا اسلحہ ڈال دے گا وہ امن پالے گا پھر (اس کے بعد) جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے تو مخالفین نے تھوڑی سی تیر اندازی کی۔
١٥۔ (لیکن) پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان (مخالفین) پر غلبہ حاصل ہوگیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تمام لوگوں کو امن دے دیا۔ سوائے خزاعہ اور بنو بکر کے۔ پھر راوی نے چار نام ذکر فرمائے۔ مقیس بن صبابۃ، عبداللہ بن ابی سرح ، ابن خطل، بنی ہاشم کی لونڈی سارہ، حماد راوی کہتے ہیں : حدیث ایوب میں ” سارہ “ کا ذکر ہے اور اس کے سوا دیگر حدیثوں میں ہے۔ راوی کہتے ہیں : پس خزاعہ نے آدھا دن لڑائی کی۔ اور اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ (ترجمہ) ۔ کیا تم ان لوگوں سے جنگ نہیں کرو گے جنہوں نے اپنی قسموں کو توڑا اور رسول کو (وطن سے) نکالنے کا ارادہ کیا اور وہی ہیں جنہوں نے تمہارے خلاف (چھیڑ چھاڑ کرنے میں) پہلی کی۔ کیا تم ان سے ڈرتے ہو ؟ (اگر ایسا ہے) تو اللہ اس بات کا زیادہ حق رکھتا ہے کہ تم اس سے ڈرو، اگر تم مؤمن ہو۔ ان سے جنگ کرو تاکہ اللہ تمہارے ہاتھوں سے ان کو سزا دلوائے، انھیں رسوا کرے، ان کے خلاف تمہاری مدد کرے اور مومنوں کے دل ٹھنڈے کر دے (راوی کہتے ہی) اس سے خزاعہ مراد ہیں) اور ان کے دل کی کڑھن دور کر دے (مراد خزاعہ) اور جس کی چاہے توبہ قبول کرے (خزاعہ)

38057

(۳۸۰۵۸) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ زَکَرِیَّا بْنِ أَبِی زَائِدَۃَ ، قَالَ : کُنْتُ مَعَ أَبِی إِسْحَاقَ فِیمَا بَیْنَ مَکَّۃَ وَالْمَدِینَۃِ ، فَسَایَرَنَا رَجُلٌ مِنْ خُزَاعَۃَ ، فَقَالَ لَہُ أَبُو إِسْحَاقَ : کَیْفَ قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لَقَدْ رَعَدَتْ ہَذِہِ السَّحَابَۃُ بِنَصْرِ بَنِی کَعْبٍ ؟ فَقَالَ الْخُزَاعِیُّ : لَقَدْ فَصَلَتْ بِنَصْرِ بَنِی کَعْبٍ ، ثُمَّ أَخْرَجَ إِلَیْنَا رِسَالَۃَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِلَی خُزَاعَۃَ ، وَکَتَبْتُہَا یَوْمَئِذٍ ، کَانَ فِیہَا : بِسْمِ اللہِ الرَّحْمَن الرَّحِیمِ ، مِنْ مُحَمَّدٍ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِلَی بُدَیْلٍ ، وَبُسْرٍ ، وَسَرَوَاتِ بَنِی عَمْرٍو ، فَإِنِّی أَحْمَدُ إِلَیْکُمَ اللَّہَ ، الَّذِی لاَ إِلَہَ إِلاَّ ہُوَ ، أَمَّا بَعْدَ ذَلِکُمْ : فَإِنِّی لَمْ آثَمْ بَإِلَّکُمْ ، وَلَمْ أَضَعْ فِی جَنْبِکُمْ ، وَإِنَّ أَکْرَمَ أَہْلِ تِہَامَۃَ عَلَیَّ أَنْتُمْ ، وَأَقْرَبَہُ رَحِمًا ، وَمَنْ تَبِعَکُمْ مِنَ الْمُطَیَّبِینَ ، وَإِنِّی قَدْ أَخَذْتُ لِمَنْ ہَاجَرَ مِنْکُمْ مِثْلَ مَا أَخَذْتُ لِنَفْسِی ، وَلَوْ ہَاجَرَ بِأَرْضِہِ غَیْرَ سَاکِنِ مَکَّۃَ ، إِلاَّ مُعْتَمِرًا ، أَوْ حَاجًّا ، وَإِنِّی لَمْ أَضَعْ فِیکُمْ إِنْ سَلِمْتُمْ ، وَإِنَّکُمْ غَیْرُ خَائِفِینَ مِنْ قِبَلِی ، وَلاَ مُحْصَرِینَ۔ أَمَّا بَعْدُ ، فَإِنَّہُ قَدْ أَسْلَمَ عَلْقَمَۃُ بْنُ عُلاَثَۃَ ، وَابْنُ ہَوْذَۃَ ، وَبَایَعَا وَہَاجَرَا عَلَی مَنِ اتَّبَعَہُمَا مِنْ عِکْرِمَۃَ ، وَأَخَذَ لِمَنْ تَبِعَہُ مِثْلَ مَا أَخَذَ لِنَفْسِہِ ، وَإِنَّ بَعْضُنَا مِنْ بَعْضٍ فِی الْحَلاَلِ وَالْحَرَامِ ، وَإِنِّی وَاللہِ مَا کَذَبْتُکُمْ ، وَلِیُحْیِّکُمْ رَبُّکُمْ۔ قَالَ : وَبَلَغَنِی عَنِ الزُّہْرِیِّ ، قَالَ : ہَؤُلاَئِ خُزَاعَۃُ ، وَہُمْ مِنْ أَہْلِی ، قَالَ : فَکَتَبَ إِلَیْہِمُ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَہُمْ یَوْمَئِذٍ نُزُولٌ بَیْنَ عَرَفَاتٍ وَمَکَّۃَ ، وَلَمْ یُسْلِمُوا حَیْثُ کَتَبَ إِلَیْہِمْ ، وَقَدْ کَانُوا حُلَفَائَ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔
(٣٨٠٥٨) حضرت زکریا بن ابی زائدہ سے روایت ہے کہ میں ابو اسحاق کے ساتھ مکہ اور مدینہ کے درمیان تھا ۔ تو بنو خزاعہ کا ایک آدمی ہمارے پاس آیا۔ ابو اسحاق نے اس سے کہا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ بات کیسے فرمائی تھی ۔ کہ تحقیق یہ بدلی بنی کعب کی مدد کے لیے کڑک رہی ہے ؟ تو اس خزاعی آدمی نے جواب دیا۔ تحقیق اس بدلی نے فیصلہ کردیا تھا بنو کعب کی مدد کا۔ پھر اس خزاعی نے ہمیں ایک خط نکال کر دکھایا جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے خزاعہ کی طرف تھا۔ اور میں نے اس خط کو اسی دن لکھا۔ اس میں لکھا تھا۔ ” اللہ کے نام سے شروع کرتا ہوں جو بڑا مہربان اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔ یہ خط محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے بدیل، بسر اور سرواتِ بنی عمرو کی طرف ہے۔ پس بیشک میں تمہارے سامنے اس خدا کی تعریف کرتا ہوں جس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔ بہرحال اس کے بعد، میں نے تمہارا عہد نہیں توڑا اور نہ ہی میں نے تمہاری زمین کو مباح کیا ہے۔ اور اہل تہامہ میں سے میرے ہاں سب سے زیادہ تم لوگ معزز ہو۔ اور سب سے زیادہ قریبی رشتہ دار ہو۔ اور (اسی طرح) وہ لوگ جنہوں نے تمہاری اتباع کی ہے (یعنی بنو ہاشم، بنو زہرہ وغیرہ) ۔ اور میں نے تم میں سے ہجرت کرنے والوں کے لیے بھی وہی پیمان باندھا ہے جو میں نے اپنے لیے باندھا ہے۔ اور اگر (تم میں سے) کوئی اپنی زمین سے (اسی طرح) ہجرت کرے کہ وہاں سکونت نہ رکھے مگر حج اور عمرہ کے لئے۔ اگر تم سلامتی قبول کرلو تو میں تمہارے بارے میں کوئی حکم نہیں دوں گا۔ اور تم لوگ میری طرف سے نہ خائف ہو اور نہ محصور۔
٢۔ اما بعد ! پس بلاشبہ علقمہ بن علاثہ اور ابن ہوزہ نے اسلام قبول کرلیا اور انھوں نے اپنے تابع ۔۔۔ عکرمہ۔۔۔ کے ہمراہ ہجرت کی ہے۔ اور ان کے لیے بھی اس نے وہی کچھ پیمان باندھا ہے جو اس نے اپنے لیے باندھا ہے۔ اور ہم میں سے بعض، بعض کے حکم میں ہے حلال اور حرام ہونے کے اعتبار سے۔ اور بخدا میں نے تمہیں نہیں جھٹلایا اور پس تمہارا پروردگار تمہیں حیات دے۔
٣۔ راوی بیان کرتے ہیں : مجھے زہری سے یہ بات پہنچی کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ یہ لوگ خزاعہ کے ہیں۔ اور یہ میرے اہل میں سے ہیں۔ راوی کہتے ہیں۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی طرف خط تحریر فرمایا۔ یہ لوگ اس وقت عرفات اور مکہ کے درمیان پڑاؤ کئے ہوئے تھے۔ اور یہ لوگ جناب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حلیف تھے۔

38058

(۳۸۰۵۹) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : حدَّثَنَا حُسَیْنُ الْمُعَلِّمُ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ جَدِّہِ ؛ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ یَوْمَ فَتْحِ مَکَّۃَ : کُفُّوا السِّلاَحَ ، إِلاَّ خُزَاعَۃَ عَنْ بَنِی بَکْرٍ ، فَأَذِنَ لَہُمْ حَتَّی صَلَّوْا الْعَصْرَ ، ثُمَّ قَالَ لَہُمْ : کُفُّوا السِّلاَحَ ، فَلَقِیَ مِنَ الْغَدِ رَجُلٌ مِنْ خُزَاعَۃَ رَجُلاً مِنْ بَنِی بَکْرٍ فَقَتَلَہُ بِالْمُزْدَلِفَۃِ ، فَبَلَغَ ذَلِکَ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَامَ خَطِیبًا ، فَقَالَ : إِنَّ أَعْدَی النَّاسِ عَلَی اللہِ مَنْ قَتَلَ فِی الْحَرَمِ ، وَمَنْ قَتَلَ غَیْرَ قَاتِلِہِ ، وَمَنْ قَتَلَ بِذُحُولِ الْجَاہِلِیَّۃِ۔ (احمد ۲۰۷)
(٣٨٠٥٩) حضرت عمرو بن شعیب اپنے والد سے اپنے دادا کی روایت نقل کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فتح مکہ والے دن ارشاد فرمایا۔ سوائے خزاعہ کے بنو بکر سے (بقیہ لوگ) اسلحہ روک لو۔ اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خزاعہ کو اجازت دی یہاں تک کہ انھوں نے نماز عصر پڑھ لی پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انھیں حکم دیا۔ تم (بھی) اسلحہ روک لو۔ اس کے بعد اگلے دن بنو خزاعہ کا ایک آدمی بنو بکر کے ایک آدمی سے ملا تو اس نے بنو بکر کے آدمی کو مزدلفہ میں قتل کردیا۔ یہ بات رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پہنچی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خطبہ کے لیے کھڑے ہوئے اور ارشاد فرمایا : اللہ کے ساتھ لوگوں میں سب سے زیادہ دشمنی کرنے والا شخص وہ ہے جو (کسی کو) حرم میں قتل کرے اور (وہ) جو اپنے قاتل کے علاوہ (کسی کو) قتل کر ڈالے اور (وہ) جو جاہلیت کے انتقام میں قتل کرے۔

38059

(۳۸۰۶۰) حَدَّثَنَا شَبَابَۃُ بْنُ سَوَّارٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا الْمُغِیرَۃُ بْنُ مُسْلِمٍ ، عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ ، عَنْ جَابِرٍ ، قَالَ : دَخَلْنَا مَعَ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَکَّۃَ ، وَفِی الْبَیْتِ وَحَوْلَ الْبَیْتِ ثَلاَثُ مِئَۃٍ وَسِتُّونَ صَنَمًا ، تُعْبَدُ مِنْ دُونِ اللہِ ، قَالَ : فَأَمَرَ بِہَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَکُبَّتْ کُلُّہَا لِوُجُوہِہَا ، ثُمَّ قَالَ : {جَائَ الْحَقُّ وَزَہَقَ الْبَاطِلُ ، إِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَہُوقًا} ثُمَّ دَخَلَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْبَیْتَ ، فَصَلَّی فِیہِ رَکْعَتَیْنِ ، فَرَأَی فِیہِ تِمْثَالَ إِبْرَاہِیمَ وَإِسْمَاعِیلَ وَإِسْحَاقَ ، وَقَدْ جَعَلُوا فِی یَدِ إِبْرَاہِیمَ الأَزْلاَمَ یَسْتَقْسِمُ بِہَا ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : قَاتَلَہُمَ اللَّہُ ، مَا کَانَ إِبْرَاہِیمُ یَسْتَقْسِمُ بِالأَزْلاَمِ ، ثُمَّ دَعَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِزَعْفَرَانٍ ، فَلَطَّخَہُ بِتِلْکَ التَّمَاثِیلِ۔
(٣٨٠٦٠) حضرت جابر سے روایت ہے کہ ہم جناب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہمراہ مکہ میں داخل ہوئے اور بیت اللہ میں (بھی) داخل ہوئے اور بیت اللہ کے گرد تین سو ساٹھ بت ایسے موجود تھے جن کی خدا کے سوا عبادت کی جاتی تھی ۔۔۔ راوی بیان کرتے ہیں : پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان بتوں کے بارے میں حکم فرمایا تو تمام بتوں کو اوندھے منہ گرا دیا گیا۔ پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : حق آن پہنچا اور باطل مٹ گیا اور یقیناً باطل ایسی ہی چیز ہے جو مٹنے والی ہے۔ پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیت اللہ کے اندر داخل ہوئے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بیت اللہ میں دو رکعات نماز ادا فرمائی۔ اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بیت اللہ میں حضرت ابراہیم اور اسماعیل اور اسحاق کی ( طرف منسوب) تصویریں دیکھیں اس حال میں کہ ان کے ہاتھوں میں مشرکین نے تیروں (کی تصویر) بنائی ہوئی تھی جن کے ذریعہ سے قسمت آزمائی کی جاتی تھی۔ تو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے (یہ منظر دیکھ کر) ارشاد فرمایا : اللہ تعالیٰ ان (مشرکین) کو ہلاک کرے ، ابراہیم تو تیروں سے قسمت آزمائی نہیں کرتے تھے۔ پھر جناب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے زعفران منگوایا اور اس کے ذریعہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان تصاویر کو مسخ فرما دیا۔

38060

(۳۸۰۶۱) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنِ ابْنِ أَبِی نَجِیحٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، عَنْ أَبِی مَعْمَرٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : دَخَلَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَکَّۃَ ، وَحَوْلَ الْکَعْبَۃِ ثَلاَثُ مِئَۃٍ وَسِتُّونَ صَنَمًا ، فَجَعَلَ یَطْعَنُہَا بِعُودٍ کَانَ فِی یَدِہِ ، وَیَقُولُ : {جَائَ الْحَقُّ وَزَہَقَ الْبَاطِلُ ، إِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَہُوقًا} {جَائَ الْحَقُّ ، وَمَا یُبْدِئُ الْبَاطِلُ وَمَا یُعِیدُ}۔ (بخاری ۲۴۷۸۔ مسلم ۱۴۰۸)
(٣٨٠٦١) حضرت عبداللہ سے روایت ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ میں داخل ہوئے تو بیت اللہ کے گرد تین سو ساٹھ بت موجود تھے۔ پس آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو اس لکڑی سے مارنا شروع فرمایا جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاتھ میں تھی اور فرمایا۔ ” حق آن پہنچا اور باطل مٹ گیا اور یقیناً باطل ایسی ہی چیز ہے جو مٹنے والی ہے “۔ ” حق آچکا ہے اور باطل میں نہ کچھ شروع کرنے کا دم ہے اور نہ دوبارہ کرنے کا۔

38061

(۳۸۰۶۲) حَدَّثَنَا شَبَابَۃُ بْنُ سَوَّارٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا نُعَیْمُ بْنُ حَکِیمٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِی أَبُو مَرْیَمَ ، عْن عَلِیٍّ ، قَالَ : انْطَلَقَ بِی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حَتَّی أَتَی بِی الْکَعْبَۃَ ، فَقَالَ : اجْلِسْ ، فَجَلَسْتُ إِلَی جَنْبِ الْکَعْبَۃِ ، وَصَعِدَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَی مَنْکِبَیْ ، ثُمَّ قَالَ لِی : انْہَضْ بِی ، فَنَہَضْتُ بِہِ ، فَلَمَّا رَأَی ضَعْفِی تَحْتَہُ ، قَالَ : اجْلِسْ ، فَجَلَسْتُ فَنَزَلَ عَنِّی ، وَجَلَسَ لِی ، فَقَالَ : یَا عَلِیُّ ، اصْعَدْ عَلَی مَنْکِبَی ، فَصَعِدْتُ عَلَی مَنْکِبِہِ ، ثُمَّ نَہَضَ بِی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَلَمَّا نَہَضَ بِی خُیِّلَ إِلَیَّ أَنِّی لَوْ شِئْتُ نِلْتُ أُفُقَ السَّمَائِ ، فَصَعِدْتُ عَلَی الْکَعْبَۃِ ، وَتَنَحَّی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ لِی : أَلْقِ صَنَمَہُمْ الأَکْبَرِ ، صَنَمِ قُرَیْشٍ ، وَکَانَ مِنْ نُحَاسٍ ، وَکَانَ مَوْتُودًا بِأَوْتَادٍ مِنْ حَدِیدٍ فِی الأَرْضِ ، فَقَالَ لِی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : عَالِجْہُ ، فَجَعَلْتُ أُعَالِجُہُ وَرَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ لِی : إِیہٍ ، فَلَمْ أَزَلْ أُعَالِجُہُ حَتَّی اسْتَمْکَنْتُ مِنْہُ ، فَقَالَ : اقْذِفْہُ ، فَقَذَفْتُہُ وَنَزَلْتُ۔ (حاکم ۳۶۶۔ احمد ۸۴)
(٣٨٠٦٢) حضرت علی سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مجھے ساتھ لے کر چلے یہاں تک کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مجھے لے کر کعبہ میں پہنچے اور پھر فرمایا۔ بیٹھ جاؤ۔ چنانچہ میں کعبہ کی ایک جانب بیٹھ گیا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرے کندھوں پر سوار ہوئے اور پھر مجھے فرمایا۔ مجھے لے کر اوپر اٹھو۔ مں ر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو لے کر اوپر اٹھا لیکن (جب) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اٹھا کر کھڑے ہونے میں کمزوری دیکھی تو پھر فرمایا۔ بیٹھ جاؤ۔ چنانچہ میں نیچے بیٹھ گیا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرے اوپر سے اتر گئے پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرے لیے بیٹھ گئے اور فرمایا۔ اے علی ! میرے کندھوں پر سوار ہو جاؤ۔ پس میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کندھوں پر سوار ہوگیا پھر جناب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مجھے لے کر اوپر کی طرف بلند ہوئے۔ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مجھے لے کر اوپر اٹھے تو مجھے یہ خیال ہوا کہ اگر میں چاہوں تو میں آسمان افق کو بھی ہاتھ میں لاسکتا ہوں پھر میں کعبہ کی چھت پر چڑھ گیا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک طرف ہٹ گئے اور مجھے ارشاد فرمایا۔ (اوپر موجود) بتوں میں سے سب سے بڑے بت کو جو کہ قریش ہے نیچے پھینک دو ۔ اور وہ بت تانبے کا تھا اور لوہے کی کیلوں کے ساتھ چھت پر گاڑھا ہوا تھا۔ تو مجھے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حکم فرمایا : اس کو ہلاؤ۔ چنانچہ میں نے اس کو ہلانا شروع کیا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مجھے فرماتے جا رہے تھے۔ اور ہلاؤ، اور ہلاؤ۔ پس میں اس کو ہلاتا رہا یہاں تک کہ وہ بت میرے قابو میں آگیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا۔ اس کو نیچے پھینک دو ۔ چنانچہ میں نے اس بت کو نیچے پھینک دیا اور پھر میں (خود بھی) نیچے اتر آیا۔

38062

(۳۸۰۶۳) حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، قَالَ: حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَیْدٍ، عَنْ أَیُّوبَ، عَنْ عِکْرِمَۃَ؛ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَدِمَ یَوْمَ الْفَتْحِ، وَصُورَۃُ إِبْرَاہِیمَ وَإِسْمَاعِیلَ فِی الْبَیْتِ، وَفِی أَیْدِیہِمَا الْقِدِاحُ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَا لإِبْرَاہِیمَ وَلِلْقِدِاحِ ؟ وَاللہِ مَا اسْتَقْسَمَ بِہَا قَطُّ ، ثُمَّ أَمَرَ بِثَوْبٍ فَبُلَّ وَمَحَی بِہِ صُوَرَہُمَا۔
(٣٨٠٦٣) حضرت عکرمہ بیان کرتے ہیں کہ جناب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فتح مکہ کے دن تشریف لائے۔ بیت اللہ میں حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل کی تصاویر تھیں۔ اور ان کے ہاتھوں میں تیر تھے۔ تو جناب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا۔ ابراہیم اور تیروں کا (آپس میں) کیا جوڑ ہے ؟ بخدا ! حضرت ابراہیم نے کبھی تیروں کے ذریعہ قسمت آزمائی نہیں کی۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کپڑا لانے کا حکم دیا اور اس کو تر کر کے ان حضرات کی تصاویر کو مٹا دیا گیا۔

38063

(۳۸۰۶۴) حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ حَرْبٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَیْدٍ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنْ أَبِی الْخَلِیلِ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ؛ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَدِمَ یَوْمَ الْفَتْحِ وَالأَنْصَابُ بَیْنَ الرُّکْنِ وَالْمَقَامِ ، فَجَعَلَ یُکَفؤہَا لِوُجُوہِہَا ، ثُمَّ قَامَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خَطِیبًا ، فَقَالَ : أَلاَ إِنَّ مَکَّۃَ حَرَامٌ أَبَدًا إِلَی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ ، لَمْ تَحِلَّ لأَحَدٍ قَبْلِی ، وَلاَ تَحِلُّ لأَحَدٍ بَعْدِی ، غَیْرَ أَنَّہَا أُحِلَّتْ لِی سَاعَۃً مِنَ النَّہَارِ ، لاَ یُخْتَلَی خَلاَہَا ، وَلاَ یُنَفَّرُ صَیْدُہَا ، وَلاَ یُعْضَدُ شَجَرُہَا ، وَلاَ تُلْتَقَطُ لُقَطَتُہَا إِلاَّ أَنْ تُعَرَّفَ ، فَقَامَ الْعَبَّاسُ ، فَقَالَ : یَا رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، إِلاَّ الإِذْخِرَ ، لِصَاعَتِنَا وَبُیُوتِنَا وَقُبُورِنَا ، فَقَالَ : إِلاَّ الإِذْخِرَ ، إِلاَّ الإِذْخِرَ۔ (بخاری ۴۳۱۳)
(٣٨٠٦٤) حضرت مجاہد بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فتح مکہ کے دن تشریف لائے تو رکن اور مقام کے درمیان بت پڑے ہوئے تھے۔ پس آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان بتوں کو اوندھے منہ گرا دیا۔ اور پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے تو ارشاد فرمایا۔ ” خبردار ! مکہ قیامت کے دن تک ہمیشہ کے لیے حرم (محترم) ہے۔ مجھ سے پہلے بھی یہ خطہ کسی کے لیے حلال نہیں ہوا تھا۔ اور نہ ہی میرے بعد یہ خطہ کسی کے لیے حلال ہوگا۔ ہاں اتنی بات ہے کہ میرے لیے اس مقام کو دن کے کچھ حصہ کے لیے حلال کردیا گیا ہے۔ اس علاقہ (مکہ) کی گھاس کو نہیں کاٹا جائے گا اور اس کے شکار کو بدکایا نہیں جائے گا اور نہ ہی اس کے درختوں کو کاٹا جائے گا۔ اور نہ ہی اس میں گری پڑی چیز کو اٹھایا جائے گا اِلَّا یہ کہ اس لقطہ کی تعریف کرنے کا ارادہ ہو۔ ” (یہ بات سن کر) حضرت عباس کھڑے ہوئے اور عرض کیا۔ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! اذخر (گھاس کی قسم) کو مستثنیٰ کر دیجئے ہمارے لوہاروں، گھروں اور قبروں میں استعمال کے لیے ۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جواب میں ارشاد فرمایا۔ ہاں اذخر مستثنیٰ ہے۔ ہاں اذخر مستثنیٰ ہے۔

38064

(۳۸۰۶۵) حَدَّثَنَا شَبَابَۃُ بْنُ سَوَّارٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا ابْنُ أَبِی ذِئْبٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مِہْرَانَ ، عَنْ عُمَیْرٍ مَوْلَی ابْنِ عَبَّاسٍ ، عَنْ أُسَامَۃَ بْنِ زَیْدٍ ، قَالَ : دَخَلْت مَعَ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْکَعْبَۃَ ، فَرَأَی فِی الْبَیْتِ صُورَۃً ، فَأَمَرَنِی فَأَتَیْتُہُ بِدَلْوٍ مِنْ مَائٍ ، فَجَعَلَ یَضْرِبُ تِلْکَ الصُّورَۃَ وَیَقُولُ : قَاتَلَ اللَّہُ قَوْمًا یُصَوِّرُونَ مَا لاَ یَخْلُقُونَ۔
(٣٨٠٦٥) حضرت اسامہ بن زید سے روایت ہے کہ میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہمراہ بیت اللہ میں داخل ہوا ۔ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بیت اللہ میں تصویریں دیکھیں۔ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے حکم فرمایا اور میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ایک ڈول پانی لے کر حاضر ہوا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان تصویروں پر پانی مارنا شروع فرمایا۔ اور ارشاد فرمایا۔ اللہ پاک اس قوم کو ہلاک فرمائے جو ان چیزوں کی تصویر بناتی ہے جس کو وہ پیدا نہیں کرتی۔

38065

(۳۸۰۶۶) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، وَوَکِیعٌ ، عَنْ زَکَرِیَّا ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنِ الْحَارِثِ بْنِ مَالِکِ بْنِ بَرْصَائَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَوْمَ فَتْحِ مَکَّۃَ : لاَ تُغْزَی بَعْدَ الْیَوْمِ إِلَی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ۔ (احمد ۴۱۲۔ طبرانی ۳۳۳۵)
(٣٨٠٦٦) حضرت حارث بن مالک بن برصاء سے روایت ہے کہ جناب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فتح مکہ والے دن ارشاد فرمایا۔ آج کے بعد قیامت کے دن تک (مکہ میں) لڑائی نہیں لڑی جائے گی۔

38066

(۳۸۰۶۷) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، وَوَکِیعٌ ، عَنْ زَکَرِیَّا ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مُطِیعٍ ، عنْ أَبِیہِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لاَ یُقْتَلُ قُرَشِیٌّ صَبْرًا بَعْدَ ہَذَا الْیَوْمِ أَبَدًا۔
(٣٨٠٦٧) حضرت عبداللہ بن مطیع، اپنے والد سے روایت بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا۔ آج کے دن کے بعد ہمیشہ کے لیے (یہ حکم ہے کہ) کوئی قریشی قید کر کے قتل نہیں کیا جائے گا۔

38067

(۳۸۰۶۸) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُفَضَّلٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا أَسْبَاطُ بْنُ نَصْرٍ ، قَالَ : زَعَمَ السُّدِّیُّ ، عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : لَمَّا کَانَ یَوْمُ فَتْحِ مَکَّۃَ ، أَمَّنَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ النَّاسَ إِلاَّ أَرْبَعَۃَ نَفَرٍ وَامْرَأَتَیْنِ ، وَقَالَ : اقْتُلُوہُمْ وَإِنْ وَجَدْتُمُوہُمْ مُتَعَلِّقِینَ بِأَسْتَارِ الْکَعْبَۃِ : عِکْرِمَۃَ بْنَ أَبِی جَہْلٍ ، وَعَبْدَ اللہِ بْنَ خَطَلٍ ، وَمِقْیَسَ بْنَ صُبَابَۃَ ، وَعَبْدَ اللہِ بْنَ سَعْدِ بْنِ أَبِی سَرْحٍ۔ فَأَمَّا عَبْدُ اللہِ بْنُ خَطَلٍ فَأُدْرِکَ وَہُوَ مُتَعَلِّقٌ بِأَسْتَارِ الْکَعْبَۃِ ، فَاسْتَبَقَ إِلَیْہِ سَعِیدُ بْنُ حُرَیْثٍ وَعَمَّارٌ ، فَسَبَقَ سَعِیدٌ عَمَّارًا ، وَکَانَ أَشَبَّ الرَّجُلَیْنِ فَقَتَلَہُ ، وَأَمَّا مِقْیَسُ بْنُ صُبَابَۃَ فَأَدْرَکَہُ النَّاسُ فِی السُّوقِ فَقَتَلُوہُ۔ وَأَمَّا عِکْرِمَۃُ فَرَکِبَ الْبَحْرَ فَأَصَابَتْہُمْ عَاصِفٌ ، فَقَالَ أَصْحَابُ السَّفِینَۃِ لأَہْلِ السَّفِینَۃِ : أَخْلِصُوا ، فَإِنَّ آلِہَتَکُمْ لاَ تُغْنِی عَنْکُمْ شَیْئًا ہَاہُنَا ، فَقَالَ عِکْرِمَۃُ : وَاللہِ لَئِنْ لَمْ یُنْجِینِی فِی الْبَحْرِ إِلاَّ الإِخْلاَصُ مَا یُنْجِینِی فِی الْبَرِّ غَیْرُہُ ، اللَّہُمَّ إِنَّ لَک عَہْدًا إِنْ أَنْتَ عَافَیْتنِی مِمَّا أَنَا فِیہِ ، أَنْ آتِی مُحَمَّدًا حَتَّی أَضَعَ یَدَیْ فِی یَدِہِ ، فَلأَجِدَنَّہُ عَفُوًّا کَرِیمًا ، قَالَ : فَجَائَ فَأَسْلَمَ۔ وَأَمَّا عَبْدُ اللہِ بْنُ سَعْدِ بْنِ أَبِی سَرْحٍ فَإِنَّہُ اخْتَبَأَ عَنْدَ عُثْمَانَ ، فَلَمَّا دَعَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ النَّاسَ لِلْبَیْعَۃِ ، جَائَ بِہِ حَتَّی أَوْقَفَہُ عَلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : یَا رَسُولَ اللہِ ، بَایِعْ عَبْدَ اللہِ ، قَالَ : فَرَفَعَ رَأْسَہُ فَنَظَرَ إِلَیْہِ ثَلاَثًا ، کُلُّ ذَلِکَ یَأْبَی فَبَایَعَہُ بَعْدَ الثَّلاَثِ ، ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَی أَصْحَابِہِ ، فَقَالَ : أَمَا کَانَ فِیکُمْ رَجُلٌ رَشِیدٌ یَقُومُ إِلَی ہَذَا حَیْثُ رَآنِی کَفَفْت یَدِی عَنْ بَیْعَتِہِ فَیَقْتُلُہُ ؟ قَالَوا : وَمَا یُدْرِینَا یَا رَسُولَ اللہِ مَا فِی نَفْسِکَ ، أَلاَ أَوْمَأْت إِلَیْنَا بِعَیْنِکَ ؟ قَالَ : إِنَّہُ لاَ یَنْبَغِی لِنَبِیٍّ أَنْ تَکُونَ لَہُ خَائِنَۃُ أَعْیُنٍ۔ (حاکم ۵۴۔ ابویعلی ۷۵۳)
(٣٨٠٦٨) حضرت مصعب بن سعد، اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ جب فتح مکہ کا دن تھا تو جناب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تمام لوگوں کو امن دے دیا سوائے چار مرد اور دو عورتوں کے ، اور ارشاد فرمایا : تم لوگ ان کو اگرچہ کعبہ کے پردوں میں بھی لپٹا ہوا پاؤ ان کو تب بھی قتل کر ڈالو۔ (وہ یہ لوگ تھے) عکرمہ بن ابی جہل، عبداللہ بن خطل، مقیس بن صبابہ، عبداللہ بن ابی سرح، پھر عبداللہ بن خطل کو تو اس حالت میں پایا گیا کہ وہ (واقعۃً ) کعبہ کے پردوں میں لپٹا ہوا تھا۔ تو اس کی طرف حضرت سعید بن حریث اور عمار (دونوں) لپکے لیکن حضرت سعید، حضرت عمار سے آگے بڑھ گئے اور یہ سعید، عمار سے زیادہ جوان تھے۔ اور انھوں نے ابن خطل کو قتل کردیا۔ اور مقیس بن صبابہ کو لوگوں نے بازار میں پا لیا اور اس کو (وہیں) قتل کردیا اور رہا عکرمہ، تو سمندر میں (کشتی پر) سوار ہوا تو ان (کشتی والوں) کو تیز آندھی نے آلیا۔ چنانچہ کشتی والوں نے سواروں سے کہنا شروع کیا۔ (خدا کو) خالص طریقہ سے پکارو، کیونکہ تمہارے معبودان (باطلہ) یہاں پر تمہیں کسی شئی کا فائدہ نہیں دیں گے۔ عکرمہ نے (دل میں) کہا۔ بخدا ! اگر مجھے اس سمندر میں خالص طریقہ پر (خدا کو) پکارنا ہی نجات دے سکتا ہے تو پھر خشکی پر بھی یہی نجات دے سکتا ہے۔ اے اللہ ! میرا تیرے ساتھ عہد ہے کہ اگر آپ مجھے اس موجودہ مصیبت سے عافیت عطا کریں گے تو میں حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوں گا اور اپنا ہاتھ ان کے ہاتھ میں رکھ دوں گا میں ضرور بالضرور ان کو معاف کرنے والا اور کرم کرنے والا پاؤں گا۔ راوی کہتے ہیں : پس یہ جناب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اسلام قبول کرلیا۔
اور عبداللہ بن سعد بن ابی سرح کا معاملہ یہ ہوا کہ وہ حضرت عثمان کے ہاں (جا کر) چھپ گیا پھر جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں کو بیعت کے لیے بلایا تو حضرت عثمان ، ان کو لے کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انھیں آنجناب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں کھڑا کردیا اور عرض کیا۔ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! عبداللہ سے بیعت لے لیجئے۔ راوی کہتے ہیں : آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنا سر مبارک اوپر اٹھایا اور ان کی طرف تین مرتبہ دیکھا۔ ہر مرتبہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انکار فرمایا۔ پھر تین مرتبہ کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو بیعت فرما لیا۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے صحابہ کی طرف متوجہ ہوئے اور ارشاد فرمایا ۔ کیا تم میں سے کوئی سمجھ دار آدمی موجود نہیں تھا جو اس کو (مارنے) کھڑا ہوجاتا جبکہ اس نے مجھے دیکھا تھا کہ میں نے اپنا ہاتھ اس کی بیعت لینے سے روکا ہو اتھا۔ اور اس کو قتل کردیتا ۔ صحابہ نے عرض کیا، یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ہمیں کیا علم تھا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دل میں کیا ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں اپنی آنکھ کے ساتھ اشارہ کیوں نہیں کردیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا۔ کسی نبی کے لیے یہ بات مناسب نہیں کہ اس کی آنکھ خیانت کرنے والی ہو۔

38068

(۳۸۰۶۹) حَدَّثَنَا شَبَابَۃُ ، قَالَ : مَالِکُ بْنُ أَنَسٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ : دَخَلَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَکَّۃَ عَامَ الْفَتْحِ وَعَلَی رَأْسِہِ مِغْفَرٌ ، فَلَمَّا أَنْ دَخَلَ نَزَعَہُ ، فَقِیلَ لَہُ : یَا رَسُولَ اللہِ ، ہَذَا ابْنُ خَطَلٍ مُتَعَلِّقٌ بِأَسْتَارِ الْکَعْبَۃِ ، فَقَالَ : اُقْتُلُوہُ۔
(٣٨٠٦٩) حضرت انس سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فتح مکہ کے سال مکہ میں داخل ہوئے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سر مبارک پر خود تھا۔ پھر جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) داخل ہوگئے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی خود اتار دی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا گیا۔ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! یہ ہے ابن خطل، کعبہ کے پردوں سے چمٹا ہوا ! آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اس کو مار ڈالو۔

38069

(۳۸۰۷۰) حَدَّثَنَا مُعْتَمِرُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ سُلَیْمَانَ التَّیْمِیِّ ، عَنْ أَبِی عُثْمَانَ ؛ أَنَّ أَبَا بَرْزَۃَ قَتَلَ ابْنَ خَطَلٍ وَہُوَ مُتَعَلِّقٌ بِأَسْتَارِ الْکَعْبَۃِ۔
(٣٨٠٧٠) حضرت ابو عثمان سے روایت ہے کہ حضرت ابو برزہ نے ابن خطل کو اس حالت میں قتل کیا کہ وہ کعبہ کے پردوں کے ساتھ چمٹا ہوا تھا۔

38070

(۳۸۰۷۱) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَنْ ثَابِتٍ ، عَنْ أَنَسٍ ؛ أَنَّ ثَمَانِینَ مِنْ أَہْلِ مَکَّۃَ ہَبَطُوا عَلَی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ جَبَلِ التَّنْعِیمِ عِنْدَ صَلاَۃِ الْفَجْرِ ، فَأَخَذَہُمْ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سِلْمًا ، فَعَفَا عَنْہُمْ ، وَنَزَلَ الْقُرْآنُ : {وَہُوَ الَّذِی کَفَّ أَیْدِیَہُمْ عَنْکُمْ وَأَیْدِیَکُمْ عَنْہُمْ بِبَطْنِ مَکَّۃَ مِنْ بَعْدِ أَنْ أَظْفَرَکُمْ عَلَیْہِمْ}۔ (مسلم ۱۴۴۲۔ ابوداؤد ۲۶۸۱)
(٣٨٠٧١) حضرت انس سے روایت ہے کہ اہل مکہ میں سے اسی (٨٠) افراد، جبل تنعیم سے جناب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر (حملہ کے لئے) اُترے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو صحیح وسالم پکڑ لیا پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انھیں معاف فرما دیا۔ اور یہ آیت نازل ہوئی ۔ (ترجمہ) اور وہی اللہ ہے جس نے مکہ کی وادی میں ان کے ہاتھوں کو تم تک پہنچنے سے اور تمہارے ہاتھوں کو ان تک پہنچنے سے روک دیا۔ جبکہ وہ تمہیں ان پر قابو دے چکا تھا۔

38071

(۳۸۰۷۲) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنِ ابْنِ أَبِی نَجِیحٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، قَالَ : قالَتْ أُمُّ ہَانِئٍ : قَدِمَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَکَّۃَ وَلَہُ أَرْبَعُ غَدَائِرَ ، تَعَنِی ضَفَائِرَ۔
(٣٨٠٧٢) حضرت مجاہد روایت کرتے ہیں کہ ام ہانی بیان کرتی ہیں کہ جناب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ میں تشریف لائے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سر مبارک پر چار چوٹیاں تھیں۔

38072

(۳۸۰۷۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ ، عَنْ جَابِرٍ ؛ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ دَخَلَ مَکَّۃَ وَعَلَیْہِ عِمَامَۃٌ سَوْدَائُ۔
(٣٨٠٧٣) حضرت جابر سے روایت ہے کہ جناب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ میں اس حالت میں اندر داخل ہوئے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر سیاہ عمامہ تھا۔

38073

(۳۸۰۷۴) حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ بْنُ مُوسَی ، قَالَ : أَخْبَرَنَا مُوسَی بْنُ عُبَیْدَۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ دِینَارٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ (ح) وَعَنْ أَخِیہِ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُبَیْدَۃَ ؛ أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ دَخَلَ مَکَّۃَ حِینَ دَخَلَہَا وَہُوَ مُعْتَجِرٌ بِشُقَّۃِ بُرْدٍ أَسْوَدَ ، فَطَافَ عَلَی رَاحِلَتِہِ الْقَصْوَائِ ، وَفِی یَدِہِ مِحْجَنٌ یَسْتَلِمُ بِہِ الأَرْکَانَ ، قَالَ : قَالَ ابْنُ عُمَرَ: فَمَا وَجَدْنَا لَہَا مُنَاخًا فِی الْمَسْجِدِ ، حَتَّی نَزَلَ عَلَی أَیْدِی الرِّجَالِ ، ثُمَّ خُرِجَ بِہَا حَتَّی أُنِیخَتْ فِی الْوَادِی، ثُمَّ خَطَبَ النَّاسَ عَلَی رِجْلَیْہِ ، فَحَمِدَ اللَّہَ وَأَثْنَی عَلَیْہِ بِمَا ہُوَ لَہُ أَہْلٌ ، ثُمَّ قَالَ : أَیُّہَا النَّاسُ ، إِنَّ اللَّہَ قَدْ وَضَعَ عَنْکُمْ عُِبِّیَّۃَ الْجَاہِلِیَّۃِ وَتَعَظَّمَہَا بِآبَائِہَا ، النَّاسُ رَجُلاَنِ : فَبَرٌّ تَقِیٌّ کَرِیمٌ عَلَی اللہِ ، وَکَافِرٌ شَقِیٌّ ہَیِّنٌ عَلَی اللہِ ، أَیُّہَا النَّاسُ ، إِنَّ اللَّہَ یَقُولُ : {یَا أَیُّہَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاکُمْ مِنْ ذَکَرٍ وَأُنْثَی ، وَجَعَلْنَاکُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا ، إِنَّ أَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللہِ أَتْقَاکُمْ ، إِنَّ اللَّہَ عَلِیمٌ خَبِیرٌ} أَقُولُ ہَذَا وَأَسْتَغْفِرُ اللَّہَ لِی وَلَکُمْ۔ قَالَ : ثُمَّ عَدَلَ إِلَی جَانِبِ الْمَسْجِدِ ، فَأُتِیَ بِدَلْوٍ مِنْ مَائِ زَمْزَمَ ، فَغَسَلَ مِنْہَا وَجْہَہُ ، مَا تَقَعُ مِنْہُ قَطْرَۃٌ إِلاَّ فِی یَدِ إِنْسَانٍ ، إِنْ کَانَتْ قَدْرَ مَا یَحْسُوہَا حَسَاہَا ، وَإِلاَّ مَسَحَ بِہَا ، وَالْمُشْرِکُونَ یَنْظُرُونَ ، فَقَالُوا : مَا رَأَیْنَا مَلِکًا قَطَّ أَعْظَمَ مِنَ الْیَوْمِ ، وَلاَ قَوْمًا أَحْمَقَ مِنَ الْیَوْمِ۔ ثُمَّ أَمَرَ بِلاَلاً ، فَرَقَیَ عَلَی ظَہْرِ الْکَعْبَۃِ ، فَأَذَّنَ بِالصَّلاَۃِ ، وَقَامَ الْمُسْلِمُونَ فَتَجَرَّدُوا فِی الأُزُرِ ، وَأَخَذُوا الدِّلاَئَ، وَارْتَجَزُوا عَلَی زَمْزَمَ یَغْسِلُونَ الْکَعْبَۃَ ، ظَہْرَہَا وَبَطْنَہَا ، فَلَمْ یَدَعُوا أَثَرًا مِنَ الْمُشْرِکِینَ إِلاَّ مَحَوْہُ، أَوْ غَسَلُوہُ۔ (ترمذی ۳۲۷۰)
(٣٨٠٧٤) حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ میں داخل ہوئے اور جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ میں داخل ہوئے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سیاہ رنگ کی چادر کی پگڑی کے شملہ کو اپنے چہرے پر ڈالے ہوئے تھے ۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی قصواء اونٹنی پر بیت اللہ کا طواف کیا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاتھ میں ایک خمدار سوٹی تھی جس کے ذریعہ سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ارکان کا استلام کر رہے تھے۔ راوی کہتے ہیں : حضرت ابن عمر نے فرمایا : کہ ہم نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اونٹنی کے لیے مسجد میں بٹھانے کی جگہ نہ پائی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگوں کے ہاتھوں پر نیچے تشریف فرما ہوئے۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اونٹنی کو باہر نکالا گیا اور اس کو وادی میں بٹھایا گیا پھر جناب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے پاؤں پر کھڑے ہو کر خطبہ ارشاد فرمایا۔ پس آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ کی تعریف کی اور ایسی ثنا بیان کی جس کے آپ اہل تھے اور فرمایا :
٢۔ اے لوگو ! تحقیق اللہ تعالیٰ نے تم سے جاہلیت کا غرور و نخوت ختم کردیا ہے اور جاہلیت کے زمانہ پر اپنے آباء کے ذریعہ اظہار عظمت کو بھی ختم کردیا ہے۔ (اب) لوگ دو قسم پر ہیں۔ نیک اور متقی آدمی اللہ تعالیٰ کے قابل عزت و تکریم ہے اور کافر، بدبخت اللہ تعالیٰ پر ہلکا اور بےوزن ہے۔ اے لوگو ! بلاشبہ خدا تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ (ترجمہ) اے لوگو ! حقیقت یہ ہے کہ ہم نے تم سب کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا ہے۔ اور تمہیں مختلف قوموں اور خاندانوں میں اس لیے تقسیم کیا ہے تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ درحقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سے سب سے عزت والا وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ متقی ہو ۔ یقین رکھو کہ اللہ سب کچھ جاننے والا ہے ہر چیز سے باخبر ہے۔ میں یہ بات کہتا ہوں اور اپنے اور تمہارے لیے اللہ تعالیٰ سے مغفرت کا طالب ہوں۔
٣۔ راوی کہتے ہیں۔ پھر جناب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مسجد کے ایک طرف چل دئیے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس زمزم کے پانی کا ایک ڈول لایا گیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے اپنا چہرہ مبارک دھویا۔ اس کے دھو ون میں سے ہر ایک قطرہ بھی انسانی ہاتھ ہی میں گرا۔ پھر اگر وہ قطرہ اتنا ہوتا جس کو پیا جاسکتا تھا تو وہ آدمی اس کو پی لیتا وگرنہ اس کو اپنے اوپر مَل لیتا ۔ مشرکین مکہ (یہ منظر) دیکھ رہے تھے ۔ تو وہ کہنے لگے ۔ ہم نے (جو بادشاہت) آج دیکھی ہے اس سے بڑی بادشاہی کبھی نہیں دیکھی اور نہ ہی ایسی قوم دیکھی ہے جو آج دیکھی ہوئی قوم سے زیادہ بیوقوف ہے۔
٤۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت بلال کو حکم فرمایا چنانچہ وہ کعبہ کی چھت پر چڑھ گئے اور انھوں نے نماز کے لیے اذان دی۔ اور مسلمان اٹھ کھڑے ہوئے اور محض ازار بند پہنے ہوئے انھوں نے ڈول پکڑ لیے اور زمزم پر شعر کہتے ہوئے پہنچ گئے اور کعبہ کو انھوں نے اندر باہر سے دھو ڈالا اور مشرکین کے کسی اثر کو کعبہ میں باقی نہیں چھوڑا بلکہ اس کو مٹا دیایا دھو دیا۔

38074

(۳۸۰۷۵) حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ بْنُ مُوسَی ، قَالَ : أَخْبَرَنَا مُوسَی بْنُ عُبَیْدَۃَ ، عَنْ یَعْقُوبَ بْنِ زَیْدِ بْنِ طَلْحَۃَ التَّیْمِیِّ ، وَمُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْکَدِرِ ، قَالاَ : وَکَانَ بِہَا یَوْمَئِذٍ سِتُّونَ وَثَلاَثُ مِئَۃ وَثَنٍ عَلَی الصَّفَا ، وَعَلَی الْمَرْوَۃِ صَنَمٌ ، وَمَا بَیْنَہُمَا مَحْفُوفٌ بِالأَوْثَانِ ، وَالْکَعْبَۃُ قَدْ أُحِیطَتْ بِالأَوْثَانِ ، قَالَ : فَقَالَ مُحَمَّدُ بْنُ الْمُنْکَدِرِ : فَقَامَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَمَعَہُ قَضِیبٌ یُشِیرُ بِہِ إِلَی الأَوْثَانِ ، فَمَا ہُوَ إِلاَّ أَنْ یُشِیرَ إِلَی شَیْئٍ مِنْہَا فَیَتَسَاقَطَ ، حَتَّی أَتَی إِسَافًا وَنَائِلَۃَ ، وَہُمَا قُدَّامَ الْمَقَامِ ، مُسْتَقْبِلٌ بَابَ الْکَعْبَۃِ ، فَقَالَ : عَفِّرُوہُمَا ، فَأَلْقَاہُمَا الْمُسْلِمُونَ ، قَالَ : قُولُوا ، قَالَوا : مَا نَقُولُ یَا رَسُولَ اللہِ ؟ قَالَ : قُولُوا : صَدَقَ اللَّہُ وَعْدَہُ ، وَنَصَرَ عَبْدَہُ ، وَہَزَمَ الأَحْزَابَ وَحْدَہُ۔
(٣٨٠٧٥) حضرت یعقوب بن زید بن طلحہ تیمی اور محمد بن منکدر روایت کرتے ہیں کہ اس دن (فتح مکہ کے دن) کعبہ میں تین سو ساٹھ بت تھے۔ صفا اور مروہ پر بھی ایک بت تھا ان کے درمیان (کی جگہ تو) بتوں سے اٹی ہوئی تھی اور کعبہ کے گرد بھی بتوں کا احاطہ تھا۔ راوی کہتے ہیں۔ محمد ابن المنکدر کہتے ہیں۔ پس رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کھڑے ہوئے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ایک لکڑی تھی جس کے ذریعہ سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بتوں کی طرف اشارہ کر رہے تھے۔ ان بتوں میں سے جس بت کی طرف بھی جناب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اشارہ فرماتے وہ بت گر جاتا۔ یہاں تک کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اساف اور نائلہ (نامی) بت کے پاس پہنچے یہ دونوں کعبہ کے سامنے مقام کے پاس تھے ۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا۔ ان دونوں کو خاک میں ملا دو ۔ چنانچہ مسلمانوں نے ان دونوں بتوں کے نیچے گرا دیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کہو، صحابہ نے پوچھا : یا رسول اللہ ! ہم کیا کہیں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : کہو : اللہ کا وعدہ سچا ثابت ہوا اور اس نے اپنے بندہ کی مدد کی اور اکیلے ہی تمام لشکروں کو شکست دے دی۔

38075

(۳۸۰۷۶) حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُوسَی ، قَالَ : حدَّثَنَا شَیْبَانُ ، عَنْ یَحْیَی ، قَالَ : أَخْبَرَنِی أَبُو سَلَمَۃَ ، أَنَّ أَبَا ہُرَیْرَۃَ أَخْبَرَہُ ؛ أَنَّ خُزَاعَۃَ قَتَلُوا رَجُلاً مِنْ بَنِی لَیْثٍ عَامَ فَتْحِ مَکَّۃَ ، بِقَتِیلٍ مِنْہُمْ قَتَلُوہُ ، فَأُخْبِرَ بِذَلِکَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَرَکِبَ رَاحِلَتَہُ فَخَطَبَ ، فَقَالَ : إِنَّ اللَّہَ حَبَسَ عَنْ مَکَّۃَ الْفِیلَ ، وَسَلَّطَ عَلَیْہَا رَسُولَہُ وَالْمُؤْمِنِینَ ، أَلاَ وَإِنَّہَا لَمْ تَحِلَّ لأَحَدٍ کَانَ قَبْلِی ، وَلاَ تَحِلُّ لأَحَدٍ کَانَ بَعْدِی ، أَلاَ وَإِنَّہَا أُحِلَّتْ لِی سَاعَۃً مِنَ النَّہَارِ ، أَلاَ وَإِنَّہَا سَاعَتِی ہَذِہِ ، حَرَامٌ ، لاَ یُخْتَلَی شَوْکُہَا ، وَلاَ یُعْضَدُ شَجَرُہَا ، وَلاَ یَلْتَقِطُ سَاقِطَتَہَا إِلاَّ مُنْشِد ، وَمَنْ قُتِلَ لَہُ قَتِیلٌ فَہُوَ بِخَیْرِ النَّظَرَیْنِ : إِمَّا أَنْ یَقْتُلَ ، وَإِمَّا أَنْ یُفَادِیَ أَہْلَ الْقَتِیلِ۔ قَالَ : فَجَائَ رَجُلٌ یُقَالُ لَہُ : أَبُو شَاہٍ ، فَقَالَ : اُکْتُبْ لِی یَا رَسُولَ اللہِ ، قَالَ : اُکْتُبُوا لأَبِی شَاہٍ ، فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ قُرَیْشٍ : إِلاَّ الإِذْخِرَ یَا رَسُولَ اللہِ ، فَإِنَّا نَجْعَلُہُ فِی بُیُوتِنَا وَقُبُورِنَا ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إِلاَّ الإِذْخِرَ۔
(٣٨٠٧٦) حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ بنو خزاعہ نے فتح مکہ کے سال بنو لیث کے ایک آدمی کو اپنے اس مقتول کے بدلے میں قتل کیا جس کو بنو لیث نے (کبھی) قتل کیا تھا۔ اس بات کی خبر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دی گئی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی سواری پر سوار ہوئے اور خطبہ ارشاد فرمایا۔ اور فرمایا : بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے مکہ کو ہاتھیوں والوں سے محفوظ رکھا اور مکہ پر اپنے رسول اور اہل ایمان کو (لڑائی کے لئے) مسلط فرمایا۔ خبردار ! یہ مکہ مجھ سے پہلے کسی کے لیے بھی حلال نہیں کیا گیا تھا اور نہ ہی میرے بعد کسی کے لیے حلال ہوگا۔ خبردار ! میرے لیے بھی یہ مکہ دن کی ایک گھڑی (ہی) کے لیے حلال کیا گیا تھا خبردار ! میری اس گھڑی میں مکہ حرام ہے۔ اس کا کانٹا بھی نہیں کاٹا جائے گا اور اس کے درخت کو بھی نہیں کاٹا جائے گا اور اس کی گری پڑی چیز کو نہیں اٹھائے گا مگر تعریف کرنے والا۔ اور جس کا کوئی قتل کیا گیا ہو تو اس کو دو چیزوں میں اختیار ہے۔ یا تو وہ بھی قتل ہو اور یا اہل مقتول کو فدیہ دے دے۔ راوی کہتے ہیں : پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ایک صاحب، ابو شاہ نامی، حاضر ہوئے اور عرض کیا۔ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! مجھے (یہ بات) لکھ دیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے (صحابہ سے) فرمایا۔ ابو شاہ کو (یہ بات) لکھ دو ۔ پھر قریش کے ایک آدمی نے عرض کیا۔ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! اذخر کو مستثنیٰ کر دیجئے کیونکہ ہم اس کو اپنے گھروں اور قبروں میں استعمال کرتے ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ہاں اذخر مستثنیٰ ہے۔

38076

(۳۸۰۷۷) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، قَالَ : حَدَّثَنَا مِسْعَرٌ ، عَنْ عَمْرو بْنِ مُرَّۃَ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، قَالَ : قَالَ رَجُلٌ مِنْ بَنِی الدُّؤَلِ بْنِ بَکْرٍ : لَوَدِدْت أَنِّی رَأَیْتُ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَسَمِعْتُ مِنْہُ ، فَقَالَ لِرَجُلٍ : انْطَلِقْ مَعِی ، فَقَالَ : إِنِّی أَخَافُ أَنْ تَقْتُلَنِی خُزَاعَۃُ ، فَلَمْ یَزَلْ بِہِ حَتَّی انْطَلَقَ ، فَلَقِیَہُ رَجُلٌ مِنْ خُزَاعَۃَ ، فَعَرَفَہُ فَضَرَبَ بَطْنَہُ بِالسَّیْفِ ، قَالَ : قَدْ أَخْبَرْتُک أَنَّہُمْ سَیَقْتُلُونَنِی ، فَبَلَغَ ذَلِکَ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَامَ فَحَمِدَ اللَّہَ وَأَثْنَی عَلَیْہِ ، ثُمَّ قَالَ : إِنَّ اللَّہَ ہُوَ حَرَّمَ مَکَّۃَ ، لَیْسَ النَّاسُ حَرَّمُوہَا ، وَإِنَّمَا أُحِلَّتْ لِی سَاعَۃً مِنْ نَہَارٍ ، وَہِیَ بَعْدُ حَرَمٌ ، وَإِنَّ أَعْدَی النَّاسِ عَلَی اللہِ ثَلاَثَۃٌ : مَنْ قَتَلَ فِیہَا ، أَوْ قَتَلَ غَیْرَ قَاتِلٍ ، أَوْ طَلَبَ بِذُحُولِ الْجَاہِلِیَّۃِ ، فَلأَدِیَنَّ ہَذَا الرَّجُلَ۔ قَالَ عَمْرُو بْنُ مُرَّۃَ : فَحَدَّثْت بِہَذَا الْحَدِیثِ سَعِیدَ بْنَ الْمُسَیَّبِ ، فَقُلْتُ : أَعْدَی اللَّہَ ، فَقَالَ : أَعْدَی۔
(٣٨٠٧٧) حضرت زہری روایت بیان کرتے ہیں کہ بنو دؤل بن بکرکے ایک آدمی نے کہا۔ مجھے یہ بات پسند ہے کہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زیارت کروں اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کچھ ارشادات سنوں۔ چنانچہ اس نے ایک آدمی سے کہا۔ تم میرے ساتھ چلو۔ اس آدمی نے کہا۔ مجھے اس بات کا ڈر ہے کہ کہیں بنو خزاعہ کے لوگ مجھے قتل نہ کردیں۔ (بہر حال) یہ اس کے ساتھ چلتا رہا یہاں تک کہ قبیلہ خزاعہ کا ایک آدمی اس کو ملا اور اس نے اس کو پہچان لیا اور اس نے اس کے پیٹ میں تلوار ماری۔ اس مقتول نے کہا۔ میں نے تمہیں (پہلے) خبر دی تھی کہ یہ لوگ مجھے قتل کردیں گے۔ پھر یہ بات جناب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پہنچی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کھڑے ہوگئے، اللہ تعالیٰ کی حمدو ثنا بیان کی اور پھر فرمایا : ” بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے (خود) مکہ کو حرم بنایا ہے لوگوں نے مکہ کو حرم نہیں بنایا۔ یہ مکہ تو میرے لیے دن کی ایک گھڑی میں حلال ہوا تھا اور اس کے بعد ابھی تک حرام ہے۔ اور خدا تعالیٰ کے ساتھ سب سے زیادہ دشمنی کرنے والے تین لوگ ہیں۔ وہ آدمی جو مکہ میں قتل کرے۔ وہ آدمی جو غیر قاتل کو قتل کرے۔ وہ آدمی جو جاہلیت کے انتقام مانگے۔ پس البتہ میں (خود) اس آدمی کی دیت دوں گا۔ “

38077

(۳۸۰۷۸) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ آدَمَ ، عَنِ ابْنِ إِدْرِیسَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُتْبَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ؛ أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَامَ الْفَتْحِ لَمَّا جَائَہُ الْعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ بِأَبِی سُفْیَانَ ، فَأَسْلَمَ بِمَرِّ الظَّہْرَانِ ، فَقَالَ لَہُ الْعَبَّاسُ : یَا رَسُولَ اللہِ ، إِنَّ أَبَا سُفْیَانَ رَجُلٌ یُحِبُّ ہَذَا الْفَخْرَ، فَلَوْ جَعَلْتَ لَہُ شَیْئًا؟ قَالَ، نَعَمْ، مَنْ دَخَلَ دَارَ أَبِی سُفْیَانَ فَہُوَ آمِنٌ، وَمَنْ أَغْلَقَ بَابَہُ فَہُوَ آمِنٌ۔ (ابوداؤد ۳۰۱۵۔ بیہقی ۳۰۱۶)
(٣٨٠٧٨) حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ جب فتح مکہ کے سال حضرت عباس بن عبد المطلب ابو سفیان کو لے کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ابو سفیان نے مقام مرالظہران میں اسلام قبول کیا تو حضرت عباس نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا۔ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ابو سفیان ایسا آدمی ہے جو فخر کو پسند کرتا ہے۔ اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کے لیے کوئی ایسی (فخریہ) چیز مقرر فرما دیں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ہاں ! جو کوئی ابو سفیان کے گھر میں داخل ہوجائے تو وہ مامون ہوگا اور جو کوئی شخص اپنا دروازہ بند کرلے وہ بھی مامون ہوگا۔

38078

(۳۸۰۷۹) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ یَزِیدَ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، عَنِ ابْن عَبَّاسٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: ہَذِہِ حَرَمٌ ، یَعَنْی مَکَّۃَ ، حَرَّمَہَا اللَّہُ یَوْمَ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ ، وَوَضَعَ ہَذَیْنِ الأَخْشَبَیْنِ، لَمْ تَحِلَّ لأَحَدٍ قَبْلِی ، وَلاَ تَحِلُّ لأَحَدٍ بَعْدِی ، وَلَمْ تَحِلَّ لِی إِلاَّ سَاعَۃً مِنَ النَّہَارِ ، لاَ یُعْضَدُ شَوْکُہَا ، وَلاَ یُنَفَّرُ صَیْدُہَا ، وَلاَ یُخْتَلَی خَلاَہَا ، وَلاَ ترْفَعُ لُقَطَتَہَا إِلاَّ لِمُنْشِدٍ ، فَقَالَ الْعَبَّاسُ : یَا رَسُولَ اللہِ ، إِنَّ أَہْلَ مَکَّۃَ لاَ صَبْرَ لَہُمْ عَنِ الإِذْخِرِ لِقَیْنِہِمْ وَلِبُنْیَانِہِمْ ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إِلاَّ الإِذْخِرَ۔ (دارقطنی ۲۳۵۔ طحاوی ۲۶۰)
(٣٨٠٧٩) حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : یہ مقام حرم ہے یعنی مکہ۔ جس دن اللہ تعالیٰ نے زمینوں اور آسمانوں کو پیدا کیا تھا اسی دن سے اس کو حرمت بخشی تھی۔ یہ زمین مجھ سے پہلے بھی کسی کے لیے حلال نہیں کی گئی اور نہ ہی میرے بعد کسی کے لیے حلال ہوگی۔ اور میرے لیے بھی محض دن کی ایک گھڑی حلال کی گئی ہے۔ اس کے کانٹے کو نہیں کاٹا جائے گا اور اس کے شکار کو نہیں بدکایا جائے گا۔ اور اس کے گھاس کو نہیں کاٹا جائے گا اور نہ ہی اس کے گمشدہ مال کو اٹھایا جائے گا لیکن تعریف کرنے والے کو اٹھانا درست ہے۔ حضرت عباس نے عرض کیا۔ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! اہل مکہ کو اذخر گھاس سے رکنا مشکل ہے کیونکہ وہ اپنی بنیادوں اور لوہے کے کام میں اس کو استعمال کرتے ہیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اذخر مستثنیٰ ہے۔

38079

(۳۸۰۸۰) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ الثَّقَفِیُّ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنِ ابْنِ أَبِی مُلَیْکَۃَ ، قَالَ : لَمَّا فُتِحَتْ مَکَّۃُ صَعِدَ بِلاَلٌ الْبَیْتَ فَأَذَّنَ، فَقَالَ صَفْوَانُ بْنُ أُمَیَّۃَ لِلْحَارِثِ بْنِ ہِشَامٍ: أَلاَ تَرَی إِلَی ہَذَا الْعَبْدِ، فَقَالَ الْحَارِثُ: إِنْ یَکْرَہْہُ اللَّہُ یُغَیِّرْہُ۔
(٣٨٠٨٠) حضرت ابن ابی ملیکہ سے روایت ہے کہ جب مکہ فتح ہوا تو حضرت بلال حبشی بیت اللہ کی چھت پر چڑھ گئے اور اذان دی۔ تو صفوان بن امیہ نے حارث بن ہشام سے کہا۔ کیا تم یہ غلام نہیں دیکھ رہے ؟ حارث نے کہا : اگر اللہ تعالیٰ کو یہ ناپسند ہوتا تو اللہ تعالیٰ اس کی جگہ کسی اور کو کھڑا کردیتے۔

38080

(۳۸۰۸۱) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ؛ أَنَّ بِلاَلاً أَذَّنَ یَوْمَ الْفَتْحِ فَوْقَ الْکَعْبَۃِ۔
(٣٨٠٨١) حضرت ہشام بن عروہ ، اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت بلال نے فتح مکہ کے دن بیت اللہ کی چھت پر اذان دی۔

38081

(۳۸۰۸۲) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدِ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ، قَالَ : خَرَجَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَامَ الْفَتْحِ مِنَ الْمَدِینَۃِ بِثَمَانِیَۃِ آلاَفٍ ، أَوْ عَشَرَۃِ آلاَفٍ ، وَمِنْ أَہْلِ مَکَّۃَ بِأَلْفَیْنِ۔ (ابن سعد ۱۳۹)
(٣٨٠٨٢) حضرت سعید بن المسیب سے روایت ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فتح مکہ کے سال مدینہ منورہ سے آٹھ ہزار، یا دس ہزار کے لشکر کے ہمراہ نکلے تھے۔ اور اہل مکہ میں سے دو ہزار لوگ تھے۔

38082

(۳۸۰۸۳) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ أَبِی ہِنْدٍ ، عَنْ أَبِی مُرَّۃَ مَوْلَی عَقِیلِ بْنِ أَبِی طَالِبٍ ، عَنْ أُمِّ ہَانِئٍ بِنْتِ أَبِی طَالِبٍ ، قَالَتْ : لَمَّا افْتَتَحَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَکَّۃَ ، فَرَّ إِلَیَّ رَجُلاَنِ مِنْ أَحْمَائِی مِنْ بَنِی مَخْزُومٍ ، قَالَتْ : فَخَبَّأْتُہُمَا فِی بَیْتِی ، فَدَخَلَ عَلَیَّ أَخِی عَلِیُّ بْنُ أَبِی طَالِبٍ ، فَقَالَ : لأَقْتُلَنَّہُمَا ، قَالَتْ : فَأَغْلَقْت الْبَابَ عَلَیْہِمَا ، ثُمَّ جِئْتُ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِأَعْلَی مَکَّۃَ ، وَہُوَ یَغْتَسِلُ فِی جَفْنَۃٍ ، إِنَّ فِیہَا أَثَرَ الْعَجِینِ ، وَفَاطِمَۃُ ابْنَتُہُ تَسْتُرُہُ۔ فَلَمَّا فَرَغَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ غُسْلِہِ ، أَخَذَ ثَوْبًا فَتَوَشَّحَ بِہِ ، ثُمَّ صَلَّی ثَمَانِیَ رَکَعَاتٍ مِنَ الضُّحَی ، ثُمَّ أَقْبَلَ ، فَقَالَ : مَرْحَبًا وَأَہْلاً بِأُمِّ ہَانِئٍ ، مَا جَائَ بِکَ ؟ قَالَتْ : قُلْتُ : یَا نَبِیَّ اللہِ ، فَرَّ إِلَیَّ رَجُلاَنِ مِنْ أَحْمَائِی ، فَدَخَلَ عَلَیَّ عَلِیُّ بْنُ أَبِی طَالِبٍ فَزَعَمَ أَنَّہُ قَاتِلُہُمَا ، فَقَالَ : لاَ ، قَدْ أَجَرْنَا مَنْ أَجَرْتِ یَا أُمَّ ہَانِئٍ، وَأَمَّنَّا مَنْ أَمَّنْتِ۔
(٣٨٠٨٣) حضرت ام ہانی بنت ابی طالب بیان کرتی ہیں کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مکہ فتح کیا تو میرے سسرال بنو مخزوم میں سے دو آدمی میری طرف بھاگ کر آگئے۔ ام ہانی کہتی ہیں۔ پس میں نے انھیں اپنے گھروں میں چھپا دیا۔ پھر میرے بھائی حضرت علی بن ابی طالب میرے ہاں آئے اور کہنے لگے، میں ضرور بالضرور ان دونوں کو قتل کر دوں گا۔ ام ہانی کہتی ہیں۔ میں نے ان دونوں آدمیوں کو (کمرہ میں داخل کر کے) دروازہ بند کردیا پھر میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں مکہ کے بالائی مقام پر حاضر ہوئی تب جناب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک ٹب میں غسل فرما رہے تھے۔ جس میں گوندھے آٹے کے اثرات تھے اور حضرت فاطمہ (آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیٹی) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر پردہ کیے ہوئے تھی۔
پھر جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، اپنے غسل سے فارغ ہوگئے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کپڑے پکڑے اور زیب تن فرمائے پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے چاشت کی آٹھ رکعات نماز ادا فرمائی پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (میری طرف) متوجہ ہوئے اور فرمایا : ام ہانی ! مرحبا خوش آمدید۔ کس غرض سے آئی ہو۔ میں نے عرض کیا۔ اے اللہ کے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! میرے سسرالی رشتہ داروں میں سے دو بندے (پناہ کے لئے) میری طرف بھاگ کر آئے ہیں اور پھر علی بن ابی طالب میرے پاس آگئے اور اب علی کا ارادہ ان دونوں کو قتل کرنے کا ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا۔ نہیں ! یقین کرو۔ اے ام ہانی ! جس کو تم نے پناہ دی ہے ہم نے بھی اس کو پناہ دی اور جس کو تم نے امن دیا ہے اس کو ہم نے بھی امن دیا ہے۔

38083

(۳۸۰۸۴) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ ، عَنْ أَبِی الْبَخْتَرِیِّ ، عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ ، عَنْ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، أَنَّہُ قَالَ : لَمَّا نَزَلَتْ ہَذِہِ السُّورَۃُ : {إِذَا جَائَ نَصْرُ اللہِ وَالْفَتْحُ} ، قَالَ : قَرَأَہَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حَتَّی خَتَمَہَا ، وَقَالَ : النَّاسُ حَیِّزٌ ، وَأَنَا وَأَصْحَابِی حَیِّزٌ ، وَقَالَ : لاَ ہِجْرَۃَ بَعْدَ الْفَتْحِ ، وَلَکِنْ جِہَادٌ وَنِیَّۃٌ ۔ فَقَالَ لَہُ مَرْوَانُ : کَذَبْتَ ، وَعَنْدَہُ زَیْدُ بْنُ ثَابِتٍ وَرَافِعُ بْنُ خَدِیجٍ ، وَہُمَا قَاعِدَانِ مَعَہُ عَلَی السَّرِیرِ ، فَقَالَ أَبُو سَعِیدٍ : لَوْ شَائَ ہَذَانِ لَحَدَّثَاک ، وَلَکِنْ ہَذَا یَخَافُ أَنْ تَنْزِعَہُ عَنْ عِرَافَۃِ قَوْمِہِ ، وَہَذَا یَخْشَی أَنْ تَنْزِعَہُ عَنِ الصَّدَقَۃِ ، فَسَکَتَا ، فَرَفَعَ مَرْوَانُ الدِّرَّۃَ لِیَضْرِبَہُ ، فَلَمَّا رَأَیَا ذَلِکَ ، قَالاَ : صَدَقَ۔ (احمد ۲۲۔ طبرانی ۴۴۴۴)
(٣٨٠٨٤) حضرت ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب سورة اذا جاء نصر اللّٰہ والفتح ۔ نازل ہوئی۔ مکمل تلاوت فرمائی یہاں تک کہ اس کو ختم فرمایا۔ اور پھر ارشاد فرمایا۔ ایک جہت میں (بعد والے) لوگ ہیں اور ایک جہت میں میں اور میرے صحابہ (پہلے ایمان لانے والے) ہیں۔ اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا۔ فتح مکہ کے بعد ہجرت نہیں ہے لیکن جہاد اور نبوت باقی ہے۔ مروان نے حضرت ابو سعید خدری سے کہا۔ تم جھوٹ کہہ رہے ہو۔ (اس وقت) مروان کے پاس زید بن ثابت اور رافع بن خدیج موجود تھے اور اس کے ساتھ تخت پر بیٹھے ہوئے تھے۔ ابو سعید خدری نے فرمایا : اگر یہ دونوں چاہتے تو یہ بھی تمہیں (یہ) حدیث بیان کرتے لیکن (ان میں سے) ایک اس بات سے خوف کھاتا ہے کہ تم اس کو اپنی قوم کی طرف سے نکال دو گے اور (ان میں سے) ایک اس بات سے خوف کھاتا ہے تم اس کو صدقہ سے نکال دو گے۔ لیکن یہ دونوں حضرات خاموش رہے کہ اسی دوران مروان نے درہ بلند کیا تاکہ ابو سعید کو مارے۔ پس جب ان دونوں حضرات نے یہ دیکھا تو دونوں نے فرمایا۔ ابوسعید نے سچ بات بتائی ہے۔

38084

(۳۸۰۸۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، عَنْ طَاوُوسٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لاَ ہِجْرَۃَ بَعْدَ الْفَتْحِ ، وَلَکِنْ جِہَادٌ وَنِیَّۃٌ ، وَإِذَا اُسْتُنْفِرْتُمْ فَانْفِرُوا۔ (بخاری ۱۵۸۷۔ مسلم ۹۸۶)
(٣٨٠٨٥) حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : فتح مکہ کے بعد ہجرت (کاثواب) باقی نہیں لیکن جہاد اور نیت باقی ہے پس جب تم سے نکلنے کو کہا جائے تو تم (راہِ خدا میں) نکلو۔

38085

(۳۸۰۸۶) حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ بْنُ مُوسَی ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ بْنِ أَبِی زِیَادٍ ، عَنْ أُمِّ یَحْیَی بِنْتِ یَعْلَی ، عَنْ أَبِیہَا ، قَالَ : جِئْتُ بِأَبِی یَوْمَ فَتْحِ مَکَّۃَ ، فَقُلْتُ : یَا رَسُولَ اللہِ ، ہَذَا یُبَایِعُک عَلَی الْہِجْرَۃِ ، فَقَالَ : لاَ ہِجْرَۃَ بَعْدَ الْفَتْحِ ، وَلَکِنْ جِہَادٌ وَنِیَّۃٌ۔
(٣٨٠٨٦) حضرت ام یحییٰ بنت یعلیٰ اپنے والد سے روایت کرتی ہیں کہ میں اپنے والد کو لے کر فتح مکہ والے دن حاضر ہوئی اور میں نے عرض کیا ۔ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! یہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہجرت پر بیعت کریں گے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : فتح مکہ کے بعد ہجرت نہیں ہے لیکن جہاد اور نیت باقی ہے۔

38086

(۳۸۰۸۷) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ حَبِیبٍ بْن أَبِی ثَابِتٍ ، عَنِ ابْنِ أَبِی حُسَیْنٍ ، عَنْ عَطَائٍ ، عَنْ عَائِشَۃَ ، قَالَتْ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لاَ ہِجْرَۃَ بَعْدَ الْفَتْحِ ، وَلَکِنْ جِہَادٌ وَنِیَّۃٌ۔ (بخاری ۳۰۸۰۔ مسلم ۱۴۸۸)
(٣٨٠٨٧) حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : فتح مکہ کے بعد ہجرت نہیں لیکن جہاد اور نیت باقی ہے۔

38087

(۳۸۰۸۸) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ أَبِی عُثْمَانَ ، عَنْ مُجَاشِعِ بْنِ مَسْعُودٍ ، قَالَ : أَتَیْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَا وَأَخِی ، قَالَ : فَقُلْتُ : یَا رَسُولَ اللہِ : بَایِعْنَا عَلَی الْہِجْرَۃِ ، فَقَالَ : مَضَتِ الْہِجْرَۃُ لأَہْلِہَا ، فَقُلْتُ : عَلاَمَ نُبَایِعُک یَا رَسُولَ اللہِ ؟ قَالَ : عَلَی الإِسْلاَمِ وَالْجِہَادِ ، قَالَ : فَلَقِیتُ أَخَاہُ فَسَأَلْتُہُ ؟ فَقَالَ : صَدَقَ مُجَاشِعٌ۔ (بخاری ۲۹۶۲۔ مسلم ۱۴۸۷)
(٣٨٠٨٨) حضرت مجاشع بن مسعود بیان کرتے ہیں کہ میں اور میرا بھائی ، جناب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ فرماتے ہیں : میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ ہم سے ہجرت پر بیعت لیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا۔ ہجرت تو اہل ہجرت کے لیے ختم ہوگئی ہے۔ میں نے عرض کیا۔ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ہم آپ سے کس چیز پر بیعت کریں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اسلام اور جہاد پر۔ راوی کہتے ہیں : پھر میں میں مجاشع کے بھائی سے ملا اور میں نے اس سے پوچھا : انھوں نے جواب دیا : مجاشع نے سچ بات بتائی ہے۔

38088

(۳۸۰۸۹) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ؛ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صَامَ عَامَ الْفَتْحِ حَتَّی بَلَغَ الْکَدِیدَ ، ثُمَّ أَفْطَرَ ، وَإِنَّمَا یُؤْخَذُ بِالآخِرِ مِنْ فِعْلِ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔
(٣٨٠٨٩) حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مکہ فتح کے سال روزہ رکھا یہاں تک کہ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مقام کدید میں پہنچے پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے افطار کرلیا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے افعال میں سے تو آخری عمل کو ہی لیا جائے گا۔

38089

(۳۸۰۹۰) حَدَّثَنَا ابْنُ إِدْرِیسَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ؛ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَقَامَ حَیْثُ فَتَحَ مَکَّۃَ خَمْسَ عَشْرَۃَ ، یَقْصُرُ الصَّلاَۃَ حَتَّی سَارَ إِلَی حُنَیْنٍ۔
(٣٨٠٩٠) حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فتح مکہ کیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پندرہ روز قیام کیا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز قصر پڑھتے رہے یہاں تک کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حنین کی طرف روانگی کی۔

38090

(۳۸۰۹۱) حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ ، عَنِ الْحَکَمِ بْنِ عَبْدِ الْمَلِکِ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ : لَمَّا دَخَلَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَکَّۃَ یَوْمَ فَتْحِ مَکَّۃَ ، أَمَّنَ النَّاسَ إِلاَّ أَرْبَعَۃً۔ (دارقطنی ۱۶۷)
(٣٨٠٩١) حضرت انس سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فتح مکہ والے دن مکہ میں داخل ہوئے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے چار افراد کے سوا بقیہ تمام لوگوں کو امن عطا فرمایا۔

38091

(۳۸۰۹۲) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا ہَمَّامٌ ، قَالَ : حَدَّثَنَا قَتَادَۃُ ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ : أُنْزِلَتْ عَلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : {إِنَّا فَتَحْنَا لَک فَتْحًا مُبِینًا} إِلَی آخِرِ الآیَۃِ ، مَرْجِعَہُ مِنَ الْحُدَیْبِیَۃِ ، وَأَصْحَابُہُ مُخَالِطُوا الْحُزْنِ وَالْکَآبَۃِ ، قَالَ: نَزَلَتْ عَلَیَّ آیَۃٌ ہِیَ أَحَبُّ إِلَیَّ مِنَ الدُّنْیَا وَمَا فِیہَا جَمِیعًا ، فَلَمَّا تَلاَہَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، قَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ : ہَنِیئًا مَرِیئًا ، قَدْ بَیَّنَ اللَّہُ مَا یُفْعَلُ بِکَ، فَمَاذَا یُفْعَلُ بِنَا؟ فَأَنْزَلَ اللَّہُ الآیَۃَ الَّتِی بَعْدَہَا : {لیُدْخِلَ الْمُؤْمِنِینَ وَالْمُؤْمِنَاتِ جَنَّاتٍ تَجْرِی مِنْ تَحْتِہَا الأَنْہَارُ} حَتَّی خَتَمَ الآیَۃَ۔ (بخاری ۴۱۷۲۔ مسلم ۱۴۱۳)
(٣٨٠٩٢) حضرت انس سے روایت ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جب صلح حدیبیہ سے واپسی پر آیات {إِنَّا فَتَحْنَا لَک فَتْحًا مُبِینًا } آخر تک، نازل ہوئیں۔ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ غم اور شکستگی کی ملی جلی حالت میں تھے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : مجھ پر ایک ایسی آیت نازل ہوئی ہے جو مجھے دنیا ومافیہا سے زیادہ محبوب ہے۔ پھر جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ آیت تلاوت فرمائی تو لوگوں میں سے ایک آدمی نے کہا۔ جو کچھ اللہ تعالیٰ نے بیان کیا ہے وہ تو آپ کے ساتھ کیا جائے گا۔ آپ اس کو خوشگواری اور مزہ سے پائیں لیکن ہمارے ساتھ کیا کیا جائے گا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے ان آیات پر اگلی آیت نازل فرمائی (ترجمہ) تاکہ وہ مؤمن مردوں اور عورتوں کو ایسے باغات میں داخل کرے جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں۔ آخر آیت تک۔

38092

(۳۸۰۹۳) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ یَزِیدَ بْنِ جَابِرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا مَکْحُولٌ ؛ أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَمَّا دَخَلَ مَکَّۃَ تَلَقَّتْہُ الْجِنُّ بِالشَّرَرِ یَرْمُونَہُ ، فَقَالَ جِبْرَائِیلُ : تَعَوَّذْ یَا مُحَمَّدُ ، فَتَعَوَّذَ بِہَؤُلاَئِ الْکَلِمَاتِ فَدُحِرُوا عَنْہُ ، فَقَالَ : أَعُوذُ بِکَلِمَاتِ اللہِ التَّامَّاتِ ، الَّتِی لاَ یُجَاوِزہُنَّ بَرٌّ وَلاَ فَاجِرٌ ، مِنْ شَرِّ مَا نَزَلَ مِنَ السَّمَائِ ، وَمَا یَعْرُجُ فِیہَا ، وَمِنْ شَرِّ مَا بُثَّ فِی الأَرْضِ ، وَمَا یَخْرُجُ مِنْہَا ، وَمِنْ شَرِّ اللَّیْلِ وَالنَّہَارِ ، وَمِنْ شَرِّ کُلِّ طَارِقٍ ، إِلاَّ طَارِقًا یَطْرُقُ بِخَیْرٍ یَا رَحْمَنُ۔
(٣٨٠٩٣) حضرت مکحول سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب مکہ میں داخل ہوئے تو جنات نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو شراروں کے ساتھ ہدف بنایا تو حضرت جبرائیل نے فرمایا : اے محمد ! پناہ حاصل کیجئے۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کلمات کے ذریعہ سے پناہ پکڑی پس ان جنات کو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دور کردیا گیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کہا۔ میں اللہ تعالیٰ کے ان کلمات تامہ کے ذریعہ سے پناہ پکڑتا ہوں جن سے آگے کوئی نیک و بد نہیں جاسکتا۔ ہر اس بُری چیز سے جو آسمان سے نازل ہو اور آسمان کی طرف اوپر چڑھے اور ہر اس شر سے جو زمین میں پھیلے اور ہر اس شر سے جو زمین سے نکلے اور رات، دن کے شر سے اور ہر رات کو آنے والے کے شر سے سوائے اس رات کے آنے والے کے جو خیر کے ساتھ آئے۔ اے رحمن۔ “

38093

(۳۸۰۹۴) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ زَکَرِیَّا ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ حَبِیبٍ ، قَالَ : مَرَّ خَالِدُ بْنُ الْوَلِیدِ عَلَی اللاَتِ ، فَقَالَ : یَا عُزَّ کُفْرَانَکِ لاَ سُبْحَانَکِ إِنِّی رَأَیْتُ اللَّہَ قَدْ أَہَانَکِ (طبرانی ۳۸۱۱)
(٣٨٠٩٤) حضرت عبداللہ بن حبیب روایت کرتے ہیں کہ خالد بن ولید لات پر سے گزرے تو فرمایا :
اے کافروں کے بت ! تیری کوئی قدر نہیں ہے میں دیکھ رہا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے تجھے ذلیل کردیا ہے۔

38094

(۳۸۰۹۵) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا یُونُسُ بْنُ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِی السَّفَرِ ، قَالَ : لَمَّا دَخَلَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَکَّۃَ ، دَعَا شَیْبَۃَ بْنَ عُثْمَانَ بِالْمِفْتَاحِ ، مِفْتَاحِ الْکَعْبَۃِ ، فَتَلَکَّأَ ، فَقَالَ لِعُمَرَ : قُمْ فَاذْہَبْ مَعَہُ ، فَإِنْ جَائَ بِہَا وَإِلاَّ فَاجْلِدْ رَأْسَہُ ، قَالَ : فَجَائَ بِہَا ، قَالَ : فَأَجَالَہَا فِی حَجَرِہِ وَشَیْبَۃُ قَائِمٌ ، قَالَ : فَبَکَی شَیْبَۃُ ، فَقَالَ لَہُ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : ہَاکَ فَخُذْہَا ، فَإِنَّ اللَّہَ قَدْ رَضِیَ لَکُمْ بِہَا فِی الْجَاہِلِیَّۃِ وَالإِسْلاَمِ۔
(٣٨٠٩٥) حضرت ابو السفر سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے شیبہ بن عثمان (صحیح قول کے مطابق یہ نام عثمان بن طلحہ ہے) کو پیغام بھیجا کہ کعبہ کی چابی لے آئیں۔ پھر آپ نے حضرت عمر سے فرمایا کہ ان کے ساتھ جاؤ، اگر وہ چابی لے آئیں تو ٹھیک ورنہ انھیں مار ڈالنا۔ وہ چابی لے آئے۔ آپ نے چابی لے لی تو شیبہ رونے لگے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یہ چابی لے لو، اللہ تعالیٰ جاہلیت اور اسلام میں تمہارے پاس اس چابی کے ہونے سے خوش ہے۔

38095

(۳۸۰۹۶) حَدَّثَنَا ابْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ أَبِی السَّوْدَائِ ، عَنِ ابْنِ سَابِطٍ ؛ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَاوَلَ عُثْمَانَ بْنَ طَلْحَۃَ الْمِفْتَاحَ مِنْ وَرَائِ الثَّوْبِ۔
(٣٨٠٩٦) حضرت ابن سابط سے روایت ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عثمان بن طلحہ کو (بیت اللہ کی) چابی پردے کے پیچھے سے عطا فرمائی۔

38096

(۳۸۰۹۷) حَدَّثَنَا یَعْلَی بْنُ عُبَیْدٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُتْبَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : خَرَجَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَامَ الْفَتْحِ لِعَشْرٍ مَضَتْ مِنْ رَمَضَانَ۔ (احمد ۳۱۵۔ ابن سعد ۱۳۷)
(٣٨٠٩٧) حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فتح مکہ کے سال رمضان کے دس دن گزرنے کے بعد (سفر مکہ پر) نکلے۔

38097

(۳۸۰۹۸) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ جَعْفَرٍ ، عَنْ أَبِیہِ ؛ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَمَرَ أَنْ تُطْمَسَ التَّمَاثِیلُ الَّتِی حَوْلَ الْکَعْبَۃِ یَوْمَ فَتْحِ مَکَّۃَ۔
(٣٨٠٩٨) حضرت جعفر اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فتح مکہ کے دن حکم فرمایا کہ جو تصاویر کعبہ کے گرد موجود ہیں ان کو مٹا دیا جائے۔

38098

(۳۸۰۹۹) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنْ أَبِیہِ ؛ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اعْتَمَرَ عَامَ الْفَتْحِ مِنَ الْجِعْرَانَۃِ ، فَلَمَّا فَرَغَ مِنْ عُمْرَتِہِ اسْتَخْلَفَ أَبَا بَکْرٍ عَلَی مَکَّۃَ ، وَأَمَرَہُ أَنْ یُعَلِّمَ النَّاسَ الْمَنَاسِکَ ، وَأَنْ یُؤَذِّنَ فِی النَّاسِ : مَنْ حَجَّ الْعَامَ فَہُوَ آمِنٌ ، وَلاَ یَحُجُّ بَعْدَ الْعَامِ مُشْرِکَ ، وَلاَ یَطُوفُ بِالْبَیْتِ عُرْیَانٌ۔
(٣٨٠٩٩) حضرت ہشام، اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فتح مکہ کے سال مقام جعرانہ سے عمرہ فرمایا۔ پھر جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے عمرہ سے فارغ ہوئے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت ابوبکر کو مکہ پر خلیفہ بنادیا اور انھیں یہ حکم دیا کہ لوگوں کو افعال حج کی تعلیم دیں۔ اور یہ کہ وہ لوگوں میں اس بات کا اعلان کردیں کہ جو شخص اس سال بیت اللہ کا حج کرے گا وہ امن پا جائے گا اور اس سال کے بعد کوئی مشرک بیت اللہ کا حج نہیں کرسکے گا۔ اور نہ ہی بیت اللہ کا ننگا طواف کرے گا۔

38099

(۳۸۱۰۰) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، قَالَ : حَدَّثَنِی عَبْدُ الْحَمِیدِ بْنُ جَعْفَرٍ ، عَنْ یَزِیدَ بْنِ أَبِی حَبِیبٍ ، عَنْ عَطَائٍ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَامَ الْفَتْحِ یَقُولُ : إِنَّ اللَّہَ وَرَسُولَہُ حَرَّمَا بَیْعَ الْخَمْرِ ، وَالْخَنَازِیرِ ، وَالْمَیْتَۃِ ، وَالأَصْنَامِ ، قَالَ : فَقَالَ رَجُلٌ : یَا رَسُولَ اللہِ ، مَا تَرَی فِی شُحُومِ الْمَیْتَۃِ ؛ فَإِنَّہَا تُدْہَنُ بِہَا السُّفُنُ وَالْجُلُودُ وَیُسْتَصْبَحُ بِہَا ؟ قَالَ : قَاتَلَ اللَّہُ الْیَہُودَ ، إِنَّ اللَّہَ لَمَّا حَرَّمَ عَلَیْہِمْ شُحُومَہَا، أَخَذُوہَا فَجَمَلُوہَا ، ثُمَّ بَاعُوہَا وَأَکَلُوا أَثْمَانَہَا۔
(٣٨١٠٠) حضرت جابر بن عبداللہ سے روایت ہے۔ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فتح مکہ کے سال یہ بات سُنی کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ارشاد فرما رہے تھے۔ بلاشبہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول نے شراب، خنزیروں، مردار اور بتوں کو حرام قرار دیا ہے۔ راوی کہتے ہیں : ایک آدمی نے پوچھا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! مردار کی چربی کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے ؟ کیونکہ ان کے ذریعہ سے تو کشتیوں کو تیل ملا جاتا ہے اور کھالوں کو بھی۔ اور ان کے ذریعہ سے چراغ روشن کیے جاتے ہیں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اللہ تعالیٰ یہود کو ہلاک کرے کہ جب اللہ تعالیٰ نے ان پر (مردار کی) چربیوں کو حرام کیا تو انھوں نے اس کو پکڑ کر پگھلا لیا اور پھر اس کو بیچ کر اس کا ثمن (آمدنی) کھالیا۔

38100

(۳۸۱۰۱) حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ بْنُ مُوسَی ، قَالَ : أَخْبَرَنَا أُسَامَۃُ بْنُ زَیْدٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الأَزْہَرِ ، قَالَ: رَأَیْتُ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَامَ الْفَتْحِ ، وَأَنَا غُلاَمٌ شَابٌّ یَسْأَلُ عَنْ مَنْزِلِ خَالِدِ بْنِ الْوَلِید، فَأُتِیَ بِشَارِبٍ ، فَأَمَرَہُمْ فَضَرَبُوہُ بِمَا فِی أَیْدِیہِمْ ، فَمِنْہُمْ مَنْ ضَرَبَ بِالسَّوْطِ ، وَبِالنَّعْلِ ، وَبِالْعِصِی ، وَحَثَا عَلَیْہِ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ التُّرَابَ ، فَلَمَّا کَانَ أَبُو بَکْرٍ أُتِیَ بِشَارِبٍ فَسَأَلَ أَصْحَابَہُ : کَمْ ضَرَبَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الَّذِی ضَرَبَ ؟ فَحزَّرَہُ أَرْبَعِینَ ، فَضَرَبَ أَبُو بَکْرٍ أَرْبَعِینَ۔ (بیہقی ۳۲۰۔ احمد ۸۸)
(٣٨١٠١) حضرت عبد الرحمن بن ازہر سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فتح مکہ کے سال دیکھا جبکہ میں ایک نو عمر لڑکا تھا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت خالد بن ولید کے گھر کا پوچھ رہے تھے۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں ایک شرابی کو لایا گیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ کو حکم دیا چنانچہ جو کچھ ان کے ہاتھ میں تھا انھوں نے اسے مارنا شروع کیا۔ کچھ نے کوڑے کے ساتھ اور کچھ نے جوتیوں کے ساتھ اور کچھ نے لاٹھی کے ساتھ مارا۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس پر مٹی گرائی پھر حضرت ابوبکر کی خدمت میں ایک شرابی کو لایا گیا تو انھوں نے اپنے ساتھیوں سے پوچھا۔ جس آدمی کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مارا تھا اس کو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کتنا مارا تھا ؟ تو اس کا اندازہ چالیس لگایا گیا چنانچہ حضرت ابوبکر نے چالیس کوڑے لگائے۔

38101

(۳۸۱۰۲) حَدَّثَنَا یُونُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا لَیْثُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنْ عُقَیْلٍ ، عَنِ ابْنِ شِہَابٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أُمَیَّۃَ ، ابْنِ أَخِی یَعْلَی بْنِ مُنْیَۃَ ، أَنَّ أَبَاہُ أَخْبَرَہُ ، أَنَّ یَعْلَی ، قَالَ : جِئْتُ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِأَبِی أُمَیَّۃَ یَوْمَ الْفَتْحِ ، فَقُلْتُ : یَا رَسُولَ اللہِ ، بَایِعْ أَبِی عَلَی الْہِجْرَۃِ ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : بَلْ أُبَایِعُہُ عَلَی الْجِہَادِ ، فَقَدِ انْقَطَعَتِ الْہِجْرَۃُ۔ (نسائی ۷۷۹۱۔ احمد ۲۲۳)
(٣٨١٠٢) حضرت یعلیٰ بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں فتح مکہ کے موقع پر اپنے والد امیہ کو لے کر حاضر ہوا اور میں نے عرض کیا۔ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! میرے والد کو ہجرت پر بیعت کرلیجئے ۔ اس پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا۔ (نہیں) بلکہ میں تو ان سے جہاد پر بعتب لوں گا کیونکہ ہجرت تو ختم ہوگئی ہے۔

38102

(۳۸۱۰۳) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا وُہَیْبٌ ، قَالَ : حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ خُثَیْمٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، عَنِ السَّائِبِ ؛ أَنَّہُ کَانَ یُشَارِکُ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَبْلَ الإِسْلاَمِ فِی التِّجَارَۃِ ، فَلَمَّا کَانَ یَوْمُ الْفَتْحِ أَتَاہُ ، فَقَالَ : مَرْحَبًا بِأَخِی وَشَرِیکِی کَانَ لاَ یُدَارِی ، وَلاَ یُمَارِی یَا سَائِبُ ، قَدْ کُنْت تَعْمَلُ أَعْمَالاً فِی الْجَاہِلِیَّۃِ ، لاَ تُتَقَبَّلُ مِنْک ، وَہِیَ الْیَوْمُ تُتَقَبَّلُ مِنْک ۔ وَکَانَ ذَا سَلَفٍ وَصِلَۃٍ۔ (احمد ۴۲۵۔ حاکم ۶۱)
(٣٨١٠٣) حضرت سائب سے روایت ہے کہ وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ اسلام (کی آمد) سے پہلے تجارت میں شریک تھے۔ چنانچہ جب فتح مکہ کا دن تھا تو یہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے ، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : مرحبا ! میرے بھائی اور میرے شریک (تجارت) ! جو نہ دھوکا دیتا تھا اور نہ ہی بحث و مباحثہ کرتا تھا۔ اے سائب ! تحقیق تم جاہلیت میں کچھ ایسے (اچھے) اعمال کرتے تھے جو تم سے قبول نہیں کیے جاتے تھے۔ آج وہ اعمال تم سے قبول کئے جائیں گے۔

38103

(۳۸۱۰۴) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَنْ حَمْزَۃَ الزَّیَّاتِ ، قَالَ : لَمَّا کَانَ یَوْمُ فَتْحِ مَکَّۃَ ، دَخَلَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ أَعْلَی مَکَّۃَ ، وَدَخَلَ خَالِدُ بْنُ الْوَلِیدِ مِنْ أَسْفَلِ مَکَّۃَ ، قَالَ : فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لاَ تَقْتُلَنَّ ، فَوَضَعَ یَدَہُ فِی الْقَتْلِ ، فَقَالَ : مَا حَمَلَک عَلَی مَا صَنَعْت ؟ فَقَالَ : یَا رَسُولَ اللہِ ، مَا قَدَرْتُ عَلَی أَنْ لاَ أَصْنَعَ إِلاَّ الَّذِی صَنَعْتُ۔
(٣٨١٠٤) حضرت حمزہ زیات روایت کرتے ہیں کہ جب فتح مکہ کا دن تھا تو جناب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ کے بالائی حصہ سے داخل ہوئے اور حضرت خالد بن ولید مکہ کے نچلے حصہ سے داخل ہوئے۔ راوی کہتے ہیں : آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حکم ارشاد فرمایا : تم ہرگز قتل نہ کرنا۔ پھر ان کا ہاتھ قتل میں ملوث ہوگیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم نے جو کچھ کیا اس پر تمہیں کس چیز نے ابھارا تھا ؟ انھوں نے جواب دیا۔ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! میں نے جو کچھ کیا ہے میں اس کے سوا کسی بات کی قدرت نہیں رکھتا تھا۔

38104

(۳۸۱۰۵) حَدَّثَنَا ہَوْذَۃُ بْنُ خَلِیفَۃَ ، قَالَ : حدَّثَنَا ابْنُ جُرَیْجٍ ، قَالَ : مُحَمَّدُ (بْنُ عَبَّادِ) بْنِ جَعْفَرٍ حَدَّثَنِی حَدِیثًا ، رَفَعَہُ إِلَی أَبِی سَلَمَۃَ بْنِ سُفْیَانَ ، وَعَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ السَّائِبِ ، قَالَ : حَضَرْتُ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَوْمَ الْفَتْحِ ، فَصَلَّی فِی قُبُلِ الْکَعْبَۃِ ، فَخَلَعَ نَعْلَیْہِ ، فَوَضَعَہُمَا عَنْ یَسَارِہِ ، ثُمَّ اسْتَفْتَحَ سُورَۃَ الْمُؤْمِنِینَ ، فَلَمَّا ذَکَرَ عِیسَی ، أَوْ مُوسَی ، أَخَذَتْہُ سَعْلَۃٌ فَرَکَعَ۔ (مسلم ۳۳۶۔ احمد ۳)
(٣٨١٠٥) حضرت عبداللہ بن سائب سے روایت ہے کہ فتح مکہ کے دن میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس حاضر ہوا ، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کعبہ کی طرف رُخ کر کے نماز پڑھی اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے نعلین مبارک اتار کر اپنے بائیں طرف رکھے پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سورة المومنون شروع فرمائی۔ پھر جب حضرت عیسیٰ یا موسیٰ کا ذکر (سورۃ) میں آیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کھانسی آگئی چنانچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے رکوع فرما لیا۔

38105

(۳۸۱۰۶) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا أَبُو مَالِکٍ الأَشْجَعِیُّ ، قَالَ : حَدَّثَنَا سَالِمُ بْنُ أَبِی الْجَعْدِ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَنَفِیَّۃِ ، قَالَ : خَرَجَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ بَعْضِ حُجَرِہِ فَجَلَسَ عِنْدَ بَابِہَا ، وَکَانَ إِذَا جَلَسَ وَحْدَہُ لَمْ یَأْتِہِ أَحَدٌ حَتَّی یَدْعُوَہُ ، قَالَ : اُدْعُ لِی أَبَا بَکْرٍ ، قَالَ : فَجَائَ فَجَلَسَ بَیْنَ یَدَیْہِ فَنَاجَاہُ طَوِیلاً ، ثُمَّ أَمَرَہُ فَجَلَسَ عَنْ یَمِینِہِ ، أَوْ عَنْ یَسَارِہِ ، ثُمَّ قَالَ : اُدْعُ لِی عُمَرَ ، فَجَائَ فَجَلَسَ مَجْلِسَ أَبِی بَکْرٍ فَنَاجَاہُ طَوِیلا ، فَرَفَعَ عُمَرُ صَوْتَہُ ، فَقَالَ : یَا رَسُولَ اللہِ ، ہُمْ رَأْسُ الْکُفْرِ ، ہُمَ الَّذِینَ زَعَمُوا أَنَّک سَاحِرٌ ، وَأَنَّک کَاہِنٌ ، وَأَنَّک کَذَّابٌ ، وَأَنَّک مُفْتَرٍ ، وَلَمْ یَدَعْ شَیْئًا مِمَّا کَانَ أَہْلُ مَکَّۃَ یَقُولُونَہُ إِلاَّ ذَکَرَہُ ، فَأَمَرَہُ أَنْ یَجْلِسَ مِنَ الْجَانِبِ الآخَرِ ، فَجَلَسَ أَحَدُہُمَا عَنْ یَمِینِہِ وَالآخَرُ عَنْ یَسَارِہِ۔ ثُمَّ دَعَا النَّاسَ ، فَقَالَ : أَلاَ أُحَدِّثُکُمْ بِمِثْلِ صَاحِبَیْکُمْ ہَذَیْنِ ؟ قَالَوا : نَعَمْ ، یَا رَسُولَ اللہِ ، فَأَقْبَلَ بِوَجْہِہِ إِلَی أَبِی بَکْرٍ ، فَقَالَ : إِنَّ إبْرَاہِیمَ کَانَ أَلْیَنَ فِی اللہِ مِنَ الدُّہْنِ فِی اللَّبَنِ ، ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَی عُمَرَ ، فَقَالَ : إِنَّ نُوحًا کَانَ أَشَدَّ فِی اللہِ مِنَ الْحَجَرِ ، وَإِنَّ الأَمْرَ أَمْرُ عُمَرَ ، فَتَجَہَّزُوا ، فَقَامُوا فَتَبِعُوا أَبَا بَکْرٍ ، فَقَالُوا : یَا أَبَا بَکْرٍ ، إِنَّا کَرِہْنَا أَنْ نَسْأَلَ عُمَرَ ، مَا ہَذَا الَّذِی نَاجَاک بِہِ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ؟ قَالَ : قَالَ لِی : کَیْفَ تَأْمُرُونِی فِی غَزْوِ مَکَّۃَ ؟ قَالَ : قُلْتُ : یَا رَسُولَ اللہِ ، ہُمْ قَوْمُک ، قَالَ : حَتَّی رَأَیْتُ أَنَّہُ سَیُطِیعُنِی ، قَالَ : ثُمَّ دَعَا عُمَرَ ، فَقَالَ عُمَرُ : إِنَّہُمْ رَأْسُ الْکُفْرِ ، حَتَّی ذَکَرَ کُلَّ سُوئٍ کَانُوا یَذْکُرُونَہُ ، وَأَیْمُ اللہِ لاَ تَذِلُّ الْعَرَبُ حَتَّی یَذِلَّ أَہْلُ مَکَّۃَ ، فَأَمُرَکُمْ بِالْجِہَادِ لِتَغْزُوا مَکَّۃَ۔
(٣٨١٠٦) حضرت محمد بن الحنفیہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے کسی حجرہ مبارک سے باہر نکلے اور اس کے دروازہ پر تشریف فرما ہوگئے اور (عادت یہ تھی کہ) جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اکیلے تشریف فرما ہوتے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس کوئی بھی نہیں آتا تھا یہاں تک کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کسی کو خود بلاتے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ابوبکر کو میرے پاس بلاؤ۔ راوی کہتے ہیں : پس حضرت ابوبکر تشریف لے آئے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے بیٹھ گئے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت ابوبکر سے کافی دیر تک سرگوشی کی پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت ابوبکر کو حکم دیا چنانچہ وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دائیں جانب یا بائیں جانب بیٹھ گئے پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : حضرت عمر کو میرے پاس بلاؤ۔ چنانچہ حضرت عمر حاضر ہوئے اور حضرت ابوبکر کی جگہ (سامنے) بیٹھ گئے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے بھی کافی لمبی سرگوشی فرمائی اس دوران حضرت عمر کی آواز بلند ہوگئی اور کہنے لگے۔ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! یہ تو کفر کے سردار ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے آپ کو جادو گر گمان کیا اور آپ کو کاہن کہا اور آپ کو کذاب سمجھا اور آپ کو جھوٹ باندھنے والا کہا۔ حضرت عمر نے ان تمام باتوں کا ذکر فرمایا جو اہل مکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے کہتے ہیں۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عمر کو حکم دیا کہ وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دوسری جانب بیٹھ جائیں۔ چنانچہ ان حضرات شیخین میں سے ایک آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دائیں جانب اور دوسرا بائیں جانب بیٹھ گیا۔ پھر جناب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں کو بلایا اور ارشاد فرمایا : کیا میں تمہیں تمہارے ان دو ساتھیوں کی مثال نہ بتاؤں ؟ لوگوں نے عرض کیا : جی ہاں ! یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! پس رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنا رُخ مبارک حضرت ابوبکر کی طرف پھیرا اور ارشاد فرمایا : یقین کرو کہ ابراہیم اللہ تعالیٰ کے بارے میں دودھ میں تیل سے بھی زیادہ نرم تھے۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنا رُخ مبارک حضرت عمر کی طرف کیا اور فرمایا۔ حضرت نوح اللہ کے بارے میں پتھر سے بھی زیادہ سخت تھے۔ اور فیصلہ تو وہی ہے جو عمر نے کیا ہے۔ پھر صحابہ کرام نے تیاری شرو ع کردی اور کھڑے ہوگئے ۔ اور حضرت ابوبکر کے پیچھے چل پڑے اور کہنے لگے۔ اے ابوبکر ! حضرت عمر سے پوچھنا تو ہم پسند نہیں کرتے۔ (لیکن) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آپ کے ساتھ کیا سرگوشی کی تھی ؟ حضرت ابوبکر نے فرمایا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے یہ فرمایا تھا کہ تم مکہ (والوں سے) لڑنے کے بارے میں مجھے کیا کہتے ہو ؟ حضرت ابوبکر کہتے ہیں۔ میں نے عرض کیا۔ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! وہ آپ ہی کی قوم ہے۔ اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میں تو دیکھ رہا ہوں کہ یہ لوگ عنقریب میری اطاعت کرلیں گے۔ حضرت ابوبکر کہتے ہیں۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عمر کو بلایا تو حضرت عمر نے کہا۔ یہ لوگ تو کفر کے سردار ہیں حتی کہ حضرت عمر نے ہر اس بُری بات کا ذکر کردیا جو وہ لوگ کہتے تھے۔ اور خدا کی قسم ! جب تک مکہ والے ذلیل نہیں ہوں گے تب تک عرب والے ذلیل نہیں ہوں گے۔ چنانچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تمہیں جہاد کرنے کا حکم دیا ہے تاکہ مکہ پر حملہ کرو۔

38106

(۳۸۱۰۷) حَدَّثَنَا سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنْ أَبِی الْعَبَّاسِ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو ، وَقَالَ مُرَّۃُ : عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : حَاصَرَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَہْلَ الطَّائِفِ ، فَلَمْ یَنَلْ مِنْہُمْ شَیْئًا ، فَقَالَ : إِنَّا قَافِلُونَ غَدًا ، فَقَالَ الْمُسْلِمُونَ : نَرْجِعُ وَلَمْ نَفْتَتِحْہُ ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : اُغْدُوَا عَلَی الْقِتَالِ ، فَغَدَوْا ، فَأَصَابَہُمْ جِرَاحٌ ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إِنَّا قَافِلُونَ غَدًا ، فَأَعْجَبَہُمْ ذَلِکَ ، فَضَحِکَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔ (بخاری ۴۳۲۵۔ مسلم ۱۴۰۲)
(٣٨١٠٧) حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اہل طائف کا محاصرہ کیا لیکن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاتھ ان میں سے کوئی بھی نہیں آیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ہم کل واپس چلے جائیں گے۔ مسلمانوں نے عرض کیا۔ ہم واپس لوٹ جائیں گے حالانکہ ہم نے اس کو فتح نہیں کیا۔ اس پر جناب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : (چلو) صبح بھی لڑائی کرلو۔ چنانچہ صحابہ نے صبح قتال کیا تو انہی کو زخم پہنچ گئے۔ پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ہم کل واپس روانہ ہوجائیں گے۔ تو یہ بات صحابہ کرام کو پسندآئی۔ اس پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مسکرا دیئے۔

38107

(۳۸۱۰۸) حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ بْنُ مُوسَی ، عَنْ طَلْحَۃَ بْنِ جَبْرٍ ، عَنِ الْمُطَّلِبِ بْنِ عَبْدِ اللہِ ، عَنْ مُصْعَبِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ ، قَالَ : لَمَّا افْتَتَحَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَکَّۃَ انْصَرَفَ إِلَی الطَّائِفِ ، فَحَاصَرَہُمْ تِسْعَ عَشْرَۃَ ، أَوْ ثَمَانِ عَشْرَۃَ فَلَمْ یَفْتَتِحْہَا ، ثُمَّ أَوْغَلَ رَوْحَۃً ، أَوْ غَدْوَۃً ، فَنَزَلَ ، ثُمَّ ہَجَّرَ ، ثُمَّ قَالَ : أَیُّہَا النَّاسُ ، إِنِّی فَرَطٌ لَکُمْ ، فَأُوصِیکُمْ بِعِتْرَتِی خَیْرًا ، وَإِنَّ مَوْعِدَکُمَ الْحَوْضُ ، وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ ، لَتُقِیمُنَّ الصَّلاَۃَ وَلتُؤْتُنَّ الزَّکَاۃَ ، أَوْ لأَبْعَثَنَّ إِلَیْکُمْ رَجُلاً مِنِّی ، أَوْ کَنَفْسِی ، فَلَیَضْرِبَنَّ أعَنْاقَ مُقَاتِلَتِہِمْ وَلَیَسْبِیَنَّ ذَرَارِیَّہُمْ ، قَالَ : فَرَأَی النَّاسُ أَنَّہُ أَبُو بَکْرٍ ، أَوْ عُمَرُ ، فَأَخَذَ بِیَدِ عَلِیٍّ ، فَقَالَ : ہَذَا۔
(٣٨١٠٨) حضرت عبد الرحمن بن عوف روایت بیان کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مکہ کو فتح کرلیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) طائف کی طرف چل پڑے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے طائف والوں کا اٹھارہ یا انیس (دن) محاصرہ کیا لیکن طائف کو فتح نہ کرسکے پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک صبح یا ایک شام محاصرہ کو شدید کیا۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پڑاؤ ڈالا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دوپہر کے وقت (ہی) چل پڑے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اے لوگو ! میں تم سے پہلے (آگے) پہنچنے والا ہوں لہٰذا میں تمہیں اپنی عزت کے ساتھ خیر کی وصیت کرتا ہوں۔ اور یقین جانو کہ تمہارے ساتھ میرے وعدہ کی جگہ حوض ہے۔ قسم اس ذات کی جس کے قبضہ مں ے میری جان ہے تم لوگ نماز کو ضرور بالضرور قائم کرتے رہنا اور زکوۃ کو ضرور بالضرور ادا کرتے رہنا یا میں تمہاری طرف اپنے میں سے ایک اپنی طرح کا ایک آدمی بھیج دوں گا۔ جو اُن (اہل ایمان) سے لڑنے والوں کی گردنیں مارے گا اور ان کے افراد کو قیدی بنا لائے گا۔ راوی کہتے ہیں : لوگوں کا خیال یہ ہوا کہ یہ آدمی حضرت ابوبکر ہوں گے یا حضرت عمر ہوں گے۔ لیکن جناب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت علی کا ہاتھ پکڑا اور ارشاد فرمایا : وہ آدمی یہ ہے۔

38108

(۳۸۱۰۹) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ الثَّقَفِیُّ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُثْمَانَ بْنِ خُثَیْمٍ ، عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ ؛ أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حَاصَرَ أَہْلَ الطَّائِفِ ، فَجَائَہُ أَصْحَابُہُ ، فَقَالُوا : یَا رَسُولَ اللہِ ، أَحْرَقَتْنَا نِبَالُ ثَقِیفٍ ، فَادْعُ اللَّہَ عَلَیْہِمْ ، فَقَالَ : اللَّہُمَ اہْدِ ثَقِیفًا ، مَرَّتَیْنِ۔ قَالَ : وَجَائَتْہُ خَوْلَۃُ ، فَقَالَ : إِنِّی نُبِّئْتُ أَنَّ بِنْتَ خُزَاعَۃَ ذَاتُ حُلِیٍّ ، فَنَفِّلَنِّی حُلِیَّہَا إِنْ فَتَحَ اللَّہُ عَلَیْک الطَّائِفَ غَدًا ، قَالَ : إِنْ لَمْ یَکُنْ أَذِنَ لَنَا فِی قِتَالِہِمْ ؟ فَقَالَ رَجُلٌ ، نُرَاہُ عُمَرَ : یَا رَسُولَ اللہِ ، مَا مُقَامُک عَلَی قَوْمٍ لَمْ یُؤْذَنْ لَک فِی قِتَالِہِمْ ؟ قَالَ : فَأَذَّنَ فِی النَّاسِ بِالرَّحِیلِ ، فَنَزَلَ الْجِعْرَانَۃَ، فَقَسَّمَ بِہَا غَنَائِمَ حُنَیْنٍ ، ثُمَّ دَخَلَ مِنْہَا بِعُمْرَۃٍ ، ثُمَّ انْصَرَفَ إِلَی الْمَدِینَۃِ۔
(٣٨١٠٩) حضرت ابو الزبیر سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اہل طائف کا محاصرہ کیا۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ حاضر ہوئے اور عرض کیا۔ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ہمیں تو بنو ثقیف کے نیزوں نے جلا ڈالا ہے لہٰذا آپ اللہ تعالیٰ سے ان کے خلاف بد دعا کریں ۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے اللہ ! بنو ثقیف کو ہدایت دے۔ دو مرتبہ فرمایا۔ راوی کہتے ہیں : پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حضرت خولہ حاضر ہوئیں اور عرض کیا۔ مجھے خبر ملی ہے کہ خزاعہ کی بیٹی بہت زیورات والی ہے۔ لہٰذا اگر اللہ تعالیٰ کل آپ کو طائف فتح کروا دیں تو آپ اس کے زیورات مجھے ہدیہ فرما دیجئے گا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اگر اللہ تعالیٰ نے ہمیں ان سے لڑائی کی جازت ہی نہ دی ہو ؟ اس پر ایک آدمی نے ۔۔۔ ہمارے خیال میں حضرت عمر تھے ۔۔۔ کہا ۔۔۔ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! جس قوم کے بارے میں آپ کو لڑائی کی اجازت نہیں دی گئی اس پر آپ نے پڑاؤ کیوں ڈالا ہوا ہے ؟ راوی کہتے ہیں : پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں کو کوچ کرنے کا حکم دیا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (آ کر) مقام جعرانہ میں اترے اور وہاں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حنین کی غنیمتوں کو تقسیم فرمایا پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وہیں سے عمرہ کے لیے داخل ہوگئے پھر (عمرہ کے بعد) مدینہ منورہ چلے گئے۔

38109

(۳۸۱۱۰) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الْحَجَّاجِ ، عَنِ الْحَکَمِ ، عَنْ مِقْسَمٍ ، عَنِ ابْنِ عبَّاسٍ ، قَالَ : أَعْتَقَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَوْمَ الطَّائِفِ کُلَّ مَنْ خَرَجَ إِلَیْہِ مِنْ رَقِیقِ الْمُشْرِکِینَ۔
(٣٨١١٠) حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے طائف کے دن ، مشرکین کے غلاموں میں سے جو کوئی بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف آیا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو آزاد فرما دیا۔

38110

(۳۸۱۱۱) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنِ الْحَجَّاجِ ، عَنِ الْحَکَمِ ، عَنْ مِقْسَمٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : خَرَجَ غُلاَمَانِ إِلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَوْمَ الطَّائِفِ فَأَعْتَقَہُمَا ، أَحَدُہُمَا أَبُو بَکْرَۃَ ، فَکَانَا مَوْلَیَیْہِ۔
(٣٨١١١) حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ جناب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف دو غلام طائف کے دن نکل کر آئے تھے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان دونوں کو آزاد فرما دیا تھا۔ ان میں سے ایک ابو بکرہ تھے ۔ چنانچہ یہ دونوں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے موالی (آزاد کردہ) تھے۔

38111

(۳۸۱۱۲) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ کَہْمَسٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ شَقِیقٍ ، قَالَ : کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مُحَاصِرًا وَادِیَ الْقُرَی۔ (بیہقی ۳۲۴)
(٣٨١١٢) حضرت عبداللہ بن شقیق بیان کرتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وادی قُریٰ کا محاصرہ فرمایا۔

38112

(۳۸۱۱۳) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا قَیْسٌ ، عَنْ أَبِی حَصِینٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْن سِنَانٍ ؛ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حَاصَرَ أَہْلَ الطَّائِفِ خَمْسَۃً وَعِشْرِینَ یَوْمًا ، یَدْعُو عَلَیْہِمْ فِی دُبُرِ کُلِّ صَلاَۃٍ۔
(٣٨١١٣) حضرت عبداللہ بن سنان سے روایت ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اہل طائف کا پچیس دن تک محاصرہ فرمایا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے خلاف ہر نماز کے بعد بد دعا فرمائی۔

38113

(۳۸۱۱۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ السَّائِبِ ، قَالَ سَمِعْتُ شَیْخًا مِنْ بَنِی عَامِرٍ ، أَحَدِ بَنِی سُوَائَۃَ ، یُقَالُ لَہُ : عُبَیْدُ اللہِ بْنُ مُعَیَّۃَ ، قَالَ : أُصِیبَ رَجُلاَنِ یَوْمَ الطَّائِفِ ، قَالَ : فَحُمِلاَ إِلَی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، قَالَ : فَأُخْبِرَ بِہِمَا ، فَأَمَرَ بِہِمَا أَنْ یُدْفَنَا حَیْثُ أُصِیبَا وَلُقِیَا۔
(٣٨١١٤) حضرت عبداللہ بن معیہ بیان کرتے ہیں کہ طائف کے دن دو افراد زخمی ہوگئے ۔ راوی کہتے ہیں : انھیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں لایا گیا۔ اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان کے بارے میں بتایا گیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے بارے میں یہ حکم دیا کہ جہاں پر یہ پائے گئے اور قتل ہوئے وہیں پر ان کو دفن کیا جائے۔

38114

(۳۸۱۱۵) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا نَافِعُ بْنُ عُمَرَ ، عَنْ أُمَیَّۃَ بْنِ صَفْوَانَ ، عَنْ أَبِی بَکْرِ بْنِ أَبِی زُہَیْرٍ الثَّقَفِیِّ ، عَنْ أَبِیہِ ؛ أَنَّہُ سَمِعَ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ فِی خُطْبَتِہِ بِالنَّبَاۃِ ، أَوْ بِالنَّبَاوَۃِ ، وَالنَّبَاوَۃُ مِنَ الطَّائِفِ: تُوشِکُونَ أَنْ تَعْرِفُوا أَہْلَ الْجَنَّۃِ مِنْ أَہْلِ النَّارِ ، وَخِیَارَکُمْ مِنْ شِرَارِکُمْ ، قَالَوا : بِمَ ، یَا رَسُولَ اللہِ؟ قَالَ : بِالثَّنَائِ الْحَسَنِ وَالثَّنَائِ السَّیِّئِ ، أَنْتُمْ شُہَدَائُ اللہِ فِی الأَرْضِ۔ (ابن ماجہ ۴۲۲۱۔ احمد ۴۱۶)
(٣٨١١٥) حضرت ابوبکر بن ابی زہیر ثقفی اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مقام نَبَاۃَ یا مقام نَبَاوَۃ میں ۔۔۔ نباوہ طائف کا حصہ ہے۔ خطبہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے خطبہ میں فرما رہے تھے۔ ” قریب ہے کہ تم اہل جنت کو اہل جہنم سے (جدا) پہچان لو ۔ اور اپنے بہتر لوگوں کو بدتر لوگوں سے (جدا) پہچان لو۔ “ لوگوں نے عرض کیا۔ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! کس ذریعہ سے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ ” اچھی تعریف کے ذریعہ سے اور بُری تعریف کے ذریعہ سے، تم لوگ زمین میں خدا کے گواہ ہو۔ “

38115

(۳۸۱۱۶) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَنْ زَائِدَۃَ ، قَالَ : قَالَ عَبْدُ الْمَلِکِ : قَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَہُوَ مُحَاصِرٌ ثَقِیفًا : مَا رَأَیْتُ الْمَلَکَ مُنْذُ نَزَلْتُ مَنْزِلِی ہَذَا ، قَالَ : فَانْطَلَقَتْ خَوْلَۃُ بِنْتُ حَکِیمٍ السُّلَمِیَّۃُ ، فَحَدَّثَتْ ذَلِکَ عُمَرَ ، فَأَتَی عُمَرُ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَذَکَرَ لَہُ قَوْلَہَا ، فَقَالَ : صَدَقَتْ ، فَأَشَارَ عُمَرُ عَلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِالرَّحِیلِ ، فَارْتَحَلَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔
(٣٨١١٦) حضرت عبد الملک بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب بنو ثقیف کا محاصرہ کیا ہوا تھا تب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جب سے میں نے اس جگہ پڑاؤ کیا ہے تب سے میں نے فرشتہ نہیں دیکھا۔ راوی کہتے ہیں : (یہ بات سن کر) حضرت خولہ بنت حکیم سلیمہ چل پڑیں اور انھوں نے یہ بات حضرت عمر کو بیان فرمائی۔ حضرت عمر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے خولہ کی بات بیان کی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : خولہ سچ کہتی ہیں۔ پھر حضرت عمر نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کوچ کرنے کا اشارہ کیا چنانچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کوچ فرما لیا۔

38116

(۳۸۱۱۷) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ ، قَالَ : لَمَّا انْصَرَفَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ حُنَیْنٍ بَعْدَ الطَّائِفِ ، قَالَ : أَدُّوا الْخِیَاطَ وَالْمِخْیَطَ ، فَإِنَّ الْغُلُولَ نَارٌ ، وَعَارٌ ، وَشَنَارٌ عَلَی أَہْلِہِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ إِلاَّ الْخُمُسَ ، ثُمَّ تَنَاوَلَ شَعَرَۃً مِنْ بَعِیرٍ ، فَقَالَ : مَا لِی مِنْ مَالِکُمْ ہَذَا إِلاَّ الْخُمُسُ ، وَالْخُمُسُ مَرْدُودٌ عَلَیْکُمْ۔ (عبدالرزاق ۹۴۹۸۔ احمد ۱۸۴)
(٣٨١١٧) حضرت عمرو بن شعیب سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) طائف کے بعد حنین سے واپس ہوئے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا :” سوئی ، دھاگہ (تک) جمع کروا دو ۔ کیونکہ غنیمت میں خیانت جہنم ہے اور خیانت کرنے والے کے لیے قیامت کے دن عیب و رسوائی ہے۔ “ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اونٹ کا ایک بال پکڑا اور فرمایا ” میرے لیے تمہارے اس مال میں سے یہ بھی نہیں ہے سوائے خمس کے اور خمس بھی (انجام کے اعتبار سے) تمہاری طرف رد ہوجاتا ہے۔

38117

(۳۸۱۱۸) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ الأَسَدِیُّ ، قَالَ : حدَّثَنَا إِبْرَاہِیمُ بْنُ طَہْمَانَ ، عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ ، عَنْ عُتْبَۃَ مَوْلَی ابْنِ عَبَّاسٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : لَمَّا قَدِمَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنَ الطَّائِفِ نَزَلَ الْجِعْرَانَۃَ ، فَقَسَّمَ بِہَا الْغَنَائِمَ ، ثُمَّ اعْتَمَرَ مِنْہَا ، وَذَلِکَ لِلَیْلَتَیْنِ بَقِیَتَا مِنْ شَوَّالٍ۔ (ابن سعد ۱۷۱۔ ابویعلی ۲۳۷۰)
(٣٨١١٨) حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) طائف سے تشریف لائے تو مقام جعرانہ میں فروکش ہوئے اور وہیں پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غنیمتوں کو تقسیم فرمایا۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسی مقام پر عمرہ ادا فرمایا۔ اور یہ واقعہ شوال کی آخری دو راتوں سے قبل کا ہے۔

38118

(۳۸۱۱۹) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ زُرَارَۃَ ، عَنْ أَشْیَاخِہِ ، عَنِ الزُّبَیْرِ ؛ أَنَّہُ مَلَکَ یَوْمَ الطَّائِفِ خَالاَتٍ لَہُ ، فَأُعْتِقْنَ بِمِلْکِہِ إِیَّاہُنَّ۔
(٣٨١١٩) حضرت زبیر سے روایت ہے کہ وہ طائف کے دن اپنی کچھ خالاؤں کے مالک ہوئے (لیکن) پھر وہ خالائیں ان کی ملکیت میں آنے کی وجہ سے ان پر آزاد ہوگئیں۔

38119

(۳۸۱۲۰) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنِ الْحَکَمِ ، عَنْ مِقْسَمٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ؛ أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَعَثَ إِلَی مُؤْتَۃَ ، فَاسْتَعْمَلَ زَیْدًا ، فَإِنْ قُتِلَ زَیْدٌ فَجَعْفَرٌ ، فَإِنْ قُتِلَ جَعْفَرٌ فَابْنُ رَوَاحَۃَ ، فَتَخَلَّفَ ابْنُ رَوَاحَۃَ فَجَمَّعَ مَعَ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَرَآہُ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : مَا خَلَّفَکَ ؟ قَالَ : أُجَمِّعُ مَعَک ، قَالَ : لَغَدْوَۃٌ ، أَوْ رَوْحَۃٌ فِی سَبِیلِ اللہِ خَیْرٌ مِنَ الدُّنْیَا وَمَا فِیہَا۔
(٣٨١٢٠) حضرت ابن عباس روایت بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مؤتہ کے طرف لشکر روانہ فرمایا اور ان پر حضرت زید کو حاکم مقرر فرمایا اور اگر یہ قتل ہوجائیں تو پھر حضرت جعفر امیر ہوں گے اور اگر یہ بھی قتل ہوجائیں تو پھر ابن رواحہ امیر ہوں گے۔ حضرت ابن رواحہ لشکر سے پیچھے رہ گئے اور انھوں نے جناب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہمراہ جمعہ کی نماز ادا فرمائی چنانچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو دیکھا اور پوچھا۔ تمہیں کس چیز نے (لشکر سے) پیچھے کردیا ؟ انھوں نے جواب دیا۔ (اس لیے رُکا) تاکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہمراہ جمعہ کی نماز ادا کرلوں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ” اللہ کے راستہ میں ایک صبح یا ایک شام دنیا ومافیہا سے بہتر ہے۔ “

38120

(۳۸۱۲۱) حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ حَرْبٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا الأَسْوَدُ بْنُ شَیْبَانَ ، عَنْ خَالِدِ بْنِ سُمَیْرٍ ، قَالَ : قَدِمَ عَلَیْنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ رَبَاحٍ الأَنْصَارِیُّ ، قَالَ : وَکَانَتِ الأَنْصَارُ تُفَقِّہُہُ ، قَالَ : حَدَّثَنَا أَبُو قَتَادَۃَ فَارِسُ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : بَعَثَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ جَیْشَ الأُمَرَائِ ، وَقَالَ : عَلَیْکُمْ زَیْدُ بْنُ حَارِثَۃَ ، فَإِنْ أُصِیبَ زَیْدٌ فَجَعْفَرُ بْنُ أَبِی طَالِبٍ ، فَإِنْ أُصِیبَ جَعْفَرٌ فَعَبْدُ اللہِ بْنُ رَوَاحَۃَ ، فَوَثَبَ جَعْفَرٌ ، فَقَالَ : یَا رَسُولَ اللہِ ، مَا کُنْتُ أَرْہَبُ أَنْ تَسْتَعْمِلَ عَلَیَّ زَیْدًا ، فَقَالَ : امْضِ ، فَإِنَّک لاَ تَدْرِی أَیُّ ذَلِکَ خَیْرٌ۔ فَانْطَلَقُوا ، فَلَبِثُوا مَا شَائَ اللَّہُ ، ثُمَّ إِنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صَعِدَ الْمِنْبَرَ ، وَأَمَرَ فَنُودِیَ : الصَّلاَۃُ جَامِعَۃٌ ، فَاجْتَمَعَ النَّاسُ إِلَی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : ثَابَ خَیْرٌ ، ثَابَ خَیْرٌ ، ثَلاَثًا ، أُخْبِرُکُمْ عَنْ جَیْشِکُمْ ہَذَا الْغَازِی ، انْطَلَقُوا فَلَقُوا الْعَدُوَّ ، فَقُتِلَ زَیْدٌ شَہِیدًا ، فَاسْتَغْفِرُوا لَہُ ، ثُمَّ أَخَذَ اللِّوَائَ جَعْفَرُ بْنُ أَبِی طَالِبٍ ، فَشَدَّ عَلَی الْقَوْمِ حَتَّی قُتِلَ شَہِیدًا ، اشْہَدُوا لَہُ بِالشَّہَادَۃِ ، وَاسْتَغْفِرُوا لَہُ ، ثُمَّ أَخَذَ اللِّوَائَ عَبْدُ اللہِ بْنُ رَوَاحَۃَ ، فَأَثْبَتَ قَدَمَیْہِ حَتَّی قُتِلَ شَہِیدًا ، فَاسْتَغْفِرُوا لَہُ ، ثُمَّ أَخَذَ اللِّوَائَ خَالِدُ بْنُ الْوَلِیدِ ، وَلَمْ یَکُنْ مِنَ الأُمَرَائِ ، ہُوَ أَمَّرَ نَفْسَہُ ، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : اللَّہُمَّ إِنَّہُ سَیْفٌ مِنْ سُیُوفِکَ ، فَأَنْتَ تَنْصُرُہُ ، فَمِنْ یَوْمَئِذٍ سُمِّیَ سَیْفَ اللہِ الْمَسْلُولَ ، وَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : انْفِرُوا ، فَأَمِدُّوا إِخْوَانَکُمْ ، وَلاَ یَتَخَلَّفَنَّ مِنْکُمْ أَحَدٌ ، فَنَفَرُوا مُشَاۃً وَرُکْبَانًا ، وَذَلِکَ فِی حَرٍّ شَدِیدٍ۔ فَبَیْنَمَا ہُمْ لَیْلَۃً مُمَایَلِینُ عَنِ الطَّرِیقِ ، إِذْ نَعَسَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حَتَّی مَالَ عَنِ الرَّحْلِ ، فَأَتَیْتُہُ ، فَدَعَّمْتُہُ بِیَدَیَّ ، فَلَمَّا وَجَدَ مَسَّ یَدِ رَجُلٍ اعْتَدَلَ ، فَقَالَ : مَنْ ہَذَا ؟ فَقُلْتُ : أَبُو قَتَادَۃَ ، فَسَارَ أَیْضًا ثُمَّ نَعَسَ حَتَّی مَالَ عَنِ الرَّحْلِ ، فَأَتَیْتُہُ ، فَدَعَّمْتُہُ بِیَدَیَّ ، فَلَمَّا وَجَدَ مَسَّ یَدِ رَجُلٍ اعْتَدَلَ ، فَقَالَ : مَنْ ہَذَا ؟ فَقُلْتُ : أَبُو قَتَادَۃَ ، قَالَ فِی الثَّانِیَۃِ ، أَوِ الثَّالِثَۃِ ، قَالَ : مَا أُرَانِی إِلاَّ قَدْ شَقَقْتُ عَلَیْک مُنْذُ اللَّیْلَۃِ ، قَالَ : قُلْتُ : کَلاَ ، بِأَبِی أَنْتَ وَأُمِّی ، وَلَکِنْ أَرَی الْکَرَی أَو النُّعَاسَ قَدْ شَقَّ عَلَیْک ، فَلَوْ عَدَلْتَ فَنَزَلْتَ حَتَّی یَذْہَبَ کَرَاکَ ، قَالَ : إِنِّی أَخَافُ أَنْ یُخْذَلَ النَّاسُ ، قَالَ : قُلْتُ : کَلاَّ ، بِأَبِی وَأُمِّی۔ قَالَ: فَابْغِنَا مَکَانًا خَمِیرًا، قَالَ: فَعَدَلْتُ عَنِ الطَّرِیقِ، فَإِذَا أَنَا بِعُقْدَۃٍ مِنْ شَجَرٍ، فَجِئْتُ، فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللہِ، ہَذِہِ عُقْدَۃٌ مِنْ شَجَرٍ قَدْ أَصَبْتُہَا ، قَالَ : فَعَدَلَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَعَدَلَ مَعَہُ مَنْ یَلِیہِ مِنْ أَہْلِ الطَّرِیقِ ، فَنَزَلُوا وَاسْتَتَرُوا بِالْعُقْدَۃِ مِنَ الطَّرِیقِ ، فَمَا اسْتَیْقَظْنَا إِلاَّ بِالشَّمْسِ طَالِعَۃً عَلَیْنَا ، فَقُمْنَا وَنَحْنُ وَہِلِینَ ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : رُوَیْدًا رُوَیْدًا ، حَتَّی تَعَالَتِ الشَّمْسُ ، ثُمَّ قَالَ : مَنْ کَانَ یُصَلِّی ہَاتَیْنِ الرَّکْعَتَیْنِ قَبْلَ صَلاَۃِ الْغَدَاۃِ فَلْیُصَلِّہِمَا ، فَصَلاَہُمَا مَنْ کَانَ یُصَلِّیہِمَا ، وَمَنْ کَانَ لاَ یُصَلِّیہِمَا۔ ثُمَّ أَمَرَ فَنُودِیَ بِالصَّلاَۃِ ، ثُمَّ تَقَدَّمَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَصَلَّی بِنَا ، فَلَمَّا سَلَّمَ ، قَالَ : إِنَّا نَحْمَدُ اللَّہَ ، أَنا لَمْ نَکُنْ فِی شَیْئٍ مِنْ أَمْرِ الدُّنْیَا یَشْغَلُنَا عَنْ صَلاَتِنَا ، وَلَکِنْ أَرْوَاحَنَا کَانَتْ بِیَدِ اللہِ ، أَرْسَلَہَا أَنَّی شَائَ ، أَلاَ فَمَنْ أَدْرَکَتْہُ ہَذِہِ الصَّلاَۃُ مِنْ عَبْدٍ صَالِحٍ فَلْیَقْضِ مَعَہَا مِثْلَہَا۔ قَالَوا : یَا رَسُولَ اللہِ ، الْعَطَشُ ، قَالَ : لاَ عَطَشَ ، یَا أَبَا قَتَادَۃَ ، أَرِنِی الْمَیْضَأَۃَ ، قَالَ : فَأَتَیْتُہُ بِہَا ، فَجَعَلَہَا فِی ضِبْنِہِ ، ثُمَّ الْتَقَمَ فَمَہَا ، فَاَللَّہُ أَعْلَمُ أَنَفَثَ فِیہَا ، أَمْ لاَ ، ثُمَّ قَالَ : یَا أَبَا قَتَادَۃَ ، أَرِنِی الْغُمَرَ عَلَی الرَّاحِلَۃِ ، فَأَتَیْتہ بِقَدَحٍ بَیْنَ الْقَدَحَیْنِ ، فَصَبَّ فِیہِ ، فَقَالَ : اسْقِ الْقَوْمَ ، وَنَادَی رَسُولُ اللہِ وَرَفَعَ صَوْتَہُ : أَلاَ مَنْ أَتَاہُ إِنَاؤُہُ فَلْیَشْرَبْہُ ، فَأَتَیْتُ رَجُلاً فَسَقَیْتُہُ ، ثُمَّ رَجَعْتُ إِلَی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِفَضْلَۃِ الْقَدَحِ ، فَذَہَبْتُ فَسَقَیْتُ الَّذِی یَلِیہِ ، حَتَّی سَقَیْتُ أَہْلَ تِلْکَ الْحَلْقَۃِ ، ثُمَّ رَجَعْتُ إِلَی رَسُولِ اللَّہ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِفَضْلَۃِ الْقَدَحِ ، فَذَہَبْتُ فَسَقَیْتُ حَلْقَۃً أُخْرَی ، حَتَّی سَقَیْت سَبْعَۃَ رُفَقٍ۔ وَجَعَلْتُ أَتَطَاوَلُ ، أَنْظُرُ ہَلْ بَقِیَ فِیہَا شَیْئٌ ، فَصَبَّ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی الْقَدَحِ ، فَقَالَ لِی: اشْرَبْ ، قَالَ : قُلْتُ : بِأَبِی أَنْتَ وَأُمِّی ، إِنِّی لاَ أَجِدُ بِی کَثِیرَ عَطَشٍ ، قَالَ إِلَیْک عَنِّی ، فَإِنِّی سَاقِی الْقَوْمَ مُنْذُ الْیَوْمِ ، قَالَ : فَصَبَّ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی الْقَدَحِ فَشَرِبَ ، ثُمَّ صَبَّ فِی الْقَدَحِ فَشَرِبَ، ثُمَّ صَبَّ فِی الْقَدَحِ فَشَرِبَ ، ثُمَّ رَکِبَ وَرَکِبْنَا۔ ثُمَّ قَالَ : کَیْفَ تَرَی الْقَوْمَ صَنَعُوا حِینَ فَقَدُوا نَبِیَّہُمْ ، وَأَرْہَقَتْہُمْ صَلاَتُہُمْ ؟ قُلْتُ : اللَّہُ وَرَسُولُہُ أَعْلَمُ ، قَالَ : أَلَیْسَ فِیہِمْ أَبُو بَکْرٍ وَعُمَرُ ؟ إِنْ یُطِیعُوہُمَا فَقَدْ رَشَِدُوا ، وَرَشَِدَتْ أُمَّتُہُمْ ، وَإِنْ یَعْصُوہُمَا فَقَدْ غَوَوْا وَغَوَتْ أُمَّتُہُمْ ، قَالَہَا ثَلاَثًا ، ثُمَّ سَارَ وَسِرْنَا ، حَتَّی إِذَا کُنَّا فِی نَحْرِ الظَّہِیرَۃِ ، إِذَا نَاسٌ یَتَّبِعُونَ ظِلاَلَ الشَّجَرَۃِ، فَأَتَیْنَاہُمْ ، فَإِذَا نَاسٌ مِنَ الْمُہَاجِرِینَ فِیہِمْ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ ، قَالَ : فَقُلْنَا لَہُمْ : کَیْفَ صَنَعْتُمْ حِینَ فَقَدْتُمْ نَبِیَّکُمْ ، وَأَرْہَقَتْکُمْ صَلاَتُکُمْ ؟ قَالَوا : نَحْنُ وَاللہِ نُخْبِرُکُمْ ، وَثَبَ عُمَرُ ، فَقَالَ لأَبِی بَکْرٍ : إِنَّ اللَّہَ قَالَ فِی کِتَابِہِ: {إِنَّک مَیِّتٌ وَإِنَّہُمْ مَیِّتُونَ} وَإِنِّی وَاللہِ مَا أَدْرِی لَعَلَّ اللَّہَ قَدْ تَوَفَّی نَبِیَّہُ ، فَقُمْ فَصَلِّ وَانْطَلِقْ، إِنِّی نَاظِرٌ بَعْدَک وَمُتلوِّمٌ ، فَإِنْ رَأَیْتُ شَیْئًا وَإِلاَّ لَحِقْتُ بِکَ ، قَالَ : وَأُقِیمَتِ الصَّلاَۃُ ، وَانْقَطَعَ الْحَدِیثُ۔ (ابوداؤد ۴۳۸۔ ترمذی ۱۷۷)
(٣٨١٢١) حضرت خالد بن سمرہ روایت کرتے ہیں کہ ہمارے پاس حضرت عبداللہ بن رباح انصاری تشریف لائے ۔۔۔ اور انصار صحابہ ان کو فقیہ سمجھتے تھے تو انھوں نے فرمایا : ہمیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گھڑ سوار ابو قتادہ نے بیان کیا۔ کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جیش الامراء (غزوہ مؤتہ کا لشکر) کو روانہ فرمایا تو ارشاد فرمایا : ” تم پر زید بن حارثہ حاکم ہیں۔ پس اگر یہ قتل ہوجائیں تو پھر جعفر بن ابی طالب ہیں اور اگر یہ بھی قتل ہوجائیں تو پھر عبداللہ بن رواحہ ہیں۔ “ حضرت جعفر اچھل پڑے اور عرض کیا۔ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! میں اس بات سے خوف نہیں کھاتا کہ آپ مجھ پر زید کو حاکم بنائیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جانے دو ! تم نہیں جانتے کہ ان میں کیا چیز خیر ہے۔
٢۔ پھر یہ لوگ چل پڑے اور جتنی دیر اللہ کو منظور تھا یہ لوگ وہاں رہے ۔ پھر (ایک دن) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) منبر پر تشریف فرما ہوئے اور حکم دیا اور یہ منادی کی گئی کہ الصلاۃ جامعۃ۔ چنانچہ لوگ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں جمع ہوگئے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” خیر کی بات پہنچی ہے ، خیر کی بات پہنچی ہے۔ یہ بات تین مرتبہ ارشاد فرمائی۔۔۔ میں تمہیں اس لڑنے والے لشکر کے بارے میں خبر دیتا ہوں۔ یہ لوگ (یہاں سے) چلے تو ان کی دشمن سے ملاقات (اور لڑائی) ہوئی چنانچہ حضرت زید شہادت کی حالت میں قتل کردیئے گئے۔ تم لوگ ان کے لیے استغفار کرو، پھر جھنڈا حضرت جعفر بن ابی طالب نے سنبھال لیا اور انھوں نے دشمن پر خوب حملہ کیا یہاں تک کہ وہ بھی شہادت کی حالت میں قتل ہوگئے۔ تم ان کی شہادت پر گواہ بن جاؤ اور ان کے لیے استغفار کرو۔ پھر جھنڈا، حضرت عبداللہ بن رواحہ نے سنبھال لیا اور اپنے قدم خوب جما لیے (لیکن) آخر کار وہ شہید کردیئے گئے۔ تم ان کے لیے استغفار کرو پھر (ان کے بعد) جھنڈا حضرت خالد بن الولید نے سنبھال لیا ہے حالانکہ وہ (پہلے سے متعین) امیروں میں سے نہیں تھے (بلکہ) انھوں نے خود اپنے آپ کو امیر بنا لیا ہے۔ “ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دعا مانگی ” اے اللہ ! یہ خالد تو تیری تلواروں میں سے ایک تلوار ہیں تو ہی ان کی مدد فرما۔ “ اس دن سے حضرت خالد بن الولید کا نام سیف اللہ المسلول پڑگیا ۔ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ” نکل جاؤ اور اپنے بھائیوں کی مدد کرو۔ کوئی بھی تم میں سے پیچھے نہ رہے۔ “ چنانچہ صحابہ کرام پیدل اور سوار ہو کر نکل پڑے اور یہ سخت گرمی کا وقت تھا۔
٣۔ ایک رات صحابہ راستہ سے ہٹے ہوئے تھے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اونگھ آگئی یہاں تک کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کجاوہ سے ایک طرف جھک گئے ۔ چنانچہ میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس پہنچا اور میں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنے ہاتھ سے سہارا دیا۔ پس جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سیدھا کرنے والے آدمی کے ہاتھ کا چھونا محسوس فرمایا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا : یہ کون شخص ہے ؟ میں نے عرض کیا : ابو قتادہ ہے۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چل پڑے پھر (دوبارہ) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اونگھ آئی یہاں تک کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے کجاوہ سے ایک طرف جھک گئے ۔ میں (دوبارہ) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس حاضر ہوا اور میں نے اپنے ہاتھ سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سہارا دیا۔ پھر جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کسی سیدھا کرنے والے آدمی کے ہاتھ کا چھونا محسوس کیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا۔ یہ کون شخص ہے ؟ میں نے عرض کیا۔ ابو قتادہ ہے۔ راوی کہتے ہیں : آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دوسری مرتبہ یا تیسری مرتبہ میں ارشاد فرمایا : میرا خیال تو اپنے بارے میں یہ ہے کہ میں نے تمہیں آج کی رات مشقت میں ڈال دیا ہے۔ راوی کہتے ہیں : میں نے عرض کیا۔ ہرگز نہیں ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں۔ میں تو دیکھ رہا ہوں کہ نیند یا اونگھ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مشقت میں ڈالا ہوا ہے۔ لہٰذا اگر آپ ایک طرف ہوجائیں اور پڑاؤ ڈال لیں تاکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نیند ختم ہوجائے ۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : مجھے اس بات کا خوف ہے کہ لوگ ان یخذل الناس۔ راوی کہتے ہیں : میں نے عرض کیا : ہرگز نہیں ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں۔
٤۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” پھر تم ہمارے واسطے پردے والی جگہ تلاش کرو۔ “ راوی کہتے ہیں : میں راستہ سے اترا تو اچانک مجھے درختوں کا ایک جھُنڈ نظر آیا۔ چنانچہ میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور میں نے عرض کیا۔ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! یہ درختوں کا جُھنڈ ہے جو مجھے ملا ہے۔ راوی کہتے ہیں : پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور جو لوگ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ راستہ پر تھے وہ راستہ سے ایک طرف ہٹے اور انھوں نے پڑاؤ کیا اور درختوں کے جھنڈ میں راستہ سے پردہ کرلیا۔ پھر ہماری آنکھ اس حالت میں کھلی کہ سورج ہم پر طلوع ہوچکا تھا۔ چنانچہ ہم کھڑے ہوئے درآنحالیکہ ہم خوف زدہ تھے ۔ تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ” آرام آرام سے “ یہاں تک کہ سورج بلند ہوگیا پھر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ” جس آدمی نے ان دو رکعات کو صبح کی نماز سے پہلے ادا کیا ہے وہ بھی ان کو ادا کرلے “ چنانچہ یہ دو رکعات ان لوگوں نے بھی پڑھیں جنہوں نے ان کو (پہلے) پڑھا تھا اور انھوں نے بھی پڑھا جنہوں نے پہلے نہیں پڑھا تھا۔
٥۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حکم دیا اور نماز کے لیے منادی کی گئی پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آگے ہوگئے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں نماز پڑھائی اور جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سلام پھیرا تو فرمایا : ” ہم اللہ تعالیٰ کی تعریف بیان کرتے ہیں۔ ہم کسی ایسی دنیوی چیز میں مشغول نہیں تھے کہ جس نے ہمیں نماز سے لاپرواہ کردیا ہو بلکہ ہماری ارواح اللہ تعالیٰ کے قبضہ میں تھیں۔ جب چاہتے ہیں روحوں کو بھیجتے ہیں۔ خبردار ! جس آدمی کو یہ نماز کسی بندہ صالح کی طرف سے آ لے تو اس کو چاہیے کہ اس کے ساتھ ایسی نماز ہی قضا کرلے۔ “
٦۔ صحابہ نے عرض کیا۔ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! پیاس ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” کوئی پیاس نہیں ہے۔ اے ابو قتادہ ! مجھے وضو والا برتن دو “۔ راوی کہتے ہیں : میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس وضو والا برتن لے کر حاضر ہوا ۔ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو اپنی گود میں رکھ لیا۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے منہ کے ساتھ منہ لگایا ۔ اللہ بہتر جانتا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس میں پھونک ماری یا نہیں ماری۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے ابو قتادہ ! مجھے کجاوہ پر سے چھوٹا پیالہ پکڑا دو ۔ چنانچہ میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں دو پیالہ کے درمیان کا پیالہ لے کر حاضر ہوا ۔ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس میں پانی ڈالا اور فرمایا : لوگوں کو پلاؤ۔ اور (خود) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آواز لگائی اور بلند آواز کر کے فرمایا : خبردار ! جس کسی کے پاس بھی برتن پہنچے تو اس کو چاہیے کہ وہ پانی پی لے۔ پس میں ایک آدمی کے پاس پہنچا اور اس کو پانی پلایا۔ پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف پیالہ میں بقیہ پانی لے کر لوٹا (وہاں سے مزید لے کر) میں گیا اور میں نے پہلے آدمی کے ساتھ والے کو پانی پلایا۔ یہاں تک کہ اس حلقہ کے تمام لوگوں کو میں نے پانی پلایا۔ پھر میں پیالہ کا بقیہ پانی لے کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف لوٹا (وہاں سے مزید لے کر) اور میں گیا اور میں نے دوسرے حلقہ کو پانی پلایا یہاں تک کہ میں نے سات حلقوں کو پانی پلایا۔
٧۔ میں نے نظر لمبی کر کے وضو کے برتن میں دیکھنا شروع کیا کہ اس میں کچھ باقی ہے ؟ کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پیالہ میں پانی انڈیلا اور مجھے فرمایا : تو پی ! راوی کہتے ہیں : میں نے عرض کیا۔ میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں۔ مجھے کچھ زیادہ پیاس نہیں ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” میرے پاس سے دور رہو۔ آج کے دن تو لوگوں کو پلانے والا میں ہوں۔ “ راوی کہتے ہیں : پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پیالہ میں پانی ڈالا اور اس کو نوش فرمایا۔ پھر دوبارہ پیالہ میں پانی ڈالا اور نوش فرمایا پھر سہ بارہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پیالہ میں پانی ڈالا اور نوش فرمایا۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سوار ہوگئے اور ہم بھی سوار ہوگئے۔
٨۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” جب لوگ اپنے پیغمبر کو غیر موجود پائیں اور ان کی نماز ان کے بہت قریب آجائے تو تم ایسے لوگوں کے بارے میں کیا خیال رکھتے ہو کہ وہ کیا کریں “ میں نے عرض کاب۔ اللہ اور اس کا رسول ہی زیادہ جانتے ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” کیا ان میں ابوبکر اور عمر موجود نہیں ہیں۔ اگر لوگ ان دونوں کی بات مانیں گے تو ہدایت پاجائیں گے اور ان کی جماعتیں بھی ہدایت پاجائیں گی اور اگر لوگ ان دونوں کی نافرمانی کریں گے تو لوگ بھی گمراہ ہوں گے اور ان کی جماعتیں بھی گمراہ ہوں گی “ یہ بات آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تین مرتبہ ارشاد فرمائی۔
٩۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چل پڑے اور ہم بھی چل پڑے ۔ یہاں تک کہ جب ہم نصف دن میں پہنچے تو لوگوں نے درختوں کے سایہ کو تلاش کیا۔ پھر ہم کچھ مہاجرین کے پاس آئے۔ ان میں حضرت عمر بھی تھے۔ ہم نے ان سے کہا کہ اگر تم اپنے نبی کو نہ پاؤ اور نماز کا وقت ہوجائے تو تم کیا کرو گے ؟ انھوں نے کہا کہ بخدا ہم تمہیں بتائیں گے۔ پھر حضرت عمر نے حضرت ابوبکر سے کہا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے {إِنَّک مَیِّتٌ وَإِنَّہُمْ مَیِّتُونَ } میرے خیال میں اللہ تعالیٰ اپنے نبی کو اپنے پاس بلائے گا۔ آپ کھڑے ہوں اور نماز پڑھائیں۔ میں آپ کے جانے کے بعد نگرانی کروں گا۔ اگر معاملات ٹھیک ہوئے تو ساتھ آملوں گا۔ پھر نماز کھڑی ہوگئی اور گفتگو رک گئی۔

38121

(۳۸۱۲۲) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ، عَنْ عَمْرَۃَ ؛ أَنَّہَا سَمِعَتْ عَائِشَۃَ تَقُولُ : لَمَّا جَائَ نَعْیُ جَعْفَرِ بْنِ أَبِی طَالِبٍ ، وَزَیْدِ بْنِ حَارِثَۃَ ، وَعَبْدِ اللہِ بْنِ رَوَاحَۃَ جَلَسَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، یُعْرَفُ فِی وَجْہِہِ الْحُزْنُ ، قَالَتْ عَائِشَۃُ : وَأَنَا أَطَّلِعُ مِنْ شَقِّ الْبَابِ ، فَأَتَاہُ رَجُلٌ ، فَقَالَ : یَا رَسُولَ اللہِ ، إِنَّ نِسَائَ جَعْفَرٍ ، فَذَکَرَ مِنْ بُکَائِہِنَّ ، فَأَمَرَہُ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ یَنْہَاہُنَّ۔
(٣٨١٢٢) حضرت عائشہ بیان فرماتی ہیں کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس حضرت جعفر بن ابی طالب ، زید بن حارثہ اور عبداللہ بن رواحہ کی موت کی خبر پہنچی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف فرما ہوگئے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چہرہ مبارک پر غم کے اثرات ظاہر تھے۔ حضرت عائشہ کہتی ہیں۔ میں (آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو) دروازہ کی پھاڑ سے دیکھ رہی تھی کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں ایک شخص حاضر ہوا اور اس نے عرض کیا۔ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! جعفر کی عورتیں ۔۔۔ پھر اس آدمی نے ان عورتوں کے رونے کا ذکر کیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس آدمی سے کہا کہ وہ انھیں (جا کر) منع کرے۔

38122

(۳۸۱۲۳) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ زَکَرِیَّا ، عَنِ الشَّعْبِیِّ زَعَمَ ؛ أَنَّ جَعْفَرَ بْنَ أَبِی طَالِبٍ قُتِلَ یَوْمَ مُؤْتَۃَ بِالْبَلْقَائِ ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : اللَّہُمَّ اخْلُفْ جَعْفَرًا فِی أَہْلِہِ بِأَفْضَلَ مَا خَلَفْت عَبْدًا مِنْ عِبَادِکَ الصَّالِحِینَ۔
(٣٨١٢٣) حضرت شعبی بیان کرتے ہیں کہ حضرت جعفر بن ابی طالب غزوہ مؤتہ میں مقام بلقاء میں شہید ہوئے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دعا فرمائی : ” اے اللہ ! جعفر کے گھر جعفر کا وہ بہترین خلیفہ پیدا فرما جو تو اپنے نیک بندوں میں سے کسی بندہ کو عطا کرتا ہے۔

38123

(۳۸۱۲۴) حَدَّثَنَا عبْدُ اللَّہِ بْنُ إِدْرِیسَ ، وَوَکِیعٌ ، عَنْ إِسْمَاعِیلَ ، عَنْ قَیْسٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ خَالِدَ بْنَ الْوَلِیدِ ، یَقُولُ: لَقَدِ انْدَقَّ فِی یَدَیَّ یَوْمَ مُؤْتَۃَ تِسْعَۃُ أَسْیَافٍ ، فَمَا صَبَرَتْ فِی یَدِی إِلاَّ صَفِیحَۃٌ لِی یَمَانِیَّۃٌ۔
(٣٨١٢٤) حضرت خالد بن ولید بیان کرتے ہیں کہ غزوہ مؤتہ کے دن میرے ہاتھ میں نو تلواریں ٹوٹ گئیں۔ پھر (آخر) میرے ہاتھ میں ایک چوڑی تلوار باقی رہی۔

38124

(۳۸۱۲۵) حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَطَائٍ ؛ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَعَی الثَّلاَثَۃَ الَّذِینَ قُتِلُوا بِمُؤْتَۃَ ، ثُمَّ صَلَّی عَلَیْہِمْ۔
(٣٨١٢٥) حضرت عطاء سے روایت ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غزوہ مؤتہ میں قتل کیے جانے والے تین صحابہ کی موت کی خبر سنائی اور پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان پر جنازہ پڑھایا۔

38125

(۳۸۱۲۶) حَدَّثَنَا عِیسَی بْنُ یُونُسَ ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ عَمْرٍو السَّکْسَکِیِّ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ جُبَیْرِ بْنِ نَفِیرٍ ، قَالَ : لَمَّا اشْتَدَّ حُزْنُ أَصْحَابِ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَی مَنْ أُصِیبَ مِنْہُمْ مَعَ زَیْدٍ یَوْمَ مُؤْتَۃَ ، قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لَیُدْرِکَنَّ الْمَسِیحَ مِنْ ہَذِہِ الأُمَّۃِ أَقْوَامٌ ، إِنَّہُمْ لَمِثْلُکُمْ ، أَوْ خَیْرٌ ، ثَلاَثَ مَرَّاتٍ ، وَلَنْ یُخْزِیَ اللَّہُ أُمَّۃً ، أَنَا أَوَّلُہَا وَالْمَسِیحُ آخِرُہَا۔
(٣٨١٢٦) حضرت عبد الرحمن بن جبیر بن نفیر کہتے ہیں، جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ کرام کو غزوہ مؤتہ میں حضرت زید کے ساتھ شہید ہونے والے حضرات پر شدید غم ہوا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ” ضرور بالضرور اسی امت میں سے کچھ قومیں حضرت مسیح کو پالیں گی۔ اور وہ لوگ تم سے بہتر یا تم جیسے ہوں گے۔ “ یہ بات آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تین مرتبہ کہی۔ ” اور اللہ تعالیٰ ایسی امت کو ہلاک نہیں کرے گا جس کے اول میں میں اور آخر میں مسیح ہوں گے۔

38126

(۳۸۱۲۷) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ عَائِشَۃَ ، قَالَتْ : لَمَّا أَتَتْ وَفَاۃُ جَعْفَرٍ ، عَرَفْنَا فِی وَجْہِ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْحُزْنَ ، قَالَتْ : فَدَخَلَ عَلَیْہِ رَجُلٌ ، فَقَالَ : یَا رَسُولَ اللہِ ، إِنَّ النِّسَائَ یَبْکِینَ ، قَالَ : فَارْجِعْ إِلَیْہِنَّ فَأَسْکِتْہُنَّ ، فَإِنْ أَبَیْنَ فَاحْثُ فِی وُجُوہِہِنَّ التُّرَابَ ، قَالَ : قَالَتْ عَائِشَۃُ : قُلْتُ فِی نَفْسِی : وَاللہِ مَا تَرَکْتَ نَفْسَک ، وَلاَ أَنْتَ مُطِیعٌ رَسُولَ اللہِ۔
(٣٨١٢٧) حضرت عائشہ روایت کرتی ہیں کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حضرت جعفر کی وفات (کی خبر) آئی تو ہم نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چہرہ انور پر غم (کے آثار) دیکھے۔ حضرت عائشہ کہتی ہیں : پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں ایک صاحب حاضر ہوئے اور انھوں نے کہا۔ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! عورتیں رو رہی ہں ا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم ان کی طرف واپس جاؤ۔ انھیں خاموش کرواؤ۔ اور اگر وہ انکار کریں تو تم ان کے منہ پر مٹی ڈال دینا۔ راوی کہتے ہیں : حضرت عائشہ کہتی ہیں : میں نے اپنے دل میں کہا : تو اپنے آپ کو بھی نہیں چھوڑتا اور نہ ہی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم کو بجا لاتا ہے۔

38127

(۳۸۱۲۸) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ إِدْرِیسَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ عَبَّادِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ الزُّبَیْرِ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ جَدِّہِ ، قَالَ : أَخْبَرَنِی الَّذِی أَرْضَعَنِی مِنْ بَنِی مُرَّۃَ ، قَالَ : کَأَنِّی أَنْظُرُ إِلَی جَعْفَرٍ یَوْمَ مُؤْتَۃَ ، نَزَلَ عَنْ فَرَسٍ لَہُ شَقْرَائَ فَعَرْقَبَہَا ، ثُمَّ مَضَی فَقَاتَلَ حَتَّی قُتِلَ۔
(٣٨١٢٨) حضرت یحییٰ بن عباد بن عبداللہ بن زبیر، اپنے والد، دادا سے روایت کرتے ہیں کہ مجھے بنو مرہ کے اس آدمی نے بیان کیا جس نے (یعنی جس کی بیوی نے) مجھے دودھ پلایا تھا۔ اس نے کہا۔ گویا کہ میں غزوہ مؤتہ میں جعفر کو دیکھ رہا ہوں وہ اپنے سفید و سرخ گھوڑے سے نیچے اترے اور پھر اس کی کونچیں کاٹیں اور چل دیئے اور جا کر لڑائی کی یہاں تک کہ قتل (شہید) کردیئے گئے۔

38128

(۳۸۱۲۹) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ مَہْدِیِّ بْنِ مَیْمُونٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ أَبِی یَعْقُوبَ ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ سَعْدٍ ، قَالَ : لَمَّا جَائَ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خَبَرُ قَتْلِ زَیْدٍ ، وَجَعْفَرٍ ، وَعَبْدِ اللہِ بْنِ رَوَاحَۃَ نَعَاہُمْ إِلَی النَّاسِ ، وَتَرَکَ أَسْمَائَ حَتَّی أَفَاضَتْ مِنْ عَبْرَتِہَا : ثُمَّ أَتَاہَا فَعَزَّاہَا ، وَقَالَ : ادْعِی لِی بَنِی أَخِی ، قَالَ : فَجَائَتْ بِثَلاَثَۃِ بَنِینَ ، کَأَنَّہُمْ أَفْرُخٌ ، قَالَتْ : فَدَعَا الْحَلاَّقَ فَحَلَقَ رُؤُوسَہُمْ ، فَقَالَ : أَمَّا مُحَمَّدٌ فَشَبِیہُ عَمِّنَا أَبِی طَالِبٍ ، وَأَمَّا عَوْنُ اللہِ فَشَبِیہُ خَلْقِی وَخُلُقِی ، وَأَمَّا عَبْدُ اللہِ فَأَخَذَ بِیَدِہِ فَشَالَہَا ، ثُمَّ قَالَ : اللَّہُمَّ بَارِکْ لِعَبْدِ اللہِ فِی صَفْقَۃِ یَمِینِہِ ، قَالَ : فَجَعَلَتْ أُمُّہُمْ تُفْرِحُ لَہُ ، فَقَالَ لَہَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : أَتَخْشَیْنَ عَلَیْہِمُ الضَّیْعَۃَ وَأَنَا وَلِیُّہُمْ فِی الدُّنْیَا وَالآخِرَۃِ ؟۔ (ابن سعد ۳۶۔ احمد ۲۰۴)
(٣٨١٢٩) حضرت حسن بن سعد روایت کرتے ہیں کہ جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حضرت زید، جعفر اور عبداللہ بن رواحہ کے قتل کی خبر ملی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں کو یہ وفات کی خبر سُنائی اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت اسماء کو اس حالت میں چھوڑا تھا کہ وہ آنسو بہا رہی تھی پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (دوبارہ) حضرت اسمائ کے پاس تشریف لائے اور ان سے تعزیت کی اور فرمایا : میرے پاس میرے بھتیجوں کو بلا کر لاؤ۔ راوی کہتے ہیں : پھر حضرت اسمائ ۔۔۔ پرندوں کے بچوں کی طرح کے ۔۔۔ تین بچے لے کر حاضر ہوئیں۔ اسماء کہتی ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نائی کو بلایا اور ان کے سرمنڈوائے اور فرمایا : ” محمد تو ہمارے چچا ابو طالب کے مشابہ ہے اور عون اللہ تو صورت و سیرت میں میرے مشابہ ہے۔ اور عبداللہ تھا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کا ہاتھ پکڑا اور اس کو اوپر اٹھایا اور دعا فرمائی۔ اے اللہ ! عبداللہ کے دائیں ہاتھ کے سودے میں برکت دے۔ راوی کہتے ہیں : ان کی ماں حضرت اسمائ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ان کی (لاوارثی) کی شکایت کی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انھیں جواب دیا ۔ کیا تم ان کے ضائع ہونے کا خوف کھاتی ہو ؟ حالانکہ میں دنیا و آخرت میں ان کا ولی ہوں۔

38129

(۳۸۱۳۰) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ آدَمَ ، قَالَ: حدَّثَنَا قُطْبَۃُ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ عَدِیِّ بْنِ ثَابِتٍ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِی الْجَعْدِ، قَالَ: أُرِیَہُمُ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی النَّوْمِ ، فَرَأَی جَعْفَرًا مَلَکًا ذَا جَنَاحَیْنِ ، مُضَرَّجًا بِالدِّمَائِ ، وَزَیْدًا مُقَابِلُہُ عَلَی السَّرِیرِ ، قَالَ : وَابْنَ رَوَاحَۃَ جَالِسًا مَعَہُمْ کَأَنَّہُمْ مُعْرِضُونَ عَنْہُ۔
(٣٨١٣٠) حضرت سالم بن ابی جعد سے روایت ہے کہ جناب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو شہداء مؤتہ۔۔۔ خواب میں دکھائے گئے ۔ چنانچہ آپ نے حضرت جعفر کو ایک ایسے فرشتے کی شکل میں دیکھا جس کے دو پر تھے اور وہ خون میں لتھڑے ہوئے تھے اور حضرت زید کو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے مقابل تخت پر دیکھا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہتے ہیں۔ ابن رواحہ ان کے ساتھ یوں بیٹھے ہوئے تھے گویا کہ وہ ان سے اعراض کیے ہوئے ہیں۔

38130

(۳۸۱۳۱) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ إِسْمَاعِیلَ بْنِ أَبِی خَالِدٍ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِی مَیْسَرَۃَ ؛ أَنَّہُ لَمَّا أَتَی النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَتْلُ جَعْفَرٍ ، وَزَیْدٍ ، وَعَبْدِ اللہِ بْنِ رَوَاحَۃَ ، ذَکَرَ أَمْرَہُمْ ، فَقَالَ : اللَّہُمَّ اغْفِرْ لِزَیْدٍ ، اللَّہُمَّ اغْفِرْ لِجَعْفَرٍ ، وَعَبْدِ اللہِ بْنِ رَوَاحَۃَ۔
(٣٨١٣١) حضرت ابو میسرہ سے روایت ہے کہ جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حضرت جعفر اور زید بن حارثہ اور عبداللہ بن رواحہ کے قتل کی خبر ملی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی بات کرتے ہوئے دُعا فرمائی۔ اے اللہ ! زید کی مغفرت فرما۔ اے اللہ ! جعفر کی مغفرت فرما۔ اور عبداللہ بن رواحہ کی مغفرت فرما۔

38131

(۳۸۱۳۲) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِیلُ بْنُ أَبِی خَالِدٍ ، عَنْ قَیْسِ بْنِ أَبِی حَازِمٍ ، قَالَ : جَائَ أُسَامَۃُ بْنُ زَیْدٍ بَعْدَ قَتْلِ أَبِیہِ ، فَقَامَ بَیْنَ یَدَیِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَدَمَعَتْ عَیْنَاہُ ، فَلَمَّا کَانَ مِنَ الْغَدِ جَائَ فَقَامَ مَقَامَہُ ذَلِکَ ، فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : أُلاَقِی مِنْک الْیَوْمَ مَا لَقِیتُ مِنْک أَمْسِ ؟۔
(٣٨١٣٢) حضرت قیس بن ابی حازم سے روایت ہے کہ حضرت اسامہ ، اپنے والد کے قتل کے بعد حاضر ہوئے تو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کے سامنے (استقبال کے لئے) کھڑے ہوگئے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آنکھیں بھر آئیں۔ پھر جب اگلادن آیا اور حضرت اسامہ حاضر ہوئے اور پھر اپیپ اسی جگہ پر کھڑے ہوگئے تو اس پر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” کیا میں آج بھی تمہارا استقبال اس طرح کروں جس طرح میں نے کل تمہارا استقبال کیا تھا “ ؟

38132

(۳۸۱۳۳) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَیْدٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا وَائِلُ بْنُ دَاوُد ، قَالَ : سَمِعْتُ الْبَہِیَّ یُحَدِّثُ ؛ أَنَّ عَائِشَۃَ کَانَتْ تَقُولُ : مَا بَعَثَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ زَیْدَ بْنَ حَارِثَۃَ فِی جَیْشٍ قَطُّ ، إِلاَّ أَمَّرَہُ عَلَیْہِمْ ، وَلَوْ بَقِیَ بَعْدَہُ لاَسْتَخْلَفَہُ۔
(٣٨١٣٣) حضرت عائشہ کہا کرتی تھیں۔ جناب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت زید بن حارثہ کو کسی لشکر میں روانہ نہیں فرمایا مگر یہ کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انھیں اس لشکر میں امیر مقرر فرمایا۔ اور اگر حضرت زید آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد باقی ہوتے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انھیں خلیفہ (بھی) بناتے۔

38133

(۳۸۱۳۴) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَیْدٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا إِسْمَاعِیلُ ، عَنْ مُجَالِدِ بْنِ سَعِیدٍ ، عَنْ عَامِرٍ ، أَنَّ عَائِشَۃَ کَانَتْ تَقُولُ : لَوْ أَنَّ زَیْدًا حَیٌّ لاَسْتَخْلَفَہُ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔
(٣٨١٣٤) حضرت عامر سے روایت ہے کہ امی عائشہ کہا کرتی تھیں کہ اگر حضرت زید زندہ ہوتے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کو خلیفہ بناتے۔

38134

(۳۸۱۳۵) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ؛ أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ قَطَعَ بَعْثًا قِبَلَ مُؤْتَۃَ ، وَأَمَّرَ عَلَیْہِمْ أُسَامَۃَ بْنَ زَیْدٍ ، وَفِی ذَلِکَ الْبَعْثِ أَبُو بَکْرٍ ، وَعُمَرُ ، قَالَ : فَکَانَ أُنَاسٌ مِنَ النَّاسِ یَطْعَنُونَ فِی ذَلِکَ ، لِتَأْمِیرِ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أُسَامَۃَ عَلَیْہِمْ ، قَالَ : فَقَامَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَخَطَبَ النَّاسَ ، ثُمَّ قَالَ : إِنَّ أُنَاسًا مِنْکُمْ قَدْ طَعَنُوا عَلَیَّ فِی تَأْمِیرِ أُسَامَۃَ ، وَإِنَّمَا طَعَنُوا فِی تَأْمِیرِ أُسَامَۃَ کَمَا طَعَنُوا فِی تَأْمِیرِ أَبِیہِ مِنْ قَبْلِہِ ، وَایْمُ اللہِ ، إِنْ کَانَ لَحَقِیقًا لِلإِمَارَۃِ ، وَإِنْ کَانَ لَمِنْ أَحَبِّ النَّاسِ إِلَیَّ ، وَإِنَّ ابْنَہُ مِنْ أَحَبِّ النَّاسِ إِلَیَّ مِنْ بَعْدِہِ ، وَإِنِّی أَرْجُو أَنْ یَکُونَ مِنْ صَالِحِیکُمْ ، فَاسْتَوْصُوا بِہِ خَیْرًا۔
(٣٨١٣٥) حضرت ہشام بن عروہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ جناب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مؤتہ کی طرف ایک لشکر روانہ فرمایا اور ان پر حضرت اسامہ بن زید کو امیر مقرر فرمایا۔ اسی لشکر میں حضرت ابوبکر اور حضرت عمر بھی تھے ۔۔۔ راوی کہتے ہیں : بعض لوگوں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے حضرت اسامہ کو اس لشکر والوں پر امیر بنانے پر اعتراض کیا۔ چنانچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کھڑے ہوئے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں کو خطبہ ارشاد فرمایا اور کہا : ” یقیناً تم میں سے کچھ لوگ میری طرف سے اسامہ کو امیر بنانے پر اعتراض کر رہے ہیں۔ یہ لوگ حضرت اسامہ کے امیر بنانے پر اسی طرح اعتراض کرتے ہیں جیسا کہ انھوں نے اس سے پہلے حضرت اسامہ کے والد کو امیر بنانے پر اعتراض کیا تھا۔ خدا کی قسم !ً بلاشبہ وہ امیر بننے کے لائق تھے اور لوگوں میں سب سے زیادہ مجھے محبوب تھے۔ اور ان کا بیٹا ان کے بعد مجھے لوگوں میں سب سے زیادہ محبوب ہے۔ مجھے امید ہے کہ یہ تم میں سے نیکوکار لوگوں میں سے ہوگا۔ تم اس کے ساتھ اچھائی کا ارادہ کرو۔ “

38135

(۳۸۱۳۶) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَنِ الأَجْلَحِ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : لَمَّا أَتَی رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَتْلُ جَعْفَرِ بْنِ أَبِی طَالِبٍ ، تَرَکَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ امْرَأَتَہُ أَسْمَائَ بِنْتَ عُمَیْسٍ حَتَّی أَفَاضَتْ عَبْرَتَہَا ، وَذَہَبَ بَعْضُ حُزْنِہَا ، ثُمَّ أَتَاہَا فَعَزَّاہَا ، وَدَعَا بَنِی جَعْفَرٍ فَدَعَا لَہُمْ ، وَدَعَا لِعَبْدِ اللہِ بْنِ جَعْفَرٍ أَنْ یُبَارَکَ لَہُ فِی صَفْقَۃِ یَدِہِ ، فَکَانَ لاَ یَشْتَرِی شَیْئًا إِلاَّ رَبِحَ فِیہِ۔ فَقَالَتْ لَہُ أَسْمَائُ : یَا رَسُولَ اللہِ ، إِنَّ ہَؤُلاَئِ یَزْعُمُونَ أَنَّا لَسْنَا مِنَ الْمُہَاجِرِینَ ، فَقَالَ : کَذَبُوا ، لَکُمُ الْہِجْرَۃُ مَرَّتَیْنِ ، ہَاجَرْتُمْ إِلَی النَّجَاشِیِّ ، وَہَاجَرْتُمْ إِلَیَّ۔
(٣٨١٣٦) حضرت شعبی سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حضرت جعفر بن ابی طالب کے قتل کی خبر پہنچی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت جعفر کی بیوی اسماء بنت عمیس کو چھوڑ دیا یہاں تک کہ انھوں نے آنسو بہا لیے اور غم ہلکا ہوگیا ۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت اسمائ کے پاس گئے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے تعزیت کی اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت جعفر کے بیٹوں کو بلایا اور ان کے لیے دُعا فرمائی۔ چنانچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عبداللہ بن جعفر کے لیے یہ دعا کی کہ ان کے سودے میں برکت دی جائے۔ پس عبداللہ جب بھی کوئی چیز خریدتے تو انھیں اس میں نفع ہوتا۔ پھر حضرت اسمائ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عر ض کیا۔ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! یہ لوگ خیال کرتے ہیں کہ ہم مہاجرین میں سے نہیں ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا۔ ” لوگ جھوٹ کہتے ہیں۔ تم نے دو مرتبہ ہجرت کی ہے۔ (ایک مرتبہ) تم نے نجاشی کی طرف ہجرت کی اور (ایک مرتبہ) تم نے میری طرف ہجرت کی۔

38136

(۳۸۱۳۷) حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ الأَزْدِیُّ ، قَالَ : حدَّثَنِی أَبُو أُوَیْسٍ ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ : کُنْتُ بِمُؤْتَۃِ ، فَلَمَّا فَقَدْنَا جَعْفَرَ بْنَ أَبِی طَالِبٍ طَلَبْنَاہُ فِی الْقَتْلَی ، فَوَجَدْنَا فِیہِ خَمْسینَ ؛ بَیْنَ طَعَنْۃٍ وَرَمْیَۃٍ ، وَوَجَدْنَا ذَلِکَ فِیمَا أَقْبَلَ مِنْ جَسَدِہِ۔ حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرٍ ،
(٣٨١٣٧) حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ میں مقام مؤتہ میں موجود تھا۔ پس جب ہم نے حضرت جعفر بن ابی طالب کو غیر موجود پایا تو ہم نے ان کو مقتولین میں تلاش (کرنا شروع) کیا چنانچہ ہم نے ان کو اس حالت میں پایا کہ ان کو پچاس کے قریب تلواروں اور نیزوں کے زخم لگے ہوئے تھے۔ اور ہم نے یہ سارے زخم حضرت جعفر کے جسم کے اگلے حصہ میں پائے۔

38137

(۳۸۱۳۸) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ زَکَرِیَّا ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، قَالَ : قَالَ رَجُلٌ لِلْبَرَائِ : ہَلْ کُنْتُمْ وَلَّیْتُمْ یَوْمَ حُنَیْنٍ ، یَا أَبَا عُمَارَۃَ ؟ فَقَالَ : أَشْہَدُ عَلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا وَلَّی ، وَلَکِنِ انْطَلَقَ جُفَائٌ مِنَ النَّاسِ وَحُسَّرٌ إلَی ہَذَا الْحَیِّ مِنْ ہَوَازِنَ ، وَہُمْ قَوْمٌ رُمَاۃٌ ، فَرَمَوْہُمْ بِرِشْقٍ مِنْ نَبْلٍ کَأَنَّہَا رِجْلٌ مِنْ جَرَادٍ ، قَالَ: فَانْکَشَفُوا، فَأَقْبَلَ الْقَوْمُ ہُنَالِکَ إِلَی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَأَبُو سُفْیَانَ بْنُ الْحَارِثِ یَقُودُ بَغْلَتَہُ، فَنَزَلَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَاسْتَنْصَرَ ، وَہُوَ یَقُولُ : أَنَا النَّبِیُّ لاَ کَذِب أَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِب اللَّہُمَّ نَزِّل نَصْرَک ، قَالَ : وَکُنَّا وَاللہِ إِذَا احْمَرَّ الْبَأْسُ نَتَّقِی بِہِ ، وَإِنَّ الشُّجَاعَ لِلَّذِی یُحَاذِی بِہِ۔ (مسلم ۱۴۰۱۔ بیہقی ۱۳۴)
(٣٨١٣٨) حضرت ابو اسحاق روایت کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے حضرت برائ سے کہا۔ اے ابو عمارہ ! کیا تم لوگ حنین کے دن پیٹھ پھیر گئے تھے ؟ حضرت برائ نے کہا۔ میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پیٹھ نہیں پھیری تھی۔ لیکن کچھ لوگ جلد بازی میں خالی ہاتھ قبیلہ ہوازن کی طرف چل پڑے تھے حالانکہ ہوازن والے تو ایک تیر انداز قوم تھے۔ چنانچہ انھوں نے اس (خالی ہاتھ) جماعت کو تیز تیر پھینکنے والی کمان کے ذریعہ سے خوب تیر برسائے یوں لگتا تھا کہ گویا تیروں کا مجموعہ آ رہا ہے۔ راوی کہتے ہیں : پس لوگ چھٹ گئے اور اس وقت ہوازن کے لوگ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف بڑھے جبکہ ابو سفیان آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خچر کو ہانک رہے تھے ۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (خچر سے) نیچے تشریف لائے اور مدد کے لیے پکارا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہہ رہے تھے۔
” میں جھوٹا نبی نہیں ہوں۔ میں تو عبد المطلب کا بیٹا ہوں۔ “
اے اللہ ! اپنی مدد نازل فرما “ راوی کہتے ہیں : خدا کی قسم ! جب جنگ خوب شعلہ زن ہوتی تھی تو ہم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آڑ میں (اپنا) بچاؤ کرتے تھے۔ اور یقیناً (اس وقت) بہادر وہی شخص ہوتا تھا جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ کھڑا ہوتا تھا۔

38138

(۳۸۱۳۹) حَدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنِ الْبَرَائِ ، قَالَ : لاَ وَاللہِ مَا وَلَّی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَوْمَ حُنَیْنٍ دُبُرَہُ ، قَالَ : وَالْعَبَّاسُ ، وَأَبُو سُفْیَانَ آخِذَانِ بِلِجَامِ بَغْلَتِہِ ، وَہُوَ یَقُولُ : أَنَا النَّبِیُّ لاَ کَذِبْ أَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبْ
(٣٨١٣٩) حضرت براء سے روایت ہے کہ نہیں خدا کی قسم ! رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حنین کی جنگ کے دن اپنی پشت نہیں پھیری ۔ راوی کہتے ہیں : حضرت عباس اور ابو سفیان ، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خچر کی لگام کو پکڑے ہوئے تھے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہہ رہے تھے۔
” میں جھوٹا نبی نہیں ہوں میں تو عبد المطلب کا بیٹا ہوں۔ “

38139

(۳۸۱۴۰) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ حُمَیْدٍ ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ : کَانَ مِنْ دُعَائِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَوْمَ حُنَیْنٍ : اللَّہُمَّ إِنَّک إِنْ تَشَأْ لاَ تُعْبَدْ بَعْدَ ہَذَا الْیَوْمِ۔
(٣٨١٤٠) حضرت انس سے روایت ہے کہ حنین کے دن ، جناب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعاء یہ تھی۔ ” اے اللہ ! اگر آپ چاہتے ہیں تو آج کے بعد آپ کی عبادت نہیں کی جائے گی۔ “

38140

(۳۸۱۴۱) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا سُلَیْمُ بْنُ أَخْضَرَ ، حَدَّثَنِی ابْنُ عَوْنٍ ، حَدَّثَنِی ہِشَامُ بْنُ زَیْدٍ ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ : لَمَّا کَانَ یَوْمُ حُنَیْنٍ جَمَعَتْ ہَوَازِنُ وَغَطَفَانُ لِلنَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ جَمْعًا کَثِیرًا ، وَالنَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَوْمَئِذٍ فِی عَشَرَۃِ آلاَفٍ ، أَوْ أَکْثَرَ مِنْ عَشَرَۃِ آلاَفٍ ، قَالَ : وَمَعَہُ الطُّلَقَائُ ، قَالَ : فَجَاؤُوا بِالنَّعَمِ وَالذُّرِّیَّۃِ ، فَجُعِلُوا خَلْفَ ظُہُورِہِمْ ، قَالَ : فَلَمَّا الْتَقَوْا وَلَّی النَّاسُ ، وَالنَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَوْمَئِذٍ عَلَی بَغْلَۃٍ بَیْضَائَ ، قَالَ : فَنَزَلَ ، فَقَالَ : إِنِّی عَبْدُ اللہِ وَرَسُولُہُ ، قَالَ : وَنَادَی یَوْمَئِذٍ نِدَائَیْنِ ، لَمْ یَخْلِطْ بَیْنَہُمَا کَلاَمًا ، فَالْتَفَتَ عَنْ یَمِینِہِ ، فَقَالَ : أَیْ مَعْشَرَ الأَنْصَارِ ، فَقَالُوا : لَبَّیْکَ یَا رَسُولَ اللہِ ، نَحْنُ مَعَک ، ثُمَّ الْتَفَتَ عَنْ یَسَارِہِ ، فَقَالَ : أَیْ مَعْشَرَ الأَنْصَارِ ، فَقَالُوا : لَبَّیْکَ یَا رَسُولَ اللہِ ، نَحْنُ مَعَک۔ ثُمَّ نَزَلَ إِلَی الأَرْضِ فَالْتَقَوْا، فَہَزَمُوا وَأَصَابُوا مِنَ الْغَنَائِمِ، فَأَعْطَی النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الطُّلَقَائَ وَقَسَمَ فِیہَا، فَقَالَتِ الأَنْصَارُ: نُدْعَی عِنْدَ الشِّدَّۃِ وَتُقْسَمُ الْغَنِیمَۃُ لِغَیْرِنَا، فَبَلَغَ ذَلِکَ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَجَمَعَہُمْ، وَقَعَدَ فِی قُبَّۃٍ، فَقَالَ: أَیْ مَعْشَرَ الأَنْصَارِ، مَا حَدِیثٌ بَلَغَنِی عَنْکُمْ؟ فَسَکَتُوا، فَقَالَ: یَا مَعْشَرَ الأَنْصَارِ، لَوْ أَنَّ النَّاسَ سَلَکُوا وَادِیًا، وَسَلَکَتِ الأَنْصَارُ شِعْبًا لأَخَذْت شِعْبَ الأَنْصَارِ، ثُمَّ قَالَ: أَمَا تَرْضَوْنَ أَنْ یَذْہَبَ النَّاسُ بِالدُّنْیَا، وَتَذْہَبُونَ بِرَسُولِ اللہِ تَحُوزُونَہُ إِلَی بُیُوتِکُمْ؟ فَقَالُوا: رَضِینَا، رَضِینَا یَا رَسُولَ اللہِ۔ قَالَ ابْنُ عَوْنٍ : قَالَ ہِشَامُ بْنُ زَیْدٍ : قُلْتُ لأَنَسٍ : وَأَنْتَ شَاہِدٌ ذَلِکَ ؟ قَالَ : وَأَیْنَ أَغِیبُ عَنْ ذَلِکَ ؟۔ (بخاری ۴۳۳۳۔ مسلم ۷۳۵)
(٣٨١٤١) حضرت انس سے روایت ہے کہ جب حنین کا دن تھا تو قبیلہ ہوازن اور غطفان نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے ایک بہت بڑی تعداد جمع کرلی اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی اس دن دس ہزار یا دس ہزار سے بھی زیادہ کی تعداد کے ہمراہ تھے۔ راوی کہتے ہیں : آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ طلقاء (فتح مکہ کے موقع کے مسلمان) بھی تھے۔ راوی کہتے ہیں : دشمن اپنے مال مویشی اور بیوی بچوں کو ساتھ لایا تھا اور انھیں اپنے پیچھے چھوڑا ہوا تھا۔ پس جب دونوں گروہوں کی آپس میں مڈبھیڑ ہوئی تو کچھ لوگ بھاگ گئے۔ جناب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس دن ایک سفید خچر پر سوار تھے۔ راوی کہتے ہیں : آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (خچر سے) نیچے اترے اور فرمایا : ” میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں۔ “ راوی کہتے ہیں : اس دن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دو مرتبہ (یہ) آواز لگائی اور ان کے درمیان کوئی اور کلام مخلوط نہیں فرمایا چنانچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے دائیں طرف رُخ کیا اور آواز لگائی۔ ” اے گروہ انصار ! “ انصار نے جواب میں کہا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ہم حاضر ہیں۔ ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے بائیں طرف رُخ کیا اور آواز دی، اے گروہ انصار ! “ انصار نے جواب دیا۔ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ہم حاضر ہیں، ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) زمین پر اترے اور (دوبارہ) آمنا سامنا ہوا تو دشمن شکست خوردہ ہوا اور مسلمانوں کو بہت سی غنیمتیں ملیں۔ چنانچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ غنائم طلقاء کو عطا فرمائیں اور ان میں تقسیم کردیں۔ (اس پر) انصار نے کہا۔ سختی کے وقت ہمیں پکارا جاتا ہے اور غنیمتیں ہمارے سوا اوروں کو تقسیم کی جاتی ہیں۔ یہ بات جناب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پہنچ گئی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تمام انصار کو جمع فرمایا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (ان کے ساتھ) ایک قبہ میں بیٹھ گئے اور ارشاد فرمایا : ” اے گروہ انصار ! مجھے تمہاری طرف سے کیا بات پہنچی ہے ؟ “ انصار صحابہ خاموش رہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” اے گروہ انصار ! اگر لوگ ایک کشادہ اور صاف راستہ پر چلیں اور انصار ایک پہاڑی گھاٹی پر چلیں تو میں انصار کی گھاٹی کو (چلنے کے لئے) پکڑوں گا ۔ “ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ” کیا تم اس بات پر راضی نہیں ہو کہ دوسرے لوگ دنیا (کا سامان) لے جائیں اور تم اللہ کے رسول کو لے جاؤ اور اپنے گھروں میں پناہ دو ؟ “ انصار کہنے لگے۔ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ہم راضی ہیں، ہم راضی ہیں۔ ابن عون کہتے ہیں کہ ہشام بن زید کہتے ہیں میں نے حضرت انس سے پوچھا۔ آپ اس وقت حاضر تھے ۔ انھوں نے جواب دیا ۔ تو میں اس وقت کہاں غائب ہوتا ؟۔

38141

(۳۸۱۴۲) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ، عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ الْمُغِیرَۃِ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: جَائَ أَبُو طَلْحَۃَ یَوْمَ حُنَیْنٍ یُضْحِکُ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللہِ، أَلَمْ تَرَ إِلَی أُمِّ سُلَیْمٍ مَعَہَا خِنْجَرٌ، فَقَالَ لَہَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: یَا أُمَّ سُلَیْمٍ، مَا أَرَدْتِ إِلَیْہِ؟ قَالَتْ: أَرَدْتُ إِنْ دَنَا إِلَیَّ أَحَدٌ مِنْہُمْ طَعَنْتُہُ بِہِ۔ (مسلم ۱۴۴۳۔ ابن حبان ۷۱۸۵)
(٣٨١٤٢) حضرت انس سے روایت ہے کہ حضرت طلحہ حنین کے دن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہنسانے لگے اور فرمایا۔ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ نے ام سلیم کو نہیں دیکھا ان کے ہاتھ میں چھرا ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت ام سلیم سے پوچھا۔ ” اے ام سلیم ! اس چھرے سے تمہارا کیا ارادہ ہے ؟ “ حضرت ام سلیم نے جواب دیا۔ میرا ارادہ یہ ہے کہ اگر کوئی دشمن میرے قریب آیا تو میں یہ چھرا اسے گھونپ دوں گی۔

38142

(۳۸۱۴۳) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ أَبِی طَلْحَۃَ ، عَنْ أَنَسٍ ؛ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ یَوْمَ حُنَیْنٍ : مَنْ قَتَلَ قَتِیلاً فَلَہُ سَلَبُہُ ، فَقَتَلَ یَوْمَئِذٍ أَبُو طَلْحَۃَ عِشْرِینَ رَجُلاً ، فَأَخَذَ أَسْلاَبَہُمْ۔
(٣٨١٤٣) حضرت انس سے روایت ہے کہ جناب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غزوہ حنین کے دن ارشاد فرمایا تھا۔ ” جس نے کسی کو قتل کیا تو اس (قاتل) کو مقتول کا سامان ملے گا۔ “ چنانچہ حضرت ابو طلحہ نے اس دن بیس آدمی قتل کیے اور ان کا سامان حاصل کیا۔

38143

(۳۸۱۴۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ مَالِکِ بْنِ مِغْوَلٍ ، عَنْ طَلْحَۃَ بْنِ مُصَرِّفٍ ، قَالَ : انْہَزَمَ الْمُسْلِمُونَ یَوْمَ حُنَیْنٍ ، فَنُودُوا : یَا أَصْحَابَ سُورَۃِ الْبَقَرَۃِ ، قَالَ : فَرَجَعُوا وَلَہُمْ حُنَیْنٌ ، یَعَنْی بُکَائً۔
(٣٨١٤٤) حضرت طلحہ بن مصرف سے روایت ہے کہ حنین کے دن مسلمانوں کو شکست ہوئی تو انھیں آواز دی گئی۔ اے سورة بقرہ والو ! راوی کہتے ہیں : پس صحابہ کرام واپس پلٹ آئے اور ان کے رونے کی آوازیں آرہی تھیں۔

38144

(۳۸۱۴۵) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا یُوسُفُ بْنُ صُہَیْبٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ بُرَیْدَۃَ ؛ أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَوْمَ حُنَیْنٍ انْکَشَفَ النَّاسُ عَنْہُ ، فَلَمْ یَبْقَ مَعَہُ إِلاَّ رَجُلٌ یُقَالُ لَہُ : زَیْدٌ ، آخِذٌ بِعَنَانِ بَغْلَتِہِ الشَّہْبَائِ، وَہِیَ الَّتِی أَہْدَاہَا لَہُ النَّجَاشِیُّ ، فَقَالَ لَہُ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : وَیْحَک یَا زَیْدُ ، اُدْعُ النَّاسَ ، فَنَادَی : أَیُّہَا النَّاسُ ، ہَذَا رَسُولُ اللہِ یَدْعُوکُمْ ، فَلَمْ یُجِبْہُ أَحَدٌ عِنْدَ ذَلِکَ ، فَقَالَ : وَیْحَک ، حُضَّ الأَوْسَ وَالْخَزْرَجَ ، فَقَالَ : یَا مَعْشَرَ الأَوْسِ وَالْخَزْرَجِ ، ہَذَا رَسُولُ اللہِ یَدْعُوکُمْ ، فَلَمْ یُجِبْہُ أَحَدٌ عِنْدَ ذَلِکَ ، فَقَالَ : وَیْحَک ، اُدْعُ الْمُہَاجِرِینَ ، فَإِنَّ لِلَّہِ فِی أَعَنْاقِہِمْ بَیْعَۃً ، قَالَ : فَحَدَّثَنِی بُرَیْدَۃُ ، أَنَّہُ أَقْبَلَ مِنْہُمْ أَلْفٌ ، قَدْ طَرَحُوا الْجُفُونَ وَکَسَرُوہَا ، ثُمَّ أَتَوْا رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حَتَّی فُتِحَ عَلَیْہِمْ۔ (بزار ۱۸۲۸)
(٣٨١٤٥) حضرت عبداللہ بن بریدہ سے روایت ہے کہ غزوہ حنین کے دن لوگ جناب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے چھٹ گئے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس صرف ایک آدمی رہ گیا جس کا نام زید تھا۔ اور وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بھورے رنگ کے خچر کی لگام پکڑے ہوئے تھا ۔۔۔ یہ وہی خچر تھا جو نجاشی نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہدیہ کیا تھا ۔۔۔ جناب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے زید سے کہا ۔ ” تو ہلاک ہوجائے اے زید ! لوگوں کو بلاؤ۔ “ چنانچہ زید نے آواز دی۔ اے لوگو ! یہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہیں بلا رہے ہیں۔ لیکن کسی نے زید کو اس وقت جواب نہیں دیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ ” تو ہلاک ہوجائے ! اوس اور خزرج کو خاص کر کے بلاؤ۔ “ چنانچہ حضرت زید نے آواز دی۔ اے اوس و خزرج کے لوگو ! یہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہیں بلا رہے ہیں۔ لیکن اس وقت بھی زید کو کسی نے جواب نہ دیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے (پھر) فرمایا۔ ” تو ہلاک ہوجائے۔ مہاجرین کو بلا لو کیونکہ ان کی گردنوں میں تو اللہ کے لیے بیعت ہے۔ “ راوی کہتے ہیں : مجھے حضرت بریدہ نے بیان کیا کہ لوگوں میں سے ایک ہزار ایسے لوگ (واپس) متوجہ ہوئے جنہوں نے نیاموں کو توڑا اور پھینک دیا تھا۔ پھر یہ لوگ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے (اور لڑے) یہاں تک کہ کفار پر ان کو فتح ہوئی۔

38145

(۳۸۱۴۶) حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ بْنُ مُوسَی ، عَنْ مُوسَی بْنِ عُبَیْدَۃَ ، قَالَ : أَخْبَرَنِی عُمَرُ مَوْلَی غُفْرَۃَ ، قَالَ : نَزَلَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ بَغْلَۃٍ کَانَ عَلَیْہَا ، فَجَعَلَ یَصْرُخُ بِالنَّاسِ : یَا أَہْلَ سُورَۃِ الْبَقَرَۃِ ، یَا أَہْلَ بَیْعَۃِ الشَّجَرَۃِ ، أَنَا رَسُولُ اللہِ وَنَبِیُّہُ ، وَتَوَلَّوْا مُدْبِرِینَ۔
(٣٨١٤٦) حضرت عمر مولیٰ غفرہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جس خچر پر تھے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس سے نیچے تشریف لائے اور لوگوں کو آواز دینے لگے ۔ ” اے سورة بقرہ والو ! ۔۔۔ اے درخت کی (جگہ) بیعت کرنے والو ! میں اللہ کا رسول ہوں (کیا یہ) لوگ پیٹھ پھیر کر چلے جائیں گے ؟

38146

(۳۸۱۴۷) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِیلُ بْنُ أَبِی خَالِدٍ ، قَالَ : رَأَیْتُ عَبْدَ اللہِ بْنَ أَوْفَی بِیَدِہِ ضَرْبَۃٌ ، فَقُلْتُ : مَا ہَذَا ؟ فَقَالَ : ضُرِبْتُہَا یَوْمَ حُنَیْنٍ ، قَالَ : قُلْتُ لَہُ : وَشَہِدْتَ مَعَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حُنَیْنًا ؟ قَالَ : نَعَمْ۔ (بخاری ۴۳۱۴)
(٣٨١٤٧) حضرت اسماعیل بن ابی خالد روایت کرتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن ابی اوفی کو دیکھا کہ ان کے ہاتھ میں زخم کے آثار تھے تو میں نے پوچھا۔ یہ کیا ہے ؟ انھوں نے جواب دیا۔ غزوہ حنین کے دن میرے اس ہاتھ پر ضرب لگ گئی تھی۔ اسماعیل کہتے ہیں میں نے ان سے پوچھا : آپ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہمراہ حنین میں حاضر ہوئے تھے ۔ انھوں نے جواب دیا۔ ہاں !

38147

(۳۸۱۴۸) حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ بْنُ مُوسَی ، قَالَ : أَخْبَرَنَا مُوسَی ، عَنْ أَخِیہِ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُبَیْدَۃَ ؛ أَنَّ نَفَرًا مِنْ ہَوَازِنَ جَاؤُوا بَعْدَ الْوَقْعَۃِ ، فَقَالُوا : یَا رَسُولَ اللہِ ، إِنَّا نَرْغَبُ فِی رَسُولِ اللہِ ، قَالَ : فِی أَیِّ ذَلِکَ تَرْغَبُونَ ، أَفِی الْحَسَبِ ، أَمْ فِی الْمَالِ؟ قَالُوا: بَلْ فِی الْحَسَبِ ، وَالأُمَّہَاتِ ، وَالْبَنَاتِ ، وَأَمَّا الْمَالُ فَسَیَرْزُقُنَا اللَّہُ، قَالَ: أَمَّا أَنَا، فَأَرُدَّ مَا فِی یَدِی وَأَیْدِی بَنِی ہَاشِمٍ مِنْ عَوْرَتِکُمْ، وَأَمَّا النَّاسُ فَسَأَشْفَعُ لَکُمْ إِلَیْہِمْ إِذَا صَلَّیْتُ إِنْ شَائَ اللَّہُ، فَقُومُوا فَقُولُوا کَذَا وَکَذَا، فَعَلَّمَہُمْ مَا یَقُولُونَ، فَفَعَلُوا مَا أَمَرَہُمْ بِہِ، وَشَفَعَ لَہُمْ، فَلَمْ یَبْقَ أَحَدٌ مِنَ الْمُسْلِمِینَ إِلاَّ رَدَّ مَا فِی یَدَیْہِ مِنْ عَوْرَتِہِمْ، غَیْرَ الأَقْرَعِ بْنِ حَابِسٍ، وَعُیَیْنَۃَ بْنِ حِصْنٍ، أَمْسَکَا امْرَأَتَیْنِ کَانَتَا فِی أَیْدِیہِمَا۔
(٣٨١٤٨) حضرت عبداللہ بن عبیدہ بیان کرتے ہیں کہ غزوہ حنین کے بعد قبیلہ ہوازن کے کچھ لوگ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہنے لگے۔ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ہمیں آپ سے ایک رغبت ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا ” تمہاری رغبت کس چیز میں ہے۔ حسب (رشتہ داروں میں) یا مال میں “ انھوں نے جواب دیا (مال میں نہیں) بلکہ حسب میں، ماؤں میں اور بیٹیوں میں۔ رہا مال تو وہ اللہ تعالیٰ ہمیں پھر دے دیں گے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” جو کچھ میرے اور بنو ہاشم کے قبضہ میں موجود ہے وہ تو میں واپس کرتا ہوں اور باقی لوگوں سے میں تمہارے لیے سفارش کروں گا جب میں نماز پڑھ لوں گا۔ انشاء اللہ۔ پس تم کھڑے ہوجانا اور یوں یوں کہنا۔ پس جو انھوں نے کہنا تھا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انھیں وہ سکھا دیا ۔ چنانچہ انھوں نے وہی کچھ کہا جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انھیں حکم دیا تھا۔ اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی سفارش فرمائی۔ چنانچہ جو کچھ عورتوں میں سے مسلمانوں کے قبضے میں موجود تھیں وہ سارا کچھ مسلمانوں نے واپس کردیا سوائے حضرت اقرع بن حابس کے اور عیینہ بن حصن کے ۔ جو عورتیں ان دونوں کے پاس تھیں انھوں نے انھیں اپنے پاس ہی رکھا۔

38148

(۳۸۱۴۹) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الْحَکَمِ بْنِ عُتَیْبَۃَ ، قَالَ : لَمَّا فَرَّ النَّاسُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَوْمَ حُنَیْنٍ ، جَعَلَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، یَقُولُ : أَنَا النَّبِیُّ لاَ کَذِبْ أَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبْ قَالَ : فَلَمْ یَبْقَ مَعَہُ إِلاَّ أَرْبَعَۃٌ : ثَلاَثَۃٌ مِنْ بَنِی ہَاشِمٍ ، وَرَجُلٌ مِنْ غَیْرِہِمْ : عَلِیُّ بْنُ أَبِی طَالِبٍ وَالْعَبَّاسُ وَہُمَا بَیْنَ یَدَیْہِ ، وَأَبُو سُفْیَانَ بْنُ الْحَارِثِ آخِذٌ بِالْعَنَانِ ، وَابْنُ مَسْعُودٍ مِنْ جَانِبِہِ الأَیْسَرِ ، قَالَ : فَلَیْسَ یُقْبِلُ نَحْوَہُ أَحَدٌ إِلاَّ قُتِلَ ، وَالْمُشْرِکُونَ حَوْلَہُ صَرْعَی بِحِسَابِ الإِکْلِیلِ۔
(٣٨١٤٩) حضرت حکم بن عتیبہ روایت کرتے ہیں کہ جب غزوہ حنین کے دن بہت سے لوگ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس سے بھاگ گئے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :
” میں جھوٹا نبی نہیں ہوں میں تو عبد المطلب کا بیٹا ہوں۔ “
راوی کہتے ہیں : پس آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صرف چار آدمی رہ گئے۔ تین آدمی بنو ہاشم میں سے تھے اور ایک آدمی ان کے سوا تھا۔ حضرت علی بن ابی طالب اور حضرت عباس ، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے تھے اور حضرت ابو سفیان، (آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خچر کی) لگام پکڑے ہوئے تھے۔ اور ابن مسعود آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بائیں جانب تھے۔ راوی کہتے ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف جو کافر بھی بڑھتا تھا وہ قتل کردیا جاتا تھا۔ مشرکین آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گرد قتل ہوئے پڑے تھے۔

38149

(۳۸۱۵۰) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا حُمَیْدٌ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ ، قَالَ : أَعْطَی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ غَنَائِمِ حُنَیْنٍ الأَقْرَعَ بْنَ حَابِسٍ مِئَۃً مِنَ الإِبِلِ ، وَعُیَیْنَۃَ بْنَ حِصْنٍ مِئَۃً مِنَ الإِبِلِ ، فَقَالَ نَاسٌ مِنَ الأَنْصَارِ : یُعْطِی رَسُولُ اللہِ غَنَائِمَنَا نَاسًا تَقْطُرُ سُیُوفُنَا مِنْ دِمَائِہِمْ ، أَوْ سُیُوفُہُمْ مِنْ دِمَائِنَا ؟ فَبَلَغَ ذَلِکَ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَأَرْسَلَ إِلَیْہِمْ فَجَاؤُوا ، فَقَالَ لَہُمْ : فِیکُمْ غَیْرُکُمْ ؟ قَالُوا : لاَ ، إِلاَّ ابْنُ أُخْتِنَا ، قَالَ : ابْنُ أُخْتِ الْقَوْمِ مِنْہُمْ ، فَقَالَ : قُلْتُمْ کَذَا وَکَذَا ، أَمَا تَرْضَوْنَ أَنْ یَذْہَبَ النَّاسُ بِالشَّائِ وَالْبَعِیرِ وَتَذْہَبُونَ بِمُحَمَّدٍ إِلَی دِیَارِکُمْ ؟ قَالُوا : بَلَی ، یَا رَسُولَ اللَّہ ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : النَّاسُ دِثَارٌ ، وَالأَنْصَارُ شِعَارٌ ، الأَنْصَارُ کَرِشِی وَعَیْبَتِی ، وَلَوْلاَ الْہِجْرَۃُ لَکُنْتُ امْرَئًا مِنَ الأَنْصَارِ۔
(٣٨١٥٠) حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حنین کی غنائم میں سے اقرع بن حابس کو ایک سو اونٹ عطا فرمائے اور عیینہ بن حصن کو بھی ایک سو اونٹ عطا فرمائے۔ انصار میں سے بعض لوگوں نے کہا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہماری (حاصل کردہ) غنائم ایسے لوگوں کو عطاء فرمائی ہیں جن کے (رشتہ داروں کے) خون سے ہماری تلواریں تر ہیں یا ان کی تلواریں ہمارے (رشتہ داروں کے) خون سے تر ہیں ؟ یہ بات جناب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پہنچ گئی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان انصار کی طرف قاصد بھیجا چنانچہ یہ تمام انصار آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس حاضر ہوئے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے پوچھا : کیا تم میں تمہارے (انصار کے) سوابھی کوئی ہے ؟ انھوں نے جواب دیا : نہیں ! لیکن ہمارے بھانجے (ہمارے ساتھ ہیں) ۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” قوم کے بھانجے بھی قوم کا حصہ ہیں “ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا۔ ” تم لوگوں نے یہ یہ بات کہی ہے ؟ کیا تم اس بات پر راضی نہیں ہو کہ باقی لوگ بکریاں اور اونٹ لے جائیں اور تم لوگ اپنے گھروں میں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو لے جاؤ ؟ “ انصار نے عرض کیا۔ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! کیوں نہیں ! پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ” لوگ اوپر کا کپڑا ہیں اور انصار جسم کے ساتھ والا کپڑا ہیں۔ انصار میرے مخلص دوست اور راز دار ہیں اور اگر ہجرت نہ ہوتی تو میں بھی انصار میں سے ایک آدمی ہوتا۔

38150

(۳۸۱۵۱) حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ بْنُ مُوسَی ، قَالَ : أَخْبَرَنَا مُوسَی بْنُ عُبَیْدَۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُبَیْدَۃَ ؛ أَنَّ أَبَا سُفْیَانَ ، وَحَکِیمَ بْنَ حِزَامٍ ، وَصَفْوَانَ بْنَ أُمَیَّۃَ خَرَجُوا یَوْمَ حُنَیْنٍ یَنْظُرُونَ عَلَی مَنْ تَکُونُ الدَّبْرَۃُ ، فَمَرَّ بِہِمْ أَعْرَابِیٌّ، فَقَالُوا : یَا عَبْدَ اللہِ ، مَا فَعَلَ النَّاسُ ؟ قَالَ : لاَ یَسْتَقْبِلُہَا مُحَمَّدٌ أَبَدًا ، قَالَ : وَذَلِکَ حِینَ تَفَرَّقَ عَنْہُ أَصْحَابُہُ ، فَقَالَ بَعْضُہُمْ لِبَعْضٍ : لَرَبٌّ مِنْ قُرَیْشٍ أَحَبُّ إِلَیْنَا مِنْ رَبٍّ مِنِ الأَعْرَابِ ، یَا فُلاَنُ ، اذْہَبْ فَأْتِنَا بِالْخَبَرِ ، لِصَاحِبٍ لَہُمْ ، قَالَ : فَذَہَبَ حَتَّی کَانَ بَیْنَ ظَہْرَانَیِ الْقَوْمِ ، فَسَمِعَہُمْ یَقُولُونَ : یَا لَلأَوْس،ِ یَا لَلْخَزْرَجِ ، وَقَدْ عَلَوُا الْقَوْمَ ، وَکَانَ شِعَارُ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔
(٣٨١٥١) حضرت عبداللہ بن عبیدہ سے روایت ہے کہ غزوہ حنین کے دن ابو سفیان، حکیم بن حزام اور صفوان بن امیہ (اس ارادہ سے نکلے کہ) وہ دیکھیں کس کو شکست ہوتی ہے۔ (اس دوران) ان کے پاس سے ایک دیہاتی گزراتو انھوں نے پوچھا۔ اے عبداللہ ! لوگوں کا کیا بنا ؟ اس نے جواب دیا ۔ محمد کبھی بھی حنین سے آگے نہیں جاسکتا۔ راوی کہتے ہیں : یہ اس وقت کا تاثر تھا جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے متفرق ہوگئے تھے ۔۔۔ تو ان میں سے بعض نے بعض سے کہا۔ قریش میں سے کوئی رب (بڑا) بن جائے یہ بات ہمیں اس سے زیادہ محبوب ہے کہ دیہاتیوں میں سے کوئی رب (بڑا) بنے۔ پھر آپس میں سے ایک سے کہا۔ اے فلاں ! جاؤ اور ہمارے پاس کوئی خبر لاؤ۔ راوی کہتے ہیں؛ وہ آدمی چل پڑا یہاں تک کہ جب وہ قوم کے درمیان پہنچا تو اس نے انھیں یہ کہتے ہوئے سُنا۔ اے اوس، اے خزرج ! وہ لوگوں پر بلند ہوگئے۔ وہ اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا شعار تھا۔

38151

(۳۸۱۵۲) حَدَّثَنَا ابْنُ إِدْرِیسَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُمَرَ بْنِ قَتَادَۃَ ، عَنْ مَحْمُودِ بْنِ لَبِیدٍ ، عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ ، قَالَ : لَمَّا قَسَمَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ السَّبْیَ بِالْجِعْرَانَۃِ ، أَعْطَی عَطَایَا قُرَیْشًا وَغَیْرَہَا مِنَ الْعَرَبِ ، وَلَمْ یَکُنْ فِی الأَنْصَارِ مِنْہَا شَیْئٌ ، فَکَثُرَتِ الْقَالَۃُ وَفَشَتْ ، حَتَّی قَالَ قَائِلُہُمْ : أَمَّا رَسُولُ اللہِ فَقَدْ لَقِیَ قَوْمَہُ ، قَالَ : فَأَرْسَلَ إِلَی سَعْدِ بْنِ عُبَادَۃَ ، فَقَالَ : مَا مَقَالَۃٌ بَلَغَتْنِی عَنْ قَوْمِکَ ، أَکْثَرُوا فِیہَا ؟ قَالَ : فَقَالَ لَہُ سَعْدٌ : فَقَدْ کَانَ مَا بَلَغَک ، قَالَ : فَأَیْنَ أَنْتَ مِنْ ذَلِکَ ؟ قَالَ : مَا أَنَا إِلاَّ رَجُلٌ مِنْ قَوْمِی ، قَالَ : فَاشْتَدَّ غَضَبُہُ ، وَقَالَ : اجْمَعْ قَوْمَک ، وَلاَ یَکُنْ مَعَہُمْ غَیْرُہُمْ ، قَالَ : فَجَمَعَہُمْ فِی حَظِیرَۃٍ مِنْ حَظَائِرِ السَّبِیِّ ، وَقَامَ عَلَی بَابِہَا ، وَجَعَلَ لاَ یَتْرُکُ إِلاَّ مَنْ کَانَ مِنْ قَوْمِہِ ، وَقَدْ تَرَکَ رِجَالاً مِنَ الْمُہَاجِرِینَ ، وَرَدَّ أُنَاسًا ، قَالَ : ثُمَّ جَائَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُعْرَفُ فِی وَجْہِہِ الْغَضَبُ ، فَقَالَ : یَا مَعْشَرَ الأَنْصَارِ ، أَلَمْ أَجِدْکُمْ ضُلاَّلاً فَہَدَاکُمُ اللَّہُ ؟ فَجَعَلُوا یَقُولُونَ : نَعُوذُ بِاللہِ مِنْ غَضَبِ اللہِ وَمِنْ غَضَبِ رَسُولِہِ ، یَا مَعْشَرَ الأَنْصَارِ ، أَلَمْ أَجِدْکُمْ عَالَۃً فَأَغْنَاکُمُ اللَّہُ ؟ فَجَعَلُوا یَقُولُونَ : نَعُوذُ بِاللہِ مِنْ غَضَبِ اللہِ وَغَضَبِ رَسُولِہِ ، یَا مَعْشَرَ الأَنْصَارِ ، أَلَمْ أَجِدْکُمْ أَعْدَائً فَأَلَّفَ اللَّہُ بَیْنَ قُلُوبِکُمْ ؟ فَیَقُولُونَ : نَعُوذُ بِاللہِ مِنْ غَضَبِ اللہِ وَغَضَبِ رَسُولِہِ فَقَالَ : أَلاَ تُجِیبُونَ ؟ قَالُوا : اللَّہُ وَرَسُولُہُ أَمَنُّ وَأَفْضَلُ۔ فَلَمَّا سُرِّیَ عَنْہُ ، قَالَ : وَلَوْ شِئْتُمْ لَقُلْتُمْ فَصَدَقْتُمْ وَصَدَقْتُمْ : أَلَمْ نَجِدْکَ طَرِیدًا فَآوَیْنَاک ، وَمُکَذَّبًا فَصَدَّقْنَاک، وَعَائِلاً فَآسَیْنَاکَ ، وَمَخْذُولاً فَنَصَرْنَاک ؟ فَجَعَلُوا یَبْکُونَ ، وَیَقُولُونَ : اللَّہُ وَرَسُولُہُ أَمَنُّ وَأَفْضَلُ ، قَالَ : أَوَجَدْتُمْ مِنْ شَیْئٍ مِنْ دُنْیَا أَعْطَیْتہَا قَوْمًا ، أَتَأَلَّفُہُمْ عَلَی الإِسْلاَمِ ، وَوَکَلْتُکُمْ إِلَی إِسْلاَمِکُمْ ، لَوْ سَلَکَ النَّاسُ وَادِیًا ، أَوْ شِعْبًا ، وَسَلَکْتُمْ وَادِیًا ، أَوْ شِعْبًا ، لَسَلَکْتُ وَادِیَکُمْ ، أَوْ شِعْبَکُمْ ، أَنْتُمْ شِعَارٌ ، وَالنَّاسُ دِثَارٌ ، وَلَوْلاَ الْہِجْرَۃُ لَکُنْتُ امْرَئًا مِنَ الأَنْصَارِ۔ ثُمَّ رَفَعَ یَدَیْہِ حَتَّی إِنِّی لأَرَی مَا تَحْتَ مَنْکِبَیْہِ ، فَقَالَ : اللَّہُمَّ اغْفِرْ لِلأَنْصَارِ ، وَلأَبْنَائِ الأَنْصَارِ ، وَلأَبْنَائِ أَبْنَائِ الأَنْصَارِ ، أَمَّا تَرْضَوْنَ أَنْ یَذْہَبَ النَّاسُ بِالشَّائِ وَالْبَعِیرِ ، وَتَذْہَبُونَ بِرَسُولِ اللہِ إِلَی بُیُوتِکُمْ ؟ فَبَکَی الْقَوْمُ حَتَّی أَخْضَلُوا لِحَاہُمْ ، وَانْصَرَفُوا وَہُمْ یَقُولُونَ : رَضِینَا بِاللہِ رَبًّا ، وَبِرَسُولِہِ حَظًّا وَنَصِیبًا۔
(٣٨١٥٢) حضرت ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مقام جعرانہ میں قیدیوں کو تقسیم فرمایا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قریش وغیرہ کو قیدی عطا فرمائے لیکن ا ن قیدیوں میں سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انصار صحابہ کو کچھ بھی نہ دیا۔ اس پر بہت سی باتیں کہی گئیں اور پھیلائی گئیں۔ یہاں تک کہ ایک کہنے والے نے کہا : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! تو اپنی قوم کے ساتھ مل گئے ہیں۔ راوی کہتے ہیں : آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت سعد بن عبادہ کی طرف قاصد بھیجا اور استفسار فرمایا کہ ” مجھے تمہاری جانب سے کیسی بات پہنچی ہے جو وہ بہت زیادہ کر رہے ہیں ؟ “ راوی کہتے ہیں : انھوں نے جواب دیا۔ یقیناً ایسی بات ہوئی ہوگی جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پہنچی ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا : تم اس کے بارے میں کیا کہتے ہو ؟ انھوں نے جواب دیا۔ میں تو اپنی قوم کا محض ایک فرد ہوں ۔ راوی کہتے ہیں : آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا غصہ زیادہ ہوگیا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ اپنی قوم کو جمع کرو اور ان کے ساتھ کوئی اور (قوم) نہ ہو۔ راوی کہتے ہیں : حضرت سعد نے انصار کو قیدیوں کے باڑوں میں سے ایک باڑہ میں جمع کیا اور خود اس باڑہ کے دروازہ پر کھڑے ہوگئے اور جو ان کی قوم میں سے آتا تھا یہ اسی کو (اندر جانے کے لئے) چھوڑتے تھے۔ اور کچھ مہاجرین کو بھی انھوں نے (اندر جانے کے لئے) چھوڑ دیا ۔ اور کچھ کو واپس کردیا۔ راوی کہتے ہیں : پھر جناب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے ، غصہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چہرہ انور سے ظاہر ہو رہا تھا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔
” اے گروہ انصار ! کیا میں نے تمہیں گمراہ نہیں پایا تھا اور پھر اللہ تعالیٰ نے تمہیں ہدایت دی ؟ “ انصار کہنے لگے۔ ہم اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آتے ہیں۔ اللہ اور اس کے رسول کے غصہ سے۔ ” اے گروہ انصار ! کیا میں نے تمہیں تنگدست نہیں پایا تھا پھر اللہ تعالیٰ نے تمہیں غنی بنادیا ؟ “ انصار کہنے لگے۔ ہم اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آتے ہیں اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے غصہ سے۔ ” اے گروہ انصار ! کیا میں نے تمہیں (باہم) دشمن نہیں پایا تھا پھر اللہ تعالیٰ نے تمہارے دلوں کو جوڑ دیا “ انصار کہنے لگے۔ ہم اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آتے ہیں اللہ اور اس کے رسول کے غصہ سے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا۔ تم جواب کیوں نہیں دیتے ؟ انصار نے کہا۔ اللہ اور اس کے رسول زیادہ بڑے محسن ہیں۔ پھر جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی (یہ غصہ کی حالت) ختم ہوئی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” اگر تم چاہتے تو تم یہ بات کہتے اور سچ کہتے، تمہاری تصدیق بھی کی جاتی کہ : ” کیا ہم نے آپ کو نکالا ہوا نہیں پایا تھا پھر ہم نے آپ کو ٹھکانا دیا ۔ اور کیا ہم نے آپ کو جھٹلایا ہوا نہیں پایا تھا پھر ہم نے آپ کی تصدیق کی ۔ اور کیا ہم نے آپ کو تنگدست نہیں پایا تھا پھر ہم نے آپ کے ساتھ موالات کیا۔ اور کیا ہم نے آپ کو بےیارو مدد گار نہیں پایا تھا پھر ہم نے آپ کی مدد کی ؟ “ اس پر انصار نے رونا شروع کیا اور کہنے لگے۔ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) زیادہ بڑے محسن اور فضیلت والے ہیں۔ “ کیا تم نے دنیا کی اس چیز کو جو میں نے کسی قوم کو اس لیے دی تاکہ میں انھیں اسلام کے ساتھ مضبوط کر سکوں۔۔۔ محسوس کیا ہے ۔۔۔ اور میں نے تمہیں تمہارے اسلام کے سپرد کردیا (یعنی تم پختہ ایمان والے ہو) اگر سب لوگ ایک وادی یا گھاٹی میں چلیں اور تم انصار ایک دوسری وادی یا گھاٹی میں چلو تو البتہ میں تمہاری وادی یا گھاٹی میں چلوں گا۔ تم لوگ جسم سے متصل کپڑے (کی طرح) ہو اور بقیہ لوگ جسم کے اوپر والے کپڑے (کی طرح) ہیں۔ اور اگر ہجرت نہ ہوتی تو میں بھی انصار میں سے ایک فرد ہوتا۔
پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے دونوں ہاتھ بلند فرمائے حتی کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مونڈھوں کے نیچے کا حصہ (بغلیں) دکھائی دینے لگیں اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دعا فرمائی ۔ ” اے اللہ ! انصار کی مغفرت فرما، اور انصار کے بچوں کی مغفرت فرما۔ اور انصار کے بچوں کے بچوں کی مغفرت فرما۔ کیا تم لوگ اس بات پر راضی نہیں ہو کہ باقی لوگ تو بکریاں، اونٹ لے کر جائیں اور تم اپنے گھروں میں اللہ کے رسول کو لے کر جاؤ ؟ “ اس پر تمام صحابہ رونے لگے یہاں تک کہ ان کی داڑھیاں تر ہوگئیں۔ اور وہ لوگ یہ کہتے ہوئے واپس ہوئے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے رب ہونے پر اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حصہ اور نصیب ہونے پر راضی ہیں۔

38152

(۳۸۱۵۳) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا یَعْلَی بْنُ عَطَائٍ ، عَنْ أَبِی ہَمَّامٍ عَبْدِ اللہِ بْنِ یَسَارٍ ، عَنْ أَبِی عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْفِہْرِیِّ ، قَالَ : کُنْتُ مَعَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی غَزْوَۃِ حُنَیْنٍ ، فَسِرْنَا فِی یَوْمٍ قَائِظٍ شَدِیدِ الْحَرِ ، فَنَزَلْنَا تَحْتَ ظِلاَلِ الشَّجَرِ ، فَلَمَّا زَالَتِ الشَّمْسُ لَبِسْت لاَمَتِی وَرَکِبْت فَرَسِی ، فَانْطَلَقْت إِلَی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَہُوَ فِی فُسْطَاطِہِ فَقُلْتُ : السَّلاَمُ عَلَیْک یَا رَسُولَ اللہِ ، وَرَحْمَۃُ اللہِ ، الرَّوَاحُ ، حَانَ الرَّوَاحُ ، فَقَالَ : أَجَلْ ، فَقَالَ : یَا بِلاَلُ ، فَثَارَ مِنْ تَحْتِ سَمُرَۃٍ ، کَأَنَّ ظِلَّہُ ظِلُّ طَائِرٍ ، فَقَالَ : لَبَّیْکَ وَسَعْدَیْکَ ، وَأَنَا فِدَاؤُک ، فَقَالَ : أَسْرِجْ لِی فَرَسِی ، فَأَخْرَجَ سَرْجًا دَفَّتَاہُ مِنْ لِیفٍ ، لَیْسَ فِیہِمَا أَشَرٌ ، وَلاَ بَطَرٌ ، قَالَ : فَأَسْرَجَ۔ فَرَکِبَ ، وَرَکِبْنَا فَصَافَفْنَاہُمْ عَشِیَّتَنَا وَلَیْلَتَنَا ، فَتَشَامَّتِ الْخَیْلاَنِ ، فَوَلَّی الْمُسْلِمُونَ مُدْبِرِینَ کَمَا قَالَ اللَّہُ ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : یَا عِبَادَ اللہِ ، أَنَا عَبْدُ اللہِ وَرَسُولُہُ ، ثُمَّ قَالَ : یَا مَعْشَرَ الْمُہَاجِرِینَ ، أَنَا عَبْدُ اللہِ وَرَسُولُہُ ، ثُمَّ اقْتَحَمَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ فَرَسِہِ ، فَأَخَذَ کَفًّا مِنْ تُرَابٍ ، فَأَخْبَرَنِی الَّذِی کَانَ أَدْنَی إِلَیْہِ مِنِّی أَنَّہُ ضَرَبَ بِہِ وُجُوہَہُمْ ، وَقَالَ : شَاہَتِ الْوُجُوہُ ، قَالَ : فَہَزَمَہُمُ اللَّہُ۔ قَالَ یَعْلَی بْنُ عَطَائٍ : فَحَدَّثَنِی أَبْنَاؤُہُمْ ، عَنْ آبَائِہِمْ ؛ أَنَّہُمْ قَالَوا : لَمْ یَبْقَ مِنَّا أَحَدٌ إِلاَّ امْتَلأَتْ عَیْنَاہُ وَفَمُہُ تُرَابًا ، وَسَمِعْنَا صَلْصَلَۃً بَیْنَ السَّمَائِ وَالأَرْضِ ، کَإِمْرَارِ الْحَدِیدِ عَلَی الطَّسْتِ الْحَدِیدِ۔ (ابوداؤد ۱۳۷۱۔ احمد ۲۸۶)
(٣٨١٥٣) حضرت عبد الرحمن الفہری سے روایت ہے۔ کہتے ہیں : کہ میں غزوہ حنین میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہمراہ تھا۔ ہم ایک انتہائی سخت گرمی والے دن میں چلے پھر ہم نے درختوں کے سایہ میں پڑاؤ کیا۔ پھر جب سورج زوال کر گیا تو میں نے اپنا سامان حرب پہن لیا اور اپنے گھوڑے پر سوار ہوگیا اور میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف چل دیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے خیمہ میں تھے۔ میں نے (جا کر) کہا : السَّلاَمُ عَلَیْک یَا رَسُولَ اللہِ ، وَرَحْمَۃُ اللہِ روانگی ! روانگی کا وقت ہوگیا ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ہاں۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ اے بلال ! پس وہ بھی ایک ایسے درخت کے نے چن سے گرد جھاڑتے ہوئے اٹھے جس کا سایہ پرندے کے سایہ کی طرح تھا۔ اور انھوں نے (آ کر) عرض کیا۔ میں آپ پر فدا ہوں۔ میں حاضر ہوں ۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا؛ میرے گھوڑے پر زین کس دو ۔ چنانچہ حضرت بلال نے ایک زین نکالی جس کے اطراف میں گھاس لگا ہوا تھا۔ راوی کہتے ہیں۔ پھر حضرت بلال نے گھوڑے پر زین کس دی۔
٢۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی سوار ہوگئے اور ہم بھی سوار ہوگئے اور ہم نے رات ، دن ان کے سامنے صف بندی کی اور مسلمانوں اور کافروں کے گھڑ سواروں کی آپس میں مڈبھیڑ ہوئی۔ جیسا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۔۔۔ مسلمان پیٹھ پھیر کر بھاگ گئے ۔ تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آواز دی۔ ” اے خدا کے بندو ! میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول (موجود) ہوں “ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ” اے گروہ مہاجرین ! میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول (موجود) ہوں ۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے گھوڑے اترے اور ایک مٹھی مٹی کی لی ۔۔۔ مجھے اس صحابی نے بتایا جو مجھ سے زیادہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قریب تھا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ مٹی ان کے چہروں کی طرف پھینکی اور فرمایا ۔ ” چہرے بگڑ جائیں۔ “ راوی کہتے ہیں : پس اللہ تعالیٰ نے مشرکین کو شکست دی۔
٣۔ یعلی بن عطاء کہتے ہیں۔ مجھ سے مخالفین کے بیٹوں نے اپنے آباء کی سند سے بیان کیا کہ ہم میں سے کوئی بھی نہیں بچا مگر یہ کہ اس کی آنکھیں اور منہ مٹی سے بھر گیا اور ہم نے آسمان اور زمین کے درمیان ایک گھنٹی کی آواز سُنی جیسا کہ لوہے کی طشت پر لوہا مارنے سے نکلتی ہے۔

38153

(۳۸۱۵۴) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ أَبِی طَلْحَۃَ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ ؛ أَنَّ ہَوَازِنَ جَائَتْ یَوْمَ حُنَیْنٍ بِالصِّبْیَانِ وَالنِّسَائِ وَالإِبِلِ وَالْغَنَمِ ، فَجَعَلُوہَا صُفُوفًا ، یَکْثُرُونَ عَلَی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَلَمَّا الْتَقَوْا ، وَلَّی الْمُسْلِمُونَ کَمَا قَالَ اللَّہُ ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : یَا عِبَادَ اللہِ ، أَنَا عَبْدُ اللہِ وَرَسُولُہُ ، ثُمَّ قَالَ : یَا مَعْشَرَ الْمُہَاجِرِینَ ، أَنَا عَبْدُ اللہِ وَرَسُولُہُ ، قَالَ : فَہَزَمَ اللَّہُ الْمُشْرِکِینَ وَلَمْ یُضْرَبْ بِسَیْفٍ ، وَلَمْ یُطْعَنْ بِرُمْحٍ ، قَالَ : وَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَوْمَئِذٍ : مَنْ قَتَلَ کَافِرًا فَلَہُ سَلَبُہُ ، قَالَ : فَقَتَلَ أَبُو طَلْحَۃَ یَوْمَئِذٍ عِشْرِینَ رَجُلا ، فَأَخَذَ أَسْلاَبَہُمْ۔ وَقَالَ أَبُو قَتَادَۃَ : یَا رَسُولَ اللہِ ، إِنِّی ضَرَبْت رَجُلاً عَلَی حَبْلِ الْعَاتِقِ ، وَعَلَیْہِ دِرْعٌ لَہُ فَأُجْہِضْتُ عَنْہُ ، وَقَدْ قَالَ حَمَّادٌ : فَأَعْجَلْت عَنْہُ ، قَالَ : فَانْظُرْ مَنْ أَخَذَہَا ، قَالَ : فَقَامَ رَجُلٌ ، فَقَالَ : أَنَا أَخَذْتُہَا ، فَأَرْضِہِ مِنْہَا وَأَعْطِنِیہَا ، وَکَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لاَ یُسْأَلُ شَیْئًا إِلاَّ أَعْطَاہُ ، أَوْ سَکَتَ ، فَسَکَتَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : فَقَالَ عُمَرُ : لاَ ، وَاللہِ لاَ یَفِیئُہَا اللَّہُ عَلَی أَسَدٍ مِنْ أُسْدِہِ وَیُعْطِیکَہَا ، قَالَ : فَضَحِکَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَقَالَ : صَدَقَ عُمَرُ۔ وَلَقِیَ أَبُو طَلْحَۃَ أُمَّ سُلَیْمٍ وَمَعَہَا خِنْجَرٌ، فَقَالَ أَبُو طَلْحَۃَ: یَا أُمَّ سُلَیْمٍ، مَا ہَذَا مَعَک؟ قَالَتْ: أَرَدْتُ إِنْ دَنَا مِنِّی بَعْضُ الْمُشْرِکِینَ أَنْ أَبْعَجَ بِہِ بَطْنَہُ، فَقَالَ أَبُو طَلْحَۃَ: یَا رَسُولَ اللہِ، أَلاَ تَسْمَعُ مَا تَقُولُ أُمُّ سُلَیْمٍ؟ قَالَتْ: یَا رَسُولَ اللہِ، قُتِلَ مَنْ بَعْدَنَا مِنَ الطُّلَقَائِ، انْہَزَمُوا بِکَ یَا رَسُولَ اللہِ، فَقَالَ: إِنَّ اللَّہَ قَدْ کَفَی وَأَحْسَنَ۔ (ابوداؤد ۲۷۱۲۔ احمد ۲۷۹)
(٣٨١٥٤) حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ قبیلہ ہوازن والے غزوہ حنین کے موقع پر (اپنے) بچوں عورتوں، اونٹوں اور بکریوں کو ساتھ لائے اور انھیں صفوں کی حالت میں جمع کردیا تاکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے زیادہ لگیں۔ پس جب آمنا سامنا ہوا ۔ اور جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ مسلمان بھاگ نکلے۔ تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” اے اللہ کے بندو ! میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول (موجود) ہوں۔ “ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” اے گروہ مہاجرین ! میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول (موجود) ہوں۔ “ راوی کہتے ہیں : پھر اللہ تعالیٰ نے مشرکین کو شکست سے دوچار کیا ۔ کوئی تلوار نہیں ماری گئی اور نہ ہی کوئی نیزہ بازی کی گئی ۔ راوی کہتے ہیں : اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس دن ارشاد فرمایا : ” جو کسی کافر کو قتل کرے گا وہی اس کا سامان لے گا۔ “ حضرت انس کہتے ہیں، چنانچہ اس دن حضرت ابو طلحہ نے بیس (٢٠) آدمیوں کو قتل کیا اور ان کے سامان کو لے لیا۔ حضرت ابو قتادہ کہتے ہیں۔ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! میں نے ایک آدمی کو گردن پر تلوار مار کر ہلاک کیا اس کے جسم پر زرہ تھی لیکن مجھ سے پہلے ہی کسی نے وہ زرہ اتار لی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم دیکھ لو کس نے وہ زرہ لی ہے۔ راوی کہتے ہیں : ایک آدمی کھڑا ہوا اور اس نے عرض کیا۔ میں نے وہ زرہ لی ہے۔ آپ اس کو اس زرہ سے راضی کردیں۔ (یعنی چھوڑنے پر) اور یہ زرہ مجھے دے دیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جب بھی کسی شئی کا سوال کیا جاتا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وہ چیز عطا فرما دیتے یا خاموش رہتے (یعنی انکار نہ کرتے) ۔ چنانچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (یہ بات سن کر) خاموش ہوگئے۔ راوی کہتے ہیں۔ حضرت عمر کہنے لگے۔ نہیں خدا کی قسم ! اللہ تعالیٰ اپنے شیروں میں سے ایک شیر پر سے یہ غنیمت نہیں ہٹائیں گے اور نہ یہ تجھے دیں گے۔ راوی کہتے ہیں : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہنس پڑے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” عمر نے سچ کہا ہے۔ “
حضرت ابو طلحہ کی ام سلیم سے ملاقات ہوئی۔ حضرت ام سلیم کے پاس چھُرا تھا۔ حضرت ابو طلحہ نے پوچھا۔ اے اُم سلیم ! یہ آپ کے پاس کیا ہے ؟ وہ فرمانے لگیں۔ میرا ارادہ یہ ہے کہ اگر مشرکنا میں سے کوئی میرے قریب آیا تو میں اس چھرے کے ذریعہ سے پیٹ پھاڑ کر اس کی آنتیں باہرنکال دوں گی۔ حضرت ابو طلحہ نے (آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے) عرض کیا۔ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! اُم سلیم جو کچھ کہہ رہی ہیں۔ آپ نے نہیں سُنا۔ حضرت ام سلیم کہنے لگیں۔ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ہمارے بعد طلقاء میں سے جو لوگ ہیں ان کو خوب قتل کریں۔ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! یہ لوگ آپ کے ذریعہ (خوب) شکست کھاچکے ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جواب میں فرمایا : ” یقیناً اللہ کافی ہے اور خوب ہے۔ “

38154

(۳۸۱۵۵) حَدَّثَنَا ہَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ ، قَالَ : حدَّثَنَا عِکْرِمَۃُ بْنُ عَمَّارٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا إِیَاسُ بْنُ سَلَمَۃَ ، قَالَ : حَدَّثَنِی أَبِی ، قَالَ : غَزَوْتُ مَعَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ہَوَازِنَ ، فَبَیْنَمَا نَحْنُ نَتَضَحَّی ، وَعَامَّتُنَا مُشَاۃٌ ، فِینَا ضَعَفَۃٌ ، إِذْ جَائَ رَجُلٌ عَلَی جَمَلٍ أَحْمَرَ ، فَانْتَزَعَ طَلَقًا مِنْ حَقَبِہِ ، فَقَیَّدَ بِہِ جَمَلَہُ رَجُلٌ شَابٌّ ، ثُمَّ جَائَ یَتَغَدَّی مَعَ الْقَوْمِ ، فَلَمَّا رَأَی ضَعْفَہُمْ وَقِلَّۃَ ظَہْرِہِمْ خَرَجَ یَعْدُو إِلَی جَمَلِہِ فَأَطْلَقَہُ ، ثُمَّ أَنَاخَہُ فَقَعَدَ عَلَیْہِ ، ثُمَّ خَرَجَ یَرْکُضُہُ ، وَاتَّبَعَہُ رَجُلٌ مِنْ أَسْلَمَ مِنْ صَحَابَۃِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَی نَاقَۃٍ وَرْقَائَ ، ہِیَ أَمْثَلُ ظَہْرِ الْقَوْمِ ، فَقَعَدَ فَاتَّبَعَہُ ، فَخَرَجْتُ أَعْدُو فَأَدْرَکْتُہُ وَرَأْسُ النَّاقَۃِ عِنْدَ وَرِکِ الْجَمَلِ ، وَکُنْتُ عِنْدَ وَرِکِ النَّاقَۃِ ، وَکُنْتُ تَقَدَّمْتُ حَتَّی أَخَذْتُ بِخِطَامِ الْجَمَلِ ، فَأَنَخْتُہُ ، فَلَمَّا وَضَعَ رُکْبَتَیْہِ بِالأَرْضِ ، اخْتَرَطْتُ سَیْفِی فَأَضْرِبُ رَأْسَہُ ، فَنَدَرَ فَجِئْتُ بِرَاحِلَتِہِ ، وَمَا عَلَیْہَا أَقُودُہُ ، فَأَسْتَقْبِلُ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مُقْبِلاً ، فَقَالَ : مَنْ قَتَلَ الرَّجُلَ ؟ فَقَالُوا : ابْنُ الأَکْوَعِ ، فَنَفَلَہُ سَلَبَہُ۔
(٣٨١٥٥) حضرت ایاس بن سلمہ ، اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ہوازن کے جہاد میں شرکت کی تھی۔ ہم صبح کا کھانا کھا رہے تھے اور ہمارے اکثر لوگ پیدل تھے اور ہم میں کمزور لوگ بھی تھے کہ ایک آدمی سرخ اونٹ پر سوار ہو کر آیا اور اس نے اپنے (اونٹ) کے کجاوہ سے ایک چمڑے کی رسی کو پھینکا اور ایک نوجوان آدمی نے اس کے ساتھ اس کے اونٹ کو باندھ دیا۔ پھر وہ آیا اور اس نے لوگوں کے ہمراہ کھانا کھایا۔ جب اس نے لوگوں کی کمزوری اور کمی کو دیکھا تو وہ اپنے اونٹ کی طرف بھاگ نکلا اور اس نے اس کو کھول لیا پھر اس کو بٹھایا اور اس پر سوار ہوگیا اور پھر اس اونٹ کو مہمیز کرنا شروع کیا۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ میں سے ایک آدمی ۔۔۔ جن کا تعلق بنو اسلم سے تھا ۔۔۔ ایک اونٹنی پر ان کے پیچھے گئے۔ میں نے بھاگتے ہوئے اس شخص کا پیچھا کیا۔ ابھی بنو اسلم کے آدمی کی اونٹنی اس آدمی کے اونٹ کے قریب ہی پہنچی تھی کہ میں نے آگے بڑھ کر اونٹ کی لگام کو پکڑ لیا۔ جونہی وہ نیچے ہوئے میں نے اس آدمی کو قتل کردیا۔ پھر میں وہ سواری اور اس کا سامان لے کر حاضر ہوا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا کہ اس آدمی کو کس نے مارا ؟ لوگوں نے بتایا کہ ابن اکوع نے۔ پس آپ نے اس کا ساز و سامان مجھے دے دیا۔

38155

(۳۸۱۵۶) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا وُہَیْبٌ ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ یَحْیَی ، عَنْ عَبَّادِ بْنِ تَمِیمٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ زَیْدٍ ، قَالَ : لَمَّا أَفَائَ اللَّہُ عَلَی رَسُولِہِ یَوْمَ حُنَیْنٍ مَا أَفَائَ ، قَسَمَ فِی النَّاسِ فِی الْمُؤَلَّفَۃِ قُلُوبُہُمْ ، وَلَمْ یَقْسِمْ وَلَمْ یُعْطِ الأَنْصَارَ شَیْئًا ، فَکَأَنَّہُمْ وَجَدُوا إِذْ لَمْ یُصِبْہُمْ مَا أَصَابَ النَّاسَ ، فَخَطَبَہُمْ ، فَقَالَ : یَا مَعْشَرَ الأَنْصَارِ ، أَلَمْ أَجِدْکُمْ ضُلاَّلاً فَہَدَاکُمَ اللَّہُ بِی ؟ وَکُنْتُمْ مُتَفَرِّقِینَ فَجَمَعَکُمُ اللَّہُ بِی ؟ وَعَالَۃً فَأَغْنَاکُمَ اللَّہُ بِی ، قَالَ : کُلَّمَا قَالَ شَیْئًا ، قَالُوا : اللَّہُ وَرَسُولُہُ أَمَنُّ ، قَالَ : فَمَا یَمْنَعُکُمْ أَنْ تُجِیبُوا؟ قَالُوا : اللَّہُ وَرَسُولُہُ أَمَنُّ : قَالَ : لَوْ شِئْتُمْ قُلْتُمْ : جِئْتَنَا کَذَا وَکَذَا ، أَمَا تَرْضَوْنَ أَنْ یَذْہَبَ النَّاسُ بِالشَّائِ وَالْبَعِیرِ ، وَتَذْہَبُونَ بِرَسُولِ اللہِ إِلَی رِحَالِکُمْ؟ لَوْلاَ الْہِجْرَۃُ لَکُنْتُ امْرَئًا مِنَ الأَنْصَارِ ، لَوْ سَلَکَ النَّاسُ وَادِیًا ، أَوْ شِعْبًا لَسَلَکْت وَادِیَ الأَنْصَارِ وَشِعْبَہُمْ، الأَنْصَارُ شِعَارٌ، وَالنَّاسُ دِثَارٌ، وَإِنَّکُمْ سَتَلْقَوْنَ بَعْدِی أَثَرَۃً، فَاصْبِرُوا حَتَّی تَلْقَوْنِی عَلَی الْحَوْضِ۔
(٣٨١٥٦) حضرت عبداللہ بن زید سے روایت ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو غزوہ حنین میں جو مال غنیمت میں دینا مقصود تھا وہ عطا فرمایا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وہ مال لوگوں میں اور مؤلفۃ القلوب میں تقسیم فرمایا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انصار میں کوئی مال بھی تقسیم نہیں فرمایا اور ان کو نہیں دیا۔ اس پر گویا جب انھیں حصہ نہیں ملا تو انھوں نے محسوس کیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو خطبہ ارشاد فرمایا اور کہا۔ ” اے گروہ انصار ! کیا میں نے تمہیں گمراہ نہیں پایا تھا پھر اللہ تعالیٰ نے تمہیں میرے ذریعہ سے ہدایت بخشی اور تم لوگ پراگندہ و منتشر تھے پھر اللہ تعالیٰ نے تمہیں میرے ذریعہ سے اکٹھا فرمایا۔ اور کیا میں نے تمہیں تنگدست نہیں پایا تھا کہ پھر اللہ تعالیٰ نے تمہیں میرے ذریعہ سے غنی کردیا۔ “ راوی کہتے ہیں : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب بھی کوئی بات پوچھتے تو صحابہ جواب میں کہتے : اللہ اور اس کے رسول زیادہ بڑے محسن ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” تمہیں جواب دینے سے کیا چیز مانع ہے ؟ صحابہ نے عرض کیا۔ اللہ اور اس کے رسول زیادہ بڑے محسن ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اگر تم چاہو تو یوں کہو۔ آپ ایسی ایسی حالت میں ہمارے پاس آئے تھے۔ کیا تم اس بات پر راضی نہیں ہو کہ لوگ تو بکریاں اور اونٹ لے جائیں اور تم اپنے کجاو وں کی طرف اللہ کے رسول کو لے جاؤ ؟ اگر ہجرت نہ ہوتی تو میں بھی انصار میں سے ایک آدمی ہوتا ۔ اگر سب لوگ ایک وادی یا گھاٹی میں چلیں تو میں انصار کی وادی یا گھاٹی میں چلوں گا۔ انصار لوگ جسم سے متصل کپڑے (کی مانند) ہیں اور بقیہ لوگ جسم سے اوپر کے کپڑے (کی مانند) ہیں۔ تم لوگ میرے بعد ترجیح نفس کا مشاہدہ کرو گے لیکن تم صبر کرنا، یہاں تک کہ تم میرے ساتھ حوض پر آ ملو۔

38156

(۳۸۱۵۷) حَدَّثَنَا ہَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ أَبُو النَّضْرِ ، قَالَ : حَدَّثَنَا عِکْرِمَۃُ بْنُ عمَّارٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِی إِیَاسُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : قَدِمْتُ الْمَدِینَۃَ زَمَنَ الْحُدَیْبِیَۃِ مَعَ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَخَرَجْت أَنَا وَرَبَاحٌ ، غُلاَمُ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، بَعَثَہُ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَعَ الإِبِلِ ، وَخَرَجْتُ مَعَہُ بِفَرَسِ طَلْحَۃَ أُنْدِّیہِ مَعَ الإِبِلِ ، فَلَمَّا کَانَ بِغَلَسٍ أَغَارَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عُیَیْنَۃَ عَلَی إِبِلِ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَتَلَ رَاعِیَہَا ، وَخَرَجَ یَطْرُدُہَا ہُوَ وَأُنَاسٌ مَعَہُ فِی خَیْلٍ ، فَقُلْتُ : یَا رَبَاحُ ، اُقْعُدْ عَلَی ہَذَا الْفَرَسِ ، فَأَلْحِقْہُ بِطَلْحَۃَ ، وَأَخْبِرْ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، أَنَّہُ قَدْ أُغِیرَ عَلَی سَرْحِہِ۔ قَالَ : فَقُمْت عَلَی تَلٍّ ، وَجَعَلْت وَجْہِی مِنْ قِبَلِ الْمَدِینَۃِ ، ثُمَّ نَادَیْت ثَلاَثَ مَرَّاتٍ : یَا صَبَاحَاہُ ، ثُمَّ اتَّبَعْتُ الْقَوْمَ، مَعِی سَیْفِی وَنَبْلِی، فَجَعَلْتُ أَرْمِیہِمْ وَأَعْقِرُ بِہِمْ، وَذَاکَ حِینَ یَکْثُرُ الشَّجَرُ، قَالَ: فَإِذَا رَجَعَ إِلَیَّ فَارِسٌ جَلَسْتُ لَہُ فِی أَصْلِ شَجَرَۃٍ ، ثُمَّ رَمَیْتُ ، فَلاَ یُقْبِلُ عَلَیَّ فَارِسٌ إِلاَّ عَقَرْتُ بِہِ ، فَجَعَلْتُ أَرْمِیہِمْ وَأَقُولُ : أَنَا ابْنُ الأَکْوَعِ وَالْیَوْمُ یَوْمُ الرُّضَّعِ فَأَلْحَقُ بِرَجُلٍ فَأَرْمِیہِ وَہُوَ عَلَی رَحْلِہِ ، فَیَقَعُ سَہْمِی فِی الرَّجُلِ ، حَتَّی انْتَظَمَتْ کَتِفُہُ ، قُلْتُ : خُذْہَا : وَأَنَا ابْنُ الأَکْوَعِ وَالْیَوْمُ یَوْمُ الرُّضَّعِ فَإِذَا کُنْتُ فِی الشَّجَرَۃِ أَحْرَقْتُہُمْ بِالنَّبْلِ ، وَإِذَا تَضَایَقَتِ الثَّنَایَا عَلَوْتُ الْجَبَلَ فَرَدَّیْتُہُمْ بِالْحِجَارَۃِ ، فَمَا زَالَ ذَلِکَ شَأْنِی وَشَأْنُہُمْ، أَتْبَعُہُمْ وَأَرْتَجِزُ، حَتَّی مَا خَلَقَ اللَّہُ شَیْئًا مِنْ ظَہْرِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِلاَّ خَلَّفْتُہُ وَرَائَ ظَہْرِی ، وَاسْتَنْقَذْتُہُ مِنْ أَیْدِیہِمْ ، قَالَ : ثُمَّ لَمْ أَزَلْ أَرْمِیہِمْ حَتَّی أَلْقَوْا أَکْثَرَ مِنْ ثَلاَثِینَ رُمْحًا ، وَأَکْثَرَ مِنْ ثَلاَثِینَ بُرْدَۃً ، یَسْتَخْفُونَ مِنْہَا ، وَلاَ یُلْقُونَ مِنْ ذَلِکَ شَیْئًا إِلاَّ جَعَلْت عَلَیْہِ آرَامًا مِنَ الْحِجَارَۃِ ، وَجَمَعْتُہُ عَلَی طَرِیقِ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، حَتَّی إِذَا امْتَدَّ الضُّحَی، أَتَاہُمْ عُیَیْنَۃُ بْنُ بَدْرٍ الْفَزَارِی، مُمِدًّا لَہُمْ، وَہُمْ فِی ثَنِیَّۃٍ ضَیِّقَۃٍ، ثُمَّ عَلَوْتُ الْجَبَلَ فَأَنَا فَوْقَہُمْ، قَالَ عُیَیْنَۃُ: مَا ہَذَا الَّذِی أَرَی؟ قَالُوا: لَقِینَا مِنْ ہَذَا الْبَرْحَ ، مَا فَارَقْنَا بِسَحَرٍ حَتَّی الآنَ ، وَأَخَذَ کُلَّ شَیْئٍ فِی أَیْدِینَا ، وَجَعَلَہُ وَرَائَ ظَہْرِہِ ، فَقَالَ عُیَیْنَۃُ : لَوْلاَ أَنَّ ہَذَا یَرَی أَنَّ وَرَائَہُ طَلَبًا لَقَدْ تَرَکَکُمْ ، قَالَ : لِیَقُمْ إِلَیْہِ نَفَرٌ مِنْکُمْ ، فَقَامَ إِلَیَّ نَفَرٌ مِنْہُمْ أَرْبَعَۃٌ ، فَصَعِدُوا فِی الْجَبَلِ، فَلَمَّا أَسْمَعْتُہُمُ الصَّوْتَ، قُلْتُ لَہُمْ: أَتَعْرِفُونِی؟ قَالُوا: وَمَنْ أَنْتَ؟ قُلْتُ: أَنَا ابْنُ الأَکْوَعِ، وَالَّذِی کَرَّمَ وَجْہَ مُحَمَّدٍ لاَ یَطْلُبُنِی رَجُلٌ مِنْکُمْ فَیُدْرِکُنِی ، وَلاَ أَطْلُبُہُ فَیَفُوتُنِی ، قَالَ رَجُلٌ مِنْہُمْ : إِنْ أَظُنُّ۔ قَالَ: فَمَا بَرِحْتُ مَقْعَدِی ذَاکَ حَتَّی نَظَرْتُ إِلَی فَوَارِسِ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَتَخَلَّلُونَ الشَّجَرَ، وَإِذَا أَوَّلُہُمُ الأَخْرَمُ الأَسَدِیُّ ، وَعَلَی أَثَرِہِ أَبُو قَتَادَۃَ فَارِسُ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَعَلَی أَثَرِ أَبِی قَتَادَۃَ الْمِقْدَادُ الْکِنْدِیُّ ، قَالَ : فَوَلَّوُا الْمُشْرِکِینَ مُدْبِرِینَ ، وَأَنْزِلُ مِنَ الْجَبَلِ ، فَأَعْرِضُ لِلأَخْرَمِ ، فَآخُذُ عَنَانَ فَرَسِہِ ، قُلْتُ : یَا أَخَرَمُ ، أَنْذِرْ بِالْقَوْمِ ، یَعَنْی أُحَذِّرُہُمْ ، فَإِنِّی لاَ آمَنُ أَنْ یَقْطَعُوک ، فَاتَّئِدْ حَتَّی یَلْحَقَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابُہُ ، قَالَ : یَا سَلَمَۃُ ، إِنْ کُنْتَ تُؤْمِنُ بِاللہِ وَالْیَوْمِ الآخِرِ ، وَتَعْلَمُ أَنَّ الْجَنَّۃَ حَقٌّ وَالنَّارَ حَقٌّ ، فَلاَ تَحُل بَیْنِی وَبَیْنَ الشَّہَادَۃِ ، قَالَ : فَخَلَّیْتُ عَنَانَ فَرَسِہِ ، فَیَلْحَقُ بِعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عُیَیْنَۃَ ، وَیَعْطِفُ عَلَیْہِ عَبْدُ الرَّحْمَان ، فَاخْتَلَفَا طَعَنْتَیْنِ ، فَعَقَرَ الأَخْرَمُ بِعَبْدِ الرَّحْمَنِ ، وَطَعَنَہُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ فَقَتَلَہُ ، وَتَحَوَّلَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ عَلَی فَرَسِ الأَخْرَمِ۔ فَلَحِقَ أَبُو قَتَادَۃَ بِعَبْدِ الرَّحْمَنِ فَاخْتَلَفَا طَعَنْتَیْنِ فَعَقَرَ بِأَبِی قَتَادَۃَ ، وَقَتَلَہُ أبُو قَتَادَۃَ ، وَتَحَوَّلَ أَبُو قَتَادَۃَ عَلَی فَرَسِ الأَخْرَمِ۔ ثُمَّ إِنِّی خَرَجْتُ أَعْدُو فِی أَثَرِ الْقَوْمِ ، حَتَّی مَا أَرَی مِنْ غُبَارِ صَحَابَۃِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ شَیْئًا ، وَیَعْرِضُونَ قَبْلَ غَیْبُوبَۃِ الشَّمْسِ إِلَی شِعْبٍ فِیہِ مَائٌ ، یُقَالُ لَہُ : ذُو قَرَدٍ ، فَأَرَادُوا أَنْ یَشْرَبُوا مِنْہُ ، فَأَبْصَرُونِی أَعْدُو وَرَائَہُمْ ، فَعَطَفُوا عَنْہُ، وَشَدُّوا فِی الثَّنِیَّۃِ ، ثَنِیَّۃِ ذِی ثَبیرٍ، وَغَرَبَتِ الشَّمْسُ فَأَلْحَقُ بِہِمْ رَجُلاً فَأَرْمِیہِ، فَقُلْتُ : خُذْہَا : وَأَنَا ابْنُ الأَکْوَعِ وَالْیَوْمُ یَوْمُ الرُّضَّعِ فَقَالَ : یَا ثَکِلَتْنِی أُمِّی ، أَکْوَعِی بُکْرَۃً ، قُلْتُ : نَعَمْ أَیْ عَدُوَّ نَفْسِہِ ، وَکَانَ الَّذِی رَمَیْتُہُ بُکْرَۃً فَأَتْبَعْتُہُ بِسَہْمٍ آخَرَ ، فَعَلَقَ فِیہِ سَہْمَانِ ، وَتَخَلَّفُوا فَرَسَیْنِ ، فَجِئْتُ بِہِمَا أَسُوقُہُمَا إِلَی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَہُوَ عَلَی الْمَائِ الَّذِی حَلأَتْہُمْ عَنْہُ : ذِی قَرَدٍ۔ فَإِذَا نَبِیُّ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی خَمْسِ مِئَۃٍ ، وَإِذَا بِلاَلٌ قَدْ نَحَرَ جَزُورًا مِمَّا خَلَّفْتُ ، فَہُوَ یَشْوِی لِرَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ کَبِدِہَا وَسَنَامِہَا ، فَأَتَیْتُ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقُلْتُ : یَا رَسُولَ اللہِ ، خَلِّنِی ، فَأَنْتَخِبُ مِنْ أَصْحَابِکَ مِئَۃَ رَجُلٍ ، فَآخُذَ عَلَی الْکُفَّارِ بِالْعَشْوَۃِ ، فَلاَ یَبْقَی مِنْہُمْ مُخْبِرٌ إِلاَّ قَتَلْتُہُ ، قَالَ : أَکُنْتَ فَاعِلاً ذَاکَ یَا سَلَمَۃُ ؟ قَالَ : نَعَمْ ، وَالَّذِی أَکْرَمَ وَجْہَک ، فَضَحِکَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حَتَّی رَأَیْتُ نَوَاجِذَہُ فِی ضَوْئِ النَّارِ۔ قَالَ: ثُمَّ قَالَ : إِنَّہُمْ یُقْرَوْنَ الآنَ بِأَرْضِ غَطَفَانَ ، فَجَائَ رَجُلٌ مِنْ غَطَفَانَ ، قَالَ : مَرُّوا عَلَی فُلاَنٍ الْغَطَفَانِی ، فَنَحَرَ لَہُمْ جَزُورًا ، فَلَمَّا أَخَذُوا یَکْشِطُونَ جِلْدَہَا ، رَأَوْا غَبَرَۃً فَتَرَکُوہَا وَخَرَجُوا ہُرَّابًا ، فَلَمَّا أَصْبَحْنَا قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: خَیْرُ فُرْسَانِنَا الْیَوْمَ أَبُو قَتَادَۃَ، وَخَیْرُ رَجَّالَتِنَا سَلَمَۃُ، فَأَعْطَانِی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سَہْمَ الْفَارِسِ وَالرَّاجِلِ جَمِیعًا، ثُمَّ أَرْدَفَنِی وَرَائَہُ عَلَی الْعَضْبَائِ رَاجِعِینَ إِلَی الْمَدِینَۃِ۔ فَلَمَّا کَانَ بَیْنَنَا وَبَیْنَہَا قَرِیبٌ مِنْ ضَحْوَۃٍ ، وَفِی الْقَوْمِ رَجُلٌ مِنَ الأَنْصَارِ ، کَانَ لاَ یُسْبَقُ ، فَجَعَلَ یُنَادِی : ہَلْ مِنْ مُسَابِقٍ ، أَلاَ رَجُلٌ یُسَابِقُ إِلَی الْمَدِینَۃِ ، فَعَلَ ذَلِکَ مِرَارًا ، وَأَنَا وَرَائَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مُرْدَفًا ، قُلْتُ لَہُ : أَمَا تُکْرِمُ کَرِیمًا ، وَلاَ تَہَابُ شَرِیفًا ؟ قَالَ : لاَ ، إِلاَّ رَسُولَ اللہِ ، قُلْتُ : یَا رَسُولَ اللہِ ، بِأَبِی أَنْتَ وَأُمِّی خَلِّنِی ، فَلأُسَابِقُ الرَّجُلَ ، قَالَ : إِنْ شِئْتَ ، قُلْتُ : اِذْہَبْ إِلَیْک ، فَطَفَرَ عَنْ رَاحِلَتِہِ ، وَثَنَیْت رِجْلِی فَطَفَرْت عَنِ النَّاقَۃِ ، ثُمَّ إِنِّی رَبَطْتُ عَلَیْہَا شَرَفًا ، أَوْ شَرَفَیْنِ ، یَعَنْی اسْتَبْقَیْت نَفْسِی ، ثُمَّ إِنِّی عَدَوْتُ حَتَّی أَلْحَقَہُ ، فَأَصُکَّ بَیْنَ کَتِفَیْہِ بِیَدَی ، فَقُلْتُ سَبَقْتُک وَاللہِ ، أَوْ کَلِمَۃً نَحْوَہَا ، قَالَ : فَضَحِکَ ، وَقَالَ : إِنْ أَظُنُّ ، حَتَّی قَدِمْنَا الْمَدِینَۃَ۔ (مسلم ۱۴۳۳۔ احمد ۵۲)
(٣٨١٥٧) حضرت ایاس بن سلمہ ، اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ میں صلح حدیبیہ کے دنوں میں جناب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہمراہ مدینہ میں آیا تھا ۔ پس (ایک مرتبہ) میں اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا غلام حضرت رباح باہر نکلے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے رباح کو اونٹوں کے ہمرا ہ بھیجا اور میں ان کے ساتھ حضرت طلحہ کا گھوڑا لے کر نکلا اور اونٹوں کے ساتھ میں گھوڑے کو ایڑ لگاتا رہا۔ پس جب صبح کا اندھیرا (چھایا ہوا) تھا تو عبد الرحمن بن عیینہ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اونٹوں پر حملہ کردیا اور اونٹوں کے چرواہے کو قتل کردیا۔ اور وہ اس کے ساتھ جو گھڑ سوار لوگ تھے وہ اونٹوں کو لے گئے۔ میں نے کہا۔ اے رباح ! اس گھوڑے پر بیٹھ جاؤ اور یہ حضرت طلحہ تک پہنچا دو ۔ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خبر دے دو کہ ان پر حملہ ہوگیا ہے۔
٢۔ سلمہ کہتے ہیں : پھر میں ایک ٹیلہ پر کھڑا ہوگیا اور اپنا منہ مدینہ کی طرف کیا اور پھر میں نے تین مرتبہ آواز لگائی ۔ یا صباحاہ ! اس کے بعد ان لوگوں کے پیچھے چل نکلا۔ میرے پاس میری تلوار اور تیر تھے ۔ پس میں نے ان کی طرف تیر پھینکنے شروع کیے اور ان کو زخمی کر کے روکنے لگا۔ اور یہ بات تب ہوتی جب درخت زیادہ ہوتے۔۔۔ کہتے ہیں : جب میری طرف کوئی سوار آتا تو میں کسی درخت کی اوٹ میں بیٹھ جاتا اور پھر تیر اندازی کرتا۔ چنانچہ کوئی سوار میری طرف نہ بڑھتا مگر یہ کہ میں اس کو زخمی کر کے روک دیتا میں ان پر تیر برساتا اور یہ کہتا۔ میں ابن الاکوع ہوں اور آج کا دن ذلیلوں کی ہلاکت کا دن ہے۔
٣۔ پھر میں ایک آدمی کے پاس پہنچا تو میں نے اس کو تیر مارا جبکہ وہ اپنی سواری پر تھا۔ میرا تیر اس آدمی کو لگا یہاں تک کہ وہ اس کے کندھے میں پیوست ہوگیا۔ میں نے کہا۔ اس کو پکڑ۔ اور
” میں ابن الاکوع ہوں ۔ اور آج کا دن ذلیلوں کی ہلاکت کا دن ہے۔ “
٤۔ جب میں درختوں (کے جھرمٹ) میں ہوتا تو میں ان لوگوں پر خوب تیر اندازی کرتا اور جب گھاٹیاں تنگ ہوجاتیں تو میں پہاڑ پر چڑھ جاتا اور ان پر پتھر پھینکتا۔ میری اور ان کی یہی حالت رہی کہ میں ان کے پیچھے دوڑتا رہا اور رجزیہ اشعار پڑھتا رہا۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سواریوں میں سے جو کچھ پیدا کیا ہوا تھا میں اس سب کو اپنے پیچھے چھوڑ آیا اور میں نے اس کو حملہ آوروں سے چھڑا لیا۔
٥۔ سلمہ کہتے ہیں : پس میں ان پر تیر اندازی کرتا رہا یہاں تک کہ تیس سے زیادہ نیزے اور تیس سے زیادہ چادریں گرا دیں جن کو وہ ہلکا (گھٹیا) سمجھتے تھے۔ وہ جو کچھ بھی پھینکتے تھے میں ان پر پتھروں کو رکھ دیتا تھا۔ اور میں اس کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے راستہ پر جمع کردیتا تھا۔ یہاں تک کہ جب چاشت کا وقت ہوا تو حملہ آوروں کے پاس عیینہ بن بدر فزاری مدد کرنے کے لیے آپہنچا اور یہ لوگ ایک تنگ گھاٹی میں تھے۔ میں پہاڑ پر چڑھ گیا چنانچہ میں ان سے بلند ہوگیا۔ عیینہ نے کہا میں یہ کیا دیکھ رہا ہوں ؟ حملہ آوروں نے جواب دیا۔ ہمیں یہ مصیبت چمٹی ہوئی ہے۔ صبح سے ابھی تک اس نے ہمارا ساتھ نہیں چھوڑا۔ جو کچھ ہمارے پاس تھا وہ اس نے ہم سے لے لیا ہے اور اس کو اپنے پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ اس پر عیینہ نے کہا۔ اگر اس کو اپنے پیچھے سے کسی طلب (کمک) کا خیال نہ ہوتا تو البتہ یہ تمہیں چھوڑ دیتا ۔ عیینہ نے کہا۔ تم میں سے ایک جماعت اس کی طرف (لڑنے کے لئے) اٹھنی چاہیے۔ چنانچہ میری جانب ایک جماعت اٹھی جس میں چار افراد تھے۔ انھوں نے پہاڑ پر چڑھنا شروع کیا پس جب وہ میری آواز کے قریب پہنچے تو میں نے ان سے کہا۔ کیا تم مجھے جانتے ہو ؟ انھوں نے پوچھا تم کون ہو ؟ مں پ نے جواب دیا۔ میں ابن الاکوع ہوں۔ قسم اس ذات کی جس نے محمد کے چہرے کو عزت بخشی تم میں سے کوئی آدمی مجھے پکڑنا چاہے تو نہیں پکڑ سکتا اور میں جس کو پکڑنا چاہوں وہ چھوٹ نہیں سکتا۔ ان میں سے ایک آدمی نے کہا۔ مجھے بھی یہی گمان ہے۔
٦۔ سلمہ کہتے ہیں : پھر میں اپنی اسی جگہ بیٹھا رہا یہاں تک کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سواروں کو درختوں کے درمیان سے دیکھا کہ ان کے اول میں اخرم اسدی ہیں اور ان کے پیچھے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے شہسوار حضرت ابو قتادہ تھے اور ابو قتادہ کے پیچھے مقداد کندی تھے۔ سلمہ کہتے ہیں۔ پس مشرکین پیٹھ پھیر کر بھاگ گئے ۔ میں پہاڑ سے اترا اور حضرت اخرم کے پاس پہنچا اور میں نے ان کے گھوڑے کی لگام پکڑ لی۔ میں نے کہا۔ اے اخرم ! ان لوگوں سے ڈرو (یعنی ابھی رک جاؤ) کیونکہ مجھے اس بات پر امن نہیں ہے کہ یہ لوگ تمہیں قتل کردیں گے۔ پس تم رکو یہاں تک کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ (ہم تک) پہنچ جائیں۔ اخرم نے کہا ۔ اے سلمہ ! اگر تم اللہ پر اور آخرت پر ایمان رکھتے ہو اور جانتے ہو کہ جنت برحق ہے اور جہنم برحق ہے تو تم میرے اور شہادت کے درمیان حائل نہ ہو۔ سلمہ کہتے ہیں۔ میں نے ان کے گھوڑے کی لگام چھوڑ دی اور وہ (جا کر) عبد الرحمن بن عیینہ سے ٹکرائے اور عبد الرحمن نے ان پر حملہ کیا اور دونوں طرف سے وار ہوئے۔ حضرت اخرم نے عبدالرحمن کے (گھوڑے کی) پانچیں کاٹ دیں اور عبد الرحمن نے حضرت اخرم کو وار کر کے قتل کردیا۔ اور عبد الرحمن ، حضرت اخرم (کا گھوڑا لے کر) واپس چلا گیا۔
٧۔ پھر ابو قتادہ ، عبد الرحمن کے پاس پہنچے اور دونوں طرف وار ہوئے تو حضرت قتادہ کے گھوڑے کے پاؤں عبد الرحمن نے کاٹ ڈالے اور حضرت ابو قتادہ نے عبد الرحمن کو قتل کردیا اور حضرت ابو قتادہ ، حضرت اخرم کے گھوڑے پر سوار ہو کر واپس پلٹے۔
٨۔ میں نے پھر ان لوگوں کے اثرات قدم کے پیچھے دوڑنا شروع کیا (اور اتنا آگے نکل گیا) یہاں تک کہ مجھے جناب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ کا غبار بھی دکھائی دینا بند ہوگیا ۔ غروب آفتاب سے قبل یہ لوگ ایک گھاٹی میں میرے سامنے آئے جس میں ایک ذوقرد نام کا کنواں تھا۔ ان لوگوں نے اس کنویں سے پانی پینے کا ارادہ کیا تھا کہ انھوں نے مجھے اپنے پیچھے دوڑتا ہوا دیکھ لیا چنانچہ وہ لوگ وہاں سے نکلے اور ایک دوسری گھاٹی جس کا نام ثنیۃ ذی ثبیر تھا اس میں مضبوط ہوگئے اسی دوران سورج ڈوب گیا اور میں ان میں سے ایک آدمی کے پاس جا پہنچا اور میں نے اس کی طرف تیر پھینکا اور میں نے کہا۔ اس (تیر) کو پکڑ لو۔ ع
” اور میں ابن الاکوع ہوں۔ آج کا دن کمینوں کی ہلاکت کا دن ہے۔ “
٩۔ اس آدمی نے کہا ۔۔۔ ہائے ! میری ماں مجھے گم کرے ۔ کیا تم صبح والے ابن الاکوع ہو ؟ میں نے جواب دیا : ہاں ! اے اپنی جان کے دشمن ! اور یہ وہی شخص تھا جس کو میں نے صبح تیر مارا تھا۔ چنانچہ میں نے اس کو ایک اور تیر دے مارا اور اس میں دو تیر پیوست ہوگئے۔ یہ لوگ (مزید) دو گھوڑے پیچھے چھوڑ گئے۔ میں ان دونوں گھوڑوں کو ہانک کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں پہنچا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (اس وقت) اسی کنویں پر تشریف فرما تھے جس سے میں نے ان حملہ آوروں کو بھگایا تھا۔ یعنی ذو قرد
١٠۔ پس (وہاں) اللہ کے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پانچ صد افراد کے ہمراہ موجود تھے۔ اور حضرت بلال نے ان میں سے ایک اونٹ کو نحر کیا تھا جن کو میں اپنے پیچھے چھوڑ آیا تھا۔ اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے اس کی کلیجی اور کوہان کو بھون رہے تھے۔ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں پہنچا اور میں نے عرض کیا۔ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ مجھے چھوڑیں (یعنی اجازت دیں) میں آپ کے صحابہ میں سے ایک سو افراد کو منتخب کرتا ہوں اور (ان کے ذریعہ) میں کفار پر رات کو حملہ کروں گا اور ان میں سے کسی مخبر کو قتل کئے بغیر نہیں چھوڑں گا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا : ” اے سلمہ ! کیا تم یہ کام کرلو گے ؟ “ حضرت سلمہ نے جواب دیا۔ جی ہاں ! قسم اس ذات کی جس نے آپ کے رُخ انور کو عزت بخشی ہے۔ اس پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہنس پڑے یہاں تک کہ میں نے آگ کی روشنی میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی داڑھوں کو دیکھ لیا۔
١١۔ حضرت سلمہ کہتے ہیں : پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” یہ لوگ اس وقت مقام غطفان میں مہمانی کھا رہے ہیں۔ “ پھر اس کے بعد مقام غطفان سے ایک آدمی آیا اور اس نے بتایا کہ یہ لوگ فلاں غطفانی کے ہاں سے گزرے تو اس نے ان کے لیے اونٹ ذبح کیا پھر جب انھوں نے اس کی کھال اتارنا شروع کی تو انھوں نے گرد و غبار دیکھی اور اونٹ کو (وہیں) چھوڑ دیا اور بھاگ نکلے۔ پھر جب صبح ہوئی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ ” ہمارے گھڑ سواروں میں سب سے بہتر گھڑ سوار ابو قتادہ ہیں اور ہمارے پا پیادہ میں سب سے بہتر حضرت سلمہ ہیں۔ “ پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے گھڑ سوار اور پا پیادہ دونوں کے حصے عطا فرمائے۔ اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے اپنے پیچھے کان چری اونٹنی پر سوار فرمایا۔ جبکہ ہم مدینہ کی طرف واپس آ رہے تھے۔
١٢۔ پھر جب ہم مدینہ کے قریب نصف النہار کو پہنچے تو انصار میں سے ایک آدمی تھا وہ جب بھی آگے ہوتا تو یہ آواز لگاتا۔ کیا کوئی مقابلہ کرنے والا ہے ؟ کیا کوئی آدمی مدینہ تک دوڑ لگا کر مقابلہ کرے گا ؟ یہ حرکت اس نے کئی مرتبہ کی ۔ جبکہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیچھے سوار تھا۔ میں نے ان صاحب سے کہا۔ تمہیں کسی کریم کی عزت اور کسی شریف کی ہیبت کا خیال نہیں ہے ؟ انھوں نے جواب دیا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سوا کسی کا نہیں ہے۔ میں نے عرض کیا۔ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں مجھے چھوڑیے ۔ تاکہ میں اس آدمی سے مقابلہ کروں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اگر تم چاہتے ہو تو (ٹھیک ہے) ۔ میں نے (اس آدمی سے) کہا۔ تیاری کرو۔ پس وہ اپنی سواری سے اترا اور میں نے اپنے پاؤں موڑے اور میں بھی اونٹنی سے اترا۔ پھر میں نے دوڑ لگائی یہاں تک کہ میں نے اس کو جا پکڑا اور میں نے اس کے کندھوں کے درمیان اپنا ہاتھ زور سے مارا ور میں نے اس سے کہا۔ خدا کی قسم ! میں تم سے آگے گزر گیا ہوں۔ یا اسی طرح کی کوئی بات کہی۔ حضرت سلمہ کہتے ہیں۔ وہ صاحب ہنس پڑے اور کہنے لگے۔ میرا گمان بھی یہی تھا کہ تم مجھ پر سبقت لے جاؤ گے۔ (پھر ہم چلتے رہے) یہاں تک کہ ہم مدینہ منورہ پہنچ گئے۔

38157

(۳۸۱۵۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، حَدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ أَبِی بَکْرِ بْنِ أَبِی الْجَہْمِ بْنِ صُخَیْرۃَ الْعَدَوِیِّ ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُتْبَۃَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: صَلَّی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صَلاَۃَ الْخَوْفِ بِذِی قَرَدٍ، أَرْضٌ مِنْ أَرْضِ بَنِی سُلَیْمٍ ، فَصَفَّ النَّاسَ خَلْفَہُ صَفَّیْنِ : صَفٌّ خَلْفَہُ ، وَصَفٌّ مُوَازِی الْعَدُوَ ، فَصَلَّی بِالصَّفِّ الَّذِی یَلِیہِ رَکْعَۃً ، ثُمَّ نَکَصَ ہَؤُلاَئِ إِلَی مَصَافِّ ہَؤُلاَئِ ، وَہَؤُلاَئِ إِلَی مَصَافِّ ہَؤُلاَئِ ، فَصَلَّی بِہِمْ رَکْعَۃً۔
(٣٨١٥٨) حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مقام ذی قرد میں ۔۔۔ بنو سلیم کے علاقہ میں ۔۔۔نماز خوف ادا فرمائی۔ پس آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیچھے لوگوں نے دو صفیں بنالیں۔ ایک صف نے آپ کے پیچھے (پہلے ایک رکعت) نماز پڑھی اور ایک صف دشمن کے مقابل کھڑی ہوئی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس صف کو جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس تھی ایک رکعت نماز پڑھائی پھر یہ لوگ ان لوگوں کی صف کی جگہ چلے گئے اور وہ لوگ ان لوگوں کی صف کی جگہ چلے آئے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو بھی ایک رکعت پڑھائی۔

38158

(۳۸۱۵۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حَدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنِ الرُّکَیْنِ الْفَزَارِیِّ ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ حَسَّانَ ، عَنْ زَیْدِ بْنِ ثَابِتٍ ؛ أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صَلَّی صَلاَۃَ الْخَوْفِ ، فَذَکَرَ مِثْلَ حَدِیثِ ابْنِ عَبَّاسٍ۔
(٣٨١٥٩) حضرت زید بن ثابت سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نماز خوف ادا فرمائی ۔۔۔ پھر اس کے بعد حضرت زید نے حضرت ابن عباس والی روایت بیان فرمائی۔

38159

(۳۸۱۶۰) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ الْمُبَارَکِ ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ کَعْبِ بْنِ مَالِکٍ ، عَنْ أَبِیہِ، قَالَ : کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِذَا أَرَادَ غَزْوَۃً ، وَرَّی بِغَیْرِہَا حَتَّی کَانَ غَزْوَۃُ تَبُوکَ ، سَافَرَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی حَرٍّ شَدِیدٍ ، وَاسْتَقْبَلَ سَفَرًا بَعِیدًا ، فَجَلَّی لِلْمُسْلِمِینَ عَنْ أَمْرِہِمْ ، وَأَخْبَرَہُمْ بِذَلِکَ لِیَتَأَہَّبُوا أُہْبَۃَ عَدُوِّہِمْ ، وَأَخْبَرَہُمْ بِالْوَجْہِ الَّذِی یُرِیدُ۔ (ابوداؤد ۲۶۳۰۔ احمد ۳۸۷)
(٣٨١٦٠) حضرت عبد الرحمن بن کعب بن مالک، اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (کی عادت یہ تھی کہ) جب کسی غزوہ کا ارادہ کرتے تو کسی دوسرے کے ساتھ توریہ فرما لیتے حتی کہ غزوہ تبوک پیش آیا ۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تبوک کا سفر سخت گرمی میں کیا اور اس سفر میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دور جگہ جانا تھا۔ چنانچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مسلمانوں کو ان کے معاملہ (یعنی غزوہ) کے بارے میں وضاحت فرما دی اور انھیں اس کی خبر دے دی تاکہ لوگ دشمن کے سامان کی شایان شان تیاری کرلیں۔ اور جس طرف آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارادہ تھا وہ بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ کو بتادیا۔

38160

(۳۸۱۶۱) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا وُہَیْبٌ ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ یَحْیَی ، عَنِ الْعَبَّاسِ بْنِ سَہْلِ بْنِ سَعْدٍ السَّاعِدِیُّ ، عَنْ أَبِی حُمَیْدٍ السَّاعِدِیُّ ، قَالَ : خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَامَ تَبُوکَ ، حَتَّی جِئْنَا وَادِیَ الْقُرَی ، وَإِذَا امْرَأَۃٌ فِی حَدِیقَۃٍ لَہَا ، قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : اُخْرُصُوا ، قَالَ : فَخَرَصَ الْقَوْمُ، وَخَرَصَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَشَرَۃَ أَوْسُقٍ ، وَقَالَ لِلْمَرْأَۃِ : احْصِی مَا یَخْرُجُ مِنْہَا حَتَّی أَرْجِعَ إِلَیْک إِنْ شَائَ اللَّہُ۔ قَالَ : فَخَرَجَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حَتَّی قَدِمَ تَبُوکَ ، فَقَالَ : إِنَّہَا سَتَہُبُّ عَلَیْکُمُ اللَّیْلَۃَ رِیحٌ شَدِیدَۃٌ ، فَلاَ یَقُومَنَّ فِیہَا رَجُلٌ ، فَمَنْ کَانَ لَہُ بَعِیرٌ فَلْیُوثِقْ عِقَالہُ ، قَالَ : قَالَ أَبُو حُمَیْدٍ : فَعَقَلْنَاہَا ، فَلَمَّا کَانَ مِنَ اللَّیْلِ ہَبَّتْ رِیحٌ شَدِیدَۃٌ ، فَقَامَ فِیہَا رَجُلٌ ، فَأَلْقَتْہُ فِی جَبَلَیْ طَیٍّ۔ ثُمَّ جَائَ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَلِکُ أَیْلَۃَ ، فَأَہْدَی إِلَی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَغْلَۃً بَیْضَائَ، فَکَسَاہُ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بُرْدًا، وَکَتَبَ لَہُ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِبَحْرِہِمْ۔ قَالَ: ثُمَّ أَقْبَلَ، وَأَقْبَلْنَا مَعَہُ حَتَّی جِئْنَا وَادِیَ الْقُرَی، فَقَالَ لِلْمَرْأَۃِ: کَمْ حَدِیقَتُک؟ قَالَتْ: عَشَرَۃُ أَوْسُقٍ، خَرْصُ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إِنِّی مُتَعَجِّلٌ ، فَمَنْ أَحَبَّ مِنْکُمْ أَنْ یَتَعَجَّلَ فَلْیَفْعَلْ ، قَالَ : فَخَرَجَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَخَرَجْنَا مَعَہُ حَتَّی إِذَا أَوْفَی عَلَی الْمَدِینَۃِ ، قَالَ : ہَذِہِ طَابَۃُ ، فَلَمَّا رَأَی أُحُدًا ، قَالَ : ہَذَا جَبَلٌ ، یُحِبُّنَا وَنُحِبُّہُ۔ (بخاری ۱۴۸۱۔ مسلم ۱۰۱۱)
(٣٨١٦١) حضرت ابو حمید ساعدی سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہمراہ تبوک کے سال (غزوہ کے لئے) نکلے یہاں تک کہ جب ہم وادی قُریٰ میں پہنچے تو ایک عورت (کو ہم نے دیکھاجو) اپنے باغ میں کھڑی تھی۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حکم فرمایا : ” (کھجوروں کا) اندازہ لگاؤ۔ “ راوی کہتے ہیں۔ لوگوں نے (کھجوروں کا) اندازہ لگایا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی کھجوروں کا اندازہ لگایا اور دس وسق کا اندازہ ہوا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عورت سے فرمایا : ” ان کھجوروں سے جتنی (زکوۃ) نکلتی ہے اس کا حساب کرلینا۔ میں ان شاء اللہ تمہارے پاس واپس آؤں گا۔ “ راوی کہتے ہیں : پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (وہاں سے) نکلے یہاں تک کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تبوک میں تشریف فرما ہوئے۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا۔ ” آج کی رات تم پر شدید ہوا چلے گی۔ پس کوئی آدمی اس ہوا میں کھڑا نہ ہو۔ اور جس آدمی کے پاس اونٹ ہو وہ اس اونٹ کی رسی باندھ دے۔ راوی کہتے ہیں : حضرت ابوحمید بیان کرتے ہں ز۔ ہم نے اونٹوں کو باندھ لیا۔ پس جب رات ہوئی تو خوب تیز ہوا چلی ۔ اور اس ہوا میں ایک آدمی کھڑا ہوا تو ہوا نے اس کو طَیْ کے دو پہاڑوں میں دے مارا۔ پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں شاہ ایلہ حاضر ہوا اور اس نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایک سفید خچر ہدیہ کیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو ایک چادر عطا فرمائی اور اس کو ان کے سمندر کے بارے میں تحریر لکھ دی۔ راوی کہتے ہیں : پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آگے بڑھے اور ہم بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہمراہ آگے بڑھے یہاں تک کہ ہم وادی قُریٰ میں پہنچے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس عورت سے پوچھا۔ تمہارے باغ (کی زکوۃ کتنی) ہے ؟ عورت نے جواب دیا۔ آپ کے اندازہ کے مطابق دس وسق ہے۔ پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” میں تو جلدی چلوں گا۔ تم میں سے جو آدمی جلدی چلنا چاہے وہ بھی (میرے ساتھ) چلے “ راوی کہتے ہیں : پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نکلے اور ہم بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہمراہ نکلے یہاں تک کہ جب ہم مدینہ کے سامنے پہنچے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” یہ پاکیزہ جگہ ہے “ پھر جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے احدپہاڑ کو دیکھا تو فرمایا ” یہ ایسا پہاڑ ہے جو ہم سے محبت کرتا ہے اور ہم اس سے محبت کرتے ہیں۔ “

38161

(۳۸۱۶۲) حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیزِ الأَنْصَارِیُّ ، قَالَ : حدَّثَنِی ابْنُ شِہَابٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِی عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ اللہِ بْنِ کَعْبِ بْنِ مَالِکٍ ، عَنْ أَبِیہِ کَعْبٍ ، قَالَ : إِنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَمَّا ہَمَّ بِبَنِی الأَصْفَرِ أَنْ یَغْزُوَہُمْ ، جَلَّی لِلنَّاسِ أَمْرَہُمْ ، وَکَانَ قَلَّمَا أَرَادَ غَزْوَۃً إِلاَّ وَرَّی عنہا بِغَیْرِہَا ، حَتَّی کَانَتَ تِلْکَ الْغَزْوَۃُ ، فَاسْتَقْبَلَ حَرًّا شَدِیدًا ، وَسَفَرًا بَعِیدًا ، وَعَدُوًّا جَدِیدًا ، فَکَشَفَ لِلنَّاسِ الْوَجْہَ الَّذِی خَرَجَ بِہِمْ إِلَیْہِ ، لِیَتَأَہَّبُوا أُہْبَۃَ عَدُوِّہِمْ۔ فَتَجَہَّزَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَتَجَہَّزَ النَّاسُ مَعَہُ ، وَطَفِقْتُ أَغْدُو لأَتَجَہَّزَ ، فَأَرْجِعُ وَلَمْ أَقْضِ شَیْئًا ، حَتَّی فَرَغَ النَّاسُ ، وَقِیلَ : إِنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ غَادٍ وَخَارِجٌ إِلَی وُجْہَۃٍ ، فَقُلْتُ : أَتَجَہَّزُ بَعْدَہُ بِیَوْمٍ ، أَوْ یَوْمَیْنِ ، ثُمَّ أُدْرِکُہُمْ ، وَعَنْدِی رَاحِلَتَانِ ، مَا اجْتَمَعَتْ عِنْدِی رَاحِلَتَانِ قَطُّ قَبْلَہُمَا ، فَأَنَا قَادِرٌ فِی نَفْسِی ، قَوِیٌّ بِعُدَّتِی ، فَمَا زِلْتُ أَغْدُو بَعْدَہُ وَأَرْجِعُ وَلَمْ أَقْضِ شَیْئًا ، حَتَّی أَمْعَنَ الْقَوْمُ وَأَسْرَعُوا ، وَطَفِقْتُ أَغْدُو لِلْحَدِیثِ ، وَیَشْغَلَنِی الرَّحَّالُ ، فَأَجْمَعْتُ الْقُعُودَ حَتَّی سَبَقَنِی الْقَوْمُ ، وَطَفِقْتُ أَغْدُو فَلاَ أَرَی إِلاَّ رَجُلاً مِمَّنْ عَذَرَ اللَّہُ ، أَوْ رَجُلاً مَغْمُوصًا عَلَیْہِ فِی النِّفَاقِ ، فَیُحْزِنُنِی ذَلِکَ۔ فَطَفِقْتُ أَعُدُّ الْعُذْرَ لِرَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِذَا جَائَ ، وَأُہَیِّئُ الْکَلاَمُ ، وَقُدِّرَ لِرَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ لاَ یَذْکُرَنِی حَتَّی نَزَلَ تَبُوکَ ، فَقَالَ فِی النَّاسِ بِتَبُوکَ وَہُوَ جَالِسٌ : مَا فَعَلَ کَعْبُ بْنُ مَالِکٍ ؟ فَقَامَ إِلَیْہِ رَجُلٌ مِنْ قَوْمِی ، فَقَالَ : شَغَلَہُ بُرْدَاہُ ، وَالنَّظَرُ فِی عِطْفَیْہِ ، قَالَ : فَتَکَلَّمَ رَجُلٌ آخَرُ ، فَقَالَ : وَاللہِ یَا رَسُولَ اللہِ ، إِنْ عَلِمْنَا إِلاَّ خَیْرًا ، فَصَمَتَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَلَمَّا قِیلَ : إِنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَدْ أَظَلَّ قَادِمًا ، زَاحَ عَنِّی الْبَاطِلُ ، وَمَا کُنْتُ أَجْمَعُ مِنَ الْکَذِبِ وَالْعُذْرِ ، وَعَرَفْتُ أَنَّہُ لَنْ یُنْجِیَنِی مِنْہُ إِلاَّ الصِّدْقُ ، فَأَجْمَعْتُ صِدْقَہُ ، وَصَبَّحَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْمَدِینَۃَ فَقَدِمَ ، فَغَدَوْتُ إِلَیْہِ ، فَإِذَا ہُوَ فِی النَّاسِ جَالِسٌ فِی الْمَسْجِدِ ، وَکَانَ إِذَا قَدِمَ مِنْ سَفَرٍ دَخَلَ الْمَسْجِدَ فَرَکَعَ فِیہِ رَکْعَتَیْنِ ، ثُمَّ دَخَلَ عَلَی أَہْلِہِ ، فَوَجَدْتُہُ جَالِسًا فِی الْمَسْجِدِ ، فَلَمَّا نَظَرَ إِلَیَّ دَعَانِی ، فَقَالَ : ہَلُمَّ یَا کَعْبُ ، مَا خَلَّفَک عَنِّی ؟ وَتَبَسَّمَ تَبَسُّمَ الْمُغْضَبِ ، قَالَ : قُلْتُ : یَا رَسُولَ اللہِ ، لاَ عُذْرَ لِی ، مَا کُنْت قَطُّ أَقْوَی ، وَلاَ أَیْسَرَ مِنِّی حِینَ تَخَلَّفْتُ عَنْک ، وَقَدْ جَائَہُ الْمُتَخَلِّفُونَ یَحْلِفُونَ ، فَیَقْبَلُ مِنْہُمْ ، وَیَسْتَغْفِرُ لَہُمْ ، وَیَکِلُ سَرَائِرَہُمْ فِی ذَلِکَ إِلَی اللہِ عَزَّ وَجَلَّ ، فَلَمَّا صَدَقْتُہُ ، قَالَ : أَمَّا ہَذَا فَقَدْ صَدَقَ ، فَقُمْ حَتَّی یَقْضِیَ اللَّہُ فِیک مَا ہُوَ قَاضٍ ، فَقُمْتُ۔ فَقَامَ إِلَیَّ رِجَالٌ مِنْ بَنِی سَلِمَۃَ ، فَقَالُوا : وَاللہِ مَا صَنَعْتَ شَیْئًا ، وَاللہِ إِنْ کَانَ لَکَافِیک مِنْ ذَنْبِکَ الَّذِی أَذْنَبْت اسْتِغْفَارُ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَک ، کَمَا صَنَعَ ذَلِکَ لِغَیْرِکَ ، فَقَدْ قَبِلَ مِنْہُمْ عُذْرَہُمْ ، وَاسْتَغْفَرَ لَہُمْ ، فَمَا زَالُوا یَلُومُونَنِی حَتَّی ہَمَمْتُ أَنْ أَرْجِعَ ، فَأُکَذِّبَ نَفْسِی ، ثُمَّ قُلْتُ لَہُمْ : ہَلْ قَالَ ہَذِہِ الْمَقَالَۃَ أَحَدٌ ، أَوِ اعْتَذَرَ بِمِثْلِ مَا اعْتَذَرْت بِہِ ؟ قَالَوا : نَعَمْ ، قُلْتُ : مَنْ ؟ قَالَوا : ہِلاَلُ بْنُ أُمَیَّۃَ الْوَاقِفِیُّ ، وَرَبِیعَۃُ بْنُ مَرَارَۃَ الْعَامِرِی ، وَذَکَرُوا لِی رَجُلَیْنِ صَالِحَیْنِ قَدْ شَہِدَا بَدْرًا ، قَدِ اعْتَذَرَا بِمِثْلِ الَّذِی اعْتَذَرْت بِہِ ، وَقِیلَ لَہُمَا مِثْلُ الَّذِی قِیلَ لَکَ۔ قَالَ : وَنَہَی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ کَلاَمُنَا ، فَطَفِقْنَا نَغْدُو فِی النَّاسِ ، لاَ یُکَلِّمُنَا أَحَدٌ ، وَلاَ یُسَلِّمُ عَلَیْنَا أَحَدٌ ، وَلاَ یَرُدُّ عَلَیْنَا سَلاَمًا ، حَتَّی إِذَا وفََتْ أَرْبَعُونَ لَیْلَۃً ، جَائَنَا رَسُولُ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنِ اعْتَزِلُوا نِسَائَکُمْ ، فَأَمَّا ہِلاَلُ بْنُ أُمَیَّۃَ ، فَجَائَتِ امْرَأَتُہُ إِلَی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ لَہُ : إِنَّہُ شَیْخٌ قَدْ ضَعُفَ بَصَرُہُ ، فَہَلْ تَکْرَہُ أَنْ أَصْنَعَ لَہُ طَعَامَہُ ؟ قَالَ : لاَ ، وَلَکِنْ لاَ یَقْرَبَنَّکِ ، قَالَتْ: إِنَّہُ وَاللہِ مَا بِہِ حَرَکَۃٌ إِلَی شَیْئٍ ، وَاللہِ مَا زَالَ یَبْکِی مُنْذُ کَانَ مِنْ أَمْرِہِ مَا کَانَ إِلَی یَوْمِہِ ہَذَا ، قَالَ : فَقَالَ لِی بَعْضُ أَہْلِی : لَوِ اسْتَأْذَنْتَ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی امْرَأَتِکَ ، کَمَا اسْتَأْذَنَتِ امْرَأَۃُ ہِلاَلِ بْنِ أُمَیَّۃَ ، فَقَدْ أَذِنَ لَہَا أَنْ تَخْدِمَہُ ، قَالَ : فَقُلْتُ : وَاللہِ ، لاَ أَسْتَأْذِنُہُ فِیہَا ، وَمَا أَدْرِی مَا یَقُولُ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِنِ اسْتَأْذَنْتُہُ ، وَہُوَ شَیْخٌ کَبِیرٌ ، وَأَنَا رَجُلٌ شَابٌّ ، فَقُلْتُ لامْرَأَتِی : اِلْحَقِی بِأَہْلِکِ ، حَتَّی یَقْضِیَ اللَّہُ مَا ہُوَ قَاضٍ ، وَطَفِقْنَا نَمْشِی فِی النَّاسِ ، وَلاَ یُکَلِّمُنَا أَحَدٌ ، وَلاَ یَرُدُّ عَلَیْنَا سَلاَمًا۔ قَالَ: فَأَقْبَلْتُ ، حَتَّی تَسَوَّرْتُ جِدَارًا لابْنِ عَمٍّ لِی فِی حَائِطِہِ ، فَسَلَّمْتُ ، فَمَا حَرَّک شَفَتَیْہِ یَرُدُّ عَلَیَّ السَّلاَمَ، فَقُلْتُ : أُنْشِدُک بِاللہِ ، أَتَعْلَمُ أَنِّی أُحِبُّ اللَّہَ وَرَسُولَہُ ، فَمَا کَلَّمَنِی کَلِمَۃً ، ثُمَّ عُدْتُ فَلَمْ یُکَلِّمْنِی ، حَتَّی إِذَا کَانَ فِی الثَّالِثَۃِ ، أَوِ الرَّابِعَۃِ ، قَالَ : اللَّہُ وَرَسُولُہُ أَعْلَمُ۔ فَخَرَجْت ، فَإِنِّی لأَمْشِی فِی السُّوقِ إِذِ النَّاسُ یُشِیرُونَ إِلَیَّ بِأَیْدِیہِمْ ، وَإِذَا نَبَطِیٌّ مِنْ نَبَطِ الشَّامِ یَسْأَلُ عَنِّی، فَطَفِقُوا یُشِیرُونَ لَہُ إِلَیَّ ، حَتَّی جَائَنِی ، فَدَفَعَ إِلَیَّ کِتَابًا مِنْ بَعْضِ قَوْمِی بِالشَّامِ : إِنَّہُ قَدْ بَلَغَنَا مَا صَنَعَ بِکَ صَاحِبُک ، وَجَفْوَتُہُ عَنْک ، فَالْحَقْ بِنَا ، فَإِنَّ اللَّہَ لَمْ یَجْعَلْک بِدَارِ ہَوَانٍ ، وَلاَ دَارِ مَضْیَعَۃٍ ، نُوَاسِکَ فِی أَمْوَالِنَا ، قَالَ : قُلْتُ : إِنَّا لِلَّہِ ، قَدْ طَمِعَ فِیَّ أَہْلُ الْکُفْرِ ، فَیَمَّمْتُ بِہِ تَنُّورًا ، فَسَجَرْتُہُ بِہِ۔ فَوَاللہِ إِنِّی لَعَلَی تِلْکَ الْحَالِ الَّتِی قَدْ ذَکَرَ اللَّہُ ، قَدْ ضَاقَتْ عَلَیْنَا الأَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ ، وَضَاقَتْ عَلَیْنَا أَنْفُسُنَا ، صَبَاحِیہُ خَمْسِینَ لَیْلَۃً مُذْ نُہِیَ عَنْ کَلاَمِنَا ، أُنْزِلَتِ التَّوْبَۃُ عَلَی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، ثُمَّ آذَنَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِتَوْبَۃِ اللہِ عَلَیْنَا حِینَ صَلَّی الْفَجْرَ ، فَذَہَبَ ألنَّاسُ یُبَشِّرُونَنَا ، وَرَکَضَ رَجُلٌ إِلَیَّ فَرَسًا ، وَسَعَی سَاعٍ مِنْ أَسْلَمَ ، فَأَوْفَی عَلَی الْجَبَلِ ، وَکَانَ الصَّوْتُ أَسْرَعَ مِنَ الْفَرَسِ ، فَنَادَی : یَا کَعْبَ بْنَ مَالِکَ ، أَبْشِرْ ، فَخَرَرْت سَاجِدًا ، وَعَرَفْتُ أَنْ قَدْ جَائَ الْفَرَجُ ، فَلَمَّا جَائَنِی الَّذِی سَمِعْت صَوْتَہُ ، خَفَفْتُ لَہُ ثَوْبَیْنِ بِبُشْرَاہُ ، وَوَاللہِ مَا أَمْلِکُ یَوْمَئِذٍ ثَوْبَیْنِ غَیْرَہُمَا۔ وَاسْتَعَرْتُ ثَوْبَیْنِ ، فَخَرَجْتُ قِبَلَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَلَقِیَنِی النَّاسُ فَوْجًا فَوْجًا ، یُہَنِّئُونَنِی بِتَوْبَۃِ اللہِ عَلَیَّ ، حَتَّی دَخَلْتُ الْمَسْجِدَ ، فَقَامَ إِلَیَّ طَلْحَۃُ بْنُ عُبَیْدِ اللہِ یُہَرْوِلُ ، حَتَّی صَافَحَنِی وَہَنَّأَنِی ، وَمَا قَامَ إِلَیَّ مِنَ الْمُہَاجِرِینَ غَیْرُہُ ، فَکَانَ کَعْبٌ لاَ یَنْسَاہَا لِطَلْحَۃَ ، ثُمَّ أَقْبَلْتُ حَتَّی وَقَفْتُ عَلَی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، کَأَنَّ وَجْہَہُ قِطْعَۃُ قَمَرٍ ، کَانَ إِذَا سُرَّ اسْتَنَارَ وَجْہُہُ کَذَلِکَ ، فَنَادَانِی : ہَلُمَّ یَا کَعْبُ، أَبْشِرْ بِخَیْرِ یَوْمٍ مَرَّ عَلَیْک مُنْذُ وَلَدَتْک أُمُّک ، قَالَ : فَقُلْتُ : أَمِنْ عِنْدِ اللہِ ، أَمْ مِنْ عِنْدِکَ ؟ قَالَ : لاَ ، بَلْ مِنْ عِنْدِ اللہِ ، إِنَّکُمْ صَدَقْتُمُ اللَّہَ فَصَدَّقَکُمْ۔ قَالَ : فَقُلْتُ : إِنَّ مِنْ تَوْبَتِی الْیَوْمَ أَنْ أُخْرِجَ مِنْ مَالِی صَدَقَۃً إِلَی اللہِ وَإِلَی رَسُولِہِ ، قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : أَمْسِکْ عَلَیْک بَعْضَ مَالِکَ ، قُلْتُ : أُمْسِکُ سَہْمِی بِخَیْبَرَ ، قَالَ کَعْبٌ : فَوَاللہِ مَا أَبْلَی اللَّہُ رَجُلاً فِی صِدْقِ الْحَدِیثِ مَا أَبْلاَنِی۔ (بخاری ۴۴۱۸۔ مسلم ۲۱۲۰)
(٣٨١٦٢) حضرت عبد الرحمن بن عبداللہ بن کعب بن مالک، اپنے والد حضرت کعب بن مالک سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب بنو الاصفر کا ارادہ فرمایا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے ساتھ لڑائی کریں تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں کے سامنے ان کے معاملہ کو کھول کر بیان فرمایا۔۔۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عادت یہ تھی کہ جب بھی کسی غزوہ کا ارادہ کرتے تو کسی دوسرے سفر سے توریہ فرما لیتے ۔۔۔ تاآنکہ یہ غزوہ پیش آیا۔ اس میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو شدید گرمی، دور کے سفر اور نئے دشمن سے سابقہ پیش آیا چنانچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں کو وہ مقصد کھول کر بیان کردیا جس میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انھیں لے کر جا رہے تھے تاکہ مسلمان، دشمن کے شایانِ شان تیاری کرلیں۔
٢۔ پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تیاری فرمائی اور لوگوں نے بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہمراہ تیاری کرلی۔ میں نے صبح کے وقت تیاری کرنا چاہی لیکن میں تیاری نہ کرسکا یہاں تک کہ لوگ (تیار ہو کر) فارغ ہوگئے اور کہا جانے لگا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صبح ہوتے ہی اپنے سفر پر روانہ ہوجائیں گے۔ میں نے (دل میں) کہا۔ میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد ایک دو دن میں تیاری کرلوں گا اور پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پالوں گا۔ میرے پاس دو سواریاں تھیں۔ جبکہ میرے پاس اس سے پہلے کبھی دو سواریاں اکٹھی نہیں ہوئی تھیں۔ پس میں اپنی ذات کے اعتبار سے بھی قادر تھا اور اپنے زاد راہ کے حوالہ سے بھی قوی تھا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد مسلسل دن گزرتے رہے اور میں کچھ بھی نہ کرسکا یہاں تک کہ لشکر کے لوگ تیزی سے سفر کرنے لگے۔
پھر مجھ پر ایک دن ایسا آیا کہ میں نے (پیچھے رہنے والوں میں) صرف ایسے آدمی کو دیکھا جس کو اللہ تعالیٰ نے معذور قرار دے رکھا تھا۔ یا ایسے آدمی کو دیکھا جس کے بارے میں نفاق کا چرچا تھا۔ اس بات نے مجھے بہت غم گین کردیا۔
٣۔ اب میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے واپس آجانے کے وقت کے لیے عذر تیار کرنا شروع کیا اور باتیں بنانے کی کوشش شروع کی۔ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایسی تقدیر پیش آئی کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تبوک کے مقام پر پہنچنے تک میری یاد ہی نہیں آئی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مقام تبوک میں لوگوں کے درمیان بیٹھے ہوئے پوچھا۔ کعب بن مالک نے کیا کیا ؟ “ میری قوم کے آدمی نے کھڑے ہو کر عرض کیا۔ اسے کچھ چیزوں نے مصروف رکھا۔ راوی کہتے ہیں۔ ایک دوسرا آدمی بولا اور اس نے کہا۔ خدا کی قسم ! یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ہم تو اچھی بات ہی کو جانتے ہیں۔ اس پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خاموش ہوگئے۔
٤۔ پھر جب کہا گیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) واپس پہنچنے والے ہیں۔ تو مجھ سے ہر باطل اور جو کچھ میں نے جھوٹ، عذر گھڑے تھے وہ سب دور ہوگئے۔ مجھے معلوم ہوگیا کہ مجھے اس حالت میں صرف سچ ہی نجات دے سکتا ہے۔ چنانچہ میں نے سچ کو اکٹھا کیا۔ (جب) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صبح کی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (مدینہ میں) تشریف لائے ۔ میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگوں کے درمیان تشریف فرما تھے اور مسجد میں تھے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عادت یہ تھی کہ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سفر سے واپسی فرماتے تو مسجد میں آتے اور وہاں دو رکعات ادا کرتے پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے اہل خانہ کے پاس تشریف لے جاتے۔ چنانچہ میں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مسجد میں بیٹھا ہوا پایا۔ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے میری طرف دیکھا تو مجھے بلایا اور فرمایا۔ اے کعب ! ادھر آؤ تمہیں کس چیز نے میرے ساتھ سے پیچھے رکھا ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غصہ والے آدمی کی طرح مسکرائے۔ کعب کہتے ہیں : میں نے عرض کیا۔ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! میرے پاس کوئی عذر نہیں ہے۔ میں آپ کے ساتھ سے پیچھے رہنے کے وقت جس قدر وسعت اور قدرت میں تھا اتنا میں کبھی نہیں ہوا ۔ (اس وقت) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس پیچھے رہ جانے والے لوگ آ کر قسمیں کھا رہے تھے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کی قسموں کا اعتبار کر کے ان کے لیے مغفرت طلب کر رہے تھے۔ اور ان کے خفیہ ارادوں کو اللہ کی طرف سپرد فرما رہے تھے۔ پس جب مں و نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سچ بات کہہ ڈالی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ” رہا یہ آدمی ! تو اس نے سچ بولا ہے۔ پس تم کھڑے ہو جاؤ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے بارے میں جو فیصلہ کرنا ہے وہ کر دے۔ “ چنانچہ میں (وہاں سے) اٹھ کھڑا ہوا۔
٥۔ بنو سلمہ کے کچھ لوگ میری جانب اٹھے اور کہنے لگے۔ خدا کی قسم ! تم نے کوئی (کام کی) بات نہیں کی۔ خدا کی قسم ! تمہارے کردہ گناہ کے لیے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا استغفار ہی کافی ہوجاتا۔ جیسا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تیرے علاوہ دیگر لوگوں کے لیے استغفار کیا ہے۔ کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی طرف سے عذر قبول فرما لیا اور ان کے لیے مغفرت طلب کی۔ پس بنو سلمہ کے لوگ مجھے مسلسل ملامت کرتے رہے یہاں تک کہ میں نے ارادہ کیا کہ میں (آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس) واپس جاتا ہوں اور اپنی تکذیب کرتا ہوں۔ پھر میں نے ان لوگوں سے پوچھا۔ کیا یہ بات کسی اور نے بھی کہی ہے یا جو عذر میں نے بیان کیا ہے ایسا کسی اور نے بھی کیا ہے ؟ انھوں نے جواب دیا : ہاں ! میں نے پوچھا : کس نے ؟ انھوں نے کہا : ہلال بن امیہ واقفی اور ربیعہ بن مرارہ عمری نے۔ اور لوگوں نے مجھے ان دو نیک آدمیوں کا بتایا جو کہ غزوہ بدر میں بھی شریک ہوئے تھے۔ کہ انھوں نے بھی تیری طرح کا عذر بیان کیا ہے۔ اور ان کو بھی وہی بات کہی گئی ہے جو تمہیں کہی گئی ہے۔
راوی کہتے ہیں : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے (لوگوں کو) ہمارے ساتھ بات کرنے سے منع کردیا ۔ چنانچہ ہم صبح کے وقت لوگوں میں گئے تو ہم سے کوئی شخص بات نہیں کرتا تھا۔ اور نہ ہی کوئی ہمیں سلام کرتا تھا۔ اور نہ ہمارے سلام کا جواب دیتا تھا۔ یہاں تک کہ جب چالیس راتیں پوری ہوگئیں تو ہمیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (کا پیغام) آیا کہ تم اپنی بیویوں سے جدا ہو جاؤ۔ چنانچہ حضرت ہلال بن امیہ کی جو بیوی تھی وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئی اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا۔ ہلال بن امیہ ایک بوڑھے آدمی ہیں اور ان کی نگاہ بھی کمزور ہے، کیا آپ اس بات کو بھی ناپسند کرتے ہیں کہ میں انھیں کھانا بنادیا کروں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جواب میں فرمایا : نہیں (اس کو تو ناپسند نہیں کرتا) لیکن وہ تمہارے قریب نہ آئے۔ ہلال کی بیوی کہنے لگیں۔ بخدا ! ان کو تو ایسی کسی چیز کی خواہش ہی نہیں ہے۔ خدا کی قسم ! جب سے ان کا یہ معاملہ ہوا ہے وہ تو اس دن سے آج تک مسلسل رو رہے ہیں۔
٧۔ حضرت کعب کہتے ہیں۔ میرے بعض گھر والوں نے مجھ سے کہا۔ تم بھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اپنی بیوی کے بارے میں اجازت طلب کرلو جیسا کہ ہلال بن امیہ کی بیوی نے اجازت طلب کرلی ہے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو اجازت دے دی ہے۔ کہ وہ ہلال کی خدمت کریں۔ کعب کہتے ہیں۔ میں نے کہا۔ خدا کی قسم ! میں تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے (اس بات کی) اجازت نہیں مانگوں گا ۔ اور اگر میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے (اس بات کی) اجازت مانگوں تو مجھے خبر نہیں ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مجھے کیا جواب دیں گے۔ کیونکہ وہ تو بوڑھے ہیں اور میں ایک جوان آدمی ہوں ۔ چنانچہ میں نے اپنی بیوی سے کہا۔ اپنے گھر والوں کے پاس چلی جاؤ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے جس چیز کا فیصلہ کرنا ہو وہ کردیں۔ اور ہم لوگوں کے درمیان اس حالت میں چلتے تھے کہ کوئی ہم سے کلام نہیں کرتا تھا اور نہ ہی ہمارے سلام کا جواب ہمیں دیتا تھا۔
٨۔ حضرت کعب کہتے ہیں : پس میں چلا یہاں تک کہ میں اپنے چچا زاد کے باغ کی دیوار کو پھلاند گیا اور میں نے سلام کیا لیکن انھوں نے سلام کے جواب میں اپنے ہونٹوں کو بھی حرکت نہ دی۔ میں نے (ان سے) کہا۔ میں تمہیں خدا کی قسم دیتا ہوں۔ کیا تم جانتے ہو کہ میں اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے محبت کرتا ہوں۔ لیکن انھوں نے مجھ سے کوئی بات بھی نہ کی۔ میں نے پھر دوبارہ یہ بات دہرائی لیکن انھوں نے میرے ساتھ بات نہیں کی۔ یہاں تک کہ جب تیسری یا چوتھی بار یہ بات میں نے کہی تو انھوں نے جواب میں کہا۔ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) زیادہ جانتے ہیں۔
٩۔ پس میں (وہاں سے) نکلا اور میں بازار میں چلنے لگا تو لوگ میری طرف ہاتھ سے اشارہ کرنے لگے ۔ اور ایک شامی عیسائی عالم میرے بارے میں (لوگوں سے) سوال کررہا تھا۔ چنانچہ لوگوں نے میری طرف اشارہ کیا یہاں تک کہ وہ میرے پاس آیا اور اس نے مجھے شام میں رہنے والے میری قوم میں سے کسی کا خط دیا کہ : ہمیں وہ بات پہنچی ہے جو تیرے ساتھ تیرے ساتھی نے کی ہے۔ اور تم سے اس کی بےرخی کرنا بھی ہمیں پہنچا ہے۔ پس تم ہمارے پاس آجاؤ۔ کیونکہ اللہ نے تمہیں ذلت کی جگہ اور ضائع ہونے کی جگہ نہیں بنایا۔ ہم تمہارے ساتھ اپنے اموال میں ہمدردی کریں گے۔ حضرت کعب کہتے ہیں۔ میں نے کہا۔ اِنَّا للّٰہ۔ اہل کفر بھی مجھ میں طمع کرنے لگے ہیں۔ چنانچہ میں وہ خط لے کر تنور کی طرف گیا اور میں نے اس خط کو تنور میں پھینک دیا۔
١٠۔ خدا کی قسم ! میں اپنی اسی حالت میں تھا جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ تحقیق زمین باوجود اپنی وسعت کے ہم پر تنگ ہوگئی اور ہمارے اپنے دل ہم پر تنگ ہوگئے۔ جس دن (لوگوں کو) ہم سے گفتگو کرنے سے منع کیا گیا تھا اس کے بعد سے پچاسویں صبح تھی کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر توبہ (کی قبولیت کی خبر) نازل ہوئی چنانچہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب فجر کی نماز پڑھائی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہماری توبہ کی قبولیت کا اعلان فرمایا۔ اس پر لوگ ہمیں بشارتیں دینے لگے۔ اور ایک آدمی نے میری طرف گھوڑا دوڑایا اور بنو اسلم میں سے ایک آدمی دوڑ کر آیا اور وہ پہاڑ پر کھڑا ہوا اور آواز دی اور آواز گھوڑے سے بھی زیادہ تیز رفتار تھی۔ پس اس نے آواز دی۔ اے کعب بن مالک ! تمہیں خوشخبری ہو ! میں (یہ سن کر) سجدہ میں گرگیا اور مجھے پتہ چل گیا کہ پریشانی دور ہوگئی ہے۔ پھر جب وہ آدمی میرے پاس آیا جس کی آواز میں نے سُنی تھی تو میں نے اس کو خوشخبری سنانے کے عوض دونوں کپڑے اتار کر دے دیئے۔ اور خدا کی قسم ! میں اس دن ان دونوں کپڑوں کے علاوہ کسی شئی کا مالک نہیں تھا۔
١١۔ میں نے دو کپڑے مستعار لیے اور میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف چل نکلا ۔ مجھے لوگ فوج در فوج ملے اور مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے توبہ کی قبولیت پر مبارک بار دیتے تھے۔ یہاں تک کہ میں مسجد میں داخل ہوا تو حضرت طلحہ بن عبید اللہ میری طرف دوڑتے ہوئے آئے اور انھوں نے مجھ سے مصافحہ کیا اور مجھے مبارک باد دی۔ مہاجرین میں سے کوئی آدمی ان کے سوا میری طرف کھڑا نہیں ہوا۔ اسی لیے حضرت کعب ، حضرت طلحہ کو نہیں بھولتے تھے۔ پھر میں آگے بڑھا یہاں تک کہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس جا کھڑا ہوا گویا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا چہرہ مبارک چاند کا ٹکڑا تھا ۔۔۔ اور جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خوشی ہوتی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا چہرہ مبارک اسی طرح روشن ہوجاتا تھا ۔۔۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے آواز دی ” اے کعب ! ادھرآؤ۔ جب سے تمہاری ماں نے تمہیں جنا ہے۔ اس وقت سے اب تک کے دنوں میں سے بہترین دن کی تمہیں بشارت ہو “ حضرت کعب کہتے ہیں : میں نے عرض کیا۔ آپ کی طرف سے یا اللہ کی طرف سے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” نہیں بلکہ اللہ کی طرف سے۔ بیشک تم نے اللہ کے ساتھ سچ بولا چنانچہ اللہ نے تمہاری تصدیق کی۔
١٢۔ حضرت کعب فرماتے ہیں : میں نے عرض کیا۔ آج میری توبہ میں یہ چیز بھی ہے کہ میں اپنے مال میں سے اللہ اور اس کے رسول کو صدقہ دوں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ” اپنے مال میں سے بعض کو روک لو “ میں نے عرض کیا۔ میں نے خیبر میں اپنا حصہ روک لیا ہے۔ حضرت کعب کہتے ہیں۔ خدا کی قسم ! اللہ تعالیٰ نے کسی آدمی کو سچی بات کہنے میں اس طرح نہیں آزمایا جس طرح اللہ تعالیٰ نے مجھے آزمایا۔

38162

(۳۸۱۶۳) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنِ الْحَکَمِ ، عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ سَعْدٍ ، قَالَ : لَمَّا خَرَجَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی غَزْوَۃِ تَبُوکَ ، خَلَّفَ عَلِیًّا فِی النِّسَائِ وَالصِّبْیَانِ ، فَقَالَ : یَا رَسُولَ اللہِ ، تُخَلِّفُنِی فِی النِّسَائِ وَالصِّبْیَانِ ؟ فَقَالَ : أَمَا تَرْضَی أَنْ تَکُونَ مِنِّی بِمَنْزِلَۃِ ہَارُونَ مِنْ مُوسَی ، إِلاَّ أَنَّہُ لاَ نَبِیَّ بَعْدِی۔
(٣٨١٦٣) حضرت سعد سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غزوہ تبوک کے لیے نکلے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت علی کو عورتوں اور بچوں میں چھوڑ دیا۔ حضرت علی نے پوچھا۔ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ مجھے عورتوں اور بچوں میں چھوڑ رہے ہیں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جواباً ارشاد فرمایا : کیا تم اس پر راضی نہیں ہو کہ تم میرے لیے بمنزلہ موسیٰ سے ہارون کے ہو، مگر یہ بات ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا۔

38163

(۳۸۱۶۴) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، أَخْبَرَنَا سَعِیدُ بْنُ أَبِی عَرُوبَۃَ ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ ؛ أَنَّ عُثْمَانَ أَتَی رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِدَنَانِیرَ فِی غَزْوَۃِ تَبُوکَ ، فَجَعَلَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُقَلِّبُہَا فِی حِجْرِہِ ، وَیَقُولُ : مَا عَلَی عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ مَا عَمِلَ بَعْدَ ہَذَا۔ (ترمذی ۳۷۰۱۔ احمد ۶۳)
(٣٨١٦٤) حضرت حسن سے روایت ہے کہ حضرت عثمان ، غزوہ تبوک میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس دینار لے کر آئے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان دیناروں کو اپنی جھولی میں ڈال لیا اور ان کو الٹ پلٹ کرنے لگے اور ارشاد فرمایا۔ ” اس (خیر کے کام) کے بعد عثمان بن عفان جو کچھ بھی کرے اس کو نقصان نہیں ہوگا۔

38164

(۳۸۱۶۵) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، أَخْبَرَنَا حُمَیْدٌ ، عَنْ أَنَسٍ ؛ أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَمَّا رَجَعَ مِنْ غَزْوَۃِ تَبُوکَ ، وَدَنَا مِنَ الْمَدِینَۃِ ، قَالَ : إِنَّ بِالْمَدِینَۃِ لأَقْوَامًا مَا سِرْتُمْ مَسِیرًا ، وَلاَ قَطَعْتُمْ مِنْ وَادٍ إِلاَّ کَانُوا مَعَکُمْ فِیہِ ، قَالُوا : یَا رَسُولَ اللہِ : وَہُمْ بِالْمَدِینَۃِ ؟ قَالَ : نَعَمْ ، وَہُمْ بِالْمَدِینَۃِ ، حَبَسَہُمُ الْعُذْرُ۔ (بخاری ۲۸۳۸۔ ابن ماجہ ۲۷۶۴)
(٣٨١٦٥) حضرت انس سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب غزوہ تبوک سے واپس ہوئے اور مدینہ کے قریب پہنچے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا۔ ” بلاشبہ مدینہ میں کچھ لوگ ایسے تھے کہ تم نے جو بھی سفر کیا یا جو وادی بھی قطع مسافت کی تو وہ لوگ اس میں (ثواب کے اعتبار سے) تمہارے ساتھ شریک تھے۔ “ صحابہ نے پوچھا۔ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! وہ لوگ مدینہ میں تھے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” ہاں ! وہ مدینہ میں تھے اور ان کو عذر نے (وہاں) روک رکھا تھا۔ “

38165

(۳۸۱۶۶) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، أَخْبَرَنَا دَاوُد بْنُ عَمْرٍو، عَنْ بُسْرِ بْنِ عُبَیْدِ اللہِ الْحَضْرَمِیِّ، عَنْ أَبِی إِدْرِیسَ الْخَوْلاَنِیِّ، حَدَّثَنَا عَوْفُ بْنُ مَالِکٍ الأَشْجَعِیِّ ؛ أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَمَرَ بِالْمَسْحِ عَلَی الْخُفَّیْنِ فِی غَزْوَۃِ تَبُوکَ ، ثَلاَثَۃَ أَیَّامٍ وَلَیَالِیَہُنَّ لِلْمُسَافِرِ ، وَیَوْمًا وَلَیْلَۃً لِلْمُقِیمِ۔
(٣٨١٦٦) حضرت عوف بن مالک اشجعی سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غزوہ تبوک میں مسافر کے لیے تین دن، رات اور مقیم کے لیے ایک دن رات تک موزوں پر مسح کا حکم فرمایا۔

38166

(۳۸۱۶۷) حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ ، أَخْبَرَنَا الْمَسْعُودِیُّ ، عَنْ إِسْمَاعِیلَ بْنِ أَوْسَطَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِی کَبْشَۃَ الأَنْمَارِیِّ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : لَمَّا کَانَ فِی غَزْوَۃِ تَبُوکَ ، سَارَعَ نَاسٌ إِلَی أَصْحَابِ الْحِجْرِ ، فَدَخَلُوا عَلَیْہِمْ ، فَبَلَغَ ذَلِکَ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَأَمَرَ فَنُودِی : إِنَّ الصَّلاَۃَ جَامِعَۃٌ ، قَالَ : فَأَتَیْتُہُ وَہُوَ مُمْسِکٌ بِبَعِیرِہِ ، وَہُوَ یَقُولُ : عَلاَمَ تَدْخُلُونَ عَلَی قَوْمٍ غَضِبَ اللَّہُ عَلَیْہِمْ ؟ قَالَ : فَنَادَاہُ رَجُلٌ تَعَجُّبًا مِنْہُمْ : یَا رَسُولَ اللہِ ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : أَفَلاَ أُنَبِّئُکُمْ بِمَا ہُوَ أَعْجَبُ مِنْ ذَلِکَ ؟ رَجُلٌ مِنْ أَنْفُسِکُمْ ، یُحَدِّثُکُمْ بِمَا کَانَ قَبْلَکُمْ ، وَبِمَا یَکُونُ بَعْدَکُمْ ، اسْتَقِیمُوا وَسَدِّدُوا ، فَإِنَّ اللَّہَ لاَ یَعْبَأُ بِعَذَابِکُمْ شَیْئًا ، وَسَیَأْتِی اللَّہُ بِقَوْمٍ لاَ یَدْفَعُونَ عَنْ أَنْفُسِہِمْ بِشَیْئٍ۔ (احمد ۲۳۱۔ طبرانی ۸۵۱)
(٣٨١٦٧) حضرت محمد بن کبشہ انماری، اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ (ہم لوگ) جب غزوہ تبوک (میں) تھے تو کچھ لوگ جلدی جلدی اصحاب الحجر (کے کھنڈرات) میں داخل ہونے لگے تو یہ بات جناب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پہنچی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حکم دیا تو آواز لگائی گئی۔ ان الصلاۃ جامعۃ ۔۔۔ راوی کہتے ہیں : آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی اونٹنی پر بیٹھے ہوئے تشریف لائے اور ارشاد فرمایا : ” خدا کی غضب شدہ قوم پر تم کیوں داخل ہوئے ؟ “ راوی کہتے ہیں : ایک آدمی نے عرض کیا ۔ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ن سے تعجب میں پڑ کر۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ” کیا میں تمہیں اس سے بھی عجیب بات نہ بتاؤں ؟ ایک آدمی تمہیں میں سے ہے اور وہ تم کو پہلوں کی باتیں بیان کرتا ہے اور آنے والی بھی بیان کرتا ہے۔ استقامت کا مظاہرہ کرو اور سیدھے ہو جاؤ کیونکہ اللہ تعالیٰ کو تمہیں عذاب دینے میں کسی شئی کی پروا نہیں ہے۔ اور عنقریب اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو لائیں گے جو خود سے کسی شئی کو دور نہیں کریں گے۔

38167

(۳۸۱۶۸) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ ، عَنْ یَزِیدَ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ قُسَیْطٍ ، عَنِ الْقَعْقَاعِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ أَبِی حَدْرَدٍ الأَسْلَمِیِّ ، عَنْ أَبِیہِ عَبْدِ اللہِ بْنِ أَبِی حَدْرَدٍ ، قَالَ : بَعَثَنَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی سَرِیَّۃٍ إِلَی إِضَمٍ ، قَالَ : فَلَقِینَا عَامِرَ بْنَ الأَضْبَطِ ، قَالَ : فَحَیَّا بِتَحِیَّۃِ الإِسْلاَمِ ، فَنَزَعْنَا عَنْہُ ، وَحَمَلَ عَلَیْہِ مُحَلَّمُ بْنُ جَثَّامَۃَ فَقَتَلَہُ ، فَلَمَّا قَتَلَہُ سَلَبَہُ بَعِیرًا لَہُ ، وَأُہُبًا ، وَمُتِیعًا کَانَ لَہُ ، فَلَمَّا قَدِمْنَا ، جِئْنَا بِشَأْنِہِ إِلَی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَأَخْبَرْنَاہُ بِأَمْرِہِ فَنَزَلَتْ ہَذِہِ الآیَۃُ : {یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا إِذَا ضَرَبْتُمْ فِی سَبِیلِ اللہِ ، فَتَبَیَّنُوا وَلاَ تَقُولُوا لِمَنْ أَلْقَی إِلَیْکُمُ السَّلاَمَ} الآیَۃَ۔ قَالَ ابْنُ إِسْحَاقَ : فَأَخْبَرَنِی مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، عَنْ زَیْدِ بْنِ ضُمَیْرَۃَ ، قَالَ: حَدَّثَنِی أَبِی وَعَمِّی، وَکَانَا شَہِدَا حُنَیْنًا مَعَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، قَالاَ: صَلَّی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الظُّہْرَ ، ثُمَّ جَلَسَ تَحْتَ شَجَرَۃٍ ، فَقَامَ إِلَیْہِ الأَقْرَعُ بْنُ حَابِسٍ، وَہُوَ سَیِّدُ خِنْدِفَ، یَرُدُّ عَنْ دَمِ مُحَلِّمٍ، وَقَامَ عُیَیْنَۃُ بْنُ حِصْنٍ یَطْلُبُ بِدَمِ عَامِرِ بْنِ الأَضْبَطِ الْقَیْسِیِّ، وَکَانَ أَشْجَعِیًّا، قَالَ: فَسَمِعْتُ عُیَیْنَۃَ بْنَ حِصْنٍ یَقُولُ : لأُذِیقَنَّ نِسَائَہُ مِنَ الْحُزْنِ مِثْلَ مَا أَذَاقَ نِسَائِی ، فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : تَقْبَلُونَ الدِّیَۃَ ؟ فَأَبَوْا ، فَقَامَ رَجُلٌ مِنْ بَنِی لَیْثٍ ، یُقَالُ لَہُ : مُکَیْتِلٌ ، فَقَالَ : وَاللہِ ، یَا رَسُولَ اللہِ، مَا شَبَّہْتُ ہَذَا الْقَتِیلَ فِی غُرَّۃِ الإِسْلاَمِ ، إِلاَّ کَغَنَمٍ وَرَدَتْ ، فَرُمِیَتْ ، فَنَفَرَ آخِرُہَا ، اسْنُنِ الْیَوْمَ وَغَیِّرْ غَدًا، قَالَ : فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِیَدَیْہِ : لَکُمْ خَمْسُونَ فِی سَفَرِنَا ہَذَا ، وَخَمْسُونَ إِذَا رَجَعْنَا ، قَالَ : فَقَبِلُوا الدِّیَۃَ۔ قَالَ : فَقَالُوا : ائْتُوا بِصَاحِبِکُمْ یَسْتَغْفِرْ لَہُ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : فَجِیئَ بِہِ ، فَوَصَفَ حِلْیَتَہُ ، وَعَلَیْہِ حُلَّۃٌ قَدْ تَہَیَّأَ فِیہَا لِلْقَتْلِ ، حَتَّی أُجْلِسَ بَیْنَ یَدَیِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : مَا اسْمُک ؟ قَالَ : مُحَلِّمُ بْنُ جَثَّامَۃَ ، فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِیَدَیْہِ ، وَوَصَفَ أَنَّہُ رَفَعَہُمَا ، : اللَّہُمَّ لاَ تَغْفِرْ لِمُحَلِّمِ بْنِ جَثَّامَۃَ ، قَالَ : فَتَحَدَّثْنَا بَیْنَنَا أَنَّہُ إِنَّمَا أَظْہَرَ ہَذَا ، وَقَدِ اسْتَغْفَرَ لَہُ فِی السِّرِّ۔ قَالَ ابْنُ إِسْحَاقَ : فَأَخْبَرَنِی عَمْرُو بْنُ عُبَیْدٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : قَالَ لَہُ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : أَمَّنْتَہُ بِاللہِ ثُمَّ قَتَلْتَہُ ؟ فَوَاللہِ مَا مَکَثَ إِلاَّ سَبْعًا حَتَّی مَاتَ مُحَلَّمٌ ، قَالَ : فَسَمِعْتُ الْحَسَنَ یَحْلِفُ بِاللہِ : لَدُفِنَ ثَلاَثَ مَرَّاتٍ ، کُلَّ ذَلِکَ تَلْفِظُہُ الأَرْضُ ، قَالَ : فَجَعَلُوہُ بَیْنَ سَدَّیْ جَبَلٍ وَرَضَمُوا عَلَیْہِ مِنَ الْحِجَارَۃِ ، فَأَکَلَتْہُ السِّبَاعُ ، فَذَکَرُوا أَمْرَہُ لِرَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : أَمَا وَاللہِ إِنَّ الأَرْضَ لَتُطْبِقُ عَلَی مَنْ ہُوَ شَرٌّ مِنْہُ ، وَلَکِنَّ اللَّہَ أَرَادَ أَنْ یُخْبِرَکُمْ بِحُرْمَتِکُمْ فِیمَا بَیْنَکُمْ۔ (ابوداؤد ۴۴۹۶)
(٣٨١٦٨) حضرت عبداللہ بن ابی حدرد سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں اضم کی طرف ایک لشکر کے ساتھ روانہ فرمایا۔ راوی کہتے ہیں : پس ہم عامر بن اضبط کو ملے۔ راوی کہتے ہیں : انھوں نے ہمیں مسلمانوں والاسلام کیا۔ لیکن ہم نے ان سے اسلحہ چھین لیا۔ اور محلم بن جثامہ نے ان پر حملہ کردیا اور انھیں قتل کردیا۔ پھر جب اس کو قتل کردیا تو اس کا ایک اونٹ ، سازوسامان قبضہ کرلیا۔ پس جب ہم واپس آئے تو ہم نے ان کا معاملہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں پیش کیا۔ اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان کے معاملہ کی خبر سنائی۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔” اے ایمان والو ! جب تم اللہ کے راستے میں جہاد کرلو تو تحقیق کرلو اور ایسے شخص کو جو اسلام کا اظہار کرے اسے یہ نہ کہو کہ تو مؤمن نہیں ہے۔ “
٢۔ ابن اسحق کہتے ہیں۔ مجھے محمد بن جعفر نے زید بن ضمرہ سے روایت کر کے بیان کیا کہ وہ کہتے ہیں ۔۔۔ مجھے میرے والد اور چچا نے بیان کیا ۔۔۔ اور یہ دونوں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ حنین میں شریک تھے ۔۔۔ یہ دونوں بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ظہر کی نماز ادا فرمائی پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک درخت کے نیچے تشریف فرما ہوئے۔ تو قبیلہ خندف کے سردار حضرت اقرع بن حابس آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف کھڑے ہوئے اور یہ محلم کے خون سے مانع بن رہے تھے۔ اور حضرت عیینہ بن حصن کھڑے ہوئے اور عامر بن اضبط قیسی کا خون بہا طلب کرنے لگے ۔۔۔ اور یہ اشجعی تھے ۔۔۔ راوی کہتے ہیں : مں ل نے عیینہ بن حصن کو کہتے ہوئے سُنا کہ میں اس کی عورتوں کو غم و حزن کی وہ کیفیت ضرور چکھاؤں گا جو اس نے میری عورتوں کو چکھائی۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا۔ ” تم لوگ دیت قبول کرلو ؟ “ انھوں نے انکار کیا۔ تو بنو لیث میں سے ایک آدمی کھڑا ہوا جس کو مُکَیْتَلْ کہا جاتا تھا اور اس نے کہا۔ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! خدا کی قسم ! میں اسلام کے روشن زمانے میں اس مقتول کو تشبیہ نہیں دوں گا مگر ایسی بکری سے جو بکری کہیں آگئی ہو اور اس کو تیر لگ گیا تو اس نے دوسروں کو بھی بھگا دیا۔ آپ آج کے دن ہی کوئی راستہ متعین کردیں اور کل (آنے والے حالات) کو بدل دیں۔ راوی کہتے ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے دونوں ہاتھوں سے اشارہ کر کے فرمایا : ” ہمارے اس سفر میں تمہیں پچاس ملیں گے اور پچاس تب ملیں گے جب ہم واپس پلٹ آئیں گے “۔ راوی کہتے ہیں : پس انھوں نے دیت قبول کرلی۔
٣۔ راوی کہتے ہیں : لوگوں نے کہا : تم اپنے آدمی کو لے آؤ تاکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کے لیے استغفار کریں ۔ پس اس آدمی کو لایا گیا۔ راوی اس کی حالت بیان کرتے ہیں کہ اس پر وہی جوڑا تھا جس میں اس نے قتل کیا تھا۔ یہاں تک کہ اس کو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے بٹھا دیا گیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے (اس سے) پوچھا : تمہارا نام کیا ہے ؟ اس آدمی نے جواب دیا : محلَّم بن جثامہ۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے دونوں ہاتھوں سے اشارہ کیا۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے (اور کہا) اے اللہ ! محلم بن جثامہ کی مغفرت نہ فرمانا۔ راوی کہتے ہیں۔ اس شخص نے ہمیں بیان کیا کہ یہ (بد دعاء والی) بات آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ظاہراً فرمائی تھی جبکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے لیے تنہائی میں استغفار کیا تھا۔
٤۔ ابن اسحاق کہتے ہیں۔ عمرو بن عبید نے مجھے حضرت حسن کے حوالہ سے بتایا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے محلم سے کہا۔ تم نے اس کو (پہلے) خدا کے نام پر پناہ دے دی اور پھر اس کو قتل کردیا۔ خدا کی قسم ! محلم سات دن بھی نہ رہا کہ مرگیا۔ راوی کہتے ہیں : میں نے حضرت حسن کو خدا کی قسم کھاتے ہوئے سُنا کہ : محلم کو تین مرتبہ دفن کیا گیا لیکن ہر مرتبہ زمین اس کو باہر پھینک دیتی تھی۔ راوی کہتے ہیں : چنانچہ لوگوں نے انھیں دو پہاڑوں کے درمیان رکھا اور ان پر بڑے بڑے پتھر رکھ دیئے پھر ان کو درندوں نے کھالیا۔ لوگوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے ان صاحب کا معاملہ ذکر کیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” بہرحال خدا کی قسم ! زمین تو اس سے بھی زیادہ شریر لوگوں کو چھپا لیتی ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ تم کو آپس کی حرمت کے بارے میں خبر دے (اس لیے یہ واقعہ رونما ہوا) ۔

38168

(۳۸۱۶۹) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : لَمَّا أَرَادَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ یُلاَعِنَ أَہْلَ نَجْرَانَ قَبِلُوا الْجِزْیَۃَ أَنْ یُعْطُوہَا ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لَقَدْ أَتَانِی الْبَشِیرُ بِہَلَکَۃِ أَہْلِ نَجْرَانَ ، لَوْ تَمُّوا عَلَی الْمُلاَعَنَۃ ، حَتَّی الطَّیْرِ عَلَی الشَّجَرِ ، أَوِ الْعُصْفُورِ عَلَی الشَّجَرِ ، وَلَمَّا غَدَا إِلَیْہِمْ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَخَذَ بِیَدِ حَسَنٍ وَحُسَیْنٍ ، وَکَانَتْ فَاطِمَۃُ تَمْشِی خَلْفَہُ۔
(٣٨١٦٩) حضرت شعبی سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اہل نجران کے ساتھ مباہلہ کرنے کا ارادہ کیا تو انھوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جزیہ ادا کرنا قبول کرلیا۔ اس پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ” تحقیق مجھے ایک بشارت دینے والے نے اہل نجران کی ہلاکت کی اطلاع دی تھی اگر یہ لوگ مباہلہ میں مکمل شریک ہوجاتے حتیٰ کہ درختوں پر پرندے بھی ۔۔۔ یا ۔۔۔ فرمایا۔۔۔ درختوں پر چڑیا بھی۔ “ اور جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان اہل نجران کی طرف جا رہے تھے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت حسن اور حسین کا ہاتھ پکڑا ہوا تھا اور حضرت فاطمہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیچھے چل رہی تھیں۔

38169

(۳۸۱۷۰) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِیَادٍ ، حَدَّثَنَا مُجَالِدُ بْنُ سَعِیدٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : کَتَبَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِلَی أَہْلِ نَجْرَانَ وَہُمْ نَصَارَی : أَنَّ مَنْ بَایَعَ مِنْکُمْ بِالرِّبَا ، فَلاَ ذِمَّۃَ لَہُ۔
(٣٨١٧٠) حضرت شعبی سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اہل نجران کو تحریر فرمایا۔۔۔ یہ عیسائی لوگ ہیں ۔۔۔ ” کہ تم میں سے جو سود پر خریدو فروخت کرے گا اس کا (ہم پر) کوئی ذمہ نہیں ۔ “

38170

(۳۸۱۷۱) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ؛ أَنَّ عُمَرَ أَجْلَی أَہْلَ نَجْرَانَ الْیَہُودَ وَالنَّصَارَی ، وَاشْتَرَی بَیَاضَ أَرْضِہِمْ وَکُرُومِہِمْ ، فَعَامَلَ عُمَرُ النَّاسَ ؛ إِنْ ہُمْ جَاؤُوا بِالْبَقَرِ وَالْحَدِیدِ مِنْ عَنْدِہِمْ ، فَلَہُمَ الثُّلُثَانِ وَلِعُمَرَ الثُّلُثُ ، وَإِنْ جَائَ عُمَرُ بِالْبَذْرِ مِنْ عَنْدِہِ ، فَلَہُ الشَّطْرُ ، وَعَامَلَہُمُ النَّخْلَ عَلَی أَنَّ لَہُمُ الْخُمْسَ وَلِعُمَرَ أَرْبَعَۃُ أَخْمَاسٍ ، وَعَامَلَہُمُ الْکَرْمَ عَلَی أَنَّ لَہُمُ الثُّلُثَ ، وَلِعُمَرَ الثُّلُثَانِ۔
(٣٨١٧١) حضرت یحییٰ بن سعید سے روایت ہے کہ حضرت عمر نے اہل نجران ۔۔۔ یہودو نصاریٰ ۔۔۔ کو جلا وطن کیا اور ان کی زمینوں اور انگوروں کی بیلوں کو خرید لیا اور حضرت عمر نے (ان سے یہ) معاملہ کیا کہ اگر وہ بیل اور ہل کا سامان خود مہیا کریں تو ان کو (پیداوار کا) دو ثلث اور حضرت عمر کو ایک ثلث ملے گا اور اگر حضرت عمر بیج مہیا کریں تو ان کو نصف حصہ ملے گا۔ اور حضرت عمر نے ان کے ساتھ کھجوروں کا اس شرط پر معاملہ کیا کہ (پیداوار کا) ایک خمس ان کا ہوگا اور چار خمس حضرت عمر کے ہوں گے ۔۔۔ اور انگوروں میں ان کے ساتھ اس شرط پر معاملہ کیا کہ ان کا حصہ ایک ثلث ہوگا اور حضرت عمر کا حصہ دو ثلث ہوں گے۔

38171

(۳۸۱۷۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ ، عَنْ سَالِمٍ ، قَالَ : کَانَ أَہْلُ نَجْرَانَ قَدْ بَلَغُوا أَرْبَعِینَ أَلْفًا ، قَالَ : وَکَانَ عُمَرُ یَخَافُہُمْ أَنْ یَمِیلُوا عَلَی الْمُسْلِمِینَ ، فَتَحَاسَدُوا بَیْنَہُمْ ، قَالَ : فَأَتَوْا عُمَرَ ، فَقَالُوا : إِنَّا قَدْ تَحَاسَدْنَا بَیْنَنَا فَأجِّلْنَا ، قَالَ : وَکَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَدْ کَتَبَ لَہُمْ کِتَابًا أَنْ لاَ یُجْلُوا ، قَالَ : فَاغْتَنَمَہَا عُمَرُ فَأَجْلاَہُمْ ، فَنَدِمُوا ، فَأَتَوْہُ ، فَقَالُوا : أَقِلْنَا ، فَأَبَی أَنْ یُقِیلَہُمْ ، فَلَمَّا قَدِمَ عَلِیٌّ أَتَوْہُ ، فَقَالُوا : إِنَّا نَسْأَلُک بِخَطِّ یَمِینِکَ، وَشَفَاعَتِکَ عِنْدَ نَبِیِّکَ إِلاَّ أَقَلْتَنَا ، فَأَبَی، وَقَالَ: وَیْحَکُمْ ، إِنَّ عُمَرَ کَانَ رَشِیدَ الأَمْرِ۔ قَالَ سَالِمٌ : فَکَانُوا یَرَوْنَ ، أَنَّ عَلِیًّا لَوْ کَانَ طَاعِنًا عَلَی عُمَرَ فِی شَیْئٍ مِنْ أَمْرِہِ ؛ طعَنَ عَلَیْہِ فِی أَہْلِ نَجْرَانَ۔
(٣٨١٧٢) حضرت سالم سے روایت ہے کہ اہل نجران کی تعداد (جب) چالسد ہزار کو پہنچ گئی ۔۔۔ راوی کہتے ہیں : حضرت عمر ان سے اس بات کا خوف کرتے تھے کہ یہ مسلمانوں پر حملہ آور ہوجائیں گے۔ تو (اتفاقاً ) ان میں باہم حسد پیدا ہوگیا۔ راوی کہتے ہیں۔ یہ لوگ حضرت عمر کے پاس حاضر ہوئے اور کہنے لگے۔ ہم لوگوں میں باہم حسد پیدا ہوگیا ہے پس آپ ہمیں جلا وطن کردیں ۔۔۔ راوی کہتے ہیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے لیے ایک تحریر لکھ دی تھی کہ انھیں جلا وطن نہیں کیا جائے گا۔ راوی کہتے ہیں : حضرت عمر نے اس کو غنیمت سمجھا اور ان کو جلا وطن فرما دیا۔ اس کے بعد اہل نجران کو ندامت ہوئی اور وہ آپ کے پاس حاضر ہوئے اور کہنے لگے ہم اپنی بات سے معذرت کرتے ہیں۔ حضرت عمر نے ان کی معذرت قبول کرنے سے انکار فرما دیا۔ پھر جب حضرت علی تشریف لائے تو یہ لوگ حضرت علی کے پاس آئے اور کہنے لگے۔ ہم آپ سے آپ کے ہاتھ کی لکھی ہوئی تحریر اور آپ کے نیو کی سفارش کے ذریعہ سوال کرتے ہیں کہ آپ ہماری معذرت قبول کرلیں۔ لیکن حضرت علی نے بھی انکار فرما دیا اور کہا۔ تم ہلاک ہو جاؤ۔ حضرت عمر تو ایک بصیرت والے شخص تھے۔
سالم راوی کہتے ہیں۔ اسلاف کی رائے یہ ہے کہ حضرت علی اگر حضرت عمر کی کسی بات پر معترض ہوتے تو وہ آپ کو اہل نجران کے بارے میں اعتراض دیتے۔

38172

(۳۸۱۷۳) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ زَکَرِیَّا ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ صِلَۃَ بْنِ زُفَرَ ، عَنْ حُذَیْفَۃَ ، قَالَ : أَتَی النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أُسْقُفَا نَجْرَانَ ؛ الْعَاقِبُ وَالسَّیِّدُ ، فَقَالاَ : ابْعَثْ مَعَنا رَجُلاً أَمِینًا ، حَقَّ أَمِینٍ، حَقَّ أَمِینٍ ، فَقَالَ : لأَبْعَثَنَّ مَعَکُمْ رَجُلاً حَقَّ أَمِینٍ ، فَاسْتَشْرَفَ لَہَا أَصْحَابُ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، قَالَ : قُمْ یَا أَبَا عُبَیْدَۃَ بْنَ الْجَرَّاحِ ، فَأَرْسَلَہُ مَعَہُمْ۔
(٣٨١٧٣) حضرت حذیفہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس نجران کے دو راہب عاقب اور سید حاضر ہوئے اور انھوں نے عرض کیا۔ آپ ہمارے ساتھ خوب امانتدار شخص بھیج دیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” میں ضرور بالضرور تمہارے ہمراہ ایک کامل امانتدار آدمی کو بھیجوں گا “ پس آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ اس معاملہ کا انتظار کرنے لگے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” اے ابو عبیدہ بن الجراح ! اٹھو “ چنانچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو ان کے ہمراہ بھیج دیا۔

38173

(۳۸۱۷۴) حَدَّثَنَا ابْنُ إِدْرِیسَ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ سِمَاکٍ ، عَنْ عَلْقَمَۃَ بْنِ وَائِلٍ ، عَنِ الْمُغِیرَۃَ بْنِ شُعْبَۃَ ، قَالَ : بَعَثَنِی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِلَی نَجْرَانَ ، فَقَالُوا لِی : إِنَّکُمْ تَقْرَؤُونَ : {یَا أُخْتَ ہَارُونَ} وَبَیْنَ مُوسَی وَعِیسَی مَا شَائَ اللَّہُ مِنَ السِّنِینَ ؟ فَلَمْ أَدْرِ مَا أُجِیبُہُمْ بِہِ ، حَتَّی رَجَعْتُ إِلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَسَأَلْتُہُ، فَقَالَ: أَلاَ أَخْبَرْتَہُمْ أَنَّہُمْ کَانُوا یُسَمَّونَ بِأَنْبِیَائِہِمْ، وَالصَّالِحِینَ مِنْ قَبْلِہِمْ ؟ (مسلم ۱۶۸۵۔ احمد ۲۵۲)
(٣٨١٧٤) حضرت مغیرہ بن شعبہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے نجران (والوں) کی طرف بھیجا تو انھوں نے مجھ سے پوچھا۔ تم لوگ تو پڑھتے ہو { یَا أُخْتَ ہَارُونَ } حالانکہ حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ کے درمیان بہت زیادہ سالوں کا وقفہ ہے ؟ مجھے ان کے اس سوال کا جواب معلوم نہیں تھا۔ یہاں تک کہ میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور میں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ سوال کیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ” تم نے انھیں یہ کیوں نہیں بتایا کہ وہ لوگ اپنے سے پہلے والے انبیاء اور صالحین کے ناموں کے مطابق نام رکھتے تھے “۔ ؟

38174

(۳۸۱۷۵) حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لأَسْقُفِ نَجْرَانَ : یَا أَبَا الْحَارِثِ ، أَسْلِمْ ، قَالَ : إِنِّی مُسْلِمٌ ، قَالَ : یَا أَبَا الْحَارِثِ ، أَسْلِمْ ، قَالَ : قَدْ أَسْلَمْتُ قَبْلَک ، قَالَ نَبِیُّ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : کَذَبْتَ ، مَنَعَک مِنَ الإِسْلاَمِ ثَلاَثَۃٌ : ادِّعَاؤُک لِلَّہِ وَلَدًا ، وَأَکْلُک الْخِنْزِیرَ ، وَشُرْبُک الْخَمْرَ۔
(٣٨١٧٥) حضرت قتادہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نجران کے اسقف سے فرمایا۔ ” اے ابو الحارث ! اسلام لے آؤ “ اس نے جواب دیا۔ میں تو مسلمان ہوں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے (دوبارہ) فرمایا۔ اے ابو الحارث ! اسلام لے آؤ “ اس نے (دوبارہ) جواب میں کہا۔ تحقیق میں آپ سے پہلے ہی اسلام لے آیا ہوں ۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ” تو جھوٹ بولتا ہے۔ تجھے تین چیزوں نے اسلام سے روکا ہے۔ تمہارا خدا کے لیے بیٹے کا دعویٰ کرنا۔ تمہارا خنزیر کھانا ۔ تمہارا شراب پینا۔

38175

(۳۸۱۷۶) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: لَمَّا قُبِضَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، کَانَ أَبُو بَکْرٍ فِی نَاحِیَۃِ الْمَدِینَۃِ ، فَجَائَ فَدَخَلَ عَلَی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَہُوَ مُسَجًّی، فَوَضَعَ فَاہُ عَلَی جَبِینِ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَجَعَلَ یُقَبِّلُہُ وَیَبْکِی وَیَقُولُ : بِأَبِی وَأُمِّی ، طِبْتَ حَیًّا ، وَطِبْتَ مَیِّتًا ، فَلَمَّا خَرَجَ مَرَّ بِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ وَہُوَ یَقُولُ : مَا مَاتَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَلاَ یَمُوتُ حَتَّی یَقْتُلَ اللَّہُ الْمُنَافِقِینَ ، وَحَتَّی یُخْزِیَ اللَّہُ الْمُنَافِقِینَ ، قَالَ : وَکَانُوا قَدِ اسْتَبْشَرُوا بِمَوْتِ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَرَفَعُوا رُؤُوسَہُمْ ، فَقَالَ : أَیُّہَا الرَّجُلُ ، اِرْبَعْ عَلَی نَفْسِکَ ، فَإِنَّ رَسُولَ اللہِ قَدْ مَاتَ ، أَلَمْ تَسْمَعِ اللَّہَ یَقُولُ : {إِنَّک مَیِّتٌ ، وَإِنَّہُمْ مَیِّتُونَ} وَقَالَ : {وَمَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍ مِنْ قَبْلِکَ الْخُلْدَ ، أَفَإِنْ مِتَّ فَہُمُ الْخَالِدُونَ}۔ قَالَ : ثُمَّ أَتَی الْمِنْبَرَ فَصَعِدَہُ ، فَحَمِدَ اللَّہَ وَأَثْنَی عَلَیْہِ ، ثُمَّ قَالَ : أَیُّہَا النَّاسُ ، إِنْ کَانَ مُحَمَّدٌ إِلَہَکُمُ الَّذِی تَعْبُدُونَ ، فَإِنَّ إلَہَکُمْ مُحَمَّدًا قَدْ مَاتَ ، وَإِنْ کَانَ إِلَہَکُمُ الَّذِی فِی السَّمَائِ ، فَإِنَّ إِلَہَکُمْ لَمْ یَمُتْ ، ثُمَّ تَلاَ : {وَمَا مُحَمَّدٌ إِلاَّ رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُ ، أَفَإِنْ مَاتَ ، أَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلَی أَعْقَابِکُمْ} حَتَّی خَتَمَ الآیَۃَ ، ثُمَّ نَزَلَ ، وَقَدِ اسْتَبْشَرَ الْمُسْلِمُونَ بِذَلِکَ وَاشْتَدَّ فَرَحُہُمْ ، وَأَخَذَتِ الْمُنَافِقِینَ الْکَآبَۃُ۔ قَالَ عَبْدُ اللہِ بْنُ عُمَرَ : فَوَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ ، لَکَأَنَّمَا کَانَتْ عَلَی وُجُوہِنَا أَغْطِیَۃٌ ، فَکُشِفَتْ۔ (بزار ۸۵۲)
(٣٨١٧٦) حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی روح مبارک قبض ہوئی تو (اس وقت) حضرت ابوبکر ، مدینہ کے گوشہ میں تھے پھر آپ تشریف لائے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس داخل ہوئے جبکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ڈھکا ہوا تھا۔ اور انھوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پیشانی پر اپنا منہ رکھا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بوسہ دے کر رونا شروع کردیا اور کہنے لگے۔ میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں۔ آپ زندگی میں بھی خوشبودار تھے اور مر کر بھی خوشبودار ہیں۔ پھر جب حضرت ابوبکر (وہاں سے) نکلے تو ان کا گزر عمر بن خطاب سے ہوا۔ وہ کہہ رہے تھے۔ اللہ کے رسول کو موت نہیں آئی اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو موت نہیں آئے گی حتی کہ اللہ تعالیٰ منافقوں کو موت دے دے اور یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ منافقوں کو رسوا کر دے۔ راوی کہتے ہیں : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی موت کی وجہ سے (منافقین نے) خوشی محسوس کی تھی چنانچہ انھوں نے اپنے سر اٹھا لیے تھے۔ حضرت ابوبکر نے کہا۔ اے آدمی ! ٹھہرو (ذرا چپ کرو) کیونکہ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وفات پا گئے ہیں۔ کیا تم نے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان نہیں سُنا۔ {إِنَّک مَیِّتٌ ، وَإِنَّہُمْ مَیِّتُونَ } اور ارشاد خداوندی ہے۔ { وَمَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍ مِنْ قَبْلِکَ الْخُلْدَ ، أَفَإِنْ مِتَّ فَہُمُ الْخَالِدُونَ }۔
پھر حضرت ابوبکر منبر کے پاس آئے اور اس پر چڑھ گئے۔ اللہ کی حمد و ثنا بیان کی اور پھر فرمایا اے لوگو ! اگر تو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہارے الہٰ تھے جس کی تم عبادت کرتے تھے تو یقین جانو کہ تمہارے الہٰ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وفات پا گئے ہیں۔ اور اگر تمہارا الہٰ وہ ذات ہے جو آسمانوں میں ہے تو پھر یقین کرو کہ تمہارا الہٰ نہیں مرا۔ پھر حضرت ابوبکر نے یہ آیت تلاوت کی۔ { وَمَا مُحَمَّدٌ إِلاَّ رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُ ، أَفَإِنْ مَاتَ ، أَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلَی أَعْقَابِکُمْ } ۔
یہاں تک کہ آپ نے یہ آیت مکمل فرما دی۔ پھر آپ نیچے تشریف لے آئے اور (اب) ان باتوں سے مسلمانوں نے خوشی محسوس کی اور یہ خوب خوش ہوئے اور منافقین کو مصیبت پڑگئی۔ حضرت عبداللہ بن عمر کا ارشاد ہے۔ اس ذات کی قسم ! جس کے قبضہ میں میری جان ہے۔ یوں لگتا تھا جیسا کہ ہمارے چہروں پر پردے تھے جو ہٹا دیئے گئے۔

38176

(۳۸۱۷۷) حَدَّثَنَا عِیسَی بْنُ یُونُسَ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ أَبِیہِ ؛ أَنَّہُمْ شَکُّوا فِی قَبْرِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، أَیْنَ یَدْفِنُونَہُ ؟ فَقَالَ أَبُو بَکْرٍ : سَمِعْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، یَقُولُ : إِنَّ النَّبِیَّ لاَ یُحَوَّلُ عَنْ مَکَانِہِ ، وَیُدْفَنُ حَیْثُ یَمُوتُ ، فَنَحَّوْا فِرَاشَہُ ، فَحَفَرُوا لَہُ مَوْضِعَ فِرَاشِہِ۔ (ترمذی ۱۰۱۸۔ ابن ماجہ ۱۶۲۸)
(٣٨١٧٧) حضرت ابن جریج اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ صحابہ کرام کو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قبر کے متعلق تردد ہوا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کہاں دفن کریں ؟ حضرت ابوبکر نے فرمایا : میں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سُنا تھا کہ ” نبی کو اس کی جگہ سے نہیں ہٹایا جاتا اور جہاں وہ فوت ہوتا ہے وہیں دفن کیا جاتا ہے “ چنانچہ صحابہ کرام نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا بستر ایک طرف کردیا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بستر والی جگہ پر آپ کی قبر کھودی گئی۔

38177

(۳۸۱۷۸) حَدَّثَنَا ابْنُ إِدْرِیسَ ، عَنْ إِسْمَاعِیلَ بْنِ أَبِی خَالِدٍ ، عَنْ قَیْسِ بْنِ أَبِی حَازِمٍ ، عَنْ جَرِیرٍ ، قَالَ : کُنْتُ بِالْیَمَنِ ، فَلَقِیت رَجُلَیْنِ مِنْ أَہْلِ الْیَمَنِ ذَا کَلاَعٍ وَذَا عَمْرٍو ، فَجَعَلْتُ أُحَدِّثُہُمَا عَنْ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالاَ : إِنْ کَانَ حَقًّا مَا تَقُولُ ، فَقَدْ مَرَّ صَاحِبُک عَلَی أَجَلِہِ مُنْذُ ثَلاَثٍ ، فَأَقْبَلْتُ وَأَقْبَلاَ مَعِیَ ، حَتَّی إِذَا کُنَّا فِی بَعْضِ الطَّرِیقِ ، رُفِعَ لَنَا رَکْبٌ مِنْ قِبَلِ الْمَدِینَۃِ ، فَسَأَلْنَاہُمْ ، فَقَالُوا : قُبِضَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَاسْتُخْلِفَ أَبُو بَکْرٍ ، وَالنَّاسُ صَالِحُونَ ، قَالَ : فَقَالاَ لِی : أَخْبِرْ صَاحِبَک أَنَّا قَدْ جِئْنَا ، وَلَعَلَّنَا سَنَعُودُ إِنْ شَائَ اللَّہُ ، وَرَجَعَا إِلَی الْیَمَنِ ، قَالَ : فَأَخْبَرْتُ أَبَا بَکْرٍ بِحَدِیثِہِمْ ، قَالَ : أَفَلاَ جِئْتَ بِہِمْ ، قَالَ : فَلَمَّا کَانَ بَعْدُ ، قَالَ لِی ذُو عَمْرٍو : یَا جَرِیرُ ، إِنَّ بِکَ عَلَیَّ کَرَامَۃً ، وَإِنِّی مُخْبِرُک خَبَرًا ، إِنَّکُمْ مَعْشَرَ الْعَرَبِ لَنْ تَزَالُوا بِخَیْرٍ مَا کُنْتُمْ ، إِذَا ہَلَکَ أَمِیرٌ تَأَمَّرْتُمْ فِی آخَرَ ، فَإِذَا کَانَتْ بِالسَّیْفِ کَانُوا مُلُوکًا یَغْضَبُونَ غَضَبَ الْمُلُوکِ ، وَیَرْضَوْنَ رِضَا الْمُلُوکِ۔ (بخاری ۴۳۵۹۔ احمد ۳۶۳)
(٣٨١٧٨) حضرت جریر سے روایت ہے کہ میں یمن میں تھا کہ مجھے اہل یمن میں سے دو آدمی ملے جن کے نام ذوکلاع اور ذو عمرو تھے۔ پس میں نے ان کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں بتانا شروع کیا تو ان دونوں نے کہا۔ جو کچھ تم کہہ رہے ہو اگر یہ سچ ہے تو پھر تمہارے یہ ساتھی (آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) تین دن پہلے اپنی مدت عمر گزار چکے ہیں۔ چنانچہ میں بھی چلا اور وہ بھی چلے یہاں تک کہ جب ہم کچھ راستہ طے کرچکے تو مدینہ کی جانب سے ایک لشکر ہماری جانب آ رہا تھا تو ہم نے ان سے پوچھا۔ انھوں نے جواب دیا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وفات پا گئے ہیں اور حضرت ابوبکر کو خلیفہ مقرر کردیا گیا ہے۔ تمام لوگ نیکی کے پابند ہیں۔ راوی کہتے ہیں : پھر ان دونوں نے مجھ سے کہا۔ آپ اپنے ساتھی (حضرت ابوبکر ) کو بتا دینا کہ ہم آئے تھے۔ اور شاید کہ ہم واپس آئیں گے انشاء اللہ۔ اور (پھر) وہ دونوں یمن کی طرف چلے گئے۔ راوی کہتے ہیں : میں نے حضرت ابوبکر کو ان کی بات بتائی تو انھوں نے فرمایا : تم انھیں لے کر کیوں نہ آئے۔ ! ! !
راوی کہتے ہیں : پھر اس کے بعد ذو عمرو نے مجھ سے کہا۔ اے جریر ! تمہیں مجھ پر ایک عزت و شرافت حاصل ہے اور میں تمہیں ایک بات بتایا ہوں ۔ تم اہل عرب ہمیشہ خیر کی حالت میں رہو گے۔ جب تک تمہاری کیفیت یہ ہوگی کہ جب (تمہارا) امیر فوت ہوجائے تو تم کسی اور کو امیر مان لو۔ لیکن جب تلوار آجائے گی تو پھر (تمہارے امیر) بادشاہ ہوں گے اور ان کے غصے بادشاہوں کے غصے ہوں گے اور ان کی رضا بادشاہوں کی رضا کی طرح ہوگی۔

38178

(۳۸۱۷۹) حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَطَائٍ ، قَالَ : بَلَغَنَا أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حِینَ مَاتَ ، قَالَ : أَقْبَلَ النَّاسُ یَدْخُلُونَ فَیُصَلُّونَ عَلَیْہِ ثُمَّ یَخْرُجُونَ ، وَیَدْخُلُ آخَرُونَ کَذَلِکَ ، قَالَ : قُلْتُ لِعَطَائٍ : یُصَلُّونَ وَیَدْعُونَ ؟ قَالَ : یُصَلُّونَ وَیَسْتَغْفِرُونَ۔
(٣٨١٧٩) حضرت عطائ سے روایت ہے فرماتے ہیں ہمیں یہ بات پہنچی ہے کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات ہوئی تو لوگ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر (حجرہ میں) داخل ہوتے۔ آپ پر نماز پڑھتے اور نکل جاتے پھر اسی طرح اور لوگ اندر چلے جاتے۔ راوی کہتے ہیں : میں نے حضرت عطاء سے پوچھا۔ وہ نماز پڑھتے تھے اور دعا مانگتے تھے ؟ عطاء نے کہا۔ نماز پڑھتے تھے اور استغفار کرتے تھے۔

38179

(۳۸۱۸۰) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ جَعْفَرٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : لَمْ یُؤَمَّ عَلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِمَامٌ ، وَکَانُوا یَدْخُلُونَ أَفْوَاجًا یُصَلُّونَ عَلَیْہِ وَیَخْرُجُونَ۔
(٣٨١٨٠) حضرت جعفر اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی کسی امام نے (نماز جنازہ کی) امامت نہیں کروائی۔ بلکہ لوگ جماعت جماعت کی شکل میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر (حجر ہ میں) داخل ہوتے تھے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نماز جنازہ پڑھتے اور نکل آتے تھے۔

38180

(۳۸۱۸۱) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ قَیْسِ بْنِ مُسْلِمٍ ، عَنْ طَارِقِ بْنِ شِہَابٍ ، قَالَ : لَمَّا قُبِضَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ جَعَلَتْ أُمُّ أَیْمَنَ تَبْکِی ، فَقِیلَ لَہَا : لِمَ تَبْکِینَ یَا أُمَّ أَیْمَنَ ؟ قَالَتْ : أَبْکِی عَلَی خَبَرِ السَّمَائِ ، انْقَطَعَ عَنَّا۔ (ابن سعد ۲۲۶۔ طبرانی ۲۲۷)
(٣٨١٨١) حضرت طارق بن شہاب سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی روح مبارک قبض ہوئی تو ام ایمن نے رونا شروع کیا۔ ان سے کہا گیا۔ اے ام ایمن ! تم کیوں رو رہی ہو ؟ انھوں نے جواب دیا۔ میں اس بات پر رو رہی ہوں کہ آسمانی خبریں (اب) ہم پر منقطع ہوگئی ہیں۔

38181

(۳۸۱۸۲) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ الْمُغِیرَۃِ ، عَنْ ثَابِتٍ ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ : لَمَّا قُبِضَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ أَبُو بَکْرٍ لِعُمَرَ ، أَوْ عُمَرُ لأَبِی بَکْرٍ : انْطَلِقْ بِنَا إِلَی أُمِّ أَیْمَنَ نَزُورُہَا ، فَانْطَلَقَا إِلَیْہَا ، فَجَعَلَتْ تَبْکِی ، فَقَالاَ لَہَا : یَا أُمَّ أَیْمَنَ ، إِنَّ مَا عِنْدَ اللہِ خَیْرٌ لِرَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَتْ : قَدْ عَلِمْتُ أَنَّ مَا عِنْدَ اللہِ خَیْرٌ لِرَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَلَکِنِّی أَبْکِی عَلَی خَبَرِ السَّمَائِ ، انْقَطَعَ عَنَّا ، فَہَیَّجَتْہُمَا عَلَی الْبُکَائِ ، فَجَعَلاَ یَبْکِیَانِ مَعَہَا۔ (مسلم ۱۹۰۷۔ ابن ماجہ ۱۶۳۵)
(٣٨١٨٢) حضرت انس سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وفات پا گئے تو حضرت ابوبکر نے حضرت عمر سے کہا یا حضرت عمر نے حضرت ابوبکر سے کہا۔ ہمارے ساتھ ام ایمن کے پاس چلو تاکہ ہم ان کو دیکھیں۔ پس ہم ان کے پاس گئے تو وہ رونے لگیں۔ شیخین نے ام ایمن سے کہا۔ اے ام ایمن ! جو کچھ اللہ تعالیٰ کے پاس اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے ہے وہ بہتر ہے۔ اس پر ام ایمن نے کہا۔ یقیناً مجھے بھی اس بات کا علم ہے کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ کے پاس ہے وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے زیادہ بہتر ہے لیکن میں تو اس بات پر رو رہی ہوں کہ ہم سے آسمان کی خبریں منقطع ہوگئیں۔ پس ام ایمن نے حضرت ابوبکر و عمر کو بھی رونے پر ابھار دیا چنانچہ وہ دونوں حضرات بھی ان کے ساتھ رونے لگے۔

38182

(۳۸۱۸۳) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ جَعْفَرٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : خَرَجَتْ صَفِیَّۃُ ، وَقَدْ قُبِضَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَہِیَ تَلْمَعُ بِثَوْبِہَا ، یَعَنْی تُشِیرُ بِہِ ، وَہِیَ تَقُولُ : قَدْ کَانَ بَعْدَک أَنْبَائٌ وَہَنْبَثَۃٌ لَوْ کُنْتَ شَاہِدُہَا لَمْ تُکْثِرِ الْخُطبَ
(٣٨١٨٣) حضرت جعفر اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب فوت ہوگئے تو حضرت صفیہ باہر آئیں اور اپنے کپڑے سے اشارہ کرتی ہوئی فرما رہی تھیں۔
” تحقیق آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد بہت سی باتیں اور شدید معاملات ہوں گے۔ اگر آپ ان کو دیکھتے تو مصائب کثیر نہ ہوتے۔ “

38183

(۳۸۱۸۴) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ؛ أَنَّ الَّذِی وَلِیَ دَفْنَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَإِجْنَانَہُ أَرْبَعَۃُ نَفَرٍ دُونَ النَّاسِ : عَلِیٌّ ، وَعَبَّاسٌ ، وَالْفَضْلُ ، وَصَالِحٌ مَوْلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَلَحَدُوا لَہُ ، وَنَصَبُوا عَلَیْہِ اللَّبِنَ نَصْبًا۔
(٣٨١٨٤) حضرت سعید بن مسیب سے روایت ہے کہ تمام لوگوں میں سے جن کو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا دفن کرنا اور قبر میں اتارنا سونپا گیا تھا وہ چار لوگ تھے ۔ حضرت علی ، حضرت عباس ، حضرت فضل اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آزاد کردہ غلام صالح۔ چنانچہ ان لوگوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے لحد بنائی اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر کچی اینٹیں نصب کیں۔

38184

(۳۸۱۸۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إِسْمَاعِیلَ بْنِ أَبِی خَالِدٍ ، عَنْ عَامِرٍ ، قَالَ : دَخَلَ قَبْرَ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلِیٌّ ، وَالْفَضْلُ ، وَأُسَامَۃُ۔ قَالَ الشَّعْبِیُّ : وَحَدَّثَنِی مَرْحَبٌ ، أَوِ ابْنُ أَبِی مَرْحَبٍ ؛ أَنَّ عَبْدَ الرَّحْمَن بْنَ عَوْفٍ دَخَلَ مَعَہُمُ الْقَبْرَ۔ (ابن سعد ۳۰۰۔ بیہقی ۳۹۵)
(٣٨١٨٥) حضرت عامر سے روایت ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قبر میں حضرت علی ، حضرت فضل اور حضرت اسامہ داخل ہوئے۔ حضرت شعبی کہتے ہیں۔ مجھے مرحب یا ابن ابی مرحب نے بیان کیا کہ حضرت عبد الرحمن بن عوف بھی ان کے ساتھ قبر میں داخل ہوئے تھے۔

38185

(۳۸۱۸۶) حَدَّثَنَا ابْنُ إِدْرِیسَ ، عَنْ إِسْمَاعِیلَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : غَسَّلَ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلِیٌّ ، وَالْفَضْلُ ، وَأُسَامَۃُ۔ قَالَ : وَحَدَّثَنِی ابْنُ أَبِی مَرْحَبٍ ؛ أَنَّ عَبْدَ الرَّحْمَن بْنَ عَوْفٍ دَخَلَ مَعَہُمُ الْقَبْرَ۔ قَالَ : وَقَالَ الشَّعْبِیُّ : مِنْ یَلِی الْمَیِّتَ إِلاَّ أَہْلُہُ۔ وَفِی حَدِیثِ ابْنِ إِدْرِیسَ ، عَنِ ابْنِ أَبِی خَالِدٍ : وَجَعَلَ عَلِیٌّ یَقُولُ : بِأَبِی وَأُمِّی ، طِبْتَ حَیًّا وَمَیِّتًا۔
(٣٨١٨٦) حضرت شعبی سے روایت ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حضرت علی ، حضرت فضل اور حضرت اسامہ نے غسل دیا تھا۔ راوی کہتے ہیں۔ مجھے ابن ابی مرحب نے بیان کیا کہ حضرت عبد الرحمن بن عوف بھی ان کے ساتھ قبر میں داخل ہوئے تھے۔ راوی کہتے ہیں : حضرت شعبی ارشاد فرماتے ہیں : متَ کے ولی اس کے اہل ہی ہوتے ہیں۔ ابو ادریس کی حدیث میں ابن ابی خالد کے حوالہ سے نقل ہے کہ حضرت علی کہنے لگے۔ میرے ماں ، باپ آپ پر قربان ہوں آپ زندگی میں بھی خوشبو دار تھے اور موت کے بعد بھی خوشبودار ہیں۔

38186

(۳۸۱۸۷) حَدَّثَنَا ابْنُ إِدْرِیسَ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِیٍّ ، قَالَ : غُسِّلَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی قَمِیصٍ ، فَوَلِیَ عَلِیٌّ سِفْلَتَہُ ، وَالْفَضْلُ مُحْتَضنُہُ ، وَالْعَبَّاسُ یَصُبُّ الْمَائَ ، قَالَ : وَالْفَضْلُ یَقُولُ : أَرِحْنِی ، قَطَعْتَ وَتِینِی ، إِنِّی لأَجِدُ شَیْئًا یَنْزِلُ عَلَیَّ ، قَالَ : وَغُسِّلَ مِنْ بِئْرِ سَعْدِ بْنِ خَیْثَمَۃ بِقُبَائَ ، وَہِیَ الْبِئْرُ الَّتِی یُقَالُ لَہَا : بِئْرُ أَرِیسٍ ، قَالَ : وَقَدْ وَاللہِ شَرِبْتُ مِنْہَا وَاغْتَسَلْتُ۔ (عبدالرزاق ۶۰۷۷)
(٣٨١٨٧) حضرت محمد بن علی سے روایت ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایک قمیص میں غسل دیا گیا تھا۔ چنانچہ حضرت علی کو قمیص کا نچلا حصہ سپرد ہوا اور حضرت فضل کو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سینہ سے بغل اور پہلو تک کا حصہ سپرد ہوا۔ حضرت عباس ، پانی بہا رہے تھے۔ راوی کہتے ہیں۔ حضرت فضل کہہ رہے تھے۔ میں محسوس کر رہاہوں کہ کوئی چیز مجھ پر اتر رہی ہے۔ راوی کہتے ہیں : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مقام قباء میں واقع سعد بن خیثمہ کے کنویں سے غسل دیا گیا تھا۔ “ یہ وہی کنواں ہے جس کو بیرا ریس کہا جاتا ہے۔ راوی کہتے ہیں۔ خدا کی قسم ! میں نے (خود بھی) اس کنویں سے پانی پیا ہے اور غسل بھی کیا ہے۔

38187

(۳۸۱۸۸) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، وَابْنُ مُبَارَکٍ ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ؛ أَنَّ عَلِیًّا الْتَمَسَ مِنَ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا یُلْتَمَسُ مِنَ الْمَیِّتِ ، فَلَمْ یَجِدْ شَیْئًا ، فَقَالَ : بِأَبِی وَأُمِّی ، طِبْتَ حَیًّا وَطِبْتَ مَیِّتًا۔
(٣٨١٨٨) حضرت سعید بن المسیب سے روایت ہے کہ حضرت علی نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے وہ کچھ تلاش کرنا چاہا جو کچھ میت سے تلاش کیا جاتا ہے لیکن انھوں نے کچھ بھی نہ پایا تو کہنے لگے میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں آپ زندگی میں بھی خوشبودار تھے اور موت کے بعد بھی خوشبو دار ہں ا۔

38188

(۳۸۱۸۹) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ ، عَنْ جَعْفَرٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : لَمَّا أَرَادُوا أَنْ یُغَسِّلُوا النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ عَلَیْہِ قَمِیصٌ ، فَأَرَادُوا أَنْ یَنْزِعُوہُ ، فَسَمِعُوا نِدَائً مِنَ الْبَیْتِ : أَنْ لاَ تَنْزِعُوا الْقَمِیصَ۔
(٣٨١٨٩) حضرت جعفر اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ جب صحابہ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو غسل دینے کا ارادہ کیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے جسم مبارک پر قمیص تھی۔ انھوں نے اس قمیص کو اتارنا چاہا تو انھوں نے کمرہ میں سے ایک آواز سنی ۔ قمیص نہ اتارو۔

38189

(۳۸۱۹۰) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ مُوسَی بْنِ أَبِی عَائِشَۃَ ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُتْبَۃَ ، عَنْ عَائِشَۃَ ، وَابْنِ عَبَّاسٍ ؛ أَنَّ أَبَا بَکْرٍ قَبَّلَ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَعْدَ مَا مَاتَ۔ (بخاری ۴۴۵۵۔ ابن ماجہ ۱۴۵۷)
(٣٨١٩٠) حضرت عائشہ اور ابن عباس سے روایت ہے کہ حضرت ابوبکر نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے بعد چوما تھا۔

38190

(۳۸۱۹۱) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِیزِ بْنُ أَبَانَ بْنِ عُثْمَانَ ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ : لَمَّا قُبِضَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَکَی النَّاسُ ، فَقَامَ عُمَرُ فِی الْمَسْجِدِ خَطِیبًا ، فَقَالَ : لاَ أَسْمَعُ أَحَدًا یَزْعُمُ أَنَّ مُحَمَّدًا قَدْ مَاتَ ، وَلَکِنْ أَرْسَلَ إِلَیْہِ رَبُّہُ ، کَمَا أَرْسَلَ إِلَی مُوسَی رَبُّہُ ، فَقَدْ أَرْسَلَ اللَّہُ إِلَی مُوسَی ، فَلَبِثَ عَنْ قَوْمِہِ أَرْبَعِینَ لَیْلَۃً ، وَاللہِ إِنِّی لأَرْجُوَ أَنْ تُقْطَعَ أَیْدِی رِجَالٍ وَأَرْجُلِہِمْ یَزْعُمُونَ أَنَّہُ مَاتَ۔
(٣٨١٩١) حضرت انس سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات ہوئی تو لوگ رونے لگے۔ اس پر حضرت عمر مسجد میں خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے اور فرمایا : میں کسی آدمی کے بارے میں نہ سنوں کہ اس کا یہ گمان ہو کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وفات پا گئے ہیں۔ بلکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف ان کے پروردگار نے ایسی ہی حالت بھیجی ہے جیسا کہ موسیٰ کی طرف ان کے پروردگار نے بھیجی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ کی طرف پیغام بھیجا تھا تو وہ اپنی قوم سے چالیس دن تک (دور) ٹھہرے رہے۔ خدا کی قسم ! مجھے تو اس بات کی پختہ امید ہے کہ ایسے لوگوں کے ہاتھ ، پاؤں کٹ جائیں گے جن کا یہ خیال ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر موت واقع ہوگئی ہے۔

38191

(۳۸۱۹۲) حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إسْمَاعِیلَ ، عَنْ أُنَیْسِ بْنِ أَبِی یَحْیَی ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ ، قَالَ : خَرَجَ عَلَیْنَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَوْمًا وَنَحْنُ فِی الْمَسْجِدِ ، وَہُوَ عَاصِبٌ رَأْسَہُ بِخِرْقَۃٍ فِی الْمَرَضِ الَّذِی مَاتَ فِیہِ ، فَأَہْوَی قِبَلَ الْمِنْبَرِ ، حَتَّی اسْتَوَی عَلَیْہِ فَاتَّبَعْنَاہُ ، فَقَالَ : وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ ، إِنِّی لَقَائِمٌ عَلَی الْحَوْضِ السَّاعَۃَ ، وَقَالَ : إِنَّ عَبْدًا عُرِضَتْ عَلَیْہِ الدُّنْیَا وَزِینَتُہَا ، فَاخْتَارَ الآخِرَۃَ ، فَلَمْ یَفْطِنْ لَہَا أَحَدٌ إِلاَّ أَبُو بَکْرٍ ، فَذَرَفَتْ عَیْنَاہُ فَبَکَی ، وَقَالَ : بِأَبِی أَنْتَ وَأُمِّی ، بَلْ نَفْدِیک بِآبَائِنَا ، وَأُمَّہَاتِنَا ، وَأَنْفُسِنَا ، وَأَمْوَالِنَا ، قَالَ : ثُمَّ ہَبَطَ ، فَمَا قَامَ عَلَیْہِ حَتَّی السَّاعَۃِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔
(٣٨١٩٢) حضرت ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ ایک دن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے پاس (حجرہ مبارک سے) باہر تشریف لائے جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے مرض الموت میں اپنے سر مبارک کو ایک پٹی سے باندھا ہوا تھا۔ پس آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) منبر کی جانب بڑھے یہاں تک کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) منبر پر تشریف فرما ہوگئے پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ” اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے ! بلاشبہ میں اس وقت حوض کوثر پر کھڑا ہوں “۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” بیشک ایک بندے پر دنیا اور اس کی زینت کو پیش کیا گیا لیکن اس نے آخرت کو پسند کیا “۔ یہ بات حضرت ابوبکر کے سوا کوئی اور آدمی نہیں سمجھ سکا۔ چنانچہ ان کی آنکھیں بہہ پڑیں اور وہ رونے لگے۔ اور حضرت ابوبکر نے کہا۔ میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں۔ بلکہ ہم تو آپ پر اپنے آبائ، امہات، جانیں اور اموال بھی فدا کرتے ہیں۔ راوی کہتے ہیں : پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نیچے تشریف لے آئے۔ پھر (اس کے بعد) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) منبر پر (موت تک دوبارہ) تشریف فرما نہیں ہوئے۔

38192

(۳۸۱۹۳) حَدَّثَنَا حَاتِمٌ ، عَنْ جَعْفَرٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : لَمَّا ثَقُلَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : أَیْنَ أَکُونُ غَدًا ؟ قَالَوا : عَنْدَ فُلاَنَۃَ ، قَالَ : أَیْنَ أَکُونُ بَعْدَ غَدٍ ؟ قَالَوا : عَنْدَ فُلاَنَۃَ ، فَعَرَفْنَ أَزْوَاجُہُ أَنَّہُ إِنَّمَا یُرِیدُ عَائِشَۃَ ، فَقُلْنَ : یَا رَسُولَ اللہِ ، قَدْ وَہَبْنَا أَیَّامَنَا لأُخْتِنَا عَائِشَۃَ۔ (ابن سعد ۲۳۳)
(٣٨١٩٣) حضرت جعفر اپنے والد سے روایت کرتے ہں ج کہ جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طبیعت بوجھل ہوئی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا۔ ” میں کل کہاں ہوں گا۔ ؟ “ لوگوں نے کہا : فلانی زوجہ کے ہاں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے (دوبارہ) پوچھا۔ میں اس کے بعد کہاں ہوں گا ؟ “ لوگوں نے کہا ۔ فلانی زوجہ کے پاس۔ اس پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ازواج مطہرات نے معلوم کرلیا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارادہ حضرت عائشہ کا ہے۔ تو تمام ازواج نے کہا۔ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ہم نے اپنی باریاں اپنی بہن عائشہ کو ہدیہ کردی ہیں۔

38193

(۳۸۱۹۴) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَنْ زَائِدَۃَ ، عَنْ مُوسَی بْنِ أَبِی عَائِشَۃَ ، قَالَ : حدَّثَنِی عُبَیْدُ اللہِ بْنُ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُتْبَۃَ ، قَالَ : أَتَیْتُ عَائِشَۃَ ، فَقُلْتُ : حَدِّثِینِی عَنْ مَرَضِ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَتْ : نَعَمْ ، مَرِضَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَثَقُلَ فَأُغْمِیَ عَلَیْہِ ، قَالَتْ : فَأَفَاقَ ، فَقَالَ : ضَعُوا لِی مَائً فِی الْمِخْضَبِ ، فَفَعَلْنَا ، قَالَتْ : فَاغْتَسَلَ ، فَذَہَبَ لِیَنُوئَ ، فَأُغْمِیَ عَلَیْہِ ، قَالَتْ : ثُمَّ أَفَاقَ ، فَقَالَ : ضَعُوا لِی مَائً فِی الْمِخْضَبِ ، قَالَتْ : قَدْ فَعَلْنَا ، قَالَتْ : فَاغْتَسَلَ ، ثُمَّ ذَہَبَ لِیَنُوئَ ، فَأُغْمِیَ عَلَیْہِ ، ثُمَّ أَفَاقَ ، فَقَالَ : أَصَلَّی النَّاسُ بَعْدُ ؟ فَقُلْنَا : لاَ ، یَا رَسُولَ اللہِ ، ہُمْ یَنْتَظِرُونَک ، قَالَتْ : وَالنَّاسُ عُکُوفٌ یَنْتَظِرُونَ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِیُصَلِّیَ بِہِمْ عِشَائَ الآخِرَۃِ۔ قَالَتْ : فَاغْتَسَلَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، ثُمَّ ذَہَبَ لِیَنُوئَ فَأُغْمِیَ عَلَیْہِ ، ثُمَّ أَفَاقَ ، فَقَالَ : أَصَلَّی النَّاسُ بَعْدُ ؟ قُلْتُ : لاَ ، فَأَرْسَلَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِلَی أَبِی بَکْرٍ أَنْ یُصَلِّیَ بِالنَّاسِ ، قَالَتْ : فَأَتَاہُ الرَّسُولُ ، فَقَالَ : إِنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَأْمُرُک أَنْ تُصَلِّیَ بِالنَّاسِ ، فَقَالَ : یَا عُمَرُ ، صَلِّ بِالنَّاسِ ، فَقَالَ : أَنْتَ أَحَقُّ ، إِنَّمَا أَرْسَلَ إِلَیْک رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَتْ : فَصَلَّی بِہِمْ أَبُو بَکْرٍ تِلْکَ الأَیَّامَ۔ ثُمَّ إِنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَجَدَ خِفَّۃً مِنْ نَفْسِہِ ، فَخَرَجَ لِصَلاَۃِ الظُّہْرِ ، بَیْنَ الْعَبَّاسِ وَرَجُلٍ آخَرَ ، فَقَالَ لَہُمَا : أَجْلَسَانِی عَنْ یَمِینِہِ ، فَلَمَّا سَمِعَ أَبُو بَکْرٍ حِسَّہُ ، ذَہَبَ یَتَأَخَّرُ ، فَأَمَرَہُ أَنْ یَثْبُتَ مَکَانَہُ ، قَالَتْ : فَأَجْلَسَاہُ عَنْ یَمِینِہِ ، فَکَانَ أَبُو بَکْرٍ یُصَلِّی بِصَلاَۃِ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَہُوَ جَالِسٌ ، وَالنَّاسُ یُصَلُّونَ بِصَلاَۃِ أَبِی بَکْرٍ۔ قَالَ : فَأَتَیْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ ، فَقُلْتُ : أَلاَ أَعْرِضُ عَلَیْک مَا حَدَّثَتْنِی عَائِشَۃُ ؟ قَالَ : ہَاتِ ، فَعَرَضْتُ عَلَیْہِ ہَذَا ، فَلَمْ یُنْکِرْ مِنْہُ شَیْئًا ، إِلاَّ أَنَّہُ قَالَ : أَخْبَرَتْک مَنِ الرَّجُلُ الآخَرُ ؟ قَالَ : قُلْتُ : لاَ ، فَقَالَ : ہُوَ عَلِیٌّ رَحِمَہُ اللہُ۔
(٣٨١٩٤) حضرت عبید اللہ بن عبداللہ بن عتبہ سے روایت ہے کہ میں حضرت عائشہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور میں نے کہا۔ آپ مجھے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مرض کے بارے میں بیان کریں ۔ انھوں نے کہا : ہاں (بیان کرتا ہوں) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیمار ہوئے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طبیعت بوجھل ہوگئی اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر غشی طاری ہوگئی۔ حضرت عائشہ کہتی ہیں : پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو افاقہ ہوا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” میرے واسطے لگن میں پانی رکھ دو ۔ “ چنانچہ ہم نے یہ حکم پورا کیا۔ حضرت عائشہ کہتی ہیں : پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غسل فرمایا پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اٹھنے لگے تھے کہ آپ پر غشی طاری ہوگئی۔ حضرت عائشہ کہتی ہیں۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو افاقہ ہوا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ ” میرے واسطے لگن میں پانی رکھ دو “۔ حضرت عائشہ کہتی ہیں۔ ہم نے یہ حکم پورا کردیا۔ فرماتی ہیں۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غسل فرمایا اور اٹھنے لگے تھے کہ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر غشی طاری ہوگئی پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو افاقہ ہوا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا ۔ ” کیا لوگوں نے نماز پڑھ لی ہے۔ ؟ “ ہم نے عرض کیا۔ نہیں ! یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! لوگ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا انتظار کررہے ہیں۔ حضرت عائشہ کہتی ہیں۔ لوگ خوب جھک کر (متوجہ ہو کر) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا انتظار کر رہے تھے تاکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگوں کو عشاء کی نماز پڑھائیں۔
٢۔ حضرت عائشہ کہتی ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غسل فرمایا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اٹھنا چاہتے تھے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر غشی طاری ہوگئی پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو افاقہ ہوا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا۔ ” کیا لوگوں نے نماز پڑھ لی ہے۔ ؟ “ میں نے عرض کیا : نہیں ! چنانچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت ابوبکر کی طرف پیغام بھیجا کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ حضرت عائشہ کہتی ہیں۔ حضرت ابوبکر کے پاس قاصدآیا اور آ کر کہا۔ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آپ کو حکم دیا ہے کہ آپ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ حضرت ابوبکر نے کہا۔ اے عمر ! لوگوں کو نماز پڑھاؤ۔ حضرت عمر نے کہا۔ آپ اس کے زیادہ حق دار ہیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آپ ہی کی طرف قاصد بھیجا ہے۔ حضرت عائشہ کہتی ہیں۔ چنانچہ حضرت ابوبکر نے ان دنوں میں لوگوں کو نمازیں پڑھائیں۔
٣۔ پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے نفس میں ہلکا پن محسوس کیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت عباس اور ایک اور آدمی کے درمیان نماز ظہر کے لیے باہر تشریف لائے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان دونوں سے فرمایا۔ مجھے ابوبکر کے دائیں طرف بٹھا دو ۔ پس جب حضرت ابوبکر نے یہ بات سنی تو انھیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) محسوس ہوئے وہ پیچھے ہٹنے لگے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو حکم دیا کہ وہ اپنی جگہ پر ہی رہیں۔ حضرت عائشہ کہتی ہیں۔ چنانچہ ان دونوں صحابہ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حضرت ابوبکر کے دائیں جانب بٹھا دیا۔ پس حضرت ابوبکر ، نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی (اقتداء میں) نماز پڑھنے لگے اور باقی لوگ حضرت ابوبکر (کی اقتداء میں) نماز پڑھنے لگے۔
٤۔ روای کہتے ہیں : پھر میں حضرت ابن عباس کی خدمت میں حاضر ہوا اور میں نے عرض کیا۔ کیا میں آپ پر وہ حدیث پیش نہ کروں جو مجھ سے امی عائشہ نے بیان کی ہے ؟ انھوں نے کہا۔ لاؤ۔ پس میں نے یہ حدیث حضرت ابن عباس پر پیش کی تو انھوں نے اس میں سے کسی بات کا انکار نہ کیا مگر انھوں نے یہ کہا۔ کیا انھوں نے تمہیں بتایا کہ دوسرا آدمی کون تھا ؟ راوی کہتے ہیں : میں نے عرض کیا۔ نیں و ! انھوں نے فرمایا : یہ دوسرا آدمی حضرت علی تھے۔

38194

(۳۸۱۹۵) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا وُہَیْبٌ ، حَدَّثَنَا دَاوُد ، عَنْ أَبِی نَضْرَۃَ ، عَنْ أَبِی سَعِیدٍ ، قَالَ : لَمَّا تُوُفِّیَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَامَ خُطَبَائُ الأَنْصَارِ ، فَجَعَلَ الرَّجُلُ مِنْہُمْ یَقُولُ : یَا مَعْشَرَ الْمُہَاجِرِینَ ، إِنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ إِذَا اسْتَعْمَلَ رَجُلاً مِنْکُمْ ، قَرَنَ مَعَہُ رَجُلاً مِنَّا ، فَنَرَی أَنْ یَلِیَ ہَذَا الأَمْرَ رَجُلاَنِ ؛ أَحَدُہُمَا مِنْکُمْ وَالآخَرُ مِنَّا ، قَالَ : فَتَتَابَعَتْ خُطَبَائُ الأَنْصَارِ عَلَی ذَلِکَ ، فَقَامَ زَیْدُ بْنُ ثَابِتٍ ، فَقَالَ : إِنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ مِنَ الْمُہَاجِرِینَ ، وَإِنَّ الإِمَامَ إِنَّمَا یَکُونُ مِنَ الْمُہَاجِرِینَ ، وَنَحْنُ أَنْصَارُہُ کَمَا کُنَّا أَنْصَارَ رَسُولِ اللہِ ، فَقَامَ أَبُو بَکْرٍ ، فَقَالَ : جَزَاکُمُ اللَّہُ خَیْرًا ، یَا مَعْشَرَ الأَنْصَارِ ، وَثَبَّتَ قَائِلَکُمْ ، ثُمَّ قَالَ : وَاللہِ لَوْ فَعَلْتُمْ غَیْرَ ذَلِکَ ، لَمَا صَالَحْنَاکُمْ۔ (احمد ۱۸۵۔ ابن سعد ۲۱۲)
(٣٨١٩٥) حضرت ابو سعید سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات ہوئی تو انصار کے خطیب اٹھ کھڑے ہوئے اور ان میں سے ایک نے کہنا شروع کیا۔ اے جماعت مہاجرین ! رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب تم میں سے کسی کو عادل (امیر) مقرر کرتے تو اس کے ساتھ ہم میں سے بھی ایک آدمی کو ملا دیتے۔ پس ہماری رائے تو یہ ہے کہ یہ معاملہ (خلافت) بھی دو آدمیوں کو سونپ دیا جائے جن میں ایک تم سے ہو اور ایک ہم سے ہو۔ راوی کہتے ہیں : پس انصار کے بہت سے خطباء نے تسلسل سے یہ بات کہی ۔ تو اس پر حضرت زید بن ثابت کھڑے ہوئے اور فرمایا : یقیناً رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مہاجرین میں سے تھے۔ لہٰذا امام بھی مہاجرین میں سے ہوگا۔ اور اہم اس امام کے بھی اسی طرح مدد گار ہوں گے جس طرح ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مددگار تھے۔ پھر حضرت ابوبکر کھڑے ہوئے اور فرمایا : اے جماعت انصار ! اللہ تعالیٰ تمہیں بہترین بدلہ دے اور تمہارے قائل کو ثابت قدم رکھے پھر آپ نے فرمایا : خدا کی قسم ! اگر تم اس کے علاوہ (فیصلہ) کرتے تو ہم آپ سے مصالحت نہ کرتے۔

38195

(۳۸۱۹۶) حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ ، حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ بِلاَلٍ ، قَالَ : حدَّثَنِی عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ حَرْمَلَۃَ ، قَالَ : سَمِعْتُ سَعِیدَ بْنَ الْمُسَیَّبِ ، قَالَ : لَمَّا تُوُفِّیَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وُضِعَ عَلَی سَرِیرِہِ ، فَکَانَ النَّاسُ یَدْخُلُونَ عَلَیْہِ زُمَرًا زُمَرًا ، یُصَلُّونَ عَلَیْہِ وَیَخْرُجُونَ ، وَلَمْ یَؤُمَّہُمْ أَحَد ، وَتُوُفِّیَ یَوْمَ الاِثْنَیْنِ ، وَدُفِنَ یَوْمَ الثُّلاَثَائِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ۔ (ابن سعد ۲۸۸)
(٣٨١٩٦) حضرت سعید بن مسیب بیان کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات ہوگئی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایک تخت پر رکھ دیا گیا ۔ اور لوگ جماعت ، جماعت کی صورت میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حجرہ میں داخل ہوتے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نماز پڑھتے اور باہر نکل آتے لیکن کوئی ان کی امامت نہ کرواتا ۔ اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات پیر کے روز ہوئی اور منگل کے روز آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دفنایا گیا۔

38196

(۳۸۱۹۷) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : سَمِعْتُ عُبَیْدَ اللہِ بْنَ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُتْبَۃَ یُحَدِّثُ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ ، قَالَ : حَجَّ عُمَرُ فَأَرَادَ أَنْ یَخْطُبَ النَّاسَ خُطْبَۃً ، فَقَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ : إِنَّہُ قَدِ اجْتَمَعَ عِنْدَکَ رِعَاعُ النَّاسِ وَسِفْلَتُہُمْ ، فَأَخِّرْ ذَلِکَ حَتَّی تَأْتِیَ الْمَدِینَۃَ ، قَالَ : فَلَمَّا قَدِمْتُ الْمَدِینَۃَ دَنَوْتُ قَرِیبًا مِنَ الْمِنْبَرِ ، فَسَمِعْتُہُ یَقُولُ : إِنِّی قَدْ عَرَفْتُ ، أَنَّ أُنَاسًا یَقُولُونَ : إِنَّ خِلاَفَۃَ أَبِی بَکْرٍ فَلْتَۃٌ ، وَإِنَّمَا کَانَتْ فَلْتَۃً ، وَلَکِنَّ اللَّہَ وَقَی شَرَّہَا ، إِنَّہُ لاَ خِلاَفَۃَ إِلاَ عَنْ مَشْورَۃٍ۔
(٣٨١٩٧) حضرت عبد الرحمن بن عوف سے روایت ہے کہ حضرت عمر نے حج کیا اور آپ نے لوگوں کو ایک خطبہ دینے کا ارادہ کیا ۔ تو حضرت عبد الرحمن بن عوف نے عرض کیا۔ (اس وقت) آپ کے پاس معمولی درجہ کے اور متفرق مقامات کے لوگ جمع ہیں۔ لہٰذا آپ مدینہ آنے تک خطبہ کا ارادہ مؤخر کردیں۔ راوی کہتے ہیں : پھر جب میں مدینہ پہنچا تو میں منبر کے قریب ہو کر بیٹھ گیا۔ اور میں نے حضرت عمر کو کہتے سنا۔ مجھے اس بات کا پتہ چلا ہے کہ لوگ کہتے ہیں۔ حضرت ابوبکر کی خلافت اچانک رونما ہوگئی تھی۔ واقعۃً وہ اچانک تھی لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کی خلافت کے شر (کے امکان کو) ختم فرما دیا (اور اب) یہ خلافت مشورہ سے ہی (باقی) ہے۔

38197

(۳۸۱۹۸) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ أَبِی بَکْرٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُتْبَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : کُنْتُ أَخْتَلِفُ إِلَی عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ ، وَنَحْنُ بِمِنًی مَعَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ ، أُعَلِّمُ عَبْدَ الرَّحْمَن بْنَ عَوْفٍ الْقُرْآنَ ، فَأَتَیْتُہُ فِی الْمَنْزِلِ ، فَلَمْ أَجِدْہُ ، فَقِیلَ : ہُوَعِنْدَ أَمِیرِ الْمُؤْمِنِینَ ، فَانْتَظَرْتُہُ حَتَّی جَائَ ، فَقَالَ لِی : قَدْ غَضِبَ ہَذَا الْیَوْمَ غَضَبًا مَا رَأَیْتہ غَضِبَ مِثْلَہُ مُنْذُ کَانَ ، قَالَ : قُلْتُ لِمَ ذَاکَ ؟ قَالَ : بَلَغَہُ أَنَّ رَجُلَیْنِ مِنَ الأَنْصَارِ ذَکَرَا بَیْعَۃَ أَبِی بَکْرٍ ، فَقَالاَ : وَاللہِ مَا کَانَتْ إِلاَّ فَلْتَۃً ، فَمَا یَمْنَعُ امْرَئًا إِنْ ہَلَکَ ہَذَا أَنْ یَقُومَ إِلَی مَنْ یُحِبُّ ، فَیَضْرِبُ عَلَی یَدِہِ ، فَتَکُونُ کَمَا کَانَتْ ، قَالَ : فَہَمَّ عُمَرُ أَنْ یُکَلِّمَ النَّاسَ ، قَالَ : فَقُلْتُ : لاَ تَفْعَلْ یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ ، فَإِنَّک بِبَلَدٍ قَدِ اجْتَمَعَتْ إِلَیْہِ أَفْنَائُ الْعَرَبِ کُلُّہَا ، وَإِنَّک إِنْ قُلْتَ مَقَالَۃً حُمِلَتْ عَنْک وَانْتَشَرَتْ فِی الأَرْضِ کُلِّہَا ، فَلَمْ تَدْرِ مَا یَکُونُ فِی ذَلِکَ ، وَإِنَّمَا یُعِینُک مَنْ قَدْ عَرَفْتَ أَنَّہُ سَیَصِیرُ إِلَی الْمَدِینَۃِ۔ فَلَمَّا قَدِمْنَا الْمَدِینَۃَ رُحْتُ مَہْجَرًا ، حَتَّی أَخَذْتُ عِضَادَۃَ الْمِنْبَرِ الْیُمْنَی ، وَرَاحَ إِلَیَّ سَعِیدُ بْنُ زَیْدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ نُفَیْلٍ ، حَتَّی جَلَسَ مَعِی ، فَقُلْتُ : لَیَقُولَنَّ ہَذَا الْیَوْمَ مَقَالَۃً ، مَا قَالَہَا مُنْذُ اُسْتُخْلِفَ ، قَالَ : وَمَا عَسَی أَنْ یَقُولَ ؟ قُلْتُ : سَتَسْمَعُ ذَلِکَ۔ قَالَ: فَلَمَّا اجْتَمَعَ النَّاسُ خَرَجَ عُمَرُ حَتَّی جَلَسَ عَلَی الْمِنْبَرِ، ثُمَّ حَمِدَ اللَّہَ وَأَثْنَی عَلَیْہِ، ثُمَّ ذَکَرَ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَصَلَّی عَلَیْہِ ، ثُمَّ قَالَ : إِنَّ اللَّہَ أَبْقَی رَسُولَہُ بَیْنَ أَظْہُرِنَا ، یَنْزِلُ عَلَیْہِ الْوَحْیُ مِنَ اللہِ، یُحِلُّ بِہِ وَیُحَرِّمُ ، ثُمَّ قَبَضَ اللَّہُ رَسُولَہُ ، فَرَفَعَ مِنْہُ مَا شَائَ أَنْ یَرْفَعَ ، وَأَبْقَی مِنْہُ مَا شَائَ أَنْ یُبْقِی ، فَتَشَبَّثْنَا بِبَعْضٍ ، وَفَاتَنَا بَعْضٌ ، فَکَانَ مِمَّا کُنَّا نَقْرَأُ مِنَ الْقُرْآنِ : لاَ تَرْغَبُوا عَنْ آبَائِکُمْ ، فَإِنَّہُ کُفْرٌ بِکُمْ أَنْ تَرْغَبُوا عَنْ آبَائِکُمْ ، وَنَزَلَتْ آیَۃُ الرَّجْمِ ، فَرَجَمَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَرَجَمْنَا مَعَہُ ، وَالَّذِی نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہِ ، لَقَدْ حَفِظْتُہَا وَعَلِمْتُہَا وَعَقَلْتہَا ، وَلَوْلاَ أَنْ یُقَالَ : کَتَبَ عُمَرُ فِی الْمُصْحَفِ مَا لَیْسَ فِیہِ ، لَکَتَبْتہَا بِیَدِی کِتَابًا ، وَالرَّجْمُ عَلَی ثَلاَثَۃِ مَنَازِلَ : حَمْلٌ بَیِّنٌ ، أَوِ اعْتِرَافٌ مِنْ صَاحِبِہِ ، أَوْ شُہُود عَدْلٌ ، کَمَا أَمَرَ اللَّہُ۔ وَقَدْ بَلَغَنِی أَنَّ رِجَالاً یَقُولُونَ فِی خِلاَفَۃِ أَبِی بَکْرٍ : أَنَّہَا کَانَتْ فَلْتَۃً ، وَلَعَمْرِی إِنْ کَانَتْ کَذَلِکَ ، وَلَکِنَّ اللَّہَ أَعْطَی خَیْرَہَا ، وَوَقَی شَرَّہَا ، وَأَیَّکُمْ ہَذَا الَّذِی تَنْقَطِعُ إِلَیْہِ الأَعَنْاقُ کَانْقِطَاعِہَا إِلَی أَبِی بَکْرٍ۔ إِنَّہُ کَانَ مِنْ شَأْنِ النَّاسِ : أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ تُوُفِّیَ ، فَأَتَیْنَا ، فَقِیلَ لَنَا : إِنَّ الأَنْصَارَ قَدِ اجْتَمَعَتْ فِی سَقِیفَۃِ بَنِی سَاعِدَۃَ مَعَ سَعْدِ بْنِ عُبَادَۃَ یُبَایِعُونَہُ ، فَقُمْتُ ، وَقَامَ أَبُو بَکْرٍ ، وَأَبُو عُبَیْدَۃَ بْنُ الْجَرَّاحِ نَحْوَہُمْ ، فَزِعِینَ أَنْ یُحْدِثُوا فِی الإِسْلاَمِ فَتْقًا ، فَلَقِیَنَا رَجُلاَنِ مِنَ الأَنْصَارِ ؛ رَجُلُ صِدْقٍ ، عُوَیْمُ بْنُ سَاعِدَۃَ ، وَمَعْن بْنُ عَدِی ، فَقَالاَ : أَیْنَ تُرِیدُونَ ؟ فَقُلْنَا : قَوْمَکُمْ ، لِمَا بَلَغَنَا مِنْ أَمْرِہِمْ ، فَقَالاَ : ارْجِعُوا فَإِنَّکُمْ لَنْ تُخَالِفُوا ، وَلَنْ یُؤْتَ شَیْئٌ تَکْرَہُونَہُ ، فَأَبَیْنَا إِلاَّ أَنْ نَمْضِی ، وَأَنَا أَزوّر کَلاَمًا أُرِیدُ أَنْ أَتَکَلَّمَ بِہِ ، حَتَّی انْتَہَیْنَا إِلَی الْقَوْمِ ، وَإِذَا ہُمْ عَکَر ہُنَالِکَ عَلَی سَعْدِ بْنِ عُبَادَۃَ ، وَہُوَ عَلَی سَرِیرٍ لَہُ مَرِیضٌ ، فَلَمَّا غَشَیْنَاہُمْ ، تَکَلَّمُوا فَقَالُوا : یَا مَعْشَرَ قُرَیْشٍ ، مِنَّا أَمِیرٌ وَمِنْکُمْ أَمِیرٌ ، فَقَامَ الْحُبَابُ بْنُ الْمُنْذِرِ ، فَقَالَ : أَنَا جُذَیْلُہَا الْمُحَکَّکُ ، وَعُذَیْقُہَا الْمُرَجَّبُ ، إِنْ شِئْتُمْ وَاللہِ رَدَدْنَاہَا جَذَعَۃً۔ فَقَالَ أَبُو بَکْرٍ : عَلَی رِسْلِکُمْ ، فَذَہَبْتُ لأَتَکَلَّمَ ، فَقَالَ : أَنْصِتْ یَا عُمَرُ ، فَحَمِدَ اللَّہَ وَأَثْنَی عَلَیْہِ ، ثُمَّ قَالَ : یَا مَعْشَرَ الأَنْصَارِ ، إِنَّا وَاللہِ مَا نُنْکِرُ فَضْلَکُمْ ، وَلاَ بَلاَئَکُمْ فِی الإِسْلاَمِ ، وَلاَ حَقَّکُمُ الْوَاجِبَ عَلَیْنَا ، وَلَکِنَّکُمْ قَدْ عَرَفْتُمْ أَنَّ ہَذَا الْحَیَّ مِنْ قُرَیْشٍ بِمَنْزِلَۃٍ مِنَ الْعَرَبِ ، لَیْسَ بِہَا غَیْرُہُمْ ، وَأَنَّ الْعَرَبَ لَنْ تَجْتَمِعَ إِلاَّ عَلَی رَجُلٍ مِنْہُمْ ، فَنَحْنُ الأُمَرَائُ وَأَنْتُمُ الْوُزَرَائُ ، فَاتَّقُوا اللَّہَ ، وَلاَ تَصَدَّعُوا الإِسْلاَمَ ، وَلاَ تَکُونُوا أَوَّلَ مَنْ أَحْدَثَ فِی الإِسْلاَمِ ، أَلاَ وَقَدْ رَضِیتُ لَکُمْ أَحَدَ ہَذَیْنِ الرَّجُلَیْنِ ، لِی وَلأَبِی عُبَیْدَۃَ بْنِ الْجَرَّاحِ ، فَأَیُّہُمَا مَا بَایَعْتُمْ فَہُوَ لَکُمْ ثِقَۃٌ ، قَالَ : فَوَاللہِ مَا بَقِیَ شَیْئٌ کُنْتُ أُحِبُّ أَنْ أَقُولَہُ إِلاَّ وَقَدْ قَالَہُ ، یَوْمَئِذٍ ، غَیْرَ ہَذِہِ الْکَلِمَۃِ، فَوَاللہِ لأَنْ أُقْتَلَ ، ثُمَّ أُحْیَی ، ثُمَّ أُقْتَلَ ، ثُمَّ أُحْیَی ، فِی غَیْرِ مَعْصِیَۃٍ ، أَحَبُّ إِلَیَّ مِنْ أَنْ أَکُونَ أَمِیرًا عَلَی قَوْمٍ فِیہِمْ أَبُو بَکْرٍ۔ قَالَ ، ثُمَّ قُلْتُ : یَا مَعْشَرَ الأَنْصَارِ ، یَا مَعْشَرَ الْمُسْلِمِینَ ، إِنَّ أَوْلَی النَّاسِ بِأَمْرِ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ بَعْدِہِ : {ثَانِیَ اثْنَیْنِ إِذْ ہُمَا فِی الْغَارِ} أَبُو بَکْرٍ السَّبَّاقُ الْمَتِینُ ، ثُمَّ أَخَذْتُ بِیَدِہِ ، وَبَادَرَنِی رَجُلٌ مِنَ الأَنْصَارِ فَضَرَبَ عَلَی یَدِہِ قَبْلَ أَنْ أَضْرِبَ عَلَی یَدِہِ ، ثُمَّ ضَرَبْتُ عَلَی یَدِہِ ، وَتَتَابَعَ النَّاسُ ، وَمِیلَ عَلَی سَعْدِ بْنِ عُبَادَۃَ ، فَقَالَ النَّاسُ : قُتِلَ سَعْدٌ ، فَقُلْتُ : اُقْتُلُوہُ ، قَتَلَہُ اللَّہُ ، ثُمَّ انْصَرَفْنَا ، وَقَدْ جَمَعَ اللَّہُ أَمْرَ الْمُسْلِمِینَ بِأَبِی بَکْرٍ ، فَکَانَتْ لَعَمْرُ اللہِ فَلْتَۃٌ کَمَا قُلْتُمْ ، أَعْطَی اللَّہُ خَیْرَہَا وَوَقَی شَرَّہَا ، فَمَنْ دَعَا إِلَی مِثْلِہَا ، فَہُوَ الَّذِی لاَ بَیْعَۃَ لَہُ ، وَلاَ لِمَنْ بَایَعَہُ۔ (بخاری ۲۴۸۴۔ ابوداؤد ۴۴۱۷)
(٣٨١٩٨) حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ میں عبد الرحمن بن عوف کے پاس آتا جاتا رہتا تھا اور (اس وقت) ہم حضرت عمر بن خطاب کے ساتھ مقام منیٰ میں تھے۔ میں عبد الرحمن بن عوف کو قرآن پڑھا تا تھا پس میں ان کے پاس منزل میں آیا تو میں نے انھیں نہیں پایا۔ کہا گیا کہ وہ امیر المؤمنین کے پاس ہیں۔ چنانچہ میں ان کا انتظار کرنے لگا یہاں تک کہ وہ آگئے اور انھوں نے بتایا۔ آج حضرت عمر کو اتنا شدید غصہ آیا تھا کہ اس سے پہلے کبھی ان کو اتنا غصہ نہیں آیا۔ ابن عباس کہتے ہیں : میں نے پوچھا : یہ کیوں ؟ عبد الرحمن بن عوف نے جواب دیا۔ حضرت عمر کو یہ بات پہنچی کہ انصار میں سے دو آدمیوں نے حضرت ابوبکر کی بیعت کا ذکر کیا تو پھر ان دونوں نے کہا۔ بخدا ! ان کی بیعت تو اچانک ہوگئی تھی۔
وہ اس کے ہاتھ پر مارتا پھر جو ہوتا سو ہوتا۔ راوی کہتے ہیں : پھر حضرت عمر نے لوگوں سے گفتگو کرنے کا ارادہ کیا۔ راوی کہتے ہیں : میں نے عرض کیا۔ اے امیر المؤمنین ! آپ (ابھی) گفتگو نہ کریں کیونکہ آپ (اس وقت) ایسے شہر میں ہیں کہ آپ کے پاس تمام عرب کے دور دراز غیر معروف علاقوں کے لوگ جمع ہیں۔ اور آپ اگر (اب) کوئی بھی بات کریں گے تو وہ آپ سے منسوب ہو کر تمام زمین میں پھیل جائے گی۔ پھر آپ کو نہیں معلوم کہ کیا ہوگا۔ آپ کے مطلب کے لوگ تو وہی ہیں جن کو آپ جانتے ہیں کہ وہ مدینہ واپس جائیں گے۔
٢۔ پھر جب ہم مدینہ میں آئے تو میں سویرے سویرے چلا گیا یہاں تک کہ میں نے منبر کے دائیں پائے (کے ساتھ جگہ) پکڑ لی۔ پھر حضرت سعید بن زید بن عمرو بن نفیل بھی میری طرف آئے یہاں تک کہ وہ بھی میرے ساتھ بیٹھ گئے ۔ میں نے (ان سے) کہا۔ آج کے دن حضرت عمر ایسی گفتگو کریں گے کہ ویسی گفتگو انھوں نے خلیفہ بننے کے بعد سے کبھی نہیں کی۔ سعید نے پوچھا۔ وہ کیسی بات کریں گے ؟ میں نے جواب دیا، ابھی تم وہ بات سُن لو گے۔
ٍ ٣۔ راوی کہتے ہیں : پھر جب لوگ جمع ہوگئے تو حضرت عمر باہر تشریف لائے یہاں تک کہ آپ منبر پر بیٹھ گئے۔ آپ نے اللہ تعالیٰ کی حمدو ثنا بیان کی پھر آپ نے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ذکر کیا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر درود پڑھا۔ پھر آپ نے فرمایا : یقیناً اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہمارے درمیان باقی رکھا ان پر اللہ کی جانب سے وحی نازل ہوتی تھی اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کے ذریعہ حلال و حرام بیان کرتے تھے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو (کی روح کو) قبض کرلیا پس جو کچھ ان کے ہمراہ اللہ نے اٹھانا چاہا وہ اٹھا لیا ۔ اور جس کو اللہ نے باقی رکھنا چاہا تھا اس کو باقی رکھا۔ چنانچہ بعض باتوں کے ساتھ تو ہم وابستہ رہے اور بعض باتیں ہم سے فوت ہوگئیں۔ پس ہم قرآن میں سے جو کچھ پڑھتے تھے اس میں یہ بھی تھا۔ ولا ترغبوا عن آباء کم فانہ کفر بکم ان ترغبوا عن آباء کم۔ اور رجم کی آیت بھی نازل ہوئی تھی۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے رجم بھی کیا تھا اور ہم نے بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہمراہ رجم کیا تھا۔ قسم اس ذات کی جس کے قبضہ میں محمد کی جان ہے ! بلاشبہ میں نے (خود) اس آیت کو یاد کیا تھا اور اس کو سمجھا تھا اور معلوم کیا تھا۔ اگر اس بات کا ڈر نہ ہوتا کہ کہا جائے گا۔ عمر نے قرآن میں اس بات کو لکھا جو اس میں سے نہیں ہے تو البتہ میں اس آیت رجم کو اپنے ہاتھوں سے لکھتا۔ رجم کی تین حالات ہیں۔ واضح حمل ہو۔ یا زانی کی طرف سے اقرار ہو یا عادل گواہ ہوں۔ جیسا کہ حکم خداوندی ہے۔
٤۔ مجھے یہ خبر پہنچی ہے کہ کچھ لوگوں نے حضرت ابوبکر کی خلافت کے بارے میں یہ بات کہی ہے کہ یہ تو اچانک ہوگئی تھی۔ میری عمر کی قسم ! اگرچہ بات ایسی ہی تھی لیکن اللہ تعالیٰ نے اس کی خلافت کی خیر و برکت عطا فرمائی اور اس کے شر سے محفوظ فرما لیا۔ تم میں سے کون سا آدمی ہے جس کے لیے (لوگوں کی) گردنیں یوں خم ہوجائیں جیسا کہ حضرت ابوبکر کے لیے خم ہوگئیں تھیں۔
٥۔ یقیناً لوگوں کا معاملہ کچھ ایسا تھا کہ (جب) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وفات پا گئے تو ہمارے پاس معاملہ لایا گیا اور ہمیں کہا گیا۔ انصار، سعد بن عبادہ کے پاس بنو ساعدہ میں جمع ہیں اور سعد کی بیعت کر رہے ہیں۔ چنانچہ میں، حضرت ابوبکر ، حضرت ابو عبیدہ بن جرا ح ان کی طرف پریشانی کے عالم میں اٹھ کھڑے ہوئے کہ (مبادا) وہ اسلام میں کوئی دراڑ پیدا کردیں۔ پس ہمیں انصار ہی میں سے دو سچے آدمی ملے ۔ عویم بن ساعدہ اور معن بن عدی۔ انھوں نے پوچھا : تم کہاں جا رہے ہو ؟ ہم نے کہا : تمہاری قوم کے پاس، کیونکہ ہمیں ان کے بارے میں کوئی بات پہنچی ہے۔ ان دونوں نے کہا۔ واپس چلے جاؤ کیونکہ تمہاری مخالفت نہیں کی جائے گی اور ایسی چیز نہیں لائی جائے گی جس کو تم ناپسند کرو۔ لیکن ہم نے آگے جانے پر ہی اصرار کیا۔ اور میں (عمر ) وہ کلام تیار کررہا تھا جس کے بارے میں میرا ارادہ بیان کا تھا ۔ یہاں تک کہ ہم ان لوگوں کے پاس پہنچ گئے وہ لوگ تو سارے کے سارے حضرت سعد بن عبادہ پر جھکے ہوئے تھے اور حضرت سعد بن عبادہ اپنے تخت پر تشریف فرما تھے۔ اور بیمار تھے۔ پس جب ہم اوپر سے ان لوگوں کے پاس پہنچے تو انھوں نے بات شروع کی اور کہنے لگے ۔ اے گروہ قریش ! ایک امرن ہم میں سے ہوگا اور ایک امیر تم میں سے ہوگا۔ اس پر حضرت حباب بن منذر کھڑے ہوئے اور فرمایا۔ میں ذی رائے اور معتمد لوگوں میں سے ہوں۔ اگر تم چاہو۔
٦۔ پھر حضرت ابوبکر نے کہا۔ اپنی حالت پر رہو۔ پس میں نے گفتگو کرنا چاہی تو حضرت ابوبکر نے فرمایا : اے عمر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! خاموش رہو، پھر حضرت ابوبکر نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کی اور پھر کہا۔ اے گروہ انصار ! خدا کی قسم ! ہم تمہاری فضیلت کے منکر نہیں ہیں اور نہ ہی اسلام کے بارے میں تمہاری محنت و مشقت کے منکر ہیں۔ اور نہ ہی خود پر واجب تمہارے حق کے منکر ہیں۔ لیکن یقیناً تم جانتے ہو کہ یہ قبیلہ قریش پورے عرب میں اس مقام پر ہے جس پر اس کے علاوہ کوئی قبیلہ نہیں ہے۔ اور عرب کے لوگ قریش ہی کے کسی آدمی پر جمع ہوں گے۔ پس ہم (میں سے) امراء ہوں گے اور تم (میں سے) وزراء ہوں گے۔ پس اللہ سے ڈرو اور اسلام میں دراڑ نہ ڈالو۔ اور اسلام میں نئی بات ایجاد کرنے والے نہ بنو۔ اور بغور یہ بات سنو کہ مجھے تمہارے لیے ان دو افراد میں سے کسی ایک پر راضی ہوں۔ مراد میں (عمر ) تھا اور حضرت ابو عبیدہ بن جراح ۔ پس ان دونوں میں سے جس پر بھی تم بیعت کرلو تو وہ تمہارے لیے ثقہ ہے۔ حضرت عمر کہنے لگے۔ خدا کی قسم ! جو بات کہنا مجھے پسند تھا حضرت ابوبکر نے ان میں سے کوئی بات نہ چھوڑی بلکہ سب کہہ دی۔ سوائے آخری بات کے ۔ خد ا کی قسم ! میں غیر معصیت کی حالت میں قتل کیا جاؤں اور پھر زندہ کیا جاؤں پھر قتل کیا جاؤں پھر زندہ کیا جاؤں تو بھی مجھے یہ بات اس سے زیادہ محبوب ہے کہ میں ایسی قوم پر امیر بنوں جس میں حضرت ابوبکر موجود ہوں۔
٨۔ حضرت عمر کہتے ہیں : پھر میں نے عرض کیا۔ اے گروہ انصار ! اے گروہ مسلمین ! رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے معاملہ (یعنی خلافت) کا لوگوں میں سے سب سے زیادہ حق دار آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد وہ ہیں جو غاز میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہمرا ہ تھے۔ یعنی حضرت ابوبکر جو ہر میدان میں سبقت رکھنے والے اور مضبوط ہیں۔ پھر میں نے آپ کا ہاتھ پکڑا (پکڑنا چاہا) لیکن انصار میں سے ایک آدمی مجھ سے پہل کر گیا پس اس نے حضرت ابوبکر کے ہاتھ پر ہاتھ مارا قبل اس کے کہ میں حضرت ابوبکر کے ہاتھ پر ہاتھ مارتا۔ پھر میں نے حضرت ابوبکر کے ہاتھ پر ہاتھ مارا (یعنی بیعت کی) اور پھر دیگر لوگوں نے تسلسل کے ساتھ بیعت کی۔ اور حضرت سعد بن عبادہ کے ساتھ ایسے زیادتی ہوگئی اور لوگوں نے کہا۔ حضرت سعد قتل ہوگئے ۔ میں نے کہا۔ ان کو قتل (ہی) کردو۔ اللہ ان کو قتل کرے۔ پھر ہم (وہاں سے) واپس پلٹ گئے اور تحقیق اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے معاملہ کو حضرت ابوبکر (کے ہاتھ) پر جمع کردیا تھا۔ پس خدا کی قسم ! خلافتِ (صدیقی) تھی تو اچانک ہی جیسا کہ تم کہتے ہو (لیکن) اللہ تعالیٰ نے اسی کی خیر و برکت (امت کو) عطا کردی اور اس کے شر سے (امت کو) بچا لیا۔ پس (اب) جو آدمی ایسی بیعت (خلافت) کا داعی ہو تو اس کی بیعت نہ ہوگی اور نہ ہی بیعت کرنے والوں کی بیعت ہوگی۔

38198

(۳۸۱۹۹) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَنْ زَائِدَۃَ ، عَنْ عَاصِمِ ، عَنْ زِرٍّ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : لَمَّا قُبِضَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَتِ الأَنْصَارُ : مِنَّا أَمِیرٌ وَمِنْکُمْ أَمِیرٌ ، قَالَ : فَأَتَاہُمْ عُمَرُ، فَقَالَ: یَا مَعَاشِرَ الأَنْصَارِ، أَلَسْتُمْ تَعْلَمُونَ أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَمَرَ أَبَا بَکْرٍ أَنْ یُصَلِّیَ بِالنَّاسِ؟ قَالَوا: بَلَی ، قَالَ: فَأَیُّکُمْ تَطِیبُ نَفْسُہُ أَنْ یَتَقَدَّمَ أَبَا بَکْرٍ ؟ فَقَالُوا : نَعُوذُ بِاللہِ أَنْ نَتَقَدَّمَ أَبَا بَکْرٍ۔
(٣٨١٩٩) حضرت عبداللہ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (کی روح مبارکہ) قبض ہوئی تو انصار نے کہا۔ ایک امیر ہم میں سے ہوگا اور ایک امیر تم (مہاجرین) میں سے ہوگا۔ راوی کہتے ہیں : حضرت عمر ان کے پاس آئے اور فرمایا : اے گروہانِ انصار ! کیا تمہیں یہ بات معلوم نہیں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت ابوبکر کو یہ حکم دیا تھا کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں ؟ انصار نے کہا۔ کیوں نہیں ! حضرت عمر نے کہا۔ پھر تم میں سے کس کا دل اس بات پر خوش ہے کہ وہ ابوبکر سے آگے بڑھے۔ انصار کہنے لگے۔ ہم اللہ سے اس بات کی پناہ مانگتے ہیں کہ ہم ابوبکر سے آگے بڑھیں۔

38199

(۳۸۲۰۰) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ بْنُ عُمَرَ ، حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ أَسْلَمَ ، عْن أَبِیہِ أَسْلَمَ ؛ أَنَّہُ حِینَ بُویِعَ لأَبِی بَکْرٍ بَعْدَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، کَانَ عَلِیٌّ وَالزُّبَیْرُ یَدْخُلاَنِ عَلَی فَاطِمَۃَ بِنْتِ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَیُشَاوِرُونَہَا وَیَرْتَجِعُونَ فِی أَمْرِہِمْ ، فَلَمَّا بَلَغَ ذَلِکَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ خَرَجَ حَتَّی دَخَلَ عَلَی فَاطِمَۃَ ، فَقَالَ : یَا بِنْتَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَاللہِ مَا مِنَ الْخَلْقِ أَحَدٌ أَحَبَّ إِلَیْنَا مِنْ أَبِیک ، وَمَا مِنْ أَحَدٍ أَحَبَّ إِلَیْنَا بَعْدَ أَبِیک مِنْک ، وَأَیْمُ اللہِ ، مَا ذَاکَ بِمَانِعِیَّ إِنِ اجْتَمَعَ ہَؤُلاَئِ النَّفَرُ عِنْدَکِ ، أَنْ آمُرَ بِہِمْ أَنْ یُحَرَّقَ عَلَیْہِمُ الْبَیْتُ۔ قَالَ : فَلَمَّا خَرَجَ عُمَرُ جَاؤُوہَا ، فَقَالَتْ : تَعْلَمُونَ أَنَّ عُمَرَ قَدْ جَائَنِی ، وَقَدْ حَلَفَ بِاللہِ لَئِنْ عُدْتُمْ لَیُحَرِّقَنَّ عَلَیْکُمُ الْبَیْتَ ، وَأَیْمُ اللہِ ، لَیَمْضِیَنَّ لِمَا حَلَفَ عَلَیْہِ ، فَانْصَرِفُوا رَاشِدِینَ ، فَرُوْا رَأْیَکُمْ ، وَلاَ تَرْجِعُوا إِلَیَّ ، فَانْصَرَفُوا عنہا ، فَلَمْ یَرْجِعُوا إِلَیْہَا ، حَتَّی بَایَعُوا لأَبِی بَکْرٍ۔
(٣٨٢٠٠) حضرت زید بن اسلم اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (کی وفات) کے بعد جب حضرت ابوبکر کی بیعت کی گئی تو حضرت علی اور حضرت زبیر ، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیٹی حضرت فاطمہ کے ہاں آنے جانے لگے اور ان سے مشاورت کرنے لگے اور اپنے معاملہ (خلافت) میں ان سے تقاضا کرنے لگے۔ پس جب یہ بات حضرت عمر بن خطاب کو پہنچی تو آپ نکل کھڑے ہوئے یہاں تک کہ آپ حضرت فاطمہ کے ہاں داخل ہوئے اور فرمایا : اے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیٹی ! خدا کی قسم ! تمام مخلوق میں ہمیں تمہارے والد سے زیادہ کوئی محبوب نہیں ۔ اور آپ کے بعد والد کے بعد ہمیں آپ سے زیادہ کوئی محبوب نہیں۔ خدا کی قسم ! (لیکن) اگر یہ آپ کے پاس (دوبارہ) جمع ہوئے تو مجھے یہ (محبت والی) بات اس سے مانع نہیں ہوگی کہ میں لوگوں کو حکم دوں اور ان تمام (گھر میں موجود) افراد پر گھر کو جلا دیا جائے۔ راوی کہتے ہیں : پس جب حضرت عمر باہر چلے گئے تو یہ حضرات بی بی فاطمہ کے پاس آئے۔ حضرت فاطمہ نے فرمایا : تمہیں معلوم ہے کہ حضرت عمر میرے پاس آئے تھے۔ اور انھوں نے خدا کی قسم کھا کر کہا ہے کہ اگر تم لوگ دوبارہ جمع ہوئے تو وہ ضرور بالضرور تمہیں گھر میں جلا دیں گے۔ اور خدا کی قسم ! حضرت عمر نے جو کہا ہے وہ اس کو ضرور پورا کریں گے۔ پس تم لوگ اچھی حالت میں ہی واپس چلے جاؤ۔ اور اپنی رائے کو دیکھ لو۔ میری طرف واپس نہ آنا چنانچہ لوگ وہاں سے واپس ہوگئے اور جب تک ان لوگوں نے حضرت ابوبکر کی بیعت نہیں کی یہ (فاطمہ کے پاس) واپس نہیں آئے۔

38200

(۳۸۲۰۱) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ؛ أَنَّ أَبَا بَکْرٍ وَعُمَرَ لَمْ یَشْہَدَا دَفْنَ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، کَانَا فِی الأَنْصَارِ ، فَبُویِعَا قَبْلَ أَنْ یَرْجِعَا۔
(٣٨٢٠١) حضرت ہشام بن عروہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دفن میں حاضر نہیں تھے۔ یہ دونوں انصار میں موجود تھے۔ پس ان کے واپس آنے سے پہلے ان کی بیعت ہوگئی ۔

38201

(۳۸۲۰۲) حَدَّثَنَا ابْنُ إِدْرِیسَ ، عَنِ ابْنِ عَجْلاَنَ ، عَنْ زَیْدِ بْنِ أَسْلَمَ ، عْن أَبِیہِ ، قَالَ : دَخَلَ عُمَرُ عَلَی أَبِی بَکْرٍ وَہُوَ آخِذٌ بِلِسَانِہِ یُنَضْنِضُہُ ، فَقَالَ لَہُ عُمَرُ : اللَّہَ اللَّہَ یَا خَلِیفَۃَ رَسُولِ اللہِ ، وَہُوَ یَقُولُ : ہَاہْ ، إِنَّ ہَذَا أَوْرَدَنِی الْمَوَارِدَ۔
(٣٨٢٠٢) حضرت زید بن اسلم اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمر ، حضرت ابوبکر کے پاس حاضر ہوئے تو (دیکھا کہ) حضرت ابوبکر اپنی زبان کو پکڑے ہوئے تھے اور اس کو ہلا رہے تھے۔ حضرت عمر نے کہا۔ اے خلیفہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! اللہ سے ڈرو، اللہ سے ڈرو۔ حضرت ابوبکر کہنے لگے۔ ہاں اسی زبان نے مجھے بہت سے گھاٹوں پر اتارا ہے۔

38202

(۳۸۲۰۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ نَافِعِ بْنِ عُمَرَ ، عَنِ ابْنِ أَبِی مُلَیْکَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَجُلٌ لأَبِی بَکْرٍ : یَا خَلِیفَۃَ اللہِ ، قَالَ : لَسْتُ بِخَلِیفَۃِ اللہِ ، وَلَکِنِّی خَلِیفَۃُ رَسُولِ اللہِ ، أَنَا رَاضٍ بِذَلِکَ۔
(٣٨٢٠٣) حضرت ابن ابی ملیکہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے حضرت ابوبکر سے کہا۔ اے خلیفۃ اللہ ! حضرت ابوبکر نے کہا۔ میں خلیفۃ اللہ نہیں ہوں۔ بلکہ میں خلیفہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہوں اور میں اس پر راضی ہوں۔

38203

(۳۸۲۰۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ عُمَیْرٍ ، عَنْ مَوْلًی لِرِبْعِیِّ بْنِ حِرَاشٍ ، عَنْ رِبْعِیٍّ ، عَنْ حُذَیْفَۃَ ، قَالَ : کُنَّا جُلُوسًا عِنْدَ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : إِنِّی لاَ أَدْرِی مَا قَدْرُ بَقَائِی فِیکُمْ ، فَاقْتَدُوا بِاللَّذَیْنِ مِنْ بَعْدِی ، وَأَشَارَ إِلَی أَبِی بَکْرٍ وَعُمَرَ ، وَاہْتَدُوا بِہَدْیِ عَمَّارٍ ، وَمَا حَدَّثَکُمُ ابْنُ مَسْعُودٍ مِنْ شَیْئٍ فَصَدِّقُوہُ۔
(٣٨٢٠٤) حضرت حذیفہ سے روایت ہے کہ ہم نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس بیٹھے ہوئے تھے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا۔” میں نہیں جانتا کہ میری تم میں رہنے کی مقدار کتنی باقی ہے۔ پس تم ان دونوں کی اقتداء کرنا جو میرے بعد (خلیفہ) ہوں گے۔ “ اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کی طرف اشارہ فرمایا : ” اور حضرت عمار کے طریقہ کے مطابق چلنا۔ اور جو حدیث تم کو ابن مسعود بیان کرے تو اس کی تصدیق کرو۔ “

38204

(۳۸۲۰۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سَالِمٍ الْمُرَادِیِّ أَبِی الْعَلاَئِ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ ہَرِمٍ ، عَنْ رِبْعِیِّ بْنِ حِرَاشٍ ، وَأَبِی عَبْدِ اللہِ ، رَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ حُذَیْفَۃَ ، عَنْ حُذَیْفَۃَ ، قَالَ : کُنَّا جُلُوسًا عِنْدَ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَذَکَرَ مِثْلَ حَدِیثِ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ عُمَیْرٍ، إِلاَّ إِنَّہُ قَالَ: تَمَسَّکُوا بِعَہْدِ ابْنِ أُمِّ عَبْدٍ۔ (ترمذی ۳۶۶۳۔ ابن سعد ۳۳۴)
(٣٨٢٠٥) حضرت حذیفہ سے روایت ہے کہ ہم نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے۔ پھر (اس کے بعد) انھوں نے عبد الملک بن عمیر کی طرح ہی حدیث بیان کی ۔۔۔ لیکن انھوں نے یہ بھی کہا۔ اور ابن ام عبد کے عہد کو مضبوطی سے پکڑو۔

38205

(۳۸۲۰۶) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، عَنْ مُحَمَّدٍ ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ بَنِی زُرَیْقٍ ، قَالَ : لَمَّا کَانَ ذَلِکَ الْیَوْمُ خَرَجَ أَبُو بَکْرٍ ، وَعُمَرُ حَتَّی أَتَیَا الأَنْصَارَ ، فَقَالَ أَبُو بَکْرٍ : یَا مَعْشَرَ الأَنْصَارِ ، إِنَّا لاَ نُنْکِرُ حَقَّکُمْ ، وَلاَ یُنْکِرُ حَقَّکُمْ مُؤْمِنٌ ، وَإِنَّا وَاللہِ مَا أَصَبْنَا خَیْرًا إِلاَّ مَا شَارَکْتُمُونَا فِیہِ ، وَلَکِنْ لاَ تَرْضَی الْعَرَبُ وَلاَ تُقِرُّ إِلاَّ عَلَی رَجُلٍ مِنْ قُرَیْشٍ ، لأَنَّہُمْ أَفْصَحُ النَّاسِ أَلْسِنَۃً ، وَأَحْسَنُ النَّاسِ وُجُوہًا ، وَأَوْسَطُ الْعَرَبِ دَارًا ، وَأَکْثَرُ النَّاسِ شُِجِنۃً فِی الْعَرَبِ ، فَہَلُمُّوا إِلَی عُمَرَ فَبَایِعُوہُ ، قَالَ : فَقَالُوا : لاَ ، فَقَالَ عُمَرُ : لِمَ ؟ فَقَالُوا : نَخَافُ الأَثَرَۃَ ، قَالَ عُمَرُ : أَمَّا مَا عِشْتُ فَلاَ ، قَالَ : فَبَایِعُوا أَبَا بَکْرٍ۔ فَقَالَ أَبُو بَکْرٍ لِعُمَرَ : أَنْتَ أَقْوَی مِنِّی ، فَقَالَ عُمَرُ : أَنْتَ أَفْضَلُ مِنِّی ، فَقَالاَہَا الثَّانِیَۃَ ، فَلَمَّا کَانَتِ الثَّالِثَۃُ ، قَالَ لَہُ عُمَرُ : إِنَّ قُوَّتِی لَک مَعَ فَضْلِکَ ، قَالَ : فَبَایَعُوا أَبَا بَکْرٍ۔ قَالَ مُحَمَّدٌ : وَأَتَی النَّاسُ عِنْدَ بَیْعَۃِ أَبِی بَکْرٍ أَبَا عبَیْدَۃَ بْنَ الْجَرَّاحِ ، فَقَالَ : أَتَأْتُونِی وَفِیکُمْ ثَالِثُ ثَلاَثَۃٍ ، یَعَنْی أَبَا بَکْرٍ۔ قَالَ ابْنُ عَوْنٍ : فَقُلْتُ لِمُحَمَّدٍ : مَنْ ثَالِثُ ثَلاَثَۃٍ ، قَالَ : قَوْلُ اللہِ : {ثَانِیَ اثْنَیْنِ إِذْ ہُمَا فِی الْغَارِ}۔
(٣٨٢٠٦) بنو زریق کے ایک آدمی سے روایت ہے کہ جب یہ دن تھا تو حضرت ابوبکر اور حضرت عمر نکلے یہاں تک کہ وہ انصار کے پاس آئے۔ حضرت ابوبکر نے کہا۔ اے گروہ انصار ! یقیناً ہم تمہارے حق کے منکر نہیں ہیں اور نہ ہی کوئی مؤمن تمہارے حق کا منکر ہوسکتا ہے۔ اور خدا کی قسم ! بلاشبہ ہم نے جو خیر بھی حاصل کی ہے تم اس میں ہمارے ساتھ شریک تھے۔ لیکن قریش کے آدمی کے علاوہ کسی اور آدمی پر اہل عرب راضی ہوں گے اور نہ قرار پکڑیں گے۔ کیونکہ قریش کے لوگ سب سے زیادہ فصیح اللسان ہیں اور تمام لوگوں سے زیادہ خوبصورت چہرے والے ہں ۔ اور اہل عرب میں سے سب سے وسیع گھر والے ہیں اور عرب کے لوگوں میں سب سے زیادہ باعزت ہیں۔ پس تم آؤ عمر کی طرف اور ان کی بیعت کرو۔ راوی کہتے ہیں : انصار نے کہا : نہیں ! حضرت عمر نے پوچھا : کیوں ؟ انصار نے جواب دیا ۔ ہمیں ترجیح دیے جانے کا اندیشہ ہے۔ حضرت عمر نے کہا۔ بہرحال جب تک میں زندہ ہوں تب تک تو (یہ) نہیں ہوگا۔ حضرت عمر نے کہا۔ چلو پھر حضرت ابوبکر کی بیعت کرلو۔
٢۔ حضرت ابوبکر نے حضرت عمر سے کہا۔ تم مجھ سے زیادہ قوی ہو۔ حضرت عمر نے (جواباً ) فرمایا : آپ مجھ سے زیادہ فضیلت رکھتے ہیں۔ پھر دوبارہ ان دونوں حضرات نے باہم ان جملوں کا تکرار کیا۔ پھر جب تیسری مرتبہ یہ بات ہوئی تو حضرت عمر نے حضرت ابوبکر سے کہا۔ یقیناً میری قوت بھی آپ کے لیے ہے اور اس کے ساتھ آپ کو فضیلت بھی حاصل ہے۔ چنانچہ لوگوں نے حضرت ابوبکر کی بیعت کرلی۔
٣۔ محمد کہتے ہیں کہ حضرت ابوبکر کی بیعت کے وقت لوگ حضرت ابو عبیدہ بن الجراح کے پاس گئے تو انھوں نے فرمایا۔ تم لوگ میرے پاس آئے ہو حالانکہ تم میں تین میں سے تیسرا موجود ہے یعنی حضرت ابوبکر ۔
٤۔ ابن عون کہتے ہیں : میں نے محمد سے پوچھا۔ تین میں سے تیسرا کون ہے ؟ انھوں نے جواب دیا : ارشاد خداوندی ہے۔ { ثَانِیَ اثْنَیْنِ إِذْ ہُمَا فِی الْغَارِ }۔

38206

(۳۸۲۰۷) حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ ، عَنْ أَبِی الْعُمَیْسِ ، عَنِ ابْنِ أَبِی مُلَیْکَۃَ ، قَالَ : سَمِعْتُ عَائِشَۃَ وَسُئِلَتْ : یَا أُمَّ الْمُؤْمِنِینَ ، مَنْ کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَسْتَخْلِفُ ، أَوِ اسْتَخْلَفَ ؟ قَالَتْ : أَبُو بَکْرٍ ، قَالَ : ثُمَّ قِیلَ لَہَا: ثُمَّ مَنْ؟ قَالَتْ : ثُمَّ عُمَرُ ، قِیلَ: مَنْ بَعْدَ عُمَرَ ؟ قَالَتْ: أَبُو عُبَیْدَۃَ بْنُ الْجَرَّاحِ ، ثُمَّ انْتَہَتْ إِلَی ذَلِکَ۔
(٣٨٢٠٧) حضرت ابن ابی ملیکہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت عائشہ سے سنا اور (ان سے) سوال کیا گیا تھا۔ اے ام المؤمنین ! اگر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خلیفہ بناتے تو کس کو خلیفہ بناتے ؟ انھوں نے جواب دیا ۔ حضرت ابوبکر کو۔ راوی کہتے ہیں : پھر آپ سے پوچھا گیا۔ پھر ابوبکر کے بعد کس کو ؟ حضرت عائشہ نے جواب دیا۔ پھر عمر کو ۔ پوچھا گیا۔ حضرت عمر کے بعد کس کو ؟ حضرت عائشہ نے جواب دیا ۔ حضرت ابو عبیدہ بن الجراح کو۔ پھر حضرت عائشہ یہاں پہنچ کر رک گئیں۔

38207

(۳۸۲۰۸) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ سَلْعٍ ، عَنْ عَبْدِ خَیْرٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ عَلِیًّا یَقُولُ: قُبِضَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَی خَیْرِ مَا قُبِضَ عَلَیْہِ نَبِیٌّ مِنَ الأَنْبِیَائِ ، وَأَثْنَی عَلَیْہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : ثُمَّ اسْتُخْلِفَ أَبُو بَکْرٍ ، فَعَمِلَ بِعَمَلِ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَبِسُنَّتِہِ ، ثُمَّ قُبِضَ أَبُو بَکْرٍ عَلَی خَیْرِ مَا قُبِضَ عَلَیْہِ أَحَدٌ ، وَکَانَ خَیْرَ ہَذِہِ الأُمَّۃِ بَعْدَ نَبِیِّہَا صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، ثُمَّ اسْتُخْلِفَ عُمَرُ ، فَعَمِلَ بِعَمَلِہِمَا وَسُنَّتِہِمَا، ثُمَّ قُبِضَ عَلَی خَیْرِ مَا قُبِضَ عَلَیْہِ أَحَدٌ، وَکَانَ خَیْرَ ہَذِہِ الأُمَّۃِ بَعْدَ نَبِیِّہَا وَبَعْدَ أَبِی بَکْرٍ۔
(٣٨٢٠٨) حضرت عبد خیر سے روایت ہے کہ میں نے حضرت علی کو یہ کہتے سنا کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس بہترین حالت میں موت آئی جس بہترین حالت پر انبیاء کرام کو موت آتی ہے۔ پھر حضرت علی نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعریف بیان کی۔ (پھر) حضرت علی نے کہا۔ اس کے بعد حضرت ابوبکر کو خلیفہ بنایا گیا پس انھوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عمل اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت کے مطابق کام کیا۔ پھر حضرت ابوبکر کی موت بھی اس بہترین حالت میں آئی جس پر کسی آدمی کی بہترین موت آسکتی ہے۔ اور حضرت ابوبکر اس امت میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد سب سے بہترین شخص تھے۔ پھر حضرت عمر کو خلیفہ بنایا گیا چنانچہ انھوں نے بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ابوبکر کے عمل اور سنت کے مطابق عمل کیا پھر ان کو بھی اس بہترین حالت میں موت آئی جس پر کسی بھی آدمی کو بہترین موت آسکتی ہے۔ اور حضرت عمر اس امت میں ، نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور حضرت ابوبکر کے بعد سب سے بہترین شخص تھے۔

38208

(۳۸۲۰۹) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ سُفْیَانَ بْنِ حُسَیْنٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُتْبَۃَ ، قَالَ : لَمَّا ارْتَدَّ مَنِ ارْتَدَّ عَلَی عَہْدِ أَبِی بَکْرٍ ، أَرَادَ أَبُو بَکْرٍ أَنْ یُجَاہِدَہُمْ ، فَقَالَ لَہُ عُمَرُ : أَتُقَاتِلُہُمْ وَقَدْ سَمِعْت رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : مَنْ شَہِدَ أَنْ لاَ إِلَہَ إِلاَّ اللَّہُ ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللہِ حَرُمَ مَالُہُ وَدَمُہُ إِلاَّ بِحَقِّہِ ، وَحِسَابُہُ عَلَی اللہِ ؟ فَقَالَ أَبُو بَکْرٍ : أَنَّی لاَ أُقَاتِلُ مَنْ فَرَّقَ بَیْنَ الصَّلاَۃِ وَالزَّکَاۃِ ؟ وَاللہِ، لأُقَاتِلَنَّ مَنْ فَرَّقَ بَیْنَہُمَا حَتَّی أَجْمَعَہُمَا ، قَالَ عُمَرُ : فَقَاتَلْنَا مَعَہُ ، فَکَانَ وَاللہِ رَشَدًا ، فَلَمَّا ظَفِرَ بِمَنْ ظَفِرَ بِہِ مِنْہُمْ ، قَالَ : اخْتَارُوا بَیْنَ خِطَّتَیْنِ : إِمَّا حَرْبٌ مُجَلِّیَۃٌ ، وَإِمَّا الْخُطَّۃُ الْمُخْزِیَۃُ ، قَالَوا : ہَذِہِ الْحَرْبُ الْمُجَلِّیَۃُ قَدْ عَرَفْنَاہَا ، فَمَا الْخُطَّۃُ الْمُخْزِیَۃُ ؟ قَالَ : تَشْہَدُونَ عَلَی قَتْلاَنَا أَنَّہُمْ فِی الْجَنَّۃِ ، وَعَلَی قَتْلاَکُمْ أَنَّہُمْ فِی النَّارِ ۔ فَفَعَلُوا۔
(٣٨٢٠٩) حضرت عبید اللہ بن عبداللہ بن عتبہ سے روایت ہے کہ حضرت ابوبکر کے زمانہ میں مرتد ہونے والے لوگ مرتد ہوئے تو حضرت ابوبکر نے ان سے قتال کرنے کا ارادہ فرمایا۔ حضرت عمر نے حضرت ابوبکر سے کہا ۔ کیا آپ ان سے قتال کریں گے حالانکہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کہتے ہوئے سُنا ہے کہ : ” جو شخص گواہی دے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں تو اس کا مال اور اس کا خون حرمت حاصل کرلیتا ہے مگر حق کے بدلے میں (حرمت ختم ہوسکتی ہے) اور اس کا (باطنی) حساب اللہ کے ذمہ ہے “ ؟ حضرت ابوبکر نے فرمایا۔ میں کیسے اس آدمی سے قتال نہ کروں جو نماز اور زکوۃ میں فرق کرتا ہے ؟ خدا کی قسم ! میں تو ضرور بالضرور اس آدمی سے قتال کروں گا جو ان دونوں میں فرق کرے گا یہاں تک کہ وہ ان دونوں کو جمع کرلے۔ حضرت عمر کہتے ہیں۔ پھر ہم نے حضرت ابوبکر کے ہمراہ قتال کیا۔ پس خدا کی قسم ! حضرت ابوبکر راہ حق پر سختی سے قائم رہنے والے تھے۔ پھر جب حضرت ابوبکر نے مرتدین میں سے کچھ لوگوں کو قابو کرلیا تو آپ نے فرمایا : تم دو لائحہ عمل میں سے کسی کو اختیار کرلو۔ یا تو ننگی جنگ ہے۔ اور یا رسوا کن لائحہ عمل ہے۔ انھوں نے کہا۔ یہ ننگی جنگ تم ہم جانتے ہیں لیکن رسواکن لائحہ عمل کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا : تم ہمارے مقتولین کے بارے میں یہ گواہی دو کہ وہ جنت میں ہیں اور اپنے مقتولین کے بارے میں گواہی دو کہ وہ جہنم میں ہیں۔ چنانچہ انھوں نے یہی کام کیا۔

38209

(۳۸۲۱۰) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِیزِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ أَبِی سَلَمَۃَ ، عَنْ عَبْدِ الْوَاحِدِ بْنِ أَبِی عَوْنٍ ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ ، عَنْ عَائِشَۃَ ، أَنَّہَا کَانَتْ تَقُولُ : تُوُفِّیَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَنَزَلَ بِأَبِی بَکْرٍ مَا لَوْ نَزَلَ بِالْجِبَالِ لَہَاضَہَا ، اشْرَأَبَّ النِّفَاقُ بِالْمَدِینَۃِ ، وَارْتَدَّتِ الْعَرَبُ ، فَوَاللہِ مَا اخْتَلَفُوا فِی نُقْطَۃٍ إِلاَّ طَارَ أَبِی بِحَظِّہَا وعَنَائِہَا فِی الإِسْلاَمِ ، وَکَانَتْ تَقُولُ مَعَ ہَذَا : وَمَنْ رَأَی عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ عَرَفَ أَنَّہُ خُلِقَ غِنَائً لِلإِسْلاَمِ ، کَانَ وَاللہِ أَحْوَذِیًّا ، نَسِیجَ وَحْدِہِ ، قَدْ أَعَدَّ لِلأُمُورِ أَقْرَانَہَا۔ (احمد ۶۸)
(٣٨٢١٠) حضرت قاسم بن محمد سے روایت ہے کہ حضرت عائشہ کہا کرتی تھیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وفات پائی تو حضرت ابوبکر پر ایسے مصائب اترے کہ اگر وہ مصائب کسی پہاڑ پر اترتے تو اس پہاڑ کو ریزہ ریزہ کردیتے۔ مدینہ میں نفاق پھیل گیا اور عرب کے (بہت) لوگ مرتد ہوگئے۔ پس خدا کی قسم ! لوگوں نے اسلام کے کسی حکم میں اختلاف نہیں کیا مگر یہ کہ حضرت ابوبکر اس کے تحفظ اور دفاع کے لیے دوڑ پڑے۔ اور حضرت عائشہ اس کے ساتھ یہ بھی کہتی تھیں۔ اور جو شخص عمر بن خطاب کو دیکھتا تو جان لیتا کہ اس کو اسلام سے نقصان دور کرنے کے لیے پیدا کا و گیا ہے۔ اور خدا کی قسم ! حضرت عمر تمام معاملات میں نہایت چاق و چوبند تھے بےمثال تھے ۔ اور انھوں نے معاملات کے لیے ان کے مناسب لوگوں کو تیار کیا۔

38210

(۳۸۲۱۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، وَابْنُ إِدْرِیسَ ، عَنْ إِسْمَاعِیلَ بْنِ أَبِی خَالِدٍ ، عَنْ زُبَیْدِ بْنِ الْحَارِثِ ؛ أَنَّ أَبَا بَکْرٍ حِینَ حَضَرَہُ الْمَوْتُ أَرْسَلَ إِلَی عُمَرَ یَسْتَخْلِفُہُ ، فَقَالَ النَّاسُ : تَسْتَخْلِفُ عَلَیْنَا فَظًّا غَلِیظًا ، وَلَوْ قَدْ وَلِیَنَا کَانَ أَفَظَّ وَأَغْلَظَ ، فَمَا تَقُولُ لِرَبِّکَ إِذَا لَقِیتَہُ ، وَقَدِ اسْتَخْلَفْتَ عَلَیْنَا عُمَرَ ، قَالَ أَبُو بَکْرٍ : أَبِرَبِّی تُخَوِّفُونَنِی ؟ أَقُولُ : اللَّہُمَّ اسْتَخْلَفْتُ عَلَیْہِمْ خَیْرَ خَلْقِک۔ ثُمَّ أَرْسَلَ إِلَی عُمَرَ ، فَقَالَ : إِنِّی مُوصِیکَ بِوَصِیَّۃٍ إِنْ أَنْتَ حَفِظْتَہَا : إِنَّ لِلَّہِ حَقًّا بِالنَّہَارِ لاَ یَقْبَلُہُ بِاللَّیْلِ، وَإِنَّ لِلَّہِ حَقًّا بِاللَّیْلِ لاَ یَقْبَلُہُ بِالنَّہَارِ ، وَأَنَّہُ لاَ یَقْبَلُ نَافِلَۃً حَتَّی تُؤَدِّیَ الْفَرِیضَۃَ ، وَإِنَّمَا ثَقُلَتْ مَوَازِینُ مَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِینُہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ بِاتِّبَاعِہِمْ فِی الدُّنْیَا الْحَقَّ وَثِقَلُہُ عَلَیْہِمْ ، وَحَقٌّ لِمِیزَانٍ لاَ یُوضَعُ فِیہِ إِلاَّ الْحَقُّ أَنْ یَکُونَ ثَقِیلاً ، وَإِنَّمَا خَفَّتْ مَوَازِینُ مَنْ خَفَّتْ مَوَازِینُہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ بِاتِّبَاعِہِمَ الْبَاطِلَ وَخِفَّتُہُ عَلَیْہِمْ ، وَحَقٌّ لِمِیزَانٍ لاَ یُوضَعُ فِیہِ إِلاَّ الْبَاطِلُ أَنْ یَکُونَ خَفِیفًا ، وَإِنَّ اللَّہَ ذَکَرَ أَہْلَ الْجَنَّۃِ بِصَالِحِ مَا عَمِلُوا ، وَأَنَّہُ تَجَاوَزَ عَنْ سَیِّئَاتِہِمْ ، فَیَقُولُ الْقَائِلُ : لاَ أَبْلُغُ ہَؤُلاَئِ ، وَذَکَرَ أَہْلَ النَّارِ بِأَسْوَإِ مَا عَمِلُوا ، وَأَنَّہُ رَدَّ عَلَیْہِمْ صَالِحَ مَا عَمِلُوا ، فَیَقُولُ قَائِلٌ : أَنَا خَیْرٌ مِنْ ہَؤُلاَئِ ، وَذَکَرَ آیَۃَ الرَّحْمَۃِ وَآیَۃَ الْعَذَابِ ، لِیَکُونَ الْمُؤْمِنُ رَاغِبًا وَرَاہِبًا ، لاَ یَتَمَنَّی عَلَی اللہِ غَیْرَ الْحَقِّ ، وَلاَ یُلْقِی بِیَدِہِ إِلَی التَّہْلُکَۃِ۔ فَإِنْ أَنْتَ حَفِظْت وَصِیَّتِی ، لَمْ یَکُنْ غَائِبٌ أَحَبَّ إِلَیْک مِنَ الْمَوْتِ ، وَإِنْ أَنْتَ ضَیَّعْت وَصِیَّتِی لَمْ یَکُنْ غَائِبٌ أَبْغَضَ إِلَیْک مِنَ الْمَوْتِ ، وَلَنْ تَعْجِزَہُ۔
(٣٨٢١١) حضرت زبید بن الحارث سے روایت ہے کہ جب حضرت ابوبکر کی موت کا وقت آیا تو انھوں نے حضرت عمر کی طرف قاصد بھیجا ۔ اور حضرت ابوبکر نے حضرت عمر کو خلیفہ بنایا۔ اس پر لوگوں نے کہا۔ آپ ہم پر ایک ترش مزاج اور سخت آدمی کو خلیفہ بنا رہے ہیں۔ اور اگر وہ ہمارے والی بن گئے تو وہ مزید ترش مزاج اور سخت آدمی ہوجائیں گے۔ پس جب آپ حضرت عمر کو ہم پر خلیفہ بنائیں گے تو آپ اپنے رب سے ملاقات کے وقت اپنے پروردگار کو کیا جواب دیں گے ؟ حضرت ابوبکر نے فرمایا : کیا تم لوگ میرے پروردگار سے مجھے ڈرا رہے ہو ؟ میں (اللہ تعالیٰ کو) یہ جواب دوں گا۔ اے اللہ ! میں نے لوگوں پر آپ کی مخلوق میں بہترین شخص کو خلیفہ بنایا ہے۔
٢۔ پھر حضرت ابوبکر نے حضرت عمر کی طرف قاصد بھیجا (اور بلا کر) فرمایا۔ اگر تم یاد رکھو تو میں تمہیں ایک وصیت کرتا ہوں۔ یقیناً دن کے وقت اللہ تعالیٰ کا کوئی ایسا حق ہے جس کو وہ رات کے وقت قبول نہیں کرتا اور (اسی طرح) اللہ تعالیٰ کا رات کے وقت کوئی ایسا حق ہے جس کو وہ دن کے وقت قبول نہیں کرتا۔ اور بلاشبہ جب تک فرائض کو ادا نہ کیا جائے نوافل کو قبول نہیں کیا جاتا۔ اور جن لوگوں کے اعمال قیامت کے دن میزان میں بھاری ہوں گے ان کے اعمال صرف اس وجہ سے بھاری ہوں گے کہ دناا میں ان لوگوں نے حق کی اتباع کی ہوگی اور حق ان پر وزنی رہا ہوگا۔ اور میزان کے لیے بھی یہ بات حق ہے کہ (جب) اس میں صرف حق ہی کو رکھا جائے تو وہ وزنی ہوجائے۔ اور جن لوگوں کے اعمال قیامت کے دن میزان میں ہلکے ہوں گے تو اس کی وجہ صرف یہ ہوگی کہ ان لوگوں نے باطل کی پیروی کی اور باطل ان لوگوں پر ہلکا رہا ہوگا۔ اور میزان کے لیے بھی یہ بات حق ہے کہ جب اس میں صرف باطل ہی کو رکھا جائے تو وہ ہلکا ہوجائے۔
٣۔ اور یقیناً اللہ تعالیٰ نے اہل جنت کا ذکر ان کے بہترین اعمال کی وجہ سے کیا ہے اور ان کی غلطیوں سے درگزر فرمایا ہے۔ پس کہنے والا کہہ سکتا ہے کہ میں تو ان تک نہیں پہنچ سکتا۔ اور (اسی طرح) اللہ تعالیٰ نے اہل جہنم کا ذکر ان کے بد اعمال کے ساتھ کیا ہے۔ اور یہ بھی بیان کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اہل جہنم پر ان کے اعمال صالحہ کو رد فرما دیا ہے۔ پس کہنے والا کہہ سکتا ہے کہ میں تو ان سے بہتر ہوں۔ اور اللہ تعالیٰ نے رحمت والی آیت اور عذاب والی آیت (دونوں) کو ذکر فرمایا تاکہ مؤمن رغبت بھی کرے اور خوف بھی۔ اللہ تعالیٰ پر ناحق امیدیں نہ کرے اور اپنے ہاتھ سے ہلاکت کی طرف نہ پڑے۔
٤۔ پس اگر تم نے میری وصیت کی حفاظت کی تو تمہیں کوئی غائب چیز موت سے زیادہ محبوب نہیں ہوگی۔ اور اگر تم نے میری وصیت کو ضائع کیا تو کوئی غائب چیز تمہیں موت سے زیادہ مبغوض نہیں ہوگی۔ اور تم ہرگز موت کو عاجز نہیں کرسکتے۔

38211

(۳۸۲۱۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إِسْمَاعِیلَ ، عَنْ قَیْسِ بْنِ أَبِی حَازِمٍ ، قَالَ : رَأَیْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ وَبِیَدِہِ عَسِیبُ نَخْلٍ ، وَہُوَ یُجْلِسُ النَّاسَ ، وَیَقُولُ : اسْمَعُوا لِقَوْلِ خَلِیفَۃِ رَسُولِ اللہِ ، قَالَ : فَجَائَ مَوْلًی لأَبِی بَکْرٍ یُقَالُ لَہُ: شَدِیدٌ بِصَحِیفَۃٍ ، فَقَرَأَہَا عَلَی النَّاسِ ، فَقَالَ : یَقُولُ أَبُو بَکْرٍ : اسْمَعُوا وَأَطِیعُوا لِمَنْ فِی ہَذِہِ الصَّحِیفَۃِ ، فَوَاللہِ مَا أَلَوْتُکُمْ ، قَالَ قَیْسٌ : فَرَأَیْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ بَعْدَ ذَلِکَ عَلَی الْمِنْبَرِ۔
(٣٨٢١٢) حضرت قیس بن حازم سے روایت ہے کہ میں نے حضرت عمر بن خطاب کو دیکھا کہ ان کے ہاتھ میں کھجور کی صاف شاخ تھی اور وہ لوگوں کو بٹھا رہے تھے اور کہہ رہے تھے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلیفہ کی بات سُنو۔ راوی کہتے ہیں : پھر حضرت ابوبکر کا غلام ۔۔۔ جس کو شدید کہا جاتا تھا ۔۔۔ ایک رقعہ لے کر آیا۔ اور وہ لوگوں کو پڑھ کر سنایا۔ اس نے کہا۔ حضرت ابوبکر کہتے ہیں : اس آدمی کی بات سنو اور اطاعت کرو جس کا اس صحیفہ میں نام ہے۔ خدا کی قسم ! میں نے تمہیں خیر تک پہنچانے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی۔ قیس راوی کہتے ہیں۔ پھر اس کے بعد مں ا نے حضرت عمر بن خطاب کو منبر پر دیکھا۔

38212

(۳۸۲۱۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِی الأَحْوَصِ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : أَفْرَسُ النَّاسِ ثَلاَثَۃٌ : أَبُو بَکْرٍ حِین تَفَرَّسَ فِی عُمَرَ فَاسْتَخْلَفَہُ ، وَالَّتِی قَالَتْ : {اسْتَأْجِرْہُ ، إِنَّ خَیْرَ مَنِ اسْتَأْجَرْتَ الْقَوِیُّ الأَمِینُ} وَالْعَزِیزُ حِینَ قَالَ لامْرَأَتِہِ : {أَکْرِمِی مَثْوَاہُ}۔
(٣٨٢١٣) حضرت عبداللہ سے روایت ہے کہ تمام لوگوں میں سب سے زیادہ فراست والے تین لوگ ہوئے ہیں۔ حضرت ابوبکر جب انھوں نے حضرت عمر کے بارے میں فراست کا اظہار کیا اور انھیں خلیفہ بنایا ۔ اور (دوسری) وہ عورت جس نے کہا تھا۔ { اسْتَأْجِرْہُ ، إِنَّ خَیْرَ مَنِ اسْتَأْجَرْتَ الْقَوِیُّ الأَمِینُ } اور (تیسرا) عزیز مصر جب اس نے اپنی بیوی سے کہا۔ { أَکْرِمِی مَثْوَاہُ }۔

38213

(۳۸۲۱۴) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ حُصَیْنٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَیْمُونٍ ، قَالَ : جِئْتُ وَإِذَا عُمَرُ وَاقِفٌ عَلَی حُذَیْفَۃَ ، وَعُثْمَانَ بْنِ حُنَیْفٍ ، فَقَالَ : تَخَافَانِ أَنْ تَکُونَا حَمَّلْتُمَا الأَرْضَ مَا لاَ تُطِیقُ ، فَقَالَ : حُذَیْفَۃُ : لَوْ شِئْتُ لأَضْعَفْتُ أَرْضِی ، وَقَالَ عُثْمَان : لَقَدْ حَمَّلْتُ أَرْضِی أَمْرًا ہِیَ لَہُ مُطِیقَۃٌ، وَمَا فِیہَا کَثِیرُ فَضْلٍ ، فَقَالَ : اُنْظُرَا مَا لَدَیْکُمَا ، أَنْ تَکُونَا حَمَّلْتُمَا الأَرْضَ مَا لاَ تُطِیقُ ، ثُمَّ قَالَ : وَاللہِ لَئِنْ سَلَّمَنِی اللَّہُ ، لأَدَعَنْ أَرَامِلَ أَہْلِ الْعِرَاقِ لاَ یَحْتَجْنَ بَعْدِی إِلَی أَحَدٍ أَبَدًا ، قَالَ : فَمَا أَتَتْ عَلَیْہِ إِلاَّ أَرْبَعَۃٌ حَتَّی أُصِیبَ۔ قَالَ: وَکَانَ إِذَا دَخَلَ الْمَسْجِدَ قَامَ بَیْنَ الصُّفُوفِ ، فَقَالَ : اسْتَوُوا ، فَإِذَا اسْتَوَوْا تَقَدَّمَ فَکَبَّرَ ، قَالَ: فَلَمَّا کَبَّرَ طُعِنَ مَکَانَہُ، قَالَ فَسَمِعْتُہُ یَقُولُ: قَتَلَنِی الْکَلْبُ، أَوْ أَکَلَنِی الْکَلْبُ، قَالَ عَمْرٌو: مَا أَدْرِی أَیُّہُمَا قَالَ؟ وَمَا بَیْنِی وَبَیْنَہُ غَیْرَ ابْنِ عَبَّاسٍ ، فَأَخَذَ عُمَرُ بِیَدِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ فَقَدَّمَہُ ، وَطَارَ الْعِلْجُ وَبِیَدِہِ سِکِّینٌ ذَاتُ طَرَفَیْنِ، مَا یَمُرُّ بِرَجُلٍ یَمِینًا، وَلاَ شِمَالاً إِلاَّ طَعَنَہُ حَتَّی أَصَابَ مِنْہُمْ ثَلاَثَۃَ عَشَرَ رَجُلا ، فَمَاتَ مِنْہُمْ تِسْعَۃٌ، قَالَ : فَلَمَّا رَأَی ذَلِکَ رَجُلٌ مِنَ الْمُسْلِمِینَ طَرَحَ عَلَیْہِ بُرْنُسًا لِیَأْخُذَہُ ، فَلَمَّا ظَنَّ أَنَّہُ مَأْخُوذٌ نَحَرَ نَفْسَہُ۔ قَالَ : فَصَلَّیْنَا الْفَجْرَ صَلاَۃً خَفِیفَۃً ، قَالَ : فَأَمَّا نَوَاحِی الْمَسْجِدِ فَلاَ یَدْرُونَ مَا الأَمْرُ إِلاَّ أَنَّہُمْ حَیْثُ فَقَدُوا صَوْتَ عُمَرَ ، جَعَلُوا یَقُولُونَ : سُبْحَانَ اللہِ ، مَرَّتَیْنِ ، فَلَمَّا انْصَرَفُوا کَانَ أَوَّلَ مَنْ دَخَلَ عَلَیْہِ ابْنُ عَبَّاسٍ ، فَقَالَ : اُنْظُرْ مَنْ قَتَلَنِی ؟ قَالَ : فَجَالَ سَاعَۃً ، ثُمَّ جَائَ ، فَقَالَ : غُلاَمُ الْمُغِیرَۃِ الصَّنَّاعُ ، وَکَانَ نَجَّارًا ، قَالَ : فَقَالَ عُمَرُ : الْحَمْدُ لِلَّہِ الَّذِی لَمْ یَجْعَلْ مُنْیَتِی بِیَدِ رَجُلٍ یَدَّعِی الإِسْلاَمَ ، قَاتَلَہُ اللَّہُ ، لَقَدْ أَمَرْتُ بِہِ مَعْرُوفًا ، قَالَ : ثُمَّ قَالَ لابْنِ عَبَّاسٍ : لَقَدْ کُنْتَ أَنْتَ وَأَبُوک تُحِبَّانِ أَنْ تَکْثُرَ الْعُلُوج بِالْمَدِینَۃِ ، قَالَ : فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ : إِنْ شِئْتَ فَعَلْنَا ، فَقَالَ : بَعْدَ مَا تَکَلَّمُوا بِکَلاَمِکُمْ وَصَلَّوْا صَلاَتَکُمْ وَنَسَکُوا نُسُکَکُمْ ؟۔ قَالَ: فَقَالَ لَہُ النَّاسُ: لَیْسَ عَلَیْک بَأْسٌ ، قَالَ: فَدَعَا بِنَبِیذٍ فَشَرِبَ ، فَخَرَجَ مِنْ جُرْحِہِ ، ثُمَّ دَعَا بِلَبَنٍ فَشَرِبَہُ، فَخَرَجَ مِنْ جُرْحِہِ ، فَظَنَّ أَنَّہُ الْمَوْتُ ، فَقَالَ لِعَبْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ : اُنْظُرْ مَا عَلَیَّ مِنَ الدَّیْنِ فَاحْسِبْہُ ، فَقَالَ : سِتَّۃً وَثَمَانِینَ أَلْفًا ، فَقَالَ : إِنْ وَفَی بِہَا مَالُ آلِ عُمَرَ فَأَدِّہَا عَنِّی مِنْ أَمْوَالِہِمْ ، وَإِلاَّ فَسَلْ بَنِی عَدِیِّ بْنِ کَعْبٍ، فَإِنْ تَفِی مِنْ أَمْوَالِہِمْ وَإِلاَّ فَسَلْ قُرَیْشًا ، وَلاَ تَعْدُہُمْ إِلَی غَیْرِہِمْ ، فَأَدِّہَا عَنِّی۔ اذْہَبْ إِلَی عَائِشَۃَ أُمِّ الْمُؤْمِنِینَ ، فَسَلِّمْ وَقُلْ : یَسْتَأْذِنُ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ ، وَلاَ تَقُلْ : أَمِیرُ الْمُؤْمِنِینَ ، فَإِنِّی لَسْتُ لَہُمُ الْیَوْمَ بِأَمِیرٍ ، أَنْ یُدْفَنَ مَعَ صَاحِبَیْہِ ، قَالَ : فَأَتَاہَا عَبْدُ اللہِ بْنُ عُمَرَ فَوَجَدَہَا قَاعِدَۃً تَبْکِی ، فَسَلَّمَ، ثُمَّ قَالَ : یَسْتَأْذِنُ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ أَنْ یُدْفَنَ مَعَ صَاحِبَیْہِ ، قَالَتْ : قَدْ وَاللہِ کُنْتُ أُرِیدُہُ لِنَفْسِی ، وَلأُوثِرَنَّہُ الْیَوْمَ عَلَی نَفْسِی ، فَلَمَّا جَائَ ، قِیلَ : ہَذَا عَبْدُ اللہِ بْنُ عُمَرَ ، قَالَ : فَقَالَ : ارْفَعَانِی ، فَأَسْنَدَہُ رَجُلٌ إِلَیْہِ ، فَقَالَ: مَا لَدَیْک ؟ قَالَ : أَذِنَتْ لَک ، قَالَ : فَقَالَ عُمَرُ : مَا کَانَ شَیْئٌ أَہَمَّ عِنْدِی مِنْ ذَلِکَ ، ثُمَّ قَالَ : إِذَا أَنَا مِتُّ فَاحْمِلُونِی عَلَی سَرِیرِی ، ثُمَّ اسْتَأْذِنْ ، فَقُلْ : یَسْتَأْذِنُ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ ، فَإِنْ أَذِنَتْ لَک ؛ فَأَدْخِلْنِی ، وَإِنْ لَمْ تَأْذَنْ فَرُدَّنِی إِلَی مَقَابِرِ الْمُسْلِمِینَ ، قَالَ : فَلَمَّا حُمِلَ کَأَنَّ النَّاسَ لَمْ تُصِبْہُمْ مُصِیبَۃٌ إِلاَّ یَوْمَئِذٍ ، قَالَ : فَسَلَّمَ عَبْدُ اللہِ بْنُ عُمَرَ ، وَقَالَ : یَسْتَأْذِنُ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ ، فَأَذِنَتْ لَہُ ، حَیْثُ أَکْرَمَہُ اللَّہُ مَعَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَمَعَ أَبِی بَکْرٍ۔ فَقَالُوا لَہُ حِینَ حَضَرَہُ الْمَوْتُ : اسْتَخْلِفْ ، فَقَالَ : لاَ أَجِدُ أَحَدًا أَحَقُّ بِہَذَا الأَمْرِ مِنْ ہَؤُلاَئِ النَّفَرِ ، الَّذِینَ تُوُفِّیَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَہُوَ عَنْہُمْ رَاضٍ ، فَأَیَّہُمُ اسْتَخْلَفُوا فَہُوَ الْخَلِیفَۃُ بَعْدِی ، فَسَمَّی عَلِیًّا ، وَعُثْمَانَ ، وَطَلْحَۃَ ، وَالزُّبَیْرَ ، وَعَبْدَ الرَّحْمَن بْنَ عَوْفٍ ، وَسَعْدًا ، فَإِنْ أَصَابَتْ سَعْدًا فَذَلِکَ ، وَإِلاَّ فَأَیُّہُمُ اسْتُخْلِفَ فَلْیَسْتَعِنْ بِہِ ، فَإِنِّی لَمْ أَنْزَعْہُ عَنْ عَجْزٍ ، وَلاَ خِیَانَۃٍ ، قَالَ : وَجَعَلَ عَبْدَ اللہِ بْنَ عُمَرَ یُشَاوِرُ مَعَہُمْ ، وَلَیْسَ لَہُ مِنَ الأَمْرِ شَیْئٌ۔ قَالَ : فَلَمَّا اجْتَمَعُوا ، قَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ : اجْعَلُوا أَمْرَکُمْ إِلَی ثَلاَثَۃِ نَفَرٍ ، قَالَ : فَجَعَلَ الزُّبَیْرُ أَمْرَہُ إِلَی عَلِیٍّ، وَجَعَلَ طَلْحَۃُ أَمْرَہُ إِلَی عُثْمَانَ، وَجَعَلَ سَعْدٌ أَمْرَہُ إِلَی عَبْدِ الرَّحْمَنِ، قَالَ: فَأَتْمِرُوا أُولَئِکَ الثَّلاَثَۃَ حِینَ جُعِلَ الأَمْرُ إِلَیْہِمْ ، قَالَ : فَقَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ : أَیُّکُمْ یَتَبَرَّأُ مِنَ الأَمْرِ وَیَجْعَلُ الأَمْرَ إِلَیَّ ، وَلَکُمُ اللَّہُ عَلَیَّ أَنْ لاَ آلُو عَنْ أَفْضَلِکُمْ وَخَیْرِکُمْ لِلْمُسْلِمِینَ؟ فَأُسْکِتَ الشَّیْخَانِ عَلِیٌّ وَعُثْمَان، فَقَالَ عَبْدُالرَّحْمَنِ: تَجْعَلاَنِہِ إِلَیَّ وَأَنَا أَخْرُجُ مِنْہَا ، فَوَاللہِ لاَ آلُوکُمْ عَنْ أَفْضَلِکُمْ وَخَیْرِکُمْ لِلْمُسْلِمِینَ؟ قَالَوا: نَعَمْ، فَخَلاَ بِعَلِیٍّ، فَقَالَ: إِنَّ لَک مِنَ الْقَرَابَۃِ مِنْ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَالْقَدَمِ ، وَلِی اللَّہُ عَلَیْک لَئِنِ اسْتُخْلِفْتَ لَتَعْدِلَنَّ ، وَلَئِنِ اسْتُخْلِفَ عُثْمَان لَتَسْمَعَن وَلَتُطِیعُنَّ ؟ قَالَ : فَقَالَ : نَعَمْ ، قَالَ : وَخَلاَ بِعُثْمَانَ ، فَقَالَ : مِثْلَ ذَلِکَ ، فَقَالَ لَہُ عُثْمَان : نَعَمْ ، ثُمَّ قَالَ : یَا عُثْمَان ، أَبْسِطْ یَدَک ، فَبَسَطَ یَدَہُ فَبَایَعَہُ ، وَبَایَعَہُ عَلِیٌّ وَالنَّاسُ۔ ثُمَّ قَالَ عُمَرُ : أُوصِی الْخَلِیفَۃَ مِنْ بَعْدِی بِتَقْوَی اللہِ ، وَالْمُہَاجِرِینَ الأَوَّلِینَ أَنْ یَعْرِفَ لَہُمْ حَقَّہُمْ ، وَیَعْرِفَ لَہُمْ حُرْمَتَہُمْ ، وَأُوصِیہِ بِأَہْلِ الأَمْصَارِ خَیْرًا ، فَإِنَّہُمْ رِدْئُ الإِسْلاَمِ ، وَغَیْظُ الْعَدُوِّ ، وَجُبَاۃِ الأَمْوَالِ ، أَنْ لاَ یُؤْخَذَ مِنْہُمْ فَیْؤُہُمْ إِلاَّعَنْ رِضًا مِنْہُمْ ، وَأُوصِیہِ بِالأَنْصَارِ خَیْرًا ؛ الَّذِینَ تَبَوَّؤُوا الدَّارَ وَالإِیمَانَ ، أَنْ یَقْبَلَ مِنْ مُحْسِنِہِمْ وَیَتَجَاوَزَ عَنْ مُسِیئِہِمْ ، وَأُوصِیہِ بِالأَعْرَابِ خَیْرًا ، فَإِنَّہُمْ أَصْلُ الْعَرَبِ وَمَادَّۃُ الإِسْلاَمِ ، أَنْ یُؤْخَذَ مِنْ حَوَاشِی أَمْوَالِہِمْ فَتُرَدُّ عَلَی فُقَرَائِہِمْ ، وَأُوصِیہِ بِذِمَّۃِ اللہِ وَذِمَّۃِ رَسُولِہِ ، أَنْ یُوفِیَ لَہُمْ بِعَہْدِہِمْ ، وَأَنْ لاَ یُکَلَّفُوا إِلاَّ طَاقَتَہُمْ ، وَأَنْ یُقَاتِلَ مَنْ وَرَائَہُمْ۔ (بخاری ۱۳۹۲)
(٣٨٢١٤) حضرت عمرو بن میمون سے روایت ہے کہ میں آیا تو میں نے دیکھا کہ حضرت عمر ، حضرت حذیفہ اور عثمان بن حنیف کے پاس کھڑے ہوئے ہیں اور فرما رہے ہیں۔ تم خوف کرو کہ تم نے زمین کو اس قدر عوض پر دیا ہے جو وسعت سے زیادہ ہے۔ حضرت حذیفہ نے کہا۔ اگر میں چاہوں تو اپنی زمین کو دو چند (عوض پر) کر دوں اور حضرت عثمان نے کہا۔ میں نے اپنی زمین کو ایسے معاملہ کے عوض میں رکھا جو اس کے مطابق ہے اور اس میں بہت زیادہ اضافہ نہیں ہے۔ حضرت عمر نے فرمایا۔ اگر اللہ تعالیٰ نے مجھے سلامت رکھا تو میں اہل عراق کے محتاجوں کو ایسی حالت میں چھوڑوں گا کہ میرے بعد وہ کسی اور کے محتاج نہیں ہوں گے۔ راوی کہتے ہیں : پھر حضرت عمر چار دن ہی گزرے تھے کہ انھیں شہید کردیا گیا۔
٢۔ راوی کہتے ہیں : حضرت عمر جب مسجد میں داخل ہوتے تو آپ صفوں کے درمیان کھڑے ہوجاتے اور فرماتے۔ (صفوں میں) سیدھے ہو جاؤ۔ پس جب لوگ سیدھے ہوجاتے تو آپ تکبیر کہتے ۔ راوی کہتے ہیں۔ پھر (جب ایک صبح) آپ نے نماز شروع کی تو آپ کی جگہ وار کیا گیا۔ راوی کہتے ہیں : پس میں نے آپ کو کہتے سُنا۔ مجھے کتے نے قتل کر ڈالا۔۔۔ یا ۔۔۔مجھے کُتّے نے کھالیا۔ راوی عمروکہتے ہیں۔ مجھے معلوم نہیں کہ کیا کہا ؟ میرے اور ان کے درمیان حضرت ابن عباس کے علاوہ کوئی نہ تھا۔ پھر حضرت عمر نے عبد الرحمن بن عوف کو ہاتھ سے پکڑا اور آگے کر دیا۔۔۔وہ قاتل دوڑنے لگا جبکہ اس کے ہاتھ میں دو دھاری چھری تھی وہ دائیں بائیں جس آدمی کے پاس سے گزرتا اس کو مارتا جاتا یہاں تک کہ اس نے تیرہ لوگوں کو زخمی کردیا۔ پھر ان زخمیوں میں سے نو افراد وفات بھی پا گئے۔ راوی کہتے ہیں۔ پس جب یہ منظر ایک مسلمان نے دیکھا تو اس نے اس کو پکڑنے کے لیے اس پر ایک بڑی چادر ڈال دی۔ پھر جب اس قاتل کو یہ یقین ہوگیا کہ وہ پکڑا جائے گا تو اس نے خود کو ذبح کرلیا۔
٣۔ راوی کہتے ہیں : پس ہم نے فجر کی ہلکی سی نماز ادا کی۔ راوی کہتے ہیں : مسجد کے کناروں والے لوگوں کو پتہ ہی نہیں لگا کہ کیا معاملہ ہوا ہے۔ ہاں جب انھوں نے حضرت عمر (کی آواز) کو نہ پایا تو یہ کہنا شروع کیا۔ سبحان اللہ ! سبحان اللہ ! پھر جب لوگ چلے گئے تو پہلا شخص جو حضرت عمر کے پاس آیا وہ حضرت ابن عباس تھے۔ حضرت عمر نے (ان سے) کہا۔ دیکھو (معلوم کرو) مجھے کس نے قتل کیا ہے ؟ راوی کہتے ہیں : حضرت ابن عباس تھوڑا سا گھوم کر واپس آئے اور بتایا۔ حضرت مغیرۃ کے کاریگر غلام نے ۔ اور یہ غلام بڑھئی تھا۔ راوی کہتے ہیں۔ اس پر حضرت عمر نے فرمایا : تمام تعریفیں اس ذات کے لیے ہیں جس نے میری موت کسی ایسے آدمی کے ہاتھ سے واقع نہیں کی جو اسلام کا دعویدار ہو۔ اللہ تعالیٰ اس کو ہلاک کرے۔ یقیناً میں نے اس کو بھلائی کا حکم دیا تھا۔ راوی کہتے ہیں : پھر حضرت عمر نے ابن عباس سے کہا۔ تحقیق تم اور تمہارے والد اس بات کو پسند کرتے تھے کہ مدینہ منورہ میں علوج زیادہ ہوں۔ راوی کہتے ہیں۔ ابن عباس نے کہا۔ اگر آپ چاہتے ہیں تو ہم یہ کرتے۔” انھوں نے کہا کہ بعد اس کے کہ تم اپنی بات کرچکے، اپنی نماز پڑھ چکے اور اپنے نسک ادا کرچکے۔ “
٤۔ راوی کہتے ہیں : لوگوں نے حضرت عمر سے کہا۔ آپ کو کوئی (بڑا) مسئلہ نہیں ہے۔ راوی کہتے ہیں : پھر حضرت عمر نے نبیذ منگوائی اور اس کو پیا لیکن وہ آپ کے زخموں سے باہر نکل گئی۔ پھر حضرت عمر نے دودھ منگوایا اور اس کو پیا لیکن وہ بھی آپ کے زخموں سے باہر نکل گیا۔ چنانچہ آپ کو موت کا یقین ہوگیا ۔ تو آپ نے عبداللہ بن عمر سے کہا۔ مجھ پر جو قرض ہے اس کو دیکھو اور اس کا حساب کرو۔ ابن عمر نے کہا۔ چھیاسی ہزار ہے۔ حضرت عمر نے فرمایا۔ اگر یہ قرض آلِ عمر کے مال سے پورا ہوجائے تو میری طرف سے ان کے اموال میں سے اس قرض کو ادا کردو۔ وگرنہ بنو عدی بن کعب سے مانگ لینا۔ پھر اگر یہ قرض ان کے اموال سے پورا ہوجائے تو ٹھیک وگرنہ قریش سے مانگ لینا اور ان کے سوا اور کسی سے نہ مانگنا۔ اور یہ میری طرف سے قرضہ ادا کردینا۔
٥۔ ام المؤمنین حضرت عائشہ کی طرف جاؤ اور (انہیں) سلام کرو اور کہو۔ عمر بن خطاب ۔۔۔ امیر المؤمنین کا لفظ نہ کہنا کیونکہ میں اس وقت لوگوں کا امیر نہیں ہوں ۔۔۔اپنے دونوں ساتھیوں (آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ابوبکر ) کے ساتھ دفن کئے جانے کی اجازت مانگتا ہے۔ راوی کہتے ہیں : پس حضرت عائشہ کے پاس عبداللہ بن عمر آئے تو انھوں نے حضرت عائشہ کو بیٹھے روتے پایا۔ ابن عمر نے سلام کیا پھر کہا۔ عمر بن خطاب اپنے ساتھیوں کے ہمراہ فن کئے جانے کی اجازت مانگتے ہیں۔ حضرت عائشہ نے کہا۔ خدا کی قسم ! میں تو اس بات کو اپنے لیے چاہتی تھی (یعنی حجرہ میں دفن ہونا) لیکن میں آج اس رات (حجر ہ میں دفن ہونا) میں عمر فاروق کو اپنے اوپر ترجحب دیتی ہوں۔ پھر جب حضرت عبداللہ بن عمر واپس آئے تو کہا گیا۔ یہ عبداللہ بن عمر (واپس آگئے) ہیں۔ راوی کہتے ہیں : حضرت عمر نے فرمایا : مجھے اٹھا دو پس ایک آدمی نے انھیں اپنی جانب ٹیک لگا کر اٹھایا تو انھوں نے پوچھا۔ تمہارے پاس کیا (خبر) ہے ؟ حضرت عبداللہ بن عمر نے جواب دیا۔ انھوں نے آپ کے لیے اجازت دے دی ہے۔ راوی کہتے ہیں : حضرت عمر نے کہا۔ میرے نزدیک اس سے زیادہ اہم چیز کوئی نہیں تھی۔ پھر آپ نے فرمایا : جب مں گ مر جاؤں تو تم مجھے میری چارپائی پر سوار کر کے پھر اجازت طلب کرنا اور کہنا۔ عمر بن خطاب اجازت مانگ رہا ہے۔ پس اگر وہ مجھے اجازت دے دیں تو تم مجھے اندر داخل کرنا اور اگر وہ مجھے اجازت نہ دیں تو تم مجھے مسلمانوں کے قبرستان کی طرف لوٹا دینا۔ راوی کہتے ہیں : پس جب آپ (کی میت کو) اٹھایا گیا تو (حالت یہ تھی) گویا مسلمانوں اس دن کے سوا کبھی کوئی مصیبت پہنچی ہی نہیں ہے۔ راوی کہتے ہیں : چنانچہ (میت لے جا کر) حضرت عبداللہ بن عمر نے سلام کیا اور پوچھا۔ عمر بن خطاب اجازت طلب کر رہے ہیں۔ حضرت عائشہ نے آپ کے لیے اجازت دے دی اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور حضرت ابوبکر کی معیت کا اعزاز بخشا تھا۔
٦۔ جب حضرت عمر کی موت کا وقت قریب آیا تو لوگوں نے آپ سے کہا۔ آپ کسی کو خلیفہ مقرر کردیں۔ حضرت عمر نے جواب دیا، میں اس منصب کا حق دار ان لوگوں سے زیادہ کسی کو نہیں پاتا کہ جن سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وفات کے وقت راضی تھے۔ پس ان میں سے جو بھی خلیفہ بن جائے تو وہی میرے بعد خلیفہ ہوگا۔ پھر حضرت عمر نے حضرت علی ، حضرت عثمان ، حضرت طلحہ ، حضرت زبیر ، حضرت عبد الرحمن بن عوف اور حضرت سعد کا نام لیا۔ پس اگر یہ منصب حضرت سعد کو مل جائے تو ٹھیک ہے وگرنہ ان تمام میں سے جو بھی خلیفہ بنے وہ حضرت سعد سے معاونت حاصل کرے ۔ کیونکہ میں نے ان سے یہ چیز کسی عجز یا خیانت کی وجہ سے نہیں چھینی تھی اور مزید فرمایا۔ عبداللہ بن عمر کو ان سے مشاورت کرنے کا حق ہے لیکن ان کو امر خلافت میں کوئی اختیار نہیں ہوگا۔
٧۔ راوی کہتے ہیں : پھر جب یہ حضرات باہم اکٹھے ہوئے تو حضرت عبد الرحمن بن عوف نے فرمایا۔ تم لوگ اپنا اختیار تین افراد کو دے دو ۔ چنانچہ ۔۔۔راوی کہتے ہیں ۔۔۔حضرت زبیر نے اپنا اختیار حضرت علی کے سپرد کردیا اور حضرت طلحہ نے اپنا اختیار حضرت عثمان کے سپرد کردیا اور حضرت سعد نے اپنا اختیار حضرت عبد الرحمن ابن عوف کے حوالہ کردیا۔ راوی کہتے ہیں : پس یہ تین لوگ ۔۔۔ جب اختیار ان کے حوالہ ہوگیا تو ۔۔۔ بااختیار ہوگئے۔ راوی کہتے ہیں : پھر حضرت عبد الرحمن نے فرمایا۔ تم میں سے کون (اپنے) اختیار سے دست بردار ہوتا ہے اور اختیار میرے سپرد کرتا ہے۔ اور میں تمہیں خدا کو گواہ بنا کر یقین دلاتا ہوں کہ میں مسلمانوں کے لیے تم میں بہتر اور افضل کو نظر انداز کر کے یہ (خلافت) نہیں دوں گا ؟ اس پر شیخین ۔۔۔ علی ، عثمان ۔۔۔ خاموش کردیئے گئے تو حضرت عبد الرحمن نے پوچھا۔ تم دونوں اس (امر) کو میرے حوالہ کرتے ہو تاکہ میں اس سے نکلنے کی راہ پیدا کروں۔ خدا کی قسم ! میں مسلمانوں کے لیے تم میں سے بہتر اور افضل شخص کو نظر انداز کر کے یہ (خلافت) حوالہ نہیں کروں گا ؟ ان دونوں نے کہا۔ ٹھیک ہے پھر حضرت عبد الرحمن بن عوف نے حضرت علی کو خلوت میں لے کر کہا۔ یقیناً تمہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بنائے قرابت اور فضیلت حاصل ہے تم مجھ سے خدا کو گواہ بنا کر کہو کہ اگر تمہیں خلیفہ بنایا جائے تو تم ضرور بالضرور انصاف کرو گے۔ اور اگر حضرت عثمان کو خلیفہ بنایا جائے تو تم ضرور بالضرور سمع وطاعت کرو گے ؟ راوی کہتے ہیں : حضرت علی نے جواب دیا۔ ہاں ! راوی کہتے ہیں : حضرت عبد الرحمن نے حضرت عثمان کے ساتھ تنہائی میں ایسی بات کہی ۔ تو حضرت عثمان نے بھی عبد الرحمن کو جواب دیا۔ ہاں ! پھر حضرت عبد الرحمن نے کہا۔ اے عثمان ! ہاتھ پھیلاؤ۔ چنانچہ حضرت عثمان نے ہاتھ پھیلایا اور حضرت عبد الرحمن نے ان کی بیعت کرلی پھر حضرت علی اور دیگر لوگوں نے بھی حضرت عثمان کی بیعت کی۔
٨۔ پھر حضرت عمر نے فرمایا۔ میں اپنے بعد ہونے والے خلیفہ کو اللہ تعالیٰ سے ڈرنے کی وصیت کرتا ہوں اور مہاجرین اولین کے بارے میں یہ وصیت کرتا ہوں کہ خلیفہ ان کے حق کو پہچانے اور ان کے احترام کو جانے اور میں خلیفہ کو شہروں والوں کے بارے میں بہتر رویہ کی وصیت کرتا ہوں کیونکہ یہ لوگ اسلام کے پشت پناہ ہوتے ہیں اور دشمن کا غصہ ہوتے ہیں۔ اور اموال کے وصول کنندہ ہوتے ہیں اور یہ کہ ان کے رضا مندی کے بغیر ان سے ان کے فئی نہ لی جائے۔ اور میں خلیفہ کو انصار کے ساتھ اچھائی کی وصیت کرتا ہوں۔ وہ انصار جنہوں نے کہ ان کی اچھائیوں کو قبول کرلے اور ان کی غلطیوں سے درگزر کرے اور میں اس خلیفہ کو دیہاتوں کے ساتھ بہتری کی وصیت کرتا ہوں کیونکہ یہ عرب کی اصل اور اسلام کا مادہ ہیں۔ (اس بات کی وصیت کرتا ہوں کہ) ان کے اموال سے لے کر ان کے فقراء کی طرف رد کیا جائے۔ اور میں اس خلیفہ کو اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذمہ کے بارے میں وصیت کرتا ہوں کہ ذمیوں کے ساتھ ان کے عہد کو نبھایا جائے اور انھیں ان کی طاقت سے زیادہ کا مکلف نہ بنایا جائے اور خلیفہ ان کے اہل خانہ کے (دفاع میں) لڑے۔

38214

(۳۸۲۱۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إِسْرَائِیلَ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَیْمُونٍ الأَوْدِیِّ ؛ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ لَمَّا حُضِرَ ، قَالَ : اُدْعُوا لِی عَلِیًّا ، وَطَلْحَۃَ ، وَالزُّبَیْرَ ، وَعُثْمَانَ ، وَعَبْدَ الرَّحْمَن بْنَ عَوْفٍ ، وَسَعْدًا ، قَالَ : فَلَمْ یُکَلِّمْ أَحَدًا مِنْہُمْ إِلاَّ عَلِیًّا ، وَعُثْمَانَ ، فَقَالَ : یَا عَلِیُّ ، لَعَلَّ ہَؤُلاَئِ الْقَوْمِ یَعْرِفُونَ لَکَ قَرَابَتَکَ ، وَمَا آتَاک اللَّہُ مِنَ الْعِلْمِ وَالْفِقْہِ ، فَاتَّقِ اللَّہَ ، وَإِنْ وُلِّیتَ ہَذَا الأَمْرَ فَلاَ تَرْفَعْنَ بَنِی فُلاَنٍ عَلَی رِقَابِ النَّاسِ ، وَقَالَ لِعُثْمَانَ : یَا عُثْمَان ، إِنَّ ہَؤُلاَئِ الْقَوْمَ لَعَلَّہُمْ یَعْرِفُونَ لَک صِہْرَک مِنْ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَسِنَّک ، وَشَرَفَک ، فَإِنْ أَنْتَ وُلِّیتَ ہَذَا الأَمْرَ فَاتَّقِ اللَّہَ ، وَلاَ تَرْفَعْ بَنِی فُلاَنٍ عَلَی رِقَابِ النَّاسِ ، فَقَالَ : اُدْعُوا لِی صُہَیْبًا ، فَقَالَ : صَلِّ بِالنَّاسِ ثَلاَثًا ، وَلْیَجْتَمِعْ ہَؤُلاَئِ الرَّہْطُ فَلِیَخْلُوا ، فَإِنْ أَجْمَعُوا عَلَی رَجُلٍ ، فَاضْرِبُوا رَأْسَ مَنْ خَالَفَہُمْ۔
(٣٨٢١٥) حضرت عمرو بن میمون اودی سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب کی موت کا وقت جب قریب ہوا تو آپ نے فرمایا۔ حضرت علی ، حضرت طلحہ ، حضرت زبیر ، حضرت عثمان ، حضرت عبد الرحمن بن عوف اور حضرت سعد کو میرے پاس بلاؤ۔ راوی کہتے ہیں۔ پھر حضرت عمر نے (ان میں سے) صرف حضرت علی اور حضرت عثمان سے گفتگو فرمائی۔ چنانچہ آپ نے کہا۔ اے علی ! شاید یہ لوگ تمہارے بارے میں قرابت (نبوی) کو اور جو کچھ اللہ تعالیٰ نے تمہیں علم اور فقہ عطاء کی ہے اس کو پہچانیں۔ پس تم اللہ سے ڈرنا۔ اور اگر تمہیں اس کام (خلافت) کی سپردگی ہوجائے تو تم بنو فلاں کو دیگر لوگوں کی گردنوں پر بلند نہ کرنا (یعنی برتری نہ دینا) ور حضرت عمر نے حضرت عثمان سے کہا۔ اے عثمان ! شاید یہ لوگ تمہارا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ دامادی کا رشتہ، اور تمہاری عمر اور تمہاری شرافت کو پہچانیں۔ پس اگر تم اس امر (خلافت) کے متولی ٹھہرے تو اللہ سے ڈرنا اور بنو فلاں کو دیگر لوگوں کی گردنوں پر بلند نہ کرنا۔ پھر حضرت عمر نے کہا۔ حضرت صہیب کو میرے پاس بلاؤ۔ اور آپ نے (انہیں) کہا۔ تم تین دن تک لوگوں کو نماز پڑھاؤ۔ ان (مذکورہ بالا) افراد کو چاہیے کہ اکٹھے ہوں اور خلوت میں (کوئی فیصلہ) کریں۔ پھر اگر یہ لوگ کسی ایک آدمی پر اکٹھے ہوجائیں تو اس کی مخالفت کرنے والے کا سر مار دو ۔

38215

(۳۸۲۱۶) حَدَّثَنَا ابْنُ إِدْرِیسَ ، عَنْ طَلْحَۃَ بْنِ یَحْیَی ، عَنْ عَمَّیْہِ عِیسَی بْنِ طَلْحَۃَ ، وَعُرْوَۃَ بْنِ الزُّبَیْرِ ، قَالاَ : قَالَ عُمَرُ : لِیُصَلِّ لَکُمْ صُہَیْبٌ ثَلاَثًا ، وَانْظُرُوا ، فَإِنْ کَانَ ذَلِکَ ، وَإِلاَّ فَإِنَّ أَمْرَ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لاَ یُتْرَکُ فَوْقَ ثَلاَثٍ سُدًی۔
(٣٨٢١٦) حضرت عیسیٰ بن طلحہ اور حضرت عروہ بن زبیر سے روایت ہے کہ حضرت عمر نے فرمایا : تمہیں صہیب تین دن نماز پڑھائیں۔ اور تم دیکھو اگر تو یہی (خلیفہ منتخب) ہوجائیں تو ٹھیک وگرنہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت تین دن سے زیادہ عبث نہیں چھوڑی جائے گی۔

38216

(۳۸۲۱۷) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ سَعیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِی الْجَعْدِ الْغَطَفَانِیِّ ، عَنْ مَعْدَانَ بْنِ أَبِی طَلْحَۃَ الْیَعْمُرِیِّ ؛ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ قَامَ خَطِیبًا یَوْمَ جُمُعَۃٍ ، أَوْ خَطَبَ یَوْمَ جُمُعَۃٍ ، فَحَمِدَ اللَّہَ وَأَثْنَی عَلَیْہِ ، ثُمَّ ذَکَرَ نَبِیَّ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَأَبَا بَکْرٍ ، ثُمَّ قَالَ : أَیُّہَا النَّاسُ ، إِنِّی قَدْ رَأَیْتُ رُؤْیَا کَأَنَّ دِیکًا أَحْمَرَ نَقَرَنِی نَقْرَتَیْنِ ، وَلاَ أَرَی ذَلِکَ إِلاَّ لِحُضُورِ أَجَلِی ، وَإِنَّ النَّاسَ یَأْمُرُونَنِی أَنْ أَسْتَخْلِفَ ، وَإِنَّ اللَّہَ لَمْ یَکُنْ لِیُضَیِّعَ دِینَہُ وَخِلاَفَتَہُ ، وَالَّذِی بَعَثَ بِہِ نَبِیَّہُ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَإِنْ عُجِّلَ بِی أَمْرٌ ، فَالْخِلاَفَۃُ شُورَی بَیْنَ ہَؤُلاَئِ الرَّہْطِ السِّتَّۃِ ، الَّذِینَ تُوُفِّیَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَہُوَ عَنْہُمْ رَاضٍ ، فَأَیُّہُمْ بَایَعْتُمْ لَہُ، فَاسْمَعُوا لَہُ وَأَطِیعُوا ، وَقَدْ عَرَفْتُ أَنَّ رِجَالاً سَیَطْعَنْونَ فِی ہَذَا الأَمْرِ ، وَإِنِّی قَاتَلْتُہُمْ بِیَدِی ہَذِہِ عَلَی الإِسْلاَمِ ، فَإِنْ فَعَلُوا ذَلِکَ فَأُولَئِکَ أَعْدَائُ اللہِ الْکَفَرَۃُ الضُّلاَّلُ۔ إنِّی وَاللہِ مَا أَدَعُ بَعْدِی أَہَمَّ إِلَیَّ مِنْ أَمْرِ الْکَلاَلَۃِ ، وَقَدْ سَأَلْتُ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَمَا أَغْلَظَ لِی فِی شَیْئٍ مَا أَغْلَظَ لِی فِیہَا ، حَتَّی طَعَنَ بِأُصْبُعِہِ فِی جَنْبِی ، أَوْ صَدْرِی ، ثُمَّ قَالَ : یَا عُمَرُ ، تَکْفِیک آیَۃُ الصَّیْفِ الَّتِی أُنْزِلَتْ فِی آخِرِ النِّسَائِ ، وَإِنْ أَعِشْ فَسَأَقْضِی فِیہَا قَضِیَّۃً لاَ یَخْتَلِفُ فِیہَا أَحَدٌ یَقْرَأُ الْقُرْآنَ ، أَوْ لاَ یَقْرَأُ الْقُرْآنَ۔ ثُمَّ قَالَ : اللَّہُمَّ إِنِّی أُشْہِدُک عَلَی أُمَرَائِ الأَمْصَارِ ، فَإِنِّی إِنَّمَا بَعَثْتُہُمْ لِیُعَلِّمُوا النَّاسَ دِینَہُمْ ، وَسُنَّۃَ نَبِیِّہِمْ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَیَقْسِمُوا فِیہِمْ فَیْأَہُمْ ، وَیَعْدِلُوا فِیہِمْ ، فَمَنْ أَشْکَلَ عَلَیْہِ شَیْئٌ رَفَعَہُ إِلَیَّ۔ ثُمَّ قَالَ : أَیُّہَا النَّاسُ ، إِنَّکُمْ تَأْکُلُونَ شَجَرَتَیْنِ لاَ أَرَاہُمَا إِلاَّ خَبِیثَتَیْنِ ؛ ہَذَا الثُّومُ وَہَذَا الْبَصَلُ ، لَقَدْ کُنْت أَرَی الرَّجُلَ عَلَی عَہْدِ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُوجَدُ رِیحُہُ مِنْہُ ، فَیُؤْخَذُ بِیَدِہِ حَتَّی یُخْرَجَ بِہِ إِلَی الْبَقِیعِ ، فَمَنْ کَانَ آکِلَہُمَا لاَ بُدَّ فَلِیُمِتْہُمَا طَبْخًا۔ قَالَ : فَخَطَبَ بِہَا عُمَرُ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ ، وَأُصِیبَ یَوْمَ الأَرْبِعَائِ ، لأَرْبَعٍ بَقِینَ لِذِی الْحَجَّۃِ۔
(٣٨٢١٧) حضرت معدان بن ابی طلحہ یعمری سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب جمعہ کے دن خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے یا آپ نے جمعہ کا خطبہ دیا ۔۔۔ پس اللہ تعالیٰ کی حمدو ثنا بیان کی پھر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اور حضرت عائشہ کا ذکر کیا۔ پھر حضرت عمر نے کہا۔ اے لوگو ! میں نے ایک خواب دیکھا ہے۔ گویا کہ ایک مرغ تھا اس نے مجھے دو مرتبہ ٹھونگ ماری اور میں اس خواب کو اپنی عمر کے پورا ہونے سے ہی کنایہ دیکھ رہا ہوں اور لوگ مجھے کہہ رہے ہیں کہ میں خلیفہ مقرر کر دوں۔ یقین کرو کہ اللہ تعالیٰ اپنے دین کو خلافت کو ضائع نہیں کرے گا اور اس چیز کو بھی ضائع نہیں کرے گا جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مبعوث کیا ہے۔ پس اگر مجھے جلد ہی موت نے آلیا تو پھر خلافت ان چھ لوگوں کے درمیان مشاورت کے ساتھ (طے) ہوگی جن سے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رضا مندی کے ساتھ رخصت ہوئے ۔ ان میں سے جس کی بھی تم بیعت کرلو تو پھر اس کی بات سنو اور مانو۔ یقیناً مجھے معلوم ہے کہ عنقریب کچھ لوگ اس معاملہ میں طعن کریں گے۔
اگر یہ لوگ ایسا کریں گے تو یہ اللہ کے دشمن ، کافر اور گمراہ ہوں گے۔
٢۔ میں نے اپنے بعد کلالۃ کے معاملہ سے زیادہ اہم بحث نہیں چھوڑی اور تحقیق میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بھی یہ سوال کیا تھا۔ اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے کسی چیز میں اتنی سختی نہیں کی جو سختی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے میرے ساتھ اس (کلالہ) میں فرمائی۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ” اے عمر ! تمہیں سورة نساء کے آخر میں نازل ہونے والی آیۃ الصیف کافی ہے۔ “ اور اگر میں مزید زندہ رہا تو عنقریب میں کلالہ کے بارے میں ایسا فیصلہ کر جاؤں گا کہ پھر کوئی اس مسئلہ میں اختلاف نہیں کرے گا۔ چاہے وہ قرآن پڑھا ہو یا نہ پڑھا ہو۔
٣۔ پھر حضرت عمر نے کہا ۔۔۔ اے اللہ ! میں تجھے شہروں کے امراء پر گواہ بناتا ہوں۔ کیونکہ میں نے انھیں صرف اس لیے بھیجا تھا تاکہ وہ لوگوں کو ان کا دین اور ان کے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سُنَّت سکھائیں۔ اور ان کی فئی ان ہی میں تقسیم کریں اور ان میں انصاف کریں اور انھیں جس بات کا اشکال ہو وہ بات مجھ تک لائیں ۔
٤۔ پھر حضرت عمر نے کہا۔ اے لوگو ! تم دو درخت (پیداوار) ایسے کھاتے ہو کہ جن کو میں خبیث (ناپسندیدہ) ہی خیال کرتا ہوں۔ یہ تھوم اور یہ پیاز ہے یقیناً میں ایک آدمی کو عہد پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں دیکھتا کہ اس سے یہ بو آتی تو اس کو ہاتھ سے پکڑ کر باہر لے جایا جاتا یہاں تک کہ اس کو بقیع کی طرف نکال دیا جاتا۔ پس جو شخص ان کو ضرور کھانا چاہے تو پکا کر ان کی بو کو مار ڈالے۔
٥۔ راوی کہتے ہیں : پس یہ خطبہ حضرت عمر نے جمعہ کے دن ارشاد فرمایا اور بدھ کے روز آپ کو زخمی کردیا گیا۔ ابھی ذی الحجہ میں چار دن باقی تھے۔

38217

(۳۸۲۱۸) حَدَّثَنَا ابْنُ إِدْرِیسَ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ أَبِی جَمْرَۃَ ، عَنْ جَارِیَۃَ بْنِ قُدَامَۃَ السَّعْدِیِّ ، قَالَ : حجَجْتُ الْعَامَ الَّذِی أُصِیبَ فِیہِ عُمَرُ ، قَالَ : فَخَطَبَ ، فَقَالَ : إِنِّی رَأَیْتُ أَنَّ دِیکًا نَقَرَنِی نَقْرَتَیْنِ ، أَوْ ثَلاَثًا ، ثُمَّ لَمْ تَکُنْ إِلاَّ جُمُعَۃٌ ، أَوْ نَحْوَہَا حَتَّی أُصِیبَ ، قَالَ : فَأُذِنَ لأَصْحَابِ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، ثُمَّ أُذِنَ لأَہْلِ الْمَدِینَۃِ ، ثُمَّ أُذِنَ لأَہْلِ الشَّامِ ، ثُمَّ أُذِنَ لأَہْلِ الْعِرَاقِ ، فَکُنَّا آخِرَ مَنْ دَخَلَ عَلَیْہِ ، وَبَطْنُہُ مَعْصُوبٌ بِبُرْدٍ أَسْوَدَ ، وَالدِّمَائُ تَسِیلُ ، کُلَّمَا دَخَلَ قَوْمٌ بَکَوْا وَأَثْنَوْا عَلَیْہِ ، فَقُلْنَا لَہُ : أَوْصِنَا ، وَمَا سَأَلَہُ الْوَصِیَّۃَ أَحَدٌ غَیْرَنَا، فَقَالَ : عَلَیْکُمْ بِکِتَابِ اللہِ ، فَإِنَّکُمْ لَنْ تَضِلُّوا مَا اتَّبَعْتُمُوہُ ، وَأُوصِیکُمْ بِالْمُہَاجِرِینَ ، فَإِنَّ النَّاسَ یَکْثُرُونَ وَیَقِلُّونَ ، وَأُوصِیکُمْ بِالأَنْصَارِ ، فَإِنَّہُمْ شِعَبُ الإِیمَانِ الَّذِی لَجَأَ إِلَیْہِ ، وَأُوصِیکُمْ بِالأَعْرَابِ فَإِنَّہَا أَصْلُکُمْ وَمَادَّتُکُمْ ، وَأُوصِیکُمْ بِذِمَّتِکُمْ ، فَإِنَّہَا ذِمَّۃُ نَبِیِّکُمْ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَرِزْقُ عِیَالِکُمْ ، قُومُوا عَنِّی ، فَمَا زَادَنَا عَلَی ہَؤُلاَئِ الْکَلِمَاتِ۔
(٣٨٢١٨) حضرت جاریہ بن قدامہ سعدی سے روایت ہے۔ فرماتے ہیں : جس سال حضرت عمر کو زخمی کیا گیا میں نے اس سال حج کیا ۔ بیان کرتے ہیں کہ ۔۔۔ حضرت عمر نے خطبہ دیا اور (اس میں) ارشاد فرمایا۔ میں نے (خواب) دیکھا ہے کہ ایک مرغ نے مجھے دو یا تین مرتبہ ٹھونگ ماری ہے۔ پھر اس کے بعد ایک جمعہ یا اس کے قریب ہی وقت گزرا تھا کہ حضرت عمر پر حملہ ہوگیا۔ راوی کہتے ہیں : پس (پہلے) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ کو اجازت دی گئی۔ پھر اہل مدینہ کو اجازت دی گئی پھر اہل شام کو اجازت دی گئی پھر اہل عراق کو اجازت دی گئی۔ پس ہم حضرت عمر کی خدمت میں حاضر ہونے والے آخری لوگ تھے۔ آپ کا پیٹ سیاہ چادر سے باندھا ہوا تھا اور خون بہہ رہا تھا۔ جب بھی کچھ لوگ حضرت عمر کی خدمت میں حاضر ہوتے تو لوگ رو پڑتے اور آپ کی تعریف کرتے۔ ہم نے آپ سے کہا۔ آپ ہمیں وصیت کریں۔ اور ہمارے علاوہ کسی نے بھی آپ سے وصیت کرنے کا سوال نہیں کیا ۔۔۔ چنانچہ حضرت عمر نے کہا۔ کتاب اللہ کو لازم پکڑو۔ کیونکہ جب تک تم لوگ اس کی تابعداری کرتے رہو گے ہرگز گمراہ نہیں ہو گے۔ اور میں تمہیں مہاجرین کے بارے میں وصیت کرتا ہوں کیونکہ دیگر لوگ بڑھیں گے اور (یہ) کم ہوں گے۔ اور میں تمہیں انصار کے بارے میں وصیت کرتا ہوں کیونکہ یہ لوگ ایمان کی ایسی گھاٹی ہیں جس کی طرف ایمان نے پناہ پکڑی اور میں تمہیں دیہاتیوں کے بارے میں وصیت کرتا ہوں کیونکہ یہ تمہاری اصل اور مادہ ہیں۔ اور میں تمہیں تمہارے ذمیوں کے بارے میں وصیت کرتا ہوں یہ لوگ تمہارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ذمہ ہیں اور تمہارے مال بچوں کی روزی ہیں۔ میرے پاس سے اٹھ جاؤ۔ اس سے زیادہ حضرت عمر نے ہمارے ساتھ بات نہیں کی۔

38218

(۳۸۲۱۹) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِِ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَیْمُونٍ ، قَالَ : لَمَّا طُعِنَ عُمَرُ ، مَاجَ النَّاسُ بَعْضُہُمْ فِی بَعْضٍ ، حَتَّی کَادَتِ الشَّمْسُ أَنْ تَطْلُعَ ، فَنَادَی مُنَادٍ : الصَّلاَۃُ ، فَقَدَّمُوا عَبْدَ الرَّحْمَن بْنَ عَوْفٍ فَصَلَّی بِہِمْ ، فَقَرَأَ بِأَقْصَرِ سُورَتَیْنِ فِی الْقُرْآنِ : {إِنَّا أَعْطَیْنَاک الْکَوْثَرَ} ، وَ : {إِذَا جَائَ نَصْرُ اللہِ} ، فَلَمَّا أَصْبَحَ دَخَلَ عَلَیْہِ الطَّبِیبُ ، وَجُرْحُہُ یَسِیلُ دَمًا ، فَقَالَ : أَیُّ الشَّرَابِ أَحَبُّ إِلَیْک ؟ قَالَ : النَّبِیُّذُ ، فَدَعَا بِنَبِیذٍ فَشَرِبَہُ فَخَرَجَ مِنْ جُرْحِہِ ، فَقَالَ : ہَذَا صَدِیدٌ ، ائْتُونِی بِلَبَنٍ ، فَأُتِیَ بِلَبَنٍ ، فَشَرِبَ فَخَرَجَ مِنْ جُرْحِہِ ، فَقَالَ لَہُ الطَّبِیبُ : أَوْصِہِ ، فَإِنِّی لاَ أَظُنُّک إِلاَّ مَیِّتًا مِنْ یَوْمِکَ ، أَوْ مِنْ غَدٍ۔
(٣٨٢١٩) حضرت عمرو بن میمون سے روایت ہے کہ جب حضرت عمر کو نیزہ لگا تو سب لوگ مضطرب ہوگئے یہاں تک کہ سورج طلوع ہونے کے قریب ہوگیا ۔ تو ایک آواز دینے والے نے ندا دی۔ نماز ! چنانچہ لوگوں نے حضرت عبد الرحمن بن عوف کو آگے کردیا۔ پس انھوں نے لوگوں کو نماز پڑھائی۔ اور قرآن مجید کی دو مختصر سورتیں یعنی {إِنَّا أَعْطَیْنَاک الْکَوْثَرَ } اور {إِذَا جَائَ نَصْرُ اللہِ } کو پڑھا۔ پھر جب دن نکل آیا تو ایک طبیب حضرت عمر کی خدمت میں حاضر ہوا حضرت عمر کے زخموں سے خون بہہ رہا تھا۔ طبیب نے پوچھا۔ آپ کو کون سا مشروب پسند ہے ؟ آپ نے فرمایا : نبیذ چنانچہ نبیذ منگوایا اور اس کو حضرت عمر نے پیا لیکن وہ آپ کے زخموں سے باہر نکل آیا ۔ آپ نے فرمایا۔ یہ خون ملی پیپ ہے۔ تم میرے پاس دودھ لاؤ۔ چنانچہ دودھ لایا گیا آپ نے دودھ نوش فرمایا تو وہ بھی زخموں سے باہر نکل آیا ۔ اس پر طبیب نے آپ سے کہا۔ کوئی وصیت کرلو۔ کیونکہ میرے خیال میں آپ ایک یا دو دن میں فوت ہوجائیں گے۔

38219

(۳۸۲۲۰) حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ الرَّازِیّ ، عَنْ أَبِی سِنَانٍ ، عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ ، عَنْ عَامِرٍ ، قَالَ : حَلفَ بِاللہِ ، لَقَدْ طُعِنَ عُمَرُ وَإِنَّہُ لَفِی النَّحْلِ یَقْرَؤُہَا۔
(٣٨٢٢٠) حضرت عامر سے روایت ہے۔ وہ اللہ کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ تحقیق حضرت عمر کو نیزہ مارا گیا تو وہ اس وقت سورة نحل کی قراءت کر رہے تھے۔

38220

(۳۸۲۲۱) حَدَّثَنَا ابْنُ إِدْرِیسَ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاہِیمَ ، عَنِ ابْنِ مِینَائَ ، عَنِ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَۃَ ، قَالَ : سَمِعْتُ عُمَرَ ، وَإِنَّ إِحْدَی أَصَابِعِی فِی جُرْحِہِ ہَذِہِ ، أَوْ ہَذِہِ ، أَوْ ہَذِہِ ، وَہُوَ یَقُولُ : یَا مَعْشَرَ قُرَیْشٍ ، إِنِّی لاَ أَخَافُ النَّاسَ عَلَیْکُمْ ، إِنَّمَا أَخَافُکُمْ عَلَی النَّاسِ ، إِنِّی قَدْ تَرَکْتُ فِیکُمْ ثِنْتَیْنِ ، لَنْ تَبْرَحُوا بِخَیْرٍ مَا لَزِمْتُمُوہُمَا : الْعَدْلُ فِی الْحُکْمِ ، وَالْعَدْلُ فِی الْقَسْمِ ، وَإِنِّی قَدْ تَرَکْتُکُمْ عَلَی مِثْلِ مُخَرَفَۃِ النَّعَمِ ، إِلاَّ أَنْ یَعَوَّجَ قَوْمٌ ، فَیُعْوَجَّ بِہِمْ۔
(٣٨٢٢١) حضرت مسور بن مخرمہ سے روایت ہے۔ کہتے ہیں : میں نے حضرت عمر کو کہتے سُنا۔۔۔جبکہ میری انگلیوں میں سے ایک انگلی ان کے زخم کے اندر تھی ۔۔۔ اے گروہ قریش ! میں تمہارے خلاف لوگوں سے خوف نہیں رکھتا بلکہ مجھے تو صرف لوگوں کے خلاف تم سے خوف ہے۔ یقیناً میں دو چیزیں تم میں چھوڑ کر جا رہا ہوں جب تک تم ان کو لازم پکڑو گے تب تک مسلسل خیر پر رہو گے۔ فیصلہ کرنے میں عدل اور تقسیم کرنے میں عدل۔ اور یقیناً میں تمہیں بالکل سیدھا چھوڑ کر جا رہا ہوں البتہ اگر کسی قوم نے ٹیڑھا راستہ اختیار کیا تو وہ ٹیڑھے راستے پر چل پڑیں گے۔

38221

(۳۸۲۲۲) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ یَسَارٍ ، عَنِ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَۃَ ، قَالَ : دَخَلْتُ أَنَا ، وَابْنُ عَبَّاسٍ عَلَی عُمَرَ بَعْدَ مَا طُعَنْ ، وَقَدْ أُغْمِیَ عَلَیْہِ ، فَقُلْنَا : لاَ یَنْتَبِہُ لِشَیْئٍ أَفْرَغَ لَہُ مِنَ الصَّلاَۃِ، فَقُلْنَا: الصَّلاَۃُ یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ ، فَانْتَبَہَ ، وَقَالَ: الصَّلاَۃُ ، وَلاَ حَظَّ فِی الإِسْلاَمِ لامْرِئٍ تَرَکَ الصَّلاَۃَ، فَصَلَّی وَإِنَّ جُرْحَہُ لَیَثْعَبُ دَمًا۔
(٣٨٢٢٢) حضرت مسور بن مخرمہ سے روایت ہے کہ میں اور ابن عباس ، حضرت عمر پر حملہ ہونے کے بعد جبکہ ان پر بےہوشی طاری تھی۔ داخل ہوئے۔ تو ہم نے کہا۔ ان کو نماز سے زیادہ گھبراہٹ میں ڈالنے والی کسی چیز سے نہیں بیدار کیا جاسکے گا۔ چنانچہ ہم نے کہا۔ اے امیر المؤمنین ! نماز ! پس حضرت عمر متنبہ ہوئے اور فرمایا : نماز ! ایسے آدمی کا اسلام میں کوئی حصہ نہیں جو نماز کو چھوڑ دے۔ پھر حضرت عمر نے اس حالت میں نماز پڑھی کہ ان کے زخموں سے خون بہہ رہا تھا۔

38222

(۳۸۲۲۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ التَّیْمِیِّ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَیْمُونٍ ، قَالَ : کُنْتُ أَدَعُ الصَّفَّ الأَوَّلَ ہَیْبَۃً لِعُمَرَ ، وَکُنْتُ فِی الصَّفِّ الثَّانِی یَوْمَ أُصِیبَ ، فَجَائَ ، فَقَالَ : الصَّلاَۃُ عِبَادَ اللہِ ، اسْتَوُوا ، قَالَ : فَصَلَّی بِنَا ، فَطَعَنَہُ أَبُو لُؤْلُؤَۃَ طَعْنَتَیْنِ ، أَوْ ثَلاَثًا ، قَالَ : وَعَلَی عُمَرَ ثَوْبٌ أَصْفَرُ ، قَالَ : فَجَمَعَہُ عَلَی صَدْرِہِ ، ثُمَّ أَہْوَی ، وَہُوَ یَقُولُ : {وَکَانَ أَمْرُ اللہِ قَدَرًا مَقْدُورًا} فَقَتَلَ وَطَعَنَ اثْنَیْ عَشَرَ ، أَوْ ثَلاَثَۃَ عَشَرَ ، قَالَ : وَمَالَ النَّاسُ عَلَیْہِ ، فَاتَّکَأَ عَلَی خِنْجَرِہِ فَقَتَلَ نَفْسَہُ۔ (ابن سعد ۳۴۸)
(٣٨٢٢٣) حضرت عمرو بن میمون سے روایت ہے کہ میں حضرت عمر کی ہیبت کی وجہ سے پہلی صف کو چھوڑ دیتا تھا۔ جس دن حضرت عمر پر حملہ ہوا اس دن میں دوسری صف میں تھا۔ حضرت عمر تشریف لائے اور فرمایا۔ اے بندگانِ خدا ! نماز، (صفوں میں) سیدھے ہو جاؤ۔ راوی کہتے ہیں : پس آپ نے ہمیں نماز پڑھانا شروع کی۔ کہ ابو لؤلؤ نے آپ پر دو یا تین وار کئے۔ راوی کہتے ہیں۔ حضرت عمر نے زرد کپڑے پہنے ہوئے تھے۔ راوی کہتے ہیں۔ پس آپ نے اس کپڑے کو اپنے سینے کی طرف اکٹھا کرلیا پھر آپ نے اشارہ کیا اور آپ فرما رہے تھے۔ { وَکَانَ أَمْرُ اللہِ قَدَرًا مَقْدُورًا }
پھر اس نے مزید بارہ یا تیرہ لوگوں کو قتل کیا اور وار کئے۔ راوی کہتے ہیں۔ لوگ اس قاتل کی طرف بڑھے تو اس نے اپنے خنجر پر تکیہ لگا کر اپنے آپ کو قتل کرلیا۔

38223

(۳۸۲۲۴) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنِ الأَسْوَدِ بْنِ قَیْسٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْن الْحَارِثِ الْخُزَاعِیِّ ، قَالَ : سَمِعْتُ عُمَرَ یَقُولُ فِی خُطْبَتِہِ : إِنِّی رَأَیْت الْبَارِحَۃَ دِیکًا نَقَرَنِی ، وَرَأَیْتُہُ یُجْلِیہِ النَّاسُ عَنِّی ، وَإِنِّی أُقْسِمُ بِاللہِ لَئِنْ بَقِیتُ لأَجْعَلَنَّ سِفْلَۃَ الْمُہَاجِرِینَ فِی الْعَطَائِ عَلَی أَلْفَیْنِ أَلْفَیْنِ ، فَلَمْ یَمْکُثْ إِلاَّ ثَلاَثًا ، حَتَّی قَتَلَہُ غُلاَمُ الْمُغِیرَۃِ ، أَبُو لُؤْلُؤَۃَ۔
(٣٨٢٢٤) حضرت عبداللہ بن الحارث خزاعی سے روایت ہے کہ میں نے حضرت عمر کو ان کے خطبہ میں یہ کہتے سُنا کہ : میں نے گزشتہ رات (خواب میں) ایک مرغ کو دیکھا کہ وہ مجھے ٹھونگ مار رہا ہے اور میں نے اس کو دیکھا کہ لوگ اس کو مجھ سے دور کر رہے ہیں۔ اور میں خدا کی قسم کھاتا ہوں کہ اگر میں باقی رہا تو میں ضرور بالضرور عام مہاجرین کو بھی دو دو ہزار عطیہ دوں گا۔ لیکن تین دن ہی گزرے تھے کہ آپ کو حضرت مغیرہ بن شعبہ کے غلام ابو لؤلؤ نے قتل کردیا۔

38224

(۳۸۲۲۵) حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ شَرِیکٍ ، عَنِ ابْنِ أَبِی مُلَیْکَۃَ ، قَالَ : مَا خَصَّ عُمَرُ أَحَدًا مِنْ أَہْلِ الشُّورَی دُونَ أَحَدٍ ، إِلاَّ إِنَّہُ خَلاَ بِعَلِیٍّ وَعُثْمَانَ ، کُلُّ وَاحِدٍ مِنْہُمَا عَلَی حِدَۃٍ ، فَقَالَ : یَا فُلاَنُ ، اتَّقِ اللَّہَ ، فَإِنِ ابْتَلاَک اللَّہُ بِہَذَا الأَمْرِ ، فَلاَ تَرْفَعْ بَنِی فُلاَنٍ عَلَی رِقَابِ النَّاسِ ، وَقَالَ لِلآخَرِ مِثْلَ ذَلِکَ۔
(٣٨٢٢٥) حضرت ابن ابی ملیکہ سے روایت ہے کہ حضرت عمر نے اہل شوریٰ میں سے کسی کو خاص نہیں کیا لیکن آپ نے حضرت علی اور حضرت عثمان سے علیحدگی (میں کوئی بات) کی۔ اور ان میں سے بھی ہر ایک کو دوسرے سے علیحدہ کیا۔ آپ نے فرمایا۔ اے فلاں ! اللہ سے ڈر اور اگر تجھے اس معاملہ کے ذریعہ خدا تعالیٰ آزمائے تو تُو بنی فلاں کو دیگر لوگوں کی گردنوں پر بلند نہ کرنا۔ اور (اسی طرح) آپ دوسرے (علی و عثمان میں) سے بھی ایسا کہا۔

38225

(۳۸۲۲۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إِسْمَاعِیلَ بْنِ أَبِی خَالِدٍ ، عَنْ حَسَنِ بْنِ مُحَمَّدٍ ، قَالَ : قَالَ عُمَرُ لِعُثْمَانَ : اتَّقِ اللَّہَ ، وَإِنْ وُلِّیتَ شَیْئًا مِنْ أُمُورِ النَّاسِ ، فَلاَ تَحْمِلْ بَنِی أَبِی مُعَیْطٍ عَلَی رِقَابِ النَّاسِ ، وَقَالَ لِعَلِیٍّ : اتَّقِ اللَّہَ ، وَإِنْ وُلِّیتَ شَیْئًا مِنْ أُمُورِ النَّاسِ ، فَلاَ تَحْمِلْ بَنِی ہَاشِمٍ عَلَی رِقَابِ النَّاسِ۔
(٣٨٢٢٦) حضرت حسن بن محمد سے روایت ہے کہ حضرت عمر نے حضرت عثمان سے کہا۔ اللہ سے ڈر اور اگر تجھے لوگوں کے معاملات میں سے کسی کی ولایت مل جائے تو تُو بنو ابی معیط کے لوگوں کو دیگر لوگوں کی گردنوں پر بلند نہ کرنا ۔ اور حضرت عمر نے حضرت علی سے کہا۔ اللہ سے ڈر۔ اور اگر تجھے لوگوں کے معاملات میں سے کسی کا اختیار مل جائے تو تُو بنو ہاشم کو دیگر لوگوں کی گردن پر بلند نہ کرنا۔

38226

(۳۸۲۲۷) حَدَّثَنَا ابْنُ إِدْرِیسَ ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِیزِ بْنِ عُمَرَ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ بْنِ زُرْعَۃَ ، عَالِمٍ مِنْ عُلَمَائِ أَہْلِ الشَّام ، قَالَ : قُلْتُ لَہُ : مَنْ صَلَّی عَلَی عُمَرَ ؟ قَالَ : صُہَیْبٌ۔
(٣٨٢٢٧) اہل شام کے علماء میں سے ایک عامل حضرت ابراہیم بن زرعہ سے عبد العزیز بن عمر نقل کرتے ہیں کہ میں نے ابن زرعہ سے پوچھا۔ حضرت عمر کا جنازہ کس نے پڑھا یا تھا ؟ انھوں نے جواب دیا۔ صہیب نے۔

38227

(۳۸۲۲۸) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ، عَنِ الْقَاسِمِ ؛ أَنَّ عُمَرَ حِینَ طُعِنَ جَائَ النَّاسُ یُثْنُونَ عَلَیْہِ ، وَیَدْعُونَ لَہُ ، فَقَالَ عُمَرُ رَحِمَہُ اللہُ : أَبِالإِمَارَۃِ تُزَکُّونَنِی ؟ لَقَدْ صَحِبْتُ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقُبِضَ وَہُوَ عَنِّی رَاضٍ ، وَصَحِبْتُ أَبَا بَکْرٍ فَسَمِعْتُ وَأَطَعْتُ ، فَتُوُفِّیَ أَبُو بَکْرٍ وَأَنَا سَامِعٌ مُطِیعٌ ، وَمَا أَصْبَحْتُ أَخَافُ عَلَی نَفْسِی إِلاَّ إِمَارَتَکُمْ ۔
(٣٨٢٢٨) حضرت قاسم سے روایت ہے۔ کہ جب حضرت عمر کو نیزہ لگا تو لوگ (آپ کے پاس) آ کر آپ کی تعریف کرنے لگے اور آپ کے لیے دعا کرنے لگے تو حضرت عمر نے ان سے کہا۔ کیا تم لوگ خلافت کی بنیاد پر مجھے پاکیزہ سمجھ رہے ہو ؟ تحقیق میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صحبت اختاکر کی پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس حالت میں دنیا سے تشریف لے گئے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مجھ سے خوش تھے پھر میں نے حضرت ابوبکر کی صحبت اختیار کی اور میں نے آپ کا حکم سُنا اور مانا پھر آپ کی وفات بھی اس حالت میں ہوئی کہ میں آپ کی بات سننے اور ماننے والا تھا۔ اور مجھے تو اپنے آپ پر صرف تمہاری امارت ہی کا خوف ہے۔

38228

(۳۸۲۲۹) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو ، حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَۃَ ، وَیَحْیَی بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ حَاطِبٍ ، وَأَشْیَاخٌ ، قَالَوا: رَأَی عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ فِی الْمَنَامِ ، فَقَالَ: رَأَیْتُ دِیکًا أَحْمَرَ نَقَرَنِی ثَلاَثَ نَقَرَاتٍ، بَیْنَ الثَّنِیَّۃِ وَالسُّرَّۃِ ، قَالَتْ أَسْمَائُ بِنْتُ عُمَیْسٍ ، أُمُّ عَبْدِ اللہِ بْنِ جَعْفَرٍ : قُولُوا لَہُ فَلِیُوصِ ، وَکَانَتْ تَعْبُرُ الرُّؤْیَا ، فَلاَ أَدْرِی أَبَلَغَہُ ذَلِکَ ، أَمْ لاَ ، فَجَائَہُ أَبُو لُؤْلُؤَۃَ الْکَافِرُ الْمَجُوسِیُّ ، عَبْدُ الْمُغِیرَۃِ بْنِ شُعْبَۃَ ، فَقَالَ : إِنَّ الْمُغِیرَۃَ قَدْ جَعَلَ عَلَیَّ مِنَ الْخَرَاجِ مَا لاَ أُطِیقُ ، قَالَ : کَمْ جَعَلَ عَلَیْک ؟ قَالَ ، کَذَا وَکَذَا ، قَالَ : وَمَا عَمَلُک ؟ قَالَ : أَجُوبُ الأَرْحَائَ ، قَالَ : وَمَا ذَاکَ عَلَیْک بِکَثِیرٍ ، لَیْسَ بِأَرْضِنَا أَحَدٌ یَعْمَلُہَا غَیْرُک ، أَلاَ تَصْنَعُ لِی رَحًی ؟ قَالَ : بَلَی ، وَاللہِ لأَجْعَلَنَّ لَک رَحًی یَسْمَعُ بِہَا أَہْلُ الآفَاقِ۔ فَخَرَجَ عُمَرُ إِلَی الْحَجِّ ، فَلَمَّا صَدَرَ اضْطَجَعَ بِالْمُحَصَّبِ ، وَجَعَلَ رِدَائَہُ تَحْتَ رَأْسِہِ ، فَنَظَرَ إِلَی الْقَمَرِ فَأَعْجَبَہُ اسْتِوَاؤُہُ وَحُسْنُہُ ، فَقَالَ : بَدَأَ ضَعِیفًا ، ثُمَّ لَمْ یَزَلِ اللَّہُ یَزِیدُہُ وَیُنْمِیہِ حَتَّی اسْتَوَی ، فَکَانَ أَحْسَنَ مَا کَانَ ، ثُمَّ ہُوَ یَنْقُصُ حَتَّی یَرْجِعَ کَمَا کَانَ ، وَکَذَلِکَ الْخَلْقُ کُلُّہُ ، ثُمَّ رَفَعَ یَدَیْہِ ، فَقَالَ : اللَّہُمَّ إِنَّ رَعِیَّتِی قَدْ کَثُرَتْ وَانْتَشَرَتْ ، فَاقْبِضْنِی إِلَیْک غَیْرَ عَاجِزٍ ، وَلاَ مُضَیِّعٍ۔ فَصَدَرَ إِلَی الْمَدِینَۃِ ، فَذُکِرَ لَہُ أَنَّ امْرَأَۃً مِنَ الْمُسْلِمِینَ مَاتَتْ بِالْبَیْدَائِ ، مَطْرُوحَۃً عَلَی الأَرْضِ ، یَمُرُّ بِہَا النَّاسُ لاَ یُکَفِّنُہَا أَحَد ، وَلاَ یُوَارِیہَا أَحَدٌ ، حَتَّی مَرَّ بِہَا کُلَیْبُ بْنُ الْبُکَیْرِ اللَّیْثِی ، فَأَقَامَ عَلَیْہَا ، حَتَّی کَفَّنَہَا وَوَارَاہَا ، فَذُکِرَ ذَلِکَ لِعُمَرَ ، فَقَالَ : مَنْ مَرَّ عَلَیْہَا مِنَ الْمُسْلِمِینَ ؟ فَقَالُوا : لَقَدْ مَرَّ عَلَیْہَا عَبْدُ اللہِ بْنُ عُمَرَ ، فِیمَنْ مَرَّ عَلَیْہَا مِنَ الْمُسْلِمِینَ ، فَدَعَاہُ ، وَقَالَ : وَیْحَکَ ، مَرَرْتَ عَلَی امْرَأَۃٍ مِنَ الْمُسْلِمِینَ مَطْرُوحَۃً عَلَی ظَہْرِ الطَّرِیقِ ، فَلَمْ تُوَارِہَا وَلَمْ تُکَفِّنْہَا ؟ قَالَ : مَا شَعَرْتُ بِہَا ، وَلاَ ذَکَرَہَا لِی أَحَدٌ ، فَقَالَ : لَقَدْ خَشِیتُ أَنْ لاَ یَکُونَ فِیک خَیْرٌ ، فَقَالَ : مَنْ وَارَاہَا وَمَنْ کَفَّنَہَا ؟ قَالَوا : کُلَیْبُ بْنُ بُکَیْر اللَّیْثِیُّ ، قَالَ : وَاللہِ لَحَرِیٌّ أَنْ یُصِیبَ کُلَیْبٌ خَیْرًا۔ فَخَرَجَ عُمَرُ یُوقِظُ النَّاسَ بِدِرَّتِہِ لِصَلاَۃِ الصُّبْحِ ، فَلَقِیَہُ الْکَافِرُ أَبُو لُؤْلُؤَۃَ ، فَطَعَنْہُ ثَلاَثَ طَعَنْاتٍ بَیْنَ الثَّنِیَّۃِ وَالسُّرَّۃِ ، وَطَعَنْ کُلَیْبَ بْنَ بُکَیْر فَأَجْہَزَ عَلَیْہِ ، وَتَصَایَحَ النَّاسُ ، فَرَمَی رَجُلٌ عَلَی رَأْسِہِ بِبُرْنُسٍ ، ثُمَّ اضْطَبَعَہُ إِلَیْہِ ، وَحُمِلَ عُمَرُ إِلَی الدَّارِ ، فَصَلَّی عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ بِالنَّاسِ ، وَقِیلَ لِعُمَرَ : الصَّلاَۃُ ، فَصَلَّی وَجُرْحُہُ یَثْعَبُ ، وَقَالَ : لاَ حَظَّ فِی الإِسْلاَمِ لِمَنْ لاَ صَلاَۃَ لَہُ ، فَصَلَّی وَدَمُہُ یَثْعَبُ ، ثُمَّ انْصَرَفَ النَّاسُ عَلَیْہِ ، فَقَالُوا : یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ ، إِنَّہُ لَیْسَ بِکَ بَأْسٌ ، وَإِنَّا لَنَرْجُو أَنْ یُنْسِئَ اللَّہُ فِی أَثَرِکَ ، وَیُؤَخِّرَک إِلَی حِینٍ ، أَوْ إِلَی خَیْرٍ۔ فَدَخَلَ عَلَیْہِ ابْنُ عَبَّاسٍ ، وَکَانَ یُعْجَبُ بِہِ ، فَقَالَ : اُخْرُجْ ، فَانْظُرْ مَنْ صَاحِبِی ؟ ثُمَّ خَرَجَ فَجَائَ ، فَقَالَ : أَبْشِرْ یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ ، صَاحِبُک أَبُو لُؤْلُؤَۃَ الْمَجُوسِیُّ ، غُلاَمُ الْمُغِیرَۃِ بْنِ شُعْبَۃَ ، فَکَبَّرَ حَتَّی خَرَجَ صَوْتُہُ مِنَ الْبَابِ ، ثُمَّ قَالَ : الْحَمْدُ لِلَّہِ الَّذِی لَمْ یَجْعَلْہُ رَجُلاً مِنَ الْمُسْلِمِینَ ، یُحَاجُّنِی بِسَجْدَۃٍ سَجَدَہَا لِلَّہِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ، ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَی الْقَوْمِ ، فَقَالَ : أَکَانَ ہَذَا عَنْ مَلأٍ مِنْکُمْ ؟ فَقَالُوا : مَعَاذَ اللہِ ، وَاللہِ لَوَدِدْنَا أَنَّا فَدَیْنَاک بِآبَائِنَا ، وَزِدْنَا فِی عُمْرِکَ مِنْ أَعْمَارِنَا ، إِنَّہُ لَیْسَ بِکَ بَأْسٌ۔ قَالَ : أَیْ یَرْفَأُ وَیْحَک ، اسْقِنِی ، فَجَائَہُ بِقَدَحٍ فِیہِ نَبِیذٌ حُلْوٌ فَشَرِبَہُ ، فَأَلْصَقَ رِدَائَہُ بِبَطْنِہِ ، قَالَ : فَلَمَّا وَقَعَ الشَّرَابُ فِی بَطْنِہِ خَرَجَ مِنَ الطَّعَنْاتِ ، قَالَوا : الْحَمْدُ لِلَّہِ ، ہَذَا دَمٌ اسْتَکَنَ فِی جَوْفِکَ ، فَأَخْرَجَہُ اللَّہُ مِنْ جَوْفِکَ ، قَالَ : أَیْ یَرْفَأُ ، وَیْحَک اسْقِنِی لَبَنًا ، فَجَائَ بِلَبَنٍ فَشَرِبَہُ ، فَلَمَّا وَقَعَ فِی جَوْفِہِ خَرَجَ مِنَ الطَّعَنَاتِ ، فَلَمَّا رَأَوْا ذَلِکَ عَلِمُوا أَنَّہُ ہَالِکٌ۔ قَالَوا: جَزَاک اللَّہُ خَیْرًا ، قَدْ کُنْتَ تَعْمَلُ فِینَا بِکِتَابِ اللہِ ، وَتَتَّبِعُ سُنَّۃَ صَاحِبَیْک ، لاَ تَعْدِلُ عَنْہَا إِلَی غَیْرِہَا، جَزَاک اللَّہُ أَحْسَنَ الْجَزَائِ ، قَالَ : بِالإِمَارَۃِ تَغْبِطُونَنِی ، فَوَاللہِ لَوَدِدْتُ أَنِّی أَنْجُو مِنْہَا کَفَافًا لاَ عَلَیَّ ، وَلاَ لِی، قُومُوا فَتَشَاوَرُوا فِی أَمْرِکُمْ ، أَمِّرُوا عَلَیْکُمْ رَجُلاً مِنْکُمْ ، فَمَنْ خَالَفَہُ فَاضْرِبُوا رَأْسَہُ ، قَالَ : فَقَامُوا، وَعَبْدُ اللہِ بْنُ عُمَرَ مُسْنِدُہُ إِلَی صَدْرِہِ ، فَقَالَ عَبْدُ اللہِ : أَتُؤَمِّرُونَ وَأَمِیرُ الْمُؤْمِنِینَ حَیٌّ ؟ فَقَالَ عُمَرُ : لاَ ، وَلِیُصَلِّ صُہَیْبٌ ثَلاَثًا ، وَانْتَظِرُوا طَلْحَۃَ ، وَتَشَاوَرُوا فِی أَمْرِکُمْ ، فَأَمِّرُوا عَلَیْکُمْ رَجُلاً مِنْکُمْ ، فَإِنْ خَالَفَکُمْ فَاضْرِبُوا رَأْسَہُ ، قَالَ : اذْہَبْ إِلَی عَائِشَۃَ ، فَاقْرَأْ عَلَیْہَا مِنِّی السَّلاَمَ ، وَقُلْ : إِنَّ عُمَرَ یَقُولُ : إِنْ کَانَ ذَلِکَ لاَ یَضُرُّ بِکِ ، وَلاَ یَضِیقُ عَلَیْکِ ، فَإِنِّی أُحِبُّ أَنْ أُدْفَنَ مَعَ صَاحِبَی ، وَإِنْ کَانَ یَضُرُّ بِکِ وَیَضِیقُ عَلَیْکِ ، فَلَعَمْرِی لَقَدْ دُفِنَ فِی ہَذَا الْبَقِیعِ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَأُمَّہَاتِ الْمُؤْمِنِینَ مَنْ ہُوَ خَیْرٌ مِنْ عُمَرَ ، فَجَائَہَا الرَّسُولُ ، فَقَالَتْ : إِنَّ ذَلِکَ لاَ یَضُرُّ ، وَلاَ یَضِیقُ عَلَیَّ ، قَالَ : فَادْفِنُونِی مَعَہُمَا ، قَالَ عَبْدُ اللہِ بْنُ عُمَرَ : فَجَعَلَ الْمَوْتُ یَغْشَاہُ ، وَأَنَا أُمْسِکُہُ إِلَی صَدْرِی ، قَالَ : وَیْحَک ضَعْ رَأْسِی بِالأَرْضِ ، قَالَ : فَأَخَذَتْہُ غَشْیَۃٌ ، فَوَجَدْتُ مِنْ ذَلِکَ ، فَأَفَاقَ ، فَقَالَ : وَیْحَک ، ضَعْ رَأْسِی بِالأَرْضِ ، فَوَضَعْتُ رَأْسَہُ بِالأَرْضِ ، فَعَفَّرَہُ بِالتُّرَابِ ، فَقَالَ : وَیْلُ عُمَرَ ، وَوَیْلُ أُمِّہِ إِنْ لَمْ یَغْفِرَ اللَّہُ لَہُ۔ قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو: وَأَہْلُ الشُّورَی: عَلِیٌّ، وَعُثْمَان، وَطَلْحَۃُ، وَالزُّبَیْرُ، وَسَعْدٌ، وَعَبْدُالرَّحْمَن بْنُ عَوْفٍ۔
(٣٨٢٢٩) حضرت یحییٰ بن عبدالرحمن بن حاطب اور دوسرے بزرگ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر نے شہادت سے پہلے خواب میں دیکھا کہ ایک مرغے نے ان کی ناف اور سینے کے درمیان چونچ ماری ہے۔ حضرت اسماء بنت عمیس تعبیر کی ماہر تھیں، انھوں نے یہ خواب سنا تو فرمایا کہ ان سے کہو کہ وصیت کردیں۔ میں نہیں جانتا کہ یہ تعبیر ان تک پہنچی یا نہیں۔ کچھ دنوں بعد مغیرہ بن شعبہ کا غلام ابو لؤلؤ ، حضرت عمر کے پاس آیا اور حضرت عمر نے پوچھا کہ تم کیا کرتے ہو ؟ اس نے کہا میں چکیاں بناتا ہوں۔ حضرت عمر نے کہا کہ پھر تو بہت زیادہ نہیں کیونکہ یہاں تمہارے علاوہ کوئی یہ کام نہیں کرتا، کیا تم مجھے ایک چکی بنا کردو گے ؟ اس نے کہا میں آپ کو ایسی چکی بنا کر دوں گا کہ اس کی شہرت سارے عالم میں ہوگی۔
٢۔ پھر حضرت عمر حج کے لیے چل پڑے پس جب آپ پہنچے تو آپ رمی جمار کی جگہ لیٹ گئے اور اپنی چادر کو اپنے سر کے نیچے رکھ لیا۔ آپ نے چاند کی طرف دیکھا تو آپ کو اس کی خوبصورتی اور برابری بہت پیاری لگی اس پر آپ نے فرمایا۔ یہ ابتداء میں کمزور ساظاہر ہوتا ہے پھر اللہ تعالیٰ اس میں اضافہ کرتے رہتے ہیں اور اس کو بڑھاتے رہتے ہیں یہاں تک کہ یہ برابر ہوجاتا ہے۔ اور پھر یہ کمال حسن تک پہنچ جاتا ہے۔ پھر یہ کم ہونا شروع ہوتا ہے یہاں تک دوبارہ ویسا ہی (پہلے جیسا) ہوجاتا ہے۔ ساری مخلوق کی حالت ایسی ہی ہے۔ پھر آپ نے اپنے ہاتھ اٹھائے اور عرض کیا۔ اے اللہ ! میری رعایا بہت زیادہ ہوگئی ہے۔ اور بہت پھیل گئی ہے پس تو مجھے اپنی طرف واپس بلا لے عاجز اور ضائع کیے بغیر۔
٣۔ پھر حضرت عمر مدینہ واپس آئے تو ان کے سامنے ذکر کیا گیا کہ مسلمانوں کی ایک عورت مقام بیداء میں مرگئی تھی، وہ زمین پر پڑی ہوئی تھی اور لوگ اس کے پاس سے گزرتے جا رہے تھے۔ کسی نے بھی اس کو کفن نہ دیا اور نہ ہی اس کو دفنایا یہاں تک کہ حضرت کلیب بن بکیر لیثی اس عورت کے پاس سے گزرے تو وہ اس کے پاس ٹھہرے رہے یہاں تک کہ انھوں نے اس کو کفنایا اور دفنایا۔ یہ بات حضرت عمر کے سامنے ذکر کی گئی تو آپ نے پوچھا۔ مسلمانوں میں سے کون لوگ اس کے پاس سے گزرے تھے ؟ لوگوں نے جواب دیا۔ اس کے پاس سے گزرنے والے لوگوں میں حضرت عبداللہ بن عمر بھی تھے۔ چنانچہ آپ نے ابن عمر کو بلایا اور فرمایا۔ تو ہلاک ہوجائے۔ تو ایک مسلمان عورت پر سے جو راستہ میں زمین پر گری پڑی تھی گزرا اور تو نے اس کو کفنایا، دفنایا کیوں نہیں ؟ انھوں نے جواب دیا۔ مجھے تو اس کا پتہ ہی نہیں چلا اور نہ ہی مجھ سے کسی نے اس کے بارے میں ذکر کیا۔ حضرت عمر نے فرمایا۔ مجھے ڈر ہے کہ کہیں تو خیر سے خالی نہ ہو۔ پھر حضرت عمر نے پوچھا۔ اس عورت کو کس نے کفنایا اور دفنایا ؟ لوگوں نے جواب دیا کہ کلیب بن بکیر لیثی نے۔ آپ نے فرمایا : خدا کی قسم ! کلیب اس بات کا حق دار ہے کہ اس کو خیر پہنچے۔
٤۔ پھر حضرت عمر لوگوں کو صبح کی نماز کے لیے بیدار کرنے کے لیے نکلے تھے کہ آپ کو ابو لؤلؤ کافر ملا اور اس نے آپ کی ناف اور سینے کے درمیان تین وار کئے۔ اور حضرت کلیب بن بکیر کو مارا اور ان کا کام تمام کردیا۔ لوگوں نے آوازیں بلند کیں تو ایک آدمی نے اس پر بڑی چادر پھینک دی۔ اور حضرت عمر کو اٹھا کر گھر لے جایا گیا۔ اور حضرت عبد الرحمن بن عوف نے لوگوں کو نماز پڑھائی۔ اور حضرت عمر سے کہا گیا۔ نماز ! تو آپ نے اس حالت میں نماز پڑھی کہ آپ کے زخموں سے خون بہہ رہا تھا ۔ اور آپ نے ارشاد فرمایا۔ جس آدمی کی نماز نہیں، اس کا اسلام میں کوئی حصہ نہیں۔ پس آپ نے اس حالت میں نماز ادا فرمائی کہ آپ کا خون ٹپک رہا تھا۔ پھر لوگ حضرت عمر کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہنے لگے۔ اے امیر المؤمنین ! آپ کو کوئی زخم نہیں ہیں۔ اور یقیناً ہمیں امید ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کے فیض کو مزید باقی رکھے گا اور آپ کو مزید ایک وقت تک یا ایک خیر (کے کام) تک مہلت دے گا۔
٥۔ پھر حضرت عمر کی خدمت میں حضرت ابن عباس حاضر ہوئے ۔۔۔ حضرت عمر کو ابن عباس سے محبت تھی ۔۔۔ حضرت عمر نے فرمایا۔ تم دیکھو کہ مجھے قتل کرنے والا کون ہے ؟ چنانچہ ابن عباس باہر چلے گئے پھر واپس آئے تو فرمایا۔ اے امیر المؤمنین ! آپ کو خوشخبری ہو کہ آپ کا قاتل حضرت مغیرہ بن شعبہ کا غلام ابو لؤلؤ مجوسی ہے۔ اس پر حضرت عمر نے اللہ اکبر کہا۔ یہاں تک (بلند آواز میں کہا کہ) آپ کی آواز دروازے سے باہر نکل گئی پھر حضرت عمر نے فرمایا۔ تمام تعریفیں اس خدا کے لیے ہیں جس نے قاتل کو مسلمان آدمی نہیں بنایا کہ بروز قیامت وہ میرے ساتھ کسی ایسے سجدہ کی وجہ سے مخاصمت کرتا جو اس سے صرف خدا کے لیے کیا ہوتا۔ پھر حضرت عمر لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا۔ کیا یہ آدمی تمہارے قوم میں سے ہے ؟ لوگوں نے کہا۔ اللہ کی پناہ ! ہم تو اس بات کو پسند کرتے ہیں کہ ہم آپ پر اپنے آباء کو فداء کردیں اور آپ کی عمر میں اپنی عمروں سے اضافہ کردیں۔ آپ کو کوئی زیادہ زخم نہیں ہیں۔
٦۔ حضرت عمر نے کہا۔ اے یرفائ ! تو مرجائے ! مجھے کچھ پلاؤ۔ چنانچہ وہ آپ کی خدمت میں ایک پیالہ لے کر حاضر ہوا جس میں بیٹھی نبیذ تھی پس آپ نے اس کو پیا۔ اور آپ نے اپنی چادر کو اپنے پیٹ کے ساتھ چمٹا لیا۔ راوی کہتے ہیں : پس جب یہ مشروب آپ پیٹ میں پہنچا تو یہ زخموں سے باہر نکل آیا۔ لوگوں نے کہا۔ الحمد للہ۔ یہ خون آپ کے پیٹ میں ٹھہرا ہوا تھا۔ پس اللہ تعالیٰ نے اس کو آپ کے پیٹ سے باہر نکال دیا ہے۔ حضرت عمر نے کہا۔ اے یرفائ ! تو مرجائے۔ مجھے دودھ پلاؤ۔ چنانچہ وہ دودھ لے کر حاضر ہوا ۔ آپ نے اس کو نوش فرمایا۔ پس جب وہ بھی آپ کے پیٹ میں پہنچا تو زخموں سے باہر آگیا۔ چنانچہ لوگوں نے یہ منظر دیکھا تو انھیں معلوم ہوگیا کہ حضرت عمر (اب) فوت ہوجائیں گے۔
٧۔ لوگوں نے کہا : اللہ تعالیٰ آپ کو بہترین بدلہ عطا کرے۔ یقیناً آپ ہمارے درمیان اللہ کی کتاب پر عمل کرتے تھے اور اپنے دو پیشواؤں کی سُنَّت کی پیروی کرتے تھے۔ اس کے سوا آپ کسی چیز کی طرف نہیں جھکتے تھے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو بہترین بدلہ عطا کرے۔ حضرت عمر نے پوچھا۔ کیا تم لوگ امارت کی وجہ سے مجھ پر رشک کر رہے ہو ؟ خدا کی قسم ! مجھے تو یہ بات محبوب ہے کہ میں امارت (کے حساب) سے برابر برابر نکل جاؤں۔ نہ مجھے کوئی نفع ہو نہ کوئی نقصان ہو۔ تم اٹھ جاؤ اور اپنے معاملہ میں مشاورت کرو۔ تم اپنے میں سے ایک آدمی کو خود پر امیر بنا لو۔ پھر جو کوئی اس کی مخالفت کرے تو تم اس کی گردن مار دو ۔ راوی کہتے ہیں : پس لوگ اٹھ گئے اور حضرت عبداللہ بن عمر کے سینہ کی طرف آپ نے تکیہ لگایا ہوا تھا۔ حضرت عبداللہ نے کہا۔ کیا تم امیر مقرر کر رہے ہو جبکہ امیر المؤمنین زندہ ہیں ؟ حضرت عمر نے کہا : نہیں ! اور صہیب کو چاہیے کہ تین دن لوگوں کو نماز پڑھائے۔ اور حضرت طلحہ کا انتظار کرو اور (پھر) تم اپنے معاملہ میں باہم مشاورت کرو۔ اور تم خود پر اپنے میں سے ایک آدمی کو امیر مقر کرلو پھر اگر (کوئی) تمہارے مخالفت کرے تو اس کے سر کو اڑا دو ۔
٨۔ حضرت عمر نے کہا۔ تم جاؤ امی عائشہ کی طرف اور انھیں میری طرف سے سلام کہو اور کہو کہ عمر کہہ رہا ہے اگر آپ کو تکلیف اور تنگی نہ ہو تو میں اس بات کو پسند کرتا ہوں۔ کہ میں اپنے دو ساتھیوں (آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ابو بکر ) کے ساتھ دفن کیا جاؤں ۔ اور اگر آپ کو تکلیف اور تنگی ہو تو میری عمر کی قسم ! بقیع میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ اور امہات المؤمنین میں سے ایسے لوگ دفن ہوئے ہیں جو عمر سے بہتر تھے۔ پس قاصد حضرت عائشہ کی خدمت میں پہنچاتو حضرت عائشہ نے کہا۔ مجھے اس بات میں قطعاً کوئی تکلیف اور تنگی نہیں ہے۔ پھر حضرت عمر نے فرمایا۔ تم لوگ مجھے ان دونوں کے ہمراہ دفن کردینا۔
٩۔ حضرت عبداللہ بن عمر کہتے ہیں۔ پھر موت نے ان کو آ ڈھانپا اور میں نے ان کو اپنے سینہ کی طرف اٹھایا ہوا تھا۔ حضرت عمر نے کہا۔ تو مرجائے۔ میرا سر زمین پر رکھ دے۔ ابن عمر کہتے ہیں۔ پھر حضرت عمر کو غشی طاری ہوگئی تو میں اسی طرح رہا۔ پھر آپ کو افاقہ ہوا ۔ تو آپ نے فرمایا۔ تو مرجائے۔ میرا سر زمین پر رکھ دے۔ پس میں نے آپ کا سر زمین پر رکھ دیا اور آپ نے سر کو خاک آلود کرلیا۔ اور فرمایا : اگر اللہ تعالیٰ نے عمر کو معاف نہ کیا تو عمر ہلاک ہوجائے گا اور اس کے ماں ہلاک ہوجائے گی۔
١٠۔ محمد بن عمرو کہتے ہیں : اہل شوریٰ یہ تھے۔ حضرت علی ، حضرت عثمان ، حضرت طلحہ ، حضرت زبیر ، حضرت سعد ، حضرت عبد الرحمن بن عوف ۔

38229

(۳۸۲۳۰) حَدَّثَنَا ابْنُ إِدْرِیسَ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ حَارِثَۃَ بْنِ مُضَرِّبٍ ، قَالَ : حجَجْتُ فِی إِمَارَۃِ عُمَرَ ، فَلَمْ یَکُونُوا یَشْکُونَ أَنَّ الْخِلاَفَۃَ مِنْ بَعْدِہِ لِعُثْمَانَ۔
(٣٨٢٣٠) حضرت حارثہ بن مضرب سے روایت ہے کہ میں نے حضرت عمر کے عہد امارت میں حج کیا تھا تو لوگوں کو اس بات میں شک نہیں تھا کہ حضرت عمر کے بعد خلافت حضرت عثمان کے پاس ہوگی۔ (یعنی یقین تھا) ۔

38230

(۳۸۲۳۱) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ سِنَانٍ ، قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللہِ حِین اُسْتُخْلِفَ عُثْمَان : مَا أَلَوْنَا عَنْ أَعْلاَہَا ذَا فُوْقٍ۔
(٣٨٢٣١) حضرت عبداللہ بن سنان سے روایت ہے کہ جب حضرت عثمان کو خلیفہ مقرر کیا گیا تو عبداللہ نے کہا۔ مَا أَلَوْنَا عَنْ أَعْلاَہَا ذَا فُوْقٍ ۔

38231

(۳۸۲۳۲) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، عَنْ إِسْمَاعِیلَ بْنِ أَبِی خَالِدٍ ، عَنْ حَکِیمِ بْنِ جَابِرٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ ابْنَ مَسْعُودٍ یَقُولُ حِینَ بُویِعَ عُثْمَان : مَا أَلَوْنَا عَنْ أَعْلاَہَا ذَا فُوْقٍ۔
(٣٨٢٣٢) حضرت حکیم بن جابر سے روایت ہے کہ جب حضرت عثمان کی بیعت کی گئی تو ابن مسعود نے کہا۔ ہم نے مَا أَلَوْنَا عَنْ أَعْلاَہَا ذَا فُوْقٍ ۔

38232

(۳۸۲۳۳) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ کَہْمَسٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ شَقِیقٍ ، قَالَ : حدَّثَنِی ہَرِمُ بْنُ الْحَارِثِ ، وَأُسَامَۃُ بْنُ خُرَیْمٍ ، قَالَ : وَکَانَا یُغَازِیَانِ ، فَحَدَّثَانِی جَمِیعًا ، وَلاَ یَشْعُرُ کُلُّ وَاحِدٍ مِنْہُمَا أَنَّ صَاحِبَہُ حَدَّثَنِیہِ ، عَنْ مُرَّۃَ الْبَہْزِیِّ ، قَالَ : بَیْنَمَا نَحْنُ مَعَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ذَاتَ یَوْمٍ فِی طَرِیقٍ مِنْ طُرُقِ الْمَدِینَۃِ ، فَقَالَ : کَیْفَ تَصْنَعُونَ فِی فِتْنَۃٍ تَثُورُ فِی أَقْطَارِ الأَرْضِ کَأَنَّہَا صَیَاصِی بَقَرٍ ؟ قَالَوا : فَنَصْنَعُ مَاذَا یَا نَبِیَّ اللہِ ؟ قَالَ : عَلَیْکُمْ بِہَذَا وَأَصْحَابِہِ ، قَالَ : فَأَسْرَعْت حَتَّی عَطَفْتُ عَلَی الرَّجُلِ ، فَقُلْتُ : ہَذَا یَا نَبِیَّ اللہِ ؟ قَالَ : ہَذَا ، فَإِذَا ہُوَ عُثْمَان۔
(٣٨٢٣٣) حضرت مرہ خریم سے روایت ہے کہ ہم ایک دن مدینہ کے راستوں میں سے ایک راستہ پر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہمراہ تھے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ ” تم اس فتنہ میں کیا کرو گے جو زمین کے اطراف میں یوں پھیل جائے گا جیسے گائے کے سینگ ہوتے ہیں۔ “ صحابہ نے پوچھا ۔ اے اللہ کے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! پھر ہم کیا کریں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” تم اس کو اور اس کے ساتھیوں کو لازم پکڑنا۔ “ راوی کہتے ہیں : پس میں (یہ سن کر) اس آدمی پر جلدی سے لپٹا اور میں نے عرض کیا۔ اے اللہ کے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! یہ آدمی ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” یہی “ اور یہ شخص حضرت عثمان تھے۔

38233

(۳۸۲۳۴) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِیلُ ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : أَنْبَأَنِی وَثَّابٌ ، وَکَانَ مِمَّنْ أَدْرَکَہُ عِتْقُ أَمِیرِ الْمُؤْمِنِینَ عُمَرَ ، وَکَانَ یَکُونُ بَعْدُ بَیْنَ یَدَیْ عُثْمَانَ ، قَالَ : فَرَأَیْتُ فِی حَلْقِہِ طَعْنَتَیْنِ ، کَأَنَّہُمَا کَیَّتَانِ طُعِنَہُمَا یَوْمَ الدَّارِ ، دَارِ عُثْمَانَ ، قَالَ : بَعَثَنِی أَمِیرُ الْمُؤْمِنِینَ عُثْمَان ، قَالَ : اُدْعُ لِی الأَشْتَرَ ، فَجَائَ ، قَالَ ابْنُ عَوْنٍ: أَظُنُّہُ قَالَ : فَطَرَحْتُ لأَمِیرِ الْمُؤْمِنِینَ وِسَادَۃً ، وَلَہُ وِسَادَۃً ، فَقَالَ : یَا أَشْتَرُ ، مَا یُرِیدُ النَّاسُ مِنِّی؟ قَالَ: ثَلاَثًا ، لَیْسَ مِنْ إِحْدَاہُنَّ بُدٌّ ، یُخَیِّرُونَک بَیْنَ أَنْ تَخْلَعَ لَہُمْ أَمْرَہُمْ ، وَتَقُولُ : ہَذَا أَمْرُکُمْ ، اخْتَارُوا لَہُ مَنْ شِئْتُمْ ، وَبَیْنَ أَنْ تُقِصَّ مِنْ نَفْسِکَ ، فَإِنْ أَبَیْتَ ہَاتَیْنِ ، فَإِنَّ الْقَوْمَ قَاتِلُوک ، قَالَ : مَا مِنْ إحْدَاہُنَّ بُدٌّ ؟ قَالَ مَا مِنْ إِحْدَاہُنَّ بُدٌّ۔ قَالَ : أَمَّا أَنْ أَخْلَعَ لَہُمْ أَمْرَہُمْ ، فَمَا کُنْتُ أَخْلَعُ سِرْبَالاً سَرْبَلَنِیہِ اللَّہُ عَزَّ وَجَلَّ أَبَدًا ، قَالَ ابْنُ عَوْنٍ : وَقَالَ غَیْرُ الْحَسَنِ : لأَنْ أُقَدَّمَ فَتُضْرَبَ عُنُقِی أَحَبُّ إِلَیَّ مِنْ أَنْ أَخْلَعَ أَمْرَ أُمَّۃِ مُحَمَّدٍ ، بَعْضُہَا عَلَی بَعْضٍ ، قَالَ ابْنُ عَوْنٍ : وَہَذَا أَشْبَہُ بِکَلاَمِہِ ، وَأَمَّا أَنْ أُقِصَّ لَہُمْ مِنْ نَفْسِی ، فَوَاللہِ لَقَدْ عَلِمْتَ أَنَّ صَاحِبَیَّ بَیْنَ یَدَیَّ کَانَا یُقِصَّانِ مِنْ أَنْفُسِہِمَا ، وَمَا یَقُومُ بَدَنِی بِالْقِصَاصِ ، وَأَمَّا أَنْ یَقْتُلُونِی ، فَوَاللہِ لَوْ قَتَلُونِی لاَ یَتَحَابُّونَ بَعْدِی أَبَدًا ، وَلاَ یُقَاتِلُونَ بَعْدِی عَدُوًّا جَمِیعًا أَبَدًا۔ قَالَ : فَقَامَ الأَشْتَرُ وَانْطَلَقَ ، فَمَکَثْنَا ، فَقُلْنَا : لَعَلَّ النَّاسَ ، ثُمَّ جَائَ رُوَیْجِلٌ کَأَنَّہُ ذِئْبٌ ، فَاطَّلَعَ مِنَ الْبَابِ ، ثُمَّ رَجَعَ ، وَقَامَ مُحَمَّدُ بْنُ أَبِی بَکْرٍ فِی ثَلاَثَۃَ عَشَرَ حَتَّی انْتَہَی إِلَی عُثْمَانَ ، فَأَخَذَ بِلِحْیَتِہِ ، فَقَالَ بِہَا ، حَتَّی سَمِعْتَ وَقَعَ أَضْرَاسَہُ ، وَقَالَ : مَا أَغْنَی عَنْک مُعَاوِیَۃُ ، مَا أَغْنَی عَنْک ابْنُ عَامِرٍ ، مَا أَغْنَتْ عَنْک کُتُبُک ، فَقَالَ : أَرْسِلْ لِی لِحْیَتِی ابْنَ أَخِی ، أَرْسِلْ لِی لِحْیَتِی ابْنَ أَخِی۔ قَالَ : فَأَنَا رَأَیْتُہُ اسْتَعْدَی رَجُلاً مِنَ الْقَوْمِ یُعِینُہُ ، فَقَامَ إِلَیْہِ بِمِشْقَصٍ ، حَتَّی وَجَأَ بِہِ فِی رَأْسِہِ فَأَثْبَتَہُ ، قَالَ : ثُمَّ مَہْ ؟ قَالَ : ثُمَّ دَخَلُوا عَلَیْہِ حَتَّی قَتَلُوہُ۔
(٣٨٢٣٤) حضرت حسن سے روایت ہے کہ مجھے وثَّاب نے بیان کیا ۔ اور یہ وثاب راوی کہتے ہیں۔ میں نے اس کے حلق میں تیر کے دو نشانات تھے۔ حضرت عثمان کے گھر میں محاصر ہ کے دن یہ نیزے انھیں مارے گئے تھے۔ یہ بیان کرتے ہیں کہ مجھے امیر المؤمنین حضرت عثمان نے بھیجا اور فرمایا : اشتر کو میرے پاس لاؤ ۔ ابن عون کہتے ہیں : میرا گمان یہ ہے کہ انھوں نے یہ بھی کہا تھا۔ کہ اس نے امیر المؤمنین کے پاس تکیہ چھوڑ دیا۔ اور اس کے پاس تکیہ تھا۔ پس حضرت عثمان نے فرمایا۔ اے اشتر ! (باغی) لوگ مجھ سے کیا چاہتے ہیں ؟ اشتر نے کہا ۔ تین باتیں ہیں جن میں سے کسی ایک کا کرنا ضروری ہے۔ وہ لوگ آپ کو اس بات کا اختیار دیتے ہیں کہ یا تو آپ ان کی حکمرانی ان کے حوالہ کردیں اور یہ کہہ دیں کہ یہ تمہاری حکمرانی ہے تم جس کو چاہو یہ حکمرانی سونپ دو ۔ اور یا یہ ہے کہ آپ اپنے سے بدلہ لینے کا موقع دیں۔ پس اگر آپ ان دونوں باتوں سے انکار کرتے ہیں تو پھر لوگ آپ سے لڑیں گے۔ حضرت عثمان نے پوچھا۔ کیا ان میں سے کسی ایک کو اختیار کرنا ضروری ہے ؟ اشتر نے کہا (جی) ان میں سے کسی ایک کو اختیار کرنا ضروری ہے۔
٢۔ حضرت عثمان نے فرمایا۔ جہاں تک یہ بات ہے کہ میں ان کی حکمرانی کی ذمہ داری چھوڑ دوں۔ تو (سنو) میں وہ کبھی کرتا نہیں اتاروں گا جو اللہ تعالیٰ نے مجھے پہنایا ہے۔ ابن عون کہتے ہیں۔ حسن کے علاوہ دوسرا راوی بیان کرتا ہے کہ : اگر مجھے یوں پیش کیا جائے کہ میری گردن اڑا دی جائے تو بھی مجھے یہ بات اس سے زیادہ محبوب ہے کہ میں امت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا معاملہ لوگوں کے درمیان چھوڑ دوں۔ ابن عون کہتے ہیں : یہ بات آپ کے کلام سے ملتی جلتی ہے۔ اور رہی یہ بات کہ میں لوگوں کو خود سے بدلہ لینے کا موقع دوں تو خدا کی قسم ! میں جانتا ہوں کہ مجھ سے پہلے میرے دو ساتھی (لوگوں کو) اپنے آپ سے بدلہ لینے کا موقع دیتے تھے۔ لیکن میرا جسم قصاص کے لیے کھڑا نہیں ہوگا۔ اور یہ بات کہ لوگ مجھے قتل کریں گے تو خدا کی قسم (یاد رکھو) اگر وہ لوگ مجھے قتل کردیں تو پھر میرے بعد کبھی آپس میں محبت نہیں کرسکیں گے۔ اور نہ ہی میرے بعد دشمن کے خلاف کبھی سارے اکٹھے ہو کر جہاد کرسکیں گے۔
٣۔ راوی کہتے ہیں۔ پھر اشتر اٹھ کر چل پڑا۔ ہم وہیں ٹھہرے اور ہم کہنے لگے۔ ہوسکتا ہے کہ لوگ واپس پیچھے چلے جائیں۔ پھر رویجل آیا ۔ یوں لگتا تھا کہ وہ بھیڑیا ہے۔ اور اس نے دروازے سے جھانکا اور واپس ہوگیا۔ پھر محمد بن ابی بکر تیرہ افراد کے ہمراہ کھڑا ہوا اور حضرت عثمان کے پاس پہنچا اور آپ کی داڑھی کو پکڑ لیا اور وہ کہہ رہا تھا۔ تمہیں معاویہ نے کوئی فائدہ نہیں دیا ! تمہیں ابن عامر نے کوئی فائدہ نہیں دیا ! تمہیں تمہارے لشکروں نے کوئی فائدہ نہیں دیا۔ حضرت عثمان نے کہا۔ اے بھتیجے ! میری داڑھی تو چھوڑ دے۔ اے بھتیجے ! میری داڑھی تو چھوڑ دے۔
٤۔ راوی کہتے ہیں : میں نے اس کو دیکھا کہ اس نے (اپنی) قوم میں سے ایک آدمی سے مدد مانگی تو اس کے پاس ایک آدمی چوڑے پھل والا نیزہ لے کر آیا اور اس کے ذریعہ سے حضرت عثمان کے سر پر زور لگا کر اس کو آپ کے سر میں اتار دیا۔ راوی (سے) پوچھا۔ پھر کیا ہوا ؟ راوی نے جواب دیا۔ پھر یہ باغی حضرت عثمان پر داخل ہوئے اور ا نہیں قتل کردیا۔

38234

(۳۸۲۳۵) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ أَبِی سُلَیْمَانَ ، قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا لَیْلَی الْکِنْدِیَّ ، قَالَ : رَأَیْتُ عُثْمَانَ اطَّلَعَ إِلَی النَّاسِ وَہُوَ مَحْصُورٌ ، فَقَالَ : یَا أَیُّہَا النَّاسُ ، لاَ تَقْتُلُونِی وَاسْتَعْتِبُونِی ، فَوَاللہِ لَئِنْ قَتَلْتُمُونِی لاَ تُقَاتِلُونَ جَمِیعًا أَبَدًا ، وَلاَ تُجَاہِدُونَ عَدُوًّا أَبَدًا ، وَلَتَخْتَلِفُنَّ حَتَّی تَصِیرُوا ہَکَذَا ، وَشَبَّکَ بَیْنَ أَصَابِعِہِ، {وَیَا قَوْم لاَ یَجْرِمَنَّکُمْ شِقَاقِی أَنْ یُصِیبَکُمْ مِثْلُ مَا أَصَابَ قَوْمَ نُوحٍ ، أَوْ قَوْمَ ہُودٍ ، أَوْ قَوْمَ صَالِحٍ ، وَمَا قَوْمُ لُوطٍ مِنْکُمْ بِبَعِیدٍ}۔ قَالَ : وَأَرْسَلَ إِلَی عَبْدِ اللہِ بْنِ سَلاَمٍ فَسَأَلَہُ ، فَقَالَ : الْکَفَّ الْکَفَّ ، فَإِنَّہُ أَبْلَغُ لَک فِی الْحُجَّۃِ ، فَدَخَلُوا عَلَیْہِ فَقَتَلُوہُ۔
(٣٨٢٣٥) حضرت ابو لیلی کندی سے روایت ہے کہ میں نے حضرت عثمان کو دیکھا کہ انھوں نے لوگوں کی طرف جھانکا ۔۔۔ جبکہ وہ محصور تھے۔۔۔ اور فرمایا ۔۔۔ اے لوگو ! مجھے قتل نہ کرو بلکہ تم مجھ سے رضا مندی اور خوشنودی چاہو۔ خدا کی قسم ! اگر تم نے مجھے قتل کردیا تو پھر کبھی تم لوگ اکٹھے ہو کر جہاد نہیں کرو گے۔ اور کبھی دشمن کے خلاف اکٹھے ہو کر لڑ نہیں سکو گے۔ اور تم اس حالت میں پیچھے رہ جاؤ گے کہ تم یوں ہو جاؤ گے۔ حضرت عثمان نے اپنی انگلیاں، انگلیوں میں داخل کیں۔ اور آیت پڑھی { وَیَا قَوْم لاَ یَجْرِ مَنَّکُمْ شِقَاقِی أَنْ یُصِیبَکُمْ مِثْلُ مَا أَصَابَ قَوْمَ نُوحٍ ، أَوْ قَوْمَ ہُودٍ ، أَوْ قَوْمَ صَالِحٍ ، وَمَا قَوْمُ لُوطٍ مِنْکُمْ بِبَعِیدٍ }
راوی کہتے ہیں : حضرت عثمان نے حضرت عبداللہ بن سلام کی طرف قاصد بھیج کر ان سے (اس معاملہ) میں پوچھا۔ انھوں نے فرمایا۔ رُکے رہو۔ رُکے رہو۔ کیونکہ یہ رویہ تمہارے حق میں خوب حجت ہوگا۔ چنانچہ یہ باغی لوگ حضرت عثمان کے پاس داخل ہوئے اور انھیں قتل کردیا۔

38235

(۳۸۲۳۶) حَدَّثَنَا ابْنُ إِدْرِیسَ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَامِرٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ عُثْمَانَ ، یَقُولُ : إِنَّ أَعْظَمَکُمْ عِنْدِی غِنَائً مَنْ کَفَّ سِلاَحَہُ وَیَدَہُ۔
(٣٨٢٣٦) حضرت عبداللہ بن عامر کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عثمان کو کہتے سُنا۔ بیشک میرے نزدیک تم میں سے سب سے زیادہ فائدہ والا شخص وہ ا ہے جو اپنے اسلحہ اور اپنے ہاتھ کو روک لے۔

38236

(۳۸۲۳۷) حَدَّثَنَا ابْنُ إِدْرِیسَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ ، قَالَ : جَائَ زَیْدُ بْنُ ثَابِتٍ إِلَی عُثْمَانَ ، فَقَالَ : ہَذِہِ الأَنْصَارُ بِالْبَابِ ، قَالُوا : إِنْ شِئْتَ أَنْ نَکُونَ أَنْصَارَ اللہِ مَرَّتَیْنِ ؟ فَقَالَ : أَمَّا قِتَالٌ فَلاَ۔
(٣٨٢٣٧) حضرت ابن سیرین سے روایت ہے کہ حضرت زید بن ثابت، حضرت عثمان کی خدمت میں آئے اور کہنے لگے۔ یہ دروازے پر انصار (صحابہ ) موجود ہیں۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ اگر آپ چاہیں تو ہم دوسری مرتبہ اللہ کے (دین کے) مدد گار بنیں۔ حضرت عثمان نے فرمایا۔ اگر لڑنے کے بارے میں کہتے ہیں تو بالکل نہیں۔

38237

(۳۸۲۳۸) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ، عَنْ أَبِیہِ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ الزُّبَیْرِ، قَالَ: قُلْتُ لِعُثْمَانَ یَوْمَ الدَّارِ: اُخْرُجْ فَقَاتِلْہُمْ ، فَإِنَّ مَعَک مَنْ قَدْ نَصَرَ اللَّہُ بِأَقَلَّ مِنْہُ ، وَاللہِ ، إِنَّ قِتَالَہُمْ لَحَلاَلٌ، قَالَ: فَأَبَی ، وَقَالَ: مَنْ کَانَ لِی عَلَیْہِ سَمْعٌ وَطَاعَۃٌ ، فَلِیُطِعْ عَبْدَ اللہِ بْنَ الزُّبَیْرِ ، وَکَانَ أَمَّرَہُ یَوْمَئِذٍ عَلَی الدَّارِ ، وَکَانَ یَوْمَئِذٍ صَائِمًا۔
(٣٨٢٣٨) حضرت عبداللہ بن زبیر سے روایت ہے۔ فرماتے ہیں۔ میں نے محاصرہ کے دن حضرت عثمان سے کہا۔ آپ باہر آئیں اور ان لوگوں سے لڑائی کریں۔ کیونکہ آپ کے ہمراہ (آج اتنے) لوگ ہیں کہ جن سے کم تعداد کی اللہ پاک نے مدد کی تھی۔ اور خدا کی قسم ! ان لوگوں سے لڑنا حلال ہے۔ راوی کہتے ہیں : حضرت عثمان نے انکار فرمایا اور حکم دیا ۔ جو آدمی خود میری سمع وطاعت کو واجب سمجھتا ہے تو اس کو چاہیے کہ وہ عبداللہ بن زبیر کی اطاعت کرے ۔ حضرت عثمان نے اس (محاصرے کے) دن ان کو گھر میں امیر مقرر فرمایا تھا اور حضرت عثمان اس (محاصرہ کے) دن روزہ کی حالت میں تھے۔

38238

(۳۸۲۳۹) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ إِدْرِیسَ ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ ، عَنْ نَافِعٍ ؛ أَنَّ رَجُلاً یُقَالُ لَہُ : جَہْجَاہٌ تَنَاوَلَ عَصًا کَانَتْ فِی یَدِ عُثْمَانَ ، فَکَسَرَہَا بِرُکْبَتِہِ ، فَرُمِیَ فِی ذَلِکَ الْمَوْضِعِ بِأکِلَۃٍ۔
(٣٨٢٣٩) حضرت نافع سے روایت ہے کہ ایک آدمی جس کو جہجاہ کہا جاتا تھا۔ اس نے حضرت عثمان کے ہاتھ میں موجود عصا لیا اور اس کو اپنے گھٹنے پر رکھ کر توڑ دیا۔ پس (آخر میں) اس آدمی کے اس مقام پر نہ ختم ہونے والی خارش شروع ہوگئی تھی۔

38239

(۳۸۲۴۰) حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ الرَّازِیُّ ، عَنْ أَبِی جَعْفَرٍ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ؛ أَنَّ عُثْمَانَ أَصْبَحَ یُحَدِّثُ النَّاسَ ، قَالَ : رَأَیْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اللَّیْلَۃَ فِی الْمَنَامِ ، فَقَالَ : یَا عُثْمَان ، أَفْطِرْ عِنْدَنَا ، فَأَصْبَحَ صَائِمًا وَقُتِلَ مِنْ یَوْمِہِ۔
(٣٨٢٤٠) حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ حضرت عثمان نے ایک صبح لوگوں سے بیان کیا۔ فرمایا۔ میں نے آج رات نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خواب میں دیکھا ۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ اے عثمان ! تم روزہ ہمارے پاس افطار کرو۔ حضرت عثمان نے روزہ کی حالت میں صبح کی اور پھر اسی دن شہید ہوگئے۔

38240

(۳۸۲۴۱) حَدَّثَنَا ابْنُ إِدْرِیسَ ، عَنْ إِسْمَاعِیلَ ، عَنْ قَیْسٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ زَیْدٍ ، قَالَ : لَقَدْ رَأَیْتُنِی مُوثِقِی عُمَرَ وَأُخْتَہُ عَلَی الإِسْلاَمِ ، وَلَوِ ارْفَضَّ أُحُدٌ مِمَّا صَنَعْتُمْ بِعُثْمَانَ کَانَ حَقِیقًا۔
(٣٨٢٤١) حضرت سعید بن زید فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر اور ان کی ہمشیرہ کو اسلام پر مضبوط کیا۔ حضرت عثمان کے ساتھ تم نے جو کچھ کیا اگر اس کے بعد تمہارے ساتھ جو بھی سلوک کیا جائے وہ صحیح ہوگا۔

38241

(۳۸۲۴۲) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، حَدَّثَنَا أَبُو صَالِحٍ ، قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللہِ بْنُ سَلاَمٍ : لَمَّا حُصِرَ عُثْمَانُ فِی الدَّارِ ، قَالَ : لاَ تَقْتُلُوہُ ، فَإِنَّہُ لَمْ یَبْقَ مِنْ أَجَلِہِ إِلاَّ قَلِیلٌ ، وَاللہِ لَئِنْ قَتَلْتُمُوہُ لاَ تُصَلُّونَ جَمِیعًا أَبَدًا۔
(٣٨٢٤٢) حضرت عبداللہ بن سلام سے روایت ہے کہ جب حضرت عثمان کا گھر میں محاصرہ کیا گیا تو ابن سلام نے فرمایا۔ تم انھیں قتل نہ کرو۔ کیونکہ ان کی (ویسے ہی) تھوڑی سی زندگی باقی ہے۔ خدا کی قسم ! اگر تم نے انھیں قتل کردیا تو پھر تم کبھی بھی اکٹھے نماز نہیں پڑھو گے۔

38242

(۳۸۲۴۳) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ صَدَقَۃَ بْنِ أَبِی عِمْرَانَ ، قَالَ : حدَّثَنَا أَبُو الْیَعْفُورِ ، عَنْ أَبِی سَعِیدٍ مَوْلَی عَبْدِ اللہِ بْنِ مَسْعُودٍ ، قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللہِ بْنُ مَسْعُودٍ : وَاللہِ لَئِنْ قَتَلْتُمْ عُثْمَانَ لاَ تُصِیبُونَ مِنْہُ خَلَفًا۔
(٣٨٢٤٣) حضرت عبداللہ بن مسعود کے آزاد کردہ غلام ابو سعید سے روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود نے فرمایا تھا۔ خدا کی قسم ! اگر تم نے عثمان کو قتل کردیا تو ان کے بعد کسی صحیح جانشین کو نہیں پہنچ پاؤ گے۔

38243

(۳۸۲۴۴) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنْ أَبِی قِلاَبَۃَ ؛ أَنَّ رَجُلاً مِنْ قُرَیْشٍ یُقَالُ لَہُ : ثُمَّامَۃُ کَانَ عَلَی صَنْعَائَ ، فَلَمَّا جَائَہُ قَتْلُ عُثْمَانَ بَکَی ، فَأَطَالَ الْبُکَائَ ، فَلَمَّا أَفَاقَ ، قَالَ : الْیَوْمَ اُنْتُزِعَتِ النُّبُوَّۃُ ، أَوَ قَالَ : الْخِلاَفَۃُ مِنْ أُمَّۃِ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَصَارَتْ مِلْکًا وَجَبْرِیَّۃً ، فَمَنْ غَلَبَ عَلَی شَیْئٍ أَکَلَہُ۔
(٣٨٢٤٤) حضرت ابو قلابہ سے روایت ہے کہ قریش کا ایک آدمی تھا جس کو ثمامہ کہا جاتا تھا وہ مقام صنعاء میں تھا۔ جب اس کو حضرت عثمان کے قتل کی خبر پہنچی تو وہ رو پڑا اور خوب دیر تک روتا رہا۔ پھر جب اسے افاقہ ہوا تو اس نے کہا۔ آج کے دن امت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نبوت واپس لے لی گئی ہے۔ خلافت واپس لے لی گئی ہے۔ اور (اب) بادشاہی اور سختی ہوگی۔ پس جو جس چیز پر غالب ہوگا اس کو کھاجائے گا۔

38244

(۳۸۲۴۵) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنْ أَبِی قِلاَبَۃَ ، قَالَ: لَمَّا قُتِلَ عُثْمَان، قَامَ خُطَبَائُ إیلِیَائَ، فَقَامَ مِنْ آخِرِہِمْ رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُقَالُ لَہُ : مُرَّۃُ بْنُ کَعْبٍ ، فَقَالَ : لَوْلاَ حَدِیثٌ سَمِعْتہ مِنْ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا قُمْتُ ، إِنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ذَکَرَ فِتْنَۃً أَحْسَبُہُ ، قَالَ : فَقَرَّبَہَا، فَمَرَّ رَجُلٌ مُقَنَّعٌ بِرِدَائِہِ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : ہَذَا یَوْمَئِذٍ وَأَصْحَابُہُ عَلَی الْحَقِ، فَانْطَلَقْتُ، فَأَخَذْتُ بِوَجْہِہِ إِلَی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: ہَذَا؟ فَقَالَ: نَعَمْ، فَإِذَا ہُوَ عُثْمَان۔
(٣٨٢٤٥) حضرت ابو قلابہ سے روایت ہے کہ جب حضرت عثمان کو قتل کیا گیا تو مقام ایلیاء کے خطباء کھڑے ہوئے۔ پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ میں سے (ان کا) آخری خطیب کھڑا ہوا جس کو مرہ بن کعب کہا جاتا تھا۔ اس نے کہا۔ اگر ایسی حدیث نہ ہوتی جو میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سُنی ہے تو میں کھڑا نہ ہوتا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک فتنہ کا ذکر کیا ۔۔۔ میرے خیال کے مطابق راوی کہتے ہیں ۔۔۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کا قریب الوقوع ہونا بیان کیا ۔۔۔کہ اس دوران ایک آدمی اپنی چادر ڈالے ہوئے گزرا ۔ تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ اس (فتنہ کے) دن یہ اور اس کے ساتھی حق پر ہوں گے۔ (راوی کہتے ہیں) پس میں چل پڑا اور میں نے ان صاحب کا رُخ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف پھیر کر عرض کیا۔ یہ آدمی ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ۔ ” ہاں “ یہ آدمی حضرت عثمان تھے۔

38245

(۳۸۲۴۶) حَدَّثَنَا ابْنُ إِدْرِیسَ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ زِیَادِ بْنِ أَبِی الْمَلِیحِ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : لَوْ أَنَّ النَّاسَ اجْتَمَعُوا عَلَی قَتْلِ عُثْمَانَ ، لَرُجِمُوا بِالْحِجَارَۃِ کَمَا رُجِمَ قَوْمُ لُوطٍ۔
(٣٨٢٤٦) حضرت ابن عباس سے روایت ہے فرماتے ہیں۔ اگر تمام لوگ بھی حضرت عثمان کے قتل پر اکٹھے ہوجاتے تو تمام لوگوں کو ہی سنگسار کردیا جاتا جیسا کہ قوم لوط کو سنگسار کیا گیا تھا۔

38246

(۳۸۲۴۷) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِیرِینَ ، قَالَ : أَشْرَفَ عَلَیْہِمْ عُثْمَانُ مِنَ الْقَصْرِ، فَقَالَ : ائْتُونِی بِرَجُلٍ أُتَالِیہِ کِتَابَ اللہِ ، فَأَتَوْہُ بِصَعْصَعَۃَ بْنِ صُوحَانَ ، وَکَانَ شَابًّا ، فَقَالَ : أَمَا وَجَدْتُمْ أَحَدًا تَأْتُونِی بِہِ غَیْرَ ہَذَا الشَّابِّ ، قَالَ : فَتَکَلَّمَ صَعْصَعَۃُ بِکَلاَمٍ ، فَقَالَ لَہُ عُثْمَان : اُتْلُ ، فَقَالَ : {أُذِنَ لِلَّذِینَ یُقَاتَلُونَ بِأَنَّہُمْ ظُلِمُوا ، وَإِنَّ اللَّہَ عَلَی نَصْرِہِمْ لَقَدِیرٌ} فَقَالَ : کَذَبْتَ ، لَیْسَتْ لَک ، وَلاَ لأَصْحَابِکَ ، وَلَکِنَّہَا لِی وَلأَصْحَابِی ، ثُمَّ تَلاَ عُثْمَان : {أُذِنَ لِلَّذِینَ یُقَاتَلُونَ بِأَنَّہُمْ ظُلِمُوا ، وَإِنَّ اللَّہَ عَلَی نَصْرِہِمْ لَقَدِیرٌ} حَتَّی بَلَغَ : {وَإِلَی اللہِ عَاقِبَۃُ الأُمُورِ}۔
(٣٨٢٤٧) حضرت محمد بن سیرین سے روایت ہے کہ حضرت عثمان نے اپنے گھر سے باغیوں کو جھانک کر دیکھا اور فرمایا ۔ تم میرے پاس کوئی آدمی لاؤ جس سے میں اللہ کی کتاب پڑھواؤں۔ پس باغی صعصعہ بن صوحان کو لے آئے۔ یہ ایک جوان آدمی تھا۔ حضرت عثمان نے کہا۔ کیا تم نے اس نوجوان کے علاوہ کوئی آدمی نہیں پایا جس کو تم میرے پاس لائے ۔ راوی کہتے ہیں۔ پھر صعصعہ نے کوئی گفتگو کی۔ تو حضرت عثمان نے اس سے کہا۔ قرآن پڑھ۔ اس نے پڑھا۔ { أُذِنَ لِلَّذِینَ یُقَاتَلُونَ بِأَنَّہُمْ ظُلِمُوا ، وَإِنَّ اللَّہَ عَلَی نَصْرِہِمْ لَقَدِیرٌ} حضرت عثمان نے فرمایا۔ تو جھوٹ بول رہا ہے۔ یہ آیت تیرے اور تیرے ساتھیوں کے حق میں نہیں ہے بلکہ یہ آیت تو میرے اور میرے ساتھیوں کے لیے ہے۔ پھر حضرت عثمان نے تلاوت کی۔ { أُذِنَ لِلَّذِینَ یُقَاتَلُونَ بِأَنَّہُمْ ظُلِمُوا ، وَإِنَّ اللَّہَ عَلَی نَصْرِہِمْ لَقَدِیرٌ} حضرت عثمان نے یہاں تک پڑھا۔ { وَإِلَی اللہِ عَاقِبَۃُ الأُمُورِ }۔

38247

(۳۸۲۴۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، حَدَّثَنَا الأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِی صَالِحٍ ، قَالَ : کَانَ الْحَادِی یَحْدُو بِعُثْمَانَ وَہُوَ یَقُولُ : إِنَّ الأَمِیرَ بَعْدَہُ عَلِیٌّ وَفِی الزُّبَیْرِ خَلَفٌ رَضِیٌّ قالَ : فَقَالَ کَعْبٌ : وَلَکِنَّہُ صَاحِبُ الْبَغْلَۃِ الشَّہْبَائِ ، یَعَنْی مُعَاوِیَۃَ ، فَقِیلَ لِمُعَاوِیَۃَ : إِنَّ کَعْبًا یَسْخَرُ بِکَ ، وَیَزْعُمُ أَنَّک تَلِی ہَذَا الأَمْرَ ، قَالَ : فَأَتَاہُ ، فَقَالَ : یَا أَبَا إِسْحَاقَ ، کَیْفَ وَہَا ہُنَا عَلِیٌّ ، وَالزُّبَیْرُ ، وَأَصْحَابُ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : أَنْتَ صَاحِبُہَا۔
(٣٨٢٤٨) حضرت ابو صالح سے روایت ہے کہ ایک حدی خوان حضرت عثمان کے لیے حدی پڑھ رہا تھا اور کہہ رہا تھا۔
” یقیناً عثمان کے بعد حضرت علی امیر ہیں اور زبیر میں پسندیدہ خلافت ہے۔ “
راوی کہتے ہیں۔ حضرت کعب نے کہا۔ لیکن وہ جو بھورے رنگ کے خچر والے معاویہ ہیں۔ پس حضرت معاویہ سے کہا گیا کہ حضرت کعب آپ کے ساتھ مذاق کرتے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ آپ اس امر خلافت کے ولی بنیں گے۔ راوی کہتے ہیں۔ پھر یہ حضرت معاویہ کے پاس آئے تو معاویہ نے کہا۔ اے ابو اسحاق ! یہ بات تم نے کیسے کہی جبکہ حضرت علی اور زبیر اور دیگر اصحابِ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) موجود ہیں۔ کعب نے کہا۔ آپ ہی اس خلافت کے حق دار ہیں۔

38248

(۳۸۲۴۹) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنِ الْعَوَّامِ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ التَّیْمِیِّ ، قَالَ : لَمَّا بُویِعَ أَبُو بَکْرٍ ، قَالَ : قَالَ سَلْمَانُ : أَخْطَأْتُمْ وَأَصَبْتُمْ ، أَمَّا لَوْ جَعَلْتُمُوہَا فِی أَہْلِ بَیْتِ نَبِیِّکُمْ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، لأَکَلْتُمُوہَا رَغَدًا۔
(٣٨٢٤٩) حضرت ابراہیم تیمی سے روایت ہے کہ جب حضرت ابوبکر کی بیعت کی گئی تو راوی کہتے ہیں۔ حضرت سلمان نے کہا۔ تم نے غلطی کی ہے اور درست (بھی) کیا ہے۔ اگر تم لوگ خلافت کو اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اہل بیت کے حوالہ کرتے تو البتہ تم لوگ اس خلافت کو خوب آسودہ حالی کے ساتھ کھاتے۔

38249

(۳۸۲۵۰) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ عُیَیْنَۃَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ جَوْشَنٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِی بَکْرَۃَ ، قَالَ : مَا رَزَأَ عَلِیٌّ مِنْ بَیْتِ مَالِنَا ، حَتَّی فَارَقَنَا إِلاَّ جُبَّۃً مَحْشُوَّۃً ، وَخَمِیصَۃً دَرَابَجَرْدِیَّۃً۔
(٣٨٢٥٠) حضرت عبدالرحمن بن ابی بکرہ سے روایت ہے کہ حضرت علی نے ہم سے جدا ہونے تک بیت المال سے صرف ایک روئی بھرا چوغہ اور ایک کرتا جس میں سرخ دھاریاں تھیں، لیا تھا۔

38250

(۳۸۲۵۱) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاہِیمَ ، قَالَ : سَمِعْتُ عُبَیْدَ اللہِ بْنَ أَبِی رَافِعٍ ، قَالَ : رَأَیْتُ عَلِیًّا حِینَ ازْدَحَمُوا عَلَیْہِ حَتَّی أَدْمَوْا رِجْلَہُ ، فَقَالَ : اللَّہُمَّ إِنِّی قَدْ کَرِہْتُہُمْ ، وَکَرِہُونِی ، فَأَرِحْنِی مِنْہُمْ ، وَأَرِحْہُمْ مِنِّی۔
(٣٨٢٥١) حضرت سعد بن ابراہیم سے روایت ہے کہ میں نے عبید اللہ بن ابی رافع کو کہتے سناکہ جب لوگوں نے حضرت علی پر ازدحام (رش) کیا اور انھوں نے آپ کے پاؤں کو خون آلود کردیا تو میں ان کو دیکھ رہا تھا، حضرت علی نے کہا۔ اے اللہ ! تحقیق میں ان لوگوں کو ناپسند کرتا ہوں اور یہ لوگ مجھے ناپسند کرتے ہیں۔ پس تو مجھے ان سے اور ان کو مجھ سے راحت دے دے۔

38251

(۳۸۲۵۲) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَنِ الأَجْلَحِ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : اکْتَنَفَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مُلْجَمٍ ، وَشَبِیبٌ الأَشْجَعِیُّ عَلِیًّا حِینَ خَرَجَ إِلَی الْفَجْرِ ، فَأَمَّا شَبِیبٌ فَضَرَبَہُ فَأَخْطَأَہُ ، وَثَبَتَ سَیْفُہُ فِی الْحَائِطِ ، ثُمَّ أُحْصِرَ نَحْوَ أَبْوَابِ کِنْدَۃَ ، وَقَالَ النَّاسُ : عَلَیْکُمْ صَاحِبَ السَّیْفِ ، فَلَمَّا خَشِیَ أَنْ یُؤْخَذَ رَمَی بِالسَّیْفِ ، وَدَخَلَ فِی عُرْضِ النَّاسِ ، وَأَمَّا عَبْدُ الرَّحْمَنِ فَضَرَبَہُ بِالسَّیْفِ عَلَی قَرْنِہِ ، ثُمَّ أُحْصِرَ نَحْوَ بَابِ الْفِیلِ ، فَأَدْرَکَہُ عَرَیْضٌ ، أَوْ عُوَیْضٌ الْحَضْرَمِیُّ فَأَخَذَہُ ، فَأَدْخَلَہُ عَلَی عَلِیٍّ ، فَقَالَ عَلِیٌّ : إِنْ أَنَا مِتُّ فَاقْتُلُوہُ إِنْ شِئْتُمْ ، أَوْ دَعُوہُ ، وَإِنْ أَنَا نَجَوْتُ کَانَ الْقِصَاصُ۔
(٣٨٢٥٢) حضرت شعبی سے روایت ہے کہ جب حضرت علی فجر کے لیے نکلے تو عبد الرحمن بن ملجم نے اور شبیب اشجعی نے آپ کو گھیر لیا۔ پس شبیب نے آپ پر وار کیا لیکن وہ خطا ہوگیا اور اس کی تلوار دیوار میں جا لگی پھر اس کو کندہ کے دروازوں کی طرف محصور کردیا گیا اور لوگ کہنے لگے۔ تلوار والے کو پکڑو پس جب شبیب نے پکڑے جانے کا خوف محسوس کیا تو اس نے تلوار پھینک دی اور عام لوگوں میں داخل ہوگیا۔ اور جو عبد الرحمن تھا اس نے حضرت علی کے سر مبارک پر تلوار ماری پھر اس کو بھی باب الفیل کی جانب محصور کرلیا گیا اور اس کو عریض یا عویض حضرمی نے پکڑ لیا۔ پس اس کو پکڑ کر حضرت علی کے پاس لائے۔ تو حضرت علی نے فرمایا۔ اگر میں مر جاؤں تو تم چاہو تو اس کو قتل کردینا۔ یا اس کو چھوڑ دینا اور اگر میں بچ گیا تو پھر قصاص ہوگا۔

38252

(۳۸۲۵۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ سُبَیْعٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ عَلِیًّا یَقُولُ : لَتُخْضَبَنَّ ہَذِہِ مِنْ ہَذَا ، فَمَا یُنْتَظَرُ بِالأَشْقَی ، قَالَوا : فَأَخْبِرْنَا بِہِ نُبِیرُ عِتْرَتَہُ ، قَالَ : إِذًا تَاللہِ تَقْتُلُوا غَیْرَ قَاتِلِی ، قَالَوا : أَفَلاَ تَسْتَخْلِفْ ؟ قَالَ : لاَ ، وَلَکِنِّی أَتْرُکُکُمْ إِلَی مَا تَرَکَکُمْ إِلَیْہِ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَوا : فَمَا تَقُولُ لِرَبِّکَ إِذَا لَقِیتَہُ ؟ قَالَ : أَقُولُ : اللَّہُمَّ تَرَکْتَنِی فِیہِمْ ، ثُمَّ قَبَضْتَنِی إِلَیْک وَأَنْتَ فِیہِمْ ، فَإِنْ شِئْتَ أَصْلَحْتَہُمْ ، وَإِنْ شِئْتَ أَفْسَدْتَہُمْ۔ (احمد ۱۳۰۔ ابن سعد ۳۴)
(٣٨٢٥٣) حضرت عبداللہ بن سبیع سے روایت ہے کہ میں نے حضرت علی کو کہتے سُنا۔ ضرور بالضرور یہ (داڑھی) اس سے رنگ جائے گی۔ لوگوں نے کہا۔ آپ ہمیں اس کے (قاتل کے) بارے میں بتائیں ہم اس کے خاندان کو ہلاک کردیں گے۔ حضرت علی نے کہا۔ خدا کی قسم ! تب تو تم میرے قاتل کے علاوہ کو قتل کرو گے۔ لوگوں نے پوچھا۔ آپ خلیفہ مقرر کیوں نہیں کرتے ؟ حضرت علی نے فرمایا : نہیں ! بلکہ میں تمہیں اسی طرح چھوڑ جاؤں گا جس طرح تمہیں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چھوڑ گئے تھے۔ لوگوں نے پوچھا۔ تو پھر جب آپ اپنے پروردگار سے ملیں گے تو ان سے کیا کہیں گے ؟ حضرت علی نے فرمایا : میں کہوں گا۔ اے اللہ ! تو نے مجھے ان میں (ایک مدت) چھوڑے رکھا پھر تو نے مجھے اپنی طرف بلا لیا جبکہ تو خود ان میں موجود تھا۔ پس اگر تو چاہتا ان کو درست کردیتا اور اگر تو چاہتا تو ان کو خراب کردیتا۔

38253

(۳۸۲۵۴) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ أَبِی حَمْزَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : سَمِعْتُ عَلِیًّا ، یَقُولُ : یَا لِلدِّمَائِ ، لَتُخْضَبَنَّ ہَذِہِ مِنْ ہَذَا ، یَعْنی لِحْیَتَہُ مِنْ دَمِ رَأْسِہِ۔
(٣٨٢٥٤) حضرت ابو حمزہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضرت علی کو کہتے سُنا۔ اے خون ضرور بالضرور یہ اس سے رنگین ہوجائے گی یعنی آپ کی داڑھی آپ کے سر کے خون سے۔

38254

(۳۸۲۵۵) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ حَسَّانَ ، عَنْ مُحَمَّدٍ ، عَنْ عَبِیْدَۃَ ، قَالَ : قَالَ عَلِیٌّ : مَا یُحْبَسُ أَشْقَاہَا أَنْ یَجِیئَ فَیَقْتُلُنِی ، اللَّہُمَّ إِنِّی قَدْ سَئِمْتُہُمْ وَسَئِمُونِی ، فَأَرِحْنِی مِنْہُمْ وَأَرِحْہُمْ مِنِّی۔ (ابن سعد ۳۴)
(٣٨٢٥٥) حضرت عبیدہ سے روایت ہے کہ حضرت علی کہتے تھے۔ امت کے بدبخت کو اس بات سے کس چیز نے روکا ہوا ہے کہ وہ آئے اور مجھے قتل کر دے ؟ اے اللہ ! تحقیق میں ان لوگوں سے اکتا گیا ہوں اور یہ لوگ مجھ سے اکتا گئے ہیں۔ پس تو مجھے ان سے اور ان کو مجھ سے راحت نصیب فرما دے۔

38255

(۳۸۲۵۶) حَدَّثَنَا ابْنُ إِدْرِیسَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ أَبِی بَکْرٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَیْلَۃَ الْعَقَبَۃِ : أَخْرِجُوا إِلَیَّ اثْنَیْ عَشَرَ مِنْکُمْ ، یَکُونُوا کُفَلاَئَ عَلَی قَوْمِہِمْ ، کَکَفَالَۃِ الْحَوَارِیِّینَ لِعِیسَی بْنِ مَرْیَمَ ، فَکَانَ نَقِیبَ بَنِی النَّجَّارِ ، قَالَ ابْنُ إِدْرِیسَ : وَہُمْ أَخْوَالُ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : أَسْعَدُ بْنُ زُرَارَۃَ أَبُو أُمَامَۃَ ، وَکَانَ نَقِیبَیْ بَنِی الْحَارِثِ بْنِ الْخَزْرَجِ عَبْدُ اللہِ بْنُ رَوَاحَۃَ ، وَسَعْدُ بْنُ رَبِیعٍ ، وَکَانَ نَقِیبَیْ بَنِی سَلِمَۃَ عَبْدُ اللہِ بْنُ عَمْرِو بْنِ حَرَامٍ وَالْبَرَائُ بْنُ مَعْرُورٍ ، وَکَانَ نَقِیبَیْ بَنِی سَاعِدَۃَ سَعْدُ بْنُ عُبَادَۃَ وَالْمُنْذِرُ بْنُ عَمْرٍو ، وَکَانَ نَقِیبَ بَنِی زُرَیْقٍ رَافِعُ بْنُ مَالِکَ ، وَکَانَ نَقِیبَ بَنِی عَوْفِ بْنِ الْخَزْرَجِ ، وَہُمَ الْقَوَاقِلُ ، عُبَادَۃُ بْنُ الصَّامِتِ ، وَکَانَ نَقِیبَیْ بَنِی عَبْدِ الأَشْہَلِ أُسَیْدُ بْنُ الْحُضَیْرِ ، وَأَبُو الْہَیْثَم بْنُ التِّیہَانِ ، وَکَانَ نَقِیبَ بَنِی عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ : سَعْدُ بْنُ خَیْثَمَۃ۔ (ابن سعد ۶۰۲)
(٣٨٢٥٦) حضرت عبداللہ بن ابی بکر سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لیلۃ العقبہ کو فرمایا۔ ” تم لوگ اپنے میں سے بارہ لوگوں کو میری طرف نکال دو جو اپنی اپنی قوم کے کفیل ہوں جیسا کہ حضرت عیسیٰ ابن مریم کے حواریوں کے کفیل تھے “۔ پس بنو نجار کے کفیل ۔۔۔ ابن ادریس کہتے ہیں۔ بنو نجار رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ماموں لگتے تھے۔۔۔ اسعد بن زرار اور ابو امامہ تھے اور بنو الحارث بن خزرج کے دو نقیب (کفیل) حضرت عبداللہ بن رواحہ اور سعد بن ربیع تھے اور بنو سلمہ کے دو نقیب حضرت عبداللہ بن عمرو بن حرام اور حضرت براء بن معرور تھے اور بنو ساعدہ کے دو نقیب حضرت سعد بن عبادہ اور حضرت منذر بن عمرو تھے۔ اور بنوزریق کے نقیب رافع بن مالک تھے اور بنو عوف بن خزرج کے نقیب ۔۔۔ یہ لوگ قواقل کے لقب سے ملقب تھے ۔۔۔ عبادہ بن صامت تھے اور بنو عبدالاشہل کے دو نقیب حضرت اسید بن حضیر اور حضرت ابو الہیثم بن تیہان تھے اور بنو عمرو بن عوف کے نقیب حضرت سعد بن خیثمہ تھے۔

38256

(۳۸۲۵۷) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ، عَنْ مُجَالِدٍ، عَنِ الشَّعْبِیِّ، عَنْ عُقْبَۃَ بْنِ عَمْرٍو الأَنْصَارِیِّ، قَالَ: وَعَدَنَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَصْلَ الْعَقَبَۃِ یَوْمَ الأَضْحَی ، وَنَحْنُ سَبْعُونَ رَجُلاً، قَالَ عُقْبَۃُ: إِنِّی مِنْ أَصْغَرِہِمْ، فَأَتَانَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : أَوْجِزُوا فِی الْخُطْبَۃِ ، فَإِنِّی أَخَافُ عَلَیْکُمْ کُفَّارَ قُرَیْشٍ، قَالَ: قُلْنَا: یَا رَسُولَ اللہِ ، سَلْنَا لِرَبِّکَ ، وَسَلْنَا لِنَفْسِکَ ، وَسَلْنَا لأَصْحَابِکَ ، وَأَخْبِرْنَا مَا الثَّوَابُ عَلَی اللہِ وَعَلَیْک۔ فَقَالَ : أَسْأَلُکُمْ لِرَبِّی أَنْ تُؤْمِنُوا بِہِ ، وَلاَ تُشْرِکُوا بِہِ شَیْئًا ، وَأَسْأَلُکُمْ لِنَفْسِی أَنْ تُطِیعُونِی ، أَہْدِیَکُمْ سَبِیلَ الرَّشَاد ، وَأَسْأَلُکُمْ لِی وَلأَصْحَابِی أَنْ تُوَاسُونَا فِی ذَاتِ أَیْدِیکُمْ ، وَأَنْ تَمْنَعُونَا مِمَّا مَنَعْتُمْ مِنْہُ أَنْفُسَکُمْ ، فَإِذَا فَعَلْتُمْ ذَلِکَ فَلَکُمْ عَلَی اللہِ الْجَنَّۃُ وَعَلَیَّ ، قَالَ : فَمَدَدْنَا أَیْدِیَنَا فَبَایَعْنَاہُ۔ (احمد ۱۲۰۔ حمید ۲۳۸)
(٣٨٢٥٧) حضرت عقبہ بن عمرو انصاری سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یوم الاضحی کو گھاٹی کی جڑ میں ہم لوگوں سے وعدہ لیا اور ہم لوگ ستر کی تعداد میں تھے ۔۔۔ حضرت عقبہ کہتے ہیں۔ میں ان میں سب سے چھوٹا تھا ۔۔۔ پس رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا۔ ” گفتگو مختصر کرو کیونکہ مجھے تم پر قریش کے کفار کا ڈر ہے۔ “ راوی کہتے ہیں۔ ہم نے عرض کیا۔ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ ہم سے اپنے رب کے بارے میں سوال کریں اور آپ ہم سے اپنے بارے میں کوئی سوال کریں اور آپ ہم سے اپنے ساتھیوں کے بارے میں کچھ سوال کریں اور ہمں ب بھی بتادیں کہ اللہ پر اور آپ پر (ہمارے لئے) کیا ثواب دینا لازم ہوگا۔
آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” میں اپنے رب کے بارے میں تم سے یہ سوال کرتا ہوں کہ تم اس پر ایمان لاؤ اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ بناؤ اور میں تم سے اپنے بارے میں یہ سوال کرتا ہوں کہ تم میری بات مانو میں تمہیں راہ ہدایت کی جانب راہ نمائی کروں گا۔ اور میں تم سے اپنے ساتھیوں کے بارے میں یہ سوال کرتا ہوں کہ تم ان کے ساتھ اپنے مال میں ہمدردی کرو اور یہ کہ تم ہم سے ان چیزوں کو روکو جن کو تم خود سے روکتے ہو۔ پس جب تم لوگ یہ کچھ کرو گے تو پھر تمہارے لیے اللہ پر اور مجھ پر جنت واجب ہے۔ “ راوی کہتے ہیں پس ہم نے اپنے ہاتھ دراز کیے اور ہم نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیعت کی۔

38257

(۳۸۲۵۸) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ إِسْمَاعِیلَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : انْطَلَقَ الْعَبَّاسُ مَعَ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِلَی الأَنْصَارِ ، فَقَالَ : تَکَلَّمُوا وَلاَ تُطِیلُوا الْخُطْبَۃَ ، إِنَّ عَلَیْکُمْ عُیُونًا ، وَإِنِّی أَخْشَی عَلَیْکُمْ کُفَّارَ قُرَیْشٍ ، فَتَکَلَّمَ رَجُلٌ مِنْہُمْ یُکَنَّی : أَبَا أُمَامَۃَ ، وَکَانَ خَطِیبَہُمْ یَوْمَئِذٍ ، وَہُوَ أَسْعَدُ بْنُ زُرَارَۃَ ، فَقَالَ لِلنَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : سَلْنَا لِرَبِّکَ ، وَسَلْنَا لِنَفْسِکَ ، وَسَلْنَا لأَصْحَابِکَ ، وَمَا الثَّوَابُ عَلَی ذَلِکَ ؟ فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : أَسْأَلُکُمْ لِرَبِّی أَنْ تَعْبُدُوہُ ، وَلاَ تُشْرِکُوا بِہِ شَیْئًا ، وَلِنَفْسِی أَنْ تُؤْمِنُوا بِی وَتَمْنَعُونِی مِمَّا تَمْنَعُونَ مِنْہُ أَنْفُسَکُمْ وَأَبْنَائَکُمْ ، وَلأَصْحَابِی الْمُوَاسَاۃَ فِی ذَاتِ أَیْدِیکُمْ ، قَالَوا : فَمَا لَنَا إِذَا فَعَلْنَا ذَلِکَ ؟ قَالَ : لَکُمْ عَلَی اللہِ الْجَنَّۃُ۔ (احمد ۱۱۹۔ ابن سعد ۹)
(٣٨٢٥٨) حضرت شعبی سے روایت ہے کہ حضرت عباس ، نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہمراہ انصار کی طرف چل کر آئے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ ” بات کرو لیکن گفتگو لمبی نہ کرنا۔ تم پر جاسوس متعین ہیں اور مجھے تمہارے بارے میں قریش کے کفار سے خوف ہے “ پس ان میں سے ایک آدمی ۔۔۔ جس کی کنیت ابو امامہ تھی ۔۔۔ اس نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا۔ آپ ہم سے اپنے رب کے لیے سوال کریں، آپ ہم سے اپنے لیے سوال کریں اور آپ ہم سے اپنے ساتھیوں کے لیے سوال کریں۔ اور (یہ بتائیں کہ) اس پر کیا ثواب ملے گا ؟ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ ” میں تم سے اپنے رب کے بارے میں یہ سوال کرتا ہوں کہ تم اس کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہراؤ۔ اور اپنے لیے یہ سوال کرتا ہوں کہ تم مجھ پر ایمان لاؤ اور مجھ سے ان چیزوں کو روکو جن چیزوں کو تم اپنے اور اپنے بیٹوں سے روکتے ہو۔ اور اپنے ساتھیوں کے لیے یہ سوال کرتا ہوں کہ تم ان کے ساتھ اپنے اموال میں ہمدردی کرو “ انصار نے پوچھا۔ جب ہم یہ سب کچھ کریں گے تو ہمیں کیا ملے گا ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ۔ تمہارے لیے اللہ پر جنت واجب ہے۔

38258

(۳۸۲۵۹) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، عَنِ الْوَلِیدِ بْنِ جُمَیْعٍ ، عَنْ أَبِی الطُّفَیْلِ ، قَالَ : کَانَ بَیْنَ حُذَیْفَۃَ وَبَیْنَ رَجُلٍ مِنْہُمْ مِنْ أَہْلِ الْعَقَبَۃِ بَعْضُ مَا یَکُونُ بَیْنَ النَّاسِ ، فَقَالَ : أُنْشِدُک بِاللہِ ، کَمْ کَانَ أَصْحَابُ الْعَقَبَۃِ ؟ فَقَالَ الْقَوْمُ : فَأَخْبِرْہُ ، فَقَدْ سَأَلَک ، فَقَالَ أَبُو مُوسَی الأَشْعَرِیُّ : قَدْ کُنَّا نُخْبَرُ أَنَّہُمْ أَرْبَعَۃَ عَشَرَ ، فَقَالَ حُذَیْفَۃُ : وَإِنْ کُنْتُ فِیہِمْ ، فَقَدْ کَانُوا خَمْسَۃَ عَشَرَ ، أَشْہَدُ بِاللہِ أَنَّ اثْنَیْ عَشَرَ مِنْہُمْ حَرْبٌ للہِ وَرَسُولِہِ فِی الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا وَیَوْمَ یَقُومُ الأَشْہَادُ ، وَعُذِرَ ثَلاَثَۃٌ ، قَالُوا : مَا سَمِعْنَا مُنَادِیَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَلاَ عَلِمْنَا مَا یُرِیدُ الْقَوْمُ۔ (مسلم ۲۱۴۴۔ احمد ۳۹۱)
(٣٨٢٥٩) حضرت ابوا لطفیل سے روایت ہے کہ حضرت حذیفہ اور اہل عقبہ میں سے ایک اور آدمی کے درمیان کچھ تکرار سی تھی تو انھوں نے پوچھا۔ میں تمہیں اللہ کی قسم دیتا ہوں (بتاؤ) اصحاب العقبہ کی تعداد کیا تھی ؟ اس پر لوگوں نے بھی کہا۔ تم اس کو بتاؤ کیونکہ اس نے تم سے سوال کیا ہے۔ پس حضرت ابو موسیٰ اشعری نے کہا۔ تحقیق ہمیں تو یہ خبر ملی تھی کہ وہ چودہ تھے۔ حضرت حذیفہ نے کہا۔ اور اگر آپ ان میں ہوتے تو وہ پندرہ ہوتے۔ میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ ان میں سے بارہ تو دنیا و آخرت میں اللہ اور اس کے رسول کے خلاف برسر پیکار تھے۔ اور تین نے معذرت کی تھی اور انھوں نے کہا تھا۔ ہم نے اللہ کے رسول کے منادی کو نہیں سنا اور ہمیں پتا نہیں کہ لوگ کیا چاہتے ہیں۔

38259

(۳۸۲۶۰) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ إِسْمَاعِیلَ بْنِ أَبِی خَالِدٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ عَبْدَ اللہِ بْنَ أَبِی أَوْفَی ، وَکَانَ مِمَّنْ بَایَعَ تَحْتَ الشَّجَرَۃِ ، یَقُولُ : دَعَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَی الأَحْزَابِ ، فَقَالَ : اللَّہُمَّ مُنْزِلَ الْکِتَابِ ، سَرِیعَ الْحِسَابِ ، ہَازِمَ الأَحْزَابِ ، اللَّہُمَّ اہْزِمْہُمْ وَزَلْزِلْہُمْ۔
(٣٨٢٦٠) حضرت اسماعیل بن خالد سے روایت ہے کہ میں عبداللہ بن ابی اوفیٰ ۔۔۔ یہ ان صحابہ میں سے ہیں جنہوں نے درخت کے نیچے بیعت کی تھی۔۔۔کو کہتے سُنا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لشکروں کے خلاف بددعا کی اور فرمایا۔ ” اے اللہ ! کتاب کو اتارنے والے ، جلد حساب لینے والے، لشکروں کو شکست دینے والے، اے اللہ ! تو ان کو شکست دے دے اور ان کو ہلا دے۔ “

38260

(۳۸۲۶۱) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ أَبِی بُکَیْرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَۃُ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ ، قَالَ : سَمِعْتُ ابْنَ أَبِی أَوْفَی یَقُولُ : کَانَ أَصْحَابُ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، الَّذِینَ بَایَعُوا تَحْتَ الشَّجَرَۃِ ، أَلْفًا وَأَرْبَعَمِئَۃٍ ، أَوْ أَلْفًا وَثَلاَثَمِئَۃٍ ، وَکَانَتْ أَسْلَمُ ثُمُْنَ الْمُہَاجِرِینَ۔ (مسلم ۱۴۸۵۔ طیالسی ۸۲۰)
(٣٨٢٦١) حضرت عمرو بن مرہ کہتے ہیں کہ میں نے ابن ابی اوفیٰ کو کہتے سُنا کہ جن صحابہ نے درخت کے نیچے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیعت کی تھی وہ چودہ سو یا تیرہ سو تھے اور قبیلہ اسلم کے لوگ مہاجرین کا ایک ثمن تھے۔

38261

(۳۸۲۶۲) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ مُجَالِدٍ ، عَنْ عَامِرٍ ، قَالَ : أَوَّلُ مَنْ بَایَعَ تَحْتَ الشَّجَرَۃِ أَبُو سِنَانٍ الأَسَدِیُّ وَہْبٌ ، أَتَی النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : أُبَایِعُک ، قَالَ : عَلاَمَ تُبَایِعُنِی ؟ قَالَ : عَلَی مَا فِی نَفْسِکَ ، قَالَ : فَبَایَعَہُ ، قَالَ : وَأَتَاہُ رَجُلٌ آخَرُ ، فَقَالَ : أُبَایِعُک عَلَی مَا بَایَعَک عَلَیْہِ أَبُو سِنَانٍ ، فَبَایَعَہُ ، ثُمَّ بَایَعَہُ النَّاسُ۔
(٣٨٢٦٢) حضرت عامر سے روایت ہے کہ درخت کے نیچے سب سے پہلے ابو سنان اسدی وھب نے بیعت کی تھی۔ یہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا۔ میں آپ کی بیعت کرتا ہوں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا ” تم کس بات پر میری بیعت کرتے ہو ؟ “ ابو سنان نے کہا۔ اس بات پر جو آپ کے دل میں ہے۔ راوی کہتے ہیں۔ پس آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو بیعت کیا۔ راوی کہتے ہیں۔ پھر ایک اور آدمی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس حاضر ہوا اور اس نے کہا ۔ جس بات پر ابو سنان نے بیعت کی ہے میں بھی اس پر آپ کی بیعت کرتا ہوں۔ پس اس نے بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیعت کی ۔ پھر باقی لوگوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیعت کی۔

38262

(۳۸۲۶۳) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِیلُ، عَنْ عَامِرٍ، قَالَ: السَّابِقُونَ الأَوَّلُونَ مَنْ أَدْرَکَ بَیْعَۃَ الرِّضْوَانِ۔
(٣٨٢٦٣) حضرت عامر سے روایت ہے کہ السَّابِقُونَ الأَوَّلُونَ وہ لوگ ہیں جنہوں نے بیعۃ الرضوان کی تھی۔

38263

حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، قَالَ : حدَّثَنَا أَبُو بَکْرٍ عَبْدُ اللہِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِی شَیْبَۃَ ، قَالَ : (۳۸۲۶۴) حَدَّثَنَا أَبُومُعَاوِیَۃَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ زَیْدِ بْنِ وَہْبٍ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ رَبِّ الْکَعْبَۃِ، قَالَ: انْتَہَیْت إِلَی عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو وَہُوَ جَالِسٌ فِی ظِلِّ الْکَعْبَۃِ وَالنَّاسُ عَلَیْہِ مُجْتَمِعُونَ فَسَمِعْتُہُ یَقُولُ : بَیْنَمَا نَحْنُ مَعَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی سَفَرٍ إذْ نَزَلْنَا مَنْزِلاً ، فَمِنَّا مَنْ یَضْرِبُ خِبَائَہُ، وَمِنَّا مَنْ یَنْتَضِلُ، وَمِنَّا مَنْ ہُوَ فِی جَشَرِہِ إذْ نَادَی مُنَادِیہِ : الصَّلاَۃُ جَامِعَۃٌ ، فَاجْتَمَعْنَا ، فَقَامَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَخَطَبَنَا ، فَقَالَ : إِنَّہُ لَمْ یَکُنْ نَبِیٌّ قَبْلِی إِلاَّ کَانَ حَقَّ اللہِ عَلَیْہِ أَنْ یَدُلَّ أُمَّتَہُ عَلَی مَا ہُوَ خَیْرٌ لَہُمْ ، وَیُنْذِرَہُمْ مَا یَعْلَمُہُ شَرًّا لَہُمْ ، وَإِنَّ أُمَّتَکُمْ ہَذِہِ جُعِلَتْ عَافِیَتُہَا فِی أَوَّلِہَا ، وَإِنَّ آخِرَہَا سَیُصِیبُہُمْ بَلاَئٌ وَأُمُورٌ تُنْکِرُونَہَا فَمِنْ ثَمَّ تَجِیئُ الْفِتْنَۃُ ، فَیَقُولُ الْمُؤْمِنُ : ہَذِہِ مُہْلِکَتِی ، ثُمَّ تَنْکَشِفُ ، ثُمَّ تَجِیئُ الْفِتْنَۃُ ، فَیَقُولُ الْمُؤْمِنُ : ہَذِہِ ، ثُمَّ تَنْکَشِفُ ، فَمَنْ سَرَّہُ مِنْکُمْ أَنْ یُزَحْزَحَ عَنِ النَّارِ وَیَدْخُلَ الْجَنَّۃَ ، فَلتُدْرِکْہُ مَنِیَّتُہُ وَہُوَ یُؤْمِنُ بِاللہِ وَالْیَوْمِ الآخِرِ ، وَلْیَأْتِ النَّاسَ الَّذِی یُحِبُّ أَنْ یَأْتُوا إلَیْہِ ، وَمَنْ بَایَعَ إمَامًا فَأَعْطَاہُ صَفْقَۃَ یَدِہِ وَثَمَرَۃَ قَلْبِہِ فَلْیُطِعْہُ مَا اسْتَطَاعَ ، فَإِنْ جَائَ أَحَدٌ یُنَازِعُہُ فَاضْرِبُوا، عُنُقَ الآخَرَ، قَالَ: فَأَدْخَلْت رَأْسِی مِنْ بَیْنِ النَّاسِ، فَقُلْتُ: أُنْشِدُک بِاللہِ ، أَسَمِعْتَ ہَذَا مِنْ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ؟ قَالَ : فَأَشَارَ بِیَدَیْہِ إِلَی أُذُنَیْہِ ، سَمِعَتْہُ أُذُنَایَ وَوَعَاہُ قَلْبِی ، قَالَ : قُلْتُ : ہَذَا ابْنُ عَمِّکَ ، یَأْمُرُنَا أَنْ نَأْکُلَ أَمْوَالَنَا بَیْنَنَا بِالْبَاطِلِ ، وَأَنْ نَقْتُلَ أَنْفُسَنَا ، وَقَدْ قَالَ اللَّہُ : {لاَ تَأْکُلُوا أَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ وَتُدْلُوا بِہَا إِلَی الْحُکَّامِ} إِلَی آخِرِ الآیَۃِ ، قَالَ : فَجَمَعَ یَدَیْہِ فَوَضَعَہُمَا عَلَی جَبْہَتِہِ ، ثُمَّ نَکسَ ہُنَیْہَۃً ، ثُمَّ قَالَ أَطِعْہُ فِی طَاعَۃِ اللہِ ، وَاعْصِہِ فِی مَعْصِیَۃِ اللہِ۔ (مسلم ۴۶۔ ابوداؤد ۴۲۴۷)
(٣٨٢٦٤) حضرت عبدالرحمن بن عبد رب الکعبہ فرماتے ہیں کہ میں حضرت عبداللہ بن عمر کے پاس گیا وہ خانہ کعبہ کے سائے میں بیٹھے تھے اور لوگ ان کے گرد جمع تھے۔ میں نے انھیں فرماتے ہوئے سنا کہ ایک سفر میں ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ تھے جب ہم نے ایک جگہ پڑاؤ ڈالا پس کچھ ہم میں سے وہ تھے جو خیمے نصب کرنے لگے اور کچھ وہ تھے جو تیر اندازی میں مقابلہ کرنے لگے اور کچھ وہ جو اپنے مویشیوں (کی دیکھ بھال) میں (لگ گئے) تھے۔
ناگاہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مناوی نے ندادی الصلوٰۃ جامعۃ پس ہم جمع ہوگئے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کھڑے ہوئے اور ہمیں خطبہ ارشاد فرمایا اور فرمایا یقیناً مجھ سے پہلے کوئی نبی نہیں گزرا مگر اللہ کیلئے اس پر حق تھا کہ اپنی امت کی رہنمائی کرے اس بات کی طرف جو ان کے لیے بہتر ہو اور ڈرائے ان کو اس بات سے جس کے بارے میں جانتا ہو یہ ان کے لیے بری ہے۔ بیشک یہ تمہاری امت اس کی عافیت اس کے اول حصے میں ہے اور اس کے آخری حصے کو عنقریب پہنچیں گی، مصیبتیں اور ایسے امور جنہیں تم ناپسند سمجھتے ہو اس موقعے پر ایک فتنہ آئے گا مومن کہے گا، یہ مجھے ہلاک کرنے والا ہے پھر وہ دور ہوجائے گا۔ پھر فتنہ آئے گا پس مومن کہے گا یہ مجھے ہلاک کرنے والا ہے پھر وہ دور ہوجائے گا پس وہ شخص جسے پسند ہے تم میں سے کہ اسے آگ سے بچا لیا جائے اور جنت میں داخل کردیا جائے تو اسے موت اس حال میں آئے کہ وہ اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اور لوگوں کے ساتھ ایسا ہی برتاؤ کرے جیسا وہ پسند کرتا ہے کہ لوگ اس کے ساتھ کریں اور وہ شخص جس نے کسی امام کی بیعت کی اور اس کو ہاتھ کا معاملہ اور دل کا پھل دے دے تو جہاں تک ہو سکے وہ اس کی اطاعت کرے پس اگر کوئی اس سے جھگڑا کرے تو اس دوسرے کی گردن ماردو۔
راوی فرماتے ہیں میں نے داخل کیا اپنا سر لوگوں کے درمیان پس میں نے عرض کیا میں آپ کو اللہ کا واسطہ دیتا ہوں کیا آپ نے یہ حدیث حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنی ہے راوی فرماتے ہیں انھوں نے اپنے دونوں ہاتھوں سے اشارہ کیا اپنے کانوں کی طرف کہ میرے کانوں نے سنا اور میرے دل نے اسے یاد کیا راوی فرماتے ہیں میں نے عرض کیا یہ آپ کے چچا کے بیٹے ہمیں حکم دیتے ہیں کہ ہم اپنے مالوں کو ناحق طریقے سے کھائیں اور یہ کہ اپنے آپ کو قتل کریں۔
حالانکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : نہ کھاؤ آپس میں ایک دوسرے کا مال ناحق طریقے پر اور ان (کے جھوٹے مقدمے) حکام کے یہاں اس غرض سے نہ لے جاؤ۔ آیت کے اخیر تک، راوی فرماتے ہیں حضرت عبداللہ بن عمرو نے اپنے دونوں ہاتھ جمع کیے اور ان دونوں کو اپنی پیشانی پر رکھا پھر کچھ دیر سر جھکایا پھر فرمایا : اس کی اطاعت کر اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں اور اس کی نافرمانی کر اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں۔

38264

(۳۸۲۶۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا الأَعْمَشُ ، عَنْ زَیْدِ بْنِ وَہْبٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ رَبِّ الْکَعْبَۃِ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِمِثْلِہِ إِلاَّ أَنَّ وَکِیعًا ، قَالَ : وَسَیُصِیبُ آخِرَہَا بَلاَئٌ وَفِتَنٌ یُرَقِّقُ بَعْضُہَا بَعْضًا ، وَقَالَ : مَنْ أَحَبَّ أَنْ یُزَحْزَحَ عَنِ النَّارِ وَیَدْخُلَ الْجَنَّۃَ فَلْتُدْرِکْہُ مَنِیَّتُہُ ، ثُمَّ ذَکَرَ مِثْلَہُ۔ (ابن ماجہ ۳۹۵۶۔ احمد ۱۹۱)
(٣٨٢٦٥) عبداللہ بن عمرو نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی (مذکورہ روایت) کی مثل نقل کرتے ہیں لیکن وکیع نے یوں نقل کیا، اور عنقریب اس امت کے آخری حصے کو مصیبتیں اور فتن پہنچیں گے ان میں سے ایک دوسرے کو کمزور کر دے گا اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو آدمی پسند کرے اس بات کو کہ اسے آگ سے بچا لیا جائے اور جنت میں داخل کردیا جائے پس اسے موت آئے پھر وکیع نے اوپر والی روایت کے مثل بقیہ روایت نقل کی۔

38265

(۳۸۲۶۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ عُثْمَانَ الشَّحَّامِ ، قَالَ : حدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ أَبِی بَکرَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إِنَّہَا سَتَکُونُ فِتْنَۃٌ ، الْمُضْطَجِعُ فِیہَا خَیْرٌ مِنَ الْجَالِسِ ، وَالْجَالِسُ خَیْرٌ مِنَ الْقَائِمِ ، وَالْقَائِمُ خَیْرٌ مِنَ الْمَاشِی ، وَالْمَاشِی خَیْرٌ مِنَ السَّاعِی ، فَقَالَ رَجُلٌ : یَا رَسُولَ اللہِ ، مَا تَأْمُرُنِی ، قَالَ : مَنْ کَانَتْ لَہُ إبِلٌ فَلْیَلْحَقْ بِإِبِلِہِ ، وَمَنْ کَانَتْ لَہُ غَنَمٌ فَلْیَلْحَقْ بِغَنَمِہِ ، وَمَنْ کَانَتْ لَہُ أَرْضٌ فَلْیَلْحَقْ بِأَرْضِہِ ، وَمَنْ لَمْ یَکُنْ لَہُ شَیْئٌ مِنْ ذَلِکَ فَلْیَعْمَدْ إِلَی سَیْفِہِ فَلْیَضْرِبْ بِحَدِّہِ عَلَی صَخْرَۃٍ ، ثُمَّ لِیَنْجُ إِنِ اسْتَطَاعَ النَّجَائَ۔ (مسلم ۱۳۔ احمد ۴۸)
(٣٨٢٦٦) ابو بکرہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : بیشک عنقریب ایک فتنہ ہوگا اس میں لیٹنے والا بیٹھنے والے سے بہتر ہوگا اور بیٹھنے والا کھڑے ہونے والے سے بہتر ہوگا اور کھڑا ہونے والا چلنے والے سے بہتر ہوگا اور اس میں چلنے والا اس میں کوشش کرنے والے سے بہتر ہوگا۔ ایک آدمی نے عرض کیا اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ مجھے کیا حکم دیتے ہیں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جس آدمی کے اونٹ ہوں وہ اپنے اونٹوں میں چلا جائے اور جس آدمی کی بکریاں ہوں وہ اپنی بکریوں میں چلا جائے اور جس آدمی کی زمین ہو وہ اپنی زمین میں چلا جائے اور جس آدمی کے پاس ان چیزوں میں سے کوئی چیز نہ ہو تو وہ اپنی تلوار کا قصد کرے اور اس کی دھار پتھر کی چٹان پر مارے پھر نجات پاسکتا ہے۔

38266

(۳۸۲۶۷) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی وَعَبِیدَۃُ بْنُ حُمَیْدٍ ، عَنْ دَاوُدَ ، عَنْ أَبِی عُثْمَانَ ، عَنْ سَعْدٍ رَفَعَہُ عَبِیدَۃُ وَلَمْ یَرْفَعْہُ عَبْدُ الأَعْلَی ، قَالَ : تَکُونُ فِتْنَۃٌ ، الْقَاعِدُ فِیہَا خَیْرٌ مِنَ الْقَائِمِ ، وَالْقَائِمُ خَیْرٌ مِنَ السَّاعِی ، وَالسَّاعِی خَیْرٌ مِنَ الْمُوضِعِ۔ (حاکم ۴۴۱)
(٣٨٢٦٧) حضرت سعد سے روایت ہے فرماتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ایک فتنہ ہوگا اس میں بیٹھے والا کھڑے ہونے ولے سے بہتر ہوگا اور کھڑا ہونے والا اس میں کوشش کرنے والے سے بہتر ہوگا اور کوشش کرنے والا بہتر ہوگا اس میں جلدی چلنے والے سے۔

38267

(۳۸۲۶۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ نَجِیحٍ ، عَنْ أَبِی التَّیَّاحِ ، عَنْ صَخْرِ بْنِ بَدْرٍ ، عَنْ خَالِدِ بْنِ سُبَیْعٍ ، أَوْ سُبَیْعِ بْنِ خَالِدٍ ، قَالَ : أَتَیْتُ الْکُوفَۃَ فَجَلَبْت مِنْہَا دَوَابَّ ، فَإِنِّی لَفِی مَسْجِدِہَا ، إذْ جَائَ رَجُلٌ قَدِ اجْتَمَعَ النَّاسُ عَلَیْہِ ، فَقُلْتُ: مَنْ ہَذَا؟ قَالُوا: حُذَیْفَۃُ بْنُ الْیَمَانِ، قَالَ: فَجَلَسْت إلَیْہِ، فَقَالَ: کَانَ النَّاسُ یَسْأَلُونَ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنِ الْخَیْرِ ، وَکُنْت أَسْأَلُہُ ، عَنِ الشَّرِّ ، قَالَ : قُلْتُ : یَا رَسُولَ اللہِ ، أَرَأَیْت ہَذَا الْخَیْرَ الَّذِی کُنَّا فِیہِ ہَلْ کَانَ قَبْلَہُ شَرٌّ ؟ وَہَلْ کَائِنٌ بَعْدَہُ شَرٌّ ؟ قَالَ : نَعَمْ ، قُلْتُ : فَمَا الْعِصْمَۃُ مِنْہُ ؟ قَالَ : السَّیْفُ ، قَالَ : فَقُلْتُ : یَا رَسُولَ اللہِ ، فَہَلْ بَعْدَ السَّیْفِ مِنْ بَقِیَّۃٍ ؟ قَالَ : نَعَمْ ، ہُدْنَۃٌ ، قَالَ : قُلْتُ : یَا رَسُولَ اللہِ ، فَمَا بَعْدَ الْہُدْنَۃِ ؟ قَالَ : دُعَاۃُ الضَّلاَلَۃِ ، فَإِنْ رَأَیْت خَلِیفَۃً فَالْزَمْہُ وَإِنْ نَہَکَ ظَہْرَک ضَرْبًا وَأَخَذَ مَالَک ، فَإِنْ لَمْ یَکُنْ خَلِیفَۃٌ فَالْہَرَبُ حَتَّی یَأْتِیَکَ الْمَوْتُ وَأَنْتَ عَاضٌّ عَلَی شَجَرَۃٍ ، قَالَ : قُلْتُ : یَا رَسُولَ اللہِ ، فَمَا بَعْدَ ذَلِکَ ؟ قَالَ : خُرُوجُ الدَّجَّالِ ، قَالَ : قُلْتُ : یَا رَسُولَ اللہِ ، فَمَا یَجِیئُ بِہِ الدَّجَّالُ ؟ قَالَ : یَجِیئُ بِنَارٍ وَنَہْرٍ ، فَمَنْ وَقَعَ فِی نَارِہِ وَجَبَ أَجْرُہُ ، وَحُطَّ وِزْرُہُ ، وَمَنْ وَقَعَ فِی نَہْرِہِ حبط أَجْرُہُ ، وَوَجَبَ وِزْرُہُ ، قَالَ: قُلْتُ : یَا رَسُولَ اللہِ ، فَمَا بَعْدَ الدَّجَّالِ ؟ قَالَ : لَوْ أَنَّ أَحَدَکُمْ أَنْتَجَ فَرَسَہُ مَا رَکِبَ مُہْرَہَا حَتَّی تَقُومَ السَّاعَۃُ۔ (ابوداؤد ۴۲۴۶۔ احمد ۳۸۷)
(٣٨٢٦٨) حضرت خالد بن سبیع یا سبیع بن خالد فرماتے ہیں میں کوفہ آیا اور وہاں سے چوپائے ہانکے اور میں اس کی مسجد میں تھا اچانک ایک صاحب آئے لوگ ان کے پاس جمع ہوگئے میں نے کہا یہ کون ہیں لوگوں نے کہا یہ حذیفہ بن یمان ہیں، راوی فرماتے ہیں میں ان کے پاس بیٹھ گیا پس انھوں نے فرمایا : لوگ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بھلائی کے بارے میں پوچھتے تھے۔ اور میں ان سے برائی کے بارے میں پوچھتا تھا۔ حضرت حذیفہ بن یمان نے فرمایا میں نے عرض کیا اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس برائی سے بچنے کا طریقہ کیا ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تلوار۔ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول مجھے بتلائیے یہ بھلائی جس میں ہم ہیں کیا اس سے پہلے برائی تھی اور کیا اس کے بعد برائی ہوگی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ہاں میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا تلوار کے بعد کچھ باقی ہوگا ارشاد فرمایا : کہ ہاں صلح میں نے کہا اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صلح کے بعد کیا ہوگا ارشاد فرمایا : گمراہی کی دعوت دینے والے پس تو اگر دیکھے کوئی خلیفہ تو اس کے ساتھ ہوجانا اگرچہ وہ تیری پشت پر مار کر سخت سزا دے اور تیرا مال لے لے اور اگر کوئی خلیفہ نہ ہو تو بھاگ جانا یہاں تک کہ تمہیں موت آئے اس حال میں کہ تم درخت کھانے والے ہو۔
راوی فرماتے ہیں میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کے بعد کیا ہوگا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : دجال کا نکلنا میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دجال کیا لائے گا، ارشاد فرمایا : آگ اور قہر لائے گا جو اس کی آگ میں پڑگیا اس کا اجر ضائع ہوجائے گا اور گناہ لازم ہوجائے گا میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دجال کے بعد کیا ہوگا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اگر تم میں سے کسی ایک کے گھوڑے کا بچہ ہو تو وہ اس کے پچھیرے پر سوار نہیں ہوگا یہاں تک کہ قیامت قائم ہوجائے گی۔

38268

(۳۸۲۶۹) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ الْمُغِیرَۃِ ، قَالَ : قَالَ حُمَیْدٌ : حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَاصِمٍ اللَّیْثِیُّ ، قَالَ : حَدَّثَنَا الیشکری ، قَالَ : سَمِعْتُ حُذَیْفَۃَ یَقُولُ : کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَسْأَلُہُ النَّاسُ عَنِ الْخَیْرِ ، وَکُنْت أَسْأَلُہُ عَنِ الشَّرِ ، وَعَرَفْتُ أَنَّ الْخَیْرَ لَنْ یَسْبِقَنِی ، قَالَ : قُلْتُ : یَا رَسُولَ اللہِ ، ہَلْ بَعْدَ ہَذَا الْخَیْرِ مِنْ شَرٍّ ؟ قَالَ : یَا حُذَیْفَۃُ ، تَعَلَّمْ کِتَابَ اللہِ وَاتَّبِعْ مَا فِیہِ ، ثَلاَثًا ، قَالَ : قُلْتُ : یَا رَسُولَ اللہِ ، ہَلْ بَعْدَ ہَذَا الْخَیْرِ شَرُّ ؟ قَالَ : فِتْنَۃٌ وَشَرٌّ ، قَالَ : قُلْتُ : یَا رَسُولَ اللہِ ، ہَلْ بَعْدَ ہَذَا الشَّرِّ خَیْرٌ ؟ قَالَ : یَا حُذَیْفَۃُ ، تَعَلَّمْ کِتَابَ اللہِ وَاتَّبِعْ مَا فِیہِ ثَلاَثَ مِرَارٍ ، قَالَ : قُلْتُ : یَا رَسُولَ اللہِ ، ہَلْ بَعْدَ ہَذَا الْخَیْرِ شَرُّ ؟ قَالَ : فِتْنَۃٌ عَمْیَائُ صَمَّائُ عَلَیْہَا دُعَاۃٌ عَلَی أَبْوَابِ النَّارِ ، فَأَنْ تَمُوتَ یَا حُذَیْفَۃُ وَأَنْتَ عَاضٌّ عَلَی جَِذْلٍ ، خَیْرٌ مِنْ أَنْ تَتْبَعَ أَحَدًا مِنْہُمْ۔ (ابوداؤد ۴۲۴۳۔ احمد ۳۸۶)
(٣٨٢٦٩) حضرت یشکری فرماتے ہیں میں نے حضرت حذیفہ کو فرماتے ہوئے سنا کہ لوگ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بھلائی کے بارے میں پوچھتے تھے اور میں آپ سے برائی کے بارے میں پوچھتا تھا اور میں پہچان چکا تھا کہ خیر مجھ سے ہرگز نہیں بڑھے گی راوی فرماتے ہیں میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول کیا اس خیر کے بعد برائی ہوگی، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے حذیفہ اللہ کی کتاب سیکھو اور اس میں موجود احکام کی پیروی کرو تین مرتبہ (فرمایا) راوی فرماتے ہیں میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول کیا اس برائی کے بعد بھلائی ہوگی ارشاد فرمایا اے حذیفہ اللہ کی کتاب سیکھو اور جو اس میں ہے اس کی پیروی کرو تین مرتبہ فرمایا میں نے عرض کی اے اللہ کے رسول کیا اس خیر کے بعد برائی ہوگی ارشاد فرمایا : اندھا اور بہرا فتنہ ہوگا اس پر قائم ہوں گے جہنم کے دروازوں کی طرف دعوت دینے والے اے حذیفہ اگر تمہیں موت آئے اس حال میں کہ تم درخت کے تنے کو کھانے والے ہو یہ بہتر ہے اس بات سے کہ تم ان میں سے کسی کی پیروی کرو۔

38269

(۳۸۲۷۰) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا یُونُسُ بْنُ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ ہِلاَلِ بْنِ خَبَّابٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِی عِکْرِمَۃُ ، قَالَ : حَدَّثَنِی عَبْدُ اللہِ بْنُ عَمْرٍو ، قَالَ : بَیْنَا نَحْنُ حَوْلَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إذْ ذَکَرَ الْفِتْنَۃَ ، أَوْ ذُکِرَتْ عِنْدَہُ ، قَالَ : فَقَالَ : إِذَا رَأَیْت النَّاسَ مَرَجَتْ عُہُودُہُمْ وَخَفَّتْ أَمَانَاتُہُمْ ، وَکَانُوا ہَکَذَا وَشَبَّکَ بَیْنَ أَصَابِعِہِ ، قَالَ : فَقُمْت إلَیْہِ ، فَقُلْتُ : کَیْفَ أَفْعَلُ عِنْدَ ذَلِکَ جَعَلَنِی اللَّہُ فِدَائَک ، قَالَ : فَقَالَ لِی : الْزَمْ بَیْتَکَ ، وَأَمْسِکْ عَلَیْک لِسَانَک ، وَخُذْ بِمَا تَعْرِفُ ، وَذَرْ مَا تُنْکِرُ ، وَعَلَیْک بِخَاصَّۃِ نَفْسِکَ ، وَذَرْ عَنْک أَمْرَ الْعَامَّۃِ۔ (ابوداؤد ۴۲۴۵۔ احمد ۲۱۲)
(٣٨٢٧٠) حضرت عبداللہ بن عمرو فرماتے ہیں ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گرد تھے جب آپ نے فتنے کا تذکرہ کیا یا آپ کے پاس اس کا تذکرہ کیا گیا۔ فرماتے ہیں آپ نے فرمایا : جب تو لوگوں کو دیکھے کہ ان کے وعدے خراب ہوجائیں اور امانتیں ہلکی ہوجائیں اور وہ ہوجائیں اس طرح اور اپنی انگلیوں کو ایک دوسرے میں داخل کیا، راوی فرماتے ہیں میں آپ کی طرف کھڑا ہوا میں نے عرض کیا اس وقت میں کیسے کروں اللہ مجھے آپ پر قربان کرے فرماتے ہیں مجھ سے آپ نے ارشاد فرمایا : اپنے گھر کو لازم پکڑنا اور اپنی زبان کو روک کر رکھنا جو جانتے ہو وہ لے لینا اور جو نہیں جانتے وہ چھوڑ دینا اور تم پر لازم ہے خاص طور پر تمہاری ذات اور عامۃ الناس کے معاملے کو چھوڑ دینا۔

38270

(۳۸۲۷۱) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الأَنْصَارِیِّ ، عَنْ أَبِیہِ ، أَنَّہُ سَمِعَ أَبَا سَعِیدٍ یَقُولُ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : یُوشِکُ أَنْ یَکُونَ خَیْرَ مَالِ الْمُسْلِمِ غَنَمٌ یَتْبَعُ بِہَا شَعَفَ الْجِبَالِ ، وَمَوَاقِعَ الْقَطْرِ ، یَفِرُّ بِدِینِہِ مِنَ الْفِتَنِ۔ (بخاری ۱۹۔ احمد ۳۰)
(٣٨٢٧١) حضرت ابو سعید فرماتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : وہ وقت قریب ہے کہ مسلمان کا بہترین مال وہ بکریاں ہوں گی جنہیں وہ لے کر پہاڑ کی چوٹیوں اور بارش برسنے کی جگہوں پر چلا جائے گا وہ فتنوں سے اپنے دین کو بچانے کے لیے وہاں سے بھاگ جائے گا۔

38271

(۳۸۲۷۲) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنْ حُمَیْدِ بْنِ ہِلاَلٍ ، عَنْ حُجَیْرِ بْنِ الرَّبِیعِ ، قَالَ : قَالَ لِی عِمْرَانُ بْنُ حُصَیْنٍ : ائْتِ قَوْمَک فَانْہَہُمْ أَنْ یَخِفُّوا فِی ہَذَا الأَمْرِ ، فَقُلْتُ : إنِّی فِیہِمْ لَمَغْمُورٌ ، وَمَا أَنَا فِیہِمْ بِالْمُطَاعِ ، قَالَ : فَأَبْلِغْہُمْ عَنِّی لأَنْ أَکُونَ عَبْدًا حَبَشِیًّا فِی أَعْنُزٍ حَضَنِیَّاتٍ أَرْعَاہَا فِی رَأْسِ جَبَلٍ حَتَّی یُدْرِکَنِی الْمَوْتُ أَحَبُّ إلَیَّ مِنْ أَنْ أَرْمِیَ فِی أَحَدٍ مِنَ الصَّفَّیْنِ بِسَہْمٍ أَخْطَأْتُ ، أَوْ أَصَبْتُ۔
(٣٨٢٧٢) حضرت حجیربن الربعو فرماتے ہیں مجھ سے حضرت عمر ان بن حصین نے فرمایا اپنی قوم کے پاس جاؤ اور ان کو اس معاملے میں جلدی کرنے سے روکو میں نے عرض کیا میں ان میں مامور ہوں اور میں ان میں امیر نہیں ہوں حضرت عمران بن حصین نے فرمایا انھیں میری جانب سے یہ پیغام پہنچا دو کہ اگر میں ایک حبشی غلام ہوں عیب دار ہوں بھیڑوں کو چراؤں ایک پہاڑ کی چوٹی میں یہاں تک کہ مجھے موت آجائے یہ بات مجھے زیادہ پسندیدہ ہے اس بات سے کہ میں دونوں صفوں میں سے کسی ایک میں تیر ماروں چاہے درستگی تک پہنچ جاؤں یا غلطی پر ہوں۔

38272

(۳۸۲۷۳) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ زَیْدِ بْنِ وَہْبٍ ، قَالَ : قَالَ حُذَیْفَۃُ : إِنَّ لِلْفِتْنَۃِ وَقَفَاتٍ وَبَعَثَاتٍ ، فَإِنَ اسْتَطَعْت أَنْ تَمُوتَ فِی وَقَفَاتِہَا فَافْعَلْ۔ (حاکم ۴۳۳)
(٣٨٢٧٣) حضرت زید بن وہب فرماتے ہیں حضرت حذیفہ نے فرمایا یقیناً فتنے میں تلواریں سونتی بھی جاتی ہیں اور نیام میں بھی ڈال لی جاتی ہیں۔ یا یقیناً فتنہ رکتا بھی ہے اور اٹھتا بھی ہے پس اگر تم سے ہوسکے کہ تمہیں موت آئے اس کے رکنے کے وقت تو ایسا ہی کرنا۔

38273

(۳۸۲۷۴) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ طَاوُوسٍ، عَنْ زِیَاد بن سِمِیْنْ کُوشْ الْیَمَانِیَّ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: تَکُونُ فِتْنَۃٌ، أَوْ فِتَنٌ تَسْتَنْظِفُ الْعَرَبَ، قَتْلاَہَا فِی النَّارِ، اللِّسَانُ فِیہَا أَشَدُّ مِنْ وَقْعِ السَّیْفِ۔ (ابوداؤد ۴۲۶۴۔ احمد ۲۱۱)
(٣٨٢٧٤) حضرت زیاد بن سمین کوش الیمانی حضرت عبداللہ بن عمرو سے نقل کرتے ہیں کہ انھوں نے فرمایا فتنہ ہوگا یا فتنے ہوں گے جو سارے عرب کو ہلاک کردیں گے ان فتنوں کے مقتول آگ میں ہوں گے ان میں زبان (سے بات کرنا) تلوار مارنے سے سخت ہوگی۔

38274

(۳۸۲۷۵) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، وَأَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ أَبِی کَبْشَۃَ السَّدُوسِیِّ ، عَنْ أَبِی مُوسَی ، قَالَ : خَطَبَنَا ، فَقَالَ : أَلاَ وَإِنَّ مِنْ وَرَائِکُمْ فِتَنًا کَقِطَعِ اللَّیْلِ الْمُظْلِمِ ، یُصْبِحُ الرَّجُلُ فِیہَا مُؤْمِنًا وَیُمْسِی کَافِرًا ، وَیُصْبِحُ کَافِرًا وَیُمْسِی مُؤْمِنًا ، الْقَاعِدُ فِیہَا خَیْرٌ مِنَ الْقَائِمِ ، وَالْقَائِمُ خَیْرٌ مِنَ الْمَاشِی ، وَالْمَاشِی خَیْرٌ مِنَ الرَّاکِبِ ، قَالُوا : فَمَا تَأْمُرُنَا ؟ قَالَ : کُونُوا أَحْلاَسَ الْبُیُوتِ۔ (ابوداؤد ۴۲۶۱۔ احمد ۴۰۸)
(٣٨٢٧٥) حضرت ابو موسیٰ سے روایت ہے فرمایا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خطبہ ارشاد فرمایا پس فرمایا خبردار ہو یقیناً تمہارے سامنے فتنے ہیں اندھیری رات کے ٹکڑوں کی طرح ان میں آدمی صبح کے وقت مومن ہوگا اور شام کو کافر اور صبح کو کافر ہوگا اور شام کو مومن ہوگا، ان میں بیٹھنے والا کھڑے ہونے والے سے بہتر ہوگا اور کھڑا ہونے والا چلنے والے سے بہتر ہوگا اور پیدل چلنے والا سوار سے بہتر ہوگا، صحابہ کرام (رض) نے عرض کیا آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا ہوجانا گھروں کے ٹاٹ۔

38275

(۳۸۲۷۶) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: بَیْنَ یَدَیَ السَّاعَۃِ فِتَنٌ کَقِطَعِ اللَّیْلِ الْمُظْلِمِ ، یُصْبِحُ الرَّجُلُ فِیہَا مُؤْمِنًا وَیُمْسِی کَافِرًا وَیُمْسِی مُؤْمِنًا وَیُصْبِحُ کَافِرًا ، وَیَبِیعُ أَقْوَامٌ دِینَہُمْ بِعَرَضِ الدُّنْیَا۔ (ابو نعیم ۱۳)
(٣٨٢٧٦) حضرت مجاہد فرماتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا قیامت سے پہلے فتنے ہوں گے اندھیری رات کے ٹکڑوں کی طرح ان میں آدمی صبح کے وقت مومن ہوگا اور شام کو کافر ہوجائے گا اور شام کو مومن ہوگا اور صبح کو کافر ہوجائے گا اور لوگ اپنے دین کو بیچیں گے دنیاوی سامان کے بدلے میں۔

38276

(۳۸۲۷۷) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا ہَمَّامٌ ، قَالَ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جُحَادَۃَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ ثَرْوَانَ ، عَنِ ہُذَیْلٍ ، عَنْ أَبِی مُوسَی ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : اکْسِرُوا قِسِیَّکُمْ ، یَعْنِی فِی الْفِتْنَۃِ ، وَقَطِّعُوا الأَوْتَارَ وَالْزَمُوا أَجْوَافَ الْبُیُوتِ ، وَکُونُوا فِیہَا کَالْخَیرِ مِنِ ابْنَیْ آدَمَ۔ (احمد ۴۰۸)
(٣٨٢٧٧) حضرت ابو موسیٰ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کرتے ہیں آپ نے فرمایا : اپنی کمانیں توڑ دو فتنے کے بارے میں فرما رہے تھے اور کمان کی تانتیں کاٹ دو اور اپنے گھروں کے اندرونی حصوں کو لازم پکڑو اور ہوجاؤ ان میں آدم کے دو بیٹوں میں سے بہتر بیٹے کی طرح۔

38277

(۳۸۲۷۸) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِیزِ بْنُ عَبْدِ الصَّمَدِ الْعَمِّیُّ ، عَنْ أَبِی عِمْرَانَ الْجَوْنِیِّ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ الصَّامِتِ ، عَنْ أَبِی ذَرٍّ ، قَالَ : قَالَ لِی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : یَا أَبَا ذَرٍّ ، أَرَأَیْت إنِ اقْتَتَلَ النَّاسُ حَتَّی تَغْرَقَ حِجَارَۃُ الزَّیْتِ مِنَ الدِّمَائِ کَیْفَ أَنْتَ صَانِعٌ ؟ قَالَ : قُلْتُ : اللَّہُ وَرَسُولُہُ أَعْلَمُ ، قَالَ : تَدْخُلُ بَیْتَکَ ، قَالَ : قُلْتُ : أَفَأَحْمِلُ السِّلاَحَ ؟ قَالَ : إذًا تشارک ، قَالَ : قُلْتُ : فَمَا أَصْنَعُ یَا رَسُولَ اللہِ ؟ قَالَ : إِنْ خِفْت أَنْ یَغْلِبَ شُعَاعُ الشَّمْسِ فَأَلْقِ مِنْ رِدَائِکَ عَلَی وَجْہِکَ یَبُوئُ بِإِثْمِکَ وَإِثْمِہِ۔ (احمد ۱۴۹۔ حاکم ۱۵۶)
(٣٨٢٧٨) حضرت عبداللہ بن صامت حضرت ابو ذر سے نقل کرتے ہیں وہ فرماتے ہیں مجھ سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے ابو ذر مجھے بتاؤ تو سہی اگر لوگ لڑائی کریں یہاں تک کہ (مقام) حجارۃ الزیت خون سے ڈوب جائے تو تو کیا کرنے والا ہوگا حضرت ابو ذر کہتے ہیں میں نے عرض کیا اللہ اور اس کے رسول ہی بہتر جانتے ہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اپنے گھر میں داخل ہوجانا حضرت ابو ذر فرماتے ہیں میں نے عرض کیا، کہ کیا میں اسلحہ اٹھاؤں آپ نے ارشاد فرمایا : اس وقت تم بھی شریک ہوجاؤ گے، حضرت ابو ذرکہتے ہیں میں نے عرض کیا میں کیا کروں، اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اگر تمہیں خوف ہو کہ سورج کی شعاعیں تم پر غالب آجائیں گی تو اپنے چہرے پر اپنی چادر ڈال لینا وہ لوٹے گا تمہارے گناہ اور اپنے گناہ کو لے کر۔ (مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی گھر میں آکر بھی حملہ کرے تو جواب نہ دینا وہ حملہ آور ہی وبال کے ساتھ لوٹے گا)

38278

(۳۸۲۷۹) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ شَقِیقٍ ، عَنْ أَبِی مُوسَی ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إِنَّ مِنْ وَرَائِکُمْ أَیَّامًا یَنْزِلُ فِیہَا الْجَہْلُ ، وَیُرْفَعُ فِیہَا الْعِلْمُ ، وَیَکْثُرُ فِیہَا الْہَرْجُ ، قَالُوا : یَا رَسُولَ اللہِ ، وَمَا الْہَرْجُ ؟ قَالَ : الْقَتْلُ۔ (مسلم ۲۰۵۷۔ احمد ۳۸۹)
(٣٨٢٧٩) حضرت ابو موسیٰ فرماتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : یقیناً تمہارے سامنے ایسے ایام آئیں گے جن میں جہالت اترے گی اور علم اٹھا لیا جائے گا اور ہرج کثرت سے ہوجائے گا صحابہ کرام (رض) نے عرض کیا اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہرج سے کیا مراد ہے ارشاد فرمایا قتل۔

38279

(۳۸۲۸۰) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ یَزِیدَ بْنِ أَبِی زِیَادٍ ، عَنْ یَزِیدَ بْنِ الأَصَمِّ ، قَالَ : قَالَ حُذَیْفَۃُ : أَتَتْکُمُ الْفِتَنُ مِثْلَ قِطَعِ اللَّیْلِ الْمُظْلِمِ ، یَہْلِکُ فِیہَا کُلُّ شُجَاعٍ بَطَلٍ ، وَکُلُّ رَاکِبٍ موْضِعٍ ، وَکُلُّ خَطِیبٍ مِصْقَعٍ۔
(٣٨٢٨٠) حضرت یزید بن الاصم فرماتے ہیں حضرت حذیفہ نے فرمایا تم پر فتنے آئیں گے اندھیری رات کے ٹکڑوں کی طرح ہلاک ہوگا ان میں ہر دلیر اور بہادر اور ہر تیز رفتار سوار اور ہر بلیغ و بلند آواز خطیب۔

38280

(۳۸۲۸۱) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ عُرْوَۃَ ، عَنْ کُرْزِ بْنِ عَلْقَمَۃَ الْخُزَاعِیِّ ، قَالَ : قَالَ رَجُلٌ : یَا رَسُولَ اللہِ ، ہَلْ لِلإِسْلاَمِ مُنْتَہًی ؟ قَالَ : نَعَمْ ، أَیُّمَا أَہْلِ بَیْتٍ مِنَ الْعَرَبِ ، أَوِ الْعَجَمِ أَرَادَ اللَّہُ بِہِمْ خَیْرًا أَدْخَلَ عَلَیْہِمُ الإِسْلاَمَ ، قَالَ : ثُمَّ مَہْ ؟ قَالَ : ثُمَّ الْفِتَنُ تَقَعُ کَالظُّلَلِ تَعُودُونَ فِیہَا أَسَاوِدَ صُبًّا ، یَضْرِبُ بَعْضُکُمْ رِقَابَ بَعْضٍ ، وَالأَسْوَدُ : الْحَیَّۃُ تَرْتَفِعُ ، ثُمَّ تَنْصَبُّ۔ (احمد ۴۷۷۔ طبرانی ۴۴۲)
(٣٨٢٨١) حضرت کرزبن علقمہ الخزاعی فرماتے ہیں ایک آدمی نے عرض کیا اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا اسلام کے لیے انتہاء ہے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ہاں کوئی بھی عرب یا عجم میں سے گھر والے جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ بھلائی کا ارادہ فرمائیں گے ان پر اسلام کو داخل کردیں گے، انھوں نے عرض کیا پھر کیا ہوگا ارشاد فرمایا : پھر فتنے ہوں گے جو بادلوں کی طرح وقوع پذیر ہوں گے تم ان میں ڈسنے والے ناگ بن کر لوٹو گے ایک دوسرے کی گردنیں مارو گے، کالا سانپ سر اٹھاتا ہے پھر ڈسنے کے لیے (شکار) پر گرتا ہے۔

38281

(۳۸۲۸۲) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ عُرْوَۃَ ، عَنْ أُسَامَۃَ ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَشْرَفَ عَلَی أُطُمٍ مِنْ آطَامِ الْمَدِینَۃِ ، ثُمَّ قَالَ : ہَلْ تَرَوْنَ مَا أَرَی إنِّی لأَرَی مَوَاقِعَ الْفِتَنِ خِلاَلَ بُیُوتِکُمْ کَمَوَاقِعِ الْقَطْرِ۔ (بخاری ۷۰۶۰۔ مسلم ۲۲۱۱)
(٣٨٢٨٢) حضرت عروہ حضرت اسامہ سے نقل کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مدینہ کے ٹیلوں میں سے کچھ ٹیلوں کی طرف جھانکا پھر ارشاد فرمایا کیا تم دیکھ رہے ہو جو میں دیکھ رہا ہوں، میں تمہارے گھروں میں فتنوں کو بارش کے قطروں کی طرح اترتے ہوئے دیکھ رہا ہوں۔

38282

(۳۸۲۸۳) حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ عَوْفٍ ، عَنْ أَبِی الْمِنْہَالِ سَیَّارِ بْنِ سَلاَمَۃَ ، قَالَ : لَمَّا کَانَ زَمَنُ أُخْرِجَ ابْنُ زِیَادٍ وَثَبَ مَرْوَانُ بِالشَّامِ حِینَ وَثَبَ ، وَوَثَبَ ابْنُ الزُّبَیْرِ بِمَکَّۃَ ، وَوَثَبَت الْقُرَّائُ بِالْبَصْرَۃِ ، قَالَ : قَالَ أَبُو الْمِنْہَالِ : غُمَّ أَبِی غَمًّا شَدِیدًا ، قَالَ : وَکَانَ یُثْنِی عَلَی أَبِیہِ خَیْرًا ، قَالَ : قَالَ لِی أَبِی : أَیْ بُنَی ، انْطَلِقْ بِنَا إِلَی ہَذَا الرَّجُلِ مِنْ صَحَابَۃِ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَانْطَلَقْنَا إِلَی أَبِی بَرْزَۃَ الأَسْلَمِیِّ فِی یَوْمٍ حَارٍّ شَدِیدِ الْحَرِّ ، وَإِذَا ہُوَ جَالِسٌ فِی ظِلِّ عُلْوٍ مِنْ قَصَبٍ ، فَأَنْشَأَ أَبِی یَسْتَطْعِمُہُ الْحَدِیثَ ، فَقَالَ : یَا أَبَا بَرْزَۃَ ، أَلاَ تَرَی ؟ أَلاَ تَرَی ؟ فَکَانَ أَوَّلَ شَیْئٍ تَکَلَّمَ بِہِ ، قَالَ : أَمَا إنِّی أَصْبَحْت سَاخِطًا عَلَی أَحْیَائِ قُرَیْشٍ ، إنَّکُمْ مَعْشَرَ الْعَرَبِ کُنْتُمْ عَلَی الْحَالِ الَّتِی قَدْ عَلِمْتُمْ مِنْ قِلَّتِکُمْ وَجَاہِلِیَّتِکُمْ ، وَإِنَّ اللَّہَ نَعَشَکُمْ بِالإِسْلاَمِ وَبِمُحَمَّدٍ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حَتَّی بَلَغَ بِکُمْ مَا تَرَوْنَ ، وَإِنَّ ہَذِہِ الدُّنْیَا ہِیَ الَّتِی قَدْ أَفْسَدَتْ بَیْنَکُمْ ، إِنَّ ذَاکَ الَّذِی بِالشَّامِ ، یَعْنِی مَرْوَانَ وَاللہِ إِنْ یُقَاتِلُ إِلاَّ عَلَی الدُّنْیَا ، وَإِنَّ ذَاکَ الَّذِی بِمَکَّۃَ یَعْنِی ابْنَ الزُّبَیْرِ ، وَاللہِ إِنْ یُقَاتِلَ إِلاَّ عَلَی الدُّنْیَا ، وَإِنَّ ہَؤُلاَئِ الَّذِینَ حَوْلَکُمْ تَدْعُونَہُمْ قُرَّائَکُمْ وَاللہِ إِنْ یُقَاتِلُونَ إِلاَّ عَلَی الدُّنْیَا، قَالَ : فَلَمَّا لَمْ یَدَعْ أَحَدًا ، قَالَ لَہُ أَبِی : أَبَا بَرْزَۃَ ، مَا تَرَی ؟ قَالَ : لاَ أَرَی الْیَوْمَ خَیْرًا مِنْ عِصَابَۃٍ مُلَبَّدَۃٍ، خِمَاصُ بُطُونِہِمْ مِنْ أَمْوَالِ النَّاسِ ، خِفَافُ ظُہُورِہِمْ مِنْ دِمَائِہِمْ۔ (حاکم ۴۷۰)
(٣٨٢٨٣) حضرت ابو المنہال سیار بن سلامہ روایت کرتے ہیں انھوں نے فرمایا کہ جس زمانے میں ابن زیاد کو نکالا گیا تو مروان نے شام پر اور حضرت عبداللہ بن زبیر نے مکہ اور قراء نے بصرہ پر حملہ کیا اوف کہتے ہیں، ابو المنہال نے فرمایا میرے والد بہت زیادہ غم گین ہوئے اور راوی کہتے ہیں حضرت ابو المنہال اپنے والد کی اچھی تعریف کرتے تھے۔ ابو المنہال نے فرمایا مجھ سے میرے والد نے کہا کہ اے بیٹے ! رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ میں سے اس آدمی کی طرف ہمیں لے چلو پس ہم نکلے حضرت ابو برزہ اسلمی کی طرف ایسے دن میں جو سخت گرمی والا تھا پس وہ بیٹھے ہوئے تھے بلند سایے میں جو ان کے لیے بانس سے بنایا گیا تھا۔ پس شروع ہوئے میرے والد کہ ان سے گفتگو چاہتے تھے پس میرے والد نے کہا اے ابا برزہ ! کیا آپ دیکھ نہیں رہے ؟ کیا آپ دیکھ نہیں رہے ؟ پس پہلی بات جو انھوں نے کہی فرمایا میں قریش کے قبائل پر ناراض ہوں۔ یقیناً اے عرب کے قبائل تم تھے اس قلت اور جاہلیت کی حالت پر جو تم جانتے ہو۔ اور بیشک اللہ تعالیٰ نے تمہیں اسلام اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذریعے بلند کیا یہاں تک کہ تم اس حالت پر پہنچ گئے جو تم دیکھ رہے ہو، اور یہ دنیا ہی ہے جس نے تمہارے درمیان فسادبرپا کردیا ہے۔ بیشک یہ جو شام میں ہیں ان کی مراد تھی مروان۔ بخدا نہیں وہ لڑائی کررہا مگر دنیا کے لیے اور بیشک یہ جو تمہارے گرد ہیں جنہیں تم اپنے قراء کہتے ہو بخدا یہ بھی نہیں لڑ رہے مگر دنیا کے لیے۔
ابو المنہال راوی فرماتے ہیں کہ جب انھوں نے کسی ایک کو بھی نہیں چھوڑا تو ان سے میرے والد نے کہا کہ آپ کی کیا رائے ہے ؟ تو انھوں نے فرمایا میں تو آج اس جماعت سے بہتر کسی کو نہیں سمجھتا جو زمین سے چپکی ہوئی ہو ان کے پیٹ لوگوں کے مالوں سے خالی ہوں ان کی کمریں لوگوں کے خونوں کی ذمہ داری سے فارغ ہوں۔

38283

(۳۸۲۸۴) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، وَابْنُ نُمَیْرٍ وَحُمَیْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ شَقِیقٍ ، عَنْ حُذَیْفَۃَ، قَالَ: کُنَّا جُلُوسًا عِنْدَ عُمَرَ ، فَقَالَ : أَیُّکُمْ یَحْفَظُ حَدِیثَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی الْفِتْنَۃِ کَمَا قَالَ ؟ فَقُلْتُ : أَنَا ، قَالَ : فَقَالَ : إنَّک لَجَرِیئٌ ، وَکَیْفَ ؟ قَالَ : قُلْتُ : سَمِعْت رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : فِتْنَۃُ الرَّجُلِ فِی أَہْلِہِ وَمَالِہِ وَنَفْسِہِ وَجَارِہِ یُکَفِّرُہَا الصِّیَامُ وَالصَّدَقَۃُ وَالأَمْرُ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّہْیُ ، عَنِ الْمُنْکَرِ ، فَقَالَ عُمَرُ : لَیْسَ ہَذَا أُرِیدُ ، إنَّمَا أُرِیدُ الَّتِی تَمُوجُ کَمَوْجِ الْبَحْرِ ، قَالَ : قُلْتُ : مَالَک وَلَہَا یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ إِنَّ بَیْنَکَ وَبَیْنَہَا بَابًا مُغْلَقًا ، قَالَ : فَیُکْسَرُ الْبَابُ ، أَمْ یُفْتَحُ ، قَالَ : قُلْتُ : لاَ ، بَلْ یُکْسَرُ ، قَالَ : ذَاکَ أَحْرَی أَنْ لاَ یُغْلَقَ أَبَدًا ، قَالَ : قُلْنَا لِحُذَیْفَۃَ : ہَلْ کَانَ عُمَرُ یَعْلَمُ مَنِ الْبَابُ ، قَالَ : نَعَمْ ، کَمَا أَعْلَمُ ، أَنَّ غَدًا دُونَ اللَّیْلَۃِ، إنِّی حَدَّثْتہ حَدِیثًا لَیْسَ بِالأَغَالِیطِ، قَالَ: فَہِبْنَا حُذَیْفَۃَ أَنْ نَسْأَلَہُ مَنِ الْبَابُ، فَقُلْنَا لِمَسْرُوقٍ: سَلْہُ ، فَسَأَلَہُ ، فَقَالَ : عُمَرُ۔ (مسلم ۲۲۱۸۔ ابن ماجہ ۳۹۵۵)
(٣٨٢٨٤) حضرت شقیق حضرت حذیفہ سے نقل کرتے ہیں وہ فرماتے ہیں ہم حضرت عمر کے پاس بیٹھے تھے انھوں نے فرمایا تم میں کون ہے جسے فتنے کے بارے میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حدیث ایسے ہی یاد ہے جیسے آپ نے ارشاد فرمائی میں نے عرض کیا کہ میں ہوں، حضرت حذیفہ فرماتے ہیں حضرت عمر نے فرمایا یقیناً تو جری ہے اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کیسے ارشاد فرمایا میں نے کہا میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے ہوئے سنا ہے آدمی کے گھر اور مال اور اپنی ذات اور پڑوسی میں فتنہ اس کا کفارہ ہوجائے گا روزہ اور صدقہ اور اچھائی کا حکم کرنا اور برائی سے روکنا، حضرت عمر نے فرمایا میری یہ مراد نہیں ہے میری مراد تو وہ فتنہ ہے جو سمندر کی موج کی طرح زور پر ہوگا راوی کہتے ہیں میں نے کہا آپ کو اس سے کیا غرض امیر المؤمنین بلاشبہ آپ کے اور اس کے درمیان ایک بند دروازہ ہے، حضرت عمر نے فرمایا کیا دروازہ توڑا جائے یا کھولا جائے گا راوی حضرت حذیفہ فرماتے ہیں میں نے کہا نہیں بلکہ توڑا جائے گا انھوں نے فرمایا یہ (دروازہ) زیادہ لائق ہے اس بات کے کہ اسے کبھی بند نہ کیا جائے۔ شقیق راوی کہتے ہیں ہم نے حضرت حذیفہ سے پوچھا کیا حضرت عمر جانتے تھے دروازہ کون ہے انھوں نے فرمایا ہاں جیسے میں جانتا ہوں کہ صبح رات سے پہلے ہے میں نے ان سے حدیث بیان کی ہے نہ کہ مغالطہ آمیز باتیں راوی حضرت شقیق کہتے ہیں ہم حضرت حذیفہ سے یہ بات کہ دروازہ کون ہے پوچھنے سے ڈر گئے ہم نے حضرت مسروق سے کہا آپ ان سے پوچھیں انھوں نے ان سے پوچھا تو انھوں نے فرمایا حضرت عمر ۔

38284

(۳۸۲۸۵) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ شَقِیقٍ ، عَنْ حُذَیْفَۃَ ، قَالَ : لَفِتْنَۃُ السَّوْطِ أَشَدُّ مِنْ فِتْنَۃِ السَّیْفِ ، قَالُوا : وَکَیْفَ ذَاکَ ، قَالَ : إِنَّ الرَّجُلَ لَیُضْرَبُ بِالسَّوْطِ حَتَّی یَرْکَبَ الْخَشَبَۃَ۔
(٣٨٢٨٥) حضرت شقیق حضرت حذیفہ سے نقل کرتے ہیں انھوں نے فرمایا کوڑے کا فتنہ تلوار کے فتنے سے زیادہ سخت ہے تو ان کے اصحاب نے عرض کیا یہ کیسے ہوسکتا ہے انھوں نے فرمایا بیشک آدمی کو کوڑا مارا جاتا ہے یہاں تک کہ وہ لکڑی پر سوار ہوجاتا ہے۔

38285

(۳۸۲۸۶) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ ہِلاَلِ بْنِ یَِسَافٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ زَیْدٍ ، قَالَ : کُنَّا عِنْدَ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَذَکَرَ فِتْنَۃً فَعَظَّمَ أَمْرَہَا ، قَالَ : فَقُلْنَا ، أَوْ قَالُوا : یَا رَسُولَ اللہِ ، لَئِنْ أَدْرَکْنَا ہَذَا لَنَہْلِکَنَّ ، قَالَ : کَلاَّ ، إِنَّ بِحَسْبِکُمُ الْقَتْلُ۔ قَالَ سَعِیدٌ : فَرَأَیْتُ إخْوَانِی قُتِلُوا۔ (احمد ۱۸۹۔ طبرانی ۳۴۶)
(٣٨٢٨٦) حضرت سعید بن زید فرماتے ہیں ہم نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس تھے آپ نے ایک فتنے کا تذکرہ فرمایا اس کے معاملے کو بڑا جانا راوی فرماتے ہیں ہم نے یا انھوں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اگر ہم نے اسے پا لیا تو ہم ہلاک ہوجائیں گے ارشاد ہرگز نہیں تمہیں کافی ہوگا قتل حضرت سعید فرماتے ہیں میں نے اپنے بھائیوں کو دیکھا کہ سب قتل کیے گئے۔

38286

(۳۸۲۸۷) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، عَنِ الْوَلِیدِ بْنِ جُمَیْعٍ ، عَنْ عَامِرِ بْنِ وَاثِلَۃَ ، قَالَ : قَالَ حُذَیْفَۃُ : تَکُونُ ثَلاَثُ فِتَنٍ ، الرَّابِعَۃُ تَسُوقُہُمْ إِلَی الدَّجَّالِ ، الَّتِی تَرْمِی بِالنَّشَفِ وَالَّتِی تَرْمِی بِالرَّضْفِ ، وَالْمُظْلِمَۃُ الَّتِی تَمُوجُ کَمَوْجِ الْبَحْرِ۔
(٣٨٢٨٧) حضرت حذیفہ فرماتے ہیں کہ تین فتنے واقع ہوں گے اور چوتھا فتنہ لوگوں کو دجال کی طرف لے جائے گا ان کے لیے پہلا فتنہ پانی خشک کرنے والے پتھر مارے گا اور دوسرا گرم پتھر پھینکے گا اور تیسرا وہ اندھیرا پھیلائے گا جو سمندر کی موج کی طرح ٹھاٹھیں مارے گا۔

38287

(۳۸۲۸۸) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ الْمُغِیرَۃِ ، قَالَ : قَالَ حُمَیْدٌ : حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَاصِمٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا الْیَشْکُرِیُّ ، قَالَ : سَمِعْتُ حُذَیْفَۃَ یَقُولُ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : فِتْنَۃٌ عَمْیَائُ صَمَّائُ عَلَیْہَا دُعَاۃٌ عَلَی أَبْوَابِ النَّارِ ، فَأَنْ تَمُتْ یَا حُذَیْفَۃُ وَأَنْتَ عَاضٌّ عَلَی جِذْلٍ خَیْرٌ لَکَ مِنْ أَنْ تَتْبَعَ أَحَدًا مِنْہُمْ۔
(٣٨٢٨٨) حضرت یشکری فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت حذیفہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ایک اندھا بہرہ فتنہ ہوگا جس کی طرف بلانے والے جہنم کے دروازوں کی طرف بلانے والے ہوں گے ۔ اے حذیفہ ! تمہیں اس حال میں موت آئے کہ تم درخت کی جڑ کو کھانے والے ہو یہ بات بہتر ہے اس سے کہ تم ان میں سے کسی ایک کی پیروی کرو۔

38288

(۳۸۲۸۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ رِبْعِیٍّ ، قَالَ : قَالَ رَجُلٌ لِحُذَیْفَۃَ : کَیْفَ أَصْنَعُ إِذَا اقْتَتَلَ الْمُصَلُّونَ ؟ قَالَ : تَدْخُلْ بَیْتَکَ ، قَالَ : قُلْتُ : کَیْفَ أَصْنَعُ إِنْ دُخِلَ بَیْتِی ؟ قَالَ : قُلْ : إِنِّی لَنْ أَقْتُلَک {إنِّی أَخَافُ اللَّہَ رَبَّ الْعَالَمِینَ}۔ (نعیم بن حماد ۳۵۰)
(٣٨٢٨٩) حضرت ربعی فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے حضرت حذیفہ سے پوچھاجب نمازی آپس میں جھگڑا کریں تو میں کیا کروں حضرت حذیفہ نے فرمایا کہ اپنے گھر میں پناہ پکڑنا اس صاحب نے کہا کہ اگر وہ میرے گھر میں بھی داخل ہوجائیں تو میں کیا صورت اختیار کروں تو حضرت حذیفہ نے فرمایا کہہ دینا تمہیں ہرگز نہیں قتل کرونگا کیونکہ میں تمام جہانوں کے پروردگار سے ڈرتا ہوں۔

38289

(۳۸۲۹۰) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ زَیْدِ بْنِ وَہْبٍ ، عَنْ حُذَیْفَۃَ ، قَالَ : وُکِّلَتِ الْفِتْنَۃُ بِثَلاَثَۃٍ : بِالْجَادِّ النِّحْرِیرِ الَّذِی لاَ یُرِیدُ أَنْ یَرْتَفِعَ لَہُ شیء إِلاَّ قَمَعَہُ بِالسَّیْفِ ، وَبِالْخَطِیبِ الَّذِی یَدْعُو إلَیْہِ الأُمُورَ ، وَبِالشَّرِیفِ الْمَذْکُورِ ، فَأَمَّا الْجَادُّ النِّحْرِیرُ فَتَصْرَعُہُ ، وَأَمَّا ہَذَانِ فَتَبْحَثُہُمَا فَتَبْلُو مَا عِنْدَہُمَا۔
(٣٨٢٩٠) حضرت حذیفہ فرماتے ہیں فتنہ تین آدمیوں کی وجہ سے قائم ہوگا ایک تو محنتی صاحب بصیرت آدمی جب بھی اس کے سامنے کوئی چیز بلند ہوتی ہے تو وہ اسے تلوار سے ختم کردیتا ہے اور وہ خطیب جس کی طرف تمام امور دعوت دیتے ہیں اور مذکورہ شریف باقی وہ محنتی صاحب بصر ت اس فتنے کو پچھاڑ دیتا ہے اور باقی یہ دو فتنہ ان کو تلاش کرتا ہے اور جو ان کے پاس ہوتا ہے اسے پرانا کردیتا ہے۔

38290

(۳۸۲۹۱) حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الصَّلْتِ بْنِ بَہْرَامُ ، عَنِ الْمُنْذِرِ بْنِ ہَوْذَۃَ ، عَنْ خَرَشَۃَ بْنِ الْحُرِّ ، قَالَ : قَالَ حُذَیْفَۃُ : کَیْفَ أَنْتُمْ إِذَا بَرَکَتْ تَجُرُّ خِطَامَہَا فَأَتَتْکُمْ مِنْ ہَاہُنَا وَمِنْ ہَاہُنَا ، قَالُوا : لاَ نَدْرِی وَاللہِ ، قَالَ: لَکِنِّی وَاللہِ أَدْرِی ، أَنْتُمْ یَوْمَئِذٍ کَالْعَبْدِ وَسَیِّدِہِ إِنْ سَبَّہُ السَّیِّدُ لَمْ یَسْتَطِعِ الْعَبْدُ أَنْ یَسُبَّہُ ، وَإِنْ ضَرَبَہُ لَمْ یَسْتَطِعِ الْعَبْدُ أَنْ یَضْرِبَہُ۔
(٣٨٢٩١) حضرت خرشہ بن حرر فرماتے ہیں کہ حضرت حذیفہ نے فرمایا کیا حالت ہوگی تمہاری اس وقت جب وہ (فتنہ) تمہاری طرف آئے گا اپنی لگام کو کھینچتے ہوئے پس وہ تمہارے پاس اس طرف سے بھی آئے گا اور اس طرف سے بھی آئے گا۔ لوگوں نے عرض کیا بخدا ہم تو نہیں جانتے، تو حضرت حذیفہ نے فرمایا لیکن اللہ کی قسم میں جانتا ہوں تم اس دن غلام اور آقا کی طرح ہوگے اگر آقا اسے برا بھلا کہے تو غلام اس کو برا بھلا نہیں کہہ سکتا اور اگر وہ اسے مارے تو غلام اس کو نہیں مار سکتا۔

38291

(۳۸۲۹۲) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا الصَّلْتُ بْنُ بَہْرَامُ ، عَنْ مُنْذِرِ بْنِ ہَوْذَۃَ ، عَنْ خَرَشَۃَ ، عَنْ حُذَیْفَۃَ ، قَالَ : کَیْفَ أَنْتُمْ إِذَا انْفَرَجْتُمْ ، عَنْ دِینِکُمْ کَمَا تَنْفَرِجُ الْمَرْأَۃُ ، عَنْ قُبُلِہَا لاَ تَمْنَعُ مَنْ یَأْتِیہَا ، قَالُوا: لاَ نَدْرِی ، قَالَ : لَکِنِّی وَاللہِ أَدْرِی ، أَنْتُمْ یَوْمَئِذٍ بَیْنَ عَاجِزٍ وَفَاجِرٍ ، فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ : قَبُحَ الْعَاجِزُ عَنْ ذَاکَ ، قَالَ : فَضَرَبَ ظَہْرَہُ حُذَیْفَۃُ مِرَارًا ، ثُمَّ قَالَ : قُبِّحْت أَنْتَ ، قُبِّحْت أَنْتَ۔
(٣٨٢٩٢) حضرت خرشہ حضرت حذیفہ سے نقل کرتے ہیں انھوں نے فرمایا کیا حال ہوگا تمہارا اس وقت جب تم اپنے دین کو ارزاں کردو گے جیسے ارزاں کردیتی ہے وہ عورت اپنی شرم گاہ کو جو اپنے پاس آنے سے کسی کو نہیں روکتی ، پھر لوگوں نے عرض کیا ہم نہیں جانتے حضرت حذیفہ نے فرمایا لیکن اللہ کی قسم میں جانتا ہوں تم اس دن عاجز اور فاجر کے درمیان ہوگے۔ لوگوں میں سے ایک صاحب نے کہا یہ عاجز اس فاجر کے مقابلے میں بھلائی سے دور کیا جائے، راوی فرماتے ہیں حضرت حذیفہ نے اس کی پشت پر کئی مرتبہ ماراتو بھلائی سے دور کیا جائے تو بھلائی سے دور کیا جائے۔

38292

(۳۸۲۹۳) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا الصَّلْتُ بْنُ بَہْرَامُ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا الْمُنْذِرُ بْنُ ہَوْذَۃَ ، عَنْ خَرَشَۃَ ، أَنَّ حُذَیْفَۃَ دَخَلَ الْمَسْجِدَ ، فَمَرَّ عَلَی قَوْمٍ یُقْرِئُ بَعْضُہُمْ بَعْضًا ، فَقَالَ : إِنْ تَکُونُوا علَی الطَّرِیقَۃِ ، لَقَدْ سَبَقْتُمْ سَبْقًا بَعِیدًا ، وَإِنْ تَدَعُوہُ فَقَدْ ضَلَلْتُمْ ، قَالَ : ثُمَّ جَلَسَ إِلَی حَلْقَۃٍ ، فَقَالَ : إنَّا کُنَّا قَوْمًا آمَنَّا قَبْلَ أَنْ نَقْرَأَ وَإِنَّ قَوْمًا سَیَقْرَؤُونَ قَبْلَ أَنْ یُؤْمِنُوا ، فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ : تِلْکَ الْفِتْنَۃُ ، قَالَ : أَجَلْ ، قَدْ أَتَتْکُمْ مِنْ أَمَامِکُمْ حَیْثُ تَسُوئُ وُجُوہَکُمْ ، ثُمَّ لِتَأْتِیَکُمْ دِیَمًا دِیَمًا ، إِنَّ الرَّجُلَ لَیَرْجِعُ فَیَأْتَمِرُ الأَمْرَیْنِ : أَحَدُہُمَا عَجْزٌ وَالآخَرُ فُجُورٌ ، قَالَ خَرَشَۃُ : فَمَا بَرِحْت إِلاَّ قَلِیلاً حَتَّی رَأَیْت الرَّجُلَ یَخْرُجُ بِسَیْفِہِ یَسْتَعْرِضُ النَّاسَ۔
(٣٨٢٩٣) حضرت خرشہ سے روایت ہے کہ حضرت حذیفہ مسجد میں تشریف لائے کچھ ایسے لوگوں کے پاس سے گزرے جن میں سے کچھ دوسروں کو قرآن پڑھا رہے تھے تو حضرت حذیفہ نے فرمایا اگر تم درست طریقے پر قائم ہو تو تم بہت سبقت لے گئے ہو اور اگر تم اسے چھوڑ چکے ہو تو تم گمراہ ہوچکے ہو راوی فرماتے ہیں پھر ایک حلقہ میں تشریف فرما ہوئے اور ارشاد فرمایا بلاشبہ ہم لوگ قرآن پڑھنے سے پہلے ایمان لائے اور آئندہ کچھ لوگ ایمان لانے سے پہلے قرآن پڑھیں گے لوگوں مں ئ سے ایک صاحب نے عرض کیا یہ فتنہ ہوگا ارشاد فرمایا ہاں وہ تمہارے سامنے سے جہاں سے تم رنجیدہ ہو وہاں سے آئے گا پھر رش کی طرح (آہستہ آہستہ ہمیشگی کے ساتھ) آتا رہے گا۔ بلاشبہ کوئی آدمی اس سے لوٹے گا اور دو کاموں کا حکم دے گا ایک ان میں سے عجز اور دوسرا فسق و فجور ہے۔ حضرت خرشہ فرماتے ہیں (اس بات کے) تھوڑی ہی مدت کے بعد میں نے دیکھا ایک آدمی کو کہ وہ اپنی تلوار لے کر نکلا لوگوں کا پیچھا کرتا تھا۔

38293

(۳۸۲۹۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنِ الْحَارِثِ بْنِ حَصِیرَۃَ ، عَنْ زَیْدِ بْنِ وَہْبٍ ، قَالَ : قِیلَ لِحُذَیْفَۃَ : مَا وَقَفَاتُ الْفِتْنَۃِ ، وَمَا بَعَثَاتُہَا ، قَالَ : بَعَثَاتُہَا سَلُّ السَّیْفِ ، وَوَقَفَاتُہَا إغْمَادُہُ۔
(٣٨٢٩٤) حضرت زید بن وہب سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں حضرت حذیفہ سے سوال کیا گیا فتنے کے وقفات اور بعثات سے کیا مراد ہے حضرت حذیفہ نے فرمایا فتنے کے بعثات سے مراد تلواروں کا سونتنا ہے کا اور اس کے وقفات سے مراد تلواروں کا نیاموں میں ڈالنا ہے۔

38294

(۳۸۲۹۵) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ أَنَّ أَبَا الزُّبَیْرِ أَخْبَرَہُ ، عَنْ أَبِی الطُّفَیْلِ عَامِرِ بْنِ وَاثِلَۃَ ، أَنَّ حُذَیْفَۃَ ، قَالَ لَہُ : کَیْفَ أَنْتَ وَفِتْنَۃٌ خَیْرُ النَّاسِ فِیہَا غَنِیٌّ خَفِیٌّ ؟ قَالَ : قُلْتُ : وَکَیْفَ ؟ وَإِنَّمَا ہُوَ عَطَائٌ أَحَدُنَا یَطْرَحُ بِہِ کُلَّ مُطْرَحٍ ، وَیَرْمِی بِہِ کُلَّ مَرْمًی ، قَالَ : کُنْ إذًا کَابْنِ الْمَخَاضِ لاَ رَکُوبَۃَ فَتُرْکَبُ وَلاَ حَلُوبَۃَ فَتُحْلَبُ۔
(٣٨٢٩٥) حضرت ابو الطفیل عامر بن واثلہ سے روایت ہے کہ حضرت حذیفہ نے ان سے فرمایا کیا حالت ہوگی تمہاری جبکہ ایک فتنہ ہوگا اس میں لوگوں میں سے سب سے بہتر پوشیدہ غنی آدمی ہوگا۔ حضرت عامر بن واثلہ نے فرمایا میں نے کہا یہ کیسے ہوگا انھوں نے فرمایا بلاشبہ وہ ہم میں سے کسی کی عطاء ہے جسے وہ ڈالنے والی جگہ ڈال دیتا ہے اور پھینکنے والی جگہ میں پھینک دیتا ہے (اور) فرمایا اس وقت اونٹنی کے ایک سال کے بچے کی طرح ہوجانا جو نہ سواری بن سکتا ہے کہ اسے سواری بنایا جائے اور نہ دودھ دینے والا ہوتا ہے کہ اس سے دودھ دھویا جائے۔

38295

(۳۸۲۹۶) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ الرُّوَّاعِ ، عَنْ حُذَیْفَۃَ ، قَالَ : تَکُونُ فِتْنَۃٌ تُقْبِلُ مُشَبَّہَۃً وَتُدْبِرُ منتنۃ ، فَإِنْ کَانَ ذَلِکَ فَالْبُدو لبود الرَّاعِی عَلَی عَصَاہُ خَلْفَ غَنَمِہِ ، لاَ یَذْہَبُ بِکُمُ السَّیْلُ۔
(٣٨٢٩٦) حضرت عبداللہ بن الرواع حضرت حذیفہ سے نقل کرتے ہیں انھوں نے فرمایا ایک فتنہ ہوگا جو آئے گا شبہات ڈالتے ہوئے اور واپس ہوگا تعفن پھیلائے ہوئے پس اگر یہ ہوجائے تو تم چرواہے کے اپنی بکریوں کے پیچھے لاٹھی پر چمٹنے کی طرح زمین کی طرف چمٹ جانا تاکہ سیلاب بہا کر نہ لے جائے۔

38296

(۳۸۲۹۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ حَبِیبٍ ، عَنْ مَیْمُونِ بْنِ أَبِی شَبِیبٍ ، قَالَ : قِیلَ لِحُذَیْفَۃَ : أَکَفَرَتْ بَنُو إسْرَائِیلَ فِی یَوْمٍ وَاحِدٍ ، قَالَ : لاَ ، وَلَکِنْ کَانَتْ تُعْرَضُ عَلَیْہِمُ الْفِتْنَۃُ فَیَأْبَوْنَہَا فَیُکْرَہُونَ عَلَیْہَا ، ثُمَّ تُعْرَضُ عَلَیْہِمْ فَیَأْبَوْنَہَا حَتَّی ضُرِبُوا عَلَیْہَا بِالسِّیَاطِ وَالسُّیُوفِ حَتَّی خَاضُوا إِخَاضَۃ الْمَائِ حَتَّی لَمْ یَعْرِفُوا مَعْرُوفًا وَلَمْ یُنْکِرُوا مُنْکَرًا۔
(٣٨٢٩٧) حضرت میمون بن ابوشبیب سے روایت ہے کہ حضرت حذیفہ سے پوچھا گیا، بنی اسرائیل نے ایک دن میں کفر کیا تو انھوں نے ارشاد فرمایا نہیں لیکن ان پر فتنہ پیش کیا جاتا تھا اور وہ اسے اختیار کرنے سے انکار کرتے تھے پس انھیں اس پر مجبور کیا جاتا تھا پھر فتنہ ان پر پیش کیا گیا انھوں نے اسے اختیار کرنے سے انکار کیا، یہاں تک کہ انھیں اس کے اختیار کرنے پر کوڑوں اور تلواروں کے ذریعے مارا گیا یہاں تک کہ وہ اس فتنے میں گھس گئے پانی میں گھس جانے کی طرح (نوبت بایں جارسید) یہاں تک کہ وہ کسی نیکی کو نہ جانتے پہچانتے تھے اور نہ کسی منکر پر انکار کرتے تھے۔

38297

(۳۸۲۹۸) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ رِبْعِیٍّ ، قَالَ : سَمِعْتُ رَجُلاً فِی جِنَازَۃِ حُذَیْفَۃَ یَقُولُ : سَمِعْت صَاحِبَ ہَذَا السَّرِیرِ یَقُولُ : مَا بِی بَأْسٌ مُذْ سَمِعْت مِنْ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : وَلَئِنِ اقْتَتَلْتُمْ لأدْخُلَنَّ بَیْتِی ، فَلَئِنْ دُخِلَ عَلَیَّ لأَقُولَنَّ : ہَا بُؤْ بِإِثْمِی وَإِثْمِک۔ (احمد ۳۸۹۔ طیالسی ۴۱۷)
(٣٨٢٩٨) حضرت ربعی بن حراش سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں میں نے ایک صاحب کو حضرت حذیفہ کے جنازے میں کہتے ہوئے سنا کہ میں نے اس چارپائی والے کو فرماتے ہوئے سنا ہے مجھے کوئی پروا نہیں جب سے میں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد سنا ہے کہ اگر تم آپس میں لڑائی کرو گے تو میں اپنے گھر میں داخل ہوجاؤں گا اور اگر کوئی میرے گھر میں داخل ہوگا تو میں کہوں گا لے میرا اور اپنے گناہ کا وبال لے کر لوٹ۔

38298

(۳۸۲۹۹) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ سَعْدٍ ، قَالَ : قَالَ حُذَیْفَۃُ : مَنْ فَارَقَ الْجَمَاعَۃَ شِبْرًا فقد فَارَقَ الإِسْلاَمَ۔
(٣٨٢٩٩) حضرت سعد سے روایت ہے کہ حضرت حذیفہ نے ارشاد فرمایا جو آدمی ایک بالشت بھی جماعت (المسلمین) سے ہٹا تو وہ اسلام سے جدا ہوگیا۔

38299

(۳۸۳۰۰) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، عَن ہَمَّامٍ ، عَنْ حُذَیْفَۃَ ، قَالَ : لَیَأْتِیَنَّ عَلَی النَّاسِ زَمَانٌ لاَ یَنْجُو فِیہِ إِلاَّ الَّذِی یَدْعُو بِدُعَائٍ کَدُعَائِ الْغَرِیقِ۔
(٣٨٣٠٠) حضرت ہمام سے روایت ہے حضرت حذیفہ نے ارشاد فرمایا ضرور بالضرور لوگوں پر ایسا زمانہ آئے گا جس میں نہیں نجات پائے گا مگر وہ شخص جو ڈوبنے والے آدمی کی طرح دعامانگے گا۔

38300

(۳۸۳۰۱) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ عُمَارَۃَ ، عَنْ أَبِی عَمَّارٍ ، قَالَ : قَالَ حُذَیْفَۃُ : لَیَأْتِیَنَّ عَلَی النَّاسِ زَمَانٌ لاَ یَنْجُو فِیہِ إِلاَّ مَنْ دَعَا بِدُعَائٍ کَدُعَائِ الْغَرِیقِ۔
(٣٨٣٠١) حضرت ابو عمار سے روایت ہے کہ حضرت حذیفہ نے فرمایا ضرور بالضرور لوگوں پر ایسا زمانہ آئے گا جس میں نجات نہیں پائے گا مگر وہ شخص جو ڈوبنے والے کی طرح دعا مانگے گا۔

38301

(۳۸۳۰۲) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ عُمَارَۃَ ، عَنْ أَبِی عَمَّارٍ ، عَنْ حُذَیْفَۃَ ، قَالَ : وَاللہِ إِنَّ الرَّجُلَ لَیُصْبِحُ بَصِیرًا ، ثُمَّ یُمْسِی ، وَمَا یَنْظُرُ بِشُفْرٍ۔
(٣٨٣٠٢) حضرت ابو عمار حضرت حذیفہ سے نقل کرتے ہیں انھوں نے فرمایا اللہ کی قسم کوئی آدمی صبح کے وقت دیکھنے والا ہوگا پھر شام کرے گا اور کسی چیز کے کنارے کو بھی دیکھنے کی قدرت نہ رکھتا ہوگا۔

38302

(۳۸۳۰۳) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ زید ، قَالَ : قَرَأَ حُذَیْفَۃُ ہَذِہِ الآیَۃَ {فَقَاتِلُوا أَئِمَّۃَ الْکُفْرِ} ، قَالَ: مَا قُوتِلَ أَہْلُ ہَذِہِ الآیَۃِ بَعْدُ۔
(٣٨٣٠٣) حضرت زید فرماتے ہیں کہ حضرت حذیفہ نے یہ آیت { فَقَاتِلُوا أَئِمَّۃَ الْکُفْرِ } تلاوت کی (یعنی کفر کے رہنماؤں کو قتل کرو) پھر ارشاد فرمایا اس آیت کے مصداق لوگوں سے اس کے بعد قتال نہیں کیا گیا۔

38303

(۳۸۳۰۴) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ الْمُبَارَکِ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ مَسْلَمَۃَ : أَعْطَانِی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سَیْفًا ، فَقَالَ : قَاتِلْ بِہِ الْمُشْرِکِینَ مَا قُوتِلُوا ، فَإِذَا رَأَیْت النَّاسَ یَضْرِبُ بَعْضُہُمْ بَعْضًا ، أَوْ کَلِمَۃً نَحْوَہَا فَاعْمِدْ بِہِ إِلَی صَخْرَۃٍ فَاضْرِبْہُ بِہَا حَتَّی یَنْکَسِرَ ، ثُمَّ اُقْعُدْ فِی بَیْتِکَ حَتَّی تَأْتِیَک یَدٌ خَاطِئَۃٌ ، أَوْ مَنِیَّۃٌ قَاضِیَۃٌ۔ (احمد ۲۲۵)
(٣٨٣٠٤) حضرت حسن حضرت محمد بن مسلمہ سے روایت کرتے ہیں انھوں نے فرمایا مجھے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک تلوار عطاء فرمائی اور فرمایا اس سے مشرکین کے ساتھ قتال کرنا جب تک ان سے قتال کیا جائے اور جب تو لوگوں کو دیکھے کہ وہ ایک دوسرے کو مارنا شروع ہوگئے (راوی فرماتے ہیں) یا اسی کے مثل کوئی بات فرمائی تو پھر تلوار لے کر کسی چٹان کا قصد کرنا اور تلوار کو اس چٹان پر مار دینا یہاں تک کہ وہ ٹوٹ جائے پھر اپنے گھر میں بیٹھ جانا یہاں تک کہ تیرے پاس کوئی غلطی کرنے والا ہاتھ یا فیصلہ کرنے والی موت آجائے۔

38304

(۳۸۳۰۵) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنْ حُمَیْدٍ ، عَنْ أَبِی الْمُتَوَکِّلِ النَّاجِی ، عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ ، قَالَ : إیَّاکُمْ وَقِتَالَ عِمِّیَّۃٍ وَمِیتَۃَ جَاہِلِیَّۃٍ ، قَالَ : قُلْتُ : مَا قِتَالُ عِمِّیَّۃٍ ، قَالَ : إِذَا قِیلَ : یَا لَفُلاَنُ ، یَا بَنِی فَُلاَنٍ ، قَالَ : قُلْتُ : مَا مِیتَۃُ جَاہِلِیَّۃٍ ، قَالَ : أَنْ تَمُوتَ وَلاَ إمَامَ عَلَیْک۔
(٣٨٣٠٥) حضرت ابو المتوکل الناجی حضرت ابو سعید خدری سے روایت کرتے ہیں انھوں نے فرمایا بچو تم اندھی لڑائی اور جاہلیت کی موت سے راوی فرماتے ہیں میں نے عرض کیا اندھی لڑائی کیا ہے ارشاد فرمایا جب یہ پکار ہو اے فلاں اے فلاں کے بیٹے راوی کہتے ہیں میں نے عرض کی جاہلیت کی موت سے کیا مراد ہے ارشاد فرمایا تجھے موت اس حالت میں آئے کہ تم پر کوئی امام مقرر نہ ہو۔

38305

(۳۸۳۰۶) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ ، عَنْ عَوْفٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : مَنْ قُتِلَ فِی قِتَالِ عِمِّیَّۃٍ فَمِیتَتُہُ مِیتَۃُ جَاہِلِیَّۃٍ۔
(٣٨٣٠٦) حضرت حسن سے روایت ہے کہ جو آدمی اندھے قتال کے اندر مارا گیا اس کی موت جاہلیت کی موت ہے۔

38306

(۳۸۳۰۷) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَامِرٍ ، قَالَ : لَمَّا تَشَعَّبَ النَّاسُ فِی الطَّعْنِ عَلَی عُثْمَانَ قَامَ أَبِی فَصَلَّی مِنَ اللَّیْلِ ، ثُمَّ نَامَ ، قَالَ : فَقِیلَ لَہُ : قُمْ فَاسْأَلِ اللَّہَ أَنْ یُعِیذَک مِنَ الْفِتْنَۃِ الَّتِی أَعَاذَ مِنْہَا عِبَادَہُ الصَّالِحِینَ ، قَالَ : فَقَامَ فَمَرِضَ فَمَا رُئِیَ خَارِجًا حَتَّی مَاتَ۔
(٣٨٣٠٧) حضرت عبداللہ بن عامر فرماتے ہیں کہ جب لوگ حضرت عثمان پر طعن کے بارے میں گروہوں میں بٹ گئے تو میرے والد کھڑے ہوئے صلوۃ اللیل ادا کی اور پھر سو گئے فرماتے ہیں ان سے کہا گیا آپ کھڑے ہوجائیں اور اللہ سے سوال کریں کہ وہ آپ کو اس فتنے سے پناہ دے جس سے اس نے نیک لوگوں کو پناہ بخشی ہے راوی فرماتے ہیں پھر وہ کھڑے ہوئے اور بیمار ہوگئے پھر انھیں گھر سے باہر نہیں دیکھا گیا حتیٰ کہ ان کی وفات ہوگئی۔

38307

(۳۸۳۰۸) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ التَّیْمِیِّ ، عَنِ الْحَارِثِ بْنِ سُوَیْد ، عَنْ عَلِیٍّ ، قَالَ : یَنْقُصُ الإِسْلاَم حَتَّی لاَ یُقَالُ : اللَّہُ اللَّہُ ، فَإِذَا فَعَلَ ذَلِکَ ضَرَبَ یَعْسُوبُ الدِّینَ بِذَنَبِہِ ، فَإِذَا فَعَلَ ذَلِکَ بُعِثَ قَوْمٌ یَجْتَمِعُونَ کَمَا یَجْتَمِعُ قَزَعُ الْخَرِیفِ ، وَاللہِ إنِّی لأعْرِفُ اسْمَ أَمِیرِہِمْ وَمُنَاخَ رِکَابِہِمْ۔
(٣٨٣٠٨) حضرت سوید بن الحارث حضرت علی سے نقل کرتے ہیں ارشاد فرمایا اسلام (پر عمل) میں کمی واقع ہوجائے گی یہاں تک کہ اللہ اللہ نہیں کہا جائے گا جب ایسا ہوجائے گا تو دین کے سردار اپنی دم سے ماریں گے (مراد یہ ہے کہ لوگ فتنے میں اپنے سرداروں کی بات لیں گے) یہ بات ہوجائے گی تو کچھ لوگ اٹھیں گے جو خزاں کی بدلیوں کی طرح جمع ہوں گے اور اللہ کی قسم میں ان کے امیر کا نام اور ان کی سواریاں بٹھانے کی جگہوں کو بھی جانتا ہوں۔

38308

(۳۸۳۰۹) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ حُذَیْفَۃَ ، قَالَ : قَالَ حُذَیْفَۃُ : مَنْ فَارَقَ الْجَمَاعَۃَ شِبْرًا خَلَعَ رِبْقَۃَ الإِسْلاَم مِنْ عُنُقِہِ۔
(٣٨٣٠٩) حضرت سعد بن حذیفہ حضرت حذیفہ سے روایت کرتے ہیں انھوں نے فرمایا جو آدمی ایک بالشت کے برابر جماعت سے جدا ہوا تو اس نے اسلام کا ذمہ اپنی گردن سے اتاردیا۔

38309

(۳۸۳۱۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ بْنِ مَرْثَدٍ ، قَالَ : حدَّثَنِی عَمِّی أَبُو صادق ، عَنْ عَلِیٍّ ، قَالَ : الأَئِمَّۃُ مِنْ قُرَیْشٍ ، وَمَنْ فَارَقَ الْجَمَاعَۃَ شِبْرًا فَقَدْ نَزَعَ رِبْقَۃَ الإِسْلاَم مِنْ عُنُقِہِ۔
(٣٨٣١٠) حضرت علی سے روایت ہے کہ ائمہ قریش سے ہوں گے اور جو آدمی ایک بالشت برابر بھی جماعت سے جدا ہوا تو اس نے اسلام کی رسی اپنی گردن سے کھینچ دی۔

38310

(۳۸۳۱۱) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِی وَائِلٍ ، قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللہِ : کَیْفَ أَنْتُمْ إِذَا لَبِسَتْکُمْ الفِتْنَۃُ یَرْبُو فِیہَا الصَّغِیرُ ، وَیَہْرَمُ فِیہَا الْکَبِیرُ ، وَیَتَّخِذُہَا النَّاسُ سُنَّۃً ، فَإِنْ غُیِّرَ مِنْہَا شَیْئٌ قِیلَ : غُیِّرَتِ السُّنَّۃُ ، قَالُوا : مَتَی یَکُونُ ذَلِکَ یَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ ؟ قَالَ : إِذَا کَثُرَتْ قُرَّاؤُکُمْ وَقَلَّتْ أُمَنَاؤُکُمْ ، وَکَثُرَتْ أُمَرَاؤُکُمْ ، وَقَلَّتْ فُقَہَاؤُکُمْ ، وَالْتُمِسَتِ الدُّنْیَا بِعَمَلِ الآخِرَۃِ۔
(٣٨٣١١) حضرت ابو وائل حضرت عبداللہ بن عمر سے نقل کرتے ہیں انھوں نے فرمایا کیا ہوگی تمہاری حالت اس وقت جب ایک فتنہ مسلسل تم پر طاری رہے گا جس میں چھوٹے پرورش پاجائیں گے اور بڑے بوڑھے ہوجائیں گے یہ لوگ اسے سنت قرار دیں گے اگر اس میں سے کچھ بدلا جائے گا تو کہا جائے گا سنت تبدیل کردی گئی لوگوں نے عرض کیا یہ کب واقع ہوگا اے ابوعبدالرحمن تو حضرت عبداللہ بن عمر نے فرمایا جب تمہارے قراء زیادہ ہوجائیں گے اور تمہارے امین کم ہوجائیں گے اور تمہارے امراء زیادہ ہوجائیں گے اور تمہارے فقہاء کم ہوجائیں گے اور دنیا تلاش کی جائے گی آخرت کے اعمال سے۔

38311

(۳۸۳۱۲) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ الأَعْمَشِ ، عَنْ مُنْذِرٍ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ ضَمْرَۃَ ، عَنْ عَلِیٍّ ، قَالَ : وَضَعَ اللَّہُ فِی ہَذِہِ الأُمَّۃِ خَمْسَ فِتَنٍ : فِتْنَۃً عَامَّۃً ، ثُمَّ فِتْنَۃً خَاصَّۃً ، ثُمَّ فِتْنَۃً عَامَّۃً ، ثُمَّ فِتْنَۃً خَاصَّۃً ، ثُمَّ فِتْنَۃً تَمُوجُ کَمَوْجِ الْبَحْرِ، یُصْبِحُ النَّاسُ فِیہَا کَالْبَہَائِمِ۔ (عبدالرزاق ۲۰۷۳۳۔ حاکم ۴۳۷)
(٣٨٣١٢) حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے روایت ہے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ نے اس امت میں پانچ فتنے مقرر کیے ہیں ایک عام فتنہ پھر خاص فتنہ پھر عام فتنہ پھر خاص فتنہ پھر ایسا فتنہ ہوگا جو سمندر کی موجوں کی طرح ٹھاٹھیں مارے گا جس میں لوگ چوپایوں کی طرح ہوجائیں گے۔

38312

(۳۸۳۱۳) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، قَالَ : سَمِعْتُ أَحْمَرَ ، أَوِ ابْنَ أَحْمَرَ یُحَدِّثُ ، عَنْ أَبِی رَجَائٍ الْعُطَارِدِیِّ ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ یَخْطُبُ عَلَی الْمِنْبَرِ یَقُولُ : مَنْ فَارَقَ الْجَمَاعَۃَ شِبْرًا فَمَاتَ مَاتَ مِیتَۃً جَاہِلِیَّۃً۔
(٣٨٣١٣) حضرت ابو رجاء العطاروی سے روایت ہے کہ انھوں نے فرمایا میں نے حضرت عبداللہ بن عباس سے منبر پر خطبہ دیتے ہوئے سنا کہ جو آدمی ایک بالشت جماعت سے جدا ہوگیا وہ جاہلیت کی موت مرا۔

38313

(۳۸۳۱۴) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ زَیْدِ بْنِ یُثَیْعٍ ، قَالَ : قَالَ حُذَیْفَۃُ : کَیْفَ أَنْتُمْ إِذَا سُئِلْتُمَ الْحَقَّ ، فَأَعْطَیْتُمُوہُ ، وَمُنِعْتُمْ حَقَّکُمْ ؟ قَالَ : إذًا نَصْبِرُ ، قَالَ : دَخَلْتُمُوہَا إذا وَرَبِّ الْکَعْبَۃِ۔
(٣٨٣١٤) حضرت حذیفہ نے فرمایا : تمہاری کیسی حالت ہوگی جب تم سے حق مانگا جائے گا اور تم حق دو گے اور تم سے تمہارا حق روک لیا جائے گا۔ عرض کیا : تب ہم صبر کریں گے۔ فرمایا تب تم لوگ جنت میں داخل ہو گے۔ رب کعبہ کی قسم۔

38314

(۳۸۳۱۵) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ ، عَنْ أَبِی صَالِحٍ الْحَنَفِیِّ ، قَالَ : جَائَ رَجُلٌ إِلَی حُذَیْفَۃَ وَإِلَی أَبِی مَسْعُودٍ الأَنْصَارِیِّ وَہُمَا جَالِسَانِ فِی الْمَسْجِدِ وَقَدْ طَرَدَ أَہْلُ الْکُوفَۃِ سَعِیدَ بْنَ الْعَاصِ ، فَقَالَ : مَا یُجْلِسُکُمْ وَقَدْ خَرَجَ النَّاسُ ؟ فَوَاللہِ إنَّا لَعَلَی السُّنَّۃِ ، فَقَالاَ : وَکَیْفَ تَکُونُونَ عَلَی السُّنَّۃِ وَقَدْ طَرَدْتُمْ إمَامَکُمْ ، وَاللہِ لاَ تَکُونُونَ عَلَی السُّنَّۃِ حَتَّی یُشْفِقَ الرَّاعِی وَتَنْصَحَ الرَّعِیَّۃُ ، قَالَ : فَقَالَ لَہُ رَجُلٌ : فَإِنْ لَمْ یُشْفِقِ الرَّاعِی وَتُنْصَحِ الرَّعِیَّۃُ فَمَا تَأْمُرُنَا ، قَالَ : نَخْرُجُ وَنَدَعُکُمْ۔
(٣٨٣١٥) حضرت ابو صالح حنفی سے روایت ہے کہ ایک صاحب حضرت حذیفہ اور حضرت ابو ایوب انصاری کے پاس آئے وہ دونوں مسجد میں تشریف فرما تھے اور کوفہ والوں نے سعید بن العاص کو نکال دیا تھا تو اس آدمی نے کہا کس چیز نے تمہیں بٹھایا ہوا ہے، حالانکہ لوگ تو نکل چکے ہیں بخدا ہم سنت پر ہیں تو ان دونوں حضرات نے فرمایا تم کیسے سنت پر ہوسکتے ہو جبکہ تم نے اپنے امام کو نکال دیا ہے۔ اللہ کی قسم تم سنت پر قائم نہیں ہوسکتے یہاں تک کہ حکمران مہربانی کرے اور رعایا خیر خواہی چاہتی ہو راوی کہتے ہیں کہ ان سے اس آدمی نے کہا کہ اگر امیر نرمی نہ کرے اور رعایا خیر خواہی کرے تو آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں تو انھوں نے ارشاد فرمایا ہم نکلیں گے اور تمہیں بھی دعوت دینگے۔

38315

(۳۸۳۱۶) حَدَّثَنَا کَثِیرُ بْنُ ہِشَامٍ ، عَنْ جَعْفَرٍ ، عَنْ یَزِیدَ بْنِ صُہَیْبٍ الْفَقِیرِ ، قَالَ : بَلَغَنِی ، أَنَّہُ مَا تَقَلَّدَ رَجُلٌ سَیْفًا فِی فِتْنَۃٍ إِلاَّ لَمْ یَزَلْ مَسْخُوطًا عَلَیْہِ حَتَّی یَضَعَہُ۔
(٣٨٣١٦) حضرت یزید بن صہیب فقیر فرماتے ہیں مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ کوئی آدمی کسی فتنے میں تلوار گلے میں نہیں لٹکاتا مگر وہ مسلسل (اللہ کی) ناراضگی میں رہتا ہے یہاں تک کہ وہ اسے رکھ دے۔

38316

(۳۸۳۱۷) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِ ، عَنْ شَبِیبِ بْنِ غَرْقَدَۃَ ، عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ عَمْرٍو ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : سَمِعْتُ النَّبِیّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ فِی حَجَّۃِ الْوَدَاعِ : أَیُّ یَوْمٍ أحرم ثَلاَثَ مَرَّاتٍ ، فَقَالُوا : یَوْمُ الْحَجِّ الأَکْبَرِ ، قَالَ: فَإِنَّ دِمَائَکُمْ وَأَمْوَالَکُمْ وَأَعْرَاضَکُمْ حَرَامٌ ، کَحُرْمَۃِ یَوْمِکُمْ ہَذَا ، فِی شَہْرِکُمْ ہَذَا ، فِی بَلَدِکُمْ ہَذَا ، أَلاَ لاَ یَجْنِی جَانٍ إِلاَّ عَلَی نَفْسِہِ ، لاَ یَجْنِی جَانٍ إِلاَّ عَلَی نَفْسِہِ ، لاَ یَجْنِی وَالِدٌ عَلَی وَلَدِہِ ، وَلاَ مَوْلُودٌ عَلَی وَالِدِہِ، أَلاَ یَا أُمَّتَاہُ ہَلْ بَلَّغْت ، قَالُوا: نَعَمْ ، قَالَ: اللَّہُمَّ اشْہَدْ ، ثَلاَثَ مَرَّاتٍ۔ (ابوداؤد ۳۳۲۷۔ ترمذی ۲۱۵۹)
(٣٨٣١٧) حضرت عمر سے روایت ہے کہ میں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطبہ حجۃ الوداع کے موقع پر فرماتے ہوئے سنا کس دن میں نے احرام باندھا ہے ؟ تین مرتبہ یہ سوال فرمایا صحابہ کرام (رض) نے جواب دیا حج والے دن حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا بیشک تمہارے خون اور تمہارے مال اور تمہاری عزتیں آپس میں ایک دوسرے پر حرام ہیں اس دن (یعنی عرفہ کی) کی حرمت کی طرح اس مہینے میں اس شہر میں خبردار نہ جنایت کرے جنایت کرنے والا مگر اپنی ہی ذات پر نہ جنایت کرے جنایت کرنے والا مگر اپنی ذات پر زیادتی کرے والد اپنی اولاد پر اور نہ اولاد اپنے والد پر، خبردار اے میری امت کیا میں نے پہنچا دیا صحابہ کرام (رض) نے جواب دیا جی ہاں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اے اللہ گواہ رہنا یہ تین مرتبہ فرمایا۔

38317

(۳۸۳۱۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ عَبْدِ الْمَجِیدِ أَبِی عَمْرٍو ، قَالَ : سَمِعْتُ الْعَدَّائَ بْنَ خَالِدِ بْنِ ہَوْذَۃَ ، قَالَ : حَجَجْت مَعَ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حَجَّۃَ الْوَدَاعِ ، فَرَأَیْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَائِمًا فِی الرِّکَابَیْنِ وَہُوَ یَقُولُ : تَدْرُونَ أَیُّ شَہْرٍ ہَذَا ؟ أَیُّ بَلَدٍ ہَذَا ؟ قَالَ : فَإِنَّ دِمَائَکُمْ وَأَمْوَالَکُمْ عَلَیْکُمْ حَرَامٌ کَحُرْمَۃِ یَوْمِکُمْ ہَذَا فِی شَہْرِکُمْ ہَذَا فِی بَلَدِکُمْ ہَذَا ، ہَلْ بَلَّغْت ؟ قَالُوا : نَعَمْ ، قَالَ : اللَّہُمَّ اشْہَدْ۔ (ابوداؤد ۱۹۱۲۔ احمد ۳۰)
(٣٨٣١٨) حضرت عداء بن خالد بن ھوذہ فرماتے ہیں میں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ حجۃ الوداع کے موقع پر حج کیا میں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیکھا وہ (اونٹ کی) رکابوں میں کھڑے ارشاد فرما رہے تھے کیا تم جانتے ہو یہ کو نسا مہینہ ہے کون سا شہر ہے (پھر) ارشاد فرمایا بیشک تمہارے خون اور تمہارے اموال آپس ایک دوسرے پر حرام ہیں تمہارے اس دن کی حرمت کی طرح تمہارے اس مہینے کی حرمت کی طرح۔ تمہارے اس شہر کی حرمت کی طرح۔ کیا میں نے پہنچا دیا صحابہ کرام (رض) نے عرض کیا جی ہاں ارشاد فرمایا اے اللہ گواہ رہنا۔

38318

(۳۸۳۱۹) حَدَّثَنَا الثَّقَفِیُّ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ ، عَنِ ابْنِ أَبِی بَکْرَۃَ ، عَنْ أَبِی بَکْرَۃَ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، أَنَّہُ قَالَ : أَیُّ شَہْرٍ ہَذَا ؟ قُلْنَا : اللَّہُ وَرَسُولُہُ أَعْلَمُ ، قَالَ : فَسَکَتَ حَتَّی ظَنَنَّا أَنَّہُ سَیُسَمِّیہِ بِغَیْرِ اسْمِہِ ، قَالَ : أَلَیْسَ ذَا الْحِجَّۃِ ؟ قُلْنَا : بَلَی ، قَالَ : فَأَیُّ بَلَدٍ ہَذَا ؟ قُلْنَا : اللَّہُ وَرَسُولُہُ أَعْلَمُ ، فَسَکَتَ حَتَّی ظَنَنَّا أَنَّہُ سَیُسَمِّیہِ بِغَیْرِ اسْمِہِ ، قَالَ : أَلَیْسَ الْبَلَدَ الْحَرَامَ ؟ قُلْنَا : نَعَمْ ، قَالَ : أَیُّ یَوْمٍ ہَذَا ؟ قُلْنَا : اللَّہُ وَرَسُولُہُ أَعْلَمُ ، قَالَ : فَسَکَتَ حَتَّی ظَنَنَّا أَنَّہُ سَیُسَمِّیہِ بِغَیْرِ اسْمِہِ ، قَالَ : أَلَیْسَ یَوْمَ النَّحْرِ ؟ قُلْنَا : بَلَی یَا رَسُولَ اللہِ ، قَالَ : فَإِنَّ دِمَائَکُمْ وَأَمْوَالَکُمْ ، قَالَ مُحَمَّدٌ : وَأَحْسَبُہُ ، قَالَ : وَأَعْرَاضَکُمْ عَلَیْکُمْ حَرَامٌ ، کَحُرْمَۃِ یَوْمِکُمْ ہَذَا، فِی بَلَدِکُمْ ہَذَا، فِی شَہْرِکُمْ ہَذَا، وَسَتَلْقَوْنَ رَبَّکُمْ فَیَسْأَلُکُمْ عَنْ أَعْمَالِکُمْ۔(بخاری ۴۴۰۶۔ مسلم ۳۰)
(٣٨٣١٩) حضرت ابو بکرہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کرتے ہیں کہ آپ نے ارشاد فرمایا یہ کونسا مہینہ ہے ہم نے عرض کیا اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بہتر جانتے ہیں، راوی فرماتے ہیں آپ خاموش رہے یہاں تک کہ ہمیں یہ گمان ہونے لگا کہ آپ اس مہینے کو اس کے نام کے علاوہ دوسرا نام دیں گے پھر ارشاد فرمایا کیا یہ ذی الحجہ نہیں، ہم نے عرض کیا کیوں نہیں ارشاد فرمایا یہ کونسا شہر ہے ہم نے عرض کیا اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بہتر جانتے ہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خاموش رہے ہمیں یہ گمان ہوا کہ اس شہر کو کوئی اور نام سے موسوم کریں گے ارشاد فرمایا کیا یہ بامد حرام نہیں ہے ہم نے عرض کیا جی ہاں ارشاد فرمایا یہ کونسا ہے دن ہے ہم نے عرض کیا اللہ اور اس رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بہتر جانتے ہیں راوی فرماتے ہیں آپ خاموش رہے یہاں تک کہ ہمیں یہ گمان ہوا کہ اس دن کو کوئی اور نام دیں گے ارشاد فرمایا کیا یہ یوم النحر نہیں ہے ہم نے عرض کیا ہاں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پھر ارشاد فرمایا بلاشبہ تمہارے خون اور تمہارے اموال محمد بن سیرین راوی فرماتے ہیں میرا گمان ہے کہ یہ بھی فرمایا اور تمہاری عزتیں آپس میں ایک دوسرے پر ایسے ہی حرام ہیں جیسے تمہارے اس دن کی حرمت اس شہر میں اس مہینے میں اور عنقریب تم اپنے رب سے ملو گے وہ تم سے تمہارے اعمال کے بارے میں پوچھے گا۔

38319

(۳۸۳۲۰) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِی صَالِحٍ ، عَنْ جَابِرٍ ، قَالَ : قَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی حَجَّۃٍ: أَتَدْرُونَ أَیُّ یَوْمٍ أَعْظَمُ حُرْمَۃً؟ قَالَ: فَقُلْنَا: یَوْمَنَا ہَذَا، قَالَ: فَأَیُّ بَلَدٍ أَعْظَمُ حُرْمَۃً، قَالَ: قُلْنَا: بَلَدُنَا ہَذَا، قَالَ: فَأَیُّ شَہْرٍ أَعْظَمُ حُرْمَۃً قلْنَا: شَہْرُنَا ہَذَا، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: فَإِنَّ دِمَائَکُمْ وَأَمْوَالَکُمْ حَرَامٌ کَحُرْمَۃِ یَوْمِکُمْ ہَذَا فِی بَلَدِکُمْ ہَذَا فِی شَہْرِکُمْ ہَذَا۔(ابن ماجہ ۳۹۳۱۔ احمد ۸۰)
(٣٨٣٢٠) حضرت جابر سے روایت ہے کہ نبی نے فرمایا کونسا شہر حرمت کے اعتبار سے عظیم ہے حضرت جابر کہتے ہیں ہم نے عرض کیا ہمارا مہینہ حضرت جابر فرماتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا بلاشبہ تمہارے خون اور تمہارے مال آپس میں ایک دوسرے پر حرام ہیں اس دن کی حرمت کی طرح اس شہر میں اس مہینے میں۔

38320

(۳۸۳۲۱) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ ، عَنْ مُرَّۃَ ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : قامَ فِینَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَی نَاقَۃٍ حَمْرَائَ مُخَضْرَمَۃٍ ، فَقَالَ : أَتَدْرُونَ أَیُّ یَوْمِکُمْ ہَذَا أَتَدْرُونَ أَیُّ شَہْرِکُمْ ہَذَا أَتَدْرُونَ أَیُّ بَلَدِکُمْ ہَذَا ، قَالَ : فَإِنَّ دِمَائَکُمْ وَأَمْوَالَکُمْ عَلَیْکُمْ حَرَامٌ کَحُرْمَۃِ یَوْمِکُمْ ہَذَا فِی بَلَدِکُمْ ہَذَا فِی شَہْرِکُمْ ہَذَا۔
(٣٨٣٢١) ماقبل والی حدیث اس سند سے بھی منقول ہے۔

38321

(۳۸۳۲۲) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ زَیْدٍ ، قَالَ : لَمَّا کَانَ یَوْمُ الْجَرَعَۃِ قِیلَ لِحُذَیْفَۃَ : أَلاَ تَخْرُجُ مَعَ النَّاسِ ، قَالَ : مَا یُخْرِجُنِی مَعَہُمْ قَدْ عَلِمْت أَنَّہُمْ لَمْ یُہْرِیقُوا بَیْنَہُمْ مِحْجَمًا مِنْ دَمٍ حَتَّی یَرْجِعُوا ، وَلَقَدْ ذُکِرَ فِی حَدِیثِ الْجَرَعَۃِ حَدِیثُ کَثِیرٌ : مَا أُحِبّ ، أَنَّ لِی بِہِ مَا فِی بَیْتِکُمْ ، إِنَّ الْفِتْنَۃَ تَسْتَشْرِفُ مَن اسْتَشْرَفَ لَہَا۔ (احمد ۳۹۴)
(٣٨٣٢٢) حضرت زید بن وہب سے روایت ہے کہ جب جرعہ والے دن حضرت حذیفہ سے عرض کیا گیا کہ آپ لوگوں کے ساتھ کیوں نہیں نکلتے حضرت حذیفہ نے ارشاد فرمایا کونسی چیز مجھے ان کے ساتھ نکالے گی حالانکہ میں جانتا ہوں کہ انھوں نے آپس میں لوٹنے تک پچھنا لگانے کے برابر خون بھی نہیں بہایا اور جرعہ کے بارے میں بہت ساری باتیں ذکر کی گئی ہیں مجھے یہ پسند نہیں کہ ان کے بدلے میں۔۔۔ مجھے وہ چیزیں ملیں جو تمہارے گھر میں ہیں بلاشبہ فتنہ اس آدمی کی طرف جھانکتا ہے جو فتنے کی طرف سر اٹھا کر دیکھے (یوم الجرعہ سے مراد وہ دن ہے جس دن کوفے والے حضرت سعدب بن العاص کی زیارت کے لیے نکلے اور حضرت عثمان نے انھیں والی مقرر کیا تھا پھر حضرت ابو موسیٰ اشعری کو والی مقرر کیا)

38322

(۳۸۳۲۳) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ عَدِیٍّ ، عَنْ زِرِّ بْنِ حُبَیْشٍ ، عَنْ حُذَیْفَۃَ ، قَالَ : وَدِدْت أَنَّ عِنْدِی مِئَۃَ رَجُلٍ قُلُوبُہُمْ مِنْ ذَہَبٍ فَأَصْعَدُ عَلَی صَخْرَۃٍ فَأُحَدِّثُہُمْ حَدِیثًا لاَ تَضُرُّہُمْ فِتْنَۃٌ بَعْدَہُ أَبَدًا ، ثُمَّ أَذْہَبُ قَلِیلاً قَلِیلاً فَلاَ أَرَاہُمْ وَلاَ یَرَوْنَنِی۔
(٣٨٣٢٣) حضرت زربن حبیش حضرت حذیفہ سے روایت کرتے ہیں انھوں نے ارشاد فرمایا میں یہ چاہتا ہوں کہ میرے پاس سو آدمی ہوں جنکے قلوب سونے کی طرح ہوں میں کسی چٹان پر چڑھ کر جاؤں اور ان کے سامنے ایسی حدیث بیان کروں جس کے بیان کے بعد کوئی فتنہ کبھی بھی نقصان نہ پہنچائے پھر میں آہستہ آہستہ وہاں سے چلا جاؤں پس میں نہ ان کو دیکھوں اور نہ وہ مجھے دیکھیں۔

38323

(۳۸۳۲۴) حدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ ، عَنِ الْمِنْہَالِ ، عَنْ أَبِی الْبَخْتَرِیِّ ، عَنْ حُذَیْفَۃَ ، قَالَ : لَوْ حَدَّثْتُکُمْ مَا أَعْلَمُ لافْتَرَقْتُمْ عَلَی ثَلاَثِ فِرَقٍ : فِرْقَۃٍ تُقَاتِلُنِی ، وَفِرْقَۃٍ لاَ تَنْصُرُنِی ، وَفِرْقَۃٍ تُکَذِّبُنِی۔
(٣٨٣٢٤) حضرت ابو البختری حضرت حذیفہ سے روایت کرتے ہیں انھوں نے ارشاد فرمایا اگر میں تم سے وہ باتیں بیان کروں جو میں جانتا ہوں تو تم میرے خلاف تین گروہوں میں بٹ جاؤ ایک گروہ مجھ سے لڑائی کرے گا اور دوسرا میری مدد کرے گا اور تیسرا میری تکذیب کرے گا۔

38324

(۳۸۳۲۵) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، قَالَ : حدَّثَنِی ضِرَارُ بْنُ مُرَّۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ حَنْظَلَۃَ ، قَالَ : قَالَ حُذَیْفَۃُ : مَا مِنْ رَجُلٍ إِلاَّ بِہِ أُمَّۃٌ یُنَجِّسُہَا الظَّفَرُ إِلاَّ رَجُلَیْنِ : أَحَدُہُمَا قَدْ بَرَزَ وَالآخَرُ فِیہِ مُنَازَعَۃٌ ، فَأَمَّا الَّذِی بَرَزَ فَعُمَرُ ، وَأَمَّا الَّذِی فِیہِ مُنَازَعَۃٌ فَعَلِیٌّ۔
(٣٨٣٢٥) حضرت حذیفہ سے روایت ہے انھوں نے ارشاد فرمایا کوئی بھی ایسا آدمی جس کی کوئی جماعت پیروی کرتی ہو فتح و کامیابی اس میں بگاڑ پیدا کرتی ہے سوائے دو آدمیوں کے ان دونوں میں سے ایک تو نمایاں ہوگئے اور دوسرے اس سلسلے میں لڑ رہے ہیں باقی جو نمایاں ہوگئے وہ تو حضرت عمر اور جو ابھی لڑ رہے ہیں وہ حضرت علی ہیں۔

38325

(۳۸۳۲۶) حَدَّثَنَا مُعَاوِیَۃُ بْنُ ہِشَامٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ الثَّوْرِیُّ ، عَنِ الْحَارِثِ الأَزْدِیِّ ، عَنِ ابْنِ الْحَنَفِیَّۃِ ، قَالَ : رَحِمَ اللَّہُ امْرَئًا کَفَّ یَدَہُ وَأَمْسَکَ لِسَانَہُ وَأَغْنَی نَفْسَہُ وَجَلَسَ فِی بَیْتِہِ ، لَہُ مَا احْتَسَبَ وَہُوَ یَوْمُ الْقِیَامَۃِ مَعَ مَنْ أَحَبَّ ، أَلاَ إِنَّ الأَعْمَالَ أَسْرَعُ إلَیْہِمْ مِنْ سُیُوفِ الْمُؤْمِنِینَ ، أَلاَ إِنَّ لِلْحَقِّ دَوْلَۃً یَأْتِی بِہَا اللَّہُ إِذَا شَائَ۔
(٣٨٣٢٦) حضرت حارث ازدی حضرت ابن حنفیہ سے نقل کرتے ہیں کہ انھوں نے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ رحم کرے اس آدمی پر جس نے اپنے ہاتھ کو روکا اور اپنی زبان کو قابو کیا اور اپنے آپ کو بےنیاز کیا (دوسروں سے) اور اپنے گھر میں بیٹھ گیا اس کے لے ز وہی ثواب ہے جس کی اس نے نیت کی اور وہ قیامت والے دن اس کے ساتھ ہوگا جس کے ساتھ اس نے محبت کی خبردار بلاشبہ اعمال ان کی طرف مسلمانوں کی تلواروں سے جلدی پہنچتے ہیں آگاہ و خبردار ہو حق کے لیے پلٹنا ہوتا ہے اللہ تعالیٰ جب چاہیں اسے لے آتے ہیں۔

38326

(۳۸۳۲۷) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ وَوَکِیعٌ ، وَابْنُ الْمُبَارَکِ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ ، عَنْ قَیْسٍ ، عَنِ الصُّنَابِحِیِّ ، قَالَ : سَمِعْتُہُ یَقُولُ : سَمِعْت رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : أَنَا فَرَطُکُمْ عَلَی الْحَوْضِ ، وَإِنِّی مُکَاثِرٌ بِکُمَ الأُمَمَ فَلاَ تَقْتَتِلُنَّ بَعْدِی۔(احمد ۳۵۱۔ ابن حبان ۵۹۸۵)
(٣٨٣٢٧) حضرت قیس صنابحی سے نقل کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا کہ فرمایا میں تمہارے لیے بہتے حوض پر پیشگی اجر ہوں اور بلاشبہ میں تمہاری کثرت کی وجہ سے دوسری امتوں پر فخر کرونگا لہٰذا میرے بعد آپس میں لڑائی نہ کرنا۔

38327

(۳۸۳۲۸) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، وَأَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ ، عَنْ قَیْسٍ ، عَنِ الصُّنَابِحِیِّ الأَحْمَسِیِّ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِمِثْلِہِ۔ (احمد ۳۵۱)
(٣٨٣٢٨) حضرت قیس حضرت صنابحی احمسی سے اور وہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مذکورہ روایت کی مثل نقل کرتے ہیں۔

38328

(۳۸۳۲۹) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ وَاقِدِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ زَیْدٍ ، أَنَّہُ سَمِعَ أَبَاہُ یُحَدِّثُ ، عَنْ عبْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، أَنَّہُ قَالَ فِی حَجَّۃِ الْوَدَاعِ : وَیْحَکُمْ ، أَوَ قَالَ : وَیْلَکُمْ ، لاَ تَرْجِعُوا بَعْدِی کُفَّارًا یَضْرِبُ بَعْضُکُمْ رِقَابَ بَعْضٍ۔ (بخاری ۶۱۶۶۔ مسلم ۸۲)
(٣٨٣٢٩) حضرت عبداللہ بن عمر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کرتے ہیں کہ انھوں نے حجۃ الوداع کے موقع پر ارشاد فرمایا : تمہارے لیے ہلاکت ہو میرے بعد کفر کی طرف نہ لوٹ جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو (یا میرے بعد کافر نہ ہوجانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو)

38329

(۳۸۳۳۰) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ ، عَنْ قَیْسٍ ، قَالَ : بَلَغَنَا ، أَنَّ جَرِیرًا ، قَالَ : قَالَ لِی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : اسْتَنْصِتِ النَّاسَ ، ثُمَّ قَالَ عِنْدَ ذَلِکَ : لاَ أعَرِّفَنَّکُمْ بَعْدُ مَا أَرَی ، تَرْجِعُونَ بَعْدِی کُفَّارًا ، یَضْرِبُ بَعْضُکُمْ رِقَابَ بَعْضٍ۔
(٣٨٣٣٠) حضرت جریر سے روایت ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھ سے ارشاد فرمایا : لوگوں کو خاموش کرادو پھر اس وقت ارشاد فرمایا : ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ تم میرے بعد کافر بن کر لوٹ جاؤ ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو۔

38330

(۳۸۳۳۱) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ مُدْرِکٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا زُرْعَۃَ بْنَ عَمْرِو بْنِ جَرِیرٍ یُحَدِّثُ ، عن جریر أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ فِی حَجَّۃِ الْوَدَاعِ : اسْتَنْصِتِ النَّاسَ ، وَقَالَ : لاَ تَرْجِعُوا بَعْدِی کُفَّارًا یَضْرِبُ بَعْضُکُمْ رِقَابَ بَعْضٍ۔ (بخاری ۶۸۶۹۔ مسلم ۱۱۸)
(٣٨٣٣١) حضرت جریر سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حجۃ الوداع کے موقع پر ارشاد فرمایا : لوگوں کو خاموش کرادو اور ارشاد فرمایا : میرے بعد کفر کی طرف نہ لوٹ جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو۔

38331

(۳۸۳۳۲) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ حُصَیْنٍ ، عَنْ شَقِیقٍ ، عَنْ حُذَیْفَۃَ ، قَالَ : قَالَ لِی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : أَنَا فَرَطُکُمْ عَلَی الْحَوْضِ وَلأُنَازَعَنَّ أَقْوَامًا ، ثُمَّ لأُغْلَبَنَّ عَلَیْہِمْ ، فَأَقُولُ : یَا رَبِ ، أَصْحَابِی ، فَیُقَالُ : إنَّک لاَ تَدْرِی مَا أَحْدَثُوا بَعْدَک۔ (مسلم ۱۷۹۷۔ احمد ۳۸۸)
(٣٨٣٣٢) حذیفہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھ سے فرمایا میں تمہارے لیے پیشگی اجر ہوں حوض پر اور مجھ سے کچھ لوگوں کے سلسلے میں جھگڑا کیا جائے گا پھر اس سلسلے میں مجھ پر غلبہ پا لیا جائے گا میں کہوں گا اے میرے رب یہ میرے ساتھی ہیں کہا جائے گا بلاشبہ تم نہیں جانتے کہ انھوں نے کیا کیا چیزیں تمہارے بعد گھڑ لیں تھیں۔

38332

(۳۸۳۳۳) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَنِ الْمُخْتَارِ بْنِ فُلْفُلٍ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ ، قَالَ : قَالَ لِی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : الْکَوْثَرُ نَہْرٌ وَعَدَنِی رَبِّی ، عَلَیْہِ خَیْرٌ کَثِیرٌ ، ہُوَ حَوْضِی تَرِدُ عَلَیْہِ أُمَّتِی یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ، آنِیَتُہُ عَدَدُ النُّجُومِ ، فَیُخْتَلَجُ الْعَبْدُ مِنْہُمْ فَأَقُولُ : رَبِّ ، إِنَّہُ مِنْ أُمَّتِی ، فَیَقُولُ : لاَ تَدْرِی مَا أَحْدَثَ بَعْدَک۔
(٣٨٣٣٣) حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھ سے فرمایا کوثر نہر ہے اللہ تعالیٰ نے اس کا مجھ سے وعدہ کیا اس پر خیر کثی رہے وہ میرا حوض ہے جس پر میری امت قیامت والے دن آئے گی اس کے برتن ستاروں کے بقدر ہیں ان میں سے (یعنی میری امت میں سے) کچھ لوگوں کو اس سے روک لیا جائے گا میں کہوں گا اے میرے رب یہ میری امت میں سے ہے پس ارشاد خداوندی ہوگا تم نہیں جانتے کہ اس نے تمہارے بعد کیا باتیں (دین میں) گھڑ لیں۔

38333

(۳۸۳۳۴) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ رَافِعٍ ، عَنْ أُمِّ سَلَمَۃَ ، قَالَتْ: سَمِعْت رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ عَلَی ہَذَا الْمِنْبَرِ : إنِّی سَلَفٌ لَکُمْ عَلَی الْکَوْثَرِ ، فَبَیْنَمَا أَنَا عَلَیْہِ إذْ مُرَّ بِکُمْ أَرْسَالاً مُخَالَفًا بَکُمْ ، فَأُنَادِی : ہَلُمَ ، فَیُنَادِی مُنَادٍ فَیَقُولُ : أَلاَ إنَّہُمْ قَدْ بَدَّلُوا بَعْدَک ، فَأَقُولُ: أَلاَ سُحْقًا۔
(٣٨٣٣٤) حضرت ام سلمہ سے روایت ہے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس منبر پر ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ میں تم سے پہلے پہنچنے والا ہوں گا حوض کوثر پر پس میں حوض پر ہوں گا اچانک کچھ گروہ گزریں گے تمہارے بعد میں انھیں پکاروں گا کہ ادھر آجاؤ ایک ندا دینے والا ندا دے گا اور کہے گا خبردار انھوں نے آپ کے بعد (دین کو) بدل دیا تھا میں کہوں گا خبردار دورہی رہو۔

38334

(۳۸۳۳۵) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ ، عَنْ مُرَّۃَ ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : قامَ فِینَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : أَلاَ إنِّی فَرَطُکُمْ عَلَی الْحَوْضِ ، أَنْظُرُکُمْ وَأُکَاثِرُ بِکُمَ الأُمَمَ ، فَلاَ تُسَوِّدُوا وَجْہِی۔
(٣٨٣٣٥) حضرت مرُّہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب میں سے ایک صاحب سے نقل کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے درمیان کھڑے ہوئے اور ارشاد فرمایا : خبردار میں تمہارے لیے حوض پر پہلے پہنچنے والا ہوں گا میں تمہیں دیکھوں گا اور تمہاری کثرت کی وجہ سے دوسری امتوں پر فخر کروں گا لہٰذا میرے چہرے کو سیاہ نہ کرنا (مراد یہ ہے کہ مجھے رنجیدہ نہ کرنا)

38335

(۳۸۳۳۶) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ ، عَنْ أَبِی الْبَخْتَرِیِّ ، قَالَ : کَتَبَ عُمَرُ إِلَی أَبِی مُوسَی: إِنَّ لِلنَّاسِ نُفْرَۃً عَنْ سُلْطَانِہِمْ ، فَأَعُوذُ بِاللہِ أَنْ تُدْرِکَنِی وَإِیَّاکُمْ ضَغَائِنَ مَحْمُولَۃً ، وَدُنْیَا مُؤْثَرَۃً ، وَأَہْوَائَ مُتَّبَعَۃً ، وَإِنَّہُ سَتُدْعَی الْقَبَائِلُ ، وَذَلِکَ نِخْوَۃٌ مِنَ الشَّیْطَانِ ، فَإِنْ کَانَ ذَلِکَ فَالسَّیْفَ السَّیْفَ ، الْقَتْلَ الْقَتْلَ ، یَقُولُونَ : یَا أَہْلَ الإِسْلاَم ، یَا أَہْلَ الإِسْلاَم۔
(٣٨٣٣٦) حضرت ابو البختری فرماتے ہیں حضرت عمر نے حضرت ابو موسیٰ کی طرف دیکھا بیشک لوگوں میں اپنے بادشاہ کے بارے میں نفرت ہوتی ہے میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں اس بات سے کہ یہ نفرت مجھے پالے۔ اور بچو تم پوشیدہ اٹھائی ہوئی دشمنی سے اور ترجیح دی جانے والی دناہ سے اور پیروی کی جانے والی خواہشات سے اور قبائل کو عنقریب بلایا جائے گا اور یہ شیطان کے ابھارنے کی وجہ سے ہوگا پس اگر ایسا ہوجائے تو ہر طرف تلوار ہوگی اور قتل ہوگا۔ وہ کہیں گے اے اہل اسلام اے اہل اسلام۔

38336

(۳۸۳۳۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ کَہْمَسٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، عَنْ أُبَیِّ بْنِ کَعْبٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : مَن اتَّصَلَ بِالْقَبَائِلِ فَأَعْضُوہُ بِہَنِ أَبِیہِ وَلاَ تَکْنُوہ۔ (نسائی )
(٣٨٣٣٧) حضرت ابی بن کعب سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جو آدمی قبائل کے ساتھ مل گیا اس کا تذکرہ برائی ساتھ کرو اسے کنیت کے ساتھ نہ پکارو۔

38337

(۳۸۳۳۸) حَدَّثَنَا عِیسَی بْنُ یُونُسَ ، عَنْ عَوْفٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ ضَمْرَۃَ ، عَنْ أُبَیٍّ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِمِثْلِہِ۔ (بخاری ۹۶۳۔ احمد ۱۳۶)
(٣٨٣٣٨) حضرت ابی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مذکورہ روایت کی مثل نقل کرتے ہیں۔

38338

(۳۸۳۳۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، عَنْ عِمْرَانَ ، عَنْ أَبِی مِجْلَزٍ ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ: مَن اعْتَزَی بِالْقَبَائِلِ فَأَعِضُّوہُ، أَوْ فَأَمِصُّوہُ۔
(٣٨٣٣٩) حضرت عمر نے ارشاد فرمایا جو آدمی قبائل کے ساتھ مل گیا پس اس کا تذکرہ برائی کے ساتھ کرو یا فرمایا اسے چوس ڈالو۔

38339

(۳۸۳۴۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ مُوسَی بْنِ عُبَیْدَۃَ ، عَنْ طَلْحَۃَ بْنِ عُبَیْدِ اللہِ بْنِ کَرَیْزٍ ، قَالَ : کَتَبَ عُمَرُ إِلَی أُمَرَائِ الأَجْنَادِ : إِذَا تَدَاعَتِ الْقَبَائِلُ فَاضْرِبُوہُمْ بِالسَّیْفِ حَتَّی یَصِیرُوا إِلَی دَعْوَۃِ الإِسْلاَم۔
(٣٨٣٤٠) حضرت طلحہ بن عبیداللہ ابن کریز فرماتے ہیں حضرت عمر نے لشکروں کہ امراء کی طرف لکھا جب قبائل ایک دوسرے کو بلائیں تو ان کو تلوار سے مارو یہاں تک کہ وہ اسلام کی دعوت پر آجائیں۔

38340

(۳۸۳۴۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ مِسْعَرٍ ، عَنْ سَہْلٍ أَبِی الأَسَدِ ، عَنْ أَبِی صَالِحٍ ، قَالَ : مَنْ قَالَ یَا آلَ بَنِی فَُلاَنٍ ، فَإِنَّمَا یَدْعُو إِلَی جُثَا النَّارِ۔
(٣٨٣٤١) حضرت ابو صالح سے روایت ہے ارشاد فرمایا جس آدمی نے کہا اے فلاں کے بیٹوں کی آل بلاشبہ وہ آگ کے مجموعے کی طرف دعوت دے رہا ہے۔

38341

(۳۸۳۴۲) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ مُسْلِمٍ ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: لاَ أَلْفِیَنَّکُمْ بِہِ ، تَرْجِعُونَ بَعْدِی کُفَّارًا یَضْرِبُ بَعْضُکُمْ رِقَابَ بَعْضٍ ، لاَ یُؤْخَذُ الرَّجُلُ بِجَرِیرَۃِ أَخِیہِ وَلاَ بِجَرِیرَۃِ أَبِیہِ۔ (نسائی ۳۵۹۳)
(٣٨٣٤٢) حضرت مسروق سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ہرگز نہ تمہیں میں پاؤں ایسی حالت پر کہ تم میرے بعد کافر بن کر لوٹ جاؤ ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو کسی بھی آدمی کا مؤاخذہ نہ ہوگا اس کے بھائی کے جرم پر اور نہ ہی اس کے باپ کے جر م پر۔

38342

(۳۸۳۴۳) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ خَیْثَمَۃ ، قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللہِ : إِنَّہَا سَتَکُونُ ہَنَاتٌ ، وَأُمُورٌ مُشْتَبِہَاتٌ ، فَعَلَیْک بِالتُّؤَدَۃِ ، فَتَکُونُ تَابِعًا فِی الْخَیْرِ ، خَیْرٌ مِنْ أَنْ تَکُونَ رَأْسًا فِی الشَّرِّ۔
(٣٨٣٤٣) حضرت خیثمہ حضرت عبداللہ سے نقل کرتے ہیں بلاشبہ عنقریب ہوں گے فتنے اور مشتبہ امور پس لازم ہے (اس وقت) تم پر وقار ہو تو بھلائی کے اندر کسی کا تابع ہو یہ بہتر ہے اس سے کہ تو سردار ہو برائی کے اندر۔

38343

(۳۸۳۴۴) حَدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ أَبِی حَصِینٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، أَنَّ رَجُلاً ، قَالَ : یَا لَضَبَّۃ ، قَالَ : فَکَتَبَ إِلَی عُمَرَ ، قَالَ فَکَتَبَ إلَیْہِ عُمَرُ أَنْ عَاقِبْہُ ، أَوَ قَالَ : أَدِّبْہُ ، فَإِنَّ ضَبَّۃَ لَمْ تَدْفَعْ عَنْہُمْ سُوئًا قَطُّ وَلَمْ یَجُرَّ إلَیْہِمْ خَیْرًا قَطُّ۔
(٣٨٣٤٤) حضرت شعبی سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے یا لضبۃ کہہ کر ضبہ سے فریاد رسی کی حضرت شعبی نے فرمایا اس سلسلے میں حضرت عمر کی طرف خط لکھا گیا راوی فرماتے ہیں حضرت عمر نے جواب میں لکھا اس کو سزا دو یا فرمایا اس کو ادب سکھاؤ بلاشبہ ضبہ نے کبھی بھی ان سے کوئی برائی دور نہیں کی اور نہ ہی کھینچا ان کی طرف خیروبھلائی کو۔

38344

(۳۸۳۴۵) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنِ الْجُرَیْرِیِّ ، عَنْ أَبِی نَضْرَۃَ ، عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ ، قَالَ : حدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ ثَابِتٍ، عَنْ رَسُولِ اللہِ ، قَالَ : تَعَوَّذُوا بِاللہِ مِنَ الْفِتَنِ مَا ظَہَرَ مِنْہَا ، وَمَا بَطَنَ ، قُلْنَا : نَعُوذُ بِاللہِ مِنَ الْفِتَنِ مَا ظَہَرَ مِنْہَا، وَمَا بَطَنَ۔
(٣٨٣٤٥) حضرت ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ ہم سے حضرت زید بن ثابت نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کیا آپ نے ارشاد فرمایا : فتنوں سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگو جو ظاہری فتنے ہیں اور جو پوشیدہ ہیں ہم نے عرض کیا ہم پناہ مانگتے ہیں اللہ کی فتنوں سے جو ان میں ظاہری فتنے ہیں اور جو باطنی ہیں۔

38345

(۳۸۳۴۶) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ زَیْدِ بْنِ وَہْبٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : لَمَّا بَعَثَ عُثْمَانُ إلَیْہِ یَأْمُرُہُ بِالْخُرُوجِ إِلَی الْمَدِینَۃِ اجْتَمَعَ النَّاسُ إلَیْہِ ، فَقَالُوا لَہُ : أَقِمْ لاَ تَخْرُجْ ، فَنَحْنُ نَمْنَعُک ، لاَ یَصِلُ إلَیْک مِنْہُ شَیْئٌ تَکْرَہُہُ ، فَقَالَ عَبْدُ اللہِ : إِنَّہَا سَتَکُونُ أُمُورٌ وَفِتَنٌ ، لاَ أُحِبُّ أَنْ أَکُونَ أَنَا أَوَّلَ مَنْ فَتَحَہَا وَلَہُ عَلَیَّ طَاعَۃٌ ، قَالَ : فَرَدَّ النَّاسَ وَخَرَجَ إلَیْہِ۔
(٣٨٣٤٦) حضرت عبداللہ سے روایت ہے کہ جب حضرت عثمان نے ان کو مدینہ کی طرف نکلنے کا حکم دیا لوگ آپ کے پاس جمع ہوگئے اور ان سے کہا ! آپ رکیے ہم آپ کی حفاظت کریں گے اور آپ کو کوئی ناپسندیدہ امر نہیں پہنچے گا حضرت عبداللہ نے فرمایا بلاشبہ عنقریب کچھ امور اور فتنے ہوں گے میں یہ پسند نہیں کرتا کہ میں ان کو کھولنے والوں میں سے پہلا ہوجاؤں ان کے لیے مجھ پر اطاعت کا حق ہے راوی فرماتے ہیں انھوں نے لوگوں کو واپس کردیا اور حضرت عثمان کے حکم کے مطابق نکل گئے۔

38346

(۳۸۳۴۷) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، قَالَ : حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ ، عَنِ الْمُسَیَّبِ بْنِ رَافِعٍ ، عَنْ یُسَیْرِ بْنِ عَمْرٍو ، قَالَ : شَیَّعْنَا ابْنَ مَسْعُودٍ حِینَ خَرَجَ ، فَنَزَلَ فِی طَرِیقِ الْقَادِسِیَّۃِ فَدَخَلَ بُسْتَانًا ، فَقَضَی الْحَاجَۃَ ، ثُمَّ تَوَضَّأَ ، وَمَسَحَ عَلَی جَوْرَبَیْہِ ، ثُمَّ خَرَجَ ، وَإِنَّ لِحْیَتَہُ لَیَقْطُرُ مِنْہَا الْمَائُ ، فَقُلْنَا لَہُ : اعْہَدْ إلَیْنَا فَإِنَّ النَّاسَ قَدْ وَقَعُوا فِی الْفِتَنِ وَلاَ نَدْرِی ہَلْ نَلْقَاک أَمْ لاَ قَالَ : اتَّقُوا اللَّہَ وَاصْبِرُوا حَتَّی یَسْتَرِیحَ بَرٌّ ، أَوْ یُسْتَرَاحَ مِنْ فَاجِرٍ ، وَعَلَیْکُمْ بِالْجَمَاعَۃِ فَإِنَّ اللَّہَ لاَ یَجْمَعُ أُمَّۃَ مُحَمَّدٍ عَلَی ضَلاَلَۃٍ۔
(٣٨٣٤٧) حضرت یسیر بن عمرو سے روایت ہے انھوں نے فرمایا ہم حضرت ابن مسعود کے ہم نوا تھے جب وہ نکلے پس وہ قادسیہ کے راستے میں اترے پس داخل ہوئے باغ میں قضاء حاجت کی پھر وضو فرمایا اور اپنی جرابوں پر مسح کیا پھر نکلے اس حال میں کہ پانی کے قطرات ان کی داڑھی سے سے ٹپک رہے تھے ہم نے ان سے عرض کیا ہمیں نصیحت کریں کیونکہ لوگ فتنوں میں پڑگئے ہیں اور ہمیں معلوم نہیں ہم آپ سے ملیں گے یا نہیں انھوں نے ارشاد فرمایا اللہ سے ڈرو اور صبر کرو یہاں تک کہ نیک آدمی راحت پائے یا فاسق فاجر سے راحت پالی جائے اور لازم ہے تم پر جماعت بلاشبہ اللہ تعالیٰ امت محمد کو گمراہی پر جمع نہیں کریں گے۔

38347

(۳۸۳۴۸) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ زَائِدَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ شِمْرِ بْنِ عَطِیَّۃَ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ ، قَالَ : إِنَّہَا سَتَکُونُ مُلُوکٌ ، ثُمَّ جَبَابِرَۃٌ ، ثُمَّ الطَّوَاغِیتُ۔
(٣٨٣٤٨) حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ انھوں نے ارشاد فرمایا بلاشبہ آئندہ ہوں گے بادشاہ پھر ظالم لوگ پھر سرکش لوگ۔

38348

(۳۸۳۴۹) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ زَائِدَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِی سُفْیَانَ ، عَنْ عُبَیْدِ بْنِ عُمَیْرٍ ، قَالَ : خَرَجَ رَسُولُ اللہِ إِلَی أَہْلِ الْحُجُرَاتِ ، فَقَالَ : یَا أَہْلَ الْحُجُرَاتِ سُعِّرَتِ النَّارُ وَجَائَتِ الْفِتَنُ کَأَنَّہَا قِطَعُ اللَّیْلِ الْمُظْلِمِ ، لَوْ تَعْلَمُونَ مَا أَعْلَمُ لَضَحِکْتُمْ قَلِیلاً وَلَبَکَیْتُمْ کَثِیرًا۔ (بزار ۱۷۷۲)
(٣٨٣٤٩) حضرت عبید بن عمیر سے روایت ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حجرات میں رہنے والوں کی طرف نکلے اور ارشاد فرمایا اے حجروں میں رہنے والو ! جہنم کی آگ بھڑ کا دی جائے گی اور فتنے آئیں گے اندھیری رات کے ٹکڑوں کی طرح اگر تم جان لیتے جو میں جانتا ہوں تو تم تھوڑا ہنستے اور زیادہ روتے۔

38349

(۳۸۳۵۰) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنِ ابْنِ مُبَارَکٍ وَمُفَصَّلِ بْنِ یُونُسَ ، عَنِ الأَوْزَاعِیِّ ، عَنْ حَسَّانَ بْنِ عَطِیَّۃَ ، عَنْ أَبِی إدْرِیسَ عن حذیفۃ ، قَالَ : إِنَّہَا فِتَنٌ قَدْ أَظَلَّتْ کَجِبَاہِ الْبَقَرِ یَہْلِکُ فِیہَا أَکْثَرُ النَّاسِ إِلاَّ مَنْ کَانَ یَعْرِفُہَا قَبْلَ ذَلِکَ۔
(٣٨٣٥٠) حضرت حذیفہ سے روایت ہے ارشاد فرمایا فتنے ہوں گے جو گائے کی پیشانی کی طرح ہوں گے ان میں اکثر لوگ ہلاک ہوں گے مگر وہ جو ان کو ان کے وقوع سے پہلے جانتا ہے۔

38350

(۳۸۳۵۱) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ مُجَالِدٍ ، عَنْ أَبِی السَّفَرِ ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ بَنِی عَبْسٍ ، قَالَ : قَالَ لَنَا حُذَیْفَۃُ : کَیْفَ أَنْتُمْ إِذَا ضَیَّعَ اللَّہُ أَمْرَ أُمَّۃِ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ رَجُلٌ : مَا تَزَالُ تَأْتِینَا بِمُنْکَرَۃٍ ، یُضَیِّعُ اللَّہُ أَمْرَ أُمَّۃِ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : أَرَأَیْتُمْ إِذَا وَلِیَہَا مَنْ لاَ یَزِنُ عِنْدَ اللہِ جَنَاحَ بَعُوضَۃٍ : أَفَتَرَوْنَ أَمْرَ أُمَّۃِ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ضَاعَ یَوْمَئِذٍ۔
(٣٨٣٥١) حضرت ابو السفر بنی عبس کے ایک صاحب سے نقل کرتے ہیں انھوں نے فرمایا ہم سے حضرت حذیفہ نے ارشاد فرمایا تمہاری کیا حالت ہوگی جب اللہ تعالیٰ امت محمد یہ کے معاملے کو ضائع کردیں گے ایک آدمی نے کہا آپ ہم سے ہمیشہ ایسی ہی ناپسندیدہ باتیں بیان کرتے ہیں کیا اللہ تعالیٰ امت محمدیہ کے امر کو ضائع کردیں گے حضرت حذیفہ نے ارشاد فرمایا مجھے بتلاؤ تو سہی جب ان کا والی ایسا آدمی ہوگا جس کا وزن (قدرو منزلت) اللہ تعالیٰ کے ہاں مچھر کے پر کے برابر بھی نہیں ہوگا تو کیا خیال ہے تمہارا امت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا دینی امر اس دن ضائع نہیں ہوجائے گا۔

38351

(۳۸۳۵۲) حَدَّثَنَا عَفَّانُ وَأَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ ، قَالاَ : أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ عَنْ عَلِیِّ بْنِ زَیْدٍ ، عَنْ أَبِی عُثْمَانَ ، عَنْ خَالِدِ بْنِ عُرْفُطَۃَ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، أَنَّہُ قَالَ : یَا خَالِدُ ، إِنَّہَا سَتَکُونُ أَحْدَاثٌ وَاخْتِلاَفٌ ، وَقَالَ عَفَّانُ : وَفُرْقَۃٌ فَإِذَا کَانَ ذَلِکَ فَإِنَ اسْتَطَعْتَ أَنْ تَکُونَ الْمَقْتُولَ لاَ الْقَاتِلَ ، قَالَ عَفَّانُ : فَافْعَلْ۔ (بزار ۳۳۵۶۔ احمد ۲۹۲)
(٣٨٣٥٢) حضرت خالد بن عرفطہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے ارشاد فرمایا اے خالد بلاشبہ آئندہ نئی باتیں اور اختلافات ہوں گے عفان راوی فرماتے ہیں یہ بھی فرمایا اور فرقت یعنی جدائی بھی ہوگی پس جب یہ ہوجائے تو اگر تم سے ہوسکے کہ تو مقتول ہو قاتل نہ ہو (عفان راوی نقل کرتے ہیں) تو ایسا کرلینا۔

38352

(۳۸۳۵۳) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَنْ ثَابِتٍ ، أَوْ عَلِیِّ بْنِ زَیْدٍ ، عَنْ أَبِی بُرْدَۃَ ، قَالَ : دَخَلْتُ عَلَی مُحَمَّدِ بْنِ مَسْلَمَۃَ ، فَقُلْتُ لَہُ : رَحِمَک اللَّہُ ، إنَّک مِنْ ہَذَا الأَمْرِ بِمَکَانٍ ، فَلَوْ خَرَجْتَ إِلَی النَّاسِ فَأَمَرْتَ وَنَہَیْتَ ، فَقَالَ : إِنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : إِنَّہَا سَتَکُونُ فِتْنَۃٌ وَفُرْقَۃٌ وَاخْتِلاَفٌ ، فَإِذَا کَانَ ذَلِکَ فَأْتِ بِسَیْفِکَ أُحُدًا فَاضْرِبْہُ حَتَّی تَقْطَعَہُ ، ثُمَّ اجْلِسْ فِی بَیْتِکَ حَتَّی تَأْتِیَک یَدٌ خَاطِئَۃٌ ، أَوْ مَنِیَّۃٌ قَاضِیَۃٌ ، فَقَدْ وَقَعَتْ وَفَعَلْتُ مَا قَالَ لِی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔ (احمد ۴۹۳۔ طبرانی ۵۱۷)
(٣٨٣٥٣) حضرت ابو بردہ سے روایت ہے کہ انھوں نے فرمایا میں حضرت محمد بن مسلمہ کے پاس گیا میں نے ان سے عرض کیا اللہ آپ پر رحم فرمائے آپ اس معاملے میں اس مرتبے پر ہیں اگر آپ لوگوں کی طرف نکلیں آپ روکتے اور حکم دیتے تو انھوں نے ارشاد فرمایا بلاشبہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا عنقریب فتنے اور تفرق و اختلافات ہوں گے پس اگر ایسا ہو تو اپنی تلوار لے کر احد پہاڑ پر جانا تلوار اس پر مارنا یہاں تک کہ تو اسے توڑ دے پھر اپنے گھر مں پ بیٹھ جانا یہاں تک کہ تیرے پاس آئے کوئی غلطی کرنے والا ہاتھ یا فیصلہ کرنے والی موت پس ایسا ہوچکا ہے لہٰذا میں نے ایسا ہی کیا ہے جیسے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھ سے ارشاد فرمایا تھا۔

38353

(۳۸۳۵۴) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ زَائِدَۃَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ ، قَالَ : بَلَغَنِی أَنَّ الشَّامَ لاَ تَزَالُ مُوَائمَۃً مَا لَمْ یَکُنْ بَدُوّہَا مِنَ الشَّامِ۔
(٣٨٣٥٤) حضرت ابن سیرین سے روایت ہے انھوں نے ارشاد فرمایا مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ بلاشبہ شام مسلسل موافق رہے گا جب تک کہ ان فتنوں کی ابتداء شام سے نہ ہوگی۔

38354

(۳۸۳۵۵) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ حَفْصٍ ، عَنْ شَرِیکٍ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَامِرٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَنْ مَاتَ وَلاَ طَاعَۃَ عَلَیْہِ مَاتَ مِیتَۃً جَاہِلِیَّۃً ، وَمَنْ خَلَعَہَا بَعْدَ عَقْدِہِ إیَّاہَا فَلاَ حُجَّۃَ لَہُ۔ (احمد ۴۴۶۔ ابویعلی ۷۱۶۸)
(٣٨٣٥٥) حضرت عامر نقل فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا جس آدمی کو موت آئے اس حال میں کہ اس پر کسی کی اطاعت لازم نہ ہو تو وہ جاہلیت کی موت مرا اور جس آدمی نے اطاعت کے عقد کو باندھنے کے بعد توڑ دیا تو اس کے حق میں کوئی دلیل نہیں ہے۔

38355

(۳۸۳۵۶) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، قَالَ : حدَّثَنَا الأَحْوَصُ بْنُ حَکِیمٍ ، عَنْ ضَمْرَۃَ بْنِ حَبِیبٍ ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، قَالَ : قَالَ عَاصِمٌ الْبَجَلِیُّ : سَلُوا بِکَالیَّکُمْ ، یَعْنِی نَوْفًا ، عَنِ الآیَۃِ فِی شَعْبَانَ ، وَالْحُِدْثَانِ فِی رَمَضَانَ وَالتَّمْیِیزُ فِی شَوَّالَ ، وَالْحَسُّ ، یَعْنِی الْقَتْلَ وَالْمَعْمَعَۃُ فِی ذِی الْقَعْدَۃِ ، وَالْقَضَائُ فِی ذِی الْحِجَّۃِ۔
(٣٨٣٥٦) حضرت عاصم بجلی نے ارشاد فرمایا اپنے بکالی سے پوچھو ان کی مراد نوف بکالی تھی شعبان میں نشانی رمضان میں نوجوانوں اور شوال میں تمیز اور قتل اور لڑائی کا شوروغل ذوالقعدہ میں اور ذی الحجہ میں فیصلے کے بارے میں۔

38356

(۳۸۳۵۷) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، قَالَ : حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَیْجٍ ، عَنْ ہَارُونَ بْنِ أَبِی عَائِشَۃَ ، عَنْ عَدِیِّ بْنِ عَدِیٍّ ، عَنْ سَلْمَانَ بْنِ رَبِیعَۃَ ، عَنْ عُمَرَ ، قَالَ : إِنَّہَا سَتَکُونُ أُمَرَائُ وَعُمَّالٌ صُحْبَتُہُمْ فِتْنَۃٌ وَمُفَارَقَتُہُمْ کُفْرٌ ، قَالَ : قُلْتُ: اللَّہُ أَکْبَرُ ، أَعِدْ عَلَیَّ یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ ، فَرَّجْتَ عَنِّی ، فَأَعَادَ عَلَیْہِ ، قَالَ سَلْمَانُ بْنُ رَبِیعَۃَ : قَالَ اللَّہُ : {وَالْفِتْنَۃُ أَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ} وَالْفِتْنَۃُ أَحَبُّ إلَیَّ مِنَ الْقَتْلِ۔
(٣٨٣٥٧) حضرت سلمان بن ربیعہ حضرت عمر سے روایت کرتے ہیں کہ ارشاد فرمایا عنقریب امراء اور کام کرنے والے ہوں گے ان کی محبت فتنہ ہوگی اور ان سے جدائیگی کفر ہوگی راوی فرماتے ہیں میں نے عرض کیا اللہ اکبر دوبارہ سنائیں اے امیر المؤمنین اس سے میرا غم دور ہوا حضرت عمر نے دوبارہ ارشاد فرمایا حضرت سلمان بن ربیعہ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے فرمایا فتنہ زیادہ سخت ہے قتل سے اور فتنہ زیادہ پسندیدہ ہے مجھے قتل سے۔

38357

(۳۸۳۵۸) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، قَالَ : حدَّثَنَا ہِشَامُ بْنُ حَسَّانَ ، عَنْ مُحَمَّدٍ ، قَالَ : دَخَلَ أَبُو مَسْعُودٍ الأَنْصَارِیُّ عَلَی حُذَیْفَۃَ فِی مَرَضِہِ الَّذِی مَاتَ فِیہِ فَاعْتَنَقَہُ ، فَقَالَ : الْفِرَاقُ ، فَقَالَ : نَعَمْ حَبِیبٌ جَائَ عَلَی فَاقَۃٍ ، لاَ أَفْلَحَ مَنْ نَدِمَ ، أَلَیْسَ بَعْدُ مَا أَعْلَمُ مِنَ الْفِتَنِ۔
(٣٨٣٥٨) حضرت محمد فرماتے ہیں حضرت ابو مسعود انصاری حضرت حذیفہ کے پاس تشریف لائے ان کی مرض الوفات میں جبکہ وہ مرض ان کے ساتھ لازم ہوچکا تھا حضرت ابو مسعود انصاری نے پوچھا کیا فراق ہے تو حضرت حذیفہ نے فرمایا ہاں دوست آیا ہے فاقے پر میں ندامت سے فلاح نہ پاؤں گا کیا میرے بعد فتنے نہیں ہوں گے جو میں جانتا ہوں۔

38358

(۳۸۳۵۹) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنِ الأَجْلَحِ ، عَنْ قَیْسِ بْنِ أَبِی مُسْلِمٍ ، عَنْ رِبْعِیٍّ ، عَنْ حُذَیْفَۃَ ، قَالَ : ضَرَبَ لَنَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَمْثَالاً وَاحِدًا وَثَلاَثَۃً وَخَمْسَۃً وَسَبْعَۃً وَتِسْعَۃً وَأَحَدَ عَشَرَ ، وَفَسَّرَ لَنَا مِنْہَا وَاحِدًا وَسَکَتَ ، عَنْ سَائِرِہَا ، فَقَالَ : إِنَّ قَوْمًا کَانُوا أَہْلَ ضَعْفٍ وَمَسْکَنَۃٍ فَقَاتَلُوا قَوْمًا أَہْلَ حِیلَۃٍ وَعِدَائٍ ، فَظَہَرُوا عَلَیْہِمْ فَاسْتَعْمَلُوہُمْ وَسَلَّطُوہُمْ فَأَسْخَطُوا رَبَّہُمْ عَلَیْہِمْ۔ (احمد ۴۰۷)
(٣٨٣٥٩) حضرت حذیفہ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمارے لیے بہت سی مثالیں بیان فرمائیں ایک تین پانچ سات نو گیارہ اور ان میں سے ایک کی ہمارے سامنے وضاحت کی اور باقیوں سے خاموش رہے پس ارشاد فرمایا : بلاشبہ کچھ لوگ کمزو ری اور مسکنت والے تھے پس انھوں نے تدبیر اور دوڑ والے لوگوں سے لڑائی کی وہ ان پر غالب آگئے (یعنی تدبیر والے غالب آئے) اور ان کو اپنے کاموں میں لگا لیا اور ان پر مسلط ہوگئے پس انھوں نے اپنے رب کو اپنے اوپر ناراض کرلیا۔

38359

(۳۸۳۶۰) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، قَالَ : حَدَّثَنَا الْعَلاَئُ بْنُ عَبْدِ الْکَرِیمِ ، قَالَ : حَدَّثَنِی أَعْرَابِیٌّ لَنَا ، قَالَ : ہَاجَرْت إِلَی الْکُوفَۃِ فَأَخَذْت أُعْطِیَۃً لِی ، ثُمَّ بَدَا لِی أَنْ أَخْرُجَ ، فَقَالَ النَّاسُ : لاَ ہِجْرَۃَ لَکَ ، فَلَقِیت سُوَیْد بْنَ غَفَلَۃَ فَأَخْبَرْتہ بِذَلِکَ ، فَقَالَ : لَوَدِدْت أَنَّ لِی حَمُولَۃً ، وَمَا أَعِیشُ بِہِ وَأَنِّی فِی بَعْضِ ہَذِہِ النَّوَاحِی۔
(٣٨٣٦٠) حضرت علاء بن عبد الکریم فرماتے ہیں ہم سے ایک ہمارے دیہاتی نے بیان کیا اس نے بتایا کہ میں نے ہجرت کی کوفہ کی طرف اور میں نے اپنی بخششیں لیں پھر میرے سامنے یہ بات آئی کہ میں یہاں سے نکلوں لوگوں نے کہا تیرے لیے ہجرت نہیں ہے میں حضرت سوید بن غفلہ سے ملا میں نے ان کو اس بارے میں بتلایا پھر انھوں نے فرمایا میں یہ چاہتا ہوں کہ میرے پاس صرف وہ چیزیں ہوں جن سے زندگی گزار سکوں اور میں گردو نواح کے علاقوں میں سے کسی میں رہوں۔

38360

(۳۸۳۶۱) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، قَالَ : حدَّثَنَا ثَابِتُ بْنُ زَیْدٍ ، قَالَ أَنْبَأَنَا ہِلاَلُ بْنُ خَبَّابٍ أَبُو الْعَلاَئِ ، قَالَ : سَأَلْتُ سَعِیدَ بْنَ جُبَیْرٍ ، قُلْتُ : یَا أَبَا عَبْدِ اللہِ ، مَا عَلاَمَۃُ ہَلاَکِ النَّاسِ ، قَالَ : إِذَا ہَلَکَ عُلَمَاؤُہُمْ۔ (دارمی ۲۴۱)
(٣٨٣٦١) حضرت ھلال بن خباب ابو العلاء سے روایت ہے کہ میں نے حضرت سعید بن جبیر سے پوچھا میں نے کہا اے ابو عبداللہ لوگوں کی ہلاکت کی علامت کیا ہے ارشاد فرمایا جب ان کے علماء ہلاک ہوجائیں گے۔

38361

(۳۸۳۶۲) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، قَالَ : حدَّثَنَا زَائِدَۃُ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ وَثَّابٍ ، قَالَ : قَالَ حُذَیْفَۃُ : وَاللہِ لاَ یَأْتِیہِمْ أَمْرٌ یَضِجُّونَ مِنْہُ إِلاَّ أَرْدَفَہُمْ أَمْرٌ یُشْغِلُہُمْ عَنْہُ۔
(٣٨٣٦٢) حضرت حذیفہ سے روایت ہے ارشاد فرمایا اللہ کی قسم نہیں آئے گا ان پر کوئی حال جس سے چیخ و پکار کریں گے مگر اس کے پیچھے آئے گا ایک ایسا حال جو ان کو پہلے سے مشغول کردے گا۔

38362

(۳۸۳۶۳) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، قَالَ : حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ یَزِیدَ بْنِ جَابِرٍ ، عَنْ مَکْحُولٍ ، قَالَ : مَا بَیْنَ الْمَلْحَمَۃِ وَفَتْحِ الْقُسْطَنْطِینِیَّۃ وَخُرُوجِ الدَّجَّالِ إِلاَّ سَبْعَۃَ أَشْہُرٍ ، وَمَا ذَاکَ إِلاَّ کَہَیْئَۃِ الْعِقْدِ یَنْقَطِعُ فَیَتْبَعُ بَعْضُہُ بَعْضًا۔
(٣٨٣٦٣) حضرت مکحول سے روایت ہے ارشاد فرمایا نہیں ہے شدید گھمسان اور قسطنطنیہ کی فتح اور دجال کے نکلنے کے درمیان مگر سات ماہ اور نہیں ہوگا یہ مگر ہار کی طرح جب وہ ٹوٹ جائے تو موتی ایک دوسرے کے پیچھے آتے ہیں (یعنی یکے بعد دیگرے یہ واقعات ہوں گے) ۔

38363

(۳۸۳۶۴) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ یَزِیدَ بْنِ جَابِرٍ ، عَنْ مَکْحُولٍ ، أَنَّ مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ ، قَالَ : عُمْرَانُ بَیْتِ الْمَقْدِسِ خَرَابُ یَثْرِبَ ، وَخُرُوجُ الْمَلْحَمَۃِ فَتْحُ الْقُسْطَنْطِینِیَّۃ ، وَفَتْحُ الْقُسْطَنْطِینِیَّۃ خُرُوجُ الدَّجَّالِ ، ثُمَّ ضَرَبَ بِیَدِہِ عَلَی مَنْکِبِ رَجُلٍ ، وَقَالَ : وَاللہِ إِنَّ ذَلِکَ لَحَقٌّ۔ (ابوداؤد ۴۲۹۵۔ حاکم ۴۲۰)
(٣٨٣٦٤) حضرت معاذ بن جبل سے روایت ہے ارشاد فرمایا بیت المقدس کی آبادی یثرب کی بربادی ہے اور لڑائی کا وقوع قسطنطنیہ شہر کی فتح ہے اور قسطنطنیہ کی فتح دجال کا خروج ہے پھر آپ نے ایک آدمی کے کندھے پر ہاتھ مارا اور فرمایا اللہ کی قسم بلاشبہ یہ حق ہے۔

38364

(۳۸۳۶۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنِ الْہَزْہَازِ ، عَنْ یُثَیْعٍ ، قَالَ : إِذَا رَأَیْت الْکُوفَۃَ حُوِّطَ عَلَیْہَا حَائِطٌ فَاخْرُجْ مِنْہَا وَلَوْ حبوًا یَرِدُہَا کُمْتُ الْخَیْلِ وَدُہْمُ الْخَیْلِ حَتَّی یَتَنَازَعَ الرَّجُلاَنِ فِی الْمَرْأَۃِ یَقُولُ ہَذَا : لِی طَرَفُہَا ، وَیَقُولُ ہَذَا : لِی سَاقُہَا۔
(٣٨٣٦٥) حضرت ثییع بن معدان الکوفی فرماتے ہیں جب تو دیکھے کوفہ کے گرددیوارقائم کردی گئی پس وہاں سے نکل کھڑے ہونا اگرچہ گھسٹ کر ہی کیوں نہ ہو وہاں سرخ سیاہ گھوڑے اور سیاہ گھوڑے آئیں گے یہاں تک کہ دو آدمی ایک عورت کے بارے میں جھگڑا کریں گے یہ کہے گا میرے لیے اس کی یہ طرف ہے اور یہ دوسرا کہے گا میرے لیے اس کی پنڈلی ہے۔

38365

(۳۸۳۶۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ مُنْذِرٍ ، عَنِ ابْنِ الْحَنَفِیَّۃِ ، قَالَ : لَوْ أَنَّ عَلِیًّا أَدْرَکَ أَمْرَنَا ہَذَا کَانَ ہَذَا مَوْضِعَ رَحْلِہِ ، یَعْنِی الشِّعْبَ۔
(٣٨٣٦٦) حضرت محمد بن الحنفیہ نے ارشاد فرمایا اگر حضرت علی ہمارے اس امر کو پالیں تو یہ ان کے کوچ کا موقع ہوتا ان کی مراد تھی گھاٹی۔

38366

(۳۸۳۶۷) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنِ الْجُرَیْرِیِّ ، قَالَ : حدَّثَنَا أَبُو الْعَلاَئِ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ صُحَارٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لاَ تَقُومُ السَّاعَۃُ حَتَّی یُخْسَفَ بِقَبَائِلَ حَتَّی یُقَالُ لِلرَّجُلِ : مَنْ بَقِیَ مِنْ بَنِی فَُلاَنٍ ؟ قَالَ : فَعَرَفْت أَنَّ الْعَرَبَ تُدْعَی إِلَی قَبَائِلِہَا ، وَأَنَّ الْعَجَمَ تُدْعَی إِلَی قُرَاہَا۔ (احمد ۴۸۳۔ ابویعلی ۶۷۹۹)
(٣٨٣٦٧) حضرت صحار سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا قیامت قائم نہیں ہوگی یہاں تک کہ قبائل کو (زمین میں) دھنسا نہ دیا جائے یہاں تک کہ کسی آدمی سے پوچھا جائے گا فلاں کی اولاد میں سے کون باقی ہے راوی حضرت صحار فرماتے ہیں میں نے پہچان لیا کہ عرب اپنے قبائل کی طرف بلائے جائیں گے اور بلاشبہ عجم اپنی بستیوں کی طرف جائیں گے۔

38367

(۳۸۳۶۸) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَمْرٍو ، عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو ، قَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : إِنَّ فِی أُمَّتِی خَسْفًا وَمَسْخًا وَقَذْفًا۔ (ابن ماجہ ۴۰۶۲۔ حاکم ۴۴۵)
(٣٨٣٦٨) حضرت عبداللہ بن عمرو سے روایت ہے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا بلاشبہ میری امت میں زمین میں دھنسایا جانا اور چہروں کا بدلنا اور سنگ باری ہوگی۔

38368

(۳۸۳۶۹) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ، عَنِ الزُّہْرِیِّ، عَنْ عُرْوَۃَ، عَنْ زَیْنَبَ بِنْتِ أَبِی سَلَمَۃَ، عَنْ حَبِیبۃ، عَنْ أُمِّ حَبِیبَۃَ، عَنْ زَیْنَبَ بِنْتِ جَحْشٍ ، أَنَّہَا ، قَالَتْ : اسْتَیْقَظَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ نَوْمِہِ مُحْمَرًّا وَجْہُہُ وَہُوَ یَقُولُ : لاَ إلَہَ إِلاَّ اللَّہُ ، وَیْلٌ لِلْعَرَبِ مِنْ شَرٍّ قَدِ اقْتَرَبَ ، فُتِحَ الْیَوْمَ مِنْ رَدْمِ یَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ ، وَعَقَدَ بِیَدِہِ ، یَعْنِی عَشَرَۃً ، قَالَتْ زَیْنَبُ : قُلْتُ : یَا رَسُولَ اللہِ ، أَنُہْلِکُ وَفِینَا الصَّالِحُونَ ، قَالَ : نَعَمْ ، إِذَا ظَہَرَ الْخَبَثُ۔ (مسلم ۲۲۰۷۔ ابن ماجہ ۳۹۵۳)
(٣٨٣٦٩) حضرت زینب بنت جحش سے روایت ہے وہ فرماتی ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی نیند سے بیدار ہوئے اس حال میں کہ آپ کا چہرہ سرخ تھا اور یہ ارشاد فرما رہے تھے، لا الہ الا اللہ عرب کے لے قریب کے شرو برائی سے ہلاکت ہے آج یاجوج وماجوج کی دیوار سے کچھ کھول لیا گیا اور اپنے ہاتھ سے دس کا عدد بنایا جس کا طریقہ کار یہ ہوتا ہے کہ انگوٹھے کے ساتھ والی انگلی کا کنارے دائیں ہاتھ کے انگوٹھے کے موڑ کے درمیان میں رکھ کر حلقہ بنایا جائے حضرت زینب فرماتی ہیں میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا ہم اس حال میں ہلاک ہوسکتے ہیں جبکہ نیک لوگ ہمارے اندر موجود ہوں آپ نے ارشاد فرمایا ہاں جب خباثت ظاہر ہوجائے۔

38369

(۳۸۳۷۰) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ جَامِعٍ ، عَنْ مُنْذِرٍ ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ مُحَمَّدٍ ، عَنِ امْرَأَۃٍ ، عَنْ عَائِشَۃَ ، قَالَتْ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إِذَا ظَہَرَ السُّوئُ فِی الأَرْضِ أَنْزَلَ اللَّہُ بِأَہْلِ الأَرْضِ بَأْسَہُ ، قُلْتُ : یَا رَسُولَ اللہِ ، وَفِیہِمْ أَہْلُ طَاعَۃِ اللہِ ، قَالَ : نَعَمْ ، ثُمَّ یَصِیرُونَ إِلَی رَحْمَۃِ اللہِ۔ (احمد ۴۱۔ حاکم ۵۲۳)
(٣٨٣٧٠) حضرت عائشہ سے روایت ہے فرمایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جب زمین میں برائی ہوتی ہے تو اللہ زمین والوں پر اپنا عذاب اتارتے ہیں پھر فرماتی ہیں میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول اس حال میں بھی کہ ان میں اللہ کی اطاعت کرنے والے ہوں آپ نے ارشاد فرمایا : ہاں پھر وہ اللہ کی رحمت کی طرف چلے جائیں گے۔

38370

(۳۸۳۷۱) حَدَّثَنَا یُونُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، عَنْ لَیْثِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ یَزِیدَ ، عَنْ أَبِی سِنَانٍ ، عَنْ أَنَسٍ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : بَیْنَ یَدَیَ السَّاعَۃِ فِتَنٌ کَقِطَعِ اللَّیْلِ الْمُظْلِمِ ، یُصْبِحُ الرَّجُلُ مُؤْمِنًا وَیُمْسِی کَافِرًا ، وَیُصْبِحُ کَافِرًا وَیُمْسِی مُؤْمِنًا ، وَیَبِیعُ قَوْمٌ دِینَہُمْ بِعَرَضِ الدُّنْیَا۔
(٣٨٣٧١) حضرت انس نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کرتے ہیں ارشاد فرمایا قیامت سے پہلے فتنے ہوں گے اندھیری رات کے ٹکڑوں کی طرح صبح کو آدمی مومن ہوگا اور شام کو کافر ہوجائے گا اور صبح کو کافر ہوگا اور شام کے وقت مسلمان ہوجائے گا کچھ لوگ اپنے دین کو دنیوی سامان کے بدلے میں بیچیں گے۔

38371

(۳۸۳۷۲) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ ، عَنْ بَیَانٍ ، عَنْ قَیْسٍ ، أَنَّ رَسُولَ اللہِ رَفَعَ رَأْسَہُ إِلَی السَّمَائِ ، ثُمَّ قَالَ : سُبْحَانَ اللہِ ، تُرْسَلُ عَلَیْہِمُ الْفِتَنُ إرْسَالَ الْقَطْرِ۔ (طبرانی ۲۲۷۲)
(٣٨٣٧٢) حضرت قیس سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آسمان کی طرف اپنا سر اٹھایا پھر فرمایا سبحان اللہ ان پر فتنے بیجے ن گئے ہیں بارش کی بوندوں کے بھیجے جانے کی طرح۔

38372

(۳۸۳۷۳) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ مِسْعَرٍ ، عَنْ أَبِی حَصِینٍ ، عَنْ أَبِی الضُّحَی ، قَالَ : قَالَ رَجُلٌ وَہُوَ عِنْدَ عُمَرَ : اللَّہُمَّ إنِّی أَعُوذُ بِکَ مِنَ الْفِتْنَۃِ ، أَوِ الْفِتَنِ ، فَقَالَ عُمَرُ : اللَّہُمَّ إنِّی أَعُوذُ بِکَ مِنَ الضَّفَاطَۃِ ، أَتُحِبُّ أَنْ لاَ یَرْزُقَک اللَّہُ مَالاً وَوَلَدًا ، أَیُّکُمُ اسْتَعَاذَ مِنَ الْفِتَنِ فَلْیَسْتَعِذْ مِنْ مُضِلاَّتِہَا۔
(٣٨٣٧٣) حضرت ابو الضحی سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے حضرت عمر کے پاس کہا اے اللہ میں آپ کی پناہ مانگتا ہوں ضعف رائے اور جہالت سے (اس آدمی سے مخاطب ہو کر فرمایا) کیا تو پسند کرتا ہے کہ اللہ تجھے مال اور اولاد نہ دے تم میں سے کوئی فتنوں سے پناہ مانگے تو وہ ان فتنوں کی گمراہوں سے پناہ مانگے۔

38373

(۳۸۳۷۴) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِیزِ بْنِ رُفَیْعٍ ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ ابْنِ الْقِبْطِیَّۃِ ، قَالَ : دَخَلَ الْحَارِثُ بْنُ أَبِی رَبِیعَۃَ ، وَعَبْدُ اللہِ بْنُ صَفْوَانَ عَلَی أُمِّ سَلَمَۃَ وَأَنَا مَعَہَا ، فَسَأَلاَہَا عَنِ الْجَیْشِ الَّذِی یُخْسَفُ بِہِ ، وَذَلِکَ فِی زَمَانِ ابْنِ الزُّبَیْرِ ، فَقَالَتْ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : یَعُوذُ عَائِذٌ بِالْبَیْتِ فَیُبْعَثُ إلَیْہِ بَعْثٌ فَإِذَا کَانَ بِبَیْدَائَ مِنَ الأَرْضِ یُخْسَفُ بِہِمْ ، فَقُلْنَا : یَا رَسُولَ اللہِ ، کَیْفَ بِمَنْ کَانَ کَارِہًا ، قَالَ : یُخْسَفُ بِہِ مَعَہُمْ، وَلَکِنَّہُ یُبْعَثُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ عَلَی نِیَّتِہِ ، قَالَ أَبُو جَعْفَرٍ: ہِیَ بَیْدَائُ الْمَدِینَۃِ۔ (مسلم ۲۲۰۸۔ ابوداؤد ۴۲۸۸)
(٣٨٣٧٤) حضرت عبید اللہ بن قبطیہ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا حارث بن ابی ربیعہ اور عبداللہ بن صفوان حضرت ام سلمہ کے پاس گئے اور میں ان کے ساتھ تھا ان دونوں نے ان سے پوچھا اس لشکر کے بارے میں جسے دھنسا دیا گیا اور یہ واقعہ حضرت عبداللہ بن زبیر کے زمانے میں پیش آیا تو حضرت ام سلمہ نے فرمایا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا ایک پناہ پکڑنے والا بیت اللہ میں پناہ پکڑے گا اس کی طرف ایک لشکر بھیجا جائے گا جب وہ ایک میدان میں ہوں گے تو ان کو دھنسا دیا جائے گا ہم نے عرض کیا اے اللہ کے رسول اس آدمی کی کیا حالت ہوگی جس پر زبردستی کی گئی ہو ارشاد فرمایا اسے بھی ان کے ساتھ دھنسا دیا جائے گا لیکن قیامت والے دن اسے اس کی نیت پر اٹھایا جائے گا ابو جعفر راوی فرماتے ہیں یہ مدینہ کا میدان تھا۔

38374

(۳۸۳۷۵) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا سُلَیْمَانُ التَّیْمِیُّ ، عَنِ الْحَسَنِ ، عَنْ أَبِی مُوسَی ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إِذَا تَوَاجَہَ الْمُسْلِمَانِ بِسَیْفَیْہِمَا فَقَتَلَ أَحَدُہُمَا صَاحِبَہُ فَہُمَا فِی النَّارِ ، قَالُوا: یَا رَسُولَ اللہِ ، ہَذَا الْقَاتِلُ ، فَمَا بَالُ الْمَقْتُولِ ، قَالَ : إِنَّہُ أَرَادَ قَتْلَ صَاحِبِہِ۔ (نسائی ۳۵۸۴۔ احمد ۴۱۰)
(٣٨٣٧٥) حضرت ابو موسیٰ اشعری سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا جب دو مسلمان ایک دوسرے کی طرف متوجہ ہوں اپنی اپنی تلوار کے ساتھ پس ان میں سے ایک اپنے ساتھی کو قتل کردے تو وہ دونوں جہنم میں جائیں گے، صحابہ کرام (رض) نے عرض کیا اے اللہ کے رسول یہ تو قاتل ہے مقتول کا کیا قصور ہے آپ نے ارشاد فرمایا : بلاشبہ یہ اپنے ساتھی کے قتل کا ارادہ رکھتا تھا۔

38375

(۳۸۳۷۶) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا رَزِینٌ الْجُہَنِیُّ ، قَالَ : حدَّثَنَا أَبُو الرُّقاد ، قَالَ : خَرَجْت مَعَ مَوْلاَیَ وَأَنَا غَُلاَمٌ ، فَدُفِعْتُ إِلَی حُذَیْفَۃَ وَہُوَ یَقُولُ : إِنْ کَانَ الرَّجُلُ لَیَتَکَلَّمَ بِالْکَلِمَۃِ عَلَی عَہْدِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَیَصِیرُ مُنَافِقًا ، وَإِنِّی لأَسْمَعُہَا مِنْ أَحَدِکُمْ فِی الْمَقْعَدِ الْوَاحِدِ أَرْبَعَ مَرَّاتٍ ، لَتَأْمُرُنَّ بِالْمَعْرُوفِ وَلْتَنْہَوُنَّ عَنِ الْمُنْکَرِ ، وَلَتُحَاضُّنَّ عَلَی الْخَیْرِ ، أَوْ لَیُسْحِتَنَّکُمُ اللَّہُ بِعَذَابٍ جَمِیعًا ، أَوْ لَیُؤَمِّرَنَّ عَلَیْکُمْ شِرَارَکُمْ ، ثُمَّ یَدْعُو خِیَارُکُمْ فَلاَ یُسْتَجَابُ لَہُمْ۔ (احمد ۳۹۰)
(٣٨٣٧٦) حضرت ابو الرقاد سے روایت ہے انھوں نے فرمایا میں غلام ہونے کی حالت میں اپنے آقا کے ساتھ نکلا مجھے حضرت حذیفہ کے پاس لایا گیا اس حال میں کہ وہ فرما رہے تھے اگر کوئی آدمی وہ کلام نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں کرتا تو منافق ہوجاتا اور بلاشبہ وہ کلام میں نے تم میں ہر ایک سے ایک ایک مجلس میں چار مرتبہ سنا ہے (وہ کلام یہ ہے) ضرور بالضرور تم بھلائی کا حکم کرو اور ضرور بالضرور تم برائی سے روکو اور ضرور تم بھلائی پر رہو وگرنہ اللہ تم سب کو عذاب کے ذریعے برباد کردے گا یا تمہارے شریروں کو تم پر حاکم بنا دے گا پھر تمہارے اچھے لوگ دعا کریں گے لیکن ان کی دعا قبول نہیں کی جائے گی۔

38376

(۳۸۳۷۷) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللہِ الأَسَدِیُّ ، عَنْ إسْرَائِیلَ ، عَنْ سِمَاکٍ ، عَنْ ثَرْوَانَ بْنِ مِلْحَانَ ، قَالَ : کُنَّا جُلُوسًا فِی الْمَسْجِدِ فَمَرَّ عَلَیْنَا عَمَّارُ بْنُ یَاسِرٍ فَقُلْنَا لَہُ: حَدِّثْنَا حَدِیثَ رَسُولِ اللہِ فِی الْفِتْنَۃِ، فَقَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : سَیَکُونُ بَعْدِی أُمَرَائُ یَقْتَتِلُونَ عَلَی الْمُلْک ، یَقْتُلُ بَعْضُہُمْ عَلَیْہِ بَعْضًا ، فَقُلْنَا لَہُ : لَوْ حَدَّثَنَا بِہِ غَیْرُک کَذَّبْنَاہُ ، قَالَ ، أَمَا إِنَّہُ سَیَکُونُ۔ (احمد ۲۶۳۔ ابویعلی ۱۶۴۶)
(٣٨٣٧٧) حضرت ثروان بن ملحان سے روایت ہے انھوں نے فرمایا ہم مسجد میں بیٹھے تھے حضرت عمار بن یاسر ہمارے پاس سے گزرے ہم نے ان سے عرض کیا ہم سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حدیث فتنے کے بارے میں بیان کردیں پس انھوں نے فرمایا میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے ہوئے سنا عنقریب میرے بعد امراء ہوں گے جو ملک پر (یعنی حصول ملک کے لیے) لڑائی کریں گے اس پر کچھ کچھ کو قتل کریں گے ہم نے ان سے عرض کیا اگر آپ کے علاوہ کوئی اور ہم سے اس بارے میں بیان کرتا تو ہم اس کی تکذیب کرتے انھوں نے ارشاد فرمایا باقی یہ تو بلاشبہ ہوگا۔

38377

(۳۸۳۷۸) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا عِمْرَانُ الْقَطَّانُ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ أَبِی الْخَلِیلِ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ الْحَارِثِ ، عَنْ أُمِّ سَلَمَۃَ ، قَالَتْ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : یُبَایَعُ لِرَجُلٍ بَیْنَ الرُّکْنِ وَالْمَقَامِ عِدَّۃ أَہْل بَدْرٍ، فَتَأْتِیہِ عَصَائِبُ الْعِرَاقِ وَأَبْدَالِ الشَّامِ ، فَیَغْزُوہُمْ جَیْشٌ مِنْ أَہْلِ الشَّامِ حَتَّی إِذَا کَانُوا بِالْبَیْدَائِ یُخْسَفُ بِہِمْ ، ثُمَّ یَغْزُوہُمْ رَجُلٌ مِنْ قُرَیْشٍ أَخْوَالُہُ کَلْبٌ فَیَلْتَقُونَ فَیَہْزِمُہُمَ اللَّہُ ، فَکَانَ یُقَالُ : الْخَائِبُ مَنْ خَابَ مِنْ غَنِیمَۃِ کَلْبٍ۔ (ابوداؤد ۴۲۸۷۔ حاکم ۴۳۱)
(٣٨٣٧٨) حضرت ام سلمہ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ایک آدمی کی رکن یمانی اور مقام ابراہیم کے درمیان اصحاب بدر کی تعداد کے برابر بیعت کی جائے گی اس کے پاس عراقی زاہدوں کے گروہ اور شام کے ابدال آئیں گے ان سے لڑائی کرے گا شامیوں میں سے ایک لشکر یہاں تک کہ جب وہ ایک میدان میں ہوں گے تو ان کو زمین میں دھنسا دیا جائے گا پھر ان سے قریش میں سے ایک آدمی جس کے ماموں بنوکلب میں سے ہوں گے لڑائی کرے گا ان کی آپس میں مڈ بھیڑ ہوگی اللہ ان کو شکست دے دے گا پس کہا جاتا تھا نامراد وہ ہے جو کلب کی غنیمت کے پانے سے نامراد رہا۔

38378

(۳۸۳۷۹) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ سَلَمَۃَ بْنِ کُہَیْلٍ ، عَنْ أَبِی إدْرِیسَ الْمُرْہبیِّ ، عَنْ مُسْلِمِ بْنِ صَفْوَانَ ، عَنْ صَفِیَّۃَ ، قَالَتْ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لاَ یَنْتَہِی نَاسٌ عَنْ غَزْوِ ہَذَا الْبَیْتِ حَتَّی یَغْزُوَ جَیْشٌ ، حَتَّی إِذَا کَانُوا بِالْبَیْدَائِ ، أَوْ بِبَیْدَائَ مِنَ الأَرْضِ ، خُسِفَ بِأَوَّلِہِمْ وَآخِرِہِمْ وَلَمْ یَنْجُ أَوْسَطُہُمْ ، قُلْتُ : فَإِنْ کَانَ فِیہِمْ مَنْ یَکْرَہُ ، قَالَ : یَبْعَثُہُمَ اللَّہُ عَلَی مَا فِی أَنْفُسِہِمْ۔ (ترمذی ۲۱۸۴۔ احمد ۳۳۶)
(٣٨٣٧٩) حضرت صفیہ سے روایت ہے فرماتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا لوگ اس گھر یعنی بیت اللہ پر حملے سے نہیں رکیں گے یہاں تک کہ ایک لشکر لڑائی کے لیے نکلے گا جب وہ زمین میں ایک میدان میں ہوں گے ان کے اگلوں اور پچھلوں کو دھنسا دیا جائے گا اور ان کے درمیان والے بھی نجات نہ پائیں گے حضرت صفیہ فرماتی ہیں میں نے عرض کیا اگر ان میں ایسا ایسا آدمی ہو جس پر زبردستی کی گئی ہو آپ نے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ ان کو اٹھائیں گے اس (نیت وغیرہ پر) پر جو ان کے جی میں ہوگا۔

38379

(۳۸۳۸۰) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللہِ الأَسَدِیُّ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ أَوْسٍ ، عَنْ بِلاَلٍ الْعَبْسِیِّ ، عَنْ مَیْمُونَۃَ ، قَالَتْ : قَالَ لَنَا نَبِیُّ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ذَاتَ یَوْمٍ : کَیْفَ أَنْتُمْ إِذَا مَرِجَ الدِّینُ وَظَہَرَتِ الرَّغْبَۃُ وَاخْتَلَفَتِ الإِخْوَانُ وَحُرِّقَ الْبَیْتُ الْعَتِیقُ۔ (احمد ۳۳۳۔ طبرانی ۶۷)
(٣٨٣٨٠) حضرت میمونہ سے روایت ہے فرمایا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہم سے ایک دن ارشاد فرمایا تمہاری کیا حالت ہوگی جب دین محفوظ نہیں رہے گا اور (دنیا میں) رغبت ظاہر ہوجائے گی اور بھائیوں کا اختلاف ہوجائے گا اور پرانے گھر (یعنی بیت اللہ) کو جلایا جائے گا۔

38380

(۳۸۳۸۱) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ زِیَادِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ سَمِعْتُ أَبَا ہُرَیْرَۃَ یَقُولُ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : یُخَرِّبُ الْکَعْبَۃَ ذُو السَّوِیقَتَیْنِ مِنَ الْحَبَشَۃِ۔
(٣٨٣٨١) حضرت ابوہریرہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کرتے ہیں (فرمایا کہ) کعبہ کو منہدم کرے گا چھوٹی پنڈلیوں والا آدمی جو حبشہ سے ہوگا۔

38381

(۳۸۳۸۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ سَلَمَۃَ بْنِ کُہَیْلٍ ، عَنْ أَبِی صَادِقٍ ، عَنْ حَنَشٍ الْکِنَانِیِّ ، عَنْ عُلَیمٍ الْکِنْدِیِّ عن سلمان ، قَالَ : لَیُخَرَّبَنَّ ہَذَا الْبَیْتُ عَلَی یَدِ رَجُلٍ مِنْ آلِ الزُّبَیْرِ۔
(٣٨٣٨٢) حضرت سلمان سے روایت ہے فرمایا یقیناً یہ گھر منہدم ہوگا حضرت زبیر کی آل میں سے کسی آدمی کے ہاتھ سے۔

38382

(۳۸۳۸۳) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنِ ابْن أَبِی نَجِیحٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، قَالَ : سَمِعَ ابْنَ عَمْرٍو وہو یَقُولُ : کَأَنَّی بِہِ أُصَیْلِع أُفَیْدِع ، قَائِمٌ عَلَیْہَا یَہْدِمُہَا بِمِسْحَاتِہِ ، فَلَمَّا ہَدَمَہَا ابْنُ الزُّبَیْرِ جَعَلْت أَنْظُرُ إِلَی صِفَۃِ ابْنِ عَمْرٍو فَلَمْ أَرَہَا۔
(٣٨٣٨٣) حضرت مجاہد سے روایت ہے کہ انھوں نے حضرت عبداللہ بن عمر کو فرماتے ہوئے سنا کہ گویا میں ایک گنجے اور ٹیڑھے اعضاء والے آدمی کو بیت اللہ کے پاس دیکھتا ہوں جو اس پر کھڑا اسے اپنے رندے سے گرا رہا ہے۔ حضرت مجاہد فرماتے ہیں جب حضرت عبداللہ بن زبیر نے بیت اللہ کو گرایا تو میں نے غور کیا حضرت ابن عمر کی بیان کردہ حالت میں لیکن میں نے ایسی حالت نہ پائی۔

38383

(۳۸۳۸۴) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ شَابُورَ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، قَالَ : لَمَّا أَجْمَعَ ابْنُ الزُّبَیْرِ عَلَی ہَدْمِہَا خَرَجْنَا إِلَی مِنًی ثَلاَثًا نَنْتَظِرُ الْعَذَابَ۔
(٣٨٣٨٤) حضرت مجاہد سے روایت ہے جب حضرت ابن زبیر نے بیت اللہ کو گرانے کا عزم کرلیا تو ہم تین دن تک منی کی طرف نکلے عذاب کا کا انتظار کرتے ہوئے۔

38384

(۳۸۳۸۵) حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ الأَزْرَقُ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنْ حَفْصَۃَ ، عَنْ أَبِی الْعَالِیَۃِ ، عَنْ عَلِیٍّ ، قَالَ : کَأَنِّی أَنْظُرُ إِلَی رَجُلٍ مِنَ الْحَبَشِ أَصْلَعَ أَصْمَعَ حَمْشَ السَّاقَیْنِ جَالِسٌٍ عَلَیْہَا وَہِیَ تُہْدَمُ۔
(٣٨٣٨٥) حضرت علی سے روایت ہے ارشاد فرمایا کہ گویا میں حبشہ کے آدمی کی طرف دیکھ رہا ہوں جو گنجا اور چھوٹے کانوں والا باریک پنڈلیوں والا ہوگا کعبۃ اللہ کے پاس بیٹھا ہوگا اس حال میں کہ کعبہ کو منہدم کیا جارہا ہوگا۔

38385

(۳۸۳۸۶) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنِ ابْنِ أَبِی نَجِیحٍ ، عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ مِینَائَ ، قَالَ : سَمِعْتُ ابْنَ عَمْرٍو یَقُولُ : إِذَا رَأَیْتُمْ قُرَیْشًا قَدْ ہَدَمُوا الْبَیْتَ ، ثُمَّ بَنَوْہُ فَزَوَّقُوہُ فَإِنِ اسْتَطَعْت أَنْ تَمُوتَ فَمُتْ !۔
(٣٨٣٨٦) حضرت سلمان بن میناء سے روایت ہے انھوں نے فرمایا میں نے حضرت ابن عمرو کو فرماتے ہوئے سنا جب تم دیکھو قریش بیت اللہ کو منہدم کریں پھر اسے بنائیں اور اس کی تزئین و آرائش کریں تو اگر تم سے ہو سکے کہ تم مرجاؤ تو مرجانا۔

38386

(۳۸۳۸۷) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ یَعْلَی بْنِ عَطَائٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : کُنْتُ آخِذًا بِلِجَامِ دَابَّۃِ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو ، فَقَالَ : کَیْفَ أَنْتُمْ إِذَا ہَدَمْتُمَ الْبَیْتَ ، فَلَمْ تَدَعُوا حَجَرًا عَلَی حَجَرٍ ، قَالُوا : وَنَحْنُ عَلَی الإِسْلاَم ؟ قَالَ : وَأَنْتُمْ عَلَی الإِسْلاَم ، قلت : ثُمَّ مَاذَا ؟ قَالَ : ثُمَّ یُبْنَی أَحْسَنَ مَا کَانَ ، فَإِذَا رَأَیْت مَکَّۃَ قَدْ بُعجَتْ کَظَائِمَ ، وَرَأَیْت الْبِنَائَ یَعْلُو رُؤُوسَ الْجِبَالِ فَاعْلَمْ ، أَنَّ الأَمْرَ قَدْ أَظَلَّک۔
(٣٨٣٨٧) حضرت عطائ سے روایت ہے فرمایا کہ میں حضرت عبداللہ بن عمرو کی سواری کی لگام پکڑے ہوئے تھا انھوں نے ارشاد فرمایا کیا حال ہوگا تمہارا جب تم اس گھر (یعنی بیت اللہ) کو گرا دو گے پس تم کسی پتھر کو پتھر پر نہ چھوڑو گے ان کے ساتھیوں نے عرض کیا اور کہا ہم اسلام پر ہوں گے، انھوں نے ارشاد فرمایا تم اسلام پر ہو گے میں نے عرض کیا پھر کیا ہوگا انھوں نے ارشاد فرمایا پھر پہلے سے اچھا بنایا جائے گا جب تو دیکھے مکہ میں کنوئے کھودے جائیں اور تو دیکھے عمارتیں پہاڑوں کی چوٹیوں سے بلند ہوجائیں تو جان لینا امر قریب آگیا۔

38387

(۳۸۳۸۸) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ حُمَیْدٍ ، عَنْ بَکْرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ الْمُزَنِیّ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو ، قَالَ : تَمَتَّعُوا مِنْ ہَذَا الْبَیْتِ قَبْلَ أَنْ یُرْفَعَ ، فَإِنَّہُ سَیُرْفَعُ وَیُہْدَمُ مَرَّتَیْنِ وَیُرْفَعُ فِی الثَّالِثَۃِ۔
(٣٨٣٨٨) حضرت عبداللہ بن عمرو سے روایت ہے ارشاد فرمایا اس گھر سے اس کے بلند کرنے سے پہلے نفع اٹھا لو اسے عنقریب بلند کیا جائے اور دو مرتبہ گرا دیا جائے گا اور تیسری مرتبہ بلند کردیا جائے گا۔

38388

(۳۸۳۸۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ أَبِی حَصِینٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ بِشْرٍ، قَالَ: جَائَ رَجُلٌ إِلَی عَبْدِاللہِ، فَقَالَ : مَتَی أَضِلُّ ، فَقَالَ : إِذَا کَانَ عَلَیْک أُمَرَائُ إِنْ أَطَعْتَہُمْ أَضَلُّوک ، وَإِنَّ عَصَیْتَہُمْ قَتَلُوک۔ (حاکم ۴۶۲)
(٣٨٣٨٩) حضرت عبدالرحمن بن بشر سے روایت ہے انھوں نے فرمایا ایک آدمی حضرت عبداللہ کے پاس آیا اور پوچھا میں کب گمراہ ہوں گا حضرت عبداللہ نے ارشاد فرمایا جب تم پر ایسے امراء ہوں کہ اگر تم ان کی اطاعت کرو تو تمہیں گمراہ کردیں گے اور اگر تم ان کی نافرمانی کرو گے تو وہ تمہیں قتل کردیں گے۔

38389

(۳۸۳۹۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ کَامِلٍ أَبِی الْعَلاَئِ ، عَنْ أَبِی صَالِحٍ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: تَعَوَّذُوا بِاللہِ مِنْ رَأْسِ السَّبْعِینَ وَمِنْ إمْرَۃِ الصِّبْیَانِ۔ (احمد ۳۲۶۔ بزار ۳۳۵۸)
(٣٨٣٩٠) حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگو ستر (ہجری) کی ابتداء سے اور بچوں کی امارت سے۔

38390

(۳۸۳۹۱) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ سِمَاکٍ ، عَنْ أَبِی الرَّبِیعِ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : وَیْلٌ لِلْعَرَبِ مِنْ شَرٍّ قَدِ اقْتَرَبَ : إمَارَۃُ الصِّبْیَانِ إِنْ أَطَاعُوہُمْ أَدْخَلُوہُمُ النَّارَ ، وَإِنْ عَصَوْہُمْ ضَرَبُوا أَعْنَاقَہُمْ۔
(٣٨٣٩١) حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے ارشاد فرمایا ہلاکت ہے عرب کے لیے اس شر سے جو قریب ہے (اور وہ ہے) بچوں کی امارت اگر لوگ ان کی اطاعت کریں گے تو وہ ان کو جہنم میں داخل کردیں گے اور اگر وہ ان کی نافرمانی کریں گے تو وہ ان کی گردنیں مار دیں گے۔

38391

(۳۸۳۹۲) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنِ الْحَکَمِ ، قَالَ : سَمِعْتُ مَیْمُونَ بْنَ أَبِی شبیب یُحَدِّثُ ، عَنْ عُبَادَۃَ بْنِ الصَّامِتِ ، قَالَ : أَتَمَنَّی لِحَبِیبِی أَنْ یَقِلَّ مَالُہُ ، أَوْ یُعَجَّلَ مَوْتُہُ ، فَقَالُوا : مَا رَأَیْنَا مُتَمَنِّیًا مُحِبًّا لِحَبِیبِہِ ، فَقَالَ : أَخْشَی أَنْ یُدْرِکَکُمْ أُمَرَائُ ، إِنْ أَطَعْتُمُوہُمْ أَدْخَلُوکُمُ النَّارَ ، وَإِنْ عَصَیْتُمُوہُمْ قَتَلُوکُمْ ، فَقَالَ رَجُلٌ : أَخْبِرْنَا مَنْ ہُمْ حَتَّی نَفْقَأَ أَعْیُنَہُمْ ، قَالَ شُعْبَۃُ : أَوْ نَحْثُوَ فِی وُجُوہِہِمُ التُّرَابَ ، فَقَالَ : عَسَی أَنْ تُدْرِکُوہُمْ فَیَکُونُوا ہُمُ الَّذِینَ یَفْقَئُونَ عَیْنَک ، وَیَحْثُونَ فِی وَجْہِکَ التُّرَابَ۔
(٣٨٣٩٢) حضرت عبادہ بن صامت سے روایت ہے ارشاد فرمایا میں اپنے دوست کے لیے تمنا کرتا ہوں کہ اس کا مال کم ہو یا اسے جلدی موت آجائے ان کے اصحاب نے کہا ہم نے نہیں دیکھا کہ اپنے محبوب کے لیے کوئی محب ایسی تمنا کرنے والا ہو تو انھوں نے ارشاد فرمایا مجھے یہ خوف ہے کہ تمہیں ایسے امراء پالیں کہ اگر تم ان کی اطاعت کرو تو وہ تمہیں جہنم میں داخل کردیں اور اگر تم ان کی نافرمانی کرو تو وہ تمہیں قتل کردیں ایک صاحب نے عرض کیا ہمیں بتلائیں وہ کون ہیں ہم ان کی آنیں ے پھوڑ دیں گے شعبہ فرماتے ہیں (یہ الفاظ ہے) یا ہم ان کے چہروں پر مٹی ڈال دیں گے حضرت عبادہ بن صامت نے ارشاد فرمایا قریب ہے کہ تم ان کے زمانے کو پاؤ پس وہی تیری آنکھ پھوڑیں گے اور تیرے چہرے میں مٹی ڈالیں گے۔

38392

(۳۸۳۹۳) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا ہِشَامٌ ، عَنْ مُحَمَّدٍ ، قَالَ : قَالَ حُذَیْفَۃُ : مَا أَحَدٌ تُدْرِکُہُ الْفِتْنَۃُ إِلاَّ وَأَنَا أَخَافُہَا عَلَیْہِ إِلاَّ مُحَمَّدَ بْنَ مَسْلَمَۃَ ، فَإِنِّی سَمِعْت رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ لَہُ : لاَ تَضُرُّک الْفِتْنَۃُ۔ (ابوداؤد ۴۶۳۰۔ حاکم ۴۳۳)
(٣٨٣٩٣) حضرت حذیفہ سے روایت ہے کوئی ایک بھی ایسا نہیں ہے کہ اسے فتنہ پہنچے مگر یہ کہ مجھے اس کے بارے میں اندیشہ ہے سوائے محمد بن مسلمہ کے کیونکہ ان کے بارے میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ تجھے فتنہ نقصان نہیں دے گا۔

38393

(۳۸۳۹۴) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ زَیْدٍ ، أَنَّ عَلِیًّا أَرْسَلَ إِلَی مُحَمَّدِ بْنِ مَسْلَمَۃَ أَنْ یَأْتِیَہُ ، فَأَرْسَلَ إلَیْہِ ، وَقَالَ : إِنْ ہُوَ لَمْ یَأْتِنِی فَاحْمِلُوہُ ، فَأَتَوْہُ فَأَبَی أَنْ یَأْتِیَہُ ، فَقَالُوا : إنَّا قَدْ أُمِرْنَا إِنْ لَمْ تَأْتِہِ أَنْ نَحْمِلَک حَتَّی نَأْتِیَہُ بِکَ ، قَالَ : ارْجِعُوا إلَیْہِ فَقُولُوا لَہُ : إِنَّ ابْنَ عَمِّکَ وَخَلِیلِی عَہِدَ إلَیَّ ، أَنَّہُ سَتَکُونُ فِتْنَۃٌ وَفُرْقَۃٌ وَاخْتِلاَفٌ ، فَإِذَا کَانَ ذَلِکَ فَاجْلِسْ فِی بَیْتِکَ وَاکْسِرْ سَیْفَک حَتَّی تَأْتِیَک مَنِیَّۃٌ قَاضِیَۃٌ ، أَوْ یَدٌ خَاطِئَۃٌ ، فَاتَّقِ اللَّہَ یَا عَلِیُّ وَلاَ تَکُنْ تِلْکَ الْیَدَ الْخَاطِئَۃَ ، فَأَتَوْہُ فَأَخْبَرُوہُ ، فَقَالَ : دَعُوہُ۔
(٣٨٣٩٤) حضرت علی بن زید سے روایت ہے کہ حضرت علی نے حضرت محمد بن مسلمہ کی طرف پیغام بھیجا کہ وہ ان کے پاس آئیں اور ان کی طرف پیغام بھیجا اور کہا اگر وہ میرے پاس نہ آئیں تو ان کو اٹھا کرلے آنا حضرت علی کے بھیجے ہوئے حضرت محمد بن مسلمہ کے پاس آئے انھوں نے ان کے پاس جانے سے انکار کردیا انھوں نے کہا ہمیں حکم دیا گیا ہے اگر آپ نہ جائیں تو ہم آپ کو اٹھا کر ان کے پاس لے جائیں حضرت محمد بن مسلمہ نے ارشاد فرمایا ان کی طرف لوٹ جاؤ اور ان سے کہو آپ کے چچا کے بیٹے میرے خلیل (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے وصیت کی کہ عنقریب فتنے اور تفرقے اور اختلاف ہوں گے جب یہ ہوجائے تو تو اپنے گھر میں بیٹھ جانا اور اپنی تلوار توڑ دینا یہاں تک کہ تیرے پاس فیصلہ کرنے والی موت یا غلیا کرنے والا ہاتھ آجائے اے علی اللہ سے ڈر اور ایسا نہ ہو کہ یہ غلطی کرنے والا ہاتھ ہو (حضرت علی کے بھیجے ہوئے) وہ ان کے پاس آئے اور حضرت علی کو بتلایا انھوں نے فرمایا اسے چھوڑ دو ۔

38394

(۳۸۳۹۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ أَبِی عَاصِمٍ ، عَنْ أَشْیَاخٍ ، قَالُوا : قَالَ حُذَیْفَۃُ : تَکُونُ فِتْنَۃٌ ، ثُمَّ تَکُونُ بَعْدَہَا تَوْبَۃٌ وَجَمَاعَۃٌ ، ثُمَّ تَکُونُ فِتْنَۃٌ لاَ تَکُونُ بَعْدَہَا تَوْبَۃٌ وَلاَ جَمَاعَۃٌ۔
(٣٨٣٩٥) حضرت حذیفہ سے روایت ہے کہ ایک فتنہ وقوع پذیر ہوگا پھر اس کے بعد توبہ ہوگی اور جماعت ہوگی پھر فتنہ وقوع پذیر ہوگا اس کے بعد نہ توبہ ہوگی اور نہ جماعت ہوگی (یعنی پہلے فتنے کے بعد توبہ ہوگی اور اجتماعیت قائم ہوجائے گی دوسرے کے بعد دونوں میں سے کچھ نہ ہوگا)

38395

(۳۸۳۹۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سَوَّارِ بْنِ مَیْمُونٍ ، قَالَ : حدَّثَنِی شَیْخٌ لَنَا مِنْ عَبْدِ الْقَیْسِ یُقَالُ لَہُ بَشِیرُ بْنُ غَوْثٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ عَلِیًّا یَقُولُ : إِذَا کَانَتْ سَنَۃَ خَمْسٍ وَأَرْبَعِینَ وَمِئَۃٍ مَنَعَ الْبَحْرُ جَانِبَہُ ، وَإِذَا کَانَتْ سَنَۃَ خَمْسِینَ وَمِئَۃٍ مَنَعَ الْبَرُّ جَانِبَہُ ، وَإِذَا کَانَتْ سَنَۃَ سِتِّینَ وَمِئَۃٍ ظَہَرَ الْخَسْفُ وَالْمَسْخُ وَالرَّجْفَۃُ۔
(٣٨٣٩٦) حضرت بشیر بن غوث سے روایت ہے انھوں نے فرمایا میں نے حضرت علی کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا جب ایک سو پینتالیسواں سال ہوگا تو سمندر اپنی جانب کو روک لے گا اور جب ایک سو پچاسواں سال ہوگا تو خشکی اپنی جانب کو روک لے گی اور جب ایک سو ساٹھواں سال ہوگا تو زمین میں دھنسنا اور چہروں کا بدلنا اور بھونچال ظاہر ہوں گے۔

38396

(۳۸۳۹۷) حَدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ أَبِی سِنَانٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ، قَالَ : لَقِیَنِی رَاہِبٌ فِی الْفِتْنَۃِ ، فَقَالَ : یَا سَعِیدُ بْنُ جُبَیْرٍ ، تَبَیَّنْ مَنْ یَعْبُدُ اللَّہَ ، أَوْ یَعْبُدُ الطَّاغُوتَ۔
(٣٨٣٩٧) حضرت سعید بن جبیر سے روایت ہے ارشاد فرمایا فتنے کے زمانے میں مجھے ایک راھب ملا میں نے کہا اے سعید بن جبیر تحقیق کرو کون اللہ کی عبادت کرتا ہے اور کون شیطان کی عبادت کرتا ہے۔

38397

(۳۸۳۹۸) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ آدَمَ ، قَالَ : حدَّثَنَا جَرِیرُ بْنُ حَازِمٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا غَیْلاَنُ بْنُ جَرِیرٍ ، عَنْ أَبِی قَیْسِ بْنِ رِیَاحٍ الْقَیْسِیِّ ، قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا ہُرَیْرَۃَ یُحَدِّثُ ، عَنْ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، أَنَّہُ قَالَ : مَنْ تَرَکَ الطَّاعَۃَ وَفَارَقَ الْجَمَاعَۃَ فَمَاتَ مَاتَ مِیتَۃ جَاہِلِیَّۃ ، وَمَنْ خَرَجَ تَحْتَ رَایَۃٍ عِمِّیَّۃٍ یَغْضَبُ لِعَصَبَتِہِ ، أَوْ یَنْصُرُ عَصَبَتَہُ ، أَوْ یَدْعُو إِلَی عَصَبَتِہِ فَقُتِلَ فَقِتْلَۃٌ جَاہِلِیَّۃٌ ، وَمَنْ خَرَجَ عَلَی أُمَّتِی یَضْرِبُ بَرَّہَا وَفَاجِرَہَا لاَ یَتَحَاشَی مِنْ مُؤْمِنِہَا وَلاَ یَفِی لِذِی عَہْدٍ فَلَیْسَ مِنِّی وَلَسْت مِنْہُ۔ (مسلم ۵۳۔ احمد ۳۰۶)
(٣٨٣٩٨) حضرت ابوہریرہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے حدیث نقل کرتے ہیں انھوں نے فرمایا جس آدمی نے (امام کی ) اطاعت کو ترک کردیا اور جماعت سے جدا ہوگیا پس وہ مرا تو جاہلیت کی موت مرا اور جو آدمی اندھے جھنڈے تلے نکلا غصے کرتے ہوئے اپنے اقارب کے لے ر یا مدد کرتے ہوئے اپنے اقارب کی یا دعوت دیتے ہوئے اپنے اقارب کی طرف اس کا قتل جاہلیت کا قتل ہے جو آدمی میری امت پر خروج کرے ان کے نیکوں اور فاجروں کو مارے نہ مومن کو چھوڑے اور نہ کسی عہد والے کا عہد پورا کرے وہ مجھ سے نہیں اور میں اس سے نہیں ہوں۔

38398

(۳۸۳۹۹) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا ابْنُ أَبِی ذِئْبٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ سَمْعَانَ ، قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا ہُرَیْرَۃَ یُخْبِرُ أَبَا قَتَادَۃَ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : یُبَایَعُ لِرَجُلٍ بَیْنَ الرُّکْنِ وَالْمَقَامِ ، وَلَنْ یَسْتَحِلَّ الْبَیْتَ إِلاَّ أَہْلُہُ ، فَإِذَا اسْتَحَلُّوہُ فَلاَ تَسْأَلْ عَنْ ہَلَکَۃِ الْعَرَبِ ، ثُمَّ تَأْتِی الْحَبَشَۃُ فَیُخَرِّبُونَ خَرَابًا لاَ یُعْمَرُ بَعْدَہُ أَبَدًا وَہُمُ الَّذِینَ یَسْتَخْرِجُونَ کَنْزَہُ۔ (احمد ۲۹۱۔ احمد ۳۱۲)
(٣٨٣٩٩) حضرت ابوہریرہ حضرت ابو قتادہ سے اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کرتے ہیں ارشاد فرمایا ایک آدمی کی رکن یمانی اور مقام ابراہیم کے درمیان بیعت کی جائے گی اور ہرگز نہیں حلال سمجھے گا بیت اللہ کو مگر اس آدمی کے گھروالے جب وہ اسے حلال سمجھ گئے تو عرب کے ہلاک ہونے والوں کے بارے میں مت پوچھو پھر حبشہ کے لوگ آئیں گے بیت اللہ کو ایسا ویران کریں گے کہ پھر اسے اس کے بعد آباد نہ کیا جائے گا اور وہی ہوں گے جو اس کا خزانہ نکالیں گے۔

38399

(۳۸۴۰۰) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرو بْنِ عَلِیٍّ ، قَالَ : حدَّثَنِی أَبِی ، قَالَ : قَالَ عَلِیٌّ : وَالَّذِی فَلَقَ الْحَبَّۃَ وَبَرَأَ النَّسَمَۃَ ، لإِزَالَۃُ الْجِبَالِ مِنْ مَکَانِہَا أَہْوَنُ مِنْ إزَالَۃِ مُلْکٍ مُؤَجَّلٍ ، فَإِذَا اخْتَلَفُوا بَیْنَہُمْ فَوَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ لَوْ کَادَتْہُمُ الضِّبَاعُ لَغَلَبَتْہُمْ۔
(٣٨٤٠٠) حضرت علی سے روایت ہے قسم ہے اس ذات کی جس نے دانے کو پھاڑ کر نکالا اور جان کو پیدا کیا پہاڑ کو اس کی جگہ سے ہٹانا آسان ہے مقرر بادشاہت کے ہٹانے سے جب ان کا آپس میں اختلاف ہوگا قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے اگر وہ بجو بھی ہوتے تو ان پر بھی غالب آجاتے۔

38400

(۳۸۴۰۱) حَدَّثَنَا مُعَاوِیَۃُ بْنُ ہِشَامٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ خَیْثَمَۃ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو ، قَالَ : لاَ تَقُومُ السَّاعَۃُ حَتَّی تَضْطَرِبَ أَلْیَاتُ النِّسَائِ حَوْلَ الأَصْنَامِ۔ (بخاری ۷۱۱۶۔ مسلم ۲۲۳۰)
(٣٨٤٠١) حضرت عبداللہ بن عمرو سے روایت ہے انھوں نے ارشاد فرمایا قیامت قائم نہیں ہوگی یہاں تک کہ عورتوں کی سرینیں بتوں کے گرد حرکت کریں گی۔

38401

(۳۸۴۰۲) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ أَبِی الأَشْہَبِ ، قَالَ : حدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عُبَیْدٍ ، عَنْ ثَوْبَانَ ، قَالَ : تُوشِکُ الأُمَمُ أَنْ تَدَاعَی عَلَیْکُمْ کَمَا تَدَاعَی الْقَوْمُ عَلَی قَصْعَتِہِمْ ، یُنْزَعُ الْوَہْنُ مِنْ قُلُوبِ عَدُوِّکُمْ وَیُجْعَلُ فِی قُلُوبِکُمْ وَتُحَبَّبُ إلَیْکُمُ الدُّنْیَا ، قَالُوا : مِنْ قِلَّۃٍ ، قَالَ : أَکْثَرُکُمْ غُثَائٌ کَغُثَائِ السَّیْلِ۔ (احمد ۲۷۸۔ طیالسی ۹۹۲)
(٣٨٤٠٢) حضرت ثوبان سے روایت ہے انھوں نے ارشاد فرمایا قریب ہے کہ لوگ تمہارے خلاف ایک دوسرے کو ایسے دعوت دیں گے جیسے لوگ اپنے پیالے کی طرف ایک دوسرے کو دعوت دیتے ہیں وھن (دنیا کی محبت اور موت سے کراہت) تمہارے دشمنوں کے دلوں سے نکال لیا جائے گا اور تمہارے قلوب میں ڈال دیا جائے گا دنیا تمہارے نزدیک محبوب ہوجائے گی لوگوں نے عرض کیا ایسا قلت کی وجہ سے ہوگا ارشاد فرمایا تمہاری کثرت جھاگ کے برابر ہوگی سیلاب کے جھاگ کی طرح۔

38402

(۳۸۴۰۳) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ: حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا عَاصِمٌ ، عَنْ زِرٍّ ، عَنْ حُذَیْفَۃَ بْنِ الْیَمَانِ ، قَالَ: تَکُونُ فِتْنَۃٌ فَیَقُومُ لَہَا رِجَالٌ فَیَضْرِبُونَ خَیْشُومَہَا حَتَّی تَذْہَبَ ، ثُمَّ تَکُونُ أُخْرَی فَیَقُومُ لَہَا رِجَالٌ فَیَضْرِبُونَ خَیْشُومَہَا حَتَّی تَذْہَبَ ، ثُمَّ تَکُونُ أُخْرَی فَیَقُومُ لَہَا رِجَالٌ فَیَضْرِبُونَ خَیْشُومَہَا حَتَّی تَذْہَبَ ، ثُمَّ تَکُونُ الْخَامِسَۃُ دَہْمَائُ مُجَلّلَۃٌ تنبثق فِی الأَرْضِ کَمَا ینبثق الْمَائُ۔
(٣٨٤٠٣) حضرت حذیفہ بن یمان سے روایت ہے ارشاد فرمایا ایک فتنہ وقوع پذیر ہوگا ایک جماعت اس کے مقابلے کے لیے کھڑی ہوگی اس فتنے کے ناک پر ماریں گے یہاں تک کہ وہ ختم ہوجائے گا پھر دوسرا فتنہ وقوع پذیر ہوگا اس کے مقابلے میں لوگ کھڑے ہوں گے اس فتنے کے ناک پر ماریں گے یہاں تک کہ وہ ختم ہوجائے گا پھر تیسرا فتنہ وقوع پذیر ہوگا لوگ اس کے مقابلے میں کھڑے ہوں گے اس کے ناک پر ماریں گے یہاں تک کہ وہ ختم ہوجائے گا۔ پھر چوتھا فتنہ وقوع پذیر ہوگا لوگ اس کے مقابلے میں کھڑے ہوں گے اس کے ناک پر ماریں گے یہاں تک کہ وہ ختم ہوجائے گا تم پر پانچواں فتنہ ہوگا سیاہ چھانے والا وہ زمین میں ایسے بہے گا جیسے پانی بہتا ہے۔

38403

(۳۸۴۰۴) حَدَّثَنَا مُعَاوِیَۃُ بْنُ ہِشَامٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ أَبِی مِجْلَزٍ ، قَالَ : قَالَ رَجُلٌ : یَا آلَ بَنِی تَمِیمٍ ، فَحَرَمَہُمْ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ عَطَائَہُمْ سَنَۃً ، ثُمَّ أَعْطَاہُمْ إیَّاہُ مِنَ الْعَامِ الْمُقْبِلِ۔
(٣٨٤٠٤) حضرت ابو مجلز فرماتے ہیں ایک آدمی نے ندا لگائی اے آلِ بنو تمیم ! (جاہلیت کی ندا لگائی) تو حضرت عمر نے ان قبیلہ والوں کو ان کے عطیہ سے ایک سال کے لیے محروم کردیا پھر اگلے سال ان کو عطیہ عطا فرمایا۔

38404

(۳۸۴۰۵) حَدَّثَنَا مُعَاوِیَۃُ بْنُ ہِشَامٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ سَلَمَۃَ بْنِ کُہَیْلٍ ، عَنْ أَبِی إدْرِیسَ ، عَنِ الْمُسَیَّبِ بْنِ نَجَبَۃَ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ أَبِی طَالِبٍ ، قَالَ : مَنْ أَدْرَکَ ذَلِکَ الزَّمَانَ فَلاَ یَطْعَنْ بِرُمْحٍ وَلاَ یَضْرِبْ بِسَیْفٍ وَلاَ یَرْمِ بِحَجَرٍ ، وَاصْبِرُوا فَإِنَّ الْعَاقِبَۃَ لِلْمُتَّقِینَ۔ (طبرانی ۲۸۰۱)
(٣٨٤٠٥) حضرت علی بن ابی طالب سے روایت ہے ارشاد فرمایا : جو آدمی یہ زمانہ پائے تو نہ تیروں سے مارے اور نہ تلوار سے مارے اور نہ پتھر (کسی کی طرف) پھینکے اور صبر کرو بلاشبہ اچھا انجام پرہیزگاروں کے لیے ہے۔

38405

(۳۸۴۰۶) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا ابْنُ عَوْنٍ ، عَنْ عُمَیْرِ بْنِ إِسْحَاقَ ، قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا ہُرَیْرَۃَ یَقُولُ: وَیْلٌ لِلْعَرَبِ مِنْ شَرٍّ قَدِ اقْتَرَبَ ، أَظَلَّتْ وَرَبِّ الْکَعْبَۃِ أَظَلَّتْ ، وَاللہِ لَہِیَ أَسْرَعُ إلَیْہِمْ مِنَ الْفَرَسِ الْمُضَمَّرِ السَّرِیعِ ، الْفِتْنَۃُ الْعَمْیَائُ الصَّمَّائُ الْمُشْبِہَۃُ ، یُصْبِحُ الرَّجُلُ فِیہَا عَلَی أَمْرٍ وَیُمْسِی عَلَی أَمْرٍ ، الْقَاعِدُ فِیہَا خَیْرٌ مِنَ الْقَائِمِ ، وَالْقَائِمُ فِیہَا خَیْرٌ مِنَ الْمَاشِی ، وَالْمَاشِی فِیہَا خَیْرٌ مِنَ السَّاعِی ، وَلَوْ أُحَدِّثُکُمْ بِکُلِّ الَّذِی أَعْلَمُ لَقَطَعْتُمْ ، عُنُقِی مِنْ ہَاہُنَا ، وَأَشَارَ عَبْدُ اللہِ إِلَی قَفَاہُ بِحَرْفِ کَفِّہِ یَحُزّہ ، وَیَقُولُ : اللَّہُمَّ لاَ یُدْرِکُ أَبَا ہُرَیْرَۃَ إمْرَۃُ الصِّبْیَانِ۔
(٣٨٤٠٦) حضرت عمیر بن اسحاق سے روایت ہے انھوں نے ارشاد فرمایا : میں نے حضرت ابوہریرہ کو فرماتے ہوئے سنا ہلاکت ہے، عرب کے لیے ایسی برائی سے جو قریب ہوچکی قریب ہوگی رب کعبہ کی قسم قریب ہوگی اللہ کی قسم وہ ان کو تیز رفتار دبلے گھوڑے سے بھی جلدی پہنچے گی۔ اندھا بہرا اشتباہ میں ڈالنے والا فتنہ ہوگا اس میں یک آدمی ایک امر پر جمع کرے گا اور دوسرے امر پر شام کرے گا اس میں بیٹھنے والا کھڑے ہونے والے سے بہتر ہوگا اور کھڑا ہونے والا اس میں چلنے والے سے بہتر ہوگا اور اس میں چلنے والا اس میں کوشش کرنے والے سے بہتر ہوگا اگر میں تم سے تمام وہ باتیں بیان کروں جو میں جانتا ہوں تو تم میری گردن یہاں سے کاٹ دو (یہ کہتے ہوئے) حضرت عبداللہ نے اشارہ کیا اپنی گدی کی طرف اپنی ہتھیلی کے کنارے سے اسے حرکت دیتے ہوئے اور فرمایا اے اللہ ! ابوہریرہ کو بچوں کی امارت (کا زمانہ) نہ پالے۔

38406

(۳۸۴۰۷) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِی صَالِحٍ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : وَیْلٌ لِلْعَرَبِ مِنْ شَرٍّ قَدِ اقْتَرَبَ ، قَدْ أَفْلَحَ مَنْ کَفَّ یَدَہُ۔ (ابوداؤد ۴۲۴۸۔ احمد ۴۴۱)
(٣٨٤٠٧) حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے ارشاد فرمایا ہلاکت ہے عرب کے لیے ایسی برائی سے جو قریب ہوچکی (اس سے) فلاح پائے گا وہ آدمی جس نے اپنے ہاتھ کو روکا۔

38407

(۳۸۴۰۸) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ مُنَخِّلِ بْن غَضْبَانَ ، قَالَ : صَحِبْت عَاصِمَ بْنَ عَمْرٍو الْبَجَلِیَّ فَسَمِعْتہ یَقُولُ : یَا ابْنَ أَخِی ، إِذَا فُتِحَ بَابُ الْمَغْرِبِ لَمْ یُغْلَقْ۔
(٣٨٤٠٨) حضرت منخل بن غضبان سے روایت ہے انھوں نے فرمایا میں حضرت عاصم بن عمرو بجلی کے ساتھ رہا میں نے ان کو فرماتے ہوئے سنا اے بھتیجے جب مغرب کا دروازہ کھول دیا جائے گا تو اسے بند نہیں کیا جائے گا۔

38408

(۳۸۴۰۹) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَنِ الشَّیْبَانِیِّ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ الْمُخَارِقِ بْنِ سُلَیْمٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : قَالَ عَلِیٌّ : إنِّی لاَ أَرَی ہَؤُلاَئِ الْقَوْمَ إِلاَّ ظَاہِرِینَ عَلَیْکُمْ لِتُفَرِّقَکُمْ عَنْ حَقِّکُمْ وَاجْتِمَاعُہُمْ عَلَی بَاطِلِہِمْ ، وَإِنَّ الإِمَامَ لَیْسَ بِشَاقٍّ شَعْرَۃً ، وَإِنَّہُ یُخْطِئُ وَیُصِیبُ ، فَإِذَا کَانَ عَلَیْکُمْ إمَامٌ یَعْدِلُ فِی الرَّعِیَّۃِ وَیَقْسِمُ بِالسَّوِیَّۃِ فَاسْمَعُوا لَہُ وَأَطِیعُوا ، وَإِنَّ النَّاسَ لاَ یُصْلِحُہُمْ إِلاَّ إمَامٌ بَرٌّ ، أَوْ فَاجِرٌ ، فَإِنْ کَانَ بَرًّا فَلِلرَّاعِی وَلِلرَّعِیَّۃِ ، وَإِنْ کَانَ فَاجِرًا عَبَدَ فِیہِ الْمُؤْمِنُ رَبَّہُ وَعَمِلَ فِیہِ الْفَاجِرُ إِلَی أَجَلِہِ ، وَإِنَّکُمْ سَتُعْرَضُونَ عَلَی سَبِّی ، وَعَلَی الْبَرَائَۃِ مِنِّی ، فَمَنْ سَبَّنِی فَہُوَ فِی حِلٍّ مِنْ سَبِّی ، وَلاَ تَبْرَؤُوا مِنْ دِینِی فَإِنِّی عَلَی الإِسْلاَم۔
(٣٨٤٠٩) حضرت علی سے روایت ہے ارشاد فرمایا میں ان لوگوں کے بارے میں سمجھتا ہوں کہ یہ تم پر غالب آجائیں گے تمہارے حق پر اختلاف اور ان کے باطل پر اجتماع کی وجہ سے اور امام مال کو پھاڑنے والا تو نہیں ہوتا بلاشبہ وہ غلطی بھی کرتا ہے اور درستگی تک بھی پہنچ جاتا ہے پس اگر تمہارے اوپر ایسا امام مقرر ہو جو رعایا میں انصاف کرے اور برابر تقسیم کرے پس اس کی بات سنو اور اطاعت کرو اور بلاشبہ لوگوں کی اصلاح نہیں کرتا مگر امام نیک ہو یا فاجر پس اگر وہ نیک ہے تو نگہبان اور رعایا کے لیے ہے اور اگر فاجر ہے اس کے زمانے میں مومن اپنے رب کی عبادت کرے گا اور فاجر اپنے مقررہ وقت تک عمل کرے گا اور بلاشبہ تم سے عنقریب مجھے برا بھلا کہنے اور مجھ سے برأت کا مطالبہ کیا جائے گا جس آدمی نے مجھے برا بھلا کہا تو میرے لیے بھی اس کو برا بھلا کہنا درست ہے اور میرے دین سے برأت کا اظہار نہ کرنا کیونکہ میں اسلام پر ہوں۔

38409

(۳۸۴۱۰) حَدَّثَنَا مُعَاوِیَۃُ بْنُ ہِشَامٍ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ سَلَمَۃَ بْنِ کُہَیْلٍ ، عَنْ کَثِیرِ بْنِ نَمِرٍ ، قَالَ : جَائَ رَجُلٌ بِرِجَالٍ إِلَی عَلِیٍّ ، فَقَالَ : إنِّی رَأَیْت ہَؤُلاَئِ یَتَوَعَّدُونَک فَفَرُّوا ، وَأَخَذْتُ ہَذَا ، قَالَ : أَفَأَقْتُلُ مَنْ لَمْ یَقْتُلْنِی ، قَالَ : إِنَّہُ سَبَّک ، قَالَ : سُبَّہُ ، أَوْ دَعْ۔
(٣٨٤١٠) حضرت کثیر بن نمر سے روایت ہے انھوں نے فرمایا ایک آدمی چند آدمیوں کو حضرت علی کے پاس لے کر آیا اور کہا میں نے ان کو دیکھا ہے کہ آپ کو دھمکی دے کر بھاگ رہے تھے اور میں نے اس کو پکڑ لیا ہے حضرت علی نے ارشاد فرمایا کیا میں قتل کروں ایسے آدمی کو جس نے مجھے قتل نہیں کیا اس آدمی نے کہا اس نے آپ کو برا بھلا کہا ہے تو انھوں نے ارشاد فرمایا اسے برا بھلا کہو یا چھوڑ دو ۔

38410

(۳۸۴۱۱) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ عِیسَی ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ شِمْرٍ ، عَنْ رَجُلٍ ، قَالَ : کُنْتُ عَرِیفًا فِی زَمَانِ عَلِیٍّ ، قَالَ: فَأَمَرَنَا بِأَمْرٍ ، فَقَالَ : أَفَعَلْتُمْ مَا أَمَرْتُکُمْ ، قُلْنَا ، لاَ قَالَ : وَاللہِ لَتَفْعَلُنَّ مَا تُؤْمَرُنَّ بِہِ ، أَوْ لَیَرْکَبَنَّ أَعْنَاقَکُمُ الْیَہُودُ وَالنَّصَارَی۔
(٣٨٤١١) حضرت اعمش شمر سے اور وہ ایک صاحب سے نقل کرتے ہیں انھوں نے فرمایا میں نگران تھا حضرت علی کے زمانے میں ان صاحب نے بتایا حضرت علی نے ہمیں حکم دیا اور ارشاد فرمایا بخدا تم ضرور بالضرور کرو گے وہ اعمال جن کا تمہیں حکم دیا جائے گا وگرنہ تمہاری گردنوں پر یہود و نصاری کو سوار کردیا جائے گا۔

38411

(۳۸۴۱۲) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ یَحْیَی وَعُبَیْدِ اللہِ ، وَابْنِ إِسْحَاقَ ، عَنْ عُبَادَۃَ بْنِ الْوَلِیدِ بْنِ عُبَادَۃَ بْنِ الصَّامِتِ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ جَدِّہِ ، قَالَ : بَایَعْنَا رَسُولَ اللہِ عَلَی السَّمْعِ وَالطَّاعَۃِ فِی الْعُسْرِ وَالْیُسْرِ وَالْمَنْشَطِ وَالْمَکْرَہِ وَعَلَی أَثَرَۃٍ عَلَیْنَا وَعَلَی أَنْ لاَ نُنَازِعَ الأَمْرَ أَہْلَہُ ، وَعَلَی أَنْ نَقُولَ بِالْحَقِّ أَیْنَمَا کُنَّا ، لاَ نَخَافُ فِی اللہِ لَوْمَۃَ لاَئِمٍ۔ (بخاری ۷۱۹۹۔ مسلم ۴۲)
(٣٨٤١٢) حضرت عبادہ بن صامت سے روایت ہے انھوں نے فرمایا ہم نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیعت کی سننے اور اطاعت پر تنگی میں اور سہولت میں خوشی میں اور زبردستی کی حالت میں اور ہم پر ترجیح دی جانے کی صورت میں اور اس بات پر کہ ہم حکومت والوں سے جھگڑا نہیں کریں گے اور اس بات پر کہ ہم حق بات کہیں گے جہاں پر ہم ہوں اللہ کے معاملے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈریں گے۔

38412

(۳۸۴۱۳) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَجْلاَنَ ، عَنْ بُکَیْرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ الأَشَجِّ ، قَالَ : قَالَ عُبَادَۃُ بْنُ الصَّامِتِ لِجُنَادَۃَ بْنِ أَبِی أُمَیَّۃَ الأَنْصَارِیِّ : تَعَالَ حَتَّی أُخْبِرَک مَاذَا لَکَ وَمَاذَا عَلَیْک ، السَّمْعَ وَالطَّاعَۃَ فِی عُسْرِکَ وَیُسْرِکَ وَمَنْشَطِکَ وَمَکْرَہِکَ وَأَثَرَۃٍ عَلَیْک ، وَأَنْ تَقُولَ بِلِسَانِکَ ، وَأَنْ لاَ تُنَازِعَ الأَمْرَ أَہْلَہُ إِلاَّ أَنْ تَرَی کُفْرًا بَوَاحًا۔
(٣٨٤١٣) حضرت عبادہ بن صامت نے حضرت جنادہ بن ابو امیہ انصاری سے فرمایا آؤ میں تمہیں خبر دیتا ہوں کہ کیا تمہارے لیے ہے اور کیا تم پر لازم ہے سننا اور اطاعت کرنا اپنی تنگی اور آسانی میں اور خوشی میں اور نا پسندیدگی کی حالت میں اور تم پر ترجیح دی جانے کی صورت میں اور یہ کہ تو اپنی زبان سے کہے اور نہ تو جھگڑا کر حکومت والوں سے مگر یہ کہ تو دیکھے واضح کفر کو۔

38413

(۳۸۴۱۴) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ ، عَنْ قَیْسٍ بن أبی حازم عَنْ جَرِیرٍ ، قَالَ : قَالَ ذُو عَمْرٍو : یَا جَرِیرُ ، إِنَّ بِکَ عَلَیَّ کَرَامَۃً وَإِنِّی مُخْبِرُک خَبَرًا إنَّکُمْ مَعْشَرَ الْعَرَبِ ، لَنْ تَزَالُوا بِخَیْرٍ مَا کُنْتُمْ ، إِذَا ہَلَکَ أَمِیرٌ تَأَمَّرْتُمْ فِی آخَرَ ، فَإِذَا کَانَتْ بِالسَّیْفِ غَضِبْتُمْ غَضَبَ الْمُلُوکِ وَرَضِیتُمْ رِضَا الْمُلُوکِ۔
(٣٨٤١٤) حضرت جریر سے روایت ہے انھوں نے فرمایا حضرت ذو عمرو نے فرمایا اے جریر آپ کو مجھ پر شرافت حاصل ہے اور میں آپ کو ایک خبر دینے والا ہوں تم اے عرب کی جماعت ! مسلسل تم خیر پر رہو گے جب تک تم ایسے رہو گے کہ جب ایک امیر فوت ہوگا تو دوسرے کو امیر بنا لو گے جب یہ امارت تلوار کے ذریعے سے حاصل ہوگی تو تم غصہ کرو گے بادشاہوں کے غصہ کی طرح اور تم راضی ہو گے بادشاہوں کے راضی ہونے کی طرح۔

38414

(۳۸۴۱۵) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ حَسَنِ بْنِ فُرَاتٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ أَبِی حَازِمٍ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: إِنَّ بَنِی إسْرَائِیلَ کَانَتْ تَسُوسُہُمْ أَنْبِیَاؤُہُمْ ، کُلَّمَا ذَہَبَ نَبِیٌّ خَلَفَہُ نَبِی ، وَإِنَّہُ لَیْسَ کَائِنًا فِیکُمْ نَبِیٌّ بَعْدِی ، قَالُوا : فَمَا یَکُونُ یَا رَسُولَ اللہِ ، قَالَ : تَکُونُ خُلَفَائُ وَتَکْثُرُ ، قَالُوا : فَکَیْفَ نَصْنَعُ ، قَالَ : أَوْفُوا بَیْعَۃَ الأَوَّلِ فَالأَوَّلِ ، أَدُّوا الَّذِی عَلَیْکُمْ فَسَیَسْأَلُہُمُ اللَّہُ عَنِ الَّذِی عَلَیْہِمْ۔ (مسلم ۱۴۷۲۔ ابن ماجہ ۲۸۷۱)
(٣٨٤١٥) حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا بلاشبہ بنی اسرائیل کی قیادت ان کے انبیائ ۔ کرتے تھے جب بھی کوئی نبی دنیا سے چلے جاتے دوسرے نبی ان کے نائب ہوجاتے اور بلاشبہ میرے بعد تمہارے اندر کوئی نبی نہیں ہوگا صحابہ کرام نے عرض کیا کیا ہوگا اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ نے فرمایا : خلفاء ہوں گے اور کثرت سے ہوں گے صحابہ کرام نے عرض کیا ہم کیسے معاملے کریں آپ نے فرمایا : ایک کے بعد دوسرے کی بیعت کو پورا کرو اور جو تم پر لازم ہو اس کو ادا کرنا اور جو ان پر لازم ہے وہ عنقریب اللہ تعالیٰ ان سے پوچھے گا۔

38415

(۳۸۴۱۶) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِ ، عَنْ سِمَاکٍ ، عَنْ عَلْقَمَۃَ بْنِ وَائِلٍ ، قَالَ : قامَ سَلَمَۃُ الْجُعْفِیُّ إِلَی رَسُولِ اللہِ ، فَقَالَ : یَا رَسُولَ اللہِ ، أَرَأَیْت إِنْ کَانَ عَلَیْنَا مِنْ بَعْدِکَ قَوْمٌ یَأْخُذُونَنَا بِالْحَقِّ وَیَمْنَعُونَ حَقَّ اللہِ ، قَالَ : فَلَمْ یُجِبْہُ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِشَیْئٍ ، قَالَ : ثُمَّ قَامَ الثَّانِیَۃَ فَلَمْ یُجِبْہُ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِشَیْئٍ ، ثُمَّ قَامَ الثَّالِثَۃَ ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : عَلَیْہِمْ مَا حُمِّلُوا وَعَلَیْکُمْ مَا حُمِّلْتُمْ فَاسْمَعُوا لَہُمْ وَأَطِیعُوا۔ (طبرانی ۶۳۲۲)
(٣٨٤١٦) حضرت علقمہ بن وائل سے روایت ہے انھوں نے فرمایا حضرت سلمہ جعفی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مجلس میں کھڑے ہوئے اور عرض کیا اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مجھے بتلائںِ کہ اگر آپ کے بعد ہم پر ایسے لوگ ہوں جو ہم سے حق لے لیں اور اللہ کا حق روکتے ہوں آپ نے ان کا کچھ بھی جواب نہ دیا راوی فرماتے ہیں پھر دوسری مرتبہ کھڑے ہوئے پھر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جواب نہ دیا پھر تیسری مرتبہ کھڑے ہوئے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا ان پر وہ لازم ہے جو وہ بوجھ لادے گئے اور تم پر لازم ہے جو تم بوجھ لادے گئے ہو پس ان کی بات سنو اور اطاعت کرو۔

38416

(۳۸۴۱۷) حَدَّثَنَا شَبَابَۃُ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ سِمَاکٍ ، عَنْ عَلْقَمَۃَ بْنِ وَائِلٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِمِثْلِہِ۔ (بخاری ۱۹۹۵)
(٣٨٤١٧) حضرت علقمہ بن وائل اپنے والد سے اسی (مذکورہ روایت) کی مثل نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کرتے ہیں۔

38417

(۳۸۴۱۸) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَنْ زَائِدَۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُثْمَانَ ، عَنْ نَافِعِ بْنِ سَرْجِسَ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : أَظَلَّتْکُمُ الْفِتَنُ کَقِطَعِ اللَّیْلِ الْمُظْلِمِ ، أَنْجَی النَّاس فِیہَا صَاحِبُ شَاہِقَۃٍ ، یَأْکُلُ مِنْ رِسْلِ غَنَمِہِ ، أَوْ رَجُلٌ مِنْ وَرَائِ الدَّرْبِ آخِذٌ بِعَنَانِ فَرَسِہِ ، یَأْکُلُ مِنْ فِیء سَیْفِہِ۔ (حاکم ۴۳۲)
(٣٨٤١٨) حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا تمہارے قریب ہوں گے فتنے اندھیری رات کے ٹکڑوں کی طرح ان فتنوں میں لوگوں میں سب سے زیادہ نجات پانے والا پہاڑ کی چوٹی پر رہنے والا وہ شخص ہے جو اپنی بکریوں کے ریوڑ سے غذا حاصل کرتا ہے یا وہ شخص جو اپنے گھوڑے کی لگام پکڑے ہوئے اپنی تلوار کی غنیمت سے کھاتا ہے۔

38418

(۳۸۴۱۹) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَنْ زَائِدَۃَ ، عَنْ سُلَیْمَانَ ، عَنْ أَبِی صَالِحٍ ، قَالَ : قَالَ لِی أَبُو ہُرَیْرَۃَ : إِنِ اسْتَطَعْت أَنْ تَمُوتَ فَمُتْ ، قَالَ : قُلْتُ : لاَ أَسْتَطِیعُ أَنْ أَمُوتَ قَبْلَ أَنْ یَجِیئَ أَجَلِی۔
(٣٨٤١٩) حضرت ابو صالح سے روایت ہے انھوں نے فرمایا مجھ سے حضرت ابوہریرہ نے ارشاد فرمایا اگر تم سے ہوسکتا ہے کہ تجھے موت آجائے تو مرجانا ابو صالح نے فرمایا میں نے عرض کیا میں مرنے کی طاقت نہیں رکھتا اپنی مقرر مدت آنے سے پہلے۔

38419

(۳۸۴۲۰) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ زَیْدِ بْنِ وَہْبٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إِنَّہُ سَتَکُونُ بَعْدِی أَثَرَۃٌ وَأُمُورٌ تُنْکِرُونَہَا ، قَالَ : فَقُلْتُ : یَا رَسُولَ اللہِ ، مَا تَأْمُرُ مَنْ أَدْرَکَ مِنَّا ذَلِکَ ، قَالَ : تُعْطُونَ الْحَقَّ الَّذِی عَلَیْکُمْ وَتَسْأَلُونَ اللَّہَ الَّذِی لَکُمْ۔ (بخاری ۳۶۰۳۔ مسلم ۱۴۷۲)
(٣٨٤٢٠) حضرت عبداللہ سے روایت ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا بلاشبہ عنقریب میرے بعد (تم پر دوسروں کو) ترجیح ہوگی اور ایسے امور ہوں گے جنہیں تم ناپسند سمجھتے ہو راوی نے فرمایا ہم نے عرض کیا اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم سے جو یہ صورتحال پالے اسے آپ کیا حکم دیتے ہیں آپ نے ارشاد فرمایا جو تم پر ہے اسے تم دو اور جو تمہارے لیے ہے وہ اللہ تعالیٰ سے مانگو۔

38420

(۳۸۴۲۱) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا فُضَیْلُ بْنُ غَزْوَانَ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی حَجَّۃِ الْوَدَاعِ : أَیُّہَا النَّاسُ ، أَیُّ یَوْمٍ ہَذَا ، قَالُوا : یَوْمٌ حَرَامٌ ، قَالَ : فَأَیُّ بَلَدٍ ہَذَا ، قَالُوا : بَلَدٌ حَرَامٌ ، قَالَ : فَأَیُّ شَہْرٍ ہَذَا ، قَالُوا : شَہْرٌ حَرَامٌ ، قَالَ : فَإِنَّ أَمْوَالَکُمْ وَدِمَائَکُمْ وَأَعْرَاضَکُمْ عَلَیْکُمْ حَرَامٌ کَحُرْمَۃِ یَوْمِکُمْ ہَذَا فِی بَلَدِکُمْ ہَذَا فِی شَہْرِکُمْ ہَذَا ، ثُمَّ أَعَادَہَا مِرَارًا ، قَالَ : ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَہُ إِلَی السَّمَائِ ، فَقَالَ : اللَّہُمَّ ہَلْ بَلَّغْت مِرَارًا ، قَالَ : یَقُولُ ابْنُ عَبَّاسٍ : وَاللہِ ، إِنَّہَا لَوَصِیَّتُہُ إِلَی رَبِّہِ ، ثُمَّ قَالَ : أَلاَ فَلْیُبَلِّغِ الشَّاہِدُ الْغَائِبَ ، لاَ تَرْجِعُوا بَعْدِی کُفَّارًا ، یَضْرِبُ بَعْضُکُمْ رِقَابَ بَعْضٍ۔ (بخاری ۱۷۳۹۔ ترمذی ۲۱۹۳)
(٣٨٤٢١) حضرت عبداللہ بن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حجۃ الوداع کے موقع پر ارشاد فرمایا اے لوگو یہ کونسا دن ہے لوگوں نے عرض کیا یوم حرام (حرمت والا دن) آپ نے پوچھا یہ کونسا شہر ہے لوگوں نے عرض کیا حرمت والا شہر آپ نے پوچھا یہ کونسا مہینہ ہے لوگوں نے عرض کیا حرمت والا مہینہ ہے آپ نے ارشاد فرمایا بلاشبہ تمہارے اموال اور تمہارے خون اور تمہاری عزتیں آپس میں ایک دوسرے پر حرام ہیں تمہارے اس دن کی حرمت کی طرح اس شہر میں تمہارے اس مہینے میں پھر اس فرمان کو کئی مرتبہ دہرایا پھر اپنے سر کو آسمان کی طرف اٹھایا اور ارشاد فرمایا اے اللہ کیا میں نے پہنچا دیا یہ فرمان کئی مرتبہ دہرایا۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ یہ ارشاد نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اپنے رب سے مناجات تھا۔ اس کے بعد آپ نے فرمایا : یہ پیغام حاضر غائب کو پہنچائے میرے بعد کفر کی طرف نہ لوٹ جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو۔

38421

(۳۸۴۲۲) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، قَالَ : حدَّثَنَا ابْنُ عَوْنٍ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ ، قَالَ : کَانَ مُحَمَّدُ بْنُ أَبِی حُذَیْفَۃَ مَعَ کَعْبٍ فِی سَفِینَۃٍ ، فَقَالَ لِکَعْبٍ ذَاتَ یَوْمٍ : یَا کَعْبُ ، أَتَجِدُ ہَذِہِ فِی التَّوْرَاۃِ کَیْفَ تَجْرِی وَکَیْفَ وَکَیْفَ ؟ فَقَالَ لَہُ کَعْبٌ : لاَ تَسْخَرْ مِنَ التَّوْرَاۃِ ، فَإِنَّہَا کِتَابُ اللہِ ، وَإِنَّ مَا فِیہَا حَقٌّ ، قَالَ : فَعَادَ ، فَقَالَ لَہُ مِثْلَ ذَلِکَ ، ثم عَادَ ، فَقَالَ لَہُ مِثْلَ ذَلِکَ ، ثُمَّ قَالَ : لاَ وَلَکِنْ أَجِدُ فِیہَا ، أَنَّ رَجُلاً مِنْ قُرَیْشٍ أَشَطَّ النَّابِ یَنْزُو فِی الْفِتْنَۃِ کَمَا یَنْزُو الْحِمَارُ فِی قَیْدِہِ فَاتَّقِ اللَّہَ وَلاَ تَکُنْ أَنْتَ ہُوَ قَالَ مُحَمَّدٌ : فَکَانَ ہُوَ۔
(٣٨٤٢٢) حضرت محمد بن سیرین سے روایت ہے فرمایا کہ حضرت محمد بن ابی حذیفہ کشتی میں حضرت کعب احبار کے ساتھ تھے حضرت محمد بن ابی حذیفہ نے حضرت کعب سے ایک دن کہا اے کعب کیا ہم اس (یعنی کشتی) کے بارے میں توراۃ کے اندر پاتے ہیں کہ کیسے چلتی ہے اور کیسے اور کیسے ؟ ان سے کعب احبار نے فرمایا تو رات کے بارے میں مذاق نہ کرو یہ اللہ کی کتاب ہے اور اس میں جو ہے وہ حق ہے راوی کہتے ہیں حضرت محمد بن ابی حذیفہ نے دوبارہ دہرایا حضرت کعب نے اسی طرح ارشاد فرمایا پھر انھوں نے اس بات کو دہرایا حضرت کعب نے ان سے یہی فرمایا نہیں لیکن اس میں یہ پاتا ہوں کہ بلاشبہ قریش میں سے ایک آدمی ہوگا زائد نوکیلے دانت والا وہ فتنے میں ایسے کودے گاجی سے گدھا اپنی رسی میں کودتا ہے پس اللہ سے ڈر اور تو وہ آدمی نہ بن محمد بن سیرین راوی فرماتے ہیں وہ وہی تھے۔

38422

(۳۸۴۲۳) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ مُدْرِکٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ عَبْدَ اللہِ بْنَ رَوَاعٍ ، قَالَ : ذَکَرْت الْفِتْنَۃَ عِنْدَ ابْنِ مَسْعُودٍ ، قَالَ : ادْخُلْ بَیْتَکَ ، فَإِنْ دُخِلَ عَلَیْک فَکُنْ کَالْبَعِیرِ الثَّفَالِ ، لاَ یَنْبَعِثُ إِلاَّ کَارِہًا وَلاَ یَمْشِی إِلاَّ کَارِہًا۔
(٣٨٤٢٣) حضرت عبداللہ بن رواع سے روایت ہے کہ حضرت عبداللہ ابن مسعود کے پاس فتنے کا تذکرہ کیا گیا ارشاد فرمایا اپنے گھر میں داخل ہوجانا اور اگر گھر میں تجھ پر کوئی داخل ہوجائے تو سست رفتار اونٹ کی طرح ہوجانا جو اٹھتا نہیں مگر زبردستی اور نہیں چلتا مگر زبردستی۔

38423

(۳۸۴۲۴) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ مُدْرِکٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا صَالِحٍ ، قَالَ : قَاعَدَنَا رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِ رسول اللہ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَوْمَ الْجَرَعَۃِ ، قَالَ : وَکَانَ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ قَدْ بَعَثَ سَعِیدَ بْنَ الْعَاصِ عَلَی الْکُوفَۃِ ، قَالَ : فَخَرَجَ أَہْلُ الْکُوفَۃِ فَأَدْرَکُوہُ ، قَالَ : فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ : إنَّا عَلَی السُّنَّۃِ ، فَقَالَ : لَسْتُمْ عَلَی السُّنَّۃِ حَتَّی یُشْفِقَ الرَّاعِی وَتُنْصَحُ الرَّعِیَّۃُ۔
(٣٨٤٢٤) حضرت ابو صالح سے روایت ہے انھوں نے فرمایا جرعہ والے دن ہمارے ساتھ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب میں سے ایک صاحب ہمارے ساتھ بیٹھے راوی نے فرمایا حضرت عثمان بن عفان نے حضرت سعید بن عاص کو کوفہ پر امیر بنا کر بھیجا تھا (اور کوفہ والے ان کی امارت سے نکل چکے تھے) کوفہ والے نکلے اور ان صحابی کو پالیا انھوں نے فرمایا ان میں سے ایک نے (ان صحابی کے سامنے) کہا ہم سنت پر ہیں ان صحابی نے ارشاد فرمایا تم سنت پر نہیں ہو یہاں تک کہ امیرو نگران شفقت کریں اور رعایا خیر خواہی کرے۔

38424

(۳۸۴۲۵) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ إِسْحَاقَ ، قَالَ : حدَّثَنَا وُہَیْبٌ ، قَالَ : حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ طَاوُوس ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : فُتِحَ الْیَوْمَ مِنْ رَدْمِ یَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ مِثْلُ ہَذِہِ ، وَعَقَدَ وُہَیْبٌ بِیَدِہِ تِسْعِینَ۔ (بخاری ۳۳۴۷۔ مسلم ۱۲۰۸)
(٣٨٤٢٥) حضرت ابوہریرہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کرتے ہیں آپ نے ارشاد فرمایا آج یاجوج وماجوج کی دیوار سے اس کی مثل کھول دیا گیا ہے اور وہب راوی نے اپنے ہاتھ سے نوے کا عدد بنایا (ابن الا ثیر کے بیان کے مطابق ان کی صورت یہ ہوتی ہے کہ ہاتھ کے انگوٹھے کے پاس والی انگلی کا سرا انگوٹھے کی جڑ میں لگا کر ملایا جائے یہاں تک کہ درمیانی فاصلہ تھوڑا رہ جائے۔

38425

(۳۸۴۲۶) حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ صَالِحٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ عَمْرٍو ، عَنْ أَبِی حَکِیمٍ مَوْلَی مُحَمَّدِ بْنِ أُسَامَۃَ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : کَیْفَ أَنْتُمْ إِذَا لَمْ یُجَبْ لَکُمْ دِینَارٌ وَلاَ دِرْہَمٌ ، قَالُوا : وَمَتَی یَکُونُ ذَلِکَ ؟ قَالَ : إِذَا نَقَضْتُمُ الْعَہْدَ شَدَّدَ اللَّہُ قُلُوبَ الْعَدُوِّ عَلَیْکُمْ فَامْتَنَعُوا مِنْکُمْ۔
(٣٨٤٢٦) حضرت ابو حکیم جو آزاد کردہ ہیں محمد بن اسامہ کے وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کرتے ہیں آپ نے فرمایا تمہارا کیا حال ہوگا جب تمہارے لیے نہ دینار واجب کیا جائے گا اور نہ درہم صحابہ کرام (رض) نے عرض کیا یہ کب ہوگا آپ نے ارشاد فرمایا جب تم عہد توڑو گے اللہ تمہارے دلوں کو تم پر سخت کردیں گے پس وہ تم سے روک لیں گے۔

38426

(۳۸۴۲۷) حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ أبِی عُبَیْدَۃَ ، عَنْ حُذَیْفَۃَ ، قَالَ : لَیَأْتِیَنَّ عَلَی النَّاسِ زَمَانٌ یَکُونُ لِلرَّجُلِ أَحْمُرَۃٌ یَحْمِلُ عَلَیْہَا إِلَی الشَّامِ أَحَبُّ إلَیْہِ مِنْ عَرَضِ الدُّنْیَا۔
(٣٨٤٢٧) حضرت حذیفہ سے روایت ہے یقیناً لوگوں پر ایسا زمانہ آئے گا (جس میں) کسی آدمی کے لیے گدھے ہوں گے ان پر سوار ہو کر شام کی طرف جانا اسے زیاد ہ محبوب ہوگا دنیاوی سازو سامان میں سے کسی سامان سے۔

38427

(۳۸۴۲۸) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَنْ أَبِی الْجَوْزَائِ ، عَنْ مُسْلِمِ بْن یَسَارٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرو ، قَالَ : إِذَا کَانَتْ سَنَۃَ سِتٍّ وَثَلاَثِینَ وَمِئَۃٍ وَلَمْ تَرَوْا آیَۃً فَالْعَنُونِی فِی قَبْرِی۔
(٣٨٤٢٨) حضرت عبداللہ بن عمرو سے روایت ہے ارشاد فرمایا جب ایک سو چھتیسواں سال ہوگا اور تم کوئی نشانی نہ دیکھو تو مجھ پر میری قبر میں لعنت کرنا۔

38428

(۳۸۴۲۹) حَدَّثَنَا یَزِیدُ ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَۃَ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ زَیْدٍ، عَنْ خَالِدِ بْنِ الْحُوَیْرِثِ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، قَالَ: الآیَاتُ خَرَزٌ مَنْظُومَاتٌ فِی سِلْکٍ انْقَطَعَ السِّلْکُ فَیَتْبَعُ بَعْضُہَا بَعْضًا۔ (حاکم ۴۷۳۔ احمد ۲۱۹)
(٣٨٤٢٩) حضرت عبداللہ بن عمرو سے روایت ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا نشانیاں لڑی میں پروئے ہوئے موتیوں کی طرح ہیں جب لڑی ٹوٹ جائے تو وہ موتی ایک دوسرے کے پیچھے گرپڑتے ہیں۔

38429

(۳۸۴۳۰) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مُرَّۃَ ، عَنْ حُذَیْفَۃَ ، قَالَ : لَوْ أَنَّ رَجُلاً ارْتَبَطَ فَرَسًا فِی سَبِیلِ اللہِ فَانْتَجَتْ مُہْرًا عِنْدَ أَوَّلِ الآیَاتِ مَا رَکِبَ الْمُہْرَ حَتَّی یَرَی آخِرَہَا۔
(٣٨٤٣٠) حضرت حذیفہ سے روایت ہے ارشاد فرمایا اگر کوئی آدمی اللہ کے راستے میں (خروج کے لیے) کسی گھوڑے کو پالے وہ پچھرا جنے نشانیوں میں سے پہلی نشانی کے وقت اس بچھڑے پر سوار نہیں ہوگا یہاں تک کہ آخری نشانی کو بھی دیکھ لے گا۔

38430

(۳۸۴۳۱) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنْ مُجَالِدٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنْ صِلَۃَ ، عَنْ حُذَیْفَۃَ ، قَالَ : سَمِعْتُہُ یَقُولُ : إِذَا رَأَیْتُمْ أَوَّلَ الآیَاتِ تَتَابَعَتْ۔
(٣٨٤٣١) حضرت حذیفہ سے روایت ہے ارشاد فرمایا جب تم نشانیوں میں سے پہلی نشانی دیکھو گے تو دوسری لگاتار وقوع پذیر ہوں گی۔

38431

(۳۸۴۳۲) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ حَکِیمٍ ، عَنْ أَبِی أُمَامَۃَ بْنِ سَہْلِ بْنِ حُنَیْف ، قَالَ : سَمِعْتُ عَبْدَ اللہِ بْنَ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ یَقُولُ : لاَ تَقُومُ السَّاعَۃُ حَتَّی یَتَسَافَدَ النَّاسُ فِی الطُّرُقِ تَسَافُدَ الْحَمِیرِ۔ (حاکم ۴۵۵۔ ابن حبان ۶۷۶۷)
(٣٨٤٣٢) حضرت ابو امامہ بن سہل بن حنیف فرماتے ہیں میں نے حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص سے یہ ارشاد سنا کہ قیامت قائم نہیں ہوگی یہاں تک کہ لوگ راستوں میں جفتی کریں گے گدھے کے جفتی کرنے کی طرح۔

38432

(۳۸۴۳۳) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : یَتَقَارَبُ الزَّمَانُ وَیَنْقُصُ الْعِلْمُ وَیُلْقَی الشُّحُّ وَتَظْہَرُ الْفِتَنُ وَیَکْثُرُ الْہَرْجُ ، قَالُوا : یَا رَسُولَ اللہِ، مَا الْہَرْجُ ؟ قَالَ : الْقَتْلُ۔ (بخاری ۷۰۶۱۔ مسلم ۲۰۵۷)
(٣٨٤٣٣) حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا زمانہ قریب ہوجائے گا اور علم کم ہوجائے گا اور بخل ڈال دیا جائے گا اور فتنے ظاہر ہوں گے اور ہرج کثرت سے ہوجائے گا صحابہ کرام (رض) نے عرض کیا اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہرج کیا چیز ہے ارشاد فرمایا قتل۔

38433

(۳۸۴۳۴) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنْ مُجَالِدٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، قَالَ : قدِمْنَا عَلَی عُمَرَ ، فَقَالَ : کَیْفَ عَیْشُکُمْ فَقُلْنَا : أَخْصَبُ قَوْمٍ مِنْ قَوْمٍ یَخَافُونَ الدَّجَّالَ ، قَالَ : مَا قَبْلَ الدَّجَّالِ أَخْوَفُ عَلَیْکُمُ الْہَرْجُ ، قُلْتُ : وَمَا الْہَرْجُ ، قَالَ : الْقَتْلُ ، حَتَّی إِنَّ الرَّجُلَ لَیَقْتُلُ أَبَاہُ۔
(٣٨٤٣٤) حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے فرمایا کہ ہم حضرت عمر کے پاس گئے انھوں نے پوچھا تمہاری زندگی کیسی ہے ہم نے عرض کیا کہ ان لوگوں میں سے جو دجال سے ڈرتے ہیں ان میں ہم سب سے زیاد ہ سرسبز و شادابی والے لوگ ہیں حضرت عمر نے ارشاد فرمایا جس چز کا مجھے تمہارے بارے میں دجال سے پہلے زیادہ خوف ہے وہ ہرج ہے مسروق فرماتے ہیں میں نے عرض کیا ہرج کیا چیز ہے ارشاد فرمایا قتل یہاں تک کہ آدمی اپنے باپ کو قتل کرے گا۔

38434

(۳۸۴۳۵) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ سَعِیدٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا قَتَادَۃُ ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : وَلاَ یُحَدِّثُکُمْ بَعْدِی أَحَدٌ ، أَنَّہُ سَمِعَ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : إِنَّ مِنْ أَشْرَاطِ السَّاعَۃِ أَنْ یُرْفَعَ الْعِلْمُ وَیَظْہَرَ الْجَہْلُ ، وَأَنْ تُشْرَبَ الْخَمْرُ وَیَظْہَرَ الزِّنَا وَیَقِلَّ الرِّجَالُ وَیَکْثُرَ النِّسَائُ۔ (بخاری ۸۱۔ مسلم ۲۰۵۶)
(٣٨٤٣٥) حضرت انس سے روایت ہے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے ہوئے سنا اور میرے بعد تم سے کوئی نہیں بیان کرے گا کہ اس نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ بلاشبہ قیامت کی نشانیوں میں سے ہے کہ علم اٹھا لیا جائے گا اور جہالت ظاہر ہوجائے گی شراب پی جائے گی اور زنا ظاہر ہوجائے گا مرد کم ہوجائیں گے اور عورتیں کثرت سے ہوجائیں گی۔

38435

(۳۸۴۳۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ وَمِسْعَرٍ ، عَنْ أَشْعَثَ بْنِ أَبِی الشَّعْثَائِ ، عَنْ رَجَائِ بْنِ حَیْوَۃَ ، عَنْ مُعَاذٍ ، قَالَ: إنَّکُمَ ابْتُلِیتُمْ بِفِتْنَۃِ الضَّرَّائِ فَصَبَرْتُمْ ، وَسَتُبْتَلَوْنَ بِفِتْنَۃِ السَّرَّائِ ، وَإِنَّ أَخْوَف مَا أَتَخَوَّفُ عَلَیْکُمْ فِتْنَۃُ النِّسَائِ إِذَا سُوِّرْنَ الذَّہَبَ وَلَبِسْنَ رَیْطَ الشَّامِ فَأَتْعَبْنَ الْغَنِیَّ وَکَلَّفْنَ الْفَقِیرَ مَا لاَ یَجِدُ۔ (ابن المبارک ۷۸۵)
(٣٨٤٣٦) حضرت معاذ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا یقیناً تمہیں تنگی کے فتنے میں آزمایا جائے گا پس صبر کرنا اور عنقریب تمہیں آسانی کے فتنے میں آزمایا جائے گا اور بلاشبہ جن چیزوں کا مجھے تم پر خوف ہے ان میں سے سب سے زیادہ خوف عورتوں کے فتنے سے ہے جب ان کو سونے کے کنگن پہنائے جائیں گے اور وہ شام کا باریک کپڑا پہنیں گی مالدار کو تھکا دیں گی اور فقیر کو ایسی چیزوں کا ذمہ دار ٹھہرائیں گی جو اس کے پاس نہیں ہوں گی۔

38436

(۳۸۴۳۷) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنِ التَّیْمِیِّ ، عَنْ أَبِی عُثْمَانَ ، عَنْ أُسَامَۃَ بْنِ زَیْدٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَا تَرَکْت عَلَی أُمَّتِی بَعْدِی فِتْنَۃً أَضَرَّ عَلَی الرِّجَالِ مِنَ النِّسَائِ۔
(٣٨٤٣٧) حضرت اسامہ بن زید سے روایت ہے فرمایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا میں نے اپنے بعد اپنی امت میں کوئی ایسا فتنہ نہیں چھوڑاجو مردوں کے لیے زیادہ نقصان دہ ہو عورتوں کے مقابلے میں۔

38437

(۳۸۴۳۸) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ عَوْفٍ ، عَنِ ابْن سِیرِینَ عَنْ أَبِی عُبَیْدَۃَ بْنِ عَبْدِ اللہِ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : مَا ذُکِرَ مِنَ الآیَاتِ فَقَدْ مَضَی إِلاَّ أَرْبَعٌ: طُلُوعُ الشَّمْسِ مِنْ مَغْرِبِہَا وَالدَّجَّالُ وَدَابَّۃُ الأَرْضِ وَخُرُوجُ یَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ، قَالَ: وَالآیَۃُ الَّتِی تُخْتَتمُ بِہَا الأَعْمَالُ طُلُوعُ الشَّمْسِ مِنْ مَغْرِبِہَا ، أَلَمْ تَسْمَعْ إِلَی قَوْلِ اللہِ عزوجل: {یَوْمَ یَأْتِی بَعْضُ آیَاتِ رَبِّکَ لاَ یَنْفَعُ نَفْسًا إیمَانُہَا لَمْ تَکُنْ آمَنَتْ مِنْ قَبْلُ} الآیَۃَ۔ (طبرانی ۱۰۱)
(٣٨٤٣٨) حضرت عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے انھوں نے ارشاد فرمایا جو نشانیاں ذکر کی گئی ہیں وہ گزر گئیں سوائے چار کے سورج کا مغرب سے طلوع ہونا اور دجال ( کا نکلنا) اور زمین کا جانور اور یاجوج ماجوج کا نکلنا ارشاد فرمایا جس پر اعمال ختم ہوجائیں گے وہ سورج کا مغرب سے طلوع ہونا ہے کیا تم نے اللہ عزوجل کا ارشاد نہیں سنا کہ جس دن تیرے پروردگار کی کوئی نشانی تیرے پاس آئے گی تو ایسے آدمی کو جو ایمان نہیں لایا ہوگا ایمان لانا نفع نہیں دے گا (آیت کے اخیر تک)

38438

(۳۸۴۳۹) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَنْ زَائِدَۃَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، قَالَ : زَعَمَ الْحَسَنُ ، أَنَّ نَبِیَّ اللہِ مُوسَی صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سَأَلَ رَبَّہُ أَنْ یُرِیَہُ الدَّابَّۃَ ، قَالَ : فَخَرَجَتْ ثَلاَثَۃَ أَیَّامٍ لاَ یَرَی وَاحِدٌ مِنْ طَرَفَیْہَا ، قَالَ : فَقَالَ : رَبِّ رُدَّہَا ، فَرُدَّتْ۔
(٣٨٤٣٩) حضرت حسن سے روایت ہے کہ اللہ کے نبی حضرت موسیٰ نے اپنے رب سے سوال کیا کہ وہ اسے وہ جانور دکھا دے فرمایا کہ وہ جانور تین دن نکلا اس کی ایک جانب بھی دکھائی نہ دی حسن نے فرمایا حضرت موسیٰ نے عرض کیا اے میرے رب اسے واپس کردیں پس وہ واپس لوٹا دیا گیا۔

38439

(۳۸۴۴۰) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَنْ زَائِدَۃَ ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِیزِ بْنِ رُفَیْعٍ ، عَنْ أَبِی الطُّفَیْلِ ، عَنْ حُذَیْفَۃَ ، قَالَ : تَخْرُجُ الدَّابَّۃُ مَرَّتَیْنِ قَبْلَ یَوْمِ الْقِیَامَۃِ حَتَّی یُضْرَبَ فِیہَا رِجَالٌ ، ثُمَّ تَخْرُجُ الثَّالِثَۃُ عِنْدَ أَعْظَمِ مَسَاجِدِکُمْ ، فَتَأْتِی الْقَوْمَ وَہُمْ مُجْتَمِعُونَ عِنْدَ رَجُلٍ فَتَقُولُ : مَا یَجْمَعُکُمْ عِنْدَ عَدُوِّ اللہِ ، فَیَبْتَدِرُونَ فَتَسِمُ الْکَافِرَ حَتَّی أَنَّ الرَّجُلَیْنِ لَیَتَبَایَعَانِ ، فَیَقُولُ ہَذَا : خُذْ یَا مُؤْمِنُ ، وَیَقُولُ ہَذَا : خُذْ یَا کَافِرُ۔ (نعیم ۱۸۵۱)
(٣٨٤٤٠) حضرت حذیفہ سے روایت ہے ارشاد فرمایا ایک جانور قیامت سے پہلے دو مرتبہ نکلے گا یہاں تک کہ اس کے نکلنے کے موقع پر مردوں کو مارا جائے گا پھر تیسری مرتبہ نکلے گا تمہاری مساجد میں سے سب سے بڑی مسجد کے لوگوں کے پاس آئے گا اس حال میں کہ وہ ایک آدمی کے پاس مجتمع ہوں گے پس وہ جانور کہے گا تمہیں اللہ کے دشمن کے پاس کس نے جمع کیا ہے لوگ جلدی کریں گے وہ جانور کافر پر نشانی لگائے گا یہاں تک کہ دو آدمی آپس میں خریدو فروخت کا معاملہ کریں گے ایک کہے گا لے یہ لے لے اے مومن اور دوسرا کہے گا لے لے اے کافر۔

38440

(۳۸۴۴۱) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَنْ زَائِدَۃَ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ عُمَیْرٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرو ، قَالَ : تَخْرُجُ الدَّابَّۃُ مِنْ جَبَلِ جِیَادٍ أَیَّامَ التَّشْرِیقِ وَالنَّاسُ بِمِنًی ، قَالَ : فَلِذَلِکَ حُیِّیَ سَابِقَ الْحَاجِّ إِذَا جَائَ بِسَلاَمَۃِ النَّاسِ۔
(٣٨٤٤١) حضرت عبداللہ بن عمرو سے روایت ہے ارشاد فرمایا کہ ایک جانور نکلے گا جیاد پہاڑ کی جانب سے ایام تشریق میں جبکہ لوگ منی میں ہوں گے انھوں نے فرمایا یہی وجہ ہے حاجیوں میں سب سے پہلے آنے والے کو دعا دی جاتی ہے جبکہ وہ لوگوں کو سلامتی کے ساتھ لے آئے۔

38441

(۳۸۴۴۲) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَنْ فُضَیْلِ بْنِ مَرْزُوقٍ ، عَنْ عَطِیَّۃَ ، عَنِ ابْنِ عَمْرٍو ، قَالَ : تَخْرُجُ الدَّابَّۃُ مِنْ صَدْعٍ فِی الصَّفَا جَرْیَ الْفَرَسِ ثَلاَثَۃَ أَیَّامٍ لاَ یَخْرُجُ ثُلُثُہَا۔
(٣٨٤٤٢) حضرت عبداللہ بن عمرو سے روایت ہے انھوں نے ارشاد فرمایا صفا کی دراڑ سے ایک جانور نکلے گا گھوڑے کے تین دن دوڑنے کے بقدر وقت میں اس کا ایک تھا ئی حصہ نہیں نکلے گا۔

38442

(۳۸۴۴۳) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنِی أَبُو حَیَّانَ ، عَنْ أَبِی زُرْعَۃَ ، قَالَ : جَلَسَ ثَلاَثَۃُ نَفَرٍ مِنَ الْمُسْلِمِینَ إِلَی مَرْوَانَ بْنِ الْحَکَمِ فَسَمِعُوہُ یُحَدِّثُ ، عَنِ الآیَاتِ ، أَنَّ أَوَّلَہَا خُرُوجُ الدَّجَّالِ ، فَانْصَرَفَ النَّفَرُ إِلَی عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرو ، فَحَدَّثُوہُ بِالَّذِی سَمِعُوہُ مِنْ مَرْوَانَ بْنِ الْحَکَمِ فِی الآیَاتِ ، أَنَّ أَوَّلَہَا خُرُوجُ الدَّجَّالِ ، فَقَالَ عَبْدُ اللہِ : لَمْ یَقُلْ مَرْوَانُ شَیْئًا ، قَدْ حَفِظْت مِنْ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حَدِیثًا لَمْ أَنْسَہُ بَعْدُ ؛ سَمِعْت رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : إِنَّ أَوَّلَ الآیَاتِ خُرُوجًا طُلُوعُ الشَّمْسِ مِنْ مَغْرِبِہَا ، أَوْ خُرُوجُ الدَّابَّۃِ عَلَی النَّاسِ ضُحًی ، وَأَیَّتُہُمَا مَا کَانَتْ قَبْلَ صَاحِبَتِہَا فَالأُخْرَی عَلَی أَثَرِہَا قَرِیبًا ، ثُمَّ قَالَ عَبْدُ اللہِ وَکَانَ یَقْرَأُ الْکُتُبَ : وَأَظُنُّ أَوَّلُہُمَا خُرُوجًا طُلُوعَ الشَّمْسِ مِنْ مَغْرِبِہَا ، وَذَاکَ أَنَّہَا کُلَّمَا غَرَبَتْ أَتَتْ تَحْتَ الْعَرْشِ فَسَجَدَتْ فَاسْتَأْذَنَتْ فِی الرُّجُوعِ فَأُذِنَ لَہَا فِی الرُّجُوعِ حَتَّی إِذَا شَائَ اللَّہُ أَنْ تَطْلُعَ مِنْ مَغْرِبِہَا أَتَتْ تَحْتَ الْعَرْشِ فَسَجَدَتْ وَاسْتَأْذَنَتْ فَلَمْ یَرُدَّ عَلَیْہَا بِشَیْئٍ ، ثُمَّ تَعُودُ فَتَسْتَأْذِنُ فِی الرُّجُوعِ فَلاَ یَرُدُّ عَلَیْہَا بِشَیْئٍ ، ثُمَّ تَعُودُ فَتَسْتَأْذِنُ فِی الرُّجُوع فَلاَ یَرُدُّ عَلَیْہَا بِشَیْئٍ ، حَتَّی إِذَا ذَہَبَ مِنَ اللَّیْلِ مَا شَائَ اللَّہُ أَنْ یَذْہَبَ ، وَعَرَفَتْ أَنَّہَا لَوْ أُذِنَ لَہَا لَمْ تُدْرِکَ الْمَشْرِقَ ، قَالَتْ : رَبِّ ، مَا أَبْعَدَ الْمَشْرِقُ ، قالت رب : مَنْ لِی بِالنَّاسِ ، حَتَّی إِذَا أَضَائَ الأُفُقُ کَأَنَّہُ طَوْقٌ اسْتَأْذَنَتْ فِی الرُّجُوعِ ، قِیلَ لَہَا : مَکَانَک فَاطْلُعِی ، فَطَلَعَتْ عَلَی النَّاسِ مِنْ مَغْرِبِہَا ، ثُمَّ تَلاَ عَبْدُ اللہِ ہَذِہِ الآیَۃَ وَذَلِکَ : {یَوْمَ یَأْتِی بَعْضُ آیَاتِ رَبِّکَ لاَ یَنْفَعُ نَفْسًا إیمَانُہَا لَمْ تَکُنْ آمَنَتْ مِنْ قَبْلُ أَوْ کَسَبَتْ فِی إیمَانِہَا خَیْرًا} ۔
(٣٨٤٤٣) حضرت ابو زرعہ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا تین آدمی مسلمانوں میں سے مروان بن حکم کے پاس بیٹھے تھے انھوں نے ان سے سنا نشانیوں کے متعلق بیان کر رہے تھے کہ نشانیوں میں سے پہلی نشانی دجال کا نکلنا ہے وہ لوگ حضرت عبداللہ بن عمرو کے پاس گئے اور جو مروان بن حکم سے نشانیوں سے متعلق سنا تھا وہ حضرت عبداللہ سے بیان کیا کہ پہلی نشانی دجال کا نکلنا ہے حضرت عبداللہ نے فرمایا مروان نے کوئی بات بیان نہیں کی میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ فرماتے ہوئے سنا کہ پہلی نشانی نشانیوں میں سے نکلنے میں سورج کا طلوع ہونا ہے مغرب سے یا جانور کا نکلنا ہے لوگوں پر چاشت کے وقت اور ان دونوں نشانیوں میں سے جو بھی دوسری نشانی سے پہلے ہوگی دوسری اس کے پیچھے قریب ہی واقع ہوجائے گی پھر حضرت عبداللہ نے فرمایا وہ کتابیں پڑھتے تھے کہ میرا گمان ہے کہ ان دونوں نشانیوں سے پہلی سورج کا مغرب سے طلوع ہونا ہوگی اور یہ اس وجہ سے کہ جب بھی وہ غروب ہوتا ہے عرش کے نیچے آتا ہے اور دوبارہ طلوع کی اجازت چاہتا ہے اسے دوبارہ طلوع کی اجازت دے دی جاتی ہے یہاں تک کہ جب اللہ تعالیٰ چاہیں گے کہ سورج مغرب سے طلوع ہو وہ عرش کے نیچے آئے گا اور سجدہ ریز ہوگا واپسی کی اجازت چاہے گا اسے کوئی جواب نہیں دیا جائے گا پھر لوٹے گا اور واپسی کی اجازت مانگے گا اسے کوئی جواب نہیں دیا جائے گا پھر لوٹے گا اور واپسی کی اجازت مانگے گا اسے کوئی جواب نہیں دیا جائے گا یہاں تک جب رات کا جتنا حصہ اللہ چاہیں گے گزر جائے گا اور سورج یہ جان لے گا کہ اگر اسے اجازت دی گئی تو وہ مشرق تک نہیں پہنچ سکے گا تو وہ عرض کرے گا اے میرے رب مشرق کتنی ہی دور ہے سورج عرض کرے گا اے میرے رب کون ہے میرے لیے لوگوں میں سے یہاں تک کہ جب افق روشن ہوگا گویا کہ طوق ہے واپسی کی اجازت چاہے گا اس سے کہا جائے گا تم پر لازم ہے تمہارا مقام طلوع ہو پس وہ طلوع ہوگا لوگوں پر مغرب سے پھر حضرت عبداللہ نے یہ آیت تلاوت کی جس دن تیرے پروردگار کی کوئی نشانی آئیگی اس دن کسی ایسے شخص کا ایمان کار آمد نہیں ہوگا جو پہلے ایمان نہ لایا ہو یا جس نے اپنے ایمان کے ساتھ کسی نیک عمل کی کمائی نہ کی ہو۔

38443

(۳۸۴۴۴) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ شَقِیقٍ ، عَنْ حُذَیْفَۃَ ، قَالَ : کُنَّا مَعَ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ : أَحْصُوا کُلَّ مَنْ تَلَفَّظَ بِالإِسْلاَمِ ، قَالَ : قُلْنَا : یَا رَسُولَ اللہِ ، تَخَافُ عَلَیْنَا وَنَحْنُ مَا بَیْنَ السِّتِّ مِئَۃِ إِلَی السَّبْعِمِئَۃِ ، فَقَالَ : إنَّکُمْ لاَ تَدْرُونَ لَعَلَّکُمْ أَنْ تُبْتَلَوْا ، قَالَ : فَابْتُلِینَا حَتَّی جَعَلَ الرَّجُلُ مِنَّا مَا یُصَلِّی إِلاَّ سِرًّا۔ (مسلم ۱۳۱۔ احمد ۳۸۴)
(٣٨٤٤٤) حضرت حذیفہ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ ہم نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ تھے آپ نے فرمایا ہر اسلام کا اقرار کرنے والے کو شمار کرو حضرت حذیفہ نے فرمایا ہم نے عرض کیا اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ہمارے بارے میں خوف کرتے ہیں اور ہم چھ سو سے سات سو تک ہیں آپ نے ارشاد فرمایا یقیناً تم نہیں جانتے شاید کہ تمہیں آزمایا جائے راوی فرماتے ہیں ہم آزمائے گئے یہاں تک کہ ہم میں سے کوئی نماز نہیں پڑھ سکتا تھا سوائے چھپ کر۔

38444

(۳۸۴۴۵) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عن أبی وائل ، عَنْ حُذَیْفَۃَ ، قَالَ : مَا بَیْنَکُمْ وَبَیْنَ أَنْ یُرْسَلَ عَلَیْکُمَ الشَّرُّ فَرَاسِخَ إِلاَّ مَوْتَۃٌ فِی عُنُقِ رَجُلٍ یَمُوتُہَا ، وَہُوَ عُمَرُ۔ (نعیم ۵۳)
(٣٨٤٤٥) حضرت حذیفہ نے ارشاد فرمایا نہیں ہے تمہارے درمیان اور اس بات کے درمیان کہ تم پر ہمیشہ برائی بھیج دی جائے مگر موت اس آدمی کی گردن میں جو ان برائیوں کو ختم کرتا اور وہ حضرت عمر ہیں۔

38445

(۳۸۴۴۶) حَدَّثَنَا ابْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ حُصَیْنِ بْنِ عَبْدِ اللہِ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ ، قَالَ : مَا أَعْرِفُ شَیْئًا إِلاَّ الصَّلاَۃَ۔
(٣٨٤٤٦) حضرت انس بن مالک سے روایت ہے فرمایا کہ میں کوئی چیز نہیں پہچانتا سوائے نماز کے۔

38446

(۳۸۴۴۷) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ ، قَالَ : حَدَّثَنِی رَجُلٌ کَانَ یَبِیعُ الطَّعَامَ ، قَالَ : لَمَّا قَدِمَ حُذَیْفَۃُ عَلَی جُوخَا أَتَی أَبَا مَسْعُودٍ یُسَلِّمُ عَلَیْہِ ، فَقَالَ أَبُو مَسْعُودٍ : مَا شَأْنُ سَیْفِکَ ہَذَا یَا أَبَا عَبْدِ اللہِ ؟ قَالَ: أَمَّرَنِی عُثْمَان عَلَی جُوخَا ، فَقَالَ : یَا أَبَا عَبْدِ اللہِ ، أَتَخْشَی أَنْ تَکُونَ ہَذِہِ فِتْنَۃً ، حِینَ طَرَدَ النَّاسُ سَعِیدَ بْنَ الْعَاصِ ، قَالَ لَہُ حُذَیْفَۃُ : أَمَا تَعْرِفُ دِینَک یَا أَبَا مَسْعُودٍ ، قَالَ : بَلَی ، قَالَ : فَإِنَّہَا لاَ تَضُرُّک الْفِتْنَۃُ مَا عَرَفْتَ دِینَک ، إنَّمَا الْفِتْنَۃُ إِذَا اشْتَبَہَ عَلَیْک الْحَقُّ وَالْبَاطِلُ فَلَمْ تَدْرِ أَیَّہُمَا تَتَّبِعُ ، فَتِلْکَ الْفِتْنَۃُ۔
(٣٨٤٤٧) حضرت اسماعیل سے روایت ہے فرمایا کہ ہم سے ایک صاحب نے بیان کیا جو گندم فروخت کرتے تھے انھوں نے فرمایا جب حضرت حذیفہ بغداد کے صوبے میں آئے تو حضرت ابو مسعود انصاری کے پاس آئے اور انھیں سلام کیا حضرت ابو مسعود نے پوچھا تمہاری تلوار کی کیا حالت ہے اے ابو عبداللہ انھوں نے فرمایا حضرت عثمان نے مجھے اس صوبے پر امیر مقرر کیا ہے انھوں نے فرمایا اے ابو عبداللہ کیا تمہیں اس کا خوف ہے کہ یہ فتنہ ہو جبکہ لوگوں نے حضرت سعید بن عاص کو نکال دیا ہے حضرت حذیفہ نے ان سے فرمایا کیا تم اپنے دین کو نہیں جانتے اے ابو مسعود انھوں نے فرمایا کیوں نہیں تو پھر حضرت حذیفہ نے فرمایا بلاشبہ تمہیں فتنہ نقصان نہیں پہنچائے گا جب تک تم اپنے دین کو پہچانتے ہو فتنہ تو اس وقت ہے جب حق اور باطل تم پر مشتبہ ہوجائے اور تمہیں پتہ نہ چلے کہ دونوں میں سے کس کی پیروی کرو پس یہ فتنہ ہے۔

38447

(۳۸۴۴۸) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ الثَّقَفِیُّ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنْ مُحَمَّدٍ ، أَنَّ رَجُلاً مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : مَا أَدْرَکَتِ الْفِتْنَۃُ أَحَدًا مِنَّا إِلاَّ لَوْ شِئْت أَنْ أَقُولَ فِیہِ لَقُلْت فِیہِ إِلاَّ عَبْدَ اللہِ بْنَ عُمَرَ۔
(٣٨٤٤٨) حضرت محمد سے روایت ہے کہ بلاشبہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب میں ایک صاحب نے فرمایا ہم میں سے کسی کو بھی فتنہ نہیں پاتا مگر یہ کہ اگر میں چاہوں تو اس کے بارے میں کچھ کہہ سکتا ہوں سوائے حضرت عبداللہ بن عمر کے۔

38448

(۳۸۴۴۹) حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِیَۃَ، عَنِ الْعَلاَئِ بْنِ خَالِدٍ، عَنْ شَقِیقٍ، قَالَ: قَالَ عَبْدُاللہِ: أیہا الناس إِنَّ ہَذَا السُّلْطَانَ قَدَ اُبْتُلِیتُمْ بِہِ، فَإِنْ عَدَلَ کَانَ لَہُ الأَجْرُ وَعَلَیْکُمُ الشُّکْرُ، وَإِنْ جَارَ کَانَ عَلَیْہِ الْوِزْرُ وَعَلَیْکُمُ الصَّبْرُ۔
(٣٨٤٤٩) حضرت عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے اے لوگو ! بلاشبہ یہ بادشاہ اس کی تمہارے ذریعہ آزمائش کی جارہی ہے اگر وہ عدل کرے گا تو اس کے لیے اجر ہوگا اور تم پر لازم ہوگا شکر اور اگر وہ ظلم کرے گا تو اس پر گناہ ہوگا اور تم پر لازم ہوگا صبر۔

38449

(۳۸۴۵۰) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ یُونُسَ ، عَنْ الحسن عن عُتَیٍّ ، قَالَ : قَالَ لِی أُبَیّ : ہَلَکَ أَہْلُ ہَذِہِ الْعُقْدَۃِ وَرَبِّ الْکَعْبَۃِ ہَلَکُوا وَأَہْلَکُوا کَثِیرًا ، أَمَا وَاللہِ مَا عَلَیْہِمْ آسِی وَلَکِنْ عَلَی مَنْ یَہْلَکُونَ مِنْ أُمَّۃِ مُحَمَّدٍ صلی اللہ علیہ السلام۔ (نسائی ۸۸۲۔ ابن خزیمۃ ۱۵۷۳)
(٣٨٤٥٠) حضرت عتی سے روایت ہے فرمایا کہ مجھ سے حضرت ابی نے فرمایا اس مقام پر اہل حل و عقد (مراد امراء ہیں) ہلاک ہوں گے کعبہ کے رب کی قسم ہلاک ہوں گے اور بہت ساروں کو ہلاک کردیا باقی اللہ کی قسم مجھے ان پر افسوس نہیں ہے لیکن ان پر ہے جو امت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہلاک ہوں گے۔

38450

(۳۸۴۵۱) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا ہِشَامٌ ، عَنِ الْحَسَنِ ، عَنْ ضَبَّۃَ بْنِ مِحْصَنٍ ، عَنْ أُمِّ سَلَمَۃَ ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إِنَّہَا سَتَکُونُ أُمَرَائُ تَعْرِفُونَ وَتُنْکِرُونَ ، فَمَنْ أَنْکَرَ فَقَدْ بَرِئَ ، وَمَنْ کَرِہَ فَقَدْ سَلِمَ ، وَلَکِنْ مَنْ رَضِیَ وَتَابَعَ ، قَالُوا : یَا رَسُولَ اللہِ ، أَفَلاَ نُقَاتِلُہُمْ ، قَالَ : لاَ ، مَا صَلَّوْا۔ (ترمذی ۲۲۶۵۔ احمد ۲۹۵)
(٣٨٤٥١) حضرت ام سلمہ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ عنقریب امراء ہوں گے جن کو تم بھلائی کا حکم دو گے اور برائی سے روکو گے جس آدمی نے انکار کیا وہ بری ہوگیا جس آدمی نے ناپسند کیا وہ بھی محفوظ ہوگیا۔ لیکن وہ آدمی جو راضی ہوا اور پیروی کی صحابہ (رض) نے عرض کیا اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا ہم ان سے لڑائی نہ کریں۔ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا نہیں جب تک کہ وہ نماز پڑھتے رہیں۔

38451

(۳۸۴۵۲) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، عَنْ عُمَیْرِ بْنِ إِسْحَاقَ ، قَالَ : قَالَ أَبُو ہُرَیْرَۃَ : لَتُؤْخَذَنَّ الْمَرْأَۃُ فَلْیُبْقَرَنَّ بَطْنُہَا ، ثُمَّ لَیُؤْخَذَنَّ مَا فِی الرَّحِمِ فَلْیُنْبَذَنَّ مَخَافَۃَ الْوَلَدِ۔
(٣٨٤٥٢) حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ عورت کو پکڑا جائے گا اور اس کے پیٹ کو پھاڑا جائے گا اور اولاد کے خوف سے اس کے رحم میں موجود جنین کو پھینک دیا جائے گا۔

38452

(۳۸۴۵۳) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، عَنْ عُمَیْرِ بْنِ إِسْحَاقَ ، قَالَ : قَالَ أَبُو ہُرَیْرَۃَ : یَا وَیْحَہ ، یُخْلَعُ وَاللہِ کَمَا یُخْلَعُ الْوَظِیفُ ، یَا وَیْلَتَاہُ ، یُعْزَلُ کَمَا یُعْزَلُ الْجَدْیُ۔
(٣٨٤٥٣) حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے انھوں نے ارشاد فرمایا ہلاکت ہے اس کے لیے جسے الگ کردیا جائے گا اللہ کی قسم جیسا کہ جانور کی پنڈلی کو الگ کردیا جاتا ہے۔ اور ہلاکت ہے اس پر جسے معزول کردیا جائے گا بکری کے بچے کے ہٹانے کی طرح۔

38453

(۳۸۴۵۴) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا مُسْتَلِمُ بْنُ سَعِیدٍ ، عَنْ مَنْصُورِ بْنِ زَاذَانَ ، عَنْ مُعَاوِیَۃَ بْنِ قُرَّۃَ ، عَنْ مَعْقِلِ بْنِ یَسَارٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : الْعِبَادَۃُ فِی الْفِتْنَۃِ کَالْہِجْرَۃِ إِلَیَّ۔ (طبرانی ۴۹۲)
(٣٨٤٥٤) حضرت معقل بن یسار سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا کہ فتنے میں عبادت کرنا میری طرف ہجرت کرنے کی طرح ہے۔

38454

(۳۸۴۵۵) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، قَالَ: حدَّثَنَا سُفْیَانُ، عَنِ الْمُغِیرَۃِ بْنِ النُّعْمَانِ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ الأَقْنَعِ الْبَاہِلِیِّ، عَنِ الأَحْنَفِ بْنِ قَیْسٍ، قَالَ: کُنْتُ جَالِسًا فِی مَسْجِدِ الْمَدِینَۃِ ، فَأَقْبَلَ رَجُلٌ لاَ تَرَاہُ حَلْقَۃٌ إِلاَّ فَرُّوا مِنْہُ حَتَّی انْتَہَی إِلَی الْحَلْقَۃِ الَّتِی کُنْت فِیہَا ، فَثَبَتُّ وَفَرُّوا ، فَقُلْتُ : مَنْ أَنْتَ ، فَقَالَ أَبُو ذَرٍّ صَاحِبُ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قُلْتُ: مَا یَفِرُّ النَّاسُ مِنْک ، قَالَ: إنِّی أَنْہَاہُمْ عَنِ الْکُنُوزِ ، قَالَ: قُلْتُ: إِنَّ أُعْطِیَاتِنَا قَدْ بَلَغَتْ وَارْتَفَعَتْ فَتَخَافُ عَلَیْنَا مِنْہَا ، قَالَ : أَمَّا الْیَوْمُ فَلاَ وَلَکِنَّہَا یُوشِکُ أَنْ یَکُونَ أَثْمَان دِینِکُمْ ، فَدَعُوہُم وَإِیَّاہَا۔
(٣٨٤٥٥) حضرت احنف بن قیس سے روایت ہے انھوں نے فرمایا میں مدینہ کی مسجد میں بیٹھا ہوا تھا ایک صاحب آئے کہا کہ کوئی بھی (بیٹھنے والاحلقہ ان کو نہیں دیکھتا تھا مگر یہ کہ ان سے بھاگ جاتے تھے۔ یہاں تک کہ وہ اس حلقے میں آگئے جس میں میں تھا پس میں ٹھہرا رہا اور دیگر لوگ بھاگ گئے۔ میں نے کہا آپ کون ہیں ؟ انھوں نے بتلایا ابو ذر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ساتھی۔ میں نے عرض کیا آپ سے لوگ کیوں بھاگے ہیں ؟ انھوں نے فرمایا اس وجہ سے کہ میں ان کو خزانے جمع کرنے سے روکتا ہوں۔ حضرت احنف بن قیس فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ بیشک ہمارے عطیات کثیر تعداد کو پہنچ چکے ہیں اور بلند ہوچکے ہیں۔ کیا آپ ہم پر ان کی وجہ سے خوف کرتے ہیں انھوں نے فرمایا کہ اس وقت میں تو نہیں لیکن قریب ہے کہ وہ تمہارے دین کی قیمت بن جائیں۔ اس وقت ان عطیات سے اجتناب کرنا۔

38455

(۳۸۴۵۶) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، قَالَ : حَدَّثَنِی أَبُو الْجَحَّاف ، قَالَ : أَخْبَرَنِی أَبُو مُعَاوِیَۃُ بْنُ ثَعْلَبَۃَ ، قَالَ : أَتَیْتُ مُحَمَّدَ بْنَ الْحَنَفِیَّۃِ ، فَقُلْتُ : إِنَّ رَسُولَ الْمُخْتَارِ أَتَانَا یَدْعُونَا ، قَالَ : فَقَالَ لِی : لاَ تُقَاتِل ، إنِّی أَکْرَہُ أَنْ أَسُوئَ ہَذِہِ الأُمَّۃِ ، أَوْ آتِیہَا مِنْ غَیْرِ وَجْہِہَا۔
(٣٨٤٥٦) حضرت معاویہ بن ثعلبہ فرماتے ہیں میں محمد بن حنفیہ کے پاس آیا میں نے عرض کیا بلاشبہ مختار کے قاصد ہمارے پاس آئے ہمیں دعوت دیتے رہے راوی نے فرمایا مجھ سے انھوں نے فرمایا کہ لڑائی نہ کرنا بلاشبہ میں ناپسند کرتا ہوں اس بات کو کہ اس امت میں سے سب سے برا ہوں یا یہ فرمایا میں آؤں ان کے پاس ان کے طریقے کے علاوہ پر۔

38456

(۳۸۴۵۷) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ، عَنْ سُفْیَانَ، عَنِ الزُّبَیْرِ بْنِ عَدِیٍّ، قَالَ: قَالَ لِی إبْرَاہِیمُ: إیَّاکَ أَنْ تُقْتلَ مَعَ فتنۃ۔
(٣٨٤٥٧) حضرت زبیر بن عدی نے فرمایا مجھ سے حضرت ابراہیم نے فرمایا تو بچ اس بات سے کہ فتنے کے ساتھ قتل کیا جائے۔

38457

(۳۸۴۵۸) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ ، عَنْ أَبِی وَائِلٍ ، قَالَ : دَخَلَ أَبُو مُوسَی ، وَأَبُو مَسْعُودٍ عَلَی عَمَّارٍ وَہُوَ یَسْتَنْفِرُ النَّاسَ ، فَقَالاَ : مَا رَأَیْنَا مِنْک مُنْذُ أَسْلَمْت أَمْرًا أَکْرَہُ عِنْدَنَا مِنْ إسْرَاعِکَ فِی ہَذَا الأَمْرِ ، فَقَالَ : عَمَّارٌ : مَا رَأَیْت مِنْکُمَا مُنْذُ أَسْلَمْتُمَا أَمْرًا أَکْرَہُ عِنْدِی مِنْ إبْطَائِکُمَا عَنْ ہَذَا الأَمْرِ ، قَالَ : فَکَسَاہُمَا حُلَّۃً حُلَّۃً۔ (بخاری ۷۱۰۲۔ حاکم ۱۱۷)
(٣٨٤٥٨) حضرت ابو وائل سے روایت ہے فرمایا کہ حضرت ابو موسیٰ اور ابو مسعود حضرت عمار کے پاس آئے وہ لوگوں کو لڑائی کے لیے بلا رہے تھے ان دونوں حضرات نے فرمایا جب سے آپ نے اسلام قبول کیا ہے ہم نے اس سے زیادہ ناپسندیدہ امر آپ سے نہیں دیکھا تمہارے اس امر میں جلدی کرنے کے نسبت حضرت عمار نے فرمایا میں نے تم سے جب سے تم نے اسلام قبول کیا ہے اس سے زیادہ ناپسندیدہ امر اپنے نزدیک نہیں ر دیکھا تمہارے اس امر میں سستی کرنے کی نسبت راوی فرماتے ہیں حضرت عمار نے ان دونوں کو ایک ایک جوڑا پہنا دیا۔

38458

(۳۸۴۵۹) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ ، قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا وَائِلٍ یُحَدِّثُ ، عَنِ الْحَارِثِ بْنِ حُبَیْشٍ الأَسَدِیِّ ، قَالَ : بَعَثَنِی سَعِیدُ بْنُ الْعَاصِ بِہَدَایَا إِلَی أَہْلِ الْمَدِینَۃِ وَفَضَّلَ عَلِیًّا ، قَالَ : وَقَالَ لِی : قُلْ لَہُ : إِنَّ ابْنَ أَخِیک یُقْرِئُک السَّلاَمَ وَیَقُولُ : مَا بَعَثْتُ إِلَی أَحَدٍ بِأَکْثَرَ مِمَّا بَعَثْتُ إلَیْک إِلاَّ مَا کَانَ فِی خَزَائِنِ أَمِیرِ الْمُؤْمِنِینَ ، فَقَالَ عَلِیٌّ : أَشَدُّ مَا یُحْزَنُ عَلَی مِیرَاثِ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، أَمَا وَاللہِ لَئِنْ مَلَکْتہَا لأَنْفُضَنَّہَا نَفْضَ الْوِذَامِ التَّرِبَۃَ۔ (ابوعبید ۴۳۸۔ احمد ۱۸۷۶)
(٣٨٤٥٩) حضرت حارث بن حبیش اسدی نے فرمایا مجھے حضرت سعید بن عاص نے کچھ ہدایا دے کر مدینہ والوں کی طرف بھیجا اور حضرت علی کو فضیلت دی (ہدایا میں) راوی نے فرمایا مجھ سے حضرت سعید بن عاص نے فرمایا ان سے کہنا آپ کے چچا کا بیٹا آپ کو سلام کہہ رہا تھا اور کہہ رہا تھا میں نے کسی کی طرف اس سے زیادہ نہیں بھیجا جتنا آپ کی طرف بھیجا ہے سوائے اس کے جو امیرالمؤمنین کے خزانے میں ہے حضرت علی نے فرمایا سب سے زیادہ جس بات کا مجھے غم ہے وہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی میراث ہے باقی اگر میں اس کا مالک ہوجاؤں تو اسے جھاڑ دوں جگر کے گوشت کے ٹکڑے کو مٹی سے جھاڑنے کی طرح۔

38459

(۳۸۴۶۰) حَدَّثَنَا مُعْتَمِرُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنِ الرُّکَیْنِ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ ، قَالَ : کَانَ یَقُولُ لَنَا فِی خِلاَفَۃِ عُمَرَ : إِنَّہَا سَتَکُونُ ہَنَات وَہَنَات ، وَأَنَّ بِحَسْب الرَّجُلِ إِذَا رَأَی أَمْرًا یَکْرَہُہُ أَنْ یُعْلِمَ اللَّہَ ، أَنَّہُ لَہُ کَارِہٌ۔
(٣٨٤٦٠) حضرت عمیلہ حضرت عبداللہ بن مسعود سے روایت کرتے ہیں فرمایا کہ حضرت ابن مسعود ہم سے حضرت عمر کے خلافت کے زمانے میں فرماتے تھے بلاشبہ عنقریب فتنے ہوں گے فتنے ہوں گے اور آدمی کے لیے کافی ہوگی یہ بات کہ جب کسی ناپسندیدہ امر کو دیکھے تو اسے ناپسند کرے کہ اللہ تعالیٰ جان لیں کہ بلاشبہ یہ اس امر کو ناپسند کرنے والا ہے۔

38460

(۳۸۴۶۱) حَدَّثَنَا مُعَاوِیَۃُ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ ابْنِ طَاوُوس ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : قُلْتُ : لاِبْنِ عَبَّاسٍ : أَنْہَی أَمِیرِی عَنْ مَعْصِیَۃٍ ، قَالَ : لاَ تَکُونُ فِتْنَۃٌ ، قَالَ : قُلْتُ : فَإِنْ أَمَرَنِی بِمَعْصِیَۃٍ ، قَالَ : فَحِینَئِذٍ۔
(٣٨٤٦١) حضرت طاؤس سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ میں نے حضرت ابن عباس سے پوچھا کہ کیا میں اپنے امیر کو معصیت سے روکوں انھوں نے فرمایا نہیں فتنہ ہوگا طاؤس نے فرمایا میں نے عرض کیا اگر وہ مجھے گناہ کا حکم دے ارشاد فرمایا اس وقت (روک سکتے ہو)

38461

(۳۸۴۶۲) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ بْنِ إِسْحَاقَ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ، قَالَ : قَالَ رَجُلٌ لاِبْنِ عَبَّاسٍ : آمُرُ أَمِیرِی بِالْمَعْرُوفِ ، قَالَ : إِنْ خِفْت أَنْ یَقْتُلَک فَلاَ تُؤَنِّبَ الإِمَامَ ، فَإِنْ کُنْتَ لاَ بُدَّ فَاعِلاً فَفِیمَا بَیْنَکَ وَبَیْنَہُ۔
(٣٨٤٦٢) حضرت سعید بن جبیر سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ ایک صاحب نے حضرت ابن عباس سے پوچھا کیا میں اپنے امیر کو نیکی کا حکم کروں انھوں نے ارشاد فرمایا اگر تجھے (امر بالمعروف) کرنا ضرور ہو تو اپنے اور اس کے درمیان ہو۔

38462

(۳۸۴۶۳) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنِ الْعَلاَئِ ، عَنْ خَیْثَمَۃ ، قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللہِ : إِذَا أَتَیْتَ الأَمِیرَ الْمُؤَمِنُ فَلاَ تؤتیہ أَحَدٌ مِنَ النَّاسِ۔
(٣٨٤٦٣) حضرت عبداللہ سے روایت ہے ارشاد فرمایا جب تو مومن امیر کے پاس جائے تو لوگوں کے سامنے اسے نصیحت مت کر۔

38463

(۳۸۴۶۴) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ بْنِ مَیْسَرَۃَ ، عَنْ طَاوُوسٍ ، قَالَ : ذَکَرْت الأُمَرَائَ عِنْدَ ابْنِ عَبَّاسٍ فَابْتَرَکَ فِیہِمْ رَجُلٌ فَتَطَاوَلَ حَتَّی مَا أَرَی فِی الْبَیْتِ أَطْوَلَ مِنْہُ ، فَسَمِعْت ابْنَ عَبَّاسٍ یَقُولُ : لاَ تَجْعَلْ نَفْسَک فِتْنَۃً لِلْقَوْمِ الظَّالِمِینَ ، فَتَقَاصَرَ حَتَّی مَا أَرَی فِی الْبَیْتِ أَقْصَرَ مِنْہُ۔
(٣٨٤٦٤) حضرت طاؤس سے روایت ہے فرمایا کہ حضرت ابن عباس کے پاس امراء کا تذکرہ کیا گیا ان میں سے ایک لڑائی کے لیے گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا اس نے سر اٹھایا یہاں تک کہ گھر میں اس سے زیادہ لمبا میں نے کسی کو نہیں دیکھا حضرت طاؤس فرماتے ہیں میں نے حضرت ابن عباس سے سنا یہ فرماتے ہوئے کہ اپنے آپ کو ظالم قوم کے لیے فتنہ نہ بنا پس وہ نیچے ہوگیا یہاں تک کہ اس سے زیادہ چھوٹا مجھے گھر میں کوئی دکھائی نہیں دے رہا تھا۔

38464

(۳۸۴۶۵) حَدَّثَنَا کَثِیرُ بْنُ ہَمَّامٍ ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ بُرْقَانَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ بِشْرٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا أَیُّوب السِّخْتِیَانِیُّ ، قَالَ : اجْتَمَعَ ابْنُ مَسْعُودٍ وَسَعْدٌ ، وَابْنُ عُمَرَ وَعَمَّارٌ فَذَکَرُوا فِتْنَۃٌ تَکُونُ ، فَقَالَ سَعْدٌ : أَمَّا أَنَا فَأَجْلِسُ فِی بَیْتِی وَلاَ أَخْرُجُ مِنْہُ وَقَالَ ابْنُ مَسْعُودٍ : أَنَا عَلَی مَا قُلْتَ ، وَقَالَ ابْنُ عُمَرَ : أَنَا عَلَی مِثْلَ ذَلِکَ ، وَقَالَ عَمَّارٌ : لَکِنِّی أَتَوَسَّطُہَا فَأَضْرِبُ خَیْشُومَہَا الأَعْظَمَ۔ (مسند ۷۵۵)
(٣٨٤٦٥) حضرت ایوب السختیانی سے روایت ہے انھوں نے فرمایا حضرت عبداللہ بن مسعود اور حضرت سعد اور حضرت ابن عمر اور حضرت عمار جمع ہوئے آئندہ کے فتنے کے بارے میں تذکرہ کرنے لگے حضرت سعد نے فرمایا باقی رہا میں تو میں اپنے گھر میں بیٹھوں گا اور اس سے نہیں نکلوں گا اور حضرت عبداللہ بن مسعود نے فرمایا میں اس پر ہوں جو تم نے کہا اور حضرت ابن عمر نے فرمایا میں بھی اس کی مثل پر ہوں اور حضرت عمار نے فرمایا لیکن میں اس کے درمیان میں ہوں گا اس کے بڑے ناک پر ماروں گا۔

38465

(۳۸۴۶۶) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَیْدٍ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ التَّیْمِیِّ ، قَالَ : کَانَ الْحَارِثُ بْنُ سُوَیْد فِی نَفَرٍ ، فَقَالَ: إیَّاکُمْ وَالْفِتَنَ فَإِنَّہَا قَدْ ظَہَرَتْ، فَقَالَ رَجُلٌ: فَأَنْتَ قَدْ خَرَجْت مَعَ عَلِیٍّ، قَالَ: وَأَیْنَ لَکُمْ إمَامٌ مِثْلُ عَلِیٍّ۔
(٣٨٤٦٦) حضرت ابراہیم تیمی سے روایت ہے انھوں نے فرمایا حضرت حارث بن سوید ایک لشکر میں تھے انھوں نے ارشاد فرمایا بچو تم فتنوں سے بلاشبہ وہ ظاہر ہوچکے ہیں ایک آدمی نے کہا آپ بھی تو حضرت علی کے ساتھ نکلے ہیں انھوں نے فرمایا کہاں ہوگا امام حضرت علی جیسا۔

38466

(۳۸۴۶۷) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَیْدٍ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ زِیَادٍ ، عَنْ تُبَیْعٍ ، قَالَ : قَالَ کَعْبٌ : إِنَّ لِکُلِّ قَوْمٍ کَلْبًا ، فَاتَّقِ اللَّہَ لاَ یَضُرَّنَّکَ شَرُّہُ۔
(٣٨٤٦٧) حضرت کعب سے روایت ہے ارشاد فرمایا کہ ہر قوم کے لیے کتا ہوتا ہے پس اللہ سے ڈرو اس کا شر تمہیں نقصان نہیں پہنچائے گا۔

38467

(۳۸۴۶۸) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا حمید ، عَنْ مَیْمُونِ بْنِ سیاہ ، عَنْ جُنْدُبِ بْنِ عَبْدِ اللہِ ، أَنَّہُ قَالَ فِی الْفِتْنَۃِ : إِنَّہُ مَن شخص لَہُ أَردتہ۔
(٣٨٤٦٨) حضرت جندب بن عبداللہ سے روایت ہے انھوں نے فتنے کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ جس آدمی نے اس طرف ٹکٹکی باندھ کر دیکھا۔۔۔تو وہ اسے ہلاک کر دے گا۔

38468

(۳۸۴۶۹) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ أَبِی بُکَیْرٍ، قَالَ: حدَّثَنَا زُہَیْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ مُوسَی بْنِ جُبَیْرٍ، عَنْ مبشر بْنِ الْمُحَرَّر، عَنْ أَبِی ذَرٍّ ، قَالَ : تُوشِکُ الْمَدِینَۃُ أَنْ لاَ یُحْمَلَ إلَیْہَا طَعَامٌ عَلَی قَتَبٍ ، وَیَکُونُ طَعَامُ أَہْلِہَا بِہَا ، مَنْ کَانَ لَہُ أَصْلٌ ، أَوْ حَرْثٌ ، أَوْ مَاشِیَۃٌ یَتْبَعُ أَذْنَابَہَا فِی أَطْرَافِ السَّحَابِ ، فَإِذَا رَأَیْتُمُ الْبُنْیَانَ قَدْ عَلاَ سَلَعًا فَارْتَبضُوہُ۔
(٣٨٤٦٩) حضرت ابو ذر سے روایت ہے انھوں نے ارشاد فرمایا ۔۔۔قریب ہے یہ بات کہ مدینہ کی طرف کھانے کی چیزیں نہیں لے جائی جائیں گی پالان پر اور وہاں رہنے والوں کا کھانا وہیں سے ہی پورا ہوگا جس آدمی کے پاس زمین ہو یا کھیتی ہو یا مویشی ہوں وہ ان کی دموں کے پیچھے رہے بادلوں کے کناروں میں اور جب تم دیکھو عمارتوں کو کہ وہ کوہ سلع سے بلند ہوجائیں اس میں ٹھہرے رہو۔

38469

(۳۸۴۷۰) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنْ عَمْرو بْنِ قَیْسٍ ، عَنْ رَجُلٍ ، عَنْ أَبِی ذَرٍّ ، قَالَ : أَقْبَلَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ سَفَرٍ ، فَلَمَّا دَنَا مِنَ الْمَدِینَۃِ تَعَجَّلَ قَوْمٌ عَلَی رَایَاتِہِمْ ، فَأَرْسَلَ فَجِیئَ بِہِمْ ، فَقَالَ : مَا أَعْجَلَکُمْ ، قَالُوا : أَوَلَیْسَ قَدْ أَذِنْت لَنَا ، قَالَ : لاَ ، وَلاَ شَبَّہْت وَلَکِنَّکُمْ تَعَجَّلْتُمْ إِلَی النِّسَائِ بِالْمَدِینَۃِ ، ثُمَّ قَالَ : أَلاَ لَیْتَ شِعْرِی مَتَی تَخْرُجُ نَارٌ مِنْ قِبَلِ جَبَلِ الْوِرَاقِ تُضِیئُ لَہَا أَعْنَاقُ الإِبِلِ بُرُوکًا إِلَی بَرْکِ الْغِمَادِ مِنْ عَدَنَ أَبْیَنَ کَضَوْئِ النَّہَارِ۔
(٣٨٤٧٠) حضرت ابوذر سے روایت ہے انھوں نے ارشاد فرمایا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک سفر سے واپسی فرما رہے تھے جب مدینہ منورہ کے قریب ہوئے تو لوگوں نے اپنے جھنڈوں کے ساتھ جلدی کی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی طرف پیغام بھیجا ان کو لایا گیا آپ نے فرمایا کس چیز نے تمہیں جلدی میں ڈال دیا انھوں نے عرض کیا کیا آپ نے ہمیں اجازت نہیں دی ؟ آپ نے فرمایا نہیں اور نہ ہی میں تشبیہ دی ہے۔ لیکن تم نے مدینہ میں عورتوں کی طرف جلدی کی پھر فرمایا ایک وقت آئے گا جب جبل وراق کی جانب سے ایک آگ ظاہر ہوگی، اس آگ کی وجہ سے عدن کے برک الغماد میں بیٹھے ہوئے اونٹوں کی گردنیں دن کی روشنی سے زیادہ روشن ہوجائیں گی۔

38470

(۳۸۴۷۱) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنْ حُمَیْدٍ ، عَنْ أَنَسٍ ، أَنَّ عَبْدَ اللہِ بْنَ سَلاَمٍ سَأَلَ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَا أَوَّلُ أَشْرَاطِ السَّاعَۃِ ، فَقَالَ : أَخْبَرَنِی جِبْرِیلُ آنِفًا ، أَنَّ نَارًا تَحْشُرُہُمْ مِنْ قِبَلِ الْمَشْرِقِ۔ (ابویعلی ۳۷۳۰)
(٣٨٤٧١) حضرت انس سے روایت ہے فرمایا کہ عبداللہ بن سلام نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا قیامت کی نشانیوں میں سے پہلی نشانی کون سی ہے آپ نے فرمایا مجھے جبرائیل نے ابھی خبر دی بلاشبہ آگ ان کو جمع کرے گی مشرق کی جانب سے۔

38471

(۳۸۴۷۲) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ عَبْدِ الْعَزِیزِ ، عَنْ مَکْحُولٍ ، قَالَ : قَالَ عُمَرُ : أَیُّہَا النَّاسُ ، ہَاجِرُوا قِبَلَ الْحَبَشَۃِ ، تَخْرُجُ مِنْ أَوْدِیَۃِ بَنِی عَلِیٍّ نَارٌ تُقْبِلُ مِنْ قِبَلِ الْیَمَنِ تَحْشُرُ النَّاسَ ، تَسِیرُ إِذَا سَارُوا، وَتُقِیمُ إِذَا ناموا حَتَّی إِنَّہَا لِتَحْشُر الْجِعْلاَنَ حَتَّی تَنْتَہِیَ بِہِمْ إِلَی بُصْرَی ، وَحَتَّی إِنَّ الرَّجُلَ لَیَقَعُ فَتَقِفُ حَتَّی تَأْخُذَہُ۔
(٣٨٤٧٢) حضرت عمر سے روایت ہے انھوں نے ارشاد فرمایا اے لوگو ! حبشہ کی طرف ہجرت کرو بنی علی کی وادیوں سے آگ نکلے گی جو یمن کی جانب سے آئے گی لوگوں کو اکٹھا کرے گی چلے گی جب وہ لوگ چلیں گے۔۔۔اور ٹھہر جائے گی جب وہ سو جائیں گے یہاں تک کہ وہ نگرانوں کو جمع کرے گی اور ان کو بصری تک پہنچا دے گی اور ایک آدمی گرپڑے تو وہ ٹھہر جائے گی یہاں تک کہ اسے پکڑے گی۔

38472

(۳۸۴۷۳) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ ، عَنْ جُوَیْبِرٍ ، عَنِ الضَّحَّاکِ قَوْلُہُ {یُرْسَلُ عَلَیْکُمَا شُوَاظٌ مِنْ نَارٍ ونحاس}، قَالَ : نَارٌ تَخْرُجُ مِنْ قِبَلِ الْمَغْرِبِ تَحْشُرُ النَّاسَ حَتَّی ، أَنَّہَا لَتَحْشُرُ الْقِرَدَۃَ وَالْخَنَازِیرَ ، تَبِیتُ حَیْثُ بَاتُوا ، وَتَقِیلُ حَیْثُ قَالُوا۔
(٣٨٤٧٣) حضرت ضحاک سے منقول ہے کہ انھوں نے اللہ تعالیٰ کے قول : (یُرْسَلُ عَلَیْکُمَا شُوَاظٌ مِنْ نَارٍ ونحاس) (تم پر آگ کا شعلہ اور تانبے کے رنگ کا دھواں چھوڑے گا) کے بارے میں فرمایا (اس سے مراد یہ ہے) کہ آگ ہوگی جو مغرب کی جانب سے نکلے گی لوگوں کو اکٹھا کرے گی یہاں تک کہ بندروں اور خنزیروں کو بھی جمع کرے گی رات گزارے گی جہاں وہ رات گزاریں گے اور دوپہر کو وہاں رہے گی جہاں وہ رہیں گے۔

38473

(۳۸۴۷۴) حَدَّثَنَا مُعَاوِیَۃُ بْنُ عَمْرٍو ، عَنْ زَائِدَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ الْحَارِثِ ، عَنْ حَبِیبِ بْنِ حِمَازٍ ، عَنْ أَبِی ذَرٍّ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: لَیْتَ شِعْرِی مَتَی تَخْرُجُ نَارٌ مِنْ قِبَلِ الْوِرَاقِ تُضِیئُ لَہَا أَعْنَاقُ الإِبِلِ بِبُصْرَی بُرُوکًا کَضَوْئِ النَّہَارِ۔ (احمد ۱۴۴۔ ابن حبان ۶۸۴۱)
(٣٨٤٧٤) حضرت ابو ذر سے روایت ہے فرمایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کاش مجھے معلوم ہوجاتا جبل وراق کی جانب سے کب آگ نکلے گی جس سے بصری میں بیٹھے اونٹوں کی گردنیں روشن ہوجائیں گی دن کی روشنی کی طرح۔

38474

(۳۸۴۷۵) حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ الْعَقَدِیُّ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ الْمُبَارَکِ ، عَنْ یَحْیَی ، قَالَ : حدَّثَنِی أَبُو قِلاَبَۃَ ، قَالَ : حَدَّثَنِی سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : حَدَّثَنِی عَبْدُ اللہِ بْنُ عُمَرَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : سَتَخْرُجُ نَارٌ قَبْلَ یَوْمِ الْقِیَامَۃِ مِنْ بَحْرِ حَضْرَمَوْتَ ، تَحْشُرُ النَّاسَ ، قَالُوا : یَا رَسُولَ اللہِ ، فَمَا تَأْمُرُنَا ، قَالَ : عَلَیْکُمْ بِالشَّامِ۔ (ترمذی ۲۲۱۷۔ احمد ۸)
(٣٨٤٧٥) حضرت عبداللہ بن عمرو سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا عنقریب قیامت سے پہلے آگ نکلے گی حضر موت سمندر سے، صحابہ کرام نے عرض کیا اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں آپ نے ارشاد فرمایا تم پر لازم ہے شام۔

38475

(۳۸۴۷۶) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ حَبِیبٍ ، عَنْ ہُذَیْلٍ بْن شُرَحْبِیلَ ، قَالَ : خَطَبَہُمْ مُعَاوِیَۃُ ، فَقَالَ : یَا أَیُّہَا النَّاسُ ، إنَّکُمْ جِئْتُمْ فَبَایَعْتُمُونِی طَائِعِینَ وَلَوْ بَایَعْتُمْ عَبْدًا حَبَشِیًّا مُجْدَعًا لَجِئْت حَتَّی أُبَایِعَہُ مَعَکُمْ ، فَلَمَّا نَزَلَ عَنِ الْمِنْبَرِ ، قَالَ لَہُ عَمْرُو بْنُ الْعَاصِ : تَدْرِی أَیَّ شَیْئٍ جِئْت بِہِ الْیَوْمَ زَعَمْت أَنَّ النَّاسَ بَایَعُوک طَائِعِینَ ، وَلَوْ بَایَعُوا عَبْدًا حَبَشِیًّا لَجِئْت حَتَّی تُبَایِعَہُ مَعَہُمْ ، قَالَ : فَنَدِمَ فَعَادَ إِلَی الْمِنْبَرِ ، فَقَالَ : أَیُّہَا النَّاسُ، وَہَلْ کَانَ أَحَدٌ أَحَقَّ بِہَذَا الأَمْرِ مِنِّی ، وَہَلْ ہُوَ أَحَدٌ أَحَقُّ بِہَذَا الأَمْرِ مِنِّی ، قَالَ : وَابْنُ عُمَرَ جَالِسٌ ، قَالَ : فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ : ہَمَمْت أَنْ أَقُولَ : أَحَقُّ بِہَذَا الأَمْرِ مِنْک مَنْ ضَرَبَک وَأَبَاک علی الإِسْلاَم ، ثُمَّ خِفْت أَنْ تَکُونَ کَلِمَتِی فَسَادًا وَذَکَرْت مَا أَعَدَّ اللَّہُ فِی الْجِنَانِ ، فَہَوَّنَ عَلَیَّ مَا أَقُولُ۔
(٣٨٤٧٦) حضرت ہذیل بن شرحبیل سے روایت ہے فرمایا کہ حضرت معاویہ نے لوگوں کے سامنے خطبہ دیا اور فرمایا اے لوگو ! بلاشبہ تم آئے ہو تم نے میری بیعت خوشی سے کی ہے اور اگر تم کان کٹے ہوئے حبشی غلام کی بیعت کرتے تو میں آتا اور تمہارے ساتھ اس کی بیعت کرتا جب منبر سے نیچے اتر آئے ان سے حضرت عمرو بن عاص نے فرمایا آپ جانتے ہیں کہ آپ نے آج کیا کام کیا ہے آپ نے کہا ہے کہ تم نے خوشی سے میری بیعت کی ہے۔ پس اگر وہ حبشی غلام کی بیعت کرتے تو وہ آجائے گا اور آپ کو اس کی بیعت کرنی پڑے گی۔ وہ نادم ہوئے اور منبر کی جانب لوٹے اور ارشاد فرمایا اے لوگو کیا اس امر (خلافت) کا مجھ سے زیادہ حقدار ہے اور کیا کوئی اس کا مجھ سے زیادہ حقدار ہے راوی نے فرمایا اور حضرت ابن عمر وہاں تشریف فرما تھے راوی نے بتلایا حضرت ابن عمر نے فرمایا میں نے یہ ارادہ کیا کہ یوں کہوں اس امر کا آپ سے زیادہ حقدار وہ ہے جس نے آپ کو اور آپ کے والد کو اسلام پر مارا پھر مجھے خوف ہوا کہ میری یہ بات فساد ہوگی اور میں نے جنت میں جو اللہ نے تیار کر رکھا ہے اسے یاد کیا تو جو میں کہنا چاہتا تھا (اس سے رکنا) مجھ پر آسان ہوگیا۔

38476

(۳۸۴۷۷) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، قَالَ : حدَّثَنَا ہِشَامٌ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : کَانَ قَیْسُ بْنُ سَعْدِ بْنِ عُبَادَۃَ مَعَ عَلِیٍّ عَلَی مُقَدَّمَتِہِ وَمَعَہُ خَمْسَۃُ آَلاَفٍ قَدْ حَلَقُوا رُؤُوسَہُمْ بَعْدَ مَا مَاتَ عَلِیٌّ ، فَلَمَّا دَخَلَ الْحَسَنُ فِی بَیْعَۃِ مُعَاوِیَۃَ أَبَی قَیْسٌ أَنْ یَدْخُلَ ، فَقَالَ : لأَصْحَابِہِ : مَا شِئْتُمْ ، إِنْ شِئْتُمْ جَالَدْت بِکُمْ أَبَدًا حَتَّی یَمُوت الأَعْجَل ، وَإِنَّ شِئْتُمْ أَخَذْت لَکُمْ أَمَانًا ، فَقَالُوا: خُذْ لَنَا ، فَأَخَذَ لَہُمْ أَنَّ لَہُمْ کَذَا وَکَذَا ، وَأَنْ لاَ یُعَاقَبُوا بِشَیْئٍ، وَأَنِّی رَجُلٌ مِنْہُمْ، وَلَمْ یَأْخُذْ لِنَفْسِہِ خَاصَّۃً شَیْئًا ، فَلَمَّا ارْتَحَلَ نَحْوَ الْمَدِینَۃِ وَمَضَی بِأَصْحَابِہِ جَعَلَ یَنْحَرُ لَہُمْ کُلَّ یَوْمٍ جَزُورًا حَتَّی بَلَغَ۔
(٣٨٤٧٧) حضرت عروہ سے روایت ہے فرمایا کہ قیس بن سعد بن عبادہ حضرت علی کے ساتھ ان کے مقدمۃ الجیش پر امیر تھے اور ان کے ساتھ پانچ معزز افراد تھے انھوں نے حلقہ بنایا حضرت علی کی بیعت کی حضرت قیس نے بیعت میں داخل ہونے سے انکار کیا اور اپنے ساتھیوں سے فرمایا کیا چاہتے ہو اگر تم چاہتے ہو کہ میں تمہارے ساتھ مل کر ہمیشہ لڑائی کرتا رہوں ۔ یہاں تک کہ زیادہ جلدی کرنے والا مرجائے اور اگر تم چاہوں تو تمہارے لیے امان لے لوں انھوں نے کہا ہمارے لیے (امان) لے لیں انھوں نے ان کے لیے (عہد) لیا کہ ان کے لیے یہ یہ ہوگا اور ان کو کوئی سزا نہیں دی جائے گی اور میں ان میں سے ایک آدمی بنوں اور اپنے لیے کوئی خاص عہد نہ لیا جب انھوں نے مدینہ کی طرف کوچ کیا اور اپنے ساتھیوں کو لے کر چلے تو ان کے لیے ہر دن ایک اونٹ ذبح کرتے تھے یہاں تک کہ (مدینہ) پہنچ گئے۔

38477

(۳۸۴۷۸) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ حَبِیبِ بْنِ شَہِیدٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِیرِینَ ، قَالَ : کَانَ ابْنُ عُمَرَ یَقُولُ : رَحِم اللَّہُ ابْنَ الزُّبَیْرِ ، أَرَادَ دَنَانِیرَ الشَّامِ ، رَحِم اللَّہُ مَرْوَانَ ، أَرَادَ دَرَاہِمَ الْعِرَاقِ۔
(٣٨٤٧٨) حضرت عبداللہ بن عمر سے روایت ہے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ رحم کرے ابن زبیر پر انھوں نے شام کے دنانیر کا ارادہ کیا اور اللہ رحم فرمائے مروان پر انھوں نے عراق کے دراہم کا ارادہ کیا۔

38478

(۳۸۴۷۹) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ آدَمَ ، عَنْ فِطْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا مُنْذِرٌ الثَّوْرِیُّ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِیِّ بْنِ الْحَنَفِیَّۃِ ، قَالَ : اتَّقُوا ہَذِہِ الْفِتَنَ فَإِنَّہَا لاَ یَسْتَشْرِفُ لَہَا أَحَدٌ إِلاَّ اسْتَبْقَتْہُ ، أَلاَ إِنَّ ہَؤُلاَئِ الْقَوْمَ لَہُمْ أَکلٌ وَمُدَّۃٌ ، لَوِ اجْتَمَعَ مَنْ فِی الأَرْضِ أَنْ یُزِیلُوا مُلْکَہُمْ لَمْ یَقْدِرُوا عَلَی ذَلِکَ ، حَتَّی یَکُونَ اللَّہُ ہُوَ الَّذِی یَأْذَنُ فِیہِ ، أَتَسْتَطِیعُونَ أَنْ تُزِیلُوا ہَذِہِ الْجِبَالَ۔
(٣٨٤٧٩) حضرت محمد بن علی ابن الحنفیہ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا۔۔۔فتنوں سے بچو بلاشبہ ان کی طرف کوئی بھی نظر نہیں اٹھاتا مگر یہ کہ وہ فتنہ اس پر سبقت لے جاتا ہے آگاہ و خبردار ہو ان لوگوں کے لیے موت اور مقررہ مدت ہے۔ اگر جو لوگ زمین میں ہیں وہ جمع ہوجائیں اس بات پر کہ ان کے ملک کو ختم کردیں تو وہ اس پر قادر نہیں ہوں گے یہاں تک اللہ تعالیٰ اس کی اجازت دے کیا تم طاقت رکھتے ہو اس بات کی کہ ان پہاڑوں کو ہٹا دو ۔

38479

(۳۸۴۸۰) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : لَمَّا بُویِعَ لِعَلِیٍّ أَتَانِی ، فَقَالَ : إنَّک امْرُؤٌ مُحَبَّبٌ فِی أَہْلِ الشَّامِ ، فَإِنِّی قَدِ اسْتَعْمَلْتُک عَلَیْہِمْ فَسِرْ إلَیْہِمْ ، قَالَ : فَذَکَرْت الْقَرَابَۃَ وَذَکَرْت الصِّہْرَ ، فَقُلْتُ : أَمَّا بَعْدُ ، فَوَاللہِ لاَ أُبَایِعُک ، قَالَ : فَتَرَکَنِی وَخَرَجَ ، فَلَمَّا کَانَ بَعْدَ ذَلِکَ جَائَ ابْنُ عُمَرَ إِلَی أُمِّ کُلْثُومٍ فَسَلَّمَ عَلَیْہَا وَتَوَجَّہَ إِلَی مَکَّۃَ فَأَتَی عَلِی ، فَقِیلَ لَہُ : إِنَّ ابْنَ عُمَرَ قَدْ تَوَجَّہَ إِلَی الشَّامِ فَاسْتَنْفرَ النَّاسَ ، قَالَ : فَإِنْ کَانَ الرَّجُلُ لَیُعَجِّلُ حَتَّی یُلْقِیَ رِدَائَہُ فِی عُنُقِ بَعِیرِہِ ، قَالَ : وَأَتَیْت أُمَّ کُلْثُومٍ فَأُخْبرْت ، فَأَرْسَلَ إِلَی أَبِیہَا : مَا الَّذِی تَصْنَعُ قَدْ جَائَنِی الرَّجُلُ وَسَلَّمَ عَلَیَّ وَتَوَجَّہَ إِلَی مَکَّۃَ ، فَتَرَاجَعَ النَّاسُ۔
(٣٨٤٨٠) حضرت نافع حضرت ابن عمر سے روایت کرتے ہیں انھوں نے فرمایا جب حضرت علی کی بیعت کی گئی تو وہ میرے پاس آئے اور ارشاد فرمایا آپ ایسے آدمی ہو جو اہل شام کے ہاں محبوب ہو میں نے تمہیں ان پر عامل مقرر کیا ہے تم ان کے پاس جاؤ حضرت ابن عمر نے فرمایا میں نے قرابت اور سسرالی رشتے کو یاد کیا اور میں نے کہا حمدو صلوۃ کے بعد اللہ کی قسم میں آپ کی بیعت نہیں کروں گا انھوں نے (ابن عمر نے) فرمایا انھوں نے مجھے چھوڑ دیا اور نکل گئے اس کے بعد جب حضرت ابن عمر حضرت ام کلثوم کے پاس آئے ان کو سلام کیا اور مکہ کی طرف متوجہ ہوئے حضرت علی تشریف لائے تو ان سے کہا گیا بلاشبہ ابن عمر شام کی طرف متوجہ ہوئے ہیں اور لوگوں کو لڑائی کے لیے جمع کررہے ہیں۔ حضرت علی نے فرمایا اگر یہ آدمی جلدی کرے یہاں تک کہ اپنی چادر اپنے اونٹ کی گردن میں ڈال دے راوی نے فرمایا حضرت ام کلثوم کے پاس کوئی آیا اور ان کو خبر دی گئی انھوں نے اپنے والد کو پیغام بھیجا آپ کیا کررہے ہیں وہ آدمی میرے پاس آیا مجھے سلام کیا اور مکہ کی طرف چلا گیا پس لوگ واپس ہوگئے۔

38480

(۳۸۴۸۱) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، قَالَ : حدَّثَنَا ہِشَامٌ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : دَخَلْت أَنَا ، وَعَبْدُ اللہِ بْنُ الزُّبَیْرِ عَلَی أَسْمَائَ قَبْلَ قَتْلِ عَبْدِ اللہِ بْنِ الزُّبَیْرِ بِعَشْرِ لَیَالٍ وَأَسْمَائُ وَجِعَۃٌ ، فَقَالَ لَہَا عَبْدُ اللہِ : کَیْفَ تَجِدِینَک ، قَالَتْ : وَجِعَۃٌ، قَالَ : إِنَّ فِی الْمَوْتِ لَعَافِیَۃٌ ، قَالَتْ : لَعَلَّک تَشْتَہِی مَوْتِی ، فَلِذَلِکَ تَمَنَّاہُ ، فَوَاللہِ مَا أَشْتَہِی أَنْ تَمُوتَ حَتَّی تَأْتِیَ عَلَی أَحَد طَرَفَیْک ، إمَّا أَنْ تُقْتَلَ فَأَحْتَسِبَک ، وَإِمَّا أَنْ تَظْہَرَ فَتَقَرَّ عَیْنِی ، فَإِیَّاکَ أَنْ تُعْرَضَ عَلَیْک خُطَّۃٌ لاَ تُوَافِقُک ، فَتَقْبَلہَا کَرَاہَۃَ الْمَوْتِ ، وَإِنَّمَا عَنَی ابْنُ الزُّبَیْرِ لِیُقْتَلَ فَیُحْزِنُہَا بِذَلِکَ۔
(٣٨٤٨١) حضرت ہشام بن عروہ حضرت عروہ سے نقل کرتے ہیں انھوں نے فرمایا میں اور عبداللہ بن زبیر شہادت سے دس راتیں پہلے حضرت اسمائ کے پاس آئے حضرت اسماء بیمار تھیں حضرت عبداللہ نے ان سے کہا آپ کیسے پاتی ہیں انھوں نے فرمایا بیمار ہوں حضرت عبداللہ نے ان سے کہا آپ کیسے پاتی ہیں انھوں نے فرمایا بیمار ہوں حضرت عبداللہ نے فرمایا موت میں عافیت ہے حضرت اسماء نے فرمایا شاید تم میری موت کو چاہتے ہو کہ اسی کی تمنا کر رہے ہو اللہ کی قسم میں۔۔۔چاہتی تھی کہ تمہیں موت آئے یہاں تک کہ کہ دو باتوں میں سے ایک پر تم آؤ۔۔۔تمہیں قتل کردیا جائے تو میں تمہاری وجہ سے ثواب کی امید رکھوں یا تو غالب آجائے تو میری آنکھ ٹھنڈی ہوجائے اس بات سے بچنا کہ تم پر ایسا خطہ پیش کیا جائے جو تمہارے موافق نہ ہو اور تم اسے موت کی کراہت و ناپسندیدگی کی وجہ سے قبول کرلو حضرت عبداللہ کی مراد یہ تھی کہ انھیں قتل کردیا جائے گا اور یہ بات حضرت اسمائ کو غم گین کرے گی۔

38481

(۳۸۴۸۲) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنِ ابْنِ أَبِی مُلَیْکَۃَ ، قَالَ : أَتَیْتُ أَسْمَائَ بَعْدَ قَتْلِ عَبْدِ اللہِ بْنِ الزُّبَیْرِ ، فَقُلْتُ : بَلَغَنِی أنَّہُمْ صَلَبُوا عَبْدَ اللہِ مُنَکَّسًا ، وَعَلَّقُوا مَعَہُ ہِرَّۃً ، وَاللہِ إنِّی لَوَدِدْت أَنْ لاَ أَمُوت حَتَّی یُدْفَعَ إلَیَّ فَأُغَسِّلَہُ وَأُحَنِّطَہُ وَأُکَفِّنَہُ ، ثُمَّ أَدْفِنَہُ ، فَمَا لَبِثُوا أَنْ جَائَ کِتَابُ عَبْدِ الْمَلِکِ أَنْ یُدْفَعَ إِلَی أَہْلِہِ ، فَأُتِیَتْ بِہِ أَسْمَائَ فَغَسَّلَتْہُ وَحَنَّطَتْہُ وَکَفَّنَتْہُ ، ثُمَّ دَفَنَتْہُ۔
(٣٨٤٨٢) حضرت ابن ابی ملیکہ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا میں حضرت اسمائ کے پاس آیا حضرت عبداللہ بن زبیر کی شہادت کے بعد حضرت اسمائ نے فرمایا مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ انھوں نے حضرت عبداللہ کو اوندھے منہ کرکے پھانسی دی ہے اور ان کے ساتھ بلی کو لٹکایا ہے اللہ کی قسم میں یہ چاہتی ہوں کہ مجھے موت نہ آئے یہاں تک وہ مجھے عبداللہ کو دے دیں میں اسے غسل دوں گی اور اسے خوشبو لگاؤں گی اور اسے کفناؤں گی پھر اسے دفن کروں گی تھوڑی ہی دیر کے بعد عبدالملک کا خط آگیا کہ انھیں ان کے گھر والوں کے سپرد کردیا جائے پھر حضرت اسماء نے ان کو غسل دیا اور ان کو خوشبو لگائی اور ان کو کفن دیا پھر ان کو دفنا دیا۔

38482

(۳۸۴۸۳) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ مَنْصُورِ ابْنِ صَفِیَّۃَ ، عَنْ أُمِّہِ ، قَالَتْ : دَخَلَ ابْنُ عُمَرَ الْمَسْجِدَ ، وَابْنُ الزُّبَیْرِ مَصْلُوبٌ ، فَقَالُوا لَہُ : ہَذِہِ أَسْمَائُ ، فَأَتَاہَا وَذَکَّرَہَا وَوَعَظَہَا ، وَقَالَ : إِنَّ الْجُثَّۃَ لَیْسَتْ بِشَیْئٍ ، وَإِنَّ الأَرْوَاحَ عِنْدَ اللہِ فَاصْبِرِی وَاحْتَسِبِی ، فَقَالَتْ : وَمَا یَمْنَعُنِی مِنَ الصَّبْرِ وَقَدْ أُہْدِیَ رَأْسُ یَحْیَی بْنِ زَکَرِیَّا إِلَی بِغَیٍّ مِنْ بَغَایَا بَنِی إسْرَائِیلَ۔
(٣٨٤٨٣) حضرت صفیہ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا حضرت ابن عمر مسجد میں داخل ہوئے اور حضرت عبداللہ بن زبیر کو سولی دے دی گئی تھی انھوں نے کہا یہ اسمائ ہیں حضرت ابن عمران کے پاس آئے اور ان کو نصیحت کی اور ان سے اصلاح کی بات کی اور فرمایا جسم کوئی چیز نہیں اور روحیں اللہ تعالیٰ کے پاس ہیں پس صبر کرو اور ثواب کی نیت کرو حضرت اسماء نے فرمایا اور مجھے صبر سے کونسی چیز روکے گی حالانکہ حضرت یحییٰ بن زکریا کا سر بنی اسرائیل کی زانیہ عورتوں میں سے ایک زانیہ کو دیا گیا۔

38483

(۳۸۴۸۴) حَدَّثَنَا خَلَفُ بْنُ خَلِیفَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : أُخْبِرت ، أَنَّ الْحَجَّاجَ حِینَ قَتَلَ ابْنَ الزُّبَیْرِ جَائَ بِہِ إِلَی مِنًی فَصَلَبَہُ عِنْدَ الثَّنِیَّۃِ فِی بَطْنِ الْوَادِی ، ثُمَّ قَالَ لِلنَّاسِ : انْظُرُوا إِلَی ہَذَا ، ہَذَا شَرُّ الأُمَّۃِ ، فَقَالَ : إنِّی رَأَیْت ابْنَ عُمَرَ جَائَ عَلَی بَغْلَۃٍ لَہُ فَذَہَبَ لِیُدْنِیَہَا مِنَ الْجِذْعِ فَجَعَلَتْ تَنْفَرُ ، فَقَالَ لِمَوْلًی لَہُ : وَیْحَک ، خُذْ بِلِجَامِہَا فَأَدْنِہَا ، قَالَ : فَرَأَیْتہ أَدْنَاہَا فَوَقَفَ عَبْدُ اللہِ بْنُ عُمَرَ وَہُوَ یَقُولُ : رَحِمَک اللَّہُ إِنْ کُنْت لَصَوَّامًا قَوَّامًا ، وَلَقَدْ أَفْلَحَتْ أُمَّۃٌ أَنْتَ شَرُّہَا۔
(٣٨٤٨٤) حضرت خلف بن خلیفہ اپنے والد حضرت خلیفہ سے نقل کرتے ہیں انھوں نے فرمایا مجھے یہ خبر دی گئی کہ حجاج نے جب حضرت عبداللہ بن زبیر کو قتل کرنے کا ارادہ کیا تو ان کو منیٰ کی طرف لے گیا اور ان کو بطن وادی میں گھاٹی کے پاس پھانسی دی پھر اس نے حضرت ابن عمر کو دیکھا وہ اپنے خچر پر تشریف لائے وہ اسے قریب کر رہے تھے تنے کے اور وہ بدک رہی تھی انھوں نے اپنے غلام سے فرمایا تیرے لیے ہلاکت ہو اس کی لگام پکڑ اور اسے قریب کر راوی فرماتے ہیں اس نے اس خچر کو قریب کیا حضرت عبداللہ بن عمر ٹھہرے اور یہ فرما رہے تھے اللہ تعالیٰ تم پر رحم کرے تم روزہ رکھنے والے اور قیام کرنے والے تھے وہ امت فلاح پا گئی جس کے تم شرو برائی ہو۔

38484

(۳۸۴۸۵) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ شِمْرٍ ، عَنْ ہِلاَلِ بْنِ یَِسَافٍ ، قَالَ : حدَّثَنِی الْبَرِیدُ الَّذِی جَائَ بِرَأْسِ الْمُخْتَارِ إِلَی عَبْدِ اللہِ بْنِ الزُّبَیْرِ ، قَالَ : لَمَّا وَضَعْتُہُ بَیْنَ یَدَیْہِ ، قَالَ : مَا حَدَّثَنِی کَعْبٌ بِحَدِیثٍ إِلاَّ رَأَیْت مِصْدَاقَہُ غَیْرَ ہَذَا ، فَإِنَّہُ حَدَّثَنِی أَنَّہ یَقْتُلَنِی رَجُلٌ مِنْ ثَقِیفٍ ، أَرَانِی أَنَا الَّذِی قَتَلْتُہُ۔
(٣٨٤٨٥) حضرت ہلال بن یساف سے روایت ہے انھوں نے فرمایا مجھ سے حضرت برید نے بیان کیا جو مختار کا سر حضرت عبداللہ بن زبیر کے پاس لے کر آئے تھے انھوں نے فرمایا جب میں نے اس کا سر حضرت ابن زبیر کے سامنے رکھا تو انھوں نے فرمایا مجھ سے کعب نے کوئی بھی بات نقل نہیں کی مگر میں نے اس کا مصداق دیکھ لیا سوائے اس کے کیونکہ انھوں نے مجھ سے بیان کیا کہ ثقیف کا ایک آدمی مجھے قتل کرے گا میں اپنے آپ کو دیکھ رہا ہوں کہ میں نے اسے قتل کردیا ہے۔

38485

(۳۸۴۸۶) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِی حَفْصَۃَ ، عَنْ مُنْذِرٍ ، قَالَ : کُنْتُ عِنْدَ ابْنِ الْحَنَفِیَّۃِ فَرَأَیْتہ یَتَقَلَّبُ عَلَی فِرَاشِہِ وَیَنْفُخُ ، فَقَالَتْ لَہُ امْرَأَتُہُ : مَا یَکْرُبُک مِنْ أَمْرِ عَدُوِّکَ ہَذَا ابْنِ الزُّبَیْرِ ، فَقَالَ : وَاللہِ مَا بِی عَدُوُّ اللَّہ ہَذَا ابْنُ الزُّبَیْرِ ، وَلَکِنْ بِی مَا یَفْعَلُ فِی حَرَمِہِ غَدًا ، قَالَ : ثُمَّ رَفَعَ یَدَیْہِ إِلَی السَّمَائِ ، ثُمَّ قَالَ : اللَّہُمَّ أَنْتَ تَعْلَمُ أَنِّی کُنْت أَعْلَمُ مِمَّا عَلَّمْتَنِی ، أَنَّہُ یَحْرُمُ مِنْہَا قَتِیلاً یُطَافُ بِرَأْسِہِ فِی الأَمْصَارِ ، أَوْ فِی الأَسْوَاقِ۔
(٣٨٤٨٦) حضرت منذر سے روایت ہے میں محمد بن حنفیہ کے پاس تھا میں نے ان کو دیکھا کہ اپنے بستر پر کروٹیں بدل رہے تھے اور پھونکیں مار رہے تھے ان سے ان کی اہلیہ نے کہا کیا چیز آپ کو بےچین کر رہی ہے آپ کے دشمن ابن زبیر کے امر سے تو انھوں نے کہا مجھے اللہ کے دشمن ابن زبیر کے بارے میں کوئی پریشانی نہیں بلکہ مجھے پریشانی اس بات کی ہے جو اللہ تعالیٰ کے حرم میں کل کو کی جائے گی راوی فرماتے ہیں پھر انھوں نے اپنے ہاتھ اٹھائے آسمان کی طرف اور فرمایا اے اللہ آپ جانتے ہیں کہ جو آپ نے مجھے سکھایا بلاشبہ وہ (مراد بن زبرن تھے) حرم سے قتل کیا ہوا نکالا جائے گا اس کے سر کو شہروں میں فرمایا یا بازاروں میں فرمایا چکر لگوایا جائے گا۔

38486

(۳۸۴۸۷) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ کُنَاسَۃَ ، عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ سَعِیدٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : أَتَی عَبْدُ اللہِ بْنُ عُمَرَ عَبْدَ اللہِ بْنَ الزُّبَیْرِ ، فَقَالَ : یَا ابْنَ الزُّبَیْرِ ، إیَّاکَ وَالإِلْحَادَ فِی حَرَمِ اللہِ ، فَإِنِّی سَمِعْت رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : إِنَّہُ سَیُلْحِدُ فِیہِ رَجُلٌ مِنْ قُرَیْشٍ لَوْ أَنَّ ذُنُوبَہُ تُوزَنُ بِذُنُوبِ الثَّقَلَیْنِ لَرَجَحَتْ عَلَیْہِ ، فَانْظُرْ لاَ تَکُونَہُ۔
(٣٨٤٨٧) حضرت سعید سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ حضرت عبداللہ بن عمر حضرت عبداللہ بن زبیر کے پاس آئے اور فرمایا اے ابن زبیر حرم میں الحاد کرنے سے بچو بلاشبہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ عنقریب حرم میں قریش میں سے ایک آدمی الحاد پھیلائے گا اگر اس کے گناہ جنوں اور انسانوں کے گناہوں کے ساتھ تو لے جائیں تو ان سے زیادہ ہوجائیں پس تم دیکھو وہ آدمی نہ ہوجانا۔

38487

(۳۸۴۸۸) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ کُنَاسَۃَ ، عَنْ إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : أَتَی مُصْعَبُ بْنُ الزُّبَیْرِ عَبْدَ اللہِ بْنَ عُمَرَ وَہُوَ یَطُوفُ بَیْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃِ ، فَقَالَ : مَنْ أَنْتَ ؟ قَالَ : ابْنُ أَخِیک مُصْعَبُ بْنُ الزُّبَیْرِ ، قَالَ : صَاحِبُ الْعِرَاقِ ، قَالَ : نَعَمْ ، قَالَ : جِئْت لأَسْأَلَک ، عَنْ قَوْمٍ خَلَعُوا الطَّاعَۃَ وَسَفَکُوا الدِّمَائَ وَجَبَوا الأَمْوَالَ فَقُوتِلُوا فَغُلِبُوا ، فَدَخَلُوا قَصْرًا فَتَحَصَّنُوا فِیہِ ، ثُمَّ سَأَلُوا الأَمَانَ فَأُعْطَوْہُ ، ثُمَّ قُتِلُوا ، قَالَ : وَکَمِ الْعُدَّۃُ ، قَالَ : خَمْسَۃُ آَلاَفٍ ، قَالَ : فَسَبَّحَ ابْنُ عُمَرَ عِنْدَ ذَلِکَ ، وَقَالَ : عَمَّرَک اللَّہُ یَا ابْنَ الزُّبَیْرِ ، لَوْ أَنَّ رَجُلاً أَتَی مَاشِیَۃَ الزُّبَیْرِ فَذَبَحَ مِنْہَا فِی غَدَاۃٍ خَمْسَۃَ آلاَفٍ أَکُنْتَ تَرَاہُ مُسْرِفًا ، قَالَ : نَعَمْ ، قَالَ : فَتَرَاہُ إسْرَافًا فِی بَہَائِمَ لاَ تَدْرِی مَا اللَّہُ ، وَتَسْتَحِلُّہُ مِمَّنْ ہَلَّلَ اللَّہَ یَوْمًا وَاحِدًا۔
(٣٨٤٨٨) حضرت اسحاق اپنے والد سے روایت کرتے ہیں انھوں نے فرمایا کہ حضرت مصعب بن زبیر حضرت عبداللہ بن عمر کے پاس آئے جبکہ وہ صفا اور مروہ کے درمیان سعی کر رہے تھے حضرت ابن عمر نے پوچھا تم کون ہو انھوں نے بتلایا آپ کا بھتیجا مصعب بن زبیر ابن عمر نے پوچھا عراق والے انھوں نے فرمایا جی ہاں مصعب بن زبیر نے فرمایا میں آپ کے پاس ایسے لوگوں کے بارے میں پوچھنے آیا ہوں جو اطاعت سے نکل چکے ہیں اور خون بہا چکے ہیں اور مالوں کو واجب کرچکے ہیں ان سے لڑائی کی گئی اور ان پر غلبہ پا لیا گیا وہ ایک محل میں داخل ہوئے اس میں محصور ہوگئے پھر انھوں نے امان طلب کی ان کو امن دے دیا گیا پھر قتل کردیا گیا حضرت ابن عمر نے پوچھا ان کی تعداد کتنی تھی انھوں نے بتلایا پانچ ہزار راوی نے فرمایا اس وقت حضرت ابن عمر نے سبحان اللہ کہا اور فرمایا اے ابن زبیر اللہ تجھے عمر عطا فرمائے اگر کوئی آدمی زبیر کے مویشیوں میں آئے اور ان میں سے ایک صبح میں پانچ ہزار کو ذبح کردے کیا آپ اسے حد سے بڑھنے والا سمجھتے ہو حضرت مصعب نے جواب میں کہا جی ہاں حضرت ابن عمر نے فرمایا تم ان چوپاؤں میں زیادتی سمجھتے ہو جو اللہ کو نہیں جانتے اور ان کے خون کو حلال سمجھتے ہو ایک ہی دن میں جو اللہ کی پاکی بیان کرتے ہیں کلمہ پڑھتے ہیں۔

38488

(۳۸۴۸۹) حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ عَیَّاشٍ ، عَنْ أَبِی حَصِینٍ ، قَالَ : مَا رَأَیْت رَجُلاً ہُوَ أَسَبُّ مِنْہُ ، یَعنی ابْنَ الزُّبَیْرِ۔
(٣٨٤٨٩) ابو حصین سے روایت ہے انھوں نے فرمایا میں نے کوئی آدمی عبداللہ بن زبیر سے بڑھ کر برا بھلا کہنے والا نہیں دیکھا۔

38489

(۳۸۴۹۰) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، قَالَ : حدَّثَنَا ہِشَامٌ ، عَنْ أَبِیہِ ، أَنَّ أَہْلَ الشَّامِ کَانُوا یُقَاتِلُونَ ابْنَ الزُّبَیْرِ وَیَصِیحُونَ بِہِ : یَا ابْنَ ذَاتِ النِّطَاقَیْنِ ، فَقَالَ : ابْنُ الزُّبَیْرِ : وَتِلْکَ شَکَاۃٌ ظَاہِرٌ عَنْک عَارُہَا قَالَتْ أَسْمَائُ : عَیَّرُوک بِہِ ؟ قَالَ نَعَمْ ، قَالَتْ : فَہُوَ وَاللہِ حَقُّ۔
(٣٨٤٩٠) حضرت عروہ سے روایت ہے کہ شام والے حضرت ابن زبیر سے لڑائی کرتے تھے اور چیخ چیخ کر ان کو کہتے تھے اے ذات النطا قین کے بیٹے حضرت ابن زبیر یہ پڑھتے
یہ عیب ہے جس کی عار تم پر واضح ہے حضرت اسمائ نے فرمایا کیا وہ تمہیں اس سے عار دلاتے ہیں حضرت ابن زبیر نے فرمایا جی ہاں انھوں نے فرمایا اللہ کی قسم وہ حق ہے۔

38490

(۳۸۴۹۱) حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ ، أَنَّ ابْنَ الزُّبَیْرِ کَانَ یَشُدُّ عَلَیْہِمْ حَتَّی یُخْرِجَہُمْ ، عَنِ الأَبْوَابِ وَیَقُولُ : لَوْ کَانَ قَرْنِی وَاحِدًا کُفِیْتُہ ویقول : وَلَسْنَا عَلَی الأَعْقَابِ تَدْمَی کُلُومُنَا وَلَکِنْ عَلَی أَقْدَامِنَا تَقْطُرُ الدِّمَا
(٣٨٤٩١) حضرت ہشام بن عروہ سے روایت ہے کہ حضرت ابن زبیر ان پر حملہ کرتے تھے یہاں تک کہ ان کو دروازوں سے نکال دیتے تھے اور کہتے تھے اگر میرا مقابل اکیلا ہو تو میں اس کے لیے کافی ہوں اور شعر بھی پڑھتے۔ وَلَسْنَا عَلَی الأَعْقَابِ تَدْمَی کُلُومُنَا ۔۔۔ وَلَکِنْ عَلَی أَقْدَامِنَا تَقْطُرُ الدِّمَا۔ ہماری ایڑیوں پر ہمارے زخموں کے خون نہیں گرتے بلکہ ہمارے قدموں پر خون کے قطرات گرتے ہیں (مرادیہ ہے کہ ہم دشمن کا سامنا کرتے ہوئے لڑتے ہیں پشت پھیر کر نہیں بھاگتے)

38491

(۳۸۴۹۲) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَنْ زَائِدَۃَ ، قَالَ : حدَّثَنَا أَبُو حَصِینٍ الأَسَدِیُّ ، عَنْ عَامِرٍ ، عَنْ ثَابِتِ بْنِ قُطْبَۃَ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : الْزَمُوا ہَذِہِ الطَّاعَۃَ وَالْجَمَاعَۃَ ، فَإِنَّہُ حَبْلُ اللہِ الَّذِی أَمَرَ بِہِ ، وَأَنَّ مَا تَکْرَہُونَ فِی الْجَمَاعَۃِ خَیْرٌ مِمَّا تُحِبُّونَ فِی الْفُرْقَۃِ ، إِنَّ اللَّہَ لَمْ یَخْلُقْ شَیْئًا قَطُّ إِلاَّ جَعَلَ لَہُ مُنْتَہًی ، وَإِنَّ ہَذَا الدِّینَ قَدْ تَمَّ، وَإِنَّہُ صَائِرٌ إِلَی نُقْصَانٍ ، وَإِنَّ أَمَارَۃَ ذَلِکَ أَنْ تَنْقَطِعَ الأَرْحَامُ ، وَیُؤْخَذَ الْمَالُ بِغَیْرِ حَقِّہِ ، وَتُسْفَکَ الدِّمَائُ وَیَشْتَکِی ذُو الْقَرَابَۃِ قَرَابَتَہُ لاَ یَعُودُ عَلَیْہِ بِشَیْئٍ ، وَیَطُوفُ السَّائِلُ بَیْنَ جُمُعَتَیْنِ لاَ یُوضَعُ فِی یَدِہِ شَیْئٌ ، فَبَیْنَمَا ہُمْ کَذَلِکَ إذْ خَارَتِ الأَرْضُ خُوَارَ الْبَقَرَۃِ یَحْسِبُ کُلُّ أُنَاسٍ ، أَنَّہَا خَارَتْ مِنْ قِبَلِہِمْ ، فَبَیْنَمَا النَّاسُ کَذَلِکَ إذْ قَذَفَتِ الأَرْضُ بِأَفْلاَذِ کَبِدِہَا مِنَ الذَّہَبِ وَالْفِضَّۃِ ، لاَ یَنْفَعُ بَعْدُ شَیْئٌ مِنْہُ ذَہَبٌ وَلاَ فِضَّۃٌ۔
(٣٨٤٩٢) حضرت عبداللہ سے روایت ہے فرمایا کہ اس اطاعت اور جماعت کو لازم پکڑو بلاشبہ یہ اللہ کی وہ رسی ہے جس کے تھامنے کا اللہ نے حکم دیا ہے اور بلاشبہ جو چیزیں تمہیں جماعت میں ناپسندیدہ ہیں وہ ان سے بہتر ہیں جو تمہیں جدائی میں پسند ہیں اللہ تعالیٰ نے کوئی بھی چیز پیدا نہیں کی مگر اس کی انتہا مقرر کی ہے یہ دین یقیناً کامل ہوچکا اور اب نقصان کی طرف جانے والا ہے اور اس نقصان کی علامت یہ ہے کہ رشتے داریاں ختم ہوجائیں گی ناحق مال لیا جائے گا خون بہائے جائیں گے قرابت والا اپنے قریبی رشتے داروں کی شکایت کرے گا کہ وہ اسے کچھ نہیں دیتے مانگنے والا دو جمعے چکر لگائے گا اس کے ہاتھ پر کچھ بھی نہیں رکھا جائے گا لوگ اسی حالت پر ہوں گے یکایک زمین گائے کی طرح آواز نکالے گی سارے لوگ یہ خیال کریں گے کہ یہ ہماری جانب میں آواز نکال رہی ہے لوگ اسی حالت پر ہوں گے اچانک زمین اپنے جگر کے ٹکڑے یعنی سونا اور چاندی نکالے گی اس کے بعد اس سونا چاندی سے کوئی نفع نہیں ہوگا۔

38492

(۳۸۴۹۳) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَنْ زَائِدَۃَ ، عَنْ أَبِی حَصِینٍ ، عَنْ یَحْیَی ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، قَالَ : أَشْرَفَ عَبْدُ اللہِ عَلَی دَارِہِ ، فَقَالَ : أَعْظِمْ بِہَا خِرْبَۃً ، لَیُحِیطُنَّ فَقِیلَ : مَنْ ؟ فَقَالَ : أُنَاسٌ یَأْتُونَ مِنْ ہَاہُنَا ، وَأَشَارَ أَبُو حَصِینٍ بِیَدِہِ نَحْوَ الْمَغْرِبِ۔
(٣٨٤٩٣) حضرت مسروق سے روایت ہے انھوں نے فرمایا حضرت عبداللہ نے اپنے گھر کی طرف جھانکا اور فرمایا اس میں بڑی ویرانی ہوگی وہ لوگ اس کا احاطہ کریں گے آئیں گے۔ ان سے پوچھا گیا وہ کون لوگ ہوں گے ؟ انھوں نے فرمایا کہ یہ ادھر ادھر سے آئیں گے۔ ابو حصین نے روایت بیان کرتے ہوئے اپنے ہاتھ سے مغرب کی طرف اشارہ کیا۔

38493

(۳۸۴۹۴) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَنْ زَائِدَۃَ ، قَالَ : حدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ ، عَنْ أَرَقْمَ بْنِ یَعْقُوبَ ، قَالَ : سَمِعْتُ عَبْدَ اللہِ یَقُولُ : کَیْفَ أَنْتُمْ إِذَا خَرَجْتُمْ مِنْ أَرْضِکُمْ ہَذِہِ إِلَی جَزِیرَۃِ الْعَرَبِ وَمَنَابِتِ الشِّیحِ قُلْتُ : مَنْ یُخْرِجُنَا مِنْ أَرْضِنَا ، قَالَ : عَدُوُّ اللہِ۔
(٣٨٤٩٤) حضرت ارقم بن یعقوب سے روایت ہے فرمایا کہ میں نے حضرت عبداللہ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ تمہاری کیا حالت ہوگی جب تم اپنی اس زمین سے جزیرۃ العرب اور گھاس اگنے کی جگہوں کی طرف نکل جاؤ گے میں نے عرض کیا ہماری زمین سے ہمیں کون نکالے گا انھوں نے فرمایا اللہ کا دشمن۔

38494

(۳۸۴۹۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ قَیْسٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : قَالَ حُذَیْفَۃُ : کَأَنِّی بِہِمْ مُشْرِفِی آذَانَ خَیْلِہِمْ رَابِطِیہَا بِحَافَّتَیَ الْفُرَاتِ۔
(٣٨٤٩٥) حضرت حذیفہ سے روایت ہے انھوں نے ارشاد فرمایا گویا کہ میں ان کو دیکھ رہا ہوں کہ ان کے گھوڑوں کے کان کھڑے ہوں گے اور ان کے راہب وزاہد فرات کے دونوں کناروں پر ہوں گے۔

38495

(۳۸۴۹۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، وَأَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِی ظَبْیَانَ ، عَنْ حُذَیْفَۃَ ، قَالَ : مَا تَلاعَنَ قَوْمٌ قَطُّ إِلاَّ حَقَّ عَلَیْہِمُ الْقَوْلُ۔ (نعیم ۱۸۷۰)
(٣٨٤٩٦) حضرت حذیفہ سے روایت ہے ارشاد فرمایا کہ کبھی بھی کسی قوم نے آپس میں لعن طعن اختیار نہیں کی مگر عذاب کی بات ان پر ثابت ہوگئی۔

38496

(۳۸۴۹۷) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ آدَمَ ، قَالَ : حدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیزِ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، عَن ہَمَّامِ بْنِ الْحَارِثِ ، عَنْ حُذَیْفَۃَ ، قَالَ : مَا أُبَالِی عَلَی کَفِّ مَنْ ضَرَبْتُ بَعْدَ عُمَرَ۔
(٣٨٤٩٧) حضرت حذیفہ سے روایت ہے انھوں نے ارشاد فرمایا کہ حضرت عمر کے بعد مجھے اس بات کی پروا نہیں کہ کس کس کی بیعت کروں۔

38497

(۳۸۴۹۸) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَیْدٍ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ عُمَارَۃَ بْنِ عُمَیْرٍ ، عَنْ أَبِی عَمَّارٍ ، قَالَ : قَالَ حُذَیْفَۃُ : إِنَّ الْفِتْنَۃَ لَتُعْرَضُ عَلَی الْقُلُوبِ ، فَأَیُّ قَلْبٍ أُشْرِبَہَا نُقِطَ عَلَی قَلْبِہِ نُقَطٌ سُود ، وَأَیُّ قَلْبٍ أَنْکَرَہَا نُقِطَ عَلَی قَلْبِہِ نُقْطَۃٌ بَیْضَائُ ، فَمَنْ أَحَبَّ مِنْکُمْ أَنْ یَعْلَمَ أَصَابَتْہُ الْفِتْنَۃُ أَمَْلا ، فَلْیَنْظُرْ ، فَإِنْ رَأَی حَرَامًا مَا کَانَ یَرَاہُ حَلاَلاً ، أَوْ یَرَی حَلاَلاً مَا کَانَ یَرَاہُ حَرَامًا فَقَدْ أَصَابَتْہُ۔ (احمد ۳۸۶۔ حاکم ۴۶۸)
(٣٨٤٩٨) حضرت حذیفہ سے روایت ہے انھوں نے ارشاد فرمایا یقیناً فتنہ دلوں پر آتا ہے جس دل میں اس کی محبت بیٹھ جائے تو اس دل پر سیاہ نقطہ لگایا جاتا ہے اور جو دل اس فتنے کو ناپسند کرتا ہے اس پر سفید لگا دیا جاتا ہے جو آدمی تم میں سے چاہتا ہے کہ جانے اسے فتنہ پہنچتا ہے یا نہیں وہ غور کرے اگر جسے وہ حلال سمجھتا تھا اسے حرام سمجھنا شروع کردیا یا جسے حرام سمجھتا تھا اسے حلال سمجھنا شروع کردیا تو اسے فتنہ پہنچ چکا ہے۔

38498

(۳۸۴۹۹) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ آدَمَ ، قَالَ : حدَّثَنَا قُطْبَۃُ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ عُمَارَۃَ بْنِ عُمَیْرٍ ، عَنْ قیْسِ بْنِ سَکَنٍ ، عَنْ حُذَیْفَۃَ ، قَالَ : یَأْتِی عَلَی النَّاسِ زَمَانٌ لَوِ اعْتَرَضَتْہُمْ فِی الْجُمُعَۃِ بِنَبْلٍ مَا أَصَابَتْ إِلاَّ کَافِرًا۔
(٣٨٤٩٩) حضرت حذیفہ سے روایت ہے انھوں نے ارشاد فرمایا لوگوں پر ایسا زمانہ آئے گا کہ اگر تو جمعہ میں ان کی طرف متوجہ ہو کر تیر مارے تو وہ تیر نہیں لگے گا سوائے کافروں کے (مراد یہ ہے کہ سارے کفر میں ہوں گے لیکن یہاں کفر سے وہ کفر مراد نہیں جو اسلام سے نکال دیتا ہے مراد یہ ہے کہ ہر ایک کفار جیسے اعمال میں مبتلا ہوگا)

38499

(۳۸۵۰۰) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ زَیْدٍ ، قَالَ : قَالَ حُذَیْفَۃُ : إِنَّ لِلْفِتْنَۃِ وَقَفَاتٍ وَبَعَثَاتٍ ، فَإِنِ اسْتَطَعْت أَنْ تَمُوتَ فِی وَقَفَاتِہَا فَافْعَلْ ، وَقَالَ : مَا الْخَمْرُ صِرْفًا بِأَذْہَبَ لِعُقُولِ الرِّجَالِ مِنَ الْفِتَنِ۔
(٣٨٥٠٠) حضرت حذیفہ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا فتنے میں اس کے رکنے اور بھڑکنے کے مواقع ہوتے ہیں اگر تم سے ہو سکے کہ تمہیں اس کے رکنے کے مواقع میں موت آئے تو ایسا کرلینا اور فرمایا کہ کوئی خالص شراب لوگوں کی عقلوں کو زیادہ اڑانے والی نہیں ہے فتنوں کی بہ نسبت۔

38500

(۳۸۵۰۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، وَیَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قالاَ : أَخْبَرَنَا عِمْرَانُ بْنُ حُدَیْرٍ ، عَنْ رُفَیْعٍ أَبِی کَثِیرَۃَ ، قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا الْحَسَنِ عَلِیًّا یَقُولُ : تَمْتَلِئُ الأَرْضُ ظُلْمًا وَجَوْرًا حَتَّی یَدْخُلَ کُلَّ بَیْتٍ خَوْفٌ وَحَرْبٌ یَسْأَلُونَ دِرْہَمَیْنِ وَجَرِیبَیْنِ فَلاَ یُعْطَوْنَہُ ، فَیَکُونُ تَقْتَالٌ بِتَقْتَالٍ وَتَسْیَارٌ بِتَسْیَارٍ حَتَّی یُحِیطَ اللَّہُ بِہِمْ فِی مِصْرِہم ، ثُمَّ تُمَْلأَ الأَرْضُ عَدْلاً وَقِسْطًا ، وَقَالَ وَکِیعٌ : حَتَّی یُحِیطَ اللَّہُ بِہِمْ فِی مِصْرِہِ۔
(٣٨٥٠١) حضرت رفیع ابی کثیرہ سے روایت ہے فرمایا کہ میں نے ابو الحسن علی کو فرماتے ہوئے سنا کہ زمین ظلم اور زیادتی سے بھر جائے گی یہاں تک کہ ہر گھر میں خوف اور لڑائی داخل ہوگی دو درہم اور دو جریب مانگیں گے انھیں نہیں دیا جائے گا (جریب ٨ قفیز کے برابر پیمانے کو کہتے ہیں) لڑائی کے مقابلے میں لڑائی ہوگی اور لشکر لشکروں کے مقابلے میں چلیں گے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ ان کا احاطہ کریں گے ان کے شہر میں پھر زمین عدل و انصاف سے بھر دی جائے گی۔

38501

(۳۸۵۰۲) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا شُعْبَۃُ بْنُ الْحَجَّاجِ ، عَنْ قَیْسِ بْنِ مُسْلِمٍ ، عَنْ طَارِقِ بْنِ شِہَابٍ ، قَالَ: جَلَدَ خَالِدُ بْنُ الْوَلِیدِ رَجُلاً حَدًّا، فَلَمَّا کَانَ مِنَ الْغَدِ جَلَدَ رَجُلاً آخَرَ حَدًّا، فَقَالَ رَجُلٌ ہَذِہِ وَاللہِ الْفِتْنَۃُ، جَلَدَ أَمْسِ رَجُلاً فِی حَدٍّ، وَجَلَدَ الْیَوْمَ رَجُلاً فِی حَدٍّ، فَقَالَ: خَالِدٌ: لَیْسَ ہَذِہِ بِفِتْنَۃٍ، إنَّمَا الْفِتْنَۃُ أَنْ تَکُونَ فِی أَرْضٍ یُعْمَلُ فِیہَا بِالْمَعَاصِی فَتُرِیدُ أَنْ تَخْرُجَ مِنْہَا إِلَی أَرْضٍ لاَ یُعْمَلُ فِیہَا بِالْمَعَاصِی فَلاَ تَجِدُہَا۔
(٣٨٥٠٢) حضرت طارق بن شہاب سے روایت ہے انھوں نے فرمایا حضرت خالد بن ولید نے ایک آدمی کو بطور حد کوڑے لگائے جب دوسرا دن ہوا دوسرے آدمی کو بطور حد کوڑے لگائے ایک آدمی نے کہا اللہ کی قسم یہ تو فتنہ ہے گزشتہ کل ایک آدمی کو حد میں کوڑے لگائے اور آج دوسرے آدمی کو حد میں کوڑے لگائے ہیں حضرت خالد بن ولید نے فرمایا یہ فتنہ نہیں ہے فتنہ تو یہ ہوتا ہے کہ ایک زمین پر بیشمار گناہ کیے جائں تو یہ چاہے کہ ایسی زمین کی طرف نکل جائے جہاں گناہ نہ کیے جاتے ہوں پس تو ایسی زمین نہ پائے۔

38502

(۳۸۵۰۳) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ آدَمَ ، قَالَ : حدَّثَنَا أَبُو شِہَابٍ ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَمْرٍو الْفُقَیْمِیِّ ، عَنْ مُنْذِرٍ الثَّوْرِیِّ ، عَنْ سعد بْنِ حُذَیْفَۃَ ، قَالَ : لَمَّا تَحَسَّر النَّاسُ سَعِیدَ بْنَ الْعَاصِ کَتَبُوا بَیْنَہُمْ کِتَابًا أَنْ لاَ یَسْتَعْمِلَ عَلَیْہِمْ إِلاَّ رَجُلاً یَرْضَوْنَہُ لأَنْفُسِہِمْ وَدِینِہِمْ ، فَبَیْنَمَا ہُمْ کَذَلِکَ إذْ قَدِمَ حُذَیْفَۃُ مِنَ الْمَدَائِنِ فَأَتَوْہُ بِکِتَابِہِمْ فَقَالُوا : یَا أَبَا عَبْدِ اللہِ ، صَنَعنَا بِہَذَا الرَّجُلِ مَا قَدْ بَلَغَک ، ثُمَّ کَتَبْنَا ہَذَا الْکِتَابَ وَأَحْبَبْنَا أَنْ لاَ نَقْطَعَ أَمْرًا دُونَک ، فَنَظَرَ فِی کِتَابِہِمْ وَضَحِکَ ، وَقَالَ : وَاللہِ مَا أَدْرِی أَیُّ الأَمْرَیْنِ أَرَدْتُمْ أَرَدْتُمْ أَنْ تَتَوَلَّوْا سُلْطَانَ قَوْمٍ لَیْسَ لَکُمْ أو أَرَدْتُمْ أَنْ تَرُدُّوا ہَذِہِ الْفِتْنَۃَ حَیْثُ أَطْلَعتْ خِطَامَہَا وَاسْتَوَتْ ، إِنَّہَا لَمُرْسَلَۃٌ مِنَ اللہِ فِی الأَرْضِ تَرْتَعِی حَتَّی تَطَأَ عَلَی خِطَامِہَا ، لَنْ یَسْتَطِیعَ أَحَدٌ مِنَ النَّاسِ لَہَا رَدًّا وَلَیْسَ أَحَدٌ مِنَ النَّاسِ یُقَاتِلُ فِیہَا إِلاَّ قُتِلَ حَتَّی یَبْعَثَ اللَّہُ قَزَعًا کَقَزَعِ الْخَرِیفِ یَکُونُ بِہِمْ بَیْنَہُمْ۔ (حاکم ۵۰۳)
(٣٨٥٠٣) حضرت سعد بن حذیفہ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا جب لوگوں نے حضرت سعید بن عاص کو معزول کرنے پر موافقت کرلی تو آپس میں انھوں نے ایک تحریر لکھی کہ ان پر عامل نہیں بنایا جائے گا مگر وہ آدمی جس پر وہ اپنے لیے اور اپنے دین کے لیے راضی ہوں گے وہ لوگ اسی حالت پر تھے اچانک حضرت حذیفہ مدائن سے تشریف لائے اپنی تحریر لے کر ان کے پاس گئے اے ابو عبداللہ ہم نے اس آدمی کے ساتھ وہ معاملہ کیا ہے ہے جو آپ کو پہنچا ہے پھر ہم نے یہ تحریر لکھی ہے اور ہم یہ چاہتے ہیں کہ آپ کے بغیر ہم کسی امر کا یقینی فیصلہ نہ کریں حضرت حذیفہ نے ان کی تحریر کو دیکھا اور مسکرائے اور فرمایا اللہ کی قسم مجھے معلوم نہیں دونوں امروں میں سے کس کا تم نے ارادہ کیا ہے ایسے لوگوں کی ولایت کا ارادہ کیا ہے جو تمہارے فائدے کے لیے نہیں ہے یا تم نے ارادہ کیا ہے اس فتنے کو لوٹا نے کا اس مقام کی طرف جہاں یہ بےمہار ہوجائے گا اور مضبوط ہوجائے گا۔ بلاشبہ یہ فتنہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے زمین پر بھیجا جاتا ہے چرتا ہے یہاں تک اپنی لگام کو روندتا ہے کہ لوگوں میں سے کوئی بھی اسے روکنے کی طاقت نہیں رکھتا لوگوں میں سے کوئی بھی اس میں قتال نہیں کرتا مگر قتل کردیا جاتا ہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ بدلی بھیجتے ہیں موسم خزاں کے بادلوں کی طرح وہ قتال انہی کے درمیان ہوجاتا ہے۔

38503

(۳۸۵۰۴) حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ بْنُ مُوسَی ، عَنْ شَیْبَانَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ ، عَنْ زَاذَانَ ، قَالَ : سَمِعْتُ حُذَیْفَۃَ یَقُولُ : لَیَأْتِیَنَّ عَلَیْکُمْ زَمَانٌ خَیْرُکُمْ فِیہِ مَنْ لاَ یَأْمُرُ بِمَعْرُوفٍ وَلاَ یَنْہَی عَنْ مُنْکَرٍ ، فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ : أَیَأْتِی عَلَیْنَا زَمَانٌ نَرَی الْمُنْکَرَ فِیہِ فَلاَ نُغَیِّرُہُ ؟ فَلاَ وَاللہِ لَنَفْعَلنَّ ، قَالَ : فَجَعَلَ حُذَیْفَۃُ یَقُولُ بِأُصْبُعِہِ فِی عَیْنِہِ : کَذَبْت وَاللہِ ثَلاَثًا ، قَالَ الرَّجُلُ : فَکَذَبْت وَصَدَقَ۔ (ابو نعیم ۲۷۹)
(٣٨٥٠٤) حضرت حذیفہ سے روایت ہے ضرور بالضرور تم پر ایسا زمانہ آئے گا جس میں تم میں سے سب سے بہتر وہ آدمی ہوگا جو نیکی کا حکم نہیں کرے گا لوگوں میں سے ایک آدمی نے کہا ہم پر ایسا زمانہ آئے گا جس میں ہم منکر کو دیکھیں گے اور اسے روکیں گے نہیں نہیں اللہ کی قسم ہم ضرور بالضرور کریں گے راوی فرماتے ہیں حضرت حذیفہ اپنی انگلی سے اپنی آنکھ کی طرف اشارہ کر رہے تھے اور کہہ رہے تھے تو نے خدا کی قسم جھوٹ بولا یہ تین مرتبہ فرمایا اس آدمی نے کہا میں نے جھوٹ بولا اور انھوں نے سچ کہا۔

38504

(۳۸۵۰۵) حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ ، عَنْ شَیْبَانَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ التَّیْمِیِّ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : سَمِعْتُ حُذَیْفَۃَ یَقُولُ : لَیَأْتِیَنَّ عَلَیْکُمْ زَمَانٌ یَتَمَنَّی الرَّجُلُ فِیہِ الْمَوْتَ فَیُقْتَلُ ، أَوْ یَکْفُرُ ، وَلَیَأْتِیَنَّ عَلَیْکُمْ زَمَانٌ یَتَمَنَّی الرَّجُلُ الْمَوْتَ مِنْ غَیْرِ فَقْرٍ۔
(٣٨٥٠٥) حضرت حذیفہ سے روایت ہے ارشاد فرمایا کہ یقیناً تم پر ایسا زمانہ آئے گا اس میں انسان موت کی تمنا کرے گا کہ قتل کردیا جائے یا وہ کفر اختیار کرے گا اور یقیناً تم پر ایسا زمانہ آئے گا جس میں انسان موت کی تمنا کرے گا بغیر فقرو فاقہ کے۔

38505

(۳۸۵۰۶) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا الْعَوَّامُ بْنُ حَوْشَبٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِی سَعِیدُ بْنُ جُمْہَانَ ، عَنِ ابْنِ أَبِی بَکْرَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : ذَکَرَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَرْضًا یُقَالُ لَہَا الْبَصْرَۃُ ، أَوِ الْبَصِیرَۃُ إِلَی جَنْبِہَا نَہْرٌ یُقَالُ لَہُ دِجْلَۃُ ذُو نَخْلٍ کَثِیرٍ یَنْزِلُ بِہِ بَنُو قَنْطُورَائَ فَتَفْتَرِقُ النَّاسُ ثَلاَثَ فِرَقٍ : فِرْقَۃٌ تَلْحَقُ بِأَصْلِہَا وَہَلَکُوا ، وَفِرْقَۃٌ تَأْخُذُ عَلَی أَنْفُسِہَا وَکَفَرُوا ، وَفِرْقَۃٌ یَجْعَلُونَ ذَرَارِیَّہُمْ خَلْفَ ظُہُورِہِمْ فَیُقَاتِلُونَ ، قَتْلاَہُمْ شُہَدَائُ ، یَفْتَحُ اللَّہُ عَلَی بَقِیَّتِہِمْ۔ (ابو داؤد ۴۳۰۶۔ بزار ۳۶۶۷)
(٣٨٥٠٦) حضرت ابو بکرہ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک زمین کا تذکرہ کیا جسے بصرہ یا بصیرہ کہا جاتا ہے اس کے ایک طرف ایک نہر ہے جسے دجلہ کہا جاتا ہے کثیر کھجوروں والی وہاں بنو قنطو راء اتریں گے (جو ترک کو کہا جاتا ہے اور حاکم کے قول کے مطابق اس سے مراد روم کے نصرانی ہیں) لوگ تین گروہوں میں بٹ جائیں گے ایک گروہ اپنی اصل سے مل جائے گا اور ہلاک ہوجائے گا دوسرا گروہ اپنے نفسوں کو لے گا اور کفر کرے گا اور ایک گروہ اولاد کو پس پشت ڈال کر قتال کرے گا ان کے مقتولین شہداء ہوں گے اللہ تعالیٰ ان کے باقی رہنے والوں کو فتح عطاء کرے گا۔

38506

(۳۸۵۰۷) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ یَبْلُغُ بِہِ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ: لاَ تَقُومُ السَّاعَۃُ حَتَّی تُقَاتِلُوا قَوْمًا نِعَالُہُمَ الشَّعْرُ ، وَلاَ تَقُومُ السَّاعَۃُ حَتَّی تُقَاتِلُوا قَوْمًا صِغَارَ الأَعْیُنِ۔ (بخاری ۲۹۲۹۔ مسلم ۶۳)
(٣٨٥٠٧) حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے فرمایا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا اس وقت تک قیامت قائم نہیں ہوگی یہاں تک کہ تم ایسے لوگوں سے لڑائی کرو گے جن کے جوتے ان کے بال ہوں گے اور قیامت قائم نہیں ہوگی یہاں تک کہ تم لڑائی کرو گے ایسے لوگوں سے جو چھوٹی آنکھوں والے ہوں گے۔

38507

(۳۸۵۰۸) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ أَبِی الزِّنَادِ ، عَنِ الأَعْرَجِ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ یَبْلُغُ بِہِ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لاَ تَقُومُ السَّاعَۃُ حَتَّی تُقَاتِلُوا قَوْمًا نِعَالُہُمُ الشَّعْرُ ، وَلاَ تَقُومُ السَّاعَۃُ حَتَّی تُقَاتِلُوا قَوْمًا صِغَارَ الأَعْیُنِ ذُلْفَ الآنُفِ کَأَنَّ وُجُوہَہُمُ الْمَجَانُّ الْمُطْرَقَۃُ۔ (بخاری ۲۹۲۹۔ مسلم ۶۴)
(٣٨٥٠٨) حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا قیامت قائم نہیں ہوگی یہاں تک کہ تم ایسے لوگوں سے لڑائی کرو گے جن کے جوتے بال ہوں گے اور قیامت نہیں قائم ہوگی یہاں تک کہ تم قتال کرو گے ایسے لوگوں سے جن کی آنکھیں چھوٹی ہوں گی چھوٹی ناک والے ہوں گے گویا کہ ان کے چہرے اوپر نیچے رکھی ہوئی ڈھالوں کی طرح ہوں گے۔

38508

(۳۸۵۰۹) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ أَبِی مَالِکٍ الأَشْجَعِیِّ سَعْدِ بْنِ طَارِقٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، أَنَّہُ سَمِعَ النَّبِیُّ یَقُولُ : بِحَسْبِ أَصْحَابِی الْقَتْلُ۔ (احمد ۴۷۲۔ بزار ۳۲۶۳)
(٣٨٥٠٩) حضرت طارق سے روایت ہے کہ انھوں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے ہوئے سنا کہ میرے صحابہ کثرت سے شہید کیے جائیں گے۔

38509

(۳۸۵۱۰) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا شُعْبَۃُ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ أَنَسٍ ، عَنْ أُسَیْدَ بْنِ حُضَیْرٍ ، أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ لِلأَنْصَارِ : إنَّکُمْ سَتَرَوْنَ بَعْدِی أَثَرَۃً فَاصْبِرُوا حَتَّی تَلْقَوْنِی عَلَی الْحَوْضِ۔
(٣٨٥١٠) اسید بن حضیر سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انصار سے فرمایا کہ تم عنقریب میرے بعد یہ دیکھو گے کہ تم پر دوسروں کو ترجیح دی جائے گی پس تم صبر کرنا یہاں تک کہ مجھے حوض پر مل لینا۔

38510

(۳۸۵۱۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، وَأَبُو نُعَیْمٍ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ نُسَیْرٍ ، عَنْ ہُبَیْرَۃَ بْنِ حُزیمَۃَ ، عَنْ رَبِیعِ بْنِ خُثَیْمٍ ، قَالَ : لَمَّا جَائَ قَتْلُ الْحُسَیْنِ ، قَالَ : اللَّہُمَّ أَنْتَ تَحْکُمُ بَیْنَ عِبَادِکَ فِیمَا کَانُوا فِیہِ یَخْتَلِفُونَ۔
(٣٨٥١١) حضرت ربیع بن خثیم سے روایت ہے فرمایا کہ جب حضرت حسین کی شہادت کا وقت آیا تو انھوں نے فرمایا اے اللہ ! آپ فیصلہ کریں گے اپنے بندوں کے درمیان اس سلسلے میں جس میں وہ اختلاف کر رہے ہیں۔

38511

(۳۸۵۱۲) حَدَّثَنَا أَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ، قَالَ: حدَّثَنَا زُہَیْرٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو رَوْقٍ الْہَمْدَانِیُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو الْغَرِیف قَالَ: کُنَّا مُقَدَّمَۃَ الْحَسَنِ بْنِ عَلِیٍّ اثْنَیْ عَشَرَ أَلْفًا بِمَسْکَنٍ مُسْتَمِیتِینَ تَقْطُرُ سُیُوفُنَا مِنَ الْجِدِّ عَلَی قِتَالِ أَہْلِ الشَّامِ وَعَلَیْنَا أَبُو الْعَمَرَّطۃ، قَالَ: فَلَمَّا أَتَانَا صُلْحُ الْحَسَنِ بْنِ عَلِیٍّ وَمُعَاوِیَۃَ کَأَنَّمَا کُسِرَتْ ظُہُورُنَا مِنَ الْحُزْنِ وَالْغَیْظِ، قَالَ: فَلَمَّا قَدِمَ الْحَسَنُ بْنُ عَلِیٍّ الْکُوفَۃَ قَامَ إلَیْہِ رَجُلٌ مِنَّا یُکْنَی أَبَا عَامِرٍ، فَقَالَ: السَّلاَمُ عَلَیْک یَا مُذِلَّ الْمُؤْمِنِینَ، فَقَالَ: لاَ تَقُلْ ذَاکَ یَا أَبَا عَامِرٍ، وَلَکِنِّی کَرِہْت أَنْ أَقْتُلَہُمْ طَلَبَ الْمُلْکِ، أَوْ عَلَی الْمُلْکِ۔ (عبدالبر ۳۸۷)
(٣٨٥١٢) حضرت ابو غریف سے روایت ہے کہ ہم حضرت حسن بن علی کے مقدمۃ الجیش میں بارہ ہزار کی مقدار میں مقام مسکن میں تھے اس حال میں کہ موت کے متمنی تھے ہماری تلواروں سے اہل شام کے ساتھ سخت لڑائی کی وجہ سے (خون کے) قطرات ٹپک رہے تھے ہم پر ابو عمرطہ امیر تھے ابو غریف فرماتے ہیں جب ہمارے پاس حضرت حسن بن علی اور حضرت معاویہ کے درمیان صلح کی خبر پہنچی تو اس خبر پر غم اور غصے سے گویا ہماری کمریں ٹوٹ گئیں ابو غریف راوی نے فرمایا جب حضرت حسن بن علی کوفہ تشریف لائے تو ہم میں سے ایک آدمی جس کی کنیت ابو عامر تھی کھڑا ہوا اور کہنے لگا السلام علیک اے مومنوں کو ذلیل کرنے والے حضرت حسن بن علی نے فرمایا اے ابو عامر یہ بات نہ کرو لیکن میں نے ناپسند سمجھا تھا اس بات کو کہ میں ان کو ملک کی طلب میں قتل کروں۔

38512

(۳۸۵۱۳) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَیْدٍ، قَالَ: حدَّثَنِی صَدَقَۃُ بْنُ الْمُثَنَّی، عَنْ جَدِّہِ رِیَاحِ بْنِ الْحَارِثِ، قَالَ: قَامَ الْحَسَنُ بْنُ عَلِیٍّ بَعْدَ وَفَاۃِ عَلِی ، فَخَطَبَ النَّاسَ فَحَمِدَ اللَّہَ وَأَثْنَی عَلَیْہِ ، ثُمَّ قَالَ : إِنَّ مَا ہُوَ آتٍ قَرِیبٌ ، وَإِنَّ أَمْرَ اللہِ وَاقِعٌ وَإِنْ کَرِہَ النَّاسُ ، وَإِنِّی وَاللہِ مَا أُحِبُّ أَنْ إِلَیَّ مِنْ أَمْرِ أُمَّۃِ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا یَزِنُ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ مِنْ خَرْدَلٍ یُہْرَاقُ فِیہَا مِحْجَمَۃٌ مِنْ دَمٍ مُنْذُ عَلِمْت مَا یَنْفَعُنِی مِمَّا یَضُرُّنِی ، فَالْحَقُوا بِمَطِیِّکُمْ ۔
(٣٨٥١٣) حضرت ریاح بن حارث سے روایت ہے فرمایا کہ حضرت حسن بن علی حضرت علی کی وفات کے بعد کھڑے ہوئے لوگوں کے سامنے خطبہ ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ کی حمدو ثناء کی پھر فرمایا یقیناً جو چیز آنے والی ہے وہ قریب ہے۔ بلاشبہ اللہ تعالیٰ کا حکم واقع ہونے والا ہے اگرچہ لوگ اسے ناپسند کریں اور اللہ کی قسم مجھے یہ بات پسند نہیں کہ مجھے امت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے امر سے رائی کے دانے کے برابر حاصل ہو جس میں تھوڑا سا خون بہایا گیا ہو جو میں نے جان لیا کہ یہ امر مجھے نقصان پہنچانے والی چیزوں سے کوئی نفع دینے والا نہیں ہے پس اپنی سواریوں کے ساتھ مل جاؤ۔

38513

(۳۸۵۱۴) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، عَنْ عُمَیْرِ بْنِ إِسْحَاقَ ، قَالَ : دَخَلْت أَنَا وَرَجُلٌ علَی الْحَسَنِ بْنِ عَلِیٍّ نَعُودُہُ ، فَجَعَلَ یَقُولُ لِذَلِکَ الرَّجُلِ : سَلْنِی قَبْلَ أَنْ لاَ تَسْأَلنِی ، قَالَ : مَا أُرِیدُ أَنْ أَسْأَلَک شَیْئًا ، یُعَافِیک اللَّہُ ، قَالَ : فَقَامَ فَدَخَلَ الْکَنِیفَ ، ثُمَّ خَرَجَ إلَیْنَا ، ثُمَّ قَالَ : مَا خَرَجْت إلَیْکُمْ حَتَّی لَفَظْت طَائِفَۃً مِنْ کَبِدِی أُقَلِّبُہَا بِہَذَا الْعُود ، وَلَقَدْ سُقِیت السُّمَّ مِرَارًا مَا شَیْئٌ أَشَدُّ مِنْ ہَذِہِ الْمَرَّۃِ ، قَالَ : فَغَدَوْنَا عَلَیْہِ مِنَ الْغَدِ فَإِذَا ہُوَ فِی السُّوقِ ، قَالَ : وَجَائَ الْحُسَیْنُ فَجَلَسَ عِنْدَ رَأْسِہِ ، فَقَالَ : یَا أَخِی ، مَنْ صَاحِبُک ؟ قَالَ : تُرِیدُ قَتْلَہُ ؟ قَالَ : نَعَمْ ، قَالَ : لَئِنْ کَانَ الَّذِی أَظُنَّ ، لَلَّہُ أَشَدُّ نِقْمَۃً ، وَإِنْ کَانَ بَرِیئًا فَمَا أُحِبُّ أَنْ یُقْتَلَ بَرِیئٌ۔
(٣٨٥١٤) حضرت عمیر بن اسحاق سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ میں اور ایک آدمی حضرت حسن بن علی کی عیادت کے لیے حاضر ہوئے حضرت حسن بن علی اس آدمی سے کہنے لگے مجھ سے پوچھو اس سے پہلے کہ تم مجھ سے نہ پوچھ سکو۔ ان صاحب نے کہا میں آپ سے کچھ نہیں پوچھنا چاہتا ہوں اللہ تعالیٰ آپ کو عافیت عطا کرے راوی نے فرمایا حضرت حسن کھڑے ہوئے اور بیت الخلاء میں داخل ہوئے پھر ہمارے پاس تشریف لائے پھر ارشاد فرمایا میں تمہاری طرف نہیں نکلا یہاں تک کہ میں نے اپنے جگر کا ایک ٹکڑا پھینکا ہے جس کو اس لکڑی سے الٹ پلٹ رہا ہوں مجھے کئی مرتبہ زہر پلایا گیا اس مرتبہ سے زیادہ سخت کوئی چیز نہیں تھی حضرت عمیر نے کہا اگلے دن ہم صبح کو ان کے پاس گئے وہ جان کنی کی حالت میں تھے راوی عمیر نے فرمایا حضرت حسین آئے پس ان کے سر کے پاس بیٹھ گئے اور فرمایا اے بھائی جان آپ کو زہر دینے والا کون ہے انھوں نے فرمایا تم اسے قتل کرنا چاہتے ہو انھوں نے فرمایا ہاں حضرت حسن نے فرمایا اگر تو وہی ہے جس کے بارے میں میرا گمان ہے تو اللہ تعالیٰ اسے سخت سزا دینے والے ہیں اور اگر بری ہے تو میں یہ پسند نہیں کرتا کہ ایک بری آدمی کو قتل کیا جائے۔

38514

(۳۸۵۱۵) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِ ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ بْنِ شَرِیکٍ ، عَنْ بِشْرِ بْنِ غَالِبٍ ، قَالَ : لَقِیَ عَبْدُ اللہِ بْنُ الزُّبَیْرِ الْحُسَیْنَ بْنَ عَلِیٍّ بِمَکَّۃَ ، فَقَالَ : یَا أَبَا عَبْدِ اللہِ ، بَلَغَنِی أَنَّک تُرِیدُ الْعِرَاقَ ، قَالَ : أَجَلْ ، قَالَ : فَلاَ تَفْعَلْ فَإِنَّہُمْ قَتَلَۃُ أَبِیک ، الطَّاعِنُونَ فِی بَطْنِ أَخِیک ، وَإِنْ أَتَیْتَہُمْ قَتَلُوک۔
(٣٨٥١٥) حضرت بشر بن غالب سے روایت ہے فرمایا کہ عبداللہ بن زبیر حضرت حسین بن علی سے مکہ مکرمہ میں ملے حضرت عبداللہ نے پوچھا اے ابو عبداللہ مجھے یہ خبر پہنچی ہے کہ آپ عراق کا ارادہ رکھتے ہیں انھوں نے فرمایا ہاں حضرت عبداللہ نے کہا ایسا نہ کرنا بلاشبہ وہ آپ کے والد کے قاتلین ہیں اور آپ کے بھائی کے پیٹ پر نیزہ مارنے والے ہیں اگر آپ ان کے پاس گئے تو وہ آپ کو قتل کردیں گے۔

38515

(۳۸۵۱۶) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُوسَی الْعِتْرِیُّ ، عَنْ جَبَلَۃَ بِنْتِ المصفح ، قَالَتْ : أَوْصَی مَالِکُ بْنُ ضَمْرَۃَ بِسِلاَحِہِ لِلْمُجَاہِدِینَ مِنْ بَنِی ضَمْرَۃَ أَلاَّ یُقَاتَلُ بِہِ أَہْلُ نُبُوَّۃٍ ، قَالَ : فَقَالَ : أَخُوہُ عِنْدَ رَأْسِہِ : یَا أَخِی عِنْدَ الْمَوْتِ تَقُولُ ہَذَا ، قَالَ : ہُوَ ذَاکَ ، قَالَ : فَنَحْنُ فِی حِلٍّ إِنِ احْتَاجَ وَلَدُک أَنْ یَبِیعَ ، قَالَ : نَعَمْ ، قَالَ : فَذَہَبَ السِّلاَحُ فَلَمْ یَبْقَ مِنْہُ إِلاَّ رُمْحٌ ، قَالَتْ : فَجَائَ رَجُلٌ مِنْ ذَلِکَ الْبَعْثِ الَّذِینَ سَارُوا إِلَی الْحُسَیْنِ ، فَقَالَ : یَا ابْنَ مَالِکَ ، یَا مُوسَی ، أَعِرْنِی رُمْحَ أَبِیک أَعْتَرِضْ بِہِ ، قَالَ : فَقَالَ : یَا جَارِیَۃُ ، أَعْطِہِ الرُّمْحَ ، فَقَالَتِ امْرَأَۃٌ مِنْ أَہْلِہِ : یَا مُوسَی ، أَمَا تَذْکُرُ وَصِیَّۃَ أَبِیک ، قَالَتْ : وَقَدْ مَرَّ الرَّجُلُ بِالرُّمْحِ ، قَالَتْ : فَلَحِقَ الرَّجُلُ فَأَخَذَ الرُّمْحَ مِنْہُ فَکَسَرَہُ۔
(٣٨٥١٦) حضرت جبلہ بنت مصفح سے روایت ہے انھوں نے فرمایا حضرت مالک بن ضمرہ نے مجاہدین کو اپنے اسلحہ کے بارے میں وصیت کی خبردار اس سے کشیدگی کرنے والوں کے ساتھ لڑائی کی جائے گی راوی محمد بن موسیٰ نے فرمایا ان کے بھائی نے ان کے سر کے پاس کہا اے بھائی موت کے وقت آپ یہ کہہ رہے ہیں انھوں نے کہا یہ ایسے ہی ہے ان کے بھائی نے کہا اگر آپ کی اولاد کو ضرورت ہو بیچنے کی تو کیا ہمارے لیے یہ جائز ہوگا انھوں نے فرمایا ہاں وہ اسلحہ لے گئے ایک نیزے کے سوا کوئی چیز نہ رہی، راویہ فرماتی ہیں اس لشکر میں سے جو حضر تحسین کے مقابلے میں گیا ایک آدمی آیا مالک بن ضمرہ کے بھائی نے کہا اے مالک کے بیٹے اے موسیٰ مجھے اپنے والد کا نیزہ عاریۃ دینا میں اسے ماروں روای فرماتے ہیں مالک کے بیٹے نے کہا اے لڑکی ان کو نیزہ دے دوان کے گھر والوں میں سے ایک عورت نے کہا اے موسیٰ کیا تمہیں اپنے والد کی وصیت یاد نہیں۔ اور وہ آدمی آپ کے والد کا نیزہ مانگ کرلے گیا۔ پس وہ اس کے پیچھے گئے اور اس سے نیزہ لے کر اسے توڑ دیا۔

38516

(۳۸۵۱۷) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَنْ أَبِی مُوسَی ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : رَفَعَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْحَسَنَ بْنَ عَلِیٍّ مَعَہُ عَلَی الْمِنْبَرِ ، فَقَالَ : إِنَّ ابْنِی ہَذَا سَیِّد ، وَلَعَلَّ اللَّہَ أَنْ یُصْلِحَ بِہِ بَیْنَ فِئَتَیْنِ مِنَ الْمُسْلِمِینَ۔
(٣٨٥١٧) حضرت حسن سے روایت ہے فرمایا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حسن بن علی کو اپنے ساتھ منبر پر اٹھایا اور فرمایا میرا بیٹا سردار اور امیر ہے اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے مسلمانوں کی دو جماعتوں کے درمیان صلح کروائے گا۔

38517

(۳۸۵۱۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، عَنْ سُفْیَانَ، عَنْ أَبِیہِ، عَنْ مُنْذِرٍ الثَّوْرِیِّ، عَنِ ابْن الْحَنَفِیَّۃِ، قَالَ: الْفِتْنَۃُ مَنْ قَابَلَہَا اجْتِیحَ۔
(٣٨٥١٨) حضرت محمد بن حنفیہ سے روایت ہے ارشاد فرمایا جو آدمی فتنے کے روبرو آتا ہے جڑ سے اکھاڑ دیا جاتا ہے۔

38518

(۳۸۵۱۹) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ، عَنِ ابْنِ عُیَیْنَۃَ، عَنِ ابْنِ طَاوُوس، عَنْ أَبِیہِ، قَالَ: قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: جَائَنِی حُسَیْنٌ یَسْتَشِیرُنِی فِی الْخُرُوجِ إِلَی مَا ہَاہُنَا یَعْنِی الْعِرَاقَ ، فَقُلْتُ : لَوْلاَ أَنْ یُزْرُوا بِی وَبِکَ لَشَبَّثْتُ یَدِی فِی شَعْرِکَ ، إِلَی أَیْنَ تَخْرُجُ ؟ إِلَی قَوْمٍ قَتَلُوا أَبَاک وَطَعَنُوا أَخَاک ، فَکَانَ الَّذِی سَخَا بِنَفْسِی عَنْہُ أَنْ قَالَ لِی : إِنَّ ہَذَا الْحَرَمَ یُسْتَحَلُّ بِرَجُلٍ ، وَلأَنْ أُقْتَلَ فِی أَرْضِ کَذَا وَکَذَا غَیْرَ أَنَّہُ یُبَاعِدُہُ أَحَبُّ إلَیَّ مِنْ أَنْ أَکُونَ أَنَا ہُوَ۔
(٣٨٥١٩) حضرت عبداللہ بن عباس سے روایت ہے فرمایا کہ حضرت حسین میرے پاس عراق کی طرف جانے کے سلسلے میں مشورہ کے لیے آئے میں نے ان سے کہا اگر وہ میرے اور آپ کی ذات پر عیب نہ لگائیں تو میں مضبوطی کے ساتھ آپ سے چمٹ جاتا کہ آپ کہاں جا رہے ہیں ایسے لوگوں کے پاس جنہوں نے آپ کے والد کو شہید کیا اور آپ کے بھائی کو نیزے مارے میرے ساتھ جو انھوں نے بات کے سلسلے میں سخاوت فرمائی اس میں یوں فرمایا یہ حرم کسی آدمی کے لیے لڑائی کے سلسلے میں حلال کیا جائے میں فلاں فلاں زمین میں قتل کردیا جاؤں اگرچہ وہ دور ہے مجھے زیادہ پسندیدہ ہے اس بات سے کہ میں اس آدمی کی طرح ہوں جس کے ساتھ لڑائی کرنے میں حرم کو حلال سمجھا جائے۔

38519

(۳۸۵۲۰) حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا إسْرَائِیلُ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ ہَانِئِ بْنِ ہَانِئٍ ، عَنْ عَلِیٍّ ، قَالَ : لَیُقْتَلَنَّ الْحُسَیْنُ قَتْلاً ، وَإِنِّی لأَعْرِفُ تُرْبَۃَ الأَرْضِ الَّتِی بِہَا یُقْتَلُ ، یُقْتَلُ قَرِیبًا مِنَ النَّہْرَیْنِ۔
(٣٨٥٢٠) حضرت علی سے روایت ہے ارشاد فرمایا کہ یقیناً حسین کو قتل کیا جائے گا اور بلاشبہ میں اس زمین کی مٹی کو پہچانتا ہوں جہاں اسے شہید کیا جائے گا دو نہروں کے درمیان شہید کیا جائے گا۔

38520

(۳۸۵۲۱) حَدَّثَنَا یَعْلَی بْنُ عُبَیْدٍ ، عَنْ مُوسَی الْجُہَنِیِّ ، عَنْ صَالِحِ بْنِ أَرْبَدَ النَّخَعِیِّ ، قَالَ : قالَتْ أُمُّ سَلَمَۃَ : دَخَلَ الْحُسَیْنُ عَلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَأَنَا جَالِسَۃٌ عَلَی الْبَابِ ، فَتَطَلَّعْت فَرَأَیْتُ فِی کَفِّ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ شَیْئًا یُقَلِّبُہُ وَہُوَ نَائِمٌ عَلَی بَطْنِہِ ، فَقُلْتُ : یَا رَسُولَ اللہِ ، تَطَلَّعْتُ فَرَأَیْتُکَ تُقَلِّبُ شَیْئًا فِی کَفِّکَ ، وَالصَّبِیُّ نَائِمٌ عَلَی بَطْنِکَ وَدُمُوعُکَ تَسِیلُ ، فَقَالَ : إِنَّ جِبْرِیلَ أَتَانِی بِالتُّرْبَۃِ الَّتِی یُقْتَلُ عَلَیْہَا ، وَأَخْبَرَنِی أَنَّ أُمَّتِی یَقْتُلُونَہُ۔ (طبرانی ۲۸۲۰)
(٣٨٥٢١) حضرت ام سلمہ سے روایت ہے فرمایا کہ حضرت حسین نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے میں دروازے کے پاس بیٹھی ہوئی تھی میں نے غور کیا اور دیکھا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ہتھیلی میں کوئی چیز تھی جسے آپ الٹ پلٹ رہے تھے اور حضرت حسین آپ کے پیٹ پر سوئے ہوئے تھے میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں نے غور کیا اور دیکھا کہ آپ اپنی ہتھیلی پر کوئی چیز الٹ پلٹ رہے ہیں اور بچہ آپ کے پیٹ پر سویا ہوا ہے اور آپ کے آنسو جاری ہیں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بلاشبہ جبرائیل میرے پاس وہ مٹی لے کر آیا تھا جہاں اسے شہید کیا جائے گا اس نے مجھے خبر دی ہے کہ میری امت اسے قتل کرے گی۔

38521

(۳۸۵۲۲) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَیْدٍ ، قَالَ : حدَّثَنِی شُرَحْبِیلُ بْنُ مُدْرِکٍ الْجُعْفِیُّ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ نُجَیٍّ الْحَضْرَمِیِّ، عَنْ أَبِیہِ ، أَنَّہُ سَافَرَ مَعَ عَلِی ، وَکَانَ صَاحِبَ مَطْہَرَتِہِ حَتَّی حَاذَی نِینَوَی وَہُوَ مُنْطَلِقٌ إِلَی صِفِّینَ فَنَادَی: صَبْرًا أَبَا عَبْدِ اللہِ ، صَبْرًا أَبَا عَبْدِ اللہِ ، فَقُلْتُ : مَاذَا أَبَا عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : دَخَلْتُ عَلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَعَیْنَاہُ تَفِیضَانِ ، قَالَ : قُلْتُ : یَا رَسُولَ اللہِ ، مَا لِعَیْنَیْک تَفِیضَانِ أَأَغْضَبَک أَحَدٌ ، قَالَ : قَامَ مِنْ عِنْدِی جِبْرِیلُ فَأَخْبَرَنِی ، أَنَّ الْحُسَیْنَ یُقْتَلُ بِشَطِّ الْفُرَاتِ ، فَلَمْ أَمْلِکْ عَیْنَیَّ أَنْ فَاضَتَا۔ (احمد ۸۵۔ ابویعلی ۳۵۸)
(٣٨٥٢٢) حضرت نجی حضرمی سے روایت ہے فرمایا کہ انھوں نے حضرت علی کے ساتھ سفر کیا وہ حضرت علی کے لیے وضو وغیرہ کا انتظام کرنے لگے یہاں تک کہ وہ نینوی شہر کے برابر ہوگئے ارادہ ان کا صفین کی طرف جانے کا تھا تو انھوں نے پکارا ٹھہرو ابو عبداللہ ٹھہرو ابوعبداللہ میں نے کہا کیا ہوگیا ابو عبداللہ کو انھوں نے فرمایا میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس گیا اس حال میں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے حضرت علی نے بتلایا میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کی آنکھیں بہہ رہی ہیں کیا آپ کو کسی نے غصہ دلایا ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جبرائیل میرے پاس کھڑے ہوئے ہیں انھوں نے مجھے بتلایا ہے کہ حسین کو فرات کے کنارے شہید کیا جائے گا پس اپنی آنکھوں پر قابو نہ رہا وہ بہہ پڑیں۔

38522

(۳۸۵۲۳) حَدَّثَنَا مُعَاوِیَۃُ ، قَالَ : حدَّثَنَا الأَعْمَشُ ، عَنْ سَلاَّمٍ أَبِی شُرَحْبِیلَ ، عَنْ أَبِی ہُرَیم ، قَالَ : بَعَرَتْ شَاۃٌ لَہُ ، فَقَالَ لِجَارِیَۃٍ لَہُ : یَا جَرْدَائُ ، لَقَدْ أَذَکَرَنِی ہَذَا الْبَعْرُ حَدِیثًا سَمِعْتہ مِنْ أَمِیرِ الْمُؤْمِنِینَ وَکُنْت مَعَہُ بِکَرْبَلاَئَ فَمَرَّ بِشَجَرَۃٍ تَحْتَہَا بَعْرُ غِزْلاَنٍ فَأَخَذَہُ مِنْہُ قَبْضَۃً فَشَمَّہَا ، ثُمَّ قَالَ : یُحْشَرُ مِنْ ہَذَا الظَّہْرِ سَبْعُونَ أَلْفًا یَدْخُلُونَ الْجَنَّۃَ بِغَیْرِ حِسَابٍ۔
(٣٨٥٢٣) حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ ان کی بکری نے مینگنیاں کیں انھوں نے اپنی باندی سے کہا اے کم بالوں والی اس مینگنی نے ایک حدیث یاد کروا دی جو میں نے امیرالمؤمنین (حضرت علی ) سے سنی تھی جبکہ میں ان کے ساتھ مقام کربلا میں تھا وہ ایسے درخت کے پاس سے گزرے جس کے نیچے ہرن کی مینگنی تھی اس زمین سے ایک مشت مٹی لی اور اسے سونگھا پھر فرمایا اس زمین کی پشت سے ستر ہزار کو جمع کیا جائے گا جو بغیر حساب کتاب کے جنت میں داخل ہوجائیں گے۔

38523

(۳۸۵۲۴) حَدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ ، عَنْ وَائِلِ بْنِ عَلْقَمَۃَ ، أَنَّہُ شَہِدَ الْحُسَیْنَ بِکَرْبَلاَئَ ، قَالَ : فَجَائَ رَجُلٌ ، فَقَالَ : أَفِیکُمْ حُسَیْنٌ ؟ فَقَالَ : مَنْ أَنْتَ ، فَقَالَ : أَبْشِرْ بِالنَّارِ ، قَالَ : بَلْ رَبٌّ غَفُورٌ رَحِیمٌ مُطَاعٌ ، قَالَ: وَمَنْ أَنْتَ ؟ قَالَ : أَنَا ابْنُ حُوَیْزَۃَ ، قَالَ : اللَّہُمَّ حُذْہُ إِلَی النَّارِ ، قَالَ : فَذَہَبَ فَنَفَرَ بِہِ فَرَسُہُ عَلَی سَاقَیْہِ ، فَتَقَطَّعَ فَمَا بَقِیَ مِنْہُ غَیْرُ رِجْلِہِ فِی الرِّکَابِ۔
(٣٨٥٢٤) حضرت وائل بن علقمہ سے روایت ہے کہ وہ حضرت حسین کے ساتھ کربلا میں موجود تھے انھوں نے فرمایا کہ ایک آدمی آیا اس نے کہا کیا تمہارے اندر حسین ہے حضرت حسین نے پوچھا تم کون ہو اس نے کہا آگ کی بشارت لو انھوں نے فرمایا بلکہ رب معاف کرنے والا رحم کرنے والا فرمان برداری کیا جانے والا ہے حضرت حسین نے پوچھا تو کون ہے اس نے کہا میں ابن حویزہ ہوں آپ نے فرمایا اے اللہ اسے آگ کی طرف جمع کرلے راوی نے فرمایا وہ آدمی گیا اس کا گھوڑا اسے اس کی پنڈلیوں کے بل لے کر بھاگا پس وہ کٹا اس کے جسم سے سوائے اس کے پاؤں کے جو رکاب میں تھے کوئی حصہ باقی نہ رہا۔

38524

(۳۸۵۲۵) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَنْ أُمِّ حَکِیمٍ ، قَالَتْ : لَمَّا قُتِلَ الْحُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، وَأَنَا یَوْمَئِذٍ جَارِیَۃٌ قَدْ بَلَغْت مَبْلَغَ النِّسَائِ ، أَوْ کِدْت أَنْ أَبْلُغَ مَکَثَتِ السَّمَائُ بَعْدَ قَتْلِہِ أَیَّامًا کَالْعَلَقَۃِ۔
(٣٨٥٢٥) حضرت ام حکیم سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ جب حضرت حسین بن علی کو شہید کیا گیا میں ان دنوں لڑکی تھی عورتوں کی عمر کو پہنچ چکی تھی یا فرمایا پہنچنے کے قریب تھی ان کی شہادت کے بعد کئی دن آسمان خون کے جمے ٹکڑے کی طرح رہا۔

38525

(۳۸۵۲۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ أَبِی عَاصِمٍ الثَّقَفِیِّ ، عَنْ قَیْسِ بْنِ مُسْلِمٍ ، عَنْ طَارِقِ بْنِ شِہَابٍ ، قَالَ : جَائَنَا قَتْلُ عُثْمَانَ وَأَنَا أُؤنِسُ مِنْ نَفْسِی شَبَابًا وَقُوَّۃً ، وَلَوْ قَتَلْتُ الْقِتَالَ ، فَخَرَجْتُ أُحْضِرُ النَّاسَ حَتَّی إِذَا کُنْت بِالرَّبَذَۃِ إِذَا عَلِیٌّ بِہَا ، فَصَلَّی بِہِم الْعَصْرَ ، فَلَمَّا سَلَّمَ أَسْنَدَ ظَہْرَہُ فِی مَسْجِدِہَا ، وَاسْتَقْبَلَ الْقَوْمَ ، قَالَ : فَقَامَ إلَیْہِ الْحَسَنُ بْنُ عَلِیٍّ یُکَلِّمُہُ وَہُوَ یَبْکِی ، فَقَالَ لَہُ عَلِیٌّ : تَکَلَّمْ وَلاَ تخِنَّ خَنِینَ الْجَارِیَۃِ ، قَالَ : أَمَرْتُک حِینَ حَصَرَ النَّاسُ ہَذَا الرَّجُلَ أَنْ تَأْتِیَ مَکَّۃَ فَتُقِیمَ بِہَا فَعَصَیْتنِی ، ثُمَّ أَمَرْتُک حِینَ قُتِلَ أَنْ تَلْزَمَ بَیْتَکَ حَتَّی تَرْجِعَ إِلَی الْعَرَبِ غَوَارِبُ أَحْلاَمِہَا ، فَلَوْ کُنْت فِی جُحْرِ ضَبٍّ لَضَرَبُوا إلَیْک آبَاطَ الإِبِلِ حَتَّی یَسْتَخْرِجُوک مِنْ جُحْرِکَ فَعَصَیْتنِی ، وَأَنَا أُنْشِدُک بِاللہِ أَنْ تَأْتِیَ الْعِرَاقَ فَتُقْتَلَ بِحَالِ مَضْیَعَۃٍ ، قَالَ : فَقَالَ : عَلِیٌّ : أَمَّا قَوْلُک : آتِی مَکَّۃَ ، فَلَمْ أَکُنْ بِالرَّجُلِ الَّذِی تُسْتَحَلُّ لِی مَکَّۃُ ، وَأَمَّا قَوْلُک : قَتَلَ النَّاسُ عُثْمَانَ ، فَمَا ذَنْبِی إِنْ کَانَ النَّاسُ قَتَلُوہُ ، وَأَمَّا قَوْلُک : آتِی الْعِرَاقَ ، فَأَکُون کَالضَّبُعِ تَسْتَمِعُ اللَّدْمِ۔
(٣٨٥٢٦) حضرت طارق بن شہاب سے روایت ہے فرمایا کہ جب حضرت عثمان کی شہادت کی خبر آئی اور میں اپنے آپ میں جوانی اور قوت کو پہچان رہا تھا اگر میں لڑائی کرتا میں نکلا لوگوں کے ساتھ حاضر تھا جب ہم مقام ربذہ پر پہنچے وہاں پر حضرت علی موجود تھے انھوں نے لوگوں کو نماز پڑھائی جب سلام پھیرا لوگوں کی طرف منہ کر کے اپنی نماز پڑھنے کی جگہ پر ٹیک لگا کر بیٹھ گئے حضرت حسن بن علی کھڑے ان سے روتے ہوئے بات کرنے لگے انھوں نے فرمایا بات کرو اور لڑکی کے رونے کی طرح نہ رو۔ حضرت حسن نے فرمایا میں نے آپ سے کہا تھا جب لوگوں نے اس آدمی کا محاصرہ کیا تھا کہ آپ مکہ جا کر وہاں اقامت اختیار کریں آپ نے میری بات نہ مانی پھر جب انھیں شہید کیا گیا میں نے آپ سے کہا تھا اپنے گھر میں رہیں۔ یہاں تک عرب کی عقل مندی واپس آجائے پس اگر آپ گوہ کی بل میں ہوئے تو وہ آپ کو اونٹ کے پہلوں مارتے یہاں تک آپ کو اس بل سے نکالتے آپ نے میری بات نہ مانی اور میں آپ کو اللہ کا واسطہ دیتا ہوں کہ آپ عراق نہ جائیں کہیں بےتوجہی کی حالت میں آپ کو قتل کردیا جائے راوی نے فرمایا حضرت علی نے فرمایا باقی رہی تمہاری بات کہ میں مکہ جاتا تو میں اس آدمی کے پاس نہیں گیا جو میرے لیے مکہ کو قتال کے لیے حلال کرتا اور تیری یہ بات کہ لوگوں نے عثمان کو شہید کردیا تو میرا کیا گناہ ہے اگر لوگوں نے ان کو قتل کردیا ہے اور رہی تمہاری یہ بات کہ میں عراق نہ جاتا (مدینہ اگر رہتا تو) تو میں اس گوہ کی طرح ہوتا جو (بل میں رہ کر) آواز کو سنتی ہے۔

38526

(۳۸۵۲۷) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ آدَمَ ، قَالَ : حدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ مُجَالِدٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : لَمَّا کَانَ الصُّلْحُ بَیْنَ الْحَسَنِ بْنِ عَلِیٍّ وَمُعَاوِیَۃَ أَرَادَ الْحَسَنُ الْخُرُوجَ إِلَی الْمَدِینَۃِ ، فَقَالَ لَہُ مُعَاوِیَۃُ : مَا أَنْتَ بِاَلَّذِی تَذْہَبُ حَتَّی تَخْطُبَ النَّاسَ ، قَالَ : قَالَ الشَّعْبِیُّ : فَسَمِعْتہ عَلَی الْمِنْبَرِ حَمِدَ اللَّہَ وَأَثْنَی عَلَیْہِ ، ثُمَّ قَالَ : أما بعد فَإِنَّ أَکْیَسَ الْکَیْسِ التُّقَی ، وَإِنَّ أَعْجَزَ الْعَجْزِ الْفُجُورُ ، وَإِنَّ ہَذَا الأَمْرَ الَّذِی اخْتَلَفْتُ أَنَا فِیہِ وَمُعَاوِیَۃُ حَقٌّ کَانَ لِی ، فَتَرَکْتُہُ لِمُعَاوِیَۃَ ، أَوْ حَقٌّ کَانَ لامْرِیئٍ أَحَقَّ بِہِ مِنِّی ، وَإِنَّمَا فَعَلْت ہَذَا لِحَقْنِ دِمَائِکُمْ {وَإِنْ أَدْرِی لَعَلَّہُ فِتْنَۃٌ لَکُمْ وَمَتَاعٌ إِلَی حِین} ثُمَّ نَزَلَ۔
(٣٨٥٢٧) حضرت شعبی سے روایت ہے فرمایا کہ جب حضرت حسن بن علی اور حضرت معاویہ کے درمیان صلح ہوئی حضرت حسن نے مدینہ کی طرف جانے کا ارادہ کیا مجاہد نے شعبی سے نقل کیا شعبی نے فرمایا میں نے ان سے منبر پر سنا کہ انھوں نے اللہ کی تعریف کی اور اس کی ثناء بیان کی پھر فرمایا یقیناً سب سے عقلمندی کی بات تقوٰی ہے اور سب سے عجز کی بات فسق و فجور ہے اور یہ امر (خلافت) جس میں میرے اور معاویہ کے درمیان اختلاف ہوا یہ میرا حق تھا میں نے معاویہ کے لیے چھوڑ دیا یا یوں فرمایا یہ میرا حق تھا جس کے معاویہ مجھ سے زیادہ حق دار ہیں اور میں نے یہ تمہارے خونوں کی حفاظت کے لیے ایسا کیا ہے اور میں نہیں جانتا ہوسکتا ہے تمہارے لیے آزمائش ہو اور مقررہ مدت تک نفع ہو پھر نیچے اتر آئے۔

38527

(۳۸۵۲۸) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا مُجَالِدٌ ، عَنْ زِیَادِ بْنِ عِلاَقَۃَ ، عَنْ أُسَامَۃَ بْنِ شریک ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَنْ فَرَّقَ بَیْنَ أُمَّتِی وَہُمْ جَمِیعٌ فَاضْرِبُوا رَأْسَہُ کَائِنًا مَنْ کَانَ۔ (نسائی ۴۸۸۔ طبرانی ۴۸۷)
(٣٨٥٢٨) حضرت اسامہ بن شریک سے روایت ہے فرمایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس آدمی نے میری امت میں تفریق ڈالی جبکہ وہ مجتمع ہوں اس کی گردن مار دو جو کوئی ہو۔

38528

(۳۸۵۲۹) حَدَّثَنَا زِیَادُ بْنُ الرَّبِیعِ ، عَنْ عَبَّادِ بْنِ کَثِیرٍ الشَّامِیِّ ، عَنِ امْرَأَۃٍ مِنْہُمْ یُقَالُ لَہَا فُسیلۃ ، عَنْ أَبِیہَا ، قَالَتْ: سَمِعْت أَبِی یَقُولُ : سَأَلْت رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قُلْتُ : یَا رَسُولَ اللہِ ، أَمِنَ الْعَصَبِیَّۃِ أَنْ یُحِبَّ الرَّجُلُ قَوْمَہُ ، قَالَ : لاَ ، وَلَکِنْ مِنَ الْعَصَبِیَّۃِ أَنْ یُعِینَ الرَّجُلُ قَوْمَہُ عَلَی الظُّلْمِ۔ (ابوداؤد ۵۰۷۸۔ طبرانی ۲۳۶)
(٣٨٥٢٩) حضرت فسیلہ اپنے والد سے روایت کرتی ہیں فرمایا کہ میں نے اپنے والد کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا اے اللہ کے رسول کیا یہ عصبیت ہے کہ انسان اپنی قوم سے محبت کرے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا نہیں لیکن عصبیت یہ ہے کہ انسان ظلم پر اپنی قوم کی اطاعت کرے۔

38529

(۳۸۵۳۰) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ سِنَانِ بْنِ أَبِی سِنَانٍ ، عَنْ أَبِی وَاقِدٍ اللَّیْثِیِّ ، أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حِین أَتَی حُنَیْنًا مَرَّ بِشَجَرَۃٍ یُعَلِّقُ الْمُشْرِکُونَ بِہَا أَسْلِحَتَہُمْ یُقَالُ لَہَ : ذَاتُ أَنْوَاطٍ ، فَقَالُوا : اجْعَلْ لَنَا ذَاتَ أَنْوَاطٍ ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : ہَذَا کَمَا قَالَ قَوْمُ مُوسَی لِمُوسَی : {اجْعَلْ لَنَا إلَہًا کَمَا لَہُمْ آلِہَۃً} ، لَتَرْکَبُنَّ سَنَنَ مَنْ قَبْلَکُمْ۔ (احمد ۲۱۸۔ طیالسی ۱۳۴۶)
(٣٨٥٣٠) حضرت ابو واقد اللیثی سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حنین تشریف لائے تو ایسے درخت کے پاس سے گزرے جس کے ساتھ مشرکین اپنا اسلحہ لٹکاتے تھے جسے ذات انواط کہا جاتا تھا (انواط نوط کی جمع ہے حاجت معلقہ کو کہتے ہیں یہ وہ درخت تھا جس کے ساتھ مشرکین اپنا اسلحہ لٹکاتے تھے اور اس کا گرد ٹھہرتے تھے) صحابہ اکرام نے عرض کیا ہمارے لیے ذات انواط بنادیں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یہ ایسے ہے جیسے موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم نے موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا تھا۔ ہمارے لیے بھی معبود بنادیں جیسا کہ ان کے لیے معبود ہے یقیناً تم اپنے سے پہلے والے لوگوں کے طریقوں پر چلوگے۔

38530

(۳۸۵۳۱) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو ، عَنْ أَبِی سَلَمَۃَ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لَتَتَّبِعُنَّ سُنَّۃَ مَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ بَاعًا بِبَاعٍ وَذِرَاعًا بِذِرَاعٍ وَشِبْرًا بِشِبْرٍ حَتَّی لَوْ دَخَلُوا فِی جُحْرِ ضَبٍّ لَدَخَلْتُمْ فِیہِ ، قَالُوا : یَا رَسُولَ اللہِ ، الْیَہُودِ وَالنَّصَارَی ، قَالَ : فَمَنْ إذَنْ۔ (بخاری ۷۳۱۹۔ احمد ۴۵۰)
(٣٨٥٣١) حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے فرمایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا تم ضرور بالضرور اپنے سے پہلے لوگوں کے طریقے کی پیروی کرو گے دو ہاتھ میں دو ہاتھ کی ایک ہاتھ میں ایک ہاتھ کی اور ایک بالشت میں ایک بالشت کی یہاں تک کہ اگر وہ گوہ کی بل میں داخل ہوئے ہوں تو تم بھی اس میں داخل ہوگے صحابہ کرام نے عرض کیا یہود اور نصاری کی ؟ آپ نے (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ہاں۔

38531

(۳۸۵۳۲) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْحَکَمِ ، قَالَ : سَمِعْتُ عَبْدَ اللہِ بْنَ عَمْرٍو یَقُولُ : لَتَرْکَبُنَّ سُنَّۃَ مَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ حُلْوَہَا وَمُرَّہَا۔
(٣٨٥٣٢) حضرت عبداللہ بن عمرو سے روایت ہے ارشاد فرمایا کہ یقیناً تم اپنے سے پہلے والوں کی میٹھے اور کڑوے طریقے کی پیروی کرو گے۔

38532

(۳۸۵۳۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، عَنْ سُفْیَانَ، عَنْ أَبِی قَیْسٍ، عَنْ ہُزَیْلٍ، قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللہِ: أَنْتُمْ أَشْبَہُ النَّاسِ سَمْتًا وَہَدْیًا بِبَنِی إسْرَائِیلَ لِتَسْلُکُنَّ طَرِیقَہُمْ حَذْو القذۃ بِالْقُذَّۃِ وَالنَّعْلِ بِالنَّعْلِ ، وَقَالَ عَبْدُ اللہِ : إِنَّ مِنَ الْبَیَانِ سِحْرًا۔ (بزار ۲۰۴۸۔ طبرانی ۹۸۸۲)
(٣٨٥٣٣) حضرت عبداللہ سے روایت ہے ارشاد فرمایا تم طریقہ اور سیرت میں بنی اسرائیل کے بہت مشابہہ ہو تم ضرور ان کے طریقے پر چلو گے جیسے تیر کا پر دوسرے پر کے برابر ہوتا ہے اور جوتا دوسرے جوتے کے برابر ہوتا ہے حضرت عبداللہ نے فرمایا کچھ بیان جادو ہوتے ہیں۔

38533

(۳۸۵۳۴) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ عِیسَی ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنِ الْمِنْہَالِ ، عَنْ أَبِی الْبَخْتَرِیِّ ، قَالَ : قَالَ حُذَیْفَۃُ : لاَ یَکُونُ فِی بَنِی إسْرَائِیلَ شَیْئٌ إِلاَّ کَانَ فِیکُمْ مِثْلُہُ ، فَقَالَ رَجُلٌ یکون فِینَا قَوْمُ لُوطٍ ، قَالَ : نَعَمْ ، وَمَا تَرَی بَلَغَ ذَلِکَ لاَ أُمَّ لَک۔
(٣٨٥٣٤) حضرت حذیفہ سے روایت ہے ارشاد فرمایا بنی اسرائیل میں کوئی چیز واقع نہیں ہوئی مگر اس کی مثل تمہارے اندر بھی واقع ہوگی ایک صاحب نے عرض کیا کیا ہمارے اندر قوم لوط کی طرح ہوگا آپ نے فرمایا ہاں تیرے لیے تیری ماں نہ رہے اس سلسلے میں جو بات پہنچی ہے اس کے بارے میں تیرا کیا خیال ہے۔

38534

(۳۸۵۳۵) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنِ الْمِنْہَالِ بْن عَمْرٍو ، عَنْ أَبِی الْبَخْتَرِیِّ ، عَنْ حُذَیْفَۃَ : قَالَ : لَتَعْمَلُنَّ عَمَلَ بَنِی إسْرَائِیلَ فَلاَ یَکُونُ فِیہِمْ شَیْئٌ إِلاَّ کَانَ فِیکُمْ مِثْلُہُ ، فَقَالَ رَجُلٌ : تَکُونُ منَّا قِرَدَۃٌ وَخَنَازِیرُ ، قَالَ : وَمَا یُبْرِیکَ مِنْ ذَلِکَ ، لاَ أُمَّ لَکَ ، قَالُوا : حَدِّثْنَا یَا أَبَا عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : لَوْ حَدَّثْتُکُمْ لاَفْتَرَقْتُمْ عَلَی ثَلاَثِ فِرَقٍ : فِرْقَۃٍ تُقَاتِلنِی ، وَفِرْقَۃٍ لاَ تَنْصُرُنِی ، وَفِرْقَۃٍ تُکَذِّبُنِی أَمَا إنِّی سَأُحَدِّثُکُمْ وَلاَ أَقُولُ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : أَرَأَیْتُکُمْ لَوْ حَدَّثْتُکُمْ أَنَّکُمْ تَأْخُذُونَ کِتَابَکُمْ فَتُحَرِّقُونَہُ وَتُلْقُونَہُ فِی الْحُشُوشِ ، صَدَّقْتُمُونِی ، قَالُوا : سُبْحَانَ اللہِ ، وَیَکُونُ ہَذَا ، قَالَ : أَرَأَیْتُکُمْ لَوْ حَدَّثْتُکُمْ أَنَّکُمْ تَکْسِرُونَ قِبْلَتَکُمْ ، صَدَّقْتُمُونِی ، قَالُوا : سُبْحَانَ اللہِ ، وَیَکُونُ ہَذَا ، قَالَ : أَرَأَیْتُکُمْ لَوْ حَدَّثْتُکُمْ ، أَنَّ أُمَّکُمْ تَخْرُجُ فِی فِرْقَۃٍ مِنَ الْمُسْلِمِینَ وَتُقَاتِلُکُمْ ، صَدَّقْتُمُونِی ، قَالُوا : سُبْحَانَ اللہِ وَیَکُونُ ہَذَا۔ (ابو نعیم ۱۹۲۔ حاکم ۴۶۹)
(٣٨٥٣٥) حضرت حذیفہ سے روایت ہے ارشاد فرمایا کہ تم ضرور بنی اسرائیل والے اعمال کرو گے ان میں کوئی چیز واقع نیں ہوئی مگر تمہارے اندر اس کی مثل ہوگی ایک صاحب نے عرض کیا کیا ہم میں بندر اور خنزیر بھی ہوں گے ارشاد فرمایا تیرے لیے ماں نہ ہو اس سے تمہیں کس نے بری کیا ہے ان کے ساتھیوں نے عرض کیا اے ابو عبداللہ ہم سے بیان کرو حضرت حذیفہ نے فرمایا اگر میں تم سے بیان کروں تو تم تین گروہوں میں بٹ جاؤ گے اور ایک گروہ مجھ سے لڑائی کرے گا اور دوسرا گروہ میری مدد نہیں کرے گا اور ایک گروہ میری تکذیب کرے گا باقی میں تمہارے سامنے بیان کرتا ہوں اور میں نہیں کہتا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا مجھے بتلاؤ تو سہی اگر میں تم سے بیان کروں کہ تم اپنی کتاب کو لے کر اسے جلا دو گے اور اسے بیت الخلاؤں میں پھینک دو گے کیا تم میری تصدیق کرو گے انھوں نے کہا سبحان اللہ کیا یہ بھی ہوگا حضرت حذیفہ نے ارشاد فرمایا مجھے بتلاؤ تو سہی اگر میں تم سے بیان کروں کہ تم اپنے قبلہ کو توڑ دو گے کیا تم میری تصدیق کرو گے انھوں نے سبحان اللہ کیا یہ ہوگا (پھر) فرمایا مجھے بتلاؤ تو سہی اگر میں تم سے بیان کروں کہ تمہاری ماں مسلمانوں کے ایک گروہ میں خروج کرے گی اور تم سے لڑائی کرے گی کیا تم میری تصدیق کرو گے انھوں نے کہا سبحان اللہ کیا یہ ہوگا۔

38535

(۳۸۵۳۶) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ حَبِیبٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ یَقُولُ : یَا أَہْلَ الْعِرَاقِ ، تَأْتُونَ بِالْمُعْضِلاَتِ۔
(٣٨٥٣٦) حضرت ابن عمر سے روایت ہے ارشاد فرمایا کہ اے اہل عراق تم مشکل راستوں پر چلو گے۔

38536

(۳۸۵۳۷) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا سُفْیَانُ بْنُ حُسَیْنٍ ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ یُوسُفَ ، عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِکٍ ، قَالَ : اسْتَأْذَنْت عَلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : ادْخُلْ ، قُلْتُ : فَأَدْخُلُ کُلِّی ، أَوْ بَعْضِی ، قَالَ : ادْخُلْ کُلَّک ، فَدَخَلْت عَلَیْہِ وَہُوَ یَتَوَضَّأُ وُضُوئًا مَکِیثًا ، فَقَالَ : یَا عَوْفَ بْنَ مَالِکَ ، سِتٌّ قَبْلَ السَّاعَۃِ مَوْتُ نَبِیِّکُمْ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خُذْ إحْدَی ، فَکَأَنَّمَا انْتُزِعَ قَلْبِی مِنْ مَکَانِہِ ، وَفَتْحُ بَیْتِ الْمَقْدِسِ وَمَوْتٌ یَأْخُذُکُمْ تُقْعَصُونَ بِہِ کَمَا تُقْعَصُ الْغَنَمُ ، وَأَنْ یَکْثُرَ الْمَالُ حَتَّی یُعْطَی الرَّجُلُ مِئَۃَ دِینَارٍ فَیَسْخَطُہَا ، وَفَتْحُ مَدِینَۃِ الْکُفْرِ ، وَہُدْنَۃٌ تَکُونُ بَیْنَکُمْ وَبَیْنَ بَنِی الأَصْفَرِ ، فَیَأْتُونَکُمْ تَحْتَ ، ثَمَانِینَ غَایَۃً ، تَحْتَ کُلِّ غَایَۃٍ اثْنَا عَشَرَ أَلْفًا ، فَیَکُونُونَ أَوْلَی بِالْغَدْرِ مِنْکُمْ۔ (بخاری ۳۱۷۶۔ ابوداؤد ۴۹۶۱)
(٣٨٥٣٧) حضرت عوف بن مالک سے روایت ہے ارشاد فرمایا کہ میں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے داخل ہونے کی اجازت لی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا داخل ہوجاؤ میں نے عرض کیا میں سارا داخل ہوجاؤں یا کچھ (یہ مزاقاً کہا) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا سارا داخل ہوجا میں آپ کے پاس گیا آپ آہستہ سے وضو کر رہے تھے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا عوف بن مالک چھ باتیں قیامت سے پہلے ہوں گی تمہارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی موت یہ ایک لے لے (راوی نے فرمایا) اس بات سے گویا انھوں نے میرا دل کھینچ لیا اور (دوسری) بیت المقدس کی فتح حاصل ہوگی اور (تیسری) موت ہوگی تو تمہیں آن لے گی تم اس سے جلدی مرجاؤ گے جیسے بکریاں قعاص کی بیماری سے جلدی مرجاتی ہیں اور (چوتھا) مال کثرت سے ہوجائے گا یہاں تک کہ ایک آدمی کو سو دینار دیے جائیں گے وہ انھیں ناپسند کرے گا کفار کا شہر فتح ہوگا اور صلح ہوگی تمہارے اور رومیوں کے درمیان وہ تمہارے پاس اسی جھنڈیوں کے نیچے آئیں گے ہر جھنڈے کے نیچے بارہ ہزار افراد ہوں گے وہ تم سے عذر کرنے میں آگے ہوں گے۔

38537

(۳۸۵۳۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ النَّہَّاسِ بْنِ قَہْمٍ ، قَالَ : حدَّثَنِی شَدَّادٌ أَبُو عَمَّارٍ ، عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: سِتٌّ مِنْ أَشْرَاطِ السَّاعَۃِ: مَوْتِی وَفَتْحُ بَیْتِ الْمَقْدِسِ، وَأَنْ یُعْطَی الرَّجُلُ أَلْفَ دِینَارٍ فَیَسْخَطُہَا ، وَفِتْنَۃٌ یَدْخُلُ حَزْنُہَا بَیْتَ کُلِّ مُسْلِمٍ ، وَمَوْتٌ یَأْخُذُ فِی النَّاسِ کَقُعَاصِ الْغَنَمِ ، وَأَنْ تَغْدِرَ الرُّومُ فَیَسِیرُونَ باثْنَی عَشَرَ أَلْفًا ، تَحْتَ کُلِّ بَنْدٍ اثْنَا عَشَرَ أَلْفًا۔(احمد ۲۲۸۔ طبرانی ۲۴۴)
(٣٨٥٣٨) حضرت معاذ بن جبل سے روایت ہے فرمایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا چھ چیزیں قیامت کی نشانیوں میں سے ہیں میری وفات اور بیت المقدس کی فتح، ایک صاحب کو ہزار اشرفیاں دی جائیں گی وہ ان کو ناپسند کرے گا اور ایسا فتنہ ہوگا جس کا غم ہر مسلمان کے گھر میں داخل ہوگا اور موت ہوگی جو لوگوں کو ایسے پکڑ لے گی جیسے قعاص (سینے کی بیماری) بکریوں کو پکڑتی ہے رومی تم سے دھوکا کریں گے وہ بارہ ہزار کی تعداد میں آئیں گے اور ہر بڑے پرچم کے نیچے بارہ ہزار افراد ہوں گے۔

38538

(۳۸۵۳۹) حَدَّثَنَا ہَوْذَۃُ بْنُ خَلِیفَۃَ ، قَالَ : حدَّثَنَا عَوْفٌ ، عَنِ الْحَسَنِ ، عَنْ أَسِیدِ بْنِ الْمُتَشَمِّسِ ، قَالَ : کُنَّا عِنْدَ أَبِی مُوسَی ، فَقَالَ : أَلاَ أُحَدِّثُکُمْ حَدِیثًا کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُحَدِّثُنَاہُ ، قُلْنَا : بَلَی ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لاَ تَقُومُ السَّاعَۃُ حَتَّی یَکْثُرَ الْہَرْجُ ، فَقُلْنَا : یَا رَسُولَ اللہِ ، وَمَا الْہَرْجُ ، قَالَ : الْقَتْلُ الْقَتْلُ ، قُلْنَا : أَکْثَرُ مِمَّا نَقْتُلُ الْیَوْمَ ، قَالَ : لَیْسَ بِقَتْلِکُمُ الْکُفَّارَ ، وَلَکِنْ یِقَتْلُ الرَّجُلِ جَارَہُ وَأَخَاہُ ، وَابْنَ عَمِّہِ ، قَالَ : فَأُبْلَسْنَا حَتَّی مَا یُبْدِی أَحَدٌ مِنَّا عَنْ وَاضِحَۃٍ : قَالَ : قُلْنَا : وَمَعنَا عُقُولُنَا یَوْمَئِذٍ ، قَالَ : تُنْزَعُ عُقُولُ أَکْثَرِ أَہْلِ ذَلِکَ الزَّمَانِ ، وَیَخْلُفُ ہَبَائٌ مِنَ النَّاسِ یَحْسِبُ أَکْثَرُہُمْ أَنَّہُمْ عَلَی شَیْئٍ ، وَلَیْسُوا عَلَی شَیْئٍ ، وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ ، لَقَدْ خَشِیت أَنْ یُدْرِکَنِی وَإِیَّاکُمُ الأُمُورُ ، وَلَئِنْ أَدْرَکَتْنَا مَا لِی وَلَکُمْ مِنْہَا مَخْرَجٌ إِلاَّ أَنْ نَخْرُجَ مِنْہَا کَمَا دَخَلْنَا۔ (احمد ۴۰۶)
(٣٨٥٣٩) حضرت اسید بن متشمس سے روایت ہے ارشاد فرمایا کہ ہم حضرت ابو موسیٰ کے پاس تھے انھوں نے ارشاد فرمایا کیا میں تمہارے سامنے ایسی حدیث نہ بیان کروں جسے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم سے بیان کرتے تھے ہم نے عرض کیا کیوں نہیں راوی نے بتلایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا قیامت قائم نہیں ہوگی یہاں تک کہ ہرج کثرت سے ہوجائے گا ہم نے عرض کیا ہرج کیا ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا قتل قتل ہم نے عرض کیا اب بھی تو ہم قتل کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ تم کفار کو قتل نہیں کرو گے بلکہ کوئی شخص اپنے پڑوسی کو قتل کرے گا اور اپنے بھائی کو اور اپنے چچا کے بیٹے کو راوی کہتے ہیں ہمارے لیے یہ بات پیچیدہ ہوگئی یہاں تک کہ عرض کیا کیا اس دن ہمیں عقل و شعور ہوگا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا اس زمانے کے اکثر لوگوں کی عقلیں اڑا دی جائیں گی اور ان کے بعد کم عقل لوگ ان کے نائب بن جائیں گے جن میں سے اکثر یہ گمان کریں گے کہ وہ کسی امر (دینی) پر ہیں حالانکہ وہ کسی شے پر نہیں ہوں گے قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے مجھے خوف ہے کہ مجھے اور تمہیں چند امور آن لینگے اور اگر ان امور نے ہمیں پا لیا تو میرے اور تمہارے لیے ان سے نکلنے کا راستہ نہیں ہوگا مگر ایسا ہی کہ جے سل ہم داخل ہوئے تھے (مطلب یہ ہے کہ ہم ان فتنوں میں محفوظ نہ رہیں گے ایسے ہی ہے جیسا کہ ہم اس دن محفوظ تھے کہ جس دن ہم اسلام میں داخل ہوئے تھے) ۔

38539

(۳۸۵۴۰) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ رِبْعِیٍّ ، عَنْ أَبِی بَکْرَۃَ ، عَنِ النَّبِیِّ صلیِّ اللہ علیہ وسلم ، أَنَّہُ قَالَ : إِذَا الْمُسْلِمَانِ حَمَلَ أَحَدُہُمَا عَلَی أَخِیہِ بِالسِّلاَحِ فَہُمَا عَلَی جُرْف جَہَنَّمَ ، فَإِذَا قَتَلَ أَحَدُہُمَا صَاحِبَہُ دَخَلاَہَا جَمِیعًا۔ (مسلم ۲۲۱۴۔ طیالسی ۸۸۴)
(٣٨٥٤٠) حضرت ابو بکرہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا کہ جب دو مسلمانوں میں سے ایک اپنے بھائی کے خلاف اسلحہ اٹھائے تو وہ دونوں جہنم کے کنارے پر ہوتے ہیں اور جب ان دونوں میں ایک دوسرے کو قتل کردے تو وہ دونوں جہنم میں داخل ہوں گے۔

38540

(۳۸۵۴۱) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا ابْنُ عَوْنٍ ، عَنْ مُحَمَّدٍ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : الْمَلاَئِکَۃُ تَلْعَنُ أَحَدَکُمْ إِذَا أَشَارَ بِحَدِیدَۃٍ ، وَإِنْ کَانَ أَخَاہُ لأَبِیہِ وَأُمِّہِ۔ (مسلم ۲۰۲۰۔ ترمذی ۲۱۶۲)
(٣٨٥٤١) حضرت ابوہریرہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کرتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا جب تم میں سے کوئی ایک دوسرے کی طرف لوہے سے اشارہ کرتا ہے فرشتے تم میں سے اس پر لعنت کرتے ہیں اس شخص پر جو لوہے سے اشارہ کرے اگرچہ وہ شخص جس کی طرف اس نے اشارہ کیا وہ اس کا حقیقی بھائی ہی کیوں نہ ہو۔

38541

(۳۸۵۴۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ عُبَیْدِ بْنِ طُفَیْلٍ ، أَبِی سِیدَان ، عَنْ رِبْعِیِّ بْنِ حِرَاشٍ ، قَالَ : قَالَ حذَیْفَۃُ : لَتَرْکَبُنَّ سُنَّۃَ بَنِی إسْرَائِیلَ حَذْوَ النَّعْلِ بِالنَّعْلِ وَالْقُذَّۃِ بِالْقُذَّۃِ غَیْرَ أَنِّی لاَ أَدْرِی تَعْبُدُونَ الْعِجْلَ أَمْ لاَ۔
(٣٨٥٤٢) حضرت حذیفہ سے روایت ہے کہ ارشاد فرمایا یقیناً تم بنی اسرائیل کے طریقے پر چلو گے جیسا کہ جوتا جوتے کے برابر ہوتا ہے اور تیر کا پر دوسرے تیر کے برابر ہوتا ہے مگر میں یہ نہیں جانتا کہ تم بچھڑے کی عبادت کرو گے یا نہیں۔

38542

(۳۸۵۴۳) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا أَبُو عَوَانَۃَ ، قَالَ : حَدَّثَنَا إبْرَاہِیمُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْتَشِرِ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ حُذَیْفَۃَ ، قَالَ : إِذَا فَشَتْ بُقْعَانُ أَہْلِ الشَّامِ ، فَمَنِ اسْتَطَاعَ مِنْکُمْ أَنْ یَمُوتَ فَلْیَمُتْ۔
(٣٨٥٤٣) حضرت حذیفہ سے روایت ہے کہ ارشاد فرمایا کہ جب شام کے جوان (غلام) کثرت سے ہوجائیں تو جو تم میں سے مرسکتا ہے مرجائے۔

38543

(۳۸۵۴۴) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا ہِشَامٌ ، عَنْ مُحَمَّدٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِی بَکْرَۃَ ، قَالَ: قَدِمْت الشَّامَ ، قَالَ : فَقُلْتُ : لَوْ دَخَلْتَ عَلَی عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو فَسَلَّمْتَ عَلَیْہِ ، فَأَتَیْتہ فَسَلَّمْتُ عَلَیْہِ ، فَقَالَ لِی : مَنْ أَنْتَ؟ فَقُلْتُ: أَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِی بَکْرَۃَ، قَالَ: یُوشِکُ بَنُو قنطوراء أَنْ یُخْرِجُوکُمْ مِنْ أَرْضِ الْعِرَاقِ، قُلْتُ: ثُمَّ نَعُودُ ؟ قَالَ : أَنْتَ تَشْتَہِی ذَاکَ ؟ قُلْتُ : نَعَمْ ، قَالَ : وَتَکُونُ لَکُمْ سَلْوَۃٌ مِنْ عَیْشٍ۔ (نعیم ۱۹۱۱)
(٣٨٥٤٤) حضرت عبدالرحمن بن ابی بکرہ سے روایت ہے فرمایا کہ میں شام گیا اور میں نے (اپنے جی میں) کہا اگر میں حضرت عبداللہ بن عمرو کے پاس جاؤں اور ان کو سلام کروں پس میں ان کے پاس آیا اور انھیں سلام کیا انھوں نے پوچھا کہ تو کون ہے میں نے عرض کیا کہ عبدالرحمن بن ابی بکرہ ہوں انھوں نے ارشاد فرمایا کہ قریب ہے کہ بنی قنطورا (ترک یا روم کے نصاریٰ ) تمہیں عراق کی زمین سے نکالدیں میں نے عرض کیا پھر کیا ہم لوٹیں گے ؟ انھوں نے ارشاد فرمایا کہ کیا تم اس بات کو چاہتے ہو ؟ میں نے عرض کیا جی ہاں انھوں نے ارشاد فرمایا کہ تمہارے لیے زندگی کی بہار ہوگی وہ لوٹنا۔

38544

(۳۸۵۴۵) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ زَیْدِ بْنِ وَہْبٍ ، قَالَ : مَاتَ رَجُلٌ مِنَ الْمُنَافِقِینَ فَلَمْ یُصَلِّ عَلَیْہِ حُذَیْفَۃُ ، فَقَالَ لَہُ عُمَرُ : أَمِنَ الْقَوْمِ ہُوَ ؟ قَالَ : نَعَمْ ، فَقَالَ لَہُ عُمَرُ : بِاللہِ مِنْہُمْ أَنَا ؟ قَالَ : لاَ ، وَلَنْ أُخْبِرَ بِہِ أَحَدًا بَعْدَک۔ (وکیع ۴۷۷)
(٣٨٥٤٥) حضرت زید بن وہب سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ منافقین میں سے ایک آدمی فوت ہوا حضرت حذیفہ نے اس کی نماز جنازہ نہیں پڑھی۔ حضرت عمر نے ان سے پوچھا کہ کیا یہ منافقین میں سے ہے ؟ انھوں نے ارشاد فرمایا کہ ہاں ! حضرت عمر نے ان سے پوچھا اللہ کے لیے مجھے بتاؤ کیا میں ان منافقین میں سے ہوں ؟ تو انھوں نے ارشاد فرمایا کہ نہیں اور ہرگز میں اس بارے میں آئندہ نہیں بتاؤں گا (کہ کون منافق ہے اور کون نہیں)

38545

(۳۸۵۴۶) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ زَیْدٍ ، عَنْ حُذَیْفَۃَ ، قَالَ : مَا بَقِیَ مِنَ الْمُنَافِقِینَ إِلاَّ أَرْبَعَۃٌ ، أَحَدُہُمْ شَیْخٌ کَبِیرٌ لاَ یَجِدُ بَرْدَ الْمَائِ مِنَ الْکِبَرِ ، قَالَ : فَقَالَ لَہُ رَجُلٌ : فَمَنْ ہَؤُلاَئِ الَّذِینَ یَنْقُبُونَ بُیُوتَنَا وَیَسْرِقُونَ عَلاَئِقَنَا ، قَالَ : وَیْحَک ، أُولَئِکَ الْفُسَّاقُ۔ (بخاری ۴۶۵۸۔ بزار ۲۸۱۸)
(٣٨٥٤٦) حضرت حذیفہ سے روایت ہے انھوں نے ارشاد فرمایا منافقین میں سے سوائے چار کے کوئی بھی باقی نہیں رہا ان میں سے ایک بوڑھا ہے جو بڑھاپے کی وجہ سے پانی کی ٹھنڈک کو نہیں پاتا راوی کہتے ہیں ایک شخص نے حضرت حذیفہ سے عرض کیا کہ یہ کون لوگ ہیں جو ہمارے گھروں میں نقب لگاتے ہیں اور ہمارے مالوں کو چوری کرتے ہیں انھوں نے ارشاد فرمایا کہ تیرے لیے ہلاکت ہو یہ تو فساق لوگ ہیں۔

38546

(۳۸۵۴۷) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ زَیْدٍ ، قَالَ : قرَأَ حُذَیْفَۃُ {فَقَاتِلُوا أَئِمَّۃَ الْکُفْرِ} ، قَالَ ، مَا قُوتِلَ أَہْلُ ہَذِہِ الآیَۃِ بَعْدُ۔
(٣٨٥٤٧) حضرت زید سے روایت ہے حضرت حذیفہ نے { فَقَاتِلُوا أَئِمَّۃَ الْکُفْرِ } (یعنی کفر کے سرداروں کو قتل کرو) تلاوت کی اور فرمایا کہ اس آیت کے مصداق لوگ ابھی تک قتل نہیں کیے گئے۔

38547

(۳۸۵۴۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ ، عَنْ أَبِی الْبَخْتَرِیِّ ، قَالَ : قَالَ رَجُلٌ : اللَّہُمَّ أَہْلِکِ الْمُنَافِقِینَ ، فَقَالَ : حُذَیْفَۃُ : لَوْ ہَلَکُوا مَا انْتَصَفْتُمْ مِنْ عَدُوِّکُمْ۔
(٣٨٥٤٨) حضرت ابو البختری سے روایت ہے کہ ایک صاحب نے کہا کہ اے اللہ منافقین کو ہلاک کردے حضرت حذیفہ نے فرمایا کہ اگر وہ ہلاک کردیے گئے تو پھر تم نے اپنے دشمن سے انتقام نہ لیا۔

38548

(۳۸۵۴۹) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ شِمْرٍ ، قَالَ : قَالَ حُذَیْفَۃُ : أَیَسُرُّک أَنْ تَقْتُلَ أَفْجَرَ النَّاسِ ؟ قَالَ : نَعَمْ ، قَالَ : إذًا تَکُونُ أَفْجَرَ مِنْہُ۔
(٣٨٥٤٩) حضرت شمر سے روایت ہے کہ انھوں نے فرمایا کہ حضرت حذیفہ نے فرمایا کہ کیا تمہیں یہ بات پسند ہے کہ تم لوگوں میں سے سب سے زیادہ گناہ گار کو قتل کرو انھوں نے کہا جی ہاں حضرت حذیفہ نے فرمایا اس وقت تم سب سے گناہ گار ہوگے۔

38549

(۳۸۵۵۰) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ ، عَنْ أَبِی الْبَخْتَرِیِّ ، عَنْ حُذَیْفَۃَ ، قَالَ : الْقُلُوبُ أَرْبَعَۃٌ : قَلْبٌ مُصَفَّحٌ فَذَاکَ قَلْبُ الْمُنَافِقِ ، وَقَلْبٌ أَغْلَفُ ، فَذَاکَ قَلْبُ الْکَافِرِ ، وَقَلْبٌ أَجْرَدُ کَأَنَّ فِیہِ سِرَاجًا یَزْہر ، فَذَاکَ قَلْبُ الْمُؤْمِنِ ، وَقَلْبٌ فِیہِ نِفَاقٌ وَإِیمَانٌ فَمِثْلُہُ مِثْلُ قُرْحَۃٍ یَمُدُّہَا قَیْحٌ وَدَمٌ ، وَمِثْلُہُ مِثْلُ شَجَرَۃٍ یَسْقِیہَا مَائٌ خَبِیثٌ وَمَائٌ طَیِّبٌ ، فَأَیُّ مَائٍ غَلَبَ عَلَیْہَا ؛ غَلَبَ۔
(٣٨٥٥٠) حضرت حذیفہ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا دل چار قسم کے ہوتے ہیں ایک تو الٹا دل یہ منافق کا دل ہے اور غلاف میں لپٹا ہوا دل یہ کافر کا دل ہے اور صاف دل گویا کہ اس میں چراغ چمک رہا ہے یہ مومن کا دل ہے اور جس دل میں نفاق اور ایمان ہے اس کی مثال پھوڑے کی ہے جس میں پیپ اور خون ہو اور اس کی مثال اس درخت جیسی ہے جس کو خراب پانی اور عمدہ پانی سے سیراب کیا جاتا ہے جو پانی اس پر غالب ہوگا وہ ویسا ہی ہوگا۔

38550

(۳۸۵۵۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا الأَعْمَشُ ، عَنْ شَقِیقٍ ، عَنْ حُذَیْفَۃَ ، قَالَ : الْمُنَافِقُونَ الَّذِینَ فِیکُمَ الْیَوْمَ شَرٌّ مِنَ الْمُنَافِقِینَ الَّذِینَ کَانُوا عَلَی عَہْدِ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : قُلْتُ : یَا أَبَا عَبْدِ اللہِ ، وَکَیْفَ ذَاکَ ، قَالَ : إِنَّ أُولَئِکَ کَانُوا یُسِرُّونَ نِفَاقَہُمْ ، وَإِنَّ ہَؤُلاَئِ أَعْلَنُوہُ۔ (طیالسی ۴۱۰)
(٣٨٥٥١) حضرت حذیفہ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ آج کل جو منافق تمہارے اندر ہیں وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے کے منافقین سے زیادہ برے ہیں راوی نے فرمایا ہم نے عرض کیا اے ابو عبداللہ یہ کیسے ہوسکتا ہے انھوں نے فرمایا اس لیے کہ وہ اپنے نفاق کو چھپاتے تھے اور یہ اسے ظاہر کرتے ہیں۔

38551

(۳۸۵۵۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا الأَعْمَشُ ، عَنْ مُخَوَّلِ بْنِ رَاشِدٍ ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ عَبْدِ الْقِیسِ ، قَالَ : قَالَ حُذَیْفَۃُ : مَا أُبَالِی بَعْدَ سَنَۃِ سَبْعِینَ لَوْ دَہْدَہْت حَجَرًا مِنْ فَوْقِ مَسْجِدِکُمْ ہَذَا فَقَتَلَتْ مِنْکُمْ عَشْرَۃً۔
(٣٨٥٥٢) حضرت حذیفہ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا سترویں (٧٠) سال کے بعد مجھے اس کی پروا نہیں کہ میں کوئی پتھر تمہاری مسجد کے اوپر سے لڑھکا دوں جو تم میں سے دس آدمیوں کو کچل دے۔

38552

(۳۸۵۵۳) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ عِیسَی ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ مُخَوَّلٍ ، عَنْ رَجُلٍ ، قَالَ : کُنَّا مَعَ حُذَیْفَۃَ فَأَخَذَ حَصًی فَوَضَعَ بَعْضَہُ فَوْقَ بَعْضٍ ، ثُمَّ قَالَ لَنَا : انْظُرُوا مَا تَرَوْنَ مِنَ الضَّوْئِ قُلْنَا : نَرَی شَیْئًا خَفِیًّا ، قَالَ : وَاللہِ لَیَرْکَبَنَّ الْبَاطِلُ عَلَی الْحَقِّ حَتَّی لاَ تَرَوْنَ مِنَ الْحَقِّ إِلاَّ مَا تَرَوْنَ مِنْ ہَذَا۔
(٣٨٥٥٣) حضرت مخول ایک صاحب سے روایت کرتے ہیں انھوں نے فرمایا کہ ہم حضرت حذیفہ کے ساتھ تھے انھوں نے کچھ کنکریاں لیں اور ان کو ایک دوسرے کے اوپر رکھا پھر انھوں نے ہم سے ارشاد فرمایا کہ دیکھو اس روشنی کو جو تمہیں نظر آرہی ہے ہم نے عرض کیا کہ ہم تو مخفی چیز دیکھ رہے ہیں۔ انھوں نے ارشاد فرمایا کہ اسی طرح باطل حق پر بلند ہوگا یہاں تک کہ تم حق کو نہیں دیکھو گے مگر اس حالت میں جو حالت تم ان کنکریوں کی دیکھ رہے ہو۔

38553

(۳۸۵۵۴) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَنْ زَائِدَۃَ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ شَقِیقٍ ، عَنْ حُذَیْفَۃَ ، قَالَ : لَیُوشِکَنَّ أَنْ یُصَبَّ عَلَیْکُمُ الشَّرُّ مِنَ السَّمَائِ حَتَّی یَبْلُغَ الْفَیَافِیَ ، قَالَ : قِیلَ : وَمَا الْفَیَافِیُ یَا أَبَا عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : الأَرْضُ الْقَفْرُ۔
(٣٨٥٥٤) حضرت حذیفہ سے روایت ہے کہ انھوں نے ارشاد فرمایا کہ قریب ہے کہ آسمان سے برائی تم پر اتار دی جائے یہاں تک کہ وہ فیافی تک پہنچ جائے ان سے عرض کیا گیا اے ابو عبداللہ یہ فیافی کیا ہے ؟ انھوں نے کہا۔ ویران زمین۔

38554

(۳۸۵۵۵) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَنِ الْوَلِیدِ بْنِ جُمَیْعٍ ، عَنْ أَبِی الطُّفَیْلِ ، قَالَ : جَائَ رَجُلٌ مِنْ مُحَارِبٍ یُقَالُ لَہُ عَمْرُو بْنُ صُلَیعٍ إِلَی حُذَیْفَۃَ ، فَقَالَ لَہُ : یَا أَبَا عَبْدِ اللہِ ، حَدِّثْنَا مَا رَأَیْت وَشَہِدْت ؟ فَقَالَ حُذَیْفَۃُ : یَا عَمْرُو بْنَ صُلَیعٍ ، أَرَأَیْت مُحَارِبَ ؟ أَمِنْ مُضَرَ ، قَالَ : نَعَمْ ، قَالَ : فَإِنَّ مُضَرَ لاَ تَزَالُ تَقْتُلُ کُلَّ مُؤْمِنٍ وَتَفْتِنُہُ ، أَوْ یَضْرِبُہُمَ اللَّہُ وَالْمَلاَئِکَۃُ وَالْمُؤْمِنُونَ حَتَّی لاَ یَمْنَعُوا بَطْنَ تَلْعَۃٍ ، أَرَأَیْت مُحَارِبَ ؟ أَمِنْ قَیْسَ عَیْلاَنَ ، قَالَ : نَعَمْ ، فَإِذَا رَأَیْت عَیْلاَنَ قَدْ نَزَلَتْ بِالشَّامِ فَخُذْ حِذْرَک۔ (طیالسی ۴۲۰۔ احمد ۳۹۰)
(٣٨٥٥٥) ابو الطفیل سے روایت ہے کہ قبیلہ بنو محارب میں سے ایک صاحب جن کو عمرو بن صلیع کہا جاتا تھا حضرت حذیفہ کے پاس آئے انھوں نے حضرت حذیفہ سے عرض کیا اے ابو عبداللہ ہم سے وہ بیان کیجیے جو آپ نے دیکھا اور مشاہدہ کیا حضرت حذیفہ نے فرمایا اے عمرو بن صلیع محارب کے بارے میں مجھے بتلاؤ کیا وہ مضر میں سے ہے اس نے کہا جی ہاں تو حضرت حذیفہ نے فرمایا بلاشبہ مضر مسلسل ہر مومن کو قتل کریں گے اور مسلمانوں کو فتنے میں ڈالیں گے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس کے فرشتے اور مومنین ان کو ماریں گے یہاں تک کہ وہ ہر جگہ کثرت سے ہونے کے باوجود اپنا دفاع نہیں کرسکیں گے محارب کے بارے میں بتلاؤ کیا وہ قیس عیلان سے ہیں انھوں نے کہا جی ہاں ارشاد فرمایا جب تم قبیلہ عیلان کو دیکھو جب وہ شام میں آگئے ہیں تو اپنا بچاؤ کرنا۔

38555

(۳۸۵۵۶) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنِ الْعَوَّامِ ، قَالَ : حدَّثَنِی مَنْصُورُ بْنُ الْمُعْتَمِرِ ، عَنْ رِبْعِیٍّ ، عَنْ حُذَیْفَۃَ ، قَالَ: ادْنُوا یَا مَعْشَرَ مُضَرَ ، فَوَاللہِ لاَ تَزَالُونَ بِکُلِّ مُؤْمِنٍ تَفْتِنُونَہُ ، وَتَقْتُلُونَہُ حَتَّی یَضْرِبَکُمُ اللَّہُ وَمَلاَئِکَتُہُ وَالْمُؤْمِنُونَ ، حَتَّی لاَ تَمْنَعُوا بَطْنَ تَلْعَۃٍ ، قَالُوا : فَلِمَ تُدْنِینَا وَنَحْنُ کَذَلِکَ ، قَالَ : إِنَّ مِنْکُمْ سَیِّدَ وَلَدِ آدَمَ ، وَإِنَّ مِنْکُمْ سَوَابِقَ کَسَوَابِقِ الْخَیْلِ۔
(٣٨٥٥٦) حضرت حذیفہ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا اے مضر کی جماعت قریب ہوجاؤ اللہ کی قسم تم ہر مومن کو قتل کرو گے اور ان کو فتنے میں ڈالو گے یہاں تک کہ اللہ اور اس کے فرشتے اور مومنین تمہیں ماریں گے یہاں تک کہ تم ہر جگہ کثرت سے رہنے کے باوجود اپنا دفاع نہیں کرسکو گے ان کے اصحاب نے عرض کیا جب ہم اس حالت پر ہوں گے تو کیوں ہم ایسا کریں گے ؟ آپ نے فرمایا ! یقیناً تم میں سے ایک سردار ہوگا اور تم میں کچھ آگے نکلنے والے ہوں گے گھوڑوں میں سے آگے نکلنے والوں کی طرح۔

38556

(۳۸۵۵۷) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا الأَعْمَشُ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ ثَرْوَانَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ حَنْظَلَۃَ ، قَالَ : قَالَ حُذَیْفَۃُ : لاَ تَدْعُ مُضَرُ عَبْدا للہِ مُؤْمِنًا إِلاَّ فَتَنُوہُ ، أَوْ قَتَلُوہُ ، أَوْ یَضْرِبَہُمَ اللَّہُ وَالْمَلاَئِکَۃُ وَالْمُؤْمِنُونَ حَتَّی لاَ یَمْنَعُوا ذَنبَ تَلْعَۃٍ ، فَقَالَ لَہُ رَجُلٌ : یَا أَبَا عَبْدِ اللہِ ، تَقُولُ ہَذَا وَأَنْتَ رَجُلٌ مِنْ مُضَرَ ، قَالَ : أَلاَ أَقُولُ مَا قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔ (بخاری ۲۵۳۰)
(٣٨٥٥٧) حضرت حذیفہ سے روایت ہے انھوں نے ارشاد فرمایا مضر کسی اللہ تعالیٰ کے مومن بندے کو نہیں چھوڑیں گے مگر اسے یا تو فتنے میں ڈال دیں گے یا اس کو قتل کردیں گے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اور فرشتے اور مومنین ان کو ماریں گے یہاں تک کہ وہ اپنا دفاع نہ کرسکیں گے ایک صاحب نے ان سے عرض کیا اے ابو عبداللہ آپ یہ بات کر رہے ہیں حالانکہ آپ بھی مضر قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں انھوں نے فرمایا میں وہ کہہ رہا ہوں جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا۔

38557

(۳۸۵۵۸) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، قَالَ : حَدَّثَنَا إبْرَاہِیمُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْتَشِرِ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : قَالَ حُذَیْفَۃُ : إِنَّ أَہْلَ الْبَصْرَۃِ لاَ یَفْتَحُونَ بَابَ ہُدَی وَلاَ یَتْرُکُونَ بَابَ ضَلاَلَۃٍ ، وَإِنَّ الطُّوفَانَ قَدْ رُفِعَ مِنَ الأَرْضِ کُلِّہَا إلاَّ عَنِ الْبَصْرَۃِ۔
(٣٨٥٥٨) حضرت حذیفہ سے روایت ہے انھوں نے ارشاد فرمایا بلاشبہ بصرہ کے رہنے والے کوئی ہدایت کا دروازہ کھولیں گے نہیں اور کوئی گمراہی کا دروازہ چھوڑیں گے نہیں اور طوفان ساری زمین سے اٹھا دیا گیا ہے سوائے بصرہ کے۔

38558

(۳۸۵۵۹) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا عُیَیْنَۃُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِیہِ، عَنْ أَخِیہِ رَبِیعَۃَ بْنِ جَوْشَنٍ، قَالَ: قَدِمْت الشَّامَ فَدَخَلْتُ عَلَی عَبْدِاللہِ بْنِ عَمْرٍو، فَقَالَ: مِمَّنْ أَنْتُمْ؟ قُلْنَا مِنْ أَہْلِ الْبَصْرَۃِ، قَالَ: إِمَّا لاَ فَاسْتَعِدُّوا یَا أَہْلَ الْبَصْرَۃِ، قُلْنَا: بِمَاذَا، قَالَ: بِالمَزَادِ وَالْقِرَبِ، خَیْرُ الْمَالِ الْیَوْمَ أَجْمَالٌ یَحْتَمِلُ الرَّجُلُ عَلَیْہِنَّ أَہْلَہُ وَیَمِیرُہُمْ عَلَیْہَا ، وَفَرَسٌ وَقَاحٌ شَدِید ، فَوَاللہِ لَیُوشِکَ بَنُو قَنْطُورَائَ أَنْ یُخْرِجُوکُمْ مِنْہَا حَتَّی یَجْعَلُوکُمْ بِرُکْبَۃ، قَالَ: قُلْنَا: وَمَا بَنُو قَنْطُورَائَ، قَالَ: أَمَّا فِی الْکِتَابِ فَہَکَذَا نَجِدُہُ، وَأَمَّا فِی النَّعْتِ فَنَعْتُ التُّرْکِ۔
(٣٨٥٥٩) حضرت ربیعہ بن جو شن سے روایت ہے انھوں نے فرمایا میں شام کے علاقے میں گیا اور حضرت عبداللہ بن عمرو کی مجلس میں حاضر ہوا۔ انھوں نے پوچھا کہ تم کن میں سے ہو ؟ ہم نے عرض کیا اہل بصرہ میں سے انھوں نے فرمایا اے اہل بصرہ لڑائی کی تیاری کرو ہم نے عرض کیا کہ کس چیز کے ساتھ ؟ انھوں نے فرمایا توشہ دان اور مشکیزوں کے ساتھ آج بہترین مال وہ اونٹ ہیں جن پر آدمی اپنے گھر والوں کو سوار کرتا ہے اور جن پر غلہ لے کرجاتا ہے اور بہترین مال وہ مضبوط کھروں والا گھوڑا ہے (یہ آج کل بہترین مال ہے) اللہ کی قسم عنقریب بنو قنطورا تمہیں بصرہ سے نکال دیں گے یہاں تک کہ تمہیں ایک جماعت بنادیں گے راوی کہتے ہیں کہ ہم نے عرض کیا کہ بنو قنطورا کون ہیں ؟ انھوں نے فرمایا کہ کتاب کے اندر تو میں اسی طرح پاتا ہوں باقی یہ صفت تر کیوں کی ہے۔

38559

(۳۸۵۶۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ بْنِ أَبِی خَالِدٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ عَمْرٍو ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : کَیْفَ أَنْتُمْ إِذَا لَمْ یَجِبْ لَکُمْ دِینَارٌ وَلاَ دِرْہَمٌ وَلاَ قَفِیزٌ۔ (مسلم ۲۲۲۰۔ احمد ۳۳۲)
(٣٨٥٦٠) حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے تمہاری کیا حالت ہوگی اس وقت جب کوئی دینار اور کوئی درہم اور کوئی قفیز تمہیں نہیں دیا جائے گا۔

38560

(۳۸۵۶۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ عِمْرَانَ ، عَنْ أَبِی مِجْلَزٍ ، قَالَ : أَرَادَ عُمَرُ أَنْ لاَ یَدَعَ مِصْرًا مِنَ الأَمْصَارِ إِلاَّ أَتَاہُ ، فَقَالَ لَہُ کَعْبٌ : لاَ تَأْتِ الْعِرَاقَ فَإِنَّ فِیہِ تِسْعَۃَ أَعْشَارِ الشَّرِّ۔
(٣٨٥٦١) حضرت ابو مجلز سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ حضرت عمر نے تمام شہروں کا دورہ کرنے کا ارادہ کیا حضرت کعب نے ان سے عرض کیا کہ آپ عراق نہ جانا کیونکہ وہاں دس حصوں میں سے نو حصے شر ہے۔

38561

(۳۸۵۶۲) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ عَوْفٍ ، عَنْ قَسَامَۃَ بْنِ زُہَیْرٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا مُوسَی یَقُولُ : إِنَّ لِہَذِہِ ، یَعْنِی الْبَصْرَۃَ أَرْبَعَۃَ أَسْمَائٍ : الْبَصْرَۃُ وَالْخُرَیْبَۃُ وَتَدْمُرُ وَالْمُؤْتَفِکَۃُ۔
(٣٨٥٦٢) حضرت قسامہ بن زبیر سے روایت ہے میں نے حضرت ابو موسیٰ سے یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اس بصرہ کے چار نام ہیں (بصرہ، خریبہ، تدمر، مؤتفکہ)

38562

(۳۸۵۶۳) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ ، قَالَ : رَأَیْتُ کَثِیرَ بْنَ أَفْلَحَ فِی الْمَنَامِ ، فَقُلْتُ لَہُ : یَا ابْنَ أَفْلَحَ ، کَیْفَ أَنْتُمْ ، قَالَ : بِخَیْرٍ ، قَالَ : قُلْتُ : أَنْتُمُ الشُّہَدَائُ ، قَالَ : لاَ ، إِنَّ قَتْلَی الْمُسْلِمِینَ لَیْسُوا بِشُہَدَائَ وَلَکِنَّا النُّدَبَائُ۔
(٣٨٥٦٣) حضرت محمد بن سیرین سے روایت ہے کہ انھوں نے فرمایا کہ میں نے کثیر بن افلح (یہ حرہ کے دن شہید کیے گئے) کو خواب میں دیکھا میں نے ان سے کہا اے ابن افلح تم کیسے ہو انھوں نے فرمایا بھلائی میں ہوں میں نے پوچھا کیا تم شہداء میں ہو انھوں نے فرمایا کہ نہیں مسلمانوں کے مقتول شہداء نہیں ہیں لیکن ہم زیرک و ہوشیار ہیں۔

38563

(۳۸۵۶۴) حَدَّثَنَا شَبَابَۃُ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ حُصَیْنٍ ، قَالَ : سَمِعَتِ الْحَیَّ غَیْرَ وَاحِدٍ یُحَدِّثُونَ ، عَنْ أُبَیّ ، أَنَّہُ قَالَ لِسَعْدِ بْنِ أَبِی وَقَّاصٍ: مَا یَمْنَعُک مِنَ الْقِتَالِ، قَالَ: لاَ، حَتَّی تُعْطُونِی سَیْفًا یَعْرِفُ الْمُؤْمِنَ مِنَ الْکَافِرِ۔
(٣٨٥٦٤) حضرت ابی سے روایت ہے کہ انھوں نے حضرت سعد بن ابی وقاص سے کہا کہ آپ کو کونسی چیز لڑائی سے روکتی ہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ کوئی چیز نہیں روکتی یہاں تک کہ تم مجھے ایسی تلوار دو جو مومن اور کافر کو پہچانتی ہو (حضرت سعد بن ابی وقاص فتنوں سے جدا رہتے تھے اور جمل، صفین، تیمں ، اور حضرت عثمان کی شہادت ان تمام مواقع میں الگ رہے)

38564

(۳۸۵۶۵) حَدَّثَنَا ہَوْذَۃُ بْنُ خَلِیفَۃَ، قَالَ: حدَّثَنَا عَوْفٌ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِیرِینَ، عَنْ عُقْبَۃَ بْنِ أَوْسٍ، عَنْ عَبْدِاللہِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: یَقْتَتِلُ النَّاسُ بَیْنَہُمْ عَلَی دَعْوَی جَاہِلِیَّۃٍ عِنْدَ قَتْلِ أَمِیرٍ ، أَوْ إخْرَاجِہِ فَتَظْہَرُ إحْدَی الطَّائِفَتَیْنِ حِینَ تَظْہَرُ وَہِیَ ذَلِیلَۃٌ فَیَرْغَبُ فِیہِمْ مَنْ یَلِیہِمْ مِنَ الْعَدُوِّ فَیَسِیرُونَ إلَیْہِمْ وَیَتقَحَّمُ أُنَاسٌ فِی الْکُفْرِ تَقَحُّمًا۔
(٣٨٥٦٥) حضرت عبداللہ بن عمرو سے روایت ہے کہ لوگ آپس میں جاہلیت کی پکار کے تقاضوں پر لڑائی کریں گے کسی امیر کے قتل ہونے یا اس کے نکالنے کے وقت پس دونوں گروہوں میں سے ایک غالب آجائیگا جب کہ وہ ذلیل تھا تو ان کے پاس والے دشمن ان میں رغبت کریں گے اور ان پر حلہ کردیں گے اور لوگ کفر میں گرتے چلے جائیں گے۔

38565

(۳۸۵۶۶) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ یَعْلَی بْنِ عَطَائٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ خَرَّبُوذَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو ، أَنَّہُ قَالَ : وَیْلٌ لِلْجَنَاحَیْنِ مِنَ الرَّأْسِ ، وَیْلٌ لِلرَّأْسِ مِنَ الْجَنَاحَیْنِ ، قَالَ شُعْبَۃُ : فَقُلْتُ : وَمَا الْجَنَاحَانِ ، قَالَ : الْعِرَاقُ وَمِصْرُ ، وَالرَّأْسُ : الشَّامُ۔
(٣٨٥٦٦) حضرت عبداللہ بن عمرو سے روایت ہے کہ انھوں نے ارشاد فرمایا کہ سر کی دونوں جانبوں کے لیے ہلاکت ہے سر کی دونوں جانبوں کے لیے ہلاکت ہے شعبہ راوی کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ دونوں جانبوں سے کیا مراد ہے انھوں نے فرمایا عراق، مصر اور سر سے مراد شام ہے۔

38566

(۳۸۵۶۷) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ: حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، قَالَ: أَخْبَرَنِی عَبْدُ اللہِ بْنُ الْمُخْتَارِ ، عَنْ عَبَّاسٍ الْجُرَیْرِیِّ، عَنْ أَبِی عُثْمَانَ النَّہْدِیِّ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو ، قَالَ: لَیُخْسَفَنَّ بِالدَّارِ إِلَی جَنْبِ الدَّارِ وَبِالدَّارِ إِلَی جَنْبِ الدَّارِ حَیْثُ تَکُونُ الْمَظَالِمُ۔
(٣٨٥٦٧) حضرت عبداللہ بن عمرو سے روایت ہے انھوں نے فرمایا ایک گھر کو اس کے پاس والے گھر کے پہلو میں دھنسا دیا جائے گا دوسرے گھر کو اس کے پاس والے گھر کے پہلو میں دھنسا دیا جائے گا جہاں پر یہ مظالم ہوں گے۔

38567

(۳۸۵۶۸) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا ثَابِتٌ ، عَنْ غَالِبِ بْنِ عَجْرَدٍ ، قَالَ : أَتَیْتُ عَبْدَ اللہِ بْنَ عَمْرٍو أَنَا وَصَاحِبٌ لِی وَہُوَ یُحَدِّثُ النَّاسَ ، فَقَالَ : مِمَّنْ أَنْتُمَا فَقُلْنَا : مِنْ أَہْلِ الْبَصْرَۃِ ، قَالَ : فَعَلَیْکُمَا إذًا بضواحیہا ، فَلَمَّا تَفَرَّقَ النَّاسُ عَنْہُ دَنَوْنَا مِنْہُ فَقُلْنَا : رَأَیْت قَوْلَک مِمَّنْ أَنْتُمَا وَقَوْلَک عَلَیْکُمَا بِضَوَاحِیہَا إذًا ، قَالَ : إِنَّ دَارَ مَمْلَکَتِہَا ، وَمَا حَوْلَہَا مَشُوبٌ بِہِمْ ، قَالَ ثَابِتٌ : فَکَانَ غَالِبُ بْنُ عَجْرَدٍ إِذَا دَخَلَ عَلَی الرَّحْبَۃِ سَعَی حَتَّی یَخْرُجَ مِنْہَا۔
(٣٨٥٦٨) حضرت غالب بن عجرد سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ میں اور میرا ساتھی حضرت ابو عبداللہ بن عمرو کے پاس آئے جبکہ وہ لوگوں کے سامنے (احادیث) بیان کر رہے تھے تو انھوں نے پوچھا کہ تم دونوں کون ہو ؟ انھوں نے عرض کیا کہ بصرہ والوں میں سے انھوں نے فرمایا تم دونوں پر بصرہ کے متصل علاقے لازم ہیں جب لوگ ان کے پاس سے چلے گئے تو ہم ان کے قریب ہوئے ہم نے ان سے عرض کیا کیا خیال ہے آپ کا اپنی بات (تم کہاں سے ہو) اور آپ کی بات کہ تم پر لازم ہے بصرہ کے متصل علاقے انھوں نے فرمایا بیشک بصرہ اور اس کے ارد گرد کے مملوکہ گھر وہاں کے باشندوں کے درمیان مشترک ہوجائیں ۔ ثابت راوی کہتے ہیں کہ غالب بن عجرد جب کسی کشادہ مقام میں داخل ہوئے تو دوڑتے ہوئے یہاں تک کہ اس سے نکل جاتے۔

38568

(۳۸۵۶۹) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ أَبِی عُثْمَانَ ، قَالَ : جَائَ رَجُلٌ إِلَی حُذَیْفَۃَ ، فَقَالَ : إنِّی أُرِیدُ الْخُرُوجَ إِلَی الْبَصْرَۃِ ، فَقَالَ : إِنْ کُنْت لاَ بُدَّ لَکَ مِنَ الْخُرُوجِ فَانْزِلْ عَرَوَاتِہَا وَلاَ تَنْزِلْ سُرَّتَہَا۔
(٣٨٥٦٩) حضرت ابو عثمان نہدی سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ ایک صاحب حضرت حذیفہ کے پاس آئے اور عرض کیا کہ میں بصرہ جانا چاہتا ہوں حضرت حذیفہ نے ارشاد فرمایا اگر تمہارے لیے جانا ضروری ہے تو اس کے کنارے میں ٹھہرنا اس کے درمیان میں نہ ٹھہرنا۔

38569

(۳۸۵۷۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا الأَعْمَشُ ، عَنْ ثَابِتِ بْنِ ہُرْمُزَ أَبِی الْمِقْدَامِ ، عَنْ أَبِی یَحْیَی ، قَالَ : سُئِلَ حُذَیْفَۃُ : مَن الْمُنَافِقُ ، قَالَ : الَّذِی یَصِفُ الإِسْلاَمَ وَلاَ یَعْمَلُ بِہِ۔
(٣٨٥٧٠) حضرت ابو یحییٰ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ حضرت حذیفہ سے پوچھو کہ منافق کون ہے ؟ تو انھوں نے فرمایا جو اسلام کو بیان کرتا ہے اور اس پر عمل نہیں کرتا۔

38570

(۳۸۵۷۱) حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ بْنُ مُوسَی ، عَنْ حَسَنِ بْنِ صَالِحٍ ، عَنْ مُعَاوِیَۃَ بْنِ إِسْحَاقَ ، قَالَ : حدَّثَنِی رَجُلٌ مِنَ الطَّائِفِ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو ، قَالَ : لاَ تَقُومُ السَّاعَۃُ حَتَّی تَتَہَارَجُونَ فِی الطُّرُقِ تَہَارُجَ الْحَمِیرِ فَیَأْتِیہِمْ إبْلِیسُ فَیَصْرِفُہُمْ إِلَی عِبَادَۃِ الأَوْثَانِ۔ (حاکم ۴۵۷)
(٣٨٥٧١) حضرت عبداللہ بن عمرو سے روایت ہے انھوں نے ارشاد فرمایا قیامت قائم نہیں ہوگی یہاں تک کہ تم راستوں میں چوپایوں کی طرح زنا کرو گے ان پر ابلیس مسلط ہوگا اور ان کو بتوں کی عبادت کی طرف پھیر دے گا۔

38571

(۳۸۵۷۲) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ شِمْرٍ ، عَنْ شَہْرِ بْنِ حَوْشَبٍ ، عَنْ کَعْبٍ ، قَالَ : یَقْتَتِلُ الْقُرْآنُ وَالسُّلْطَانُ ، قَالَ : فَیَطَأُ السُّلْطَانُ عَلَی سِمَاخِ الْقُرْآنِ ، فَلأْیًا بِلأْی وَلأْیًا بِلأْی ، مَا تَنْفَلِتنَّ مِنْہُ۔
(٣٨٥٧٢) حضرت کعب سے روایت ہے انھوں نے فرمایا قرآن اور بادشاہ کے درمیان مقابلہ ہوگا وہ بادشاہ قرآن کے احکامات کو روند دے گا ہائے میری مصیبت ہائے میری مصیبت تم اس سے چھٹکارا نہیں پا سکو گے۔

38572

(۳۸۵۷۳) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، عَنْ کَعْبٍ ، قَالَ : یُوشِکُ نَارٌ تَخْرُجُ مِنَ الْیَمَنِ ، قَالَ : تَسُوقُ النَّاسَ تَغْدُو مَعَہُمْ إِذَا غَدَوْا ، وَتَقِیلُ مَعَہُمْ إِذَا قَالُوا : وَتَرُوحُ مَعَہُمْ إِذَا رَاحُوا ، فَإِذَا سَمِعْتُمْ فَاخْرُجُوا إِلَی الشَّامِ۔
(٣٨٥٧٣) حضرت کعب سے روایت ہے انھوں نے ارشاد فرمایا عنقریب یمن سے ایک آگ نکلے گی جو لوگوں کو ہانکے گی صبح کے وقت جب وہ ٹھہریں گے وہ ان کے ساتھ اسی مقام پر ٹھہرے گی اور جہاں دوپہر کے وقت آرام کے لیے ٹھہریں گے وہاں وہ بھی ان کے ساتھ ٹھہرے گی اور پچھلے پہر جب وہ سفر کریں گے وہ بھی ان کے ساتھ چلے گی جب تم اس کے بارے میں سن لو تو شام کی طرف چلے جانا۔

38573

(۳۸۵۷۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : قَالَ کَعْبٌ : إِذَا رَأَیْت الْقَطْرَ قَدْ مُنِعَ فَاعْلَمْ ، أَنَّ النَّاسَ قَدْ مَنَعُوا الزَّکَاۃَ فَمَنَعَ اللَّہُ مَا عِنْدَہُ ، وَإِذَا رَأَیْت السُّیُوفَ قَدْ عَرِیَتْ فَاعْلَمْ أَنَّ حُکْمَ اللہِ قَدْ ضُیِّعَ فَانْتَقَمَ بَعْضُہُمْ مِنْ بَعْضٍ ، وَإِذَا رَأَیْت الزِّنَا قَدْ فَشَا فَاعْلَمْ ، أَنَّ الرِّبَا قَدْ فَشَا۔
(٣٨٥٧٤) حضرت عبداللہ بن عباس حضرت کعب سے روایت کرتے ہیں انھوں نے فرمایا جب تم دیکھو بارش روک دی گئی ہے تو جان لینا لوگوں نے زکوۃ روک دی ہے اللہ تعالیٰ نے جو اس کے پاس چیز تھی (یعنی بارش) وہ روک لی۔ اور جب تم دیکھو تلواریں ننگی ہوگئی ہیں تو جان لینا اللہ تعالیٰ کا حکم ضائع کیا جارہا ہے تو وہ ایک دوسرے سے انتقام لینے لگے اور جب تو دیکھے زنا عام ہوگیا تو جان لینا کہ سود پھیل چکا ہے۔

38574

(۳۸۵۷۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا الأَعْمَشُ ، عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ مَیْسَرَۃَ ، عَنْ طَارِقِ بْنِ شِہَابٍ ، عَنْ زَیْدِ بْنِ صُوحَانَ ، قَالَ : قَالَ لِی سَلْمَانُ : کَیْفَ أَنْتَ إِذَا اقْتَتَلَ الْقُرْآنُ وَالسُّلْطَانُ ، قَالَ : إذًا أَکُونُ مَعَ الْقُرْآنِ ، قَالَ : نِعْمَ الزوید أَنْتَ إذًا ، فَقَالَ أَبُو قُرَّۃَ وَکَانَ یَبْغَضُ الْفِتَنَ : إذًا أَجْلِسُ فِی بَیْتِی ، فَقَالَ سَلْمَانُ : لَوْ کُنْت فِی أَقْصَی تِسْعَۃِ أَبْیَاتٍ کُنْت مَعَ إحْدَی الطَّائِفَتَیْنِ۔
(٣٨٥٧٥) حضرت زید بن صوحان سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ مجھ سے سلمان نے فرمایا تمہاری کیا حالت ہوگی جب قرآن اور بادشاہ کی لڑائی ہوگی انھوں نے جواب میں فرمایا اس وقت میں قرآن کے ساتھ ہوں گا انھوں نے فرمایا اس وقت زید تم بہت ہی اچھے ہوگے ابو قرہ جو فتنوں کو ناپسند کرتے تھے کہا میں اس وقت اپنے گھر میں بیٹھوں گا حضرت سلمان نے فرمایا اگر تو نوکروں کے اندر بھی ہوا تو تو دو گروہوں میں سے ایک کے ساتھ ہوگا۔

38575

(۳۸۵۷۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عن مالک بن مغول : قَالَ : حدَّثَنَا مُوسَی بْنُ قَیْسٍ ، عَنْ سَلَمَۃَ بْنِ کُہَیْلٍ ، عَنْ زَیْدِ بْنِ وَہْبٍ ، قَالَ : لَمَّا رَجَعنَا مِنَ النَّہْرَوَانِ ، قَالَ عَلِیٌّ : لَقَدْ شَہِدَنَا قَوْمٌ بِالْیَمَنِ ، قُلْنَا : یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ ، کَیْفَ ذَاکَ ، قَالَ : بِالْہَوَی۔
(٣٨٥٧٦) حضرت زید بن وہب سے روایت ہے ارشاد فرمایا کہ جب ہم نہروان سے لوٹے حضرت علی نے فرمایا یمن میں ہمارے ساتھ کچھ لوگ شریک تھے ہم نے عرض کیا ان کی شرکت وغیرہ کی کیا صورت تھی ارشاد فرمایا خواہش نفس (تھی)

38576

(۳۸۵۷۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ مَالِکِ بْنِ مِغْوَلٍ ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللہِ : إِنَّ الرَّجُلَ لَیَشْہَدُ الْمَعْصِیَۃَ فَیُنْکِرُہَا ، فَیَکُونُ کَمَنْ غَابَ عَنْہَا ، وَیَکُونُ یَغِیبُ عَنْہَا فَیَرْضَاہَا فَیَکُونُ کَمَنْ شَہِدَہَا۔
(٣٨٥٧٧) حضرت عبداللہ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا بلاشبہ کوئی آدمی برائی کے وقت موجود ہوتا ہے اور اسے ناپسند کرتا ہے تو وہ اس آدمی کی طرح ہوتا ہے جو برائی کے وقت موجود نہیں ہے اور برائی کے وقت موجود نہیں ہوتا اور اسے پسند کرتا ہے وہ اس آدمی کی طرح ہوتا ہے جو برائی کے وقت حاضر ہو۔

38577

(۳۸۵۷۸) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَنْ زَائِدَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ زَیْدٍ ، قَالَ : قَالَ حُذَیْفَۃُ : إِنَّ الرَّجُلَ لَیَکُونُ مِنَ الْفِتْنَۃِ ، وَمَا ہُوَ فِیْہَا۔
(٣٨٥٧٨) حضرت حذیفہ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا بلاشبہ ایک آدمی فتنے کے اندر شریک ہوگا لیکن اس میں کوئی حیثیت نہیں رکھتا ہوگا۔

38578

(۳۸۵۷۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِی الْجَعْدِ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ سُبَیعٍ ، قَالَ : خَطَبَنَا عَلِیٌّ ، فقَالَ : لَتُخْضَبَنَّ ہَذِہِ مِنْ ہَذَا ، یَعْنِی لِحْیَتَہُ مِنْ رَأْسِہِ ، قَالُوا : أَخْبِرْنَا بِہِ نَقْتُلُہُ ، قَالَ : إذًا تَاللہِ تَقْتُلُونَ بِی غَیْرَ قَاتِلِی ، قَالُوا : فَاسْتَخْلِفْ عَلَیْنَا ، قَالَ : لاَ ، وَلَکِنِّی أَتْرُکُکُمْ إِلَی مَا تَرَکَکُمْ إلَیْہِ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : فَمَا تَقُولُ لِرَبِّکَ إِذَا لَقِیتہ ، قَالَ : أَقُولُ : اللَّہُمَّ کُنْت فِیہِمْ ، وَأَنْتَ فِیہِمْ ، فَإِنْ شِئْتَ أَصْلَحْتہمْ وَإِنْ شِئْتَ أَفْسَدْتہمْ۔
(٣٨٥٧٩) حضرت عبداللہ بن سبیع سے روایت ہے انھوں نے فرمایا حضرت علی نے ہمارے سامنے خطبہ ارشاد فرمایا اور ارشاد فرمایا اس حصہ کو یہاں تک خون آلود کردیا جائے گا اور مراد تھی داڑھی سے سر تک کا حصہ لوگوں نے عر ض کیا ہمیں اس شخص کے بارے میں بتلائیں ہم اسے قتل کردیں گے حضرت علی نے فرمایا بخدا پھر تو تم میرے لیے اس آدمی کو قتل کرو گے جو میرا قاتل نہیں پھر لوگوں نے عرض کیا ہم پر خلیفہ مقرر کردیں حضرت علی نے فرمایا نہیں بلکہ میں تمہیں اسی حالت پر چھوڑوں گا جس حالت پر تمہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے چھوڑا (یعنی بغیر خلیفہ مقرر کرنے کے) لوگوں نے عرض کیا آپ اپنے رب سے کیا کہیں گے جب آپ کی اس سے ملاقات ہوگی انھوں نے ارشاد فرمایا میں کہوں گا کہ اے اللہ ! جب ان میں موجود تھا تو آپ بھی ان میں موجود تھے اگر آپ چاہتے تو ان کی اصلاح کردیتے اور اگر آپ چاہتے تو ان کی حالت خراب کردیتے۔

38579

(۳۸۵۸۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا الأَعْمَشُ ، عَنْ أَبِی وَائِلٍ ، قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللہِ : وَاللہِ لأَنْ أُزَاوِلَ جَبَلاً رَاسِیًا أَحَبُّ إلَیَّ مِنْ أَنْ أُزَاوِلَ مَلِکًا مُؤَجَّلاً۔ (نعیم ۳۴۱)
(٣٨٥٨٠) حضرت عبداللہ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا اللہ کی قسم اگر میں مضبوط پہاڑ کو ہٹاؤں یہ بات مجھے زیادہ پسندیدہ ہے بہ نسبت اس کے کہ میں ایسے بادشاہ کو ہٹاؤں جس کی مدت حکومت مقرر کی گئی ہو۔

38580

(۳۸۵۸۱) حَدَّثَنَا مُعَاوِیَۃُ بْنُ ہِشَامٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ جَبَلَۃَ ، عَنْ عَامِرٍ بْنِ مَطَرٍ ، قَالَ : کُنْتُ مَعَ حُذَیْفَۃَ ، فَقَالَ : یُوشِکُ أَنْ تَرَاہُمْ یَنْفَرِجُونَ ، عَنْ دِینِہِمْ کَمَا تَنْفَرِجُ الْمَرْأَۃُ ، عَنْ قُبُلِہَا ، فَأَمْسِکْ بِمَا أَنْتَ عَلَیْہِ الْیَوْمَ فَإِنَّہُ الطَّرِیقُ الْوَاضِحُ ، کَیْفَ أَنْتَ یَا عَامِرُ بْنُ مَطَرٍ إِذَا أَخَذَ النَّاسُ طَرِیقًا وَالْقُرْآنُ طَرِیقًا ، مَعَ أَیُّہُمَا تَکُونُ قُلْتُ : مَعَ الْقُرْآنِ ، أَحْیَا مَعَہُ وَأَمُوتُ مَعَہُ ، قَالَ : فَأَنْتَ أَنْتَ إذًا۔
(٣٨٥٨١) حضرت عامربن مطر سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ میں حضرت حذیفہ کے ساتھ تھا انھوں نے فرمایا قریب ہے کہ تم ان لوگوں کو دیکھو گے کہ وہ اپنے دین ارزاں کردیں گے جیسے عورت اپنی شرمگاہ کو ارزاں کردیتی ہے جس طریقے پر آج تم ہو اس پر ٹھہرے رہو کیونکہ وہ واضح راستہ ہے اے عامر بن مطر تمہاری کیا حالت ہوگی جب لوگ ایک راستہ اختیار کرلیں گے اور قرآن کا ایک راستہ ہوگا تم دونوں میں سے کس کے ساتھ ہوگے میں نے عرض کیا قرآن کے ساتھ رہوں گا اسی کے ساتھ زندہ رہوں گا اور اس کے ساتھ مروں گا حضرت حذیفہ نے فرمایا اس وقت تو تو ہی ہوگا۔

38581

(۳۸۵۸۲) حَدَّثَنَا مُعَاوِیَۃُ بْنُ ہِشَامٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ أَبِی یَعْلَی ، عَنِ ابْنِ الْحَنَفِیَّۃِ ، إِنَّ قَوْمًا مِنْ قَبْلِکُمْ تَحَیَّرُوا وَنَفَرُوا حَتَّی تَاہُوا ، فَکَانَ أَحَدُہُمْ إِذا نُودِیَ مِنْ خَلْفِہِ أَجَابَ مِنْ أَمَامِہِ ، وَإِنْ نُودِیَ مِنْ أَمَامِہِ أَجَابَ مِنْ خَلْفِہِ۔
(٣٨٥٨٢) حضرت محمد بن حنفیہ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا بلاشبہ تم سے پہلے لوگ متحیر ہوئے اور متفرق ہوگئے یہاں تک کہ ہلاک ہوگئے ان میں سے کسی ایک کو جب پیچھے کی جانب سے پکارا جاتا تو سامنے کی جانب جواب دیتا تھا اور اگر سامنے کی جانب سے پکارا جا تھا تھا تو پیچھے کی جانب جواب دیتا تھا۔

38582

(۳۸۵۸۳) حَدَّثَنَا مُعَاوِیَۃُ ، قَالَ : حدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ عُثْمَانَ ، عَنْ زَاذَانَ ، عَنْ حُذَیْفَۃَ ، قَالَ : کَیْفَ أَنْتُمْ إِذَا أَتَاکُمْ زَمَانٌ یَخْرُجُ أَحَدُکُمْ مِنْ حَجَلَتِہِ إِلَی حُشِّہِ فَیَرْجِعُ وَقَدْ مُسِخَ قِرْدًا فَیَطْلُبُ مَجْلِسَہُ فَلاَ یَجِدُہُ۔
(٣٨٥٨٣) حضرت حذیفہ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا تمہاری کیا حالت ہوگی جب تم پر ایسا زمانہ آئے گا کہ تم میں سے کوئی اپنے کمرے سے نکل کر اپنے بیت الخلاء جائے گا وہ لوٹے گا اس حال میں کہ اس کا چہرہ مسخ کر کے اسے بندر بنادیا گیا ہوگا وہ اپنی بیٹھنے کی جگہ تلاش کرے گا لیکن اسے نہیں پا سکے گا۔

38583

(۳۸۵۸۴) حَدَّثَنَا یَعْمَرُ بْنِ بِشْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا ابْنُ مُبَارَکٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ رَاشِدٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ وَابِصَۃَ الأَسَدِیِّ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : إنِّی بِالْکُوفَۃِ فِی دَارِی إذْ سَمِعْت عَلَی بَابِ الدَّارِ : السَّلاَمُ عَلَیْکُمْ ، أَلِجُ ؟ فَقُلْتُ : وَعَلَیْکُمَ السَّلاَمُ ، فَلِجْ ، فَإِذَا ہُوَ عَبْدُ اللہِ بْنُ مَسْعُودٍ ، فَقُلْتُ : یَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، أَیَّۃُ سَاعَۃِ زِیَارَۃٍ ، وَذَلِکَ فِی نَحْرِ الظَّہِیرَۃِ ، قَالَ : طَالَ عَلَیَّ النَّہَارُ فَتَذَکَّرْت مَنْ أَتَحَدَّثُ إلَیْہِ ، فَجَعَلَ یُحَدِّثُنِی عَنْ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَأُحَدِّثُہُ ، فَقَالَ عَبْدُ اللہِ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : تَکُونُ فِتْنَۃٌ النَّائِمُ فِیہَا خَیْرٌ مِنَ الْمُضْطَجِعِ وَالْمُضْطَجِعُ خَیْرٌ مِنَ الْقَاعِد ، وَالْقَاعِدُ خَیْرٌ مِنَ الْقَائِمِ ، وَالْقَائِمُ خَیْرٌ مِنَ الْمَاشِی ، وَالْمَاشِی خَیْرٌ مِنَ السَّاعِی ، قَتْلاَہَا کُلُّہَا فِی النَّارِ ، قَالَ : قُلْتُ : وَمَتَی ذَاکَ یَا رَسُولَ اللہِ ، قَالَ ذَاکَ أَیَّامَ الْہَرْجِ، قُلْتُ: وَمَتَی أَیَّامُ الْہَرْجِ ، قَالَ: حِینَ لاَ یَأْمَنُ الرَّجُلُ جَلِیسَہُ، قَالَ: قُلْتُ، فَبِمَ تَأْمُرُنِی إِنْ أَدْرَکْتُ ذَلِکَ ، قَالَ : اُدْخُلْ بَیْتَکَ ، قُلْتُ : أَفَرَأَیْت إِنْ دُخِلَ عَلَیَّ ، قَالَ : تُوَالِ مَخْدَعَک ، قَالَ : قُلْتُ : أَفَرَأَیْت إِنْ دُخِلَ عَلَیَّ ، قَالَ : قُلْ ہَکَذَا ، وَقُلْ : بُؤْ بِإِثْمِی وَإِثْمِکَ ، وَکُنْ عَبْدَ اللہِ الْمَقْتُولَ۔ (احمد ۴۴۹۔ عبدالرزاق ۲۰۷۲۷)
(٣٨٥٨٤) حضرت وابصہ اسدی سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ میں کوفہ میں اپنے گھر میں تھا اچانک میں نے اپنے دروازے پر یہ بات سنی السلام علیکم کیا میں داخل ہوجاؤ میں نے کہا وعلیکم السلام داخل ہوجاؤ پس وہ عبداللہ بن مسعود تھے میں نے عرض کیا اے ابو عبدالرحمن ! یہ ملاقات کا کونسا وقت ہے یہ عین دوپہر کی بات تھی انھوں نے فرمایا دن مجھ پر لمبا ہوگیا تھا میں نے سوچا کہ کسی سے بات چیت کروں پھر مجھے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی احادیث سنانے لگے اور میں بھی ان کو احادیث سنانے لگا حضرت عبداللہ بن مسعود نے فرمایا میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا ہے کہ ایک فتنہ ہوگا اس میں سونے والا اس میں پہلو کے بل لیٹنے والے سے بہتر ہوگا اور اس میں لیٹنے والا بھنے ا والے سے بہتر ہوگا بیٹھنے والا کھڑے ہونے والے سے بہتر ہوگا اور کھڑا ہونے والا چلنے والے سے بہتر ہوگا اور چلنے والا دوڑنے والے سے بہتر ہوگا اس فتنے میں مارے جانے والے سارے جہنم میں جائیں گے راوی حضرت عبداللہ نے فرمایا میں نے عرض کیا یہ کب ہوگا اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ نے ارشاد فرمایا یہ ہرج کے ایام میں ہوگا میں نے عرض کیا یہ ایام ہرج کب ہوں گے انھوں نے فرمایا جب کسی آدمی کو اپنے ہمنشین سے امن نہیں ہوگا حضرت عبداللہ نے فرمایا میں نے عرض کیا اگر میں یہ زمانہ پالوں تو آپ مجھے کیا حکم دیتے ہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اپنے گھر میں داخل ہوجانا میں نے عرض کیا اگر کوئی میرے گھر میں داخل ہوجائے تو آپ کی کیا رائے ہے ارشاد فرمایا کہ پھر تو اپنی کوٹھڑی میں گھس جا میں نے کہا اگر وہ وہاں بھی داخل ہوجائے تو آپ کا کیا خیال ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس طرح کرنا (یہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اشارہ کیا تھا جس کی تفصیل مسند احمد کی روایت سے ہوتی ہے کہ راوی نے دائیں ہاتھ سے کلائی کی ہڈی کو پکڑ کر اشارے کی تفصیل کی) اور کہنا میرے گناہ اور اپنے گناہ کے ساتھ لوٹ اور اللہ کا مقتول بندہ بن جانا۔

38584

(۳۸۵۸۵) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللہِ ، عَنْ عَبْدِ الْحَمِیدِ بْنِ بَہْرَامُ ، قَالَ : حدَّثَنَا شَہْرُ بْنُ حَوْشَبٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِی جُنْدُبُ بْنُ سُفْیَانَ ، رَجُلٍ مِنْ بَجِیلَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : سَتَکُونُ بَعْدِی فِتَنٌ کَقِطَعِ اللَّیْلِ الْمُظْلِمِ ، تَصْدِمُ الرَّجُلَ کَصَدْمِ جِبَاہِ فُحُولِ الثِّیرَانِ ، یُصْبِحُ الرَّجُلُ فِیہَا مُسْلِمًا وَیُمْسِی کَافِرًا ، وَیُمْسِی مُسْلِمًا وَیُصْبِحُ کَافِرًا ، فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْمُسْلِمِینَ : یَا رَسُولَ اللہِ ، فَکَیْفَ نَصْنَعُ عِنْدَ ذَلِکَ ؟ قَالَ : ادْخُلُوا بُیُوتَکُمْ وَأَخْمِلُوا ذَکَرَکُمْ ، قَالَ رَجُلٌ مِنَ الْمُسْلِمِینَ : أَفَرَأَیْت إِنْ دَخَلَ عَلَی أَحَدِنَا بَیْتَہُ ، قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : فَلْیُمْسِکْ بِیَدَیْہِ وَلْیَکُنْ عَبْدَ اللہِ الْمَقْتُولَ ، وَلاَ یَکُنْ عَبْدَ اللہِ الْقَاتِلَ ، فَإِنَّ الرَّجُلَ یَکُونُ فِی قُبَّۃِ الإِسْلاَم فَیَأْکُلُ مَالَ أَخِیہِ وَیَسْفِکُ دَمَہُ وَیَعْصِی رَبَّہُ وَیَکْفُرُ بِخَالِقِہِ فَتَجِبُ لَہُ جَہَنَّمُ۔
(٣٨٥٨٥) حضرت جندب بن سفیان سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا عنقریب میرے بعد فتنے ہوں گے اندھیری رات کے ٹکڑوں کی طرح لوگ انھیں ایسے ٹکرائیں گے جیسے نر بیلوں کی جماعتیں ٹکراتی ہیں ان میں انسان مسلمان ہونے کی حالت میں صبح کرے گا اور شام کو کافر ہوگا اور شام کو مسلمان ہوگا اور صبح کو کافر ہوجائے گا مسلمانوں میں سے ایک صاحب نے عرض کیا اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم اس وقت کیا کریں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اپنے گھروں میں داخل ہوجانا اور اپنے آپ کو گمنام کرلینا مسلمانوں میں ایک صاحب نے عرض کیا آپ کا کیا خیال ہے اگر ہم میں سے کسی ایک کے گھر میں کوئی داخل ہوجائے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا وہ اپنا ہاتھ روکے اور اللہ کا مقتول بندہ بن جائے اور اللہ کا قاتل بندہ نہ بنے بلاشبہ انسان کا دین قوی ہوتا ہے پس وہ اپنے بھائی کا مال کھاتا ہے اور اس کا خون بہاتا ہے اور اپنے رب کی نافرمانی کرتا ہے اور اپنے خالق کا انکار کرتا ہے تو اس کے لیے جہنم واجب ہوجاتی ہے۔

38585

(۳۸۵۸۶) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمُحَارِبِیُّ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ عَوْنِ بْنِ أَبِی جُحَیْفَۃَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: أَیَعْجِزُ أَحَدُکُمْ إِذَا أَتَاہُ الرَّجُلُ یَقْتُلُہُ ، یَعْنِی مِنْ أَہْلِ کَذَا أَنْ یَقُولَ ہَکَذَا ، وَقَالَ بِإِحْدَی یَدَیْہِ عَلَی الأُخْرَی فَیَکُونُ کَالْخَیْرِ مِنِ ابْنَیْ آدَمَ ، وَإِذَا ہُوَ فِی الْجَنَّۃِ وَإِذَا قَاتِلُہُ فِی النَّارِ۔ (مسند ۴۳۵۴)
(٣٨٥٨٦) حضرت عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کیا تم میں سے کوئی ایک عاجز ہے اس بات سے کہ جب اس کے پاس کوئی آدمی اس کو قتل کرنے کے لیے آئے مراد ان کی یہ تھی کہ فلاں لوگوں میں سے کوئی کہے کہ وہ یوں کرے اور اشارہ کیا اپنے ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ کی طرف پس وہ ہوجائے گا اولاد آدم میں سے بہترین لوگوں کی طرح اور وہ آدمی جنت میں ہوگا اور اس کا قاتل جہنم میں ہوگا۔

38586

(۳۸۵۸۷) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ شَقِیقٍ ، عَنْ شُرَیْحٍ ، قَالَ : مَا أَخْبَرْت وَلاَ اُسْتُخْبِرْت مُذْ کَانَتِ الْفِتْنَۃُ ، قَالَ لَہُ مَسْرُوقٌ : لَوْ کُنْتُ مِثْلَک لَسَرَّنِی أَنْ أَکُونَ قَدْ مِتُّ ، قَالَ لہ شُرَیْحٌ : فَیَکْفِ بِأَکْثَرَ مِنْ ذَلِکَ مَا فِی الصُّدُورِ ، وَتَلْتَقِی الْفِئَتَانِ وَإِحْدَاہُمَا أَحَبُّ إلَیَّ مِنَ الأُخْرَی۔
(٣٨٥٨٧) حضرت شریح سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ جب سے فتنہ شروع ہوا نہ میں نے اس کی خبر دی اور نہ مجھ سے اس کے بارے میں خبر طلب کی گئی ان سے مسروق نے کہا : اگر میں آپ کی طرح ہوتا تو مجھے یہ بات پسند ہوتی کہ میں مرجاؤں شریح نے اس سے کہا کیا ہوگی اس وقت حالت جب کہ زیادہ ہوجائے وہ فتنہ اس سے بھی زیادہ دو گروہوں کی لڑائی ہوگی اور ان دونوں میں ایک مجھے دوسرے سے زیاد ہ محبوب ہوگا۔

38587

(۳۸۵۸۸) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ عَوْفٍ ، عَنْ أَبِی الْمِنْہَالِ ، قَالَ : حدَّثَنِی صَفْوَانُ بْنُ مُحْرِزٍ ، قَالَ: لِیَتَّقِ أَحَدُکُمْ، لاَ یَحُولَنَّ بَیْنَہُ وَبَیْنَ الْجَنَّۃِ مِلْئُ کَفٍّ مِنْ دَمِ مُسْلِمٍ۔ (نعیم ۳۷۵)
(٣٨٥٨٨) حضرت صفوان بن محرز سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ تم میں سے ہر ایک اس بات سے بچے کہ اس کے اور جنت کے درمیان ایک ہتھیلی کے بھراؤ کے برابر مسلمان کا خون حائل نہ ہو۔

38588

(۳۸۵۸۹) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ عَوْفٍ ، عَنْ أَبِی الْمِنْہَالِ ، عَنْ أَبِی الْعَالِیَۃِ ، قَالَ : کُنَّا نَتَحَدَّثُ ، أَنَّہُ سَیَأْتِی عَلَی النَّاسِ زَمَانٌ خَیْرُ أَہْلِہِ الَّذِی یَرَی الْخَیْرَ فَیُجَانِبَہُ قَرِیبًا۔
(٣٨٥٨٩) حضرت ابو العالیہ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ ہم آپس میں گفتگو کرتے تھے کہ عنقریب لوگوں پر ایسا زمانہ آئے گا اپنے اہل میں سب سے بہترین آدمی وہ ہوگا جو خیر اور بھلائی کو دیکھے گا پس وہ اس پر چلنا شروع ہوجائے گا۔

38589

(۳۸۵۹۰) حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا أَسْبَاطُ بْنُ نَصْرٍ ، عَنِ السُّدِّیِّ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لاَ یَفْتِکُ مُؤْمِنٌ ، الإِیمَانُ قَیَّدَ الْفَتْکِ۔ (حاکم ۳۵۲)
(٣٨٥٩٠) حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ انھوں نے فرمایا کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ مومن کو دھوکے سے قتل نہیں کیا جائے گا ایمان نے دھوکے سے قتل کرنے کو روک دیا۔

38590

(۳۸۵۹۱) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ عَوْفٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : جَائَ رَجُلٌ إِلَی الزُّبَیْرِ أَیَّامَ الْجَمَلِ ، فَقَالَ : أَقْتُلُ لَکَ عَلِیًّا ، قَالَ : وَکَیْفَ ، قَالَ : آتِیہِ فَأُخْبِرُہُ أَنِّی مَعَہُ ، ثُمَّ أَفْتِکُ بِہِ ، فَقَالَ الزُّبَیْرُ : لاَ ، سَمِعْت رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : الإِیمَانُ قَیَّد الْفَتْک ، لاَ یَفْتِکُ مُؤْمِنٌ۔ (عبدالرزاق ۹۶۷۶۔ احمد ۱۶۶)
(٣٨٥٩١) حضرت حسن بصری سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ جنگ جمل کے دنوں میں ایک آدمی حضرت زبیر کے پاس آیا اور کہنے لگا کیا میں آپ کے لیے علی کو قتل کردوں انھوں نے کہا کیسے اس نے کہا میں اس کے پاس جاؤں گا اور اسے بتلاؤں گا کہ میں اس کے ساتھ ہوں پھر دھوکے سے موقع پا کر قتل کردوں گا حضرت زبیر نے فرمایا نہیں میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے ہوئے سنا کہ ایمان دھوکے سے قتل کرنے کو روکتا ہے مومن کو دھوکے سے قتل نہیں کیا جائے گا۔

38591

(۳۸۵۹۲) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ عَطَائٍ ، عَنْ أَبِی الْبَخْتَرِیِّ ، عَنْ حُذَیْفَۃَ ، قَالَ : إِنَّ أَصْحَابِی تَعَلَّمُوا الْخَیْرَ ، وَإِنِّی تَعَلَّمْت الشَّرَّ ، قَالُوا : وَمَا حَمَلَک عَلَی ذَلِکَ ، قَالَ : إِنَّہُ مَنْ یَعْلَمُ مَکَانَ الشَّرِّ یَتَّقْہِ۔
(٣٨٥٩٢) حضرت حذیفہ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا میرے ساتھیوں نے بھلائی کو سیکھا اور میں نے برائی کو سیکھا لوگوں نے عرض کیا آپ کو اس بات پر کس چیز نے ابھارا انھوں نے فرمایا بلاشبہ جو آدمی برائی کے مکان کو جانتا ہو وہ اس سے بچ جائے گا۔

38592

(۳۸۵۹۳) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ أَیُّوبَ ، عَنْ أَبِی زُرْعَۃَ بْنِ عَمْرٍو ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : إِنَّ الرَّجُلَ لَیُقْتَلُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ أَلْفَ قَتْلَۃٍ ، فَقَالَ لَہُ عَاصِمُ بْنُ أَبِی النَّجُودِ : یَا أَبَا زُرْعَۃَ ، أَلْفَ قَتْلَۃٍ ، قَالَ : بِضُرُوبِ مَا قَتَلَ۔
(٣٨٥٩٣) حضرت ابو زرعہ بن عمرو حضرت ابوہریرہ سے روایت کرتے ہیں انھوں نے فرمایا بلاشبہ ایک آدمی کو قیامت والے دن ہزار مرتبہ قتل کیا جائے گا حضرت ابو زرعہ سے عاصم بن ابی البخود نے عرض کیا اے ابو زرعہ ہزار مرتبہ قتل کیا جائے گا انھوں نے فرمایا مقتولین کی ضربوں کے بدلے میں۔

38593

(۳۸۵۹۴) حَدَّثَنَا مَالِکُ بْنُ إسْمَاعِیلَ ، عَنْ شَرِیکٍ ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ أَبِی زُرْعَۃَ ، عَنْ صَالِحٍ ، عَنْ عَلِیٍّ ، قَالَ : لاَ تَزْرَعُوا مَعِی فِی السَّوَادِ فَإِنَّکُمْ إِنْ تَزْرَعُوا تَقْتَتِلُوا عَلَی مائہِ بِالسُّیُوفِ ، وَإِنَّکُمْ إِنْ تَقْتَتِلُوا تَکْفُرُوا۔
(٣٨٥٩٤) حضرت علی سے روایت ہے انھوں نے فرمایا تم میرے ساتھ قریب آبادیوں میں کھیتی باڑی نہ کرو کیونکہ اگر تم نے کھیتی باڑی اختیار کی تو اس کے پانی پر تلواروں سے لڑو گے اور اگر تم نے لڑائی شروع کردی تو تم کفر اختیار کرلو گے۔

38594

(۳۸۵۹۵) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ حَارِثَۃَ بْنِ مُضَرِّبٍ ، عَنْ عَلِیٍّ ، قَالَ : عُرَیْنَۃُ وَعَقِیدَۃُ وَعُصِیَّۃُ وَقَطِیعَۃُ عَقَدُوا اللُّؤْمِ۔ حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ بَقِیُّ بْنُ مَخْلَدٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا أَبُو بَکْرٍ عَبْدُ اللہِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِی شَیْبَۃَ ، قَالَ :
(٣٨٥٩٥) حضرت علی سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ عرینہ و عقیدہ اور عصیہ اور قطیعہ ان سب قبائل نے ملامت پر معاہدہ کیا ہے۔

38595

(۳۸۵۹۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ ، عَنْ سَلَمَۃَ بْنِ کُہَیْلٍ ، عَنْ أَبِی ظَبْیَانَ ، أَنَّہُ کَانَ عِنْدَ عُمَرَ ، قَالَ : فَقَالَ لَہُ : اعْتَقِدْ مَالاً وَاتَّخِذْ سَابیاء ، فَیُوشِکُ أَنْ تُمْنَعُوا الْعَطَائَ۔
(٣٨٥٩٦) حضرت ابو ظبیان سے روایت ہے فرمایا کہ وہ حضرت عبداللہ بن عمر کے پاس تھے حضرت عبداللہ بن عمر نے ان سے فرمایا مال جمع کرو اور کثیر مال جمع کرلو قریب ہے کہ عطا یا تم سے روک لیے جائیں گے۔

38596

(۳۸۵۹۷) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ ، عَنِ الْعَلاَئِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ، عَنْ فُضَیْلٍ ، قَالَ : قَالَ عَلِیٌّ : خُذُوا الْعَطَائَ مَا کَانَ طُعْمَۃً ، فَإِذَا کَانَ عَنْ دِینِکُمْ فَارْفُضُوہُ أَشَدَّ الرَّفْضِ۔
(٣٨٥٩٧) حضرت علی سے روایت ہے انھوں نے ارشاد فرمایا وہ عطا یا لو جو تمہارے لیے روزی ہیں جب یہ عطا یا دین کے بدلے میں ہوں تو ان کو سخت انداز میں چھوڑ دو ۔

38597

(۳۸۵۹۸) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنِ الْعَلاَئِ ، عَنْ أَبِی مَعْشَرٍ ، قَالَ : قَالَ سَلْمَانُ : خُذُوا الْعَطَائَ مَا صَفَا لَکُمْ ، فَإِذَا کُدِّرَ عَلَیْکُمْ فَاتْرُکُوہُ أَشَدَّ التَّرْکِ۔
(٣٨٥٩٨) حضرت سلمان سے روایت ہے انھوں نے فرمایا ان عطا یا کو جو خالص تمہارے لیے ہیں ان کو لے لو اور جب وہ تم پر مکدر ہوجائیں تو ان کو بالکل چھوڑ دو ۔

38598

(۳۸۵۹۹) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَنْ زَائِدَۃَ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ عُمَیْرٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ سَعِیدٍ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : لاَ یَأْتِی عَلَیْکُمْ إِلاَّ قَلِیلٌ حَتَّی یَقْضِیَ الثَّعْلَبُ وَسْنَتَہُ بَیْنَ سَارِیَتَیْنِ مِنْ سَوَارِی الْمَسْجِدِ ، قَالَ عَبْدُ الْمَلِکِ ، ہُوَ مَسْجِدُ الْمَدِینَۃِ ، یَقُولُ : مِنَ الْخَرَابِ۔
(٣٨٥٩٩) حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا تم پر تھوڑا سازمانہ آئے گا جس میں لومڑی اپنی اونگھ مسجد کے ستونوں میں سے دوستونوں کے درمیان پورا کرے گی راوی عبدالملک بن عمیر نے فرمایا اس سے مراد مدینہ کی مسجد ہے اور یہ صورتحال ویرانی کی وجہ سے ہوگی۔

38599

(۳۸۶۰۰) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنْ یَزِیدَ بْنِ کَیْسَانَ ، عَنْ أَبِی حَازِمٍ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : لاَ تُقتل ہَذِہِ الأُمَّۃُ حَتَّی یَقْتُلَ الْقَاتِلُ لاَ یَدْرِی عَلَی أَیِّ شَیْئٍ قَتَلَ ، وَلاَ یَدْرِی الْمَقْتُولُ عَلَی أَیِّ شَیْئٍ قُتِلَ۔ (مسلم ۲۲۳۱)
(٣٨٦٠٠) حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا یہ امت ہلاک نہیں ہوگی یہاں تک (کہ ایسی صورتحال ہوگی) قاتل قتل کرے گا اسے معلوم نہیں ہوگا کہ اس نے کس چیز پر قتل کیا اور نہ مقتول کو معلوم ہوگا کہ اسے کس چیز پر قتل کیا گیا۔

38600

(۳۸۶۰۱) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃُ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ طَاوُوسٍ ، قَالَ : لَیُقْتَلَنَّ الْقُرَّائُ قَتْلاً حَتَّی تَبْلُغَ قَتْلاَہُمُ الْیَمَنَ ، فَقَالَ لَہُ رَجُلٌ : أَوَ لَیْسَ قَدْ فَعَلَ ذَلِکَ الْحَجَّاجُ ، قَالَ : مَا کَانَتْ تِلْکَ بَعْدُ۔
(٣٨٦٠١) حضرت طاؤس سے روایت ہے انھوں نے فرمایا قرآء کو قتل کیا جائے گا یہاں تک کہ ان کے مقتولین یمن تک پہنچ جائیں گے ان سے ایک صاحب نے عرض کیا کیا حجاج نے ایسا نہیں کیا تو انھوں نے فرمایا ایسا ابھی تک نہیں ہوا۔

38601

(۳۸۶۰۲) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٌ، عَنْ سُفْیَانَ، عَنِ الزُّبَیْرِ بْنِ عَدِیٍّ، قَالَ: قَالَ لِی إبْرَاہِیمُ : إیَّاکَ أَنْ تَقْتُلَ مَعَ فتنۃ۔
(٣٨٦٠٢) حضرت زبیر بن عدی سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ مجھ سے حضرت ابراہیم نے فرمایا فتنہ میں قتل ہونے سے بچنا۔

38602

(۳۸۶۰۳) حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ بْنُ مُوسَی ، قَالَ : أَخْبَرَنِی شَیْبَانُ ، عَنْ زِیَادِ بْنِ عِلاَقَۃَ ، عَنْ قُطْبَۃَ بْنِ مَالِکٍ ، عَنْ حُذَیْفَۃَ بْنِ الْیَمَانِ ، قَالَ : أَلاَ لاَ یَمْشِیَنَّ رَجُلٌ مِنْکُمْ شِبْرًا إِلَی ذِی سُلْطَانٍ لِیُذِلَّہُ ، فَلاَ وَاللہِ لاَ یَزَالُ قَوْمٌ أَذَلُّوا السُّلْطَانَ أَذِلاَّئَ إِلَی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ۔
(٣٨٦٠٣) حضرت حذیفہ بن یمان سے روایت ہے انھوں نے فرمایا خبردار تم میں سے کوئی آدمی کسی اقتدار والے کو ذلیل کرنے کے لیے ایک بالشت بھی نہ چلے اللہ کی قسم وہ لوگ جنہوں نے کسی بادشاہ کو ذلیل کیا وہ مسلسل قیامت والے دن ذلیل ہوں گے۔

38603

(۳۸۶۰۴) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ بْنُ أَبِی خَالِدٍ ، عَنْ زَیْدِ بْنِ وَہْبٍ ، قَالَ : قَالَ حُذَیْفَۃُ : تَقْتَتِلُ بِہَذَا الْغَائِطِ فِئَتَانِ لاَ أُبَالِی فِی أَیِّہِمَا عَرَفْتُک ، فَقَالَ لَہُ رَجُلٌ : أَفِی الْجَنَّۃِ ہَؤُلاَئِ أَمْ فِی النَّارِ ؟ قَالَ : ذَاکَ الَّذِی أَقُولُ لَکَ ، قَالَ : فَمَا قَتْلاَہُمْ ، قَالَ : قَتْلَی جَاہِلِیَّۃٍ۔
(٣٨٦٠٤) حضرت حذیفہ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا اس براز کی وجہ سے دو گروہوں کی لڑائی ہوگی مجھے اس کی پروا نہیں ہے کہ میں تمہیں ان دونوں میں سے کس کے اندر پہچانتا ہوں ان سے ایک صاحب نے عرض کیا کیا یہ جنت میں ہوں گے یا جہنم میں ہوں گے انھوں نے فرمایا یہی وہ بات ہے جو میں تم سے کہہ رہا ہوں اس نے پوچھا ان کے مقتولین کی کیا حالت ہوگی ارشاد فرمایا وہ زمانہ جاہلیت کے مقتولین کی طرح ہوں گے۔

38604

(۳۸۶۰۵) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ الأَسَدِیُّ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ بْنِ طَہْمَانَ ، عَنْ سُلَیْمِ بْنِ قَیْسٍ الْعَامِرِیِّ ، عَنْ سُحَیْمِ بْنِ نَوْفَلٍ ، قَالَ : قَالَ لِی عَبْدُ اللہِ بْنُ مَسْعُودٍ : کَیْفَ أَنْتُمْ إِذَا اقْتَتَلَ الْمُصَلُّونَ قُلْتُ : وَیَکُونُ ذَلِکَ ؟ قَالَ : نَعَمْ ، أَصْحَابُ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قُلْتُ : وَکَیْفَ أَصْنَعُ ، قَالَ : کُفَّ لِسَانَک وَأَخِفَّ مَکَانَک ، وَعَلَیْک بِمَا تَعْرِفُ ، وَلاَ تَدَعْ مَا تَعْرِفُ لِمَا تُنْکِرُ۔
(٣٨٦٠٥) حضرت سحیم بن نوفل سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ مجھ سے حضرت عبداللہ بن مسعود نے ارشاد فرمایا تمہاری کیا حالت ہوگی جب نمازی آپس میں لڑیں گے میں نے عرض کیا کیا ایسا ہوگا انھوں نے فرمایا ہاں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب ہوں گے راوی نے فرمایا میں نے عرض کیا میں اس وقت کیا کروں انھوں نے فرمایا اپنی زبان کو روکنا اور اپنی رہنے کی جگہ کو مخفی رکھنا اور تم پر معروف کا کرنا لازم ہے اور منکر کی وجہ سے معروف کو ترک نہ کرنا۔

38605

(۳۸۶۰۶) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ ، قَالَ : حدَّثَنَا عَبْدُ رَبِّہِ ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَمْرٍو الْفُقَیْمِیِّ ، عنْ یَحْیَی بْنِ ہَانِئٍ ، عَنِ الْحَارِثِ بْنِ قَیْسٍ ، قَالَ : قَالَ لِی عَبْدُ اللہِ بْنُ مَسْعُودٍ : أَتُحِبُّ أَنْ یُسْکِنَک اللَّہُ وَسَطَ الْجَنَّۃِ ، قَالَ : فَقُلْتُ : جُعِلْت فِدَاک ، وَہَلْ أُرِیدُ إِلاَّ ذَاکَ ، فقَالَ : عَلَیْک بِالْجَمَاعَۃِ ، أَوْ بِجَمَاعَۃِ النَّاسِ۔
(٣٨٦٠٦) حضرت حارث بن قیس سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ مجھ سے حضرت عبداللہ بن مسعود نے ارشاد فرمایا کیا تم یہ پسند کرتے ہو کہ اللہ تعالیٰ تمہں ک جنت کے درمیان میں ٹھہرائیں راوی نے فرمایا میں نے عرض کیا میں آپ پر قربان میں تو یہ ہی چاہتا ہوں انھوں نے ارشاد فرمایا تم پر جماعت لازم ہے یا فرمایا لوگوں کی جماعت لازم ہے۔

38606

(۳۸۶۰۷) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ أَیُّوبَ ، قَالَ : قَالَ لِی الْحَسَنُ : أَلاَ تَعْجَبُ مِنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ، دَخَلَ عَلِیَّ فَسَأَلَنِی عَنْ قِتَالِ الْحَجَّاجِ وَمَعَہُ بَعْضُ الرُّؤَسَائِ ، یَعْنِی أَصْحَابَ ابْنِ الأَشْعَثِ۔
(٣٨٦٠٧) حضرت ایوب سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ مجھ سے حضرت حسن نے ارشاد فرمایا کیا تم سعید بن جبیر کی جرأت سے تعجب نہیں کرتے میرے پاس آئے اور مجھ سے حجاج کے ساتھ لڑائی کے بارے میں پوچھا اور ان کے ساتھ کچھ رؤسا بھی تھے ان کی مراد ابن الاشعث کے ساتھی تھے۔

38607

(۳۸۶۰۸) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُلَیْمُ بْنُ أَخْضَرَ ، قَالَ : حَدَّثَنَا ابْنُ عَوْنٍ ، قَالَ : کَانَ مُسْلِمُ بْنُ یَسَارٍ أَرْفَعَ عِنْدَ أَہْلِ الْبَصْرَۃِ مِنَ الْحَسَنِ حَتَّی خَفَّ مَعَ ابْنِ الأَشْعَثِ ، وَکَفَّ الْحَسَنُ ، فَلَمْ یَزَلْ أَبُو سَعِیدٍ فِی عُلُوٍّ مِنْہَا بَعْدُ وَسَقَطَ الآخَرُ۔
(٣٨٦٠٨) حضرت ابن عون سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ مسلم بن یسار بصرہ والوں کے نزدیک حضرت حسن سے بلند مرتبہ تھے یہاں تک کہ ابن الاشعث کے ساتھ ملتے تھے ان کی ساخت گرگئی اور حضرت حسن رکے رہے ابو سعید بصرہ میں ہمیشہ غالب رہا اور دوسرے گرے رہے۔

38608

(۳۸۶۰۹) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ جَرِیرِ بْنِ حَازِمٍ ، قَالَ : حدَّثَنِی شَیْخٌ مِنْ أَہْلِ مَکَّۃَ ، قَالَ : رَأَیْتُ ابْنَ عُمَرَ فِی أَیَّامِ ابْنِ الزُّبَیْرِ فَدَخَلَ الْمَسْجِدَ ، فَإِذَا السِّلاَحُ فَجَعَلَ یَقُولُ : لَقَدْ أَعْظَمْتُمُ الدُّنْیَا ، لَقَدْ أَعْظَمْتُمُ الدُّنْیَا ، حَتَّی اسْتَلَمَ الْحَجَرَ۔
(٣٨٦٠٩) حضرت جریر بن حازم سے روایت ہے انھوں نے فرمایا مجھے اہل مکہ سے ایک شیخ نے بیان کیا کہ میں نے حضرت عبداللہ بن عمر کو حضرت ابن زبیر کے لڑائی کے ایام میں دیکھا کہ وہ مسجد میں داخل ہوئے وہاں اسلحہ تھا تو وہ یہ کہنا شروع ہوگئے کہ تم نے دنیا کو بڑی چیز سمجھ لیا تم نے دنیا کو بڑی چیز سمجھ لیا یہاں تک کہ حجر اسود کا استلام کیا۔

38609

قَالَ : وَحَدَّثَنَا أَبُو بَکْرٍ ، قَالَ : (۳۸۶۱۰) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَنْ مُجَالِدٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : أَنَا أَخْتِمُ أَلْفَ نَبِیٍّ ، أَوْ أَکْثَرَ ، وَأَنَّہُ لَیْسَ مِنْ نَبِیٍّ بُعِثَ إِلَی قَوْمٍ إِلاَّ یُنْذِرُ قَوْمَہُ الدَّجَّالَ ، وَإِنَّہُ قَدْ بُیِّنَ لِی مَا لَمْ یُبَیَّنْ لأَحَدٍ ، وَإِنَّہُ أَعْوَرُ ، وَإِنَّ رَبَّکُمْ لَیْسَ بِأَعْوَرَ۔
(٣٨٦١٠) حضرت جابر بن عبداللہ سے روایت ہے فرمایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا میں ہزار یا اس سے زیادہ نبیوں کے آخر میں آنے والا ہوں اور یقیناً کوئی نبی (علیہ السلام) کسی قوم کی طرف مبعوث نہیں کیا گیا مگر اس نے اپنی قوم کو دجال کے فتنے سے ڈرایا اور بلاشبہ میرے لیے اس کے بارے میں وہ بات واضح ہوئی ہے جو کسی کے لیے واضح نہیں ہوئی اور وہ (یہ کہ وہ) کانا ہے اور بلاشبہ تمہارا رب کانا نہیں ہے۔

38610

(۳۸۶۱۱) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ذَکَرَ الْمَسِیحَ بَیْنَ ظَہْرَانَیِ النَّاسِ ، وَقَالَ : إِنَّ اللَّہَ لَیْسَ بِأَعْوَرَ ، وَإِنَّ الْمَسِیحَ الدَّجَّالَ أَعْوَرُ الْعَیْنِ الْیُمْنَی کَأَنَّ عَیْنَہُ عِنَبَۃٌ طَافِیَۃٌ۔ (بخاری ۷۱۲۳۔ مسلم ۲۲۴۷)
(٣٨٦١١) حضرت عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں کے سامنے دجال کا ذکر فرمایا اور ارشاد فرمایا کہ بیشک اللہ (اعور) کانا نہیں اور دجال کی دائیں آنکھ کانی ہے گویا اس کی آنکھ ابھرا ہوا انگور کا دانہ ہے۔

38611

(۳۸۶۱۲) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ جَدِّہِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: إِنَّہُ لَمْ یَکُنْ نَبِیٌّ قَبْلِی إِلاَّ وَقَدْ وَصَفَ الدَّجَّالَ لأُمَّتِہِ ، وَلاَصِفَنَّہُ صِفَۃً لَمْ یَصِفْہَا أَحَدٌ قَبْلِی ، إِنَّہُ أَعْوَرُ ، وَلَیْسَ اللَّہُ بِأَعْوَرَ۔ (احمد ۱۷۶۔ ابویعلی ۷۲۵)
(٣٨٦١٢) حضرت سعد سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا بلاشبہ مجھ سے پہلے کوئی نبی نہیں تھے مگر انھوں نے دجال کے بارے میں اپنی امت کو بتلایا اور میں اس کے بارے میں ایسی صفت بتلاتا ہوں جو کہ مجھ سے پہلے کسی نے بیان نہیں کی یہ کہ وہ کانا ہے اور اللہ تعالیٰ اعور (کانے) نہیں ہیں۔

38612

(۳۸۶۱۳) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ کُلَیْبٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ خَالِہ ، یَعْنِی الْفَلَتَانَ بْنَ عَاصِمٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: أَمَّا مَسِیحُ الضَّلاَلَۃ ، فَرَجُلٌ أَجْلَی الْجَبْہَۃِ مَمْسُوحُ الْعَیْنِ الْیُسْرَی ، عَرِیضُ النَّحْرِ فِیہِ دَفَائٌ کَأَنَّہُ فُلاَنُ بْنُ عَبْدِ الْعُزَّی ، أَوْ عَبْدُ الْعُزَّی بْنُ فُلاَنٍ۔
(٣٨٦١٣) فلتان بن عاصم سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا گمراہی کا مسیح (دجال) وہ ایسا آدمی ہے جس کی پیشانی بہت واضح ہوگی اور اس کی دائیں آنکھ مٹی ہوئی ہوگی چوڑے سینے والا ہوگا اور اس میں جھکاؤ ہوگا گویا کہ وہ ابن عبدالعزی کا فلاں بیٹا ہے یا یوں فرمایا کہ عبدالعزی بن فلاں کی طرح ہے۔ (صحیح بخاری میں عبدالعزی بن قطن آتا ہے)

38613

(۳۸۶۱۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ جَرِیرِ بْنِ حَازِمٍ ، عَنْ حُمَیْدِ بْنِ ہِلاَلٍ ، عَنْ أَبِی الدَّہْمَانِ ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَیْنٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: مَنْ سَمِعَ مِنْکُمْ بِخُرُوجِ الدَّجَّالِ فَلْیَنْأَ عَنْہُ مَا اسْتَطَاعَ ، فَإِنَّ الرَّجُلَ یَأْتِیہِ وَہُوَ یَحْسِبُ ، أَنَّہُ مُؤْمِنٌ ، فَمَا یَزَالُ بِہِ حَتَّی یَتَّبِعَہُ مِمَّا یَرَی مِنَ الشُّبُہَاتِ۔ (ابوداؤد ۴۳۱۹۔ احمد ۴۳۱)
(٣٨٦١٤) حضرت عمران بن حصین سے روایت ہے کہ انھوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کیا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ جو آدمی تم میں سے دجال کے نکلنے کے بارے میں سنے وہ اس سے اتنا زیادہ دور رہے بلاشبہ آدمی اس کے پاس اس گمان سے آئے گا کہ وہ مومن ہے پھر مسلسل اس کے ساتھ رہے گا یہاں تک کہ جو بھی اس کی جانب سے ڈالے جانے والی شہادت دیکھے گا وہ اس میں ان کی پیروی کرے گا۔

38614

(۳۸۶۱۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ بْنِ أَبِی خَالِدٍ ، عَنْ قَیْسٍ ، عَنِ الْمُغِیرَۃِ بْنِ شُعْبَۃَ ، قَالَ : مَا کَانَ أَحَدٌ یَسْأَلُ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، عَنِ الدَّجَّالِ أَکْثَرَ مِنِّی ، قَالَ : وَمَا تَسْأَلُنِی عَنْہُ قُلْتُ : إِنَّ النَّاسَ یَقُولُونَ : إِنَّ مَعَہُ الطَّعَامَ وَالشَّرَابَ ، قَالَ : ہُوَ أَہْوَنُ عَلَی اللہِ مِنْ ذَلِکَ۔ (بخاری ۷۱۲۲۔ مسلم ۱۶۹۳)
(٣٨٦١٥) حضرت مغیرہ بن شعبہ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ کسی نے بھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مجھ سے زیادہ دجال کے بارے میں نہیں پوچھا حضرت مغیرہ نے کہا کہ تم نے مجھ سے اس کے بارے میں نہیں پوچھا راوی قیس کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ لوگ کہتے ہیں اس کے ساتھ کھانے اور پینے کی چیزیں ہوں گی تو انھوں نے فرمایا کہ دجال کا امر اللہ تعالیٰ پر اس سے زیادہ آسان ہے (دجال کے لیے حقیقتاً یہ چیزیں ثابت نہیں ہوں گی اور جو ہوں گی وہ آزمائش اور امتحان کے لیے ملمع سازی ہوگی۔

38615

(۳۸۶۱۶) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنِ الْجُرَیْرِیِّ ، عَنْ أَبِی نَضْرَۃَ ، عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ ، قَالَ : حدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ ثَابِتٍ، عَنْ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : تَعَوَّذُوا بِاللہِ مِنْ فِتْنَۃِ المسیح الدَّجَّالِ ، قُلْنَا : نَعُوذُ بِاللہِ مِنْ فِتْنَۃِ الْمَسِیحِ الدَّجَّالِ۔
(٣٨٦١٦) حضرت زید بن ثابت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کرتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ تم مسیح دجال کے فتنہ سے اللہ کی پناہ مانگو۔ ہم نے کہا ہم مسیح دجال کے فتنہ سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں۔

38616

(۳۸۶۱۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ الأَوْزَاعِیِّ ، عَنْ حَسَّانَ بْنِ عَطِیَّۃَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِی عَائِشَۃَ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، وَعَنْ یَحْیَی ، عَنْ أَبِی سَلَمَۃَ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إِذَا تَشَہَّدَ أَحَدُکُمْ فَلْیَسْتَعِذْ بِاللہِ مِنْ شَرِّ فِتْنَۃِ الْمَسِیحِ الدَّجَّالِ۔ (مسلم ۴۱۲۔ ابوداؤد ۹۷۵)
(٣٨٦١٧) حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یوں فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی ایک تشہد پڑھے تو وہ مسیح دجال کے فتنے سے بھی پناہ مانگے۔

38617

(۳۸۶۱۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، وَعَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ عَائِشَۃَ ، قَالَتْ : کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : اللَّہُمَّ إنِّی أَعُوذُ بِکَ مِنْ شَرِّ فِتْنَۃِ الْمَسِیحِ الدَّجَّالِ۔
(٣٨٦١٨) حضرت عائشہ سے روایت ہے فرماتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یوں فرماتے تھے کہ اے اللہ ! میں آپ سے مسیح دجال کے فتنے سے پناہ مانگتا ہوں۔

38618

(۳۸۶۱۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ فُرَاتٍ ، عَنْ أَبِی الطُّفَیْلِ ، عَنْ أَبِی سَرِیحَۃَ حُذَیْفَۃَ بْنِ أَسِیدٍ ، قَالَ : اطَّلَعَ عَلَیْنَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : لاَ تَقُومُ السَّاعَۃُ حَتَّی تَکُونَ عَشْرُ آیَاتٍ ، ذَکَرَ طُلُوعَ الشَّمْسِ مِنْ مَغْرِبِہَا ، وَالدَّجَّالَ۔ (مسلم ۲۲۲۵۔ ابوداؤد ۴۳۱۱)
(٣٨٦١٩) حضرت ابو سریحہ حذیفہ بن اسد سے روایت ہے کہ انھوں نے فرمایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہماری طرف جھانکا اور ارشاد فرمایا کہ قیامت قائم نہیں ہوگی یہاں تک کہ دس نشانیاں ظاہر ہوجائں ہ سورج کے مغرب سے طلوع ہونے کا تذکرہ فرمایا اور دجال کا تذکرہ فرمایا۔

38619

(۳۸۶۲۰) حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ مُجَالِدٍ ، عَنْ أَبِی الْوَدَّاکِ ، عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، أَنَّہُ قَالَ : أَنَا أَخْتِمُ أَلْفَ نَبِیٍّ ، أَوْ أَکْثَرَ ، مَا بَعَثَ اللَّہُ مِنْ نَبِیٍّ إِلَی قَوْمِہِ إِلاَّ حَذَّرَہُمَ الدَّجَّالَ ، وَإِنَّہُ قَدْ بُیِّنَ لِی مَا لَمْ یُبَیَّنْ لأَحَدٍ قَبْلِی ، إِنَّہُ أَعْوَرُ ، وَإِنَّ اللَّہَ لَیْسَ بِأَعْوَرَ ، وَإِنَّہُ أَعْوَرُ عَیْنِ الْیُمْنَی ، لاَ حَدَقَۃَ لَہُ ، جَاحِظَۃٌ ، وَالأُخْرَی کَأَنَّہَا کَوْکَبٌ دُرِّی ، وَإِنَّہُ یَتَّبِعُہُ مِنْ کُلِّ قَوْمٍ یَدْعُونَہُ بِلِسَانِہِمْ إلَہًا۔ (حاکم ۵۹۷۔ احمد ۲۶۵)
(٣٨٦٢٠) حضرت ابو سید خدری نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کرتے ہیں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ میں ہزار نبیوں یا اس سے زیادہ فرمایا کے بعد آیا ہوں اور اللہ تعالیٰ نے کوئی بھی نبی اپنی قوم کی طرف نہیں بھیجا مگر یہ کہ اس نے انھیں دجال سے ڈرایا اور بلاشبہ میرے لیے وہ بات بیان کی گئی ہے جو مجھ سے پہلے کسی ایک سے بھی بیان نہیں کی گئی بلاشبہ وہ کانا ہے اور اللہ تعالیٰ کانا نہیں ہے اور اس کی دائیں آنکھ کانی ہے اس کی پتلی نہیں ہے اور ابھری ہوئی ہے اور دوسری ایسے ہے گویا کہ چمکتا ہوا روشن ستارہ ہر قوم میں سے جو اس کی پیروی کرینگے وہ اس کو اپنی زبان میں اِلٰہ کے ساتھ پکاریں گے۔

38620

(۳۸۶۲۱) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا ابْنُ عَوْنٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، قَالَ : ذَکَرُوہُ ، یَعْنِی الدَّجَّالَ عِنْدَ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : مَکْتُوبٌ بَیْنَ عَیْنَیْہِ : ک ف ر ، قَالَ : فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ لَمْ أَسْمَعْہُ یَقُولُ ذَلِکَ ، وَلَکِنَّہُ قَالَ : أَمَّا إبْرَاہِیمُ فَانْظُرُوا إِلَی صَاحِبِکُمْ ، قَالَ یَزِیدُ : یَعْنِی النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَأَمَّا مُوسَی فَرَجُلٌ آدَم جَعْدٌ طُوَالٌ کَأَنَّہُ مِنْ رِجَالِ شَنُوئَۃَ عَلَی جَمَلٍ أَحْمَرَ مَخْطُومٍ بِخُلْبَۃٍ ، فَکَأَنِّی أَنْظُرُ إلَیْہِ قَد انْحَدَرَ مِنَ الْوَادِی یُلَبِّی۔ (بخاری ۱۵۵۵۔ مسلم ۱۵۳)
(٣٨٦٢١) حضرت مجاہد سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ لوگوں نے حضرت عبداللہ بن عباس کے پاس دجال کا تذکرہ کیا تو حاضرین میں سے کسی نے کہا کہ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان ک، ف، ر لکھا ہوگا مجاہد کہتے ہیں کہ حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ بات نہیں سنی لیکن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ رہے ابراہیم تو ان کی شبیہ دیکھو اپنے صاحب میں یزید راوی کہتے ہیں کہ صاحب سے مراد نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اپنی ذات ہے اور رہے موسیٰ تو وہ ایک گندمی رنگ کے گھنگریالے بالوں والے لمبے قد کے مرد ہیں گویا کہ وہ شنوء ہ قبیلے کے مردوں میں سے ہیں سرخ اونٹ پر جس کی لگام خشک گھاس کی ہوگی پر سوار ہوں گے گویا کہ میں ان کو وادی سے تلبیہ پڑھتے ہوئے آتا دیکھ رہا ہوں۔

38621

(۳۸۶۲۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ عَبْدِ الْحَمِیدِ بْنِ بَہْرَامَ عْن شَہْرِ بْنِ حَوْشَبٍ ، عَنْ أَسْمَائَ ابْنَۃِ یَزِیدَ ، قَالَتْ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لَیْسَ عَلَیْکُمْ مِنْہُ بَأْسٌ ، إِنْ خَرَجَ وَأَنَا حَیٌّ فَأَنَا حَجِیجُہُ ، وَإِنْ خَرَجَ بَعْدَ مَوْتِی فَاللَّہُ خَلِیفَتِی عَلَی کُلِّ مُسْلِمٍ۔ (ابوداؤد ۴۳۲۱۔ ترمذی ۲۲۴۰)
(٣٨٦٢٢) حضرت اسماء بنت یزید سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا اس دجال سے تم پر کوئی خوف نہیں ہے اگر وہ نکلا میری زندگی میں تو میں اس کا مقابلہ کرنے والا ہوں گا اور اگر وہ میری وفات کے بعد نکلا تو اللہ تعالیٰ ہر مسلمان پر محافظ ہوں گے۔

38622

(۳۸۶۲۳) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِی صَالِحٍ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: نَعُوذُ بِاللہِ مِنْ فِتْنَۃِ الْمَسِیحِ الدَّجَّالِ۔
(٣٨٦٢٣) حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ ہم مسیح دجال سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتے ہیں۔

38623

(۳۸۶۲۴) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ حُمَیْدٍ ، عَنْ أَنَسٍ ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : الدَّجَّالُ أَعْوَرُ الْعَیْنِ الْیُمْنَی ، عَلَیْہَا ظَفَرَۃٌ ، مَکْتُوبٌ بَیْنَ عَیْنَیْہِ کَافِرٌ۔ (بخاری ۷۱۳۱۔ مسلم ۲۲۴۸)
(٣٨٦٢٤) حضرت انس سے روایت ہے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا دجال دائیں آنکھ سے کانا ہے اس کی آنکھ پر ناخنہ ہے (یعنی ایک بیماری جس میں آنکھ پر ناک کی طرح جھلی آجاتی ہے) اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان کافر لکھا ہوا ہے۔

38624

(۳۸۶۲۵) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَنْ زَائِدَۃَ ، عَنْ سِمَاکٍ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : إِنَّ الدَّجَّالَ أَعْوَرُ جَعْدٌ ہِجَانٌ أَقْمَرُ ، کَأَنَّ رَأْسَہُ غَصْنَۃُ شَجَرَۃٍ ، أَشْبَہُ النَّاسِ بِعَبْدِ الْعُزَّی بْنِ قَطَنٍ ، فَإِمَّا ہَلَکَ الْہُلُکُ فَإِنَّہُ أَعْوَرُ ، وَإِنَّ اللَّہَ لَیْسَ بِأَعْوَرَ۔
(٣٨٦٢٥) حضرت عبداللہ بن عباس نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت نقل کرتے ہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا بلاشبہ دجال گھنگریالے بالوں والا بہت زیادہ سفید ہے اس کے سر کے بال گویا درخت کی شاخیں ہیں لوگوں میں عبدالعزی بن قطن کے بہت زیادہ مشابہہ ہے اگر لوگ اس کی مشابہت کی وجہ سے ہلاک ہوجائیں وہ کانا ہے اور اللہ تعالیٰ کانے نہیں ہیں (مراد یہ ہے کہ لوگ اس کی پیروی کریں جہالت کی بناء پر تو پھر بھی وہ اپنے سے کانے پن کا عیب دور نہیں کرسکتا جبکہ اللہ تعالیٰ ہر عیب سے پاک و منزہ ہیں) ۔

38625

(۳۸۶۲۶) حَدَّثَنَا شَبَابَۃُ، قَالَ: حدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ الْمُغِیرَۃِ، عَنْ حُمَیْدِ بْنِ ہِلاَلٍ، قَالَ: کَانَ ہِشَامُ بْنُ عَامِرٍ الأَنْصَارِیُّ یَرَی رِجَالاً یَتَخَطَّوْنَہُ إِلَی عِمْرَانَ بْنِ حُصَیْنٍ وَغَیْرِہِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَغَضِبَ ، وَقَالَ : وَاللہِ إنَّکُمْ لَتَخْطَوْنَ إِلَی مَنْ لَمْ یَکُنْ أَحْضَرَ لِرَسُولِ اللہِ مِنِّی وَلاَ أَوْعَی لِحَدِیثِہِ مِنِّی ، لَقَدْ سَمِعْت رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : مَا بَیْنَ خَلْقِ آدَمَ إِلَی أَنْ تَقُومَ السَّاعَۃُ فِتْنَۃٌ أَکْبَرُ مِنْ فِتْنَۃِ الدَّجَّالِ۔ (احمد ۲۰۔ طبرانی ۲۲)
(٣٨٦٢٦) حضرت حمید بن ہلال سے روایت ہے فرمایا کہ حضرت ہشام بن عامر انصاری کچھ لوگوں کو دیکھتے تھے کہ وہ حضرت عمران بن حصین اور دوسرے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب کے پاس جاتے تھے وہ غصے میں آگئے اور ارشاد فرمایا اللہ کی قسم تم ان لوگوں کے پاس جاتے ہو جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس نہ تو مجھ سے زیادہ حاضر باش تھے اور نہ ان کی احادیث کو مجھ سے زیادہ یادر کھنے والے ہیں میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے حضرت آدم کی پیدائش اور قیامت قائم ہونے تک دجال سے بڑا کوئی فتنہ نہیں۔

38626

(۳۸۶۲۷) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ أَبِی مَالِکٍ الأَشْجَعِیِّ ، عَنْ رِبْعِیٍّ ، عَنْ حُذَیْفَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لأَنَا أَعْلَمُ بِمَا مَعَ الدَّجَّالِ مِنَ الدَّجَّالِ ، مَعَہُ نَہْرَانِ یَجْرِیَانِ أَحَدُہُمَا رَأْیَ الْعَیْنِ مَائٌ أَبْیَضُ ، وَالآخَرُ رَأْیَ الْعَیْنِ نَارٌ تَأَجَّجُ ، فَإِمَّا أَدْرَکَ أَحَدٌ ذَلِکَ فَلْیَأْتِ النَّارَ الَّذِی یَرَاہُ فَلْیُغْمِضْ ، ثُمَّ لِیُطَأْطِئْ رَأْسَہُ لِیَشْرَبَ فَإِنَّہُ مَائٌ بَارِدٌ ، وَإِنَّ الدَّجَّالَ مَمْسُوحُ الْعَیْنِ ، عَلَیْہَا ظَفَرَۃٌ غَلِیظَۃٌ مَکْتُوبٌ بَیْنَ عَیْنَیْہِ کَافِرٌ ، یقرؤہ کُلُّ مُؤْمِنٍ کَاتِبٍ وَغَیْرِ کَاتِبٍ۔ (مسلم ۲۲۴۹۔ احمد ۴۰۴)
(٣٨٦٢٧) حضرت حذیفہ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ میں خوب جانتا ہوں اس فریب کو جو دجال کے ساتھ ہوگا اس کے ساتھ دو نہریں ہوں گی ان میں سے ایک بظاہر دیکھنے میں سفید پانی معلوم ہوگی اور دوسری بظاہر بھڑکتی ہوئی آگ معلوم ہوگی اگر کوئی اس صورتحال میں مبتلا ہو تو جسے آگ سمجھ رہا ہے اس میں چلا جائے اور آنکھیں بند کرے پھر پینے کے لیے سر جھکائے تو وہ ٹھنڈاپانی ہوگا اور بلاشبہ دجال مٹی ہوئی آنکھ والا ہے اس کی آنکھ پر موٹا ناخنہ سا ہوگا (ایک ظفرہ بیماری جس کی وجہ سے آنکھ پر ناک کی طرح کی جھلی آجاتی ہے) اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان کافر لکھا ہوا ہوگا جس کو ہر مومن پڑھ لے گا لکھنے (پڑھنے) والا ہو یا نہ لکھنے (پڑھنے) والا نہ ہو۔

38627

(۳۸۶۲۸) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَنْ زَائِدَۃَ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ رِبْعِیٍّ ، عَنْ حُذَیْفَۃَ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : لأَنَا أَعْلَمُ بِمَا مَعَ الدَّجَّالِ مِنَ الدَّجَّالِ إِنَّ مَعَہُ نَارًا تُحْرِقُ ، وَنَہْرَ مَائٍ بَارِدٍ ، فَمَنْ أَدْرَکَہُ مِنْکُمْ فَلاَ یَہْلِکَنَّ بِہِ فَلْیُغْمِضْ عَیْنَیْہِ ، وَلْیَقَعْ فِی الَّذِی یَرَی أَنَّہُ نَارٌ ، فَإِنَّہُ نَہْرُ مَائٍ بَارِدٍ۔ (ابوداؤد ۴۳۱۵)
(٣٨٦٢٨) حضرت حذیفہ سے روایت ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا میں دجال کے ساتھ جو فریب ہوگا اس کو خوب جانتا ہوں اس کے ساتھ جلانے والی آگ اور ٹھنڈے پانی کی نہر ہوگی پس تم میں کوئی اسے پالے تو اس کے ساتھ ہلاک نہ ہو اپنی آنکھیں بند کر کے جسے آگ سمجھ رہا ہے اس میں کود جائے بلاشبہ وہ ٹھنڈا پانی ہوگا۔

38628

(۳۸۶۲۹) حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُوسَی ، قَالَ: حدَّثَنَا شَیْبَانُ ، عَنْ یَحْیَی ، عَنِ الْحَضْرَمِیِّ بْنِ لاَحِقٍ ، عَنْ أَبِی صَالِحٍ، عَنْ عَائِشَۃَ أُمِّ الْمُؤْمِنِینَ ، قَالَتْ : دَخَلَ عَلَیَّ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَأَنَا أَبْکِی ، فَقَالَ : مَا یُبْکِیک ؟ فَقُلْتُ : یَا رَسُولَ اللہِ ، ذَکَرْت الدَّجَّالَ ، قَالَ : فَلاَ تَبْکِی فَإِنْ یَخْرُجْ وَأَنَا حَیٌّ أَکْفِیکُمُوہُ ، وَإِنْ أَمُتْ فَإِنَّ رَبَّکُمْ لَیْسَ بِأَعْوَرَ ، وَإِنَّہُ یَخْرُجُ مَعَہُ یَہُودُ أَصْبَہَانَ ، فَیَسِیرُ حَتَّی یَنْزِلَ بِضَاحِیَۃِ الْمَدِینَۃِ ، وَلَہَا یَوْمَئِذٍ سَبْعَۃُ أَبْوَابٍ ، عَلَی کُلِّ بَابٍ مَلَکَانِ ، فَیَخْرُجُ إلَیْہِ شِرَارُ أَہْلِہَا ، فَیَنْطَلِقُ حَتَّی یَأْتِیَ لُدَّ ، فَیَنْزِلُ عِیسَی ابْنُ مَرْیَمَ فَیَقْتُلُہُ ، ثُمَّ یَمْکُثُ عِیسَی فِی الأَرْضِ أَرْبَعِینَ سَنَۃً ، أَوْ قَرِیبًا مِنْ أَرْبَعِینَ سَنَۃً إمَامًا عَادِلاً وَحَکَمًا مُقْسِطًا۔ (احمد ۷۵۔ ابن حبان ۶۸۲۲)
(٣٨٦٢٩) ام المؤمنین حضرت سیدہ عائشہ سے روایت ہے انھوں نے ارشاد فرمایا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرے پاس تشریف لائے اس حال میں کہ میں رو رہی تھی انھوں نے پوچھا تمہیں کونسی چیز رلا رہی ہے میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دجال کے تذکرے کی وجہ سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا نہ رو اگر وہ میری زندگی میں نکلا تو میں تمہاری کفایت کرونگا اور اگر میری وفات ہوجائے تو بلاشبہ تمہارا رب کانا نہیں ہے بلاشبہ اصبہان کے یہود نکلیں گے وہ چلے گا یہاں تک کہ مدینہ کے بیرونی کنارے میں آئے گا اور اس وقت مدینہ کے سات دروازے ہوں گے ہر دروازے پر دو فرشتے ہوں گے مدینہ کے شریر لوگ اس کی طرف نکلیں گے وہ چلے گا یہاں تک کہ مقام لد پر پہنچے گا حضرت عیسیٰ بن مریم اتریں گے اور اسے قتل کریں گے پھر حضرت عیسیٰ زمین میں چالیس سال کا عرصہ ٹھہریں گے یا راوی فرماتے ہیں یوں فرمایا کہ چالیس سال کے قریب کا زمانہ امام عادل اور انصاف کرنے والے فیصل بن کر ٹھہریں گے۔

38629

(۳۸۶۳۰) حَدَّثَنَا شَبَابَۃُ ، عَنْ لَیْثِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ یَزِیدِ بْنِ أَبِی حَبِیبٍ ، عَنْ رَبِیعَۃَ بْنِ لَقِیطٍ التُّجِیبِیِّ ، عَنِ ابْنِ حَوَالَۃَ الأَزْدِیِّ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، أَنَّہُ قَالَ : مَنْ نَجَا مِنْ ثَلاَثٍ فَقَدْ نَجَا ، قَالَہَا ثَلاَثَ مَرَّاتٍ، قَالُوا : مَا ذَاکَ یَا رَسُولَ اللہِ ، قَالَ : مَوْتِی ، وَالدَّجَّالُ ، وَمِنْ قَتْلِ خَلِیفَۃٍ مُصْطَبِرٍ بِالْحَقِّ مُعْطِیہِ۔ (احمد ۲۸۸)
(٣٨٦٣٠) حضرت ابن حوالہ ازدی ، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے ارشاد فرمایا جو آدمی تین چیزوں سے نجات پا گیا وہ نجات پا گیا یہ آپ نے تین مرتبہ ارشاد فرمایا صحابہ نے عرض کیا یہ کیا چیزیں ہیں اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا میری وفات اور دجال اور ایسے خلیفہ کا قتل جو حق پر جمنے والا اور حق دینے والا ہو۔

38630

(۳۸۶۳۱) حَدَّثَنَا أَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَنْ خَالِدٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ شَقِیقٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ سُرَاقَۃَ ، عَنْ أَبِی عُبَیْدَۃَ ، قَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : إِنَّہُ لَمْ یَکُنْ نَبِیٌّ بَعْدَ نُوحٍ إِلاَّ وَقَدْ أَنْذَرَ قَوْمَہُ الدَّجَّالَ ، وَإِنِّی أُنْذِرُکُمُوہُ ، وَصَفَہُ لَنَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَقَالَ : سَیُدْرِکُہُ بَعْضُ مَنْ رَآنِی ، أَوْ سَمِعَ کَلاَمُی ، قَالُوا : یَا رَسُولَ اللہِ ، کَیْفَ قُلُوبُنَا یَوْمَئِذٍ أَمِثْلُہَا الْیَوْمَ ؟ قَالَ : أَوْ خَیْر۔ (ابوداؤد ۴۷۲۳۔ ترمذی ۲۲۳۴)
(٣٨٦٣١) ابو عبیدہ سے روایت ہے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا حضرت نوح کے بعد ہر نبی نے اپنی قوم کو دجال سے ڈرایا ہے۔ اور بلاشبہ میں تمہیں اس سے ڈراتا ہوں (راوی فرماتے ہیں) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہم سے اس کے بارے میں بیان کیا اور ارشاد فرمایا عنقریب اسے پائے گا وہ شخص جس نے مجھے دیکھا یا فرمایا جس نے میرے کلام کو سنا صحابہ کرام نے عرض کیا اس وقت ہمارے قلوب کیسے ہوں گے کیا آج کے دن جیسے ہوں گے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس سے بہتر ہوں گے۔

38631

(۳۸۶۳۲) حَدَّثَنَا ہَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ ، قَالَ : حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ ثَابِتٍ بْنِ ثَوْبَانَ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ مَکْحُولٍ ، عَنْ جُبَیْرِ بْنِ نُفَیْرٍ ، عَنْ مَالِکِ بْنِ یَخَامِرٍ ، عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : عِمْرَانُ بَیْتِ الْمَقْدِسِ خَرَابُ یَثْرِبَ ، وَخَرَابُ یَثْرِبَ خُرُوجُ الْمَلْحَمَۃِ ، وَخُرُوجُ الْمَلْحَمَۃِ فَتْحُ الْقُسْطَنْطِینِیَّۃ وَفَتْحُ الْقُسْطَنْطِینِیَّۃ خُرُوجُ الدَّجَّالِ ، ثُمَّ یَضْرِبُ بِیَدِہِ عَلَی فَخِذِ الَّذِی حَدَّثَہُ ، أَوْ مَنْکِبَیْہِ ، ثُمَّ قَالَ : إِنَّ ہَذَا ہُوَ الْحَقُّ کَمَا أَنَّک ہَاہُنَا ، أَوْ کَمَا أَنْتَ قَاعِدٌ ، یَعْنِی مُعَاذًا۔ (ابوداؤد ۴۲۹۴)
(٣٨٦٣٢) حضرت معاذ بن جبل سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا بیت المقدس کی آبادی یثرب کی بربادی ہے اور یثرب کی بربادی بڑی لڑائی کا (جو رومیوں کے ساتھ ہوگی) ظاہر ہونا ہے اور بڑی لڑائی کا ظہور قسطنطنیہ کی فتح ہے اور قسطنطنیہ کی فتح دجال کا خروج ہے پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس آدمی کی ران یا فرمایا اس کے دونوں کندھوں پر اپنا ہاتھ مارا پھر فرمایا یہ حق ہے جیسے تم یہاں ہو یا فرمایا جیسے تم بیٹھے ہو مراد حضرت معاذ خود تھے۔

38632

(۳۸۶۳۳) حَدَّثَنَا أَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ زَیْدٍ ، عَنْ أَبِی نَضْرَۃَ ، قَالَ : أَتَیْنَا عُثْمَانَ بْنَ أَبِی الْعَاصِ فِی یَوْمِ جُمُعَۃٍ لِنَعْرِضَ مُصْحَفًا لَنَا بِمُصْحَفِہِ ، فَجَلَسْنَا إِلَی رَجُلٍ یُحَدِّثُ ، ثُمَّ جَائَ عُثْمَان بْنُ أَبِی الْعَاصِ فَتَحَوَّلْنَا إلَیْہِ ، فَقَالَ عُثْمَان : سَمِعْت رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : یَکُونُ لِلْمُسْلِمِینَ ثَلاَثَۃُ أَمْصَارٍ : مِصْرٌ بِمُلْتَقَی الْبَحْرَیْنِ ، وَمِصْرٌ بِالْجَزِیرَۃِ ، وَمِصْرٌ بِالشَّامِ ، فَیَفْزَعُ النَّاسُ ثَلاَثَ فَزَعَاتٍ ، فَیَخْرُجُ الدَّجَّالُ فِی أعْرَاضِ جَیْشٍ ، فَیَہَزِمُ مَنْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ ، فَأَوَّلُ مِصْرٍ یَرِدُہُ الْمِصْرُ الَّذِی بِمُلْتَقَی الْبَحْرَیْنِ، فَیَصِیرُ أَہْلُہُ ثَلاَثَ فِرَقٍ: فِرْقَۃٌ تُقِیمُ تَقُولُ: نُشَامُّہُ وَنَنْظُرُ مَا ہُوَ، وَفِرْقَۃٌ تَلْحَقُ بِالأَعْرَابِ، وَفِرْقَۃٌ تَلْحَقُ بِالْمِصْرِ الَّذِی یَلِیہِمْ ، وَمَعَہُ سَبْعُونَ أَلْفًا عَلَیْہِمُ السِّیجَانُ ، فَأَکْثَرُ تُبَّاعِہِ الْیَہُودُ وَالنِّسَائُ ۔ ۲۔ ثُمَّ یَأْتِی الْمِصْرَ الَّذِی یَلِیہِمْ فَیَصِیرُ أَہْلُہُ ثَلاَثَ فِرَقٍ : فِرْقَۃٌ تُقِیمُ وَتَقُولُ : نُشَامُّہُ وَنَنْظُرُ مَا ہُوَ ، وَفِرْقَۃٌ تَلْحَقُ بِالأَعْرَابِ ، وَفِرْقَۃٌ تَلْحَقُ بِالْمِصْرِ الَّذِی یَلِیہِمْ ۔ ۳۔ ثُمَّ یَأْتِی الشَّامَ فَیَنْحَازُ الْمُسْلِمُونَ إِلَی عَقَبَۃِ أَفِیقَ ، یَبْعَثُونَ سَرْحًا لَہُمْ فَیُصَابُ سَرْحُہُمْ ، وَیَشْتَدُّ ذَلِکَ عَلَیْہِمْ ، وَتُصِیبُہُمْ مَجَاعَۃٌ شَدِیدَۃٌ وَجَہْدٌ ، حَتَّی إِنَّ أَحَدَہُمْ لَیُحْرِقُ وَتَرَ قَوْسِہِ فَیَأْکُلُہُ ، فَبَیْنَمَا ہُمْ کَذَلِکَ إذْ نَادَی مُنَادٍ مِنَ السَّحَرِ : یَا أَیُّہَا النَّاسُ ، أَتَاکُمُ الْغَوْثُ ، ثَلاَثَ مَرَّاتٍ ، فَیَقُولُ بَعْضُہُمْ لِبَعْضٍ : إِنَّ ہَذَا الصَّوْتَ لِرَجُلٍ شَبْعَانَ ، فَیَنْزِلُ عِیسَی بْنُ مَرْیَمَ عِنْدَ صَلاَۃِ الْفَجْرِ فَیَقُولُ لَہُ أَمِیرُ النَّاسِ : تَقَدَّمْ یَا رُوحَ اللہِ فَصَلِّ بِنَا ، فَیَقُولُ : إنَّکُمْ مَعْشَرَ ہَذِہِ الأُمَّۃِ أُمَرَائُ بَعْضُکُمْ عَلَی بَعْضٍ ، تَقَدَّمْ أَنْتَ فَصَلِّ بِنَا ، فَیَتَقَدَّمُ الأَمِیرُ فَیُصَلِّی بِہِمْ ، فَإِذَا انْصَرَفَ أَخَذَ عِیسَی حَرْبَتَہُ فَیَذْہَبُ نَحْوَ الدَّجَّالِ ، فَإِذَا رَآہُ ذَابَ کَمَا یَذُوبُ الرَّصَاصُ ، وَیَضَعُ حَرْبَتَہُ بَیْنَ ثدییہ فَیَقْتُلُہُ ، ثُمَّ یَنْہَزِمُ أَصْحَابُہُ۔ (احمد ۲۱۶۔ طبرانی ۸۳۹۲)
(٣٨٦٣٣) حضرت ابو نضرہ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ ہم جمعے والے دن حضرت عثمان بن ابو العاص کے پاس آئے تاکہ ہم اپنے (لکھے ہوئے) صحیفے کا ان کے صحیفے کے ساتھ موازنہ کریں پھر حضرت عثمان بن ابوالعاص تشریف لائے ہم ان کے گرد جمع ہوگئے حضرت عثمان نے ارشاد فرمایا میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ فرماتے ہوئے سنا کہ مسلمانوں کے تین شہر ہوں گے ایک شہر تو دو سمندروں کے سنگھم پر ہوگا اور ایک شہر جزیرہ میں ہوگا ایک شہر شام میں ہوگا پس لوگ تین مرتبہ گھبرائیں گے پھر دجال جنگی لشکروں میں نکلے گا اور مشرق کی جانب شکست کھاجائے گا پہلا شہر جس میں وہ جائے گا وہ شہر ہوگا جو دو سمندروں کے سنگھم میں پر ہوگا اس کے رہنے والے تین گروہوں میں ہوجائیں گے ایک گروہ وہاں اقامت اختیار کرے گا اور کہے گا ہم اس کے قریب ہو کر دیکھتے ہیں وہ کیا ہے اور ایک گروہ دیہاتیوں کے ساتھ مل جائے گا اور ایک گروہ ساتھ والے شہر میں چلا جائے گا اس کے (یعنی دجال کے ساتھ) ستر ہزار ایسے لوگ ہوں گے جن پر سبز چادریں ہوں گی اس کے اکثر متبعین یہودی اور عورتیں ہوں گی پھر ان کے پاس والے شہر میں آئے گا اس کے رہنے والے تین گروہوں میں تقسیم ہوجائیں گے ایک گروہ تو وہیں ٹھہرے گا اور کہے گا ہم اس کے قریب ہوں گے اور دیکھیں گے وہ کیا ہے ایک گروہ دیہاتیوں کے ساتھ مل جائے گا اور تیسرا گروہ اپنے پاس والے شہر میں چلا جائے گا پھر شام جائے گا مسلمان عقبہ افیق مقام میں جمع ہوجائیں گے وہ اپنے مویشیوں کو بھیجیں گے ان کے مویشیوں کو نقصان پہنچے گا یہ بات ان پر گراں ہوجائے گی ان کو سخت بھوک اور مشقت پہنچے گی یہاں تک کہ ان میں ایک اپنی کمان کی تانت کو جلائے گا اور اسے کھالے گا لوگ اس حالت پر ہوں گے سحر کے وقت ایک پکارنے والا پکارے گا اے لوگو تمہاری مدد آگئی یہ تین مرتبہ ندا دے گا وہ ایک دوسرے سے کہیں گے بلاشبہ یہ آواز ایک سیر شدہ آدمی کی آواز ہے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) فجر کی نماز کے وقت اتریں گے اور ان سے لوگوں کے امیر کہیں گے اے روح اللہ ! آگے بڑھیں ہمیں نماز پڑھائیں (ان سے) حضرت عیسیٰ فرمائیں گے تم اس امت کی جماعت ایک دوسرے پر امراء ہو تم آگے بڑھو اور ہمیں نماز پڑھاؤ وہ امیر آگے بڑھیں گے اور ان کو نماز پڑھائیں گے جب نماز پڑھ کر فارغ ہوں گے عیسیٰ اپنا نیزہ پکڑیں گے اور دجال کی طرف جائیں گے وہ دجال ان کو دیکھے گا تو پگھلے گا جیسے سیسہ پگھلتا ہے اس کے سینے کے درمیان اپنا نیزہ رکھیں گے اور اسے قتل کردیں گے پھر اس کے ساتھی شکست خوردہ ہوجائیں گے۔

38633

(۳۸۶۳۴) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا حَشْرَجٌ ، قَالَ : حَدَّثَنَا سَعِیدُ بْنُ جُمْہَانَ ، عَنْ سَفِینَۃَ ، قَالَ : خَطَبَنَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : إِنَّہُ لَمْ یَکُنْ نَبِیٌّ إِلاَّ حَذَّرَ الدَّجَّالَ أُمَّتَہُ ، ہُوَ أَعْوَرُ الْعَیْنِ الْیُسْرَی ، بِعَیْنِہِ الْیُمْنَی ظَفَرَۃٌ غَلِیظَۃٌ ، بَیْنَ عَیْنَیْہِ کَافِرٌ مَعَہُ وَادِیَانِ أَحَدُہُمَا جَنَّۃٌ وَالآخَرُ نَارٌ ، فَجَنَّتُہُ نَارٌ وَنَارُہُ جَنَّۃٌ ، وَمَعَہُ مَلَکَانِ مِنَ الْمَلاَئِکَۃِ یُشْبِہَانِ نَبِیَّیْنِ مِنَ الأَنْبِیَائِ أَحَدُہُمَا عَنْ یَمِینِہِ وَالآخَرُ ، عَنْ شِمَالِہِ ، فَیَقُولُ لأُنَاسٍ : أَلَسْت بِرَبِّکُمْ أَلَسْت أُحْیِی وَأُمِیتُ فَیَقُولُ لَہُ أَحَدُ الْمَلَکَیْنِ : کَذَبْت فَمَا یَسْمَعُہُ أَحَدٌ مِنَ النَّاسِ إِلاَّ صَاحِبُہُ ، فَیَقُولُ صَاحِبُہُ : صَدَقْت ، فَیَسْمَعُہُ النَّاسُ فَیَحْسَبُونَ إنَّمَا صَدَّقَ الدَّجَّالَ ، وَذَلِکَ فِتْنَۃٌ ، ثُمَّ یَسِیرُ حَتَّی یَأْتِیَ الْمَدِینَۃَ فَلاَ یُؤْذَنُ لَہُ فِیہَا ، فَیَقُولُ : ہَذِہِ قَرْیَۃُ ذَاکَ الرَّجُلِ ، ثُمَّ یَسِیرُ حَتَّی یَأْتِیَ الشَّامَ فَیَقْتُلُہُ اللَّہُ عِنْدَ عَقَبَۃِ أَفِیقَ۔ (احمد ۲۲۱۔ طبرانی ۶۴۴۵)
(٣٨٦٣٤) حضرت سفینہ سے روایت ہے فرمایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں خطبہ ارشاد فرمایا اور فرمایا بلاشبہ کوئی بھی نبی نہیں گزرا مگر اس نے اپنی امت کو دجال سے ڈرایا وہ بائیں آنکھ سے کانا ہے اس کی دائیں آنکھ میں ایک موٹا سا ناخنہ ہوگا اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان کافر (لکھا ہوا) ہے اس کے ساتھ دو وادیاں ہوں گی ان میں ایک جنت اور دوسری آگ اس کی جنت آگ ہے اور اس کی آگ جنت ہے اور اس کے ساتھ ملائکہ میں سے دو فرشتے ہوں گے جو انبیاء میں سے دو نبیوں کے مشابہہ ہوں گے ان میں سے ایک اس کی دائیں جانب ہوگا اور دوسرا اس کی بائیں جانب ہوگا وہ لوگوں سے کہے گا کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں کیا میں زندہ نہیں کرتا اور مارتا نہیں دو فرشتوں میں سے ایک کہے گا تو نے جھوٹ کہا پس لوگوں میں سے کوئی ایک اس کی بات نہیں سنے گا مگر اس کا ساتھی (دوسرا فرشتہ) وہ اپنے ساتھی (فرشتے سے) سے کہے گا تو نے سچ کہا لوگ اس کی بات سن لیں گے اور یہ گمان کریں گے کہ اس نے دجال کی تصدیق کی ہے اور یہ آزمائش ہوگی پھر وہ چلے گا یہاں تک کہ مدینہ منورہ آئے گا اسے اس میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی جائے گی وہ کہے گا یہ تو اس آدمی کی بستی ہے چلے گا یہاں تک کہ شام جائے گا پس اللہ تعالیٰ اسے عقبہ افیق کے پاس ہلاک کردیں گے۔

38634

(۳۸۶۳۵) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنْ حُمَیْدِ بْنِ ہِلاَلٍ ، عَنْ أَبِی قَتَادَۃَ ، عَنْ أُسَیرِ بْنِ جَابِرٍ ، قَالَ : ہَاجَتْ رِیحٌ حَمْرَائُ بِالْکُوفَۃِ ، فَجَائَ رَجُلٌ لَیْسَ لَہُ ہِجِّیرَی إِلاَّ یَا عَبْدَ اللہِ بْنَ مَسْعُودٍ جَائَتِ السَّاعَۃُ ، قَالَ وَکَانَ عَبْدُ اللہِ مُتَّکِئًا فَجَلَسَ ، فَقَالَ : إِنَّ السَّاعَۃَلاَ تَقُومُ حَتَّی لاَ یُقْسَمَ مِیرَاثٌ وَلاَ یُفْرَحَ بِغَنِیمَۃٍ ، وَقَالَ : عَدُوٌّ یَجْمَعُونَ لأَہْلِ الإِسْلاَم وَیَجْمَعُ لَہُمْ أَہْلُ الإِسْلاَم ، وَنَحَّا بِیَدِہِ نَحْوَ الشَّامِ قُلْتُ : الرُّومَ تَعْنِی ؟ قَالَ : نَعَمْ ، فَیَکُونُ عِنْدَ ذَاکُمُ الْقِتَالِ رَدَّۃٌ شَدِیدَۃٌ ، فَیَشْتَرِطُ الْمُسْلِمُونَ شُرْطَۃً لِلْمَوْتِ لاَ تَرْجِعُ إِلاَّ غَالِبَۃً ، فَیَقْتَتِلُونَ حَتَّی یَحْجُزَ بَیْنَہُمُ اللَّیْلُ ، فَیَفِیئُ ہَؤُلاَئِ وَہَؤُلاَئِ کُلٌّ غَیْرُ غَالِبٍ ، وَتَفْنَی الشُّرْطَۃُ ۔ ۲۔ ثُمَّ یَشْتَرِطُ الْمُسْلِمُونَ شُرْطَۃً لِلْمَوْتِ لاَ تَرْجِعُ إِلاَّ غَالِبَۃً ، فَیَقْتَتِلُونَ حَتَّی یُمْسُوا فَیَفِیئُ ہَؤُلاَئِ وَہَؤُلاَئِ کُلٌّ غَیْرُ غَالِبٍ ، وَتَفْنَی الشُّرْطَۃُ ، فَإِذَا کَانَ الْیَوْمُ الرَّابِعُ نَہَدَ إلَیْہِمْ جُنْدُ أَہْلِ الإِسْلاَم ، فَیَجْعَلُ اللَّہُ الدَّبَرَۃَ عَلَیْہِمْ ، فَیَقْتَتِلُونَ مَقْتَلَۃً عَظِیمَۃً ، إمَا قَالَ : لاَ یُرَی مِثْلُہَا ، أَوَ قَالَ : لَمْ یُرَ مِثْلُہَا ، حَتَّی إِنَّ الطَّیْرَ لَیَمُرُّ بِجَنْبَاتِہِم مَا یُخَلِّفُہُمْ حَتَّی یَخِرَّ مَیِّتًا فَیَتَعَادُّ بَنُو الأَبِ کَانُوا مِئَۃ فَلاَ یَجِدُونَہُ بَقِیَ مِنْہُمْ إِلاَّ الرَّجُلُ الْوَاحِدُ ، فَبِأَیِّ غَنِیمَۃٍ یَفْرَحُ ، أَوْ بِأَیِّ مِیرَاثٍ یُقَاسَمُ ۔ ۳۔ فَبَیْنَمَا ہُمْ کَذَلِکَ إذْ سَمِعُوا بِبَأْسٍ ہُوَ أَکْبَرُ مِنْ ذَلِکَ ، إذْ جَائَہُمَ الصَّرِیخُ ، إِنَّ الدَّجَّالَ قَدْ خُلِّفَ فِی ذَرَارِیِّہِمْ ، فَرَفَضُوا مَا فِی أَیْدِیہِمْ وَیُقْبِلُونَ فَیَبْعَثُونَ عَشَرَۃَ فَوَارِسَ طَلِیعَۃً ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إنِّی لأَعْرِفُ أَسْمَائَہُمْ وَأَسْمَائَ آبَائِہِمْ وَأَلْوَانَ خُیُولِہِمْ ہُمْ خَیْرُ فَوَارِسَ عَلَی ظَہْرِ الأَرْضِ ، أَوَ قَالَ : ہُمْ خَیْرُ فَوَارِسَ عَلَی ظَہْرِ الأَرْضِ یومئذ۔ (مسلم ۲۲۲۳۔ احمد ۳۸۴)
(٣٨٦٣٥) حضرت اسیر بن جابر سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کوفہ میں سرخ ہواچلی ایک صاحب آئے ان کی عادت نہیں تھی مگر یہ کہ اے عبداللہ بن مسعود قیامت آگئی راوی فرماتے ہیں حضرت عبداللہ بن مسعود ٹیک لگائے بیٹھے تھے پس بیٹھ گئے اور فرمایا بلاشبہ قیامت قائم نہیں ہوگی یہاں تک کہ میراث تقسیم نہیں کی جائے گی اور نہ ہی غنیمت ملنے پر خوشی کا اظہار کیا جائے گا اور فرمایا دشمن ہوں گے جو اہل اسلام کے لیے جمع ہوجائیں گے اور اہل اسلام ان کے مقابلے کے لیے ہوں گے اور ہاتھ سے اشارہ کیا شام کی طرف (راوی کہتے ہیں) میں نے عرض کیا آپ کی مراد روم ہے انھوں نے نے فرمایا ہاں لڑائی اس وقت زور پر ہوگی مسلمان موت کی شرط قائم کرلیں گے کہ نہیں لوٹیں گے مگر غالب ہو کر وہ لڑائی کریں گے یہاں تک کہ رات ان کے درمیان حائل ہوجائے گی یہ بھی رک جائیں گے اور وہ بھی رک جائیں گے کوئی بھی غالب نہیں ہوگا اور شرط ختم ہوجائے گی پھر مسلمان موت کی شرط لگائیں گے کہ لڑائی سے لوٹیں گے مگر غالب ہو کر وہ لڑائی کریں گے یہاں تک کہ شام ہوجائے گی یہ بھی رک جائیں گے اور وہ بھی رک جائیں گے کوئی بھی غالب نہیں ہوگا اور شرط ختم ہوجائے گی پس جب چوتھا دن ہوگا اہل اسلام کا لشکر ان پر حملہ کرے گا پس اللہ تعالیٰ ان (دشمنان اسلام) پر شکست مقررکر دیں گے ان کے درمیان زبردست لڑائی ہوگی جس کی مثل کبھی نہیں دیکھی گئی ہوگی یہاں تک کہ پرندہ ان پر سے گزرے گا ان سے آگے نہیں بڑھے گا یہاں تک کہ مر کر گرجائے گا ایک باپ کی اولاد جو سو ہوگی وہ واپس لوٹیں گے ان میں سے صرف ایک آدمی بچے گا کس غنیمت پر خوشی ہوگی اور کونسی میراث تقسیم ہوگی۔ اس اثناء میں کہ وہ اسی طرح ہوں گے کہ ناگاہ اس سے بڑی لڑائی کے بارے میں سنیں گے ایک چیخنے والا ان کے پاس آئے گا اور (کہے گا) کہ دجال اپنی ذریت میں موجود ہے جو چیزیں ان کے قبضے میں ہوں گی انھیں چھوڑ کر متوجہ ہوں گے اور دس سواروں کو بطور دشمن کے حالات معلوم کرنے والوں کے پاس بھیجے گا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا بلاشبہ میں ان کے اور ان کے آباء کے ناموں کو اور ان کے گھوڑوں کے رنگوں کو بھی پہچانتا ہوں وہ زمین کی پشت پر بہترین شہ سواروں میں ہوں گے۔

38635

(۳۸۶۳۶) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَۃَ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ زَیْدٍ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ أَبِی بَکْرَۃَ، عَنْ أَبِیہِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: یَمْکُثُ أَبَوَا الدَّجَّالِ ثَلاَثِینَ عَامًا لاَ یُولَدُ لَہُمَا، ثُمَّ یُولَدُ لَہُمَا غَُلاَمٌ أَعْوَرُ أَضَرُّ شَیْئٍ وَأَقَلُّہُ نَفْعًا ، تَنَامُ عَیْنَاہُ وَلاَ یَنَامُ قَلْبُہُ ، ثُمَّ نَعَتَ أَبَوَیْہِ ، فَقَالَ : أَبُوہُ رَجُلٌ طُوَالٌ ضَرْبُ اللَّحْمِ طَوِیلُ الأَنْفِ ، کَأَنَّ أَنْفَہُ مِنْقَارٌ وَأُمُّہُ امْرَأَۃٌ فِرْضَاخِیَّۃٌ عَظِیمَۃُ الثَّدْیَیْنِ۔ (احمد ۴۰۔ طیالسی ۸۶۵)
(٣٨٦٣٦) حضرت ابو بکرہ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا دجال کے والدین تیس سال تک ٹھہریں گے ان کی اولاد نہیں ہوگی پھر ان کا کانا بیٹا پیدا ہوگا جس کا نقصان زیادہ ہوگا اور نفع کم ہوگا اس کی آنکھیں سوئیں گی اور اس کا دل نہیں سوئے گا پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دجال کے ماں باپ کے بارے میں بتلایا اور ارشاد فرمایا اس کا باپ لمبا اور دبلا اور لمبے ناک والا ہوگا گویا کہ اس کا ناک چونچ کی (کی طرح) ہوگا اور اس کی ماں بڑے پستانوں والی ہوگی۔

38636

(۳۸۶۳۷) حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُوسَی، قَالَ: حدَّثَنَا شَیْبَانُ، عَنْ یَحْیَی، عَنْ أَبِی سَلَمَۃَ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا ہُرَیْرَۃَ یَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : أَلاَ أُحَدِّثُکُمْ عَنِ الدَّجَّالِ حَدِیثًا مَا حَدَّثَہُ نَبِیٌّ قَوْمَہُ : إِنَّہُ أَعْوَرُ وَإِنَّہُ یَجِیئُ مَعَہُ بِمِثْلِ الْجَنَّۃِ وَالنَّارِ، فَالَّتِی یَقُولُ: ہِیَ الْجَنَّۃُ، ہِیَ النَّارُ، وَإِنِّی أُنْذِرُکُمْ بِہِ کَمَا أَنْذَرَ بِہِ نُوحٌ قَوْمَہُ۔ (بخاری ۳۳۳۸۔ مسلم ۲۲۵۰)
(٣٨٦٣٧) حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ ارشاد سنا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میں تمہیں دجال کے بارے میں ایسی حدیث نہ سناؤں جو کسی نبی نے اپنی قوم سے بیان نہیں کی بلاشبہ وہ کانا ہے اور بلاشبہ اس کے ساتھ جنت اور جہنم کی مثل آئے گی جس کے بارے میں وہ کہے گا وہ جنت ہے وہ آگ ہوگی اور میں تمہیں اس سے ایسے ڈراتا ہوں جیسے نوح نے اپنی قوم کو اس سے ڈرایا۔

38637

(۳۸۶۳۸) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا مِسْعَرٌ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاہِیمَ ، عَن أَبِیہِ ، عَنْ أَبِی بَکْرَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لاَ یَدْخُلُ الْمَدِینَۃَ رُعْبُ الْمَسِیحِ الدَّجَّالِ ، لَہَا یَوْمَئِذٍ سَبْعَۃُ أَبْوَابٍ، لِکُلِّ بَابٍ مَلَکَانِ۔
(٣٨٦٣٨) حضرت ابو بکرہ سے روایت ہے فرمایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا مدینہ منورہ میں مسیح دجال کا رعب و دبدبہ داخل نہ ہوگا مدینہ کے اس وقت سات دروازے ہوں گے ہر دروازے کے لیے دو فرشتے مقرر ہوں گے۔

38638

(۳۸۶۳۹) حَدَّثَنَا شَبَابَۃُ ، قَالَ : حدَّثَنَا شُعْبَۃُ ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ إیَاسٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ شَقِیقٍ ، عَنْ رَجَائِ بْنِ أَبِی رَجَائٍ ، قَالَ : دَخَلَ بُرَیْدَۃُ الْمَسْجِدَ وَمِحْجَنٌ عَلَی بَابِ الْمَسْجِدِ وَسَکَبَۃُ یُصَلِّی ، فَقَالَ : بُرَیْدَۃُ وَکَانَ فِیہِ مِزَاحٌ : أَلاَ تُصَلِّی کَمَا یُصَلِّی سَکَبَۃُ ، فَقَالَ مِحْجَنٌ : إِنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَخَذَ بِیَدِی فَصَعِدَ عَلَی أُحُدٍ وَأَشْرَفَ عَلَی الْمَدِینَۃِ ، فَقَالَ : وَیْلُ أُمِّہَا مَدِینَۃٌ یَدَعُہَا أَہْلُہَا وَہِیَ خَیْرُ مَا کَانَتْ ، أَوْ أَعْمَرُ مَا کَانَتْ ، یَأْتِیہَا الدَّجَّالُ فَیَجِدُ عَلَی کُلِّ بَابٍ مِنْ أَبْوَابِہَا مَلَکًا مُصْلِتًا بِجَنَاحَیْہِ فَلاَ یَدْخُلُہَا۔ (احمد ۳۳۸۔ طیالسی ۱۲۹۵)
(٣٨٦٣٩) حضرت رجاء بن ابی رجاء سے روایت ہے انھوں نے فرمایا حضرت بریدہ مسجد میں داخل ہوئے اور حضرت محجن مسجد کے دروازے پر تھے اور سکبہ نماز پڑھ رہے تھے حضرت بریدہ نے فرمایا کیا تم نماز پڑھو گے جیسے سکبہ نماز پڑھ رہے ہیں حضرت محجن نے فرمایا بلاشبہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے میرا ہاتھ پکڑا پس احد پر چڑھے اور مدینہ کی طرف جھانکا اور ارشاد فرمایا اس کی ماں کے لیے ہلاکت ہے مدینہ اس کو وہاں کے رہنے والے چھوڑ دیں گے حالانکہ وہ پہلے سے زیادہ بہتر ہوگا ( یا راوی فرماتے ہیں) یوں فرمایا مدینہ منورہ پہلے سے زیادہ آباد ہوگا دجال وہاں آئے گا پس اس کے دروازوں میں سے ہر دروازے پر فرشتہ پائے گا جو اپنے پر کھولے ہوئے ہوگا پس وہ مدینہ میں داخل نہیں ہوسکے گا۔

38639

(۳۸۶۴۰) حَدَّثَنَا الْمُعَلَّی بْنُ مَنْصُورٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِیَادٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا الْحَارِثُ بْنُ حَصِیرَۃَ ، عَنْ زَیْدِ بْنِ وَہْبٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا ذَرٍّ یَقُولُ : لأَنْ أَحْلِفَ عَشْرًا ، أَنَّ ابْنَ صَیَّادٍ ہُوَ الدَّجَّالُ أَحَبُّ إلَیَّ مِنْ أَنْ أَحْلِفَ وَاحِدَۃً ، إِنَّہُ لَیْسَ بِہِ ، وَذَلِکَ لِشَیْئٍ سَمِعْتُہُ مِنْ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، بَعَثَنِی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِلَی أُمِّ ابْنِ صَیَّادٍ ، فَقَالَ : سَلْہَا کَمْ حَمَلَتْ بِہِ ، فَقَالَتْ : حَمَلْت بِہِ اثْنَیْ عَشَرَ شَہْرًا فَأَتَیْتہ فَأَخْبَرْتہ ، فَقَالَ : سَلْہَا عَنْ صَبِیحَتِہِ حَیْثُ وَقَعَ ، قَالَتْ صَاحَ صِیَاحَ صَبِیِّ ابْنِ شَہْرَیْنِ ، قَالَ : أَوَ قَالَ لَہُ : رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إنِّی قَدْ خَبَّأْت لَکَ خَبِیئًا ، فَقَالَ : خَبَّأْت لِی عَظْمَ شَاۃٍ عَفْرَائَ، وَأَرَادَ أَنْ یَقُولَ : وَ(الدُّخَانَ) ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : اخْسَأْ فَإِنَّک لَنْ تَسْبِقَ الْقَدَرَ۔ (احمد ۱۴۸۔ بزار ۳۹۸۳)
(٣٨٦٤٠) حضرت ابو ذر سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ میں دس مرتبہ قسم کھاؤں کہ ابن صیاد وہی دجال ہے مجھے یہ زیادہ پسندیدہ ہے اس بات سے کہ میں ایک مرتبہ قسم کھاؤں کہ وہ دجال نہیں ہے اور یہ اس وجہ سے ہے کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس سلسلے میں کچھ سنا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے ابن صیاد کی ماں کے پاس بھیجا اور فرمایا کہ اس سے پوچھنا وہ اس سے کتنی دیر حاملہ رہی اس نے کہا میں اس سے بارہ مہینے حاملہ رہی راوی فرماتے ہیں میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا اور میں نے آپ کو بتلایا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس سے پوچھوا س کے چیخنے کے بارے میں تو اس کے ماں نے بتلایا یہ چیخا دو مہینے کی طرح اس ابن صیاد نے کہا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے فرمایا کہ میں نے تمہارے لیے ایک بات دل میں چھپائی ہے اس نے کہا کہ آپ نے میرے لیے سفید بکری کی ہڈی کو چھپایا ہے اور یہ کہنا چاہتا تھا کہ دخان حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا دور ہوجا تو تقدیر سے نہیں بڑھ سکتا۔

38640

(۳۸۶۴۱) حدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ نُجَیٍّ ، عَنْ عَلِیٍّ ، قَالَ : کُنَّا عِنْدَ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ جُلُوسًا وَہُوَ نَائِمٌ ، فَذَکَرْنَا الدَّجَّالَ فَاسْتَیْقَظَ مُحْمَرًّا وَجْہُہُ ، فَقَالَ : غَیْرُ الدَّجَّالِ أَخْوَفُ عَلَیْکُمْ عِنْدِی مِنَ الدَّجَّالِ : أَئِمَّۃٌ مُضِلُّونَ۔ (احمد ۹۸۔ ابویعلی ۴۶۲)
(٣٨٦٤١) حضرت علی سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ ہم حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس بیٹھے ہوئے تھے اس حال میں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سوئے ہوئے تھے ہم نے دجال کا تذکرہ کیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیدار ہوئے اس حال میں کہ چہرہ سرخ تھا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا دجال کے علاوہ لوگوں سے مجھے تمہارے بارے میں دجال سے زیادہ خوف ہے اور وہ گمراہ کرنے والے ائمہ ہیں۔

38641

(۳۸۶۴۲) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا عَلِیُّ بْنُ مَسْعَدَۃَ ، عَنْ رِیَاحِ بْنِ عَبِیْدَۃَ ، عَنْ یُوسُفَ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ سَلاَمٍ ، قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللہِ بْنُ سَلاَمٍ : یَمْکُثُ النَّاسُ بَعْدَ خُرُوجِ الدَّجَّالِ أَرْبَعِینَ عَامًا ، وَیُغْرَسُ النَّخْلُ وَتَقُومُ الأَسْوَاقُ۔
(٣٨٦٤٢) حضرت عبداللہ بن سلام سے روایت ہے کہ لوگ دجال کے نکلنے کے بعد چالیس سال ٹھہریں گے اور کھجور اگائی جائے گی اور بازار قائم ہوں گے۔

38642

(۳۸۶۴۳) حَدَّثَنَا یَعْلَی بْنُ عُبَیْدٍ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ مَیْسَرَۃَ ، عَنْ طَارِقِ بْنِ شِہَابٍ ، عَنْ حُذَیْفَۃَ ، قَالَ : لَقَدْ صُنِعَ بَعْضُ فِتْنَۃِ الدَّجَّالِ ، وَإِنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَحَیٌّ۔
(٣٨٦٤٣) حضرت حذیفہ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا دجال کا فتنہ بنایا جا چکا تھا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بقید حیات تھے۔

38643

(۳۸۶۴۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ بْنِ أَبِی خَالِدٍ ، عَنْ حَکِیمِ بْنِ جَابِرٍ ، قَالَ : قَالَ حُذَیْفَۃُ : مَا خُرُوجُ الدَّجَّالِ بِأَکْرَثَ لِی مِنْ قِیْسِ اللِّجَامِ۔ (نعیم ۱۵۵۵)
(٣٨٦٤٤) حضرت حذیفہ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا دجال کا نکلنا مجھ پر میری سواری کی لگام گم ہونے سے زیادہ سخت نہیں ہے۔

38644

(۳۸۶۴۵) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا أَبُو یَعْفُورٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا عَمْرٍو الشَّیْبَانِیَّ یَقُولُ : کُنْت عِنْدَ حُذَیْفَۃَ جَالِسًا إذْ جَائَ أَعْرَابِیٌّ حَتَّی جَثَا بَیْنَ یَدَیْہِ ، فَقَالَ : أَخَرَجَ الدَّجَّالُ ؟ فَقَالَ لَہُ حُذَیْفَۃُ : وَمَا الدَّجَّالُ إِنَّ مَا دُونَ الدَّجَّالِ أَخْوَفُ مِنَ الدَّجَّالِ ، إنَّمَا فِتْنَتُہُ أَرْبَعُونَ لَیْلَۃً۔
(٣٨٦٤٥) حضرت ابو عمرو شیبانی فرماتے ہیں میں حضرت حذیفہ کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ ایک اعرابی آیا یہاں تک کہ ان کے سامنے گھٹنے ٹیک کر بیٹھ گیا اور کہنے لگا کیا دجال نکل آیا ہے حضرت حذیفہ نے اس سے کہا دجال کیا ہے بلاشبہ دجال سے پہلے کی چیزوں سے مجھے زیادہ خوف ہے دجال کی بہ نسبت بلاشبہ اس کا فتنہ تو چالیس راتیں ہوگا۔

38645

(۳۸۶۴۶) حَدَّثَنَا یُونُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَۃَ ، عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ أَبِی طَلْحَۃَ ، عَنْ أَنَسٍ ، أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : إِنَّ الدَّجَّالَ یَطْوِی الأَرْضَ کُلَّہَا إِلاَّ مَکَّۃَ وَالْمَدِینَۃَ ، قَالَ : فَیَأْتِی الْمَدِینَۃَ فَیَجِدُ بِکُلِّ نَقْبٍ مِنْ أَنْقَابِہَا صُفُوفًا مِنَ الْمَلاَئِکَۃِ ، فَیَأْتِی سَبْخَۃَ الْجُرْفِ فَیَضْرِبُ رِوَاقَہُ ، ثُمَّ تَرْجُفُ الْمَدِینَۃُ ثَلاَثَ رَجَفَاتٍ ، فَیَخْرُجُ إلَیْہِ کُلُّ مُنَافِقٍ وَمُنَافِقَۃٍ۔
(٣٨٦٤٦) حضرت انس سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا بلاشبہ دجال کے لیے ساری دنیا سمٹ جائے گی سوائے مکہ اور مدینہ کے پس وہ مدینہ منورہ آئے گا اس کے راستوں میں سے ہر راستے پر فرشتوں کی صفیں پائے گا مقام سبخۃ الجرف میں آئے گا اس کے کھلے میدان میں ضرب لگائے گا مدینہ میں تین مرتبہ بھونچال آئے گا ہر منافق مرد اور منافقہ عورت اس کے ساتھ مل جائیں گے۔

38646

(۳۸۶۴۷) حَدَّثَنَا أَبُو الْمُوَرِّعِ ، قَالَ : حدَّثَنَا الأَجْلَحُ ، عَنْ قَیْسِ بْنِ أَبِی مُسْلِمٍ ، عَنْ رِبْعِیِّ بْنِ حِرَاشٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ حُذَیْفَۃَ یَقُولُ : لَوْ خَرَجَ الدَّجَّالُ لآمَنَ بِہِ قَوْمٌ فِی قُبُورِہِمْ۔
(٣٨٦٤٧) حضرت حذیفہ سے روایت ہے ارشاد فرمایا اگر دجال نکل آئے تو کچھ لوگ اس پر اپنی قبروں میں ایمان لے آئیں۔

38647

(۳۸۶۴۸) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، أَنَّ عُمَرَ سَأَلَ رَجُلاً مِنَ الْیَہُودِ عَنْ أَمْرٍ فَقَالَ : قَدْ بَلَوْتُ مِنْکَ صِدْقًا ، فَحَدِّثْنِی عَنِ الدَّجَّالِ ، فَقَالَ : وَإِلَہُ یَہُودٍ ، لَیَقْتُلَنَّہُ ابْنُ مَرْیَمَ بِفِنَائِ لُدٍّ۔
(٣٨٦٤٨) حضرت عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ حضرت عمر نے یہود میں سے ایک آدمی سے کسی چیز کے بارے میں پوچھا اور فرمایا میں نے تمہیں سچا پایا ہے پس مجھ سے دجال کے بارے میں بیان کرو اس نے کہا یہود کے معبود کی قسم عیسیٰ بن مریم ضرور بالضرور مقام لد کے قریب اسے قتل کریں گے۔

38648

(۳۸۶۴۹) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ خَیْثَمَۃ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو ، قَالَ: یَنْزِلُ الْمَسِیحُ بْنُ مَرْیَمَ، فَإِذَا رَآہُ الدَّجَّالُ ذَابَ کَمَا تَذُوبُ الشَّحْمَۃُ ، قَالَ : فَیَقْتُلُ الدَّجَّالَ ، وَتَفَرَّقَ عَنْہُ الْیَہُودُ ، فَیُقْتَلُونَ حَتَّی إِنَّ الْحَجَرَ یَقُولُ : یَا عَبْدَ اللہِ الْمُسْلِمُ ، ہَذَا یَہُودِی ، فَتَعَالَ فَاقْتُلْہُ۔ (نعیم ۱۶۱۲)
(٣٨٦٤٩) حضرت عبداللہ بن عمرو سے روایت ہے انھوں نے فرمایا حضرت عیسیٰ بن مریم اتریں گے جب دجال ان کو دیکھے گا تو پگھلے گا جیسے چربی پگھلتی ہے فرمایا کہ دجال لڑائی کرے گا اور یہود اس سے جدا ہوجائیں گے ان یہود کو قتل کیا جائے گا یہاں تک کہ پتھر کہے گا اے اللہ کے مسلمان بندے یہ یہودی ہے آؤ اور اسے قتل کرو۔

38649

(۳۸۶۵۰) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ رَفَعَہُ ، قَالَ : لاَ تَقُومُ السَّاعَۃُ حَتَّی یَنْزِلَ عِیسَی ابْنُ مَرْیَمَ علیہما السلام حَکَمًا مُقْسِطًا ، وَإِمَامًا عَادِلاً ، فَیَکْسِرُ الصَّلِیبَ ، وَیَقْتُلُ الْخِنْزِیرَ ، وَیَضَعُ الْجِزْیَۃَ ، وَیَفِیضُ الْمَالُ ، حَتَّی لاَ یَقْبَلَہُ أَحَدٌ۔ (بخاری ۴۴۱۸۔ مسلم ۲۱۲۰)
(٣٨٦٥٠) حضرت ابوہریرہ مرفوعاً نقل کرتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا قیامت قائم نہیں ہوگی یہاں تک کہ عیسیٰ بن مریم اتریں گے انصاف کرنے والے فیصل اور عادل امام ہوں گے پس صلیب توڑیں گے اور خنزیر کو قتل کریں گے اور جزیہ اٹھا دیں گے اور مال کثرت سے ہوجائے گا یہاں تک کہ اسے کوئی بھی قبول نہیں کرے گا۔

38650

(۳۸۶۵۱) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ حَنْظَلَۃَ الأَسْلَمِیِّ ، قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا ہُرَیْرَۃَ یَقُولُ : وَالَّذِی نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہِ ، لَیُہِلَّنَّ ابْنُ مَرْیَمَ بِفَجِّ الرَّوْحَائِ حَاجًّا ، أَوْ مُعْتَمِرًا ، أَوْ لَیُثَنِّیَنَّہُمَا۔
(٣٨٦٥١) حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جان ہے حضرت عیسیٰ بن مریم مقام فج الروحاء سے حج یا عمرے کا احرام باندھیں گے یا دونوں کو ملا کر دونوں کا احرام باندھیں گے۔

38651

(۳۸۶۵۲) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَنِ الشَّیْبَانِیِّ ، عَنْ حَسَّانَ بْنِ الْمُخَارِقِ ، عَنْ عَقَّارِ بْنِ الْمُغِیرَۃِ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : إِنَّ الْمَسَاجِدَ لَتُجَدَّدُ لِخُرُوجِ الْمَسِیحِ وَإِنَّہُ سَیَخْرُجُ فَیَکْسِرُ الصَّلِیبَ ، وَیَقْتُلُ الْخِنْزِیرَ ، وَیُؤْمِنُ بِہِ مَنْ أَدْرَکَہُ ، فَمَنْ أَدْرَکَہُ مِنْکُمْ فَلْیُقْرِئْہُ مِنِّی السَّلاَمَ ، ثُمَّ الْتَفَتَ إلَیَّ ، فَقَالَ : یَا ابْنَ أَخِی ، إنِّی أَرَاک مِنْ أَحْدَثِ الْقَوْمِ ، فَإِنْ أَدْرَکْتہ فَأَقْرِئْہُ مِنِّی السَّلاَمَ۔ (نعیم ۱۶۰۰)
(٣٨٦٥٢) حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا مسجدیں حضرت عیسیٰ کے آنے پر نئی ہوں گی وہ عنقریب نکلیں گے اور صلیب کو توڑیں گے اور خنزیر کو قتل کریں گے اور ان پر ایمان لائے گا جو ان کو پائے گا جو کوئی تم میں سے ان کو پالے تو ان کو میری جانب سے سلام کہے پھر میری طرف متوجہ ہوئے (یہ راوی حضرت عقار بن مغیرہ کا قول ہے) اور فرمایا اے بھتیجے ! میں تمہیں لوگوں میں سب سے زیادہ نو عمر سمجھتا ہوں۔ لہٰذا اگر تو ان کو پالے تو ان کو میرا سلام کہنا۔

38652

(۳۸۶۵۳) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِ ، عَنْ سِمَاکٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ إبْرَاہِیمَ یَقُولُ : إِنَّ الْمَسِیحَ خَارِجٌ فَیَکْسِرُ الصَّلِیبَ، وَیَقْتُلُ الْخِنْزِیرَ ، وَیَضَعُ الْجِزْیَۃَ۔
(٣٨٦٥٣) حضرت سماک سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ میں نے حضرت ابراہیم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ بلاشبہ حضرت عیسیٰ نکلنے والے ہیں وہ صلیب کو توڑ دیں گے اور خنزیر کو قتل کریں گے اور جزیہ اٹھا دیں گے۔

38653

(۳۸۶۵۴) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ أَبِی عَرُوبَۃَ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ، قَالَ : قَالَ أَبُو بَکْرٍ : ہَلْ بِالْعِرَاقِ أَرْضٌ یُقَالُ لَہَا خُرَاسَانُ ، قَالُوا : نَعَمْ ، قَالَ : فَإِنَّ الدَّجَّالَ یَخْرُجُ مِنْہَا۔
(٣٨٦٥٤) حضرت سعید بن المسیب سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ حضرت ابوبکر نے پوچھا کیا عراق میں ایسی زمین ہے جسے خراسان کہا جاتا ہے لوگوں نے عرض کیا جی ہاں تو حضرت ابوبکر نے ارشاد فرمایا یقیناً وہاں سے دجال نکلے گا۔

38654

(۳۸۶۵۵) حُدِّثْتُ ، عَنْ رَوْحِ بْنِ عُبَادَۃَ ، عَنِ ابْنِ أَبِی عَرُوبَۃَ ، عَنْ أَبِی التَّیَّاحِ ، عَنِ الْمُغِیرَۃِ بْنِ سُبَیْعٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ حُرَیْثٍ ، عَنْ أَبِی بَکْرٍ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : الدَّجَّالُ یَخْرُجُ مِنْ خُرَاسَانَ۔ (ترمذی ۲۲۳۷۔ بزار ۴۶)
(٣٨٦٥٥) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے حضرت ابوبکر روایت کرتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا دجال خراسان سے نکلے گا۔

38655

(۳۸۶۵۶) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاہِیمَ ، عَن أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : یَہْبِطُ الدَّجَّالُ مِنْ خوز وَکَرْمَانَ مَعَہُ ثَمَانُونَ أَلْفًا عَلَیْہِمُ الطَّیَالِسَۃُ ، یَنْتَعِلُونَ الشَّعْرَ کَأَنَّ وُجُوہَہُمْ مَجَانٌّ مُطْرَقَۃٌ۔
(٣٨٦٥٦) حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے انھوں نے ارشاد فرمایا کہ دجال مقام خوز اور کرمان سے اترے گا اس کے ساتھ اسی ہزار لوگ ہوں گے جن پر سبز رنگ کی چادریں ہوں گی ان کے بال ان کے پاؤں تک ہوں گے اور ان کے چہرے گویا کہ پھولی ہوئی ڈھال کی طرح ہوں گے (یعنی وہ ڈھال جس پر کرتے لپٹے ہوں)

38656

(۳۸۶۵۷) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ وَوَکِیعٌ ، عَنْ مِسْعَرٍ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ مَیْسَرَۃَ ، عَنْ حَوْطٍ الْعَبْدِیِّ ، قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللہِ : إِنَّ أُذُنَ حِمَارِ الدَّجَّالِ لَتُظِلُّ سَبْعِینَ أَلْفًا۔
(٣٨٦٥٧) حضرت عبداللہ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا یقیناً دجال کے گدھے کے کان ستر ہزار کو ڈھانپ لیں گے۔

38657

(۳۸۶۵۸) حَدَّثَنَا الْمُحَارِبِیُّ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ بِشْرٍ ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ : إِنَّ بَیْنَ یَدَی الدَّجَّالِ لنیفا وَسَبْعِینَ دَجَّالاً۔
(٣٨٦٥٨) حضرت انس سے روایت ہے انھوں نے فرمایا بلاشبہ دجال سے پہلے ستر سے اوپر دجال ہوں گے (یعنی چھوٹے دجال)

38658

(۳۸۶۵۹) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَنْ زَائِدَۃَ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ عُمَیْرٍ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَۃَ ، عَنْ نَافِعِ بْنِ عُتْبَۃَ بْنِ أَبِی وَقَّاصٍ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : تُقَاتِلُونَ جَزِیرَۃَ الْعَرَبِ فَیَفْتَحُہَا اللَّہُ ، ثُمَّ تُقَاتِلُونَ فَارِسَ فَیَفْتَحُہَا اللَّہُ ، ثُمَّ تُقَاتِلُونَ الرُّومَ فَیَفْتَحُہَا اللَّہُ ، ثُمَّ تُقَاتِلُونَ الدَّجَّالَ فَیَفْتَحُہُ اللَّہُ ، قَالَ جَابِرٌ : فَلاَ یَخْرُجُ الدَّجَّالُ حَتَّی تُفْتَحَ الرُّومُ۔ (احمد ۱۷۸۔ ابن حبان ۶۸۰۹)
(٣٨٦٥٩) حضرت نافع بن عتبہ بن ابی وقاص سے روایت ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا تم جزیرۃ العرب سے لڑائی کرو گے اللہ تعالیٰ فتح عطا فرمائیں گے پھر تم فارس والوں سے لڑائی کرو گے اللہ تعالیٰ فتح عطا فرمائیں گے پھر تم روم والوں سے لڑائی لڑوگے اللہ تعالیٰ تمہیں فتح عطا فرمائیں گے پھر تم دجال سے لڑائی کرو گے اللہ تعالیٰ اس پر تمہیں فتح عطا کریں گے حضرت جابر بن سمرہ نے فرمایا دجال خروج نہیں کرے گا یہاں تک کہ روم فتح ہوجائے ۔

38659

(۳۸۶۶۰) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَنْ زَائِدَۃَ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ ، عَنْ رِبْعِیِّ بْنِ حِرَاشٍ ، قَالَ : قَالَ عُقْبَۃُ بْنُ عَمْرٍو لِحُذَیْفَۃَ : أَلاَ تُحَدِّثُنَا بِمَا سَمِعْت من رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : بَلَی سَمِعْتہ یَقُولُ : إِنَّ مَعَ الدَّجَّالِ إِذَا خَرَجَ مَائً وَنَارًا ، فَأَمَّا الَّذِی یَرَی النَّاسُ مَائً فَنَارٌ تُحْرِقُ ، وَأَمَّا الَّذِی یَرَی النَّاسُ ، أَنَّہُ نَارٌ فَمَائٌ عَذْبٌ بَارِد ، فَمَنْ أَدْرَکَ مِنْکُمْ ذَلِکَ فَلْیَقَعْ فِی الَّذِی یَرَی ، أَنَّہُ نَارٌ فَإِنَّہُ مَائٌ عَذْبٌ بَارِدٌ ، قَالَ عُقْبَۃُ : وَأَنَا سَمِعْتُہُ یَقُولُ ذَلِکَ۔ (بخاری ۳۴۵۰۔ مسلم ۲۲۵۰)
(٣٨٦٦٠) حضرت ربعی بن حراش سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ حضرت عقبہ بن عمرو نے حضرت حذیفہ سے کہا کیا ہمیں وہ باتیں نہیں سناتے جو آپ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنیں انھوں نے فرمایا کیوں نہیں میں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ دجال جب نکلے گا تو اس کے ساتھ پانی اور آگ ہوگی باقی وہ جسے لوگ آگ خیال کریں گے وہ میٹھا اور ٹھنڈا پانی ہوگا جو تم میں سے یہ صورتحال پالے تو وہ جسے آگ سمجھ رہا ہے اس میں گرجائے یقیناً وہ میٹھا ٹھنڈا پانی ہوگا حضرت عقبہ نے فرمایا میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ایسے ہی فرماتے ہوئے سنا ہے۔

38660

(۳۸۶۶۱) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ، عَنْ زَائِدَۃَ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ مُجَاہِدٍ، قَالَ: حدَّثَنَا جُنَادَۃُ بْنُ أَبِی أُمَیَّۃَ الدَّوْسِیُّ، قَالَ : دَخَلْت أَنَا وَصَاحِبٌ لِی عَلَی رَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَقُلْنَا: حَدِّثْنَا مَا سَمِعْت مِنْ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَلاَ تُحَدِّثْنَا عَنْ غَیْرِہِ ، وَإِنْ کَانَ عِنْدَکَ مُصَدَّقًا ، قَالَ : نَعَمْ ، قَامَ فِینَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ذَاتَ یَوْمٍ ، فَقَالَ : أُنْذِرُکُمُ الدَّجَّالَ ، أُنْذِرُکُمُ الدَّجَّالَ ، أُنْذِرُکُمُ الدَّجَّالَ ، فَإِنَّہُ لَمْ یَکُنْ نَبِیٌّ إِلاَّ وَقَدْ أَنْذَرَہُ أُمَّتَہُ ، وَإِنَّہُ فِیکُمْ أَیَّتُہَا الأُمَّۃُ ، وَإِنَّہُ جَعْدٌ آدَم مَمْسُوحُ الْعَیْنِ الْیُسْرَی ، وَإِنَّ مَعَہُ جَنَّۃً وَنَارًا ، فَنَارُہُ جَنَّۃٌ وَجَنَّتُہُ نَارٌ ، وَإِنَّ مَعَہُ نَہْرَ مَائٍ وَجَبَلَ خُبْزٍ ، وَإِنَّہُ یُسَلَّطُ عَلَی نَفْسٍ فَیَقْتُلُہَا ، ثُمَّ یُحْیِیہَا ، لاَ یُسَلَّطُ عَلَی غَیْرِہَا ، وَإِنَّہُ یُمْطِرُ السَّمَائَ وَلاَ تُنْبِتُ الأَرْضُ ، وَإِنَّہُ یَلْبَثُ فِی الأَرْضِ أَرْبَعِینَ صَبَاحًا حَتَّی یَبْلُغَ مِنْہَا کُلَّ مَنْہَلٍ ، وَإِنَّہُ لاَ یَقْرَبُ أَرْبَعَۃَ مَسَاجِدَ : مَسْجِدَ الْحَرَامِ وَمَسْجِدَ الرَّسُولِ وَمَسْجِدَ الْمَقْدِسِ وَالطُّورِ، وَمَا شُبِّہَ عَلَیْکُمْ مِنَ الأَشْیَائِ فَإِنَّ اللَّہَ لَیْسَ بِأَعْوَرَ مَرَّتَیْنِ۔ (احمد ۴۳۵)
(٣٨٦٦١) حضرت جنادہ بن ابی امیہ دوسی سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ میں اور میرا ایک ساتھی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب میں سے ایک کے پاس گیا فرمایا کہ ہم نے کہا ہم سے وہ بیان کریں جو آپ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا ہے اور کسی سے کوئی بات بیان نہ کریں اگرچہ وہ تمہارے نزدیک سچا ہو انھوں نے فرمایا ہاں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک دن ہمارے درمیان کھڑے ہوئے اور فرمایا میں تمہیں دجال سے ڈراتا ہوں میں تمہیں دجال سے ڈراتا ہوں میں تمہیں دجال سے ڈراتا ہوں بلاشبہ کوئی بھی نبی نہیں گزرے مگر انھوں نے اپنی امت کو ڈرایا اور اے امت بلاشبہ وہ تمہارے اندر ہوگا بلاشبہ وہ گنگھریالے بالوں والا ہے گندمی رنگ والا ہے اور اس کی دائیں آنکھ مٹی ہوئی ہوگی اور اس کے ساتھ جنت اور آگ ہوگی اس کی آگ جنت ہوگی اور اس کی جنت آگ ہوگی اور بلاشبہ اس کے ساتھ پانی کی نہر اور روٹی کا پہاڑ ہوگا اور اسے ایک جان پر مسلط کیا جائے گا وہ اسے قتل کرے گا پھر اسے زندہ کرے گا کسی اور پر اسے مسلط نہیں کیا جائے گا وہ آسمان سے بارش اتارے گا اور زمین کوئی چیز نہیں اگائے گی اور وہ زمین میں چالیس صبحیں ٹھہرے گا یہاں تک کہ زمین میں ہر گھاٹ پر پہنچے گا اور وہ چار مساجد کے قریب نہیں جائے گا مسجد الحرام اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مسجد اور بیت المقدس کی مسجد اور طور کی مسجد اور کوئی چیز تم پر مشتبہ نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کانا نہیں ہے یہ دو مرتبہ ارشاد فرمایا (اور وہ کانا ہے)

38661

(۳۸۶۶۲) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَنْ زَائِدَۃَ ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِیزِ بْنِ رُفَیْعٍ ، عَنْ أَبِی عَمْرٍو الشَّیْبَانِیِّ ، عَنْ حُذَیْفَۃَ ، قَالَ : لاَ یَخْرُجُ الدَّجَّالُ حَتَّی لاَ یَکُونَ غَائِبٌ أَحَبَّ إِلَی الْمُؤْمِنِ خُرُوجًا مِنْہُ ، وَمَا خُرُوجُہُ بِأَضَرَّ لِلْمُؤْمِنِ مِنْ حَصَاۃٍ یَرْفَعُہَا مِنَ الأَرْضِ ، وَمَا عَلِمَ أَدْنَاہُمْ وَأَقْصَاہُمْ إِلاَّ سَوَائً۔
(٣٨٦٦٢) حضرت حذیفہ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا دجال نہیں نکلے گا یہاں تک اس کا غائب ہونا مومن کو اس کے نکلنے سے زیادہ پسندیدہ نہیں ہوگا اور اس کا نکلنا مومن کو اس کنکری سے زیادہ نقصان نہیں پہنچائے گا جو زمین سے اٹھاتا ہے اور مومنین میں سے قریبوں اور دور والوں کا علم (دجال کے بارے میں) برابر ہوگا۔

38662

(۳۸۶۶۳) حدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَنْ زَائِدَۃَ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ عُمَیْرٍ ، عَنْ شَہْرِ بْنِ حَوْشَبَ ، قَالَ : کَانَ عَبْدُ اللہِ جَالِسًا وَأَصْحَابُہُ ، فَارْتَفَعَتْ أَصْوَاتُہُمْ ، قَالَ : فَجَائَ حُذَیْفَۃُ ، فَقَالَ : مَا ہَذِہِ الأَصْوَاتُ یَا ابْنَ أُمِّ عَبْدٍ ، قَالَ : یَا أَبَا عَبْدِ اللہِ ، ذَکَرُوا الدَّجَّالَ وَتَخَوَّفْنَاہُ ، فَقَالَ حُذَیْفَۃُ : وَاللہِ مَا أُبَالِی أَہُوَ لَقِیت أَمْ ہَذِہِ الْعَنْزَ السَّوْدَائَ ، قَالَ عَبْدُ الْمَلِکِ لِعَنْزٍ تَأْکُلُ النَّوَی فِی جَانِبِ الْمَسْجِدِ ، قَالَ : فَقَالَ لَہُ عَبْدُ اللہِ : لِمَ ؟ لِلَّہِ أَبُوک ، قَالَ حُذَیْفَۃُ : لأَنَّا قَوْمٌ مُؤْمِنُونَ وَہُوَ امْرُؤٌ کَافِرٌ ، وَإِنَّ اللَّہَ سَیُعْطِینَا عَلَیْہِ النَّصْرَ وَالظَّفَرَ ، وَایْمُ اللہِ ، لاَ یَخْرُجُ حَتَّی یَکُونَ خُرُوجُہُ أَحَبَّ إِلَی الْمَرْئِ الْمُسْلِمِ مِنْ بَرْدِ الشَّرَابِ عَلَی الظَّمَأِ ، فَقَالَ عَبْدُ اللہِ : لِمَ ؟ لِلَّہِ أَبُوک ، فَقَالَ حُذَیْفَۃُ : مِنْ شِدَّۃِ الْبَلاَئِ وَجَنَادِعِ الشَّرِّ۔
(٣٨٦٦٣) حضرت شہر بن حوشب سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ حضرت عبداللہ بن مسعود اور ان کے ساتھی بیٹھے تھے ان کی آوازیں بلند ہوگئیں راوی نے فرمایا حضرت حذیفہ تشریف لائے اور فرمایا اے ابن ام عبد یہ آوازیں کیسی ہیں انھوں نے فرمایا اے ابو عبداللہ انھوں نے دجال کا تذکرہ چھیڑا اور ہم اس سے ڈر گئے حضرت حذیفہ نے فرمایا اللہ کی قسم میں پروا نہیں کرتا کہ میں اس سے ملوں یا اس سیاہ بکری کے بچے سے عبدالملک راوی کہتے ہیں اس بکری کے بچے کے بارے میں کہا جو مسجد کی ایک جانب میں کھجور کی گٹھلیاں کھا رہا تھا راوی نے کہا حضرت حذیفہ سے حضرت عبداللہ نے کہا کیوں اللہ کی جانب سے آپ کے باپ کی خوبی حضرت حذیفہ نے فرمایا ہم مومن لوگ ہیں اور وہ کافر آدمی ہیں اور بلاشبہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کے خلاف نصرت اور کامیابی عطا کریں گے اور اللہ کی قسم وہ نہیں نکلے گا یہاں تک کہ اس کا نکلنا مسلمان آدمی کے لیے پیاس میں مشروب کی ٹھنڈک سے زیادہ محبوب ہوگا حضرت عبداللہ نے پوچھا کس وجہ سے اللہ کی جانب سے خوبی ہے آپ کے باپ کے لیے حضرت حذیفہ نے فرمایا مصیبتوں کی شدت اور برائی کی آفات کی وجہ سے۔

38663

(۳۸۶۶۴) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا سُلَیْمَانُ التَّیْمِیُّ ، عَنْ أَبِی نَضْرَۃَ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ ، أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَقِیَ ابْنَ صَیَّادٍ وَمَعَہُ أَبُو بَکْرٍ ، وَعُمَرُ ، أَوَ قَالَ : رَجُلاَنِ ، فَقَالَ لَہُ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : أَتَشْہَدُ أَنِّی رَسُولُ اللہِ ، فَقَالَ : ابْنُ صَیَّادٍ : أَتَشْہَدُ أَنِّی رَسُولُ اللہِ ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ آمَنْت بِاللہِ وَرَسُولِہِ ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَا تَرَی ، فَقَالَ : ابْنُ صَیَّادٍ : أَرَی عَرْشًا عَلَی الْمَائِ ، فَقَالَ لَہُ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : تَرَی عَرْشَ إبْلِیسَ عَلَی الْبَحْرِ ، قَالَ : مَا تَرَی ، قَالَ : أَرَی صَادِقَینِ ، أَوْ کَاذِبَینِ ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لُبِسَ عَلَیْہِ لُبِسَ عَلَیْہِ فَدَعُوہُ۔ (مسلم ۲۲۴۱۔ احمد ۳۶۸)
(٣٨٦٦٤) حضرت جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ابن صیاد سے ملے اور آپ کے ساتھ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر تھے یا فرمایا دو آدمی تھے اس سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کیا تو گواہی دیتا ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں ابن صیاد نے جواب میں کہا کیا آپ گواہی دیتے ہیں کہ میں اللہ کا رسول ہوں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا میں اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لایا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا تم کیا دیکھتے ہو ابن صیاد نے کہا میں عرش کو پانی پر دیکھتا ہوں اس سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا تم ابلیس کے تخت کو سمندر پر دیکھ رہے ہو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا تم کیا دیکھتے ہو اس نے کہا دو سچے یا دو جھوٹے دیکھتا ہوں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس پر معاملہ مشتبہ ہوگیا اس پر معاملہ مشتبہ ہوگیا پس اسے چھوڑ دو ۔

38664

(۳۸۶۶۵) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، قَالَ : حدَّثَنَا ہِشَامُ بْنُ عُرْوَۃَ ، عَنْ فَاطِمَۃَ بِنْتِ الْمُنْذِرِ ، عَنْ أَسْمَائَ ، قَالَتْ : أَتَیْتُ عَائِشَۃَ فَإِذَا النَّاسُ قِیَامٌ وَإِذَا ہِیَ تُصَلِّی ، فَقُلْتُ : مَا شَأْنُ النَّاسِ ؟ فَأَشَارَتْ بِیَدِہَا نَحْوَ السَّمَائِ ، أَوْ قَالَتْ : سُبْحَانَ اللہِ ، فَقُلْتُ : آیَۃٌ ، فَأَشَارَتْ بِرَأْسِہَا أَنْ نَعَمْ ، فَأَطَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقُمْت حَتَّی تَجَلاَّنِی الْغَشْی ، وَجَعَلْت أَصُبُّ عَلَی رَأْسِی الْمَائَ ، قَالَتْ : فَحَمِدَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اللَّہَ وَأَثْنَی عَلَیْہِ بِمَا ہُوَ أَہْلُہُ وَقَالَ : مَا مِنْ شَیْئٍ لَمْ أَکُنْ رَأَیْتُہُ إِلاَّ قَدْ رَأَیْتُہُ فِی مَقَامِی ہَذَا حَتَّی الْجَنَّۃَ وَالنَّارَ ، وَقَدْ أُوحِیَ إلَیَّ أَنَّکُمْ تُفْتَنُونَ فِی الْقُبُورِ مِثْلَ ، أَوْ قَرِیبًا لاَ أَدْرِی أَیَّ ذَلِکَ ، قَالَتْ أَسْمَائُ : مِنْ فِتْنَۃِ الدَّجَّالِ۔ (مسلم ۶۲۷)
(٣٨٦٦٥) حضرت اسمائ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ میں حضرت عائشہ کے پاس گئی تو لوگ قیام میں کھڑے تھے اور وہ نماز پڑھ رہی تھیں میں نے عرض کیا لوگوں کی کیا حالت ہے انھوں نے ہاتھ سے آسمان کی طرف اشارہ کیا یا انھوں نے سبحان اللہ کہا میں نے عرض کیا کیا نشانی ہے انھوں نے سر سے اشارہ کیا کہ ہاں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لمبا قیام کیا (یہ نماز کسوف کا موقع تھا) میں کھڑی رہی یہاں تک کہ مجھے غشی ہوگئی میں اپنے سر پر پانی ڈالنا شروع ہوگئی حضرت اسماء نے فرمایا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ کی تعریف کی اور جس کا اہل ہے وہ اس کی تعریف و ثنا کی اور ارشاد فرمایا کوئی بھی چیز جو میں نے نہیں دیکھی تھی وہ میں نے اپنے اس مقام میں دیکھی یہاں تک کہ جنت اور جہنم بھی اور مجھ پر یہ وحی کی گئی ہے تمہیں قبروں کے اندر فتنے میں مبتلا کیا جائے گا دجال کے فتنے کی مثل یا یوں فرمایا دجال کے فتنے کے قریب راوی فرماتے ہیں مثل یا قریب کے الفاظ میں سے میں نہیں جانتا کہ حضرت اسمائ نے کیا ارشاد فرمایا۔

38665

(۳۸۶۶۶) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِی قَیْسٍ ، عَنِ الْہَیْثَم بْنِ الأَسْوَدِ ، قَالَ : خَرَجْت وَافِدًا فِی زَمَانِ مُعَاوِیَۃَ فَإِذَا مَعَہُ عَلَی السَّرِیرِ رَجُلٌ أَحْمَرُ کَثِیرُ غُضُونِ الْوَجْہِ ، فَقَالَ لِی مُعَاوِیَۃُ : تَدْرِی مَنْ ہَذَا ؟ ہَذَا عَبْدُ اللہِ بْنُ عَمْرٍو ، قَالَ : فَقَالَ لِی عَبْدُ اللہِ : مِمَّنْ أَنْتَ ؟ فَقُلْتُ : مِنْ أَہْلِ الْعِرَاقِ ، قَالَ : ہَلْ تَعْرِفُ أَرْضًا قِبَلَکُمْ کَثِیرَۃَ السِّبَاخِ یُقَالُ لَہَا کُوثی ؟ قَالَ : قُلْتُ : نَعَمْ ، قَالَ : مِنْہَا یَخْرُجُ الدَّجَّالُ ، قَالَ : ثُمَّ قَالَ : إِنَّ لِلأَشْرَارِ بَعْدَ الأَخْیَارِ عِشْرِینَ وَمِئَۃَ سَنَۃٍ ، لاَ یَدْرِی أَحَدٌ مِنَ النَّاسِ مَتَی یَدْخُلُ أَوَّلُہَا۔
(٣٨٦٦٦) حضرت ہیثم بن اسود سے روایت ہے انھوں نے فرمایا میں وفد کی صورت میں حضرت معاویہ کے زمانے میں نکلا پس ان کے ساتھ تخت پر ایک آدمی تھے جو سرخ رنگ والے چہرے پر بہت زیاد ہ شکن والے تھے مجھ سے حضرت معاویہ نے فرمایا جانتے ہو یہ کون ہیں یہ عبداللہ بن عمرو ہیں راوی نے فرمایا مجھ سے حضرت عبداللہ نے کہا تم کہاں سے ہو میں نے عرض کیا اہل عراق سے ہوں انھوں نے فرمایا کیا تم اپنی جانب بہت زیادہ سباخ والی زمین پہچانتے ہو جسے کو ثی کہا جاتا ہے فرمایا کہ میں نے عرض کیا جی ہاں انھوں نے فرمایا کہ وہیں سے دجال نکلے گا فرمایا کہ پھر حضرت عبداللہ نے فرمایا بلاشبہ شریر لوگوں کے لیے اچھے لوگوں کے بعد ایک سو بیس سال کا عرصہ ہوگا لوگوں میں سے کوئی نہیں جانتا کہ اس کا پہلا (سال) کب داخل ہوگا۔

38666

(۳۸۶۶۷) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ وَاصِلٍ ، عَنْ أَبِی وَائِلٍ ، عَنِ الْمَعْرُورِ بْنِ سُوَیْد ، قَالَ : قَالَ کَعْبٌ : إِنَّ أَشَدَّ أَحْیَائِ الْعَرَبِ عَلَی الدَّجَّالِ لَقَوْمُک ، یَعْنِی بَنِی تَمِیمٍ۔
(٣٨٦٦٧) حضرت معرور بن سوید سے روایت ہے کہ حضرت کعب نے ارشاد فرمایا عرب کے قبائل میں سے دجال پر سب سے زیادہ سخت تیری قوم ہے مراد بنو تمیم تھے۔

38667

(۳۸۶۶۸) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا زُہَیْرٌ ، عَنِ الأَسْوَدِ بْنِ قَیْسٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِی ثَعْلَبَۃُ بْنُ عِبَادٍ الْعَبْدِیُّ مِنْ أَہْلِ الْبَصْرَۃِ ، أَنَّہُ شَہِدَ یَوْمًا خُطْبَۃً لِسَمُرَۃَ بْنِ جُنْدُبٍ ، فَذَکَرَ فِی خُطْبَتِہِ حَدِیثًا عَنْ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، أَنَّہُ قَالَ : وَاللہِ لاَ تَقُومُ السَّاعَۃُ حَتَّی یَخْرُجَ ثَلاَثُونَ کَذَّابًا آخِرُہُمُ الأَعْوَرُ الدَّجَّالُ مَمْسُوحُ الْعَیْنِ الْیُسْرَی کَأَنَّہَا عَیْنُ أَبِی تِحْیَی ، أَوْ یَحْیَی لِشَیْخٍ مِنَ الأَنْصَارِ ، وَإِنَّہُ مَتَی یَخْرُجُ فَإِنَّہُ یَزْعُمُ أَنَّہُ اللَّہُ ، فَمَنْ آمَنَ بِہِ وَصَدَّقَہُ وَاتَّبَعَہُ فَلَیْسَ یَنْفَعُہُ صَالِحٌ مِنْ عَمَلٍ لَہُ سَلَفَ وَمَنْ کَفَرَ بِہِ وَکَذَّبَہُ ، فَلَیْسَ یُعَاقَبُ بِشَیْئٍ مِنْ عَمَلِہِ سَلَفَ ، وَإِنَّہُ سَیَظْہَرُ عَلَی الأَرْضِ کُلِّہَا إِلاَّ الْحَرَمَ وَبَیْتَ الْمَقْدِسِ ، وَإِنَّہُ یَحْصُرُ الْمُؤْمِنِینَ فِی بَیْتِ الْمَقْدِسِ ، قَالَ : فَیَہْزِمُہُ اللَّہُ وَجُنُودَہُ حَتَّی إِنَّ جِذْمَ الْحَائِطِ أو أَصْلَ الشَّجَرَۃِ یُنَادِی : یَا مُؤْمِنُ ، ہَذَا کَافِرٌ یَسْتَتِرُ بِی ، تَعَالَ اقْتُلْہُ ، قَالَ : وَلَنْ یَکُونَ ذَاکَ کَذَاک حَتَّی تَرَوْنَ أُمُورًا یتفاقم شَأْنُہَا فِی أَنْفُسِکُمْ ، تَسَائَلُونَ بَیْنَکُمْ : ہَلْ کَانَ نَبِیُّکُمْ ذَکَرَ لَکُمْ مِنْہَا ذِکْرًا ، وَحَتَّی تَزُولَ جِبَالٌ عَنْ مَرَاتِبِہَا ، ثُمَّ عَلَی أَثَرِ ذَلِکَ الْقَبْضُ وَأَشَارَ بِیَدِہِ ، قَالَ : ثُمَّ شَہِدَتْ لَہُ خُطْبَۃٌ أُخْرَی ، قَالَ : فَذَکَرَ ہَذَا الْحَدِیثَ مَا قَدَّمَ کَلِمَۃً وَلاَ أَخَّرَہَا۔ (احمد ۱۳)
(٣٨٦٦٨) حضرت ثعلبہ بن عباد عبدی جوا ہل بصرہ میں سے ہیں ان سے روایت ہے کہ وہ ایک دن حضرت سمرہ بن جندب کے خطبہ میں موجود تھے پس انھوں نے اپنے خطبہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حدیث بیان کی انھوں نے فرمایا اللہ کی قسم قیامت نہیں ہوگی یہاں تک کہ تیس دجال نکلیں گے ان میں سے آخری کانا دجال ہوگا اس کی دائیں آنکھ مٹی ہوئی ہوگی گویا کہ ابی تحیی یا ابو یحییٰ کی آنکھ کی طرح جو کہ انصار میں ایک بوڑھا تھا اور وہ جب نکلے گا وہ دعویٰ کرے گا کہ وہ اللہ ہے جو آدمی اس پر ایمان لے آیا اور اس کی تصدیق کی اور اس کی پیروی کرے گا پس اسے اس کے گزشتہ نیک عمل نفع نہ پہنچائیں گے اور جس آدمی نے اس کا انکار کیا اور اس کی تکذیب کی پس اسے اس کے گزشتہ (برے) عملوں پر سزا نہ دی جائے گی اور وہ ساری زمین پر غالب آجائے گا سوائے مسجد حرام اور بیت المقدس پر اور وہ مومنین کو بیت المقدس میں روک دے گا فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اسے اور اس کے لشکر کو شکست دیں گے یہاں تک کہ دیوار کی بنیاد یا فرمایا درخت کی جڑ پکارے گی اے مومن یہ کافر میرے پیچھے چھپا ہوا ہے آؤ اور اسے مار دو اور یہ اس طرح ہرگز نہیں ہوگا یہاں تک کہ تم دیکھو گے ایسے امور جنہیں تم اپنے نفسوں میں بھیڑیا سمجھتے ہو تم آپس میں پوچھو گے کیا تمہارے نبی نے اس سلسلہ میں کوئی تذکرہ کیا ہے اور یہاں تک کہ پہاڑ اپنی جگہوں سے ہٹ جائیں گے پھر اس کے بعد قبض ہوگی اور ہاتھ سے اشارہ کیا (قبض سے مراد واللہ اعلم عام موت اور قیامت کا وقوع ہے) راوی نے فرمایا پھر میں ان کے دوسرے خطبے میں شریک ہوا فرمایا کہ اسی حدیث کو ذکر کیا ایک بات نہ آگے کی اور نہ ہی پیچھے کی۔

38668

(۳۸۶۶۹) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ الْحُبَابِ ، قَالَ : أَخْبَرَنِی مُعَاوِیَۃُ بْنُ صَالِحٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنِی رَبِیعَۃُ بْنُ یَزِیدَ الدِّمَشْقِیُّ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَامِرٍ الْیَحْصُبِیِّ ، أَنَّہُ سَمِعَ مُعَاوِیَۃَ بْنَ أَبِی سُفْیَانَ یَقُولُ : مَن الْتَبَسَتْ عَلَیْہِ الأُمُورُ فَلاَ یَتَّبِعَنْ مُشَاقًا وَلاَ أَعْوَرَ الْعَیْنِ ، یَعْنِی الدَّجَّالَ۔
(٣٨٦٦٩) حضرت معاویہ بن ابی سفیان سے روایت ہے انھوں نے فرمایا جس پر امور مشتبہ ہوجائیں وہ آنکھ سے کانے یعنی دجال کی پیروی نہ کرے۔

38669

(۳۸۶۷۰) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ الْحُبَابِ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ زَیْدِ بْنِ جُدْعَانَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : الدَّجَّالُ یَخُوضُ الْبِحَارَ إِلَی رُکْبَتَیْہِ ، وَیَتَنَاوَلُ السَّحَابَ ، وَیَسْبِقُ الشَّمْسَ إِلَی مَغْرِبِہَا ، وَفِی جَبْہَتِہِ قَرْنٌ یَخْرُصُ مِنْہُ الْحَیَّاتُ ، وَقَدْ صُوِّرَ فِی جَسَدِہِ السِّلاَحُ کُلُّہُ ، حَتَّی ذَکَرَ السَّیْفَ وَالرُّمْحَ وَالدَّرَقَ ، قَالَ : قُلْتُ : وَمَا الدَّرَقُ ، قَالَ : التُّرْسُ۔ (ابن کثیر ۱۴۲)
(٣٨٦٧٠) حضرت حسن سے روایت ہے انھوں نے فرمایا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا دجال سمندر میں گھسے گا گھٹنوں تک اور بادل کو پکڑ لے گا اور سورج سے پہلے اس کے غروب کی جگہ پہنچ جائے گا اور اس کی پیشانی میں سینگ ہوگا جس سے سانپ نکلیں گے اس کے جسم میں ہر طرح کے اسلحہ کی تصویریں بنائی گئیں ہیں یہاں تک کہ تلوار اور نیزہ اور ڈھال کا تذکرہ کیا فرمایا کہ میں نے کہا درق کیا چیز ہے انھوں نے فرمایا ڈھال۔

38670

(۳۸۶۷۱) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ جَامِعِ بْنِ شَدَّادٍ ، عَنِ الأَسْوَدِ بْنِ ہِلاَلٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : یَخْرُجُ الدَّجَّالُ فَیَمْکُثُ فِی الأَرْضِ أَرْبَعِینَ صَبَاحًا یَبْلُغُ مِنْہَا کُلَّ مَنْہَلٍ الْیَوْمُ مِنْہَا کَالْجُمُعَۃِ ، وَالْجُمُعَۃُ کَالشَّہْرِ وَالشَّہْرُ کَالسَّنَۃِ ، ثُمَّ قَالَ : کَیْفَ أَنْتُمْ وَقَوْمٌ فِی ضِحٍ وَأَنْتُمْ فِی رِیحٍ ، وَہُمْ شِبَاعٌ وَأَنْتُمْ جِیَاعٌ ، وَہُمْ رِوَائٌ وَأَنْتُمْ ظِمَائٌ۔
(٣٨٦٧١) حضرت عبداللہ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ دجال زمین میں چالیس دن ٹھہرے گا وہ زمین کے ہر گھاٹ میں پہنچے گا ان چالیس دنوں کا دن ہفتے کی طرح ہوگا اور ہفتہ مہینے کی طرح ہوگا اور مہینہ سال کی طرح ہوگا پھر ارشاد فرمایا تمہاری کیا حالت ہوگی جب وہ لوگ روشنی میں ہوں گے اور تم ہوا میں ہو گے وہ سیر ہوں گے اور تم بھوکے ہوگے وہ سیراب ہوں گے اور تم پیاسے ہوگے۔

38671

(۳۸۶۷۲) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ طَلْحَۃَ، عَنْ خَیْثَمَۃ، قَالَ: کَانَ عَبْدُ اللہِ یَقْرَأُ الْقُرْآنَ فِی الْمَسْجِدِ فَأَتَی عَلَی ہَذِہِ الآیَۃِ {کَزَرْعٍ أَخْرَجَ شَطْأَہُ} فَقَالَ عَبْدُ اللہِ : أَنْتُمَ الزَّرْعُ وَقَدْ دَنَا حَصَادُکُمْ ، ثُمَّ ذَکَرُوا الدَّجَّالَ فِی مَجْلِسِہِمْ ذَلِکَ ، فَقَالَ بَعْضُ الْقَوْمِ : لَوَدِدْنَا أَنَّہُ قَدْ خَرَجَ حَتَّی نَرْمِیَہُ بِالْحِجَارَۃِ ، فَقَالَ عَبْدُ اللہِ: أَنْتُمْ تَقُولُونَ ، وَالَّذِی لاَ إلَہَ غَیْرُہُ ، لَوْ سَمِعْتُمْ بِہِ بِبَابِلَ لأَتَاہُ أَحَدُکُمْ وَہُوَ یَشْکُو إلَیْہِ الْحَفَا مِنَ السُّرْعَۃِ۔ (طبری ۲۶۔ حاکم ۴۶۱)
(٣٨٦٧٢) حضرت خیثمہ سے روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود مسجد میں قرآن مجید پڑھ رہے تھے اس آیت پر پہنچے ” کزرع اخرج شطاہ “ حضرت عبداللہ نے فرمایا تم کھیتی ہو اور تمہارے کٹنے کا وقت قریب ہوچکا ہے پھر لوگوں نے دجال کا تذکرہ کیا اپنی اس مجلس میں کچھ نے کہا ہم یہ چاہتے ہیں وہ نکلے اور ہم اسے پتھروں سے ماریں حضرت عبداللہ نے فرمایا تم یہ کہتے ہو اس ذات کی قسم جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں اگر تم اس کے بارے میں سنو کہ بابل میں ہے تو تم میں کوئی اس کے پاس آئے گا تو وہ اس کی طرف پاؤں گھسنے کی شکایت کرے گا تیزی سے اس تک پہنچنے کی وجہ سے۔

38672

(۳۸۶۷۳) حَدَّثَنَا عَبْدُاللہِ بْنُ نُمَیْرٍ، قَالَ: حدَّثَنَا حَلاَّمُ بْنُ صَالِحٍ ، عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ شِہَابٍ الْعَبْسِیِّ ، قَالَ: أَخْبَرَنِی عَبْدُاللہِ بْنُ مغنم وَذَکَرَ الدَّجَّالَ، فَقَالَ: إِنَّ الدَّجَّالَ لَیْسَ بِہِ خَفَائٌ، وَمَا یَکُونُ قَبْلَہُ مِنَ الْفِتْنَۃِ أَخْوَفُ عَلَیْکُمْ مِنَ الدَّجَّالِ ، إِنَّ الدَّجَّالَ لاَ خَفَائَ فِیہِ ، إِنَّ الدَّجَّالَ یَدْعُو إِلَی أَمْرٍ یَعْرِفُہُ النَّاسُ حَتَّی یَرَوْنَ ذَلِکَ مِنْہُ۔
(٣٨٦٧٣) حضرت عبداللہ بن مغنم سے روایت ہے کہ انھوں نے دجال کا تذکرہ کیا اور ارشاد فرمایا دجال کے بارے میں کوئی خفاء نہیں ہے اور جو دجال سے پہلے فتنے وقوع پذیر ہوں گے ان سے تمہارے بارے میں زیادہ اندیشہ ہے بہ نسبت دجال کے فتنے کے یقیناً دجال کے بارے میں خفاء نہیں ہے بلاشبہ دجال ایسے امر کی طرف بلائے گا جسے لوگ جانتے ہیں یہاں تک کہ یہ بات اس سے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے۔

38673

(۳۸۶۷۴) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ، عَنِ الْوَلِیدِ بْنِ جُمَیْعٍ، عَنْ أَبِی الطُّفَیْلِ، عَنْ حُذَیْفَۃَ، قَالَ: لاَ یَخْرُجُ الدَّجَّالُ حَتَّی یَکُونَ خُرُوجُہُ أَشْہَی إِلَی الْمُسْلِمِینَ مِنْ شُرْبِ الْمَائِ عَلَی الظَّمَأِ۔
(٣٨٦٧٤) حضرت حذیفہ سے روایت ہے انھوں نے ارشاد فرمایا دجال نکلے گا یہاں تک کہ اس کا نکلنا مسلمانوں کو پیاس میں پانی پینے سے زیادہ محبوب ہوگا۔

38674

(۳۸۶۷۵) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَنِ الْمُجَالِدِ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنْ فَاطِمَۃَ بِنْتِ قَیْسٍ ، قَالَتْ : صَلَّی النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ذَاتَ یَوْمٍ الظُّہْرَ ، ثُمَّ صَعِدَ الْمِنْبَرَ ، فَاسْتَنْکَرَ النَّاسُ ذَلِکَ فَبَیْنَ قَائِمٍ وَجَالِسٍ ، وَلَمْ یَکُنْ یَصْعَدُہُ قَبْلَ ذَلِکَ إِلاَّ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ ، فَأَشَارَ إلَیْہِمْ بِیَدِہِ أَن اجْلِسُوا ، ثُمَّ قَالَ : وَاللہِ مَا قُمْت مَقَامِی ہَذَا لأَمْرٍ ینفعکم لِرَغْبَۃٍ وَلاَ لِرَہْبَۃٍ ، وَلَکِنَّ تَمِیمًا الدَّارِیَّ أَتَانِی فَأَخْبَرَنِی حتی مَنعَنِی الْقَیْلُولَۃَ مِنَ الْفَرَحِ وَقُرَّۃِ الْعَیْنِ، أَلاَ إِنَّ بَنِی عَمٍّ لِتَمِیمٍ الدَّارِیِّ أَخَذَتْہُمْ عَاصِفٌ فِی الْبَحْرِ ، فَأَلْجَأَتْہُمَ الرِّیحُ إِلَی جَزِیرَۃٍلاَ یَعْرِفُونَہَا ، فَقَعَدُوا فِی قَوَارِبِ السَّفِینَۃِ فَصَعِدُوا فَإِذَا ہُمْ بِشَیْئٍ أَسْوَدَ أَہْدَبَ کَثِیرِ الشَّعْرِ ، قَالُوا لَہَا : مَا أَنْتَ ، قَالَتْ : أَنَا الْجَسَّاسَۃُ ، قَالُوا : فَأَخْبِرِینَا ، قَالَتْ : مَا أَنَا بِمُخْبِرَتِکُمْ وَلاَ سَائِلَتِکُمْ عَنْہُ ، وَلَکِنَّ ہَذَا الدَّیْرَ قَدْ رَہَقْتُمُوہُ فَأْتُوہُ ، فَإِنَّ فِیہِ رَجُلاً بِالأَشْوَاقِ إِلَی أَنْ یُخْبِرَکُمْ وَتُخْبِرُوہُ ۔ ۲۔ فَأَتَوْہُ فَدَخَلُوا علَیْہِ ، فَإِذَا ہُمْ بِشَیْخٍ مُوَثَّقٍ فِی الْحَدِیدِ شَدِیدِ الْوَثَاقِ کَثِیرِ الشَّعْرِ ، فَقَالَ لَہُمْ : مِنْ أَیْنَ نَبَأْتُم، قَالُوا : مِنَ الشَّامِ ، قَالَ : مَا فَعَلَتِ الْعَرَبُ ؟ قَالُوا : نَحْنُ قَوْمٌ مِنَ الْعَرَبِ ، قَالَ : مَا فَعَلَ ہَذَا الرَّجُلُ الَّذِی خَرَجَ فِیکُمْ ، قَالُوا : خَیْرًا ؛ نَاوَأَہُ قَوْمٌ فَأَظْہَرَہُ اللَّہُ عَلَیْہِمْ فَأَمْرُہُمَ الْیَوْمَ جَمِیعٌ ، وَإِلَہُہُمْ الْیَوْمَ وَاحِدٌ وَدِینُہُمْ وَاحِدٌ ، قَالَ : ذَلِکَ خَیْرٌ لَہُمْ ، قَالَ : مَا فَعَلَتْ عَیْنُ زُغَرَ ؟ قَالُوا : یَسْقُونَ مِنْہَا زُرُوعَہُمْ وَیَشْرَبُونَ مِنْہَاِبشَفَتِہِمْ ، قَالَ : مَا فَعَلَ نَخْلٌ بَیْنَ عَمَّانَ وَبَیْسَانَ ، قَالُوا : یُطْعِمُ جَنَاہُ کُلِّ عَامٍ ، قَالَ : مَا فَعَلَتْ بُحَیْرَۃُ طَبَرِیَّۃَ ؟ قَالُوا : تَدَفَّقُ جَانِبَاہَا مِنْ کَثْرَۃِ الْمَائِ ، قَالَ : فَزَفَرَ ثَلاَثَ زَفَرَاتٍ ، ثُمَّ قَالَ : إنِّی لَوْ قَدِ انْفَلَتُّ مِنْ وَثَاقِی ہَذَا لَمْ أَتْرُکْ أَرْضًا إِلاَّ وَطِئْتہَا بِقَدَمِی ہَاتَیْنِ إِلاَّ طِیبَۃً ، لَیْسَ لِی عَلَیْہَا سُلْطَانٌ ، قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إِلَی ہَذَا انْتَہَی فَرَحِی ، ہَذِہِ طِیبَۃٌ ، وَالَّذِی نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہِ ، مَا مِنْہَا طَرِیقٌ ضَیِّقٌ وَلاَ وَاسِعٌ إِلاَّ عَلَیْہِ مَلَکٌ شَاہِرٌ بِالسَّیْفِ إِلَی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ۔
(٣٨٦٧٥) حضرت فاطمہ بنت قیس سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک دن ظہر کی نماز پڑھائی پھر منبر پر تشریف فرما ہوئے لوگوں نے اس بات کو اوپرا جانا وہ بیٹھنے والوں اور کھڑے ہونے والوں کے درمیان تھے (یعنی کچھ بیٹھے تھے اور کچھ کھڑے تھے) اور اس سے پہلے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جمعہ کے دن کے علاوہ منبر پر نہ تشریف رکھتے تھے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی طرف ہاتھ سے اشارہ کیا کہ بیٹھ جاؤ پھر ارشاد فرمایا کہ اللہ کی قسم میں اس جگہ کسی ایسے امر کے لیے کھڑا نہیں ہوا جو رغبت اور خوف کی وجہ سے تمہیں نفع پہچانے والا ہو لیکن تمیم داری میرے پاس آیا اور مجھے خبر دی یہاں تک کہ اس خبر کی وجہ سے خوشی اور آنکھوں کی ٹھنڈک کی بناء پر میں دوپہر کو آرام نہیں کرسکا غور سے سنو تمیم داری کے چچا زادوں کو سمندر میں تیز ہوا نے آن لیا ان کو ہوا نے ایسے جزیرے میں پہنچا دیا جسے وہ پہچانتے نہیں تھے وہ قریبی کشتویں میں سوار ہوئے اور جزیرے میں پہنچ گئے اچانک انھوں نے ایک سیاہ شے دیکھی جو لمبی پلکوں والی اور کثیر بالوں والی تھی انھوں نے اس سے کہا تو کیا ہے وہ شے بولی میں جساسہ ہوں (جاسوسی کرنے والی ہوں) انھوں نے کہا ہمیں بتلاؤ اس نے کہا میں نہ تو تمہیں بتلاتی ہوں اور نہ تم سے کچھ پوچھتی ہوں لیکن یہ راہب خانہ ہے جس کے تم قریب ہوچکے ہو تم اس میں جاؤبلاشبہ اس میں ایک آدمی ہے جسے یہ شوق ہیں تمہیں بتلائے اور تم اس کو بتلاؤ پس وہ وہاں گئے اور اس آدمی کے پاس گئے پس اچانک انھوں نے دیکھا کہ ایک بوڑھا بیڑیوں میں جکڑا ہوا ہے بہت اچھلنے والا بہت زیادہ بالوں والا اس نے ان سے کہا کس زمین سے نکل کر آئے ہو انھوں نے کہا شام سے اس آدمی نے کہا عرب والوں کی کیا حالت ہے وہ بولے ہم عرب کے لوگ ہیں اس نے کہا ان صاحب کا کیا حال ہے جو تمہارے اندر نکلے ہیں انھوں نے کہا بھلائی کی حالت میں ہیں ان سے لوگوں نے مقابلہ کیا اللہ تعالیٰ نے ان کو ان پر غلبہ عطا کردیا آجکل سب جمع ہیں ان کا معبود ایک ہے اور ان کا دین ایک ہے اس نے کہا یہ ان کے لیے بہتر ہے اس نے کہا مقام نغر کے چشمے کی کیا حالت ہے انھوں نے کہا اس سے وہ اپنے کھیتوں کو سیراب کرتے ہیں اور پیاس کے وقت اس سے پیتے ہیں اس نے پوچھا عمان اور بیسان کے درمیان کھجوروں کی کیا حالت ہے انھوں نے کہا وہ ہر سال اپنا پھل کھلاتی ہیں اس نے پوچھا بحیرہ طبریہ کی کیا حالت ہے انھوں نے بتلایا کہ اس کے دونوں کنارے پانی کی کثرت کی وجہ سے جوش مارتے ہیں پھر اس نے تین مرتبہ لمبا سانس لیا پھر کہا بلاشبہ اگر میں ان بیڑیوں سے چھوٹ گیا تو میں کوئی زمین نہیں چھوڑوں گا مگر اسے اپنے ان دونوں قدموں سے روندوں گا سوائے مدینہ منورہ کے کہ مجھے اس پر غلبہ حاصل نہ ہوگا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یہاں تک میری خوشی مکمل ہوگئی۔ یہ طیبہ ہے قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں محمد کی جان ہے اس مدینہ کا کوئی تنگ اور کھلا راستہ نہیں مگر اس پر ایک فرشتہ قیامت تک تلوار سونتے ہوئے (کھڑا) ہے۔

38675

(۳۸۶۷۶) وَحَدَّثَنَا مَالِکُ بْنُ إسْمَاعِیلَ ، قَالَ : حَدَّثَنَا زُہَیْرٌ ، قَالَ : حَدَّثَنَا قَابُوسُ بْنُ أَبِی ظَبْیَانَ ، أَنَّ أَبَاہُ حَدَّثَہُ ، قَالَ: ذَکَرْنَا الدَّجَّالَ فَسَأَلْنَا عَلِیًّا مَتَی خُرُوجُہُ، قَالَ: لاَ یَخْفَی عَلَی مُؤْمِنٍ، عَیْنُہُ الْیُمْنَی مَطْمُوسَۃٌ، بَیْنَ عَیْنَیْہِ کَافِرٌ یَتَہَجَّاہَا لَنَا عَلِیٌّ، قَالَ: فَقُلْنَا: وَمَتَی یَکُونُ ذَلِکَ، قَالَ: حِینَ یَفْخَرُ الْجَارُ عَلَی جَارِہِ ، وَیَأْکُلُ الشَّدِیدُ الضَّعِیفَ وَتُقْطَعُ الأَرْحَامُ ، وَیَخْتَلِفُونَ اخْتِلاَفَ أَصَابِعِی ہَؤُلاَئِ وَشَبَّکَہَا وَرَفَعَہَا ہَکَذَا ، فَقَالَ لَہُ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ : کَیْفَ تَأْمُرُنَا عِنْدَ ذَلِکَ أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ ، قَالَ : لاَ أَبَا لَکَ ، إنَّک لَنْ تُدْرِکَ ذَلِکَ ، قَالَ : فَطَابَتْ أَنْفُسُنَا۔
(٣٨٦٧٦) حضرت قابوس بن ابی ظبیان سے روایت ہے کہ ان کے والد نے ان سے بیان کیا کہ ہم نے دجال کا تذکرہ کیا ہم نے حضرت علی سے پوچھا اس کا خروج کب ہوگا انھوں نے فرمایا مومن پر مخفی نہیں ہے کہ اس کی دائیں آنکھ مٹی ہوئی ہے اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان کافر لکھا ہوا ہے کافر کے حروف کے ہمارے سامنے ہجے فرمائے ہم نے عرض کیا یہ کب ہوگا فرمایا جب پڑوسی پڑوسی پر فخر کرے گا اور سخت کمزور کو کھاجائے گا اور شتے داریاں توڑی جائیں گے اور وہ آپس میں اختلاف کریں گے میری ان انگلیوں کے اختلاف کی طرح اور انھوں نے انگلیوں کو ایک دوسرے میں داخل کیا اور اس طرح ان کو بلند کیا لوگوں میں سے ایک صاحب نے عرض کیا اے امیرالمؤمنین ! اس وقت آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں انھوں نے فرمایا تیرا باپ نہ رہے تم یہ زمانہ نہ پاؤ گے راوی نے فرمایا پھر ہم خوش ہوگئے۔

38676

(۳۸۶۷۷) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا أَبُو مَالِکٍ الأَشْجَعِیُّ ، عَنْ أَبِی حَازِمٍ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : یُسَلَّطُ الدَّجَّالُ عَلَی رَجُلٍ مِنَ الْمُسْلِمِینَ فَیَقْتُلُہُ ، ثُمَّ یُحْیِیہِ ، ثُمَّ یَقُولُ : أَلَسْت بِرَبِّکُمْ أَلاَ تَرَوْنَ أَنِّی أُحْیِی وَأُمِیت ، وَالرَّجُلُ یُنَادِی : یَا أَہْلَ الإِسْلاَم ، بَلْ عَدُوُّ اللہِ الْکَافِرُ الْخَبِیثُ ، إِنَّہُ وَاللہِ لاَ یُسَلَّطُ عَلَی أَحَدٍ بَعْدِی ، قَالُوا : وَکُنَّا نَمُرُّ مَعَ أَبِی ہُرَیْرَۃَ عَلَی مُعَلِّمِ الْکِتَابِ فَیَقُولُ : یَا مُعَلِّمَ الْکِتَابِ ، اجْمَعْ لِی غِلْمَانَک فَیَجْمَعُہُمْ فَیَقُولُ : قُلْ لَہُمْ : فَلْیُنْصِتُوا ، أَیْ بَنِی أَخِی افْہَمُوا مَا أَقُولُ لَکُمْ ، أَمَا یُدْرِکْنَّ أَحَدٌ مِنْکُمْ عِیسَی ابْنَ مَرْیَمَ فَإِنَّہُ شَابٌّ وَضِیئٌ أَحْمَرُ فَلْیَقْرَأْ عَلَیْہِ مِنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ السَّلاَمَ ، فَلاَ یَمُرُّ عَلَی مُعَلِّمِ کِتَابٍ إِلاَّ قَالَ لِغِلْمَانِہِ مِثْلَ ذَلِکَ۔
(٣٨٦٧٧) حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ دجال کو مسلمانوں میں سے ایک آدمی پر مسلط کیا جائے گا وہ اسے قتل کردے گا پھر وہ اسے زندہ کرے گا اور کہے گا کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں کیا تم دیکھتے نہیں ہو میں زندہ کرتا ہوں اور مارتا ہوں اور وہ آدمی پکار رہا ہوگا اے اہل اسلام بلکہ یہ خبیث کافر اللہ کا دشمن ہے اور بلاشبہ اللہ کی قسم اسے میرے بعد کسی ایک پر بھی مسلط نہیں کیا جائے گا حضرت ابوہریرہ کے ساتھیوں نے کہا کہ ہم حضرت ابوہریرہ کے ساتھ کتابت سکھانے والوں کے پاس سے گزرتے تھے تو حضرت ابوہریرہ فرماتے اے کتابت سکھانے والے میرے لیے اپنے لڑکوں کو جمع کرو وہ ان کو جمع کرتا تو فرماتے ان سے کہو کہ خاموش ہوجائیں اے بھتیجو ! وہ بات سمجھو جو میں تم سے کہہ رہا ہوں اگر تم میں سے کوئی عیسیٰ ابن مریم کو پالے تو وہ جوان روشن چہرے والے سرخ رنگ والے ہیں تو وہ ابوہریرہ کی جانب سے ان کو سلام پہنچا دے حضرت ابوہریرہ کسی بھی کتابت سکھانے والے کے پاس سے نہیں گزرتے تھے مگر اس کے بچوں سے یہی ارشاد فرماتے تھے۔

38677

(۳۸۶۷۸) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ بْنُ أَبِی خَالِدٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : لاَ تَقُومُ السَّاعَۃُ حَتَّی تُفْتَحَ مَدِینَۃُ ہِرَقْلِ قَیْصَرَ ، وَیُؤَذِّنُ فِیہَا الْمُؤَذِّنُونَ ، وَیُقْسَمُ فِیہَا الْمَالُ بِالتِرَسَۃِ فَیُقْبِلُونَ بِأَکْثَرَ أَمْوَالٍ رَآہَا النَّاسُ ، فَیَأْتِیہِمُ الصَّرِیخُ ، إِنَّ الدَّجَّالَ قَدْ خَلَفَکُمْ فِی أَہْلِیکُمْ ، فَیُلْقُونَ مَا فِی أَیْدِیہِمْ وَیُقْبِلُونَ یُقَاتِلُونَہُ۔ (نعیم بن حماد ۱۴۸۸)
(٣٨٦٧٨) حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ قیامت قائم نہیں ہوگی یہاں تک کہ ہرقل قیصر کا شہر فتح کرلیا جائے گا اور اس میں مؤذنین اذانیں دیں گے اور اس میں مال ڈھال کے ذریعے تقسیم ہوگا پس وہ بہت سا مال لے کر لوٹیں گے جسے لوگ دیکھیں گے پس ان کے پاس ایک چیخنے والا آئے گا کہ دجال تمہارے پیچھے تمہارے گھروں میں موجود ہے پس جو ان کے قبضے میں مال ہوگا اسے وہ پھینک دیں گے اور اس سے لڑائی کرنے کی طرف متوجہ ہوجائیں گے۔

38678

(۳۸۶۷۹) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا الْجُرَیْرِیُّ ، عَنْ أَبِی الْعَلاَئِ بْنِ الشِّخِّیرِ ، أَنَّ نُوحًا وَمَنْ مَعَہُ مِنَ الأَنْبِیَائِ کَانُوا یَتَعَوَّذُونَ مِنْ فِتْنَۃِ الدَّجَّالِ۔
(٣٨٦٧٩) حضرت علا بن شخیر سے روایت ہے کہ حضرت نوح اور ان کے ساتھ انبیائ ۔ دجال کے فتنے سے پناہ مانگتے تھے۔

38679

(۳۸۶۸۰) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا الْعَوَّامُ بْنُ حَوْشَبٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِی جَبَلَۃُ بْنُ سُحَیْمٍ ، عَنْ مُؤْثِرِ بْنِ عَفَازَۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مَسْعُودٍ ، قَالَ : لَمَّا کَانَ لَیْلَۃَ أُسْرِیَ بِرَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَقِیَ إِبْرَاہِیمَ وَمُوسَی وَعِیسَی فَتَذَاکَرُوا السَّاعَۃَ ، فَبَدَؤُوا بِإِبْرَاہِیمَ فَسَأَلُوہُ عَنْہَا ، فَلَمْ یَکُنْ عِنْدَہُ عِلْمٌ مِنْہَا ، فَسَأَلُوا مُوسَی فَلَمْ یَکُنْ عِنْدَہُ مِنْہَا عِلْمٌ ، فَرَدُّوا الْحَدِیثَ إِلَی عِیسَی ، فَقَالَ : عَہِدَ اللَّہُ إلَیَّ فِیمَا دُونَ وَجْبَتِہَا ، فَأَمَّا وَجْبَتُہَا فَلاَ یَعْلَمُہَا إِلاَّ اللَّہُ فَذَکَرَ مِنْ خُرُوجِ الدَّجَّالِ فَأَہْبِطُ فَأَقْتُلُہُ ، فَیَرْجِعُ النَّاسُ إِلَی بِلاَدِہِمْ فَیَسْتَقْبِلُہُمْ یَأْجُوجُ وَمَأْجُوجُ وَہُمْ مِنْ کُلِّ حَدَبٍ یَنْسِلُونَ ، لاَ یَمُرُّونَ بِمَائٍ إِلاَّ شَرِبُوہُ وَلاَ شَیْئٍ إِلاَّ أَفْسَدُوہُ ، فَیَجِرونَ إلَیَّ فَأَدْعُو اللَّہَ فَیُمِیتہُمْ ، فَتجْوَی الأَرْضُ مِنْ رِیحِہِمْ ، فَیَجِرونَ إِلَیَّ ، فَأَدْعُو اللَّہَ ، فَیُرْسِلُ السَّمَائَ بِالْمَائِ فَتَحْمِلُ أَجْسَادَہُمْ فَتَقْذِفُہَا فِی الْبَحْرِ ، ثُمَّ تُنْسَفُ الْجِبَالُ وَتُمَدُّ الأَرْضُ مَدَّ الأَدِیمِ ، ثُمَّ یُعْہَدُ إلَیَّ إِذَا کَانَ ذَلِکَ ، أَنَّ السَّاعَۃَ مِنَ النَّاسِ کَالْحَامِلِ الْمُتِمّ ، لاَ یَدْرِی أَہْلُہَا مَتَی تَفْجَؤُہُمْ بِوِلاَدَتِہَا، قَالَ الْعَوَّامُ : فَوَجَدْت تَصْدِیقَ ذَلِکَ فِی کِتَابِ اللہِ {حَتَّی إِذَا فُتِحَتْ یَأْجُوجُ وَمَأْجُوجُ وَہُمْ مِنْ کُلِّ حَدَبٍ یَنْسِلُونَ وَاقْتَرَبَ الْوَعْدُ الْحَقُّ}۔ (ابن ماجہ ۲۰۸۱۔ ابویعلی ۵۲۷۳)
(٣٨٦٨٠) حضرت عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے انھوں نے فرمایا جس رات رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اسراء کے لیے لے جایا گیا تو ان کی ملاقات حضرت ابراہیم اور حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ ۔ سے ہوئی انھوں نے آپس میں قیامت کا تذکرہ کیا انھوں نے حضرت ابراہیم سے ابتداء کی اور ان سے قیامت کے بارے میں پوچھا ان کے پاس بھی قیامت کے بارے میں علم نہ تھا پھر انھوں نے یہ بات حضرت عیسیٰ کی طرف لوٹا دی انھوں نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے مجھے اس کے وقوع سے قریب کی باتیں بتلائیں ہیں اور باقی اس کا وقوع وہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ اور کوئی نہیں جانتا انھوں نے دجال کے نکلنے کا تذکرہ کیا پس میں اتروں گا اور اسے قتل کروں گا پھر لوگ اپنے شہروں کی طرف لوٹ جائیں گے پھر یاجوج وماجوج ان کے سامنے آجائیں گے وہ ہر بلند جگہ سے جلدی سے آئیں گے کسی پانی کے پاس نہیں گزریں گے مگر اسے پی جائیں گے اور کسی چیز کے پاس سے نہیں گزریں گے مگر اسے خراب کردیں گے وہ (دوسرے لوگ) میری طرف بھاگ کر آئیں گے میں اللہ تعالیٰ سے دعا کروں گا اللہ تعالیٰ ان کو موت دے دیں گے زمین ان کی بدبو کی وجہ سے تعفن زدہ ہوجائے گی پس (دوسرے لوگ) وہ میرے پاس آئیں گے میں اللہ تعالیٰ سے دعا کروں گا اللہ تعالیٰ ان پر آسمان سے بارش اتاریں گے وہ ان کے جسموں کو اٹھائے گی اور ان کو سمندر میں پھینک دے گی پھر پہاڑ جڑ سے اکھاڑ دیے جائیں گے اور زمین چمڑے کی طرح ہوجائے گی کہ قیامت لوگوں کے ایسے قریب ہے جیسے کہ وہ حاملہ مدت حمل پوری کرچکی ہو اس کے گھر والے نہیں جانتے کب اچانک اس کے ولادت ہوجائے حضرت عوام نے فرمایا میں نے اس کی تصدیق اللہ تعالیٰ کی کتاب میں پائی ہے { حَتَّی إِذَا فُتِحَتْ یَأْجُوجُ وَمَأْجُوجُ وَہُمْ مِنْ کُلِّ حَدَبٍ یَنْسِلُونَ وَاقْتَرَبَ الْوَعْدُ الْحَقُّ }۔

38680

(۳۸۶۸۱) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا سَعِیدُ بْنُ أَبِی عَرُوبَۃَ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ آدَمَ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، أَنَّ نَبِیَّ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : الأَنْبِیَائُ إخْوَۃٌ لِعَلاَّتٍ أُمَّہَاتُہُمْ شَتَّی وَدِینُہُمْ وَاحِد، وَأَنَا أَوْلَی النَّاسِ بِعِیسَی ابْنِ مَرْیَمَ لأَنَّہُ لَمْ یَکُنْ بَیْنِی وَبَیْنَہُ نَبِی ، فَإِذَا رَأَیْتُمُوہُ فَاعْرِفُوہُ ، فَإِنَّہُ رَجُلٌ مَرْبُوعُ الْخَلْقِ إِلَی الْحُمْرَۃِ وَالْبَیَاضِ سَبْطُ الرَّأْسِ ، کَأَنَّ رَأْسَہُ یَقْطُرُ وَإِنْ لَمْ یُصِبْہُ بَلَلٌ بَیْنَ مُمَصَّرَتَیْنِ ، فَیَدُقُّ الصَّلِیبَ وَیَقْتُلُ الْخِنْزِیرَ وَیَضَعُ الْجِزْیَۃَ ، وَیُقَاتِلُ النَّاسَ عَلَی الإِسْلاَم حَتَّی یُہْلِکَ اللَّہُ فِی زَمَانِہِ الْمِلَلَ کُلَّہَا غَیْرَ الإِسْلاَم ، وَیُہْلِکَ اللَّہُ فِی زَمَانِہِ مَسِیحَ الضَّلاَلَۃِ الْکَذَّابَ الدَّجَّالَ ، وَتَقَعُ الأَمَنَۃُ فِی زَمَانِہِ فِی الأَرْضِ حَتَّی تَرْتَعَ الأُسُودُ مَعَ الإِبِلِ، وَالنُّمُورُ مَعَ الْبَقَرِ، وَالذِّئَابُ مَعَ الْغَنَمِ، وَیَلْعَبَ الصِّبْیَانُ، أَوِ الْغِلْمَانُ شَکَّ بِالْحَیَّاتِ، لاَ یَضُرُّ بَعْضُہُمْ بَعْضًا، فَیَلْبَثُ فِی الأَرْضِ مَا شَائَ اللَّہُ، ثُمَّ یُتَوَفَّی فَیُصَلِّی عَلَیْہِ الْمُسْلِمُونَ۔ (احمد ۴۳۷)
(٣٨٦٨١) حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا تمام انبیاء علاتی بھائی ہیں ان کی مائیں مختلف ہیں اور ان کا دین ایک ہے میں لوگوں میں عیسیٰ بن مریم کے قریب ہوں کیونکہ میرے اور ان کے درمیان کوئی نبی نہیں ہیں جب تم ان کو دیکھو تو جان لو وہ درمیانے قد کے آدمی ہیں سرخی اور سفیدی کی طرف (ان کا رنگ مائل ہے) ہلکے گھنگریالے بالوں والے ہیں ان کے سر سے (پانی کے) قطرات ٹپکتے معلوم ہوتے ہیں اگرچہ ان کو تری نہ ہی لگی ہو دو ہلکے زرد رنگ سے رنگی ہوئی چادروں کے درمیان ہوں گے پس صلیب کے ٹکڑے کریں گے اور خنزیر کو قتل کریں گے اور جزیہ اٹھا دیں گے اور لوگوں سے اسلام پر قتال کریں گے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ ان کے زمانے میں تمام ملتوں کو ہلاک کردیں گے سوائے اسلام کے اور اللہ تعالیٰ ان کے زمانے میں گمراہی کے مسیح کذاب دجال کو ہلاک کریں گے اور ان کے زمانے میں زمین کے اندر امن قائم ہوجائے گا یہاں تک کہ کالا سانپ اونٹ کے ساتھ اور چیتا گائے کے ساتھ اور بھیڑیا بکریوں کے ساتھ چرے گا اور بچے سانپوں کے ساتھ کھیلیں گے کوئی ایک دوسرے کو نقصان نہیں پہنچائے گا جتنا وقت اللہ تعالیٰ چاہیں گے اتنا وہ زمین میں ٹھہریں گے پھر ان کی وفات ہوگی اور مسلمان ان کی نماز جنازہ پڑھیں گے۔

38681

(۳۸۶۸۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، عَنْ سفیان، عَنْ وَاصِلٍ، عَنْ أَبِی وَائِلٍ، قَالَ: أَکْثَرُ أَتْبَاعِ الدَّجَّالِ الْیَہُودُ وَأَوْلاَدُ الْمُومِسَاتِ۔ (نعیم ۱۵۳۴)
(٣٨٦٨٢) حضرت ابو وائل سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ دجال کے اکثر اتباع کرنے والے یہود اور بدکار عورتوں کی اولاد ہوگی۔

38682

(۳۸۶۸۳) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ عُمَیْرٍ ، عَنْ أَبِی سَلَمَۃَ ، عَنْ أُمِّ سَلَمَۃَ ، قَالَتْ : وَلَدَتْہُ أُمُّہُ مَسْرُورًا مَخْتُونًا تَعْنِی ابْنَ صَیَّادٍ۔
(٣٨٦٨٣) حضرت ام سلمہ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ ابن صیاد کی ماں نے اسے اس حال میں جنا کہ وہ مسرور اور مختون تھا۔

38683

(۳۸۶۸۴) حَدَّثَنَا عَبْدُاللہِ بْنُ إدْرِیسَ، عَنْ أَبِیہِ، عَنْ جَدِّہِ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: لَقِیت ابْنَ صَیَّادٍ فِی طَرِیقٍ مِنْ طُرُقِ الْمَدِینَۃِ فَانْتَفَخَ حَتَّی مَلأَ الطریق، فَقُلْتُ: اخْسَأْ، فَإِنَّکَ لَنْ تَعْدُوَ قَدْرَک ، فَانْضَمَّ بَعْضُہُ إِلَی بَعْضٍ وَمَرَرْت۔
(٣٨٦٨٤) حضرت عبداللہ بن عمر سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ مدینہ کے راستوں میں سے ایک راستے میں ابن صیاد سے ملا وہ پھول گیا یہاں تک کہ اس نے راستہ بھر دیا میں نے کہا دفع ہوجا بلاشبہ تو تقدیر سے نہیں بڑھ سکتا اس کے (جسم کے) حصے ایک دوسرے سے ملنے لگے اور مں ر گزر گیا۔

38684

(۳۸۶۸۵) حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ بْنُ مُوسَی ، قَالَ : أَخْبَرَنَا شَیْبَانُ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ شَقِیقٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : کُنَّا نَمْشِی مَعَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَمَرَرْنَا عَلَی صِبْیَانٍ یَلْعَبُونَ ، فَتَفَرَّقُوا حِینَ رَأَوُا النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَجَلَسَ ابْنُ صَیَّادٍ ، فَکَأَنَّہُ غَاظَ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ لَہُ : مَا لَکَ تَرِبَتْ یَدَاک، أَتَشْہَدُ أَنِّی رَسُولُ اللہِ ؟ فَقَالَ : أَتَشْہَدُ أَنْتَ أَنِّی رَسُولُ اللہِ ، فَقَالَ : عُمَرُ : یَا رَسُولَ اللہِ ، دَعَنْی فَلأَقْتُلْ ہَذَا الْخَبِیثَ ، قَالَ : دَعْہُ فَإِنْ یَکُنِ الَّذِی تَخَوَّف فَلَنْ تَسْتَطِیعَ قَتْلَہُ۔ (مسلم ۲۲۴۰۔ احمد ۳۸۰)
(٣٨٦٨٥) حضرت عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے فرمایا کہ ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ چل رہے تھے پس ہم بچوں کے پاس سے گزرے جو کھیل رہے تھے جب ان بچوں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیکھا تو منتشر ہوگئے اور ابن صیاد بیٹھا رہا گویا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس نے غصہ دلا دیا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے کہا تجھے کیا ہے تیرے دونوں ہاتھ خاک آلود ہوں کیا تو گواہی دیتا ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں اس نے کہا کیا آپ گواہی دیتے ہیں کہ میں اللہ کا رسول ہوں حضرت عمر نے فرمایا اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مجھے چھوڑیں میں اس خبیث کو قتل کردوں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس کو چھوڑ دو اگر یہ وہی ہے جس کا تمہیں خوف ہے تو تم ہرگز اس کو قتل نہیں کرسکتے۔

38685

(۳۸۶۸۶) حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ بْنُ مُوسَی ، قَالَ : أَخْبَرَنَا شَیْبَانُ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِی الْجَعْدِ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : فَقَدْنَا ابْنَ صَیَّادٍ یَوْمَ الْحَرَّۃِ۔
(٣٨٦٨٦) حضرت جابر بن عبداللہ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ ہم نے ابن صیاد کو حرہ والے دن گم پایا۔

38686

(۳۸۶۸۷) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ زَیْدٍ ، عَنْ أَبِی نَضْرَۃَ ، عَنْ أَبِی سَعِیدٍ ، أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، قَالَ لابْنِ صَیَّادٍ : مَا تَرَی ، قَالَ : أَرَی عَرْشًا عَلَی الْبَحْرِ وَحَوْلَہُ الْحَیَّاتُ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : ذَلِکَ عَرْشُ إبْلِیسَ۔ (مسلم ۲۲۴۱۔ احمد ۴۳)
(٣٨٦٨٧) حضرت ابو سعید سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابن صیاد سے کہا تو کیا دیکھتا ہے تو اس نے کہا میں سمندر پر تخت دیکھتا ہوں اس کے گرد سانپ ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یہ تو ابلیس کا تخت ہے۔

38687

(۳۸۶۸۸) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا مُبَارَکٌ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إِنَّ بَیْنَ یَدَی السَّاعَۃِ کَذَّابِینَ مِنْہُمْ صَاحِبُ الْیَمَامَۃِ وَمِنْہُمُ الأَسْوَدُ الْعَنْسِیُّ وَمِنْہُمْ صَاحِبُ حِمْیَرَ وَمِنْہُمُ الدَّجَّالُ وَہُوَ أَعْظَمُہُمْ فِتْنَۃً۔ (احمد ۳۴۵۔ بزار ۳۳۷۵)
(٣٨٦٨٨) حضرت حسن سے روایت ہے فرمایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا بلاشبہ قیامت سے پہلے جھوٹے ہوں گے ان میں سے ایک یمامہ والا ہوگا (یعنی مسیلمہ کذاب) اور ان میں سے ایک اسود عنسی ہوگا اور ان میں سے ایک حمیر والا ہوگا اور ان میں سے ایک دجال ہوگا اور وہ سب سے بڑا فتنہ ہے۔

38688

(۳۸۶۸۹) حَدَّثَنَا شَبَابَۃُ ، عَنِ ابْنِ أَبِی ذِئْبٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ بْنِ عَبْدِ اللہِ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ یَزِیدَ بْنِ جَارِیَۃَ ، عَنْ مُجَمِّعِ بْنِ جَارِیَۃَ ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : الدَّجَّالُ یَقْتُلُہُ عِیسَی ابْنُ مَرْیَمَ عَلَی بَابِ لُدٍّ۔
(٣٨٦٨٩) حضرت مجمع بن جاریہ سے روایت ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا دجال کو حضرت عیسیٰ بن مریم باب لد پر قتل کریں گے۔

38689

(۳۸۶۹۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ وَمُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، عَنْ مِسْعَرٍ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ مَیْسَرَۃَ ، عَنْ حَوْطٍ الْعَبْدِیِّ ، قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللہِ : إِنَّ أُذُنَ حِمَارِ الدَّجَّالِ لَتُظِلُّ سَبْعِینَ أَلْفًا۔
(٣٨٦٩٠) حضرت عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ بلاشبہ دجال کے گدھے کے کان ستر ہزار کو ڈھانپ لیں گے۔

38690

(۳۸۶۹۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ فِطْرٍ ، عَنْ أَبِی الطُّفَیْلِ ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : یَخْرُجُ الدَّجَّالُ عَلَی حِمَارٍ ، رِجْسٌ عَلَی رِجْسٍ۔ (عبدالرزاق ۲۰۸۲۷)
(٣٨٦٩١) حضرت ابو الطفیل نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب میں سے ایک صحابی سے نقل کرتے ہیں انھوں نے فرمایا کہ دجال گدھے پر سوار ہو کر نکلے گا گندگی پر گندگی ہوگی۔

38691

(۳۸۶۹۲) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ ، عَنْ وَہْبِ بْنِ کَیْسَانَ ، عَنْ عُبَیْدِ بْنِ عُمَیْرٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لَیَصْحَبَنَّ الدَّجَّالَ قَوْمٌ یَقُولُونَ : إنَّا لَنَصْحَبُہُ ، وَإِنَّا لَنَعْلَمُ أَنَّہُ کَذَّابٌ ، وَلَکِنَّا إنَّمَا نَصْحَبُہُ لِنَأْکُلَ مِنَ الطَّعَامِ وَنَرْعَی مِنَ الشَّجَرِ ، وَإِذَا نَزَلَ غَضَبُ اللہِ نَزَلَ عَلَیْہِمْ کُلِّہِمْ۔ (نعیم بن حماد ۱۵۳۵)
(٣٨٦٩٢) حضرت عبید بن عمیر سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا دجال کے ساتھ کچھ لوگ ہوجائیں گے وہ کہیں گے ہم اس کے ساتھ ہوتے ہیں ہم جانتے ہیں کہ وہ جھوٹا ہے لیکن ہم تو اس کے ساتھ اس وجہ سے ہوتے ہیں کہ ہم کھانا کھائیں اور درختوں سے چرائیں اور جب اللہ کا غضب اترے گا تو ان سب پر اترے گا۔

38692

(۳۸۶۹۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ أَبِی الْمِقْدَامِ ، عَنْ زَیْدِ بْنِ وَہْبٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : یَخْرُجُ الدَّجَّالُ مِنْ کُوثَی۔
(٣٨٦٩٣) حضرت عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے انھوں نے فرمایا دجال مقام کوثی سے نکلے گا۔

38693

(۳۸۶۹۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ سَلَمَۃَ ، عَنْ أَبِی صَادِقٍ ، قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللہِ : إنِّی لأَعْلَمُ أَوَّلَ أَہْلِ أَبْیَاتٍ یَقْرَعُہُمُ الدَّجَّالُ أَنْتُمْ أَہْلُ الْکُوفَۃِ۔
(٣٨٦٩٤) حضرت عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے فرمایا کہ میں پہلے ان گھر والوں کو جانتا ہوں جن کا دروازہ دجال کھٹکائے گا تم اے کوفہ والے۔

38694

(۳۸۶۹۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ سَلَمَۃَ ، عَنْ خَیْثَمَۃ ، قَالَ : قالَوا : لَوْ خَرَجَ الدَّجَّالُ لَفَعَلْنَا ، فَقَالَ عَبْدُ اللہِ : لَوْ أَصْبَحَ بِبَابِلَ لَشَکَوْتُم الْحَفَاء مِنَ السُّرْعَۃِ۔ (طبرانی ۸۵۱۱)
(٣٨٦٩٥) حضرت خیثمہ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا لوگوں نے کہا اگر دجال نکلے گا تو ہم اس کے ساتھ ایسے کریں گے حضرت عبداللہ نے فرمایا اگر وہ بابل میں ہوگا تو تم شکایت کرو گے پاؤں کے گھسنے کی، تیزی کی وجہ سے۔

38695

(۳۸۶۹۶) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَنْ زَکَرِیَّا ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَیْمُونٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ سَلاَمٍ ، قَالَ: مَا مَاتَ رَجُلٌ مِنْ یَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ إِلاَّ تَرَکَ أَلْفَ ذُرِّی لِصُلْبِہِ۔
(٣٨٦٩٦) حضرت عبداللہ بن سلام سے روایت ہے انھوں نے فرمایا یاجوج اور ماجوج میں کوئی بھی نہیں مرے گا مگر وہ اپنی ایک ہزار صلبی اولاد چھوڑے گا۔

38696

(۳۸۶۹۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ فُرَاتٍ الْقَزَّازِ ، عَنْ أَبِی الطُّفَیْلِ ، عَنْ حُذَیْفَۃَ بْنِ أَسِیدٍ الْغِفَارِیِّ ، قَالَ : اطَّلَعَ عَلَیْنَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ غُرْفَۃٍ لَہُ وَنَحْنُ نَتَذَاکَرُ السَّاعَۃَ ، فَقَالَ : لاَ تَقُومُ السَّاعَۃُ حَتَّی تَکُونَ عَشْرُ آیَاتٍ : الدَّجَّالُ وَالدُّخَانُ وَطُلُوعُ الشَّمْسِ مِنْ مَغْرِبِہَا وَدَابَّۃُ الأَرْضِ وَیَأْجُوجُ وَمَأْجُوجُ وَثَلاَثَۃُ خُسُوفٍ خَسْفٌ بِالْمَشْرِقِ وَخَسْفٌ بِالْمَغْرِبِ وَخَسْفٌ فِی جَزِیرَۃِ الْعَرَبِ ، وَنَارٌ تَخْرُجُ مِنْ قَعْرِ عَدَنَ أَبْیَنُ تَسُوقُ النَّاسَ إِلَی الْمَحْشَرِ تَنْزِلُ مَعَہُمْ إِذَا نَزَلُوا ، وَتَقِیلُ مَعَہُمْ إِذَا قَالُوا۔
(٣٨٦٩٧) حضرت حذیفہ بن اسید غفاری سے روایت ہے فرمایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے کمرے سے ہماری طرف جھانکا اس حال میں کہ ہم قیامت کا تذکرہ کر رہے تھے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا قیامت قائم نہیں ہوگی یہاں تک کہ دس نشانیاں وقوع پذیر ہوں دجال اور دھواں اور سورج کا مغرب سے طلوع ہونا اور زمین سے چوپایہ نکلے گا ایک دھنسانا مشرق میں ہوگا دوسرا مغرب میں ہوگا اور تیسرا دھنسانا جزیرۃ العرب میں ہوگا اور آگ نکلے گی مقام عدن میں زمین کی گہرائی سے جو لوگوں کو محشر کی طرف ہانکے گی وہ آگ ان کے ساتھ اترے گی جب وہ کسی مقام پر (پراؤ کے لیے) اتریں گے اور ان کے ساتھ دو پہر کا آرام کرے گی جب وہ دوپہر کو آرام کریں گے۔

38697

(۳۸۶۹۸) حَدَّثَنَا عَفَّانُ، قَالَ: حدَّثَنَا أَبَانُ الْعَطَّارُ، عَنْ قَتَادَۃَ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ أَبِی عُتْبَۃَ ، عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : لَیُحَجَّنَّ الْبَیْتُ وَلَیُعْتَمَرَنَّ بَعْدَ خُرُوجِ یَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ۔ (بخاری ۱۵۹۳۔ احمد ۲۸)
(٣٨٦٩٨) حضرت ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا بیت اللہ کا حج اور عمرہ یاجوج وماجوج کے نکلنے کے بعد (بھی) ہوگا۔

38698

(۳۸۶۹۹) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ آدَمَ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ بْنِ أَبِی یَزِیدَ ، قَالَ : رَأَی ابْنُ عَبَّاسٍ غِلْمَانًا یَنْزُو بَعْضُہُمْ عَلَی بَعْضٍ ، قَالَ : ہَکَذَا یَخْرُجُ یَأْجُوجُ وَمَأْجُوجُ۔ (ابن جریر ۸۸)
(٣٨٦٩٩) حضرت عبیداللہ بن ابی یزید سے روایت ہے انھوں نے فرمایا حضرت عبداللہ بن عباس نے بچوں کو ایک دوسرے کے اوپر کودتے دیکھا تو ارشاد فرمایا اسی طرح یاجوج اور ماجوج نکلیں گے۔

38699

(۳۸۷۰۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنِ ابْنِ سَابِطٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: إِنَّ فِی أُمَّتِی خَسْفًا وَمَسْخًا وَقَذْفًا ، قَالُوا : یَا رَسُولَ اللہِ ، وَہُمْ یَشْہَدُونَ أَنْ لاَ إلَہَ إِلاَّ اللَّہُ؟ فَقَالَ : نَعَمْ ، إِذَا ظَہَرَتِ الْمَعَازِفُ وَالْخُمُورُ وَلُبِسَ الْحَرِیرُ۔ (نعیم ۱۷۱۶۔ بزار ۳۴۰۲)
(٣٨٧٠٠) حضرت عبداللہ بن سابط نے فرمایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا بلاشبہ میری امت میں زمین میں دھنسایا جانا اور شکلوں کو بگاڑنا اور سنگ زنی ہوگی صحابہ کرام نے عرض کیا وہ لاَ إلَہَ إِلاَّ اللَّہُ کی گواہی دیتے ہوں گے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہاں جب گانے بجانے کے آلات اور شراب عام ہوجائے گی اور ریشم پہنا جائے گا۔

38700

(۳۸۷۰۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ سِمَاکٍ ، عَنْ رَجُلٍ یُقَالُ لَہُ نُبَیٌّ ، قَالَ : جَائَ قِسّ إِلَی عَلِیٍّ فَسَجَدَ لَہُ فَنَہَاہُ وَقَالَ : اسْجُدْ لِلَّہِ ، قَالَ : فَقَالَ : سَلُوہُ مَتَی السَّاعَۃُ ، فَقَالَ : لَقَدْ سَأَلْتُمُونِی عَنْ أَمْرٍ مَا یَعْلَمُہُ جَبْرَئِیلُ وَلاَ مِیکَائِیلُ ، وَلَکِنْ إِنْ شِئْتُمْ أَنْبَأْتُکُمْ بِأَشْیَائَ إِذَا کَانَتْ لَمْ یَکُنَ للسَّاعَۃِ کَبِیرَ لَبْثٍ ، إِذَا کَانَتِ الأَلْسُنُ لَیِّنَۃً وَالْقُلُوبُ نَیَازِکَ ، وَرَغِبَ النَّاسُ فِی الدُّنْیَا وَظَہَرَ الْبِنَائُ عَلَی وَجْہِ الأَرْضِ ، وَاخْتَلَفَ الأَخَوَانِ فَصَارَ ہَوَاہُمَا شَتَّی وَبِیعَ حُکْمُ اللہِ بَیْعًا۔
(٣٨٧٠١) حضرت سماک بن حرب ایک صاحب سے نقل کرتے ہیں جن کو نبی کہا جاتا تھا انھوں نے کہا کہ قیس حضرت علی کے پاس آئے اور ان کو سجدہ کیا انھوں نے ان کو اس سے روکا اور فرمایا اللہ تعالیٰ کو سجدہ کرو راوی نے فرمایا کہ لوگوں نے ان سے کہا کہ تم پوچھو قیامت کب قائم ہوگی تو حضرت علی نے فرمایا تو نے مجھ سے ایسی چیز کے بارے میں سوال کیا ہے جسے نہ حضرت جبرائیل جانتے ہیں اور نہ ہی میکائیل لیکن میں ت میں ی ایسی اشیاء کے بارے میں بتلاتا ہوں کہ جب وہ ہوں گی تو پھر قیامت میں زیادہ وقت نہیں ہوگا جب زبانیں نرم ہوں گی اور دل نیزوں کی طرح ہوں گے اور لوگ دنیا میں رغبت کریں گے اور عمارتیں زمین پر ظاہر ہوں گی، بھائیوں میں اختلاف ہوجائے گا اور ان کی آراء مختلف ہوں گی، اور اللہ کا حکم بیچا جائے گا۔

38701

(۳۸۷۰۲) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ مُسْلِمٍ ، عَنْ یَزِیدَ بْنِ عَمْرٍو ، عَنْ سَلْمَانَ الْفَارِسِیِّ ، قَالَ : إِنَّ مِنَ اقْتِرَابِ السَّاعَۃِ أَنْ یَظْہَرَ الْبِنَائُ عَلَی وَجْہِ الأَرْضِ ، وَأَنْ تُقْطَعَ الأَرْحَامُ ، وَأَنْ یُؤْذِیَ الْجَارُ جَارَہُ۔
(٣٨٧٠٢) حضرت سلمان فارسی سے روایت ہے کہ انھوں نے فرمایا قیامت کے قریب کی علامتیں ہیں کہ زمین پر عمارتیں ظاہر ہوجائیں گی اور رشتے داریاں توڑی جائیں گی اور یہ کہ پڑوسی پڑوسی کو تکلیف دے گا۔

38702

(۳۸۷۰۳) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ ، عَنِ الْعَلاَئِ بْنِ خَالِدٍ ، عَنْ أَبِی وَائِلٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : إِنَّ مِنْ أَشْرَاطِ السَّاعَۃِ أَنْ یَظْہَرَ الْفُحْشُ وَالتَّفَحُّشُ ، وَسُوئُ الْخُلُقِ ، وَسُوئُ الْجِوَارِ۔
(٣٨٧٠٣) حضرت عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ بلاشبہ قیامت کی علامتوں میں ہے کہ بدگوئی اور بدفعلی اور بدخلقی اور برا پڑوس عام ہوجائے گا۔

38703

(۳۸۷۰۴) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ حُبَابٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا مُعَاوِیَۃُ بْنُ صَالِحٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنِی عَمْرُو بْنُ قَیْسٍ الْکِنْدِیُّ ، قَالَ : سَمِعْتُ عَبْدَ اللہِ بْنَ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ ، قَالَ : مِنْ أَشْرَاطِ السَّاعَۃِ أَنْ یَظْہَرَ الْقَوْلُ ، وَیَخْزُنَ وَیَرْتَفِعَ الأَشْرَارُ ، وَیُوضَعَ الأَخْیَارُ ، وَتُقْرَأُ الْمَثَانِی عَلَیْہِمْ ، فَلاَ یَعِیبُہَا أَحَدٌ مِنْہُمْ ، قَالَ : قُلْتُ : مَا الْمَثَانِی ، قَالَ : کُلُّ کِتَابٍ سِوَی کِتَابِ اللہِ۔
(٣٨٧٠٤) حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ قیامت کی علامات میں سے ہے کہ باتیں ظاہر ہوں گی اور عمل بدل جائے گا شریر لوگ بلند ہوجائیں گے اور بھلے لوگ نیچے کردیے جائیں گے اور ان پر مثانی پڑھی جائے گی ان میں کوئی بھی اس پر عیب نہیں لگائے گا راوی نے کہا میں نے عرض کیا مثانی کیا ہے انھوں نے فرمایا ہر کتاب جو اللہ کی کتاب (یعنی قرآن مجید) کے علاوہ ہو۔

38704

(۳۸۷۰۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ رَجَائِ بْنِ حَیْوَۃَ ، قَالَ : لاَ تَقُومُ السَّاعَۃُ حَتَّی لاَ تَحْمِلَ النَّخْلَۃُ فیہ إِلاَّ تَمْرَۃً۔ (نعیم بن حماد ۱۸۱۸)
(٣٨٧٠٥) حضرت رجاء بن حیوہ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ قیامت قائم نہیں ہوگی یہاں تک کہ کھجور کے درخت پر صرف ایک کھجور ہوگی۔

38705

(۳۸۷۰۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ ، عَنْ قَیْسٍ ، قَالَ : لاَ تَقُومُ السَّاعَۃُ حَتَّی یُقَوَّمَ رَأْسُ الْبَقَرَۃِ بِالأُوقِیَّۃِ۔
(٣٨٧٠٦) حضرت قیس سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ قیامت قائم نہیں ہوگی یہاں تک کہ گائے کے سر کی قیمت اوقیہ (چاندی) سے کی جائے گی۔

38706

(۳۸۷۰۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ الْحَارِثِ ، عَنْ أَبِی الْوَدَّاکِ ، قَالَ : مِنَ اقْتِرَابِ السَّاعَۃِ انْتِفَاخُ الأَہِلَّۃِ۔
(٣٨٧٠٧) حضرت ابو الوداک سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ قیامت کے قرب کی علامت میں سے ہے پہلے دن کے چاند کا بھول جانا۔

38707

(۳۸۷۰۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ شَرِیکٍ ، عَنِ الْعَبَّاسِ بْنِ ذُرَیْحٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: مِنَ اقْتِرَابِ السَّاعَۃِ أَنْ یُرَی الْہِلاَلُ قَبَلاً فَیُقَالُ : ابْنُ لَیْلَتَیْنِ۔
(٣٨٧٠٨) حضرت شعبی سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا قیامت کے قریب میں چاند سامنے (نکلتا) ہوا دیکھا جائے گا اور کہا جائے گا دو راتوں کا چاند ہے۔

38708

(۳۸۷۰۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ ہِشَامٍ الدَّسْتَوَائِیِّ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ : أَلاَ أُحَدِّثُکُمْ حَدِیثًا لاَ یُحَدِّثُکُمْ بِہِ أَحَدٌ بَعْدِی ، قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لاَ تَقُومُ السَّاعَۃُ حَتَّی یَکُونَ فِی الْخَمْسِینَ امْرَأَۃً الرَّجُلُ الْوَاحِدُ۔ (بخاری ۵۲۳۱۔ مسلم ۲۰۵۶)
(٣٨٧٠٩) حضرت انس سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کیا میں تمہارے سامنے ایسی حدیث نہ بیان کروں کوئی بھی میرے بعد تم سے وہ بیان نہ کرے گا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا قیامت قائم نہیں ہوگی یہاں تک کہ پچاس عورتوں میں ایک آدمی منتظم ہوگا۔

38709

(۳۸۷۱۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ الْفَضْلِ ، عَنْ أَبِی نَضْرَۃَ ، عَنْ أَبِی سَعِیدٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ ، لاَ تَقُومُ السَّاعَۃُ حَتَّی تُکَلِّمَ السِّبَاعُ الإِنْسَ ، وَحَتَّی تُکَلِّمَ الرَّجُلَ عَذَبَۃُ سَوْطِہِ وَشِرَاکُ نَعْلِہِ وَتُخْبِرَہُ فَخِذُہُ بِمَا حَدَثَ فِی أَہْلِہِ بَعْدَہُ۔ (ترمذی ۲۱۸۱۔ احمد ۸۳)
(٣٨٧١٠) حضرت ابو سعید سے روایت ہے فرمایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے قیامت قائم نہیں ہوگی یہاں تک کہ درندے انسانوں سے باتیں کریں گے اور یہاں تک کہ آدمی سے اس کے کوڑے کا کنارہ بات کرے گا اور اس کے جوتے کا تسمہ اور اس کی ران خبر دے گی جو اس کے گھر میں بات پیش آئی۔

38710

(۳۸۷۱۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ ، عَنْ قَیْسٍ ، قَالَ : أُخْبِرْت أَنَّ السَّاعَۃَ لاَ تَقُومُ حَتَّی تَقُولَ الْحَجَرُ وَالشَّجَرُ : یَا مُؤْمِنُ ، ہَذَا یَہُودِی ، ہَذَا نَصْرَانِی ، فَاقْتُلْہُ۔
(٣٨٧١١) حضرت قیس سے روایت ہے انھوں نے فرمایا مجھے یہ خبر دی گئی کہ قیامت قائم نہیں ہوگی یہاں تک کہ پتھر کہیں گے اے مومن یہ یہودی ہے یہ نصرانی ہے اسے قتل کردو۔

38711

(۳۸۷۱۲) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ أَبِی حَیَّانَ ، عَنْ أَبِی زُرْعَۃَ بْنِ عَمْرٍو ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، أَنَّ رَجُلاً قَالَ : یَا رَسُولَ اللہِ ، مَتَی السَّاعَۃُ ؟ قَالَ : مَا الْمَسْؤُولُ عَنْہَا بِأَعْلَمَ مِنَ السَّائِلِ ، وَلَکِنْ سَأُحَدِّثُک عَنْ أَشْرَاطِہَا : إِذَا وَلَدَتِ الأَمَۃُ رَبَّتَہَا فَذَاکَ مِنْ أَشْرَاطِہَا ، وَإِذَا کَانَتِ الْحُفَاۃُ الْعُرَاۃُ رُؤُوسَ النَّاسِ ، فَذَاکَ مِنْ أَشْرَاطِہَا ، وَإِذَا تَطَاوَلَ رِعَائُ الْغَنَمِ فِی الْبُنْیَانِ ، فَذَاکَ مِنْ أَشْرَاطِہَا ، فِی خَمْسٍ لاَ یَعْلَمُہُنَّ إِلاَّ اللَّہُ : {إنَّ اللَّہَ عِنْدَہُ عِلْمُ السَّاعَۃِ وَیُنَزِّلُ الْغَیْثَ وَیَعْلَمُ مَا فِی الأَرْحَامِ وَمَا تَدْرِی نَفْسٌ مَاذَا تَکْسِبُ غَدًا وَمَا تَدْرِی نَفْسٌ بِأَیِّ أَرْضٍ تَمُوتُ إِنَّ اللَّہَ عَلِیمٌ خَبِیرٌ}۔
(٣٨٧١٢) حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے عرض کی اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قیامت کب آئے گی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس سے پوچھا جا رہا ہے وہ پوچھنے والے سے زیادہ نہیں جانتا لیکن میں تمہارے سامنے اس کی علامات بیان کرتا ہوں جب باندی اپنا آقا جنے گی یہ قیامت کی نشانوکں میں سے ہے اور جب ننگے پاؤں اور ننگے بدن والے لوگوں کے سردار ہوں گے یہ قیامت کی علامتوں میں ہے اور بکریاں چرانے والے عمارتوں میں تفاخر کریں گے یہ بھی قیامت کی علامتوں میں ہے قیامت کا علم ان پانچ چیزوں میں ہے جن کو سوائے اللہ کے کوئی نہیں جانتا {إنَّ اللَّہَ عِنْدَہُ عِلْمُ السَّاعَۃِ وَیُنَزِّلُ الْغَیْثَ وَیَعْلَمُ مَا فِی الأَرْحَامِ وَمَا تَدْرِی نَفْسٌ مَاذَا تَکْسِبُ غَدًا وَمَا تَدْرِی نَفْسٌ بِأَیِّ أَرْضٍ تَمُوتُ إِنَّ اللَّہَ عَلِیمٌ خَبِیرٌ}۔ بلاشبہ اللہ کے پاس ہے قیامت کا علم اور وہ بارش اتارتا ہے اور جانتا ہے جو کچھ رحموں میں ہے اور نہیں کوئی بھی جانتا کہ وہ کل کو کیا کمائے گا اور نہیں جانتا کوئی جی کہ وہ کہاں مرے گا بلاشبہ اللہ تعالیٰ جاننے والے باخبر ہیں۔

38712

(۳۸۷۱۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ کَہْمَسِ بْنِ الْحَسَنِ ، عَنِ ابْنِ بُرَیْدَۃَ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ یَعْمَُرَ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنْ عُمَرَ، قَالَ: کُنَّا جُلُوسًا عِنْدَ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَجَائَہُ رَجُلٌ شَدِیدُ بَیَاضِ الثِّیَابِ شَدِیدُ سَوَادِ الشَّعْرِ لاَ یُرَی عَلَیْہِ أَثَرُ السَّفَرِ ، وَلاَ یَعْرِفُہُ مِنَّا أَحَدٌ فَدَنَا مِنْہُ حَتَّی أَدْنَی رُکْبَتَیْہِ مِنْ رُکْبَتَیْہِ ، وَوَضَعَ کَفَّیْہِ عَلَی فَخِذَیْہِ ، فَقَالَ : یَا مُحَمَّدُ مَتَی السَّاعَۃُ ؟ فَقَالَ : مَا الْمَسْؤُولُ عَنْہَا بِأَعْلَمَ مِنَ السَّائِلِ ، وَلَکِنَّ مِنْ أَمَارَاتِہَا أَنْ تَلِدَ الأَمَۃُ رَبَّتَہَا ، وَأَنْ تَرَی الْحُفَاۃَ الْعُرَاۃَ أَصْحَابَ الشَّائِ قَدْ تَطَاوَلُوا فِی الْبُنْیَانِ۔ (مسلم ۳۶۔ احمد ۲۸)
(٣٨٧١٣) حضرت عمر سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ ہم نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس بیٹھے ہوئے تھے پس آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس بہت زیادہ سفید کپڑوں والے بہت زیادہ سیاہ بالوں والے ایک صاحب آئے ان پر سفر کے اثرات دکھائی نہیں دے رہے تھے اور ہم میں کوئی بھی ان کو پہچانتا نہیں تھا وہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قریب ہوئے یہاں تک کہ انھوں نے اپنے گھٹنے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گھٹنوں کے قریب کردیے اور اپنی ہتھیلیاں اپنی رانوں پر رکھ لیں اور عرض کیا اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! قیامت کب قائم ہوگی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا جس سے پوچھا جا رہا ہے وہ پوچھنے والے سے زیادہ نہیں جانتا لیکن اس کی نشانیوں میں ہے کہ باندی اپنے آقا کو جنے گی اور یہ کہ ننگے پاؤں والے اور ننگے بدن والے بکریاں چرانے والے لوگ عمارتوں میں ایک دوسرے پر فخر کریں گے۔

38713

(۳۸۷۱۴) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ عَائِشَۃَ ، قَالَتْ : کَانَ الأَعْرَابُ إِذَا قَدِمُوا عَلَی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سَأَلُوہُ مَتَی السَّاعَۃُ ، فَنَظَرَ إِلَی أَحْدَثِ إنْسَانٍ مِنْہُمْ ، فَقَالَ : إِنْ یَعِشْ ہَذَا فَلَمْ یُدْرِکْہُ الْہَرَمُ قَامَتْ عَلَیْکُمْ سَاعَتُکُمْ۔ (بخاری ۹۵۱۱۔ مسلم ۲۲۶۹)
(٣٨٧١٤) حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ دیہاتی جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے تو پوچھتے ہیں قیامت کب ہوگی پس آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان میں سے نو عمر آدمی کی طرف دیکھتے اور فرماتے اگر یہ زندہ رہا تو اسے موت نہیں آئے گی کہ تم پر قیامت قائم ہوجائے گی۔

38714

(۳۸۷۱۵) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنْ دَاوُدَ ، عَنْ أَبِی نَضْرَۃَ ، عَنْ أَبِی سَعِیدٍ ، قَالَ : لَمَّا رَجَعَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ تَبُوکَ سَأَلُوہُ عَنِ السَّاعَۃِ ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لاَ تَأْتِی مِئَۃُ سَنَۃٍ وَعَلَی الأَرْضِ نَفْسٌ مَنْفُوسَۃٌ الْیَوْمَ۔ (مسلم ۱۹۶۷۔ ابن حبان ۲۹۸۶)
(٣٨٧١٥) حضرت ابو سعید سے روایت ہے فرمایا کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تبوک سے واپس تشریف لائے تو صحابہ کرام نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا قیامت کے بارے میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ سو سال گزرنے پر آج موجود زندہ جان میں کوئی جان زمین پر نہ ہوگی۔

38715

(۳۸۷۱۶) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ: سَأَلَ رَجُلٌ النَّبِیّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: عن السَّاعَۃُ؟ فَقَالَ : مَا أَعْدَدْت لَہَا ؟ فَذَکَرَ شَیْئًا إِلاَّ أَنِّی أُحِبُّ اللَّہَ وَرَسُولَہُ ، فَقَالَ : الْمَرْئُ مَعَ مَنْ أَحَبَّ۔ (مسلم ۲۰۳۲۔ احمد ۱۱۰)
(٣٨٧١٦) حضرت انس سے روایت ہے کہ ایک صاحب نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے قیامت کے بارے میں پوچھا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تو نے اس کے لیے کیا تیاری کی ہے اس نے کوئی چیز ذکر کی (اور کہا) مگر میں اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہوں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا آدمی اس کے ساتھ ہوگا جس سے اس نے محبت کی۔

38716

(۳۸۷۱۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ شِمْرٍ ، عَنْ أَبِی یَحْیَی ، عَنْ کَعْبٍ ، قَالَ : لاَ تَقُومُ السَّاعَۃُ حَتَّی یَکُونَ الرَّجُلُ الْوَاحِدُ قَیِّمَ خَمْسِینَ امْرَأَۃً۔
(٣٨٧١٧) حضرت کعب سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ قیامت قائم نہیں ہوگی یہاں تک کہ ایک آدمی پچاس عورتوں کا منتظم ہوگا۔

38717

(۳۸۷۱۸) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا سُلَیْمَانُ التَّیْمِیُّ ، عَنْ أَبِی نَضْرَۃَ ، عَنْ جَابِرٍ ، أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : مَا مِنْکُمْ مِنْ نَفْسٍ مَنْفُوسَۃٍ تَأْتِی عَلَیْہَا مِئَۃُ سَنَۃٍ وَہِیَ حَیَّۃٌ یَوْمَئِذٍ۔ (مسلم ۱۹۶۷۔ احمد ۳۰۵)
(٣٨٧١٨) حضرت جابر سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ تم میں سے کوئی زندہ جان سو سال گزرنے پر زندہ نہ ہوگی۔

38718

(۳۸۷۱۹) حَدَّثَنَا یَزِیدُ ، عَنْ سُلَیْمَانَ التَّیْمِیِّ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ صَاحِبِ السِّقَایَۃِ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلُہُ ، وَفَسَّرَ جَابِرٌ : نُقْصَانٌ مِنَ الْعُمُرِ۔ (مسلم ۱۹۶۶)
(٣٨٧١٩) حضرت جابر سے اوپر والی روایت کے مثل نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کیا ہے حضرت جابر نے اس کی تفسیر عمر میں کمی سے کی تھی۔

38719

(۳۸۷۲۰) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِیزِ بْنِ رُفَیْعٍ ، عَنْ عُبَیْدِ بْنِ عُمَیْرٍ اللَّیْثِیِّ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: لاَ تَقُومُ السَّاعَۃُ حَتَّی یَخْرُجَ ثَلاَثُونَ کَذَّابًا کُلُّہُمْ یَزْعُمُ ، أَنَّہُ نَبِیٌّ قَبْلَ یَوْمِ الْقِیَامَۃِ۔
(٣٨٧٢٠) حضرت عبید بن عمیر لیثی سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ قیامت قائم نہیں ہوگی یہاں تک کہ قیامت سے پہلے تیس جھوٹے نکلیں گے ان میں سے ہر ایک دعویٰ کرے گا کہ وہ نبی ہے۔

38720

(۳۸۷۲۱) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِ ، عَنْ سِمَاکٍ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَۃَ ، قَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : إِنَّ بَیْنَ یَدَیِ السَّاعَۃِ کَذَّابِینَ ، فَقُلْتُ : أَنْتَ سَمِعْتہ مِنْ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ؟ قَالَ : نَعَمْ۔ (مسلم ۲۲۳۹۔ طبرانی ۱۹۸۸)
(٣٨٧٢١) حضرت سماک سے روایت ہے حضرت جابر بن سمرہ نے ارشاد فرمایا کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا فرمایا کہ قیامت سے پہلے چھوٹے آئیں گے میں نے عرض کیا کہا آپ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا ہے انھوں نے فرمایا ہاں۔

38721

(۳۸۷۲۲) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو ، عَنْ أَبِی سَلَمَۃَ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لاَ تَقُومُ السَّاعَۃُ حَتَّی یَخْرُجَ ثَلاَثُونَ کَذَّابًا دَجَّالاً کُلُّہُمْ یَکْذِبُ عَلَی اللہِ وَعَلَی رَسُولِہِ۔ (ابوداؤد ۴۳۳۴۔ احمد ۵۲۸)
(٣٨٧٢٢) حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے فرمایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا قیامت قائم نہیں ہوگی یہاں تک کہ تیس جھوٹے دجال نکلیں گے ان میں سے ہر ایک اللہ اور اس کے رسول پر جھوٹ باندھے گا۔

38722

(۳۸۷۲۳) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا بَدْرُ بْنُ عُثْمَانَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا الشَّعْبِیُّ ، عَنْ رَجُلٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مَسْعُودٍ ، عَنْ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، أَنَّہُ قَالَ یَوْمًا : یَکُونُ فِی آخِرِ الزَّمَانِ أَرْبَعُ فِتَنٍ یَکُونُ فِی آخِرِہَا الْفَنَائُ۔
(٣٨٧٢٣) حضرت عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک دن ارشاد فرمایا اخیر زمانے میں چار فتنے ہوں گے ان کے اخیر میں ہلاکت ہوگی۔

38723

(۳۸۷۲۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ عَامِرٍ ، قَالَ : سُئِلَ حُذَیْفَۃُ : أَیُّ الْفِتْنَۃِ أَشَدُّ ؟ قَالَ : أَنْ یُعْرَضَ عَلَیْک الْخَیْرُ وَالشَّرُّ لاَ تَدْرِی أَیَّہُمَا تَتْبَعُ۔
(٣٨٧٢٤) حضرت عامر سے روایت ہے فرمایا کہ حضرت حذیفہ سے پوچھا گیا کونسا فتنہ زیادہ سخت ہے انھوں نے فرمایا کہ تمہارے سامنے بھلائی اور برائی لائی جائے اور تم یہ نہ جان سکو کہ دونوں میں سے کس کی پیروی کروں۔

38724

(۳۸۷۲۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ رَجُلٍ ، عَنِ الضَّحَّاکِ ، عَنْ حُذَیْفَۃَ ، قَالَ : إِنَّ أَخْوَف مَا أَتَخَوَّفُ عَلَیْکُمْ أَنْ تُؤْثِرُوا مَا تَرَوْنَ عَلَی مَا تَعْلَمُونَ ، وَأَنْ تَضِلُّوا وَأَنْتُمْ لاَ تَشْعُرُونَ۔
(٣٨٧٢٥) حضرت حذیفہ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ مجھے تمہارے بارے میں سب سے زیادہ اس بات کا خوف ہے کہ تم جو دیکھو اسے اس پر ترجیح دو جو تم جانتے ہو اور یہ کہ تم گمراہ ہوجاؤ اور تم کو اس بات کا شعور تک نہ ہو۔

38725

(۳۸۷۲۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ سَعْدٍ ، قَالَ : قَالَ عُمَرُ : أَخْوَفُ مَا أَتَخَوَّفُ عَلَی ہَذِہِ الأُمَّۃِ قَوْمٌ یَتَأَوَّلُونَ الْقُرْآنَ عَلَی غَیْرِ تَأْوِیلِہِ۔
(٣٨٧٢٦) حضرت عمر سے روایت ہے ارشاد فرمایا کہ مجھے اس امت پر ان لوگوں سے زیادہ خوف ہے جو قرآن کی (صحیح) تفسیر کے علاوہ سے قرآن کی تفسیر کریں گے۔

38726

(۳۸۷۲۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ مُوسَی بْنِ عُبَیْدَۃَ ، عَنْ طَلْحَۃَ بْنِ عُبَیْدِ اللہِ بْنِ کَرِیزٍ ، قَالَ : قَالَ عُمَرُ : إِنَّ أَخْوَف مَا أَتَخَوَّفُ عَلَیْکُمْ شُحٌّ مُطَاعٌ ، وَہَوًی مُتَّبَعٌ ، وَإِعْجَابُ الْمَرْئِ بِرَأْیِہِ ، وَہِیَ أَشَدُّہُنَّ۔
(٣٨٧٢٧) حضرت عمر سے روایت ہے ارشاد فرمایا بلاشبہ سب سے زیادہ خوف مجھے تم پر اس بخل کا ہے جس کے تقاضوں کی اطاعت کی جائے اور خواہش کا ہے جس کی پیروی کی جائے اور آدمی کا اپنی رائے پر خوش ہونے کا ہے جو ان سب سے زیادہ سخت ہے۔

38727

(۳۸۷۲۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا کَثِیرُ بْنُ زَیْدٍ ، عَنِ الْمُطَّلِبِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ حَنْطَبٍ ، قَالَ : قَالَ : مَا أَتَخَوَّفُ عَلَیْکُمْ أَحَدُ رَجُلَیْنِ : مُؤْمِنٌ قَدِ اسْتَبَانَ إیمَانُہُ ، وَکَافِرٌ قَدْ تَبَیَّنَ کُفْرُہُ ، وَلَکِنْ أتَخَوَّفُ عَلَیْکُمْ مُتَعَوِّذًا بِالإِیمَانِ یَعْمَلُ بِغَیْرِہِ۔
(٣٨٧٢٨) حضرت مطلب بن عبداللہ بن حنطب سے روایت ہے ارشاد فرمایا دو آدمیوں میں سے کسی ایک کے بارے میں مجھے خوف نہیں ایک مومن جس کا ایمان واضح ہے اور دوسرا کافر جس کا کفر واضح ہے لیکن مجھے خوف تم پر اس آدمی کے بارے میں ہے جو ایمان کے ذریعے پناہ پکڑنے والا ہے اور عمل اسلام کے علاوہ کرتا ہے۔

38728

(۳۸۷۲۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ وَاقِعِ بْنِ سَحْبَانَ ، عَنْ طَرِیفِ بْنِ یَزِیدَ ، أَوْ یَزِیدَ بْنِ طَرِیفٍ، عَنْ أَبِی مُوسَی ، قَالَ : إِنَّ بَیْنَ یَدَیَ السَّاعَۃِ أَیَّامًا یَنْزِلُ فِیہَا الْجَہْلُ وَیُرْفَعُ فِیہَا الْعِلْمُ حَتَّی یَقُومَ الرَّجُلُ إِلَی أُمِّہِ فَیَضْرِبُہَا بِالسَّیْفِ مِنَ الْجَہْلِ۔
(٣٨٧٢٩) حضرت ابو موسیٰ سے روایت ہے انھوں نے ارشاد فرمایا بلاشبہ قیامت سے پہلے ایسے ایام آئیں گے جن میں جہالت اتاری جائے گی اور علم ان میں اٹھا لیا جائے گا یہاں تک کہ ایک آدمی اپنی ماں کی طرف کھڑا ہوگا اور جہالت کی وجہ سے اسے تلوار سے ماردے گا۔

38729

(۳۸۷۳۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ قَیْسٍ ، عَنْ عَطِیَّۃَ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ فِی قَوْلِہِ {وَإِذَا وَقَعَ الْقَوْلُ عَلَیْہِمْ أَخْرَجْنَا لَہُمْ دَابَّۃً مِنَ الأَرْضِ تُکَلِّمُہُمْ} قَالَ : حِینَ لاَ یَأْمُرُونَ بِمَعْرُوفٍ وَلاَ یَنْہَوْنَ عَنْ مُنْکَرٍ۔ (عبدالرزاق ۸۵۔ طبری ۲۰)
(٣٨٧٣٠) حضرت عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ اللہ تعالیٰ کے قول ” واذا وقع القول علیہم اخرجنا الایۃ “ اور جب ہماری بات پوری ہونے کا وقت ان پر آن پہنچے گا تو ہم ان کے لیے زمین سے ایک جانور نکالیں گے جو ان سے بات کرے گا کے بارے میں ارشاد فرمایا یہ اس وقت ہوگا جب لوگ بھلائی کا حکم نہیں دیں گے اور نہ برائی سے روکیں گے۔

38730

(۳۸۷۳۱) حَدَّثَنَا شَرِیکٌ، عَنْ شَبِیبِ بْنِ غَرْقَدَۃَ، عَنِ الْمُسْتَظِلِّ بْنِ حُصَیْنٍ، قَالَ: قَالَ عَلِیٌّ: یَا أَہْلَ الْکُوفَۃِ لَتَأْمُرُنَّ بِالْمَعْرُوفِ وَلَتَنْہَوُنَّ عَنِ الْمُنْکَرِ وَلَتَجِدُنَّ فِی أَمْرِ اللہِ أَو لِیَسُومَنَّکُمْ أَقْوَامًا یُعَذِّبُونَکُمْ وَیُعَذِّبُہُمُ اللَّہُ۔
(٣٨٧٣١) حضرت علی سے روایت ہے انھوں نے ارشاد فرمایا اے کوفہ والو ضرور تم بھلائی کا حکم دو اور برائی سے روکو وگرنہ تم اللہ کے امر کو پاؤ گے یا اللہ تعالیٰ تم پر ایسی قوموں کو مسلط کریں گے جو تم کو عذاب دیں گی اور اللہ ان کو عذاب دیں گے۔

38731

(۳۸۷۳۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ حَبِیبٍ ، عَنْ أَبِی الطُّفَیْلِ ، قَالَ قِیلَ لِحُذَیْفَۃَ : مَا مَیِّتُ الأَحْیَائِ ، قَالَ : مَنْ لَمْ یَعْرِفِ الْمَعْرُوفَ بِقَلْبِہِ وَیُنْکِرِ الْمُنْکَرَ بِقَلْبِہِ۔
(٣٨٧٣٢) حضرت حذیفہ سے روایت ہے ان سے پوچھا گیا زندہ لوگوں میں سے مردہ کون سے ہوتے ہیں ارشاد فرمایا وہ آدمی جو اپنے دل سے نیکی کو اچھا نہ جانے اور برائی کو اپنے دل سے ناپسند نہ کرے۔

38732

(۳۸۷۳۳) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ قَیْسِ بْنِ رَاشِدٍ ، عَنْ أَبِی جُحَیْفَۃَ ، عَنْ عَلِیٍّ ، قَالَ : إِنَّ أَوَّلَ مَا تُغْلَبُونَ عَلَیْہِ مِنَ الْجِہَادِ الْجِہَادُ بِأَیْدِیکُمْ ، ثُمَّ الْجِہَادُ بِأَلْسِنَتِکُمْ ، ثُمَّ الْجِہَادُ بِقُلُوبِکُمْ ، فَأَیُّ قَلْبٍ لَمْ یَعْرِفَ الْمَعْرُوفَ وَلاَ یُنْکِرُ الْمُنْکَرَ نُکِّسَ فَجُعِلَ أَعْلاَہُ أَسْفَلَہُ۔ (نعیم ۱۳۷)
(٣٨٧٣٣) حضرت علی سے روایت ہے ارشاد فرمایا بلاشبہ جہاد میں سے پہلی وہ قسم جس سے تم پر غلبہ پالیا جائے گا وہ ہاتھوں سے جہاد ہے پھر تمہارا زبان سے جہاد کرنا ہے پھر دل سے جہاد کرنا ہے پس جو کوئی دل بھلائی کو اچھا نہ جانے اور برائی کو برا نہ سمجھے اسے اوندھا کردیا جائے گا اور اس کے اوپر کی جانب کو نیچے کی جانب کردیا جائے گا۔

38733

(۳۸۷۳۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ زُبَیْدٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنْ أَبِی جُحَیْفَۃَ ، عَنْ عَلِیٍّ ، قَالَ : فَیُنَکَّسُ کَمَا یُنَکَّسُ الْجِرَابُ فَیَنْثُرُ مَا فِیہِ۔
(٣٨٧٣٤) حضرت علی سے روایت ہے انھوں نے فرمایا (امر بالمعروف اور نھی عن المنکر نہ کرنے والا) اس کا دل پلٹ دیا جاتا ہے جیسا کہ مشکیزے کو اوندھا کردیا جاتا ہے پس جو اس مشکیزے میں ہوتا ہے وہ بکھر جاتا ہے۔

38734

(۳۸۷۳۵) حَدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ سِمَاکٍ ، عَنْ عَبْدِ االْمَلِکِ بْنِ عَمِیرَۃَ ، عَنْ زَوْجِ دُرَّۃَ ، عَنْ دُرَّۃَ ، قَالَتْ : دَخَلْتُ عَلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَہُوَ فِی الْمَسْجِدِ ، فَقُلْتُ : مَنْ أَتْقَی النَّاسِ ؟ قَالَ : آمَرُہُمْ بِالْمَعْرُوفِ وَأَنْہَاہُمْ عَنِ الْمُنْکَرِ وَأَوْصَلُہُمْ لِلرَّحِمِ۔
(٣٨٧٣٥) حضرت درہ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس گیا اس حال میں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مسجد میں تشریف فرما تھے میں نے عرض کیا لوگوں میں سب سے زیادہ متقی کون ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا ان میں نیکی کا زیادہ حکم دینے والا اور ان میں سے برائی سے زیادہ روکنے والا اور ان میں سے رشتے داری کو زیادہ جوڑنے والا۔

38735

(۳۸۷۳۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ قَیْسِ بْنِ مُسْلِمٍ ، عَنْ طَارِقِ بْنِ شِہَابٍ ، قَالَ ، قَالَ عِتْرِیسٌ لِعَبْدِ اللہِ : ہَلَکَ مَنْ لَمْ یَأْمُرْ بِالْمَعْرُوفِ وَیَنْہَ عَنِ الْمُنْکَرِ ، فَقَالَ عَبْدُ اللہِ : بَلْ ہَلَکَ مَنْ لَمْ یَعْرِفِ الْمَعْرُوفَ بِقَلْبِہِ وَیُنْکِرِ الْمُنْکَرَ بِقَلْبِہِ۔ (طبرانی ۸۵۶۴)
(٣٨٧٣٦) حضرت طارق بن شہاب سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ حضرت عتریس نے حضرت عبداللہ سے کہا جس آدمی نے بھلائی کا حکم نہیں دیا اور برائی سے روکا نہیں وہ ہلاک ہوگیا حضرت عبداللہ نے فرمایا بلکہ ہلاک تو وہ آدمی ہوا جس نے بھلائی کو دل سے اچھا نہ جانا اور برائی کو دل سے برا نہ سمجھا۔

38736

(۳۸۷۳۷) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ عُمَیْرٍ ، عَنِ الرَّبِیعِ بْنِ عُمَیْلَۃَ ، قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللہِ : إِنَّہَا سَتَکُونُ ہَنَاتٌ وَہَنَاتٌ ، فَبِحَسْبِ امْرِئٍ إِذَا رَأَی مُنْکَرًا لاَ یَسْتَطِیعُ لَہُ غَیْر أَنْ یَعْلَمُ اللَّہُ مِنْ قَلْبِہِ ، أَنَّہُ لَہُ کَارِہٌ۔
(٣٨٧٣٧) حضرت عبداللہ سے روایت ہے فرمایا کہ عنقریب فتنے اور فتنے ہوں گے کسی بھی آدمی کے لیے جو ایسے منکر اور برائی کو دیکھے جس کو بدلنے کی طاقت نہ رکھتا ہو یہ بات کافی ہے کہ اللہ تعالیٰ یہ جان لیں کہ وہ اس برائی کو ناپسند کرتا ہے۔

38737

(۳۸۷۳۸) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، وَأَبُو أُسَامَۃَ ، قَالاَ : حدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ بْنُ أَبِی خَالِدٍ عَنْ قَیْسِ بْنِ أَبِی حَازِمٍ ، قَالَ : قَامَ أَبُو بَکْرٍ فَحَمِدَ اللَّہَ وَأَثْنَی عَلَیْہِ ، ثُمَّ قَالَ : یَا أَیُّہَا النَّاسُ ، إنَّکُمْ تَقْرَؤُونَ ہَذِہِ الآیَۃَ : (یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا عَلَیْکُمْ أَنْفُسَکُمْ لاَ یَضُرُّکُمْ مَنْ ضَلَّ إِذَا اہْتَدَیْتُمْ) وَإِنَّا سَمِعْنَا رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : إِنَّ النَّاسَ إِذَا رَأَوُا الْمُنْکَرَ لاَ یُغَیِّرُونَہُ أَوْشَکَ اللَّہُ أَنْ یَعُمَّہُمْ بِعِقَابِہِ ، قَالَ أَبُو أُسَامَۃَ : وَقَالَ مَرَّۃً أُخْرَی : وَأَنَا سَمِعْت رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ۔ (ابوداؤد ۴۳۳۸۔ احمد ۲)
(٣٨٧٣٨) حضرت قیس بن ابی حازم سے روایت ہے فرمایا کہ حضرت ابوبکر کھڑے ہوئے اور اللہ تعالیٰ کی حمدو ثنا کی پھر ارشاد فرمایا اے لوگو ! تم یہ آیت پڑھتے ہو (ترجمہ) اہل ایمان ! تم پر تمہاری جانیں لازم ہیں جب تم ہدایت پر ہو تو کسی کی گمراہی تمہیں نقصان نہیں دے گی اور بلاشبہ جب لوگ برائی کو دیکھ کر اسے بدلیں گے نہیں تو قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سب پر عذاب بھیج دیں ابو امامہ راوی فرماتے ہیں میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ ارشاد سنا ہے۔

38738

(۳۸۷۳۹) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِیزِ بْنِ رُفَیْعٍ ، عَنْ شَدَّادِ بْنِ مَعْقِلٍ ، قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللہِ : یُوشِکُ أَنْ لاَ تَأْخُذُوا مِنَ الْکُوفَۃِ نَقْدًا وَلاَ دِرْہَمًا ، قُلْتُ : وَکَیْفَ یَا عَبْدَ اللہِ بْنَ مَسْعُودٍ ، قَالَ : یَجِیئُ قَوْمٌ کَأَنَّ وُجُوہَہُمُ الْمَجَانُّ الْمُطْرَقَۃُ حَتَّی یَرْبِطُوا خُیُولَہُمْ عَلَی السَّوَادِ فَیُجْلُوکُمْ إِلَی مَنَابِتِ الشِّیحِ حَتَّی یَکُونَ الْبَعِیرُ وَالزَّادُ أَحَبَّ إِلَی أَحَدِکُمْ مِنَ الْقَصْرِ مِنْ قُصُورِکُمْ ہَذِہِ۔
(٣٨٧٣٩) حضرت شداد بن معقل سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ حضرت عبداللہ نے ارشاد فرمایا قریب ہے کہ تم کوفہ سے کوئی رقم اور کوئی درہم نہیں لوگے میں نے عرض کیا یہ کیسے ہوگا اے عبداللہ بن مسعود انھوں نے فرمایا ایسے لوگ آئیں گے جن کے چہرے پھولی ہوئی ڈھال کی طرح ہوں گے یہاں تک کہ وہ اپنے گھوڑوں کو اطراف میں باندھیں گے اور تمہیں گھاس اگنے کی جگہوں کی طرف نکال دیں گے یہاں تک کہ اونٹ اور زاد راہ تم میں سے کسی ایک کو تمہارے ان محلات میں سے محل سے زیادہ محبوب ہوگا۔

38739

(۳۸۷۴۰) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِ ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِیزِ بْنِ رُفَیْعٍ ، عَنْ شَدَّادِ بْنِ مَعْقِلٍ الأَسَدِیِّ ، قَالَ : سَمِعْتُ ابْنَ مَسْعُودٍ یَقُولُ : أَوَّلُ مَا تَفْقِدُونَ مِنْ دِینِکُمُ الأَمَانَۃُ ، وَآخِرُ مَا تَفْقِدُونَ مِنْہُ الصَّلاَۃُ ، وَسَیُصَلِّی قَوْمٌ وَلاَ دَیْنَ لَہُمْ ، وَإِنَّ ہَذَا الْقُرْآنَ الَّذِی بَیْنَ أَظْہُرِکُمْ کَأَنَّہُ قَدْ نُزِعَ مِنْکُمْ ، قَالَ : قُلْتُ : کَیْفَ یَا عَبْدَ اللہِ ، وَقَدْ أَثْبَتَہُ اللَّہُ فِی قُلُوبِنَا ، قَالَ : یُسْرَی عَلَیْہِ فِی لَیْلَۃٍ فَتُرْفَعُ الْمَصَاحِفُ وَیُنْزَعُ مَا فِی الْقُلُوبِ ، ثُمَّ تَلاَ : {وَلَئِنْ شِئْنَا لَنَذْہَبَنَّ بِالَّذِی أَوْحَیْنَا إلَیْک} إِلَی آخِرِ الآیَۃِ۔
(٣٨٧٤٠) حضرت شداد بن معقل اسدی سے روایت ہے ارشاد فرمایا کہ میں نے حضرت عبداللہ بن مسعود سے سنا فرمایا کہ پہلی وہ چیز جو تم اپنے دین سے گم کرو گے امانت ہے اور آخری چیز جو تم دین سے گم کرو گے نماز ہے اور عنقریب لوگ نماز پڑھیں گے اور ان کے پاس دین نہیں ہوگا اور یہ قرآن جو تمہارے درمیان موجود ہے گویا کہ تم سے لے لیا جائے گا فرمایا کہ میں نے عرض کیا یہ کیسے ہوگا اے عبداللہ ! حالانکہ اللہ نے اس کو ہمارے قلوب میں جمایا ہے انھوں نے فرمایا کہ ایک رات میں ان مصاحف کو اٹھا لا جائے گا اور جو قرآن کا حصہ قلوب میں ہوگا اسے نکال لیا جائے گا پھر یہ آیت تلاوت کی (ترجمہ) اور اگر ہم چاہیں تو جو ہم نے آپ کی طرف وحی کی ہے اسے لے جائیں آیت کے اخیر تک۔

38740

(۳۸۷۴۱) حَدَّثَنَا فُضَیْلُ بْنُ عِیَاضٍ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ خَیْثَمَۃ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو ، قَالَ : یَأْتِی عَلَی النَّاسِ زَمَانٌ یَجْتَمِعُونَ وَیُصَلُّونَ فِی الْمَسَاجِدِ وَلَیْسَ فِیہِمْ مُؤْمِنٌ۔
(٣٨٧٤١) حضرت عبداللہ بن عمر سے روایت ہے ارشاد فرمایا لوگوں پر ایسا زمانہ آئے گا وہ مساجد میں مجتمع ہوں گے اور نماز پڑھیں گے اور ان میں کوئی مومن (ایمان والا) نہیں ہوگا۔

38741

(۳۸۷۴۲) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ، قَالَ: حدَّثَنَا زَکَرِیَّا ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِی الْعَالِیَۃِ عَبْدِ اللہِ بْنِ سَلِمَۃَ الْہَمْدَانِیِّ، عَنْ أَبِی مَیْسَرَۃَ، قَالَ: تَبْقَی رِجْرِجَۃٌ مِنَ النَّاسِ لاَ یَعْرِفُونَ حَقًّا وَلاَ یُنْکِرُونَ مُنْکَرًا یَتَرَاکَبُونَ تَرَاکُبَ الدَّوَابِّ وَالأَنْعَامِ۔
(٣٨٧٤٢) حضرت ابو میسرہ سے روایت ہے ارشاد فرمایا کہ (اخیر میں) رذیل قسم کے لوگ باقی رہ جائیں گے جو حق کو نہیں پہچانیں گے اور برائی کو ناپسند نہیں کریں گے چوپاؤں اور جانوروں کی طرح ایک دوسرے پر ڈھیر ہوتے جائیں گے۔

38742

(۳۸۷۴۳) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ، عَنْ مُجَالِدٍ، عَنِ الشَّعْبِیِّ، قَالَ: لاَ تَقُومُ السَّاعَۃُ حَتَّی یَصِیرَ الْعِلْمُ جَہْلاً وَالْجَہْلُ عِلْمًا۔
(٣٨٧٤٣) حضرت امام شعبی سے روایت ہے ارشاد فرمایا کہ قیامت قائم نہیں ہوگی یہاں تک کہ علم جہالت اور جہالت علم ہوجائے گی۔

38743

(۳۸۷۴۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ بُرْقَانَ ، عَنْ یَزِیدَ بْنِ الأَصَمِّ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: تَکْثُرُ الْفِتَنُ وَیَکْثُرُ الْہَرْجُ قُلْنَا : وَمَا الْہَرْجُ ؟ قَالَ : الْقَتْلُ وَیَنْقُصُ الْعِلْمُ ، قَالَ : أَمَا إِنَّہُ لَیْسَ یُنْزَعُ مِنْ صُدُورِ الرِّجَالِ ، وَلَکِنْ بقبض الْعُلَمَائِ۔ (احمد ۴۸۱)
(٣٨٧٤٤) حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے فرمایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا فتنے کثرت سے ہوجائیں گے اور ہرج کثرت سے ہوجائے گا ہم نے عرض کیا ہرج کیا چیز ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا قتل اور علم کم ہوجائے گا ارشاد فرمایا باقی یہ (علم) آدمیوں کے قلوب سے نہیں نکالا جائے گا لیکن علماء کی موت کی وجہ سے (علم کم ہوجائے گا)

38744

(۳۸۷۴۵) حدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إِنَّ اللَّہَ لاَ یَقْبِضُ الْعِلْمَ انْتِزَاعًا یُنْزَعُ مِنَ النَّاسِ ، وَلَکِنْ یَقْبِضُ الْعِلْمَ بِقَبْضِ الْعُلَمَائِ ، حَتَّی إِذَا لَمْ یَبْقَ عَالِمٌ، اتَّخَذَ النَّاسُ رُؤَسَائَ جُہَّالاً، فَسُئِلُوا فَأَفْتَوْا بِغَیْرِ عِلْمٍ ، فَضَلُّوا وَأَضَلُّوا۔(بخاری ۱۰۰۔ مسلم ۲۰۸۵)
(٣٨٧٤٥) حضرت عبداللہ بن عمر سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا بلاشبہ اللہ تعالیٰ علم کو لوگوں سے کھینچ کر نہیں اٹھائیں گے لیکن علم کو اٹھائیں گے علماء کو (دنائ سے) اٹھا کر یہاں تک کہ جب کوئی عالم نہیں رہے گا تو لوگ جاہلوں کو اپنا پوشیا بنالیں گے ان سے پوچھا جائے گا وہ بغیر علم کے فتوی دیں گے پس وہ خود بھی گمراہ ہوں گے اور (دوسروں کو بھی) گمراہ کریں گے۔

38745

(۳۸۷۴۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ مِسْعَرٍ ، عَنْ وَبَرَۃَ ، عَنْ خَرَشَۃَ بْنِ الْحُرِّ ، قَالَ : قَالَ عُمَرُ : تَہْلَکُ الْعَرَبُ حِینَ تَبْلُغُ أَبْنَائُ بَنَاتِ فَارِسَ۔
(٣٨٧٤٦) حضرت عمر سے روایت ہے انھوں نے ارشاد فرمایا عرب اس وقت ہلاک ہوں گے جب فارس کی لڑکیوں کی اولاد بالغ ہوجائے گی۔

38746

(۳۸۷۴۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍوَ قَالَ : لَمْ یَزَلْ أَمْرُ بَنِی إسْرَائِیلَ مُعْتَدِلاً حَتَّی نَشَأَ فِیہِمْ أَبْنَائُ سَبَایَا الأُمَمِ ، فَقَالُوا فِیہِمْ بِالرَّأْیِ فَضَلُّوا وَأَضَلُّوا۔ (ابن ماجہ ۵۶)
(٣٨٧٤٧) حضرت عبداللہ بن عمر سے روایت ہے ارشاد فرمایا کہ بنی اسرائیل کی حالت میں ہمیشہ اعتدال رہا یہاں تک کہ ان میں دوسری قوموں کی باندیوں کی اولاد پیدا ہوگئی پھر انھوں نے اپنی رائے سے باتیں بنائیں، وہ خود بھی گمراہ ہوئے اور دوسروں کو بھی گمراہ کیا۔

38747

(۳۸۷۴۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ یَزِیدَ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ ، قَالَ : یُقْطَعُ رَجُلٌ أوَّلَ النَّہَارِ ، وَیَفِیضُ الْمَالُ مِنْ آخِرِہِ ، فَلاَ یَجِدُ أَحَدًا یَقْبَلُہُ ، فَیَرَاہُ فَیَقُولُ : یَا حَسْرَتِی فِی ہَذَا قُطِعَتْ یَدِی بِالأَمْسِ۔
(٣٨٧٤٨) حضرت عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے انھوں نے ارشاد فرمایا کہ دن کے اول حصے میں کسی آدمی کا ہاتھ (مال کی وجہ سے) کاٹا جائے گا اور دن کے اخیر میں اس کے لیے مال کثرت سے ہوجائے گا وہ کوئی ایسا آدمی نہیں پائے گا جو مال قبول کرے وہ اس مال کو دیکھ کر کہے گا ہائے میری حسرت اس کی وجہ سے گزشتہ کل میرا ہاتھ کاٹا گیا۔

38748

(۳۸۷۴۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ شَقِیقٍ ، عَنْ أَبِی مُوسَی ، قَالَ : إِنَّ الدِّینَارَ وَالدِّرْہَمَ أَہْلَکَا مَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ ، وَہُمَا مُہْلِکَاکُمْ۔
(٣٨٧٤٩) حضرت ابو موسیٰ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ درہم اور دیناروں نے تم سے پہلے والے لوگوں کو ہلاک کیا اور وہ دونوں تم کو بھی ہلاک کرنے والے ہیں۔

38749

(۳۸۷۵۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إسْرَائِیلَ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ وَہْبِ بْنِ جَابِرٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو ، قَالَ : إِذَا طَلَعَتِ الشَّمْسُ مِنْ مَغْرِبِہَا ذَہَبَ الرَّجُلُ إِلَی المَالِ کَنْزِہِ فَیَسْتَخْرِجُہُ فَیَحْمِلُہُ عَلَی ظَہْرِہِ فَیَقُولُ : مَنْ ضَلَّ لَہُ فِی ہَذِہِ فَیُقَالُ لَہُ : أَفَلاَ جِئْت بِہِ بِالأَمْسِ ، فَلاَ یُقْبَلُ منہ فَیَجِیئُ بہ إِلَی الْمَکَانِ الَّذِی احْتَفَرَہُ ، فَیَضْرِبُ بِہِ الأَرْضَ وَیَقُولُ : لَیْتَنِی لَمْ أَرَک۔
(٣٨٧٥٠) حضرت عبداللہ بن عمر سے روایت ہے انھوں نے ارشاد فرمایا کہ جب سورج مغرب سے طلوع ہوگا تو آدمی اپنے اس مال کی طرف جائے گا جسے اس نے زمین میں دفن کیا ہوگا پس وہ اسے نکالے گا اور اپنی پشت پر اسے لاد کر کہے گا کس کو اس مال میں رغبت ہے اس سے کہا جائے گا تو اسے گزشتہ کل کیوں نہ لایا پس اس سے نہ قبول کیا جائے گا وہ اسے اسی جگہ لائے گا جہاں سے کھود کر اسے لایا تھا وہ زمین پر اسے مارے گا اور کہے گا کاش میں نے تجھے نہ دیکھا ہوتا۔

38750

(۳۸۷۵۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ فُضَیْلِ بْنِ غَزْوَانَ ، عَنْ أَبِی حَازِمٍ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: ثَلاَثٌ إِذَا خَرَجْنَ لاَ یَنْفَعُ نَفْسًا إیمَانُہَا لَمْ تَکُنْ آمَنَتْ مِنْ قَبْلُ : طُلُوعُ الشَّمْسِ مِنْ مَغْرِبِہَا وَالدَّجَّالُ وَالدَّابَّۃُ۔ (مسلم ۱۳۸۔ احمد ۴۴۵)
(٣٨٧٥١) حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے فرمایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا تین چیزیں جب نکل آئیں گی تو اس وقت کسی ایسے نفس کو جو ایمان نہ لایا ہو ایمان لانا نفع نہ دے گا سورج کا مغرب سے طلوع ہونا اور دجال اور چوپائے کا نکل آنا۔

38751

(۳۸۷۵۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ ابْنِ أَبِی لَیْلَی ، عَنْ عَطِیَّۃَ ، عَنْ أَبِی سَعِیدٍ {یَوْمَ یَأْتِی بَعْضُ آیَاتِ رَبِّکَ لاَ یَنْفَعُ نَفْسًا إیمَانُہَا} قَالَ : طُلُوعُ الشَّمْسِ مِنْ مَغْرِبِہَا۔ (ترمذی ۳۰۷۱۔ احمد ۳۱)
(٣٨٧٥٢) حضرت ابو سعید سے رواکیت ہے کہ آیت { یَوْمَ یَأْتِی بَعْضُ آیَاتِ رَبِّکَ لاَ یَنْفَعُ نَفْسًا إیمَانُہَا } (جس دن آپ کے رب کی بڑی نشانی آپہنچے گی کسی ایسے شخص کا ایمان اس کے کام نہ آئے گا جو پہلے ایمان نہیں رکھتا) ارشاد فرمایا اس سے مراد سورج کا مغرب سے طلوع ہونا ہے۔

38752

(۳۸۷۵۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ زُرَارَۃَ بْنِ أَوْفَی ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ ، قَالَ : طُلُوعُ الشَّمْسِ مِنْ مَغْرِبِہَا۔
(٣٨٧٥٣) حضرت عبداللہ بن مسعودڈ سے روایت ہے ارشاد فرمایا سورج کا مغرب سے طلوع ہونا (اس آیت کی مراد ہے)

38753

(۳۸۷۵۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنْ عَائِشَۃَ ، قَالَتْ : إِذَا خَرَجَتْ أَوَّلُ الآیَاتِ حُبِسَتِ الْحَفَظَۃُ وَطُرِحَت الأَقْلاَمُ وَشَہِدَتِ الأَجْسَادُ عَلَی الأَعْمَالِ۔ (نعیم بن حماد ۱۸۱۹)
(٣٨٧٥٤) حضرت عائشہ سے روایت ہے انھوں نے ارشاد فرمایا کہ جب (قیامت کی ) نشانیوں میں سے پہلی نشانی ظاہر ہوگی تو کراماً کاتبین کو روک دیا جائے گا اور قلمیں پھینک دی جائیں گی اور جسم اعمال پر گواہی دیں گے۔

38754

(۳۸۷۵۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ ، عَنْ خَیْثَمَۃ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو ، قَالَ : یَمْکُثُ النَّاسُ بَعْدَ طُلُوعِ الشَّمْسِ مِنْ مَغْرِبِہَا عِشْرِینَ وَمِئَۃً۔ (نعیم بن حماد ۱۸۴۹)
(٣٨٧٥٥) حضرت عبداللہ بن عمرو سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ لوگ سورج کے مغرب سے طلوع ہونے کے بعد ایک سو بیس سال زندہ رہیں گے (حافظ ابن حجر فتح الباری میں فرماتے ہیں یہ مدت والی روایت اولاً مرفوعاً ثابت نہیں اگر ثابت ہو تو مراد یہ ہے کہ ایک سو بیس سال مہینوں یا اس سے کم میں گزرجائیں گے) ۔

38755

(۳۸۷۵۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ ، قَالَ : قَالَ ابْنُ مَسْعُودٍ : کُلُّ مَا وَعَدَ اللَّہُ وَرَسُولُہُ قَدْ رَأَیْنَا غَیْرَ أَرْبَعٍ طُلُوعُ الشَّمْسِ مِنْ مَغْرِبِہَا وَالدَّجَّالُ وَالدَّابَّۃُ وَیَأْجُوجُ وَمَأْجُوجُ۔
(٣٨٧٥٦) حضرت عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے ارشاد فرمایا ہر وہ چیز جس کا اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وعدہ کیا تھا وہ ہم نے دیکھ لیں سوائے چار کے سورج کا مغرب سے طلوع ہونا اور دجال اور جانور اور یاجوج اور ماجوج (کا نکلنا)

38756

(۳۸۷۵۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : یَأْتِی عَلَی النَّاسِ زَمَانٌ یَکُونُ الْجَمَلُ الضَّابِطُ أَحَبَّ إِلَی أَحَدِکُمْ مِنْ أَہْلِہِ وَمَالِہِ۔ (عبدالرزاق ۱۸۲۵۰)
(٣٨٧٥٧) حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے انھوں نے ارشاد فرمایا کہ لوگوں پر ایسا زمانہ آئے گا کہ قوی اونٹ تم میں ہر کسی کو اپنے اہل اور مال سے زیادہ محبوب ہوگا۔

38757

(۳۸۷۵۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ أَبِی جَعْفَرٍ ، عَنِ الرَّبِیعِ ، عَنْ أَبِی الْعَالِیَۃِ ، عَنْ أُبَیٍّ {قُلْ ہُوَ الْقَادِرُ عَلَی أَنْ یَبْعَثَ عَلَیْکُمْ عَذَابًا مِنْ فَوْقِکُمْ أَوْ مِنْ تَحْتِ أَرْجُلِکُمْ أَوْ یَلْبِسَکُمْ شِیَعًا وَیُذِیقَ بَعْضَکُمْ بَأْسَ بَعْضٍ} قَالَ : ہِیَ أَرْبَعُ خِلاَلٍ ، وَکُلُّہُنَّ وَاقِعٌ لاَ مَحَالَۃَ ، فَمَضَتِ اثْنَتَانِ بَعْدَ وَفَاۃِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِخَمْسَۃٍ وَعِشْرِینَ عَامًا ، أُلْبِسُوا شِیَعًا ، وَذَاقَ بَعْضُہُمْ بَأْسَ بَعْضٍ ، وَاثْنَتَانِ وَاقِعَتَانِ لاَ مَحَالَۃَ : الْخَسْفُ وَالرَّجْمُ۔ (احمد ۱۳۴۔ ابن جریر ۲۲۲)
(٣٨٧٥٨) حضرت ابو العالیہ حضرت ابی سے نقل کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد { قُلْ ہُوَ الْقَادِرُ عَلَی أَنْ یَبْعَثَ عَلَیْکُمْ عَذَابًا مِنْ فَوْقِکُمْ أَوْ مِنْ تَحْتِ أَرْجُلِکُمْ أَوْ یَلْبِسَکُمْ شِیَعًا وَیُذِیقَ بَعْضَکُمْ بَأْسَ بَعْضٍ } آپ کہہ دیں اس پر بھی وہی قادر ہے کہ تم پر کوئی عذاب تمہارے اوپر سے بھیج دے یا تمہارے پاؤں تلے سے یا تم کو گروہ گروہ کر کے سب کو بھڑادے تمہیں ایک دوسرے کی لڑائی کا مزہ چکھا دے ارشاد فرمایا کہ وہ چار باتیں ہیں ان میں ہر ایک یقیناً واقع ہوگی دو تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے پچیس (٢٥) سال بعد گزر گئیں ان کو گروہ گروہ کر کے لڑایا گیا اور انھوں نے ایک دوسرے کی لڑائی کا مزہ چکھا اور دو لا محالہ طور پر وقوع پذیر ہوں گی زمین میں دھنسانا اور پتھروں کی بارش۔

38758

(۳۸۷۵۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ عُبَادَۃَ بْنِ مُسْلِمٍ الْفَزَارِیِّ ، عَنْ جُبَیْرِ بْنِ أَبِی سُلَیْمَانَ بْنِ جُبَیْرِ بْنِ مُطْعِمٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یَقُولُ فِی دُعَائِہِ : اللَّہُمَّ إنِّی أَعُوذُ بِکَ مِنْ أَنْ أُغْتَالَ مِنْ تَحْتِی ، یَعْنِی الْخَسْفَ۔
(٣٨٧٥٩) حضرت عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی دعا میں یوں کہتے تھے اے اللہ ! میں تجھ سے پناہ مانگتا ہوں اس بات سے کہ میں اچانک اپنے نیچے سے ہلاک کردیا جاؤں مراد تھی دھنسانے کے ذریعے۔

38759

(۳۸۷۶۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ الْوَلِیدِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ جُمَیْعٍ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ الْمُغِیرَۃِ ، عَنِ ابْنِ الْبَیْلَمَانِیِّ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : تَخْرُجُ الدَّابَّۃُ لَیْلَۃَ جَمْعٍ وَالنَّاسُ یَسِیرُونَ إِلَی مِنًی فَتَحْمِلُہُمْ بَیْنَ عَجُزِہَا وَذَنَبِہَا فَلاَ یَبْقَی مُنَافِقٌ إِلاَّ خَطَمَتْہُ ، قَالَ : وَتَمْسَحُ الْمُؤْمِنَ ، قَالَ : فَیُصْبِحُونَ وَہُمْ أَشَرُّ مِنَ الدَّجَّالِ۔ (نعیم بن حماد ۱۸۶۵)
(٣٨٧٦٠) حضرت عبداللہ بن عمر سے روایت ہے ارشاد فرمایا کہ جانور مزدلفہ کی رات نکلے گا اس حال میں کہ لوگ منی کی طرف جارہے ہوں گے وہ ان کو پچھلے حصہ اور دم کے درمیان سوار کرے گا کوئی منافق نہیں بچے گا مگر اسے نشانی لگائے گا مومن کو چھوئے گا لوگ اس وقت دجال سے بھی زیادہ شریر ہوجائیں گے۔

38760

(۳۸۷۶۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إسْرَائِیلَ ، عَنْ سِمَاکٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : دَابَّۃُ الأَرْضِ تَخْرُجُ مِنْ مَکَّۃَ۔
(٣٨٧٦١) حضرت ابراہیم سے روایت ہے ارشاد فرمایا کہ دابۃ الارض (چوپایہ) مکہ مکرمہ سے نکلے گا۔

38761

(۳۸۷۶۲) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا زُہَیْرٌ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، قَالَ : قَالَتْ عَائِشَۃُ : الدَّابَّۃُ تَخْرُجُ مِنْ أَجْیَادَ۔
(٣٨٧٦٢) حضرت عائشہ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ یہ جانور مقام اجیاد سے نکلے گا۔

38762

(۳۸۷۶۳) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ جُدْعَانَ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ عُمَیْرٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو ، قَالَ : تَخْرُجُ الدَّابَّۃُ مِنْ جَبَلِ أَجْیَادَ أَیَّامَ التَّشْرِیقِ وَالنَّاسُ بِمِنًی ، قَالَ : فَلِذَلِکَ حُیِّیَ سَابِقُ الْحَاجِّ إِذَا جَائَ بِسَلاَمَۃِ النَّاسِ۔
(٣٨٧٦٣) حضرت عبداللہ بن عمر سے روایت ہے ارشاد فرمایا کہ وہ جانور ایام تشریق میں مقام اجیاد سے نکلے گا اس حال میں کہ لوگ منی میں ہوں گے انھوں نے فرمایا یہی وجہ ہے حاجیوں میں سے پہلے آنے والے کو مبارک دی جاتی ہے جبکہ وہ لوگوں کو سلامتی کے ساتھ لے آئے۔

38763

(۳۸۷۶۴) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : قالَتْ عَائِشَۃُ : إِذَا ظَہَرَ أَوَّلُ الآیَاتِ رُفِعَتِ الأَقْلاَمُ وَشَہِدَتِ الأَجْسَادُ عَلَی الأَعْمَالِ وَحُبِسَتِ الْحَفَظَۃُ۔
(٣٨٧٦٤) عائشہ سے روایت ہے فرمایا کہ جب نشانیوں میں (قیامت کی بڑی) نشانیوں میں سے پہلی نشانی ظاہر ہوگی تو قلمیں اٹھا لی جائیں گی اور جسم اعمال پر گواہی دیں گے اور کراماً کا تبین کو (لکھنے سے) روک دیا جائے گا۔

38764

(۳۸۷۶۵) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا ہِشَامُ ، عَنْ حَفْصَۃَ ، عَنْ أَبِی الْعَالِیَۃِ ، قَالَ : مَا بَیْنَ أَوَّلِ الآیَاتِ وَآخِرِہَا سِتَّۃُ أَشْہُرٍ تَتَابَعُ کَمَا تَتَابَعُ الْخَرَزُ فِی النِّظَامِ۔
(٣٨٧٦٥) حضرت ابو العالیہ سے روایت ہے ارشاد فرمایا انھوں نے فرمایا کہ پہلی نشانی اور آخری نشانی کے درمیان چھ مہینے کا فاصلہ ہوگا اور اس میں نشانیاں پے درپے واقع ہوں گی جیسے (لڑی ٹوٹنے پر) موتی ایک دوسرے کے پیچھے گرتے ہیں۔

38765

(۳۸۷۶۶) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَنْ أَبِی الْمُہَزِّمِ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : مَا بَیْنَ أَوَّلِ الآیَاتِ وَآخِرِہَا ثَمَانیَۃُ أَشْہُرٍ۔
(٣٨٧٦٦) حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ پہلی نشانی اور آخری نشانی کے درمیان آٹھ مہینے کا فاصلہ ہوگا۔

38766

(۳۸۷۶۷) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا عِمْرَانُ بْنُ حُدَیْرٍ، عَنِ السُّمَیْطِ بْنِ عُمَیْرٍ، عَنْ کَعْبٍ، قَالَ: کَأَنِّی بِمُقَدِّمَۃِ الأَعْوَرِ الدَّجَّالِ سِتُّمِئَۃِ أَلْفٍ مِنَ الْعَرَبِ یَلْبَسُونَ السِّیجَانَ ، وَیَزِیدنی تَصْدِیقًا مَا أَرَی یَفْشُوا مِنْہَا۔
(٣٨٧٦٧) حضرت کعب سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ گویا کہ میں کانے دجال کے لشکر کے اگلے حصے میں چھ لاکھ عربوں کو دیکھ رہا ہوں جو سبز چادریں اوڑھے ہوئے ہوں گے اور مجھے تصدیق میں بڑھا دیں گے وہ فتنے جو ان سے نکلتے ہوئے میں دیکھوں گا۔

38767

(۳۸۷۶۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ حَبِیبٍ ، عَنْ أَبِی الْبَخْتَرِیِّ ، قَالَ : قیلَ لِحُذَیْفَۃَ : أَلاَ نَأْمُرُ بِالْمَعْرُوفِ وَنَنْہَی عَنِ الْمُنْکَرِ ، قَالَ : إِنَّہُ لَحَسَنٌ ، وَلَکِنْ لَیْسَ مِنَ السُّنَّۃِ أَنْ تَرْفَعَ السِّلاَحَ عَلَی إمَامِک۔ (نعیم بن حماد ۳۸۸)
(٣٨٧٦٨) حضرت ابو البختری سے روایت ہے فرمایا کہ حضرت حذیفہ سے عرض کیا گیا کیا ہم بھلائی کا حکم نہ دیں اور برائی سے نہ روکیں انھوں نے فرمایا یہ اچھا ہے لیکن یہ سنت میں سے نہیں ہے کہ تم اپنے امام کے خلاف اسلحہ اٹھاؤ۔

38768

(۳۸۷۶۹) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَنْ زَائِدَۃَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِیرِینَ ، عَنْ عُقْبَۃَ بْنِ عَمْرٍو ، قَالَ : کُنْتُ رَجُلاً عَزِیزَ النَّفْسِ حَمِیَّ الأَنْفِ لاَ یَسْتَقِلُّ أَحَدٌ مِنِّی شَیْئًا ، سُلْطَانٌ وَلاَ غَیْرُہُ ، قَالَ : فَأَصْبَحْت أُمَرَائِی یُخَیِّرُونَنِی بَیْنَ أَنْ أَصْبِرَ لَہُمْ عَلَی قُبْحِ وَجْہِی وَرَغْمِ أَنْفِی وَبَیْنَ أَنْ آخُذَ سَیْفِی فَأَضْرِبَ بِہِ فَأَدْخُلَ النَّارَ ، فَاخْتَرْت أَنْ أَصْبِرَ عَلَی قُبْحِ وَجْہِی وَرَغْمِ أَنْفِی ، وَلاَ آخُذُ سَیْفِی فَأَضْرِبَ فَأَدْخُلَ النَّارَ۔
(٣٨٧٦٩) حضرت عقبہ بن عمرو سے روایت ہے انھوں نے فرمایا میں خوددار غیرت والا آدمی تھا کوئی میرے سامنے ٹھہر تا نہ تھا نہ بادشاہ اور نہ کوئی اور ارشاد فرمایا کہ میرے امیروں نے مجھے اختیار دیا تھا اس بات میں کہ میں ان پر صبر کروں اپنی ناپسندیدگی اور ذلت کے باوجود اور اس بات میں کہ میں اپنی تلوار لوں اور اس سے ناحق مار کر جہنم میں داخل ہوجاؤں میں نے اس بات کو لیا کہ اپنی ناپسندیدگی اور ذلت پر صبر کروں اور تلوار نہ لوں کہ اس سے (ناحق کسی کو مار کر) جہنم میں داخل ہوجاؤں۔

38769

(۳۸۷۷۰) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنِ التَّیْمِیِّ ، عَنْ نُعَیْمِ بْنِ أَبِی ہِنْدٍ ، أَنَّ أَبَا مَسْعُودٍ خَرَجَ مِنَ الْکُوفَۃِ وَرَأْسُہُ یَقْطُرُ وَہُوَ یُرِیدُ أَنْ یُحْرِمَ ، فَقَالُوا لَہُ : أَوْصِنَا ، فَقَالَ : أَیُّہَا النَّاسُ ، اتَّہِمُوا الرَّأْیَ فَقَدْ رَأَیْتُنِی أَہِمُّ أَنْ أَضْرِبَ بِسَیْفِی فِی مَعْصِیَۃِ اللہِ وَمَعْصِیَۃِ رَسُولِہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالُوا : أَوْصِنَا ، قَالَ : عَلَیْکُمْ بِالْجَمَاعَۃِ فَإِنَّ اللَّہَ لَمْ یَکُنْ لِیَجْمَعَ أُمَّۃَ مُحَمَّدٍ عَلَی ضَلاَلَۃٍ ، قَالَ : قَالُوا : أَوْصِنَا ، فَقَالَ : بِتَقْوَی اللہِ وَالصَّبْرِ حَتَّی یَسْتَرِیحَ بَرٌّ ، أَوْ یُسْتَرَاحُ مِنْ فَاجِرٍ۔
(٣٨٧٧٠) حضرت نعیم بن ابی ہند سے روایت ہے کہ حضرت ابو مسعود انصاری کوفہ سے نکلے کہ (غسل کی وجہ سے) ان کے سر سے پانی کے قطرے بہہ رہے تھے اور وہ احرام باندھنے کا ارادہ رکھتے تھے لوگوں نے ان سے عرض کیا ہمیں وصیت کریں انھوں نے ارشاد فرمایا اے لوگو ! اپنی رائے کو متہم سمجھو میں نے اپنے آپ کو دیکھا کہ میں نے اپنی تلوار سے اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نافرمانی میں مارنے کا عزم کیا تھا لوگوں نے عرض کیا ہمیں (اور) وصیت کریں انھوں نے فرمایا تم پر لازم ہے اللہ سے ڈرنا اور صبر یہاں تک کہ نیک آدمی راحت پالے یا فاجر سے راحت پالی جائے۔

38770

(۳۸۷۷۱) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ الْحُبَابِ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا مُوسَی بْنُ عُبَیْدَۃَ ، قَالَ : أَخْبَرَنِی زَیْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِی سَلاَمَۃَ أَبُو سَلَمَۃَ ، عَنْ أَبِی الرباب وَصَاحِبٍ لَہُ أَنَّہُمَا سَمِعَا أَبَا ذَرٍّ یَدْعُو ، قَالَ : فَقُلْنَا لَہُ : رَأَیْنَاک صَلَّیْت فِی ہَذَا الْبَلَدِ صَلاَۃً لَمْ نَرَ أَطْوَلَ مَقَامًا وَرُکُوعًا وَسُجُودًا ، فَلَمَّا أَنْ فَرَغْت رَفَعْت یَدَیْک فَدَعَوْت فَتَعَوَّذْت مِنْ یَوْمِ البَلاَئِ وَیَوْمِ الْعَوْرَۃِ ، قَالَ : فَمَا أَنْکَرْتُمْ فَأَخْبَرْنَاہُ ، قَالَ : أَمَّا یَوْمُ البَلاَئِ فَتَلْتَقِی فِئَتَانِ مِنَ الْمُسْلِمِینَ فَیَقْتُلُ بَعْضُہُمْ بَعْضًا وَیَوْمُ الْعَوْرَۃِ إِنَّ النِّسَائَ مِنَ الْمُسْلِمَاتِ یُسْبَیْنَ فَیُکْشَفُ عَنْ سُوقِہِنَ ، فَأَیَّتُہُنَّ أَعْظَمُ سَاقًا اشْتُرِیَتْ عَلَی عِظَمِ سَاقِہَا ، فَدَعَوْت أَنْ لاَ یُدْرِکَنِی ہَذَا الزَّمَانُ ، وَلَعَلَّکُمَا تُدْرِکَانِہِ ، قَالَ : فَقُتِلَ عُثْمَان وَأُرْسِلَ مُعَاوِیَۃُ بْنُ أَبِی أَرْطَاۃَ إِلَی الْیَمَنِ فَسَبَی نِسَائً مِنَ الْمُسْلِمَاتِ فَأُقِمْنَ فِی السُّوقِ۔
(٣٨٧٧١) حضرت ابو الرباب اور ان کے ایک ساتھی سے روایت ہے کہ انھوں نے حصرت ابو ذر کو دعا مانگتے ہوئے سنا فرمایا کہ ہم نے عرض کیا ہم نے آپ کو دیکھا آپ نے اس شہر میں نماز پڑھی ہم نے اس سے زیادہ قیام رکوع اور سجدے کے اعتبار سے لمبی نماز نہیں دیکھی جب آپ فارغ ہوئے تو آپ نے اپنے ہاتھ اٹھائے اور دعا مانگی اور یوم البلاء اور یوم العورۃ کے دن سے پناہ مانگی اس کی کیا وجہ ہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ ہاں جو چیز تمہارے لیے اجنبی ہے ہم تمہیں اس کی خبر دیتے ہیں۔ یوم البلائ (مصیبت کا دن) تو اس میں مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں لڑیں گے اور ایک دوسرے کو قتل کریں گے اور یوم العورۃ (ستر کھولنے کا دن) سے مراد یہ ہے کہ بلاشبہ مسلمان عورتیں قید کی جائیں گی اور ان کی پنڈلیوں کو کھولا جائے گا ان میں سے جو کوئی موٹی پنڈلی والی ہوگی اسے موٹی پنڈلی کی وجہ سے خرید لیا جائے گا میں نے اللہ سے دعا کی کہ مجھے یہ زمانہ نہ پائے اور تم دونوں اس زمانے کو پاؤ گے راوی فرماتے ہیں حضرت عثمان کو شہید کردیا گیا اور حضرت معاویہ نے سیرین ابی ارطاۃ کو یمن بھیجا انھوں نے مسلمان عورتوں کو قید کیا پس ان عورتوں کو بازار میں (بیچنے کے لیے) کھڑا کیا گیا۔

38771

(۳۸۷۷۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ حَبِیبٍ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، عَن عَلْقَمَۃَ ، قَالَ : إِذَا ظَہَرَ أَہْلُ الْحَقِّ عَلَی أَہْلِ الْبَاطِلِ فَلَیْسَ ہِیَ بِفِتْنَۃٍ۔
(٣٨٧٧٢) حضرت علقمہ سے روایت ہے انھوں نے ارشاد فرمایا جب اہل حق باطل پر غالب آجائیں گے پس وہ فتنہ نہیں ہوگا۔

38772

(۳۸۷۷۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنِ الْحَارِثِ بْنِ حَصِیرَۃَ ، عَنْ زَیْدِ بْنِ وَہْبٍ ، قَالَ : قیلَ لِحُذَیْفَۃَ : مَا وَقَفَاتُ الْفِتْنَۃِ ، وَمَا بَعَثَاتُہَا ، قَالَ : بَعَثَاتُہَا سَلُّ السَّیْفِ وَوَقَفَاتُہَا غَمْدُہُ۔
(٣٨٧٧٣) حضرت زید بن وہب سے روایت ہے فرمایا کہ حضرت حذیفہ سے پوچھا گیا فتنے کا رکنا اور اٹھنا کیا ہے انھوں نے فرمایا کہ فتنے کے اٹھنے سے مراد تلوار کا نیام سے باہر نکل آنا ہے اور اس کے رکنے سے مراد تلوار کا نیام میں داخل ہوجانا ہے۔

38773

(۳۸۷۷۴) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا وُہَیْبٌ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ طَاوُوس ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ أَبِی مُوسَی ، أَنَّہُ لَقِیَہُ فَذَکَرَ الْفِتْنَۃَ ، فَقَالَ : إِنَّ ہَذِہِ الْفِتْنَۃَ حَیْصَۃٌ مِنْ حَیْصَاتِ الْفِتَنِ ، وَإِنَّہَا بَقِیَت الرَّدَاحَ الْمُطْبِقَۃَ ، مَنْ أَشْرَفَ لَہَا أَشْرَفَتْ لَہُ ، وَمَنْ مَاجَ لَہَا مَاجَتْ بہ۔ (نعیم بن حماد ۱۰۶)
(٣٨٧٧٤) حضرت ابو موسیٰ سے نقل کرتے ہیں کہ وہ ان سے ملے اور فتنے کا تذکرہ کیا پس انھوں نے ارشاد فرمایا کہ بلاشبہ یہ فتنہ فتنوں میں سے ایک فتنہ ہے اور بلاشبہ ایک بڑا اور عام فتنہ باقی ہے جو اس کی طرف جھانکے گا وہ فتنہ بھی اس کی طرف جھانکے گا (مراد یہ ہے کہ فتنہ میں تھوڑی سے مشغولی آگے بڑھنے کا سبب ہوگی) اور جو اس میں کودے گا وہ فتنہ اسے لے کر (سمندر کی) موج کی طرح جوش مارے گا۔

38774

(۳۸۷۷۵) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : قَالَ لِی عَبْدُ اللہِ بْنُ عَمْرٍو : مِمَّنْ أَنْتَ قُلْتُ : مِنْ أَہْلِ الْکُوفَۃِ ، قَالَ : وَالَّذِی نَفْسِی فِی یَدِہِ ، لَتُسَاقُنَّ مِنْہَا إِلَی أَرْضِ الْعَرَبِ لاَ تَمْلِکُونَ قَفِیزًا وَلاَ دِرْہَمًا ، ثُمَّ لاَ یُنْجِیکُمْ۔
(٣٨٧٧٥) حضرت سائب سے روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمرو نے مجھ سے کہا تم کن میں سے ہو میں نے عرض کیا کوفہ والوں میں سے انھوں نے فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے یقیناً تم یہاں سے عرب کی زمین کی طرف لے جائے جاؤ گے تم کسی قفیز اور درہم کے مالک نہ ہوگے تمہیں نجات نہ دی جائے گی۔

38775

(۳۸۷۷۶) ۶َدَّثَنَا مُحَاضِرٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا الأَجْلَحُ ، عَنْ قَیْسِ بْنِ أَبِی مُسْلِمٍ ، عَنْ رِبْعِیِّ بْنِ حِرَاشٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ حُذَیْفَۃَ یَقُولُ : لَوْ خَرَجَ الدَّجَّالُ لآمَنَ بِہِ قَوْمٌ فِی قُبُورِہِمْ۔
(٣٨٧٧٦) حضرت ربعی بن حراش سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ میں نے حضرت حذیفہ سے سنا ارشاد فرمایا کہ اگر دجال نکل آئے تو کچھ لوگ اس پر اپنی قبروں میں ایمان لے آئیں۔

38776

(۳۸۷۷۷) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا یُونُسُ بْنُ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ بْنِ بَشِیرِ بْنِ جَرِیرٍ الْبَجَلِیِّ ، قَالَ : قَالَ عَلِیٌّ : إِنَّ آخِرَ خَارِجَۃٍ تَخْرُجُ فِی الإِسْلاَم بِالرُّمَیْلَۃِ رُمَیْلَۃُ الدَّسْکَرَۃِ ، فَیَخْرُجُ إلَیْہِمَ النَّاسُ فَیَقْتُلُونَ مِنْہُمْ ثُلُثًا ، وَیَدْخُلُ ثُلُثٌ وَیَتَحَصَّنُ ثُلُثٌ فِی الدَّیْرِ دَیْرُ مِرْمَارَی ، فَمِنْہُم الأَشْمَطُ ، فَیَحْصُرُہُمُ النَّاسُ فَیُنْزِلُونَہُم فَیَقْتُلُونَہُمْ ، فَہِیَ آخِرُ خَارِجَۃٍ تَخْرُجُ فِی الإِسْلاَم۔
(٣٨٧٧٧) حضرت علی سے روایت ہے انھوں نے ارشاد فرمایا کہ بلاشبہ آخری باغی جو اسلام میں نکلے گا وہ کوفہ کے مسافر خانے دسکرہ (جو محل کی طرح بنا ہوا ہے) سے نکلے گا لوگ ان کے ساتھ مل جائیں گے ان میں سے ایک تہائی قتل کرد یے جائیں گے اور ایک تہائی داخل ہوجائیں گے (محفوظ مقام میں) اور ایک تہائی راہب خانے میں محصور ہوجائیں گے مرماری (جو سامراء کے نواح میں وصف پل کے پاس ہے) راہب خانے میں ان میں سے کچھ سفید سیاہ بالوں والے ہوں گے لوگ ان کا محاصرہ کر کے ان کو ماریں گے (راہب خانے وغیرہ سے) اور ان کو قتل کردیں گے یہ آخری باغی لشکر ہوگا جو اسلام میں نکلے گا۔

38777

(۳۸۷۷۸) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا جَعْفَرُ بْنُ بُرْقَانَ ، عَنْ رَاشِدٍ الأَزْرَقِ ، عَنْ عقْبَۃَ بْنِ نَافِعٍ ، قَالَ : سَأَلْتُ ابْنَ عُمَرَ : مَعَ مَنْ أُقَاتِلُ ، فقَالَ : مَعَ الَّذِینَ یُقَاتِلُونَ لِلَّہِ ، وَلاَ تُقَاتِلُ مَعَ الَّذِینَ یُقَاتِلُونَ لِہَذَا الدِّینَارِ وَالدِّرْہَمِ۔
(٣٨٧٧٨) حضرت عقبہ بن نافع سے روایت ہے فرمایا کہ میں نے حضرت ابن عمر سے پوچھا کہ میں کس کے ساتھ مل کر قتال کروں انھوں نے فرمایا کہ ان لوگوں کے ساتھ مل کر جو اللہ کے لیے قتال کریں اور ان لوگوں کے ساتھ مل کر قتال نہ کریں جو اس دینار (اشرفی) اور درہم کے لیے لڑائی کرتے ہیں۔

38778

(۳۸۷۷۹) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا عَبْدُ السَّلاَمِ الملائی ، قَالَ : حَدَّثَنِی وَبَرَۃُ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، قَالَ : لاَ تَرَوْنَ الْفَرَجَ حَتَّی یَمْلِکَ أَرْبَعَۃٌ کُلُّہُمْ مِنْ صُلْبِ رَجُلٍ وَاحِدٍ ، فَإِذَا کَانَ ذَلِکَ فَعَسَی۔
(٣٨٧٧٩) حضرت مجاہد سے روایت ہے انھوں نے ارشاد فرمایا کہ تم کشادگی کو نہ دیکھو گے یہاں تک کہ چار آدمی بادشاہت نہ پائیں گے جو ایک آدمی کی پشت سے ہوں گے (یعنی ایک کی اولاد ہوں گے) جب ایسا ہوگیا تو قریب ہے (تم کشادگی دیکھو)

38779

(۳۸۷۸۰) حَدَّثَنَا مُعَاوِیَۃُ بْنُ ہِشَامٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ حُصَیْنٍ ، عَنْ أَبِی ظَبْیَانَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو ، قَالَ : أَوَّلُ الأَرْضِ خَرَابًا الشَّامُ۔
(٣٨٧٨٠) حضرت عبداللہ بن عمر سے روایت ہے انھوں نے ارشاد فرمایا کہ سب سے پہلی زمین جو برباد ہوگی وہ شام کی زمین ہے۔

38780

(۳۸۷۸۱) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنِ الْحَکَمِ ، قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا صَادِقٍ یُحَدِّثُ ، عَنِ الرَّبِیعِ بْنِ نَاجِدٍ ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ ، قَالَ : یَأْتِیکُمْ قَوْمٌ مِنْ قِبَلِ الْمَشْرِقِ عِرَاضُ الْوُجُوہِ صِغَارُ الْعُیُونِ کَأَنَّمَا ثُقِبَتْ أَعْیُنُہُمْ فِی الصَّخْرِ کَأَنَّ وُجُوہَہُمُ الْمَجَانُّ الْمُطْرَقَۃُ ، حَتَّی یُوَثِّقُوا خُیُولَہُمْ بِشَطِّ الْفُرَاتِ۔
(٣٨٧٨١) حضرت ابن مسعود سے روایت ہے انھوں نے ارشاد فرمایا کہ ایک قوم تمہارے پاس مشرق کی جانب سے آئیں گے جو چوڑے چہرے والے ہوں گے اور چھوٹی آنکھوں والے ہوں گے گویا ان کی آنکھیں ایسی ہوں گی جیسا کہ پتھر میں سوراخ کر کے بنائی گئی ہیں ان کے چہرے گویا پھولی ہوئی ڈھالوں کی طرح ہوں گے یہاں تک کہ وہ اپنے گھوڑے فرات کے کنارے باندھیں گے۔

38781

(۳۸۷۸۲) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا ابْنُ عَوْنٍ ، عَنْ عُمَیْرِ بْنِ إِسْحَاقَ ، قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا ہُرَیْرَۃَ یَقُولُ: وَیْلٌ لِلْعَرَبِ مِنْ شَرٍّ قَدَ اقْتَرَبَ، أَظَلَّتْ وَاللہِ ، لَہِیَ أَسْرَعُ إلَیْہِمْ مِنَ الْفَرَسِ الْمُضْمَرِ السَّرِیعِ الْفِتْنَۃُ الصَّمَّائُ الْمُشَبَّہَۃُ یُصْبِحُ الرَّجُلُ فِیہَا عَلَی أَمْرٍ وَیُمْسِی عَلَی أَمْرٍ ، الْقَاعِدُ فِیہَا خَیْرٌ مِنَ الْقَائِمِ ، وَالْقَائِمُ فِیہَا خَیْرٌ مِنَ الْمَاشِی، وَالْمَاشِی فِیہَا خَیْرٌ مِنَ السَّاعِی، وَلَوْ أُحَدِّثُکُمْ بِکُلِّ الَّذِی أَعْلَمُ لَقَطَعْتُمْ عُنُقِی مِنْ ہَاہُنَا وَحَزَّ قَفَاہُ بِحَرْفِ کَفِّہِ اللَّہُمَّ لاَ تُدْرِکَنَّ أَبَا ہُرَیْرَۃَ إمْرَۃُ الصِّبْیَانِ، وَرَفَعَ یَدَیْہِ حَتَّی جَعَلَ ظُہُورَہُمَا مِمَّا یَلِی بَطْنَ کَفِّہِ۔
(٣٨٧٨٢) حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے ارشاد فرمایا کہ ہلاکت ہے اہل عرب کے لیے ایسی برائی سے جو قریب آگئی وہ قریب ہوگی بخدا وہ برائی ان کی طرف چھریرے بدن والے تیز رفتار گھوڑے سے زیاد ہ تیز پہنچے گی اندھا نامعلوم فتنہ ہوگا آدمی اس میں صبح کسی امرپر کرے گا اور شام دوسرے امر پر کرے گا اس میں بیٹھنے والا کھڑے ہونے والے سے بہتر ہوگا اور اس میں کھڑا ہونے والا چلنے والے سے بہتر ہوگا اور چلنے والا اس میں دوڑنے والے سے بہتر ہوگا اور اگر میں تمام وہ باتیں جو میں جانتا ہوں تم سے بیان کروں تو تم میری گردن یہاں سے کاٹ دو اور اپنی گردن کو اپنی ہتھیلی کے کنارے سے حرکت دی (پھر فرمایا) اے اللہ ابوہریرہ بچوں کی امارت کا زمانہ نہ پائے اور اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے یہاں تک کہ ان کی پشت کو اپنی ہتھیلی کے اندرونی حصے کی طرف کرلیا۔

38782

(۳۸۷۸۳) حَدَّثَنَا شَبَابَۃُ، قَالَ: حدَّثَنَا سُلَیْمَانُ ، عَنْ ثَابِتٍ ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ : لَیَأْتِیَنَّ عَلَی النَّاسِ زَمَانٌ تَجِدُ النِّسْوَۃُ النَّعْلَ مُلْقًی عَلَی الطَّرِیقِ ، فَیَقُولُ بَعْضُہُنَّ لِبَعْضٍ : قَدْ کَانَتْ ہَذَا النَّعْلُ مَرَّۃً لِرِجْلٍ۔
(٣٨٧٨٣) حضرت انس سے روایت ہے کہ لوگوں پر ایسا زمانہ آئے گا کہ عورتیں جوتا راستے پر پھینکا ہوا پائیں گی تو وہ ایک دوسری سے کہیں گی کہ یہ جوتا ایک مرتبہ کسی کے پاؤں میں تھا۔

38783

(۳۸۷۸۴) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، عَنْ شُعْبَۃَ، عَنْ حُصَیْنٍ، قَالَ: کَانَ عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ أَبِی لَیْلَی یَحْضُضُ النَّاسَ أَیَّامَ الْجَمَاجِمِ۔
(٣٨٧٨٤) حضرت حصین سے روایت ہے کہ عبدالرحمن بن ابی لیلی لوگوں کو جماجم (حجاج کے زمانے کی لڑائی) کے زمانے میں خاموش کرواتے تھے۔

38784

(۳۸۷۸۵) حَدَّثَنَا مُعَاوِیَۃُ بْنُ ہِشَامٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ عِیسَی السَّعْدِیِّ ، عَنْ رَجُلٍ کَتَبَ إِلَی أَبِی الْبَخْتَرِیِّ یَسْأَلُہُ عَنْ مَکَانِہِ الَّذِی ہُو فِیہِ أَیَّامَ الْجَمَاجِمِ ، قَالَ : فَکَتَبَ إلَیْہِ أَبُو الْبَخْتَرِیِّ : مَنْ شَائَ قَالَ فِینَا ، وَلَوْ عَلِمْت شَیْئًا أَفْضَلَ مِنَ الَّذِی أَنَا فِیہِ لأَتَیْتہ۔
(٣٨٧٨٥) حضرت عیسیٰ سعدی سے روایت ہے اس آدمی سے نقل کرتے ہیں جنہوں نے ابو البختری سے ان کے مکان کے بارے میں پوچھا جہاں وہ جماجم کے زمانے میں تھے ابو البختری نے ان کو جواب میں لکھا جس نے جو چاہا ہمارے بارے میں کہا اگر میں اس سے افضل حالت پاتا جس میں تھا تو میں اس کو اختیار کرلیتا۔

38785

(۳۸۷۸۶) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ، عَنِ الْعَلاَئِ بْنِ عَبْدِ الْکَرِیمِ، قَالَ سَمِعَنِی طَلْحَۃُ بْنُ مُصَرِّفٍ ذَاتَ یَوْمٍ وَأَنَا أَضْحَکُ، فَقَالَ : إنَّک تَضْحَکُ ضِحْکَ رَجُلٍ لَمْ یَشْہَدِ الْجَمَاجِمَ۔
(٣٨٧٨٦) حضرت علاء بن عبدالکریم سے روایت ہے کہ حضرت طلحہ بن مصرف نے مجھے ایک دن ہنستے ہوئے سنا تو ارشاد فرمایا تم تو ایسے آدمی کی طرح ہنستے ہو جو جماجم کی لڑائی میں حاضر نہیں ہوا۔

38786

(۳۸۷۸۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ حَبِیبٍ التَّمَّارِ ، قَالَ : سَمِعْتُ زَاذَانَ یَقُولُ : وَدِدْت أَنَّ دِمَائَ أَہْلِ الشَّامِ فِی ثَوْبٍ ، وَأَشَارَ إِلَی ثَوْبِہِ ، یَعْنِی فِی ثَوْبِہِ ، أَوْ قَالَ : فِی حِجْرِی۔
(٣٨٧٨٧) حضرت زاذان سے روایت ہے انھوں نے ارشاد فرمایا کہ میں چاہتا ہوں کہ شامیوں کا خون میرے کپڑے میں ہو اور کپڑے کی طرف اشارہ کیا یا ارشاد فرمایا کہ میری گود میں ہو۔

38787

(۳۸۷۸۸) حَدَّثَنَا قَبِیصَۃُ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ وَخَیْثَمَۃ أَنَّہُمَا کَرِہَا الْجَمَاجِمَ۔
(٣٨٧٨٨) حضرت ابراہیم اور حضرت خیثمہ کے بارے میں منصور سے منقول ہے کہ وہ دونوں حضرات جماجم (کی لڑائی) کو ناپسند کرتے تھے۔

38788

(۳۸۷۸۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ یَزِیدَ ، عَنْ أَبِی الْبَخْتَرِیِّ ، أَنَّہُ رَأَی رَجُلاً مُنْہَزِمًا أَیَّامَ الْجَمَاجِمِ ، فَقَالَ: حرُّ النَّارِ أَشَدُّ مِنْ حَرِّ السَّیْفِ۔
(٣٨٧٨٩) حضرت ابو البختری سے روایت ہے کہ انھوں نے ایک آدمی کو جماجم (کی لڑائی) کے ایام میں شکست خوردہ دیکھا تو ارشاد فرمایا جہنم کی آگ کی گرمی تلوار کی گرمی سے سخت ہے۔

38789

(۳۸۷۹۰) حَدَّثَنَا قَبِیصَۃُ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، أَنَّہُ کَرِہَ الْجَمَاجِمَ۔
(٣٨٧٩٠) حضرت مجاہد سے روایت ہے کہ انھوں نے جماجم کو ناپسند کیا۔

38790

(۳۸۷۹۱) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، قَالَ : حدَّثَنَا مُجَالِدٌ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا عَامِرٌ ، قَالَ أَخْبَرَتْنِی فَاطِمَۃُ ابْنَۃُ قَیْسٍ ، قَالَتْ : خَرَجَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ذَاتَ یَوْمٍ بِالْہَاجِرَۃِ یُصَلِّی ، قَالَتْ : ثُمَّ صَعِدَ الْمِنْبَرَ فَقَامَ النَّاسُ ، فَقَالَ : أَیُّہَا النَّاسُ ، اجْلِسُوا فَإِنِّی لَمْ أَقُمْ مَقَامِی ہَذَا لِرَغْبَۃٍ وَلاَ لِرَہْبَۃٍ ، وَذَلِکَ ، أَنَّہُ صَعِدَ الْمِنْبَرَ فِی السَّاعَۃِ لَمْ یَکُنْ یَصْعَدُہُ فِیہَا ، وَلَکِنَّ تَمِیمًا الدَّارِیَّ أَتَانِی فَأَخْبَرَنِی خَبَرًا مَنَعَنِی الْقَیْلُولَۃَ مِنَ الْفَرَحِ وَقُرَّۃِ الْعَیْنِ ، فَأَحْبَبْت أَنْ أَنْشُرَ عَلَیْکُمْ خَبَرَ تَمِیمٍ ۔ ۲۔ أَخْبَرَنِی أَنَّ رَہْطًا مِنْ بَنِی عَمِّہِ رَکِبُوا الْبَحْرَ فَأَصَابَتْہُمْ عَاصِفٌ مِنْ رِیحٍ ، فَأَلْجَأَتْہُمْ إِلَی جَزِیرَۃٍ لاَ یَعْرِفُونَہَا فَقَعَدُوا فِی قَوَارِبِ السَّفِینَۃِ حَتَّی خَرَجُوا إِلَی الْجَزِیرَۃِ فَإِذَا ہُمْ بِشَیْئٍ أَسْوَدَ أَہْدَبَ کَثِیرِ الشَّعْرِ ، لاَ یَدْرُونَ ہُوَ رَجُلٌ ، أَوِ امْرَأَۃٌ ، قَالُوا : أَلاَ تُخْبِرُنَا ؟ قَالَ : مَا أَنَا بِمُخْبِرِکُمْ وَلاَ مُسْتَخْبِرِکُمْ شَیْئًا ، وَلَکِنَّ ہَذَا الدَّیْرَ قَدْ رَہَقْتُمُوہُ فَفِیہِ مَنْ ہُوَ إِلَی خَبَرِکُمْ بِالأَشْوَاقِ ، وَإِلَی أَنْ یُخْبِرَکُمْ وَیَسْتَخْبِرَکُمْ ، قَالُوا : فَمَا أَنْتَ ؟ قَالَتْ : أَنَا الْجَسَّاسَۃُ ، ۳۔ فَانْطَلَقُوا حَتَّی أَتَوُا الدَّیْرَ فَاسْتَأْذَنُوا فَأَذِنَ لَہُمْ فَإِذَا ہُمْ بِشَیْخٍ مُوثَقٍ شَدِیدِ الْوَثَاقِ مُظْہِرٍ الْحُزْنَ کَثِیرِ التَّشَکِّی ، فَسَلَّمُوا عَلَیْہِ فَرَدَّ السَّلاَمَ ، وَقَالَ : مِنْ أَیْنَ نَبَأْتُمْ ؟ قَالُوا : مِنَ الشَّامِ ، قَالَ : مِمَّنْ أَنْتُمْ ؟ قَالُوا : مِنَ الْعَرَبِ ؟ قَالَ : مَا فَعَلَتِ الْعَرَبُ ، خَرَجَ نَبِیُّہُمْ بَعْدُ ، قَالُوا : نَعَمْ ، قَالَ : فَمَا فَعَلُوا ؟ قَالُوا : نَاوَأَہُ قَوْمٌ فَأَظْہَرَہُ اللَّہُ عَلَیْہِمْ فَہُمُ الْیَوْمَ جَمِیعٌ ، قَالَ : ذَاکَ خَیْرٌ وَذَکَرَ فِیہِ : آمَنُوا بِہِ وَاتَّبَعُوہُ وَصَدَّقُوہُ ، قَالَ ذَاکَ خَیْرٌ لَہُمْ ، قَالَ : فَالْعَرَبُ الْیَوْمَ إلَہُہُمْ وَاحِدٌ وَکَلِمَتُہُمْ وَاحِدَۃٌ ، قَالُوا : نَعَمْ ، قَالَ : ذَاکَ خَیْرٌ لَہُمْ ۔ ۴۔ قَالَ : فَمَا فَعَلَتْ عَیْنُ زُغَرَ ؟ قَالُوا : صَالِحَۃٌ یَشْرَبُ أَہْلُہَا بِشَفَتِہِمْ وَیَسْقُونَ مِنْہَا زروعَہُمْ ، قَالَ : فَمَا فَعَلَ نَخْلٌ بَیْنَ عَمَّانَ وَبَیْسَانَ ؟ قَالُوا : یُطْعِمُ جَنَاہُ کُلَّ عَامٍ ، قَالَ : فَمَا فَعَلَتْ بُحَیْرَۃُ الطَّبَرِیَّۃِ ؟ قَالُوا : مَلأَی تَدَفَّقُ جَنَبَاتُہَا مِنْ کَثْرَۃِ الْمَائِ، قَالَ: فَزَفَرَ، ثُمَّ زَفَرَ، ثُمَّ زَفَرَ، ثُمَّ حَلَفَ، فَقَالَ: لَوْ قَدَ انْفَلَتُّ ، أَوْ خَرَجْت مِنْ وَثَاقِی ہَذَا، أَوْ مَکَانِی ہَذَا مَا تَرَکْت أَرْضًا إِلاَّ وَطِئْتُہَا بِرِجْلِی ہَاتَیْنِ غَیْرَ طِیْبَۃَ، لَیْسَ لِی عَلَیْہَا سَبِیلٌ وَلاَ سُلْطَانٌ۔ ۵۔ فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إِلَی ہَذَا انْتَہَی فَرَحِی ، ہَذِہِ طَیْبَۃُ ، وَالَّذِی نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہِ ، إِنَّ ہَذِہِ طَیْبَۃُ ، وَلَقَدْ حَرَّمَ اللَّہُ حَرَمِی عَلَی الدَّجَّالِ أَنْ یَدْخُلَہُ ، ثُمَّ حَلَفَ : مَا لَہَا طَرِیقٌ ضَیِّقٌ وَلاَ وَاسِعٌ فِی سَہْلٍ ، أَوْ جَبَلٍ إِلاَّ عَلَیْہِ مَلَکٌ شَاہِرٌ بِالسَّیْفِ إِلَی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ ، مَا یَسْتَطِیعُ الدَّجَّالُ أَنْ یَدْخُلَہَا عَلَی أَہْلِہَا ، ۶۔ قَالَ مُجَالِدٌ : فَأَخْبَرَنِی عَامِرٌ ، قَالَ : ذَکَرْت ہَذَا الْحَدِیثَ لِلْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ ، فَقَالَ : الْقَاسِمُ : أَشْہَدُ عَلَی عَائِشَۃَ لَحَدَّثَتْنِی ہَذَا الْحَدِیثَ غَیْرَ ، أَنَّہَا ، قَالَتْ : الْحَرَمَانِ عَلَیْہِ حَرَامٌ : مَکَّۃُ وَالْمَدِینَۃُ ۔ ۷۔ قَالَ عَامِرٌ : فَلَقِیت الْمُحَرَّرَ بْنَ أَبِی ہُرَیْرَۃَ فَحَدَّثْتہ حَدِیثَ عَائِشَۃَ ، فَقَالَ : أَشْہَدُ عَلَی أَبِی ، أَنَّہُ حَدَّثَنِی کَمَا حَدَّثَتْک عَائِشَۃُ مَا نَقَصَ حَرْفًا وَاحِدًا غَیْرَ أَنَّ أَبِی قَدْ زَادَ فِیہِ بَابًا وَاحِدًا ، قَالَ : فَحَطَّ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِیَدِہِ نَحْوَ الْمَشْرِقِ فَأَہْوَی قَرِیبًا مِنْ عِشْرِینَ مَرَّۃً۔
(٣٨٧٩١) حضرت فاطمہ بنت قیس سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک دن دوپہر کے وقت تشریف لائے اور نماز پڑھائی پھر منبر پر تشریف فرما ہوئے پس لوگ کھڑے ہوگئے آپ نے ارشاد فرمایا کہ اے لوگو ! بیٹھ جاؤ بلاشبہ میں اس جگہ رغبت اور خوف کی وجہ سے کھڑا نہیں ہوا اور یہ اس وجہ سے فرمایا کہ اس گھڑی میں آپ منبر پر پہلے نہیں بیٹھے تھے لیکن تمیم داری میرے پاس آئے اور مجھے ایسی خبر دی کہ جس کی خوشی اور آنکھوں کی ٹھنڈک نے مجھے قیلولے سے روک دیا میں نے چاہا کہ تمہارے سامنے تمیم کی خبر بتلاؤں اس نے مجھے بتلایا کہ ان کے چچیرے بھائیوں کی جماعت نے سمندر میں سفر کیا انھیں تیز آندھی پہنچی اس آندھی نے ان کو ایسے جزیرے میں ڈال دیا جسے وہ پہچانتے نہ تھے پس وہ قریبی کشتیوں پر سوار ہوگئے اور جزیرے کی طرف نکلے پس وہ ایسی کالی چیز کے پاس پہنچے جو بہت زیادہ بالوں والی تھی انہں ب پتہ نہیں چل رہا تھا کہ وہ مرد ہے یا عورت وہ اس سے کہنے لگے تم ہمیں بتلاؤ گی نہیں وہ کہنے لگی میں نہ تمہیں بتلاتی ہوں اور نہ تم سے کسی چیز کے بارے میں پوچھتی ہوں لیکن یہ راہب خانہ جس کے تم قریب ہو اس میں آدمی ہے جو تمہارے بارے میں اور تمہیں بتلانے اور تم سے پوچھنے کا شوق رکھتا ہے انھوں نے اس سے پوچھا تو کیا چیز ہے اس نے کہا میں جاسوس ہوں وہ نکلے اور راہب خانے میں پہنچ گئے انھوں نے داخل ہونے کی اجازت لی اس نے اجازت دے دی پس وہاں انھوں نے ایک بوڑھے کو پایا جسے سخت بیڑیوں میں جکڑا گیا تھا وہ غم کا اظہار کرنے والا تھا اور بہت زیادہ شکایت کرنے والا تھا انھوں نے اس کو سلام کیا اس نے سلام کا جواب دیا اور پوچھا تم کہاں سے آئے ہو انھوں نے کہا شام سے اس نے پوچھا تم کن میں سے ہو وہ کہنے لگے عرب والوں سے اس نے پوچھا عرب کی کیا حالت ہے ان کے نبی نمودار ہوگئے ہیں وہ کہنے لگے ہاں اس نے پوچھا ان عرب والوں نے کیا کیا انھوں نے بتلایا کہ ایک قوم نے ان سے مقابلہ کیا اللہ تعالیٰ نے ان کو ان پر غلبہ دے دیا اب وہ سب مجتمع ہیں اس نے کہا یہ اچھا ہے اور اس میں یہ بات بھی ذکر کی گئی کہ عرب ان پر ایمان لے آئے ہیں اور ان کی پیروی کی ہے اور ان کی تصدیق کی ہے اس نے کہا یہ ان کے لیے بہتر ہے۔ پھر اس نے پوچھا مقام زغر کے چشمے کی کیا حالت ہے تو ہ بولے اچھا ہے وہاں کے لوگ پیاس میں (اس سے) پیتے ہیں اور اس سے اپنی کھیتیوں کو سیراب کرتے ہیں اس نے پوچھا عمان اور بیسان مقام کی کھجوروں کی کیا حالت ہے انھوں نے بتلایا ان سے سال بھر پھل حاصل ہوتا ہے اس نے پوچھا بحیرہ طبریہ کی کیا حالت ہے انھوں نے کہا کہ بھرا ہوا ہے پانی کی کثرت کی وجہ سے اس کے دونوں کنارے کودتے ہیں راوی نے بتلایا کہ اس نے لمبا سانس لیا پھر لمبا سانس لیا پھر لمبا سانس لیا پھر اس نے قسم کھائی اور کہا اگر میں چھوٹ گیا یا کہا میں نکل گیا ان بیڑیوں سے یا کہا اس جگہ سے تو میں کسی زمین کو نہیں چھوڑوں گا مگر اسے اپنے ان دونوں پاؤں سے روندوں گا سوائے طیبہ (مدینہ منورہ) کے اس پر مجھے کوئی راستہ اور تسلط حاصل نہیں ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا یہ میری خوشی کی انتہا ہے یہ طیبہ ہے اور قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جان ہے یہ طیبہ ہے اللہ تعالیٰ نے میرے حرم کو دجال کے داخلے کے لیے حرام کردیا ہے پھر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قسم کھا کر فرمایا اس (طیبہ) کا کوئی تنگ اور کوئی کشادہ راستہ نرم زمین یا پہاڑ میں نہیں مگر اس پر تلوار سونتے ایک فرشتہ قیامت تک مامور ہے دجال مدینہ والوں پر داخل ہونے کی طاقت نہیں رکھتا۔ مجاہد فرماتے ہیں کہ عامر نے خبر دی کہا کہ یہ حدیث میں نے قاسم بن محمد کے سامنے بیان کی قاسم نے کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں عائشہ پر کہ انھوں نے یہ حدیث مجھ سے بیان کی سوائے اس کے کہ انھوں نے فرمایا دونوں حرم اس پر حرام ہیں مکہ اور مدینہ عامر نے فرمایا کہ میں محرر بن ابی ہریرہ سے ملا میں نے ان سے فاطمہ بنت قیس والی روایت بیان کی انھوں نے کہا کہ میں اپنے والد (حضرت ابوہریرہ ) کے بارے میں گواہی دیتا ہوں کہ انھوں نے مجھ سے ایسے ہی بیان کیا جیسے تم سے فاطمہ نے بیان کیا ہے ایک حرف بھی انھوں نے کم نہیں کیا سوائے اس کے کہ میرے والد نے اس میں ایک بات کا اضافہ کیا ہے انھوں نے فرمایا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے ہاتھ کو مشرق کی طرف گرایا تقریباً بیس مرتبہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنا ہاتھ نیچے گرایا۔

38791

(۳۸۷۹۲) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، قَالَ : حَدَّثَنَا سَلَمَۃُ بْنُ کُہَیْلٍ ، عَنْ أَبِی الزَّعْرَائِ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ، أَنَّہُ ذُکِرَ عِنْدَہُ الدَّجَّالَ ، فَقَالَ عَبْدُ اللہِ : تَفْتَرِقُونَ أَیُّہَا النَّاسُ لِخُرُوجِہِ ثَلاَثَ فِرَقٍ : فِرْقَۃٌ تَتْبَعُہُ ، وَفِرْقَۃٌ تَلْحَقُ بِأَرْضِ آبَائِہَا بِمَنَابِتِ الشِّیحِ ، وَفِرْقَۃٌ تَأْخُذُ شَطَّ ہَذَا الْفُرَاتِ فَیُقَاتِلُہُمْ وَیُقَاتِلُونَہُ حَتَّی یَجْتَمِعَ الْمُؤْمِنُونَ بِغَرْبی الشَّامِ فَیَبْعَثُونَ إلَیْہِ طَلِیعَۃً فِیہِمْ فَارِسٌ عَلَی فَرَسٍ أَشْقَرَ ، أَوْ فَرَسٍ أَبْلَقَ ، فَیُقْتَلُونَ لاَ یَرْجِعُ مِنْہُمْ بَشَرٌ ۔ ۲۔ قَالَ سَلَمَۃُ : فَحَدَّثَنِی أَبُو صَادِقٍ ، عَنْ رَبِیعَۃَ بْنِ نَاجِدٍ ، أَنَّ عَبْدَ اللہِ ، قَالَ : فَرَسٌ أَشْقَرُ۔ ۳۔ ثُمَّ قَالَ عَبْدُ اللہِ : وَیَزْعُمُ أَہْلُ الْکِتَابِ ، أَنَّ الْمَسِیحَ عِیسَی ابْنَ مَرْیَمَ یَنْزِلُ فَیَقْتُلُہُ ، قَالَ أَبُو الزَّعْرَائِ : مَا سَمِعْت عَبْدَ اللہِ یَذْکُرُ عَنْ أَہْلِ الْکِتَابِ حَدِیثًا غَیْرَ ہَذَا ۔ ۴۔ قَالَ : ثُمَّ یَخْرُجُ یَأْجُوجُ وَمَأْجُوجُ فَیَمْرَحُونَ فِی الأَرْضِ فَیُفْسِدُونَ فِیہَا ، ثُمَّ قَرَأَ عبد اللہ : {وَہُمْ مِنْ کُلِّ حَدَبٍ یَنْسِلُونَ} قَالَ : ثُمَّ یَبْعَثُ اللَّہُ عَلَیْہِمْ دَابَّۃً مِثْلَ ہَذَا النَّغْفِ فَتَلِجُ فِی أَسْمَاعِہِمْ وَمَنَاخِرِہِمْ فَیَمُوتُونَ مِنْہَا ، قَالَ : فَتَنْتُنُ الأَرْضُ مِنْہُمْ فَیُجْأَرُ إِلَی اللہِ ، فَیُرْسِلُ عَلَیْہِمْ مَائً فَیُطَہِّرُ اللہ الأَرْضَ مِنْہُمْ ، ثُمَّ قَالَ : یُرْسِلُ اللَّہُ رِیحًا زَمْہَرِیرًا بَارِدَۃً ، فَلاَ تَذَرُ عَلَی الأَرْضِ مُؤْمِنًا إِلاَّ کَفَتتہُ تِلْکَ الرِّیحَ ، قَالَ : ثُمَّ تَقُومُ السَّاعَۃُ عَلَی شِرَارِ النَّاسِ ۔ ۵۔ قَالَ: ثُمَّ یَقُومُ مَلَکٌ بَیْنَ السَّمَائِ وَالأَرْضِ بِالصُّورِ فَیَنْفُخُ فِیہِ، قَالَ: وَالصُّورُ قَرْنٌ، قَالَ: فَلاَ یَبْقَی خَلْقُ للہِ فِی السَّمَائِ وَلاَ فِی الأَرْضِ إِلاَّ مَاتَ إِلاَّ مَا شَائَ رَبُّک، قَالَ: ثُمَّ یَکُونُ بَیْنَ النَّفْخَتَیْنِ مَا شَائَ اللَّہُ أَنْ یَکُونَ، قَالَ: فَیَرُشُّ اللَّہُ مَائً مِنْ تَحْتِ الْعَرْشِ کَمَنِیِّ الرِّجَالِ، قَالَ: فَلَیْسَ مِنْ ابن آدَمَ خَلْقٌ فِی الأَرْضِ إِلاَّ مِنْہُ شَیْئٌ، قَالَ : فَتَنْبُتُ أَجْسَادُہُمْ وَلِحْمَانُہُمْ مِنْ ذَلِکَ الْمَائِ کَمَا تُنْبِتُ الأَرْضِ مِنَ الثَّرَی ، ثُمَّ قَرَأَ عَبْدُ اللہِ : {وَاللَّہُ الَّذِی أَرْسَلَ الرِّیَاحَ فَتُثِیرُ سَحَابًا فَسُقْنَاہُ إِلَی بَلَدٍ مَیِّتٍ فَأَحْیَیْنَا بِہِ الأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِہَا کَذَلِکَ النُّشُورُ} ۶۔ قَالَ : ثُمَّ یَقُومُ مَلَکٌ بَیْنَ السَّمَائِ وَالأَرْضِ بِالصُّورِ فَیَنْفُخُ فِیہِ ، قَالَ : فَتَنْطَلِقُ کُلُّ نَفْسٍ إِلَی جَسَدِہَا فَتَدْخُلُ فِیہِ ، قَالَ : ثُمَّ یَقُومُونَ فَیُحَیُّونَ تَحِیَّۃَ رَجُلٍ وَاحِدٍ قِیَامًا لِرَبِّ الْعَالَمِینَ ۷۔ ثُمَّ یَتَمَثَّلُ اللَّہُ لِلْخَلْقِ فَیَلْقَاہُمْ فَلَیْسَ أَحَدٌ مِنَ الْخَلْقِ مِمَّنْ یَعْبُدُ مِنْ دُونِ اللہِ شَیْئًا إِلاَّ وَہُوَ مَرْفُوعٌ لَہُ یَتْبَعُہُ فَیَلْقَی الْیَہُودَ فَیَقُولُ : مَنْ تَعْبُدُونَ ؟ فَیَقُولُونَ : نَعْبُدُ عُزَیْرًا ، فَیَقُولُ : ہَلْ یَسُرُّکُمَ الْمَائُ ، قَالُوا : نَعَمْ ، قَالَ : فَیُرِیہِمْ جَہَنَّمَ وَہِیَ کَہَیْئَۃِ السَّرَابِ ، ثُمَّ قَرَأَ عَبْدُ اللہِ : (وَعَرَضْنَا جَہَنَّمَ یَوْمَئِذٍ لِلْکَافِرِینَ عَرْضًا) ۸۔ ثُمَّ یَلْقَی النَّصَارَی فَیَقُولُ: مَنْ تَعْبُدُونَ ؟ قَالُوا : نَعْبُدُ الْمَسِیحَ ، قَالَ : یَقُولُ : ہَلْ یَسُرُّکُمَ الْمَائُ ، قَالُوا : نَعَمْ، فَیُرِیہِمْ جَہَنَّمَ وَہِیَ کَہَیْئَۃِ السَّرَابِ ، قَالَ : ثُمَّ کَذَلِکَ لِمَنْ کَانَ یَعْبُدُ مِنْ دُونِ اللہِ شَیْئًا ، ثُمَّ قَرَأَ عَبْدُ اللہِ : {وَقِفُوہُمْ إنَّہُمْ مَسْئُولُونَ} ۹۔ حَتَّی یَمُرَّ الْمُسْلِمُونَ فَیَقُولُ : مَنْ تَعْبُدُونَ فَیَقُولُونَ : نَعْبُدُ اللَّہَ وَلاَ نُشْرِکُ بِہِ شَیْئًا ، قَالَ : فَیَقُولُ : ہَلْ تَعْرِفُونَ رَبَّکُمْ ؟ فَیَقُولُونَ : سُبْحَانَہُ ، إِذَا إِعْتَرَفَ لَنَا عَرَفْنَاہُ ، قَالَ : فَعِنْدَ ذَلِکَ یُکْشَفُ عَنْ سَاقٍ فَلاَ یَبْقَی أَحَدٌ إِلاَّ خَرَّ لِلَّہِ سَاجِدًا ، وَیَبْقَی الْمُنَافِقُونَ ظُہُورُہُمْ طَبَقٌ وَاحِدٌ کَأَنَّمَا فِیہَا السَّفَافِیدُ ، قَالَ : فَیَقُولُونَ : قَدْ کُنْتُمْ تُدْعَوْنَ إِلَی السُّجُودِ وَأَنْتُمْ سَالِمُونَ ۔ ۱۰۔ وَیَأْمُرُ اللَّہُ بِالصِّرَاطِ فَیُضْرَبُ عَلَی جَہَنَّمَ ، قَالَ : فَیَمُرُّ النَّاسُ زُمَرًا عَلَی قَدْرِ أَعْمَالِہِمْ ، أَوَّلُہُمْ کَلَمْحِ الْبَرْقِ ، ثُمَّ کَمَرِّ الرِّیحِ ، ثُمَّ کَمَرِّ الطَّیْرِ ، ثُمَّ کَأَسْرَعِ الْبَہَائِمِ ، ثُمَّ کَذَلِکَ حَتَّی یَمُرَّ الرَّجُلُ سَعْیًا ، وَحَتَّی یَمُرَّ الرَّجُلُ مَاشِیًا ، وَحَتَّی یَکُونَ آخِرُہُمْ رَجُلٌ یَتَلَبَّطُ عَلَی بَطْنِہِ ، فَیَقُولُ : أَبْطَأْتَ بِی ، فَیَقُولُ : لَمْ أُبْطِئْ ، إنَّمَا أَبْطَأَ بِکَ عَمَلُک ۔ ۱۱۔ قَالَ : ثُمَّ یَأْذَنُ اللَّہُ بِالشَّفَاعَۃِ فَیَکُونُ أَوَّلَ شَافِعٍ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ رُوحُ الْقُدُسِ جِبْرِیلُ ، ثُمَّ إبْرَاہِیمُ خَلِیلُ الرَّحْمَن ، ثُمَّ مُوسَی ، أَوْ عِیسَی لاَ أَدْرِی مُوسَی ، أَوْ عِیسَی ، ثُمَّ یَقُومُ نَبِیُّکُمْ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَابِعًا لاَ یَشْفَعُ أَحَدٌ بَعْدَہُ فِیمَا شَفَعَ فِیہِ ، وَہُوَ الْمَقَامُ الْمَحْمُودُ الَّذِی ذَکَرَ اللَّہُ : {عَسَی أَنْ یَبْعَثَک رَبُّک مَقَامًا مَحْمُودًا} فَلَیْسَ مِنْ نَفْسٍ إِلاَّ تَنْظُرُ إِلَی بَیْتٍ مِنَ النَّارِ ، أَوْ بَیْتٍ فِی الْجَنَّۃِ وَہُوَ یَوْمُ الْحَسْرَۃِ ، فَیَرَی أَہْلُ النَّارِ الْبَیْتَ الَّذِی فِی الْجَنَّۃِ فَیُقَالُ : لَوْ عَمِلْتُمْ فَتَأْخُذُہُم الْحَسْرَۃُ وَیَرَی أَہْلُ الْجَنَّۃِ الْبَیْتَ الَّذِی فِی الجَنَّۃِ فَیَقُولُونَ : {لَوْلاَ أَنْ مَنَّ اللَّہُ عَلَیْنَا لخسف بنا}۔ ۱۲۔ قَالَ : ثُمَّ یَشْفَعُ الْمَلاَئِکَۃُ وَالنَّبِیُّونَ وَالشُّہَدَائُ وَالصَّالِحُونَ وَالْمُؤْمِنُونَ ، فَیُشَفِّعُہُمُ اللَّہُ ، قَالَ : ثُمَّ یَقُولُ : أَنَا أَرْحَمُ الرَّاحِمِینَ ، قَالَ : فَیُخْرِجُ مِنَ النَّارِ أَکْثَرَ مِمَّا أُخْرِجَ مِنْ جَمِیعِ الْخَلْقِ بِرَحْمَتِہِ حَتَّی مَا یَتْرُکُ فِیہَا أَحَدًا فِیہِ خَیْرٌ ، ثُمَّ قَرَأَ عَبْدُ اللہِ : {مَا سَلَکَکُمْ فِی سَقَرَ} قَالَ : وَجَعَلَ یَعْقِدُ حَتَّی عَدَّ أَرْبَعًا {قَالُوا لَمْ نَکُ مِنَ الْمُصَلِّینَ وَلَمْ نَکُ نُطْعِمُ الْمِسْکِینَ وَکُنَّا نَخُوضُ مَعَ الْخَائِضِینَ وَکُنَّا نُکَذِّبُ بِیَوْمِ الدِّینِ حَتَّی أَتَانَا الْیَقِینُ فَمَا تَنْفَعُہُمْ شَفَاعَۃُ الشَّافِعِینَ} ۱۳۔ ثُمَّ قَالَ عَبْدُ اللہِ : أَتَرَوْنَ فِی ہَؤُلاَئِ خَیْرًا ، مَا تُرِکَ فِیہَا أَحَدٌ فِیہِ خَیْرٌ ، فَإِذَا أَرَادَ اللَّہُ أَنْ لاَ یُخْرِجَ مِنْہَا أَحَدًا غَیَّرَ وُجُوہَہُمْ وَأَلْوَانَہُمْ فَیَجِیئُ الرَّجُلُ مِنَ الْمُؤْمِنِینَ فَیَقُولُ : یَا رَبِ ، فَیَقُولُ : مَنْ عَرَفَ أَحَدًا فَلْیُخْرِجْہُ ، قَالَ : فَیَجِیئُ فَیَنْظُرُ فَلاَ یَعْرِفُ أَحَدًا ، قَالَ : فَیُنَادِیہ الرَّجُلُ : یَا فُلاَنُ ، أَنَا فُلاَنٌ ، فَیَقُولُ مَا أَعْرِفُک ، قَالَ : فَعِنْدَ ذَلِکَ یَقُولُونَ : {رَبَّنَا أَخْرِجْنَا مِنْہَا فَإِنْ عُدْنَا فَإِنَّا ظَالِمُونَ} ، قَالَ : فَیَقُولُ عِنْدَ ذَلِکَ : {اخْسَئُوا فِیہَا وَلاَ تُکَلِّمُون} قَالَ : فَإذَا قَالَ ذَلِکَ أُطْبِقَتْ عَلَیْہِمْ فَلاَ یَخْرُجُ مِنْہُمْ بَشَرٌ۔
(٣٨٧٩٢) حضرت سلمہ بن کھیل ابی الزعراء سے اور وہ حضرت عبداللہ سے نقل کرتے ہیں ان کے پاس دجال کا ذکر کیا گیا حضرت عبداللہ نے فرمایا اے لوگو اس کے خروج کے وقت تم تین گروہوں میں بٹ جاؤ گے ایک گروہ اس کی پیروی کرے گا اور ایک گروہ اپنے آباؤ اجداد کی زمین میں گھاس اگنے کی جگہوں پر چلا جائے گا اور ایک گروہ اس فرات کا کنارہ پکڑے گا۔ وہ (دجال) ان سے لڑائی کرے گا اور وہ (لوگ) اس سے لڑائی کریں گے یہاں تک کہ مومنین شام کے مغربی جانب جمع ہوجائیں گے وہ اس کی طرف آگے جانے والے لشکر کو بھیجیں گے ان میں ایک سوار ہوگا سفید سرخی کے گھوڑے پر یا چتکبرے گھوڑے پر سوار ہوگا وہ سارے قتل کردیے جائیں گے ان میں سے کوئی انسان نہیں لوٹے گا۔ سلمہ نے فرمایا مجھ سے ابو صادق نے بیان کیا ربیعہ بن ناجد سے کہ حضرت عبداللہ نے فرمایا سفید سرخی مائل گھوڑا ہوگا پھر حضرت عبداللہ نے فرمایا کہ اہل کتاب کہتے ہیں مسیح عیسیٰ بن مریم اتریں گے اور اسے قتل کریں گے ابو الزعراء نے فرمایا کہ میں نے حضرت عبداللہ کو اہل کتاب سے اس حدیث کے علاوہ کوئی حدیث نقل کرتے ہوئے نہیں سنا۔ پھر حضرت عبداللہ نے فرمایا کہ پھر یاجوج ماجوج نکلیں گے وہ زمین میں اتراتے پھریں گے اور زمین میں فساد پھلائیں گے پھر حضرت عبداللہ نے پڑھا { وَہُمْ مِنْ کُلِّ حَدَبٍ یَنْسِلُونَ } اور وہ ہر اونچی جگہ سے بھاگتے ہوئے آئیں گے حضرت عبداللہ نے فرمایا اللہ تعالیٰ ان پر ایک کیڑابھیجیں گے اونٹ کے ناک میں پیدا ہونے والے کیڑے کی طرح وہ ان کے کانوں اور ان کے نتھنوں میں داخل ہوجائے گا وہ اس سے مرجائیں گے ارشاد فرمایا کہ ان سے زمین متعفن ہوجائے گی اللہ تعالیٰ سے فریاد کی جائے گی پس اللہ تعالیٰ ان پر بارش اتاریں گے اور اللہ تعالیٰ سخت ٹھنڈی ہوا چھوڑیں گے پس وہ زمین پر کوئی مومن نہیں چھوڑے گی مگر اسے یہ ہوا الٹ پلٹ کر دے گی ارشاد فرمایا پھر شریر لوگوں پر قیامت قائم ہوگی۔ ارشاد فرمایا پھر زمین و آسمان کے درمیان فرشتہ صور لے کر کھڑا ہوگا اور اس صور میں پھونکے گا راوی نے کہا کہ صور سینگ ہے ارشاد فرمایا کہ آسمانوں اور زمینوں میں اللہ کی مخلوق نہیں باقی رہے گی مگر وہ مرجائے گی مگر جس کے بارے میں اللہ چاہے پھر وہ اللہ چاہے فرمایا کہ پھر دونوں نفخوں کے درمیان اتنا وقت ہوگا جتنا کہ وقت ہونا اللہ چاہیں گے (راوی نے فرمایا) کہ اللہ تعالیٰ عرش کے نیچے سے پانی پھینکیں گے مردوں کی منی کی طرح ارشاد فرمایا کہ آدمی کی اولاد میں سے کوئی مخلوق نہیں بچے گی مگر اس سے (پانی سے) کچھ اسے پہنچے گا پس ان کے جسم اور ان کا گوشت اس پانی سے دوبارہ حیات یافتہ ہوگا جیسا کہ زمین تیزی سے سبزہ اگاتی ہے۔ پھر حضرت عبداللہ نے یہ آیت تلاوت کی ترجمہ اور اللہ وہ ذات ہے جو ہواؤں کو بھیجتی ہے وہ ہوائیں بادلوں کو اٹھاتی ہیں پس ہم اس کو ہانکتے ہیں مردہ شہر کی طرف پس ہم اس سے زمین کو زندہ کرتے ہیں اس کے مرے پیچھے اس طرح دوبارہ زندہ کیا جائے گا پھر ارشاد فرمایا پھر زمین و آسمان کے درمیان فرشتہ صور لے کر کھڑا ہوگا اس کو پھونکے گا پھر ہر روح اپنے جسم کی طرف چلے گی اور اس میں داخل ہوجائے گی فرمایا پھر کھڑے ہوں گے اور ایک آدمی کی طرح زندہ ہوں گے اور رب العالمین کے سامنے کھڑے ہوں گے۔ پھر اللہ تعالیٰ مخلوق کے لیے ایک صورت میں ظاہر ہوں گے اور ان لوگوں کو ملیں گے پس مخلوق میں سے جو کوئی اللہ کے علاوہ کسی اور چیز کی عبادت کرتا ہوگا ان میں سے کوئی بھی نہیں رہے گا مگر وہ چیز اس کے لیے بلند کی جائے گی وہ اس کے پیچھے چلے گا پس یہود سے ملیں گے اور کہیں گے تم کن کی عبادت کرتے ہو وہ کہیں گے ہم عزیر کی عبادت کرتے ہیں پس اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کیا تمہیں پانی پسند ہے وہ کہیں گے جی ہاں (ارشاد فرمایا) اللہ تعالیٰ ان کو جہنم دکھائیں گے اور وہ سراب کی طرح ہوگی ( سراب سے مراد ریت جو دھوپ میں پانی دکھائی دیتی ہے) پھر حضرت عبداللہ نے آیت تلاوت کی ترجمہ اور ہم اس دن کفار کے سامنے جہنم کو لائیں گے۔ پھر نصاریٰ سے ملیں گے اور پوچھیں گے تم کس کی عبادت کرتے ہو وہ کہیں گے حضرت مسیح (عیسیٰ ) کی فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ کیا تمہیں پانی پسند ہے وہ کہیں گے جی ہاں اللہ تعالیٰ انھیں جہنم دکھائیں گے اور وہ سراب (وہ چمکیلی ریت جو دھوپ کی روشنی سے پانی دکھائی دے) ہوگی۔ پھر فرمایا کہ پھر تمام وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور کی عبادت کیا کرتے تھے ان کے ساتھ یہی معاملہ ہوگا۔ پھر حضرت عبداللہ نے آیت پڑھی ترجمہ :۔ ان کو ٹھہراؤ کیونکہ ان سے پوچھا جائے گا یہاں تک کہ مسلمانوں کی جماعت سامنے آئے گی اللہ تعالیٰ پوچھیں گے کہ تم کس کی عبادت کرتے ہو ؟ وہ کہیں گے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہیں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتے ؟ راوی کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ کیا تم اللہ تعالیٰ کو پہچانتے ہو ؟ وہ کہیں گے پاک ہے وہ ذات جب وہ ہمارے سامنے آئے گی تو ہم پہچان لینگے راوی نے فرمایا کہ اس وقت اللہ تعالیٰ ساق کی تجلی فرمائیں گے ان میں سے کوئی بھی باقی نہیں رہے گا مگر یہ کہ وہ اللہ تعالیٰ کے سامنے سجدہ ریز ہوجائے گا منافقنٰ باقی رہ جائیں گے اور ان کی پشتیں تختہ ہوجائیں گی گویا کہ ان میں سلاخیں ہیں راوی نے فرمایا کہ فرشتے کہیں گے کہ تمہیں سجدے کی طرف بلایا جاتا تھا اس حال میں کہ تم صحیح سالم تھے۔ اللہ تعالیٰ پل صراط کے بارے میں حکم دینگے اسے جہنم پر بچھا دیا جائے گا فرمایا کہ لوگ گروہوں میں اپنے اعمال کے بقدر اس پر سے گزریں گے ان میں سے کچھ بجلی کی چمک کی طرح گزر جائیں گے پھر کچھ ہوا کے چلنے کی طرح گزر جائیں گے پھر اس کے بعد کچھ پرندے کے اڑنے کی طرح گزرجائیں گے پھر کچھ چوپاؤں میں سے سب سے تیز چوپائے کی طرح گزر جائیں گے پھر اسی طرح ہوگا یہاں تک کہ ایک آدمی دوڑ کر گزرے گا یہاں تک کہ دوسرا آدمی پیدل چل کے گزرے گا وہ کہے گا کہ تو نے مجھے بہت تاخیر سے گزارا اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ میں نے تمہیں پیچھے نہیں کیا بلکہ تمہارے عمل نے تمہیں پیچھے کیا۔ راوی نے فرمایا کہ پھر اللہ تعالیٰ شفاعت کی اجازت دیں گے پس قیامت والے دن سب سے پہلے سفارش کرنے والے وہ روح القدس پھر ابراہیم خلیل الرحمن پھر موسیٰ یا عیٰب فرمایا راوی فرماتے ہیں کہ میں نہیں جانتا کہ موسیٰ فرمایا یا عیسیٰ پھر تمہارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چوتھے نمبر پر کھڑے ہوں گے جن چیزوں کے بارے میں وہ سفارش کریں گے کوئی بھی ان میں سفارش نہیں کرے گا اور یہ مقام محمود ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے تذکرہ فرمایا { عَسَی أَنْ یَبْعَثَک رَبُّک مَقَامًا مَحْمُودًا } قریب ہے کہ آپ کا رب آپ کو مقام محمود پر پہنچا دے پس کوئی بھی جان نہیں ہوگی مگر وہ اپنے جہنم میں گھر کو یا جنت میں گھر کو دیکھ لے گی وہ حسرت کا دن ہوگا جہنمی اس گھر کو دیکھیں گے جو کہ جنت میں ان کے لیے تھا ان سے کہا جائے گا کاش کہ تم عمل کرتے (تو تمہیں یہ مل جاتا) پس انھیں حسرت لاحق ہوگی اور جنتی اپنے اس گھر کو جو جہنم میں تھا اس کو دیکھیں گے اور کہیں گے کہ اگر اللہ تعالیٰ ہم پر احسان نہ کرتے تو ہم بھی دھنسا دیے جاتے راوی نے فرمایا پھر ملائکہ، انبیائ، شہدائ، صلحاء ، اور مومنین شفاعت کریں گے اللہ تعالیٰ ان کی شفاعت کو قبول کریں گے پھر اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ میں سب رحم کرنے والوں میں سے زیادہ رحم کرتا ہوں پس اللہ تعالیٰ جہنم سے اپنی رحمت سے جتنے ساری مخلوق سے (شفاعت سے) نکالے ہوں گے ان سے زیادہ نکالیں گے یہاں کہ اس میں نہیں چھوڑیں گے جس میں کوئی بھلائی ہو پھر حضرت عبداللہ نے یہ آیت پڑھی { مَا سَلَکَکُمْ فِی سَقَرَ } کہ تمہیں کس چیز نے دوزخ میں داخل کردیا راوی نے فرمایا وہ گننے لگے یہاں تک کہ چار مرتبہ شمار کیا { قَالُوا لَمْ نَکُ مِنَ الْمُصَلِّینَ وَلَمْ نَکُ نُطْعِمُ الْمِسْکِینَ وَکُنَّا نَخُوضُ مَعَ الْخَائِضِینَ وَکُنَّا نُکَذِّبُ بِیَوْمِ الدِّینِ حَتَّی أَتَانَا الْیَقِینُ فَمَا تَنْفَعُہُمْ شَفَاعَۃُ الشَّافِعِینَ } ترجمہ وہ کہیں گے کہ ہم نماز پڑھنے والوں میں نہیں تھے اور ہم مسکینوں کو کھانا نہیں کھلاتے تھے اور جو لوگ بیہودہ باتوں میں گھستے ہم بھی ان کے ساتھ گھس جایا کرتے تھے، اور ہم روز جزا کے دن کو جھوٹ قرار دیتے تھے یہاں تک کہ وہ یقینی بات ہمارے پاس آگئی چنانچہ سفارش کرنے والوں کی سفارش ایسے لوگوں کے کام نہ آئے گی۔ پھر حضرت عبداللہ نے فرمایا کہ کیا تم ان میں کوئی بھلائی دیکھتے ہو جبکہ ان میں ایسا کوئی نہیں چھوڑا گیا جس میں کوئی بھلائی ہو جب اللہ تعالیٰ ارادہ کریں گے کہ جہنم سے کسی کو نہ نکالیں تو ان کے چہرے اور ان کے رنگ بدل دیں گے پس مومنوں میں سے ایک آدمی آئے گا اور عرض کرے گا اے رب اللہ تعالیٰ فرمائیں گے جو کسی کو پہچانتا ہے وہ اسے نکال لے راوی نے فرمایا کہ وہ آئے گا اور دیکھے گا وہ کسی کو پہچان لیں کہے گا فرمایا کہ ایک آدمی اسے پکارے گا اے فلاں میں فلاں ہوں وہ کہے گا میں تمہیں پہچانتا نہیں ہوں فرمایا اس وقت وہ کہیں گے ترجمہ اے ہمارے پروردگار ہمیں اس سے نکال دے اگر ہم دوبارہ وہی کام کریں تو بیشک ہم ظالم ہوں گے راوی نے فرمایا اس وقت اللہ تعالیٰ فرمائیں گے اس (دوزخ) میں ذلیل ہو کر پڑے رہو اور مجھ سے بات بھی نہ کرو راوی نے بتلایا جب اللہ تعالیٰ یہ فرمادیں گے تو جہنم کا دروازہ ان پر بند کردیا جائے گا پھر کوئی انسان وہاں سے نہ نکل سکے گا۔

38792

(۳۸۷۹۳) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ، وَابْنُ نُمَیْرٍ، عَنْ مُوسَی الْجُہَنِیِّ، عَنْ زَیْدٍ الْعَمِّیِّ، عَنْ أَبِی الصِّدِّیقِ النَّاجِی، عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : یَکُونُ فِی أُمَّتِی الْمَہْدِیُّ إِنْ طَالَ عُمْرُہُ ، أَوْ قَصُرَ عُمْرُہُ، یَمْلِکُ سَبْعَ سِنِینَ، أَوْ ثَمَانِیَ سِنِینَ، أَوْ تِسْعَ سِنِینَ ، فَیَمْلَؤُہَا قِسْطًا وَعَدْلاً کَمَا مُلِئَتْ جَوْرًا، وَتُمْطِرُ السَّمَائُ مَطَرَہَا ، وَتُخْرِجُ الأَرْضُ بَرَکَتَہَا ، قَالَ : وَتَعِیشُ أُمَّتِی فِی زَمَانِہِ عَیْشًا لَمْ تَعِشْہُ قَبْلَ ذَلِکَ۔ (ترمذی ۲۲۳۲۔ احمد ۲۱)
(٣٨٧٩٣) حضرت ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ میری امت میں مہدی ہوں گے ان کی عمر لمبی ہو یا ان کی عمر چھوٹی ہو وہ زمین پر سات سال یا آٹھ سال یا نوسال حکومت کریں گے پس وہ زمین کو عدل اور انصاف سے بھر دیں گے جیسا کہ اسے ظلم سے بھر دیا گیا تھا اور پھر آسمان سے بارش اترے گی اور زمین اپنی برکت نکالے گی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میری امت ان کے زمانے میں ایسی زندگی گزارے گی جو اس سے پہلے اس نے نہ گزاری ہوگی۔

38793

(۳۸۷۹۴) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ عَطِیَّۃَ ، عَنْ أَبِی سَعِیدٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: یَخْرُجُ رَجُلٌ مِنْ أَہْلِ بَیْتِی عِنْدَ انْقِطَاعٍ مِنَ الزَّمَانِ وَظُہُورٍ مِنَ الْفِتَنِ یَکُونُ عَطَاؤُہُ حَثْیًا۔ (احمد ۸۰۔ نعیم بن حماد ۱۰۵۶)
(٣٨٧٩٤) حضرت ابو سعید سے روایت ہے فرمایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا میرے اہل بیت میں سے ایک آدمی اخیر زمانے میں فتنوں کے ظاہر ہونے کے وقت نکلے گا۔ ان کی عطا ہاتھ بھر کر ہوگی۔

38794

(۳۸۷۹۵) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ دَاوُدَ ، عَنْ أَبِی نَضْرَۃَ ، عَنْ أَبِی سَعِیدٍ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ: یَخْرُجُ فِی آخِرِ الزَّمَانِ خَلِیفَۃٌ یُعْطِی الْحَقَّ بِغَیْرِ عَدَدٍ۔ (مسلم ۲۲۳۵)
(٣٨٧٩٥) حضرت ابو سعید سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ اخیر زمانے میں ایسے خلیفہ نکلیں گے جو حق بغیر شمار کے عطا کریں گے۔

38795

(۳۸۷۹۶) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنْ أَبِی مَعْبَدٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : لاَ تَمْضِی الأَیَّامُ وَاللَّیَالِی حَتَّی یَلِیَ مِنَّا أَہْلَ الْبَیْتِ فَتًی لَمْ تَلْبِسْہُ الْفِتَنُ وَلَمْ یَلْبِسْہَا ۔ قَالَ : قُلْنَا یَا أَبَا الْعَبَّاسِ یَعْجَزُ عَنْہَا مَشْیَخَتُکُمْ وَیَنَالُہَا شَبَابُکُمْ ؟ قَالَ : ہُوَ أَمْرُ اللہِ یُؤْتِیہ مَنْ یَشَائُ۔
(٣٨٧٩٦) حضرت ابن عباس سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ دن اور راتیں نہیں گزریں گی یہاں تک کہ ہم اہل بیت سے ایک جوان والی بنیں گے جن کو فتنے اشتباہ میں نہ ڈالیں گے اور نہ وہ فتنوں کو مشتبہ کریں گے راوی نے فرمایا کہ ہم نے عرض کیا اے ابو العباس کیا تمہارے بوڑھے ان سے (ملنے سے) عاجز ہوجائیں گے اور تمہارے جوان ان کو پالیں گے انھوں نے فرمایا وہ اللہ کا امر ہے جسے چاہے عطا کرے۔

38796

(۳۸۷۹۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، عَنْ فُضَیْلِ بْنِ مَرْزُوقٍ سَمِعَہُ مِنْ مَیْسَرَۃَ بْنِ حَبِیبٍ ، عَنِ الْمِنْہَالِ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : مِنَّا ثَلاَثَۃٌ ، مِنَّا السَّفَّاحُ وَمِنَّا الْمَنْصُورُ وَمِنَّا الْمَہْدِیُّ۔ (بیہقی ۵۱۴)
(٣٨٧٩٧) حضرت عبداللہ بن عباس سے روایت ہے انھوں نے فرمایا ہم میں سے تین آدمی ہوں گے ہم میں سے سفاح ہوگا اور ہم میں سے منصور ہوگا اور ہم میں سے مہدی ہوگا۔

38797

(۳۸۷۹۸) حَدَّثَنَا یَعْلَی بْنُ عُبَیْدٍ ، عَنِ الأَجْلَحِ ، عَنْ عَمَّارٍ الدُّہْنِیِّ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو ، قَالَ : یَا أَہْلَ الْکُوفَۃِ ، أَنْتُمْ أَسْعَدُ النَّاسِ بِالْمَہْدِیِّ۔
(٣٨٧٩٨) حضرت عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ انھوں نے فرمایا کہ اے کوفہ والو تم مہدی کی وجہ سے لوگوں میں سب سے زیادہ خوش بخت ہو۔

38798

(۳۸۷۹۹) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، وَأَبُو دَاوُد ، عَنْ یَاسِینَ الْعِجْلِیّ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَنَفِیَّۃِ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ عَلِیٍّ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : قَالَ : الْمَہْدِیُّ مِنَّا أَہْلَ الْبَیْتِ یُصْلِحُہُ اللَّہُ فِی لَیْلَۃٍ۔ (ابن ماجہ ۴۰۸۵۔ ابویعلی ۴۶۱)
(٣٨٧٩٩) حضرت علی سے روایت ہے انھوں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کیا ہے کہ انھوں نے ارشاد فرمایا کہ مہدی ہم میں سے یعنی اہل بیت میں سے ہوں گے ایک رات میں (امارت و خلافت کے لیے) اللہ تعالیٰ ان کو صلاحیت دیں گے۔

38799

(۳۸۸۰۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ یَاسِینَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ بْنِ مُحَمَّدٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ عَلِیٍّ مِثْلُہُ وَلَمْ یَرْفَعْہُ۔
(٣٨٨٠٠) حضرت علی سے اس اوپر والی روایت کی مثل منقول ہے اور حضرت علی نے (اس کو) مرفوعاً نقل نہیں کیا۔

38800

(۳۸۸۰۱) حَدَّثَنَا الْوَلِیدُ بْنُ عُتْبَۃَ ، عَنْ زَائِدَۃَ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، قَالَ ، الْمَہْدِیُّ عِیسَی ابْنُ مَرْیَمَ۔
(٣٨٨٠١) حضرت مجاہد سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ مہدی وہ عیسیٰ ابن مریم ہیں
(فائدہ : اس روایت میں عیسیٰ کو مہدی قرار دیا گیا اس سے وہ مہدی ہیں جن کا نام محمد بن عبداللہ ہے ان کی نفی لازم نہیں آتی کیونکہ حضرت عیسیٰ ہدایت یافتہ لوگوں اور عصمت و علو منزلت والے انبیائ کی جماعت میں سے ہیں لہٰذا مہدی ہونا لغوی معنیٰ کے اعتبار سے ہے۔ ورنہ حضرت عیسیٰ اور مہدی کا دو الگ الگ شخصیتیں ہونا روز روشن کی طرح بیشمار احادیث صحیحہ اور متواترہ سے ثابت ہے) ۔

38801

(۳۸۸۰۲) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا فِطْرٌ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ زِرٍّ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لاَ تَذْہَبُ الدُّنْیَا حَتَّی یَبْعَثَ اللَّہُ رَجُلاً مِنْ أَہْلِ بَیْتِی یُوَاطِئُ اسْمُہُ اسْمِی وَاسْمُ أَبِیہِ اسْمَ أَبِی۔ (ابوداؤد ۴۲۸۱)
(٣٨٨٠٢) حضرت عبداللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ دنیا ختم نہیں ہوگی یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ میرے اہل بیت میں سے ایک مرد کو بھیجیں گے جس کا نام میرے نام کے موافق ہوگا (مراد حضرت مہدی جن کا نام محمد بن عبداللہ ہوگا) ۔

38802

(۳۸۸۰۳) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا فِطْرٌ ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ أَبِی بَزَّۃَ ، عَنْ أَبِی الطُّفَیْلِ ، عَنْ عَلِیٍّ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : لَوْ لَمْ یَبْقَ مِنَ الدَّہْرِ إِلاَّ یَوْمٌ لَبَعَثَ اللَّہُ رَجُلاً مِنْ أَہْلِ بَیْتِی یَمْلَؤُہَا عَدْلاً کَمَا مُلِئَتْ جَوْرًا۔ (ابوداؤد ۴۲۸۲۔ احمد ۹۹)
(٣٨٨٠٣) حضرت علی سے روایت ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ اگر (دنیا کے) زمانے کا ایک دن ہی باقی رہے تو اللہ تعالیٰ ایک آدمی کو بھیجیں گے میرے اہل بیت سے جو زمین کو انصاف سے بھر دے گا جیسا کہ اسے ظلم سے بھر دیا جائے گا۔

38803

(۳۸۸۰۴) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ ، قَالَ : الْمَہْدِیُّ مِنْ ہَذِہِ الأُمَّۃِ وَہُوَ الَّذِی یَؤُمُّ عِیسَی ابْنَ مَرْیَمَ علیہما السلام۔
(٣٨٨٠٤) حضرت محمد بن سیرین سے روایت ہے کہ ارشاد فرمایا کہ مہدی اس امت میں سے ہیں اور وہ وہی ہیں جو حضرت عیسیٰ ابن مریم کی امامت کروائیں گے۔

38804

(۳۸۸۰۵) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ عَوْفٍ ، عَنْ مُحَمَّدٍ ، قَالَ : یَکُونُ فِی ہَذِہِ الأُمَّۃِ خَلِیفَۃٌ لاَ یُفَضَّلُ عَلَیْہِ أَبُو بَکْرٍ وَلاَ عُمَرُ۔ (ابن عدی ۲۴۳۳)
(٣٨٨٠٥) حضرت عوف حضرت محمد بن سیرین سے نقل کرتے ہیں انھوں نے فرمایا کہ اس امت میں ایک خلیفہ ہوں گے ان پر ابوبکر اور عمر کو فضیلت نہیں دی جاسکتی ہے (مراد یہ ہے کہ اخیر زمانے میں اس امت میں ا ن کے آثار صلاح اور افراد امت میں عدل و انصاف کی اشاعت میں شنخی سے مماثلت ہوگی ورنہ شیخین کی تفضیل حتمی بات ہے) ۔

38805

(۳۸۸۰۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ فُضَیْلِ بْنِ مَرْزُوقٍ ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ ظَبْیَانَ ، عَنْ حُکَیْمِ بْنِ سَعْدٍ ، قَالَ : لَمَّا قَامَ سُلَیْمَانُ فَأَظْہَرَ مَا أَظْہَرَ ، قُلْتُ لأَبِی تِحْیَی : ہَذَا الْمَہْدِیُّ الَّذِی یُذْکَرُ ، قَالَ : لاَ ، وَلاَ الْمُتَشَبِّہُ۔
(٣٨٨٠٦) حضرت عمران بن ظبیان حکیم بن سعد سے روایت ہے عمران بن ظبیان نے فرمایا کہ جب سلیمان بن عبدالملک نے حکومت سنبھالی تو انھوں نے نے ظاہر کیے اپنے کارنامے (عمران بن ظبیان نے کہا) میں نے کہا ابی تحیی سے (یعنی حکیم بن سعد سے) کہ یہ مہدی ہے جس کا ذکر کیا جاتا ہے انھوں نے فرمایا نہیں اور نہ ہی یہ ان کے مشابہہ ہے۔

38806

(۳۸۸۰۷) حَدَّثَنَا حُمَیْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ مُسْلِمٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ بْنِ مَیْسَرَۃَ ، قَالَ : قُلْتُ لِطَاوُوس : عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیزِ الْمَہْدِیُّ ؟ قَالَ : قَدْ کَانَ مَہْدِیًّا وَلَیْسَ بِہِ ، إِنَّ الْمَہْدِیَّ إِذَا کَانَ ، زِیدَ الْمُحْسِنُ فِی إحْسَانِہِ ، وَتِیبَ عَنِ الْمُسِیئِ مِنْ إسَائَتِہِ ، وَہُوَ یَبْذُلُ الْمَالَ ، وَیَشْتَدُّ عَلَی الْعُمَّالِ ، وَیَرْحَمُ الْمَسَاکِینَ۔
(٣٨٨٠٧) حضرت ابراہیم بن میسرہ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ میں نے حضرت طاؤس سے عرض کیا کہ عمر بن عبدالعزیز مہدی ہیں انھوں نے فرمایا کہ مہدی تو تھے (یعنی ہدایت یافتہ) اور وہ مہدی نہیں تھے کیونکہ مہدی جب ہوں گے تو نیک آدمی کو نیکی میں بڑھا دیا جائے گا اور گناہ گار گناہ سے توبہ کرے گا وہ مال خرچ کریں گے اور عاملوں پر سختی کریں گے اور مساکین پر رحم کریں گے۔

38807

(۳۸۸۰۸) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا مُوسَی الْجُہَنِیُّ ، قَالَ : حَدَّثَنِی عُمَرُ بْنُ قَیْسٍ الْمَاصِرُ ، قَالَ : حَدَّثَنِی مُجَاہِدٌ ، قَالَ : حَدَّثَنِی فَُلاَنٌ رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : أَنَّ الْمَہْدِیَّ لاَ یَخْرُجُ حَتَّی تُقْتَلَ النَّفْسُ الزَّکِیَّۃُ ، فَإِذَا قُتِلَت النَّفْسُ الزَّکِیَّۃُ غَضِبَ عَلَیْہِمْ مَنْ فِی السَّمَائِ وَمَنْ فِی الأَرْضِ ، فَأَتَی النَّاسَ الْمَہْدِی ، فَزَفُّوہُ کَمَا تُزَفُّ الْعَرُوسُ إِلَی زَوْجِہَا لَیْلَۃَ عُرْسِہَا ، وَہُوَ یَمَْلأَ الأَرْضَ قِسْطًا وَعَدْلاً ، وَتُخْرِجُ الأَرْضُ نَبَاتَہَا ، وَتُمْطِرُ السَّمَائُ مَطَرَہَا ، وَتَنْعَمُ أُمَّتِی فِی وِلاَیَتِہِ نِعْمَۃً لَمْ تَنْعَمْہَا قَطُّ۔
(٣٨٨٠٨) حضرت مجاہد سے روایت ہے انھوں نے فرمایا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب میں سے ایک صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ مہدی کا خروج نہیں ہوگا یہاں تک کہ پاکیزہ جان کو قتل کردیا جائے گا جب پاکیزہ جان کو قتل کردیا جائے گا تو ان پر جو آسمانوں میں ہیں اور زمینوں میں ہیں وہ غضبناک ہوں گے تو لوگ حضرت مہدی کے پاس آئیں گے وہ ان کو لے جائیں گے جیسے کہ دلہن کو اس کے شوہر کے گھر اس کی شادی کی رات لے جایا جاتا ہے وہ زمین کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے اور زمین اپنی نباتات کو نکالے گی اور آسمان بارش برسائے گا اور میری امت اس کی امارت مں اتنی آسودہ حال ہوگی کہ اس سے پہلے کبھی اتنی آسودہ حال نہیں ہوئی ہوگی۔

38808

(۳۸۸۰۹) حدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : أَنْبَأَنِی وَثَّابٌ وَکَانَ مِمَنْ أَدْرَکَہُ عِتْقُ أَمِیرِ الْمُؤْمِنِینَ عُمَرَ ، فَکَانَ یَکُونُ بَیْنَ یَدَیْ عُثْمَانَ ، قَالَ : فَرَأَیْتُ فِی حَلْقِہِ طَعْنَتَیْنِ کَأَنَّہُمَا کَیَّتَانِ طُعِنَہُمَا یَوْمَ الدَّارِ دَارِ عُثْمَانَ ، قَالَ : بَعَثَنِی أَمِیرُ الْمُؤْمِنِینَ عُثْمَان ، فَقَالَ : ادْعُ الأَشْتَرَ ، فَجَائَ ، قَالَ ابْنُ عَوْنٍ : أَظُنُّہُ ، قَالَ : فَطُرِحَتْ لأَمِیرِ الْمُؤْمِنِینَ وِسَادَۃٌ ولہ وسادۃ ، فَقَالَ : یَا أَشْتَرُ ، مَا یُرِیدُ النَّاسُ مِنِّی ، قَالَ : ثَلاَثٌ لَیْسَ مِنْ إحْدَاہُنَّ بُد ، یُخَیِّرُونَک بَیْنَ أَنْ تَخْلَعَ لَہُمْ أَمْرَہُمْ ، فَتَقُولُ : ہَذَا أَمْرُکُمْ ، فَاخْتَارُوا لَہُ مَنْ شِئْتُمْ ، وَبَیْنَ أَنْ تُقِصَّ مِنْ نَفْسِکَ ، فَإِنْ أَبَیْت ہَاتَیْنِ فَإِنَّ الْقَوْمَ قَاتِلُوک ، قَالَ : مَا مِنْ إحْدَاہُنَّ بُدٌّ ، قَالَ : مَا مِنْ إحْدَاہُنَّ بُدٌّ ، فَقَالَ : أَمَّا أَنْ أَخْلَعَ لَہُمْ أَمْرَہُمْ فَمَا کُنْت لأَخْلَعَ لَہُمْ سِرْبَالاً سَرْبَلَنِیہِ اللَّہُ أَبَدًا ، قَالَ ابْنُ عَوْنٍ : وَقَالَ غَیْرُ الْحَسَنِ : لأَنْ أُقَدَّمَ فَتُضْرَبَ عُنُقِی أَحَبُّ إلَیَّ مِنْ أَنْ أَخْلَعَ أُمَّۃَ مُحَمَّدٍ بَعْضَہَا عَلَی بَعْضٍ ، وَقَالَ ابْنُ عَوْنٍ : وَہَذِہِ أَشْبَہُ بِکَلاَمِہِ ، وأما أَنْ أَقُصَّ لَہُمْ مِنْ نَفْسِی ، فَوَاللہِ لَقَدْ عَلِمْت أَنَّ صَاحِبَیّ بَیْنَ یَدَیّ کَانَا یَقُصَّانِ مِنْ أَنْفُسِہِمَا ، وَمَا یَقُومُ بَدَنِی بِالْقِصَاصِ ، وَأَمَّا أَنْ یَقْتُلُونِی ، فَوَاللہِ لَئِنْ قَتَلُونِی لاَ یَتَحَابُّونَ بَعْدِی أَبَدًا ، وَلاَ یُقَاتِلُونَ بَعْدِی جَمِیعًا عَدُوًّا أَبَدًا ، فَقَامَ الأَشْتَرُ فَانْطَلَقَ ، فَمَکَثْنَا فَقُلْنَا : لَعَلَّ النَّاسَ ، ثُمَّ جَائَ رُوَیْجِلٌ کَأَنَّہُ ذِئْبٌ ، فَاطَّلَعَ مِنَ الْبَابِ ، ثُمَّ رَجَعَ ، ثُمَّ جَائَ مُحَمَّدُ بْنُ أَبِی بَکْرٍ فِی ثَلاَثَۃَ عَشَرَ رَجُلاً حَتَّی انْتَہَی إِلَی عُثْمَانَ فَأَخَذَ بِلِحْیَتِہِ ، فَقَالَ بِہَا حَتَّی سَمِعْت وَقْعَ أَضْرَاسِہِ ، وَقَالَ : مَا أَغْنَی ، عَنْک مُعَاوِیَۃُ ، مَا أَغْنَی ، عَنْک ابْنُ عَامِرٍ ، مَا أَغْنَتْ عَنْک کُتُبُک ، فَقَالَ : أَرْسِلْ لِی لِحْیَتِی یَا ابْنَ أَخِی ، أَرْسِلْ لِی لِحْیَتِی یَا أَخِی ، قَالَ : فرَأَیْتہ اسْتَعْدَی رَجُلاً مِنَ الْقَوْمِ یُعِینہ فَقَامَ إلَیْہِ بِمِشْقَصٍ حَتَّی وَجَأَ بِہِ فِی رَأْسِہِ فَأُثْبِتَ ، ثُمَّ مہ؟ قَالَ : ثُمَّ دَخَلُوا عَلَیْہِ وَاللہِ حَتَّی قَتَلُوہُ۔
(٣٨٨٠٩) حضرت وثاب سے روایت ہے جن کو امیر المؤمنین عمر نے آزاد کیا تھا وہ حضرت عثمان کے سامنے تھے۔ انھوں نے کہا کہ میں نے حضرت عثمان کے حلق میں دو نیزے دیکھے جیسا کہ دو داغنے کی جگہ میں داغنے کے آلے ہوتے ہیں جو حضرت عثمان کو ان کے گھر میں مارے گئے وہ کہتے ہیں (راوی وثاب) کہ مجھے امیرامؤمنین حضرت عثمان نے بھیجا کہ میرے لیے اشتر کو بلا کر لاؤ پس وہ آیا اور حضرت عثمان اور اس أشتر کے لیے ایک تکیہ رکھا گیا حضرت عثمان نے پوچھا اے أشتر لوگ مجھ سے کیا چاہتے ہیں اس نے کہا کہ تین باتوں میں سے کسی کے (اختیار کیے بغیر چارہ) نہیں ایک وہ آپ کو اختیار دیتے ہیں اس بات میں کہ آپ ان کے لیے خلافت کے امر کو چھوڑ دیں اور ان سے کہہ دیں کہ یہ تمہارا امر خلافت ہے اس کے لیے جس کو چاہتے ہو چن لو اور اس کے درمیان کہ آپ اپنی ذات کو قصاص کے لیے پیش کردیں پس اگر آپ ان دونوں باتوں سے انکار کرتے ہیں تو بلاشبہ یہ لوگ آپ سے قتال کریں گے حضرت عثمان نے فرمایا کہ کیا ان میں سے کسی ایک کے اختیار کرنے کے بغیر چارہ نہیں ہے تو اس نے کہا کہ ان میں سے کسی ایک کے اختیار کرنے کے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے پس حضرت عثمان نے فرمایا کہ باقی رہی یہ بات کہ میں ان کے لیے ان کے امر خلافت سے الگ ہوجاؤں تو کبھی اس قمیص کو نہیں اتاروں گا جسے اللہ رب العزت نے مجھے ہمیشہ کے لیے پہنایا ہے ابن عون راوی کہتے ہیں کہ حسن کے علاوہ دوسرے راویوں نے یوں نقل کیا ہے کہ یوں فرمایا کہ میں آگے بڑھوں اور میری گردن ماردی جائے یہ مجھے زیادہ پسندیدہ ہے اس بات سے کہ میں امت محمدیہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایک دوسرے سے لڑائی کرتا ہوا چھوڑ دوں۔ ابن عون کہتے ہیں کہ یہ ان کے کلام کے زیادہ قریب ہے۔ اور باقی رہی یہ بات کہ میں اپنی ذات کو ان کے سامنے قصاص کے لیے پیش کروں تو یقیناً میں جانتا ہوں کہ مر سے دو ساتھی میرے سامنے اپنے آپ کو قصاص کے لیے پیش کرتے تھے اور میرا بدن قصاص کے قابل نہیں اور اگر وہ مجھے قتل کردیں تو اللہ کی قسم اگر انھوں نے مجھے قتل کردیا تو میرے بعد کبھی بھی وہ آپس میں محبت نہیں کریں گے اور میرے بعد وہ اکٹھے کبھی بھی کسی دشمن سے قتال نہیں کرسکیں گے پس أشتر کھڑا ہوا اور چلا گیا ہم تھوڑی دیر ٹھہرے ہم نے کہا شاید کہ لوگ ہیں پھر رو یحل آیا گویا کہ وہ بھیڑیا ہے اس نے درازے سے جھانکا پھر لوٹ گیا پھر محمد بن ابی بکر آئے تیرہ آدمیوں میں یہاں تک کہ حضرت عثمان تک پہنچے اور ان کی داڑھی کو پکڑا اور اسے کھینچا یہاں تک کہ میں نے ان کی داڑھیں گرنے کی آواز سنی اور کہا نہیں فائدہ پہنچایا تمہیں معاویہ نے اور نہیں فائدہ پہنچایا تمہیں ابن عامر نے اور نہ فائدہ دیا تمہیں تمہارے لشکر نے انھوں نے فرمایا کہ میری داڑھی چھوڑ دے اے بھتیجے میری داڑھی چھوڑ دے اے بھتیجے راوی نے فرمایا کہ محمد بن ابوبکر کی طرف انھوں نے دیکھا کہ اپنے مدد کرنے والے لوگوں میں سے ایک آدمی سے مدد طلب کر رہے تھے وہ آدمی ان کی طرف نیزہ کا پھل لے کر کھڑا ہوا یہاں تک کہ اسے ان کے سر میں مار دیا پس اسے ٹھہرا دیا فرمایا پھر کیا ہوا فرمایا پھر وہ داخل ہوئے اور اللہ کی قسم انھوں نے ان کو شہید کردیا۔

38809

(۳۸۸۱۰) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ الْحُبَابِ ، قَالَ : حدَّثَنَا مُعَاوِیَۃُ بْنُ صَالِحٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِی رَبِیعَۃُ بْنُ یَزِیدَ الدِّمَشْقِیُّ ، قَالَ : حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ قَیْسٍ ، أَنَّہُ سَمِعَ النُّعْمَانَ بْنَ بَشِیرٍ ، عَنْ عَائِشَۃَ ، أَنَّہَا ، قَالَتْ : أَلاَ أُحَدِّثُک بِحَدِیثٍ سَمِعْتُہُ مِنْ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، أَنَّہُ بَعَثَ إِلَی عُثْمَانَ فَدَعَاہُ فَأَقْبَلَ إلَیْہِ فَسَمِعْتُہُ یَقُولُ : یَا عُثْمَان ، إِنَّ اللَّہَ لَعَلَّہُ یُقْمِصُکَ قَمِیصًا ، فَإِنْ أَرَادُوک عَلَی خَلْعِہِ فَلاَ تَخْلَعْہُ ثَلاَثًا ، فَقُلْتُ : یَا أُمَّ الْمُؤْمِنِینَ ، أَیْنَ کُنْت عَنْ ہَذَا الْحَدِیثِ ، قَالَتْ : أُنْسِیتُہُ کَأَنْ لَمْ أَسْمَعْہُ۔
(٣٨٨١٠) حضرت سیدہ عائشہ سے روایت ہے کہ انھوں نے فرمایا کہ تمہیں وہ حدیث نہ سناؤں جو میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنی تھی کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عثمان کو بلانے کے لیے (کسی کو) بھیجا وہ آئے تو میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا اے عثمان ! بلاشبہ اللہ تعالیٰ تمہیں ایک قمیص پہنائیں گے اگر لوگ تجھ سے وہ قمیص اتارنے کا ارادہ کریں تو اسے نہ اتارنا یہ تین مرتبہ فرمایا نعمان بن بشیر فرماتے ہیں میں نے عرض کیا اے ام المؤمنین آپ نے اب تک یہ حدیث بیان نہیں کی انھوں نے فرمایا مجھے یہ بھول چکی تھی گویا کہ میں نے سنی نہیں تھی۔

38810

(۳۸۸۱۱) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا جَرِیرُ بْنُ حَازِمٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا یَعْلَی بْنُ حَکِیمٍ ، عَنْ نَافِعٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِی عَبْدُ اللہِ بْنُ عُمَرَ ، قَالَ : قَالَ لِی عُثْمَان وَہُوَ مَحْصُورٌ فِی الدَّارِ : مَا تَقُولُ فِیمَا أَشَارَ بِہِ عَلَیَّ الْمُغِیرَۃُ بْنُ الأَخْنَسِ ، قَالَ : قُلْتُ : وَمَا أَشَارَ بِہِ عَلَیْک ، قَالَ : إِنَّ ہَؤُلاَئِ الْقَوْمَ یُرِیدُونَ خَلْعِی ، فَإِنْ خُلِعْت تَرَکُونِی ، وَإِنْ لَمْ أُخْلَعْ قَتَلُونِی ، قَالَ : قُلْتُ : أَرَأَیْت إِنْ خُلِعْت أَتُرَاک مُخَلَّدًا فِی الدُّنْیَا ، قَالََلا ، قُلْتُ : فَہَلْ یَمْلِکُونَ الْجَنَّۃَ وَالنَّارَ ، قَالَ : لاَ ، قُلْتُ : أَرَأَیْت إِنْ لَمْ تُخْلَعْ ، أَیَزِیدُونَ عَلَی قَتْلِکَ ، قَالَ : لاَ ، قُلْتُ : أَرَأَیْت تَسُنُّ ہَذِہِ السُّنَّۃَ فِی الإِسْلاَم کُلَّمَا سَخِطَ قَوْمٌ عَلَی أَمِیرٍ خَلَعُوہُ ، وَلاَ تَخْلَعُ قَمِیصًا قَمَّصَکَہُ اللَّہُ۔ (ابن سعد ۶۶)
(٣٨٨١١) حضرت عبداللہ بن عمر سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ حضرت عثمان نے مجھ سے ارشاد فرمایا جبکہ وہ گھر کے اندر محصور تھے تم اس بارے میں کیا کہتے ہو جو مغیرہ بن الاخنس نے بتلایا ہے ابن عمر نے فرمایا میں نے عرض کیا اس نے آپ کو کیا بتلایا ہے انھوں نے فرمایا کہ یہ لوگ مجھے خلافت سے معزول کرنا چاہتے ہیں اگر میں اس خلافت سے جدا ہوجاؤں تو وہ مجھے چھوڑیں گے اور اگر میں اس سے جدا نہ ہوں تو وہ مجھے قتل کردیں گے ابن عمر نے فرمایا کہ میں نے کہا آپ مجھے بتلائیں اگر آپ جدا ہوجائیں گے تو آپ کا کیا خیال ہے کہ آپ دنیا میں ہمشہ رہیں گے آپ نے فرمایا نہیں میں نے عرض کیا۔ کیا جنت اور جہنم کے مالک ہیں انھوں نے فرمایا نہیں میں نے عرض کیا آپ مجھے بتلائیں اگر آپ خلافت سے جدا نہ ہوں تو یہ آپ کے قتل سے زیادہ کرسکتے ہیں انھوں نے فرمایا نہیں میں نے عرض کیا آپ مجھے بتلائیں کہ آپ اسلام میں یہ طریقہ جاری کردیں گے کہ جب بھی لوگ امیر سے ناراض ہوں تو اسے (خلافت سے) جدا کردیں جو قمیص اللہ نے آپ کو پہنائی ہے وہ نہ اتاریں۔

38811

(۳۸۸۱۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ ، عَنْ قَیْسٍ ، قَالَ : حدَّثَنِی أَبُو سَہْلَۃَ ، أَنَّ عُثْمَانَ قَالَ یَوْمَ الدَّارِ : إِنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَہِدَ إلَیَّ عَہْدًا فَأَنَا صَابِرٌ عَلَیْہِ ، قَالَ : فَکَانُوا یَرَوْنَ أَنَّہُ ذَاکَ الْیَوْمُ۔
(٣٨٨١٢) حضرت ابو سہلہ سے روایت ہے حضرت عثمان نے گھر (کے محاصرے) کے دن فرمایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے نصیحت کی تھی میں اس پر جمنے والا ہوں راوی نے فرمایا وہ لوگ یہ سمجھتے تھے کہ یہ وہی دن ہے۔

38812

(۳۸۸۱۳) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ أَبِی سُلَیْمَانَ ، قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا لَیْلَی الْکِنْدِیَّ یَقُولُ : رَأَیْت عُثْمَانَ اطَّلَعَ عَلَی النَّاسِ وَہُوَ مَحْصُورٌ ، فَقَالَ : أَیُّہَا النَّاسُ ، لاَ تَقْتُلُونِی وَاسْتَعْتِبُونِی ، فَوَاللہِ لَئِنْ قَتَلْتُمُونِی لاَ تُقَاتِلُونَ جَمِیعًا أَبَدًا وَلاَ تُجَاہِدُونَ عَدُوًّا أَبَدًا ، وَلَتَخْتَلِفُنَّ حَتَّی تَصِیرُوا ہَکَذَا وَشَبَّکَ بَیْنَ أَصَابِعِہِ : {وَیَا قَوْمِ لاَ یَجْرِمَنَّکُمْ شِقَاقِی أَنْ یُصِیبَکُمْ مِثْلُ مَا أَصَابَ قَوْمَ نُوحٍ أَوْ قَوْمَ ہُودٍ أَوْ قَوْمَ صَالِحٍ وَمَا قَوْمُ لُوطٍ مِنْکُمْ بِبَعِیدٍ} قَالَ : وَأَرْسَلَ إِلَی عَبْدِ اللہِ بْنِ سَلاَمٍ فَسَأَلَہُ ، فَقَالَ : الْکَفُّ الْکَفُّ ، فَإِنَّہُ أَبْلَغُ لَکَ فِی الْحُجَّۃِ ، فَدَخَلُوا عَلَیْہِ فَقَتَلُوہُ۔
(٣٨٨١٣) حضرت ابو لیلی کندی سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ حضرت عثمان کو میں نے دیکھا کہ محاصرے کے وقت انھوں نے لوگوں کی طرف جھانکا اور فرمایا اے لوگو ! مجھے قتل مت کرو اور مجھے راضی کرو اللہ کی قسم اگر تم نے مجھے قتل کردیاتو تم کبھی بھی اکٹھے قتال نہ کرسکو گے اور کبھی بھی دشمن سے جہاد نہ کرسکو گے اور تمہارے درمیان پھوٹ پڑجائے گی یہاں تک کہ تم اس طرح ہوجاؤ گے اور اپنی انگلیوں کو ایک دوسرے کے ساتھ ملایا اور آیت تلاوت کی ترجمہ اور اے میری قوم ! میرے ساتھ ضد کا جو معاملہ تم کررہے ہو وہ کہیں تمہیں اس انجام تک نہ پہنچا دے کہ تم پر بھی ویسی مصیبت نازل ہو جیسی نوح کی قوم یا ہود کی قوم پر یا صالح کی قوم پر نازل ہوچکی ہے اور لوط کی قوم تو تم سے کچھ دور بھی نہیں ہے راوی نے فرمایا کہ حضرت عثمان نے حضرت عبداللہ بن سلام کی طرف پیغام بھیجا اور ان سے پوچھا انھوں نے فرمایا ٹھہریں ٹھہریں بلاشبہ میں آپ کی دلیل تک زیادہ پہنچنے والا ہوں پس وہ لوگ حضرت عثمان کے پاس آئے اور ان کو شہید کردیا۔

38813

(۳۸۸۱۴) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِیرِینَ ، قَالَ : أَشْرَفَ عَلَیْہُمْ عُثْمَان مِنَ الْقَصْرِ، فَقَالَ : ائْتُونِی بِرَجُلٍ أُتَالِیہِ کِتَابَ اللہِ ، فَأَتَوْہُ بِصَعْصَعَۃَ بْنِ صُوحَانَ ، وَکَانَ شَابًّا ، فَقَالَ : مَا وَجَدْتُمْ أَحَدًا تَأْتُونِی غَیْرَ ہَذَا الشَّابِّ ، قَالَ : فَتَکَلَّمَ صَعْصَعَۃُ بْنُ صُوحَانَ بِکَلاَمُ ، فَقَالَ لَہُ عُثْمَان : اُتْلُ ، فَقَالَ صَعْصَعَۃُ : {أُذِنَ لِلَّذِینَ یُقَاتَلُونَ بِأَنَّہُمْ ظُلِمُوا وَإِنَّ اللَّہَ عَلَی نَصْرِہِمْ لَقَدِیرٌ} فَقَالَ : لَیْسَتْ لَکَ وَلاَ لأَصْحَابِکَ ، وَلَکِنَّہَا لِی وَلأَصْحَابِی ، ثُمَّ تَلاَ عُثْمَان : {أُذِنَ لِلَّذِینَ یُقَاتَلُونَ بِأَنَّہُمْ ظُلِمُوا وَإِنَّ اللَّہَ عَلَی نَصْرِہِمْ لَقَدِیرٌ} حَتَّی بَلَغَ {وَلِلَّہِ عَاقِبَۃُ الأُمُورِ}۔
(٣٨٨١٤) حضرت محمد بن سیرین سے روایت ہے کہ فرمایا حضرت عثمان نے محل سے لوگوں کی طرف جھانکا اور فرمایا میرے پاس ایسا آدمی لاؤ جس کے مقابلے میں اللہ کی کتاب پڑھوں وہ صعصعہ بن صوحان کو لے آئے وہ جوان تھا حضرت عثمان نے فرمایا تم نے اس جوان کے علاوہ کسی اور کو نہ پایا جسے میرے پاس لاتے راوی نے فرمایا کہ صعصہ بن صوحان نے ایک بات کی حضرت عثمان نے اس سے فرمایا پڑھو صعصہ بن صوحان نے { أُذِنَ لِلَّذِینَ یُقَاتَلُونَ بِأَنَّہُمْ ظُلِمُوا وَإِنَّ اللَّہَ عَلَی نَصْرِہِمْ لَقَدِیرٌ} آیت پڑھی ترجمہ جن لوگوں سے جنگ کی جارہی ہے انھیں اجازت دی جاتی ہے (کہ وہ اپنے دفاع میں لڑیں) کیونکہ ان پر ظلم کیا گیا ہے اور یقین رکھو کہ اللہ ان کو فتح دلا نے پر پوری طرح قادر ہے۔ حضرت عثمان نے فرمایا نہ تو یہ تیرے لیے ہے اور نہ تیرے ساتھیوں کے لیے لیکن وہ میرے لیے ہے اور میرے ساتھیوں کے لیے ہے پھر حضرت عثمان نے یہ آیت تلاوت فرمائی { أُذِنَ لِلَّذِینَ یُقَاتَلُونَ بِأَنَّہُمْ ظُلِمُوا وَإِنَّ اللَّہَ عَلَی نَصْرِہِمْ لَقَدِیرٌ} یہاں تک کہ { وَلِلَّہِ عَاقِبَۃُ الأُمُورِ } تک تلاوت کی۔

38814

(۳۸۸۱۵) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، قَالَ : حدَّثَنَا أَبُو صَالِحٍ ، قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللہِ بْنُ سَلاَمٍ : لَمَّا حُصِرَ عُثْمَان فِی الدَّارِ ، قَالَ : لاَ تَقْتُلُوہُ فَإِنَّہُ لَمْ یَبْقَ مِنْ أَجَلِہِ إِلاَّ قَلِیلٌ ، وَاللہِ لَئِنْ قَتَلْتُمُوہُ لاَ تُصَلُّوا جَمِیعًا أَبَدًا۔
(٣٨٨١٥) حضرت ابو صالح سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ حضرت عبداللہ بن سلام نے فرمایا جبکہ حضرت عثمان کو گھر میں محصور کیا گیا کہ ان کو قتل نہ کرو اس لیے کہ ان کی عمر میں سے تھوڑا حصہ ہی باقی ہے بخدا اگر تم نے ان کو قتل کردیا تو تم اکٹھے نماز نہیں پڑھ سکو گے۔

38815

(۳۸۸۱۶) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَامِرٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ عُثْمَانَ یَقُولُ : إِنَّ أَعْظَمَکُمْ غِنَائً عِنْدِی مَنْ کَفَّ سِلاَحَہُ وَیَدَہُ۔
(٣٨٨١٦) حضرت عثمان سے روایت ہے انھوں نے فرمایا میرے نزدیک تم میں سے سب سے زیادہ مالدار وہ آدمی ہے جس نے اپنے اسلحہ اور ہاتھ کو روکا۔

38816

(۳۸۸۱۷) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ، عَنْ ہِشَامٍ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنِ ابْنِ الزُّبَیْرِ ، قَالَ: قُلْتُ لِعُثْمَانَ یَوْمَ الدَّارِ : اُخْرُجْ فَقَاتِلْہُمْ، فَإِنَّ مَعَک مَنْ قَدْ نَصَرَ اللَّہُ بِأَقَلَّ مِنْہُ ، وَاللہِ إِنَّ قِتَالُہَمْ لَحَلاَلٌ ، قَالَ : فَأَبَی ، وَقَالَ : مَنْ کَانَ لِی عَلَیْہِ سَمْعٌ وَطَاعَۃٌ فَلْیُطِعْ عَبْدَ اللہِ بْنَ الزُّبَیْرِ ، وَکَانَ أَمَّرَہُ یَوْمَئِذٍ علی الدار ، وَکَانَ ذَلِکَ الْیَوْمَ صَائِمًا۔
(٣٨٨١٧) حضرت عبداللہ بن زبیر سے روایت ہے ارشاد فرمایا کہ میں نے حضرت عثمان سے گھر (کے محاصرے) کے دن عرض کیا آپ نکلیں اور ان سے قتال کریں بلاشبہ آپ کے ساتھ وہ لوگ ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے اس سے کم مقدار میں مدد کی بخدا ان سے قتال حلال ہے انھوں نے فرمایا کہ حضرت عثمان نے انکار کیا اور فرمایا جس آدمی پر میری بات سننا اور اطاعت کرنا لازم ہے وہ عبداللہ بن زبیر کی اطاعت کرے اور حضرت عثمان نے ان کو اس دن گھر پر امیر مقرر کیا تھا اور حضرت عثمان اس دن روزہ دار تھے۔

38817

(۳۸۸۱۸) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ صَدَقَۃَ بْنِ أَبِی عِمْرَانَ ، قَالَ : حدَّثَنَا أَبُو الْیَعْفُورِ ، عَنْ أَبِی سَعِیدٍ مَوْلَی ابْنِ مَسْعُودٍ ، قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللہِ : واللہ لَئِنْ قَتَلُوا عُثْمَانَ لاَ یُصِیبُوا مِنْہُ خَلَفًا۔
(٣٨٨١٨) حضرت عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے انھوں نے فرمایا بخدا اگر انھوں نے عثمان کو شہید کردیا تو ان کے بعد ان کا اچھا نائب نہ پائیں گے۔

38818

(۳۸۸۱۹) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ ، قَالَ : جَائَ زَیْدُ بْنُ ثَابِتٍ إِلَی عُثْمَانَ ، فَقَالَ : ہَذِہِ الأَنْصَارُ بِالْبَابِ ، قَالُوا : إِنْ شِئْتَ أَنْ نَکُونَ أَنْصَارًا لِلَّہِ مَرَّتَیْنِ ، قَالَ : أَمَّا قِتَالٌ فَلاَ۔
(٣٨٨١٩) حضرت محمد بن سیرین سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ زید بن ثابت حضرت عثمان کے پاس آئے اور عرض کیا یہ انصار دروازے پر ہیں ان انصار نے عرض کیا اگر آپ چاہیں تو ہم اللہ کے (دین کے) مددگار بننے کو ایک بار پھر تیار ہیں۔ حضرت عثمان نے فرمایا رہا قتال تو وہ نہیں ہوگا۔

38819

(۳۸۸۲۰) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ ، عَنْ قَیْسٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ زَیْدٍ ، قَالَ : لَقَدْ رَأَیْتُنِی مُوثِقِی عُمَرُ وَأُخْتَہُ عَلَی الإِسْلاَمِ ، وَلَوِ ارْفَضَّ أُحُدٌ مِمَّا صَنَعْتُمْ بِعُثْمَانَ کَانَ حَقِیقًا۔
(٣٨٨٢٠) حضرت سعید بن زید سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ میں اپنے آپ کو اور عمر کی بہن کو دیکھا کہ عمر اسلام کی وجہ سے دونوں کو باندھنے والے تھے اور اگر پہاڑ ریزہ ریزہ ہوجاتا اس بات سے جو تم حضرت عثمان کے ساتھ کی تو وہ اس کا حقدار ہے۔

38820

(۳۸۸۲۱) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، قَالَ : سَمِعْتُ سِمَاکَ بْنَ حَرْبٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ حَنْظَلَۃَ بْنَ قَنَانَ أَبَا مُحَمَّدٍ مِنْ بَنِی عَامِرِ بْنِ ذُہْلٍ ، قَالَ : أَشْرَفَ عَلَیْنَا عُثْمَان مِنْ کُوَّۃٍ وَہُوَ مَحْصُورٌ ، فَقَالَ : أَفِیکُمَ ابْنًا محدوج ، فَلَمْ یَکُونَا ثَمَّ ، کَانَا نَائِمَیْنِ ، فَأُوقِظَا فَجَائَا ، فَقَالَ لَہُمَا عُثْمَان : أُذَکِّرُکُمَا اللَّہَ ، أَلَسْتُمَا تَعْلَمَانِ ، أَنَّ عُمَرَ ، قَالَ: إنَّمَا رَبِیعَۃُ فَاجِرٌ ، أَوْ غَادِرٌ ، فَإِنِّی وَاللہِ لاَ أَجْعَلُ فَرَائِضَہُمْ وَفَرَائِضَ قَوْمٍ جَاؤُوا مِنْ مَسِیرَۃِ شَہْرٍ ، فَہَاجَرَ أَحَدُہُمْ عِنْدَ طَنَبِہِ ، ثُمَّ زِدْتہمْ فِی غَدَاۃٍ وَاحِدَۃٍ خَمْسَمِئَۃٍ خَمْسَمِئَۃٍ ، حَتَّی أَلْحَقْتہمْ بِہِمْ ، قَالاَ : بَلَی ، قَالَ : أُذَکِّرُکُمَا اللَّہَ أَلَسْتُمَا تَعْلَمَانِ أَنَّکُمَا أَتَیْتُمَانِی فَقُلْتُمَا : إِنَّ کِنْدَۃَ أَکَلَۃُ رَأْسٍ ، وَأَنَّ رَبِیعَۃَ ہُمَ الرَّأْسُ ، وَأَنَّ الأَشْعَثَ بْنَ قَیْسٍ قَدْ أَکَلَہُمْ فَنَزَعْتہ وَاسْتَعْمَلَتْکُمَا ، قَالاَ : بَلَی ، قَالَ : اللَّہُمَّ ، إِنْ کَانُوا کَفَرُوا مَعْرُوفِی وَبَدَّلُوا نِعْمَتِی فَلاَ تُرْضِہِمْ عَنْ إمَامٍ وَلاَ تُرْضِ الإِمَامَ عْنہُمْ۔
(٣٨٨٢١) حضرت حنظلہ بن قنان ابو محمد جو بنی عامر بن ذھل سے تھے ان سے روایت ہے ارشاد فرمایا کہ حضرت عثمان نے روشندان سے ہماری طرف جھانکا جبکہ وہ محصور تھے اور فرمایا کیا تم میں محدوج کے دو بیٹے ہں ن وہ وہاں نہ تھے سوئے ہوئے تھے ان کو جگایا گیا وہ دونوں آئے اور ان دونوں سے حضرت عثمان نے کہا میں تم دونوں کو اللہ کا واسطہ دیتا ہوں کیا تم دونوں جانتے نہیں ہو کہ حضرت عمر نے کہا تھا کہ کہ ربیعہ فاجر ہیں یا فرمایا تھا دھوکے باز ہیں اور میں ایک مہینے کی مسافت سے آنے والی قوم والا عطیہ نہیں کرسکتا ہوں ان کے ہجرت کا مقام تو ان کے خیمے کی رسی کے پاس ہے (یعنی یہ قریب سے ہجرت کرنے والے ہیں) پھر میں نے ایک صبح میں ان کے عطیہ میں پانچ پانچ سو زیادہ کیا یہاں تک کہ میں نے ان کو ان کے ساتھ ملا دیا ان دونوں نے کہا کیوں نہیں (ایسا ہوا) حضرت عثمان نے فرمایا میں تمہیں اللہ کا واسطہ دیتا ہوں کیا تم یہ نہیں جانتے کہ تم میرے پاس آئے تھے اور تم دونوں نے کہا تھا کہ کندہ اور ربیعہ ان پر اشعث بن قیس غالب تھا میں نے ان کو ان سے چھڑوایا اور تم دونوں کو ان پر عامل مقرر کیا انھوں نے کہا کیوں نہیں ایسا ہی ہے۔ حضرت عثمان نے فرمایا اے اللہ ! اگر وہ میری نیکی کی ناشکری کریں اور نعمت کو بدل دیں تو اے اللہ تو ان کو کسی امام سے راضی نہ کر اور نہ امام کو ان سے راضی کر۔

38821

(۳۸۸۲۲) حَدَّثَنَا أَبُومُعَاوِیَۃَ، عَنْ حَجَّاجٍ الصَّوَّافِ، عَنْ حُمَیْدِ بْنِ ہِلاَلٍ، عَنْ یَعْلَی بْنِ الْوَلِیدِ، عَنْ جُنْدُبٍ الْخَیْرِ، قَالَ: أَتَیْنَا حُذَیْفَۃَ حِینَ سَارَ الْمِصْرِیُّونَ إِلَی عُثْمَانَ فَقُلْنَا : إِنَّ ہَؤُلاَئِ قَدْ سَارُوا إِلَی ہَذَا الرَّجُلِ فَمَا تَقُولُ ، قَالَ: یَقْتُلُونَہُ وَاللہِ ، قَالَ: قُلْنَا: فأَیْنَ ہُوَ؟ قَالَ: فِی الْجَنَّۃِ وَاللہِ ، قَالَ : قُلْنَا : فَأَیْنَ قَتَلَتُہُ ؟ قَالَ : فِی النَّارِ وَاللہِ۔
(٣٨٨٢٢) جندب خیر سے منقول ہے کہتے ہیں کہ ہم حضرت حذیفہ کی خدمت میں حاضر ہوئے جب مصری حضرت عثمان کی طرف جا چکے تھے۔ ہم نے عرض کیا ! یہ لوگ اس شخص (حضرت عثمان ) کی طرف گئے ہیں آپ کا اس بارے میں کیا خیال ہے ؟ انھوں نے فرمایا اللہ کی قسم یہ ان کو قتل کر ڈالیں گے ہم نے پھر عرض کیا کہ آخرت میں حضرت عثمان کا کیا معاملہ ہوگا تو انھوں نے فرمایا وہ جنت میں جائیں گے اللہ کی قسم۔ پھر ہم نے کہا کہ ان کے قاتل ؟ تو انھوں نے فرمایا اللہ کی قسم وہ جہنم میں جائیں گے۔

38822

(۳۸۸۲۳) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَیْدٍ ، عَنْ یَزِیدَ بْنِ حُمَیْدٍ أَبِی التَّیَّاحِ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ أَبِی الْہُذَیْلِ ، قَالَ لَمَّا جَائَ قَتْلُ عُثْمَانَ ، قَالَ حُذَیْفَۃُ : الْیَوْمَ نَزَلَ النَّاسُ حَافَّۃَ الإِسْلاَم ، فَکَمْ مِنْ مَرْحَلَۃٍ قَدَ ارْتَحَلُوا عَنْہُ ، قَالَ : وَقَالَ ابْنُ أَبِی الْہُذَیْلِ : وَاللہِ لَقَدْ جَارَ ہَؤُلاَئِ الْقَوْمُ عَنِ الْقَصْدِ حَتَّی إِنَّ بَیْنَہُ وَبَیْنَہُمْ وُعُورَۃً ، مَا یَہْتَدُونَ لَہُ ، وَمَا یَعْرِفُونَہُ۔
(٣٨٨٢٣) عبداللہ بن ابی ہذیل سے منقول ہے کہ جب حضرت عثمان کی شہادت کی خبر آئی تو حضرت حذیفہ نے فرمایا آج لوگ اسلام کے کنارے پر اتر آئے ۔ پس کتنے مرحلے ہیں جو اس قتل سے انھوں نے عبور کرلیے۔ ابن ابی ہذیل نے فرمایا اللہ کی قسم یہ لوگ راہ اعتدال سے منحرف ہوگئے یہاں تک کہ ان کے اور ان کے درمیان ایسی پیچیدگی ہے کہ نہ تو اس کی ہدایت پاسکیں گے اور نہ ہی یہ اس کو جان پائیں گے۔

38823

(۳۸۸۲۴) حدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ حُصَیْنٍ ، عَنْ أَبِی وَائِلٍ شَقِیقِ بْنِ سَلَمَۃَ ، عَنْ خَالِدٍ الْعَبْسِیِّ ، عَنْ حُذَیْفَۃَ وَذَکَرَ عُثْمَانَ ، فَقَالَ : اللَّہُمَّ لَمْ أَقْتُلْ وَلَمْ آمُرْ وَلَمْ أَرْضَ۔
(٣٨٨٢٤) خالد عبسی سے منقول ہے کہ حضرت حذیفہ نے حضرت عثمان کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ! اے میرے اللہ نہ میں نے قتل کیا اور نہ ہی میں نے اس کا حکم دیا اور نہ ہی میں اس سے راضی ہوں۔

38824

(۳۸۸۲۵) حَدَّثَنَا عَبْدُاللہِ بْنُ إدْرِیسَ، عَنْ لَیْثٍ، عَنْ عَبْدِالْعَزِیزِ بْنِ رُفَیْعٍ، قَالَ: لَمَّا سَارَ عَلِیٌّ إِلَی صِفِّینَ اسْتَخْلَفَ أَبَا مَسْعُودٍ عَلَی النَّاسِ فَخَطَبَہُمْ فِی یَوْمِ جُمُعَۃٍ فَرَأَی فِیہِمْ قِلَّۃً ، فَقَالَ : أَیُّہَا النَّاسُ ، اخْرُجُوا فَمَنْ خَرَجَ فَہُوَ آمِنٌ، إنَّا وَاللہِ نَعْلَمُ أَنَّ مِنْکُمَ الْکَارِہَ لِہَذَا الأمر الْمُتَثَاقِلَ عَنْہُ فَاخْرُجُوا ، فَمَنْ خَرَجَ فَہُوَ آمِنٌ ، إنَّا وَاللہِ مَا نُعِدُّہا عَافِیَۃً أَنْ یَلْتَقِیَ ہَذَانِ الْغَارَانِ یَتَّقِی أَحَدُہُمَا صَاحِبَہُ ، وَلَکِنَّنَا نُعِدُّہَا عَافِیَۃً أَنْ یُصْلِحَ اللَّہُ أُمَّۃَ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَیَجْمَعَ أُلْفَتَہَا، أَلاَ أُخْبِرُکُمْ عَنْ عُثْمَانَ، وَمَا نَقَمَ النَّاسُ عَلَیْہِ، إنَّہُمْ لَنْ یَدَعُوہُ وَذَنْبَہُ حَتَّی یَکُونَ اللَّہُ ہُوَ یُعَذِّبُہُ ، أَوْ یَعْفُو عَنْہُ ، وَلَمْ یُدْرِکُوا الَّذِی طَلَبُوہُ ، إذْ حَسَدُوہُ مَا آتَاہُ اللَّہُ إیَّاہُ ۔ ۲۔ فَلَمَّا قَدِمَ عَلِیٌّ، قَالَ لَہُ: أَنْتَ الْقَائِلُ مَا بَلَغَنِی عَنْک یَا فَرُّوخُ ، إنَّک شَیْخٌ قَدْ ذَہَبَ عَقْلُک، قَالَ: لَقَدْ سَمَّتْنِی أُمِّی بِاسْمٍ ہُوَ أَحْسَنُ مِنْ ہَذَا ، أَذَہَبَ عَقْلِی وَقَدْ وَجَبَتْ لِی الْجَنَّۃُ مِنَ اللہِ وَرَسُولِہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، تَعْلَمُہُ أَنْتَ ، وَمَا بَقِیَ مِنْ عَقْلِی فَإِنَّا کُنَّا نَتَحَدَّثُ بِأَنَّ الآخِرَ فَالآخِرَ شَرٌّ ، ثُمَّ خَرَجَ ، فَلَمَّا کَانَ بِالسِّیلِحِین أَوْ بِالْقَادِسِیَّۃِ خَرَجَ عَلَیْہِمْ وَضُفْرَاہُ یَقْطُرَانِ ، یَرَوْنَ أَنَّہُ قَدْ تَہَیَّأَ لِلإِحْرَامِ ، فَلَمَّا وَضَعَ رِجْلَہُ فِی الْغَرْزِ وَأَخَذَ بِمُؤَخَّرِ وَاسِطَۃِ الرَّحْلِ قَامَ إلَیْہِ نَاسٌ مِنَ النَّاسِ ، فَقَالُوا لَہُ : لَوْ عَہِدْت إلَیْنَا یَا أَبَا مَسْعُودٍ ، قَالَ : عَلَیْکُمْ بِتَقْوَی اللہِ وَالْجَمَاعَۃِ فَإِنَّ اللَّہَ لاَ یَجْمَعُ أُمَّۃَ مُحَمَّدٍ عَلَی ضَلاَلَۃٍ ، قَالَ : فَأَعَادُوا عَلَیْہِ ، فَقَالَ : عَلَیْکُمْ بِتَقْوَی اللہِ وَالْجَمَاعَۃِ ، فَإِنَّمَا یَسْتَرِیحُ بَرٌّ ، أَوْ یُسْتَرَاحُ مِنْ فَاجِرٍ۔
(٣٨٨٢٥) عبدالعزیز بن رفیع سے منقول ہے کہ جب حضرت علی جنگ صفین کے لیے روانہ ہوئے تو ابو مسعود کو لوگوں پر پیچھے نائب بنایا پس انھوں نے جمعہ کے دن خطبہ دیا تو انھوں نے لوگوں کی قلت محسوس کی پھر فرمایا اے لوگو ! نکلو جو نکلے گا وہ امن پائے گا۔ اللہ کی قسم ہم اس بوجھل معاملے میں تمہاری پسندیدگی کو دیکھ رہے ہیں۔ تم نکلو جو نکلے گا وہ امن پائے گا۔ اللہ کی قسم ہم عافیت اسے شمار نہیں کرتے کہ دولشکروں کی آپس میں مڈھ بھیڑ ہو ان میں سے ایک اپنے ساتھی سے بچتا پھرے بلکہ ہم عافیت اسے سمجھتے ہیں کہ اللہ امت محمدیہ کی اصلاح فرمادے اور اس کے مابین محبت و الفت قائم فرمادے۔ کیا میں تم کو حضرت عثمان کے بارے میں نہ بتلاؤں اور ان سے لوگ کیوں ناراض ہوئے میں تم کو نہ بتلاؤں ؟ لوگوں نے حضرت عثمان اور ان کی خطا کو اللہ کے سپرد نہیں کیا کہ وہ اس کو عذاب دیتا یا معاف کرتا۔ اور وہ اس کو بھی نہ پاسکے جس کی انھیں طلب تھی کیونکہ انھوں نے ان سے اس پر حسد کیا جو اللہ تعالیٰ نے ان کو عطا کیا تھا۔ جب حضرت علی تشریف لائے تو ان سے کہا کہ آپ نے کہی ہے وہ بات جو مجھے پہنچی ہے اے چوزے تمہاری عقل جاتی رہی ہے حضرت ابو مسعود نے فرمایا کہ میری ماں نے اس نام سے بہتر نام رکھا ہے۔ کیا میری عقل جاتی رہی حالانکہ اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے میرے لیے جنت واجب کی کیا تم جانتے ہو ؟ جو میری عقل سے باقی ہے اسی وجہ سے ہم باتیں کرتے تھے کہ ہر دوسرا شر ہے یہ کہہ کر وہ نکل گئے۔ جب ابو مسعود سیلحین یا قادسیہ میں لوگوں کے سامنے آئے تو ان کی زلفوں سے پانی ٹپک رہا تھا، لوگوں نے دیکھا کہ وہ احرام کے لیے تیاری کرچکے ہیں اور انھوں نے جب رکاب میں پاؤں رکھا اور کجاوے کو پکڑا تو لوگ ان کے آس پاس کھڑے ہو کر کہنے لگے کہ آپ ہمیں کوئی نصیحت فرمائیں۔ تو ابو مسعود نے فرمایا کہ تم تقویٰ کو لازم پکڑو اور جماعت کو لازم پکڑو بیشک اللہ تعالیٰ امت محمدیہ کو گمراہی پر جمع نہیں کرے گا۔ انھوں نے پھر نصیحت کا مطالبہ کیا تو انھوں نے پھر فرمایا تم تقویٰ کو لازم پکڑو اور جماعت کو لازم پکڑو ! بیشک نیک صالح ہی اطمینان پاتا ہے یا یہ فرمایا کہ فاجر سے اطمینان حاصل ہوتا ہے۔

38825

(۳۸۸۲۶) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، وَطَاوُوس ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : قَالَ عَلِیٌّ : مَا قَتَلْت ، یَعْنِی عُثْمَانَ وَلاَ أَمَرْت ثَلاَثًا ، وَلَکِنِّی غُلِبْت۔
(٣٨٨٢٦) ابن عباس سے منقول ہے کہ حضرت علی نے فرمایا میں نے (حضرت عثمان کو) قتل نہیں کیا اور نہ میں نے قتل کیا کا حکم دیا یہ تین دفعہ فرمایا پھر فرمایا لیکن میں مغلوب ہوگیا تھا۔

38826

(۳۸۸۲۷) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ مِسْعَرٍ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ مَیْسَرَۃَ ، عَنْ طَاوُوسٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : قَالَ عَلِیٌّ : مَا قَتَلْت ، وَإِنْ کُنْت لِقَتْلِہِ لَکَارِہًا۔
(٣٨٨٢٧) ابن عباس سے منقول ہے کہ حضرت علی نے فرمایا کہ میں نے قتل کیا نہیں یعنی حضرت عثمان کو اور میں ان کے قاتلوں کو ناپسند کرتا ہوں۔

38827

(۳۸۸۲۸) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ أَبِی زُرَارَۃَ، وَأَبِی عَبْدِ اللہِ، قَالاَ: سَمِعْنَا عَلِیًّا یَقُولُ: وَاللہِ مَا شَارَکْت، وَمَا قَتَلْت وَلاَ أَمَرْت وَلاَ رَضِیت، یَعْنِی قَتْلَ عُثْمَانَ۔(نعیم بن حماد ۴۵۲۔ سعید بن منصور ۲۹۴۱)
(٣٨٨٢٨) ابو زرارہ اور ابو عبداللہ سے منقول ہے کہ ہم نے حضرت علی کو فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ کی قسم نہ میں قتل میں شریک ہوا نہ میں نے قتل کیا نہ میں نے قتل کا حکم دیا اور نہ اس قتل پر میں راضی تھا یعنی حضرت عثمان کے قتل پر۔

38828

(۳۸۸۲۹) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ، قَالَ: حدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ بْنُ أَبِی خَالِدٍ، قَالَ: حَدَّثَنِی حُصَیْنٌ رَجُلٌ مِنْ بَنِی الْحَارِثِ، قَالَ: أَخْبَرَتْنِی سُرِّیَّۃُ زَیْدِ بْنِ أَرْقَمَ ، قَالَتْ : جَائَ عَلِیٌّ یَعُودُ زَیْدَ بْنَ أَرْقَمَ ، وَعِنْدَہُ الْقَوْمُ ، فَقَالَ لِلْقَوْمِ : أَنْصِتُوا وَاسْکُتُوا ، فَوَاللہِ لاَ تَسْأَلُونِی الْیَوْمَ شَیْئًا إِلاَّ أَخْبَرْتُکُمْ بِہِ ، فَقَالَ لَہُ زَیْدٌ : أَنْشُدُک اللَّہَ ، أَنْتَ قَتَلْت عُثْمَانَ ، فَأَطْرَقَ سَاعَۃً ، ثُمَّ قَالَ : وَالَّذِی فَلَقَ الْحَبَّۃَ وَبَرَأَ النَّسَمَۃَ ، مَا قَتَلْتہ وَلاَ أَمَرْت بِقَتْلِہِ ، وَمَا سَائَنِی۔ (حاکم ۱۰۶)
(٣٨٨٢٩) زید بن ارقم کی باندی کہتی ہیں کہ حضرت علی زید بن ارقم کی عیادت کے لیے تشریف لائے جبکہ ان کے ارد گرد لوگ بیٹھے تھے۔ حضرت علی نے لوگوں سے کہا تم خاموش رہو۔ اللہ کی قسم تم آج جس چیز کے بارے میں سوال کرو گے میں تم کو اس کی خبر دونگا حضرت زید بن ارقم نے فرمایا کہ میں آپ کو اللہ کی قسم دیتا ہوں ! بتاؤ تم ہی ہو جس نے عثمان کو قتل کیا ؟ پس حضرت علی نے کچھ دیر نظر نیچی کی پھر فرمایا اللہ کی قسم جس نے بیج کو پھاڑا اور جس نے ہوا چلائی، میں نے ان کو قتل نہیں کیا اور نہ ہی اس کا حکم دیا اور نہ ہی مجھ پر اس کی کوئی برائی عائد ہوتی ہے۔

38829

(۳۸۸۳۰) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ مُنْذِرِ بْنِ یَعْلَی ، قَالَ : کَانَ یَوْمَ أَرَادُوا قَتْلَ عُثْمَانَ أَرْسَلَ مَرْوَانُ إِلَی عَلِیٍّ أَلاَ تَأْتِیَ ہَذَا الرَّجُلَ فَتَمْنَعُہُ ، فَإِنَّہُمْ لمْ یُبْرِمُوا أَمْرًا دُونَک ، فَقَالَ عَلِیٌّ : لَنَأْتِیَنَّہُمْ ، قَالَ : فَأَخَذَ ابْنُ الْحَنَفِیَّۃِ بِکَتِفَیْہِ فَاحْتَضَنَہُ ، فَقَالَ : یَا أَبَتِ ، أَیْنَ تَذْہَبُ وَاللہِ مَا یَزِیدُونَک إِلاَّ رَہْبَۃً ، فَأَرْسَلَ إلَیْہِمْ عَلِیٌّ بِعِمَامَتِہِ یَنْہَاہُمْ عَنْہُ۔
(٣٨٨٣٠) منذر بن یعلی سے منقول ہے کہ جس دن باغیوں نے حضرت عثمان کو قتل کرنے کا ارادہ کیا تو مروان نے حضرت علی کو پیغام بھیجا کہ کیا آپ اس شخص (حضرت عثمان ) کے پاس جا کر ان کی حفاظت نہیں کریں گے ؟ کیونکہ وہ آپ کے علاوہ کسی کا فیصلہ ماننے کو تیار نہیں۔ حضرت علی نے فرمایا ہم ضرور جائیں گے ان کے پاس۔ پس ابن حنفیہ نے ا ن کے کندھے کو پکڑا اور اس کام کی ذمہ داری خود اٹھانے کا ارادہ کیا۔ اور عرض کیا اے میرے اباجان آپ کہاں جارہے ہیں اللہ کی قسم وہ لوگ آپ کے خوف میں ہی اضافہ کریں گے پھر حضرت علی نے باغیوں کی طرف اپنا عمامہ بھیجا اور باغیوں کو حضرت عثمان کو ضرر پہنچانے سے رکنے کا کہا۔

38830

(۳۸۸۳۱) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ ثَابِتِ بْنِ عُبَیْدٍ ، عَنْ أَبِی جَعْفَرٍ الأَنْصَارِیِّ ، قَالَ : دَخَلْت مَعَ الْمِصْرِیِّینَ عَلَی عُثْمَانَ ، فَلَمَّا ضَرَبُوہُ خَرَجْتُ أَشْتَدُّ قَدْ مَلأْتُ فُرُوجِی عَدْوًا حَتَّی دَخَلْت الْمَسْجِدَ ، فَإِذَا رَجُلٌ جَالِسٌ فِی نَحْوٍ مِنْ عَشَرَۃٍ عَلَیْہِ عِمَامَۃٌ سَوْدَائُ ، فَقَالَ : وَیْحَک مَا وَرَاک ، قَالَ : قُلْتُ قَدْ وَاللہِ فُرِغَ مِنَ الرَّجُلِ ، قَالَ : فَقَالَ : تَبًّا لَکُمْ آخِرَ الدَّہْرِ ، قَالَ : فَنَظَرْت فَإِذَا ہُوَ عَلِیٌّ۔ (سعید بن منصور ۲۹۳۹)
(٣٨٨٣١) ابو جعفر انصاری سے منقول ہے کہتے ہیں کہ حضرت عثمان پر حملہ کرنے والے مصریوں کے ساتھ میں بھی تھا۔ جب انھوں نے حضرت عثمان کو مارا تو میں گھبراہٹ کی حالت میں بھاگتا ہوا وہاں سے نکلا یہاں تک کہ میں مسجد میں داخل ہوا تو ایک شخص مسجد کے ایک کونے میں بٹھا تھا اور اس کے سر پر سیاہ عمامہ تھا۔ اس نے کہا تمہاری ہلاکت ہو تمہارے پیچھے کیا معاملہ ہوا ؟ میں نے کہا اللہ کی قسم اس شخص (حضرت عثمان ) کا کام تمام ہوگیا۔ اس بیٹھے ہوئے شخص نے کہا ہلاکت ہو تمہارے لیے آخر زمانہ میں۔ میں نے دیکھا تو وہ حضرت علی تھے۔

38831

(۳۸۸۳۲) حَدَّثَنَا یَعْلَی بْنُ عُبَیْدٍ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ بْنِ أَبِی خَالِدٍ ، عَنْ حَکِیمِ بْنِ جَابِرٍ ، قَالَ : لَمَّا حُصِرَ عُثْمَان أَتَی عَلِیٌّ طَلْحَۃَ وَہُوَ مُسْتَنِدٌ إِلَی وَسَائِدَ فِی بَیْتِہِ ، فَقَالَ : أَنْشُدُک اللَّہَ ، لَمَا رَدَدْت النَّاسَ عَنْ أَمِیرِ الْمُؤْمِنِینَ فَإِنَّہُ مَقْتُولٌ ، فَقَالَ طَلْحَۃُ : لاَ وَاللہِ حَتَّی تُعْطِیَ بَنُو أُمَیَّۃَ الْحَقَّ مِنْ أَنْفُسِہَا۔
(٣٨٨٣٢) حکیم بن جابر سے منقول ہے کہتے ہیں کہ جب حضرت عثمان کا محاصرہ کیا گیا تو حضرت علی ، حضرت طلحہ کے پاس تشریف لائے وہ اپنے گھر میں تکیوں پر ٹیک لگائے بیٹھے تھے۔ حضرت عیت نے فرمایا میں تم کو قسم دیتا ہوں آپ نے لوگوں (باغیوں) کو امیر المومنین سے نہیں روکا کیونکہ ان کو قتل کردیا جائے گا۔ حضرت طلحہ نے فرمایا اللہ کی قسم نہیں روکوں گا یہاں تک کہ بنو امیہ اپنے پاس سے لوگوں کو حق نہ دیدیں۔

38832

(۳۸۸۳۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُدَیْرٍ ، عَنْ أَبِی مِجْلَزٍ ، قَالَ : عَابُوا عَلَی عُثْمَانَ تَمْزِیقَ الْمَصَاحِفِ وَآمَنُوا بِمَا کَتَبَ لَہُمْ۔
(٣٨٨٣٣) ابو مجلز سے منقول ہے کہتے ہیں کہ لوگ حضرت عثمان کو صحیفے جلانے پر برا بھلا بھی کہتے ہیں اور ان کے لکھے (ان کے جمع کے لیے قرآن) پر ایمان بھی لاتے ہیں۔

38833

(۳۸۸۳۴) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ عَوْفٍ ، عَنْ مُحَمَّدٍ ، قَالَ : خَطَبَ عَلِیٌّ بِالْبَصْرَۃِ ، فَقَالَ : وَاللہِ مَا قَتَلْتہ وَلاَ مَالأْت عَلَی قَتْلِہِ ، فَلَمَّا نَزَلَ ، قَالَ لَہُ بَعْضُ أَصْحَابِہِ : أَیُّ شَیْئٍ صَنَعْت الآنَ یَتَفَرَّقُ عَنْک أَصْحَابُک ، فَلَمَّا عَادَ إِلَی الْمِنْبَرِ ، قَالَ : مَنْ کَانَ سَائِلاً عَنْ دَمِ عُثْمَانَ فَإِنَّ اللَّہَ قَتَلَہُ وَأَنَا مَعَہُ ، قَالَ مُحَمَّدٌ : ہَذِہِ کَلِمَۃٌ قُرَشِیَّۃٌ ذَاتُ وَجْہٍ۔ (طبرانی ۱۱۳)
(٣٨٨٣٤) محمد سے منقول ہے کہ حضرت علی نے بصرہ میں خطبہ فرمایا اللہ کی قسم میں نے عثمان کو قتل نہیں کیا اور نہ میں نے ان کے قتل میں معاونت کی۔ جب وہ منبر سے نیچے اترے تو آپ کے کسی ساتھی نے کہا پھر آپ نے کیا کیا ؟ اب آپ سے آپ کے ساتھی جدا ہورہے ہیں۔ پس جب حضرت علی واپس منبر پر آئے تو فرمایا عثمان کے قتل کے بارے میں سوال کرنے والا کون ہے ؟ بیشک عثمان کو اللہ نے قتل کیا اور میں ان کے ساتھ ہوں گا (یعنی میں بھی قتل کردیا جاؤں گا) محمد کہتے ہیں یہ کلمہ ذو وجہین ہے۔

38834

(۳۸۸۳۵) حَدَّثَنَا کَثِیرُ بْنُ ہِشَامٍ ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ بُرْقَانَ ، قَالَ : حدَّثَنَا الْعَلاَئُ بْنُ عُبَیْدِ اللہِ بْنِ رَافِعٍ ، عَنْ مَیْمُونٍ ، قَالَ : لَمَّا قُتِلَ عُثْمَان ، قَالَ حُذَیْفَۃُ ہَکَذَا وَحَلَّقَ بِیَدِہِ ، وَقَالَ : فُتِقَ فِی الإِسْلاَم فَتْقٌ لاَ یَرْتِقُہُ جَبَلٌ۔
(٣٨٨٣٥) میمون سے منقول ہے کہ جب عثمان کو قتل کیا گیا تو حضرت حذیفہ نے ہاتھ سے حلقہ بناتے ہوئے فرمایا اسلام میں ایسا شگاف پیدا ہوا ہے جس کو پہاڑ بھی پر نہیں کرسکے گا۔

38835

(۳۸۸۳۶) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، قَالَ : حدَّثَنَا الثَّوْرِیُّ ، قَالَ : حَدَّثَنَا أَسْلمُ الْمِنْقَرِیُّ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبْزَی ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : لَمَّا وَقَعَ مِنْ أَمْرِ عُثْمَانَ مَا کَانَ ، وَتَکَلَّمَ النَّاسُ فِی أَمْرِہِ ، أَتَیْتُ أُبَیَّ بْنَ کَعْبٍ ، فَقُلْتُ لہ : أَبَا الْمُنْذِرِ ، مَا الْمَخْرَجُ ، قَالَ : کِتَابُ اللہِ ، قَالَ : مَا اسْتَبَانَ لَکَ مِنْہُ فَاعْمَلْ بِہِ وَانْتَفِعْ بِہِ ، وَمَا اشْتَبَہَ عَلَیْک فَآمِنْ بِہِ وَکِلْہُ إِلَی عَالِمِہِ۔ (حاکم ۳۰۳)
(٣٨٨٣٦) عبدالرحمن بن ابزی سے منقول ہے کہتے ہیں کہ جب حضرت عثمان کا معاملہ ہوا تو لوگوں نے چہ میگوئیاں شروع کردیں۔ میں ابی بن کعب کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا اے ابو منذر اب راہ نجات کیا ہے تو انھوں نے فرمایا کتاب اللہ، پھر فرمایا جو تم پر واضح ہوجائے اس پر عمل کرو اور اس سے فائدہ اٹھاؤ اور جو تم پر مشتبہ ہو اس پر ایمان لے آؤ اور اس کو اس کے جاننے والے کے سپرد کردو۔

38836

(۳۸۸۳۷) حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ بْنُ مُوسَی، قَالَ: أَخْبَرَنَا شَیْبَانُ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ إسْمَاعِیلَ بْنِ رَجَائٍ، عَنْ صَخْرِ بْنِ الْوَلِیدِ، عَنْ جُزَیِّ بْنِ بُکَیْر الْعَبْسِیِّ، قَالَ: جَائَ حُذَیْفَۃُ إِلَی عُثْمَانَ لِیُوَدِّعَہُ ، أَوْ یُسَلِّمَ عَلَیْہِ ، فَلَمَّا أَدْبَرَ، قَالَ: رُدُّوہُ، فَلَمَّا جَائَ، قَالَ: مَا بَلَغَنِی عَنْک بِظَہْرِ الْغَیْبِ ، فَقَالَ : وَاللہِ مَا أَبْغَضْتُک مُنْذُ أَحْبَبْتُک ، وَلاَ غَشَشْتُک مُنْذُ نَصَحْت لَکَ، قَالَ أَنْتَ أَصْدَقُ مِنْہُمْ وَأَبَرُّ ، انْطَلِقْ ، فَلَمَّا أَدْبَرَ ، قَالَ : رُدُّوہُ ، قَالَ: مَا بَلَغَنِی عَنْک بِظَہْرِ الْغَیْبِ ، فَقَالَ : حُذَیْفَۃُ بِیَدِہِ ہَکَذَا ، مَا بَلَغَنِی عَنْک بِظَہْرِ الْغَیْبِ ، أَجَلْ وَاللہِ لَتُخْرَجَنَّ إخْرَاجَ الثَّوْرِ، ثُمَّ لَتُذْبَحَنَّ ذَبْحَ الْجَمَلِ ، قَالَ : فَأَخَذَہُ مِنْ ذَلِکَ أَفکلٌ ، فَأَرْسَلَ إِلَی مُعَاوِیَۃَ فَجِیئَ بِہِ یُدْفَعُ ، قَالَ : ہَلْ تَدْرِی مَا قَالَ حُذَیْفَۃُ، قَالَ: وَاللہِ لَتُخْرَجَنَّ إخْرَاجَ الثَّوْرِ وَلَتُذْبَحَنَّ ذَبْحَ الْجَمَلِ ، فَقَالَ: ادفنہا ادفنہا۔ (دارقطنی ۴۹۰)
(٣٨٨٣٧) جزی بن بکیر عبسی سے منقول ہے کہ حضرت حذیفہ حضرت عثمان کے پاس آئے تاکہ ان کو الوداع کریں یا سلام کریں۔ جب وہاں سے پیٹھ پھیر کر واپس آئے تو حضرت عثمان نے فرمایا ان کو واپس لاؤ جب حضرت حذیفہ واپس آئے تو حضرت عثمان نے فرمایا کہ کیا بات ہے جو آپ کی طرف سے مجھے پہنچی ہے ؟ حضرت حذیفہ نے فرمایا اللہ کی قسم جب سے میں نے بیعت کی ہے کبھی آپ سے بغض نہیں رکھا اور جب سے آپ کی خیر خواہی کی اس کے بعد نہ ہی میں نے اپنے دل میں کینہ رکھا۔ حضرت عثمان نے فرمایا آپ ا ن سے زیادہ سچے اور نیک ہیں آپ جائیں پس جب وہ منہ پھیر کر جانے لگے پھر حضرت عثمان نے فرمایا وہ کیا بات ہے جو آپ کی طرف سے مجھے پہنچی ؟ پھر فرمایا ہاں اللہ کی قسم تم ضرور بیل کی طرح نکال دیے جاؤ گے اور اونٹ کی طرح ذبح کیے جاؤ گے راوی کہتے ہیں کہ حضرت عثمان پر کپکپی طاری ہوگئی پھر انھوں نے معاویہ کو بلایا پس حضرت معاویہ کو لایا گیا تاکہ اس کا کچھ ازالہ کیا جاسکے۔ حضرت عثمان نے کہا کیا تمہیں معلوم ہے کہ حذیفہ نے کیا کہا ؟ انھوں نے کہا کہ تم کو بیل کی طرح نکالا جائے گا اور اونٹ کی طرح ذبح کیا جائے گا حضرت معاویہ نے فرمایا کہ آپ اس بات کو دفن کردیجیے۔

38837

(۳۸۸۳۸) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا سَلاَّمُ بْنُ مِسْکِینٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِی مَنْ رَأَی عَبْدَ اللہِ بْنَ سَلاَمٍ یَوْمَ قُتِلَ عُثْمَان یَبْکِی وَیَقُولُ : الْیَوْمَ ہَلَکَتِ الْعَرَبُ۔
(٣٨٨٣٨) سلام بن مسکین سے منقول ہے کہتے ہیں کہ مجھ سے راویت کیا ہے اس شخص نے جس نے عبداللہ بن سلام کو حضرت عثمان کے قتل کے دن روتے ہوئے دیکھا تھا وہ فرما رہے تھے آج عرب ہلاک ہوگئے۔

38838

(۳۸۸۳۹) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، قَالَ : حدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ أَبِی نَضْرَۃَ ، عَنْ أَبِی سَعِیدٍ ، أَنَّ نَاسًا کَانُوا عِنْدَ فُسْطَاطِ عَائِشَۃَ فَمَرَّ بِہِمْ عُثْمَان ، أُرَی ذَلِکَ بِمَکَّۃَ ، قَالَ أَبُو سَعِیدٍ : فَمَا بَقِیَ أَحَدٌ مِنْہُمْ إِلاَّ لَعَنَہُ ، أَوْ سَبَّہُ غَیْرِی ، وَکَانَ فِیہِمْ رَجُلٌ مِنْ أَہْلِ الْکُوفَۃِ ، فَکَانَ عُثْمَان عَلَی الْکُوفِیِّ أَجْرَأَ مِنْہُ عَلَی غَیْرِہِ ، فَقَالَ : یَا کُوفِی ، أَتَسُبُّنِی ؟ اقْدُمَ الْمَدِینَۃَ ، کَأَنَّہُ یَتَہَدَّدُہُ ، قَالَ : فَقَدِمَ الْمَدِینَۃَ فَقِیلَ لَہُ : عَلَیْک بِطَلْحَۃِ ، فَانْطَلَقَ مَعَہُ طَلْحَۃُ حَتَّی أَتَی عُثْمَانَ ، فَقَالَ عُثْمَان : وَاللہِ لأَجْلِدَنَّکَ مِئَۃ ، قَالَ : فَقَالَ طَلْحَۃُ : وَاللہِ لاَ تَجْلِدْہُ مِئَۃ إِلاَّ أَنْ یَکُونَ زَانِیًا ، قَالَ لأَحْرِمَنَّکَ عَطَائَک ، قَالَ : فَقَالَ طَلْحَۃُ : إِنَّ اللَّہَ سَیَرْزُقُہُ۔
(٣٨٨٣٩) ابو سعید سے منقول ہے کہ لوگ حضرت عائشہ کے خیمہ کے قریب جمع تھے کہ حضرت عثمان ان کے پاس سے گزرے راوی کہتے ہیں کہ میرا خیال ہے یہ مکہ کا واقعہ ہے ابو سعید کہتے ہیں میرے علاوہ وہاں موجود ہر شخص نے حضرت عثمان پر طعن وتشنیع کی۔ ان لوگوں میں ایک کوفی بھی تھا حضرت عثمان نے اس شخص پر جرأت کرتے ہوئے فرمایا اے کوفی کیا تو مجھے گالی دیتا ہے ؟ تو مدینے آنا ! گویا کہ حضرت عثمان نے دھمکی دی پس وہ شخص مدینے آیا تو اس سے کہا گیا کہ تم طلحہ کو لازم پکڑو۔ پس حضرت طلحہ اس کے ساتھ چلے یہاں تک کہ حضرت عثمان کی خدمت میں پہنچے حضرت عثمان نے فرمایا میں تم کو عطایا سے محروم کردونگا حضرت طلحہ نے فرمایا بیشک اللہ تعالیٰ رزق عطا کریگا۔

38839

(۳۸۸۴۰) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ ، قَالَ : سَمِعْتُ ذَکْوَانَ أَبَا صَالِحٍ یُحَدِّثُ ، عَنْ صُہَیْبٍ مَوْلَی الْعَبَّاسِ ، قَالَ : أَرْسَلَنِی الْعَبَّاسُ إِلَی عُثْمَانَ أَدْعُوہُ ، قَالَ : فَأَتَیْتہ فَإِذَا ہُوَ یُغَدِّی النَّاسَ ، فَدَعَوْتہ فَأَتَاہُ ، فَقَالَ : أَفْلَحُ الْوَجْہُ أَبَا الْفَضْلِ ، قَالَ : وَوَجْہُک أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ ، قَالَ : مَا زِدْت أَنْ أَتَانِی رَسُولُک وَأَنَا أَغُدِّیَ النَّاسَ فَغَدَّیْتہمْ ، ثُمَّ أَقْبَلْت ، فَقَالَ الْعَبَّاسُ : أُذَکِّرُک اللَّہَ فِی عَلِیٍّ ، فَإِنَّہُ ابْنُ عَمِّکَ وَأَخُوک فِی دِینِکَ وَصَاحِبُک مَعَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَصِہْرُک ، وَإِنَّہُ قَدْ بَلَغَنِی أَنَّک تُرِیدُ أَنْ تَقُومَ بِعَلِیٍّ وَأَصْحَابِہِ فَاعْفِنِی مِنْ ذَلِکَ یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ ، فَقَالَ عُثْمَان : أَنَا أول مَا أجبتک أَنْ قَدْ شَفَّعْتُک ، أَنَّ عَلِیًّا لَوْ شَائَ مَا کَانَ أَحَدٌ دُونَہُ ، وَلَکِنَّہُ أَبَی إِلاَّ رَأْیَہُ ، وَبَعَثَ إِلَی عَلِیٍّ ، فَقَالَ لَہُ أُذَکِّرُک اللَّہَ فِی ابْنِ عَمِّکَ ، وَابْنِ عَمَّتِکَ وَأَخِیک فِی دِینِکَ وَصَاحِبِکَ مَعَ رَسُولِ اللہِ وَوَلِیِّ بَیْعَتِکَ ، فَقَالَ : وَاللہِ لَوْ أَمَرَنِی أَنْ أَخْرُجَ مِنْ دَارِی لَخَرَجْت ، فَأَمَّا أَنْ أُدَاہِنَ أَنْ لاَ یُقَامَ کِتَابُ اللہِ فَلَمْ أَکُنْ لأَفْعَلَ ، قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ : سَمعْتہ مَا لاَ أُحْصِی وَعَرَضْتہ عَلَیْہِ غَیْرَ مَرَّۃٍ۔
(٣٨٨٤٠) صہیب جو کہ عباس کے آزاد کردہ غلام ہیں سے منقول ہے عباس نے مجھے حضرت عثمان کے پاس بھیجا کہ میں ان کو بلا کر لاؤں۔ کہتے ہیں میں ان کے پاس آیا تو وہ لوگوں کو ناشتہ کروا رہے تھے میں نے ان کو بلایا پس وہ آگئے اور فرمایا اے ابو الفضل آپ کا چہرہ کامیاب رہے۔ حضرت عباس نے بھی فرمایا اے امیر المؤمنین آپ کا چہرہ بھی فلاح کو پائے پھر عرض کیا کہ آپ کا پیغام سنتے ہی چلا آیا صرف کھانا کھلایا ہے لوگوں کو۔ عباس نے فرمایا میں تم کو نصیحت کرتا ہوں علی کے بارے میں بیشک وہ آپ کے چچا کے بیٹے ہیں اور آپ کے ماموں کے بیٹے ہیں اور آپ کے دینی بھائی ہیں اور وہ آپ کے ساتھ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابی ہیں اور آپ کے ہم زلف ہیں۔ مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ آپ علی اور ان کے ساتھیوں کے مد مقابل کھڑا ہونا چاہتے ہیں۔ اے امیرالمؤمنین ! اس کی معافی آپ مجھے دیدیں۔ حضرت عثمان نے فرمایا آپ کی اس بات کو قبول کیا اور آپ کی سفارش کو قبول کیا بیشک اگر علی چاہے تو ان کے علاوہ کوئی نہ ہو مگر انھوں نے انکار کردیا سوائے رائے دینے کے پھر عباس نے حضرت علی کو بلایا اور فرمایا کہ میں تم کو تمہارے چچا کے بیٹے کے بارے میں نصیحت کرتا ہوں جو تمہارا پھوپھی کا بیٹا ہے اور دینی بھائی ہے اور آپ کے ساتھ صحابیٔ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہے اور آپ نے ان سے بیعت بھی کی ہوئی ہے حضرت علی نے فرمایا کہ اگر وہ مجھے گھر سے نکلنے کا حکم دیتے تو میں ضرور نکلتارہی بات ہدایت کی کہ اللہ کی کتاب کو قائم نہ کیا جائے تو میں ایسا نہیں کرسکتا۔ محمد بن جعفر فرماتے ہیں کہ اس کو میں نے بیشمار دفعہ سنا ہے اور ان پر کئی دفعہ پیش کیا ہے۔

38840

(۳۸۸۴۱) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، قَالَ : حَدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ عَنْ قَیْسٍ ، قَالَ : لَمَّا قَدِمَ مُعَاوِیَۃُ وَعَمْرٌو الْکُوفَۃَ أَتَی الْحَارِثُ بْنُ الأَزْمَعِ عَمْرًا ، فَخَرَجَ عَمْرٌو وَہُوَ رَاکِبٌ ، فَقَالَ لَہُ الْحَارِثُ : جِئْت فِی أَمْرٍ لَوْ وَجَدْتُک عَلَی قَرَارٍ لَسَأَلْتُک ، فَقَالَ عَمْرٌو : مَا کُنْت لِتَسْأَلَنِی ، عَنْ شَیْئٍ وَأَنَا عَلَی قَرَارٍ إِلاَّ أَخْبَرْتُک بِہِ الآنَ ، قَالَ : فَأَخْبِرْنِی عَنْ عَلِیٍّ وَعُثْمَانَ ، قَالَ : فَقَالَ : اجْتَمَعَتِ السَّخْطَۃُ وَالأَثَرَۃُ ، فَغَلَبَتِ السَّخْطَۃُ الأَثَرَۃَ ، ثُمَّ سَارَ۔
(٣٨٨٤١) قیس سے منقول ہے جب معاویہ اور عمرو کوفہ آئے تو حارث بن ازمع عمرو کے پاس آئے۔ عمروسوار ہو کر نکل رہے تھے حارث نے انھیں کہا میں ایک کام آیا تھا اگر آپ تشریف فرما ہوتے تو میں آپ سے ایک سوال پوچھتا۔ حضرت عمرو نے فرمایا تم نے جو سوال کرنا ہے وہ کرلو، کیونکہ جس سوال کا جواب میں تمہیں بیٹھے ہونے کی حالت میں دے سکتا ہوں، اب بھی دے سکتا ہوں۔ حارث نے کہا کہ علی اور عثمان کے بارے میں مجھے کچھ بتائیے۔ انھوں نے فرمایا غیظ و غضب اور خود غرضی ایک جگہ جمع ہوئے تھے پس غیظ و غضب خود غرضی پر غالب آگیا۔ پھر آپ چل دیے۔

38841

(۳۸۸۴۲) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، قَالَ : حدَّثَنَا کَہْمَسٌ ، قَالَ : حَدَّثَنِی عَبْدُ اللہِ بْنُ شَقِیقٍ ، قَالَ: حَدَّثَنِی الأَقْرَعُ ، قَالَ: أَرْسَلَ عُمَرُ إِلَی الأُسْقُفّ ، قَالَ : فَہُوَ یَسْأَلُہُ وَأَنَا قَائِمٌ عَلَیْہِمَا أُظِلُّہُمَا مِنَ الشَّمْسِ ، فَقَالَ لَہُ : ہَلْ تَجِدُنَا فِی کِتَابِکُمْ ، قَالَ : نَعَتَکُمْ وَأَعْمَالَکُمْ ، قَالَ : فَمَا تَجِدُنِی ، قَالَ : أَجِدُک قَرْنَ حَدِیدٍ ، قَالَ : فنفط عُمَرُ فی وَجْہِہِ وَقَالَ : قَرْنُ حَدِیدٍ ، قَالَ أَمِینٌ شَدِیدٌ ، قَالَ : فَکَأَنَّہُ فَرِحَ بِذَلِکَ ، قَالَ فَمَا تَجِدُ بَعْدِی ، قَالَ خَلِیفَۃُ صِدْقٍ یُؤْثِرُ أَقْرَبِیہِ ، قَالَ ، یقول عُمَرُ : یَرْحَمُ اللَّہُ ابْنَ عَفَّانَ ، قَالَ : فَمَا تَجِدُ بَعْدَہُ ، قَالَ : صَدْعُ حَدِیدٍ ، قَالَ : وَفِی یَدِ عُمَرَ شَیْئٌ یُقَلِّبُہُ ، قَالَ : فَنَبَذَہُ ، وَقَالَ : یَا دَفْرَاہ ، مَرَّتَیْنِ ، أَوْ ثَلاَثًا ، فَقَالَ : لاَ تَقُلْ ذَلِکَ یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ فَإِنَّہُ خَلِیفَۃٌ مُسْلِمٌ وَرَجُلٌ صَالِحٌ ، وَلَکِنَّہُ یُسْتَخْلَفُ وَالسَّیْفُ مَسْلُولٌ وَالدَّمُ مُہْرَاقٌ، قَالَ : ثُمَّ الْتَفَتَ إلَیَّ ، وَقَالَ : الصَّلاَۃُ۔
(٣٨٨٤٢) اقرع بن حابس بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر نے ایک پادری کو بلایا حضرت عمر ان سے سوال کر رہے تھے اور میں ان دونوں پر سایہ کررہا تھا حضرت عمر نے اس سے کہا کیا آپ اپنی کتابوں میں ہمارا تذکرہ پاتے ہیں ؟ اس نے کہا ہاں تمہاری صفات اور اعمال کا تذکرہ ہے حضرت عمر نے پوچھا وہ کیا ؟ اس نے کہا میں آپ کو لوہے کا سینگ پاتا ہوں حضرت عمر اس بات سے ذرا پریشان ہوئے پھر پوچھا قرن حدید کیا ہے ؟ تو پادری نے جواب دیا سخت امانتدار۔ اس بات سے عمر خوش ہوئے۔ پھر کہنے لگے میرے بعد کیا پاتے ہو تو اس نے جواب دیا سچا خلیفہ جو اپنے اقرباء کو ترجیح دے گا۔ حضرت عمر نے فرمایا اللہ ابن عفان پر رحم کرے۔ پھر حضرت عمر نے پوچھا اس کے بعد آپ کیا پاتے ہیں ؟ اس نے کہا لوہے میں شگاف۔ حضرت عمر کے ہاتھ میں کوئی شے تھی جس کے ذریعے الٹ پلٹ کر رہے تھے حضرت عمر نے اسے پھینکا اور دو یا تین دفعہ یہ فرمایا ” یا دفرا “ (اے رسوا ہونے والے) پادری نے کہا آپ اس طرح نہ کہیے اے امیرالمؤمنین ! کیونکہ وہ مسلمان خلیفہ ہوگا اور نیک آدمی ہوگا لیکن وہ ایسی حالت میں خلیفہ بنے گا جب تلوار ننگی ہوگی اور خون بہہ رہا ہوگا۔ پھر حضرت عمر میری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا نماز کے لیے چلو۔

38842

(۳۸۸۴۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ أَبِی الْہَیْثُمَّ ، عَنْ یُوسُفَ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ سَلاَمٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : لاَ تَسُلُّوا سُیُوفَکُمْ فَلَئِنْ سَلَلْتُمُوہَا لاَ تُغْمَدُ إِلَی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ ، وَقَالَ : أَنْظَرُونِی ثَمَانَ عَشَرَۃَ ، یَعْنِی یَوْمَ عُثْمَانَ۔
(٣٨٨٤٣) عبداللہ بن سلام سے منقول ہے کہ انھوں نے فرمایا تم اپنی تلواریں نہ کھینچو، اگر تم تلواریں کھونچَ گے تو قیامت تک یہ نیا م میں نہ جائیں گی پھر فرمایا مجھے اٹھارہ دن کی مہلت دے دو یعنی حضرت عثمان کی شہادت کے دن تک (کیونکہ یہ خود وفات پاجائیں گے)

38843

(۳۸۸۴۴) حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُبَارَکِ ، عَنِ ابْنِ لَہِیعَۃَ ، عَنْ یَزِیدَ بْنِ أَبِی حَبِیبٍ ، قَالَ : قَالَ کَعْبٌ : کَأَنِّی أَنْظُرُ إِلَی ہَذَا وَفِی یَدَیْہِ شِہَابَانِ مِنْ نَارٍ ، یَعْنِی قَاتِلَ عُثْمَانَ ، فَقَتَلَہُ۔
(٣٨٨٤٤) حضرت کعب فرماتے ہیں کہ میں ان کے عثمان کے قاتل کی طرف دیکھ رہا تھا اس کے ہاتھ میں آگ کے دو انگارے ہیں پس اس نے حضرت عثمان کو قتل کردیا۔

38844

(۳۸۸۴۵) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنِی مُعْتَمِرُ بْنُ سُلَیْمَانَ التَّیْمِیُّ ، قَالَ : سَمِعْتُ أَبِی ، قَالَ : حَدَّثَنَا أَبُو نَضْرَۃَ ، عَنْ أَبِی سَعِیدٍ مَوْلَی أَبِی أُسَیْد الأَنْصَارِیِّ ، قَالَ : سَمِعَ عُثْمَان ، أَنَّ وَفْدَ أَہْلِ مِصْرَ قَدْ أَقْبَلُوا ، فَاسْتَقْبَلَہُمْ ، فَکَانَ فِی قَرْیَۃٍ خَارِجًا مِنَ الْمَدِینَۃِ ، أَوْ کَمَا قَالَ : قَالَ : فَلَمَّا سَمِعُوا بِہِ أَقْبَلُوا نَحْوَہُ إِلَی الْمَکَانِ الَّذِی ہُوَ فِیہِ ، قَالَ : أُرَاہُ ، قَالَ : وَکَرِہَ أَنْ یَقْدُمُوا عَلَیْہِ الْمَدِینَۃَ ، أَوْ نَحْوًا مِنْ ذَلِکَ ، فَأَتَوْہُ فَقَالُوا : ادْعُ بِالْمُصْحَفِ ، فَدَعَا بِالْمُصْحَفِ فَقَالُوا : افْتَحَ السَّابِعَۃَ ، وَکَانُوا یُسَمُّونَ سُورَۃَ یُونُسَ السَّابِعَۃَ ، فَقَرَأَہَا حَتَّی إِذَا أَتَی عَلَی ہَذِہِ الآیَۃِ : {قُلْ أَرَأَیْتُمْ مَا أَنْزَلَ اللَّہُ لَکُمْ مِنْ رِزْقٍ فَجَعَلْتُمْ مِنْہُ حَرَامًا وَحَلاَلاً قُلْ آللَّہُ أَذِنَ لَکُمْ أَمْ عَلَی اللہِ تَفْتَرُونَ} قَالُوا : أَرَأَیْت مَا حَمَیْت مِنَ الْحِمَی آللَّہُ أَذِنَ لَکَ بِہِ أَمْ عَلَی اللہِ تَفْتَرِی ، فَقَالَ : أَمْضِہِ ، أنْزلَتْ فِی کَذَا وَکَذَا ، وَأَمَّا الْحِمَی فَإِنَّ عُمَرَ حَمَی الْحِمَی قَبْلِی لإِبِلِ الصَّدَقَۃِ ، فَلَمَّا وُلِّیتُ زَادَتْ إبِلُ الصَّدَقَۃِ فَزِدْت فِی الْحِمَی لِمَا زَادَ مِنْ إبِلِ الصَّدَقَۃِ ، فَجَعَلُوا یَأْخُذُونَہُ بِالآیَۃِ فَیَقُولُ : أَمْضِہِ ، نَزَلَتْ فِی کَذَا وَکَذَا ۔ ۲۔ وَالَّذِی یَلِی کَلاَمُ عُثْمَانَ یَوْمَئِذٍ فِی سِنِّکَ ، یَقُولُ أَبُو نَضْرَۃَ : یَقُولُ لِی ذَلِکَ أَبُو سَعِیدٍ ، قَالَ أَبُو نَضْرَۃَ : وَأَنَا فِی سِنِّکَ یَوْمَئِذٍ ، قَالَ : وَلَمْ یَخْرُجْ وَجْہِی ، أَوْ لَمْ یَسْتَوِ وَجْہِی یَوْمَئِذٍ ، لاَ أَدْرِی لَعَلَّہُ ، قَالَ مَرَّۃً أُخْرَی : وَأَنَا یَوْمَئِذٍ فِی ثَلاَثِینَ سَنَۃً ۔ ۳۔ ثُمَّ أَخَذُوہُ بِأَشْیَائَ لَمْ یَکُنْ عِنْدَہُ مِنْہَا مَخْرَجٌ ، فَعَرَفَہَا ، فَقَالَ : أَسْتَغْفِرُ اللَّہَ وَأَتُوبُ إلَیْہِ ، فَقَالَ لَہُمْ : مَا تُرِیدُونَ فَأَخَذُوا مِیثَاقَہُ ، قَالَ : وَأَحْسِبُہُ ، قَالَ : وَکَتَبُوا عَلَیْہِ شَرْطًا ، قَالَ : وَأَخَذَ عَلَیْہِمْ ، أَنْ لاَ یَشُقُّوا عَصًا وَلاَ یُفَارِقُوا جَمَاعَۃً مَا أَقَامَ لَہُمْ بِشَرْطِہِمْ ، أَوْ کَمَا أَخَذُوا عَلَیْہِ ۔ ۴۔ فَقَالَ لَہُمْ : مَا تُرِیدُونَ فَقَالُوا : نُرِیدُ أَنْ لاَ یَأْخُذَ أَہْلُ الْمَدِینَۃِ عَطَائً ، فَإِنَّمَا ہَذَا الْمَالُ لِمَنْ قَاتَلَ عَلَیْہِ وَلِہَذِہِ الشُّیُوخِ مِنْ أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَرَضُوا ، وَأَقْبَلُوا مَعَہُ إِلَی الْمَدِینَۃِ رَاضِینَ ، فَقَامَ فَخَطَبَ ، فَقَالَ : وَاللہِ إنِّی مَا رَأَیْت وَافِدًا ہُمْ خَیْرٌ لِحَوْبَاتِی مِنْ ہَذَا الْوَفْدِ الَّذِینَ قَدِمُوا عَلَیَّ ، وَقَالَ مَرَّۃً أُخْرَی : حَسِبْت ، أَنَّہُ قَالَ : مِنْ ہَذَا الْوَفْدِ مِنْ أَہْلِ مِصْرَ ، أَلاَ مَنْ کَانَ لَہُ زَرْعٌ فَلْیَلْحَقْ بِزَرْعِہِ ، وَمَنْ کَانَ لَہُ ضَرْعٌ فَلْیَحْتَلِبْ ، أَلاَ إِنَّہُ لاَ مَالَ لَکُمْ عِنْدَنَا ، إنَّمَا ہَذَا الْمَالُ لِمَنْ قَاتَلَ عَلَیْہِ ، وَلِہَذِہِ الشُّیُوخِ مِنْ أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَغَضِبَ النَّاسُ وَقَالُوا : مَکْرُ بَنِی أُمَیَّۃَ ۔ ۵۔ ثُمَّ رَجَعَ الْوَفْدُ الْمِصْرِیُّونَ رَاضِینَ ، فَبَیْنَمَا ہُمْ فِی الطَّرِیقِ إذْ بِرَاکِبٍ یَتَعَرَّضُ لَہُمْ ، ثُمَّ یُفَارِقُہُمْ ، ثُمَّ یَرْجِعُ إلَیْہِمْ ، ثُمَّ یُفَارِقُہُمْ وَیَسُبُّہُمْ ، فَقَالُوا لَہُ : إِنَّ لَکَ لأَمْرًا مَا شَأْنُک ، قَالَ : أَنَا رَسُولُ أَمِیرِ الْمُؤْمِنِینَ إِلَی عَامِلِہِ بِمِصْرَ فَفَتَّشُوہُ فَإِذَا بِالکِتَابٍ عَلَی لِسَانِ عُثْمَانَ ، عَلَیْہِ خَاتَمُہُ إِلَی عَامِلٍ مِصْرَ أَنْ یَقْتُلَہُمْ ، أَوْ یَقْطَعَ أَیْدِیہمْ وَأَرْجُلَہُمْ ۔ ۶۔ فَأَقْبَلُوا حَتَّی قَدِمُوا الْمَدِینَۃَ ، فَأَتَوْا عَلِیًّا فَقَالُوا : أَلَمْ تَرَ إِلَی عَدُوِّ اللہِ ، أَمَرَ فِینَا بِکَذَا وَکَذَا ، وَاللہِ قَدْ أُحِلَّ دَمُہُ قُمْ مَعَنا إلَیْہِ ، فَقَالَ : لاَ وَاللہِ ، لاَ أَقُومُ مَعَکُمْ ، قَالُوا : فَلِمَ کَتَبْت إلَیْنَا ، قَالَ : لاَ وَاللہِ مَا کَتَبْت إلَیْکُمْ کِتَابًا قطُّ ، قَالَ : فَنَظَرَ بَعْضُہُمْ إِلَی بَعْضٍ ، ثُمَّ قَالَ بَعْضُہُمْ لِبَعْضٍ : أَلِہَذَا تُقَاتِلُونَ ، أَوْ لِہَذَا تَغْضَبُونَ وَانْطَلَقَ عَلِیٌّ فَخَرَجَ مِنَ الْمَدِینَۃِ إِلَی قَرْیَۃٍ ، أَوْ قَرْیَۃٍ لَہُ ۔ ۷۔ فَانْطَلَقُوا حَتَّی دَخَلُوا عَلَی عُثْمَانَ فَقَالُوا : کَتَبْت فِینَا بِکَذَا وَکَذَا ، فَقَالَ : إنَّمَا ہُمَا اثْنَتَانِ ، أَنْ تُقِیمُوا عَلَیَّ رَجُلَیْنِ مِنَ الْمُسْلِمِینَ ، أَوْ یَمِینًا : بِاللہِ الَّذِی لاَ إلَہَ إِلاَّ ہُوَ ، مَا کَتَبْت وَلاَ أَمْلَیْت ، وَقَدْ تَعْلَمُونَ ، أَنَّ الْکِتَابَ یُکْتَبُ عَلَی لِسَانِ الرَّجُلِ وَیُنْقَشُ الْخَاتَمَ عَلَی الْخَاتَمِ ، فَقَالُوا لَہُ : قَدْ وَاللہِ أَحَلَّ اللَّہُ دَمَک ، وَنُقِضَ الْعَہْدَ وَالْمِیثَاقَ ، ۸۔ قَالَ : فَحَصَرُوہُ فِی الْقَصْرِ ، فَأَشْرَفَ عَلَیْہِمْ ، فَقَالَ : السَّلاَمُ عَلَیْکُمْ ، قَالَ : فَمَا أُسْمِعَ أَحَدًا رَدَّ السَّلاَمَ إِلاَّ أَنْ یَرُدَّ رَجُلٌ فِی نَفْسِہِ ، فَقَالَ : أَنْشُدُکُمْ بِاللہِ ، ہَلْ عَلِمْتُمْ أَنِّی اشْتَرَیْت رُومَۃً بِمَالِی لأَسْتَعْذِبَ بِہَا ، قَالَ : فَجَعَلْتُ رِشَائِی فِیہَا کَرِشَائِ رَجُلٍ مِنَ الْمُسْلِمِینَ ، فَقِیلَ : نَعَمْ ، فَقَالَ : فَعَلاَمَ تَمْنَعُونِی أَنْ أَشْرَبَ مِنْہَا حَتَّی أُفْطِرَ عَلَی مَائِ الْبَحْرِ ۔ ۹۔ قَالَ : أَنْشُدُکُمْ بِاللہِ ہَلْ عَلِمْتُمْ أَنِّی اشْتَرَیْت کَذَا وَکَذَا مِنَ الأَرْضِ فَزِدْتہ فِی الْمَسْجِد ، قِیلَ : نَعَمْ ، قَالَ : فَہَلْ عَلِمْتُمْ أَحَدًا مِنَ النَّاسِ مُنِعَ أَنْ یُصَلِّیَ فِیہِ قبلی قِیلَ قَالَ : وَأَنْشُدُکُمْ بِاللہِ ہَلْ سَمِعْتُمْ نَبِیَّ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَذَکَرَ کَذَا وَکَذَا شَیْئًا مِنْ شَأْنِہِ ، وَذَکَرَ أُرَی کِتَابَۃَ الْمُفَصَّلِ ۔ ۱۰۔ قَالَ : فَفَشَا النَّہْی ، وَجَعَلَ النَّاسُ یَقُولُونَ : مَہْلاً ، عَنْ أَمِیرِ الْمُؤْمِنِینَ ، وَفَشَا النَّہْیُ وَقَامَ الأَشْتَرُ ، فَلاَ أَدْرِی یَوْمَئِذٍ أَمْ یَوْم آخَرَ ، فَقَالَ : لَعَلَّہُ قَدْ مَکَرَ بِہِ وَبِکُمْ ، قَالَ : فَوَطِئَہُ النَّاسُ حَتَّی أُلْقِیَ کَذَا وَکَذَا ۔ ۱۱۔ ثُمَّ إِنَّہُ أَشْرَفَ عَلَیْہِمْ مَرَّۃً أُخْرَی فَوَعَظَہُمْ وَذَکَّرَہُمْ ، فَلَمْ تَأْخُذْ فِیہِم الْمَوْعِظَۃُ ، وَکَانَ النَّاسُ تَأْخُذُ فِیہِمَ الْمَوْعِظَۃُ أَوَّلَ مَا یَسْمَعُونَہَا ، فَإِذَا أُعِیدَتْ عَلَیْہِمْ لَمْ تَأْخُذْ فِیہِم الْمَوْعِظَۃُ ۔ ۱۲۔ ثُمَّ فَتَحَ الْبَابَ وَوَضَعَ الْمُصْحَفَ بَیْنَ یَدَیْہِ ، قَالَ : فَحَدَّثَنَا الْحَسَنُ ، أَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ أَبِی بَکْرٍ دَخَلَ عَلَیْہِ فَأَخَذَ بِلِحْیَتِہِ ، فَقَالَ لَہُ عُثْمَان : لَقَدْ أَخَذْت مِنِّی مَأْخَذًا ، أَوْ قَعَدْت مِنِّی مَقْعَدًا مَا کَانَ أَبُو بَکْرٍ لِیَأْخُذَہُ ، أَوْ لِیَقْعُدَہُ ، قَالَ : فَخَرَجَ وَتَرَکَہُ ۔ ۱۳۔ قَالَ : وَفِی حَدِیثِ أَبِی سَعِیدٍ : فَدَخَلَ عَلَیْہِ رَجُلٌ ، فَقَالَ : بَیْنِی وَبَیْنَکَ کِتَابُ اللہِ ، فَخَرَجَ وَتَرَکَہُ ، وَدَخَلَ عَلَیْہِ رَجُلٌ یُقَالُ لَہُ الْمَوْتُ الأَسْوَدُ فَخَنَقَہُ وَخَنَقَہُ ، ثُمَّ خَرَجَ ، فَقَالَ : وَاللہِ مَا رَأَیْت شَیْئًا قَطُّ ہُوَ أَلْیَنُ مِنْ حَلْقِہِ ، وَاللہِ لَقَدْ خَنَقْتہ حَتَّی رَأَیْت نَفَسَہُ مِثْلَ نَفَسِ الْجَانِّ تَرَدَّدَ فِی جَسَدِہِ ۔ ۱۴۔ ثُمَّ دَخَلَ عَلَیْہِ آخَرُ ، فَقَالَ : بَیْنِی وَبَیْنَکَ کِتَابُ اللہِ وَالْمُصْحَفُ بَیْنَ یَدَیْہِ فَأَہْوَی إلَیْہِ بِالسَّیْفِ فَاتَّقَاہُ بِیَدِہِ فَقَطَعَہَا فَلاَ أَدْرِی أَبَانَہَا ، أَوْ قَطَعَہَا فَلَمْ یُبِنْہَا ، فقَالَ : أَمَا وَاللہِ ، إِنَّہَا لأَوَّلُ کَفٍّ قَطُّ خَطَّت الْمُفَصَّلَ ۔ ۱۵۔ وَحُدِّثْت فِی غَیْرِ حَدِیثِ أَبِی سَعِیدٍ : فَدَخَلَ عَلَیْہِ التّجوبِیُّ فَأَشْعَرَہُ بِمِشْقَصٍ ، فَانْتَضَحَ الدَّمُ عَلَی ہَذِہِ الآیَۃِ : {فَسَیَکْفِیکَہُمَ اللَّہُ وَہُوَ السَّمِیعُ الْعَلِیمُ} وَإِنَّہَا فِی الْمُصْحَفِ مَا حُکَّتْ ۔ ۱۶۔ وَأَخَذَتْ بِنْتُ الْفُرَافِصَۃِ فِی حَدِیثِ أَبِی سَعِیدٍ حُلِیَّہَا فَوَضَعَتْہُ فِی حِجْرِہَا ، وَذَلِکَ قَبْلَ أَنْ یُقْتَلَ ، فَلَمَّا أَشْعَرَ ، أَوْ قُتِلَ تَجَافَتْ ، أَوْ تَفَاجّتْ عَلَیْہِ ، فَقَالَ بَعْضُہُمْ : قَاتَلَہَا اللَّہُ ، مَا أَعْظَمَ عَجِیزَتَہَا ، فَعَرَفْت أَنَّ أَعْدَائَ اللہِ لَمْ یُرِیدُوا إِلاَّ الدُّنْیَا۔ (احمد ۷۶۶)
(٣٨٨٤٥) ابو سعید سے منقول ہے کہ حضرت عثمان سے سنا کہ مصر کا وفد آیا ہے پس حضرت عثمان نے ان کا استقبال کیا وہ مدینہ سے باہر ایک بستی میں تھے راوی کہتے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ حضرت عثمان اس بات کو ناپسند کرتے تھے کہ وہ مدینہ میں ان کے پاس حاضر ہوں یا اس طرح کا کوئی امر تھا۔ پس اہل مصر ان کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ آپ صحیفہ منگوائیے تو انھوں نے صحیفہ منگوا لیا پھر کہنے لگے اس کو کھولیے اور سابعہ نکالیے وہ سور یونس کو سابعہ کا نام دیتے تھے پس حضرت عثمان نے پڑھنا شروع کیا اس آیت پر پہنچے : { قُلْ أَرَأَیْتُمْ مَا أَنْزَلَ اللَّہُ لَکُمْ مِنْ رِزْقٍ فَجَعَلْتُمْ مِنْہُ حَرَامًا وَحَلاَلاً قُلْ آللَّہُ أَذِنَ لَکُمْ أَمْ عَلَی اللہِ تَفْتَرُونَ } (آپ کہہ دیجیے تم بتاؤ کہ اللہ تعالیٰ نے جو رزق اتارا پھر اس میں سے تم نے حرام اور حلال بنا لیا آپ کہہ دیں کیا تمہیں اللہ نے اجازت دی یا اللہ پر تم بہتان باندھتے ہو) حضرت عثمان نے فرمایا پس اسے چھوڑو یہ آیت فلاں فلاں امر میں اتری ہے بہرحال آپ چراگاہ کی جو بات کر رہے ہیں تو مجھ سے پہلے حضرت عمر نے صدقہ کے اونٹوں کے لیے چراگاہ مقرر کی تھی۔ پھر جب مجھے والی بنایا گیا تو صدقہ کے اونٹ بڑھ گئے، میں نے چراگاہ کو بھی وسعت دیدی اونٹوں کی کثرت کے پیش نظر۔ پس اہل مصر آیتوں سے دلیل پکڑتے رہے اور حضرت عثمان فرماتے رہے کہ اسے چھوڑو اور کہتے رہے یہ آیت فلاں فلاں واقعہ میں اتری ہے۔ جو حضرت عثمان سے کلام کررہا تھا وہ آپ کی عمر کا تھا، ابو نضرہ فرماتے ہیں کہ یہ بات مجھے ابو سعیدنے بتائی، ابو نضرہ فرماتے ہیں کہ میں اس دن تمہاری عمر کا تھا کہتے ہیں میرے چہرے پر مکمل جوانی کے اثرات ظاہر نہ ہوئے تھے یا یوں فرمایا کہ میں اچھی طرح جوان نہ ہوا تھا۔ میں نہیں جانتا کہ انھوں نے دوسری دفعہ فرمایا ہو میں اس دن تیس سال کا تھا۔ پھر انھوں نے حضرت عثمان سے ایسے اعتراضات کیے جن سے وہ چھٹکارا نہ پا سکے اور حضرت عثمان نے ان چیزوں کی حقیقت کو اچھی طرح پہچان لیا پھر فرمایا میں اللہ سے مغفرت طلب کرتا ہوں اور اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں۔ پھر ان سے فرمایا تم کیا چاہتے ہو ؟ پھر انھوں نے حضرت عثمان سے ایک عہد لیا راوی کہتے ہیں میرا خیال ہے انھوں نے کچھ شرائط بھی طے کیں اور حضرت عثمان نے ان سے عہد لیا کہ وہ مسلمانوں کی قوت کو فرو نہ کریں گے اور نہ ہی مسلمانوں میں تفرقہ پھلائیں گے جب تک کہ میں شرائط پر قائم رہوں گا۔ پھر حضرت عثمان نے فرمایا تم اور کیا چاہتے ہو تو انھوں نے کہا ہم یہ چاہتے ہیں کہ اہل مدینہ عطا یا نہ لیں کیونکہ یہ مال تو صرف قتال کرنے والوں اور اصحاب محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ہے پس وہ راضی ہوگئے اور حضرت عثمان کے ساتھ مدینہ آئے پس حضرت عثمان کھڑے ہوئے اور خطبہ دیا اور فرمایا اللہ کی قسم میں نے اس وفد سے بہتر کوئی وفد نہیں دیکھا جو میری حاجت کے لیے اس سے بہتر ہو۔ اور پھر دوسری مرتبہ یہی فرمایا۔ راوی کہتے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ اس کے شرکاء اہل مصر ہیں سنو جس کے پاس کھیتی ہے وہ اپنی کھیتی باڑی کرے اور جس کے پاس دودھ والا جانور ہے وہ اس کا دودھ نکال کر گزارا کرے میرے پاس تمہارے لیے کوئی مال نہیں۔ اور مال مجاہدین اور اصحاب محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے ہے پس لوگ غصے ہوئے اور کہنے لگے یہ بنوامیہ کا فریب ہے۔ پھر مصری وفد بخوشی واپس لوٹ گیا۔ راستے میں تھے کہ ایک سوار ان کے پاس آیا پھر ان سے جدا ہوگیا پھر ان کی طرف لوٹا اور جدا ہوگیا اور ان کو برا بھلا کہا۔ تو انھوں نے اس سے کہا تمہارا کیا معاملہ ہے ؟ اس نے کہا امیر المؤ منین کی طرف سے مصر کے گورنر کی طرف سفیر ہوں پس اس وفد نے تحقیق کی تو اس کے پاس سے ایک خط نکلا جو حضرت عثمان کی طرف سے تھا اس پر مہر بھی حضرت عثمان کی تھی اور مصر کے گورنر کو یہ پیغام لکھا تھا کہ وہ اس وفد کو قتل کردے یا ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ دیے جائیں۔ پس وہ وفد واپس لوٹا اور مدینہ پہنچا اور حضرت علی کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان سے کہا تم اللہ کے دشمن کی طرف نہیں دیکھتے جس نے ہمارے بارے میں اس طرح کا حکم جاری کیا ہے، اللہ نے اس کا خون حلال کردیا ہے آپ ہمارے ساتھ چلیے مگر حضرت علی نے فرمایا اللہ کی قسم میں تمہارے ساتھ ہرگز نہیں جاؤنگا، اہل وفد نے حضرت عثمان سے پوچھا آپ نے ہمارے لیے یہ خط کیوں لکھا تو حضرت عثمان نے جواب دیا اللہ کی قسم میں نے تمہارے لیے کوئی خط نہیں لکھا، پس وہ ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے، اور ایک دوسرے کو کہنے لگے کیا اس وجہ سے تم قتال کروگے ؟ کیا اس وجہ سے تم غیظ و غضب میں مبتلا ہو ؟ حضرت علی مدینہ سے نکل کر ایک بستی کی طرف چلے گئے۔ پس وہ چلے اور حضرت عثمان کے پاس پہنچے اور کہنے لگے کہ آپ نے ہمارے بارے میں اس طرح کیوں لکھا۔ حضرت عثمان نے فرمایا کہ تب دو ہی چیزیں ہیں ایک یہ کہ تم مسلمانوں میں سے دو گواہ پیش کرو یا پھر میں اس اللہ کی قسم اٹھاتا ہوں جس کے سوا کوئی معبود نہیں کہ یہ خط نہ ہی کسی سے لکھوایا اور تم جانتے ہو کہ خط کسی کی طرف سے کوئی دوسرا بھی لکھ سکتا ہے اور مہر پر جعلی مہر بھی لگائی جاسکتی ہے۔ پس انھوں نے کہا اللہ کی قسم اللہ نے آپ کا خون حلال کردیا ہے اور عہدوپیماں توڑ دیے گئے ہیں۔ پھر انھوں نے حضرت عثمان کو ان کے گھر میں محصور کردیا پس حضرت عثمان ان پر جھانکے اور سلام کیا۔ پھر فرمایا میں نے سلام کا جواب نہیں سنا کسی سے مگر یہ کہ کسی نے اپنے دل میں جواب دیا ہو، پھر فرمایا پس تم کو اللہ کی قسم دیتا ہوں کیا تم جانتے ہو کہ میں نے اپنے مال سے بئر رومہ خریدا تھا تاکہ میٹھا پانی دستیاب ہو اور پھر میں نے اسے تمام مسلمانوں کے لیے عام کردیا تھا ؟ پس کہا گیا جی ایسے ہی ہے پھر فرمایا تم مجھے کیوں روک رہے ہو اس کے پانی سے حتیٰ کہ میں کھاری پانی پینے پر مجبور ہوں۔ پھر فرمایا میں تمہیں اللہ کی قسم دیتا ہوں کیا تم جانتے ہو میں نے اس طرح کی زمین خریدی تھی پھر اس کو مسجد بنادیا تھا ؟ کہا گیا کہ ہاں پھر فرمایا کیا تم لوگوں میں سے کسی کو جانتے ہو کہ اس کو اس میں نماز سے روکا گیا ہو مجھ سے پہلے ؟ پھر فرمایا میں تم کو اللہ کی قسم دیتا ہوں کیا تم نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس اس طرح فرماتے ہوئے سنا (یعنی آپ کے فضائل میں جو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے منقول ہے) اور راوی نے مفصل لکھا ہوا ذکر کیا پھر فرمایا کہ روکنے کی بات پھیل گئی پھر لوگ ایک دوسرے کو روکنے لگے اور کہنے لگے امیر المؤمنین کو مہلت دینی چاہیے۔ اشہر کھڑا ہوا راوی کہتے ہیں کہ میں نہیں جانتا کہ اسی دن یا اس سے اگلے دن۔ پھر کہنے لگا ممکن ہے یہ (خط) اس کے ساتھ اور تمہارے ساتھ مکر کیا گیا ہو لوگوں نے اسے روند ڈالا اور اس کو ادھر ادھر پٹخا گیا۔ پھر حضرت عثمان دوبارہ ان کی طرف متوجہ ہوئے اور ان کو وعظ و نصیحت کی مگر وعظ و نصیحت کا ان پر کوئی اثر نہ ہوا۔ لوگوں کو جب پہلی دفعہ وعظ و نصیحت کی گئی تو اس کا اثر ہوا تھا مگر دوبارہ ان پر اس کا کچھ اثر نہ ہوسکا۔ پھر حضرت عثمان نے دروازہ کھولا اور قرآن مجید اپنے سامنے رکھ لیا راوی کہتے ہیں کہ حسن سے منقول ہے کہ سب سے پہلے محمد بن ابوبکر گھر میں داخل ہوئے اور ان کی داڑھی کو پکڑا، تو عثمان نے فرمایا کہ جس طرح تم نے میری داڑھی کو پکڑا ہے اس طرح ابوبکر صدیق پکڑنے والے نہ تھے پس وہ یہ سن کر نکل گئے اور ان کو چھوڑ دیا۔ ابو سعید کی حدیث میں ہے کہ حضرت عثمان کے پاس ایک آدمی داخل ہوا تو حضرت عثمان نے فرمایا میرے اور تمہارے درمیان اللہ کی کتاب ہے پس وہ نکل گیا اور ان کو چھوڑ دیا۔ پھر ایک شخص آیا جسے موت اسود کے نام سے پکارا جاتا تھا پس اس نے حضرت عثمان کے گلے کو دبایا اور حضرت عثمان نے اس کے گلے کو دبایا پھر نکل گیا پس وہ کہتا تھا کہ اللہ کی قسم میں نے ان کے حلق سے زیادہ نرم شئے نہیں دیکھی۔ میں نے ان کے گلے کو گھونٹا یہاں تک کہ میں نے ان کی جان کو دیکھا اس جان کی طرح جو اپنے جسم میں لوٹ رہی ہو۔ پھر دوسرا شخص اندر آیا اس سے حضرت عثمان نے فرمایا کہ میرے اور تیرے درمیان اللہ کی کتاب ہے پس اس نے تلوار چلائی حضرت عثمان نے اسے اپنے ہاتھ سے روکا مگر اس نے ہاتھ کاٹ دیا راوی کہتے ہیں کہ میں نہیں جانتا کہ ہاتھ جدا ہوا یا نہیں بہرحال اللہ کی قسم یہ پہلا ہاتھ تھا جس نے حد بندی کو عبور کیا۔ پھر کنانہ بن بشر تجوبی اندر آیا اور اس نے چوڑے پھل والے نیزے کے ذریعے آپ کو لہو لہان کردیا پس خون قرآن کی اس آیت پر گرا { فَسَیَکْفِیکَہُمَ اللَّہُ وَہُوَ السَّمِیعُ الْعَلِیمُ } (عنقریب اللہ تعالیٰ تمہارے لیے ان کی طرف سے کافی ہوجائے گا) اور وہ خون مصحف میں موجود ہے اس کو کھرچا نہیں گیا۔ نائلہ بن فراصفہ نے اپنے زیور کو اپنی گود میں رکھا یہ حضرت عثمان کی شہادت سے پہلے کی بات ہے۔ جب ان کو شہید کیا گیا تو وہ ان پر جھکی ہوئی تھیں۔ ان میں سے کسی نے کہا کہ ان کے سرین کتنے بڑے ہیں ؟ (یعنی یہ کتنی حسین ہیں میں) نے جان لیا کہ یہ اللہ کے دشمن صرف دنیا چاہتے ہیں۔

38845

(۳۸۸۴۶) حَدَّثَنَا عَفَّانُ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو مِحْصَنٍ أَخُو حَمَّادِ بْنِ نُمَیْرٍ ، رَجُلٌ مِنْ أَہْلِ وَاسِطَ، قَالَ: حَدَّثَنَا حُصَیْنُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، قَالَ : حَدَّثَنِی جَہْمٌ رَجُلٌ مِنْ بَنِی فِہْرٍ ، قَالَ : أَنَا شَاہِدُ ہَذَا الأَمْرِ ، قَالَ : جَائَ سَعْدٌ وَعَمَّارٌ فَأَرْسَلُوا إِلَی عُثْمَانَ أَنِ ائْتِنَا ، فَإِنَّا نُرِیدُ أَنْ نَذْکُرَ لَکَ أَشْیَائَ أَحْدَثْتہَا، أَوْ أَشْیَائَ فَعَلْتہَا، قَالَ: فَأَرْسَلَ إلَیْہِمْ أَنَ انْصَرَفُوا الْیَوْمَ ، فَإِنِّی مُشْتَغِلٌ وَمِیعَادُکُمْ یَوْمَ کَذَا وَکَذَا حَتَّی أَشْزنَ ، قَالَ أَبُو مِحْصَنٍ : أَشْزنَ : أَسْتَعِدُّ لِخُصُومَتِکُمْ ۔ ۲۔ قَالَ : فَانْصَرَفَ سَعْدٌ ، وَأَبَی عَمَّارٍ أَنْ یَنْصَرِفَ ، قَالَہَا أَبُو مِحْصَنٍ مَرَّتَیْنِ ، قَالَ : فَتَنَاوَلَہُ رَسُولُ عُثْمَانَ فَضَرَبَہُ ، قَالَ : فَلَمَّا اجْتَمَعُوا لِلْمِیعَادِ وَمَنْ مَعَہُمْ ، قَالَ لَہُمْ عُثْمَان مَا تَنْقِمُونَ مِنِّی ، قَالُوا : نَنْقِمُ عَلَیْک ضَرْبَک عَمَّارًا ، قَالَ : قَالَ عُثْمَان : جَائَ سَعْدٌ وَعَمَّارٌ فَأَرْسَلْت إلَیْہِمَا ، فَانْصَرَفَ سَعْدٌ ، وَأَبِی عَمَّارٌ أَنْ یَنْصَرِفَ ، فَتَنَاوَلَہُ رَسُولٌ مِنْ غَیْرِ أَمْرِی فَوَاللہِ مَا أَمَرْت وَلاَ رَضِیت ، فَہَذِہِ یَدِی لِعَمَّارٍ فَلْیَصْطَبِر ، قَالَ أَبُو مِحْصَنٍ : یَعْنِی : یَقْتَصُّ ۔ ۳۔ قَالُوا : نَنْقِمُ عَلَیْک أَنَّکَ جَعَلْت الْحُرُوفَ حَرْفًا وَاحِدًا ، قَالَ : جَائَنِی حُذَیْفَۃُ ، فَقَالَ : مَا کُنْت صَانِعًا إِذَا قِیلَ : قِرَائَۃُ فُلاَنٍ وَقِرَائَۃُ فُلاَنٍ وَقِرَائَۃُ فُلاَنٍ ، کَمَا اخْتَلَفَ أَہْلُ الْکِتَابِ ، فَإِنْ یَکُ صَوَابًا فَمِنَ اللہِ ، وَإِنْ یَکُ خَطَأً فَمِنْ حُذَیْفَۃَ ۔ ۴۔ قَالُوا : نَنْقِمُ عَلَیْک أَنَّک حَمَیْت الْحِمَی ، قَالَ : جَائَتْنِی قُرَیْشٌ ، فَقَالَتْ : إِنَّہُ لَیْسَ مِنَ الْعَرَبِ قَوْمٌ إِلاَّ لَہُمْ حِمًی یَرْعَوْنَ فِیہِ غَیْرَنَا ، فَفَعَلْت ذَلِکَ لَہُمْ فَإِنْ رَضِیتُمْ فَأَقِرُّوا ، وَإِنْ کَرِہْتُمْ فَغَیِّرُوا ، أَوَ قَالَ : لاَ تُقِرُّوا شَکَّ أَبُو مِحْصَنٍ۔ ۵۔ قَالُوا : وَنَنْقِمُ عَلَیْک أَنَّک اسْتَعْمَلْت السُّفَہَائَ أَقَارِبَک ، قَالَ : فَلْیَقُمْ أَہْلُ کُلِّ مِصْرٍ یَسْأَلُونِی صَاحِبَہُمَ الَّذِی یُحِبُّونَہُ فَأَسْتَعْمِلُہُ عَلَیْہِمْ وَأَعْزِلُ عَنْہُمَ الَّذِی یَکْرَہُونَ، قَالَ: فَقَالَ أَہْلُ الْبَصْرَۃِ : رَضِینَا بِعَبْدِ اللہِ بْنِ عَامِرٍ، فَأَقِرَّہُ عَلَیْنَا ، وَقَالَ أَہْلُ الْکُوفَۃِ : اعْزِلْ سَعِیدًا ، وَقَالَ الْوَلِیدُ شَکَّ أَبُو مِحْصَنٍ : وَاسْتَعْمِلْ عَلَیْنَا أَبَا مُوسَی فَفَعَلَ ، قَالَ : وَقَالَ أَہْلُ الشَّامِ : قَدْ رَضِینَا بِمُعَاوِیَۃَ فَأَقِرَّہُ عَلَیْنَا ، وَقَالَ أَہْلُ مِصْرَ : اعْزِلْ عَنَّا ابْنَ أَبِی سَرْحٍ، وَاسْتَعْمِلْ عَلَیْنَا عَمْرَو بْنَ الْعَاصِ ، فَفَعَلَ ، قَالَ: فَمَا جَاؤُوا بِشَیْئٍ إِلاَّ خَرَجَ مِنْہُ ، قَالَ : فَانْصَرَفُوا رَاضِینَ۔ ۶۔ فَبَیْنَمَا بَعْضُہُمْ فِی بَعْضِ الطَّرِیقِ إذْ مَرَّ بِہِمْ رَاکِبٌ فَاتَّہَمُوہُ فَفَتَّشُوہُ فَأَصَابُوا مَعَہُ کِتَابًا فِی إدَاوَۃٍ إِلَی عَامِلِہِمْ أَنْ خُذْ فُلاَنًا وَفَُلاَنًا فَاضْرِبْ أَعْنَاقَہُمْ ، قَالَ : فَرَجَعُوا فَبَدَؤُوا بِعَلِیٍّ فَأَتَوْہُ فَجَائَ مَعَہُمْ إِلَی عُثْمَانَ ، فَقَالُوا : ہَذَا کِتَابُک وَہَذَا خَاتَمُک ، فَقَالَ عُثْمَان : وَاللہِ مَا کَتَبْت وَلاَ عَلِمْت وَلاَ أَمَرْت ، قَالَ : فَمَنْ تَظُنُّ؟ قَالَ أَبُو مِحْصَنٍ : تَتَّہِمُ ، قَالَ : أَظُنُّ کَاتِبِی غَدَرَ ، وَأَظُنُّک بِہِ یَا عَلِیُّ ، قَالَ : فَقَالَ لَہُ عَلِیٌّ : وَلِمَ تَظُنُّنِی بِذَاکَ، قَالَ : لأَنَّک مُطَاعٌ عِنْدَ الْقَوْمِ ، قَالَ : ثُمَّ لَمْ تَرُدَّہُمْ عَنِّی ۔ ۷۔ قَالَ : فَأَبَی الْقَوْمُ وَأَلَحُّوا عَلَیْہِ حَتَّی حَصَرُوہُ ، قَالَ : فَأَشْرَفَ عَلَیْہِمْ ، وَقَالَ : بِمَ تَسْتَحِلُّونَ دَمِی فَوَاللہِ مَا حَلَّ دَمُ امْرِئٍ مُسْلِمٍ إِلاَّ بِإِحْدَی ثَلاَثٍ : مُرْتَدٌّ ، عَنِ الإِسْلاَم ، أَوْ ثَیِّبٌ زَانٍ ، أَوْ قَاتِلُ نَفْسٍ ، فَوَاللہِ مَا عَمِلْتُ شَیْئًا مِنْہُنَّ مُنْذُ أَسْلَمْتُ ، قَالَ : فَأَلَحَّ الْقَوْمُ عَلَیْہِ ، قَالَ : وَنَاشَدَ عُثْمَان النَّاسَ أَنْ لاَ تُرَاقَ فِیہِ مِحْجَمَۃٌ مِنْ دَمٍ ۔ ۸۔ فَلَقَدْ رَأَیْت ابْنَ الزُّبَیْرِ یَخْرُجُ عَلَیْہِمْ فِی کَتِیبَۃٍ حَتَّی یَہْزِمَہُمْ ، لَوْ شَاؤُوا أَنْ یَقْتُلُوا مِنْہُمْ لَقَتَلُوا ، قَالَ: وَرَأَیْت سَعِیدَ بْنَ الأَسْوَدِ بْنِ الْبَخْتَرِیَّ وَإِنَّہُ لَیَضْرِبَ رَجُلاً بِعَرْضِ السَّیْفِ لَوْ شَائَ أَنْ یَقْتُلَہُ لَقَتَلَہُ ، وَلَکِنَّ عُثْمَانَ عَزَمَ عَلَی النَّاسِ فَأَمْسَکُوا ۔ ۹۔ قَالَ : فَدَخَلَ عَلَیْہِ أَبُو عَمْرِو بْنِ بُدَیْلٍ الْخُزَاعِیُّ وَالتُّجِیبِیُّ ، قَالَ : فَطَعَنَہُ أَحَدُہُمَا بِمِشْقَصٍ فِی أَوْدَاجِہِ وَعَلاَہُ الآخَرُ بِالسَّیْفِ فَقَتَلُوہُ ، ثُمَّ انْطَلَقُوا ہِرَابًا یَسِیرُونَ بِاللَّیْلِ وَیَکْمُنُونَ بِالنَّہَارِ حَتَّی أَتَوْا بَلَدًا بَیْنَ مِصْرَ وَالشَّامِ ، قَالَ : فَکَمِنُوا فِی غَارٍ ، قَالَ : فَجَائَ نَبَطِیٌّ مِنْ تِلْکَ الْبِلاَدِ مَعَہُ حِمَارٌ ، قَالَ : فَدَخَلَ ذُبَابٌ فِی مِنْخَرِ الْحِمَارِ ، قَالَ : فَنَفَرَ حَتَّی دَخَلَ عَلَیْہِمَ الْغَارَ ، وَطَلَبَہُ صَاحِبُہُ فَرَآہُمْ : فَانْطَلَقَ إِلَی عَامِلِ مُعَاوِیَۃَ ، قَالَ : فَأَخْبَرَہُ بِہِمْ ، قَالَ : فَأَخَذَہُمْ مُعَاوِیَۃُ فَضَرَبَ أَعْنَاقَہُمْ۔
(٣٨٨٤٦) جہم فہری سے منقول ہے کہتے ہیں کہ میں نے اس معاملہ کو ازخود مشاہدہ کیا کہ سعد اور عمارہ نے حضرت عثمان کو پیغام بھیجا کہ آپ ہمارے پاس آئیں ہم آپ کو ایسی چیزوں کے بارے میں بتانا چاہتے ہیں جو آپ نے نئی نکالی ہیں۔ حضرت عثمان نے پیغام بھیجا کہ آپ آج چلے جائیں آج میں مصروف ہوں فلاں دن تم سے ملاقات کے لیے مقرر ہے تاکہ میں خصومت کے لیے تیار ہوجاؤں ابو محصن کہتے ہیں کہ اشزن کا معنی ہے میں تمہارے ساتھ خصومت کے لیے تیار ہوجاؤں۔ سعد تو واپس چلے گئے عمار نے واپس جانے سے انکار کردیا ابو محصن نے یہ دودفعہ فرمایا۔ تو حضرت عثمان کے قاصد نے ان کو پکڑ کر مارا۔ پس مقررہ دن جب وہ سب جمع ہوئے تو حضرت عثمان نے ان سے کہا تم کس چیز پر مجھ سے ناراض ہو ؟ تو انھوں نے کہا کہ آپ نے جو عمارکو مارا ہے اس پر ہم ناراض ہیں حضرت عثمان نے فرمایا کہ سعد اور عمار آئے تھے میں نے ان کو پیغام بھیجا کہ وہ چلے جائیں سعد تو چلے گئے مگر عمار نے انکار کیا تو میرے قاصد نے میرے حکم کے بغیر اس کو مارا اللہ کی قسم نہ تو میں نے اس کا حکم دیا تھا اور نہ ہی میں اس پر راضی تھا۔ پھر بھی میں حاضر ہوں ! عمار اپنا بدلہ لے لیں ابو محصن لیصطبر کا مطلب قصاص لینا بتلاتے ہیں۔ پھر وہ کہنے لگے ہم آپ سے ناراض ہیں کہ آپ نے مختلف حروف کو (قراء توں) ایک ہی حرف بنادیا حضرت عثمان نے فرمایا میرے پاس حذیفہ آئے تھے پس انھوں نے کہا کہ آپ اس وقت کیا کرسکیں گے جب کہا جائے گا فلاں کی قراءت ، فلاں کی قراءت اور فلاں کی قراءت جیسے اہل کتاب نے اپنی کتابوں میں اختلاف کیا ؟ پس اگر یہ عمل ( ایک قراءت پر عربوں کو جمع کرنا) درست ہے تو یہ اللہ کی طرف سے ہے اور اگر غلط ہے تو حذیفہ کی طرف سے ہے۔ پھر انھوں نے کہا کہ ہم آپ سے اس بات پر بھی ناراض ہیں کہ آپ نے چراگاہیں مقرر کردیں ہیں۔ حضرت عثمان نے فرمایا میرے پاس قریش آئے تھے اور کہا تھا کہ عرب کی ہر قوم کے پاس چراگاہ موجود ہے سوائے ہمارے تو میں نے ان کے لیے چراگاہ مقرر کردی اگر تم راضی ہو تو اسے برقرار رکھو اور اگر تمہیں ناگواری ہوتی ہے تو اسے بدل دو یا یہ فرمایا کہ تم مقرر نہ کرو ابو محصن کو اس میں شک ہوا ہے۔ پھر کہنے لگے کہ ہم آپ سے اس وجہ سے ناراض ہیں کہ آپ نے ہمارے اوپر اپنے اقرباء ناسمجھ لوگوں کو مسلط کردیا ہے۔ حضرت عثمان نے فرمایا ہر شہر والے کھڑے ہوں اور مجھے بتائیں جسے وہ پسند کرتے ہیں میں اس کو گورنر بنا دونگا اور جس کو ناپسند کرتے ہیں اس کو معزول کر دونگا۔ پس اہل بصرہ نے کہا ہم عبداللہ بن عامر سے راضی ہیں انہی کو برقرار رکھیے۔ پھر کوفہ والوں نے کہا سعید کو معزول کردیا جائے (ولید کہتے ہیں کہ ابو محصن کو شک ہوا ہے) اور ابو موسیٰ کو ہم پر گورنر بنایا جائے۔ پس حضرت عثمان نے ایسا ہی کیا۔ اہل شام نے کہا ہم حضرت معاویہ سے راضی ہیں ہم پر انھیں ہی برقرار رکھیے۔ اور اہل مصر نے کہا ابن ابو سرح کو معزول کرکے عمرو بن عاص کو گورنر بنایا جائے۔ حضرت عثمان نے ایسا کردیا۔ انھوں نے جس جس شئے کا تقاضہ کیا اسے انھوں نے حاصل کرلیا اور بخوشی واپس لوٹ گئے۔ ابھی وہ راستے میں تھے کہ ان کے پاس سے ایک سوار گزرا پس ان کو اس پر شک ہوا تو انھوں نے اس سے تحقیق کی تو اس کے پاس سے چمڑے کے برتن سے ایک خط برآمد ہوا جو ان کے عامل کے نام تھا۔ اس کا مضمون تھا کہ تم فلاں فلاں کی گردن ماردو۔ پس وہ لوٹے اور علی کی خدمت میں گئے پھر ان کے ساتھ علی حضرت عثمان کے پاس گئے پھر انھوں نے حضرت عثمان سے کہا یہ رہا آپ کا خط اور یہ رہی آپ کی مہر۔ حضرت عثمان نے فرمایا اللہ کی قسم نہ میں نے خط لکھا اور نہ میں اس کے بارے کچھ جانتا ہوں اور نہ ہی میں نے اس کا حکم دیا۔ حضرت علی نے فرمایا پھر آپ کے خیال میں کون ہوسکتا ہے لکھنے والا ابو محصن کہتے ہیں یا کہا پھر آپ کس پر تہمت لگائیں گے ؟ حضرت عثمان نے فرمایا میرا خیال ہے میرے کاتب نے دھوکا دہی سے کام لیا ہے، اور مجھے اے علی آپ پر بھی شک ہے حضرت علی نے فرمایا کہ لوگ آپ کی اطاعت کرنے والے ہیں۔ حضرت علی نے فرمایا پھر آپ نے ان کو مجھ سے پھیر کیوں نہیں دیا۔ ان لوگوں نے آپ کا اعتبار نہ کیا اور اپنی ضد پر اڑے رہے یہاں تک کہ حضرت عثمان کا محاصرہ کرلیا۔ پھر حضرت عثمان ان کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا تم میرے خون کو حلال سمجھتے ہو ؟ اللہ کی قسم مسلمان کا خون حلال نہیں مگر تین وجہ سے ایک یہ کہ وہ مرتد ہوجائے، دوسرا شادی شدہ زانی اور تیسرا کسی کو قتل کرنے والا۔ اللہ کی قسم میں نہیں سمجھتا کہ جب سے میں اسلام لایا ہوں ان میں سے کسی کا ارتکاب کیا ہو۔ راوی کہتے ہیں کہ وہ لوگ اپنی ضد پر ڈٹے رہے۔ پھر حضرت عثمان نے لوگوں سے مطالبہ کیا کہ وہ خونریزی نہ کریں۔ راوی کہتے ہیں کہ میں نے ابن زبیر کو دیکھا کہ وہ ایک لشکر میں نکلے تاکہ ان باغیوں کو مغلوب کریں اگر وہ چاہتے کہ باغیوں کو قتل کریں تو قتل کرسکتے تھے۔ میں نے سعید بن اسود کو دیکھا کہ وہ اپنی تلوار کے عرض سے ایک شخص کو مارنا چاہتے تو مار سکتے تھے۔ لیکن حضرت عثمان نے لوگوں کو روکا تھا اس وجہ سے لوگ رکے رہے۔ پھر ابو عمرو بن مدہل خزاعی اور تجیبی اندر داخل ہوئے پس ا ن میں سے ایک نے چوڑے پھل والے نیزہ سے حضرت عثمان کی گردن کی رگوں کو کاٹ ڈالا دوسرے نے تلوار مار کر ان کو اوپر اٹھایا اور انھیں شہید کردیا پھر وہ بھاگ گئے رات کو وہ چلتے اور دن کو چھپ جاتے۔ یہاں تک کہ وہ مصر اور شام کے مابین ایک جگہ پر پہنچ گئے۔ وہ ایک غار میں چھپے ہوئے تھے کہ ایک نبطی اس علاقے سے نکلا اس کے ساتھ ایک گدھا بھی تھا اس گدھے کے نتھنے میں ایک مکھی گھس گئی وہ بدک کر بھاگا یہاں تک کہ اس غار میں داخل ہوا جس میں وہ لوگ چھپے ہوئے تھے۔ گدھے کا مالک اس کی تلاش میں یہاں تک پہنچا تو اس نے ان کو دیکھ لیا۔ وہ شخص حضرت معاویہ کے عامل کے پاس گیا اور اس کو ان کے بارے میں بتایا۔ پس حضرت معاویہ نے ان کو پکڑ کر قتل کردیا۔

38846

(۳۸۸۴۷) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ بَکْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ أَبِی صَغِیرَۃَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِینَارٍ ، قَالَ : لَمَّا ذَکَرُوا مِنْ شَأْنِ عُثْمَانَ الَّذِی ذَکَرُوا أَقْبَلَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ فِی نَفَرٍ مِنْ أَصْحَابِہِ حَتَّی دَخَلُوا عَلَی عَبْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ فَقَالُوا : یَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، أَلاَ تَرَی مَا قَدْ أَحْدَثَ ہَذَا الرَّجُلُ ، فَقَالَ : بَخٍ بَخٍ فَمَا تَأْمُرُونِی قَالَ : تُرِیدُونَ أَنْ تَکُونُوا مِثْلَ الرُّومِ وَفَارِسَ إِذَا غَضِبُوا عَلَی مَلِکٍ قَتَلُوہُ ، قَدْ وَلاَّہُ اللَّہُ الَّذِی وَلاَّہُ فَہُوَ أَعْلَمُ لَسْتُ بِقَائِلٍ فِی شَأْنِہِ شَیْئًا۔
(٣٨٨٤٧) عمرو بن دینار سے منقول ہے کہتے ہیں جب حضرت عثمان کے بارے میں تذکرہ ہوا جس طرح تذکرے لوگ کرتے ہیں تو عبدالرحمن اپنے کچھ ساتھیوں کے ساتھ تشریف لائے اور حضرت عبداللہ بن عمر کے پاس آئے۔ پس لوگوں نے کہا اے عبدالرحمن کیا آپ نہیں دیکھتے کہ اس آدمی (حضرت عثمان ) نے کتنی چیزیں پیدا کردیں ؟ حضرت عبدالرحمن نے فرمایا واہ بھئی واہ تم مجھے کس بات کا حکم دے رہے ہو ؟ کیا تم چاہتے ہو تم روم اور فارس والوں کی طرح ہوجاؤ کہ جب وہ اپنے بادشاہ سے ناراض ہوتے تو اسے قتل کردیتے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو یہ امارت سونپی ہے کہ وہی زیادہ بہتر جاننے والا ہے میں ان کی شان میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔

38847

(۳۸۸۴۸) حَدَّثَنَا أَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ زَیْدٍ ، عَنْ بِشْرِ بْنِ شَغَافَ قَالَ : سَأَلَنِی عَبْدُ اللہِ بْنُ سَلاَمٍ ، عَنِ الْخَوَارِجِ ، فَقُلْتُ لَہُمْ : أَطْوَلُ النَّاسِ صَلاَۃً وَأَکْثَرُہُمْ صَوْمًا غَیْرَ أَنَّہُمْ إِذَا خَلَّفُوا الْجِسْرَ أَہَرَاقُوا الدِّمَائَ وَأَخَذُوا الأَمْوَالَ ، قَالَ : لاَ تَسْأَلْ عَنْہُمْ إَلاَّ ذَا أَمَّا إِنِّی قَدْ قُلْتُ لَہُمْ : لاَ تَقْتُلُوا عُثْمَانَ ، دَعُوہُ ، فَوَاللہِ لَئِنْ تَرَکْتُمُوہُ إحْدَی عَشْرَۃَ لَیَمُوتَنَّ عَلَی فِرَاشِہِ مَوْتًا فَلَمْ یَفْعَلُوا وَإِنَّہُ لَمْ یُقْتَلْ نَبِیٌّ إِلاَّ قُتِلَ بِہِ سَبْعُونَ أَلْفًا مِنَ النَّاسِ وَلَمْ یُقْتَلْ خَلِیفَۃٌ إِلاَّ قُتِلَ بِہِ خَمْسَۃٌ وَثَلاَثُونَ أَلْفًا۔
(٣٨٨٤٨) بشربن شغاف سے منقول ہیں عبداللہ بن سلام نے خوارج کے بارے میں مجھ سے پوچھا میں نے کہا کہ وہ لمبی نماز پڑھنے والے ہوں گے ، زیادہ روزے رکھنے والے ہوں گے ، مگر یہ کہ جب کسی بہادرشخص کو بادشاہ بنائیں تو خون بہائیں گے اور اموال لوٹ لیں گے پھر فرمایا ان کے بارے میں سوال مت کرو مگر یہ کہ میں نے ان سے کہا کہ تم حضرت عثمان کو شہید نہ کرو اور ان کو چھوڑ دو اللہ کی قسم اگر تم نے اس کو چھوڑ دیا گیارہ دن تک تو ہ اپنے بستر پر خود مرجائیں گے مگر انھوں نے ایسا نہیں کیا جب نبی کو قتل کیا جاتا ہے تو اس کے عوض ستر ہزارانسان قتل ہوتے ہیں اور جب خلیفہ قتل کیا جاتا ہے اس کے عوض پینتیس ہزار انسان قتل ہوتے ہیں۔

38848

(۳۸۸۴۹) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ حَفْصٍ، قَالَ: حدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ طَلْحَۃَ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ کُلَیْبٍ الْجَرْمِیِّ ، عَنْ أَبِی قِلاَبَۃَ، قَالَ: جَائَ الْحَسَنُ بْنُ عَلِیٍّ إِلَی عُثْمَانَ ، فَقَالَ : أَخْتَرِطُ سَیْفِی؟ قَالَ: لاَ أَبْرَأُ إِلَی اللَّہُ إذًا مِنْ دَمِکَ ، وَلَکِنْ، شِمْ سَیْفَک وَارْجِعْ إِلَی أَبِیک۔
(٣٨٨٤٩) ابو قلابہ سے منقول ہے کہ حضرت حسن بن علی حضرت عثمان کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ میں اپنی تلوار سونت لوں ؟ (میں باغیوں سے لڑائی کے لیے تیار ہوں) حضرت عثمان نے فرمایا، تب میں اللہ کے سامنے تمہارے خون سے بری ہوں۔ تم اپنی تلوار وہیں (نیام میں) رکھو اور اپنے گھر چلے جاؤ۔

38849

(۳۸۸۵۰) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، قَالَ : دَخَلْنَا عَلَی ابْنِ أَبِی الْہُذَیْلٍ ، فَقَالَ : قَتَلُوا عُثْمَانَ ، ثُمَّ أَتَوْنِی ، فَقُلْنَا لَہُ : أَتُرِیبُک نَفْسُک۔
(٣٨٨٥٠) اعمش سے منقول ہے کہ ہم ابن ابو ہذیل کے پاس آئے تو انھوں نے کہا کہ انھوں نے کہا کہ انھوں نے حضرت عثمان کو شہید کردیاوہ پھر میرے پس آئے ہم نے کہا تم کو شک تو نہیں ہوا کہیں ؟

38850

(۳۸۸۵۱) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، وَأَبُو أُسَامَۃَ ، قَالاَ : أَخْبَرَنَا شُعْبَۃُ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاہِیمَ ، عَن أَبِیہِ ، قَالَ : سَمِعْتُہُ یَقُولُ : ہَاتَانِ رِجْلاَی ، فَإِنْ کَانَ فِی کِتَابِ اللہِ أَنْ تَجْعَلُوہُمَا فِی الْقُیُودِ فَاجْعَلُوہُمَا فِی الْقُیُودِ۔
(٣٨٨٥١) سور بن ابراہیم اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے ان کو فرماتے ہوئے سنا کہ یہ میرے دو پاؤں ہیں اگر کلام اللہ اس بات کی اجازت دیتا کہ ان کو قید میں ڈال دو تو میرے دونوں پاؤں میں بیڑیاں ڈال دو ۔

38851

(۳۸۸۵۲) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنْ مُحَمَّدٍ ، قَالَ : قَالَ حُذَیْفَۃُ حِینَ قُتِلَ عُثْمَان : اللَّہُمَّ إِنْ کَانَتِ الْعَرَبُ أَصَابَتْ بِقَتْلِہَا عُثْمَانَ خَیْرًا ، أَوْ رُشْدًا ، أَوْ رِضْوَانًا فَإِنِّی بَرِیئٌ مِنْہُ ، وَلَیْسَ لِی فِیہِ نَصِیبٌ ، وَإِنْ کَانَتِ الْعَرَبُ أَخْطَأَتْ بِقَتْلِہَا عُثْمَانَ فَقَدْ عَلِمْت بَرَائَتِی ، قَالَ : اعْتَبِرُوا قَوْلِی مَا أَقُولُ لَکُمْ ، وَاللہِ إِنْ کَانَتِ الْعَرَبُ أَصَابَتْ بِقَتْلِہَا عُثْمَانَ لَتَحْتَلِبُنَّ بِہِ لَبَنًا ، وَلَئِنْ کَانَتِ الْعَرَبُ أَخْطَأَتْ بِقَتْلِہَا عُثْمَانَ لَتَحْتَلِبُنَّ بِہِ دَمًا۔ (عبدالرزاق ۲۰۹۶۵)
(٣٨٨٥٢) محمد سے منقول ہے کہ حضرت حذیفہ نے حضرت عثمان کے قتل کے وقت فرمایا کہ اے اللہ اگر اہل عرب نے حضرت عثمان کو شہید کر کے اچھا کیا یعنی خیرو ہدایت اور تیری رضا کی خاطر، تو میں اس سے بری ہوں اور میرا اس میں کچھ حصہ نہیں اور اگر اہل عرب نے ان کو شہید کرکے غلطی کی تو میری برأت کے بارے میں تو جانتا ہی ہے۔ پھر فرمایا میری اس بات سے عبرت حاصل کرو جو میں تم سے کہہ رہا ہوں اللہ کی قسم اگر اہل عرب نے ان کے قتل میں بھلائی کی تو عنقریب وہ اس کا نفع دیکھ لیں گے اور اگر انھوں نے اس میں غلطی کی تو اس کا خونی نقصان بھی دیکھ لیں گے۔

38852

(۳۸۸۵۳) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنْ حُمَیْدِ بْنِ ہِلاَلٍ ، قَالَ : قَالَ أَبُو ذَرٍّ لِعُثْمَانَ لَوْ أَمَرْتنِی أَنْ أَتَعَلَّقَ بِعُرْوَۃِ قَتبٍ لَتَعَلَّقْت بِہَا أَبَدًا حَتَّی أَمُوتَ۔
(٣٨٨٥٣) حمیدبن ہلال سے منقول ہے کہ ابو ذر نے حضرت عثمان سے عرض کیا کہ اگر آپ مجھے حکم دیں تو میں کجاوے کے حلقے کے ساتھ اپنے آپ کو معلق کرلوں اور پھر اسی سے بندھا رہوں یہاں تک کہ مجھے موت آجائے (یعنی میں آپ کی ہر طرح اطاعت کے لیے تیار ہوں)

38853

(۳۸۸۵۴) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ أَبِی یَعْلَی ، عَنِ ابْنِ الْحَنَفِیَّۃِ ، قَالَ : قَالَ عَلِیٌّ : لَوْ سَیَّرَنِی عُثْمَان إِلَی صِرَارٍ لَسَمِعْت لَہُ وَأَطَعْت۔ (نعیم بن حماد ۲۰۸)
(٣٨٨٥٤) ابن حنفیہ سے منقول ہے کہتے ہیں کہ حضرت علی فرماتے تھے کہ اگر حضرت عثمان مجھے اس گروہ (بلوائیوں) کی طرف جانے کا حکم دیتے تو میں ان کے اس حکم کو سنتا اور اطاعت کرتا۔

38854

(۳۸۸۵۵) حدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ ، عَنْ مَیْمُونِ بْنِ مِہْرَانَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ سِیدَانَ ، عَنْ أَبِی ذَرٍّ ، قَالَ : لَوْ أَمَرَنِی عُثْمَان أَنْ أَمْشِیَ عَلَی رَأْسِی لَمَشَیْت۔
(٣٨٨٥٥) حضرت ابو ذر نے فرمایا کہ اگر حضرت عثمان مجھے حکم دیتے کہ میں سر کے بل چلوں تو میں ضرور چلتا۔

38855

(۳۸۸۵۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ عُبَیْدِ بْنِ عمْرٍو الْخَارِفِیِّ ، قَالَ : کُنْتُ أَحَدَ النَّفَرِ الَّذِینَ قَدِمُوا فَنَزَلُوا بِذِی الْمَرْوَۃِ فَأَرْسَلُونَا إِلَی نَفَرٍ مِنْ أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَأَزْوَاجِہِ نَسْأَلُہُمْ : أَنُقْدِمُ ، أَوْ نَرْجِعُ ، وَقِیلَ لَنَا : اجْعَلُوا عَلِیًّا آخِرَ مَنْ تَسْأَلُونَ ، قَالَ : فَسَأَلْنَاہُمْ فَکُلُّہُمْ أَمَرَ بِالْقُدُومِ فَأَتَیْنَا عَلِیًّا فَسَأَلْنَاہُ ، فَقَالَ : سَأَلْتُمْ أَحَدًا قَبْلِی قُلْنَا : نَعَمْ ، قَالَ : فَمَا أَمَرُوکُمْ بِہِ ؟ قُلْنَا : أَمَرُونَا بِالْقُدُومِ ، قَالَ : لَکِنِّی لاَ آمُرُکُمْ ، إِمَّا لاَ ، بَیْضٌ فَلْیُفْرِخْ۔ (ابن سعد ۶۵)
(٣٨٨٥٦) عبید بن عمرو خارفی سے منقول ہے کہ جو لوگ مدینہ آئے تھے ان میں سے میں بھی ایک تھا پس یہ قافلہ ذی مروہ میں ٹھہرا۔ قافلے والوں نے ہمیں اصحاب محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان کی ازواج مطہرات (رض) کے پاس بھیجا کہ ہم ان سے یہ سوال کریں کہ ہم مدینہ آجائیں یا لوٹ جائیں اور ہم کو یہ بھی ہدایت کی گئی کہ سب سے آخر میں حضرت علی سے سوال کرنا ہے۔ پس ہم نے ان سے بات کی اور سوال کیا آنے یا واپس لوٹنے کے بارے میں۔ انھوں نے آنے کا مشورہ دیا پھر ہم نے حضرت علی کے پاس پہنچ کر ان سے سوال کیا تو انھوں نے پوچھا کیا تم لوگوں نے مجھ سے پہلے بھی کسی سے یہ سوال کیا تو ہم نے کہا جی ہاں۔ حضرت علی نے پوچھا انھوں نے کیا حکم دیا ہے ؟ ہم نے کہا آنے کا حکم دیا ہے۔ حضرت علی نے فرمایا لیکن میں تمہیں یہ حکم نہیں دیتا یہ معاملہ ایسا ہے کہ اس کا انجام جلد ظاہر ہوجائے گا۔

38856

(۳۸۸۵۷) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنِ الْعَوَّامِ ، قَالَ : حدَّثَنِی رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِ الآجر ، عَنْ شَیْخَیْنِ مِنْ بَنِی ثَعْلَبَۃَ رَجُلٍ وَامْرَأَتِہِ ، قَالاَ : قَدِمْنَا الرَّبَذَۃَ فَمَرَرْنَا بِرَجُلٍ أَبْیَضَ الرَّأْسِ وَاللِّحْیَۃِ أَشْعَثَ ، فَقِیلَ ہَذَا مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَقَدْ فَعَلَ بِکَ ہَذَا الرَّجُلُ وَفَعَلَ ، فَہَلْ أَنْتَ نَاصِبٌ لَنَا رَایَۃً فَنَأْتِیک بِرِجَالٍ مَا شِئْت ، فَقَالَ : یَا أَہْلَ الإِسْلاَم ، لاَ تَعْرِضُوا عَلَیَّ أَذَاکُمْ ، لاَ تُذِلُّوا السُّلْطَانَ ، فَإِنَّہُ مَنْ أَذَلَّ السُّلْطَانَ أَذَلَّہُ اللَّہُ ، وَاللہِ أَنْ لَوْ صَلَبَنِی عُثْمَان عَلَی أَطْوَلِ حَبْلٍ ، أَوْ أَطْوَلِ خَشَبَۃٍ لَسَمِعْت وَأَطَعْت وَصَبَرْت وَاحْتَسَبْت وَرَأَیْت ، أَنَّ ذَلِکَ خَیْرٌ لِی ، وَلَوْ سَیَّرَنِی مَا بَیْنَ الأُفُقِ إِلَی الأُفُقِ ، أَوْ بَیْنَ الْمَشْرِقِ إِلَی الْمَغْرِبِ ، لَسَمِعْت وَأَطَعْت وَصَبَرْت وَاحْتَسَبْت وَرَأَیْت ، أَنَّ ذَلِکَ خَیْرٌ لِی۔
(٣٨٨٥٧) آجر کے ساتھیوں میں سے ایک ساتھی سے منقول ہے وہ بنی ثعلبہ کے دو بوڑھوں سے روایت کرتا ہے یعنی ایک مرددوسری عورت دونوں کہتے ہیں کہ ہم ربذہ مقام کے پاس سے گزرے وہاں ہم نے ایک سفید داڑھی اور سفید سر والے پراگندہ حال شخص کو دیکھا پس کہا گیا کہ یہ صحابی رسول ہیں (ایک وفد آیا اس نے حضرت ابو ذر کی حالت بہتر دیکھ کر کہا) یہ سلوک اس شخص نے کیا ہے ؟ کیا آپ ہمارے لیے جھنڈا نصب کریں گے تاکہ آپ کے پاس لوگ آپ کی مدد کے لیے آئیں اگر آپ چاہیں تو انھوں نے کہا کہ اے لوگو ! اپنی اذیت کو میرے اوپر پیش نہ کرو اور نہ امرا کو رسوا کرو کیونکہ جو امیر کو رسوا کرے گا اللہ اسے بھی ذلیل کرے گا۔ اللہ کی قسم اگر حضرت عثمان مجھے سب سے اونچے پہاڑ یا لکڑی پر سولی چڑھانا چاہیں تو میں ان کے اس حکم کی بھی اطاعت کروں گا اور اس پر صبر کروں گا اور اللہ سے اجر کی امید رکھوں گا اور اس کو اپنے لیے باعث خیر جانوں گا۔ اگر وہ مجھے ایک افق سے دوسرے افق تک چلنے کا حکم دیں یا مشرق سے مغرب تک چلنے کا حکم دیں تو ضرور اطاعت کروں گا اور صبر کروں گا۔

38857

(۳۸۸۵۸) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ عَاصِمٍ ، قَالَ سَمِعْت أَبَا وَائِلٍ یَقُولُ : لَمَّا قُتِلَ عُثْمَان ، قَالَ أَبُو مُوسَی : إِنَّ ہَذِہِ الْفِتْنَۃَ فِتْنَۃٌ بَاقِرَۃٌ کَدَائِ الْبَطْنِ ، لاَ یدْرَی أَنَّی نُؤْتَی ، تَأْتِیکُمْ مِنْ مَأْمَنِکُمْ وَتَدَعُ الْحَلِیمَ کَأَنَّہُ ابْنُ أَمْسِ ، قَطِّعُوا أَرْحَامَکُمْ وَانْتَصِلُوا رِمَاحَکُمْ۔ (نعیم بن حماد ۱۲۲)
(٣٨٨٥٨) ابو وائل کہتے ہیں کہ جب عثمان کو شہید کیا گیا تو ابو موسیٰ نے فرمایا کہ بیشک یہ فتنہ پیٹ پھاڑنے والا ہے، پیٹ کی بیماری کی طرح ہم نہیں جانتے کہ یہ کہاں سے آیا ہے۔ تمہارے پاس یہ تمہارے امن کی جگہ سے آیا ہے۔ بردبار انسان کو گزشتہ کل کے بچے کی طرح بناڈالے گا تم قطع رحمی کرو گے اور ایک دوسرے پر نیزوں کے وار کرو گے۔

38858

(۳۸۸۵۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ فِطْرٍ ، عَنْ زَیْدِ بْنِ عَلِیٍّ ، قَالَ : کَانَ زَیْدُ بْنُ ثَابِتٍ مِمَّنْ بَکَی عَلَی عُثْمَانَ یَوْمَ الدَّارِ۔
(٣٨٨٥٩) زید بن علی سے منقول ہے کہ زید بن ثابت ان لوگوں میں سے تھے جو حضرت عثمان پر روئے تھے ان کے محاصرے کے دن۔

38859

(۳۸۸۶۰) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا أَبُو عُبَیْدَۃَ النَّاجِی ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : أَتَت الأَنْصَارُ عُثْمَانَ فَقَالُوا : یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ ، نَنْصُرُ اللَّہَ مَرَّتَیْنِ ، نَصَرَنَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَنَنْصُرُک ، قَالَ : لاَ حَاجَۃَ لِی فِی ذَاکَ ، ارْجِعُوا ، قَالَ الْحَسَنُ : وَاللہِ لَوْ أَرَادُوا أَنْ یَمْنَعُوہُ بِأَرْدِیَتِہِمْ لَمَنَعُوہُ۔
(٣٨٨٦٠) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ انصار حضرت عثمان کی خدمت حاضر ہوئے اور عرض کیا اے امیر المؤمنین ہم نے اللہ کی دو (اللہ کے راستے میں دو دفع اڑے) دفعہ مدد کی اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بھی مدد کی ہم آپ کی بھی مدد کریں گے تو انھوں نے کہا اس کی ضرورت نہیں تم لوٹ جاؤ۔ حضرت حسن فرماتے تھے اللہ کی قسم اگر انصار اپنے کمزوروں کے ذریعے بھی ان کو روکنے کا ارادہ کرتے تو آسانی سے ان کو (باغیوں) کو روک دیتے۔

38860

(۳۸۸۶۱) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِی صَالِحٍ ، قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللہِ بْنُ سَلاَمٍ لَمَّا حُصِرَ عُثْمَان فِی الدَّارِ : لاَ تَقْتُلُوہُ فَإِنَّہُ لَمْ یَبْقَ مِنْ أَجَلِہِ إِلاَّ قَلِیلٌ وَاللہِ لَئِنْ قَتَلْتُمُوہُ لاَ تُصَلُّوا جَمِیعًا أَبَدًا۔
(٣٨٨٦١) ابو صالح سے منقول ہے کہ جب حضرت عثمان کا محاصرہ کیا گیا تو حضرت عبداللہ بن سلام نے فرمایا تم حضرت عثمان کو قتل نہ کرو کیونکہ ان کی زندگی بہت کم باقی ہے اللہ کی قسم اگر تم نے ان کو قتل کردیا تو پھر کبھی سب مل کر اکٹھے نماز ادا نہ کرسکو گے۔

38861

(۳۸۸۶۲) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ الْحُبَابِ ، قَالَ : حدثنی العلاء بن المنہال قَالَ : حدَّثَنِی مُحَمَّدُ بْنُ سُوقَۃَ ، قَالَ : حَدَّثَنِی مُنْذَرُ الثَّوْرِیُّ ، قَالَ : کُنَّا عِنْدَ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَنَفِیَّۃِ ، قَالَ : فَنَالَ بَعْضُ الْقَوْمِ مِنْ عُثْمَانَ فَقَالَ : مَہْ ، فَقُلْنَا لَہُ : کَانَ أَبُوک یَسُبُّ عُثْمَانَ ، قَالَ : مَا سَبَّہُ ، وَلَوْ سَبَّہُ یَوْمًا لَسَبَّہُ یَوْمَ جِئْتہ وَجَائَہُ السُّعَاۃُ ، فَقَالَ : خُذْ کِتَابَ السُّعَاۃِ فَاذْہَبْ بِہِ إِلَی عُثْمَانَ ، فَأَخَذْتہ فَذَہَبْت بِہِ إلَیْہِ ، فَقَالَ : لاَ حَاجَۃَ لَنَا فِیہِ ، فَجِئْت إلَیْہِ فَأَخْبَرْتہ ، فَقَالَ : ضَعْہُ مَوْضِعَہُ ، فَلَوْ سَبَّہُ یَوْمًا لَسَبَّہُ ذَلِکَ الْیَوْمَ۔ (بخاری ۳۱۱۱)
(٣٨٨٦٢) منذر ثوری فرماتے ہیں کہ ہم محمد ابن حنفیہ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ کسی نے حضرت عثمان کو برا بھلا کہا تو محمد بن حنفیہ نے فرمایا ٹھہر جاؤ، تو ہم نے کہا آپ کے والد ماجد (حضرت علی ) تو ان کو برا بھلا کہا کرتے تھے تو انھوں نے فرمایا کہ انھوں نے کبھی حضرت عثمان کو برا بھلا نہیں کہا۔ اگر وہ برا بھلا کہتے تو اس دن کہتے جس دن میں ان کے پاس آیا اس حال میں کہ ان کے پاس صدقات وصول کرنے والے آئے ہوئے تھے۔ حضرت علی نے فرمایا سب سے بہتر کتاب اللہ ہے اس کو لے جاؤ اور حضرت عثمان کو دے دو ۔ پس اسے لیکر حضرت عثمان کی خدمت میں حاضر ہوا مگر انھوں نے کہا کہ مجھے اس کی ضرورت نہیں پس میں حضرت علی کی خدمت میں واپس ہوا اور ان کو حضرت عثمان کے قول کے بارے میں بتایا پس حضرت علی نے فرمایا کہ اس کو اس کی جگہ پر رکھ دو ۔ اگر حضرت علی ان کو طعن وتشنیع کرتے تو اس دن کرتے۔

38862

(۳۸۸۶۳) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ الْحُبَابِ ، قَالَ : حدَّثَنِی الْعَلاَئُ بْنُ الْمِنْہَالِ ، قَالَ : حَدَّثَنِی فُلاَنٌ ، قَالَ : سَمِعْتُ الزُّہْرِیَّ بِالرَّصَافَۃِ یَقُولُ : وَاللہِ لَقَدْ نَصَحَ عَلِیٌّ وَصَحَّحَ فِی عُثْمَانَ ، لَوْلاَ أَنَّہُمْ أَصَابُوا الْکِتَابَ لَرَجَعُوا۔
(٣٨٨٦٣) زہری نے رصافہ مقام میں فرمایا اللہ کی قسم حضرت علی نے حضرت عثمان کے بارے خیر خواہی کی اور اطاعت اختیار کی۔ اگر ان کو (باغیوں کو) خط کا علم نہ ہوتا تو وہ مدینہ کی طرف واپس نہ لوٹتے۔

38863

(۳۸۸۶۴) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ آدَمَ ، قَالَ : حدَّثَنِی أَبُو بَکْرِ بْنُ عَیَّاشٍ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، عَن عَلْقَمَۃَ ، قَالَ : قُلْتُ لِلأَشْتَرِ : لَقَدْ کُنْت کَارِہًا لِیَوْمِ الدَّارِ فَکَیْفَ رَجَعْت عَنْ رَأْیِکَ ، فَقَالَ : أَجَلْ ، وَاللہِ إِنْ کُنْت لَکَارِہًا لِیَوْمِ الدَّارِ وَلَکِنْ جِئْت بِأُمِّ حَبِیبَۃَ بِنْتِ أَبِی سُفْیَانَ لأُدْخِلَہَا الدَّارَ ، وَأَرَدْت أَنْ أُخْرِجَ عُثْمَانَ فِی ہَوْدَجٍ ، فَأَبَوْا أَنْ یَدَعُونِی وَقَالوا : مَا لَنَا وَلَک یَا أَشْتَرُ ، وَلَکِنِّی رَأَیْت طَلْحَۃَ وَالزُّبَیْرَ وَالْقَوْمَ بَایَعُوا عَلِیًّا طَائِعِینَ غَیْرَ مُکْرَہِینَ ، ثُمَّ نَکَثُوا عَلَیْہِ ، قُلْتُ : فَابْنُ الزُّبَیْرِ الْقَائِلُ : اقْتُلُونِی وَمَالِکًا ، قَالَ : لاَ وَاللہِ ، وَلاَ رَفَعْت السَّیْفَ، عَنِ ابْنِ الزُّبَیْرِ وَأَنَا أَرَی أَنَّ فِیہِ شَیْئًا مِنَ الرُّوحِ لأَنِّی کُنْت عَلَیْہِ بِحَنَقٍ لأَنَّہُ اسْتَخَفَّ أُمَّ الْمُؤْمِنِینَ حَتَّی أَخْرَجَہَا ، فَلَمَّا لَقِیتہ مَا رَضِیت لَہُ بِقُوَّۃِ سَاعِدِی حَتَّی قُمْت فِی الرِّکَابَیْنِ قَائِمًا فَضَرَبْتہ عَلَی رَأْسِہِ ، فَرَأَیْتُ أَنِّی قَدْ قَتَلْتہ ، وَلَکِنَّ الْقَائِلَ اقْتُلُونِی وَمَالِکًا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَتَّابِ بْنِ أُسَیْدٍ ، لَمَّا لَقِیتہ اعْتَنَقْتہ فَوَقَعْت أَنَا وَہُوَ عَنْ فَرَسَیْنَا ، فَجَعَلَ یُنَادِی : اقْتُلُونِی وَمَالِکًا ، وَالنَّاسُ یَمُرُّونَ لاَ یَدْرُونَ مَنْ یَعْنِی ، وَلَمْ یَقُلْ : الأَشْتَرُ ، لَقُتِلْت۔
(٣٨٨٦٤) علقمہ سے منقول ہے کہتے ہیں میں نے مشتہر سے کہا آپ تو یوم دار (حضرت کے گھر کے محاصرے کا دن) کو ناپسند کرتے تھے پھر آپ نے کیسے اپنی رائے سے رجوع کیا ؟ تو اس نے کہا اللہ کی قسم میں یوم دار کو ناپسند کرتا تھا اور میں ام حبیبہ بنت ابو سفیان کو لایا تاکہ میں ان کو حضرت عثمان کے گھر لے جاؤں اور حضرت عثمان کو ھودج میں نکال لوں۔ مگر انھوں نے مجھے اندر جانے سے روک دیا اور کہا کہ ہمارا اشتر سے کیا واسطہ۔ لیکن میں نے طلحہ زبیر اور کچھ لوگوں کو دیکھا کہ انھوں نے حضرت علی کے ہاتھ پر بغیر کسی اکراہ کے بیعت کی اور پھر اس بیعت کو توڑ ڈالا۔ علقمہ کہتے ہیں کہ میں نے کہا کہ ابن زبیر یہ کہنے والے تھے کہ ” مجھے اور مالک کو قتل کردو “ تو اس نے جواب دیا نہیں اللہ کی قسم میں نے ابن زبیر سے تلوار نہیں ہٹائی تھی اس حال میں کہ اندر روح کو دیکھ رہا تھا (یعنی زندگی کی رمق دیکھتا رہا) کیونکہ مجھے ان پر غصہ تھا اس بات پر کہ انھوں نے ام المومنین کو وقعت نہ دی تھی یہاں تک کہ میں ام المومنین کو واپس لے گیا۔ پس جب میرا ان سے لڑائی میں سامنا ہوا تو میں نے اپنے بازؤں کی قوت پر اکتفاء نہیں کیا بلکہ میں نے دونوں رکابوں میں کھڑے ہو کر قوت کے ساتھ ان کے سر میں تلوار ماری پس میں نے اس کو قتل ہوتے ہوئے دیکھ لیا۔ لیکن (مجھے اور مالک کو قتل کردو) کہنے والے، عبدالرحمن بن عتاب سے جب ملاقات ہوئی تو میں نے اس پر تلوار زنی کی حتی کہ میں اور وہ اپنے گھوڑوں سے گرگئے پس اس نے پکارنا شروع کیا کہ مجھے اور مالک کو قتل کردو اور لوگ گزر رہے تھے مگر وہ نہیں جانتے تھے کہ مالک سے اس کی مراد کیا ہے کیونکہ اس نے اشتر نہیں کہا تھا اگر وہ اشتر کہتا تو قتل کردیا جاتا۔

38864

(۳۸۸۶۵) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنِ ابْنِ أَبِی عَرُوبَۃَ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، قَالَ : أَخَذَ عَلِیٌّ بِیَدِ الأَشْتَرِ ، ثُمَّ انْطَلَقَ بِہِ حَتَّی أَتَی طَلْحَۃَ ، فَقَالَ : یا طلحۃ إِنَّ ہَؤُلاَئِ ، یَعْنِی أَہْلَ مِصْرَ ، یَسْمَعُونَ مِنْک وَیُطِیعُونَک ، فَانْہَہُمْ عَنْ قَتْلِ عُثْمَانَ، فَقَالَ : مَا أَسْتَطِیعُ دَفْعَ دَمٍ أَرَادَ اللَّہُ إہْرَاقَہُ ، فَأَخَذَ عَلِیٌّ بِیَدِ الأَشْتَرِ ، ثُمَّ انْصَرَفَ وَہُوَ یَقُولُ : بِئْسَ مَا ظَنَّ ابْنُ الْحَضْرَمِیَّۃِ أَنْ یَقْتُلَ ابْنَ عَمَّتی وَیَغْلِبَنِی عَلَی مُلْکِی بِئْسَ مَا رأی۔
(٣٨٨٦٥) قتادہ سے روایت ہے کہ علی نے اشتر کا ہاتھ تھاما اور چل دیے یہاں تک کہ طلحہ کے پاس آئے پھر فرمایا یہ لوگ یعنی اہل مصر آپ کی بات سنتے ہیں اور آپ کی اطاعت کرتے ہیں پس ان کو حضرت عثمان کے قتل سے منع کریں انھوں نے جواب دیا جس خون کو اللہ نے بہانے کا ارادہ کرلیا ہے میں اسے نہیں روک سکتا۔ پس حضرت علی نے اشتر کا ہاتھ پکڑا اور واپس آگئے یہ کہتے ہوئے کہ ابن حضر میہ کا یہ گمان کتنا بڑا ہے کہ میرے چچا کے بیٹے کو قتل کیا جائے اس حال میں کہ وہ میرے ملک میں مجھ پر غالب آ رہا ہے جو میں دیکھ رہا ہوں۔

38865

(۳۸۸۶۶) حَدَّثَنَا أَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا جَرِیرُ بْنُ حَازِمٍ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ ، قَالَ : مَا عَلِمْت أَنَّ عَلِیًّا اتُّہِمَ فِی قَتْلِ عُثْمَانَ حَتَّی بُویِعَ فَلَمَّا بُویِعَ اتَّہَمَہُ النَّاسُ۔
(٣٨٨٦٦) ابن سیرین سے منقول ہے کہتے ہیں کہ میں نہیں جانتا کہ حضرت علی پر حضرت عثمان کے قتل کا بہتان لگایا گیا ہو یہاں تک کہ ان سے بیعت کی گئی پھر لوگوں نے ان پر قتل کی تہمت لگائی۔

38866

(۳۸۸۶۷) حَدَّثَنَا أَبُو الْمُوَرِّعِ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا الْعَلاَئُ بْنُ عَبْدِ الْکَرِیمِ ، عَنْ عَمِیرَۃَ بْنِ سَعْدٍ ، قَالَ : لَمَّا قَدِمَ طَلْحَۃُ وَالزُّبَیْرُ وَمَنْ مَعَہُمْ ، قَالَ : قَامَ رَجُلٌ فِی مَجْمَعٍ مِنَ النَّاسِ ، فَقَالَ : أَنَا فُلاَنُ بْنُ فُلاَنٍ ، أَحَدُ بَنِی جُشَمٍ ، فَقَالَ : إِنَّ ہَؤُلاَئِ القوم الَّذِینَ قَدِمُوا عَلَیْکُمْ ، إِنْ کَانَ إنَّمَا بِہِمَ الْخَوْفُ فَجَاؤُوا مِنْ حَیْثُ یَأْمَنُ الطَّیْرُ ، وَإِنْ کَانَ إنَّمَا بِہِمْ قَتْلُ عُثْمَانَ فَہُمْ قَتَلُوہُ ، وَإِنَّ الرَّأْیَ فِیہِمْ أَنْ تُنَخَّس بِہِمْ دَوَابُّہُمْ حَتَّی یَخْرُجُوا۔
(٣٨٨٦٧) عمیرہ بن سعد سے منقول ہے کہ جب طلحہ زبیر اور ان کے ساتھی آئے تو ایک شخص مجمع کے درمیان سے اٹھا اور کہا میں فلاں بن فلاں قبیلہ بنی جشم سے ہوں۔ پھر کہا یہ لوگ (طلحہ زبیر اور ان کے ساتھی) تمہارے پاس آئے ہیں۔ اگر یہ کسی خوف کی وجہ سے آئے ہیں تو پھر ایسی جگہ سے آئے ہیں جہاں پرندے کو بھی امن حاصل ہے (یعنی مکہ میں) اور اگر حضرت عثمان کے قتل کی وجہ سے آئے ہیں تو ان کے پاس ہی ان کو قتل کیا گیا ہے ان کے بارے میں رائے یہ ہے کہ ان کے جانوروں کو آنکڑے ماریں جائیں تاکہ یہ یہاں سے نکل جائیں۔

38867

(۳۸۸۶۸) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا مُعْتَمِرُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، قَالَ : سَمِعْتُ أَبِی یَقُولُ : حَدَّثَنَا أَبُو عُثْمَانَ ، أَنَّ عُثْمَانَ قُتِلَ فِی أَوْسَطِ أَیَّامِ التَّشْرِیقِ۔
(٣٨٨٦٨) ابو عثمان سے منقول ہے کہ حضرت عثمان کو ایام تشریق کے وسط میں شہید کیا گیا۔

38868

(۳۸۸۶۹) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا سَعِیدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، قَالَ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سِیرِینَ ، قَالَ : لَمَّا قُتِلَ عُثْمَان ، قَالَ عَدِیُّ بْنُ حَاتِمٍ : لاَ یَنْتَطِحُ فِیہَا عَنزَانِ ، فَلَمَّا کَانَ یَوْمُ صِفِّینَ فُقِئَتْ عَیْنُہُ فَقِیلَ : لاَ تَنْتَطِحُ فِی قَتْلِ عُثْمَانَ عَنْزَانِ ، قَالَ بَلَی ، وَتُفْقَأُ فِیہِ عُیُونٌ کَثِیرَۃٌ۔ (یعقوب بن سفیان ۴۲۹)
(٣٨٨٦٩) ابن سیرین سے منقول ہے کہتے ہیں جب حضرت عثمان کو شہید کہا گیا تو عدی بن حاتم نے فرمایا کہ اس معاملے میں دورائے نہیں۔ پس جب جنگ صفین کے دن ان کی آنکھ ضائع ہوئی تو کہا گیا حضرت عثمان کے قت میں دورائے نہیں تھی۔ حضرت عدی بن حاتم نے فرمایا کیوں نہیں اس میں بھی بہت سی آنکھیں ضائع ہوئی تھیں۔

38869

(۳۸۸۷۰) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، قَالَ : حدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ الْوَلِیدِ ، عَنْ مُوسَی بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ یَزِیدَ ، عَنْ أَبِی ظَبْیَانَ الأَزْدِیِّ ، قَالَ : قَالَ عُمَرُ : کم مَالَک یَا أَبَا ظَبْیَانَ ، قَالَ : قُلْتُ : أَنَا فِی أَلْفَیْنِ وَخَمْسِمِئَۃٍ ، قَالَ : فَاتَّخِذْ سابیاء فَإِنَّہُ یُوشِکُ أَنْ تَجِیئَ أُغَیْلِمَۃٌ مِنْ قُرَیْشٍ یَمْنَعُونَ ہَذَا الْعَطَائَ۔ (بخاری ۵۷۶)
(٣٨٨٧٠) ابو ظبیان ازدی سے منقول ہے کہتے ہیں کہ حضرت عمر نے فرمایا اے ابو ظبیان تمہارا کتنا مال ہے ؟ تو میں نے کہا پچیس سو درہم حضرت عمر نے فرمایا اس کثرت مال کو پکڑ لو کیونکہ عنقریب قریش کے لڑکے آئیں گے اور ان عطا یا سے منع کریں گے۔

38870

(۳۸۸۷۱) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، قَالَ : حدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ الْوَلِیدِ ، قَالَ : سَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ عبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِی ذِئْبٍ یَقُولُ ، قَالَ أَبُو ہُرَیْرَۃَ : وَاللہِ لَوْ تَعْلَمُونَ مَا أَعْلَمُ لَضَحِکْتُمْ قَلِیلاً وَلَبَکَیْتُمْ کَثِیرًا ، وَاللہِ لَیَقَعَنَّ الْقَتْلُ وَالْمَوْتُ فِی ہَذَا الْحَیِّ مِنْ قُرَیْشٍ ، حَتَّی یَأْتِیَ الرَّجُلُ الکِبَا ، قَالَ أَبُو أُسَامَۃَ : یَعْنِی الْکُنَاسَۃَ ، فَیَجِدُ بِہَا النَّعْلَ ، فَیَقُولُ : کَأَنَّہَا نَعْلُ قُرَشِیٍّ۔ (ابن حبان ۶۸۵۳۔ احمد ۳۳۶)
(٣٨٨٧١) حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ اللہ کی قسم جو میں جانتا ہوں اگر تم جان لیتے تو ہنستے زیادہ روتے کم اور اگر تم وہ سب جان لیتے جو میں جانتا ہوں تو تم ہنستے کم روتے زیادہ۔ اللہ کی قسم قریش کے اس قبیلے میں ایک قتل واقع ہوگا پھر ایک آدمی گندگی کے ڈھیر پر آئے گا اسے وہاں سے ایک جو تاملے گا لوگ کہیں گے یہ قریشی کا جوتا ہے۔

38871

(۳۸۸۷۲) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ بْنُ أَبِی خَالِدٍ ، عَنْ مُجَالِدٍ ، عَنِ عَامِرٍ الشَّعْبِیِّ ، عَنْ عَامِرِ بْنِ شَہْرٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ مِنَ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَلِمَۃً ، وَمِنَ النَّجَاشِیِّ کَلِمَۃً ، سَمِعْت النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : انْظُرُوا قُرَیْشًا فَاسْمَعُوا مِنْ قَوْلِہِمْ وَذَرُوا فِعْلَہُمْ ، قَالَ : وَکُنْت عِنْدَ النَّجَاشِیِّ إذْ جَائَ ابْنٌ لَہُ مِنَ الْکُتَّابِ فَقَرَأَ آیَۃً مِنَ الإِنْجِیلِ فَفَہِمْتُہَا فَضَحِکْت ، فَقَالَ : مِمَّنْ تَضْحَکُ أَتَضْحَکُ مِنْ کِتَابِ اللہِ ؟ أَمَا وَاللہِ ، إِنَّہَا لَفِی کِتَابِ اللہِ الَّذِی أُنْزِلَ عَلَی عِیسَی ، أَنَّ اللَّعْنَۃَ تَکُونُ فِی الأَرْضِ إِذَا کَانَ أُمَرَاؤُہَا الصِّبْیَانَ۔ (احمد ۲۶۰۔ ابوداؤد ۳۰۲۱)
(٣٨٨٧٢) عامر بن شہر سے منقول ہے کہتے ہیں کہ میں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ایک بات سنی اور نجاشی سے بھی ایک بات سنی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اہل قریش کو دیکھو اور ان کی باتوں کو سنو اور ان کے افعال کو چھوڑو۔ کہتے ہیں کہ میں نجاشی کے پاس تھا کہ اس کا ایک بیٹا کتاب لے کر آیا اور اس نے انجیل کی ایک آیت پڑھی پھر اس کو سمجھایا میں ہنسا۔ نجاشی نے کہا تم کتاب اللہ کی وجہ سے ہنستے ہو ؟ سنو اللہ کی قسم بیشک اس کتاب میں جو اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ پر اتاری ہے لکھا ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی لعنت اس زمین پر اس وقت ہوگی جب اس پر امراء بچے ہوں گے (نو عمر لڑکے ہوں گے )

38872

(۳۸۸۷۳) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ حَبِیبِ بْنِ أَبِی ثَابِتٍ ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ الْحَارِثِ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُتْبَۃَ ، عَنْ أَبِی مَسْعُودٍ ، قَالَ : قَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِقُرَیْشٍ : إِنَّ ہَذَا الأَمْرَ فِیکُمْ وَأَنْتُمْ وُلاَتُہُ مَا لَمْ تُحْدِثُوا عَمَلاً یَنْزِعُہُ اللَّہُ مِنْکُمْ ، فَإِذَا فَعَلْتُمْ ذَلِکَ سَلَّطَ اللَّہُ عَلَیْکُمْ شِرَارَ خَلْقِہِ فَالْتَحُوکُمْ کَمَا یُلْتَحَی الْقَضِیبُ۔
(٣٨٨٧٣) ابو مسعود سے منقول ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قریش سے فرمایا یہ امر خلافت تمہارے اندر ہے اور تم اس کے والی ہو اس وقت تک جب تک تم کوئی ایسا کام نہیں کرتے جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اس کو تم سے چھین لے جب تم نے ایسا کیا تو اللہ تعالیٰ تم پر مخلوق کے سب سے شریر لوگوں کو مسلط کرے گا۔ اور وہ تم کو ایسے چھیل ڈالیں گے جیسے شاخ کو چھیل دیا جاتا ہے۔

38873

(۳۸۸۷۴) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ عَوْفٍ ، عَنْ زِیَادِ بْنِ مِخْرَاقٍ ، عَنْ أَبِی کِنَانَۃَ ، عَنْ أَبِی مُوسَی ، قَالَ : قامَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَی بَابٍ فِیہِ نَفَرٌ مِنْ قُرَیْشٍ ، فَقَالَ : إِنَّ ہَذَا الأَمْرَ فِی قُرَیْشٍ مَا دَامُوا إِذَا اُسْتُرْحِمُوا رَحِمُوا ، وَإِذَا مَا حَکَمُوا عَدَلُوا ، وَإِذَا مَا قَسَمُوا أَقْسَطُوا ، فَمَنْ لَمْ یَفْعَلْ ذَلِکَ مِنْہُمْ فَعَلَیْہِ لَعْنَۃُ اللہِ وَالْمَلاَئِکَۃِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِینَ ، لاَ یُقْبَلُ مِنْہُ صَرْفٌ وَلاَ عَدْلٌ۔
(٣٨٨٧٤) ابو موسیٰ سے روایت ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک گھر میں دروازے پر کھڑے تھے جس کے اندر قریش کے کچھ لوگ تھے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ یہ امر خلافت قریش کے اندر رہے گا جب تک قریش والے رحم کے طلب گار پر رحم کرتے رہیں گے اور انصاف کے لیے آنے والوں کے ساتھ انصاف کریں گے، اور تقسیم میں عدل سے کام لیں گے۔ ان میں سے جو ایسا نہیں کرے گا اس پر اللہ، فرشتوں اور سارے لوگوں کی لعنت ہوگی۔ اور اس سے نوافل و فرائض قبول نہیں کیے جائیں گے۔

38874

(۳۸۸۷۵) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ یَزِیدَ بْنِ أَبِی زِیَادٍ ، عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ عَمْرِو بْنِ الأَحْوَصِ ، قَالَ : أَخْبَرَنِی رَبُّ ہَذَا الدَّارِ أَبُو ہِلاَلٍ ، أَنَّہُ سَمِعَ أَبَا بَرْزَۃَ الأَسْلَمِیَّ یُحَدِّثُ أَنَّہُمْ کَانُوا مَعَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَسَمِعُوا غِنَائً فَاسْتَشْرَفُوا لَہُ ، فَقَامَ رَجُلٌ فَاسْتَمَعَ وَذَلِکَ قَبْلَ أَنْ تُحَرَّمَ الْخَمْرُ ، فَأَتَاہُمْ ، ثُمَّ رَجَعَ ، فَقَالَ : ہَذَا فُلاَنٌ وَفُلاَنٌ ، وَہُمَا یَتَغَنَّیَانِ وَیُجِیبُ أَحَدُہُمَا الآخَرَ وَہُوَ یَقُولُ : لاَ یَزَالُ حواریٌّ تَلُوحُ عِظَامُہُ زَوَی الْحَرْبَ عَنْہُ أَنْ یُجَنَّ فَیُقْبَرَا فَرَفَعَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَدَیْہِ ، فَقَالَ : اللَّہُمَّ ارْکُسْہُمَا فِی الْفِتْنَۃِ رَکْسًا ، اللَّہُمَّ دُعَّہُمَا إِلَی النَّارِ دَعًّا۔ (بزار ۳۸۵۹۔ ابویعلی ۷۳۹۹)
(٣٨٨٧٥) ابو برزہ اسلمی روایت کرتے ہیں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھی ایک سفر مں م آپ کے ساتھ تھے۔ پس انھوں نے گائے کی آواز سنی اور وہ اس آواز کی طرف متوجہ ہوگئے پس ایک شخص اٹھا اور آواز کی ٹوہ میں لگ گیا یہ حرمت شراب سے پہلے کی بات ہے۔ پس وہ ان کے پاس پہنچا اور واپس لوٹا اور بتایا کہ یہ فلاں اور فلاں ہیں دونوں گانا گا رہے ہیں اور ایک دوسرے کا جواب دے رہا ہے اور کہہ رہا ہے کہ انصاری کی ہڈیاں پڑی چمکتی رہیں گی اور شدید جنگ اس کو دفن کرنے سے مانع ہوگی کہ اس کی قبر بنائی جاسکے گی۔ پس نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے ہاتھ اٹھائے اور دعا کی اے اللہ ! ان دونوں کو کسی فتنے میں مبتلا کردے، اے اللہ ! ان کو آگ میں دھکیل دے۔

38875

(۳۸۸۷۶) حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ ، عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ بِلاَلٍ ، قَالَ : حدَّثَنِی شَرِیکُ بْنُ عَبْدِ اللہِ بْنِ أَبِی نَمِرٍ ، عَنِ الأَعْشَی بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بن مُکْمِلٍ ، عَنْ أَزْہَرَ بْنِ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ أَقْبَلَ عُبَادَۃُ بْنُ الصَّامِتِ حَاجًّا مِنَ الشَّامِ فَقَدِمَ الْمَدِینَۃَ ، فَأَتَی عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ ، فَقَالَ : یَا عُثْمَان ، أَلاَ أُخْبِرُک شَیْئًا سَمِعْتہ مِنْ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : بَلَی ، قُلْتُ : فَإِنِّی سَمِعْت رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : سَتَکُونُ عَلَیْکُمْ أمَرَائُ یَأْمُرُونَکُمْ بِمَا تَعْرِفُونَ وَیَعْمَلُونَ مَا تُنْکِرُونَ ، فَلَیْسَ لأُولَئِکَ عَلَیْکُمْ طَاعَۃٌ۔ (حاکم ۳۵۷)
(٣٨٨٧٦) ازہر بن عبداللہ سے منقول ہے کہ عبادہ بن صامت شام سے حج کرنے کے لیے تشریف لائے پھر مدینہ حاضر ہوئے اور حضرت عثمان کی خدمت میں آئے اور فرمایا اے عثمان ! کیا میں آپ کو ایسی بات کی خبر نہ دوں جو میں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنی ہو تو حضرت عثمان نے فرمایا کیوں نہیں حضرت عبادہ بن صامت نے فرمایا کہ میں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے عنقریب تمہارے اوپر ایسے امراء آئیں گے جو تم کو ایسی باتوں کا حکم دیں گے جن کو تم جانتے ہو اور گورنر ایسے بنائیں گے جن کو تم نہیں جانتے (یعنی جیں ج تم نہیں سمجھتے ہو) ہوگے۔ پس ایسے امراء کی اطاعت تم پر واجب نہیں۔

38876

(۳۸۸۷۷) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ بْنُ أَبِی خَالِدٍ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ الأَوْدِیِّ ، قَالَ : أَخْبَرَتْنِی بِنْتُ مَعْقِلِ بْنِ یَسَارٍ ، أَنَّ أَبَاہَا ثَقُلَ ، فَبَلَغَ ذَلِکَ ابْنَ زِیَادَۃ فَجَائَ یَعُودُہُ فَجَلَسَ فَعَرَفَ فِیہِ الْمَوْتَ ، فَقَالَ لَہُ : یَا مَعْقِلُ أَلاَ تُحَدِّثُنَا فَقَدْ کَانَ اللَّہُ یَنْفَعُنَا بِأَشْیَائَ نَسْمَعُہَا مِنْک ، فَقَالَ : إنِّی سَمِعْت رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : لَیْسَ مِنْ وَالٍ یَلِی أُمَّۃً قَلَّتْ ، أَوْ کَثُرَتْ لَمْ یَعْدِلْ فِیہِمْ إِلاَّ کَبَّہُ اللَّہُ لِوَجْہِہِ فِی النَّارِ ، فَأَطْرَقَ الآخَرُ سَاعَۃً ، فَقَالَ : شَیْئٌ سَمِعْتہ مِنْ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، أَوْ مِنْ وَرَائِ وَرَائِ ، قَالَ : لاَ ، بَلْ شَیْئٌ سَمِعْتہ مِنْ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، سَمِعْت رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : مَنِ اسْتَرْعَی رَعِیَّۃً فَلَمْ یُحِطْہُمْ بِنُصْحِہِ لَمْ یَجِدْ رِیحَ الْجَنَّۃِ ، وَرِیحُہَا یُوجَدُ مِنْ مَسِیرَۃِ مِئَۃِ عَامٍ ، قَالَ ابْنُ زِیَادٍ : أَلاَ کُنْت حَدَّثْتنِی بِہَذَا قَبْلَ الآنَ ، قَالَ : وَالآنَ لَوْلاَ مَا أَنَا عَلَیْہِ لَمْ أُحَدِّثْک بِہِ۔
(٣٨٨٧٧) بنت معقل بن یسار سے روایت ہے کہ ان کے والد محتر م کی طبیعت بہت زیادہ خراب ہوئی تو یہ خبر ابن زیاد کو پہنچی پس ابن زیاد عیادت کے لیے حاضر خدمت ہوا پس ان کے قریب بیٹھا اور ان کے چہرے پر موت کے اثرات دیکھے پھر کہنے لگا اے معقل ! کیا آپ حدیث بیان نہیں کریں گے تحقیق کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں ان احادیث سے جو آپ سے سنی ہیں بہت نفع پہنچایا ہے۔ پس حضرت معقل بن یسار نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ” کہ کوئی والی حکومت نہیں جس کی رعیت میں میری کم یا زیادہ امت ہو اور وہ اس کے ساتھ انصاف نہ کرے مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ اس کو منہ کے بل آگ میں پھینکے گا۔ وہ ایک گھڑی کے لیے مبہوت ہوگئے۔ پھر ابن زیاد بولا یہ آپ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا ہے یا ان کے بعد آنے والوں سے سنا ہے معقل نے فرمایا نہیں بلکہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا ہے۔ پھر فرمایا میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ بھی سنا ہے ” کہ جس شخص کو رعایا کی باگ دوڑ دی جائے اور اس کے ساتھ بھلائی نہ کرے تو جنت کی خوشبو بھی نہیں پائے گا جبکہ جنت کی خوشبو سو سال کے فاصلے سے آتی ہے۔ ابن زیاد نے کہا آپ نے یہ حدیث اس سے پہلے نہیں سنائی ؟ حضرت معقل نے فرمایا اگر میں مرض الوفات میں نہ ہوتا تو آپ کو اب بھی یہ حدیث نہ سناتا۔

38877

(۳۸۸۷۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ ، عَنْ قَیْسٍ ، أَنَّ رَجُلاً کَانَ یَمْشِی مَعَ حُذَیْفَۃَ نَحْوَ الْفُرَاتِ ، فَقَالَ : کَیْفَ أَنْتُمْ إِذَا أخْرِجْتُمْ لاَ تَذُوقُونَ مِنْہُ قَطْرَۃً ، قَالَ : قُلْنَا : أَتَظُنُّ ذَلِکَ ؟ قَالَ : مَا أَظُنُّہُ ، وَلَکِنْ أَسْتَیْقِنُہُ۔
(٣٨٨٧٨) قیس سے منقول ہے کہ ایک شخص حذیفہ کے ساتھ فرات کی طرف جا رہا تھا حضرت حذیفہ نے فرمایا کیا حال ہوگا ؟ جب تم نکلو گے اور تم اس دریا سے ایک قطرہ نہ چکھ سکو گے قیس کہتے ہیں کہ ہم نے عرض کیا ! کیا یہ آپ کا گمان ہے ؟ حضرت عثمان نے فرمایا میرا گمان نہیں بلکہ مجھے اس کا یقین ہے۔

38878

(۳۸۸۷۹) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنِ الْجُرَیْرِیِّ ، عَنْ أَبِی الْعَلاَئِ ، قَالَ : قالَوا : لِمُطَرِّفٍ : ہَذَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الأَشْعَثِ قَدْ أَقْبَلَ ، فَقَالَ مُطَرِّفٌ : وَاللہِ لقد نزی بَیْنَ أَمْرَیْنِ : لَئِنْ ظَہَر لاَ یَقُومُ لِلَّہِ دِینٌ ، وَلَئِنْ ظُہِرَ عَلَیْہِ لاَ تَزَالُونَ أَذِلَّۃً إِلَی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ۔
(٣٨٨٧٩) ابو العلاء سے منقول ہے لوگوں نے مطرف سے کہا یہ عبدالرحمن بن الاشعث آئے ہیں انھوں نے دو کاموں میں قدم رکھا ہے اگر یہ غالب آگئے تو اللہ کا دین قائم نہ ہوگا اور اگر یہ مغلوب ہوگئے تو تم قیامت تک ذلیل ہوتے رہو گے۔

38879

(۳۸۸۸۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا الأَعْمَشُ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنْ أَبِی الدَّرْدَائِ ، قَالَ : لَوْ أَنَّ رَجُلاً ہَمَّہُ الإِسْلاَم وَعَرَفَہُ ، ثُمَّ تَفَقَّدَہُ لَمْ یَعْرِفْ مِنْہُ شَیْئًا۔
(٣٨٨٨٠) ابو درداء سے منقول ہے اگر کسی شخص کو اسلام نے متفکر کیا پھر اس نے بھی اسلام کو پہچان لیا اور اسلام کا دامن چھوڑ دیا تو گویا کہ اس نے اسلام کے بارے میں کچھ نہ جانا۔

38880

(۳۸۸۸۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا الأَعْمَشُ ، عَنْ شَیْخٍ ، قَالَ : قَالَ عُمَرُ : مَنْ أَرَاْدَ الْحَقَّ فَلْیَنْزِلْ بِالْبِرَازِ ، یَعْنِی یُظْہِرُ أَمْرَہُ۔
(٣٨٨٨١) اعمش اپنے شیخ سے نقل کرتے ہیں کہ حضرت عمر نے فرمایا جو حق چاہتا ہے تو اسے چاہیے کہ وہ کھلے میدان میں اترے یعنی اپنے معاملے کا اظہار کرے۔

38881

(۳۸۸۸۲) حَدَّثَنَا مُعَاوِیَۃُ بْنُ ہِشَامٍ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ صَالِحٍ ، عَنْ یَزِیدَ بْنِ أَبِی زِیَادٍ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، عَن عَلْقَمَۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مَسْعُودٍ ، قَالَ : بَیْنَا نَحْنُ عِنْدَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إذْ أَقْبَلَ فِتْیَۃٌ مِنْ بَنِی ہَاشِمٍ ، فَلَمَّا رَآہُمَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اغْرَوْرَقَتْ عَیْنَاہُ وَتَغَیَّرَ لَوْنُہُ ، قَالَ : فَقُلْتُ لَہُ : مَا نَزَالُ نَرَی فِی وَجْہِکَ شَیْئًا نَکْرَہُہُ ، قَالَ : إنَّا أَہْلَ البَیْت اخْتَارَ اللَّہُ لَنَا الآخِرَۃَ عَلَی الدُّنْیَا ، وَإِنَّ أَہْلَ بَیْتِی سَیَلْقَوْنَ بَعْدِی بَلاَئً وَتَشْرِیدًا وَتَطْرِیدًا ، حَتَّی یَأْتِیَ قَوْمٌ مِنْ قِبَلِ الْمَشْرِقِ مَعَہُمْ رَایَاتٌ سُودٌ یَسْأَلُونَ الْحَقَّ فَلاَ یُعْطُونَہ ، فَیُقَاتِلُونَ فَیُنْصَرُونَ فَیُعْطَوْنَ مَا سَأَلُوا ، فَلاَ یَقْبَلُونَہُ حَتَّی یَدْفَعُوہَا إِلَی رَجُلٍ مِنْ أَہْلِ بَیْتِی ، فَیَمْلَؤُہَا قِسْطًا کَمَا مَلؤُوہَا جَوْرًا ، فَمَنْ أَدْرَکَ ذَلِکَ مِنْکُمْ فَلْیَأْتِہِمْ وَلَوْ حَبْوًا عَلَی الثَّلْجِ۔ (ابن ماجہ ۴۰۸۲۔ حاکم ۴۶۴)
(٣٨٨٨٢) عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ ہم نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس تھے کہ اس دوران بنو ہاشم کے کچھ نوجوان سامنے آئے جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو دیکھا تو آنکھوں میں آنسو آگئے اور آپ کا رنگ بدل گیا۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم آپ کے چہرے پر ایسی شئے کو دیکھ رہے ہیں جسے ہم پسند کرتے ہیں۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے میرے اہل بیت کے لیے آخرت کو دنیا پر ترجیح دی ہے۔ میرے بعد اہل بیت کو ایک آزمائش، انتشار اور جلا وطنی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یہاں تک کہ مشرق کی جانب سے ایک قوم آئے گی ان کے پاس سیاہ جھنڈے ہوں گے وہ حق کا مطالبہ کریں گے مگر ان کو حق نہیں دیا جائے گا پس وہ قتال کریں گے اور نقصان پہنچائیں گے پس ان کا مطالبہ تسلیم کیا جائے گا مگر وہ اسے قبول نہیں کریں گے یہاں تک کہ امر خلافت میرے اہل بیت کے ایک شخص کے سپرد کردیا جائے پس وہ زمین کو ایسے انصاف سے بھر دیں گے جیسے ان سے پہلوں نے ظلم وستم سے بھردیا تھا۔ تم میں سے اگر کوئی اس کو پائے تو اس کو چاہیے کہ وہ ان کے پاس جائے اگرچہ بر ف پر گھسٹ کر جانا پڑے۔

38882

(۳۸۸۸۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ شَرِیکٍ ، عَنْ أَبِی مَہْلٍ ، قَالَ : قُلْتُ لأَبِی جَعْفَرٍ : إِنَّ السُّلْطَانَ یُوَلِّی الْعَمَلَ ، قَالَ : لاَ تَلِیَنَّ لَہُمْ شَیْئًا ، وَإِنْ وَلِیت فَاتَّقِ اللَّہَ وَأَدِّ الأَمَانَۃَ۔
(٣٨٨٨٣) ابو مہل سے منقول ہے کہتے ہیں کہ میں نے ابو جعفر سے کہا بادشاہ کو کام کا والی بنایا جاتا ہے ؟ تو انھوں نے فرمایا ! ان کے لیے کسی شئے کے والی نہ بننا اگر تم کو والی بنایا جائے تو تم اللہ سے ڈرو اور امانت ادا کرو۔

38883

(۳۸۸۸۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ خَالِدِ بْنِ طَہْمَانَ ، عَنْ أَبِی جَعْفَرٍ ، قَالَ : لاَ تُعِدَّ لَہُمْ سِفْرًا وَلاَ تَخُطَّ لَہُمْ بِقَلَمٍ۔
(٣٨٨٨٤) ابو جعفر سے منقول ہے کہتے ہیں کہ تم لوگوں کے لیے کتاب تیار نہ کرو اور نہ ہی ان کے لیے قلم سے کچھ لکھو۔

38884

(۳۸۸۸۵) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِی وَائِلٍ ، قَالَ : دَخَلْتُ عَلَی عُبَیْدِ اللہِ بْنِ زِیَادٍ بِالْبَصْرَۃِ وَقَدْ أُتِیَ بِجِزْیَۃِ أَصْبَہَانَ ثَلاَثَۃِ آلاَفِ أَلْفٍ ، فَہِیَ مَوْضُوعَۃٌ بَیْنَ یَدَیْہِ ، فَقَالَ : یَا أَبَا وَائِلٍ ، مَا تَقُولُ فِیمَنْ مَاتَ وَتَرَکَ مِثْلَ ہَذِہِ ، قَالَ : فَقُلْتُ : أَعْرِضُ بِہِ کَیْفَ إِنْ کَانَتْ مِنْ غُلُولٍ ، قَالَ : ذَاکَ شَرٌّ عَلَی شَرٍّ ، ثُمَّ قَالَ : یَا أَبَا وَائِلٍ ، إِذَا أَنَا قَدِمْت الْکُوفَۃَ فَأْتِنِی لَعَلِّی أُصِیبُک بِخَیْرٍ ، قَالَ : فَقَدِمَ الْکُوفَۃَ ، قَالَ : فَأَتَیْت عَلْقَمَۃَ فَأَخْبَرْتہ ، فَقَالَ : أَمَا إنَّک لَوْ أَتَیْتہ قَبْلَ أَنْ تَسْتَشِیرَنِی لَمْ أَقُلْ لَکَ شَیْئًا ، فَأَمَّا إِذَا اسْتَشَرْتنِی فَإِنَّہُ بَحَقٍّ عَلَیَّ أَنْ أَنْصَحَک ، فَقَالَ : مَا أُحِبُّ ، أَنَّ لِی أَلْفَیْنِ مِنَ الْفَیْئِ وَإِنِّی أَعَزُّ الْجُنْدِ عَلَیْہِ ، وَذَلِکَ أَنِّی لاَ أُصِیبُ مِنْ دُنْیَاہُمْ شَیْئًا إِلاَّ أَصَابُوا مِنْ دِینِی أَکْثَرَ مِنْہُ۔
(٣٨٨٨٥) ابو وائل سے منقول ہے کہتے ہیں کہ میں عبید اللہ بن زیاد کے پاس بصرہ گیا جب کہ اس کے سامنے اصبہان کا تین لاکھ جزیہ پڑا تھا۔ ابن زیاد نے کہا اے ابو وائل اس شخص کے بارے میں کیا خیال ہے جو اتنا ترکہ چھوڑ کر مرا ہو۔ میں نے تعریض کرتے ہوئے کہا کیا حال ہو اگر یہ خیانت کا مال ہو۔ ابن زیاد نے کہا یہ تو شرپر شر ہوا، پھر کہا اے ابو وائل جب میں کوفہ آؤں تو میرے پاس آنا ممکن ہے کہ میں تمہیں خیر پہنچاؤں، ابو وائل کہتے ہیں : اگر آپ مجھ سے مشورہ کرنے سے پہلے اس کے پاس چلے جاتے تو میں کچھ نہ کہتا، اور اب اگر مجھ سے مشورہ کر ہی بیٹھے ہو تو مجھ پر یہ حق ہے آپ کا کہ آپ کو نصیحت کروں، پس علقمہ نے فرمایا : میں پسند نہیں کرتا کہ میرے لیے دولاکھ درہم ہوں اور مجھے ایک لشکر پر عزت دی جائے۔ اور یہ اس وجہ سے کہ میں ان کی دنیا تک اتنا نہیں پہنچ سکتا جتنا وہ میرے دین کو نقصان پہنچائیں گے۔

38885

(۳۸۸۸۶) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنِ الصُّلْبِ بْنِ مَطَرٍ الْعِجْلِیّ ، عَنْ عِیسَی الْمُرَادِیِّ ، عَنْ مُعَاذٍ ، قَالَ : یَکُونُ فِی آخِرِ ہَذَا الزَّمَانِ قُرَّائٌ فَسَقَۃٌ ، وَوُزَرَائُ فَجَرَۃٌ ، وَأُمَنَائُ خَوَنَۃٌ ، وَعُرَفَائُ ظَلَمَۃٌ ، وَأُمَرَائُ کَذَبَۃٌ۔ (بزار ۲۶۳۰)
(٣٨٨٨٦) معاذ سے منقول ہے فرماتے ہیں کہ آخر زمانے میں فاسق قاری، فاجر وزرائ، خیانت کرنے والے امانت رکھنے والے، ظالم نگران ہوں گے اور جھوٹے امراء ہوں گے۔

38886

(۳۸۸۸۷) حَدَّثَنَا یَعْلَی بْنُ عُبَیْدٍ ، عَنْ مُوسَی الْجُہَنِیِّ ، عَنْ قَیْسِ بْنِ یَزِیدَ ، قَالَ : حدَّثَتْنِی مَوْلاَتِی سِدْرَۃُ ، أَنَّ جَدّکَ سَلَمَۃَ بْنَ قَیْسٍ حَدَّثَنِی ، قَالَ : لَقِیت أَبَا ذَرٍّ ، فَقَالَ : یَا سَلَمَۃُ بْنُ قَیْسٍ ، ثَلاَثٌ قَدْ حَفِظْتہَا لاَ تَجْمَعْ بَیْنَ الضَّرَائِرِ فَإِنَّک لَنْ تَعْدِلَ وَلَوْ حَرَصْت ، وَلاَ تَعْمَلْ عَلَی الصَّدَقَۃِ فَإِنَّ صَاحِبَ الصَّدَقَۃِ زَائِدٌ وَنَاقِصٌ ، وَلاَ تَغْشَ ذَا سُلْطَانٍ فَإِنَّک لاَ تُصِیبُ مِنْ دُنْیَاہُمْ شَیْئًا إِلاَّ أَصَابُوا مِنْ دِینِکَ أَفْضَلَ مِنْہُ۔ (عبدالرزاق ۲۰۷۴۰)
(٣٨٨٨٧) سلمہ بن قیس سے منقول ہے کہتے ہیں کہ میں ابو ذر سے ملا انھوں نے فرمایا : اے سلمہ بن قیس ! تین چیزوں کو تم محفوظ کرلو دوسوکنوں کو جمع نہ کرنا تم عدل نہیں کرپاؤ گے اگرچہ تم کتنے ہی حریص ہو، دوسرا صدقات پر محصل نہ بننا کیونکہ یا تو وہ کمی کرنے والا ہوتا ہے یا زیادتی کرنے والا، بادشاہ کے قریب زیادہ نہ جانا کیونکہ جتنا تم ان کی دنیا تک پہنچو گے اس سے زیادہ یہ تمہارے دین کو لے اڑیں گے۔

38887

(۳۸۸۸۸) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، عَنْ فِطْرٍ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ عُمَارَۃَ بْنِ عَبْدٍ ، قَالَ ، قَالَ حُذَیْفَۃُ : اتَّقُوا أَبْوَابَ الأُمَرَائِ فَإِنَّہَا مَوَاقِفُ الْفِتَنِ ، أَلاَ إِنَّ الْفِتْنَۃَ تشتبہ مُقْبِلَۃً وَتَبِینُ مُدْبِرَۃً۔
(٣٨٨٨٨) عمارہ بن عبد سے منقول ہے کہتے ہیں کہ حذیفہ نے فرمایا امراء کے دروازوں سے بچو کیونکہ یہ فتنے کی جگہیں ہیں، مگر یہ کہ فتنہ مشتبہ ہو کر آتا ہے اور ظاہر ہو کرجاتا ہے (یعنی جب فتنہ برپا ہوتا ہے تو حق و صواب ظاہر اور واضح نہیں ہوتا جب چلا جاتا ہے تو انسان کو پتا چلتا ہے کہ اس کا عمل خطا تھا)

38888

(۳۸۸۸۹) حَدَّثَنَا مَالِکُ بْنُ إسْمَاعِیلَ ، قَالَ : حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ حُمَیْدٍ الرُّؤَاسِیُّ ، قَالَ : حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ قَیْسٍ ، عَنِ الْمِنْہَالِ بْنِ عَمْرٍو ، قَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ : أَظُنُّہُ ، عَنْ قَیْسِ بْنِ السَّکَنِ ، قَالَ : قَالَ عَلِیٌّ عَلَی مِنْبَرِہِ: إنِّی أَنَا فَقَأْت عَیْنَ الْفِتْنَۃِ ، وَلَوْ لَمْ أَکُنْ فِیکُمْ مَا قُوتِلَ فُلاَنٌ وَفُلاَنٌ وَفُلاَنٌ وَأَہْلُ النَّہَرِ ، وَایْمُ اللہِ لَوْلاَ أَنْ تَتَّکِلُوا فَتَدَعُوا الْعَمَلَ لَحَدَّثْتُکُمْ بِمَا سَبَقَ لَکُمْ عَلَی لِسَانِ نَبِیِّکُمْ ، لِمَنْ قَاتَلَہُمْ مُبْصِرًا لِضَلاَلَتِہِمْ عَارِفًا بِاَلَّذِی نَحْنُ عَلَیْہِ۔ ۲۔ قَالَ : ثُمَّ قَالَ : سَلُونِی فَإِنَّکُمْ لاَ تَسْأَلُونِی عَنْ شَیْئٍ فِیمَا بَیْنَکُمْ وَبَیْنَ السَّاعَۃِ وَلاَ عَنْ فِئَۃٍ تَہْدِی مِئَۃ وَتَضِلُّ مِئَۃ إِلاَّ حَدَّثْتُکُمْ بِنَاعِقِہَا وَقَائِدِہَا وَسَائِقِہَا ، قَالَ : فَقَامَ رَجُلٌ ، فَقَالَ : یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ ، حَدِّثْنَا عَنِ الْبَلاَئِ ، فَقَالَ أَمِیرُ الْمُؤْمِنِینَ : إِذَا سَأَلَ سَائِلٌ فَلْیَعْقِلْ ، وَإِذَا سُئِلَ مَسْؤُولٌ فَلْیَتَثَبَّتْ ؛ إِنَّ مِنْ وَرَائِکُمْ أُمُورًا تَتِم جَلَلاً ، وَبَلاَئً مُبْلِحًا مُکْلِحًا ، وَالَّذِی فَلَقَ الْحَبَّۃَ وَبَرَأَ النَّسَمَۃَ ، لَوْ قَدْ فَقَدْتُمُونِی وَنَزَلَتْ کَرَائِہُ الأُمُورِ ، وَحَقَائِقُ الْبَلاَئِ ، لَفَشِلَ کَثِیرٌ مِنَ السَّائِلِینَ ، وَلأَطْرَقَ کَثِیرٌ مِنَ الْمَسْئُولِینَ ، وَذَلِکَ إِذَا فَصَلَتْ حَرْبُکُمْ وَکَشَفَتْ عَنْ سَاقٍ لَہَا ، وَصَارَتِ الدُّنْیَا بَلاَئً عَلَی أَہْلِہَا حَتَّی یَفْتَحَ اللَّہُ لِفِئَۃِ الأَبْرَارِ ۔ ۳۔ قَالَ : فَقَامَ رَجُلٌ ، فَقَالَ : یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ ، حَدِّثْنَا عَنِ الْفِتْنَۃِ ، فَقَالَ : إِنَّ الْفِتْنَۃَ إِذَا أَقْبَلَتْ شَبَّہَتْ ، وَإِذَا أَدْبَرَتْ أَسْفَرَتْ ، وَإِنَّمَا الْفِتَنُ تُحُومٌ کَحُومِ الرِّیَاحِ ، یُصِبْنَ بَلَدًا وَیُخْطِئْنَ آخَرَ ، فَانْصُرُوا أَقْوَامًا کَانُوا أَصْحَابَ رَایَاتٍ یَوْمَ بَدْرٍ وَیَوْمَ حُنَیْنٍ تَنْصُرُوا وَتُؤجِرُوا ، أَلاَ إِنَّ أَخْوَف الْفِتْنَۃِ عِنْدِی عَلَیْکُمْ فِتْنَۃٌ عَمْیَائُ مُظْلِمَۃٌ خَصَّتْ فِتْنَتُہَا ، وَعَمَّتْ بَلِیَّتُہَا ، أَصَابَ الْبَلاَئُ مَنْ أَبْصَرَ فِیہَا ، وَأَخْطَأَ الْبَلاَئُ مَنْ عَمِیَ عَنْہَا ، یَظْہَرُ أَہْلُ بَاطِلِہَا عَلَی أَہْلِ حَقِّہَا حَتَّی تُمْلأ الأَرْضُ عُدْوَانًا وَظُلْمًا ، وَإِنَّ أَوَّلَ مَنْ یَکْسِرُ غِمْدَہَا وَیَضَعُ جَبَرُوتَہَا وَیَنْزِعُ أَوْتَادَہَا اللَّہُ رَبُّ الْعَالَمِینَ ۔ ۴۔ أَلاَ وَإِنَّکُمْ سَتَجِدُونَ أَرْبَابَ سُوئٍ لَکُمْ مِنْ بَعْدِی کَالنَّابِ الضُّرُوسِ ، تَعَضُّ بِفِیہَا ، وَتَرْکُضُ بِرِجْلِہَا ، وَتَخْبِطُ بِیَدِہَا ، وَتَمْنَعُ دُرَّہَا ، أَلاَ إِنَّہُ لاَ یَزَالُ بَلاَؤُہُمْ بِکُمْ حَتَّی لاَ یَبْقَی فِی مِصْرٍ لَکُمْ إِلاَّ نَافِعٌ لَہُمْ ، أَوْ غَیْرُ ضَارٍ ، وَحَتَّی لاَ یَکُونَ نُصْرَۃُ أَحَدِکُمْ مِنْہُمْ إِلاَّ کَنُصْرَۃِ الْعَبْدِ مِنْ سَیِّدِہِ وَایْمُ اللہِ لَوْ فَرَّقُوکُمْ تَحْتَ کُلِّ کَوْکَبٍ لَجَمَعَکُمُ اللَّہُ لسر یَوْمٍ لَہُمْ ۔ ۵۔ قَالَ : فَقَامَ رَجُلٌ ، فَقَالَ : ہَلْ بَعْدَ ذَلِکَ جَمَاعَۃٌ یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ ، قَالَ : لاَ بہا جَمَاعَۃٌ شَتَّی غَیْرَ أَنَّ أُعْطِیَاتِکُمْ وَحَجَّکُمْ وَأَسْفَارَکُمْ وَاحِدٌ ، وَالْقُلُوبُ مُخْتَلِفَۃٌ ہَکَذَا ، ثُمَّ شَبَّکَ بَیْنَ أَصَابِعِہِ ، قَالَ : مِمَّ ذَاکَ یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ ، قَالَ : یَقْتُلُ ہَذَا ہَذَا ، فِتْنَۃٌ فَظِیعَۃٌ جَاہِلِیَّۃٌ ، لَیْسَ فِیہَا إمَامُ ہُدًی وَلاَ عِلْمٍ یُرَی نَحْنُ أَہْلَ الْبَیْتِ مِنْہَا نُجَاۃً وَلَسْنَا بِدُعَاۃٍ ، قَالَ : وَمَا بَعْدَ ذَلِکَ یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ ، قَالَ : یُفَرِّجُ اللَّہُ الْبَلاَئَ بِرَجُلٍ مِنَّا أَہْلَ الْبَیْتِ تَفْرِیجَ الأَدِیمِ یَأْتِی ابْنُ خَبَرِہِ إِلاَّ مَا یَسُومُہُمُ الْخَسْفُ ، وَیُسْقِیہِمْ بِکَأْسِ مُصبرۃ ، وَدَّتْ قُرَیْشٌ بِالدُّنْیَا ، وَمَا فِیہَا ، لَوْ یَقْدِرُونَ عَلَی مَقَامِ جَزْرٍ جَزُورٍ لأَقْبَلَ مِنْہُمْ بَعْضُ الَّذِی أَعْرضُ عَلَیْہِمَ الْیَوْمَ فَیَرُدُّونَہُ وَیَأْبَی إِلاَّ قَتْلاً۔ (نسائی ۸۵۷۴)
(٣٨٨٨٩) عبدالرحمن سے منقول ہے کہتے ہیں کہ میرا گمان ہے کہ قیس بن سکن سے مروی ہے کہتے ہیں کہ حضرت علی نے منبر پر فرمایا کہ میں نے فتنے پر غلبہ پالیا اگر میں تم میں نہ ہوتا تو فلاں، فلاں قتل نہ کیے جاتے اور اللہ کی قسم اگر تم بھروسا کر کے عمل کو نہ چھوڑ بیٹھتے تو میں تمہیں بتاتا کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تمہارے بارے میں کیا کیا خوشخبریاں دی ہیں بوجہ ان لوگوں کے ساتھ قتال کرنے کے جو اپنی گمراہی کو دیکھتے ہوئے یہ بھی جانتے تھے ہم ہدایت پر ہیں پھر فرمایا کہ مجھ سے سوال کرو پھر فرمایا کہ خبردار مجھ سے سوال کرو کیونکہ مجھ سے جو بھی سوال کرو گے قیامت اور جو تمہارے درمیان اس سے متعلق ہو یا اس لشکر کے متعلق جس کے سو آدمی ہدایت پا گئے اور سو آدمی گمراہ ہوگئے میں تم کو اس تفصیلات سے آگاہ کروں گا۔ پس ایک شخص کھڑا ہوا اور کہنے لگا اے امیر المومنین ہمیں آزمائش کے بارے میں بتائیے۔ امیر المومنین نے فرمایا جب سائل سوال کرے تو اسے چاہیے سمجھ سے کرے اور جب مسؤل سے سوال کیا جائے تو اسے ثابت قدم رہنا چاہیے۔ تمہارے بعد بڑے بڑے امور پیش آنے والے ہیں اور ایسے ایسے فتنے برپا ہونے والے ہیں جو انسان کو عیب دار بنادیں گے اور انسان کا رنگ پھکاش کر ڈالیں گے۔ قسم ہے اس ذات کی جس نے بیج کو پھاڑا اور ہواؤں کو چلایا ! اگر تم مجھے گم کردیتے اور پھر ناپسندیدہ امور اترتے اور بڑی آزمائش اترتی تو بہت سارے سوال کرنے والے پھسل جاتے اور بہت سے مسؤل گردن جھکائے کھڑے ہوتے۔ یہ اس وقت ہوتا جب تمہاری جنگ برپا ہوگئی اور لڑائی خوب بھڑک اٹھی۔ اور دنیا والوں پر آزمائش بن گئی یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے باقی ماندہ نیک بندوں کے لیے اسے فتح کردیا۔
پھر ایک آدمی کھڑا ہوا اور کہنے لگا اے امیر المومنین ہمیں فتنے کے بارے میں کچھ خبریں بتلائیں۔ حضرت علی نے فرمایا جب فتنہ آتا ہے تو مشتبہ ہو کر آتا ہے اور جب جاتا ہے تو واضح و بیّن ہو کر لوٹتا ہے بیشک فتنے ہواؤں کی طرح گردش میں ہیں ایک شہر کو گھیرتے ہں ت تو دوسرے کو چھوڑ دیتے ہیں۔ پس تم ایسے لوگوں کی مدد کرو جو بدرو حنین کے دن جھنڈے تھامنے والے تھے تاکہ تمہاری مدد کی جائے اور تم کو اجر دیا جائے۔
خبردار غور سے سنو ! بیشک سب سے زیادہ خوفناک فتنہ میرے نزدیک وہ فتنہ ہے جو اندھا اور تاریک ہوگا ۔ اس کا ہنگامہ خاص ہوگا مگر اس کی آزمائش مصیبت عام ہوگی۔ وہ فتنہ اس تک پہنچے گا جو اس کو دیکھے گا اور اس سے چوک جائے گا جو اس سے آنکھیں بند کرے گا اس فتنے میں جو باطل پر ہیں وہ اہل حق پر غالب آجائیں گے یہاں تک کہ زمین ظلم وستم سے بھر جائے گی اور پھر سب سے پہلے اس فتنے کی میان توڑنے والا، اور اس فتنے کی طاقت کو فرو کرنے والا اور اس فتنے کی میخیں اکھاڑنے والا اللہ ہے جو تمام جہانوں کا رب ہے۔
سنو عنقریب تمہارا واسطہ میرے بعد برے لوگوں سے ہوگا جو بپھری ہوئی اونٹنی کی مانند ہوں گے جو اپنے منہ سے کاٹتی ہے اپنے پاؤں سے ٹھوکر مارتی ہے اور آگے والے پاؤں سے بھی مارتی ہے اور اپنا دودھ نکالنے نہیں دیتی، سنو یہ فتنہ تم پر جاری رہے گا یہاں تک کہ تمہارے شہر میں تمہارے لیے کوئی حامی نہ ہوگا سوائے اہل باطل کو نفع پہنچانے والے یا ان کے لیے بےضرر۔ یہاں تک کہ تم میں سے کسی کی مدد ان کی طرف سے نہ کی جائے گی مگر جتنی مدد آقا اپنے غلام کی کرتا ہے (یعنی بہت تھوڑی مدد) اللہ کی قسم اگر وہ تمہیں ہر ستارے کے نیچے جمع کردیں تو اللہ تمہیں ایک ایسے دن میں جمع کرے گا جس میں ان کے لیے کچھ حصہ نہیں۔
پھر ایک شخص کھڑا ہو کر کہنے لگا اے امیر المومنین ! کیا اس کے بعد بھی کوئی جماعت ہوگی ؟ آپ نے فرمایا نہیں پھر مختلف جماعتیں ہوں گی مگر تمہارے عطیات تمہارے حج اور تمہارے سفر ایک ہوں گے اور قول مختلف ہوں گے اس طرح، یہ کہہ کر آپ نے اپنی انگلیوں کو ملایا ایک آدمی نے سوال کیا یہ کس طرح ہوگا اے امیر المومنین ؟ آپ نے فرمایا لوگ ایک دوسرے کو قتل کریں گے یہ بڑا ہول ناک اور جہالت والا فتنہ ہوگا اس فتنے میں کوئی امام ہدیٰ نہیں ہوگا اور نہ ہی کوئی جھنڈا ہوگا جس کو دیکھا جاسکے ہم اہل بیت اس سے نجات دہندہ ہوں گے اور ہم اس کے محرک نہیں ہوں گے، پھر اس نے کہا اے امیر المومنین اس کے بعد کیا ہوگا ؟ حضرت علی ؟ نے فرمایا اللہ تعالیٰ اہل بیت میں سے ایک آدمی کے ذریعے اس فتنے کو ایسے الگ کریں گے جیسے گوشت سے کھال علیٰحدہ کی جاتی ہے پھر وہ انھیں اذیت کا جام چکھائے گا۔ اس وقت قریش دنیا کی محبت کا شکار ہوجائیں گے۔

38889

(۳۸۸۹۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُدَیْرٍ ، عَنِ السُّمَیْطِ ، عَنْ کَعْبٍ ، قَالَ : لِکُلِّ زَمَانٍ مُلُوک ، فَإِذَا أَرَادَ اللَّہُ بِقَوْمٍ خَیْرًا بَعَثَ فِیہِمْ مُصْلِحَہُمْ ، وَإِذَا أَرَادَ بِقَوْمٍ شَرًّا بَعَثَ فِیہِمْ مُتْرَفِیہِمْ۔
(٣٨٨٩٠) حضرت کعب نے فرمایا کہ ہر زمانہ کے لیے بادشاہ مقرر ہیں جب اللہ تعالیٰ کسی قوم کے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرتے ہیں تو ان میں ان کی اصلاح کرنے والا بھیج دیتے ہیں اور جب کسی قوم کے ساتھ برائی کا ارادہ کرتے ہیں تو ان میں عیاش لوگوں کو بادشاہ بنا دیتے ہیں۔

38890

(۳۸۸۹۱) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ أَبِی الْیَقْظَانِ ، عَنْ زَاذَانَ ، عَنْ عُلَیمٍ ، قَالَ : کُنَّا مَعَہُ عَلَی سَطْحٍ وَمَعَہُ رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی أَیَّامِ الطَّاعُونِ ، فَجَعَلَتِ الْجَنَائِز تَمُرُّ ، فَقَالَ : یَا طَاعُونُ خُذْنِی ، قَالَ : فَقَالَ عُلَیمٌ : أَلَمْ یَقُلْ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لاَ یَتَمَنَّیَنَّ أَحَدُکُمَ الْمَوْتَ ، فَإِنَّہُ عِنْدَ انْقِطَاعِ عَمَلِہِ ، وَلاَ یُرَدُّ فَیَسْتَعْتِبَہُ ، فَقَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : بَادِرُوا بِالْمَوْتِ سِتًّا ، إمْرَۃَ السُّفَہَائِ ، وَکَثْرَۃَ الشَّرْطِ ، وَبَیْعَ الْحُکْمِ ، وَاسْتِخْفَافٌ بِالدَّمِ ، وَنَشْوًا یَتَّخِذُونَ الْقُرْآنَ مَزَامِیرَ ، یُقَدِّمُونَہُ لِیُغْنِیَہُمْ ، وَإِنْ کَانَ أَقَلَّہُمْ فِقْہًا۔ (احمد ۴۹۴۔ طبرانی ۶۱)
(٣٨٨٩١) زاذان علیم سے روایت کرتے ہیں کہ ہم ان کے ساتھ چھت پر تھے اور ان کے ساتھ ایک صحابی بھی تھے۔ طاعون کے دنوں میں پس ہمارے پاس سے جنازے گزرنے شروع ہوئے تو اس نے کہا کیا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ نہیں فرمایا کہ تم میں سے کوئی موت کی تمنا نہ کرے کیونکہ موت اعمال کے منقطع ہونے کا باعث ہے اور انسان کو لوٹایا نہیں جاتا کہ وہ اللہ کو راضی کرے۔ پس انھوں نے فرمایا میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ تم چھ چیزوں کی وجہ سے موت کو جلدی طلب کرو، بیوقوفوں کی امارت کی وجہ سے، بادشاہوں کے خاص سپاہیوں کے زیادہ ہوجانے کی وجہ سے، فیصلوں کے بکنے کی وجہ سے اور خون ارزاں ہونے کی وجہ سے اور قرآن کو بانسریاں بنانے والے نو عمر لڑکوں کی وجہ سے جنھیں لوگ نماز میں اس لیے آگے کریں گے تاکہ وہ انھیں قرآن کو گانے کے انداز میں سنائے حالانکہ وہ اپنی فہم میں سب سے کم تر ہوگا۔

38891

(۳۸۸۹۲) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا أَبُو عُبَیْدَۃَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : إنَّمَا جَعَلَ اللہُ ہَذَا السُّلْطَانُ نَاصِرٌ لِعِبَادِ اللہِ وَدِینِہِ ، فَکَیْفَ مَنْ رَکِبَ ظُلْمًا عَلَی عِبَادِ اللہِ وَاِتَّخَذَ عِبَادَ اللہِ خَوَلاً ، یَحْکُمُونَ فِی دِمَائِہِمْ وَأَمْوَالِہِمْ مَا شَاؤُوا ، وَاللہِ إِنْ یَمْتَنِعْ أَحَد ، وَاللہِ مَا لَقِیَتْ أُمَّۃٌ بَعْدَ نَبِیِّہَا مِنَ الْفِتَنِ وَالذُّلِّ مَا لَقِیَتْ ہَذِہِ بَعْدَ نَبِیِّہَا صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔
(٣٨٨٩٢) حسن سے منقول ہے کہ اللہ بادشاہ کو صرف اللہ کے بندوں کی مدد اور اپنے دین کے لیے سلطان بناتا ہے اس کا کیا حال ہوگا جو اللہ کے بندوں پر ظلم کرے اور ان کو اپنا غلام بنالے اور پھر وہ بادشاہ لوگوں کی جانوں اور مالوں کا جس طرح چاہے فیصلہ کرے اللہ کی قسم کوئی منع بھی نہ کرے اللہ کی قسم امت جس فتنے اور ذلت سے اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد دوچار ہوئی ہے میں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد ایسا فتنہ کبھی نہیں دیکھا۔

38892

(۳۸۸۹۳) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، عَن ہَمَّامٍ: قَالَ: جَائَ إِلَی عُمَرَ رَجُلٌ مِنْ أَہْلِ الْکِتَابِ، فَقَالَ : السَّلاَمُ عَلَیْک یَا مَلِکَ الْعَرَبِ ، قَالَ عُمَرُ : وَہَکَذَا تَجِدُونَہُ فِی کِتَابِکُمْ أَلَیْسَ تَجِدُونَ النَّبِیُّ ، ثُمَّ الْخَلِیفَۃَ ، ثُمَّ أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ ، ثُمَّ الْمُلُوکَ بَعْدُ ، قَالَ لَہُ : بَلَی۔ (نعیم بن حماد ۲۴۷)
(٣٨٨٩٣) ہمام سے منقول ہے ایک شخص اہل کتاب میں سے حضرت عمر کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا السلام علیکم اے عرب کے بادشاہ حضرت عمر نے فرمایا کیا تم اپنی کتاب میں اس طرح پاتے ہو ؟ کیا تم اس طرح نہیں پاتے کہ پہلے نبی ہوگا پھر خلیفہ پھر امیر المومنین پھر اس کے بعد بادشاہ ہوگا اس اہل کتاب نے کہا بالکل ایسے ہی ہے۔

38893

(۳۸۸۹۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا الأَعْمَشُ ، عَنْ شَقِیقٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ وَذَکَرَ رَجُلاً ، فَقَالَ : أَہْلَکَہُ الشُّحُّ وَبِطَانَۃُ السُّوئِ۔
(٣٨٨٩٤) عبداللہ سے روایت ہے کہ انھوں نے ایک شخص کا تذکرہ کیا پس انھوں نے فرمایا کہ اس کو لالچ نے ہلاک کردیا اور اندرونی برائیوں نے اس کو ہلاک کردیا۔

38894

(۳۸۸۹۵) حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ ، عَنِ الْوَلِیدِ بْنِ جُمَیْعٍ ، عَنْ أَبِی بَکْرِ بْنِ أَبِی الْجَہْمِ ، عَنْ أَبِی بُرْدَۃَ بْنِ دِینَارٍ رَفَعَہُ إِلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : لاَ تَذْہَبُ الدُّنْیَا حَتَّی تَکُونَ عِنْدَ لُکَعِ ابْنِ لُکَعٍ۔ (احمد ۴۶۶)
(٣٨٨٩٥) ابو بردہ بن نیار سے منقول ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ دنیا ختم نہیں ہوگی جب تک ایسے شخص کے پاس نہ چلی جائے جو خود بھی کمینہ ہو اور اس کا باپ بھی کمینہ ہو (یعنی ایسے گرے پڑے شخص کے پاس جو تقدیم کا مستحق نہ ہو نہ اس کا کوئی حسب نسب ہو اور نہ ہی علم فقہ سے کوئی تعلق ہو)

38895

(۳۸۸۹۶) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إبْرَاہِیمَ ، أَنَّہُ سَمِعَ أَبَاہُ ، قَالَ : رَأَیْتُ عَبْدَ الرَّحْمَن بْنَ عَوْفٍ بِمِنًی مَحْلُوقًا رَأْسُہُ یَبْکِی ، یَقُولُ : مَا کُنْت أَخْشَی أَنْ أَبْقَی حَتَّی یُقْتَلَ عُثْمَان۔
(٣٨٨٩٦) سعد بن ابراہیم فرماتے ہیں کہ انھوں نے اپنے والد سے سنا وہ فرماتے تھے میں نے عبدالرحمن بن عوف کو میٰ ٨ میں اس حالت میں دیکھا کہ ان کا سر منڈھا ہوا تھا اور وہ رو رہے تھے کہہ رہے تھے میں نہیں ڈرتا کہ میں حضرت عثمان کی شہادت تک زندہ رہوں۔

38896

(۳۸۸۹۷) حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ بن موسی ، عَنْ شَیْبَانَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِی الْجَعْدِ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو ، قَالَ : إنَّا لَنَجِدُ فِی کِتَابِ اللہِ الْمُنَزَّلِ صِنْفَیْنِ فِی النَّارِ : قَوْمٌ یَکُونُونَ فِی آخِرِ الزَّمَانِ مَعَہُمْ سِیَاطٌ کَأَنَّہَا أَذْنَابُ الْبَقَرِ یَضْرِبُونَ بِہَا النَّاسَ عَلَی غَیْرِ جُرْمٍ لاَ یُدْخِلُونَ بُطُونَہُمْ إِلاَّ خَبِیثًا ، وَنِسَائٌ کَاسِیَاتٌ عَارِیَاتٌ مَائِلاَتٌ مُمِیَلاَتٌ لاَ یَدْخُلْنَ الْجَنَّۃَ وَلاَ یَجِدْنَ رِیحَہَا۔ (مسلم ۱۶۸۰)
(٣٨٨٩٧) عبداللہ بن عمرو سے راویت ہے ہم نے اللہ رب العزت کی کتاب میں دو قسم کے لوگوں کو آگ میں دیکھا ہے ایک وہ قوم جو آخری زمانے میں ہوگی ان کے پاس گائے کی دم کی طرح کوڑے ہوں گے ان کے ذریعے بغیر کسی جر م کے لوگوں کو ماریں گے وہ اپنے پیٹوں میں خبیث چیزیں (رشوت وغیرہ) ہی داخل کریں گے اور دوسری قسم ان عورتوں کی جو کپڑے نہیں پہنتی ہیں ننگی ہوتی ہیں مائل ہوتی ہیں اور مائل کرتی ہیں وہ جنت میں داخل نہیں ہوں گی اور نہ ہی جنت کی خوشبو سونگھ سکیں گی۔

38897

(۳۸۸۹۸) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ أَبِی بُکَیْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا الہَیَّاحُ بْنُ بِسْطَامٍ الْحَنْظَلِیُّ ، قَالَ : حَدَّثَنَا لَیْثُ بْنُ أَبِی سُلَیْمٍ، عَنْ طَاوُوسٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إِنَّہَا سَتَکُونُ أُمَرَائُ تَعْرِفُونَ وَتُنْکِرُونَ ، فَمَنْ بَارَأَہُمْ نَجَا ، وَمَنِ اعْتَزَلَہُمْ سَلِمَ ، أَوْ کَادَ ، وَمَنْ خَالَطَہُمْ ہَلَکَ۔ (طبرانی ۱۰۹۷۳)
(٣٨٨٩٨) حضرت عباس سے مروی ہے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا عنقریب تمہارے ایسے امراء ہوں گے جن کو تم جانتے ہوگے اور جن پر تم نکیر کرتے ہوگے جو ان سے قتال کرے گا نجات پاجائے گا اور جو ان کے ساتھ مل جائے گا وہ ہلاک ہوجائے گا۔

38898

(۳۸۸۹۹) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ إِسْحَاقَ ، قَالَ : أَخْبَرَنِی یَحْیَی بْنُ أَیُّوبَ ، عَنْ أَبِی قَبِیل ، عَنْ یُسَیْعٍ ، عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِیرٍ ، أَنَّہُ قَالَ : ابْعَثُوا إِلَی أَمَلَۃٍ یَذِبُّونَ عَنْ فَسَادِ الأَرْضِ ، فَقَالَ لَہُ کَعْبُ الأَحْبَارِ : مَہْ لاَ تَفْعَلْ ، فَإِنَّ ذَلِکَ فِی کِتَابِ اللہِ الْمُنَزَّلِ : أَنَّ قَوْمًا یُقَالُ لَہُمُ الأَمَلَۃُ یَحْمِلُونَ بِأَیْدِیہِمْ سِیَاطًا کَأَنَّہَا أَذْنَابُ الْبَقَرِ ، لاَ یَرِیحُونَ رِیحَ الْجَنَّۃِ ، فَلاَ تَکُنْ أَنْتَ أَوَّلَ مَنْ یَبْعَثُ بِہِمْ ، قَالَ : فَفَعَلَ ، فَقُلْتُ أَنَا لِیَحْیَی : مَا الأَمَلَۃُ ؟ قَالَ : أَنْتُمْ تُسَمُّونَہُمْ بِالْعِرَاقِ الشُّرَطَ۔
(٣٨٨٩٩) نعمان بن بشیر سے روایت ہے کہ پولیس والوں کو بھیجو کہ وہ زمین کا فساد دور کریں تو کعب احبار نے فرمایا کہ ٹھہرو ایسا نہ کرو کیونکہ یہ کتاب اللہ میں ہے کہ ایک قوم ان کو املہ کہا جائے گا (پولیس وغیرہ) ان کے ہاتھوں میں گائے کی دم کی طرح کوڑے ہوں گے وہ جنت کی خوشبو بھی نہیں سونگھیں گے۔ پس تم ان کو سب سے پہلے بھیجنے والے نہ بنو نعمان کہتے ہیں انھوں نے ایسا ہی کیا۔ راوی کہتے ہیں کہ میں نے یحییٰ سے پوچھا املہ کسے کہتے ہیں تو انھوں نے فرمایا تم عراق میں انھیں شرطی (پولیس والا) کہتے ہو۔

38899

(۳۸۹۰۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ یَزِیدَ بْنِ مَرْدَانُبَۃَ ، عَنْ خَلِیفَۃَ بْنِ سَعْدٍ ، قَالَ : رَأَیْتُ عُثْمَانَ فِی بَعْضِ طُرُقِ الْمَدِینَۃِ وَہُوَ یَقُولُ : مُرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَانْہَوْا عَنِ الْمُنْکَرِ قَبْلَ أَنْ یُسَلَّطَ عَلَیْکُمْ شِرَارُکُمْ ، فَیَدْعُوَا عَلَیْہِمْ خِیَارُکُمْ ، فَلاَ یُسْتَجَابُ لَہُمْ ، قَالَ : وَزَحْمَتُہُ حَمْلُہُ فَأَخَذَ بِعَضُدَیْہِ ، فَقَالَ : لاَ أَمُوتُ حَتَّی تُدْرِکَنِی إمَارَۃُ الصِّبْیَانِ۔
(٣٨٩٠٠) خلیفہ بن سعد سے منقول ہے کہ میں نے حضرت عثمان کو مدینے کے کسی راستے پر جاتے ہوئے دیکھا وہ یہ فرما رہے تھے ! تم نیکی کا حکم کرتے رہو اور بری باتوں سے روکتے رہو قبل اس کے کہ تم پر تمہارے شریر لوگ مسلط کے جائیں پس تمہارے بہترین لوگ ان پر بددعا کریں گے مگر ان کی بددعا قبول نہ ہوگی پھر ان کو تکلیف نے بوجھل کردیا پس ان کو بازؤں سے پکڑا گیا پھر انھوں نے فرمایا میں اس وقت تک نہ مروں گا جب تک کہ مجھے نو عمر لڑکوں کی امارت نہ پالے۔

38900

(۳۸۹۰۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ النَّہَّاسِ بْنِ قَہْمٍ ، عَنْ شَدَّادٍ أَبِی عَمَّارٍ ، قَالَ : قَالَ عَوْفُ بْنُ مَالِکٍ یَا طَاعُونُ خُذْنِی إلَیْک ، فَقَالُوا : أَمَا سَمِعْت رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : کُلَّمَا طَالَ عُمْرُ الْمُسْلِمِ کَانَ خَیْرًا لَہُ ، قَالَ : بَلَی وَلَکِنِّی أَخَافُ سِتًّا : إمَارَۃَ السُّفَہَائِ ، وَبَیْعَ الْحُکْمِ ، وَسَفْکَ الدَّمِ ، وَقَطِیعَۃَ الرَّحِمِ ، وَکَثْرَۃَ الشُّرَطِ ، وَنُشُوء یَنْشَؤُونَ یَتَّخِذُونَ الْقُرْآنَ مَزَامِیرَ۔ (احمد ۲۲۔ طبرانی ۱۰۵)
(٣٨٩٠١) شداد بن ابی عمار سے منقول ہے کہ عوف بن مالک نے فرمایا اے طاعون مجھے بھی اپنی طرف کھینچ لے لوگوں نے کہا آپ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان نہیں سنا کہ مسلمان کی جتنی لمبی عمر ہوتی ہے اس کے لیے خیر کا باعث ہوتی ہے ؟ تو انھوں نے کہا کیوں نہیں مگر چھ چیزوں سے ڈر لگتا ہے بیوقوفوں کی امارت سے فیصلوں کے بکنے سے، خون بہانے سے، قطع رحمی کرنے سے، پولیس کی کثرت سے اور ایسے امر حادث سے کہ لوگ قرآن کو بانسری بنالیں۔

38901

(۳۸۹۰۲) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا عُبَیْدُ بْنُ طُفَیْلٍ أَبُو سِیدَانَ الْغَطَفَانِیُّ ، قَالَ : حَدَّثَنِی رِبْعِیُّ بْنُ حِرَاشٍ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ ، قَالَ : اتْرُکُوا ہَؤُلاَئِ الْفُطْحَ الْوُجُوہِ مَا تَرَکُوکُمْ ، فَوَاللہِ لَوَدِدْت أَنَّ بَیْنَنَا وَبَیْنَہُمْ بَحْرًا لاَ یُطَاقُ۔
(٣٨٩٠٢) عمر بن خطاب سے مروی ہے فرمایا ان چپٹے چہرے کو چھوڑ دو جنہوں نے تم کو چھوڑ دیا اللہ کی قسم میں پسند کرتا ہوں ہمارے اور ان کے درمیان ایسا سمندر ہو جس کو عبور نہ کیا جاسکے۔

38902

(۳۸۹۰۳) حَدَّثَنَا حُمَیْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ حَسَنٍ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ أَبِی سُلَیْمَانَ ، قَالَ : سَأَلْتُ أَبَا جَعْفَرٍ : ہَلْ فِی ہَذِہِ الأُمَّۃِ کُفْرٌ ، قَالَ : لاَ أَعْلَمُہُ ، وَلاَ شِرْکٌ ، قَالَ : قُلْتُ : فَمَاذَا ، قَالَ : بَغْیٌ۔
(٣٨٩٠٣) عبدالملک ابن ابی سلیمان سے منقول ہے کہتے ہیں کہ میں نے ابو جعفر سے سوال کیا کہ اس امت میں کفر ہوگا ؟ انھوں نے فرمایا میں نہیں سمجھتا کہ کفر ہو یا شرک تو میں نے کہا پھر کیا ہوگا انھوں نے کہا بغاوت۔

38903

(۳۸۹۰۴) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا سُفْیَانُ بْنُ نَشِیطٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِی أَبُو عَبْدِ الْمَلِکِ مَوْلَی بَنِی أُمَیَّۃَ ، قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا ہُرَیْرَۃَ یَقُولُ : تَکُونُ فِتْنَۃٌ لاَ یُنْجِی مِنْہَا إِلاَّ دُعَائٌ کَدُعَائِ الْغَرِقِ۔ (نعیم بن حماد ۳۶۷۔ احمد ۲۴۹)
(٣٨٩٠٤) ابوہریرہ سے روایت ہے فرماتے ہیں ایک ایسا فتنہ برپا ہوگا جس سے کوئی چیز نجات نہ دیگی سوائے ڈوبنے والے کی دعا کی طرح دعا سے۔

38904

(۳۸۹۰۵) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا حَمَّادٌ ، عَنِ الْجُرَیْرِیِّ ، عَنِ ابْنِ المشَّاء ، عَنْ أَبِی أُمَامَۃَ ، قَالَ : لاَ تَقُومُ السَّاعَۃُ حَتَّی یَتَحَوَّلَ شِرَارُ أَہْلِ الشَّامِ إِلَی الْعِرَاقِ ، وَخِیَارُ أَہْلِ الْعِرَاقِ إِلَی الشَّامِ۔
(٣٨٩٠٥) ابو امامہ سے منقول ہے کہ قیامت قائم نہ ہوگی جب تک کہ اہل شام کے شریر عراق میں منتقل نہ ہوجائیں اور عراق کے بھلے لوگ شام نہ چلے جائیں۔

38905

(۳۸۹۰۶) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ سِمَاکٍ ، عَنْ أَبِی الرَّبِیعِ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : وَیْلٌ لِلْعَرَبِ مِنْ شَرٍّ قَدِ اقْتَرَبَ : إمَارَۃُ الصِّبْیَانِ ، إِنْ أَطَاعُوہُمْ أَدْخَلُوہُمَ النَّارَ ، وَإِنْ عَصَوْہُمْ ضَرَبُوا أَعْنَاقَہُمْ۔
(٣٨٩٠٦) ابوہریرہ سے منقول ہے فرماتے ہیں کہ ہلاکت ہو عرب کے لیے اس شر سے جو قریب آگیا یعنی بچوں کی امارۃ اگر لوگ ان کی اطاعت کریں تو انھیں جہنم میں داخل کردیں گے اور اگر ان کی نافرمانی کریں گے تو ان کی گرد نیں ماریں گے۔

38906

(۳۸۹۰۷) حَدَّثَنَا ہَوْذَۃُ بْنُ خَلِیفَۃَ ، قَالَ : حدَّثَنَا عَوْفٌ ، عَنْ مُحَمَّدٍ ، قَالَ : کُنَّا نَتَحَدَّثُ ، أَنَّہُ تَکُونُ رِدَّۃٌ شَدِیدَۃٌ حَتَّی یَرْجِعَ نَاسٌ مِنَ الْعَرَبِ یَعْبُدُونَ الأَصْنَامَ بِذِی الْخَلَصَۃِ۔
(٣٨٩٠٧) محمد سے منقول ہے کہ ہم باتیں کرتے تھے کہ عرب میں سخت ارتداد برپا ہوگا یہاں تک کہ عربوں میں سے بعض لوگ ذی الخلصہ میں بتوں کو پوجنا شروع کردیں گے۔

38907

(۳۸۹۰۸) حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ بْنُ مُوسَی ، عَنْ فِطْرٍ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، قَالَ : حدَّثَنِی مَنْ دَخَلَ عَلَی ابْنِ مُلْجَمٍ السِّجْنَ وَقَدِ اسْوَدَّ کَأَنَّہُ جِذْعٌ مُحْتَرِقٌ۔
(٣٨٩٠٨) ابو اسحاق سے منقول ہے کہتے ہیں کہ مجھے اس شخص نے بتایا جو ابن ملجم کے پاس جایا کرتا تھا قید خانے میں کہ وہ جلے ہوئے تنے کی طرح سیاہ ہوچکا تھا۔

38908

(۳۸۹۰۹) حَدَّثَنَا ہَوْذَۃُ بْنُ خَلِیفَۃَ ، قَالَ : حدَّثَنَا عَوْفٌ ، عَنْ مُحَمَّدٍ ، عَنْ أَبِی الْجَلْدِ ، قَالَ : تَکُونُ فِتْنَۃٌ بَعْدَہَا فِتْنَۃٌ ، الأُولَی فِی الآخِرَۃِ : کَثَمَرَۃِ السَّوْطِ یَتْبَعُہَا ذُبَابُ السَّیْفِ ، ثُمَّ تَکُونُ بَعْدَ ذَلِکَ فِتْنَۃٌ تُسْتَحَلُّ فِیہَا الْمَحَارِمُ کُلُّہَا ، ثُمَّ تَأْتِی الْخِلاَفَۃُ خَیْرُ أَہْلِ الأَرْضِ وَہُوَ قَاعِدٌ فِی بَیْتِہِ ہَنِیًّا۔ (عبدالرزاق ۲۰۷۷۱)
(٣٨٩٠٩) ابوجلد سے منقول ہے کہ ایک کے بعد دوسرا فتنہ برپا ہوگا۔ پہلا دوسرے کے لیے ایسے ہوگا جے سی کوڑے کے نیچے حصے کے پیچھے تلوار کی دھار آئی پھر اس کے بعد ایسا فتنہ برپا ہوگا جس میں تمام حرام چیزوں کو حلال سمجھا جائے گا۔ پھر اہل زمین پر سب سے بھلے آدمی کی خلافت قائم ہوگی پھر مزے کے ساتھ وہ گھر میں بیٹھے گا۔

38909

(۳۸۹۱۰) حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُوسَی ، قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَنْ أَبِی مُحَمَّدٍ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ عَمْرٍو الْبَجَلِیِّ ، أَنَّ أَبَا أُمَامَۃَ ، قَالَ : لَیُنَادَیَنَّ بِاسْمِ رَجُلٍ مِنَ السَّمَائِ لاَ یُنْکِرُہُ الذَّلِیلُ وَلاَ یَمْتَنِعُ مِنْہُ الْعَزِیزُ۔
(٣٨٩١٠) ابو امامہ سے منقول ہے کہ ایک آدمی کا نام آسمان سے پکارا جائے گا، ذلیل آدمی اس کا انکار نہیں کرے گا اور غالب و طاقتور اس سے منع نہیں کرے گا۔

38910

(۳۸۹۱۱) حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُوسَی ، قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، قَالَ : حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ التَّیْمِیُّ ، عَنْ أَبِی عُثْمَانَ النَّہْدِیِّ ، أَنَّ حُذَیْفَۃَ بْنَ الْیَمَانِ ، قَالَ : بَیْنَمَا قَوْمٌ یَتَحَدَّثُونَ إذْ تَمُرُّ بِہِمْ إبِلٌ قَدْ عُطِّلَتْ ، فَیَقُولُونَ : یَا إبِلُ ، أَیْنَ أَہْلُک فَتَقُولُ : أَہْلُنَا حُشِرُوا ضُحًی۔ (بخاری ۳۶۰۸۔ ابن ابی الدنیا ۱۲۹)
(٣٨٩١١) ابو عثمان نہد ی سے منقول ہے کہ حذیفہ بن یمان نے فرمایا کہ اس دوران جب لوگ باتیں کر رہے ہوں گے تو ایک گمشدہ اونٹ ان کے پاس سے گزرے گا وہ لوگ پوچھیں گے کہ اے اونٹ تمہارے مالک کہاں ہیں ؟ تو وہ جواب دے گا میرے اہل کو چاشت کے وقت جمع کیا گیا ہے۔

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔