hadith book logo

HADITH.One

HADITH.One

Urdu

Support

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Ibn Abi Shaybah

5. روزے کا بیان۔

ابن أبي شيبة

8959

(۸۹۵۹) حَدَّثَنَا مُعْتَمِرُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، قَالَ : سَمِعْتُ أَیُّوبَ یُحَدِّثُ ، عَنْ أَبِی قِلاَبَۃَ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : قَالَ نَبِیُّ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَہُوَ یُبَشِّرُ أَصْحَابَہُ : قَدْ جَائَکُمْ رَمَضَانُ شَہْرٌ مُبَارَکٌ ، اُفْتُرِضَ عَلَیْکُمْ صِیَامُہُ ، تُفْتَحُ فِیہِ أَبْوَابُ الْجَنَّۃِ ، وَتُغْلَقُ فِیہِ أَبْوَابُ الْجَحِیمِ ، وَتُغَلُّ فِیہِ الشَّیَاطِینُ ، فِیہِ لَیْلَۃُ الْقَدْرِ خَیْرٌ مِنْ أَلْفِ شَہْرٍ ، مَنْ حُرِمَ خَیْرَہَا فَقَدْ حُرِمَ۔ (مسلم ۷۵۸۔ احمد ۲/۲۳۰)
(٨٩٥٩) حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ نبی پاک (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے صحابہ کو رمضان کی خوشخبری دیتے ہوئے فرمایا کہ تمہارے اوپر رمضان کا مہینہ آگیا ہے، جو کہ ایک برکت والا مہینہ ہے۔ اس کے روزے کو تم پر فرض کیا گیا ہے۔ اس میں جنت کے دروازے کھولے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کردیئے جاتے ہیں۔ اس میں شیطانوں کو ہتھکڑیاں لگادی جاتی ہیں، اس مہینے میں ایک رات ایسی ہے جو ہزار مہینوں سے افضل ہے، جو اس کی خیر سے محروم رہا وہ حقیقی محروم ہے۔

8960

(۸۹۶۰) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ ، عَنْ عَرْفَجَۃَ ، قَالَ : کُنْتُ عِنْدَ عُتْبَۃَ بْنِ فَرْقَدٍ وَہُوَ یُحَدِّثُنَا عَنْ فَضْلِ رَمَضَانَ ، فَدَخَلَ عَلَیْنَا رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَسَکَتَ عُتْبَۃُ وَکَأَنَّہُ ہَابَہُ ، فَلَمَّا جَلَسَ ، قَالَ لَہُ عُتْبَۃُ : یَا أَبَا فُلاَنٍ ، حَدِّثْنَا بِمَا سَمِعْت مِنْ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی رَمَضَانَ ، قَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : تُفْتَحُ فِیہِ أَبْوَابُ الْجَنَّۃِ ، وَتُغْلَقُ فِیہِ أَبْوَابُ النَّارِ ، وَتُصَفَّدُ فِیہِ الشَّیَاطِینُ ، وَیُنَادِی مُنَادٍ فِی کُلِّ لَیْلَۃٍ : یَا بَاغِیَ الْخَیْرِ ہَلُمَّ ، وَیَا بَاغِیَ الشَّرِّ أَقْصِرْ۔ (احمد ۵/۴۱۱)
(٨٩٦٠) حضرت عرفجہ فرماتے ہیں کہ میں حضرت عتبہ بن فرقد کے پاس تھا، وہ رمضان کی فضیلت بیان کررہے تھے، اتنے میں ایک صحابی تشریف لائے تو وہ خاموش ہوگئے۔ ایسے محسوس ہوتا تھا جیسے وہ ان کے رعب کی وجہ سے خاموش ہوئے ہیں۔ جب وہ بیٹھ گئے تو حضرت عتبہ نے ان سے کہا کہ اے ابو فلاں ! آپ ہمیں وہ حدیث سنائیے جو آپ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنی ہو، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ رمضان میں جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں، جہنم کے دروازے بند کردیئے جاتے ہیں، اس میں شیاطین کو باندھ دیا جاتا ہے اور رمضان کی ہر رات ایک اعلان کرنے والا اعلان کرتا ہے اے خیر کو تلاش کرنے والے آگے بڑھ، اے شر کو تلاش کرنے والے بس کردے۔

8961

(۸۹۶۱) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی بْنُ عَبْدِ الأَعْلَی ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ أَبِی سَلَمَۃَ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ؛ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یُرَغِّبُ فِی قِیَامِ رَمَضَانَ مِنْ غَیْرِ عَزِیمَۃٍ ، وَقَالَ : إذَا دَخَلَ رَمَضَانُ فُتِّحَتْ أَبْوَابُ الْجَنَّۃِ ، وَغُلِّقَتْ أَبْوَابُ الْجَحِیمِ ، وَسُلْسِلَتِ الشَّیَاطِینُ۔ (بخاری ۱۸۹۸۔ مسلم ۵۲۳)
(٨٩٦١) حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ نبی پاک (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رمضان میں قیام کی خصوصی ترغیب دیا کرتے تھے ایک مرتبہ آپ نے فرمایا کہ جب رمضان کا مہینہ آتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں، جہنم کے دروازے بند کردیئے جاتے ہیں اور شیاطین کو قید کردیا جاتا ہے۔

8962

(۸۹۶۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ نَضْرِ بْنِ عَلِیٍّ ، عَنْ نَضْرِ بْنِ شَیْبَانَ ، قَالَ : سَأَلْتُ أَبَا سَلَمَۃَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، فَذَکَر عَنْ أَبِیہِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَنْ صَامَہُ إیمَانًا وَاحْتِسَابًا ، غُفِرَ لَہُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہِ۔
(٨٩٦٢) حضرت سلمہ بن عبدالرحمن سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جس شخص نے ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے رمضان کے روزے رکھے اس کے گزشتہ گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔

8963

(۸۹۶۳) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمُحَارِبِیُّ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ ، عَنِ الْفَضْلِ الرَّقَاشِیِّ ، عَنْ عَمِّہِ ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: ہَذَا رَمَضَانُ قَدْ جَائَ تُفْتَحُ فِیہِ أَبْوَابُ الْجِنَانِ، وَتُغْلَقُ فِیہِ أَبْوَابُ النَّارِ ، وَتُغَلُّ فِیہِ الشَّیَاطِینُ ، بُعْدًا لِمَنْ أَدْرَکَ رَمَضَانَ لَمْ یُغْفَرْ لَہُ فِیہِ ، إذَا لَمْ یُغْفَرْ لَہُ فِیہِ فَمَتَی ؟ (طبرانی ۷۶۲۳)
(٨٩٦٣) حضرت انس سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ رمضان کا مہینہ آگیا ہے، اس میں جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں، جہنم کے دروازے بند کردیئے جاتے ہیں، اس میں شیطانوں کو قید کردیا جاتا ہے، اس شخص کے لیے ہلاکت ہے جس نے رمضان کا مہینہ پایا اور اس کی مغفرت نہ ہوئی، اگر رمضان میں بھی وہ اپنی مغفرت نہ کرواسکا تو کب کرائے گا ؟

8964

(۸۹۶۴) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا مُجَالِدٌ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنْ عَلِیٍّ ؛ أَنَّہُ کَانَ یَخْطُبُ إذَا حَضَرَ رَمَضَانُ یَقُولُ: ہَذَا الشَّہْرُ الْمُبَارَکُ الَّذِی افْتَرَضَ اللَّہُ عَلَیْکُمْ صِیَامَہُ ، وَلَمْ یَفْتَرِضْ عَلَیْکُمْ قِیَامَہُ۔
(٨٩٦٤) حضرت شعبی فرماتے ہیں کہ جب رمضان کا مہینہ آتا تو حضرت علی خطبہ دیتے اور اس میں ارشاد فرماتے : یہ وہ مبارک مہینہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے روزے کو فرض فرمایا ہے، اس کے قیام کو فرض نہیں فرمایا۔

8965

(۸۹۶۵) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا مُجَالِدٌ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنْ مَسْرُوقٍ ؛ أَنَّ عُمَرَ کَانَ یَقُولُ مِثْلَ ذَلِکَ۔
(٨٩٦٥) حضرت مسروق فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بھی یونہی فرمایا کرتے تھے۔

8966

(۸۹۶۶) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنِ الْجُرَیْرِیِّ ، عَنْ مُسْلِمِ بْنِ الْعَلاِء ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ قُرَیْشٍ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ: أَوَّلُ مَا یُصِیبُ صَاحِبُ رَمَضَانَ الَّذِی یُحْسِنُ قِیَامَہُ وَصِیَامَہُ ، أَنْ یَفْرُغَ مِنْہُ وَہُوَ کَیَوْمِ وَلَدَتْہُ أُمُّہُ مِنَ الذُّنُوبِ۔
(٨٩٦٦) حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ جو شخص رمضان کے قیام اور صیام کی پابندی کرے اسے سب سے پہلے جو انعام ملتا ہے وہ یہ ہے کہ اس کے گناہ اس طرح معاف ہوجاتے ہیں جیسے وہ آج ہی اپنی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ہو۔

8967

(۸۹۶۷) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ أَبِی سَلَمَۃَ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَنْ صَامَ رَمَضَانَ إیمَانًا وَاحْتِسَابًا ، غُفِرَ لَہُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہِ۔ (بخاری ۲۰۱۴۔ مسلم ۱۷۵)
(٨٩٦٧) حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جس شخص نے ایمان اور ثواب کی نیت سے رمضان کے روزے رکھے اس کے گزشتہ گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں۔

8968

(۸۹۶۸) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللہِ الأَسَدِیُّ ، قَالَ : حدَّثَنَا کَثِیرُ بْنُ زَیْدٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ تَمِیمٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : أَظَلَّکُمْ شَہْرُکُمْ ہَذَا بِمَحْلُوفِ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا دَخَلَ عَلَی الْمُسْلِمِینَ شَہْرٌ خَیْرٌ لَہُمْ مِنْہُ ، وَلاَ دَخَلَ عَلَی الْمُنَافِقِینَ شَہْرٌ شَرٌّ لَہُمْ مِنْہُ ۔ بِمَحْلُوفِ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، إنَّ اللَّہَ یَکْتُبُ أَجْرَہُ وَنَوَافِلَہُ مِنْ قَبْلِ أَنْ یُوجِبَہُ ، وَیَکْتُبُ وِزْرَہُ وَشَقَائَ ہُ قَبْلَ أَنْ یُدْخِلَہُ ، وَذَلِکَ أَنَّ الْمُؤْمِنَ یُعِدُّ لَہُ مِنَ النَّفَقَۃِ فِی الْقُوَّۃِ وَالْعِبَادَۃِ ، وَیُعِدُّ لَہُ الْمُنَافِقُ اتِّبَاعَ غَفَلاَتِ الْمُسْلِمِین ، وَاتِّبَاعَ عَوْرَاتِہِمْ ، فَہُوَ غُنْمٌ لِلْمُؤْمِنِ ، وَنِقْمَۃٌ لِلْفَاجِرِ ، أَوَ قَالَ : یَغْتَنِمُہُ الْفَاجِرُ۔ (احمد ۵۲۴۔ ابن خزیمۃ ۱۸۸۴)
(٨٩٦٨) حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ تم پر یہ مہینہ آیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قسم کے ساتھ سن لو کہ مسلمانوں پر اس سے بہتر کوئی مہینہ نہیں آیا اور منافقین پر اس سے بدتر مہینہ کوئی نہیں آیا۔ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قسم کے ساتھ اللہ تعالیٰ اس مہینے کے اجر اور نوافل کو اس کے آنے سے پہلے لکھ دیتے ہیں، اللہ تعالیٰ اس کے گناہ اور عذاب کو اس کے آنے سے پہلے لکھ لیتے ہیں۔ اسی وجہ سے مومن کے لیے عبادات اور نیکیوں کی توفیق اور قوت بڑھا دی جاتی ہے اور منافقین کے لیے مسلمانوں کے عیبوں کو تلاش کرنا اور انھیں پھیلانا آسان کردیا جاتا ہے۔ یہ مہینہ مومن کے لیے غنیمت اور فاجر کے لیے مصیبت ہے۔

8969

(۸۹۶۹) حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا إبْرَاہِیمُ بْنُ إسْمَاعِیلَ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ عُرْوَۃَ ، عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَنْ صَامَ رَمَضَانَ إیمَانًا وَاحْتِسَابًا ، غُفِرَ لَہُ مَا مَضَی مِنْ عَمَلِہِ۔ (نسائی ۲۵۰۲)
(٨٩٦٩) حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جس شخص نے ایمان اور ثواب کی نیت کے ساتھ رمضان کے روزے رکھے اس کے گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں۔

8970

(۸۹۷۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ أَبِی الْعُمَیْسِ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ، عَنْ أَبِی صَالِحٍ الْحَنَفِیِّ ، عَنْ أَخِیہِ طَلِیقِ بْنِ قَیْسٍ، قَالَ : قَالَ أَبُو ذَرٍّ : إذَا صُمْتَ فَتَحَفَّظْ مَا اسْتَطَعْت ، فَکَانَ طَلِیقٌ إذَا کَانَ یَوْمُ صَوْمِہِ دَخَلَ فَلَمْ یَخْرُجْ إِلاَّ لِصَلاَۃٍ۔
(٨٩٧٠) حضرت طلیق بن قیس کہتے ہیں کہ ایک دن میں حضرت ابو ذر کی خدمت میں حاضر ہوا۔ انھوں نے مجھ سے فرمایا کہ جب تم روزہ رکھو تو جہاں تک ہوسکے روزے کی حفاظت کرو۔ ابو صالح حنفی کہتے ہیں کہ جب حضرت طلیق روزہ رکھتے تو اپنے گھر چلے جاتے اور صرف نماز کے لیے باہر نکلا کرتے تھے۔

8971

(۸۹۷۱) حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ عَیَّاشٍ ، عَنْ أَبِی حَصِینٍ ، عَنْ أَبِی صَالِحٍ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إذَا کَانَ یَوْمُ صَوْمِ أَحَدِکُمْ فَلاَ یَرْفُثْ ، وَلاَ یَجْہَلْ ، فَإِنْ جَہَلَ عَلَیْہِ أَحَدٌ فَلْیَقُلْ : إنِّی امْرُؤٌ صَائِمٌ۔
(٨٩٧١) حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ جس دن تم میں سے کسی کا روزہ ہو وہ نہ کوئی بےحیائی کی بات کرے نہ جہالت کی، اگر کوئی اس سے جہالت کی بات کرے تو اسے کہے کہ میں روزے سے ہوں۔

8972

(۸۹۷۲) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِی صَالِحٍ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إذَا کَانَ یَوْمُ صَوْمِ أَحَدِکُمْ فَلاَ یَرْفُثْ ، وَلاَ یَجْہَلْ ، فَإِنْ جَہِلَ عَلَیْہِ أَحَدٌ فَلْیَقُلْ : إنِّی امْرُؤٌ صَائِمٌ۔ (بخاری ۱۹۰۴۔ مسلم ۸۵۷)
(٨٩٧٢) حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ جس دن تم میں سے کسی کا روزہ ہو وہ نہ کوئی بےحیائی کی بات کرے نہ جہالت کی، اگر کوئی اس سے جہالت کی بات کرے تو اسے کہے کہ میں روزے سے ہوں۔

8973

(۸۹۷۳) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ مُوسَی ، قَالَ : قَالَ جَابِرٌ : إذَا صُمْتَ فَلْیَصُمْ سَمْعُک وَبَصَرُک وَلِسَانُک عَنِ الْکَذِبِ وَالْمَإْثَمِ ، وَدَعْ أَذَی الْخَادِمِ ، وَلْیَکُنْ عَلَیْک وَقَارٌ وَسَکِینَۃٌ یَوْمَ صِیَامِکَ، وَلاَ تَجْعَلْ یَوْمَ فِطْرِکَ وَیَوْمَ صِیَامِکَ سَوَائً۔
(٨٩٧٣) حضرت جابر فرماتے ہیں کہ جب تم میں سے کسی کا روزہ ہو تو اس کے کانوں اور زبان کا جھوٹ اور گناہ سے بھی روزہ ہونا چاہیے۔ وہ خادم کو تکلیف دینے سے بچے۔ اور روزے کے دن اس پر وقار اور سکینت غالب رہے۔ وہ روزے کے دن اور روزے سے خالی دن کو ایک جیسا نہ بنائے۔

8974

(۸۹۷۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ بْنِ مُسْلِمٍ ، عَنْ أَبِی الْمُتَوَکِّلِ ؛ أَنَّ أَبَا ہُرَیْرَۃَ وَأَصْحَابَہُ کَانُوا إذَا صَامُوا جَلَسُوا فِی الْمَسْجِدِ۔
(٨٩٧٤) حضرت ابو متوکل فرماتے ہیں کہ حضرت ابوہریرہ اور ان کے ساتھی جب روزہ رکھتے تھے تو مسجد میں بیٹھتے تھے۔

8975

(۸۹۷۵) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ مُجَالِدٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : قَالَ عُمَرُ : لَیْسَ الصِّیَامُ مِنَ الطَّعَامِ وَالشَّرَابِ وَحْدَہُ ، وَلَکِنَّہُ مِنَ الْکَذِبِ وَالْبَاطِلِ وَاللَّغْوِ وَالْحَلِفِ۔
(٨٩٧٥) حضرت عمر فرماتے ہیں کہ روزہ صرف کھانے اور پینے سے رکنے کا نام نہیں بلکہ روزہ تو جھوٹ، باطل اور جھوٹی قسم سے بھی بچنے کا نام ہے۔

8976

(۸۹۷۶) حَدَّثَنَا کَثِیرُ بْنُ ہِشَامٍ، عَنْ جَعْفَرٍ، قَالَ: سَمِعْتُ مَیْمُونًا یَقُولُ: إنَّ أَہْوَنَ الصَّوْمِ تَرْکُ الطَّعَامِ وَالشَّرَابِ۔
(٨٩٧٦) حضرت میمون فرماتے ہیں کہ سب سے آسان روزہ کھانے اور پینے کو چھوڑنا ہے۔

8977

(۸۹۷۷) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مُجَالِدٌ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنْ عَلِیٍّ قَالَ : إِنَّ الصِّیَامَ لَیْسَ مِنَ الطَّعَامِ وَالشَّرَابِ، وَلَکِنْ مِنَ الْکَذِبِ وَالْبَاطِلِ وَاللَّغْوِ۔
(٨٩٧٧) حضرت علی فرماتے ہیں کہ روزہ صرف کھانے اور پینے سے رکنے کا نام نہیں بلکہ روزہ تو جھوٹ، باطل اور لغویات سے بھی بچنے کا نام ہے۔

8978

(۸۹۷۸) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا مُجَالِدٌ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنْ مَسْرُوقٍ ؛ أَنَّ عُمَرَ قَالَ مِثْلَ ذَلِکَ۔
(٨٩٧٨) حضرت مسروق نے بھی حضرت عمر سے یونہی نقل کیا ہے۔

8979

(۸۹۷۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، عَنْ مِسْعَرٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ ، عَنْ أَبِی الْبَخْتَرِیِّ ؛ أَنَّ امْرَأَۃً کَانَتْ تَصُومُ عَلَی عَہْدِ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی لِسَانِہَا ، فَقَالَ : مَا صَامَتْ فَتَحَفَّظَتْ ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : قَدْ کَادَتْ ، ثُمَّ تَحَفَّظَتْ ، فَقَالَ : الآنَ۔
(٨٩٧٩) حضرت ابو بختری فرماتے ہیں کہ نبی پاک (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں ایک عورت روزہ رکھا کرتی تھی لیکن وہ اپنی زبان کی حفاظت نہ کرتی تھی۔ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس کا علم ہوا تو آپ نے فرمایا کہ اس کا روزہ نہیں ہوا۔ اس نے زبان کی حفاظت کرنا شروع کی تو آپ نے فرمایا کہ اب عنقریب اس کا روزہ درست ہوجائے گا۔ اس نے مزید حفاظت کی تو آپ نے فرمایا کہ اب اس کا روزہ ہوگیا۔

8980

(۸۹۸۰) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ لَیْثٍ، عَنْ مُجَاہِدٍ، قَالَ: خَصْلَتَانِ مَنْ حَفِظَہُمَا سَلِمَ لَہُ صَوْمُہُ؛ الْغِیبَۃُ وَالْکَذِبُ۔
(٨٩٨٠) حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ اس کا روزہ سلامت ہوگا جو ان دو خصلتوں سے اجتناب کرے ایک غیبت اور دوسری جھوٹ۔

8981

(۸۹۸۱) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : کَانُوا یَقُولُونَ : الْکَذِبُ یُفْطِرُ الصَّائِمَ۔
(٨٩٨١) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ اسلاف فرمایا کرتے تھے کہ جھوٹ سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔

8982

(۸۹۸۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، عَنْ سُفْیَانَ، عَنْ ہِشَامٍ، عَنْ حَفْصَۃَ، عَنْ أَبِی الْعَالِیَۃِ، قَالَ: الصَّائِمُ فِی عِبَادَۃٍ مَا لَمْ یَغْتَبْ۔
(٨٩٨٢) حضرت ابو عالیہ فرماتے ہیں کہ روزہ دار عبادت میں ہوتا ہے جب تک غیبت نہ کرے۔

8983

(۸۹۸۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ الرَّبِیعِ ، عَنْ یَزِیدَ بْنِ أَبَانَ ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَا صَامَ مَنْ ظَلَّ یَأْکُلُ لُحُومَ النَّاسِ۔
(٨٩٨٣) حضرت انس سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جو شخص لوگوں کا گوشت کھاتا رہے اس کا روزہ نہیں ہوا۔

8984

(۸۹۸۴) حَدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ بْنُ إِبْرَاہِیمَ ، عَن مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ أَبِی ہِنْدٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا مُطَرِّفُ بْنُ عَبْدِ اللہِ بْنِ الشِّخِّیرِ ، قَالَ : أَتَیْتُ عُثْمَانَ بْنَ أَبِی الْعَاصِ فَدَعَا لِی بِلَبَنِ لَقْحَۃٍ ، فَقُلْتُ : إنِّی صَائِمٌ ، فَقَالَ : أَمَا إنِّی سَمِعْت رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : الصِّیَامُ جُنَّۃٌ مِنَ النَّارِ ، کَجُنَّۃِ أَحَدِکُمْ مِنَ الْقِتَالِ ، وَصِیَامٌ حَسَنٌ صِیَامُ ثَلاَثَۃِ أَیَّامٍ مِنْ کُلِّ شَہْرٍ۔ (نسائی ۲۵۳۹۔ احمد ۴/۲۱)
(٨٩٨٤) حضرت مطرف بن عبداللہ بن شخیر کہتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ حضرت عثمان ابن ابی العاص کی خدمت میں حاضر ہوا ۔ انھوں نے میرے لیے حاملہ اونٹنی کا دودھ منگوایا۔ میں نے کہا کہ میں روزے سے ہوں۔ انھوں نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ روزہ جہنم کے مقابلے میں اس طرح ڈھال ہے جیسے تم دشمن کے مقابلے کے لیے ڈھال لیتے ہو۔ بہترین روزہ رکھنے کی صورت یہ ہے کہ ہر مہینے تین روزے رکھے جائیں۔

8985

(۸۹۸۵) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِِ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ ہُبَیْرَۃَ ، قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللہِ : الصَّوْمُ جُنَّۃٌ مِنَ النَّارِ کَجُنَّۃِ الرَّجُلِ إذَا حَمَلَ مِنَ السِّلاَحِ مَا أَطَاقَ۔
(٨٩٨٥) حضرت عبداللہ نے فرمایا کہ روزہ جہنم کے مقابلے میں ایسے ڈھال ہے جیسے تم میں سے کوئی شخص دشمن کے مقابلے میں ہتھیار کے طور پر اپنی بساط کے مطابق ڈھال استعمال کرتا ہے۔

8986

(۸۹۸۶) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ أَبِی سِنَانٍ ، عَنْ أَبِی صَالِحٍ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، وَأَبِی سَعِیدٍ قَالاَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إنَّ اللَّہَ یَقُولُ : إنَّ الصَّوْمَ لِی وَأَنَا أَجْزِی بِہِ ، إِنَّ لِلصَّائِمِ فَرْحَتَیْنِ ؛ إذَا أَفْطَرَ فَرِحَ ، وَإِذَا لَقِیَ اللَّہَ فَرِحَ ، وَالَّذِی نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہِ لَخُلُوفُ فَمِ الصَّائِمِ أَطْیَبُ عِنْدَ اللہِ مِنْ رِیحِ الْمِسْکِ۔ (مسلم ۸۰۷۔ احمد ۳/۵)
(٨٩٨٦) حضرت ابوہریرہ اور حضرت ابو سعید سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا اجر دیتا ہوں۔ روزہ دار کے لیے دو خوشیاں ہیں ایک افطار کے وقت وہ خوش ہوتا ہے اور دوسری اس وقت جب وہ اپنے رب سے ملے گا اور خوش ہوگا۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے روزہ دار کے منہ کی بدبو اللہ کے نزدیک مشک کی خوشبو سے بھی زیادہ پسندیدہ ہے۔

8987

(۸۹۸۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا الأَعْمَشُ ، عَنْ أَبِی صَالِحٍ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : کُلُّ عَمَلِ ابْنِ آدَمَ یُضَاعَفُ الْحَسَنَۃُ عَشْرُ أَمْثَالِہَا إلَی سَبْعِمِئَۃِ ضِعْفٍ ، قَالَ اللَّہُ تَعَالَی : إِلاَّ الصَّوْمَ فَإِنَّہُ لِی وَأَنَا أَجْزِی بِہِ ، یَدَعُ طَعَامَہُ وَشَرَابَہُ وَشَہْوَتَہُ مِنْ أَجْلِی ، لِلصَّائِمِ فَرْحَتَانِ ؛ فَرْحَۃٌ عِنْدَ فِطْرِہِ، وَفَرْحَۃٌ عِنْدَ لِقَائِ رَبِّہِ ، وَلَخُلُوفُ فِیِہِ أَطْیَبُ عِنْدَ اللہِ مِنْ رِیحِ الْمِسْکِ ، الصَّوْمُ جُنَّۃٌ ، الصَّوْمُ جُنَّۃٌ۔ (مسلم ۱۶۴۔ احمد ۲/۴۴۳)
(٨٩٨٧) حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ ابن آدم کا ہر عمل کئی گنا بڑھایا جاتا ہے۔ ایک نیکی کا اجر دس گنا سے سات سو گنا تک بڑھا دیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ سوائے روزے کے کیونکہ روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دیتا ہوں۔ روزہ دار میرے لیے اپنے کھانے اور اپنی شہوت کو چھوڑتا ہے، روزہ دار کے لیے دو خوشیاں ہیں ایک وہ خوشی جو اسے افطار کے وقت ہوتی ہے اور دوسری وہ خوشی جو اسے اپنے رب سے ملاقات کے وقت ہوگی۔ روزہ دار کے منہ کی بو اللہ کے نزدیک مشک سے زیادہ پسندیدہ ہے۔ روزہ ڈھال ہے روزہ ڈھال ہے۔

8988

(۸۹۸۸) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ مَہْدِیِّ بْنِ مَیْمُونٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِی یَعْقُوبَ ، عَنْ رَجَائِ بْنِ حَیْوَۃَ ، عَنْ أَبِی أُمَامَۃَ ، قَالَ : قُلْتُ : یَا رَسُولَ اللہِ ، مُرْنِی بِعَمَلٍ أَدْخُلْ بِہِ الْجَنَّۃَ ، أَوْ نَحْوَ ذَلِکَ ، فَقَالَ : عَلَیْک بِالصَّوْمِ، فَإِنَّہُ لاَ مِثْلَ لَہُ ، قَالَ : فَکَانَ أَبُو أُمَامَۃَ لاَ یُرَی فِی بَیْتِہِ الدُّخَانُ نَہَارًا إِلاَّ إذَا نَزَلَ بِہِ ضَیْفٌ۔ (نسائی ۲۵۳۰۔ احمد ۵/۲۴۹)
(٨٩٨٨) حضرت ابو امامہ فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول ! مجھے ایسے عمل کے بارے میں بتا دیجئے جو مجھے جنت میں داخل کردے۔ آپ نے فرمایا کہ تم روزے رکھا کرو کیونکہ اس کے مثل کوئی چیز نہیں۔ اس کے بعد سے حضرت ابو امامہ کا یہ حال تھا کہ ان کے گھر سے اس وقت دھواں نظر آتا تھا جب ان کے گھر میں کوئی مہمان ہوتا۔

8989

(۸۹۸۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ أَبِی حَازِمٍ ، عَنْ سَہْلِ بْنِ سَعْدٍ السَّاعِدِیِّ ، قَالَ : لِلْجَنَّۃِ بَابٌ یُدْعَی الرَّیَّانُ یَدْخُلُ فِیہِ الصَّائِمُونَ ، قَالَ : فَإِذَا دَخَلَ آخِرُہُمْ أُغْلِقَ۔ (طبرانی ۶۔ ابن حبان ۳۴۲۱)
(٨٩٨٩) حضرت سہل بن سعد ساعدی فرماتے ہیں کہ جنت کا ایک دروازہ ہے جسے ” ریان “ کہا جاتا ہے، اس میں سے روزہ دار داخل ہوں گے۔ جب آخری روزہ دار جنت میں داخل ہوگا تو اسے بند کردیا جائے گا۔

8990

(۸۹۹۰) حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ ، عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ بِلاَلٍ ، عَنْ أَبِی حَازِمٍ ، عَنْ سَہْلِ بْنِ سَعْدٍ السَّاعِدِیِّ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، مِثْلَہُ۔ (بخاری ۱۸۹۶۔ مسلم ۱۶۶)
(٨٩٩٠) ایک اور سند سے یونہی منقول ہے۔

8991

(۸۹۹۱) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ الثَّقَفِیُّ ، عَنْ وَاصِلٍ ، عَنْ بَشََّارِ بْنِ أَبِی سَیْفٍ ، عَنِ الْوَلِیدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ عِیَاضِ بْنِ غُطَیْفٍ ، قَالَ : دَخَلْنَا عَلَی أَبِی عُبَیْدَۃَ ، فَقَالَ : الصَّوْمُ جُنَّۃٌ مَا لَمْ تَخْرِقہ۔
(٨٩٩١) حضرت عیاض بن غطیف فرماتے ہیں کہ ہم حضرت ابو عبیدہ کے پاس حاضر ہوئے انھوں نے فرمایا کہ روزہ ڈھال ہے جب تک آدمی اس کو پھاڑ نہ ڈالے۔

8992

(۸۹۹۲) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا جَرِیرُ بْنُ حَازِمٍ ، قَال : حَدَّثَنَا بَشَّارُ بْنِ أَبِی سَیْف ، عَنِ الْوَلِیدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ عِیَاضِ بْنِ غُطَیْفٍ ، قَالَ : دَخَلْنَا عَلَی أَبِی عُبَیْدَۃَ بْنِ الْجَرَّاحِ فِی مَرَضِہِ ، فَقَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : الصَّوْمُ جُنَّۃٌ مَا لَمْ یَخْرِقْہَا۔ (احمد ۱/۱۹۶۔ بیہقی ۱۷۱)
(٨٩٩٢) حضرت عیاض بن غطیف فرماتے ہیں کہ ہم حضرت ابو عبیدہ کے پاس ان کے مرض الوفات میں حاضر ہوئے انھوں نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ روزہ ڈھال ہے جب تک آدمی اس کو پھاڑ نہ ڈالے۔

8993

(۸۹۹۳) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَۃَ ، عَنْ ثَابِتٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ رَبَاحٍ ، قَالَ : خَرَجْنَا وَفْدًا إلَی مُعَاوِیَۃَ ، فَمَرَرْنَا بِرَاہِبٍ یَجِیئُ بِالطَّعَامِ فَأَکَلَ الْقَوْمُ ، وَلَمْ آکُلْ ، فَقَالَ لِی : مَا لَکَ لاَ تَأْکُلُ ؟ فَقُلْتُ : إنِّی صَائِمٌ ، قَالَ : أَلاَ أُلْسِمُکَ عَلَی صَوْمِکَ ، تُوضَعُ الْمَوَائِدُ فَأَوَّلُ مَنْ یَأْکُلُ مِنْہَا الصَّائِمُونَ۔
(٨٩٩٣) حضرت عبداللہ بن رباح فرماتے ہیں کہ ہم ایک وفد کی صورت میں حضرت معاویہ کی طرف روانہ ہوئے۔ راستے میں ایک راہب سے ہماری ملاقات ہوئی۔ ہم اس کے پاس تھے کہ کھانا لایا گیا۔ لوگوں نے کھانا کھایا لیکن میں نے کھانا نہیں کھایا۔ اس راہب نے مجھ سے پوچھا کہ تم کھانا کیوں نہیں کھاتے ؟ میں نے کہا کہ میرا روزہ ہے۔ اس نے کہا کہ میں تمہیں روزے رکھنے کی تلقین کرتا ہوں کیونکہ ایک وقت دستر خوان بچھائے جائیں گے اور ان سے سب سے پہلے کھانے والے روزہ دار ہوں گے۔

8994

(۸۹۹۴) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، وَأَبُو أُسَامَۃَ قَالَ : أَخْبَرَنَا ہِشَامُ بْنُ حَسَّانَ ، عَنْ وَاصِلٍ مَوْلَی أَبِی عُیَیْنَۃَ ، قَالَ : حَدَّثَنِی لَقِیطٌ ، عَنْ أَبِی بُرْدَۃَ ، عَنْ أَبِی مُوسَی ، قَالَ : کُنَّا فِی الْبَحْرِ فَبَیْنَا نَحْنُ نَسِیرُ وَقَدْ رَفَعْنَا الشِّرَاعَ ، وَلاَ نَرَی جَزِیرَۃً ، وَلاَ شَیْئًا إذْ سَمِعْنَا مُنَادِیًا یُنَادِی : یَا أَہْلَ السَّفِینَۃِ ، قِفُوا أُخْبِرْکُمْ فَقُمْنَا نَنْظُرُ فَلَمْ نَرَ شَیْئًا، فَنَادَی سَبْعًا ، فَلَمَّا کَانَتِ السَّابِعَۃُ قُمْتُ فَقُلْتُ : یَا ہَذَا ، أَخْبِرْنَا مَا تُرِیدُ أَنْ تُخْبِرَنَا بِہِ فَإِنَّک تَرَی حَالَنَا ، وَلاَ نَسْتَطِیعُ أَنْ نَقِفَ عَلَیکَ ، قَالَ : أَلاَ أُخْبِرُکُمْ بِقَضَائٍ قَضَاہُ اللَّہُ عَلَی نَفْسِہِ ؟ أَیُّمَا عَبْدٍ أَظْمَأَ نَفْسَہُ فِی اللہِ فِی یَوْمٍ حَارٍّ أَرْوَاہُ اللَّہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ۔ زَادَ أَبُو أُسَامَۃَ : فَکُنْتَ لاَ تَشَائُ أَنْ تَرَی أَبَا مُوسَی صَائِمًا فِی یَوْمٍ بَعِیدٍ مَا بَیْنَ الطَّرَفَیْنِ إِلاَّ رَأَیْتَہُ۔
(٨٩٩٤) حضرت ابو موسیٰ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم سمندر میں سفر کررہے تھے، ہم نے اپنے بادبان بلند کر رکھے تھے۔ ہمیں کوئی جزیرہ دکھائی نہ دے رہا تھا اور نہ کوئی دوسری چیز ہمیں نظر آرہی تھی۔ اتنے میں ہمیں آواز آئی اے کشتی والو ! ٹھہر جاؤ میں تمہیں ایک بات بتاتا ہوں۔ ہم کھڑے ہو کر دیکھنے لگے لیکن ہم کو کچھ نظر نہ آیا۔ اس پکارنے والے نے سات مرتبہ آواز دی۔ ساتویں مرتبہ میں کھڑا ہوا اور میں نے کہا کہ تو جو کوئی بھی ہے ہمیں وہ بات بتادے جو بتانا چاہتا ہے، تو ہماری حالت کو دیکھ رہا ہے اور جانتا ہے کہ ہم تیرے پاس کھڑے نہیں ہوسکتے۔ اس نے کہا میں تمہیں اللہ تعالیٰ کے ایک فیصلے سے آگاہ کرنا چاہتا ہوں جو اس نے اپنے اوپر لازم کیا ہے ! وہ یہ ہے کہ جو بندہ اللہ کے لیے خود کو ایک گرم دن میں پیاسا رکھے گا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اسے سیراب فرمائیں گے۔ ابو اسامہ فرماتے ہیں کہ اس کے بعد آپ کبھی حضرت ابو موسیٰ کو بغیر روزے کے نہ دیکھ سکتے تھے۔

8995

(۸۹۹۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سَعْدَانَ الْجُہَنِیِّ ، عَنْ سَعْدٍ أَبِی مُجَاہِدٍ الطَّائِیِّ ، عَنْ أَبِی مُدِلَّۃَ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : الصَّائِمُ لاَ تُرَدُّ دَعْوَتُہُ۔ (ابن ماجہ ۱۷۵۲۔ احمد ۲/۴۴۵)
(٨٩٩٥) حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ روزہ دار کی دعا رد نہیں ہوتی۔

8996

(۸۹۹۶) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ حُمَیْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لِکُلِّ أَہْلِ عَمَلٍ بَابٌ مِنْ أَبْوَابِ الْجَنَّۃِ یُدْعَوْنَ مِنْہُ بِذَلِکَ الْعَمَلِ ، وَلأَہْلِ الصِّیَامِ بَابٌ یُقَالُ لَہُ : الرَّیَّانُ۔ (بخاری ۱۸۹۷۔ مسلم ۸۵)
(٨٩٩٦) حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ جنت میں ہر عمل کے لیے ایک مخصوص دروازہ ہے ، اس عمل والوں کو اس دروازے سے پکارا جائے گا۔ روزہ داروں کے دروازے کا نام ” ریان “ ہے۔

8997

(۸۹۹۷) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ الثَّقَفِیُّ ، عَنْ حُمَیْدٍ ، عَنْ أَنَسٍ ؛ أَنَّ أَبَا طَلْحَۃَ کَانَ یُکْثِرُ الصَّوْمَ عَلَی عَہْدِ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَکَانَ لاَ یُفْطِرُ بَعْدَہُ إِلاَّ مِنْ وَجَعٍ۔
(٨٩٩٧) حضرت انس فرماتے ہیں کہ حضرت ابو طلحہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں کثرت سے روزے رکھا کرتے تھے اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے وصال کے بعد بدوں کسی بیماری کے روزہ نہیں چھوڑتے تھے۔

8998

(۸۹۹۸) حَدَّثَنَا عَبْدُالْوَہَّابِ، عَنْ أَیُّوبَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ؛ أَنَّہُ کَانَ لاَ یَکَادُ یُفْطِرُ فِی الْحَضَرِ إِلاَّ أَنْ یَمْرَضَ۔
(٨٩٩٨) حضرت نافع فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عمر حضر میں صرف بیماری کی حالت میں روزہ چھوڑا کرتے تھے۔

8999

(۸۹۹۹) حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّیَالِسِیُّ ، عَنْ قُرَّۃَ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : کَانَ مِمَّنْ یُکْثِرُ الصَّوْمَ ؛ ابْنُ عُمَرَ ، وَعَائِشَۃُ ، وَسَعِیدُ بْنُ الْمُسَیَّبِ۔
(٨٩٩٩) حضرت سعد بن ابراہیم فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عمر، حضرت عائشہ اور حضرت سعید بن مسیب کثرت سے روزے رکھا کرتے تھے۔

9000

(۹۰۰۰) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ؛ أَنَّ عُمَرَ سَرَدَ الصَّوْمَ قَبْلَ مَوْتِہِ بِسَنَتَیْنِ۔
(٩٠٠٠) حضرت نافع فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عمر نے اپنی وفات سے پہلے دو سال تک مسلسل روزے رکھے ہیں۔

9001

(۹۰۰۱) حَدَّثَنَا ابْنُ مُبَارَکٍ ، عَنْ مُوسَی بْنِ عُبَیْدَۃَ ، عَنْ جُمْہَانَ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : قَالَ : رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لِکُلِّ شَیْئٍ زَکَاۃٌ ، وَزَکَاۃُ الْجَسَدِ الصَّوْمُ۔ (ابن ماجہ ۱۷۴۵)
(٩٠٠١) حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ ہرچیز کی ایک پاکیزگی ہوا کرتی ہے اور جسم کی پاکیزگی روزہ میں ہے۔

9002

(۹۰۰۲) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ شَقِیق ، قَالَ : قِیلَ لِعَبْدِ اللہِ : إنَّک تُقِلُّ الصَّوْمَ ، فَقَالَ : إنِّی أَخَافُ أَنْ یَمْنَعَنِی مِنْ قِرَائَۃِ الْقُرْآنِ ، وَقِرَائَۃُ الْقُرْآنِ أَحَبُّ إلَیَّ مِنَ الصَّوْمِ۔
(٩٠٠٢) حضرت شقیق فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ سے سوال کیا گیا کہ آپ کم روزے کیوں رکھتے ہیں ؟ انھوں نے فرمایا کہ اس لیے کہ روزہ مجھے تلاوت سے روک لے گا اور تلاوت کرنا مجھے روزہ رکھنے سے زیادہ پسند ہے۔

9003

(۹۰۰۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ عَنْ مُہَاجِرٍ ، قَالَ : کَانُوا یَرَوْنَ أَنَّ الصَّوْمَ أَقَلُّ الأَنْوَاعِ أَجْرًا۔
(٩٠٠٣) حضرت سفیان بن مہاجر فرماتے ہیں کہ اسلاف کا خیال یہ تھا کہ روزہ اجر کے اعتبار سے کم محسوس ہونے والے اعمال میں سے ہے۔

9004

(۹۰۰۴) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ مَیْمُونٍ ، عَنْ أَبِیہِ ؛ أَنَّ رَجُلاً قَالَ لأَبِی ذَرٍّ : الصِّیَامُ ، لاَ أَسْمَعُک ذَکَرْتہ ؟ فَقَالَ أَبُو ذَرٍّ : قُرْبَۃٌ ، وَلَیْسَ ہُنَالِکَ۔
(٩٠٠٤) حضرت میمون کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے حضرت ابوذر سے کہا کہ میں نے آپ کو روزہ کا ذکر کرتے ہوئے نہیں سنا اس کی کیا وجہ ہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ روزہ یقیناً ثواب کی چیز ہے لیکن یہاں نہیں۔ یعنی بعض مقامات پر روزہ کے مقابلے میں دوسرے اعمال کا ثواب زیادہ ہوتا ہے جیسے جہاد وغیرہ۔ اسی طرح سفر میں روزہ نہ رکھنا بھی بعض اوقات افضل ہوجاتا ہے۔

9005

(۹۰۰۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنِ الْحَکَمِ ، قَالَ : کَانَ مِنْ أَقَلِّ أَعْمَالِہِمَ الصَّوْمُ۔
(٩٠٠٥) حضرت حکم فرماتے ہیں کہ اسلاف کے کم کئے جانے والے اعمال میں سے ایک روزہ تھا۔

9006

(۹۰۰۶) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِیزِ بْنِ صُہَیْبٍ ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : تَسَحَّرُوا ، فَإِنَّ فِی السَّحُورِ بَرَکَۃً۔ (مسلم ۷۷۰۔ بخاری ۱۹۲۳)
(٩٠٠٦) حضرت انس سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ سحری کھاؤ کیونکہ سحری میں برکت ہے۔

9007

(۹۰۰۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، وَعَلِیُّ بْنُ ہَاشِمٍ ، عَنِ ابْنِ أَبِی لَیْلَی ، عَنْ عَطَائٍ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : تَسَحَّرُوا ، فَإِنَّ فِی السُّحُورِ بَرَکَۃً۔ (احمد ۲/۴۷۷۔ ابو یعلی ۶۳۶۶)
(٩٠٠٧) حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ سحری کھاؤ کیونکہ سحری میں برکت ہے۔

9008

(۹۰۰۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ مُوسَی بْنِ عُلَیٍّ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ أَبِی قَیْسٍ مَوْلَی عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ ، عَنْ عمْرِو بْنِ الْعَاصِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : فَصْلُ مَا بَیْنَ صِیَامِکُمْ وَصِیَامِ أَہْلِ الْکِتَابِ أَکْلَۃُ السَّحَرِ۔ (مسلم ۷۷۱۔ احمد ۴/۱۹۷)
(٩٠٠٨) حضرت عمرو بن عاص سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ تمہارے اور اہل کتاب کے روزوں میں فضیلت کے اعتبار سے سحری کھانے کا فرق ہے۔

9009

(۹۰۰۹) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللہِ الأَسَدِیُّ ، عَنْ شَرِیکٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِیلٍ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، قَالَ: مَنْ أَرَادَ أَنْ یَصُومَ فَلْیَتَسَحَّرْ ، وَلَوْ بِشَیْئٍ۔(ابویعلی ۱۹۲۶۔ احمد ۳/۳۶۷)
(٩٠٠٩) حضرت جابر سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ جو روزہ رکھنا چاہے اسے سحری بھی کھانی چاہیے خواہ تھوڑی سی کھائے۔

9010

(۹۰۱۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ خَالِدٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ الْحَارِثِ ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : تَسَحَّرُوا وَلَوْ حَسْوَۃً مِنْ مَائٍ۔ (ابن حبان ۳۴۷۶۔ ابویعلی ۳۳۴۰)
(٩٠١٠) ایک صحابی فرماتے ہیں کہ سحری کھاؤ خواہ پانی کا ایک گھونٹ ہی کیوں نہ پیو۔

9011

(۹۰۱۱) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِِ ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ مُسْلِمٍ ، عَنْ سُوَیْد بْنِ غَفَلَۃَ ، قَالَ : کَانَتْ تُرْجَی بَرَکَۃُ السُّحُورِ۔
(٩٠١١) حضرت سوید بن غفلہ فرماتے ہیں کہ سحری کی برکت کی امید کی جاتی تھی۔

9012

(۹۰۱۲) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَنْ زَائِدَۃَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنْ حَفْصَۃَ ، قالَتْ : تَسَحَّرُوا وَلَوْ بِشَرْبَۃٍ مِنْ مَائٍ ، فَإِنَّہَا قَدْ ذُکِرَتْ فِیہِ دَعْوَۃٌ۔
(٩٠١٢) حضرت حفصہ فرماتی ہیں کہ سحری کھاؤ خواہ پانی کا ایک گھونٹ ہی کیوں نہ ہو، کیونکہ اس میں دعوت کا ذکر کیا گیا ہے۔

9013

(۹۰۱۳) حَدَّثَنَا مُطَّلِبُ بْنُ زِیَادٍ ، عَنِ ابْنِ أَبِی لَیْلَی ، عَنْ عَطِیَّۃَ ، عَنْ أَبِی سَعِیدٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : تَسَحَّرُوا ، فَإِنَّ فِی السُّحُورِ بَرَکَۃً۔ (احمد ۳/۳۲)
(٩٠١٣) حضرت ابو سعید سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ سحری کھاؤ کیونکہ سحری میں برکت ہے۔

9014

(۹۰۱۴) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، عَنْ مُوَرِّقٍ الْعِجْلِیّ ، عَنْ أَبِی الدَّرْدَائِ ، قَالَ : مِنْ أَخْلاَقِ النَّبِیِّینَ الإِبْلاَغَ فِی السُّحُورِ۔
(٩٠١٤) حضرت ابوالدردائ فرماتے ہیں کہ انبیائ کی سنتوں میں سے ایک سحری کھانے میں مبالغہ کرنا بھی ہے۔

9015

(۹۰۱۵) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ حُبَابٍ ، قَالَ : حدَّثَنِی مُعَاوِیَۃُ بْنُ صَالِحٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِی یُونُسُ بْنُ سَیْفٍ الْعَنْسِیُّ ، عَنِ الْحَارِثِ بْنِ زِیَادٍ ، عَنْ أَبِی رُہْمٍ السَّمَاعِیِّ ، أَنَّہُ سَمِعَ عِرْبَاضَ بْنَ سَارِیَۃَ یَقُولُ : دَعَانَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی شَہْرِ رَمَضَانَ إلَی السَّحُورِ ، فَقَالَ : ہَلُمُّوا إلَی الْغَدَائِ الْمُبَارَکِ۔ (ابوداؤد ۲۳۳۷۔ احمد ۴/۱۲۶)
(٩٠١٥) حضرت عرباض بن ساریہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ رمضان میں نبی پاک (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں سحری کے لیے بلایا اور فرمایا کہ آؤ بابرکت کھانا کھالو۔

9016

(۹۰۱۶) حَدَّثَنَا سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ: إنَّ بِلاَلاً یُؤَذِّنُ بِلَیْلٍ ، فَکُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّی یُؤَذِّنَ ابْنُ أُمِّ مَکْتُومٍ۔ (بخاری ۶۱۷۔ ترمذی ۲۰۳)
(٩٠١٦) حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ بلال رات کو اذان دے دیتے ہیں تم ان کی اذان کے بعد کھاتے پیتے رہا کرو۔ جب ابن ام مکتوم اذان دیں تو اس وقت کھانا پینا بند کرو۔

9017

(۹۰۱۷) حَدَّثَنَا مُعْتَمِرُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنِ التَّیْمِیِّ ، عَنْ أَبِی عُثْمَانَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لاَ یَمْنَعَنَّ أَحَدَکُمْ أَذَانُ بِلاَلٍ مِنْ سَحُورِہِ ، فَإِنَّہُ یُنَادِی ، أَوْ یُؤَذِّنُ بِلَیْلٍ ، فَیَنْتَبِہُ نَائِمُکُمْ ، وَیَرْجعُ قَائِمُکُمْ۔ (بخاری ۶۲۱۔ ابوداؤد ۲۳۳۹)
(٩٠١٧) حضرت عبداللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ بلال کی اذان تمہیں سحری کھانے سے نہ روک دے۔ کیونکہ وہ تو رات ہی میں اذان دے دیتے ہیں تاکہ سویا ہوا جاگ جائے اور رات کا قیام کرنے والا واپس چلا جائے۔

9018

(۹۰۱۸) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ (ح) وَعَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ ، عَنْ عَائِشَۃَ ؛ أَنَّ بِلاَلاً کَانَ یُؤَذِّنُ بِلَیْلٍ ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : کُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّی یُؤَذِّنَ ابْنُ أُمِّ مَکْتُومٍ۔ (بخاری ۱۹۱۹۔ مسلم ۷۶۸)
(٩٠١٨) حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ حضرت بلال رات کو اذان دے دیا کرتے تھے۔ اس پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جب تک ابن ام مکتوم اذان نہ دے دیں اس وقت تک کھاتے پیتے رہو۔

9019

(۹۰۱۹) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا سَعِیدٌ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لاَ یمنعُکم أَذَانُ بِلاَلٍ مِنْ سُحُورِکُمْ ، فَإِنَّ فِی بَصَرِہِ شَیْئًا۔ (احمد ۳/۱۴۰۔ ابویعلی ۲۹۱۰)
(٩٠١٩) حضرت انس سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ بلال کی اذان تمہیں سحری سے نہ روک دے کیونکہ ان کی بینائی کمزور ہے۔

9020

(۹۰۲۰) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ أَبِی ہِلاَلٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا سَوَادَۃُ بْنُ حَنْظَلَۃَ الْہِلاَلِیُّ ، عَنْ سَمُرَۃََ بْنِ جُنْدُبٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لاَ یَمْنَعَنَّکُمْ مِنَ السُّحُورِ أَذَانُ بِلاَلٍ ، وَلاَ الصُّبْحُ الْمُسْتَطِیلُ ، وَلَکِنِ الصُّبْحُ الْمُسْتَطِیرُ فِی الأفُقِ۔ (ترمذی ۷۰۶۔ احمد ۵/۱۳)
(٩٠٢٠) حضرت سمرہ بن جندب سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ بلال کی اذان اور طول کی صورت میں پھیلنے والی صبح تمہیں سحری سے نہ روکے، البتہ جب صبح افق سے چوڑائی میں ظاہر ہو تو کھانا پینا چھوڑ دو ۔

9021

(۹۰۲۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ أَنَسٍ ، عَنْ زَیْدِ بْنِ ثَابِتٍ ، قَالَ : تَسَحَّرْنَا مَعَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، ثُمَّ قُمْنَا إلَی الصَّلاَۃِ ، قُلْنَا : کَمْ کَانَ بَیْنَہُمَا ؟ قَالَ : قِرَائَۃُ خَمْسِینَ آیَۃً۔ (مسلم ۷۷۱۔ ترمذی ۷۰۴)
(٩٠٢١) حضرت زید بن ثابت فرماتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ سحری کھائی پھر ہم نماز کے لیے اٹھے۔ ان سے پوچھا گیا سحری اور نماز کے درمیان کتنا وقفہ تھا ؟ انھوں نے فرمایا کہ تقریباً پچاس آیات پڑھنے کے برابر۔

9022

(۹۰۲۲) حَدَّثَنَا جَرِیرُ بْنُ عَبْدِ الْحَمِیدِ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ ہِلاَلِ بْنِ یَسَاف ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عُبَیْدٍ الأَشْجَعِیِّ ، قَالَ : کُنْتُ مَعَ أَبِی بَکْرٍ ، فَقَالَ : قُمْ فَاسْتُرْنِی مِنَ الْفَجْرِ ، ثُمَّ أَکَلَ۔
(٩٠٢٢) حضرت سالم بن عبید اشجعی فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں حضرت ابوبکر کے ساتھ تھا۔ انھوں نے مجھ سے فرمایا کہ صبح کا خیال رکھنا ۔ پھر انھوں نے سحری کا کھانا تناول فرمایا۔

9023

(۹۰۲۳) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ شَبِیبِ بْنِ غَرْقَدَۃَ ، عَنْ أَبِی عَقِیلٍ ، قَالَ : تَسَحَّرْت مَعَ عَلِیٍّ ، ثُمَّ أَمَرَ الْمُؤَذِّنَ أَنْ یُقِیمَ۔
(٩٠٢٣) حضرت ابو عقیل فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت علی کے ساتھ سحری کھائی ، سحری کھانے کے بعد انھوں نے اپنے مؤذن کو اذان کا حکم دیا۔

9024

(۹۰۲۴) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الشَّیْبَانِیِّ ، عَنْ جَبَلَۃَ بْنِ سُحَیْمٍ ، عَنْ عَامِرِ بْنِ مَطَرٍ ، قَالَ : أَتَیْتُ عَبْدَ اللہِ فِی دَارِہِ فَأَخْرَجَ لَنَا فَضْلَ سُحُورِہِ فَتَسَحَّرْنَا مَعَہُ ، فَأُقِیمَتِ الصَّلاَۃُ ، فَخَرَجْنَا فَصَلَّیْنَا مَعَہُ۔
(٩٠٢٤) حضرت عامر بن مطر کہتے ہیں کہ میں حضرت عبداللہ کے گھر آیا، انھوں نے ہمارے لیے اپنی سحری کا بچا ہواکھانا رکھا۔ ہم نے ان کے ساتھ سحری کی، پھر نماز کھڑی ہوگئی اور ہم نے جاکران کے ساتھ نماز پڑھی۔

9025

(۹۰۲۵) حَدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ عَمْرٍو ، یَعْنِی ابْنَ حُرَیْثٍ ، قَالَ : کَانَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَعْجَلَ النَّاسِ إفْطَارًا ، وَأَبْطَأَہَمُ سُحُورًا۔
(٩٠٢٥) حضرت عمرو بن حریث کہتے ہیں کہ صحابہ کرام افطاری میں جلدی کرنے والے اور سحری میں تاخیر کرنے والے تھے۔

9026

(۹۰۲۶) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ أَبِی یَعْفُورٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا الشَّعْثَائِ جَابِرَ بْنَ زَیْدٍ یَقُولُ: کَانُوا یَتَسَحَّرُونَ حِینَ۔
(٩٠٢٦) حضرت جابر بن زید فرماتے ہیں کہ اسلاف آخری وقت میں سحری کیا کرتے تھے۔

9027

(۹۰۲۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَرْوَانَ أَبِی الْعَنْبَسِ، قَالَ: سَمِعْتُ إبْرَاہِیمَ یَقُولُ: مِنَ السُّنَّۃِ تَأْخِیرُ السُّحُورِ۔
(٩٠٢٧) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ سحری کو مؤخر کرنا سنت ہے۔

9028

(۹۰۲۸) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا الْوَلِیدُ بْنُ جُمَیع، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو الطُّفَیْلِ؛ أَنَّہُ تَسَحَّرَ فِی أَہْلِہِ فِی الْجَبَّانَۃِ ، ثُمَّ جَائَ إلَی حُذَیْفَۃَ وَہُوَ فِی دَارِ الْحَارِثِ بْنِ أَبِی رَبِیعَۃَ فَوَجَدَہُ ، فَحَلَبَ لَہُ نَاقَۃً فَنَاوَلَہُ ، فَقَالَ: إنِّی أُرِیدُ الصَّوْمَ، فَقَالَ: وَأَنَا أُرِیدُ الصَّوْمَ، فَشَرِبَ حُذَیْفَۃُ، وَأَخَذَ بِیَدِہِ فَدَفَعَ إلَی الْمَسْجِدِ حِینَ أُقِیمَتِ الصَّلاَۃُ۔
(٩٠٢٨) حضرت ابو طفیل فرماتے ہیں کہ میں نے جبانہ میں اپنے گھر والوں کے ساتھ سحری کی، پھر میں حضرت حذیفہ کے پاس آیا، وہ حارث بن ابی ربیعہ کے گھر تھے۔ اس وقت حارث بن ابی ربیعہ نے اپنی اونٹنی کا دودھ دوہا اور اسے پی لیا اور کہا کہ میں روزہ رکھنا چاہتا ہوں۔ حضرت حذیفہ نے فرمایا کہ میں بھی روزہ رکھنا چاہتا ہوں۔ پس حضرت حذیفہ نے بھی دودھ پیا۔ پھر حضرت حذیفہ نے حارث کا ہاتھ پکڑا اور انھیں مسجدلے گئے جہاں نماز کھڑی ہوگئی تھی۔

9029

(۹۰۲۹) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ ، عَنِ التَّیْمِیِّ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ ، قَالَ : یَکُونُ بَیْنَ سُحُورِ الرَّجُلِ وَبَیْنَ إقَامَۃِ الْمُؤَذِّنِ قَدْرُ مَا یَقْرَأُ سُورَۃَ یُوسُفَ۔
(٩٠٢٩) حضرت ابن سیرین فرماتے ہیں کہ آدمی کی سحری اور مؤذن کی اقامت کے درمیان اتنا فاصلہ ہونا چاہیے جتنی دیر میں سورة یوسف کی تلاوت کی جاسکے۔

9030

(۹۰۳۰) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ التَّیْمِیِّ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : خَرَجْت مَعَ حُذَیْفَۃَ إلَی الْمَدَائِنِ فِی رَمَضَانَ ، فَلَمَّا طَلَعَ الْفَجْرُ ، قَالَ : ہَلْ کَانَ أَحَدٌ مِنْکُمْ آکِلاً ، أَوْ شَارِبًا ؟ قُلْنَا : أَما رَجُلٌ یُرِیدُ الصَّوْمَ فَلاَ ، ثُمَّ سِرْنَا حَتَّی اسْتَبْطَأْنَاہُ فِی الصَّلاَۃِ ، ثُمَّ نَزَلَ فَصَلَّی۔
(٩٠٣٠) حضرت ابراہیم تیمی کے والد کہتے ہیں کہ میں رمضان میں حضرت حذیفہ کے ساتھ سفر پر نکلا، جب فجر طلوع ہوئی تو انھوں نے کہا کہ کیا تم میں سے کسی نے کچھ کھایا یاپیا ہے ؟ ہم نے کہا کہ جو لوگ روزہ کا ارادہ رکھتے ہیں انھوں نے کچھ نہیں کھایا پیا۔ پھر ہم چلتے رہے یہاں تک کہ ہم نے انھیں نماز کا کہا اور وہ سواری سے اترے اور نماز پڑھی۔

9031

(۹۰۳۱) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، قَالَ : مِنْ أَخْلاَقِ الأَنْبِیَائِ تَأْخِیرُ السُّحُورِ۔
(٩٠٣١) حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ سحری کو مؤخر کرنا انبیاء کے اخلاق میں سے ہے۔

9032

(۹۰۳۲) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنِ ابْنِ أَبِی خَالِدٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : کَانَ حُذَیْفَۃُ یُعَجِّلُ بَعْضَ سحُورِہِ لِیُدْرِکَ الصَّلاَۃَ مَعَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَبَلَغَ ذَلِکَ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَکَانَ یُرْسِلُ إلَیْہِ فَیَأْکُلُ مَعَہُ حَتَّی یَخْرُجَا إلَی الصَّلاَۃِ جَمِیعًا۔
(٩٠٣٢) حضرت شعبی فرماتے ہیں کہ حضرت حذیفہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ جماعت کی نماز میں شریک ہونے کے لیے جلدی سحری کھالیتے تھے۔ جب نبی پاک (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس بات کا علم ہوا تو آپ کسی کو بھیج کر انھیں بلا لیا کرتے تھے اور ان کے ساتھ سحری کھاتے تھے، پھر دونوں حضرات اکٹھے جماعت کے لیے جاتے تھے۔

9033

(۹۰۳۳) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حَدَّثَنَا شُعْبَۃُ ، عَنْ خُبَیبِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، قَالَ : سَمِعْتُ عَمَّتِی تَقُولُ ، وَکَانَتْ حَجَّتْ مَعَ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَتْ : کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : إنَّ ابْنَ أُمِّ مَکْتُومٍ یُنَادِی بِلَیْلٍ ، فَکُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّی یُنَادِیَ بِلاَلٌ ، وَإِنَّ بِلاَلاً یُؤَذِّنُ بِلَیْلٍ فَکُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّی یُنَادِیَ ابْنُ أُمِّ مَکْتُومٍ ، قَالَتْ : وَکَانَ یَصْعَدُ ہَذَا وَیَنْزِلُ ہَذَا ، فَکُنَّا نَتَعَلَّقُ بِہِ فَنَقُولُ : کَمَا أَنْتَ حَتَّی نَتَسَحَّرَ۔ (طیالسی ۱۶۶۱۔ طبرانی ۴۸۱)
(٩٠٣٣) حضرت خبیب بن عبد الرحمن فرماتے ہیں کہ میں نے اپنی ایک پھوپھی جنہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ حج کیا تھا سے فرماتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ ابن ام مکتوم رات کو اذان دے تو تم کھاتے پیتے رہو یہاں تک کہ بلال اذان دے دے۔ اگر بلال رات کو اذان دے دے تو تم کھاتے پیتے رہو یہاں تک کہ ابن ام مکتوم اذان دے دے۔ وہ فرماتی ہیں کہ ان دونوں مؤذنین میں سے ایک منارے پر چڑھتا تھا اور دوسرا اترتا تھا۔ ہم ان سے کہتے تھے کہ تم جو بھی کرو ہم سحری کھائیں گے۔

9034

(۹۰۳۴) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، وَوَکِیعٌ ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُمَرَ ، عَنْ عُمَرَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إذَا جَائَ اللَّیْلُ مِنْ ہَاہُنَا ، وَذَہَبَ النَّہَارُ مِنْ ہَاہُنَا فَقَدْ أَفْطَرَ الصَّائِمُ۔ (ابوداؤد ۲۳۴۳۔ احمد ۱/۲۸)
(٩٠٣٤) حضرت عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ جب رات اس طرف سے آجائے اور دن اس طرف کو چلا جائے تو روزہ دار افطار کرلے۔

9035

(۹۰۳۵) حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ ، عَنِ الشَّیْبَانِیِّ ، عَنِ ابْنِ أَبِی أَوْفَی ، قَالَ : کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی سَفَرٍ وَہُوَ صَائِمٌ ، فَلَمَّا غَابَتِ الشَّمْسُ ، قَالَ : یَا فُلاَنُ انْزِلْ فَاجْدَحْ لَنَا ، قَالَ : یَا رَسُولَ اللہِ ، إنَّ عَلَیْک نَہَارًا ، قَالَ : انْزِلْ فَاجْدَحْ لَنَا ، قَالَہَا ثَلاَثًا ، فَنَزَلَ فَجَدَحَ فَشَرِبَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، ثُمَّ قَالَ : إذَا رَأَیْتُمُ اللَّیْلَ قَدْ أَقْبَلَ مِنْ ہَاہُنَا فَقَدْ أَفْطَرَ الصَّائِمُ۔ قُلْت : وَأَنْتَ مَعَہُ ؟ قَالَ : نَعَمْ۔ (بخاری ۱۹۴۱۔ مسلم ۷۷۳)
(٩٠٣٥) حضرت ابن ابی اوفیٰ کہتے ہیں کہ نبی پاک (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک سفر میں تھے اور آپ کا روزہ تھا۔ جب سورج غروب ہوگیا تو آپ نے فرمایا کہ اے فلاں ! نیچے اترو اور ستو بناؤ۔ اس نے کہا اے اللہ کے رسول ! ابھی دن کا کچھ حصہ باقی ہے۔ آپ نے فرمایا نیچے اترو اور ستو بناؤ۔ آپ نے یہ بات تین مرتبہ فرمائی تو وہ نیچے اترا اور اس نے ستو بنایا۔ آپ نے ستو کا شربت پیا اور فرمایا کہ جب تم دیکھو کہ اس طرف سے رات آگئی ہے تو روزہ دار افطار کرلے۔ شیبانی کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن ابی اوفی سے پوچھا کہ اس موقع پر آپ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ تھے ؟ انھوں نے فرمایا ہاں۔

9036

(۹۰۳۶) حَدَّثَنَا زِیَادُ بْنُ الرَّبِیعِ ، وَکَانَ ثِقَۃً ، عَنْ أَبِی جَمْرَۃَ الضُّبَعِیِّ ؛ أَنَّہُ کَانَ یُفْطِرُ مَعَ ابْنِ عَبَّاسٍ فِی رَمَضَانَ ، فَکَانَ إذَا أَمْسَی بَعَثَ رَبِیبۃ لَہُ تَصْعَدُ ظَہْرَ الدَّارِ ، فَإِذَا غَابَت الشَّمْسُ أَذَّنَ ، فَیَأْکُلَ وَنَأْکُلَ ، فَإِذَا فَرَغَ أُقِیمَتِ الصَّلاَۃُ فَیَقُومَ یُصَلِّی وَنُصَلِّیَ مَعَہُ۔
(٩٠٣٦) حضرت ابو جمرہ ضبعی کہتے ہیں کہ میں نے رمضان میں حضرت ابن عباس کے ساتھ افطاری کی ہے۔ جب شام ہونے لگتی تو وہ ایک بچی کو چھت پر بھیج دیتے۔ جب سورج غروب ہوتا تو وہ اعلان کردیتی، اس پر وہ کھانا کھاتے اور ہم بھی کھانا کھاتے۔ جب کھانے سے فارغ ہوتے تو نماز کھڑی ہوجاتی وہ نماز پڑھاتے اور ہم ان کے ساتھ نماز پڑھتے۔

9037

(۹۰۳۷) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو ، عَنْ أَبِی سَلَمَۃَ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لاَ یَزَالُ الدِّینُ ظَاہِرًا مَا عَجَّلَ النَّاسُ الْفِطْرَ ، إنَّ الْیَہُودَ وَالنَّصَارَی یُؤَخِّرُونَ۔ (ابوداؤد ۲۳۴۵۔ احمد ۲/۴۵۰)
(٩٠٣٧) حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ یہ دین اس وقت تک غالب رہے گا جب تک لوگ افطار میں جلدی کریں گے۔ یہود و نصاریٰ افطار میں تاخیر کیا کرتے ہیں۔

9038

(۹۰۳۸) حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إسْمَاعِیلَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ حَرْمَلَۃَ ، عَنِ ابْنِ الْمُسَیَّبِ ، أَنَّہُ سَمِعَہُ یَقُولُ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لاَ یَزَالُ النَّاسُ بِخَیْرٍ مَا عَجَّلُوا إفْطَارَہُمْ ، وَلَمْ یُؤَخِّرُوہُ تَأْخِیرَ أَہْلِ الْمَشْرِقِ۔ (بخاری ۱۹۵۷۔ ترمذی ۶۹۹)
(٩٠٣٨) حضرت سعید بن مسیب فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ لوگ اس وقت تک خیر پر رہیں گے جب تک افطار میں جلدی کرتے رہیں گے اور اہل مشرق کی طرح اس میں تاخیر نہیں کریں گے۔

9039

(۹۰۳۹) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِِ ، عَنْ طَارِقٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ، قَالَ : کَانَ عُمَرُ یَکْتُبُ إلَی أُمَرَائِہِ أَنْ لاَ تَکُونُوا مِنَ الْمُسوِفِینَ لِفِطْرِکُمْ ، وَلاَ تَنْتَظِرُوا بِصَلاَتِکُمُ اشْتِبَاکَ النُّجُومِ۔
(٩٠٣٩) حضرت سعید بن مسیب فرماتے ہیں کہ حضرت عمر اپنے گورنروں کو یہ خط لکھا کرتے تھے کہ افطار میں تاخیرنہ کرو اور نماز پڑھنے کے لیے ستاروں کے ظاہر ہونے کا انتظار نہ کرو۔

9040

(۹۰۴۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ سِمَاک ، عَنْ ثَرْوَانَ بْنِ مِلْحَانَ التَّیْمِیِّ ، قَالَ : قَالَ رَجُلٌ لِعَمَّار بْنِ یَاسِرٍ : إنَّ أَبَا مُوسَی قَالَ : لاَ تُفْطِرُوا حِینَ تَبْدُو الْکَوَاکِبُ ، فَإِنَّ ذَلِکَ فِعْلُ الْیَہُودِ۔
(٩٠٤٠) حضرت ابو موسیٰ فرماتے ہیں کہ ستارے ظاہر ہونے پر افطاری نہ کرو کیونکہ اس طرح تو یہود کرتے ہیں۔

9041

(۹۰۴۱) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، عَن عَلْقَمَۃَ ، قَالَ : أُتِیَ عَبْدُ اللہِ بِجَفْنَۃٍ ، فَقَالَ لِلْقَوْمِ : اُدْنُوْا فَکُلُوا ، فَاعْتَزَلَ رَجُلٌ مِنْہُمْ ، فَقَالَ لَہُ عَبْدُ اللہِ : مَا لَکَ ؟ قَالَ : إنِّی صَائِمٌ ، فَقَالَ عَبْدُ اللہِ : ہَذَا وَالَّذِی لاَ إلَہَ غَیْرُہُ حِینَ حَلَّ الطَّعَامُ لآکِلٍ۔
(٩٠٤١) حضرت علقمہ فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ کے پاس کھانے کا ایک برتن لایا گیا۔ انھوں نے لوگوں سے کہا کہ آؤ اور کھاؤ۔ سب لوگ آگئے ایک آدمی پیچھے رہا۔ حضرت عبداللہ نے اس سے اس کی وجہ پوچھی تو اس نے کہا میرا روزہ ہے۔ حضرت عبداللہ نے فرمایا کہ اس ذات کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ یہ وہ وقت ہے جس میں روزہ دار کے لیے کھاناحلال ہوجاتا ہے۔

9042

(۹۰۴۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ عَبْدِ الْوَاحِدِ بْنِ أَیْمَنَ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ أَبِی سَعِیدٍ ، قَالَ : دَخَلْت عَلَیْہِ فَأَفْطَرَ عَلَی عِرْقٍ، وَأَنا أَرَی الشَّمْسَ لَمْ تَغْرُبْ۔
(٩٠٤٢) حضرت ایمن فرماتے ہیں کہ میں حضرت ابو سعید کی خدمت میں حاضر ہوا ، جب انھوں نے افطار کیا تو مجھے محسوس ہورہا تھا کہ ابھی تک سورج غروب نہیں ہوا۔

9043

(۹۰۴۳) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، قَالَ : إنِّی کُنْت لآتِیَ ابْنَ عُمَرَ بِفِطْرِہِ ، فَأُغَطِّیہِ اسْتِحْیَائً مِنَ النَّاسِ أَنْ یَرَوْہُ۔
(٩٠٤٣) حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ میں حضرت ابن عمر کے پاس ان کے افطار کے وقت آیا کرتا تھا۔ میں ان پر اس حیاء کی وجہ سے پردہ کردیتا تھا کہ کہیں لوگ انھیں دیکھ نہ لیں۔

9044

(۹۰۴۴) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنِ الْہَجَرِیِّ ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ بَنِی سَوَادَۃَ ، قَالَ : انْطَلَقْت إلَی حُذَیْفَۃَ ، فَنَزَلْت مَعَہُ ، فَکَانَ إذَا غَابَتِ الشَّمْسُ نَزَلَ حُذَیْفَۃُ وَأَصْحَابُہُ ، لَمْ یَلْبَثْ إِلاَّ قَلِیلاً حَتَّی یُفْطِرَ۔
(٩٠٤٤) بنو سوادہ کے ایک آدمی فرماتے ہیں کہ میں حضرت حذیفہ کے پاس ٹھہرا، جب سورج غروب ہوگیا تو حضرت حذیفہ اور ان کے ساتھی سورج غروب ہونے کے فورا بعد افطار کرلیا کرتے تھے۔

9045

(۹۰۴۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ مُسْلِمِ بْنِ یَزِیدَ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : کَانَ عَلِیُّ بْنُ أَبِی طَالِبٍ یَقُولُ لاِبْنِ النَّبَّاحِ : غَرَبَتِ الشَّمْسُ ؟ فَیَقُولُ : لاَ تَعْجَلْ ، فَیَقُولُ : غَرَبَتِ الشَّمْسُ ؟ فَیَقُولُ : لاَ تَعْجَلْ ، فَیَقُولُ : غَرَبَتِ الشَّمْسُ ؟ فَإذَا قَالَ : نَعَمْ ، أَفْطَرَ ، ثُمَّ نَزَلَ فَصَلَّی۔
(٩٠٤٥) حضرت یزید کہتے ہیں کہ حضرت علی بن ابی طالب ابن نباح سے فرمایا کرتے تھے کہ کیا سورج غروب ہوگیا ؟ وہ عرض کرتے جلدی نہ کیجئے۔ وہ پھر پوچھتے کہ کیا سورج غروب ہوگیا ؟ اور وہ کہتے جلدی نہ کیجئے۔ حضرت علی پھر پوچھتے کہ کیا سورج غروب ہوگیا ؟ جب ابن نباح نے کہا کہ سورج غروب ہوگیا تو انھوں نے روزہ افطار کیا پھر اتر کر نماز پڑھی۔

9046

(۹۰۴۶) حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ سَعدٍ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ أَبِی حَازِمٍ ، عَنْ سَہْلِ بْنِ سَعْدٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لاَ تَزَالُ ہَذِہِ الأُمَّۃُ بِخَیْرٍ مَا عَجَّلُوا الإِفْطَارَ۔ (مسلم ۷۷۱۔ ترمذی ۶۹۹)
(٩٠٤٦) حضرت سہل بن سعد فرماتے ہیں کہ نبی پاک (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ یہ امت اس وقت تک خیر پر رہے گی جب تک افطار میں جلدی کرتے رہیں گے۔

9047

(۹۰۴۷) حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إسْمَاعِیلَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ حَرْمَلَۃَ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ، قَالَ : إذَا رَأَیْت أَنَّ الْعَصْرَ قَدْ فَاتَتْک فَاشْرَبْ۔
(٩٠٤٧) حضرت سعید بن مسیب فرماتے ہیں کہ جب تم دیکھو کہ عصر کی نماز کا وقت نکل گیا تو روزہ افطار کرلو۔

9048

(۹۰۴۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ أَبِی الْعَنْبَسِ عَمْرِو بْنِ مَرْوَانَ ، قَالَ : سَمِعْتُ إبْرَاہِیمَ یَقُولُ : إنَّ مِنَ السُّنَّۃِ تَعْجِیلَ الإِفْطَارِ۔
(٩٠٤٨) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ افطار میں جلدی کرنا سنت ہے۔

9049

(۹۰۴۹) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، عَنْ مُوسَی بْنِ أَنَسٍ ؛ أَنَّ أَنَسًا کَانَ یُصْعِدُ الْجَارِیَۃَ فَوْقَ الْبَیْتِ فَیَقُولُ : إذَا اسْتَوَی الأُفُقُ فَآذِنِینِی۔
(٩٠٤٩) حضرت موسیٰ بن انس فرماتے ہیں کہ حضرت انس ایک باندی کو گھر کے اوپر چڑھاتے اور اس سے فرماتے کہ جب افق برابر ہوجائے تو مجھے بتا دینا۔

9050

(۹۰۵۰) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، عَنْ مُوَرِّقٍ الْعِجْلِیّ ، عَنْ أَبِی الدَّرْدَائِ ، قَالَ : ثَلاث مِنْ أَخْلاَقِ النَّبِیِّینَ ؛ التَّبْکِیرُ فِی الإِفْطَارِ ، وَالإِبْلاَغُ فِی السُّحُورِ ، وَوَضْعُ الْیَمِینِ عَلَی الشِّمَالِ فِی الصَّلاَۃِ۔
(٩٠٥٠) حضرت ابو الدردائ فرماتے ہیں کہ تین چیزیں نبیوں کی عادات میں سے ہیں : افطار میں جلدی کرنا، سحری میں تاخیر کرنا، نماز میں دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر رکھنا۔

9051

(۹۰۵۱) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ بَیَانٍ ، عَنْ قَیْسٍ ، قَالَ : نَاوَلَ عُمَرُ رَجُلاً إنَائً إلَی جَنْبِہِ حِینَ غَرَبَتِ الشَّمْسُ ، فَقَالَ لَہُ : اشْرَبْ ، ثُمَّ قَالَ : لَعَلَّک مِنَ الْمُسَوِّفِینَ بِفِطْرِہِ ؛ سَوف سَوف۔
(٩٠٥١) حضرت قیس فرماتے ہیں کہ حضرت عمر نے ایک آدمی کے پاس پانی رکھا اور جب سورج غروب ہوگیا تو فرمایا کہ اسے پی لو۔ پھر فرمایا کہ اس طرح تم افطاری میں جلدی کرنے والے بن جاؤ گے۔

9052

(۹۰۵۲) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ عَبْدِ اللہِ ، عَنْ أُمِّ الدَّرْدَائِ ، عَنْ کَعْبِ بْنِ عَاصِمٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لَیْسَ مِنَ الْبِرِّ الصِّیَامُ فِی السَّفَرِ۔ (ابن ماجہ ۱۶۶۴۔ احمد ۴۳۴)
(٩٠٥٢) حضرت کعب بن عاصم سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ سفر میں روزہ رکھنا نیکی نہیں۔

9053

(۹۰۵۳) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَعدٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو بْنِ الْحَسَنِ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی سَفَرٍ ، فَرَأَی رَجُلاً قَدِ اجْتَمَعَ النَّاسُ عَلَیْہِ ، وَقَدْ ظُلِّلَ عَلَیْہِ ، فَقَالَ : مَا لَہُ ؟ قَالُوا : رَجُلٌ صَائِمٌ ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لَیْسَ مِنَ الْبِرِّ أَنْ تَصُومُوا فِی السَّفَرِ۔ (بخاری ۱۹۴۶۔ مسلم ۹۲)
(٩٠٥٣) حضرت جابر بن عبداللہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک سفر میں تھے، اس سفر میں ایک آدمی کو دیکھا جس پر لوگ جمع تھے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس کو کیا ہوا ہے ؟ لوگوں کے نے بتایا کہ یہ روزہ دار ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ سفر میں روزہ رکھنا نیکی نہیں ہے۔

9054

(۹۰۵۴) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ مُوَرِّقٍ ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ : کُنَّا مَعَ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی سَفَرٍ ، فَمِنَّا الصَّائِمُ وَمِنَّا الْمُفْطِرُ ، فَقَامَ الْمُفْطِرُونَ فَضَرَبُوا الأَبْنِیَۃَ وَسَقَوا الرِّکَابَ ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : ذَہَبَ الْمُفْطِرُونَ الْیَوْمَ بِالأَجْرِ۔ (مسلم ۷۸۸۔ بیہقی ۲۴۳)
(٩٠٥٤) حضرت انس فرماتے ہیں کہ ہم ایک سفر میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ تھے، کچھ لوگوں کا روزہ تھا اور کچھ لوگوں کا روزہ نہ تھا۔ جن لوگوں کا روزہ نہیں تھا انھوں نے خیمے لگائے اور مشکیزے بھرے۔ اس پر نبی پاک (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ آج روزہ نہ رکھنے والے اجر کے اعتبار سے آگے بڑھ گئے۔

9055

(۹۰۵۵) حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ ، عَنِ ابْنِ أَبِی ذِئْبٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ أَبِی سَلَمَۃَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : الصَّائِمُ فِی السَّفَرِ کَالْمُفْطِرِ فِی الْحَضَرِ۔
(٩٠٥٥) حضرت ابوسلمہ بن عبدالرحمن اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ سفر میں روزہ رکھنے والا حضر میں روزہ نہ رکھنے والے کی طرح ہے۔

9056

(۹۰۵۶) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ أَبِی جَمْرَۃَ ، قَالَ : سَأَلْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ عَنِ الصَّوْمِ فِی السَّفَرِ ؟ فَقَالَ : عُسْرٌ وَیُسْرٌ ، خُذْ بِیُسْرِ اللہِ عَلَیْک۔
(٩٠٥٦) حضرت ابو جمرہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن عباس سے سفر میں روزہ کے بارے میں سوال کیا کہ ایک مشکل چیز ہوتی ہے اور ایک آسان ۔ اگر اللہ تمہیں کسی معاملے میں آسانی دیں تو اسے قبول کرو۔

9057

(۹۰۵۷) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ زَکَرِیَّا ، عَنْ عَامِرٍ ؛ أَنَّہُ کَانَ لاَ یَصُومُ فِی السَّفَرِ۔
(٩٠٥٧) حضرت زکریا فرماتے ہیں کہ حضرت عامر سفر میں روزہ نہیں رکھا کرتے تھے۔

9058

(۹۰۵۸) حَدَّثَنَا مُعْتَمِرُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ عَوْفٍ ، قَالَ : بَلَغَنِی أَنَّ الْحَسَنَ کَانَ یَقُولُ : الإِفْطَارُ فِی السَّفَرِ ، وَالْحَضَرُ رُخْصََۃ۔
(٩٠٥٨) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ سفر میں روزہ نہ رکھنے کی اجازت ہے۔

9059

(۹۰۵۹) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، حَدَّثَنَا سَعِیدٌ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ زَیْدٍ ، أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ قَالَ : الإِفْطَارُ فِی السَّفَرِ عَزِیمَۃٌ۔
(٩٠٥٩) حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ سفر میں روزہ نہ رکھنا عزیمت کی بات ہے۔

9060

(۹۰۶۰) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : الإِفْطَارُ فِی السَّفَرِ صَدَقَۃٌ تَصَدَّقَ اللَّہُ بِہَا عَلَی عِبَادِہِ۔
(٩٠٦٠) حضرت ابن عمر فرماتے ہیں کہ سفر میں روزہ نہ رکھنا ایک صدقہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر کیا ہے۔

9061

(۹۰۶۱) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ عُبیدِ اللہِ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ؛ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صَامَ عَامَ الْفَتْحِ حَتَّی بَلَغَ الْکَدِیدَ ، ثُمَّ أَفْطَرَ ، وَإِنَّمَا یُؤْخَذُ بِالآخَرِ مِنْ فِعْلِ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔ (بخاری ۲۹۵۳۔ احمد ۲۱۹)
(٩٠٦١) حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ نبی پاک (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فتح مکہ والے سال روزہ رکھا اور جب آپ مقام کدید پر پہنچے تو آپ نے روزہ کھول دیا۔ قاعدہ ہے کہ نبی پاک (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آخر عمل کو لیا جائے گا۔

9062

(۹۰۶۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ أَبِی الْعُمَیْسِ ، قَالَ : سَأَلْتُ أَبَا جَعْدٍ عَنِ الصَّوْمِ فِی السَّفَرِ ؟ فَقَالَ : لاَ تَصُومَنَّ۔
(٩٠٦٢) حضرت ابو عمیس کہتے ہیں کہ میں نے ابو جعد سے سفر میں روزے کے بارے میں سوال کیا تو انھوں نے فرمایا کہ ہرگز روزہ نہ رکھو۔

9063

(۹۰۶۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، عَنْ عَبْدِاللہِ بْنِ حُمَیْدٍ، عَنْ عَبْدِاللہِ بْنِ ذَکْوَانَ؛ أَنَّ ابْنَ عُمَرَ أَقَامَ بِالشَّامِ رَمَضَانَیْنِ فَأَفْطَرَ۔
(٩٠٦٣) حضرت عبداللہ بن ذکوان فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عمر نے دو رمضان شام میں قیام فرمایا لیکن روزے نہیں رکھے۔

9064

(۹۰۶۴) حَدَّثَنَا أَبُوخَالِدٍ الأَحْمَرِِ، عَنْ مَنْصُورِ بْنِ حَیَّانَ، قَالَ: قَالَ سَعِیدُ بْنُ جُبَیْرٍ : مَنْ صَحِبَنِی فِی سَفَرٍ فَلاَ یَصُومَنَّ۔
(٩٠٦٤) حضرت سعید بن جبیر فرماتے ہیں کہ جو سفر میں میرے ساتھ رہے وہ ہرگز روزہ نہ رکھے۔

9065

(۹۰۶۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ مُضَرِّسِ بْنِ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : قُلْتُ لِلشَّعْبِیِّ : إنِّی أُقِیمُ بِالرَّیِّ ، قَالَ : صَلِّ رَکْعَتَیْنِ ، قُلْتُ : فَالصَّوْمُ ؟ قَالَ : لاَ تَصُمْ ، أَفْطِرْ وَإِنْ أَقَمْت عَشْرَ سِنِینَ۔
(٩٠٦٥) حضرت مضرس بن عبداللہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت شعبی سے کہا میں ریّ میں رہتا ہوں، انھوں نے فرمایا کہ دو رکعتیں پڑھو۔ میں نے کہا روزے کے بارے میں کیا کہتے ہیں ؟ انھوں نے فرمایا کہ روزہ بھی نہ رکھو خواہ تم دس سال تک قیام کرو۔

9066

(۹۰۶۶) حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ عُمَرُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنِ الأَوْزَاعِیِّ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ أَبِی کَثِیرٍ ، عَنْ أَبِی سَلَمَۃَ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ؛ أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ فِی سَفَرٍ ، وَمَعَہُ أَبُو بَکْرٍ وَعُمَرُ ، فَأُتِیَ بِطَعَامٍ ، فَقَالَ لَہُمَا : اُدْنُوَا فَکُلاَ ، فَقَالاَ : یَا رَسُولَ اللہِ ، إنَّا صَائِمَانِ ، فَقَالَ : ارْحلُوا لِصَاحِبَیْکُمْ ، اعْمَلُوا لِصَاحِبَیْکُم ، اُدْنُوَا فَکُلاَ۔(نسائی ۲۵۷۲۔ احمد ۲/۳۳۶)
(٩٠٦٦) حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ نبی پاک (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک سفر میں تھے، حضرت ابوبکر اور حضرت عمر بھی آپ کے ساتھ تھے۔ آپ کے پاس کھانا لایا گیا تو آپ نے ان دونوں حضرات سے فرمایا کہ آؤ اور کھالو۔ ان دونوں حضرات نے کہا کہ ہمارا روزہ ہے۔ نبی پاک (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اپنے دونوں ساتھیوں کے لیے کجاوہ تیار کرو، اپنے دونوں ساتھیوں کے لیے کام کرو، دونوں قریب ہوجاؤ اور کھانا کھاؤ۔

9067

(۹۰۶۷) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، وَمَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ عَاصِمٍ ، قَالَ : سُئِلَ أَنَسٌ عَنِ الصَّوْمِ فِی السَّفَرِ ؟ فَقَالَ : مَنْ أَفْطَرَ فَرُخْصَۃٌ ، وَمَنْ صَامَ فَالصَّوْمُ أَفْضَلُ۔
(٩٠٦٧) حضرت انس سے دورانِ سفرروزہ کے بارے میں سوال کیا گیا تو انھوں نے فرمایا کہ جو روزہ نہ رکھے اس کے لیے رخصت ہے اور اگر کوئی روزہ رکھے تو یہ افضل ہے۔

9068

(۹۰۶۸) حَدَّثَنَا سَہْلُ بْنُ یُوسُفَ ، عَنْ حُمَیْدٍ ، عَنِ ابْنِ أَبِی مُلَیْکَۃَ ، قَالَ : صَحِبْت عَائِشَۃَ فِی السَّفَرِ ، فَمَا أَفْطَرَتْ حَتَّی دَخَلَتْ مَکَّۃَ۔
(٩٠٦٨) حضرت ابن ابی ملیکہ فرماتے ہیں کہ میں ایک سفر میں حضرت عائشہ کے ساتھ تھا۔ انھوں نے مدینہ پہنچنے تک روزے نہیں رکھے۔

9069

(۹۰۶۹) حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّیَالِسِیُّ ، عَنِ الْحَکَمِ بْنِ عَطِیَّۃَ ، عَنِ النَّضْرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ الْقَیْسِیِّ ، عَنْ قَیْسِ بْنِ عُبَادٍ؛ أَنَّہُ کَانَ یَصُومُ فِی السَّفَرِ وَیُفْطِرُ۔
(٩٠٦٩) حضرت نضر بن عبداللہ قیسی فرماتے ہیں کہ حضرت قیس بن عباد سفر میں روزہ رکھتے تھے اور کبھی نہ بھی رکھتے تھے۔

9070

(۹۰۷۰) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ مُوسَی مَوْلَی ابْنِ عَامِرٍ ، قَالَ : سَأَلْتُ أَنَسًا عَنِ الصَّوْمِ فِی السَّفَرِ ؟ فَقَالَ : کُنَّا مَعَ أَبِی مُوسَی فِی السَّفَرِ فَصَامَ وَصُمْنَا۔
(٩٠٧٠) حضرت موسیٰ مولی ابی عامر فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت انس سے سفر میں روزے کے بارے میں سوال کیا تو انھوں نے فرمایا کہ ہم حضرت ابو موسیٰ کے ساتھ تھے انھوں نے روزہ رکھا تو ہم نے بھی روزہ رکھا۔

9071

(۹۰۷۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ ابْنِ أَبِی خَالِدٍ ، عَنِ ابْنِ الأَسْوَد ؛ أَنَّ أَبَاہُ کَانَ یَصُومُ فِی السَّفَرِ۔
(٩٠٧١) حضرت ابن اسود فرماتے ہیں کہ ان کے والد سفر میں روزہ رکھا کرتے تھے۔

9072

(۹۰۷۲) حَدَّثَنَا أَزْہَرُ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، قَالَ : کَانَ مُحَمَّدٌ یَصُومُ فِی السَّفَرِ۔
(٩٠٧٢) حضرت ابن عون فرماتے ہیں کہ حضرت محمد سفر میں روزہ رکھا کرتے تھے۔

9073

(۹۰۷۳) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ، عَنِ الْقَاسِمِ، قَالَ: قَدْ رَأَیْت عَائِشَۃَ تَصُومُ فِی السَّفَرِ: حَتَّی أَذْلَقَہَا السَّمُومُ۔
(٩٠٧٣) حضرت قاسم فرماتے ہیں کہ حضرت عائشہ سفر میں روزہ رکھا کرتی تھیں جس کی وجہ سے کمزور ہوگئی تھیں۔

9074

(۹۰۷۴) حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ ، قَالَ : کَانَ عُثْمَانَ بْنُ أَبِی الْعَاصِ یَقُولُ فِی ذَلِکَ مِثْلَ قَوْلِ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ۔
(٩٠٧٤) حضرت عثمان بن ابی العاص بھی حضرت انس بن مالک کی طرح فرماتے ہیں۔

9075

(۹۰۷۵) حَدَّثَنَا مُعْتَمِرُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ؛ أَنَّہُ کَانَ یَخْرُجُ إلَی الْغَابَۃِ فَلاَ یُفْطِرُ ، وَلاَ یَقْصُرُ۔
(٩٠٧٥) حضرت نافع فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عمر جب کبھی صحراء کی طرف نکلتے تو روزہ نہ چھوڑتے تھے اور نماز بھی پوری پڑھتے تھے۔

9076

(۹۰۷۶) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ ، أَنَّ عُثْمَانَ بْنَ أَبِی الْعَاصِ ، قَالَ : الصَّوْمُ فِی السَّفَرِ أَفْضَلُ ، وَالْفِطْرُ رُخْصَۃٌ۔
(٩٠٧٦) حضرت عثمان بن ابی العاص فرماتے ہیں کہ سفر میں روزہ رکھنا افضل ہے اور روزہ نہ رکھنے کی رخصت ہے۔

9077

(۹۰۷۷) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ کَہْمَسٍ ، قَالَ : سُئِلَ سَالِمٌ ، أَوْ سَأَلْتُہُ عَنِ الصَّوْمِ فِی السَّفَرِ ؟ فَقَالَ : إِنْ صُمْتُمْ فَقَدْ أَجْزَأَ عَنْکُمْ ، وَإِنْ أَفْطَرْتُمْ فَقَدْ رُخِّصَ لَکُمْ۔
(٩٠٧٧) حضرت کھمس کہتے ہیں کہ حضرت سالم سے سفر میں روزہ کے بارے میں سوال کیا گیا تو انھوں نے فرمایا کہ اگر روزہ رکھ لو تو تمہارے لیے اچھا ہے اور اگر روزہ نہ رکھو تو اس کی بھی رخصت موجود ہے۔

9078

(۹۰۷۸) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا ہِشَامٌ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ عَائِشَۃَ ؛ أَنَّ حَمْزَۃَ الأَسْلَمِیَّ سَأَلَ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنِ الصَّوْمِ فِی السَّفَرِ ؟ فَقَالَ : صُمْ إِنْ شِئْتَ ، وَأَفْطِرْ إِنْ شِئْت۔ (بخاری ۱۹۴۳۔ مسلم ۱۰۳)
(٩٠٧٨) حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ حمزہ اسلمی نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دورانِ سفر روزے کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے فرمایا کہ اگر چاہو تو روزہ رکھو اور اگر چاہو تو نہ رکھو۔

9079

(۹۰۷۹) حَدَّثَنَا سَہْلُ بْنُ یُوسُفَ ، عَنِ الْعَوَّامِ ، قَالَ : قُلْتُ لِمُجَاہِدٍ : أَیُّ ذَلِکَ أَعْجَبُ إلَیْک ؟ قَالَ : إِذَا کُنْتَ تُطِیقُ الصَّوْمَ فَالصَّوْمُ أَعْجَبُ إلَیَّ۔
(٩٠٧٩) حضرت عوام فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت مجاہد سے پوچھا کہ سفر میں روزہ رکھنا زیادہ بہتر ہے یا روزہ چھوڑنا ؟ انھوں نے فرمایا کہ اگر تم میں روزہ رکھنے کی طاقت ہو تو میرے خیال میں روزہ رکھنا زیادہ بہتر ہے۔

9080

(۹۰۸۰) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ أَشْعَثِ بْنِ أَبِی الشَّعْثَائِ ، قَالَ : صَحِبْت أَبِی ، وَعَمْرَو بْنَ مَیْمُونٍ ، وَالأَسْوَد بْنَ یَزِیدَ ، وَأَبَا وَائِلٍ فَکَانُوا یَصُومُونَ رَمَضَانَ وَغَیْرَہُ فِی السَّفَرِ۔
(٩٠٨٠) حضرت اشعث بن ابی شعثاء فرماتے ہیں کہ میں اپنے والد حضرت ابو شعثاء اور حضرت عمرو بن میمون، اسود بن یزید اور ابو وائل کے ساتھ رہا ہوں۔ یہ سب حضرات دوران سفر رمضان کے اور دوسرے روزے رکھا کرتے تھے۔

9081

(۹۰۸۱) حَدَّثَنَا عَبِیْدَۃُ بْنُ حُمَیْدٍ ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ مُسْلِمٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ التَّیْمِیِّ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : اسْتَأْذَنْت حُذَیْفَۃَ بِالْمَدَائِنِ ، فَقَالَ لِی حُذَیْفَۃُ : بشرط عَلَی أَنْ لاَ تَقْصُرَ ، وَلاَ تُفْطِرَ۔
(٩٠٨١) حضرت ابراہیم تیمی کے والد فرماتے ہیں کہ میں حضرت حذیفہ کے ساتھ مدائن میں تھا۔ میں نے ان سے واپس اپنے گھر والوں کے پاس جانے کی اجازت مانگی تو انھوں نے فرمایا کہ اس شرط کے ساتھ اجازت ہے کہ تم نہ نماز میں قصر کرو گے اور نہ ہی روزہ چھوڑو گے۔

9082

(۹۰۸۲) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ الْعَبْدِیُّ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ أَبِی نَضْرَۃَ ، عَنْ أَبِی سَعِیدٍ ، قَالَ : خَرَجْنَا مَعَ نَبِیِّ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِن مَکَۃَ إلَی حُنَیْنٍ ، فِی اثْنَتَیْ عَشْرَۃَ بَقِیَتْ مِنْ رَمَضَانَ ، فَصَامَ طَائِفَۃٌ مِنْ أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَأَفْطَرَ آخَرُونَ ، فَلَمْ یَعِبْ ذَلِکَ۔ (مسلم ۹۴۔ احمد ۳/۹۲)
(٩٠٨٢) حضرت ابو سعید خدری فرماتے ہیں کہ ابھی رمضان ختم ہونے میں بارہ دن باقی تھے کہ ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ایک سفر پر روانہ ہوئے۔ آپ کے کچھ ساتھیوں نے روزہ رکھا اور کچھ نے نہ رکھا۔ آپ نے کسی کو کچھ نہ کہا۔

9083

(۹۰۸۳) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنِ التَّیْمِیِّ ، عَنْ أَبِی نَضْرَۃَ ، عَنْ أَبِی سَعِیدٍ ، قَالَ : کُنَّا نَغْزُو مَعَ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَمِنَّا الصَّائِمُ وَمِنَّا الْمُفْطِرُ ، فَلاَ یَعِیبُ الصَّائِمُ عَلَی الْمُفْطِرِ ، وَلاَ الْمُفْطِرُ عَلَی الصَّائِمِ۔
(٩٠٨٣) حضرت ابو سعید فرماتے ہیں کہ ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے شانہ بشانہ جہاد کیا کرتے تھے۔ ہم میں سے کچھ لوگ روزہ رکھتے تھے اور کچھ روزہ نہ رکھتے تھے۔ کوئی روزہ دار روزہ نہ رکھنے والے اور روزہ نہ رکھنے والا روزہ رکھنے والے کو کچھ نہ کہتا تھا۔

9084

(۹۰۸۴) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرِِ ، عَنْ حُمَیْدٍ ، قَالَ : خَرَجْت فَصُمْت ، فَقَالُوا لِی : أَعِدْ ، قَالَ : فَقُلْتُ : إنَّ أَنَسًا أَخْبَرَنِی أَنَّ أَصْحَابَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانُوا یُسَافِرُونَ ، فَلاَ یَعِیبُ الصَّائِمُ عَلَی الْمُفْطِرِ ، وَلاَ الْمُفْطِرُ عَلَی الصَّائِمِ ، فَلَقِیتُ ابْنَ أَبِی مُلَیْکَۃَ فَأَخْبَرَنِی عَنْ عَائِشَۃَ ، بِمِثْلِہِ۔
(٩٠٨٤) حضرت حمید فرماتے ہیں کہ میں ایک سفر پر تھا، میں نے روزہ رکھا تو لوگوں نے مجھے کہا کہ تمہیں اس روزے کا اعادہ کرنا ہوگا۔ میں نے کہا کہ مجھے حضرت انس نے بتایا ہے کہ صحابہ کرام سفر کرتے تھے اور کوئی روزہ دار روزہ نہ رکھنے والے اور روزہ نہ رکھنے والا روزہ رکھنے والے کو کچھ نہ کہتا تھا۔ اس کے بعد میں حضرت ابن ابی ملیکہ سے ملا تو انھوں نے مجھے حضرت عائشہ کے حوالے سے یہی بات بتائی۔

9085

(۹۰۸۵) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ ، عَنْ دَاوُدَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، وَالْحَسَنِ ، وَسَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ قَالُوا : کَانَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُسَافِرُونَ فَیَصُومُ الصَّائِمُ ، وَیُفْطِرُ الْمُفْطِرُ ، فَلاَ یَعِیبُ الصَّائِمُ عَلَی الْمُفْطِرِ ، وَلاَ الْمُفْطِرُ عَلَی الصَّائِمِ۔
(٩٠٨٥) حضرت شعبی، حضرت حسن اور حضرت سعید بن مسیب فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام جب سفر پر ہوتے تو بعض لوگ روزہ رکھتے اور بعض نہ رکھتے، لیکن روزہ دار روزہ نہ رکھنے والے اور روزہ نہ رکھنے والا روزہ رکھنے والے کو کچھ نہ کہتا تھا۔

9086

(۹۰۸۶) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ عَاصِمِ الأَحْوَلِ ، عَنْ أَبِی نَضْرَۃَ ، عَنْ جَابِرٍ ، قَالَ : کُنَّا مَعَ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَمِنَّا الصَّائِمُ وَمِنَّا الْمُفْطِرُ ، فَلَمْ یَکُنْ یَعِیبُ بَعْضُنَا عَلَی بَعْضٍ۔
(٩٠٨٦) حضرت جابر فرماتے ہیں کہ ہم نبی پاک (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ سفر کرتے، ہم میں سے کچھ لوگ روزہ رکھتے اور کچھ روزہ نہ رکھتے لیکن روزہ دار روزہ نہ رکھنے والے اور روزہ نہ رکھنے والا روزہ رکھنے والے کو کچھ نہ کہتا تھا۔

9087

(۹۰۸۷) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، حَدَّثَنَا الأَعْمَش ، عَنْ شَقِیقٍ ، قَالَ : کُنَّا مَعَ أَصْحَابِ عَبْدِ اللہِ فِی سَفَرٍ ، فَصَامَ بَعْضُہُمْ وَأَفْطَرَ بَعْضُہُمْ۔
(٩٠٨٧) حضرت شقیق فرماتے ہیں کہ ہم کچھ صحابہ کرام کے ساتھ تھے ان میں سے کچھ نے روزہ رکھا اور کچھ نے روزہ نہ رکھا۔

9088

(۹۰۸۸) حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّیَالِسِیُّ ، عَنْ عِمْرَانَ الْقَطَّانِ ، عَنْ عَمَّارٍ مَوْلَی بَنِی ہَاشِمٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ؛ أَنَّہُ سُئِلَ عَنْ رَجُلٍ صَامَ رَمَضَانَ فِی سَفَرٍ ؟ فَقَالَ : لاَ یُجْزِیہِ۔
(٩٠٨٨) حضرت ابن عباس سے سوال کیا گیا کہ کیا سفر میں رکھا جانے والا روزہ کافی ہے ؟ انھوں نے فرمایا نہیں۔

9089

(۹۰۸۹) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، عَنْ زُہَیْرٍ ، عَنْ عَبْدِ الْکَرِیمِ ، عَنْ عَطَائٍ ، عَنِ الْمُحَرَّر بْنِ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : صُمْت رَمَضَانَ فِی السَّفَرِ ، فَأَمَرَنِی أَبُو ہُرَیْرَۃَ أَنْ أُعِیدَ الصِّیَامَ فِی أَہْلِی۔
(٩٠٨٩) حضرت محرر بن ابی ہریرہ کہتے ہیں کہ میں نے دورانِ سفر رمضان کا روزہ رکھا تو حضرت ابوہریرہ نے مجھ سے فرمایا کہ اپنے علاقے میں پہنچ کر یہ روزہ دوبارہ رکھو۔

9090

(۹۰۹۰) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ أَبِی الْفَیْضِ ، قَالَ : کُنَّا فِی غَزْوَۃٍ فَکَانَ عَلَیْنَا أَمِیرٌ ، فَقَالَ : لاَ تَصُومَنَّ ، فَمَنْ صَامَ فَلْیُفْطِرْ ، قَالَ أَبُو الْفَیْضِ : فَلَقِیتُ أَبَا قِرْصَافَۃَ ، رَجُلاً مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَسَأَلْتُہُ عَنْ ذَلِکَ ؟ فَقَالَ : لَوْ صُمْتُ ثُمَّ صُمْتُ مَا قَضَیْتُ۔
(٩٠٩٠) حضرت ابو فیض فرماتے ہیں کہ ہم ایک غزوہ میں تھے اور ایک صاحب ہمارے امیر تھے۔ انھوں نے فرمایا کہ جو چاہے روزہ رکھے اور جو چاہے روزہ نہ رکھے۔ ابو فیض کہتے ہیں کہ میں ایک صحابی حضرت ابو قرصافہ کو ملا اور میں نے ان سے اس بارے میں سوال کیا تو انھوں نے فرمایا کہ اگر میں روزہ رکھوں اور پھر روزہ رکھوں تو میں نے قضاء نہیں کی۔

9091

(۹۰۹۱) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِینَارٍ ، عَنْ رَجُلٍ ، عَنْ أَبِیہِ ؛ أَنَّ رَجُلاً صَامَ رَمَضَانَ فِی السَّفَرِ ، فَأَمَرَہُ عُمَرُ رَحِمَہُ اللَّہُ أَنْ یُعِیدَ۔
(٩٠٩١) ایک شخص روایت کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ ایک آدمی نے دورانِ سفر رمضان کا روزہ رکھا تو حضرت عمر نے روزے کا اعادہ کرنے کا حکم دیا۔

9092

(۹۰۹۲) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ الثَّقَفِیُّ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ ، عَنْ عَبِیْدَۃَ ، قَالَ : سَأَلْتُُہُ عَنْ قَوْلِہِ تَعَالَی : {فَمَنْ شَہِدَ مِنْکُمُ الشَّہْرَ فَلْیَصُمْہُ} ؟ قَالَ : مَنْ شَہِدَ أَوَّلَہُ فَلْیَصُمْ آخِرَہُ ، أَلاَ تَرَی إلَی قَوْلِہِ تَعَالَی : {فَمَنْ شَہِدَ مِنْکُمُ الشَّہْرَ فَلْیَصُمْہُ}۔
(٩٠٩٢) حضرت ابن سیرین کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عبیدہ سے قرآن مجید کی اس آیت { فَمَنْ شَہِدَ مِنْکُمُ الشَّہْرَ فَلْیَصُمْہُ } کے بارے میں سوال کیا تو انھوں نے فرمایا کہ جس نے اس مہینے کے شروع میں روزے رکھے وہ اس کے آخر میں بھی روزے رکھے۔ کیا تم نہیں دیکھتے کہ اللہ تعالیٰ فرما رہے ہیں { فَمَنْ شَہِدَ مِنْکُمُ الشَّہْرَ فَلْیَصُمْہُ }

9093

(۹۰۹۳) حَدَّثَنَا سَہْلُ بْنُ یُوسُفَ ، عَنِ التَّیْمِیِّ ، عَنْ أَبِی مِجْلَزٍ ، قَالَ : إذَا دَخَلَ شَہْرُ رَمَضَانَ فَلاَ یَخْرُجُ ، فَإِنْ أَبَی إِلاَّ أَنْ یَخْرُجَ فَلْیُتِمَّ صَوْمَہُ۔
(٩٠٩٣) حضرت ابو مجلز فرماتے ہیں کہ جب رمضان کا مہینہ داخل ہوجائے تو آدمی سفر پر نہ نکلے، اگر نکلنا ضروری ہی ہو تو روزے پورے رکھے۔

9094

(۹۰۹۴) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ عَلِیٍّ رحمہ اللہ تَعَالَی ، قَالَ : إذَا أَدْرَکَہُ رَمَضَانُ وَہُوَ مُقِیمٌ ثُمَّ سَافَرَ فَلْیَصُمْ۔
(٩٠٩٤) حضرت علی فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص رمضان شروع ہونے کے بعد سفر اختیار کرے تو اسے روزے رکھنے ہوں گے۔

9095

(۹۰۹۵) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ مُرَّۃَ ، قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا الْبَخْتَرِیِّ یُحَدِّثُ ، عَنْ عُبَیْدَۃَ ، أَنَّہُ قَالَ فِی الرَّجُلِ یَصُومُ مِنْ رَمَضَانَ أَیَّامًا ، ثُمَّ یَخْرُجُ ، قَالَ : یَصُومُ ۔ وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ : إِنْ شَائَ صَامَ : وَإِنْ شَائَ أَفْطَرَ۔
(٩٠٩٥) حضرت عبیدہ فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص رمضان کے کچھ روزے حالت حضر میں رکھتا رہا پھر اسے سفر پیش آگیا تو وہ روزے رکھے گا۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ اگر چاہے تو روزے رکھے اور اگر چاہے تو نہ رکھے۔

9096

(۹۰۹۶) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنِ الْحَجَّاجِ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ؛ أَنَّہُ خَرَجَ فِی رَمَضَانَ فَأَفْطَرَ۔
(٩٠٩٦) حضرت نافع فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عمر رمضان میں ایک سفر پر نکلے اور انھوں نے روزے رکھے۔

9097

(۹۰۹۷) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنِ الْحَسَنِ، أَنَّہُ قَالَ: لاَ بَأْسَ فِی السَّفَرِ فِی رَمَضَانَ، وَیُفْطِرُ إِنْ شَائَ۔
(٩٠٩٧) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ رمضان میں سفر کا آغاز کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ اور وہ چاہے تو روزہ چھوڑ بھی سکتا ہے۔

9098

(۹۰۹۸) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ؛ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صَامَ عَامَ الْفَتْحِ حَتَّی بَلَغَ الْکَدِیدَ ، ثُمَّ أَفْطَرَ۔
(٩٠٩٨) حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ نبی پاک (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فتح مکہ والے سال روزے رکھے اور مقام کدید پہنچنے کے بعد آپ نے روزے نہیں رکھے۔

9099

(۹۰۹۹) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ ، قَالَ : سَأَلْتُ عَبِیْدَۃَ: أُسَافِرُ فِی رَمَضَانَ؟ فَقَالَ: لاَ۔
(٩٠٩٩) حضرت ابن سیرین کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عبیدہ سے سوال کیا کہ کیا میں رمضان میں روزے رکھوں ؟ انھوں نے فرمایا نہیں۔

9100

(۹۱۰۰) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ الْحُبَابِ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ یَزِیدَ بْنِ أَبِی زِیَادٍ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ حُسَیْنٍ ؛ أَنَّہُ سُئِلَ عَنْ قَوْمٍ سَافَرُوا فِی رَمَضَانَ ؟ قَالَ : یَصُومُونَ۔
(٩١٠٠) حضرت علی بن حسین سے سوال کیا گیا کہ اگر کچھ لوگ رمضان میں سفر شروع کریں تو کیا وہ روزے رکھیں گے ؟ انھوں نے فرمایا ہاں، وہ روزے رکھیں گے۔

9101

(۹۱۰۱) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، عَن عَلْقَمَۃَ ؛ فِی قولہ تعالی : {وَعَلَی الَّذِینَ یُطِیقُونَہُ فِدْیَۃٌ طَعَامُ مِسْکِینٍ} قَالَ : نَسَخَتْہَا {فَمَنْ شَہِدَ مِنْکُمُ الشَّہْرَ فَلْیَصُمْہُ}۔
(٩١٠١) حضرت علقمہ فرماتے ہیں کہ قرآن مجید کی آیت { وَعَلَی الَّذِینَ یُطِیقُونَہُ فِدْیَۃٌ طَعَامُ مِسْکِینٍ } کو دوسری آیت { فَمَنْ شَہِدَ مِنْکُمَ الشَّہْرَ فَلْیَصُمْہُ } نے منسوخ کردیا ہے۔

9102

(۹۱۰۲) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : إِنَّہَا قَدْ نَسَخَتْ ہَذِہِ الآیَۃَ : {فَمَنْ شَہِدَ مِنْکُمُ الشَّہْرَ فَلْیَصُمْہُ} الآیَۃُ الَّتِی بَعْدَہَا۔
(٩١٠٢) حضرت ابن عمر فرماتے ہیں کہ آیت { فَمَنْ شَہِدَ مِنْکُمُ الشَّہْرَ فَلْیَصُمْہُ } نے اپنے بعد والی آیت کو منسوخ کردیا ہے۔

9103

(۹۱۰۳) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنْ أَبِی یَزِیدَ ، عَنْ أُمِّ ذَرَّۃَ قَالَتْ : أَتَیْتُ عَائِشَۃَ ، فَقَالَتْ : مِنْ أَیْنَ جِئْت؟ فَقُلْتُ: مِنْ عِنْدِ أَخِی ، فَقَالَتْ : مَا شَأْنُہُ ؟ قُلْتُ : وَدَّعْتُہُ یُرِیدُ أَنْ یَرْتَحِلَ ۔ قَالَتْ : فَأَقْرِئِیہِ مِنِّی السَّلاَمَ، وَمُرِیہِ فَلْیَقُمْ ، فَلَوْ أَدْرَکَنِی وَأَنَا بِبَعْضِ الطَّرِیقِ لأَقَمْتُ ، یَعْنِی رَمَضَانَ۔
(٩١٠٣) حضرت ام ذرہ فرماتی ہیں کہ میں حضرت عائشہ کے پاس حاضر ہوئی انھوں نے کہا کہ تم کہاں سے آرہی ہو ؟ میں نے کہا میں اپنے بھائی کے پاس سے آرہی ہوں۔ انھوں نے کہا کہ اس کا کیا حال ہے ؟ میں نے کہا میں اسے رخصت کرکے آئی ہوں وہ سفر پر جانا چاہتا ہے۔ حضرت عائشہ نے فرمایا کہ اسے میری طرف سے سلام کہنا اور اس کو حکم دینا کہ ابھی مقیم رہے جب تک رمضان ہے۔ اگر وہ مجھے کہیں مل گیا تو میں اسے روکوں گی۔

9104

(۹۱۰۴) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، قَالَ : خَرَجَ أَبُو مَیْسَرَۃَ فِی رَمَضَانَ مُسَافِرًا ، فَمَرَّ بِالْفُرَاتِ وَہُوَ صَائِمٌ فَأَخَذَ مِنْہُ حَسْوَۃً ، فَشَرِبَہُ وَأَفْطَرَ۔
(٩١٠٤) حضرت مغیرہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابو میسرہ رمضان میں سفر کی غرض سے نکلے۔ وہ روزے کی حالت میں دریائے فرات کے پاس سے گذرے اور افطاری کے لیے اس میں سے ایک چلو پانی لے کر پانی پیا۔

9105

(۹۱۰۵) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَۃَ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ، وَالْحَسَنِ قَالاَ : یُفْطِرُ إِنْ شَائَ۔
(٩١٠٥) حضرت سعید بن مسیب اور حضرت حسن فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص رمضان میں سفر شروع کرے تو اگر وہ چاہے تو روزہ نہ رکھے۔

9106

(۹۱۰۶) حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرٍ حَدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنِ الْجُرَیْرِیِّ ، عَنْ أَبِی الْوَرْدِ بْنِ ثُمَامَۃَ ، عَنِ اللَّجْلاَجِ ، قَالَ: کُنَّا نُسَافِرُ مَعَ عُمَرَ رضی اللَّہُ عَنْہُ ثَلاَثَۃَ أَمْیَالٍ ، فَیَتَجَوَّزُ فِی الصَّلاَۃِ وَیُفْطِرُ۔
(٩١٠٦) حضرت لجلاج فرماتے ہیں کہ جب ہم حضرت عمر کے ساتھ سفر کرتے تو وہ تین میل کی مسافت کے بعد نماز کو مختصر کرتے اور روزہ چھوڑ دیتے تھے۔

9107

(۹۱۰۷) حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إسْمَاعِیلَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ حَرْمَلَۃَ ، قَالَ : سَأَلْتُ سَعِیدَ بْنَ الْمُسَیَّبِ : أُقْصِرُ الصَّلاَۃَ وَأُفْطِرُ إلَی رِیمٍ ؟ قَالَ : نَعَمْ ، وَہُوَ بَرِیدان مِنَ الْمَدِینَۃِ۔
(٩١٠٧) حضرت عبد الرحمن بن حرملہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت سعید بن مسیب سے سوال کیا کہ کیا میں مقام ریم میں نماز میں قصر کروں اور روزہ چھوڑوں ؟ انھوں نے فرمایا ہاں۔ یہ جگہ مدینہ سے دو برید کے فاصلے پر ہے۔

9108

(۹۱۰۸) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، قَالَ : قَالَ عَطَائٌ : الصِّیَامُ فِی السَّفَرِ مِثْلُ الصَّلاَۃِ ، تَقْصُرُ إذَا أَفْطَرْت ، وَتَصُومُ إذَا وَفَّیْتَ الصَّلاَۃَ۔
(٩١٠٨) حضرت عطاء فرماتے ہیں کہ سفر میں روزہ نماز کی طرح ہے۔ جب تم نماز میں قصر کرو گے تو روزہ بھی چھوڑ سکتے ہو۔

9109

(۹۱۰۹) حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ أَیُّوبَ ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ بُرْقَانَ ، قَالَ : سَأَلْتُ الزُّہْرِیَّ : فِی کَمْ تُقْصَرُ الصَّلاَۃُ ؟ قَالَ : فِی السَّفَرِ الْمُمْعِنِ ، قَالَ : قُلْتُ : وَمَا الإِمْعَانُ فِی نَفْسِکَ ؟ قَالَ : یَوْمَیْنِ۔
(٩١٠٩) حضرت جعفر بن برقان فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت زہری سے سوال کیا کہ کتنے سفر پر نماز میں قصر کیا جاسکتا ہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ تھکا دینے والے سفر پر۔ میں نے کہا کہ تھکا دینے والا سفر کیا ہے ؟ انھوں نے فرمایا دو دن کا سفر۔

9110

(۹۱۱۰) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ التَّیْمِیِّ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : کُنْتُ مَعَ حُذَیْفَۃَ بِالْمَدَائِنِ ، قَالَ: فَاسْتَأْذَنْتُہُ بِالرُّجُوعِ إلَی أَہْلِی ، فَقَالَ : لاَ آذَنُ لَکَ إِلاَّ عَلَی أَنْ تَعْزِمَ أَلاَّ تُفْطِرَ حَتَّی تَدْخُلَ ، قَالَ : وَذَلِکَ فِی رَمَضَانَ ، قُلْتُ : وَأَنَا أَعْزِمُ عَلَی نَفْسِی أَنْ لاَ أُفْطِرَ ، وَلاَ أَقْصُرَ حَتَّی آتِیَ أَہْلِی۔
(٩١١٠) حضرت ابراہیم تیمی کے والد فرماتے ہیں کہ میں حضرت حذیفہ کے ساتھ مدائن میں تھا میں نے ان سے اپنے گھر واپس جانے کی اجازت مانگی تو انھوں نے فرمایا کہ میں تمہیں اس شرط پر اجازت دیتا ہوں کہ تم گھر پہنچے تک رمضان کا روزہ نہیں چھوڑو گے۔ میں نے کہا کہ میں وعدہ کرتا ہوں کہ گھر پہنچنے تک نہ رمضان کا روزہ چھوڑوں گا اور نہ نماز میں قصر کروں گا۔

9111

(۹۱۱۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ مَرْثَدٍ ؛ أَنَّ أَبَا مَیْسَرَۃَ سَافَرَ فِی رَمَضَانَ ، فَأَفْطَرَ عِنْدَ بَابِ الْجِسْرِ۔
(٩١١١) حضرت مرثد فرماتے ہیں کہ حضرت ابو میسرہ نے رمضان میں سفر کیا اور پل کے دروازے کے پاس روزہ افطار کیا۔

9112

(۹۱۱۲) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِِ ، عَنْ سِمَاکٍ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لاَ تَصُومُوا قَبْلَ رَمَضَانَ ، صُومُوا لِرُؤْیَتِہِ وَأَفْطِرُوا لِرُؤْیَتِہِ ، فَإِنْ حَالَتْ دُونَہُ غَیَایَۃٌ فَکَمِّلُوا ثَلاَثِینَ۔ (ترمذی ۶۸۸۔ ابویعلی ۲۳۵۵)
(٩١١٢) حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ رمضان سے پہلے روزہ نہ رکھو۔ رمضان کا چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور شوال کا چاند دیکھ کر عید مناؤ۔ اگر چاند دیکھنے میں بادلوں کی کوئی رکاوٹ ہو تو تیس دن پورے کرو۔

9113

(۹۱۱۳) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِِ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ رِبْعِیٍّ ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لاَ تَقَدَّمُوا الشَّہْرَ إِلاَّ أَنْ تَرَوُا الْہِلاَلَ ، أَوْ تُکْمِلُوا الْعِدَّۃَ ، وَلاَ تُفْطِرُوا حَتَّی تَرَوُا الْہِلاَلَ ، أَوْ تُکْمِلُوا الْعِدَّۃَ۔ (ابوداؤد ۲۳۲۰۔ نسائی ۲۴۳۶)
(٩١١٣) ایک صحابی روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ رمضان آنے سے پہلے روزہ نہ رکھو یہاں تک کہ تم چاند دیکھ لو یاشعبان کے تیس دن پورے کرلو۔ اس وقت تک عید نہ مناؤ جب تک چاند نہ دیکھ لو یا تیس روزے پورے نہ کرلو۔

9114

(۹۱۱۴) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِِ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِی الأَحْوَصِ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : صُومُوا لِرُؤْیَتِہِ وَأَفْطِرُوا لِرُؤْیَتِہِ ، فَإِنْ غُمَّ عَلَیْکُمْ فَأَتموا ثَلاَثِینَ۔
(٩١١٤) حضرت عبداللہ فرماتے ہیں کہ چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور چاند دیکھ کر عید مناؤ، اگر بادل چھا جائیں تو تیس روزے پورے کرو۔

9115

(۹۱۱۵) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ عَطَائٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : لاَ تَصِلُوا رَمَضَانَ بِشَیْئٍ ، وَلاَ تَقَدَّمُوا قَبْلَہُ بِیَوْمٍ ، وَلاَ بِیَوْمَیْنِ۔
(٩١١٥) حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ رمضان کے ساتھ کسی چیز کو نہ ملاؤ، رمضان سے ایک یا دو دن پہلے روزہ نہ رکھو۔

9116

(۹۱۱۶) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، حدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ بْنُ عُمَرَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ؛ أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ذَکَرَ رَمَضَانَ ، فَقَالَ : صُومُوا لِرُؤْیَتِہِ وَأَفْطِرُوا لِرُؤْیَتِہِ ، فَإِنْ أُغْمِی عَلَیْکُمْ فَاقْدُرُوا لَہُ۔ (مسلم ۵۔ احمد ۲/۱۳)
(٩١١٦) حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور چاند دیکھ کر عید مناؤ، اگر چاند نظر نہ آئے تو مقدار پوری کرلو۔

9117

(۹۱۱۷) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ بْنُ عُمَرَ ، عَنْ أَبِی الزِّنَادِ ، عَنِ الأَعْرَجِ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : ذَکَرَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْہِلاَلَ ، فَقَالَ : إذَا رَأَیْتُمُوہُ فَصُومُوا ، وَإِذَا رَأَیْتُمُوہُ فَأَفْطِرُوا ، فَإِنْ أُغْمِی عَلَیْکُمْ فَعُدُّوا ثَلاَثِینَ۔ (مسلم ۲۰۔ ابویعلی ۶۲۵۲)
(٩١١٧) حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور چاند دیکھ کر عید مناؤ، اگر چاند نظر نہ آئے تو تیس روزے پورے کرلو۔

9118

(۹۱۱۸) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ الثَّقَفِیُّ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنْ أَبِی قِلاَبَۃَ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : نُہِیَ أَنْ یُتَعَجَّلَ قَبْلَ رَمَضَانَ بِیَوْمٍ ، أَوْ یَوْمَیْنِ۔
(٩١١٨) حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ رمضان سے ایک یا دو دن پہلے روزہ رکھنے سے منع کیا گیا ہے۔

9119

(۹۱۱۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ أَبِی الْعُمَیْسِ ، عَنِ الْعَلاَئِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ یَعْقُوبَ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إذَا کَانَ النِّصْفُ مِنْ شَعْبَانَ ، فَأَمْسِکُوا حَتَّی یَکُونَ رَمَضَانُ۔ (ترمذی ۷۳۸۔ ابوداؤد ۲۳۳۰)
(٩١١٩) حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ نصف شعبان کے رمضان تک روزے سے رکے رہو۔

9120

(۹۱۲۰) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ حُصَیْنٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ ، عَنْ أَبِی الْبَخْتَرِیِّ ، قَالَ : خَرَجْنَا لِلْعُمْرَۃِ ، فَلَمَّا نَزَلْنَا بِبَطْنِ نَخْلَۃَ ، قَالَ : تَرَائَیْنَا الْہِلاَلَ ، قَالَ بَعْضُ الْقَوْمِ : ہُوَ ابْنُ ثَلاَثٍ ، وَقَالَ بَعْضُ الْقَوْمِ : ہُوَ ابْنُ لَیْلَتَیْنِ، فَلَقِینَا ابْنَ عَبَّاسٍ فَقُلْنَا : إنَّا رَأَیْنَا الْہِلاَلَ ، فَقَالَ بَعْضُ الْقَوْمِ : ہُوَ ابْنُ ثَلاَثٍ ، وَقَالَ بَعْضُ الْقَوْمِ : ہُوَ ابْنُ لَیْلَتَیْنِ ، فَقَالَ : أَیُّ لَیْلَۃٍ رَأَیْتُمُوہُ ؟ قَالَ : فَقُلْنَا : لَیْلَۃَ کَذَا وَکَذَا ، فَقَالَ : إنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : إنَّ اللَّہَ مَدَّہُ لِلرُّؤْیَۃِ ، فَہُوَ لِلَیْلَۃٍ رَأَیْتُمُوہُ۔ (مسلم ۲۹۔ طبرانی ۱۲۶۸۷)
(٩١٢٠) حضرت ابو بختری فرماتے ہیں کہ ہم عمرہ کے لیے روانہ ہوئے، جب ہم مقام بطن نخلہ پہنچے تو ہم نے کہا کہ ہمیں چاند نظر آگیا ہے، کچھ لوگوں نے کہا کہ یہ تیسری رات کا چاند ہے، کچھ نے کہا کہ یہ دوسری رات کا چاند ہے۔ اس پر ہم حضرت ابن عباس سے ملے اور ہم نے کہا کہ ہم نے چاند دیکھا ہے، کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہ تیسری رات کا چاند ہے اور کچھ نے کہا کہ یہ دوسری رات کا چاند ہے۔ انھوں نے کہا کہ تم نے یہ چاند کب دیکھا ؟ ہم نے کہا کہ فلاں رات میں۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ اللہ کے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ نے چاند کی رویت کو لمبا کیا ہے، چاند کی رات وہ ہوگی جس رات تم اسے دیکھو۔

9121

(۹۱۲۱) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ ، قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا الْبَخْتَرِیِّ ، قَالَ : أَہْلَلْنَا رَمَضَانَ وَنَحْنُ بِذَاتِ عِرْقٍ ، فَأَرْسَلْنَا رَجُلاً إلَی ابْنِ عَبَّاسٍ یَسْأَلُہُ ؟ فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: إنَّ اللَّہَ قَدْ أَمَدَّہُ لِرُؤْیَتِہِ ، فَإِنْ أُغْمِیَ عَلَیْکُمْ فَأَکْمِلُوا الْعِدَّۃَ۔ (مسلم ۳۰ احمد ۱/۳۲۷)
(٩١٢١) حضرت ابو بختری فرماتے ہیں کہ ہم نے مقام ذات عرق میں رمضان کا چاند دیکھا، ہم نے ایک آدمی حضرت ابن عباس کے پاس بھیجا جو ان سے اس بارے میں سوال کرے۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ نے چاند کی رویت کو لمبا کیا ہے اگر تمہیں چاند نظر نہ آئے تو تم تیس دن پورے کرلو۔

9122

(۹۱۲۲) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، قَالَ أَخْبَرَنَا مُجَالِدٌ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنْ عَلِیٍّ ؛ أَنَّہُ کَانَ یَخْطُبُ إذَا حَضَرَ رَمَضَانُ فَیَقُولُ : أَلاَ لاَ تَقَدَّمُوا الشَّہْرَ ، إذَا رَأَیْتُمُ الْہِلاَلَ فَصُومُوا ، وَإِذَا رَأَیْتُمُ الْہِلاَلَ فَأَفْطِرُوا ، فَإِنْ أُغْمِیَ عَلَیْکُمْ فَأَتِمُّوا الْعِدَّۃَ ، قَالَ : کَانَ یَقُولُ ذَلِکَ بَعْدَ صَلاَۃِ الْعَصْرِ ، وَبَعْدَ صَلاَۃِ الْفَجْرِ۔
(٩١٢٢) حضرت شعبی فرماتے ہیں کہ جب رمضان کا مہینہ آتا تو حضرت علی خطبہ دیتے جس میں ارشاد فرماتے کہ خبردار ! مہینے سے آگے نہ بڑھو ، جب تم چاند دیکھو تو روزہ رکھو۔ جب چاند دیکھو تو عید مناؤ، جب چاند تمہیں نظر نہ آئے تو تیس دن پورے کرلو۔ حضرت علی یہ بات عصر کے بعد اور فجر کے بعد فرمایا کرتے تھے۔

9123

(۹۱۲۳) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، أَخْبَرَنَا مُجَالِدٌ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، عَنْ عُمَرَ ، مِثْلَ ذَلِکَ۔
(٩١٢٣) حضرت عمر سے بھی یونہی منقول ہے۔

9124

(۹۱۲۴) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، وَمُحَمَّدٍ قَالاَ : نُہِیَ أَنْ یُتَقَدَّمَ بَیْنَ یَدَیْ رَمَضَانَ بِصَوْمٍ۔
(٩١٢٤) حضرت حسن اور حضرت محمد فرماتے ہیں کہ رمضان سے پہلے روزہ رکھنے سے منع کیا گیا ہے۔

9125

(۹۱۲۵) حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ بْنُ مُوسَی ، عَنْ إسْرَائِیلَ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ أَبِی جَعْفَرٍ ، وَعَطَائٍ ؛ أَنَّہُمَا کَرِہَا التَّعْجِیلَ قَبْلَ رَمَضَانَ۔
(٩١٢٥) حضرت ابو جعفر اور حضرت عطاء نے رمضان سے پہلے روزہ رکھنے کو مکروہ قرار دیا ہے۔

9126

(۹۱۲۶) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ عَطَائٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ؛ فِی الرَّجُلِ یَصُومُ فَیَحْضُرُ رَمَضَانُ ، قَالَ : یَفْصِلُ بَیْنَہُ وَبَیْنَ رَمَضَانَ بِأَیَّامٍ۔
(٩١٢٦) حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ اگر کسی آدمی کا روزے رکھنے کا معمول ہو، اس دوران رمضان آجائے تو رمضان سے کچھ دن پہلے روزے رکھنے چھوڑ دے۔

9127

(۹۱۲۷) حَدَّثَنَا سَہْلُ بْنُ یُوسُفَ ، عَنِ التَّیْمِیِّ ، عَنْ أَبِی قِلاَبَۃَ ، قَالَ : کَانُوا یَنْظُرُونَ إلَی الْہِلاَلِ فَإنْ رَأَوْہُ صَامُوا، وَإِنْ لَمْ یَرَوْہُ نَظَرُوا مَا یَقُولُ إمَامُہُمْ۔
(٩١٢٧) حضرت ابو قلابہ فرماتے ہیں کہ اسلاف چاند کو دیکھا کرتے تھے، جب وہ چاند دیکھتے تو روزہ رکھتے، اگر نہ دیکھتے تو اپنے امام کی بات کا انتظار کرتے۔

9128

(۹۱۲۸) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ الْحُبَابِ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنْ أَبِی سَلَمَۃَ ، عَنْ أُمِّ سَلَمَۃَ ؛ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یَصِلُ شَعْبَانَ بِرَمَضَانَ۔ (ترمذی ۷۳۶۔ احمد ۶/۳۰۰)
(٩١٢٨) حضرت ام سلمہ فرماتی ہیں کہ نبی پاک (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) شعبان کو رمضان کے ساتھ ملایا کرتے تھے۔

9129

(۹۱۲۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ مُبَارَکٍ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ أَبِی کَثِیرٍ ، عَنْ أَبِی سَلَمَۃَ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لاَ تَقَدَّمُوا رَمَضَانَ بِصَوْمِ یَوْمٍ ، وَلاَ یَوْمَیْنِ إِلاَّ رَجُلٌ کَانَ یَصُومُ صَوْمًا فَلْیَصُمْہُ۔ (مسلم ۲۱۔ ترمذی ۶۸۵)
(٩١٢٩) حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ رمضان سے ایک یا دو دن پہلے صرف وہ شخص روزہ رکھے جو پہلے سے روزے رکھنے کا عادی ہو۔

9130

(۹۱۳۰) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، قَالَ : إذَا کَانَ رَجُلٌ یُدِیمُ الصَّوْمَ فَلاَ بَأْسَ أَنْ یَصِلَہُ۔
(٩١٣٠) حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ جو شخص ہمیشہ روزہ رکھتا ہو اس کے لیے کوئی حرج نہیں کہ وہ شعبان اور رمضان کو ملائے۔

9131

(۹۱۳۱) حَدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ؛ أَنَّ مُحَمَّدًا تَسَحَّرَ وَہُوَ یَرَی أَنَّ عَلَیْہِ لَیْلاً ، ثُمَّ اسْتَبَانَ لَہُ أَنَّہُ تَسَحَّرَ بَعْدَ مَا أَصْبَحَ ، فَقَالَ : أَمَّا أَنَا الْیَوْمَ فَمُفْطِرٌ۔
(٩١٣١) حضرت ابن عون فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت محمد نے صبح ہونے کے بعد رات کے گمان میں سحری کھائی تو فرمایا کہ آج میرا روزہ نہیں ہوا۔

9132

(۹۱۳۲) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنِ ابْنِ أَبِی نَجِیحٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ؛ فِیمَنْ تَسَحَّرَ وَہُوَ یَرَی أَنَّ عَلَیْہِ لَیْلاً ، فَبَانَ أَنَّہُ تَسَحَّرَ وَقَدْ طَلَعَ الْفَجْرُ ؟ فَلْیُتِمَّ صِیَامَہُ۔
(٩١٣٢) حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ اگر کسی آدمی نے صبح ہونے کے بعد رات کے گمان میں سحری کھائی تو وہ روزہ پورا کرے۔

9133

(۹۱۳۳) حَدَّثَنَا سَہْلُ بْنُ یُوسُفَ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، قَالَ : سَأَلْتُ الْحَکَمَ عَنِ الرَّجُلِ یَتَسَحَّرُ وَہُوَ یَرَی أَنَّ عَلَیْہِ لَیْلاً ؟ قَالَ : یُتِمُّ صوَمَہُ۔
(٩١٣٣) حضرت شعبہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت حکم سے سوال کیا کہ اگر کسی آدمی نے صبح ہونے کے بعد رات کے گمان میں سحری کھائی تو وہ کیا کرے ؟ انھوں نے فرمایا کہ وہ روزہ پورا کرے۔

9134

(۹۱۳۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ حُصَیْنٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ، قَالَ : إذَا أَکَلَ بَعْدَ طُلُوعِ الْفَجْرِ مَضَی عَلَی صِیَامِہِ ، وَقَضَی یَوْمًا مَکَانَہُ۔
(٩١٣٤) حضرت سعید بن جبیر فرماتے ہیں کہ اگر کسی آدمی نے طلوع فجر کے بعد سحری کھائی تو وہ روزے کو پورا کرے اور اس کے بدلے ایک دن کی قضا کرے۔

9135

(۹۱۳۵) حَدَّثَنَا سَہْلُ بْنُ یُوسُفَ، عَنْ عَمْرٍو، عَنِ الْحَسَنِ؛ فِی رَجُلٍ تَسَحَّرَ وَہُوَ یَرَی أَنَّ عَلَیْہِ لَیْلاً، قَالَ: یُتِمُّ صَوْمَہُ۔
(٩١٣٥) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ اگر کسی آدمی نے صبح ہونے کے بعد رات کے گمان میں سحری کھائی تو وہ روزے کو پورا کرے۔

9136

(۹۱۳۶) حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ ، عَنْ حَبِیبٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ ہَرِمٍ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ زَیْدٍ ، قَالَ : یُتِمُّ صَوْمَہُ۔
(٩١٣٦) حضرت جابر بن زید فرماتے ہیں کہ اگر کسی آدمی نے صبح ہونے کے بعد رات کے گمان میں سحری کھائی تو وہ روزے کو پورا کرے۔

9137

(۹۱۳۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ ، قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللہِ : مَنْ أَکَلَ أَوَّلَ النَّہَارِ فَلْیَأْکُلْ آخِرَہُ۔
(٩١٣٧) حضرت عبداللہ فرماتے ہیں کہ اگر کسی نے دن کے ابتدائی حصے میں کھایا ہے تو دن کے دوسرے حصے میں بھی کھائے۔

9138

(۹۱۳۸) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَنِ الشَّیْبَانِیِّ ، عَنْ جَبَلَۃَ بْنِ سُحَیْمٍ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ حَنْظَلَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : شَہِدْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ فِی رَمَضَانَ ، وَقُرِّبَ إلَیْہِ شَرَابٌ ، فَشَرِبَ بَعْضُ الْقَوْمِ وَہُمْ یَرَوْنَ أَنَّ الشَّمْسَ قَدْ غَرَبَتْ ، ثُمَّ ارْتَقَی الْمُؤَذِّنُ ، فَقَالَ : یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ ، وَاللَّہِ لَلشَّمْسُ طَالِعَۃٌ لَمْ تَغْرُبْ ، فَقَالَ عُمَرُ : مَنَعَنَا اللَّہُ مِنْ شَرِّکَ مَرَّتَیْنِ ، أَوْ ثَلاَثَۃً ، یَا ہَؤُلاَئِ ، مَنْ کَانَ أَفْطَرَ فَلْیَصُمْ یَوْمًا مَکَانَ یَوْمٍ ، وَمَنْ لَمْ یَکُنْ أَفْطَرَ فَلْیُتِمَّ حَتَّی تَغْرُبَ الشَّمْسُ۔
(٩١٣٨) حضرت حنظلہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ رمضان میں میں حضرت عمر کے ساتھ تھا۔ ان کے لیے پینے کی کوئی چیز پیش کی گئی۔ بعض لوگوں نے یہ خیال کرتے ہوئے اسے پی لیا کہ سورج غروب ہوچکا ہے۔ پھر مؤذن اوپر چڑھا اور اس نے اعلان کیا کہ اے امیر المؤمنین ! خدا کی قسم ابھی سورج غروب نہیں ہوا۔ حضرت عمر نے فرمایا کہ اللہ ہمیں تیرے شر سے بچائے۔ یہ بات دو یاتین مرتبہ فرمائی۔ پھر آپ نے لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ جس شخص نے آج وقت سے پہلے افطار کیا ہے وہ اس دن کے بدلے ایک روزہ رکھے، جس نے افطار نہیں کیا وہ غروب شمس کا انتظار کرے۔

9139

(۹۱۳۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ جَبَلَۃَ بْنِ سُحَیْمٍ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ حَنْظَلَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ عُمَرَ ، نَحْوِہِ ، إِلاَّ أَنَّ سُفْیَانَ قَالَ : إنَّا لَمْ نَبْعَثکَ رَاعِیًا ، إنَّمَا بَعَثْنَاکَ دَاعِیًا ، وَقَدِ اجْتَہَدْنَا وَقَضَائُ یَوْمٍ یَسِیرٌ۔
(٩١٣٩) ایک اور سند سے یہ واقعہ منقول ہے۔ البتہ اس میں یہ اضافہ ہے کہ ہم نے تمہیں نگہبان نہیں بنایا، ہم نے تمہیں دعوت دینے والا بنایا تھا۔ ہم نے کوشش کرلی تھی۔ بہرحال ایک دن کی قضاء آسان ہے۔

9140

(۹۱۴۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ زِیَادِ بْنِ عِلاَقَۃَ ، عَمَّنْ سَمِعَ بِشْرَ بْنَ قَیْسٍ ؛ أَنَّ عُمَرَ رحمہ اللہ أَمَرَہُمْ بِالْقَضَائِ۔
(٩١٤٠) حضرت بشر بن قیس کہتے ہیں کہ غروب شمس سے پہلے افطار کرنے کی صورت میں حضرت عمر نے لوگوں کو قضاء کرنے کا حکم دیا تھا۔

9141

(۹۱۴۱) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنْ فَاطِمَۃَ بِنْتِ الْمُنْذِرِ ، عَنْ أَسْمَائَ ؛ أَنَّہُمْ أَفْطَرُوا عَلَی عَہْدِ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی یَوْمِ غَیْمٍ ، ثُمَّ طَلَعَتِ الشَّمْسُ۔ قَالَ أَبُو أُسَامَۃَ: فَقُلْتُ لِہِشَامٍ : فَأُمِرُوا بِالْقَضَائِ ؟ قَالَ : وَمِنْ ذَلِکَ بُدٌّ ؟ (ابوداؤد ۲۳۵۱۔ احمد ۶/۳۴۶)
(٩١٤١) حضرت اسمائ فرماتی ہیں کہ عہد نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں لوگوں نے ایک مرتبہ غروب شمس سے پہلے ایک بادلوں کے دن میں روزہ افطار کرلیا تھا اور سورج بعد میں غروب ہوا تھا۔ ابو اسامہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ہشام سے کہا کہ کیا انھیں قضاء کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔ انھوں نے فرمایا کہ اس کے سوا چارہ بھی کیا تھا ؟

9142

(۹۱۴۲) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنِ ابْن أَبِی نَجِیحٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، قَالَ : یَقْضِی ، لأَنَّ اللَّہَ تَعَالَی یَقُولُ : {أَتِمُّوا الصِّیَامَ إلَی اللَّیْلِ}۔
(٩١٤٢) حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ وقت سے پہلے افطار کرنے والا روزہ کی قضا کرے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ { أَتِمُّوا الصِّیَامَ إلَی اللَّیْلِ }

9143

(۹۱۴۳) حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ ، حَدَّثَنَا مَنْصُورُ بْنُ أَبِی الأَسْوَد ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنِ الْمُسَیَّبِ ، عَنْ زَیْدِ بْنِ وَہْبٍ ، عَنْ عُمَرَ ، بِنَحْوٍ مِنْ حَدِیثِ أَبِی مُعَاوِیَۃَ الَّذِی یَأْتِی۔
(٩١٤٣) حضرت عمر کی آگے آنے والی حدیث ایک اور سند سے منقول ہے۔

9144

(۹۱۴۴) حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ مُعَاذٍ ، عَنْ أَشْعَثَ ، قَالَ : کَانَ الْحَسَنُ یَقُولُ فِیمَنْ أَفْطَرَ وَہُوَ یَرَی أَنَّ الشَّمْسَ قَدْ غَابَتْ ، ثُمَّ اسْتَبَانَ لَہُ أَنَّہَا لَمْ تَغِبْ ، قَالَ : کَانَ یَقُولُ : أَجْزَأَ عَنْہُ۔
(٩١٤٤) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص غروب شمس کا گمان کرتے ہوئے روزہ افطار کرلے لیکن پھر معلوم ہو کہ ابھی سورج غروب نہیں ہوا تو اس کا روزہ ہوگیا۔

9145

(۹۱۴۵) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ زَیْدِ بْنِ وَہْبٍ ، قَالَ : أُخْرِجَتْ عِسَاسٌ مِنْ بَیْتِ حَفْصَۃَ وَعَلَی السَّمَائِ سَحَابٌ ، فَظَنُّوا أَنَّ الشَّمْسَ قَدْ غَابَتْ فَأَفْطَرُوا ، فَلَمْ یَلْبَثُوا أَنْ تَجَلَّی السَّحَابُ فَإِذَا الشَّمْسُ طَالِعَۃٌ ، فَقَالَ عُمَرُ : مَا تَجَانَفْنَا مِنْ إِثْمٍ۔
(٩١٤٥) حضرت زید بن وہب کہتے ہیں کہ حضرت حفصہ کے گھر سے کھانے کا ایک بڑا برتن لایا گیا تو لوگ سمجھے کہ سورج غروب ہوگیا۔ اس دن بادل تھے، اس پر لوگوں نے روزہ افطار کرلیا۔ کچھ دیر بعد بادل چھٹے تو چمکتا سورج نظر آنے لگا۔ اس پر حضرت عمر نے فرمایا کہ ہم گناہ سے نہیں بچ سکے۔

9146

(۹۱۴۶) حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَۃَ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ قَطَنٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : کَانَ عِنْدَ مُعَاوِیَۃَ فِی رَمَضَانَ فَأَفْطَرُوا ثُمَّ طَلَعَتِ الشَّمْسُ ، فَأَمَرَہُمْ أَنْ یَقْضُوا۔
(٩١٤٦) حضرت قطن فرماتے ہیں کہ حضرت معاویہ کے زمانے میں لوگوں نے رمضان کا روزہ غروب شمس سے پہلے افطار کرلیا تو حضرت معاویہ نے انھیں قضا کا حکم دیا۔

9147

(۹۱۴۷) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَطَائٍ ، قَالَ: قُلْتُ: أَفْطَرْتُ فِی یَوْمٍ مُغَیِّمٍ فِی شَہْرِ رَمَضَانَ، وَأَنَا أَحْسِبُہُ اللَّیْلَ ، ثُمَّ بَدَتِ الشَّمْسُ ، أَفَأَقْضِی ذَلِکَ الْیَوْمَ قَطُّ ، وَلاَ أُکَفِّرُ ؟ قَالَ : نَعَمْ۔
(٩١٤٧) حضرت ابن جریج فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عطاء سے عرض کیا کہ میں نے بادلوں والے دن میں رمضان کا روزہ یہ سمجھتے ہوئے افطار کرلیا کہ سورج غروب ہوچکا ہے، پھر سورج ظاہر ہوگیا تو کیا میں اس روزے کی قضا کروں اور کفارہ نہ دوں ؟ انھوں نے فرمایا کہ یونہی کرو۔

9148

(۹۱۴۸) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، حَدَّثَنَا زَکَرِیَّا ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، قَالَ : غَزَوْت مَعَ زِیَادِ بْنِ النَّضْرِ أَرْضَ الرُّومِ ، قَالَ: فَأَہْلَلْنَا رَمَضَانَ فَصَامَ النَّاسُ وَفِیہِمْ أَصْحَابُ عَبْدِ اللہِ ؛ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ ، وَسُمَیْعٌ ، وَأَبُو عَبْدِ اللہِ ، وَأَبُو مَعْمَرٍ ، وَأَبُو مُسَافِعٍ فَأَفْطَرَ النَّاسُ یَوْمًا وَالسَّمَائُ مُتَغَیِّمَۃٌ ، وَنَحْنُ بَیْنَ جَبَلَیْنِ ؛ الْحَارِثِ وَالْحُوَیْرِثِ ، وَلَمْ أُفْطِرْ أَنَا حَتَّی تبدّی اللَّیْل ، ثُمَّ إنَّ الشَّمْسَ خَرَجَتْ فَأَبْصَرْنَاہَا عَلَی الْجَبَلِ ، فَقَالَ زِیَادٌ : أَمَّا ہَذَا الْیَوْمُ فَسَوْفَ نَقْضِیہِ ، وَلَمْ نَتَعَمَّدْ فِطْرَہُ۔
(٩١٤٨) حضرت ابو اسحاق کہتے ہیں کہ میں سرزمین روم میں حضرت زیاد بن نضر کے ساتھ تھا۔ ہم نے رمضان کا چاند دیکھا تو لوگوں نے روزہ رکھا جن میں حضرت عبداللہ، عامر بن سعد، سمیع، ابوعبداللہ، ابو معمر اور ابو مسافع تھے۔ لوگوں نے ایک دن روزہ رکھا اس دن آسمان پر بادل تھے۔ ہم حارث اور حویرث نامی دو پہاڑوں کے درمیان تھے۔ میں نے اس وقت تک افطار نہ کیا جب تک رات ظاہر نہ ہوگئی۔ پھر سورج نکلا اور ہم نے پہاڑوں پر اسے دیکھا۔ تو زیاد نے کہا کہ ہم اس دن کی قضا کریں گے اور ہم نے اس روزے کا اعتبارنہ کیا۔

9149

(۹۱۴۹) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ زَیْدِ بْنِ أَسْلَمَ ، عْن أَخِیہِ ، عَنْ أَبِیہِ ؛ أَفْطَرَ عُمَرُ فِی شَہْرِ رَمَضَانَ فَقِیلَ لَہُ : قَدْ طَلَعَتِ الشَّمْسُ ، فَقَالَ : خَطْبٌ یَسِیرٌ ، قَدْ کُنَّا جَاہِدِینِ۔
(٩١٤٩) حضرت اسلم فرماتے ہیں کہ حضرت عمر نے رمضان کے مہینے میں روزہ افطار کیا تو ان سے کہا گیا کہ سورج طلوع ہوگیا ہے ! حضرت عمر نے فرمایا کہ یہ معمولی غلطی ہے، ہم نے تو پوری کوشش کی ہے لہٰذا ہم پر کوئی گناہ نہیں۔

9150

(۹۱۵۰) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ مُسْلِمٍ ، قَالَ : جَائَ رَجُلٌ إلَی ابْنِ عَبَّاسٍ یَسْأَلُہُ عَنِ السُّحُورِ ؟ فَقَالَ لَہُ رَجُلٌ مِنْ جُلَسَائِہِ : کُلْ حَتَّی لاَ تَشُکَّ ، فَقَالَ لَہُ ابْنُ عَبَّاسٍ : إنَّ ہَذَا لاَ یَقُولُ شَیْئًا ، کُلْ مَا شَکَکْت حَتَّی لاَ تَشُکَّ۔
(٩١٥٠) حضرت مسلم فرماتے ہیں کہ ایک آدمی سحری کے بارے میں سوال کرنے کے لیے حضرت ابن عباس کے پاس آیا۔ حضرت ابن عباس کے ایک صاحب مجلس نے ان سے کہا کہ اس وقت کھانا نہ کھاؤ جب تمہیں شک ہو۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ اس نے کوئی بات نہیں کی، اس وقت تک کھاؤ جب تک تمہیں شک ہو یہاں تک کہ شک نہ رہے۔

9151

(۹۱۵۱) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ الْوَلِیدِ ، قَالَ : حدَّثَنَا عَوْنُ بْنُ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : دَخَلَ رَجُلاَنِ عَلَی أَبِی بَکْرٍ وَہُوَ یَتَسَحَّرُ ، فَقَالَ أَحَدُہُمَا : قَدْ طَلَعَ الْفَجْرُ ، وَقَالَ الآخَرُ : لَمْ یَطْلُعْ بَعْدُ ، قَالَ أَبُو بَکْرٍ : کُلْ قَدِ اخْتَلَفَا۔
(٩١٥١) حضرت عون بن عبداللہ فرماتے ہیں کہ دو آدمی حضرت ابوبکر کے پاس آئے اس وقت وہ سحری کھا رہے تھے۔ ان میں سے ایک نے کہا کہ فجر طلوع ہوگئی ہے۔ دوسرے نے کہا کہ فجر ابھی تک طلوع نہیں ہوئی۔ حضرت ابوبکر نے فرمایا کہ کھاؤ ، ان دونوں کا اختلاف ہوگیا ہے۔

9152

(۹۱۵۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ الْوَلِیدِ ، عَنْ عَوْنِ بْنِ عَبْدِ اللہِ ، عَنْ أَبِی بَکْرٍ ، بِنَحْوِہِ۔
(٩١٥٢) حضرت ابوبکر سے ایک اور سند سے یونہی منقول ہے۔

9153

(۹۱۵۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ عُمَارَۃَ بْنِ زَاذَانَ ، عَنْ مَکْحُولٍ ، قَالَ : رَأَیْتُ ابْنَ عُمَرَ أَخَذَ دَلْوًا مِنْ زَمْزَمَ ، فَقَالَ لِرَجُلَیْنِ : أَطَلَعَ الْفَجْرُ ؟ فَقَالَ أَحَدُہُمَا : لاَ ، وَقَالَ الآخَرُ : نَعَمْ ، قَالَ : فَشَرِبَ۔
(٩١٥٣) حضرت مکحول فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عمر نے زمزم کے کنویں سے ایک ڈول پانی کالیا۔ انھوں نے دو آدمیوں سے کہا کہ کیا فجر طلوع ہوگئی ؟ ان میں سے ایک نے کہا نہیں، دوسرے نے کہا کہ ہاں۔ اس پر حضرت ابن عمر نے پانی پی لیا۔

9154

(۹۱۵۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ الأَقْمَرِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : کُلْ حَتَّی تَرَاہُ مُعْتَرِضًا۔
(٩١٥٤) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ اس وقت تک کھاؤ جب تک روشنی چوڑائی کی شکل میں ہو۔

9155

(۹۱۵۵) حَدَّثَنَا الثَّقَفِیُّ ، عَنْ خَالِدٍ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ ، قَالَ : کُلْ حَتَّی تَرَاہُ مِثْلَ شِقِّ الطَّیْلَسَانِ۔
(٩١٥٥) حضرت عکرمہ فرماتے ہیں کہ اس وقت تک کھاؤ جب تک افق پر چادر کی پھٹن جیسی صورت ہو۔

9156

(۹۱۵۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ طَلْحَۃَ ، عَنْ عَطَائٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ لِغُلاَمَیْنِ لَہُ ، وَہُوَ فِی دَارِ أُمِّ ہَانِیئٍ فِی شَہْرِ رَمَضَانَ وَہُوَ یَتَسَحَّرُ ، فَقَالَ أَحَدُہُمَا : قَدْ طَلَعَ الْفَجْرُ ، وَقَالَ الآخَرُ : لَمْ یَطْلُعْ ، قَالَ : اِسْقِیَانِی۔
(٩١٥٦) حضرت عطاء فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عباس حضرت ام ہانی کے گھر میں رمضان کے مہینے میں سحری کھا رہے تھے۔ آپ کے دو غلاموں میں سے ایک نے کہا کہ فجر طلوع ہوگئی ہے اور دوسرے نے کہا کہ فجر ابھی تک طلوع نہیں ہوئی۔ انھوں نے فرمایا کہ مجھے پانی پلاؤ۔

9157

(۹۱۵۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إسْرَائِیلَ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ أَبِی جَعْفَر ، قَالَ : کُلْ حَتَّی یَتَبَیَّنَ لَکَ الْفَجْرُ۔
(٩١٥٧) حضرت ابو جعفر فرماتے ہیں کہ کھاؤ یہاں تک کہ فجر ظاہر ہوجائے۔

9158

(۹۱۵۸) حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّیَالِسِیُّ ، عَنْ یَزِیدَ بْنِ زَیْدٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ الْحَسَنَ وَقَالَ لَہُ رَجُلٌ : أَتَسَحَّرُ وَأَمْتَرِی فِی الصُّبْحِ ؟ فَقَالَ : کُلْ مَا امْتَرَیْت ، إِنَّہُ وَاللَّہِ لَیْسَ بِالصُّبْحِ خَفَائٌ۔
(٩١٥٨) حضرت یزید بن زید نے کہا کہ حضرت حسن سے ایک آدمی نے سوال کیا کہ جب مجھے صبح کے بارے میں شک ہو تو کیا میں سحری کھا سکتا ہوں ؟ حضرت حسن نے فرمایا کہ جب تک تمہیں شک ہو تو تم کھاتے رہو، خدا کی قسم ! صبح کے اندر کوئی خفاء نہیں ہے۔

9159

(۹۱۵۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ الْفَضْلِ بْنِ دَلْہَمٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : قَالَ عُمَرُ : إذَا شَکَّ الرَّجُلاَنِ فِی الْفَجْرِ ، فَلْیَأْکُلاَ حَتَّی یَسْتَیْقِنَا۔
(٩١٥٩) حضرت عمر فرماتے ہیں کہ جب دو آدمیوں کو فجر کے بارے میں شک ہو تو اس وقت تک کھاؤ جب تک ان دونوں کو یقین نہ ہوجائے۔

9160

(۹۱۶۰) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ مُسْلِمِ بْنِ صُبَیْحٍ، قَالَ: جَائَ رَجُلٌ إلَی ابْنِ عَبَّاسٍ، فَقَالَ: مَتَی أَدَعُ السُّحُورَ ؟ فَقَالَ رَجُلٌ جَالِسٌ عِنْدَہُ : کُلْ حَتَّی إذَا شَکَکْت فَدَعْہُ ، فَقَالَ : کُلْ مَا شَکَکْت حَتَّی لاَ تَشُکَّ۔
(٩١٦٠) حضرت مسلم بن صبیح فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے حضرت ابن عباس سے سوال کیا کہ میں سحری کھانا کب چھوڑوں ؟ ان کے پاس بیٹھے ایک آدمی نے کہا کہ جب تمہیں شک ہو تو اس وقت نہ کھاؤ۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ جب تمہیں شک ہو اس وقت کھالو اور اس وقت تک کھاتے رہو جب تک شک نہ رہے۔

9161

(۹۱۶۱) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ، قَالَ: قَالَ مُحَمَّدٌ: وَضَعْتُ الإِنَائَ عَلَی یَدَیَّ، فَجَعَلْتُ أَنْظُرُ ہَلْ طَلَعَ الْفَجْرُ؟
(٩١٦١) حضرت محمد فرماتے ہیں کہ میں نے برتن اپنے سامنے رکھا، پھر میں دیکھنے لگا کہ کیا فجر طلوع ہوگئی ہے ؟

9162

(۹۱۶۲) حَدَّثَنَا مُلاَزِمُ بْنُ عَمْرٍو ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ النُّعْمَانِ ، عَنْ قَیْسِ بْنِ طَلْقٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا أَبِی طَلْقُ بْنُ عَلِیٍّ ، أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : کُلُوا وَاشْرَبُوا ، وَلاَ یَہِیدَنَّکُمُ السَّاطِعُ الْمُصْعِدُ ، کُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّی یَعْتَرِضَ لَکُمُ الأَحْمَرُ ، وَقَالَ ہَکَذَا بِیَدِہِ۔ (ترمذی ۷۰۵۔ ابوداؤد ۲۳۴۰)
(٩١٦٢) حضرت طلق بن علی سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ تم اس وقت تک کھاؤ اور پیو ، اوپر کو اٹھنے والی روشنی تمہیں پریشان نہ کرے، اس وقت تک کھاتے پیتے رہو جب تک سرخ روشنی عرض کی شکل میں ظاہر نہ ہوجائے۔ آپ نے اپنے دست مبارک سے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا۔

9163

(۹۱۶۳) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ أَبِی ہِلاَلٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا سَوَادَۃُ بْنُ حَنْظَلَۃَ الْہِلاَلِیُّ ، عَنْ سَمُرَۃََ بْنِ جُنْدُبٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لاَ یَمْنَعَنَّکُمْ أَذَانُ بِلاَلٍ مِنَ السُّحُورِ ، وَلاَ الصُّبْحُ الْمُسْتَطِیلُ ، وَلَکِنِ الصُّبْحُ الْمُسْتَطِیرُ فِی الأُفُقِ۔
(٩١٦٣) حضرت سمرہ بن جندب سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ بلال کی اذان تمہیں سحری کھانے سے نہ روک دے اور نہ ہی طول کی صورت میں پھیلنے والی صبح تمہیں سحری سے منع کرے۔ البتہ افق میں عرض کی صورت میں پھیلنے والی صبح کے بعد سحری سے رک جاؤ۔

9164

(۹۱۶۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ ابْنِ أَبِی ذِئْبٍ ، عَنْ خَالہ ، عَنْ ثَوْبَانَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : الْفَجْرُ فَجْرَانِ ؛ فَأَمَّا الَّذِی کَأَنَّہُ ذَنَبُ السِّرْحَانِ ، فَإِنَّہُ لاَ یُحِلُّ شَیْئًا ، وَلاَ یُحَرِّمُہُ ، وَلَکِنِ الْمُسْتَطِیرُ۔ (دار قطنی ۲۔ بیہقی ۲۱۵)
(٩١٦٤) حضرت ثوبان سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ فجر کی دو قسمیں ہیں، جو صبح بھیڑیئے کی دم کی طرح ہو وہ کسی چیز کو حلال و حرام نہیں کرتی، البتہ عرض کی صورت میں پھیلنے والی صبح کھانے پینے کو حرام کردیتی ہے۔

9165

(۹۱۶۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ ثَابِتِ بْنِ عُمَارَۃَ ، عَنْ غُنَیْمِ بْنِ قَیْسٍ ، عَنْ أَبِی مُوسَی ، قَالَ : لَیْسَ الْفَجْرُ الَّذِی ہَکَذَا ، یَعْنِی الْمُسْتَطِیلَ ، وَلَکِنِ الْفَجْرُ الَّذِی ہَکَذَا ، یَعْنِی الْمُعْتَرِضَ۔
(٩١٦٥) حضرت ابو موسیٰ فرماتے ہیں کہ لمبائی کی صورت میں پھیلنے والی روشنی صبح نہیں ہوتی بلکہ چوڑائی کی صورت میں پھیلنے والی روشنی صبح ہوتی ہے۔

9166

(۹۱۶۶) حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَبْدِ الْوَارِثِ ، عَنْ حَوْشَبِ بْنِ عَقِیلٍ ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ نَہَارٍ ، قَالَ : سَأَلْتُ الْقَاسِمَ : أَہُوَ السَّاطِعُ ، أَمِ الْمُعْتَرِضُ ؟ قَالَ : الْمُعْتَرِضُ ، وَالسَّاطِعُ : الصُّبْحُ الْکَاذِبُ۔
(٩١٦٦) حضرت جعفر بن نہار کہتے ہیں کہ میں نے حضرت قاسم سے سوال کیا کہ فجر لمبائی کی صورت میں ہوتی ہے یا چوڑائی کی صورت میں ؟ انھوں نے فرمایا کہ فجر چوڑائی کی صورت میں ہوتی ہے، لمبائی کی صورت میں تو صبح کاذب ہوتی ہے۔

9167

(۹۱۶۷) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ عِمْرَانَ ، عَنْ أَبِی مِجْلَزٍ ، قَالَ : السَّاطِعُ ذَلِکَ الصُّبْحُ الْکَاذِبُ ، وَلَکِنْ إذَا انْفَضَحَ الصُّبْحُ فِی الأُفُقِ۔
(٩١٦٧) حضرت ابو مجلز فرماتے ہیں کہ لمبی روشنی صبح نہیں ہوتی بلکہ افق سے اٹھنے والی روشنی صبح ہوتی ہے۔

9168

(۹۱۶۸) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ مُسْلِمٍ ، قَالَ : لَمْ یَکُونُوا یَعُدُّونَ الْفَجْرَ فَجْرَکُمْ ہَذَا ، إِنَّمَا کَانُوا یَعُدُّونَ الْفَجْرَ الَّذِی یَمْلأُ الْبُیُوتَ وَالطُّرُقَ۔
(٩١٦٨) حضرت مسلم فرماتے ہیں کہ اسلاف تمہاری صبح کو فجر نہیں سمجھتے تھے بلکہ وہ اس روشنی کو فجر سمجھتے تھے جو راستوں اور گھروں کو روشن کردے۔

9169

(۹۱۶۹) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ عَدِیِّ بْنِ ثَابِتٍ ، قَالَ : اخْتَلَفْنَا فِی الْفَجْرِ فَأَتَیْنَا إبْرَاہِیمَ ، فَقَالَ : الْفَجْرُ فَجْرَانِ ؛ فَأَمَّا أَحَدُہُمَا فَالْفَجْرُ السَّاطِعُ فَلاَ یُحِلُّ الصَّلاَۃَ وَلاَ یُحَرِّمُ الطَّعَامَ ، وَأَمَّا الْفَجْرُ الْمُعْتَرِضُ الأَحْمَر ، فَإِنَّہُ یُحِلُّ الصَّلاَۃَ وَیُحَرِّمُ الطَّعَامَ وَالشَّرَابَ۔
(٩١٦٩) حضرت عدی بن ثابت فرماتے ہیں کہ ہمارا فجر کے بارے میں اختلاف ہوگیا۔ ہم حضرت ابراہیم کے پاس آئے تو انھوں نے کہا کہ فجر کی دو قسمیں ہیں۔ ایک فجرِ ساطع یعنی لمبائی میں پھیلنے والی فجر ہے یہ فجر کی نماز کو حلال اور کھانے کو حرام نہیں کرتی۔ اور ایک سرخ چوڑائی میں پھیلنے والی فجر ہے یہ نماز کو حلال اور کھانے پینے کو حرام کردیتی ہے۔

9170

(۹۱۷۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، عَنْ إسْرَائِیلَ، عَنْ جَابِرٍ، عَنْ عَامِرٍ، وَعَطَائٍ قَالاَ: الْفَجْرُ الْمُعْتَرِضُ الَّذِی إلَی جَنْبِہِ حُمْرَۃٌ۔
(٩١٧٠) حضرت عامر اور حضرت عطاء فرماتے ہیں کہ فجر چوڑائی میں پھیلتی ہے اور اس کے ساتھ روشنی ہوتی ہے۔

9171

(۹۱۷۱) حَدَّثَنَا کَثِیرُ بْنُ ہِشَامٍ ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ بُرْقَانَ ، قَالَ : سَأَلْتُ الزُّہْرِیَّ وَمَیْمُونًا ، فَقُلْتُ : أُرِیدُ الصَّوْمَ ، فَأَرَی عَمُودَ الصُّبْحِ السَّاطِعِ ؟ فَقَالاَ جَمِیعًا : کُلْ وَاشْرَبْ حَتَّی تَرَاہُ فِی أُفُقِ السَّمَائِ مُعْتَرِضًا۔
(٩١٧١) حضرت جعفر بن برقان فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت زہری اور حضرت میمون سے سوال کیا کہ میں روزہ رکھنا چاہتا ہوں، میں صبح کی روشنی کو ستون کی شکل میں دیکھتا ہوں ؟ انھوں نے فرمایا کہ تم اس وقت تک کھا اور پی سکتے ہو جب تک آسمان کے افق میں چوڑائی کی صورت میں روشنی نظر نہ آنے لگے۔

9172

(۹۱۷۲) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ حُصَیْنٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنْ عَدِیِّ بْنِ حَاتِمٍ ، قَالَ : لَمَّا نَزَلَتْ : {حَتَّی یَتَبَیَّنَ لَکُمُ الْخَیْطُ الأَبْیَضُ مِنَ الْخَیْطِ الأَسْوَد} ، قَالَ : قَالَ عَدِیٌّ : یَا رَسُولَ اللہِ ، إنِّی أَجْعَلُ تَحْتَ وِسَادَتِی عِقَالَیْنِ؛ عِقَالاً أَسْوَدَ وَعِقَالاً أَبْیَضَ ، فَأَعْرِفُ اللَّیْلَ مِنَ النَّہَارِ ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إنَّ وِسَادَک لَطَوِیلٌ عَرِیضٌ ، إنَّمَا ہُوَ سَوَادُ اللَّیْلِ وَبَیَاضُ النَّہَارِ۔ (بخاری ۱۹۱۶۔ ابوداؤد ۲۳۴۱)
(٩١٧٢) حضرت عدی بن حاتم فرماتے ہیں کہ جب قرآن مجید کی یہ آیت نازل ہوئی { حَتَّی یَتَبَیَّنَ لَکُمُ الْخَیْطُ الأَبْیَضُ مِنَ الْخَیْطِ الأَسْوَد } تو میں نے کہا کہ اے اللہ کے رسول ! میں نے اپنے تکیے کے نیچے دو دھاگے رکھے۔ ایک کالا دھاگا اور ایک سفید دھاگا۔ میں رات اور دن کو الگ الگ پہچاننے کی کوشش کرتا ہوں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ تمہارا تکیہ بڑا لمبا چوڑا ہے، اس آیت میں مراد رات کی تاریکی اور دن کی سفیدی ہے۔

9173

(۹۱۷۳) حَدَّثَنَا مُعْتَمِرُ بْنُ إسْمَاعِیلَ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ طَاوُوسٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : الصَّائِمُ بِالْخِیَارِ ، مَا بَیْنَہُ وَبَیْنَ نِصْفِ النَّہَارِ۔
(٩١٧٣) حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ نصفِ نہار تک روزہ دار کو اختیار ہے۔

9174

(۹۱۷۴) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ أَبِی مَالِکٍ الأَشْجَعِیِّ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَیْدَۃَ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ : الصَّائِمُ بِالْخِیَارِ مَا بَیْنَہُ وَبَیْنَ نِصْفِ النَّہَارِ۔
(٩١٧٤) حضرت ابن عمر فرماتے ہیں کہ نصفِ نہار تک روزہ دار کو اختیار ہے۔

9175

(۹۱۷۵) حَدَّثَنَا مُعْتَمِرُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ حُمَیْدٍ ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ : مَنْ حَدَّثَ نَفْسَہُ بِالصِّیَامِ فَہُوَ بِالْخِیَارِ ، مَا لَمْ یَتَکَلَّمْ حَتَّی یَمْتَدَّ النَّہَارُ۔
(٩١٧٥) حضرت انس فرماتے ہیں کہ جس شخص نے اپنے دل میں روزے کا ارادہ کیا اسے اس وقت تک اختیار ہے جب تک وہ بات نہ کرے۔ یہ اختیار دن کے اکثر حصے کے گذر جانے تک باقی رہتا ہے۔

9176

(۹۱۷۶) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِِ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنِ الْحَارِثِ ، عَنْ عَلِیٍّ ، قَالَ : إذَا أَصْبَحْت وَأَنْتَ تُرِیدُ الصَّوْمَ فَأَنْتَ بِالْخِیَارِ ، إِنْ شِئْتَ صُمْت وَإِنْ شِئْتَ أَفْطَرْت ، إِلاَّ أَنْ تَفْرِضَ عَلَی نَفْسِکَ الصَّوْمَ مِنَ اللَّیْلِ۔
(٩١٧٦) حضرت علی فرماتے ہیں کہ جب تم روزے کے ارادے سے صبح کرو تو تمہیں اختیار ہے، اگر چاہو تو روزہ رکھو اور اگر چاہو تو روزہ نہ رکھو۔ البتہ اگر تم نے رات کو اپنے اوپر روزہ فرض کرلیا تو اب روزہ رکھنا ضروری ہے۔

9177

(۹۱۷۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ عُمَارَۃَ ، عَنْ أَبِی الأَحْوَصِ ، قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللہِ : أَحَدُکُمْ بأَحَد النَّظَرَیْنِ مَا لَمْ یَأْکُلْ ، أَوْ یَشْرَبْ۔
(٩١٧٧) حضرت عبداللہ فرماتے ہیں کہ جب تک تم کھا پی نہ لو اس وقت تک تمہیں اختیار ہے۔

9178

(۹۱۷۸) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، قَالَ : قُلْتُ لإبْرَاہِیمَ : الرَّجُلُ فِی صِیَامِ التَّطَوُّعِ بِالْخِیَارِ مَا بَیْنَہُ وَبَیْنَ نِصْفِ النَّہَارِ ؟ قَالَ : نَعَمْ۔
(٩١٧٨) حضرت مغیرہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابراہیم سے پوچھا کہ کیا نفلی روزے کے بارے میں آدمی کو نصفِ نہار تک اختیار ہوتا ہے ؟ انھوں نے فرمایا ہاں۔

9179

(۹۱۷۹) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، قَالَ : الصَّائِمُ بِالْخِیَارِ مَا بَیْنَہُ وَبَیْنَ نِصْفِ النَّہَارِ ، فَإِذَا جَاوَزَ ذَلِکَ فَإِنَّمَا لَہُ بِقَدْرِ مَا بَقِیَ مِنَ النَّہَارِ۔
(٩١٧٩) حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ نصفِ نہار تک روزہ دار کو اختیار ہے۔ جب نصفِ نہار سے آگے گذر جائے تو اس کے لیے دن کا باقی ماندہ حصہ ہے۔

9180

(۹۱۸۰) حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ، عَنْ یُونُسَ، عَنِ الْحَسَنِ، فِی الصَّوْمِ؛ یُتَخَیَّرُ مَا لَمْ یُصْبِحْ صَائِمًا، فَإِذَا أَصْبَحَ صَائِمًا صَامَ۔
(٩١٨٠) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ اگر آدمی روزے کی نیت سے صبح نہ کرے تو اسے روزے کے بارے میں اختیار ہے، اگر روزے کی حالت میں صبح کرے تو روزہ پورا کرے۔

9181

(۹۱۸۱) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ أَبِی مَالِکٍ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَیْدَۃَ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : الرَّجُلُ بِالْخِیَارِ مَا لَمْ یَطْعَمْ إلَی نِصْفِ النَّہَارِ ، فَإِنْ بَدَا لَہُ أَنْ یَطْعَمَ طَعِمَ ، وَإِنْ بَدَا لَہُ أَنْ یَجْعَلَہُ صَوْمًا کَانَ صَائِمًا۔
(٩١٨١) حضرت ابن عمر فرماتے ہیں کہ جب تک آدمی کوئی چیز کھا نہ لے نصفِ نہار تک روزہ دار کو اختیار ہے۔ اگر اسے کھانے کا خیال ٹھہرے تو وہ کھانا کھالے اگر اس کے لیے روزہ رکھنے کا فیصلہ ٹھہرے تو روزہ رکھ لے۔

9182

(۹۱۸۲) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنِ الشَّیْبَانِیِّ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ؛ فِی الرَّجُلِ یُرِیدُ الصَّوْمَ ؟ قَالَ : ہُوَ بِالْخِیَارِ إلَی نِصْفِ النَّہَارِ۔
(٩١٨٢) حضرت شعبی فرماتے ہیں کہ نصفِ نہار تک روزہ دار کو اختیار ہے۔

9183

(۹۱۸۳) حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : إذَا تَسَحَّرَ الرَّجُلُ فَقَدْ وَجَبَ عَلَیْہِ الصَّوْمُ ، فَإِنْ أَفْطَرَ فَعَلَیْہِ الْقَضَائُ ، وَإِنْ ہَمَّ بِالصَّوْمِ فَہُوَ بِالْخِیَارِ ، إِنْ شَائَ صَامَ ، وَإِنْ شَائَ أَفْطَرَ ، وَإِنْ سَأَلَہُ إنْسَانٌ ، فَقَالَ: أَنْتَ صَائِمٌ ؟ فَقَالَ : نَعَمْ ، فَقَدْ وَجَبَ عَلَیْہِ الصَّوْمُ إِلاَّ أَنْ یَقُولَ إِنْ شَائَ اللَّہُ ، فَإِنْ قَالَ فَہُوَ بِالْخِیَارِ ، إِنْ شَائَ صَامَ ، وَإِنْ شَائَ أَفْطَرَ۔
(٩١٨٣) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ جب آدمی نے سحری کھالی تو اس پر روزہ واجب ہوگیا۔ اگر اس نے روزہ توڑ دیا تو اس پر قضاء واجب ہے۔ اگر اس نے روزے کا محض ارادہ کیا توا سے اختیار ہے۔ اگر چاہے تو روزہ رکھے اور اگر چاہے تو روزہ نہ رکھے۔ اگر کسی نے اس سے سوال کیا کہ کیا تمہارا روزہ ہے ؟ اس نے جواب میں ہاں کہا تو اس پر روزہ واجب ہوگیا۔ البتہ اگر اس نے ان شاء اللہ کہا تو پھر روزہ واجب نہیں ہوا۔ اس صورت میں اسے اختیار ہے چاہے تو روزہ رکھے اور چاہے تو نہ رکھے۔

9184

(۹۱۸۴) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ الْقَطَّانُ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ طَلْحَۃَ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَیْدَۃَ ، عَنْ أَبِی عَبْدِ الرَّحْمَنِ ؛ أَنَّ حُذَیْفَۃَ بَدَا لَہُ فِی الصَّوْمِ بَعْدَ مَا زَالَتِ الشَّمْسُ فَصَامَ۔
(٩١٨٤) حضرت ابو عبد الرحمن فرماتے ہیں کہ حضرت حذیفہ کو زوال شمس کے بعد روزہ رکھنے کا خیال آیا اور انھوں نے روزہ رکھ لیا۔

9185

(۹۱۸۵) حَدَّثَنَا عَبْدُ السَّلاَمِ ، عَنْ خُصَیْفٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ؛ أَنَّ عَائِشَۃَ وَحَفْصَۃَ أَصْبَحَتَا صَائِمَتَیْنِ فَأَفْطَرَتَا، فَأَمَرَہُمَا النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِقَضَائِہِ۔
(٩١٨٥) حضرت سعید بن جبیر فرماتے ہیں کہ حضرت عائشہ اور حضرت حفصہ نے روزہ رکھا اور پھر توڑ دیا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انھیں اس روزے کی قضا کرنے کا حکم دیا۔

9186

(۹۱۸۶) حَدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ بْنُ إِبْرَاہِیمَ ، عَن عُثْمَانَ البَتِّی ، عَنْ أَنَسِ بْنِ سِیرِینَ؛ أَنَّہُ صَامَ یَوْمَ عَرَفَۃَ فَعَطِشَ عَطَشًا شَدِیدًا فَأَفْطَرَ ، فَسَأَلَ عِدَّۃً مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ؟ فَأَمَرُوہُ أَنْ یَقْضِیَ یَوْمًا مَکَانَہُ۔
(٩١٨٦) حضرت عثمان بتی فرماتے ہیں کہ حضرت انس بن سیرین نے یوم عرفہ کو روزہ رکھا، لیکن انھیں شدید پیاس لگی اور انھوں نے روزہ توڑ دیا۔ اس کے بعد انھوں نے بہت سے صحابہ کرام سے اس بارے میں سوال کیا تو سب نے اس کے بدلے ایک دن کی قضاء کرنے کا حکم دیا۔

9187

(۹۱۸۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ مِسْعَرٍ ، عَنْ حَبِیبٍ ، عَنْ عَطَائٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : یَقْضِی یَوْمًا مَکَانَہُ۔
(٩١٨٧) حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ نفلی روزہ توڑنے کے بدلے ایک دن کی قضاء کرے گا۔

9188

(۹۱۸۸) حَدَّثَنَا ابْنُ مُبَارَکٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ یَزِیدَ بن جَابِرٍ ، قَالَ : سَأَلْتُ مَکْحُولاً عَنْ رَجُلٍ أَصْبَحَ صَائِمًا ، عَزَمَتْ عَلَیْہِ أُمُّہُ أَنْ یُفْطِرَ ؟ قَالَ : کَأَنَّہُ کَرِہَ ذَلِکَ ، وَقَالَ : یَقْضِی یَوْمًا مَکَانَہُ۔
(٩١٨٨) حضرت عبدالرحمن بن یزید بن جابر فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت مکحول سے اس شخص کے بارے میں سوال کیا جو روزہ رکھے اور پھر اسے توڑ دے۔ انھوں نے فرمایا کہ وہ ایک دن کی قضا کرے گا۔

9189

(۹۱۸۹) حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : إذَا تَسَحَّرَ الرَّجُلُ فَقَدْ وَجَبَ عَلَیْہِ الصَّوْمُ ، فَإِنْ أَفْطَرَ فَعَلَیْہِ الْقَضَائُ۔
(٩١٨٩) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ اگر کسی آدمی نے سحری کھائی تو اس پر روزہ واجب ہوگیا، اگر اس نے روزہ توڑا تو اس پر قضاء لازم ہے۔

9190

(۹۱۹۰) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مُسْلِمٍ ، عَنْ عَطَائٍ وَمُجَاہِدٍ ؛ أَنَّہُمَا کَانَا إذَا زَارَا رَجُلاً وَ دُعِیَا إلَی طَعَامٍ ، وَہُمَا صَائِمَانِ ، إِنْ سَأَلَہُمَا أَنْ یُفْطِرَا أَفْطَرَا ، کَانَا یَقُولاَنِ : نَقْضِی یَوْمًا مَکَانَہُ۔
(٩١٩٠) حضرت عبداللہ بن مسلم فرماتے ہیں کہ حضرت عطاء اور حضرت مجاہد اگر کسی آدمی سے ملاقات کے لیے جاتے اور ان حضرات کا روزہ ہوتا۔ اس حالت میں انھیں کھانے کی دعوت دی جاتی تو یہ روزہ توڑ دیتے اور فرماتے کہ ہم اس کے بدلے ایک دن کی قضا کرلیں گے۔

9191

(۹۱۹۱) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِِ ، عَنْ سِمَاکٍ ، عَن ابن أُمِّ ہَانِیئٍ ، عَن أُمِّ ہَانِیئٍ قَالَتْ : کُنْت قَاعِدَۃً عِنْدَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَأُتِیَ بِشَرَابٍ فَشَرِبَ مِنْہُ ، ثُمَّ نَاوَلَنِیہِ فَشَرِبْت قَالَتْ : فَقُلْتُ : یَا رَسُولَ اللہِ ، قَدْ أَذْنَبْت فَاسْتَغْفِرْ لِی ، قَالَ : وَمَا ذَاکَ ؟ قَالَتْ : کُنْت صَائِمَۃً فَأَفْطَرْت ، قَالَ : أَمِنْ قَضَائٍ کُنْت تَقْضِینَہُ ؟ قَالَتْ : لاَ ، قَالَ : لاَ یَضُرُّک۔ (ترمذی ۷۳۱۔ احمد ۶/۳۴۳)
(٩١٩١) حضرت ام ہانی فرماتی ہیں کہ میں نبی پاک (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس بیٹھی تھی۔ آپ کے پاس پینے کی کوئی چیز لائی گئی جو آپ نے پی لی۔ آپ نے وہ چیز مجھے دی میں نے بھی اس میں سے پی لیا۔ پھر میں نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول ! میں نے ایک گناہ کیا ہے، میرے لیے استغفار فرما دیجئے۔ آپ نے پوچھا تم نے ایسا کون سا گناہ کیا ہے ؟ میں نے عرض کیا کہ میں روزے سے تھی میں نے روزہ توڑ دیا۔ آپ نے فرمایا کہ کیا تم کسی روزے کی قضا کررہی تھیں ؟ میں نے کہا نہیں۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ تمہیں اس کا کوئی نقصان نہیں۔

9192

(۹۱۹۲) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِِ، عَنْ سِمَاکٍ، عَنْ عِکْرِمَۃَ، قَالَ: کَانَ ابْنُ عَبَّاسٍ یُفْطِرُ مِنْ صَوْمِ التَّطَوُّعِ، وَلاَ یُبَالِی۔
(٩١٩٢) حضرت عکرمہ فرماتے ہیں کہ ابن عباس نفلی روزہ توڑ دیتے تھے اور اس کی کوئی پروا نہ کرتے تھے۔

9193

(۹۱۹۳) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ أَبِی بِشْرٍ ، عَنْ یُوسُفَ بْنِ مَاہَکَ الْمَکِّیِّ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ؛ أَنَّہُ وَطِیئَ جَارِیَۃً لَہُ وَہُوَ صَائِمٌ ، قَالَ : فَقِیلَ لَہُ : وَطِئْتہَا وَأَنْتَ صَائِمٌ ؟ قَالَ : ہِیَ جَارِیَتِی أَعْجَبَتْنِی ، وَإِنَّمَا ہُوَ تَطَوُّعٌ۔
(٩١٩٣) حضرت یوسف بن ماہک مکی کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عباس نے روزے کی حالت میں اپنی ایک باندی سے جماع کیا ۔ کسی نے ان سے کہا کہ آپ نے روزے کی حالت میں اس سے جماع کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ وہ میری باندی تھی، مجھے اچھی لگی۔ روزہ تو ویسے بھی نفلی تھا۔

9194

(۹۱۹۴) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ، عَنْ مُجَالِدٍ، عَنِ الشَّعْبِیِّ، قَالَ: کَانَ لاَ یَرَی بَأْسًا أَنْ یُصْبِحَ الرَّجُلُ صَائِمًا، ثُمَّ یُفْطِرَ۔
(٩١٩٤) حضرت شعبی اس بات میں کوئی حرج نہ سمجھتے تھے کہ آدمی نفلی روزہ توڑ دے۔

9195

(۹۱۹۵) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ : رُبَّمَا أُہْدِیَتْ لَنَا الطَّرْفَۃُ ، فَنَقُولُ : لَوْلاَ صَوْمُک قَرَّبْنَاہَا إلَیْکَ ، فَیَدْعُو بِہَا فَنُفْطِرُ عَلَیْہَا۔
(٩١٩٥) حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ بعض اوقات کوئی عمدہ اور نادر چیز ہمیں ہدیہ کی جاتی۔ ہم حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کرتیں کہ اگر آپ کا روزہ نہ ہوتا تو ہم آپ کو یہ چیز پیش کردیتیں۔ آپ اس چیز کو منگواتے اور ہم اس پر روزہ افطار کردیتے۔

9196

(۹۱۹۶) حَدَّثَنَا عَبِیْدَۃُ ، عَنْ أَبِی مِسْکِینٍ ، قَالَ : کَانَ إبْرَاہِیمُ وَسَعِیدُ بْنُ جُبَیْرٍ فِی دَعْوَۃٍ ، فَقَالَ سَعِیدٌ : إنِّی کُنْت حَدَّثَتْنِی نَفْسِی بِالصَّوْمِ ، ثُمَّ أَکل ۔ وَقَالَ إبْرَاہِیمُ : مَا یُعْجِبُنِی۔
(٩١٩٦) حضرت ابو مسکین کہتے ہیں کہ حضرت ابراہیم اور حضرت سعید بن جبیر ایک دعوت میں تھے۔ حضرت سعید نے کہا کہ میں نے تو روزے کی بات کی تھی۔ پھر انھوں نے کھالیا اور حضرت ابراہیم نے فرمایا کہ مجھے یہ بات پسند نہ تھی۔

9197

(۹۱۹۷) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ بَیَانٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : إذَا أَصْبَحَ وَہُوَ صَائِمٌ فَلاَ یُفْطِرُ۔
(٩١٩٧) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ اگر کوئی روزے کی نیت کرلے تو اسے روزہ توڑنا نہیں چاہیے۔

9198

(۹۱۹۸) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ : رُبَّمَا دَعَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِغَدَائِہِ فَلاَ یَجِدُہُ ، فَیَفْرِضُ عَلَیْہِ صَوْمَ ذَلِکَ الْیَوْمَ۔
(٩١٩٨) حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ بعض اوقات نبی پاک (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صبح کے وقت کھانا منگواتے، نہ ہوتا تو آپ اس دن روزہ رکھ لیتے۔

9199

(۹۱۹۹) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ شَہْرِ بْنِ حَوْشَبٍ ، عَنْ أُمِّ الدَّرْدَائِ ، عَنْ أَبِی الدَّرْدَائِ ؛ أَنَّہُ کَانَ رُبَّمَا دَعَا بِالْغَدَائِ فَلاَ یَجِدُہُ ، فَیَفْرِضُ الصَّوْمَ عَلَیْہِ ذَلِکَ الْیَوْمَ۔
(٩١٩٩) حضرت ام دردائ فرماتی ہیں کہ کبھی حضرت ابو الدردائ صبح کے وقت کھانا منگواتے، نہ ہوتا تو آپ اس دن روزہ رکھ لیتے۔

9200

(۹۲۰۰) حَدَّثَنَا الثَّقَفِیُّ ، وَیَزِیدُ ، عَنْ حُمَیْدٍ ، عَنْ أَنَسٍ ؛ أَنَّ أَبَا طَلْحَۃَ کَانَ یَأْتِی أَہْلَہُ فَیَقُولُ : ہَلْ عِنْدَکُمْ مِنْ غَدَائٍ ؟ فَإِنْ قَالُوا لاَ ، قَالَ : فَإِنِّی صَائِمٌ ۔ زَادَ الثَّقَفِیُّ : إِنْ کَانَ عِنْدَہُمْ أَفْطَرَ۔
(٩٢٠٠) حضرت انس فرماتے ہیں کہ حضرت ابو طلحہ اپنے گھر والوں سے پوچھتے کہ کیا تمہارے پاس کھانے کے لیے کوئی چیز ہے ؟ وہ جواب دیتے نہیں۔ تو آپ روزہ رکھ لیتے۔ ثقفی کی روایت میں اضافہ ہے کہ اگر ان کے پاس کچھ ہوتا تو روزہ نہ رکھتے۔

9201

(۹۲۰۱) حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ خَالِدٍ ، عَنْ مُعَاوِیَۃَ بْنِ صَالِحٍ ، عَنِ الْعَلاَئِ بْنِ الْحَارِثِ ، عَنْ مُعَاذٍ ؛ أَنَّہُ کَانَ یَأْتِی أَہْلَہُ بَعْدَ الزَّوَالِ فَیَقُولُ : عِنْدَکُمْ غَدَائٌ ؟ فَیَعْتَذِرُونَ إلَیْہِ ، فَیَقُولُ : إنِّی صَائِمٌ بَقِیَّۃَ یَوْمِی ، فَیُقَالُ لَہُ : تَصُومُ آخِرَ النَّہَارِ! فَیَقُولُ : مَنْ لَمْ یَصُمْ آخِرَہُ ، لَمْ یَصُمْ أَوَّلَہُ۔
(٩٢٠١) حضرت حارث فرماتے ہیں کہ حضرت معاذ زوال کے بعد اپنے گھر والوں کے پاس آتے اور ان سے پوچھتے کہ کیا تمہارے پاس کھانے کے لیے کچھ ہے ؟ وہ معذرت کرتے تو حضرت معاذ فرماتے کہ باقی دن میرا روزہ ہے۔ ان سے کہا جاتا کہ آپ دن کے آخری حصہ میں روزہ رکھیں گے۔ وہ فرماتے کہ جس نے دن کے آخری حصہ میں روزہ نہیں رکھا اس نے اول حصہ میں روزہ نہیں رکھا۔

9202

(۹۲۰۲) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنْ أَبِی قِلاَبَۃَ ، عَنْ أُمِّ الدَّرْدَائِ قَالَتْ : کَانَ أَبُو الدَّرْدَائِ یَغْدُو أَحْیَانًا، فَیَجِیئُ فَیَسْأَلُ الْغَدَائَ ، فَرُبَّمَا لَمْ یُوَافِقْہُ عِنْدَنَا ، فَیَقُولُ : إنِّی إذًا صَائِمٌ۔
(٩٢٠٢) حضرت ام دردائ فرماتی ہیں کہ بعض اوقات حضرت ابو دردائ دوپہر کو کھانا طلب کرتے، اگر ہمارے پاس کھانا نہ ہوتا تو وہ روزہ رکھ لیتے۔

9203

(۹۲۰۳) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ ، عَنْ أَبِی قَحْذَمٍ ، عَنْ أَبِی قِلاَبَۃَ ، عَنْ أَبِی الأَشْعَثِ ، قَالَ : کَانَ مُعَاذٌ یَأْتِی أَہْلَہُ بَعْدَ مَا یُضْحی فَیَسْأَلُہُمْ فَیَقُولُ : عِنْدَکُمْ شَیْئٌ ؟ فَإِذَا قَالُوا لاَ ، صَامَ ذَلِکَ الْیَوْمَ۔
(٩٢٠٣) حضرت ابو اشعث کہتے ہیں کہ حضرت معاذ چاشت کے بعد اپنے گھر والوں کے پاس آتے اور ان سے کھانا طلب کرتے، اگر کھانا نہ ہوتا تو وہ اس دن روزہ رکھ لیتے۔

9204

(۹۲۰۴) حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ ، عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ حَازِمٍ ، قَالَ : حدَّثَنِی عَبْدُ اللہِ بْنُ أَبِی بَکْرِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، عَنْ حَفْصَۃَ قَالَتْ ، قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لاَ صِیَامَ لِمَنْ لَمْ یُوَرِّضْہُ بِاللَّیْلِ۔ (ترمذی ۷۳۰۔ ابوداؤد ۲۴۴۶)
(٩٢٠٤) حضرت حفصہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ جس نے رات سے اپنے اوپر روزہ فرض نہ کیا اس کا روزہ نہیں ہوتا۔

9205

(۹۲۰۵) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ حَمْزَۃَ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ ، عَنْ حَفْصَۃَ ، أَنَّہَا قَالَتْ : لاَ صِیَامَ لِمَنْ لَمْ یُجْمِعِ الصِّیَامَ قَبْلَ الْفَجْرِ۔
(٩٢٠٥) حضرت حفصہ فرماتی ہیں کہ جس نے فجر سے پہلے روزے کا عزم نہ کیا اس کا روزہ نہیں ہوگا۔

9206

(۹۲۰۶) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ سُلَیْمٍ الطَّائِفِیُّ ، عَنْ مُوسَی بْنِ عُقْبَۃَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْکَدِرِ ، قَالَ : بَلَغَنِی أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سُئِلَ عَنْ تَقْطِیعِ قَضَائِ رَمَضَانَ ؟ فَقَالَ : ذَاکَ إلَیْک ، فَقَالَ : أَرَأَیْت لَوْ کَانَ عَلَی أَحَدِکُمْ دَیْنٌ ، فَقَضَی الدِّرْہَمَ وَالدِّرْہَمَیْنِ ، أَلَمْ یَکُ قَضَی ؟ وَاللَّہُ أَحَقّ أَنْ یَعْفُوَ وَیَغْفِرَ۔ (دارقطنی ۷۷)
(٩٢٠٦) حضرت محمد بن منکدر کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی پاک (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا گیا کہ رمضان کی قضاء میں تقطیع اور تفریق کی جاسکتی ہے۔ آپ نے فرمایا کہ ہاں ایسا کرسکتے ہو۔ دیکھو اگر تم میں سے کسی پر قرضہ ہو اور وہ ایک یا دو دو درہم کرکے اسے ادا کرے تو کیا قرضہ ادا نہ ہوگا ؟ اللہ تعالیٰ تو زیادہ معاف کرنے والا اور بخشنے والا ہے۔

9207

(۹۲۰۷) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَطَائٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، وَأَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالاَ : لاَ بَأْسَ بِقَضَائِ رَمَضَانَ مُتَفَرِّقًا۔
(٩٢٠٧) حضرت ابن عباس اور حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ رمضان کے روزوں کی قضاء متفرق کرکے رکھنے میں کوئی حرج نہیں۔

9208

(۹۲۰۸) حَدَّثَنَا مُعْتَمِرُ بْنُ سُلَیْمَانَ، عَنْ أَبِیہِ، قَالَ: أَنْبَأَنِی بَکْرٌ ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ : إِنْ شِئْتَ فَاقْضِ رَمَضَانَ مُتَتَابِعًا، وَإِنْ شِئْتَ مُتَفَرِّقًا۔
(٩٢٠٨) حضرت انس فرماتے ہیں کہ اگر تم چاہو تو رمضان کے روزوں کی قضا ترتیب سے مسلسل کرلو اور اگر چاہو تو متفرق کرکے کرلو۔

9209

(۹۲۰۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ حَبِیبِ بْنِ أَبِی ثَابِتٍ ، عَنْ عَطَائٍ ، عَنْ عُبَیْدِ بْنِ عُمَیْرٍ ؛ فِی قَضَائِ رَمَضَانَ ، قَالَ : إِنْ شَائَ فَرَّقَ۔
(٩٢٠٩) حضرت عبید بن عمیر رمضان کے روزوں کی قضا کے بارے میں فرماتے ہیں کہ اگر چاہے تو متفرق کرکے قضا کرلے۔

9210

(۹۲۱۰) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنْ أَبِی قِلاَبَۃَ ، عَنِ ابْنِ مُحَیْرِیزٍ ، أَنَّہُ قَالَ فِی قَضَائِ رَمَضَانَ ، قَالَ : أَحْصِ الْعِدَّۃَ ، وَصُمْ کَیْفَ شِئْت۔
(٩٢١٠) حضرت ابن محیریز رمضان کی قضاء کے بارے میں فرماتے ہیں کہ گنتی پوری کرو چاہے جیسے بھی روزے رکھو۔

9211

(۹۲۱۱) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ حُبَابٍ ، عَنْ مُعَاوِیَۃَ بْنِ صَالِحٍ ، عَنْ مُوسَی بْنِ یَزِیدَ بْنِ مَوْہَبٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ مَالِکِ بْنِ یُخَامِرَ ، عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ ؛ أَنَّہُ سُئِلَ عَنْ قَضَائِ رَمَضَانَ ؟ فَقَالَ : أَحْصِ الْعِدَّۃَ ، وَصُمْ کَیْفَ شِئْت۔
(٩٢١١) حضرت معاذ سے رمضان کی قضاء کے بارے سوال کیا گیا تو انھوں نے فرمایا کہ گنتی پوری کرو چاہے جیسے بھی روزے رکھو۔

9212

(۹۲۱۲) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ عَبْدِ الْحَمِیدِ بْنِ رَافِعِ بْنِ خَدِیجٍ ، عَنْ جَدَّتِہِ ، أَنَّ رَافِعًا کَانَ یَقُولُ : أَحْصِ الْعِدَّۃَ وَصُمْ کَیْفَ شِئْت۔
(٩٢١٢) حضرت رافع فرمایا کرتے تھے کہ گنتی پوری کرو چاہے جیسے بھی روزے رکھو۔

9213

(۹۲۱۳) حَدَّثَنَا مُعَمَّرُ بْنُ سُلَیْمَانَ الرَّقِّیُّ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ عَطَائٍ ، قَالَ : جَائَتِ امْرَأَۃٌ إلَی ابْنِ عَبَّاسٍ تسْأَلُہُ عَنْ قَضَائِ صِیَامِ رَمَضَانَ ؟ فَقَالَ : أَحْصِی الْعِدَّۃَ وَفَرِّقِی ، قَالَ : وَکَانَ سَعِیدُ بْنُ جُبَیْرٍ وَعِکْرِمَۃُ یَقُولاَنِ ذَلِکَ۔
(٩٢١٣) حضرت عطاء فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ ایک عورت نے حضرت ابن عباس سے رمضان کی قضاء کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے فرمایا کہ گنتی پوری کرو خواہ روزوں کو متفرق کرکے رکھو۔ حضرت سعید بن جبیر اور حضرت عکرمہ بھی اسی بات کے قائل تھے۔

9214

(۹۲۱۴) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ عَطَائٍ ، وَمُجَاہِدٍ ، وَطَاوُسٍ ، وَسَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ قَالُوا : إِنْ شِئْتَ فَاقْضِ رَمَضَانَ مُتَتَابِعًا ، أَوْ مُتَفَرِّقًا۔
(٩٢١٤) حضرت عطائ، حضرت مجاہد ، حضرت طاوس اور حضرت سعید بن جبیر فرماتے ہیں کہ اگر چاہو تو رمضان کی قضا مسلسل کرو اور اگر چاہو تو متفرق کرکے کرو۔

9215

(۹۲۱۵) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ، وَعَطَائٍ ، وَمُجَاہِدٍ ، وَطَاوُسٍ ؛ أَنَّہُمْ کَانُوا لاَ یَرَوْنَ بَأْسًا بِتَفْرِیقِ قَضَائِ رَمَضَانَ۔
(٩٢١٥) حضرت سعید بن جبیر، حضرت عطائ، حضرت مجاہد اور حضرت طاوس رمضان کی قضاء میں تفریق کو ممنوع قرار نہیں دیتے تھے۔

9216

(۹۲۱۶) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِِ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ؛ فِی الرَّجُلِ یَکُونُ عَلَیْہِ صَوْمٌ مِنْ رَمَضَانَ ، فَیُفَرِّقُ صِیَامَہُ ، أَوْ یَصِلُہُ ، قَالَ : إنَّ اللَّہَ أَرَادَ بِعِبَادِہِ الْیُسْرَ ، فَلْیَنْظُرْ أَیْسَرَ ذَلِکَ عَلَیْہِ ، إِنْ شَائَ وَصَلَہُ ، وَإِنْ شَائَ فَرَّقَ۔
(٩٢١٦) حضرت مجاہد سے سوال کیا گیا کہ اگر کسی آدمی پر رمضان کے روزے ہوں وہ مسلسل روزے رکھے گا یا الگ الگ رکھ سکتا ہے ؟ فرمایا اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر آسانی چاہتا ہے۔ جو طریقہ اسے آسان لگتا ہے اس پر عمل کرلے اگر ملا کر رکھنا آسان ہے تو ایسا کرلے اور اگر جدا جدا کرکے رکھنا آسان ہے تو ایسا کرلے۔

9217

(۹۲۱۷) حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّیَالِسِیُّ ، عَنْ زُہَیْرٍ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ زُہَیْرٍ مِنْ أَصْحَابِ أَبِی مَیْسَرَۃَ ؛ أَنَّ أَبَا مَیْسَرَۃَ کَانَ یُقَطِّعُ قَضَائَ رَمَضَانَ۔
(٩٢١٧) حضرت ابومیسرہ رمضان کے قضاء روزے الگ الگ کرکے رکھا کرتے تھے۔

9218

(۹۲۱۸) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ مُجَالِدٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : إِنْ شَقَّ عَلَیْک أَنْ تَقْضِیَ مُتَتَابِعًا ، فَرِّقْ فَإنَّمَا ہِیَ عِدَّۃٌ مِنْ أَیَّامٍ أُخَرَ۔
(٩٢١٨) حضرت شعبی فرماتے ہیں کہ اگر کسی آدمی کو مسلسل روزے رکھنا مشکل لگے تو الگ الگ کرکے رکھ لے، کیونکہ یہ دوسرے دنوں کی گنتی ہے۔

9219

(۹۲۱۹) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ دَاوُدَ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ ؛ {فَعِدَّۃٌ مِنْ أَیَّامٍ أُخَرَ} ، قَالَ : إِنْ شَائَ وَصَلَ ، وَإِنْ شَائَ فَرَّقَ۔
(٩٢١٩) حضرت عکرمہ آیت قرآنی { فَعِدَّۃٌ مِنْ أَیَّامٍ أُخَرَ } کے بارے میں فرماتے ہیں کہ اگر چاہے تو ملائے اور اگر چاہے تو جدا جدا رکھے۔

9220

(۹۲۲۰) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ أَبِی غَنِیَّۃ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنِ الْحَکَمِ ، قَالَ : کَانَ لاَ یَرَی بِقَضَائِ رَمَضَانَ مُتَقَطِّعًا بَأْسًا۔
(٩٢٢٠) حضرت حکم فرماتے ہیں کہ رمضان کی قضاء کو الگ الگ رکھنے میں کوئی حرج نہیں۔

9221

(۹۲۲۱) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ جُوَیْبِرٍ ، عَنِ الضَّحَّاکِ ؛ فِی قَضَائِ رَمَضَانَ ، إِنْ شِئْتَ مُتَتَابِعًا ، وَإِنْ شِئْتَ مُتَفَرِّقًا۔
(٩٢٢١) حضرت ضحاک رمضان کے قضاء روزوں کے بارے میں فرماتے ہیں کہ اگر چاہے تو مسلسل رکھے اور اگر چاہے تو الگ الگ۔

9222

(۹۲۲۲) حَدَّثَنَا کَثِیرُ بْنُ ہِشَامٍ ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مَیْمُونٍ ، قَالَ : قَضَائُ رَمَضَانَ عِدَّۃٌ مِنْ أَیَّامٍ أُخَرَ۔
(٩٢٢٢) حضرت جعفر بن میمون فرماتے ہیں کہ رمضان کی قضاء دوسرے دنوں کی گنتی ہے۔

9223

(۹۲۲۳) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ الْمَکِّیِّ ، عَنْ رَبِیعَۃَ ، عَنْ عَطَائِ بْنِ یَسَارٍ ، قَالَ : لاَ بَأْسَ أَنْ یُفرّق قَضَاء رَمَضَانَ۔
(٩٢٢٣) حضرت عطاء بن یسار فرماتے ہیں کہ رمضان کی قضا کو متفرق کرنے میں کوئی حرج نہیں۔

9224

(۹۲۲۴) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ بْنِ عَبْدِ اللہِ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ؛ فِی قَضَائِ رَمَضَانَ ، صُمْہُ کَیْفَ شِئْت ، وَقَالَ ابْنُ عُمَرَ : صُمْہُ کَمَا أَفْطَرْتہ۔
(٩٢٢٤) حضرت ابن عباس رمضان کے قضاء روزوں کے بارے میں فرماتے ہیں کہ جیسے چاہو رکھو۔ حضرت ابن عمر فرماتے ہیں کہ انھیں ایسے رکھو جیسے تم نے انھیں چھوڑا تھا۔

9225

(۹۲۲۵) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ الْحُبَابِ، حَدَّثَنِی مُعَاوِیَۃُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا أَزْہَرُ بْنُ سَعِیدٍ، عَنْ أَبِی عَامِرٍ الْہَوْزَنِیِّ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا عُبَیْدَۃَ بْنَ الْجَرَّاحِ ، وَسُئِلَ عَنْ قَضَائِ رَمَضَانَ مُتَفَرِّقًا ؟ قَالَ : أَحْصِ الْعِدَّۃَ ، وَصُمْ کَیْفَ شِئْت۔
(٩٢٢٥) حضرت ابوعبیدہ بن جراح سے رمضان کے روزوں کی قضاء کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے فرمایا کہ گنتی پوری کرو چاہے جیسے بھی روزے رکھو۔

9226

(۹۲۲۶) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ فِی قَضَائِ رَمَضَانَ : یُتَابِعُ بَیْنَہُ۔
(٩٢٢٦) حضرت ابن عمر فرماتے ہیں کہ رمضان کے قضاء روزے ترتیب سے رکھے گا۔

9227

(۹۲۲۷) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ؛ أَنَّہُ کَانَ یَأْمُرُ بِقَضَائِ رَمَضَانَ مُتَتَابِعًا۔
(٩٢٢٧) حضرت نافع فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عمر رمضان کے قضاء روزوں کو ترتیب سے رکھنے کا حکم دیتے تھے۔

9228

(۹۲۲۸) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِِ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنِ الْحَارِثِ ، عَنْ عَلِیٍّ، قَالَ: مَنْ کَانَ عَلَیْہِ صَوْمٌ مِنْ رَمَضَانَ، فَلْیَصُمْہُ مُتَّصِلاً ، وَلاَ یُفَرِّقْہُ۔
(٩٢٢٨) حضرت علی فرماتے ہیں کہ جس پر رمضان کے روزے باقی ہوں وہ انھیں ترتیب سے رکھے اور ان کے درمیان جدائی نہ ڈالے۔

9229

(۹۲۲۹) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : یُواتِر قَضَاء رَمَضَانَ۔
(٩٢٢٩) حضرت عروہ فرماتے ہیں کہ رمضان کے روزوں کو تواتر سے رکھے گا۔

9230

(۹۲۳۰) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ ، أَنَّہُ قَالَ : لاَ یَقْطَعُہُ إذَا کَانَ صَحِیحًا۔
(٩٢٣٠) حضرت عروہ فرماتے ہیں کہ اگر تندرست ہو تو روزے تواتر سے رکھے گا۔

9231

(۹۲۳۱) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : کَانُوا یَقُولُونَ : قَضَاء رَمَضَانَ تِبَاعًا۔
(٩٢٣١) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ اسلاف فرمایا کرتے تھے کہ رمضان کی قضاء کے روزے ترتیب سے رکھے جائیں گے۔

9232

(۹۲۳۲) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ، قَالَ : یَقْضِیہ کَہَیْئَتِہِ۔
(٩٢٣٢) حضرت سعید بن مسیب فرماتے ہیں کہ جیسے قضاء ہوئے تھے ویسے قضاء کرے گا۔

9233

(۹۲۳۳) حَدَّثَنَا مُعْتَمِرُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : کَانَ الْحَسَنُ یُحِبُّ أَنْ یُتَابَعَ بَیْنَ قَضَائِ رَمَضَانَ۔
(٩٢٣٣) حضرت حسن اس بات کو پسند فرماتے تھے کہ رمضان کے قضاء روزے ترتیب سے رکھے جائیں۔

9234

(۹۲۳۴) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرِِ ، عَنْ دَاوُدَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : أَحَبُّ إلَیَّ أَنْ یَقْضِیَہُ کَمَا أَفْطَرَہُ۔
(٩٢٣٤) حضرت شعبی فرماتے ہیں کہ مجھے یہ بات پسند ہے کہ جس طرح روزے قضا ہوئے تھے اسی طرح ان کی قضا کی جائے۔

9235

(۹۲۳۵) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِی عَدِیٍّ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، عَنْ مُحَمَّدٍ ، قَالَ فِی قَضَائِ رَمَضَانَ : أَحَبَّ إلَیَّ أَنْ یَصُومَہُ کَمَا أَفْطَرَہُ۔
(٩٢٣٥) حضرت محمد رمضان کے قضاء روزوں کے بارے میں فرماتے ہیں کہ ہے کہ وہ انھیں اسی طرح رکھے جس طرح چھوڑا تھا۔

9236

(۹۲۳۶) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ الْحَکَمِ ، عَنِ ابْنِ أَبِی مُلَیْکَۃَ ، عَنْ عُقْبَۃَ بْنِ الْحَارِثِ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : یُوَاتِرُہُ إِنْ شَائَ۔
(٩٢٣٦) حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ اگر چاہے تو تواتر سے رکھے۔

9237

(۹۲۳۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنِ الْحَکَمِ ، قَالَ : سَأَلْتُہُ عَنْ قَضَائِ رَمَضَانَ ؟ قَالَ : مُتَتَابِعٌ أَحَبَّ إلَیَّ۔
(٩٢٣٧) حضرت شعبہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت حکم سے رمضان کی قضاء کے بارے میں سوال کیا تو انھوں نے فرمایا کہ ترتیب سے مسلسل رکھنا میرے نزدیک زیادہ بہتر ہے۔

9238

(۹۲۳۸) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ الْحُبَابِ ، عَنْ أَفْلَحَ ، عَنِ الْقَاسِمِ ، قَالَ : صُمْہُ مُتَتَابِعًا إِلاَّ أَنْ یُقْطَعَ بِکَ کَمَا قَطَعَ بِکَ فِیہِ۔
(٩٢٣٨) حضرت قاسم فرماتے ہیں کہ رمضان کے قضاء روزے ترتیب سے رکھو البتہ کوئی عذر پیش آجائے تو الگ بات ہے۔

9239

(۹۲۳۹) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ أَبِی سُلَیْمَانَ ، عَنْ عَطَائٍ ، قَالَ : یَقْضِیہ مُتَتَابِعًا أَحَبَّ إلَیَّ، وَإِنْ فَرَّقَ أَجْزَأَہُ۔
(٩٢٣٩) حضرت عطاء فرماتے ہیں کہ رمضان کے روزوں کی قضاء ترتیب سے کرنا مجھے زیادہ پسند ہے خواہ اس کے اجزاء کے درمیان جدائی ہو۔

9240

(۹۲۴۰) حَدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَامِرِ بْنِ رَبِیعَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : رَأَیْتُ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَسْتَاکُ وَہُوَ صَائِمٌ۔ (ابوداؤد ۲۳۵۶۔ دارقطنی ۲)
(٩٢٤٠) حضرت عامر بن ربیعہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی پاک (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو روزہ کی حالت میں مسواک کرتے دیکھا ہے۔

9241

(۹۲۴۱) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ؛ أَنَّہُ لَمْ یَکُنْ یَرَی بَأْسًا بِالسِّوَاکِ لِلصَّائِمِ۔
(٩٢٤١) حضرت ابن عمر روزہ دار کے لیے مسواک کو مکروہ قرار نہ دیتے تھے۔

9242

(۹۲۴۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ مِسْعَرٍ ، وَسُفْیَانَ ، عَنْ أَبِی نَہِیکٍ ، عَنْ زِیَادِ بْنِ حُدَیْرٍ ، قَالَ : مَا رَأَیْت أَحَدًا أَدْوَمَ سِوَاکًا وَہُوَ صَائِمٌ مِنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ۔
(٩٢٤٢) حضرت زیادہ بن حدیر فرماتے ہیں کہ میں نے روزے کی حالت میں حضرت عمر سے زیادہ کسی کو مسواک کی پابندی کرتے نہیں دیکھا۔

9243

(۹۲۴۳) حَدَّثَنَا عَبِیْدَۃُ بْنُ حُمَیْدٍ ، عَنْ أَبِی نَہِیکٍ ، عَنْ زِیَادِ بْنِ حُدَیْرٍ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ ، بِنَحْوِہِ۔
(٩٢٤٣) ایک اور سند سے یونہی منقول ہے۔

9244

(۹۲۴۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ شَدَّادِ أَبِی طَلْحَۃَ ، عَنِ امْرَأَۃٍ مِنْہُمْ یُقَالُ لَہَا : کَبْشَۃُ قَالَتْ : جِئْت إلَی عَائِشَۃَ فَسَأَلْت عَنِ السِّوَاکِ لِلصَّائِمِ ؟ قَالَتْ : ہَذَا سِوَاکِی فِی یَدِی وَأَنَا صَائِمَۃٌ۔
(٩٢٤٤) حضرت کبشہ کہتی ہیں کہ میں حضرت عائشہ کے پاس آئی اور میں نے ان سے روزہ دار کے لیے مسواک کے بارے میں سوال کیا، انھوں نے فرمایا کہ میں روزہ دار ہوں اور یہ میرے ہاتھ میں مسواک ہے۔

9245

(۹۲۴۵) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، عَنْ عَبْدِ الْجَلِیلِ ، قَالَ : حدَّثَنِی شَہْرُ بْنُ حَوْشَبٍ ، قَالَ : سُئِلَ ابْنُ عَبَّاسٍ عَنِ السِّوَاکِ لِلصَّائِمِ ؟ فَقَالَ : نِعْمَ الطَّہُورُ ، اسْتَکْ عَلَی کُلِّ حَالٍ۔
(٩٢٤٥) حضرت شہر بن حوشب کہتے ہیں کہ حضرت ابن عباس سے روزے کی حالت میں مسواک کے بارے میں سوال کیا گیا تو انھوں نے فرمایا مسواک پاکیزگی کا بہترین ذریعہ ہے، ہر حال میں مسواک کرو۔

9246

(۹۲۴۶) حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُبَارَک ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنْ أَبِیہِ ؛ أَنَّہُ کَانَ یَسْتَاکُ مَرَّتَیْنِ ، غَدْوَۃً وَعَشِیَّۃً وَہُوَ صَائِمٌ۔
(٩٢٤٦) حضرت عروہ روزے کی حالت میں دو مرتبہ صبح اور شام کو مسواک کیا کرتے تھے۔

9247

(۹۲۴۷) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ خُصَیْفٍ ، عَنْ عَطَائٍ ، قَالَ : اسْتَکْ أَوَّلَ النَّہَارِ ، وَلاَ تَسْتَکْ آخِرَہُ إذَا کُنْتَ صَائِمًا ، قُلْتُ : لِمَ لاَ أَسْتَاکُ فِی آخِرِ النَّہَارِ ؟ قَالَ : إنَّ خُلُوفَ الصَّائِمِ أَطْیَبُ عِنْدَ اللہِ مِنْ رِیحِ الْمِسْکِ۔
(٩٢٤٧) حضرت خصیف فرماتے ہیں کہ حضرت عطاء نے فرمایا کہ جب تمہارا روزہ ہو تو دن کے ابتدائی حصہ میں مسواک کرو، دن کے آخری حصہ میں مسواک نہ کرو۔ میں نے کہا کہ دن کے آخری حصہ میں مسواک کیوں نہ کروں ؟ انھوں نے فرمایا کہ روزہ دار کے منہ کی بو اللہ کے نزدیک مشک کی خوشبو سے زیادہ پسندیدہ ہے۔

9248

(۹۲۴۸) حَدَّثَنَا أَزْہَرُ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، قَالَ : کَانَ مُحَمَّدٌ یَسْتَاکُ مِنْ أَوَّلِ النَّہَارِ ، وَیَکْرَہہُ مِنْ آخِرِہِ۔
(٩٢٤٨) حضرت ابن عون فرماتے ہیں کہ حضرت محمد روزہ کی حالت میں دن کے شروع میں مسواک کرتے تھے لیکن دن کے آخر میں اسے مکروہ قرار دیتے تھے۔

9249

(۹۲۴۹) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ؛ أَنَّہُ کَانَ یَسْتَاکُ إذَا أَرَادَ أَنْ یَدفع إلَی الظُّہْرِ وَہُوَ صَائِمٌ۔
(٩٢٤٩) حضرت نافع فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عمر روزے کی حالت میں ظہر کے لیے جانے سے پہلے مسواک کرتے تھے۔

9250

(۹۲۵۰) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : لاَ بَأْسَ بِالسِّوَاکِ لِلصَّائِمِ۔
(٩٢٥٠) ابراہیم فرماتے ہیں کہ روزہ دار کے لیے مسواک کرنے میں کوئی حرج نہیں۔

9251

(۹۲۵۱) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ حُصَیْنٍ ، عَنْ سَالِمٍ ؛ أَنَّہُ کَانَ لاَ یَرَی بَأْسًا بِالسِّوَاکِ لِلصَّائِمِ ، إِلاَّ عِنْدَ اصْفِرَارِ الشَّمْسِ۔
(٩٢٥١) حضرت سالم عصر کے بعد سورج کے زرد پڑجانے سے پہلے روزہ دار کے لیے مسواک کو مکروہ قرار نہ دیتے تھے۔

9252

(۹۲۵۲) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ؛ أَنَّہُ کَرِہَ السِّوَاکَ لِلصَّائِمِ بَعْدَ الظُّہْرِ۔
(٩٢٥٢) حضرت مجاہد نے ظہر کے بعد روزہ دار کے لیے مسواک کو مکروہ قرار دیا ہے۔

9253

(۹۲۵۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إسْرَائِیلَ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ عَامِرٍ ، قَالَ : یَسْتَاکُ الصَّائِمُ أَیَّ النَّہَارِ شَائَ۔
(٩٢٥٣) حضرت عامر فرماتے ہیں کہ روزہ دار جب چاہے مسواک کرلے۔

9254

(۹۲۵۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ بَشِیرٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، أَنَّہُ سُئِلَ عَنِ السِّوَاکِ لِلصَّائِمِ ، فَقَالَ: أدْمَیْت فَمِی الْیَوْمَ مَرَّتَیْنِ۔
(٩٢٥٤) حضرت ابوہریرہ سے روزہ دار کے مسواک کرنے کے بارے میں سوال کیا گیا تو فرمایا کہ میں دن میں دو مرتبہ مسواک سے اپنے منہ کا خون نکالتا ہوں۔

9255

(۹۲۵۵) حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِی غَنِیَّۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنِ الْحَکَمِ ؛ أَنَّہُ کَانَ لاَ یَرَی بَأْسًا بِالسِّوَاکِ لِلصَّائِمِ مِنْ أَوَّلِ النَّہَارِ ، وَقَالَ : إنَّمَا کُرِہَ لَہُ آخِرَ النَّہَارِ ، بَعْدَ مَا یَخلف فُوہُ یستحب أَنْ یَرْجِعَ فِی جَوْفِہِ۔
(٩٢٥٥) حضرت حکم کے نزدیک روزہ دار کے لیے دن کے ابتدائی حصہ میں مسواک کرنا جائز ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ دن کے آخری حصہ میں مسواک کرنا مکروہ ہے تاکہ معدے کے خالی ہونے کی وجہ سے پیدا ہونے والی بو واپس چلی جائے۔

9256

(۹۲۵۶) حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ زَیْدٍ ، قَالَ : سُئِلَ سَعِیدُ بْنُ الْمُسَیَّبِ عَنِ السِّوَاکِ لِلصَّائِمِ؟ فَقَالَ: لاَ بَأْسَ بِہِ۔
(٩٢٥٦) حضرت سعید بن مسیب سے روزے میں مسواک کرنے کے بارے میں سوال کیا گیا تو فرمایا کہ اس میں کوئی حرج نہیں۔

9257

(۹۲۵۷) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ، وَوَکِیعٍ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ، عَنْ أَبِیہِ؛ أَنَّہُ کَانَ یَسْتَاکُ بِالسِّوَاکِ الرَّطْبِ وَہُوَ صَائِمٌ۔
(٩٢٥٧) حضرت عروہ روزے کی حالت میں تازہ مسواک سے دانت صاف کیا کرتے تھے۔

9258

(۹۲۵۸) حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ عَیَّاشٍ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، قَالَ : لاَ بَأْسَ بِالسِّوَاکِ الرَّطْبِ لِلصَّائِمِ۔
(٩٢٥٨) حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ روزے کی حالت میں تازہ مسواک سے دانت صاف کرنے میں کوئی حرج نہیں۔

9259

(۹۲۵۹) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، قَالَ : لاَ بَأْسَ بِالسِّوَاکِ الرَّطْبِ لِلصَّائِمِ۔
(٩٢٥٩) حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ روزے کی حالت میں تازہ مسواک سے دانت صاف کرنے میں کوئی حرج نہیں۔

9260

(۹۲۶۰) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ؛ أَنَّہُ کَانَ لاَ یَرَی بَأْسًا بِالسِّوَاکِ الرَّطْبِ وَہُوَ صَائِمٌ۔
(٩٢٦٠) حضرت حسن روزہ دار کے لیے تازہ مسواک سے دانت صاف کرنے میں کوئی حرج نہ سمجھتے تھے۔

9261

(۹۲۶۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَطَائٍ ، قَالَ : لاَ بَأْسَ بِالسِّوَاکِ الرَّطْبِ لِلصَّائِمِ۔
(٩٢٦١) حضرت عطاء فرماتے ہیں کہ روزہ دار کے لیے تازہ مسواک سے دانت صاف کرنے میں کوئی حرج نہیں۔

9262

(۹۲۶۲) حَدَّثَنَا عُبَیْدُ بْنُ سَہْلٍ الْغُدَّانِیُّ ، عَنْ عُقْبَۃَ بْنِ أَبِی جَسْرۃ الْمَازِنِیِّ ، قَالَ : أَتَی ابْنَ سِیرِینَ رَجُلٌ ، فَقَالَ: مَا تَرَی فِی السِّوَاکِ لِلصَّائِمِ؟ قَالَ: لاَ بَأْسَ بِہِ، قَالَ: إِنَّہُ جَرِیدَۃٌ وَلَہُ طَعْمٌ، قَالَ: وَالْمَائُ لَہُ طَعْمٌ وَأَنْتَ تَمَضْمَضُ۔
(٩٢٦٢) ایک آدمی حضرت ابن سیرین کے پاس آیا اور اس نے کہا آپ روزہ دار کے لیے مسواک کرنے کے بارے میں کیا فرماتے ہیں ؟ انھوں نے فرمایا کہ اس میں کوئی حرج نہیں۔ سوال کرنے والے نے کہا کہ یہ ٹہنی ہوتی ہے اور اس کا ذائقہ ہوتا ہے۔ انھوں نے فرمایا کہ پانی کا بھی تو ذائقہ ہوتا ہے اور تم کلی کرتے ہو۔

9263

(۹۲۶۳) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ الْحُبَابِ ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَۃَ ، عَنْ حَمَّادٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ؟ قَالَ : لاَ بَأْسَ أَنْ یَسْتَاکَ بِالْعُودِ الرَّطْبِ وَہُوَ صَائِمٌ۔
(٩٢٦٣) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ روزے کی حالت میں تازہ مسواک سے دانت صاف کرنے میں کوئی حرج نہیں۔

9264

(۹۲۶۴) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ شَقِیقٍ ، أَخْبَرَنَا أَبُو حَمْزَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ الصَّائِغِ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : لاَ بَأْسَ أَنْ یَسْتَاکَ الصَّائِمُ بِالسِّوَاکِ الرَّطْبِ وَالْیَابِسِ۔
(٩٢٦٤) حضرت ابن عمر فرماتے ہیں کہ روزہ دار تازہ اور پرانی مسواک سے دانت صاف کرسکتا ہے۔

9265

(۹۲۶۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سَلَمَۃَ ، عَنِ الضَّحَّاکِ ؛ أَنَّہُ کَرِہَہُ وَقَالَ : ہُوَ حُلْوٌ وَمُرٌّ۔
(٩٢٦٥) حضرت ضحاک نے روزہ دار کے لیے تازہ مسواک کے استعمال کو مکروہ بتایا اور فرمایا کہ یہ میٹھی اور کڑوی ہوتی ہے۔

9266

(۹۲۶۶) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ ، عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّائِ ، عَنِ الْحَکَمِ ؛ أَنَّہُ کَرِہَ السِّوَاکَ الرَّطْبَ لِلصَّائِمِ۔
(٩٢٦٦) حضرت حکم نے روزہ دار کے لیے تازہ مسواک کے استعمال کو مکروہ قرار دیا ہے۔

9267

(۹۲۶۷) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرِِ ، وَابْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ، عَنْ أَبِی مَیْسَرَۃَ؛ أَنَّہُ کَرِہَ السِّوَاکَ الرَّطْبَ لِلصَّائِمِ۔
(٩٢٦٧) حضرت ابو میسرہ نے روزہ دار کے لیے تازہ مسواک کے استعمال کو مکروہ قرار دیا ہے۔

9268

(۹۲۶۸) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرِِ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ عَطَائٍ ، قَالَ : إِنْ کَانَ یَابِسًا فَبُلَّہُ۔
(٩٢٦٨) حضرت عطاء فرماتے ہیں کہ اگر مسواک خشک ہو تو اسے تر کرلو۔

9269

(۹۲۶۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ بْنِ أَبِی خَالِدٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : یَسْتَاکُ ، وَلاَ یَبُلُّہُ۔
(٩٢٦٩) حضرت شعبی مسواک کرتے تھے اور اسے تر نہیں کرتے تھے۔

9270

(۹۲۷۰) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ؛ أَنَّہُ رَخَّصَ فِی مَضْغِ الْعِلْکِ لِلصَّائِمِ ، مَا لَمْ یدخل حَلْقَہُ۔
(٩٢٧٠) حضرت ابراہیم نے روزے کی حالت میں گوندچبانے کی اجازت دی ہے بشرطیکہ وہ حلق میں نہ اترے۔

9271

(۹۲۷۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إسْرَائِیلَ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ عَامِرٍ ، قَالَ : لاَ بَأْسَ بِالْعِلْکِ لِلصَّائِمِ مَا لَمْ یَبْلَعْ رِیقَہُ۔
(٩٢٧١) حضرت عامر فرماتے ہیں کہ روزے کی حالت میں گوند چبانے میں کوئی حرج نہیں بشرطیکہ وہ تھوک کو نہ نگلے۔

9272

(۹۲۷۲) حَدَّثَنَا جَرِیرُ بْنُ عَبْدِ الْحَمِیدِ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، قَالَ : کَانَتْ عَائِشَۃُ لاَ تَرَی بَأْسًا فِی مَضْغِ الْعِلْکِ لِلصَّائِمِ ، إِلاَّ الْقَارَ ، وَکَانَتْ تُرَخِّصُ فِی الْقَارِ وَحْدَہُ۔
(٩٢٧٢) حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ حضرت عائشہ روزے کی حالت میں گوند چبانے کو ناجائز قرار دیتی تھی البتہ قار (تارکول جیسی کوئی چبانے کی چیز) کے بارے میں وہ اجازت دیتی تھیں۔

9273

(۹۲۷۳) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیِّ ، عَنْ زَائِدَۃَ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ عَطَائٍ ، قَالَ : لاَ بَأْسَ أَنْ یَمْضُغَ الصَّائِمُ الْعِلْکَ ، وَلاَ یَبْلَعُ رِیقَہُ۔
(٩٢٧٣) حضرت عطاء فرماتے ہیں کہ روزے کی حالت میں گوندچبانے کی اجازت ہے بشرطیکہ وہ تھوک نہ نگلے۔

9274

(۹۲۷۴) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ؛ أَنَّہُ کَرِہَہ لِلصَّائِمِ۔
(٩٢٧٤) حضرت ابراہیم نے روزے کی حالت میں گوند چبانے کو مکروہ قرار دیا ہے۔

9275

(۹۲۷۵) حَدَّثَنَا حُمَیْدٌ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ، عَنْ حَسَنٍ، عَنْ عِیسَی، عَنِ الشَّعْبِیِّ؛ أَنَّہُ کَرِہَ لِلصَّائِمِ أَنْ یَمْضُغَ الْعلکَ۔
(٩٢٧٥) حضرت شعبی نے روزے کی حالت میں گوند چبانے کو مکروہ قرار دیا ہے۔

9276

(۹۲۷۶) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِد الأَحْمَرِِ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَطَائٍ ؛ أَنَّہُ کَرِہَہُ ، وَقَالَ : ہُوَ مَرْوَاۃٌ۔
(٩٢٧٦) حضرت عطاء نے روزے کی حالت میں گوندچبانے کو مکروہ قراردیا اور فرمایا کہ یہ سیرابی کا ذریعہ ہے۔

9277

(۹۲۷۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ أبِی عَبْدِ الْمَلِکِ ، رَجُلٌ مِنْ أَہْلِ الشَّامِ ، عَنْ رَجُلٍ قَدْ سَمَّاہُ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ أُمِّ حَبِیبَۃَ زَوْجِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ؛ أَنَّہَا کَرِہَتْ مَضْغَ الْعلکِ لِلصَّائِمِ۔
(٩٢٧٧) حضرت ام المؤمنین ام حبیبہ نے روزے کی حالت میں گوندچبانے کو مکروہ قرار دیا ہے۔

9278

(۹۲۷۸) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنِ الْحَارِثِ ، عَنْ عَلِیٍّ ، قَالَ : إذَا ذَرَعَہُ الْقَیْئُ فَلَیْسَ عَلَیْہِ الْقَضَائُ ، وَإِذَا اسْتَقَائَ فَعَلَیْہِ الْقَضَائُ۔
(٩٢٧٨) حضرت علی فرماتے ہیں کہ اگر روزے کی حالت میں کسی کو قے آگئی تو اس پر قضاء نہیں ہے اور اگر کسی نے جان بوجھ کر قے کی تو اس پر قضا لازم ہے۔

9279

(۹۲۷۹) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، أَنَّہُ کَانَ یَقُولُ : مَنْ ذَرَعَہُ الْقَیْئُ وَہُوَ صَائِمٌ فَلاَ یُفْطِرْ ، وَمَنْ تَقَیَّأَ فَقَدْ أَفْطَرَ۔
(٩٢٧٩) حضرت ابن عمر فرمایا کرتے تھے کہ اگر روزہ دار کو قے خود بخود آگئی تو اس کا روزہ نہیں ٹوٹا اور اگر اس نے جان بوجھ کر قے کی تو اس کا روزہ ٹوٹ گیا۔

9280

(۹۲۸۰) حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ عَیَّاشٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ سَعِیدٍ ، عَنْ جَدِّہِ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إذَا اسْتَقَائَ الصَّائِمُ أَعَادَ۔ (ابوداؤد ۲۳۷۲۔ احمد ۲/۴۹۸)
(٩٢٨٠) حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ اگر روزہ دار نے جان بوجھ کر قے کی تو اس کا روزہ ٹوٹ گیا۔

9281

(۹۲۸۱) حَدَّثَنَا أَزْہَرُ السَّمَّانُ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، وَابْنِ سِیرِینَ قَالاَ : إذَا ذرَعَ الصَّائِمَ الْقَیْئُ فَلاَ یُفْطِرُ، وَإِذَا تَقَیَّأَ أَفْطَرَ۔
(٩٢٨١) حضرت حسن اور حضرت ابن سیرین فرماتے ہیں کہ اگر روزہ دار کو قے خود بخود آگئی تو اس کا روزہ نہیں ٹوٹا اور اگر اس نے جان بوجھ کر قے کی تو اس کا روزہ ٹوٹ گیا۔

9282

(۹۲۸۲) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ ، عَنْ عَطَائٍ ؛ فِی الصَّائِمِ یَقِیئُ ، قَالَ : إِنْ کَانَ اسْتَقَائَ فَعَلَیْہِ أَنْ یَقْضِیَ ، وَإِنْ کَانَ ذَرَعَہُ فَلَیْسَ عَلَیْہِ أَنْ یَقْضِیَ۔
(٩٢٨٢) حضرت عطاء فرماتے ہیں کہ اگر روزہ دار نے خود قے کی تو اس روزے کی قضاء کرے گا اور اگر خود بخود قے آگئی تو قضا نہیں کرے گا۔

9283

(۹۲۸۳) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : إذَا ذَرَعَہُ الْقَیْئُ فَلاَ إعَادَۃَ عَلَیْہِ ، وَإِنْ تَہَوَّعَ فَعَلَیْہِ الإِعَادَۃُ۔
(٩٢٨٣) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ اگر روزہ دار کو خود بخود قے آگئی تو اس پر اعادہ لازم نہیں، اگر اس نے جان بوجھ کر قے کی تو اس پر اعادہ لازم ہے۔

9284

(۹۲۸۴) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَۃَ ، عَنْ حَبَّانَ السُّلَمِیِّ ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ ، قَالَ: الصَّائِمُ إذَا ذَرَعَہُ الْقَیْئُ فَلَیْسَ عَلَیْہِ الْقَضَائُ ، وَإِنْ قَائَ مُتَعَمِّدًا فَعَلَیْہِ الْقَضَائُ۔
(٩٢٨٤) حضرت قاسم بن محمد فرماتے ہیں کہ اگر روزہ دار کو خود بخود قے آگئی تو اس پر قضا لازم نہیں، اگر اس نے جان بوجھ کر قے کی تو اس پر قضا لازم ہے۔

9285

(۹۲۸۵) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَید ، عَنْ یَعْقُوبَ بْنِ قَیْسٍ ، قَالَ : سَأَلْتُ سَعِیدَ بْنَ جُبَیْرٍ عَنِ الرَّجُلِ یَسْبِقُہُ الْقَیْئُ وَہُوَ صَائِمٌ ، أَیَقْضِی ذَلِکَ الْیَوْمَ ؟ قَالَ : لاَ۔
(٩٢٨٥) حضرت یعقوب بن قیس کہتے ہیں کہ میں نے حضرت سعید بن جبیر سے سوال کیا کہ اگر کسی آدمی کو روزے کی حالت میں قے آگئی تو کیا وہ اس روزے کی قضا کرے گا ؟ انھوں نے فرمایا نہیں۔

9286

(۹۲۸۶) حَدَّثَنَا أَسْبَاطُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، عَنْ مُطَرِّفٍ ، عَنْ عَامِرٍ ؛ إذَا تَقَیَّأَ مُتَعَمِّدًا فَقَدْ أَفْطَرَ۔
(٩٢٨٦) حضرت عامر فرماتے ہیں کہ جس نے جان بوجھ کر قے کی اس کا روزہ ٹوٹ گیا۔

9287

(۹۲۸۷) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، عَنْ إسْرَائِیلَ ، عَنْ جَابِرِ ، عَنْ طَلْحَۃَ ، عَنِ الضَّحَّاکِ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : إذَا تَقَیَّأَ الصَّائِمُ فَقَدْ أَفْطَرَ۔
(٩٢٨٧) حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ اگر روزہ دار نے جان بوجھ کر قے کی تو اس کا روزہ ٹوٹ گیا۔

9288

(۹۲۸۸) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، عَن عَلْقَمَۃَ ، قَالَ : إذَا تَقَیَّأَ الرَّجُلُ وَہُوَ صَائِمٌ فَعَلَیْہِ الْقَضَائُ ، وَإِنْ ذَرَعَہُ الْقَیْئُ فَلَیْسَ عَلَیْہِ الْقَضَائُ۔
(٩٢٨٨) حضرت علقمہ فرماتے ہیں کہ اگر روزے کی حالت میں کسی آدمی نے جان بوجھ کر قے کی تو اس پر قضا لازم ہے اور اگر خود بخود قے آگئی تو قضاء لازم نہیں۔

9289

(۹۲۸۹) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنِ الْحَارِثِ ، عَنْ عَلِیٍّ ، قَالَ : إذَا تَقَیَّأَ الصَّائِمُ مُتَعَمِّدًا أَفْطَرَ ، وَإِذَا ذَرَعَہُ الْقَیْئُ فَلاَ شَیْئَ عَلَیْہِ۔
(٩٢٨٩) حضرت علی فرماتے ہیں کہ اگر روزے کی حالت میں کسی آدمی نے جان بوجھ کر قے کی تو اس پر قضا لازم ہے اور اگر خود بخود قے آگئی تو قضاء لازم نہیں۔

9290

(۹۲۹۰) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، مِثْلَہُ۔
(٩٢٩٠) حضرت مجاہد سے بھی یونہی منقول ہے۔

9291

(۹۲۹۱) حَدَّثَنَا شَبَابَۃُ بْنُ سَوَّارٍ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ أَبِی الْجَوْدِیِّ ، عَنْ بَلْجٍ الْمَہْرِیِّ ، عَنْ أَبِی شَیْبَۃَ الْمَہْرِیِّ ، قَالَ : قِیلَ لِثَوْبَانَ : حَدِّثْنَا عَنْ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : رَأَیْتُ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَائَ فَأَفْطَرَ۔ (احمد ۲۸۳۔ طحاوی ۹۶)
(٩٢٩١) حضرت ابو شیبہ مہری کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ کسی نے حضرت ثوبان سے کہا کہ ہمیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی کوئی حدیث سنائیے۔ انھوں نے بتایا میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیکھا کہ آپ نے قے کرنے کے بعد روزہ توڑ دیا تھا۔

9292

(۹۲۹۲) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ ہِشَامٍ الدَّسْتَوَائِیِّ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ أَبِی کَثِیرٍ ، عَنْ یعیش بْنِ الْوَلِیدِ بْنِ ہِشَامٍ، أَنَّ مَعْدَانَ أَخْبَرَہُ ، أَنَّ أَبَا الدَّرْدَائِ أَخْبَرَہُ ؛ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَائَ فَأَفْطَرَ ، قَالَ : فَلَقِیتُ ثَوْبَانَ ، فَقَالَ : أَنَا صَبَبْت لِرَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَضُوئَہُ۔ (ترمذی ۸۷۔ ابوداؤد ۲۳۷۳)
(٩٢٩٢) حضرت معدان کہتے ہیں کہ حضرت ابو الدردائ نے بیان کیا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قے آنے پر روزہ توڑ دیا تھا۔ معدان کہتے ہیں کہ اس کے بعد حضرت ثوبان سے میری ملاقات ہوئی اور انھوں نے مجھے بتایا کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو وضو کا پانی دیا تھا۔

9293

(۹۲۹۳) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ حُصَیْنٍ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ ، قَالَ : الإِفْطَارُ مِمَّا دَخَلَ ، وَلَیْسَ مِمَّا خَرَجَ۔
(٩٢٩٣) حضرت عکرمہ فرماتے ہیں کہ روزہ کسی چیز کے اندر جانے سے ٹوٹتا ہے باہر آنے سے نہیں ٹوٹتا۔

9294

(۹۲۹۴) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ مُطَرِّفٍ ، قَالَ : سُئِلَ عَامِرٌ عَنِ الصَّائِمِ یَقِیئُ ؟ قَالَ : إذَا فَجَأَہُ الْقَیْئُ فَلاَ یَقْضِی ، وَإِنْ کَانَ تَقَیَّأَ عَمْدًا فَقَدْ أَفْطَرَ۔
(٩٢٩٤) حضرت عامر سے روزہ دار کی قے کے بارے میں سوال کیا گیا تو انھوں نے فرمایا کہ اگر اسے خود بخود قے آگئی تو اس کی قضا نہ کرے گا اور اگر جان بوجھ کر قے کی تو اس کا روزہ ٹوٹ گیا۔

9295

(۹۲۹۵) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِِ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنِ الْمُسَیَّبِ بْنِ رَافِعٍ ، قَالَ : قَالَ أَبُو ہُرَیْرَۃَ : إذَا أَفْطَرَ الصَّائِمُ فَتَمَضْمَضَ ، فَلاَ یَمُجَّہُ ، وَلَکِنْ یَستَرطُہ۔
(٩٢٩٥) حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ روزہ دار جب افطار کے وقت کلی کرے تو اسے باہر نہ تھوکے بلکہ نگل لے۔

9296

(۹۲۹۶) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِِ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، قَالَ : سَأَلْتُ إِبْرَاہِیمَ عَن ذَلِکَ ؟ فَقَالَ : لاَ بَأْسَ بِہِ أَنْ یَمُجَّہُ۔
(٩٢٩٦) حضرت مغیرہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابراہیم سے اس بارے میں سوال کیا تو انھوں نے فرمایا کہ اسے باہر تھوکنے میں کوئی حرج نہیں۔

9297

(۹۲۹۷) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِی الْجَعْدِ ، عَنْ عَطَائٍ ، قَالَ : قَالَ عُمَرُ رضی اللَّہُ عَنْہُ : لاَ تَزَالُ ہَذِہِ الأُمَّۃُ بِخَیْرٍ مَا عَجَّلُوا الْفِطْرَ ، فَإِذَا کَانَ یَوْمُ صَوْمِ أَحَدِکُمْ فَمَضْمَضَ فَلاَ یَمُجَّہُ ، وَلَکِنْ لِیَشْرَبْہُ ، فَإِنَّ خَیْرَہُ أَوَّلُہُ۔
(٩٢٩٧) حضرت عمر فرماتے ہیں کہ یہ امت اس وقت تک خیر پر رہے گی جب تک افطار میں جلدی کرتی رہے گی۔ اگر کسی کا روزہ ہو تو وہ افطار کے وقت کلی کرکے اسے باہر نہ پھینکے بلکہ نگل لے کیونکہ اس کا اول حصہ خیر ہے۔

9298

(۹۲۹۸) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَطَائٍ ؛ أَنَّہُ کَانَ یَکْرَہُ أَنْ یُمَضْمضَ عِنْدَ الإِفْطَارِ۔
(٩٢٩٨) حضرت عطاء افطاری کے وقت کلی کرنے کو مکروہ قرار دیتے تھے۔

9299

(۹۲۹۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ عَامِرٍ ، قَالَ : لاَ بَأْسَ بِالْمَضْمَضَۃِ عِنْدَ الإِفْطَارِ۔
(٩٢٩٩) حضرت عامر فرماتے ہیں کہ افطاری کے وقت کلی کرنے میں کوئی حرج نہیں۔

9300

(۹۳۰۰) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ؛ أَنَّہُ کَانَ یَکْرَہُ أَنْ یُمَضْمضَ الرَّجُلُ إذَا أَفْطَرَ ، إذَا أَرَادَ أَنْ یَشْرَبَ۔
(٩٣٠٠) حضرت حسن اس بات کو مکروہ قرار دیتے تھے کہ آدمی افطاری کے وقت جب کوئی چیز پینے لگے تو کلی کرے۔

9301

(۹۳۰۱) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنِ الْحَکَمِ ؛ أَنَّہُ سُئِلَ عَنِ الصَّائِمِ یُمَضْمِضَ ؟ فَکَرِہَ ذَلِکَ۔
(٩٣٠١) حضرت حکم سے روزہ دار کی کلی کے بارے میں سوال کیا گیا تو انھوں نے اسے مکروہ قرار دیا۔

9302

(۹۳۰۲) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ، عَنْ مَالِکِ بْنِ مِغْوَلٍ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ، عَنِ الشعبی؛ أَنَّہُ کَرِہَ لِلصَّائِمِ أَنْ یُمَضْمِضَ۔
(٩٣٠٢) حضرت شعبی نے روزہ دار کے لیے کلی کرنے کو مکروہ قرار دیا ہے۔

9303

(۹۳۰۳) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ أَبِی عُثْمَانَ ، قَالَ : رَأَیْتُ ابْنَ عُمَرَ وَہُوَ صَائِمٌ یَبُلُّ الثَّوْبَ ، ثُمَّ یُلْقِیہِ عَلَیْہِ۔
(٩٣٠٣) حضرت عبداللہ بن ابی عثمان فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عمر کو دیکھا کہ وہ روزے کی حالت میں کپڑا گیلا کرکے اپنے اوپر ڈال لیتے تھے۔

9304

(۹۳۰۴) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : یُکْرَہُ لِلصَّائِمِ أَنْ یَنْضَحَ فِرَاشَہُ بِالْمَائِ ، ثُمَّ یَنَامَ عَلَیْہِ۔
(٩٣٠٤) حضرت ابراہیم اس بات کو مکروہ قرار دیتے تھے کہ روزہ دار اپنے بستر کو پانی سے گیلا کرکے اس پر سوئے۔

9305

(۹۳۰۵) حَدَّثَنَا أَزْہَرُ السَّمَّانُ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، قَالَ : کَانَ ابْنُ سِیرِینَ لاَ یَرَی بَأْسًا أَنْ یَبُلَّ الثَّوْبَ ، ثُمَّ یُلْقِیَہُ عَلَی وَجْہِہِ۔
(٩٣٠٥) حضرت ابن سیرین اس بات کو جائز قرار دیتے ہیں کہ روزہ دار کپڑے کو گیلا کرکے اپنے اوپر ڈال لے۔

9306

(۹۳۰۶) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ أَبِی الْعَاصِ ؛ أَنَّہُ کَانَ یَصُبُّ عَلَیْہِ الْمَائَ ، وَیُرَوِّحُ عَنْہُ وَہُوَ صَائِمٌ عَشِیَّۃَ عَرَفَۃَ ، أَوْ یَوْمَ عَرَفَۃَ۔
(٩٣٠٦) حضرت عثمان بن ابی العاص عرفہ کے دن اپنے اوپر پانی ڈال کر راحت لیا کرتے تھے۔

9307

(۹۳۰۷) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عُبَیْدِ اللہِ ، قَالَ : رَأَیْتُ عَبْدَ الرَّحْمَن بْنَ الأَسْوَد یَنْقَعُ رِجْلَیْہِ فِی الْمَائِ وَہُوَ صَائِمٌ۔
(٩٣٠٧) حضرت حسن بن عبید اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عبدالرحمن بن اسود کو دیکھا کہ وہ روزہ کی حالت میں اپنے پاؤں پانی میں ڈال کر رکھتے تھے۔

9308

(۹۳۰۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ مَالِکِ بْنِ أَنَسٍ ، عَنْ سُمَیٍّ ، عَنْ أَبِی بَکْرِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ ، عَنْ رَجُلٍ رَأَی النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَصُبُّ عَلَی رَأْسِہِ الْمَائَ وَہُوَ صَائِمٌ ، فِی یَوْمٍ صَائِفٍ۔ (ابوداؤد ۲۳۵۷۔ احمد ۳/۴۳)
(٩٣٠٨) حضرت ابوبکر بن عبد الرحمن بن حارث ایک صحابی سے روایت کرتے ہیں کہ نبی پاک (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) گرم دن میں روزہ کی حالت میں اپنے سر مبارک پر پانی ڈالتے تھے۔

9309

(۹۳۰۹) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : کَانَ یُکْرَہُ لِلصَّائِمِ أَنْ یَبُلَّ ثَوْبَہُ بِالْمَائِ ، ثُمَّ یَلْبَسَہُ۔
(٩٣٠٩) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ اس بات کو مکروہ سمجھا جاتا تھا کہ آدمی روزہ کی حالت میں کپڑا گیلا کرکے اپنے اوپر ڈالے۔

9310

(۹۳۱۰) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ؛ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَمْ یَصُمِ الْعَشْرَ قَطُّ۔
(٩٣١٠) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ نبی پاک (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کبھی ذوالحجہ کے دس روزے نہیں رکھے۔

9311

(۹۳۱۱) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، عَنِ الأَسْوَد ، عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ : مَا رَأَیْت رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صَامَ الْعَشْرَ قَطُّ۔ (مسلم ۱۰۔ ابوداؤد ۲۴۳۱)
(٩٣١١) حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ میں نے کبھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عشرہ ذوالحجہ کے روزے رکھتے نہیں دیکھا۔

9312

(۹۳۱۲) حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ مُعَاذٍ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، قَالَ : کَانَ مُحَمَّدٌ یَصُومُ الْعَشْرَ ، عَشْرَ ذِی الْحِجَّۃِ کُلِّہِ ، فَإِذَا مَضَی الْعَشْرُ وَمَضَتْ أَیَّامُ التَّشْرِیقِ ، أَفْطَرَ تِسْعَۃَ أَیَّامٍ مِثْلَ مَا صَامَ۔
(٩٣١٢) حضرت ابن عون فرماتے ہیں کہ حضرت محمد عشرہ ذوالحجہ کے سارے روزے رکھا کرتے تھے اور جب ایام تشریق گذر جاتے تو آپ مزید نو روزے رکھا کرتے تھے۔

9313

(۹۳۱۳) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَنْ زَائِدَۃَ ، عَنْ لَیْثٍ ، قَالَ : کَانَ مُجَاہِدٌ یَصُومُ الْعَشْرَ ، قَالَ : وَکَانَ عَطَائٌ یَتَکَلَّفُہَا۔
(٩٣١٣) حضرت لیث فرماتے ہیں کہ حضرت مجاہد عشرہ ذو الحجہ کے روزے رکھا کرتے تھے اور حضرت عطاء بھی ان کا اہتمام کرتے تھے۔

9314

(۹۳۱۴) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ إِسْحَاقَ ، عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ سَعْدٍ ، قَالَ : أَتَی عَلِیًّا رَجُلٌ ، فَقَالَ : یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ ، أَخْبِرْنِی بِشَہْرٍ أَصُومُہُ بَعْدَ رَمَضَانَ ، فَقَالَ : لَقَدْ سَأَلْتنِی عَنْ شَیْئٍ مَا سَمِعْت أَحَدًا یَسْأَلُ عَنْہُ، بَعْدَ رَجُلٍ سَمِعْتُہُ یَسْأَلُ عَنْہُ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ لَہُ : إِنْ کُنْت صَائِمًا شَہْرًا بَعْدَ رَمَضَانَ فَصُمِ الْمُحَرَّمَ ، فَإِنَّہُ شَہْرُ اللہِ ، وَفِیہِ یَوْمٌ تَابَ فِیہِ قَوْمٌ ، وَیُتَابُ فِیہِ عَلَی آخَرِینَ۔ (ترمذی ۷۴۱۔ دارمی ۱۷۵۶)
(٩٣١٤) حضرت نعمان بن سعد کہتے ہیں کہ ایک آدمی حضرت علی کے پاس آیا اور اس نے کہا کہ اے امیر المؤمنین ! میں رمضان کے بعد کس مہینے میں روزے رکھا کروں ؟ حضرت علی نے فرمایا کہ جب سے میں نے نبی پاک (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس بارے میں سوال کیا ہے اس کے بعد سے تمہارے علاوہ کسی نے مجھ سے اس بارے میں نہیں پوچھا۔ جب میں نے پوچھا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تھا کہ اگر تم نے رمضان کے بعد کسی مہینے میں روزہ رکھنا ہو تو محرم کے مہینے میں روزہ رکھو ، کیونکہ یہ اللہ کا مہینہ ہے، اس میں ایک دن ایسا ہے جس میں ایک قوم اللہ تعالیٰ سے توبہ کرتی ہے اور اللہ تعالیٰ اس کی وجہ سے دوسروں کو معاف فرما دیتے ہیں۔

9315

(۹۳۱۵) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ ؛ أَنَّہُ کَانَ یَصُومُ أَشْہُرَ الْحُرُمِ۔
(٩٣١٥) حضرت حسن اشہر حرم میں روزے رکھا کرتے تھے۔

9316

(۹۳۱۶) حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ ، عَنْ خَالِدِ بْنِ أَبِی عُثْمَانَ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ یَسَارٍ ، وَسَلِیطٍ أَخِیہِ قَالاَ : کَانَ ابْنُ عُمَرَ بِمَکَّۃَ یَصُومُ أَشْہُرَ الْحُرُمِ۔
(٩٣١٦) حضرت ابن عمر اشہر حرم میں مکہ میں روزہ رکھا کرتے تھے۔

9317

(۹۳۱۷) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَنْ زَائِدَۃَ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ عُمَیْرٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْتَشِرِ ، عَنْ حُمَیْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحِمْیَرِیِّ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : جَائَ رَجُلٌ إلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : یَا رَسُولَ اللہِ ، أَیُّ الصِّیَامِ أَفْضَلُ بَعْدَ رَمَضَانَ ؟ فَقَالَ : شَہْرُ اللہِ الَّذِی تَدْعُونَہُ الْمُحَرَّمَ۔ (مسلم ۲۰۳۔ ابوداؤد ۲۴۲۱)
(٩٣١٧) حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ ایک آدمی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا اور عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول ! رمضان کے بعد سب سے افضل روزے کون سے ہیں ؟ آپ نے فرمایا اللہ کے اس مہینے کے روزے جسے تم محرم کہتے ہو۔

9318

(۹۳۱۸) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ ، عَنِ الْعَلاَئِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ، عَنْ أَبِیہِ ؛ أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یَصُومُ الاِثْنَیْن وَالْخَمِیسَ۔
(٩٣١٨) حضرت مسیب فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پیر اور جمعرات کو روزہ رکھا کرتے تھے۔

9319

(۹۳۱۹) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَنْ زَائِدَۃَ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنِ الْمُسَیَّبِ ، عَنْ حَفْصَۃَ ؛ أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یَصُومُ الاِثْنَیْن وَالْخَمِیس۔ (ابوداؤد ۲۴۴۳۔ احمد ۶/۲۸۷)
(٩٣١٩) حضرت حفصہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پیر اور جمعرات کو روزہ رکھا کرتے تھے۔

9320

(۹۳۲۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ سُلَیْمَانَ الْعَبْسِیِّ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ؛ أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یَصُومُ الاِثْنَیْن وَالْخَمِیسَ۔
(٩٣٢٠) حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پیر اور جمعرات کو روزہ رکھا کرتے تھے۔

9321

(۹۳۲۱) حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ مَطَر ، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِیِّ ، عَنْ أَبِی عُقْبَۃَ ، قَالَ: کَانَ أَبُو ہُرَیْرَۃَ یَصُومُ الاِثْنَیْن وَالْخَمِیسَ۔
(٩٣٢١) حضرت ابو عقبہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابوہریرہ پیر اور جمعرات کو روزہ رکھا کرتے تھے۔

9322

(۹۳۲۲) حَدَّثَنَا الثَّقَفِیُّ ، عَنْ بُرْدٍ ، عَنْ مَکْحُولٍ ؛ أَنَّہُ کَانَ یَصُومُ الاِثْنَیْن وَالْخَمِیسَ۔
(٩٣٢٢) حضرت مکحول پیر اور جمعرات کو روزہ رکھا کرتے تھے۔

9323

(۹۳۲۳) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، عَنْ مُحَمَّدٍ ، قَالَ : سَأَلْتُہُ عَنْ صَوْمِ الاِثْنَیْنِ وَالْخَمِیسِ ؟ فَقَالَ : لاَ أَعْلَمُ بِہِ بَأْسًا۔
(٩٣٢٣) حضرت ابن عون فرماتے ہیں کہ حضرت محمد سے میں نے پیر اور جمعرات کے روزے کے بارے میں سوال کیا تو انھوں نے فرمایا کہ میں اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتا۔

9324

(۹۳۲۴) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرِِ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ؛ أَنَّ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِیزِ کَانَ یَصُومُ الاِثْنَیْنِ وَالْخَمِیسَ۔
(٩٣٢٤) حضرت عمر بن عبد العزیز پیر اور جمعرات کو روزہ رکھا کرتے تھے۔

9325

(۹۳۲۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عََنِ الحَکَمِ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ؛ أَنَّہُ کَانَ یَصُومُ الاِثْنَیْنِ وَالْخَمِیسَ، ثُمَّ کَرِہَ ذَلِکَ۔
(٩٣٢٥) حضرت مجاہد پیر اور جمعرات کو روزہ رکھا کرتے تھے۔ پھر انھوں نے اسے مکروہ قراردیا۔

9326

(۹۳۲۶) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا ہِشَامٌ الدَّسْتَوَائِیُّ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ أَبِی کَثِیرٍ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْحَکَمِ بْنِ ثَوْبَانَ ، أَنَّ مَوْلَی قُدَامَۃَ حَدَّثَہُ : أَنَّ مَوْلَی أُسَامَۃَ حَدَّثَہُ : أَنَّ أُسَامَۃَ کَانَ یَخْرُجُ إلَی مَالٍ لَہُ بِوَادِی الْقُرَی ، فَیَصُومُ الاِثْنَیْنِ وَالْخَمِیسَ ، فَقُلْتُ لَہُ : لِمَ تَصُومُ الاِثْنَیْنِ وَالْخَمِیسَ وَأَنْتَ شَیْخٌ کَبِیرٌ ؟ فَقَالَ : رَأَیْت رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَصُومُہُمَا ، فَقُلْتُ لَہُ : لِمَ تَصُومُ الاِثْنَیْنِ وَالْخَمِیسَ ؟ فَقَالَ : إنَّہُمَا یَوْمَانِ تُعْرَضُ فِیہِمَا الأَعْمَالُ۔ (ابوداؤد ۲۴۲۸۔ احمد ۵/۲۰۰)
(٩٣٢٦) حضرت مولی اسامہ کہتے ہیں کہ حضرت اسامہ مکہ میں اپنے مال ومویشی کے پاس جایا کرتے تھے۔ وہاں وہ پیر اور جمعرات کا روزہ رکھتے تھے۔ میں نے ان سے کہا کہ آپ بوڑھے ہو کر پیر اور جمعرات کا روزہ رکھتے ہیں۔ انھوں نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان دو دنوں میں روزہ رکھتے دیکھا تو میں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا کہ آپ پیر اور جمعرات کا روزہ کیوں رکھتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا کہ اس دن اعمال اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں پیش ہوتے ہیں۔

9327

(۹۳۲۷) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إبْرَاہِیمَ قَالَ : کَانَ أُسَامَۃُ بْنُ زَیْدٍ یَصُومُ أَیَّامًا مِنَ الْجُمُعَۃِ ، یُتَابِعُ بَیْنَہُنَّ ، فَقِیلَ لَہُ : أَیْنَ أَنْتَ مِنَ الاِثْنَیْنِ وَالْخَمِیسِ ؟ قَالَ : فَکَانَ یَصُومُہُمَا۔
(٩٣٢٧) حضرت محمد بن ابراہیم فرماتے ہیں کہ حضرت اسامہ بن زید ہفتے کے بہت سے دنوں میں روزہ رکھتے تھے اور مسلسل روزے رکھتے تھے ۔ ان سے کسی نے کہا کہ آپ پیر اور جمعرات کا روزہ کیوں نہیں رکھتے۔ اس کے بعد سے انھوں نے ان دو دنوں کا روزہ رکھنا بھی شروع کردیا۔

9328

(۹۳۲۸) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ، عَنْ قَیْسٍ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ زِرٍّ، عَنْ عَبْدِاللہِ؛ أَنَّہُ کَانَ یَصُومُ الاِثْنَیْنِ وَالْخَمِیسَ۔
(٩٣٢٨) حضرت عبداللہ پیر اور جمعرات کو روزہ رکھا کرتے تھے۔

9329

(۹۳۲۹) حَدَّثَنَا أَسْبَاطُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، وَیَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ؛ أَنَّہُ سُئِلَ عَنْ صَوْمِ یَوْمِ الاِثْنَیْنِ وَالْخَمِیسِ ؟ فَقَالَ : یُکْرَہُ أَنْ یُوَقِّتَ یَوْمًا یَصُومُہُ ۔ إِلاَّ أَنَّ یَزیدَ قَالَ : یَنْصِبُ یَوْمًا إذَا جَائَ ذَلِکَ الْیَوْمُ صَامَہُ۔
(٩٣٢٩) حضرت ابن عباس سے پیر اور جمعرات کے روزے کے بارے میں سوال کیا گیا تو انھوں نے فرمایا کہ کسی دن کو روزے کے لیے مقرر کرنا مکروہ ہے۔ حضرت یزید کی روایت میں ہے کہ ایک دن مقرر کرے اور جب وہ دن آئے تو روزہ رکھے۔

9330

(۹۳۳۰) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ خِلاَسٍ ؛ أَنَّ عَلِیًّا کَانَ یَصُومُ الاِثْنَیْنِ وَالْخَمِیسَ۔
(٩٣٣٠) حضرت علی پیر اور جمعرات کو روزہ رکھا کرتے تھے۔

9331

(۹۳۳۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ سُلَیْمَانَ الْعَبْسِیِّ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ؛ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یَصُومُ الاِثْنَیْنِ وَالْخَمِیسَ۔
(٩٣٣١) حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ نبی پاک (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پیر اور جمعرات کو روزہ رکھا کرتے تھے۔

9332

(۹۳۳۲) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِی صَالِحٍ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لاَ یَصُم أَحَدُکُمْ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ إِلاَّ أَنْ یَصُومَ قَبْلَہُ ، أَوْ یَصُومَ بَعْدَہُ۔ (مسلم ۱۴۸۔ ابوداؤد ۲۴۱۲)
(٩٣٣٢) حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ تم میں سے کوئی شخص جمعہ کے دن روزہ صرف اس صورت میں رکھے کہ ایک دن پہلے یا ایک دن بعد میں بھی روزہ رکھے۔

9333

(۹۳۳۳) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ : دَخَلَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَی جُوَیْرِیَۃَ بِنْتِ الْحَارِثِ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ وَہِیَ صَائِمَۃٌ ، قَالَ : فَقَالَ : صُمْت أَمْسِ ؟ قَالَتْ : لاَ ، قَالَ : تُرِیدِینَ أَنْ تَصُومِی غَدًا ؟ قَالَتْ : لاَ ، قَالَ : فَأَفْطِرِی إذًا۔ (احمد ۲/۱۸۹۔ ابن حبان ۳۶۱۱)
(٩٣٣٣) حضرت عبداللہ بن عمرو فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی پاک (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جمعہ کے دن حضرت جویریہ بنت حارث کے پاس تشریف لائے۔ ان کا روزہ تھا۔ نبی پاک (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے پوچھا کہ کیا کل تمہارا روزہ تھا ؟ انھوں نے کہا نہیں۔ آپ نے پوچھا کہ کیا آئندہ کل روزہ رکھنے کا ارادہ ہے ؟ انھوں نے کہا نہیں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ پھر روزہ توڑ دو ۔

9334

(۹۳۳۴) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ ، عَنْ یَزِیدَ بْنِ أَبِی حَبِیبٍ ، عَنْ مَرْثَدِ بْنِ عَبْدِ اللہِ الْیَزَنِیِّ ، عَنْ حُذَیْفَۃَ الأَزْدِیِّ ، عَنْ جُنَادَۃَ الأَزْدِیِّ ؛ دَخَلْتُ عَلَی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی سَبْعَۃِ نَفَرٍ مِنَ الأَزْدِ ، أَنَا ثَامِنُہُمْ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ وَنَحْنُ صِیَامٌ ، فَدَعَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إلَی طَعَامٍ بَیْنَ یَدَیْہِ فَقُلْنَا : إنَّا صِیَامٌ ، قَالَ : ہَلْ صُمْتُمْ أَمْسِ ؟ قُلْنَا : لاَ ، قَالَ : فَہَلْ تَصُومُونَ غَدًا ؟ قُلْنَا : لاَ ، قَالَ : فَأَفْطِرُوا ، ثُمَّ خَرَجَ إلَی الْجُمُعَۃِ ، فَلَمَّا جَلَسَ عَلَی الْمِنْبَرِ دَعَا بِإِنَائٍ مِنْ مَائٍ فَشَرِبَہُ ، وَالنَّاسُ یَنْظُرُونَ إلَیْہِ ، لِیُعَلِّمَہُمْ أَنَّہُ لاَ یَصُومُ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ۔ (نسائی ۲۷۷۴۔ حاکم ۶۰۸)
(٩٣٣٤) حضرت جنادہ ازدی کہتے ہیں کہ قبیلہ ازد کے ہم آٹھ لوگ جمعہ کے دن حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ ہم سب کا روزہ تھا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کھانا منگوا کر ہمارے سامنے رکھوایا تو ہم نے کہا کہ ہمارا روزہ ہے۔ آپ نے فرمایا کہ کیا گزشتہ کل تم نے روزہ رکھا تھا ؟ ہم نے عرض کیا نہیں۔ آپ نے فرمایا کہ آئندہ کل تم روزہ رکھو گے ؟ ہم نے عرض کیا نہیں۔ پھر آپ نے فرمایا کہ روزہ توڑ دو ۔ پھر آپ جمعہ کے لیے تشریف لے گئے۔ جب آپ منبر پر تشریف فرما ہوئے تو آپ نے پانی منگوا کر پیا۔ لوگ آپ کو دیکھ رہے تھے۔ دراصل آپ انھیں بتانا چاہتے تھے کہ جمعہ کے دن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) روزہ نہیں رکھتے۔

9335

(۹۳۳۵) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَینَۃَ ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ ظَبْیَانَ ، عَنْ حَکِیمِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ أَبِی طَالِبٍ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِ، قَالَ: مَنْ کَانَ مِنْکُمْ مُتَطَوِّعًا مِنَ الشَّہْرِ أَیَّامًا فَلْیَکُنْ فِی صَوْمِہِ یَوْم الْخَمِیسِ، وَلاَ یَصُومُ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ، فَإِنَّہُ یَوْمُ طَعَامٍ وَشَرَابٍ وَذِکْرٍ ، فَیَجْمَعُ للہِ یَوْمَیْنِ صَالِحَیْنِ ، یَوْمَ صِیَامِہِ وَیَوْمَ نُسُکِہِ مَعَ الْمُسْلِمِینَ۔
(٩٣٣٥) حضرت علی بن ابی طالب فرماتے ہیں کہ تم میں سے کسی نے اگر کسی مہینے میں نفلی روزہ رکھنا ہو تو وہ جمعرات کو روزہ رکھے، جمعہ کو روزہ نہ رکھے کیونکہ جمعہ کا دن کھانے، پینے اور ذکر کا دن ہے۔ جمعہ کے دن روزہ رکھنے سے آدمی دو صالح دنوں کو جمع کردیتا ہے ایک روزہ کے دن کو اور دوسرا مسلمانوں کے ساتھ کھانے پینے کے دن کو۔

9336

(۹۳۳۶) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِیزِ بْنِ رُفَیْعٍ ، عَنْ قَیْسِ بْنِ سَکَنٍ ، قَالَ : مَرَّ نَاسٌ مِنْ أَصْحَابِ عَبْدِ اللہِ عَلَی أَبِی ذَرٍّ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ وَہُمْ صِیَامٌ ، فَقَالَ : أَقْسَمْت عَلَیْکُمْ لَتَفْطُرُنَّ ، فَإِنَّہُ یَوْمُ عِیدٍ۔
(٩٣٣٦) حضرت قیس بن سکن فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ کے کچھ شاگرد جمعہ کے دن حضرت ابو ذر کی خدمت میں حاضر ہوئے، ان سب کا روزہ تھا۔ حضرت ابو ذر نے ان سے فرمایا کہ میں تمہیں قسم دیتا ہوں کہ تم روزہ توڑ دو ، کیونکہ یہ جمعہ کا دن دراصل عید کا دن ہے۔

9337

(۹۳۳۷) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِِ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ، عَنِ الْحَارِثِ، عَنْ عَلِیٍّ، قَالَ: لاَ تَصَومُ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ مُتَعَمِّدًا لَہُ۔
(٩٣٣٧) حضرت علی فرماتے ہیں کہ جمعہ کے دن کا خاص عزم کرکے اس دن روزہ نہ رکھو۔

9338

(۹۳۳۸) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : لاَ تَصَومُ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ إِلاَّ أَنْ تَصُومَ یَوْمًا قَبْلَہُ ، أَوْ بَعْدَہُ۔
(٩٣٣٨) حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ تم میں سے کوئی شخص جمعہ کے دن روزہ صرف اس صورت میں رکھے کہ ایک دن پہلے یا ایک دن بعد میں بھی روزہ رکھے۔

9339

(۹۳۳۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ زَکَرِیَّا ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ؛ أَنَّہُ کَرِہَ أَنْ یَصُومَ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ ، یَتَعَمَّدُہ وَحْدَہُ۔
(٩٣٣٩) حضرت شعبی نے صرف جمعہ کے دن کو خاص کرتے ہوئے اس دن روزہ رکھنے کو مکروہ قرار دیا ہے۔

9340

(۹۳۴۰) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ؛ أَنَّہُمْ کَرِہُوا صَوْمَ یَوْمِ الْجُمُعَۃِ لِیَتَقَوَّوْا بِہِ عَلَی الصَّلاَۃِ۔
(٩٣٤٠) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ اسلاف نے جمعہ کے دن روزہ رکھنے کو مکروہ قرار دیا ہے تاکہ جمعہ کی نماز بھر پور قوت کے ساتھ ادا کی جاسکے۔

9341

(۹۳۴۱) حَدَّثَنَا شَبَابَۃُ بْنُ سَوَّارٍ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ أَبِی أَیُّوبَ الْعَتَکِیِّ ، عَنْ جُوَیْرِیَۃَ ؛ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ دَخَلَ عَلَیْہَا وَہِیَ صَائِمَۃٌ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ ، فَقَالَ : أَصُمْتِ أَمْسِ ؟ قَالَتْ : لاَ ، قَالَ : فَتَصُومِینَ غَدًا ؟ قَالَتْ : لاَ ، قَالَ : فَأَفْطِرِی۔ (بخاری ۱۹۸۶۔ احمد ۶/۴۳۰)
(٩٣٤١) حضرت ابو ایوب عتکی فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی پاک (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جمعہ کے دن حضرت جویریہ بنت حارث کے پاس تشریف لائے۔ ان کا روزہ تھا۔ نبی پاک (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے پوچھا کہ کیا کل تمہارا روزہ تھا ؟ انھوں نے کہا نہیں۔ آپ نے پوچھا کہ کیا آئندہ کل روزہ رکھنے کا ارادہ ہے ؟ انھوں نے کہا نہیں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ پھر روزہ توڑ دو ۔

9342

(۹۳۴۲) حَدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ عُمَیْرٍ ، عَنْ زِیَادٍ الْحَارِثِیِّ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : قَالَ لَہُ رَجُلٌ : أَنْتَ الَّذِی تَنْہَی عَنْ صَوْمِ یَوْمِ الْجُمُعَۃِ ؟ قَالَ : لاَ ، وَرَبِّ ہَذِہِ الْحُرْمَۃِ ، أَوْ ہَذِہِ الْبُنْیَۃِ ، مَا أَنَا نَہَیْت عَنْہُ ، مُحَمَّدٌ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَہُ۔ (نسائی ۲۷۴۴۔ احمد ۲/۵۲۶)
(٩٣٤٢) حضرت زیاد حارثی فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ ایک آدمی نے حضرت ابوہریرہ سے کہا کہ کیا آپ ہیں جو جمعہ کے دن روزہ رکھنے سے منع کرتے ہیں ؟ حضرت ابوہریرہ نے فرمایا کہ اس حرمت کے رب کی قسم یا اس عمارت یعنی خانہ کعبہ کے رب کی قسم ! میں نے اس سے منع نہیں کیا بلکہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے منع کیا ہے۔

9343

(۹۳۴۳) حَدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ الْوَلِیدِ بْنِ مُسْلِمٍ ، عَنْ حُصَیْنِ بْنِ أَبِی الْحُرِّ ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَیْنِ ؟ قَالَ : لاَ تَصُمْ یَوْمًا تَجْعَلُ صَوْمَہُ عَلَیْک حَتْمًا ، لَیْسَ مِنْ رَمَضَانَ۔
(٩٣٤٣) حضرت عمران بن حصین فرماتے ہیں کہ رمضان کے علاوہ کوئی ایسا دن مقرر نہ کرو جس دن روزہ رکھنا ضروری سمجھو۔

9344

(۹۳۴۴) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ، عَنْ عَطَائٍ، قَالَ : کَانَ ابْنُ عَبَّاسٍ یَنْہَی عَنِ افْتِرَادِ الْیَوْمِ کُلَّ مَا مَرَّ بِالإِنْسَان ، وَعَنْ صِیَامِ الأَیَّامِ الْمَعْلُومَۃِ ، وَکَانَ یَنْہَی عَنْ صِیَامِ الأَشْہُرِ لاَ یُخْطَأْنَ۔
(٩٣٤٤) حضرت ابن عباس کسی دن کو کوئی خصوصی امتیاز دینے، یا مخصوص دنوں میں روزہ رکھنے یا مخصوص مہینوں میں اس طرح روزہ رکھنے کو مکروہ قرار دیتے تھے کہ اسے کبھی نہ چھوڑا جائے۔

9345

(۹۳۴۵) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : کَانُوا یَکْرَہُونَ أَنْ یَفْرِضُوا عَلَی أَنْفُسِہِمْ شَیْئًا لَمْ یُفْتَرَضْ عَلَیْہِمْ۔
(٩٣٤٥) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ اسلاف اس بات کو مکروہ قرار دیتے تھے کہ اپنے اوپر اس چیز کو فرض کرلیں تو جوان پر اللہ کی طرف سے فرض نہیں۔

9346

(۹۳۴۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ ؟ قَالَ : لاَ تَخُصُّوا یَوْمَ الْجُمُعَۃِ بِصَوْمٍ بَیْنَ الأَیَّامِ ، وَلاَ لَیْلَۃَ الْجُمُعَۃِ بِقِیَامٍ بَیْنَ اللَّیَالِیِ۔
(٩٣٤٦) حضرت ابن سیرین فرماتے ہیں کہ روزہ کے لیے جمعہ کے دن کو اور عبادت کے لیے جمعہ کی رات کو خاص نہ کرو۔

9347

(۹۳۴۷) حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، عَنْ زَمْعَۃَ، عَنِ ابْنِ طَاوُوس، عَنْ أَبِیہِ؛ أَنَّہُ کَانَ یَکْرَہُ أَنْ یَتَحَرَّی شَہْرًا، أَوْ یَوْمًا یَصُومُہُ۔
(٩٣٤٧) حضرت طاوس اس بات کو مکروہ خیال فرماتے ہیں کہ روزے کے لیے کسی دن یا مہینے کا خیال رکھا جائے۔

9348

(۹۳۴۸) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : کَانُوا یَکْرَہُونَ أَنْ یَخُصُّوا یَوْمَ الْجُمُعَۃِ وَاللَّیْلَۃَ کَذَلِکَ بِالصَّلاَۃِ۔
(٩٣٤٨) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ اسلا ف اس بات کو مکروہ قرار دیتے تھے کہ جمعہ کے دن کو روزے اور رات کو عبادت کے لیے خاص کیا جائے۔

9349

(۹۳۴۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إسْرَائِیلَ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ عَامِرٍ (ح) وعَنْ حَمَّادٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ؛ أَنَّہُمَا کَرِہَا أَنْ یَصُومَا یَومًا یُُوَقِّتَانِہِ۔
(٩٣٤٩) حضرت عامر اور حضرت ابراہیم اس بات کو مکروہ قرار دیتے تھے کہ کسی دن کو مقرر کرکے اس میں روزہ رکھاجائے۔

9350

(۹۳۵۰) حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ بْنُ مُوسَی ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ الأَسْوَد ، عَنْ مُجَاہِدٍ ؟ قَالَ : لاَ تَصُومُوا شَہْرًا کُلَّہُ تُضَاہُونَ بِہِ شَہْرَ رَمَضَانَ ، وَلاَ تَصُومُوا یَوْمًا وَاحِدًا مِنَ الْجُمُعَۃِ فَتَتَّخِذُونَہُ عِیدًا ، إِلاَّ أَنْ تَصُومُوا قَبْلَہُ ، أَوْ بَعْدَہُ یَوْمًا۔
(٩٣٥٠) حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ کسی مہینے کو رمضان سے تشبیہ دے کر اس پورے مہینے میں روزے نہ رکھو، صرف جمعہ کے دن بھی روزہ نہ رکھو کہ کہیں تم اسے عید کا دن بنا لو، بلکہ اگر جمعہ کو روزہ رکھنا ہو تو ایک دن پہلے یا ایک دن بعد میں بھی روزہ رکھو۔

9351

(۹۳۵۱) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ طَاوُوسٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : مَا رَأَیْتُہُ مُفْطِرًا یَوْمَ جُمُعَۃٍ قَطُّ۔
(٩٣٥١) حضرت طاوس فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عباس کو جمعہ کے دن کبھی بغیر روزہ کے نہیں دیکھا۔

9352

(۹۳۵۲) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ عُمَیْرِ بْنِ أَبِی عُمَیْرٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : مَا رَأَیْت رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مُفْطِرًا یَوْمَ الْجُمُعَۃِ قَطُّ۔ (ابویعلی ۵۷۰۹)
(٩٣٥٢) حضرت ابن عمر فرماتے ہیں کہ میں نے نبی پاک (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جمعہ کے دن کبھی بغیر روزہ کے نہیں دیکھا۔

9353

(۹۳۵۳) حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ ، عَنْ شَیْبَانَ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ زِرٍّ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : مَا کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُفْطِرُ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ۔ (ترمذی ۷۴۲۔ ابوداؤد ۲۴۴۲)
(٩٣٥٣) حضرت عبداللہ فرماتے ہیں کہ نبی پاک (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جمعہ کا روزہ نہیں چھوڑتے تھے۔

9354

(۹۳۵۴) حَدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنِ الْقَعْقَاعِ ، قَالَ : سَأَلْتُ إبْرَاہِیمَ عَنِ السَّعُوطِ بِالصَّبِرِ لِلصَّائِمِ ؟ فَلَمْ یَرَ بِہِ بَأْسًا۔
(٩٣٥٤) حضرت قعقاع کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابراہیم سے روزہ کی حالت میں ناک میں دوائی ڈالنے کے بارے میں سوال کیا تو انھوں نے فرمایا کہ اس میں کوئی حرج نہیں۔

9355

(۹۳۵۵) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : لاَ بَأْسَ بِالسَّعُوطِ لِلصَّائِمِ ، وَکَرِہَ الصَّبَّ فِی الأُذنِ۔
(٩٣٥٥) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ روزہ کی حالت میں ناک میں دوائی ڈالنا جائز ہے البتہ کان میں دوائی ڈالنا مکروہ ہے۔

9356

(۹۳۵۶) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ؛ أَنَّہُ کَرِہَ لِلصَّائِمِ أَنْ یَسْتَسْعِطَ۔
(٩٣٥٦) حضرت حسن نے روزہ کی حالت میں ناک میں دوائی ڈالنے کو مکروہ قرار دیا ہے۔

9357

(۹۳۵۷) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ حُرَیْثٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ؛ أَنَّہُ کَرِہَ السَّعُوطَ لِلصَّائِمِ۔
(٩٣٥٧) حضرت شعبی نے روزہ کی حالت میں ناک میں دوائی ڈالنے کو مکروہ قرار دیا ہے۔

9358

(۹۳۵۸) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ، قَالَ: قُلْتُ لِعَطَائٍ: الصَّبِرُ یَکْتَحِلُ بِہِ الصَّائِمُ؟ قَالَ: نَعَمْ، إِنْ شَائَ۔
(٩٣٥٨) حضرت ابن جریج کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عطاء سے پوچھا کہ کیا روزہ دار آنکھوں میں ایلوا ڈال سکتا ہے ؟ انھوں نے فرمایا ہاں، اگر چاہے۔

9359

(۹۳۵۹) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَطَائٍ ، قَالَ : لاَ بَأْسَ بِالْکُحْلِ لِلصَّائِمِ۔
(٩٣٥٩) حضرت عطاء فرماتے ہیں کہ روزے کی حالت میں سرمہ لگانے میں کوئی حرج نہیں۔

9360

(۹۳۶۰) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : لاَ بَأْسَ بِالْکُحْلِ لِلصَّائِمِ۔
(٩٣٦٠) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ روزے کی حالت میں سرمہ لگانے میں کوئی حرج نہیں۔

9361

(۹۳۶۱) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : لاَ بَأْسَ بِالْکُحْلِ لِلصَّائِمِ مَا لَمْ یَجِدْ طَعْمَہُ۔
(٩٣٦١) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ روزے کی حالت میں سرمہ لگانے میں کوئی حرج نہیں بشرطیکہ اس کا ذائقہ محسوس نہ ہو۔

9362

(۹۳۶۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إسْرَائِیلَ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ عَامِرٍ ، وَمُحَمَّدِ بْنِ عَلِیٍّ ، وَعَطَائٍ ؛ أَنَّہُمْ کَانُوا یَکْتَحِلُونَ بِالإِثْمدِ وَہُمْ صِیَامٌ ، لاَ یَرَوْنَ بِہِ بَأْسًا۔
(٩٣٦٢) حضرت جابر فرماتے ہیں کہ حضرت عامر، حضرت محمد بن علی اور حضرت عطاء روزے کی حالت میں اثمد سرمہ لگاتے تھے اور اس میں کوئی حرج نہ سمجھتے تھے۔

9363

(۹۳۶۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ خَالِدٍ ، عَنِ الْحَسَنِ (ح) وَعَنْ لَیْثٍ ، عَنْ عَطَائٍ ، قَالَ : لاَ بَأْسَ بِالْکُحْلِ لِلصَّائِمِ۔
(٩٣٦٣) حضرت عطاء فرماتے ہیں کہ روزہ دار کے لیے سرمہ لگانے میں کوئی حرج نہیں۔

9364

(۹۳۶۴) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ أَبِی مُعَاذٍ ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ بْنِ أَبِی بَکْرٍ ، عَنْ أَنَسٍ ؛ أَنَّہُ کَانَ یَکْتَحِلُ وَہُوَ صَائِمٌ۔
(٩٣٦٤) حضرت انس روزہ کی حالت میں سرمہ لگایا کرتے تھے۔

9365

(۹۳۶۵) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ حُبَابٍ ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَۃَ ، وَأَبِی ہِلاَلٍ ، وَقَتَادَۃَ ؛ أَنَّہُمْ کَرِہُوا الْکُحْلَ لِلصَّائِمِ۔
(٩٣٦٥) حضرت حماد بن سلمہ، حضرت ابو ہلال اور حضرت قتادہ نے روزے کی حالت میں سرمہ لگانے کو مکروہ قرار دیا ہے۔

9366

(۹۳۶۶) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : کَانَ لاَ یَرَی بَأْسًا أَنْ یَکْتَحِلَ الرَّجُلُ وَہُوَ صَائِمٌ۔
(٩٣٦٦) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ روزے کی حالت میں سرمہ لگانے میں کوئی حرج نہیں۔

9367

(۹۳۶۷) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، قَالَ : لاَ بَأْسَ بِالْکُحْلِ لِلصَّائِمِ۔
(٩٣٦٧) حضرت زہری فرماتے ہیں کہ روزے کی حالت میں سرمہ لگانے میں کوئی حرج نہیں۔

9368

(۹۳۶۸) حَدَّثَنَا عَبْدُ السَّلاَمِ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، أَوْ عَطَائٍ ، قَالَ : لاَ بَأْسَ أَنْ یَتَطَعَّمَ الصَّائِمُ مِنَ الْقِدْرِ۔
(٩٣٦٨) حضرت مجاہد یا حضرت عطاء فرماتے ہیں کہ اس بات میں کوئی حرج نہیں کہ روزہ دار ہانڈی میں سے کچھ چکھ لے۔

9369

(۹۳۶۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إسْرَائِیلَ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ عَطَائٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : لاَ بَأْسَ أَنْ یَذُوقَ الْخَلَّ ، أَوِ الشَّیْئَ مَا لَمْ یَدْخُلْ حَلْقَہُ وَہُوَ صَائِمٌ۔
(٩٣٦٩) حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ روزہ دا رکے لیے سرکہ وغیرہ چکھنے میں کوئی حرج نہیں بشرطیکہ وہ حلق میں نہ جائے۔

9370

(۹۳۷۰) حَدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ سُلَیْمَانَ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : لاَ بَأْسَ أَنْ یَتَطَاعَمَ الصَّائِمُ مِنَ الْقِدْرِ۔
(٩٣٧٠) حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ اس بات میں کوئی حرج نہیں کہ روزہ دار ہانڈی میں سے کچھ چکھ لے۔

9371

(۹۳۷۱) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ؛ أَنَّہُ کَانَ لاَ یَرَی بَأْسًا أَنْ یَتَطَاعَمَ الصَّائِمُ الْعَسَلَ وَالسَّمْنَ وَنَحْوَہُ ، ثُمَّ یَمُجَّہُ۔
(٩٣٧١) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ اس بات میں کوئی حرج نہیں کہ روزہ دار گھی یا شہد وغیرہ کو چکھ کر منہ سے باہر پھینک دے۔

9372

(۹۳۷۲) حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرٍ الْحَنَفِیُّ ، عَنِ الضَّحَّاکِ بْنِ عُثْمَانَ ، قَالَ : رَأَیْتُ عُرْوَۃَ بْنَ الزُّبَیْرِ صَائِمًا أَیَّامَ مِنًی ، وَہُوَ یَذُوقُ عَسَلاً۔
(٩٣٧٢) حضرت ضحاک بن عثمان فرماتے ہیں کہ میں نے منی کے دنوں میں حضرت عروہ بن زبیر کو دیکھا کہ وہ روزے کی حالت میں شہد چکھ رہے تھے۔

9373

(۹۳۷۳) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، قَالَ : سَأَلْتُ الْحَکَمَ عَنِ الصَّائِمِ یَلْحَسُ الأَنْقَاسَ ؟ قَالَ : لاَ بَأْسَ بِہِ۔
(٩٣٧٣) حضرت شعبہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت حکم سے سوال کیا کہ کیا روزہ دار سیاہی چاٹ سکتا ہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ اس میں کوئی حرج نہیں۔

9374

(۹۳۷۴) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، قَالَ : أَتَیْتُ عَائِشَۃَ أَنَا وَرَجُلٌ مَعِی، وَذَلِکَ یَوْمُ عَرَفَۃَ فَدَعَتْ لَنَا بِشَرَابٍ ، ثُمَّ قَالَتْ : لَوْلاَ أَنِّی صَائِمَۃٌ لَذُقْتُہُ۔
(٩٣٧٤) حضرت مسروق فرماتے ہیں کہ عرفہ کے دن میں ایک آدمی کے ساتھ حضرت عائشہ کی خدمت میں حاضر ہوا، انھوں نے ہمارے لیے پینے کی چیز منگوائی اور فرمایا کہ اگر میرا روزہ نہ ہوتا تو میں اسے چکھ لیتی۔

9375

(۹۳۷۵) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ مُبَارَکٍ ، عَنِ الأَوْزَاعِیِّ ، قَالَ : لاَ بَأْسَ أَنْ یُدَاوِیَ الصَّائِمُ لِثَتَہُ۔
(٩٣٧٥) حضرت اوزاعی فرماتے ہیں کہ اس بات میں کوئی حرج نہیں کہ روزہ دار اپنے مسوڑھے پر دوائی لگائے۔

9376

(۹۳۷۶) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ؛ فِی الرَّجُلِ یَکُونُ بِفِیہِ الْجُرْحُ وَالْعِلَّۃُ ، قَالَ : لاَ بَأْسَ أَنْ یَضَعَ عَلَیْہِ الْحُضُضَ وَأَشْبَاہَہُ مِنَ الدَّوَائِ۔
(٩٣٧٦) حضرت حسن اس آدمی کے بارے میں جس کے منہ میں کوئی زخم یا بیماری ہو فرماتے ہیں کہ وہ اس پر حضض یا کوئی اور دوائی لگا سکتا ہے۔

9377

(۹۳۷۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ زَیْدٍ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ عَتِیقٍ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ ؛ فِی رَجُلٍ أَصَابَہُ سُلاَقٌ فِی شَفَتَیْہِ ، قَالَ : لاَ بَأْسَ بِالْحُضُضِ۔
(٩٣٧٧) حضرت ابن سیرین فرماتے ہیں کہ اگر کسی آدمی کو ہونٹوں پر چھالے نکل آئیں تو وہ حضض نامی دوائی لگاسکتا ہے۔

9378

(۹۳۷۸) حَدَّثَنَا أَبُوبَکْرٍ الْحَنَفِیُّ، عَنْ قَتَادَۃَ، عَنْ إبْرَاہِیمَ، قَالَ: لاَ یَتَطَوَّعُ الرَّجُلُ بِصَوْمٍ وَعَلَیْہِ شَیْئٌ مِنْ رَمَضَانَ۔
(٩٣٧٨) حضرت ابراہیم نے اس بات کو مکروہ قرار دیا ہے کہ ایک آدمی نفلی روزے رکھے جبکہ اس پر رمضان کی قضا باقی ہو۔

9379

(۹۳۷۹) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنِ الْحَسَنِ؛ أَنَّہُ کَرِہَ أَنْ یَتَطَوَّعَ بِصِیَامٍ وَعَلَیْہِ قَضَائٌ مِنْ رَمَضَانَ، إِلاَّ الْعَشْرَ۔
(٩٣٧٩) حضرت حسن نے اس بات کو مکروہ قرار دیا ہے کہ ایک آدمی نفلی روزے رکھے جبکہ اس پر رمضان کی قضا باقی ہو، البتہ ذوالحجہ کے دس روزے رکھ سکتا ہے۔

9380

(۹۳۸۰) حَدَّثَنَا ابْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَۃَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : مَثَلُ الَّذِی یَتَطَوَّعُ وَعَلَیْہِ قَضَائٌ مِنْ رَمَضَانَ ، مَثَلُ الَّذِی یُسَبِّحُ وَہُوَ یَخَافُ أَنْ تَفُوتَہُ الْمَکْتُوبَۃُ۔
(٩٣٨٠) حضرت عروہ فرماتے ہیں کہ اس شخص کی مثال جو رمضان کی قضا کے باقی ہونے کے باوجود نفلی روزے رکھے اس شخص کی سی ہے جو نفل نماز پڑھنے میں مشغول ہو اور فرض نماز چھوٹنے کا اندیشہ ہو۔

9381

(۹۳۸۱) حَدَّثَنَا ابْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنْ مَالِکِ بْنِ أَنَسٍ ، قَالَ : سُئِلَ سُلَیْمَانُ بْنُ یَسَارٍ وَسَعِیدُ بْنُ الْمُسَیَّبِ عَنْ رَجُلٍ تَطَوَّعَ وَعَلَیْہِ قَضَائٌ مِنْ رَمَضَانَ ؟ فَکَرِہَا ذَلِکَ۔
(٩٣٨١) حضرت مالک بن انس فرماتے ہیں کہ حضرت سلیمان بن یسار اور حضرت سعید بن مسیب سے ایسے آدمی کے بارے میں سوال کیا گیا جو نفلی روزہ رکھے اور اس پر رمضان کی قضاء باقی ہو، ان دونوں حضرات نے اسے مکروہ قرار دیا۔

9382

(۹۳۸۲) حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ عَیَّاشٍ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، قَالَ : إذَا کَانَ عَلَی الرَّجُلِ قَضَائٌ مِنْ رَمَضَانَ فَتَطَوَّعَ ، فَہُوَ قَضَاؤُہُ ، وَإِنْ لَمْ یُرِدْہُ۔
(٩٣٨٢) حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ اگر کسی شخص پر رمضان کی قضاء ہو اور وہ نفلی روزہ رکھ لے تو یہ اس کی قضا کا روزہ ہوگا، خواہ وہ اس کا ارادہ نہ کرے۔

9383

(۹۳۸۳) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، قَالَ : سَأَلَ مُغِیثٌ عَطَائٍ : أَیَسْتَدْخِلُ الرَّجُلُ الشَّیْئَ ؟ قَالَ : لاَ۔
(٩٣٨٣) حضرت ابن جریج کہتے ہیں کہ حضرت مغیث نے حضرت عطاء سے سوال کیا کہ کیا روزے کی حالت میں سرین سے دوائی داخل کی جاسکتی ہے ؟ انھوں نے فرمایا نہیں۔

9384

(۹۳۸۴) حَدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ عَامِرٍ ؛ أَنَّہُ سُئِلَ عَنِ الْحُقْنَۃِ لِلصَّائِمِ ؟ فَقَالَ : إنِّی لأَکْرَہُہَا لِلْمُفْطِرِ ، فَکَیْفَ لِلصَّائِمِ۔
(٩٣٨٤) حضرت عامر سے روزے کی حالت میں سرین سے دوا داخل کرنے کے بارے میں سوال کیا گیا تو انھوں نے فرمایا کہ میں تو اسے روزے کے بغیر بھی مکروہ سمجھتا ہوں روزہ دار کے لیے کیسے درست قرار دے سکتا ہوں ؟

9385

(۹۳۸۵) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : لاَ بَأْسَ أَنْ تَمْضُغَ الْمَرْأَۃُ لِصَبِیِّہَا وَہِیَ صَائِمَۃٌ ، مَا لَمْ یَدْخُلْ حَلْقَہَا۔
(٩٣٨٥) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ اس بات میں کوئی حرج نہیں کہ روزہ دار خاتون اپنے بچے کے لیے کوئی چیز چبائے، بشرطیکہ اس کے حلق میں داخل نہ ہو۔

9386

(۹۳۸۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، عَنْ شَرِیکٍ، عَنْ سُلَیْمَانَ، عَنْ عِکْرِمَۃَ، قَالَ: لاَ بَأْسَ أَنْ تَمْضُغَ الْمَرْأَۃُ لِصَبِیِّہَا وَہِیَ صَائِمَۃٌ۔
(٩٣٨٦) حضرت عکرمہ فرماتے ہیں کہ اس بات میں کوئی حرج نہیں کہ روزہ دار خاتون اپنے بچے کے لیے کوئی چیز چبائے۔

9387

(۹۳۸۷) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ أَبِی سُفْیَانَ ، عَنِ الْحَسَنِ ؛ أَنَّہُ کَانَ لاَ یَرَی بَأْسًا أَنْ یَذُرَّ الصَّائِمُ عَیْنَہُ بِالذَّرُورِ۔
(٩٣٨٧) حضرت حسن اس بات میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے کہ روزہ دار اپنی آنکھوں میں خشک دوائی ڈالے۔

9388

(۹۳۸۸) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : لاَ بَأْسَ بِالذَّرُورِ لِلصَّائِمِ۔
(٩٣٨٨) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ اس بات میں کوئی حرج نہیں کہ روزہ دار اپنی آنکھوں میں خشک دوائی ڈالے۔

9389

(۹۳۸۹) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ ، قَالَ : شَہِدَ عِنْدِی نَفَرٌ مِنْ أَہْلِ الْبَصْرَۃِ ، مِنْہُمُ الْحَسَنُ بْنُ أَبِی الْحَسَنِ الْبَصْرِیُّ ، عَنْ مَعْقِلِ بْنِ سِنَان الأَشْجَعِیِّ ، قَالَ : مَرَّ عَلَیَّ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَأَنَا أَحْتَجِمُ فِی ثَمَانِ عَشْرَۃَ مِنْ رَمَضَانَ ، فَقَالَ : أَفْطَرَ الْحَاجِمُ وَالْمَحْجُومُ۔ (طحاوی ۹۸۔ احمد ۳/۴۷۴)
(٩٣٨٩) حضرت معقل بن سنان کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ اٹھارہ رمضان کو میں پچھنے لگوارہا تھا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرے پاس سے گذرے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ پچھنے لگانے والے اور لگوانے والے دونوں کا روزہ ٹوٹ گیا۔

9390

(۹۳۹۰) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا عَاصِمٌ الأَحْوَلُ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ زَیْدٍ وَہُوَ أَبُو قِلاَبَۃَ ، عَنْ أَبِی الأَشْعَثِ الصَّنْعَانِیِّ ، عَنْ أَبِی أَسْمَائَ الرَّحَبِیِّ ، عَنْ شَدَّادِ بْنِ أَوْسٍ ، قَالَ : مَرَرْت مَعَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی ثَمَانِ عَشْرَۃَ خَلَتْ مِنْ رَمَضَانَ ، فَأَبْصَرَ رَجُلاً احْتَجَمَ ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : أَفْطَرَ الْحَاجِمُ وَالْمَحْجُومُ۔ (ابوداؤد ۲۳۶۱۔ احمد ۴/۱۲۴)
(٩٣٩٠) حضرت شداد بن اوس فرماتے ہیں کہ میں رمضان کی اٹھارہ تاریخ کو نبی پاک (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی معیت میں ایک آدمی کے پاس سے گذرا جو پچھنے لگوا رہا تھا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ پچھنے لگانے والے اور لگوانے والے دونوں کا روزہ ٹوٹ گیا۔

9391

(۹۳۹۱) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِی ہِنْدٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ زَیْدٍ ، عَنْ أَبِی الأَشْعَثِ ، عَنْ أَبِی أَسْمَائَ الرَّحَبِیِّ ، عَنْ شَدَّادِ بْنِ أَوْسٍ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، مِثْلَہُ۔ (احمد ۴/۱۲۴)
(٩٣٩١) ایک اور سند سے یونہی منقول ہے۔

9392

(۹۳۹۲) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنْ أَبِی قِلاَبَۃَ ، عَمَّنْ حَدَّثَہُ ، عَنْ شَدَّادِ بْنِ أَوْسٍ ، قَالَ : أَتَی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَی رَجُلٍ یَحْتَجِمُ بِالْبَقِیعِ ، وَہُوَ آخِذٌ بِیَدَیَّ لِثَمَانِ عَشْرَۃَ خَلَتْ مِنْ رَمَضَانَ ، فَقَالَ: أَفْطَرَ الْحَاجِمُ وَالْمَحْجُومُ۔ (ابوداؤد ۲۳۶۱۔ احمد ۴/۱۲۵)
(٩٣٩٢) حضرت شداد بن اوس فرماتے ہیں کہ نبی پاک (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرے ہاتھ پکڑے ہوئے رمضان کی اٹھارہ تاریخ کو جنۃ البقیع میں ایک ایسے آدمی کے پاس سے گذرے جو پچھنے لگوا رہا تھا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ پچھنے لگانے والے اور لگوانے والے دونوں کا روزہ ٹوٹ گیا۔

9393

(۹۳۹۳) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ مَکْحُولٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنِی رَجُلٌ مِنَ الْحَیِّ مُصَدَّقٌ ، عَنْ ثَوْبَانَ ، أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : أَفْطَرَ الْحَاجِمُ وَالْمَحْجُومُ۔ (ابوداؤد ۲۳۶۲۔ احمد ۵/۲۸۲)
(٩٣٩٣) حضرت ثوبان سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ پچھنے لگانے والے اور لگوانے والے دونوں کا روزہ ٹوٹ گیا۔

9394

(۹۳۹۴) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا أَیُّوبُ أَبُو الْعَلاَئِ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ شَہْرِ بْنِ حَوْشَبٍ ، عَنْ بِلاَلٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : أَفْطَر الْحَاجِمُ وَالْمَحْجُومُ۔ (احمد ۶/۱۲۔ طبرانی ۱۱۲۲)
(٩٣٩٤) حضرت بلال سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ پچھنے لگانے والے اور لگوانے والے دونوں کا روزہ ٹوٹ گیا۔

9395

(۹۳۹۵) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ الثَّقَفِیُّ ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللَّہُ تَعَالَی عَنْہُ ، أَنَّ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : أَفْطَرَ الْحَاجِمُ وَالْمَحْجُومُ۔ (نسائی ۳۱۷۲۔ احمد ۶/۳۶۴)
(٩٣٩٥) حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ پچھنے لگانے والے اور لگوانے والے دونوں کا روزہ ٹوٹ گیا۔

9396

(۹۳۹۶) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَطَائٍ ، قَالَ : قَالَ أَبُو ہُرَیْرَۃَ : إنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : أَفْطَرَ الْحَاجِمُ وَالْمَحْجُومُ۔ (نسائی ۳۱۸۲۔ ابویعلی ۶۳۶۵)
(٩٣٩٦) حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ پچھنے لگانے والے اور لگوانے والے دونوں کا روزہ ٹوٹ گیا۔

9397

(۹۳۹۷) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ، عَنِ ابْنِ أَبِی عَرُوبَۃَ، عَنْ مَطَرٍ، عَنِ الْحَسَنِ، قَالَ: قَالَ عَلِیٌّ: أَفْطَرَ الْحَاجِمُ وَالْمَحْجُومُ۔
(٩٣٩٧) حضرت علی فرماتے ہیں کہ پچھنے لگانے والے اور لگوانے والے دونوں کا روزہ ٹوٹ گیا۔

9398

(۹۳۹۸) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، عَنْ مُحَمَّدٍ ، قَالَ : یُکْرَہُ لِلْحَاجِمِ وَالْمَحْجُومِ۔
(٩٣٩٨) حضرت محمد فرماتے ہیں کہ روزہ میں پچھنے لگانا اور لگوانا مکروہ ہیں۔

9399

(۹۳۹۹) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِی عَدِیٍّ ، عَنْ حُمَیْدٍ ، عَنْ بَکْرٍ ، عَنْ أَبِی الْعَالِیَۃِ ، قَالَ : دَخَلْتُ عَلَی أَبِی مُوسَی وَہُوَ أَمِیرُ الْبَصْرَۃِ مُمْسِیًا ، فَوَجَدْتُہُ یَأْکُلُ تَمْرًا وَکَامَخًا ، وَقَدِ احْتَجَمَ ، فَقُلْتُ لَہُ : أَلاَ تَحْتَجِمُ بِنَہَارٍ ؟ فَقَالَ : أَتَأْمُرُنِی أَنْ أُہْرِیقَ دَمِی وَأَنَا صَائِمٌ۔
(٩٣٩٩) حضرت ابو عالیہ کہتے ہیں کہ حضرت ابو موسیٰ جب بصرہ کے گورنر تھے، اس دوران شام کے وقت میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا ، وہ کھجور اور کوئی سالن کھا رہے تھے اور انھوں نے پچھنے لگوائے تھے۔ میں نے ان سے کہا کہ آپ نے دن کو پچھنے کیوں نہیں لگوائے ؟ انھوں نے فرمایا کہ کیا آپ مجھے حکم دیتے ہیں کہ میں روزہ کی حالت میں اپنا خون بہاؤں ؟

9400

(۹۴۰۰) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ أَبِی بِشْرٍ ، عَنْ طَلْقِ بْنِ حَبِیبٍ ، قَالَ : أَفْطَرَ الْحَاجِمُ وَالْمَحْجُومُ۔
(٩٤٠٠) حضرت طلق بن حبیب فرماتے ہیں کہ پچھنے لگانے والے اور لگوانے والے دونوں کا روزہ ٹوٹ گیا۔

9401

(۹۴۰۱) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِی الضُّحَی ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، قَالَ : لاَ یَحْتَجِمُ الصَّائِمُ۔
(٩٤٠١) حضرت مسروق فرماتے ہیں کہ روزہ دار پچھنے نہ لگوائے۔

9402

(۹۴۰۲) حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُوسَی، عَنْ شَیْبَانَ، عَنْ لَیْثٍ، عَنْ عَطَائٍ، عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ: أَفْطَرَ الْحَاجِمُ وَالْمَحْجُومُ۔
(٩٤٠٢) حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ پچھنے لگانے والے اور لگوانے والے دونوں کا روزہ ٹوٹ گیا۔

9403

(۹۴۰۳) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ یَعْلَی ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ مُسْلِمٍ ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، قَالَ : لاَ یَحْتَجِمُ الصَّائِمُ۔
(٩٤٠٣) حضرت مسروق فرماتے ہیں کہ روزہ دار پچھنے نہ لگوائے۔

9404

(۹۴۰۴) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ یَزِیدَ ، عَنْ مِقْسَمٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ؛ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ احْتَجَمَ بَیْنَ مَکَّۃَ إِلَی الْمَدِینَۃِ ، مُحْرِمًا صَائِمًا۔ (ترمذی ۷۷۷۔ ابوداؤد ۲۳۶۵)
(٩٤٠٤) حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ نبی پاک (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مکہ سے مدینہ کے سفر کے دوران روزہ اور احرام کی حالت میں پچھنے لگوائے۔

9405

(۹۴۰۵) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنِ الْحَکَمِ ، عَنْ مِقْسَمٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ؛ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ احْتَجَمَ وَہُوَ صَائِمٌ۔
(٩٤٠٥) حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ نبی پاک (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے روزہ کی حالت میں پچھنے لگوائے۔

9406

(۹۴۰۶) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنِ الْحَکَمِ ، عَنْ مِقْسَمٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ؛ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ احْتَجَمَ صَائِمًا۔ (نسائی ۳۲۲۴۔ احمد ۱/۲۸۶)
(٩٤٠٦) حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ نبی پاک (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے روزہ کی حالت میں پچھنے لگوائے۔

9407

(۹۴۰۷) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ ؛ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ احْتَجَمَ وَہُوَ صَائِمٌ۔ (نسائی ۳۲۲۲۔ عبدالرزاق ۷۵۳۶)
(٩٤٠٧) حضرت عکرمہ فرماتے ہیں کہ نبی پاک (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے روزہ کی حالت میں پچھنے لگوائے۔

9408

(۹۴۰۸) حَدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ بْنُ عَیَّاشٍ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ، عَنْ زَیْدِ بْنِ أَسْلَمَ ، عْن عَطَائِ بْنِ یَسَارٍ رَفَعَہُ ، قَالَ : ثَلاَثٌ لاَ یُفْطرن الصَّائِمَ ؛ الْحِجَامَۃُ ، وَالْقَیْئُ ، وَالاِحْتِلاَمُ۔ (عبدالرزاق ۷۵۳۹۔ ابن خزیمۃ ۱۹۷۶)
(٩٤٠٨) حضرت عطاء بن یسار سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ تین چیزیں روزے کو نہیں توڑتیں : پچھنے لگوانا، قے کرنا اور احتلام ہوجانا۔

9409

(۹۴۰۹) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنِ الشَّیْبَانِیِّ ، عَنْ أَبَانَ بْنِ صَالِحٍ ، عَنْ مُسْلِمِ بْنِ سَعِیدٍ ، قَالَ : سُئِلَ ابْنُ مَسْعُودٍ عَنِ الْحِجَامَۃِ لِلصَّائِمِ ؟ فَقَالَ : لاَ بَأْسَ بِہَا۔
(٩٤٠٩) حضرت مسلم بن سعید کہتے ہیں کہ حضرت ابن مسعود سے روزہ کی حالت میں پچھنے لگوانے کے بارے میں سوال کیا گیا تو فرمایا کہ اس میں کوئی حرج نہیں۔

9410

(۹۴۱۰) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ حُمَیْدٍ ، قَالَ : سُئِلَ أَنَسٌ عَنِ الْحِجَامَۃِ لِلصَّائِمِ ؟ فَقَالَ : مَا کُنَّا نَحْسِبُ یُکْرَہُ مِنْ ذَلِکَ إِلاَّ جُہْدُہُ۔
(٩٤١٠) حضرت حمید کہتے ہیں کہ حضرت انس سے روزہ کی حالت میں پچھنے لگوانے کے بارے میں سوال کیا گیا تو فرمایا کہ ہم پچھنے لگوانے میں مبالغہ کو مکروہ سمجھتے تھے۔

9411

(۹۴۱۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِی ظَبْیَانَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ؛ فِی الْحِجَامَۃِ لِلصَّائِمِ ، قَالَ : الْفِطْرُ مِمَّا دَخَلَ ، وَلَیْسَ مِمَّا یَخْرُجُ۔
(٩٤١١) حضرت ابن عباس سے روزہ کی حالت میں پچھنے لگوانے کے بارے میں سوال کیا گیا تو فرمایا کہ روزہ کسی چیز کے داخل ہونے سے ٹوٹتا ہے خارج ہونے سے نہیں۔

9412

(۹۴۱۲) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنَ عُمَرَ ، قَالَ : کَانَ یَحْتَجِمُ وَہُوَ صَائِمٌ ، ثُمَّ تَرَکَہَا بَعْدُ ، فَکَانَ یَحْتَجِمُ لَیْلاً۔
(٩٤١٢) حضرت نافع فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عمر پہلے روزے کی حالت میں پچھنے لگوایا کرتے تھے پھر آپ نے ایسا کرنا چھوڑ دیا پھر آپ رات کو پچھنے لگوایا کرتے تھے۔

9413

(۹۴۱۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ ہِشَامٍ بن الغَاز ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ؛ أَنَّہُ کَانَ یَحْتَجِمُ عِنْدَ اللَّیْلِ وَہُوَ صَائِمٌ۔
(٩٤١٣) حضرت نافع فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عمر روزے کی حالت میں رات کے وقت پچھنے لگوایا کرتے تھے۔

9414

(۹۴۱۴) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ ، عَنْ حُمَیْدٍ ، عَنْ أَبِی الْمُتَوَکِّلِ ، عَنْ أَبِی سَعِیدٍ ، قَالَ : لاَ بَأْسَ بِالْحِجَامَۃِ لِلصَّائِمِ۔
(٩٤١٤) حضرت ابو سعید فرماتے ہیں کہ روزہ دار کے پچھنے لگوانے میں کوئی حرج نہیں۔

9415

(۹۴۱۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ أَبِی الْمُتَوَکِّلِ ، عَنْ أَبِی سَعِیدٍ ؛ أَنَّہُ کَرِہَ الْحِجَامَۃَ لِلصَّائِمِ مِنْ أَجْلِ الضَّعْفِ۔
(٩٤١٥) حضرت ابو سعید نے کمزوری کے بہ سبب روزہ دار کے لیے پچھنے لگوانے کو مکروہ قرار دیا ہے۔

9416

(۹۴۱۶) حَدَّثَنَا یَعْلَی بْنُ عُبَیْدٍ ، عَنْ یُونُسَ بْنِ عَبْدِ اللہِ الْجَرْمِیِّ ، عَنْ دِینَارٍ ، قَالَ : حَجَمْت زَیْدَ بْنَ أَرْقَمَ وَہُوَ صَائِمٌ۔
(٩٤١٦) حضرت دینار کہتے ہیں کہ میں نے حضرت زید بن ارقم کے پچھنے لگوائے حالانکہ ان کا روزہ تھا۔

9417

(۹۴۱۷) حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ أَبِی أُسَامَۃَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : احْتَجَمَ الْحُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ وَہُوَ صَائِمٌ۔
(٩٤١٧) حضرت شعبی فرماتے ہیں کہ حضرت حسین بن عیر نے روزے کی حالت میں پچھنے لگوائے۔

9418

(۹۴۱۸) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، وَطَاوُسٍ ؛ أَنَّہُمَا لَمْ یَکُونَا یَرَیَانِ بِالْحِجَامَۃِ لِلصَّائِمِ بَأْسًا۔
(٩٤١٨) حضرت مجاہد اور حضرت طاوس روزہ دار کے لیے پچھنے لگوانے میں کوئی حرج نہ سمجھتے تھے۔

9419

(۹۴۱۹) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِِ ، عَنْ عَبْدِ الأَعْلَی ، قَالَ : رَأَیْتُ أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِیَّ احْتَجَمَ وَہُوَ صَائِمٌ عِنْدَ غُرُوبِ الشَّمْسِ ، نَحْوًا مِمَّا یُوَافِقُ شَرْطُہُ فِطْرَہُ ، فَقُلْتُ لَہُ : یَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ ؛ إنَّمَا تُکْرَہُ الْحِجَامَۃُ لِلصَّائِمِ ، قَالَ : إنَّمَا تُکْرَہُ لَہُ مَخَافَۃَ الضَّعْفِ۔
(٩٤١٩) حضرت عبد الاعلیٰ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عبد الرحمن سلمی کو دیکھا، انھوں نے غروب شمس سے پہلے روزہ کی حالت میں پچھنے لگوائے۔ میں نے ان سے کہا کہ اے ابو عبدالرحمن ! آپ تو روزہ دار کے لیے پچھنے لگوانے کو مکروہ قرار دیتے ہیں ؟ انھوں نے فرمایا کہ روزہ دار کے پچھنوں کو کمزوری پیدا ہونے کے خوف سے مکروہ قرار دیا گیا ہے۔

9420

(۹۴۲۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبَّاسٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِی لَیْلَی ، عَنْ أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالُوا : إنَّمَا نَہَی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنِ الْحِجَامَۃِ لِلصَّائِمِ ، وَالْوِصَالِ فِی الصِّیَامِ إبْقَائً عَلَی أَصْحَابِہِ۔ (ابوداؤد ۲۳۶۶۔ احمد ۴/۳۱۴)
(٩٤٢٠) حضرت عبد الرحمن بن ابی لیلیٰ فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام کہا کرتے تھے کہ نبی پاک (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے ساتھیوں کی آسانی کے لیے ان پر شفقت کرتے ہوئے روزہ کی حالت میں پچھنے لگوانے اور صوم وصال رکھنے سے منع فرمایا ہے۔

9421

(۹۴۲۱) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ مِسْعَرٍ ، عَنْ بُزَیْعٍ ، قَالَ : سَأَلْتُ أَبَا وَائِلٍ عَنِ الْحِجَامَۃِ لِلصَّائِمِ ؟ فَقَالَ : إنَّمَا یُکْرَہُ ذَلِکَ لِلضَّعْفِ۔
(٩٤٢١) حضرت بزیع کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابو وائل سے روزہ کے دوران پچھنے لگوانے کے بارے میں سوال کیا تو انھوں نے فرمایا کہ اس کی کراہت کمزوری کے اندیشے کی وجہ سے ہے۔

9422

(۹۴۲۲) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنِ الأَحْوَصِ بْنِ حَکِیمٍ ، عَنْ أَبِی الزَّاہِرِیَّۃِ ، عَنْ جُبَیْرِ بْنِ نُفَیْرٍ ؛ أَنَّ مُعَاذًا احْتَجَمَ وَہُوَ صَائِمٌ۔
(٩٤٢٢) حضرت جبیر بن نفیر فرماتے ہیں کہ حضرت معاذ نے روزے کی حالت میں پچھنے لگوائے۔

9423

(۹۴۲۳) حَدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ بْنُ عَیَّاشٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُثْمَانَ ، عَنْ عَطَائٍ ، وَسَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ قَالاَ : لاَ بَأْسَ بِالْحِجَامَۃِ لِلصَّائِمِ مَا لَمْ یَخَفْ ضَعْفًا۔
(٩٤٢٣) حضرت عطاء اور حضرت سعید بن جبیر فرماتے ہیں کہ اگر روزہ دار کو کمزوری کا خوف نہ ہو تو پچھنے لگوانے میں کوئی حرج نہیں۔

9424

(۹۴۲۴) حَدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ بْنُ عَیَّاشٍ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ، عَنِ الْقَاسِمِ ، وَسَالِمٍ ، مِثْلَہُ۔
(٩٤٢٤) حضرت قاسم اور حضرت سالم سے بھی یونہی منقول ہے۔

9425

(۹۴۲۵) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ أَیُّوبَ ، قَالَ : سَأَلَ رَجُلٌ عِکْرِمَۃَ عَنِ الْحِجَامَۃِ لِلصَّائِمِ ؟ فَقَالَ : لاَ بَأْسَ بِہَا ، إنَّمَا ہِیَ مِثْلُ کَذَا وَکَذَا یَخْرُجُ مِنْکَ ، ذَکَرَ الْحَاجَۃَ۔
(٩٤٢٥) حضرت ایوب فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے حضرت عکرمہ سے روزے کی حالت میں پچھنے لگوانے کے بارے میں سوال کیا تو انھوں نے فرمایا کہ اس میں کوئی حرج نہیں، یہ تمہارے جسم سے نکلنے والے پاخانے کی طرح ہے۔

9426

(۹۴۲۶) حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ بْنُ مُوسَی ، وَأَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ؛ أَنَّہُ کَانَ یَحْتَجِمُ وَہُوَ صَائِمٌ۔
(٩٤٢٦) حضرت عروہ روزے کی حالت میں پچھنے لگوایا کرتے تھے۔

9427

(۹۴۲۷) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ فُرَاتٍ ، عَنْ مَوْلًی لأُمِّ سَلَمَۃَ ؛ أَنَّہُ رَأَی أُمَّ سَلَمَۃَ تَحْتَجِمُ وَہِیَ صَائِمَۃٌ۔
(٩٤٢٧) حضرت ام سلمہ نے روزے کی حالت میں پچھنے لگوائے۔

9428

(۹۴۲۸) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ یَزِیدَ ، وَعُبَیْدِ اللہِ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ؛ أَنَّہُ کَانَ یَحْتَجِمُ وَہُوَ صَائِمٌ ، ثُمَّ تَرَکَ ذَلِکَ ، فَلاَ أَدْرِی لأَیِّ شَیْئٍ تَرَکَہُ ؟ کَرِہَہُ ، أَوْ لِلضَّعْفِ۔
(٩٤٢٨) حضرت نافع فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عمر روزے کی حالت میں پچھنے لگوایا کرتے تھے، پھر انھوں نے ایسا کرنا چھوڑدیا۔ میں نہیں جانتا کہ انھوں نے ایسا کرنا کیوں چھوڑا، کسی کراہت کی وجہ سے چھوڑا یا کمزوری کی وجہ سے۔

9429

(۹۴۲۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ شَرِیکٍ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ عَبْدِ الْوَارِث ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ : مَرَّ بِنَا أَبُو طیبۃَ ، فَقَالَ : حجَمْت النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَہُوَ صَائِمٌ۔ (ترمذی ۳۶۶۔ ابویعلی ۴۲۱۰)
(٩٤٢٩) حضرت ابو طیبہ فرماتے ہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) روزہ کی حالت میں تھے اور میں نے آپ کے پچھنے لگائے۔

9430

(۹۴۳۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنْ أَبِی جَعْفَرٍ ؛ إنَّمَا کُرِہَ الْحِجَامَۃُ لِلصَّائِمِ مَخَافَۃَ الضَّعْفِ۔
(٩٤٣٠) حضرت ابو جعفر فرماتے ہیں کہ روزہ دار کے کمزوری کے اندیشہ کے پیش نظر پچھنے لگوانے کو مکروہ قرار دیا گیا ہے۔

9431

(۹۴۳۱) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ الْمُبَارَک ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَطَائٍ ؛ فِی الْمَرْأَۃِ تَحِیضُ أَوَّلَ النَّہَارِ فِی شَہْرِ رَمَضَانَ ، فَقَالَ : تَأْکُلُ وَتَشْرَبُ۔
(٩٤٣١) حضرت عطاء سے سوال کیا گیا کہ اگر کسی عورت کو رمضان میں دن کے ابتدائی حصہ میں حیض آجائے تو وہ کیا کرے ؟ فرمایا وہ کھانا پینا شروع کردے۔

9432

(۹۴۳۲) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِی عَدِیٍّ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الْحَسَنِ ؛ فِی الْمَرْأَۃِ حَاضَتْ بَعْدَ مَا اصْفَرَّتِ الشَّمْسُ فِی رَمَضَانَ ، قَالَ : تُفْطِرُ ، قَالَ : وَإِنْ أَصْبَحَتْ حَائِضًا ، فَطَہُرَتْ بَعْدَ طُلُوعِ الْفَجْرِ ؟ قَالَ : لاَ تَأْکُلُ بَقِیَّۃَ یَوْمِہَا۔
(٩٤٣٢) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ اگر کوئی عورت رمضان میں سورج کے زرد ہونے کے بعد حائضہ ہوئی تو اس کا روزہ ٹوٹ گیا۔ اگر وہ حائضہ تھی، لیکن طلوع فجر کے بعدوہ پاک ہوگئی تو باقی دن کچھ نہ کھائے پئے۔

9433

(۹۴۳۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ عَامِرٍ ؛ فِی الْمَرْأَۃِ تُصْبِحُ صَائِمَۃً أَوَّلَ النَّہَارِ ، ثُمَّ تَحِیضُ ، قَالَ : تَأْکُلُ۔
(٩٤٣٣) حضرت عامر فرماتے ہیں کہ اگر کسی عورت نے پاکی کی حالت میں روزے کے ساتھ دن شروع کیا، پھر اسے حیض آگیا تو وہ کھا سکتی ہے۔

9434

(۹۴۳۴) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ أَبِی حَنِیفَۃَ ، عَنْ حَمَّادٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ؛ فِی الْحَائِضِ تَطْہُرُ فَلاَ تَأْکُلُ شَیْئًا، کَرَاہَۃ أَنْ تُشْبِہَ الْمُشْرِکِینَ إلَی اللَّیْلِ۔
(٩٤٣٤) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ اگر رمضان کے دن میں کوئی عورت پاک ہوجائے تو مشرکین کی مشابہت سے بچنے کے لیے رات تک کچھ نہ کھائے۔

9435

(۹۴۳۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ ، قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللہِ : مَنْ أَکَلَ أَوَّلَ النَّہَارِ فَلْیَأْکُلْ آخِرَہُ۔
(٩٤٣٥) حضرت عبداللہ فرماتے ہیں کہ جس نے دن کے شروع کے حصہ میں کھایا ہے وہ آخری حصہ میں بھی کھائے۔

9436

(۹۴۳۶) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبی عَدِیٍّ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : فِی رَجُلٍ قَدِمَ فِی رَمَضَانَ أَوَّلَ النَّہَارِ وَقَدْ أَکَلَ ، قَالَ : لاَ یَأْکُلُ بَقِیَّۃَ یَوْمِہِ۔
(٩٤٣٦) حضرت حسن اس شخص کے بارے میں جو ماہ رمضان میں دن کے ابتدائی حصہ میں مسافر تھا، اس نے کچھ کھایا اور پھر اپنے مقام پر پہنچ گیا، وہ باقی دن کچھ نہ کھائے۔

9437

(۹۴۳۷) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ أَبِی حَنِیفَۃَ ، عَنْ حَمَّادٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ؛ فِی الْمُسَافِرِ یَقْدَمُ وَقَدْ کَانَ أَکَلَ؟ قَالَ : لاَ یَأْکُلُ بَقِیَّۃَ یَوْمِہِ۔ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، قَالَ : لاَ یَأْکُلُ کَرَاہِیَۃَ أَنْ یَتَشَبَّہَ بِالْمُشْرِکِینَ ، إلَی اللَّیْلِ۔
(٩٤٣٧) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص سفر سے واپس پہنچا اور اس نے کچھ کھالیا تھا تو باقی دن کچھ نہ کھائے۔ عبداللہ بن نمیر کی روایت میں ہے کہ وہ مشرکین کی مشابہت سے بچنے کے لیے کچھ نہ کھائے۔

9438

(۹۴۳۸) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ حُرَیْثٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : إذَا دَخَلَ الْمُسَافِرُ الْمِصْرَ لَمْ یَطْعَمْ شَیْئًا ، وَإِنْ کَانَ أَکَلَ قَبْلَ أَنْ یَقْدَمَ۔
(٩٤٣٨) حضرت شعبی فرماتے ہیں کہ مسافر جب اپنے شہر میں پہنچ جائے تو کچھ نہ کھائے، خواہ وہ پہلے کچھ کھاچکا ہو۔

9439

(۹۴۳۹) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ؛ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ لِرَجُلٍ وَقَعَ عَلَی أَہْلِہِ فِی رَمَضَانَ : إِنْ کَانَ فَجَرَ ظَہْرُک ، فَلاَ یَفْجُرْ بَطْنُک۔
(٩٤٣٩) حضرت قتادہ فرماتے ہیں کہ نبی پاک (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس شخص سے جس نے رمضان میں اپنی بیوی سے جماع کرلیا تھا، فرمایا کہ اگر تیری کمر نے گناہ کیا ہے تو تیرے پیٹ کو گناہ نہیں کرنا چاہیے۔

9440

(۹۴۴۰) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَطَائٍ ؛ فِی الَّذِی یُصِیبُ أَہْلَہُ ، یَعْنِی فِی شَہْرِ رَمَضَانَ ، قَالَ : إِنْ شَائَ أَکَلَ وَشَرِبَ۔
(٩٤٤٠) حضرت عطاء اس شخص کے بارے میں جو ماہ رمضان میں اپنی بیوی سے جماع کرلے فرماتے ہیں کہ اگر وہ چاہے تو کھا پی لے۔

9441

(۹۴۴۱) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، قَالَ : قُلْتُ لِعَمْرِو بْنِ دِینَارٍ : أَلَیْسَ کَذَا یُقَالُ فِی الَّذِی یُصِیبُ أَہْلَہُ فِی رَمَضَانَ ، لِیُتِمَّ ذَلِکَ الْیَوْمَ وَیَقْضِیہ ؟ قَالَ : نَعَمْ۔
(٩٤٤١) حضرت ابن جریج کہتے ہیں کہ میں نے عمرو بن دینار سے کہا کہ یہ جو کہا جاتا ہے کہ اگر کسی شخص نے رمضان میں اپنی بیوی سے جماع کرلیا تو وہ اس دن کو بھی پورا کرے اور اس کی قضا بھی کرے، کیا یہ صحیح بات ہے ؟ انھوں نے فرمایا ہاں۔

9442

(۹۴۴۲) حَدَّثَنَا سَہْلُ بْنُ یُوسُفَ، عَنْ عَمْرٍو، عَنِ الْحَسَنِ، قَالَ: کَانَ یَقُولُ: إذَا غَشِیَ لاَ یُبَالِی أَکَلَ، أَوْ لَمْ یَأْکُلْ۔
(٩٤٤٢) حضرت حسن فرمایا کرتے تھے کہ اگر کسی آدمی نے اپنی بیوی سے جماع کیا تو اس بات کی کوئی پروا نہیں کہ وہ کچھ کھائے یا نہ کھائے۔

9443

(۹۴۴۳) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ حُصَیْنٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ صَیْفِیٍّ ، قَالَ : قَالَ لَنَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَوْمَ عَاشُورَائَ : مِنْکُمْ أَحَدٌ طَعِمَ الْیَوْمَ ؟ فَقُلْنَا : مِنَّا مَنْ طَعِمَ ، وَمِنَّا مَنْ لَمْ یَطْعَمْ ، قَالَ : فَقَالَ : أَتِمُّوا بَقِیَّۃَ یَوْمِکُمْ ، مَنْ کَانَ طَعِمَ ، وَمَنْ لَمْ یَطْعَمْ ، وَأَرْسِلُوا إلَی أَہْلِ الْعَرُوضِ فَلْیُتِمُّوا بَقِیَّۃَ یَوْمِہِمْ ، یَعْنِی أَہْلَ الْعَرُوضِ مِنْ حَوْلِ الْمَدِینَۃِ۔ (نسائی ۲۶۲۹)
(٩٤٤٣) حضرت محمد بن صیفی فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں عاشوراء کے دن فرمایا کہ کیا تم میں سے کوئی ایسا ہے جس نے آج کچھ نہ کھایا ہو ؟ ہم نے عرض کیا کہ ہم میں سے کچھ لوگ ایسے ہیں جنہوں نے کچھ کھایا ہے اور کچھ ایسے ہیں جنہوں نے کچھ نہیں کھایا۔ نبی پاک (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اپنے باقی دن کو پورا کرو، جنہوں نے کھایا ہے وہ بھی اور جنہوں نے نہیں کھایا وہ بھی۔ یہ پیغام مدینہ کے کناروں میں رہنے والوں کو بھی بھجوا دو کہ باقی دن کو پورا کرو۔

9444

(۹۴۴۴) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ أَبِی الْعُمَیْسِ ، عَنْ قَیْسِ بْنِ مُسْلِمٍ ، عَنْ طَارِقِ بْنِ شِہَابٍ ، عَنْ أَبِی مُوسَی ، قَالَ: یَوْمُ عَاشُورَائَ یَوْمٌ تُعَظِّمُہُ الْیَہُودُ تَتَّخِذُہُ عِیدًا ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : صُومُوہُ أََنْتُم۔ (بخاری ۲۰۰۵۔ مسلم ۱۳۰)
(٩٤٤٤) حضرت ابو موسیٰ فرماتے ہیں کہ یہود یوم عاشوراء کا احترام کیا کرتے تھے، انھوں نے اسے عید کا دن قرار دیا تھا۔ اس پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ تم اس دن روزہ رکھو۔

9445

(۹۴۴۵) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللہِ بْنِ الزُّبَیْرِ الأَسَدِیُّ ، عَنْ شَرِیکٍ ، عَنْ مجزأۃ بْنِ زاہر، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : أَمَرَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِصَوْمِ یَوْمِ عَاشُورَائَ۔
(٩٤٤٥) حضرت زاہر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عاشوراء کے دن روزہ رکھنے کا حکم دیا۔

9446

(۹۴۴۶) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ ، عَنِ الْہَجَرِیِّ ، عَنْ أَبِی عِیَاضٍ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : یَوْمُ عَاشُورَائَ یَوْمٌ کَانَتْ تَصُومُہُ الأَنْبِیَائُ ، فَصُومُوہُ أَنْتُمْ۔ (بزار ۱۰۴۶)
(٩٤٤٦) حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ یوم عاشورا کو انبیاء کرام روزہ رکھا کرتے تھے، اس لیے تم بھی روزہ رکھو۔

9447

(۹۴۴۷) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ بْنُ عُمَرَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ؛ أَنَّ أَہْلَ الْجَاہِلِیَّۃِ کَانُوا یَصُومُونَ یَوْمَ عَاشُورَائَ ، وَأَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صَامَہُ وَالْمُسْلِمُونَ قَبْلَ أَنْ یُفْتَرَضَ رَمَضَانُ ، فَلَمَّا افْتُرِضَ رَمَضَانُ ، قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إِنَّ عَاشُورَائَ یَوْم مِنْ أَیَّامِ اللہِ ، فَمَنْ شَائَ صَامَہُ ، وَمَنْ شَائَ تَرَکَہُ۔ (بخاری ۴۵۰۱۔ مسلم ۷۹۲)
(٩٤٤٧) حضرت ابن عمر فرماتے ہیں کہ اہل جاہلیت عاشوراء کے دن روزہ رکھا کرتے تھے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں نے رمضان کے روزے فرض ہونے سے پہلے یوم عاشوراء کا روزہ رکھا۔ جب رمضان کے روزے فرض ہوگئے تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ عاشوراء کا دن اللہ کے دنوں میں سے ایک دن ہے، جو چاہے روزہ رکھے اور جو چاہے نہ رکھے۔

9448

(۹۴۴۸) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا ہِشَامُ بْنُ عُرْوَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ : کَانَ عَاشُورَائُ یَوْمًا تَصُومُہُ قُرَیْشٌ فِی الْجَاہِلِیَّۃِ ، فَلَمَّا قَدِمَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْمَدِینَۃَ صَامَہُ ، وَأَمَرَ بِصِیَامِہِ ، فَلَمَّا فُرِضَ رَمَضَانُ کَانَ رَمَضَانُ ہُوَ الْفَرِیضَۃَ ، وَتَرَکَ عَاشُورَائَ ، فَمَنْ شَائَ صَامَہُ وَمَنْ شَائَ تَرَکَہُ۔ (مسلم ۷۹۲۔ ابوداؤد ۲۴۳۴)
(٩٤٤٨) حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ قریش زمانہ جاہلیت میں عاشوراء کے دن روزہ رکھا کرتے تھے۔ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ تشریف لائے تو آپ نے عاشوراء کا روزہ رکھا اور مسلمانوں کو بھی اس دن روزہ رکھنے کا حکم دیا۔ جب رمضان کے روزے فرض ہوگئے تو آپ نے فرمایا کہ رمضان کے روزے فرض ہیں اور عاشوراء کے روزے کی فرضیت ختم ہوگئی ہے۔ اگر کوئی چاہے تو روزہ رکھے اور اگر چاہے تو نہ رکھے۔

9449

(۹۴۴۹) حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ بْنُ مُوسَی ، قَالَ : أَخْبَرَنَا شَیْبَانُ ، عَنْ أَشْعَثَ بْنِ أَبِی الشَّعْثَائِ ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ أَبِی ثَوْرٍ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَۃَ ، قَالَ : کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَأْمُرُنَا بِصِیَامِ عَاشُورَائَ وَیَحُثُّنَا عَلَیْہِ ، أَوْ یَتَعَاہَدُنَا عِنْدَہُ ، فَلَمَّا فُرِضَ رَمَضَانُ لَمْ یَأْمُرْنَا ، وَلَمْ یَنْہَنَا عَنْہُ ، وَلَمْ یَتَعَاہَدْنَا عِنْدَہُ۔ (مسلم ۱۲۵۔ احمد ۵/۱۰۵)
(٩٤٤٩) حضرت جابر بن سمرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمیں عاشوراء کے روزے کا حکم دیتے، اس کی ترغیب دیتے اور اس کا اہتمام کرایا کرتے تھے۔ جب رمضان کے روزے فرض ہوگئے تو آپ نے نہ اس کا حکم دیا، نہ اس سے منع کیا اور نہ اس کا اہتمام کرایا۔

9450

(۹۴۵۰) حَدَّثَنَا شَبَابَۃُ ، قَالَ : حدَّثَنَا شُعْبَۃُ ، عَنْ أَبِی بِشْرٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : لَمَّا قَدِمَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْمَدِینَۃَ وَالْیَہُودُ یَصُومُونَ یَوْمَ عَاشُورَائَ فَسَأَلَہُمْ عَنْ ذَلِکَ ؟ فَقَالُوا : ہُوَ الْیَوْمُ الَّذِی ظْہَرَ فِیہِ مُوسَی عَلَی فِرْعَوْنَ ، فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لأَنْتُمْ أَوْلَی بِمُوسَی مِنْہُمْ ، فَصُومُوہُ۔ (بخاری ۴۷۳۷۔ مسلم ۷۹۶)
(٩٤٥٠) حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ جب نبی پاک (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ تشریف لائے تو یہود یوم عاشوراء کا روزہ رکھا کرتے تھے۔ مسلمانوں نے یہودیوں سے اس کی وجہ پوچھی تو انھوں نے بتایا کہ اس دن موسیٰ کو فرعون کے مقابلے میں فتح حاصل ہوئی تھی۔ اس پر نبی پاک (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ موسیٰ کی یاد منانے کے زیادہ حقدار تم ہو اس لیے اس دن روزہ رکھا کرو۔

9451

(۹۴۵۱) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ عُمَارَۃَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ یَزِیدَ ، قَالَ : دَخَلَ الأَشْعَثُ بْنُ قَیْسٍ عَلَی عَبْدِ اللہِ وَہُوَ یَتَغَدَّی ، فَقَالَ : یَا أَبَا مُحَمَّدٍ ، اُدْنُ إلَی الْغَدَاء ، فَقَالَ : أَوَلَیْسَ الْیَوْمُ یَوْمَ عَاشُورَائَ ؟ فَقَالَ : وَہَلْ تَدْرِی مَا یَوْمُ عَاشُورَائَ ؟ قَالَ : وَمَا ہوَُ ؟ قَالَ : إنَّمَا ہُوَ یَوْمٌ کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَصُومُہُ قَبْلَ أَنْ یُنَزَّلَ شَہْرُ رَمَضَانَ ، فَلَمَّا نَزَلَ شَہْرُ رَمَضَانَ تُرِکَ۔ (مسلم ۱۲۲۔ احمد ۱/۴۲۴)
(٩٤٥١) حضرت عبد الرحمن بن یزید کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت اشعث بن قیس حضرت عبداللہ کے پاس حاضر ہوئے۔ حضرت عبداللہ کھانا کھا رہے تھے ، آپ نے اشعث بن قیس کو بھی کھانے کی دعوت دی۔ انھوں نے کہا کہ کیا آج عاشوراء کا دن نہیں ؟ حضرت عبداللہ نے پوچھا کہ کیا تم جانتے ہو عاشوراء کا دن کیا ہے ؟ انھوں نے پوچھا کہ کیا ہے ؟ حضرت عبداللہ نے فرمایا کہ یہ وہ دن ہے جس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رمضان کی فرضیت سے پہلے روزہ رکھا کرتے تھے، جب رمضان کے روزے فرض ہوگئے تو آپ نے اس دن روزہ رکھنا چھوڑ دیا۔

9452

(۹۴۵۲) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنِ الأَسْوَد ، قَالَ : مَا رَأَیْتُ أَحَدًا کَانَ آمَرَ بِصِیَامِ یَوْمِ عَاشُورَائَ مِنْ عَلِیِّ بْنِ أَبِی طَالِبٍ ، وَأَبِی مُوسَی۔
(٩٤٥٢) حضرت اسود فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت علی بن ابی طالب یا حضرت ابو موسیٰ میں سے کسی کو عاشوراء کے روزے کا حکم دیتے ہوئے نہیں دیکھا۔

9453

(۹۴۵۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ مِسْعَرٍ ، وَعَلِیِّ بْنِ صَالِحٍ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنِ الأَسْوَد ، قَالَ : مَا رَأَیْتُ أَحَدًا آمَرَ بِصَوْمِ یَوْمِ عَاشُورَائَ مِنْ عَلِیِّ بْنِ أَبِی طَالِبٍ ، وَأَبِی مُوسَی۔
(٩٤٥٣) حضرت اسود فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت علی بن ابی طالب یا حضرت ابو موسیٰ میں سے کسی کو عاشوراء کے روزے کا حکم دیتے ہوئے نہیں دیکھا۔

9454

(۹۴۵۴) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِِ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنِ الْحَارِثِ ، عَنْ عَلِیٍّ ؛ أَنَّہُ کَانَ یَأْمُرُ بِصَوْمِ یَوْمِ عَاشُورَائَ۔
(٩٤٥٤) حضرت حارث فرماتے ہیں کہ حضرت علی عاشوراء کے دن روزہ رکھنے کا حکم دیتے تھے۔

9455

(۹۴۵۵) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنِی عَبْدُ الْمَلِکِ ، عَنْ أَبِی بَکْرِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ ؛ أَنَّ عُمَرَ أَرْسَلَ إلَی عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ مَسَائَ لَیْلَۃِ عَاشُورَائَ : أَنْ تَسَحَّروا ، وَأَصبحَ صَائِمًا ، وَأَصْبَحَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ صَائِمًا۔
(٩٤٥٥) حضرت ابوبکر بن عبد الرحمن بن حارث فرماتے ہیں کہ حضرت عمر نے عبدالرحمن بن حارث کو عاشوراء کی رات کو پیغام بھیج کر کہا کہ سحری کھاؤ۔ پھر اگلے دن حضرت عمر نے بھی روزہ رکھا اور حضرت عبدالرحمن نے بھی۔

9456

(۹۴۵۶) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ ، عَنِ الْقَاسِمِ ؛ أَنَّہُ کَانَ یَصُومُ عَاشُورَائَ۔
(٩٤٥٦) حضرت قاسم عاشوراء کے دن روزہ رکھا کرتے تھے۔

9457

(۹۴۵۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُخَیْمِرَۃَ ، عَنْ أَبِی عَمَّارٍ ، عَنْ قَیْسِ بْنِ سَعْدٍ ، قَالَ : أَمَرَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِصِیَامِ یَوْمِ عَاشُورَائَ۔ (احمد ۴۲۱۔ نسائی ۳/۲۸۴۱)
(٩٤٥٧) حضرت قیس بن سعد فرماتے ہیں کہ نبی پاک (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں عاشوراء کے دن روزہ رکھنے کا حکم دیا ہے۔

9458

(۹۴۵۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنِ الْقَاسِمِ ؛ فَلَمَّا نَزَلَ رَمَضَانُ لَمْ یَأْمُرْنَا ، وَلَمْ یَنْہَنَا ، وَنَحْنُ نَفْعَلُہُ۔
(٩٤٥٨) حضرت قاسم فرماتے ہیں کہ جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نہ ہمیں عاشوراء کے روزے کا حکم دیا، نہ اس سے منع کیا، ہم یہ روزہ رکھا کرتے تھے۔

9459

(۹۴۵۹) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنْ مُحَمَّدٍ ؛ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَمَرَ رَجُلاً مِنْ أَسْلَمَ یَوْمَ عَاشُورَائَ ، فَقَالَ : ائْتِ قَوْمَک فَمُرْہُمْ فَلْیَصُومُوا ہَذَا الْیَوْمَ ، فَقَالَ : مَا أَرَانِی آتِیہِمْ حَتَّی یَصْطَبِحُوا ، فَقَالَ : مُرْ مَنِ اصْطَبَحَ منْہُمْ أَنْ یَصُومَ بَقِیَّۃَ یَوْمِہِ ، وَمَنْ لَمْ یَصْطَبِحْ مِنْہُمْ أَنْ یَصُومَ۔ (عبدالرزاق ۷۸۳۴)
(٩٤٥٩) حضرت محمد فرماتے ہیں کہ نبی پاک (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عاشوراء کے دن قبیلہ اسلم کے ایک آدمی سے فرمایا کہ اپنی قوم کے پاس جاؤ اور ان کو حکم دو کہ آج کے دن روزہ رکھیں۔ اس آدمی نے کہا کہ میرا خیال یہ ہے کہ جب میں ان کے پاس پہنچوں گا تو وہ ناشتہ کرچکے ہوں گے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جو ناشتہ کرچکا ہو اسے کہو کہ باقی دن کچھ نہ کھائے اور جس نے ناشتہ نہ کیا ہوا سے کہو کہ روزہ رکھے۔

9460

(۹۴۶۰) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ؛ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَمَرَہُمْ بِصَوْمِہِ۔
(٩٤٦٠) حضرت سعید بن جبیر فرماتے ہیں کہ نبی پاک (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں کو عاشوراء کے روزے کا حکم دیا۔

9461

(۹۴۶۱) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ؛ أَنَّہُ کَانَ یُعْجِبُہُ صَوْمُ یَوْم عَاشُورَائَ۔
(٩٤٦١) حضرت حسن کو یوم عاشوراء کا روزہ پسند تھا۔

9462

(۹۴۶۲) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ، عَنْ سُفْیَانَ، عَنْ زُبَیْدٍ، عَنْ عُمَارَۃَ، عَنْ قَیْسِ بْنِ سَکَنٍ؛ أَنَّ الأَشْعَثَ دَخَلَ عَلَی عَبْدِاللہِ یَوْمَ عَاشُورَائَ وَہُوَ یَطْعَمُ، فَقَالَ: اُدْنُ فَکُلْ، فَقَالَ: إنِّی صَائِمٌ، فَقَالَ: إنَّمَا کَانَ ہَذَا قَبْلَ أَنْ یُنَزَّلَ رَمَضَانُ۔
(٩٤٦٢) حضرت قیس بن سکن فرماتے ہیں کہ حضرت اشعث عاشوراء کے دن حضرت عبداللہ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ حضرت عبداللہ کھانا کھار ہے تھے۔ آپ نے حضرت اشعث کو کھانے کی دعوت دی، انھوں نے کہا میرا روزہ ہے۔ حضرت عبداللہ نے فرمایا کہ یہ روزہ تو رمضان کے روزے فرض ہونے سے پہلے ہوا کرتا تھا۔

9463

(۹۴۶۳) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ ؛ أَنَّ عُمَرَ کَانَ لاَ یَصُومُہُ۔
(٩٤٦٣) حضرت عبدالرحمن بن قاسم فرماتے ہیں کہ حضرت عمر عاشوراء کا روزہ نہ رکھا کرتے تھے۔

9464

(۹۴۶۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ زُبَیْدٍ ، عَنْ عُمَارَۃَ ، عَنْ قَیْسِ بْنِ سَکَنٍ الأَسَدِیِّ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ، مِثْلَہُ ، إِلاَّ أَنَّہُ قَالَ : اُدْنُ فَکُلْ۔
(٩٤٦٤) حضرت عبداللہ کی مذکورہ روایت ایک اور سند سے بھی منقول ہے۔

9465

(۹۴۶۵) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنِی یَحْیَی بْنُ عَبْدِ اللہِ بْنِ صَیْفِیٍّ ، أَنَّ عَمْرو بْنَ أَبِی یُوسُفَ ، أَخَا بَنِی نوفل ، أَخْبَرَہُ ، أَنَّہُ سَمِعَ مُعَاوِیَۃَ یَقُولُ عَلَی الْمِنْبَرِ: إنَّ یَوْمَ عَاشُورَائَ یَوْمُ عِیدٍ، فَمَنْ شَائَ صَامَ، وَقَدْ کَانَ یُصَامُ ، وَمَنْ شَائَ تَرَکَہُ ، وَلاَ حَرَجَ۔
(٩٤٦٥) حضرت معاویہ نے منبر پر خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ عاشوراء کا دن عید کا دن ہے، اس میں جو چاہے روزہ رکھے کیونکہ اس دن روزہ رکھا جاتا تھا۔ جو چاہے چھوڑ دے اس میں کوئی حرج نہیں۔

9466

(۹۴۶۶) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْوَلِیدِ ، قَالَ : سُئِلَ عِکْرِمَۃُ عَنْ صِیَامِ یَوْمِ عَاشُورَائَ وَیَوْمِ عَرَفَۃَ ؟ فَقَالَ : لاَ یَصْلُحُ لِرَجُلٍ یَصُومُ یَوْمًا یَرَی أَنَّہُ عَلَیْہِ وَاجِبٌ إِلاَّ رَمَضَانُ۔
(٩٤٦٦) حضرت عکرمہ سے یوم عاشوراء اور یوم عرفہ کے روزے کے بارے میں سوال کیا گیا تو فرمایا کہ رمضان کے علاوہ کسی دن کے روزے کو واجب سمجھنا درست نہیں۔

9467

(۹۴۶۷) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَنِ الشَّیْبَانِیِّ ، عَنْ أَبِی بِشْرٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ عَلِیًّا یَأْمُرُ بِصَوْمِ عَاشُورَائَ۔
(٩٤٦٧) حضرت علی عاشوراء کے روزے کا حکم دیا کرتے تھے۔

9468

(۹۴۶۸) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَنِ الشَّیْبَانِیِّ ، قَالَ : أَخْبَرَنِی أَبُو ماویَّۃ ، قَالَ : سَمِعْتُ علیًّا یَقُولُ فِی صَوْمِ عَاشُورَاء : فَمَنْ کَانَ بَدَأَ فَلْیُتِمَّ ، وَمَنْ کَانَ أَکَلَ فَلْیَصُم۔
(٩٤٦٨) حضرت علی نے عاشوراء کے دن فرمایا کہ جس شخص نے کچھ کھالیا ہے وہ اب کچھ نہ کھائے اور جس نے کچھ نہیں کھایا وہ روزہ رکھ لے۔

9469

(۹۴۶۹) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَنِ ابْنِ أَبِی لَیْلَی ، عَنْ عَطائَ ، عَنْ أَبِی الْخَلِیلِ ، عَنْ أَبِی قَتَادَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : صَوْمُ عَاشُورَائَ کَفَّارۃ سَنَۃٍ ، وَصَوْمُ یَوْمِ عَرَفَۃَ کَفَّارۃ سَنَتَیْن ؛ سَنَۃٍ مَاضِۃٍ ، وَسَنَۃٍ مُسْتَقْبَلَۃٍ۔ (نسائی ۲۸۰۹۔ احمد ۵/۳۰۷)
(٩٤٦٩) حضرت ابو قتادہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ عاشوراء کا روزہ ایک سال کے گناہوں کا کفارہ ہے، عرفہ کا روزہ دو سال کے گناہوں، ایک گزشتہ سال اور ایک آئندہ سال کے گناہوں کا کفارہ ہے۔

9470

(۹۴۷۰) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ بْنِ أَبِی یَزِیدٍ ، سَمِعَ ابْنَ عَبَّاسٍ سئُلَ عَنْ صِیَامِ عَاشُورائَ ؟ فَقَالَ : مَا عَلِمْتُ أَنِی رَأَیْت رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صَامَ یَوْمًا قَطُّ ، یَطْلُبُ فَضْلَہُ عَنِ الأَیَامِ إِلاَّ ہَذَا الْیَوْمِ ، وَلاَ شَہْرًا إِلاَّ ہَذَا ، یَعْنِی رَمَضان۔ (بخاری ۲۰۰۶۔ مسلم ۱۳۱)
(٩٤٧٠) حضرت عبید اللہ بن ابی یزید کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عباس سے عاشوراء کے روزے کے بارے میں سوال کیا گیا تو انھوں نے فرمایا کہ رمضان کے علاوہ کسی دن اور کسی مہینے کی خاص فضیلت کے پیش نظر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کبھی کسی دن اور کسی مہینے میں روزے نہیں رکھے۔

9471

(۹۴۷۱) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ حُبابٍ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ طَاووسٍ ، عَنْ أَبِیہِ ؛ أَنَّہُ کَانَ یَصُومُ قَبْلَہُ وَبَعْدَہُ یَوْمًا ، مَخَافَۃَ أَنْ یَفُوتَہُ۔
(٩٤٧١) حضرت طاوس یوم عاشوراء سے ایک دن پہلے اور ایک دن بعد بھی روزہ رکھا کرتے تھے تاکہ عاشوراء کا دن ضائع نہ ہوجائے۔

9472

(۹۴۷۲) حَدَّثَنَا وَکِیعُ بْنُ الجَّرَاح ، عَنْ حَاجِبِ بْن عُمَرَ ، عَنِ الحَکَم بْن الأَعْرَجِ ، قَالَ : انْتَہیتُ إِلی ابْنِ عَبَّاسٍ وَہُو مُتَوسِّدٌ رِدَائَہ فِی زَمزَم ، فَقُلتُ : أَخْبِرنِی عَنْ صَومِ عَاشورائَ ؟ فَقَالَ : إِذَا رَأَیْتَ ہِلالَ الْمُحَرَّم فاعْدُدْ، وَأَصبِحْ صَائِماً التَاسِع ، قُلْتُ : ہَکَذَا کَانَ مُحَمَّدٌ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَصُومُہُ ؟ قَالَ : نَعَمْ۔ (مسلم ۱۳۲۔ ترمذی ۷۵۴)
(٩٤٧٢) حضرت حکم بن اعرج کہتے ہیں کہ میں حضرت عبداللہ بن عباس کی خدمت میں حاضر ہوا وہ زمزم کے کنویں سے ٹیک لگائے بیٹھتے تھے۔ میں نے کہا کہ مجھے عاشوراء کے روزے کے بارے میں بتائیں۔ انھوں نے فرمایا کہ جب تم محرم کے چاند کو دیکھو تو اس دن کی تیاری شروع کردو۔ پھر نو تاریخ کو روزہ رکھو۔ میں نے کہا کہ کیا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس دن روزہ رکھا کرتے تھے ؟ انھوں نے فرمایا ہاں۔

9473

(۹۴۷۳) حَدَّثَنَا وَکِیعُ بْنُ الجَّرَاح ، عَنِ ابْنِ أَبِی ذِئْبٍ ، عَنِ القَاسِم بْنِ عَبَّاسٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہ بْنِ عُمَیرٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لَئِن بَقَیتُ إِلی قَابِلٍ لأَصُومَنَّ التَاسِعَ ، یَعنی یَوْمَ عَاشوراء ۔ (مسلم ۱۳۳۔ احمد ۲۲۴)
(٩٤٧٣) حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اگر میں اگلے سال تک حیات رہا تو میں نو محرم یعنی یوم عاشوراء کا روزہ رکھوں گا۔

9474

(۹۴۷۴) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَہَّاب ، عَنْ أَیوب ، عَنْ أَبِی سُلَیْمان مَوْلَی یَحْیَی بْنِ یَعْمَُرَ ، قَالَ : سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ یَقُولُ : یَوْمَ عَاشوراء صَبِیحتُہُ تَاسِعۃَ لَیْلَۃَ عَشْرٍ۔
(٩٤٧٤) حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ یوم عاشوراء دسویں کی رات اور نویں کی صبح ہے۔

9475

(۹۴۷۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، وَابن نُمَیْرٍ ، عَنْ سَلِمَۃَ ، عَنِ الضَّحَّاک ، قَالَ : عَاشورائُ یَوْمُ التَّاسِع۔
(٩٤٧٥) حضرت ضحاک فرماتے ہیں کہ یوم عاشوراء نو محرم ہے۔

9476

(۹۴۷۶) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، وَمُحَمَّدٍ قَالاَ : عَاشُورَائُ یَوْمُ الْعَاشِرِ۔
(٩٤٧٦) حضرت حسن اور حضرت محمد فرماتے ہیں کہ یوم عاشوراء دس محرم ہے۔

9477

(۹۴۷۷) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ، وَالْحَسَنِ ، وَعِکْرِمَۃَ قَالُوا : عَاشُورَائُ یَوْمُ الْعَاشِرِ۔
(٩٤٧٧) حضرت سعید بن مسیب، حضرت حسن اور حضرت عکرمہ فرماتے ہیں کہ یوم عاشوراء دس محرم ہے۔

9478

(۹۴۷۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : یَوْمُ الْعَاشِرِ۔
(٩٤٧٨) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ یوم عاشوراء دس محرم ہے۔

9479

(۹۴۷۹) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنِ الْجُرَیْرِیِّ ، عَنِ الْحَکَمِ بْنِ الأَعْرَجِ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : ہُوَ یَوْمُ التَّاسِعِ۔
(٩٤٧٩) حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ یوم عاشوراء نو محرم ہے۔

9480

(۹۴۸۰) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنِی ابْنُ أَبِی ذِئْبٍ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ؛ أَنَّہُ کَانَ یَصُومُ یَوْمَ عَاشُورَائَ فِی السَّفَرِ ، وَیُوَالِی بَیْنَ الْیَوْمَیْنِ مَخَافَۃَ أَنْ یَفُوتَہُ۔
(٩٤٨٠) حضرت شعبہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عباس سفر میں بھی یوم عاشوراء کا روزہ رکھا کرتے تھے اور اس سے ایک دن پہلے اور ایک دن بعد میں روزہ رکھتے تھے تاکہ عاشوراء کے دن کا روزہ ضائع نہ ہوجائے۔

9481

(۹۴۸۱) حَدَّثَنَا یَزِیدُ ، عَنِ الْجُرَیْرِیِّ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : عَاشُورَائُ یَوْمُ الْعَاشِرِ۔
(٩٤٨١) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ یوم عاشوراء دس محرم ہے۔

9482

(۹۴۸۲) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِِ ، عَنْ زِیَادِ بْنِ عِلاَقَۃَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَیْمُونٍ ، عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ : کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُقَبِّلُ فِی شَہْرِ الصَّوْمِ۔ (مسلم ۷۷۸۔ ابوداؤد ۲۳۷۵)
(٩٤٨٢) حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ نبی پاک (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رمضان میں بوسہ لیا کرتے تھے۔

9483

(۹۴۸۳) حَدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ : کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُقَبِّلُ بَعْضَ نِسَائِہِ وَہُوَ صَائِمٌ ، فَضَحِکَتْ ، فَظَنَنَّا أَنَّہَا ہِیَ۔ (مسلم ۶۹)
(٩٤٨٣) حضرت عروہ سے روایت ہے کہ حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ نبی پاک (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) روزہ کی حالت میں اپنی زوجہ کا بوسہ لیا کرتے تھے۔ یہ فرما کر حضرت عائشہ مسکرائیں جس سے ہمیں اندازہ ہوا کہ وہ زوجہ آپ ہی ہوں گی۔

9484

(۹۴۸۴) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، عَنِ الأَسْوَد ، وَعَلْقَمَۃَ ، عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ : کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُقَبِّلُ وَہُوَ صَائِمٌ ، وَیُبَاشِرُ وَہُوَ صَائِمٌ ، وَلَکِنَّہُ کَانَ أَمْلَکَکُمْ لأرْبہِ۔ (بخاری ۱۹۲۷۔ مسلم ۶۸)
(٩٤٨٤) حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ نبی پاک (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) روزہ کی حالت میں بوسہ لیتے اور اپنی بیوی کے ساتھ معانقہ وغیرہ بھی کرتے تھے کیونکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی کیفیات پر تم سے زیادہ قابو رکھنے والے تھے۔

9485

(۹۴۸۵) حَدَّثَنَا جَرِیرُ بْنُ عَبْدِ الْحَمِیدِ ، عَنْ قَابُوسَ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ عَلِیٍّ ، قَالَ : لاَ بَأْسَ بِالْقُبْلَۃِ لِلصَّائِمِ۔
(٩٤٨٥) حضرت علی فرماتے ہیں کہ روزہ دار کے لیے بوسہ لینے میں کوئی حرج نہیں۔

9486

(۹۴۸۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مُبَشِّرٍ ، عَنْ زَیْدٍ أَبِی عَتَّاب ، قَالَ : سُئِلَ سَعْدٌ عَنِ الْقُبْلَۃِ لِلصَّائِمِ ؟ فَقَالَ: إنِّی لآخذْتہُ مِنْہَا وَأَنَا صَائِمٌ۔
(٩٤٨٦) حضرت زید ابی عتاب فرماتے ہیں کہ حضرت سعد سے روزہ دار کے لیے بوسہ کے بارے میں سوال کیا گیا تو انھوں نے فرمایا کہ میں روزہ کی حالت میں ایسا کرتا ہوں۔

9487

(۹۴۸۷) حَدَّثَنَا ابْنُ مُبَارَکٍ ، عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّائِ ، عَنْ أَبِی الْمُتَوَکِّلِ ، عَنْ أَبِی سَعِیدٍ ؛ أَنَّہُ سُئِلَ عَنِ الْقُبْلَۃِ لِلصَّائِمِ ؟ فَقَالَ : لاَ بَأْسَ بِہَا ، مَا لَمْ یَعْدُ ذَلِکَ۔
(٩٤٨٧) حضرت ابو سعید سے روزے کی حالت میں بوسہ لینے کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا اگر اس سے آگے نہ بڑھے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔

9488

(۹۴۸۸) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عن أَبِی الضُّحَی ، عَنْ شُتَیْرِ بْنِ شَکَلٍ ، عَنْ حَفْصَۃَ بِنْتِ عُمَرَ قَالَتْ : کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُقَبِّلُ وَہُوَ صَائِمٌ۔ (مسلم ۷۷۹۔ طبرانی ۳۹۳)
(٩٤٨٨) ام المؤمنین حضرت حفصہ بنت عمر فرماتی ہیں کہ نبی پاک (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) روزہ کی حالت میں بوسہ لیا کرتے تھے۔

9489

(۹۴۸۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ طَلْحَۃَ بْنِ یَحْیَی ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ فَرُّوخَ ، عَنْ أُمِّ سَلَمَۃَ قَالَتْ : کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُقَبِّلُنِی وَأَنَا صَائِمَۃٌ ، وَہُوَ صَائِمٌ۔ (طبرانی ۶۵۴۔ احمد ۶/۳۲۰)
(٩٤٨٩) ام المؤمنین حضرت ام سلمہ فرماتی ہیں کہ نبی پاک (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرا بوسہ لیا کرتے تھے حالانکہ میرا بھی روزہ ہوتا اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا بھی روزہ ہوتا تھا۔

9490

(۹۴۹۰) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ حَبِیبِ بْنِ شِہَابٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : سُئِلَ عَنِ الْقُبْلَۃِ لِلصَّائِمِ ؟ فَقَالَ : إنِّی أُحِبّ أَنْ أَرفَّ شفَتَیْہَا وَأَنَا صَائِمٌ۔
(٩٤٩٠) حضرت ابوہریرہ سے روزہ دار کے لیے بوسہ کے بارے میں سوال کیا گیا تو انھوں نے فرمایا کہ میں اس بات کو پسند کرتا ہوں کہ روزے کی حالت میں ہونٹوں کو ہونٹوں میں رکھوں۔

9491

(۹۴۹۱) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ ہِشَامٍ الدَّسْتَوَائِیِّ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ أَبِی کَثِیرٍ ، عَنْ أَبِی سَلَمَۃَ ، عَنْ زَیْنَبَ بِنْتِ أُمِّ سَلَمَۃَ ، عَنْ أُمِّ سَلَمَۃَ قَالَتْ : کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُقَبِّلُہَا وَہُوَ صَائِمٌ۔
(٩٤٩١) ام المؤمنین حضرت ام سلمہ فرماتی ہیں کہ نبی پاک (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) روزے کی حالت میں میرا بوسہ لیا کرتے تھے۔

9492

(۹۴۹۲) حَدَّثَنَا حَفْصٌ، عَنْ عَبْدِالْمَلِکِ، عَنْ عَطَائٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ؛ أَنَّہُ سُئِلَ عَنِ الْقُبْلَۃِ لِلصَّائِمِ؟ فَقَالَ: لاَ بَأْسَ بِہَا۔
(٩٤٩٢) حضرت ابن عباس سے روزے کی حالت میں بوسے کے بارے میں سوال کیا گیا تو انھوں نے فرمایا کہ اس میں کوئی حرج نہیں۔

9493

(۹۴۹۳) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ مُوَرِّقٍ ، قَالَ : سَأَلْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ عَنِ الْقُبْلَۃِ لِلصَّائِمِ ؟ فَرَخَّصَ فِیہَا۔
(٩٤٩٣) حضرت ابن عباس سے روزے کی حالت میں بوسے کے بارے میں سوال کیا گیا تو انھوں نے اس کی رخصت دے دی۔

9494

(۹۴۹۴) حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ ، عَنِ الشَّیْبَانِیِّ ، قَالَ : سَأَلْتُ عِکْرِمَۃَ ، وَالشَّعْبِیَّ عَنِ الْقُبْلَۃِ وَالْمُبَاشَرَۃِ لِلصَّائِمِ ؟ فَرَخَّصَا فِیہِمَا۔
(٩٤٩٤) حضرت شیبانی فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عکرمہ اور حضرت شعبی سے روزے کی حالت میں بوسے اور معانقہ وغیرہ کے بارے میں سوال کیا تو انھوں نے اس کی رخصت دے دی۔

9495

(۹۴۹۵) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَنِ الشَّیْبَانِیِّ ، قَالَ : سَأَلْتُ سَعِیدَ بْنَ جُبَیْرٍ عَنِ الْقُبْلَۃِ لِلصَّائِمِ ؟ فَقَالَ : لاَ بَأْسَ بِہَا ، وَإِنَّہَا لَبَرِیدُ سُوئٍ۔
(٩٤٩٥) حضرت شیبانی فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت سعید بن جبیر سے روزہ دار سے بوسہ لینے کے بارے میں سوال کیا تو انھوں نے فرمایا کہ اس میں کوئی حرج نہیں۔ یہ ایک براڈا کیا ہے۔

9496

(۹۴۹۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ الْوَلِیدِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ جُمَیْعٍ ، قَالَ : سَأَلْتُ أبا سَلَمَۃَ عَنِ الْقُبْلَۃِ لِلصَّائِمِ ؟ فَقَالَ : إنِّی لأُقَبِّلُ الْکَلْبِیَّۃَ وَأَنَا صَائِمٌ۔
(٩٤٩٦) حضرت عبداللہ بن جمیع کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوسلمہ سے روزہ دار کے بوسہ لینے کے بارے میں سوال کیا تو انھوں نے فرمایا کہ میں روزے کی حالت میں کلبیہ (ام حسن بنت سعد بن اصبغ) کا بوسہ لیتا ہوں۔

9497

(۹۴۹۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، عَنْ زَکَرِیَّا، عَنِ الْعَبَّاسِ بْنِ ذُرَیْحٍ ، عَنْ عَامِرٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الأَشْعَثِ ، عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ: کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لاَ یَمْتَنِعُ مِنْ وَجْہِی وَأَنَا صَائِمَۃٌ۔ (احمد ۶/۲۱۳)
(٩٤٩٧) حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ نبی پاک (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرے چہرے سے گریز نہ فرمایا کرتے تھے حالانکہ میرا روزہ ہوتا تھا۔

9498

(۹۴۹۸) حَدَّثَنَا شَبَابَۃُ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ بُکَیْرِ بْنِ الأَشَجِّ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ سَعِیدٍ الأَنْصَارِیِّ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ ، قَالَ : ہَشَشْتُ إلَی الْمَرْأَۃِ فَقَبَّلْتُہَا وَأَنَا صَائِمٌ ، قَالَ : فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : أَرَأَیْتَ لَوْ تَمَضْمَضْتَ بِمَائٍ وَأَنْتَ صَائِمٌ ؟ قَالَ : قُلْتُ : لاَ بَأْسَ ، قَالَ : فَفِیمَ ؟ (ابوداؤد ۲۳۷۷۔ احمد ۱/۵۲)
(٩٤٩٨) حضرت جابربن عبداللہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! مجھے اپنی بیوی کو دیکھ کررہا نہیں گیا اور میں نے روزے کی حالت میں اس کا بوسہ لے لیا، اب کیا کروں ؟ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ کیا تم روزے کی حالت میں کلی کرسکتے ہو ؟ حضرت عمر نے فرمایا جی ہاں، اس میں کوئی حرج نہیں۔ نبی پاک (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ پھر بیوی کا بوسہ لینے میں کیا حرج ہے ؟

9499

(۹۴۹۹) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا مِسْعَرٌ قَالَ : حَدَّثَنَا سَعِیدُ بْنُ مَرْدانبۃ ، عَنْ أَبِی کَثِیرٍ ، عَنْ أُمِّ سَلَمَۃَ زَوْجِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، أَنَّہَا قَالَتْ لَہُ : لَوْ دَنَوْت ، لَوْ قَبَّلْت ، وَکَانَ تَزَوَّجَ فِی رَمَضَانَ۔
(٩٤٩٩) حضرت ابو کثیر فرماتے ہیں کہ ان کی رمضان میں شادی ہوئی۔ ام المؤمنین حضرت ام سلمہ نے ان سے فرمایا کہ اگر تم اپنی بیوی سے ملاعبت کرنا چاہو یا اس کا بوسہ لینا چاہو تو ایسا کرسکتے ہو۔

9500

(۹۵۰۰) حَدَّثَنَا یَزِیدُ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ ، عَنْ أَبِی بَکْرٍ بْنِ مُحَمَّدٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُبَیْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ؛ أنَّ عَاتِکَۃَ بِنْتَ زَیْدٍ امْرَأَۃَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ قَبَّلَتْہُ وَہُوَ صَائِمٌ ، فَلَمْ یَنْہَہَا۔
(٩٥٠٠) حضرت عبداللہ بن عبید اللہ بن عمر فرماتے ہیں کہ حضرت عاتکہ بنت زید جو کہ حضرت عمر بن خطاب کی بیوی تھیں، انھوں نے روزے کی حالت میں حضرت عمر کا بوسہ لیا، حضرت عمر نے انھیں منع نہیں کیا۔

9501

(۹۵۰۱) حَدَّثَنَا حُمَیْدٌ ، عَنْ حَسَنِ بْنِ صَالِحٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنْ مُسْلِمِ بْنِ حَیَّانَ ، عَنْ مَسْرُوقٍ ؛ فِی الْقُبْلَۃِ لِلصَّائِمِ ، فَقَالَ : مَا أُبَالِی قَبَّلْتُہَا ، أَوْ قَبَّلْتُ یَدِی۔
(٩٥٠١) حضرت مسروق سے روزے کی حالت میں بیوی کا بوسہ لینے کے بارے میں سوال کیا گیا تو فرمایا کہ میرے نزدیک اس کا بوسہ لینا یا ہاتھ کا بوسہ لینا ایک جیسا ہے۔

9502

(۹۵۰۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، عَنِ ابْنِ أَبِی ذِئْبٍ، عَنِ الزُّہْرِیِّ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ؛ أَنَّ عُمَرَ نَہَی عَنِ الْقُبْلَۃِ لِلصَّائِمِ۔
(٩٥٠٢) حضرت سعید بن مسیب فرماتے ہیں کہ حضرت عمر نے روزے کی حالت میں بیوی کا بوسہ لینے سے منع فرمایا ہے۔

9503

(۹۵۰۳) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِِ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ عُبَیْدِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ : قَالَ رَجُلٌ لِعَلِیٍّ : أَیُقَبِّلُ الرَّجُلُ امْرَأَتَہُ وَہُوَ صَائِمٌ ؟ فَقَالَ عَلِیٌّ : وَمَا إرْبُکَ إلَی خُلُوفِ فَمِ امْرَأَتِکَ ؟
(٩٥٠٣) حضرت عبید بن عمرو کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے حضرت علی سے کہا کہ کیا آدمی روزے کی حالت میں اپنی بیوی کا بوسہ لے سکتا ہے یا نہیں ؟ حضرت علی نے فرمایا کہ تم اپنی بیوی کے منہ کی بو کا کیا کرو گے ؟

9504

(۹۵۰۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ ہِلاَلِ بْنِ یَِسَافٍ ، عَنِ الْہَزْہَازِ ؛ أَنَّ رَجُلاً لَقِیَ ابْنَ مَسْعُودٍ وَہُوَ بِالتَّمَّارِینِ ، فَسَأَلَہُ عَنْ صَائِمٍ قَبَّلَ ؟ فَقَالَ : أَفْطَرَ۔
(٩٥٠٤) حضرت ہزہاز کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود مقام تمارین میں تھے، ایک آدمی نے ان سے روزے کی حالت میں بوسے کے بارے میں سوال کیا تو انھوں نے فرمایا کہ اس کا روزہ ٹوٹ گیا۔

9505

(۹۵۰۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ مُسْلِمٍ ، عَنْ زَاذَانَ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : أَفَلا تُقَبِِّل جَمْرَۃ ؟
(٩٥٠٥) حضرت ابن عمر فرماتے ہیں کہ تم انگارے کا بوسہ کیوں نہیں لے لیتے ؟ !

9506

(۹۵۰۶) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ مُوَرِّق قَالَ : سَأَلتُ ابْنَ عُمَرَ عَنِ الْقُبْلَۃِ لِلصَّائِمِ ؟ فَنَہَی عَنْہَا۔
(٩٥٠٦) حضرت مورق کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عمر سے روزے کی حالت میں بوسے کے بارے میں سوال کیا تو انھوں نے اس سے منع فرمایا۔

9507

(۹۵۰۷) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِِ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ؛ أَنَّہُ کَانَ یَکْرَہُ أَنْ یُقَبِّلَ الرَّجُلُ امْرَأَتَہُ وَہُوَ صَائِمٌ۔
(٩٥٠٧) حضرت ابراہیم روزہ کی حالت میں بیوی کا بوسہ لینے کو مکروہ قرار دیتے تھے۔

9508

(۹۵۰۸) حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ ، عَنِ الشَّیْبَانِیِّ ، قَالَ : سَأَلْتُ ابْنَ مُغَفَّلٍ ؟ فَکَرِہَہَا۔
(٩٥٠٨) حضرت شیبانی کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن مغفل سے اس بارے میں سوال کیا تو انھوں نے اسے مکروہ قرار دیا۔

9509

(۹۵۰۹) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ عَاصِمٍ (ح) وَجَرِیرٌ ، وَوَکِیعٌ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، کِلاَہُمَا عَنِ ابْنِ سِیرِینَ ، عَنْ شُرَیْحٍ، قَالَ : سُئِلَ عَنِ الْقُبْلَۃِ لِلصَّائِمِ ؟ فَقَالَ : یَتَّقِی اللَّہَ وَلاَ یَعُودُ۔
(٩٥٠٩) حضرت شریح سے روزے کی حالت میں بیوی کا بوسہ لینے کے بارے میں سوال کیا گیا تو انھوں نے فرمایا کہ اللہ سے ڈرے اور ایسا نہ کرے۔

9510

(۹۵۱۰) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ دَاوُدَ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ؛ أَنَّہُ قَالَ فِی الْقُبْلَۃِ لِلصَّائِمِ: یَنْقُصُ صِیَامہُ ، وَلاَ یُفْطِرُ بِہَا۔
(٩٥١٠) حضرت سعید بن مسیب فرماتے ہیں کہ روزہ کی حالت میں بیوی کا بوسہ لینے سے روزہ ٹوٹتا تو نہیں البتہ ناقص ہوجاتا ہے۔

9511

(۹۵۱۱) حَدَّثَنَا شَبَابَۃُ ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ الْغَازِ ، قَالَ : سَمِعْتُ مَکْحُولاً ، وَأَتَاہُ رَجُلٌ شَابٌّ ، فَقَالَ : إنِّی أُقَبِّلُ فِی شَہْرِ رَمَضَانَ وَأَنَا صَائِمٌ ، فَقَالَ : یَا بُنَیَّ ، أَمَّا أَنَا فَأَفْعَلُ ذَلِکَ ، وَأَمَّا أَنْتَ فَلاَ تَفْعَلْہُ۔
(٩٥١١) حضرت ہشام بن غاز فرماتے ہیں کہ ایک نوجوان حضرت مکحول کے پاس آیا اور اس نے کہا کہ میں نے روزہ کی حالت میں بیوی کا بوسہ لیا ہے۔ حضرت مکحول نے فرمایا کہ بیٹا ! میں تو ایسا کرتا ہوں لیکن تم ایسا نہ کرو۔

9512

(۹۵۱۲) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ ، عَنِ ابْنِ شُبْرُمَۃَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : الْقُبْلَۃُ تَنْقُضُ الْوُضُوئَ ، وَتَجْرَحُ الصَّوْمَ۔
(٩٥١٢) حضرت شعبی فرماتے ہیں کہ بیوی کا بوسہ لینا وضو کو توڑ دیتا ہے اور روزہ کو زخمی کردیتا ہے۔

9513

(۹۵۱۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، عَنْ مِسْعَرٍ، عَنْ حَبِیبٍ، قَالَ: سَأَلْتُ أَبَا قِلاَبَۃَ عَنِ الْقُبْلَۃِ لِلصَّائِمِ ؟ قَالَ: لاَ تُقَبِّلْ وَأَنْتَ صَائِمٌ۔
(٩٥١٣) حضرت حبیب کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابو قلابہ سے روزہ کی حالت میں بیوی کا بوسہ لینے کے بارے میں سوال کیا تو انھوں نے فرمایا کہ روزہ کی حالت میں بوسہ نہ لو۔

9514

(۹۵۱۴) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ أَبِی مَعْشَرٍ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، عَن عَبْدِ اللہِ ؛ أَنَّہُ سُئِلَ عَنِ الْقُبْلَۃِ لِلصَّائِمِ ؟ فَقَالَ : مَا تَصْنَعُ بِخُلُوفِ فِیہَا ؟
(٩٥١٤) حضرت عبداللہ سے روزہ کی حالت میں بیوی کا بوسہ لینے کے بارے میں سوال کیا گیا تو انھوں نے فرمایا کہ تم اس کے منہ کی بو کا کیا کرو گے ؟

9515

(۹۵۱۵) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : کَانَ یَکْرَہُ الْقُبْلَۃَ لِلصَّائِمِ۔
(٩٥١٥) حضرت ابن عمر نے روزہ کی حالت میں بیوی کا بوسہ لینے کو مکروہ قرار دیا ہے۔

9516

(۹۵۱۶) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ عُمَرِ بْنِ حَمْزَۃَ ، قَالَ : أَخْبَرَنِی سَالِمٌ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : قَالَ عُمَر : رَأَیْتُ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی الْمَنَامِ ، فَرَأَیْتُہُ لاَ یَنْظُرْنِی ، فَقُلْتُ : یَا رَسُولَ اللہِ ، مَا شَأْنِی ؟ فَقَالَ : أَلَسْتَ الَّذِی تُقَبِّلُ وَأَنْتَ صَائِمٌ ؟ قَالَ : فَوَالَّذِی بَعَثَکَ بِالْحَقِّ ، لاَ أُقَبِّلُ بَعْدَہَا وَأَنَا صَائِمٌ۔
(٩٥١٦) حضرت ابن عمر فرماتے ہیں کہ حضرت عمر نے اپنا ایک خواب بیان کیا کہ میں خواب میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیکھ رہا ہوں لیکن حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مجھے نہیں دیکھ رہے۔ میں نے پوچھا یا رسول اللہ ! آپ مجھے کیوں نہیں دیکھ رہے ؟ آپ نے فرمایا کہ کیا تم روزے کی حالت میں اپنی بیوی کا بوسہ نہیں لیتے ؟ حضرت عمر نے عرض کیا کہ اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے، میں آئندہ کبھی ایسا نہیں کروں گا۔

9517

(۹۵۱۷) حَدَّثَنَا مُعَاوِیَۃُ بْنُ ہِشَامٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِی حَفْصَۃَ ، عَنْ أَبِی یَعْلَی ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَنَفِیَّۃِ ، قَالَ : إنَّمَا الصَّوْمُ مِنَ الشَّہْوَۃِ ، وَالْقُبْلَۃُ مِنَ الشَّہْوَۃِ۔
(٩٥١٧) حضرت محمد بن حنفیہ فرماتے ہیں کہ روزہ شہوت سے خراب ہوجاتا ہے اور بوسہ شہوت کا حصہ ہے۔

9518

(۹۵۱۸) حَدَّثَنَا شَبَابَۃُ ، عَنِ ابْنِ أَبِی ذِئْبٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ ثَعْلَبَۃَ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ أَبِی صُعَیْرٍ ، قَالَ : رَأَیْتُ أَصْحَابَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَہُمْ یَنْہَوْنَ عَنِ الْقُبْلَۃِ لِلصَّائِمِ۔
(٩٥١٨) حضرت ثعلبہ بن عبداللہ بن ابی صعیر فرماتے ہیں کہ میں نے صحابہ کرام کو دیکھا کہ وہ روزہ کی حالت میں بوسہ لینے سے منع کرتے تھے۔

9519

(۹۵۱۹) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا إسْرَائِیلُ ، عَنْ زَیْدِ بْنِ جُبَیْرٍ ، عَنْ أَبِی یَزِیدَ الضَّنِّی ، عَنْ مَیْمُونَۃَ مَوْلاَۃِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ؛ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سُئِلَ عَنْ صَائِمٍ قَبَّلَ ؟ فَقَالَ : أَفْطَرَ۔ (احمد ۶/۴۶۳۔ طبرانی ۵۷)
(٩٥١٩) حضرت میمونہ مولاۃ النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) روایت کرتی ہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا گیا کہ ایک روزہ دار نے بوسہ لے لیا ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ اس کا روزہ ٹوٹ گیا۔

9520

(۹۵۲۰) حَدَّثَنَا شَبَابَۃُ ، قَالَ : حدَّثَنَا شُعْبَۃُ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْتَشِرِ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ مَسْرُوقٍ ؛ أَنَّہُ سُئِلَ عَنِ الْقُبْلَۃِ لِلصَّائِمِ ؟ فَقَالَ : اللَّیْلُ قَرِیبٌ۔
(٩٥٢٠) حضرت مسروق سے روزہ کی حالت میں بوسہ لینے کے بارے میں سوال کیا گیا تو انھوں نے فرمایا رات قریب ہی ہوتی ہے۔

9521

(۹۵۲۱) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، عَن عَلْقَمَۃَ ، وَالأَسْوَد ، عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ : کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُبَاشِرُ وَہُوَ صَائِمٌ ، وَلَکِنَّہُ کَانَ أَمْلَکَکُمْ لأَرْبِہِ۔
(٩٥٢١) حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ نبی پاک (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) روزے کی حالت میں اپنی بیوی کے ساتھ معانقہ کیا کرتے تھے لیکن حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے جذبات پر تم سے زیادہ قابو رکھنے والے تھے۔

9522

(۹۵۲۲) حَدَّثَنَا عِیسَی بْنُ یُونُسَ ، عَنِ الأَوْزَاعِیِّ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ أَبِی کَثِیرٍ ، عَنْ سَالِمٍ الأَوْسِیِّ ، قَالَ : قَالَ رَجُلٌ لِسَعْدٍ : یَا أَبَا إِسْحَاقَ ، أَتُبَاشِرُ وَأَنْتَ صَائِمٌ ؟ قَالَ : نَعَمْ ، وَآخُذُ بِجَہَازِہَا۔
(٩٥٢٢) حضرت سالم اوسی کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے حضرت سعد سے سوال کیا کہ اے ابو اسحاق ! کیا آپ روزے کی حالت میں اپنی بیوی سے معانقہ کرتے ہیں ؟ انھوں نے فرمایا کہ ہاں اور میں اس کی حیاء کی جگہ کو بھی ہاتھ لگاتا ہوں۔

9523

(۹۵۲۳) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہر ، ووَکِیعٌ ، عَنْ زَکَرِیَّا ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنْ أَبِی مَیْسَرَۃَ ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ ، قَالَ : کَانَ یُبَاشِرُ امْرَأَتَہُ بِنِصْفِ النَّہَارِ وَہُوَ صَائِمٌ۔
(٩٥٢٣) حضرت ابن مسعود روزہ کی حالت میں نصفِ نہا ر کے وقت اپنی بیوی سے معانقہ کیا کرتے تھے۔

9524

(۹۵۲۴) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ دَاوُدَ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : أَعْرَابِیٌّ أَتَاہُ فَسَأَلَہُ ؟ فَرَخَّصَ لَہُ فِی الْقُبْلَۃِ وَالْمُبَاشَرَۃِ وَوَضْعِ الْیَدِ ، مَا لَمْ یَعْدُہ إلَی غَیْرِہِ۔
(٩٥٢٤) حضرت عکرمہ فرماتے ہیں کہ ایک دیہاتی حضرت ابن عباس کے پاس آیا اور اس نے حضرت ابن عباس سے روزے کی حالت میں بیوی کے ساتھ تعلقات کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے بوسے، معانقہ اور ہاتھ سے چھونے کی اجازت دے دی۔ بشرطیکہ اس سے آگے نہ بڑھے۔

9525

(۹۵۲۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، عَنْ أَبِی مَکِینٍ، عَنْ عِکْرِمَۃَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: لاَ بَأْسَ لِلشَّیْخِ أَنْ یُبَاشِرَ، یَعْنِی وَہُوَ صَائِمٌ۔
(٩٥٢٥) حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ بوڑھے کے لیے روزے کی حالت میں بیوی سے معانقہ کرنے میں کوئی حرج نہیں۔

9526

(۹۵۲۶) حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ ، عَنِ الشَّیْبَانِیِّ ، قَالَ : سَأَلْتُ عِکْرِمَۃَ ، وَالشَّعْبِیَّ عَنِ الْمُبَاشَرَۃِ ؟ فَرَخَّصَا فِیہَا ، وَسَأَلْتُ ابْنَ مُغَفَّلٍ ؟ فَکَرِہَہَا۔
(٩٥٢٦) حضرت شیبانی کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عکرمہ اور حضرت شعبی سے روزے کی حالت میں بیوی سے معانقہ کے بارے میں سوال کیا تو انھوں نے اس کی رخصت دی۔ حضرت ابن مغفل سے سوال کیا تو انھوں نے اسے مکروہ قرار دیا۔

9527

(۹۵۲۷) حَدَّثَنَا عَبْدَۃ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ مُجَالِدٍ ، عَنْ وَبَرَۃَ ، قَالَ : جَائَ رَجُلٌ إلَی ابْنِ عُمَرَ ، فَقَالَ : أُبَاشِرُ امْرَأَتِی وَأَنَا صَائِمٌ ؟ فَقَالَ : لاَ ، ثُمَّ جَائَ آخَرُ ، فَقَالَ : أُبَاشِرُ امْرَأَتِی وَأَنَا صَائِمٌ ؟ قَالَ : نَعَمْ ، فَقِیلَ لَہُ : یَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، قُلْتَ لِہَذَا نَعَمْ ، وَقُلْتَ لِہَذَا لاَ ؟ فَقَالَ : إنَّ ہَذَا شَیْخٌ وَہَذَا شَابٌّ۔
(٩٥٢٧) حضرت وبرہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی حضرت ابن عمر کے پاس آیا اور اس نے عرض کیا کہ کیا میں روزہ کی حالت میں اپنی بیوی سے معانقہ وغیرہ کرسکتا ہوں ؟ انھوں نے فرمایا نہیں۔ ایک دوسرا آدمی آیا اور اس نے بھی یہی سوال کیا تو حضرت ابن عمر نے فرمایا کہ ہاں کرسکتے ہو۔ لوگوں نے آپ سے پوچھا کہ آپ نے ایک آدمی کو اجازت دی اور ایک کو منع کیا اس کی کیا وجہ ہے ؟ حضرت ابن عمر نے فرمایا کہ ایک جوان اور دوسرا بوڑھا تھا۔

9528

(۹۵۲۸) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ ، عَنْ عَطَائٍ ، قَالَ : قِیلَ لِاِبْنِ عَبَّاسٍ : الْمُبَاشَرَۃُ ؟ قَالَ : أَعِفُّوا صَوْمَکُمْ۔
(٩٥٢٨) حضرت عطاء فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عباس سے روزے کی حالت میں معانقہ وغیرہ کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ اپنے روزے کو پاکیزہ رکھو۔

9529

(۹۵۲۹) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ؛ أَنَّہُ کَانَ یَکْرَہُ الْقُبْلَۃَ وَالْمُبَاشَرَۃَ۔
(٩٥٢٩) حضرت ابن عمر روزے کی حالت میں بوسے اور معانقہ وغیرہ کو مکروہ قرار دیتے تھے۔

9530

(۹۵۳۰) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ ذَرٍّ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا حَنْظَلَۃُ بْنُ سَبْرَۃَ بْنِ الْمُسَیَّبِ بْنِ نَجَبَۃَ الْفَزَارِیِّ ، عَنْ عَمَّتِہِ جُمَانَۃَ بِنْتِ الْمُسَیَّبِ ، وَکَانَتْ عِنْدَ حُذَیْفَۃَ بْنِ الْیَمَانِ ، فَکَانَ إذَا صَلَّی الْفَجْرَ فِی رَمَضَانَ ، دَخَلَ مَعَہَا فِی لِحَافِہَا فَیُوَلِّیہَا ظَہْرَہُ لِیَسْتَدْفِئُ بِقُرْبِہَا ، وَلاَ یُقْبِلُ عَلَیْہَا۔
(٩٥٣٠) حضرت جمانہ بنت مسیب جو کہ حضرت حذیفہ کی اہلیہ تھیں فرماتی ہیں کہ حضرت حذیفہ رمضان میں فجر کی نماز ادا کرنے کے بعد ایک لحاف میں ان کے ساتھ لیٹتے اور ان کی طرف کمر کردیتے۔ تاکہ ان سے گرمی حاصل کرسکیں اور ان کی طرف رخ نہ کرتے تھے۔

9531

(۹۵۳۱) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ أَبِی الزِّنَادِ ، عَنِ الأَعْرَجِ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، أَنَّہُ قَالَ : إذَا دُعِیَ أَحَدُکُمْ إلَی طَعَامٍ وَہُوَ صَائِمٌ فَلْیَقُلْ : إِنِّی صَائِمٌ۔
(٩٥٣١) حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ جب تم میں سے کسی روزہ دار کو کھانے کی دعوت دی جائے تو وہ کہے کہ میں روزے سے ہوں۔

9532

(۹۵۳۲) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِِ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، قَالَ : دَخَلْتُ عَلَی قَیْسِ بْنِ أَبِی حَازِمٍ فَدَعَا لِی بِشَرَابٍ ، فَقَالَ : اشْرَبْ ، فَقُلْتُ : لاَ أُرِیدُ ، قَالَ : صَائِمٌ أَنْتَ ؟ قُلْتُ : نَعَمْ ، قَالَ : فَإِنِّی سَمِعْتُ عَبْدَ اللہِ یَقُولُ : إذَا عُرِضَ عَلَی أَحَدِکُمْ طَعَامٌ ، أَوْ شَرَابٌ وَہُوَ صَائِمٌ ، فَلْیَقُلْ : إنِّی صَائِمٌ۔
(٩٥٣٢) حضرت ابو اسحاق فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں حضرت قیس بن حازم کے پاس آیا، انھوں نے میرے لیے کوئی پینے کی چیز منگوائی اور مجھ سے فرمایا کہ اسے پیو، میں نے کہا کہ میں نہیں پینا چاہتا۔ انھوں نے پوچھا کیا تمہارا روزہ ہے ؟ میں نے کہا ہاں۔ انھوں نے فرمایا کہ حضرت عبداللہ فرماتے ہیں کہ جب تم میں سے کسی روزہ دار کو کھانے یا پینے کی دعوت دی جائے تو وہ کہے کہ میں روزے سے ہوں۔

9533

(۹۵۳۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، وَیَزِیدُ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ بْنِ أَبِی خَالِدٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : إذَا سُئِلَ أَحَدُکُمْ وَہُوَ صَائِمٌ ، فَلْیَقُلْ : إنِّی صَائِمٌ۔
(٩٥٣٣) حضرت شعبی فرماتے ہیں کہ جب تم میں سے کسی روزہ دار کو کھانے کی دعوت دی جائے تو وہ کہے کہ میں روزے سے ہوں۔

9534

(۹۵۳۴) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، قَالَ : کَانَ ابْنُ عُمَرَ إذَا دُعِیَ إلَی طَعَامٍ وَہُوَ صَائِمٌ أَجَابَ ، فَإِذَا جَاؤُوا بِالْمَائِدَۃِ وَعَلَیْہَا الطَّعَامُ مَدَّ یَدَہُ ، ثُمَّ قَالَ : خُذُوا بِسْمِ اللہِ ، فَإِذَا أَہْوَی الْقَوْمُ کَفَّ یَدَہُ۔
(٩٥٣٤) حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ جب حضرت ابن عمر کو روزے کی حالت میں کھانے کی دعوت دی جاتی تو دعوت قبول فرماتے، جب دستر خوان بچھ جاتا اور اس پر کھانا ہوتا تو اپنا ہاتھ کھانے کی طرف بڑھاتے اور فرماتے کہ اللہ کے نام کے ساتھ شروع کرو۔ جب لوگ کھانا شروع کردیتے تو وہ ہاتھ کھینچ لیتے۔

9535

(۹۵۳۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ مِسْعَرٍ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ قَیْسِ بْنِ أَبِی حَازِمٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : إذَا عُرِضَ عَلَی أَحَدِکُمْ طَعَامٌ ، أَوْ شَرَابٌ وَہُوَ صَائِمٌ فَلْیَقُلْ : إنِّی صَائِمٌ۔
(٩٥٣٥) حضرت عبداللہ فرماتے ہیں کہ جب تم میں سے کسی روزہ دار کو کھانے کی دعوت دی جائے تو وہ کہے کہ میں روزے سے ہوں۔

9536

(۹۵۳۶) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَنْ ثَابِتٍ ، قَالَ : أُتِیَ أَنَسٌ بِطَعَامٍ ، فَقَالَ لِی : اُدْنُ ، فَقُلْتُ : لاَ أَطْعَمُ ، فَقَالَ : ما : لاَ أَطْعَمُ ؟ قُلْ : إنِّی صَائِمٌ۔
(٩٥٣٦) حضرت ثابت فرماتے ہیں کہ حضرت انس کے پاس کھانا لایا گیا، انھوں نے مجھ سے کہا کہ قریب آجاؤ۔ میں نے کہا کہ میں نہیں کھاؤں گا۔ انھوں نے فرمایا کہ یہ نہ کہو کہ میں نہیں کھاؤں گا بلکہ یہ کہو کہ میرا روزہ ہے۔

9537

(۹۵۳۷) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَنْ أَبِی الْمُہَزِّمِ ، قَالَ : قَالَ أَبُو ہُرَیْرَۃَ : إذَا سُئِلَ أَحَدُکُمْ : صَائِمٌ أَنْتَ ؟ فَلْیَقُلْ : إنِّی صَائِمٌ ، فَأَمَّا الْمُؤْمِنُ فَیَدْعُو لَہُ بِخَیْرٍ ، وَأَمَّا الْمُنَافِقُ فَیَقُولُ : مُرَائِی۔
(٩٥٣٧) حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ جب تم میں سے کسی سے سوال کیا جائے کہ تمہارا روزہ ہے تو تم جواب میں کہو کہ میرا روزہ ہے۔ مومن اس کے لیے خیر کی دعا کرے گا اور منافق اسے ریاکار کہے گا۔

9538

(۹۵۳۸) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا عِمْرَانُ بْنُ حُدَیْرٍ ، عَنْ أَبِی مِجْلَزٍ ، قَالَ : دَخَلْتُ عَلَیْہِ وَہُوَ یَأْکُلُ ، فَقَالَ : اُدْنُ فَکُلْ ، قَالَ : قُلْتُ : إنِّی صَائِمٌ ، قَالَ : فَلَعَلَّک مِمَّنْ یَزْعُمُ أَنَّہُ صَائِمٌ وَلَیْسَ بِصَائِمٍ ، قُلْتُ : سُبْحَانَ اللہِ ، قَالَ : قَدْ کَانَ مَنْ ہُوَ خَیْرٌ مِنْک یَصُومُ ثَلاَثَۃَ أَیَامٍ مِنْ کُلِّ شَہْرٍ ، ثُمَّ یَقُولُ : إنِّی صَائِمٌ۔
(٩٥٣٨) حضرت عمران بن حدیر فرماتے ہیں کہ میں ابو مجلز کے پاس حاضر ہوا اور وہ کھانا کھا رہے تھے۔ انھوں نے فرمایا کہ قریب آؤ اور کھانا کھاؤ۔ میں نے کہا کہ میرا روزہ ہے۔ حضرت ابومجلز نے فرمایا کہ شاید آپ ان لوگوں میں سے ہیں جن کا روزہ نہیں ہوتا لیکن وہ یہ خاسل کرتے ہیں کہ ان کا روزہ ہے ! میں نے کہا کہ اللہ پاک ہے۔ انھوں نے کہا کہ جو ذات تم سے بہتر تھی وہ ہر مہینے تین روزے رکھا کرتے تھے پھر فرماتے تھے کہ میرا روزہ ہے۔

9539

(۹۵۳۹) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِِ سَلاَّمُ بْنِ سُلَیْمٍ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ، قَالَ: رَأَیْتُ الشَّعْبِیَّ یَدْخُلُ الْحَمَّامَ وَہُوَ صَائِمٌ۔
(٩٥٣٩) حضرت ابو اسحاق فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت شعبی کو روزے کی حالت میں حمام میں داخل ہوتے دیکھا ہے۔

9540

(۹۵۴۰) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ عَاصِمٍ ، قَالَ : سَأَلْتُ أَبَا الْعَالِیَۃِ : أَدْخُلُ الْحَمَّامَ وَأَنَا صَائِمٌ ؟ قَالَ : أَتُحِبُّ أَنْ تَنْظُرَ إلَی عَوْرتکَ وَأَنْتَ صَائِمٌ ؟ قَالَ : قُلْتُ : أَدْخُلُ الْحَمَّامَ بِمِئْزَرٍ ؟ قَالَ : أَتُحِبُّ أَنْ تَنْظُرَ إلَی عَوْرَۃِ غَیْرِکَ وَأَنْتَ صَائِمٌ ؟ قَالَ : قُلْتُ : لاَ۔
(٩٥٤٠) حضرت عاصم کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوعالیہ سے سوال کیا کہ کیا میں روزے کی حالت میں حمام میں داخل ہوسکتا ہوں ؟ انھوں نے فرمایا کہ کیا تم چاہتے ہو کہ روزہ کی حالت میں کوئی تمہارے ستر کو دیکھے ؟ میں نے کہا کہ میں ازار باندھ کر حمام میں داخل ہوتا ہوں۔ انھوں نے فرمایا کہ کیا تم چاہتے ہو کہ روزے کی حالت میں کسی کے ستر کو دیکھو ؟ میں نے عرض کیا نہیں۔

9541

(۹۵۴۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مُرَّۃَ ، عَنِ الْحَارِثِ ، عَنْ عَلِیٍّ ، قَالَ : لاَ تَدْخُلِ الْحَمَّامَ وَأَنْتَ صَائِمٌ۔
(٩٥٤١) حضرت علی فرماتے ہیں کہ روزے کی حالت میں حمام میں داخل مت ہو۔

9542

(۹۵۴۲) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ أَبِی إِسْحَاقَ ، قَالَ : رَأَیْتُ الْہِلاَلَ ، ہِلاَلَ الْفِطْرِ قَرِیبًا مِنْ صَلاَۃِ الظُّہْرِ ، فَأَفْطَرَ نَاسٌ ، فَأَتَیْنَا أَنَسَ بْنَ مَالِکٍ ، فَذَکَرْنَا لَہُ رُؤْیَۃَ الْہِلاَلِ وَإِفْطَارَ مَنْ أَفْطَرَ ، قَالَ : وَأَمَّا أَنَا فَمُتِمّ یَوْمِی ہَذَا إلَی اللَّیْلِ۔
(٩٥٤٢) حضرت ابو اسحاق کہتے ہیں کہ میں نے عید کا چاند ظہر کے وقت دیکھ لیا۔ اس پر کچھ لوگوں نے روزہ افطار کرلیا۔ ہم حضرت انس بن مالک کے پاس آئے اور ان سے ساری بات کا تذکرہ کیا۔ انھوں نے فرمایا کہ میں تو اس روزے کو رات تک پورا کروں گا۔

9543

(۹۵۴۳) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ؛ فِی الْہِلاَلِ یُرَی بِالنَّہَارِ : لاَ تُفْطِرُوا حَتَّی تَرَوْہُ مِنْ حَیْثُ یُرَی۔
(٩٥٤٣) حضرت ابن عمر فرماتے ہیں کہ اگر دن کو چاند نظر آجائے تو اس وقت تک روزہ نہ توڑو جب تک تم اسے اس وقت نہ دیکھ لو جس وقت وہ دیکھا جاتا ہے۔

9544

(۹۵۴۴) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ ، عَنِ الزِّبْرِقَانِ ، قَالَ : أَفْطَرَ النَّاسُ ، فَأَتَیْت أَبَا وَائِلٍ ، فَقُلْتُ : إنِّی رَأَیْتُ الْہِلاَلَ نِصْفَ النَّہَارِ ، فَقَالَ : {أَتِمُّوا الصِّیَامَ إلَی اللَّیْلِ}۔
(٩٥٤٤) حضرت زبرقان فرماتے ہیں کہ دن کے وقت چاند دیکھ کر لوگوں نے روزہ توڑ دیا۔ میں حضرت ابو وائل کے پاس آیا اور میں نے کہا کہ میں نے دن کے وقت چاند دیکھ لیا ہے۔ انھوں نے قرآن مجید کی یہ آیت پڑھی { أَتِمُّوا الصِّیَامَ إلَی اللَّیْلِ } روزے کو رات تک پورا کرو۔

9545

(۹۵۴۵) حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إسْمَاعِیلَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ حَرْمَلَۃَ ؛ أَنَّ النَّاسَ رَأَوْا ہِلاَلَ الْفِطْرِ حِینَ زَاغَتِ الشَّمْسُ ، فَأَفْطَرَ بَعْضُہُمْ ، فَذَکَرْتُ ذَلِکَ لِسَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ، فَقَالَ : رَآہُ النَّاسُ فِی زَمَنِ عُثْمَانَ فَأَفْطَرَ بَعْضُہُمْ ، فَقَامَ عُثْمَانُ فَقَالَ : أَمَّا أَنَا فَمُتِمّ صِیَامِی إلَی اللَّیْلِ ، قَالَ : وَرُئِیَ فِی زَمَنِ مَرْوَانَ ، فَتَوَعَّدَ مَرْوَانُ مَنْ أَفْطَرَ ، قَالَ سَعِیدٌ : فَأَصَابَ مَرْوَانُ۔
(٩٥٤٥) حضرت عبدالرحمن بن حرملہ کہتے ہیں کہ لوگوں نے سورج کی روشنی کم ہونے کے بعد چاند دیکھ لیا۔ اس پر بعض لوگوں نے روزہ توڑ دیا۔ میں نے حضرت سعید بن مسیب سے اس بات کا تذکرہ کیا تو انھوں نے فرمایا کہ حضرت عثمان کے زمانے میں بھی لوگوں نے دن کے وقت چاند دیکھ کر روزہ توڑ دیا تھا۔ اس پر حضرت عثمان نے فرمایا تھا کہ میں تو اپنا روزہ پورا کروں گا۔ عبدالرحمن بن حرملہ نے کہا کہ مروان کے زمانے میں بھی ایک مرتبہ چاند دن کے وقت نظر آگیا تھا اور کچھ لوگوں نے روزہ توڑ دیا تھا۔ مروان نے روزہ توڑنے والے کو برا بھلا کہا تھا اور انھیں سرزنش کی تھی۔ حضرت سعید نے فرمایا کہ مروان نے ٹھیک کیا۔

9546

(۹۵۴۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ الْمَسْعُودِیِّ ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللہِ : إذَا رَأَیْتُمُ الْہِلاَلَ نَہَارًا فَلاَ تُفْطِرُوا ، فَإِنَّ مَجْرَاہُ فِی السَّمَائِ ، لَعَلَّہُ أَنْ یَکُونَ أَہَلَّ سَاعَتئذ۔
(٩٥٤٦) حضرت عبداللہ فرماتے ہیں کہ اگر تم دن کے وقت چاند دیکھ لو تو روزہ نہ توڑو کیونکہ چاند کے چلنے کی جگہ آسمان میں ہے، ہوسکتا ہے کہ وہ اسی وقت ظاہر ہوا ہو۔

9547

(۹۵۴۷) حَدَّثَنَا أَسْبَاطُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، عَنْ مُطَرِّفٍ ، عَنْ أَبِی الْحَسَنِ ، عَنِ الْحَارِثِ ، عَنْ عَلِیٍّ ، قَالَ : إذَا رَأَیْتُمُ الْہِلاَلَ أَوَّلَ النَّہَارِ فَلاَ تُفْطِرُوا ، وَإِذَا رَأَیْتُمُوہُ مِنْ آخِرِ النَّہَارِ فَأَفْطِرُوا۔
(٩٥٤٧) حضرت علی فرماتے ہیں کہ اگر تم چاند کو دن کے ابتدائی حصہ میں دیکھو تو روزہ نہ توڑو اور اگر آخری حصہ میں دیکھو تو روزہ توڑ دو ۔

9548

(۹۵۴۸) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ الْقَطَّانُ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنِ الرُّکَیْنِ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : کُنَّا مَعَ سَلْمَانَ بْنِ رَبِیعَۃَ بِبَلنْجَرَ ، فَرَأَیْنَا ہِلاَلَ شَوَّالٍ یَوْمَ تِسْعٍ وَعِشْرِینَ ضُحًی ، فَقَالَ : أَرِنِیہِ ، فَأَرَیْتُہُ ، فَأَمَرَ النَّاسَ فَأَفْطَرُوا۔
(٩٥٤٨) حضرت رکین کے والد فرماتے ہیں کہ ہم مقام بلنجر میں حضرت سلمان بن ربیعہ کے ساتھ تھے۔ ہم نے انتیس رمضان کو چاشت کے وقت شوال کا چاند دیکھا۔ حضرت سلمان نے فرمایا کہ مجھے بھی دکھاؤ۔ میں نے انھیں چاند دکھایا تو انھوں نے لوگوں کو روزہ توڑنے کا حکم دے دیا۔

9549

(۹۵۴۹) حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ فَرُّوخَ ، عَنْ صَالِحٍ الدَّہَّانِ ، قَالَ : رُئِیَ الْہِلاَلُ آخِرَ رَمَضَانَ نَہَارًا ، فَوَقَعَ النَّاسُ فِی الطَّعَامِ وَالشَّرَابِ ، وَنَفَرٌ مِنَ الأَزْدِ مُعْتَکِفِینَ ، فَقَالُوا : یَا صَالِحُ ، أَنْتَ رَسُولُنَا إلَی جَابِرِ بْنِ زَیْدٍ ، فَأَتَیْتُ جَابِرَ بْنَ زَیْدٍ فَذَکَرْت ذَلِکَ لَہُ ، فَقَالَ : أَنْتَ مِمَّنْ رَأَیْتَہُ ؟ قُلْتُ : نَعَمْ ، قَالَ : أَبَیْنَ یَدَیِ الشَّمْسِ رَأَیْتَہُ ، أَمْ رَأَیْتَہُ خَلْفَہَا ؟ قُلْتُ : لاَ ، بَیْنَ یَدَیْہَا ، قَالَ : فَإِنَّ یَوْمَکُمْ ہَذَا مِنْ رَمَضَانَ ، إنَّمَا رَأَیْتُمُوہُ فِی مَسِیرِہِ ، فَمُرْ أَصْحَابَک یُتِمُّونَ صَوْمَہُمْ وَاعْتِکَافَہُمْ۔
(٩٥٤٩) حضرت صالح دہان فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ رمضان کے آخری دن دوپہر کے وقت چاند نظر آگیا۔ چاند دیکھ کر لوگ کھانے پینے میں مشغول ہوگئے۔ اس وقت ازد کی ایک جماعت اعتکاف میں بیٹھی تھی۔ انھوں نے کہا اے صالح ! آپ جابر بن زید کی طرف ہمارے قاصد بن کر جائیں۔ میں ان کے پاس گیا اور ان سے ساری بات کا تذکرہ کیا تو انھوں نے فرمایا کہ کیا تم نے بھی چاند دیکھا ہے ؟ میں نے کہا جی ہاں۔ انھوں نے فرمایا کہ تم نے اسے سورج کے سامنے دیکھا ہے یا سورج کے پیچھے ؟ میں نے کہا میں نے اسے سورج کے سامنے دیکھا ہے۔ حضرت جابربن زید نے فرمایا کہ تمہارا آج کا دن رمضان کا دن ہے، تم نے چاند کو اس کی جولان گاہ میں دیکھا ہے۔ اپنے ساتھیوں کو حکم دو کہ روزے اور اعتکاف کو مکمل کریں۔

9550

(۹۵۵۰) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : کَانَ عُتْبَۃُ بْنُ فَرْقَدٍ غَائِبًا بِالسَّوَادِ ، فَأَبْصَرُوا الْہِلاَلَ مِنْ آخِرِ النَّہَارِ ، فَأَفْطَرُوا ، فَبَلَغَ ذَلِکَ عُمَرَ ، فَکَتَبَ إلَیْہِ : إِنَّ الْہِلاَلَ إذَا رُئِیَ مِنْ أَوَّلِ النَّہَارِ ، فَإِنَّہُ لِلْیَوْمِ الْمَاضِی ، فَأَفْطِرُوا ، وَإِذَا رُئِیَ مِنْ آخِرِ النَّہَارِ ، فَإِنَّہُ لِلْیَوْمِ الْجَائِی فَأَتِمُّوا الصِّیَامَ۔
(٩٥٥٠) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ حضرت عتبہ بن فرقد دیہاتوں میں روپوش تھے۔ لوگوں نے دن کے آخری حصہ میں چاند دیکھا اور روزہ افطار کرلیا۔ یہ بات حضرت عمر کو پہنچی تو آپ نے خط لکھا جس میں فرمایا کہ چانداگردن کے شروع میں دیکھا جائے تو گزشتہ دن کا چاند ہے اس پر تم افطارکر لو اور اگر چاند دن کے آخری حصہ میں نظر آئے تو یہ آنے والے دن کا چاند ہے اس پر روزے کو پورا کرو۔

9551

(۹۵۵۱) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکر ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، قَالَ: کَانَ عَطَائٌ یَقُولُ: إِنْ رُئِیَ ہِلاَلُ شَوَّالٍ نَہَارًا ، فَلاَ تُفْطِرُوا، وَیَتْلُو : {ثُمَّ أَتِمُّوا الصِّیَامَ إلَی اللَّیْلِ}۔
(٩٥٥١) حضرت عطاء فرمایا کرتے تھے کہ اگر دن کے وقت شوال کا چاند نظر آئے تو روزہ نہ توڑو۔ پھر وہ یہ آیت تلاوت کرتے { ثُمَّ أَتِمُّوا الصِّیَامَ إلَی اللَّیْلِ } پھر رات تک روزے کو پورا کرو۔

9552

(۹۵۵۲) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عُبَیدِ اللہِ ، قَالَ : رَأَیْتُ الْہِلاَلَ قَبْلَ نِصْفِ النَّہَارِ ، فَأَتَیْتُ أَبَا بُرْدَۃَ ، فَأَمَرَنِی أَنْ أُتِمَّ صَوْمِی۔
(٩٥٥٢) حضرت حسن بن عبید اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے نصفِ نہار سے پہلے شوال کا چاند دیکھا ، میں نے حضرت ابو بردہ کو اس بارے میں بتایا تو انھوں نے مجھے حکم دیا کہ میں روزہ پورا کروں۔

9553

(۹۵۵۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِی وَائِلٍ ، قَالَ : أَتَانَا کِتَابُ عُمَرَ وَنَحْنُ بِخَانقِینَ ؛ أَنَّ الأَہِلَّۃَ بَعْضُہَا أَکْبَرُ مِنْ بَعْضٍ ، فَإِذَا رَأَیْتُمُ الْہِلاَلَ نَہَارًا فَلاَ تُفْطِرُوا ، حَتَّی یَشْہَدَ رَجُلاَنِ مُسْلِمَانِ أَنَّہُمَا أَہَلاَّہُ بِالأَمْسِ۔
(٩٥٥٣) حضرت ابو وائل کہتے ہیں کہ ہم مقام خانقین میں تھے کہ ہمارے پاس حضرت عمر کا خط آیا جس میں لکھا تھا کہ بعض چاند دوسروں سے بڑے ہوتے ہیں۔ جب تم دن کے وقت چاند دیکھو تو اس وقت تک روزہ نہ توڑو جب تک دو مسلمان گواہی نہ دے دیں کہ انھوں نے گزشتہ کل چاند دیکھا تھا۔

9554

(۹۵۵۴) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنِ أَبِی بِشْرٍ ، عَنْ أَبِی عُمَیْرِ بْنِ أَنَسٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِی عُمُومَتِی مِنَ الأَنْصَارِ قَالُوا : أُغمِیَ عَلَیْنَا ہِلاَلُ شَوَّالٍ ، فَأَصْبَحْنَا صِیاماً ، فَجَائَ رَکْبٌ آخِرَ النَّہَارِ ، فَشَہِدُوا عِنْدَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہُمْ رَأَوُا الْہِلاَلَ بِالأَمْسِ ، فَأَمَرَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ النَّاسَ أَنْ یُفْطِرُوا ، وَیَخْرُجُوا إلَی عِیدِہِمْ مِنَ الْغَدِ۔ (ابوداؤد ۱۱۵۰۔ احمد ۵/۵۷)
(٩٥٥٤) حضرت ابو عمیر بن انس کہتے ہیں کہ مجھ سے میرے ایک انصاری چچا نے بیان کیا کہ ایک مرتبہ شوال کا چاند رات کو ہمیں نظر نہ آیا اور ہم نے اگلے دن روزہ رکھ لیا۔ دن کے آخری حصے میں کچھ گھڑ سوار آئے اور انھوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے گواہی دی کہ ہم نے گزشتہ کل چاند دیکھ لیا تھا۔ آپ نے لوگوں کو روزہ توڑنے کا حکم دیا اور فرمایا کہ آئندہ کل لوگ عید کی نماز کے لیے عید گاہ آئیں۔

9555

(۹۵۵۵) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ أَبِی یَعْفُورٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : رُئِیَ ہِلاَلُ رَمَضَانَ وَالْمُغِیرَۃُ بن شُعْبَۃَ عَلَی الْکُوفَۃِ ، فَلَم یَخْرُجْ حَتَّی کَانَ مِنَ الْغَدِ ، فَخَرَجَ فَخَطَبَ النَّاسَ عَلَی بَعِیرٍ ، ثُمَّ انْصَرَفَ۔
(٩٥٥٥) حضرت ابو یعفور کے والد فرماتے ہیں کہ حضرت مغیرہ بن شعبہ کوفہ میں تھے۔ وہاں رمضان کا چاند نظر آیا۔ وہ اس دن عید کے لیے تشریف نہیں لائے۔ اگلے دن آئے اور لوگوں کو اونٹ پر خطبہ دیا اور واپس تشریف لے گئے۔

9556

(۹۵۵۶) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، قَالَ : شُہِدَ عِنْدَ ابْنِ عُمَرَ أَنَّہُمْ رَأَوُا الْہِلاَلَ ، فَقَالَ : اُخْرُجُوا إلَی عِیدِکُمْ مِنَ الْغَدِ ، وَقَدْ مَضَی مِنَ النَّہَارِ مَا شَائَ اللَّہُ۔
(٩٥٥٦) حضرت زہری فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عمر کے پاس گواہی دی گئی کہ لوگوں نے عیدکا چاند دیکھ لیا ہے۔ اس وقت دن کا کافی حصہ گذر چکا تھا اس لیے حضرت ابن عمر نے فرمایا کہ کل عید کی نماز پڑھی جائے گی۔

9557

(۹۵۵۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إسْرَائِیلَ ، عَنْ سِمَاکٍ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ ؛ أَنَّ أَعْرَابِیًّا شَہِدَ عِنْدَ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَی رُؤْیَۃِ الْہِلاَلِ ، فَقَالَ : أَتَشْہَدُ أَنْ لاَ إلَہَ إِلاَّ اللَّہُ وَأَنِّی رَسُولُ اللہِ ؟ قَالَ : نَعَمْ ، قَالَ : فَأُمِرَ النَّاسُ أَنْ یَصُومُوا۔ (ابوداؤد ۲۳۳۴۔ نسائی ۲۴۲۴)
(٩٥٥٧) حضرت عکرمہ فرماتے ہیں کہ ایک دیہاتی نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے (رمضان کا) چاند دیکھنے کی گواہی دی۔ آپ نے اس سے پوچھا کہ کیا تو گواہی دیتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں ؟ اس نے کہا جی ہاں۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں کو روزہ رکھنے کا حکم دے دیا۔

9558

(۹۵۵۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفیان ، عَنْ عَبْدِ الأَعْلَی ، عَنِ ابْنِ أَبِی لَیْلَی ؛ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ أَجَازَ شَہَادَۃَ رَجُلٍ فِی الْہِلاَلِ۔
(٩٥٥٨) حضرت ابن ابی لیلیٰ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب نے چاند کے بارے میں ایک آدمی کی گواہی کو قبول فرمایا۔

9559

(۹۵۵۹) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَنِ الشَّیْبَانِیِّ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ مَیْسَرَۃَ ، قَالَ : شَہِدْتُ الْمَدِینَۃَ فِی ہِلاَلِ صَوْمٍ ، أَوْ إفْطَارٍ ، فَلَمْ یَشْہَدْ عَلَی الْہِلاَلِ إِلاَّ رَجُلٌ ، فَأَمَرَہُمُ ابْنُ عُمَرَ فَقَبِلُوا شَہَادَتَہُ۔
(٩٥٥٩) حضرت عبد الملک بن میسرہ فرماتے ہیں کہ میں نے مدینہ میں رمضان یا شوال کا چاند دیکھا، چاند کے بارے میں صرف ایک آدمی نے گواہی دی تو حضرت ابن عمر نے اس کی گواہی قبول کرنے کا حکم دیا۔

9560

(۹۵۶۰) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَنْ زَائِدَۃَ ، عَنْ سِمَاکٍ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : جَائَ أَعْرَابِیٌّ إلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : یَا رَسُولَ اللہِ ، إنِّی رَأَیْتُ الْہِلاَلَ اللَّیْلَۃَ ، قَالَ : تَشْہَدُ أَنْ لاَ إلَہَ إِلاَّ اللَّہُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا عبْدُہُ وَرَسُولُہُ ؟ قَالَ : نَعَمْ ، قَالَ : یَا بِلاَلُ ، نَادِ فِی النَّاسِ ، فَلیَصُومُوا غَدًا۔ (ترمذی ۶۹۱۔ ابوداؤد ۲۳۳)
(٩٥٦٠) حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ ایک دیہاتی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا اور اس نے کہا کہ میں نے گزشتہ کل چاند دیکھا تھا۔ آپ نے اس سے پوچھا کہ کیا تو گواہی دیتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں ؟ اس نے کہا جی ہاں۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اے بلال لوگوں میں اعلان کردو کہ کل روزہ رکھیں۔

9561

(۹۵۶۱) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ أَبِی عُثْمَانَ ، قَالَ : قَدِمَ عَلَی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَجُلاَن وَافِدَان أَعْرَابِیَّان ، فَقَالَ لَہُمَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : أَمُسْلِمَانِ أَنْتُمَا ؟ قَالاَ : نَعَمْ ، فَقَالَ لَہُمَا : أَہْلَلْتُمَا ؟ قَالاَ : نَعَمْ ، فَأَمَرَ النَّاسَ فَفطِرُوا ، أَوْ صَامُوا۔ (دارقطنی ۱۶۷)
(٩٥٦١) حضرت ابو عثمان فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ دو دیہاتی اکٹھے نبی پاک (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے پوچھا کہ کیا تم دونوں مسلمان ہو ؟ انھوں نے کہا جی ہاں۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے پوچھا کہ کیا تم نے چاند دیکھا ہے ؟ انھوں نے کہا جی ہاں۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں کو روزہ رکھنے یا عید منانے کا حکم دے دیا۔

9562

(۹۵۶۲) حَدَّثَنَا ابْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنِ الْحَارِثِ ، عَنْ عَلِیٍّ ؛ فِی الْہِلاَلِ قَالَ : إذَا شَہِدَ رَجُلاَنِ ذَوَا عَدْلٍ عَلَی رُؤْیَۃِ الْہِلاَلِ فَأَفْطِرُوا۔
(٩٥٦٢) حضرت علی رویت ہلال کے بارے میں فرماتے ہیں کہ اگر دو عادل آدمی چاند دیکھنے کی گواہی دیں تو عید کرلو۔

9563

(۹۵۶۳) حَدَّثَنَا الضَّحَّاکُ بْنُ مَخلَدٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِینَارٍ ، قَالَ : أَبَی عُثْمَانُ أَنْ یُجِیزَ شَہَادَۃَ ہَاشِمِ بْنِ عُتبۃَ ، أَوْ غَیْرِہِ ، عَلَی رُؤْیَۃِ الْہِلاَلِ۔
(٩٥٦٣) حضرت عمرو بن دینار فرماتے ہیں کہ حضرت عثمان نے ہاشم بن عتبہ کی گواہی کو رویت ہلال کے بارے میں قبول نہیں فرمایا۔

9564

(۹۵۶۴) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ؛ أَنَّہُ کَانَ یَقُولُ فِی الرَّجُلِ یَرَی الْہِلاَلَ وَحْدَہُ قَبْلَ النَّاسِ ، قَالَ : لاَ یَصُومُ إِلاَّ مَعَ النَّاسِ ، وَلاَ یُفْطِرُ إِلاَّ مَعَ النَّاسِ۔
(٩٥٦٤) حضرت حسن اس شخص کے بارے میں جس نے اکیلے چاند دیکھا ہو فرماتے ہیں کہ وہ لوگوں کے ساتھ روزہ رکھے اور لوگوں کے ساتھ عید منائے۔

9565

(۹۵۶۵) حَدَّثَنَا الضَّحَّاکُ، عَنْ أَشْعَثَ، عَنِ الْحَسَنِ؛ فِی رَجُلٍ شَہِدَ عَلَی رُؤْیَۃِ الْہِلاَلِ وَحْدَہُ، قَالَ: لاَ یُلْتَفَتُ إلَیْہِ۔
(٩٥٦٥) حضرت حسن اس شخص کے بارے میں جس نے اکیلے چاند دیکھا ہو فرماتے ہیں کہ وہ اپنی رویت کی طرف توجہ نہ کی جائے گی۔

9566

(۹۵۶۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِی وَائِلٍ ، قَالَ : کُنَّا بِخَانِقِینَ ، فَأَہْلَلْنَا ہِلاَلَ رَمَضَانَ ، فَمِنَّا مَنْ صَامَ وَمِنَّا مَنْ أَفْطَرَ ، فَأَتَانَا کِتَابُ عُمَرَ : أَنَّ الأَہِلَّۃَ بَعْضُہَا أَکْبَرُ مِنْ بَعْضٍ ، فَإِذَا رَأَیْتُمُ الْہِلاَلَ نَہَارًا فَلاَ تُفْطِرُوا ، إِلاَّ أَنْ یَشْہَدَ رَجُلاَنِ مُسْلِمَانِ أَنَّہُمَا أَہَلاَّہُ بِالأَمْسِ۔
(٩٥٦٦) حضرت ابو وائل کہتے ہیں کہ ہم مقام خانقین میں تھے کہ ہمارے پاس حضرت عمر کا خط آیا جس میں لکھا تھا کہ بعض چاند دوسروں سے بڑے ہوتے ہیں۔ جب تم دن کے وقت چاند دیکھو تو اس وقت تک روزہ نہ توڑو جب تک دو مسلمان گواہی نہ دے دیں کہ انھوں نے گزشتہ کل چاند دیکھا تھا۔

9567

(۹۵۶۷) حَدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ بْنُ عَیَّاشٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُہَاجِرٍ ؛ أَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ سُوَیْد الْفِہْرِیَّ أَفْطَرَ ، أَوْ ضَحَّی قَبْلَ النَّاسِ بِیَوْمٍ ، فَکَتَبَ إلَیْہِ عُمَرُ بْنُ عَبْدِالْعَزِیزِ: مَا حَمَلَک عَلَی أَنْ أَفْطَرْت قَبْلَ النَّاسِ؟ فَکَتَبَ إلَیْہِ مُحَمَّدٌ: إِنَّہُ شَہِدَ عِنْدِی حِزَامُ بْنُ حَکِیمٍ الْقُرَشِیُّ أَنَّہُ رَأَی الْہِلاَلَ ، فَکَتَبَ إلَیْہِ عُمَرُ: أَوْ أَحَدُ النَّاسِ، أَوْ ذُو الْیَدَیْنِ: ہُوَ۔
(٩٥٦٧) حضرت عمرو بن مہاجر فرماتے ہیں کہ محمد بن سوید فہری نے لوگوں سے ایک دن پہلے عید الفطر یاعیدا لاضحی منائی۔ حضرت عمر بن عبد العزیز نے انھیں خط لکھ کر اس کی وجہ پوچھی تو محمد نے ان کی طرف خط لکھا کہ حزام بن حکیم قرشی نے میرے سامنے چاند دیکھنے کی گواہی دی۔ حضرت عمر بن عبد العزیز نے انھیں خط لکھا کہ کیا ایک آدمی کی گواہی پر ؟ کیا وہ دو آدمیوں کے برابر ہوسکتے ہیں ؟

9568

(۹۵۶۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ عَبْدِ الْکَرِیمِ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِیزِ ؛ أَنَّ قَوْمًا شَہِدُوا عَلَی ہِلاَلِ رَمَضَانَ بَعْدَ مَا أَصْبَحَ النَّاسُ ، فَقَالَ : مَنْ لَمْ یَأْکُلْ فَلْیُتِمَّ صَوْمَہُ ، وَمَنْ أَکَلَ فَلْیَصُمْ بَقِیَّۃَ یَوْمِہِ۔
(٩٥٦٨) حضرت عبدا لکریم فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن عبد العزیز کے زمانے میں لوگوں نے دن کے وقت چاند دیکھنے کی گواہی دی کہ گزشتہ رات ہم نے چاند دیکھ لیا تھا۔ حضرت عمر بن عبدا لعزیز نے فرمایا کہ جس نے کھانا نہیں کھایا وہ روزہ پورا کرے اور جس نے کھالیا وہ باقی دن کھانے پینے سے رکا رہے۔

9569

(۹۵۶۹) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، قَالَ : قُلْتُ لِعَطَائٍ : أَرَأَیْتَ إِنْ أَصْبَحَ أَہْلُ مَکَّۃَ مُفْطِرِینَ ، أَوْ رَجُلٌ ، أَوْ رَجُلاَنِ ، ثُمَّ جَائَہُمْ أَنْ قَدْ رُئِیَ الْہِلاَلُ ، فَجَائَہُمُ الْخَبَرُ بِذَلِکَ مِنْ أَوَّلِ النَّہَارِ ، أَوْ مِنْ آخِرِ النَّہَارِ، کَانُوا یَصُومُونَ بَقِیَّۃَ یَوْمِہِمْ ، أَوْ یَقْضُونَہُ بَعْدُ ؟ قَالَ : یَأْکُلُونَ وَیَشْرَبُونَ إِنْ شَاؤُوا ، وَلَمْ یُوجِبْ عَلَیْہِمْ أَنْ یَصُومُوا بَقِیَّتہ۔
(٩٥٦٩) حضرت ابن جریج فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عطاء سے کہا کہ اگر مکہ کے کچھ لوگ روزہ دار نہ ہونے کی حالت میں صبح کریں، یا ایک یا دو آدمی روزہ دار نہ ہونے کی حالت میں صبح کریں، پھر کچھ دیر بعد کوئی آدمی آئے اور کہے کہ گزشتہ رات چاند دیکھ لیا گیا تھا، یہ خبر ان کے پاس دن کے ابتدائی یا انتہائی حصہ میں آئی، تو کیا وہ باقی دن روزہ رکھیں یا بعد میں اس روزے کی قضا کریں۔ انھوں نے فرمایا کہ اگر وہ چاہیں تو کھاتے پیتے رہیں باقی دن میں روزہ رکھنا ان پر ضروری نہیں ہے۔

9570

(۹۵۷۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَطَائٍ ، قَالَ : إذَا أَمْنَی الصَّائِمُ فَقَدْ أَفْطَرَ۔
(٩٥٧٠) حضرت عطاء فرماتے ہیں کہ اگر روزہ دار کی منی نکل آئی تو اس کا روزہ ٹوٹ گیا۔

9571

(۹۵۷۱) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَطَائٍ ، قَالَ : إذَا أَمْنَی الصَّائِمُ أَفْطَرَ ، قُلْتُ : یُکَفِّرُ کَفَّارَۃَ الْمَنِیِّ ؟ قَالَ : نَعَمْ۔
(٩٥٧١) حضرت ابن جریج فرماتے ہیں کہ اگر روزہ دار کی منی نکل آئی تو اس کا روزہ ٹوٹ گیا۔ میں نے کہا کہ کیا وہ منی نکلنے کا کفارہ دے گا ؟ انھوں نے کہا ہاں۔

9572

(۹۵۷۲) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : إذَا قَبَّلَ ، أَوْ لَمَسَ وَہُوَ صَائِمٌ فَأَمْنَی ، فَہُوَ بِمَنْزِلَۃِ الْمُجَامِعِ۔
(٩٥٧٢) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ اگر کسی نے روزہ کی حالت میں بیوی کا بوسہ لیا یا اسے چھوا اور اس کی منی نکل آئی تو یہ جماع کے درجہ میں ہے۔

9573

(۹۵۷۳) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ حَبِیبٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ ہَرِمٍ ، قَالَ : سُئِلَ جَابِرُ بْنُ زَیْدٍ عَنْ رَجُلٍ نَظَرَ إلَی امْرَأَتِہِ فِی رَمَضَانَ ، فَأَمْنَی مِنْ شَہْوَتِہَا ، ہَلْ یُفْطِرُ ؟ قَالَ : لاَ ، وَیُتِمُّ صَوْمَہُ۔
(٩٥٧٣) حضرت جابر بن زید سے سوال کیا گیا کہ اگر کوئی آدمی رمضان میں اپنی بیوی کو دیکھے اور شہوت کی وجہ سے اس کی منی نکل آئے تو کیا اس کا روزہ ٹوٹ جائے گا ؟ انھوں نے فرمایا نہیں، وہ اپنے روزے کو پورا کرے۔

9574

(۹۵۷۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إسْرَائِیلَ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ عَامِرٍ ؛ فِی الصَّائِمِ یُلاَعِبُ امْرَأَتَہُ حَتَّی یُمْذِیَ ، أَوْ یُودِیَ ، قَالَ : لاَ یُوجِبُ عَلَیْہِ الْقَضَائَ إِلاَّ مَا أَوْجَبَ عَلَیْہِ الْغُسْلَ۔
(٩٥٧٤) حضرت عامر فرماتے ہیں کہ اگر کسی آدمی نے روزے کی حالت میں اپنی بیوی سے ملاعبت کی اور اس کی مذی یاودی نکلی تو اس پر قضاء اس وقت تک واجب نہ ہوگی جب تک وہ چیز نہ نکلے جو غسل کو واجب کرتی ہے یعنی منی۔

9575

(۹۵۷۵) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَطَائٍ ، قَالَ : إِنْ أَمْنَی الصَّائِمُ أَفْطَرَ۔
(٩٥٧٥) حضرت عطاء فرماتے ہیں کہ اگر روزہ دار کی منی نکل آئی تو اس کا روزہ ٹوٹ جائے گا۔

9576

(۹۵۷۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ ابْنِ أَبِی لَیْلَی ، عَنْ عَطَائٍ ، قَالَ مَرَّۃً : عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ (ح) وَعَنْ حُرَیْثٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ، قَالاَ : إِنْ کَانَ لِغَیْرِ الصَّلاَۃِ قَضَی ، وَإِنْ کَانَ لِلصَّلاَۃِ فَلاَ قَضَائَ عَلَیْہِ۔
(٩٥٧٦) حضرت ابن عباس اور حضرت شعبی فرماتے ہیں کہ اگر نماز کے علاوہ کسی اور مقصد کے لیے وضو کررہا تھا تو اس روزے کی قضا کرے گا۔ اگر نماز کے لیے وضو کررہا تھا تو اس پر قضا لازم نہیں۔

9577

(۹۵۷۷) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ؛ أَنَّہُ کَانَ یَقُولُ : إذَا مَضْمَضَ وَہُوَ صَائِمٌ ، فَدَخَلَ حَلْقَہُ شَیْئٌ لَمْ یَتَعَمَّدْہُ فَلَیْسَ عَلَیْہِ شَیْئٌ ، یُتِمُّ صَوْمَہُ۔
(٩٥٧٧) حضرت حسن فرمایا کرتے تھے کہ اگر کسی نے روزے کی حالت میں کلی کی اور اس کے حلق میں بلا قصد پانی چلا گیا تو اس پر کوئی چیز لازم نہیں۔ وہ روزہ پورا کرے گا۔

9578

(۹۵۷۸) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ عَبْدِ الخَالِق ، عَنْ حَمَّادٍ ؛ فِی الصَّائِمِ یُمَضْمِضَ ، فَدَخَلَ الْمَائُ حَلْقَہُ ، قَالَ : إِنْ کَانَ وُضُوء اً وَاجِبًا فَلَیْسَ عَلَیْہِ شَیْئٌ ، وَإِنْ کَانَ مَضْمَضَ عَنْ غَیْرِہِ فَإِنَّہُ یُعِیدُ۔
(٩٥٧٨) حضرت حماد فرماتے ہیں کہ اگر کلی کرتے ہوئے روزہ دار کے حلق میں پانی چلا گیا، تو اگر وضو واجب تھا تو اس پر کچھ لازم نہیں۔ اگر وہ کسی اور وجہ سے کلی کررہا تھا تو وہ روزے کا اعادہ کرے گا۔

9579

(۹۵۷۹) حَدَّثَنَا مَخْلَدٌ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، قَالَ إنْسَانٌ لِعَطَائٍ : اسْتَنْثرتُ فَدَخَلَ الْمَائُ حَلْقِی ، فَلاَ بَأْسَ ؟ قَالَ : لاَ بَأْسَ ، لَمْ تَمْلِکْ۔
(٩٥٧٩) حضرت ابن جریج فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے حضرت عطاء سے عرض کیا کہ میں ناک صاف کررہا تھا کہ پانی میرے حلق میں چلا گیا، اس میں کوئی حرج تو نہیں ؟ انھوں نے فرمایا نہیں اس میں کوئی حرج نہیں، تم اس کا اختیار نہیں رکھتے۔

9580

(۹۵۸۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ أَبِی حَنِیفَۃَ ، عَنْ حَمَّادٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ؛ فِی الصَّائِمِ یَتَوَضَّأُ فَیَدْخُلُ حَلْقَہُ مِنْ وَضُوئِہِ ، قَالَ : إِنْ کَانَ ذَاکِرًا لِصَوْمِہِ فَعَلَیْہِ الْقَضَائُ ، وَإِنْ کَانَ نَاسِیًا فَلاَ شَیْئَ عَلَیْہِ۔
(٩٥٨٠) حضرت ابراہیم اس روزہ دار کے بارے میں جس کے حلق میں وضو کا پانی چلا جائے فرماتے ہیں کہ اگر اسے روزہ یاد ہو تو وہ قضاء کرے گا اور اگر اسے روزہ یاد نہ ہو تو اس پر کچھ لازم نہیں۔

9581

(۹۵۸۱) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ حَبِیبٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ ہَرِمٍ ، قَالَ : سُئِلَ جَابِرُ بْنُ زَیْدٍ عَنْ رَجُلٍ کَانَ صَائِمًا فَتَوَضَّأَ ، فَسَبَقَہُ الْمَائُ إلَی حَلْقِہِ ، یُفْطِرُ ؟ قَالَ : لاَ ، وَلْیُتِمَّ صِیَامَہُ۔
(٩٥٨١) حضرت عمرو بن ہرم فرماتے ہیں کہ حضرت جابر بن زید سے سوال کیا گیا کہ اگر کوئی آدمی روزے سے ہو اور وضو کرتے ہوئے اس کے حلق میں پانی چلا جائے تو کیا اس کا روزہ ٹوٹ جائے گا ؟ انھوں نے فرمایا نہیں، وہ روزے کو پورا کرے۔

9582

(۹۵۸۲) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ مُجَالِدٍ ، عَنْ عَامِرٍ ، قَالَ : کَانَ عَلِیٌّ ، وَعُمَرُ یَنْہَیَانِ عَنْ صَوْمِ الیَوْمٍ الَّذِی یُشَکُّ فِیہِ مِنْ رَمَضَانَ۔
(٩٥٨٢) حضرت علی اور حضرت عمر اس دن روزہ رکھنے سے منع فرمایا کرتے تھے جس کے بارے میں شک ہو کہ وہ رمضان کا دن ہے یا نہیں۔

9583

(۹۵۸۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ أَبِی الضَّرِیسِ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَابِسٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللہِ : لأَنْ أُفْطِرَ یَوْمًا مِنْ رَمَضَانَ ، ثُمَّ أَقْضِیَہُ ، أَحَبُّ إلَیَّ مِنْ أَنْ أَزِیدَ فِیہِ مَا لَیْسَ مِنہ۔
(٩٥٨٣) حضرت عبداللہ فرماتے ہیں کہ میں رمضان کا کوئی روزہ چھوڑ کر اسے بعد میں قضا کروں یہ مجھے اس بات سے زیادہ پسند ہے کہ میں رمضان میں اس دن کا اضافہ کروں جو اس میں نہیں۔

9584

(۹۵۸۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِیزِ بْنِ حَکِیمٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ یَقُول : لَوْ صُمْت السَّنَۃَ کُلَّہَا لأَفْطَرْتُ الْیَوْمَ الَّذِی یُشَکُّ فِیہِ۔
(٩٥٨٤) حضرت ابن عمر فرمایا کرتے تھے کہ اگر میں پورا سال بھی روزہ رکھوں تو اس دن روزہ نہیں رکھوں گا جس کے بارے میں مجھے شک ہو کہ یہ رمضان کا روزہ ہے یا نہیں۔

9585

(۹۵۸۵) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، وَعَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَنِ الشَّیْبَانِیِّ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : قَالَ الضَّحَّاکُ بْنُ قَیْسٍ : لَوْ صُمْتُ السَّنَۃَ کُلَّہَا ، مَا صُمْتُ الْیَوْمَ الَّذِی یُشَکُّ فِیہِ مِنْ رَمَضَانَ۔
(٩٥٨٥) حضرت ضحاک بن قیس فرماتے ہیں کہ اگر میں پورا سال بھی روزہ رکھوں تو اس دن روزہ نہیں رکھوں گا جس کے بارے میں مجھے شک ہو کہ یہ رمضان کا روزہ ہے یا نہیں۔

9586

(۹۵۸۶) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ إدْرِیسَ ، عَنِ الشَّیْبَانِیِّ ، عَنْ مَوْلاَۃٍ لِسَلَمَۃَ بِنْتِ حُذَیْفَۃَ ، عَنْ بِنْتِ حُذَیْفَۃَ قَالَتْ : کَانَ حُذَیْفَۃُ یَنْہَی عَنْ صَوْمِ الیَوْمِ الَّذِی یُشَکُّ فِیہِ۔
(٩٥٨٦) حضرت بنت حذیفہ فرماتی ہیں کہ حضرت حذیفہ یوم شک کے روزے سے منع فرمایا کرتے تھے۔

9587

(۹۵۸۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ مَہْدِیِّ بْنِ مَیْمُونٍ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ ، قَالَ : أَصْبَحْنَا یَوْمًا بِالْبَصْرَۃِ ، وَلَسْنَا نَدْرِی عَلَی مَا نَحْنُ فِیہِ مِنْ صَوْمِنَا فِی الْیَوْمِ الَّذِی یُشَکُّ فِیہِ ، فَأَتَیْنَا أَنَسَ بْنَ مَالِکٍ ، فَإِذَا ہُوَ قَدْ أَخَذَ خزیرۃ کَانَ یَأْخُذُہَا قَبْلَ أَنْ یَغْدُوَ ، ثُمَّ غَدَوْا ، ثُمَّ أَتَیْتُ أَبَا السَّوَّارِ الْعَتَکِیَّ فَدَعَا بِغَدَائِہِ ، ثُمَّ تَغَدَّی ، ثُمَّ أَتَیْتُ مُسْلِمَ بْنَ یَسَارٍ فَوَجَدْتُہُ مُفْطِرًا۔
(٩٥٨٧) حضرت محمد بن سیرین فرماتے ہیں کہ ہم مدینہ میں تھے اور ہمیں ٣٠ شعبان کے دن اس یوم شک کا سامنا کرنا پڑا جس کے بارے میں یقینی طور پر نہیں کہا جاسکتا تھا کہ اس دن روزہ ہے یا نہیں ہے۔ چنانچہ ہم حضرت انس بن مالک کے پاس آئے، وہ خزیرہ نامی ایک کھانا جو دوپہر کے کھانے سے پہلے کھایا کرتے تھے وہ کھا رہے تھے۔ پھر وہاں موجود سب لوگوں نے کھانا کھایا۔ پھر میں ابو سوار عدوی کے پاس آیا انھوں نے بھی اپنا کھانا منگوا کرکھایا۔ پھر میں حضرت مسلم بن یسار کے پاس آیا تو میں نے دیکھا کہ ان کا بھی روزہ نہیں تھا۔

9588

(۹۵۸۸) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِِ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، وَالشَّعْبِیِّ ، أَنَّہُمَا قَالاَ : لاَ تَصُمْ إِلاَّ مَعَ جَمَاعَۃِ النَّاسِ۔
(٩٥٨٨) حضرت ابراہیم اور حضرت شعبی فرماتے ہیں کہ لوگوں کی جماعت کے ساتھ ہی روزہ رکھو۔

9589

(۹۵۸۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ بْنِ أَبِی خَالِدٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : مَا مِنْ یَوْمٍ أَصُومُہُ أَبْغَضُ إلَیَّ مِنْ یَوْمٍ یَخْتَلِفُ النَّاسُ فِیہِ۔
(٩٥٨٩) حضرت شعبی فرماتے ہیں کہ جتنا مجھے اس دن روزہ رکھنا ناپسند ہے جس دن کے بارے میں شک ہو اتنا مجھے کسی اور دن میں روزہ رکھنا ناپسند نہیں۔

9590

(۹۵۹۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ مِسْعَرٍ ، عَنِ امْرَأَۃٍ مِنْہُمْ ، یُقَالُ لَہَا : حَفْصَۃُ ، عَنْ بِنْتٍ أَوْ أُخْتٍ لِحُذَیْفَۃَ ، قَالَتْ : کَانَ حُذَیْفَۃُ یَنْہَی عَنْ صَوْمِ الیَوْمِ الَّذِی یُشَکُّ فِیہِ۔
(٩٥٩٠) حضرت حفصہ بنت حذیفہ یا حضرت حفصہ اخت حذیفہ فرماتی ہیں کہ حضرت حذیفہ یوم شک میں روزہ رکھنے سے منع فرماتے تھے۔

9591

(۹۵۹۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ أَبِی الْعَیْزَارِ ، قَالَ : أَتَیْتُ إبْرَاہِیمَ فِی الْیَوْمِ الَّذِی یُشَکُّ فِیہِ ، فَقَالَ : لَعَلَّک صَائِمٌ ، لاَ تَصُمْ إِلاَّ مَعَ الْجَمَاعَۃِ۔
(٩٥٩١) حضرت ابو عیزارکہتے ہیں کہ میں یوم شک کو حضرت ابراہیم کے پاس گیا انھوں نے فرمایا کہ شاید تمہارا روزہ ہے۔ جماعت کے ساتھ روزہ رکھاکرو۔

9592

(۹۵۹۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ قَیْسٍ ، قَالَ : قُلْتُ لِلْقَاسِمِ : أَتَکْرَہُ صَوْمَ آخِرِ یَوْمِ شَعْبَانَ الَّذِی یَلِی رَمَضَانَ؟ قَالَ : لاَ ، إِلاَّ أَنْ یُغمَّی الْہِلاَلُ۔
(٩٥٩٢) حضرت داؤد بن قیس کہتے ہیں کہ میں نے حضرت قاسم سے کہا کہ کیا آپ شعبان کے آخری دن جو رمضان کے ساتھ ملا ہو اس دن روزہ رکھنے کو ناپسند قرار دیتے ہیں ؟ انھوں نے فرمایا کہ نہیں، البتہ اگر چاند بادلوں میں چھپا ہو تو پھر ٹھیک نہیں۔

9593

(۹۵۹۳) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : کَانَ یَصُومُہُ فِیمَا بَیْنَہُ وَبَیْنَ نِصْفِ النَّہَارِ لِشَہَادَۃِ شَاہِدٍ، أَوْ مَجِیئِ غَائِبٍ ، فَإِنْ جَائَ ، وَإِلاَّ أَفْطَرَ۔
(٩٥٩٣) حضرت عمرو فرماتے ہیں کہ حضرت حسن کسی گواہ یا آنے والے کے انتظار میں ٣٠ شعبان کو نصفِ نہار تک روزہ رکھتے اگر کوئی نہ آتا تو روزہ توڑ دیتے۔

9594

(۹۵۹۴) حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ أَبِی الْمُعَلَّی ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ؛ أَنَّہُ کَانَ یَکْرَہُ أَنْ یَصُومَ الْیَوْمَ الَّذِی یُخْتَلَفُ فِیہِ مِنْ رَمَضَانَ۔
(٩٥٩٤) حضرت سعید بن جبیر یوم شک میں روزہ رکھنے کو مکروہ قرار دیتے تھے۔

9595

(۹۵۹۵) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِیزِ بْنُ عَبْدِ الصَّمَدِ الْعَمِّیُّ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ رِبْعِیٍّ ، أَنَّ عَمَّارَ بْنَ یَاسِرٍ وَنَاسًا مَعَہُ أَتَوْہُمْ بِمَسْلُوخَۃٍ مَشْوِیَّۃٍ فِی الْیَوْمِ الَّذِی یُشَکُّ فِیہِ أَنَّہُ مِنْ رَمَضَانَ ، أَوْ لَیْسَ مِنْ رَمَضَانَ ، فَاجْتَمَعُوا وَاعْتَزَلَہُمْ رَجُلٌ ، فَقَالَ لَہُ عَمَّارٌ : تَعَالَ فَکُلْ ، قَالَ : فَإِنِّی صَائِمٌ ، فَقَالَ لَہُ عَمَّارٌ : إِنْ کُنْت تُؤْمِنُ بِاللَّہِ وَالْیَوْمِ الآخِرِ فَتَعَالَ فَکُلْ۔
(٩٥٩٥) حضرت ربعی فرماتے ہیں کہ حضرت عمار بن یاسر اور ان کے ساتھ موجود لوگوں کے پاس یوم شک میں بھنا ہوا گوشت لایا گیا۔ سب لوگ اس کے گرد جمع ہوگئے لیکن ایک آدمی الگ ہو کر بیٹھ گیا۔ حضرت عمار نے اس سے کہا کہ آؤ اور کھاؤ۔ اس نے کہا کہ میرا روزہ ہے۔ حضرت عمار نے اس سے فرمایا کہ اگر تم اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہو تو آکر کھاؤ۔

9596

(۹۵۹۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ سِمَاکٍ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ ، قَالَ : مَنْ صَامَ الْیَوْمَ الَّذِی یُشَکُّ فِیہِ فَقَدْ عَصَی رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔ (ابوداؤد ۲۳۲۷۔ دارمی ۱۶۸۲)
(٩٥٩٦) حضرت عکرمہ فرماتے ہیں کہ جس نے یوم شک میں روزہ رکھا اس نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نافرمانی کی۔

9597

(۹۵۹۷) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ بَیَان ، عَنْ عَامِرٍ ، قَالَ : مَا مِنْ یَوْمٍ أَبْغَضُ إلَیَّ أَنْ أَصُومَہُ مِنَ الْیَوْمِ الَّذِی یُشَکُّ فِیہِ مِنْ رَمَضَانَ۔
(٩٥٩٧) حضرت عامر فرماتے ہیں کہ مجھے یوم شک سے زیادہ کسی دن روزہ رکھنا ناپسندیدہ نہیں۔

9598

(۹۵۹۸) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ مُطَرِّفٍ ، عَنْ عَامِرٍ ؛ فِی الْیَوْمِ الَّذِی یَقُولُ النَّاسُ إِنَّہُ مِنْ رَمَضَانَ ، قَالَ : فَقَالَ : لاَ تَصُومَنَّ إِلاَّ مَعَ الإِمَامِ ، فَإِنَّمَا کَانَتْ أَوَّلُ الْفُرْقَۃِ فِی مِثْلِ ہَذَا۔
(٩٥٩٨) حضرت عامر سے یوم شک میں روزہ رکھنے کے بارے میں سوال کیا گیا تو انھوں نے فرمایا کہ صرف اس دن روزہ رکھو جس دن کے بارے میں سب لوگ کہیں کہ یہ رمضان کا دن ہے۔ کیونکہ اختلافات کی بنیاد ایسے مسائل سے پڑتی ہے۔

9599

(۹۵۹۹) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنِ الْعَلاَئِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ؛ أَنَّہُ قَالَ : مَا مِنْ یَوْمٍ أَبْغَضُ إلَیَّ أَنْ أَصُومَہُ ، مِنَ الْیَوْمِ الَّذِی یُشَکُّ فِیہِ مِنْ رَمَضَانَ۔
(٩٥٩٩) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ مجھے یوم شک سے زیادہ کسی دن روزہ رکھنا ناپسندیدہ نہیں۔

9600

(۹۶۰۰) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ أَبِی عُثْمَانَ ، قَالَ : قَالَ عُمَرُ : لِیَتَّقِ أَحَدُکُمْ أَنْ یَصُومَ یَوْمًا مِنْ شَعْبَانَ ، أَوْ یُفْطِرَ یَوْمًا مِنْ رَمَضَانَ ، فإِنْ تَقَدَّمَ قَبْلَ النَّاسِ ، فَلْیُفْطِرْ إذَا أَفْطَرَ النَّاسُ۔
(٩٦٠٠) حضرت عمر فرماتے ہیں کہ اس بات سے اجتناب کرو کہ تم شعبان کے کسی دن رمضان سمجھ کر روزہ رکھو اور رمضان کے کسی دن کا روزہ چھوڑ دو ۔ اگر لوگوں سے پہلے روزے شروع بھی کردیئے تو عید لوگوں کے ساتھ ہی مناؤ۔

9601

(۹۶۰۱) حَدَّثَنَا یَزِیدُ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ أَبِی عُثْمَانَ ؛ أَنَّہُ کَانَ یَصُومُ یَوْمَ الَّذِی یُشَکُّ فِیہِ مِنْ رَمَضَانَ۔
(٩٦٠١) حضرت ابو عثمان یوم شک کو روزہ رکھا کرتے تھے۔

9602

(۹۶۰۲) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِِ، عَنْ أَبِی یَعْفُورٍ، عَنْ أَبِی الصَّلْتِ، عَنْ أَبِی عَقْرَبٍ الأَسَدِیِّ، قَالَ: أَتَیْنَا ابْنَ مَسْعُودٍ فِی دَارِہِ فَوَجَدْنَاہُ فَوْقَ الْبَیْتِ ، فَسَمِعَنَاہُ یَقُولُ قَبْلَ أَنْ یَنْزِلَ : صَدَقَ اللَّہُ وَرَسُولُہُ ، فَلَمَّا نَزَلَ قُلْنَا : یَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، سَمِعْنَاک تَقُولُ: صَدَقَ اللَّہُ وَرَسُولُہُ ، فَقَالَ: لَیْلَۃُ الْقَدْرِ فِی السَّبْعِ مِنَ النِّصْفِ الآخِرِ، وَذَلِکَ أَنَّ الشَّمْسَ تَطْلُعُ یَوْمَئِذٍ بَیْضَائَ لاَ شُعَاعَ لَہَا ، فَنَظَرْتُ إلَی الشَّمْسِ فَوَجَدْتُہَا کَمَا حُدِّثْتُ ، فَکَبَّرْت۔
(٩٦٠٢) حضرت ابو عقرب اسدی کہتے ہیں کہ ہم حضرت ابن مسعود کی خدمت میں حاضر ہوئے، ہم نے انھیں کمرے کی چھت پر موجود پایا، ہم نے سنا کہ وہ نیچے اترنے سے پہلے کہہ رہے تھے کہ اللہ اور اس کے رسول نے سچ فرمایا۔ ہم نے ان سے کہا کہ ہم نے آپ کو سنا کہ آپ نے نیچے اترنے سے پہلے کہا اللہ اور اس کے رسول نے سچ فرمایا۔ حضرت عبداللہ بن مسعود نے فرمایا کہ شبِ قدر رمضان کے دوسرے نصف کے سات دنوں میں ہے، اس کی علامت یہ ہے کہ اس رات میں سورج جب طلوع ہوتا ہے تو سفید ہوتا ہے اور کرنوں کے بغیر ہوتا ہے۔ جب میں نے سورج کو دیکھا تو اسے اسی حالت میں پایا جس حالت میں مجھے بتایا گیا تھا، چنانچہ میں نے خوشی سے اللہ کی کبریائی بیان کی۔

9603

(۹۶۰۳) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ کُلَیْبٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، عَنْ عُمَرَ ، قَالَ : لَقَدْ عَلِمْتُمْ أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ فِی لَیْلَۃِ الْقَدْرِ : اُطْلُبُوہَا فِی الْعَشْرِ الأَوَاخِرِ۔
(٩٦٠٣) حضرت عمر فرماتے ہیں کہ کیا تم جانتے ہو کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ شبِ قدر کو رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔

9604

(۹۶۰۴) حَدَّثَنَا الثَّقَفِیُّ ، عَنْ حُمَیْدٍ ، عَنْ أَنَسٍ ، عَنْ عُبَادَۃَ بْنِ الصَّامِتِ ، قَالَ : خَرَجَ عَلَیْنَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَہُوَ یُرِیدُ أَنْ یُخْبِرَنَا بِلَیْلَۃِ الْقَدْرِ ، فَتَلاَحَی رَجُلاَنِ ، فَقَالَ : إنِّی خَرَجْت وَأَنَا أُرِیدُ أَنْ أُخْبِرَکُمْ بِلَیْلَۃِ الْقَدْرِ فَتَلاَحَی فُلاَنٌ وَفُلاَنٌ ، لَعَلَّ ذَلِکَ أَنْ یَکُونَ خَیْرًا ، الْتَمِسُوہَا فِی التَّاسِعَۃِ ، وَالسَّابِعَۃِ ، وَالْخَامِسَۃِ۔
(٩٦٠٤) حضرت عبادہ بن صامت فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگوں کو شبِ قدر کے بارے میں بتانے کے لیے باہر تشریف لائے تو دو آدمی لڑ رہے تھے۔ آپ نے فرمایا کہ میں تمہیں شبِ قدر کی اطلاع دینے کے لیے آیا تھا، لیکن فلاں اور فلاں دونوں لڑ رہے تھے، شاید اسی میں خیر ہوگی، تم اسے نویں، ساتویں اور پانچویں رات میں تلاش کرو۔

9605

(۹۶۰۵) حَدَّثَنَا شَبَابَۃُ بْنُ سَوَّارٍ ، عَنْ لَیْثِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ یَزِیدَ بْنِ أَبِی حَبِیبٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ خُبِیبٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ أَنُیسٍ صَاحِبِ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، أَنَّہُ سُئِلَ عَنْ لَیْلَۃِ الْقَدْرِ ؟ فَقَالَ: إنِّی سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : الْتَمِسُوہَا اللَّیْلَۃَ ، وَتِلْکَ اللَّیْلَۃُ لَیْلَۃُ ثَلاَثٍ وَعِشْرِینَ۔
(٩٦٠٥) حضرت عبداللہ بن انیس فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی پاک (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے شبِ قدر کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ اسے آج کی رات میں تلاش کرو۔ وہ تیئسویں رات تھی۔

9606

(۹۶۰۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنِ الأَوْزَاعِیِّ ، عَنْ مَرْثَدِ بْنِ أَبِی مَرْثَدٍ ، عَنْ أَبِیہِ ؛ قَالَ : کُنْتُ مَعَ أَبِی ذَرٍّ عِنْدَ الْجَمْرَۃِ الْوُسْطَی ، فَسَأَلْتُہُ عَنْ لَیْلَۃِ الْقَدْرِ ؟ فَقَالَ : کَانَ أَسْأَلَ النَّاسِ عَنْہَا رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَا ، قُلْتُ : یَا رَسُولَ اللہِ ، أَخْبِرْنَا بِہَا ، فَقَالَ : لَوْ أُذِنَ لِی فِیہَا لأَخْبَرْتُکُمْ ، وَلَکِنِ الْتَمِسُوہَا فِی إحْدَی السَّبْعَیْنَ، ثُمَّ لاَ تَسْأَلْنِی عَنْہَا بَعْدَ مُقَامِکَ ، أَوْ مُقَامِی ہَذَا۔
(٩٦٠٦) حضرت ابو مرثد فرماتے ہیں کہ میں جمرہ وسطیٰ کے پاس حضرت ابو ذر غفاری کے پاس تھا۔ میں نے ان سے شبِ قدر کے بارے میں سوال کیا تو انھوں نے فرمایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے شب قدر کے بارے میں سب سے زیادہ سوال میں کیا کرتا تھا۔ ایک دن میں نے عرض کیا کہ یارسول اللہ ! شبِ قدر انبیاء کے زمانوں میں ہوتی ہے، جب انبیاء دنیا سے تشریف لے جاتے تو یہ رات بھی اٹھا لی جاتی تھی، کیا ایسا ہوتا ہے ؟ آپ نے فرمایا نہیں، بلکہ شبِ قدر قیامت تک باقی رہے گی۔ میں نے عرض کیا یارسول اللہ ! پھر مجھے اس کے بارے میں بتا دیجئے۔ آپ نے فرمایا کہ اگر مجھے اس کے بتانے کی اجازت ہوتی تو میں تمہیں ضرور بتا دیتا۔ البتہ میں اتنا کہوں گا کہ تم اسے رمضان کی آخری سات راتوں میں سے ایک میں تلاش کرو۔ اب تم مجھ سے اس بارے میں سوال مت کرنا۔

9607

(۹۶۰۷) حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ قَنَّان بْنِ عَبْدِ اللہِ النَّہْمِیِّ ، قَالَ : سَأَلَتْ زِرَّ بْنَ حُبَیْشٍ عَنْ لَیْلَۃِ الْقَدْرِ ؟ فَقَالَ : کَانَ عُمَرُ ، وَحُذَیْفَۃُ ، وَنَاسٌ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لاَ یَشُکُّونَ فِیہَا أَنَّہَا لَیْلَۃُ سَبْعٍ وَعِشْرِینَ ، قَالَ زِرٌّ : فَوَاصِلْہَا۔
(٩٦٠٧) حضرت قنان بن عبداللہ نہمی کہتے ہیں کہ میں نے حضرت زر سے شبِ قدر کے بارے میں سوال کیا۔ انھوں نے فرمایا کہ حضرت عمر، حضرت حذیفہ اور بہت سے صحابہ کرام کو اس بارے میں کوئی شک نہیں تھا کہ شبِ قدر رمضان کی ستائیسویں رات ہے۔ جب رمضان کے تین دن باقی رہ جائںّ ۔

9608

(۹۶۰۸) حَدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنِ الأَسْوَد بْنِ قَیْسٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ عُمَرَ ، قَالَ : لاَ بَأْسَ بِقَضَائِ رَمَضَانَ فِی الْعَشْرِ۔
(٩٦٠٨) حضرت عمر فرماتے ہیں کہ عشرہ ذو الحجہ میں رمضان کی قضا کرنے میں کوئی حرج نہیں۔

9609

(۹۶۰۹) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِِ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنِ الْحَارِثِ ، عَنْ عَلِیٍّ ، قَالَ : مَنْ کَانَ عَلَیْہِ صَوْمٌ مِنْ رَمَضَانَ فَلاَ یَقْضِیہ فِی ذِی الْحِجَّۃِ ، فَإِنَّہُ شَہْرُ نُسُکٍ۔
(٩٦٠٩) حضرت علی فرماتے ہیں کہ جس پر رمضان کی قضا واجب ہو وہ عشرہ ذوالحجہ میں اسے ادانہ کرے کیونکہ یہ نسک کا مہینہ ہے۔

9610

(۹۶۱۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ مَوْہَبٍ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : اِبْدَأ بِالْفَرِیضَۃِ لاَ بَأْسَ أَنْ تَصُومَہَا فِی الْعَشْرِ۔
(٩٦١٠) حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ فرض کو مقدم رکھو اور عشرہ ذو الحجہ میں اس کی قضاء کرنے میں کوئی حرج نہیں۔

9611

(۹۶۱۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ حَمَّادٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ (ح) وَعَنْ حَمَّادٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالاَ : یَبْدَأُ بِالْفَرِیضَۃِ ، لاَ بَأْسَ أَنْ یَصُومَہَا فِی الْعَشْرِ۔
(٩٦١١) حضرت سعید بن جبیر اور حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ فرض کو مقدم رکھا جائے گا اور عشرہ ذوالحجہ میں رمضان کے روزوں کی قضا کرنے میں کوئی حرج نہیں۔

9612

(۹۶۱۲) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنِ ابْنِ الْمُسَیَّبِ ؛ أَنَّہُ کَانَ لاَ یَرَی بَأْسًا أَنْ یَقْضِی رَمَضَانَ فِی الْعَشْرِ۔
(٩٦١٢) حضرت سعید بن مسیب رمضان کے روزوں کی قضا عشرہ ذوالحجہ میں کرنے میں کوئی حرج نہ سمجھتے تھے۔

9613

(۹۶۱۳) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنِ ابْنِ أَبِی عَرُوبَۃَ ، عَنْ أَبِی مَعْشَرٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : لاَ بَأْسَ بِقَضَائِ رَمَضَانَ فِی الْعَشْرِ۔
(٩٦١٣) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ رمضان کے روزں کی قضا عشرہ ذوالحجہ میں کرنے میں کوئی حرج نہیں۔

9614

(۹۶۱۴) حَدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ عَطَائٍ ، وَطَاوُسٍ ، وَمُجَاہِدٍ قَالُوا : اقْضِ رَمَضَانَ مَتَی شِئْتَ ، وَقَالَ سَعِیدُ بْنُ جُبَیْرٍ : لاَ بَأْسَ بِہِ۔
(٩٦١٤) حضرت عطائ، حضرت طاوس اور حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ رمضان کی قضا جب چاہو کرلو۔ حضرت سعید بن جبیر فرماتے ہیں کہ اس میں کوئی حرج نہیں۔

9615

(۹۶۱۵) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ؛ أَنَّہُ کَرِہَہُ۔
(٩٦١٥) حضرت حسن نے اسے مکروہ قرار دیا ہے۔

9616

(۹۶۱۶) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِِ ، عَنْ سِمَاکٍ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : أُتیتُ فِی رَمَضَانَ وَأَنَا نَائِمٌ فَقِیلَ: إنَّ اللَّیْلَۃَ لَیْلَۃُ الْقَدْرِ، قَالَ: فَقُمْتُ وَأَنَا نَاعِسٌ فَتَعَلَّقْت بِبَعْضِ أَطْنَابِ فُسْطَاطِ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَأَتَیْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَہُوَ یُصَلِّی، فَنَظَرْت فِی اللَّیْلَۃِ فَإِذَا ہِیَ لَیْلَۃُ ثَلاَثٍ وَعِشْرِینَ، قَالَ: وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: الشَّیْطَانُ یَطْلُعُ مَعَ الشَّمْسِ کُلَّ یَوْمٍ إِلاَّ لَیْلَۃَ الْقَدْرِ، قَالَ: وَذَلِکَ أَنَّہَا تَطْلُعُ یَوْمَئِذٍ لاَ شُعَاعَ لَہَا۔
(٩٦١٦) حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں رمضان میں سویا ہوا تھا کہ ایک آدمی میرے پاس آیا اور اس نے کہا کہ آج شبِ قدر ہے۔ میں نیند کی حالت میں بیدار ہوا اور نبی پاک (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خیمہ کی ایکرسی کو پکڑ کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نماز پڑھ رہے تھے۔ میں نے رات کا اندازہ لگایا تو وہ رمضان کی تیئسویں رات تھی۔ حضرت عبداللہ بن عباس فرماتے ہیں کہ شیطان شبِ قدر کے علاوہ ہر رات سورج کے ساتھ برآمد ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے شب قدر کے دن سورج سفید حالت میں بغیر کرنوں کے طلوع ہوتا ہے۔

9617

(۹۶۱۷) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَنِ الشَّیْبَانِیِّ ، عَنْ جَبَلَۃَ ، وَمُحَارِبٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : تَحَیَّنُوا لَیْلَۃَ الْقَدْرِ فِی الْعَشْرِ الأَوَاخِرِ ، أَوْ قَالَ : فِی السَّبْعِ الأَوَاخِرِ۔
(٩٦١٧) حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ شبِ قدر کو رمضان کی آخری دس راتوں میں تلاش کرو۔

9618

(۹۶۱۸) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا ہِشَامُ بْنُ عُرْوَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : تَحَرَّوْا لَیْلَۃَ الْقَدْرِ فِی الْعَشْرِ الأَوَاخِرِ۔ (مسلم ۲۱۹۔ احمد ۶/۲۰۴)
(٩٦١٨) حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ شبِ قدر کو رمضان کی آخری دس راتوں میں تلاش کرو۔

9619

(۹۶۱۹) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، وَابْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ ، عَنْ یَزِیدَ بْنِ أَبِی حَبِیبٍ ، عَنْ مَرْثَدِ بْنِ عَبْدِ اللہِ الْیَزَنِیِّ ، عَنِ الصُّنَابِحِیِّ ، قَالَ : سَأَلْتُ بِلاَلاً عَنْ لَیْلَۃِ الْقَدْرِ ؟ فَقَالَ : لَیْلَۃُ ثَلاَثٍ وَعِشْرِینَ۔
(٩٦١٩) حضرت صنابحی کہتے ہیں کہ میں نے حضرت بلال سے شبِ قدر کے بارے میں سوال کیا تو انھوں نے فرمایا کہ یہ تیئس رمضان کی رات ہے۔

9620

(۹۶۲۰) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ خَالِہِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إنِّی أُرِیتُ لَیْلَۃ الْقَدْرِ فَأُنْسِیتہَا ، فَاطْلُبُوہَا فِی الْعَشْرِ الأَوَاخِرِ ، وِتْرًا۔
(٩٦٢٠) حضرت فلتان بن عاصم سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ میں نے شبِ قدر دیکھی تھی پھر مجھے بھلادی گئی۔ تم اسے آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔

9621

(۹۶۲۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : فِی رَمَضَانَ۔
(٩٦٢١) حضرت ابن عمر فرماتے ہیں کہ شبِ قدر رمضان میں ہے۔

9622

(۹۶۲۲) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، عَنِ الأَسْوَد ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : تَحَرَّوْا لَیْلَۃَ الْقَدْرِ لِسَبْعٍ تَبْقَی ، تَحَرَّوْہَا لِتِسْعٍ تَبْقَی ، تَحَرَّوہا لإِحْدَی عَشْرَۃَ تَبْقَی ، صَبِیحَۃَ بَدْرٍ ، فَإِنَّ الشَّمْسَ تَطْلُعُ کُلَّ یَوْمٍ بَیْنَ قَرْنَیْ شَیْطَانٍ إِلاَّ صَبِیحَۃَ بَدْرٍ۔
(٩٦٢٢) حضرت عبداللہ فرماتے ہیں کہ شبِ قدر کو رمضان کی تیئسویں، اکیسویں اور انیسویں راتوں میں تلاش کرو۔ اور شبِ قدر کو چودھویں رات کی صبح میں تلاش کرو۔ کیونکہ سورج ہر روز شیطان کے دو سینگوں کے درمیان سے طلوع ہوتا ہے، سوائے چودھویں کی صبح کے، کیونکہ اس میں سورج صاف ہوتا ہے اور اس میں کرنیں نہیں ہوتیں۔

9623

(۹۶۲۳) حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ ابْنِ أَبِی خَالِدٍ ، عَنْ زِرٍّ ، قَالَ : سَمِعْتُ أُبَیَّ بْنَ کَعْبٍ یَقُولُ : لَیْلَۃُ الْقَدْرِ لَیْلَۃُ سَبْعٍ وَعِشْرِینَ۔
(٩٦٢٣) حضرت ابی بن کعب فرماتے ہیں کہ شبِ قدر رمضان کی ستائیسویں رات ہے۔

9624

(۹۶۲۴) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنِ الْمَسْعُودِیِّ ، عَنْ حَوْطٍ الْخُزَاعِیِّ ، قَالَ : سَأَلْتُ زَیْدَ بْنَ أَرْقَمَ عْن لَیْلَۃِ الْقَدْرِ ؟ قَالَ : فَمَا تماری وَلاَ شَکَّ ، قَالَ : لَیْلَۃُ تِسْعَ عَشْرَۃَ ، لَیْلَۃُ الْفُرْقَانِ لَیْلَۃُ الْتَقَی الْجَمْعَانِ۔
(٩٦٢٤) حضرت حوط خزاعی فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت زید بن ارقم سے شبِ قدر کے بارے میں سوال کیا تو انھوں نے فرمایا کہ بغیر کسی شک کے شبِ قدر انیسویں رات ہے، جو کہ فرقان کی رات ہے۔ یہ وہ رات ہے جس میں دو لشکر باہم ملے۔

9625

(۹۶۲۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ عُیَیْنَۃَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ أَبِی بَکْرَۃَ ، قَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : الْتَمِسُوا لَیْلَۃَ الْقَدْرِ فِی الْعَشْرِ مِنْ رَمَضَانَ ؛ لِتِسْعٍ تَبْقَیْنَ ، أَوْ لِسَبْعٍ تَبْقَیْنَ ، أَوْ لِخَمْسٍ ، أَوْ لِثَلاَثٍ ، أَوْ لآخِرِ لَیْلَۃٍ۔
(٩٦٢٥) حضرت ابو بکرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ شبِ قدر کو رمضان کی آخری دس راتوں میں تلاش کرو۔ اکیسویں، تیئسویں، پچیسویں، ستائیسویں یا آخری رات میں تلاش کرو۔

9626

(۹۶۲۶) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنِ الأَجْلَحِ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنْ زِرِّ بْنِ حُبَیْشٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ أُبَیًّا یَقُولُ : لَیْلَۃُ الْقَدْرِ ہِیَ لَیْلَۃُ سَبْعٍ وَعِشْرینَ ، ہِیَ اللَّیْلَۃُ الَّتِی أَخْبَرَنَا بِہَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّ الشَّمْسَ تَطْلُعُ بَیْضَائَ ، تَرَقْرَقُ۔
(٩٦٢٦) حضرت ابی بن کعب فرمایا کرتے تھے کہ شبِ قدر ستائیسویں رات ہے، یہ وہی رات ہے جس کے بارے میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تھا کہ اس رات سورج سفید اور روشن طلوع ہوتا ہے۔

9627

(۹۶۲۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ رَبِیعَۃَ بْنِ کُلْثُومٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ الْحَسَنَ یَقُولُ : لَیْلَۃُ الْقَدْرِ فِی کُلِّ رَمَضَانَ۔
(٩٦٢٧) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ شبِ قدر ہر رمضان میں ہوتی ہے۔

9628

(۹۶۲۸) حَدَّثَنَا الثَّقَفِیُّ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنْ أَبِی قِلاَبَۃَ ، قَالَ : لَیْلَۃُ الْقَدْرِ تَحَوَّلُ فِی لَیَالِیِ الْعَشْرِ کُلِّہَا۔
(٩٦٢٨) حضرت ابو قلابہ فرماتے ہیں کہ شبِ قدر آخری عشرے کی سب راتوں میں گھومتی ہے۔

9629

(۹۶۲۹) حَدَّثَنَا ابْنُ مَہْدِیٍّ ، ووَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ شَرِیکٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ زِرًّا یَقُولُ : لَیْلَۃُ الْقَدْرِ لَیْلَۃُ سَبْعٍ وَعِشْرِینَ ، فَإِذَا کَانَ تِلْکَ اللَّیْلَۃَ فَلْیَغْتَسِلْ أَحَدُکُمْ ، وَلْیُفْطِرْ عَلَی لَبَنٍ ، وَلْیُؤَخِّرْ فِطْرَہُ إلَی السَّحَرِ۔
(٩٦٢٩) حضرت زر بن حبیش فرماتے ہیں کہ جب رمضان کی ستائیسویں رات ہو تو غسل کرو۔ اس رات میں اگر تم میں سے کوئی اپنی افطاری کو سحر تک مؤخر کرسکے تو کرلے، نیز اسے چاہیے کہ اس دن لسی سے افطار کرے۔

9630

(۹۶۳۰) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا شُعْبَۃُ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ مُطَرِّفٍ ، عَنْ مُعَاوِیَۃَ ، قَالَ : لَیْلَۃُ الْقَدْرِ لَیْلَۃُ ثَلاَثٍ وَعِشْرِینَ۔
(٩٦٣٠) حضرت معاویہ فرماتے ہیں کہ شبِ قدر تیئسویں رات ہے۔

9631

(۹۶۳۱) حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ حَمَّادِ بْنِ طَلْحَۃَ ، عَنْ أَسْبَاطِ بْنِ نَصْرٍ ، عَنْ سِمَاکٍ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : الْتَمِسُوا لَیْلَۃَ الْقَدْرِ فِی الْعَشْرِ الأَوَاخِرِ۔
(٩٦٣١) حضرت جابر بن سمرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ شبِ قدر کو رمضان کے آخری عشرے میں تلاش کرو۔

9632

(۹۶۳۲) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنِ الدَّسْتَوَائِیِّ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ أَبِی کَثِیرٍ ، عَنْ أَبِی سَلَمَۃَ ، عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ ، قَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : إنِّی أُرِیتُ لَیْلَۃَ الْقَدْرِ فَأُنْسِیتہَا ، أَوْ نُسِّیتُہَا ، فَالْتَمِسُوہَا فِی الْعَشْرِ الأَوَاخِرِ ، فِی الْوِتْرِ۔ (بخاری ۸۱۳۔ ابوداؤد ۱۳۷۷)
(٩٦٣٢) حضرت ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ مجھے شبِ قدر دکھائی گئی تھی، پھر بھلا دی گئی۔ تم اسے آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔

9633

(۹۶۳۳) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَنْ زَائِدَۃَ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، عَنِ الأَسْوَد ؛ أَنَّ عَائِشَۃَ کَانَتْ تُوقِظُ أَہْلَہَا لَیْلَۃَ ثَلاَثٍ وَعِشْرِینَ۔
(٩٦٣٣) حضرت عائشہ رمضان کی تیئسویں رات کو اپنے گھر والوں کو جگایا کرتی تھیں۔

9634

(۹۶۳۴) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ بْنِ أَبِی یَزِیدَ ، قَالَ : رَأَیْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ یَرُشُّ عَلَی أَہْلِہِ مَائً لَیْلَۃَ ثَلاَثٍ وَعِشْرِینَ۔
(٩٦٣٤) حضرت عبید اللہ بن ابی یزید فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عباس رمضان کی تیئسویں رات کو اپنے گھر والوں پر پانی چھڑکتے تھے۔

9635

(۹۶۳۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ دِینَارٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : تَحَرَّوْا لَیْلَۃَ الْقَدْرِ فِی الْعَشْرِ الأَوَاخِرِ مِنْ رَمَضَانَ۔
(٩٦٣٥) حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ شبِ قدر کو رمضان کے آخری عشرے میں تلاش کرو۔

9636

(۹۶۳۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لَیْلَۃُ الْقَدْرِ لَیْلَۃٌ بَلْجَۃٌ سَمْحَۃٌ ، تَطْلُعُ شَمْسُہَا لَیْسَ لَہَا شُعَاعٌ۔
(٩٦٣٦) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ شبِ قدر ایک روشن اور چمکدار رات ہے، اس میں سورج بغیر شعاع کے طلوع ہوتا ہے۔

9637

(۹۶۳۷) حَدَّثَنَا أَبُوبَکْرِ بْنُ عَیَّاشٍ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ، عَنْ ہُبَیْرَۃَ، عَنْ عَلِیٍّ، قَالَ: کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إذَا دَخَلَتِ الْعَشْرُ الأَوَاخِرُ أَیْقَظَ أَہْلَہُ وَرَفَعَ الْمِئْزَرَ ، قِیلَ لأَبِی بَکْرٍ : مَا رَفْعُ الْمِئْزَرِ؟ قَالَ: اعْتِزَالُ النِّسَائِ۔
(٩٦٣٧) حضرت علی فرماتے ہیں کہ جب رمضان کا آخری عشرہ آتا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے گھر والوں کو جگاتے اور ازار کو بلند رکھتے۔ حضرت ابوبکر بن عیاش سے سوال کیا گیا کہ ازار کو بلند رکھنے کا کیا مطلب ہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ خواتین سے کنارہ کشی اختیار کرتے۔

9638

(۹۶۳۸) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ یَزِیدَ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : کَانَ یُوقِظُ أَہْلَہُ فِی الْعَشْرِ الأَوَاخِرِ۔
(٩٦٣٨) حضرت ابن عمر رمضان کے آخری عشرے میں اپنے گھر والوں کو جگایا کرتے تھے۔

9639

(۹۶۳۹) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عُبَیْدِ اللہِ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَابِطٍ ، قَالَ : کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُوقِظُ أَہْلَہُ فِی الْعَشْرِ الأَوَاخِرِ مِنْ رَمَضَانَ ، وَیُشَمِّرُ فِیہِنَّ۔
(٩٦٣٩) حضرت عبدالرحمن بن سابط فرماتے ہیں کہ نبی پاک (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رمضان کے آخری عشرے میں اپنی خواتین کو جگاتے تھے اور انھیں عبادت کی ترغیب دوسرے لوگوں سے زیادہ دیا کرتے تھے۔

9640

(۹۶۴۰) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ عُیَیْنَۃَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : کَانَ أَبُو بَکْرۃَ یُصَلِّی فِی رَمَضَانَ کَصَلاَتِہِ فِی سَائِرِ السَّنَۃِ ، فَإِذَا دَخَلَتِ الْعَشْرُ اجْتَہَدَ۔
(٩٦٤٠) حضرت عبدالرحمن فرماتے ہیں کہ حضرت ابو بکرہ رمضان میں اسی طرح معمول کی عبادت کرتے تھے جیسے باقی دنوں میں، البتہ جب آخری عشرہ شروع ہوتا تو بہت کوشش فرمایا کرتے تھے۔

9641

(۹۶۴۱) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِیَادٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عُبَیْدِ اللہِ ، قَالَ : حدَّثَنَا إبْرَاہِیمُ ، عَنِ الأَسْوَد ، عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ : کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَجْتَہِدُ فِی الْعَشْرِ اجْتِہَادًا ، لاَ یَجْتَہِدُہ فِی غَیْرِہِ۔
(٩٦٤١) حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ نبی پاک (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رمضان کے آخری عشرے میں عبادت کی جتنی کوشش فرماتے تھے اتنی اور کسی وقت میں نہ فرماتے۔

9642

(۹۶۴۲) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِِ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ شَدَّادٍ ، وَأَبِی مَیْسَرَۃَ ، قَالاََ : جَائَ رَجُلٌ إلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : یَا رَسُولَ اللہِ ، رَجُلٌ صَامَ الأَبَدَ ؟ قَالَ : لاَ صَامَ ، وَلاَ أَفْطَرَ۔
(٩٦٤٢) حضرت عبداللہ بن شداد اور حضرت ابومیسرہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ ایک شخص نے نبی پاک (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا کہ ایک آدمی نے صوم دہر رکھا اس کا کیا حکم ہے ؟ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ وہ نہ روزہ رکھنے والوں میں سے ہے اور نہ روزہ نہ رکھنے والوں میں سے۔

9643

(۹۶۴۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ مِسْعَرٍ ، وَسُفْیَانَ ، عَنْ حَبِیبِ بْنِ أَبِی ثَابِتٍ ، عَنْ أَبِی الْعَبَّاسِ الْمَکِّیِّ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ : قَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لاَ صَامَ مَنْ صَامَ الأَبَدَ۔ (بخاری ۱۹۷۹۔ مسلم ۱۸۷)
(٩٦٤٣) حضرت عبداللہ بن عمرو سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ جس شخص نے ابد کا روزہ رکھا اس کا روزہ نہ ہوا۔

9644

(۹۶۴۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ مَہْدِیِّ بْنِ مَیْمُونٍ ، عَنْ غَیْلاَنَ بْنِ جَرِیرٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مَعْبَدٍ الزِّمَّانِیْ ، عَنْ أَبِی قَتَادَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَجُلٌ : یَا رَسُولَ اللہِ ، أَرَأَیْت رَجُلاً یَصُومُ الدَّہْرَ کُلَّہُ ؟ قَالَ : لاَ صَامَ وَلاَ أَفْطَرَ ، أَوْ مَا صَامَ وَلاَ أَفْطَرَ۔ (مسلم ۸۱۸۔ ابوداؤد ۲۴۱۸)
(٩٦٤٤) حضرت ابو قتادہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ ایک شخص نے نبی پاک (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا کہ ایک آدمی نے صوم دہر رکھا اس کا کیا حکم ہے ؟ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ وہ نہ روزہ رکھنے والوں میں سے ہے اور نہ روزہ نہ رکھنے والوں میں سے۔

9645

(۹۶۴۵) حَدَّثَنَا عُبَیْدُ بْنُ سَعِیدٍ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ مُطَرِّفِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ الشِّخِّیرِ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَنْ صَامَ الأَبَدَ فَلاَ صَامَ ، وَلاَ أَفْطَرَ۔ (ابن ماجہ ۱۷۰۵۔ طیالسی ۱۱۴۷)
(٩٦٤٥) حضرت عبداللہ بن شخیر سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ابد کا روزہ رکھنے والا نہ روزہ رکھنے والوں میں سے ہے اور نہ روزہ نہ رکھنے والوں میں سے۔

9646

(۹۶۴۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ أَبِی تَمِیمَۃَ الْہُجَیْمِیِّ ، عَنْ أَبِی مُوسَی ، قَالَ : مَنْ صَامَ الدَّہْرَ ضُیِّقَتْ عَلَیْہِ جَہَنَّمُ ہَکَذَا ، وَطَبَّقَ بِکَفِّہِ۔
(٩٦٤٦) حضرت ابو موسیٰ فرماتے ہیں کہ جس شخص نے صوم دہر رکھا اس پر جہنم کو یوں بند کیا جائے گا۔ اور انھوں نے اپنی ہتھیلی کو بند کیا۔

9647

(۹۶۴۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ الضَّحَّاکِ بْنِ یَسَارٍ ، سَمِعَہُ مِنْ أَبِی تَمِیمَۃَ ، عَنْ أَبِی مُوسَی ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، بِمِثْلِہِ۔ (احمد ۴/۴۱۴۔ ابن حبان ۳۵۸۴)
(٩٦٤٧) حضرت ابوموسیٰ نے یہ قول نبی پاک (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حوالے سے بھی نقل کیا ہے۔

9648

(۹۶۴۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِی عَمَّارٍ الْہَمْدَانِیِّ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُرَحْبِیلَ ، قَالَ : قَالَ رَجُلٌ : یَا رَسُولَ اللہِ ، أَرَأَیْتَ رَجُلاً یَصُومُ الدَّہْرَ کُلَّہُ ؟ قَالَ : وَدِدْتُ أَنَّہُ لاَ یَطْعَمُ الدَّہْرَ کُلَّہُ ، قَالَ : ثُلُثَیْہِ ؟ قَالَ : أَکْثَرُ ، قَالَ : نِصْفَہُ ؟ قَالَ : أَکْثَرُ ، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : أَلاَ أُنَبِّئُکُمْ مَا یُذْہِبُ وَحْر الصَّدْرِ : صِیَامُ ثَلاَثَۃِ أَیَّامٍ مِنْ کُلِّ شَہْرٍ۔
(٩٦٤٨) حضرت عمرو بن شرحبیل کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے عرض کیا یا رسول اللہ ! کیا کوئی آدمی صوم دہر رکھ سکتا ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ میرے خیال میں وہ پورے دہرکا روزہ نہ رکھے۔ سوال کرنے والے نے کہا کہ اس کے دو تہائی کا رکھ سکتا ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ یہ بھی زیادہ ہے۔ اس نے کہا کہ نصفِ دہر کا روزہ رکھ سکتا ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ یہ بھی زیادہ ہے۔ پھر آپ نے فرمایا کہ میں تمہیں ایک ایسی مقدار بتاتا ہوں جس سے اس کے دل کے وساوس اور کھوٹ دور ہوجائیں گے، وہ ہر مہینے میں تین روزے رکھے۔

9649

(۹۶۴۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ أَبِی خَالِدٍ ، عَنْ أَبِی عَمْرٍو الشَّیْبَانِیِّ ، قَالَ : بَلَغَ عُمَرَ أَنَّ رَجُلاً یَصُومُ الدَّہْرَ ، فَعَلاَہُ بِالدِّرَّۃِ وَجَعَلَ یَقُولُ : کُلْ یَا دَہْرُ ، کُلْ یَا دَہْرُ۔
(٩٦٤٩) حضرت ابو عمرو شیبانی فرماتے ہیں کہ حضرت عمر کو اطلاع ملی کہ ایک آدمی صوم دہر رکھتا ہے۔ آپ نے اسے کوڑا مارا اور فرمایا کہ اے دہر ! کھاؤ، اے دہر ! کھاؤ۔

9650

(۹۶۵۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَمْرٍو ، قَالَ : ذُکِرَ لِلشَّعْبِیِّ أَنَّ عُبَیْدًا الْمُکْتِبَ یَصُومُ الدَّہْرَ کُلَّہُ ، فَکَرِہَ ذَلِکَ۔
(٩٦٥٠) حضرت حسن بن عمرو کہتے ہیں کہ حضرت شعبی کو بتایا گیا کہ عبید المکتب صوم دہر رکھتے ہیں۔ حضرت شعبی نے اس کو ناپسند قرار دیا۔

9651

(۹۶۵۱) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ یَمَانٍ ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ یَزِیدَ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ؛ أَنَّہُ سُئِلَ عَنْ صَوْمِ الدَّہْرِ ؟ فَکَرِہَہُ۔
(٩٦٥١) حضرت سعید بن جبیر سے صوم دہر کے بارے میں سوال کیا گیا تو انھوں نے اسے مکروہ قرار دیا۔

9652

(۹۶۵۲) حَدَّثَنَا مَعْنُ بْنُ عِیسَی، عَنْ خَالِدِ بْنِ أَبِی بَکْرٍ، قَالَ: لَمْ یَکُنْ سَالِمٌ، وَالْقَاسِمُ، وَعُبَیْدُاللہِ یَصُومُونَ الدَّہْرَ۔
(٩٦٥٢) حضرت خالد بن ابی بکر فرماتے ہیں کہ حضرت سالم، حضرت قاسم اور حضرت عبید اللہ دہر کا روزہ رکھا کرتے تھے۔

9653

(۹۶۵۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ أَبِی جَعْفَرٍ الْفَرَّائِ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ شَدَّادٍ ، قَالَ : قَالَ نَبِیُّ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لاَ صَامَ مَنْ صَامَ الدَّہْرَ۔
(٩٦٥٣) حضرت عبداللہ بن شداد فرماتے ہیں کہ نبی پاک (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جس نے صوم دہر رکھا اس کا روزہ نہیں ہوا۔

9654

(۹۶۵۴) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنِ الْحَکَمِ ؛ أَنَّ الأَسْوَد کَانَ یَصُومُ الدَّہْرَ۔
(٩٦٥٤) حضرت اسود صوم دہر رکھا کرتے تھے۔

9655

(۹۶۵۵) حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ خَالِدٍ ، عَنْ عَبْدِ الْوَاحِدِ ، قَالَ : کَانَ عُرْوَۃُ یَصُومُ الدَّہْرَ فِی السَّفَرِ وَغَیْرِہِ۔
(٩٦٥٥) حضرت عروہ سفر اور حضر میں صوم دہر رکھا کرتے تھے۔

9656

(۹۶۵۶) حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ خَالِدٍ ، عَنِ الزُّبَیْرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ رُہَیْمَۃَ ، عَنْ جَدَّتِہِ ، قَالَتْ : کَانَ عُثْمَانَ یَصُومُ الدَّہْرَ، وَیَقُومُ اللَّیْلَ إِلاَّ ہَجْعَۃً مِنْ أَوَّلِہِ۔
(٩٦٥٦) حضرت عثمان صوم دہر رکھتے تھے اور رات کو قیام کرتے تھے البتہ رات کے ابتدائی حصہ میں تھوڑا سا سوتے تھے۔

9657

(۹۶۵۷) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ ، وَأَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ؛ أَنَّ عُمَرَ سَرَدَ الصَّوْمَ قَبْلَ مَوْتِہِ بِسَنَتَیْنِ۔
(٩٦٥٧) حضرت ابن عمر فرماتے ہیں کہ حضرت عمر اپنی وفات سے دو سال پہلے مسلسل روزہ رکھا کرتے تھے۔

9658

(۹۶۵۸) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ سَعِیدٍ ، قَالَ : ذَکَرُوا بِالْمَدِینَۃِ رُؤْیَۃَ الْہِلاَلِ وَقَالُوا : إنَّ أَہْلَ إِسْتَارَۃَ قَدْ رَأَوْہُ ، فَقَالَ الْقَاسِمُ ، وَسَالِمٌ : مَا لَنَا وَلأَہْلِ إِسْتَارَۃَ۔
(٩٦٥٨) حضرت عبداللہ بن سعید فرماتے ہیں کہ مدینہ میں چاند دیکھنے کا تذکرہ ہوا۔ لوگوں نے کہا کہ استارہ والوں نے چاند دیکھا ہے۔ حضرت قاسم اور حضرت سالم نے فرمایا کہ ہمارا استارہ والوں کے چاند دیکھنے سے کیا واسطہ ؟

9659

(۹۶۵۹) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ مُطَرِّفٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ : کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَبِیتُ جُنُبًا ، فَیَأْتِیہِ بِلاَلٌ فَیُؤْذِنُہُ بِالصَّلاَۃِ ، فَیَقُومُ فَیَغْتَسِلُ ، فَأَنْظُرُ إلَی تَحَدُّرِ الْمَائِ مِنْ رَأْسِہِ ، ثُمَّ یَخْرُجُ فَأَسْمَعُ صَوْتَہُ فِی صَلاَۃِ الْفَجْرِ ، ثُمَّ یَظَلُّ صَائِمًا ، قَالَ مُطَرِّفٌ : فَقُلْتُ لِعَامِرٍ : فِی رَمَضَانَ ؟ قَالَ : نَعَمْ ، سَوَائٌ رَمَضَانُ وَغَیْرُہُ۔ (احمد ۶/۲۵۴۔ ابن حبان ۳۴۹۰)
(٩٦٥٩) حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ نبی پاک (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جنابت کی حالت میں رات گذارتے، پھر حضرت بلال آتے اور نماز کی اطلاع دیتے تو آپ اٹھ کر غسل فرماتے۔ میں آپ کے سر مبارک سے ٹپکتا پانی دیکھتی تھی۔ پھر آپ تشریف لے جاتے اور میں فجر کی نماز میں آپ کی آواز سنتی تھی۔ پھر آپ روزہ رکھتے۔ حضرت مطرف فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عامر سے کہا کہ یہ رمضان میں ہوتا تھا ؟ انھوں نے فرمایا کہ ہاں، رمضان اور غیر رمضان میں ایسا ہوتا تھا۔

9660

(۹۶۶۰) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ عُمَارَۃَ ، عَنْ أَبِی بَکْرِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ ہِشَامٍ ، عَنْ عَائِشَۃَ ، قَالَتْ : کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُصْبِحُ جُنُبًا ، ثُمَّ یَغْتَسِلُ ، ثُمَّ یُتِمُّ صَوْمَہُ۔ (بخاری ۱۹۲۵۔ ترمذی ۷۷۹)
(٩٦٦٠) حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حالت جنابت میں صبح فرماتے، پھر غسل کرتے، پھر روزے کو پورا فرماتے تھے۔

9661

(۹۶۶۱) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَنِ الشَّیْبَانِیِّ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنْ أَبِی بَکْرِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ عَائِشَۃَ ، قَالَتْ: کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُصْبِحُ جُنُبًا ، ثُمَّ یَغْتَسِلُ فَیَخْرُجُ مِنْ مُغْتَسَلِہِ ، فَیُصَلِّی بِالنَّاسِ ، وَیَصُومُ ذَلِکَ الْیَوْمَ۔ (نسائی ۲۹۸۱۔ احمد ۶/۲۰۳)
(٩٦٦١) حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حالت جنابت میں صبح فرماتے، پھر غسل کرتے، غسل فرما کر آپ باہر نکلتے اور لوگوں کو نماز پڑھاتے۔ پھر آپ اس دن روزہ رکھا کرتے تھے۔

9662

(۹۶۶۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ أُسَامَۃَ بْنِ زَیْدٍ ، عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ یَسَارٍ ، عَنْ أُمِّ سَلَمَۃَ قَالَتْ : کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُصْبِحُ جُنُبًا مِنْ غَیْرِ احْتِلاَمٍ ، ثُمَّ یَغْتَسِلُ وَیَمْضِی عَلَی صَوْمِہِ۔ (مسلم ۸۰۔ احمد ۶/۳۰۶)
(٩٦٦٢) حضرت ام سلمہ فرماتی ہیں کہ نبی پاک (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بغیر احتلام کے حالت جنابت میں صبح فرماتے تھے، پھر غسل کرتے اور روزہ رکھتے تھے۔

9663

(۹۶۶۳) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ، عَنْ عِرَاکِ بْنِ مَالِکٍ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ أَبِی بَکْرٍ ؛ أَنَّ أُمَّ سَلَمَۃَ زَوْجَ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَتْ تَقُولُ : إِنْ کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَیُصْبِحُ جُنُبًا مِنْ غَیْرِ احْتِلاَمٍ ، ثُمَّ یُصْبِحُ صَائِمًا۔ (احمد ۶/۳۱۳۔ ابن حبان ۳۴۸۶)
(٩٦٦٣) ام المؤمنین حضرت ام سلمہ فرماتی ہیں کہ نبی پاک (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بغیر احتلام کے حالت جنابت میں صبح فرماتے تھے اور روزہ رکھتے تھے۔

9664

(۹۶۶۴) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ جَامِعِ بْنِ شَدَّادٍ ، عَنِ الأَسْوَد بْنِ ہِلاَلٍ ، قَالَ : جَائَ عبْدُ اللہِ بْنُ مِرْدَاسٍ إلَی عَبْدِ اللہِ بْنِ مَسْعُودٍ ، فَقَالَ : إنِّی أَصْبَحْتُ وَأَنَا جُنُبٌ ، فَأُتِمُّ صَوْمِی ؟ قَالَ عَبْدُ اللہِ : أَصْبَحْتَ فَحَلَّ لَکَ الصَّلاَۃُ ، وَحَلَّ لَکَ الصِّیَامُ ، اغْتَسِلْ وَأَتِمَّ صَوْمَک۔
(٩٦٦٤) حضرت اسود بن ہلال فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مرداس حضرت عبداللہ بن مسعود کے پاس آئے اور عرض کیا کہ میں نے حالت جنابت میں صبح کی ہے۔ کیا میں روزے کو پورا کروں ؟ حضرت عبداللہ نے فرمایا کہ تم نے صبح کی، تمہارے لیے نماز بھی حلال اور روزہ بھی حلال ہے، تم غسل کرو اور روزے کو پورا کرو۔

9665

(۹۶۶۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ عُمَارَۃَ بْنِ عُمَیْرٍ ، عَنْ أَبِی عَطِیَّۃَ الْوَادِعِیِّ ، قَالَ : تَدَارَأ رَجُلاَنِ فِی الْمَسْجِدِ فِی رَجُلٍ یُصْبِحُ وَہُوَ جُنُبٌ ، فَانْطَلَقَا إلَی عَبْدِ اللہِ ، فَانْطَلَقْت مَعَہُمَا ، فَسَأَلَہُ أَحَدُہُمَا فَقَالَ : أَیَصُومُ ؟ قَالَ : نَعَمْ ، قَالَ : فَإِنْ کَانَ مِنَ النِّسَائِ ؟ قَالَ : وَإِنْ کَانَ مِنَ النِّسَائِ ، قَالَ : وَإِنْ نَامَ مُتَعَمِّدًا ؟ قَالَ : وَإِنْ نَامَ مُتَعَمِّدًا۔
(٩٦٦٥) حضرت ابو عطیہ وادعی کہتے ہیں کہ مسجد میں دو آدمیوں کا اس شخص کے بارے میں اختلاف ہوا جو حالت جنابت میں صبح کرے۔ وہ دونوں حضرت عبداللہ کے پاس گئے، میں بھی ان کے ساتھ گیا۔ ان میں سے ایک نے سوال کیا کہ کیا وہ روزہ رکھے گا ؟ حضرت عبداللہ نے فرمایا کہ ہاں۔ اس نے سوال کیا کہ اگر کسی عورت کے ساتھ یہ صورت پیش آئے ؟ انھوں نے فرمایا کہ خواہ کسی عورت کے ساتھ یہ صورت پیش آئے۔ اس نے کہا کہ وہ جان بوجھ کر ایساکرے ؟ انھوں نے فرمایا ہاں، خواہ وہ جان بوجھ کر ایسا کرے۔

9666

(۹۶۶۶) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ عُمَارَۃَ ، عَنْ أَبِی عَطِیَّۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ؛ بِنَحْوٍ مِنْہُ۔
(٩٦٦٦) ایک اور سند سے یونہی منقول ہے۔

9667

(۹۶۶۷) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِِ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنِ الْحَارِثِ ، عَنْ عَلِیٍّ ، قَالَ : إذَا أَصْبَحَ الرَّجُلُ وَہُوَ جُنُبٌ فَأَرَادَ أَنْ یَصُومَ ، فَلْیَصُمْ إِنْ شَائَ۔
(٩٦٦٧) حضرت علی فرماتے ہیں کہ اگر کسی شخص نے حالت جنابت میں صبح کی اور وہ روزہ رکھنا چاہے تو رکھ سکتا ہے۔

9668

(۹۶۶۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَۃَ ، عَنْ عَمَّارٍ مَوْلَی بَنِی ہَاشِمٍ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، وَزَیْدِ بْنِ ثَابِتٍ ، وَابْنِ عَبَّاسٍ ؛ فِی الرَّجُلِ یُصْبِحُ وَہُوَ جُنُبٌ ، قَالُوا : یَمْضِی عَلَی صَوْمِہِ۔
(٩٦٦٨) حضرت ابوہریرہ ، حضرت زید بن ثابت اور حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ اگر کسی آدمی نے حالت جنابت میں صبح کی تو وہ روزہ رکھ سکتا ہے۔

9669

(۹۶۶۹) حَدَّثَنَا أَسْبَاطُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، عَنِ التَّیْمِیِّ ، عَنْ أَبِی مِجْلَزٍ ، عَنْ عَطَائِ بْنِ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : قَالَ أَبُو ذَرٍّ : لَوْ أَصْبَحْت جُنُبًا مِنِ امْرَأَتِی لَصُمْتُ۔
(٩٦٦٩) حضرت ابو ذر فرماتے ہیں کہ اگر میں اپنی بیوی سے جماع کرنے کی وجہ سے جنبی ہوجاؤں اور اسی حال میں صبح کروں تو میں روزہ رکھوں گا۔

9670

(۹۶۷۰) حَدَّثَنَا شَبَابَۃُ بْنُ سَوَّارٍ ، عَنْ لَیْثِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنِ ابْنِ شِہَابٍ ، عَنْ أَبِی بَکْرِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ ہِشَامٍ ، قَالَ : أَخْبَرَتْنِی عَائِشَۃُ ، وَأُمُّ سَلَمَۃَ ؛ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یُدْرِکُہُ الْفَجْرُ وَہُوَ جُنُبٌ مِنْ أَہْلِہِ ، ثُمَّ یَغْتَسِلُ وَیَصُومُ۔ (بخاری ۱۹۳۱۔ ترمذی ۷۷۹)
(٩٦٧٠) حضرت عائشہ اور حضرت ام سلمہ فرماتی ہیں کہ نبی پاک (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی ازواج سے ازدواجی ملاقات کی وجہ سے حالت جنابت میں صبح کرتے تو غسل کرکے روزہ رکھ لیتے۔

9671

(۹۶۷۱) حَدَّثَنَا شَبَابَۃُ ، قَالَ : حدَّثَنَا ہِشَام بْنُ الْغَازِ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : لَوْ نَادَی الْمُنَادِی وَأَنَا بَیْنَ رِجْلَیْہَا لَقُمْتُ فَأَتْمَمْتُ الصِّیَامَ ، صِیَامَ رَمَضَانَ کَانَ ، أَوْ غَیْرَہُ۔
(٩٦٧١) حضرت ابن عمر فرماتے ہیں کہ اگر کوئی اعلان کرنے والا صبح کا اعلان کردے اور میں اپنی بیوی کے ساتھ ازدواجی ملاقات میں مشغول ہوں تو میں اٹھ جاؤں گا اور روزے کو پورا کروں گا خواہ یہ رمضان کا روزہ ہو یا کوئی دوسرا۔

9672

(۹۶۷۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ (ح) وَعَنْ رَبِیعٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : یُجْزِیہِ فِی التَّطَوُّعِ ، وَیَقْضِیہِ فِی الْفَرِیضَۃِ۔
(٩٦٧٢) حضرت منصور اور حضرت حسن فرماتے ہیں کہ حالت جنابت میں روزہ رکھنا نفل میں تو جائز ہے البتہ فرض میں اس روزے کی قضا کرے گا۔

9673

(۹۶۷۳) حَدَّثَنَا عَائِذُ بْنُ حَبِیبٍ ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ ، قَالَ : عَلَیْہِ الْقَضَائُ۔
(٩٦٧٣) حضرت ہشام بن عروہ فرماتے ہیں کہ اس پر قضاء لازم ہے۔

9674

(۹۶۷۴) حَدَّثَنَا یَزِیدُ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنِ ابْنِ الْمُسَیَّبِ ؛ أَنَّ أَبَا ہُرَیْرَۃَ رَجَعَ عَنْ فُتْیَاہُ ؛ مَنْ أَصْبَحَ جُنُبًا فَلاَ صَوْمَ لَہُ۔
(٩٦٧٤) حضرت سعید بن مسیب فرماتے ہیں کہ حضرت ابوہریرہ نے اپنے اس فتوے سے رجوع کرلیا تھا کہ جس شخص نے حالت جنابت میں صبح کی اس کا روزہ نہیں ہوا۔

9675

(۹۶۷۵) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ أَبِی بُکَیْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا إبْرَاہِیمُ بْنُ نَافِعٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ ابْنَ طَاوُوس یَذْکُرُ ، عَنْ طَاوُوسٍ ، قَالَ : إِنْ أَصَابَتْہُ جَنَابَۃٌ فِی شَہْرِ رَمَضَانَ ، فَإِن اسْتَیْقَظَ وَلَمْ یَغْتَسِلْ حَتَّی یُصْبِحَ ، فَإِنَّہُ یُتِمُّ ذَلِکَ الْیَوْمَ وَیَصُومُ یَوْمًا مَکَانَہُ ، فَإِنْ لَمْ یَسْتَیْقِظْ فَلَیْسَ عَلَیْہِ بَدَلٌ۔
(٩٦٧٥) حضرت طاوس فرماتے ہیں کہ اگر کوئی ماہِ رمضان میں جنابت کا شکار ہوا، اب اگر وہ بیدار ہوا اور اس نے صبح تک غسل نہ کیا تو وہ اس دن بھی روزے کو پورا کرے اور اس دن کے بدلے روزہ رکھے۔ اگر وہ صبح ہونے کے بعد بیدار ہوا تو اس پر بدل لازم نہیں۔

9676

(۹۶۷۶) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ ہِشَامٍ ، وَأَشْعَثَ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ ، قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللہِ : لَوْ أَذَّنَ الْمُؤَذِّنُ وَأَنَا بَیْنَ رِجْلَیِ امْرَأَتِی ، لاَغْتَسَلْتُ ثُمَّ صُمْتُ۔
(٩٦٧٦) حضرت عبداللہ فرماتے ہیں کہ مؤذن اذان دے اور میں اپنی بیوی کے ساتھ جماع میں مشغول ہوں تو میں غسل کرکے روزہ رکھ لوں گا۔

9677

(۹۶۷۷) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنْ نَافِعٍ ، قَالَ : قَالَ عُمَرُ : لَوْ أَدْرَکَنِی النِّدَائُ وَأَنَا بَیْنَ رِجْلَیْہَا لَصُمْتُ ، أَوَ قَالَ : مَا أَفْطَرْت۔
(٩٦٧٧) حضرت عمر فرماتے ہیں کہ مؤذن اذان دے اور میں اپنی بیوی کے ساتھ جماع میں مشغول ہوں تو میں غسل کرکے روزہ رکھ لوں گا۔

9678

(۹۶۷۸) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ الثَّقَفِیُّ ، عَنْ حُمَیْدٍ ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ : وَاصَلَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَوَاصَلْنَا، فَبَلَغَ ذَلِکَ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : لَوْ أَنَّ الشَّہْرَ مُدَّ لِی لَوَاصَلْتُ وِصَالاً یَدَعُ الْمُتَعَمِّقُونَ تَعَمُّقَہُمْ ، إنِّی لَسْتُ مِثْلَکُمْ ، إنِّی أَظَلُّ یُطْعِمُنِی رَبِّی وَیَسْقِینِی۔ (بخاری ۱۹۶۱۔ ترمذی ۷۷۸)
(٩٦٧٨) حضرت انس فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی پاک (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صوم وصال رکھنا شروع کیا۔ اس پر ہم نے بھی صوم وصال رکھنا شروع کردیا۔ جب اس بات کی نبی پاک (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اطلاع ہوئی تو آپ نے فرمایا کہ اگر میں ایک ماہ تک صوم وصال رکھنا چاہوں تو رکھ سکتا ہوں پھر شدت اختیار کرنے والے اپنی شدت کو چھوڑ دیں گے۔ میں تمہاری طرح نہیں ہوں، میرا رب مجھے کھلاتا ہے اور پلاتا ہے۔

9679

(۹۶۷۹) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِی صَالِحٍ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : وَاصَلَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَبَلَغَ ذَلِکَ النَّاسَ فَوَاصَلُوا ، فَبَلَغَ ذَلِکَ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَنَہَاہُمْ ، فَقَالَ : إنِّی لَسْتُ مِثْلَکُمْ ، إنِّی أَظَلُّ عِنْدَ رَبِّی فَیُطْعِمُنِی وَیَسْقِینِی۔ (بخاری ۱۹۶۵۔ مسلم ۷۷۵)
(٩٦٧٩) حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ نبی پاک (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صوم وصال رکھا، یہ بات لوگوں کو معلوم ہوئی تو لوگوں نے بھی صوم وصال رکھنا شروع کردیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اطلاع ہوئی تو آپ نے لوگوں کو ایسا کرنے سے منع کیا اور فرمایا کہ میں تمہاری طرح نہیں ہوں، میرا رب مجھے کھلاتا ہے اور پلاتا ہے۔

9680

(۹۶۸۰) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ بْنُ عُمَرَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ؛ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَاصَلَ فِی رَمَضَانَ ، فَوَاصَلَ النَّاسُ فَنَہَاہُمْ ، فَقِیلَ لَہُ : إنَّک تُوَاصِلُ ؟ فَقَالَ : إنِّی لَسْتُ مِثْلَکُمْ ، إنِّی أُطْعَمُ وَأُسْقَی۔ (مسلم ۵۶۔ احمد ۲/۱۴۳)
(٩٦٨٠) حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے رمضان میں صوم وصال رکھا تو لوگوں نے بھی صوم وصال رکھناشروع کردیا۔ آپ نے لوگوں کو منع فرمایا تو کسی نے کہا کہ آپ بھی تو صومِ وصال رکھتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا کہ میں تمہاری طرح نہیں ہوں، میرا رب مجھے کھلاتا ہے اور پلاتا ہے۔

9681

(۹۶۸۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَۃَ ، عَنْ بِشْرِ بْنِ حَرْبٍ ، عَنْ أَبِی سَعِیدٍ ، قَالَ : سَمِعْتُہُ یَقُولُ : نَہَی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنِ الْوِصَالِ ، وَہَذِہِ أُخْتِی تُوَاصِلُ ، وَأَنَا أَنْہَاہَا۔ (بخاری ۱۹۶۳۔ ابوداؤد ۲۳۵۳)
(٩٦٨١) حضرت ابو سعید فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صوم وصال سے منع فرمایا ہے۔ یہ میری بہن صوم وصال رکھتی ہے اور میں اسے منع کرتا ہوں۔

9682

(۹۶۸۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إسْرَائِیلَ ، عَنْ عَبْدِ الأَعْلَی ، عَنْ أَبِی عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ عَلِیٍّ ؛ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَاصَلَ إلَی السَّحَرِ۔ (طبرانی ۱۸۵۔ احمد ۱/۹۱)
(٩٦٨٢) حضرت علی فرماتے ہیں کہ نبی پاک (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سحری تک وصال کا روزہ رکھا۔

9683

(۹۶۸۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَابِسٍ ، عَنِ ابْنِ أَبِی لَیْلَی ، عَنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالُوا : إنَّمَا نَہَی النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنِ الْوِصَالِ فِی الصِّیَامِ ، وَالْحِجَامَۃِ لِلصَّائِمِ ، إبْقَائً عَلَی أَصْحَابِہِ۔
(٩٦٨٣) حضرت ابن ابی لیلیٰ کچھ صحابہ کرام سے نقل کرتے ہیں کہ نبی پاک (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صوم وصال سے منع فرمایا اور روزے کی حالت میں پچھنے لگوانے سے بھی منع فرمایا۔ آپ نے یہ ممانعت اپنے صحابہ پر شفقت کرتے ہوئے فرمائی۔

9684

(۹۶۸۴) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّائِ ، عَنْ أَبِی قِلاَبَۃَ ؛ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَہَاہُمْ عَنِ الْوِصَالِ، فَقَالُوا : یَا رَسُولَ اللہِ ، إنَّک تُوَاصِلُ ؟ فَقَالَ : إنِّی لَسْتُ مِثْلَکُمْ ، إنِّی أَبِیت یُطْعِمُنِی رَبِّی وَیَسْقِینِی ، فَإِنْ أَبَیْتُمْ فَمِنَ السَّحَرِ إلَی السَّحَرِ۔
(٩٦٨٤) حضرت ابو قلابہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صوم وصال سے منع فرمایا۔ صحابہ کرام نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول ! آپ بھی تو صوم وصال رکھتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا کہ میں تمہاری طرح نہیں ہوں، میں رات گذارتا ہوں تو میرا رب مجھے کھلاتا ہے اور پلاتا ہے۔ اگر تم نے صوم وصال رکھنا ہی ہے تو سحری سے سحری تک رکھو۔

9685

(۹۶۸۵) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ ؛ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَہَی عَنِ الْوِصَالِ فِی الصِّیَامِ ، فَقَالُوا : إنَّک تُوَاصِلُ ؟ فَقَالَ : إنِّی لَسْتُ مِثْلَکُمْ ، إنِّی أَبِیت یُطْعِمُنِی رَبِّی وَیَسْقِینِی ، أَوْ نَحْوَ ہَذَا۔
(٩٦٨٥) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ نبی پاک (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صوم وصال سے منع فرمایا تو لوگوں نے کہا کہ آپ بھی تو صوم وصال رکھتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا کہ میں تمہاری طرح نہیں ہوں، میرا رب مجھے کھلاتا ہے اور پلاتا ہے۔

9686

(۹۶۸۶) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ ، عَنِ ابْنِ عَجْلاَنَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ قَیْسٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : لاَ أُوَاصِلُ أَبَدًا۔
(٩٦٨٦) حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ میں کبھی صوم وصال نہیں رکھوں گا۔

9687

(۹۶۸۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ أَبِی جَنَابٍ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ بْنِ رَجَائٍ ، عَنِ النَّزَّالِ بْنِ سَبْرَۃَ ، عَنْ عَلِیٍّ ، قَالَ : لاَ وِصَالَ فِی صِیَامٍ۔
(٩٦٨٧) حضرت علی فرماتے ہیں کہ روزے میں وصال نہیں ہے۔

9688

(۹۶۸۸) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ عُمَارَۃَ بْنِ الْقَعْقَاعِ ، عَنْ أَبِی زُرْعَۃَ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : سَمِعْتُہُ یَقُولُ : قَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إیَّاکُمْ وَالْوِصَالَ ثَلاَثَ مَرَّاتٍ ، فَقَالُوا : إنَّک تُوَاصِلُ یَا رَسُولَ اللہِ ، قَالَ : لَسْتُمْ فِی ذَالِکُمْ مِثْلِی ، إنِّی أَبِیت یُطْعِمُنِی رَبِّی وَیَسْقِینِی ، فَاکْلفُوا مِنَ الأَعْمَالِ مَا تُطِیقُونَ۔ (بخاری ۱۹۶۶۔ احمد ۲/۲۳۱)
(٩٦٨٨) حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تین مرتبہ ارشاد فرمایا کہ صوم وصال سے بچو۔ لوگوں نے کہا کہ آپ بھی تو وصال کا روزہ رکھتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا کہ میں تمہاری طرح نہیں ہوں، میں اس طرح رات گذارتا ہوں کہ میرا رب مجھے کھلاتا ہے اور پلاتا ہے۔ تم ان اعمال کا خود کو مکلف بناؤ جن کی طاقت رکھتے ہو۔

9689

(۹۶۸۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا مِسْعَرٌ ، عَنْ قُدَامَۃَ ، قَالَ : قَالَتْ عَائِشَۃُ : (ثُمَّ أَتِمُّوا الصِّیَامَ إلَی اللَّیْلِ) مَعْنَاہَا عَلَی أَنَّہَا کَرِہَتِ الْوِصَالَ۔
(٩٦٨٩) حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ قرآن مجید کی آیت { ثُمَّ أَتِمُّوا الصِّیَامَ إلَی اللَّیْلِ } کا معنی ہے کہ صوم وصال مکروہ ہے۔

9690

(۹۶۹۰) حَدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ بْنُ إِبْرَاہِیمَ ، عَن دَاوُدَ ، عَنْ أَبِی الْعَالِیَۃِ ؛ أَنَّہُ قَالَ فِی الْوِصَالِ فِی الصِّیَامِ : قَالَ اللَّہُ تَبَارَکَ وَتَعَالَی : (ثُمَّ أَتِمُّوا الصِّیَامَ إلَی اللَّیْلِ) ، فَإِذَا جَائَ اللَّیْلُ فَہُوَ مُفْطِرٌ ، ثُمَّ إِنْ شَائَ صَامَ ، وَإِنْ شَائَ تَرَکَ۔
(٩٦٩٠) حضرت ابو العالیہ صوم وصال کے بارے میں فرماتے ہیں کہ اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا { ثُمَّ أَتِمُّوا الصِّیَامَ إلَی اللَّیْلِ } پس اس آیت کی روشنی میں جب رات آئے تو اس کا روزہ پورا ہوگیا اب اگر وہ چاہے تو روزہ رکھ لے اور اگر چاہے تو نہ رکھے۔

9691

(۹۶۹۱) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، عَنْ بُکَیرِ بْنِ عَامِرٍ ، قَالَ : کَانَ ابْنُ أَبِی نُعْمٍ یُوَاصِلُ خَمْسَۃَ عَشَرَ یَوْمًا حَتَّی نَعُودَہُ۔
(٩٦٩١) حضرت عامر فرماتے ہیں کہ حضرت ابن ابی نعم نے پندرہ دن تک وصال کا روزہ رکھا۔ پھر ہم نے انھیں اس سے روک دیا۔

9692

(۹۶۹۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ الأَسْوَد بْنِ شَیْبَانَ ، عَنْ أَبِی نَوْفَلِ بْنِ أَبِی عَقْرَبٍ ، قَالَ : دَخَلْتُ عَلَی ابْنِ الزُّبَیْرِ صَبِیحَۃَ خَمْسَۃَ عَشَرَ مِنَ الشَّہْرِ ، وَہُوَ مُوَاصِلٌ۔
(٩٦٩٢) حضرت ابو نوفل بن ابی عقرب فرماتے ہیں کہ میں مہینے کی پندرہ تاریخ کو حضرت ابن زبیر کے پاس آیا وہ صوم وصال سے تھے۔

9693

(۹۶۹۳) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، عَنْ أَبِی خَالِدٍ ، قَالَ : حدَّثَنِی مُحَمَّدُ بْنُ سَعْدِ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِی وَقَّاصٍ ، قَالَ : ضَرَبَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِیَدِہِ عَلَی الأُخْرَی ، ثُمَّ قَالَ : الشَّہْرُ ہَکَذَا وَہَکَذَا ، ثُمَّ نَقَصَ فِی الثَّالِثَۃِ إِصْبَعًا۔ (مسلم ۷۶۴۔ احمد ۱/۱۸۴)
(٩٦٩٣) حضرت سعد بن ابی وقاص فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی پاک (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنا ایک ہاتھ دوسرے ہاتھ پر مارا اور فرمایا کہ مہینہ اس طرح ہوتا ہے، مہینہ اس طرح ہوتا ہے۔ پھر تیسری مرتبہ ایک انگلی کم رکھی۔

9694

(۹۶۹۴) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ سَلَمَۃَ بْنِ کُہَیْلٍ ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ بَنِی سُلَیْمٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، عَنْ عُمَرَ ، قَالَ : اعْتَزَلَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نِسَائَہُ شَہْرًا ، فَلَمَّا مَضَی تِسْعٌ وَعِشْرُونَ أَتَاہُ جِبْرِیلُ ، فَقَالَ : إنَّ الشَّہْرَ قَدْ تَمَّ ، وَقَدْ بَرَرْت۔
(٩٦٩٤) حضرت عمر فرماتے ہیں کہ نبی پاک (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک مہینہ تک اپنی ازواج سے دور رہے، جب انتیس دن گذر گئے تو حضرت جبرائیل آئے اور انھوں نے عرض کیا کہ مہینہ گذر چکا ہے اور آپ نے قسم کو پورا کردیا۔

9695

(۹۶۹۵) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِی صَالِحٍ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : کَمْ مَضَی مِنَ الشَّہْرِ ؟ قُلْنَا : مَضَی اثْنَانِ وَعِشْرُونَ یَوْمًا ، وَبَقِیَتْ ثَمَان ، فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : بَلْ مَضَتَ ثنَتَانِ وَعِشْرُونَ ، وَبَقِیَتْ سَبْعٌ ، الْتَمِسُوہَا اللَّیْلَۃَ ، ثُمَّ قَالَ : قَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : الشَّہْرُ ہَکَذَا ، وَالشَّہْرُ ہَکَذَا ، ثَلاَثَ مَرَّاتٍ ، وَأَمْسَکَ وَاحِدَۃً۔ (احمد ۲/۲۵۱۔ ابن حبان ۳۴۵۰)
(٩٦٩٥) حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ مہینے کے کتنے دن گذر گئے ؟ ہم نے کہا کہ بائیس دن گذر گئے اور آٹھ باقی رہ گئے۔ نبی پاک (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ نہیں، بلکہ بائیس دن گذر گئے اور سات دن باقی رہ گئے۔ الْتَمِسُوہَا اللَّیْلَۃَ پھر نبی پاک (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ مہینہ یوں ہوتا ہے، مہینہ یوں ہوتا ہے۔ یہ بات تین مرتبہ فرمائی اور ایک مرتبہ رک گئے۔

9696

(۹۶۹۶) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، عَنِ ابْنِ أَبِی لَیْلَی ، عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: حَلَفَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، أَوْ أَقْسَمَ شَہْرًا، فَصَعِدَ عُلیۃ، فَلَمَّا کَانَ تِسْعٌ وَعِشْرُونَ جَائَہُ جِبْرِیلُ، فَقَالَ: انْزِلْ، فَقَدْ تَمَّ الشَّہْرُ۔
(٩٦٩٦) حضرت جابر فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی پاک (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک ماہ تک اپنی ازواج کے پاس نہ جانے کی قسم کھائی اور اونچے کمرے میں تشریف لے گئے۔ جب انتیس دن گذر گئے تو حضرت جبرائیل حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ ایک مہینہ گذر گیا آپ نیچے تشریف لے آئیں۔

9697

(۹۶۹۷) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنِ الأَسْوَد بْنِ قَیْسٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ سَعِیدَ بْنَ عَمْرٍو یُحَدِّثُ ، أَنَّہُ سَمِعَ ابْنَ عُمَرَ یُحَدِّثُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : إنَّا أُمَّۃٌ أُمِّیَّۃٌ ، لاَ نَکْتُبُ وَلاَ نَحْسُبُ ، الشَّہْرُ ہَکَذَا ، وَہَکَذَا ، وَہَکَذَا ، وَعَقَدَ الإِبْہَامَ فِی الثَّالِثَۃِ ؟ وَالشَّہْرُ ہَکَذَا ، وَہَکَذَا ، وَہَکَذَا ، یَعْنِی : تَمَامَ الثَّلاَثِینَ۔ (بخاری ۱۹۱۳۔ مسلم ۷۶۱)
(٩٦٩٧) حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا ہم ایک ان پڑھ امت ہیں، ہم نہ لکھتے ہیں اور نہ حساب کرتے ہیں۔ مہینہ اتنا ہوتا ہے، اتنا ہوتا ہے، اتنا ہوتا ہے۔ آپ نے تیسری مرتبہ میں انگوٹھے سے گرہ بنائی۔ (یعنی انتیس تک گنوایا) پھر فرمایا کہ مہینہ اتنا ہوتا ہے اتنا ہوتا ہے اتنا ہوتا ہے۔ اس مرتبہ آپ نے پورے تیس تک گنوایا۔

9698

(۹۶۹۸) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ؛ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ: الشَّہْرُ ہَکَذَا، وَہَکَذَا، وَہَکَذَا، ثُمَّ نقص إبْہَامَہُ ، یَعْنِی: تِسْعًا وَعِشْرِینَ۔(مسلم ۷۵۹۔ ابوداؤد ۲۳۱۴)
(٩٦٩٨) حضرت ابن عمر نے فرمایا کہ مہینہ اتنا ہوتا ہے، اتنا اور اتنا۔ تیسری مرتبہ آپ نے اپنے انگوٹھے کو شمار نہ کیا۔ یعنی انتیس تک گنوایا۔

9699

(۹۶۹۹) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا حُمَیْدٌ ، عَنْ أَنَسٍ ؛ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ آلَی مِنْ نِسَائِہِ شَہْرًا ، فَقَعَدَ فِی مَشْرُبَۃٍ لَہُ ، ثُمَّ نَزَلَ فِی تِسْعٍ وَعِشْرِینَ ، فَقَالُوا : یَا رَسُولَ اللہِ ، إنَّک آلَیْتَ شَہْرًا ؟ فَقَالَ : إنَّ الشَّہْرَ تِسْعٌ وَعِشْرُونَ۔ (بخاری ۱۹۱۱)
(٩٦٩٩) حضرت انس فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی پاک (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی ازواج سے ایک مہینے کا ایلاء کیا اور اپنے اونچے کمرے میں تشریف لے گئے۔ پھر آپ انتیس دن بعد نیچے تشریف لے آئے۔ لوگوں نے کہا یا رسول اللہ ! آپ نے تو ایک مہینے کا ایلاء کیا تھا ؟ آپ نے فرمایا کہ مہینہ انتیس دن کا بھی ہوتا ہے۔

9700

(۹۷۰۰) حَدَّثَنَا عَبِیدَۃُ بْنُ حُمَیْدٍ ، عَنِ الأَسْوَد بْنِ قَیْسٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ عَمْرٍو ، أَنَّ عَبْدَ اللہِ بْنَ عُمَرَ حَدَّثَہُمْ ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : إنَّا أُمَّۃٌ أُمِّیَّۃٌ ، لاَ نَکْتُبُ وَلاَ نَحْسُبُ ، الشَّہْرُ کَذَا ، وَکَذَا ، وَضَرَبَ بِیَدِہِ ثَلاَثًا ، ثُمَّ نَقَصَ وَاحِدَۃً۔ (احمد ۲/۱۲۹)
(٩٧٠٠) حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا ہم ایک ان پڑھ امت ہیں، ہم نہ لکھتے ہیں اور نہ حساب کرتے ہیں۔ مہینہ اتنا ہوتا ہے، اتنا ہوتا ہے، اتنا ہوتا ہے۔ آپ نے تیسری مرتبہ ہاتھ اٹھاتے ہوئے ایک انگلی کم کی۔ یعنی انتیس تک گنوایا۔

9701

(۹۷۰۱) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو ، عَنْ یَحْیَی بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ حَاطِبٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : قَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : الشَّہْرُ تِسْعٌ وَعِشْرُونَ ، ثُمَّ طَبَّقَ بَیْنَ کَفَّیْہِ مَرَّتَیْنِ ، وَطَبَّقَ الثَّالِثَۃَ ، وَقَبَضَ الإِبْہَامَ ، فَقَالَتْ عَائِشَۃُ : غَفَرَ اللَّہُ لأَبِی عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، إنَّمَا ہَجَرَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نِسَائَہُ شَہْرًا ، فَنَزَلَ لِتِسْعٍ وَعِشْرِینَ ، فَقَالُوا : یَا رَسُولَ اللہِ ، إنَّک آلَیْتَ شَہْرًا ؟ فَقَالَ : وَإنَّ الشَّہْرَ یَکُونُ تِسْعًا وَعِشْرِینَ۔ (احمد ۲/۳۱)
(٩٧٠١) حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ مہینہ انتیس دن کا ہوتا ہے۔ پھر آپ نے اپنی دونوں ہتھیلیوں کو دو مرتبہ پورا پورا کھولا اور تیسری مرتبہ انگوٹھے کو بند رکھا۔ حضرت عائشہ نے جب حضرت ابن عمر کی روایت سنی تو فرمایا کہ اللہ ابو عبد الرحمن پر رحم فرمائے۔ دراصل رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک مہینے تک کے لیے اپنی بیویوں کو چھوڑ دیا تھا۔ آپ انتیس دن بعد تشریف لے آئے تو لوگوں نے کہا کہ اے اللہ کے رسول ! آپ نے تو ایک مہینے کا ایلاء کیا تھا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ مہینہ کبھی انتیس دن کا بھی ہوتا ہے۔

9702

(۹۷۰۲) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنِ الرُّکَیْنِ ، عَنْ حُصَیْنِ بْنِ قَبِیصَۃَ ، عَنْ عَلِیٍّ ، قَالَ : شَہْرٌ تِسْعٌ وَعِشْرُونَ ، وَشَہْرٌ ثَلاَثُونَ۔
(٩٧٠٢) حضرت علی فرماتے ہیں کہ کوئی مہینہ انتیس دن کا ہوتا ہے اور کوئی تیس دن کا۔

9703

(۹۷۰۳) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ یَزِیدَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنْ سُوَیْد بْنِ غَفَلَۃَ ، قَالَ : سَمِعْتُ عُمَرَ یَقُولُ : الشہُور ؛ شَہْرٌ ثَلاَثُونَ ، وَشَہْرٌ تِسْعٌ وَعِشْرُونَ۔
(٩٧٠٣) حضرت عمر فرماتے کہ کبھی مہینہ تیس دن کا ہوتا ہے اور کبھی انتیس دن کا۔

9704

(۹۷۰۴) حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِی عَدِیٍّ ، عَنِ الْجُرَیْرِیِّ، عَنْ أَبِی مُصْعَبٍ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ، قَالَ: رَمَضَانُ تِسْعٌ وَعِشْرُونَ۔
(٩٧٠٤) حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ رمضان انتیس دن کا ہے۔

9705

(۹۷۰۵) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَنْ حُمَیْدٍ ، عَنِ الْوَلِیدِ بْنِ عُیینۃَ ، قَالَ : صُمْنَا رَمَضَانَ فِی عَہْدِ عَلِیٍّ عَلَی غَیْرِ رُؤْیَۃِ ، ثَمَانِیَۃ وَعِشْرِینَ یَوْمًا ، فَلَمَّا کَانَ یَوْمُ الْفِطْرِ أَمَرَنَا أَنْ نَقْضِیَ یَوْمًا۔
(٩٧٠٥) حضرت ولید بن عتبہ کہتے ہیں کہ ہم نے حضرت علی کے زمانے میں چاند دیکھے بغیر رمضان میں اٹھائیس دن روزے رکھے۔ عید الفطر کے دن انھوں نے ہمیں ایک روزے کی قضا کا حکم دیا۔

9706

(۹۷۰۶) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، عَنِ ابْنِ أَبِی لَیْلَی ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : مَا صُمْنَا تِسْعًا وَعِشْرِینَ ، أَکْثَرَ مِمَّا صُمْنَا ثَلاَثِینَ۔
(٩٧٠٦) حضرت شعبی فرماتے ہیں کہ رمضان کے ہم نے کم از کم انتیس اور زیادہ سے زیادہ تیس روزے رکھے ہیں۔

9707

(۹۷۰۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ سَلَمَۃَ بْنِ کُہَیْلٍ ، عَنْ ذَرٍّ ، عَنْ یَزِیدَ بْنِ حُلَیْلٍ ، قَالَ : الصَّائِمُ إذَا أُکِلَ عِنْدَہُ الطَّعَامُ ، سَبَّحَتْ مَفَاصِلُہُ۔
(٩٧٠٧) حضرت یزید بن حلیل کہتے ہیں کہ اگر کوئی روزہ دار کے پاس بیٹھ کر کھائے تو اس کی ہڈیاں تسبیح پڑھتی ہیں۔

9708

(۹۷۰۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ حَبِیبِ بْنِ زَیْدٍ ، عَنِ امْرَأَۃٍ یُقَالُ لَہَا : لَیْلَی ، عَنْ أُمِّ عُمَارَۃَ ، قَالَتْ : أتَانَا النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقُرِّبَ إلَیْہِ طَعَامٌ ، فَکَانَ بَعْضُ مَنْ عِنْدَہُ صِیَامًا ، فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إنَّ الصَّائِمَ إذَا أُکِلَ عِنْدَہُ الطَّعَامُ ، صَلَّتْ عَلَیْہِ الْمَلاَئِکَۃُ۔ (ترمذی ۷۸۶۔ احمد ۶/۳۶۵)
(٩٧٠٨) حضرت ام عمارہ فرماتی ہیں کہ ایک مرتبہ نبی پاک (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے پاس تشریف لائے، آپ کی خدمت میں کھانا پیش کیا گیا ۔ آپ کے پاس موجود ایک شخص کا روزہ تھا۔ آپ نے فرمایا کہ جب روزہ دار کے پاس بیٹھ کر کوئی کھاتا ہے تو فرشتے اس کے لیے رحمت کی دعا کرتے تھے۔

9709

(۹۷۰۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ بْنِ سَالِمٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، قَالَ : الصَّائِمُ إذَا أُکِلَ عِنْدَہُ سَبَّحَتْ مَفَاصِلُہُ۔
(٩٧٠٩) حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ اگر کوئی روزہ دار کے پاس بیٹھ کر کھائے تو اس کی ہڈیاں تسبیح پڑھتی ہیں۔

9710

(۹۷۱۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ أَبِی أَیُّوبَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ : الصَّائِمُ إذَا أُکِلَ عِنْدَہُ صَلَّتْ عَلَیْہِ الْمَلاَئِکَۃُ۔
(٩٧١٠) حضرت عبداللہ بن عمرو فرماتے ہیں کہ جب روزہ دار کے پاس کھایا جاتا ہے تو فرشتے اس کے لیے رحمت کی دعا کرتے ہیں۔

9711

(۹۷۱۱) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِینَارٍ ، عَنْ أَبِی فَاخِتَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : الْمُعْتَکِفُ عَلَیْہِ الصَّوْمُ۔
(٩٧١١) حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ معتکف پر روزہ لازم ہے۔

9712

(۹۷۱۲) حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إسْمَاعِیلَ ، عَنْ جَعْفَرٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ عَلِیٍّ ، قَالَ : لاَ اعْتِکَافَ إِلاَّ بِصَوْمٍ۔
(٩٧١٢) حضرت علی فرماتے ہیں کہ بغیر روزے کے اعتکاف نہیں ہوتا۔

9713

(۹۷۱۳) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنِ الْحَکَمِ ، عَنْ مِقسَم ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، وَعَائِشَۃَ ، قَالاَ : لاَ اعْتِکَافَ إِلاَّ بِصَوْمٍ ، وَقَالَ عَلِیٌّ ، وَابْنُ مَسْعُودٍ : لَیْسَ عَلَیْہِ صَوْمٌ ، إِلاَّ أَنْ یَفْرِضَہُ ہُوَ عَلَی نَفْسِہِ۔
(٩٧١٣) حضرت ابن عباس اور حضرت عائشہ فرماتے ہیں کہ بغیر روزے کے اعتکاف نہیں ہوتا۔ حضرت علی اور حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ اس پر روزہ اس وقت تک فرض نہیں جب تک وہ خود اپنے اوپر فرض نہ کرے۔

9714

(۹۷۱۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ ابْنِ أَبِی لَیْلَی ، عَنِ الْحَکَمِ ، عَنْ مِقْسَمٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : لاَ اعْتِکَافَ إِلاَّ بِصوم
(٩٧١٤) حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ بغیر روزے کے اعتکاف نہیں ہوتا۔

9715

(۹۷۱۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ حَبِیبٍ ، عَنْ عَطَائٍ ، عَنْ عَائِشَۃَ ؛ بِمِثْلِہِ۔
(٩٧١٥) حضرت عائشہ سے بھی یونہی منقول ہے۔

9716

(۹۷۱۶) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنِ الْحَکَمِ ، عَنْ عَلِیٍّ ، وَعَبْدِ اللہِ ، قَالاَ : الْمُعْتَکِفُ لَیْسَ عَلَیْہِ صَوْمٌ ، إِلاَّ أَنْ یَشْتَرِطَ ذَلِکَ عَلَی نَفْسِہِ۔
(٩٧١٦) حضرت علی اور حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ اس پر روزہ اس وقت تک فرض نہیں جب تک وہ خود اپنے اوپر فرض نہ کرے۔

9717

(۹۷۱۷) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ طَاوُوسٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : الصَّوْمُ عَلَیْہِ وَاجِبٌ۔
(٩٧١٧) حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ معتکف پر روزہ لازم ہے۔

9718

(۹۷۱۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : لاَ اعْتِکَافَ إِلاَّ بِصَوْمٍ۔
(٩٧١٨) حضرت عروہ فرماتے ہیں کہ بغیر روزے کے اعتکاف نہیں ہوتا۔

9719

(۹۷۱۹) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِِ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : لَمْ یَکُنْ یُرَی اعْتِکَافٌ إِلاَّ بِصَوْمٍ۔
(٩٧١٩) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ بغیر روزے کے اعتکاف نہیں ہوتا۔

9720

(۹۷۲۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ ہِشَامِ الدَّسْتَوَائِیِّ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ أَبِی کَثِیرٍ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ ، قَالَ : قَالَ عَلِیٌّ : عَلَی الْمُعْتَکِفِ الصَّوْمُ ، وَإِنْ لَمْ یَفْرِضْہُ عَلَی نَفْسِہِ۔
(٩٧٢٠) حضرت علی فرماتے ہیں کہ معتکف کے لیے روزہ رکھنا ضروری ہے خواہ وہ اپنے اوپر واجب نہ کرے۔

9721

(۹۷۲۱) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ أَبِی مَعْشَرٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالَ : لَیْسَ عَلَیْہِ صَوْمٌ ، إِلاَّ أَنْ یَکُونَ أَوْجَبَ ذَلِکَ عَلَی نَفْسِہِ۔
(٩٧٢١) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ معتکف پر اس وقت تک روزہ واجب نہیں جب تک وہ خود اپنے اوپر واجب نہ کرے۔

9722

(۹۷۲۲) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ ، عَنْ سَعِید ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنِ الْحَسَنِ ؛ مِثْل قَوْلِ إبْرَاہِیمَ۔
(٩٧٢٢) ایک اور سند سے یونہی منقول ہے۔

9723

(۹۷۲۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إسْرَائِیلَ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ عَامِرٍ ، قَالَ : لاَ اعْتِکَافَ إِلاَّ بِصَوْمٍ۔
(٩٧٢٣) حضرت عامر فرماتے ہیں کہ بغیر روزے کے اعتکاف نہیں ہوتا۔

9724

(۹۷۲۴) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِِ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ ضَمْرَۃَ ، عَنْ عَلِیٍّ ، قَالَ : إِذَا اعْتَکَفَ الرَّجُلُ فَلْیَشْہَد الْجُمُعَۃَ ، وَلْیَعُد الْمَرِیضَ ، وَلْیَحْضَر الْجِنَازَۃَ ، وَلْیَأْتِ أَہْلَہُ ، وَلْیَأْمُرْہُمْ بِالْحَاجَۃِ وَہُوَ قَائِمٌ۔
(٩٧٢٤) حضرت علی فرماتے ہیں کہ جب کوئی آدمی اعتکاف میں بیٹھے تو اسے چاہیے کہ جمعہ کی نماز میں حاضر ہو، مریض کی عیادت کرے، جنازہ میں شریک ہو، کھڑے کھڑے اپنے گھر والوں کے پاس آئے اور ضروریات پوری کرلے۔

9725

(۹۷۲۵) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا الشَّیْبَانِیُّ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ، أَنَّہُ قَالَ: یَشْہَد الْجُمُعَۃَ ، وَیَعُود الْمَرِیضَ، وَیُجِیب الإِمَامَ۔
(٩٧٢٥) حضرت سعید بن جبیر فرماتے ہیں کہ معتکف جمعہ پڑھ سکتا ہے، مریض کی عیادت کرسکتا ہے اور امام کے بلانے پر جائے گا۔

9726

(۹۷۲۶) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، قَالَ : حَدَّثَتْنَا عَمْرَۃُ ، عَنْ عَائِشَۃَ ؛ کَانَتْ لاَ تَعُودُ الْمَرِیضَ مِنْ أَہْلِہَا وَہِیَ مُعْتَکِفَۃٌ ، إِلاَّ وَہِیَ مَارَّۃٌ۔
(٩٧٢٦) حضرت عمرہ فرماتی ہیں کہ حضرت عائشہ اعتکاف کی حالت میں چلتے چلتے ہی اپنے اہل میں سے کسی مریض کی عیادت کیا کرتی تھیں۔

9727

(۹۷۲۷) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَنِ الشَّیْبَانِیِّ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ، قَالَ : یَشْہَدُ الْجُمُعَۃَ ، وَیَعُودُ الْمَرِیضَ ، وَیَشْہَدُ الْجِنَازَۃَ ، وَیَخْرُجُ إلَی الْحَاجَۃِ ، وَیُجِیبُ الإِمَامَ ، وَذَلِکَ أَنَّ عَمْرَو بْنَ حُرَیْثٍ أرْسلَ إلَیْہِ وَہُوَ مُعْتَکِفٌ فَلَمْ یَأْتِہِ ، فَأَرْسَلَ إلَیْہِ فَأَتَاہُ۔
(٩٧٢٧) حضرت سعید بن جبیر فرماتے ہیں کہ معتکف جمعہ کی نماز کے لیے حاضر ہوگا، مریض کی عیادت کرے گا، جنازہ میں شریک ہوگا، ضرورت کے لیے جائے گا، امام کے بلانے پر جائے گا۔ یہ بات انھوں نے اس لیے فرمائی کہ انھوں نے حضرت عمرو بن حریث کو بلایا تھا، وہ اعتکاف میں ہونے کی وجہ سے نہیں آئے تو حضرت سعید بن جبیر نے ان کی طرف یہ بات لکھ بھیجی جس پر وہ آگئے تھے۔

9728

(۹۷۲۸) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : کَانُوا یُحِبُّونَ لِلْمُعْتَکِفِ أَنْ یَشْتَرِطَ ہَذِہِ الْخِصَالَ وَہِیَ لَہُ وَإِنْ لَمْ یَشْتَرِطْ ؛ عِیَادَۃَ الْمَرِیضِ ، وَأَنْ یَتَّبِعَ الْجِنَازَۃَ ، وَیَشْہَدَ الْجُمُعَۃَ۔
(٩٧٢٨) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ اسلاف معتکف کے ان عادات کو شرط قرار دیئے بغیر پسند فرماتے تھے : مریض کی عیادت کرنا، جنازہ کے پیچھے جانا، جمعہ کی نماز ادا کرنا۔

9729

(۹۷۲۹) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ مُطَرِّفٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : یَخْرُجُ إلَی الْغَائِطِ ، وَیَعُودُ الْمَرِیضَ ، وَیَأْتِی الْجُمُعَۃَ ، وَیَقُومُ عَلَی الْبَابِ۔
(٩٧٢٩) حضرت شعبی فرماتے ہیں کہ معتکف رفعِ حاجت کے لیے باہر جاسکتا ہے، مریض کی عیادت کرسکتا ہے، جمعہ کی نماز کے لیے جاسکتا ہے لیکن وہ دروازے میں کھڑا ہوگا۔

9730

(۹۷۳۰) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : یَأْتِی الْجُمُعَۃَ۔
(٩٧٣٠) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ معتکف جمعہ کے لیے جاسکتا ہے۔

9731

(۹۷۳۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ مُبَارَکٍ ، عَنْ یَحْیَی ، عَنْ أَبِی سَلَمَۃَ ، قَالَ : الْمُعْتَکِفُ یَعُودُ الْمَرِیضَ ، وَیَشْہَدُ الْجُمُعَۃَ ، وَیَقُومُ مَعَ الرَّجُلِ فِی الطَّرِیقِ یُسائلہ۔
(٩٧٣١) حضرت ابو سلمہ فرماتے ہیں کہ معتکف مریض کی عیادت کرے گا، جمعہ کی نماز ادا کرے گا اور راستے میں کسی آدمی کے ساتھ کھڑے ہو کربات چیت کرسکتا ہے۔

9732

(۹۷۳۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ یَزِیدَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : یَأْتِی الْغَائِطَ ، وَیَتَّبِعُ الْجِنَازَۃَ ، وَیَعُودُ الْمَرِیضَ۔
(٩٧٣٢) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ معتکف رفعِ حاجت کے لیے باہر جاسکتا ہے ، جنازے کے پیچھے جاسکتا ہے اور مریض کی عیادت کرسکتا ہے۔

9733

(۹۷۳۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ، قَالَ : یَشْہَدُ الْجُمُعَۃَ ، وَیَعُودُ الْمَرِیضَ ، وَیَحْضُرُ الْجِنَازَۃَ ، قَالَ مَرَّۃً : وَیُجِیبُ الإِمَامَ۔
(٩٧٣٣) حضرت سعید بن جبیر فرماتے ہیں کہ معتکف جمعہ کی نماز میں حاضر ہوگا، جنازہ پڑھے گا اور امام کے بلانے پر جائے گا۔

9734

(۹۷۳۴) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخبرنَا سُفْیَانُ بْنُ حُسَیْنٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ عُرْوَۃَ ، عَنْ عَائِشَۃَ ، قَالَتْ: کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إذَا کَانَ مُعْتَکِفًا لَمْ یَدْخُلِ الْبَیْتَ ، إِلاَّ لِحَاجَۃٍ۔ (بخاری ۲۰۲۹۔ احمد ۶/۲۳۵)
(٩٧٣٤) حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب اعتکاف میں بیٹھتے تو صرف کسی ضرورت کے لیے ہی گھر آیا کرتے تھے۔

9735

(۹۷۳۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ أَبِی بَکْرٍ ، عَنْ عَمْرَۃَ ، عَنْ عَائِشَۃَ ؛ أَنَّہَا کَانَتْ تَمُرُّ بِالْمَرِیضِ مِنْ أَہْلِہَا وَہِیَ مُعْتَکِفَۃٌ ، فَلاَ تَعْرِضُ لَہُ۔
(٩٧٣٥) حضرت عمرہ فرماتی ہیں کہ حضرت عائشہ حالت اعتکاف میں اپنے متعلقین میں سے کسی مریض کے پاس سے گذرتیں تو اس کی طرف متوجہ نہ ہوتی تھیں۔

9736

(۹۷۳۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ (ح) وَعَنْ سُفْیَانَ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَطَائٍ قَالاَ : الْمُعْتَکِفُ لاَ یَشْہَدُ جِنَازَۃً ، وَلاَ یَعُودُ مَرِیضًا۔
(٩٧٣٦) حضرت سعید بن مسیب اور حضرت عطاء فرماتے ہیں کہ معتکف نہ جنازے میں شریک ہوگا اور نہ مریض کی عیادت کرے گا۔

9737

(۹۷۳۷) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ الزُّہْرِیِّ، قَالَ: لاَ یَتَّبِعُ جِنَازَۃً، وَلاَ یَعُودُ مَرِیضًا، وَلاَ یُجِیبُ دَعْوَۃً۔
(٩٧٣٧) حضرت زہری فرماتے ہیں کہ معتکف نہ جنازے میں شریک ہوگا، نہ مریض کی عیادت کرے گا اور نہ ہی کسی کے بلانے پر جائے گا۔

9738

(۹۷۳۸) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنِ ابْنِ أَبِی نَجِیحٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، قَالَ : الْمُعْتَکِفُ لاَ یَتَّبِعُ جِنَازَۃً ، وَلاَ یَعُودُ مَرِیضًا۔
(٩٧٣٨) حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ معتکف نہ جنازے کے ساتھ جائے گا اور نہ مریض کی عیادت کرے گا۔

9739

(۹۷۳۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : لاَ یُجِیبُ دَعْوَۃً ، وَلاَ یَعُودُ مَرِیضًا ، وَلاَ یَحْضُرُ جِنَازَۃً۔
(٩٧٣٩) حضرت عروہ فرماتے ہیں کہ معتکف نہ کسی کے بلانے پر جائے گا، نہ مریض کی عیادت کرے گا اور نہ ہی جنازے میں شریک ہوگا۔

9740

(۹۷۴۰) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرِِ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ، عَنْ عَمْرَۃَ ، عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ : کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إذَا أَرَادَ أَنْ یَعْتَکِفَ صَلَّی الصُّبْحَ ، ثُمَّ دَخَلَ الْمَکَانَ الَّذِی یَعْتَکِفُ فِیہِ۔(مسلم ۸۳۱۔ ابوداؤد ۲۴۵۶)
(٩٧٤٠) حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ نبی پاک (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فجر کی نماز پڑھنے کے بعد اس جگہ تشریف لے جاتے جہاں آپ نے اعتکاف کرنا ہوتا تھا۔

9741

(۹۷۴۱) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : إذَا أَرَادَ الرَّجُل أَنْ یَعْتَکِفَ ، فَلْتَغْرُبْ لَہُ الشَّمْسُ مِنَ اللَّیْلَۃِ الَّتِی یُرِیدُ أَنْ یَعْتَکِفَ فِیہَا وَہُوَ فِی الْمَسْجِدِ۔
(٩٧٤١) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ جب کسی آدمی نے اعتکاف کرنا ہو تو اس کو چاہیے کہ سورج غروب ہونے سے پہلے مسجد پہنچ جائے۔

9742

(۹۷۴۲) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ عَطَائٍ ؛ فِی الْمُعْتَکِفِ یَشْتَرِطُ أَنْ یَعْتَکِفَ بِالنَّہَارِ وَیَأْتِیَ أَہْلَہُ بِاللَّیْلِ ، قَالَ : لَیْسَ ہَذَا بِاعْتِکَافٍ۔
(٩٧٤٢) حضرت عطاء فرماتے ہیں کہ اگر معتکف شرط رکھے کہ وہ دن کے وقت اعتکاف کرے اور رات کو اپنے گھر والوں کے پاس آئے۔ تو یہ اعتکاف نہیں ہے۔

9743

(۹۷۴۳) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنِ ابْنِ أَبِی عَرُوبَۃَ ، عَنْ قَتَادَۃَ ؛ أَنَّہُ کَانَ لاَ یَرَی بَأْسًا لِلْمُعْتَکِفِ أَنْ یَشْتَرِطَ أَنْ یَتَعَشَّی فِی أَہْلِہِ وَیَتَسَحَّرَ۔
(٩٧٤٣) حضرت قتادہ اس بات میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے کہ معتکف رات کا کھانا اور سحری اپنے گھر والوں کے ساتھ کھانے کی شرط لگائے۔

9744

(۹۷۴۴) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : إِنْ شَائَ اشْتَرَطَ أَنْ یَتَعَشَّی فِی أَہْلِہِ ، وَلاَ یَدْخُلُ ظِلَّہُ ، وَلَکِنْ یُؤْتَی بِعَشَائِہِ فِی فِنَائِ دَارِہِ۔
(٩٧٤٤) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ معتکف اگر چاہے تو رات کا کھانا اپنے گھر والوں کے ساتھ کھائے، وہ اپنے گھر کے سائے والی جگہ نہ جائے گا بلکہ اس کا کھانا گھر کے صحن میں لایا جائے گا۔

9745

(۹۷۴۵) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ یَعْلَی بْنِ أُمَیَّۃَ ؛ أَنَّہُ کَانَ یَقُولُ لِصَاحِبِہِ : انْطَلِقْ بِنَا إلَی الْمَسْجِدِ فَنَعْتَکِفُ فِیہِ سَاعَۃً۔
(٩٧٤٥) حضرت یعلی بن امیہ اپنے ساتھی سے کہتے کہ چلو مسجد چلیں اور پھر وہاں تھوڑی دیر کا اعتکاف فرماتے۔

9746

(۹۷۴۶) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ ، عَنْ عَطَائٍ ، قَالَ : کَانَ ابْنُ عُمَرَ إذَا أَرَادَ أَنْ یَعْتَکِفَ ضَرَبَ خِبَائً ، أَوْ فُسْطَاطًا فَقَضَی فِیہِ حَاجَتَہُ ، وَلاَ یَأْتِی أَہْلَہُ ، وَلاَ یَدْخُلُ سَقْفًا۔
(٩٧٤٦) حضرت عطاء فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عمر جب اعتکاف کرنا چاہتے تو اپنے لیے ایک خیمہ بنالیتے، اسی میں اپنی ضروریات پوری فرماتے۔ پھر نہ اپنے گھر والوں کے پاس آتے اور نہ چھت کے نیچے جاتے۔

9747

(۹۷۴۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ زِیَادِ بْنِ عِلاَقَۃَ ، عَنْ عَمِّہِ قُطْبَۃَ بْنِ مَالِکٍ ؛ أَنَّ عُمَرَ رَأَی قَوْمًا اعْتَکَفُوا فِی الْمَسْجِدِ ، وَقَدْ سُتِرُوا فَأَنْکَرَہُ ، وَقَالَ : مَا ہَذَا ؟ قَالُوا : إنَّمَا نَسْتُرُہُ عَلَی طَعَامِنَا ، قَالَ : فَاسْتُرُوہُ ، فَإِذَا طَعِمْتُمْ فَاہْتِکُوہُ۔
(٩٧٤٧) حضرت عمر نے کچھ لوگوں کو دیکھا کہ انھوں نے مسجد میں اعتکاف کے لیے پردے لگائے ہوئے تھے۔ حضرت عمر نے انھیں اس سے منع کیا اور پوچھا کہ یہ کیا ہے ؟ انھوں نے کہا کہ ہم نے کھانا کھانے کے لیے پردے لگائے تھے۔ حضرت عمر نے فرمایا کہ تم کھانا کھانے کے لیے پردے لگاؤ جب کھانا کھا چکو تو پردے ہٹا دو ۔

9748

(۹۷۴۸) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَوَّائٍ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ ، قَالَ : الْمُعْتَکِفُ لاَ یَدْخُلُ بَیْتًا مُسَقَّفًا۔
(٩٧٤٨) حضرت عکرمہ فرماتے ہیں کہ معتکف چھت والے کمرے میں داخل نہیں ہوگا۔

9749

(۹۷۴۹) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِِ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : لاَ یَدْخُلُ سَقْفًا۔
(٩٧٤٩) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ معتکف چھت کے نیچے نہیں آئے گا۔

9750

(۹۷۵۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ مُبَارَکٍ ، عَنْ یَحْیَی ، عَنْ أَبِی سَلَمَۃَ ، قَالَ : لاَ یَدْخُلُ دَارًا۔
(٩٧٥٠) حضرت ابو سلمہ فرماتے ہیں کہ وہ گھر میں داخل نہیں ہوگا۔

9751

(۹۷۵۱) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ مُطَرِّفٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : لاَ یَدْخُلُ بَیْتًا۔
(٩٧٥١) حضرت شعبی فرماتے ہیں کہ وہ کمرے میں داخل نہیں ہوگا۔

9752

(۹۷۵۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ یَزِیدَ بْنِ إبْرَاہِیمَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : لاَ یَدْخُلُ بَیْتًا۔
(٩٧٥٢) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ کمرے میں داخل نہیں ہوگا۔

9753

(۹۷۵۳) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ أَیُّوبَ ؛ أَنَّ أَبَا قِلاَبَۃَ اعْتَکَفَ فِی مَسْجِدِ قَوْمِہِ۔
(٩٧٥٣) حضرت ابو قلابہ نے اپنی قوم کی مسجد میں اعتکاف کیا۔

9754

(۹۷۵۴) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ خَالِدٍ ؛ أَنَّ أَبَا قِلاَبَۃَ فَعَلَہُ۔
(٩٧٥٤) حضرت ابو قلابہ نے اپنی قوم کی مسجد میں اعتکاف کیا۔

9755

(۹۷۵۵) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنِ الشَّیْبَانِیِّ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ؛ أَنَّہُ اعْتَکَفَ فِی مَسْجِدِ قَوْمِہِ۔
(٩٧٥٥) حضرت سعید بن جبیر نے اپنی قوم کی مسجد میں اعتکاف کیا۔

9756

(۹۷۵۶) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ قَیْسِ بْنِ مُسْلِمٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ؛ أَنَّہُ اعْتَکَفَ فِی مَسْجِدِ قَوْمِہِ۔
(٩٧٥٦) حضرت سعید بن جبیر نے اپنی قوم کی مسجد میں اعتکاف کیا۔

9757

(۹۷۵۷) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ ہَمَّامِ بْنِ الْحَارِثِ ؛ أَنَّہُ اعْتَکَفَ فِی مَسْجِدِ قَوْمِہِ۔
(٩٧٥٧) حضرت ہمام بن حارث نے اپنی قوم کی مسجد میں اعتکاف کیا۔

9758

(۹۷۵۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : لاَ بَأْسَ بِالاِعْتِکَافِ فِی مَسَاجِدِ الْقَبَائِلِ۔
(٩٧٥٨) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ قبیلوں کی مسجدوں میں اعتکاف کرنے میں کوئی حرج نہیں۔

9759

(۹۷۵۹) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنْ یَحْیَی ، عَنْ أَبِی سَلَمَۃَ ؛ أَنَّہُ کَانَ لاَ یَرَی بَأْسًا أَنْ یَعْتَکِفَ فِی مَسْجِدٍ یُصَلَّی فِیہِ۔
(٩٧٥٩) حضرت ابو سلمہ اس بات میں کوئی حرج نہ سمجھتے تھے کہ اس مسجد میں اعتکاف کیا جائے جس میں نماز پڑھی جاتی ہے۔

9760

(۹۷۶۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ أَبِی الزَّعْرَائِ ؛ أَنَّ أَبَا الأَحْوَصِ اعْتَکَفَ فِی مَسْجِدِ قَوْمِہِ۔
(٩٧٦٠) حضرت ابو احوص نے اپنی قوم کی مسجد میں اعتکاف کیا۔

9761

(۹۷۶۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إسْرَائِیلَ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ عَامِرٍ ، قَالَ : إِنْ شَائَ اعْتَکَفَ فِی مَسْجِدِ قَوْمِہِ۔
(٩٧٦١) حضرت عامر فرماتے ہیں کہ اگر چاہے تو اپنی قوم کی مسجد میں اعتکاف کرلے۔

9762

(۹۷۶۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ وَاصِلٍ الأَحْدَبِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : جَائَ حُذَیْفَۃُ إلَی عَبْدِ اللہِ ، فَقَالَ: أَلاَ أَعْجَبَک مِنْ قَوْمٍ عُکُوفٍ بَیْنَ دَارِکَ وَبَیْنَ دَارِ الأَشْعَرِیِّ، یَعْنِی: الْمَسْجِدَ؟ قَالَ عَبْدُ اللہِ :فَلَعَلَّہُمْ أَصَابُوا وَأَخْطَأْت ، فَقَالَ حُذَیْفَۃُ : أَمَا عَلِمْت أَنَّہُ لاَ اعْتِکَافَ إِلاَّ فِی ثَلاَثَۃِ مَسَاجِدَ ؛ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ، وَالْمَسْجِدِ الأَقْصَی ، وَمَسْجِدِ الرَّسُولِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَمَا أُبَالِی اعْتَکَفْتُ فِیہِ ، أَوْ فِی سُوقِکُمْ ہَذِہِ۔
(٩٧٦٢) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ حضرت حذیفہ ایک مرتبہ حضرت عبداللہ کے پاس آئے اور ان سے فرمایا کہ کیا آپ کو ان لوگوں پر تعجب نہیں ہوتا جو آپ کے اور اشعری کے گھر کے بیچ یعنی مسجد میں اعتکاف میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ حضرت عبداللہ نے فرمایا کہ شاید وہ ٹھیک ہیں اور آپ غلطی پر ہیں۔ حضرت حذیفہ نے فرمایا کہ کیا آپ نہیں جانتے کہ اعتکاف صرف تین مسجدوں میں ہوتا ہے۔ ایک مسجد حرام، دوسری مسجد اقصیٰ اور تیسری مسجد نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، میرے خیال میں اس مسجد میں جس میں وہ لوگ اعتکاف میں بیٹھے ہیں، اعتکاف کرنا اور بازار میں اعتکاف کرنا برابر ہے۔

9763

(۹۷۶۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنِ الْحَارِثِ ، عَنْ عَلِیٍّ (ح) وَعَنْ جَابِرٍ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَیْدَۃَ ، عَنْ أَبِی عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ عَلِیٍّ ، قَالَ : لاَ اعْتِکَافَ إِلاَّ فِی مِصْرٍ جَامِعٍ۔
(٩٧٦٣) حضرت علی فرماتے ہیں کہ اعتکاف صرف مصر جامع میں ہوتا ہے۔

9764

(۹۷۶۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ الأَقْمَرِ ، عَنْ شَدَّادِ بْنِ الأَزْمَعِ ، قَالَ : اعْتَکَفَ رَجُلٌ فِی الْمَسْجِدِ الأَعْظَمِ وَضَرَبَ خَیْمَۃً فَحَصَبَہُ النَّاسُ ، فَبَلَغَ ذَلِکَ ابْنَ مَسْعُودٍ ، فَأَرْسَلَ إلَیْہِ رَجُلاً ، فَکَفَّ النَّاسَ عَنْہُ وَحَسَّنَ ذَلِکَ۔
(٩٧٦٤) حضرت شداد بن ازمع فرماتے ہیں کہ ایک آدمی مسجدِ اعظم میں اعتکاف کے لیے بیٹھا اور اس نے خیمہ لگایا۔ لوگوں نے اسے ایسا کرنے سے منع کیا۔ یہ خبر حضرت عبداللہ بن مسعود کو پہنچی تو آپ نے ایک آدمی بھیج کو لوگوں کو اس سے دور کیا اور اس کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کا حکم دیا۔

9765

(۹۷۶۵) حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّیَالِسِیُّ، عَنْ ہَمَّامٍ، عَنْ قَتَادَۃَ، عَنِ ابْنِ الْمُسَیَّبِ، قَالَ: لاَ اعْتِکَافَ إِلاَّ فِی مَسْجِدِ نَبِیٍّ۔
(٩٧٦٥) حضرت سعید بن مسیب فرماتے ہیں کہ اعتکاف صرف حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مسجد میں جائز ہے۔

9766

(۹۷۶۶) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، قَالَ : لاَ اعْتِکَافَ إِلاَّ فِی مَسْجِدِ جَمَاعَۃٍ یُجْمَعُ فِیہِ۔
(٩٧٦٦) حضرت زہری فرماتے ہیں کہ اعتکاف صرف جامع مسجد میں ہوسکتا ہے۔

9767

(۹۷۶۷) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، قَالَ : سَأَلْتُ الْحَکَمَ ، وَحَمَّادًا عَنِ الاِعْتِکَافِ ؟ فَقَالاَ : لاَ تَعْتَکِف إِلاَّ فِی مَسْجِدٍ یُجَمِّعُونَ فِیہِ۔
(٩٧٦٧) حضرت شعبہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت حکم اور حضرت حماد سے اعتکاف کے بارے میں سوال کیا تو انھوں نے فرمایا کہ اعتکاف صرف جامع مسجد میں ہوسکتا ہے۔

9768

(۹۷۶۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنْ أَبِی جَعْفَرٍ ، قَالَ : لاَ اعْتِکَافَ إِلاَّ فِی مَسْجِدٍ یُجْمَعُ فِیہِ۔
(٩٧٦٨) حضرت ابو جعفر فرماتے ہیں کہ اعتکاف صرف جامع مسجد میں ہوسکتا ہے۔

9769

(۹۷۶۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : لاَ اعْتِکَافَ إِلاَّ فِی مَسْجِدِ جَمَاعَۃٍ۔
(٩٧٦٩) حضرت عروہ فرماتے ہیں کہ اعتکاف صرف جامع مسجد میں ہوسکتا ہے۔

9770

(۹۷۷۰) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنْ أَبِی قِلاَبَۃَ ؛ أَنَّہُ أُوتِیَ یَوْمَ الْفِطْرِ فِی مَسْجِدِ قَوْمِہِ ، وَاعْتَکَفَ فِیہِ بِجُوَیْریۃٍ مُزَیَّنَۃٍ فَأَقْعَدَہَا فِی حِجْرِہِ ، ثُمَّ اعْتَنَقَہَا وَخَرَجَ إلَی الْمُصَلَّی کَمَا ہُوَ مِنَ الْمَسْجِدِ۔
(٩٧٧٠) حضرت ایوب فرماتے ہیں کہ حضرت ابو قلابہ کے پاس عیدالفطر کے دن ان کی قوم کی مسجد میں جس میں انھوں نے اعتکاف کیا تھا، ایک بناؤ سنگھار والی بچی لائی گئی، انھوں نے اسے اپنی گود میں بٹھایا اور اس سے پیار کیا۔ پھر عید گاہ کی طرف تشریف لے گئے۔

9771

(۹۷۷۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ أَبِی مَعْشَرٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : کَانُوا یَسْتَحِبُّونَ لِلْمُعْتَکِفِ أَنْ یَبِیتَ لَیْلَۃَ الْفِطْرِ فِی مَسْجِدِہِ ، حَتَّی یَکُونَ غُدُوُّہُ مِنْہُ۔
(٩٧٧١) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ اسلاف معتکف کے لیے اس بات کو پسند فرماتے تھے کہ وہ عید الفطر کی رات اپنی مسجد میں گذارے اور صبح کو عید گاہ پہنچے۔

9772

(۹۷۷۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ عِمْرَانَ ، عَنْ أَبِی مِجْلَزٍ ، قَالَ : بِتْ لَیْلَۃَ الْفِطْرِ فِی الْمَسْجِدِ الَّذِی اعْتَکَفْت فِیہِ ، حَتَّی یَکُونَ غُدُوُّک إلَی مُصلاَّکَ مِنْہُ۔
(٩٧٧٢) حضرت ابو مجلز فرماتے ہیں کہ عید الفطر کی رات اس مسجد میں گذارو جس میں تم نے اعتکاف کیا ہو، پھر صبح عیدگاہ کی طرف جاؤ۔

9773

(۹۷۷۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، عَنْ سُفْیَانَ، عَنِ ابْنِ أَبِی نَجِیحٍ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: إذَا جَامَعَ الْمُعْتَکِفُ، أَبْطَلَ اعْتِکَافَہُ وَاسْتَأْنَفَ۔
(٩٧٧٣) حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ اگر معتکف نے جماع کرلیا تو اس کا اعتکاف ٹوٹ گیا اب وہ دوبارہ اعتکاف کرے۔

9774

(۹۷۷۴) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنْ عَطَائٍ ، قَالَ : یَقْضِی اعْتِکَافَہُ۔
(٩٧٧٤) حضرت عطاء فرماتے ہیں کہ وہ اپنے اعتکاف کی قضا کرے گا۔

9775

(۹۷۷۵) حَدَّثَنَا ابْنُ الدَّرَاوَرْدِیِّ، عَنْ مُوسَی بْنِ أَبِی مَعْبَدٍ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ، وَالْقَاسِمِ، وَسَالِمٍ، قَالُوا: یَسْتَقْبِلُ۔
(٩٧٧٥) حضرت سعید بن مسیب، حضرت قاسم اور حضرت سالم فرماتے ہیں کہ وہ نئے سرے سے اعتکاف کرے گا۔

9776

(۹۷۷۶) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ؛ فِی رَجُلٍ غَشِیَ امْرَأَتَہُ وَہُوَ مُعْتَکِفٌ ، أَنَّہُ بِمَنْزِلَۃِ الَّذِی غَشِیَ فِی رَمَضَانَ ، عَلَیْہِ مَا عَلَی الَّذِی أَصَابَ فِی رَمَضَانَ۔
(٩٧٧٦) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ حالت اعتکاف میں بیوی سے جماع کرنا رمضان میں بیوی سے جماع کرنے کی طرح ہے۔ اس پر وہی لازم ہے جو رمضان میں جماع کرنے والے پر لازم ہے۔

9777

(۹۷۷۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ عَلْقَمَۃَ بْنِ مَرْثَدٍ ، عَنِ الضَّحَّاکِ ، قَالَ : کَانُوا یُجَامِعُونَ وَہُمْ مُعْتَکِفُونَ حَتَّی نَزَلَتْ : {وَلاَ تُبَاشِرُوہُنَّ وَأَنْتُمْ عَاکِفُونَ فِی الْمَسَاجِدِ}۔
(٩٧٧٧) حضرت ضحاک فرماتے ہیں کہ لوگ حالت اعتکاف میں جماع کیا کرتے تھے اس پر یہ آیت نازل ہوئی { وَلاَ تُبَاشِرُوہُنَّ وَأَنْتُمْ عَاکِفُونَ فِی الْمَسَاجِدِ } جب تم مسجد میں اعتکاف کی حالت میں ہو تو اپنی بوایوں سے جماع نہ کرو۔

9778

(۹۷۷۸) حَدَّثَنَا مَعْنُ بْنُ عِیسَی ، عَنِ ابْنِ أَبِی ذِئْبٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، قَالَ : مَنْ أَصَابَ امْرَأَتَہُ وَہُوَ مُعْتَکِفٌ ، فَعَلَیْہِ مِنَ الْکَفَّارَۃِ مِثْلُ مَا عَلَی الَّذِی یُصِیبُ فِی رَمَضَانَ۔
(٩٧٧٨) حضرت زہری فرماتے ہیں کہ حالت اعتکاف میں بیوی سے جماع کرنے والے پر وہی کفارہ لازم ہے جو رمضان میں جماع کرنے والے پر لازم ہے۔

9779

(۹۷۷۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ شَرِیکٍ ، عَنِ الشَّیْبَانِیِّ ، عَنْ بُکَیْرِ بْنِ الأَخْنَسِ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ؛ فِی الْمُعْتَکِفِ إذَا جَامَعَ ، قَالَ : یَتَصَدَّقُ بِدِینَارَین۔
(٩٧٧٩) حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ معتکف نے اگر جماع کیا تو وہ دو دینار صدقہ کرے گا۔

9780

(۹۷۸۰) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ بْنِ أَبِی خَالِدٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ؛ فِی امْرَأَۃٍ نَذَرَتْ أَنْ تَعْتَکِفَ خَمْسِینَ یَوْمًا ، فَاعْتَکَفَتْ أَرْبَعِینَ ، ثُمَّ جَائَ زَوْجُہَا فَأَرْسَلَ إلَیْہَا فَأَتَتْہُ ، قَالَ : تُتِمُّ مَا بَقِیَ۔
(٩٧٨٠) حضرت شعبی فرماتے ہیں کہ اگر کسی عورت نے نذر مانی کہ وہ پچاس دن تک اعتکاف کرے گی، ابھی چالیس دن گذرے تھے کہ اس کے خاوند نے اس سے ہمبستری کی تو وہ باقی دن پورے کرلے۔

9781

(۹۷۸۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ عَطَائٍ ، أَنَّہُ کَرِہَ لِلْمُعْتَکِفِ أَنْ یُقَبِّلَ ، أَوْ یُبَاشِرَ۔
(٩٧٨١) حضرت عطاء نے معتکف کے لیے اس بات کو مکروہ قرار دیا ہے کہ وہ اپنی بیوی کا بوسہ لے یا اس سے گلے ملے۔

9782

(۹۷۸۲) حَدَّثَنَا الفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : لاَ یُقَبِّلُ الْمُعْتَکِفُ ، وَلاَ یُبَاشِرُ۔
(٩٧٨٢) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ معتکف نہ اپنی بیوی کا بوسہ لے گا نہ اس سے گلے ملے گا۔

9783

(۹۷۸۳) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنِ ابْنِ أَبِی نَجِیحٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، قَالَ : الْمُعْتَکِفُ لاَ یَبِیعُ ، وَلاَ یَبْتَاعُ۔
(٩٧٨٣) حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ معتکف خریدو فروخت نہیں کرسکتا۔

9784

(۹۷۸۴) حَدَّثَنَا سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ عَمَّارِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ یَسَارٍ ، عَنْ أَبِیہِ ؛ أَنَّ عَلِیًّا أَعَانَ جَعْدَۃَ بْنَ ہُبَیْرَۃَ بِسَبْعِ مِئَۃ دِرْہَمٍ مِنْ عَطَائِہِ فِی ثَمَنِ خَادِمٍ لَہُ ، فَسَأَلَہُ : ہَلَ ابْتَعْتَ خَادِمًا ؟ قَالَ : أَنَا مُعْتَکِفٌ ، قَالَ : وَمَا عَلَیْک لََوْ أَتَیْتَ السُّوقَ ، فَابْتَعْت خَادِمًا۔
(٩٧٨٤) حضرت عبداللہ بن یسار فرماتے ہیں کہ حضرت علی نے ایک خادم خریدنے کے سلسلے میں حضرت جعدہ بن ہبیرہ کی مدد کرتے ہوئے انھیں سات سو دینار دیئے۔ پھر ان سے پوچھا کہ کیا آپ نے خادم خرید لیا۔ انھوں نے کہا کہ میں حالت اعتکاف میں ہوں۔ حضرت علی نے فرمایا کہ اگر بازار جاکرخادم خرید لو تو اس میں کچھ حرج نہیں۔

9785

(۹۷۸۵) حَدَّثَنَا جَرِیرُ بْنُ عَبْدِ الْحَمِیدِ ، عَنْ لَیْثٍ ، قَالَ : سُئِلَ طَاوُوس عَنِ امْرَأَۃٍ مَاتَتْ وَعَلَیْہَا أَنْ تَعْتَکِفَ سَنَۃً فِی الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ، وَلَہَا أَرْبَعَۃُ بَنُونَ ، کُلُّہُمْ یُحِبُّ أَنْ یَقْضِیَ عَنْہَا ؟ قَالَ طَاوُوس : اعْتَکِفُوا أَرْبَعَتُکُمْ فِی الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ، ثَلاَثَۃَ أَشْہُرٍ ، وَصُومُوا۔
(٩٧٨٥) حضرت لیث فرماتے ہیں کہ حضرت طاوس سے ایک عورت کے بارے میں سوال کیا گیا کہ اس کا انتقال ہوگیا ہے اس نے منت مانی تھی کہ وہ ایک سال مسجد حرام میں اعتکاف کرے گی۔ اس کے چار بچے ہیں جن میں سے ہر ایک اس کی جگہ اعتکاف میں بیٹھنے کو تیار ہے۔ حضرت طاوس نے فرمایا کہ ان چاروں کو تین ماہ کے لیے اعتکاف میں بٹھا دو اور وہ روزے بھی رکھیں۔

9786

(۹۷۸۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنِ الْحَکَمِ ، قَالَ : لاَ یُقْضَی عَنِ الْمَیِّتِ اعْتِکَافُ۔
(٩٧٨٦) حضرت حکم فرماتے ہیں کہ میت کے اعتکاف کی قضا نہیں کی جائے گی۔

9787

(۹۷۸۷) حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَبْدِ الْوَارِثِ ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَۃَ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُتْبَۃَ ؛ أَنَّ أُمَّہُ نَذَرَتْ أَنْ تَعْتَکِفَ عَشْرَۃَ أَیَّامٍ ، فَمَاتَتْ وَلَمْ تَعْتَکِفْ ، فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ : اعْتَکِفْ عَنْ أُمِّک۔
(٩٧٨٧) حضرت عبید اللہ بن عبداللہ بن عتبہ فرماتے ہیں کہ میری والدہ نے نذرمانی تھی کہ وہ دس دن اعتکاف میں بیٹھیں گی، لیکن ان کا انتقال ہوگیا اور وہ اعتکاف میں نہ بیٹھ سکیں۔ حضرت عبداللہ بن عباس نے فرمایا کہ اپنی والدہ کی طرف سے اعتکاف کرو۔

9788

(۹۷۸۸) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ بْنِ الْمُہَاجِرِ ، عَنْ عَامِرِ بْنِ مُصْعَبٍ ؛ أَنَّ عَائِشَۃَ اعْتَکَفَتْ عَنْ أَخِیہَا بَعْدَ مَا مَاتَ۔
(٩٧٨٨) حضرت عامر بن مصعب فرماتے ہیں کہ حضرت عائشہ نے اپنے بھائی کے انتقال کے بعد ان کی طرف سے اعتکاف کیا۔

9789

(۹۷۸۹) حَدَّثَنَا ہُشَیْمُ بْنُ بَشِیرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا حَجَّاجٌ ، عَنْ عَطَائٍ ؛ أَنَّہُ کَانَ لاَ یَرَی بَأْسًا بِالْمُعْتَکِفِ أَنْ یَغْسِلَ ثِیَابَہُ وَیَخِیطَہَا۔
(٩٧٨٩) حضرت حجاج فرماتے ہیں کہ حضرت عطاء اس بارے میں کوئی حرج نہ سمجھتے تھے کہ معتکف اپنے کپڑے دھوئے یا اپنے کپڑے سیئے۔

9790

(۹۷۹۰) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ بْنُ حُسَیْنٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ عُرْوَۃَ ، عَنْ عَائِشَۃَ ، قَالَتْ : کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إذَا کَانَ مُعْتَکِفًا ، لَمْ یَدْخُلِ الْبَیْتَ إِلاَّ لِحَاجَۃٍ ، قَالَتْ : فَغَسَلْتُ رَأْسَہُ ، وَإِنَّ بَیْنِی وَبَیْنَہُ لَعَتَبَۃَ الْبَابِ۔ (بخاری ۲۹۵۔ ابوداؤد ۲۴۶۱)
(٩٧٩٠) حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ نبی پاک (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب اعتکاف میں بیٹھتے تو صرف کسی ضرورت کی وجہ سے گھر میں داخل ہوتے تھے۔ میں آپ کا سر مبارک دھوتی تھی اور میرے اور آپ کے درمیان دروازے کی چوکھٹ ہوا کرتی تھی۔

9791

(۹۷۹۱) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إبْرَاہِیمَ، قَالَ: إذَا حَاضَتِ الْمُعْتَکِفَۃُ ضَرَبَتْ فِی دَارِہَا سِتْرًا، فَکَانَتْ فِیہِ۔
(٩٧٩١) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ اگر اعتکاف میں بیٹھی ہوئی عورت کو حیض آجائے تو وہ گھر میں ایک پردہ لگائے، اور اس میں ٹھہری رہے۔

9792

(۹۷۹۲) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ، عَنْ خَالِدٍ، عَنْ أَبِی قِلاَبَۃَ، قَالَ: الْمُعْتَکِفَۃُ تَضْرِبُ بِنَاہَا عَلَی بَابِ الْمَسْجِدِ إذَا حَاضَتْ۔
(٩٧٩٢) حضرت ابو قلابہ فرماتے ہیں کہ اعتکاف میں بیٹھی ہوئی عورت کو اگر حیض آجائے تو مسجد کے دروازے پر خیمہ لگا کر ٹھہر جائے۔

9793

(۹۷۹۳) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّائِ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ ؛ أَنَّ بَعْضَ أَزْوَاجِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَتْ مُسْتَحَاضَۃً وَہِیَ عَاکِفٌ۔
(٩٧٩٣) حضرت عکرمہ فرماتے ہیں کہ نبی پاک (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ایک زوجہ حالت حیض میں اعتکاف میں بیٹھا کرتی تھیں۔

9794

(۹۷۹۴) حَدَّثَنَا عَبَّادٌ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ ، عَنِ الْحَسَنِ ؛ أَنَّہُ کَانَ یَکْرَہُ أَنْ یَدْخُلَ الْمُعْتَکِفُ الْقَبْرَ۔
(٩٧٩٤) حضرت حسن اس بات کو مکروہ خیال فرماتے تھے کہ معتکف قبر میں داخل ہو۔

9795

(۹۷۹۵) حَدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ سَالِمٍ ؛ قَالَ : صَنَعَ طَعَامًا فَأَرْسَلَ إلَی سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ، فَقَالَ : إنِّی صَائِمٌ ، فَحَدَّثَہُ بِحَدِیثِ سَلْمَانَ ؛ أَنَّہُ فَطَّرَ أَبَا الدَّرْدَائِ ، فَأَفْطَرَ۔
(٩٧٩٥) حضرت شریک فرماتے ہیں کہ حضرت سالم نے ایک مرتبہ کھانا تیار کروایا اور حضرت سعید بن جبیر کی طرف ایک آدمی بھیج کر انھیں بلایا۔ حضرت سعید بن جبیر نے فرمایا کہ میرا روزہ ہے۔ حضرت سالم نے انھیں حضرت سلمان کی حدیث سنائی کہ حضرت ابوالدرداء نے ان کے کہنے پر روزہ توڑ دیا تھا۔ اس پر حضرت سعید بن جبیر نے روزہ توڑ دیا۔

9796

(۹۷۹۶) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ وَبَرَۃَ ، عَنْ خَرَشَۃَ بْنِ الْحُرِّ ، قَالَ : کُنَّا عِنْدَ عُمَرَ فَأُتِیَ بِطَعَامٍ ، فَقَالَ لِلْقَوْمِ : اِطْعِمُوا ، فَکُلُّہُمْ یَقُولُ : إنِّی صَائِمٌ ، فَعَزَمَ عَلَیْہِمْ أَنْ یُفْطِرُوا ، فَأَفْطَرُوا۔
(٩٧٩٦) حضرت خرشہ بن حر فرماتے ہیں کہ ہم حضرت عمر کے پاس تھے کہ ان کے پاس کھانالایا گیا۔ انھوں نے لوگوں کو کھانا کھانے کو کہا تو سب لوگوں نے کہا کہ ہمارا روزہ ہے۔ حضرت عمر نے انھیں اصرار کیا کہ وہ روزہ توڑ دیں چنانچہ سب لوگوں نے روزہ توڑد یا۔

9797

(۹۷۹۷) حَدَّثَنَا ابْنُ مُبَارَکٍ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ، عَنْ عَطَائٍ، قَالَ: سَأَلَہُ سُلَیمَان بْن مُوسَی أَکَانَ یُفْطِرُ الرَّجُلُ لِضَیْفِہِ؟ قَالَ : نَعَمْ۔
(٩٧٩٧) حضرت سلیمان بن موسیٰ نے حضرت عطاء سے سوال کیا کہ کیا آدمی اپنے مہمان کے لیے روزہ توڑ سکتا ہے ؟ انھوں نے فرمایا ہاں۔

9798

(۹۷۹۸) حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ مُعَاذٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا أَشْعَثُ ، عَنِ الْحَسَنِ ؛ أَنَّہُ کَانَ یُرَخِّصُ لِلرَّجُلِ الصَّائِمِ إذَا نَزَلَ بِہِ الضَّیْفُ أَنْ یُفْطِرَ ، وَیَقْضِیَ یَوْمًا مَکَانَہُ۔
(٩٧٩٨) حضرت حسن اس بات کی رخصت دیا کرتے تھے کہ اگر کسی کے یہاں کوئی مہمان آئے تو وہ مہمان کی خاطر روزہ توڑدے اور اس کی جگہ ایک دن کے روزے کی قضا کرے۔

9799

(۹۷۹۹) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، قَالَ : سَأَلْتُ الْحَکَمَ ، وَحَمَّادًا عَنِ الرَّجُلِ یَصُومُ تَطَوُّعًا فَنَہَتْہُ أُمُّہُ ؟ قَالاَ : یُطِیعُہَا ، وَیَصُومُ أَحْیَانًا۔
(٩٧٩٩) حضرت شعبہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت حکم اور حضرت حماد سے سوال کیا کہ اگر ایک آدمی نے نفلی روزہ رکھا ہو اور اس کی ماں اسے روزہ توڑنے کو کہے تو وہ کیا کرے ؟ ان دونوں حضرات نے فرمایا کہ وہ اپنی والدہ کی بات مانے اور کبھی کبھی روزہ رکھاکرے۔

9800

(۹۸۰۰) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ عَطَائٍ ، قَالَ : قُلْتُ لَہُ : إنَّ أُمِّی تُقْسِمُ عَلَیَّ أَنْ لاَ أُصَلِّیَ بَعْدَ الْمَکْتُوبَۃِ شَیْئًا ، وَلاَ أَصُوم إِلاَّ فَرِیضَۃً ، شَفَقَۃً عَلَیَّ ؟ قَالَ : أَبْرِرْ قَسَمَہَا۔
(٩٨٠٠) حضرت لیث کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عطاء سے پوچھا کہ میری والدہ نے مجھ پر شفقت کرتے ہوئے مجھے قسم دی ہے کہ میں فرض کے بعد کوئی نماز نہ پڑھوں اور فرض کے علاوہ کوئی روزہ نہ رکھوں، اب میرے لیے کیا حکم ہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ اپنی والدہ کی قسم کو پورا کرو۔

9801

(۹۸۰۱) حَدَّثَنَا ابْنُ مُبَارَکٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ یَزِیدَ ، قَالَ : سَأَلْتُ مَکْحُولاً عَنْ رَجُلٍ أَصْبَحَ صَائِمًا ، ثُمَّ عَزَمَتْ عَلَیْہِ أُمُّہُ أَنْ یُفْطِرَ ؟ کَأَنَّہُ کَرِہَ ذَلِکَ ، وَقَالَ : یَصُومُ یَوْمًا مَکَانَہُ۔
(٩٨٠١) حضرت عبد الرحمن بن یزید فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت مکحول سے سوال کیا کہ اگر ایک آدمی نے نفلی روزہ رکھا ہو اور اس کی ماں اسے روزہ توڑنے کو کہے تو وہ کیا کرے ؟ حضرت مکحول نے فرمایا کہ اس روزے کو توڑ دے اور اس کی جگہ ایک دن کی قضا کرے۔

9802

(۹۸۰۲) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ ، عَنْ عَطَائٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : أَتَتِ امْرَأَۃٌ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَتْ : یَا نَبِیَّ اللہِ ، مَا حَقُّ الزَّوْجِ عَلَی زَوْجَتِہِ ؟ قَالَ : لاَ تَصُومُ إِلاَّ بِإِذْنِہِ إِلاَّ الْفَرِیضَۃَ ، فَإِنْ فَعَلَتْ أَثَمَتْ ، وَلَمْ یُقْبَلْ مِنْہَا۔ (ابوداؤد ۱۹۵۱)
(٩٨٠٢) حضرت ابن عمر فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ ایک عورت حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئی اور اس نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! خاوند کا اپنی بیوی پر کیا حق ہے ؟ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ وہ اپنے خاوند کی اجازت کے بغیر نفلی روزہ نہ رکھے، اگر اس نے ایسا کیا تو وہ گناہ گار ہوگی اور اس کا یہ عمل قبول نہ ہوگا۔

9803

(۹۸۰۳) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ یَزِیدَ ، عَنْ زَیْدِ بْنِ وَہْبٍ ، قَالَ : کَتَبَ إلَیْنَا عُمَرُ أَنَّ الْمَرْأَۃَ لاَ تَصُومُ تَطَوُّعًا ، إِلاَّ بِإِذْنِ زَوْجِہَا۔
(٩٨٠٣) حضرت زید بن وہب فرماتے ہیں کہ حضرت عمر نے ہماری طرف خط لکھا کہ عورت اپنے خاوند کی اجازت کے بغیر نفلی روزہ نہیں رکھ سکتی۔

9804

(۹۸۰۴) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ یَزِیدَ ، عَنْ مِقْسَمٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : لاَ تَصُومُ تَطَوُّعًا وَہُوَ شَاہِدٌ إِلاَّ بِإِذْنِہِ۔
(٩٨٠٤) حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ جب خاوند موجود ہو تو عورت اپنے خاوند کی اجازت کے بغیر نفلی روزہ نہیں رکھ سکتی۔

9805

(۹۸۰۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیانَ ، عَنْ أَبِی الزِّنَادِ ، عَنْ مُوسَی بْنِ أَبِی عُثْمَانَ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، أَنَّہُ قَالَ : لاَ تَصُومُ الْمَرْأَۃُ إِلاَّ بِإِذْنِ زَوْجِہَا۔ (بخاری ۵۱۹۵۔ مسلم ۸۴)
(٩٨٠٥) حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ عورت اپنے خاوند کی اجازت کے بغیر نفلی روزہ نہیں رکھ سکتی۔

9806

(۹۸۰۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ ابْنِ أَبِی لَیْلَی ، عَنْ عَطَائٍ ، عَنْ أَبِی الْخَلِیلِ ، عَنْ أَبِی قَتَادَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : صَوْمُ عَرَفَۃَ کَفَّارَۃُ سَنَتَیْنِ : سَنَۃٍ مَاضِیَۃٍ ، وَسَنَۃٍ مُسْتَقْبَلَۃٍ۔
(٩٨٠٦) حضرت ابو قتادہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ یوم عرفہ کا روزہ دو سال کے گناہوں کا کفارہ ہے، ایک گزشتہ سال کے گناہوں اور ایک آنے والے سال کے گناہوں کا۔

9807

(۹۸۰۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ مَہْدِیِّ بْنِ مَیْمُونٍ ، عَنْ غَیْلاَنَ بْنِ جَرِیرٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مَعْبَدٍ الزِّمَّانِیِّ ، عَنْ أَبِی قَتَادَۃَ ؛ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سُئِلَ عَنْ صِیَامِ عَرَفَۃَ ؟ فَقَالَ : أحْتَسِبُ عَلَی اللہِ کَفَّارَۃَ سَنَتَیْنِ : سَنَۃً مَاضِیَۃً ، وَسَنَۃً مُسْتَقْبَلَۃً۔
(٩٨٠٧) حضرت ابو قتادہ فرماتے ہیں کہ نبی پاک (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یوم عرفہ کے روزے کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ یوم عرفہ کے روزہ کو دو سال کے گناہوں کا کفارہ سمجھو، ایک گزشتہ سال کے گناہوں کا اور ایک آنے والے سال کے گناہوں کا۔

9808

(۹۸۰۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، عَنْ شُعْبَۃَ، عَنْ أَبِی قَیْسٍ، عَنْ ہُزَیْلٍ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَائِشَۃَ؛ أَنَّہَا کَانَتْ تَصُومُ عَرَفَۃَ۔
(٩٨٠٨) حضرت عائشہ یومِ عرفہ کو روزہ رکھا کرتی تھیں۔

9809

(۹۸۰۹) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ أَبِی قَیْسٍ ، عَنْ ہُزَیْلٍ ، عَنْ مَسْرُوق ، عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ : مَا مِنَ السَّنَۃِ یَوْمٌ أَحَبُّ إلَیَّ أَنْ أَصُومَہُ مِنْ یَوْمِ عَرَفَۃَ۔
(٩٨٠٩) حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ پورے سال میرے نزدیک روزہ رکھنے کے لیے سب سے زیادہ پسندیدہ دن عرفہ کا دن ہے۔

9810

(۹۸۱۰) حَدَّثَنَا مُعَاوِیَۃُ بْنُ ہِشَامٍ ، عَنْ أَبِی حَفْصٍ الطَّائِفِیِّ ، عَنْ أَبِی حَازِمٍ ، عَنْ سَہْلِ بْنِ سَعْدٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : صَوْمُ عَرَفَۃَ کَفَّارَۃُ سَنَتَیْنِ۔ (ابویعلی ۷۵۴۸۔ طبرانی ۵۹۲۳)
(٩٨١٠) حضرت سہل بن سعد سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ عرفہ کا روزہ دو سال کے گناہوں کا کفارہ ہے۔

9811

(۹۸۱۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ ، عَنْ أَبِیہِ ، أَنَّہُ کَانَ یَصُومُ عَرَفَۃَ۔
(٩٨١١) حضرت قاسم یوم عرفہ کا روزہ رکھا کرتے تھے۔

9812

(۹۸۱۲) حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ الأَزْرَقُ ، عَنْ أَبِی الْعَلاَئِ ، عَنْ أَبِی ہَاشِمٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ فِی صَوْمِ عَرَفَۃَ فِی الْحَضَرِ: إذَا کَانَ فِیہِ اخْتِلاَفٌ فَلاَ یَصُومَنَّ۔
(٩٨١٢) حضرت ابراہیم حضر میں یوم عرفہ کے روزے کے بارے میں فرماتے ہیں کہ اگر اس میں اختلاف ہو تو ہرگز روزہ نہیں رکھنا چاہیے۔

9813

(۹۸۱۳) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا ابْنُ عَوْنٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : کَانُوا لاَ یَرَوْنَ بِصَوْمِ عَرَفَۃَ بَأْسًا ، إِلاَّ أَنْ یَتَخَوَّفُوا أَنْ یَکُونَ یَوْمَ الذَّبْحِ۔
(٩٨١٣) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ اسلاف یوم عرفہ کے روزے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے البتہ اگر اس کے بارے میں یوم نحر ہونے کا خوف ہو تو پھر اس دن روزہ نہیں رکھنا چاہیے۔

9814

(۹۸۱۴) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ یَزِیدَ بْنِ أَبِی زِیَادٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، أَنَّ عَائِشَۃَ قَالَتْ : إنَّ صَوْمَ عَرَفَۃَ کَفَّارَۃُ نِصْفِ سَنَۃٍ ، قَالَ : وَقَالَ مُجَاہِدٌ ، قَالَ فُلاَنٌ : کَفَّارَۃُ سَنَۃٍ۔
(٩٨١٤) حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ عرفہ کا روزہ آدھے سال کے گناہوں کا کفارہ ہے۔ حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ ایک سال کے گناہوں کا کفارہ ہے۔

9815

(۹۸۱۵) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا حُمَیْدٌ الطَّوِیلُ ، قَالَ : ذُکِرَ عِنْدَ الْحَسَنِ أَنَّ صِیَامَ عَرَفَۃَ یَعْدِلُ صِیَامَ سَنَۃٍ ، فَقَالَ الْحَسَنُ : مَا أَعْلَمُ لِیَوْمٍ فَضْلاً عَلَی یَوْمٍ ، وَلاَ لِلَیْلَۃٍ عَلَی لَیْلَۃٍ ، إِلاَّ لَیْلَۃَ الْقَدْرِ فَإِنَّہَا خَیْرٌ مِنْ أَلْفِ شَہْرٍ ، وَلَقَدْ رَأَیْتُ عُثْمَانَ بْنَ أَبِی الْعَاصِ صَامَ یَوْمَ عَرَفَۃَ ، یَرُشُّ عَلَیْہِ الْمَائَ مِنْ إدَاوَۃٍ مَعَہُ ، یَتَبَرَّدُ بِہِ۔
(٩٨١٥) حضرت حمید الطویل فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت حسن کے سامنے ذکر کیا گیا کہ یوم عرفہ کے روزے کا ثواب ایک سال کے روزوں کے برابر ہے۔ یہ سن کر حضرت حسن نے فرمایا کہ میرے خیال میں کسی دن کو دوسرے دن پر کوئی فضیلت حاصل نہیں۔ اور سوائے لیلۃ القدر کے کسی دوسری رات کو کسی پر کوئی فضیلت حاصل نہیں۔ شبِ قدر ایک ہزار راتوں سے بہتر ہے۔ میں نے حضرت عثمان بن ابی العاص کو دیکھا کہ وہ یوم عرفہ کو روزہ رکھا کرتے تھے تو سخت گرمی کی وجہ سے ٹھنڈک کی خاطر ان پر پانی چھڑکا جاتا تھا۔

9816

(۹۸۱۶) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ مُبَارَکٍ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ سَعِیدٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ ثَابِتٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا أَیُّوبَ الأَنْصَارِیَّ یَقُولُ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَنْ صَامَ رَمَضَانَ ، ثُمَّ أَتْبَعَہُ بِسِتَّۃِ أَیامٍ مِنْ شَوَّالٍ فَقَدْ صَامَ الدَّہْرَ ، أَوْ فَکَأَنَّمَا صَامَ الدَّہْرَ۔ (ترمذی ۷۵۹۔ ابوداؤد ۲۴۲۵)
(٩٨١٦) حضرت ابو ایوب انصاری سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ جس نے رمضان کے روزے رکھے، پھر شوال کے بھی چھ روزے رکھے، اس نے گویا پورے سال کے روزے رکھے۔

9817

(۹۸۱۷) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَنْ أَبِی مُوسَی ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : إذَا ذُکِرَ عِنْدَہُ السِّتَّۃُ الأَیَّامُ الَّتِی یَصُومُہَا بَعْضُ النَّاسِ بَعْدَ رَمَضَانَ تَطَوُّعًا ، قَالَ : یَقُولُ : لَقَدْ رَضِیَ اللَّہُ عَزَّ وَجَلَّ بِہَذَا الشَّہْرِ لِلسَّنَۃِ کُلِّہَا۔
(٩٨١٧) حضرت ابو موسیٰ فرماتے ہیں کہ جب حضرت حسن کے سامنے رمضان کے بعد چھ نفلی روزے رکھنے کا ذکر کیا جاتا تو فرماتے کہ اللہ تعالیٰ اس مہینے کے روزوں پر پورے سال کے روزوں کا ثواب دیتے ہیں۔

9818

(۹۸۱۸) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ، عَنْ أَبِی سَلَمَۃَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، قَالَ : قَالَتْ عَائِشَۃُ : إِنْ کَانَ لَیَکُونُ عَلَیَّ الصَّوْمُ مِنْ شَہْرِ رَمَضَانَ ، فَمَا أَقْضِیہ حَتَّی یَأْتِیَ شَعْبَانُ۔ (بخاری ۱۹۵۰۔ مسلم ۱۵۱)
(٩٨١٨) حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ مجھ پر رمضان کے روزوں کی قضا ہوتی تھی، میں یہ روزے شعبان میں رکھا کرتی تھی۔

9819

(۹۸۱۹) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَنْ زَائِدَۃَ ، عَنِ السُّدِّیِّ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ الْبَہِیِّ ، عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ : مَا کُنْت أَقْضِی مَا یَبْقَی عَلَیَّ مِنْ رَمَضَانَ فِی حَیَاۃِ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِلاَّ فِی شَعْبَانَ۔ (ترمذی ۷۸۳۔ احمد ۶/۱۷۹)
(٩٨١٩) حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حیات مبارکہ میں رمضان کے روزوں کی قضاء میں شعبان میں کیا کرتی تھی۔

9820

(۹۸۲۰) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِیزِ بْنُ عُمَرَ ، قَالَ : حَدَّثَنِی مَنْ لاَ أَتَّہِمُ ، عَنْ عُبَادَۃَ بْنِ الصَّامِتِ ، قَالَ : کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إذَا رَأَی الْہِلاَلَ ، قَالَ : اللَّہُ أَکْبَرُ اللَّہُ أَکْبَرُ ، الْحَمْدُ لِلَّہِ، وَلاَ حَوْلَ وَلاَ قُوَّۃَ إِلاَّ بِاللَّہِ ، اللَّہُمَّ إنِّی أَسْأَلُک خَیْرَ ہَذَا الشَّہْرِ ، وَأَعُوذُ بِکَ مِنْ شَرِّ الْقَدَرِ ، وَمِنْ شَرِّ یَوْمِ الْحَشْرِ۔ (دارمی ۱۶۸۷۔ ابن حبان ۸۸۸)
(٩٨٢٠) حضرت عبادہ بن صامت سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب چاند کو دیکھتے تو یہ دعا پڑھتے (ترجمہ) اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے۔ گناہ سے بچنے کی قوت اور نیکی کرنے کی طاقت صرف اللہ کی طرف سے ہے۔ اے اللہ ! میں تجھ سے اس مہینے کی خیر کا سوال کرتا ہوں، میں تجھ سے تقدیر کے شر اور قیامت کے دن کی مصیبت سے پناہ مانگتا ہوں۔

9821

(۹۸۲۱) حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إسْمَاعِیلَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ حَرْمَلَۃَ ، قَالَ : انْصَرَفْتُ مَعَ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ مِنَ الْمَسْجِدِ فَقُلْنَا : ہَذَا الْہِلاَلُ ، یَا أَبَا مُحَمَّدٍ ، فَلَمَّا أَبْصَرَہُ ، قَالَ : آمَنْتُ بِالَّذِی خَلَقَک فَسَوَّاک فَعَدَلَک ، ثُمَّ الْتَفَتَ إلَیَّ ، فَقَالَ : کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إذَا رَأَی الْہِلاَلَ قَالَ ہَکَذَا۔ (عبدالرزاق ۷۳۵۱)
(٩٨٢١) حضرت عبدالرحمن بن حرملہ فرماتے ہیں کہ میں حضرت سعیدبن مسیب کے ساتھ مسجد سے باہر آیا تو ہم نے کہا کہ اے ابو محمد ! وہ دیکھیں چاند ! جب انھوں نے چاند دیکھا تو کہا (ترجمہ) میں اس رب پر ایمان لایا جس نے تجھے پیدا کیا، تجھے برابر کیا اور تیری جسامت کو متوازی بنایا۔ پھر میری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چاند دیکھ کر یہی کلمات کہا کرتے تھے۔

9822

(۹۸۲۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ زَکَرِیَّا ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ عُبَیْدِ بْنِ عَمْرٍو ، عَنْ عَلِیٍّ ، قَالَ : إذَا رَأَی أَحَدُکُمُ الْہِلاَلَ فَلاَ یَرْفَعْ بِہِ رَأْسَہ ، إنَّمَا یَکْفِی مِنْ أَحَدِکُمْ أَنْ یَقُولَ : رَبِّی وَرَبُّک اللَّہُ۔
(٩٨٢٢) حضرت علی فرماتے ہیں کہ جب تم میں سے کوئی چاند دیکھے تو اپنا سر نہ اٹھائے، تمہارے لے اتنا کہنا ہی کافی ہے کہ میرا اور تیرا رب اللہ ہے۔

9823

(۹۸۲۳) حَدَّثَنَا فُضَیْلُ بْنُ عِیَاضٍ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : إذَا رَأَیْت الْہِلاَلَ فَقُلْ : رَبِّی وَرَبُّک اللَّہُ۔
(٩٨٢٣) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ جب تم چاند دیکھو تو کہو کہ میرا اور تیرا رب اللہ ہے۔

9824

(۹۸۲۴) حَدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، أَنَّ عَلِیًّا کَانَ یَقُولُ إذَا رَأَی الْہِلاَلَ : اللَّہُمَّ ارْزُقْنَا نَصْرَہُ وَخَیْرَہُ وَبَرَکَتَہُ وَفَتْحَہُ وَنُورَہُ ، نَعُوذُ بِکَ مِنْ شَرِّہِ وَشَرِّ مَا بَعْدَہُ۔
(٩٨٢٤) حضرت ابو اسحاق فرماتے ہیں کہ حضرت علی جب چاند دیکھتے تو یہ کلمات کہا کرتے تھے (ترجمہ) اے اللہ ! ہمیں مدد، خیر، برکت، فتح اور نور عطا فرما۔ ہم اس چاند کے شر سے اور اس کے بعد آنے والی چیز کے شر سے تیری پناہ مانگتے ہیں۔

9825

(۹۸۲۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ رَجُلٍ مِنَ النَّخَعِ ، عَنْ أَبِی مَسْعُودٍ الْبَدْرِیِّ ، قَالَ : لأَنْ أَخِرَّ مِنْ ہَذَا الْقَصْرِ أَحَبُّ إلَیَّ مِنْ أَنْ أَفْعَلَ کَمَا یَفْعَلُونَ ، إذَا رَأَی أَحَدُکُمُ الْہِلاَلَ کَأَنَّمَا یَرَی رَبَّہُ۔
(٩٨٢٥) حضرت ابو مسعود بدری فرماتے ہیں کہ میں اس محل سے منہ کے بل گر جاؤں یہ مجھے اس بات سے زیادہ پسند ہے کہ میں ان لوگوں کی طرح کا عقیدہ رکھوں جو یہ کہتے ہیں کہ جب تم میں سے کوئی چاند کو دیکھے تو یہ خیال کرے کہ وہ اپنے رب کو دیکھ رہا ہے۔

9826

(۹۸۲۶) حَدَّثَنَا حُسَین بْنُ عَلِیٍّ ، قَالَ : سَأَلْتُ ہِشَامَ بْنَ حَسَّانَ : أَیُّ شَیْئٍ کَانَ الْحَسَنُ یَقُولُ إذَا رَأَی الْہِلاَلَ ؟ قَالَ : کَانَ یَقُولُ : اللَّہُمَّ اجْعَلْہُ شَہْرَ بَرَکَۃٍ وَنُورٍ وَأَجْرٍ وَمُعَافَاۃٍ ، اللَّہُمَّ إنَّک قَاسِمٌ بَیْنَ عِبَادِکَ فِیہِ خَیْرًا ، فَاقْسِمْ لَنَا فِیہِ مِنْ خَیْرِ مَا تُقْسِمُ فِیہِ بَیْنَ عِبَادِکَ الصَّالِحِینَ۔
(٩٨٢٦) حضرت حسین بن علی فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ہشام بن حسان سے سوال کیا کہ حضرت حسن چاند دیکھ کر کون سی دعا پڑھا کرتے تھے۔ انھوں نے فرمایا کہ وہ یہ کہتے تھے (ترجمہ) اے اللہ ! اس مہینے کو برکت، نور، اجر اور معافی کا ذریعہ بنا دے۔ اے اللہ ! تو اپنے بندوں کے درمیان خیر کو تقسیم کرتا ہے۔ تو خیر کو ہمارے درمیان اس طرح تقسیم کردے جیسے تو اپنے نیک بندوں کے درمیان تقسیم کرتا ہے۔

9827

(۹۸۲۷) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، قَالَ : سَأَلْتُ ابْنَ جُرَیْجٍ فَذَکَرَ ، عَنْ عَطَائٍ : أَنَّ رَجُلاً أَہَلَّ ہِلاَلاً بِفَلاَۃٍ مِنَ الأَرْضِ ، قَالَ : فَسَمِعَ قَائِلاً یَقُولُ : اللَّہُمَّ أَہِلَّہُ عَلَیْنَا بِالأَمْنِ وَالإِیمَانِ ، وَالسَّلاَمَۃِ وَالإِسْلاَمِ ، وَالْہُدَی وَالْمَغْفِرَۃِ ، وَالتَّوْفِیقِ لِمَا تَرْضَی ، وَالْحِفْظِ مِمَّا تَسْخَطُ ، رَبِّی وَرَبُّک اللَّہُ ، قَالَ : فَلَمْ یَزَلْ یُلْقیہنَّ حَتَّی حَفِظْتُہُنَّ ، وَمَا أرََی أَحَدًا۔
(٩٨٢٧) حضرت ابن جریج فرماتے ہیں کہ حضرت عطاء نے ایک آدمی کو دیکھا کہ جب ایک ویرانے میں اسے چاند نظر آیا تو اس نے یہ کلمات کہے (ترجمہ) اے اللہ ! اس چاند کو ہم پر امن وایمان، سلامتی وسلام، ہدایت و مغفرت اور ایسی توفیق کے ساتھ طلوع فرما جس سے تو راضی ہو، ان کاموں سے حفاظت عطا فرما جو تیری ناراضگی کا سبب ہوں۔ میرا اور تیرا رب اللہ ہے۔ حضرت عطاء فرماتے ہیں کہ وہ مسلسل یہ کلمات کہتا رہا یہاں تک کہ میں نے انھیں زبانی یاد کرلیا۔ میں نے کسی کو یہ کلمات کہتے نہیں دیکھا۔

9828

(۹۸۲۸) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَنْ زَائِدَۃَ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : کَانَ یُعْجِبُہُمْ إذَا رَأَی الرَّجُلُ الْہِلاَلَ أَنْ یَقُولَ : رَبِّی وَرَبُّک اللَّہُ۔
(٩٨٢٨) حضرت ابراہیم کو یہ بات بہت پسند آتی جب وہ کسی آدمی کو چاند دیکھ کر یہ کلمات کہتے دیکھتے : میرا اور تیرا رب اللہ ہے۔

9829

(۹۸۲۹) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنِ ابْنِ أَبِی نَجِیحٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، قَالَ : کَانَ یَکْرَہُ الإِشَارَۃَ عِنْدَ رُؤْیَۃِ الْہِلاَلِ وَرَفْعَ الصَّوْتِ۔
(٩٨٢٩) حضرت مجاہد چانددیکھ کر آواز بلند کرنے اور اشارہ کرنے کو مکروہ قرار دیتے تھے۔

9830

(۹۸۳۰) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْر ، قَالَ : حدَّثَنَا سَعِیدٌ ، عَنْ قَتَادَۃَ ؛ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ إذَا رَأَی ہِلاَلاً ، قَالَ : ہِلاَلُ خَیْرٍ وَرُشْدٍ ، ہِلاَلُ خَیْرٍ وَرُشْدٍ ، آمَنْتُ بِالَّذِی خَلَقَک ، ثَلاَثًا ، الْحَمْدُ لِلَّہِ الَّذِی ذَہَبَ بِشَہْرِ کَذَا وَکَذَا۔ (ابوداؤد ۵۰۵۱)
(٩٨٣٠) حضرت قتادہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب چاند دیکھا تو تین مرتبہ یہ کلمات فرمائے (ترجمہ) یہ خیر اور ہدایت کا چاند ہے، یہ خیر اور ہدایت کا چاند ہے، میں اس رب پر ایمان لایا جس نے تجھے پیدا کیا۔ پھر فرمایا تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جو اس مہینے کو لے آیا۔

9831

(۹۸۳۱) حَدَّثَنَا یَعْلَی ، قَالَ : حدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ دِینَارٍ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ؛ أَنَّہُ کَرِہَ أَنْ یَنْتَصِبَ لِلْہِلاَلِ ، وَلَکِنْ یَعْتَرِضُ وَیَقُولُ : اللَّہُ أَکْبَرُ ، وَالْحَمْدُ لِلَّہِ الَّذِی ذَہَبَ بِہِلاَلِ کَذَا وَکَذَا ، وَجَائَ بِہِلاَلِ کَذَا وَکَذَا۔
(٩٨٣١) حضرت ابن عباس اس بات کو مکروہ قرار دیتے تھے کہ چاند کی طرف رخ کرکے کھڑا ہوا جائے، وہ چاند کی طرف پہلو کر کے کھڑے ہوتے اور فرماتے (ترجمہ) تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جو اس مہینے کو لے گیا اور اس مہینے کو لے آیا۔

9832

(۹۸۳۲) حَدَّثَنَا عَبَّادٌ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ؛ أَنَّہُ سُئِلَ عَنْ صَوْمِ النَّیْرُوزِ ؟ فَکَرِہَہُ ، وَقَالَ : تُعَظِّمُونَہُ۔
(٩٨٣٢) حضرت حسن سے نیروز کے روزے کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے اسے مکروہ قرار دیا اور فرمایا کہ کیا تم اس کی تعظیم کرتے ہو ؟
(نیروز اہل فارس کے نزدیک سال کے پہلے دن کی عید ہوا کرتی تھی۔ نیز میلادی سال کے مطابق وہ اکیس مارچ کو خوشی کا دن مناتے تھے۔ )

9833

(۹۸۳۳) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا ہِشَامٌ ، قَالَ : سُئِلَ الْحَسَنُ عَنْ صَوْمِ یَوْمِ النَّیْرُوزِ ؟ فَقَالَ : مَا لَکُمْ وَلِلنَّیْرُوزِ ؟ لاَ تَلْتَفِتُوا إلَیْہِ ، فَإِنَّمَا ہُوَ لِلْعَجَمِ۔
(٩٨٣٣) حضرت حسن سے نیروز کے روزے کے بارے میں سوال کیا گا تو آپ نے فرمایا کہ تمہیں نیروز کے دن سے کیا واسطہ ؟ تم اس کا خیال نہ کرو یہ تو عجمیوں کے لیے ہے۔

9834

(۹۸۳۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ نُمَیْرِ بن عَرِیبٍ ، عَنْ عَامِرِ بْنِ مَسْعُود ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : الصَّوْمُ فِی الشِّتَائِ الْغَنِیمَۃُ الْبَارِدَۃُ۔ (احمد ۴/۳۳۵۔ ترمذی ۷۹۷)
(٩٨٣٤) حضرت عامر بن مسعود سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ سردیوں کا روزہ ٹھنڈی غنیمت ہے۔

9835

(۹۸۳۵) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَنْ زَائِدَۃَ ، عَنْ سُلَیْمَانَ التَّیْمِیِّ ، عَنْ أَبِی عُثْمَانَ ، قَالَ : قَالَ عُمَرُ : الشِّتَائُ غَنِیمَۃُ العَابِدِ۔
(٩٨٣٥) حضرت عمر فرماتے ہیں کہ سردی عابد کے لیے غنیمت ہے۔

9836

(۹۸۳۶) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ حُصَیْنٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، عَنْ عُبَیْدِ بْنِ عُمَیْرٍ ، قَالَ : کَانَ یَقُولُ إذَا جَائَ الشِّتَائُ : یَا أَہْلَ الْقُرْآنِ طَالَ اللَّیْلُ لِصَلاَتِکُمْ ، وَقَصُرَ النَّہَارُ لِصِیَامِکُمْ فَاغْتَنِمُوا۔
(٩٨٣٦) حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ جب سردی کا موسم آتا تو حضرت عبید بن عمیر فرمایا کرتے تھے کہ اے قرآن والو ! نماز کے لیے تمہاری رات لمبی ہوگئی ہے اور روزے کے لیے دن چھوٹا ہوگیا ہے۔ اسے غنیمت جانو۔

9837

(۹۸۳۷) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ حُصَیْنٍ ، عَنْ أَبِی زُہْرَۃَ ، قَالَ : کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إذَا صَامَ، ثُمَّ أَفْطَرَ ، قَالَ : اللَّہُمَّ لَکَ صُمْت وَعَلَی رِزْقِکَ أَفْطَرْت ، قَالَ : وَکَانَ الرَّبِیعُ بْنُ خُثَیْمٍ یَقُولُ : الْحَمْدُ لِلَّہِ الَّذِی أَعَانَنِی فَصُمْت ، وَرَزَقَنِی فَأَفْطَرْت۔ (ابوداؤد ۲۳۴۹۔ نسائی ۱۰۱۳۱)
(٩٨٣٧) حضرت ابو زہرہ فرماتے ہیں کہ نبی پاک (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب روزہ افطار کرتے تو یہ فرماتے (ترجمہ) اے اللہ ! میں نے تیرے لیے روزہ رکھا اور تیرے ہی رزق پر افطار کیا۔ حضرت ربیع بن خثیم افطاری کے وقت کہا کرتے تھے (ترجمہ) تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے مجھے توفیق دی تو میں نے روزہ رکھا اور اس نے مجھے رزق دیا اور میں نے افطار کیا۔

9838

(۹۸۳۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ أَبِی کَثِیرٍ ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ : کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إذَا أَفْطَرَ عِنْدَ أَہْلِ بَیْتٍ ، قَالَ : أَفْطَرَ عِنْدَکُمُ الصَّائِمُونَ وَأَکَلَ طَعَامَکُمُ الأَبْرَارُ ، وَنَزَلَتْ عَلَیْکُمُ الْمَلاَئِکَۃُ۔ (احمد ۳/۱۱۸۔ دارمی ۱۷۷۲)
(٩٨٣٨) حضرت انس فرماتے ہیں کہ نبی پاک (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب کسی گھر والوں کے ساتھ روزہ افطار کرتے تو یہ کلمات فرماتے (ترجمہ) تمہارے پاس روزہ دار روزہ افطار کریں، تمہارا کھانا نیک لوگ کھائیں اور تم پر فرشتے نازل ہوں۔

9839

(۹۸۳۹) حَدَّثَنَا عِیسَی بْنُ یُونُسَ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ بُرْقَانَ ، عَنْ ثَابِتِ بْنِ الْحَجَّاجِ ، عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِکٍ الأَشْجَعِیِّ، قَالَ : قَالَ عُمَرُ : صِیَامُ یَوْمٍ مِنْ غَیْرِ رَمَضَانَ وَإِطْعَامُ مِسْکِینٍ ، یَعْدِلُ صِیَامَ یَوْمٍ مِنْ رَمَضَانَ۔
(٩٨٣٩) حضرت عوف بن مالک اشجعی سے روایت ہے کہ حضرت عمر نے فرمایا کہ رمضان کے علاوہ کسی دن روزہ اور مسکین کو کھانا کھلانا رمضان میں روزہ رکھنے کے برابر ہے۔

9840

(۹۸۴۰) حَدَّثَنَا الثَّقَفِیُّ ، عَنْ حُمَیْدٍ ، عَنْ أَنَسٍ ؛ أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یَصُومُ مِنَ الشَّہْرِ حَتَّی نَقُولَ : مَا یُفْطِرُ ، وَیُفْطِرُ حَتَّی نَقُولَ : مَا یَصُومُ مِنْہُ شَیْئًا۔ (مسلم ۱۸۰۔ ترمذی ۷۶۹)
(٩٨٤٠) حضرت انس فرماتے ہیں کہ بعض اوقات نبی پاک (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کسی مہینے میں اس طرح مسلسل روزہ رکھتے کہ ہم محسوس کرتے کہ آپ روزہ نہیں چھوڑیں گے اور کیھی آپ اس طرح روزہ رکھنا چھوڑتے کہ ہمیں محسوس ہوتا کہ آپ روزہ نہیں رکھیں گے۔

9841

(۹۸۴۱) حَدَّثَنَا ابن نُمَیْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ حَکِیمٍ ، قَالَ : سَأَلْتُ سَعِیدَ بْنَ جُبَیْرٍ عَنْ صِیَامِ رَجَبٍ ؟ فَقَالَ : سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ یَقُولُ : کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَصُومُ حَتَّی نَقُولَ : لاَ یُفْطِرُ ، وَیُفْطِرُ حَتَّی نَقُولَ : لاَ یَصُومُ۔ (بخاری ۱۹۷۱۔ مسلم ۱۷۸)
(٩٨٤١) حضرت عثمان بن حکیم فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت سعید بن جبیر سے رجب کے روزوں کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے فرمایا کہ میں نے حضرت عبداللہ بن عباس کو فرماتے ہوئے سنا کہ نبی پاک (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس طرح مسلسل روزہ رکھتے تو ہم محسوس کرتے کہ آپ روزہ نہیں چھوڑیں گے اور کبھی آپ اس طرح روزے چھوڑتے کہ ہمیں محسوس ہوتا کہ آپ روزہ نہیں رکھیں گے۔

9842

(۹۸۴۲) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ ، عَنِ ابْنِ أَبِی عَرُوبَۃَ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ زُرَارَۃَ بْنِ أَوْفَی ، عَنْ سَعدِ بْنِ ہِشَامٍ ، عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ : لاَ أَعْلَمُ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صَامَ شَہْرًا قَطُّ کَامِلاً ، إِلاَّ رَمَضَانَ۔ (ابوداؤد ۱۳۳۹۔ مسلم ۱۳۹)
(٩٨٤٢) حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ میرے علم کے مطابق نبی پاک (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سوائے رمضان کے اور کسی مہینے میں سارا مہینہ روزے نہیں رکھے۔

9843

(۹۸۴۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ کَہْمَسٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ شَقِیقٍ ، عَنْ عَائِشَۃَ ، قَالَ : سَأَلْتُُہَا عَنْ صِیَامِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ؟ فَقَالَتْ : مَا عَلِمْتُہُ صَامَ شَہْرًا حَتَّی یُفْطِرَ فِیہِ إِلاَّ رَمَضَانَ ، وَلاَ أَفْطَرَہُ حَتَّی یَصُومَ مِنْہُ۔ (مسلم ۸۰۹۔ احمد ۶/۱۵۷)
(٩٨٤٣) حضرت عبداللہ بن شقیق فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ سے نبی پاک (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے روزوں کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے فرمایا کہ میرے علم کے مطابق نبی پاک (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سوائے رمضان کے اور کسی مہینے میں سارا مہینہ روزے نہیں رکھے۔

9844

(۹۸۴۴) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ سُلَیْمٍ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ بْنِ کَثِیرٍ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ لَقِیطِ بْنِ صَبِرَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : بَالِغْ فِی الاِسْتِنْشَاق ، إِلاَّ أَنْ تَکُونَ صَائِمًا۔
(٩٨٤٤) حضرت لقیط بن صبرہ سے روایت ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ کلی میں مبالغہ کرو البتہ اگر روزہ ہو تو پھر ایسا نہ کرو۔

9845

(۹۸۴۵) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ، عَنْ أَبِیہِ، قَالَ: کَانَ الضَّحَّاکُ وَأَصْحَابُہُ بِخُرَاسَانَ فِی رَمَضَانَ، فَکَانُوا لاَ یَتَمَضْمَضُونَ۔
(٩٨٤٥) حضرت فضیل فرماتے ہیں کہ حضرت ضحاک اور ان کے ساتھی ماہ رمضان میں خراسان میں تھے، وہ بہت زیادہ کلی نہیں کیا کرتے تھے۔

9846

(۹۸۴۶) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، عَنْ أَبِی ہِلاَلٍ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ ، قَالَ : کَانَ یَکْرَہُ أَنْ یَسْتَنْشِقَ الصَّائِمُ حَتَّی لاَ یَدْخُلَ حَلْقَہُ۔
(٩٨٤٦) حضرت ابن سیرین اس بات کو مکروہ قرار دیتے تھے کہ روزہ دار اس طرح کلی کرے کہ پانی اس کے حلق میں چلا جائے۔

9847

(۹۸۴۷) حَدَّثَنَا مُعَاوِیَۃُ بْنُ ہِشَامٍ ، عَنْ عَمَّارِ بْنِ رُزَیْقٍ ، عَنْ أَبِی فَرْوَۃَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : إذَا اسْتَنْشَقْت وَأَنْتَ صَائِمٌ فَلاَ تُبَالِغْ۔
(٩٨٤٧) حضرت شعبی فرماتے ہیں کہ اگر تمہارا روزہ ہو تو کلی کرنے میں مبالغہ نہ کرو۔

9848

(۹۸۴۸) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَنْ ثَابِتٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَابِسٍ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : إذَا کَانَ أَحَدُکُمْ صَائِمًا ، فَلْیَدَّہِنْ حَتَّی لاَ یُرَی عَلَیْہِ أَثَرُ صَوْمِہِ ، وَإِذَا بَزَقَ فَلْیَسْتُرْ بُزَاقَہُ ، وَأَشَارَ یَزِیدُ بِیَدِہِ کَأَنَّہُ یُغَطِّی بِہَا فَاہُ۔
(٩٨٤٨) حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ اگر تم میں سے کسی کا روزہ ہو تو وہ تیل لگائے تاکہ کسی کو اس کا روزہ ہونے کا علم نہ ہو۔ جب تھوک پھینکے تو چھپا کر پھینکے۔ یہ بات فرماتے ہوئے راوی یزید بن ہارون نے ہاتھ سے اس طرح اشارہ کیا جیسے منہ کو ڈھانپ رہے ہوں۔

9849

(۹۸۴۹) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِِ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ ہِلاَلِ بْنِ یَِسَافٍ ، قَالَ : قَالَ عِیسَی ابْنُ مَرْیَمَ : إذَا کَانَ یَوْمُ صَوْمِ أَحَدِکُمْ فَلْیَدَّہِنْ شَفَتَیْہِ۔
(٩٨٤٩) حضرت عیسیٰ بن مریم فرماتے تھے کہ جب تم میں سے کسی کا روزہ ہو تو اپنے ہونٹوں پر تیل لگائے۔

9850

(۹۸۵۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ أَبِی حَصِینٍ ، عَنْ یَحْیَی ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : إذَا أَصْبَحْتُمْ صِیَامًا فَأَصْبِحُوا مُدَّہَنِینَ۔
(٩٨٥٠) حضرت عبداللہ فرماتے ہیں کہ جب تم میں سے کسی کا روزہ ہو تو تیل لگائے۔

9851

(۹۸۵۱) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ وَبَرَۃَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ خَرَشَۃَ بْنِ الْحُرِّ ، قَالَ : رَأَیْتُ عُمَرَ یَضْرِبُ أَکُفَّ النَّاسِ فِی رَجَبٍ ، حَتَّی یَضَعُوہَا فِی الْجِفَانِ وَیَقُولُ : کُلُوا فَإِنَّمَا ہُوَ شَہْرٌ کَانَ یُعَظِّمُہُ أَہْلُ الْجَاہِلِیَّۃِ۔
(٩٨٥١) حضرت خرشہ بن حر فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر کو دیکھا کہ آپ رجب میں اس وقت تک لوگوں کے ہاتھوں پر مارتے تھے جب تک وہ کھانا کھانے کے لیے اپنے ہاتھ برتنوں میں نہ رکھ دیتے۔ آپ فرماتے کھانا کھاؤ، یہ وہ مہینہ ہے جس کی تعظیم زمانہ جاہلیت کے لوگ کیا کرتے تھے۔

9852

(۹۸۵۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ زَیْدِ بْنِ أَسْلَمَ ، قَالَ : سُئِلَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ صَوْمِ رَجَبٍ ؟ قَالَ : أَیْنَ أَنْتُمْ مِنْ شَعْبَانَ ؟ (عبدالرزاق ۷۸۵۸)
(٩٨٥٢) حضرت زید بن اسلم فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے رجب کے روزے کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ تم شعبان میں روزہ کیوں نہیں رکھتے ؟

9853

(۹۸۵۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ یَزِیدَ مَوْلَی الصَّہْبَائِ ، عَنْ رَجُلٍ قَدْ سَمَّاہُ ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ : لاَ تَکُنْ اثْنَیْنِیًّا ، وَلاَ خَمِیسِیًّا ، وَلاَ رَجَبِیًّا۔
(٩٨٥٣) حضرت انس فرماتے ہیں کہ پیر کے دن، جمعرات کے دن یا رجب میں روزہ رکھنے کا معمول نہ بناؤ۔

9854

(۹۸۵۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : کَانَ ابْنُ عُمَرَ إذَا رَأَی النَّاسَ ، وَمَا یُعِدّونَ لِرَجَبٍ ، کَرِہَ ذَلِکَ۔
(٩٨٥٤) حضرت ابن عمر جب لوگوں کو رجب کے روزے کا اہتمام کرتے دیکھتے تو اسے مکروہ قرار فرماتے۔

9855

(۹۸۵۵) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو ، عَنْ أَبِی سَلَمَۃَ ، قَالَ : سَأَلْتُ عَائِشَۃَ عَنْ صِیَامِ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ؟ فَقَالَتْ : کَانَ یَصُومُ حَتَّی نَقُولَ : لاَ یُفْطِرُ ، وَیُفْطِرُ حَتَّی نَقُولَ : لاَ یَصُومُ ، وَلَمْ أَرَہُ فِی شَہْرٍ أَکْثَرَ صِیَامًا مِنْہُ فِی شَعْبَانَ ، کَانَ یَصُومُ شَعْبَانَ إِلاَّ قَلِیلاً ، بَلْ کَانَ یَصُومُ شَعْبَانَ کُلَّہُ۔ (بخاری ۱۹۱۹۔ ابوداؤد ۲۴۲۶)
(٩٨٥٥) حضرت ابو سلمہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے روزے کے بارے میں سوال کیا تو انھوں نے فرمایا کہ بعض اوقات نبی پاک (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کسی مہینے میں اس طرح مسلسل روزہ رکھتے تو ہم محسوس کرتے کہ آپ روزہ نہیں چھوڑیں گے اور کبھی آپ اس طرح روزہ رکھنے چھوڑتے کہ ہمیں محسوس ہوتا کہ آپ روزہ نہیں رکھیں گے۔ آپ سب سے زیادہ روزے شعبان کے مہینے میں رکھا کرتے تھے۔ آپ شعبان میں کم روزے نہ رکھتے تھے بلکہ پورے شعبان میں روزے رکھتے تھے۔

9856

(۹۸۵۶) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا صَدَقَۃُ بْنُ مُوسَی ، قَالَ : أَخْبَرَنَا ثَابِتٌ الْبُنَانِیُّ ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ : سُئِلَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ أَفْضَلِ الصِّیَامِ ؟ فَقَالَ : صِیَامُ شَعْبَانَ تَعْظِیمًا لِرَمَضَانَ۔ (ترمذی ۶۶۳۔ ابویعلی ۳۴۳۱)
(٩٨٥٦) حضرت انس فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے افضل روزے کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ شعبان کا روزہ رمضان کی تعظیم کے لیے ہے۔

9857

(۹۸۵۷) حَدَّثَنَا یَزِیدُ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا الْمَسْعُودِیُّ ، عَنِ الْمُہَاجِرِ أَبِی الْحَسَنِ ، عَنْ عَطَائِ بْنِ یَسَارٍ ، قَالَ : لَمْ یَکُنْ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی شَہْرٍ أَکْثَرَ صِیَامًا مِنْہُ فِی شَعْبَانَ ، وَذَلِکَ أَنَّہُ تُنْسَخُ فِیہِ آجَالُ مَنْ یَمُوتُ فِی السَّنَۃِ۔
(٩٨٥٧) حضرت عطاء فرماتے ہیں کہ نبی پاک (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سب سے زیادہ روزے شعبان کے مہینے میں رکھا کرتے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اس مہینے میں ان لوگوں کا وقت لکھا جاتا ہے جن کا اس سال انتقال ہونا ہے۔

9858

(۹۸۵۸) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ الْحُبَابِ ، قَالَ : حَدَّثَتَا ثَابِتُ بْنُ قَیْسٍ ، قَالَ : حدَّثَنِی أَبُو سَعِیدٍ الْمَقْبُرِیُّ ، قَالَ : حَدَّثَنِی أَبُو ہُرَیْرَۃَ ، عَنْ أُسَامَۃَ بْنِ زَیْدٍ ، قَالَ : قُلْتُ : یَا رَسُولَ اللہِ ، رَأَیْتُک تَصُومُ فِی شَعْبَانَ صَوْمًا لاَ تَصُومُہ فِی شَیْئٍ مِنَ الشُّہُورِ ، إِلاَّ فِی شَہْرِ رَمَضَانَ ؟ قَالَ : ذَلِکَ شَہْرٌ یَغْفُلُ النَّاسُ عَنْہُ ، بَیْنَ رَجَبٍ وَشَہْرِ رَمَضَانَ ، تُرْفَعُ فِیہِ أَعْمَالُ النَّاسِ ، فَأُحِبُّ أَنْ لاَ یُرْفَعَ لِی عَمَلٌ إِلاَّ وَأَنَا صَائِمٌ۔ (احمد ۵/۲۰۱)
(٩٨٥٨) حضرت اسامہ بن زید کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! میں نے آپ کو شعبان میں اتنے روزے رکھتے دیکھا کہ رمضان کے علاوہ آپ کسی مہینے میں اتنے روزے نہیں رکھتے، اس کی کیا وجہ ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ یہ وہ مہینہ ہے جس سے لوگ غافل ہیں۔ یہ رجب اور رمضان کا درمیانی مہینہ ہے۔ اس میں لوگوں کے اعمال اللہ کے دربار میں بلند کئے جاتے ہیں۔ مجھے یہ بات پسند ہے کہ جب میرے اعمال بارگاہِ الٰہی میں پیش کئے جائیں تو میرا روزہ ہو۔

9859

(۹۸۵۹) حَدَّثَنَا سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنِ ابْنِ أَبِی لَبِیدٍ ، عَنْ أَبِی سَلَمَۃَ ، عَنْ عَائِشَۃَ ، قَالَ : سَأَلْتُُہَا عَنْ صِیَامِ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ؟ فَقَالَتْ : لَمْ أَرَہُ صَائِمًا مِنْ شَہْرٍ قَطُّ أَکْثَرَ مِنْ صِیَامِہِ فِی شَعْبَانَ ، کَانَ یَصُومُ شَعْبَانَ کُلَّہ ، کَانَ یَصُومُ شَعْبَانَ إِلاَّ قَلِیلاً۔ (مسلم ۱۷۶۔ ابن ماجہ ۱۷۱۰)
(٩٨٥٩) حضرت ابو سلمہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ سے نبی پاک (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے روزوں کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے فرمایا کہ آپ سب سے زیادہ روزے شعبان کے مہینے میں رکھا کرتے تھے۔ آپ رمضان میں کم روزے نہ رکھتے تھے بلکہ پورے شعبان میں روزے رکھتے تھے۔

9860

(۹۸۶۰) حَدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ أَبِی عُبَیْدٍ مَوْلَی ابْنِ أَزْہَرَ ، قَالَ : شَہِدْتُ الْعِیدَ مَعَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، فَبَدَأَ بِالصَّلاَۃِ قَبْلَ الْخُطْبَۃِ ، وَقَالَ : إنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَہَی عَنْ صَوْمِ ہَذَیْنِ الْیَوْمَیْنِ : أَمَّا یَوْمُ الْفِطْرِ فَیَوْمُ فِطْرِکُمْ مِنْ صِیَامِکُمْ ، وَأَمَّا یَوْمُ الأَضْحَی فَکُلُوا فِیہِ مِنْ لَحْمِ نُسُکِکُمْ۔ (بخاری ۵۵۷۳۔ ترمذی ۷۷۱)
(٩٨٦٠) حضرت ابو عبید مولی ابن ازہر فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر بن خطاب کے ساتھ عید کی نماز پڑھی۔ آپ نے نماز سے پہلے خطبہ دیا اور اس میں فرمایا کہ نبی پاک (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان دو دنوں میں روزہ رکھنے سے منع فرمایا ہے۔ عید الفطر کا دن تو تمہارے افطار کا دن ہے اور عید الاضحی کے دن اپنی قربانیوں کا گوشت کھاؤ۔

9861

(۹۸۶۱) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، وَأَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ سَعِیدٍ ، قَالَ : أَخْبَرَتْنِی عَمْرَۃُ بِنْتُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ : نَہَی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ صَوْمِ یَوْمِ الْفِطْرِ وَیَوْمِ الأَضْحَی۔ (مسلم ۱۴۳)
(٩٨٦١) حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ نبی پاک (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عید الفطر اور عید الاضحی کو روزہ رکھنے سے منع فرمایا ہے۔

9862

(۹۸۶۲) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ یَعْلَی ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ عُمَیْرٍ ، عَنْ قَزَعَۃَ ، عَنْ أَبِی سَعِیدٍ ؛ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَہَی عَنْ صَوْمِ یَوْمِ الْفِطْرِ وَیَوْمِ الأَضْحَی۔ (بخاری ۱۹۹۵۔ ترمذی ۷۹۹)
(٩٨٦٢) حضرت ابو سعید فرماتے ہیں کہ نبی پاک (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عید الفطر اور عید الاضحی کو روزہ رکھنے سے منع فرمایا ہے۔

9863

(۹۸۶۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ مُوسَی بْنِ عُلَیٍّ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ عُقْبَۃَ بْنِ عَامِرٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : یَوْمُ عَرَفَۃَ وَیَوْمُ الأَضْحَی وَأَیَّامُ التَّشْرِیقِ ، أَیَّامُ أَکْلٍ وَشُرْبٍ۔ (ترمذی ۷۷۳۔ ابوداؤد ۲۴۱۱)
(٩٨٦٣) حضرت عقبہ بن عامر سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ یوم عرفہ، یوم الاضحی اور ایام تشریق کھانے پینے کے دن ہیں۔

9864

(۹۸۶۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، عَنْ زِیَادِ بْنِ جُبَیْرٍ ، قَالَ : جَائَ رَجُلٌ إلَی ابْنِ عُمَرَ فَسَأَلَہُ عَنْ رَجُلٍ نَذَرَ أَن یَصُومُ یَوْمًا ، فَوَافَقَ ذَلِکَ فِطْرًا ، أَوْ أَضْحَی ؟ قَالَ : أَمَرَ اللَّہُ تَعَالَی بِوَفَائِ النَّذْرِ ، وَنَہَی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ صِیَامِ ہَذَا الْیَوْمِ۔ (بخاری ۱۹۹۴۔ مسلم ۸۰۰)
(٩٨٦٤) حضرت زیاد بن جبیر کہتے ہیں کہ ایک آدمی حضرت ابن عمر کے پاس آیا اور اس نے ان سے سوال کیا کہ اگر ایک آدمی نے ایک دن عید الفطر کو یا عیدا لاضحی کو روزہ رکھنے کی منت مانی تو وہ کیا کرے ؟ حضرت ابن عمر نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے نذر پوری کرنے کا حکم دیا ہے اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان دنوں میں روزہ رکھنے سے منع فرمایا ہے۔

9865

(۹۸۶۵) حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ بْنُ مُوسَی ، عَنْ مُوسَی بْنِ عُبَیْدَۃَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : نَہَی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ صَوْمِ الْفِطْرِ وَیَوْمِ الأَضْحَی۔ (بخاری ۶۷۰۵)
(٩٨٦٥) حضرت ابن عمر فرماتے ہیں کہ نبی پاک (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عید الفطر اور عید الاضحی کو روزہ رکھنے سے منع فرمایا ہے۔

9866

(۹۸۶۶) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، وَیَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ قَالاَ : أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ ، عَنْ یَعْقُوبَ بْنِ عُتْبَۃَ ، عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ یَسَارٍ ، عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ ، قَالَ : نَہَی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ صِیَامِ یَومِ الْفِطْرِ وَیَوْمِ النَّحْرِ۔ (بخاری ۱۹۹۱۔ مسلم ۱۴۱)
(٩٨٦٦) حضرت ابو سعید خدری فرماتے ہیں کہ نبی پاک (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عید الفطر اور عید الاضحی کو روزہ رکھنے سے منع فرمایا ہے۔

9867

(۹۸۶۷) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرِِ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَجْلاَنَ ، عَنِ الْمُطَّلِبِ بْنِ أَبِی وَدَاعَۃَ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ، قَالَ : جَائَ رَجُلٌ إلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : إنِّی أَفْطَرْت یَوْمًا مِنْ رَمَضَانَ ، فَقَالَ لَہُ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : تَصَدَّقْ ، وَاسْتَغْفِرِ اللَّہَ ، وَصُمْ یَوْمًا مَکَانَہُ۔ (ابوداؤد ۲۳۸۵۔ دارقطنی ۲۷)
(٩٨٦٧) حضرت سعید بن مسیب فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نبی پاک (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس حاضر ہوا اور اس نے عرض کیا کہ میں نے رمضان کا ایک روزہ چھوڑ دیا ہے، اب میرے لیے کیا حکم ہے ؟ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ صدقہ کرو، اللہ سے معافی مانگو اور اس کے بدلے ایک دن کا روزہ رکھو۔

9868

(۹۸۶۸) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ الثَّقَفِیُّ ، عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّائِ ، قَالَ : قَالَ لِی عَاصِمٌ : سَأَلْتُ جَابِرَ بْنَ زَیْدٍ : مَا بَلَغَک فِیمَنْ أَفْطَرَ یَوْمًا مِنْ رَمَضَانَ ، مَا عَلَیْہِ ؟ قَالَ : لِیَصُمْ یَوْمًا مَکَانَہُ ، وَیَصْنَعُ مَعَ ذَلِکَ مَعْرُوفًا۔
(٩٨٦٨) حضرت عاصم فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت جابر بن زید سے سوال کیا کہ اگر کوئی آدمی رمضان کا روزہ چھوڑدے تو اس کے لیے کیا حکم ہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ اس کے بدلے ایک روزہ رکھے اور اس کے ساتھ کوئی اور نیکی کا کام بھی کرے۔

9869

(۹۸۶۹) حَدَّثَنَا شَرِیکٌ، عَنْ مُغِیرَۃَ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ (ح) وَعَن ابْنِ أَبِی خَالِدٍ، عَنِ الشَّعْبِیِّ، قَالاَ: یَقْضِی یَوْمًا مَکَانَہُ۔
(٩٨٦٩) حضرت ابراہیم اور حضرت شعبی فرماتے ہیں کہ اس کے بدلے ایک دن کی قضا کرے۔

9870

(۹۸۷۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : عَلَیْہِ یَوْمٌ مَکَانَہُ۔
(٩٨٧٠) حضرت شعبی فرماتے ہیں کہ اس کے بدلے ایک دن کی قضا کرے۔

9871

(۹۸۷۱) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ یَعْلَی بْنِ حَکِیمٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ؛ فِی رَجُلٍ أَفْطَرَ یَوْمًا مِنْ رَمَضَانَ مُتَعَمِّدًا ، قَالَ : یَسْتَغْفِرُ اللَّہَ مِنْ ذَلِکَ وَیَتُوبُ إلَیْہِ ، وَیَقْضِی یَوْمًا مَکَانَہُ۔
(٩٨٧١) حضرت سعید بن جبیر اس شخص کے بارے میں جس نے رمضان کا روزہ جان بوجھ کر چھوڑ دیا فرماتے ہیں کہ وہ اللہ سے معافی مانگے، توبہ کرے اور اس کے بدلے ایک دن کی قضا کرے۔

9872

(۹۸۷۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ جَرِیرٍ ، عَنْ یَعْلَی ، عَنْ سَعِیدٍ ، مِثْلَہُ۔
(٩٨٧٢) ایک اور سند سے یونہی منقول ہے۔

9873

(۹۸۷۳) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ ، عَنْ عَاصِمٍ ، قَالَ : أَرْسَلَ أَبُو قِلاَبَۃَ إلَی سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ یَسْأَلَہُ عَن رَجُلٍ أَفْطَر یَوْمًا مِنْ رَمَضَانَ مُتَعَمِّدًا ؟ فَقَالَ سَعِیدٌ : یَصُومُ مَکَانَ کُلِّ یَوْمٍ أَفْطَر شَہْرًا۔
(٩٨٧٣) حضرت عاصم فرماتے ہیں کہ حضرت ابو قلابہ نے حضرت سعید بن مسیب کی طرف آدمی بھیج کر اس سے سوال کیا کہ اگر کسی آدمی نے جان بوجھ کر رمضان کا روزہ چھوڑ دیاتو وہ کیا کرے ؟ حضرت سعید نے فرمایا کہ وہ ہر دن کے بدلے ایک مہینے کی قضا کرے۔

9874

(۹۸۷۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ؛ فِی رَجُلٍ یُفْطِرُ یَوْمًا مِنْ رَمَضَانَ مُتَعَمِّدًا ، قَالَ : یَصُومُ شَہْرًا۔
(٩٨٧٤) حضرت سعید بن مسیب فرماتے ہیں کہ اگر کسی آدمی نے جان بوجھ کر رمضان کا روزہ چھوڑ دیا تو ایک مہینہ روزے رکھے گا۔

9875

(۹۸۷۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ حَمَّادٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : عَلَیْہِ صَوْمُ ثَلاَثَۃِ آلاَفِ یَوْمٍ۔
(٩٨٧٥) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ اس پر تین ہزار دنوں کا روزہ واجب ہے۔

9876

(۹۸۷۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ حَبِیبِ بْنِ أَبِی ثَابِتٍ ، عَنِ ابْنِ الْمُطَوِّسِ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَنْ أَفْطَرَ یَوْمًا مِنْ غَیْرِ رُخْصَۃٍ ، لَمْ یُجْزِہِ صِیَامُ الدَّہْرِ۔ (ابن ماجہ ۱۶۷۲۔ احمد ۲/۴۴۲)
(٩٨٧٦) حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ جس آدمی نے بغیر مجبوری کے رمضان کا روزہ چھوڑ دیا ، ساری زندگی کا روزہ بھی اس کا بدل نہیں بن سکتا۔

9877

(۹۸۷۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ وَاصِلٍ، عَنْ مُغِیرَۃَ الْیَشْکُرِیِّ، عَنْ فُلاَنِ بْنِ الْحَارِثِ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ : مَنْ أَفْطَرَ یَوْمًا مِنْ رَمَضَانَ مِنْ غَیْرِ رُخْصَۃٍ ، لَمْ یُجْزِہِ صِیَامُ الدَّہْرِ کُلِّہِ۔ (عبدالرزاق ۷۴۷۶)
(٩٨٧٧) حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ جس آدمی نے بغیر مجبوری کے رمضان کا روزہ چھوڑ دیا ، ساری زندگی کا روزہ بھی اس کا بدل نہیں بن سکتا۔

9878

(۹۸۷۸) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ یَعْلَی ، عَنْ عَرْفَجَۃَ ، عَنْ عَلِیٍّ ، قَالَ : مَنْ أَفْطَرَ یَوْمًا مِنْ رَمَضَانَ مُتَعَمِّدًا ، لَمْ یَقْضِہِ أَبَدًا طُولَ الدَّہْرِ۔
(٩٨٧٨) حضرت علی فرماتے ہیں کہ جس آدمی نے جان بوجھ کر رمضان کا روزہ چھوڑ دیا ، ساری زندگی کا روزہ بھی اس کی قضا نہیں بن سکتا۔

9879

(۹۸۷۹) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ حُمَیْدٍ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : جَائَ رَجُلٌ إلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : ہَلَکْتُ ، قَالَ : وَمَا أَہْلَکَکَ ؟ قَالَ : وَقَعْت عَلَی امْرَأَتِی فِی رَمَضَانَ ، قَالَ : أَعْتِقْ رَقَبَۃً ، قَالَ : لاَ أَجِدُ ، قَالَ : فَصُمْ شَہْرَیْنِ ، قَالَ : لاَ أَسْتَطِیعُ ، قَالَ : فَأَطْعِمْ سِتِّینَ مِسْکِینًا ، قَالَ : لاَ أَجِدُ ، قَالَ : اجْلِسْ فَجَلَسَ ، فَبَیْنَمَا ہُوَ کَذَلِکَ إذْ أُتِیَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِعَرَقٍ فِیہِ تَمْرٌ ، فَقَالَ لَہُ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : اذْہَبْ فَتَصَدَّقْ بِہِ ، قَالَ : وَالَّذِی بَعَثَک بِالْحَقِّ مَا بَیْنَ لاَبَتَیْہَا أَہْلُ بَیْتٍ أَفْقَرُ إلَیْہِ مِنَّا ، قَالَ: فَضَحِکَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حَتَّی بَدَتْ أَنْیَابُہُ ، ثُمَّ قَالَ : انْطَلِقْ ، فَأَطْعِمْہُ عِیَالَک۔ (بخاری۶۷۱۱۔ مسلم ۸۱)
(٩٨٧٩) حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ ایک آدمی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے عرض کیا کہ میں ہلاک ہوگیا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے پوچھا کہ تمہیں کس چیز نے ہلاک کردیا ؟ اس نے کہا کہ رمضان میں، میں اپنی بیوی سے جماع کر بیٹھا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ایک غلام آزاد کرو۔ اس نے کہا میرے پاس تو کوئی غلام نہیں۔ آپ نے فرمایا کہ دو مہینے روزے رکھو۔ اس نے کہا میں اس کی طاقت نہیں رکھتا۔ آپ نے فرمایا کہ ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلاؤ۔ اس نے کہا کہ میں اس کی طاقت بھی نہیں رکھتا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے فرمایا کہ بیٹھ جاؤ۔ وہ بیٹھ گیا۔ اتنی دیر میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس کھجوروں کا ایک ٹوکرا لایا گیا۔ آپ نے اسے فرمایا کہ یہ لے جاؤ اور اسے صدقہ کردو۔ اس شخص نے کہا کہ اس ذات کی قسم ! جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے، مدینہ کی دو پہاڑیوں کے درمیان مجھ سے زیادہ نادار گھر کسی کا نہیں۔ اس کی یہ بات سن کر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اتنا مسکرائے کہ آپ کے دندان مبارک نظر آنے لگے۔ پھر آپ نے فرمایا کہ جاؤ اپنے گھر والوں کو یہ کھلا دو ۔

9880

(۹۸۸۰) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرِِ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ جَدِّہِ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہُ ، وَقَالَ : صُمْ یَوْمًا مَکَانَہُ۔ (احمد ۲/۲۰۸)
(٩٨٨٠) ایک اور سند سے یونہی منقول ہے۔

9881

(۹۸۸۱) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : حدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جَعْفَرِ بْنِ الزُّبَیْرِ ، عَنْ عَبَّادِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ الزُّبَیْرِ ، عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ : أَتَی رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَجُلٌ فَذَکَرَ أَنَّہُ احْتَرَقَ ، فَسَأَلَہُ عَنْ أَمْرِہِ ، فَذَکَرَ أَنَّہُ وَقَعَ عَلَی امْرَأَتِہِ فِی رَمَضَانَ ، فَأُتِیَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِمِکْتَلٍ یُدْعَی الْعَرْْقُ ، فِیہِ تَمْرٌ ، فَقَالَ : أَیْنَ الْمُحْتَرِقُ ؟ فَقَامَ الرَّجُلُ ، فَقَالَ لَہُ : تَصَدَّقْ بِہَذَا۔ (بخاری ۶۸۲۲۔ ابوداؤد ۲۳۸۶)
(٩٨٨١) حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ ایک آدمی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس حاضر ہوا اور اس نے کہا کہ میں جل گیا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کی حقیقت پوچھی تو اس نے کہا کہ میں رمضان میں اپنی بیوی سے جماع کر بیٹھا۔ کچھ دیر بعد کھجور کا ایک ٹوکرا آپ کی خدمت میں پیش کیا گیا۔ آپ نے پوچھا کہ وہ جل جانے والا کہاں ہے ؟ وہ آدمی کھڑا ہوا تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے فرمایا کہ اس کو صدقہ کردو۔

9882

(۹۸۸۲) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَنْ زَائِدَۃَ ، عَنْ حُمَیْدٍ ، عَنْ أَنَسٍ ؛ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ لاَ یُصَلِّی حَتَّی یُفْطِرَ ، وَلَوْ بِشَرْبَۃٍ مِنْ مَائٍ۔ (ابن حبان ۳۵۰۴۔ ابویعلی ۳۷۸۰)
(٩٨٨٢) حضرت انس فرماتے ہیں کہ نبی پاک (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) افطاری سے پہلے نماز نہ پڑھتے تھے، خواہ ایک گھونٹ پانی پر ہی افطار کرتے۔

9883

(۹۸۸۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ حَکِیمٍ ، عَنْ أُمِّہِ ، عَنْ أَبِی بَرْزَۃَ الأَسْلَمِیِّ ، قَالَ : کَانَ یَأْمُرُ أَہْلَہُ أَنْ یُفْطِرُوا قَبْلَ الصَّلاَۃِ عَلَی مَا تَیَسَّرَ۔
(٩٨٨٣) حضرت ابو برزہ اسلمی اپنے گھر والوں کو حکم دیتے تھے کہ جہاں تک ہوسکے نماز سے پہلے افطار کرلیں۔

9884

(۹۸۸۴) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ، قَالَ: کَانَ الأَسْوَد لاَ یُفْطِرُ فِی رَمَضَانَ حَتَّی یُصَلِّیَ الْمَغْرِبَ۔
(٩٨٨٤) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ حضرت اسود رمضان میں مغرب کی نماز سے پہلے افطار کرلیتے تھے۔

9885

(۹۸۸۵) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ حُمَیْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ؛ أَنَّ عُمَرَ وَعُثْمَانَ کَانَا یُصَلِّیَانِ الْمَغْرِبَ إذَا رَأَیَا اللَّیْلَ ، وَکَانَا یُفْطِرَانِ قَبْلَ أَنْ یُصَلِّیَا۔
(٩٨٨٥) حضرت حمید بن عبد الرحمن فرماتے ہیں کہ حضرت عمر اور حضرت عثمان سورج غروب ہونے کے بعد مغرب کی نماز پڑھا کرتے تھے، دونوں حضرات نماز سے پہلے افطاری کرلیا کرتے تھے۔

9886

(۹۸۸۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ أَبِی مَالِکٍ ، عَنِ ابْن أَبِی نَجِیحٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ؛ فِی الرَّجُلِ یَدْخُلُ حَلْقَہُ الذُّبَابُ ، قَالَ : لاَ یُفْطِرُ۔
(٩٨٨٦) حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ اگر کسی آدمی کے حلق میں مکھی چلی جائے تو اس کا روزہ نہیں ٹوٹا۔

9887

(۹۸۸۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إسْرَائِیلَ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ عَامِرٍ ، قَالَ : لاَ یُفْطِرُ۔
(٩٨٨٧) حضرت عامر فرماتے ہیں کہ اگر کسی آدمی کے حلق میں مکھی چلی جائے تو اس کا روزہ نہیں ٹوٹا۔

9888

(۹۸۸۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ الرَّبِیعِ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : لاَ یُفْطِرُ۔
(٩٨٨٨) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ اگر کسی آدمی کے حلق میں مکھی چلی جائے تو اس کا روزہ نہیں ٹوٹا۔

9889

(۹۸۸۹) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ حَفْصَۃَ بِنْتِ سِیرِینَ ، عَنِ الرَّبَابِ ، عَنْ عَمِّہَا سَلْمَانَ بْنِ عَامِرٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إذَا أَفْطَرَ أَحَدُکُمْ فَلْیُفْطِرْ عَلَی تَمْرٍ ، فَإِنْ لَمْ یَجِدْ فَلْیُفْطِرْ عَلَی مَائٍ ، فَإِنَّہُ طَہُورٌ۔ (ترمذی ۶۵۸۔ ابن ماجہ ۱۶۹۹)
(٩٨٨٩) حضرت سلمان بن عامر سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی افطار کرے تو کھجور پر افطار کرے، اگر کھجور نہ ملے تو پانی پر افطار کرلے کیونکہ پانی پاک کرنے والا ہے۔

9890

(۹۸۹۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ حَفْصَۃَ بِنْتِ سِیرِینَ ، عَنِ الرَّبَابِ ، وَہِیَ أُمُّ الرَّائِحِ بِنْتُ صُلَیْعٍ ، عَنْ سَلْمَانَ بْنِ عَامِرٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إذَا أَفْطَرَ أَحَدُکُمْ فَلْیُفْطِرْ عَلَی تَمْرٍ، فَإِنْ لَمْ یَجِدْ فَلْیُفْطِرْ عَلَی مَائٍ ، فَإِنَّہُ طَہُورٌ۔ (ترمذی ۶۵۸۔ احمد ۴/۱۷)
(٩٨٩٠) حضرت سلمان بن عامر سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی افطار کرے تو کھجور پر افطار کرے، اگر کھجور نہ ملے تو پانی پر افطار کرلے کیونکہ پانی پاک کرنے والا ہے۔

9891

(۹۸۹۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ عَبْدِ الْوَاحِدِ بْنِ أَیْمَنَ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ أَبِی سَعِیدٍ، قَالَ: دَخَلْت عَلَیْہِ فَأَفْطَرَ عَلَی تَمْرٍ۔
(٩٨٩١) حضرت ایمن فرماتے ہیں کہ میں حضرت ابو سعید کے پاس آیا تو انھوں نے کھجور پر افطار کیا۔

9892

(۹۸۹۲) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ أُمِّ مُوسَی قَالَتْ : کَانُوا یَسْتَحِبُّونَ أَنْ یُفْطِرُوا عَلَی الْبُسْرِ ، أَوِ التَّمْرِ۔
(٩٨٩٢) حضرت ام موسیٰ فرماتی ہیں کہ اسلاف اس بات کو پسند کرتے تھے کہ تازہ یاخشک کھجور پر افطارکریں۔

9893

(۹۸۹۳) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرِِ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنْ مُغِیرَۃَ بْنِ عَبْدِ اللہِ الْیَشْکُرِیِّ ، قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللہِ : مَنْ أَفْطَرَ یَوْمًا مِنْ رَمَضَانَ مُتَعَمِّدًا مِنْ غَیْرِ سَفَرٍ ، وَلاَ مَرَضٍ ، لَمْ یَقْضِہِ أَبَدًا وَإِنْ صَامَ الدَّہْرَ کُلَّہُ۔
(٩٨٩٣) حضرت عبداللہ فرماتے ہیں کہ جس نے بغیر سفر اور بغیر مرض کے رمضان کا روزہ جان بوجھ کر چھوڑ دیا، وہ اس کی قضا نہیں کرسکتا خواہ ساری زندگی روزہ رکھ لے۔

9894

(۹۸۹۴) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : یَقْضِی یَوْمًا مَکَانَہُ ، وَیَسْتَغْفِرُ رَبَّہُ۔
(٩٨٩٤) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ جس نے رمضان کا روزہ چھوڑ دیا وہ اس کی جگہ ایک روزے کی قضا کرے اور اپنے رب سے استغفار کرے۔

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔