hadith book logo

HADITH.One

HADITH.One

Urdu

Support

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Ibn Abi Shaybah

8. جنائز کے متعلق احادیث

ابن أبي شيبة

10904

حدثنا أبو بکر بن أبی شیبۃ قال: (۱۰۹۰۵) حدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ التَّیْمِیِّ ، عَنِ الْحَارِثِ بْنِ سُوَیْد ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : دَخَلْت عَلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَہُوَ یُوعَکُ ، قَالَ فَمَسِسْتُہُ فَقُلْت : یَا رَسُولَ اللہِ إنَّک لَتُوعَکُ وَعْکًا شَدِیدًا ، فَقَالَ : أَجَلْ إنِّی أُوعَکُ کَمَا یُوعَکُ رَجُلاَنِ مِنْکُمْ قَال : قُلْتُ : لأَنَّ لَکَ أَجْرَیْن ؟ فَقَالَ : نَعَمْ وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ مَا عَلَی الأَرْضِ مُسْلِمٌ یُصِیبُہُ أَذًی فَمَا سِوَاہُ إِلاَّ حَطَّ اللَّہُ بِہِ عَنْہُ خَطَایَاہُ کَمَا تَحُطُّ الشَّجَرَۃُ وَرَقَہَا۔ (بخاری ۵۶۴۷۔ مسلم ۱۹۹۱)
(١٠٩٠٥) حضرت عبداللہ فرماتے ہیں کہ میں حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اس وقت آپ کو بخار تھا، میں نے حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو چھوا اور پھر عرض کیا اے اللہ کے رسول ! آپ کو تو بہت تیز بخار ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جی ہاں مجھے تم میں سے دو آدمیوں کے برابر بخار دیا جاتا ہے۔ میں نے عرض کیا یہ اس وجہ سے ہے کہ آپ کے لیے دو اجر ہیں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ہاں ! قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے زمین پر کوئی مسلمان نہیں جس کو کوئی تکلیف پہنچے مگر (اس کے بدلے) اللہ تعالیٰ اس کے گناہوں کو ایسے گراتے ہیں جیسے درخت اپنے پتوں کو گراتے ہیں۔

10905

(۱۰۹۰۶) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، عَنِ الأَسْوَد ، عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لاَ یُصِیبُ الْمُؤْمِنَ شَوْکَۃٌ فَمَا فَوْقَہَا إِلاَّ رَفَعَہُ اللَّہُ بِہَا دَرَجَۃً أَوْ حَطَّ بِہَا عَنْہُ سَیِّئَۃً۔ (مسلم ۱۹۹۱۔ ترمذی ۹۶۵)
(١٠٩٠٦) حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ کسی مسلمان کو کوئی کانٹا یا اس سے بڑی تکلیف نہیں پہنچتی مگر اللہ تعالیٰ اس کی وجہ سے اس کا ایک درجہ بلند فرما دیتے ہیں یا اس کی وجہ سے اس کا ایک گناہ معاف کردیتے ہیں۔

10906

(۱۰۹۰۷) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ یَزِیدَ بْنِ جَابِرٍ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ بْنِ عُبَیْدِ اللہِ ، عَنْ أَبِی صَالِحٍ الأَشْعَرِیِّ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، عَنْ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، أَنَّہُ عَادَ مَرِیضًا وَمَعَہُ أَبُو ہُرَیْرَۃَ مِنْ وَعَکٍ کَانَ بِہِ ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : أَبْشِرْ إنَّ اللَّہَ یَقُولُ : ہِیَ نَارِی أُسَلِّطُہَا عَلَی عَبْدِی الْمُؤْمِنِ فِی الدُّنْیَا لِیَکُونَ حَظَّہُ مِنَ النَّارِ فِی الآخِرَۃِ۔ (ترمذی ۲۰۸۸۔ احمد ۲/۴۴۰)
(١٠٩٠٧) حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک مریض کی عیادت فرمائی۔ حضرت ابوہریرہ بھی ساتھ تھے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : خوشخبری ہو بیشک اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : یہ (نار) میری آگ ہے جو میں بندہ مؤمن پر دنیا میں اس لیے مسلط کرتا ہوں تاکہ آخرت کی آگ کے بدلے میں اس کا حصہ ہوجائے۔

10907

(۱۰۹۰۸) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنِ ابْنِ مُحَیْصِنٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ قَیْسِ بْنِ مَخْرَمَۃَ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : لَمَّا نَزَلَتْ ہَذِہِ الآیَۃُ : {مَنْ یَعْمَلْ سُوئًا یُجْزَ بِہِ} شَقَّ عَلَی الْمُسْلِمِینَ وَبَلَغَ مِنْہُمْ وَشَکَوْا ذَلِکَ إلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : قَارِّبُوا وَسَدِّدُوا وَکُلُّ مَا أُصِیبَ بِہِ الْمُسْلِمُ کَفَّارَۃٌ حَتَّی النَّکْبَۃُ یُنْکَبُہَا وَالشَّوْکَۃُ یُشَاکُہَا۔ (مسلم ۱۹۹۳۔ ترمذی ۳۰۳۸)
(١٠٩٠٨) حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے کہ جب قرآن پاک کی آیت { مَنْ یَعْمَلْ سُوئًا یُجْزَ بِہِ } نازل ہوئی تو مسلمانوں پر بہت شاق گذرا اور ان میں سے بعض کو (مصیبت) پہنچی بھی۔ انھوں نے حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہو کر شکایت کی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : غلو اور کمی کے درمیان درمیان رہو اور درست (راستے پر) رہو۔ ہر مصیبت مسلمان کے لیے کفارہ ہے یہاں تک کہ کوئی کانٹا جو اس کو چبھتا ہے اس میں بھی کفارہ ہے۔

10908

(۱۰۹۰۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ عَلْقَمَۃَ بْنِ مَرْثَدٍ ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُخَیْمِرَۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَا مِنْ أَحَدٍ مِنَ الْمُسْلِمِینَ یُبْتَلَی بِبَلاَئٍ فِی جَسَدِہِ إِلاَّ أَمَرَ اللَّہُ الْحَفَظَۃَ، فَقَالَ : اکْتُبُوا لِعَبْدِی مَا کَانَ یَعْمَلُ وَہُوَ صَحِیحٌ مَا دَامَ مَشْدُودًا فِی وَثَاقِی۔ (احمد ۲/۱۵۹۔ دارمی ۲۷۷۰)
(١٠٩٠٩) حضرت عبداللہ بن عمرو سے مروی ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : مسلمانوں میں سے کسی کو کوئی تکلیف نہیں پہنچتی مگر اللہ تعالیٰ فرشتوں کو حکم دیتے ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں میرے بندے کے لیے لکھ دو جو عمل وہ صحیح ہونے کی حالت میں کرتا رہا (اور اب بیماری کی وجہ سے نہیں کر پاتا) جب تک کہ میری بیڑی میں جکڑا ہوا ہے۔

10909

(۱۰۹۱۰) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنِ الْعَوَّامِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ السَّکْسَکِیِّ ، عَنْ أَبِی بُرْدَۃَ ، عَنْ أَبِی مُوسَی ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَنْ مَرِضَ ، أَوْ سَافَرَ کَتَبَ اللَّہُ لَہُ مَا کَانَ یَعْمَلُ صَحِیحًا مُقِیمًا۔ (بخاری ۲۹۹۶۔ ابوداؤد ۳۰۸۴)
(١٠٩١٠) حضرت ابو موسیٰ سے مروی ہے کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جو بیمار ہوا یا سفر میں گیا اللہ تعالیٰ اس کے لیے وہ عمل لکھ دیتا ہے جو وہ تندرست یا مقیم ہونے کی حالت میں کرتا تھا (جو اب وہ مرض یا سفر کی وجہ سے نہیں کر پاتا) ۔

10910

(۱۰۹۱۱) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنِ الْوَلِیدِ بْنِ کَثِیرٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بن عَطَائٍ ، عَنْ عَطَائِ بْنِ یَسَارٍ ، عَنْ أَبِی سَعِیدٍ ، وَأَبِی ہُرَیْرَۃَ أَنَّہُمَا سَمِعَا رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : مَا یُصِیبُ الْمُؤْمِنَ مِنْ وَصَبٍ ، وَلاَ نَصَبٍ ، وَلاَ سَقَمٍ ، وَلاَ حَزَنٍ حَتَّی الْہَمِّ یَہُمُّہُ إِلاَّ کَفَّرَ اللَّہُ عَنْہُ مِنْ خَطَایَاہُ۔ (بخاری ۵۶۴۲۔ مسلم ۱۹۹۲)
(١٠٩١١) حضرت ابو سعید اور حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ ہم نے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ : مسلمان کو جو بیماری، مشقت، لمبی بیماری، پریشانی اور غم پہنچتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے گناہوں کا کفارہ بنا دیتا ہے۔

10911

(۱۰۹۱۲) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ الثَّقَفِیُّ ، عَنْ وَاصِلٍ ، عَنْ بَشَّارِ بْنِ أَبِی سَیْفٍ ، عَنِ الْوَلِیدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ عِیَاضِ بْنِ غُطَیْفٍ ، قَالَ : دَخَلْنَا عَلَی أَبِی عُبَیْدَۃَ بْنِ الْجَرَّاحِ نَعُودُہُ فَإِذَا وَجْہُہُ مِمَّا یَلِی الْجِدَارَ وَامْرَأَتُہُ قَاعِدَۃٌ عِنْدَ رَأْسِہِ قُلْتُ : کَیْفَ بَاتَ أَبُو عُبَیْدَۃَ قَالَتْ بَاتَ بِأَجْرٍ فَأَقْبَلَ عَلَیْنَا بِوَجْہِہِ ، فَقَالَ : إنِّی لَمْ أَبِتْ بِأَجْرٍ , وَمَنِ ابْتَلاَہُ اللَّہُ بِبَلاَئٍ فِی جَسَدِہِ فَہُوَ لَہُ حِطَّۃٌ۔
(١٠٩١٢) حضرت عیاض بن غطیف فرماتے ہیں کہ ہم حضرت ابو عبیدہ بن جراح کی عیادت کیلئے آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ کا چہرہ دیوار کی جانب تھا اور آپ کی اہلیہ آپ کے سر کے پاس بیٹھی تھی۔ میں نے عرض کیا حضرت ابو عبیدہ نے رات کیسے گذاری ؟ اہلیہ نے فرمایا انھوں نے رات اجر کی حالت میں گذاری۔ حضرت ابو عبیدہ ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا میں نے رات اجر کماتے ہوئے نہیں گذاری جس شخص کو اللہ تعالیٰ کوئی تکلیف دے کر آزماتا ہے تو وہ تکلیف اس کے گناہوں کے گرنے کا سبب بنتی ہے۔

10912

(۱۰۹۱۳) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا جَرِیرُ بْنُ حَازِمٍ سَمِعَہُ ، مِنْ بَشَّارِ بْنِ أَبِی سَیْفٍ ، عَنِ الْوَلِیدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ عِیَاضِ بْنِ غُطَیْفُ رَفَعَہُ إلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلُہُ۔ (احمد ۱۹۵۔ بخاری ۹۳)
(١٠٩١٣) حضرت عیاض بن عطیف سے اسی کے مثل مرفوعا بھی منقول ہے۔

10913

(۱۰۹۱۴) حَدَّثَنَا یَعْلَی بْنُ عُبَیْدٍ ، عَنْ طَلْحَۃَ بْنِ یَحْیَی ، عَنْ أَبِی بُرْدَۃَ ، عَنْ مُعَاوِیَۃَ ، قَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : مَا مِنْ شَیْئٍ یُصِیبُ الْمُؤْمِنَ فِی جَسَدِہِ یُؤْذِیہِ إِلاَّ کُفِّرَ بِہِ عَنْہُ مِنْ سَیِّئَاتِہِ۔ (طبرانی ۸۴۲)
(١٠٩١٤) حضرت معاویہ سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے ہوئے سنا کہ : مسلمان کو جو کوئی چیز پہنچتی ہے اور اس کے جسم کو تکلیف پہنچاتی ہے اللہ تعالیٰ اس کے گناہوں کا کفارہ فرما دیتے ہیں۔

10914

(۱۰۹۱۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ مُوسَی بْنِ عُبَیْدَۃَ ، عَنْ عَلْقَمَۃَ بْنِ مَرْثَدٍ ، عَنْ حَفْصِ بْنِ عُبَیْدِ اللہِ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : ذُکِرَتِ الْحُمَّی عِنْدَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَسَبَّہَا رَجُلٌ ، فَقَالَ لَہُ : لاَ تَسُبَّہَا فَإِنَّہَا تَنْقِی الذُّنُوبَ کَمَا تَنْقِی النَّارُ خَبَثَ الْحَدِیدِ۔ (ابن ماجہ ۳۴۶۹)
(١٠٩١٥) حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے بخار کا ذکر کیا گیا تو اس کو ایک شخص نے برا بھلا کہا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو فرمایا : بخار کو برا بھلا مت کہو، بیشک یہ گناہوں کو ایسے صاف کردیتا ہے جیسے آگ لوہے کی گندگی کو۔

10915

(۱۰۹۱۶) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو ، عَنْ أَبِی سَلَمَۃَ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، عَنْ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : لاَ یَزَالُ الْبَلاَئُ بِالْمُؤْمِنِ وَالْمُؤْمِنَۃِ حَتَّی یَلْقَی اللَّہَ وَمَا عَلَیْہِ مِنْ خَطِیئَۃٍ۔ (حاکم ۳۴۶)
(١٠٩١٦) حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : کسی مسلمان مرد یا مسلمان عورت کو کوئی تکلیف مسلسل رہتی ہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس کی خطاؤں (گناہوں) کو گرا دیتے ہیں۔

10916

(۱۰۹۱۷) حَدَّثَنَا سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ زَیْدِ بْنِ أَسْلَمَ ، عَنْ عَطَائِ بْنِ یَسَارٍ یُبْلِغُ بِہِ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ: إذَا مَرِضَ الْعَبْدُ، قَالَ اللَّہُ لِلْکِرَامِ الْکَاتِبِینَ اکْتُبُوا لِعَبْدِی مِثْلَ الَّذِی کَانَ یَعْمَلُ حَتَّی أَقْبَضَہُ، أَوْ أُعَافِیَہُ۔
(١٠٩١٧) حضرت عطاء بن یسار سے مروی ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جب کوئی مؤمن بندہ بیمار ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ کراما کاتبین کو حکم فرماتے ہیں میرے بندے کے لیے لکھ دو اس کے مثل جو یہ تندرست ہونے کی حالت میں کرتا تھا یہاں تک کہ میں اس کو اپنے پاس بلا لوں یا اس کو اس تکلیف سے عافیت عطا فرما دوں۔

10917

(۱۰۹۱۸) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ عُمَارَۃَ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ مَوْہَبٍ ، قَالَ انْطَلَقْت مَعَ سَلْمَانَ إلَی صَدِیقٍ لَہُ یَعُودُہُ مِنْ کِنْدَۃَ ، فَقَالَ : إنَّ الْمُؤْمِنَ یُصِیبُہُ اللَّہُ بِالْبَلاَئِ ، ثُمَّ یُعَافِیہِ فَیَکُونُ کَفَّارَۃً لِسَیِّئَاتِہِ وَیُسْتَعْتَبُ فِیمَا بَقِیَ وَإِنَّ الْفَاجِرَ یُصِیبُہُ اللَّہُ بِالْبَلاَئِ ، ثُمَّ یُعَافِیہِ فَیَکُونُ کَالْبَعِیرِ عَقَلَہُ أَہْلُہُ لاَ یَدْرِی لِمَ عَقَلُوہُ ، ثُمَّ أَرْسَلُوہُ فَلاَ یَدْرِی لِمَ أَرْسَلُوہُ۔
(١٠٩١٨) حضرت سعید بن موھب فرماتے ہیں کہ میں حضرت سلمان کے ساتھ ان کے دوست کی عیادت کے لیے کندہ سے چلا، آپ نے فرمایا مسلمان کو جب کوئی تکلیف اللہ پہنچاتا ہے پھر اس کو دور کرتا ہے تو وہ اس کے گناہوں کا کفارہ ہوجاتا ہے، اور راضی کردیا جاتا ہے جو کچھ باقی ہے اس میں۔ اور گناہ گار اور فاجر کو جب اللہ تعالیٰ کوئی تکلیف پہنچاتا ہے۔ پھر اس کو عافیت دیتا ہے تو وہ اس اونٹ کی طرح ہوجاتا ہے جس کا مالک اس کی ران اور کلائی کو باندھ دے تاکہ وہ چل نہ سکے اس کو نہیں پتا کہ اس کو کیوں باندھا گیا ہے اور پھر اس کو چھوڑ دیا جائے تو اس کو نہیں معلوم کہ کیوں چھوڑا گیا ہے۔

10918

(۱۰۹۱۹) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ فُضَیْلِ بْنِ غَزْوَانَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ السَّائِبِ ، عَنْ زَاذَانَ ، قَالَ : قَالَ سَلْمَانُ إذَا مَرِضَ الْعَبْدُ ، قَالَ الْمَلَکُ یَا رَبِّ ابْتَلَیْت عَبْدَک بِکَذَا قَالَ : فَیَقُولُ مَا دَامَ فِی وِثَاقِی فاکْتُبُوا لَہُ مِثْلَ عَمَلِہِ الَّذِی کَانَ یَعْمَلُ۔
(١٠٩١٩) حضرت سلمان سے مروی ہے کہ جب کوئی (مؤمن) بندہ بیمار ہوتا ہے تو فرشتہ عرض کرتا ہے اے رب ! تیرا فلاں بندہ بیماری میں مبتلا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : جب تک یہ میرے عہد میں ہے اس کے لیے اس عمل کے مثل لکھتے رہو جو یہ (تندرستی میں) کرتا تھا ۔

10919

(۱۰۹۲۰) حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا ہِشَامُ بْنُ سَعْدٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ عُرْوَۃَ بْنَ رُوَیْمٍ یَذْکُرُ عَنِ الْقَاسِمِ ، عَنْ مُعَاذٍ ، قَالَ : إذَا ابْتَلَی اللَّہُ الْعَبْدَ بِالسَّقَمِ ، قَالَ لِصَاحِبِ الشِّمَالِ ارْفَعْ ، وَقَالَ لِصَاحِبِ الْیَمِینِ اکْتُبْ لِعَبْدِی مَا کَانَ یَعْمَلُ۔
(١٠٩٢٠) حضرت معاذ سے مروی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ اپنے بندہ کو بیماری سے آزماتا ہے تو بائیں کندھے والے فرشتہ سے کہتا قلم اٹھا لے اور (لکھنا روک دے) اور بائیں کندھے والے فرشتے سے فرماتا ہے میرے بندے کے لیے وہ عمل لکھ لو جو یہ (تندرستی میں) کیا کرتا تھا۔

10920

(۱۰۹۲۱) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ ، قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا وَائِلٍ یُحَدِّثُ عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ : سَمِعْت رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : مَا مِنْ مُسْلِمٍ یُشَاکُ بِشَوْکَۃٍ فَمَا فَوْقَہَا إِلاَّ رَفَعَہُ اللَّہُ بِہَا دَرَجَۃً وَحَطَّ عَنْہُ بِہَا خَطِیئَۃً۔ (بخاری ۵۶۴۰۔ مسلم ۱۹۹۱)
(١٠٩٢١) حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ میں نے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے ہوئے سنا : کوئی مؤمن ایسا نہیں ہے جس کو کوئی کانٹا یا اس سے بڑی کوئی چیز لگے مگر اس کے بدلے اللہ تعالیٰ اس کا ایک درجہ بلند فرما دیتا ہے اور اس کی خطا (گناہ) کو معاف فرما دیتا ہے۔

10921

(۱۰۹۲۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إیَاسِ بْنِ أَبِی تَمِیمَۃَ ، عَنْ عَطَائٍ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : مَا مِنْ وَجَعٍ یُصِیبُنِی أَحَبُّ إلَیَّ مِنَ الْحُمَّی إِنَّہَا تَدْخُلُ فِی کُلِّ مَفْصِلٍ مِنَ ابْنِ آدَمَ , وَإِنَّ اللَّہَ لَیُعْطِی کُلَّ مَفْصِلٍ قِسْطًا مِنَ الأَجْرِ۔
(١٠٩٢٢) حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ مجھے بخار سے زیادہ کوئی تکلیف پسند نہیں، (کیونکہ) بیشک وہ ابن آدم کے ہر جوڑ میں داخل ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس کے ہر جوڑ کو اجر میں سے حصہ عطا فرماتا ہے۔

10922

(۱۰۹۲۳) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ سَالِمٍ ، قَالَ رَأَی أَبُو الدَّرْدَائِ یَوْمًا رَجُلاً فَتَعَجَّبَ مِنْ جَلَدِہِ ، فَقَالَ أَبُو الدَّرْدَائِ ہَلْ حُمِمْت قَطُّ ہَلْ صُدِعْت قَطُّ ، فَقَالَ : الرَّجُلُ لاَ فَقَالَ أَبُو الدَّرْدَائِ بُؤْسٌ لِہَذَا یَمُوتُ بِخَطِیئَتِہِ۔
(١٠٩٢٣) حضرت سالم سے مروی ہے کہ ایک دن حضرت ابودردائ نے ایک شخص کو دیکھا تو اس کی صحت و طاقت کو دیکھ کر آپ کو تعجب ہوا، آپ نے اس سے پوچھا کہ تمہیں کبھی بھی بخار نہیں ہوا ؟ تمہیں کبھی کوئی تکلیف (سر درد وغیرہ) نہیں ہوئی ؟ اس نے کہا نہیں۔ آپ نے فرمایا برائی ہے اس کے لئے، یہ گناہوں کے ساتھ مرے گا۔

10923

(۱۰۹۲۴) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِہِ ، عَنِ الْحَکَمِ ، عَنْ رَبِیعِ بْنِ عُمَیْلَۃَ ، عَنْ عَمَّارٍ ، قَالَ : کَانَ عِنْدَہُ أَعْرَابِیٌّ فَذَکَرُوا الْوَجَعَ ، فَقَالَ : عَمَّارٌ ہَلِ اشْتَکَیْت قَطُّ ، فَقَالَ : لاَ فَقَالَ : عَمَّارٌ مَا أَنْتَ مِنَّا ، أَوْ لَسْت مِنَّا مَا مِنْ عَبْدٍ یُبْتَلَی إِلاَّ حُطَّ عَنْہُ خَطَایَاہُ کَمَا تَحُطُّ الشَّجَرَۃُ وَرَقَہَا , وَإِنَّ الْکَافِرَ یُبْتَلَی فَمَثَلُہُ کَمَثَلِ الْبَعِیرِ عُقِلَ فَلَمْ یَدْرِ لِمَا عُقِلَ , وَأُطْلِقَ فَلَمْ یَدْرِ لِمَا أُطْلِقَ۔
(١٠٩٢٤) حضرت ربیع بن عمیلہ سے مروی ہے کہ حضرت عمار کے پاس ایک اعرابی تھا، ان کے سامنے لوگوں نے تکلیف اور بیماری کا ذکر کیا۔ حضرت عمار نے فرمایا : تجھے کبھی بیماری کی شکایت ہوئی ہے ؟ اس نے کہا نہیں آپ نے فرمایا تو ہم میں سے نہیں ہے۔ کوئی مؤمن ایسا نہیں ہے جس کو تکلیف میں مبتلا کیا جائے مگر اس کے گناہ ایسے جھڑتے ہیں جیسے درخت کے پتے اور بیشک کافر کو تکلیف میں مبتلا کیا جاتا ہے اس کی مثال تو اونٹ کی طرح ہے جب اس کو باندھا جائے تو وہ نہیں جانتا کہ کیوں باندھا گیا ہے اور جب اس کو چھوڑ دیا جائے تو نہیں جانتا کیوں چھوڑا گیا۔

10924

(۱۰۹۲۵) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ ، عَنْ عَاصِمٍ ، قَالَ : دَخَلَ أَبُو الْعَالِیَۃِ عَلَی النَّضْرِ بْنِ أَنَسٍ یَعُودُہُ ، قَالَ : کُنَّا نَتَحَدَّثُ مُنْذُ خَمْسِینَ سَنَۃً ، أَنَّہُ مَا مِنْ عَبْدٍ یَمْرَضُ إِلاَّ قَامَ مِنْ مَرَضِہِ کَیَوْمِ وَلَدَتْہُ أُمُّہُ وَکُنَّا نَتَحَدَّثُ مُنْذُ خَمْسِینَ سَنَۃً ، أَنَّہُ مَا مِنْ عَبْدٍ یَمْرَضُ إِلا قَالَ اللَّہُ لِکَاتِبَیْہِ : اکْتُبَا لِعَبْدِی مَا کَانَ یَعْمَلُ فِی صِحَّتِہِ۔
(١٠٩٢٥) حضرت عاصم سے مروی ہے کہ حضرت ابو العالیہ حضرت نضر بن انس کی عیادت کے لیے ان کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ فرمایا ہم پچاس سالوں سے حدیث بیان کر رہے ہیں کہ کوئی بندہ مؤمن بیمار نہیں ہوتا مگر جب وہ تندرست ہو کر اٹھتا ہے تو ایسے اٹھتا ہے جیسے وہ پیدائش کے دن تھا اور ہم پچاس سالوں سے روایت بیان کرتے ہیں کوئی بندہ مؤ من بیمار نہیں ہوتا مگر اللہ تعالیٰ کراما کاتبین سے فرماتا ہے : میرے بندہ کے لیے وہ عمل تحریر کردو جو یہ تندرستی کے وقت کرتا تھا۔

10925

(۱۰۹۲۶) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ عُمَارَۃَ ، عَنْ أَبِی عَمَّار ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُرَحْبِیلَ ، قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللہِ إنَّ الْوَجَعَ لاَ یُکْتَبُ بِہِ الأَجْرُ وَلَکِنْ تُکَفَّرُ بِہِ الْخَطَایَا۔
(١٠٩٢٦) حضرت عمرو بن شرحبیل سے مروی ہے کہ حضرت عبداللہ ارشاد فرماتے ہیں کہ تکلیف کی وجہ سے اجر تو نہیں لکھا جاتا البتہ یہ گناہوں کا کفارہ بن جاتی ہے۔

10926

(۱۰۹۲۷) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ أَبِی قَیْسٍ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ ، قَالَ : قَالَ أَبُو الدَّرْدَائِ مَا یَسُرُّنِی بِلَیْلَۃٍ أَمْرَضُہَا حُمْرُ النَّعَمِ۔
(١٠٩٢٧) حضرت ابو الدردائ ارشاد فرماتے ہیں جس رات میں بیمار ہوتا ہوں تو مجھے سرخ اونٹ (ملنے) جتنی خوشی ہوتی ہے۔

10927

(۱۰۹۲۸) حَدَّثَنَا الثَّقَفِیُّ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنْ أَبِی قِلاَبَۃَ ، قَالَ : إذَا مَرِضَ الرَّجُلُ عَلَی عَمَلٍ صَالِحٍ جَرَی لَہُ مَا کَانَ یَعْمَلُ فِی صِحَّتِہِ۔
(١٠٩٢٨) حضرت ابو قلابہ فرماتے ہیں کہ جب کوئی شخص کسی نیک عمل پر بیمار ہوتا ہے تو اس کو اس عمل کا اجر ملتا ہے جو وہ تندرستی میں کرتا تھا۔

10928

(۱۰۹۲۹) حَدَّثَنَا مُعْتَمِرُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنِ الْحَکَمِ بْنِ أَبَانَ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ ، قَالَ : إذَا مَرِضَ الرَّجُلُ رُفِعَ لَہُ کُلَّ یَوْمٍ مَا کَانَ یَعْمَلُ۔
(١٠٩٢٩) حضرت عکرمہ فرماتے ہیں کہ جب آدمی بیمار ہوتا ہے تو اس کے وہی اعمال اللہ کے ہاں بلند کیے جاتے ہیں جو وہ تندرستی میں کرتا تھا۔

10929

(۱۰۹۳۰) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ الْمُغِیرَۃِ ، عَنْ ثَابِتِ ، عَنْ مُسْلِمِ بْنِ یَسَارٍ ، قَالَ : إذَا مَرِضَ العبد کُتِبَ لَہُ أَحْسَنُ مَا کَانَ یَعْمَلُ فِی صِحَّتِہِ۔
(١٠٩٣٠) حضرت مسلم بن یسار سے مروی ہے کہ جب کوئی بندہ بیمار ہوتا ہے تو اس کیلئے اس سے اچھا عمل لکھا جاتا ہے جو وہ تندرستی میں کرتا تھا۔

10930

(۱۰۹۳۱) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ ، عَنْ حَجَّاجِ ، عَنْ مُحَمَّدٍ ، قَالَ : قَالَ عَلِیُّ بْنُ الْحُسَیْنِ إذَا لَمْ یَمْرَضِ الْجَسَدُ أَشِرَ ، وَلاَ خَیْرَ فِی جَسَدٍ مَا یَأْشَر۔
(١٠٩٣١) حضرت علی بن حسین فرماتے ہیں کہ جب جسم بیمار نہ ہو تو وہ نعمت کی ناشکری کرتا ہے اور اس جسم میں کوئی خیر نہیں ہے جو ناشکری کرے۔

10931

(۱۰۹۳۲) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرِِ ، عَنْ یَحْیَی ، عَنِ الْقَاسِمِ ، عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ : مَا شِیکَ امْرُؤٌ بِشَوْکَۃٍ فَمَا فَوْقَہَا إِلاَّ حَطَّ اللَّہُ بِہَا عَنْہُ خَطَایَاہُ۔
(١٠٩٣٢) حضرت عائشہ ارشاد فرماتی ہیں کہ کسی عورت کو کوئی کانٹا نہیں چبھتا مگر اس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اس کے گناہوں کو ختم فرما دیتے ہیں۔

10932

(۱۰۹۳۳) حَدَّثَنَا أَبُوبَکْرِ بْنُ عَیَّاشٍ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ أَبِیہِ، قَالَ: قُلْتُ یَا رَسُولَ اللہِ أَیُّ النَّاسِ أَشَدُّ بَلاَئً ، قَالَ : النَّبِیُّونَ ، ثُمَّ الأَمْثَلُ مِنَ النَّاسِ وَمَا یَزَالُ بِالْعَبْدِ الْبَلاَئُ حَتَّی یَلْقَی اللَّہَ وَمَا عَلَیْہِ مِنْ خَطِیئَۃٍ۔ (ترمذی ۲۳۹۸۔ ابن حبان ۲۹۰۰)
(١٠٩٣٣) حضرت مصعب بن سعد اپنے والد سے روایت کرتے ہیں، وہ فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! لوگوں میں سے سب سے زیادہ تکالیف کس پر آتی ہیں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : انبیاء کرام پر، پھر ان لوگوں پر جو ان کے مثل ہیں اور بندہ پر مسلسل مصائب آتے ہں یہاں تک کہ وہ اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملاقات کرتا ہے کہ اس پر کوئی گناہ نہیں ہوتا۔

10933

(۱۰۹۳۴) حَدَّثَنَا ابْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ طَلْحَۃَ بْنِ عُمیرۃ ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، قَالَ : یَوَدُّ أَہْلُ الْبَلاَئِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ، أَنَّ أَجْسَادَہُمْ کَانَتْ فِی الدُّنْیَا تُقْرَضُ بِالْمَقَارِیضِ۔
(١٣١٣٤) حضرت مسروق سے مروی ہے کہ مصائب زدہ لوگ قیامت کے دن یہ تمنا کریں گے کہ کاش دنیا میں ان کے گوشت (کھال) کو قینچیوں سے کاٹ دیا جاتا۔

10934

(۱۰۹۳۵) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ، عَنْ لَیْثٍ، عَنْ مُجَاہِدٍ، قَالَ: یُکْتَبُ مِنَ الْمَرِیضِ کُلُّ شَیْئٍ حَتَّی أَنِینُہُ فِی مَرَضِہِ۔
(١٠٩٣٥) حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ مریض کی ہر چیز (نامہ اعمال میں) لکھی جاتی ہیں۔ یہاں تک کہ مرض میں اس کے کر اہنے کی آواز کو بھی لکھا جاتا ہے۔

10935

(۱۰۹۳۶) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا أَبُو رَبِیعَۃَ ، قَالَ : سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِکٍ یَقُولُ : إنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : إذَا ابْتَلَی اللَّہُ الْمُسْلِمَ بِبَلاَئٍ فِی جَسَدِہِ ، قَالَ لِلْمَلَکِ اکْتُبْ لَہُ صَالِحَ عَمَلِہِ الَّذِی کَانَ یَعْمَلُ فَإِنْ شَفَاہُ غَسَلَہُ وَطَہَّرَہُ , وَإِنْ قَبَضَہُ غَفَرَ لَہُ وَرَحِمَہُ۔ (احمد ۱۴۸۔ بخاری ۵۰۱)
(١٠٩٣٦) حضرت ابو ربیعہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت انس بن مالک سے سنا وہ فرماتے ہیں کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ارشاد فرمایا : اللہ تعالیٰ جب مسلمان کے جسم کو تکلیف (اور آزمائش) میں مبتلا فرماتا ہے تو فرشتہ کو حکم دیتا ہے کہ اس کیلئے نیک عمل لکھ دو جو یہ تندرستی کی حالت میں کرتا تھا، پھر اگر اللہ اس کو شفا عطا کرتا ہے تو اس کو گناہوں سے پاک صاف کردیتا ہے اور اگر اللہ اس کی روح قبض کرلیتا ہے تو اس کے ساتھ رحمت اور مغفرت والا معاملہ فرماتا ہے اور اگر اس کی روح قبض ہوگئی تو اللہ اس کے گناہ معاف کر کے اس پر رحم فرمائے گا۔

10936

(۱۰۹۳۷) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ بَشِیرٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا خَالِدٌ ، عَنْ أَبِی قِلاَبَۃَ ، عَنْ أَبِی أَسْمَائَ الرَّحَبِیِّ ، عَنْ ثَوْبَانَ مَوْلَی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَنْ عَادَ مَرِیضًا لَمْ یَزَلْ فِی خُرْفَۃِ الْجَنَّۃِ حَتَّی یَرْجِعَ۔
(١٠٩٣٧) حضرت ثوبان سے مروی ہے کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جب کوئی شخص مریض کی عیادت کرتا ہے تو وہ جنت کے میووں (باغات) میں ہوتا ہے یہاں تک کہ وہ واپس لوٹ آئے۔

10937

(۱۰۹۳۸) حَدَّثَنَا یَزِیدُ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ أَبِی قِلاَبَۃَ ، عَنْ أَبِی الأَشْعَثِ ، عَنْ أَبِی أَسْمَائَ ، عَنْ ثَوْبَانَ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِنَحْوِہِ۔ (مسلم ۱۹۸۹۔ ترمذی ۹۶۸)
(١٠٩٣٨) حضرت ثوبان سے اسی طرح منقول ہے۔

10938

(۱۰۹۳۹) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ عَبْدِ الْحَمِیدِ بْنِ جَعْفَرٍ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْحَکَمِ بْنِ ثَوْبَانَ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَنْ عَادَ مَرِیضًا لَمْ یَزَلْ یَخُوضُ فِی الرَّحْمَۃِ حَتَّی یَجْلِسَ فَإِذَا جَلَسَ اغْتَمَسَ فِیہَا۔ (بخاری ۵۲۲۔ احمد ۳۰۴)
(١٠٩٣٩) حضرت جابر بن عبداللہ سے مروی ہے کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جب کوئی شخص مریض کی عیادت کرتا ہے تو وہ مسلسل رحمت میں شامل رہتا ہے جب تک کہ وہ بیٹھ نہ جائے۔ اور جب وہ بیٹھ جاتا ہے تو اس رحمت میں گھس جاتا ہے۔

10939

(۱۰۹۴۰) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنِ الْحَکَمِ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِی لَیْلَی ، قَالَ : جَائَ أَبُو مُوسَی إلَی الْحَسَنِ بْنِ عَلِیٍّ یَعُودُہُ وَکَانَ شَاکِیًا ، فَقَالَ لَہُ : عَلِیٌّ : عَائِدًا جِئْت أَمْ شَامِتًا ؟ فَقَالَ : لاَ بَلْ عَائِدًا ، فَقَالَ لَہُ عَلِیٌّ أَمَا إذْ جِئْت عَائِدًا فَإِنِّی سَمِعْت رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : مَنْ أَتَی أَخَاہُ الْمُسْلِمَ یَعُودُہُ مَشَی فِی خَرَافَۃِ الْجَنَّۃِ حَتَّی یَجْلِسَ فَإِذَا جَلَسَ غَمَرَتْہُ الرَّحْمَۃُ ، وَإِنْ کَانَ غدوۃ صَلَّی عَلَیْہِ سَبْعُونَ أَلْفَ مَلَکٍ حَتَّی یُمْسِیَ ، وَإِنْ کَانَ مَسَائً صَلَّی عَلَیْہِ سَبْعُونَ أَلْفَ مَلَکٍ حَتَّی یُصْبِحَ۔ (ابوداؤد ۳۰۹۲۔ ترمذی ۹۶۹)
(١٠٩٤٠) حضرت عبد الرحمن بن ابی لیلیٰ فرماتے ہیں کہ حضرت ابو موسیٰ حضرت حسن بن علی کی عیادت کے لیے تشریف لائے، وہ بیماری کی وجہ سے تکلیف محسوس کر رہے تھے۔ حضرت علی نے آپ سے فرمایا : مزاج پرسی کے لیے تشریف لائے ہیں یا دوسرے کی مصیبت پر خوش ہونے کے لیے ؟ آپ نے فرمایا نہیں بلکہ مزاج پرسی کے لئے، حضرت علی نے ان سے فرمایا اگر آپ مزاج پرسی کے لیئے تشریف لائے ہیں تو میں نے خود رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا آپ فرماتے ہیں جو شخص مسلمان کی عیادت کے لیے آتا ہے وہ جنت کے پھلوں (باغات) میں چلتا ہے یہاں تک کہ بیٹھ جائے، پھر جب بیٹھ جاتا ہے تو اس کو رحمت ڈھانپ لیتی ہے، اگر وہ صبح کے وقت آتا ہے تو شام تک ستر ہزار فرشتے اس کے لیے دعائے مغفرت فرماتے ہیں اور اگر وہ شام کے وقت آتا ہے تو ستر ہزار فرشتے صبح تک اس کے لیے دعائے مغفرت فرماتے رہتے ہیں۔

10940

(۱۰۹۴۱) حدَّثنا شَرِیک ، عن عَلْقَمۃ بن مَرْثَد ، عن بعض آل أَبی مُوسَی الأَشْعَرِیِّ ، أَنَّہُ أَتَی عَلِیًّا ، فَقَالَ لَہُ : مَا جَائَ بِکَ ؟ أَجِئْتَ عَائِدًا ؟ قَالَ : مَا عَلِمْتُ لأَحَدٍ مِنْکُمْ بِشَکْوَی ، فَقَالَ : بَلَی ، الْحَسَنُ بْنُ عَلِیٍّ ، ثُمَّ قَالَ عَلِیٌّ : مَنْ عَادَ مَرِیضًا نَہَارًا ، صَلَّی عَلَیْہِ سَبْعُونَ أَلْفَ مَلَکٍ ، حَتَّی یُمْسِیَ ، وَمَنْ عَادَ لَیْلاً ، صَلَّی عَلَیْہِ سَبْعُونَ أَلْفَ مَلَکٍ ، حَتَّی یُصْبِحَ۔
(١٠٩٤١) حضرت علقمہ بن مرثد آل ابو موسیٰ اشعری سے روایت کرتے ہیں کہ وہ جب حضرت علی کے پاس آئے تو حضرت علی نے آپ سے فرمایا آپ کیوں تشریف لائے ؟ کیا آپ مزاج پرسی کیلئے تشریف لائے ہیں ؟ آپ نے فرمایا مجھے نہیں معلوم کہ تم میں سے کوئی بیمار ہے، حضرت علی نے فرمایا کیوں نہیں حسن بن علی (بیمار ہیں) پھر حضرت علی نے فرمایا : جس نے صبح کے وقت مریض کی عیادت کی اس کیلئے ستر ہزار فرشتے شام تک دعائے مغفرت فرماتے ہیں، اور جو شام کے وقت مریض کی عیادت کرتا ہے اس کیلئے ستر ہزار فرشتے صبح تک دعائے مغفرت فرماتے رہتے ہیں۔

10941

(۱۰۹۴۲) حَدَّثَنَا جَرِیرُ بْنُ عَبْدِ الْحَمِیدِ ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِیزِ بْنِ رُفَیْعٍ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ بْنِ خَالِدٍ ، قَالَ : حُدِّثت أَنَّ الرَّجُلَ إذَا عَادَ مَرِیضًا خَاضَ فِی الرَّحْمَۃِ خَوْضًا فَإِذَا جَلَسَ اسْتَنْقَعَ فِیہَا اسْتِنْقَاعًا۔
(١٠٩٤٢) حضرت عکرمہ بن خالد سے مروی ہے کہ جب کوئی شخص مریض کی عیادت کرتا ہے تو وہ رحمت میں مسلسل غرق رہتا ہے، پھر جب وہ بیٹھ جاتا ہے تو وہ اس رحمت سے خوب سیراب ہوتا ہے۔

10942

(۱۰۹۴۳) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا جَرِیرُ بْنُ حَازِمٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا بَشَّارُ بْنُ أَبِی سَیْفٍ ، عَنِ الْوَلِیدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ عِیَاضِ بْنِ غُطَیْفٍ ، عَنْ أَبِی عُبَیْدَۃَ بْنِ الْجَرَّاحِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَنْ عَادَ مَرِیضًا ، أَوْ أَمَاطَ أَذًی عَنْ طَرِیقٍ فَحَسَنَتُہُ بِعَشْرِ أَمْثَالِہَا۔ (احمد ۱/۱۹۵۔ ابو یعلی ۸۷۵)
(١٠٩٤٣) حضرت ابو عبیدہ بن جراح سے مروی ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جس نے کسی مریض کی عیادت کی یا راستہ سے تکلیف دہ چیز کو دور کیا اس کی نیکی دس گنا ہے۔

10943

(۱۰۹۴۴) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا مُوسَی الْجُہَنِیُّ ، قَالَ : سَمِعْتُ سَعِیدَ بْنَ أَبِی بُرْدَۃَ ، قَالَ : حَدَّثَنِی أَبِی ، أَنَّ أَبَا مُوسَی انْطَلَقَ عَائِدًا لِلْحُسَیْنِ بْنِ عَلِیٍّ ، فَقَالَ لَہُ عَلِیٌّ : أَعَائِدًا جِئْت ، أَوْ زَائِرًا ؟ قَالَ : لاَ بَلْ زَائِرًا ، قَالَ : أَمَا إِنَّہُ لاَ یَمْنَعُنِی ، وَإِنْ کَانَ فِی نَفْسِکَ مَا فِی نَفْسِکَ أَنْ أُخْبِرَک؛ أَنَّ الْعَائِدَ إذَا خَرَجَ مِنْ بَیْتِہِ یَعُودُ مَرِیضًا ، کَانَ یَخُوضُ فِی الرَّحْمَۃِ خَوْضًا ، فَإِذَا انْتَہَی إلَی الْمَرِیضِ فَجَلَسَ غَمَرَتْہُ الرَّحْمَۃُ وَیَرْجِع مِنْ عِنْدِ الْمَرِیضِ ، حِینَ یَرْجِعُ ، یُشَیِّعُہُ سَبْعُونَ أَلْفَ مَلَکٍ ، یَسْتَغْفِرُونَ لَہُ نَہَارَہ أَجْمَعَ ، وَإِنْ کَانَ لَیْلاً ، کَانَ بِذَلِکَ الْمَنْزِلِ حَتَّی یُصْبِحَ ، وَلَہُ خَرِیفٌ فِی الْجَنَّۃِ۔
(١٠٩٤٤) حضرت سعید بن ابو بردہ سے مروی ہے کہ حضرت ابو موسیٰ اشعری حضرت حسین بن علی کی مزاج پرسی کیلئے تشریف لے گئے۔ حضرت علی نے ارشاد فرمایا کیا آپ زیارت کے لیے تشریف لائے ہیں یا عیادت کے لیے ؟ انھوں نے جواب دیا کہ زیارت کے لیے تو حضرت علی نے فرمایا کہ آپ کے دل میں جو کچھ بھی ہے بہرحال وہ یعنی دل کا خیال مجھ کو یہ بات بیان کرنے سے نہیں روک سکتا کہ مریض کی مزاج پرسی کرنے والا جب گھر سے مریض کی عیادت کے لیے نکلتا ہے تو اس کو رحمت ڈھانپ لیتی ہے وہ رحمت میں گھس جاتا ہے اور جب وہ مریض کے پاس پہنچ کر بیٹھ جاتا ہے تو پھر رحمت اس کو ڈھانپ لیتی ہے اور وہ رحمت میں غرق ہوجاتا ہے اور جب وہ مریض کی عیادت کر کے واپس آتا ہے تو ستر ہزار فرشتے اس کے لیے تمام دن مغفرت کی دعا کرتے ہیں اور اگر وہ رات کو عیادت کرتا ہے تب بھی اس کو یہ مقام و مرتبہ حاصل رہتا ہے یہاں تک کہ صبح ہوجائے اور اس کے لیے جنت کے میوے ہیں۔

10944

(۱۰۹۴۵) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَنِ الشَّیْبَانِیِّ ، عَنْ أَشْعَثَ بْنِ أَبِی الشَّعْثَائِ الْمُحَارِبیِّ ، عَنْ مُعَاوِیَۃَ بْنِ سُوَیْد ، عَنِ الْبَرَائِ بْنِ عَازِبٍ ، قَالَ : أَمَرَنَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِعِیَادَۃِ الْمَرِیضِ وَاتِّبَاعِ الْجَنَائِزِ۔ (بخاری ۱۲۳۹۔ ترمذی ۱۷۶۰)
(١٠٩٤٥) حضرت براء بن عازب ارشاد فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں مریض کی عیادت اور جنازے کے ساتھ چلنے کا حکم فرمایا۔

10945

(۱۰۹۴۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ ہَمَّامٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ أَبِی عِیسَی الأُسْوَارِیِّ ، عَنْ أَبِی سَعِیدٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : عُودُوا الْمَرِیضَ وَاتَّبِعُوا الْجِنَازَۃَ تُذَکِّرُکُمُ الآخِرَۃَ۔ (عبد بن حمید ۱۰۰۱۔ ابویعلی ۱۱۱۴)
(١٠٩٤٦) حضرت ابو سعید سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : مریض کی عیادت کرو اور جنازے کے ساتھ چلو اس سے تمہیں آخرت کی یاد آئے گی۔

10946

(۱۰۹۴۷) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِِ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنِ الْحَارِثِ ، عَنْ عَلِیٍّ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لِلْمُسْلِمِ عَلَی الْمُسْلِمِ أَنْ یَعُودَہُ إذَا مَرِضَ وَیَحْضُرَ جِنَازَتَہُ۔ (ترمذی ۲۷۳۶۔ احمد ۱/۸۹)
(١٠٩٤٧) حضرت علی سے مروی ہے کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : مسلمان کا مسلمان پر حق ہے کہ جب وہ بیمار ہو تو اس کی عیادت کرے اور اس کے جنازے میں شریک ہو۔

10947

(۱۰۹۴۸) حَدَّثَنَا عِیسَی بْنُ یُونُسَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مُسْلِمٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَابِطٍ ، عَنْ جَابِرٍ ، قَالَ : قلْنَا یَا رَسُولَ اللہِ کَیْفَ أَصْبَحْت ، قَالَ : بِخَیْرٍ مِنْ رَجُلٍ لَمْ یُصْبِحْ صَائِمًا ، وَلَمْ یَعُدْ سَقِیمًا۔ (بخاری ۱۳۳)
(١٠٩٤٨) حضرت جابر فرماتے ہیں کہ ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ ! آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیسے صبح کرتے ہیں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : آدمی کیلئے خیر نہیں ہے اگر وہ روزے کی حالت میں صبح نہ کرے اور مریض کی عیادت نہ کرے۔

10948

(۱۰۹۴۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سَلَمَۃَ بْنِ وَرْدَانَ ، قَالَ : سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِکٍ یَقُولُ ، قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لأَصْحَابِہِ : مَنْ شَہِدَ مِنْکُمْ جِنَازَۃً ؟ قَالَ عُمَرُ أَنَا ، قَالَ : مَنْ عَادَ مِنْکُمْ مَرِیضًا ؟ قَالَ عُمَرُ أَنَا ، قَالَ : مَنْ تَصَدَّقَ ؟ قَالَ عُمَرُ أَنَا ، قَالَ : مَنْ أَصْبَحَ مِنْکُمْ صَائِمًا ؟ قَالَ عُمَرُ أَنَا ، قَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : وَجَبَتْ وَجَبَتْ۔ (احمد ۳/۱۱۸۔ طبرانی ۱۱)
(١٠٩٤٩) حضرت انس بن مالک سے مروی ہے ایک مرتبہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ کرام سے دریافت فرمایا : تم میں سے جنازہ میں کون حاضر ہوا ہے ؟ حضرت عمر نے عرض کیا میں، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دریافت فرمایا : تم میں سے مریض کی عیادت کس نے کی ہے ؟ حضرت عمر نے عرض کیا میں نے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دریافت فرمایا : صدقہ کس نے کیا ہے ؟ حضرت عمر نے عرض کیا میں نے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دریافت فرمایا : تم میں سے کس نے روزے کی حالت میں صبح کی ؟ حضرت عمر نے عرض کیا میں نے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : واجب ہوگئی، واجب ہوگئی (جنت) ۔

10949

(۱۰۹۵۰) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو ، عَنْ أَبِی سَلَمَۃَ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مِنْ حَقِّ الْمُسْلِمِ عَلَی الْمُسْلِمِ شُہُودُ الْجِنَازَۃِ وَعِیَادَۃُ الْمَرِیضِ۔ (بخاری ۵۱۹۔ احمد ۳۵۷)
(١٠٩٥٠) حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : مسلمان کا مسلمان پر حق ہے کہ اس کے جنازے میں شریک ہو۔ اور مریض کی عیادت کرے۔

10950

(۱۰۹۵۱) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : کَانُوا یُحِبُّونَ إذَا سُئِلُوا عَنِ الْمَرِیضِ أَنْ یَقُولُوا صَالِحٌ ، ثُمَّ یَذْکُرُونَ وَجَعَہُ بَعْدُ۔
(١٠٩٥١) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ (صحابہ کرام ) پسند فرماتے تھے کہ جب ان سے مریض کے متعلق دریافت کیا جائے تو وہ یوں کہیں : نیک آدمی ہے، پھر اس کے بعد اس کی تکلیف کا ذکر کرتے تھے۔

10951

(۱۰۹۵۲) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ شَقِیقٍ ، عَنْ أُمِّ سَلَمَۃَ قَالَتْ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: إذَا حَضَرْتُمُ الْمَرِیضَ ، أَوِ الْمَیِّتَ فَقُولُوا خَیْرًا فَإِنَّ الْمَلاَئِکَۃَ یُؤَمِّنُونَ عَلَی مَا تَقُولُونَ۔ (مسلم ۶۔ ترمذی ۹۷۷)
(١٠٩٥٢) حضرت ام سلمہ سے مروی ہے کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جب تم لوگ مریض یا میت کے پاس جاؤ تو اچھی بات کہو، کیونکہ جو تم کہتے ہو ملائکہ اس پر آمین کہتے ہیں۔

10952

(۱۰۹۵۳) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ ، عَنِ الْمُجَالِدِ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : کَانَتِ الأَنْصَارُ یَقْرَؤُونَ عِنْدَ الْمَیِّتِ بِسُورَۃِ الْبَقَرَۃِ۔
(١٠٩٥٣) حضرت شعبی فرماتے ہیں کہ انصار (صحابہ کرام ) میت کے پاس سورة البقرہ کی تلاوت فرمایا کرتے تھے۔

10953

(۱۰۹۵۴) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنْ حَفْصَۃَ بِنْتِ سِیرِینَ ، عَنْ أُمِّ الْحَسَنِ قَالَتْ : کُنْت عِنْدَ أُمِّ سَلَمَۃَ أَنْظُرُ فِی رَأْسِہَا , فَجَائَ إنْسَانٌ فَقَالَ : فُلاَنٌ فِی الْمَوْتِ ، فَقَالَتْ لَہَا انْطَلِقِی , فَإِذَا احْتُضِرَ فَقُوْلِی : السَّلاَمُ عَلَی الْمُرْسَلِینَ , وَالْحَمْدُ لِلَّہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ۔
(١٠٩٥٤) حضرت ام الحسن فرماتی ہیں کہ میں حضرت ام سلمہ کے پاس موجود تھی اور ان کے سر کو دیکھ رہی تھی۔ ایک شخص نے آ کر کہا فلاں آدمی مرنے والا ہے۔ آپ نے مجھ سے فرمایا کہ اس کے پاس جاؤ، جب اس کا سانس اکھڑنے لگے تو یہ کہو : سلام ہو رسولوں پر اور تمام تعریفیں رب العالمین کے لیے ہیں۔

10954

(۱۰۹۵۵) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، قَالَ : نُبِّئْت أَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ سِیرِینَ حَضَرَ بَعْضَ أَہْلِہِ وَہُوَ فِی الْمَوْتِ , فَجَعَلَ یَقُولُ : قُولُوا سَلاَمًا , قُولُوا سَلاَمًا۔
(١٠٩٥٥) حضرت ابن عون سے مروی ہے کہ حضرت محمد بن سیرین اپنے اھل میں سے کسی کی وفات پر حاضر ہوئے تو آپ نے فرمایا : لوگو ! سلام کہو، لوگو ! سلام کہو۔

10955

(۱۰۹۵۶) حَدَّثَنَا عُقْبَۃُ بْنُ خَالِدٍ ، عَنْ مُوسَی بن مُحَمَّدُ بْن إِبْرَاہِیمَ ، عَن أَبِیہِ ، عَنْ أَبِی سَعِیدٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إذَا دَخَلْتُمْ عَلَی الْمَرِیضِ فَنَفِّسُوا لَہُ فِی الأَجَلِ فَإِنَّ ذَلِکَ لاَ یَرُدُّ شَیْئًا وَہُوَ یُطَیِّبُ نَفْسَ الْمَرِیضِ۔ (ترمذی ۲۰۸۷۔ ابن ماجہ ۱۴۳۸)
(١٠٩٥٦) حضرت ابو سعید سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جب تم مریض کے پاس جاؤ تو اس کو موت کے بارے میں تسلی دو ، بیشک یہ بات کوئی چیز رد نہیں کرتی لیکن مریض خوش کرتی ہے۔

10956

(۱۰۹۵۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ حَسَّانَ بْنِ إِبْرَاہِیمَ ، عَن أُمَیَّۃَ الأَزْدِیِّ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ زَیْدٍ ، أَنَّہُ کَانَ یَقْرَأُ عِنْدَ الْمَیِّتِ سُورَۃَ الرَّعْدِ۔
(١٠٩٥٧) حضرت امیہ ازدی سے مروی ہے کہ حضرت جابر بن زید میت کے پاس سورة الرعد کی تلاوت فرماتے۔

10957

(۱۰۹۵۸) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ الْحَسَنِ بْنُ شَقِیقٍ ، عَنِ ابْنِ مُبَارَکٍ ، عَنِ التَّیْمِیِّ ، عَنْ أَبِی عُثْمَانَ وَلَیْسَ بِالنَّہْدِیِّ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ مَعْقِلِ بْنِ یَسَارٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : اقْرَؤُوہَا عِنْدَ مَوْتَاکُمْ ، یَعْنِی یٰسٓ۔ (ابوداؤد ۳۱۱۲۔ ابن حبان ۳۰۰۲)
(١٠٩٥٨) حضرت معقل بن یسار سے مروی ہے کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اپنے مردوں کے پاس سورة یٰسٓ پڑھو۔

10958

(۱۰۹۵۹) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : کَانُوا إذَا حَضَرُوا الرَّجُلَ یَمُوتُ أَخْرَجُوا الْحُیَّضَ۔
(١٠٩٥٩) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام کسی میت کے پاس حاضر ہوتے تو حائضہ عورتوں کو باہر نکال دیتے۔

10959

(۱۰۹۶۰) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، عَن عَلْقَمَۃَ جَائَتْہُ امْرَأَۃٌ ، فَقَالَتْ : إنِّی أُعَالِجُ مَرِیضًا فَأَقُومُ عَلَیْہِ وَأَنَا حَائِضٌ ، فَقَالَ : نَعَمْ فَإِذَا حَضَرَ فَاجْتَنِبِی رَأْسَہُ۔
(١٠٩٦٠) حضرت ابراہیم سے مروی ہے حضرت علقمہ کے پاس ایک عورت آئی اور عرض کیا میں مریض کا علاج کرتی ہوں تو کیا میں حائضہ ہونے کی حالت میں اس کے پاس کھڑی ہوسکتی ہوں ؟ آپ نے فرمایا ہاں جب وہ تمہارے پاس لایا جائے تو اس کے سر سے اجتناب کرو۔

10960

(۱۰۹۶۱) حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِی عَدِیٍّ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، أَنَّہُ کَانَ لاَ یَرَی بَأْسًا أَنْ تَحْضُرَ الْحَائِضُ الْمَیِّتَ۔
(١٠٩٦١) حضرت حسن حائضہ عورت کے میت کے پاس حاضر ہونے میں کوئی حرج نہ سمجھتے تھے۔

10961

(۱۰۹۶۲) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرِِ ، عَنْ یَزِیدَ بْنِ کَیْسَانَ ، عَنْ أَبِی حَازِمٍ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لَقِّنُوا مَوْتَاکُمْ لاَ إلَہَ إِلاَّ اللَّہُ۔ (مسلم ۲۔ ابن ماجہ ۱۴۴۴)
(١٠٩٦٢) حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اپنے مردوں کو لا الہ الا اللہ کی تلقین کرو۔

10962

(۱۰۹۶۳) حَدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ عُمَرُ احْضُرُوا مَوْتَاکُمْ وَذَکِّرُوہُمْ لاَ إلَہَ إِلاَّ اللَّہُ ، فَإِنَّہُمَا یَرَوْنَ وَیُقَالُ لَہُمْ۔
(١٠٩٦٣) حضرت عمر فرماتے ہیں اپنے مردوں کے پاس حاضر ہوا کرو اور ان کو لا الہ الا اللہ یاد دلایا کرو (تلقین کیا کرو) بیشک وہ دیکھتے ہیں اور ان سے کہا جاتا ہے۔

10963

(۱۰۹۶۴) حَدَّثَنَا سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ، عَنْ مَنْصُورِ بْنِ صَفِیَّۃَ، عَنْ أُمِّہِ، عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ: لَقِّنُوا مَوْتَاکُمْ لاَ إلَہَ إِلاَّ اللَّہُ۔
(١٠٩٦٤) حضرت عائشہ ارشاد فرماتی ہیں کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اپنے مردوں کو لا الہ الا اللہ کی تلقین کرو۔

10964

(۱۰۹۶۵) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ حُصَیْنٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ لَمَّا ثَقُلَ عَلْقَمَۃُ ، قَالَ أَقْعِدُوا عِنْدِی مَنْ یُذَکِّرُنِی لاَ إلَہَ إِلاَّ اللَّہُ۔
(١٠٩٦٥) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں حضرت علقمہ کا جب نزع کا وقت آیا تو آپ نے فرمایا میرے پاس وہ بیٹھے جو مجھے لا الہ الا اللہ یاد دلائے اور اس کی تلقین کرے۔

10965

(۱۰۹۶۶) حَدَّثَنَا سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ حُصَیْنٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : أَوْصَی عَلْقَمَۃُ وَالأَسْوَد أَنْ لَقِّنِّی لاَ إلَہَ إِلاَّ اللَّہُ۔
(١٠٩٦٦) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ حضرت علقمہ نے حضرت اسود کو وصیت فرمائی کہ مجھے لا الہ الا اللہ کی تلقین کرو۔

10966

(۱۰۹۶۷) حَدَّثَنَا عَبْدُاللہِ بْنُ نُمَیْرٍ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ، عَنْ عَطَائٍ أَو غَیرہ قَالَ: قَالَ عُمَر: لَقِّنُوا مَوْتَاکُمْ لاَ إلَہَ إِلاَّ اللَّہُ۔
(١٠٩٦٧) حضرت عمر ارشاد فرماتے ہیں اپنے مردوں کو لا الہ الا اللہ کے تلقین کرو۔

10967

(۱۰۹۶۸) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، قَالَ : قُلْتُ لِعَطَائٍ کَانَ یُسْتَحَبُّ أَنْ یُلَقَّنَ الْمَیِّتُ ؟ قَالَ نَعَمْ حَسَنٌ إنِّی لأُحِبُّ ذَلِکَ۔
(١٠٩٦٨) حضرت ابن جریج فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عطاء سے پوچھا کہ میت کو تلقین کرنا مستحب ہے ؟ آپ نے فرمایا جی ہاں اچھا ہے اور میں بھی اس کو پسند کرتا ہوں۔

10968

(۱۰۹۶۹) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ؛ فِی الرَّجُلِ إذَا مَرِضَ فَثَقُلَ ، قَالَ : کَانُوا یُحِبُّونَ أَنْ لاَ یُخْلُوہُ ویَعْتَقِبونہ إذَا قَامَ نَاسٌ جَائَ آخَرُونَ , وَیُلَقِّنُونَہُ لاَ إلَہَ إِلاَّ اللَّہُ۔
(١٠٩٦٩) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ جب آدمی کی بیماری بڑھ جائے تو وہ (صحابہ کرام ) پسند کرتے تھے کہ اس کو تنہا نہ چھوڑا جائے اور اس کی مدد کی جائے، جب کچھ لوگ چلیں جائیں تو دوسرے آجائیں اور اس کو لا الہ الا اللہ کی تلقین کریں۔

10969

(۱۰۹۷۰) حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ ، عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ بِلاَلٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا عُمَارَۃُ بْنُ غَزِیَّۃَ الأَنْصَارِیُّ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ عُمَارَۃَ ، عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: لَقِّنُوا مَوْتَاکُمْ لاَ إلَہَ إِلاَّ اللَّہُ۔ (ابوداؤد ۳۱۰۸۔ ترمذی ۹۷۶)
(١٠٩٧٠) حضرت ابو سعید الخدری سے مروی ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اپنے مرنے والوں کو لا الہ الا اللہ کی تلقین کرو۔

10970

(۱۰۹۷۱) حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، أَنَّ الأَسْوَد أَوْصَی رَجُلاً ، فَقَالَ : إنِ اسْتَطَعْت أَنْ یَکُونَ آخِرَ ما أَقُولُ لاَ إلَہَ إِلاَّ اللَّہُ فَافْعَلْ ، وَلاَ تَجْعَلُوا فِی قَبْرِی آجُرًّا۔
(١٠٩٧١) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ حضرت اسود نے ایک شخص کو وصیت فرمائی اور کہا : اگر تو استطاعت رکھے اس بات کی کہ میرا آخری کلمہ لا الہ الا اللہ ہوجائے تو ایسا ضرور کرنا اور میری قبر کو پختہ نہ بنانا۔

10971

(۱۰۹۷۲) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ الْوَلِیدِ ، قَالَ : حدَّثَنَا النَّضْرُ بْنُ قَیْسٍ ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَہْلِ الْمَدِینَۃِ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ جَعْفَرٍ ، أَنَّ رَجُلاً اشْتَکَی ، فَقَالَ : لَقِّنُوہُ لاَ إلَہَ إِلاَّ اللَّہُ فَإِنَّہَا مَنْ کَانَتْ آخِرَ کَلاَمِہِ دَخَلَ الْجَنَّۃَ۔ (ابوداؤد ۳۱۰۷۔ احمد ۲۳۳)
(١٠٩٧٢) حضرت عبداللہ بن جعفر سے ایک شخص نے آ کر مریض کی تکلیف کا تذکرہ کیا، آپ نے فرمایا اس کو لا الہ الا اللہ کی تلقنہ کرو، بیشک جس کا آخری کلمہ لا الہ الا اللہ ہوگیا وہ جنت میں داخل ہوگا۔

10972

(۱۰۹۷۳) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ ، عَنْ زَاذَانَ ، قَالَ مَنْ قَالَ لاَ إلَہَ إِلاَّ اللَّہُ عِنْدَ مَوْتِہِ دَخَلَ الْجَنَّۃَ۔
(١٠٩٧٣) حضرت زاذان فرماتے ہیں جس شخص نے مرتے وقت لا الہ الا اللہ کہا وہ جنت میں داخل ہوگا۔

10973

(۱۰۹۷۴) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ خَالِدٍ ، قَالَ : حدَّثَنِی الْوَلِیدُ بْنُ مُسْلِمٍ ، عَنْ حُمْرَانَ ، عَنْ عُثْمَانَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَنْ مَاتَ وَہُوَ یَعْلَمُ أَنْ لاَ إلَہَ إِلاَّ اللَّہُ دَخَلَ الْجَنَّۃَ۔(مسلم ۴۳۔ احمد ۶۹)
(١٠٩٧٤) حضرت عثمان سے مروی ہے کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جو شخص اس حال میں دنیا سے رخصت ہوا کہ وہ لا الہ الا اللہ کو جانتا اور مانتا تھا جنت میں داخل ہوگا۔

10974

(۱۰۹۷۵) حَدَّثَنَا مُعَاوِیَۃُ بْنُ ہِشَامٍ ، قَالَ : حدَّثَنِی شَرِیکٌ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنِ الْمُسَیَّبِ بْنِ رَافِعٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : لَقِّنُوا مَوْتَاکُمْ لاَ إلَہَ إِلاَّ اللَّہُ فَإِنَّہَا لاَ تَکُونُ آخِرَ کَلاَمِ امْرِئٍ مُسْلِمٍ إِلاَّ حَرَّمَہُ اللَّہُ عَلَی النَّارِ۔
(١٠٩٧٥) حضرت المسیب بن رافع سے مروی ہے کہ حضرت عبداللہ فرماتے ہیں کہ اپنے مرنے والوں کو لا الہ الا اللہ کی تلقین کرو، بیشک جس مسلمان کا آخری کلمہ یہ ہوا اس پر جہنم کی آگ حرام ہے۔

10975

(۱۰۹۷۶) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ یَزِیدَ بْنِ جَابِرٍ ، قَالَ : حدَّثَنِی یَحْیَی بْنُ أَبِی رَاشِدٍ الْبَصْرِیُّ ، قَالَ : قَالَ عُمَرُ لاِبْنِہِ حِینَ حَضَرَتْہُ الْوَفَاۃُ إذَا حَضَرَتِ الْوَفَاۃُ فَاحْرفْنِی۔
(١٠٩٧٦) حضرت یحییٰ بن راشد البصری سے مروی ہے کہ حضرت عمر کی وفات کا وقت جب قریب آیا تو اپنے بیٹے سے فرمایا : جب میرا انتقال ہوجائے تو میرا رخ قبلے کی طرف کردینا۔

10976

(۱۰۹۷۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : کَانُوا یَسْتَحِبُّونَ أَنْ یُوَجَّہَ الْمَیِّتُ الْقِبْلَۃَ إذَا حُضِرَ۔
(١٠٩٧٧) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں صحابہ کرام اس بات کو پسند فرماتے تھے کہ مرنے والے کا رخ قبلہ کی طرف کردیا جائے۔

10977

(۱۰۹۷۸) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِی عَدِیٍّ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : کَانَ یُسْتَحَبُّ أَنْ یُسْتَقْبَلَ بِالْمَیِّتِ الْقِبْلَۃُ إذَا کَانَ فِی الْمَوْتِ۔
(١٠٩٧٨) حضرت اشعث سے مروی ہے کہ حضرت حسن اس بات کو پسند فرماتے تھے کہ مرنے والے کا رخ قبلہ کی طرف کردیا جائے۔

10978

(۱۰۹۷۹) حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَطَائٍ ، قَالَ : قُلْتُ کَانَ یُسْتَحَبُّ أَنْ یُوَجَّہَ الْمَیِّتُ عِنْدَ نَزْعِہِ إلَی الْقِبْلَۃِ ؟ قَالَ : نَعَمْ۔
(١٠٩٧٩) حضرت ابن جریج فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عطاء سے پوچھا نزع کے وقت میت کا رخ قبلہ کی طرف کرنا مستحب ہے ؟ آپ نے فرمایا جی ہاں۔

10979

(۱۰۹۸۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ عَامِرٍ ، قَالَ إِنْ شِئْتَ فَوَجِّہِ الْمَیِّتَ وَإِنْ شِئْتَ فَلاَ تُوَجِّہْہُ۔
(١٠٩٨٠) حضرت عامر فرماتے ہیں کہ اگر آپ چاہو تو مرنے والے کا رخ قبلہ کی طرف کردو اگر نہ چاہو تو نہ کرو (کوئی حرج نہیں) ۔

10980

(۱۰۹۸۱) حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ بْنِ أُمَیَّۃَ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ، أَنَّہُ کَرِہَہُ ، وَقَالَ: أَلَیْسَ الْمَیِّتُ امْرَئًا مُسْلِمًا ؟۔
(١٠٩٨١) حضرت اسماعیل بن امیہ سے مروی ہے کہ حضرت سعید بن المسیب اس کو ناپسند فرماتے تھے اور فرماتے تھے کیا مرنے والا مسلمان نہیں ہے ؟۔

10981

(۱۰۹۸۲) حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِیَۃَ، عَنْ أَبِی مَالِکٍ الأَشْجَعِیِّ، عَنْ رِبْعِیِّ بْنِ حِرَاشٍ، قَالَ: لَمَّا کَانَتْ لَیْلَۃ مَاتَ فِیہَا حُذَیْفَۃُ دَخَلَ عَلَیْہِ أَبُو مَسْعُودٍ ، فَقَالَ: تَنَحَّ فَقَدْ طَالَ لَیْلک فَأَسْنَدَہُ إلَی صَدْرِہِ فَأَفَاقَ ، فَقَالَ: أَیُّ سَاعَۃٍ ہَذِہِ قَالُوا: السَّحَرُ، فَقَالَ حُذَیْفَۃُ: اللَّہُمَّ إنِّی أَعُوذُ بِکَ مِنْ صَبَاحٍ إلَی النَّارِ وَمَسَائٍ بِہَا، ثُمَّ أَضْجَعْنَاہُ فَقَضَی۔
(١٠٩٨٢) حضرت ربعی بن حراش فرماتے ہیں کہ جس رات حضرت حذیفہ کا انتقال ہوا اس رات حضرت ابو مسعود ان کے پاس آئے۔ آپ نے فرمایا ایک طرف ہٹ جاؤ، تحقیق تمہاری رات لمبی ہوگی پھر آپ نے انھیں اپنے سینے کے ساتھ لگایا تو آپ کو کچھ افاقہ ہوا آپ نے فرمایا : یہ کونسا وقت ہے ؟ لوگوں نے عرض کیا سحری کا، حضرت حذیفہ نے فرمایا : اے اللہ ! میں تجھ سے پناہ مانگتا ہوں کہ صبح کے وقت یا شام کے وقت آگ پر آؤں، پھر ہم نے آپ کو پہلو پر لٹا دیا اور آپ نے اپنی جان جان آفرین کے سپرد کردی۔

10982

(۱۰۹۸۳) حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ الْعَقَدِیُّ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ قَیْسٍ ، قَالَ : حدَّثَنِی زُرْعَۃُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، أَنَّہُ شَہِدَ سَعِیدَ بْنَ الْمُسَیَّبِ فِی مَرَضِہِ ، وَعِنْدَہُ أَبُو سَلَمَۃَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ , فَغُشِیَ عَلَی سَعِیدٍ , فَأَمَرَ أَبُو سَلَمَۃَ أَنْ یُحَوَّلَ فِرَاشُہُ إلَی الْکَعْبَۃِ فَأَفَاقَ ، فَقَالَ : حَوَّلْتُمْ فِرَاشِی ؟ فَقَالُوا : نَعَمْ , فَنَظَرَ إلَی أَبِی سَلَمَۃَ ، فَقَالَ : أُرَاہُ عَمَلَک ، فَقَالَ أَجَل : أَنَا أَمَرْتُہُمْ ، فَقَالَ فَأَمَرَ سَعِیدٌ أَنْ یُعَادَ فِرَاشُہُ۔
(١٠٩٨٣) حضرت زرعہ بن عبد الرحمن فرماتے ہیں کہ حضرت سعید بن المسیب کے مرض میں حاضر ہوا آپ کے پاس حضرت ابو سلمہ ابن عبد الرحمن تشریف فرما تھے۔ حضرت سعید بن المسیب پر غشی طاری ہوگئی، حضرت ابو سلمہ نے حکم دیا کہ حضرت سعید کا بستر قبلہ کی طرف پھیرا جائے جس کی وجہ سے آپ کو افاقہ ہوا۔ حضرت سعید نے پوچھا کہ تم نے میرے بستر کو پھیرا ہے ؟ لوگوں نے عرض کیا جی ہاں، حضرت سعید نے حضرت ابو سلمہ کی طرف دیکھا اور فرمایا کہ میرا خیال ہے کہ یہ تیرا کام ہے ؟ انھوں نے کہا کہ ہاں میں نے ہی انھیں کہا تھا، حضرت سعید نے اپنے بستر کو دوبارہ واپس اسی طرف پھیرنے کا حکم دے دیا۔

10983

(۱۰۹۸۴) حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ مُعَاذٍ ، عَنِ التَّیْمِیِّ ، عَنْ بَکْرٍ ، قَالَ : إذَا أَغْمَضْت الْمَیِّتَ فَقُلْ : بِسْمِ اللہِ وَعَلَی وفاۃ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔
(١٠٩٨٤) حضرت بکر فرماتے ہیں کہ جب میت کی آنکھیں بند کرو تو کہو : بِسْمِ اللہِ وَعَلَی وفاۃ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ۔

10984

(۱۰۹۸۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ خَالِدٍ ، عَنْ أَبِی قِلاَبَۃَ ، عَنْ قَبِیصَۃَ بْنِ ذُؤَیْبٍ ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَغْمَضَ أَبَا سَلَمَۃَ۔ (عبدالرزاق ۶۰۵۰)
(١٠٩٨٥) حضرت قبیصہ بن ذؤیب سے مروی ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت ابو سلمہ کی آنکھیں (ان کے انتقال کے بعد) بند فرمائیں۔

10985

(۱۰۹۸۶) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ یَزِیدَ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ أَبِی رَاشِدٍ الْبَصْرِیِّ ، قَالَ : قَالَ عُمَرُ حِینَ حَضَرَتْہُ الْوَفَاۃُ لاِبْنِہِ إذَا قُبِضْتُ فَأَغْمِضْنِی۔
(١٠٩٨٦) حضرت یحییٰ بن ابو راشد البصری فرماتے ہیں کہ حضرت عمر کی وفات کا وقت قریب ہوا تو اپنے بیٹے سے فرمایا : جب میری روح قبض کرلی جائے تو میری آنکھیں بند کردینا۔

10986

(۱۰۹۸۷) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ، عَنِ ابْنِ شِہَابٍ، قَالَ أَغْمَضَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَیْنَ رَجُلٍ۔
(١٠٩٨٧) حضرت ابن شھاب فرماتے ہیں کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک شخص کی آنکھیں (مرنے کے بعد) بند فرمائیں۔

10987

(۱۰۹۸۸) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَطَائٍ ، أَوْ غَیْرِہِ ، قَالَ : قَالَ عُمَرُ لَقِّنُوا مَوْتَاکُمْ لاَ إلَہَ إِلاَّ اللَّہُ وَأَغْمِضُوا أَعْیُنَہُمْ إذَا مَاتُوا۔
(١٠٩٨٨) حضرت عمر ارشاد فرماتے ہیں کہ اپنے مردوں کو لا الہ الا اللہ کی تلقین کرو اور جب وہ مرجائیں تو ان کی آنکھیں بند کردو۔

10988

(۱۰۹۸۹) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ عَبْدِ الْحَمِیدِ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ حَمَّادٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالَ :إِذَا غُسِّل الْمَیِّت جُعِلَ بَینَہُ وَبَینَ السَّماء سترۃ۔
(١٠٩٨٩) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں جب میت کو غسل دیا جائے تو اس کے آسمان کے درمیان سترہ بنایا جائے۔

10989

(۱۰۹۹۰) حَدَّثَنَا أَزْہَر السَّمَّان ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، أَنَّ مُحَمَّدًا کَانَ یَسْتُرُ الْمَیِّتَ بِجَہدہ۔
(١٠٩٩٠) حضرت ابن عون فرماتے ہیں کہ حضرت محمد میت کا ستر رکھتے تھے طاقت کے ساتھ (کوشش کے ساتھ) ۔

10990

(۱۰۹۹۱) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، أَنَّہُ قَالَ : لاَ بَأْسَ أَنْ یَغْتَسِلَ الرَّجُل فِی الْفَضَائِ وَکَرِہَ أَنْ یُغَسَّلَ الْمَیِّتُ کَذَلِکَ۔
(١٠٩٩١) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ آدمی کو کھلی جگہ میں غسل دینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ لیکن میت کو اس طرح غسل دینے کو ناپسند سمجھا گیا ہے۔

10991

(۱۰۹۹۲) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ إدْرِیسَ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِیٍّ ، قَالَ : غَسَّلَ عَلِیٌّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی قَمِیصٍ۔ (ابوداؤد ۳۱۳۳۔ مالک ۲۲۲)
(١٠٩٩٢) حضرت محمد بن علی سے مروی ہے کہ حضرت علی نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قمیص میں غسل دیا۔

10992

(۱۰۹۹۳) حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ ، عَنْ ہَمَّامٍ ، عَنْ أَیُّوبَ ، قَالَ : قَالَ لِی أَبُو قِلاَبَۃَ اسْتُرْہُ مَا اسْتَطَعْت۔
(١٠٩٩٣) حضرت ایوب فرماتے ہیں کہ حضرت ابو قلابہ نے مجھ سے فرمایا : جس قدر ہو سکے میت کا ستر رکھو۔

10993

(۱۰۹۹۴) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ یَزِیدَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ الْحَارِثِ )، قَالَ غَسَّلَ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلِیٌّ , وَعَلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَمِیصُہُ , وَعَلَی یَدَیْ عَلِیٍّ خِرْقَۃٌ یُغَسِّلُہُ بِہَا یُدْخِلُ یَدَہُ تَحْتَ الْقَمِیصِ فَیُغَسِّلُہُ وَالْقَمِیصُ عَلَیْہِ۔ (بیہقی ۳۸۸)
(١٠٩٩٤) حضرت عبداللہ بن حارث سے مروی ہے کہ حضرت علی نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو غسل دیا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اوپر آپ کی قمیص تھی اور حضرت علی کے ہاتھ میں کپڑے کا ایک ٹکڑا تھا اس کے ساتھ غسل دے رہے تھے، حضرت علی اپنا ہاتھ قمیص کے نیچے لے جا کر آپ کو غسل دے رہے تھے اس وقت بھی قمص، آپ کے جسم کے اوپر تھی۔

10994

(۱۰۹۹۵) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ الْقَطَّانُ ، عَنْ جَعْفَرٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ لَمَّا أَرَادُوا أَنْ یُغَسِّلُوا النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ عَلَیْہِ قَمِیصٌ فَأَرَادُوا أَنْ یَنْزِعُوہُ فَسَمِعُوا نِدَائً مِنَ الْبَیْتِ لاَ تَنْزِعُوا الْقَمِیصَ۔ (ابن سعد ۲۷۵)
(١٠٩٩٥) حضرت جعفر اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ صحابہ کرام نے جب آپ کو غسل دینے کا ارادہ فرمایا تو اس وقت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے جسم مبارک پر قمیص تھی۔ صحابہ کرام نے اس کو اتارنے کا ارادہ کیا تو گھر کے اندر سے (غیبی) آواز آئی کہ قمیص کو مت اتارو۔

10995

(۱۰۹۹۶) حَدَّثَنَا حُمَیْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ زُہَیْرٍ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنِ الضَّحَّاکِ ، قَالَ : لاَ تُجَرِّدُونِی۔
(١٠٩٩٦) حضرت ضحاک فرماتے ہیں کہ مجھے برہنہ کر کے غسل نہ دینا۔

10996

(۱۰۹۹۷) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ یَمَانٍ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ عَامِرٍ ، قَالَ : کَانَ یُسْتَحَبُّ أَنْ یُوضَعَ السَّیْفُ عَلَی بَطْنِ الْمَیِّتِ۔
(١٠٩٩٧) حضرت عامر فرماتے ہیں کہ مرنے والے کے پیٹ پر تلوار رکھنا مستحب ہے۔

10997

(۱۰۹۹۸) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّائِ ، عَنْ حَفْصَۃَ ، عَنْ أُمِّ عَطِیَّۃَ ، أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، قَالَ لَہُنَّ فِی غُسْلِ ابْنَتِہِ : ابْدَأْنَ بِمَیَامِنِہَا وَمَوَاضِعِ الْوُضُوئِ مِنْہَا۔ (بخاری ۱۲۵۶۔ مسلم ۴۲)
(١٠٩٩٨) حضرت ام عطیہ سے مروی ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے بیٹے کو غسل دیتے وقت فرمایا : اس کی داہنی جانب اور وضو کے مقامات سے ابتدا کرو۔

10998

(۱۰۹۹۹) حَدَّثَنَا عبد الوہاب الثَّقَفِیُّ ، عَنْ أَیُّوبَ ، قَالَ حَدَّثَتْنِی حَفْصَۃُ ، عَنْ أُمِّ عَطِیَّۃَ قَالَتْ دَخَلَ عَلَیْنَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ نُغَسِّلُ ابْنَتَہُ ، فَقَالَ : ابْدَأْنَ بِمَیَامِنِہَا وَمَوَاضِعِ الْوُضُوئِ مِنْہَا۔ (ابوداؤد ۳۱۳۷۔ احمد ۸۵)
(٩٩ ١٠٩) حضرت ام عطیہ ارشاد فرماتی ہیں کہ ہم اپنے بیٹے کو غسل دے رہے تھے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا : اس کی داہنی جانب اور وضو کے مقامات سے (غسل) کی ابتدا کرو۔

10999

(۱۱۰۰۰) حَدَّثَنَا الثَّقَفِیُّ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنْ مُحَمَّدٍ ، أَنَّہُ کَانَ إذَا سُئِلَ عَنْ غَسْلِ الْمَیِّتِ ، قَالَ : یُبْدَأْ بِمَیَامِنِہِ وَمَوَاضِعِ الْوُضُوئِ مِنْہُ۔
(١١٠٠٠) حضرت ایوب سے مروی ہے کہ امام محمد سے میت کو غسل دینے کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : داہنی جانب اور وضو کے مقامات سے ابتدا کی جائے گی۔

11000

(۱۱۰۰۱) حَدَّثَنَا أَبُوالأَحْوَصِِ، عَنْ مُغِیرَۃَ، عَنْ إبْرَاہِیمَ، قَالَ: یُبْدَأُ بِالْمَیِّتِ فَیُوَضَّأُ وُضُوئَہُ لِلصَّلاَۃِ ثُمَّ یَبدَأ بِمَیَامِنِہ۔
(١١٠٠١) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں، میت کو غسل دیتے وقت اس کو نماز والا وضو کروایا جائے پھر اس کی داہنی جانب سے غسل شروع کیا جائے۔

11001

(۱۱۰۰۲) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ یُبدَأ بِالْمَیِّتِ فَیُوَضَّأُ وُضُوئَہُ لِلصَّلاَۃِ۔
(١١٠٠٢) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں میت کو غسل دینے میں نماز والے وضو سے ابتدا کی جائے گی۔

11002

(۱۱۰۰۳) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ إدْرِیسَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : یُوَضَّأُ وُضُوئَہُ لِلصَّلاَۃِ إِلاَّ رِجْلَیْہِ۔
(١١٠٠٣) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ میت کو نماز والا وضو کروایا جائے گا مگر اس کے پاؤں نہیں دھوئے جائیں گے۔

11003

(۱۱۰۰۴) حَدَّثَنَا مُعَاذٌ وَأَزْہَرُ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنْ أَبِی قِلاَبَۃَ ، قَالَ : یُوَضَّأُ وُضُوئَہُ لِلصَّلاَۃِ۔
(١١٠٠٤) حضرت ابو قلابہ فرماتے ہیں : میت کو نماز والا وضو کروایا جائے گا۔

11004

(۱۱۰۰۵) حَدَّثَنَا حُمَیْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ مِنْدَلٍ ، عَنْ جَعْفَرٍ بن أَبِی الْمُغِیرَۃِ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ، قَالَ یُوَضَّأُ الْمَیِّتُ وُضُوئَہُ لِلصَّلاَۃِ ، إِلاَّ أَنَّہُ لاَ یُمَضْمَضُ ، وَلاَ یُنَشَّقُ۔
(١١٠٠٥) حضرت سعید بن جبیر ارشاد فرماتے ہیں کہ میت کو نماز والا وضو کروایا جائے گا مگر اس کو کلی اور ناک میں پانی نہ ڈالا جائے گا۔

11005

(۱۱۰۰۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ یَزِیدَ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ ، قَالَ یُوَضَّأُ الْمَیِّتُ کَمَا یُوَضَّأُ الْحَیُّ۔
(١١٠٠٦) حضرت ابن سیرین ارشاد فرماتے ہیں کہ میت کو وضو کروایا جائے گا جیسے کہ زندہ وضو کرتا ہے۔

11006

(۱۱۰۰۷) غُنْدَرٌ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، وَسَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ أَنَّہُمَا قَالاَ : فِی الْمَیِّتِ یُوَضَّأُ وُضُوئَہُ لِلصَّلاَۃِ۔
(١١٠٠٧) حضرت حسن اور حضرت سعید بن المسیب فرماتے ہیں کہ میت کو نماز والا وضو کروایا جائے گا۔

11007

(۱۱۰۰۸) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ یَعْلَی الأَسْلَمِیُّ ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ الأَسْوَد ، قَالَ حَضَرَنَا مُجَاہِدٌ وَنَحْنُ نُغَسِّلُ مَیِّتًا ، فَقَالَ: وَضِّئُوہُ وُضُوئَہُ لِلصَّلاَۃِ۔
(١١٠٠٨) حضرت عثمان بن اسود فرماتے ہیں کہ ہم میت کو غسل دے رہے تھے کہ حضرت مجاہد ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا : اس کو نماز والا وضو کرواؤ۔

11008

(۱۱۰۰۹) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ الثَّقَفِیُّ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنْ مُحَمَّدٍ ، عَنْ أُمِّ عَطِیَّۃَ قَالَتْ دَخَلَ عَلَیْنَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ نُغَسِّلُ ابْنَتَہُ ، فَقَالَ : اغْسِلْنَہَا ثَلاَثًا ، أَوْ خَمْسًا ، أَوْ أَکْثَرَ مِنْ ذَلِکَ إِنْ رَأَیْتُنَّ ذَلِکَ بِمَائٍ وَسِدْرٍ وَاجْعَلْنَ فِی الآخِرَۃِ کَافُورًا ، أَوْ شَیْئًا مِنْ کَافُورٍ فَإِذَا فَرَغْتُنَّ فَآذِنَّنِی ، فَلَمَّا فَرَغْنَا آذَنَّاہُ فَأَلْقَی إلَیْنَا حِقْوَہُ، فَقَالَ : أَشْعِرْنَہَا إیَّاہُ۔ (بخاری ۱۲۵۹۔ مسلم ۶۴۶)
(١١٠٠٩) حضرت ام عطیہ ارشاد فرماتی ہیں کہ ہم اپنے بیٹے کو غسل دے رہے تھے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا : اس کو تین یا پانچ یا اس سے زیادہ مرتبہ غسل دو ۔ اگر تم اس کو مناسب سمجھو پانی اور بیری کے پتوں کیساتھ، اور آخر میں اس کو کافور یا کوئی اور خوشبو لگا دو ، جب تم غسل دے کر فازغ ہو جاؤ تو مجھے بلا لینا، راویہ کہتی ہیں کہ جب ہم فارغ ہوئے تو ہم نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بلایا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی چادر مبارک ہمیں عنایت فرمائی اور فرمایا اس کو اس میں کفن دو ۔

11009

(۱۱۰۱۰) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ حَفْصَۃَ ، عَنْ أُمِّ عَطِیَّۃَ قَالَتْ : لَمَّا مَاتَتْ زَیْنَبُ ابنۃ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : اغْسِلْنَہَا وِتْرًا ثَلاَثًا ، أَوْ خَمْسًا وَاجْعَلْنَ فِی الآخِرَۃِ کَافُورًا ، أَوْ شَیْئًا مِنْ کَافُورٍ فَإِذَا غَسَلْتُنَّہَا فَأَعْلِمَنَّنِی، فَلَمَّا غَسَلْنَاہَا أَعْلَمْنَاہُ فَأَعْطَانَا حِقْوَہُ، فَقَالَ: أَشْعِرْنَہَا إیَّاہُ۔(مسلم ۴۰۔ احمد ۸۵)
(١١٠١٠) حضرت ام عطیہ سے مروی ہے کہ جب حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صاحبزادی حضرت زینب کا انتقال ہوا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اس کو طاق غسل دینا تین یا پانچ مرتبہ اور آخر میں کافور یا کوئی اور خوشبو دار چیز لگانا جب تم غسل مکمل کرلو تو مجھے خبر دینا، جب ہم نے غسل مکمل کرلیا تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خبر دی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی چادر ہمیں عنایت فرمائی اور فرمایا اس میں کفن دو ۔

11010

(۱۱۰۱۱) حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ، وَالْحَسَنِ قَالاَ : یُغَسَّلُ الْمَیِّتُ ثَلاَثَ غَسَلاَتٍ ، أَوْ ثَلاَثَ مِرَارٍ ، مَرَّۃً بِمَائٍ وَسِدْرٍ ، وَمَرَّۃً بِمَائٍ قَرَاحٍ ، وَمَرَّۃً بِمَائٍ وَکَافُورٍ.
(١١٠١١) حضرت سعید بن المسیب اور حضرت حسن ارشاد فرماتے ہیں کہ میت کو تین بار غسل دیا جائے گا، ایک مرتبہ پانی اور بیری سے، ایک مرتبہ خالص پانی سے اور ایک مرتبہ پانی اور کافور سے۔

11011

(۱۱۰۱۲) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ یُغَسَّلُ الْمَیِّتُ ثَلاَثًا وَیُجْعَلُ السِّدْرُ فِی الْغَسْلَۃِ الْوُسْطَی۔
(١١٠١٢) حضرت ابراہیم ارشاد فرماتے ہیں میت کو تین بار غسل دیا جائے گا اور درمیانے غسل کو (دوسری بار) بیری سے دیا جائے گا۔

11012

(۱۱۰۱۳) حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ عَیَّاشٍ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ یُغَسَّلُ الْمَیِّتُ ثَلاَثَ غَسَلاَتٍ بِسِدْرٍ وَمَائٍ۔
(١١٠١٣) حضرت ابراھیم فرماتے ہیں کہ میت کو تین بار غسل دیا جائے گا، بیری اور پانی کے ساتھ۔

11013

(۱۱۰۱۴) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ إدْرِیسَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : یُوَضَّأُ الْمَیِّتُ وُضُوئَہُ لِلصَّلاَۃِ إِلاَّ رِجْلَیْہِ، ثُمَّ یُصَبُّ الْمَائُ مِنْ قِبَلِ رَأْسِہِ وَیُمْسَحُ بَطْنُہُ ، فَإِنْ کَانَ شَیْئٌ خَرَجَ ، ثُمَّ یُتْرَکُ ، حَتَّی إذَا قُلْتَ جَفَّ ، أَوْ کَادَ ، غُسِلَ الثَّانِیَۃَ وَالثَّالِثَۃَ ، وَتُجَمَّرُ ثِیَابُہُ ثَلاَثًا۔
(١١٠١٤) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ میت کو (سب سے پہلے) نماز والا وضو کروایا جائے گا سوائے اس کے پاؤں کے (وہ نہیں دھوئیں جائیں گے) پھر اس کے سر کی جانب سے پانی بہایا جائے گا اور اس کے پیٹ پر ہاتھ پھیرا جائے گا تاکہ اگر پیٹ میں کچھ ہے تو وہ نکل آئے پھر اس کو (کچھ دیر کیلئے) چھوڑ دیا جائے گا تاکہ وہ خشک ہوجائے، پھر دوسری اور تیسری بار غسل دیا جائے گا اور اس کے کپڑوں کو تین بار (عود وغیرہ سے) دھونی دی جائے گی۔

11014

(۱۱۰۱۵) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ، عَنْ مُغِیرَۃَ، عَنْ إبْرَاہِیمَ، قَالَ: یَقْعُد غَاسِل المَیت بَین کُل غُسْلَین قَعْدَۃ قَدْر مَا یَسْتَرِیح۔
(١١٠١٥) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ میت کو غسل دینے والا ہر غسل کے بعد استراحت کی بقدر بیٹھے گا۔

11015

(۱۱۰۱۶) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عن إبراہیم ، قَالَ : لاَ یُمَضْمَضُ الْمَیِّتُ ، وَلاَ یُنَشَّقُ ، وَلَکِنْ یُؤْخَذُ خِرْقَۃٌ نَظِیفَۃٌ فَیُمْسَحُ بِہَا فَمُہُ وَمَنْخِرَاہُ۔
(١١٠١٦) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ میت کو کلی اور ناک میں پانی نہ ڈالا جائے گا۔ لیکن صاف کپڑے کا ٹکڑا لے کر اس کے منہ اور ناک کو صاف کیا جائے گا۔

11016

(۱۱۰۱۷) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنْ فَرْقَدٍ السَّبَخِیِّ ، عَنْ أَبِی تَمِیمَۃَ الْہُجَیْمِیِّ ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ کَتَبَ إلَی أَبِی مُوسَی الأَشْعَرِیِّ أَنِ اغْسِلْ ذَیْنِکَ بِالسِّدْرِ وَمَائِ الرَّیْحَانِ۔
(١١٠١٧) حضرت ابو تمیمہ الہجیمی فرماتے ہیں کہ حضرت عمر نے حضرت ابو موسیٰ اشعری کو لکھا کہ (میت) کے ناک کی گندگی کو بیری اور ریحان سے دھو دو ۔

11017

(۱۱۰۱۸) حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا إسْرَائِیلُ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ الْمُخْتَارِ ، عَنْ مُعَاوِیَۃَ بْنِ قُرَّۃَ ، قَالَ : حَدَّثَنَا أَبُو کَرْبٍ، أو أَبُو حَرْبٍ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو، أَنَّ أَبَاہُ أَوْصَاہُ، فَقَالَ: یَا بُنَیَّ إذَا مِتُّ فَاغْسِلْنِی غَسْلَۃً بِالْمَائِ، ثُمَّ جَفِّفْنِی فی ثَوْبٍ ، ثُمَّ اغْسِلْنِی الثَّانِیَۃَ بِمَائٍ قَرَاحٍ ، ثُمَّ جَفِّفْنِی فی ثَوْبٍ ثم إِذَا أَلْبَسْتنِی الثِّیَابَ فَأَزِّرْنِی۔
(١١٠١٨) حضرت عبداللہ بن عمرو سے مروی ہے کہ ان کے والد نے ان کو وصیت فرمائی اے بیٹے ! جب میں مر جاؤں تو مجھے پانی سے غسل دینا پھر کسی کپڑے سے میرے جسم کو خشک کردینا اور پھر دوسری بار خالص پانی سے غسل دینا، اور پھر کپڑے سے سکھا دینا پھر جب تم مجھے کپڑے (کفن) پہنا دو تو مجھے ازار بھی پہنانا۔

11018

(۱۱۰۱۹) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : یُغسَلُ أَوَّلَ غَسْلَۃٍ بِمَائٍ قَرَاحٍ وَالثَّانِیَۃَ بِمَائٍ وَسِدْرٍ ، وَالثَّالِثَۃَ بِمَائٍ وَکَافُورٍ ، ثُمَّ یُؤْخَذُ الْکَافُورُ وَیُوضَعُ عَلَی مَوَاضِعِ مَسَاجِدِہِ۔
(١١٠١٩) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ میت کو پہلی بار خالص پانی سے غسل دیا جائے گا اور دوسری بار پانی اور بیری سے اور تیسری بار پانی اور کافور سے، پھر کافور لے کر میت کی سجدے کی جگہوں پر رکھی جائے گی۔

11019

(۱۱۰۲۰) حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ مُعَاذٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا ابْنُ عَوْنٍ ، عَنْ أَیُّوبَ السِّخْتِیَانِیِّ ، قَالَ : کَانَ أَبُو قِلاَبَۃَ إذَا غُسِّلَ الْمَیِّتُ أَمَرَ بِالسِّدْرِ فَصُفِّیَ فِی ثَوْبٍ فَغُسِّلَ بِصَفْوِہِ وَرُمِیَ بِثُفْلِہِ۔
(١١٠٢٠) حضرت ابو قلابہ جب میت کو غسل دیتے تو بیری کا حکم فرماتے، پھر خشک کیا جاتا میت کو کپڑے میں اور غسل دیا جاتا خالص پانی سے اور برتن کے اندر کا بچا ہوا پانی بھی اس پر ڈال دیتے۔

11020

(۱۱۰۲۱) حَدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، عَنْ عُتَیٍّ ، عَنْ أُبَیٍّ ، قَالَ لَمَّا ثَقُلَ آدَم أَمَرَ بَنِیہِ أَنْ یَجِدُّوا مِنْ ثِمَارِ الْجَنَّۃِ فَجَاؤوا فَتَلَقَّتْہُمُ الْمَلاَئِکَۃُ فَقَالُوا : ارْجِعُوا فَقَدْ أَمَرَ اللَّہُ بِقَبْضِ أَبِیکُمْ فَرَجَعُوا مَعَہُمْ فَقَبَضُوا رُوحَہُ وَجَاؤُوا مَعَہُمْ بِکَفَنِہِ وَحَنَّطُوہ ، وَقَالُوا لِبَنِیہِ : احْضُرُونَا ، فَاغْسِلُوہُ ، وَکَفِّنُوہُ ، وَحَنِّطُوہُ ، وَصَلُّوْا عَلَیْہِ ، ثم قَالُوا : یَا بَنِی آدَمَ ، ہَذِہِ سُنَّتکم بَیْنَکُمْ۔ (حاکم ۳۳۴)
(١١٠٢١) حضرت ابی سے مروی ہے کہ جب حضرت آدم کا آخری وقت آیا تو آپ نے اپنے بیٹوں کو حکم دیا کہ وہ ان کے لیے جنت کے پھل لے کر آئیں، پس وہ چلے گئے ، جب وہ فرشتوں سے ملے تو فرشتوں نے کہا، تم واپس لوٹو اللہ تعالیٰ نے تمہارے والد کی روح قبض کرنے کا حکم فرمایا ہے، وہ فرشتے ان کے ساتھ لوٹے اور ان کی روح قبض فرمائی اور وہ اپنے ساتھ کفن اور خوشبو لائے اور ان کے بیٹوں سے کہا، ان کے پاس حاضر ہو جاؤ، ان کو غسل دو ، ان کو کفن دو اور خوشبو لگاؤ اور ان پر نماز پڑھو، پھر فرمایا اے بنی آدم ! یہ تمہارے والد کی سنت ہے۔

11021

(۱۱۰۲۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ بْنِ أَبِی خَالِدٍ ، عَنْ حَکِیمِ بْنِ جَابِرٍ الأَحْمَسِیِّ ، قَالَ : لَمَّا مَاتَ الأَشْعَثُ بْنُ قَیْسٍ وَکَانَتِ ابْنَتُہُ تَحْتَ الْحَسَنِ بْنِ عَلِیٍّ ، قَالَ : قَالَ الْحَسَنُ بْنُ عَلِیٍّ إذَا غَسَّلْتُمُوہُ فَلاَ تُہَیجوہُ حَتَّی تُؤْذِنُونِی فَآذَنَّاہُ فَجَائَ فَوَضَّأَہُ بِالْحَنُوطِ وُضُوء ًا۔
(١١٠٢٢) حضرت حکیم بن جابر الاحمسی فرماتے ہیں کہ جب حضرت اشعث بن قیس کا انتقال ہوا، ان کی بیٹی حضرت حسن بن علی کی زوجہ تھیں، حضرت حسن بن علی نے فرمایا جب تم ان کو غسل دیدو تو مجھے بتائے بغیر ان کو کفن نہ پہنانا۔ ہم نے ان کو بتایا تو آپ نے ان کو خوشبو کے ساتھ وضو کروایا۔

11022

(۱۱۰۲۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ شَقِیقٍ ، عَنِ الزُّبَیْرِ بْنِ عَدِیٍّ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ یُبْدَأُ بَعْدَ الْوُضُوئِ بِغَسْلِ الرَّأْسِ۔
(١١٠٢٣) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ میت کو غسل دیتے وقت وضو کے بعد سر سے ابتدا کی جائے گی۔

11023

(۱۱۰۲۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنِ الزُّبَیْرِ بْنِ عَدِیٍّ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ یُوَضَّأ الْمَیِّتَ وُضُوئَہُ لِلصَّلاَۃِ ثُمَّ یُغْسَلُ بِمَائٍ ، ثُمَّ یُغْسَلُ بِسِدْرٍ وَمَائٍ ، ثُمَّ یُغْسَلُ بِمَائٍ۔
(١١٠٢٤) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں پہلے میت کو نماز والا وضو کروایا جائے گا پھر پانی سے غسل دیا جائے گا، پھر پانی اور بیری سے غسل دیا جائے گا اور پھر پانی سے غسل دیا جائے گا۔

11024

(۱۱۰۲۵) حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ ، عَنْ ہَمَّامٍ ، عَنْ شَیْخٍ مِنْ أَہْلِ الْکُوفَۃِ یُقَالُ لَہُ زِیَادٌ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ : یُوضَعُ الْکَافُورُ عَلَی مَوَاضِعِ سُجُودِ الْمَیِّتِ۔
(١١٠٢٥) حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ میت کے سجدوں کی جگہ پر کافور لگائی جائے گی۔

11025

(۱۱۰۲۶) حَدَّثَنَا جَرِیرُ بْنُ عَبْدِ الْحَمِیدِ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، عَنِ الأَسْوَد ، قَالَ : قُلْتُ لِعَائِشَۃَ یُغْسَلُ رَأْسُ الْمَیِّتِ بِخَطْمِیٍّ ؟ فَقَالَتْ لاَ تُعَنُّوا مَیِّتَکُمْ۔
(١١٠٢٦) حضرت اسود فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ سے عرض کیا میت کے سر کو خطمی سے دھو سکتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا اپنے مردوں کو خوا مخواہ سامنے مت لاؤ (ظاہر مت کرو) ۔

11026

(۱۱۰۲۷) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : إِنْ لَمْ یَکُنْ سِدْرٌ فَلاَ یَضُرُّک۔
(١١٠٢٧) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ جب تمہارے پاس میت کو غسل دینے کے لیے بیری کے پتے نہ ہوں تو کوئی حرج اور نقصان نہیں ہے

11027

(۱۱۰۲۸) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ، عَنْ ہِشَامٍ، عَنْ مُحَمَّدٍ، قَالَ: لاَ یُغَسِّلُونَہُ بِخَطْمِیٍّ وَہُمْ یَقْدِرُونَ عَلَی السِّدْرِ۔
(١١٠٢٨) حضرت محمد فرماتے ہیں کہ (صحابہ کرام ) بیری کے پتوں پر قدرت کے وقت خطمی سے غسل نہ دیا کرتے تھے۔

11028

(۱۱۰۲۹) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِی عَدِیٍّ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، أَنَّہُ قَالَ فِی الْمَیِّتِ أُغَسِّلُہُ بِسِدْرٍ ، فَإِنْ لَمْ یُوجَدْ سِدْرٌ فَخَطْمِیٌّ ، فَإِنْ لَمْ یَکُنْ خِطْمِیٌّ فَبِأُشْنَانٍ۔
(١١٠٢٩) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ میں میت کو بیری کے پتوں سے غسل دوں گا، اگر وہ برای نہ پاؤں تو خطمی سے غسل دوں، اور اگر خطمی بھی نہ ملے تو اشنان کے پتوں سے غسل دوں۔

11029

(۱۱۰۳۰) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنْ أَبِی قِلاَبَۃَ ، قَالَ : إذَا طَالَ ضَنَی الْمَیِّتِ غُسِّلَ بِأُشْنَانٍ۔
(١١٠٣٠) حضرت ابو قلابہ فرماتے ہیں کہ جب مریض کی بیماری لمبی ہوجائے تو اس کو اشنان کے پتوں سے غسل دیا جائے گا۔

11030

(۱۱۰۳۱) حَدَّثَنَا حُمَیْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ زُہَیْرٍ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ، عَنِ الضَّحَّاکِ، قَالَ: لاَ تُغَسِّلُونِی بِالسِّدْرِ۔
(١١٠٣١) حضرت ضحاک فرماتے ہیں کہ مجھے بیری کے پتوں سے غسل مت دینا۔

11031

(۱۱۰۳۲) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، عَنْ شَرِیکٍ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ، قَالَ: إذَا لَمْ یَکُنْ سِدْرٌ فَخَطْمِیٌّ۔
(١١٠٣٢) حضرت سعید بن جبیر فرماتے ہیں کہ جب میت کو غسل دینے کیلئے بیری کے پتے نہ ملیں تو خطمی سے غسل دے دو ۔

11032

(۱۱۰۳۳) حَدَّثَنَا عِیسَی بْنُ یُونُسَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ إبْرَاہِیمَ، قَالَ: ذَکَرُوا عِنْدَہُ غُسْلَ الْمَیِّتِ فَقَالُوا: کَاغْتِسَالِ الرَّجُلِ مِنَ الْجَنَابَۃِ۔
(١١٠٣٣) حضرت ابراہیم کے پاس میت کو غسل دینے کا ذکر ہوا تو آپ نے فرمایا : جس طرح ایک جنبی آدمی غسل کرتا ہے۔

11033

(۱۱۰۳۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ أَبِی الْمُعْتَمِرِ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، قَالَ یُجْزِئُ الْمَیِّتَ فِی الْغُسْلِ مَا یُجْزِئُ الْجُنُبَ۔
(١٣١٣٤) حضرت قتادہ فرماتے ہیں میت کے لیے اتنا غسل کافی ہے جتنا جنبی کیلئے کافی ہوجاتا ہے۔

11034

(۱۱۰۳۵) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِی عَدِیٍّ ، عَنْ حُمَیْدٍ ، عَنْ بَکْرٍ ، قَالَ قَدِمْت الْمَدِینَۃَ فَسَأَلْت عَنْ غُسْلِ الْمَیِّتِ ، فَقَالَ : بَعْضُہُمَ اصْنَعْ بِمَیِّتِکَ کَمَا تَصْنَعُ بِعَرُوسِکَ غَیْرَ أَنْ لاَ تَخْلُقَہُ۔
(١١٠٣٥) حضرت بکر فرماتے ہیں کہ میں مدینہ طیبہ آیا اور میت کے غسل سے متعلق سوال کیا ؟ بعض حضرات نے فرمایا : میت کو غسل دو جس طرح دلہن کو دیا جاتا ہے مگر یہ کہ اس کو زعفران کی خوشبو نہ لگائی جائے۔

11035

(۱۱۰۳۶) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : کَانَ یَقُولُ فِی الْمَیِّتِ إذَا خَرَجَ مِنْہُ الشَّیئُ بَعْدَ غُسْلِہِ، قَالَ یُغْسَلُ مَا خَرَجَ مِنْہُ ، قَالَ وَکَانَ ابْنُ سِیرِینَ یَقُولُ یُعَادُ عَلَیْہِ الْغُسْلُ۔
(١١٠٣٦) حضرت حسن سے پوچھا گیا کہ میت کو غسل دینے کے بعد اگر کچھ گندگی نکلے تو ؟ تو آپ نے فرمایا جو گندگی نکلے اس کو دھویا جائے گا، اور حضرت ابن سیرین فرماتے ہیں دو بارہ غسل دیا جائے گا۔

11036

(۱۱۰۳۷) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ سُلَیْمَانَ التَّیْمِیِّ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ ، قَالَ یُغَسَّلُ مَرَّتَیْنِ۔
(١١٠٣٧) حضرت ابن سیرین فرماتے ہیں کہ دو بار غسل دیا جائے گا۔

11037

(۱۱۰۳۸) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ بَعْضِ الْکُوَفِیینَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ مِثْلَ قَوْلِ الْحَسَنِ۔
(١١٠٣٨) حضرت شعبی نے بھی حضرت حسن کے مثل فرمایا ہے۔

11038

(۱۱۰۳۹) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، قَالَ : قُلْتُ لِحَمَّادٍ الْمَیِّتُ إذَا خَرَجَ مِنْہُ الشَّیئُ بَعْدَ مَا یُفْرَغُ مِنْہُ ، قَالَ یُغْسَلُ ذَلِکَ الْمَکَانُ۔
(١١٠٣٩) حضرت شعبہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت حماد سے پوچھا میت کو غسل دینے کے بعد اگر کچھ گندگی نکلے ؟ آپ نے فرمایا (صرف) اس جگہ کو دھویا جائے گا۔

11039

(۱۱۰۴۰) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : إن خَرَجَ مِنْہُ شَیْئٌ أُجْرِیَ عَلَیْہِ الْمَائُ ، وَلَمْ یُعَدْ وُضُوؤُہُ۔
(١١٠٤٠) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ جب غسل دینے کے بعد کوئی گندگی نکلے تو اس پر پانی بہایا جائے گا اور وضو (غسل) کا اعادہ نہیں کیا جائے گا۔

11040

(۱۱۰۴۱) حَدَّثَنَا یَزِیدُ ، عَنِ التَّیْمِیِّ ، عَنْ یُونُسَ فِی الْمَیِّتِ یَخْرُجُ مِنْہُ الشَّیئُ بَعْدَ الْغُسْلِ ، قَالَ : یُعَادُ عَلَیْہِ الْغُسْلُ مَرَّتَیْنِ، فَإِنْ خَرَجَ مِنْہُ شَیْئٌ أُعِیدَ عَلَیْہِ الْغُسْلُ مَرَّتَیْنِ إلَی سَبْعِ مَرَّاتٍ إِلاَّ أَنْ یَخَافُوا أَنْ یَسْتَرْخِیَ فَیَفْسُدَ عَلَیْہِمْ۔
(١١٠٤١) حضرت یونس فرماتے ہیں کہ میت کہ غسل دینے کے بعد اگر کچھ گندگی نکلے تو پھر دوبارہ غسل کا اعادہ کیا جائے گا یہاں تک کہ سات مرتبہ اسی طرح اعادہ کیا جائے گا، ہاں اگر خوف ہو کہ اس کے اعضاء ڈھیلے ہو کر فاسد ہوجائیں گے تو (پھر اعادہ نہیں کریں گے) ۔

11041

(۱۱۰۴۲) حَدَّثَنَا عَبْدُالسَّلاَمِ، عَنْ مُغِیرَۃَ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ: یُعْصَرُ بَطْنُ الْمَیِّتِ عَصْرًا رَفِیقًا فِی الأُولَی وَالثَّانِیَۃِ۔
(١١٠٤٢) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ میت کے پیٹ کو آرام سے نرمی سے دبایا جائے گا پہلی اور دوسری مرتبہ۔

11042

(۱۱۰۴۳) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ، عَنْ ہِشَامٍ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ، قَالَ یُعْصَرُ بَطْنُ الْمَیِّتِ فِی أَوَّلِ غَسْلَۃٍ عَصْرَۃً خَفِیفَۃً۔
(١١٠٤٣) حضرت ابن سیرین فرماتے ہیں کہ پہلی بار غسل دیتے وقت میت کے پیٹ کو ہلکا سا دبائیں گے۔

11043

(۱۱۰۴۴) حَدَّثَنَا سَہْلُ بْنُ یُوسُفَ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ یُعْصَرُ بَطْنُہُ عَصْرًا رَفِیقًا۔
(١١٠٤٤) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ میت کے پیٹ کو نرمی سے دبایا جائے گا۔

11044

(۱۱۰۴۵) حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ بْنُ مُوسَی ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ الأَسْوَد ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، قَالَ : حَضَرَنَا وَنَحْنُ نُغَسِّلُ مَیِّتًا ، فَقَال: انْفُضُوہُ نَفْضًا ، وَلاَ تَعْصِرُوہُ فَإِنَّکُمْ لاَ تَدْرُونَ مَا یَخْرُجُ فِی الْعَصْرِ۔
(١١٠٤٥) حضرت عثمان بن اسود فرماتے ہیں کہ ہم میت کو غسل دے رہے تھے کہ حضرت مجاہد ھمارے پاس حاضر ہوئے اور فرمایا : اس کو ہلکی سی حرکت دو اس کے پیٹ دباؤ مت، بیشک تمہیں نہیں معلوم دبانے کے بعد کیا نکلتا ہے۔

11045

(۱۱۰۴۶) حَدَّثَنَا ابْنُ مُبَارَکٍ وَعَبْدُ الأَعْلَی، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ الزُّہْرِیِّ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ، قَالَ: الْتَمَسَ عَلِیٌّ مِنَ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا یُلْتَمَسُ مِنَ الْمَیِّتِ فَلَمْ یَجِدْہُ، فَقَالَ: بِأَبِی طِبْت حَیًّا وَطِبْت مَیِّتًا۔(ابوداؤد ۴۱۵)
(١١٠٤٦) حضرت سعید بن المسیب سے مروی ہے کہ حضرت علی نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا بھی دوسرے مردوں کی طرح استصفاء کیا لیکن کوئی چیز نہ نکلی۔ حضرت علی نے فرمایا : میرے ماں باپ آپ پر قربان آپ پاکیزہ زندہ رہے اور پاکیزہ حالت میں مرے۔

11046

(۱۱۰۴۷) حَدَّثَنَا حُمَیْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ زُہَیْرٍ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنِ الضَّحَّاکِ ، قَالَ : لاَ تَعْصِرُوا بَطْنِی۔
(١١٠٤٧) حضرت ابو اسحاق سے مرویے کہ حضرت ضحاک نے فرمایا میرے پیٹ کو مت دبانا۔

11047

(۱۱۰۴۸) حَدَّثَنَا أَزْہَرُ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، عَنْ مُحَمَّدٍ ، قَالَ انْفُضِ الْمَیِّتَ ، وَلاَ تَکُبَّہُ۔
(١١٠٤٨) حضرت محمد فرماتے ہیں میت کو حرکت دو لیکن اس کو الٹا مت کرو۔

11048

(۱۱۰۴۹) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِی بَکْرٍ ، عَنِ ابْنِ أَبِی مُلَیْکَۃَ ، قَالَ : أَوْصَی عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِی بَکْرٍ إذَا أَنَا مِتُّ فَانْفُضْنِی نَفْضَۃً ، أَوْ نَفْضَتَیْنِ۔
(١١٠٤٩) حضرت ابن ابی ملیکہ فرماتے ہیں کہ مجھے حضرت عبد الرحمن بن ابی بکر نے وصیت فرمائی کہ جب میں مر جاؤں تو مجھے ایک دو بار حرکت دینا۔

11049

(۱۱۰۵۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ خَالِدٍ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ ، قَالَ : لاَ تُحَرِّکْ رَأْسَ الْمَیِّتِ۔
(١١٠٥٠) حضرت ابن سیرین فرماتے ہیں میت کے سر کو حرکت مت دو ۔

11050

(۱۱۰۵۱) حَدَّثَنَا حُمَیْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ زُہَیْرٍ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنِ الضَّحَّاکِ ، قَالَ : لاَ تُقْعِدُونِی۔
(١١٠٥١) حضرت ضحاک ارشاد فرماتے ہیں مجھے مت بٹھانا۔

11051

(۱۱۰۵۲) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ، عَنْ شَقِیقٍ، عَنْ یَزِیدَ، عَنْ عَبْدِاللہِ بْنِ الْحَارِثِ، أَنَّہُ کَانَ یُغَسِّلُ الْمَوْتَی بِالْحَمِیمِ۔
(١١٠٥٢) حضرت عبداللہ بن حارث فرماتے ہیں کہ میت کو گرم پانی سے غسل دیا جائے گا۔

11052

(۱۱۰۵۳) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ أَبِی حَنِیفَۃَ ، عَنْ حَمَّادٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ یُغْلَی لِلْمَیِّتِ الْمَائُ۔
(١١٠٥٣) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ میت کیلئے پانی کو گرم کیا جائے۔

11053

(۱۱۰۵۴) حَدَّثَنَا الثَّقَفِیُّ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنْ مُحَمَّدٍ ، أَنَّہُ کَانَ یَکْرَہُ أَنْ یُؤْخَذَ مِنْ عَانَۃٍ ، أَوْ ظُفْرٍ بَعْدَ الْمَوْتِ وَکَانَ یَقُولُ یَنْبَغِی لأَہْلِ الْمَرِیضِ أَنْ یَفْعَلُوا ذَلِکَ فِی ثِقَلِہِ۔
(١١٠٥٤) حضرت محمد اس بات کو ناپسند فرماتے تھے کہ مرنے کے بعد ناخن اور بغلوں کے بال لیے جائیں، فرماتے ہیں مریض پر جب مرض کی شدت ہو تو اس کے اہل و عیال کو یہ کام کرلینا چاہیے۔

11054

(۱۱۰۵۵) حَدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ تُقَلَّمُ أَظْفَارُ الْمَیِّتِ ، قَالَ شُعْبَۃُ: فَذَکَرْت ذَلِکَ لِحَمَّادٍ فَأَنْکَرَہُ ، وَقَالَ : أَرَأَیْت إِنْ کَانَ أَقْلَفَ أَیُخْتَنُ ؟۔
(١١٠٥٥) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ میت کے ناخن کاٹے جائیں گے، حضرت شعبہ فرماتے ہیں کہ میں نے اس کا ذکر حضرت حماد کے سامنے کیا تو آپ نے اس کا انکار فرمایا اور فرمایا : آپ کا کیا خیال ہے اگر اس کے ختنے نہ ہوئے ہوں تو ختنے بھی کیے جائیں گے ؟

11055

(۱۱۰۵۶) حَدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ ابْنُ عُلَیَّۃَ، عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّائِ، عَنْ أَبِی قِلاَبَۃَ، أَنَّ سَعْدًا غَسَّلَ مَیِّتًا فَدَعَا بِمُوسَی فَحَلَقَہُ۔
(١١٠٥٦) حضرت ابو قلابہ فرماتے ہیں کہ حضرت سعد میت کو غسل دے رہے تھے آپ نے استرا مانگا۔

11056

(۱۱۰۵۷) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ مُبَارَکٍ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنْ مُحَمَّدٍ ، أَنَّہُ کَانَ یُعْجِبُہُ إذَا ثَقُلَ الْمَرِیضُ أَنْ یُؤْخَذَ مِنْ شَارِبِہِ وَأَظْفَارِہِ وَعَانَتِہِ ، فَإِنْ ہَلَکَ لَمْ یُؤْخَذْ مِنْہُ شَیْئٌ۔
(١١٠٥٧) حضرت محمد فرماتے ہیں کہ جب مریض پر مرض کی شدت بڑھ جائے تو چاہیے کہ اس کی مونچھوں، ناخنوں اور زائد بالوں کو کاٹ دیا جائے، جب وہ مرجائے تو ان میں سے کچھ بھی نہ کاٹا جائے گا۔

11057

(۱۱۰۵۸) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ حُمَیْدٍ ، عَنْ بَکْرٍ ، أَنَّہُ کَانَ إذَا رَأَی مِنَ الْمَیِّتِ شَیْئًا فَاحِشًا مِنْ شَعْرٍ وَظُفْرٍ أَخَذَہُ وَقَلَّمَہُ۔
(١١٠٥٨) حضرت بکر جب میت کے ناخن یا بال وغیرہ غیر معمولی طور پر بڑھے ہوئے دیکھتے تو کاٹ دیتے۔

11058

(۱۱۰۵۹) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ عُقْبَۃَ بْنِ أَبِی الصَّہْبَائِ ، قَالَ : حدَّثَنَا أَبُو الْعَالِیَۃِ الْقَیْسِیُّ ، أَنَّ أَبَا الْمَلِیحِ الْہُذَلِیَّ أَوْصَاہُمْ ، فَقَالَ : إذَا مَاتَ أَنْ یَأْخُذُوا مِنْ شَعْرِہِ وَأَظْفَارِہِ۔
(١١٠٥٩) حضرت ابو العالہہ القیسی فرماتے ہیں کہ حضرت ابو الملیح الھذلی نے مجھے وصیت فرمائی کہ جب مرجائیں تو ان کے ناخن اور بالوں کو کاٹا جائے۔

11059

(۱۱۰۶۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ خَالِدٍ ، عَنْ أَبِی قِلاَبَۃَ ، أَنَّ سَعْدًا غَسَّلَ مَیِّتًا فَدَعَا بِالْمُوسَی فَحَلَقَہُ۔
(١١٠٦٠) حضرت ابو قلابہ فرماتے ہیں کہ حضرت سعد میت غسل دے رہے تھے آپ نے استرا مانگا اور میت کا حلق کردیا۔

11060

(۱۱۰۶۱) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِیٍّ وَوَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ یَزِیدَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِی لَیْلَی فِی الْمَیِّتِ یَسْقُطُ مِنْ شَعْرِہِ وَمن أَظْفَارِہِ ، قَالَ یُجْعَلُ مَعَہُ۔
(١١٠٦١) حضرت عبد الرحمن بن ابی لیلیٰ سے دریافت کیا گیا میت کے ناخن اور بال کاٹنے کے بعد (ان کا کیا کیا جائے) ؟ آپ نے فرمایا اس کے ساتھ ہی رکھے جائیں۔

11061

(۱۱۰۶۲) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ وَبَنَاتِ سِیرِینَ ، قَالوا یُدْفَنُ مَعَ الْمَیِّتِ مَا یَسْقُطُ مِنْ شَعْرٍ ، أَوْ غَیْرِہِ۔
(١١٠٦٢) حضرت عاصم حضرت ابن سیرین سے اور سیرین کی بیٹیوں سے روایت کرتے ہیں کہ میت کے بال وغیرہ جو کاٹے جائیں وہ میت کے ساتھ دفن کئے جائیں گے۔

11062

(۱۱۰۶۳) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ غِیَاثٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ الْحَسَنَ یَقُولُ یُقَلَّمُ أَظْفَارُ الْمَیِّتِ وَشَارِبُہُ إذَا طَالَ ، قَالَ : قُلْتُ لِلْحَسَنِ یُوضَعُ مَعَہُ ، قَالَ نَعَمْ۔
(١١٠٦٣) حضرت عثمان بن غیاث فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت حسن سے سنا کہ میت کے ناخن اور مونچھیں اگر بڑھی ہوئی ہوں تو کاٹی جائیں گی، میں نے حضرت سے دریافت کیا کہ ان کو اس کے ساتھ قبر میں رکھا جائے گا ؟ آپ نے فرمایا : ہاں۔

11063

(۱۱۰۶۴) حَدَّثَنَا ابْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ زَیْدٍ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنْ أَبِی قِلاَبَۃَ ، قَالَ کَانَ یُحِبُّ أَنْ یُجْعَلَ مَعَہُ۔
(١١٠٦٤) حضرت ابو قلابہ فرماتے ہیں کہ بہتر یہی ہے کہ ان کو اس کے ساتھ ہی قبر میں رکھا جائے۔

11064

(۱۱۰۶۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ یَزِیدَ بْنِ أَبِی زِیَادٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِی لَیْلَی ، أَنَّ قَیْسَ بْنَ سَعْدٍ مَرَّ عَلَی رَجُلٍ قَدْ بَانَتْ إصْبَعُہُ مِنْہُ فَقُبِرَتْ مَعَہُ۔
(١١٠٦٥) حضرت عبد الرحمن بن ابی لیلیٰ فرماتے ہیں کہ حضرت قیس بن سعد ایک شخص کے پاس سے گزرے اس کی انگلی الگ ہوگئی تھی آپ نے اس کے ساتھ اس کو قبر میں رکھ دیا۔

11065

(۱۱۰۶۶) حَدَّثَنَا الثَّقَفِیُّ ، عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّائِ ، عَنْ حَفْصَۃَ ، أَنَّہَا قَالَتْ سَرِّحْ شَعْرَ الْمَیِّتِ ، فَإِنَّہُ یُجْعَلُ مَعَہُ۔
(١١٠٦٦) حضرت حفصہ فرماتی ہیں کہ میت کے بالوں کو کنگھا کر کے (سیدھا) کیا جائے اور اس کے (ٹوٹے ہوئے) بالوں کو اس کے ساتھ قبر میں رکھا جائے گا۔

11066

(۱۱۰۶۷) حَدَّثَنَا عَبْدُالسَّلاَمِ بْنُ حَرْبٍ، عَنْ حَجَّاجٍ، عَنْ عَطَائٍ، قَالَ: لاَ بَأْسَ أَنْ یُغَسِّلَ الْمَیِّتَ الْحَائِضُ وَالْجُنُبُ۔
(١١٠٦٧) حضرت عطائ فرماتے ہیں کہ جنبی اور حائضہ میت کو غسل دیں اس میں کوئی حرج نہیں۔

11067

(۱۱۰۶۸) حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ مُعَاذٍ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، وَابْنِ سِیرِینَ أَنَّہُمَا کَانَا یَکْرَہَانِ أَنْ یُغَسِّلَ الْجُنُبُ والْحَائِضُ الْمَیِّتَ۔
(١١٠٦٨) حضرت حسن اور حضرت ابن سیرین اس بات کو ناپسند سمجھتے تھے کہ جنبی اور حائضہ میت کو غسل دیں۔

11068

(۱۱۰۶۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ أَرْسَلَتْ أُمِّی إلَی عَلْقَمَۃَ تَسْأَلُہُ ، عَنِ الْحَائِضِ تُغَسِّلُ الْمَیِّتَ فَلَمْ یَرَ بِہِ بَأْسًا۔
(١١٠٦٩) حضرت ابراھیم فرماتے ہیں کہ میری والدہ نے مجھے حضرت علقمہ کے پاس یہ دریافت کرنے کے لیے بھیجا کہ حائضہ عورت میت کو غسل دے سکتی ہے ؟ آپ نے فرمایا اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔

11069

(۱۱۰۷۰) حَدَّثَنَا جَرِیرُ بْنُ عَبْدِ الْحَمِیدِ ، عَنِ الْعَلاَئِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : إذَا مَاتَتِ الْمَرْأَۃُ فِی الرِّجَالِ لَیْسَ مَعَہُمُ امْرَأَۃٌ صُبَّ عَلَیْہَا الْمَائُ من فَوْقِ الثِّیَابِ صَبًّا۔
(١١٠٧٠) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ اگر کوئی عورت مردوں کے ساتھ مرجائے اور ان کے ساتھ کوئی عورت نہ ہو تو اس پر اس کے کپڑوں کے اوپر سے پانی بہا کر اس کو غسل دیا جائے گا۔

11070

(۱۱۰۷۱) حَدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ عَبْدِ الْکَرِیمِ ، عَنْ نَافِعٍ ، قَالَ : قُلْتُ لِصَفِیَّۃَ بِنْتِ أَبِی عُبَیْدٍ الْمَرْأَۃُ تَمُوتُ مَعَ الرِّجَالِ وَلَیْسَ مَعَہُمُ امْرَأَۃٌ قَالَتْ : یَدْفِنُونَہَا فِی ثِیَابِہَا۔
(١١٠٧١) حضرت نافع فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت صفیہ بنت ابی عبید سے پوچھا کہ اگر عورت مردوں کے ساتھ مرجائے اور ان کے ساتھ کوئی عورت نہ ہو تو کیا حکم ہے ؟ آپ نے فرمایا اس کو، اس کے کپڑوں میں ہی دفن کردیا جائے گا۔

11071

(۱۱۰۷۲) أَبُو بَکْرِ بْنُ عَیَّاشٍ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ عَطَائٍ ؛ فِی الْمَرْأَۃِ تَمُوتُ مَعَ الرِّجَالِ ، قَالَ : تُیَمَّمُ ، ثُمَّ تُدْفَنُ فِی ثِیَابِہَا ، وَالرَّجُلُ مِثْلُ ذَلِکَ۔
(١١٠٧٢) حضرت عطائ سے پوچھا گیا کہ عورت اگر مردوں کے ساتھ مرجائے ؟ آپ نے فرمایا اس کو تیمم کروایا جائے اور پھر انہی کپڑوں میں دفن کردیا جائے، اور مرد کا بھی یہی حکم ہے (اگر وہ عورت میں مرے) ۔

11072

(۱۱۰۷۳) حَدَّثَنَا عِیسَی بْنُ یُونُسَ ، عَنِ الأَحْوَصِ ، عَنْ رَاشِدِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ، أَنَّہُ قَالَ : إذَا مَاتَتِ الْمَرْأَۃُ مَعَ الرِّجَالِ لَیْسَ مَعَہُمُ امْرَأَۃٌ ، قَالَ : یُیَمِّمُونَہَا بِالصَّعِیدِ ، وَلاَ یُغَسِّلُونَہَا ، وَإِذَا مَاتَ الرَّجُلُ مَعَ النِّسَائِ فَکَذَلِکَ۔
(١١٠٧٣) حضرت سعید بن مسیب فرماتے ہیں کہ جب عورت مردوں کے ساتھ مرجائے اور ان کے ساتھ کوئی عورت نہ ہو تو مرد اس کو مٹی سے تیمم کرائیں گے اور غسل نہیں دیں گے۔ اور اگر آدمی عورتوں کے ساتھ مرجائے تو بھی اسی طرح کیا جائے گا۔

11073

(۱۱۰۷۴) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ حَمَّادٍ ، قَالَ تُیَمَّمُ بِالصَّعِیدِ وَالرَّجُلُ کَذَلِکَ۔
(١١٠٧٤) حضرت حماد فرماتے ہیں کہ اس کو پاک مٹی سے تیمم کروایا جائے اور مرد کا حکم بھی اسی طرح ہے۔

11074

(۱۱۰۷۵) حَدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ بْنُ عَیَّاشٍ ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِیزِ بْنِ عُبَیْدِ اللہِ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَطَائٍ ، عَنْ أَبِی سَلَمَۃَ ؛ فِی الرَّجُلِ یَمُوتُ مَعَ النِّسَائِ ، قَالَ : تُغَسِّلُہُ امْرَأَتُہُ ، فَإِنْ لَمْ تَکُنَ امْرَأَتُہُ فَلْیُیَمِّمْ بِالصَّعِیدِ ، وَالْمَرْأَۃُ تَمُوتُ مَعَ الرِّجَالِ لَیْسَتْ مَعَہُمُ امْرَأَۃٌ ، قَالَ : یُغَسِّلُہَا زَوْجُہَا ، فَإِنْ لَمْ یَکُنْ فَنِسَائٌ مِنْ نِسَائِ أَہْلِ الْکِتَابِ یَصُبُّونَ لَہُنَّ فَیُغَسِّلْنَہَا۔
(١١٠٧٥) حضرت ابو سلمہ سے دریافت کیا گیا کہ اگر آدمی عورتوں کے ساتھ مرجائے ؟ آپ نے فرمایا اس کی بیوی اس کو غسل دیدے۔ اور اگر اس کی بیوی بھی نہ ہو تو اس کو تیمم کروایا جائے، اور اگر عورت مردوں کے ساتھ مرجائے اور ان کے ساتھ کوئی عورت نہ ہو تو اس کا شوہر اس کو غسل دیدے، اگر شوہر بھی نہ ہو تو اہل کتاب کی عورتیں اس پر پانی بہائیں گی اور اسے غسل دیں گی۔

11075

(۱۱۰۷۶) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرِِ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ عَطَائٍ ؛ فِی الْمَرْأَۃِ تَمُوتُ مَعَ الرِّجَالِ ، قَالَ یَصُبُّونَ عَلَیْہَا الْمَائَ صَبًّا ، ثُمَّ یَدْفِنُونَہَا ، وَفِی الرَّجُلِ یَمُوتُ مَعَ النِّسَائِ یَصْبُبْنَ عَلَیْہِ الْمَائَ ، ثُمَّ یَدْفِنَّہُ۔
(١١٠٧٦) حضرت عطائ فرماتے ہیں کہ عورت اگر مردوں کے ساتھ مرجائے، فرماتے ہیں کہ مرد اس پر پانی بہائیں گے پھر دفن کردیں گے، اور اگر آدمی عورتوں میں مرجائے تو وہ عورتیں اس پر پانی بہائیں گی اور اس کو دفن کردیں گے۔

11076

(۱۱۰۷۷) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ مَطَرٍ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ فِی الْمَرْأَۃِ تَمُوتُ مَعَ الرِّجَالِ ، قَالَ تُرْمَسُ فِی الْمَائِ۔
(١١٠٧٧) حضرت عبداللہ بن عمر ارشاد فرماتے ہیں کہ عورت اگر مردوں کے ساتھ مرجائے، آپ فرماتے ہیں اس کو پانی میں غوطہ دیں گے۔

11077

(۱۱۰۷۸) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَنِ ابْنِ أَبِی لَیْلَی ، عَنِ الْحَکَمِ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ شَدَّادٍ ، أَنَّ أَبَا بَکْرٍ أَوْصَی أَسْمَائَ ابنۃ عُمَیْسٍ أَنْ تُغَسِّلَہُ۔
(١١٠٧٨) حضرت عبداللہ بن شداد سے مروی ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق نے حضرت اسماء ابنۃ عمیس کو وصیت فرمائی تھی کہ ان کو غسل وہ دیں۔

11078

(۱۱۰۷۹) حَدَّثَنَا سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنِ ابْنِ أَبِی مُلَیْکَۃَ ، أَنَّ أَبَا بَکْرٍ الصِّدِّیقَ حِینَ حَضَرَتْہُ الْوَفَاۃُ أَوْصَی أَسْمَائَ بِنْتَ عُمَیْسٍ أَنْ تُغَسِّلَہُ وَکَانَتْ صَائِمَۃً فَعَزَمَ عَلَیْہَا لَتُفْطِرَنَّ۔
(١١٠٧٩) حضرت ابن ابی ملیکہ سے مروی ہے حضرت ابوبکر صدیق کی وفات کا وقت جب قریب آیا آپ نے حضرت اسماء بنت عمیس کو وصیت فرمائی کہ ان کو غسل دیں، وہ اس وقت نفلی روزے سے تھیں۔ آپ نے انھیں روزہ توڑنے کا حکم دیا۔

11079

(۱۱۰۸۰) حَدَّثَنَا وَکِیعُ بْنُ الْجَرَّاحِ ، عَنْ أَبِی ہِلاَلٍ ، عَنْ صَالِحٍ الدَّہَّانِ ، أَوْ حَیَّانَ الأَعْرَجِ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ زَیْدٍ ، أَنَّہُ أَوْصَی أَنْ تُغَسِّلَہُ امْرَأَتُہُ۔
(١١٠٨٠) حضرت جابر بن زید نے وصیت فرمائی تھی کہ ان کو ان کی اہلیہ غسل دیں۔

11080

(۱۱۰۸۱) حَدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ بْنُ عَیَّاشٍ ، عَنْ بِشْرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ یَسَارٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ سُلَیْمَانَ بْنَ مُوسَی یَقُولُ تُغَسِّلُہُ۔
(١١٠٨١) حضرت عبداللہ بن یسار فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت سلیمان بن موسیٰ سے سنا آپ فرماتے ہیں کہ وہ اس کو غسل دے گی۔

11081

(۱۱۰۸۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنِ الْحَسَنِ ، وَعَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ حَمَّادٍ ، قَالاَ : یُغَسِّلُ کُلُّ وَاحِدٍ مِنْہُمَا صَاحِبَہُ۔
(١١٠٨٢) حضرت سفیان اور حضرت حماد ارشاد فرماتے ہیں کہ میاں، بیوی میں سے ہر ایک دوسرے کو غسل دے سکتا ہے۔

11082

(۱۱۰۸۳) حَدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ بْنُ عَیَّاشٍ ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِیزِ بْنِ عُبَیْدِ اللہِ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَطَائٍ ، عَنْ أَبِی سَلَمَۃَ ؛ فِی الرَّجُلِ یَمُوتُ مَعَ النِّسَائِ ، قَالَ : تُغَسِّلُہُ امْرَأَتُہُ۔
(١١٠٨٣) حضرت ابو سلمہ ارشاد فرماتے ہیں کہ آدمی اگر عورتوں کے ساتھ مرجائے تو اس کو اس کی بیوی غسل دے گی۔

11083

(۱۱۰۸۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ عَبْدِ الْکَرِیمِ ، عَنْ عَطَائٍ ، قَالَ : تُغَسِّلُ الْمَرْأَۃُ زَوْجَہَا۔
(١١٠٨٤) حضرت عطائ فرماتے ہیں کہ عورت اپنے شوہر کو غسل دے گی۔

11084

(۱۱۰۸۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ بْنِ مُہَاجِرٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، أَنَّ أَبَا مُوسَی غَسَّلَتْہُ امْرَأَتُہُ۔
(١١٠٨٥) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ حضرت ابو موسیٰ اشعری کو ان کی اہلیہ نے غسل دیا۔

11085

(۱۱۰۸۶) حَدَّثَنَا مُعَمَّرُ بْنُ سُلَیْمَانَ الرَّقِّیُّ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ حُصَیْنٍ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: الرَّجُلُ أَحَقُّ بِغُسْلِ امْرَأَتِہِ۔
(١١٠٨٦) حضرت عبداللہ بن عباس ارشاد فرماتے ہیں کہ آدمی اپنی بیوی کو غسل دینے کا زیادہ حق دار ہے۔

11086

(۱۱۰۸۷) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ، عَنْ ہِشَامٍ، عَنِ الْحَسَنِ، أَنَّہُ کَانَ لاَ یَرَی بِذَلِکَ بَأْسًا أَنْ یُغَسِّلَ الرَّجُلُ امْرَأَتَہُ۔
(١١٠٨٧) حضرت حسن مرد کے اپنی بیوی کو غسل دینے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے۔

11087

(۱۱۰۸۸) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، قَالَ : قَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الأَسْوَد أَبَتْ أُمُّ امْرَأَتِی أو أُخْتُہَا أَنْ تُغَسِّلہَا فَوَلِیت غَسْلَہَا بِنَفْسِی۔
(١١٠٨٨) حضرت عبد الرحمن بن اسود فرماتے ہیں کہ میری ساس یا سالی نے میری بیوی کو غسل دینے سے انکار کردیا تو میں نے خود اس کو غسل دیا۔

11088

(۱۱۰۸۹) حَدَّثَنَا وَکِیعُ بْنُ الْجَرَّاحِ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ حَمَّادٍ ، وَعَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنِ الْحَسَنِ قَالاَ : یُغَسِّلُ کُلُّ وَاحِدٍ مِنْہُمَا صَاحِبَہُ۔
(١١٠٨٩) حضرت سفیان، حضرت عمرو، حضرت حسن وغیرھم فرماتے ہیں کہ میاں، بیوی میں سے ہر ایک دوسرے کو غسل دے سکتا ہے۔

11089

(۱۱۰۹۰) حَدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ بْنُ عَیَّاشٍ ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِیزِ بْنِ عُبَیْدِ اللہِ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَطَائٍ ، عَنْ أَبِی سَلَمَۃَ فِی الْمَرْأَۃِ تَمُوتُ مَعَ الرِّجَالِ لَیْسَتْ مَعَہُمُ امْرَأَۃٌ ، قَالَ یُغَسِّلُہَا زَوْجُہَا۔
(١١٠٩٠) حضرت ابو سلمہ سے دریافت کیا گیا کہ عورت مردوں کے ساتھ فوت ہوجائے اور وہاں کوئی عورت نہ ہو تو ؟ آپ نے فرمایا اس کا شوہر اس کو غسل دے۔

11090

(۱۱۰۹۱) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : إِذَا مَاتَت المَرأۃ انْقَطَعَ عِصْمَۃ مَا بَینہَا وَبَین زَوجہَا۔
(١١٠٩١) حضرت امام شعبی فرماتے ہیں کہ جب عورت کا انتقال ہوجائے تو اس کے اور اس کے شوہر کے درمیان رشتہ ختم ہوجاتا ہے۔

11091

(۱۱۰۹۲) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ یَمَانٍ، عَنْ سُفْیَانَ، عَنْ أَشْعَثَ، عَنِ الشَّعْبِیِّ، قَالَ: لاَ یُغَسِّلُ الرَّجُلُ امْرَأَتَہُ وَہُوَ رَأْیُ سُفْیَانَ۔
(١١٠٩٢) حضرت شعبی فرماتے ہیں کہ آدمی اپنی بیوی کو غسل نہیں دے سکتا۔ یہی حضرت امام سفیان کی رائے ہے۔

11092

(۱۱۰۹۳) حَدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ بْنُ عَیَّاشٍ ، عَنْ بِشْرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ یَسَارٍ ، قَالَ : ، قَالَ : سَمِعْتُ سُلَیْمَانَ بْنَ مُوسَی یَقُولُ یُغَسِّلُ الرَّجُلُ امْرَأَتَہُ۔
(١١٠٩٣) حضرت عبداللہ بن یسار فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت سلیمان بن موسیٰ سے سنا آپ فرماتے تھے کہ آدمی اپنی بیوی کو غسل دے گا۔

11093

(۱۱۰۹۴) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ یَزِیدَ بْنِ أَبِی سُلَیْمَانَ ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، قَالَ مَاتَتِ امْرَأَۃٌ لِعُمَرَ ، فَقَالَ : أَنَا کُنْت أَوْلَی بِہَا إذَا کَانَتْ حَیَّۃً فَأَمَّا الآنَ فَأَنْتُمْ أَوْلَی بِہَا۔
(١١٠٩٤) حضرت مسروق فرماتے ہیں کہ حضرت عمر کی اہلیہ کا انتقال ہوگیا آپ نے فرمایا جب یہ زندہ تھی اس وقت میں ہی اس کا سب سے زیادہ حقدار تھا، اور آج تم اس کے زیادہ حق دار ہو۔

11094

(۱۱۰۹۵) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عنْ عَوْفٍ ، قَالَ : کُنْتُ فِی مَجْلِسٍ فِیہِ قَسَامَۃُ بْنُ زُہَیْرٍ وَأَشْیَاخٌ قَدْ أَدْرَکُوا عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابَِ ، فَقَالَ رَجُلٌ کَانَتْ تَحْتِی امْرَأَۃٌ مِنْ بَنِی عَامِرِ بْنِ صَعْصَعَۃَ وَکَانَ یُثْنِی عَلَیْہَا خَیْرًا ، فَلَمَّا کَانَ زَمَنُ طَاعُونِ الْجَارِفِ طُعِنَتْ ، فَلَمَّا ثَقُلَتْ قَالَتْ إنِّی امْرَأَۃٌ غَرِیبَۃٌ فَلاَ یَلِینِی غَیْرُک فَمَاتَتْ فَغَسَّلْتہَا ، وَوَلِیتہَا ، قَالَ عَوْفٌ فَمَا رَأَیْت أَحَدًا مِنْ أُولَئِکَ الأَشْیَاخِ عَتَبَ ، وَلاَ عَابَ ذَلِکَ عَلَیہ۔
(١١٠٩٥) حضرت عوف فرماتے ہیں کہ میں قسامہ بن زھیر کی مجلس میں موجود تھا، اس مجلس میں کچھ شیخ حضرات بھی تھے جنہوں نے حضرت عمر کا زمانہ پایا تھا، ایک شخص نے کہا : بنو عامر بن صعصعہ کی ایک عورت میری زوجہ تھی، اور اس شخص نے اس کی خیر والی (خیر کے ساتھ) مدح کی اور کہا جب خطرناک طاعون پھیلا تو اس کو بھی طاعون کی بیماری لگ گئی، جب وہ قریب المرگ ہوئی تو کہنے لگی کہ میں ایک غریب عورت ہوں تیرے علاوہ میرے لیے کوئی حقدار اور مناسب نہیں ہے اور پھر وہ عورت مرگئی میں نے اس کو غسل دیا اور دفن کردیا۔ حضرت عوف فرماتے ہیں کہ ان بزرگوں میں سے کسی نے بھی اس کو اس فعل پر ملامت نہ کی اور نہ ہی اس کی زجر و توبیخ کی۔

11095

(۱۱۰۹۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ أَبِی ہَاشِمٍ ، أَنَّ أَبَا قِلاَبَۃَ غَسَّلَ ابْنَتَہُ۔
(١١٠٩٦) حضرت ابو ہاشم فرماتے ہیں کہ حضرت ابو قلابہ نے اپنی بیٹی کو خود غسل دیا۔

11096

(۱۱۰۹۷) حَدَّثَنَا شَبَابَۃُ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ أَبِی الْحَسَنِ الْوَاسِطِیِّ ، قَالَ غَسَّلَ أَبُو قِلاَبَۃَ ابْنَتَہُ فَقُلْت لَہُ مَا یُدْرِیک ، فَقَالَ : کُنَّا فِی دَارِہِ فَخَرَجَ عَلَیْنَا فَأَخْبَرَنَا أَنَّہُ فَعَلَ ذَلِکَ ، قَالَ وَکَانَتْ جَارِیَۃً شَابَّۃً۔
(١١٠٩٧) حضرت ابوالحسن الواسطی فرماتے ہیں کہ حضرت ابو قلابہ نے اپنی بیٹی کو غسل دیا، میں نے ان سے کہا : آپ کو اس بارے میں کیا معلوم ہے ؟ میں نے کہا ہم گھر میں موجود تھے تو وہ ھمارے پاس آئے اور ہمیں بتایا کہ انھوں نے اپنی بیٹی کو غسل دیا اور وہ جوان لڑکی تھی۔

11097

(۱۱۰۹۸) حَدَّثَنَا ہُشَیم ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، أَنَّہُ کَانَ لاَ یَرَی بَأْسًا أَنْ تُغَسِّلَ الْمَرْأَۃُ الْغُلاَمَ إذَا کَانَ فَطِیمًا وَفَوْقَہُ شَیْئٌ۔
(١١٠٩٨) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ اسمیں کوئی حرج نہیں کہ عورت بچوں کو (لڑکوں) کو غسل دے جب کہ وہ اس کا دودھ چھوڑایا ہوا ہو یا اس سے کچھ زائد عمر ہو۔

11098

(۱۱۰۹۹) حَدَّثَنَا أَزْہَرُ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ سُئِلَ مُحَمَّدٌ ، عَنِ الْمَرْأَۃِ تُغَسِّلُ الصَّبِیَّ ، فقَالَ : لاَ أَعْلَمُ بِہِ بَأْسًا۔
(٩٩ ١١٠) حضرت ابن عون فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت محمد سے دریافت کیا عورت کا بچے کو غسل دینا کیسا ہے ؟ آپ نے فرمایا : آپ نے فرمایا : میں اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتا۔

11099

(۱۱۱۰۰) حَدَّثَنَا حَفْصٌ، عَنْ لَیْثٍ، عَنْ عَطَائٍ، قَالَ: یُکَفَّن الصَّبِیُّ الَّذِی قَدْ سَعَی أَنْ یُجْعَلَ فِی خِرْقَۃٍ تُغَسِّلُہُ النِّسَائُ۔
(١١١٠٠) حضرت عطاء فرماتے ہیں کہ جس بچے نے پیدائش کے بعد حرکت کی اسے ایک کپڑے میں کفن دیا جائے گا اور عورتیں اسے غسل دیں گی۔

11100

(۱۱۱۰۱) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ ، عَنْ أَیُّوبَ ، قَالَ حَدَّثَتْنِی حَفْصَۃُ بِنْتُ سِیرِینَ ، أَنَّ أُمَّ عَطِیَّۃَ قَالَتْ مَشَطْتُہَا ثَلاَثَۃَ قُرُونٍ تَعْنِی ابْنَۃَ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔
(١١١٠١) حضرت ام عطیہ فرماتی ہیں کہ میں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیٹی (کو غسل دینے کے بعد اس) کے بالوں کی تین چوٹیاں بنائیں۔

11101

(۱۱۱۰۲) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ ، قَالَ : کَانَ یَقُولُ إِذَا غُسِلَتِ الْمَرْأَۃ ذُوِّبَ شَعْرُہَا ثَلاَثَ ذَوَائِبَ ، ثُمَّ جُعِلَ خَلْفَہَا۔
(١١١٠٢) حضرت ابن سیرین فرماتے ہیں کہ عورت کو غسل دینے کے بعد اس کے بالوں کی تین چوٹیاں بنا کر ان کو اس کے پچھلی طرف ڈال دیا جائے گا۔

11102

(۱۱۱۰۳) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَنِ الشَّیْبَانِیِّ ، عَنِ الْمُثَنَّی بن بِلاَلٍ الْعَبْدِیِّ ، قَالَ : حدَّثَنَا أَشْیَاخُنَا الَّذِینَ کَانُوا شَہِدُوا زَیْدَ بْنَ صُوحَانَ حِینَ أُصِیبَ یَوْمَ الْجَمَلِ ، قَالَ شُدُّوا عَلَیَّ ثِیَابِی ، وَلاَ تَغْسِلُوا عَنِّی دَمًا وَلا ترابًا فَإِنِّی رَجُلٌ مُخَاصِمٌ۔
(١١١٠٣) حضرت مثنی بن بلال العبدی فرماتے ہیں کہ مجھ سے ان حضرات نے بیان کیا ہے کہ جب حضرت زید بن صوحان کو جنگ جمل میں جب زخم لگا تو وہ اسوقت وہاں موجود تھے۔ حضرت زید نے فرمایا میرے کپڑے میرے اوپر کس دو ، اور میرے اوپر سے خون اور مٹی کو نہ دھونا کیونکہ میں لڑنے والا انسان ہوں۔

11103

(۱۱۱۰۴) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ ، قَالَ : کَانَ إذَا سُئِلَ عَنْ غُسْلِ الشَّہِیدِ حَدَّثَ بِحَدِیثِ حُجْرِ بْنِ عَدِیٍّ ، قَالَ : قَالَ حُجْرُ بْنُ عَدِیٍّ لِمَنْ حَضَرَہُ مِنْ أَہْلِ بَیْتِہِ لاَ تُغَسِّلُوا عَنِّی دَمًا ، وَلاَ تُطْلِقُوا عَنِّی حَدِیدًا وَادْفِنُونِی فِی ثِیَابِی فَإِنِّی أَلْتَقِی أَنَا وَمُعَاوِیَۃُ عَلَی الْجَادَّۃِ غَدًا۔
(١١١٠٤) حضرت ابن سیرین سے جب شھید کو غسل دینے کے بارے میں دریافت کیا گیا تو انھوں نے حضرت حجر بن عدی کی حدیث بیان فرمائی کہ حضرت حجر بن عدی نے شہادت سے پہلے اپنے گھر کے ایک فرد سے کہا : فرمایا : میرا خون مت دھونا، اور میرے ہتھیار مجھ سے الگ نہ کرنا اور مجھے میرے انہی کپڑوں میں دفن کرنا، بیشک میں اور حضرت معاویہ کل ایک ہی دستر خوان پر ملاقات کریں گے۔

11104

(۱۱۱۰۵) حَدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، أَنَّ رَجُلاً مِنْ أَصْحَابِ عَبْدِ اللہِ قَتَلَہُ الْعَدُوُّ فدَفَنَّاہُ فِی ثِیَابِہِ۔
(١١١٠٥) حضرت ابو اسحاق فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ کے ساتھیوں میں سے ایک شخص کو دشمن نے قتل کردیا تو ہم نے اس کو انہی کپڑوں میں دفن کردیا۔

11105

(۱۱۱۰۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ قَیْسِ بْنِ مُسْلِمٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِی لَیْلَی ، قَالَ : قَالَ سَعد بْنُ عُبَیدٍ الْقَارِی یَوْمَ الْقَادِسِیَّۃِ إنَّا لاَقُوا الْعَدُوَّ غَدًا إِنْ شَائَ اللَّہُ وَإِنَّا مُسْتَشْہَدُونَ فَلاَ تُغَسِّلُوا عَنَّا دَمًا ، وَلاَ نکفن إِلاَّ فِی ثَوْبٍ کَانَ عَلَیْنَا۔
(١١١٠٦) حضرت عبد الرحمن بن ابی لیلیٰ فرماتے ہیں کہ قادسیہ کے دن حضرت سعد بن عبید القاری نے فرمایا : ہم کل ان شاء اللہ دشمن سے ملاقات کرنے والے ہیں اور ہم شھیدوں میں سے ہوں گے، تم لوگ ہمارے خون کو مت دھونا اور ہمیں ہمارے انہی کپڑوں میں کفن دینا۔

11106

(۱۱۱۰۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ مُخَوَّلِ بْنِ رَاشِدٍ النَّہْدِیِّ ، عَنِ الْعَیْزَارِ بْنِ حُرَیْثٍ الْعَبْدِیِّ ، قَالَ : قَالَ زَیْدُ بْنُ صُوحَانَ یَوْمَ الْجَمَلِ ارْمُسُونِی فِی الأَرْضِ رَمْسًا ، وَلاَ تَغْسِلُوا عَنِّی دَمًا ، وَلاَ تَنْزِعُوا عَنِّی ثَوْبًا إِلاَّ الْخُفَّیْنِ فَإِنِّی مُحَاجٌّ أُحَاجُّ۔
(١١١٠٧) حضرت عیزار بن حارث فرماتے ہیں کہ حضرت زید بن صوحان جنگ جمل کے دن فرمایا : مجھے دفنا دینا اور میرا خون نہ دھونا اور موزے اتار دینا لیکن کپڑے نہ اتارنا۔ کیونکہ میں ان سب چیزوں کو قیامت کے دن اپنے حق میں پیش کروں گا۔

11107

(۱۱۱۰۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ مِسْعَرٍ وَسُفْیَانُ ، عَنْ مُصْعَبِ بْنِ الْمُثَنَّی ، قَالَ سُفْیَانُ ، عَنْ رَجُلٍ ، عَنْ زَیْدِ بْنِ صُوحَانَ ، وَقَالَ مِسْعَرٌ ، عَنْ مُصْعَبِ بْنِ الْمُثَنَّی ، عَنْ زَیْدِ بْنِ صُوحَانَ أَنَّہُ قَالَ یَوْمَ الْجَمَلِ ادْفِنُونَا وَمَا أَصَابَ الثَّرَی مِنْ دِمَائِنَا۔
(١١١٠٨) حضرت زید بن صوحان نے جنگ جمل میں فرمایا تھا کہ ہمیں اور ہمارے زمین پر گرے ہوئے لہو کو دفن کردینا۔

11108

(۱۱۱۰۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا شُعْبَۃُ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ، وَالْحَسَنِ أَنَّہُمَا قَالاَ : الشَّہِیدُ یُغَسَّلُ مَا مَاتَ مَیِّتٌ إِلاَّ أَجْنَبَ۔
(١١١٠٩) حضرت سعید بن المسیب اور حضرت حسن ارشاد فرماتے ہیں کہ شھید کو غسل دیا جائے گا اور جو جنبی حالت میں مرے اس کو بھی۔

11109

(۱۱۱۱۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا زَکَرِیَّا ، عَنْ عَامِرٍ ، أَنَّ حَنْظَلَۃَ بْنَ الرَّاہِبِ طَہَّرَتْہُ الْمَلاَئِکَۃُ۔
(١١١١٠) حضرت عامر ارشاد فرماتے ہیں کہ حضرت حنظلہ کو ملائکہ نے غسل دیا۔

11110

(۱۱۱۱۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ بْنُ أَبِی خَالِدٍ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ عَابِسٍ ، عَنْ عَمَّارٍ ، قَالَ : ادْفِنُونِی فِی ثِیَابِی فَإِنِّی مُخَاصِمٌ۔
(١١١١١) حضرت عمار فرماتے ہیں مجھے میرے کپڑوں میں ہی دفن کردینا کیونکہ میں لڑنے والا (جہاد کرنے والا) ہوں۔

11111

(۱۱۱۱۲) حَدَّثَنَا عِیسَی بْنُ یُونُسَ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ بْنِ أَبِی خَالِدٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ یَحْیَی بْنَ عَابِسٍ یُحَدِّثُ عَنْ قَیْسِ بْنِ أَبِی حَازِمٍ ، عَنْ عَمَّارٍ مِثْلَہُ۔
(١١١١٢) حضرت عمار سے اسی کے مثل منقول ہے۔

11112

(۱۱۱۱۳) حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ عَیَّاشٍ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : إذَا رفع الْقَتِیلُ دُفِنَ فِی ثِیَابِہِ وَإِنْ رُفِعَ وَبِہِ رَمَقٌ صُنِعَ بِہِ مَا یُصْنَعُ بِغَیْرِہِ۔
(١١١١٣) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ جب مقتول (میدان جہاد) سے اٹھایا جائے گا تو اس کو انہی کپڑوں میں دفن کیا جائے گا، اور اگر اس کو اٹھایا اور اس میں زندگی کی کچھ رمق باقی ہے تو اس کے ساتھ وہی طریقہ اختیار کیا جائے گا جو دوسروں کے ساتھ کیا جاتا ہے۔

11113

(۱۱۱۱۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ عِیسَی بْنِ أَبِی عَزَّۃَ ، عَنْ عَامِرٍ فِی رَجُلٍ قَتَلَہُ اللُّصُوصُ ، قَالَ یُدْفَنُ فِی ثِیَابِہِ ، وَلاَ یُغَسَّلُ۔
(١١١١٤) حضرت عامر سے دریافت کیا گیا کہ ایک شخص کو چوروں نے قتل کردیا ہے ؟ آپ نے فرمایا : اس کو انہی کپڑوں میں دفن کیا جائے گا اور غسل نہیں دیا جائے گا۔

11114

(۱۱۱۱۵) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، حَدَّثَنَا ثَابِتُ بْنُ عُمَارَۃَ ، قَالَ : سَمِعْتُ غُنَیْمَ بْنَ قَیْسٍ یَقُولُ : یقال الشَّہِیدُ یُدْفَنُ فِی ثِیَابِہِ ، وَلاَ یُغَسَّلُ۔
(١١١١٥) حضرت ثابت بن عمارہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت غنیم ابن قیس سے سنا وہ فرماتے ہیں : شہید کو انہی کپڑوں میں دفن کیا جائے گا اور اس کو غسل نہیں دیا جائے گا۔

11115

(۱۱۱۱۶) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ ؛ فِی الْقَتِیلِ إذَا کَانَ عَلَیْہِ مُہْلٌ غُسِّلَ۔
(١١١١٦) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ مقتول پر اگر پیپ وغیرہ ہو تو اس کو غسل دیا جائے گا۔

11116

(۱۱۱۱۷) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الْحَکَمِ وَحَمَّادٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : إذَا مَاتَ فِی الْمَعْرَکَۃِ دُفِنَ وَنُزِعَ مَا کَانَ عَلَیْہِ مِنْ خُفٍّ ، أَوْ نَعْلٍ ، وَإِذَا رُفِعَ وَبِہِ رَمَقٌ ، ثُمَّ مَاتَ صُنِعَ بِہِ مَا یُصْنَعُ بِالْمَیِّتِ۔
(١١١١٧) حضرت حماد فرماتے ہیں کہ جب کوئی شخص معرکہ میں مرے تو اس کو دفن کردیا جائے گا اور اس کے موزے اور جوتے اتار دیئے جائیں گے، اور اگر اس کو میدان سے اٹھایا گیا اور اس میں زندگی کی رمق باقی تھی، پھر وہ مرگیا تو اس کے ساتھ عام مردوں والا معاملہ کریں گے (غسل وغیرہ دیں گے) ۔

11117

(۱۱۱۱۸) حَدَّثَنَا عِیسَی بْنُ یُونُسَ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنِ الْحَسَنِ ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَمَرَ بِحَمْزَۃَ حِینَ اسْتُشْہِدَ فَغُسِّلَ۔ (حاکم ۱۹۵)
(١١١١٨) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ جب حضرت حمزہ شھید ہوئے تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو غسل دینے کا حکم فرمایا چنانچہ انھیں غسل دیا گیا۔

11118

(۱۱۱۱۹) حَدَّثَنَا شَبَابَۃُ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا لَیْثُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنِ ابْنِ شِہَابٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَانِ بْنِ کَعْبِ بْنِ مَالِکٍ ، أَنَّ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللہِ أَخْبَرَہُ ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَمْ یُصَلِّ عَلَی قَتْلَی أُحُدٍ ، وَلَمْ یُغَسَّلُوا۔ (بخاری ۱۳۴۳۔ ابوداؤد ۳۱۳۰)
(١١١١٩) حضرت جابر بن عبداللہ سے مروی ہے کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غروہ احد کے شھداء کی نہ نماز جنازہ پڑھی اور نہ ہی ان کو غسل دیا۔

11119

(۱۱۱۲۰) حَدَّثَنَا عَبْدُاللہِ بْنُ نُمَیْرٍ، قَالَ: حدَّثَنَا عُبَیْدُاللہِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ کُفِّنَ عُمَرُ وَحُنِّطَ وَغُسِّلَ۔
(١١١٢٠) حضرت عبداللہ بن عمر فرماتے ہیں کہ حضرت عمر کو کفن دیا گیا غسل دیا گیا اور خوشبو لگائی گی۔

11120

(۱۱۱۲۱) حَدَّثَنَا شَرِیکٌ، عَنِ ابْنِ أَبِی لَیْلَی، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ بِنَحْوِہِ، إِلاَّ أَنَّہُ قَالَ: کَانَ مِنْ أَفْضَلِ الشُّہَدَائِ۔
(١١١٢١) حضرت عبداللہ بن عمر سے اسی طرح منقول ہے، اور آخر میں فرماتے ہیں کہ آپ افضل الشھداء میں سے ہیں۔

11121

(۱۱۱۲۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، عَنْ سُفْیَانَ، عَنِ ابْنِ أَبِی عَرُوبَۃَ، عَنْ أَبِی مَعْشَرٍ، عَنْ إبْرَاہِیمَ، قَالَ: إذَا قُتِلَ فِی الْمَعْرَکَۃِ دُفِنَ فِی ثِیَابِہِ ، وَلَمْ یُغَسَّلْ۔
(١١١٢٢) حضرت ابراھیم فرماتے ہیں کہ جب کوئی شخص معرکہ میں شہید ہو تو اس کو انہی کپڑوں میں دفن کردیا جائے گا اور غسل نہیں دیا جائے گا۔

11122

(۱۱۱۲۳) حَدَّثَنَا وَکِیعُ بْنُ الْجَرَّاحِ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ عَلْقَمَۃَ بْنِ مَرْثَدٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ لَمَّا رَجَمَ عَلِیٌّ شُرَاحَۃَ جَائَتْ ہَمْدَانُ إلَی عَلِیٍّ فَقَالُوا : کَیْفَ یُصْنَعُ بِہَا ، فَقَالَ : اصْنَعُوا بِہَا کَمَا تَصْنَعُونَ بِنِسَائِکُمْ إذَا مُتْنَ فِی بُیُوتِہِنَّ۔
(١١١٢٣) حضرت شعبی فرماتے ہیں کہ جب حضرت علی نے شراحہ کا رجم کیا تو ھمدان حضرت علی کے پاس آئے اور عرض کیا : اس کو کس طرح دفن کریں ؟ (اس کے ساتھ کیا معاملہ کریں ؟ ) آپ نے فرمایا عورت جب گھر میں فوت ہوجائے اس کے ساتھ جو معاملہ کیا جاتا ہے اس کے ساتھ بھی وہی معاملہ برتو۔

11123

(۱۱۱۲۴) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ أَبِی حَنِیفَۃَ ، عَنْ عَلْقَمَۃَ بْنِ مَرْثَدٍ ، عَنِ ابْنِ بُرَیْدَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ لَمَّا رُجِمَ مَاعِزٌ قَالُوا : یَا رَسُولَ اللہِ مَا نصْنَعُ بِہِ ، قَالَ : اصْنَعُوا بِہِ مَا تَصْنَعُونَ بِمَوْتَاکُمْ مِنَ الْغُسْلِ وَالْکَفَنِ وَالْحَنُوطِ وَالصَّلاَۃِ عَلَیْہِ۔
(١١١٢٤) حضرت ابن بریدہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ جب حضرت ماعز کو رجم کیا گیا تو صحابہ کرام نے عرض کا ١ اس کے ساتھ (دفن کرنے میں) کیا معاملہ کریں ؟ آپ نے فرمایا : اس کے ساتھ وہی معاملہ کرو جو تم اپنے مردوں کے ساتھ کرتے ہو، کفن دو ، خوشبو لگاؤ اور اس کی نماز جنازہ پڑھو۔

11124

(۱۱۱۲۵) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ، عَنْ حَجَّاجٍ، عَنْ عَطَائٍ، قَالَ یُغَسَّلُ الْغَرِیقُ وَیُکَفَّنُ وَیُحَنَّطُ وَیُصْنَعُ بِہِ مَا یُصْنَعُ بِغَیْرِہِ۔
(١١١٢٥) حضرت عطائ فرماتے ہیں کہ جو شخص ڈوب کر مرے اس کو غسل دیا جائے گا، کفن پہنایا جائے گا اور اس کو خوشبو لگائی جائے گی اور اس کے ساتھ عام مردوں والا برتاؤ ہوگا۔

11125

(۱۱۱۲۶) حَدَّثَنَا عَبْدُ السَّلاَمِ بْنُ حَرْبٍ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ عَطَائٍ ، قَالَ : إذَا مَاتَ الْجُنُبُ وَالْحَائِضُ یُصْنَعُ بِہِمَا مَا یُصْنَعُ بِغَیْرِہِمَا۔
(١١١٢٦) حضرت عطائ فرماتے ہیں کہ جب کوئی جنبی یا حائضہ فوت ہوجائے تو ان دونوں کے ساتھ عام مردوں جیسا معاملہ ہوگا۔

11126

(۱۱۱۲۷) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : إذَا مَاتَ الْجُنُبُ ، قَالَ یُغَسَّلُ غُسْلاً لِجَنَابَتِہِ وَیُغَسَّلُ غُسْلَ الْمَیِّتِ ، وَکَذَلِکَ قَوْلُہُ فِی الْحَائِضِ إذَا طَہُرَتْ ، ثُمَّ مَاتَتْ قَبْلَ أَنْ تَغْتَسِل۔
(١١١٢٧) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ جب جنبی فوت ہوجائے تو جنابت کا غسل دیا جائے گا اور پھر غسل میت دیا جائے گا اور اسی طرح اگر کوئی حائضہ عورت پاک ہونے کے بعد غسل سے پہلے مرجائے اس کا بھی یہی حکم ہے۔

11127

(۱۱۱۲۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ بْنِ أَبِی خَالِدٍ ، عَنِ الْحَکِیمِ بْنِ جَابِرٍ ، قَالَ لَمَّا مَاتَ ابْنُ قَیْسٍ ، قَالَ الْحَسَنُ بْنُ عَلِیٍّ إذَا غَسَّلْتُمُوہُ فَلاَ تُہَیِّجُوہُ حَتَّی تُؤْذِنُونِی فَجَائَ فَوَضَّأَہُ بِالْحَنُوطِ وُضُوء ًا۔
(١١١٢٨) حضرت حکیم بن جابر فرماتے ہیں کہ جب حضرت ابن قیس کا انتقال ہوا تو حضرت حسن بن علی نے فرمایا : جب تم اسے غسل دے دو تو دفن میں جلدی نہ کرنا جب تک کہ مجھے نہ بلا لو، پھر ہم نے ان کو بلایا تو آپ تشریف لائے اور وضو خوشبو کے ساتھ کروایا (وضو کے مقامات پر خوشبو لگائی) ۔

11128

(۱۱۱۲۹) حَدَّثَنَا مَعْنُ بْنُ عِیسَی ، عَنْ خَالِدِ بْنِ أَبِی بَکْرٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ سَالِمًا وَعُبَیْدَ اللہِ بْنَ عَبْدِ اللہِ إذَا ذُکِرَ لَہُمَا طِیبُ الْمَیِّتِ قَالاَ : اجْعَلُوہُ بَیْنَہُ وَبَیْنَ ثِیَابِہِ۔
(١١١٢٩) حضرت سالم اور حضرت عبید اللہ بن عبداللہ کے پاس جب میت کو خوشبو لگانے کا ذکر ہوا تو فرمایا : خوشبو میت کے بدن اور کپڑوں کے درمیان لگائی جائے۔

11129

(۱۱۱۳۰) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عُبَیْدِاللہِ، عَنْ إبْرَاہِیمَ، قَالَ تُجَمَّرُ ثِیَابُہُ وَحَنُوطُہُ عَلَی مَسَاجِدِہِ۔
(١١١٣٠) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ میت کے کپڑوں (کفن) کو دھونی دی جائے گی اور سجدہ کی جگہوں پر خوشبو لگائی جائے گی۔

11130

(۱۱۱۳۱) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ فُضَیْلٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ فِی حَنُوطِ الْمَیِّتِ ، قَالَ یُبْدَأُ بِمَسَاجِدِہِ۔
(١١١٣١) حضرت ابراہیم میت کو خوشبو لگانے کے بارے میں فرماتے ہیں کہ سجدوں کی جگہ سے ابتدا کی جائے گی۔

11131

(۱۱۱۳۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ: إذَا فُرِغَ مِنْ غُسْلِہِ تُتْبَعُ مَسَاجِدُہُ بِالطِّیبِ۔
(١١١٣٢) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ جب غسل دے کر فارغ ہوں گے تو اس کے بعد میت کے سجدوں والی جگہ پر خوشبو لگائی جائے گی۔

11132

(۱۱۱۳۳) حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَبْدِ الْوُرَّاثِ ، عَنْ ہَمَّامٍ ، عَنْ شَیْخٍ مِنْ أَہْلِ الْکُوفَۃِ یُقَالُ لَہُ زِیَادٌ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ ، قَالَ : یُوضَعُ الْکَافُورُ عَلَی مَوْضِعِ سُجُودِ الْمَیِّتِ۔
(١١١٣٣) حضرت عبداللہ بن مسعود ارشاد فرماتے ہیں کہ میت کے سجدوں کی جگہ پر کافور (خوشبو) لگائی جائے گی۔

11133

(۱۱۱۳۴) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، قَالَ : کَانَ أَیُّوبُ بَعْدَ مَا یَفْرُغُ مِنْ غُسْلِ الْمَیِّتِ یُطَبِّقُ وَجْہَہُ بِقُطْنَۃٍ وَکَانَ مُحَمَّدٌ لاَ یَفْعَلُ ذَلِکَ۔
(١٣١٣٤) حضرت ہشام فرماتے ہیں کہ حضرت ایوب جب میت کو غسل دے کر فارغ ہوتے تو چہرے کو روئی سے بند کردیتے، اور حضرت محمد اس طرح نہ کرتے۔

11134

(۱۱۱۳۵) حَدَّثَنَا عَبْدُ السَّلاَمِ بْنُ حَرْبٍ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنِ الْحَسَنِ ، أَنَّہُ کَانَ یَرَی أَنَّ الْمُشَاقَۃَ تُجْزِئُ إذَا لَمْ یَکُنْ قُطْنٌ لِلْمَیِّتِ۔
(١١١٣٥) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ اگر میت کے چہرے پر رکھنے کیلئے روئی نہ ملے تو روئی کے گرے پڑے دھاگے بھی کافی ہیں۔

11135

(۱۱۱۳۶) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ مُبَارَکٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَطَائٍ ، قَالَ : قُلْتُ أَحْشُو الْکُرْسُفَ ؟ قَالَ نَعَمْ قُلْتُ لأَنْ لاَ یَتَفَجَّرَ مِنْہُ شَیْئٌ ، قَالَ نَعَمْ۔
(١١١٣٦) حضرت ابن جریج فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عطائ سے دریافت کیا : اس پر روئی رکھ دیں ؟ آپ نے فرمایا : ہاں، میں نے عرض کیا، یہ اس وجہ سے ہے تاکہ اس میں سے کوئی (گندگی) نہ نکلے ؟ آپ نے فرمایا ہاں۔

11136

(۱۱۱۳۷) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ یُحْشَی مِنَ الْمَیِّتِ لِمَا یَخَافُونَ أَنْ یَخْرُجَ مِنْہُ۔
(١١١٣٧) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ میت کی ہر وہ جگہ جہاں سے کچھ (گندگی) نکلنے کا خوف ہو وہاں پر (روئی) چپکا دیں گے۔

11137

(۱۱۱۳۸) حَدَّثَنَا ابْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنْ ہمام ، عَنْ مَطَرٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : یُحْشَی دُبُرُہُ وَمَسَامِعُہُ وَأَنْفُہُ۔
(١١١٣٨) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ میت کے پاخانے کے مقام، کانوں اور ناک پر رکھ دی جائے گی۔

11138

(۱۱۱۳۹) حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ ، عَنِ الرَّبِیعِ ، قَالَ : سَمِعْتُ ابْنَ سِیرِینَ یَقُولُ یُحْشَی دُبُرُ الْمَیِّتِ وَفَاہُ وَمَنْخِرَاہُ قُطْنًا ، وَقَالَ مُحَمَّدٌ مَا عَالَجْت دُبُرَہُ فَعَالِجْہُ بِیَسَارٍک۔
(١١١٣٩) حضرت ربیع فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن سیرین سے سنا میت کے دبر، منہ اور ناک پر روئی چپکا دی جائے گی، حضرت محمد کہتے ہیں اس کے پاخانے کی جگہ پر جو علاج کرنا پڑے (کوئی چیز رکھنا پڑے) وہ اپنے بائیں ہاتھ سے کرنا۔

11139

(۱۱۱۴۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ حَسَّانَ بْنِ إِبْرَاہِیمَ ، عَن أُمَیَّۃَ الأَزْدِیِّ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ زَیْدٍ ، قَالَ : إذَا حُشِیَ عَلَی الْمَیِّتِ سُدَّ مُرَاقُہُ وَمَسَامِعُہُ بِالْمُشَاقِّ۔
(١١١٤٠) حضرت جابر بن زید فرماتے ہیں کہ اگر میت کے سوراخوں سے کچھ نکلنے کا اندیشہ ہو اس کے جسم کے سوراخ اور کان روئی سے بند کردیئے جائیں۔

11140

(۱۱۱۴۱) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ مُبَارَکٍ ، عَنْ حُمَیْدٍ ، عَنْ أَنَسٍ ، أَنَّہُ جُعِلَ فِی حَنُوطِہِ صَرَّۃٌ مِنْ مِسْکٍ ، أَوْ مِسْکٌ فِیہِ شَعْرٌ مِنْ شَعْرِ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔
(١١١٤١) حضرت انس نے مشک کی ایک تھیلی خوشبو بنائی ہوئی تھی یا مشک ملی ہوئی خوشبو تھی جس میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بال مبارک میں سے ایک بال تھا۔

11141

(۱۱۱۴۲) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ ، قَالَ : سُئِلَ ابْنُ عُمَرَ عَنِ الْمِسْکِ یُجْعَلُ فِی الْحَنُوطِ ، قَالَ : أَوَلَیْسَ مِنْ أَطْیَبِ طِیبِکُمْ۔
(١١١٤٢) حضرت عبداللہ بن عمر سے سوال کیا گیا کہ کیا مشک کو بھی میت کو لگائی جانے والی خوشبو میں شمار کیا جائے گا ؟ آپ نے فرمایا کیا یہ تمہاری خوشبوؤں میں سے سب سے خوشبو دار نہیں ہے۔

11142

(۱۱۱۴۳) حَدَّثَنَا مُعْتَمِرُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِیرِینَ ، قَالَ: سُأِلَ ابْن عُمَرُ أَیَقْرَبُ الْمَیِّتَ الْمِسْکُ ، قَالَ أَوَلَیْسَ مِنْ أَطْیَبِ طِیبِکُمْ۔
(١١١٤٣) حضرت محمد بن سیرین سے مروی ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر سے سوال کیا گیا ! مشک خوشبو میت کے قریب کرسکتے ہیں (اس کو لگا سکتے ہیں ؟ ) آپ نے فرمایا کیا یہ تمہاری خوشبوؤں میں سے سب سے زیادہ خوشبو دار نہیں ہے ؟

11143

(۱۱۱۴۴) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنِ الْمُثَنَّی بْنِ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، قَالَ : سَأَلْتُ سَعِیدَ بْنَ الْمُسَیَّبِ عَنِ الْمِسْکِ فِی حَنُوطِ الْمَیِّتِ ، قَالَ : لاَ بَأْسَ بِہِ وَسُئِلَ عَنْ ذَلِکَ جَابِرُ بْنُ زَیْدٍ ، قَالَ : لاَ بَأْسَ بِہِ۔
(١١١٤٤) حضرت قتادہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت سعید بن مسیب سے دریافت کیا کہ میت کو مشک خوشبو لگا سکتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا اس میں کوئی حرج نہیں، پھر حضرت جابر بن زید سے اس کے متعلق دریافت کیا تو انھوں نے بھی فرمایا اس میں کوئی حرج نہیں۔

11144

(۱۱۱۴۵) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ ، عَنْ عَطَائٍ ، أَنَّہُ سُئِلَ أَیُطَیَّبُ الْمَیِّتُ بِالْمِسْکِ ، قَالَ نَعَمْ أَوَلَیْسَ یَجْعَلُونَ فِی الَّذِی یُجَمِّرُونَ بِہِ الْمِسْکَ۔
(١١١٤٥) حضرت عبد الملک فرماتے ہیں کہ حضرت عطائ سے دریافت کیا گیا کیا میت کو مشک بطور خوشبو لگا سکتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا : ہاں کیا لوگ اس کو دھونی دینے کیلئے استعمال نہیں کرتے۔

11145

(۱۱۱۴۶) حَدَّثَنَا حُمَیْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ حَسَنٍ ، عَنْ ہَارُونَ بْنِ سَعْدٍ ، أَنَّ عَلِیًّا أَوْصَی أَنْ یُجْعَلَ فِی حَنُوطِہِ مِسْکٌ ، وَقَالَ ہُوَ فَضْلُ حَنُوطِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔
(١١١٤٦) حضرت ہارون بن سعید فرماتے ہیں کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے وصیت فرمائی تھی کہ میرے مرنے کے بعد مشک بطور خوشبو لگائی جائے، اور فرماتے ہیں کہ وہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بچی ہوئی مسک تھی۔

11146

(۱۱۱۴۷) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ وَمُحَمَّدُ بْنُ سُوقَۃَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ لَمَّا غَزَا سَلْمَانُ بَلَنْجَرَ ، أَصَابَ فِی قِسْمَتِہِ صُرَّۃٌ مِنْ مِسْکٍ ، فَلَمَّا رَجَعَ اسْتَوْدَعَہَا امْرَأَتَہُ ، فَلَمَّا مَرِضَ مَرَضَہُ الَّذِی مَاتَ فِیہِ ، قَالَ لاِمْرَأَتِہِ وَہُوَ یَمُوتُ : أَرِینِی الصُّرَّۃَ الَّتِی اسْتَوْدَعْتُکِ ، فَأَتَتْہُ بِہَا ، فَقَالَ : ائْتِنِی بِإِنَائٍ نَظِیفٍ فَجَائَتْ بِہِ ، فَقَالَ : أَدِیفِیہِ ، ثُمَّ انْضَحِی بِہِ حَوْلِی ، فَإِنَّہُ یَحْضُرُنِی خَلْقٌ مِنْ خَلْقِ اللہِ ، لاَ یَأْکُلُونَ الطَّعَامَ ، وَیَجِدُونَ الرِّیحَ ، وَقَالَ : اخْرُجِی عَنِّی ، وَتَعَاہَدِینِی ، قَالَتْ : فَخَرَجْتُ ، ثُمَّ رَجَعْتُ وَقَدْ قَضَی۔
(١١١٤٧) حضرت امام شعبی سے مروی ہے کہ جب حضرت سلمان لنجر کے غزوہ میں شریک ہوئے تو غنیمت کی تقسیم میں مشک کی تھیلی ملی، جب وہ واپس آئے تو وہ تھیلی اپنی اہیہغ کے پاس امانت رکھوا دی، پھر جب وہ مریض ہوئے، جس مرض میں ان کی وفات ہوئی تو انھوں نے اپنی اہلیہ سے فرمایا : جو تھیلی میں نے آپ کے پاس امانت رکھوائی تھی وہ لا کر مجھے دو ، وہ تھیلی لے کر حاضر ہوگئیں، آپ نے فرمایا اس کو میرے اردگرد چھڑک دو ، کیونکہ میرے اردگرد ایسی مخلوق حاضر ہوتی ہے جو کھاتی (پیتی) نہیں ہے مگر خوشبو (محسوس) کرتے ہیں اور پھر فرمایا اس کو لے جاؤ میرے پاس سے اور مجھ سے عہد کرو، وہ فرماتی ہیں کہ میں نکل گئی پھر جب میں واپس آئی تو آپ کی روح اس دنیا سے کوچ کرچکی تھی۔

11147

(۱۱۱۴۸) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنْ نَافِعٍ ، أَنَّ ابْنَ عُمَرَ حَنَّطَ مَیِّتًا بِمِسْکٍ۔
(١١١٤٨) حضرت نافع فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمر میت کو مشک سے خوشبو لگایا کرتے تھے۔

11148

(۱۱۱۴۹) حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ فُضَیْلٍ ، عَنِ ابْنِ مغفل ، قَالَ : قَالَ عُمَرُ لاَ تُحَنِّطُونِی بِمِسْکٍ۔
(١١١٤٩) حضرت ابن مغفل سے مروی ہے کہ حضرت عمر ارشاد فرماتے ہیں مجھے مشک بطور خوشبو تم نہ لگانا۔

11149

(۱۱۱۵۰) حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إسْمَاعِیلَ ، عَنْ جَعْفَرَ بْنِ مُحَمَّدٍ ، عَنْ سُفْیَانَ بْنِ عَاصِمٍ ، قَالَ : شَہِدْت عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِیزِ ، قَالَ لأَمَۃٍ لَہُ إنِّی أَرَاک تلین حِنَاطِی فَلاَ تَجْعَلِینَ فِیہِ مِسْکًا۔
(١١١٥٠) حضرت سفیان بن عاصم فرماتے ہیں کہ میں حضرت عمر بن عبد العزیز کے پاس حاضر ہوا آپ اپنی خادمہ سے فرما رہے تھے، میرا خیال ہے کہ تو میرے مرنے کے بعد میت کو لگانی والی خوشبو تیار کرنے کا مطالبہ تجھ سے ہوگا تو اس میں مشک شامل نہ کرنا۔

11150

(۱۱۱۵۱) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرِِ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَطَائٍ ، أَنَّہُ قَالَ : لاَ بَأْسَ بِالَعَنَبَرِ فِی الْحَنُوطِ ، وَقَالَ : إنَّمَا ہُوَ صَمْغَۃٌ وَکَرِہَ الْمِسْکَ لِلْحَیِّ وَالْمَیِّتِ ، وَقَالَ ہُوَ مَیْتَۃٌ۔
(١١١٥١) حضرت عطائ فرماتے ہیں کہ میت کو عنبر لگانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ فرماتے ہیں کہ یہ تو گوند (شیرے) کی مانند ہے، اور مشک کو زندہ اور میت دونوں کیلئے ناپسند سمجھتے ہیں اور فرماتے ہیں وہ تو مردہ ہے۔

11151

(۱۱۱۵۲) حَدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، أَنَّہُ کَرِہَ الْمِسْکَ لِلْمَیِّتِ۔
(١١١٥٢) حضرت مجاہد میت کو مشک لگانے کو ناپسند فرماتے ہیں۔

11152

(۱۱۱۵۳) حَدَّثَنَا سَہلُ بْنُ یُوسُفَ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنِ الْحَسَنِ ، أَنَّہُ کَانَ یَکْرَہُ الْمِسْکَ لِلْحَیِّ وَالْمَیِّتِ وَیَقُولُ کَانَ الْمُسْلِمُونَ یَکْرَہُونَہُ وَیَقُولُونَ ہُوَ مَیْتَۃٌ۔
(١١١٥٣) حضرت حسن مشک خوشبو زندہ اور میت دونوں کیلئے ناپسند فرماتے ہیں اور فرماتے ہیں مسلمان تو اس کو ناپسند کرتے ہیں اور کہتے ہیں یہ تو مردہ ہے۔

11153

(۱۱۱۵۴) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ الْیَمَانِ ووَکِیعٌ ، عَنِ ابْنِ أَبِی روََّاد ، عَنِ الضَّحَّاکِ ، أَنَّہُ کَرِہَ الْمِسْکَ فِی الْحَنُوطِ۔
(١١١٥٤) حضرت ضحاک میت کو مشک لگانے کو ناپسند فرماتے ہیں۔

11154

(۱۱۱۵۵) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ عَائِشَۃَ ، أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کُفِّنَ فِی ثَلاَثَۃِ أَثْوَابٍ یَمَانِیَّۃٍ لَیْسَ فِیہَا قَمِیصٌ ، وَلاَ عِمَامَۃٌ فَقُلْنَا لِعَائِشَۃَ إنَّہُمْ یَزْعُمُونَ ، أَنَّہُ کَانَ کُفِّنَ فِی بُرْدٍ حِبَرَۃٍ ، فَقَالَتْ قَدْ جَاؤُوا بِبُرْدٍ حِبَرَۃٍ ، وَلَمْ یُکَفِّنُوہُ فِیہِ۔ (ابوداؤد ۳۱۴۴۔ بخاری۱۲۷۳)
(١١١٥٥) حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تین یمنی کپڑوں میں کفن دیا گیا، اس میں (کفن میں) قمیص اور عمامہ شامل نہ تھا، راوی کہتے ہیں کہ ہم نے حضرت عائشہ سے عرض کیا کہ لوگوں کا تو یہ گمان ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کاٹن کے چادر میں کفن دیا گیا ہے ؟ آپ نے فرمایا کاٹن کی چادر لائی تو گئی تھی لیکن اس میں کفن نہ دیا گیا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو۔

11155

(۱۱۱۵۶) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ یَزِیدَ ، عَنْ مِقْسَمٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : کُفِّنَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی ثَلاَثَۃِ أَثْوَابٍ فِی قَمِیصِہِ الَّذِی مَاتَ فِیہِ ، وَحُلۃٍ نَجْرَانِیَّۃٍ۔
(١١١٥٦) حضرت عبداللہ بن عباس ارشاد فرماتے ہیں کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تین کپڑوں میں کفن دیا گیا، اس میں ایک تو وہ قمیص تھی جس میں آپ کی وفات ہوئی تھی اور دو ایک ہی طرح کے کپڑے تھے۔

11156

(۱۱۱۵۷) حَدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، قَالَ مَرَرْت عَلَی مَجْلِسٍ مِنْ مَجَالِسِ بَنِی عَبْدِ الْمُطَّلِبِ فَسَأَلْتُہُمْ فِی کَمْ کُفِّنَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالُوا : فِی ثَلاَثَۃٍ أَثْوَابٍ ، لَیْسَ فِیہَا قَمِیصٌ ، وَلاَ قَبَائٌ ، وَلاَ عِمَامَۃٌ۔
(١١١٥٧) حضرت ابو اسحاق فرماتے ہیں کہ میں بنو عبد المطلب کی مجالس کے پاس سے گذرا تو میں نے ان سے دریافت کیا : آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کتنے کپڑوں میں کفن دیا گیا تھا ؟ انھوں نے فرمایا : تین کپڑوں میں جس میں قمیص، قباء اور عمامہ نہ تھا۔

11157

(۱۱۱۵۸) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ ، عَنْ جَعْفَرٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ کُفِّنَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی ثَوْبَیْنِ صُحَارِیَّیْنِ وَبُرْدٍ حِبَرَۃٍ ، قَالَ : وَأَوْصَانِی أَبِی بِذَلِکَ۔
(١١١٥٨) حضرت جعفر اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دو یمنی کپڑوں میں اور ایک یمنی چادر میں کفن دیا گیا، راوی فرماتے ہیں کہ مجھے میرے والد نے اس کی وصیت فرمائی تھی۔

11158

(۱۱۱۵۹) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، قَالَ کُفِّنَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی حُلَّۃٍ حَمْرَائَ وَثَوْبٍ مُمَشَّقٍ۔
(١١١٥٩) حضرت منصور فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سرخ رنگ کی چادر اور دو سرخ رنگ میں رنگے کپڑوں میں کفن دیا گیا۔

11159

(۱۱۱۶۰) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ لَمَّا حُضِرَ أَبُو بَکْرٍ ، قَالَ فِی کَمْ کُفِّنَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قُلْتُ فِی ثَلاَثَۃِ أَثْوَابٍ سَحُولِیَّۃٍ ؟ قَالَ فَنَظَرَ إلَی ثَوْبٍ خَلِقٍ عَلَیْہِ ، فَقَالَ : اغْسِلُوا ہَذَا وَزِیدُوا عَلَیْہِ ثَوْبَیْنِ آخَرَیْنِ فَقُلْت بَلْ نَشْتَرِی لَکَ ثِیَابًا جُدُدًا ، فقَالَ : الْحَیُّ أَحَقُّ بِالْجَدِیدِ مِنَ الْمَیِّتِ إنَّمَا ہِیَ لِلْمُہْلَۃِ۔
(١١١٦٠) حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ جب حضرت صدیق اکبر کا وقت قریب آیا تو آپ نے فرمایا : آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کتنے کپڑوں میں کفن دیا گیا ؟ میں نے عرض کیا تین یمنی چادروں میں (کپڑوں میں) آپ نے اپنے پہنے ہوئے کپڑوں کی طرف دیکھا اور فرمایا اس کو دھو دو اور اس پر دو کپڑوں کا اور اضافہ کردو، میں نے عرض کیا کہ ہم آپ کے لیے دو نئے کپڑے خرید لے تک ہیں، آپ نے فرمایا، نئے کپڑوں کے زیادہ حق دار زندہ لوگ ہیں، بیشک یہ تو مردہ کی پیپ کے لیے ہے۔

11160

(۱۱۱۶۱) حَدَّثَنَا سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنِ ابْنِ أَبِی مُلَیْکَۃَ ، عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ : قَالَ أَبُو بَکْرٍ فِی کَمْ کَفَّنْتُمْ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقُلْت فِی ثَلاَثَۃِ أَثْوَابٍ ، قَالَ فَاغْسِلُوا ثَوْبَیَّ ہَذَیْنِ وَاشْتَرُوا لِی ثَوْبًا مِنَ السُّوقِ قَالَتْ إنَّا مُوسِرُونَ ، قَالَ : یَا بُنَیَّۃُ الْحَیُّ أَحَقُّ بِالْجَدِیدِ مِنَ الْمَیِّتِ إنَّمَا ہُوَ لِلْمُہْلَۃِ وَالصَّدِیدِ۔
(١١١٦١) حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق نے فرمایا : تم نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کتنے کپڑوں میں کفن دیا تھا ؟ میں نے عرض کیا تین کپڑوں میں آپ نے فرمایا میرے ان دو کپڑوں کو دھو دو اور بازار سے ایک اور کپڑا خرید لو، میں نے عرض کیا ہم آپ کے لیے نیا کپڑا تیار کرلیتے ہیں۔ آپ نے فرمایا مردوں کی بنسبت زندہ نئے کپڑے کے زیادہ حقدار ہیں، بیشک یہ کفن تو مردے کی پیپ اور خون کے لیے ہوتا ہے۔

11161

(۱۱۱۶۲) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ کُفِّنَ أَبُو بَکْرٍ فِی ثَوْبَیْنِ سَحُولِیَّیْنِ وَرِدَائٍ لَہُ مُمَصَّر أَمَرَ بِہِ أَنْ یُغْسَلَ۔
(١١١٦٢) حضرت قاسم اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابوبکر کو دو یمنی چادروں میں اور ایک میلی چادر جس میں کچھ زردی تھی کفن دیا گیا آپ نے اس چادر کا دھونے کا حکم فرمایا۔

11162

(۱۱۱۶۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، أَنَّ عُمَرَ کُفِّنَ فِی ثَلاَثَۃِ أَثْوَابٍ۔
(١١١٦٣) حضرت عبداللہ بن عمر فرماتے ہیں کہ حضرت عمر کو تین کپڑوں میں کفن دیا گیا۔

11163

(۱۱۱۶۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ ثَوْرٍ ، عَنْ رَاشِدِ بْنِ سَعْدٍ ، قَالَ : قَالَ عُمَرُ یُکَفَّنُ الرَّجُلُ فِی ثَلاَثَۃِ أَثْوَابٍ لاَ تَعْتَدُوا إنَّ اللَّہَ لاَ یُحِبُّ الْمُعْتَدِینَ۔
(١١١٦٤) حضرت عمر ارشاد فرماتے ہیں کہ مرد کو تین کپڑوں میں کفن دیا جائے گا اور حد سے تجاوز نہیں کیا جائے گا، بیشک اللہ تعالیٰ حد سے تجاوز کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتے۔

11164

(۱۱۱۶۵) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ ، عَنِ الْجَعْدِیِّ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ بن نَافِعٍ ، قَالَ : قَالَ أَبُو ہُرَیْرَۃَ کَفِّنُونِی فِی ثَلاَثَۃِ أَثْوَابٍ لُفُّونِی فِیہَا لَفًّا۔
(١١١٦٥) حضرت ابوہریرہ ارشاد فرماتے ہیں کہ مجھے تین کپڑوں میں کفن دینا اور ان کو میرے اوپر لپیٹ دینا۔

11165

(۱۱۱۶۶) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ حَبِیبٍ ، عَنْ عَمْرٍو بن ہرم ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : سُئِلَ جَابِرُ بْنُ زَیْدٍ ، عَنِ الْمَیِّتِ کَمْ یَکْفِیہ مِنَ الْکَفَنِ ، قَالَ : کَانَ ابْنُ عَبَّاسٍ یَقُولُ ثَوْبٌ ، أَوْ ثَلاَثَۃُ أَثْوَابٍ ، أَوْ خَمْسَۃُ أَثْوَابٍ۔
(١١١٦٦) حضرت عمرو بن ھرم فرماتے ہیں کہ حضرت جابر بن زید سے دریافت کیا گیا کہ میت کو کتنے کپڑوں میں کفن دیا جائے گا ؟ آپ نے فرمایا کہ حضرت عبداللہ بن عباس فرماتے ہیں ایک کپڑے میں، تین کپڑوں میں یا پانچ کپڑوں میں (سب جائز ہیں) ۔

11166

(۱۱۱۶۷) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ ، عَنِ الْوَلِیدِ بْنِ جُمَیْعٍ ، عَنْ أَبِی الطُّفَیْلِ ، عَنْ حُذَیْفَۃَ ، قَالَ کَفِّنُونِی فِی ثَوْبَیَّ ہَذَیْنِ فِی ثَوْبَین کَانَا عَلَیْہِ خَلَقَیْنِ۔
(١١١٦٧) حضرت حذیفہ فرماتے ہیں کہ مجھے ان دو کپڑوں میں کفن دینا وہ دو کپڑے جو انھوں نے پہنے ہوئے تھے۔

11167

(۱۱۱۶۸) حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ خَالِدٍ ، عَنْ مَالِکِ بْنِ أَنَسٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ حُمَیْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍوَ قَالَ یُکَفَّنُ الْمَیِّتُ فِی ثَلاَثَۃِ أَثْوَابٍ قَمِیصٍ وَإِزَارٍ وَلِفَافَۃٍ۔
(١١١٦٨) حضرت عبداللہ بن عمرو ارشاد فرماتے ہیں کہ میت کو تین کپڑوں میں کفن دیا جائے گا، قمیص، ازار اور لفافہ۔

11168

(۱۱۱۶۹) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنْ نَافِعٍ ؛ أَنَّ وَاقِدَ بْنَ عَبْدِ اللہِ تُوُفِّیَ فَکَفَّنَہُ ابْنُ عُمَرَ فِی خَمْسَۃِ أَثْوَابٍ قَمِیصًا وَإِزَارًا وَثَلاَثَۃَ لَفَائِفَ وَعِمَامَۃ۔
(١١١٦٩) حضرت نافع ہیں کہ واقد بن عبداللہ کا انتقال ہوا تو حضرت عبداللہ بن عمر نے اس کو پانچ کپڑوں میں کفن دیا، ایک قمیص، تین لفافے اور ایک عمامہ۔

11169

(۱۱۱۷۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ کُفِّنَ حَمْزَۃُ فِی ثَوْبٍ۔
(١١١٧٠) حضرت ہشام بن عروہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت حمزہ کو ایک کپڑے میں کفن دیا گیا۔

11170

(۱۱۱۷۱) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَنْ زَائِدَۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِیلٍ ، عَنْ جَابِرٍ ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَفَّنَ حَمْزَۃَ فِی ثَوْبٍ ذَلِکَ الثَّوْبُ نَمِرَۃٌ۔ (ترمذی ۹۹۷۔ احمد ۳/۳۲۹)
(١١١٧١) حضرت جابر ارشاد فرماتے ہیں کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت حمزہ کو ایک کپڑے میں کفن دیا اور وہ کپڑا سفید اور دوسرے رنگوں والا تھا۔

11171

(۱۱۱۷۲) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، أَنَّ صَفِیَّۃَ ذَہَبَتْ یَوْمَ أُحُدٍ بِثَوْبَیْنِ تُرِیدُ أَنْ تُکُفِّنَ فِیہِمَا حَمْزَۃُ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ ، قَالَ وَأَحَدُ الثَّوْبَیْنِ أَوْسَعُ مِنَ الآخَرِ ، قَالَ فَوَجَدَتْ إلَی جَنْبِہِ رَجُلاً مِنَ الأَنْصَارِ فَأَقْرَعَتْ بَیْنَہُمَا فَکَفَّنَتِ الْفَارِعَ أَوْسَعَ الثَّوْبَیْنِ وَالآخَرَ فِی الثَّوْبِ الْبَاقِی۔
(١١١٧٢) حضرت ہشام اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت صفیہ غزوہ احد کے دن دو کپڑے لے کر آئیں تاکہ حضرت حمزہ بن عبد المطلب کو کفن دیں، فرماتے ہیں کہ ایک کپڑا دوسرے سے لمبا تھا، فرماتے ہیں کہ انھوں حضرت حمزہ کے پہلو میں ایک انصاری صحابی کی لاش کو پایا، تو ان دونوں کے درمیان قرعہ ڈالا، اور جو بلند ہوا (جس کا نام نکلا) اس کو لمبے سے کفن دیا اور دوسرے کو باقی رہ جانے والے کپڑے سے۔

11172

(۱۱۱۷۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ عِمْرَانَ ، عَنْ سُوَیْد ، أَنَّ أَبَا بَکْرٍ کُفِّنَ فِی ثَوْبَیْنِ۔
(١١١٧٣) حضرت سوید فرماتے ہیں کہ حضرت ابوبکر صدیق کو دو کپڑوں میں کفن دیا گیا۔

11173

(۱۱۱۷۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ عِمْرَانَ ، عَنْ سُوَیْد ، قَالَ الرَّجُلُ وَالْمَرْأَۃُ یُکَفَّنَانِ فِی ثَوْبَیْنِ۔
(١١١٧٤) حضرت سوید فرماتے ہیں کہ عورت اور مرد دونوں کو دو کپڑوں میں کفن دیا جائے گا۔

11174

(۱۱۱۷۵) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنِ الْجُرَیْرِیِّ ، عَنْ غُنَیْمِ بْنِ قَیْسٍ ، قَالَ : کُنَّا نُکَفِّنُ فِی الثَّوْبَیْنِ وَالثَّلاَثَۃِ وَالأَرْبَعَۃِ۔
(١١١٧٥) حضرت غنیم بن قیس فرماتے ہیں کہ ہم دو ، تین اور چار کپڑوں میں کفن دیا کرتے تھے۔

11175

(۱۱۱۷۶) حَدَّثَنَا ابْنُ حُبَاب ، قَالَ : حدَّثَنِی مُحَمَّدُ بْنُ صَالِحٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِی یَزِیدُ بْنُ زَیْدٍ مَوْلَی أبی أُسَیْدَ ، عَنْ أَبِی أُسَیْدَ ، قَالَ إِنَّا مَعَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَی قَبْرِ حَمْزَۃَ فَمُدَّتِ النَّمِرَۃُ عَلَی رَأْسِہِ فَانْکَشَفَتْ رِجْلاَہُ فَمُدَّتْ عَلَی رِجْلَیْہِ فَانْکَشَفَ رَأْسُہُ ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : ضَعُوہَا عَلَی رَأْسِہِ وَاجْعَلُوا عَلَی رِجْلَیْہِ مِنْ شَجَرِ الْحَرْمَلِ۔ (بخاری ۳۲۲۴۔ ابن سعد ۱۵)
(١١١٧٦) حضرت ابو اسید فرماتے ہیں کہ میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ حضرت حمزہ کی لاش کے پاس موجود تھا، کفن والی چادر (جو سفید اور دوسرے رنگوں والی تھی) کو آپ کی سر کی طرف کھچاحض تو آپ کے پاؤں برہنہ ہوگئے، اور اس کو پاؤں پر کیا گیا تو سر برہنہ ہوگیا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا، اس کفن کو اس کے سر پر ڈال دو اور پاؤں پر اسید نامی بوٹی کے پتے ڈال دو ۔

11176

(۱۱۱۷۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ حَسَّانَ بْنِ إِبْرَاہِیمَ ، عَن أُمَیَّۃَ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ زَیْدٍ ، قَالَ : لاَ یُعَمَّمُ الْمَیِّتُ۔
(١١١٧٧) حضرت جابر بن زید فرماتے ہیں کہ میت کے سر پر کپڑا نہیں باندھا جائے گا (پگڑی کے مثل) ۔

11177

(۱۱۱۷۸) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ شَقِیقٍ ، عَنْ خَبَّابِ بْنِ الأَرَتِّ ، قَالَ ہَاجَرْنَا مَعَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی سَبِیلِ اللہِ نَبْتَغِی وَجْہَ اللہِ تَعَالَی ، فَوَجَبَ أَجْرُنَا عَلَی اللہِ فَمِنَّا مَنْ مَضَی لَمْ یَأْکُلْ مِنْ أَجْرِہِ شَیْئًا مِنْہُمْ مُصْعَبُ بْنُ عُمَیْرٍ قُتِلَ یَوْمَ أُحُدٍ فَلَمْ نَجِدْ لَہُ شَیْئًا یُکَفَّنُ فِیہِ إِلاَّ نَمِرَۃً ، فَکُنَّا إذَا وَضَعْنَاہَا عَلَی رَأْسِہِ خَرَجَتْ رِجْلاَہُ ، فَإِذَا وَضَعْنَاہَا عَلَی رِجْلَیْہِ خَرَجَ رَأْسُہُ ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : ضَعُوہَا مِمَّا یَلِی رَأْسَہُ وَاجْعَلُوا عَلَی رِجْلَیْہِ مِنَ الإِذْخِر وَمِنَّا مَنْ أَیْنَعَتْ لَہُ ثَمَرَۃٌ فَہُوَ یَہْدُبُہَا۔ (بخاری ۱۲۷۶۔ ابوداؤد ۲۸۶۸)
(١١١٧٨) حضرت خباب بن الارت فرماتے ہیں کہ ہم نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ اللہ کی راہ میں اللہ کی رضا کی خاطر نکلے، ہمارا اجر اللہ کے ذمہ ہے، فرماتے ہیں ہم میں سے بعض تو گذر گئے ان کے اجر میں کوئی کمی نہ کی گئی، ان ہی میں حضرت مصعب بن عمیر بھی ہیں جو غزوہ احد میں شریک ہو کر شھید ہوئے، ہمیں کوئی کپڑا نہ ملا جس میں آپ کو کفن دیتے سوائے ایک کپڑے کے، جب اس کو ہم سر کی طرف کرتے تو پاؤں برہنہ ہوجاتے اور پاؤں کی طرف کرتے تو سر برہنہ ہوجاتا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اس کو سر کی جانب رکھ دو اور پاؤں پر ازخر کے پتے رکھ دو ۔ اور فرماتے ہیں کہ ہم میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جن کے پھل لگنے والے ہیں اور وہ ان کو توڑتے ہیں۔

11178

(۱۱۱۷۹) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ أَبِی بَکْرٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، أَنَّہُ أَوْصَی أَنْ یُکَفَّنَ فِی ثَلاَثَۃِ أَثْوَابٍ یُدْرَجُ فِیہَا إدْرَاجًا۔
(١١١٧٩) حضرت عبداللہ بن ابی بکر اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ مجھے والد صاحب نے وصیت فرمائی کہ ان کو تین کپڑوں میں کفن دیا جائے جن کو ایک دوسرے کے اوپر لپیٹا جائے۔

11179

(۱۱۱۸۰) حَدَّثَنَا أَبُوالأَحْوَصِِ، عَنْ مُغِیرَۃَ، عَنْ إبْرَاہِیمَ، قَالَ یُکَفَّنُ الرَّجُلُ فِی ثَلاَثَۃِ أَثْوَابٍ الْقَمِیصِ وَالإِزَارِ وَاللِّفَافَۃِ۔
(١١١٨٠) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ مرد کو تین کپڑوں میں کفن دیا جائے گا، قمیص، ازار اور لفافے میں۔

11180

(۱۱۱۸۱) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ الْیَمَانِ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنِ الشَّیْبَانِیِّ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : لاَ یُعَمَّمُ الْمَیِّتُ۔
(١١١٨١) حضرت امام شعبی فرماتے ہیں میت کے سر پر کپڑا نہیں باندھا جائے گا۔

11181

(۱۱۱۸۲) حَدَّثَنَا عُبید اللہِ ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ الأَسْوَد ، عَنْ عَطَائٍ ، قَالَ یُکَفَّنُ الْمَیِّتُ فِی ثَوْبَیْنِ۔
(١١١٨٢) حضرت عطاء فرماتے ہیں کہ میت کو دو کپڑوں میں کفن دیا جائے گا۔

11182

(۱۱۱۸۳) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ ، أَنَّہُ کَانَ یُحِبُّ أَنْ یُکَفَّنَ الْمَیِّتُ فِی قَمِیصٍ لَہُ إِزَارٌ وَکُمَّان مِثْلَ الْحَیِّ۔
(١١١٨٣) حضرت ابن سیرین اس بات کو پسند فرماتے ہیں کہ میت کو قمیص میں کفن دیا جائے جس کے ازار اور آستین زندوں کی طرح ہوں۔

11183

(۱۱۱۸۴) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ حُسَیْنٍ ، قَالَ کُفِّنَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی ثَلاَثَۃِ أَثْوَابٍ أَحَدُہَا بُرْدٌ حِبَرَۃٌ۔ (ابن سعد ۲۸۴)
(١١١٨٤) حضرت علی بن حسین فرماتے ہیں کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تین کپڑوں میں کفن دیا گیا، جن میں سے ایک یمنی چادر تھی۔

11184

(۱۱۱۸۵) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ أَبی سَلَمَۃ ، عَنْ عَائِشَۃَ ؛ أَنَّ رَسُول اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سُجِّیَ فِی بُرْدٍ حِبَرَۃٍ ، فَصُدَّق ذَلِکَ عِنْدَہ قَول علیِّ بن حسین۔ (بخاری ۵۸۱۴۔ مسلم ۴۸)
(١١١٨٥) حضرت عائشہ ارشاد فرماتی ہیں کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایک یمنی چادر میں لپیٹا (کفن) دیا گیا، اس سے ان کے پاس حضرت علی بن حسین کے قول کی تصدیق کی گی۔

11185

(۱۱۱۸۶) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ، قَالَ کُفِّنَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی ثَلاَثَۃِ أَثْوَابٍ أَحَدُہَا بُرْدٌ۔
(١١١٨٦) حضرت سعید بن المسیب ارشاد فرماتے ہیں کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تین کپڑوں میں کفن دیا گیا جن میں سے ایک یمنی چادر تھی۔

11186

(۱۱۱۸۷) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ ، قَالَ إنَّ غَیْرَ وَاحِدٍ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کُفِّنَ فِی ثَوْبٍ وَاحِدٍ۔
(١١١٨٧) حضرت ہشام بن عروہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کئی صحابہ کو ایک ہی کپڑے میں کفن دیا گیا۔

11187

(۱۱۱۸۸) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، أَنَّ حَمْزَۃَ بْنَ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ کُفِّنَ فِی ثَوْبٍ وَاحِدٍ۔
(١١١٨٨) حضرت ہشام اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت حمزہ کو ایک کپڑے میں کفن دیا گیا۔

11188

(۱۱۱۸۹) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ بْنِ أَبِی خَالِدٍ ، عَنِ التَّیْمِیِّ ، عَنْ عَائِشَۃَ ، أَنَّ أَبَا بَکْرٍ ، قَالَ : إذَا مِتُّ فَاغْسِلِی مُلاَء تی ہَاتَیْنِ وَکَفِّنِینِی فِیہِمَا فَإِنَّ الْحَیَّ أَحْوَجُ إلَی الْجَدِیدِ مِنَ الْمَیِّتِ۔
(١١١٨٩) حضرت عائشہ ارشاد فرماتی ہیں کہ حضرت صدیق اکبر کا وقت مرگ قریب آیا تو آپ نے فرمایا : جب مر جاؤں تو ان دونوں کپڑوں کو دھو دینا انہی میں مجھے کفن دینا، بیشک زندہ لوگ نئے کپڑوں کے زیادہ حقدار ہیں۔

11189

(۱۱۱۹۰) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ عَمْرَۃَ ، عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ لاَ یُکَفَّنُ الْمَیِّتُ فِی أَقَلَّ مِنْ ثَلاَثَۃِ أَثْوَابٍ لِمَنْ قَدَرَ۔
(١١١٩٠) حضرت عائشہ ارشاد فرماتی ہیں کہ میت کو جو قادر ہو تین کپڑوں سے کم میں کفن نہیں دیا جائے گا۔

11190

(۱۱۱۹۱) حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ أَبِی الْعَالِیَۃِ ، أَنَّ حَمْزَۃَ کُفِّنَ فِی ثَوْبٍ۔
(١١١٩١) حضرت ابو العالیہ ارشاد فرماتے ہیں کہ حضرت حمزہ کو ایک کپڑے میں کفن دیا گیا۔

11191

(۱۱۱۹۲) حَدَّثَنَا الْمُحَارِبِیُّ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ خَیْثَمَۃَ ، عَنْ سُوَیْد ، قَالَ : لاَ تُکَفِّنُونِی إِلاَّ فِی ثَوْبَیْنِ۔
(١١١٩٢) حضرت سوید فرماتے ہیں کہ مجھے دو کپڑوں میں کفن دینا ۔

11192

(۱۱۱۹۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إیَاسِ بْنِ دَغْفَلٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ قَیْسِ بْن عُبَادٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، أَنَّہُ أَوْصَی کَفِّنُونِی فِی بُرْدَیْ عَصْبٍ وَجَلِّلُوا سَرِیرِی کِسَائِی الأَبْیَضَ الَّذِی کُنْت أُصَلِّی فِیہِ۔
(١١١٩٣) حضرت عبداللہ بن قیس بن عبادہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ ان کو ان کے والد صاحب نے وصیت فرمائی کہ مجھے میری اس چادر میں کفن دینا جو کاتے ہوئے کپڑے کی بنی ہے اور میری چار پائی کو اس سفید کپڑے سے ڈھاپنا جس میں، میں نماز پڑھا کرتا تھا۔

11193

(۱۱۱۹۴) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِی عَدِیٍّ، عَنْ أَشْعَثَ، عَنِ الْحَسَنِ، أَنَّ عُثْمَانَ بْنَ أَبِی الْعَاصِ کُفِّنَ فِی خَمْسَۃِ أَثْوَابٍ۔
(١١١٩٤) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ حضرت عثمان بن ابی العاص کو پانچ کپڑوں میں کفن دیا گیا۔

11194

(۱۱۱۹۵) حَدَّثَنَا سُوَیْد بْنُ عَمْرٍو قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِیلٍ ، عَنِ ابْنِ الْحَنَفِیَّۃِ ، عَنْ عَلِیٍّ ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کُفِّنَ فِی سَبْعَۃِ أَثْوَابٍ۔ (احمد ۱/۱۰۲)
(١١١٩٥) حضرت علی کرم اللہ وجہہ ارشاد فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سات کپڑوں میں کفن دیا گیا۔

11195

(۱۱۱۹۶) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ الثَّقَفِیُّ ، عَنْ مُحَمَّدٍ ، أَنَّہُ کَانَ یَقُولُ تُکَفَّنُ الْمَرْأَۃُ الَّتِی قد حَاضَتْ فِی خَمْسَۃِ أَثْوَابٍ ، أَوْ ثَلاَثَۃٍ۔
(١١١٩٦) حضرت محمد فرماتے ہیں کہ وہ عورت جس کو حیض آتا ہو اس کو پانچ یا تین کپڑوں میں کفن دیا جائے گا۔

11196

(۱۱۱۹۷) حَدَّثَنَا حُمَیْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ حَسَنٍ ، عَنْ عِیسَی بْنِ أَبِی عَزَّۃَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ تُکَفَّنُ الْمَرْأَۃُ فِی خَمْسَۃِ أَثْوَابٍ فِی دِرْعٍ وَخِمَارٍ وَلِفَافَۃٍ وَمِنْطَقٍ وَخِرْقَۃٍ تَکُونُ عَلَی بَطَنِہَا۔
(١١١٩٧) حضرت امام شعبی ارشاد فرماتے ہیں کہ عورت کو پانچ کپڑوں میں کفن دیں گے، قمیص میں، دوپٹے میں، لفافہ (چادر) میں، ٹپکا یا پٹی میں اور خرقہ (پرانے سے کپڑے) میں جو اس کے پیٹ پر ہوگا۔

11197

(۱۱۱۹۸) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ تُکَفَّنُ الْمَرْأَۃُ فِی خَمْسَۃِ أَثْوَابٍ دِرْعٍ وَخِمَارٍ وَحِقْوٍ وَلِفَافَتَیْنِ۔
(١١١٩٨) حضرت حسن ارشاد فرماتے ہیں کہ عورت کو پانچ کپڑوں میں کفن دیں گے، قمیص، دوپٹہ اور ازار بند اور دو چادریں۔

11198

(۱۱۱۹۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ ثَوْرٍ ، عَنْ رَاشِدِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ عُمَرَ ، قَالَ تُکَفَّنُ الْمَرْأَۃُ فِی خَمْسَۃِ أَثْوَابٍ۔
(٩٩ ١١١) حضرت عمر ارشاد فرماتے ہیں کہ عورت کو پانچ کپڑوں میں کفن دیں گے۔

11199

(۱۱۲۰۰) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِِ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : تُکَفَّنُ الْمَرْأَۃُ فِی خَمْسَۃِ أَثْوَابٍ فِی الْمِنْطَقِ ، وَفِی الدِّرْعِ ، وَفِی الْخِمَارِ ، وَفِی اللِّفَافَۃِ وَالْخِرْقَۃِ الَّتِی تُشَدُّ عَلَیْہَا۔
(١١٢٠٠) حضرت ابراہیم ارشاد فرماتے ہیں کہ عورت کو پانچ کپڑوں میں کفن دیں گے، ٹپکا، قمیص، چادر اور خرقہ اور لفافہ میں جس کو اس پر باندھ دیا جائے گا۔

11200

(۱۱۲۰۱) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ ، قَالَ تُکَفَّنُ الْمَرْأَۃُ فِی خَمْسَۃِ أَثْوَابٍ فِی الدِّرْعِ وَالْخِمَارِ وَالرِّدَائِ وَالإِزَارِ وَالْخِرْقَۃِ۔
(١١٢٠١) حضرت ابن سیرین ارشاد فرماتے ہیں کہ عورت کو پانچ کپڑوں میں کفن دیں گے اور وہ پانچ کپڑے یہ ہیں، قمیص، دوپٹہ، چادر، ازار اور خرقہ۔

11201

(۱۱۲۰۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ عِمْرَانَ ، عَنْ سُوَیْد ، قَالَ الْمَرْأَۃُ وَالرَّجُلُ یُکَفَّنَانِ فِی ثَوْبَیْنِ۔
(١١٢٠٢) حضرت سوید ارشاد فرماتے ہیں کہ عورت اور مرد دونوں کو دو کپڑوں میں کفن دیں گے۔

11202

(۱۱۲۰۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ تُکَفَّنُ الْمَرْأَۃُ فِی دِرْعٍ وَخِمَارٍ وَلِفَافَۃٍ وَإِزَارٍ وَخِرْقَۃٍ۔
(١١٢٠٣) حضرت ابراہیم ارشاد فرماتے ہیں کہ عورت کو قمیص، دو پٹہ چادر، ازار اور خرقہ میں کفن دیں گے۔

11203

(۱۱۲۰۴) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ، عَنْ أَشْعَثَ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ، قَالَ تُوضَعُ الْخِرْقَۃُ عَلَی بَطْنِہَا وَتُعَصِّبُ بِہَا فَخِذَیْہَا۔
(١١٢٠٤) حضرت ابن سیرین فرماتے ہیں کہ خرقہ کو عورت کے پیٹ پر رکھیں گے اور اس کو عورت کی رانوں کے گرد ڈالیں گے۔

11204

(۱۱۲۰۵) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ فِی الْخِرْقَۃِ الْخَامِسَۃِ تَلُفُّ بِہَا الْفَخِذَیْنِ تَحْتَ الدِّرْعِ۔
(١١٢٠٥) حضرت ابن سیرین ارشاد فرماتے ہیں کہ پانچویں کپڑے سے عورت کی رانوں کو لپیٹیں گے چادر کے نیچے سے۔

11205

(۱۱۲۰۶) حَدَّثَنَا حُمَیْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ عِیسَی بْنِ أَبِی عَزَّۃَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ وَخِرْقَۃٌ تَکُونُ عَلَی بَطْنِہَا۔
(١١٢٠٦) حضرت امام شعبی فرماتے ہیں کہ خرقہ کو عورت کے پیٹ پر ڈالیں گے۔

11206

(۱۱۲۰۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ تُشَدُّ الْخِرْقَۃُ فَوْقَ الثِّیَابِ۔
(١١٢٠٧) حضرت ابراہیم ارشاد فرماتے ہیں کہ خرقہ کو کپڑوں کے اوپر سے باندھ دیں گے۔

11207

(۱۱۲۰۸) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ دَاوُدَ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ، قَالَ یُکَفَّنُ الصَّبِیُّ فِی خِرْقَۃٍ۔
(١١٢٠٨) حضرت سعید بن مسیب ارشاد فرماتے ہیں کہ بچے کو خرقہ میں کفن دیں گے۔

11208

(۱۱۲۰۹) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ یُکَفَّنُ الْفَطِیمُ وَالرَّضِیعُ فِی الْخِرْقَۃِ ، فَإِنْ کَانَ فَوْقَ ذَلِکَ کُفِّنَ فِی قَمِیصٍ وَخِرْقَتَیْنِ۔
(١١٢٠٩) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ دودھ پیتے بچے کو اور دودھ چھڑوائے ہوئے بچے کو خرقہ میں کفن دیں گے، اور اگر اس سے بڑا ہو تو اس کو قمیص اور دو خرقوں میں کفن دیں گے۔

11209

(۱۱۲۱۰) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ الثَّقَفِیُّ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنْ مُحَمَّدٍ فِی السِّقْطِ ، قَالَ إِنْ شَائَ کَفَّنَہُ فِی ثَلاَثَۃِ أَثْوَابٍ۔
(١١٢١٠) حضرت محمد ارشاد فرماتے ہیں کہ جنین کو اگر چاہے تو تین کپڑوں میں کفن دیں گے۔

11210

(۱۱۲۱۱) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنْ مُحَمَّدٍ ، قَالَ یُکَفَّنُ فِیمَا تَیَسَّرَ۔
(١١٢١١) حضرت محمد ارشاد فرماتے ہیں کہ جو (کپڑا) میسر ہو اس سے کفن دیں گے۔

11211

(۱۱۲۱۲) حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ عَیَّاشٍ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ عَطَائٍ ، قَالَ یُکَفَّنُ الصَّبِیُّ فِی خِرْقَۃٍ ، وَإِنْ کَانَ قَدْ سَعَی۔
(١١٢١٢) حضرت عطائ ارشاد فرماتے ہیں بچے کو خرقہ میں کفن دیں گے اگرچہ وہ کوشش کرچکا ہو۔ (حرکت) ۔

11212

(۱۱۲۱۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، عَنْ سُفْیَانَ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ فُضَیْلٍ، عَنْ إبْرَاہِیمَ، قَالَ یُکَفَّنُ السِّقْطُ فِی خِرْقَۃٍ۔
(١١٢١٣) حضرت ابراہیم ارشاد فرماتے ہیں کہ جنین کو خرقہ میں کفن دیں گے۔

11213

(۱۱۲۱۴) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ حَمَّادٍ ، قَالَ یُکَفَّنُ الصَّبِیُّ فِی ثَوْبٍ۔
(١١٢١٤) حضرت حماد ارشاد فرماتے ہیں بچے کو (کسی بھی) کپڑے میں کفن دیں گے۔

11214

(۱۱۲۱۵) حَدَّثَنَا حُمَیْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ عُبَیْدَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ یُکَفَّنُ الصَّبِیُّ فِی خِمَارٍ یُجْعَلُ مِنْہُ قَمِیصٌ وَلِفَافَۃٌ۔
(١١٢١٥) حضرت ابراہیم ارشاد فرماتے ہیں کہ بچے کو اوڑھنی میں کفن دیں گے اس سے قمیص اور لفافہ بنائیں گے۔

11215

(۱۱۲۱۶) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ عُثْمَانَ ، قَالَ : سَأَلْتُ الْحَسَنَ عَنِ الْجَارِیَۃِ إذَا مَاتَتْ ہَلْ تُخَمَّرُ وَلَمْ تَحِضْ ؟ قَالَ : لاَ وَلَکِنْ تُکَفَّنُ فِی ثَلاَثَۃِ أَثْوَابٍ۔
(١١٢١٦) حضرت عثمان فرماتے ہیں کہ حضرت حسن سے دریافت کیا گیا بچی جب مرجائے تو کیا اس کو اوڑھنی میں کفن دیا جائے گا جب کہ اس کو حیض نہ آیا ہو ابھی تک ؟ آپ نے فرمایا نہیں، بلکہ اس کو تین کپڑوں میں کفن دیں گے۔

11216

(۱۱۲۱۷) حَدَّثَنَا الثَّقَفِیُّ ، عَنْ أَیُّوبَ ، قَالَ مَاتَتِ ابْنَۃٌ لأَنَسِ بْنِ سِیرِینَ قَدْ أَعْصَرَتْ فَأَمَرَہُمَ ابْنُ سِیرِینَ أَنْ یُکَفِّنُوہَا فِی خُمُرٍ وَلِفَافَتَیْنِ۔
(١١٢١٧) حضرت ایوب فرماتے ہیں کہ انس بن سیرین کی بیٹی فوت ہوگئی جس کو پہلا حیض آچکا تھا، حضرت ابن سیرین نے حکم دیا کہ اس کو ایک قمیص میں جس کی آستین نہ ہو اور دو لفافوں میں کفن دو ۔

11217

(۱۱۲۱۸) حَدَّثَنَا عُبَیْدُاللہِ بْنُ مُوسَی، قَالَ: أَخْبَرَنَا إسْرَائِیلُ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ الْمُخْتَارِ، عَنِ الْحَسَنِ ؛ فِی الْجَارِیَۃِ الَّتِی لَمْ تَبْلُغْ ، قَالَ تُکَفَّنُ فِی ثَوْبٍ وَاحِدٍ۔
(١١٢١٨) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ جو بچی ابھی تک بالغہ نہ ہوئی اگر وہ فوت ہوجائے تو اس کو ایک کپڑے میں کفن دیں گے۔

11218

(۱۱۲۱۹) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، قَالَ : سَأَلْتُ أَمُّ عَبْدِ الْحُمَیْدِ ابْنَۃَ سِیرِینَ ہَلْ رَأَیْت حَفْصَۃَ إذَا غُسَّلَتْ کَیْفَ تُصْنَعُ بِخِمَارِ الْمَرْأَۃِ قَالَتْ نَعَمْ کَانَتْ تُخَمَّرُہَا کَمَا تُخَمَّرُ الْحَیَّۃُ ، ثُمَّ تُفْضَلُ مِنَ الْخِمَارِ قدْرٰ ذِرَاعٍ فَتَفْرِشُہُ فِی مُؤَخِّرِہَا ، ثُمَّ تَعْطِفُ تِلْکَ الْفَضْلَۃَ فَتُغَطِّی بِہَا وَجْہَہَا۔
(١١٢١٩) حضرت ہشام سے مروی ہے کہ حضرت ام حمید نے بنت سیرین سے دریافت فرمایا : جب حضرت حفصہ کو غسل دیا گیا آپ نے دیکھا تھا کہ ان کو اوڑھنی کس طرح اوڑھائی گئی تھی ؟ آپ نے فرمایا ہاں، ان کو اوڑھنی اس طرح اوڑھائی گئی تھی جس طرح زندہ کو اوڑھائی جاتی ہے، پھر ایک ذراع کی بقدر بچی ہوئی او ڑھنی کو پچھلی جانب بچھا دیا، پھر اس بچے ہوئے حصہ کو پھیرا اور اس سے ان کے چہرہ کو ڈھانپ دیا۔

11219

(۱۱۲۲۰) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، قَالَ : کَانَ الْحَسَنُ یَقُولُ فِی الْمَیِّتِ تُوضَعُ الْعِمَامَۃُ وَسَطَ رَأْسِہِ ، ثُمَّ یُخَالَفُ بَیْنَ طَرَفَیْہَا ہَکَذَا عَلَی جَسَدِہِ ، قَالَ : وَقَالَ ابْنُ سِیرِینَ : یُعَمَّمُ کَمَا یُعَمَّمُ الْحَیُّ۔
(١١٢٢٠) حضرت حسن میت کے بارے میں فرماتے ہیں کہ عمامہ کو میت کے سر کے درمیان رکھیں گے اور پھر اس کو اس کے جسم پر پیچھے کی طرف اس طرح دونوں طرف پھیریں گے، اور حضرت ابن سیرین ارشاد فرماتے ہیں کہ میت کو اسی طرح عمامہ (سر باندھے گے) دیں گے جس طرح زندہ کا باندھا جاتا ہے۔

11220

(۱۱۲۲۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، عَنْ سُفْیَانَ، عَنْ إبْرَاہِیمَ بْنِ الْمُہَاجِرِ، عَنْ إبْرَاہِیمَ، قَالَ تُجَمَّرُ ثِیَابُہُ قَبْلَ أَنْ یُلْبِسہَا إیَّاہُ۔
(١١٢٢١) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ میت کے کپڑوں دھونی دیں گے اس کو کفن دینے سے پہلے۔

11221

(۱۱۲۲۲) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : تُجَمَّرُ ثِیَابُ الْمَیِّتِ عَلَی مِشْجَبٍ ، أَوْ قَصَْبَاتٍ، قَالَ وَکَانَ مُحَمَّدٌ یَرَی ذَلِکَ إِنْ فَعَلُوا فَہُوَ حَسَنٌ وَأَحَبُّ إلَیَّ أَنْ تُجَمَّرُ وَہِیَ عَلَیْہِ بَعْدَ مَا یَلْبَسُ فَہُوَ أَبْقَی لِرِیحِہَا۔
(١١٢٢٢) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ میت کے کپڑوں کو (کفن) ہینگر وغیرہ پر لٹکا کر دھونی دیں گے، اور حضرت محمد فرماتے ہیں کہ اگر وہ اس طرح کریں تو اچھا ہے، اور مجھے یہ پسند ہے کہ اس کو کفن پہنانے کے بعد اس کے کپڑوں کو دھونی دی جائے تاکہ اس کی خوشبو باقی رہے۔

11222

(۱۱۲۲۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إسْرَائِیلَ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ حَفْصٍ ، قَالَ : لاَ تُجَمَّرُ مِنَ الْمَیِّتِ إِلاَّ ثِیَابُہُ۔
(١١٢٢٣) حضرت حفص ارشاد فرماتے ہیں کہ میت کے صرف کپڑوں کو دھونی دیں گے۔

11223

(۱۱۲۲۴) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنْ فَاطِمَۃَ ، عَنْ أَسْمَائَ ، أَنَّہَا قَالَتْ عِنْدَ مَوْتِہَا إذَا أَنَا مِتُّ فَاغْسِلُونِی وَکَفِّنُونِی وَأَجْمِرُوا ثِیَابِی۔
(١١٢٢٤) حضرت فاطمہ فرماتی ہیں کہ حضرت اسمائ کا جب آخری وقت آیا تو آپ نے فرمایا : جب میں مر جاؤں تو مجھے غسل دینا اور پھر مجھے کفن پہنانا اور پھر میرے کپڑوں کو دھونی دینا۔

11224

(۱۱۲۲۵) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ إدْرِیسَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ تُجَمَّرُ ثِیَابُہُ ثَلاَثًا۔
(١١٢٢٥) حضرت ابراہیم ارشاد فرماتے ہیں کہ میت کے کپڑوں کو طاق بار دھونی دیں گے۔

11225

(۱۱۲۲۶) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عُبَیْدِ اللہِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ تُجَمَّرُ ثِیَابُہُ وِتْرًا۔
(١١٢٢٦) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ میت کے کپڑوں کو طاق عدد میں دھونی دیں گے۔

11226

(۱۱۲۲۷) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، وَابْنِ سِیرِینَ أَنَّہُمَا کَانَا یُجَمِّرَانِ ثِیَابَ الْمَیِّتِ وِتْرًا۔
(١١٢٢٧) حضرت حسن اور حضرت ابن سیرین ارشاد فرماتے ہیں میت کے کپڑوں کو طاق بار دھونی دیں گے۔

11227

(۱۱۲۲۸) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، وَعَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ تُجَمَّرُ ثِیَابُ الْمَیِّتِ وِتْرًا ، إِلاَّ أَنَّ ابْنَ مُسْہِرٍ ، قَالَ : مَا شِئْت۔
(١١٢٢٨) حضرت امام شعبی ارشاد فرماتے ہیں کہ میت کے کفن کو طاق بار دھونی دیں گے، جب کہ حضرت ابن مسھر ارشاد فرماتے ہیں کہ جتنی بار آپ چاہو دھونی دے سکتے ہو۔

11228

(۱۱۲۲۹) حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّیَالِسِیُّ ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَۃَ ، عَنْ حُمَیْدٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : یُجَمَّرُ الْمَیِّتُ وِتْرًا۔
(١١٢٢٩) حضرت ابوہریرہ ارشاد فرماتے ہیں کہ میت کے کفن کو طاق بار دھونی دی جائے گی۔

11229

(۱۱۲۳۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ حَمَّادٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : کَانَ أَصْحَابُ عَبْدِ اللہِ یَقُولُونَ غَسْلُہُ وِتْرًا وتُجْمِیْرُ ثِیَابِہٖ۔
(١١٢٣٠) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ کے اصحاب فرماتے ہیں میت کو طاق بار غسل دیں گے، اور اس کے کپڑوں کو طاق بار دھونی دیں گے۔

11230

(۱۱۲۳۱) حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ ، عَنْ أَبِی حُرَّۃَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ تَجْمِیرُ الْمَیِّت وِتْرٌ۔
(١١٢٣١) حضرت حسن ارشاد فرماتے ہیں میت کو طاق بار دھونی دیں گے۔

11231

(۱۱۲۳۲) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ آدَمَ ، قَالَ : حدَّثَنَا قُطْبَۃُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیزِ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِی سُفْیَانَ ، عَنْ جَابِرٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إذَا أَجْمَرْتُمَ الْمَیِّتَ فَأَجْمِرُوہُ ثَلاَثًا۔(احمد ۳۳۱۔ ابویعلی ۲۳۰۰)
(١١٢٣٢) حضرت جابر سے مروی ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جب تم میت کو دھونی دو تو اس کو تین بار دھونی دو ۔

11232

(۱۱۲۳۳) حَدَّثَنَا سَہْل بْنُ یُوسُفَ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، أَنَّ مُحَمَّدًا کَانَ یُعْجِبُہُ الْکَفَنُ الصَّفِیقُ۔
(١١٢٣٣) حضرت ابن عون ارشاد فرماتے ہیں کہ حضرت محمد اس بات کو پسند فرماتے تھے کہ کفن موٹے کپڑے کا ہو۔

11233

(۱۱۲۳۴) حَدَّثَنَا أَبُو حَیَّانَ ، عَنْ جَعْفَرٍ ، عَنْ مَیْمُونٍ ، قَالَ : کَانُوا یَسْتَحِبُّونَ أَنْ تُکَفَّنَ الْمَرْأَۃُ فِی غِلاَظِ الثِّیَابِ۔
(١٣١٣٤) حضرت میمون سے مروی ہے کہ صحابہ کرام اس بات کو پسند فرماتے تھے کہ عورت کا کفن موٹے کپڑے کا ہو۔

11234

(۱۱۲۳۵) حَدَّثَنَا عَبْدُ السَّلاَمِ بْنُ حَرْبٍ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ الْحَسَنِ وَمُحَمَّدٍ ، أَنَّہُ کَانَ یُعْجِبُہُمَا أَنْ یَکُونَ الْکَفَنُ کَتَّانًا۔
(١١٢٣٥) حضرت ہشام سے مروی ہے کہ حضرت حسن اور حضرت محمد کتان اور السی کے کپڑے کا کفن پسند کرتے تھے۔

11235

(۱۱۲۳۶) حَدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنْ أَبِی قِلاَبَۃَ ، عَنْ سَمُرَۃََ بْنِ جُنْدُبٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَیْکُمْ بِالثِّیَابِ الْبَیَاضِ فَلْیَلْبَسْہَا أَحْیَاؤُکُمْ وَکَفِّنُوا فِیہَا مَوْتَاکُمْ۔ (نسائی ۹۶۴۳۔ عبدالرزاق ۶۲۹۸)
(١١٢٣٦) حضرت سمرہ بن جندب سے مروی ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : تم سفید کپڑوں کو اپنے اوپر لازم کرو، تمہارے زندہ اس کو پہنیں اور اپنے مردوں کو اس میں کفن دو ۔

11236

(۱۱۲۳۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ حَبِیبِ بْنِ أَبِی ثَابِتٍ ، عَنْ مَیْمُونِ بْنِ أَبِی شَبِیبٍ ، عَنْ سَمُرَۃََ بْنِ جُنْدُبٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : الْبَسُوا الثِّیَابَ الْبِیضَ وَکَفِّنُوا فِیہَا مَوْتَاکُمْ۔ (ترمذی ۲۸۱۰۔ حاکم ۳۵۴)
(١١٢٣٧) حضرت سمرہ بن جندب سے مروی ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : سفید کپڑے پہنا کرو، اور اپنے مردوں کو اس میں کفن دیا کرو۔

11237

(۱۱۲۳۸) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ آدَمَ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنِ ابْنِ خُثَیْمٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : خَیْرُ ثِیَابِکُمَ الْبَیَاضُ۔ (ابوداؤد ۳۸۷۴۔ احمد ۱/۲۴۷)
(١١٢٣٨) حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : تمہارے بہترین کپڑوں میں سفید کپڑا ہے۔

11238

(۱۱۲۳۹) حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ مُعَاذٍ ، عَنِ أَشْعَثَ ، عَنِ الْحَسَنِ وَمُحَمَّدٍ أَنَّہُمَا قَالاَ : لاَ بَأْسَ أَنْ یُکَفَّنَ الرَّجُلُ فِی الثَّوْبِ الْہَرَوِیِّ۔
(١١٢٣٩) حضرت حسن اور حضرت محمد ارشاد فرماتے ہیں کہ مرد کو ہر وی کپڑے میں (زردی مائل) کفن دینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

11239

(۱۱۲۴۰) حَدَّثَنَا شَبَابَۃُ بْنُ سَوَّارٍ ، عَنِ ابْنِ أَبِی ذِئْبٍ ، عَنِ الْوَلِیدِ بْنِ عَمْرٍو ، عَنْ أَبِی الْحُوَیْرِثِ ، أَنَّ امْرَأَۃً عَرُوسًا دَخَلَتْ عَلَی زَوْجِہَا وَعَلَیْہَا ثِیَابٌ مُعَصْفَرَۃٌ فَمَاتَتْ حِینَ أُدْخِلَتْ عَلَیْہِ فَسُئِلَتْ عَائِشَۃُ ، فَقَالَتِ ادْفِنُوہَا فِی ثِیَابِہَا الَّتِی کَانَتْ عَلَیْہَا۔
(١١٢٤٠) حضرت ابوالحویرث سے مروی ہے کہ ایک عورت کی شادی ہوئی تو وہ زردی مائل کپڑے پہن کر شوہر کے پاس آئی اور وہ اس دن انتقال کرگئی۔ حضرت عائشہ سے اس کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا : جو کپڑے اس نے پہن رکھے ہیں اس کو اسی میں دفن کردو۔

11240

(۱۱۲۴۱) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ ، عَنْ جَابِرٍ یَرْفَعُہُ ، قَالَ : إذَا مَاتَ أَحَدُکُمْ فَلْیُحْسَنْ کَفَنُہُ ، قَالَ : فَإِنْ لَمْ یَجِدْ فَلْیُکَفِّنْہُ فِی بُرْدَیْ حِبَرَۃٍ۔ (مسلم ۴۹۔ احمد ۳/۳۲۹)
(١١٢٤١) حضرت جابر سے مرفوعا مروی ہے کہ جب تم میں سے کوئی شخص فوت ہوجائے تو اس کو اچھا (زیب وزینت والا) کفن دو ، اور اگر تم اس کو نہ پاؤ تو اس کو یمنی چادر میں ہی کفن دیدو۔

11241

(۱۱۲۴۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ أَبِی الْعُمَیْسِ ، عَنْ حَبِیبِ بْنِ أَبِی ثَابِتٍ ، عَنْ خُثَیْمِ بْنِ عَمْرٍو ، أَنَّ عَبْدَ اللہِ بْنَ مَسْعُودٍ أَوْصَی أَنْ یُکَفَّنَ فِی حُلَّۃٍ ثَمَنُہَا ثمن مِائتَی دِرْہَمٍ۔
(١١٢٤٢) حضرت خیثم بن عمرو فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود نے وصیت فرمائی تھی کہ ان کو عمدہ پوشاک میں کفن دیا جائے جس کی قیمت دو سو درھم ہو۔

11242

(۱۱۲۴۳) حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ مُفَضَّلٍ ، عَنْ سَلَمَۃَ بْنِ عَلْقَمَۃَ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ ، قَالَ : کَانَ یُحِبُّ حُسْنَ الْکَفَنِ وَیُقَالُ إنَّہُمْ یَتَزَاوَرُونَ فِی أَکْفَانِہِمْ۔
(١١٢٤٣) حضرت ابن سیرین اس بات کو پسند فرماتے تھے کہ کفن اچھا اور عمدہ ہو۔ اور فرماتے ہیں کہ بیشک وہ اپنے کفنوں میں ملاقات کرتے ہیں۔

11243

(۱۱۲۴۴) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ الْحُبَابِ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا مُعَاوِیَۃُ بْنُ صَالِحٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا سَعِیدُ بْنُ ہَانِئٍ ، عَنْ عُمَیْرِ بْنِ الأَسْوَد السَّکُونِیِّ ، أَنَّ مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ أَوْصَی بامْرَأَتِہِ وَخَرَجَ فَمَاتَتْ وَکَفَّنَّاہَا فِی ثِیَابٍ لَہَا خُلْقَانٍ فَقَدِمَ وقد رَفَعْنَا أَیْدِیَنَا عَنْ قَبْرِہَا سَاعَتَئذ ، فَقَالَ : فِیمَا کَفَّنْتُمُوہَا قُلْنَا فِی ثِیَابِہَا الْخُلْقَانِ فَنَبَشَہَا وَکَفَّنَہَا فِی ثِیَابٍ جُدُدٍ ، وَقَالَ أَحْسِنُوا أَکْفَانَ مَوْتَاکُمْ ، فَإِنَّہُمْ یُحْشَرُونَ فِیہَا۔
(١١٢٤٤) حضرت عمیر بن اسود السکونی سے مروی ہے کہ حضرت معاذ بن جبل نے اپنی اہلیہ کو وصیت فرمائی اور چلے گئے، ان کی اہلیہ انتقال کرگئی تو ان کو پرانے کپڑوں میں کفن دیا، اور جس وقت ہم نے ان کو دفن کرنے کے لیے ان کو ہاتھوں پر اٹھا رکھا تھا آپ حاضر ہوئے اور پوچھا کس کپڑے میں اس کو کفن دیا ہے ؟ ہم نے عرض کیا پرانے کپڑوں میں، تو آپ نے اس کو کھولا اور نئے کپڑوں میں کفن دیا اور فرمایا : اپنے مردوں کو اچھا اور عمدہ کفن دو بیشک وہ اس میں جمع کئے جائیں گے۔

11244

(۱۱۲۴۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ بَشِیرٍ ، عَنْ أَبِی یَعْلَی ، عَنِ ابْنِ الْحَنَفِیَّۃِ ، قَالَ لَیْسَ لِلْمَیِّتِ مِنَ الْکَفَنِ شَیْئٌ إنَّمَا ہُوَ تَکْرِمَۃُ الْحَیِّ۔
(١١٢٤٥) حضرت ابن الحنیفہ ارشاد فرماتے ہیں کہ میت کیلئے (عمدہ) کفن میں کچھ نہیں رکھا، یہ تو زندہ کا اکرام ہے۔

11245

(۱۱۲۴۶) حَدَّثَنَا سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنْ عَطَائٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : لاَ تُنَجِّسُوا مَوْتَاکُمْ فَإِنَّ الْمُؤْمِنَ لَیْسَ بِنَجِسٍ حَیًّا ، وَلاَ مَیِّتًا۔
(١١٢٤٦) حضرت ابن عباس ارشاد فرماتے ہیں : اپنے مردوں کو ناپاک مت سمجھو، بیشک مؤمن زندہ اور مردہ حالت میں ناپاک نہیں ہوتا۔

11246

(۱۱۲۴۷) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِِ ، عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ، قَالَ : قُلْتُ لاِبْنِ عُمَرَ أَغْتَسِلُ مِنْ غُسْلِ الْمَیِّتِ ، قَالَ : لاَ۔
(١١٢٤٧) حضرت سعید بن جبیر فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن عمر سے دریافت فرمایا : میت کو غسل دینے والا خود بھی غسل کرے ؟ آپ نے فرمایا : نہیں۔

11247

(۱۱۲۴۸) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ ، عَنْ عَطَائٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : لاَ تُنَجِّسُوا مَیِّتُکُمْ یَعْنِی لَیْسَ عَلَیْہِ غُسْلٌ۔
(١١٢٤٨) حضرت ابن عباس ارشاد فرماتے ہیں کہ اپنے مردوں کو ناپاک مت سمجھو یعنی غاسل پر غسل نہیں ہے۔

11248

(۱۱۲۴۹) حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ الرَّبِیعِ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ، قَالَ غَسَّلَتْ أُمِّی مَیِّتَۃً ، فَقَالَتْ لِی سل ہَلْ عَلَیَّ غُسْلٌ فَأَتَیْت ابْنَ عُمَرَ فَسَأَلْتُہُ ، فَقَالَ : أَنَجِسًا غَسَّلَتْ ؟ ثُمَّ أَتَیْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ فَسَأَلْتُہُ ، فَقَالَ مِثْلَ ذَلِکَ أَنَجِسًا غَسَّلَتْ؟۔
(١١٢٤٩) حضرت سعید بن جبیر فرماتے ہیں کہ میری والدہ محترمہ نے ایک میت کو غسل دینے کے بعد مجھ سے فرمایا : پوچھ کر بتاؤ کیا میرے ذمہ غسل کرنا ہے ؟ میں حضرت عبداللہ بن عمر کے پاس آیا اور آپ سے دریافت فرمایا : آپ نے ارشاد فرمایا : کیا تمہاری والدہ نے کسی ناپاک چیز کو غسل دیا (جو خود غسل کر رہی ہیں) پھر میں حضرت عبداللہ بن عباس کے پاس آیا اور آپ سے دریافت کیا، آپ نے بھی اسی طرح جواب دیا کہ کیا تمہاری والدہ نے ناپاک چیز کو غسل دیا ہے۔

11249

(۱۱۲۵۰) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : سُئِلَ عَبْدُ اللہِ عَنِ الْغُسْلِ مِنْ غُسْلِ الْمَیِّتِ ، فَقَالَ: إِنْ کَانَ صَاحِبُکُمْ نَجِسًا فَاغْتَسِلُوا مِنْہُ۔
(١١٢٥٠) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ سے دریافت کیا گیا کہ میت کو غسل دینے والے پر غسل ہے ؟ آپ نے فرمایا اگر تمہارا صاحب ناپاک ہے تو اس کو غسل دے کر نہالو۔

11250

(۱۱۲۵۱) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ الْقَطَّانُ ، عَنِ الْجَعْدِ ، عَنْ عَائِشَۃَ بِنْتِ سَعْدٍ قَالَتْ أُوذِنَ سَعْدٌ بِجِنَازَۃِ سَعِیدِ بْنِ زَیْدٍ ، وَہُوَ بِالْبَقِیعِ فَجَائَ فَغَسَّلَہُ وَکَفَّنَہُ وَحَنَّطَہُ ، ثُمَّ أَتَی دَارَہٗ فَصَلَّی عَلَیْہِ ، ثُمَّ دَعَا بِمَائٍ فَاغْتَسَلَ ، ثُمَّ قَالَ : إنِّی لَمْ أَغْتَسِلْ مِنْ غُسْلِہِ وَلَوْ کَانَ نَجِسًا مَا غَسَّلْتُہُ وَلَکِنِّی اغْتَسَلْت مِنَ الْحَرِّ۔
(١١٢٥١) حضرت عائشہ بنت سعد فرماتی ہیں کہ حضرت سعد کو حضرت سعید بن زید کے جنازے پر بلایا گیا وہ بقیع کے ساتھ تھے، آپ تشریف لائے اور آپ نے ان کو غسل دیا، کفن پہنایا اور پھر ان کو خوشبو لگائی، پھر آپ تشریف لائے اور ان کی نماز جنازہ پڑھی۔ اور ان کے بعد پانی منگوا کر غسل فرمایا اور ارشاد فرمایا : میں نے اس لیے غسل نہیں کیا کہ میں نے میت کو غسل دیا تھا، اگرچہ جس کو غسل دیا تھا وہ ناپاک ہی کیوں نہ ہو، بلکہ میں تو گرمی کی وجہ سے نہایا ہوں۔

11251

(۱۱۲۵۲) حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ عَطَائٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، وَابْنِ عُمَرَ قَالاَ : لَیْسَ عَلَی غَاسِلِ الْمَیِّتِ غُسْلٌ۔
(١١٢٥٢) حضرت عبداللہ بن عباس اور حضرت عبداللہ بن عمر ارشاد فرماتے ہیں کہ میت کو غسل دینے والے پر غسل نہیں ہے۔

11252

(۱۱۲۵۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ یَزِیدَ الرِّشْکِ ، عَنْ مُعَاذَۃَ ، عَنْ عَائِشَۃَ ، أَنَّہَا سُئِلَتْ عَلَی الَّذِی یُغَسِّلُ الْمُتَوَِفِّینَ غُسْلٌ ؟ قَالَتْ : لاَ۔
(١١٢٥٣) حضرت معاذہ سے مروی ہے کہ حضرت عائشہ سے دریافت کیا گیا کہ مردوں کو نہلانے والے پر غسل ہے ؟ آپ نے فرمایا نہیں۔

11253

(۱۱۲۵۴) حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ مُعَاذٍ ، عَنْ حَبِیبِ بْنِ الشَّہِیدِ ، عَنْ بَکْرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : حدَّثَنِی عَلْقَمَۃُ بْنُ عَبْدِ اللہِ الْمُزَنِیّ ، قَالَ : غَسَّلَ أَبَاک أَرْبَعَۃٌ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَمَا زَادُوا عَلَی أَنْ کَفُّوا أَکْمَامَہُمْ وَأَدْخَلُوا قُمُصَہُمْ فِی حُجَزِہِمْ ، فَلَمَّا فَرَغُوا مِنْ غُسْلِہِ تَوَضَّؤُوا وُضُوئَہُمْ لِلصَّلاَۃِ۔
(١١٢٥٤) حضرت علقمہ بن عبداللہ المذنی فرماتے ہیں کہ میرے والد صاحب کو چار صحابہ کرام نے مرنے کے بعد غسل دیا، پس زیادہ نہیں ہوئے مگر ان کی آستین کھول دیں اور ان کی قمیصوں کو ازار باندھنے کی جگہ ڈال دیں، جب وہ ان کو غسل دے کر فارغ ہوئے تو انھوں نے (صرف) نماز والا وضو کیا (غسل نہیں کیا) ۔

11254

(۱۱۲۵۵) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ ، عَنْ عَوْفٍ ، قَالَ : حدَّثَنِی خُزَاعِیُّ بْنُ زِیَادٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مُغَفَّلٍ ، قَالَ أَوْصَی عَبْدُ اللہِ بْنُ مُغَفَّلٍ أَنْ لاَ یَحْضُرَہُ ابْنُ زِیَادٍ وَأَنْ یَلِیَنِی أَصْحَابِی فَأَرْسَلُوا إلَی عَائِذِ بْنِ عَمْرٍو ، وَأَبِی بَرْزَۃَ وَأُنَاسٍ مِنْ أَصْحَابِہِ فَمَا زَادُوا عَلَی أَنْ کَفُّوا أَکِمَّتَہُم وَجَعَلُوا مَا فَضَلَ منْ قُمُصِہِمْ فِی حُجَزِہِمْ ، فَلَمَّا فَرَغُوا لَمْ یَزِیدُوا عَلَی الْوُضُوئِ۔
(١١٢٥٥) حضرت خذاعی بن زیاد فرماتے ہیں کہ عبداللہ بن مغفل نے وصیت کی کہ میرے انتقال کے وقت ابن زیاد میرے پاس نہ آئے اور یہ کہ میرے ساتھی ہی میرے پاس رہیں، پس لوگوں نے ان کے شاگردوں میں سے عائذ بن عمر وابو برزہ اور دوسرے لوگوں کو بلایا انھوں نے عبداللہ بن مغفل کو غسل دینے کے لیے اپنی آستین چڑھائی اور قمیصوں کو سمیٹا اور جب غسل دینے سے فارغ ہوئے تو صرف وضو کیا۔

11255

(۱۱۲۵۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، أَنَّ ابْنَ عُمَرَ کَفَّنَ مَیِّتًا وَحَنَّطَہُ ، وَلَمْ یَمَسَّ مَائً۔
(١١٢٥٦) حضرت عروہ ارشاد فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمر ایک میت کو کفن پہنایا (غسل دینے کے بعد) اور اس کو خوشبو لگائی۔ پھر (غسل کرنا تو دور کی بات) پانی کو چھوا تک نہیں۔

11256

(۱۱۲۵۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ، قَالَ: کَانُوا یَقُولُونَ إِنْ کَانَ صَاحِبُکُمْ نَجِسًا فَاغْتَسَلُوا مِنْہُ۔
(١١٢٥٧) حضرت ابراہیم سے مروی ہے کہ صحابہ کرام فرماتے تھے اگر تمہارا صاحب ناپاک ہے تو اسے غسل دے کر غسل کرلو۔

11257

(۱۱۲۵۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ بْنِ أَبِی خَالِدٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ إِنْ کَانَ صَاحِبُکُمْ نَجِسًا فَاغْتَسَلُوا مِنْہُ۔
(١١٢٥٨) حضرت امام شعبی فرماتے ہیں کہ اگر مردہ ناپاک ہو تو تم اسے غسل دے کر غسل کرو۔

11258

(۱۱۲۵۹) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ الْعَبْدِیِّ ، عَنْ زَکَرِیَّا ، عَنْ مُصْعَبِ بْنِ شَیْبَۃَ ، عَنْ طَلْقِ بْنِ حَبِیبٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ الزُّبَیْرِ ، أَنَّ عَائِشَۃَ حَدَّثَتْہُ ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : یُغْتَسَلُ مِنْ غُسْلِ الْمَیِّتِ۔
(١١٢٥٩) حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جو میت کو غسل دے وہ غسل کرلے۔

11259

(۱۱۲۶۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ عَبْدِ الْعَزِیزِ ، عَنْ مَکْحُولٍ ، قَالَ : سَأَلَ رَجُلٌ حُذَیْفَۃَ کَیْفَ أَصْنَعُ ، قَالَ اغْسِلْہُ کَیْتَ وَکَیْتَ فَإِذَا فَرَغْت فَاغْتَسِلْ۔
(١١٢٦٠) حضرت مکحول فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے حضرت حذیفہ سے دریافت کیا میں کیسے غسل دوں ؟ آپ نے فرمایا ایسے ایسے اور پھر جب تم غسل دے کر فارغ ہو جاؤ تو خود غسل کرلو۔

11260

(۱۱۲۶۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، عَنْ إسْرَائِیلَ، عَنْ جَابِرٍ، عَنْ عَامِرٍ، عَنِ الْحَارِثِ، عَنْ عَلِیٍّ، قَالَ مَنْ غَسَّلَ مَیِّتًا فَلْیَغْتَسِلْ۔
(١١٢٦١) حضرت علی کرم اللہ وجہہ ارشاد فرماتے ہیں کہ جو میت کو غسل دے اس کو غسل کرلینا چاہیے۔

11261

(۱۱۲۶۲) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ، قَالَ مِنَ السُّنَّۃِ ، مَنْ غَسَّلَ مَیِّتًا اغْتَسَلَ۔
(١١٢٦٢) حضرت سعید بن المسیب ارشاد فرماتے ہیں کہ سنت میں سے یہ بات ہے کہ میت کو غسل دینے والا غسل کرلے۔

11262

(۱۱۲۶۳) حَدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، أَنَّ رَجُلَیْنِ مِنْ أَصْحَابِ عَلِیٍّ وَأَصْحَابِ عَبْدِ اللہِ غَسَّلاَ مَیِّتًا فَاغْتَسَلَ الَّذِی مِنْ أَصْحَابِ عَلِیٍّ وَتَوَضَّأَ الَّذِی مِنْ أَصْحَابِ عَبْدِ اللہِ۔
(١١٢٦٣) حضرت ابو اسحاق فرماتے ہیں کہ حضرت علی اور حضرت عبداللہ کے ساتھیوں میں سے دو شخصوں نے میت کو غسل دیا، پھر حضرت علی کے ساتھیوں نے بعد میں خود غسل کیا لیکن حضرت عبداللہ کے ساتھیوں نے غسل نہ کیا۔

11263

(۱۱۲۶۴) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو ، عَنْ أَبِی سَلَمَۃَ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، أَنَّہُ کَانَ یَقُولُ مَنْ غَسَّلَ مَیِّتًا فَلْیَغْتَسِلْ وَمَنْ حَمَلَہُ فَلْیَتَوَضَّأْ۔
(١١٢٦٤) حضرت ابوہریرہ ارشاد فرماتے ہیں جو میت کو غسل دے وہ بعد میں (خود بھی) غسل کرے اور جو میت کو کندھا دے وہ وضو کرے۔

11264

(۱۱۲۶۵) حَدَّثَنَا شَبَابَۃُ ، عَنِ ابْنِ أَبِی ذِئْبٍ ، عَنْ صَالِحٍ مَوْلَی التَّوْأَمَۃِ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، أَنَّہُ قَالَ : مَنْ غَسَّلَ مَیِّتًا فَلْیَغْتَسِلْ وَمَنْ حَمَلَہُ فَلْیَتَوَضَّأْ۔ (احمد ۴۳۳۔ بیہقی ۳۰۳)
(١١٢٦٥) حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا جو میت کو غسل دے وہ خود غسل کرے اور جو اس کو کندھا دے وہ وضو کرلے۔

11265

(۱۱۲۶۶) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ الثَّقَفِیُّ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنْ أَبِی قِلاَبَۃَ ، أَنَّہُ کَانَ إذَا غَسَّلَ مَیِّتًا اغْتَسَلَ۔
(١١٢٦٦) حضرت ابو قلابہ جب متل کو غسل دیتے تو خود بھی غسل کرلیتے۔

11266

(۱۱۲۶۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ نَاجِیَۃَ بْنِ کَعْبٍ ، عَنْ عَلِیٍّ ، قَالَ لَمَّا مَاتَ أَبُو طَالِبٍ أَتَیْتُ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقُلْت یَا رَسُولَ اللہِ إنَّ عَمَّک الشَّیْخَ الضَّالَّ قَدْ مَاتَ ، قَالَ : فَقَالَ : انْطَلِقْ فَوَارِہِ ، ثُمَّ لاَ تُحْدِثَنَّ شَیْئًا حَتَّی تَأْتِیَنِی ، قَالَ فَوَارَیْتُہُ ، ثُمَّ أَتَیْتُہُ فَأَمَرَنِی فَاغْتَسَلْت ، ثُمَّ دَعَا لِی بِدَعَوَاتٍ مَا یَسُرُّنِی ، أَنَّ لِی بِہِنَّ مَا عَلَی الأَرْضِ مِنْ شَیْئٍ۔ (ابوداؤد ۳۲۰۶۔ احمد ۱/۱۰۳)
(١١٢٦٧) حضرت علی کرم اللہ وجہہ ارشاد فرماتے ہیں کہ جب ابو طالب کا انتقال ہوا تو میں حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا میں نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول ! آپ کا گمراہ اور بوڑھا چچا مرگیا ہے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ان کے پاس جاؤ اور ان کو ڈھانپ دو اور پھر جب تک میرے پاس نہ آ جاؤ کچھ نہ کرنا، چنانچہ میں نے انھیں ڈھانپ دیا اور حاضر خدمت ہوا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حکم دیا انھیں غسل دو اور آپ نے میرے لیے کچھ دعائیں کیں جو میرے نزدیک دنیا کی تمام چیزوں کے مل جانے سے زیادہ قابل حسرت ہیں۔

11267

(۱۱۲۶۸) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ عَبْدِ الْکَرِیمِ ، عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ ، قَالَ مَنْ غَسَّلَ مَیِّتًا فَأَدَّی فِیہِ الأَمَانَۃَ خَرَجَ مِنْ ذُنُوبِہِ کَیَوْمِ وَلَدَتْہُ أُمُّہُ۔
(١١٢٦٨) حضرت معاذ بن جبل فرماتے ہیں جو شخص میت کو غسل دے اور اس امانت کو (احسن طریقے سے) ادا کرے وہ گناہوں سے اس طرح نکلتا ہے جیسے اس کی والدہ نے اس کو اسی دن جناہو۔

11268

(۱۱۲۶۹) حَدَّثَنَا وَکِیعُ بْنُ الْجَرَّاحِ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنْ فَاطِمَۃَ ، عَنْ أَسْمَائَ ، أَنَّہَا أَوْصَتْ أَنْ لاَ یَجْعَلُوا عَلَی کَفَنِی حِنَاطًا۔
(١١٢٦٩) حضرت فاطمہ سے مروی ہے کہ حضرت اسمائ نے وصیت فرمائی کہ میرے کفن پر خوشبو مت لگانا۔

11269

(۱۱۲۷۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ الْعُمَرِیِّ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، أَنَّہُ کَرِہَ الْحَنُوطَ عَلَی النَّعْشِ۔
(١١٢٧٠) حضرت نافع فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمر چارپائی یا تابوت پر خوشبو لگانے کو ناپسند فرماتے تھے۔

11270

(۱۱۲۷۱) حَدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، قَالَ : رَأَیْتُ عَلَی جِنَازَۃِ الْحَارِثِ ذَرِیرَۃً۔
(١١٢٧١) حضرت ابو اسحاق فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت حارث کے جنازہ پر خوشبودار (پاؤڈر) دیکھا۔

11271

(۱۱۲۷۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ طَلْحَۃَ بْنِ یَحْیَی ، عَنْ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِیزِ ، أَنَّہُ کَرِہَ الذَّرِیرَۃَ عَلَی النَّعْشِ۔
(١١٢٧٢) حضرت عمر بن عبد العزیز چارپائی پر خوشبو لگانے کو ناپسند سمجھتے تھے۔

11272

(۱۱۲۷۳) حَدَّثَنَا ہُشَیْمُ بْنُ بَشِیرٍ، عَنِ رَبِیعٍ، عَنِ الْحَسَنِ، وَابْنِ سِیرِینَ أَنَّہُمَا کَرِہَا أَنْ یُجْعَلَ الْحَنُوطُ عَلَی النَّعْشِ۔
(١١٢٧٣) حضرت حسن اور حضرت ابن سیرین چارپائی پر خوشبودار (پاؤڈر) لگانے کو ناپسند سمجھتے تھے۔

11273

(۱۱۲۷۴) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ صَاحِبٍ لَہُ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ مِثْلَہُ۔
(١١٢٧٤) حضرت ابراہیم سے بھی اسی طرح منقول ہے۔

11274

(۱۱۲۷۵) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ سُلَیْمٍ الطَّائِفِیُّ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَطَائٍ ، أَنَّہُ کَانَ یَکْرَہُ الذَّرِیرَۃَ الَّتِی تُجْعَلُ فَوْقَ النَّعْشِ وَیَقُولُ نَفْخٌ فِی الْحَیَاۃِ وَنَفْخٌ فِی الْمَمَاتِ!۔
(١١٢٧٥) حضرت عطائ چارپائی پر خوشبودار پاؤڈر لگانے کو ناپسند سمجھتے تھے اور فرماتے تھے خوشبو ہے زندگی میں، خوشبو ہے مرنے کے بعد بھی ؟

11275

(۱۱۲۷۶) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، أَنَّ أَسْمَائَ بِنْتَ عُمَیْسٍ أَوَّلُ مَنْ أَحْدَثَ النَّعْشَ۔
(١١٢٧٦) حضرت ہشام اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت اسماء بنت عمیس پہلی خاتون ہیں جنہوں نے تابوت (چارپائی) ایجاد کی (متعارف کروائی) ۔

11276

(۱۱۲۷۷) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ قَیْسِ بْنِ مُسلِمٍ ، عَنْ طَارِقِ بْنِ شِہَابٍ ، أَنَّ أُمَّ أَیْمَنَ أَمَرَتْ بِالنَّعْشِ لِلنِّسَائِ۔
(١١٢٧٧) حضرت طارق بن شہاب فرماتے ہیں کہ حضرت ام ایمن نے عورتوں کے لیے تابوت (چارپائی) کا حکم فرمایا۔

11277

(۱۱۲۷۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُدَیْرٍ ، قَالَ مَرُّوا عَلَی أَبِی مِجْلَزٍ بِنَعْشٍ کَبِیرٍ ، فَقَالَ : رَفَعَتِ الْیَہُودُ وَالنَّصَارَی فَخَالِفُوہُمْ۔
(١١٢٧٨) حضرت عمران بن حدیر فرماتے ہیں کہ ہم ابو مجلز کے پاس سے ایک بڑا تابوت (چارپائی) لے کر گذرے تو آپ نے فرمایا : یہود و نصاریٰ نے اس کو بلند کیا، پس تم لوگ ان کی مخالفت کرو۔

11278

(۱۱۲۷۹) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : کَانُوا إذَا کَانَتْ جِنَازَۃُ امْرَأَۃٍ أَکْفَوْا السَّرِیرَ فَجَافُوا عَنْہَا بِقَوَائِمِہِ ، وَإِذَا کَانَ رَجُلٌ وُضِعَ عَلَی بَطْنِ السَّرِیرِ۔
(١١٢٧٩) حضرت ابراہیم فرماتے ہں ن کہ عورت کے جنازے کے تختے کے نیچے پائے لگا کر مرد اپنے اور تختے کے درمیان خلا پیدا کریں گے۔ مرد کے جنازے میں ایسا کرنے کی ضرورت نہیں البتہ اسے تختے کے درمیان میں رکھیں۔

11279

(۱۱۲۸۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ الرَّبِیعِ ، عَنِ الْحَسَنِ ، وَابْنِ سِیرِینَ أَنَّہُمَا کَرِہَا أَنْ یُجَمَّرَ سَرِیرُ الْمَیِّتِ۔
(١١٢٨٠) حضرت حسن اور حضرت ابن سیرین میت کی چارپائی کو دھونی دینے کو ناپسند سمجھتے تھے۔

11280

(۱۱۲۸۱) حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ فُضَیْلٍ ، عَنِ ابْنِ مُفَضَّلٍ ، قَالَ : قَالَ عُمَرُ لاَ تَتْبَعُنِّی بِمِجْمَرٍ۔
(١١٢٨١) حضرت ابن مغفل سے مروی ہے کہ حضرت عمر نے ارشاد فرمایا : میرے جنازے کے ساتھ دھونی دان مت لے کر جانا۔

11281

(۱۱۲۸۲) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ ، عَنِ الْجَعْدِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ بْنِ نَافِعٍ ، قَالَ : قَالَ أَبُو ہُرَیْرَۃَ لاَ تَتْبَعُونِی بِنَارٍ۔
(١١٢٨٢) حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ آگ لے کر (دھونی دان) میرے جنازے کے پیچھے مت آنا۔

11282

(۱۱۲۸۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ بْنِ إسْمَاعِیلَ بْنِ مُجَمِّعٍ ، عَنْ عَمَّتِہِ أُمِّ النُّعْمَانِ بنت مُجَمِّعٍ ، عَنِ ابْنَۃِ أَبِی سَعِیدٍ ، أَنَّ أَبَا سَعِیدٍ ، قَالَ : لاَ تَتْبَعُونِی بِنَارٍ ، وَلاَ تَجْعَلُوا عَلَی سَرِیرِی قَطِیفَۃَ نَصْرَانِیٍّ۔
(١١٢٨٣) حضرت ابو سعید ارشاد فرماتے ہیں کہ میرے جنازے کے پیچھے آگ لیکر مت آنا، اور میری چارپائی پر نصرانی مخمل کی چادر مت ڈالنا۔

11283

(۱۱۲۸۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ ہَارُونَ بن أبی إِبْرَاہِیمَ ، عَن عَبْدِ اللہِ بْنِ عُبَیْدِ بْنِ عُمَیْرٍ ، عَنْ عَائِشَۃَ ، أَنَّہَا أَوْصَتْ أَنْ لاَ تَتْبَعُونِی بِمِجْمَرٍ ، وَلاَ تَجْعَلُوا عَلَیَّ قَطِیفَۃً حَمْرَائَ۔
(١١٢٨٤) حضرت عبداللہ بن عبید بن عمیر سے مروی ہے کہ حضرت عائشہ نے وصیت فرمائی تھی کہ میرے جنازے کے پیچھے دھونی دان لیکر نہ آنا، اور مجھ پر لال مخمل کی چادر مت ڈالنا۔

11284

(۱۱۲۸۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ أَبِی الأَشْہَبِ ، عَنْ بَکْرٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مُغَفَّلٍ أَنَّہُ أَوْصَی أَنْ لاَ تَتْبَعُونِی بِصَوْتٍ ، وَلاَ بنَارٍ وَلاَ تَرْمُونِی بِالْحِجَارَۃِ یَعْنِی الْمَدَرَ الَّذِی یَکُونُ عَلَی شَفِیرِ الْقَبْرِ۔
(١١٢٨٥) حضرت بکر سے مروی ہے کہ حضرت عبداللہ بن مغفل نے وصیت فرمائی تھی کہ میرے جنازے کی اتباع نہ کرنا آواز اور آگ کے ساتھ، اور مجھے پتھر نہ مارنا، یعنی وہ گارا جو کہ قبر کے کناروں پر ہوتا ہے۔

11285

(۱۱۲۸۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ عَبْدِ الأَعْلَی ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ، أَنَّہُ رَأَی مِجْمَرًا فِی جِنَازَۃٍ فَکَسَرَہ ، وَقَالَ سَمِعْت ابْنَ عَبَّاسٍ یَقُولُ لاَ تُشَبَہُوا بِأَہْلِ الْکِتَابِ۔
(١١٢٨٦) حضرت عبد الاعلیٰ فرماتے ہیں کہ حضرت سعید بن جبیر نے ایک جنازہ میں دھونی دان دیکھا تو اس کو توڑ دیا اور فرمایا میں نے حضرت عبداللہ بن عباس سے سنا ہے کہ اھل کتاب کی مشابہت اختیار مت کرو۔

11286

(۱۱۲۸۷) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، وَابْنِ سِیرِینَ أَنَّہُمَا کَرِہَا أَنْ تُتْبَعَ الْجنَازَۃُ بِمِجْمَرٍ۔
(١١٢٨٧) حضرت حسن اور حضرت ابن سیرین جنازہ کے ساتھ دھونی دان لے جانے کو ناپسند سمجھتے تھے۔

11287

(۱۱۲۸۸) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : إذَا أَخْرَجْتہُ فَلاَ تَتْبَعہُ نَارًا۔
(١١٢٨٨) حضرت امام شعبی ارشاد فرماتے ہیں کہ جب تم جنازے کو لے کر نکلو تو اس کے پیچھے آگ لے کر مت چلو۔

11288

(۱۱۲۸۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ حَسَنٍ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، أَنَّہُ کَرِہَ أَنْ یَتْبَعَہُ مُجْمِرٌ۔
(١١٢٨٩) حضرت منصور ارشاد فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم جنازے کے ساتھ دھونی دان لے کر جانے کو ناپسند سمجھتے تھے۔

11289

(۱۱۲۹۰) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، قَالَ غَدَوْنَا عَلَی إبْرَاہِیمَ النَّخَعِیِّ فَأَخْبَرُونَا ، أَنَّہُ مَاتَ وَدُفِنَ مِنَ اللَّیْلَ ، قَالَ فَأَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الأَسْوَد ، أَنَّہُ أَوْصَی أَنْ لاَ تَتْبَعُوا جِنَازَتَہُ بِنَارٍ ، وَلاَ تَجْعَلُوا عَلَیْہِ مِنَ اللَّبِنِ الْعَرْزَمِیِّ الَّذِی یُصْنَعُ مِنَ الْکُنَاسَاتِ۔
(١١٢٩٠) حضرت ابن عون فرماتے ہیں کہ ہم صبح کے وقت حضرت ابراہیم نخعی کے پاس تشریف لے گئے تو لوگوں نے ہمیں بتایا کہ وہ فوت ہوگئے ہیں اور رات کو دفن کر دئیے گئے ہیں، پھر ہمیں حضرت عبد الرحمن بن اسود نے بتلایا کہ انھوں نے وصیت فرمائی تھی کہ میرے جنازے کے پچھے آگ لے کر مت آنا، اور میری قبر پر عرزمی (جگہ کا نام) پتھر مت رکھنا جس سے گرجا کی تعمیر کی جاتی ہے۔

11290

(۱۱۲۹۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، قَالَ أَتَیْنَا إلَی مَنْزِلِ إبْرَاہِیمَ بَعْدَ مَوْتِہِ فَقُلْنَا بِأَیِّ شَیْئٍ أَوْصَی ؟ قَالُوا : أَوْصَی أَنْ لاَ یُتْبَعَ بِنَارٍ وَأَلْحِدُوا لِی لَحْدًا ، وَلاَ تَجْعَلُوا فِی قَبْرِی لَبِنًا عَرْزَمِیًّا۔
(١١٢٩١) حضرت ابن عون فرماتے ہیں کہ ہم حضرت ابراہیم کی وفات کے بعد ان کے گھر آئے اور ہم نے دریافت کیا کہ انھوں نے کس چیز کی وصیت کی تھی ؟ تو انھوں نے بتایا انھوں نے وصیت فرمائی تھی کہ میرے جنازے کے پیچھے آگ لے کر مت جانا، اور میری قبر لحد کھودنا، اور میری قبر پر عرزمی جگہ کے پتھر نہ رکھنا۔

11291

(۱۱۲۹۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ شَیْبَانَ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ أَبِی کَثِیرٍ ، عَنْ رَجُلٍ ، عَنْ أَبِی سَعِیدٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لاَ تُتْبَعُ الْجِنَازَۃُ بِصَوْتٍ ، وَلاَ بِنَارٍ ، وَلاَ یُمْشَی أَمَامَہَا۔ (ابوداؤد ۳۱۶۳۔ احمد ۲/۵۲۸)
(١١٢٩٢) حضرت ابو سعید سے مروی ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جنازہ کا اتباع نہ کیا جائے آگ اور آواز کے ساتھ اور نہ اس کے آگے چلا جائے۔

11292

(۱۱۲۹۳) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ ، عَنْ حَنَشِ بْنِ الْمُعْتَمِرِ ، قَالَ : کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی جِنَازَۃ فَرَأَی امْرَأَۃً مَعَہَا مِجْمَرٌ ، فَقَالَ : اطْرُدُوہَا ، فَمَا زَالَ قَائِمًا حَتَّی قَالُوا : یَا رَسُولَ اللہِ قَدْ تَوَارَتْ فِی آجَامِ الْمَدِینَۃِ۔
(١١٢٩٣) حضرت حنش بن معتمر فرماتے ہیں کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک جنازہ میں تھے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک خاتون کو دیکھا اس کے پاس دھونی دان تھا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس کو چھوڑ دو ، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مسلسل کھڑے رہے یہاں تک کہ لوگوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا : اے اللہ کے رسول ! یہ مدینہ کے محلات سے پیچھے آرہی تھی۔

11293

(۱۱۲۹۴) حَدَّثَنَا ہُشَیْمُ بْنُ بَشِیرٍ ، عَنْ أَبِی بِشْرٍ ، عَنْ یُوسُفَ بْنِ مَاہَکَ ، قَالَ : رَأَیْتُ ابْنَ عُمَرَ فِی جِنَازَۃٍ وَاضِعًا السَّرِیرَ عَلَی کَاہِلِہٖ بَیْنَ الْعَمُودَیْنِ۔
(١١٢٩٤) حضرت یوسف بن ماھک فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن عمر کو دیکھا ایک جنازہ میں آپ نے چارپائی اپنے دونوں کندھوں کے درمیان مونڈے پر رکھی ہوئی تھی۔

11294

(۱۱۲۹۵) حَدَّثَنَا مَعْنُ بْنُ عِیسَی ، عَنْ خَالِدِ بْنِ أَبِی بَکْرٍ ، قَالَ : رَأَیْتُ سَالِمَ بْنَ عَبْدِ اللہِ بَیْنَ عَمُودَیْ سَرِیرِ أُمِّہِ حَتَّی خَرَجَ بِہَا مِنَ الدَّارِ وَحَمْزَۃُ ، وَعُبَیْدُ اللہِ أَحَدُہُمَا أَخَذَ بِعِضَادَاۃ السَّرِیرِ الْیُمْنَی وَالآخَرُ بِالْیُسْرَی۔
(١١٢٩٥) حضرت خالد بن ابی بکر فرماتے ہیں ہمیں نے حضرت سالم بن عبداللہ کو والدہ کی جنازہ کی چارپائی کے دونوں ٹانگوں کے درمیان دیکھا یہاں تک کہ ان کو لے کر گھر سے نکلے، اور حمزہ اور عبید اللہ میں سے ایک نے چارپائی کی داہنی جانب (ہاتھ) اور دوسرے نے بائیں جانب پکڑ رکھی تھی۔

11295

(۱۱۲۹۶) حَدَّثَنَا مَعْنُ بْنُ عِیسَی ، عَنْ مَعْرُوفٍ مَوْلًی لِقُرَیْشٍ ، قَالَ : رَأَیْتُ الْمُطَّلِبَ بْنَ عَبْدِ اللہِ بْنِ حَنْطَبٍ بَیْنَ عَمُودَیْ سَرِیرِ ابْنِہِ الْحَارِثِ۔
(١١٢٩٦) حضرت معروف فرماتے ہیں کہ میں نے مطلب بن عبداللہ بن حنطب کو حارث کے بیٹے کی میت کی چارپائی کو دونوں بازوؤں کے درمیان دیکھا۔

11296

(۱۱۲۹۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ وَغُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاہِیمَ ، عَن أَبِیہِ ، قَالَ : رَأَیْتُ سَعْدًا عِنْدَ قَائِمَۃِ سَرِیرِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ یَقُولُ : وَاجَبَلاَہ۔
(١١٢٩٧) حضرت سعد بن ابراہیم اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضرت سعد کو حضرت عبداللہ بن عوف کی چارپائی کے پائے کے پاس دیکھا آپ فرما رہے تھے، ہائے سردار اور عالم۔

11297

(۱۱۲۹۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إسْرَائِیلَ ، عَنِ أبی إِسْحَاقَ ، قَالَ : رَأَیْتُ أَبَا جُحَیْفَۃَ فِی جِنَازَۃِ أَبِی مَیْسَرَۃَ آخِذًا بِقَائِمَۃِ السَّرِیرِ ، وَجَعَلَ یَقُولُ غَفَرَ اللَّہُ لَکَ یَا أَبَا مَیْسَرَۃَ۔
(١١٢٩٨) حضرت ابو اسحاق فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابو جحیفہ کو حضرت ابو میسرہ کے جنازے میں دیکھا آپ نے چارپائی کے پائے کو پکڑ رکھا تھا اور فرما رہے تھے، اے ابو میسرہ اللہ تعالیٰ تیری مغفرت فرمائے۔

11298

(۱۱۲۹۹) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِِ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : کَانَ یَکْرَہُ أَنْ یَکُونَ بَیْنَ قَائِمَۃِ السَّرِیرِ رَجُلاً یَحْمِلُہُ۔
(٩٩ ١١٢) حضرت مغیرہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم اس بات کو ناپسند فرماتے تھے کہ آدمی چارپائی کے دونوں پاؤں کے درمیان کھڑا ہوا اس کو اٹھائے۔

11299

(۱۱۳۰۰) حَدَّثَنَا کَثِیرُ بْنُ ہِشَامٍ ، عَنْ فُرَاتِ بْنِ سَلْمَانَ ، قَالَ أُخْرِجَتْ جِنَازَۃٌ مِنْ دَارِ بَنِی ذِی الْخِمَارِ ، قَالَ : وَشَابٌّ مِنْہُمْ قد وَضَعَ السَّرِیرَ عَلَی کَاہِلِہِ فَأَخَذَ مَیْمُونٌ بِیَدِہِ فَأَخْرَجَہُ۔
(١١٣٠٠) حضرت فرات بن سلیمان فرماتے ہیں کہ دار بنو الخمار سے ایک جنازہ نکالا گیا، ان میں نوجوان تھا جس نے مونڈھے پر چارپائی رکھی ہوئی تھی، حضرت میمون نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اس کو باہر نکال دیا۔

11300

(۱۱۳۰۱) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ ، قَالَ : رَأَیْتُ أَبَا جُحَیْفَۃَ فِی جِنَازَۃِ أَبِی مَیْسَرَۃَ وَالسَّرِیرُ عَلَی عَاتِقِہِ وَہُوَ یَقُولُ : اللَّہُمَّ اغْفِرْ لأَبِی مَیْسَرَۃَ۔
(١١٣٠١) حضرت اسماعیل فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابو جحیفہ کو حضرت ابو میسرہ کے جنازے پر دیکھا چارپائی آپ کے کاندھے پر تھی اور فرما رہے تھے، اے اللہ ! ابو میسرہ کی مغفرت فرما۔

11301

(۱۱۳۰۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ الرَّبِیعِ ، عَنِ الْحَسَنِ ، أَنَّہُ کَرِہَ أَنْ یَقُومَ فِی مُقَدَّمِ السَّرِیرِ ، أَوْ مُؤَخَّرِہِ۔
(١١٣٠٢) حضرت ربیع فرماتے ہیں کہ حضرت حسن اس بات کو ناپسند سمجھتے تھے کہ چارپائی کے آگے یا پیچھے کھڑا ہوا جائے۔

11302

(۱۱۳۰۳) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِِ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : کَانَ یَکْرَہُ أَنْ یَتْبَعَ الرَّجُلُ الْجِنَازَۃَ یَقُولُ اسْتَغْفِرُوا لَہُ غَفَرَ اللَّہُ لَکُمْ۔
(١١٣٠٣) حضرت مغیرہ سے مروی ہے کہ حضرت ابراہیم اس بات کو ناپسند سمجھتے تھے آدمی جنازے کے پیچھے یوں کہتا ہوا چلے کہ اس کے لیے استغفار کرو اللہ تعالیٰ تمہاری مغفرت فرمائے گا۔

11303

(۱۱۳۰۴) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ بُکَیْرِ بْنِ عَتِیقٍ ، قَالَ : کُنْتُ فِی جِنَازَۃٍ فِیہَا سَعِیدُ بْنُ جُبَیْرٍ ، فَقَالَ رَجُلٌ : اسْتَغْفِرُوا لَہُ غَفَرَ اللَّہُ لَکُمْ ، قَالَ سَعِیدُ بْنُ جُبَیْرٍ لاَ غَفَرَ اللَّہُ لَک۔
(١١٣٠٤) حضرت بکیر بن عتیق فرماتے ہیں کہ میں جنازہ میں تھا جس میں حضرت سعید بن جبیر بھی تھے، ایک شخص نے کہا اس کیلئے اسغفار کرو اللہ تعالیٰ تمہاری مغفرت فرمائے گا، حضرت سعید بن جبیر نے فرمایا : اللہ تعالیٰ تیری مغفرت نہیں کرے گا۔

11304

(۱۱۳۰۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنِ الْعَلاَئِ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ، قَالَ : کُنْتُ مَعَہُ فِی جِنَازَۃٍ فَسَمِعَ رَجُلاً یَقُولُ اسْتَغْفِرُوا لَہُ غَفَرَ اللَّہُ لَکُمْ فَنَہَاہُ۔
(١١٣٠٥) حضرت العلائ فرماتے ہیں کہ میں حضرت سعید بن جبیر کے ساتھ ایک جنازہ میں شریک تھا، انھوں نے سنا کہ ایک شخص کہہ رہا ہے، اس کیلئے اسغفار کرو اللہ تعالیٰ تمہاری مغفرت فرمائے گا۔ آپ نے اس کو اس سے منع فرما دیا۔

11305

(۱۱۳۰۶) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَطَائٍ ، أَنَّہُ کَرِہَ أَنْ یَقُولَ اسْتَغْفِرُوا لَہُ غَفَرَ اللَّہُ لَکُمْ۔
(١١٣٠٦) حضرت عطائ اس بات کو ناپسند سمجھتے تھے کہ کوئی شخص (جنازہ) میں یوں کہے، اس کیلئے استغفار کرو اللہ تعالیٰ تمہاری مغفرت فرمائے گا۔

11306

(۱۱۳۰۷) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِی عَدِیٍّ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ ، قَالَ أَوَّلُ مَا سَمِعْت فِی جِنَازَۃِ اسْتَغْفِرُوا لَہُ فِی جِنَازَۃٍ سَعْدِ بْنِ أَوْسٍ۔
(١١٣٠٧) حضرت ابن سیرین فرماتے ہیں کہ پہلی بار میں نے یہ کلمات کہ اس کیلئے استغفار کہو حضرت سعید بن اوس کے جنازے میں سنا۔

11307

(۱۱۳۰۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، أَنَّہُ کَرِہَ أَنْ یَقُولَہُ۔
(١١٣٠٨) حضرت ابراہیم اس طرح کہنے کو ناپسند سمجھتے تھے۔

11308

(۱۱۳۰۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ رَبِیعٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، أَنَّہُ کَرِہَ أَنْ یَقُولَ اسْتَغْفِرُوا غَفَرَ اللَّہُ لَکُمْ۔
(١١٣٠٩) حضرت حسن اس بات کو ناپسند سمجھتے تھے کہ کوئی شخص یوں کہے، اس کیلئے استغفار کہو تاکہ اللہ تعالیٰ تمہاری مغفرت فرمائے۔

11309

(۱۱۳۱۰) حَدَّثَنَا أَبُو مُطِیعٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ حَرْمَلَۃَ ، أَنَّہُ کَانَ فِی جِنَازَۃٍ فَسَمِعَ رَجُلاً یَقُولُہ ، فَقَالَ سَعِیدُ بْنُ الْمُسَیَّبِ : مَا یَقُولُ زاجزکُمْ ہَذَا ؟!۔
(١١٣١٠) حضرت عبد الرحمن بن حرملہ ایک جنازے میں شریک تھے انھوں نے ایک شخص کو سنا جو یہ کہہ رہا تھا، حضرت سعید بن مسیب نے فرمایا : تمہارا یہ رجز پڑھنے والا کیا کہہ رہا ہے ؟ (رجزیہ اشعار پڑھنا) ۔

11310

(۱۱۳۱۱) حَدَّثَنَا قَبِیصَۃُ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنِ الرَّبِیعِ بْنِ أَبِی رَاشِد ، أَنَّ سَعِیدَ بْنَ جُبَیْرٍ سَمِعَ رَجُلاً یَقُولُ فِی جِنَازَۃٍ : اسْتَغْفِرُوا لَہُ غَفَرَ اللَّہُ لَکُمْ ، فَغَضِبَ۔
(١١٣١١) حضرت ربیع بن ابی راشد فرماتے ہیں کہ حضرت سعید بن جبیر نے ایک شخص کو جنازہ میں یہ کہتے ہوئے سنا کہ اس کیلئے استغفار کرو اللہ تعالیٰ تمہاری مغفرت فرمائے گا، تو آپ اس شخص کو غصہ ہوئے۔

11311

(۱۱۳۱۲) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ الثَّقَفِیُّ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنْ أَبِی قِلاَبَۃَ ، قَالَ : کُنَّا فِی جِنَازَۃٍ فَرَفَعَ نَاسٌ مِنَ الْقُصَّاصِ أَصْوَاتَہُمْ ، فَقَالَ أَبُو قِلاَبَۃَ کَانُوا یُعَظِّمُونَ الْمَیِّتَ بِالسَّکِینَۃِ۔
(١١٣١٢) حضرت ایوب فرماتے ہیں کہ ہم ایک جنازے میں شریک تھے، قصہ گو لوگوں میں سے بعض نے اپنی آواز کو بلند کیا تو حضرت ابو قلابہ نے ارشاد فرمایا : وہ لوگ (صحابہ کرام ) خاموش رہ کر میت کی تعظیم کرتے تھے۔

11312

(۱۱۳۱۳) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ مُبَارَکٍ ، عَنْ ہَمَّامٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، عَنْ قَیْسِ بْنِ عُبَادٍ ، قَالَ : کَانَ أَصْحَابُ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَسْتَحِبُّونَ خَفْضَ الصَوْتٍ عِنْدَ ثَلاَثٍ ، عِنْدَ الْقِتَالِ ، وَعِنْدَ الْقُرْآنِ، وَعِنْدَ الْجَنَائِزِ۔
(١١٣١٣) حضرت قیس بن عباد ارشاد فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام تین موقعوں پر آواز پست رکھنے کو پسند فرماتے تھے، قتال کے وقت، تلاوت قرآن کے وقت اور جنازے میں۔

11313

(۱۱۳۱۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، عَنْ قَیْسِ بْنِ عُبَادٍ ، قَالَ : کَانَ أَصْحَابُ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَذَکَرَ نَحْوَہُ۔ (ابوداؤد ۲۶۴۹۔ حاکم ۱۱۶)
(١١٣١٤) حضرت قیس بن عباد سے اسی طرح منقول ہے۔

11314

(۱۱۳۱۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، قَالَ : کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إذَا کَانَ فِی جِنَازَۃٍ أَکْثَرَ السُّکُوتَ وَحَدَّثَ نَفْسَہُ۔ (عبدالرزاق ۶۲۸۲)
(١١٣١٥) حضرت ابن جریج فرماتے ہیں کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب کسی جنازے میں شریک ہوتے تو زیادہ خاموش رہتے اور اپنے نفس سے ہم کلام رہتے۔

11315

(۱۱۳۱۶) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ زَیْدٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یَکْرَہُ الصَّوْتَ عِنْدَ ثَلاَثٍ عِنْدَ الْجِنَازَۃِ ، وَإِذَا الْتَقَی الزَّحْفَانِ ، وَعِنْدَ قِرَائَۃِ الْقُرْآنِ۔ (ابوداؤد ۲۶۴۹۔ حاکم ۱۱۶)
(١١٣١٦) حضرت حسن ارشاد فرماتے ہیں کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تین موقعوں پر آواز بلند کرنے کو ناپسند سمجھتے تھے، جنازہ میں، جب دو لشکر آپس میں ملیں اور قرآن پاک کی تلاوت کے وقت۔

11316

(۱۱۳۱۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ حَبِیبِ بْنِ سُلَیْمٍ ، عَنْ بِلاَلِ بْنِ یَحْیَی ، عَنْ حُذَیْفَۃَ ، قَالَ : نَہَی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، عَنِ النَّعْیِ۔ (احمد ۵/۴۰۶۔ ترمذی ۹۸۶)
(١١٣١٧) حضرت حذیفہ سے مروی ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جنازے کا اعلان کرنے سے منع فرمایا ہے۔

11317

(۱۱۳۱۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ أَبِی حَمْزَۃَ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، عَن عَلْقَمَۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : النَّعْیُ مِنْ أَمْرِ الْجَاہِلِیَّۃِ۔
(١١٣١٨) حضرت عبداللہ ارشاد فرماتے ہیں کہ جنازے کا اعلان کرنا جاہلیت کے کاموں میں سے ہے۔

11318

(۱۱۳۱۹) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ أَبِی حَیَّانَ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : أَوْصَی الرَّبِیعُ بْنُ خُثَیْمٍ أَنْ لاَ تُشْعِرُوا بِی أَحَدًا ، وَسُلُّونِی إلَی رَبِّی سَلاًّ۔
(١١٣١٩) حضرت ابو حیان اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت ربیع بن خیثم نے وصیت فرمائی، میرے (مرنے کی) کسی ایک کو بھی اطلاع نہ کرنا اور مجھے خفیہ طور پر (آرام سے) دفن کرنا۔

11319

(۱۱۳۲۰) عَنْ عَبْدَۃَ بْنِ سُلَیْمَانَ ، عَنِ الزِّبْرِقَانِ ، قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا وَائِلٍ عِنْدَ مَوْتِہٖ یَقُولُ : إذَا أَنَا مِتّ فَلاَ تُؤْذِنُوا بِی أَحَدًا۔
(١١٣٢٠) حضرت زبرقان فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابو وائل سے موت کے وقت سنا وہ فرما رہے تھے کہ جب میرا انتقال ہوجائے تو میرے بارے میں کسی کو اطلاع مت دینا۔

11320

(۱۱۳۲۱) حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، قَالَ : أَوْصَی أَبُو مَیْسَرَۃَ أَخَاہُ أَنْ لاَ تُؤْذِنَ لِی أَحَدًا ، قَالَ أَبُو إِسْحَاقَ وَبِذَلِکَ أَوْصَی عَلْقَمَۃُ الأَسْوَدَ۔
(١١٣٢١) حضرت ابو اسحاق فرماتے ہیں کہ حضرت ابو میسرہ اپنے بھائی کو وصیت فرمائی کہ (میرے مرنے پر) کسی کو بھی اطلاع (اعلان) مت دینا۔
راوی ابو اسحاق فرماتے ہیں کہ حضرت علقمہ نے حضرت اسود کو بھی یہی وصیت فرمائی تھی۔

11321

(۱۱۳۲۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ قَیسٍ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ مُدْرِکٍ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، عَن عَلْقَمَۃَ ، أَنَّہُ أَوْصَی أَنْ لاَ تُؤْذِنُوا بی أَحَدًا ، فَإِنِّی أَخَافُ أَنْ یَکُونَ النَّعْیُ مِنْ أَمْرِ الْجَاہِلِیَّۃِ۔
(١١٣٢٢) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ حضرت علقمہ نے وصیت فرمائی تھی کہ میرے مرنے پر تم کسی کو اطلاع مت دینا، بیشک مجھے خوف ہے کہ جنازہ کے لیے اعلان کرنا جاہلیت کے کاموں میں سے ہے۔

11322

(۱۱۳۲۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ أُمَیٍّ ، عَنْ أَبِی الْہَیْثَمِ ، قَالَ : قَالَ إبْرَاہِیمُ إذَا کُنْتُمْ أَرْبَعَۃً فَلاَ تُؤْذِنُوا أَحَدًا۔
(١١٣٢٣) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ جب تم جنازے میں چار بندے ہو جاؤ تو پھر کسی کو اطلاع مت دو ۔

11323

(۱۱۳۲۴) حَدَّثَنَا أَبُو نُعَیْمٍ الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، عَنْ إسْرَائِیلَ ، عَنْ ثُوَیْرٍ ، عَنْ أَبِی جَعْفَرَ ، أَنَّ عَلِیَّ بْنَ حُسَیْنٍ أَوْصَی أَنْ لاَ تُعْلِمُوا بِی أَحَدًا۔
(١١٣٢٤) حضرت ابو جعفر فرماتے ہیں کہ حضرت علی بن حسین نے وصیت فرمائی تھی کہ میرے مرنے کی کسی کو بھی اطلاع مت دینا۔

11324

(۱۱۳۲۵) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ عن أبیہ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، أَنَّہُ کَانَ إذَا مَاتَ لَہُ مَیِّتٌ تحَیَّنَ غَفَلَۃَ النَّاسِ۔
(١١٣٢٥) حضرت عاصم بن محمد اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمر جب کوئی شخص فوت ہوتا تو لوگوں کی غفلت کا انتظار فرماتے۔

11325

(۱۱۳۲۶) حَدَّثَنَا الْمُحَارِبِیُّ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ خَیْثَمَۃَ ، عَنْ سُوَیْد بْنِ غَفَلَۃَ ، قَالَ : إذَا أَنَا مِتّ فَلاَ تُؤْذِنُوا بِی أَحَدًا۔
(١١٣٢٦) حضرت سوید بن غفلہ فرماتے ہیں کہ جب میں مر جاؤں تو میرے بارے میں کسی کو اطلاع مت دینا۔

11326

(۱۱۳۲۷) حَدَّثَنَا ہَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ ، قَالَ : حدَّثَنَا شُعْبَۃُ ، عَنْ أَبِی التَّیَّاحِ ، عَنْ یَزِیدَ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ الشِّخِّیرِ ، عَنْ مُطَرِّفٍ أَخِیہِ ، أَنَّہُ قَالَ : لاَ تُؤْذِنُوا لِجِنَازَتِی أَحَدًا۔
(١١٣٢٧) حضرت مطرف فرماتے یہں کہ میرے جنازے کی کسی کو اطلاع مت دینا۔

11327

(۱۱۳۲۸) حَدَّثَنَا ہَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ ، قَالَ : حدَّثَنَا شُعْبَۃُ ، عَنْ أَبِی حَمْزَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : لاَ تُؤْذِنُوا بِجِنَازَتِی أَہْلَ مَسْجِدِی۔
(١١٣٢٨) حضرت ابو جمرہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ میرے جنازے کی اطلاع میری مسجد والوں کو مت دینا۔

11328

(۱۱۳۲۹) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا عُثْمَانَ بْنُ حَکِیمٍ ، عَنْ خَارِجَۃَ بْنِ زَیْدٍ ، عَنْ عَمِّہِ یَزِیدَ بْنِ ثَابِتٍ ، وَکَانَ أَکْبَرَ مِنْ زَیْدٍ ، قَالَ : خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَلَمَّا وَرَدْنَا الْبَقِیعَ إذَا ہُوَ بِقَبْرٍ جَدِیدٍ ، فَسَأَلَ عَنْہُ فَقَالُوا : فُلاَنَۃُ فَعَرَفَہَا ، قَالَ : فَقَالَ : أَفَلاَ آذَنْتُمُونِی بِہَا ؟ قَالُوا : کُنْت قَائِلاً فَکَرِہْنَا أَنْ نُؤْذِنَک ، فَقَالَ : لاَ تَفْعَلُوا ، لاَ أَعْرِفَنَّ مَا مَاتَ مِنْکُمْ مَیِّتٌ بَیْنَ أَظْہُرِکُمْ إِلاَّ آذَنْتُمُونِی بِہِ فَإِنَّ صَلاَتِی عَلَیْہِ لَہُ رَحْمَۃٌ۔ (بخاری ۴۲۔ احمد ۴/۳۸۸)
(١١٣٢٩) حضرت خارجہ بن زید انپے چچا حضرت یزید بن ثابت سے روایت کرتے ہیں وہ حضرت زید سے بڑے تھے، فرماتے ہیں کہ ایک دن ہم نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ نکلے، جب ہم جنت البقیع میں آئے تو وہاں پر ایک نئی قبر تھی، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے بارے میں دریافت فرمایا : لوگوں نے عرض کیا فلاں عورت کی قبر ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو پہچان لیا اور فرمایا : تم نے مجھے اس کی اطلاع کیوں نہ دی ؟ لوگوں نے عرض کیا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خود فرمایا تھا اس لیے ہم نے آپ کو اطلاع دینا ناپسند سمجھا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جب تم میں سے کوئی شخص فوت ہوجائے تو تم ہرگز اس کا اعلان مت کرو مگر مجھے اس کے بارے میں اطلاع دیدو۔ بیشک میرا اس پر نماز پڑھنا اس کے لیے رحمت کا باعث ہے۔

11329

(۱۱۳۳۰) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِی عَدِیٍّ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، عَنْ مُحَمَّدٍ ، أَنَّہُ کَانَ لاَ یَرَی بَأْسًا أَنْ یُؤْذِنَ الرَّجُلُ حَمِیمَہُ وَصَدِیقَہُ بِالْجِنَازَۃِ۔
(١١٣٣٠) حضرت ابن عون فرماتے ہیں حضرت محمد اس بات مںْ کوئی حرج نہیں سمجھتے کہ آدمی جنازے کی اطلاع رشتہ داروں اور دوستوں کو کر دے۔

11330

(۱۱۳۳۱) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُرْوَۃَ ، أَنَّ أَبَا ہُرَیْرَۃَ کَانَ یُؤْذِنُ بِالْجِنَازَۃِ فَیَمُرُّ بِالْمَسْجِدِ فَیَقُولُ عَبْدُ اللہِ دُعِیَ فَأَجَابَ ، أَوْ أَمَۃُ اللہِ دُعِیَتْ فَأَجَابَتْ ، فَلاَ یَقُومُ مَعَہَا إِلاَّ الْقَلِیلُ مِنْہُمْ۔
(١١٣٣١) حضرت عبداللہ بن عروہ سے مروی ہے کہ حضرت ابوہریرہ کو ایک جنازے پر بلایا گیا تو وہ مسجد سے گذرے اور یوں فرما رہے تھے کہ اللہ کا بندہ بلایا گیا ہے پس اس نے قبول کیا، یا اللہ کی لونڈی بلائی گئی پس اس نے قبول کیا، پس ان کے ساتھ ان میں سے چند لوگ ہی کھڑے ہوتے۔

11331

(۱۱۳۳۲) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ أَبِی حَیَّانَ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : کَانَ عَمْرُو بْنُ مَیْمُونٍ صِدِّیقًا لِلرَّبِیعِ بْنِ خُثَیْمٍ ، فَلَمَّا ثَقُلَ ، قَالَ عَمْرٌو لأُمِّ وَلَدِ الرَّبِیعِ بْنِ خُثَیْمٍ أَعْلِمِینِی إذَا مَاتَ ، فَقَالَتْ : إِنَّہُ قَالَ : إذَا أَنَا مِتُّ فَلاَ تُشْعِرِی بِی أَحَدًا ، وَسُلُّونِی إلَی رَبِّی سَلاً ، قَالَ فَبَاتَ عَمْرٌو عَلَی دَکَاکِینِ بَنِی ثَوْرٍ حَتَّی أَصْبَحَ فَشَہِدَہُ۔
(١١٣٣٢) حضرت ابو حیان اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمرو بن میمون حضرت ربیع بن خیثم کے دوست تھے، جب حضرت ربیع بن خیثم پر زندگی دشوار ہوگئی تو حضرت عمرو بن میمون نے ان کے ام ولد سے کہا جب وہ فوت ہوجائیں تو مجھے اطلاع دینا۔ انھوں نے عرض کیا کہ حضرت ربیع نے کہا ہے کہ جب میں مر جاؤں تو میرے بارے میں کسی کو خبر مت دینا اور مجھے خفیہ طور پر دفن کردینا۔ راوی کہتے ہیں کہ حضرت عمرو بن میمون نے بنی ثور کے چبوترے پر رات گذاری یہاں تک کہ صبح ہوگی پھر وہ اس کے پاس حاضر ہوئے۔

11332

(۱۱۳۳۳) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ یَزِیدَ ، عَنْ ہِشَامٍ الدَّسْتَوَائِیِّ ، عَنْ حَمَّادٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، أَنَّہُ کَانَ لاَ یَرَی بَأْسًا أَنْ یُؤْذِنَ بِالْمَیِّتِ صَدِیقَہُ ، وَقَالَ : إنَّمَا کَانُوا یَکْرَہُونَ نَعْیًا کَنَعْیِ الْجَاہِلِیَّۃِ ، أَنْعِی فُلاَنًا۔
(١١٣٣٣) حضرت حماد سے مروی ہے کہ حضرت ابراہیم اس بات میں کوئی حرج نہیں سمجھتے کہ مرنے کے بعد میت کے دوست کو اطلاع کی جائے۔ وہ فرماتے تھے کہ صحابہ کرام جاہلیت کی طرح اطلاع دینے کو ناپسند سمجھتے تھے کہ فلاں کو خبر دی جائے۔

11333

(۱۱۳۳۴) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ بْنِ أَبِی خَالِدٍ ، عَنِ النُّعْمَانِ ، قَالَ : کَانَ عَلِیٌّ إذَا دُعِیَ إلَی جِنَازَۃٍ ، قَالَ : إنَّا لَقَائِمُونَ وَمَا یُصَلِّی عَلَی الْمَرْئِ إِلاَّ عَمَلُہُ۔
(١٣١٣٤) حضرت نعمان سے مروی ہے کہ جب حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو کسی جنازے پر بلایا جاتا تو آپ فرماتے بیشک ہم کھڑے ہونے والے ہیں اور آدمی پر نماز نہیں پڑھی جاتی مگر اس کے عمل (کیوجہ سے) ۔

11334

(۱۱۳۳۵) حَدَّثَنَا سَعِیدُ بْنُ یَحْیَی الْحِمْیَرِیُّ ، عَنْ سُفْیَانَ بْنِ حُسَیْنٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ أَبِی أُمَامَۃَ بْنِ سَہْلٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَعُودُ فُقَرَائَ أَہْلِ الْمَدِینَۃِ وَیَشْہَدُ جَنَائِزَہُمْ إذَا مَاتُوا ، قَالَ : فَتُوُفِّـیَتِ امْرَأَۃٌ مِنْ أَہْلِ الْعَوَالِی ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إذَا حَضَرَتْ فَآذِنُونِی بِہَا ، قَالَ فَأَتَوْہُ لِیُؤْذِنُوہُ فَوَجَدُوہُ نَائِمًا وَقَدْ ذَہَبَ مِنَ اللَّیْلِ فَکَرِہُوا أَنْ یُوقِظُوہُ وَتَخَوَّفُوا عَلَیْہِ ظُلْمَۃَ اللَّیْلِ وَہَوَامَّ الأَرْضِ ، فَلَمَّا أَصْبَحَ سَأَلَ عَنْہَا فَقَالُوا : یَا رَسُولَ اللہِ أَتَیْنَاک لِنُؤْذِنَک بِہَا فَوَجَدْنَاک نَائِمًا فَکَرِہْنَا أَنْ نُوقِظَک وَتَخَوَّفْنَا عَلَیْک ظُلْمَۃَ اللَّیْلِ وَہَوَامَّ الأَرْضِ ، قَالَ : فَدَفَنَّاہَا ، قَالَ : فَمَشَی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إلَی قَبْرِہَا فَصَلَّی عَلَیْہَا وَکَبَّرَ أَرْبَعًا۔ (حاکم ۴۶۶)
(١١٣٣٥) حضرت ابوامامہ بن سھل اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اھل مدینہ کے فقراء کی عیادت فرماتے اور ان کے جنازے میں شرکت فرماتے، اھل عوالی میں سے ایک عورت مرگئی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جب اس کے پاس موت آجائے تو مجھے اطلاع دینا۔ جب لوگ اطلاع دینے کے لیے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے تو آپ کو آرام کرتا ہوا پایا اور اس وقت رات کا کچھ حصہ گذر چکا تھا۔ انھوں نے اس بات کو ناپسند کیا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نیند سے جگایا جائے، انھوں نے خوف محسوس کیا رات کی تاریکی اور زمین کے کیڑے پتنگوں کی وجہ سے۔ جب صبح ہوئی تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس عورت کے بارے میں دریافت فرمایا : لوگوں نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول ! ہم اطلاع دینے کے لیے حاضر ہوئے تھے لیکن ہم نے آپ کو نیند میں پایا تو جگانا مناسب نہ سمجھا اور رات کی تاریکی اور زمین کے شیر نے ہمیں خوف زدہ کردیا۔ اس لیے ہم نے اس کو دفن کردیا۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (یہ سن کر) ہمارے ساتھ چلے اور اس خاتون کی قبر پر تشریف لائے اور اس پر نماز پڑھی اور چار تکبیریں پڑھیں۔

11335

(۱۱۳۳۶) حَدَّثَنَا سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : رَأَیْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَأَبَا بَکْرٍ وَعُمَرَ یَمْشُونَ أَمَامَ الْجِنَازَۃِ۔ (ابوداؤد ۳۱۷۱۔ ترمذی ۱۰۰۷)
(١١٣٣٦) حضرت سالم اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو، حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر کو جنازے کے آگے چلتے ہوئے دیکھا ہے۔

11336

(۱۱۳۳۷) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِِ ، عَنْ حُصَیْنٍ ، عَنْ سَالِمٍ ، قَالَ : رَأَیْتُ ابن عُمَرَ یَمْشِی أَمَامَ الْجِنَازَۃِ۔
(١١٣٣٧) حضرت سالم فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن عمر کو جنازے کے آگے چلتے ہوئے دیکھا۔

11337

(۱۱۳۳۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ مِسْعَرٍ ، عَنْ عَدِیِّ بْنِ ثَابِتٍ ، عَنْ أَبِی حَازِم ، قَالَ : رَأَیْتُ أَبَا ہُرَیْرَۃَ وَالْحَسَنَ بْنَ عَلِیٍّ یَمْشِیَانِ أَمَامَ الْجِنَازَۃِ۔
(١١٣٣٨) حضرت ابو حازم فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوہریرہ اور حضرت حسن کو جنازے کے آگے چلتے ہوئے دیکھا۔

11338

(۱۱۳۳۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ ابْنِ أَبِی ذِئْبٍ ، عَنْ صَالِحٍ مَوْلَی التَّوْأَمَۃِ ، قَالَ : رَأَیْتُ أَبَا ہُرَیْرَۃَ وَأَبَا قَتَادَۃَ ، وَابْنَ عُمَرَ وَأَبَا أُسَیْدَ یَمْشُونَ أَمَامَ الْجِنَازَۃِ۔
(١١٣٣٩) حضرت صالح فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوہریرہ ، حضرت ابو قتادہ، حضرت عبداللہ بن عمر اور حضرت ابو اسید کو جنازے کے آگے چلتے ہوئے دیکھا۔

11339

(۱۱۳۴۰) حَدَّثَنَا جَرِیرُ بْنُ عَبْدِ الْحَمِیْدِ ، عَنْ سُہَیْلِ بْنِ أَبِی صَالِحٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : کَانَ أَصْحَابُ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَمْشُونَ أَمَامَ الْجِنَازَۃِ حَتَّی إذَا تَبَاعَدُوا عَنْہَا قَامُوا یَنْتَظِرُونَہَا۔
(١١٣٤٠) حضرت ابو صالح اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ صحابہ کرام کو جنازے کے آگے چلتے، پھر جب وہ چلتے چلتے بہت آگے (دور) نکل جاتے تو وہاں پر کھڑے ہو کر جنازے کا (آنے کا) انتظار فرماتے۔

11340

(۱۱۳۴۱) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : رَأَیْتُ عَلْقَمَۃَ وَالأَسود یَمْشِیَانِ أَمَامَ الْجِنَازَۃِ۔
(١١٣٤١) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت علقمہ اور حضرت اسود کو جنازے کے آگے چلتے ہوئے دیکھا۔

11341

(۱۱۳۴۲) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، قَالَ : رَأَیْتُ سَالِمًا وَالْقَاسِمَ یَمْشِیَانِ أَمَامَ الْجِنَازَۃِ۔
(١١٣٤٢) حضرت ابن عون فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت سالم اور حضرت قاسم کو جنازے کے آگے چلتے ہوئے دیکھا۔

11342

(۱۱۳۴۳) حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ مُعَاذٍ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، قَالَ : سَأَلْتُ مُحَمَّدًا عَنِ الْمَشْیِ أَمَامَ الْجِنَازَۃِ ، فَقَالَ : لاَ أَعْلَمُ بِہِ بَأْسًا ، قَالَ : وَکَانَ الْقَاسِمُ وَسَالِمٌ یَفْعَلاَنِہِ۔
(١١٣٤٣) حضرت ابن عون فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت محمد سے جنازے کے آگے چلنے سے متعلق دریافت کیا ؟ آپ نے فرمایا میں تو اس میں کچھ حرج نہیں سمجھتا اور حضرت قاسم اور حضرت سالم اس طرح کرتے تھے۔

11343

(۱۱۳۴۴) حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ عَیَّاشٍ ، عَنْ حُمَیْدٍ ، عَنْ أَنَسٍ فِی الْجِنَازَۃِ أَنْتُمْ مُشَیِّعُونَ لَہَا تَمْشُونَ أَمَامَہَا وَخَلْفَہَا، وَعَنْ یَمِینِہَا وَعَنْ شِمَالِہَا۔
(١١٣٤٤) حضرت انس ارشاد فرماتے ہیں : تم لوگ اس کے مدد گار ہو، اس کے آگے، پیچھے، دائیں اور بائیں چلا کرو۔

11344

(۱۱۳۴۵) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا أَبُو مَالِکٍ ، عَنْ أَبِی حَازِمٍ ، قَالَ مَشَیْتُ مَعَ الْحَسَنِ بْنِ عَلِیٍّ ، وَأَبِی ہُرَیْرَۃَ ، وَابْنِ الزُّبَیْرِ أَمَامَ الْجِنَازَۃِ۔ (بیہقی ۲۷)
(١١٣٤٥) حضرت ابو حازم فرماتے ہیں کہ میں حضرت حسن بن علی ، حضرت ابو ہریرہ، اور حضرت ابن زبیر کے ساتھ جنازے کے آگے چلا ہوں۔

11345

(۱۱۳۴۶) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ عَوْفٍ ، عَنْ أَبِی الْمِنْہَالِ ، عَنْ أَبِی الْعَالِیَۃِ ، قَالَ : خَلْفَہَا قَرِیبٌ وَأَمَامَہَا قَرِیبٌ ، وَعَنْ یَسَارِہَا قَرِیبٌ ، وَعَنْ یَمِینِہَا قَرِیبٌ۔
(١١٣٤٦) حضرت ابوالعالیہ ارشاد فرماتے ہیں کہ جنازے کے پیچھے چلنے والا قریب ہے، آگے چلنے والا قریب ہے، دائیں جانب چلنے والا قریب ہے اور بائیں جانب چلنے والا قریب ہے۔

11346

(۱۱۳۴۷) حَدَّثَنَا أَبُوخَالِدٍ الأَحْمَرِِ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ عَطَائٍ ، قَالَ : رَأَیْتُ ابْنَ عُمَرَ وَعُبَیْدَ بْنَ عُمَیْرٍ یَمْشِیَانِ أَمَامَ الْجِنَازَۃِ۔
(١١٣٤٧) حضرت عطائ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عمر اور حضرت عبید بن عمیر کو جنازے کے آگے چلتے ہوئے دیکھا۔

11347

(۱۱۳۴۸) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ حُصَیْنٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عُبَیْدِ اللہِ ، عَنِ الْعَقَّارِ بْنِ الْمُغِیرَۃِ ، قَالَ : کُنْتُ أَمْشِی خَلْفَ الْجِنَازَۃِ ، فَجَائَ أَبُو ہُرَیْرَۃَ فَوَضَعَ فَقَارِی بَیْنَ إصْبَعَیْہِ ، ثُمَّ دَفَعَنِی حَتَّی تَقَدَّمْت أَمَامَ الْجِنَازَۃِ۔
(١١٣٤٨) حضرت عقار بن مغیرہ فرماتے ہیں کہ میں ایک جنازے کے پیچھے چل رہا تھا۔ حضرت ابوہریرہ تشریف لائے اور میری ریڑھ کی ہڈی کے درمیان انگلیاں رکھ کر مجھے دھکیلا یہاں تک کہ میں جنازے کے آگے پہنچ گیا۔

11348

(۱۱۳۴۹) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ وَعَبد الرَّحمَّان بن مَہْدِی ، عَنْ سُفْیانَ ، عَنْ عِمْرانَ بْنِ مُسْلِمٍ ، عَنْ سُوَیْدِ بْنِ غَفْلَۃٍ قَالَ : اَلْمَلَائِکَۃُ یَمْشُوْنَ خَلْفَ الْجِنَازَۃِ۔ (عبدالرزاق ۶۲۶۶)
(١١٣٤٩) حضرت سوید بن غفلہ ارشاد فرماتے ہیں کہ ملائکہ جنازے کے پیچھے چلتے ہیں۔

11349

(۱۱۳۵۰) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ ، عَنْ ثَوْرٍ ، عَنْ عَامِرِ بْنِ جشیب وَغَیْرِہِ مِنْ أَہْلِ الشَّامِ قَالُوا : قَالَ أَبُو الدَّرْدَائِ : إن مِنْ تَمَامِ أَجْرِ الْجِنَازَۃِ أَنْ یُشَیِّعَہَا مِنْ أَہْلِہَا وَالْمَشْیُ خَلْفَہَا۔
(١١٣٥٠) حضرت ابو الدردائ ارشاد فرماتے ہیں کہ جنازے کا مکمل اجر ان کے اھل کو اس کی اطلاع دینے اور اس کے پیچھے چلنے میں ہے۔

11350

(۱۱۳۵۱) حَدَّثَنَا عِیسَی بْنُ یُونُسَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ عُمَارَۃَ ، قَالَ : قَالَ ابْنُ مَعْمَرٍ فِی جِنَازَۃِ أَبِی مَیْسَرَۃَ : امْشُوا خَلْفَ جِنَازَۃِ أَبِی مَیْسَرَۃَ ، فَإِنَّہُ کَانَ مشَّائً خَلْفَ الْجَنَائِزِ۔
(١١٣٥١) حضرت عمارہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابو معمر حضرت ابو میسرہ کے جنازے میں فرما رہے تھے کہ ابو میسرہ کے جنازے کے پیچھے چلو بیشک وہ جنازوں کے پیچھے چلا کرتے تھے۔

11351

(۱۱۳۵۲) حَدَّثَنَا مُعْتَمِرُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : رَأَیْتُ أَبَا قِلاَبَۃَ غَیْرَ مَرَّۃٍ یَجْعَلُ الْجَنَائِزَ عَنْ یَمِینِہِ۔
(١١٣٥٢) حضرت سلیمان اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضرت ابو قلابہ کو کئی بار دیکھا کہ وہ جنازے کو اپنی دائیں جانب رکھتے تھے۔

11352

(۱۱۳۵۳) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ یَزِیدَ بْنِ أَبِی زِیَادٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِی لَیْلَی ، عَنِ ابْنِ أَبْزَی ، قَالَ : کُنْتُ فِی جِنَازَۃٍ ، وَأَبُو بَکْرٍ ، وَعُمَرُ أَمَامَہَا وَعَلِیٌّ یَمْشِی خَلْفَہَا ، قَالَ فَجِئْت إلَی عَلِیٍّ فَقُلْت لَہُ الْمَشْیُ خَلْفَہَا أَفْضَلُ ، أَوِ الْمَشْیُ أَمَامَہَا ، فَإِنِّی أَرَاک تَمْشِی خَلْفَہَا ، وَہَذَانِ یَمْشِیَانِ أَمَامَہَا ، قَالَ : فَقَالَ لِی : لَقَدْ عَلِمَا أَنَّ الْمَشْیَ خَلْفَہَا أَفْضَلُ مِنْ أَمَامِہَا ، مِثْلَ صَلاَۃِ الْجَمَاعَۃِ عَلَی الْفَذِّ ، وَلَکِنَّہُمَا یَسِیرَانِ مُیَسِّرَانِ یُحِبَّانِ أَنْ یُیَسِّرَا عَلَی النَّاسِ۔ (احمد ۱/۹۷۔ طحاوی ۴۸۳)
(١١٣٥٣) حضرت ابن البزی فرماتے ہیں کہ میں جنازہ میں تھا، حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر اس جنازہ کے آگے تھے اور حضرت علی پیچھے چل رہے تھے۔ میں حضرت علی کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا جنازے کے پیچھے چلنا افضل ہے یا آگے ؟ کیونکہ میں آپ کو دیکھتا ہوں کہ آپ پیچھے چل رہے ہیں اور یہ دونوں حضرات آگے چل رہے ہیں۔ حضرت علی نے ارشاد فرمایا : جنازے کے پیچھے چلنا اس کے آگے چلنے سے افضل ہے، جیسے اکیلے شخص کی نماز، وہ دونوں حضرات آسانی کیلئے آگے چل رہے ہیں۔ وہ لوگوں پر آسانی کو پسند کرتے ہیں۔

11353

(۱۱۳۵۴) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ یَحْیَی الْجَابِرِ ، عَنْ أَبِی مَاجِدٍ ، قَالَ : سَأَلْتُ ابْنَ مَسْعُودٍ ، عَنِ السَّیْرِ بِالْجِنَازَۃِ، قَالَ : السَّیْرُ مَا دُونَ الْخَبَبِ ، الْجِنَازَۃُ مَتْبُوعَۃٌ ، وَلاَ تَتْبَعُ ، لَیْسَ مَعَہَا مَنْ یَقْدُمُہَا۔ (مسندہ ۳۵۶)
(١١٣٥٤) حضرت ابو ماجد فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن مسعود جنازے میں سے متعلق دریافت کیا ؟ آپ نے فرمایا نرم ہلکی چال سے کچھ کم چلنا ہے، اور جنازہ متبوع ہے تابع نہیں ہے (یعنی لوگ اس کے پیچھے چل کر اس کی اتباع کرتے ہیں) اور جو جنازے سے آگے رہے وہ اس کے ساتھ نہیں ہے۔

11354

(۱۱۳۵۵) حَدَّثَنَا عِیسَی بْنُ یُونُسَ ، عَنْ ثَوْرٍ ، عَنْ مُرَیْحِ بْنِ مَسْرُوقٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لِکُلِّ أُمَّۃٍ قُرْبَانٌ ، وإِنَّ َقُرْبَانُ ہَذِہِ الأُمَّۃِ مَوْتَاہَا ، فَاجْعَلُوا مَوْتَاکُمْ بَیْنَ أَیْدِیکُمْ۔
(١١٣٥٥) حضرت جریح بن مسروق سے مروی ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ہر امت کے لیے نذر اور قربانی ہے، اور اس امت کی قربانی ان کی موت ہے، پس تم اپنے مردوں کو (جنازے میں) اپنے آگے رکھو۔

11355

(۱۱۳۵۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ ثَوْرٍ ، عَنْ أَبِی النُّعْمَانِ ، قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا أُمَامَۃَ یَقُولُ : لأَنْ لاَ أَخْرُجْ مَعَہَا أَحَبُّ إلَیَّ مِنْ أَنْ أَمْشِیَ أَمَامَہَا۔
(١١٣٥٦) حضرت ابو النعمان فرماتے ہیں کہ میں حضرت ابو امامہ سے سنا وہ فرماتے ہیں : میں جنازے کے ساتھ نہ نکلوں یہ مجھے زیادہ پسند ہے اس بات سے کہ میں اس کے آگے چلوں۔

11356

(۱۱۳۵۷) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنِ الْجُرَیْرِیِّ ، عَنْ أَبِی السَّلِیلِ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ رَبَاحٍ ، قَالَ : لِلْمَاشِی فِی الْجِنَازَۃِ قِیرَاطَانِ وَلِلرَّاکِبِ قِیرَاطٌ۔
(١١٣٥٧) حضرت عبداللہ بن رباح ارشاد فرماتے ہیں کہ جنازے میں پیدل چلنے والے کیلئے دو قیراط اجر ہے، اور سوار کے لیے ایک قیراط۔

11357

(۱۱۳۵۸) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ عَبَّاسٍ الْہَمْدَانِیِّ ، عَنِ ابْنِ معقل ، قَالَ : رَأَیْتُ ابْنَ عُمَرَ عَلَی بَغْلٍ رَاکِبًا أَمَامَ الْجِنَازَۃِ۔
(١١٣٥٨) حضرت ابن معقل فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن عمر خچر پر سوار جنازے کے آگے چلتے ہوئے دیکھا۔

11358

(۱۱۳۵۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ عُیَیْنَۃَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : رَأَیْتُ أَبَا بَکْرَۃَ فِی جِنَازَۃِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَمُرَۃَ عَلَی بَغْلَۃٍ لَہُ۔
(١١٣٥٩) حضرت عیینہ بن عبد الرحمن اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عبد الرحمن بن سمرہ کے جنازے میں حضرت ابو بکرہ کو خچر پر سوار (آگے چلتے ہوئے) دیکھا۔

11359

(۱۱۳۶۰) حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّیَالِسِیُّ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ سِمَاکٍ ، عَنْ جَابِرٍ ، قَالَ : رَأَیْتُ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی جِنَازَۃِ ابْنِ الدِّحْدَاحِ وَہُوَ رَاکِبٌ عَلَی فَرَسٍ وَہُوَ یَتَوَقَّصُ بِہِ وَنَحْنُ حَوْلَہُ۔ (مسلم ۶۶۴۔ ابوداؤد ۳۱۷۰)
(١١٣٦٠) حضرت جابر ارشاد فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ابن دحداح کے جنازے میں گھوڑے پر سوار دیکھا وہ چھوٹی چھوٹی چھلانگ لگا کر چل رہا تھا اور ہم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اردگرد تھے۔

11360

(۱۱۳۶۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ جُبَارٍ الطَّائِیِّ ، قَالَ : رَأَیْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ فِی جِنَازَۃٍ أُم مصعب علی أتان لہ قمراء ۔
(١١٣٦١) حضرت جبار الطائی فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عباس کو حضرت ام مصعب کے جنازے میں سفید گدھی پر سوار دیکھا۔

11361

(۱۱۳۶۲) حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ عَیَّاشٍ عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ جُبَارٍ الطَّائِیِّ ، قَالَ : رَأَیْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ فِی جِنَازَۃٍ ، فَذَکَرَ نَحْوَہ۔
(١١٣٦٢) حضرت جبار الطائی فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عباس کو ایک جنازے میں دیکھا۔ آگے حدیث اسی طرح ذکر فرمائی۔

11362

(۱۱۳۶۳) حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِی زَائِدَۃَ ، وَأَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنِ الْحَکَمِ ، قَالَ : رَأَیْتُ شُرَیْحًا عَلَی بَغْلَۃٍ یَسِیرُ أَمَامَ الْجِنَازَۃِ ، وقَالَ أَبُو مُعَاوِیَۃَ : عَلَی بَغْلَۃٍ بَیْضَائَ ، یَسِیرُ خَلْفَ الْجِنَازَۃِ۔
(١١٣٦٣) حضرت حکم فرماتے ہیں کہ میں حضرت شریح کو خچر پر سوار جنازے کے آگے چلتے ہوئے دیکھا۔ اور حضرت ابو معاویہ فرماتے ہیں کہ سفید خچر پر سوار جنازے کے پیچھے دیکھا۔

11363

(۱۱۳۶۴) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ نُعَیْمٍ ، قَالَ : رَأَیْتُ أَبَا وَائِلٍ فِی جِنَازَۃِ خَیْثَمَۃَ رَاکِبًا عَلَی حِمَارٍ یَقُولُ وَاحَزْنََاہ ، أَوْ کَلِمَۃً نَحْوَہَا۔
(١١٣٦٤) حضرت نعیم فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابو وائل کو حضرت خیثمہ کے جنازے میں گدھے پر سوار دیکھا آپ فرما رہے تھے ہائے غم، یا اس جیسا کوئی اور کلمہ کہہ رہے تھے۔

11364

(۱۱۳۶۵) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ خَالِدِ بْنِ دِینَارٍ ، قَالَ : قَالَ : رَأَیْتُ عَطَائً یَسِیرُ أَمَامَ الْجِنَازَۃِ رَاکِبًا۔
(١١٣٦٥) حضرت خالد بن دینار فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عطائ جنازے کے آگے سوار (چلتے ہوئے) دیکھا۔

11365

(۱۱۳۶۶) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنِ ابْنِ أَبِی عَرُوبَۃَ ، قَالَ : رَأَیْتُ الْحَسَنَ أَمَامَ الْجِنَازَۃِ رَاکِبًا۔
(١١٣٦٦) حضرت ابن ابو عروبہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت حسن کو جنازے کے آگے سوار دیکھا۔

11366

(۱۱۳۶۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، عَنْ مَالِکِ بْنِ مِغْوَلٍ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ، قَالَ: رَأَیْتُ شُرَیْحًا رَاکِبًا فِی جِنَازَۃِ أَبِی مَیْسَرَۃَ۔
(١١٣٦٧) حضرت ابو اسحاق فرماتے ہیں میں نے حضرت ابو میسرہ کے جنازے میں حضرت شریح کو سوار دیکھا۔

11367

(۱۱۳۶۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سَعِید بن عُبَیْدِ اللہِ الثَّقَفِی ، عَنْ زِیَادِ بْنِ جُبَیْرِ بْنِ حَیَّۃَ الثَّقَفِیِّ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنِ الْمُغِیرَۃِ بْنِ شُعْبَۃَ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : الرَّاکِبُ خَلْفَ الْجِنَازَۃِ ، وَالْمَاشِی حَیْثُ شَائَ مِنْہَا وَالطِّفْلُ یُصَلَّی عَلَیْہِ۔ (احمد ۴/۲۴۸۔ ابوداؤد ۳۱۷۲)
(١١٣٦٨) حضرت مغیرہ بن شعبہ سے مروی ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : سوار جنازے کے پیچھے رہے، پیدل چلنے والا جہاں مرضی چلے، اور چھوٹے بچے پر نماز پڑھی جائے گی۔

11368

(۱۱۳۶۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ أَبِی ہَمَّامٍ السَّکُونِیِّ وَہُوَ الْوَلِیدُ بْنُ قَیْسٍ ، عَنْ أَبِی ہبیرۃ ، أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أُتِیَ بِدَابَّۃٍ وَہُوَ فِی جِنَازَۃٍ فَلَمْ یَرْکَبْ ، فَلَمَّا انْصَرَفَ رَکِبَ۔ (ابوداؤد ۳۱۶۹۔ حاکم ۳۵۵)
(١١٣٦٩) حضرت ابو ھبیرہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیلئے ایک جنازہ میں سواری لائی گئی لیکن آپ اس پر سوار نہ ہوئے، پھر جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) واپس لوٹے تو اس پر سوار ہوئے۔

11369

(۱۱۳۷۰) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : قُلْتُ لِعَلْقَمَۃَ أَیُکْرَہُ الْمَشْیُ خَلْفَ الْجِنَازَۃِ ؟ قَالَ : لاَ إنَّمَا یُکْرَہُ السَّیْرُ أَمَامَہَا۔
(١١٣٧٠) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت علقمہ سے دریافت کیا، کیا جنازے کے پیچھے چلنا مکروہ ہے ؟ آپ نے فرمایا نہیں بلکہ اس کے آگے چلنا ناپسندیدہ ہے۔

11370

(۱۱۳۷۱) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ ، عَنِ ابْنِ أَبِی رَوَّادٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا أَبُو سَعْدٍ ، عَنْ زَیْدِ بْنِ أَرَقْمَ ، قَالَ : لَوْ یَعْلَمُ رِجَالٌ یَرْکَبُونَ فِی الْجِنَازَۃِ مَا لِرِجَالٍ یَمْشُونَ مَا رَکِبُوا۔
(١١٣٧١) حضرت زید بن ارقم فرماتے ہیں جنازے میں جو لوگ سوار ہو کر جاتے ہیں اگر وہ یہ جان لیں کہ پید ل چلنے والوں کے لیے کتنا اجر ہے تو وہ سوار نہ ہوں۔

11371

(۱۱۳۷۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ ثَوْرٍ ، عَنْ رَاشِدِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ ثَوْبَانَ ، أَنَّہُ رَأَی رَجُلاً رَاکِبًا فِی جِنَازَۃٍ فَأَخَذَ بِلِجَامِ دَابَّتِہِ فَجَعَلَ یَکْبَحُہَا ، وَقَالَ : تَرْکَبُ وَعِبَادُ اللہِ یَمْشُونَ۔
(١١٣٧٢) حضرت راشد بن سعد فرماتے ہیں کہ حضرت ثوبان نے ایک شخص کو جنازے میں سوار دیکھا تو اس کی سواری کی لگام پکڑ کر اس کو روک دیا اور فرمایا تو سوار ہو کر چلتا ہے جبکہ اللہ کے بندے پیدل چل رہے ہیں۔

11372

(۱۱۳۷۳) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِِ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : کَانُوا یَکْرَہُونَ أَنْ یَسِیرَ الرَّاکِبُ أَمَامَہَا۔
(١١٣٧٣) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں صحابہ کرام اس بات کو ناپسند سمجھتے تھے کہ سوار ہو کر جنازے کے آگے چلا جائے۔

11373

(۱۱۳۷۴) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، عَنْ إسْرَائِیلَ ، عَنْ عَبْدِ الأَعْلَی ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : الرَّاکِبُ فِی الْجِنَازَۃِ کَالْجَالِسِ فِی بَیْتِہِ۔
(١١٣٧٤) حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ جنازے میں سوار ہو کر جانے والا ایسا ہی ہے جیسے گھر میں بیٹھنے والا۔

11374

(۱۱۳۷۵) حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ مُعَاذُ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، قَالَ : کَانَ الْحَسَنُ ، وَابْنُ سِیرِینَ لاَ یَسِیرَانِ أَمَامَ الْجِنَازَۃِ۔
(١١٣٧٥) حضرت ابن عون فرماتے ہیں کہ حضرت حسن اور ابن سیرین جنازہ کے آگے نہ چلا کرتے تھے۔

11375

(۱۱۳۷۶) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَنْ زَائِدَۃَ ، عَنْ عَبْدِ الأَعْلَی ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : الرَّاکِبُ فِی الْجِنَازَۃِ کَالْجَالِسِ فِی بَیْتِہِ۔
(١١٣٧٦) حضرت ابن عباس ارشاد فرماتے ہیں جنازے میں سوار ہو کر جانے والا ایسا ہی ہے جیسے گھر میں بیٹھنے والا۔

11376

(۱۱۳۷۷) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ لَیث ، عَنْ أَبِی بُرْدَۃَ ، عَنْ أَبِی مُوسَی قَالَ : مُرَّ عَلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِجِنَازَۃٍ وَہِیَ تُمْحَضُ کَمَا یُمَخَضُ الزَّقَّ ، فَقَالَ : عَلَیْکُمْ بِالْقَصْدِ فِی جَنَائِزِکُمْ۔ (احمد ۴/۴۰۶۔ ابن ماجہ ۱۴۷۹)
(١١٣٧٧) حضرت ابو موسیٰ سے مروی ہے کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس سے ایک جنازہ گزرا وہ اس کو اس طرح ہلا رہے تھے جس طرح مشک کو ہلایا جاتا ہے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : تم پر جنازے میں میانہ روی لازم ہے۔

11377

(۱۱۳۷۸) حَدَّثَنَا سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ سَعِیدِ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : أَسْرِعُوا بِالْجِنَازَۃِ ، فَإِنْ تَکُ صَالِحَۃً فَخَیْرٌ تُقَدِّمُونَہَا إلَیْہِ وَإِنْ تَکُ غَیْرَ ذَلِکَ فَشَرٌّ تَضَعُونَہُ عَنْ رِقَابِکُمْ۔ (بخاری ۱۳۱۵۔ مسلم ۶۵۱)
(١١٣٧٨) حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جنازے کو جلدی لے کر جاؤ (قبرستان کی طرف) کیونکہ اگر تو وہ نیک ہے تو جس کی طرف اس کو لے کر جا رہے ہو وہ اس کے لیے بہتر ہے۔ اور اگر وہ اس کے علاوہ ہے تو تم شر کو اپنی گردنوں سے (جلدی) اتار دو ۔

11378

(۱۱۳۷۹) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ عُیَیْنَۃَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ أَبِی بَکْرَۃَ ، قَالَ : لَقَدْ رَأَیْتُ وَأَنَا مَعَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَکَادُ أَنْ یَرْمُلَ بِالْجِنَازَۃِ رَمَلاً۔ (ابوداؤد ۳۱۷۵۔ احمد ۵/۳۷)
(١١٣٧٩) حضرت ابو بکرہ فرماتے ہیں کہ نبی پاک (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ہم جنازے کو تیزی سے لے کر چلا کرتے تھے۔

11379

(۱۱۳۸۰) حَدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ سَلَمَۃَ بْنِ عَلْقَمَۃَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : أَوْصَی عِمْرَانُ بْنُ حصَیْنٍ ، قَالَ: إذَا أَنَا مِتّ فَأَسْرِعُوا ، وَلاَ تُہَوِّدُوا کَمَا یُہَوِّدُ الْیَہُودُ وَالنَّصَارَی۔
(١١٣٨٠) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ حضرت عمران بن حصین نے وصیت فرمائی جب میں مر جاؤں تو میرے جنازے کو تیز لے کر جانا، اور آہستہ مت چلنا جیسے یہود و نصاریٰ چلا کرتے ہیں۔

11380

(۱۱۳۸۱) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ یَزِیدَ بْنِ جَابِرٍ ، قَالَ : حدَّثَنِی یَحْیَی بْنُ أَبِی رَاشِدٍ النَّصْرِیُّ ، قَالَ : قَالَ عُمَرُ حِینَ حَضَرَتْہُ الْوَفَاۃُ لاِبْنِہِ إذَا خَرَجْتُمْ فَأَسْرِعُوا بِی الْمَشْیَ۔ (ابن سعد ۳۵۸)
(١١٣٨١) حضرت یحییٰ بن ابو راشد فرماتے ہیں کہ جب حضرت عمر کا وقت المرگ قریب آیا تو آپ نے اپنے بیٹے سے فرمایا : جب تم میرے جنازے کو لے کر نکلنا تو مجھے تیز اور جلدی لے کر جانا۔

11381

(۱۱۳۸۲) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ ، عَنِ الْجَعْدِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ بْنِ نَافِعٍ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ، قَالَ: أَسْرِعُوا بِی إلَی رَبِّی۔
(١١٣٨٢) حضرت ابوہریرہ ارشاد فرماتے ہیں مجھے میرے رب کے پاس جلدی لے کر جاؤ۔

11382

(۱۱۳۸۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ مِسْعَرٍ ، عَنْ زَیدٍ العَمِّی ، عَنْ أَبِی الصِّدِّیقِ النَّاجِی ، قَالَ : إِنْ کَانَ الرَّجُلُ لَیَنْقَطِعُ شِسْعُہُ فِی الْجِنَازَۃِ فَمَا یُدْرِکُہَا ، أَوْ مَا یَکَادُ أَنْ یُدْرِکَہَا۔
(١١٣٨٣) حضرت ابو الصدیق الناجی فرماتے ہیں جب جنازے میں چلتے ہوئے کسی کا تسمہ ٹوٹ جاتا تو اس کیلئے جنازے کے ساتھ چلنا مشکل ہوجاتا۔

11383

(۱۱۳۸۴) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ حُصَیْنٍ، عَنْ إبْرَاہِیمَ، عن علقمۃ قَالَ: إذَا أَنَا مِتُّ فَأَسْرِعُوا بِی الْمَشْیَ۔
(١١٣٨٤) حضرت علقمہ فرماتے ہیں جب میں مر جاؤں تو مجھے جلدی جلدی اور تیز لے کر چلنا۔

11384

(۱۱۳۸۵) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنِ الزِّبْرِقَانِ ، قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا وَائِلٍ یَقُولُ عِنْدَ مَوْتِہِ إذَا أَنَا مِتّ فَأَسْرِعُوا بِی الْمَشْیَ۔
(١١٣٨٥) حضرت زبرقان فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابو وائل سے سنا وہ اپنی موت کے وقت فرما رہے تھے جب میں مر جاؤں تو مجھے جلدی لے کر جانا۔

11385

(۱۱۳۸۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إسْرَائِیلَ، عَنْ ثُوَیْرٍ، عَنْ أَبِی جَعْفَرٍ، أَنَّ عَلِیَّ بْنَ حُسَیْنٍ أَوْصَی أَسْرِعُوا بِی الْمَشْیَ۔
(١١٣٨٦) حضرت ابو جعفر فرماتے ہیں کہ حضرت علی بن حسین نے وصیت فرمائی کہ مجھے جلدی لے کر چلنا۔

11386

(۱۱۳۸۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ عُمَارَۃَ بْنِ زَاذَانَ ، عَنْ مَکْحُولٍ الأَزْدِی ، قَالَ : سَمِعَ ابن عمر رَجُلاً یَقُول : ارفُقُوا بِہَا - رَحِمَکُم اللہ - فقَال : ہَوَّدوا، لَتُسْرِعُنَّ بہا ، أَو لأَرجِعَنَّ۔
(١١٣٨٧) حضرت مکحول الازدی فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمر نے ایک شخص کو یہ کہتے ہوئے سنا، اس کو آہستہ لے کر چلو اللہ تعالیٰ تم پر رحم کرے۔ آپ نے فرمایا : آہستہ ؟ اس کو جلدی اور تیز لے کر چلو یا واپس لوٹ جاؤ۔

11387

(۱۱۳۸۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ: کَانَ یُقَالُ انْبَسِطُوا بِجَنَائِزِکُمْ ، وَلاَ تَدِبُّوا بِہَا دَبَّ الْیَہُودِ۔
(١١٣٨٨) حضرت ابراہیم فرماتے ہں پ کہ اپنے جنازوں کو تیز لے کر چلو، یہودیوں کی طرح آہستہ آہستہ (رینگتے ہوئے) مت چلو۔

11388

(۱۱۳۸۹) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ الْحَسَنِ وَمُحَمَّدٍ أَنَّہُمَا کَانَا یُعْجِبُہُمَا أَنْ یُسْرَعَ بِالْجِنَازَۃِ۔
(١١٣٨٩) حضرت حسن اور حضرت محمد جنازے کو تیز لے جانے کو پسند فرمایا کرتے تھے۔

11389

(۱۱۳۹۰) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، عَنِ أبی المُعْتَمِر ، قَالَ : کُنَّا فِی جِنَازَۃٍ ، فَکَانَ الْحَسَنُ إذَا رَأَی مِنْہُمْ إبْطَائً ، قَالَ : امْضُوا لاَ تَحْبِسُُوا مَیَّتَکُمْ۔
(١١٣٩٠) حضرت ابو المعتمر فرماتے ہیں کہ ہم ایک جنازے میں تھے، حضرت حسن نے دیکھا وہ جنازہ آہستہ (تاخیر) لے کر جا رہے ہیں۔ آپ نے فرمایا اس کو تیز لے کر چلو اپنی میت کو قید میں مت رکھو (بلکہ جلدی جا کر دفن کردو) ۔

11390

(۱۱۳۹۱) حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا إسْرَائِیلُ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ الْمُخْتَارِ ، عَنْ مُعَاوِیَۃَ بْنِ قُرَّۃَ ، قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو کَرْبٍ ، أَوْ أَبُو حَرْبٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرو ، أَنَّہُ أَخْبَرَہُ ، أَنَّ أَبَاہُ أَوْصَاہُ ، قَالَ : إذَا أَنْتَ حَمَلْتنِی عَلَی السَّرِیرِ فَامْشِ بِی مَشْیًا بَیْنَ الْمَشْیَیْنِ ، وَکُنْ خَلْفَ الْجِنَازَۃِ فَإِنَّ مُقَدَّمَہَا لِلْمَلاَئِکَۃِ ، وَخَلْفَہَا لِبَنِی آدَمَ۔
(١١٣٩١) حضرت عبداللہ بن عمرو فرماتے ہیں کہ میرے والد نے وصیت فرمائی کہ جب تم مجھے چارپائی پر اٹھاؤ تو مجھے لے کر میانہ انداز میں چلو، اور جنازے کے پیچھے رہو، بیشک اس کے آگے ملائکہ ہوتے ہیں اور پچھلا حصہ انسانوں کے لیے ہے۔

11391

(۱۱۳۹۲) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَۃَ ، عَنْ حَمَّادِ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، عَن عَلْقَمَۃَ ، قَالَ : لاَ تَدِبُّوا بِالْجِنَازَۃِ دَبِیبَ النَّصَارَی۔
(١١٣٩٢) حضرت علقمہ ارشاد فرماتے ہیں جنازہ کو نصاریٰ کی طرح آہستہ آہستہ مت لے کر چلو۔

11392

(۱۱۳۹۳) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ یَعْلَی ، عَنْ عَطَائٍ ، عَنْ عَلِیٍّ الأَزْدِیِّ ، قَالَ : رَأَیْتُ ابْنَ عُمَرَ فِی جِنَازَۃٍ فَحَمَلُوا بِجَوَانِبِ السَّرِیرِ الأَرْبَعِ فَبَدَأَ بِالْمَیَامِنِ ، ثُمَّ تَنَحَّی عَنْہَا ، فَکَانَ مِنْہَا بِمُزْجِرِ کَلْبٍ۔
(١١٣٩٣) حضرت علی الازدی فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن عمر کو جنازہ میں دیکھا آپ نے چارپائی کے چاروں طرف سے اٹھایا اور داہنی جانب پہلے کندھا دیا پھر وہاں سے ہٹ کر الگ ہوگئے۔ قریب رہے زیادہ دور نہ گئے۔

11393

(۱۱۳۹۴) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِی عَدِیٍّ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : لاَ تُبَالِی بِأَیِّ جَوَانِبِ السَّرِیرِ بَدَأْت۔
(١١٣٩٤) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ چارپائی کے جس مرضی جانب سے ابتداء کرو کوئی حرج نہیں ہے،

11394

(۱۱۳۹۵) حَدَّثَنَا حُمَیْدٌ ، عَنْ مِنْدَلٍ ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ أَبِی الْمُغِیرَۃِ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : إنِ اسْتَطَعْت فَابْدَأْ بِالْقَائِمَۃِ الَّتِی تَلِی یَدَہ الْیُمْنَی ، ثُمَّ طِفْ بِالسَّرِیرِ ، وَإلاَ فَکُنْ مِنْہُ قَرِیبًا۔
(١١٣٩٥) حضرت عبداللہ بن عباس ارشاد فرماتے ہیں اگر استطاعت اور قدرت ہو تو چارپائی کے داہنی جانب (کے پائیوں) سے ابتداء کرے، پھر چارپائی کے قریب ہوجائے، وگرنہ اس کے قریب ہوجا۔

11395

(۱۱۳۹۶) حَدَّثَنَا مَالِکُ بْنُ إسْمَاعِیلَ ، عَنْ أَبِی عَوَانَۃَ ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ إیَاسٍ ، قَالَ : رَأَیْتُ الْحَسَنَ تَبِعَ جِنَازَۃً فَحَمَلَ فَوَضَعَ السَّرِیرَ عَلَی شِقِّہِ الأَیْسَرِ فَحُوِّلَ فَحَمَلَ مُقَدَّمَ السَّرِیرِ عَلَی شِقِّہِ الأَیْمَنِ ، ثُمَّ تَأَخَرَ فَوَضَعَ مُؤَخَّرَ السَّرِیرِ عَلَی شِقِّہِ الأَیْمَنِ ، ثُمَّ تَحَوَّلَ فَوَضَعَ مُؤَخَّرَ السَّرِیرِ عَلَی شِقِّہِ الأَیْسَرِ ، ثُمَّ خَلَّی عَنْہَا۔
(١١٣٩٦) حضرت جعفر بن ایاس فرماتے ہیں کہ میں حضرت حسن کو ایک جنازے کے پیچھے اس کو اٹھا کر جاتے دیکھا، آپ نے چار پائی اپنے بائیں کندھے پر رکھا، پھر پلٹے اور چارپائی کے اگلے حصہ کو اپنی داہنی کندھا پر رکھا، پھر پیچھے آئے اور چارپائی کے پچھلے حصے کو داہنی کندھا پر رکھا پھر دوبارہ پلٹے اور چارپائی کے پچھلے حصہ کو بائیں کندھے پر رکھا پھر اس کو (دوسروں کیلئے) چھوڑ دیا۔

11396

(۱۱۳۹۷) حَدَّثَنَا جَرِیرُ بْنُ عَبْدِ الْحَمِیدِ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ عُبَیْدِ بْنِ نِسْطَاسٍ ، قَالَ : کُنَّا مَعَ أَبِی عُبَیْدَۃَ بْنِ عَبْدِ اللہِ فِی جِنَازَۃٍ ، فَقَالَ : قَالَ عَبْدُ اللہِ : إذَا کَانَ أَحَدُکُمْ فِی جِنَازَۃٍ فَلْیَحْمِلْ بِجَوَانِبِ السَّرِیرِ کُلِّہِ ، فَإِنَّہُ مِنَ السُّنَّۃِ ، ثم لِیَتَطَوَّعَ ، أَو لِیَدَعَ۔
(١١٣٩٧) حضرت عبید بن نسطاس فرماتے ہیں کہ ہم حضرت ابو عبیدہ بن عبداللہ کے ساتھ ایک جنازے میں تھے حضرت عبداللہ نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی شخص کسی جنازے میں ہو تو وہ چارپائی کے چاروں حصوں کو کندھا دے بیشک یہ سنت میں سے ہے۔ پھر اس کو (نفلی طور پر) اٹھائے یا (دوسروں کیلئے) چھوڑ دے۔

11397

(۱۱۳۹۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ عَبَّادِ بْنِ مَنْصُورٍ ، عَنْ أَبِی الْمُہَزِّمِ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : مَنْ حَمَلَ الْجِنَازَۃَ ثَلاَثًا فَقَدْ قَضَی مَا عَلَیْہِ مِنْ حَقِّہَا۔
(١١٣٩٨) حضرت ابوہریرہ ارشاد فرماتے ہیں کہ جس نے جنازے کو تین بار اٹھایا اس نے وہ حق ادا کردیا جو اس پر تھا۔

11398

(۱۱۳۹۹) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ ، عَنْ ثَوْرٍ ، عَنْ عَامِرِ بْنِ جَشِیبٍ وَغَیْرِہِ مِنْ أَہْلِ الشَّامِ قَالُوا : قَالَ أَبُو الدَّرْدَائِ: مِنْ تَمَامِ أَجْرِ الْجِنَازَۃِ أَنْ یُشَیِّعَہَا مِنْ أَہْلِہَا وَأَنْ یَحْمِلَ بِأَرْکَانِہَا الأَرْبَعِ وَأَنْ یَحْثُوَ فِی الْقَبْرِ۔
(٩٩ ١١٣) حضرت ابو الدردائ ارشاد فرماتے ہیں کہ جنازے کا کامل اجر یہ ہے کہ اس کے رشتہ داروں کو اطلاع دی جائے اور اس کو چاروں جانب سے کندھا دیا جائے اور پھر اس کو قبر میں اتار دیا جائے۔

11399

(۱۱۴۰۰) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ زُبَیْدٍ ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، قَالَ : خَرَجَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَعَ جِنَازَۃٍ وَمَعَہَا امْرَأَۃٌ فَلَمْ یَبْرَحْ حَتَّی تَوَارَتْ بِالْبُیُوتِ۔
(١١٤٠٠) حضرت مسروق فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کسی جنازہ کے لیے نکلے جس میں عورتیں بھی تھیں تو آپ اس وقت تک نہ ٹلے کہ جب تک عورتیں گھروں کو نہ چلی گئیں۔

11400

(۱۱۴۰۱) حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ ، عَنْ حَجَّاجٍ عَنْ فُضَیْلٍ ، عَنِ ابْنِ مُغَفَّلٍ ، قَالَ : قَالَ عُمَرُ : لاَ تَتْبَعْنِی امْرَأَۃٌ۔
(١١٤٠١) حضرت عمر فرماتے ہیں (میرے جنازے) کے پیچھے عورتیں نہ آئیں۔

11401

(۱۱۴۰۲) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : کَانُوا إذَا أَخْرَجُوا الْجِنَازَۃَ أَغْلَقُوا الْبَابَ عَلَی النِّسَائِ۔
(١١٤٠٢) حضرت ابراہیم ارشاد فرماتے ہیں کہ (صحابہ کرام ) جب جنازے کے لیے نکلتے تو عورتوں پر دروازہ بند کردیتے۔

11402

(۱۱۴۰۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ مُثَنَّی بْنِ سَعِیدٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْتَشِرِ ، قَالَ : کَانَ مَسْرُوقٌ لاَ یُصَلِّی عَلَی جِنَازَۃٍ مَعَہَا امْرَأَۃٌ۔
(١١٤٠٣) حضرت محمد بن المنتشر فرماتے ہیں کہ جس جنازے کے ساتھ عورتیں ہوتی حضرت مسروق اس کا جنازہ نہ پڑھتے۔

11403

(۱۱۴۰۴) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنْ مُوسَی بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ یَزِیدٍ ، قَالَ : کَانَ أَبِی إذَا کَانَتْ دَارٌ فِیہَا جِنَازَۃٌ أَمَرَ بِالْبَابِ فَفُتِحَ فَدَخَلَ الْعُوَّادُ فَإِذَا خُرِجَ بِالْجِنَازَۃِ أَمَرَ بِبَابِ الدَّارِ فَأُغْلِقَ ، فَلاَ تَتْبَعُہَا امْرَأَۃٌ۔
(١١٤٠٤) حضرت موسیٰ بن عبداللہ بن یزید فرماتے ہیں کہ جب میرے والد صاحب کسی گھر میں ہوتے جس میں جنازہ ہوتا تو حکم دیتے دروازے (والے کو) تو وہ کھول دیا جاتا اور سارنگی والے داخل ہوجاتے، جب جنازہ لے کر نکلا جاتا تو گھر کے دروازے (والوں کو) حکم دیتے تو وہ بند کردیئے جاتے۔ پس عورتیں جنازہ کے ساتھ نہ آتیں۔

11404

(۱۱۴۰۵) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : نُہِینَا أَنْ نَتْبَعَ جِنَازَۃً مَعَہَا رَانَّۃ۔ (ابن ماجہ ۱۵۸۳۔ طبرانی ۱۲)
(١١٤٠٥) حضرت عبداللہ بن عمر ارشاد فرماتے ہیں کہ ہمیں اس جنازے کے ساتھ چلنے سے روکا گیا ہے جس میں زور سے رونے کی آواز ہو۔

11405

(۱۱۴۰۶) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ الْحَسَنِ وَمُحَمَّدٍ ، قَالَ : کَانَا یَکْرَہَانِ أَنْ تَتْبَعَ النِّسَائُ الْجَنَائِزَ۔
(١١٤٠٦) حضرت حسن اور حضرت محمد عورتوں کے جنازے کے ساتھ جانے کو ناپسند سمجھتے تھے۔

11406

(۱۱۴۰۷) حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ بْنُ مُوسَی ، قَالَ : أَخْبَرَنَا الْحَسَنُ بْنُ صَالِحٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ بْنِ عَبْدِ الأَعْلَی ، عَنْ سُوَیْد، قَالَ : لاَ یَنْبَغِی لِلْمَرْأَۃِ أَنْ تَخْرُجَ مِنْ بَابِ الدَّارِ مَعَ الْجِنَازَۃِ۔
(١١٤٠٧) حضرت سوید ارشاد فرماتے ہیں کہ عورت کا گھر کے دروازے سے جنازے کے ساتھ نکلنا مناسب نہیں ہے۔

11407

(۱۱۴۰۸) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ حُبَابٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا مُعَاوِیَۃُ بْنُ صَالِحٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ قَیْسٍ ، قَالَ : کُنَّا فِی جِنَازَۃٍ وَفِیہَا أَبُو أُمَامَۃَ فَرَأَی نِسْوَۃً فِی الْجِنَازَۃِ فَطَرَدہُنَّ۔
(١١٤٠٨) حضرت عمرو بن قیس فرماتے ہیں ہم ایک جنازے میں تھے اور اس جنازے میں حضرت ابو امامہ بھی تھے، آپ اس جنازے میں ایک عورت دیکھی تو اس کو دور کردیا۔

11408

(۱۱۴۰۹) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مُرَّۃَ ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، قَالَ : رَأَیْتُہ یَحْثِی التُّرَابَ فِی وُجُوہِ النِّسَائِ فِی الْجِنَازَۃِ وَیَقُولُ لَہُنَّ : ارْجِعْنَ ، فَإِنْ رَجَعْنَ مَضَی مَعَ الْجِنَازَۃِ ، وَإِلاَّ رَجَعَ وَتَرَکَہَا۔
(١١٤٠٩) حضرت عبداللہ بن مرہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت مسروق کو دیکھا وہ جنازہ میں عورتوں کے چہروں پر مٹی پھینکتے تھے اور ان کو کہتے تھے واپس لوٹ جاؤ۔ اگر وہ لوٹ جاتیں تو جنازہ میں شرکت کرتے ورنہ واپس ہوجاتے اور جنازہ میں شرکت نہ کرتے۔

11409

(۱۱۴۱۰) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنْ حَفْصَۃَ ، عَنْ أُمِّ عَطِیَّۃَ ، قَالَ : نُہِینَا عَنِ اتِّبَاعِ الْجَنَائِزِ ، وَلَمْ یُعْزَمْ عَلَیْنَا۔ (مسلم ۶۴۶۔ ابوداؤد ۳۱۵۹)
(١١٤١٠) حضرت ام عطیہ فرماتی ہیں کہ ہمیں جنازے کے پیچھے جانے سے منع کیا گیا ہے اور یہ ہم پر لازم اور ضروری نہیں ہے۔

11410

(۱۱۴۱۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ ، عَنْ وَہْبِ بْنِ کَیْسَانَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو بْنِ عَطَائٍ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ فِی جِنَازَۃٍ فَرَأَی عُمَرُ امْرَأَۃً فَصَاحَ بِہَا ، فَقَالَ لَہُ : رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : دَعْہَا یَا عُمَرُ فَإِنَّ الْعَیْنَ دَامِعَۃٌ وَالنَّفْسَ مُصَابَۃٌ وَالْعَہْدَ قَرِیبٌ۔ (احمد ۲/۴۴۴۔ حاکم ۳۸۱)
(١١٤١١) حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک جنازہ میں شریک تھے حضرت عمر نے ایک عورت کو دیکھا جو چیخ رہی تھی۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عمر سے فرمایا : اے عمر چھوڑ دو بیشک آنکھیں اشک بار ہیں اور نفس غم میں مبتلا ہے اور عہد (وعدہ مقررہ) قریب ہے۔

11411

(۱۱۴۱۲) حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ عَیَّاشٍ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ جُبَارِ الطَّائِیِّ ، قَالَ : شَہِدْت جِنَازَۃَ أُمِّ مُصْعَبِ بْنِ الزُّبَیْرِ وَفِیہَا ابْنُ عَبَّاسٍ عَلَی أَتَانٍ لَہُ قمراء یقاد وَعَبْدَ اللہِ بْنَ عُمَرَ ، وَابْنُ عَمْرٍو ، قَالَ : فَسَمِعُوا أَصْوَاتَ صَوَائِحَ ، قَالَ : قُلْتُ یَا ابْنَ عَبَّاسٍ یُصْنَعُ ہَذَا وَأَنْتَ ہَاہُنَا ؟ قَالَ : دَعْنَا مِنْک یَا جُبَارِ ، فَإِنَّ اللَّہَ أَضْحَکَ وَأَبْکَی۔
(١١٤١٢) حضرت جبار الطائی فرماتے ہیں کہ میں حضرت ام مصعب بن زبیر کے جنازہ میں حاضر ہوا وہاں حضرت ابن عباس بھی سفید گدھی پر سوار موجود تھے جس کو لگام پکڑ کر چلا جا رہا تھا۔ اور حضرت عبداللہ بن عمر اور حضرت عبداللہ بن عباس بھی موجود تھے تو انھوں نے چلانے اور چیخنے کی آواز سنی تو میں نے ابن عباس سے عرض کیا یہاں پر یہ ہو رہا ہے اور آپ پھر بھی یہاں موجود ہیں ؟ آپ نے فرمایا : اے جبارھم سے خود کو دور رکھو (ہم اس کے مکلف نہیں) بیشک اللہ تعالیٰ ہی ہنساتا ہے اور اللہ ہی رلاتا ہے۔

11412

(۱۱۴۱۳) حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ عَیَّاشٍ ، عَنْ خَالِدِ بْنِ دِینَارٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : خَرَجَ فِی جِنَازَۃٍ فَجَعَلُوا یَصِیحُونَ عَلَیْہَا فَرَجَعَ ثَابِتٌ ، فَقَالَ لَہُ : الْحَسَنُ تَدَعُ حَقًّا لِبَاطِلٍ ، قَالَ : فَمَضَی۔
(١١٤١٣) حضرت حسن ایک جنازے کے ساتھ نکلے تو اس میں چیخنے کی آوازیں تھی، حضرت ثابت لوٹے تو حضرت حسن نے ان سے کہا کیا آپ باطل کے لیے (کی وجہ سے) حق کو چھوڑ رہے ہیں ؟ راوی کہتے ہیں (یہ سن کر) وہ جنازے کے ساتھ چل پڑے۔

11413

(۱۱۴۱۴) حَدَّثَنَا مَعْنُ بْنُ عِیسَی ، عَنْ خَالِدِ بْنِ أَبِی بَکْرٍ ، قَالَ : رَأَیْتُ سَالِمًا وَالْقَاسِمَ یَمْشِیَانِ أَمَامَ الْجِنَازَۃِ وَالنِّسَائَ خَلْفَہَا۔
(١١٤١٤) حضرت خالد بن ابی بکر فرماتے ہیں میں نے حضرت سالم اور حضرت قاسم کو دیکھا آپ جنازے کے آگے آگے چل رہے ہیں اور عورتیں جنازے کے پیچھے۔

11414

(۱۱۴۱۵) حَدَّثَنَا جَرِیرُ بْنُ عَبْدِ الْحَمِیدِ ، عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ ، عَنْ مَحَارِبِ بْنِ دِثَارٍ ، قَالَ : أَوْصَتْ أمُّ سَلَمَۃَ أَنْ یُصَلِّیَ عَلَیْہَا سَعِیدُ بْنُ زَیْدٍ۔
(١١٤١٥) حضرت محارب بن دثار فرماتے ہیں کہ حضرت ام سلمہ نے وصیت فرمائی تھی کہ میری نماز جنازہ حضرت سعید بن زید پڑھائیں۔

11415

(۱۱۴۱۶) حَدَّثَنَا سَہْلُ بْنُ یُوسُفَ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، عَنْ مُحَمَّدٍ ، قَالَ : أَوْصَی یُونُسُ بْنُ جُبَیْرٍ أَنْ یُصَلِّیَ عَلَیْہِ أَنَسُ بْنُ مَالِکٍ۔
(١١٤١٦) حضرت محمد فرماتے ہیں کہ حضرت یونس بن جبیر نے وصیت فرمائی تھی کہ ان کی نماز جنازہ حضرت انس بن مالک پڑھائیں۔

11416

(۱۱۴۱۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ مِسْعَرٍ ، عَنْ أَبِی حَصِین : أَنَّ عَبِیدَۃََ أَوْصَی أَنْ یُصَلِّیَ عَلَیْہِ الأَسوَدَ۔
(١١٤١٧) حضرت عبیدہ نے وصیت فرمائی تھی کہ ان کی نماز جنازہ حضرت اسود پڑھائیں۔

11417

(۱۱۴۱۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، أَنَّ أَبَا مَیْسَرَۃَ أَوْصَی أَنْ یُصَلِّیَ عَلَیْہِ قَاضِی الْمُسْلِمِینَ شُرَیْحٌ۔
(١١٤١٨) حضرت ابو اسحاق فرماتے ہیں کہ حضرت ابو میسرہ نے وصیت فرمائی تھی کہ میری نماز جنازہ مسلمان کے قاضی حضرت شریح پڑھائیں۔

11418

(۱۱۴۱۹) حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّیَالِسِیُّ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، قَالَ : حدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ ، قَالَ : أَوْصَی الْحَارِثُ أَنْ یُصَلِّیَ عَلَیْہِ عَبْدُ اللہِ بْنُ یَزِیدَ۔
(١١٤١٩) حضرت ابو اسحاق فرماتے ہیں کہ حضرت حارث نے وصیت فرمائی تھی کہ ان کی نماز جنازہ حضرت عبداللہ بن یزید پڑھائیں۔

11419

(۱۱۴۲۰) حَدَّثَنَا سَہْلُ بْنُ یُوسُفَ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، عَنْ مُحَمَّدٍ ، قَالَ : مَا عَلِمْت أَنَّ أَحَدًا أَحَقُّ بِالصَّلاَۃِ عَلَی أَحَدٍ إِلاَّ أَنْ یُوصِیَ الْمَیِّتُ ، فَإِنْ لَمْ یُوصِ الْمَیِّتُ صَلَّی عَلَیْہِ أَفْضَلُ أَہْلِ بَیْتِہِ۔
(١١٤٢٠) حضرت محمد فرماتے ہیں کہ مجھے نہیں معلوم کہ کوئی شخص کسی کی نماز جنازہ پڑھانے کا زیادہ حقدار ہے ہاں مگر وہ شخص (زیادہ حقدار ہے) جس کے لیے مرنے والا وصیت کرے، اور اگر مرنے والا وصیت نہ کرے تو اھل بیت میں سے جو سب سے افضل ہے وہ جنازہ کی نماز پڑھائے۔

11420

(۱۱۴۲۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ ، عَنْ مُحَارِبٍ ، أَنَّ أُمَّ سَلَمَۃَ أَوْصَتْ أَنْ یُصَلِّیَ عَلَیْہَا سِوَی الإِمَامِ۔
(١١٤٢١) حضرت محارب فرماتے ہیں کہ حضرت ام سلمہ نے وصیت فرمائی تھی کہ میری نماز جنازہ امام وقت کے علاوہ کوئی اور پڑھائے۔

11421

(۱۱۴۲۲) حَدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ بْنُ عَیَّاشٍ ، عَنْ عبد العزیز بن عُبَیْدِ اللہِ ، عَنِ الْحَکَمِ ، عَنْ عَلِیٍّ ، قَالَ : الإِمَامُ أَحَقُّ مَنْ صَلَّی عَلَی الجِنَازَۃٍ۔
(١١٤٢٢) حضرت علی کرم اللہ وجہہ ارشاد فرماتے ہیں کہ امام زیادہ حقدار ہے جو نماز پڑھائے کسی جنازے کی۔

11422

(۱۱۴۲۳) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، قَالَ : ذَہَبْت مَعَ إبْرَاہِیمَ إلَی جِنَازَۃٍ ہُوَ وَلِیُّہَا ، فَأَرْسَلَ إلَی إمَامِ الْحَیِّ فَصَلَّی عَلَیْہَا۔
(١١٤٢٣) حضرت منصور فرماتے ہیں کہ میں حضرت ابراہیم کے ساتھ ایک جنازے پر گیا جس کے والی حضرت ابراہیم (خود) تھے۔ آپ نے محلہ کے امام کی طرف پیغام بھیجا تو اس نے اس کی نماز جنازہ پڑھائی۔

11423

(۱۱۴۲۴) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ عَمِّہِ غَنَّامِ بْنِ طَلْقٍ ، قَالَ : شَہِدَ أَبُو بُرْدَۃَ مَوْلاَۃً لَہُ فَأَمَرَ إمَامَ الْحَیِّ فَتَقَدَّمَ عَلَیْہَا۔
(١١٤٢٤) حضرت غنام بن طلق فرماتے ہیں حضرت ابو بردہ اپنے غلام کے جنازے پر حاضر ہوئے آپ نے محلہ کے امام کو حکم فرمایا کہ وہ آگے بڑھ کر نماز جنازہ پڑھائیں۔

11424

(۱۱۴۲۵) حَدَّثَنَا جَرِیرُ بْنُ عَبْدِ الْحَمِیدِ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ السَّائِبِ ، قَالَ : تُوُفِّیَتِ ابْنَۃُ إبْرَاہِیمَ التَّیْمِیِّ فَشَہَّدَ إبْرَاہِیمُ النَّخْعِِی جَنَازَتہا ، فَأمَرَ إبْرَاہِیمُ النَّخْعِِی إمَامَ التَّیْمِ أَنْ یُصَلِّیَ عَلَیْہَا ، وَقَالَ : ہُوَ السُّنَّۃُ۔
(١١٤٢٥) حضرت محمد بن السائب فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم تیمی کے صاحبزادے وفات پا گئے تو ان کے جنازے پر حضرت ابراہیم نخعی حاضر ہوئے۔ حضرت ابراہیم نخعی نے بنو تیم کے امام کو حکم فرمایا کہ وہ اس کی نماز جنازہ پڑھائے، اور پھر ارشاد فرمایا : یہی سنت طریقہ ہے۔

11425

(۱۱۴۲۶) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ مُسْلِمٍ ، قَالَ : رَأَیْتُ عَبْدَ الرَّحْمَن بْنَ أَبِی لَیْلَی قَدَّمَ عَبْدَ اللہِ بْنَ حَکِیمٍ عَلَی أُمِّہِ وَکَانَ إمَامَ الْحَیِّ۔
(١١٤٢٦) حضرت مسلم فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عبد الرحمن بن ابی لیلیٰ کو دیکھا آپ نے اپنی والدہ کی نماز جنازہ پڑھانے کے لیے حضرت عبداللہ بن حکیم کو مقدم فرمایا۔ وہ ان کے محلہ کے امام تھے۔

11426

(۱۱۴۲۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ حَسَنِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ بْنِ عَبْدِ الأَعْلَی ، عَنْ سُوَیْد بْنِ غَفَلَۃَ ، قَالَ : الإِمَامُ أَحَقُّ۔
(١١٤٢٧) حضرت سوید بن غفلہ ارشاد فرماتے ہیں امام (محلہ) جنازہ پڑھانے کا زیادہ حقدار ہے۔

11427

(۱۱۴۲۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إسْرَائِیلَ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ عَامِرٍ ، عَنْ جَرِیرٍ ، قَالَ : یَتَقَدَّمُ الإِمَامُ۔
(١١٤٢٨) حضرت جریر ارشاد فرماتے ہیں کہ امام (محلہ) کو جنازے کے لیے مقدم کریں گے۔

11428

(۱۱۴۲۹) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، عَنِ الأَسْوَد ، أَنَّہُ کَانَ یُقَدَّمُ عَلَی الْجَنَائِزِ لِسُنَّۃٍ۔
(١١٤٢٩) حضرت اسود ارشاد فرماتے ہیں کہ جنازوں پر مقدم امام (محلہ) ہوں گے۔ سنت کی وجہ سے (سنت طریقہ یہی ہے) ۔

11429

(۱۱۴۳۰) حَدَّثَنَا حُسَین بْنُ عَلِیٍّ ، عَنْ زَائِدَۃَ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : کُنْتُ أُقَدِّمُ الأَسْوَد عَلَی الْجَنَائِزِ، قَالَ إبْرَاہِیمُ : وَکَانَ إمَامَہُمْ۔
(١١٤٣٠) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ میں حضرت اسود کو جنازہ کی نماز کے لیے مقدم کیا، (کیونکہ) وہ ان کے امام (محلہ) تھے۔

11430

(۱۱۴۳۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ : مَاتَ ابْنٌ لأَبِی مَعْشَرٍ فَلَمْ یَحْضُرَ الإِمَامُ ، فَقَالَ : لِیَتقَدَّمْ مَنْ کَانَ یُصَلِّی بَعْدَ الإِمَامِ۔
(١١٤٣١) حضرت حسن بن عمرو سے مروی ہے کہ حضرت ابو معشر کے بیٹے وفات پا گئے تو اس وقت امام حاضر نہ تھے، فرمایا جو شخص امام کی عدم موجودگی میں نماز پڑھایا کرتا ہے وہ آگے بڑھ کر جنازہ پڑھائے۔

11431

(۱۱۴۳۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ سَالِمٍ وَالْقَاسِمِ وَطَاوُسٍ ، وَمُجَاہِدٍ ، وَعَطَائٍ أَنَّہُمْ کَانُوا یُقَدِّمُونَ الإِمَامَ عَلَی الْجِنَازَۃِ۔
(١١٤٣٢) حضرت سالم ، حضرت قاسم ، حضرت طاؤس ، حضرت مجاہد اور حضرت عطائ جنازے کی نماز کے لیے امام کو مقدم کرتے تھے۔

11432

(۱۱۴۳۳) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ ، عَنْ عَمِّہِ ، قَالَ شَہِدَت طَلْحَۃَ وَزُبَیْدًا وَقَدْ مَاتَتِ امْرَأَۃٌ ذَاتُ قَرَابَۃٍ لَہُمْ فَقَدَّمُوا إمَامَ الْحَیِّ۔
(١١٤٣٣) حضرت حفص بن عیاث اپنے چچا سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت طلحہ اور حضرت زبیر اپنے قریبی خاتون کے جنازے پر حاضر ہوئے، دونوں حضرات نے محلہ کے امام کو جنازے کے لیے مقدم کیا۔

11433

(۱۱۴۳۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : کَانُوا یُقَدِّمُونَ الأَئِمَّۃَ عَلَی جَنَائِزِہِمْ۔
(١٣١٣٤) حضرت ابراہیم سے مروی ہے کہ (صحابہ کرام ، فقہاء کرام ) اماموں کو جنازہ پڑھانے کے لیے آگے کیا کرتے تھے۔

11434

(۱۱۴۳۵) حَدَّثَنَا جَرِیرُ بْنُ عَبْدِ الْحَمِیدِ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ حَمَّادٍ ، قَالَ یُقَدِّمُ الْوَلِیُّ عَلَی الْجِنَازَۃِ مَنْ أَحَبَّ۔
(١١٤٣٥) حضرت حماد ارشاد فرماتے ہیں کہ ولی جس کو چاہے جنازہ کی نماز کے لیے آگے کردے۔

11435

(۱۱۴۳۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إسْرَائِیلَ ، عَنْ جَابِرِ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الأَسْوَد وَعَلْقَمَۃَ قَالاَ : یَتَقَدَّمُ الإِمَامُ۔
(١١٤٣٦) حضرت عبد الرحمن بن اسود اور حضرت علقمہ ارشاد فرماتے ہیں کہ امام کو جنازہ کے لیے آگے کریں گے۔

11436

(۱۱۴۳۷) حَدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عُبَیْدِ اللہِ ، أَنَّ عَلْقَمَۃَ کَانَ یُصَلِّی عَلَی جَنَائِزِ الْحَیِّ وَلَیْسَ بِإِمَامٍ۔
(١١٤٣٧) حضرت حسن عبید اللہ فرماتے ہیں کہ حضرت علقمہ اپنے محلہ کے جنازوں کی نماز پڑھا کرتے تھے حالانکہ وہ امام نہ تھے۔

11437

(۱۱۴۳۸) حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إسْمَاعِیلَ ، عَنْ أُنَیْسٍ بْنِ أَبِی یَحْیَی ، عَنْ أَبِیہِ ، أَنَّ جِنَازَۃً وُضِعَتْ فَقَامَ ابْنُ عُمَرَ قَائِمًا، فَقَالَ : أَیْنَ وَلِیُّ ہَذِہِ الْجِنَازَۃِ لِیُصَلِّیَ عَلَیْہَا قَبْلَ أَنْ یَطْلُعَ قَرْنُ الشَّمْسِ؟۔
(١١٤٣٨) حضرت انیس بن ابی یحییٰ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ ایک جنازہ رکھا گیا تو حضرت ابن عمر یہ فرماتے ہوئے کھڑے ہوگئے کہ اس جنازہ کا ولی کہاں ہے تاکہ طلوع شمس سے پہلے پہلے اس کی نماز جنازہ پڑھ لیں۔

11438

(۱۱۴۳۹) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ ، عَنْ عَنْبَسَۃَ الْوَزَّانِ قَالَ : حدَّثَنَا أَبُو لُبَابَۃَ ، قَالَ صَلَّیْت مَعَ أَبِی ہُرَیْرَۃَ عَلَی جِنَازَۃٍ وَالشَّمْسُ عَلَی أَطْرَافِ الْجُدُرِ۔
(١١٤٣٩) حضرت ابو لبابہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوہریرہ کے ساتھ جنازے کی نماز پڑھی اس وقت سورج (کی روشنی) دیواروں کے اطراف میں تھی۔

11439

(۱۱۴۴۰) حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّیَالِسِیُّ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ أَبِی حَصِینٍ ، أَنَّ عَبِیْدَۃَ أَوْصَی أَنْ یُصَلِّیَ عَلَیْہِ الأَسْوَد ، قَالَ : فَجَاؤُوا بِہِ قَبْلَ أَنْ تَغْرُبَ الشَّمْسُ ، قَالَ فَصَلَّی عَلَیْہِ قَبْلَ غُرُوبِ الشَّمْسِ۔
(١١٤٤٠) حضرت ابو حصین فرماتے ہیں کہ حضرت عبیدہ نے وصیت فرمائی تھی کہ ان کی نماز جنازہ حضرت اسود پڑھائے۔ ان کو غروب شمس سے پہلے بلایا گیا تو انھوں نے غروب آفتاب سے پہلے ہی نماز جنازہ پڑھا دی۔

11440

(۱۱۴۴۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ بُرْقَانَ ، عَنْ مَیْمُونٍ ، قَالَ : کَانَ ابْنُ عُمَرَ یَکْرَہُ الصَّلاَۃَ عَلَی الْجِنَازَۃِ إذَا طَفَلَتِ الشَّمْسُ وَحِینَ تَغِیبُ۔
(١١٤٤١) حضرت میمون فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمر طلوع شمس اور غروب شمس کے وقت نماز جنازہ کو ناپسند فرماتے تھے۔

11441

(۱۱۴۴۲) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ حَبِیبٍ ، عَنْ عَمْرٍوَ قَالَ : سُئِلَ جَابِرُ بْنُ زَیْدٍ ہَلْ تُدْفَنُ الْجِنَازَۃُ عِنْدَ طُلُوعِ الشَّمْسِ أَوَ عِنْدَ غُرُوبِہَا ، أَوْ غُرُوبِ بَعْضِہَا ، قَالَ : لاَ۔
(١١٤٤٢) حضرت عمرو فرماتے ہیں کہ حضرت جابر سے دریافت کیا گیا کہ طلوع شمس، غروب شمس یا بعض حصہ غروب ہونے کے وقت جنازہ کو دفن کیا جائے گا ؟ آپ نے فرمایا نہیں۔

11442

(۱۱۴۴۳) حَدَّثَنَا مَعَنْ، عَنِ ابْنِ أَبِی ذِئْبٍ، عَنِ الزُّہْرِیِّ، قَالَ: تُکْرَہُ الصَّلاَۃُ عَلَی الْجِنَازَۃِ بَعْدَ الْعَصْرِ وَبَعْدَ الْفَجْرِ۔
(١١٤٤٣) حضرت امام زہری فرماتے ہیں کہ عصر کے بعد اور فجر کے بعد نماز جنازہ پڑھانا ناپسندیدہ ہے۔

11443

(۱۱۴۴۴) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِی عَدِیٍّ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، قَالَ : کَانَ مُحَمَّدٌ یُحِبُّ أَنْ یُصَلِّیَ عَلَی الْجِنَازَۃِ ، ثُمَّ یُصَلِّیَ الْعَصْرَ وَکَانَ یَکْرَہُ أَنْ یُصَلِّیَ عَلَی الْجِنَازَۃِ بَعْدَ الْعَصْرِ۔
(١١٤٤٤) حضرت محمد اس بات کو پسند فرماتے تھے کہ پہلے جنازہ کی نماز پڑھی جائے پھر عصر کی، وہ اس بات کو ناپسند فرماتے تھے کہ پہلے عصر کی نماز ہو اس کے بعد نماز جنازہ۔

11444

(۱۱۴۴۵) حدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ غِیَاثٍ ، قَالَ : سَأَلتُ الْحَسَنَ عَنِ الصَّلاۃِ عَلَی الْجِنَازَۃِ بَعْدَ الْعَصْرِ ، فَقَالَ: نَعَمْ إذَا کَانَتْ نَقِیَّۃً بَیْضَائَ فَإِذَا أَزِفَتْ لِلإِیَابِ فَلاَ تُصَلِّ عَلَیْہَا حَتَّی تَغْرُبَ الشَّمْسُ۔
(١١٤٤٥) حضرت عثمان بن غیاث فرماتے ہیں کہ حضرت حسن سے عصر کے بعد نماز جنازہ پڑھنے سے متعلق دریافت کیا گیا ؟ آپ نے فرمایا، ہاں جب خالص سفیدی ہو تو پڑھ لو۔ اور جب سورج غروب کے قریب ہو تو مت پڑھو جب تک کہ وہ غروب نہ ہوجائے۔

11445

(۱۱۴۴۶) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِِ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِی بَکْرٍ یَعْنِی ابْنَ حَفْصٍ ، قَالَ : کَانَ عَبْدُ اللہِ بْنُ عُمَرَ إذَا کَانَتِ الْجِنَازَۃُ صَلَّی الْعَصْرَ ، ثُمَّ قَالَ : عَجِّلُوا بِہَا قَبْلَ أَنْ تَطْفُلَ الشَّمْسُ۔
(١١٤٤٦) حضرت ابن حفص سے مروی ہے کہ عبداللہ بن عمر جب جنازہ موجود ہوتا تو عصر کی نماز پڑھ کر فرماتے ہیں جلدی کر قبل اس کے کہ سورج غروب ہوجائے۔

11446

(۱۱۴۴۷) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنِ الْوَلِیدِ بْنِ أَبِی مَالِکٍ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ، وعَنْ أَشْعَثَ، عَنِ الْحَسَنِ ، وَابْنِ سِیرِینَ قَالُوا : إذَا حَضَرَتِ الْجِنَازَۃُ وَالصَّلاَۃُ الْمَکْتُوبَۃُ یُبْدَأُ بِصَلاَۃِ الْمَکْتُوبَۃِ۔
(١١٤٤٧) حضرت اشعث ، حضرت حسن اور حضرت ابن سیرین فرماتے ہیں جب نماز جنازہ اور فرض نماز کا وقت ایک ساتھ آجائے تو پہلے فرض نماز پڑھیں گے۔

11447

(۱۱۴۴۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ عُثْمَان بْنِ أَبِی ہِنْدٍ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِیزِ ، أَنَّہُ حَضَرَ جِنَازَۃً وَحَضَرَتِ الصَّلاَۃُ فَبَدَأَ بِالْمَکْتُوبَۃِ۔
(١١٤٤٨) حضرت عثمان بن ابی ھند فرماتے ہیں کہ فرض نماز اور نماز جنازہ ایک ساتھ حاضر ہوتے تو حضرت عمر بن عبدالعزیز ابتداء فرض نماز سے فرماتے۔

11448

(۱۱۴۴۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ شَرِیکٍ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، قَالَ یُبْدَأُ بِالْمَکْتُوبَۃِ۔
(١١٤٤٩) حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ ابتداء فرض نماز سے کی جائے گی۔

11449

(۱۱۴۵۰) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِی عَدِیٍّ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، قَالَ مَاتَ ابْنٌ لِی ، قَالَ : فَقَالَ : لِی ابْنُ سِیرِینَ إنِ اسْتَطَعْت أَنْ تُخْرِجَہُ فِی وَقْتٍ یُصَلَّی عَلَیْہِ ، ثُمَّ تُصَلَّی الْعَصْرُ۔
(١١٤٥٠) حضرت ابن عون فرماتے ہیں کہ میرے بیٹے کا انتقال ہوا تو حضرت ابن سیرین نے مجھ سے فرمایا : اگر طاقت ہو تو ایسے وقت جنازہ لے کر نکلنا کہ جس میں پہلے جنازہ کی نماز پڑھ لو پھر نماز عصر۔

11450

(۱۱۴۵۱) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ حَبِیبٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ ہَرِمٍ ، قَالَ : سُئِلَ جَابِرُ بْنُ زَیْدٍ ، عَنِ الْجَنَائزِ یُصَلَّی عَلَیْہَا قَبْلَ صَلاَۃِ المَغْرِب ، أَوْ بَعْدَہَا ؟ قَالَ یُصَلَّی عَلَی الْجَنَازۃِ قَبْلَ ثُمَّ تُصَلَّی الْمَغْرِبُ۔
(١١٤٥١) حضرت عمرو بن ھرم فرماتے ہیں کہ حضرت جابر سے دریافت کیا گیا نماز جنازہ (جب حاضر ہوجائے تو) نماز مغرب سے پہلے ادا کیا جائے یا بعد میں ؟ آپ نے فرمایا نماز جنازہ پہلے پڑھی جائے پھر مغرب کی نماز ادا کی جائے۔

11451

(۱۱۴۵۲) حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ مُعَاذٍ ، عَنِ التَّیْمِیِّ ، عَنْ بَکْرٍ ، قَالَ : إذَا حَمَلْتَ الْجِنَازَۃَ فَسَبِّحْ مَا دُمْت تَحْمِلُہَا۔
(١١٤٥٢) حضرت بکر فرماتے ہیں کہ جب جنازے کو کندھا دو تو جب تک اس کو اٹھائے رکھو تسبیح پڑھتے رہو۔

11452

(۱۱۴۵۳) حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ بَکْرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : إذَا حَمَلَ ، قَالَ بِسْمِ اللہِ وَیُسَبِّحُ مَا حَمَلَہُ۔
(١١٤٥٣) حضرت بکر بن عبداللہ فرماتے ہیں کہ جب کندھا دو تو بسم اللہ پڑھو اور جب تک کندھا دیئے رکھو تسبیح پڑھتے رہو۔

11453

(۱۱۴۵۴) حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ مُعَاذٍ ، عَنْ أَبِی خَلْدَۃَ ، قَالَ : رَأَیْتُ الْحَسَنَ یُصَلِّی عَلَی جِنَازَۃِ أَبِی رَجَائٍ الْعُطَارِدِیِّ عَلَی حِمَارٍ۔
(١١٤٥٤) حضرت ابی خلدہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت حسن کو دیکھا آپ درازگوش پر سوار حضرت ابو رجاء العطاردی کی نماز جنازہ ادا فرما رہے تھے۔

11454

(۱۱۴۵۵) حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ مُعَاذٍ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، أَنَّہُ کَانَ لاَ یَرَی بَأْسًا أَنْ تُصَلِّیَ الْمَرْأَۃُ عَلَی جِنَازَۃٍ وَہِیَ وَاقِفَۃٌ عَلَی حِمَارِہَا۔
(١١٤٥٥) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ اس میں کوئی حرج نہیں کہ عورت درازگوش پر سوار نماز جنازہ ادا کرے۔

11455

(۱۱۴۵۶) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مُرَّۃَ ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لَیْسَ مِنَّا مَنْ لَطَمَ الْخُدُودَ وَشَقَّ الْجُیُوبَ وَدَعَا بِدُعَائِ أَہْلِ الْجَاہِلِیَّۃِ۔ (بخاری ۱۲۹۴۔ مسلم ۱۶۵)
(١١٤٥٦) حضرت عبداللہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : وہ ہم میں سے نہیں جو گالوں پر طمانچے مارے، اور گریبان چاک کرے اور جاہلیت کی طرح (جاہلوں کی طرح) پکارے۔

11456

(۱۱۴۵۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، وَعَبْدُ الرَّحْمَن بْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ زُبَیْدٍ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، عَن مَسْرُوقٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : لَیْسَ مِنَّا مَنْ ضَرَبَ الْخُدُودَ وَشَقَّ الْجُیُوبَ وَدَعَا بِدَعْوَی أَہْلِ الْجَاہِلِیَّۃِ۔ (بخاری ۱۲۹۷۔ ترمذی ۹۹۹)
(١١٤٥٧) حضرت عبداللہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : وہ ہم میں سے نہیں جو چہروں پر مارے، گریبان چاک کرے اور جاہلوں کی طرح پکارے۔

11457

(۱۱۴۵۸) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ حُصَیْنٍ ، عَنْ عِیَاضٍ الأَشْعَرِیِّ ، قَالَ لَمَّا أُغْمِیَ عَلَی أَبِی مُوسَی صَاحَتِ امْرَأَتُہُ ، فَلَمَّا أَفَاقَ ، قَالَ : أمَا عَلِمْتِ مَا قُلْتُ لَکَ ؟ قَالَت : فَلَمَّا مَاتَ لَمْ تَصِحْ عَلَیْہِ ، فَقُلْنَا : مَا قَالَ لَکَ ؟ قَالَتْ : قَالَ : لَیْسَ مِنَّا مَنْ خَرَقَ ، أَوْ حَلَقَ ، أَوْ سَلَقَ۔ (مسلم ۱۰۰۔ ابوداؤد ۳۱۲۲)
(١١٤٥٨) حضرت عیاض اشعری فرماتے ہیں کہ جب حضرت ابو موسیٰ پر غشی طاری ہوئی تو ان کی اہلیہ نے چیخنا شروع کردیا، جب ان کو افاقہ ہوا تو انھوں نے اپنی اہلیہ سے فرمایا کیا تمہیں نہیں معلوم میں نے آپ سے کیا کہا تھا ؟ فرماتی ہیں پھر جب ان کا انتقال ہوا تو اس نے ان پر واویلا نہیں کیا، ہم نے عرض کیا ابو موسیٰ نے آپ سے کیا کہا تھا ؟ اہلیہ نے فرمایا انھوں نے کہا تھا وہ ہم میں سے نہیں جو گلے پر (چہرے پر) مارے، یا گریبان چاک کرے یا چیخے چلائے۔

11458

(۱۱۴۵۹) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، عَن سَہْمِ بْنِ مِنْجَابٍ ، عَنِ الْقَرْثَعِ ، قَالَ : لَمَّا ثَقُلَ أَبُو مُوسَی صَاحَتْ عَلَیْہِ امْرَأَتُہُ ، فَقَالَ : لَہَا أَمَا عَلِمْتِ مَا قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ؟ قَالَتْ : بَلَی ، ثُمَّ سَکَتَتْ ، فَقِیلَ لَہَا بَعْدُ أَیُّ شَیْئٍ قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : فَقَالَتْ : إنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَعَنَ مَنْ حَلَقَ وَخَرَقَ وَسَلَقَ۔ (احمد ۴/۴۰۵۔ نسائی ۱۹۹۴)
(١١٤٥٩) حضرت قرثع فرماتے ہیں کہ جب حضرت ابو موسیٰ پر زندگی ثقیل ہوگئی تو ان کی اہلیہ نے چیخنا شروع کردیا۔ انھوں نے ان سے فرمایا کیا تجھے نہیں معلوم حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کیا فرمایا ہے ؟ کہا کیوں نہیں پھر خاموش ہوگئی۔ بعد میں ان سے پوچھا گیا کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کیا فرمایا تھا۔ انھوں نے فرمایا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لعنت فرمائی ہے اس پر جو گریبان چاک کرے، گلے یا چہرے پر مارے اور چیخے اور چلائے۔

11459

(۱۱۴۶۰) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ شَقِیقٍ ، قَالَ لَمَّا مَاتَ خَالِدُ بْنُ الْوَلِیدِ اجْتَمَعَن نِسْوَۃُ بَنِی الْمُغِیرَۃِ یَبْکِینَ عَلَیْہِ فَقِیلَ لِعُمَرَ أَرْسِلْ إلَیْہِنَّ فَانْہَہُنَّ لاَ یَبْلُغُک عَنْہُنَّ شَیْئٌ تَکْرَہُہُ ، قَالَ : فَقَالَ عُمَرُ : وَمَا عَلَیْہِنَّ أَنْ یُہْرِقْنَ مِنْ دُمُوعِہِنَّ عَلَی أَبِی سُلَیْمَانَ مَا لَمْ یَکُنْ نَقْعٌ ، أَوْ لَقْلَقَۃٌ۔
(١١٤٦٠) حضرت شقیق فرماتے ہیں کہ جب حضرت خالد بن ولید کا انتقال ہوا تو بنی مغیرہ کی عورتوں نے جمع ہو کر رونا شروع کردیا۔ لوگوں نے حضرت عمر سے عرض کیا۔ آپ ان کی طرف پیغام بھیجیں اور ان کو اس سے منع کریں کیا آپ تک ان کی طرف سے وہ چیز نہیں پہنچی جو ناپسندیدہ ہو ! حضرت عمر نے فرمایا ان پر آنسو بہانے میں کوئی گناہ نہیں جو وہ ابو سلیمان پر بہا رہی ہیں جب تک کہ وہ اپنے سروں پر مٹی نہ ڈالیں اور بہت زیادہ چیخیں اور شور نہ مچائیں۔

11460

(۱۱۴۶۱) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ یَزِیدَ ، قَالَ : حدَّثَنَا الْقَاسِمُ وَمَکْحُولٌ ، عَنْ أَبِی أُمَامَۃَ ، أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَعَنَ الْخَامِشَۃَ وَجْہَہَا وَالشَّاقَّۃَ جَیْبَہَا۔ (ابن ماجہ ۱۵۸۵۔ دارمی ۲۴۷۶)
(١١٤٦١) حضرت ابو امامہ سے مرویے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے چہروں کو نوچنے والے اور گریبان چاک کرنے والوں پر لعنت فرمائی ہے۔

11461

(۱۱۴۶۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، وَعَلِیُّ بْنُ ہَاشِمٍ ، عَنِ ابْنِ أَبِی لَیْلَی ، عَنْ عَطَائٍ ، عَنْ جَابِرٍ ، أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : نَہَیْتُ عَنْ صَوْتٍ عِنْدَ مُصِیبَۃٍ ، خَمْشِ وُجُوہٍ وَشَقِّ جُیُوبٍ وَرَنَّۃِ شَیْطَانٍ۔ (بیہقی ۶۹)
(١١٤٦٢) حضرت جابر سے مروی ہے کہ رسول اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں مصیبت پر چیخنے، چہروں کو نوچنے، گریبان چاک کرنے اور شیطان کی طرح چیخنے چلانے سے منع فرمایا ہے۔

11462

(۱۱۴۶۳) حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا ہُرَیْمٌ ، عَنْ مُجَالِدٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لَیْسَ مِنَّا مَنْ حَلَقَ وَلاَ سَلَقَ وََلاَ خَرَقَ۔
(١١٤٦٣) حضرت جابر بن عبداللہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : وہ ہم میں سے نہیں جو گریبان چاک کرے، چیخے چلائے اور چہروں، گالوں پر مارے۔

11463

(۱۱۴۶۴) حَدَّثَنَا وَکِیعُ بْنُ الْجَرَّاحِ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ ہِلاَلِ بْنِ خَبَّابٍ ، عَنْ أَبِی الْبَخْتَرِیِّ ، قَالَ : الطَّعَامُ عَلَی الْمَیِّتِ مِنْ أَمْرِ الْجَاہِلِیَّۃِ وَالنَّوْحُ مِنْ أَمْرِ الْجَاہِلِیَّۃِ۔
(١١٤٦٤) حضرت ابو البختری ارشاد فرماتے ہیں کہ مرنے پر کھانا کھلانا اور نوحہ کرنا دونوں جاہلیت کے کام ہیں۔

11464

(۱۱۴۶۵) حَدَّثَنَا فُضَالَۃُ بْنُ حُصَیْنٍ ، عَنْ عَبْدِ الْکَرِیمِ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ، قَالَ : ثَلاَثٌ مِنْ أَمْرِ الْجَاہِلِیَّۃِ بَیْتُوتَۃُ الْمَرْأَۃِ عِنْدَ أَہْلِ الْمُصِیبَۃِ لَیْسَتْ مِنْہُمْ وَالنِّیَاحَۃُ وَنَحْرُ الْجَزُورِ عِنْدَ الْمُصِیبَۃِ۔
(١١٤٦٥) حضرت سعید بن جبیر ارشاد فرماتے ہیں کہ تین کام جاہلیت والے ہیں، غیر عورت کا مصیبت والوں کے ہاں رات گزارنا، نوحہ کرنا اور مصیبت کے وقت جانور ذبح کرنا (کھانے کیلئے) ۔

11465

(۱۱۴۶۶) حَدَّثَنَا مَعْنُ بْنُ عِیسَی ، عَنْ ثَابِتٍ ، عَنْ قَیْسٍ ، قَالَ : أَدْرَکْت عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِیزِ یَمْنَعُ أَہْلَ الْمَیِّتِ الْجَمَاعَاتِ یَقُولُ یَُرْزَؤونِ وَیَغْرمُونَ۔
(١١٤٦٦) حضرت قیس فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز میت کے گھر میں اجتماع لگانے سے منع کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ ایک طرف تو یہ دکھ کا شکار ہیں اور دوسری طرف جرمانہ بھریں۔

11466

(۱۱۴۶۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ مَالِکِ بْنِ مِغْوَلٍ، عَنْ طَلْحَۃَ، قَالَ: قَدِمَ جَرِیرٌ عَلَی عُمَرَ، فَقَالَ: ہَلْ یُنَاحُ قِبَلَکُمْ عَلَی الْمَیِّتِ؟ قَالَ: لاَ قَالَ فَہَلْ تَجْتَمِعُ النِّسَائُ عِنْدَکُمْ عَلَی الْمَیِّتِ وَیُطْعَمُ الطَّعَامُ، قَالَ نَعَمْ، فَقَالَ: تِلْکَ النِّیَاحَۃُ۔
(١١٤٦٧) حضرت طلحہ فرماتے ہیں کہ حضرت جریر حضرت عمر کے پاس تشریف لائے اور فرمایا کیا تمہارے پاس (تمہارے ہاں) میت پر نوحہ کیا جاتا ہے ؟ آپ نے فرمایا نہیں، حضرت جریر نے پوچھا کیا تمہارے ہاں میت کے پاس عورتیں جمع ہوتی ہیں اور کھانا کھلایا جاتا ہے ؟ فرمایا ہاں۔ حضرت جریر نے فرمایا یہی تو نوحہ ہے۔

11467

(۱۱۴۶۸) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، قَالَ : کَانَ رَجُلٌ یَمْشِی خَلْفَ الْجِنَازَۃِ وَیَقْرَأُ سُورَۃَ الْوَاقِعَۃِ فَسُئِلَ إبْرَاہِیمُ عَنْ ذَلِکَ فَکَرِہَہُ۔
(١١٤٦٨) حضرت مغیرہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص جنازے کے پیچھے چل رہا تھا اور سورة الواقعہ پڑھ رہا تھا، حضرت ابراہیم نے اس سے اس کے بارے میں دریافت کیا کہ یہ کیا ہے ؟ پھر آپ نے اس کو ناپسند فرمایا۔

11468

(۱۱۴۶۹) حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ مُعَاذٍ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، قَالَ : رَأَیْتُ الْحَسَنَ وَمُحَمَّدًا فِی جِنَازَۃٍ فَلَمْ یَحْمِلاَ حَتَّی رَجَعَا۔
(١١٤٦٩) حضرت ابن عون فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت حسن اور حضرت محمد کو دیکھا ایک جنازے میں آپ دونوں نے جنازے کو کندھا نہ دیا اور واپس لوٹ آئے۔

11469

(۱۱۴۷۰) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا الْبَرَائُ بْنُ یَزِیدَ ، قَالَ : رَأَیْتُ الشَّعْبِیَّ فِی جِنَازَۃٍ فَرَأَیْتُہُ یَمْشِی خَلْفَہَا ، وَلاَ یَحْمِلُہَا ، وَلَمْ یَمَسَّ عُودَہَا حَتَّی وُضِعَتْ عَلَی شَفِیرِ الْقَبْرِ ، ثُمَّ تَنَحَّی فَجَلَسَ وَکَانَ شَیْخًا۔
(١١٤٧٠) حضرت البراء بن یزید فرماتے ہیں کہ میں نے ایک جنازے میں حضرت شعبی کو دیکھا، میں نے آپکو دیکھا کہ آپ جنازے کے پیچھے چل رہے تھے اور اس کو کندھا نہ دیا۔ اور نہ ہی اس کے پائیوں کو ہاتھ لگایا یہاں تک کہ میت کو قبر کے کنارے رکھ دیا گیا پھر آپ وہاں سے ہٹ کر بیٹھ گئے اور آپ اسوقت بوڑھے تھے۔

11470

(۱۱۴۷۱) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ الْحُبَابِ ، قَالَ : حدَّثَنَا مُعَاوِیَۃُ بْنُ صَالِحٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِی حَبِیبُ بْنُ عُبَیْدٍ الْکَلاَعِیُّ ، عَنْ جُبَیْرِ بْنِ نُفَیْرٍ الْحَضْرَمِیِّ ، عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِکٍ الأَشْجَعِیِّ ، قَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ عَلَی الْمَیِّتِ : اللَّہُمَّ اغْفِرْ لَہُ وَارْحَمْہُ وَعَافِہِ وَاعْفُ عَنْہُ وَأَکْرِمْ نُزُلَہُ وَأَوْسِعْ مَدْخَلَہُ وَاغْسِلْہُ بِالْمَائِ وَالثَّلْجِ وَالْبَرَدِ وَنَقِّہِ مِنَ الْخَطَایَا کَمَا یُنَقَّی الثَّوْبُ الأَبْیَضُ مِنَ الدَّنَسِ اللَّہُمَّ أَبْدِلْہُ دَارًا خَیْرًا مِنْ دَارِہِ وَزَوْجًا خَیْرًا مِنْ زَوْجِہِ ، وَأَہْلاً خَیْرًا مِنْ أَہْلِہِ وَأَدْخِلْہُ الْجَنَّۃَ وَنَجِّہِ مِنَ النَّارِ ، أَوَ قَالَ : وَقِہ عَذَابَ الْقَبْرِ حَتَّی تَمَنَّیْت أَنْ أَکُونَ ہُوَ۔ اللَّہُمَّ اغْفِرْ لَہُ وَارْحَمْہُ وَعَافِہِ وَاعْفُ عَنْہُ وَأَکْرِمْ نُزُلَہُ وَأَوْسِعْ مَدْخَلَہُ وَاغْسِلْہُ بِالْمَائِ وَالثَّلْجِ وَالْبَرَدِ وَنَقِّہِ مِنَ الْخَطَایَا کَمَا یُنَقَّی الثَّوْبُ الأَبْیَضُ مِنَ الدَّنَسِ اللَّہُمَّ أَبْدِلْہُ دَارًا خَیْرًا مِنْ دَارِہِ وَزَوْجًا خَیْرًا مِنْ زَوْجِہِ، وَأَہْلاً خَیْرًا مِنْ أَہْلِہِ وَأَدْخِلْہُ الْجَنَّۃَ وَنَجِّہِ مِنَ النَّارِ۔ وَقِہ عَذَابَ النَّارِ۔ (مسلم ۶۶۲۔ احمد ۶/۲۳)
(١١٤٧١) حضرت عوف بن مالک اشجعی فرماتے ہیں کہ میں نے ایک میت پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ دعا پڑھتے ہوئے سنا : حضرت عوف بن مالک فرماتے ہیں کہ مجھے بڑی حسرت ہوئی کہ کاش ان کی جگہ میں ہوتا (اور یہ دعائیں مجھے ملتی) ۔

11471

(۱۱۴۷۲) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، قَالَ أخبَرََنَا ہِشَامٌ الدَّسْتَوَائِیُّ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ أَبِی کَثِیرٍ ، عَنْ أبی إبْرَاہِیمَ الأَنْصَارِیِّ ، عَنْ أَبِیہِ ، أَنَّہُ سَمِعَ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ فِی الصَّلاَۃِ عَلَی الْمَیِّتِ : اللَّہُمَّ اغْفِرْ لِحَیِّنَا وَمَیِّتِنَا وَشَاہِدِنَا وَغَائِبِنَا وَذَکَرِنَا وَأُنْثَانَا وَصَغِیرِنَا وَکَبِیرِنَا۔ (ترمذی ۱۰۲۴۔ نسائی ۲۱۱۳)
(١١٤٧٢) حضرت ابو ابراہیم انصاری اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایک میت پر نماز پڑھتے وقت یہ پڑھتے ہوئے سنا : اللَّہُمَّ اغْفِرْ لِحَیِّنَا وَمَیِّتِنَا وَشَاہِدِنَا وَغَائِبِنَا وَذَکَرِنَا وَأُنْثَانَا وَصَغِیرِنَا وَکَبِیرِنَا۔

11472

(۱۱۴۷۳) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنِ الْجُلاَسِ ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ شَمَّاسٍ ، قَالَ : کُنَّا عِنْدَ أَبِی ہُرَیْرَۃَ فَمَرَّ بِہِ مَرْوَانُ ، فَقَالَ لہ بَعْضَ حَدِیثک عَنْ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، ثُمَّ مَضَی ، ثُمَّ رَجَعَ فَقُلْنَا الآنَ یَقَعُ بِہِ ، فَقَالَ : کَیْفَ سَمِعْت رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُصَلِّی عَلَی الْجِنَازَۃِ ، قَالَ : سَمِعْتُہ یَقُولُ : أَنْتَ ہَدَیْتہَا لِلإِسْلاَمِ وَأَنْتَ قَبَضْت رُوحَہَا تَعْلَمُ سِرَّہَا وَعَلاَنِیَتَہَا ، جِئْنَاک شُفَعَائَ ، فَاغْفِرْ لَہَا۔ (ابوداؤد ۳۱۹۲۔ احمد ۲/۳۶۳)
(١١٤٧٣) حضرت عثمان بن شماس فرماتے ہیں کہ ہم حضرت ابوہریرہ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ مروان آپ کے پاس سے گذرا، آپ نے ان سے فرمایا : آپ کی حدیث کا کچھ حصہ جو نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے منقول ہے، پھر وہ چلا گیا اور کچھ دیر بعد واپس آیا ہم نے عرض کیا آپ وہ واقع ہوا اس کے ساتھ، اس نے عرض کیا آپ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جنازے کی نماز میں کیا پڑھتے ہوئے سنا ہے ؟ آپ نے فرمایا میں نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ (دعا) پڑھتے ہوئے سنا : أَنْتَ ہَدَیْتہَا لِلإِسْلاَمِ وَأَنْتَ قَبَضْت رُوحَہَا تَعْلَمُ سِرَّہَا وَعَلاَنِیَتَہَا، جِئْنَاک شُفَعَائَ ، فَاغْفِرْ لَہَا۔

11473

(۱۱۴۷۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ ابْنِ أَبِی لَیْلَی ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَہْلِ مَکَّۃَ ، عَنْ أَبِی سَلَمَۃَ ، وَعَنْ عَلِیِّ بْنِ مُبَارَکٍ ، عَنْ یَحْیَی ، عَنْ أَبِی سَلَمَۃَ ، قَالَ : کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ فِی الصَّلاَۃِ عَلَی الْجِنَازَۃِ : اللَّہُمَّ اغْفِرْ لِحَیِّنَا وَمَیِّتِنَا وَذَکَرِنَا وَأُنْثَانَا وَشَاہِدِنَا وَغَائِبِنَا وَصَغِیرِنَا وَکَبِیرِنَا اللَّہُمَّ مَنْ أَحْیَیْتہ مِنَّا فَأَحْیِہِ عَلَی الإِسْلاَمِ وَمَنْ تَوَفَّیْتہُ مِنَّا فَتَوَفَّہُ عَلَی الإِیمَانِ۔ (ابن ماجہ ۳۵۸)
(١١٤٧٤) حضرت ابو سلمہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز جنازہ میں یہ پڑھا کرتے تھے : اللَّہُمَّ اغْفِرْ لِحَیِّنَا وَمَیِّتِنَا وَذَکَرِنَا وَأُنْثَانَا وَشَاہِدِنَا وَغَائِبِنَا وَصَغِیرِنَا وَکَبِیرِنَا اللَّہُمَّ مَنْ أَحْیَیْتہ مِنَّا فَأَحْیِہِ عَلَی الإِسْلاَمِ وَمَنْ تَوَفَّیْتہُ مِنَّا فَتَوَفَّہُ عَلَی الإِیمَانِ ۔

11474

(۱۱۴۷۵) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ حُصَیْنٍ ، عَنْ أَبِی مَالِکٍ ، قَالَ : کَانَ أَبُو بَکْرٍ إذَا صَلَّی عَلَی الْمَیِّتِ ، قَالَ: اللَّہُمَّ عَبْدُک أَسْلَمَہُ الأَہْلُ والمال وَالْعَشِیرَۃُ وَالذَّنْبُ عَظِیمُ وَأَنْتَ الْغَفُورُ الرَّحِیمُ۔
(١١٤٧٥) حضرت ابو مالک سے مروی ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق جب نماز جنازہ پڑھاتے تو یہ دعا پڑھتے :

11475

(۱۱۴۷۶) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِِ، عَنْ طَارِقٍ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ، قَالَ: کَانَ عُمَرُ یَقُولُ فِی الصَّلاَۃِ عَلَیْہِ إِنْ کَانَ مَسَائً ، فَقَالَ : اللَّہُمَّ أَمْسَی عَبْدُک ، وَإِنْ کَانَ صَبَاحًا ، قَالَ اللَّہُمَّ أَصْبَحَ عَبْدُک قَدْ تَخَلَّی مِنَ الدُّنْیَا وَتَرَکَہَا لأَہْلِہَا وَاسْتَغْنَیت ، عَنْہ وَافْتَقَرَ إلَیْک ، کَانَ یَشْہَدُ أَنْ لاَ إلَہَ إِلاَّ أَنْتَ ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُک وَرَسُولُک ، فَاغْفِرْ لَہُ ذَنْبَہُ۔
(١١٤٧٦) حضرت سعید بن المسیب فرماتے ہیں کہ حضرت عمر نماز جنازہ میں یہ دعا پڑھتے : اللَّہُمَّ أَمْسَی (اگر شام ہوتی تو) اللَّہُمَّ أَصْبَحَ عَبْدُک (اگر صبح ہوتی تو) قَدْ تَخَلَّی مِنَ الدُّنْیَا وَتَرَکَہَا لأَہْلِہَا وَاسْتَغْنَیت، عَنْہ وَافْتَقَرَ إلَیْک، کَانَ یَشْہَدُ أَنْ لاَ إلَہَ إِلاَّ أَنْتَ ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُک وَرَسُولُک، فَاغْفِرْ لَہُ ذَنْبَہُ ۔

11476

(۱۱۴۷۷) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِِ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبْزَی ، قَالَ : کَانَ عَلِیٌّ یَقُولُ فِی الصَّلاَۃِ عَلَی الْمَیِّتِ اللَّہُمَّ اغْفِرْ لأَحْیَائِنَا وَأَمْوَاتِنَا وَأَلِّفْ بَیْنَ قُلُوبِنَا وَأَصْلِحْ ذَاتَ بَیْنِنَا وَاجْعَلْ قُلُوبَنَا عَلَی قُلُوبِ خِیَارِنَا اللَّہُمَّ اغْفِرْ لَہُ اللَّہُمَّ ارْحَمْہُ اللَّہُمَّ ارْجِعْہُ إلَی خَیْرٍ مِمَّا کَانَ فِیہِ اللَّہُمَّ عَفْوَک۔
(١١٤٧٧) حضرت عبداللہ بن عبد الرحمن ابزی فرماتے ہیں کہ حضرت علی نماز جنازہ میں یہ دعا پڑھتے تھے : اللَّہُمَّ اغْفِرْ لأَحْیَائِنَا وَأَمْوَاتِنَا وَأَلِّفْ بَیْنَ قُلُوبِنَا وَأَصْلِحْ ذَاتَ بَیْنِنَا وَاجْعَلْ قُلُوبَنَا عَلَی قُلُوبِ خِیَارِنَا اللَّہُمَّ اغْفِرْ لَہُ اللَّہُمَّ ارْحَمْہُ اللَّہُمَّ ارْجِعْہُ إلَی خَیْرٍ مِمَّا کَانَ فِیہِ اللَّہُمَّ عَفْوَک۔

11477

(۱۱۴۷۸) حَدَّثَنَا الثَّقَفِیُّ ، عَنْ خَالِدٍ ، قَالَ : کُنْتُ فِی جِنَازَۃِ غُنَیْمٍ فَحَدَّثَنِی رَجُلٌ مِنْہُمْ أَنَّہُ ، قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا مُوسَی صَلَّی عَلَی مَیِّتٍ فَکَبَّرَ ، وَقَالَ اللَّہُمَّ اغْفِرْ لَہُ کَمَا اسْتَغْفَرَک وَأَعْطِہِ مَا سَأَلَک وَزِدْہُ مِنْ فَضْلِک۔
(١١٤٧٨) حضرت خالد فرماتے ہیں کہ میں غنیم کے جنازے میں تھا مجھے ان میں سے ایک شخص نے بتلایا کہ انھوں نے حضرت ابو موسیٰ کو سنا آپ نے جنازے کی نماز میں تکبیر پڑھی اور پھر یہ دعا پڑھی۔ اللَّہُمَّ اغْفِرْ لَہُ کَمَا اسْتَغْفَرَک وَأَعْطِہِ مَا سَأَلَک وَزِدْہُ مِنْ فَضْلِک۔

11478

(۱۱۴۷۹) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو ، عَنْ أَبِی سَلَمَۃَ ، قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللہِ بْنُ سَلاَمٍ الصَّلاَۃُ عَلَی الْجِنَازَۃِ أَنْ یَقُولَ اللَّہُمَّ اغْفِرْ لِحَیِّنَا وَمَیِّتِنَا وَصَغِیرِنَا وَکَبِیرِنَا وَذَکَرِنَا وَأُنْثَانَا وَشَاہِدِنَا وَغَائِبِنَا اللَّہُمَّ مَنْ تَوَفَّیْتہُ مِنْہُمْ فَتَوَفَّہُ عَلَی الإِیمَانِ وَمَنْ أَبْقَیْتہ مِنْہُمْ فَأَبْقِہِ عَلَی الإِسْلاَمِ۔
(١١٤٧٩) حضرت ابو سلمہ فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن سلام جب نماز جنازہ پڑھتے تو یہ دعا پڑھتے۔
اللَّہُمَّ اغْفِرْ لِحَیِّنَا وَمَیِّتِنَا وَصَغِیرِنَا وَکَبِیرِنَا وَذَکَرِنَا وَأُنْثَانَا وَشَاہِدِنَا وَغَائِبِنَا اللَّہُمَّ مَنْ تَوَفَّیْتہُ مِنْہُمْ فَتَوَفَّہُ عَلَی الإِیمَانِ وَمَنْ أَبْقَیْتہ مِنْہُمْ فَأَبْقِہِ عَلَی الإِسْلاَمِ ۔

11479

(۱۱۴۸۰) حَدَّثَنَا عَفَّانُ بْنُ مُسْلِمٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا أَبُو عَوَانَۃَ ، قَالَ : حَدَّثَنَا خَالِدٌ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ الْحَارِثِ ، عَنِ ابْنِ عَمْرِو بْنِ غَیْلاَنَ ، عَنْ أَبِی الدَّرْدَائِ ، أَنَّہُ کَانَ یَقُولُ عَلَی الْمَیِّتِ ، اللَّہُمَّ اغْفِرْ لأَحْیَائِنَا وَأَمْوَاتِنَا الْمُسْلِمِینَ اللَّہُمَّ اغْفِرْ لِلْمُسْلِمِینَ وَالْمُسْلِمَاتِ وَالْمُؤْمِنِینَ وَالْمُؤْمِنَاتِ وَأَصْلِحْ ذَاتَ بَیْنِہِمْ وَأَلِّفْ بَیْنَ قُلُوبِہِمْ وَاجْعَلْ قُلُوبَہُمْ عَلَی قُلُوبِ خِیَارِہِمَ ، اللَّہُمَّ اغْفِرْ لِفُلاَنِ بْنِ فُلاَنٍ ذَنْبَہُ ، وَأَلْحِقْہُ بِنَبِیِّہِ مُحَمَد صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، اللَّہُمَّ ارْفَعْ دَرَجَتَہُ فِی الْمُہْتَدِینَ ، وَاخْلُفْہُ فِی عَقِبِہِ فِی الْغَابِرِینَ ، وَاجْعَلْ کِتَابَہُ فِی عِلِّیِّینَ ، وَاغْفِرْ لَنَا وَلَہُ رَبَّ الْعَالَمِینَ ، اللَّہُمَّ لاَ تَحْرِمْنَا أَجْرَہُ ، وَلاَ تُضِلَّنَا بَعْدَہُ۔
(١١٤٨٠) حضرت ابن عمرو بن غیلان فرماتے ہیں کہ حضرت ابو الدردائ نماز جنازہ میں یہ دعا پڑھتے تھے۔
اللَّہُمَّ اغْفِرْ لأَحْیَائِنَا وَأَمْوَاتِنَا الْمُسْلِمِینَ اللَّہُمَّ اغْفِرْ لِلْمُسْلِمِینَ وَالْمُسْلِمَاتِ وَالْمُؤْمِنِینَ وَالْمُؤْمِنَاتِ وَأَصْلِحْ ذَاتَ بَیْنِہِمْ وَأَلِّفْ بَیْنَ قُلُوبِہِمْ وَاجْعَلْ قُلُوبَہُمْ عَلَی قُلُوبِ خِیَارِہِمَ ، اللَّہُمَّ اغْفِرْ لِفُلاَنِ بْنِ فُلاَنٍ ذَنْبَہُ ، وَأَلْحِقْہُ بِنَبِیِّہِ مُحَمَد صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، اللَّہُمَّ ارْفَعْ دَرَجَتَہُ فِی الْمُہْتَدِینَ ، وَاخْلُفْہُ فِی عَقِبِہِ فِی الْغَابِرِینَ ، وَاجْعَلْ کِتَابَہُ فِی عِلِّیِّینَ ، وَاغْفِرْ لَنَا وَلَہُ رَبَّ الْعَالَمِینَ ، اللَّہُمَّ لاَ تَحْرِمْنَا أَجْرَہُ ، وَلاَ تُضِلَّنَا بَعْدَہُ ۔

11480

(۱۱۴۸۱) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ زَیْدٍ الْعَمِّیِّ ، عَنْ أَبِی الصِّدِّیقِ النَّاجِی ، قَالَ : سَأَلْتُ أَبَا سَعِیدٍ عَنِ الصَّلاَۃِ عَلَی الْجِنَازَۃِ ، فقَالَ : کُنَّا نَقُولُ اللَّہُمَّ أَنْتَ رَبُّنَا وَرَبُّہُ خَلَقْتہ وَرَزَقْتہ وَأَحْیَیْتہ وَکَفَیْتہ ، فَاغْفِرْ لَنَا وَلَہُ ، وَلاَ تَحْرِمْنَا أَجْرَہُ ، وَلاَ تُضِلَّنَا بَعْدَہُ۔
(١١٤٨١) حضرت ابو الصدیق الناجی فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابو سعید سے نماز جنازہ کے متعلق دریافت کیا ؟ آپ نے فرمایا ہم یوں پڑھتے ہیں :
اللَّہُمَّ أَنْتَ رَبُّنَا وَرَبُّہُ خَلَقْتہ وَرَزَقْتہ وَأَحْیَیْتہ وَکَفَیْتہ، فَاغْفِرْ لَنَا وَلَہُ ، وَلاَ تَحْرِمْنَا أَجْرَہُ ، وَلاَ تُضِلَّنَا بَعْدَہُ ۔

11481

(۱۱۴۸۲) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، أَنَّہُ کَانَ یَقُولُ فِی الْجِنَازَۃِ إذَا صَلَّی عَلَیْہَا اللَّہُمَّ بَارِکْ فِیہِ وَصَلِّ عَلَیْہِ وَاغْفِرْ لَہُ وَأَوْرِدْہُ حَوْضَ رَسُولِکَ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ فِی قِیَامٍ کَثِیرٍ وَکَلاَمٍ کَثِیرٍ لَمْ أَفْہَمْ مِنْہُ غَیْرَ ہَذَا۔
(١١٤٨٢) حضرت نافع فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمر جب جنازہ کی نماز پڑھتے تو یہ دعا پڑھتے :
اللَّہُمَّ بَارِکْ فِیہِ وَصَلِّ عَلَیْہِ وَاغْفِرْ لَہُ وَأَوْرِدْہُ حَوْضَ رَسُولِکَ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ۔
راوی کہتے ہیں کہ آپ نے لمبا قیام کیا اور بہت زیادہ دعائیں پڑھیں لیکن میں اس کے علاوہ کچھ نہ سمجھ سکا۔

11482

(۱۱۴۸۳) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ یُونُسَ ، قَالَ : سَأَلْتُ مُجَاہِدًا عَنِ الصَّلاَۃِ عَلَی الْمَیِّتِ ، فَقَالَ مُجَاہِدٌ : إنَّا نَحْنُ فَنَقُولُ اللَّہُمَّ أَنْتَ خَلَقْتہ وَأَنْتَ ہَدَیْتہ لِلإِسْلاَمِ وَأَنْتَ قَبَضْت رُوحَہُ وَأَنْتَ أَعْلَمُ بِسَرِیرَتِہِ وَعَلاَنِیَتِہِ جِئْنَا نَشْفَعُ لَہُ ، فَاغْفِرْ لَہُ۔
(١١٤٨٣) حضرت یونس فرماتے ہیں کہ میں حضرت مجاہد سے دریافت کیا کہ نماز جنازہ میں کون سی دعا پڑھنی چاہیے ؟ آپ نے فرمایا ہم تو یہ پڑھتے ہیں۔
اللَّہُمَّ أَنْتَ خَلَقْتہ وَأَنْتَ ہَدَیْتہ لِلإِسْلاَمِ وَأَنْتَ قَبَضْت رُوحَہُ وَأَنْتَ أَعْلَمُ بِسَرِیرَتِہِ وَعَلاَنِیَتِہِ جِئْنَا نَشْفَعُ لَہُ ، فَاغْفِرْ لَہُ ۔

11483

(۱۱۴۸۴) حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ حَرِیزٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِی عَوْفٍ ، عَنِ ابْنِ لُحَیٍّ الْہَوْزَنِیِّ ، أَنَّہُ شَہِدَ جِنَازَۃَ شُرَحْبِیلَ بْنِ السِّمْطِ فَقَدَّمَ عَلَیْہَا حَبِیبَ بْنَ مَسْلَمَۃَ الفَہْرِی فَأَقْبَلَ عَلَیْنَا کَالْمُشْرِفِ عَلَیْنَا مِنْ طُولِہِ ، فَقَالَ: اجْتَہِدُوا لأَخِیکُمْ فِی الدُّعَائِ ، وَلْیَکُنْ فِیمَا تَدْعُونَ لَہُ ؛ اللَّہُمَّ اغْفِرْ لِہَذِہِ النَّفْسِ الْحَنِیفِیَّۃِ الْمُسْلِمَۃِ، وَاجْعَلْہَا مِنَ الَّذِینَ تَابُوا وَاتَّبَعُوا سَبِیلَکَ، وَقِہَا عَذَابَ الْجَحِیمِ، وَاسْتَنْصِرُوا اللَّہَ عَلَی عَدُوِّکُمْ۔
(١١٤٨٤) حضرت عبد الرحمن بن ابو عوف فرماتے ہیں کہ حضرت شرجیل بن السمط کے جنازے پر حضرت ابن لحی الھوزنی حاضر ہوئے، حضرت حبیب بن مسلمہ الفھری کو نماز کے لیے مقدم کیا گیا۔ وہ ھماری طرف اس طرح متوجہ ہوئے جس طرح بلندی والا شخص اپنی لمبائی سے متوجہ ہوتا ہے پھر فرمایا اپنے بھائی کے لیے خوب دعا کرو، لیکن جو دعا تم کرو اس کے لیے (وہ یوں ہو) ۔ اللَّہُمَّ اغْفِرْ لِہَذِہِ النَّفْسِ الْحَنِیفِیَّۃِ الْمُسْلِمَۃِ ، وَاجْعَلْہَا مِنَ الَّذِینَ تَابُوا وَاتَّبَعُوا سَبِیلَکَ ، وَقِہَا عَذَابَ الْجَحِیمِ ، وَاسْتَنْصِرُوا اللَّہَ عَلَی عَدُوِّکُمْ ۔

11484

(۱۱۴۸۵) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ ، عَنْ جَابِرٍ ، قَالَ : مَا بَاحَ لَنَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَلاَ أَبُو بَکْرٍ ، وَلاَ عُمَرُ فِی الصَّلاَۃِ عَلَی الْمَیِّتِ بِشَیْء ۔ (ابن ماجہ ۱۵۰۱۔ احمد ۳/۳۵۷)
(١١٤٨٥) حضرت جابر فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے، حضرت ابوبکر وعمر ھمارے لیے نماز جنازہ میں (کوئی مخصوص) دعا ظاہر نہیں فرمائی۔

11485

(۱۱۴۸۶) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ جَدِّہِ ، عَنْ ثَلاَثِینَ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، أَنَّہُمْ لَمْ یَقُومُوا عَلَی شَیْئٍ فِی أَمْرِ الصَّلاَۃِ عَلَی الْجِنَازَۃِ۔
(١١٤٨٦) حضرت عمرو بن شعیب اپنے والد اور دادا سے اور تیس صحابہ کرام سے روایت کرتے ہیں کہ وہ نماز جنازہ کے بارے میں نہیں دوام کرتے تھے کسی چیز کے بارے میں (کوئی مخصوص دعا نہ پڑھتے تھے) ۔

11486

(۱۱۴۸۷) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ: لَیْسَ فِی الصَّلاَۃِ عَلَی الْمَیِّتِ دُعَائٌ مُوَقَّتٌ، فَادْعُ بِمَا شِئْت۔
(١١٤٨٧) حضرت ابراھیم فرماتے ہیں کہ نماز جنازہ کے لیے کوئی مخصوص دعا نہیں ہے جو دل چاہے مانگو۔

11487

(۱۱۴۸۸) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِی عَدِیٍّ ، عَنْ دَاوُدَ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ وَالشَّعْبِیِّ ، قَالاَ : لَیْسَ عَلَی الْمَیِّتِ دُعَائٌ مُوَقَّتٌ۔
(١١٤٨٨) حضرت سعید بن المسیب اور حضرت شعبی فرماتے ہیں کہ میت کے لیے کوئی مخصوص اور مقرر دعا نہیں ہے۔

11488

(۱۱۴۸۹) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُدَیْرٍ ، قَالَ : سَأَلْتُ مُحَمَّدًا عَنِ الصَّلاَۃِ عَلَی الْمَیِّتِ ، فَقَالَ : مَا نَعْلَمُ لَہُ شَیْئًا مُوَقَّتًا ادْعُ بِأَحْسَنَ مَا تَعْلَمُ۔
(١١٤٨٩) حضرت عمران بن حدیر فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت محمد سے نماز جنازہ کی دعا کے بارے میں دریافت کیا ؟ آپ نے فرمایا ہمیں تو کوئی مخصوص اور مقرر دعا معلوم نہیں ہے۔ جو اچھی دعا آپ کو معلوم ہو وہ پڑھ لو۔

11489

(۱۱۴۹۰) حَدَّثَنَا مُعْتَمِرُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ سُوَیْد ، عَنِ بَکْرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : لَیْسَ فِی الصَّلاَۃِ عَلَی الْمَیِّتِ شَیْئٌ مُوَقَّتٌ۔
(١١٤٩٠) حضرت بکر بن عبداللہ فرماتے ہیں کہ نماز جنازہ کے لیے کوئی مقرر اور مخصوص دعا نہیں ہے۔

11490

(۱۱۴۹۱) حَدَّثَنَا یَعْلَی بْنُ عُبَیْدٍ ، عَنْ مُوسَی الْجُہَنِیِّ ، قَالَ : سَأَلْتُ الْحَکَمَ وَالشَّعْبِیَّ وَعَطَائً وَمُجَاہِدًا أَفِی الصَّلاَۃِ عَلَی الْمَیِّتِ شَیْئٌ مُوَقَّتٌ ؟ فَقَالُوا : لاَ إنَّمَا أَنْتَ شَفِیعٌ فَاشْفَعْ بِأَحْسَنَ مَا تَعْلَمُ۔
(١١٤٩١) حضرت موسیٰ الجھنی فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت حکم ، حضرت شعبی ، حضرت عطائ اور حضرت مجاہد سے دریافت کیا کہ نماز جنازہ کے لیے کوئی مخصوص دعا ہے۔ سب حضرات نے فرمایا : نہیں، آپ تو اس کی سفارش (شفاعت) کرنے والے ہیں، پس جو اچھی سفارش آپ جانتے ہو وہ پڑھ لو۔ (کر لو) ۔

11491

(۱۱۴۹۲) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ أَبِی سَلَمَۃَ ، قَالَ : سَمِعْتُ الشَّعْبِیَّ یَقُولُ فِی الصَّلاَۃِ عَلَی الْمَیِّتِ لَیْسَ فِیہِ شَیْئٌ مُوَقَّتٌ۔
(١١٤٩٢) حضرت ابو سلمہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت شعبی سے سنا۔ آپ فرماتے ہیں نماز جنازہ میں کوئی مقرر دعا نہیں ہے۔

11492

(۱۱۴۹۳) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ فِی التَّکْبِیرَۃِ الأُولَی ، یُبْدَأُ بِحَمْدِ اللہِ وَالثَّنَائِ عَلَیْہِ ، وَالثَّانِیَۃُ صَلاَۃٌ عَلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَالثَّالِثَۃُ دُعَائٌ لِلْمَیِّتِ ، وَالرَّابِعَۃُ لِلتَّسْلِیمِ۔
(١١٤٩٣) حضرت شعبی فرماتے ہیں کہ پہلی تکبیر میں ابتدا کرے گا حمد وثنا سے ، دوسری تکبیر میں درود پڑھے گا اور تیسری تکبیر میں میت کے لیے دعا اور چوتھی کے بعد سلام۔

11493

(۱۱۴۹۴) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ ، عَنِ الْعَلاَئِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ عَلِیٍّ ، أَنَّہُ کَانَ إذَا صَلَّی عَلَی مَیِّتٍ یَبْدَأُ بِحَمْدِ اللہِ وَیُصَلِّی عَلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، ثُمَّ یَقُولُ : اللَّہُمَّ اغْفِرْ لأَحْیَائِنَا وَأَمْوَاتِنَا ، وَأَلِّفْ بَیْنَ قُلُوبِنَا ، وَأَصْلِحْ ذَاتَ بَیْنِنَا ، وَاجْعَلْ قُلُوبَنَا عَلَی قُلُوبِ خِیَارِنَا۔
(١١٤٩٤) حضرت علاء بن المسیب اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی جب نماز جنازہ پڑھتے تو اللہ کی حمد سے ابتدا کرتے پھر درود پڑھتے پھر یہ دعا پڑھتے۔
اللَّہُمَّ اغْفِرْ لأَحْیَائِنَا وَأَمْوَاتِنَا، وَأَلِّفْ بَیْنَ قُلُوبِنَا، وَأَصْلِحْ ذَاتَ بَیْنِنَا، وَاجْعَلْ قُلُوبَنَا عَلَی قُلُوبِ خِیَارِنَا۔

11494

(۱۱۴۹۵) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ، عَنْ سَعِیدٍ بن أبی سعید الْمَقْبُرِیِّ ، أَنَّ رَجُلاً سَأَلَ أَبَا ہُرَیْرَۃَ فَقَالَ : کَیْفَ تُصَلِّی عَلَی الْجِنَازَۃِ ؟ فَقَالَ أَبُو ہُرَیْرَۃَ أَنَا لَعَمْرُ اللہِ أُخْبِرُک أُکَبِّرُ ، ثُمَّ أُصَلِّی عَلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، ثُمَّ أَقُولُ: اللَّہُمَّ عَبْدُک ، أَوْ أَمَتُک ، کَانَ یَعْبُدُک لاَ یُشْرِکُ بِکَ شَیْئًا ، وَأَنْتَ أَعْلَمُ بِہِ، إِنْ کَانَ مُحْسِنًا فَزِدْ فِی إحْسَانِہِ ، وَإِنْ کَانَ مُخْطِئًا فَتَجَاوَزْ عَنْہُ ، اللَّہُمَّ لاَ تَفْتِنَّا بَعْدَہُ ، وَلاَ تَحْرِمْنَا أَجْرَہُ۔
(١١٤٩٥) حضرت سعید بن ابی المقبری فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے حضرت ابوہریرہ سے دریافت فرمایا کہ آپ نماز جنازہ کیسے ادا فرماتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا اللہ کی قسم میں تمہیں بتاؤں گا، تکبیر پڑھتا ہوں، پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر درود پڑھتا ہوں، پھر میں یہ دعا پڑھتا ہوں۔ اللَّہُمَّ عَبْدُک ، أَوْ أَمَتُک، کَانَ یَعْبُدُک لاَ یُشْرِکُ بِکَ شَیْئًا، وَأَنْتَ أَعْلَمُ بِہِ ، إِنْ کَانَ مُحْسِنًا فَزِدْ فِی إحْسَانِہِ ، وَإِنْ کَانَ مُخْطِئًا فَتَجَاوَزْ عَنْہُ ، اللَّہُمَّ لاَ تَفْتِنَّا بَعْدَہُ ، وَلاَ تَحْرِمْنَا أَجْرَہُ ۔

11495

(۱۱۴۹۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ أَبِی ہَاشِمٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : سَمِعْتُہ یَقُولُ : فِی الأُولَی ثَنَائٌ عَلَی اللہِ تَعَالَی، وَفِی الثَّانِیَۃِ صَلاَۃٌ عَلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَفِی الثَّالِثَۃِ دُعَائٌ لِلْمَیِّتِ، وَفِی الرَّابِعَۃِ تَسْلِیمٌ۔
(١١٤٩٦) حضرت ابو ہاشم فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت امام شعبی سے سنا، آپ فرماتے ہیں، پہلی تکبیر میں اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا پڑھے، دوسری میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر درود پڑھے، تیسری میں میت کے لیے دعا کرے اور چوتھی کے بعد سلام ہے۔

11496

(۱۱۴۹۷) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا أُمَامَۃَ یُحَدِّثُ سَعِیدَ بْنَ الْمُسَیَّبِ ، قَالَ : مِنَ السُّنَّۃِ فِی الصَّلاَۃِ عَلَی الْجِنَازَۃِ أَنْ تَقْرَأَ بِفَاتِحَۃِ الْکِتَابِ ، ثُمَّ تُصَلِّیَ عَلَی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، ثُمَّ یُخْلِصَ الدُّعَائَ لِلْمَیِّتِ حَتَّی یَفْرُغَ ، وَلاَ تَقْرَأَ إِلاَّ مَرَّۃً وَاحِدَۃً ، ثُمَّ تُسَلِّمَ فِی نَفْسِکِ۔ (عبدالرزاق ۶۴۲۸۔ ابن الجارود ۵۴۰)
(١١٤٩٧) حضرت امام زہری فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوامامہ سے سنا وہ حضرت سعید بن المسیب سے بیان کرتے ہیں کہ نماز جنازہ کا سنت طریقہ یہ ہے کہ آپ پہلے سورة الفاتحہ پڑھیں، پھر حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر درود پڑھیں، پھر میت کے لیے دعا کی جائے یہاں تک کہ اس سے فارغ ہو جاؤ اور یہ صرف ایک بار پڑھنا اور پھر اپنے جی میں سلام پھیرنا۔

11497

(۱۱۴۹۸) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : کَانَ یَرْفَعُ یَدَیْہِ فِی کُلِّ تَکْبِیرَۃٍ عَلَی الْجِنَازَۃِ۔
(١١٤٩٨) حضرت نافع فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمر جنازے کی ہر تکبیر میں ہاتھ اٹھاتے تھے۔

11498

(۱۱۴۹۹) حَدَّثَنَا عِیسَی بْنُ یُونُسَ ، عَنِ الأَوْزَاعِیِّ ، عَنْ غَیْلاَنَ بْنِ أَنَسٍ ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِیزِ کَانَ یَرْفَعُ یَدَیْہِ فِی کُلِّ تَکْبِیرَۃٍ من تکبیر الْجِنَازَۃِ۔
(٩٩ ١١٤) حضرت غیلان بن انس فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن عبد العزیز نماز جنازہ کی ہر تکبیر میں رفع یدین کرتے۔

11499

(۱۱۵۰۰) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ مُبَارَکٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَطَائٍ ، قَالَ : یَرْفَعُ یَدَیْہِ فِی کُلِّ تَکْبِیرَۃٍ وَمَنْ خَلْفَہُ یَرْفَعُونَ أَیْدِیَہُمْ۔
(١١٥٠٠) حضرت ابن جریج فرماتے ہیں کہ حضرت عطائ نماز جنازہ کی ہر تکبیر میں رفع یدین فرماتے، اور جو ان کے پیچھے (مقتدی) تھے وہ بھی رفع یدین کرتے۔

11500

(۱۱۵۰۱) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ قَیْسٍ ، عَنْ مُوسَی بْنِ نُعَیْمٍ مَوْلَی زَیْدِ بْنِ ثَابِتٍ ، قَالَ : مِنَ السُّنَّۃِ أَنْ تَرْفَعَ یَدَیْک فِی کُلِّ تَکْبِیرَۃٍ مِنَ الْجِنَازَۃِ۔
(١١٥٠١) حضرت موسیٰ بن نعیم جو کہ حضرت زید بن ثابت کے غلام تھے، فرماتے ہیں سنت میں سے ہے کہ نماز جنازہ کی ہر تکبیر میں رفع یدین کیا جائے۔

11501

(۱۱۵۰۲) حَدَّثَنَا مَعْنُ بْنُ عِیسَی ، عَنْ خَالِدِ بْنِ أَبِی بَکْرٍ ، قَالَ : رَأَیْتُ سَالِمًا کَبَّرَ عَلَی جِنَازَۃٍ أَرْبَعًا ، یَرْفَعُ یَدَیْہِ عِنْدَ کُلِّ تَکْبِیرَۃٍ۔
(١١٥٠٢) حضرت خالد بن ابوبکر فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت سالم کو دیکھا کہ آپ نے جنازے پر چار تکبیرات پڑھیں اور ہر تکبیر میں پر ہاتھ اٹھا رہے تھے۔

11502

(۱۱۵۰۳) حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ ، عَنْ عُِمَرِ بْنِ أَبِی زَائِدَۃَ ، قَالَ : صَلَّیْتُ خَلْفَ قَیْسِ بْنِ أَبِی حَازِمٍ عَلَی جِنَازَۃٍ فَکَبَّرَ أَرْبَعًا ، یَرْفَعُ یَدَیْہِ فِی کُلِّ تَکْبِیرَۃٍ۔
(١١٥٠٣) حضرت عمر بن ابی زائدہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت قیس بن ابی حازم کے پیچھے نماز پڑھی، آپ نے ہر تکبیر میں رفع یدین کیا۔

11503

(۱۱۵۰۴) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَنِ الْوَلِیدِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ جُمَیْعٍ الزُّہْرِیِّ ، قَالَ : رَأَیْتُ إبْرَاہِیمَ إذَا صَلَّی عَلَی الْجِنَازَۃِ رَفَعَ یَدَیْہِ فَکَبَّرَ ، ثُمَّ لاَ یَرْفَعُ یَدَیْہِ فِیمَا بَقِیَ وَکَانَ یُکَبِّرُ أَرْبَعًا۔
(١١٥٠٤) حضرت امام زہری فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابراہیم کو دیکھا جب آپ نماز جنازہ پڑھتے تو پہلی تکبیر میں رفع یدین کرتے پھر باقی تکبیرات میں رفع یدین نہ کرتے، اور وہ چار تکبیرات کہتے تھے۔

11504

(۱۱۵۰۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، عَنْ سُفْیَانَ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عُبَیْدِ اللہِ، أَنَّہُ کَانَ یَرْفَعُ یَدَیْہِ فِی أَوَّلِ تَکْبِیرَۃٍ عَلَی الْجِنَازَۃِ۔
(١١٥٠٥) حضرت سفیان فرماتے ہیں کہ حضرت حسن بن عبیداللہ نماز جنازہ کی صرف پہلی تکبیر میں رفع یدین کرتے۔

11505

(۱۱۵۰۶) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ، عَنْ یَحْیَی، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّہُ کَانَ یَرْفَعُ یَدَیْہِ مَعَ کُلِّ تَکْبِیرَۃٍ عَلَی الْجِنَازَۃِ۔
(١١٥٠٦) حضرت نافع فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمر نماز جنازہ کی ہر تکبیر میں رفع یدین فرماتے۔

11506

(۱۱۵۰۷) حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ مُعَاذٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا ابْنُ عَوْنٍ ، قَالَ : کَانَ مُحَمَّدٌ یَرْفَعُ یَدَیْہِ فِی الصَّلاَۃِ ، وَإِذَا رَکَعَ ، وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَہُ مِنَ الرُّکُوعِ ، وَکَانَ یَفْعَلُ ذَلِکَ مَعَ کُلِّ تَکْبِیرَۃٍ عَلَی الْجِنَازَۃِ۔
(١١٥٠٧) حضرت ابن عون سے مروی ہے کہ حضرت محمد نماز میں رفع یدین فرماتے، جب رکوع کرتے اور جب رکوع سے سر اٹھاتے (تو رفع یدین فرماتے) اور وہ نماز جنازہ کی بھی ہر تکبیر میں رفع یدین فرماتے۔

11507

(۱۱۵۰۸) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ عَبْدِ الْوَاحِدِ بْنِ زِیَادٍ ، عَنْ نفَاعَۃَ بْنِ مُسْلِمٍ ، قَالَ: کَانَ سُوَیْد یُکَبِّرُ عَلَی جَنَائِزِنَا، فَکَانَ یَرْفَعُ یَدَیْہِ فِی أَوَّلِ تَکْبِیرَۃٍ۔
(١١٥٠٨) حضرت نفاعہ بن مسلم فرماتے ہیں کہ حضرت سوید ھماری نماز جنازہ پڑھاتے، آپ صرف پہلی تکبیر میں رفع یدین فرماتے۔

11508

(۱۱۵۰۹) حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ بْنِ أَبِی خَالِدٍ ، قَالَ : صَلَّیْت خَلْفَ قَیْسِ بْنِ أَبِی حَازِمٍ عَلَی جِنَازَۃٍ ، فَکَانَ یُتَابِعُ بَیْنَ تَکْبِیرِہِ۔
(١١٥٠٩) حضرت اسماعیل بن ابی خالد فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت قیس بن ابی حازم کے پیچھے نماز جنازہ پڑھی، وہ دو تکبیروں کے درمیان اتصال متابعت اختیار کرتے۔

11509

(۱۱۵۱۰) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاہِیمَ ، عَن أَبِی أُمَامَۃَ بْنِ سَہْلِ بْنِ حُنَیْفٍ، عَنْ عُبَیْدِ بْنِ السَّبَّاقِ، أَنَّہُ حَدَّثَہُ، أَنَّہُ رَأَی سَہْلَ بْنَ حُنَیْفٍ صَلَّی عَلَی مَیِّتٍ فَقَرَأَ فِی أَوَّلِ تَکْبِیرَۃٍ بِأُمِّ الْقُرْآنِ، ثُمَّ تَابَعَ بَیْنَ تَکْبِیرِہِ یَدْعُو بَیْنَ ذَلِکَ حَتَّی إذَا بَقِیَتْ تَکْبِیرَۃٌ تَشَہَّدَ تَشَہُّد الصَّلاَۃِ، ثُمَّ کَبَّرَ وَانْصَرَفَ۔
(١١٥١٠) حضرت عبید بن سباق فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت سھل بن حنیف کو نماز جنازہ پڑھتے ہوئے دیکھا، آپ نے پہلی تکبیر میں سورة الفاتحہ پڑھی، پھر اس کے متصل دوسری تکبیر جس میں آپ نے دعا کی، پھر تکبیر تشھد باقی رہ گئی جس میں آپ نے نماز والا تشھد پڑھا، پھر دوبارہ تکبیر پڑھی اور نماز سے سلام پھیرا۔

11510

(۱۱۵۱۱) حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ عَامِرٍ ، عَنْ أَبِی رَجَائٍ ، عَنْ أَبِی العُرْیَان الْحَذَّائِ ، قَالَ : صَلَّیْت خَلْفَ الْحَسَنِ بْنِ عَلِیٍّ عَلَی جِنَازَۃٍ ، فَلَمَّا فَرَغَ أَخَذْت بِیَدِہِ فَقُلْت کَیْفَ صَنَعْت ؟ قَالَ : قرَأْتُ عَلَیْہَا بِفَاتِحَۃِ الْکِتَابِ۔
(١١٥١١) حضرت ابو العریان الحذائ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت حسن بن علی کے پیچھے نماز جنازہ پڑھی، جب نماز سے فارغ ہوئے میں نے ان کا ہاتھ پکڑ کر عرض کیا کہ آپ نے کیا کیا ؟ آپ نے فرمایا میں نے اس پر سورة الفاتحہ پڑھی۔

11511

(۱۱۵۱۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ ہِشَامٍ الدَّسْتَوَائِیِّ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ ہَمْدَانَ ، أَنَّ عَبْدَ اللہِ بْنَ مَسْعُودٍ قرَأَ عَلَیْہَا بِفَاتِحَۃِ الْکِتَابِ۔
(١١٥١٢) حضرت قتادہ ھمدان کے شخص سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود نماز جنازہ میں سورة الفاتحہ کی تلاوت فرماتے۔

11512

(۱۱۵۱۳) حَدَّثَنَا أَزْہَرُ السَّمَّانِ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ قَالَ: کَانَ الْحَسَنُ یَقْرَأُ بِفَاتِحَۃِ الْکِتَابِ فِی کُلِّ تَکْبِیرَۃٍ عَلَی الْجِنَازَۃِ۔
(١١٥١٣) حضرت ابن عون فرماتے ہیں کہ حضرت حسن نماز جنازہ کی ہر تکبیر میں سورة الفاتحہ کی تلاوت فرماتے۔

11513

(۱۱۵۱۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سَلَمَۃَ ، عَنِ الضَّحَّاکِ ، قَالَ : اقْرَأْ فِی التَّکْبِیرَتَیْنِ الأُولَیَیْنِ بِفَاتِحَۃِ الْکِتَابِ۔
(١١٥١٤) حضرت ضحاک فرماتے ہیں کہ نماز جنازہ کی پہلی دو تکبیروں کے درمیان سورة الفاتحہ پڑھو۔

11514

(۱۱۵۱۵) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ بُرْدٍ ، عَنْ مَکْحُولٍ ، أَنَّہُ کَانَ یَقْرَأُ فِی التَّکْبِیرَتَیْنِ الأُولَیَیْنِ فِی الصَّلاَۃِ عَلَی الْمَیِّتِ بِفَاتِحَۃِ الْکِتَابِ ، وَإِنْ أَمْہَلُوہُ أَنْ یَدْعُوَ فِیہَا دَعَا۔
(١١٥١٥) حضرت برد فرماتے ہیں کہ حضرت مکحول نماز جنازہ کی پہلی دو تکبیرات میں سورة الفاتحہ پڑھتے۔ اگر لوگ انھیں دعا کا موقع دیتے تو نماز میں دعا مانگتے۔

11515

(۱۱۵۱۶) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا أُمَامَۃَ یُحَدِّثُ سَعِیدَ بْنَ الْمُسَیَّبِ ، قَالَ : مِنَ السُّنَّۃِ فِی الصَّلاَۃِ عَلَی الْجِنَازَۃِ أَنْ تَقْرَأَ بِفَاتِحَۃِ الْکِتَابِ۔
(١١٥١٦) حضرت سعید بن المسیب فرماتے ہیں کہ نماز جنازہ میں سنت طریقہ یہ ہے کہ سورة الفاتحہ پڑھی جائے۔

11516

(۱۱۵۱۷) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاہِیمَ ، عَن أَبِی أُمَامَۃَ بْنِ سَہْلِ بْنِ حُنَیْفٍ ، عَنْ عُبَیْدِ بْنِ السَّبَّاقِ ، أَنَّہُ حَدَّثَہُ ، أَنَّہُ رَأَی سَہْلَ بْنَ حُنَیْفٍ صَلَّی عَلَی مَیِّتٍ فَقَرَأَ فِی أَوَّلِ تَکْبِیرَۃٍ بِأُمِّ الْقُرْآنِ۔
(١١٥١٧) حضرت عبید بن سباق فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت سھل بن حنیف کو نماز جنازہ کی پہلی تکبیر میں سورة الفاتحہ پڑھتے ہوئے دیکھا۔

11517

(۱۱۵۱۸) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرِِ ، عَنِ ابْنِ عَجْلاَنَ ، عَنْ سَعِیدٍ ، أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ قَرَأَ عَلَی جِنَازَۃٍ وَجَہَرَ ، وَقَالَ : إنَّمَا فَعَلْتُہُ لِتَعْلَمُوا أَنَّ فِیہَا قِرَائَۃً۔
(١١٥١٨) حضرت سعید فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عباس نے نماز جنازہ میں اونچی آواز سے تلاوت فرمائی اور پھر فرمایا میں نے اس لیے بلند آواز میں تلاوت کی تاکہ آپ لوگوں کو معلوم ہوجائے کہ نماز جنازہ میں تلاوت ہے۔

11518

(۱۱۵۱۹) حَدَّثَنَا سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنْ أَبِی مَعبَد ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، أَنَّہُ کَانَ یُسْمع النَّاسَ بِالْحَمْدِ وَیُکَبِّرُ عَلَی الْجِنَازَۃِ ثَلاَثًا۔
(١١٥١٩) حضرت ابو معبد فرماتے ہیں کہ لوگوں نے حضرت ابن عباس سے نماز جنازہ میں بلند آواز سے سورة فاتحہ پڑھتے اور جنازے میں تین تکبیرات کہتے۔

11519

(۱۱۵۲۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ زَیْدِ بْنِ طَلْحَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، أَنَّہُ قَرَأَ عَلَیْہَا بِفَاتِحَۃِ الْکِتَابِ۔
(١١٥٢٠) حضرت زید بن طلحہ فرماتے ہںِ کہ حضرت عبداللہ بن عباس نماز جنازہ میں سورة الفاتحہ پڑھتے۔

11520

(۱۱۵۲۱) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ آدَمَ ، عَنْ شَرِیکٍ ، عَنْ أَبِی ہَاشِمٍ الْوَاسِطِیِّ ، عَنْ فُضَالَۃَ مَوْلَی عمر ان الَّذِی صَلَّی عَلَی أَبِی بَکْرٍ ، أَوْ عُمَرَ قَرَأَ عَلَیْہِ بِفَاتِحَۃِ الْکِتَابِ۔
(١١٥٢١) حضرت فضالہ فرماتے ہیں کہ جن لوگوں نے حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کی نماز جنازہ پڑھی انھوں نے اس میں سورة الفاتحہ پڑھی۔

11521

(۱۱۵۲۲) حَدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنْ نَافِعٍ ، أَنَّ ابْنَ عُمَرَ کَانَ لاَ یَقْرَأُ فِی الصَّلاَۃِ عَلَی الْمَیِّتِ۔
(١١٥٢٢) حضرت نافع فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمر جنازے کی نماز میں قراءت نہیں کرتے تھے۔

11522

(۱۱۵۲۳) حَدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنْ مُحَمَّدٍ ، أَنَّہُ کَانَ لاَ یَقْرَأُ فِی الصَّلاَۃِ عَلَی الْمَیِّتِ۔
(١١٥٢٣) حضرت ایوب فرماتے ہیں کہ حضرت محمد نماز جنازہ میں قراءت نہیں کرتے تھے۔

11523

(۱۱۵۲۴) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی وَغُنْدَرٌ ، عَنْ عَوْفٍ ، عَنْ أَبِی الْمِنْہَالِ ، قَالَ : سَأَلْتُ أَبَا الْعَالِیَۃِ عَنِ الْقِرَائَۃِ فِی الصَّلاَۃِ عَلَی الْجِنَازَۃِ بِفَاتِحَۃِ الْکِتَابِ ، فَقَالَ : مَا کُنْت أَحْسَبُ أَنَّ فَاتِحَۃَ الْکِتَابِ تُقْرَأُ إِلاَّ فِی صَلاَۃٍ فِیہَا رُکُوعٌ وَسُجُودٌ۔
(١١٥٢٤) حضرت ابو المنہال فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابو العالیہ سے جنازے میں سورة الفاتحہ پڑھنے سے متعلق دریافت کیا ؟ آپ نے فرمایا : میرے خیال میں سورة الفاتحہ اس نماز میں پڑھی جاتی ہے جس میں رکوع و سجود ہو۔

11524

(۱۱۵۲۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ مُوسَی بْنِ عُلَیٍّ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : قُلْتُ لِفَضَالَۃَ بْنِ عُبَیْد ہَلْ یُقْرَأُ عَلَی الْمَیِّتِ شَیْئٌ ؟ قَالَ : لاَ۔
(١١٥٢٥) حضرت موسیٰ بن علی اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضرت فضالہ بن عبید سے دریافت کیا کیا میت پر (نماز جنازہ میں) کچھ پڑھا جاتا ہے ؟ آپ نے فرمایا نہیں۔

11525

(۱۱۵۲۶) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الشَّیْبَانِیِّ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ أَبِی بُرْدَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : قَالَ لَہُ رَجُلٌ أَقْرَأُ عَلَی الْجِنَازَۃِ بِفَاتِحَۃِ الْکِتَابِ ؟ قَالَ : لاَ تَقْرَأْ۔
(١١٥٢٦) حضرت سعید بن ابی بردہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نے ان سے دریافت کیا، کیا میں نماز جنازہ میں سورة الفاتحہ پڑھوں ؟ آپ نے فرمایا نہیں۔

11526

(۱۱۵۲۷) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، قَالَ : سَأَلْتُ عَطَائً عَنِ الْقِرَائَۃِ عَلَی الْجِنَازَۃِ ، فَقَالَ : مَا سَمِعْنَا بِہَذَا إِلاََ حَدِیثًا۔
(١١٥٢٧) حضرت حجاج فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عطائ سے نماز جنازہ میں قراءت کے متعلق دریافت کیا ؟ آپ نے فرمایا : میں نے اس بارے میں صرف ایک حدیث سنی ہے۔

11527

(۱۱۵۲۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ إیَاسٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، وَعَنْ أَبِی الْحَصِینِ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ قَالاَ : لَیْسَ فِی الْجِنَازَۃِ قِرَائَۃٌ۔
(١١٥٢٨) حضرت ابو حصین اور حضرت شعبی فرماتے ہیں کہ نماز جنازہ میں قراءت (فاتحہ) نہیں ہے۔

11528

(۱۱۵۲۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ زَمْعَۃَ ، عَنِ ابْنِ طَاوُوس ، عَنْ أَبِیہِ ، وَعَطَائٍ أَنَّہُمَا کَانَا یُنْکِرَانِ الْقِرَائَۃَ عَلَی الْجِنَازَۃِ۔
(١١٥٢٩) حضرت ابن طاؤس سے مروی ہے کہ ان کے والد اور حضرت عطائ نماز جنازہ مں قراءت (فاتحہ) کا انکار فرماتے تھے۔

11529

(۱۱۵۳۰) حَدَّثَنَا مُعْتَمِرُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ سُوَیْد ، عَنْ بَکْرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ ؟ قَالَ : لاَ أَعْلَمُ فِیہَا قِرَائَۃً۔
(١١٥٣٠) حضرت بکر بن عبداللہ فرماتے ہیں کہ مجھے نہیں معلوم کہ جنازہ میں قرات ہے کہ نہیں۔

11530

(۱۱۵۳۱) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنْ مَعْقِلٍ ، قَالَ : سَأَلْتُ مَیْمُونًا عَلَی الْجِنَازَۃِ قِرَائَۃٌ ، أَوْ صَلاَۃٌ عَلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ؟ قَالَ : مَا عَلِمْت۔
(١١٥٣١) حضرت معقل فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت میمون سے نماز جنازہ میں قرات (فاتحہ) اور درود کے بارے میں دریافت کیا ؟ تو آپ نے فرمایا مجھے نہیں معلوم (میں کچھ نہیں جانتا) ۔

11531

(۱۱۵۳۲) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ أَبِی بُکَیرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللہِ بْنِ أَبِی سَارَۃَ ، قَالَ : سَأَلْتُ سَالِمًا فَقُلْت : الْقِرَائَۃُ عَلَی الْجِنَازَۃِ ؟ فَقَالَ : لاَ قِرَائَۃَ عَلَی الْجِنَازَۃِ۔
(١١٥٣٢) حضرت عبداللہ بن ابی سارہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت سالم سے نماز جنازہ میں قرات (فاتحہ) کے متعلق دریافت کیا ؟ آپ نے فرمایا نماز جنازہ میں قرات نہیں ہے۔

11532

(۱۱۵۳۳) حَدَّثَنَا سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنْ أَبِی مَعْبَدٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، أَنَّہُ کَانَ یُسمع النَّاسَ بِالْحَمْدِ وَیُکَبِّرُ عَلَی الْجِنَازَۃِ۔
(١١٥٣٣) حضرت حضرت ابو معبد فرماتے ہیں کہ لوگوں نے حضرت ابن عباس سے نماز جنازہ میں سورة الفاتحہ سنتے اور جنازے پر تین تکبیریں کہی گئی۔

11533

(۱۱۵۳۴) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ حَکِیمٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا خَارِجَۃُ بْنُ زَیْدٍ ، عَنْ عَمِّہِ یَزِیدَ بْنِ ثَابِتٍ ، أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صَلَّی عَلَی قَبْرِ امْرَأَۃٍ فَکَبَّرَ أَرْبَعًا۔
(١٣١٣٤) حضرت یزید بن ثابت سے مروی ہے حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک خاتون کی قبر پر نماز (جنازہ) پڑھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس میں چار تکبیرات کہیں۔

11534

(۱۱۵۳۵) حَدَّثَنَا سَعِیدُ بْنُ یَحْیَی ، عَنْ سُفْیَانَ بْنِ حُسَیْنٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ أَبِی أُمَامَۃَ بْنِ سَہْلٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صَلَّی عَلَی قَبْرِ امْرَأَۃٍ فَکَبَّرَ أَرْبَعًا۔
(١١٥٣٥) حضرت امامہ بن سھل اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک خاتون کی قبر پر نماز جنازہ پڑھی اور چار تکبیرات کہیں۔

11535

(۱۱۵۳۶) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ سَلِیمِ بْنِ حَیَّانَ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ مِینَائَ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صَلَّی عَلَی أَصْحَمَۃَ النَّجَّاشِی فَکَبَّرَ عَلَیْہِ أَرْبَعًا۔ (بخاری ۳۸۷۹۔ مسلم ۶۴)
(١١٥٣٦) حضرت جابر بن عبداللہ سے مروی ہے حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اصحمہ نجاشی کی نماز جنازہ پڑھائی، اور اس میں چار تکبیرات پڑھی۔

11536

(۱۱۵۳۷) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ سَعِیدٍ ، أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خَرَجَ إلَی الْبَقِیعِ فَصَلَّی عَلَی النَّجَاشِیِّ فَکَبَّرَ عَلَیْہِ أَرْبَعًا۔
(١١٥٣٧) حضرت سعید سے مروی ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بقیع کی طرف نکلے اور نجاشی کی نماز جنازہ پڑھائی اور چار تکبیرات پڑھیں۔

11537

(۱۱۵۳۸) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : إنَّ النَّجَاشِیَّ قَدْ مَاتَ ، فَخَرَجَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابہ إلَی الْبَقِیعِ ، فَصَفَفْنَا خَلْفَہُ ، وَتَقَدَّمَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَکَبَّرَ أَرْبَعَ تَکْبِیرَاتٍ۔ (بخاری ۱۳۳۳۔ مسلم ۶۲)
(١١٥٣٨) حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : نجاشی فوت ہوگیا ہے۔ چنانچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے صحابہ بقیع کی طرف نکلے، ہم نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیچھے صفیں باندھیں، اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے آگے تھے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے چار تکبیرات کہیں۔

11538

(۱۱۵۳۹) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ ووَکِیعٌ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ بْنِ أَبِی خَالِدٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبْزَی ، قَالَ : مَاتَتْ زَیْنَبُ بِنْتُ جَحْشٍ فَکَبَّرَ عَلَیْہَا عُمَرُ أَرْبَعًا ، ثُمَّ سَأَلَ أَزْوَاجَ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَنْ یُدْخِلُہَا قَبْرَہَا فَقُلْنَ مَنْ کَانَ یَدْخُلُ عَلَیْہَا فِی حَیَاتِہَا۔
(١١٥٣٩) حضرت عبد الرحمن بن ابزی فرماتے ہں ھ کہ حضرت زینب بنت جحش کا انتقال ہوا تو حضرت عمر نے نماز جنازہ میں چار تکبیرات پڑھیں، پھر ازواج مطہرات سے دریافت کیا کہ ان کو قبر میں کون اتارے ؟ انھوں نے فرمایا : جو ان کی زندگی میں ان کے پاس آیا کرتا تھا۔ (جس کا ان سے پردہ نہیں تھا وہ) ۔

11539

(۱۱۵۴۰) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ سَلْعٍ ، عَنْ عَبْدِ خَیْرٍ ، قَالَ : قُبِضَ عَلِیٌّ وَہُوَ یُکَبِّرُ أَرْبَعًا۔
(١١٥٤٠) حضرت عبدخیر فرماتے ہیں کہ حضرت علی کا انتقال ہوا اس حال میں کہ آپ نماز جنازہ میں چار تکبیرات پڑھا کرتے تھے۔

11540

(۱۱۵۴۱) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ عُمَیْرِ بْنِ سَعِیدٍ ، قَالَ : صَلَّیْت خَلْفَ عَلِیٍّ عَلَی یَزِیدَ بْنِ الْمُکَفِّفِ فَکَبَّرَ عَلَیْہِ أَرْبَعًا۔
(١١٥٤١) حضرت عمیر بن سعید فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت علی کے پیچھے حضرت یزید بن المکفف کی نماز جنازہ پڑھی۔ آپ نے نماز جنازہ میں چار تکبیرات پڑھیں۔

11541

(۱۱۵۴۲) حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ عُمَیْرٍ ، عَنْ عَلِیٍّ مِثْلَہُ۔
(١١٥٤٢) حضرت علی سے اسی طرح منقول ہے۔

11542

(۱۱۵۴۳) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : سُئِلَ عَبْدُ اللہِ ، عَنِ التَّکْبِیرِ عَلَی الْجَنَائِزِ ، فَقَالَ: کُلُّ ذَلِکَ قَدْ صُنِعَ وَرَأَیْت النَّاسَ قَدْ أَجْمَعُوا عَلَی أَرْبَعٍ۔
(١١٥٤٣) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ سے نماز جنازہ کی تکبیرات کے متعلق دریافت کیا گیا ؟ آپ نے فرمایا کہ جنازے میں ہر طرح کا عمل کیا گیا ہے اور میں نے لوگوں کو (صحابہ کرام ) کو چار تکبیرات پر جمع پایا۔

11543

(۱۱۵۴۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ مِسْعَرٍ وَسُفْیَانَ وَشُعْبَۃُ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ الأَقْمَرِ ، عَنْ أَبِی عَطِیَّۃَ ، قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللہِ التَّکْبِیرُ عَلَی الْجَنَائِزِ أَرْبَعُ تَکْبِیرَاتٍ بِتَکْبِیرِ الْخُرُوجِ۔
(١١٥٤٤) حضرت عبداللہ فرماتے ہیں کہ نماز جنازہ میں چار تکبیرات ہیں تکبیر خروج سمیت۔

11544

(۱۱۵۴۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، عَنْ مِسْعَرٍ ، عَنْ مُہَاجِر أَبِی الْحَسَنَ ، قَالَ: صَلَّیْت خَلْفَ الْبَرَائِ عَلَی جِنَازَۃٍ فَکَبَّرَ أَرْبَعًا۔
(١١٥٤٥) حضرت مہاجر ابی الحسن فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت برائ کے پیچھے نماز جنازہ پڑھی آپ نے اس میں چار تکبیرات کہیں۔

11545

(۱۱۵۴۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ مُوسَی بْنِ عُلَیٍّ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ عُقْبَۃَ بْنِ عَامِرٍ ، قَالَ سَأَلَہُ رَجُلٌ عَنِ التَّکْبِیرِ عَلَی الْجِنَازَۃِ ، فَقَالَ : أَرْبَعًا فَقُلْت اللَّیْلُ وَالنَّہَارُ سَوَائٌ ، قَالَ : فَقَالَ : اللَّیْلُ وَالنَّہَارُ سَوَائٌ۔
(١١٥٤٦) حضرت عقبہ بن عامر سے ایک شخص نے دریافت کیا جنازے میں کتنی تکبیرات ہیں ؟ آپ نے فرمایا چار، میں نے عرض کیا دن اور رات برابر ہیں ؟ آپ نے فرمایا دن اور رات برابر ہیں۔

11546

(۱۱۵۴۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ زَیْدِ بْنِ طَلْحَۃَ ، قَالَ : شَہِدْت ابْنَ عَبَّاسٍ کَبَّرَ عَلَی جِنَازَۃٍ أَرْبَعًا۔
(١١٥٤٧) حضرت زید بن طلحہ فرماتے ہیں کہ میں حضرت ابن عباس کے پاس حاضر ہوا آپ نے جنازے پر چار تکبیرات پڑھیں۔

11547

(۱۱۵۴۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ مِسْعَرٍ ، عَنْ ثَابِتِ بْنِ عُبَیْدٍ ، أَنَّ زَیْدَ بْنَ ثَابِتٍ کَبَّرَ أَرْبَعًا وَأَنَّ أَبَا ہُرَیْرَۃَ کَبَّرَ أَرْبَعًا۔
(١١٥٤٨) حضرت ثابت عبید فرماتے ہیں کہ حضرت زید بن ثابت نماز جنازہ میں چار تکبیرات پڑھا کرتے تھے، اور حضرت ابوھریرہ بھی چار تکبیرات پڑھا کرتے تھے۔

11548

(۱۱۵۴۹) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ ، عَنْ أَبِی الْعَنْبَسِ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : صَلَّیْت خَلْفَ أَبِی ہُرَیْرَۃَ عَلَی جِنَازَۃٍ فَکَبَّرَ عَلَیْہَا أَرْبَعًا۔
(١١٥٤٩) حضرت ابو العنبس اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوہریرہ کے پیچھے نماز جنازہ پڑھی آپ نے اس پر چار تکبیرات پڑھیں۔

11549

(۱۱۵۵۰) حَدَّثَنَا حَفْصُ ، عَنْ عَطِیَّۃَ بْنِ الْحَارِثِ أَبِی رَوْقٍ ، عَنْ مَوْلًی لِلْحَسَنِ بْنِ عَلِیٍّ ، أَنَّ الْحَسَنَ بْنَ علِیٍّ صَلَّی عَلَی عَلِیٍّ فَکَبَّرَ عَلَیْہِ أَرْبَعًا۔
(١١٥٥٠) حضرت حسن بن علی کے غلام سے مروی ہے کہ حضرت حسن بن علی نے حضرت علی کی نماز جنازہ پڑھائی اور اس میں چار تکبیرات پڑھیں۔

11550

(۱۱۵۵۱) حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ، عَنْ حَجَّاجٍ، عَنْ نَافِعٍ، أَنَّ ابْنَ عُمَرَ کَانَ لاَ یَزِیدُ عَلَی أَرْبَعِ تَکْبِیرَاتٍ عَلَی الْمَیِّتِ۔
(١١٥٥١) حضرت نافع فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمر جنازہ میں چار تکبیرات سے زیادہ نہ کہتے تھے۔

11551

(۱۱۵۵۲) حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ مَوْہَبٍ ، عَنْ زَیْدِ بْنِ ثَابِتٍ مِثْلَہُ۔
(١١٥٥٢) حضرت زید بن ثابت سے بھی اسی کے مثل منقول ہے۔

11552

(۱۱۵۵۳) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ یَزِیدَ بْنِ أَبِی زِیَادٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مَعْقِلٍ ، قَالَ : کَبَّرَ عَلِیٌّ فِی سُلْطَانِہِ أَرْبَعًا أَرْبَعًا ہَاہُنَا إِلاَّ عَلَی سَہْلِ بْنِ حُنَیْفٍ، فَإِنَّہُ کَبَّرَ عَلَیْہِ سِتًّا، ثُمَّ الْتَفَتَ إلَیْہِمْ، فَقَالَ: إِنَّہُ بَدْرِیٌّ۔
(١١٥٥٣) حضرت عبداللہ بن معقل فرماتے ہیں کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے اپنی خلافت میں ہر نماز جنازہ میں چار تکبیرات پڑھیں۔ سوائے حضرت سھل بن حنیف کے ان پر چھ تکبیرات پڑھیں۔ پھر لوگوں کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا : (میں نے چھ تکبیرات اس لیے پڑھی ہیں) کیونکہ یہ بدری صحابی ہیں۔

11553

(۱۱۵۵۴) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا مُغِیرَۃُ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ ، قَالَ : کُنَّا نُکَبِّرُ عَلَی الْمَیِّتِ خَمْسًا وَسِتًّا ، ثُمَّ اجْتَمَعْنَا عَلَی أَرْبَعِ تَکْبِیرَاتٍ۔
(١١٥٥٤) حضرت ابن مسعود فرماتے ہیں کہ ہم نماز جنازہ میں پانچ یا چھ تکبیرات کہا کرتے تھے، پھر ہم سب چار پر متفق ہوگئے۔ (اجماع چار پر ہوگیا) ۔

11554

(۱۱۵۵۵) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ عَوْنٍ ، أَنَّ مُحَمَّدًا کَبَّرَ أَرْبَعًا۔
(١١٥٥٥) حضرت ابن عون فرماتے ہیں کہ حضرت محمد نماز جنازہ میں چار تکبیرات پڑھا کرتے تھے۔

11555

(۱۱۵۵۶) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ أَبِی عَطَائٍ ، قَالَ : شَہِدْت وَفَاۃَ ابْنِ عَبَّاسٍ فَوَلاَہُ ابْنُ الْحَنَفِیَّۃِ فَکَبَّرَ عَلَیْہِ أَرْبَعًا۔
(١١٥٥٦) حضرت عمران بن ابو عطائ فرماتے ہیں کہ میں حضرت ابن عباس کی وفات پر حاضر ہوا تو حضرت ابن الحنفیہ نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی اور چار تکبیرات پڑھیں۔

11556

(۱۱۵۵۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُدَیْرٍ ، عَنْ أَبِی مِجْلَزٍ ، أَنَّہُ کَانَ یُکَبِّرُ عَلَی الْجِنَازَۃِ أَرْبَعًا۔
(١١٥٥٧) حضرت عمر ابن حدیر فرماتے ہیں کہ حضرت ابو مجلز جنازہ میں چار تکبیرات پڑھا کرتے تھے۔

11557

(۱۱۵۵۸) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الْہَجَرِیِّ ، قَالَ : صَلَّیْت مَعَ عَبْدِ اللہِ بْنِ أَبِی أَوْفَی عَلَی جِنَازَۃٍ فَکَبَّرَ عَلَیْہَا أَرْبَعًا ، ثُمَّ قَامَ ہُنَیْہَۃً حَتَّی ظَنَنْت أَنَّہُ یُکَبِّرُ خَمْسًا ، ثُمَّ سَلَّمَ ، فَقَالَ : أَکُنْتُمْ تُرَوْنَ أَنِّی أُکَبِّرُ خَمْسًا إنَّمَا قُمْت کَمَا رَأَیْت رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَامَ۔ (احمد ۴/۳۵۶۔ عبدالرزاق۶۴۰۴)
(١١٥٥٨) حضرت الھجری فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن ابی اوفی کے پیچھے نماز جنازہ پڑھی، آپ نے اس میں چار تکبیرات پڑھیں ، پھر تھوڑی دیر کھڑے رہے، یہاں تک کہ ہمیں گمان ہونے لگا کہ آپ پانچویں تکبیر کہیں گے، پھر آپ نے سلام پھیرا اور فرمایا : کیا تمہارا خیال یہ تھا کہ میں پانچویں تکبیر کہوں گا ؟ میں اسی طرح کھڑا رہا جس طرح میں نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کھڑا دیکھا۔

11558

(۱۱۵۵۹) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَنِ الْوَلِیدِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ جُمَیْعٍ ، قَالَ : رَأَیْتُ إبْرَاہِیمَ صَلَّی عَلَی جِنَازَۃٍ فَکَبَّرَ أَرْبَعًا۔
(١١٥٥٩) حضرت عبداللہ بن جمیع فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابراہیم کو نماز جنازہ میں چار تکبیرات پڑھتے ہوئے دیکھا۔

11559

(۱۱۵۶۰) حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ ، عَنْ عُمَرِ بْنِ أَبِی زَائِدَۃَ ، قَالَ : صَلَّیْت خَلْفَ قَیْسِ بْنِ أَبِی حَازِمٍ عَلَی جِنَازَۃٍ فَکَبَّرَ أَرْبَعًا۔
(١١٥٦٠) حضرت عمر بن ابی زائدہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت قسَ بن ابی حازم کے پیچھے نماز جنازہ پڑھی آپ نے اس میں چار تکبیرات کہیں۔

11560

(۱۱۵۶۱) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنِ الْعَلاَئِ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ ، قَالَ : قَالَ عُمَرُ کُلٌّ قَدْ فَعَلَ فَقَالُوا : فتعالوا نَجْتَمِعُ عَلَی أَمْرٍ یَأْخُذُ بِہِ مَنْ بَعْدَنَا فَکَبَّرُوا عَلَی الْجِنَازَۃِ أَرْبَعًا۔
(١١٥٦١) حضرت عمرو بن مرہ سے مروی ہے کہ حضرت عمر نے فرمایا : سب کام (مکمل) ہوچکے، آ جاؤ ہم ایسے معاملہ پر اجماع کریں جس سے ہمارے بعد والے دلیل بنا سکیں۔ پھر سب نے جنازہ پر چار تکبیرات پڑھیں۔

11561

(۱۱۵۶۲) حَدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ بْنُ عَیَّاشٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُہَاجِر ، قَالَ : صَلیتُ خَلفَ وَاثِلَۃَ فَکَبَّرَ أَرْبَعًا۔
(١١٥٦٢) حضرت عمرو بن مہاجر فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت واثلہ کے پیچھے نماز جنازہ پڑھی آپ نے چار تکبیرات پڑھیں۔

11562

(۱۱۵۶۳) حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ ، عَنْ أَبِی الْخَصِیبِ ، أَنَّ سُوَیْدًا صَلَّی عَلَی جِنَازَۃٍ فَکَبَّرَ أَرْبَعًا۔
(١١٥٦٣) حضرت ابو خصیب فرماتے ہیں کہ حضرت سوید نے نماز جنازہ میں چار تکبیرات پڑھیں۔

11563

(۱۱۵۶۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ عَامِرِ بْنِ شَقِیقٍ ، عَنْ أَبِی وَائِلٍ ، قَالَ : جَمَعَ عُمَرُ النَّاسَ فَاسْتَشَارَہُمْ فِی التَّکْبِیرِ عَلَی الْجِنَازَۃِ ، فَقَالَ بَعْضُہُمْ کَبَّرَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خَمْسًا ، وَقَالَ بَعْضُہُمْ کَبَّرَ سَبْعًا ، وَقَالَ بَعْضُہُمْ کَبَّرَ أَرْبَعًا ، قَالَ فَجَمَعَہُمْ عَلَی أَرْبَعِ تَکْبِیرَاتٍ کَأَطْوَلِ الصَّلاَۃِ۔ (عبدالرزاق ۶۳۹۵)
(١١٥٦٤) حضرت ابو وائل فرماتے ہیں کہ حضرت عمر نے صحابہ کرام کو جمع فرمایا اور ان سے نماز جنازہ کی تکبیرات کے بارے میں مشورہ کیا (رائے دریافت کی) ۔ ان میں سے بعض نے فرمایا حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پانچ تکبیریں پڑھا کرتے تھے اور بعض نے فرمایا سات تکبیرات پڑھا کرتے اور بعض نے فرمایا چار تکبیرات پڑھا کرتے تھے ۔ راوی کہتے ہیں کہ پھر ان سب کا چار تکبیرات پر اجماع ہوگیا۔

11564

(۱۱۵۶۵) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَنْ زَائِدَۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ یَزِیدَ ، قَالَ : قَالَ إبْرَاہِیمُ اخْتَلَفَ أصْحَابُ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی التَّکْبِیرِ عَلَی الْجِنَازَۃِ ، ثُمَّ اتَّفَقُوا بَعْدُ عَلَی أَرْبَعِ تَکْبِیرَاتٍ۔
(١١٥٦٥) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام کا نماز جنازہ کی تکبیرات کے بارے میں اختلاف تھا، پھر سب کا چار تکبیرات پر اتفاق ہوگیا۔

11565

(۱۱۵۶۶) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ حُصَیْنٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنْ زَیْدِ بْنِ أَرَقْمَ ، أَنَّہُ صَلَّی عَلَی مَیِّتٍ فَکَبَّرَ عَلَیْہِ خَمْسًا۔
(١١٥٦٦) حضرت شعبی فرماتے ہیں کہ حضرت زید بن ارقم نے ایک شخص کی نماز جنازہ میں پانچ تکبیرات پڑھیں۔

11566

(۱۱۵۶۷) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِی لَیْلَی ، قَالَ : کَانَ زَیْدٌ یُکَبِّرُ عَلَی جَنَائِزِنَا أَرْبَعًا وَأَنَّہُ کَبَّرَ عَلَی جِنَازَۃٍ خَمْسًا فَسَأَلْتُہُ ، فَقَالَ : کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُکَبِّرُہَا۔ (مسلم ۷۲۔ ابوداؤد ۳۱۸۹)
(١١٥٦٧) حضرت عبد الرحمن بن ابی لیلیٰ فرماتے ہیں کہ حضرت زید ہمارے جنازوں پر چار تکبیریں پڑھا کرتے تھے، پھر انھوں نے ایک جنازے پر پانچ تکبیریں پڑھیں۔ ہم نے دریافت کیا تو آپ نے فرمایا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (اسی طرح) تکبیریں پڑھا کرتے تھے۔

11567

(۱۱۵۶۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ وَالْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنِ الْمِنْہَالِ ، عَنْ زِرٍّ ، أَنَّ ابْنَ مَسْعُودٍ کَبَّرَ عَلَی رَجُلٍ مِنْ بلعدان خَمْسًا۔
(١١٥٦٨) حضرت زر فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود نے بلعدان کے ایک شخص کی نماز جنازہ میں پانچ تکبیریں پڑھیں۔

11568

(۱۱۵۶۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنْ عَلْقَمَۃَ بْنِ قَیْسٍ ، أَنَّہُ قَدِمَ مِنَ الشَّامِ ، فَقَالَ : لِعَبْدِ اللہِ إنِّی رَأَیْت مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ وَأَصْحَابَہُ بِالشَّامِ یُکَبِّرُونَ عَلَی الْجَنَائِزِ خَمْسًا فَوَقّتَوا لَنَا وَقْتًَا نُتَابِعُکُمْ عَلَیْہِ ، قَالَ: فَأَطْرَقَ عَبْدُ اللہِ سَاعَۃً ، ثُمَّ قَالَ : کَبِّرُوا مَا کَبَّرَ إمَامُکُمْ لاَ وَقْتَ ، وَلاَ عَدَدَ۔
(١١٥٦٩) حضرت علقمہ بن قیس فرماتے ہیں کہ میں شام سے واپس آیا تو میں نے حضرت عبداللہ سے کہا : میں نے شام میں حضرت معاذ بن جبل اور ان کے ساتھیوں کو دیکھا وہ نماز جنازہ میں پانچ تکبیریں پڑھتے ہیں۔ ہمارے لیے ایک عدد مقرر کردیں تاکہ ہم اس کی اتباع کریں۔ آپ تھوڑی دیر سر جھکا کر خاموش رہے پھر فرمایا : جتنی تمہارا امام تکبیریں کہے تم بھی اتنی تکبیریں کہو کوئی عدد مقرر نہیں ہے۔

11569

(۱۱۵۷۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ زِیَادٍ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ الْحَارِثِ التَّیْمِیِّ عَنْ مَوْلًی لِحُذَیْفَۃَ ، عَنْ حُذَیْفَۃَ ، أَنَّہُ کَبَّرَ عَلَی جِنَازَۃٍ خَمْسًا زَادَ فِیہِ غَیْرُ وَکِیعٍ ، ثُمَّ قَالَ : رَأَیْتُ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَعَلَہُ۔ (احمد ۵/۴۰۶۔ دارقطنی ۹)
(١١٥٧٠) حضرت حذیفہ کے غلام فرماتے ہیں کہ حضرت حذیفہ جنازے پر پانچ تکبیریں پڑھیں۔ حضرت وکیع کے علاوہ سب راوی اس بات کا بھی اضافہ فرماتے ہیں کہ پھر انھوں نے فرمایا : میں نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اسی طرح کرتے دیکھا ہے۔

11570

(۱۱۵۷۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إسْرَائِیلَ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ عَامِرٍ ، عَنْ کَاتِبٍ لِعَلِیٍّ ، أَنَّ عَلِیًّا کَبَّرَ عَلَی جِنَازَۃٍ خَمْسًا۔
(١١٥٧١) حضرت علی نے ایک جنازہ پر پانچ تکبیرات پڑھیں۔

11571

(۱۱۵۷۲) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ، عَنْ أَیُّوبَ بْنِ النُّعْمَانِ، قَالَ: صَلَّیْت خَلْفَ زَیْدِ بْنِ أَرَقْمَ عَلَی جِنَازَۃٍ فَکَبَّرَ عَلَیْہَا خَمْسًا۔
(١١٥٧٢) حضرت ایوب بن نعمان فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت زید بن ارقم کے پیچھے نماز جنازہ پڑھی آپ نے اس میں پانچ تکبیریں پڑھیں۔

11572

(۱۱۵۷۳) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ سَلْعٍ ، عَنْ عَبْدِ خَیْرٍ ، قَالَ : کَانَ عَلِیٌّ یُکَبِّرُ عَلَی أَہْلِ بَدْرٍ سِتًّا ، وَعَلَی أَصْحَابِ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خَمْسًا وَعَلَی سَائِرِ النَّاسِ أَرْبَعًا۔
(١١٥٧٣) حضرت عبد خیر فرماتے ہیں کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ اصحاب بدر کے جنازے میں چھ تکبیریں پڑھتے، دوسرے صحابہ کرام کے جنازوں میں پانچ تکبیریں پڑھتے اور عام لوگوں کی نماز جنازہ میں چار تکبیریں پڑھتے۔

11573

(۱۱۵۷۴) حَدَّثَنَا سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنْ أَبِی مَعْبَدٍ ، قَالَ : کَانَ ابْنُ عَبَّاسٍ یَجْمَعُ النَّاسَ بِالْحَمْدِ وَیُکَبِّرُ عَلَی الْجِنَازَۃِ ثَلاَثًا۔
(١١٥٧٤) حضرت ابو معبد فرماتے ہیں کہ لوگوں نے حضرت ابن عباس نماز جنازہ میں سورة فاتحہ پڑھتے اور تین بار تکبیر کہتے۔

11574

(۱۱۵۷۵) حَدَّثَنَا مُعَاذٌ ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُدَیْرٍ ، قَالَ : صَلَّیْت مَعَ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ عَلَی جِنَازَۃٍ فَکَبَّرَ عَلَیْہَا ثَلاَثًا لَمْ یَزِدْ عَلَیْہَا ، ثُمَّ انْصَرَفَ۔
(١١٥٧٥) حضرت عمران بن حدیر فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت انس بن مالک کے پیچھے نماز جنازہ پڑھی آپ نے تین تکبیریں پڑھیں اس پر اضافہ نہ کیا اور پھر آپ واپس لوٹ گئے۔

11575

(۱۱۵۷۶) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ الْحُبَابِ ، عَنِ الْقَاسِمِ ، قَالَ : أَخْبَرَنِی أَبِی ، أَنَّہُ صَلَّی عَلَی جِنَازَۃٍ ، فَقَالَ لَہُ جَابِرُ بْنُ زَیْدٍ تَقَدَّمْ ، فَکَبِّرْ عَلَیْہَا ثَلاَثًا۔
(١١٥٧٦) حضرت قاسم فرماتے ہیں کہ مجھے میرے والد صاحب نے بتایا کہ وہ ایک جنازے میں تھے تو ان سے حضرت جابر بن زید نے فرمایا آپ آگے ہو جاؤ۔ اور اس پر تین تکبیریں پڑھو۔

11576

(۱۱۵۷۷) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ یَزِیدَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ الْحَارِثِ، قَالَ : صَلَّی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَی حَمْزَۃَ فَکَبَّرَ عَلَیْہِ تِسْعًا ، ثُمَّ جِیئَ بِالأُخْرَی فَکَبَّرَ عَلَیْہَا سَبْعًا ، ثُمَّ جِیئَ بِالأُخْرَی فَکَبَّرَ عَلَیْہَا خَمْسًا حَتَّی فَرَغَ عَنْہُنَّ غَیْرَ أَنَّہُنَّ وِتْرٌ۔ (بیہقی ۱۳۔ ابن سعد ۱۶)
(١١٥٧٧) حضرت عبداللہ بن حارث سے مروی ہے کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت حمزہ کی نماز جنازہ پڑھائی تو نو (٩) تکبیریں پڑھیں۔ پھر دوسرا جنازہ لایا گیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سات تکبیریں پڑھیں۔ پھر دوسرا جنازہ لایا گیا تو آپ نے پانچ تکبیریں پڑھیں۔ یہاں تک کہ آپ سب جنازوں سے فارغ ہوگئے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہر جنازے پر طاق تکبیریں پڑھیں۔

11577

(۱۱۵۷۸) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ ووَکِیعٌ قَالَ : حدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ بْنُ أَبِی خَالِدٍ ، عَنْ مُوسَی بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ یَزِیدَ ، قَالَ : صَلَّی عَلِیٌّ عَلَی أَبِی قَتَادَۃَ فَکَبَّرَ عَلَیْہِ سَبْعًا۔
(١١٥٧٨) حضرت موسیٰ بن عبداللہ بن یزید فرماتے ہیں کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے حضرت قتادہ کی نماز جنازہ پڑھائی اور اس میں سات تکبیریں پڑھیں۔

11578

(۱۱۵۷۹) حدثت عن جَرِیر ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ حَمَّادٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : لاَ یُزَادُ عَلَی سَبْعِ تَکْبِیرَاتٍ ، وَلاَ تُنْقَصُ مِنْ أَرْبَعٍ۔
(١١٥٧٩) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ سات تکبیروں سے زیادہ اور چار تکبیروں سے کم نہیں کہی جائیں گی۔

11579

(۱۱۵۸۰) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ حُصَیْنٍ ، عَنْ أَبِی مَالِکٍ ، قَالَ : صَلَّی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَی حَمْزَۃَ فَجَعَلُوا یَرْفَعُونَ وَحَمْزَۃُ بَیْنَ أَیْدِیہِمْ حَتَّی فَرَغَ مِنَ الصَّلاَۃِ عَلَیْہِمْ۔ (ابن سعد ۱۶۔ ابوداؤد ۴۳۵)
(١١٥٨٠) حضرت ابو مالک سے مروی ہے کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت حمزہ کی نماز جنازہ پڑھائی، صحابہ کرام جنازوں کو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے سے اٹھا رہے تھے جبکہ حضرت حمزہ کا جنازہ (ہر دفعہ) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے رہا۔ یہاں تک کہ آپ سب جنازوں سے فارغ ہوگئے۔

11580

(۱۱۵۸۱) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ حُصَیْنٍ ، عَنْ أَبِی مَالِکٍ ، قَالَ : صَلَّی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَی حَمْزَۃَ ، فَکَانَ یُجَائُ بِتِسْعَۃٍ فَیُوضَعُونَ مَعَہُ ، فَیُصَلِّی عَلَیْہِمْ ، ثُمَّ یُرْفَعُونَ وَیُتْرَکُ ، وَیُجَائُ بِتِسْعَۃٍ آخَرِینَ ، فَلَمْ یَزَلْ کَذَلِکَ حَتَّی صَلَّی عَلَیْہِمْ جَمِیعًا۔
(١١٥٨١) حضرت ابو مالک فرماتے ہیں کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت حمزہ کی نماز جنازہ اس طرح پڑھائی کہ ان کے ساتھ نو جنازے اور رکھے جاتے (نماز جنازہ کے بعد) وہ نو اٹھا لیے جاتے اور حضرت حمزہ کا جنازہ وہیں رہتا پھر نو اور جنازے لائے جاتے، اسی طرح ہوتا رہا یہاں تک کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمام جنازوں سے فارغ ہوگئے۔

11581

(۱۱۵۸۲) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا حُصَیْنٌ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ؛ أَنَّ عَلِیًّا صَلَّی عَلَی سَہْلِ بْنِ حُنَیْفٍ فَکَبَّرَ عَلَیْہِ سِتًّا۔
(١١٥٨٢) حضرت امام شعبی فرماتے ہیں کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے حضرت سھل بن حنیف کی نماز جنازہ پڑھائی اور اس میں چھ تکبیریں پڑھیں۔

11582

(۱۱۵۸۳) حَدَّثَنَا معتمرُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ سُوَیْد ، عَنْ بَکْرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : لاَ یُنْقَصُ مِنْ ثَلاَثِ تَکْبِیرَاتٍ ، وَلاَ یُزَادُ عَلَی سَبْعٍ۔
(١١٥٨٣) حضرت بکر ابن عبداللہ فرماتے ہیں کہ نماز جنازہ میں تین تکبیروں سے کم اور سات سے زائد نہیں کیا جائے گا۔

11583

(۱۱۵۸۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنِ ابْنِ الأَصْبَہَانِیِّ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مُغَفَّلٍ ، عَنْ عَلِیٍّ ، أَنَّہُ کَبَّرَ عَلَی سَہْلِ بْنِ حُنَیْفٍ سِتًّا۔ (بخاری ۴۰۰۴)
(١١٥٨٤) حضرت عبداللہ بن معقل سے مروی ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے حضرت سھل بن حنیف کی نماز جنازہ میں چھ تکبیریں پڑھیں۔

11584

(۱۱۵۸۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، قَالَ: حدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ، عَنِ الشَّعْبِیِّ، عَنِ ابْنِ مُغَفَّلٍ، أَنَّ عَلِیًّا کَبَّرَ عَلَی سَہْلِ بْنِ حُنَیْفٍ سِتًّا۔
(١١٥٨٥) حضرت ابن مغفل سے مروی ہے کہ علی نے سہل بن حنیف کے جنازے پر چھ تکبیریں کہیں۔

11585

(۱۱۵۸۶) حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ أَیُّوبَ الْمَوْصِلِیُّ ، عَنْ مُغِیرَۃَ بْنِ زِیَادٍ ، عَنْ عَطَائٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : إذَا خِفْتَ أَنْ تَفُوتَکَ الْجِنَازَۃُ وَأَنْتَ عَلَی غَیْرِ وُضُوئٍ فَتَیَمَّمْ وَصَلِّ۔
(١١٥٨٦) حضرت ابن عباس ارشاد فرماتے ہیں جب آپ کو خوف ہو کہ آپ کی نماز جنازہ قضا ہوجائے گی اور اس وقت آپ کا وضو نہ ہو تو آپ تیمم کرلو اور نماز جنازہ ادا کرلو۔

11586

(۱۱۵۸۷) حَدَّثَنَا سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ أَبِی الزَّعْرَائِ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ ، قَالَ : إذَا فَجَأَتْک الْجِنَازَۃُ وَأَنْتَ عَلَی غَیْرِ وُضُوئٍ فَتَیَمَّمْ وَصَلِّ عَلَیْہَا۔
(١١٥٨٧) حضرت عکرمہ فرماتے ہیں جنازہ آپ کے پاس آئے اور آپ کا وضو نہ ہو تو تیمم کر کے اس کی نماز جنازہ ادا کرلو۔

11587

(۱۱۵۸۸) حَدَّثَنَا جَرِیرُ بْنُ عَبْدِ الْحَمِیدِ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : إذَا فَجَأَتْک الْجِنَازَۃُ وَلَسْت عَلَی وُضُوئٍ ، فَإِنْ کَانَ عِنْدَکَ مَائٌ فَتَوَضَّأْ وَصَلِّ وَإِنْ لَمْ یَکُنْ عِنْدَکَ مَائٌ فَتَیَمَّمْ وَصَلِّ۔
(١١٥٨٨) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں جب نماز جنازہ (کا وقت) آجائے اور آپ کا وضو نہ ہو تو اگر اس وقت آپ کے پاس پانی موجود ہے تو وضو کر کے نماز ادا کرلو، اور اگر پانی نہ ہو تو تیمم کر کے نماز جنازہ ادا کرلو۔

11588

(۱۱۵۸۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ حَمَّادٍ وَمَنْصُورٌ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : یَتَیَمَّمُ إذَا خَشِیَ الْفَوْتَ۔
(١١٥٨٩) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں جب نماز جنازہ فوت ہونے کا اندیشہ ہو تو تیمم کرلے۔

11589

(۱۱۵۹۰) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ، عَنْ عَطَائٍ، قَالَ: إذَا خِفْت أَنْ تَفُوتَکَ الْجِنَازَۃُ فَتَیَمَّمْ وَصَلِّ۔
(١١٥٩٠) حضرت عطائ فرماتے ہیں کہ جب نماز جنازے کا فوت ہوجانے کا اندیشہ ہو تو تیمم کر کے نماز ادا کرلو۔

11590

(۱۱۵۹۱) حدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الْحَکَمِ وحَمَّاد ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالَ : إذَا خَافَ أَنْ تَفُوتَہ الصَّلاَۃُ عَلَی الْجِنَازَۃِ تَیَمَّمْ۔
(١١٥٩١) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں جب آپ کو نماز جنازہ فوت ہوجانے کا اندیشہ ہو تو تیمم کرلو۔

11591

(۱۱۵۹۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : یَتَیَمَّمُ إذَا خَشِیَ الْفَوْتَ۔
(١١٥٩٢) حضرت شعبی فرماتے ہیں جب نماز جنازہ فوت ہوجانے کا خوف ہو تو تیمم کرلو۔

11592

(۱۱۵۹۳) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ أَبِی غَنِیَّۃَ عن أبیہ ، عَنِ الْحَکَمِ ، قَالَ : إذَا خِفْتَ أَنْ تَفُوتَکَ الصَّلاَۃُ وَأَنْتَ عَلَی غَیْرِ وُضُوئٍ فَتَیَمَّمْ۔
(١١٥٩٣) حضرت حکم فرماتے ہیں کہ جب آپ کو نماز جنازہ فوت ہوجانے کا اندیشہ ہو اور آپ کا وضو بھی نہ ہو تو تیمم کرلو۔

11593

(۱۱۵۹۴) حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، عَنْ شَیْبَانَ، عَنْ جَابِرٍ، عن سَالِمٍ، قَالَ: یَتَیَمَّمُ، وَقَالَ الْقَاسِمُ: لاَ یُصَلِّی عَلَیْہَا حَتَّی یَتَوَضَّأَ۔
(١١٥٩٤) حضرت قاسم فرماتے ہیں کہ وضو کیے بغیر نماز جنازہ مت ادا کرو۔

11594

(۱۱۵۹۵) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : لاَ یَتَیَمَّمُ ، وَلاَ یُصَلِّی إِلاَّ عَلَی طُہْرٍ۔
(١١٥٩٥) حضرت حسن فرماتے ہیں نہ تیمم کرے اور نہ نماز جنازہ ادا کرے جب تک وضو نہ کرے۔

11595

(۱۱۵۹۶) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ ، عَنْ عَطَائٍ ؛ فِی الرَّجُلِ یَحْضُرُ الْجِنَازَۃَ فَیَخَافُ أَنْ تَفُوتَہُ الصَّلاَۃُ عَلَیْہَا ، قَالَ : لاَ یَتَیَمَّمُ۔
(١١٥٩٦) حضرت عطائ سے دریافت کیا گیا ایک شخص (کا وضو نہیں ہے) اور نماز جنازہ فوت ہوجانے کا اندیشہ ہے (کیا وہ تیمم کرسکتا ہے ؟ ) آپ نے فرمایا : نہیں وہ تیمم نہ کرے۔

11596

(۱۱۵۹۷) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : یَتَیَمَّمُ وَیُصَلِّی عَلَیْہَا۔
(١١٥٩٧) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ تیمم کرے اور نماز جنازہ ادا کرے۔

11597

(۱۱۵۹۸) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا إسْمَاعِیلُ بْنُ أَبِی خَالِدٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ؛ فِی الرَّجُلِ یَحْضُرُ الْجِنَازَۃَ وَہُوَ عَلَی غَیْرِ وُضُوئٍ ، قَالَ : یُصَلِّی عَلَیْہَا۔
(١١٥٩٨) حضرت اسماعیل بن ابی خالد فرماتے ہیں کہ حضرت شعبی سے دریافت کیا گیا : جنازہ حاضر ہوجائے اور کسی شخص کا وضو نہ ہو تو (وہ کیا کرے ؟ ) آپ نے فرمایا : وہ نماز جنازہ ادا کرے۔

11598

(۱۱۵۹۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إِسمَاعِیل وَمُطِیعٌ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : یُصَلِّی عَلَیْہَا زَادَ فِیہِ مُطِیعٌ لَیْسَ فِیہِ رُکُوعٌ ، وَلاَ سُجُودٌ۔
(٩٩ ١١٥) حضرت شعبی فرماتے ہیں کہ نماز جنازہ ادا کرے، حضرت مطیع نے اس میں اس بات کا بھی اضافہ فرمایا ہے کہ اس میں رکوع و سجود نہیں ہیں۔

11599

(۱۱۶۰۰) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، أَنَّہُ لَمْ یَکُنْ یَقْضِی مَا فَاتَہُ مِنَ التَّکْبِیرِ عَلَی الْجِنَازَۃِ۔
(١١٦٠٠) حضرت عبداللہ بن عمر ارشاد فرماتے ہیں کہ نماز جنازہ کی جو تکبیریں فوت ہوجائیں ان کی وہ قضا نہیں کرے گا۔

11600

(۱۱۶۰۱) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِِ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : إذَا فَاتَتْک تَکْبِیرَۃٌ ، أَوْ تَکْبِیرَتَانِ عَلَی الْجِنَازَۃِ فَبَادِرْ فَکَبِّرْ مَا فَاتَکَ قَبْلَ أَنْ تُرْفَعَ۔
(١١٦٠١) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ جب نماز جنازہ کی ایک دو تکبیریں فوت ہوجائیں تو اٹھنے سے قبل ان تکبیروں کو جلدی سے کہہ لے۔

11601

(۱۱۶۰۲) حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ مَسْعَدَۃَ ، عَنِ ابْنِ أَبِی ذِئْبٍ ، عَنْ قَارِظِ بْنِ شَیْبَۃَ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ، قَالَ یَبْنِی عَلَی مَا فَاتَہُ مِنَ التَّکْبِیرِ عَلَی الْجِنَازَۃِ۔
(١١٦٠٢) حضرت سعید بن المسیب فرماتے ہیں کہ نماز جنازہ کی جو تکبیریں فوت ہوجائیں ان کی بنا (قضا) کرے گا۔

11602

(۱۱۶۰۳) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنْ مُحَمَّدٍ ، قَالَ : یُکَبِّرُ مَا أَدْرَکَ وَیَقْضِی مَا سَبَقَہُ ، وَقَالَ الْحَسَنُ : یُکَبِّرُ مَا أَدْرَکَ ، وَلاَ یَقْضِی مَا سَبَقَہُ۔
(١١٦٠٣) حضرت محمد فرماتے ہیں کہ جتنی تکبیریں مل جائیں وہ ادا کرے اور جو گزر چکی ہیں ان کی قضا کرے ۔ اور حضرت حسن فرماتے ہیں جو مل جائیں وہ تو کہہ لے لیکن جو رہ گئی ہیں ان کی قضا نہ کرے۔

11603

(۱۱۶۰۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إسْرَائِیلَ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، وَعَطَائٍ قَالاَ : لاَ تَقْضِی مَا فَاتَکَ مِنَ التَّکْبِیرِ عَلَی الْجِنَازَۃِ۔
(١١٦٠٤) حضرت شعبی اور حضرت عطائ فرماتے ہیں کہ جو تکبیرات فوت ہوجائیں ان کی قضا نہیں ہے۔

11604

(۱۱۶۰۵) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ حَمَّادٍ ، قَالَ : یَقْضِی۔
(١١٦٠٥) حضرت حماد فرماتے ہیں قضا کرے گا۔

11605

(۱۱۶۰۶) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرِِ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، قَالَ : یُکَبِّرُ مَا أَدْرَکَ ، وَلاَ یَقْضِی مَا فَاتَہُ۔
(١١٦٠٦) حضرت قتادہ فرماتے ہیں کہ جتنی تکبیریں مل جائیں ان کو کہہ لے اور جو فوت ہوگئی ہیں ان کی قضا نہ کرے۔

11606

(۱۱۶۰۷) حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللہِ بْنِ الزُّبَیْرِ ، عَنْ مُبَارَکٍ ، عَنْ یَعْقُوبَ ، عَنْ مَطَرٍ ، عَنْ حُمَیْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، قَالَ : یَقْضِی مَا فَاتَہُ مِنَ التَّکْبِیرِ عَلَی الْجِنَازَۃِ۔
(١١٦٠٧) حضرت حمید بن عبد الرحمن فرماتے ہیں نماز جنازہ کی جتنی تکبیریں فوت ہوگئی ہیں ان کی قضاء کرے۔

11607

(۱۱۶۰۸) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنِ الْحَارِثِ ، أَنَّہُ کَانَ یَقُولُ : إذَا انْتَہَی الرَّجُلُ إلَی الْجِنَازَۃِ وَقَدْ سُبِقَ بِبَعْضِ التَّکْبِیرِ لَمْ یُکَبِّرْ حَتَّی یُکَبِّرَ الإِمَامُ۔
(١١٦٠٨) حضرت حارث فرماتے ہیں جب آدمی نماز جنازہ میں اس وقت پہنچے جب امام کچھ تکبیریں کہہ چکا ہو تو وہ فورا تکبیر نہ کہے بلکہ امام کی تکبیر کا انتظار کرے (پھر نماز میں داخل ہو) ۔

11608

(۱۱۶۰۹) حَدَّثَنَا مُعَاذٌ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الْحَسَنِ؛ فِی الرَّجُلِ یَنْتَہِی إلَی الْجِنَازَۃِ وَہُمْ یُصَلُّونَ عَلَیْہَا، قَالَ: یَدْخُلُ مَعَہُمْ بِتَکْبِیرَۃٍ۔
(١١٦٠٩) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ کوئی شخص نماز جنازہ کے لیے آئے اور لوگ نماز جنازہ ادا کر رہے ہوں تو وہ بھی تکبیر کہہ کر ان کے ساتھ شامل ہوجائے، (امام کی تکبیر کا انتظار نہ کرے) ۔

11609

(۱۱۶۱۰) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عُبَیْدِ اللہِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، أَنَّہُ کَانَ لاَ یَجْہَرُ بِالتَّسْلِیمِ عَلَی الْجِنَازَۃِ۔
(١١٦١٠) حضرت ابراہیم نماز جنازہ کا سلام بلند آواز سے نہ پھیرتے تھے۔

11610

(۱۱۶۱۱) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، أَنَّہُ کَانَ إذَا صَلَّی عَلَی الْجِنَازَۃِ رَفَعَ یَدَیْہِ فَکَبَّرَ ، فَإِذَا فَرَغَ سَلَّمَ عَلَی یَمِینِہِ وَاحِدَۃً۔
(١١٦١١) حضرت نافع فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمر جب نماز جنازہ ادا فرماتے تو تکبیر کہتے وقت رفع یدین فرماتے، جب نماز سے فارغ ہوتے تو داہنی طرف صرف ایک سلام پھیرتے۔

11611

(۱۱۶۱۲) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ عُمَیْرِ بْنِ سَعید ، قَالَ : صَلَّی عَلِیٌّ عَلَی یَزِیدَ بْنِ الْمُکَفِّفِ فَکَبَّرَ عَلَیْہِ أَرْبَعًا ، وَسَلَّمَ تَسْلِیمَۃً خَفِیَّۃً عَنْ یَمِینِہِ۔
(١١٦١٢) حضرت عمیر بن سعید فرماتے ہیں کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے حضرت یزید بن المکفف کی نماز جنازہ ادا فرمائی اور اس میں چار تکبیرات پڑھیں اور آہستہ آواز میں داہنی طرف صرف ایک سلام پھیرا۔

11612

(۱۱۶۱۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ وَالْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ بْنِ الْمُہَاجِرِ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، أَنَّہُ کَانَ یُسَلِّمُ عَلَی الْجِنَازَۃِ تَسْلِیمَۃً۔
(١١٦١٣) حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عباس نماز جنازہ میں ایک سلام پھیرتے تھے۔

11613

(۱۱۶۱۴) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِِ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنِ الْحَارِثِ ، قَالَ : صَلَّیْت خَلْفَہُ عَلَی جِنَازَۃٍ ، فَسَلَّمَ عَنْ یَمِینِہِ حِینَ فَرَغَ السَّلاَمُ عَلَیْکُمْ۔
(١١٦١٤) حضرت ابو اسحاق فرماتے ہیں میں نے حضرت حارث کے پیچھے نماز جنازہ ادا کی، جب نماز سے فارغ ہوئے تو آپ نے داہنی جانب ایک سلام السلام علیکم کہتے ہوئے پھیرا۔

11614

(۱۱۶۱۵) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، أَنَّہُ کَانَ یُسَلِّمُ عَلَی الْجِنَازَۃِ تَسْلِیمَۃً۔
(١١٦١٥) حضرت اعمش فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم نماز جنازہ میں ایک سلام پھیرا کرتے تھے۔

11615

(۱۱۶۱۶) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ، عَنِ الشَّیْبَانِیِّ، عَنْ عَبْدِالْمَلِکِ بْنِ إیَاسٍ، عَنْ إبْرَاہِیمَ، قَالَ: تَسْلیم السَّہو وَالْجِنَازَۃِ وَاحِد۔
(١١٦١٦) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ سجدہ سہو اور نماز جنازہ میں ایک ہی سلام ہے۔

11616

(۱۱۶۱۷) حَدَّثَنَا حَفْصُ، عَنِ الشَّیْبَانِیِّ، عَنْ عَبْدِالْمَلِکِ بْنِ إیَاسٍ، عَنْ إبْرَاہِیمَ، قَالَ: سَلِّم عَلَی الْجِنَازَۃِ تَسْلِیمَۃً۔
(١١٦١٧) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں نماز جنازہ میں صرف ایک سلام پھیرو۔

11617

(۱۱۶۱۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ ہَمَّام عَنْ ہِلاَلِ بن مَزیدٍ ، قَالَ : صَلَّیْت خَلْفَ جَابِرِ بْنِ زَیْدٍ فَسَلَّمَ تَسْلِیمَۃً أَوَّلُہَا عَنْ یَمِینِہِ ، وَآخِرُہَا عَنْ یسارہ۔
(١١٦١٨) حضرت ھلال بن مزید فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت جابر بن زید کے پیچھے نماز جنازہ ادا کی، آپ نے پہلے داہنی جانب سلام پھیرا، پھر دوسرا سلام بائیں جانب پھیرا۔

11618

(۱۱۶۱۹) حَدَّثَنَا مُعْتَمِرُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : صَلَّی ابْنُ سِیرِینَ فَسَلَّمَ تَسْلِیمَۃً فَأَسْمَعَ عَلَی الْجِنَازَۃِ۔
(١١٦١٩) حضرت معتمر بن سلیمان اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابن سیرین نے نماز جنازہ پڑھائی اور بلند آواز سے ایک مرتبہ سلام پھیرا۔

11619

(۱۱۶۲۰) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ ، عَنْ أَبِی الْعَنْبَسِ ، عَنْ أَبِیہِ ، أَنَّہُ قَالَ : صَلَّیْت خَلْفَ أَبِی ہُرَیْرَۃَ عَلَی جِنَازَۃٍ فَکَبَّرَ عَلَیْہَا أَرْبَعًا ، وَسَلَّمَ عَنْ یَمِینِہِ تَسْلِیمَۃً۔
(١١٦٢٠) حضرت ابو العنبس اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوہریرہ کے پیچھے نماز جنازہ ادا کی آپ نے اس میں چار تکبیریں کہیں اور داہنی جانب ایک سلام پھیرا۔

11620

(۱۱۶۲۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ وَالْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ مَنْصُورِ بْنِ حَیَّانَ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ، أَنَّہُ کَانَ یُسَلِّمُ عَلَی الْجِنَازَۃِ تَسْلِیمَۃً۔
(١١٦٢١) حضرت منصور بن حیان فرماتے ہیں کہ حضرت سعید بن جبیر نماز جنازہ پر ایک سلام پھیرتے۔

11621

(۱۱۶۲۲) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِی عَدِیٍّ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : یُسَلِّمُ تَسْلِیمَۃً تِلْقَائَ وَجْہِہِ ، وَیَرُدُّ مَنْ خَلْفَ الإِمَامِ۔
(١١٦٢٢) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ ایک سلام میت کے چہرے کی طرف کر کے پھیرے اور مقتدی بھی سلام کو دہرائیں۔

11622

(۱۱۶۲۳) حَدَّثَنَا عَبْدُاللہِ بْنُ نُمَیْرٍ، عَنْ حُرَیْثٍ، قَالَ: رَأَیْتُ عَامِرًا صَلَّی عَلَی جِنَازَۃٍ فَسَلَّمَ عَنْ یَمِینِہِ، وَعَنْ شِمَالِہِ۔
(١١٦٢٣) حضرت حریث فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عامر کو نماز جنازہ ادا کرتے ہوئے دیکھا آپ نے دائیں اور بائیں سلام پھیرا۔

11623

(۱۱۶۲۴) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ آدَمَ ، عَنْ قُطْبَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ یَحْیَی ، أَنَّہُ کَانَ إذَا صَلَّی عَلَی جِنَازَۃٍ سَلَّمَ تَسْلِیمَۃً وَاحِدَۃً۔
(١١٦٢٤) حضرت اعمش فرماتے ہیں کہ جب حضرت یحییٰ نماز جنازہ ادا فرماتے تو ایک سلام پھیرتے۔

11624

(۱۱۶۲۵) حَدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ بْنُ عَیَّاشٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُہَاجِرٍ ، قَالَ : صَلَّیْت مَعَ وَاثِلَۃَ عَلَی سِتِّینَ جِنَازَۃً مِنَ الطَّاعُونِ ، رِجَالٍ وَنِسَائٍ ، فَکَبَّرَ أَرْبَعَ تَکْبِیرَاتٍ ، وَسَلَّمَ تَسْلِیمَۃً۔
(١١٦٢٥) حضرت عمرو بن مہاجر فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت واثلہ کے ساتھ طاعون کے زمانے میں مردوں اور عورتوں کے ساٹھ جنازے پڑھے۔ آپ چار تکبیریں پڑھتے اور ایک سلام پھیرتے۔

11625

(۱۱۶۲۶) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ حُبَابٍ ، قَالَ : حدَّثَنِی عَبْدُ اللہِ بْنُ الْعَلاَئِ ، قَالَ : صَلَّیْت خَلْفَ مَکْحُولٍ عَلَی جِنَازَۃٍ فَسَلَّمَ تَسْلِیمَۃً عَنْ یَمِینِہِ۔
(١١٦٢٦) حضرت عبداللہ بن العلائ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت مکحول کے پیچھے نماز جنازہ پڑھی آپ نے داہنی جانب ایک سلام پھیرا۔

11626

(۱۱۶۲۷) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ عَاصِمٍ ، قَالَ : سَأَلْتُ غُنَیْمًا قُلْتُ : أُسَلِّمُ فِی الصَّلاَۃِ عَلَی الْجِنَازَۃِ ؟ قَالَ : نَعَمْ أَلَسْت فِی الصَّلاَۃِ ؟۔
(١١٦٢٧) حضرت عاصم فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت غنیم سے دریافت کیا کیا میں نماز جنازہ میں سلام پھیروں۔ آپ نے فرمایا ہاں ! کیا تو نماز میں نہیں ہے ؟

11627

(۱۱۶۲۸) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، عَنْ أَبِی الْہَیْثَمِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، أَنَّہُ کَانَ یُسَلِّم ُعَلَی الْجِنَازَۃِ عَنْ یَمِینِہِ ، وَعَنْ یسارہ۔
(١١٦٢٨) حضرت ابراہیم نماز جنازہ میں دائیں اور بائیں (دو ) سلام پھیرتے تھے۔

11628

(۱۱۶۲۹) حدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ مُبَارَکٍ ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، قَالَ : : کَانَ الْمِسْوَرُ بْنُ مَخْرَمَۃَ إذَا شَہِدَ جِنَازَۃً لَمْ یَجْلِسْ حَتَّی تُوضَعَ۔
(١١٦٢٩) حضرت امام زہری فرماتے ہیں کہ حضرت مسور بن مخرمہ جب جنازہ میں حاضر ہوتے تو جب تک وہ رکھ نہ دیا جاتا آپ بھی نہ بیٹھتے۔

11629

(۱۱۶۳۰) حدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ، عَنْ أَبِی الْعَنْبَسِ، عَنْ أَبِیہِ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ، أَنَّہُ لَمْ یَکُنْ یَقْعُدُ حَتَّی یُوضَعَ السَّرِیرُ۔
(١١٦٣٠) حضرت ابو العنبس اپنے والد سے روایت کرتے ہیں جب تک جنازہ نہ رکھ دیا جاتا حضرت ابوہریرہ نہ بیٹھتے۔

11630

(۱۱۶۳۱) حدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ وَکَثِیرُ بْنُ ہِشَامٍ ، عَنْ ہِشَامٍ الدَّسْتَوَائِیِّ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ أَبِی کَثِیرٍ ، عَنْ أَبِی سَلَمَۃَ ، عَنْ أَبِی سَعِیدٍ رَفَعَہُ ، قَالَ : إذَا کُنْتُمْ فِی جِنَازَۃٍ فَلاَ تَجْلِسُوا حَتَّی یُوضَعَ السَّرِیرُ۔ (ابوداؤد ۳۱۶۵۔ احمد ۳۸)
(١١٦٣١) حضرت ابو سعید سے مرفوعا مروی ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جب تم کسی جنازہ میں شریک ہو تو جب تک جنازے کی چارپائی نہ رکھ دی جائے تم نہ بیٹھو۔

11631

(۱۱۶۳۲) حدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ ، وَأَبِی ہُبَیْرَۃَ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، أَنَّہُ کَانَ إذَا صَحِبَ جِنَازَۃً لَمْ یَجْلِسْ حَتَّی تُوضَعَ۔
(١١٦٣٢) حضرت ابو ھبیرہ فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمر جب کسی جنازے میں ہوتے تو جب چارپائی نہ رکھ دی جاتی آپ تشریف نہ رکھتے۔

11632

(۱۱۶۳۳) حدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ فُضَیْلٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : إذَا وُضِعَ السَّرِیرُ فَاجْلِسْ۔
(١١٦٣٣) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں جب چارپائی رکھ دی جائے تب تم بیٹھو۔

11633

(۱۱۶۳۴) حدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ طَلْحَۃَ بْنِ یَحْیَی ، قَالَ : رَأَیْتُ عُرْوَۃَ بْنَ الزُّبَیْرِ فِی جِنَازَۃٍ فَاتَّکَأَ عَلَی حَائِطٍ ، فَجَعَلَ یَقُولُ : وُضِعَتِ الْجِنَازَۃُ ؟ فَلَمْ یَجْلِسْ حَتَّی وُضِعَتْ۔
(١٣١٣٤) حضرت طلحہ بن یحییٰ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عروہ بن زبیر کو ایک جنازے میں دیکھا آپ نے ایک دیوار کے ساتھ ٹیک لگائی ہوئی تھی اور فرما رہے تھے کیا جنازہ رکھ دیا گیا ہے ؟ جب تک جنازہ نہ رکھا آپ نہ بیٹھے۔

11634

(۱۱۶۳۵) حدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ آدَمَ ، عَنْ زُہَیْرٍ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ وَالشَّعْبِیِّ قَالاَ : کَانُوا یَکْرَہُونَ أَنْ یَجْلِسُوا حَتَّی تُوضَعَ الْجِنَازَۃُ عَنْ مَنَاکِبِ الرِّجَالِ۔
(١١٦٣٥) حضرت ابراہیم اور حضرت شعبی اس بات کو ناپسند فرماتے تھے کہ جنازہ لوگوں کے کندھوں سے اترنے سے قبل ہی کوئی شخص بیٹھ جائے۔

11635

(۱۱۶۳۶) حدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ أَبِی مَالِکٍ الأَشْجَعِیِّ ، عَنْ أَبِی حَازِمٍ ، قَالَ : مَشَیْت مَعَ الْحَسَنِ بْنِ عَلِیٍّ ، وَأَبِی ہُرَیْرَۃَ ، وَابْنِ الزُّبَیْرِ ، فَلَمَّا انْتَہَوْا إلَی الْقَبْرِ قَامُوا یَتَحَدَّثُونَ حَتَّی وُضِعَتِ الْجِنَازَۃُ ، فَلَمَّا وُضِعَتْ جَلَسُوا۔
(١١٦٣٦) حضرت ابو حازم فرماتے ہیں کہ میں حضرت حسن بن علی ، حضرت ابوہریرہ اور حضرت ابن زبیر کے ساتھ (جنازے میں) چلا، جب وہ قبر کے پاس پہنچے تو کھڑے ہو کر گفتگو کرنے لگے، یہاں تک کہ جنازہ رکھ دیا گیا، جب جنازہ رکھا گیا تب وہ حضرات بیٹھے۔

11636

(۱۱۶۳۷) حدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنْ مُحَمَّدٍ ، أَنَّہُ کَانَ لاَ یَجْلِسُ حَتَّی تُوضَعَ ، قَالَ : وَکَانَ الْحَسَنُ لاَ یَرَی بِہِ بَأْسًا۔
(١١٦٣٧) حضرت ہشام فرماتے ہیں جب تک جنازہ رکھ نہ دیا جاتا حضرت محمد تشریف نہ کھتے۔ اور فرماتے ہیں کہ حضرت حسن بیٹھنے میں کوئی حرج نہ سمجھتے۔

11637

(۱۱۶۳۸) حدَّثَنَا عَائِذُ بْنُ حَبِیبٍ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ، عَنْ وَاقِدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ ، قَالَ : کُنْتُ فِی جِنَازَۃٍ فَلَمْ أَجْلِسْ حَتَّی وُضِعَتْ إلی الأَرْضِ ، ثُمَّ أَتَیْتُ نَافِعَ بْنَ جُبَیْرٍ فَجَلَسْت إلَیْہِ ، فَقَالَ : مَا لِی لَمْ أَرَک جَلَسْت حَتَّی وُضِعَتِ الْجِنَازَۃُ فَقُلْت ذَاکَ لِحَدِیثٍ بَلَغَنِی عَنْ أَبِی سَعِیدٍ ، فَقَالَ نَافِعٌ : حَدَّثَنِی مَسْعُودُ بْنُ الْحَکَمِ ، أَنَّ عَلِیًّا حَدَّثَہُ ، أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَامَ ، ثُمَّ قَعَدَ۔ (مسلم ۸۳۔ ابوداؤد ۳۱۶۷)
(١١٦٣٨) حضرت واقد بن عمرو بن سعد بن معاذ فرماتے ہیں کہ میں ایک جنازے میں تھا، جب تک جنازہ نہ رکھ دیا گیا میں نہیں بیٹھا، پھر میں حضرت نافع بن جبیر کے پاس آیا اور ان کے پاس بیٹھ گیا، انھوں نے مجھ سے پوچھا کیا بات ہے کہ جب تک جنازہ نہیں رکھا گیا آپ بیٹھے نہیں ؟ میں نے کہا اس لیے کہ مجھے حدیث پہنچی ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کھڑے رہے (پھر جب جنازہ رکھ دیا گیا) پھر بیٹھے۔

11638

(۱۱۶۳۹) حدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إسْمَاعِیلَ ، عَنْ أُنَیْسِ بْنِ أَبِی یَحْیَی ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : رَأَیْتُ ابْنَ عُمَرَ وَرَجُلاً آخَرَ یَجْلِسَانِ قَبْلَ أَنْ تُوضَعَ الْجِنَازَۃُ۔
(١١٦٣٩) حضرت انیس بن ابی یحییٰ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن عمر اور ایک دوسرے شخص کو دیکھا کہ دونوں جنازہ رکھ دینے سے قبل بیٹھ گئے۔

11639

(۱۱۶۴۰) حدَّثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ الثَّقَفِیُّ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو ، أَنَّ الْقَاسِمَ وَسَالِمًا کَانَا یَمْشِیَانِ أَمَامَ الْجِنَازَۃِ وَیَجْلِسَانِ۔
(١١٦٤٠) حضرت محمد بن عمرو فرماتے ہیں کہ حضرت قاسم اور حضرت سالم دونوں حضرات جنازے کے آگے چلتے تھے اور جنازہ رکھ دینے سے پہلے بیٹھ جاتے تھے۔

11640

(۱۱۶۴۱) حدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ ، عَنْ سَعِیدٍ ، أَنَّہُ رَأَی الْحَسَنَ جَلَسَ قَبْلَ أَنْ تُوضَعَ الْجِنَازَۃُ عَلَی الْقَبْرِ۔
(١١٦٤١) حضرت سعید فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت حسن کو دیکھا کہ وہ جنازہ کو قبر پر رکھ دینے سے قبل ہی بیٹھ گئے۔

11641

(۱۱۶۴۲) حدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إسْرَائِیلَ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ أَبِی جَعْفَرٍ وَعَامِرٍ قَالاَ : لاَ بَأْسَ أَنْ یُجْلَسَ قَبْلَ أَنْ تُوضَعَ الْجِنَازَۃُ فِی الْقَبْرِ۔
(١١٦٤٢) حضرت ابو جعفر اور حضرت عامر فرماتے ہیں کہ جنازے کو رکھ دینے سے قبل بیٹھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

11642

(۱۱۶۴۳) حدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، قَالَ : حدَّثَنَا الأَعْمَشُ ، عَنِ الْمِنْہَالِ ، عَنْ زَاذَانَ ، عَنِ الْبَرَائِ ، قَالَ : خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی جِنَازَۃِ رَجُلٍ مِنَ الأَنْصَارِ فَانْتَہَیْنَا إلَی الْقَبْرِ وَلَمَّا یُلْحَدْ ، قَالَ : فَجَلَسَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَجَلَسْنَا حَوْلَہُ کَأَنَّمَا عَلَی رُؤُوسِنَا الطَّیْرُ۔ (ابوداؤ د۳۲۰۴۔ ابن خزیمۃ ۱۲)
(١١٦٤٣) حضرت برائ فرماتے ہیں کہ ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ایک انصاری شخص کے جنازے میں گئے، پھر جب ہم قبر کے پاس پہنچ گئے اور لحد ابھی نہیں بنی تھی، تو حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف فرما ہوئے، اور ہم بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اردگرد اس طرح بیٹھ گئے جس طرح ہمارے سروں پر پرندے بیٹھ گئے ہوں۔

11643

(۱۱۶۴۴) حدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ، عَنِ الْجُرَیْرِیِّ، عَنْ مُوَرِّقٍ الْعِجْلِیّ ، قَالَ: مَا أَنْتَ بِعَادِلٍ بَیْنَ أَمْرَیْنِ إِلاَّ وَجَدْت أَمْثَلَہُمَا عِنْدَ اللہِ أَیْسَرَہُمَا ، فَأَجْلِسُ فِی قِیَامِ الْجِنَازَۃِ۔
(١١٦٤٤) حضرت مورق العجلی فرماتے ہیں کہ آپ دو کاموں میں انصاف کرنے والے نہیں ہیں مگر آپ ان دونوں کے مثل پالیں گے عبداللہ کے نزدیک جو ان میں سے آسان ہو، پس جب جنازہ (کندھوں پر) کھڑا ہو تو تم بیٹھ جاؤ۔

11644

(۱۱۶۴۵) حدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ ابْنِ أَبِی ذِئْبٍ ، عَنْ سَعِیدٍ الْمَقْبُرِیِّ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : رَأَیْتُ أَبَا ہُرَیْرَۃَ وَمَرْوَانَ یَمْشِیَانِ أَمَامَ الْجِنَازَۃِ ، ثُمَّ جَلَسَا فَجَائَ أَبُو سَعِیدٍ الْخُدْرِیُّ ، فقَالَ : قُمْ أَیُّہَا الأَمِیرُ فَقَدْ عَلِمَ ہَذَا ، یَعْنِی أَبَا ہُرَیْرَۃَ ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ إذَا اتَّبَعَ الْجِنَازَۃَ لَمْ یَجْلِسْ حَتَّی تُوضَعَ۔ (بخاری ۱۳۱۰۔ مسلم ۶۶۰)
(١١٦٤٥) حضرت سعید المقبری اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوہریرہ اور مروان کو جنازے کے آگے چلتے ہوئے دیکھا، پھر وہ دونوں بیٹھ گئے، حضرت ابو سعید الخدری تشریف لائے اور فرمایا : اے امیر کھڑے ہو جاؤ، اس کو (ابوھریرہ کو) معلوم ہے کہ جب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کسی جنازے کے ساتھ جاتے تو جب تک جنازہ نہ رکھ دیا جاتا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف نہ رکھتے۔

11645

(۱۱۶۴۶) حدَّثَنَا ابْنُ الْمُبَارَکِ ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، قَالَ : کَانَ الْمِسْوَرُ بْنُ مَخْرَمَۃَ لاَ یَرْجِعُ حَتَّی یُؤْذَنَ لَہُ۔
(١١٦٤٦) حضرت امام زہری فرماتے ہیں کہ حضرت مسور بن مخرمہ نماز جنازہ کے بعد واپس نہ لوٹتے جب تک کہ ان سے اجازت نہ لے لیتے۔

11646

(۱۱۶۴۷) حدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ وَوَکِیعٌ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ زَیْدِ بْنِ ثَابِتٍ ، قَالَ : إذَا صَلَّیْتُمْ عَلَی الْجِنَازَۃِ فَقَدْ قَضَیْتُمْ مَا عَلَیْکُمْ ، فَخَلُّوا بَیْنَہَا وَبَیْنَ أَہْلِہَا۔
(١١٦٤٧) حضرت زید بن ثابت فرماتے ہیں جب تم نے نماز جنازہ ادا کرلی تو تم نے اپنا حق ادا کرلیا، اب اس کے اور اس کے اھل کو تنہا (خالی) چھوڑ دو ۔

11647

(۱۱۶۴۸) حدَّثَنَا حُمَیْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ صَالِحٍ ، عَنِ ابْنِ أَبِی لَیْلَی ، عَنْ أبِی الزُّبَیْرِ ، عَنْ جَابِرٍ ، قَالَ : امْشِ مَعَ الْجِنَازَۃِ مَا شِئْت ، ثُمَّ ارْجِعْ إذَا بَدَا لَک۔
(١١٦٤٨) حضرت جابر ارشاد فرماتے ہیں کہ جتنا چاہو جنازے کے ساتھ چلو پھر واپس لوٹ آؤ جب تمہارے لیے ظاہر ہوجائے۔

11648

(۱۱۶۴۹) حدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ مُعَاذٍ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، عَنْ مُحَمَّدٍ ، أَنَّہُ کَانَ لاَ یَرَی لَہُمْ إذْنًا وَیَقُولُ : مَا سُلْطَانُہُمْ عَلَیْنَا۔
(١١٦٤٩) حضرت ابن عون فرماتے ہیں کہ حضرت محمد اجازت لینے کو ضروری نہ سمجھتے تھے، اور فرماتے تھے کہ وہ ہم پر نگہبان نہیں ہیں۔

11649

(۱۱۶۵۰) حدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، عَنْ مُوسَی بْنِ نَافِعٍ ، قَالَ : رَأَیْتُ سَعِیدَ بْنَ جُبَیْرٍ صَلَّی عَلَی جِنَازَۃٍ ، ثُمَّ رَجَعَ۔
(١١٦٥٠) حضرت موسیٰ بن نافع فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت سعید بن جیر کو دیکھا کہ آپ نے نماز جنازہ پڑھی اور واپس لوٹ گئے۔

11650

(۱۱۶۵۱) حدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، قَالَ : قَالَ رَجُلٌ لِنَافِعٍ أَکَانَ ابْنُ عُمَرَ یَرْجِعُ مِنَ الْجِنَازَۃِ قَبْلَ أَنْ یُؤْذَنَ لَہُ بَعْدَ فَرَاغِہِمْ ، قَالَ : مَا کَانَ یَرْجِعُ حَتَّی یُؤْذَنَ لَہُ۔
(١١٦٥١) حضرت ابن جریج فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے حضرت نافع سے دریافت کیا کیا حضرت عبداللہ بن عمر نماز جنازہ سے فارغ ہونے کے بعد اجازت سے قبل ہی واپس لوٹ جایا کرتے تھے ؟ آپ نے فرمایا اجازت لینے سے قبل نہیں لوٹا کرتے تھے۔

11651

(۱۱۶۵۲) حدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ بْنِ مُہَاجِرٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : أَمِیرَانِ وَلَیْسَا بِأَمِیرِینَ صَاحِبُ الْجِنَازَۃِ إذَا صَلَّیْت عَلَیْہَا لَمْ تَرْجِعْ إِلاَّ بِإِذْنِہِ وَالْمَرْأَۃُ الْحَاجَّۃُ عَلَی رُفْقَتِہَا إذَا حَاضَتْ۔
(١١٦٥٢) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ دو شخص عہدہ امارت پر نہ ہونے کے باوجود بھی امیر ہی سمجھے جاتے ہیں ایک جنازے کا مالک جب تم نماز جنازہ ادا کرلو تو اجازت کے بغیر نہ لوٹو، اور حاجن عورت اپنے ساتھیوں کے پاس جب وہ حائضہ ہوجائے۔

11652

(۱۱۶۵۳) حدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ أَبِی جَنَابٍ ، عَنْ طَلْحَۃَ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، عَن عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : أَمِیرَانِ وَلَیْسَا بِأَمِیرِینَ صَاحِبُ الْجِنَازَۃِ وَالْحَائِضُ فِی الرُّفْقَۃِ۔
(١١٦٥٣) حضرت عبداللہ فرماتے ہیں کہ دو آدمی نہ امیر ہونے کے باوجود بھی امیر ہی سمجھے جاتے ہیں، جنازے والا، اور حائضہ عورت اپنے ساتھیوں میں۔

11653

(۱۱۶۵۴) حدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ مَالِکِ بْنِ مِغْوَلٍ ، عَنْ طَلْحَۃَ ، عَنْ عُمَرَ مِثْلَہُ۔
(١١٦٥٤) حضرت عمر سے اسی کے مثل منقول ہے۔

11654

(۱۱۶۵۵) حدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِِ ، عَنْ سَعِیدٍ بْنِ مَسْرُوقٍ ، عَنْ طَلْحَۃَ الْیَامِیِّ ، قَالَ : کَانَ یُقَالُ أَمِیرَانِ وَلَیْسَا بِآمِرَیْنِ الْجِنَازَۃُ عَلَی مَنْ یَتْبَعُہَا وَالْمَرْأَۃُ الْحَاجَّۃُ عَلَی رُفْقَتِہَا إذَا حَاضَتْ۔
(١١٦٥٥) حضرت طلحہ الیامی فرماتے ہیں دو آدمی امیر نہ ہوتے ہوئے بھی امیر ہیں۔ جنازہ امیر ہے اس شخص کا جو اس کی اتباع کرے اور حاجن عورت اپنے ساتھیوں پر جب وہ حائضہ ہوجائے۔

11655

(۱۱۶۵۶) حدَّثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ بْنُ عَطَائٍ ، عَنِ ابْنِ أَبِی عَرُوبَۃَ ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِی القصاف ، قَالَ : کُنْتُ مَعَ أَبِی قِلاَبَۃَ فِی جِنَازَۃٍ ، فَلَمَّا صَلَّی انْصَرَفَ ، قَالَ : فَقُلْت لَہُ قَبْلَ أَنْ یُؤْذَنَ لَکَ ، قَالَ : فَقَالَ : أَہُمْ أُمَرَائُ عَلَیْنَا۔
(١١٦٥٦) حضرت داؤد بن ابی القصاف فرماتے ہیں کہ میں حضرت ابو قلابہ کے ساتھ ایک جنازے میں تھا، جب آپ نے نماز پڑھی آپ واپس لوٹ گئے، میں نے ان سے عرض کیا اجازت سے پہلے ہی آپ واپس جارہے ہیں ؟ آپ نے فرمایا کیا وہ ہم پر حکمران (اور مسلط) ہیں ؟۔

11656

(۱۱۶۵۷) حدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّیَالِسِیُّ ، عَنْ أَبِی عَقِیلٍ ، قَالَ : قُلْتُ لَہُ عَلَی مَنْ تَبِعَ الْجِنَازَۃَ إذْنٌ ؟ قَالَ : لاَ وَلَکِنْ یَحْتَشِمُ الرَّجُلُ أَنْ یَرْجِعَ حَتَّی یُؤْذَنَ لَہُ۔
(١١٦٥٧) حضرت ابو داؤد الطیالسی فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابو عقیل سے دریافت کیا جو شخص جنازے کے ساتھ ہو اس کے لیے (واپس جانے کے لیے) اجازت ہے ؟ آپ نے فرمایا نہیں، لیکن آدمی کی حیا میں یہ بات داخل ہے کہ وہ اجازت کے بغیر نہ لوٹے۔

11657

(۱۱۶۵۸) حدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ ، عَنْ ثَوْرٍ ، عَنْ مَحْفُوظِ بْنِ عَلْقَمَۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ، قَالَ: أَمِیرَانِ وَلَیْسَا بِآمِرَیْنِ : الْمَرْأَۃُ تَکُونُ مَعَ الرُّفْقَۃِ فَتَحُجُّ ، أَوْ تَعْتَمِرُ فَیُصِیبُہَا أَذًی مِنَ الْحَیْضِ ؟ قَالَ : لاَ تَنْفِرُوا حَتَّی تَطْہُرَ وَتَأْذَنَ لَہُمْ وَالرَّجُلُ یَخْرُجُ مَعَ الْجِنَازَۃِ لاَ یَرْجِعُ حَتَّی یُؤْذَنَ لَہُ ، أَوْ یَدْفِنُوہَا ، أَوْ یُوَارُوہَا۔
(١١٦٥٨) حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں دو امیر ایسے ہیں جو حقیقت میں امیر نہیں ایک وہ عورت جو کسی جماعت کے ساتھ حج یا عمرہ کے لیے جائے اور وہ حائضہ ہوجائے اب وہ جماعت اس وقت کوچ نہیں کرسکتی جب تک وہ پاک نہ ہوجائے یا ناپاکی کی حالت میں انھیں چلے جانے کی اجازت نہ دے دے۔ اور دوسرا وہ آدمی جو کسی جنازے کے ساتھ چلا جائے اب وہ اس وقت تک واپس نہیں جاسکتا جب تک کہ اس کو اجازت نہ مل جائے یا جب تک میت کو دفن نہ کردیا جائے۔

11658

(۱۱۶۵۹) حدَّثَنَا مَرْحُومُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیزِ ، عَنْ حَبِیبِ بْنِ أَبِی مُحَمَّدٍ ، قَالَ : کُنْتُ مَعَ الْحَسَنِ فِی جِنَازَۃٍ ، فَلَمَّا أُذِنَ لَہُمْ قُلْتُ لِلْحَسَنِ قَدْ أُذِنَ لَہُمْ ، قَالَ : وَہَلْ عَلَیْنَا إذْنٌ۔
(١١٦٥٩) حضرت حبیب بن ابی محمد فرماتے ہیں کہ میں حضرت حسن کے ساتھ ایک جنازے میں تھا، پھر جب لوگوں کو اجازت دی گئی تو میں نے حضرت حسن سے کہا اجازت دے دی گئی ہے۔ حضرت حسن نے فرمایا کیا ہمارے لیے اذن (ضروری) ہے ؟

11659

(۱۱۶۶۰) حدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ ، عَنْ جَابِرٍ ، قَالَ : یَتْبَعُ الْجِنَازَۃَ مَا بَدَا لَہُ وَیَرْجِعُ إذَا بَدَا لَہُ۔
(١١٦٦٠) حضرت جابر فرماتے ہیں کہ جنازے کے ساتھ چلے جتنا اس کے لیے ظاہر ہو (گنجائش ہو) اور واپس لوٹ جائے جب اس کے لیے ظاہر ہوجائے۔

11660

(۱۱۶۶۱) حدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الْحَسَنِ مِثْلَہُ۔
(١١٦٦١) حضرت حسن سے اسی کے مثل منقول ہے۔

11661

(۱۱۶۶۲) حدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ طَلْحَۃَ ، عَنْ أَبِی حَازِمٍ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : أَمِیرَانِ وَلَیْسَا بِآمِرَیْنِ الرَّجُلُ یُصَلِّی عَلَی الْجِنَازَۃِ لَیْسَ لَہُ أَنْ یَرْجِعَ إِلاَّ بِإِذْنِ أَہْلِہَا ، وَالْمَرْأَۃُ تَکُونُ مَعَ الْقَوْمِ فَتَحِیضُ قَبْلَ أَنْ تَطُوفَ بِالْبَیْتِ یَوْمَ النَّحْرِ لَیْسَ لَہُمْ أَنْ یَنْفِرُوا إِلاَّ بِإِذْنِہَا۔
(١١٦٦٢) حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ دو آدمی امیر نہ ہونے کے باوجود بھی امیر ہیں، کوئی شخص نماز جنازہ ادا کرے تو وہ بغیر اجازت کے واپس نہ لوٹے، اور کوئی عورت (حج کے سفر میں) ہے اور اس کو طواف سے پہلے یوم النحر میں حیض آجائے، تو ان کے لیے اس عورت کی اجازت کے بغیر نکلنا جائز نہیں ہے۔

11662

(۱۱۶۶۳) حدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ مُبَارَکٍ ، عَنْ حُسَیْنٍ الْمُکْتِبِ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ بُرَیْدَۃَ ، عَنْ سَمُرَۃََ بْنِ جُنْدُبٍ ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صَلَّی عَلَی امْرَأَۃٍ فَقَامَ وَسَطَہَا۔ (بخاری ۱۳۳۲۔ ابوداؤد ۳۱۸۸)
(١١٦٦٣) حضرت سمرہ بن جندب سے مروی ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک عورت کا جنازہ پڑھایا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کے درمیان میں کھڑے ہوئے۔

11663

(۱۱۶۶۴) حدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ ہَمَّامٍ ، عَنْ غالب أو أَبِی غَالِبٍ ، عَنْ أَنَسٍ ، أَنَّہُ أُتِیَ بِجِنَازَۃِ رَجُلٍ فَقَامَ عِنْدَ رَأْسِ السَّرِیرِ وَجِیئَ بِجِنَازَۃِ امْرَأَۃٍ فَقَامَ أَسْفَلَ مِنْ ذَلِکَ عِنْدَ السَّرِیرِ ، فَقَالَ : الْعَلاَئُ بْنُ زِیَادٍ ہَکَذَا رَأَیْت رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَصْنَعُ ، قَالَ : نَعَمْ ، ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَیْنَا ، فَقَالَ : احْفَظُوہُ۔(ترمذی ۱۰۳۴۔ احمد ۳/۱۱۸)
(١١٦٦٤) حضرت ابو الغالب فرماتے ہیں کہ حضرت انس کے پاس ایک شخص کا جنازہ لایا گیا تو آپ اس کی چارپائی کے سر کے پاس کھڑے ہوئے اور ایک عورت کا جنازہ لایا گیا تو آپ اس کے سینے کے پاس کھڑے ہوئے، حضرت علاء بن زیاد نے دریافت کیا، کیا آپ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اسی طرح کرتے ہوئے دیکھا ہے ؟ آپ نے فرمایا ہاں، پھر آپ ھماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا اس کو یاد کرلو۔

11664

(۱۱۶۶۵) حدَّثَنَا سَہْلُ بْنُ یُوسُفَ ، عَنْ حُمَیْدٍ ، عَنْ یَزِیدَ بْنِ أَبِی مَنْصُورٍ ، قَالَ : قُلْتُ لأَبِی رَافِعٍ أَیْنَ أَقُومُ مِنَ الْجِنَازَۃِ قَالَ : فَخَلَعَ نَعْلَہُ ، ثُمَّ قَالَ : ہَاہُنَا ، یَعْنِی وَسَطَہَا۔
(١١٦٦٥) حضرت یزید بن ابی منصور فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابو رافع سے دریافت کیا کہ میں جنازے کے کہاں کھڑا ہوں ؟ آپ نے اپنے جوتے اتارے پھر فرمایا یہاں، یعنی درمیان میں۔

11665

(۱۱۶۶۶) حدَّثَنَا سَہْلُ بْنُ یُوسُفَ ، عَنْ حُمَیْدٍ ، قَالَ : صَلَّیْت خَلْفَ الْحَسَنِ مَا لاَ أُحْصِی عَلَی الْجَنَائِزِ لِلرِّجَالِ وَالنِّسَائِ ، فَمَا رَأَیْتُہُ یُبَالِی أَیْنَ قَامَ مِنْہَا۔
(١١٦٦٦) حضرت حمید فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت حسن کے پیچھے مردوں اور عورتوں کے بیشمار جنازے پڑھے ہیں، میں نے نہیں دیکھا کہ انھوں نے اس بات کی پروا کی ہو کہ وہ کہاں کھڑے ہیں۔

11666

(۱۱۶۶۷) حدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ، عَنِ الشَّیْبَانِیِّ، عَنِ الشَّعْبِیِّ، قَالَ: یَقُومُ الَّذِی یُصَلِّی عَلَی الْجِنَازَۃِ عِنْدَ صَدْرِہَا۔
(١١٦٦٧) حضرت شعبی فرماتے ہیں جو نماز جنازہ ادا کررہا ہے وہ میت کے سینے کے پاس کھڑا ہو۔

11667

(۱۱۶۶۸) حدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی، عَنْ ہِشَامٍ، عَنِ الْحَسَنِ، قَالَ: یُقَامُ مِنَ الْمَرْأَۃِ حِیَالَ ثَدْیَیْہَا وَمِنَ الرَّجُلِ فَوْقَ ذَلِکَ۔
(١١٦٦٨) حضرت حسن فرماتے ہیں عورت کے سینے کے سامنے اور مرد کے جنازے کے اس سے تھوڑا اوپر کھڑا ہو۔

11668

(۱۱۶۶۹) حدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِی عَدِیٍّ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : الْمَرْأَۃُ عِنْدَ فَخِذَیْہَا وَالرَّجُلُ عِنْدَ صَدْرِہِ فِی الْقِیَامِ۔
(١١٦٦٩) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ عورت کے ران کے پاس اور مرد کے سینے کے پاس کھڑا ہو۔

11669

(۱۱۶۷۰) حدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ أَبِی الْعُمَیْسِ ، عَنْ أَبِی حُصَیْنِ ، قَالَ : کَانَ عَبْدُ اللہِ إذَا صَلَّی عَلَی الْجِنَازَۃِ قَامَ وَسَطَہَا وَیَرْتَفِعُ عَنْ صَدْرِ الْمَرْأَۃِ شَیْئًا۔
(١١٦٧٠) حضرت ابی حصین فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ جب جنازہ پڑھتے تو اس کے درمیان میں کھڑے ہوتے اور عورت کے سینے سے کچھ اوپر کھڑے ہوتے۔

11670

(۱۱۶۷۱) حدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَنْ زَائِدَۃَ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ عَطَائٍ ، قَالَ : إذَا صَلَّی الرَّجُلُ عَلَی الْجِنَازَۃِ قَامَ عِنْدَ الصَّدْرِ۔
(١١٦٧١) حضرت عطائ فرماتے ہیں جب آدمی نماز جنازہ پڑھائے تو اس کے سینے کے پاس کھڑا ہو۔

11671

(۱۱۶۷۲) حدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : یَقُومُ الَّذِی یُصَلِّی عَلَی الْجِنَازَۃِ عِنْدَ صَدْرِہَا۔
(١١٦٧٢) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ جو شخص نماز جنازہ پڑھائے وہ اس کے سینے کے پاس کھڑا ہو۔

11672

(۱۱۶۷۳) حدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ عَوَّامٍ ، عَنْ حُصَیْنٍ عَمَّنْ سَمِعَ سَعِیدَ بْنَ جُبَیْرٍ ، قَالَ : إذَا کَانَ جِنَازَۃُ رَجُلٍ وَامْرَأَۃٍ جِیئَ بِالْمَرْأَۃِ فَوَضَعَ رَأْسَہَا عِنْدَ کَتِفَیِ الرَّجُلِ ، ثُمَّ یَقُومُ الإِمَامُ عِنْدَ رَأْسِ الْمَرْأَۃِ ، وَوَسَطِ الرَّجُلِ۔
(١١٦٧٣) حضرت سعید بن جبیر فرماتے ہیں جب مرد اور عورت دونوں کا جنازہ اکٹھا ہو تو عورت (کی میت کے) کے سر کو مرد کے کندھوں کے پاس رکھیں گے، پھر امام عورت کے سر کے پاس اور مرد کے درمیان (سینے) میں کھڑا ہوگا۔

11673

(۱۱۶۷۴) حدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ بْنُ عَیَّاشٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُہَاجِرٍ ، قَالَ : صَلَّیْت مَعَ وَاثِلَۃَ بْنِ الأَسْقَعِ عَلَی سِتِّینَ جِنَازَۃً مِنَ الطَّاعُونِ رِجَالٍ وَنِسَائٍ فَجَعَلَہُمْ صَفَّیْنِ صَفَّ النِّسَائِ بَیْنَ أَیْدِی الرِّجَالِ ، رَأْسَ سَرِیرِ الْمَرْأَۃِ عِنْدَ رِجْلَیْ صَاحِبَتِہَا ، وَرَأْسَ الرَّجُلِ عِنْدَ رِجْلَیْ سَرِیرِ صَاحِبِہِ۔
(١١٦٧٤) حضرت عمرو بن مہاجر فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت واثلہ بن اسقع کے ساتھ طاعون کے زمانہ میں مردوں اور عورتوں کے ساٹھ جنازے پڑھے۔ ان سب کی دو صفیں بنائی گئیں۔ عورتوں کی صف مردوں کے سامنے، عورت کی چارپائی کا سر اس کی ساتھی (عورت) کے ٹانگوں کے پاس، اور مرد کا سر اس کے ساتھی (مرد) کے ٹانگوں کے پاس۔

11674

(۱۱۶۷۵) حدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ حَبِیبِ بْنِ أَبِی ثَابِتٍ ، قَالَ : قَدِمَ سَعِیدُ بْنُ جُبَیْرٍ عَلَی أَہْلِ مَکَّۃَ وَہُمْ یُسَوُّونَ بَیْنَ الرَّجُلِ وَالْمَرْأَۃِ إذَا صَلَّوْا عَلَیْہِمَا فِی رُؤُوسِہِمَا وَأَرْجُلِہِمَا ، فَأَرَادَہُمْ عَلَی أَنْ یَجْعَلُوا رَأْسَ الْمَرْأَۃِ عِنْدَ وَسَطِ الرَّجُلِ۔
(١١٦٧٥) حضرت حبیب بن ابی ثابت فرماتے ہیں کہ حضرت سعید بن جبیر اہل مکہ کے پاس آئے وہ مرد اور عورت کے جنازے کو برابر رکھ کر (ان کے سروں اور ٹانگوں کو) جنازہ ادا کرتے تھے۔ حضرت سعید بن جبیر نے ان کو بتلایا کہ وہ عورت کے سر کو مرد کے درمیان میں رکھیں۔

11675

(۱۱۶۷۶) حدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ فِی الْجَنَائِزِ رِجَالٌ وَنِسَائٌ تُسَوُّونَ رُؤُوسَہُمْ وَیَکُونُ صَفَّانِ بَیْنَ الإِمَامِ وَالْقِبْلَۃِ۔
(١١٦٧٦) حضرت ابراہیم سے دریافت کیا گیا کہ ایک جنازے میں کئی مرد اور عورتیں ہوں تو کیا کریں ؟ آپ نے فرمایا ان کے سروں کو برابر کیا جائے اور ہوجائیں گی دو صفیں امام اور قبلہ کے درمیان۔

11676

(۱۱۶۷۷) حدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ وَزَکَرِیَّا ، عَنِ الشَّعْبِیِّ کَمَا قَالَ إبْرَاہِیمُ۔
(١١٦٧٧) حضرت شعبی بھی حضرت ابراہیم کے مثل بیان کرتے ہیں۔

11677

(۱۱۶۷۸) حدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ دَاوُدَ ، قَالَ : سَمِعْتُ سَعِیدَ بْنَ الْمُسَیَّبِ یَقُولُ ذَلِکَ۔
(١١٦٧٨) حضرت داؤد فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت سعید بن المسیب سے اسی طرح سنا۔

11678

(۱۱۶۷۹) حدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ مُوسَی ، عَنْ وَاثِلَۃَ بْنِ الأَسْقَعِ ، قَالَ : کَانَ یَجْعَلُ رُؤُوسَ الرِّجَالِ إلَی رُکَبِ النِّسَائِ۔
(١١٦٧٩) حضرت سلیمان بن موسیٰ فرماتے ہیں کہ حضرت واثلہ بن اسقع مردوں کے سروں کو عورتوں کے گھٹنوں کے پاس رکھتے۔

11679

(۱۱۶۸۰) حدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ أَبِی الْمِقْدَامِ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ، قَالَ : یُفَضَّلُ الرَّجُلُ بِالرَّأْسِ۔
(١١٦٨٠) حضرت سعید بن المسیب فرماتے ہیں کہ مرد کے سر کو فضلیت دی جائے گی۔ (مرد کے سر کو آگے کیا جائے گا) ۔

11680

(۱۱۶۸۱) حدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی بْنُ عَبْدِ الأَعْلَی ، عَنْ یُونُسَ ، عَنْ ہِلاَلٍ الْمَازِنِیِّ ، قَالَ : رَأَیْتُ أَبَا ہُرَیْرَۃَ یُصَلِّی عَلَی جِنَازَۃِ رِجَالٍ وَنِسَائٍ تِسْعٍ ، أَوْ سَبْعٍ فَقَدَّمَ النِّسَائِ مِمَّا یَلِی الْقِبْلَۃَ ، وَجَعَلَ الرِّجَالَ یَلُونَ الإِمَامَ۔
(١١٦٨١) حضرت ھلال المازنی فرماتے ہیں کہ میں حضرت ابوہریرہ کو نو یا سات مردوں اور عورتوں کے جنازے میں دیکھا، انھوں نے عورتوں کو قبلہ کے قریب کیا اور مردوں کو امام کے قریب۔

11681

(۱۱۶۸۲) حدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، أَنَّہُ کَانَ إذَا صَلَّی عَلَی جِنَازَۃِ رِجَالٍ وَنِسَائٍ جَعَلَ الرِّجَالَ مِمَّا یَلِیہِ وَالنِّسَائَ خَلْفَ ذَلِکَ مِمَّا یَلِی الْقِبْلَۃَ۔
(١١٦٨٢) حضرت نافع فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمر جب مردوں اور عورتوں کی نماز جنازہ پڑھاتے تو مردوں کو (امام) کے قریب رکھتے اور عورتوں کو ان کے بعد قبلہ کے قریب۔

11682

(۱۱۶۸۳) حدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ مَوْہَبٍ ، أَنَّ زَیْدَ بْنَ ثَابِتٍ وَأَبَا ہُرَیْرَۃَ کَانَا یَفْعَلاَنِ ذَلِکَ۔
(١١٦٨٣) حضرت عثمان بن عبداللہ بن موھب فرماتے ہیں کہ حضرت زید بن ثابت اور حضرت ابوہریرہ اسی طرح کرتے۔

11683

(۱۱۶۸۴) حدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ فِی جَنَائِزِ رِجَالٍ وَنِسَائٍ ، قَالَ : تَکُونُ النِّسَائُ أَمَامَ الرِّجَالِ۔
(١١٦٨٤) حضرت ابراہیم مردوں اور عورتوں کے جنازے کے بارے میں فرماتے ہیں کہ عورتوں کو مردوں کے آگے رکھا جائے گا۔

11684

(۱۱۶۸۵) حدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ وَزَکَرِیَّا ، عَنِ الشَّعْبِیِّ کَمَا قَالَ إبْرَاہِیمُ۔
(١١٦٨٥) حضرت شعبی بھی حضرت ابراہیم کے مثل فرماتے ہیں۔

11685

(۱۱۶۸۶) حدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ دَاوُدَ ، قَالَ : سَمِعْتُ سَعِیدَ بْنَ الْمُسَیَّبِ یَقُول ذَلِکَ۔
(١١٦٨٦) حضرت داؤد فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت سعید بن المسیب سے اسی طرح سنا۔

11686

(۱۱۶۸۷) حدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِِ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، قَالَ : کَانَ الْحَارِثُ إذَا صَلَّی عَلَی جَنَائِزِ رِجَالٍ وَنِسَائٍ جَعَلَ الرِّجَالَ یَلُونَہُ وَیُقَدِّمُ النِّسَائَ۔
(١١٦٨٧) حضرت ابو اسحاق فرماتے ہیں کہ حضرت حارث جب مردوں اور عورتوں کی نماز جنازہ ادا فرماتے تو مردوں کے جنازے امام کے قریب رکھتے اور عورتوں کو ان سے آگے رکھتے۔

11687

(۱۱۶۸۸) حدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ وَرْدَانَ ، عَنْ یُونُسَ ، عَنْ عَمَّارٍ مَوْلَی بَنِی ہَاشِمٍ ، قَالَ : شَہِدْتُ أُمَّ کُلْثُومٍ وَزَیْدَ بْنَ عُمَرَ مَاتَا فِی سَاعَۃٍ وَاحِدَۃٍ ، فَأَخْرَجُوہُمَا فَصَلَّی عَلَیْہِمَا سَعِیدُ بْنُ الْعَاصِ ، فَجَعَلَ زَیْدًا مِمَّا یَلِیہِ ، وَجَعَلَ أُمَّ کُلْثُومٍ بَیْنَ یَدَیْ زَیْدٍ ، وَفِی النَّاسِ یَوْمَئِذٍ نَاسٌ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَالْحَسَنُ وَالْحُسَیْنُ فِی الْجِنَازَۃِ۔
(١١٦٨٨) حضرت عمار جو بنو ہاشم کے غلام ہیں فرماتے ہیں حضرت ام کلثوم اور حضرت زید بن عمر ایک ہی دن فوت ہوئے اور میں ان کے جنازے میں شریک تھا۔ ان دونوں کو ایک ساتھ جنازے کے لیے نکالا گیا۔ حضرت سعید بن عاص نے ان کی نماز جنازہ ادا فرمائی، انھوں نے حضرت زید کو امام کے قریب رکھا اور حضرت ام کلثوم کو زید کے سامنے، اور اس دن نماز جنازہ ادا کرنے والوں میں صحابہ کرام بھی تھے ان میں حضرت حسین اور حضرت حسن بھی تھے۔ (کسی نے اس پر اختلاف نہ کیا) ۔

11688

(۱۱۶۸۹) حدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عن الحارث ، عَنْ عَلِیٍّ ، قَالَ : إذَا اجْتَمَعَتْ جَنَائِزُ رِجَالٍ وَنِسَائٍ ، جُعِلَ الرِّجَالُ مِمَّا یَلِی الإِمَامَ ، وَالنِّسَائُ مِمَّا یَلِی الْقِبْلَۃَ ، الْحُرُّ وَالْعَبْدُ یُجْعَلُ الْحُرُّ مِمَّا یَلِی الإِمَامَ ، وَالْعَبْدُ مِمَّا یَلِی الْقِبْلَۃَ۔
(١١٦٨٩) حضرت حارث فرماتے ہیں کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ جب عورتوں اور مردوں کا جنازہ اکٹھا ہوتا تو مردوں کو امام کے قریب رکھتے اور عورتوں کو قبلہ کے قریب، اگر آزاد اور غلام کا جنازہ ہوتا تو آزاد کو امام کے قریب اور غلام کو قبلہ کے قریب۔

11689

(۱۱۶۹۰) حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ مَسْعَدَۃَ ، عَنْ عَبْدِ رَبِّہِ بْنِ أَبِی رَاشِدٍ ، قَالَ : کَانَ النَّاسُ فِی طَاعُونِ الْجَارِفِ یُصَلُّونَ عَلَی جَنَائِزِ الرِّجَالِ وَالنِّسَائِ مُتَفَرِّقِینَ ، قَالَ : فَجَائَ جَابِرُ بْنُ زَیْدٍ فِیمَا یَحْسَبُ عَبْدُ رَبِّہِ ، فَجَعَلَ النِّسَائَ أَمَامَ الرِّجَالِ ، فَصَلَّی عَلَیْہِمْ جَمِیعًا۔
(١١٦٩٠) حضرت عبد ربہ بن ابی راشد فرماتے ہیں کہ لوگ ہمہ گیر تباہی مچانے والے طاعون میں مبتلا ہو کر ہلاک ہوئے تو مردوں اور عورتوں کی نماز جنازہ تنہا، تنہا ادا کی گئی۔ پھر حضرت جابر بن زید (حضرت عبد ربہ کے گمان کے مطابق) تشریف لائے، انھوں نے عورتوں کی میت کو مرد کے آگے رکھ کر ان سب پر اکٹھے نماز ادا کی۔

11690

(۱۱۶۹۱) حدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، أَنَّہُ کَانَ إذَا صَلَّی عَلَی جَنَائِزِ الرِّجَالِ وَالنِّسَائِ جَعَلَ الرِّجَالَ مِمَّا یَلِی ، الإِمَامَ وَالنِّسَائَ وَرَائَ ذَلِکَ۔
(١١٦٩١) حضرت معمر فرماتے ہیں کہ حضرت زہری جب مردوں اور عورتوں کی اکٹھے نماز جنازہ ادا فرماتے تو مردوں کو امام کے قریب رکھتے اور عورتوں کو ان کے پیچھے۔

11691

(۱۱۶۹۲) حدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، وَشُعْبَۃُ عَنْ أَبِی حَصِینٍ ، عَنْ مُوسَی بْنِ طَلْحَۃَ ، عَنْ عُثْمَانَ ، أَنَّہُ صَلَّی عَلَی رَجُلٍ وَامْرَأَۃٍ فَجَعَلَ الرَّجُلَ مِمَّا یَلِیہِ۔
(١١٦٩٢) حضرت موسیٰ بن طلحہ فرماتے ہیں کہ حضرت عثمان نے مرد اور عورت کا جنازہ اکٹھا پڑھایا، آپ نے مرد کی میت کو امام کے قریب رکھا۔

11692

(۱۱۶۹۳) حدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ، عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ مُوسَی، عَنْ وَاثِلَۃَ، قَالَ: وَقَعَ الطَّاعُونُ بِالشَّامِ فَمَاتَ فِیہِ بَشَرٌ کَثِیرٌ، فَکَانَ یُصَلِّی عَلَی الرِّجَالِ وَالنِّسَائِ جَمِیعًا یَجْعَلُ الرِّجَالَ مِمَّا یَلِیہِ وَالنِّسَائَ مِمَّا یَلِی الْقِبْلَۃَ۔
(١١٦٩٣) حضرت واثلہ سے مروی ہے کہ شام میں طاعون پھیلا جس کی وجہ سے بہت سے لوگ ھلاک ہوئے، تو مردوں اور عورتوں کی نماز جنازہ اکٹھی ادا کی گئی، مردوں کی میت کو امام کے قریب رکھا اور عورتوں کی میت قبلہ کے قریب۔

11693

(۱۱۶۹۴) حدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَنِ الشَّیْبَانِیِّ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : إِذَا اجتَمَعَ جَنَائِزُ رِجَالِ وَنِسَاء جُعِلَ الرِّجَالَ مِمَّا یَلِی الإِمَامَ ، وَالنِّسَائَ أَمَامَ ذَلِکَ مِمَّا یَلِی الْقِبْلَۃَ۔
(١١٦٩٤) حضرت شعبی فرماتے ہیں کہ جب عورتوں اور مردوں کی نماز جنازہ اکٹھی ادا کی جائے تو مردوں کو امام کے قریب اور عورتوں کو قبلہ کے قریب رکھا جائے گا۔

11694

(۱۱۶۹۵) حَدَّثَنَا ابْنُ مُسْہِرٍ ، عَنِ الشَّیْبَانِیِّ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : صَلَّی عَبْدُ اللہِ بْنُ عُمَرَ عَلَی أُمِّ کُلْثُومٍ بِنْتِ عَلِیٍّ وَابْنِہَا زَیْدٍ ، قَالَ : فَجَعَلَ الْغُلاَمَ مِمَّا یَلِیہِ وَالْمَرْأَۃَ مِمَّا یَلِی الْقِبْلَۃَ۔
(١١٦٩٥) حضرت شعبی فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمر نے حضرت ام کلثوم بنت علی اور ان کے بیٹے حضرت زید کی نماز جنازہ پڑھائی۔ آپ نے لڑکے کو امام کے قریب اور عورت کو قبلہ کے قریب رکھا۔

11695

(۱۱۶۹۶) حدَّثَنَا عَبْدُاللہِ بْنُ رَجَائٍ، عَنْ عُبَیْدِاللہِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ سَالِمٍ وَالْقَاسِمِ قَالاَ: النِّسَائُ مِمَّا یَلِی الإِمَامَ وَالرِّجَالُ مِمَّا یَلِی الْقِبْلَۃَ۔
(١١٦٩٦) حضرت سالم اور حضرت قاسم فرماتے ہیں عورت کی میت کو امام کے قریب اور مردوں کے جنازے کو قبلہ کے قریب رکھیں گے۔

11696

(۱۱۶۹۷) حدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ عَطَائٍ ، قَالَ : الرِّجَالُ بَیْنَ یَدَیِ النِّسَائِ۔
(١١٦٩٧) حضرت عطائ فرماتے ہیں مردوں کی میت کو عورتوں کے سامنے رکھیں گے۔

11697

(۱۱۶۹۸) حدَّثَنَا سَہْلُ بْنُ یُوسُفَ ، عَنْ حُمَیْدٍ ، عَنْ بَکْرٍ ، قَالَ : کَانَ مَسْلَمَۃُ بْنُ مُخَلَّدٍ بِمِصْرٍ ، قَالَ : فَجَاؤونَا بِرِجَالٍ وَنِسَائٍ فَجَعَلُوا لاَ یَدْرُونَ کَیْفَ یَصْنَعُونَ ، فَقَالَ مَسْلَمَۃُ : سُنَّتُکُمْ فِی الْمَوْتِ سُنَّتُکُمْ فِی الْحَیَاۃِ ، قَالَ : فَجُعِلَ النِّسَائُ مِمَّا یَلِی الإِمَامَ وَالرِّجَالُ أَمَامَ ذَلِکَ۔
(١١٦٩٨) حضرت بکر فرماتے ہیں کہ حضرت مسلمہ بن مخلد مصر میں تھے، ہمارے پاس مرد اور عورتیں (ان کے جنازے) لائے گئے، ان لوگوں کو معلوم نہیں تھا کہ ان کو کیسے رکھ کر جنازہ ادا کیا جائے۔ حضرت مسلمہ نے فرمایا تمہارے مرنے کا طریقہ تمہاری زندگی کے طریقہ کی طرح ہے۔ انھوں نے عورتوں کے جنازے کو امام کے قریب اور مردوں کو ان کے آگے رکھا۔

11698

(۱۱۶۹۹) حدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ، عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ، عَنِ ابْنِ معقل، أَنَّہُ صَلَّی عَلَی الرِّجَالِ عَلَی حِدَۃٍ وَعَلَی الْمَرْأَۃِ عَلَی حِدَۃٍ ، ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَی الْقَوْمِ ، فَقَالَ : ہَذَا الَّذِی لاَ شَکَّ فِیہِ۔
(٩٩ ١١٦) حضرت عطاء بن سائب فرماتے ہیں کہ حضرت معقل نے مردوں کی نماز جنازہ الگ پڑھائی، اور عورتوں کی الگ (مستقل طور پر) اور پھر قوم کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا : اس طریقے میں کوئی شک (وشبہ) نہیں ہے۔

11699

(۱۱۷۰۰) حدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ ، أَنَّہُ قَالَ فِی جَنَائِزِ الرِّجَالِ وَالنِّسَائِ ، قَالَ : نُبِّئْت أَنَّ أَبَا الأَسْوَد لَمَّا اخْتَلَفُوا عَلَیْہِ صَلَّی عَلَی ہَؤُلاَئِ ضَرْبَۃً ، وَعَلَی ہَؤُلاَئِ ضَرْبَۃً۔
(١١٧٠٠) حضرت ایوب فرماتے ہیں کہ حضرت ابن سیرین جب مردوں اور عورتوں کے جنازے میں تھے، فرمایا کہ مجھے حضرت ابو اسود نے بتایا کہ جب لوگوں نے ان کے پاس اس مسئلہ میں اختلاف کیا تو انھوں نے مردوں اور عورتوں پر علیحدہ علیحدہ نماز جنازہ ادا کی۔

11700

(۱۱۷۰۱) حدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِِ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، قَالَ : صَلَّی الشَّعْبِیُّ عَلَی جِنَازَۃِ صَبِیٍّ وَرَجُلٍ ، قَالَ : فَجَعَلَ الرَّجُلَ مِمَّا یَلِیہِ ، وَالصَّبِیَّ أَمَامَ الرَّجُلِ۔
(١١٧٠١) حضرت ابو اسحاق فرماتے ہیں کہ حضرت امام شعبی نے ایک بچے اور مرد کی نماز جنازہ پڑھائی۔ آپ نے مرد کو امام کے قریب اور بچے کو مرد کے آگے رکھا۔

11701

(۱۱۷۰۲) حدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ غِیَاثٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ الْحَسَنَ یَقُولُ فِی الْقَوْمِ یَصُفُّونَ علی الْجِنَازَۃِ فَیَجِیئُ الرَّجُلُ یَنْتَظِرُونَہُ ، قَالَ : لاَ بَأْسَ۔
(١١٧٠٢) حضرت عثمان بن غیاث فرماتے ہیں کہ میں حضرت حسن کو فرماتے ہوئے سنا لوگوں نے جنازے کے لیے صفیں باندھ رکھی تھیں، ایک شخص کے آنے کا انتظار وہ کرسکتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا اس میں کوئی حرج نہیں۔

11702

(۱۱۷۰۳) حدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنِ الْمَسْعُودِیِّ ، قَالَ : أُرَاہُ ، عَنِ الْقَاسِمِ ، أَنَّ عُمَرَ انْتَظَرَ ابْنَ أُمِّ عَبْدٍ بِالصَّلاَۃِ عَلَی عُتْبَۃَ بْنِ مَسْعُودٍ۔
(١١٧٠٣) حضرت قاسم فرماتے ہیں کہ حضرت عمر نے حضرت عتبہ بن مسعود کے جنازے میں ام عبد کے بیٹے کا انتظار فرمایا۔

11703

(۱۱۷۰۴) حدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ عُبَیْدِ اللہِ ، عَنْ زِیَادِ بْنِ جُبَیْرٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنِ الْمُغِیرَۃِ بْنِ شُعْبَۃَ ، أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : الطِّفْلُ یُصَلَّی عَلَیْہِ۔
(١١٧٠٤) حضرت مغیرہ بن شعبہ سے مروی ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : بچے کی نماز جنازہ ادا کی جائے گی۔

11704

(۱۱۷۰۵) حدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنْ نَافِعٍ ، أَنَّ ابْنَ عُمَرَ صَلَّی عَلَی السِّقْطِ ، قَالَ نَافِعٌ : لاَ أَدْرِی أَحَیًّا خَرَجَ أَمْ مَیِّتًا۔
(١١٧٠٥) حضرت نافع فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمر نے جنین کی نماز جنازہ ادا فرمائی۔ حضرت نافع فرماتے ہیں کہ مجھے نہیں معلوم وہ (بوقت پیدائش) زندہ تھا کہ مردہ ؟

11705

(۱۱۷۰۶) حدَّثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنِ ابْنِ أَبِی عَرُوبَۃَ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ، عَنْ أَبِی بَکْرٍ ، قَالَ : إِنَّ أَحَقَّ مَنْ صَلَّیْنَا عَلَیْہِ أَطْفَالُنَا۔
(١١٧٠٦) حضرت ابی بکر فرماتے ہیں کہ جن کی نماز جنازہ ہم ادا کرتے ہیں ان میں سب سے زیادہ حق دار ہمارے بچے ہیں۔

11706

(۱۱۷۰۷) حدَّثَنَا عَبْدَۃ ، عَنِ ابْنِ أَبِی عَرُوبَۃَ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ، قَالَ : إذَا تَمَّ خَلْقُہُ وَنُفِخَ فِیہِ الرُّوحُ صُلِّیَ عَلَیْہِ۔
(١١٧٠٧) حضرت سعید بن المسیب فرماتے ہیں جب بچے کی خلقت مکمل ہوجائے اور اس میں روح پھونک دی جائے تو اس کی نماز جنازہ ادا کی جائے گی۔

11707

(۱۱۷۰۸) حدَّثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ، عَنْ سَعِیدِ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، أَنَّہُ کَانَ یَقُومُ عَلَی المَنْفُوسِ مِنْ وَلَدِہِ الَّذِی لَمْ یَعْمَلْ خَطِیئَۃً فَیَقُولُ : اللَّہُمَّ أَجِرْہُ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ۔
(١١٧٠٨) حضرت سعید فرماتے ہیں کہ حضرت ابوھریرہ نے نو زائیدہ بچے کی نماز جنازہ پڑھائی جس نے کوئی گناہ نہ کیا تھا، (اس میں دعا مانگتے ہوئے فرمایا) اے اللہ ! اس کو عذاب قبر سے محفوظ فرما۔

11708

(۱۱۷۰۹) حدَّثَنَا عَبدُ الوَہَّاب الثَّقَفِیُّ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِیرِینَ ؛ فِی السِّقْطِ إنِ اسْتَوَی خَلْقُہُ سُمِّیَ وَصُلِّیَ عَلَیْہِ کَمَا یُصَلَّی عَلَی الْکَبِیرِ۔
(١١٧٠٩) حضرت ابن سیرین فرماتے ہیں کہ جب جنین کی خلقت مکمل ہوجائے تو اس کا نام بھی رکھا جائے گا اور اس کی نماز جنازہ ابھی ادا کی جائے گی جس طرح بڑے کی کرتے ہیں۔

11709

(۱۱۷۱۰) حدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ یُونُسَ ، عَنْ زِیَادِ بْنِ جُبَیْرٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنِ الْمُغِیرَۃِ بْنِ شُعْبَۃَ ، قَالَ: السِّقْطُ یُصَلَّی عَلَیْہِ ، یُدْعَی لأَبَوَیْہِ بِالْمَغْفِرَۃِ وَالرَّحْمَۃِ ، قَالَ یُونُسُ : وَأَہْلُ زِیَادٍ یَرْفَعُونَہُ إلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَأَنَا لاَ أَحْفَظُہُ۔
(١١٧١٠) حضرت مغیرہ بن شعبہ فرماتے ہیں کہ جنین کی نماز جنازہ ادا کی جائے گی، جس میں اس کے والدین کے لیے مغفرت کی دعا کریں گے۔ ایک راوی حضرت یونس فرماتے ہیں اھل زیاد نے اس کو مرفوعا نقل فرمایا ہے، لیکن میں نے اس کو اس طرح محفوظ نہیں کیا۔

11710

(۱۱۷۱۱) حدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ مِسْعَرٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِی لَیْلَی ، قَالَ : مَا نَدَعُ أَحَدًا مِنْ أَوْلاَدِنَا إِلاَّ صَلَّیْنَا عَلَیْہِ۔
(١١٧١١) حضرت عبد الرحمن بن ابی لیلیٰ فرماتے ہیں ہم نے اپنی اولاد میں سے کسی کو نماز جنازہ پڑھائے بغیر نہیں چھوڑا، (دفن نہیں کیا) ۔

11711

(۱۱۷۱۲) حدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ ، قَالَ : یُصَلَّی عَلَی الصَّغِیرِ کَمَا یُصَلَّی عَلَی الْکَبِیرِ۔
(١١٧١٢) حضرت ابن سیرین فرماتے ہیں بڑے کی طرح بچے کی نماز جنازہ بھی ادا کی جائے گی۔

11712

(۱۱۷۱۳) حدَّثَنَا معاذ بْنُ یَزِیدَ ، عَنْ أَبِی الْعَلاَئِ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ ، قَالَ : صَلِّ عَلَی السِّقْطِ وَسَمِّیہِ، فَإِنَّہُ وُلِدَ عَلَی الْفِطْرَۃِ۔
(١١٧١٣) حضرت ابن سیرین فرماتے ہیں کہ جنین کی نماز جنازہ پڑھو اور اس کا نام رکھو کیونکہ وہ فطرت اسلام پر پیدا ہوا ہے۔

11713

(۱۱۷۱۴) حدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ ، قَالَ : سَأَلْتُ ابْنَ أَبِی لَیْلَی ، فقَالَ : أدْرَکْت بَقَایَا الأَنْصَارِ یُصَلُّونَ عَلَی الصَّبِیِّ مِنْ صِبْیَانِہِمْ۔
(١١٧١٤) حضرت عمرو بن مرہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن سیرین سے اس کے متعلق دریافت کیا ؟ آپ نے فرمایا : میں نے انصار کو پایا کہ وہ اپنے بچوں کی نماز جنازہ ادا کرتے تھے۔

11714

(۱۱۷۱۵) حدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنِ ابْنِ أَبِی عَرُوبَۃَ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ؛ فِی السِّقْطِ إذَا وَقَعَ مَیِّتًا ، قَالَ : إذَا نُفِخَ فِیہِ الرُّوحُ صُلِّیَ عَلَیْہِ وَذَلِکَ لأَرْبَعَۃِ أَشْہُرٍ۔
(١١٧١٥) حضرت سعید بن المسیب اس جنین کے بارے میں کہ جو مردہ ہی پیدا ہوا ہو فرماتے کہ جب اس میں روح پھونکی جا چکی ہو تو اس پر نماز جنازہ پڑھی جائے گی، اور یہ روح چار ماہ میں پھونکی جاتی ہے۔

11715

(۱۱۷۱۶) حدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ إِسْحَاقَ ، قَالَ : حدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِیَادٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا عَاصِمُ الأَحْوَلُ ، عَنْ خَالِدٍ الأَحْدَبِ ، قَالَ: سُئِلَ ابْنُ عُمَرَ عَنِ الصَّلاَۃِ عَلَی الأَطْفَالِ، فقَالَ: لأَنْ أُصَلِّیَ عَلَی مَنْ لاَ ذَنْبَ لَہُ أَحَبُّ إلَیَّ۔
(١١٧١٦) حضرت خالد الاحدب فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمر سے بچوں کی نماز جنازہ کے بارے میں سوال کیا گیا ؟ آپ نے فرمایا جس کا کوئی گناہ نہیں اس کی نماز جنازہ پڑھنا مجھے زیادہ پسند ہے۔

11716

(۱۱۷۱۷) حدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ أَبِی مَعْشَرٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ؟ قَالَ : لاَ یُصَلَّی عَلَیْہِ حَتَّی یَسْتَہِلَّ۔
(١١٧١٧) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ بچے کی نماز جنازہ نہیں ادا کریں گے جب تک کہ وہ چیخے نہیں۔

11717

(۱۱۷۱۸) حدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ یَزِیدَ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنْ أَبِی ہَاشِمٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ؟ قَالَ : لاَ یُصَلَّی عَلَیْہِ حَتَّی یَسْتَہِلَّ۔
(١١٧١٨) حضرت ابراہیم سے اسی طرح منقول ہے۔

11718

(۱۱۷۱۹) حدَّثَنَا غُنْدَرٌ، عَنْ شُعْبَۃَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ، قَالَ: سَمِعْتُ سَعِیدَ بْنَ جُبَیْرٍ یَقُولُ: لاَ یُصَلَّی عَلَی الصَّبِیِّ۔
(١١٧١٩) حضرت عمرو بن مرہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت سعید بن جبیر سے سنا آپ فرماتے ہیں کہ بچے کی نماز جنازہ نہیں ادا کی جائے گی۔

11719

(۱۱۷۲۰) حدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، قَالَ : حدَّثَنَا جُلاَسٌ الشَّامِیِّ ، قَالَ : سَمِعْتُ عُثْمَانَ بْنَ جِحَّاشٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ سَمُرَۃَ بْنَ جُنْدُبٍ وَمَاتَ ابْنٌ لَہُ صَغِیرًا ، فَقَالَ : اذْہَبُوا بِہِ فَادْفِنُوہُ ، وَلاَ یُصَلَّی عَلَیْہِ ، فَإِنَّہُ لَیْسَ عَلَیْہِ إِثْمٌ وَادْعُوا اللَّہَ لِوَالِدَیْہِ أَنْ یَجْعَلَہُ لَہُمَا فَرَطًا وَأَجْرًا ، نَحْوَہُ۔
(١١٧٢٠) حضرت عثمان بن جحاش فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت سمرہ بن جندب کو یہ فرماتے ہوئے سنا جب ان کا چھوٹا بیٹا فوت ہوا، آپ نے فرمایا : اس کو لے جاؤ اور دفنا دو ، اس پر نماز جنازہ نہیں پڑھی جائے گی کہ اس پر گناہ نہیں ہے۔ اللہ پاک سے اس کے والدین کے لیے دعائے مغفرت کرو کہ وہ اس بچہ کو ان کے لیے مغفرت کا ذریعہ اور سفارشی بنائے۔

11720

(۱۱۷۲۱) حدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ فِی الْمَوْلُودِ لاَ یُصَلَّی عَلَیْہِ ، وَلاَ یُوَرَّثُ حَتَّی یَسْتَہِلَّ۔
(١١٧٢١) حضرت زہری فرماتے ہیں کہ نو مولود کی نماز جنازہ نہیں ادا کی جائے گی، اور نہ ہی وہ وارث بنایا جائے گا جب تک کہ وہ نہ چیخے۔

11721

(۱۱۷۲۲) حدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ بْنُ إِبْرَاہِیمَ ، عَن شُعْبَۃَ ، عَنِ الْحَکَمِ وَحَمَّادٍ ، أَنَّہُ سَأَلَہُمَا عَنِ السِّقْطِ یَقَعُ مَیِّتًا أَیُصَلَّی عَلَیْہِ قَالاَ : لاَ۔
(١١٧٢٢) حضرت حکم اور حضرت حماد سے دریافت کیا گیا کہ جنین اگر مردہ حالت میں پیدا ہو تو اس کی نماز جنازہ ادا کی جائے گی ؟ فرمایا نہیں۔

11722

(۱۱۷۲۳) حدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنِ الْعَلاَئِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : لاَ یُصَلَّی عَلَی السِّقْطِ ، وَلاَ یُوَرَّثُ۔
(١١٧٢٣) حضرت العلاء بن المسیب اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ جنین پر نماز جنازہ نہیں ادا کی جائے گی اور نہ ہی وہ وارث ہوگا۔

11723

(۱۱۷۲۴) حدَّثَنَا أَسْبَاطُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ ، عَنْ جَابِرٍ ، قَالَ : إذَا اسْتَہَلَّ صُلِّیَ عَلَیْہِ وَوُرِّثَ فَإِذَا لَمْ یَسْتَہِلَّ لَمْ یُصَلَّ عَلَیْہِ ، وَلَمْ یُوَرَّثْ۔
(١١٧٢٤) حضرت جابر فرماتے ہیں جب بچہ پیدائش کے بعد چیخے تو اس کی نماز جنازہ ادا کی جائے گی اور وہ وارث ہوگا، اور اگر نہ چیخے تو نہ نماز ادا کی جائے گی اور نہ ہی وہ وارث ہوگا۔

11724

(۱۱۷۲۵) حدَّثَنَا أَسْبَاطُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، عَنْ مُطَرِّفٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : إذَا اسْتَہَلَّ الصَّبِیُّ صُلِّیَ عَلَیْہِ وَوُرِّثَ ، وَإِذَا لَمْ یَسْتَہِلَّ لَمْ یُصَلَّ عَلَیْہِ ، وَلَمْ یُوَرَّثْ۔
(١١٧٢٥) حضرت امام شعبی سے بھی اسی طرح منقول ہے۔

11725

(۱۱۷۲۶) حدَّثَنَا معاذ بْنُ یَزِیدَ، عَنْ أَیُّوبَ أَبِی الْعَلاَئِ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنِ الْحَسَنِ، قَالَ: لاَ یُصَلَّی عَلَیْہِ، یَعْنِی السِّقْطَ۔
(١١٧٢٦) حضرت حسن فرماتے ہیں جنین کی نماز جنازہ نہیں ادا کی جائے گی۔

11726

(۱۱۷۲۷) حدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ رَاشِدٍ ، عَنْ مَکْحُولٍ ، قَالَ : کَانَ الزُّبَیْرُ لاَ یُصَلِّی عَلَی وَلَدِہِ إذَا مَاتَ صَغِیرًا۔
(١١٧٢٧) حضرت مکحول فرماتے ہیں کہ حضرت زبیر کا چھوٹا بچہ فوت ہوا تو آپ نے اس پر نماز جنازہ نہیں پڑھی۔

11727

(۱۱۷۲۸) حدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ ، عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ بِلاَلٍ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ فِی الْمَوْلُودِ ، قَالَ : لاَ یُوَرَّثُ حَتَّی یَسْتَہِلَّ۔
(١١٧٢٨) حضرت سعید بن المسیب فرماتے ہیں بچہ جب تک پیدائش کے بعد چیخے نہیں وہ وارث نہیں ہوگا۔

11728

(۱۱۷۲۹) حدَّثَنَا مَالِکُ بْنُ إسْمَاعِیلَ ، قَالَ : حدَّثَنَا زُہَیْرٌ ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ مُسْلِمٍ ، عَنْ سُوَیْد بْنِ غَفَلَۃَ ، قَالَ : کُنَّا ، وَمَا نُصَلِّی عَلَی الْمَوْلُودِ۔
(١١٧٢٩) حضرت سوید بن غفلہ فرماتے ہیں کہ ہم نومولود کی نماز جنازہ نہیں ادا کرتے تھے۔

11729

(۱۱۷۳۰) حدَّثَنَا عَبِیْدَۃُ بْنُ حُمَیْدٍ ، عَنْ عِمْرَانَ ، عَنْ سُوَیْد ، قَالَ : کُنَّا ، وَمَا نُصَلِّی عَلَی الْمَوْلُودِ۔
(١١٧٣٠) حضرت سوید سے اسی طرح منقول ہے۔

11730

(۱۱۷۳۱) حدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِِ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : یُصَلَّی عَلَی وَلَدِ الزِّنَی إذَا صَلَّی۔
(١١٧٣١) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں ولد زنا کی نماز جنازہ ادا فرماتے اگر وہ نمازی ہوتا۔

11731

(۱۱۷۳۲) حدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ فُضَیْلِ بْنِ غَزْوَانَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، أَنَّہُ کَانَ لاَ یُصَلِّی عَلَی وَلَدِ الزِّنَی صَغِیرًا ، وَلاَ کَبِیرًا۔
(١١٧٣٢) حضرت نافع فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمر ولد الزنا کی نماز جنازہ ادا نہ فرماتے خواہ وہ چھوٹا ہوتا یا بڑا۔

11732

(۱۱۷۳۳) حدَّثَنَا حَفْص ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، أَنَّہُ کَانَ یَرَی وَلَدَ الزِّنَی عَلَی فِرَاشِہِ فِی بَیْتِہِ یَمُوتُ وَتَمُوتُ أُمُّہُ وَیُصَلِّی عَلَیْہِمَا۔
(١١٧٣٣) حضرت نافع فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمر نے ولد الزنا اور اس کی ماں کو گھر کے بستر میں مرا ہوا دیکھا، اور ان دونوں کی نماز جنازہ ادا کی۔

11733

(۱۱۷۳۴) حدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَنْ صَلَّی عَلَی جِنَازَۃٍ فَلَہُ قِیرَاطٌ ، وَمَنِ انْتَظَرَ حَتَّی یُفْرَغَ مِنْہَا فَلَہُ قِیرَاطَانِ ، قَالُوا : وَمَا الْقِیرَاطَانِ ؟ قَالَ : مِثْلُ الْجَبَلَیْنِ الْعَظِیمَیْنِ۔ (بخاری ۱۳۲۵۔ مسلم ۶۵۲)
(١٣١٣٤) حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جس شخص نے نماز جنازہ ادا کی اس کے لیے ایک قیراط اجر ہے، اور جو دفنانے تک انتظار کرتا رہا اس کے لیے دو قیراط اجر ہے۔ صحابہ کرام نے عرض کیا قیراط کتنا ہوتا ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا دو بڑے پہاڑوں کے برابر۔

11734

(۱۱۷۳۵) حدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ عَدِیٍّ ، عَنْ زِرِّ بْنِ حُبَیْشٍ ، عَنْ أُبَیِّ بْنِ کَعْبٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَنْ صَلَّی عَلَی جِنَازَۃٍ فَلَہُ قِیرَاطٌ وَمَنْ تَبِعَہَا حَتَّی تُدْفَنَ فَلَہُ قِیرَاطَانِ ، الْقِیرَاطُ مِثْلُ أُحُدٍ۔ (احمد ۵/۱۳۱۔ ابن ماجہ ۱۵۱)
(١١٧٣٥) حضرت ابی بن کعب سے مروی ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جس نے نماز جنازہ ادا کی اس کے لیے ایک قیراط اجر ہے اور جو دفنانے تک ساتھ رہا اور انتظار کرتا رہا اس کے لیے ایک دو قیراط اجر ہے اور قیراط احد پہاڑ کے برابر ہے۔

11735

(۱۱۷۳۶) حدَّثَنَا غُنْدَرٌ، عَنْ شُعْبَۃَ، عَنْ یَعْلَی بْنِ عَطَائٍ، قَالَ: سَمِعْتُ الْوَلِیدَ بْنَ عَبْدِالرَّحْمَنِ یُحَدِّثُ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، قَالَ: مَنْ صَلَّی عَلَی جِنَازَۃٍ فَلَہُ قِیرَاطٌ، فَإِنْ شَہِدَ دَفْنَہَا کَانَ لَہُ قِیرَاطَانِ الْقِیرَاطُ مِثْلُ جَبَلِ أُحُدٍ ، قَالَ ابْنُ عُمَرَ : انْظُرْ مَا تَقُولُ ، قَالَ : فَبَعَثُوا إلَی عَائِشَۃَ ، فَقَالَتْ صَدَقَ۔ (احمد ۳)
(١١٧٣٦) حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جس نے نماز جنازہ ادا کی اس کے لیے ایک قیراط اجر ہے اور جو دفنانے تک حاضر رہا اس کے لیے دو قیراط اجر ہے اور قیراط احد پہاڑ کے برابر ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمر نے آپ سے فرمایا غور کرو آپ کیا کہہ رہے ہو ؟ پھر حضرت عائشہ کے پاس تصدیق کے لے ن بھیجا تو حضرت عائشہ نے اس کی تصدیق فرمائی۔

11736

(۱۱۷۳۷) حدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِی الْجَعْدِ ، عَنْ مَعْدَانَ بْنِ أبِی طَلْحَۃَ الْیَعْمُرِیِّ، عَنْ ثَوْبَانَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَنْ تَبِعَ جِنَازَۃً فَلَہُ قِیرَاطٌ وَمَنْ تَبِعَہَا حَتَّی تُدْفَنَ فَلَہُ قِیرَاطَانِ قَالُوا : وَمِثْلُ أَیْشٍ الْقِیرَاطُ یَا رَسُولَ اللہِ ، قَالَ : أَصْغَرُہُمَا مِثْلُ أُحُدٍ۔ (مسلم ۵۷۔ ابن ماجہ ۱۵۴۰)
(١١٧٣٧) حضرت ثوبان سے مروی ہے کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جس نے جنازہ کی اتباع کی (نماز ادا کی) اس کے لیے ایک قیراط اجر ہے۔ اور جو دفنانے تک ساتھ رہا اس کے لیے دو قیراط اجر ہے۔ صحابہ کرام نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! قیراط کتنا ہوتا ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس میں سب سے چھوٹا احد پہاڑ کے برابر۔

11737

(۱۱۷۳۸) حدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ بْنِ أَبِی خَالِدٍ ، عَنْ سَالِمٍ الْبَرَّادِ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، وَعَنْ ہِشَامٍ ، عَنْ سَعِیدٍ الْمَقْبُرِیِّ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، وَعَنْ أَبِیہِ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ زِرٍّ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ قَالُوا : مَنْ صَلَّی عَلَی جِنَازَۃٍ فَلَہُ قِیرَاطٌ وَمَنْ شَہِدَہَا حَتَّی یُقْضَی قَضَاؤُہَا فَلَہُ قِیرَاطَانِ ، الْقِیرَاطُ مِثْلُ أُحُدٍ۔
(١١٧٣٨) حضرت عبداللہ بن عمر، حضرت سعید المقبری، حضرت ابوہریرہ اور حضرت عبداللہ ارشاد فرماتے ہیں جس نے نماز جنازہ ادا کی اس کے لیے ایک قیراط اجر ہے۔ اور جو دفن تک ساتھ رہا اس کے لیے دو قیراط اجر ہے اور قیراط احد پہاڑ کے برابر ہے۔

11738

(۱۱۷۳۹) حدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ یَزِیدَ ، عَنْ جُبَیْرِ بْنِ أَبِی صَالِحٍ ، أَنَّہُ سَمِعَ أَبَا ہُرَیْرَۃَ یَقُولُ مَنْ صَلَّی عَلَی جِنَازَۃٍ فَلَہُ قِیرَاطٌ ، وَمَنْ شَہِدَہَا حَتَّی یُفْرَغَ مِنْہَا فَلَہُ قِیرَاطَانِ ، الْقِیرَاطُ مِثْلُ أُحُدٍ۔
(١١٧٣٩) حضرت جبیر بن صالح فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوہریرہ سے اسی کے مثل سنا۔

11739

(۱۱۷۴۰) حدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ ، عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ بِلاَلٍ ، قَالَ : حدَّثَنِی عَمْرُو بْنُ یَحْیَی الْمَازِنِیُّ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ یُوسُفَ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ سَلاَمٍ ، عَنْ أَبِی سَعِیدٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَنْ أَتَی الْجِنَازَۃَ عِنْدَ أَہْلِہَا فَمَشَی مَعَہَا حَتَّی یُصَلِّی عَلَیْہَا فَلَہُ قِیرَاطٌ وَمَنْ شَہِدَہَا حَتَّی تُدْفَنَ فَلَہُ قِیرَاطَانِ ، الْقِیرَاطُ مِثْلُ أُحُدٍ۔ (احمد ۲۷)
(١١٧٤٠) حضرت ابو سعید الخدری سے مروی ہے حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جو شخص جنازہ کے اہل کے پاس آیا اور ان کے ساتھ چلا یہاں تک کہ اس نے نماز جنازہ ادا کی اس کے لیے ایک قیراط اجر ہے۔ اور جو دفن تک ساتھ رہا اس کے لیے دو قیراط اجر ہے، اور قیراط احد پہاڑ کے مثل ہے۔

11740

(۱۱۷۴۱) حدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ الْعَبْدِیُّ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ بْنِ أَبِی خَالِدٍ ، عَنْ سَالِمٍ الْبَرَّادِ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَنْ صَلَّی عَلَی جِنَازَۃٍ فَلَہُ قِیرَاطٌ۔ (احمد ۲/۱۶)
(١١٧٤١) حضرت عبداللہ بن عمر سے مروی ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جس نے کسی کی نماز جنازہ ادا کی اس کے لیے ایک قیراط اجر ہے۔

11741

(۱۱۷۴۲) حدَّثَنَا الْعَلاَئُ بْنُ عُصَیْمٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا عَبْثَرٌ أَبُو زُبَیْدٍ ، عَنْ بُرْدِ بْنِ أَبِی زِیَادٍ ، عَنِ الْمُسَیَّبِ بْنِ رَافِعٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ الْبَرَائَ بْنَ عَازِبٍ یَقُولُ ، قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَنْ صَلَّی عَلَی جِنَازَۃٍ فَلَہُ قِیرَاطٌ وَمَنْ تَبِعَہَا حَتَّی تُدْفَنَ فَلَہُ قِیرَاطَانِ۔ (نسائی ۲۰۶۷)
(١١٧٤٢) حضرت براء بن عازب سے مروی ہے کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جس نے کسی کی نماز جنازہ ادا کی اس کے لیے ایک قیراط اجر ہے اور جو دفن تک ساتھ رہا اس کے لیے دو قیراط۔

11742

(۱۱۷۴۳) حدَّثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ الثَّقَفِیُّ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنْ أَبِی قِلاَبَۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ یَزِیدَ ، عَنْ عَائِشَۃَ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : لاَ یَمُوتُ أَحَدٌ مِنَ الْمُسْلِمِینَ فَتُصَلِّی عَلَیْہِ أُمَّۃٌ مِنَ الْمُسْلِمِینَ لَمْ یَبْلُغُوا أَنْ یَکُونُوا مِئَۃ فَیَشْفَعُوا لَہُ إِلاَّ شُفِّعُوا فِیہِ۔ (مسلم ۵۸۔ احمد ۳/۲۶۶)
(١١٧٤٣) حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : مسلمانوں میں سے کوئی شخص نہیں مرتا مگر اس پر ایک جماعت نماز ادا کرتی ہے جن کی تعداد سو تک پہنچ جاتی ہے اور وہ اس کے لیے شفاعت (دعائے مغفرت) کرتے ہیں مگر ان کی شفاعت اس کے حق میں قبول کرلی جاتی ہے۔

11743

(۱۱۷۴۴) حدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ الْقَطَّانُ ، عَنْ أَبِی بَکَّارٍ ، قَالَ : صَلَّیْت مَعَ أَبِی الْمَلِیحِ عَلَی جِنَازَۃٍ ، فَقَالَ : سَوُّوا صُفُوفَکُمْ وَلْتَحْسُنْ شَفَاعَتُکُمْ وَلَوْ خُیِّرْت رَجُلاً لاَخْتَرْتُہُ ، حدَّثَنَی عَبْدُ اللہِ بْنُ بن السلیل ، عَنْ بَعْضِ أَزْوَاجِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، مَیْمُونَۃ ، وَکان أَخاہَا مِن الرّضَاعَۃ أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : مَا مِنْ رَجُلٍ مُسْلِمٍ یُصَلِّی عَلَیْہِ أُمَّۃٌ إِلاَّ شُفِّعُوا فِیہِ۔ قَالَ أَبُو الْمَلِیحِ : وَالأُمَّۃُ مَا بَیْنَ الأَرْبَعِینَ إلَی الْمِئَۃِ۔
(١١٧٤٤) حضرت ابی بکار فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابو ملیح کے ساتھ نماز جنازہ ادا کی، آپ نے فرمایا صفیں درست کرلو اور اس کے لیے تم خوب اچھے طریقے سے شفاعت (دعائے مغفرت) کرو۔ اگر مجھے کسی شخص کا اختیار دیا جاتا تو میں اس کو اختیار کرتا۔ مجھ سے حضرت عبداللہ بن السلیل نے بیان کیا کہ حضرت میمونہ سے مروی ہے جو ان کے رضاعی بھائی تھے حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : نہیں ہے کوئی مسلمان جس کی نماز جنازہ ایک جماعت ادا کرے مگر اس کی شفاعت کردی جاتی ہے۔ حضرت ابو الملیح فرماتے ہیں جماعت سے مراد چالیس سے سو تک لوگ ہیں۔

11744

(۱۱۷۴۵) حدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ ، عَنْ یَزِیدَ بْنِ أَبِی حَبِیبٍ ، عَنْ مَرْثَدِ بْنِ عَبْدِ اللہِ الْیَزَنِیِّ ، عَنْ مَالِکِ بْنِ ہُبَیْرَۃَ الشَّامِیِّ وَکَانَتْ لَہُ صُحْبَۃٌ ، قَالَ : کَانَ إذَا أُتِی بِجِنَازَۃٍ ، فَتَقَالَّ مَنْ مَعَہَا ، جَزَّأَہُمْ صُفُوفًا ثَلاَثَۃً ، ثُمَّ صَلَّی عَلَیْہَا ، وَقَالَ : إنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : مَا صَفَّتْ صُفُوفٌ ثَلاَثَۃٌ مِنَ الْمُسْلِمِینَ عَلَی مَیِّتٍ إِلاَّ أَوْجَبَ۔ (ترمذی ۱۰۲۸۔ ابوداؤد ۳۱۵۸)
(١١٧٤٥) حضرت مالک بن ھبیرہ الشامی کے پاس جب کوئی جنازہ لایا جاتا تو جو ان کے ساتھ ہوتے آپ ان سے فرماتے ان لوگوں کی تین صفیں بناؤ، پھر اس پر تین صفیں بنیں اور آپ نے جنازہ پڑھا کر فرمایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے کہ کسی میت پر بھی تین صفیں نہیں بنتیں مگر اس کے لیے شفاعت واجب ہوجاتی ہے۔

11745

(۱۱۷۴۶) حدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ بْنُ إِسْحَاقَ ، قَالَ : حدَّثَنَا بُکَیْر بْنُ أَبِی السُّمَیْطِ ، قَالَ : حدَّثَنَا قَتَادَۃُ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ أَبِی الْحَسَنِ ، عَنْ عَسْعَسِ بْنِ سَلاَمَۃَ ، قَالَ : مَنْ شَفَعَ لَہُ أَرْبَعُونَ قُبِلَتْ شَفَاعَتُہُمْ وَمَنْ شَہِدَ لَہُ عَشَرَۃٌ قُبِلَتْ شَہَادَتُہُمْ۔
(١١٧٤٦) حضرت عسعس بن سلامہ فرماتے ہیں جس کے حق میں چالیس لوگ شفاعت کریں ان کی شفاعت قبول کرلی جاتی ہے۔ اور جس کے حق میں دس لوگ شفاعت کریں (گواہی دیں) ان کی گواہی قبول کرلی جاتی ہے۔

11746

(۱۱۷۴۷) حدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ بْنُ مُوسَی ، عَنْ شَیْبَانَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِی صَالِحٍ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : مَنْ صَلَّی عَلَیْہِ مِئَۃ مِنَ الْمُسْلِمِینَ غُفِرَ لَہُ۔
(١١٧٤٧) حضرت ابوہریرہ ارشاد فرماتے ہیں کہ جس پر سو مسلمان نماز ادا کریں اس کی مغفرت کردی جاتی ہے۔

11747

(۱۱۷۴۸) حدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ عُثْمَانَ أَبِی الْیَقْظَانِ ، عَنْ زَاذَانَ ، عَنْ جَرِیرٍ رَفَعَہُ ، قَالَ : اللَّحْدُ لَنَا وَالشَّقُّ لِغَیْرِنَا۔ (ابن ماجہ ۱۵۵۵۔ طبرانی ۲۳۲۴)
(١١٧٤٨) حضرت جریر سے مرفوعا مروی ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : لحد ھمارے لیے ہے اور شق ہمارے غیر کے لیے ہے۔

11748

(۱۱۷۴۹) حدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : لُحِدَ لِرَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔
(١١٧٤٩) حضرت حفص اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے لحد (بغلی قبر) بنائی گئی۔

11749

(۱۱۷۵۰) حدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ نَافِعٍ ، قَالَ : لُحِدَ لِرَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَبْرُہُ ، وَلأَبِی بَکْرٍ وَعُمَرَ ، ثُمَّ تَفَاخَرْتُمْ۔ (ابن سعد ۲۹۶)
(١١٧٥٠) حضرت نافع فرماتے ہیں کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر کے لیے لحد قبر کھودی گئی، پھر تم نے اس پر فخر کیا۔

11750

(۱۱۷۵۱) حدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : دُفِنَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی لَحْدٍ۔
(١١٧٥١) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو لحد میں دفن کیا گیا۔

11751

(۱۱۷۵۲) حدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ ، عَنْ فُقَہَائِ أَہْلِ الْمَدِینَۃِ ، قَالَ : کَانَ بِالْمَدِینَۃِ رَجُلاَنِ یَحْفُرَانِ الْقُبُورَ ، قَالَ : فَکَانَ أَحَدُہُمَا یَشُقُّ وَالآخَرُ یَلْحَدُ ، فَلَمَّا تُوُفِّیَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالُوا: أَیُّہُمَا طَلَعَ فَمُرُوہُ فَلْیَعْمَلْ بِعَمَلِہِ الَّذِی کَانَ یَعْمَلُ فَطَلَعَ الَّذِی کَانَ یَلْحَدُ فَأَمَرُوہُ فَلَحَدَ لِرَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔ (ابن سعد ۲۹۵)
(١١٧٥٢) حضرت ہشام بن عروہ فقہاء اھل مدینہ سے روایت کرتے ہیں کہ مدینہ میں دو شخص تھے جو قبریں کھودا کرتے تھے، ان میں سے ایک شق والی قبر بناتا تھا اور دوسرا لحد والی، جب حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس دنیا سے پردہ فرمایا تو صحابہ کرام نے فرمایا جاؤ جا کر ان میں سے جو بھی نظر آئے اسے کہو کہ آ کر اپنا کام کرے۔ پھر وہ شخص آیا جو لحد کھودا کرتا تھا، صحابہ کرام نے اس کو حکم دیا کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے لحد کھودے۔

11752

(۱۱۷۵۳) حدَّثَنَا ابْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : اجْتَمَعَ أَصْحَابُ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حِینَ مَاتَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَکَانَ الرَّجُلُ یَلْحَدُ وَالآخَرُ یَشُقُّ فَقَالُوا : اللَّہُمَّ خِرْہ لَنَا فَطَلَعَ الَّذِی کَانَ یَلْحَدُ فَلَحَدَ لَہُ۔ (ابن ماجہ ۱۶۲۸۔ احمد ۸)
(١١٧٥٣) حضرت عبد الرحمن بن قاسم اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ جب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات ہوئی تو تمام صحابہ کرام جمع ہوگئے، ایک شخص تھا جو لحد والی قبریں بناتا تھا اور دوسرا شخص شق والی قبریں، صحابہ کرام نے دعا فرمائی اے اللہ ! ان میں سے کسی ایک کو چن لے (اختیار فرما) تو جو شخص لحد والی قبریں کھودتا تھا وہ آیا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے لحد والی قبر کھودی۔

11753

(۱۱۷۵۴) حدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ أَبِی جَعْفَرٍ وَسَالِمٍ وَالْقَاسِمِ قَالُوا : کَانَ قَبْرُ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَأَبِی بَکْرٍ وَعُمَرَ جُِثًا قِبْلَۃً نُصِبَ لَہُمُ اللَّبِنَ نَصْبًا وَلُحِدَ لَہُمْ لَحْدًا۔ (ابن سعد ۲۹۸)
(١١٧٥٤) حضرت ابو جعفر، حضرت سالم، اور حضرت قاسم فرماتے ہیں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، ابوبکر صدیق، اور حضرت عمر کی مبارک قبور قبلہ کی طرف جھکی ہوئی (رخ قبلہ کی طرف ہیں) اور ان میں (کچی) اینٹیں نصب ہیں اور وہ لحد کی صورت میں کھو دی گئی ہیں۔

11754

(۱۱۷۵۵) حدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرِِ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : لُحِدَ لِرَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَلأَبِی بَکْرٍ وَعُمَرَ۔
(١١٧٥٥) حضرت عبداللہ بن عمر ارشاد فرماتے ہیں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، ابوبکر صدیق، اور حضرت عمر کے لیے بغلی قبر بنائی گئی۔

11755

(۱۱۷۵۶) حدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرِِ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ حَمَّادٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : لُحِدَ لِرَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَحْدٌ۔
(١١٧٥٦) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے بغلی قبر بنائی گئی۔

11756

(۱۱۷۵۷) حدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : کَانَ یَکْرَہُ الشَّقَّ فِی الْقَبْرِ وَیَقُولُ یُصْنَعُ فِیہِ لَحْدٌ۔
(١١٧٥٧) حضرت مغیرہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم شق والی قبر کو ناپسند فرماتے تھے اور فرماتے تھے بغلی قبر بنائی جائے۔

11757

(۱۱۷۵۸) حدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ سَعِیدٍ ، أَنَّ النبی صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَحَدُوا لَہُ۔
(١١٧٥٨) حضرت سعید فرماتے ہیں کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے بغلی قبر بنائی گئی۔

11758

(۱۱۷۵۹) حدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ الْعُمَرِیِّ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ عَائِشَۃَ ، وَعَنِ الْعُمَرِیِّ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَوْصَی أَنْ یُلْحَدَ لَہُ۔ (احمد ۳/۲۴۔ ابن سعد ۲)
(١١٧٥٩) حضرت عبداللہ بن عمر فرماتے ہیں کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وصیت فرمائی تھی کہ میرے لیے بغلی قبر بنائی جائے۔

11759

(۱۱۷۶۰) حدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ، عَنْ المُجَالِدِ، عَنْ عَامِرٍ، قَالَ: قَالَ الْمُغِیرَۃُ بْنُ شُعْبَۃَ لَحَدْنَا لِلنَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔
(١١٧٦٠) حضرت مغیرہ بن شعبہ فرماتے ہیں کہ ہم نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے لحد والی قبر بنوائی۔

11760

(۱۱۷۶۱) حدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنِ الْمِنْہَالِ ، عَنْ زَاذَانَ ، عَنِ الْبَرَائِ ، قَالَ : کُنَّا مَعَ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی جِنَازَۃٍ فَانْتَہَیْنَا إلَی القَبْرِ وَلَمَّا یُلْحَدْ لَہُ۔
(١١٧٦١) حضرت البرائ فرماتے ہیں کہ ہم نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ایک جنازے میں تھے پھر ہم اس کی قبر تک آئے جب دیکھا تو اس کے لیے لحد کھودی گئی تھی۔

11761

(۱۱۷۶۲) حدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ بْنُ مُوسَی ، عَنْ أُسَامَۃَ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ أَنَسٍ ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : انْظُرُوا أَیُّہُمْ أَکْثَرُ جَمْعًا لِلْقُرْآنِ فَقَدِّمُوہُ فِی اللَّحْدِ۔ (ترمذی ۱۰۱۶۔ ابوداؤد ۳۱۲۹)
(١١٧٦٢) حضرت انس سے مروی ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے (غزوہ احد کے موقع پر) ارشاد فرمایا : دیکھو ان مں ے سے جس کو زیادہ قرآن پاک یاد تھا اس کو لحد میں مقدم رکھو۔

11762

(۱۱۷۶۳) حدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ، قَالَ: حدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِالْعَزِیزِ، عَنِ الزُّہْرِیِّ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ کَعْبِ بْنِ مَالِکٍ، عَنْ أَبِیہِ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یَجْمَعُ بَیْنَ الرَّجُلَیْنِ وَالثَّلاَثَۃِ فِی اللَّحْدِ۔ (بیہقی ۱۱)
(١١٧٦٣) حضرت عبد الرحمن بن کعب بن مالک اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دو ، تین شخصوں کو لحد میں جمع فرمایا : (اکٹھا دفن کیا) ۔

11763

(۱۱۷۶۴) حدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ بْنِ أَبِی خَالِدٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : غَسَّلَ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلِیٌّ وَالْفَضْلُ وَأُسَامَۃُ وَأَدْخَلُوہُ قَبْرَہُ ، وَجَعَلَ عَلِیٌّ یَقُولُ : بِأَبِی أَنْتَ وَأُمِّی طِبْت حَیًّا وَمَیِّتًا۔ قاَلَ : وَحدَّثَنَا ابْنُ أَبِی مَرْحَبٍ ، أَنَّ عَبْدَ الرَّحْمَن بْنَ عَوْفٍ دَخَلَ مَعَہُمُ الْقَبْرَ ، قَالَ : وَقَالَ الشَّعْبِیُّ : مَنْ یَلِی الْمَیِّتَ إِلاَّ أَہْلُہُ ؟۔ (ابوداؤد ۳۲۰۱۔ ابن سعد ۲۷۷)
(١١٧٦٤) حضرت امام شعبی فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حضرت علی، حضرت فضل اور حضرت اسامہ نے غسل دیا اور قبر میں داخل کیا۔ حضرت علی فرما رہے تھے یا رسول اللہ ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ! آپ کی زندگی بھی پاکیزہ تھی اور موت بھی پاکیزہ ہے۔
ابن ابی مرحب فرماتے ہیں کہ حضرت عبد الرحمن بن عوف بھی ان کے ساتھ قبر میں داخل ہوئے تھے، حضرت شعبی فرماتے ہیں میت کے اھل سے زیادہ کون قریبی ہوسکتا ہے ؟

11764

(۱۱۷۶۵) حدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ سَعِیدٍ ، أَنَّ الَّذِی وَلِیَ دَفْنَ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَإِجْنَانَہُ أَرْبَعَۃُ نَفَرٍ دُونَ النَّاسِ ، عَلِیٌّ ، وَالْعَبَّاسُ ، وَالْفَضْلُ ، وَصَالِحٌ مَوْلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔ (حاکم ۳۶۲)
(١١٧٦٥) حضرت سعید فرماتے ہیں کہ لوگوں میں سے (صرف) چار اشخاص تھے جنہوں نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دفن کیا، حضرت علی، حضرت عباس، حضرت فضل اور حضرت صالح جو نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے غلام تھے۔

11765

(۱۱۷۶۶) حدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ حَمَّادٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : أَدْخِلَ الْقَبْرَ کَمْ شِئْت۔
(١١٧٦٦) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ جتنے مرضی لوگ چاہیں قبر میں (مردے کو) اتار سکتے ہیں۔

11766

(۱۱۷۶۷) حدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ رَبِیعٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : لاَ یَضُرُّک شَفْعٌ ، أَوْ وِتْرٌ۔
(١١٧٦٧) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ کوئی نقصان نہیں قبر میں اتارنے والے طاق ہوں یا جفت۔

11767

(۱۱۷۶۸) حدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إسرائیل ، عن جابر ، عن عامر ، قَالَ : لاَ یضرک شفعٌ أو وتر۔
(١١٧٦٨) حضرت عامر سے اسی طرح منقول ہے۔

11768

(۱۱۷۶۹) حدَّثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ، عَنْ سَعِیدٍ، عَنْ قَتَادَۃَ، عَنِ الْحَسَنِ، قَالَ: لاَ بَأْسَ أَنْ یَدْخُلَ الْقَبْرَ شَفْعٌ، أَوْ وَتْرٌ۔
(١١٧٦٩) حضرت قتادہ فرماتے ہیں کہ حضرت حسن سے اسی طرح منقول ہے۔

11769

(۱۱۷۷۰) حدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ حَفْصَۃَ قَالَتْ أَوْصَتْ عَائِشَۃُ ، فَقَالَتْ : إذَا سَوَّی عَلَیَّ ذَکْوَانُ قَبْرِی فَہُوَ حُرٌّ أَرَادَتْ أَنْ یَدْخُلَ قَبْرَہَا وکان ذَکْوَانُ قَدْ دَخَلَ قَبْرَہَا وَہُوَ مَمْلُوکٌ۔
(١١٧٧٠) حضرت حفصہ فرماتی ہیں کہ حضرت عائشہ صدیقہ نے وصیت فرمائی تھی کہ جس وقت ذکوان میری قبر برابر کر دے اس وقت وہ آزاد ہے، انھوں نے ارادہ کیا تھا کہ ذکوان ان کو قبر میں اتارے، (ان کی وفات کے بعد) حضرت ذکوان نے ان کو قبر میں اتارا اور اس وقت وہ غلام تھے۔

11770

(۱۱۷۷۱) حدَّثَنَا وَکِیعٌ، عَنْ سُفْیَانَ، عَنِ الْعَلاَئِ بْنِ الْمُسَیَّبِ، عَنْ أَبِیہِ، قَالَ یَلِی سِفْلَۃَ الْمَرْأَۃِ فِی الْقَبْرِ أَقْرَبُہُمْ إلَیْہَا۔
(١١٧٧١) حضرت العلاء بن المسیب اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ عورت کی جانب پشت پر وہی شخص ہوگا جو اس کا سب سے قریبی ہو۔

11771

(۱۱۷۷۲) حدَّثَنَا حَفْصٌ ، وَوَکِیعٌ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ بْنِ أَبِی خَالِدٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبْزَی ، قَالَ : مَاتَتْ زَیْنَبُ بِنْتُ جَحْشٍ فَکَبَّرَ عَلَیْہَا عُمَرُ أَرْبَعًا ، ثُمَّ سَأَلَ أَزْوَاجَ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَنْ یُدْخِلُہَا فِی قَبْرِہَا ؟ فَقُلْنَ : مَنْ کَانَ یَدْخُلُ عَلَیْہَا فِی حَیَاتِہَا۔
(١١٧٧٢) حضرت عبد الرحمن بن ابزی فرماتے ہیں کہ جب حضرت زینب بنت جحش کا انتقال ہوا تو حضرت عمر نے ان کی نماز جنازہ میں چار تکبیریں کہیں اور پھر ازواج مطہرات سے دریافت فرمایا کہ ان کو قبر میں کون داخل کرے ؟ انھوں نے فرمایا جو زندگی میں ان کے پاس آیا کرتا تھا وہی داخل کرے۔ (جس رشتہ دار سے ان کا پردہ نہ تھا) ۔

11772

(۱۱۷۷۳) حدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ مُعَاذٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا أَشْعَثُ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ یَدْخُلُ الرَّجُلُ قَبْرَ امْرَأَتِہِ وَیَلِی سَفَلَتَہَا۔
(١١٧٧٣) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ آدمی (شوہر) عورت کو قبر میں اتارے گا اور اس عورت کے زیریں حصہ کی طرف وہ خود ہوگا۔

11773

(۱۱۷۷۴) حدَّثَنَا عِیسَی بْنُ یُونُسَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ أَشْیَاخٍ من الأَنْصَارِ قَالُوا : أُتِی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَوْمَ أُحُدٍ بِعَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَرَامٍ وَعَمْرِو بْنِ الْجَمُوحِ قتیلین ، فَقَالَ : ادْفِنُوہُمَا فِی قَبْرٍ وَاحِدٍ ، فَإِنَّہُمَا کَانَا مُتَصَافِیَیْنِ فِی الدُّنْیَا۔
(١١٧٧٤) حضرت ابو اسحاق اپنے والد سے اور وہ انصار کے شیوخ سے روایت کرتے ہں کہ غزوہ احد کے دن حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس حضرت عبداللہ بن عمرو بن حرام اور عمرو بن جموح کی لاشیں لائی گئیں، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ان دونوں کو ایک ہی قبر میں دفن کردو۔ بیشک یہ دونوں دنیا مں ل سچے دوست اور ساتھی تھے۔

11774

(۱۱۷۷۵) حدَّثَنَا شَبَابَۃُ بْنُ سَوَّارٍ ، عَنْ لَیْثِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنِ ابْنِ شِہَابٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ کَعْبِ بْنِ مَالِکٍ ، أَنَّ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللہِ أَخْبَرَہُ ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یَجْمَعُ بَیْنَ الرَّجُلَیْنِ مِنْ قَتْلَی أُحُدٍ فِی قَبْرٍ وَاحِدٍ وَیَقُولُ : أَیُّہُمَا أَکْثَرُ أَخْذًا لِلْقُرْآنِ ؟ فَإِذَا أُشِیرَ بِہِ إلَی أَحَدِہِمَا قَدَّمَہُ ، یَعْنِی فِی اللَّحْدِ۔ (بخاری ۱۳۴۳۔ ابوداؤد ۳۱۳۰)
(١١٧٧٥) حضرت جابر بن عبداللہ سے مروی ہے کہ جنگ احد کے دن حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس دو شھیدوں کی لاشیں لائی جاتیں ایک ہی قبر میں دفنانے کے لیے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دریافت فرماتے : دونوں میں سے کس کو قرآن کا زیادہ حصہ یاد تھا ؟ جب ان میں سے کسی ایک کی طرف اشارہ کیا جاتا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کو لحد میں مقدم کرتے۔

11775

(۱۱۷۷۶) حدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِی عَدِیٍّ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : کَانَ یَکْرَہُ أَنْ یُدْفَنَ اثْنَانِ فِی قَبْرٍ وَاحِدٍ۔
(١١٧٧٦) حضرت حسن فرماتے ہیں دو شخصوں (لاشوں) کا ایک ہی قبر میں دفن کرنا ناپسندیدہ ہے۔

11776

(۱۱۷۷۷) حدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ ، عَنْ أُسَامَۃَ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ أَنَسٍ ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : انْظُرُوا أَیُّہُمْ أَکْثَرُ جَمْعًا لِلْقُرْآنِ فَقَدِّمُوہُ فِی اللَّحْدِ۔
(١١٧٧٧) حضرت انس سے مروی ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ارشاد فرماتے : دیکھو دونوں میں سے کس کو قرآن پاک کا زیادہ حصہ یاد تھا، اس کو لحد میں مقدم کرو۔

11777

(۱۱۷۷۸) حدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیزِ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ کَعْبِ بْنِ مَالِکٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یَجْمَعُ بَیْنَ الرَّجُلَیْنِ وَالثَّلاَثَۃِ فِی اللَّحْدِ۔
(١١٧٧٨) حضرت عبد الرحمن بن کعب بن مالک اپنے والد سے روایت کرتے ہیں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک ہی لحد (قبر) میں دو تین شخصوں کو جمع فرماتے۔

11778

(۱۱۷۷۹) حدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ، عَنِ الْجُرَیْرِیِّ، عَنْ أَبِی الْعَلاَئِ، أَنَّ أَبَا مُوسَی أَوْصَی حَفَرَۃَ قَبْرِہِ أَنْ یُعَمِّقُوا لَہُ قَبْرَہُ۔
(١١٧٧٩) حضرت ابو العلائ فرماتے ہیں کہ حضرت ابو موسیٰ نے قبر کھودنے کے بارے میں وصیت فرمائی تھی کہ قبر گہری کھودی جائے۔

11779

(۱۱۷۸۰) حدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ أَبِی سِنَانٍ ، عَنِ الضَّحَّاکِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، أَنَّ أَبَا مُوسَی أَوْصَی أَنْ یُعَمَّقَ قَبْرُہُ۔
(١١٧٨٠) حضرت ضحاک بن عبد الرحمن سے بھی اسی طرح منقول ہے۔

11780

(۱۱۷۸۱) حدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ الْحَسَنِ وَمُحَمَّدٍ أَنَّہُمَا کَانَا یَسْتَحِبَّانِ أَنْ یُعَمَّقَ الْقَبْرُ۔
(١١٧٨١) حضرت حسن اور حضرت محمد اس بات کو پسند فرماتے تھے کہ قبر گہری ہو۔

11781

(۱۱۷۸۲) حدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ الْحَسَنِ وَمُحَمَّدٍ أَنَّہُمَا کَانَا یَقُولاَنِ یُعَمَّقُ الْقَبْرُ۔
(١١٧٨٢) حضرت ہشام سے مروی ہے کہ حضرت حسن اور حضرت محمد فرماتے تھے کہ قبر گہری کھودی جائے۔

11782

(۱۱۷۸۳) حدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، أَنَّہُ قَالَ : یُحْفَرُ الْقَبْرُ إلَی السُّرَّۃ۔
(١١٧٨٣) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ قبر ناف تک کھودی جائے۔

11783

(۱۱۷۸۴) حدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سُلَیْمٍ، عَنِ الْحَسَنِ، قَالَ: أَوْصَی عُمَرُ أَنْ یُجْعَلَ عُمْقُ قَبْرِہِ قَامَۃً وَبَسطَۃً۔
(١١٧٨٤) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ حضرت عمر نے وصیت فرمائی تھی کہ قبر لمبائی اور چوڑائی میں گہری کھودی جائے۔

11784

(۱۱۷۸۵) حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، قَالَ : شَہِدْت جِنَازَۃَ الْحَارِثِ فَمَدُّوا عَلَی قَبْرِہِ ثَوْبًا فَکَشَفَہُ عَبْدُ اللہِ بْنُ یَزِیدَ ، قَالَ : إنَّمَا ہُوَ رَجُلٌ۔
(١١٧٨٥) حضرت ابو اسحاق فرماتے ہیں کہ میں حضرت حارث کے جنازے میں حاضر ہوا لوگوں نے آپ کی قبر پر کپڑا لٹکایا (پردہ کیلئے) حضرت عبداللہ بن یزید نے اس کو کھینچ دیا اور فرمایا یہ مرد ہیں۔

11785

(۱۱۷۸۶) حدَّثَنَا وَکِیعٌ، عَنْ حَسَنِ بْنِ صَالِحٍ، عَنْ یَحْیَی بْنِ قَیْسٍ، أَنَّ شُرَیْحًا أَوْصَی أَنْ لاَ یَمُدُّوا عَلَی قَبْرِہِ ثَوْبًا۔
(١١٧٨٦) حضرت یحییٰ بن قیس فرماتے ہیں کہ حضرت شریح نے وصیت فرمائی تھی کہ میری قبر پر کپڑا نہ لٹکانا۔

11786

(۱۱۷۸۷) حدَّثَنَا حَفْصٌ، عَنْ عَاصِمٍ ، قَالَ شَہِدْت جِنَازَۃَ رَجُلٍ فِیہَا الْحَسَنُ، وَابْنُ سِیرِینَ فَمُدَّ عَلَی قَبْرِہِ ثَوْبٌ، فَقَالَ : الْحَسَنُ اکْشِفُوہُ فَإِنَّمَا ہُوَ رَجُلٌ ، وَلَمْ یَرَ ابْنُ سِیرِینَ بِہِ بَأْسًا۔
(١١٧٨٧) حضرت عاصم فرماتے ہں، کہ میں ایک شخص کے جنازے میں شریک تھا جس میں حضرت حسن اور حضرت ابن سیرین بھی تھے، اس کی قبر پر کپڑا لٹکایا گیا تو حضرت حسن نے فرمایا : (اس کی کیا ضرورت ہے) یہ تو مرد ہیں، اور حضرت ابن سیرین اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتے۔

11787

(۱۱۷۸۸) حدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ آدَمَ ، قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَنْ أَبِی حَمْزَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ دَخَلَ قَبْرَ سَعد فَمَدَّ عَلَیْہِ ثَوْبًا۔ (عبدالرزاق ۶۴۷۷)
(١١٧٨٨) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت سعد کو قبر میں اتارا تو اس پر کپڑا لٹکایا۔

11788

(۱۱۷۸۹) حدَّثَنَا خَلَفُ بْنُ خَلِیفَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ أَنَّہُ سَمِعَ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَدْخَلَ نُعَیْمَ بْنَ مَسْعُودٍ الأَشْجَعِیَّ الْقَبْرَ وَنَزَعَ الأَخِلَّۃَ بِفِیہِ ، یَعْنِی الْعُقَدَ۔ (ابن سعد ۲۷۹)
(١١٧٨٩) حضرت خلف بن خلیفہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے سنا کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب حضرت نعیم بن مسعود الاشجعی کو قبر میں اتارا تو ان کے منہ سے گرہ کھول دی۔

11789

(۱۱۷۹۰) حدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ وَرْدَانَ ، عَنِ الْجُرَیْرِیِّ ، عَنْ رَجُلٍ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : شَہِدْتُ الْعَلاَئَ بْنَ الْحَضْرَمِیِّ فَدَفَنَّاہُ فَنَسِینَا أَنْ نَحِلَّ الْعُقَدَ حَتَّی أَدْخَلْنَاہُ قَبْرَہُ ، قَالَ فَرَفَعْنَا عَنْہُ اللَّبِنَ فَلَمْ نَرَ فِی الْقَبْرِ شَیْئًا۔
(١١٧٩٠) حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ میں حضرت العلاء بن الحضرمی کے دفنانے کے وقت حاضر تھا، ہم ان کی گرہ کھولنا بھول گئے اور انیں قبر میں دفنا دیا، پھر ہم نے قبر سے اینٹ اٹھائی تو ہمیں قبر میں کچھ بھی نظر نہ آیا۔

11790

(۱۱۷۹۱) حدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ عَیَّاشٍ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : إذَا أُدْخِلَ الْمَیِّتُ الْقَبْرَ حُلَّتْ عَنْہُ الْعُقَدُ کُلُّہَا۔
(١١٧٩١) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ جب میت کو قبر میں داخل کیا جائے تو اس کی تمام گرہیں کھول دی جائیں گی۔

11791

(۱۱۷۹۲) حدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ عَامِرٍ ، قَالَ : تُحَلُّ عَنِ الْمَیِّتِ الْعُقَدُ۔
(١١٧٩٢) حضرت عامر فرماتے ہیں کہ میت سے گرہ کھول دی جائے گی۔

11792

(۱۱۷۹۳) حدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ جُوَیْبِرٍ ، قَالَ : أَوْصَانِی الضَّحَّاکُ بِہِ۔
(١١٧٩٣) حضرت جویبر فرماتے ہیں کہ حضرت ضحاک نے اسی کی وصیت فرمائی تھی۔

11793

(۱۱۷۹۴) حدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، وَابْنِ سِیرِینَ قَالاَ : تُحَلُّ عَنِ الْمَیِّتِ الْعُقَدُ۔
(١١٧٩٤) حضرت حسن اور حضرت ابن سیرین فرماتے ہیں کہ میت کی گرہ کھول دی جائے گی۔

11794

(۱۱۷۹۵) حدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ، عَنْ جُوَیْبِرٍ، عَنِ الضَّحَّاکِ، أَنَّہُ أَوْصَی أَنْ تُحَلَّ عَنْہُ الْعُقَدُ وَیُبْرَزَ وَجْہُہُ مِنَ الْکَفَنِ۔
(١١٧٩٥) حضرت جویبر فرماتے ہیں کہ حضرت ضحاک نے وصیت فرمائی تھی کہ ان کی گرہ کھول دی جائے اور چہرہ کفن سے نکال دیا جائے۔

11795

(۱۱۷۹۶) حدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ الْحَسَنِ وَمُحَمَّدٍ أَنَّہُمَا کَانَا یَکْرَہَانِ أَنْ یُشَقَّ کَفَنُ الْمَیِّتِ إذَا أُدْخِلَ الْقَبْرَ۔
(١١٧٩٦) حضرت حسن اور حضرت محمد اس بات کو ناپسند فرماتے تھے کہ میت کو قبر میں داخل کرتے وقت اس کے کفن کو کھولا جائے۔

11796

(۱۱۷۹۷) حدَّثَنَا وَکِیعٌ، عَنْ إیَاسِ بْنِ دَغْفَلٍ، عَنْ عَبْدِاللہِ بْنِ قَیْسِ بْنِ عُبَادٍ، عَنْ أَبِیہِ، أَنَّہُ أَوْصَی إذَا وَضَعْتُمُونِی فِی حُفْرَتِی فَجوبُوا مَا یَلِی جَسَدِی مِنَ الْکَفَنِ حَتَّی تُفْضُوا بِی إلَی الأَرْضِ۔
(١١٧٩٧) حضرت عبداللہ بن قیس بن عباد اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے وصیت فرمائی جب مجھے قبر میں رکھو تو میرے جسم کا جو حصہ کفن سے ملا ہو پھاڑ دو تاکہ مجھے حقیقی معنیٰ میں زمین کے سپرد کردو۔

11797

(۱۱۷۹۸) حدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ خَالِدٍ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ ، قَالَ : کُنْتُ مَعَ أَنَسٍ فِی جِنَازَۃٍ فَأَمَرَ بِالْمَیِّتِ فَأُدْخِلَ مِنْ قِبَلِ رِجْلَیْہِ۔
(١١٧٩٨) حضرت ابن سیرین فرماتے ہیں کہ میں حضرت انس کے ساتھ ایک جنازے میں شریک تھا آپ نے حکم دیا کہ میت کو پاؤں کی جانب سے قبر میں داخل کیا جائے۔

11798

(۱۱۷۹۹) حدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إسْرَائِیلَ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ عَامِرٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، أَنَّہُ أَدْخَلَ مَیِّتًا مِنْ قِبَلِ رِجْلَیْہِ۔
(٩٩ ١١٧) حضرت عامر فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمر میت کو پاؤں کی جانب سے قبر میں اتارتے تھے۔

11799

(۱۱۸۰۰) حدَّثَنَا أَبُو بَکْرٍ بْنُ عَیَّاشٍ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، قَالَ : شَہِدْنَا جِنَازَۃَ ابْنِ مَعْقِلٍ ، فَقَالَ رَجُلٌ : إنَّ صَاحِبَکُمْ قَدْ أَوْصَی أَنْ یُسَلَّ۔
(١١٨٠٠) حضرت ابن اسحاق فرماتے ہیں کہ میں حضرت ابن معقل کے جنازے میں شریک تھا، ایک شخص نے کہا : تمہارے ساتھی نے وصیت کی تھی کہ ان کو پاؤں کی جانب سے قبر میں اتارا جائے۔

11800

(۱۱۸۰۱) حدَّثَنَا ابْنُ عَیَّاشٍ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : کَانُوا یَسلُّونَ۔
(١١٨٠١) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں صحابہ کرام میت کو پاؤں کی جانب سے قبر میں اتارتے تھے۔

11801

(۱۱۸۰۲) حدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ مَنْصُورِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، قَالَ : قُلْتُ لِلشَّعْبِیِّ رَجُلٌ دَفَنَ مَیِّتًا فَسَلَّہُ مِنْ قِبَلِ رِجْلی الْقَبْرِ ، قَالَ : ہَذَا وَاللَّہِ السُّنَّۃُ۔
(١١٨٠٢) حضرت منصور بن عبد الرحمن فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت شعبی سے عرض کیا : ایک شخص میت کو دفن کرتے وقت پاؤں کی جانب سے قبر میں اتارتا ہے (کیا یہ درست ہے ؟ ) آپ نے فرمایا ہاں اللہ کی قسم ! یہ سنت طریقہ ہے۔

11802

(۱۱۸۰۳) حدَّثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ وَوَکِیعٌ، عَنْ إسْمَاعِیلَ بْنِ أَبِی خَالِدٍ، أَنَّ قَیْسًا أَوْصَی عِنْدَ مَوْتِہِ أَنْ یُسَلَّ سَلاًّ۔
(١١٨٠٣) حضرت اسماعیل بن ابی خالد فرماتے ہیں کہ حضرت قیس نے وصیت فرمائی تھی کہ مرنے کے بعد ان کو پاؤں کی جانب سے داخل کیا جائے۔

11803

(۱۱۸۰۴) حدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ بْنُ عَیَّاشٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُہَاجِرٍ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِیزِ ، أَنَّہُ لَمَّا تُوُفِّیَ ابْنُہُ أَمَرَ بِہِ فَأُدْخِلَ مِنْ قِبَلِ رِجْلَیْہِ۔
(١١٨٠٤) حضرت عمرو بن مہاجر فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن عبد العزیز کا بیٹا وفات پا گیا تو آپ نے حکم فرمایا کہ ان کو پاؤں کی جانب سے قبر میں اتارا جائے۔

11804

(۱۱۸۰۵) حدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، قَالَ " شَہِدْت عَبْدَ اللہِ بْنَ یَزِیدَ أَدْخَلَ الْحَارِثَ مِنْ قِبَلِ رِجْلَیْہِ ، وَقَالَ : ہَکَذَا السُّنَّۃُ۔ (ابوداؤد ۳۲۰۳۔ بیہقی ۵۴)
(١١٨٠٥) حضرت ابو اسحاق فرماتے ہیں کہ میں حضرت عبداللہ بن یزید کے پاس حاضر ہوا آپ نے حضرت حارث کو پاؤں کی جانب سے قبر میں اتارا اور فرمایا یہی سنت طریقہ ہے۔

11805

(۱۱۸۰۶) حدَّثَنَا وَکِیعٌ، عَنْ إسْرَائِیلَ، عَنْ عِیسَی بْنِ أَبِی عَزَّۃَ، قَالَ شَہِدْت الشَّعْبِیَّ أَدْخَلَ مَیِّتًا مِنْ قِبَلِ رِجْلَیْہِ۔
(١١٨٠٦) حضرت عیسیٰ بن ابی عزہ فرماتے ہیں کہ میں حضرت شعبی کے پاس حاضر ہوا آپ میت کو پاؤں کی جانب سے قبر میں اتار رہے تھے۔

11806

(۱۱۸۰۷) حدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ حَمَّادٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : لَحَدَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَأُخِذَ مِنْ قِبَلِ الْقِبْلَۃِ وَرَفَعَ قَبْرُہُ حَتَّی یُعْرَفَ۔ (عبدالرزاق ۴۶۷۱)
(١١٨٠٧) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قبر مبارک لحد بنائی گئی اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قبلہ کی طرف سے قبر میں رکھا گیا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قبر مبارک بلند کی گئی یہاں تک کہ وہ پہچانی جاتی تھی۔

11807

(۱۱۸۰۸) حدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، قَالَ : حُدِّثَتْ عَنْ عُمَیْرِ بْنِ سَعِیدٍ ، أَنَّ عَلِیًّا أَدْخَلَ مَیِّتًا مِنْ قِبَلِ الْقِبْلَۃِ۔
(١١٨٠٨) حضرت عمیر بن سعید فرماتے ہیں کہ حضرت علی نے میت کو قبلہ کی جانب سے قبر میں اتارا۔

11808

(۱۱۸۰۹) حدَّثَنَا حُمَیْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنِ الْحَسَنِ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : یُؤْخَذُ مِنْ قِبَلِ الْقِبْلَۃِ۔
(١١٨٠٩) حضرت امام شعبی فرماتے ہیں کہ میت کو قبلہ کی جانب سے پکڑا جائے گا۔

11809

(۱۱۸۱۰) حدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ أَبِی عَطَائٍ مَوْلَی بَنِی أَسَدٍ ، قَالَ : شَہِدْت وَفَاۃَ ابْنِ عَبَّاسٍ فَوَلِیَہُ ابْنُ الْحَنَفِیَّۃِ ، قَالَ : فَکَبَّرَ عَلَیْہِ أَرْبَعًا وَأَدْخَلَہُ مِنْ قِبَلِ الْقِبْلَۃِ۔
(١١٨١٠) حضرت عمران بن ابی عطائ فرماتے ہیں کہ میں حضرت عبداللہ بن عباس کی وفات کے وقت حاضر ہوا تو آپ کی نماز جنازہ حضرت ابن الحنفیہ نے پڑھائی (جنازے کا انتظام کیا) اور اس میں چار تکبیریں کہیں اور میت کو قبلہ کی جانب سے قبر میں اتارا۔

11810

(۱۱۸۱۱) حدَّثَنَا حُمَیْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنِ ابْنِ أَبِی لَیْلَی ، عَنْ عُمَیْرِ بْنِ سَعِیدٍ ، أَنَّ عَلِیًّا کَبَّرَ عَلَی یَزِیدَ بْنِ الْمُکَفَّفِ أَرْبَعًا وَأَدْخَلَہُ مِنْ قِبَلِ الْقِبْلَۃِ۔
(١١٨١١) حضرت عمیر بن سعید فرماتے ہیں کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے حضرت یزید بن المکفف کی نماز جنازہ پڑھائی اور اس میں چار تکبیریں پڑھیں اور ان کو قبلہ کی جانب سے قبر میں اتارا۔

11811

(۱۱۸۱۲) حدَّثَنَا ابْنُ یَمَانٍ ، عَنِ الْمِنْہَالِ بْنِ خَلِیفَۃَ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ عَطَائٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَخَذَہُ مِنْ قِبَلِ الْقِبْلَۃِ ، وَکُبِّرَ عَلَیْہِ أَرْبَعًا یعنی المیت۔ (ترمذی ۱۰۵۷)
(١١٨١٢) حضرت عبداللہ بن عباس سے مروی ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے میت کو قبلہ کی جانب سے قبر میں اتارا اور اس پر چار تکبیریں پڑھیں۔

11812

(۱۱۸۱۳) حدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عُبَیْدِ اللہِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، أَنَّہُ أَدْخَلَ مَیِّتًا مِنْ قِبَلِ الْقِبْلَۃِ۔
(١١٨١٣) حضرت حسن بن عبید اللہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم نے میت کو قبلہ کی جانب سے قبر میں اتارا۔

11813

(۱۱۸۱۴) حدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ سُفْیان ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عُبَیْدِ اللہِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ بِمِثْلِہِ۔
(١١٨١٤) حضرت حسن بن عبید اللہ سے اسی کے مثل منقول ہے۔

11814

(۱۱۸۱۵) حدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ ہَمَّامٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ أَبِی الصِّدِّیقِ النَّاجِی ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إذَا وَضَعْتُمْ مَوْتَاکُمْ فِی قُبُورِہِمْ فَقُولُوا : بِسْمِ اللہِ وَعَلَی سُنَّۃِ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔ (ابوداؤد ۳۲۰۵۔ احمد ۲/۲۷)
(١١٨١٥) حضرت عبداللہ بن عمر سے مروی ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جب تم اپنے مردوں کو قبروں میں اتارو تو یہ دعا پڑھو : بِسْمِ اللہِ وَعَلَی سُنَّۃِ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ

11815

(۱۱۸۱۶) حدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ أَبِی الصِّدِّیقِ النَّاجِی ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، أَنَّہُ کَانَ یَقُولُ ذَلِکَ۔
(١١٨١٦) حضرت عبداللہ بن عمر سے اسی کے مثل منقول ہے۔

11816

(۱۱۸۱۷) حدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرِِ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إذَا وَضَعَ الْمَیِّتَ فِی الْقَبْرِ ، قَالَ : بِسْمِ اللہِ وَبِاللہِ وَعَلَی سُنَّۃِ رَسُولِ اللہِ۔ (ترمذی ۱۰۴۶۔ ابن ماجہ ۱۵۵۰)
(١١٨١٧) حضرت عبداللہ بن عمر سے مروی ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب میت کو قبر میں اتارتے تو یوں فرماتے : بِسْمِ اللہِ وَبِاللہِ وَعَلَی سُنَّۃِ رَسُولِ اللہِ ۔

11817

(۱۱۸۱۸) حدَّثَنَا شَرِیکٌ وَأَبُو الأَحْوَصِ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ أَبِی مُدْرِکٍ الأَشْجَعِیِّ ، عَنْ عُمَرَ ، أَنَّہُ کَانَ یَقُولُ إذَا أَدْخَلَ الْمَیِّتَ فی قَبْرِہِ ، وَقَالَ أَبُو الأَحْوَصِِ إذَا سَوَّی عَلَیْہِ اللَّہُمَّ أَسْلِمْہُ إلَیْک الْمَالَ وَالأَہْلَ وَالْعَشِیرَۃَ وَالذَّنْبَ الْعَظِیمَ فَاغْفِرْ لَہُ۔
(١١٨١٨) حضرت ابو مدرک اشجعی فرماتے ہیں کہ حضرت عمر جب میت کو قبر میں اتارتے تو فرماتے اور حضرت ابو الاحوص فرماتے ہیں کہ جب اس پر مٹی برابر کرتے تو فرماتے : بِسْمِ اللّٰہِ إلَیْک الْمَالَ وَالأَہْلَ وَالْعَشِیرَۃَ وَالذَّنْبَ الْعَظِیمَ فَاغْفِرْ لَہُ ۔ اللہ کے نام کے ساتھ ، اے اللہ اس کا مال، اہل، خاندان اور گناہ تیرے حوالے ہیں۔ اس کی مغفرت فرما۔

11818

(۱۱۸۱۹) حدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ ، عَنْ خَیْثَمَۃَ ، قَالَ : کَانُوا یَسْتَحِبُّونَ إذَا وَضَعُوا الْمَیِّتَ فِی الْقَبْرِ أَنْ یَقُولُوا : بِسْمِ اللہِ وَفِی سَبِیلِ اللہِ وَعَلَی مِلَّۃِ رَسُولِ اللہِ ، اللَّہُمَّ أَجِرْہُ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ ، وَعَذَابِ النَّارِ ، وَمِنْ شَرِّ الشَّیْطَانِ۔
(١١٨١٩) حضرت خیثمہ فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام جب میت کو قبر میں اتارتے تو وہ پسند فرماتے کہ یوں کہا جائے : بِسْمِ اللہِ وَفِی سَبِیلِ اللہِ وَعَلَی مِلَّۃِ رَسُولِ اللہِ ، اللَّہُمَّ أَجِرْہُ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ ، وَعَذَابِ النَّارِ ، وَمِنْ شَرِّ الشَّیْطَانِ ۔ اللہ کے نام کے ساتھ، اللہ کے راستے میں، اللہ کے رسول کی ملت پر، اے اللہ اسے قبر کے عذاب سے، آگ کے عذاب سے اور شیطان کے شر سے محفوظ فرما۔

11819

(۱۱۸۲۰) حدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، أَنَّہُ کَانَ یَقُولُ : بِسْمِ اللہِ وَفِی سَبِیلِ اللہِ ، اللَّہُمَّ افْسحْ لَہُ فِی قَبْرِہِ ، وَنَوِّرْ لَہُ فِیہِ ، وَأَلْحِقْہُ بِنَبِیَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَأَنْتَ عَنْہُ رَاضٍ غَیْرُ غَضْبَانَ۔
(١١٨٢٠) حضرت مجاہد جب میت کو قبر میں اتارتے تو فرماتے : بِسْمِ اللّٰہِ وَفِی سَبِیلِ اللّٰہِ ، اللَّہُمَّ افْسحْ لَہُ فِی قَبْرِہِ ، وَنَوِّرْ لَہُ فِیہِ ، وَأَلْحِقْہُ بِنَبِیَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَأَنْتَ عَنْہُ رَاضٍ غَیْرُ غَضْبَانَ ۔ اللہ کے نام کے ساتھ اور اللہ کے راستے میں، اے اللہ اس کی قبر کو کشادہ فرما، اس کی قبر کو روشن فرما، اسے اس کے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ملا، اس سے خوش ہو اور ناراض نہ ہونا۔

11820

(۱۱۸۲۱) حدَّثَنَا مُعْتَمِرُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ حُصَیْنٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ التَّیْمِیِّ ، قَالَ : إذَا وَضَعْتَ الْمَیِّتَ فِی الْقَبْرِ فَقُلْ : بِسْمِ اللہِ ، وَإِلَی اللہِ ، وَعَلَی سُنَّۃِ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔
(١١٨٢١) حضرت ابراہیم التیمی فرماتے ہیں کہ جب تم میت کو قبر میں اتارو تو یوں کہو : بِسْمِ اللہِ ، وَإِلَی اللہِ ، وَعَلَی سُنَّۃِ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ۔ ” اللہ کے نام کے ساتھ اور اللہ کے حوالے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت پر۔ “

11821

(۱۱۸۲۲) حدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِِ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : إذَا وَضَعْت الْمَیِّتَ فِی الْقَبْرِ فَقُلْ : بِسْمِ اللہِ ، وَعَلَی مِلَّۃِ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔
(١١٨٢٢) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ جب میت کو قبر میں اتارو تو یوں کہو : بِسْمِ اللہِ ، وَعَلَی مِلَّۃِ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ۔ ” اللہ کے نام کے ساتھ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ملت پر۔ “

11822

(۱۱۸۲۳) حدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ أَنَسٍ ، أَنَّہُ دَفَنَ ابْنًا لَہُ ، فَقَالَ : اللہم جَافِ الأَرْضَ عَنْ جَنْبَیْہِ ، وَافْتَحْ أَبْوَابَ الْسَمَائِ لِرُوحِہِ ، وَأَبْدِلْہُ بِدَارِہِ دَارًا خَیْرًا مِنْ دَارِہِ۔
(١١٨٢٣) حضرت قتادہ فرماتے ہیں کہ حضرت انس نے اپنے بیٹے کو دفن کیا تو یوں (دعا) کہا : جَافِ الأَرْضَ عَنْ جَنْبَیْہِ ، وَافْتَحْ أَبْوَابَ الْسَمَائِ لِرُوحِہِ ، وَأَبْدِلْہُ بِدَارِہِ دَارًا خَیْرًا مِنْ دَارِہِ ۔ ” اے اللہ ! زمین کو اس کے دونوں پہلوؤں سے الگ کر دے، اس کی روح کے لیے آسمان کے دروازے کھول دے اور اسے اس گھر سے بہتر گھر عطا فرما۔ “

11823

(۱۱۸۲۴) حدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ ، عَنِ الْعَلاَئِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : إذَا وُضِعَ الْمَیِّتُ فِی الْقَبْرِ فَلاَ تَقُلْ بِسْمِ اللہِ ، وَلَکِنْ قُلْ فِی سَبِیلِ اللہِ وَعَلَی سُنَّۃِ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَعَلَی مِلَّۃِ إبْرَاہِیمَ حَنِیفًا مُسْلِمًا وَمَا کَانَ مِنَ الْمُشْرِکِینَ ، اللَّہُمَّ ثَبِّتْہُ بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِی الآخِرَۃِ اللَّہُمَّ اجْعَلْہُ فِی خَیْرٍ مِمَّا کَانَ فِیہِ ، اللَّہُمَّ لاَ تَحْرِمْنَا أَجْرَہُ ، وَلاَ تَفْتِنَّا بَعْدَہُ ، قَالَ : وَنَزَلَتْ ہَذِہِ الآیَۃُ فِی صَاحِبِ الْقَبْرِ : {یُثَبِّتُ اللَّہُ الَّذِینَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِی الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا وَفِی الآخِرَۃِ}۔
(١١٨٢٤) حضرت العلاء بن المسیب اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ جب میت کو قبر میں اتارو تو بسم اللہ مت کہو بلکہ یہ پڑھو : ” اللہ کے راستے میں اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت پر، حضرت ابراہیم کی ملت پر جو کہ یکسو مسلمان تھے اور مشرکین میں سے نہیں تھے۔ اے اللہ ! اسے آخرت میں قول ثابت کے ساتھ تقویت عطا فرما۔ اے اللہ ! اسے پہلے سے زیادہ بھلائی عطا فرما، اے اللہ ہمیں اس کے اجر سے محروم نہ فرما اور ہمیں اس کے بعد فتنے میں مبتلا نہ فرما “ اور فرماتے قرآن پاک کی یہ آیت { یُثَبِّتُ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَ فِی الْاٰخِرَۃِ } صاحب قبر کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔

11824

(۱۱۸۲۵) حدَّثَنَا سَہْلُ بْنُ یُوسُفَ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، قَالَ : قُلْتُ لِمُحَمَّدٍ إذَا وَضَعْتُ الْمَیِّتَ فِی اللَّحْدِ مَا أَقُولُ ؟ قَالَ : لاَ شَیْئَ۔
(١١٨٢٥) حضرت ابن عون فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت محمد سے دریافت کیا کہ جب میں میت کو قبر میں اتاروں تو کیا کہوں ؟ آپ نے فرمایا کچھ نہیں۔

11825

(۱۱۸۲۶) حدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا إسْرَائِیلُ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ ضَمْرَۃَ ، قَالَ : کَانَ عَلِیٌّ یَقُولُ عِنْدَ الْمَنَامِ إذَا نَامَ بِسْمِ اللہِ وَفی سَبِیلِ اللہِ ، وَعَلَی مِلَّۃِ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَیَقُولُہُ إذَا أُدْخِلَ الرَّجُلَ الْقَبْرَ۔
(١١٨٢٦) حضرت عاصم بن حمزہ فرماتے ہیں کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ سوتے وقت اور میت کو قبر میں اتارتے وقت یوں فرماتے : بِسْمِ اللہِ وَفی سَبِیلِ اللہِ ، وَعَلَی مِلَّۃِ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ۔ ” اللہ کے نام کے ساتھ، اللہ کے راستے میں اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ملت پر۔ “

11826

(۱۱۸۲۷) حدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ أَبِی بَکْرٍ ، قَالَ : کَانَ أَنَسُ بْنُ مَالِکٍ إذَا سُوِّیَ عَلَی الْمَیِّتِ قَبْرَہُ قَامَ عَلَیْہِ ، فَقَالَ : اللَّہُمَّ عَبْدُک رُدَّ إلَیْک فَارْأَفْ بِہِ وَارْحَمْہُ ، اللَّہُمَّ جَافِ الأَرْضَ عَنْ جَنْبَہِ ، وَافْتَحْ أَبْوَابَ السَّمَائِ لِرُوحِہِ ، وَتَقَبَّلْہُ مِنْک بِقَبُولٍ حَسَنٍ ، اللَّہُمَّ إِنْ کَانَ مُحْسِنًا فَضَاعِفْ لَہُ فِی إحْسَانِہِ ، أَوَ قَالَ: فَزِدْ فِی إحْسَانِہِ ، وَإِنْ کَانَ مُسِیئًا فَتَجَاوَزْ عَنْہُ۔
(١١٨٢٧) حضرت عبداللہ بن ابی بکر فرماتے ہیں کہ حضرت انس بن مالک جب میت کو دفن کرنے کے بعد مٹی برابر کردیتے تو اس پر کھڑے ہو کر یہ دعا مانگتے : اللَّہُمَّ إِنْ کَانَ مُحْسِنًا فَضَاعِفْ لَہُ فِی إحْسَانِہِ (یا فرماتے) فَزِدْ فِی إحْسَانِہِ ، وَإِنْ کَانَ مُسِیئًا فَتَجَاوَزْ عَنْہُ ۔ ” اے اللہ ! اگر وہ نیکوکار تھا تو اس کی نیکی کو دگنا فرما اور اگر یہ گناہ گار ہے تو اس سے درگزر فرما۔ “

11827

(۱۱۸۲۸) حدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ عُمَیْرِ بْنِ سَعِیدٍ ، أَنَّ عَلِیًّا کَبَّرَ عَلَی یَزِیدَ أَرْبَعًا ، قَالَ : اللَّہُمَّ عَبْدُک وَابْنُ عَبْدِکَ نَزَلَ بِکَ الْیَوْمَ ، وَأَنْتَ خَیْرُ مَنْزُولٍ بِہِ ، اللَّہُمَّ وَسِّعْ لَہُ مُدْخَلَہُ ، وَاغْفِرْ لَہُ ذَنْبَہُ ، فَإِنَّا لاَ نَعْلَمُ إِلاَّ خَیْرًا وَأَنْتَ أَعْلَمُ بِہِ۔
(١١٨٢٨) حضرت عمیر بن سعید فرماتے ہیں کہ حضرت علی نے حضرت یزید کی نماز جنازہ پڑھائی اور چار تکبیریں پڑھیں پھر یہ دعا پڑھی : اللَّہُمَّ عَبْدُک وَابْنُ عَبْدِکَ نَزَلَ بِکَ الْیَوْمَ ، وَأَنْتَ خَیْرُ مَنْزُولٍ بِہِ ، اللَّہُمَّ وَسِّعْ لَہُ مُدْخَلَہُ ، وَاغْفِرْ لَہُ ذَنْبَہُ ، فَإِنَّا لاَ نَعْلَمُ إِلاَّ خَیْرًا وَأَنْتَ أَعْلَمُ بِہِ ۔ ” اے اللہ ! تیرا بندہ اور تیرے بندے کا بیٹا آج تیرے پاس آیا ہے، تو اس کا بہترین ٹھکانا ہے، اے اللہ اس کی قبر کو کشادہ فرما اور اس کے گناہوں کو معاف فرما، ہم تو صرف خیر کو جانتے ہیں اور تو اسے زیادہ جاننے والا ہے۔ “

11828

(۱۱۸۲۹) حدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنِ ابْنِ أَبِی مُلَیْکَۃَ ، قَالَ لَمَّا فَرَغَ مِنْ قَبْرِ عَبْدِ اللہِ بْنِ السَّائِبِ قَامَ ابْنُ عَبَّاسِ عَلَی الْقَبْرِ فَوَقَفَ عَلَیْہِ ، ثُمَّ دَعَا ، ثُمَّ انْصَرَفَ۔
(١١٨٢٩) حضرت ابن ابی ملیکہ فرماتے ہیں کہ جب حضرت عبداللہ بن السائب کو دفن کر فارغ ہوئے تو حضرت عبداللہ بن عباس قبر پر کچھ دیر کھڑے رہے پھر دعا فرمائی اور پھر لوٹے۔

11829

(۱۱۸۳۰) حدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّیَالِسِیُّ ، عَنِ الأَسْوَد بْنِ شَیْبَانَ ، عَنْ خَالِدِ بْنِ سُمَیْرٍ ، قَالَ : کُنْتُ مَعَ الأَحْنَفِ فِی جِنَازَۃٍ فَجَلَسَ الأَحْنَفُ وَجَلَسْت مَعَہُ ، فَلَمَّا فُرِغَ مِنْ دَفْنِہَا وَہُوَ ضِرَارُ بْنُ الْقَعْقَاعِ التَّمِیمِیُّ رَأَیْت الأَحْنَفَ انْتَہَی إلَی قَبْرِہِ فَقَامَ عَلَیْہِ فَبَدَأَ بِالثَّنَائِ قَبْلَ الدُّعَائِ ، فَقَالَ : کُنْت وَاللَّہِ مَا عَلِمْتُ کَذَا ، کُنْت وَاللَّہِ مَا عَلِمْتُ کَذَا ، ثُمَّ دَعَا لَہُ۔
(١١٨٣٠) حضرت خالد بن سمیر فرماتے ہیں کہ میں حضرت احنف کے ساتھ حضرت ضرار بن قعقاع التمیمی کے جنازے میں تھا، حضرت احنف بیٹھ گئے تو میں بھی آپ کے ساتھ بیٹھ گیا، میں نے حضرت احنف کو دیکھا آپ قبر کے کنارے پر کھڑے ہوئے اور دعا سے قبل ان الفاظ میں حمد بیان کی : بخدا میں اس طرح نہیں جانتا تھا، بخدا میں اس طرح نہیں جانتا تھا۔ پھر آپ نے ان کیلئے دعا فرمائی۔

11830

(۱۱۸۳۱) حدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَنِ الشَّیْبَانِیِّ ، عَنْ عُمَیْرِ بْنِ سَعِیدٍ ، قَالَ صَلَّیْت مَعَ عَلِیٍّ عَلَی یَزِیدَ بْنَ الْمُکَفَّفِ فَکَبَّرَ عَلَیْہِ أَرْبَعًا ، ثُمَّ مَشَی حَتَّی أَتَاہُ ، فَقَالَ : اللَّہُمَّ عَبْدُک ، وَابْنُ عَبْدِکَ نَزَلَ بِکَ الْیَوْمَ فَاغْفِرْ لَہُ ذَنْبَہُ ، وَوَسِّعْ عَلَیْہِ مُدْخَلَہُ فَإِنَّا لاَ نَعْلَمُ إِلاَّ خَیْرًا وَأَنْتَ أَعْلَمُ بِہِ۔
(١١٨٣١) حضرت عمیر بن سعید فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت علی کے ساتھ حضرت یزید بن المکفف کی نماز جنازہ پڑھی، آپ نے اس پر چار تکبیریں پڑھیں، پھر آپ جنازے کے ساتھ چل کر جب قبر کے پاس آئے تو یوں دعا مانگی : اللَّہُمَّ عَبْدُک ، وَابْنُ عَبْدِکَ نَزَلَ بِکَ الْیَوْمَ فَاغْفِرْ لَہُ ذَنْبَہُ ، وَوَسِّعْ عَلَیْہِ مُدْخَلَہُ فَإِنَّا لاَ نَعْلَمُ إِلاَّ خَیْرًا وَأَنْتَ أَعْلَمُ بِہِ ۔ ” اے اللہ ! تیرا بندہ اور تیرے بندے کا بیٹا آج تیرے پاس آیا ہے، تو اس کے گناہوں کو معاف فرما اور اس کی قبر کو کشادہ فرما۔ ہم تو صرف خیر کو جانتے ہیں اور تو اسے زیادہ جاننے والا ہے۔ “

11831

(۱۱۸۳۲) حدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، قَالَ : رَأَیْتُ أَیُّوبَ یقوم عَلَی الْقَبْرِ فَیَدْعُو لِلْمَیِّتِ ، قَالَ : وَرُبَّمَا رَأَیْتُہُ یَدْعُو لَہُ وَہُوَ فِی الْقَبْرِ قَبْلَ أَنْ یَخْرُجَ۔
(١١٨٣٢) حضرت ابن علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ایوب کو دیکھا کہ قبر پر کھڑے میت کیلئے دعا مانگ رہے ہیں اور کبھی کبھی میں آپ کو دیکھتا کہ آپ میت کو قبر میں اتارنے کے بعد قبر میں سے نکلتے سے پہلے اس کے لیے دعا کرتے تھے۔

11832

(۱۱۸۳۳) حدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ ، عَنْ حُجَّاجٍ ، عَنْ عُمَیْرِ بْنِ سَعِیدٍ ، أَنَّ عَلِیًّا حَثَی فِی قَبْرِ ابْنِ الْمُکَفَّفِ۔
(١١٨٣٣) حضرت عمیر بن سعید فرماتے ہیں کہ حضرت علی نے حضرت ابن المکفف کی قبر میں مٹی ڈالی۔

11833

(۱۱۸۳۴) حدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ مَالِکِ بْنِ مِغْوَلٍ ، عَنْ عُمَیْرِ بْنِ سَعِیدٍ ، أَنَّ عَلِیًّا حَثَی فِی قَبْرِ ابْنِ الْمُکَفَّفِ۔
(١٣١٣٤) حضرت عمیر بن سعید سے اسی طرح منقول ہے۔

11834

(۱۱۸۳۵) حدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ مُوسَی بْنِ عُبَیْدَۃَ ، عَنْ یَعْقُوبَ بن زَیْدٍ ، أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حُثِیَ فِی قَبْرِہِ۔
(١١٨٣٥) حضرت یعقوب بن زید فرماتے ہیں کہ بیشک حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر قبر میں مٹی ڈالی گئی۔

11835

(۱۱۸۳۶) حدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ ، عَنْ ثَوْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا عَامِر بْنُ جَشِیبٍ وَغَیْرُہُ مِنْ أَہْلِ الشَّامِ ، عنْ أَبِی الدَّرْدَائِ ، قَالَ : مِنْ تَمَامِ أَجْرِ الْجِنَازَۃِ أَنْ یَحْثُوَ فِی الْقَبْرِ۔
(١١٨٣٦) حضرت ابو الدردائ ارشاد فرماتے ہیں کہ جنازے کا مکمل اجر (تب ملتا ہے) کہ قبر پر مٹی ڈالی جائے۔

11836

(۱۱۸۳۷) حدَّثَنَا وَکِیعٌ، عَنْ سُفْیَانَ، عَنْ یَعْقُوبَ الأَحْلاَفِی، قَالَ: أَخْبَرَنِی مَنْ رَأَی زَیْدَ بْنَ أَرْقَمَ حَثَا فِی قَبْرٍ ثَلاَثًا۔
(١١٨٣٧) حضرت یعقوب الاحلافی فرماتے ہیں کہ مجھے اس شخص نے بتلایا جس نے حضرت زید بن ارقم کو قبر میں تین بار مٹی ڈالتے ہوئے دیکھا۔

11837

(۱۱۸۳۸) حدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ یَزِیدَ بْنِ أَبِی زِیَادٍ ، عَن عَمِّہ : أَنَّ عَلِیًا حثی فِی قَبْر۔
(١١٨٣٨) حضرت یزید بن ابی زیاد اپنے چچا سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے قبر پر مٹی ڈالی۔

11838

(۱۱۸۳۹) حدَّثَنَا دَاوُد عن مبارک ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : إِنْ شِئْتَ فَاحْثُ فِی الْقَبْرِ وَإِنْ شِئْتَ فَلاَ تَحْثُ فِیہِ۔
(١١٨٣٩) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ اگر تو چاہے تو قبر پر مٹی ڈال لے، اور اگر نہ چاہے تو مت ڈال۔

11839

(۱۱۸۴۰) حدَّثَنَا مَعْنُ بْنُ عِیسَی ، عَنْ خَالِدِ بْنِ أَبِی بَکْرٍ ، أَنَّہُ رَأَی سَالِمَ بْنَ عَبْدِ اللہِ عَلَی شَفِیرِ قَبْرٍ ، ثُمَّ انْصَرَفَ، وَلَمْ یَحْثُ فِیہِ شَیْئًا مِنْ تُرَابٍ۔
(١١٨٤٠) حضرت خالد بن ابی بکر فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت سالم بن عبداللہ کو قبر کے کنارے کھڑا دیکھا، آپ واپس چلے گئے اور آپ نے قبر پر مٹی بالکل نہ ڈالی۔

11840

(۱۱۸۴۱) حدَّثَنَا الفَضْل بْنُ دُکَیْنٍ ، عَنِ الْحَکَمِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِی نُعْمٍ ، قَالَ : حدَّثَنِی رَجُلٌ مِنْ جُہَیْنَۃَ ، قَالَ : کُنْتُ مَعَ أَبِی ہُرَیْرَۃَ فِی جِنَازَۃٍ فَحَثَی فِی قَبْرِہِ۔
(١١٨٤١) حضرت عبد الرحمن بن ابی نعم فرماتے ہیں کہ مجھ سے جھینہ کے ایک شخص نے ذکر کیا کہ میں حضرت ابوہریرہ کے ساتھ تھا آپ نے قبر پر مٹی ڈالی۔

11841

أَخْبَرَنَا أَبُو مُحَمَّدٍ عَبْدُ اللہِ بْنُ یُونُسَ ، قَالَ : حدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ بَقِیُّ بْنُ مَخْلَدٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا أَبُو بَکْرٍ عَبْدُ اللہِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِی شَیْبَۃَ ، قَالَ : (۱۱۸۴۲) حدَّثَنَا مُعْتَمِرُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنْ عَبْدِ الْکَرِیمِ ، عَنْ مَیْمُونِ بْنِ مِہْرَانَ ، أَنَّہُ أَمَرَ أَنْ یُحْثَی عَلَیْہِ التُّرَابُ حَثْیًا۔
(١١٨٤٢) حضرت عبد الکریم فرماتے ہیں کہ حضرت میمون بن مہران نے حکم دیا تھا کہ ان پر مٹی ڈالی جائے۔

11842

(۱۱۸۴۳) حدَّثَنَا عَثَّامُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ بَہْدَلَۃَ ، قَالَ شَہِدْت عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِیزِ حِینَ دُفِنَ سُنُّ عَلَیْہِ التُّرَابُ سَنًّا۔
(١١٨٤٣) حضرت عاصم بن بھدلہ فرماتے ہیں کہ جس وقت حضرت عمر بن العزیز کو دفن کیا گیا میں اس وقت حاضر تھا آپ پر تھوڑی تھوڑی کر کے مٹی ڈالی گئی۔

11843

(۱۱۸۴۴) حدَّثَنَا عُبَیْد اللہِ بْنِ مُوسَی ، قَالَ : أَخْبَرَنَا إسْرَائِیلُ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ الْمُخْتَارِ ، عَنْ مُعَاوِیَۃَ بْنِ قُرَّۃَ ، قَالَ : حَدَّثَنِی أَبُو کَرْبٍ ، أَوْ أَبُو حَرْبٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو ، أَنَّہُ حَدَّثَہُ ، أَنَّ أَبَاہُ أَوْصَاہُ ، قَالَ : إذَا أَنْتَ وَضَعْتنِی فِی الْقَبْرِ فَسُنَّ علی التُّرَابَ سَنًّا۔
(١١٨٤٤) حضرت عبداللہ بن عمرو سے مروی ہے کہ ان کے والد صاحب نے وصیت فرمائی تھی کہ جب تم لوگ مجھے قبر میں اتارو تو مجھ پر تھوڑی تھوڑی کر کے مٹی ڈالنا۔

11844

(۱۱۸۴۵) حدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ الْحَارِثِ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ جُعِلَ عَلَی لَحْدِہِ طُنُّ قَصَبٍ۔
(١١٨٤٥) حضرت امام شعبی فرماتے ہیں حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی لحد مبارک پر بانسوں کی گٹھری رکھی گئی۔

11845

(۱۱۸۴۶) حدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ أَبِی وَائِلٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُرَحْبِیلَ ، أَنَّہُ قَالَ : اطْرَحُوا عَلَیَّ أَطْنَانًا مِنْ قَصَبٍ ، فَإِنِّی رَأَیْت الْمُہَاجِرِینَ یَسْتَحِبُّونَہُ عَلَی مَا سِوَاہُ۔
(١١٨٤٦) حضرت ابو وائل فرماتے ہیں کہ حضرت عمرو بن شرحبیل فرماتے ہیں (میرے مرنے کے بعد) مجھ پر بانسوں کی گٹھری رکھ دینا، بیشک میں نے دیکھا ہے کہ مہاجرین (صحابہ کرام ) دوسری چیزوں سے زیادہ اس کو پسند فرماتے ہیں۔

11846

(۱۱۸۴۷) حدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، أَنَّہُ کَانَ یَکْرَہُ أَنْ یُجْعَلَ فِی اللَّحْدِ إِلاَّ لَبِنٌ نَظِیفٌ ، قَالَ : وَکَانَ یَکْرَہُ الآجُرَّ ، وَقَالَ : إِنْ لَمْ یَجِدُوا لَبِنًا فَقَصَبٌ۔
(١١٨٤٧) حضرت مغیرہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم اس بات کو ضروری سمجھتے تھے کہ قبر کے اندر پاک اینٹ استعمال کی جائے۔ اور فرماتے ہیں کہ وہ کچی اینٹوں کے رکھنے کو ناپسند فرماتے تھے اور فرماتے تھے اگر اینٹیں نہ ملیں تو لکڑی (بانس) سے کام چلا لو۔

11847

(۱۱۸۴۸) حدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إسْرَائِیلَ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِی مَیْسَرَۃَ ، أَنَّہُ أَوْصَی ، قَالَ : اجْعَلُوا عَلَی قَبْرِی طُنًّا مِنْ قَصَبٍ۔
(١١٨٤٨) حضرت ابو اسحاق فرماتے ہیں کہ حضرت میسرہ نے وصیت فرمائی تھی کہ میری قبر پر لکڑیوں (بانسوں) کی گٹھری رکھ دینا۔

11848

(۱۱۸۴۹) حدَّثَنَا قُرَّۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، أَنَّہُ کَانَ لاَ یَرَی بَأْسًا بِالسَّاجِ وَالْقَصَبِ وَکَرِہَ الآجُرَّ ، یَعْنِی فِی الْقَبْرِ۔
(١١٨٤٩) حضرت ہشام فرماتے ہیں کہ حضرت حسن کوئی حرج نہیں سمجھتے کہ قبر پر ساگوان کی یا بانس کی لکڑی رکھی جائے۔ لیکن پکی اینٹوں کو ناپسند سمجھتے تھے۔

11849

(۱۱۸۵۰) حدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عِیسَی ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ حُسَیْنٍ ، قَالَ نُصِبَ اللَّبِنُ عَلَی قَبْرِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَصَبًا۔ (ابن سعد ۲۹۷)
(١١٨٥٠) حضرت علی بن حسین فرماتے ہیں کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قبر مبارک پر اینٹوں کو گاڑ دیا گیا تھا۔

11850

(۱۱۸۵۱) حدَّثَنَا مُعْتَمِرُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ الْحَسَنِ وَمُحَمَّدٍ قَالاَ : إِنْ شِئْتَ بَنَیْت الْقَبْرَ بِنَائً ، وَإِنْ شِئْتَ نَصَبْت اللَّبِنَ نَصْبًا۔
(١١٨٥١) حضرت حسن اور حضرت محمد فرماتے ہیں کہ اگر چاہو تو اینٹوں کو کھڑا کر کے لگا دو اور اگر چاہو تو ان کو گاڑ دو ۔

11851

(۱۱۸۵۲) حدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ حُسَیْنٍ أَنَّ قَبْرَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَصَبُوا عَلَیہ اللَّبِنَ نَصْبًا۔
(١١٨٥٢) حضرت علی بن حسین فرماتے ہیں کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قبر مبارک پر اینٹوں کو گاڑ دیا گیا تھا۔

11852

(۱۱۸۵۳) حدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ أَبِی جَعْفَرٍ وَسَالِمٍ وَالْقَاسِمِ قَالُوا : کَانَ قَبْرُ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَأَبِی بَکْرٍ وَعُمَرَ جُثًا قِبْلَۃً ، نُصِبَ لَہُمُ اللَّبِنُ نَصْبًا۔
(١١٨٥٣) حضرت ابو جعفر، حضرت سالم اور حضرت قاسم فرماتے ہیں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قبر مبارک، حضرت صدیق اکبر، اور حضرت عمر کی قبر مبارک قبلہ کی طرف جھکی ہوئی (قبلہ رخ) تھیں اور ان پر اینٹیں گاڑ دی گئی تھیں۔

11853

(۱۱۸۵۴) حدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ أَبِی جَعْفَرٍ وَسَالِمٍ وَالْقَاسِمِ قَالُوا : کَانَ قَبْرُ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَأَبِی بَکْرٍ وَعُمَرَ جُثًا قِبْلَۃً۔
(١١٨٥٤) حضرت ابو جعفر، حضرت سالم اور حضرت قاسم فرماتے ہیں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قبر مبارک، حضرت صدیق اکبر، اور حضرت عمر کی قبر مبارک قبلہ کی طرف جھکی ہوئی (قبلہ رخ) تھیں اور ان پر اینٹیں گاڑ دی گئی تھیں۔

11854

(۱۱۸۵۵) حدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ عَامِرٍ ، قَالَ : رَأَیْتُ قُبُورَ شُہَدَائِ جُثًا قَدْ نبتت عَلَیْہَا النَّصِی۔
(١١٨٥٥) حضرت عامر فرماتے ہیں کہ میں نے شہداء کی قبروں کو دیکھا جو جھکی ہوئی تھیں اور ان پر (عمدہ قسم کی) گھاس اگی ہوئی تھی۔

11855

(۱۱۸۵۶) حدَّثَنَا عِیسَی بْنُ یُونُسَ ، عَنْ سُفْیَانَ التَّمَّارِ ، قَالَ : دَخَلَتُ الْبَیْتَ الَّذِی فِیہِ قَبْرُ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَرَأَیْت قَبْرَ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَقَبْرَ أَبِی بَکْرٍ وَعُمَرَ مُسَنَّمَۃً۔ (بخاری۱۳۹۰)
(١١٨٥٦) حضرت سفیان التمار فرماتے ہیں کہ میں اس مکان میں داخل ہوا جس میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قبر مبارک ہے۔ میں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قبر مبارک اور حضرت ابوبکر صدیق، اور حضرت عمر کی قبر کو دیکھا وہ کوہان نما تھیں۔

11856

(۱۱۸۵۷) حدَّثَنَا الأَشْجَعِیُّ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ أَبِی نَعَامَۃَ ، قَالَ شَہِدْت مَعَ مُوسَی بْنِ طَلْحَۃَ جِنَازَۃً ، فَقَالَ : جَمہرُوہ ، جَمہرُوہ ، یَعْنِی سَنِّمُوہُ۔
(١١٨٥٧) حضرت ابی نعامہ فرماتے ہیں کہ میں حضرت موسیٰ بن طلحہ کے ساتھ ایک جنازے میں شریک ہوا آپ نے (جنازے کے بعد) فرمایا اس کی قبر اٹھی ہوئی کوہان نما بناؤ۔

11857

(۱۱۸۵۸) حدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ أَبِی حَصِینٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : رَأَیْتُ قُبُورَ شُہَدَائِ أُحُدٍ جُثًا مُسَنَّمَۃً۔
(١١٨٥٨) حضرت امام شعبی فرماتے ہیں کہ میں شہداء احد کی قبریں دیکھی وہ جھکی ہوئیں کوہان نما تھیں۔

11858

(۱۱۸۵۹) حدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّیَالِسِیُّ ، عَنْ خَالِدٍ بْنِ أَبِی عُثْمَانَ ، عَنْ رَجُلٍ ، قَالَ : رَأَیْتُ قَبْرَ ابْنِ عُمَرَ بَعْدَ مَا دُفِنَ بِأَیَّامٍ مُسَنَّمًا۔
(١١٨٥٩) حضرت خالد بن عثمان ایک شخص سے روایت کرتے ہیں کہ میں حضرت عبداللہ بن عمر کو دفن کرنے کے کچھ دنوں بعد ان کی قبر کو دیکھا تو وہ اٹھی ہوئی کوہان نما تھی۔

11859

(۱۱۸۶۰) حدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُدَیْرٍ ، عَنْ مُحَمَّدٍ ، أَنَّہُ کَرِہَ أَنْ یُعَلَّمَ الْقَبْرُ۔
(١١٨٦٠) حضرت عمران بن حدیر فرماتے ہیں کہ حضرت محمد قبر پر نشانی لگانے کو ناپسند فرماتے تھے۔

11860

(۱۱۸۶۱) حدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، عَنْ سَلِیمِ بْنِ حَیَّانَ، عَنْ حَمَّادٍ، عَنْ إبْرَاہِیمَ، قَالَ: کَانُوا یَکْرَہُونَ أَنْ یُعْلِمَ الرَّجُلُ قَبْرَہُ۔
(١١٨٦١) حضرت سلیم بن حیان، حضرت حماد اور حضرت ابراہیم قبر پر نشانی لگانے کو ناپسند فرماتے تھے۔

11861

(۱۱۸۶۲) حدَّثَنَا أَبُو بَکْرٍ الْحَنَفِیُّ ، عَنْ کَثِیرِ بْنِ زَیْدٍ ، عَنِ الْمُطَّلِبِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ حَنْطَبٍ ، قَالَ : لَمَّا مَاتَ عُثْمَانَ بْنُ مَظْعُونٍ دَفَنَہُ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِالْبَقِیعِ ، وَقَالَ لِرَجُلٍ اذْہَبْ إلَی تِلْکَ الصَّخْرَۃِ فَآتِنِی بِہَا حَتَّی أَضَعَہَا عِنْدَ قَبْرِہِ حَتَّی أُعَرِّفَہُ بِہَا۔ (ابوداؤد ۳۱۹۸)
(١١٨٦٢) حضرت المطلب بن عبداللہ بن حنطب سے مروی ہے کہ جب حضرت عثمان بن مظعون کی وفات ہوئی تو نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو جنت البقیع میں دفن فرمایا اور پھر ایک شخص سے فرمایا : فلاں چٹان کے پاس جا کر ایک پتھر لے کر آؤ تاکہ میں اس کو اس کی قبر پر بطور نشانی نصب کر دوں جس کی وجہ سے اس کو (بعد میں) ہم پہچان لیں۔

11862

(۱۱۸۶۳) حدَّثَنَا أَبُو بَکْرٍ الْحَنَفِیُّ ، عَنْ أَفلَح ، عَنِ الْقَاسِمِ ، أَنَّہُ أَوْصَی ، قَالَ : یَا بُنَیَّ لاَ تَکْتُبْ عَلَی قَبْرِی ، وَلاَ تُشَرِّفَنَّہُ إِلاَّ قَدْرَ مَا یَرُدُّ عَنِّی الْمَائَ۔
(١١٨٦٣) حضرت افلح فرماتے ہیں کہ حضرت قاسم نے وصیت فرمائی کہ اے بیٹے ! میری قبر پر مت لکھنا، اور میری قبر کو زیادہ بلند نہ کرنا مگر اتنا کہ اس سے پانی ہٹ جائے، (پانی نہ روکے) ۔

11863

(۱۱۸۶۴) حدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ ، عَنْ جَابِرٍ ، قَالَ : نَہَی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ یُبْنَی عَلَیْہِ ، وَقَالَ سُلَیْمَانُ بْنُ مُوسَی ، عَنْ جَابِرٍ وَأَنْ یُکْتَبَ عَلَیْہِ۔ (ابوداؤد ۳۲۱۷۔ ترمذی ۱۰۵۲)
(١١٨٦٤) حضرت جابر سے مروی ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قبر پر تعمیر کرنے سے منع فرمایا، اور دوسری روایت میں آیا ہے اس پر لکھنے سے منع فرمایا ہے۔

11864

(۱۱۸۶۵) حدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ حُبَابٍ ، عَنْ مُبَارَکٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، أَنَّہُ کَرِہَ أَنْ یُجْعَلَ اللَّوْحُ عَلَی الْقَبْرِ۔
(١١٨٦٥) حضرت مبارک فرماتے ہیں کہ حضرت حسن قبر پر تختی لگانے کو ناپسند فرماتے تھے۔

11865

(۱۱۸۶۶) حدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، أَنَّہُ کَانَ یَکْرَہُ أَنْ یَجْعَلَ عَلَی الْقَبْرِ مَسْجِدًا۔
(١١٨٦٦) حضرت مغیرہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم قبر پر مسجد بنانے کو ناپسند فرماتے تھے۔

11866

(۱۱۸۶۷) حدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرِِ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ حَمَّادٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ لُحِدَ لِلنَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَرُفِعَ قَبْرُہُ حَتَّی یُعْرَفَ۔
(١١٨٦٧) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیلئے لحد بنائی گئی اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قبر مبارک بلند کی گئی اتنی کہ پہچانی جائے۔

11867

(۱۱۸۶۸) حدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ أُسَامَۃَ بْنِ زَیْدٍ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ أَبِی بَکْرٍ، قَالَ: رَأَیْتُ قَبْرَ عُثْمَانَ بْنِ مَظْعُونٍ مُرْتَفِعًا۔
(١١٨٦٨) حضرت عبداللہ بن ابی بکر فرماتے ہیں کہ میں حضرت عثمان بن مظعون کی قبر دیکھی جو بلند (زمین سے اٹھی ہوئی) تھی۔

11868

(۱۱۸۶۹) حدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا إبْرَاہِیمُ بْنُ عَطَائٍ بْنُ أَبِی مَیْمُونَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، أَنَّ عِمْرَانَ بْنَ حُصَیْنٍ أَوْصَی أَنْ یَجْعَلُوا قَبْرَہُ مُرَبَّعًا ، وَأَنْ یَرْفَعُوہُ أَرْبَعَ أَصَابِعَ ، أَوْ نَحْوَ ذَلِکَ۔
(١١٨٦٩) حضرت عطاء بن ابی میمونہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمران بن حصین نے وصیت فرمائی تھی کہ ان کی قبر کو چوکور بنایا جائے۔ اتنی بلند (اونچی) کہ زمین سے چار انگلیاں اوپر ہو۔

11869

(۱۱۸۷۰) حدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ ابْنِ أَبِی ذِئْبٍ ، عَنِ الْمَقْبُرِیِّ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مِہْرَانَ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، أَنَّہُ أَوْصَی أَنْ لاَ یَضْرِبُوا عَلَی قَبْرِہِ فُسْطَاطًا۔
(١١٨٧٠) حضرت عبد الرحمن بن مہران فرماتے ہیں کہ حضرت ابوہریرہ نے وصیت فرمائی تھی کہ میری قبر پر خیمہ مت لگانا۔

11870

(۱۱۸۷۱) حدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ بْنِ إسْمَاعِیلَ بْنِ مُجَمِّعٍ ، عَنْ عَمَّتِہِ أُمِّ النُّعْمَانِ ، عَنْ بِنْتِ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ ، أَنَّ أَبَا سَعِیدٍ ، قَالَ : لاَ تَضْرِبُوا عَلَی قَبْرِی فُسْطَاطًا۔
(١١٨٧١) حضرت بنت ابی سعید الخدری سے مروی ہے کہ حضرت ابو سعید الخدری نے فرمایا : میری قبر پر خیمہ نہ لگانا۔

11871

(۱۱۸۷۲) حدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ أَبِی عَطَائٍ ، قَالَ : شَہِدْت وَفَاۃَ ابْنِ عَبَّاسٍ فَوَلِیَہُ ابْنُ الْحَنَفِیَّۃِ فَبَنَی عَلَیْہِ بِنَائً ثَلاَثَۃَ أَیَّامٍ۔
(١١٨٧٢) حضرت عمران بن ابی عطائ فرماتے ہیں کہ میں حضرت ابن عباس کی وفات پر حاضر ہوا تو جنازہ اور قبر کا انتظام حضرت ابن الحنفیہ نے کیا، آپ نے ان کی قبر پر تین دن تک خیمہ (گھر) بنایا۔

11872

(۱۱۸۷۳) حدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ أَبِی مَعْشَرٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْکَدِرِ ، أَنَّ عُمَرَ ضَرَبَ عَلَی قَبْرِ زَیْنَبَ فُسْطَاطًا۔
(١١٨٧٣) حضرت محمد بن المنکدر فرماتے ہیں کہ حضرت عمر نے حضرت زینب کی قبر مبارک پر خیمہ لگایا۔

11873

(۱۱۸۷۴) حدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ حُبَابٍ ، عَنْ ثَعْلَبَۃَ ، قَالَ : سَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ کَعْبٍ یَقُولُ : ہَذِہِ الْفَسَاطِیطُ الَّتِی عَلَی الْقُبُورِ مُحْدَثَۃٌ۔
(١١٨٧٤) حضرت ثعلبہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت محمد بن کعب سے سنا آپ فرماتے تھے کہ قبروں پر خیمہ لگانا بدعت ہے۔

11874

(۱۱۸۷۵) حدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا مَنْصُورٌ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : جُعِلَ فِی لَحْدِ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَطِیفَۃٌ حَمْرَائُ کَانَ أَصَابَہَا یَوْمَ خَیبَرَ ، قَالَ : فَجَعَلُوہَا لأَنَّ الْمَدِینَۃَ أَرْضٌ سَبْخَۃٌ۔
(١١٨٧٥) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قبر مبارک میں لال رنگ کا مخمل کا کپڑا رکھا گیا تھا جو غزوہ خیبر کے غنیمت میں آیا تھا، کیونکہ مدینہ کی زمین نمکین اور دل دلی تھی۔

11875

(۱۱۸۷۶) حدَّثَنَا غُنْدَرُ وَوَکِیعٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ أَبِی جَمْرَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، أَنَّہُ وُضِعَ فِی قَبْرِ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَطِیفَۃٌ حَمْرَائُ۔ (مسلم ۹۱۔ احمد ۱/۳۵۵)
(١١٨٧٦) حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قبر مبارک میں لال مخمل کا کپڑا رکھا گیا۔

11876

(۱۱۸۷۷) حدَّثَنَا حَفْصُ ، عَنْ جَعْفَرٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ لُحِدَ لِرَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَأَلْقَی شُقْرَانُ فِی قَبْرِہِ قَطِیفَۃً کَانَ یَرْکَبُ بہا فِی حَیَاتِہِ۔ (ترمذی ۱۰۴۷۔ عبدالرزاق ۶۳۸۷)
ً (١١٨٧٧) حضرت جعفر اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قبر مبارک میں سفید سرخی مائل مخمل کا کپڑا رکھا گیا جو کپڑا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی حیات مبارکہ میں استعمال فرماتے تھے۔

11877

(۱۱۸۷۸) حدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ قَیْسِ بْنِ سُلَیِمٍ ، عَنْ عُمَیْرِ بْنِ سَعِیدٍ ، أَنَّ عَلِیًّا قَامَ عَلَی قَبْرٍ حَتَّی دُفِنَ ، وَقَالَ : لِیَکُنْ لأَحَدِکُمْ قِیَامٌ عَلَی قَبْرِہِ حَتَّی یُدْفَنَ۔
(١١٨٧٨) حضرت عمیر بن سعید فرماتے ہیں کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ ایک قبر پر کھڑے رہے جب تک کہ اس کو دفن نہ کردیا گیا، اور فرمایا : تم میں سے کسی ایک کو چاہیے کہ وہ مردے کو دفنانے تک قبر پر کھڑا رہے۔

11878

(۱۱۸۷۹) حدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ أَبِی قَیْسٍ ، قَالَ : شَہِدْت عَلْقَمَۃَ قَامَ علَی مَیِّتٍ حَتَّی دُفِنَ۔
(١١٨٧٩) حضرت ابو قیس فرماتے ہیں کہ حضرت علقمہ ایک میت کی قبر پر کھڑے رہے یہاں تک کہ اس کو دفن کردیا گیا۔

11879

(۱۱۸۸۰) حدَّثَنَا یَعْلَی بْنُ عُبَیْدٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ ، عَنْ ثُمَامَۃَ ، قَالَ خَرَجْنَا مَعَ فَضَالَۃَ بْنِ عُبَیْدٍ إلَی أَرْضِ الرُّومِ ، قَالَ : وَکَانَ عَامِلاً لِمُعَاوِیَۃَ عَلَی الدَّرْبِ ، فَأُصِیبَ ابْنُ عَمٍّ لَنَا یُقَالُ لَہُ نَافِعٌ ، فَصَلَّی عَلَیْہِ فَضَالَۃُ وَقَامَ عَلَی حَفْرَتِہِ حَتَّی وَارَاہُ۔
(١١٨٨٠) حضرت ثمامہ فرماتے ہیں کہ ہم حضرت فضالہ بن عبید کے ساتھ ملک روم کی طرف گئے، آپ حضرت معاویہ کی طرف سے راستوں کے نگران تھے، آپ کے چچا کے بیٹے حضرت نافع کا انتقال ہوا تو آپ نے اس کی نماز جنازہ پڑھائی اور اس کی قبر پر کھڑے رہے جب تک کہ ان کو دفنا کر لوگ فارغ نہیں ہوگئے۔

11880

(۱۱۸۸۱) حدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ جَرِیرِ بْنِ حَازِمٍ ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ بْنِ عُبَیْدِ بْنِ عُمَیْرِ ، قَالَ : کَانَ عَبْدُ اللہِ بْنُ الزُّبَیْرِ إذَا مَاتَ لہ المیت لَمْ یَزَلْ قَائِمًا حَتَّی یَدْفِنَہُ۔
(١١٨٨١) حضرت عبداللہ بن عبید بن عمیر فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن زبیر جب کوئی شخص فوت ہوتا تو اس کی قبر پر دفنانے تک کھڑے رہتے۔

11881

(۱۱۸۸۲) حدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنِ ابْنِ أَبِی عَرُوبَۃَ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنْ أَبِی قِلاَبَۃَ ، قَالَ : وَاللَّہِ إنَّ قِیَامَہُمْ عَلَی الْقَبْرِ لَبِدْعَۃٌ حَتَّی تُوضَعَ فِی قَبْرِہَا إذَا صُلِّیَ عَلَیْہَا۔
(١١٨٨٢) حضرت ابو قلابہ فرماتے ہیں کہ اللہ کی قسم ! لوگوں کا نماز جنازہ کی ادائیگی کے بعد تدفین تک قبر پر کھڑے ہونا بدعت ہے۔

11882

(۱۱۸۸۳) حدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ ابْنِ عَوْنٍ ، قَالَ : سَأَلْتُ الشَّعْبِیَّ عَنِ الْقِیَامِ لِلْجِنَازَۃِ حَتَّی تُوضَعَ فِی اللَّحْدِ، فَقَالَ: مَا رَأَیْت أَحَدًا یَصْنَعُ ذَلِکَ إِلاَّ أَبَا مَرْحُومٍ ذَاکَ الشَّامِیِّ ، وَکَانُوا یَہْزَؤُونَ بِہِ۔
(١١٨٨٣) حضرت ابن عون فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت شعبی سے دریافت کیا جنازے کے لیے کھڑے رہنا یہاں تک کہ اس کو لحد میں رکھ دیا جائے (کیسا ہے ؟ ) آپ نے فرمایا میں نے کسی کو ایسا کرتے نہیں دیکھا سوائے ابو مرحوم جو کہ شامی تھے اور لوگ ان پر ہنستے تھے۔

11883

(۱۱۸۸۴) حدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنَ دُکَیْنٍ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، أَنَّہُ کَرِہَ الْقِیَامَ عِنْدَ الْقَبْرِ۔
(١١٨٨٤) حضرت مغیرہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم قبر کے پاس کھڑے ہونے کو ناپسند فرماتے تھے۔

11884

(۱۱۸۸۵) حدَّثَنَا مُعْتَمِرُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، قَالَ : ذُکِرَ لِلشَّعْبِیِّ الْقِیَامُ لِلْجِنَازَۃِ حَتَّی تُوضَعَ فَکَأَنَّہُ لَمْ یَعْرِفْ ذَلِکَ ، قَالَ : فَذَکَرْت ذَلِکَ لِمُجَاہِدٍ ، قَالَ : إنَّمَا ذَلِکَ إذَا صُلِّیَ عَلَیْہَا لاَ یَجْلِسُ حَتَّی تُوضَعَ۔
(١١٨٨٥) حضرت ابن عون فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت شعبی سے جنازہ رکھے جانے سے قبل اس کے لیے کھڑے رہنے کے متعلق دریافت کیا تو گویا کہ ان کو اس کے بارے میں علم ہی نہ تھا۔ (وہ اس کو جانتے ہی نہ تھے) ۔ پھر میں نے حضرت مجاہد سے اس کا ذکر کیا آپ نے فرمایا : یہ تب ہے جب اس پر نماز پڑھی گئی ہو تو دفنانے سے پہلے نہ بیٹھا جائے۔

11885

(۱۱۸۸۶) حدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ ، عَنْ جَابِرٍ ، قَالَ : نَہَی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ یُجَصَّصَ الْقَبْرُ وَأَنْ یُقْعَدَ عَلَیْہِ وَأَنْ یُبْنَی عَلَیْہِ۔
(١١٨٨٦) حضرت جابر سے مروی ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قبر پکی کرنے سے منع فرمایا ہے۔ اور اس بات سے کہ اس پر بیٹھا جائے اور اس پر عمارت بنائی جائے۔

11886

(۱۱۸۸۷) حدَّثَنَا مُعْتَمِرُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ ثَابِتِ بْنِ زَیْدٍ ، قَالَ : حَدَّثَتْنِی حَمَادَۃُ ، عَنْ أُنَیْسَۃَ بِنْتِ زَیْدِ بْنِ أَرْقَمَ ، قَالَتْ : مَاتَ ابْنٌ لِزَیْدٍ یُقَالُ لَہُ سُوَیْد ، فَاشْتَرَی غُلاَمٌ لَہُ ، أَوْ جَارِیَۃٌ جِصًّا وَآجُرًّا ، فَقَالَ لَہُ زَیْدٌ : مَا تُرِیدُ إلَی ہَذَا ، قَالَ : أَرَدْت أَنْ أَبْنِیَ قَبْرَہُ وَأُجَصِّصَہُ ، قَالَ : حَقِرْت ونَقِرْت لاَ تُقَرِّبْہُ شَیْئًا مَسَّتْہُ النَّارُ۔
(١١٨٨٧) حضرت انیسہ بنت زید بن ارقم فرماتی ہیں کہ حضرت زید کے بیٹے حضرت سوید کا انتقال ہوا تو ان کے لیے ایک غلام یا باندی نے چونا اور اینٹیں (پکی) خریدیں۔ حضرت زید نے فرمایا ان چیزوں سے کیا کرنے کا ارادہ ہے ؟ انھوں نے کہا قبر پر عمارت بنانے اور اس کو پکی کرنے کا ارادہ ہے، آپ نے فرمایا تیرا ستیاناس ہو، ہر وہ چیز جس کو آگ نے چھوا ہے اس کو اس میت کے قریب مت لاؤ۔

11887

(۱۱۸۸۸) حدَّثَنَا حُمَیْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ حَسَنِ بْنِ صَالِحٍ ، عَنْ عیسی بنِ أَبِی عَزَّۃَ ، قَالَ : سَمِعْتُہ ینہَی عَنْ تَجْصِیصِ الْقَبْرِ ، قَالَ : لاَ تُجَصِّصُوہُ۔
(١١٨٨٨) حضرت حسن بن صالح فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عیسیٰ بن ابی عزہ سے قبروں کو پکی کرنے کی ممانعت سنی ہے وہ فرماتے ہیں قبریں پکی مت کرو۔

11888

(۱۱۸۸۹) حدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مُحَمَّد ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ خَیْثَمَۃَ ، عَنْ سُوَیْد بْنِ غَفَلَۃَ ، قَالَ : إذَا أَنَا مِتُّ فَلاَ تُؤْذِنُوا بِی أَحَدًا ، وَلاَ تُقَرِّبُونِی جِصًّا ، وَلاَ آجُرًّا ، وَلاَ عُودًا ، وَلاَ تَصْحَبُنِی امْرَأَۃٌ۔
(١١٨٨٩) حضرت سوید بن غفلہ فرماتے ہیں کہ جب میں مر جاؤں تو مجھے کوئی شخص تکلیف نہ پہنچائے، میرے قریب چونے، پکی اینٹ اور لکڑی نہ لائے، اور میرے ساتھ عورت نہ جائے، (جنازے میں) ۔

11889

(۱۱۸۹۰) حدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، أَخْبَرَنَا مُغِیرَۃُ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، أَنَّہُ کَانَ یَکْرَہُ الآجُرَّ۔
(١١٨٩٠) حضرت مغیرہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم پکی اینٹوں کو ناپسند فرماتے تھے۔

11890

(۱۱۸۹۱) حدَّثَنَا ابْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : کَانُوا یَکْرَہُونَ الآجُرَّ فِی قُبُورِہِمْ۔
(١١٨٩١) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ (صحابہ کرام ) اپنی قبروں میں پکی اینٹ کو ناپسند فرماتے تھے۔

11891

(۱۱۸۹۲) حدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : کَانُوا یَسْتَحِبُّونَ اللَّبِنَ وَیَکْرَہُونَ الآجُرَّ وَیَسْتَحِبُّونَ الْقَصَبَ وَیَکْرَہُونَ الْخَشَبَ۔
(١١٨٩٢) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ وہ (صحابہ کرام ) کچی اینٹ کو پسند فرماتے تھے اور پکی اینٹوں کو ناپسند کرتے تھے، اور بانس کو پسند کرتے اور دوسری لکڑی کو ناپسند کرتے تھے۔

11892

(۱۱۸۹۳) حدَّثَنَا أَبُو بَکْرٍ ، عَنْ أَبِی حَصِینٍ ، عَنْ أَبِی سَعِیدٍ ، قَالَ : کُنْتُ أَمْشِی مَعَ عَبْدِ اللہِ فِی الْجَبَّانَۃِ ، فَقَالَ : لأَنْ أَطَأَ عَلَی جَمْرَۃٍ حَتَّی تُطْفَأَ أَحَبُّ إلَیَّ مِنْ أَنْ أَطَأَ عَلَی قَبْرٍ۔
(١١٨٩٣) حضرت ابو سعید فرماتے ہیں کہ میں حضرت عبداللہ کے ساتھ جبانہ میں چل رہا تھا، آپ نے فرمایا : میں انگاروں پر چلوں جس سے وہ بجھ جائیں یہ مجھے زیادہ پسند ہے اس بات سے کہ میں قبروں کو روندوں۔

11893

(۱۱۸۹۴) حدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ عُیَیْنَۃَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ أَبِی بَکْرَۃَ ، قَالَ : لأَنْ أَطَأَ عَلَی جَمْرَۃٍ حَتَّی تُطْفَأَ أَحَبُّ إلَیَّ مِنْ أَنْ أَطَأَ عَلَی قَبْرٍ۔
(١١٨٩٤) حضرت ابی بکرہ فرماتے ہیں کہ انگاروں پر چل چل کر ان کو بجھا دیا جائے یہ مجھے زیادہ پسند ہے اس سے کہ قبر کو پاؤں سے روندا جاؤں۔

11894

(۱۱۸۹۵) حدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ ، عَنْ سَالِمِ أَبِی عَبْدِ اللہِ الْبَرَّادُ ، قَالَ : سَمِعْتُ ابْنَ مَسْعُودٍ یَقُولُ لأَنْ أَطَأَ عَلَی جَمْرَۃٍ أَحَبُّ إلَیَّ مِنْ أَنْ أَطَأَ عَلَی قَبْر رَجُلٍ مُسْلِمٍ۔
(١١٨٩٥) حضرت سالم ابی عبداللہ البراد فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن مسعود سے سنا آپ فرماتے ہیں میں انگاروں پر چلوں جس سے وہ بجھ جائیں یہ مجھے زیادہ پسند ہے اس بات سے کہ میں کسی مسلمان کی قبر کو روندوں۔

11895

(۱۱۸۹۶) حدَّثَنَا شَبَابَۃُ ، عَنْ لَیْثِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ یَزِیدَ ، أَنَّ أَبَا الْخَیْرِ أَخْبَرَہُ ، أَنَّ عُقْبَۃَ بْنَ عَامِرٍ ، قَالَ : لأَنْ أَطَأَ عَلَی جَمْرَۃٍ ، أَوْ عَلَی حَدِّ سَیْفٍ حَتَّی تُخْتَطَفَ رِجْلَیَّ أَحَبُّ إلَیَّ مِنْ أَنْ أَمْشِیَ عَلَی قَبْرِ رَجُلٍ مُسْلِمٍ وَمَا أُبَالِی أَفِی الْقُبُورِ قَضَیْت حَاجَتِی أَمْ فِی السُّوقِ بَیْنَ ظَہْرَانِیہِ وَالنَّاسُ یَنْظُرُونَ۔
(١١٨٩٦) حضرت عقبہ بن عامر فرماتے ہیں کہ میں آگ کے انگاروں پر یا تلوار کی دھار پر چلوں یہاں تک کہ میرے پاؤں جھلس جائیں یہ مجھے زیادہ پسند ہے اس بات سے کہ میں کسی مسلمان کی قبر پر چلوں۔ میرے نزدیک قبرستان میں رفع حاجت کرنا اور بازار میں لوگوں کے درمیان جبکہ لوگ دیکھ رہے ہوں برابر ہے۔

11896

(۱۱۸۹۷) حدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ الْحَسَنِ وَمُحَمَّدٍ أَنَّہُمَا کَانَ یَکْرَہَانِ الْقُعُودَ عَلَیْہَا وَالْمَشْیَ عَلَیْہَا۔
(١١٨٩٧) حضرت حسن اور حضرت محمد قبروں پر بیٹھنے اور ان کے اوپر سے چلنے کو ناپسند فرماتے تھے۔

11897

(۱۱۸۹۸) حدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرِِ ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُدَیْرٍ ، عَنْ أَبِی الْعَلاَئِ بْنِ الشِّخِّیرِ ، قَالَ : فُلاَن ، تَمْشُونَ عَلَی قُبُورِکُمْ ؟ قُلْتُ : نَعَمْ ، قَالَ : کَیْفَ تُمْطَرُونَ۔
(١١٨٩٨) حضرت عمران بن حدیر فرماتے ہیں کہ حضرت العلاء بن الشخیر نے فرمایا : فلاں تم اپنی قبروں کے اوپر سے گزرتے (چلتے) ہو ؟ میں نے کہا ہاں۔ آپ نے فرمایا : پھر تم پر بارش کس طرح برسائی جاتی ہے۔

11898

(۱۱۸۹۹) حدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِی یَحْیَی ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : کُنْتُ أَتْبَعُ أَبَا ہُرَیْرَۃَ فِی الْجَنَائِزِ ، فَکَانَ یَتقَصَّی الْقُبُورَ ، قَالَ : لأَنْ یَجْلِسَ أَحَدُکُمْ عَلَی جَمْرَۃٍ فَتُحْرِقَ ثِیَابَہُ ، ثُمَّ قَمِیصَہُ ، ثُمَّ إزَارَہُ حَتَّی تَخْلُصَ إلَی جِلْدِہِ أَحَبُّ إلَیَّ مِنْ أَنْ یَجْلِسَ عَلَی قَبْرٍ۔ (مسلم ۹۶۔ ابوداؤد ۳۲۲۰)
(٩٩ ١١٨) حضرت محمد بن ابی یحییٰ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ میں حضرت ابوہریرہ کے پیچھے ایک جنازے کے ساتھ جا رہا تھا، آپ قبروں سے دور تھے، (تاکہ کسی قبر پر پاؤں وغیرہ نہ آجائے) اور فرمایا : تم میں سے کوئی شخص آگ کے انگارے پر بیٹھے جس سے اس کے کپڑے، قمیص پھر شلوار جل جائے یہاں تک کہ آگ بدن تک پہنچ جائے یہ مجھے زیادہ پسند ہے اس بات سے کہ کوئی شخص قبر پر بیٹھے۔

11899

(۱۱۹۰۰) حدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ بُرْدٍ ، عَنْ مَکْحُولٍ ، أَنَّہُ کَانَ یَکْرَہُ الْقُعُودَ عَلَی الْقُبُورِ أَوْ یُمْشی عَلَیْہَا۔
(١١٩٠٠) حضرت برد فرماتے ہیں کہ حضرت مکحول قبروں پر بیٹھنے اور ان کے اوپر سے گذرنے کو ناپسند کرتے تھے۔

11900

(۱۱۹۰۱) حدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ ، عَنْ جَابِرٍ ، قَالَ : نَہَی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ یُقْعَدَ عَلَیْہَا۔
(١١٩٠١) حضرت جابر سے مروی ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قبروں پر بیٹھنے سے منع فرمایا۔

11901

(۱۱۹۰۲) حدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ ، عَنِ الْعَلاَئِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ، عَنْ فُضَیْلٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، قَالَ : لاَ یُحْدَثُ وَسَطَ مَقْبَرَۃٍ ، وَلاَ یَبُولُ فِیہَا۔
(١١٩٠٢) حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ مقبروں کے درمیان قضائے حاجت یا پیشاب مت کرو۔

11902

(۱۱۹۰۳) حدَّثَنَا شَبَابَۃُ ، عَنْ لَیْثِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ یَزِیدَ ، أَنَّ أَبَا الْخَیْرِ أَخْبَرَہُ ، أَنَّ عُقْبَۃَ بْنَ عَامِرٍ ، قَالَ : مَا أُبَالِی فِی الْقُبُورِ قَضَیْت حَاجَتِی ، أَوْ فِی السُّوقِ وَالنَّاسُ یَنْظُرُونَ۔
(١١٩٠٣) حضرت عقبہ بن عامر فرماتے ہیں کہ مجھے اس بات کی کوئی پروا نہیں ہے کہ میں قبروں کے درمیان قضائے حاجت کروں یا بازار میں اور لوگ مجھے دیکھ رہے ہوں۔

11903

(۱۱۹۰۴) حدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ أَبِی سُلَیْمَانَ ، عَنْ أَبِی عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ زَاذَانَ ، قَالَ : کَانَ عَلِیٌّ إذَا دَخَلَ الْمَقَابِرَ ، قَالَ : السَّلاَمُ عَلَی مَنْ فِی ہَذِہِ الدِّیَارِ مِنَ الْمُؤْمِنِینَ وَالْمُسْلِمِینَ أَنْتُمْ لَنَا فَرَطٌ وَنَحْنُ لَکُمْ تَبَعٌ ، وَإِنَّا بِکُمْ لَلاَحِقُونَ ، فَإِنَّا لِلَّہِ وَإِنَّا إلَیْہِ رَاجِعُونَ۔
(١١٩٠٤) حضرت زاذان فرماتے ہیں کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کسی قبرستان میں داخل ہوتے تو یہ دعا پڑھتے۔ اس جگہ کے مومنوں اور مسلمانوں تم پر سلامتی ہو، تم پہلے چلے گئے ہم تمہارے بعد آئیں گے اور تم سے مل جائیں گے۔ ہم سب اللہ کے لیے ہیں اور ہمیں اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔

11904

(۱۱۹۰۵) حدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنِ الأَجْلَحِ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ شَرِیکٍ ، عَنْ جُنْدُبٍ الأَزْدِیِّ ، قَالَ خَرَجْنَا مَعَ سَلْمَانَ إلَی الحیرۃ حَتَّی إذَا انْتَہَیْنَا إلَی الْقُبُورِ الْتَفَتَ عَنْ یَمِینِہِ ، فَقَالَ : السَّلاَمُ عَلَیْکُمْ یَا أَہْلَ الدِّیَارِ مِنَ الْمُؤْمِنِینَ وَالْمُؤْمِنَاتِ ، أَنْتُمْ لَنَا فَرَطٌ وَنَحْنُ لَکُمْ تَبَعٌ ، وَإِنَّا عَلَی آثَارِکُمْ وَارِدُونَ۔
(١١٩٠٥) حضرت جندب الازدی فرماتے ہیں کہ میں حضرت سلمان کے ساتھ حیرہ کی طرف گیا جب ہم قبرستان پہنچے تو آپ اپنی داہنی جانب متوجہ ہوئے اور دعا پڑھی : اس جگہ کے مومن مردوں اور عورتوں ! تم پر سلامتی ہو، تم پہلے چلے گئے ہم بعد میں آئیں گے اور تمہارے نشان قدم پر چلتے ہوئے آئیں گے۔

11905

(۱۱۹۰۶) حدَّثَنَا جَرِیرُ بْنُ عَبْدِ الْحَمِیدِ ، عَنْ عَبْدِ الأَعْلَی ، عَنْ خَیْثَمَۃَ وَالْمُسَیَّبِ ، وَعَنْ لَیْثٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ أَنَّہُمْ کَانُوا یُسَلِّمُونَ عَلَی الْقُبُورِ۔
(١١٩٠٦) حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ وہ (صحابہ کرام ) قبروں کو سلام کیا کرتے تھے۔

11906

(۱۱۹۰۷) حدَّثَنَا سَہْلُ بْنُ یُوسُفَ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، عَنْ مُحَمَّدٍ ، قَالَ : لاَ أَعْلَمُ بَأْسًا أَنْ یَأْتِیَ الرَّجُلُ الْقَبْرَ فَیُسَلِّمُ عَلَیْہِ۔
(١١٩٠٧) حضرت محمد فرماتے ہیں کہ اس میں کوئی حرج نہیں کہ کوئی شخص قبر پر آئے اور اس کو سلام کرے۔

11907

(۱۱۹۰۸) حدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ آدَمَ ، عَنْ زُہَیْرٍ ، عَنْ مُوسَی بْنِ عُقْبَۃَ ، أَنَّہُ رَأَی سَالِمَ بْنِ عَبْدِ اللہِ لاَ یَمُرُّ بِلَیْلٍ ، وَلاَ نَہَارٍ بِقَبْرٍ إِلاَّ سَلَّمَ عَلَیْہِ وَنَحْنُ مُسَافِرُونَ مَعَہُ یَقُولُ السَّلاَمُ عَلَیْکُمْ فَقُلْت لَہُ فِی ذَلِکَ فَأَخْبَرَنِیہِ ، عَنْ أَبِیہِ ، أَنَّہُ کَانَ یَصْنَعُ ذَلِکَ۔
(١١٩٠٨) حضرت موسیٰ بن عقبہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت سلام بن عبداللہ کو دیکھا دن ہو یا رات وہ جس قبر کے پاس سے بھی گزرتے تو اس کو سلام کرتے، اور ہم آپ کے ساتھ سفر کر رہے تھے، آپ فرماتے السَّلاَمُ عَلَیْکُمْ میں نے آپ سے اس کے متعلق دریافت کیا ؟ تو مجھے اس کے بارے میں بتلایا کہ ان کے والد صاحب اس طرح کرتے تھے۔

11908

(۱۱۹۰۹) حدَّثَنَا مُعَاوِیَۃُ بْنُ ہِشَامٍ ، حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ عَلْقَمَۃَ بْنِ مَرْثَدٍ ، عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ بُرَیْدَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُعَلِّمُہُمْ إذَا خَرَجُوا إلَی الْمَقَابِرِ ، فَکَانَ قَائِلُہُمْ یَقُولُ : السَّلاَمُ عَلَیْکُمْ یَا أَہْلَ الدِّیَارِ مِنَ الْمُؤْمِنِینَ وَالْمُسْلِمِینَ ، وَإِنَّا إِنْ شَائَ اللَّہُ بِکُمْ لَلاَحِقُونَ ، أَنْتُمْ لَنَا فَرَطٌ ، وَنَحْنُ لَکُمْ تَبَعٌ ، وَنَسْأَلُ اللَّہَ لَنَا وَلَکُمُ الْعَافِیَۃَ۔ (ابوداؤد ۳۲۳۰۔ احمد ۳۵۳)
(١١٩٠٩) حضرت سلیمان بن بریدہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ کرام کو تعلیم دی تھی کہ جب وہ قبرستان جائیں تو یوں کہیں : اس جگہ کے مومن اور مسلم لوگو ! تم پر سلامتی ہو، اگر اللہ نے چاہا تو ہم تمہارے ساتھ آ ملنے والے ہیں، تم پہلے گئے ہم بعد میں آئیں گے، ہم اللہ سے اپنے لیے اور تمہارے لیے عافیت کا سوال کرتے ہیں۔

11909

(۱۱۹۱۰) حدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ بْنُ مُوسَی ، عَنِ ابْنِ أَبِی ذِئْبٍ ، عَنْ قُرَّۃَ ، عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ أبِیہِ ، أَنَّہُ کَانَ یَرْجِعُ مِنْ ضَیْعَتِہِ فَیَمُرُّ بِقُبُورِ الشُّہَدَائِ فَیَقُولُ : السَّلاَمُ عَلَیْکُمْ وَإِنَّا بِکُمْ لَلاَحِقُونَ ، ثُمَّ یَقُولُ لأَصْحَابِہِ : أَلاَ تُسَلِّمُونَ عَلَی الشُّہَدَائِ فَیَرُدُّونَ عَلَیْکُمْ۔
(١١٩١٠) حضرت عامر بن سعد اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ جب وہ ضیعہ (گاؤں) سے واپس آئے تو شھداء کی قبروں کے پاس سے گزرے تو کہنے لگے۔ السَّلاَمُ عَلَیْکُمْ وَإِنَّا بِکُمْ لَلاَحِقُونَ پھر اپنے ساتھیوں سے فرمایا : تم نے شہداء کو سلام کیوں نہ کیا تاکہ وہ تمہیں جواب دیتے ؟۔

11910

(۱۱۹۱۱) حدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ الْحَسَنِ الْجَارِی ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ سَعْدٍ الْجَارِی ، قَالَ : قَالَ لِی أَبُو ہُرَیْرَۃَ یَا عَبْدَ اللہِ إذَا مَرَرْت بِالْقُبُورِ قَدْ کُنْت تَعْرِفُہُمْ فَقُلْ : السَّلاَمُ عَلَیْکُمْ أَصْحَابَ الْقُبُورِ ، وَإِذَا مَرَرْت بِالْقُبُورِ لاَ تَعْرِفُہُمْ فَقُلْ : السَّلاَمُ عَلَی الْمُسْلِمِینَ۔
(١١٩١١) حضرت عبداللہ بن سعد الجاری فرماتے ہیں کہ مجھ سے حضرت ابوہریرہ نے فرمایا : اے عبداللہ ! جب تم کسی ایسی قبر کے پاس سے گزرو جس کو تم جانتے ہو تو یوں کہو : السَّلاَمُ عَلَیْکُمْ أَصْحَابَ الْقُبُورِ اور جب کسی ایسی قبر پر گزر ہو جس کو تم نہیں جانتے تو یوں کہو : السَّلاَمُ عَلَی الْمُسْلِمِینَ ۔

11911

(۱۱۹۱۲) حدَّثَنَا ہَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ حدَّثَنَا الْحَکَمُ بْنُ فَصِیل ، عَنْ یَعْلَی بْنِ عَطَائٍ ، عَنْ عُبَیْدِ بْنِ جُبَیْرٍ ، عَنْ أَبِی مُوَیْہِبَۃَ مَوْلَی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : أُمِرَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ یَخْرُجَ إلَی الْبَقِیعِ فَیُصَلِّیَ عَلَیْہِمْ ، أَوْ یُسَلِّمَ عَلَیْہِمْ۔ (احمد ۳/۴۸۹۔ دارمی ۷۸)
(١١٩١٢) حضرت ابو مویھبہ جو رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے غلام تھے فرماتے ہیں کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا گیا کہ آپ جنت البقیع جائیں اور مردوں پر نماز پڑھیں یا ان پر سلام پڑھیں۔

11912

(۱۱۹۱۳) حدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ حَمَّادٍ ، أَنَّہُ سُئِلَ عَنِ التَّسْلِیمِ عَلَی الْقُبُورِ ، فَقَالَ : مَا کَانَ مِنْ صَنِیعِہِمْ۔
(١١٩١٣) حضرت حماد فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم سے قبروں کو سلام کرنے کے متعلق دریافت کیا ؟ آپ نے فرمایا : یہ ان کے (صحابہ کرام کے) طریقوں میں سے نہیں ہے۔

11913

(۱۱۹۱۴) حدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ الْحَارِثِ ، قَالَ : سُئِلَ ہِشَامُ أَکَانَ عُرْوَۃُ یَأْتِی قَبْرَ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَیُسَلِّمُ عَلَیْہِ ؟ قَالَ : لاَ۔
(١١٩١٤) حضرت خالد بن حارث فرماتے ہیں کہ حضرت ہشام سے سوال کیا گیا کیا حضرت عروہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قبر مبارک پر آ کر سلام عرض کرتے تھے ؟ آپ نے فرمایا کہ نہیں۔

11914

(۱۱۹۱۵) حدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، أَنَّہُ کَانَ إذَا أَرَادَ أَنْ یَخْرُجَ دَخَلَ الْمَسْجِدَ فَصَلَّی ، ثُمَّ أَتَی قَبْرَ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : السَّلاَمُ عَلَیْکَ یَا رَسُولَ اللہِ السَّلاَمُ عَلَیْکَ یَا أَبَا بَکْرٍ السَّلاَمُ عَلَیْک یَا أَبَتَاہُ ، ثُمَّ یکون وَجْہَہُ وَکَانَ إذَا قَدِمَ مِنْ سَفَرٍ أَتَی المسجد فَفَعَلَ ذَلِکَ قَبْلَ أَنْ یَدْخُلَ مَنْزِلَہُ۔
(١١٩١٥) حضرت نافع فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمر جب مسجد نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں داخل ہونے لگتے تو نماز ادا کرتے پھر روضہ رسول پر آتے اور یوں سلام پیش فرماتے : السَّلاَمُ عَلَیْکَ یَا رَسُولَ اللہِ السَّلاَمُ عَلَیْکَ یَا أَبَا بَکْرٍ السَّلاَمُ عَلَیْک یَا أَبَتَاہُ پھر دوسرے کاموں کی طرف متوجہ ہوجاتے، اسی طرح جب آپ سفر سے تشریف لاتے تو گھر داخل ہونے سے پہلے یہ کام کرتے۔

11915

(۱۱۹۱۶) حدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ ، عَنْ ثُمَامَۃَ بْنِ شُفَیٍّ ، قَالَ : خَرَجْنَا غُزَاۃً فِی زَمَانِ مُعَاوِیَۃَ إلَی ہَذَا الدَّرْبِ وَعَلَیْنَا فَضَالَۃُ بْنُ عُبَیْدٍ ، قَالَ فَتُوُفِّیَ ابْنُ عَمٍّ لِی یُقَالُ لَہُ نَافِعٌ فَقَامَ مَعَنَا فَضَالَۃُ عَلَی حُفْرَتِہِ ، فَلَمَّا دَفَنَّاہُ ، قَالَ : خَفِّفُوا عَنْ حُفْرَتِہِ فَإِنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یَأْمُرُ بِتَسْوِیَۃِ الْقُبُورِ۔ (احمد ۶/۱۸۔ بیہقی ۴۱۱)
(١١٩١٦) حضرت ثمامہ بن شفی فرماتے ہیں کہ ہم حضرت معاویہ کے دور میں غزوہ (جنگ) کے لیے اس شہر سے نکلے، ہمارے ساتھ حضرت فضالہ بن عبید بھی تھے، آپ کے چچا کے لڑکے حضرت نافع انتقال کر گئے، حضرت فضالہ ہمارے ساتھ آپ کی قبر پر کھڑے ہوئے، جب ہم نے اس کو دفن کردیا، تو آپ نے فرمایا اس کی قبر ہلکی اور برابر کرو، بیشک رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قبروں کو برابر کرنے کا حکم دیا ہے۔

11916

(۱۱۹۱۷) حدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، أَخْبَرَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ کَثِیرٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ شُرَحْبِیلَ ، أَنَّ عُثْمَانَ خَرَجَ فَأَمَرَ بِتَسْوِیَۃِ الْقُبُورِ فَسُوِّیَتْ إِلاَّ قَبْرَ أُمِّ عَمْرٍو ، ابْنَۃ عُثْمَانَ ، فَقَالَ : مَا ہَذَا الْقَبْرُ فَقَالُوا : قَبْرُ أُمِّ عَمْرٍو فَأَمَرَ بِہِ فَسُوِّیَ۔
(١١٩١٧) حضرت عبداللہ بن شرحبیل فرماتے ہیں کہ حضرت عثمان نکلے اور قبروں کو برابر کرنے کا حکم فرمایا : ہم نے تمام قبریں برابر کردیں سوائے ام عمرو بنت عثمان کی قبر کے، آپ نے پوچھا یہ کس کی قبر ہے ؟ لوگوں نے عرض کیا ام عمرو کی قبر ہے، آپ نے اس کو بھی برابر کرنے کا حکم فرمایا چنانچہ وہ بھی برابر کردی گئی۔

11917

(۱۱۹۱۸) حدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ، عَنْ أَشْعَثَ، عَنِ ابْنِ أَشْوَعَ، عَنْ حَنَشٍ الْکِنَانِیِّ، قَالَ: دَخَلَ عَلَی عَلِیٍّ صَاحِبَ شُرَطِہِ ، فَقَالَ : انْطَلِقْ فَلاَ تَدَعْ زُخْرُفًا إِلاَّ أَلْقَیْتَہُ ، وَلاَ قَبْرًا إِلاَّ سَوَّیْتَہُ ، ثُمَّ دَعَاہُ ، فَقَالَ : ہَلْ تَدْرِی إلَی أَیْنَ بَعَثْتُک بَعَثْتُک إلَی مَا بَعَثَنِی عَلَیْہِ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔ (ابوداؤد ۳۲۱۰۔ احمد ۱/۱۴۵)
(١١٩١٨) حضرت حنش الکنانی فرماتے ہیں کہ سپاہی والا حضرت علی کے پاس آیا، آپ کو اس نے فرمایا، چلتا جا، کوئی سامان نہ چھوڑنا مگر اٹھا لینا، اور کوئی قبر بغیر برابر کیے نہ چھوڑنا، آپ نے اس کو بلا کر پوچھا کہ تجھے معلوم ہے میں نے تجھے کس کام کیلئے بھیجا ہے ؟ اس کام کیلئے بھیجا ہے جس کام کیلئے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے بھیجا تھا۔

11918

(۱۱۹۱۹) حدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ أَبِی فَزَارَۃَ ، عَنْ مَوْلًی لاِبْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : قَالَ لِی ابْنُ عَبَّاسٍ إذَا رَأَیْت الْقَوْمَ قَدْ دَفَنُوا مَیِّتًا فَأَحْدَثُوا فِی قَبْرِہِ مَا لَیْسَ فِی قُبُورِ الْمُسْلِمِینَ فَسَوِّہِ بِقُبُورِ الْمُسْلِمِینَ۔
(١١٩١٩) حضرت ابن عباس کے غلام فرماتے ہیں مجھ سے حضرت عبداللہ بن عباس نے فرمایا : جب تو کسی قوم کو دیکھے جس نے مردے کو دفن کر کے قبر ایسی بنائی ہو جو مسلمانوں کی قبروں کی طرح نہ ہو تو تم اس کو مسلمانوں کی قبروں کے برابر کردو۔

11919

(۱۱۹۲۰) حدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُدَیْرٍ ، عَنْ أَبِی مِجْلَزٍ ، قَالَ : تَسْوِیَۃُ الْقُبُورِ مِنَ السُّنَّۃِ۔
(١١٩٢٠) حضرت ابو مجلز فرماتے ہیں کہ قبروں کر برابر کرنا سنت میں سے ہے۔

11920

(۱۱۹۲۱) حدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُدَیْرٍ ، عَنْ أَبِی مِجْلَزٍ مِثْلَہُ۔
(١١٩٢١) حضرت ابو مجلز سے اسی کے مثل منقول ہے۔

11921

(۱۱۹۲۲) حدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ مَنْصُورِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، قَالَ : قَالَ رَجُلٌ لِلشَّعْبِیِّ رَجُلٌ دَفَنَ مَیِّتًا فَسُوِّیَ قَبْرُہُ بِالأَرْضِ ، فَقَالَ : أَتَیْتُ عَلَی قُبُورِ شُہَدَائِ أُحُدٍ فَإِذَا ہِیَ مُشَخَّصَۃٌ مِنَ الأَرْضِ۔
(١١٩٢٢) حضرت منصور بن عبد الرحمن فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے حضرت امام شعبی سے عرض کیا ایک شخص نے اپنی میت کو دفن کای اور اس کی قبر زمین کے برابر بنائی (کیا درست ہے ؟ ) آپ نے فرمایا میں نے شھدائے احد کی قبریں دیکھی ہیں وہ زمین سے بلند اوپر اٹھی ہوئی ہیں۔

11922

(۱۱۹۲۳) حدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، قَالَ : سُئِلَ مُحَمَّدُ بْنُ سِیرِینَ ہَلْ تُطَیَّنُ الْقُبُورُ ؟ فَقَالَ : لاَ أَعْلَمُ بِہِ بَأْسًا۔
(١١٩٢٣) حضرت ابن عون فرماتے ہیں کہ حضرت محمد بن سیرین سے قبر کو لیپنے کے بارے میں سوال کیا گیا ؟ آپ نے فرمایا میں اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتا۔

11923

(۱۱۹۲۴) حدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، أَنَّہُ کَانَ یَکْرَہُ تَطْیِینَ الْقُبُورِ۔
(١١٩٢٤) حضرت یونس فرماتے ہیں کہ حضرت حسن قبروں کے لیپنے کو ناپسند فرماتے تھے۔

11924

(۱۱۹۲۵) حدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ بُرْدٍ ، عَنْ مَکْحُولٍ ، أَنَّہُ کَرِہَہُ۔
(١١٩٢٥) حضرت برد فرماتے ہیں کہ حضرت مکحول قبروں کے لیپنے کو ناپسند فرماتے تھے۔

11925

(۱۱۹۲۶) حدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ أَبِی سِنَانٍ ، عَنْ مُحَارِبِ بْنِ دِثَارٍ ، عَنِ ابْنِ بُرَیْدَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : کُنْت نَہَیْتُکُمْ عَنْ زِیَارَۃِ الْقُبُورِ فَزُورُوہَا۔ (ابوداؤد ۳۲۲۷)
(١١٩٢٦) حضرت ابو بریدہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : میں نے پہلے تمہیں قبروں کی زیارت کرنے سے منع کیا تھا، پس اب تم زیارت کیا کرو۔

11926

(۱۱۹۲۷) حدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ الْحَارِثِ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ عَامِرٍ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ ، قَالَ : نَہَی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ زِیَارَۃِ الْقُبُورِ ، ثُمَّ قَالَ : زُورُوہَا ، وَلاَ تَقُولُوا ہُجْرًا۔ (احمد ۳/۲۵۰۔ حاکم ۳۷۶)
(١١٩٢٧) حضرت انس بن مالک فرماتے ہیں کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے زیارت قبور سے منع فرمایا، پھر (بعد میں) فرمایا قبروں کی زیارت کرلیا کرو اور بیہودہ کلام مت کرو۔

11927

(۱۱۹۲۸) حدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَۃَ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ زَیْدٍ ، عَنْ رَبِیعَۃَ بْنِ النَّابغَۃِ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ عَلِیٍّ ، قَالَ : نَہَی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، عَنْ زِیَارَۃِ الْقُبُورِ ، ثُمَّ قَالَ : إنِّی کُنْت نَہَیْتُکُمْ عَنْ زِیَارَۃِ الْقُبُورِ فَزُورُوہَا تُذَکِّرْکُمُ الآخِرَۃَ۔ (احمد ۱/۱۴۵۔ ابویعلی ۲۷۸)
(١١٩٢٨) حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قبروں کی زیارت سے منع فرمایا تھا، پھر (بعد میں) ارشاد فرمایا : بیشک میں نے تمہیں قبروں کی زیارت کرنے سے منع کیا تھا، اب تم ان کی زیارت کرلیا کرو، اس سے آخرت کی یاد تازہ ہوتی ہے۔

11928

(۱۱۹۲۹) حدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَیْدٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ کَیْسَانَ ، عَنْ أَبِی حَازِمٍ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : زَارَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَبْرَ أُمِّہِ فَبَکَی ، وَأَبْکَی مَنْ کَانَ حَوْلَہُ ، فَقَالَ : اسْتَأْذَنْت رَبِّی فِی أَنْ أَسْتَغْفِرَ لَہَا فَلَمْ یَأْذَنْ لِی وَاسْتَأْذَنْتُہُ فِی أَنْ أَزُورَ قَبْرَہَا فَأَذِنَ لِی فَزُورُوا الْقُبُورَ فَإِنَّہَا تُذَکِّرُکُمُ الْمَوْتَ۔ (مسلم ۱۰۸۔ احمد ۲/۴۴۱)
(١١٩٢٩) حضرت ابوہریرہ ارشاد فرماتے ہیں کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی والدہ محترمہ کی قبر کی زیارت کی اور آپ رو پڑے اور آپ کے اردگرد جو حضرات تھے وہ بھی رونے لگے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : میں نے اپنے رب سے اجازت چاہی کہ ان کے لیے مغفرت کی دعا کروں، تو مجھے اجازت نہیں ملی، اور میں نے اپنے رب سے قبروں کی زیارت کرنے کی اجازت مانگی تو مجھے اجازت مل گئی، تم لوگ قبروں کی زیارت کیا کرو اس سے تمہیں موت یاد آئے گی۔ (موت کی یاد تازہ ہوگی) ۔

11929

(۱۱۹۳۰) حدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللہِ الأَسَدِیُّ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ عَلْقَمَۃَ بْنِ مَرْثَدٍ ، عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ بُرَیْدَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : لَمَّا فَتَحَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَکَّۃَ أَتَی جِزْم قَبْرٍ فَجَلَسَ إلَیْہِ فَجَعَلَ کَہَیْئَۃِ الْمُخَاطِبِ ، وَجَلَسَ النَّاسُ حَوْلَہُ فَقَامَ وَہُوَ یَبْکِی فَتَلَقَّاہُ عُمَرُ وَکَانَ مِنْ أَجْرَأِ النَّاسِ عَلَیْہِ ، فَقَالَ : بِأَبِی أَنْتَ وَأُمِّی یَا رَسُولَ اللہِ مَا الَّذِی أَبْکَاک ، قَالَ : ہَذَا قَبْرُ أُمِّی سَأَلْت رَبِّی الزِّیَارَۃَ فَأَذِنَ لِی وَسَأَلْتُہُ الاِسْتِغْفَارَ فَلَمْ یَأْذَنْ لِی فَذَکَرْتہَا فَرَقَّتْ نَفْسِی فَبَکَیْت ، قَالَ فَلَمْ یُرَ وَمَا کَانَ أَکْثَرَ بَاکِیًا مِنْہُ یَوْمَئِذٍ۔ (احمد ۳۵۵۔ ابن حبان ۵۳۹۰)
(١١٩٣٠) حضرت سلیمان بن بریدہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ جب حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مکہ فتح کیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک پرانی قبر پر تشریف لائے اور اس کے پاس بیٹھ گئے، آپ مخاطب کی طرح ہوگئے، اور لوگ آپ کے اردگرد بیٹھ گئے، جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کھڑے ہوئے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رو رہے تھے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حضرت عمر ملے اور حضرت عمر لوگوں میں سے آپ پر سب سے زیادہ جرأت کرنے والے تھے، حضرت عمر نے فرمایا : یا رسول اللہ ! میرے ماں باپ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر قربان، کس چیز نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو رلایا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : یہ میری والدہ ماجدہ کی قبر ہے، میں نے اپنے رب سے اس کی زیارت کی اجازت مانگی تو مجھے اجازت مل گئی، اور میں نے استغفار کی اجازت مانگی تو وہ مجھے نہیں ملی، میں نے ان کو یاد کیا تو میرے دل کو ترس آیا اور میں رو پڑا۔ راوی کہتے ہیں کہ جتنا حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس دن روئے تھے اس سے زیادہ آپ کو کبھی روتے ہوئے نہیں دیکھا گیا۔

11930

(۱۱۹۳۱) حدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ زَیْدٍ ، حدَّثَنَا فَرْقَدٌ السَّبَخِیُّ ، حدَّثَنَا جَابِرُ بْنُ یزید ، حدَّثَنَا مَسْرُوقٌ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إنِّی نَہَیْتُکُمْ عَنْ زِیَارَۃِ الْقُبُورِ ، وَإِنَّہُ قَدْ أُذِنَ لِمُحَمَّدٍ فِی زِیَارَۃِ قَبْرِ أُمِّہِ ، فَزُورُوہَا تُذَکِّرْکُمُ۔ (دارقطنی ۶۹۔ عبدالرزاق ۶۷۱۴)
(١١٩٣١) حضرت عبداللہ سے مروی ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : بیشک میں نے (پہلے) تمہیں قبروں کی زیارت کرنے سے منع کیا تھا، بیشک مجھے اپنی والدہ کی قبر کی زیارت کی اجازت دے دی گئی، تم بھی قبروں کی زیارت کیا کرو یہ تمہیں موت اور آخرت یاد دلائے گی۔

11931

(۱۱۹۳۲) حدَّثَنَا عِیسَی بْنُ یُونُسَ ، عَنْ أُسَامَۃَ بْنِ زَیْدٍ ، عَنْ نَافِعٍ ، قَالَ تُوُفِّیَ عَاصِمُ بْنُ عُمَرَ ، وَابْنُ عُمَرَ غَائِبٌ ، فَلَمَّا قَدِمَ ، قَالَ دُلُّونِی عَلَی قَبْرِہِ فَوَقَفَ عَلَیْہِ سَاعَۃً یَدْعُو۔
(١١٩٣٢) حضرت نافع فرماتے ہیں کہ حضرت عاصم بن عمر کا انتقال ہوا تو حضرت عبداللہ بن عمر موجود نہ تھے، جب وہ تشریف لائے تو فرمایا : مجھے ان کی قبر بتلاؤ، پھر اس کے پاس کچھ دیر کھڑے رہے اور دعا فرمائی۔

11932

(۱۱۹۳۳) حدَّثَنَا عِیسَی بْنُ یُونُسَ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ أَبِی مُلَیْکَۃَ ، قَالَ تُوُفِّیَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِی بَکْرٍ بِالْحُبْشِیِّ ، قَالَ ابْنُ جُرَیْجٍ الْحُبْشِیُّ اثْنَیْ عَشَرَ مِیلاً مِنْ مَکَّۃَ فَدُفِنَ بِمَکَّۃَ ، فَلَمَّا قَدِمَتْ عَائِشَۃُ أَتَتْ قَبْرَہُ ، فَقَالَتْ : وَکُنَّا کَنَدْمَانَیْ جَذِیمَۃَ حِقْبَۃً مِنَ الدَّہْرِ حَتَّی قِیلَ لَنْ یَتَصَدَّعَا فَلَمَّا تَفَرَّقْنَا کَأَنِّی وَمَالِکًا لِطُولِ اجْتِمَاعٍ لَمْ نَبِتْ لَیْلَۃً مَعًا ثُمَّ قَالَتْ : أَمَّا وَاللَّہِ لَوْ حَضَرْتُک لَدَفَنْتُک حَیْثُ مِتَّ وَلَوْ شَہِدْتُک مَا زُرْتُک۔
(١١٩٣٣) حضرت عبداللہ بن ابی ملیکہ فرماتے ہیں کہ حضرت عبد الرحمن بن ابی بکر کا حبشی مقام پر انتقال ہوا، حضرت ابن جریج فرماتے ہیں کہ جبشی مکہ سے بارہ میل کے فاصلہ پر ایک مقام ہے۔ ان کو مکہ میں دفن کیا گیا جب حضرت عائشہ آئیں تو ان کی قبر پر تشریف لائیں اور یہ اشعار پڑھے۔ ہم لمبے زمانے سے مضبوط جدا نہ ہونے والے ساتھی تھے یہاں تک کہ یہ سمجھا جاتا تھا کہ ہم کبھی جدا ہوں گے ہی نہیں۔ لیکن جب جدا ہوئے تو یوں محسوس ہوا کہ جیسے میں نے اور مالک نے اس لمبے اجتماع کے باوجود بھی ایک رات بھی اکٹھے نہ گزاری ہو۔
پھر فرمایا : اللہ کی قسم ! اگر میں اس وقت حاضر ہوتی تو جہاں انتقال ہوا تھا وہیں دفن کرواتی اور اگر میں اس کے جنازے میں حاضر ہوتی تو اس کی قبر کی زیارت نہ کرتی۔

11933

(۱۱۹۳۴) حدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، أَنَّہُ کَانَ إذَا قَدِمَ وَقَدْ مَاتَ بَعْضُ وَلَدِہِ ، فَقَالَ : دُلُّونِی عَلَی قَبْرِہِ فَیَدُلُّونَہُ عَلَیْہِ فَیَنْطَلِقُ فَیَقُومُ عَلَیْہِ وَیَدْعُو لَہُ۔
(١٣١٣٤) حضرت نافع فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمر تشریف لائے ان کی اولاد میں سے کسی کا انتقال ہوچکا تھا، آپ نے فرمایا مجھے اس کی قبر بتلاؤ۔ آپ کو جب ان کی قبر دکھائی گئی تو آپ وہاں کھڑے ہوئے اور ان کے لیے دعا فرمائی۔

11934

(۱۱۹۳۵) حدَّثَنَا عَبِیدَۃُ بْنُ حُمَیْدٍ ، عَنْ أَبِی فَرْوَۃَ الْہَمْدَانِیِّ ، عَنِ الْمُغِیرَۃِ بْنِ سُبَیْعٍ ، عَنِ ابن بُرَیْدَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : جَالَسْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی الْمَجْلِسِ فَرَأَیْتُہُ حَزِینًا ، فَقَالَ لَہُ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ : مَا لَکَ یَا رَسُولَ اللہِ کَأَنَّک حَزِینٌ ؟ قَالَ : ذَکَرْتُ أُمِّی ، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : کُنْت نَہَیْتُکُمْ عَنْ لُحُومِ الأَضَاحِیِّ أَنْ تَأْکُلُوہَا إِلاَّ ثَلاَثَۃَ أَیَّامٍ فَکُلُوا وَأَطْعِمُوا وَادَّخِرُوا مَا بَدَا لَکُمْ ، وَنَہَیْتُکُمْ عَنْ زِیَارَۃِ الْقُبُورِ فَمَنْ أَرَاْدَ أَنْ یَزُورَ قَبْرَ أُمِّہِ فَلْیَزُرْہُ ، وَکُنْت نَہَیْتُکُمْ عَنِ الدُّبَّائِ وَالْحَنْتَمِ وَالْمُزَفَّتِ وَالنَّقِیرِ ، فَاجْتَنِبُوا کُلَّ مُسْکِرٍ ، وَانْبِذُوا فِیمَا بَدَا لَکُمْ۔
(١١٩٣٥) حضرت ابن بریدہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک بار مجلس میں تشریف فرما تھے اور انتہائی غم گین تھے، لوگوں میں سے ایک شخص نے عرض کیا اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! کیا وجہ ہے آپ غم گین دکھائی دے رہے ہیں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہاں میں اپنی والدہ کو یاد کررہا تھا، پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : میں نے تمہیں تین دن سے زیادہ قربانی کا گوشت کھانے سے منع کیا تھا، پس (اب) تم خود کھاؤ اور دوسروں کو کھلاؤ اور جتنا چاہو ذخیرہ کرو، اور میں نے تمہیں قبروں کی زیارت کرنے سے منع کیا تھا، پس جو اپنی والدہ کی قبر کی زیارت کرنا چاہتا ہے وہ زیارت کرے، اور میں نے تمہیں کدو کے برتن سے، سبز رنگ کے برتن سے، سبز رنگ کے روغن سے رنگے ہوئے برتن سے اور پیالہ نما گڑھا کی ہوئی لکڑی جس میں کھجور کی شراب بنائی جاتی ہے اس برتن سے منع کیا تھا، پس تم ہر نشہ والی چیز سے اجتناب کرو اور باقی جتنی چاہو پیؤ، (جس میں نشہ نہ ہو) ۔

11935

(۱۱۹۳۶) حدَّثَنَا وَکِیعُ بْنُ الْجَرَّاحِ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جُحَادَۃَ ، قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا صَالِحٍ یُحَدِّثُ بَعْدَ مَا کَبِرَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : لَعَنَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ زَائِرَاتِ الْقُبُورِ وَالْمُتَّخِذَاتِ عَلَیْہَا الْمَسَاجِدَ وَالسُّرُجَ۔
(١١٩٣٦) حضرت عبداللہ بن عباس سے مروی ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قبروں کی زیارت کرنے والیوں، ان کو سجدہ گاہ (مساجد) بنانے والیوں اور ان پر چراغاں کرنے والیوں پر لعنت فرمائی ہے۔

11936

(۱۱۹۳۷) حدَّثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ عَائِشَۃَ ، أَنَّ أُمَّ سَلَمَۃَ ذَکَرَتْ لِلنَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَنِیسَۃً رَأَتْہَا فِی أَرْضِ الْحَبَشَۃِ یُقَالُ لَہَا مَارِیَۃَ ، فَذَکَرَتْ لَہُ مَا رَأَتْ فِیہَا مِنَ الصُّوَرِ ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : أُولَئِکَ قَوْمٌ إذَا مَاتَ فِیہِمَ الْعَبْدُ الصَّالِحُ ، أَوِ الرَّجُلُ الصَّالِحُ ، بَنَوْا عَلَی قَبْرِہِ مَسْجِدًا، وَصَوَّرُوا فِیہِ تِلْکَ الصُّوَرَ، فَأُولَئِکَ شِرَارُ الْخَلْقِ عِنْدَ اللہِ عَزَّ وَجَلَّ۔ (بخاری ۴۳۴۔ مسلم ۳۷۵)
(١١٩٣٧) حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ حضرت ام سلمہ نے حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے اس کنیسہ کا ذکر فرمایا جو انھوں نے حبشہ میں دیکھا تھا جس کا نام ماریہ تھا، اور ان تصویروں کا بھی ذکر فرمایا جو اس میں دیکھی تھیں، حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : یہ ایسی قوم ہیں جب ان میں کوئی شخص انتقال کرتا ہے تو یہ اس کی قبر پر مسجد (سجدہ گاہ) بنا لیتے ہیں اور اس میں اس کی تصویریں لگا دیتے ہیں یہی لوگ اللہ کے نزدیک مخلوق میں سب سے بدتر ہیں۔

11937

(۱۱۹۳۸) حدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَنْ زَائِدَۃَ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ شَقِیقٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : إنَّ مِنْ شِرَارِ النَّاسِ مَنْ تُدْرِکُہُمُ السَّاعَۃُ وَہُمْ أَحْیَائٌ وَمَنْ یَتَّخِذُ الْقُبُورَ مَسَاجِدَ۔ (ابن خزیمۃ ۷۸۹۔ احمد ۱/۴۰۵)
(١١٩٣٨) حضرت عبداللہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے ہوئے سنا کہ لوگوں میں سب سے بدتر لوگ وہ ہیں جن کو قیامت نے اس حال میں پایا کہ وہ زندہ ہیں اور وہ لوگ جنہوں نے قبروں کو سجدہ گاہ بنایا۔

11938

(۱۱۹۳۹) حدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ ، عَنْ عِمْرَانَ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ ، أَنَّہُ کَرِہَ أَنْ یُزَارَ الْقَبْرُ وَیُصَلَّی عِنْدَہُ۔
(١١٩٣٩) حضرت عمران فرماتے ہیں کہ حضرت ابن سیرین قبروں کی زیارت کرنے اور ان کے پاس نماز پڑھنے کو ناپسند فرماتے تھے۔

11939

(۱۱۹۴۰) حدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرِِ، عَنِ ابْنِ عَجْلاَنَ، عَنْ سُہَیْلٍ، عَنْ حَسَنِ بْنِ حَسَنٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: لاَ تَتَّخِذُوا قَبْرِی عِیدًا، وَلاَ بُیُوتَکُمْ قُبُورًا وَصَلُّوا عَلَیَّ حَیْثُمَا کُنْتُمْ فَإِنَّ صَلاَتَکُمْ تَبْلُغُنِی۔
(١١٩٤٠) حضرت حسن بن حسن سے مروی ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : میری قبر کو عید گاہ (سجدہ گاہ) نہ بنانا، اور نہ ہی اپنے گھروں کو قبرستان بناؤ، اور تم جہاں کہیں بھی ہو مجھ پر درود پڑھو، بیشک تمہارا درود مجھے پہنچایا جاتا ہے۔

11940

(۱۱۹۴۱) حدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرِِ ، عَنِ ابْنِ عَجْلاَنَ ، عَنْ زَیْدِ بْنِ أَسْلَمَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : اللَّہُمَّ لاَ تَجْعَلْ قَبْرِی وَثَنًا یُصَلَّی لَہُ اشْتَدَّ غَضَبُ اللہِ عَلَی قَوْمٍ اتَّخَذُوا قُبُورَ أَنْبِیَائِہِمْ مَسَاجِدَ۔
(١١٩٤١) حضرت زید بن اسلم سے مروی ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اے اللہ ! میری قبر کو بت نہ بنا جس کی عبادت کی جائے، بشکب ان لوگوں پر اللہ کا شدید غضب و غصہ ہوا جنہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو سجد گاہ بنایا۔

11941

(۱۱۹۴۲) حدَّثَنَا أَسْبَاطُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ، عَنْ عَائِشَۃَ ، أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : لَعَنَ اللَّہُ أَقْوَامًا اتَّخَذُوا قُبُورَ أَنْبِیَائِہِمْ مَسَاجِدَ۔
(١١٩٤٢) حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اللہ تعالیٰ نے اس قوم پر لعنت فرمائی ہے جنہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہ بنایا۔

11942

(۱۱۹۴۳) حدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنِ أَبِی سِنَانٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ الْحَارِثِ ، قَالَ : قَالَ عُمَرُ : لأَنَّا لاَ نَجِدُ أَضَلَّ مِنْ زَائِرِ الْقَبْرِ۔
(١١٩٤٣) حضرت عمر ارشاد فرماتے ہیں یقیناً ہم نے عبادت کے طور پر قبروں کی زیارت کرنے والے سے بڑھ کر کوئی گمراہ شخص نہیں دیکھا۔

11943

(۱۱۹۴۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : کَانُوا یَکْرَہُونَ زِیَارَۃَ الْقُبُورِ۔
(١١٩٤٤) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ (صحابہ کرام ) زیارت قبور کو ناپسند فرماتے تھے۔

11944

(۱۱۹۴۵) حدَّثَنَا قَبِیصَۃُ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُثْمَانَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ بَہْمَانَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ حَسَّانَ بْنِ ثَابِتٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : لَعَنَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ زَائِرَاتِ الْقُبُورِ۔ (احمد ۴۴۲)
(١١٩٤٥) حضرت عبد الرحمن بن حسان بن ثابت سے مروی ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قبروں کی زیارت کرنے والی عورتوں پر لعنت فرمائی ہے۔

11945

(۱۱۹۴۶) حدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ مُجَالِدٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : لَوْلا أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَہَی عَنْ زِیَارَۃِ الْقُبُورِ لَزُرْت قَبْرَ ابْنَتِی۔
(١١٩٤٦) حضرت شعبی فرماتے ہیں کہ اگر حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قبروں کی زیارت کرنے سے منع نہ فرمایا ہوتا تو میں اپنی بیٹی کی قبر کی زیارت کرتا۔

11946

(۱۱۹۴۷) حدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ أَبِی یُونُسَ الْبَاہِلِیِّ ، قَالَ : سَمِعْتُ شَیْخًا بِمَکَّۃَ کَانَ أَصْلُہُ رُومِیًّا یُحَدِّثُ عَنْ أَبِی ذَرٍّ ، قَالَ : کَانَ رَجُلٌ یَطُوفُ بِالْبَیْتِ یَقُولُ أَوْہُ أَوْہُ ، قَالَ أَبُو ذَرٍّ : خَرَجْت ذَاتَ لَیْلَۃٍ فَإِذَا النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی الْمَقَابِرِ یَدْفِنُ ذَلِکَ الرَّجُلِ وَمَعَہُ مِصْبَاحٌ۔ (ابوداؤد ۳۱۵۶)
(١١٩٤٧) حضرت ابو یونس الباھلی فرماتے ہیں کہ میں نے مکہ میں ایک شیخ سے سنا جو اصل میں رومی تھے وہ حضرت ابو ذر سے روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص بیت اللہ کا طواف کرتے ہوئے اوہ اوہ کررہا تھا، حضرت ابو ذر نے ارشاد فرمایا : میں ایک رات کو نکلا (تو میں نے دیکھا) آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس وقت قبرستان میں ہیں اسی آدمی کو دفن کر رہے تھے۔ اور آپ کے پاس چراغ بھی تھا۔

11947

(۱۱۹۴۸) حدَّثَنَا سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنْ حَسَنِ بْنِ مُحَمَّدٍ ، أَنَّ فَاطِمَۃَ دُفِنَتْ لَیْلاً۔
(١١٩٤٨) حضرت حسن بن محمد فرماتے ہیں کہ حضرت فاطمہ کو رات کے وقت دفن کیا گیا۔

11948

(۱۱۹۴۹) حدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ عُرْوَۃَ ، أَنَّ عَلِیًّا دَفَنَ فَاطِمَۃَ لَیْلاً۔
(١١٩٤٩) حضرت عروہ فرماتے ہیں کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے حضرت فاطمہ کو رات کے وقت دفن کیا۔

11949

(۱۱۹۵۰) حدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ مُوسَی بْنِ عُلَیٍّ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : کُنْتُ عِنْدَ عُقْبَۃَ بْنِ عَامِرٍ فَسُئِلَ عَنِ التَّکْبِیرِ عَلَی الْمَیِّتِ ، فَقَالَ : أَرْبَعٌ قُلْتُ اللَّیْلُ وَالنَّہَارُ سَوَائٌ ، قَالَ : اللَّیْلُ وَالنَّہَارُ سَوَائٌ ، قُلْتُ : یُدْفَنُ الْمَیِّتُ بِاللَّیْلِ ، قَالَ : قُبِرَ أَبُو بَکْرٍ بِاللَّیْلِ۔
(١١٩٥٠) حضرت موسیٰ بن علی اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ میں حضرت عقبہ بن عامر کے پاس تھا کہ آپ سے جنازے کی تکبیروں کے بارے میں دریافت کیا گیا ؟ آپ نے فرمایا چار ہیں میں نے عرض کیا دن اور رات میں برابر ہیں ؟ آپ نے فرمایا رات اور دن برابر ہیں، میں نے عرض کیا میت کو رات کے وقت دفن کیا جاسکتا ہے ؟ آپ نے فرمایا حضرت ابوبکر صدیق کو رات کے وقت دفن کیا گیا۔

11950

(۱۱۹۵۱) حدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنِ الْوَلِیدِ بْنِ أَبِی ہِشَامٍ ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ ، دُفِنَ أَبُو بَکْرٍ بِاللَّیْلِ۔
(١١٩٥١) حضرت قاسم بن محمد فرماتے ہیں کہ حضرت ابوبکر صدیق کو رات کے وقت دفن کیا گیا۔

11951

(۱۱۹۵۲) حدَّثَنَا غُنْدَرٌ، عَنِ ابْنِ أَبِی عَرُوبَۃَ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، أَنَّ ابْنَ مَسْعُودٍ دُفِنَ لَیْلاً ، قَالَ: وَکَانَ قَتَادَۃُ یَکْرَہُ ذَلِکَ۔
(١١٩٥٢) حضرت ابن ابی عروبہ فرماتے ہیں کہ حضرت قتادہ فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود کو رات کے وقت دفن کیا گیا، حضرت ابو قتادہ اس کو ناپسند کرتے تھے۔

11952

(۱۱۹۵۳) حدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ بْنِ مُحَمَّدٍ ، عَنِ ابْنِ السَّبَّاقِ ، أَنَّ عُمَرَ دَفَنَ أَبَا بَکْرٍ لَیْلاً ، ثُمَّ دَخَلَ الْمَسْجِدَ فَأَوْتَرَ بِثَلاَثٍ۔
(١١٩٥٣) حضرت ابن السباق فرماتے ہیں کہ حضرت عمر نے حضرت ابوبکر صدیق کو رات کے وقت دفن فرمایا : پھر مسجد میں تشریف لائے اور نماز وتر ادا فرمائی۔

11953

(۱۱۹۵۴) حدَّثَنَا ابْنُ أَبِی عَدِیٍّ، عَنْ دَاوُدَ، عَنِ الشَّعْبِیِّ، عَنْ شُرَیْحٍ، أَنَّہُ کَانَ یَدْفِنُ بَعْضَ وَلَدِہِ لَیْلاً کَرَاہِیَۃَ الزِّحَامِ۔
(١١٩٥٤) حضرت شعبی فرماتے ہیں کہ حضرت شریح نے اپنی بعض اولاد کو ازدحام کے ڈر سے رات کے وقت دفن فرمایا : (ازدحام کو ناپسند کرتے ہوئے) ۔

11954

(۱۱۹۵۵) حدَّثَنَا خَالِدٌ الزَّیَّاتُ ، عَنْ زُرْعَۃَ بْنِ عَمْرٍو ، مَوْلًی لآلِ حُبَابٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ عَمْرٍو قَالَ : دَفَنَّا عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ بَعْدَ الْعِشَائِ الآخِرَۃِ بِالْبَقِیعِ ، قَالَ وَکُنْت رَابِعَ أَرْبَعَۃٍ فِیمَنْ حَمَلَہُ۔
(١١٩٥٥) حضرت زرعہ بن عمرو اپنے والد حضرت عمرو سے روایت کرتے ہیں کہ ہم نے حضرت عثمان بن عفان کو عشاء کے بعد جنت البقیع میں دفن کیا، اور میں ان چاروں میں سے ایک تھا جنہوں نے ان کی میت کو اٹھا رکھا تھا۔

11955

(۱۱۹۵۶) حدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرِِ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ : مَاتَ أَبُو بَکْرٍ لَیْلَۃَ الثُّلاَثَائِ ، وَدُفِنَ لَیْلَۃَ ثُلاَثَائَ۔
(١١٩٥٦) حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ حضرت ابوبکر صدیق منگل کی رات دنیا سے تشریف لے گئے اور منگل کی رات کو ہی ان کو دفن کیا گیا۔

11956

(۱۱۹۵۷) حدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، وَأَبُو دَاوُد ، عَنْ ہِشَامٍ الدَّسْتَوَائِیِّ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ، أَنَّہُ کَانَ لاَ یَرَی بَأْسًا بِالدَّفْنِ بِاللَّیْلِ۔
(١١٩٥٧) حضرت قتادہ فرماتے ہیں کہ حضرت سعید بن المسیب رات کو دفن کرنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے۔

11957

(۱۱۹۵۸) حدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، عَنِ الأَسْوَد بْنِ شَیْبَانَ ، عَنْ خَالِدِ بْنِ سُمَیْرٍ السَّدُوسِیِّ ، قَالَ : سَأَلْتُ أَنَسًا عَنِ الصَّلاَۃِ عَلَی الْمَیِّتِ بِاللَّیْلِ ، فَقَالَ : مَا الصَّلاَۃُ عَلَی الْمَیِّتِ بِاللَّیْلِ إِلاَّ کَالصَّلاَۃِ عَلَی الْمَیِّتِ بِالنَّہَارِ۔
(١١٩٥٨) حضرت خالد بن سمیر السدوسی فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت انس سے رات کو نماز جنازہ پڑھنے کے متعلق دریافت کیا ؟ آپ نے فرمایا رات کو نماز جنازہ پڑھنا ایسا ہی ہے جیسے دن کو پڑھنا۔

11958

(۱۱۹۵۹) حدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، قَالَ دُفِنَ إبْرَاہِیمُ لَیْلاً وَنَحْنُ خَائِفُونَ۔
(١١٩٥٩) حضرت ابن عون فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم کو ہم نے رات کے وقت دفن کیا اور ہم سب خوف زدہ تھے۔

11959

(۱۱۹۶۰) حدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ ، عَنْ أَبِی حَرَّۃَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، أَنَّہُ کَانَ یَکْرَہُ أَنْ یَدْفِنَ لَیْلاً۔
(١١٩٦٠) حضرت ابو حرہ فرماتے ہیں کہ حضرت حسن رات کو دفن کرنے کو ناپسند فرماتے تھے۔

11960

(۱۱۹۶۱) حدَّثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ ، عَنْ فَاطِمَۃَ بِنْتِ مُحَمَّدٍ ، عَنْ عَمْرَۃَ ، عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ : مَا عَلِمْنَا بِدَفْنِ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حَتَّی سَمِعْنَا صَوْتَ الْمَسَاحِی مِنْ آخِرِ اللَّیْلِ لَیْلَۃَ الأَرْبِعَائِ ، قَالَ مُحَمَّدٌ وَالْمَسَاحِی المَرور۔ (احمد ۶۲۔ ابن راھویہ ۹۹۳)
(١١٩٦١) حضرت عائشہ ارشاد فرماتی ہیں کہ ہمیں رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دفنانے کا علم نہ تھا کہ ہم نے ایک گذرنے والوں کی آواز رات کے آخری پہر میں سنی۔ وہ رات بدھ کی رات تھی۔

11961

(۱۱۹۶۲) حدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِِ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، قَالَ : قَالَ عَلِیٌّ : لَمَّا مَاتَ أَبُو طَالِبٍ أَتَیْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقُلْت یَا رَسُولَ اللہِ إنَّ عَمَّک الضَّالَّ قَدْ مَاتَ ، فَقَالَ لِی : اذْہَبْ فَوَارِہِ ، وَلاَ تُحْدِثَنَّ شَیْئًا حَتَّی تَأْتِیَنِی ، قَالَ فَانْطَلَقْتُ فَوَارَیْتُہُ ، ثُمَّ رَجَعْت إلَیْہِ وَعَلَیَّ أَثَرُ التُّرَابِ وَالْغُبَارِ فَدَعَا لِی بِدَعَوَاتٍ مَا یَسُرُّنِی ، أَنَّ لِی بِہَا مَا عَلَی الأَرْضِ مِنْ شَیْئٍ۔
(١١٩٦٢) حضرت علی فرماتے ہیں کہ جب ابو طالب کا انتقال ہوا تو میں نبی پاک (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا کہ اے اللہ کے رسول ! آپ کا گمراہ چچا مرگیا ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جاؤ اور ان کو ڈھانپ دو اور جب تک میرے پاس نہ آجانا کچھ نہ کرنا میں گیا اور ان کو ڈھانپ دیا پھر میں واپس آیا تو میرے اوپر مٹی اور گرد و غبار کے آثار تھے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے کچھ دعائیں دیں جو میرے لیے دنیا کی چیزوں کے مل جانے سے زیادہ قابل مسرت ہیں۔

11962

(۱۱۹۶۳) حدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ نَاجِیَۃَ ، عَنْ عَلِیٍّ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِنَحْوِہِ ، وَقَالَ فَأَمَرَنِی بِالْغَسْلِ۔
(١١٩٦٣) حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے اسی طرح منقول ہے اور فرماتے ہیں کہ مجھے غسل کرنے کا حکم فرمایا۔

11963

(۱۱۹۶۴) حدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ حَمَّادٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : مَاتَتْ أُمُّ الْحَارِثِ بْنِ أَبِی رَبِیعَۃَ وَہِیَ نَصْرَانِیَّۃٌ ، فَشَہِدَہَا أَصْحَابُ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔
(١١٩٦٤) حضرت شعبی فرماتے ہیں کہ ام الحارث بن ابی ربیعہ جو نصرانیہ تھی اس کا انتقال ہوگیا تو اس کے جنازے میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ شریک ہوئے۔

11964

(۱۱۹۶۵) حدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ عَامِرٍ ، قَالَ : مَاتَتْ أُمُّ الْحَارِثِ وَکَانَتْ نَصْرَانِیَّۃً ، فَشَہِدَہَا أَصْحَابُ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔
(١١٩٦٥) حضرت عامر سے اسی کے مثل منقول ہے۔

11965

(۱۱۹۶۶) حدَّثَنَا عِیسَی بْنُ یُونُسَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِی إسْمَاعِیلَ ، عَنْ عَامِرِ بْنِ شَقِیقٍ ، عَنْ أَبِی وَائِلٍ ، قَالَ مَاتَتْ أُمِّی وَہِیَ نَصْرَانِیَّۃٌ فَأَتَیْت عُمَرَ فَذَکَرْت ذَلِکَ لَہُ ، فَقَالَ : ارْکَبْ دَابَّۃً وَسِرْ أَمَامَہَا۔
(١١٩٦٦) حضرت ابو وائل فرماتے ہیں میری والدہ کا انتقال ہوگیا جو کہ نصرانیہ تھی، میں حضرت عمر کے پاس آیا اور ان کو بتلایا، آپ نے فرمایا : سواری پر سوار ہو جاؤ اور اس کے آگے خاموشی سے چلو۔

11966

(۱۱۹۶۷) حدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ ، قَالَ : مَاتَتْ أُمُّ رَجُلٍ مِنْ ثَقِیفٍ وَہِیَ نَصْرَانِیَّۃٌ فَسَألَ ابْنَ معقل ، فَقَالَ : إنِّی أُحِبُّ أَنْ أَحْضُرَہَا ، وَلاَ أَتْبَعُہَا ، قَالَ ارْکَبْ دَابَّۃً وَسِرْ أَمَامَہَا غَلْوَۃً فَإِنَّک إذَا سِرْتَ أَمَامَہَا فَلَسْتَ مَعَہَا۔
(١١٩٦٧) حضرت عطاء بن السائب فرماتے ہیں کہ ثقیف کے ایک شخص کی والدہ کا انتقال ہوگیا جو کہ نصرانیہ تھی۔ اس نے حضرت ابن معقل سے اس کے متعلق دریافت کیا، آپ نے فرمایا مجھے تو یہ پسند ہے کہ اس کے جنازے میں حاضر ہوا جائے لیکن اس کے جنازے کے ساتھ (پیچھے) نہ چلا جائے، پھر فرمایا : سواری پر سوار ہو جاؤ اور اس کے آگے تین سے چار سو گز چلو کیونکہ جب تم اس کے آگے چلو گے تو اس کے ساتھ شمار نہیں ہو گے۔

11967

(۱۱۹۶۸) حدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ شَرِیکٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ شَرِیکٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ ، سُئِلَ عَنِ الرَّجُلِ الْمُسْلِمِ یَتْبَعُ أُمَّہُ النَّصْرَانِیَّۃَ تَمُوتُ ، قَالَ: یَتْبَعُہَا وَیَمْشِی أَمَامَہَا۔
(١١٩٦٨) حضرت عبداللہ بن شریک فرماتے ہیں کہ میں نے سنا حضرت عبداللہ بن عمر سے ایک شخص نے سوال کیا کہ اس کی نصرانیہ ماں فوت ہوگئی ہے اس کے جنازے کے ساتھ جاسکتا ہے ؟ آپ نے فرمایا : اس کے ساتھ تو جائے لیکن اس کے جنازے کے آگے چلے۔

11968

(۱۱۹۶۹) حدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إسْرَائِیلَ ، عَنْ ضِرَارِ بْنِ مُرَّۃَ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ، قَالَ مَاتَ رَجُلٌ نَصْرَانِیٌّ وَلَہُ ابْنٌ مُسْلِمٍ فَلَمْ یَتْبَعُہُ ، فَقَالَ : ابْنُ عَبَّاسٍ کَانَ یَنْبَغِی لَہُ أَنْ یَتْبَعَہُ وَیَدْفِنَہُ وَیَسْتَغْفِرَ لَہُ فِی حَیَاتِہِ۔
(١١٩٦٩) حضرت سعید بن جبیر فرماتے ہیں کہ ایک نصرانی کا انتقال ہوا اس کا ایک مسلمان بیٹا تھا جو اس کے جنازے میں شریک نہیں ہوا، حضرت عبداللہ بن عباس نے فرمایا : مناسب تھا کہ وہ اپنے باپ کے جنازے کے ساتھ جاتا اس کو دفن کرتا اور اپنی زندگی میں اس کے لیے دعائے مغفرت کرتا۔

11969

(۱۱۹۷۰) حدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَنِ الأَجْلَحِ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : لَمَّا مَاتَ أَبُو طَالِبٍ جَائَ عَلِیٌّ إلی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : إنَّ عَمَّک الشَّیْخَ الْکَافِرَ قَدْ مَاتَ فَمَا تَرَی فِیہِ ، قَالَ : أَرَی أَنْ تَغْسِلَہُ وَتُجِنَّہُ وَأَمَرَہُ بِالْغُسْلِ۔
(١١٩٧٠) حضرت شعبی فرماتے ہیں کہ جب ابو طالب کا انتقال ہوا تو حضرت علی کرم اللہ وجہہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس تشریف لائے اور فرمایا آپ کا کافر چچا فوت ہوگیا ہے آپ کی اس کے بارے میں کیا رائے ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اس کو غسل دو اور دفنا دو ، اور ان کو (بعد میں) غسل کرنے کا حکم فرمایا۔

11970

(۱۱۹۷۱) حدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ ضِرَارِ بْنِ مُرَّۃَ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ، قَالَ : مَاتَ رَجُلٌ نَصْرَانِیٌّ فَوَکَّلَہُ ابْنُہُ إلی أَہْلِ دِینِہِ ، فَذُکِرَ ذَلِکَ لاِبْنِ عَبَّاسٍ ، فَقَالَ : مَا کَانَ عَلَیْہِ لَوْ مَشَی مَعَہُ وَأَجَنَّہ وَاسْتَغْفَرَ لَہُ مَا کَانَ حَیًّا ، ثُمَّ تَلاَ : {وَمَا کَانَ اسْتِغْفَارُ إبْرَاہِیمَ لأَبِیہِ} الآیَۃَ۔
(١١٩٧١) حضرت سعید بن جبیر فرماتے ہیں کہ ایک نصرانی شخص کا انتقال ہوا تو اس کے بیٹے نے اس کو ان کے مذہب والوں کے سپرد کردیا، حضرت عبداللہ بن عباس کے پاس جب اس کا ذکر ہوا تو آپ نے فرمایا : کوئی حرج نہ تھا اگر یہ اس کے ساتھ جاتا اور اس کو دفناتا اور اپنی زندگی میں اس کے لیے دعائے مغفرت کرتا، پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی : { وَمَا کَانَ اسْتِغْفَارُ إبْرَاہِیمَ لأَبِیہِ }۔

11971

(۱۱۹۷۲) حدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ وَاصِلٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : إذَا مَاتَ الرَّجُلُ فِی الْبَحْرِ جُعِلَ فِی زِبِّیلٍ، ثُمَّ قُذِفَ بِہِ۔
(١١٩٧٢) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص سمندر میں فوت ہوجائے (بحری جہاز وغیرہ میں) تو اس کو ٹوکری (بکسہ) میں ڈال کر سمندر میں ڈال دیا جائے۔

11972

(۱۱۹۷۳) حدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ عَطَائٍ ؛ فِی الَّذِی یَمُوتُ فِی الْبَحْرِ ، قَالَ یُغَسَّلُ وَیُکَفَّنُ وَیُحَنَّطُ وَیُصَلَّی عَلَیْہِ ، ثُمَّ یُرْبَطُ فِی رِجْلَیْہِ شَیْئٌ ، ثُمَّ یُرْمَی بِہِ فِی الْبَحْرِ۔
(١١٩٧٣) حضرت عطائ اس شخص کے متعلق فرماتے ہیں کہ جس کا سمندر میں انتقال ہوجائے اس کو غسل دیا جائے گا، کفن پہنایا جائے گا، خوشبو لگائی جائے گی، اور پھر اس کی نماز جنازہ پڑھائی جائے گی پھر اس کی ٹانگوں کے ساتھ کوئی (وزنی) چیز باندھ کر اس کو سمندر میں بہا دیا جائے گا۔

11973

(۱۱۹۷۴) حدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ أَبِی إِسْحَاقَ ، قَالَ : خَرَجْت مَعَ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللہِ فِی جِنَازَۃٍ فَأَخَذَ غَیْرَ طَرِیقِہَا فَعَارَضَہَا ، فَلَمَّا انْتَہَی إلَی الْقَبْرِ جَلَسَ قَبْلَ أَنْ تُوضَعَ۔
(١١٩٧٤) حضرت یحییٰ بن ابی اسحاق فرماتے ہیں کہ میں حضرت سالم بن عبداللہ کے ساتھ ایک جنازے میں نکلا آپ رستہ بدل کر چلے اور جنازے کے ساتھ آ ملے۔ جب قبرستان پہنچے تو جنازہ رکھنے سے پہلے ہی بیٹھ گئے۔

11974

(۱۱۹۷۵) حدَّثَنَا ابْنُ مَہْدِیٍّ، عَنْ جَابِرٍ، عَنِ الشَّعْبِیِّ، قَالَ: کَانَ شُرَیْحٌ وَزَیْدُ بْنُ أَرْقَمَ یَأْخُذَانِ غَیْرَ طَرِیقِ الْجِنَازَۃِ۔
(١١٩٧٥) حضرت شعبی فرماتے ہیں کہ حضرت شریح اور حضرت زید بن ارقم راستہ بدل کر جنازے کے ساتھ ملا کرتے تھے۔

11975

(۱۱۹۷۶) حدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرِِ ، عَنْ ہِشَامٍ ، قَالَ أَوْصَی عروۃ أَنْ لاَ یُقْبَرَ فِی الْبَقِیعِ ، وَقَالَ إِنْ کَانَ مُؤْمِنًا فَمَا أُحِبُّ أَنْ أُضَیِّقَ عَلَیْہِ ، وَإِنْ کَانَ فَاجِرًا فَمَا أُحِبُّ أضامَّہ فِیہِ۔
(١١٩٧٦) حضرت ہشام فرماتے ہیں کہ حضرت عروہ نے وصیت فرمائی تھی کہ مجھے جنت البقیع میں دفن نہ کرنا، کیونکہ اگر مؤمن ہے تو میں پسند نہیں کرتا کہ اس پر تنگی کروں اور اگر فاجر ہو تو میں نہیں چاہتا کہ اس بارے میں ان سے مزاحمت کروں۔

11976

(۱۱۹۷۷) حدَّثَنَا مَالِکُ بْنُ إسْمَاعِیلَ حدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللہِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ ، عَنْ أَبِی عُبَیْدَۃَ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مَسْعُودٍ ، قَالَ : ادْفِنُونِی فِی قَبْرِ عُثْمَانَ بْنِ مَظْعُونٍ۔
(١١٩٧٧) حضرت ابو عبیدہ فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود نے وصیت فرمائی تھی کہ مجھے حضرت عثمان بن مظعون کی قبر میں دفن کرنا۔

11977

(۱۱۹۷۸) حدَّثَنَا مُعَاوِیَۃُ بْنُ ہِشَامٍ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ رَجُلٍ ، أَنَّ خَیْثَمَۃَ أَوْصَی أَنْ یُدْفَنَ فِی مَقْبَرَۃِ فُقَرَائِ قَوْمہ۔
(١١٩٧٨) حضرت سفیان ایک شخص سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت خیثمہ نے وصیت فرمائی تھی کہ مجھے میری قوم کے فقراء کے قریب دفن کرنا۔

11978

(۱۱۹۷۹) حدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ حدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ بْنُ أَبِی خَالِدٍ ، عَنْ قَیْسٍ ، قَالَ قَالَتْ عَائِشَۃُ لَمَّا حَضَرَتْہَا الْوَفَاۃُ ادْفِنُونِی مَعَ أَزْوَاجِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَإِنِّی کُنْت أُحْدِثتُ بَعْدَہُ۔
(١١٩٧٩) حضرت قیس فرماتے ہیں کہ جب حضرت عائشہ کی وفات کا وقت قریب آیا تو آپ نے فرمایا مجھے دیگر ازواج مطہرات کے ساتھ دفن کرنا، مجھے یہ بات بعد میں بتائی گئی تھی۔

11979

(۱۱۹۸۰) حدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ حُصَیْنٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَیْمُونٍ ، أَنَّ عُمَرَ ، قَالَ لِعَبْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ اذْہَبْ إلَی عَائِشَۃَ فَسَلِّمْ وَقُلْ یَسْتَأْذِنُ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ أَنْ یُدْفَنَ مَعَ صَاحِبَیْہِ فَأَتَاہَا عَبْدُ اللہِ فَوَجَدَہَا قَاعِدَۃً تَبْکِی فَسَلَّمَ ، ثُمَّ قَالَ : یَسْتَأْذِنُ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ أَنْ یُدْفَنَ مَعَ صَاحِبَیْہِ ، فَقَالَتْ قَدْ کُنْت وَاللَّہِ أُرِیدُہُ لِنَفْسِی ، وَلاَوثِرَنَّہُ الْیَوْمَ عَلَی نَفْسِی۔
(١١٩٨٠) حضرت عمرو بن میمون فرماتے ہیں کہ حضرت عمر نے حضرت عبداللہ بن عمر سے فرمایا : امی عائشہ کے پاس جاؤ ان کو میرا سلام دو اور عرض کرو عمر اس بات کی اجازت چاہتا ہے کہ اس کو اس کے ساتھیوں کے ساتھ دفن کیا جائے، حضرت عبداللہ جب ان کے پاس آئے ان کو بیٹھ کر روتے ہوئے پایا، آپ نے ان پر سلام عرض کیا اور فرمایا حضرت عمر اپنے ساتھیوں کے ساتھ دفن ہونے کی اجازت چاہتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا اللہ کی قسم ! وہ جگہ میں نے اپنے لیے رکھی تھی لیکن میں آج حضرت عمر کو اپنے نفس پر ترجیح دیتی ہوں۔

11980

(۱۱۹۸۱) حدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ ، عَنْ جَابِرٍ ، قَالَ : سَأَلْتُہُ عَنِ الْمَرْأَۃِ تَمُوتُ فِی نِفَاسِہَا مِنَ الْفُجُورِ أَیُصَلَّی عَلَیْہَا ، فَقَالَ : صَلِّ عَلَی مَنْ قَالَ لاَ إلَہَ إِلاَّ اللَّہُ۔
(١١٩٨١) حضرت ابو زبیر فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت جابر سے سوال کیا کہ کوئی عورت اس نفاس میں مرجائے جو گناہ کی وجہ سے تھا کیا اس کی نماز جنازہ ادا کی جائے گی ؟ آپ نے فرمایا ہر وہ شخص جو لاَ إلَہَ إِلاَّ اللَّہُ کا اقرار کرتا ہے اس کی نماز جنازہ پڑھو۔

11981

(۱۱۹۸۲) حدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ یَحْیَی ، عَنِ أبی النُّعْمَانِ ، أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صَلَّی عَلَی وَلَدِ الزِّنَائِ وَعَلَی أَمَۃٍ مَاتَتْ فِی نِفَاسِہَا۔
(١١٩٨٢) حضرت ابو النعمان سے مروی ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ولد زنا اور اس کی ماں کی نماز جنازہ ادا فرمائی جو حالت نفاس میں فوت ہوئی تھی۔

11982

(۱۱۹۸۳) حدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ أَبِی ہِلاَلٍ ، عَنْ أَبِی غَالِبٍ ، قَالَ : قُلْتُ لأَبِی أُمَامَۃَ الرَّجُلُ یَشْرَبُ الْخَمْرَ فَیَمُوتُ أَیُصَلَّی عَلَیْہِ ، قَالَ نَعَمْ لَعَلَّہُ اضْطَجَعَ عَلَی فِرَاشِہِ مَرَّۃً ، فَقَالَ : لاَ إلَہَ إِلاَّ اللَّہُ فَغُفِرَ لَہُ بِہَا۔
(١١٩٨٣) حضرت ابو غالب فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابو امامہ سے دریافت کیا کوئی شخص شراب پی کر فوت ہوجائے کیا اس کی نماز جنازہ ادا کیا جائے گی ؟ آپ نے فرمایا : ہاں شاید اس نے بستر پر لیٹے ہوئے لاَ إلَہَ إِلاَّ اللَّہُ پڑھا ہو اس کی وجہ سے اس کی مغفرت ہوجائے۔

11983

(۱۱۹۸۴) حدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ حَمَّادٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ یُصَلَّی عَلَی الَّذِی قَتَلَ نَفْسَہُ وَعَلَی النُّفَسَائِ مِنَ الزِّنَا وَعَلَی الَّذِی یَمُوتُ عریقًا مِنَ الْخَمْرِ۔
(١١٩٨٤) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ جو شخص خود کشی کرے، یا عورت حالت نفاس میں مرجائے جو نفاس زنا کی وجہ سے آیا تھا، یا کوئی شخص شراب پیتے ہوئے مرجائے ان سب کی نماز جنازہ ادا کی جائے گی۔

11984

(۱۱۹۸۵) حدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الزِّبْرِقَانِ السَّرَّاجِ ، قَالَ : صَلَّی أَبُو وَائِلٍ عَلَی امْرَأَۃٍ مَاتَتْ فَقُلْت لَہُ : إِنَّہَا تُرَہَّقُ ، فَقَالَ : أی بُنَیَّ صَلِّ عَلَی مَنْ صَلَّی إلَی الْقِبْلَۃِ۔
(١١٩٨٥) حضرت زبرقان السراج فرماتے ہیں کہ حضرت ابو وائل نے ایک عورت کی نماز جنازہ پڑھائی، میں نے کہا یہ عورت تو برائی کی طرف منسوب تھی، آپ نے فرمایا میں نے اس کی نماز جنازہ ادا کی ہے جو قبلہ کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتی تھی (مسلمان تھی) ۔

11985

(۱۱۹۸۶) حدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرِِ ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ الأَسْوَد ، عَنْ عَطَائٍ ، قَالَ : صَلِّ عَلَی مَنْ صَلَّی إلَی قبلتک۔
(١١٩٨٦) حضرت عطائ فرماتے ہیں کہ جو آپ کے قبلہ کی طرف رخ کر کے نماز پڑھے (وہ جیسا بھی ہو) اس کے جنازے میں شرکت کی جائے گی۔

11986

(۱۱۹۸۷) حدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ ، قَالَ : مَا أَعْلَمُ ، أَنَّ أَحَدًا مِنْ أَہْلِ الْعِلْمِ ، وَلاَ التَّابِعِینَ ترَکَ الصَّلاَۃَ عَلَی أَحَدٍ مِنْ أَہْلِ الْقِبْلَۃِ تَأَثُمًا۔
(١١٩٨٧) حضرت ابن سیرین فرماتے ہیں کہ مجھے نہیں معلوم کہ اہل علم اور تابعین میں سے کسی نے اھل قبلہ کی نماز جنازہ ترک کی ہو گناہ گار سمجھتے ہوئے۔

11987

(۱۱۹۸۸) حدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ ، عَنْ عَاصِمٍ ، قَالَ : قُلْتُ لِلْحَسَنِ إنَّ لِی جَارًا مِنَ الْخَوَارِجِ مَاتَ أَأَشْہَدُ جِنَازَتَہُ ؟ قَالَ أَخَرَجَ عَلَی الْمُسْلِمِینَ ؟ قَالَ : قُلْتُ لاَ قَالَ فَاشْہَدْ جِنَازَتَہُ فَإِنَّ الْعَمَلَ أَمْلَکُ بِہِ مِنَ الرَّأْیِ۔
(١١٩٨٨) حضرت عاصم فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت حسن سے دریافت کیا میرا خارجی پڑوسی فوت ہوگیا ہے کیا میں اس کے جنازے میں شریک ہوسکتا ہوں ؟ آپ نے فرمایا کیا وہ مسلمانوں کے خروج کیا کرتا تھا ؟ میں نے عرض کیا کہ نہیں، آپ نے فرمایا : تم اس کے جنازے پر جاؤ، عمل رائے سے زیادہ اہم ہے۔

11988

(۱۱۹۸۹) حدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ سِمَاکٍ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ سُمْرَۃَ ، أَنَّ رَجُلاً مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَصَابَتْہُ جِرَاحَۃٌ فَآلَمَتْہُ بِہِ فَدَبَّ إلَی قرْنٍ لَہُ فِی سَیْفِہِ فَأَخَذَ مِشْقَصًا فَقَتَلَ بِہِ نَفْسَہُ فَلَمْ یُصَلِّ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَیْہِ ، وَذَکَرَ شَرِیکٌ ، عَنْ أَبِی جَعْفَرٍ ، قَالَ : إنَّمَا أَدَعُ الصَّلاَۃَ عَلَیْہِ أَدَبًا لَہُ۔ (مسلم ۱۰۷۔ ابوداؤد ۳۱۷۷)
(١١٩٨٩) حضرت جابر بن سمرہ سے مروی ہے کہ اصحاب رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں سے ایک شخص کو زخم لگا جس سے اس کو بہت تکلیف ہوئی، تو وہ پہنچا اپنی تلوار کے کنارے کی طرف اور اس کے پھل سے اپنے آپ کو قتل کردیا تو حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کی نماز جنازہ ادا نہیں فرمائی۔ حضرت ابو جعفر فرماتے ہیں کہ میں نے اس کی نماز جنازہ ان سے ادب حاصل کرنے کے لیے چھوڑی۔

11989

(۱۱۹۹۰) حدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، عَنْ عِمْرَانَ ، قَالَ : سَأَلْتُ إبْرَاہِیمَ النَّخَعِیّ عَنْ إنْسَانٍ قَتَلَ نَفْسَہُ أَیُصَلَّی عَلَیْہِ ؟ قَالَ : نَعَمْ ، إنَّمَا الصَّلاَۃُ سُنَّـۃٌ۔
(١١٩٩٠) حضرت عمران فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابراہیم نخعی سے دریافت کیا کہ ایک شخص نے خود کشی کرلی ہے کیا اس کی نماز جنازہ ادا کی جائے گی ؟ آپ نے فرمایا ہاں، نماز جنازہ تو سنت ہے۔

11990

(۱۱۹۹۱) حدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ أصحَابِہ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ فِی السَّبِیِّ یُسْبَی مِنْ أَرْضِ الْعَدُو ، وَقَالَ : إذَا أَقَرَّ بِالتَّوْحِیدِ وَبِالشَّہَادَتَیْنِ صُلِّیَ عَلَیْہِ۔
(١١٩٩١) حضرت ابراہیم سے دریافت کیا گیا جس قیدی کو دشمن کی زمین سے پکڑا کیا گیا ہو اس کا کیا حکم ہے ؟ آپ نے فرمایا اگر وہ توحید اور شہادتین کا اقرار کرتا ہو تو اس کی نماز جنازہ ادا کی جائے گی۔

11991

(۱۱۹۹۲) حدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنِ الْعَلاَئِ ، عَنْ خَیْثَمَۃَ ، قَالَ : إذْ صَلَّی مَرَّۃً صُلِّیَ عَلَیْہِ۔
(١١٩٩٢) حضرت خیثمہ فرماتے ہیں کہ جب اس نے ایک بار نماز ادا کی ہو تو اس کی نماز جنازہ ادا کی جائے گی۔

11992

(۱۱۹۹۳) حدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : إذَا قَالَ : لاَ إلَہَ إِلاَّ اللَّہُ صُلِّیَ عَلَیْہِ۔
(١١٩٩٣) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ جب وہ لا الہ الا اللہ پڑھ لے تو اس کی نماز جنازہ ادا کی جائے گی۔

11993

(۱۱۹۹۴) حدَّثَنَا شَرِیکٌ، عَنْ عَبْدِاللہِ بْنِ عِیسَی، عَنْ عَبْدِاللہِ بْنِ جبْر، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ، قَالَ: کَانَ شَابٌّ یَہُودِیٌّ یَخْدُمُ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَمَرِضَ فَأَتَاہُ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَعُودُہُ ، فَقَالَ : أَتَشْہَدُ أَنْ لاَ إلَہَ إِلاَّ اللَّہُ ، وَأَنِّی رَسُولُ اللہِ ، قَالَ : فَجَعَلَ یَنْظُرُ إلَی أَبِیہِ ، فَقَالَ : قُلْ کَمَا یَقُولُ لَکَ مُحَمَّدٌ ، فَقَالَ : ثُمَّ مَاتَ ، فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : صَلُّوا عَلَی صَاحِبِکُمْ۔(حاکم ۳۶۳۔ بخاری ۵۶۵۲۔ احمد ۳/۲۶۰)
(١١٩٩٤) حضرت انس بن مالک فرماتے ہیں کہ ایک یہودی نوجوان تھا جو حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت کیا کرتا تھا وہ بیمار ہوگیا تو حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کی عیادت کے لیے تشریف لائے اور فرمایا : کیا تو گواہی دیتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں ؟ اس یہودی نے اپنے باپ کی طرف دیکھا اس کے والد نے کہا اسی طرح کہو جیسا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہہ رہے ہیں، اس نے اسی طرح کہا اور اس کا انتقال ہوگیا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا اپنے ساتھی کی نماز جنازہ ادا کرو۔

11994

(۱۱۹۹۵) حدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنْ سَہْلٍ السَّرَّاجِ ، قَالَ : سَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ سِیرِینَ سُئِلَ عَنْ قَوْمٍ أَقْبَلُوا بِسَبْیٍ فَکَانُوا إِذَا أَمَرُوہُمْ أَنْ یُصَلُّوا صَلُّوا ، وَإِذَا لَمْ یَأْمُرُوہُمْ لَمْ یُصَلُّوا فَمَاتَ رَجُلٌ مِنْہُمْ ، فَقَالَ : تَبَیَّنَ لَکُمْ أَنَّہُ مِنْ أَصْحَابِ الْجَحِیمِ فَقَالُوا : لاَ مَا تَبَیَّنَ لَنَا ، قَالَ : اغْسِلُوہُ وَکَفِّنُوہُ وَحَنِّطُوہُ وَصَلُّوا عَلَیْہِ۔
(١١٩٩٥) حضرت سھل بن سراج فرماتے ہیں کہ محمد بن سیرین سے سوال کیا گیا کہ کچھ لوگ تیری بنا کر لائے گئے۔ ان کی حالت پر کہی کہ اگر انھیں نماز کا کہا جاتا تو نماز پڑھتے، اگر نہ کہا جاتا تو نہ پڑھتے۔ ان میں سے ایک شخص کا انتقال ہوگیا ہے، لیکن اس کی نماز جنازہ ادا کی جائے گی ؟ فرمایا کیا تم پر ظاہر ہوگیا ہے کہ یہ جہنمی ہے ؟ تو انھوں نے جواب دیا نہیں تو فرمایا اس کو غسل دو ، کفن پہناؤ، خوشبو لگاؤ اور اس کی نماز جنازہ ادا کرو۔

11995

(۱۱۹۹۶) حدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ زِیَادٍ ، عَنْ أَبِی عَبْدِ اللہِ الشقْرِیِّ ، قَالَ : قَالَ رَجُلٌ عِنْدَ الشَّعْبِیِّ إنِّی أَجْلِبُ الرَّقِیقَ فَیَمُوتُ بَعْضُہُمْ أَفَأُصَلِّی عَلَیْہِ ، فَقَالَ : إِنْ صَلَّی فَصَلِّ عَلَیْہِ ، وَإِنْ لَمْ یُصَلِّ فَلاَ تُصَلِّ عَلَیْہِ۔
(١١٩٩٦) حضرت ایک شخص نے حضرت شعبی سے عرض کیا میں غلاموں کو جمع کرتا ہوں ان میں سے کوئی مرجاتا ہے تو کیا میں اس کی نماز جنازہ ادا کروں ؟ آپ نے فرمایا اگر وہ نماز ادا کرتا ہو اس کی نماز جنازہ ادا کرو وگرنہ مت ادا کرو۔

11996

(۱۱۹۹۷) حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ أبی خَالِدٍ ، عَنِ ابْنِ أَبِی ذِئْبٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، قَالَ : إذَا تَشَہَّدَ الْکَافِرُ وَہُوَ فِی السَّوقِ صُلِّیَ عَلَیْہِ۔
(١١٩٩٧) حضرت زہری فرماتے ہیں کہ اگر کافر حالت نزع میں شھادت کا اقرار کرے تو اس کی نماز جنازہ ادا کی جائے گی۔

11997

(۱۱۹۹۸) حدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الأَصْبَہَانِی ، قَالَ : أَتَانِی أَبُو صَالِحٍ یُعَزِّینِی ، عَنِ ابْنٍ لِی ، فَأَخَذَ یُحَدِّثُ عَنْ أَبِی سَعِیدٍ ، وَأَبِی ہُرَیْرَۃَ ؛ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قُلْنَ لَہُ النِّسَائُ اجْعَلْ لَنَا یَوْمًا کَمَا جَعَلْتہ لِلرِّجَالِ ، قَالَ : فَجَائَ إلَی النِّسَائِ فَوَعَظَہُنَّ وَعَلَّمَہُنَّ وَأَمَرَہُنَّ ، وَقَالَ لَہُنَّ : مَا مِنِ امْرَأَۃٍ تَدْفِنُ ثَلاَثَۃَ فَرَطٍ إِلاَّ کَانُوا لَہَا حِجَابًا مِنَ النَّارِ ، قَالَ : فَقَالَتِ امْرَأَۃٌ : یَا رَسُول اللہ قَدَّمْتُ اثْنَیْنِ قَالَ : ثَلاَثَۃً ، ثم قَالَ : وَاثْنَیْنِ وَاثْنَیْنِ ، قَالَ أَبُو ہُرَیْرَۃَ : مَنْ لَمْ یَبْلُغِ الْحِنْثَ۔ (بخاری ۱۰۲۔ مسلم ۱۵۳)
(١١٩٩٨) حضرت عبد الرحمن بن الاصبھانی فرماتے ہیں کہ حضرت ابو صالح میرے پاس میرے بیٹے کی تعزیت کے لیے تشریف لائے اور انھوں نے حضرت ابو سعید اور حضرت ابوہریرہ سے مروی حدیث بیان فرمائی کہ ایک مرتبہ عورتوں نے حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا آپ ھمارے لیے بھی ایک دن خاص فرما دیں جس طرح آپ نے مردوں کے لیے کر رکھا ہے، چنانچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عورتوں کے پاس تشریف لائے ان کو وعظ فرمایا، تعلیم دی اور ان کو (مختلف) حکم دیئے، اور ان سے فرمایا : نہیں ہے کوئی عورت جس کے تین نومولود بچے دفن کردیئے گئے ہوں مگر وہ اس کے لیے جہنم کی آگ سے حجاب بنیں گے۔ ایک خاتون نے عرض کیا یارسول اللہ ! میرے تو دو بچے فوت ہوئے ہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تین، پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (ہاں) دو ، دو (بھی) حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ وہ بچے مراد ہیں جو ابھی نابالغ ہوں۔

11998

(۱۱۹۹۹) حدَّثَنَا سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ یَرْفَعُہُ ، قَالَ : مَنْ قدَّمَ ثَلاَثَۃً مِنْ وَلَدِہِ لَنْ یَلِجَ النَّارَ إِلاَّ تَحِلَّۃَ الْقَسَمِ۔ (بخاری ۱۲۵۱۔ مسلم ۲۰۲۸)
(٩٩ ١١٩) حضرت ابوہریرہ سے مرفوعا مروی ہے جس کے تین بچے فوت ہوگئے، اس کو آگ نہیں چھوئے گی مگر بالکل خفیف اور آسانی سے۔

11999

(۱۲۰۰۰) حدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ ، عَنْ طَلْقِ بْنِ مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ أَبِی زُرْعَۃَ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : أَتَتِ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ امْرَأَۃٌ بِصَبِیٍّ ، فَقَالَتْ : یَا رَسُولَ اللہِ ، ادْعُ اللَّہَ لَہُ فَلَقَدْ دَفَنْتُ ثَلاَثَۃً ، قَالَ : دَفَنْتِ ثَلاَثَۃً ؟ قَالَتْ : نَعَمْ ، قَالَ : لَقَدِ احْتَظَرْت بِحِظَارٍ شَدِیدٍ مِنَ النَّارِ۔ (بخاری ۱۴۷۔ مسلم ۱۵۶)
(١٢٠٠٠) حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے ایک عورت اپنا بچہ لے کر خدمت نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں حاضر ہوئی اور عرض کیا یا رسول اللہ ! اس بچے کیلئے اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائیں (اللہ اس کی عمر دراز کرے) تحقیق میں تین بچے دفنا چکی ہوں، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تین بچے دفنا چکی ہو ؟ اس نے عرض کیا : ہاں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : بیشک وہ تیرے لیے آگ کی شدت سے رکاوٹ ہیں (قیامت کے دن) ۔

12000

(۱۲۰۰۱) حدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِی ہِنْدٍ ، حدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ قَیْسٍ ، قَالَ : کُنْتُ عِنْدَ أَبِی بُرْدَۃَ ذَاتَ لَیْلَۃٍ فَدَخَلَ عَلَیْنَا الْحَارِثُ بْنُ أُقَیْشٍ فَحدَّثَنَا الْحَارِثُ لَیْلَتئذٍ ، أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ: مَا مِنَ مُسْلِمَیْنِ یَمُوتُ لَہُمَا أَرْبَعَۃُ أَفْرَاطٍ إِلاَّ أَدْخَلَہُمَا اللَّہُ الْجَنَّۃَ ، قَالُوا: یَا رَسُولَ اللہِ وَثَلاَثَۃٌ، قَالَ : وَثَلاَثَۃٌ قَالُوا : یَا رَسُولَ اللہِ وَاثْنَانِ ، قَالَ : وَاثْنَانِ۔ (ابن ماجہ ۴۳۲۳۔ احمد ۴/۲۱۲)
(١٢٠٠١) حضرت عبداللہ بن قیس فرماتے ہیں کہ میں حضرت ابو بردہ کے پاس ایک رات بیٹھا ہوا تھا، حضرت حارث بن اقیش ہمارے پاس تشریف لائے اور اس رات ہمیں حدیث بیان فرمائی کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جس مسلمان شوہر و بیوی کے چار چھوٹے بچے انتقال کر جائیں اللہ پاک ان دونوں کو جنت میں داخل فرمائیں گے، صحابہ کرام نے عرض کیا یا رسول اللہ ! تین بچے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تین، صحابہ کرام نے عرض کیا یا رسول اللہ ! دو بچے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اور دو بھی۔

12001

(۱۲۰۰۲) حدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ قَیْسٍ ، عَنْ أَبِی رَمْلَۃَ ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ بْنِ مُسْلِمٍ ، عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، أَنَّہُ قَالَ: أَوْجَبَ ذُو الثَّلاَثَۃِ قَالُوا: وَذُو الاِثْنَیْنِ یَا رَسُولَ اللہِ ، قَالَ: وَذُو الاِثْنَیْنِ۔ (ابن ماجہ ۱۶۰۹۔ احمد ۵/۲۳۷)
(١٢٠٠٢) حضرت معاذ بن جبل سے مروی ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : تین چھوٹے بچے فوت ہوجانے والوں پر جنت واجب ہے، صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! دو بچے والوں پر ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دو بچوں والوں بھی جنت واجب ہوچکی۔

12002

(۱۲۰۰۳) حدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ یَزِیدَ ، حدَّثَنَا الْقَاسِمُ ، عَنْ أَبِی أُمَامَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا مِنْ مُؤْمِنَیْنِ یَمُوتُ لَہُمَا ثَلاَثَۃٌ مِنَ الأَوْلاَدِ لَمْ یَبْلُغُوا الْحِنْثَ إِلاَّ أَدْخَلَہُمَا اللَّہُ الْجَنَّۃَ بِفَضْلِ رَحْمَتِہِ إیَّاہُمْ۔ (احمد ۴/۳۸۶)
(١٢٠٠٣) حضرت ابو امامہ سے مروی ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جن مسلمان والدین کے تین چھوٹے نابالغ بچے فوت ہوچکے ہوں اللہ تعالیٰ اپنی رحمت کے فضل سے ان کو (والدین کو) جنت میں داخل فرمائیں گے۔

12003

(۱۲۰۰۴) حدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، حدَّثَنَا عُثْمَانَ بْنُ حَکِیمٍ ، عَنْ عَمْرِو الأَنْصَارِیِّ ، عَنْ أُمِّ سُلَیْمٍ ابنۃ مِلْحَانَ وَہِیَ أُمُّ أَنَسٍ ، أَنَّہَا سَمِعْت النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُول : مَا مِنْ مُسْلِمَیْنِ یَمُوتُ لَہُمَا ثَلاَثَۃٌ مِنْ أَوْلاَدٍ لَمْ یَبْلُغُوا الْحِنْثَ إِلاَّ أَدْخَلَہُمَا اللَّہُ الْجَنَّۃَ بِفَضْلِ رَحْمَتِہِ۔ (احمد ۶/۳۷۶۔ طبرانی ۳۰۶)
(١٢٠٠٤) حضرت ام سلیم فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ : جن مسلمان والدین کے تین چھوٹے نابالغ بچے فوت ہوچکے ہوں اللہ تعالیٰ اپنی رحمت کے فضل سے ان کو (والدین کو) جنت میں داخل فرمائیں گے۔

12004

(۱۲۰۰۵) حدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ ، عَنْ مُوسَی الْجُہَنِیِّ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ : مَنْ قَدَّمَ ثَلاَثَۃً مِنْ وَلَدِہِ صَابِرًا مُحْتَسِبًا حَجَبُوہُ بِإِذْنِ اللہِ مِنَ النَّارِ۔
(١٢٠٠٥) حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ جس کے تین چھوٹے بچے اس حالت میں انتقال کر گئے کہ وہ صابر ہے اور ثواب کا امید وار ہے تو وہ اس کے لیے اللہ کے حکم سے آگ سے حجاب ہوں گے۔

12005

(۱۲۰۰۶) حدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، أَخْبَرَنَا ہِشَامُ بْنُ حَسَّانَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : حدَّثَنِی صَعْصَعَۃُ بْنُ مُعَاوِیَۃَ ، قَالَ : لَقِیت أَبَا ذَرٍّ فَقُلْت : حَدِّثْنِی حَدِیثًا سَمِعْتَہُ مِنْ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : مَا مِنْ مُسْلِمَیْنِ یَمُوتُ لَہُمَا ثَلاَثَۃٌ مِنْ أَوْلاَدِہِمَا لَمْ یَبْلُغُوا حِنْثًا إِلاَّ أَدْخَلَہُمَا اللَّہُ الْجَنَّۃَ بِفَضْلِ رَحْمَتِہِ۔ (نسائی ۲۰۰۲۔ احمد ۵/۱۵۱)
(١٢٠٠٦) حضرت ابو ذر فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا : جن مسلمان والدین کے تین چھوٹے نابالغ بچے فوت ہوچکے ہوں اللہ تعالیٰ اپنی رحمت کے فضل سے ان کو (والدین کو) جنت میں داخل فرمائیں گے۔

12006

(۱۲۰۰۷) حدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، أَخْبَرَنَا الْعَوَّامُ بْنُ حَوْشَبٍ ، قَالَ : حدَّثَنِی أَبُو مُحَمَّدٍ مَوْلَی عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ ، عَنْ أَبِی عُبَیْدَۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : أَیُّمَا مُسْلِمَیْنِ مَضَی لَہُمَا مِنْ أَوْلاَدِہِمَا ثَلاَثَۃٌ لَمْ یَبْلُغُوا حِنْثًا إِلاَّ أَدْخَلَہُمَا اللَّہُ الْجَنَّۃَ ، فَقَالَ أَبُو ذَرٍّ مَضَی لِی اثْنَانِ یَا رَسُولَ اللہِ ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : وَاثْنَانِ ، فَقَالَ أَبُو الْمُنْذِرِ سَیِّدُ الْقُرَّائِ مَضَی لِی وَاحِدٌ یَا رَسُولَ اللہِ ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : ووَاحِدٌ وَذَلِکَ فِی الصَّدْمَۃِ الأُولَی۔(ترمذی ۱۰۶۱۔ احمد ۱/۴۲۹)
(١٢٠٠٧) حضرت عبداللہ سے مروی ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جن مسلمان والدین کے تین نابالغ بچے وفات پاجائیں اللہ تعالیٰ ان دونوں کو جنت میں داخل فرمائیں گے، حضرت ابو ذر نے عرض کیا یا رسول اللہ ! میرے دو بچے فوت ہوچکے ہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اور دو میں بھی (جنت واجب ہے) حضرت ابو المنذر نے عرض کیا یا رسول اللہ ! میرا ایک بچہ فوت ہوچکا ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرماتا ایک میں بھی اور (یہ تب ہے جب) مصیبت کے آغاز پر ہی صبر کیا جائے۔

12007

(۱۲۰۰۸) حدَّثَنَا شَبَابَۃُ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ مُعَاوِیَۃَ بْنِ قُرَّۃَ ، عَنْ أَبِیہِ : أَنَّ رَجُلاً کَانَ یَأْتِی النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَمَعَہُ ابْنٌ لَہُ ، فَقَالَ لَہُ : رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : أَتُحِبُّہُ ؟ قَالَ : أَحَبَّک اللَّہُ کَمَا أحِبُّہُ ، قَالَ فَفَقَدَہُ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : مَا فَعَلَ ابْنُک ، فَقَالَ : أَشَعَرْتَ أَنَّہُ تُوُفِّیَ ، فَقَالَ لَہُ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : أَمَا یَسُرُّک ، أَنَّہُ لاَ تَأْتِی بَابًا مِنْ أَبْوَابِ الْجَنَّۃِ تَسْتَفْتِحُہُ إِلاَّ جَائَ یَسْعَی حَتَّی یََفْتحَہُ لَکَ ، فَقَالَ : یَا رَسُولَ اللہِ أَلَہُ خَاصَّۃً أَمْ لِلنَّاسِ عَامَّۃً ؟ قَالَ : لَکُمْ عَامَّۃً۔ (نسائی ۱۹۹۷۔ احمد ۳/۴۳۶)
(١٢٠٠٨) حضرت معاویہ بن قرہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص حضور اقدس کی خدمت میں حاضر ہوا اس کے ساتھ اس کا چھوٹا بیٹا بھی تھا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے فرمایا کیا تو اس سے محبت کرتا ہے ؟ فرمایا اللہ تعالیٰ تجھ سے محبت کرے جس طرح تو اس سے محبت کرتا ہے، پھر (کچھ عرصہ بعد) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس بچے کو گم پایا تو فرمایا : تیرے بیٹے کو کیا ہوا ؟ پھر فرمایا : کیا تو نے اس کی وفات کا اعلان کروایا تھا ؟ پھر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے فرمایا : کیا تو اس بات سے راضی نہیں ہے کہ تو جنت کے دروازوں میں سے کسی دروازے پر آئے اس کو کھلوانے کیلئے، مگر تیرا بیٹا دوڑتا ہوا آئے اور تیرے لیے جنت کا دروازہ کھلوا دے ؟ اس شخص نے عرض کیا یا رسول اللہ ! یہ صرف میرے لیے خاص ہے یا لوگوں کیلئے عام ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم سب کے لیے ہے۔

12008

(۱۲۰۰۹) حدَّثَنَا مُصْعَبُ بْنُ الْمِقْدَامِ ، حدَّثَنَا مِنْدَلٌ ، حدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ الْحَکَمِ ، عَنْ أَسْمَائَ بِنْتِ عَابِسٍ ، عَنْ أَبِیہَا ، عَنْ عَلِیٍّ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إنَّ السِّقْطَ لَیُرَاغِمُ رَبَّہُ إن أدْخِلَ أَبَوَاہُ النَّارَ حَتَّی یُقَالَ أَیُّہَا السِّقْطُ الْمُرَاغِمُ رَبَّہُ اربفَعْ فَإِنِّی أَدْخَلْت أَبَوَیْک الْجَنَّۃَ ، قَالَ : فَیَجُرُّہُمَا بِسَرَرِہِ ، حَتَّی یُدْخِلَہُمَا الْجَنَّۃَ۔ (ابن ماجہ ۱۶۰۸۔ بزار ۸۱۵)
(١٢٠٠٩) حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے مروی ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : بیشک جنین اپنے رب سے پناہ مانگے گا کہ اس کے والدین کو آگ میں داخل کیا جائے، یہاں تک کہ اس کو کہا جائے گا، اے اپنے رب سے پناہ مانگنے والے بچے ٹھہر جا : بیشک میں نے تیرے والدین کو جنت میں داخل کردیا ہے، اور فرمایا : وہ بچہ ان دونوں کو (والدین کو) ناف کاٹنے کی جگہ سے کھینچ کر جنت میں داخل کروا دے گا۔

12009

(۱۲۰۱۰) حدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ ، حَدَّثَنا یَزِیدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِکِ النَّوْفَلِیُّ ، عَنْ یَزِیدَ بْنِ رُومَانَ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لَسِقْط أُقَدِّمُہُ بَیْنَ یَدَیَّ أَحَبُّ إلَیَّ مِنْ فَارِسٍ أَخْلُفُہُ خَلْفِی۔ (ابن ماجہ ۱۶۰۷)
(١٢٠١٠) حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : چھوٹا بچہ مقدم کیا جائے میرے آگے یہ مجھے زیادہ پسند ہے اس بات سے کہ وہ شہسوار بن کر (میدان جہاد) میں میرے پیچھے آئے۔

12010

(۱۲۰۱۱) حدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ حَسَّانَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِیرِینَ ، قَالَ : حَدَّثَتْنِی امْرَأَۃٌ کَانَتْ تَأْتِینَا یُقَالُ لَہَا مَاوِیَۃٌ ، أَنَّہَا دَخَلَتْ عَلَی عُبَیْدِ اللہِ بْنِ مَعْمَرٍ ، وَعِنْدَہُ رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَحَدَّثَ ذَلِکَ الرَّجُلُ عُبَیْدَ اللہِ بْنَ مَعْمَرٍ : عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، أَنَّ امْرَأَۃً أَتَتْہُ بِصَبِیٍّ لَہَا ، فَقَالَتْ : یَا رَسُولَ اللہِ ادْعُ أَنْ یُبْقِیَہُ فَقَدْ مَضَی لِی ثَلاَثَۃٌ ، فَقَالَ : لَہَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : أَمُنْذُ أَسْلَمْتِ قَالَتْ نَعَمْ ، قَالَ : جُنَّۃٌ حَصِینَۃٌ مِنَ النَّارِ ، إِلاَّ أَنَّہُ قَالَ لَہَا : أَمُنْذُ أَسْلَمْت ثَلاَثَۃٌ جُنَّۃٌ حَصِینَۃٌ مِنَ النَّارِ قَالَتْ : فَقَالَ لی عُبَیْدُ اللہِ : یَا مَاوِِیَۃُ تَعَالَی فَاسْمَعِی ہَذَا الْحَدِیثَ ، قَالَتْ : فسَمِعْتُہُ ، ثُمَّ خَرَجَتْ مِنْ عِنْدِ عُبَیْدِ اللہِ فَأَتَتْنَا ، وَحَدَّثَتْنَا بِہِ۔
(١٢٠١١) حضرت محمد بن سیرین فرماتے ہیں کہ مجھ سے ایک عورت نے بیان کیا جو ہمارے پاس آئی تھی جس کا نام ماویہ تھا، وہ کہتی ہے کہ میں حضرت عبید اللہ بن معمر کی خدمت میں حاضر ہوئی ان کے پاس نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ میں سے ایک صحابی موجود تھے، اس صحابی نے بیان کا کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں ایک خاتون اپنا بچہ لے کر حاضر ہوئی اور عرض کیا اے اللہ کے رسول ! اس کے لیے دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ اس کو باقی رکھیں بیشک میرے تین بچے فوت ہوچکے ہیں، آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے فرمایا : کیا جب سے تو مسلمان ہوئی ہے تب سے ؟ اس نے کہا جی ہاں، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : وہ تیرے لیے آگ سے محفوظ ڈھال ہے۔

12011

(۱۲۰۱۲) حدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمُحَارِبِیُّ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ عَطَائٍ ، قَالَ : إذَا دُفِنَ الرَّجُلُ وَالْمَرْأَۃُ فِی قَبْرٍ قُدِّمَ الرَّجُلُ أمام الْمَرْأَۃِ۔
(١٢٠١٢) حضرت عطائ فرماتے ہیں کہ اگر مرد اور عورت کو ایک ہی قبر میں دفن کیا جائے تو مرد کو عورت کے آگے مقدم کریں گے۔

12012

(۱۲۰۱۳) حدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَنْ زَائِدَۃَ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، وَعَطَائٍ ؛ فِی الرَّجُلِ وَالْمَرْأَۃِ یُدْفَنَانِ فِی الْقَبْرِ قَالاَ : یُقَدَّمُ الرَّجُلُ أَمَامَ الْمَرْأَۃِ فِی الْقَبْرِ۔
(١٢٠١٣) حضرت مجاہد اور حضرت عطائ فرماتے ہیں کہ اگر مرد اور عورت کو ایک ہی قبر میں دفن کیا جائے تو مرد کو عورت کے آگے مقدم کریں گے۔

12013

(۱۲۰۱۴) حدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، أَنَّ عَلِیًّا کَانَ إذَا صَلَّی عَلَی جَنَائِزِ رِجَالٍ وَنِسَائٍ جَعَلَ الرِّجَالَ مِمَّا یَلُونَہُ وَالنِّسَائَ مِمَّا یَلِی الْقِبْلَۃَ ، وَإِذَا دَفَنَہُمْ قَدَّمَ الرَّجُلَ وَأَخَّرَ النِّسَائَ۔
(١٢٠١٤) حضرت ابو اسحاق فرماتے ہیں کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ جب مردوں اور عورتوں کا اکٹھا جنازہ پڑھاتے تو مردوں کو امام کی طرف (قریب) رکھتے اور عورتوں کو قبلہ کے قریب رکھتے۔ اور جب ان کو دفن فرماتے تو پہلے مردوں کو رکھتے پھر عورتوں کو۔

12014

(۱۲۰۱۵) حدَّثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ؛ فِی الرَّجُلِ وَالْمَرْأَۃِ یُدْفَنَانِ فِی قَبْرٍ وَاحِدٍ ، قَالَ : یُقَدَّمُ الرَّجُلُ أَمَامَہَا۔
(١٢٠١٥) حضرت قتادہ فرماتے ہیں کہ اگر ایک قبر میں مرد اور عورت کو دفن کیا جائے تو مرد کو اس کے آگے مقدم کیا جائے گا۔

12015

(۱۲۰۱۶) حدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ یَزِیدَ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، قَالَ : إذَا دُفِنَ الرَّجُلُ وَالْمَرْأَۃُ فِی قَبْرٍ وَاحِدٍ جُعِلَ الرَّجُلُ قُدَّامَ الْمَرْأَۃِ۔
(١٢٠١٦) حضرت قتادہ سے اسی کے مثل منقول ہے۔

12016

(۱۲۰۱۷) حدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ مُوسَی ، عَنْ وَاثِلَۃَ بْنِ الأَسْقَعِ ؛ فِی امْرَأَۃٍ نَصْرَانِیَّۃٍ فِی بَطْنِہَا وَلَدٌ مِنْ مُسْلِمٍ ، قَالَ : تُدْفَنُ فِی مَقْبَرَۃٍ لَیْسَت مَقْبَرَۃَ الْیَہُودِ وَالنَّصَارَی۔
(١٢٠١٧) حضرت واثلہ بن اسقع فرماتے ہیں کہ وہ نصرانی عورت جس کے پیٹ میں مسلمان کا بچہ ہو تو اس مقبرہ میں دفن کریں گے جو یہود و نصاریٰ کا نہ ہو۔

12017

(۱۲۰۱۸) حدَّثَنَا سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ عَمْرٍو قَالَ مَاتَتِ امْرَأَۃٌ بِالشَّامِ وَفِی بَطْنِہَا وَلَدٌ مِنْ مُسْلِمٍ وَہِیَ نَصْرَانِیَّۃٌ فَأَمَرَ عُمَرُ أَنْ تُدْفَنَ مَعَ الْمُسْلِمِینَ مِنْ أَجْلِ وَلَدِہَا۔
(١٢٠١٨) حضرت عمرو فرماتے ہیں کہ ایک نصرانی عورت کا انتقال ہوگیا اس کے پیٹ میں مسلمان کا بچہ تھا، حضرت عمر نے فرمایا اس کو اس کے بچے کی وجہ سے مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کرو۔

12018

(۱۲۰۱۹) حدَّثَنَا وَکِیعُ بْنُ الْجَرَّاحِ ، عَنْ حَنْظَلَۃَ ، عَنِ الْقَاسِمِ ، قَالَ : الْحَائِضُ لاَ تُصَلِّی عَلَی الْجِنَازَۃِ۔
(١٢٠١٩) حضرت قاسم فرماتے ہیں کہ حائضہ عورت نماز جنازہ نہیں ادا کرے گی۔

12019

(۱۲۰۲۰) حدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ مُحِلٍّ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : سُئِلَ عَنِ الْحَائِضِ تُصَلِّی عَلَی الْجِنَازَۃِ ، قَالَ : لاَ وَلاَ الطَّاہِرَ۔
(١٢٠٢٠) حضرت محل فرماتے ہیں کہ حضرت امام شعبی سے حائضہ عورت کے متعلق دریافت کیا گیا کہ کیا وہ نماز جنازہ ادا کرے گی ؟ آپ نے فرمایا : نہ حائضہ ادا کرے گی اور نہ ہی طاھرہ عورت۔

12020

(۱۲۰۲۱) حدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ حَبِیب بنِ أَبِی ثَابِتٍ ، قَالَ : سَأَلْتُ عَطَائً تُصَلِّی الْحَائِضُ عَلَی الْجِنَازَۃِ ؟ قَالَ : لاَ۔
(١٢٠٢١) حضرت عبداللہ بن حبیب بن ابی ثابت فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عطائ سے دریافت کیا حائضہ عورت نماز جنازہ ادا کرے گی ؟ آپ نے فرمایا نہیں۔

12021

(۱۲۰۲۲) حدَّثَنَا عِیسَی بْنُ یُونُسَ ، عَنْ ثَوْرٍ عَمَّنْ حَدَّثَہُ ، أَنَّ أَبَا عُبَیْدَۃَ صَلَّی عَلَی رُؤُوسٍ بِالشَّامِ۔
(١٢٠٢٢) حضرت ثور سے مروی ہے کہ حضرت ابو عبیدہ نے کھوپڑیوں پر نماز جنازہ ادا فرمائی۔

12022

(۱۲۰۲۳) حدَّثَنَا عِیسَی ، عَنْ ثَوْرٍ ، عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ ، عَنْ أَبِی عُبَیْدَۃَ مِثْلَہُ۔
(١٢٠٢٣) حضرت خالد بن معدان سے اسی کے مثل منقول ہے۔

12023

(۱۲۰۲۴) حدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ رَجُلٍ ، أَنَّ أَبَا أَیُّوبَ صَلَّی عَلَی رِجْلٍ۔
(١٢٠٢٤) حضرت سفیان ایک شخص سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابو ایوب نے ایک ٹانگ پر نماز پڑھائی۔

12024

(۱۲۰۲۵) حدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ عَامِرٍ ، أَنَّ عُمَرَ صَلَّی عَلَی عِظَامٍ بِالشَّامِ۔
(١٢٠٢٥) حضرت عامر سے مروی ہے کہ حضرت عمر نے ہڈیوں پر نماز جنازہ ادا فرمائی شام کے علاقہ میں۔

12025

(۱۲۰۲۶) حدَّثَنَا مَرْوَانُ ، عَنْ صَاعِدٍ بْنِ مُسْلِمٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ سُئِلَ عَنْ قَتِیلٍ وُجِدَ فِی ثَلاَثَۃِ أَحْیَائَ رَأْسُہُ فِی حَیٍّ ، وَوَسَطُہُ فِی حَیٍّ وَرِجْلُہُ فِی حَیٍّ ، قَالَ یُصَلَّی عَلَی الْوَسَطِ۔
(١٢٠٢٦) حضرت صاعد بن مسلم فرماتے ہیں کہ حضرت شعبی سے دریافت کیا گیا کہ مقتول تین جگہوں میں (محلوں) پایا گیا، اس کا سر ایک جگہ، درمیانہ حصہ ایک جگہ اور ٹانگیں دوسری جگہ ؟ آپ نے فرمایا اس کے درمیانی حصہ پر نماز جنازہ ادا کی جائے گی۔

12026

(۱۲۰۲۷) حدَّثَنَا سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ عَامِرِ بْنِ رَبِیعَۃَ ، یَبْلُغُ بِہِ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : إذَا رَأَیْتُمُ الْجِنَازَۃَ فَقُومُوا لَہَا حَتَّی تُخَلِّفَکُمْ ، أَوْ تُوضَعَ۔ (بخاری ۱۳۰۷۔ ابوداؤد ۳۱۶۴)
(١٢٠٢٧) حضرت عامر بن ربیعہ فرماتے ہیں کہ مجھے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ بات پہنچی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جب تم جنازہ گزرتے ہوئے دیکھو تو کھڑے ہو جاؤ یہاں تک کہ وہ تمہیں پیچھے چھوڑ (کر آگے نکل جائے) یا وہ رکھ دیا جائے۔

12027

(۱۲۰۲۸) حدَّثَنَا عَبْدَۃُ ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، عَنْ عَامِرِ بْنِ رَبِیعَۃ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، مِثْلَ حَدِیثِ سُفْیَانَ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، أَوْ نَحْوَہُ۔ (بخاری ۱۳۰۸۔ مسلم ۷۵)
(١٢٠٢٨) حضرت عامر بن ربیعہ سے اسی کے مثل منقول ہے۔

12028

(۱۲۰۲۹) حدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو ، عَنْ أَبِی سَلَمَۃَ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : مُرَّ عَلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِجِنَازَۃٍ فَقَامَ ، وَقَالَ لِمَنْ مَعَہُ ، قُومُوا فَإِنَّ لِلْمَوْتِ فَزَعًا۔ (ابن ماجہ ۱۵۴۳۔ احمد ۲/۲۸۷)
(١٢٠٢٩) حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس سے ایک جنازہ گزرا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کھڑے ہوگئے اور اپنے ساتھ والوں سے فرمایا : کھڑے ہو جاؤ بیشک موت کے لیے خوف اور گھبراہٹ ہے۔

12029

(۱۲۰۳۰) حدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ حَکِیمٍ : عَنْ خَارِجَۃَ بْنِ زَیْدٍ ، عَنْ عَمِّہِ یَزِیدَ بْنِ ثَابِتٍ ، أَنَّہُ کَانَ جَالِسًا مَعَ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی أَصْحَابِہِ فَطَلَعَتْ جِنَازَۃٌ ، فَلَمَّا رَآہَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ثَارَ وَثَارَ أَصْحَابُہُ فَلَمْ یَزَالُوا قِیَامًا حَتَّی تَعَدَّتْ ، وَاللَّہِ مَا أَدْرِی مِنْ تَأَذُّ بِہَا ، أَوْ مِنْ تَضَایُقِ الْمَکَانِ وَمَا أَحْسَبُہَا إِلاَّ یَہُودِیۃ ، أَوْ یَہُودِیًّا ، وَمَا سَأَلْنَاہُ عَنْ قِیَامِہِ۔ (احمد ۴/۳۸۸۔ حاکم ۵۹۱)
(١٢٠٣٠) حضرت خارجہ بن زید اپنے چچا حضرت یزید بن ثابت سے روایت کرتے ہیں کہ وہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ تشریف فرما تھے کہ ایک جنازہ نکلا، جب حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو دیکھا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کھڑے ہوگئے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ بھی کھڑے ہوگئے اور جنازے کے گزرنے تک کھڑے رہے، میں نہیں سمجھتا کہ آپ کسی تکلیف یا جگہ کی تنگی کی وجہ سے کھڑے ہوئے ہوں، اور میرا خیال ہے کہ یہ یہودی مرد یا عورت کا جنازہ تھا ہم نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کھڑے ہونے کی وجہ دریافت نہ کی۔

12030

(۱۲۰۳۱) حدَّثَنَا مُعَاوِیَۃُ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، عَنْ أَبِی مَعْمَرٍ عَبْدِ اللہِ بْنِ سَخْبَرَۃَ ، أَنَّ أَبَا مُوسَی أَخْبَرَہُمْ ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ إذَا مَرَّتْ بِہِ جِنَازَۃٌ قَامَ حَتَّی تُجَاوِزَہُ۔ (ابویعلی ۲۶۶)
(١٢٠٣١) حضرت ابو موسیٰ سے مروی ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس سے جب کوئی جنازہ گزرتا تو آپ کھڑے ہوجاتے جب تک کہ وہ گزر نہ جاتا۔

12031

(۱۲۰۳۲) حدَّثَنَا الْفَضْلُ ، وَکَثِیرُ بْنُ ہِشَامٍ ، عَنْ ہِشَامٍ الدَّسْتَوَائِیِّ ، عَنْ یَحْیَی ، عَنْ أَبِی سَلَمَۃَ ، عَنْ أَبِی سَعِیدٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إذَا رَأَیْتُمُ الْجِنَازَۃَ فَقُومُوا۔
(١٢٠٣٢) حضرت ابو سعید سے مروی ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا جب تم جنازہ دیکھو تو کھڑے ہو جاؤ۔

12032

(۱۲۰۳۳) حدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ زَکَرِیَّا ، عَنِ الشَّعْبِیِّ : عَنْ أَبِی سَعِیدٍ ، أَنَّہُ مَرَّتْ بِہِ جِنَازَۃٌ فَقَامَ ، فَقَالَ لَہُ مَرْوَانُ : اجْلِسْ ، فَقَالَ : إنِّی رَأَیْت رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَرَّتْ بِہِ جِنَازَۃٌ فَقَامَ ، فَقَامَ مَرْوَانُ۔ (نسائی ۲۰۴۶۔ احمد ۳/۵۳)
(١٢٠٣٣) حضرت شعبی فرماتے ہیں کہ حضرت ابو سعید کے پاس سے جنازہ گزرا تو آپ کھڑے ہوگئے، مروان نے کہا بیٹھ جائیے، آپ نے فرمایا کہ میں نے خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیکھا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جنازے کو دیکھ کر کھڑے ہوگئے یہ سن کر مروان بھی کھڑا ہوگیا۔

12033

(۱۲۰۳۴) حدَّثَنَا وَکِیعٌ، عَنْ زَکَرِیَّا، عَنِ الشَّعْبِیِّ، عَنِ ابْنِ أَبِی لَیْلَی، أَنَّ قَیْسًا وَأَبَا مَسْعُودٍ مَرَّتْ بِہِمَا جِنَازَۃٌ فَقَامَا۔
(١٣١٣٤) حضرت ابن ابی لیلیٰ فرماتے ہیں کہ حضرت قیس اور حضرت ابو مسعود کے پاس سے جنازہ گذرتا تو یہ دونوں کھڑے ہوجاتے۔

12034

(۱۲۰۳۵) حدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ یَزِیدَ ، عَنِ ابْنِ أَبِی لَیْلَی ، قَالَ : قالُوا لِعَلِیٍّ : إنَّ أَبَا مُوسَی أَمَرَ بِذَلِکَ ، وَقَالَ : إنَّ الْمَلاَئِکَۃَ یَکُونُونَ مَعَہَا فَقُومُوا لَہَا۔
(١٢٠٣٥) حضرت ابن ابی لیلیٰ فرماتے ہیں کہ لوگوں نے حضرت علی سے کہا کہ حضرت ابو موسیٰ اس کا حکم دیتے ہیں۔ (آپ کی کیا رائے ہے) آپ نے فرمایا : بیشک ملائکہ اس کے ساتھ ہوتے ہیں تم ان کے لیے کھڑے ہوجایا کرو۔

12035

(۱۲۰۳۶) حدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : مَا عَلِمْت أَحَدًا کَانَ یَقُومُ إذَا مَرُّوا عَلَیْہِ بِالْجِنَازَۃِ غَیْرَ عَمْرِو بْنِ مَیْمُونٍ۔
(١٢٠٣٦) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ میں حضرت عمرو بن میمون کے علاوہ کسی کو نہیں جانتا کہ جس کے پاس سے جنازہ گزرتا ہو اور وہ کھڑا ہوجاتا ہو (صرف حضرت عمرو کھڑے ہوا کرتے تھے) ۔

12036

(۱۲۰۳۷) حدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ أَبِی بشر ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ، أَنَّہُ شَہِدَہ وَسَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللہِ وَمَرَّتْ بِہِمَا جِنَازَۃٌ فَقَامَ سَالِمٌ ، وَلَمْ یَقُمْ سَعِیدٌ۔
(١٢٠٣٧) حضرت ابو بشر فرماتے ہیں کہ حضرت سعید بن المسیب اور حضرت سالم بن عبداللہ حاضر تھے کہ ان کے پاس سے جنازہ گزرا، حضرت سالم کھڑے ہوگئے لیکن حضرت سعید کھڑے نہ ہوئے۔

12037

(۱۲۰۳۸) حدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ الْوَلِیدِ بْنِ الْمُہَاجِرِ ، قَالَ : رَأَیْتُ الشَّعْبِیَّ مَرَّتْ بِہِ جِنَازَۃٌ فَقَامَ۔
(١٢٠٣٨) حضرت ولید بن المہاجر فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت شعبی کو دیکھا کہ ان کے پاس سے جنازہ گزرا تو وہ کھڑے ہوگئے۔

12038

(۱۲۰۳۹) حدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إسْمَاعِیلَ ، عَنْ جَعْفَرٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : کَانَ الْحَسَنُ بْنُ عَلِیٍّ جَالِسًا فَمُرَّ عَلَیْہِ جِنَازَۃٌ فَقَامَ النَّاسُ حِینَ طَلَعَتِ الْجِنَازَۃُ ، فَقَالَ : الْحَسَنُ بْنُ عَلِیٍّ إنَّمَا مُرَّ عَلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِجِنَازَۃِ یَہُودِیٍّ وَکَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَی طَرِیقِہَا جَالِسًا فَکَرِہَ أَنْ یَعْلُوَ رَأْسَہُ جِنَازَۃُ یَہُودِیّۃ فَقَامَ۔ (نسائی ۲۰۵۴۔ احمد ۱/۲۰۱)
(١٢٠٣٩) حضرت جعفر اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت حسن بن علی تشریف فرما تھے کہ آپ کے پاس سے جنازہ گزرا، جب جنازہ ان کے پاس سے گزرا تو لوگ کھڑے ہوگئے، حضرت حسن بن علی نے ارشاد فرمایا ایک دفعہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس سے ایک یہودی کا جنازہ گزرا اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کے راستہ میں تشریف فرما تھے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس بات کو ناپسند فرمایا کہ یہودی کا جنازہ آپ کے سر سے بلند ہو چنانچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کھڑے ہوگئے۔

12039

(۱۲۰۴۰) حدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ ، عَنِ ابْنِ أَبِی لَیْلَی ، أَنَّ قَیْسَ بْنَ سَعْدٍ وَسَہْلَ بْنَ حُنَیْفٍ کَانَا بِالْقَادِسِیَّۃِ ، فَمَرَّتْ بِہِمَا جِنَازَۃٌ فَقَامَا ، فَقِیلَ لَہُمَا : إِنَّہَا مِنْ أَہْلِ الأَرْضِ فَقَالاَ : إنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَرَّتْ بِہِ جِنَازَۃٌ فَقَامَ فَقِیلَ لَہُ ، أَنَّہُ یَہُودِیٌّ ، فَقَالَ : أَلَیْسَتْ نَفْسًا۔ (بخاری ۱۳۱۲۔ مسلم ۶۶۱)
(١٢٠٤٠) حضرت ابن ابی لیلیٰ فرماتے ہیں کہ حضرت قیس بن سعد اور حضرت سھل بن حنیف قادسیہ میں تھے کہ آپ کے پاس سے جنازہ گزرا تو آپ دونوں حضرات کھڑے ہوگئے، آپ سے عرض کیا گیا یہ اہل ارض میں سے ہے (مسلمان نہیں ہے) تو انھوں نے فرمایا ایک بار حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس سے ایک جنازہ گزرا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کھڑے ہوگئے، آپ کو کہا گیا یہ تو یہودی تھا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : کیا یہ انسان نہیں ہے ؟۔

12040

(۱۲۰۴۱) حدَّثَنَا سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنِ ابْنِ أَبِی نَجِیحٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، عَنْ أَبِی مَعْمَرٍ ، عَنْ عَلِیٍّ ، قَالَ : کُنَّا جُلُوسًا فَمَرَّتْ جِنَازَۃٌ فَقُمْنَا ، فَقَالَ : مَا ہَذَا فَقُلْنَا ہَذَا أَمْرُ أَبِی مُوسَی ، فَقَالَ : إنَّمَا قَامَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَرَّۃً ، ثُمَّ لَمْ یَعُدْ۔ (احمد ۱۴۲۔ نسائی ۲۰۵۰)
(١٢٠٤١) حضرت ابی معمر فرماتے ہیں کہ ھم لوگ بیٹھے ہوئے تھے کہ جنازہ گذرا ہم کھڑے ہوگئے، حضرت علی نے فرمایا یہ کیا ہے ؟ ھم نے عرض کیا حضرت ابو موسیٰ نے ہمیں اس کا حکم فرمایا ہے، آپ نے فرمایا حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صرف ایک بار کھڑے ہوئے تھے پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کھڑے ہونے کا اعادہ نہ فرمایا۔

12041

(۱۲۰۴۲) حدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ یَزِیدَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِی لَیْلَی ، قَالَ : کُنَّا مَعَ عَلِیٍّ فَمُرَّ عَلَیْنَا بِجِنَازَۃٍ ، فَقَامَ رَجُلٌ ، فَقَالَ عَلِیٌّ : مَا ہَذَا لکَأنَ ہَذَا مِنْ صَنِیعِ الْیَہُودِ۔
(١٢٠٤٢) حضرت عبد الرحمن بن ابی لیلیٰ فرماتے ہیں کہ ھم حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے پاس تھے کہ ہمارے پاس سے ایک جنازہ گذرا، ایک شخص کھڑا ہوگیا، حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا یہ کیا ہے ؟ یہ تو یہود کے طریقوں میں سے ہے۔

12042

(۱۲۰۴۳) حدَّثَنَا عبد الوہاب الثَّقَفِیُّ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنْ مُحَمَّدٍ ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِیٍّ ، وَابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّہُمَا رَأَیَا جِنَازَۃً فَقَامَ أَحَدُہُمَا وَقَعَدَ الآخَرُ ، فَقَالَ الَّذِی قَامَ لِلَّذِی لَمْ یَقُمْ أَلَمْ یَقُمْ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ؟ قَالَ : بَلَی ، ثُمَّ قَعَدَ۔ (نسائی ۲۰۵۲۔ طبرانی ۲۷۴۷)
(١٢٠٤٣) حضرت محمد فرماتے ہیں کہ حضرت حسن بن علی اور حضرت عبداللہ بن عباس نے جنازہ دیکھا تو ان میں سے ایک کھڑے ہوگئے اور دوسرے بیٹھے رہے، جو کھڑے ہوئے تھے انھوں نے ان سے پوچھا جو کھڑے نہ ہوئے تھے کہ کیا حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کھڑے نہ ہوتے تھے ؟ انھوں کہا کیوں نہیں پھر بیٹھ گئے۔

12043

(۱۲۰۴۴) حدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، قَالَ : کَانَ أَصْحَابُ عَلِیٍّ وَأَصْحَابُ عَبْدِ اللہِ لاَ یَقُومُونَ لِلْجَنَائِزِ إذَا مَرَّتْ بِہِمْ۔
(١٢٠٤٤) حضرت ابو اسحاق فرماتے ہیں کہ حضرت علی اور حضرت عبداللہ کے اصحاب کے پاس سے جب جنازہ گذرتا تو کھڑے نہ ہوتے۔

12044

(۱۲۰۴۵) حدَّثَنَا وَکِیعُ بْنُ الْجَرَّاحِ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ حَمَّادٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : کَانَ أَصْحَابُ عَبْدِ اللہِ تَمُرُّ بِہِمُ الْجَنَائِزُ فَلاَ یَقُومُ مِنْہُمْ أَحَدٌ۔
(١٢٠٤٥) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ کے اصحاب کے پاس سے جنازہ گزرا تو ان میں سے کوئی بھی کھڑا نہ ہوا۔

12045

(۱۲۰۴۶) حدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِِ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : لَمْ یَکُونُوا یَقُومُوا لِلْجَنَائِزِ إذَا مَرَّتْ بِہِمْ۔
(١٢٠٤٦) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ (صحابہ کرام) کے پاس سے جب جنازہ گزرتا تو وہ کھڑے نہ ہوتے تھے۔

12046

(۱۲۰۴۷) حدَّثَنَا حُمَیْدٌ ، عَنْ حَسَنٍ ، عَنْ لَیْثٍ ، قَالَ : کَانَ عَطَائٌ وَمُجَاہِدٌ یَرَیَانِ الْجِنَازَۃَ ، فَلاَ یَقُومَانِ إلَیْہَا۔
(١٢٠٤٧) حضرت لیث فرماتے ہیں کہ حضرت عطائ اور حضرت مجاہد نے جنازہ دیکھا لیکن کھڑے نہ ہوئے۔

12047

(۱۲۰۴۸) حدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْکَدِرِ ، عَنْ مَسْعُودِ بْنِ الْحَکَمِ ، قَالَ : قَالَ عَلِیٌّ قَامَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِلْجِنَازَۃِ فَقُمْنَا ، ثُمَّ جَلَسَ فَجَلَسْنَا۔ (ابوداؤد ۳۱۶۷۔ ترمذی ۱۰۴۴)
(١٢٠٤٨) حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جنازے کے لیے کھڑے ہوئے تو ھم بھی کھڑے ہوگئے، پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف فرما ہوئے تو ھم بھی بیٹھ گئے۔

12048

(۱۲۰۴۹) حدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ بْنُ عَیَّاشٍ ، عَنْ أَرْطَاۃَ بْنِ الْمُنْذِرِ ، أَنَّ أَبَا الدَّرْدَائِ عَادَ جَارًا لَہُ یَہُودِیًّا۔
(١٢٠٤٩) حضرت ارطاۃ بن المنذر فرماتے ہیں کہ حضرت ابو الدردائ نے اپنے پڑوسی یہودی کی عیادت کی۔

12049

(۱۲۰۵۰) حدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ ، عَنْ سُفْیَانَ عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ عُمَارَۃَ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ : أَنَّ أَبَا طَالِبٍ مَرِضَ فَعَادَہُ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔ (ترمذی ۳۲۳۲۔ حاکم ۴۳۲)
(١٢٠٥٠) حضرت عبداللہ بن عباس فرماتے ہیں کہ ابو طالب بیمار ہوئے تو حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی عیادت فرمائی۔

12050

(۱۲۰۵۱) حدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عِیسَی ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ جُبَیْرٍ ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ : کَانَ شَابٌّ یَہُودِیٌّ یَخْدُمُ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَمَرِضَ فَأَتَاہُ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَعُودُہُ۔
(١٢٠٥١) حضرت انس فرماتے ہیں کہ ایک یہودی نوجون حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت کرتا تھا وہ بیمار ہوا تو حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کے پاس تشریف لائے اور اس کی عیادت کی۔

12051

(۱۲۰۵۲) حدَّثَنَا أَبُو أسامۃ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، قَالَ : حدَّثَنَا عَبَّادٌ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ : أَنَّ أَبَا طَالِبٍ مَرِضَ فَعَادَہُ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔
(١٢٠٥٢) حضرت عبداللہ بن عباس فرماتے ہیں ابو طالب بیمار ہوئے تو حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی عیادت فرمائی۔

12052

(۱۲۰۵۳) حدَّثَنَا ہُشَیْمٌ وَحَفْصٌ ، عَنِ الشَّیْبَانِیِّ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ : قَالَ : صَلَّی النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَی قَبْرٍ بَعْدَ مَا دُفِنَ۔ (بخاری ۱۳۱۹۔ ابوداؤد ۵۳)
(١٢٠٥٣) حضرت عبداللہ بن عباس ارشاد فرماتے ہیں کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میت کو دفنانے کی بعد اس کی قبر پر نماز جنازہ ادا فرمائی۔

12053

(۱۲۰۵۴) حدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا عُثْمَانُ بْنُ حَکِیمٍ ، أَخْبَرَنَا خَارِجَۃُ بْنُ زَیْدٍ ، عَنْ عَمِّہِ یَزِیدَ بْنِ ثَابِتٍ وَکَانَ أَکْبَرَ مِنْ زَیْدٍ ، قَالَ : خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَلَمَّا وَرَدْنَا الْبَقِیعَ إذَا ہُوَ بِقَبْرٍ جَدِیدٍ فَسَأَلَ عَنْہُ فَقَالُوا : ہَذِہِ فُلاَنَۃٌ فَعَرَفَہَا ، فَأَتَی الْقَبْرَ وَصَفَفْنَا خَلْفَہُ ، فَکَبَّرَ عَلَیْہَا أَرْبَعًا۔
(١٢٠٥٤) حضرت خارجہ بن زید اپنے چچا حضرت یزید بن ثابت سے روایت کرتے ہیں کہ ہم حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ایک بار نکلے جب ہم جنت البقیع میں آئے تو وہاں ایک نئی قبر تھی، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے بارے میں دریافت فرمایا ؟ صحابہ کرام نے عرض کیا فلاں خاتون کی قبر ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو پہچانا اور اس کی قبر کے پاس آئے ہم نے آپ کے پیچھے صفیں بنائیں اور آپ نے اس پر چار تکبیریں پڑھیں، (نماز جنازہ ادا فرمائی) ۔

12054

(۱۲۰۵۵) حدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنْ حُمَیْدِ بْنِ ہِلاَلٍ ، أَنَّ الْبَرَائَ بْنَ مَعْرُورٍ تُوُفِّیَ قَبْلَ قُدُومِ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْمَدِینَۃَ ، فَلَمَّا قَدِمَ صَلَّی عَلَیْہِ۔
(١٢٠٥٥) حضرت حمید بن ھلال فرماتے ہیں کہ حضرت البراء بن معرور حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مدینہ تشریف لانے سے پہلے ہی وفات پاچکے تھے، جب حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ تشریف لائے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی نماز جنازہ ادا فرمائی۔

12055

(۱۲۰۵۶) حدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ آدَمَ ، حدَّثَنَا سُفْیَان ، عَنْ أَبِی سِنَانٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ الْحَارِثِ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صَلَّی عَلَی مَیِّتٍ بَعْدَ مَا دُفِنَ۔ (ابویعلی ۲۵۱۷)
(١٢٠٥٦) حضرت عبداللہ بن عباس ارشاد فرماتے ہیں کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے میت کو دفنانے کے بعد اس کی نماز جنازہ ادا فرمائی۔

12056

(۱۲۰۵۷) حدَّثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ، أَنَّ أُمَّ سَعْدِ بْنِ عُبَادَۃَ مَاتَتْ وَہُوَ غَائِبٌ ، فَلَمَّا قَدِمَ أَتَی النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : یَا رَسُولَ اللہِ إنِّی أُحِبُّ أَنْ تُصَلِّیَ عَلَی أُمِّ سَعْدٍ فَأَتَی النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَبْرَہَا فَصَلَّی عَلَیْہَا۔ (ترمذی ۱۰۳۸۔ بیہقی ۴۸)
(١٢٠٥٧) حضرت سعید بن المسیب فرماتے ہیں کہ حضرت ام سعد بن عبادہ کا انتقال ہوا تو حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) موجود نہ تھے، جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے تو وہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ ! میں چاہتا ہوں کہ آپ ام سعد کی نماز جنازہ ادا فرمائیں، چنانچہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کی قبر پر تشریف لائے اور نماز جنازہ ادا فرمائی۔

12057

(۱۲۰۵۸) حدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ، عَنِ الْقَاسِمِ : أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَتَی الْبَقِیعَ فَرَأَی قَبْرًا جَدِیدًا ، فَقَالَ : مَا ہَذَا الْقَبْرُ ؟ فَقِیلَ : فُلاَنَۃُ مَوْلاَۃُ بَنِی غَنْمٍ الَّتِی کَانَتْ تَقُمُّ الْمَسْجِدَ فَصَلَّی عَلَیْہَا۔ (عبدالرزاق ۶۵۴۱)
(١٢٠٥٨) حضرت قاسم فرماتے ہیں کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جنت البقیع میں تشریف لائے اور آپ نے وہاں ایک نئی قبر دیکھی تو دریافت فرمایا یہ کس کی قبر ہے ؟ عرض کیا گیا فلاں خاتون کی جو بنو غنم کی باندی تھی اور مسجد کی صفائی کیا کرتی تھی، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کی نماز جنازہ ادا فرمائی۔

12058

(۱۲۰۵۹) حدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، أَخبَرَنَا أَشْعَثُ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : جَائَ قَرَظَۃُ بْنُ کَعْبٍ فِی رَہْطٍ مَعَہُ ، وَقَدْ صلَّی عَلِیٌّ علی ابْنِ حُنَیْفٍ وَدُفِنَ ، فَأَمَرَہُ عَلِیٌّ أَنْ یُصَلِّیَ ہُوَ وَأَصْحَابُہُ عَلَی الْقَبْرِ ، فَفَعَلَ۔
(١٢٠٥٩) حضرت شعبی فرماتے ہیں کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ حضرت ابن حنیف کی نماز جنازہ ادا کر کے ان کو دفنا چکے تھے، اتنے میں قرظہ بن کعب چند رفقاء کے ساتھ تشریف لے آئے، حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے ان کو حکم فرمایا کہ وہ اور ان کے ساتھی ان کی قبر پر جا کر نماز جنازہ ادا کریں، چنانچہ انھوں نے اسی طرح کیا۔

12059

(۱۲۰۶۰) حدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنِ الْحَکَمِ ، قَالَ : جَائَ سَلْمَانُ بْنُ رَبِیعَۃَ وَقَدْ صَلَّی عَبْدُ اللہِ عَلَی جِنَازَۃٍ ، فَقَالَ لَہُ عَبْدُ اللہِ : تَقَدَّمْ فَصَلِّ عَلَی أَخِیک بِأَصْحَابِک۔
(١٢٠٦٠) حضرت حکم فرماتے ہیں کہ حضرت سلمان بن ربیعہ تشریف لائے اس وقت حضرت عبداللہ نماز جنازہ ادا کرچکے تھے، حضرت عبداللہ نے ان سے فرمایا : آگے بڑھو اور اپنے ساتھیوں کے ساتھ اپنے بھائی کی نماز جنازہ ادا کرو۔

12060

(۱۲۰۶۱) حدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ ، عَنْ أَبَانٍَ الْعَطَّارِ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ أَبِی کَثِیرٍ أَنَّہ بَلَغَہُ أَنَّ أَنَسًا صَلَّی عَلَی جِنَازَۃٍ بعد أَنَّ صُلِّیَ عَلَیْہَا۔
(١٢٠٦١) حضرت یحییٰ بن ابی سعید فرماتے ہیں کہ حضرت انس نے نماز جنازہ ادا کیے جانے بعد اس کی نماز جنازہ ادا فرمائی۔

12061

(۱۲۰۶۲) حدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ أَیُّوبَ عَنِ ابْنِ أَبِی مُلَیْکَۃَ ، قَالَ تُوُفِّیَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِی بَکْرٍ فِی مَنْزِلٍ کَانَ فِیہِ فَحَمَلْنَاہُ عَلَی رِقَابِنَا سِتَّۃَ أَمْیَالٍ إلَی مَکَّۃَ وَعَائِشَۃُ غَائِبَۃٌ فَقَدِمَتْ بَعْدَ ذَلِکَ ، فَقَالَتْ أَرُونِی قَبْرَہُ فَأَرُوہَا فَصَلَّتْ عَلَیْہِ۔
(١٢٠٦٢) حضرت ابن ابی ملیکہ فرماتے ہیں کہ حضرت عبد الرحمن بن ابی بکر کا انتقال ہوگیا جہاں وہ تھے، تو ان کے ساتھیوں نے ان کے جنازے کو اٹھا کر چھ میل سفر کر کے مکہ لائے اور دفن کردیا، حضرت عائشہ موجود نہ تھیں، جب آپ تشریف لائیں تو فرمایا مجھے قبر دکھلاؤ، جب آپ کو قبر دکھائی تو آپ نے ان کی نماز جنازہ ادا فرمائی۔

12062

(۱۲۰۶۳) حدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنْ نَافِعٍ ، قَالَ تُوُفِّیَ عَاصِمُ بْنُ عُمَرَ ، وَابْنُ عُمَرَ غَائِبٌ فَقَدِمَ بَعْدَ ذَلِکَ ، قَال أَیُّوبُ أَحْسَبُہُ ، قَالَ بِثَلاَثٍ ، قَالَ : فَقَالَ : أَرُونِی قَبْرَ أَخِی فَأَرُوہُ فَصَلَّی عَلَیْہِ۔
(١٢٠٦٣) حضرت نافع فرماتے ہیں کہ حضرت عاصم بن عمر کا انتقال ہوا تو حضرت عبداللہ بن عمر حاضر نہ تھے، پھر بعد میں جب آپ تشریف لائے، ایوب راوی کہتے ہیں کہ میرا خیال ہے تین دن بعد آئے، تو فرمایا مجھے بھائی کی قبر دکھلاؤ، آپ کو دکھائی گئی تو آپ نے اس پر نماز ادا فرمائی۔

12063

(۱۲۰۶۴) حدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، أَخْبَرَنَا أَبُو حُرَّۃَ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ ، أَنَّہُ کَانَ یَقُولُ إذَا سُبِقَ الرّجلُ بِالْجِنَازَۃِ فلیُصَلّ عَلَی الْقَبْرِ۔
(٢٠٦٤ ا ١) حضرت ابن سیرین فرماتے ہیں کہ جب کسی شخص سے نماز جنازہ سبقت کر جائے (وہ نماز جنازہ ادا نہ کرسکے) تو اس کو چاہیے کہ قبر پر جا کر نماز ادا کرلے۔

12064

(۱۲۰۶۵) حدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا ابْنُ عَوْنٍ ، قَالَ : کُنْتُ مَعَ ابْنِ سِیرِینَ وَنَحْنُ نُرِیدُ جِنَازَۃً فَسُبِقْنَا بِہَا حَتَّی دُفِنَتْ ، قَالَ : فَقَالَ ابْنُ سِیرِینَ : تَعَالَ حَتَّی نَصْنَعَ کَمَا صَنَعُوا ، قَالَ : فَکَبَّرَ عَلَی الْقَبْرِ أَرْبَعًا۔
(١٢٠٦٥) حضرت ابن عون فرماتے ہیں کہ میں حضرت ابن سیرین کے پاس تھا اور ہم جنازے کا انتظار کر رہے تھے وہ ہم سے پہلے ہی ادا کرلیا گیا اور دفن کردیا گیا۔ حضرت ابن سیرین نے فرمایا آ جاؤ ہم وہی کرتے ہیں جو انھوں نے کیا پھر آپ نے قبر پر چار تکبیریں کہیں۔

12065

(۱۲۰۶۶) حدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ آدَمَ ، حدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللہِ الْمُرَادِیِّ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ ، عَنْ خَیْثَمَۃَ ، أَنَّ أَبَا مُوسَی صَلَّی عَلَی الْحَارِثِ بْنِ قَیْسٍ بَعْدَ مَا صُلِّیَ عَلَیْہِ ، أَدْرَکَہُمْ فِی الْجَبَّانَۃِ ، فَصَلَّی عَلَیْہِ بَعْدَ مَا صُلِّیَ عَلَیْہِ ، قَالَ یَحْیَی : وَقَالَ شَرِیکٌ مَرَّۃً : أَمَّ أَبُو مُوسَی عَلَیْہِ وَاسْتَغْفَرَ لَہُ۔
(١٢٠٦٦) حضرت خیثمہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابو موسیٰ نے حضرت حارث بن قیس کی نماز جنازہ ادا ہوجانے کے بعد ان کی نماز جنازہ ادا فرمائی ان کو جنگل میں پایا اور نماز جنازہ ادا ہوجانے کے بعد نماز جنازہ ادا فرمائی، یحییٰ راوی کہتے ہیں کہ ایک بار حضرت شریک نے فرمایا : حضرت ابو موسیٰ نے امامت کروائی اور ان کے لیے استغفار کیا۔

12066

(۱۲۰۶۷) حدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ ، عَنِ الْمُثَنَّی بْنِ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، أَنَّ بُشَیْرَ بْنَ کَعْبٍ انْتَہَی إلَی جِنَازَۃٍ وَقَدْ صُلِّیَ عَلَیْہَا فَصَلَّی۔
(١٢٠٦٧) حضرت قتادہ فرماتے ہیں کہ حضرت بشیر بن کعب جب جنازے کے پاس پہنچے تو نماز جنازہ ہوچکی تھی، آپ نے پھر نماز جنازہ پڑھی۔

12067

(۱۲۰۶۸) حدَّثَنَا سَعِیدُ بْنُ یَحْیَی ، عَنْ سُفْیَانَ بْنِ حُسَیْنٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ أَبِی أُمَامَۃَ بْنِ سَہْلٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَعُودُ فُقَرَائَ أَہْلِ الْمَدِینَۃِ ، وَیَشْہَدُ جَنَائِزَہُمْ إذَا مَاتُوا ، قَالَ : فَتُوُفِّیَتِ امْرَأَۃٌ مِنْ أَہْلِ الْعَوَالِی فَدَفَنَّاہَا ، قَالَ : فَمَشَی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إلَی قَبْرِہَا ، فَصَلَّی عَلَیْہَا وَکَبَّرَ أَرْبَعًا۔
(١٢٠٦٨) حضرت ابو امامہ بن سھل اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فقرائے اھل مدینہ کی عیادت فرماتے اور ان کے مرنے پر ان کی نماز جنازہ ادا فرماتے، فرماتے ہیں اھل عوالی میں سے ایک خاتون کا انتقال ہوا تو اس کو دفن کردیا گیا، حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کی قبر پر تشریف لائے اور اس کی نماز جنازہ ادا فرمائی اور چار تکبیریں پڑھیں۔

12068

(۱۲۰۶۹) حدَّثَنَا دَاوُد بْنُ عَبْدِ اللہِ ، حدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِیزِ بْنُ مُحَمَّدٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ زَیْدِ بْنِ الْمُہَاجِرِ بْنِ قُنْفُذٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَامِرِ بْنِ رَبِیعَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : مَرَّ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِقَبْرٍ حَدِیثٍ ، فَقَالَ : مَا ہَذَا الْقَبْرُ ؟ فَقَالُوا : قَبْرُ فُلاَنَۃٍ ، قَالَ : فَہَلاَّ آذَنْتُمُونِی ، فَصَفَّ عَلَیْہِ فَصَلَّی ۔(ابن ماجہ ۱۵۲۹۔ احمد ۳/۴۴۴)
(١٢٠٦٩) حضرت عبداللہ بن عامر بن ربیعہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک نئی قبر کے پاس سے گزرے تو فرمایا یہ کس کی قبر ہے ؟ صحابہ کرام نے عرض کیا فلاں خاتون کی ہے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مجھے کیوں اطلاع نہ دی ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کی قبر پر صفیں بنائی اور نماز ادا کی۔

12069

(۱۲۰۷۰) حدَّثَنَا جَرِیرُ بْنُ عَبْدِ الْحَمِیدِ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : لاَ یُصَلَّی عَلَی الْمَیِّتِ مَرَّتَیْنِ۔
(١٢٠٧٠) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں میت کی نماز جنازہ دو بار نہیں پڑھی جائے گی۔

12070

(۱۲۰۷۱) حدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا أَبُو حُرَّۃَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، أَنَّہُ کَانَ إذَا سُبِقَ بِالْجِنَازَۃِ یَسْتَغْفِرُ لَہَا وَیَجْلِسُ ، أَوْ یَنْصَرِفُ۔
(١٢٠٧١) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ جب نماز جنازہ ادا ہوچکی ہو تو اس کے لیے استغفار کرے، اور بیٹھ جائے یا چلا جائے۔

12071

(۱۲۰۷۲) حدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ ، عَنْ أَشْعَثَ ، قَالَ : کَانَ الْحَسَنُ لاَ یَرَی أَنْ یُصَلِّی عَلَی الْقَبْرِ۔
(١٢٠٧٢) حضرت اشعث فرماتے ہیں کہ حضرت حسن قبر پر نماز جنازہ ادا کرنے کو اچھا نہ سمجھتے تھے۔

12072

(۱۲۰۷۳) حدَّثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ الثَّقَفِیُّ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنْ أَبِی قِلاَبَۃَ ، عَنْ أَبِی الْمُہَلَّبِ ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَیْنٍ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، أَنَّہُ قَالَ : إنَّ أَخًا لَکُمْ قَدْ مَاتَ ، فَقُومُوا فَصَلُّوا عَلَیْہِ ، یَعْنِی النَّجَاشِیَّ۔ (ترمذی ۱۰۳۹۔ مسلم ۶۷)
(١٢٠٧٣) حضرت عمران بن حصین سے مروی ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : تمہارے بھائی کا انتقال ہوچکا ہے، کھڑے ہو جاؤ اور اس کی نماز جنازہ اد ا کرو، یعنی نجاشی کی۔

12073

(۱۲۰۷۴) حدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَیْنٍ ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : إنَّ أَخَاکُمُ النَّجَاشِیَّ قَدْ مَاتَ فَصَلُّوا عَلَیْہِ۔ (احمد ۴/۴۴۱)
(١٢٠٧٤) حضرت عمران بن حصین سے مروی ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : تمہارے بھائی نجاشی کا انتقال ہوگیا ہے، ان کی نماز جنازہ ادا کرو۔

12074

(۱۲۰۷۵) حدَّثَنَا عَفَّانَ ، حدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ مُفَضَّلٍ ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ ، عَنْ أَبِی الْمُہَلَّبِ ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَیْنٍ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، بِنَحْوٍ مِنْ حَدِیثِ عَبْدِ الأَعْلَی۔ (ترمذی ۱۰۳۹۔ نسائی ۲۱۰۲)
(١٢٠٧٥) حضرت عمران بن حصین سے اسی کے مثل منقول ہے۔

12075

(۱۲۰۷۶) حدَّثَنَا مُعَاوِیَۃُ بْنُ ہِشَامٍ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ حُمْرَانَ بْنِ أَنَسٍ ، عَنْ أَبِی الطُّفَیْلِ ، عَنْ ابن جاریۃ الأَنْصَارِیِّ ، أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : إنَّ أَخَاکُمُ النَّجَاشِیَّ قَدْ مَاتَ فَصَلُّوْا عَلَیْہِ۔ (ابن ماجہ ۱۵۳۶۔ احمد ۴/۶۴)
(١٢٠٧٦) حضرت ابن جاریہ انصاری سے مروی ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : تمہارے بھائی نجاشی کا انتقال ہوگیا ہے، ان کی نماز جنازہ ادا کرو۔

12076

(۱۲۰۷۷) حدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : إنَّ النَّجَاشِیَّ قَدْ مَاتَ ، فَخَرَجَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إلَی الْبَقِیعِ وأصحابہ فَصَفَفْنَا خَلْفَہُ وَتَقَدَّمَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَکَبَّرَ أَرْبَعَ تَکْبِیرَاتٍ۔
(١٢٠٧٧) حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے کہ جب نجاشی کا انتقال ہوا تو حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے صحابہ جنت البقیع تشریف لے گئے ہم نے آپ کے پیچھے صفیں بنائیں، حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آگے بڑھے اور چار تکبیریں کہیں۔

12077

(۱۲۰۷۸) حدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللہِ الأَسَدِیُّ ، عَنْ شَرِیکٍ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنْ جَرِیرٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إنَّ أَخَاکُمُ النَّجَاشِیَّ قَدْ مَاتَ فَاسْتَغْفِرُوا لَہُ۔ (احمد ۴/۳۶۳۔ طبرانی ۲۳۴۷)
(١٢٠٧٨) حضرت جریر سے مروی ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : تمہارے بھائی نجاشی کا انتقال ہوچکا ہے اس کے لیے استغفار کرو۔

12078

(۱۲۰۷۹) حدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، أَخبرَنَا سَلِیمُ بْنُ حَیَّانَ ، حدَّثَنَا سَعِیدُ بْنُ مِینَائَ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ : أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہَ وَسَلَّمَ صَلَّی عَلَی أَصْحَمَۃَ النَّجَاشِیِّ وَکَبَّرَ عَلَیْہِ أَرْبَعًا۔
(١٢٠٧٩) حضرت جابر بن عبداللہ سے مروی ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اصحمہ نجاشی کی نماز جنازہ ادا کی اور اس پر چار تکبیریں پڑھیں۔

12079

(۱۲۰۸۰) حدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الْحَسَنِ وَابْنِ سِیرِینَ : أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صَلَّی عَلَی النَّجَاشِیِّ ، وَقَالَ الْحَسَنُ إنَّمَا دَعَا لَہُ۔
(١٢٠٨٠) حضرت ابن سیرین سے مروی ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نجاشی کی نماز جنازہ ادا فرمائی اور حضرت حسن فرماتے ہیں اس کے لیے دعا فرمائی۔

12080

(۱۲۰۸۱) حدَّثَنَا مُعَمَّرُ بْنُ سُلَیْمَانَ الرَّقِّیُّ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ الْحُصَیْنِ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ؛ الرجُلُ أَحَقُّ بِغُسْلِ امْرَأَتِہِ وَالصَّلاَۃِ عَلَیْہَا۔
(١٢٠٨١) حضرت عبداللہ بن عباس ارشاد فرماتے ہیں کہ شوہر عورت کو غسل دینے اور اس کی نماز جنازہ پڑھانے کا زیادہ حق دار ہے۔

12081

(۱۲۰۸۲) حدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، أَنَّہُ کَانَ إذَا سُبِقَ بِالْجِنَازَۃِ الأَبُ أَحَقُّ بِالصَّلاَۃِ عَلَی الْمَرْأَۃِ ، ثُمَّ الزَّوْجُ ، ثُمَّ الأَخُ۔
(١٢٠٨٢) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ عورت کی نماز جنازہ پڑھانے کا سب سے زیادہ حق دار اس کا والد ہے، پھر اس کا شوہر پھر اس کا بھائی۔

12082

(۱۲۰۸۳) حدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ عَبْدِ الْکَرِیمِ ، عَنْ عَطَائٍ ، قَالَ : الرَّجُلُ أَحَقُّ بِامْرَأَتِہِ حَتَّی یُوَارِیَہَا۔
(١٢٠٨٣) حضرت عطائ فرماتے ہیں کہ شوہر عورت کی نماز جنازہ کا زیادہ حق دار ہے۔

12083

(۱۲۰۸۴) حدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ یَزِیدَ بْنِ أَبِی سُلَیْمَانَ ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، قَالَ : مَاتَتِ امْرَأَۃٌ لِعُمَرَ ، فَقَالَ : أَنَا کُنْت أَوْلَی بِہَا إذْ کَانَتْ حَیَّۃً ، أَمَّا الآنَ فَأَنْتُمْ أَوْلَی بِہَا۔
(١٢٠٨٤) حضرت مسروق فرماتے ہیں کہ حضرت عمر کی اہلیہ کا انتقال ہوا تو آپ نے فرمایا : جب یہ زندہ تھی تو میں اس کا زیادہ حق دار تھا، اور اب (مرنے کے بعد) تم اس کے زیادہ حق دار ہو۔

12084

(۱۲۰۸۵) حدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، قَالَ : سَأَلْتُ الْحَکَمَ وَحَمَّادًا أَیُّہُمَا أَحَقُّ بِالصَّلاَۃِ عَلَی المرأۃ ، فَقَالَ الْحَکَمُ : الأَخُ ، وَقَالَ حَمَّادٌ : قَالَ إبْرَاہِیمُ : الإِمَامُ ، فَإِنْ تَدَارَوْا فَالْوَلِیُّ ، ثُمَّ الزَّوْجُ۔
(١٢٠٨٥) حضرت شعبہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت حکم اور حضرت حماد سے دریافت کیا عورت کی نماز جنازہ کا زیادہ حق دار کون ہے ؟ حضرت حکم فرماتے ہیں کہ امام زیادہ حق دار ہے، اگر امام اور بھائی جمع ہوجائیں تو ولی زیادہ حق دار ہے پھر خاوند کا زیادہ حق ہے۔

12085

(۱۲۰۸۶) حدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : إذَا مَاتَتِ الْمَرْأَۃُ انْقَطَعَتْ عِصْمَۃُ مَا بَیْنَہَا وَبَیْنَ زَوْجِہَا۔
(١٢٠٨٦) حضرت شعبی فرماتے ہیں کہ جب عورت کا انتقال ہوجائے تو اس کے اور اس کے شوہر کا ازدواجی رشتہ ختم ہوجاتا ہے۔

12086

(۱۲۰۸۷) حدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، قَالَ : الأَبُ وَالاِبْنُ وَالأَخُ أَحَقُّ بِالصَّلاَۃِ عَلَی الْمَرْأَۃِ مِنَ الزَّوْجِ۔
(١٢٠٨٧) حضرت زہری فرماتے ہیں کہ عورت کے اولیاء شوہر سے زیادہ نماز جنازہ کے حق دار ہیں۔

12087

(۱۲۰۸۸) حدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ، عَنِ ابْنِ أَبِی عَرُوبَۃَ، عَنْ قَتَادَۃَ، أَنَّہُ کَانَ یَقُولُ: الأَوْلِیَائُ أَحَقُّ بِالصَّلاَۃِ عَلَیْہَا مِنَ الزَّوْجِ۔
(١٢٠٨٨) حضرت قتادہ فرماتے ہیں عورت کے اولیاء شوہر سے زیادہ نماز جنازہ کے حق دار ہیں۔

12088

(۱۲۰۸۹) حدَّثَنَا ابْنُ أَبِی غَنِیۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنِ الْحَکَمِ ، قَالَ : إذَا مَاتَتِ الْمَرْأَۃُ فَقَدِ انْقَطَعَ مَا بَیْنَہَا وَبَیْنَ زَوْجِہَا ، وَأَوْلِیَاؤُہَا أَحَقُّ بِہَا۔
(١٢٠٨٩) حضرت حکم فرماتے ہیں کہ جب عورت کا انتقال ہوجائے تو اس کے اور اس کے شوہر کے درمیان جو رشتہ ازدواج ہے وہ ختم ہوجاتا ہے، اس عورت کے اولیاء اس کی نماز جنازہ کے زیادہ حق دار ہوتے ہیں۔

12089

(۱۲۰۹۰) حدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ قَیْسٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : الزَّوْجُ أَحَقُّ مِنَ الأَخِ۔
(١٢٠٩٠) حضرت شعبی فرماتے ہیں کہ شوہر بھائی سے زیادہ حق دار ہے۔

12090

(۱۲۰۹۱) حدَّثَنَا شَبَابَۃُ ، حدَّثَنَا شُعْبَۃُ ، عَنْ أَبِی کَعْبٍ ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِیزِ بْنِ أَبِی بَکْرَۃَ ، قَالَ : کَانَتِ امْرَأَۃٌ مِنْ بَنِی تَمِیمٍ ، امْرَأَۃً لأَبِی بَکْرَۃَ ، فَمَاتَتْ فَتَنَازَعُوا فِی الصَّلاَۃِ عَلَیْہَا ، فَصَلَّی عَلَیْہَا أَبُو بَکْرَۃَ ، وَقَالَ : لَوْلاَ أَنِّی أَحَقّکُم بِالصَّلاَۃِ عَلَیْہَا مَا صَلَّیْت عَلَیْہَا۔
(١٢٠٩١) حضرت عبد العزیز بن ابی بکرہ فرماتے ہیں کہ بنی تمیم کی ایک خاتون حضرت ابو بکرہ کے عقد نکاح میں تھی، جب اس کا انتقال ہوا تو اس کی نماز جنازہ کے بارے میں جھگڑا ہوا، اس کی نماز جنازہ حضرت ابو بکرہ نے پڑھائی اور فرمایا اگر میں تم سے زیادہ حق دار نہ ہوتا تو اس کی نماز جنازہ نہ پڑھاتا۔

12091

(۱۲۰۹۲) حدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : مَا صُلِّیَ عَلَی أَبِی بَکْرٍ إِلاَّ فِی الْمَسْجِدِ۔
(١٢٠٩٢) حضرت ہشام بن عروہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابوبکر صدیق کی نماز جنازہ مسجد میں ہی ادا کی گئی۔

12092

(۱۲۰۹۳) حدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ کَثِیرِ بْنِ زَیْدٍ ، عَنِ الْمُطَّلِبِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ حَنْطَبٍ ، قَالَ : صُلِّیَ عَلَی أَبِی بَکْرٍ وَعُمَرَ تُجَاہَ الْمِنْبَرِ۔
(١٢٠٩٣) حضرت عبد المطلب بن عبداللہ بن حنطب فرماتے ہیں کہ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کی نماز جنازہ منبر کی طرف رخ کر کے ادا کی گئی۔

12093

(۱۲۰۹۴) حدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ، عَنْ مَالِکِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ عُمَرَ صُلِّیَ عَلَیْہِ فِی الْمَسْجِدِ۔
(١٢٠٩٤) حضرت عبداللہ بن عمر فرماتے ہیں کہ حضرت عمر کی نماز جنازہ مسجد میں ادا کی گئی۔

12094

(۱۲۰۹۵) حدَّثَنَا یُونُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حدَّثَنَا فُلَیْحُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ صَالِحِ بْنِ الْعَجْلاَنِ ، عَنْ عَبَّادِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ الزُّبَیْرِ: عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ : وَاللَّہِ مَا صَلَّی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَی سُہَیْلِ ابْنِ بَیْضَائَ إِلاَّ فِی الْمَسْجِدِ۔ (مسلم ۱۰۰۔ ترمذی ۱۰۳۳)
(١٢٠٩٥) حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ خدا کی قسم حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت سھیل بن بیضائ کی نماز جنازہ مسجد میں ادا فرمائی۔

12095

(۱۲۰۹۶) حدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، حدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو ، حدَّثَنَا أَشْیَاخُنَا ، أَنَّ عُمَرَ صُلِّیَ عَلَیْہِ عِنْدَ الْمِنْبَرِ فَجَعَلَ النَّاسُ یُصَلُّونَ عَلَیْہِ أَفْوَاجًا۔
(١٢٠٩٦) حضرت محمد بن عمرو سے مروی ہے کہ حضرت عمر کی نماز جنازہ منبر کے قریب ادا کی گئی لوگ فوج در فوج ان کی نماز جنازہ ادا کر رہے تھے۔

12096

(۱۲۰۹۷) حدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ ، عَنِ ابْنِ أَبِی ذِئْبٍ ، عَنْ صَالِحٍ مَوْلَی التَّوْأَمَۃِ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَنْ صَلَّی عَلَی جِنَازَۃٍ فِی الْمَسْجِدِ فَلاَ صلاۃ لَہُ ، قَالَ : وَکَانَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إذَا تَضَایَقَ بِہِمُ الْمَکَانُ رَجَعُوا ، وَلَمْ یُصَلُّوا۔ (ابوداؤد ۳۱۸۴۔ ابن ماجہ ۱۵۱۷)
(١٢٠٩٧) حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جس نے نماز جنازہ مسجد میں ادا کی اس کی نماز نہیں ہوئی۔ راوی کہتے ہیں کہ صحابہ کرام جب جگہ تنگ ہوجاتی تو واپس لوٹ جاتے لیکن نماز ادا نہ کرتے۔

12097

(۱۲۰۹۸) حدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ ابْنِ أَبِی ذِئْبٍ ، عَنْ صَالِحٍ مَوْلَی التَّوْأَمَۃِ عَمَّنْ أَدْرَکَ أَبَا بَکْرٍ وَعُمَرَ أَنَّہُمْ کَانُوا إذَا تَضَایَقَ بِہِمُ الْمُصَلَّی انْصَرَفُوا ، وَلَمْ یُصَلُّوا عَلَی الْجِنَازَۃِ فِی الْمَسْجِدِ۔
(١٢٠٩٨) حضرت صالح ان حضرات سے روایت کرتے ہیں جنہوں نے شیخین کا زمانہ پایا وہ فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام واپس لوٹ جاتے جب جناز گاہ میں جگہ تنگ ہوجاتی لیکن نماز جنازہ مسجد میں ادا نہ فرماتے۔

12099

حدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ بَقِیُّ بْنُ مَخْلَدٍ ، حدَّثَنَا أَبُو بَکْرٍ عَبْدُ اللہِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِی شَیْبَۃَ۔ (۱۲۱۰۰) حدَّثَنَا سَلاَّمٌ أَبُو الأَحْوَصِِ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبْزَی ، قَالَ : کَانَ عَلِیٌّ إذَا انْتَہَی إلَیْہِ نَعْیُ الرَّجُلِ ، قَالَ : إنَّا لِلَّہِ وَإِنَّا إلَیْہِ رَاجِعُونَ ، اللَّہُمَّ ارْفَعْ دَرَجَتَہُ فِی الْمُہْتَدِینَ ، وَاخْلُفْہُ فِی عَقِبِہِ فِی الْغَابِرِینَ ، وَنَحْتَسِبُہُ عِنْدَکَ رَبَّ الْعَالَمِینَ ، لاَ تُضِلَّنَا بَعْدَہُ ، وَلاَ تَحْرِمْنَا أَجْرَہُ۔
(١٢٠١٠٠) حضرت عبداللہ بن عبد الرحمن بن ابزیٰ فرماتے ہیں کہ جب حضرت علی کرم اللہ وجہہ کسی کی موت کی خبر سنتے تو فرماتے : انا للہ وانا الیہ راجعون، اے اللہ ! اس کے درجات کو جنت میں بلند فرما، اور باقی ماندہ لوگوں میں دشوار گزار رستہ میں اس کا قائم مقام بنا، اور اے رب العالمین ! ہم اس کے لیے ثواب کی امید رکھتے ہیں، ہمیں اس کے بعد راہ سے نہ ہٹانا (گمراہ نہ کرنا) اور اس کے اجر وثواب سے ہمیں محروم نہ فرمانا۔

12100

(۱۲۱۰۱) حدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، أَخْبَرَنَا أَبُو مَیْسَرَۃَ : أَنَّہُ لَمَّا أَتَی النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَتْلُ زَیْدٍ وَجَعْفَرٍ ، وَعَبْدِ اللہِ بْنِ رَوَاحَۃَ ذَکَرَ أَمْرَہُمْ ، فَقَالَ : اللَّہُمَّ اغْفِرْ لِزَیْدٍ اللَّہُمَّ اغْفِرْ لِزَیْدٍ اللَّہُمَّ اغْفِرْ لِزَیْدٍ اللَّہُمَّ اغْفِرْ لِجَعْفَرٍ ، وَعَبْدِ اللہِ بْنِ رَوَاحَۃَ۔ (ابن سعد ۴۶)
(١٢١٠١) حضرت ابو میسرہ سے مروی ہے کہ جب حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حضرت زید، حضرت جعفر اور حضرت عبداللہ بن رواحہ کی شھادت کی اطلاع ملی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے کام (معاملہ) کو ذکر فرمایا اور پھر فرمایا : اے اللہ ! تو زید کی مغفرت فرما اے اللہ ! تو زید کی مغفرت فرما، اے اللہ ! تو زید کی مغفرت فرما، اے اللہ ! تو جعفر اور عبداللہ بن رواحہ کی مغفرت فرما۔

12101

(۱۲۱۰۲) حدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ عُمَارَۃَ ، عَنْ حُرَیْثِ بْنِ ظُہَیْرٍ ، قَالَ : لَمَّا نُعِیَ عَبْدُ اللہِ إلَی أَبِی الدَّرْدَائِ ، قَالَ : مَا خَلَّفَ بَعْدَہُ مِثْلَہُ۔
(١٢١٠٢) حضرت حریث بن ظھیر فرماتے ہیں کہ جب حضرت عبداللہ کو حضرت ابو الدردائ کی وفات کی اطلاع ملی تو فرمایا : ان کے بعد ان کی طرح کا قائم مقام نہ ہوگا۔

12102

(۱۲۱۰۳) حدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ عَاصِمٍ ، قَالَ : أَخْبَرْتُ الْحَسَنَ بِمَوْتِ الشَّعْبِیِّ ، فَقَالَ : رحمہ اللہ ، وَاللَّہِ إِنْ کَانَ مِنَ الإِسْلاَمِ لَبِمَکَانٍ۔
(١٢١٠٣) حضرت عاصم فرماتے ہیں کہ جب میں نے حضرت حسن کو حضرت شعبی کی وفات کی اطلاع دی تو آپ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ ان پر رحم فرمائے، خدا کی قسم ! اسلام میں ان کا عظیم مقام تھا۔

12103

(۱۲۱۰۴) حدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ ، عَنِ ابنِ أَبْجَر ، قَالَ : أَخْبَرْتُ الشَّعْبِیَّ بِمَوْتِ إبْرَاہِیمَ ، فَقَالَ : یرحمہ اللہ أَمَا إِنَّہُ لَمْ یُخَلِّفْ خَلْفَہُ مِثْلَہُ ، أَمَا إِنَّہُ مَیِّتًا أَفْقَہُ مِنْہُ حَیًّا۔
(١٢١٠٤) حضرت ابن ابجر فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت شعبی کو حضرت ابراہیم کی وفات کی اطلاع دی تو آپ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ ان پر رحم فرمائے بہرحال ان کے بعد ان کی طرح ان کا قائم مقام نہ ہوگا، بہرحال مرنے کے بعد بھی زندوں سے زیادہ فقیہ ہیں۔

12104

(۱۲۱۰۵) حدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِی عَدِیٍّ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ یَزِیدَ بْنِ أَبِی زِیَادٍ ، قَالَ : مَرُّوا بِجِنَازَۃِ أَبِی عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَلَی أَبِی جُحَیْفَۃَ ، قَالَ : اسْتَرَاحَ ، وَاسْتُرِیحَ مِنْہُ۔
(١٢١٠٥) حضرت یزید بن ابی زیاد فرماتے ہیں کہ حضرت ابو عبد الرحمن کا جنازہ لے کر لوگ حضرت ابو جحیفہ کے پاس سے گزرے تو آپ نے فرمایا : آرام و سکون پایا اور ان سے آرام و راحت لوگوں نے پایا۔

12105

(۱۲۱۰۶) حدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، حدَّثَنَا شُعْبَۃُ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ زَیْدٍ ، عَنْ أَبِی عُثْمَانَ ، قَالَ : أَتَیْتُ عُمَرَ بِنَعْیِ النُّعْمَانِ بْنِ مُقَرِّنٍ ، قَالَ : فَوَضَع یَدَہُ عَلَی رَأْسِہِ ، وَجَعَلَ یَبْکِی۔
(١٢١٠٦) حضرت ابو عثمان فرماتے ہیں کہ میں حضرت نعمان بن مقرن کی وفات کی خبر لے کر حضرت عمر کے پاس آیا تو آپ نے اپنا ہاتھ سر پر رکھ کر رونا شروع کردیا۔

12106

(۱۲۱۰۷) حدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، عَنْ نَافِعٍ ، قَالَ : کَانَ ابْنُ عُمَرَ فِی السُّوقِ فَنُعِیَ إلَیْہِ وَائِلُ بْنُ حُجْرٍ فَأَطْلَقَ حُبْوَتَہُ ، وَقَامَ وَغَلَبَہُ النَّحِیبُ۔
(١٢١٠٧) حضرت نافع فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمر بازار میں تھے آپ کو وائل بن حجر کی وفات کی اطلاع دی گئی تو آپ کھڑے ہوگئے اور آپ پر رونے کا غلبہ ہوگیا۔

12107

(۱۲۱۰۸) حدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَان ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِی حَفْصَۃَ ، عَنْ رَجُلٍ یُقَالُ لَہُ أبو کُلْثُوم ، قَالَ : سَمِعْتُ ابْنَ الْحَنَفِیَّۃِ یَقُولُ فِی جِنَازَۃِ ابْنِ عَبَّاسٍ الْیَوْمَ مَاتَ ربانی الْعِلْمِ۔ (حاکم ۵۳۵)
(١٢١٠٨) حضرت ابو کلثوم فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن الحنفیہ سے سنا وہ حضرت عبداللہ بن عباس کے جنازے میں فرما رہے تھے : آج علوم کا ماہر اور علوم میں کامل وفات پا گیا۔

12108

(۱۲۱۰۹) حدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَۃَ ، عَنْ عَمَّارٍ مَوْلَی بَنِی ہَاشِمٍ ، قَالَ : جَلَسْنَا فِی ظِلِّ الْقَصْرِ مَعَ ابْنِ عَبَّاسٍ فِی جِنَازَۃِ زَیْدِ بْنِ ثَابِتٍ ، فَقَالَ : لَقَدْ دُفِنَ الْیَوْمَ عِلْمٌ کَثِیرٌ۔
(١٢١٠٩) حضرت عمار فرماتے ہیں کہ ہم حضرت زید بن ثابت کے جنازے میں حضرت ابن عباس کے ساتھ محل کے سایہ میں بیٹھے ہوئے تھے، آپ نے فرمایا : آج بہت زیادہ علم دفن کردیا گیا۔

12109

(۱۲۱۱۰) حدَّثَنَا وَکِیعُ بْنُ الْجَرَّاحِ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ زِیَادِ بْنِ عِلاَقَۃَ ، عَنِ الْمُغِیرَۃِ بْنِ شُعْبَۃَ : قَالَ نَہَی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، عَنْ سَبِّ الْمَوْتَی۔ (ترمذی ۱۹۸۲۔ احمد ۴/۲۵۲)
(١٢١١٠) حضرت مغیرہ بن شعبہ سے مروی ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مردوں کو گالی دینے سے منع فرمایا ہے۔

12110

(۱۲۱۱۱) حدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ مِسْعَرٍ ، عَنْ أَبِی أَیُّوبَ مَوْلَی بَنِی ثَعْلَبَۃَ ، عَنْ قُطْبَۃَ بْنِ مَالِکٍ ، قَالَ : سَبَّ أَمِیرٌ مِنَ الأُمَرَائِ عَلِیًّا ، فَقَامَ إلَیْہِ زَیْدُ بْنُ أَرْقَمَ ، فَقَالَ : أَمَا إنِّی قَدْ عَلِمْت أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَدْ نَہَی عَنْ سَبِّ الْمَوْتَی ، فَلِمَ تَسُبُّ عَلِیًّا وَقَدْ مَاتَ۔ (احمد ۴/۳۶۹۔ طبرانی ۴۹۷۴)
(١٢١١١) حضرت قطبہ بن مالک سے مروی ہے کہ امراء میں سے ایک امیر نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو گالی دی تو حضرت زید بن ارقم کھڑے ہوگئے اور فرمایا : بیشک مجھے معلوم ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مردوں کو گالی دینے سے منع فرمایا ہے، تو حضرت علی کو گالی مت دو ، تحقیق وہ وفات پاچکے ہیں۔

12111

(۱۲۱۱۲) حدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ ، قَالَ : سَمِعْتُ ہِلاَلَ بْنَ یَسَافٍ یُحَدِّثُ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ ، أَنَّہُ خَطَبَ بِمِنًی عَلَی جَبَلٍ ، فَقَالَ : لاَ تَسُبُّوا الأَمْوَاتَ فَإِنَّ مَا یُسَبُّ بِہِ الْمَیت یُؤْذَی بِہِ الْحَیُّ۔
(١٢١١٢) حضرت ھلال بن یساف بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر نے منیٰ کے پہاڑ پر خطبہ دیا اور فرمایا : مردوں کو گالی مت دو ، کیونکہ جو مردوں کو گالی دیتا ہے اس سے زندوں کو تکلیف ہوتی ہے۔

12112

(۱۲۱۱۳) حدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ خَیْثَمَۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍوَ قَالَ : سَابُّ الْمَیِّتِ کَالْمُشْرِفِ عَلَی الْہَلَکَۃِ۔
(١٢١١٣) حضرت عبداللہ بن عمر ارشاد فرماتے ہیں مردوں کو گالی دینے والا شخص ہلاکت کے قریب اور سامنے ہے۔

12113

(۱۲۱۱۴) حدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ مَنْصُورِ بْنِ صَفِیَّۃَ ، عَنْ أُمِّہِ ، عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ : لاَ تَذْکُرُوا مَوْتَاکُمْ إِلاَّ بِخَیْرٍ۔
(١٢١١٤) حضرت عائشہ ارشاد فرماتی ہیں کہ اپنے مردوں کا ذکر صرف خیر اور اچھائی کے ساتھ کرو۔

12114

(۱۲۱۱۵) حدَّثَنَا شَبَابَۃُ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ ، قَالَ : أَذَی الْمُؤْمِنِ فِی مَوْتِہِ کَأَذَاہُ فِی حَیَاتِہِ۔
(١٢١١٥) حضرت عبداللہ بن مسعود ارشاد فرماتے ہیں کہ مرنے کے بعد مؤمن کو تکلیف دینا ایسے ہی ہے جیسے اس کو زندگی میں تکلیف دینا۔

12115

(۱۲۱۱۶) حدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ ہَمَّامِ بْنِ یَحْیَی ، عَنْ قَتَادَۃَ ، قَالَ : شَہِدْت جِنَازَۃً فِی الأَسَاوِرَۃِ ، فَازْدَحَمُوا عَلَی الْجِنَازَۃِ ، فَقَالَ أَبُو السِّوّارِ الْعَدَوِیُّ : تُرَی ہَؤُلاَئِ أَفْضَلَ أَوْ أَصْحَابَ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ أَحَدُہُمْ إن رَأَی مَحْمَلاً حَمَلَ وَإِلاَّ اعْتَزَلَ ، فَلَمْ یُؤْذُوا أَحَدًا۔
(١٢١١٦) حضرت قتادہ فرماتے ہیں کہ میں اس اور ہ (بصرہ کے رہنے والے عجمی) میں سے ایک شخص کے جنازے میں شریک ہوا، انھوں نے جنازے کو کندھا دینے میں ازدحام کیا تو حضرت ابو السوار العدوی نے فرمایا : ان لوگوں کو دیکھو یہ افضل ہیں یا نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ ؟ صحابہ کرام میں کوئی صحابی اگر جنازے کو کندھا دینا ممکن دیکھتا تو کندھا دیتا وگرنہ ہٹ جاتا اور کسی کو تکلیف نہ پہنچاتا۔

12116

(۱۲۱۱۷) حدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ مَہْدِیٍّ ، عَنْ رَجُلٍ یُقَالُ لَہُ إسْمَاعِیلُ الْجَحْدَرِیُّ ، قَالَ : خَرَجْنَا فِی جِنَازَۃٍ فَشَہِدَہَا الْحَسَنُ ، قَالَ : فَرَأَی قَوْمًا ازْدَحَمُوا عَلَی السَّرِیرِ ، فَقَالَ الْحَسَنُ : مَا شَأْنُ ہَؤُلاَئِ إنِّی لأَظُنُّ الشَّیْطَانُ حَسَّ مِنَ النَّاسِ فَاتَّبَعَہُمْ لِیُحْبِطَ أُجُورَہُمْ۔
(١٢١١٧) حضرت اسماعیل الحجدری فرماتے ہیں کہ ہم ایک جنازے میں نکلے تو اس میں حضرت حسن بھی شریک تھے، انھوں نے لوگوں کو دیکھا کہ وہ چارپائی پر ازدحام کر رہے ہیں، حضرت حسن نے فرمایا : ان لوگوں کا کیا حال ہے ؟ میرا گمان ہے کہ شیطان نے لوگوں میں خیر اور اجر کا احساس دیکھا تو ان کے ساتھ مل گیا اور ان کے دل میں وسوسہ ڈالا تاکہ وہ جنازے کو کندھا دینے میں ازدحام سے کام لیں اور اس سے دوسروں کو تکلیف ہو اور وہ ان کے اجر کو ضائع کر دے۔

12117

(۱۲۱۱۸) حدَّثَنَا ہُشَیْمُ بْنُ بَشِیرٍ ، حدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِیزِ بْنُ صُہَیْبٍ البُنَانِی ، عَنِ الْحَسَنِ : قَالَ : مَرَّتْ جِنَازَۃٌ بِرَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَأُثْنِیَ عَلَیْہَا خَیْرًا حَتَّی تَتَابَعَتِ الأَلْسُنُ ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : وَجَبَتْ ، قَالَ : وَمَرَّتْ بِہِ جِنَازَۃٌ فَأُثْنِیَ عَلَیْہَا شَرًّا حَتَّی تَتَابَعَتِ الأَلْسُنُ ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : وَجَبَتْ ، فَقَالَ : عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ یَا رَسُولَ اللہِ قُلْتَ فِی الْجِنَازَۃِ الأُولَی حَیْثُ أُثْنِیَ عَلَیْہَا خَیْرًا وَجَبَتْ ، وَقُلْتَ فِی الثَّانِیَۃِ کَذَلِکَ ، فَقَالَ : إنَّکُمْ شُہُودُ اللہِ فِی الأَرْضِ مَرَّتَیْنِ ، أَوْ ثَلاَثًا۔
(١٢١١٨) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس سے ایک جنازہ گزرا تو تو کسی نے اس کی تعریف بیان کی اس کی دیکھا دیکھی میں کئی اور زبانوں پر بھی اس کی تعریف تھی، حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اس پر واجب ہوگئی، (پھر ایک دفعہ) حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس سے جنازہ گزرا تو کسی نے اس کی برائی بیان کی اس کی دیکھا دیکھی میں کئی اور زبانوں پر اس کی برائی تھی، حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اس پر واجب ہوگئی، حضرت عمر بن خطاب نے عرض کیا : یارسول اللہ ! جب پہلا جنازہ گزرا اور اس کی تعریف کی گئی، تو آپ نے فرمایا واجب ہوگئی، اور دوسرے میں بھی آپ نے فرمایا واجب ہوگئی (کیا واجب ہوئی ؟ ) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : بیشک تم لوگ زمین میں اللہ کے گواہ ہو، دو یا تین بار یہ جملہ مبارکہ ارشاد فرمایا۔

12118

(۱۲۱۱۹) حدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ الْحُبَابِ ، عَنْ مُوسَی بْنِ عُبَیْدَۃَ ، عَنْ إیَاسِ بْنِ سَلَمَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : مُرَّ عَلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِجِنَازَۃِ رَجُلٍ مِنَ الأَنْصَارِ فَأُثْنِیَ عَلَیْہَا خَیْرًا ، فَقَالَ : وَجَبَتْ ، ثُمَّ مُرَّ عَلَیْہِ بِجِنَازَۃٍ أُخْرَی فَأُثْنِیَ عَلَیْہَا دُونَ ذَلِکَ ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : وَجَبَتْ فَقَالُوا : یَا رَسُولَ اللہِ وَمَا وَجَبَتْ ، قَالَ : الْمَلاَئِکَۃُ شُہُودُ اللہِ فِی السَّمَائِ وَأَنْتُمْ شُہُودُ اللہِ فِی الأَرْضِ۔ (طبرانی ۶۲۶۲)
(١٢١١٩) حضرت ایاس بن سلمہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ انصار میں سے ایک شخص کا جنازہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس سے گزرا تو اس کی تعریف بیان کی گئی، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا واجب ہوگئی، پھر ایک جنازہ گذرا تو اس کی برائی بیان کی گئی، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : واجب ہوگئی، صحابہ کرام نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول ! کیا واجب ہوگیا ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ملائکہ آسمان میں اللہ کے گواہ ہیں اور تم لوگ زمین میں اللہ تعالیٰ کے گواہ ہو۔

12119

(۱۲۱۲۰) حدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو ، عَنْ أَبِی سَلَمَۃَ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : مَرُّوا عَلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِجِنَازَۃٍ فَأُثْنِیَ عَلَیْہَا خَیْرًا فِی مَنَاقِبِ الْخَیْرِ ، فَقَالَ : وَجَبَتْ ، ثُمَّ مَرُّوا بِأُخْرَی فَأُثْنِیَ عَلَیْہَا شَرًّا فِی مَنَاقِبِ الشَّرِّ ، فَقَالَ : وَجَبَتْ إنَّکُمْ شُہَدَائُ اللہِ فِی الأَرْضِ۔ (احمد ۲/۲۶۱۔ ابویعلی ۵۹۷۹)
(١٢١٢٠) حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ لوگ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس سے ایک جنازہ لے کر گزرے تو اس کی اچھائی بیان کی گئی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : واجب ہوگئی، پھر دوسرا جنازہ لے کر گزرے تو برائیوں میں سے اس کی برائی بیان کی گئی، حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا واجب ہوگئی، بیشک تم لوگ زمین پر اللہ کے گواہ ہو۔

12120

(۱۲۱۲۱) حدَّثَنَا عَفَّانُ ، حدَّثَنَا دَاوُد بْنُ أَبِی الْفُرَاتِ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ بُرَیْدَۃَ ، عَنْ أَبِی الأَسْوَد الدِّیْلِیِّ ، قَالَ : قَدِمْت الْمَدِینَۃَ وَقَدْ وَقَعَ بِہَا مَرَضٌ ، فَجَلَسْت إلَی عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ ، فَمَرَّتْ بِہِمْ جِنَازَۃٌ ، فَأُثْنِیَ عَلَی صَاحِبہَا خَیْرا ، فَقَالَ عُمَرُ : وَجَبَتْ ، ثُمَّ مُرَّ بِأُخْرَی فَأُثْنِیَ عَلَیْہَا شَرًّا ، فَقَالَ عُمَرُ : وَجَبَتْ ، فَقَالَ أَبُو الأَسْوَد : فَقُلْت وَمَا وَجَبَتْ یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ ؟ قَالَ : قُلْتُ کَمَا قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، أَیُّمَا مُسْلِمٍ یَشْہَدُ لَہُ أَرْبَعَۃٌ بِخَیْرٍ أَدْخَلَہُ اللَّہُ الْجَنَّۃَ ، فَقُلْنَا وَثَلاَثَۃٌ ؟ قَالَ : وَثَلاَثَۃٌ ، فَقُلْنَا وَاثْنَانِ ، قَالَ وَاثْنَانِ ، ثُمَّ لَمْ نَسْأَلْہُ عَنِ الْوَاحِدِ۔ بخاری ۱۳۶۸۔ ترمذی ۱۰۵۹
(١٢١٢١) حضرت ابو الوسود الدیلی فرماتے ہیں کہ میں مدینہ آیا اس میں وبا پھیلی ہوئی تھی، میں حضرت عمر بن خطاب کے پاس بیٹھا تو ان کے پاس سے ایک جنازہ گزرا جس کی اچھائی بیان کی گئی، حضرت عمر نے ارشاد فرمایا : اس پر واجب ہوگئی، پھر ایک جنازہ گزرا تو اس کی برائی بیان کی گئی تو حضرت عمر نے ارشاد فرمایا : اس پر واجب ہوگئی، حضرت ابو الاسود نے عرض کیا اے امیر المؤمنین ! کیا واجب ہوگئی ؟ حضرت عمر نے فرمایا میں نے اسی طرح کہا ہے جس طرح حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تھا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس مسلمان کی چار بندے اچھائی کی گواہی دیں اللہ تعالیٰ اس کو جنت میں داخل فرمائیں گے، ہم نے عرض کیا اگر تین ہوں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تین پر بھی، ہم نے عرض کیا اگر دو ہوں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا دو پر بھی جنت میں داخل فرمائیں گے، پھر ہم نے ایک کے متعلق سوال نہیں کیا۔

12121

(۱۲۱۲۲) حدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِیزِ بْنِ رُفَیْعٍ ، عَنْ خَیْثَمَۃَ ، قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللہِ : انْظُرُوا النَّاسَ عِنْدَ مَضَاجِعِہِمْ فَإِذَا رَأَیْتُمُ الْعَبْدَ یَمُوتُ عَلَی خَیْرٍ مَا تَرَوْنَہُ فَارْجُوا لَہُ الْخَیْرَ ، وَإِذا رَأَیْتُمُوہُ یَمُوتُ عَلَی شَرٍّ مَا تَرَوْنَہُ فَخَافُوا عَلَیْہِ۔
(١٢١٢٢) حضرت عبداللہ فرماتے ہیں کہ لوگوں کو ان کے چارپائیوں کے پاس دیکھو، اگر تم کسی مرنے والے بندے میں خیر دیکھو تو اس کے لیے خیر کی امید رکھو، اگر تم مرنے والے میں برائی دیکھو تو اس پر خوف کھاؤ۔

12122

(۱۲۱۲۳) حدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، حدَّثَنَا مِسْعر ، قَالَ : حَدَّثَنِی إبْرَاہِیمُ بْنُ عَامِرِ بْنِ مَسْعُودٍ ، عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : تُوُفِّیَ رَجُلٌ فَذُکِرَ عِنْدَ النَّبِیِّ فَأُثْنِیَ عَلَیْہِ خَیْرٌ ، فَقَالَ : وَجَبَتْ وَتُوُفِّیَ آخَرُ فَذُکِرَ مِنْہُ شَرٌّ ، فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَجَبَتْ ، فَقَالَ بَعْضُ الْقَوْمِ : عَجَبٌ مِنْ قَوْلِ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَجَبَتْ ، فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : بَعْضٌ شُہَدَائُ عَلَی بَعْضٍ۔
(١٢١٢٣) حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص کا انتقال ہوا اور اس کا حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ذکر خیر ہوا تو حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اس پر (جنت) واجب ہوگئی، دوسرے شخص کا انتقال ہوا تو حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس اس کا ذکر شر ہوا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اس پر (جہنم) واجب ہوگی، کچھ حضرات نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! ہمیں آپ کے قول واجب ہوگئی سے تعجب ہوا ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : بعض لوگ بعض پر گواہ ہیں۔

12123

(۱۲۱۲۴) حدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، أَخبرنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو ، عَنْ أَبِی سَلَمَۃَ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : مَنْ غَسَّلَ مَیِّتًا فَلْیَغْتَسِلْ وَمَنْ حَمَلَ جِنَازَۃً فَلْیَتَوَضَّأْ۔
(١٢١٢٤) حضرت ابوہریرہ ارشاد فرماتے ہیں جو میت کو غسل دے وہ بعد میں نہائے اور جو اس کو کندھا دے وہ وضو کرے۔

12124

(۱۲۱۲۵) حدَّثَنَا شَبابَۃُ ، حدَّثَنَا ابْن أَبِی ذِئْبٍ ، عَنْ صَالِحٍ مَوْلَی التَّوْأَمَۃِ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ : عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : مَنْ غَسَّلَ مَیِّتًا فَلْیَغْتَسِلْ وَمَنْ حَمَلَہُ فَلْیَتَوَضَّأْ۔
(١٢١٢٥) حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جو شخص میت کو غسل دے اس کو چاہیے وہ نہالے، اور جو اس کو کندھا دے وہ وضو کرے۔

12125

(۱۲۱۲۶) حدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، عَنْ عُثْمَانَ ، قَالَ : مَنْ حَمَلَ جِنَازَۃً فَلْیَتَوَضَّأْ۔
(١٢١٢٦) حضرت عثمان فرماتے ہیں جو جنازے کو کندھا دے وہ وضو کرے۔

12126

(۱۲۱۲۷) حدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ ہِشَامٍ عن عُرْوَۃَ ، قَالَ : کَانَ ابْنُ الزُّبَیْرِ إذَا مَاتَ لَہُ الْمَیِّتُ مِنْ أَہْلِہِ ، قَالَ : عَجِّلُوا عَجِّلُوا ، أَخْرِجُوا أَخْرِجُوا ، قَالَ : فَیَخْرُجُ أَیَّۃَ سَاعَۃٍ کَانَتْ۔
(١٢١٢٧) حضرت عروہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عمر کے گھر والوں میں سے کسی کا انتقال ہوتا تو آپ فرماتے : جلدی کرو، جلدی کرو، اسے نکالو، اسے نکالو۔ پھر جنازے کو کسی بھی وقت (بغیر کسی خاص وقت کے اہتمام کے) گھر سے نکال دیا جاتا۔

12127

(۱۲۱۲۸) حدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرِِ ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ : مَاتَ أَبُو بَکْرٍ لَیْلَۃَ الثُّلاَثَائِ، وَدُفِنَ لَیْلَۃَ الثُّلاَثَائِ۔
(١٢١٢٨) حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ حضرت ابوبکر صدیق کا انتقال منگل کی رات کو ہوا، اور منگل کی رات میں ہی ان کو دفن کیا گیا۔

12128

(۱۲۱۲۹) حدَّثَنَا عَبْدُالرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ، عَنْ مُجَالِدٍ، عَنِ الشَّعْبِیِّ، قَالَ: کَانَ یُقَالُ اقْتِرَابُ السَّاعَۃِ مَوْتُ الْفَجْأۃِ۔
(١٢١٢٩) حضرت شعبی فرماتے ہیں کہ اقتراب الساعۃ سے مراد اچانک آنے والی موت ہے۔

12129

(۱۲۱۳۰) حدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنِ الزُّبَیْرِ بْنِ عَدِیٍّ ، عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِ عَبْدِ اللہِ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : مَوْتُ الْفَجْأۃِ رَاحَۃٌ عَلَی الْمُؤْمِنِینَ وَتَحَیُّفٌ عَلَی الْکَافِرِ۔
(١٢١٣٠) حضرت عبداللہ فرماتے ہیں کہ اچانک اور غیر متوقع آنے والی موت مؤمن کیلئے راحت ہے اور کافر کیلئے سزا۔

12130

(۱۲۱۳۱) حدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، حدَّثَنَا مَالِکُ بْنُ مِغْوَلٍ ، عَنْ طَلْحَۃَ ، عَنْ تَمِیمِ بْنِ سَلَمَۃَ ، قَالَ : مَاتَ مِنَّا رَجُلٌ بَغْتَۃً ، فَقَالَ رَجُلٌ مِن أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَخْذَۃَ غَضَبٍ ، فَذَکَرْتُہُ لإِبْرَاہِیمَ ، وَقَلَّ مَا کُنَّا نَذْکُرُ لإِبْرَاہِیمَ حَدِیثًا إِلاَّ وَجَدْنَا عِنْدَہُ فِیہِ ، فَقَالَ : کَانُوا یَکْرَہُونَ أَخْذَۃً کَأَخْذَۃِ الأَسِفِ۔
(١٢١٣١) حضرت تمیم بن سلمہ فرماتے ہیں کہ ہم میں سے ایک شخص اچانک فوت ہوگیا تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب میں سے ایک شخص نے کہا غصہ کی حالت میں اٹھایا گیا ہے، میں نے اس کا ذکر حضرت ابراہیم سے کیا اور بہت کم ایسا ہوتا تھا کہ ہم حضرت ابراہیم سے کوئی حدیث ذکر کرتے مگر ان کے پاس اس کو پالیتے، آپ نے فرمایا : صحابہ کرام ناپسند کرتے تھے اچانک اٹھائے جانے کو (موت کو) جس طرح غصب کرنے والا اچانک اٹھا لیا جاتا ہے۔

12131

(۱۲۱۳۲) حدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ آدَمَ ، حدَّثَنَا أَبُو شِہَابٍ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ زُبَیْدٍ ، عَنْ أَبِی الأَحْوَصِ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ وَعَائِشَۃَ قَالاَ : مَوْتُ الْفَجْأۃِ رَأْفَۃٌ بِالْمُؤْمِنِ وَأَسَفٌ عَلَی الْفَاجِرِ۔
(١٢١٣٢) حضرت عبداللہ اور حضرت عائشہ فرماتے ہیں کہ اچانک آنے والی موت مؤمن کے لیے باعث راحت اور کافر کے لیے باعث حسرت و افسوس ہے۔

12132

(۱۲۱۳۳) حدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ مُجَاہِدَ بْنَ أَبِی رَاشِدٍ ، قَالَ : قَالَ مُجَاہِدٌ : مِنْ أَشْرَاطِ السَّاعَۃِ مَوْتُ الْبِدَارِ۔
(١٢١٣٣) حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ اچانک آنے والی موت قیامت کی نشانیوں میں سے ہے۔

12133

(۱۲۱۳۴) حدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، أَنَّہُ کَرِہَ مَوْتَ الْفَجْأۃِ۔
(١٣١٣٤) حضرت منصور فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم اچانک آنے والی موت کو ناپسند کرتے تھے۔

12134

(۱۲۱۳۵) حدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ تَمِیمِ بْنِ سَلَمَۃَ ، عَنْ عُبَیْدِ بْنِ خَالِدٍ ، رَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فِی مَوْتِ الْفُجَائَ ۃِ ، قَالَ أَخْذَۃُ أَسَفٍ۔ (ترمذی ۹۸۲۔ احمد ۳/۴۲۴)
(١٢١٣٥) حضرت عبید بن خالد صحابہ میں سے کسی سے روایت کرتے ہیں کہ اچانک آنے والی موت غاصب کے لینے کی طرح ہے۔

12135

(۱۲۱۳۶) حدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ عُمَارَۃَ ، قَالَ : کَانُوا عِنْدَ رَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ عَبْدِ اللہِ وَہُوَ مَرِیضٌ ، فَعَرِقَ جَبِینُہُ ، فَذَہَبَ رَجُلٌ یَمْسَحُ عَنْ جَبِینِہِ الْعَرَقَ ، فَضَرَبَ یَدَہُ ، قَالَ سُفْیَانُ : إنَّہُمْ کَانُوا یَسْتَحِبُّونَ الْعَرَقَ لِلْمَیِّتِ۔
(١٢١٣٦) حضرت عمارہ فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ کے اصحاب میں سے ایک شخص بیمار تھے لوگ ان کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، ان کی پیشانی سے پسینہ بہہ رہا تھا، ایک شخص ان کی پیشانی سے پسینہ صاف کرنے لگا تو انھوں نے اس کے ہاتھ پر مارا، حضرت سفیان فرماتے ہیں کہ بیشک صحابہ کرام میت کے لیے پسینہ کو پسند فرماتے تھے۔

12136

(۱۲۱۳۷) حدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، عَن عَلْقَمَۃَ ، أَنَّہُ دَخَلَ عَلَی صَدِیقٍ لَہُ مِنَ النَّخَعِ یَعُودُہُ ، فَمَسَحَ جَبِینَہُ فَوَجَدَہُ یَرْشَحُ فَضَحِکَ ، فَقَالَ لَہُ بَعْضُ الْقَوْمِ : مَا یَضْحَکُک یَا أَبَا شِبْلٍ ؟ قَالَ : ضَحِکْت مِنْ قَوْلِ عَبْدِ اللہِ : إنَّ نَفْسَ الْمُؤْمِنِ تَخْرُجُ رَشْحًا ، وَإِنَّہُ یَکُونُ قَدْ عَمِلَ السَّیِّئَۃَ فَیُشَدَّدُ عَلَیْہِ عِنْدَ الْمَوْتِ لِیَکُونَ بِہَا ، وَإِنَّ نَفْسَ الْکَافِرِ أوِ الْفَاجِرِ لَتَخْرُجُ مِنْ شِدْقِہِ کَمَا یَخْرُجُ نَفْسُ الْحِمَارِ ، وَإِنَّہُ یَکُونُ قَدْ عَمِلَ الْحَسَنَۃَ فَیُہَوَّنُ عَلَیْہِ عِنْدَ الْمَوْتِ لِیَکُونَ بِہَا۔
(١٢١٣٧) حضرت علقمہ اپنے ایک دوست کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے جس کو (بلغم کی) بیماری تھی، آپ نے اس کی پیشانی کو چھوا تو پسینہ نکل رہا تھا آپ یہ دیکھ کر ہنس پڑے، لوگوں میں سے بعض نے عرض کیا اے ابو شبل ! آپ کو کس چیز نے ہنسایا۔ فرمایا : مجھ کو عبداللہ کی بات پر ہنسی آگئی کہ مؤمن کو (جان کنی کے وقت) پسینہ نکلتا ہے تو اس کے کچھ برے عمل ہوتے ہیں تو ان کی وجہ سے اس پر موت کے وقت کچھ سختی ہوتی ہے تاکہ ان برائیوں کا کفارہ بن جائے، اور کافر وفاجر کی روح گدھے کے سانس کی طرح نکلتی ہے، کیونکہ اس کے بھی کچھ اچھے اعمال ہوتے ہیں تو موت کے وقت اس پر آسانی ہوتی ہے تاکہ یہ آسانی ان نیکیوں کا بدلہ ہوجائیں۔

12137

(۱۲۱۳۸) حدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِِ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : یُنْزَعُ عَنِ الْقَتِیلِ الْفَرْوُ ، وَالْجَوْرَبَانِ ، وَالْموْزَجَانِ ، والأفرہیجان إِلاَّ أَنْ یَکُونَ الجَوْرَبَانِ یُکَمِلان وترًا فَیُتْرَکَانِ عَلَیْہِ ، وَیُدْفَنُ بثِیَابِہِ۔
(١٢١٣٨) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ مقتول (شھید) سے پوستین، کپڑے، موزے اتار دیئے جائیں گے، اگر اس کی جرابیں مکمل ہوں تو وہ چھوڑ دی جائیں گی اور اسے کپڑوں کے ساتھ دفن کردیا جائے گا۔

12138

(۱۲۱۳۹) حدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، قَالَ : لاَ یُدْفَنُ مَعَ الْقَتِیلِ خُفٌّ ، وَلاَ نَعْلٌ۔
(١٢١٣٩) حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ مقتول کو موزوں اور جوتوں کے ساتھ دفن نہیں کیا جائے گا۔

12139

(۱۲۱۴۰) حدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ مُخَوَّلٍ ، عَنِ الْعَیْزَارِ بْنِ حُرَیْثٍ الْعَبْدِیِّ ، قَالَ : قَالَ زَیْدُ بْنُ صُوحَانَ : لاَ تَنْزِعُوا عَنِّی ثَوْبًا إِلاَّ الْخُفَّیْنِ فَإِنِّی مُحَاجٌّ أُحَاجُّ۔
(١٢١٤٠) حضرت زید بن صوحان فرماتے ہیں مجھے دفنا دینا اور میرا خون نہ دھونا اور موزے اتار دینا لیکن کپڑے نہ اتارنا۔ کیونکہ میں قیامت کے دن ان کے ذریعے اپنے حق کا دفاع کروں گا۔

12140

(۱۲۱۴۱) حدَّثَنَا یَعْلَی بْنُ عُبَیْدٍ ، حدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ أَبِی سَعِیدٍ الْمَقْبُرِیِّ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ أَبِی قَتَادَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : أُتِیَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِجِنَازَۃٍ لِیُصَلِّیَ عَلَیْہَا ، فَقَالَ : عَلَیْہِ دَیْنٌ ؟ قَالُوا : نَعَمْ دِینَارَانِ ، قَالَ : تَرَکَ لَہُمَا وَفَائً ؟ قَالُوا : لاَ ، قَالَ : فَصَلُّوا عَلَی صَاحِبِکُمْ ، قَالَ أَبُو قَتَادَۃَ : ہُمَا عَلَیَّ یَا رَسُولَ اللہِ ، فَصَلَّی عَلَیْہِ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔ (ترمذی ۱۰۶۹۔ دارمی ۲۵۹۳)
(١٢١٤١) حضرت عبداللہ بن ابو قتادہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ایک جنازہ لایا گیا، کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کی نماز جنازہ ادا فرمائیں، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دریافت فرمایا : کیا اس کے ذمہ کسی کا قرض ہے ؟ صحابہ کرام نے عرض کیا جی ہاں دو دینار ہیں، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اس نے اتنا مال چھوڑا ہے جس سے ادائیگی ہو سکے ؟ عرض کیا کہ نہیں، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : تم لوگ اپنے ساتھی کی نماز جنازہ ادا کرو، حضرت ابو قتادہ فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! وہ میرے ذمہ ہیں پھر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کی نماز جنازہ ادا فرمائی۔

12141

(۱۲۱۴۲) حدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ الْحُبَابِ ، عَنْ مُوسَی بْنِ عُبَیْدَۃَ ، عَنْ إیَاسِ بْنِ سَلَمَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ : أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أُتِیَ بِجَِنَازَۃِ رَجُلٍ مِنَ الأَنْصَارِ لِیُصَلِّیَ عَلَیْہِ ، فَقَالَ : ہَلْ تَرَکَ شَیْئًا ؟ قَالُوا : لاَ ، قَالَ : ہَلْ عَلَیْہِ دَیْنٌ ؟ قَالُوا : نَعَمْ ، عَلَیْہِ دِینَارَانِ ، قَالَ : صَلُّوا عَلَی صَاحِبِکُمْ ، قَالَ أَبُو قَتَادَۃَ : ہُمَا عَلَیَّ یَا رَسُولَ اللہِ ، قَالَ : فَصَلَّی عَلَیْہِ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : فَأَخْبَرَنِی إیَاسِ ، أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ إِذَا لَقِیَہُ أَبُو قَتَادَۃَ ، قَالَ : مَا فَعَلَ الدِّینَارَانِ ؟ حَتَّی قَضَاہُمَا۔ (بخاری ۲۲۸۹۔ احمد ۴/۴۷)
(١٢١٤٢) حضرت ایاس بن سلمہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ایک جنازہ لایا گیا تاکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کی نماز جنازہ ادا کریں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کیا اس نے کچھ چھوڑا ہے ؟ صحابہ نے عرض کیا نہیں، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کیا اس کے ذمہ کسی کا قرض ہے ؟ صحابہ نے عرض کیا جی ہاں۔ اس کے ذمہ دو دینار قرض ہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم اپنے ساتھی کا جنازہ خود ہی ادا کرو، حضرت ابو قتادہ نے عرض کیا : وہ میرے ذمہ ہیں اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! پھر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نماز جنازہ ادا فرمائی، راوی کہتے ہیں کہ مجھے حضرت ایاس نے بتلایا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جب حضرت ابو قتادہ سے ملاقات ہوئی تو دریافت فرمایا : ان دو دیناروں کا کیا بنا ؟ یہاں تک کہ انھوں نے وہ دینار ادا کردیے۔

12142

(۱۲۱۴۳) حدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَنْ زَائِدَۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِیلٍ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : مَاتَ رَجُلٌ فَأَتَیْنَا رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِیُصَلِّیَ عَلَیْہِ فَخَطَا خُطًی ، قَالَ : عَلَیْہِ دَیْنٌ ؟ فقُلْنَا : نَعَمْ عَلَیْہِ دِینَارَانِ ، قَالَ : صَلُّوا عَلَی صَاحِبِکُمْ۔ (احمد ۳/۳۳۰۔ بیہقی ۷۵)
(١٢١٤٣) حضرت جابر بن عبداللہ سے مروی ہے کہ ایک شخص کا انتقال ہوا تو ہم حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے تاکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کی نماز جنازہ ادا فرمائیں، پس آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چلے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دریافت فرمایا اس کے ذمہ قرض ہے ؟ ہم نے عرض کیا جی ہاں اس کے ذمہ دو دینار ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : تم اپنے ساتھی کی نماز جنازہ خود ہی ادا کرو۔

12143

(۱۲۱۴۴) حدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، حدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو ، حدَّثَنَا أَبُو کَثِیرٍ مَوْلَی اللَّیْثِیِّینَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ جَحْشٍ : أَنَّ رَجُلاً جَائَ إلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : یَا رَسُولَ اللہِ مَا لِی إِنْ قُتِلْت فِی سَبِیلِ اللہِ ، قَالَ : الْجَنَّۃُ ، فَلَمَّا وَلَّی ، قَالَ : إِلاَّ الدَّیْنَ سَارَّنِی بِہِ جِبْرِیلُ آنِفًا۔ (احمد ۴/۳۵۰۔ طبرانی ۵۵۷)
(١٢١٤٤) حضرت محمد بن عبداللہ بن جحش سے مروی ہے کہ ایک شخص حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا : اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! اگر میں اللہ کے راستہ میں اپنی جان قربان کر دوں۔ (تو کیا بدلہ ہے ؟ ) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جنت، پھر جب وہ پلٹا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : سوائے قرض کے جو حضرت جبرائیل نے مجھے ابھی بتلایا ہے۔

12144

(۱۲۱۴۵) حدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، أَخْبَرَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ أَبِی سَعِیدٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ أَبِی قَتَادَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِنَحْوٍ مِنْہُ ، إِلاَّ أَنَّہُ قَالَ : قَالَ لِی جِبْرِیلُ علیہ السلام۔ (مسلم ۱۱۷۔ ترمذی ۱۷۱۲)
(١٢١٤٥) حضرت عبداللہ بن قتادہ اپنے والد سے اسی طرح روایت کرتے ہیں مگر اس کے آخر میں ہے کہ مجھے حضرت جبرائیل نے بتلایا ہے۔

12145

(۱۲۱۴۶) حدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، حدَّثَنَا فُضَیْلُ بْنُ غَزْوَانَ ، عَنْ أَبِی حَازِمٍ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : أُتِیَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِجِنَازَۃِ رَجُلٍ مِنَ الأَنْصَارِ فَصَلَّی عَلَیْہِ ، ثُمَّ قَالَ : مَا تَرَکَ ؟ قَالُوا : تَرَکَ دِینَارَیْنِ ، أَوْ ثَلاَثَۃً ، قَالَ ، تَرَکَ کَیَّتَیْنِ ، أَوْ ثَلاَثَ کَیَّاتٍ۔ (احمد ۲/۴۲۹۔ بزار ۳۶۴۹)
(١٢١٤٦) حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ایک انصاری شخص کا جنازہ لایا گیا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کی نماز جنازہ ادا فرمائی پھر دریافت فرمایا : اس نے کیا چھوڑا ہے ؟ صحابہ کرام نے عرض کیا : دو یا تین دینار چھوڑے ہیں، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا دو یا تین داغ چھوڑے ہیں۔

12146

(۱۲۱۴۷) حدَّثَنَا شَبَابَۃُ بْنُ سَوَّارٍ ، حدَّثَنَا شُعْبَۃُ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْعَدَّاء ، قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا أُمَامَۃَ یُحَدِّثُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی رَجُلٍ مَاتَ وَتَرَکَ دینار أو دِینَارَیْنِ ، قَالَ : کَیَّۃً ، أَوْ کَیَّتَیْنِ۔ (احمد ۵/۲۵۲۔ طبرانی ۸۰۰۸)
(١٢١٤٧) حضرت عبد الرحمن بن العدائ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابو امامہ سے سنا وہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حدیث بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص کا انتقال ہوا اس نے ایک یا دو دینار چھوڑے، حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ایک داغ یا دو داغ چھوڑے ہیں۔

12147

(۱۲۱۴۸) حدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ زَائِدَۃَ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ زِرٍّ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : لَحِقَ بِالنَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَبْدٌ أَسْوَدُ فَمَاتَ ، فَأُودَنَ لَہُ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : انْظُرُوا ہَلْ تَرَکَ شَیْئًا ؟ فَقَالُوا : تَرَکَ دِینَارَیْنِ ، قَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : کَیَّتَانِ۔ (احمد ۱/۴۰۵۔ ابویعلی ۵۰۱۵)
(١٢١٤٨) حضرت عبداللہ فرماتے ہیں کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ایک سیاہ فام غلام ملا پھر اس کا انتقال ہوگیا، نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس کے بارے میں آگاہ کیا گیا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : دیکھو اس نے کچھ چھوڑا ہے ؟ صحابہ کرام نے عرض کیا دو دینار چھوڑے ہیں۔ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یہ دو داغ ہیں۔

12148

(۱۲۱۴۹) حدَّثَنَا عَفَّانُ بْنُ مُسْلِمٍ ، حدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، حدَّثَنَا عُتَیْبَۃُ ، عَنْ بُرَید بْنِ أَصْرَمَ ، قَالَ : سَمِعْتُ عَلِیًّا یَقُولُ : مَاتَ رَجُلٌ مِنْ أَہْلِ الصُّفَّۃِ ، فَقَالُوا : یَا رَسُولَ اللہِ ، تَرَکَ دِینَارًا ، وَدِرْہَمًا ، فَقَالَ : کَیَّتَانِ ، فَقَالَ : صَلُّوا عَلَی صَاحِبِکُمْ۔ (بخاری ۱۹۷۴)
(١٢١٤٩) حضرت برید بن اصرم فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے سنا وہ فرماتے ہیں کہ اصحاب صفہ میں سے ایک شخص کا انتقال ہوا، صحابہ کرام نے عرض کیا اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! اس نے ایک دینار اور ایک درھم چھوڑا ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : دو داغ ہیں، تم اپنے ساتھی کی نماز جنازہ اد کرلو۔

12149

(۱۲۱۵۰) حدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ شَقِیقٍ ، عَنْ مَسْرُوقٍ : عَنْ عَائِشَۃَ ، قَالَتْ : دَخَلَتْ عَلَیْہَا یَہُودِیَّۃٌ فَوَہَبَتْ لَہَا طِیبًا ، فَقَالَتْ : أَجَارَک اللَّہُ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ ، قَالَتْ : فَوَقَعَ فِی نَفْسِی مِنْ ذَلِکَ ، فَلَمَّا جَائَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قُلْتُ : یَا رَسُولَ اللہِ إنَّ فِی الْقَبْرِ عَذَابًا ؟ قَالَ : نَعَمْ ، إنَّہُمْ لَیُعَذَّبُونَ فِی قُبُورِہِمْ عَذَابًا تَسْمَعُہُ الْبَہَائِمُ۔ (بخاری ۶۳۶۶۔ مسلم ۱۲۵)
(١٢١٥٠) حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ میرے پاس ایک یہودیہ خاتون آئی پس اس نے آپ کو خوشبو ھبہ کی، اس نے کہا اللہ تعالیٰ آپ کو عذاب قبر سے پناہ دے۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ میرے دل میں اس کے بارے میں خیال آیا، جب حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے تو میں نے حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں عرض کیا اے اللہ کے رسول ! کیا قبر میں عذاب ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ہاں، بیشک وہ اپنی قبروں میں عذاب دیئے جاتے ہیں، جس کو بہائم سنتے ہیں۔

12150

(۱۲۱۵۱) حدَّثَنَا عَبِیْدَۃُ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، عَن مَسْرُوقٍ ، عَنْ عَائِشَۃَ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِنَحْوِ حَدِیثِ أَبِی مُعَاوِیَۃَ۔
(١٢١٥١) حضرت عائشہ سے اسی کے مثل منقول ہے۔

12151

(۱۲۱۵۲) حدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِی صَالِحٍ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : تَعَوَّذُوا بِاَللَّہِ مِنْ جَہَنَّمَ ، تَعَوَّذُوا بِاَللَّہِ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ ، تَعَوَّذُوا بِاَللَّہِ مِنْ فِتْنَۃِ الْمَسِیحِ الدَّجَّالِ ، تَعَوَّذُوا بِاَللَّہِ مِنْ فِتْنَۃِ الْمَحْیَا وَالْمَمَاتِ۔ (ترمذی ۳۶۰۴)
(١٢١٥٢) حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جہنم سے اللہ کی پناہ مانگو، عذاب قبر سے اللہ کی پناہ مانگو، مسیح دجال کے فتنہ سے اللہ کی پناہ مانگو، اللہ پاک سے دنیا وآخرت کے فتنوں کی پناہ مانگو۔

12152

(۱۲۱۵۳) حدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنِ الْجُرَیْرِیِّ ، عَنْ أَبِی نَضْرَۃَ ، عَنْ أَبِی سَعِیدٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ ثَابِتٍ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ إنَّ ہَذِہِ الأُمَّۃَ تُبْتَلَی فِی قُبُورِہَا فَلَوْلاَ أَنْ لاَ تَدَافَنُوا لَدَعَوْت اللَّہَ أَنْ یُسْمِعَکُمْ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ الَّذِی أَسْمَعُ مِنْہُ ، ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَیْنَا بِوَجْہِہِ ، فَقَالَ : تَعَوَّذُوا بِاللَّہِ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ قُلْنَا نَعُوذُ بِاللَّہِ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ۔ (مسلم ۶۷۔ احمد ۵/۱۹۰)
(١٢١٥٣) حضرت زید بن ثابت سے مروی ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : بیشک اس امت کو قبروں میں (عذاب میں) مبتلا کیا جائے گا، اگر تم لوگ مردہ کو دفن کرنا چھوڑ نہ دو تو میں اللہ پاک سے دعا کرتا کہ وہ تمہیں بھی عذاب قبر سنواتا جو میں سنتا ہوں، پھر ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا : عذاب قبر سے اللہ کی پناہ مانگو، ہم نے عرض کیا ہم عذاب قبر سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں۔

12153

(۱۲۱۵۴) حدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ مِسْعَرٍ ، عَنْ عَلْقَمَۃَ بْنِ مَرْثَدٍ ، عَنِ الْمُغِیرَۃِ بْنِ عَبْدِ اللہِ الْیَشْکُرِیِّ ، عَنِ الْمَعْرُورِ بْنِ سُوَیْد ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : قالَتْ أُمُّ حَبِیبَۃَ زَوْجُ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اللَّہُمَّ أَمْتِعْنِی بِزَوْجِی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَبِأَبِی أَبِی سُفْیَانَ ، وَبِأَخِی مُعَاوِیَۃَ ، فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إنَّک قَدْ سَأَلْت اللَّہَ لآجَالٍ مَضْرُوبَۃٍ ، وَأَیَّامٍ مَعْدُودَۃٍ ، وَأَرْزَاقٍ مَقْسُومَۃٍ ، لَنْ یُعَجِّل شَیْئًا قَبْلَ حَِلِہِ أو یُؤَخِّرَ شَیْئًا عَنْ حَِلِہِ ، وَلَوْ کُنْت سَأَلْت اللَّہَ أَنْ یُعِیذَک مِنْ عَذَابٍ فِی النَّارِ ، أَوْ عَذَابٍ فِی الْقَبْرِ کَانَ خَیْرًا وَأَفْضَلَ۔ (مسلم ۲۰۵۰۔ احمد ۱/۳۹۰)
(١٢١٥٤) حضرت عبداللہ سے مروی ہے کہ حضرت ام حبیبہ نے یوں دعا مانگی، اے اللہ ! مجھے میرے شوہر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، میرے والد ابو سفیان اور میرے بھائی معاویہ سے فائدہ پہنچا، حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : بیشک تو نے اللہ سے ان تقدیروں کے بارے میں جو طے ہوچکی اور ان دنوں کے جو گنے جا چکے اور اس رزق کا جو تقسیم ہوچکا ہے سوال کیا ہے، کوئی بھی چیز اپنی تدبیر سے نہ پہلے ہوگی، نہ مؤخر ہوگی، اگر تو اللہ تعالیٰ سے عذاب جہنم سے نجات اور عذاب قبر سے نجات کا سوال کرتی تو وہ زیادہ بہتر اور افضل ہوتا۔

12154

(۱۲۱۵۵) حدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ عُثْمَانَ الشَّحَّامِ ، عَنْ مُسْلِمِ بْنِ أَبِی بَکْرَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، أَنَّہُ کَانَ یَدْعُو فِی إِثْرِ الصَّلاَۃِ یقول : اللَّہُمَّ إنِّی أَعُوذُ بِکَ مِنَ الْکُفْرِ وَالْفَقْرِ وَعَذَابِ الْقَبْرِ۔ (احمد ۵/۳۶۔ ترمذی ۳۵۰۳)
(١٢١٥٥) حضرت مسلم بن ابی بکرہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز کے بعد یوں دعا فرماتے : اے اللہ ! میں کفر، فقر اور عذاب قبر سے پناہ مانگتا ہوں۔

12155

(۱۲۱۵۶) حدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إسْرَائِیلَ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَیْمُونٍ ، عَنْ عُمَرَ ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یَتَعَوَّذُ بِاللَّہِ مِنَ الْجُبْنِ وَالْبُخْلِ وَعَذَابِ الْقَبْرِ ، وَفِتْنَۃِ الصَّدْرِ۔ (احمد ۱/۲۲۔ بزار ۳۲۴)
(١٢١٥٦) حضرت عمر سے مروی ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بزدلی، بخل، عذاب قبر اور دل کے فتنے سے اللہ کی پناہ مانگتے تھے۔

12156

(۱۲۱۵۷) حدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ وَابْنِ نُمَیْرٍ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنِ الْمِنْہَالِ ، عَنْ زَاذَانَ : عَنِ الْبَرَائِ ، قَالَ : خَرَجْنَا مَعَ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی جِنَازَۃِ رَجُلٍ مِنَ الأَنْصَارِ فَانْتَہَیْنَا إلَی الْقَبْرِ وَلَمَّا یُلْحَدْ ، فَجَلَسَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَجَلَسْنَا حَوْلَہُ ، کَأَنَّمَا عَلَی رُؤُوسِنَا الطَّیْرُ ، وَفِی یَدِہِ عُودٌ یَنْکُتُ بِہِ فِی الأَرْضِ ، فَرَفَعَ رَأْسَہُ، فَقَالَ: اسْتَعِیذُوا بِاللَّہِ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ، إِلاَّ أَنَّ ابْنَ نُمَیْرٍ، قَالَ حدَّثَنَا الأَعْمَشُ، قَالَ: حدَّثَنَا الْمِنْہَالُ۔
(١٢١٥٧) حضرت برائ فرماتے ہیں کہ ہم نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ایک انصاری کے جنازے پر گئے، جب ہم قبرستان پہنچے اور لحد ابھی تک تیار نہ ہوئی تھی تو حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف فرما ہوئے ہم بھی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اردگرد اس طرح بیٹھ گئے جس طرح ہمارے سروں پر پرندے ہوں، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاتھ مبارک میں ایک لکڑی تھی جس سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) زمین کو کرید رہے تھے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنا سر مبارک اٹھایا اور فرمایا : عذاب قبر سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگو۔

12157

(۱۲۱۵۸) حدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ عَاصِمِ ، عَنْ أَبِی عُثْمَانَ ، وَعَبْدِ اللہِ بْنِ الْحَارِثِ ، عَنْ زَیْدِ بْنِ أَرْقَمَ ، قَالَ : لاَ أَقُولُ لَکُمْ إِلاَّ مَا سَمِعْت النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : اللَّہُمَّ إنِّی أَعُوذُ بِکَ مِنَ الْعَجْزِ وَالْکَسَلِ وَالْجُبْنِ وَالْبُخْلِ وَعَذَابِ الْقَبْرِ۔ (مسلم ۲۰۸۸۔ ترمذی ۳۵۷۲)
(١٢١٥٨) حضرت زید بن ارقم فرماتے ہیں کہ میں تمہارے سامنے بیان نہیں کرتا مگر جو میں نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں : اے اللہ ! میں تیری پناہ میں آتا ہوں، عاجزی، سستی، بزدلی، بخل اور عذاب قبر سے۔

12158

(۱۲۱۵۹) حدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِی سُفْیَانَ ، عَنْ جَابِرٍ : عَنْ أُمِّ مُبَشِّرٍ قَالَتْ : دَخَلَ عَلَیَّ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَأَنَا فِی حَائِطٍ مِنْ حَوَائِطِ بَنِی النَّجَّارِ فِیہِ قُبُورٌ مِنْہُمْ قَدْ مُوِّتُوا فِی الْجَاہِلِیَّۃِ ، قَالَ : فَخَرَجَ فَسَمِعْتُہُ یَقُولُ : اسْتَعِیذُوا بِاللَّہِ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ قُلْتُ یَا رَسُولَ اللہِ وَلِلْقَبْرِ عَذَابٌ ، قَالَ : إنَّہُمْ لَیُعَذَّبُونَ فِی قُبُورِہِمْ عَذَابًا تَسْمَعُہُ الْبَہَائِمُ۔ (طبرانی ۲۵۔ احمد ۶/۳۶۲)
(١٢١٥٩) حضرت ام مبشر فرماتی ہیں کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرے پاس تشریف لائے اس وقت میں بنو نجار کی دیواروں میں سے ایک دیوار کے پاس تھی جس میں زمانہ جاہلیت کے لوگوں کی قبریں تھیں، (جو زمانہ جاہلیت میں انتقال کرچکے تھے) فرماتی ہیں کہ پھر حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نکلے میں نے سنا آپ فرما رہے تھے، لوگو ! عذاب قبر سے اللہ کی پناہ مانگو، میں نے عرض کیا، اے اللہ کے رسول ! قبر میں عذاب بھی ہوتا ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : بیشک ان کو قبروں میں عذاب دیا جاتا ہے جس کو تمام جانور سنتے ہیں۔

12159

(۱۲۱۶۰) حدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ عَوْنِ بْنِ أَبِی جُحَیْفَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنِ الْبَرَائِ بْنِ عَازِبٍ ، عَنْ أَبِی أَیُّوبَ : أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سَمِعَ صَوْتًا حِینَ غَرَبَتِ الشَّمْسُ ، فَقَالَ : ہَذِہِ أَصْوَاتُ الْیَہُودِ تُعَذَّبُ فِی قُبُورِہَا۔ (بخاری ۱۳۷۵۔ مسلم ۶۹)
(١٢١٦٠) حضرت ابو ایوب فرماتے ہیں کہ ایک دن نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غروب آفتاب کے وقت ایک (چیخ کی) آواز سنی تو فرمایا : یہ یہودیوں کے (چیخنے کی) آواز ہے جن کو قبروں میں عذاب ہو رہا ہے۔

12160

(۱۲۱۶۱) حدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ أَنَسٍ : أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یَتَعَوَّذُ مِنَ الْجُبْنِ وَالْبُخْلِ وَفِتْنَۃِ الْمَحْیَا وَالْمَمَاتِ وَعَذَابِ الْقَبْرِ۔ (نسائی ۷۸۸۱۔ احمد ۳/۲۰۸)
(١٢١٦١) حضرت انس فرماتے ہیں کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بزدلی، بخل، زندگی اور موت کے فتنوں سے اور عذاب قبر سے اللہ کی پناہ مانگتے تھے۔

12161

(۱۲۱۶۲) حدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا وُہَیْبٌ ، حدَّثَنَا مُوسَی بْنُ عُقْبَۃَ ، عَنْ أُمِّ خَالِدٍ بِنْتِ خَالِدٍ ، أَنَّہَا سَمِعَتِ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَہُوَ یَتَعَوذُ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ۔ (بخاری ۱۳۷۶۔ احمد ۶/۳۶۵)
(١٢١٦٢) حضرت ام خالد بنت خالد فرماتی ہیں کہ میں نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عذاب قبر سے پناہ مانگتے ہوئے سنا۔

12162

(۱۲۱۶۳) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنْ فَاطِمَۃَ ، عَنْ أَسْمَائَ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : وَقَدْ أُوحِیَ إلَیَّ أَنَّکُمْ تُفْتَنُونَ فِی الْقُبُورِ مِثْلَ ، أَوْ قَرِیبًا مِنْ فِتْنَۃِ الْمَسِیحِ الدَّجَّالِ ، ثُمَّ یُؤْتَی أَحَدُکُمْ فَیُقَالُ لہ مَا عِلْمُک بِہَذَا الرَّجُلِ ، قَالَ فَأَمَّا الْمُؤْمِنُ فَیَقُولُ : ہو مُحَمَّدٌ ہُوَ رَسُولُ اللہِ ، جَائَنَا بِالْبَیِّنَاتِ وَالْہُدَی ، فَأَجَبْنَا وَاتَّبَعْنَا ، فَیُقَالُ : نَمْ صَالِحًا فَقَدْ عَلِمْنَا أَنَّک مُؤْمِنٌ بِاللَّہِ ، وَأَمَّا الْمُنَافِقُ ، أَوِ الْمُرْتَابُ لاَ أَدْرِی أَیَّ ذَلِکَ قَالَتْ أَسْمَائُ فَیَقُولُ لاَ أَدْرِی ، سَمِعْت النَّاسَ قَالُوا قَوْلاً فَقُلْتُہُ۔ (بخاری ۸۶۔ مسلم ۱۲)
(١٢١٦٣) حضرت اسمائ سے مروی ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : مرِی طرف وحی کی گئی ہے کہ بیشک تم لوگ قبروں میں آزمائے جاؤ گے (فتنہ میں مبتلا کئے جاؤ گے) اسی کے مثل یا مسیح دجال کے فتنہ کے قریب، پھر تم میں سے ایک کو لایا جائے گا اس کو کہا جائے گا، اس شخص کے بارے میں تو کیا جانتا ہے ؟ فرمایا مؤمن شخص کہے گا، یہ محمد ہں ں، اللہ کے رسول ہیں، جو ہمارے پاس واضح دلائل اور ہدایت لے کر آئے ہم نے اس کو قبول کیا اور ان کی اتباع کی، اس کو کہا جائے گا امن و سلامتی سے سو جا ہمیں معلوم تھا کہ تو اللہ پر ایمان لانے والا ہے، بہرحال منافق اور شک کرنے والا، (کہے گا) مجھے نہیں معلوم یہ کون ہیں، حضرت اسمائ فرماتی ہیں وہ کہے گا، مجھے نہیں معلوم میں نے لوگوں کو ایک بات کہتے ہوئے سنا تو میں نے بھی وہ کہہ دی۔

12163

(۱۲۱۶۴) حدَّثَنَا وَکِیعٌ، وَأَبُو مُعَاوِیَۃَ، عَنِ الأَعْمَشِ، قَالَ: سَمِعْتُ مُجَاہِدًا یُحَدِّثُ عَنْ طَاوُوسٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: مَرَّ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَی قَبْرَیْنِ، فَقَالَ: إنَّہُمَا لَیُعَذَّبَانِ وَمَا یُعَذَّبَانِ فِی کَبِیرٍ أَمَّا أَحَدُہُمَا، فَکَانَ یَمْشِی بِالنَّمِیمَۃِ وَأَمَّا الآخَرُ، فَکَانَ لاَ یَسْتَبْرِئُ مِنْ بَوْلِہِ، وَلَمْ یَقُلْ أَبُو مُعَاوِیَۃَ سَمِعْت مُجَاہِدًا۔
(١٢١٦٤) حضرت عبداللہ بن عباس سے مروی ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک مرتبہ دو قبروں کے پاس سے گزرے تو فرمایا : ان دونوں کو عذاب ہو رہا ہے، اور ان کو کسی بڑے کام کی وجہ سے عذاب نہیں ہو رہا، ان میں سے ایک چغل خور تھا اور دوسرا پیشاب کی چھینٹوں سے نہیں بچتا تھا۔

12164

(۱۲۱۶۵) حدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ زَیْدِ بْنِ وَہْبٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ حَسَنَۃَ ، قَالَ : کُنت أَنَا وَعَمْرُو بْنُ الْعَاصِ جَالِسَیْنِ ، فَخَرَجَ عَلَیْنَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَمَعَہُ دَرَقَۃٌ ، أَوْ شَبَہُہَا ، فَاسْتَتَرَ بِہَا ، ثُمَّ بَالَ وَہُوَ جَالِسٌ ، فَقُلْنَا : تَبُول یَا رَسُولَ اللہِ کَمَا تَبُولُ الْمَرْأَۃُ ، قَالَ : فَجَائَنَا ، فَقَالَ : أَوَمَا عَلِمْتُمْ مَا أَصَابَ صَاحِبَ بَنِی إسْرَائِیلَ ، کَانَ الرَّجُلُ مِنْہُمْ إذَا أَصَابَہُ الشَّیئُ مِنَ الْبَوْلِ قَرَضَہُ بِالْمِقْرَاضِ فَنَہَاہُمْ عَنْ ذَلِکَ فَعُذِّبَ فِی قَبْرِہِ۔
(١٢١٦٥) حضرت عبد الرحمن بن حسنہ فرماتے ہیں کہ میں اور حضرت عمرو بن العاص بیٹھے ہوئے تھے، حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس چمڑہ کی ڈھال یا اس کے مشابہ کوئی چیز تھی، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے پردہ فرمایا اور بیٹھ کر قضائے حاجت کی، ہم نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تو اس طرح (چھپ کر) قضائے حاجت فرمائی ہے جس طرح عورت کرتی ہے ! آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا : کیا تمہیں نہیں معلوم بنی اسرائیل کے صاحب پر کیا گذری ؟ ان میں سے کسی شخص کے کپڑوں کو اگر پیشاب کا قطرہ لگ جاتا تو وہ اس کو قینچی سے کاٹ دیتا، پس ان کو روکا اس سے تو ان کو قبر میں عذاب ہوا۔

12165

(۱۲۱۶۶) حدَّثَنَا عَبِیدَۃُ بْنُ حُمَیْدٍ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ عُمَیْرٍ ، عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ سَعْدٍ ، أَنَّہُ قَالَ لِبَنِیہِ أی بَنِیَّ تَعَوَّذُوا بِاللَّہِ بِکَلِمَاتٍ کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَتَعَوَّذُ بِہِنَّ ۔۔۔ ، فَذَکَرَ عَذَابَ الْقَبْرِ۔ (بخاری ۶۳۷۴۔ ترمذی ۳۵۶۷)
(١٢١٦٦) حضرت مصعب بن سعد سے مروی ہے کہ حضرت سعد نے اپنے بیٹے کو فرمایا : اے بیٹے ! ان کلمات سے اللہ سے پناہ مانگو جن سے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پناہ مانگتے تھے، پھر آپ نے عذاب قبر کا ذکر فرمایا۔

12166

(۱۲۱۶۷) حدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَنْ زَائِدَۃَ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ عُمَیْر ، عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ سَعْدٍ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، مِثْلَہُ۔ (بخاری ۶۳۷۴)
(١٢١٦٧) حضرت مصعب بن سعد سے اسی کے مثل منقول ہے۔

12167

(۱۲۱۶۸) حدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَیْدٍ ، حدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ کَیْسَانَ ، عَنْ أَبِی حَازِمٍ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : مَرَّ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَی قَبْرٍ فَوَقَفَ عَلَیْہِ ، فَقَالَ : ائْتُونِی بِجَرِیدَتَیْنِ ، فَجَعَلَ إحْدَاہُمَا عِنْدَ رَأْسِہِ ، وَالأُخْرَی عِنْدَ رِجْلَیْہِ ، فَقِیلَ لَہُ : یَا رَسُولَ اللہِ أَیَنْفَعُہُ ذَلِکَ ؟ فَقَالَ : لَعَلَّہُ یُخَفِّفُ عَنْہُ بَعْضَ عَذَابِ الْقَبْرِ مَا فِیہِ نُدُوَّۃٌ۔ (احمد ۲/۴۴۱)
(١٢١٦٨) حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک قبر کے پاس سے گزرے تو اس کے پاس کھڑے ہوگئے پھر فرمایا، میرے پاس دو کھجور کی لکڑیاں لے کر آؤ، پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک کھجور کی لکڑی سر کے پاس اور دوسری پاؤں کے پاس گاڑ دی، عرض کیا گیا اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! کیا اس سے اس کو فائدہ ہوگا ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : شاید کہ ان سے کچھ عذاب قبر میں کمی آجائے جب تک ان میں رطوبت باقی ہے، (جب تک کہ یہ تر ہیں) ۔

12168

(۱۲۱۶۹) حدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ الأَسْوَد بْنِ شَیْبَانَ ، قَالَ : حدَّثَنِی بَحْرُ بْنُ مَرَّارٍ ، عَنْ جَدِّہِ أَبِی بَکْرَۃَ ، قَالَ : کُنْتُ أَمْشِی مَعَ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَمَرَّ عَلَی قَبْرَیْنِ ، فَقَالَ : إنَّہُمَا لَیُعَذَّبَانِ مَنْ یَأْتِینِی بِجَرِیدَۃٍ ؟ فَاسْتَبَقْتُ أَنَا وَرَجُلٌ فَأَتَیْنَا بِہَا ، قَالَ : فَشَقَّہَا مِنْ رَأْسِہَا ، فَغَرَسَ عَلَی ہَذَا وَاحِدَۃً ، وَعَلَی ہَذَا وَاحِدَۃً ، وَقَالَ : لَعَلَّہ یُخَفَّفُ عَنْہُمَا مَا بَقِیَ فِیہِمَا مِنْ بُلُولَتِہِمَا شَیْئٌ ، إن یُعَذَّبَانِ لفِی الْغِیبَۃِ وَالْبَوْلِ۔
(١٢١٦٩) حضرت بحر بن مرار اپنے دادا حضرت ابو بکرہ سے روایت کرتے ہیں وہ فرماتے ہیں کہ میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ چل رہا تھا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دو قبروں پر گزرے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ان دونوں کو عذاب ہو رہا ہے، کون ہے جو میرے پاس کھجور کی لکڑی لے کر آئے، حضرت ابو بکرہ فرماتے ہیں کہ میں نے اور ایک شخص نے جلدی کی اور ہم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس کھجور کی لکڑی لے آئے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے سرے سے لکڑی کو چیر کردو حصوں میں تقسیم فرمایا اور ایک کو ایک قبر پر اور دوسری کو دوسری قبر پر گاڑ دیا، اور فرمایا : جب تک کہ ان لکڑیوں میں تری موجود ہے شاید کہ اس کی وجہ سے ان کے عذاب میں کمی ہوجائے، ان کو عذاب غیبت اور پیشاب (کے قطروں سے نہ بچنے کی وجہ سے) ہو رہا ہے۔

12169

(۱۲۱۷۰) حدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ حَرْبٍ ، حدَّثَنَا أَبُو سَلَمَۃَ حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ بَہْدَلَۃَ ، عَنْ حَبِیبِ بْنِ أَبِی جَبِیرَۃَ ، عَنْ یَعْلَی بْنِ سِیَابَۃَ : أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَرَّ بِقَبْرٍ یُعَذَّبُ صَاحِبُہُ ، فَقَالَ : إنَّ صَاحِبَ ہَذَا الْقَبْرِ یُعَذَّبُ فِی غَیْرِ کَبِیرٍ ، ثُمَّ دَعَا بِجَرِیدَۃٍ فَوَضَعَہَا عَلَی قَبْرِہِ ، ثُمَّ قَالَ : لَعَلَّہُ یُخَفِّفُ عَنْہُ مَا کَانَتْ رَطْبَۃً۔ (مسندہ ۵۹۵۔ احمد ۴/۱۷۲)
(١٢١٧٠) حضرت یعلی بن سیابہ فرماتے ہیں کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک قبر کے پاس سے گذرے جس کو عذاب ہو رہا تھا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اس قبر والے کو کسی بڑے کام کی وجہ سے عذاب نہیں ہو رہا، پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک کھجور کی لکڑی منگوا کر اس کی قبر پر گاڑ دی اور فرمایا : شاید کہ اس کی وجہ سے اس کے عذاب میں کمی ہوجائے جب تک کھجور کی لکڑی تر رہے۔

12170

(۱۲۱۷۱) حدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، عَنْ طَاوُوسٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : مَرَّ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِقَبْرَیْنِ ، فَقَالَ : إنَّہُمَا لَیُعَذَّبَانِ وَمَا یُعَذَّبَانِ فِی کَبِیرٍ أَمَّا أَحَدُہُمَا ، فَکَانَ لاَ یَسْتَتِرُ مِنَ الْبَوْلِ، وَأَمَّا الآخَرُ ، فَکَانَ یَمْشِی بِالنَّمِیمَۃِ ، ثُمَّ أَخَذَ جَرِیدَۃً رَطْبَۃً فَشَقَّہَا نِصْفَیْنِ ، ثُمَّ غَرَسَ فِی کُلِّ قَبْرٍ وَاحِدَۃً ، فَقَالُوا : یَا رَسُولَ اللہِ لِمَ فَعَلْت ہَذَا ؟ قَالَ : لَعَلَّہُ أن یُخَفِّفُ عَنْہُمَا مَا لَمْ یَیْبَسَا۔
(١٢١٧١) حضرت عبداللہ بن عباس سے مروی ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دو قبروں کے پاس سے گزرے تو فرمایا : ان دونوں کو عذاب ہو رہا ہے، اور ان کو کسی بڑے کام کی وجہ سے عذاب نہیں ہو رہا، ان میں سے ایک پیشاب کے قطروں سے نہیں بچتا تھا اور دوسرا شخص چغل خور تھا، پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کھجور کی گیلی ٹہنی لی اور اس کو چیر کردو کیا اور ہر ایک کی قبر پر ایک ایک گاڑھ دی، صحابہ کرام نے عرض کیا اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس طرح کیوں کیا ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : شاید کہ ان کے عذاب میں کمی کردی جائے جب تک یہ گیلی رہیں۔

12171

(۱۲۱۷۲) حدَّثَنَا وَکِیعٌ ، حدَّثَنَا الأَعْمَشُ ، سَمِعْتُ مُجَاہِدًا یُحَدِّثُ عَنْ طَاوُوسٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِمِثْلِہِ ، إِلاَّ أَنَّ وَکِیعًا ، قَالَ : فَدَعَا بِعَسِیبٍ رَطْبٍ۔
(١٢١٧٢) حضرت عبداللہ بن عباس سے اسی کے مثل منقول ہے۔

12172

(۱۲۱۷۳) حدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَنْ زَائِدَۃَ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ زِرٍّ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : إذَا أُدْخِلَ الرَّجُلُ قَبْرَہُ ، فَإِنْ کَانَ مِنْ أَہْلِ السَّعَادَۃِ ثَبَّتَہُ اللَّہُ بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فَیُسْأَلُ مَا أَنْتَ فَیَقُولُ أَنَا عَبْدُ اللہِ حَیًّا وَمَیِّتًا وَأَشْہَدُ أَنْ لاَ إلَہَ إِلاَّ اللَّہُ وَأَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَرَسُولُہُ ، قَالَ فَیُقَالُ کَذَلِکَ کُنْت ، قَالَ فَیُوَسَّعُ عَلَیْہِ قَبْرُہُ مَا شَائَ اللَّہُ وَیُفْتَحُ لَہُ بَابٌ إلَی الْجَنَّۃِ وَیُدْخَلُ عَلَیْہِ مِنْ رَوْحُہَا وَرِیحُہَا حَتَّی یُبْعَثَ ، وَأَمَّا الآخَرُ فَیُؤْتَی فِی قَبْرِہِ فَیُقَالُ لَہُ مَا أَنْتَ ثَلاَثُ مَرَّاتٍ فَیَقُولُ لاَ أَدْرِی فَیُقَال لَہُ لاَ دَرَیْت ثَلاَثَ مَرَّاتٍ ، ثُمَّ یُضَیَّقُ عَلَیْہِ قَبْرُہُ حَتَّی تَخْتَلِفَ أَضْلاَعُہُ ، أَوْ تَمَاسَّ وَتُرْسَلُ عَلَیْہِ حَیَّاتٌ مِنْ جَانِبِ الْقَبْرِ فَتَنْہَشُہُ وَتَأْکُلُہُ کُلَّمَا جَزِعَ وَصَاحَ قُمِعَ بِقِمَاعٍ مِنْ حَدِیدٍ ، أَوْ مِنْ نَارٍ وَیُفْتَحُ لَہُ بَابٌ إلَی النَّارِ۔
(١٢١٧٣) حضرت عبداللہ فرماتے ہیں کہ جب کسی شخص کو قبر میں اتارا جائے تو اگر وہ نیک بختوں میں سے ہو تو اللہ تعالیٰ اس کے دل کو سوال و جواب کے لیے مضبوط فرما دیتا ہے، اس سے سوال کیا جاتا ہے تو کون ہے ؟ وہ کہتا ہے میں زندہ ہونے کی حالت میں اور مرنے کی حالت میں اللہ کا بندہ ہوں، اور میں گواہی دیتا ہوں اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں، اس کو کہا جاتا ہے تو اسی طرح تھا، پھر اس کی قبر کو جتنا اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کشادہ فرما دیتا ہے اور اس کے لیے جنت کا دروازہ کھول دیا جاتا ہے اور اس پر جنت کی خوشبو اور ہوا داخل کی جاتی ہے، یہاں تک کہ وہ دوبارہ اٹھایا جائے، اور دوسرے شخص کو قبر میں لایا جاتا ہے تو اس سے دریافت کیا جاتا ہے کون ہے تو ؟ تین بار یہی سوال ہوتا ہے، وہ کہتا ہے میں نہیں جانتا، اس کو کہا جائے گا تو جانتا بھی نہیں تھا، تین بار یہی کہا جائے گا، پھر اس کی قبر اس پر اتنی تنگ کردی جائے گی کہ اس کے جسم اور پسلیاں آپس میں مل جائیں گے، اور اس پر قبر کی طرف سے بہت سانپ چھوڑے جاتے ہیں جو اسے ڈستے ہیں اور کھاتے ہیں، جب بھی وہ چیخے اور چلائے گا اس کو لوہے یا آگ کا گرز مارا جائے گا اور اس کے لے ی جہنم کی طرف ایک دروازہ کھول دیا جائے گا۔

12173

(۱۲۱۷۴) حدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَیْدَۃَ ، عَنِ الْبَرَائِ بْنِ عَازِبٍ {یُثَبِّتُ اللَّہُ الَّذِینَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِی الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا} ، قَالَ : التَّثْبِیتُ فِی الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا إذَا جَائَ الْمَلَکَانِ إلَی الرَّجُلِ فِی الْقَبْرِ فَقَالاَ لَہُ : مَنْ رَبُّک ؟ فَقَالَ : رَبِّی اللَّہُ ، قَالاَ : وَمَا دِینُک ؟ قَالَ : دِینِی الإِسْلاَمُ قَالاَ : وَمَنْ نَبِیُّک ؟ قَالَ نَبِیِّی مُحَمَّدٌ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَذَلِکَ التَّثْبِیتُ فِی الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا۔ (بخاری ۱۳۶۹۔ ابوداؤد ۴۷۱۷)
(١٢١٧٤) حضرت براء بن عازب فرماتے ہیں کہ قرآن پاک کی آیت { یُثَبِّتُ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا } میں دنیا کی زندگی میں ثابت قدمی سے مراد یہ ہے کہ جب قبر میں کسی شخص کے پاس دو فرشتے آتے ہیں وہ اس سے کہتے ہیں، تیرا رب کونسا ہے ؟ وہ کہتا ہے میرا رب اللہ ہے، وہ پوچھتے ہیں تیرا دین کونسا ہے ؟ وہ کہتا ہے میرا دین اسلام ہے، وہ پوچھتے ہیں تیرا نبی کون ہے ؟ وہ کہتا ہے میرے نبی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں، یہ دنیا کی زندگی میں ثابت قدمی ہے۔

12174

(۱۲۱۷۵) حدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنِ السُّدِّیِّ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ رَفَعَہُ ، قَالَ : إِنَّہُ لَیَسْمَعُ خَفْقَ نِعَالِہِمْ إذَا وَلَّوْا مُدْبِرِینَ۔ (ابن حبان ۳۱۱۸۔ بزار ۸۷۳)
(١٢١٧٥) حضرت ابوہریرہ سے مرفوعا مروی ہے کہ مردے کو دفنانے کے بعد لوگ پیٹھ پھیر کر جاتے ہیں تو وہ ان کے جوتوں کی آواز (آہٹ) سنتا ہے۔

12175

(۱۲۱۷۶) حدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، حدَّثَنَا سُفْیَانَ ، عَنِ الأَسْوَد بْنِ قَیْسٍ ، عَنْ نُبَیْحٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا سَعِیدٍ یَقُولُ مَا مِنْ جِنَازَۃٍ إِلاَّ تُنَاشِدُ حَمَلَتَہَا إِنْ کَانَتْ مُؤْمِنَۃً وَاللَّہُ عَنْہَا رَاضٍ قَالَتْ أَسْرِعُوا بِی وَإِنْ کَانَتْ کَافِرَۃً وَاللَّہُ عَنْہَا سَاخِطٌ قَالَتْ رُدُّونِی فَمَا شَیْئٌ إِلاَّ یَسْمَعُہُ إِلاَّ الثَّقَلَیْنِ وَلَوْ سَمِعَہُ الإِنْسَان جَزِعَ وَخَرِع۔ (عبدالرزاق ۶۲۵۰)
(١٢١٧٦) حضرت نبی ح فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابو سعید سے سنا وہ فرماتے ہیں کوئی جنازہ ایسا نہیں ہے مگر وہ اپنے اٹھانے والے کو کہتا ہے (مطالبہ کرتا ہے) اگر وہ مؤمن ہو اور اللہ پاک اس سے راضی ہوں، مجھے جلدی لے کر چلو اور اگر وہ کافر ہوں اور اللہ پاک اس سے ناراض ہوں تو کہتا ہے مجھے واپس لے چلو، جن و انس کے علاوہ ہر چیز اس کی آواز سنتی ہے۔ اگر انسان آواز سن لے تو چیخے اور (چیختے چیختے) کمزور لاغر ہوجائے۔

12176

(۱۲۱۷۷) حدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ یَعْلَی بْنِ عَطَائٍ ، عَنْ تَمِیمٍ ، عَنْ غَیْلاَنَ بْنِ سَلَمَۃَ ، قَالَ : جَائَ رَجُلٌ إلَی أَبِی الدَّرْدَائِ وَہُوَ مَرِیضٌ ، فَقَالَ : یَا أَبَا الدَّرْدَائِ إنَّک قَدْ أَصْبَحْتَ عَلَی جَنَاحِ فِرَاقِ الدُّنْیَا ، فَمُرْنِی بِأَمْرٍ یَنْفَعُنِی اللَّہُ بِہِ ، وَأَذْکُرُک بِہِ ، قَالَ : إنَّک مِنْ أُمَّۃٍ مُعَافَاۃٍ ، فَأَقِمِ الصَّلاَۃَ ، وَأَدِّ زَکَاۃَ مَالِکِ ، إِنْ کَانَ لَکَ ، وَصُمْ رَمَضَانَ وَاجْتَنِبِ الْفَوَاحِشَ ، ثُمَّ أَبْشِرْ ، قَالَ : ثُمَّ أَعَادَ الرَّجُلُ عَلَی أَبِی الدَّرْدَائِ ، فَقَالَ لَہُ مِثْلَ ذَلِکَ ، قَالَ شُعْبَۃُ : وَأَحْسَبُہُ أَعَادَ عَلَیْہِ ثَلاَثَ مَرَّاتٍ ، وَرَدَّ عَلَیْہِ أَبُو الدَّرْدَائِ ثَلاَثَ مَرَّاتٍ ، فَنَفَضَ الرَّجُلُ رِدَائَہُ ، وَقَالَ : {إنَّ الَّذِینَ یَکْتُمُونَ مَا أَنْزَلْنَا مِنَ الْبَیِّنَاتِ وَالْہُدَی مِنْ بَعْدِ مَا بَیَّنَّاہُ لِلنَّاسِ فِی الْکِتَابِ} إلَی قَوْلِہِ {وَیَلْعَنَہُمَ اللاَّعِنْونَ} فَقَالَ أَبُو الدَّرْدَائِ : عَلَیَّ الرَّجُلَ ، فَجَائَ فَقَالَ أَبُو الدَّرْدَائِ : مَا قُلْتَ ، قَالَ : کُنْتُ رَجُلاً مُعَلَّمًا عِنْدَکَ مِنَ الْعِلْمِ مَا لَیْسَ عِنْدِی ، فَأَرَدْت أَنْ تُحَدِّثَنِی بِمَا یَنْفَعُنِی اللَّہُ بِہِ ، فَلَمْ تَرُدَّ عَلَیَّ إِلاَّ قَوْلاً وَاحِدًا ، فَقَالَ لہ أَبُو الدَّرْدَائِ : اجْلِسْ ، ثُمَّ اعْقِلْ مَا أَقُولُ ، أَیْنَ أَنْتَ مِنْ یَوْمٍ لَیْسَ لَکَ مِنَ الأَرْضِ إِلاَّ عَرْضُ ذِرَاعَیْنِ فِی طُولِ أَرْبَعَۃِ أَذْرُعٍ ، أَقَبْلَ بِکَ أَہْلُک الَّذِینَ کَانُوا لاَ یُحِبُّونَ فِرَاقَک ، وَجُلَسَاؤُک ، وَإِخْوَانُک فَأَتْقَنوا عَلَیْک البُنْیَان ، ثُمَّ أَکْثَرُوا عَلَیْک التُّرَابَ ، ثُمَّ تَرَکُوک لِمَتَلِّکَ ذَلِکَ ، ثُمَّ جَائَک مَلَکَانِ أَسْوَدَانِ أَزْرَقَانِ جَعْدَانِ ، اسْمَاہُمَا مُنْکَرٌ وَنَکِیرٌ فَأَجْلَسَاک ، ثُمَّ سَأَلاَک مَا أَنْتَ أَمْ عَلَی مَاذَا کُنْت ؟ أم مَاذَا تَقُولُ فِی ہَذَا، فَإِنْ قُلْتَ: وَاللَّہِ مَا أَدْرِی ، سَمِعْتُ النَّاسَ قَالُوا قَوْلاً ، فَقُلْتُ ، فَقَد وَاللَّہِ رَدِیتَ ، وخَزِیتَ، وَہَوِیتَ ، وَإِنْ قُلْتَ : مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللہِ ، أَنْزَلَ اللَّہُ عَلَیْہِ کِتَابَہُ ، فآمَنْتُ بِہِ ، وَبِمَا جَائَ بِہِ ، فَقَدْ وَاللَّہِ نَجَوْتَ ، وَہُدِیتَ ، وَلَمْ تَسْتَطِعْ ذَلِکَ إِلاَّ بِتَثْبِیتٍ مِنَ اللہِ ، مَعَ مَا تَرَی مِنَ الشِّدَّۃِ وَالْخَوْفِ۔
(١٢١٧٧) حضرت تمیم بن غیلان بن سلمہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص حضرت ابو الدردائ کے پاس آیا اور آپ بیمار تھے، اس نے عرض کیا اے ابو الدردائ ! بیشک آپ دنیا کی جدائی کے پہلو میں ہیں (جدائیگی قریب ہے) آپ مجھے ایسے کام کا حکم فرمائیں جس سے اللہ پاک مجھے فائدہ دے اور اس کے ساتھ میں آپ کو یاد کروں۔ آپ نے فرمایا تو عافیت والی امت میں سے ہے نماز قائم کر، تیرے مال پر اگر زکوۃ ہے تو وہ ادا کر، رمضان کے روزے رکھ، اور برے کاموں سے اجتناب کر، پھر تیرے لیے خوشخبری ہے۔ اس شخص نے پھر یہی سوال دہرایا آپ نے اس کو بھی اسی طرح جواب ارشاد فرمایا، حضرت شعبہ فرماتے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ اس شخص نے تین بار سوال دہرایا اور آپ نے تین بار یہی جواب ارشاد فرمایا وہ شخص اپنی چادر کو جھٹکتے ہوئے کھڑا ہوا اور یہ آیت پڑھی { اِنَّ الَّذِیْنَ یَکْتُمُوْنَ مَآ اَنْزَلْنَا مِنَ الْبَیِّنٰتِ وَالْھُدٰی مِنْ بَعْدِ مَا بَیَّنّٰہُ لِلنَّاسِ فِی الْکِتٰبِ } سے { وَ یَلْعَنُھُمُ اللّٰعِنُوْنَ } [البقرۃ ١٥٩] تک حضرت ابو الدردائ نے فرمایا اس شخص کو میرے پاس واپس لے کر آؤ ! پھر اس سے فرمایا تو نے کیا کہا ؟ اس نے عرض کیا آپ سکھانے والے ہیں آپ کے پاس وہ علم ہے جو میرے پاس نہیں میں آپ کے پاس ارادے سے آیا تھا کہ آپ مجھ سے وہ چیز بیان کریں گے جس سے اللہ پاک مجھے نفع دیں گے مگر آپ مجھ سے صرف یہی بات بار بار فرماتے رہے۔ حضرت ابو الدردائ نے اس سے فرمایا میرے پاس بیٹھ جا اور جو میں کہوں اس کو اپنے پلے باندھ لے۔ اس دن تو کہاں ہوگا (تیرا کیا ہوگا) جس دن زمین میں سے تیرے لیے دو گز چوڑائی اور چار گز لمبائی کے سوا کچھ نہ ہوگا منحرف ہوجائیں گے تیرے وہ اہل و عیال جو تجھ سے جدا نہیں ہونا چاہتے تیرے ہم نشین اور تیرے بھائی تجھ پر عمارت کو مضبوط کریں گے۔ پھر تجھ پر کثرت سے مٹی ڈالیں گے پھر تجھے ہلاکت کے لیے چھوڑ دیں گے پھر تیرے پاس دو سیاہ فرشتے، زرد رنگ کا لباس پہنے گنگھریالے بالوں والے آئیں گے جن کا نام منکر نکیر ہے۔ وہ دونوں تیرے پاس بیٹھیں گے اور تجھ سے سوال کریں گے تو کیا ہے ؟ یا تو کس پر تھا ؟ یا تو اس شخص کے بارے میں کیا کہتا ہے ؟ اگر تو نے کہا خدا کی قسم میں نہیں جانتا میں نے لوگوں کو اس کے بارے میں ایک بات کرتے ہوئے سنا تھا میں نے بھی کہہ دیا تو خدا کی قسم تو ہلاک اور ذلیل و رسواہو گیا۔ اور اگر تو نے یوں کہا یہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں اللہ پاک نے ان پر کتاب اتاری میں اس کتاب پر اور جو کچھ یہ لے کر آئے اس پر ایمان لایا تو خدا کی قسم تو نجات و ہدایت پا گیا اور تو ہرگز شدت اور خوف کی وجہ سے ان سوالوں کے جواب نہیں دے سکتا مگر اللہ تعالیٰ تیرے دل کو مضبوط کر دے تو دے سکتا ہے۔

12177

(۱۲۱۷۸) حدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنِ ابْنِ الأَصْبَہَانِیِّ ، عَنْ أَبِی حَازِمٍ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : أَطْفَالُ الْمُسْلِمِینَ فِی جَبَلٍ بَیْنَ إبْرَاہِیمَ وَسَارَۃَ یَکْفُلُونَہُمْ۔
(١٢١٧٨) حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے کہ مسلمانوں کے بچے حضرت ابراہیم اور حضرت سارہ کے پاس ایک پہاڑ پر ہوں گے اور ان کی کفالت کریں گے۔

12178

(۱۲۱۷۹) حدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ عَدِیِّ بْنِ ثَابِتٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ الْبَرَائَ یَقُولُ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لَمَّا مَاتَ إبْرَاہِیمُ ، قَالَ : أَمَا إنَّ لَہُ مُرْضِعًا فِی الْجَنَّۃِ۔ (احمد ۴/۳۰۰۔ ابن سعد ۱۳۹)
(١٢١٧٩) حضرت برائ سے مروی ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لاڈلے حضرت ابراہیم کی وفات ہوئی تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بیشک اس کے لیے جنت میں ایک دودھ پلانے والی مقرر ہے۔

12179

(۱۲۱۸۰) حدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إنَّ لَہُ مُرْضِعًا فِی الْجَنَّۃِ تُتِمُّ بَقِیَّۃَ رَضَاعَتِہِ۔ (عبدالرزاق ۱۴۰۱۳۔ احمد ۴/۲۹۷)
(١٢١٨٠) حضرت شعبی سے مروی ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا ان کے لیے جنت میں دودھ پلانے والی مقرر ہے جو اس کی رضاعت کی مدت پوری کرے گی۔

12180

(۱۲۱۸۱) حدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ عَامِرٍ ، أَنَّ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صلی علیہ وَہُوَ ابْنُ سِتَّۃَ عَشَرَ شَہْرًا۔ (ابوداؤد ۳۱۸۰)
(١٢١٨١) حضرت عامر فرماتے ہیں کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے لاڈلے کی نماز جنازہ ادا فرمائی اس وقت اس کی عمر سولہ مہینے تھی۔

12181

(۱۲۱۸۲) حدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ رَبِیعٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، أَنَّہُ لَمْ یَکُنْ لاَ یَرَی بَأْسًا بِرَشِّ الْمَائِ عَلَی الْقَبْرِ۔
(١٢١٨٢) حضرت ربیع فرماتے ہیں کہ حضرت حسن قبر پر پانی چھڑکنے میں کوئی حرج نہ سمجھتے تھے۔

12182

(۱۲۱۸۳) حدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إسْرَائِیلَ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ أَبِی جَعْفَرٍ ، قَالَ : لاَ بَأْسَ بِرَشِّ الْمَائِ عَلَی الْقَبْرِ۔
(١٢١٨٣) حضرت ابو جعفر فرماتے ہیں کہ قبر پر پانی چھڑکنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

12183

(۱۲۱۸۴) حدَّثَنَا حَرَمِیُّ بْنُ عُمَارَۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ بَکْرٍ ، قَالَ : کُنْتُ فِی جِنَازَۃٍ وَمَعَنَا زِیَادُ بْنُ جُبَیْرِ بْنُ حَیَّۃَ ، فَلَمَّا سَوَّوُا الْقَبْرَ صُبَّ عَلَیْہِ الْمَائَ ، فَذَہَبَ رَجُلٌ یَمَسُّہُ وَیُصْلِحُہُ ، فَقَالَ : زِیَادٌ یُکْرَہُ أَنْ تَمَسَّ الأَیْدِی الْقَبْرَ بَعْدَ مَا یُرَشُّ عَلَیْہِ الْمَائُ۔
(١٢١٨٤) حضرت عبداللہ بن بکر فرماتے ہیں کہ میں جنازے میں تھا ہمارے ساتھ حضرت زیاد بن جبیر بن حیہ بھی تھے جب قبر برابر کرلی گئی تو اس پر پانی ڈالا گیا، ایک شخص آیا وہ قبر کو چھونے لگا اور اس کو درست کرنے لگا حضرت زیاد نے فرمایا قبر پر پانی ڈالنے کے بعد اس کو ہاتھوں سے چھونا ناپسندیدہ ہے۔

12184

(۱۲۱۸۵) حدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنِ الْمِنْہَالِ ، عَنْ زَاذَانَ : عَنِ الْبَرَائِ ، قَالَ : خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی جِنَازَۃِ رَجُلٍ مِنَ الأَنْصَارِ ، فَانْتَہَیْنَا إلَی الْقَبْرِ وَلَمَّا یُلْحَدْ ، فَجَلَسَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَجَلَسْنَا حَوْلَہُ کَأَنَّمَا عَلَی رُؤُوسِنَا الطَّیْرُ ، وَفِی یَدِہِ عُودٌ یَنْکُتُ بِہِ ، فَرَفَعَ رَأْسَہُ ، فَقَالَ : اسْتَعِیذُوا بِاللَّہِ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ ثَلاَثَ مَرَّاتٍ ، أَوْ مَرَّتَیْنِ ، ثُمَّ قَالَ : إنَّ الْعَبْدَ الْمُؤْمِنَ إذَا کَانَ فِی انْقِطَاعٍ مِنَ الدُّنْیَا وَإِقْبَالٍ مِنَ الآخِرَۃِ نَزَلَ إلَیْہِ مِنَ السَّمَائِ مَلاَئِکَۃٌ بِیضُ الْوُجُوہِ ، کَأَنَّ وُجُوہَہُمُ الشَّمْسُ ، حَتَّی یَجْلِسُونَ مِنْہُ مَدَّ الْبَصَرِ ، مَعَہُمْ کَفَنٌ مِنْ أَکْفَانِ الْجَنَّۃِ ، وَحَنُوطٌ مِنْ حَنُوطِ الْجَنَّۃِ ، ثُمَّ یَجِیئُ مَلَکُ الْمَوْتِ فَیَقْعُدُ عِنْدَ رَأْسِہِ فَیَقُولُ : أَیَّتُہَا النَّفْسُ الطَّیِّبَۃُ اخْرُجِی إلَی مَغْفِرَۃٍ مِنَ اللہِ وَرِضْوَانٍ ، فَتَخْرُجُ تَسِیلُ کَمَا تَسِیلُ الْقَطْرَۃُ مِنْ فِی السِّقَائِ فَیَأخذہا ، فَإِذَا أَخَذُوہَا لَمْ یَدَعُوہَا فِی یَدِہِ طَرْفَۃَ عَیْنٍ حَتَّی یَأْخُذُوہَا فَیَجْعَلُوہَا فِی ذَلِکَ الْکَفَنِ ، وَذَلِکَ الْحَنُوطِ ، فَیَخْرُجُ مِنْہَا کَأَطْیَبِ نَفْخَۃِ مِسْکٍ وُجِدَتْ عَلَی وَجْہِ الأَرْضِ ، فَیَصْعَدُونَ بِہَا فَلاَ یَمُرُّونَ بِہَا عَلَی مَلَکٍ مِنَ الْمَلاَئِکَۃِ إِلاَّ قَالُوا : مَا ہَذَا الرُّوحُ الطَّیِّبُ ؟ فَیَقُولُونَ: ہَذَا فُلاَنُ بْنُ فُلاَنٍ بِأَحْسَنِ أَسْمَائِہِ الَّتِی کَانَ یُسَمَّی بِہَا فِی الدُّنْیَا ، حَتَّی یَنْتَہُوا بِہَا إلَی السَّمَائِ الدُّنْیَا ، فَیَسْتَفْتِحُ فَیُفْتَحُ لَہُمْ ، فَیَسْتَقْبِلُہُ مِنْ کُلِّ سَمَائٍ مُقَرَّبُوہَا إلَی السَّمَائِ الَّتِی تَلِیہَا ، حَتَّی یَنْتَہِیَ بِہِ إلَی السَّمَائِ السَّابِعَۃِ ، قَالَ: فَیَقُولُ اللَّہُ تعالی اکْتُبُوا کِتَابَ عَبْدِی فِی عِلِّیِّینَ فِی السَّمَائِ الرَّابِعَۃِ، وَأَعِیدُوہُ إلَی الأَرْضِ، فَإِنِّی مِنْہَا خَلَقْتُہُمْ ، وَفِیہَا أُعِیدُہُمْ ، وَمِنْہَا أُخْرِجُہُمْ تَارَۃً أُخْرَی ، فَیُعَادُ رُوحُہُ فِی جَسَدِہِ ، وَیَأْتِیہِ مَلَکَانِ فَیُجْلِسَانِہِ فَیَقُولاَنِ لَہُ : مَنْ رَبُّک ؟ فَیَقُولُ : رَبِّی اللَّہُ فَیَقُولاَنِ لَہُ : مَا دِینُک ؟ فَیَقُولُ دِینِی الإِسْلاَمُ ، فَیَقُولاَنِ لَہُ : مَا ہَذَا الرَّجُلُ الَّذِی بُعِثَ فِیکُمْ ؟ فَیَقُولُ : ہُوَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : فَیَقُولاَنِ : مَا عَمَلُک بہ ؟ فَیَقُولُ : قَرَأْت کِتَابَ اللہِ وَآمَنْت بِہِ وَصَدَقْت بِہِ ، فَیُنَادِی مُنَادٍ مِنَ السَّمَائِ أَنْ صَدَقَ عَبْدِی فَأَفْرِشُوہُ مِنَ الْجَنَّۃِ ، وَأَلْبِسُوہُ مِنَ الْجَنَّۃِ ، وَافْتَحُوا لَہُ بَابًا إلَی الْجَنَّۃِ ، فَیَأْتِیہِ مِنْ طِیبِہَا وَرَوْحِہَا ، وَیُفْسَحُ لَہُ فِی قَبْرِہِ مَدَّ بَصَرِہِ ، وَیَأْتِیہِ رَجُلٌ حَسَنُ الْوَجْہِ ، حَسَنُ الثِّیَابِ ، طَیِّبُ الرِّیحِ ، فَیَقُولُ : أَبْشِرْ بِالَّذِی یَسُرُّک ، ہَذَا یَوْمُک الَّذِی کُنْت تُوعَدُ ، فَیَقُولُ : وَمَنْ أَنْتَ ؟ فَوَجْہُک الْوَجْہُ یَجِیئُ بِالْخَیْرِ ، فَیَقُولُ : أَنَا عَمَلُک الصَّالِحُ ، فَیَقُولُ : رَبِّ أَقِمِ السَّاعَۃَ ، رَبِّ أَقِمِ السَّاعَۃَ ، حَتَّی أَرْجِعَ إلَی أَہْلِی وَمَالِی ، وَإِنَّ الْعَبْدَ الْکَافِرَ إذَا کَانَ فِی انْقِطَاعٍ مِنَ الدُّنْیَا ، وَإِقْبَالٍ مِنَ الآخِرَۃِ ، نَزَلَ إلَیْہِ مِنَ السَّمَائِ مَلاَئِکَۃٌ سُودُ الْوُجُوہِ ، مَعَہُمَ الْمُسُوحُ ، حَتَّی یَجْلِسُونَ مِنْہُ مَدَّ الْبَصَرِ ، قَالَ : ثُمَّ یَجِیئُ مَلَکُ الْمَوْتِ ، حَتَّی یَجْلِسَ عِنْدَ رَأْسِہِ ، فَیَقُولُ : یَا أَیَّتُہَا النَّفْسُ الْخَبِیثَۃُ ، اخْرُجِی إلَی سَخَطِ اللہِ وَغَضَبِہِ ، قَالَ : فَتَفْرَّقُ فِی جَسَدِہِ ، قَالَ : فَتَخْرُجُ تُقَطَّعُ مَعَہَا الْعُرُوقُ وَالْعَصَبُ ، کَمَا تُنْزَعُ السَّفُّودَ مِنَ الصُّوفِ الْمَبْلُولِ ، فَیَأْخُذُوہَا فَإِذَا أَخَذُوہَا لَمْ یَدَعُوہَا فِی یَدِہِ طَرْفَۃَ عَیْنٍ حَتَّی یَأْخُذُوہَا فَیَجْعَلُوہَا فِی تِلْکَ الْمُسُوحِ ، فَیَخْرُجُ مِنْہَا کَأَنْتَنِ جِیفَۃٍ وُجِدَتْ عَلَی ظَہْرِ الأَرْضِ ، فَیَصْعَدُونَ بِہَا ، فَلاَ یَمُرُّونَ بِہَا عَلَی مَلَکٍ مِنَ الْمَلاَئِکَۃِ إِلاَّ قَالُوا : مَا ہَذَا الرُّوحُ الْخَبِیثُ ؟ فَیَقُولُونَ : فُلاَنُ بْنُ فُلاَنٍ ، بِأَقْبَحِ أَسْمَائِہِ الَّتِی کَانَ یُسَمَّی بِہَا فِی الدُّنْیَا حَتَّی یُنْتَہی بِہَا إلَی السَّمَائِ الدُّنْیَا ، فَیَسْتَفْتِحُونَ فَلاَ یُفْتَحُ لَہُ ، ثُمَّ قَرَأَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : {لاَ تُفَتَّحُ لَہُمْ أَبْوَابُ السَّمَائِ وَلاَ یَدْخُلُونَ الْجَنَّۃَ حَتَّی یَلِجَ الْجَمَلُ فِی سَمِّ الْخِیَاطِ} قَالَ : فَیَقُولُ اللَّہُ عَزَّ وَجَلَّ : اکْتُبُوا کِتَابَ عَبْدِی فِی سِجِّینٍ فِی الأَرْضِ السُّفْلَی ، وَأَعِیدُوہُ إلَی الأَرْضِ ، فَإِنِّی مِنْہَا خَلَقْتُہُمْ وَفِیہَا أُعِیدُہُمْ ، وَمِنْہَا أُخْرِجُہُمْ تَارَۃً أُخْرَی ، قَالَ : فَیُطْرَحُ رُوحُہُ طَرْحًا ، قَالَ : ثُمَّ قَرَأَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : {وَمَنْ یُشْرِکْ بِاَللَّہِ فَکَأَنَّمَا خَرَّ مِنَ السَّمَائِ فَتَخْطَفُہُ الطَّیْرُ أَوْ تَہْوِی بِہِ الرِّیحُ فِی مَکَان سَحِیقٍ} قَالَ : فَیُعَادُ رُوحُہُ فِی جَسَدِہِ ، وَیَأْتِیہِ مَلَکَانِ ، فَیُجْلِسَانِہِ فَیَقُولاَنِ لَہُ : مَنْ رَبُّک ؟ فَیَقُولُ : ہَاہَا لاَ أَدْرِی ، وَیَقُولاَنِ : لَہُ وَمَا دِینُک ، فَیَقُولُ : ہَاہَا لاَ أَدْرِی ، قَالَ : فَیُنَادِی مُنَادٍ مِنَ السَّمَائِ ، أفْرِشُوا لَہُ مِنَ النَّارِ ، وَأَلْبِسُوہُ مِنَ النَّارِ ، وَافْتَحُوا لَہُ بَابًا إلَی النَّارِ ، قَالَ : فَیَأْتِیہِ مِنْ حَرِّہَا وَسَمُومِہَا ، وَیُضَیَّقُ عَلَیْہِ قَبْرُہُ حَتَّی تَخْتَلِفَ فیہ أَضْلاَعُہُ ، وَیَأْتِیہِ رَجُلٌ قَبِیحُ الْوَجْہِ ، وَقَبِیحُ الثِّیَابِ ، مُنْتِنُ الرِّیحِ ، فَیَقُولُ : أَبْشِرْ بِالَّذِی یَسُوؤُک ، ہَذَا یَوْمُک الَّذِی کُنْت تُوعَدُ ، فَیَقُولُ : مَنْ أَنْتَ فَوَجْہُک الْوَجْہُ الَّذِی یَجِیئُ بِالشَّرِّ ؟ فَیَقُولُ : أَنَا عَمَلُک الْخَبِیثُ ، فَیَقُولُ : رَبِّ لاَ تُقِمِ السَّاعَۃَ ، رَبِّ لاَ تُقِمِ السَّاعَۃَ۔
(١٢١٨٥) حضرت برائ فرماتے ہیں کہ ہم نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ایک انصاری کے جنازے میں گئے جب ہم قبر پر پہنچے اور لحد ابھی تک تیار نہ ہوئی تھی تو حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف فرما ہوئے اور ہم لوگ بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اردگرد اس طرح بیٹھ گئے جس طرح ہمارے سروں پر پرندے بیٹھ گئے ہوں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاتھ میں ایک لکڑی تھی جس سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) زمین کو کرید رہے تھے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنا سر اٹھایا اور فرمایا لوگو ! عذاب قبر سے اللہ کی پناہ مانگو ! دو یا تین بار یہ فرمایا پھر فرمایا مؤمن بندے کا جب دنیا سے تعلق ختم ہونے اور آخرت کی طرف متوجہ (جانے) ہونے کا وقت آتا ہے تو آسمان سے سفید چہروں والے فرشتے آتے ہیں گویا کہ ان کے چہرے سورج ہیں یہاں تک کہ وہ اس کی آنکھوں کے سامنے بیٹھ جاتے ہیں ان کے ساتھ (پاس) جنت کے کفن اور جنت کی خوشبو ہوتی ہے پھر ملک الموت آ کر اس کے سر کے پاس بیٹھ جاتا ہے اور کہتا ہے اے پاکیزہ نفس ! اللہ کی رضا اور اس کی مغفرت (کے سایہ) میں نکل تو وہ روح اس طرح بہہ نکلتی ہے جس طرح مشکیزہ سے پانی کا قطرہ نکلتا ہے پھر وہ اس کو پکڑ لیتا ہے جب اس کو پکڑتا ہے تو پلک جھپکنے کی دیر کے لیے بھی اس کو نہیں چھوڑتا یہاں تک کہ اس کو کفن اور خوشبو میں رکھ دیتے ہیں اس میں سے پاکیزہ مشک کی خوشبو نکلتی ہے جیسی خوشبو زمین میں پائی جاتی ہے۔ پھر وہ فرشتے اس پاکیزہ روح کو لے کر آسمانوں کی طرف چڑھتے ہیں اور وہ جس فرشتوں کی جماعت کے پاس سے گزرتے ہیں تو وہ کہتے ہیں یہ پاکیزہ روح کون ہے ؟ وہ کہتے ہیں فلاں بن فلاں اسے اچھے نام کے ساتھ پکارتے ہیں جو دنیا میں اس کا اچھا اور خوبصورت نام تھا، یہاں تک کہ وہ آسمان دنیا تک پہنچ جاتے ہیں پھر وہ فرشتے دروازہ کھلواتے ہیں تو ان کے لیے دروازہ کھول دیا جاتا ہے اور ہر آسمان کے مقرب فرشتے اس کا استقبال کرتے ہیں یہاں تک کہ اس کو ساتویں آسمان تک لے جاتے ہیں۔
آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا پھر اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں میرے بندے کی کتاب چوتھے آسمان پر علیین میں لکھ دو اور اس کو زمین کی طرف لوٹا دو بیشک اسی میں سے میں نے ان کو پیدا کیا تھا اور اسی میں لوٹاؤں گا اور اسی میں سے دوبارہ (قیامت کے دن) نکالوں گا۔ پھر اس کی روح کو جسم کی طرف لوٹا دیا جاتا ہے اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں اس کے پاس بیٹھ جاتے ہیں اور اس سے پوچھتے ہیں تیرا رب کون ہے ؟ وہ کہتا ہے اللہ میرا رب ہے پھر وہ اس سے پوچھتے ہیں تیرا دین کونسا ہے ؟ وہ کہتا ہے میرا دین اسلام ہے پھر اس سے پوچھتے ہیں یہ شخص کون ہے جو تمہاری طرف مبعوث کیا گیا تھا ؟ وہ کہتا ہے یہ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں۔ وہ کہتے ہیں اس کے متعلق تو کیا جانتا ہے ؟ وہ کہے گا میں نے اللہ کی کتاب کی تلاوت کی اس پر ایمان لایا اور اس کی تصدیق کی۔
پھر آسمان سے ایک منادی ندا دے گا کہ میرے بندے نے سچ کہا ہے اس کے لیے جنت سے بچھونا بچھا دو اور جنت کا لباس اس کو پہنا دو اور اس کے لیے جنت کی طرف ایک دروازہ کھول دو پس اس کے لیے جنت کی خوشبو اور ہوا آئے گی اور اس کی قبر کو تاحد نگاہ وسیع کردیا جائے گا اس کے پاس خوبصورت چہرے خوبصورت کپڑے اور خوبصورت خوشبو والا شخص آئے گا وہ کہے گا خوشخبری ہے ان نعمتوں کی جو تجھ کو خوش کردیں گی۔ یہی وہ دن ہے جس کا تجھ سے وعدہ کیا گیا تھا، وہ شخص پوچھے گا تو کون ہے ؟ وہ بھلائی اور خیر کے ساتھ اس کے چہرے کی طرف متوجہ ہوگا اور کہے گا میں تیرا نیک عمل ہوں وہ شخص عرض کرے گا اے میرے رب ! قیامت قائم فرما ! اے میرے رب ! قیامت قائم فرما تاکہ میں اپنے اہل اور مال کی طرف لوٹ جاؤں۔
اور جب کافر بندے کا دنیا سے تعلق ختم ہو رہا ہوتا ہے اور آخرت کی طرف جانے کا وقت آتا ہے تو اس کی طرف آسمان سے سیاہ چہروں والے فرشتے آتے ہیں ان کے ساتھ پرانے کمبل ہوتے ہیں اور وہ اس کی آنکھوں کے سامنے بیٹھ جاتے ہیں پھر ملک الموت آ کر اس کے سر کے پاس بیٹھ جاتا ہے اور کہتا ہے اے خبیث نفس ! اللہ کی ناراضگی اور غصہ میں نکل، فرمایا روح اس کے جسم میں جدا جدا ہو کر نکلتی ہے وہ اس طرح نکلتی ہے کہ جس کی وجہ سے اس کے پٹھے اور رگیں کٹ جاتے ہیں جیسے سیخ کو گیلی روئی میں سے کھینچ کر نکالا جائے پھر وہ اس کو پکڑ لیتے ہیں جب اس کو پکڑتے ہیں تو پلک جھپکنے کی دیر کے لیے بھی اس کو نہیں چھوڑتے یہاں تک کہ اس کمبل میں ڈال دیتے ہیں اس میں مردار کی سی بدبو نکلتی ہے جیسی بدبو زمین پر پائی جاتی ہے پھر وہ فرشتے اس کی روح کو لے کر آسمان کی طرف چڑھتے ہیں وہ فرشتوں کی کسی جماعت کے پاس سے گزرتے ہیں تو وہ دریافت کرتے ہیں یہ خبیث روح کس کی ہے ؟ وہ کہتے ہیں فلاں بن فلاں کی ہے اس برے نام سے اس کو پکارتے ہیں جس نام سے وہ دنیا میں پکارا جاتا تھا یہاں تک کہ اس کو آسمان دنیا تک لے جایا جاتا ہے پھر فرشتے دروازہ کھلواتے ہیں لیکن دروازہ اس کے لے ی نہیں کھولا جاتا۔ پھر حضور اقدس نے یہ آیت تلاوت فرمائی : { لَا تُفَتَّحُ لَھُمْ اَبْوَابُ السَّمَآئِ وَ لَا یَدْخُلُوْنَ الْجَنَّۃَ حَتّٰی یَلِجَ الْجَمَلُ فِیْ سَمِّ الْخِیَاطِ } [الأعراف ٤٠] پھر فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں میرے بندے کی کتاب سجین میں لکھ دو جو زمین کی تہہ میں ہے اور اس کو زمین کی طرف لوٹا دو بیشک میں نے انھیں اسی میں سے پیدا کیا تھا اور اسی میں لوٹاؤں گا اور پھر دوبارہ (قیامت کے دن) اسی میں سے نکالوں گا۔ پھر اس کی روح ڈال دی (پھینک دی) جاتی ہے۔
پھر حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ آیت تلاوت فرمائی : { وَ مَنْ یُّشْرِکْ بِاللّٰہِ فَکَاَنَّمَا خَرَّ مِنَ السَّمَآئِ فَتَخْطَفُہُ الطَّیْرُ اَوْ تَھْوِیْ بِہِ الرِّیْحُ فِیْ مَکَانٍ سَحِیْقٍ } [الحج ٣١] پھر فرمایا اس کی روح اس کے جسم کی طرف لوٹا دی جاتی ہے اور دو فرشتے اس کے پاس آتے ہیں اور بیٹھ جاتے ہیں اور اس کو کہتے ہیں تیرا رب کون ہے ؟ وہ کہتا ہے ہائے ہائے مجھے تو نہیں معلوم، وہ اس سے پوچھتے ہیں تیرا دین کون سا ہے ؟ وہ کہتا ہے مجھے نہیں معلوم، پھر آسمان سے ایک منادی آواز دیتا ہے اس کے لیے جہنم سے بچھونا بچھا دو ، اور اس کو جہنم کا لباس پہنا دو اور اس کے لیے جہنم سے ایک دروازہ کھول دو ، پھر اس کے پاس جہنم کی گرمی اور بدبو آتی ہے اور اس کی قبر کو اس پر تنگ کردیا جاتا ہے یہاں تک کہ اس کی پسلیاں ایک دوسری میں گھس جاتی ہیں پھر اس کے بعد بدشکل، بدلباس اور بری بو والا ایک شخص آئے گا اور کہے گا خوشخبری تجھ کو خوشخبری ہے دردناک مصائب کی، یہی وہ دن ہے جس کا تجھ سے وعدہ کیا گیا تھا وہ پوچھے گا تو کون ہے ؟ وہ برے چہرے کے ساتھ اس کی طرف متوجہ ہوگا اور کہے گا میں تیرا برا عمل ہوں تو وہ کافر کہے گا اے رب ! قیامت قائم نہ فرمانا اے میرے رب ! قیامت قائم نہ فرمانا۔

12185

(۱۲۱۸۶) حدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، حدَّثَنَا الأَعْمَشُ حدَّثَنَا الْمِنْہَالُ ، عَنْ زَاذَانَ ، عَنِ الْبَرَائِ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِنَحْوِہِ وَزَادَ فِیہِ : وَالسِّجِّینُ تَحْتَ الأَرْضِ السُّفْلَی۔
(١٢١٨٦) حضرت برائ سے اسی طرح منقول ہے اس میں اس بات کا اضافہ ہے کہ سجین نچلی زمین کی تہہ میں ہے۔

12186

(۱۲۱۸۷) حدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَنْ زَائِدَۃَ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ شَقِیقٍ ، عَنْ أَبِی مُوسَی ، قَالَ تَخْرُجُ نَفْسُ الْمُؤْمِنِ وَہِیَ أَطْیَبُ رِیحًا مِنَ الْمِسْکِ ، قَالَ فَتَصْعَدُ بِہَا الْمَلاَئِکَۃُ الَّذِینَ یَتَوَفَّوْنَہَا فَتَلْقَاہُمْ مَلاَئِکَۃٌ دُونَ الْمَائِ فَیَقُولُونَ مَنْ ہَذَا مَعَکُمْ فَیَقُولُونَ فُلاَنُ بْنُ فُلاَنٍ وَیَذْکُرُونَہُ بِأَحْسَنِ عَمَلِہِ فَیَقُولُونَ حَیَّاکُمُ اللَّہُ وَحَیَّا مَنْ مَعَکُمْ ، قَالَ فَتُفْتَحُ لَہُ أَبْوَابُ السَّمَائِ ، قَالَ فَیُشْرِقُ وَجْہُہُ ، قَالَ فَیَأْتِی الرَّبَّ وَلِوَجْہِہِ بُرْہَانٌ مِثْلُ الشَّمْسِ ، قَالَ وَأَمَّا الآخَرُ فَتَخْرُجُ نَفْسُہُ وَہِیَ أَنْتَنُ مِنَ الْجِیفَۃِ فَیَصْعَدُ بِہَا الَّذِینَ یَتَوَفَّوْنَہَا ، قَالَ فَتَلْقَاہُمَ مَلاَئِکَۃُ دُونَ السَّمَائِ فَیَقُولُونَ مَنْ ہَذَا مَعَکُمْ فَیَقُولُونَ ہَذَا فُلاَنٌ وَیَذْکُرُونَہُ بِأَسْوَإِ عَمَلِہِ ، قَالَ فَیَقُولُونَ رُدُّوہُ فَمَا ظَلَمَہُ اللَّہُ شَیْئًا وَقَرَأَ أَبُو مُوسَی ، (وَلاَ یَدْخُلُونَ الْجَنَّۃَ حَتَّی یَلِجَ الْجَمَلُ فِی سَمِّ الْخِیَاطِ)۔
(١٢١٨٧) حضرت ابو موسیٰ فرماتے ہیں کہ مؤمن کی روح قبض کی جاتی ہے وہ مشک کی بہترین خوشبو میں ہوتی ہے، پھر وہ فرشتے جنہوں نے اس کی روح قبض کی ہوتی ہے اس کو لے کر آسمان کی طرف چڑھتے ہیں، تو آسمان کے نیچے ان کی ملاقات فرشتوں سے ہوتی ہے وہ پوچھتے ہیں یہ تمہارے ساتھ کون ہے ؟ وہ جواب دیں گے فلاں شخص، اس کے اچھے اعمال کے ساتھ اس کا ذکر کریں گے، وہ فرشتے کہیں گے اللہ پاک تمہیں بھی باقی اور زندہ رکھے اور جو تمہارے ساتھ ہے اس کو بھی، پھر اس کے لیے آسمان کے دروازے کھول دیئے جائیں گے، پھر اس کا چہرہ روشن ہوجائے گا، پھر اس کا رب آئے گا اس کے چہرے پر دلیل ہوگی سورج کے مثل، پھر فرمایا : دوسرے شخص کی (کافر) روح نکالی جائے گی اس سے مردار کی بدبو آئے گی، پھر اس کو لے کر اوپر چڑھیں گے وہ فرشتے جنہوں نے اس کی جان قبض کی تھی، آسمان کے نیچے ملائکہ سے ان کی ملاقات ہوگی وہ پوچھیں گے تمہارے ساتھ کون ہے ؟ وہ جواب دیں گے فلاں اس کے برے اعمال کے ساتھ اس کا ذکر کریں گے، فرشتے کہیں گے، اس کو واپس لوٹا دو ، پس اللہ تعالیٰ نے اس پر کچھ بھی ظلم نہیں کیا، پھر حضرت ابو موسیٰ نے یہ آیت تلاوت فرمائی : { وَ لَا یَدْخُلُوْنَ الْجَنَّۃَ حَتّٰی یَلِجَ الْجَمَلُ فِیْ سَمِّ الْخِیَاطِ }۔

12187

(۱۲۱۸۸) حدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو ، عَنْ أَبِی سَلَمَۃَ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : إنَّ الْمَیِّتَ لَیَسْمَعَ خَفْقَ نِعَالِہِمْ حِینَ یُوَلُّونَ عَنْہُ مُدْبِرِینَ ، فَإِنْ کَانَ مُؤْمِنًا کَانَتِ الصَّلاَۃُ عِنْدَ رَأْسِہِ وَکَانَتِ الزَّکَاۃُ عَنْ یَمِینِہِ وَکَانَ الصِّیَامُ عَنْ یَسَارِہِ وَکَانَ فِعْلُ الْخَیْرَاتِ مِنَ الصَّدَقَۃِ وَالصِّلَۃِ وَالْمَعْرُوفِ وَالإِحْسَانِ إلَی النَّاسِ عِنْدَ رِجْلَیْہِ فَیَؤتَی مِنْ قِبَلِ رَأْسِہِ فَتَقُولُ الصَّلاَۃُ مَا قِبَلِی مَدْخَلٌ وَیَأْتِی عَنْ یَمِینِہِ فَتَقُولُ الزَّکَاۃُ مَا قِبَلِی مَدْخَلٌ وَیَأْتِی عَنْ یَسَارِہِ فَیَقُولُ الصِّیَامُ مَا قِبَلِی مَدْخَل وَیَأْتِی مِنْ قِبَلِ رِجْلَیْہِ فَیَقُولُ فِعْلُ الْخَیْرِ مِنَ الصَّدَقَۃِ وَالصِّلَۃِ وَالْمَعْرُوفِ وَالإِحْسَانِ إلَی النَّاسِ مَا قِبَلِی مَدْخَلٌ ، قَالَ فَیُقَالُ لَہُ اجْلِسْ فَیَجْلِس قَدْ مُثِّلَتْ لَہُ الشَّمْسُ تَدَانَتْ لِلْغُرُوبِ فَیُقَالُ لَہُ أَخْبِرْنَا عَنْ مَا نَسْأَلُک عَنْہُ فَیَقُولُ دَعَوْنِی حَتَّی أُصَلِّیَ فَیُقَالُ لَہُ إنَّک سَتَفْعَلُ فَأَخْبِرْنَا عَمَّا نَسْأَلُک فَیَقُولُ وَعَمَّ تَسْأَلُونِی فَیَقُولُونَ أَرَأَیْت ہَذَا الرَّجُلَ الَّذِی کَانَ فِیکُمْ مَا تَقُولُ فِیہِ وَمَا تَشْہَدُ بِہِ عَلَیْہِ ، قَالَ فَیَقُولُ مُحَمَّدٌ فَیُقَالُ لَہُ نَعَمْ فَیَقُولُ أَشْہَدُ ، أَنَّہُ رَسُولُ اللہِ وَأَنَّہُ جَائَ بِالْبَیِّنَاتِ مِنْ عِنْدِ اللہِ فَصَدَّقْنَاہُ فَیُقَالُ لَہُ عَلَی ذَلِکَ حَیِیتَ وَعَلَی ذَلِکَ مُتَّ وَعَلَی ذَلِکَ تُبْعَثُ إِنْ شَائَ اللَّہُ تَعَالَی ، ثُمَّ یُفْسَحُ لَہُ فِی قَبْرِہِ سَبْعُونَ ذِرَاعًا وَیُنَوَّرُ لَہُ فِیہِ ، ثُمَّ یُفْتَحُ لَہُ بَابٌ إلَی الْجَنَّۃِ فَیُقَالُ لَہُ انْظُرْ إلَی مَا أَعَدَّ اللَّہُ لَکَ فِیہَا فَیَزْدَادُ غِبْطَۃً وَسُرُورًا ، ثُمَّ یُفْتَحُ لَہُ بَابٌ إلَی النَّارِ ، فَیُقَالُ لَہُ : ذَلِکَ مَقْعَدُک وَمَا أَعَدَّ اللَّہُ لَکَ فِیہَا لَو عَصَیتہ فَیَزْدَادُ غِبْطَۃً وَسُرُورًا ثُمَّ یُجْعَلُ نَسَمَۃً فی النَّسْمِ الطَّیِّبِ وَہِیَ طَیْرٌ خُضْرٌ تَعَلَّقَ بِشَجَرِ الْجَنَّۃِ وَیُعَادُ الْجِسْمُ إلَی مَا بُدِأَ مِنْہُ مِنَ التُّرَابِ فَذَلِکَ قَوْلُ اللہِ تَعَالَی : {یُثَبِّتُ اللَّہُ الَّذِینَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِی الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا ، وَفِی الآخِرَۃِ} قَالَ مُحَمَّدٌ ، قَالَ عُمَرُ بْنُ الْحَکَمِ بْنِ ثَوْبَانَ : ثُمَّ یُقَالُ لَہُ نَمْ فَیَنَامُ نَوْمَۃَ الْعَرُوسِ لاَ یُوقِظُہُ إِلاَّ أَحَبُّ أَہْلِہِ إلَیْہِ ، حَتَّی یَبْعَثَہُ اللَّہُ عَزَّ وَجَلَّ ، قَالَ مُحَمَّدٌ ، قَالَ أَبُو سَلَمَۃَ ، قَالَ أَبُو ہُرَیْرَۃَ ، وَإِنْ کَانَ کَافِرًا فَیؤْتَی مِنْ قِبَلِ رَأْسِہِ ، فَلاَ یُوجَدُ لَہُ شَیْئٌ ، ثُمَّ یَأْتِی عَنْ یَمِینِہِ فَلاَ یُوجَدُ لَہُ شَیْئٌ ، ثُمَّ یَأْتِی عَنْ شِمَالِہِ فَلاَ یُوجَدُ لَہُ شَیْئٌ ، ثُمَّ یَأْتِی مِنْ قِبَلِ رِجْلَیْہِ فَلاَ یُوجَدُ لَہُ شَیْئٌ ، فَیُقَالُ لَہُ : اجْلِسْ فَیَجْلِسُ فَزِعًا مَرْعُوبًا ، فَیُقَالُ لَہُ : أَخْبِرْنَا عَمَّا نَسْأَلُک عَنْہُ ؟ فَیَقُولُ : وَعَمَّ تَسْأَلُونِی ؟ فَیُقَالُ : أَرَأَیْت ہَذَا الرَّجُلَ الَّذِی کَانَ فِیکُمْ مَاذَا تَقُولُ فِیہِ وَمَاذَا تَشْہَدُ بِہِ عَلَیْہِ ، قَالَ : فَیَقُولُ : أَیُّ رَجُلٍ ؟ قَالَ : فَیُقَالُ الَّذِی فِیکُمْ فَلاَ یَہْتَدِی لاِسْمِہِ فَیُقَالُ : مُحَمَّدٌ فَیَقُولُ : لاَ أَدْرِی سَمِعْت النَّاسَ یَقُولُونَ قَوْلاً فَقُلْت کَمَا قَالُوا : فَیُقَالُ عَلَی ذَلِکَ حَیِیتَ ، وَعَلَی ذَلِکَ مُتَّ ، وَعَلَی ذَلِکَ تَبْعَثُ إِنْ شَائَ اللَّہُ ، ثُمَّ یُفْتَحُ لَہُ بَابٌ إلَی النَّارِ ، فَیُقَالُ لَہُ ذَلِکَ مَقْعَدُک وَمَا أَعَدَّ اللَّہُ لَکَ فِیہَا ، فَیَزْدَادُ حَسْرَۃً وَثُبُورًا ، ثُمَّ یُفْتَحُ لَہُ بَابٌ إلَی الجَنَّۃَ فَیُقَالُ لَہُ ذَلِکَ مَقْعَدُک مِنْہَا فَیَزْدَاد حَسْرَۃً وَثُبُورًا ، ثُمَّ یُضَیَّقُ عَلَیْہِ قَبْرُہُ حَتَّی تَخْتَلِفَ أَضْلاَعُہُ ، وَہِیَ الْمَعِیشَۃُ الضَّنْکُ الَّتِی قَالَ اللَّہُ تَعَالَی : {فَإِنَّ لَہُ مَعِیشَۃً ضَنْکًا وَنَحْشُرُہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ أَعْمَی}۔ (عبدالرزاق ۶۷۰۳)
(١٢١٨٨) حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ بیشک میت جوتوں کی آواز سنتا ہے جب وہ اس کو دفنا کر واپس جاتے ہیں، پھر اگر مؤمن ہو تو نماز اس کے سر کے پاس ہوتی ہے، زکوۃ اس کی داہنی جانب اور روزہ اس کے بائیں جانب اور اس کے نیک اعمال، صدقہ، صلہ رحمی، اور لوگوں کے ساتھ احسان اس کے پاؤں کے پاس ہوتے ہیں، پھر وہ عذاب سر کی طرف سے آئے گا تو نماز کہے گی، نہیں ہے میری طرف سے داخل ہونے کا راستہ نہیں ہے، اگر آئے گا اس کے دائیں جانب سے تو زکوۃ کہے گی میری طرف سے داخل ہونے کا راستہ نہیں ہے، اس کے بائیں جانب سے آئے گا تو روزہ کہے گا میری طرف سے داخل ہونے کا راستہ نہیں ہے پھر اس کے پاؤں کی جانب سے آئے گا تو اس کے اچھے اعمال صدقہ، صلہ رحمی اور احسان کہیں گے، ہماری طرف سے داخل ہونے کا راستہ نہیں ہے۔
پھر اس کو کہا جائے گا، بیٹھ جا، وہ بیٹھ جائے گا تو اس کو ایسا لگے گا جیسے سورج غروب ہونے کے قریب ہو، فرشتے اس کو کہیں گے جو ہم تجھ سے سوال کریں گے اس کا جواب دے، وہ کہے گا مجھے چھوڑو تاکہ میں نماز ادا کرلوں، اس کو کہا جائے گا بیشک تو یہ ادا کرچکا ہے، ہمیں بتا جو ہم تجھ سے سوال کریں گے، وہ کہے گا تم مجھ سے کیا سوال پوچھتے ہو ؟ وہ کہیں گے کیا تو اس شخص کو دیکھتا ہے جو تمہاری طرف مبعوث کیا گیا اس کے متعلق کیا کہتا ہے ؟ اور تو اس کے بارے میں کیا گواہی دیتا ہے ؟ وہ پوچھے گا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ؟ اس کو کہا جائے گا ہاں، تو وہ کہے گا میں گواہی دیتا ہوں وہ اللہ کے رسول ہیں اور وہ ہمارے پاس اللہ کی طرف سے واضح دلائل لے کر آئے تھے تو ہم نے ان کی تصدیق کی، اس کو فرشتے کہیں گے، اسی پر تو زندہ تھا، اسی پر تجھے موت آئی اور اسی پر تو دوبارہ اٹھایا جائے گا ان شاء اللہ تعالیٰ ۔
پھر اس کی قبر ستر گز لمبی کردی جائے گی اور اس میں اس کے لیے روشنی کردی جائے گی پھر اس کے لیے جنت کی طرف دروازہ کھول دیا جائے گا، اور اس کو کہا جائے گا دیکھ جس کا اللہ تعالیٰ نے تجھ سے وعدہ فرمایا تھا، اس کے سرور اور خوشی میں اضافہ ہوجائے گا، پھر ایک دروازہ جہنم کی طرف کھولا جائے گا اور اس کو کہا جائے گا تیرا ٹھکانا یہ ہوتا جس کا اللہ نے تجھ سے وعدہ فرمایا تھا اگر تو نافرمانی کرتا، اس کی خوشی میں اضافہ ہوجائے گا، پھر اس کے لیے خوشبودار ہوا (باد نسیم) چلے گی اور وہ سبز رنگ کا پرندہ ہے جو جنت کے درخت کے ساتھ لٹکا ہوا ہے۔ اور اس کے جسم کو لوٹا دیا جائے گا جس مٹی سے اس کو پیدا کیا گیا تھا، اور اس کے متعلق اللہ تعالیٰ کا قول ہے : { یُثَبِّتُ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَ فِی الْاٰخِرَۃِ }۔
محمد راوی کہتے ہیں کہ حضرت عمر بن حکم بن ثوبان نے فرمایا : پھر اس کو کہا جائے گا دلہن کی طرح آرام سے سو جا اس کو نہیں اٹھاتا مگر اس کے گھر میں محبوب شخص یعنی خاوند، یہاں تک کہ اس کو اللہ تعالیٰ (قیامت کے دن) اٹھائیں گے۔
محمد راوی کہتے ہیں کہ حضرت ابوہریرہ نے فرمایا : اگر وہ کافر تھا تو اس کے سر کے جانب لایا جائے گا وہ عذاب اس کے لیے کچھ نہ پائے گا، پھر اسے کے بائیں جانب لایا جائے گا نہیں پائے گا اس کے لیے کچھ، پھر اس کے بائیں جانب لایا جائے گا تو نہیں پائے گا اس کے لیے کچھ، پھر اس کے پاؤں کی جانب لایا جائے گا نہیں پائے گا اس کے لیے کچھ، اس کو کہا جائے گا، بیٹھ جا، وہ خوف زدہ انداز میں بیٹھے گا، اس کو کہا جائے گا جو ہم پوچھیں اس کا جواب دے، وہ کہے گا تم مجھ سے کیا پوچھتے ہو ؟ اس کو کہا جائے گا، یہ شخص جو تم میں تھا تو اس کے بارے میں کیا کہتا ہے ؟ اور اس کے متعلق کیا گواہی دیتا ہے ؟ وہ پوچھے گا کونسا شخص ؟ اس کو کہا جائے گا جو تمہارے درمیان تھا، وہ ان کے نام کی طرف رہنمائی نہیں پائے گا، اس کو کہا جائے گا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، تو وہ کہے گا مجھے نہیں معلوم میں نے لوگوں سے اس کے متعلق سنا تھا تو جس طرح انھوں نے کہا اسی طرح میں نے کہا، اس کو کہا جائے گا اسی پر تو زندہ تھا، اسی پر تو مرا اور اسی پر دوبارہ ان شاء اللہ اٹھایا جائے گا، پھر اس کے لیے جہنم کی جانب ایک دروازہ کھول دیا جائے گا اور اس کو کہا جائے گا یہ تیرا ٹھکانا ہے جس کا اللہ نے تجھ سے وعدہ کیا تھا، اس کی حسرت اور ہلاکت میں اضافہ ہوجائے گا، پھر اس کے لیے ایک دروازہ جنت کی طرف کھولا جائے گا، اور اس کو کہا جائے گا یہ تیرا ٹھکانا ہوتا (اگر نیک اعمال کرتا ایمان لاتا) تو اس کی حسرت اور ہلاکت میں اضافہ ہوجائے گا، پھر اس کی قبر کو اس پر تنگ کردیا جائے گا یہاں تک کہ اس کی پسلیاں ایک دوسرے میں مل جائیں گی، اور یہی اس کی تنگ زندگی ہے جو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : { فَاِنَّ لَہٗ مَعِیْشَۃً ضَنْکًا وَّ نَحْشُرُہٗ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ اَعْمٰی }۔

12188

(۱۲۱۸۹) حدَّثَنَا وَکِیعٌ ، حدَّثَنَا ہِشَامٌ الدَّسْتَوَائِیُّ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ السَّرَّاجِ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، أَنَّہُ سَمِعَ رَجُلاً فِی جِنَازَۃٍ یَقُولُ : ارْفَعُوا عَلَی اسْمِ اللہِ ، فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ : لاَ تَقُولُوا ارْفَعُوا عَلَی اسْمِ اللہِ فَإِنَّ اسْمَ اللہِ عَلَی کُلِّ شَیْئٍ ، وَقُولُوا : ارْفَعُوا بِسْمِ اللہِ۔
(١٢١٨٩) حضرت نافع فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمر نے جنازے میں ایک شخص کو کہتے ہوئے سنا : اس کو اٹھاؤ اللہ کے نام پر، حضرت عبداللہ بن عمر نے فرمایا یہ مت کہو کہ اللہ کے نام پر اٹھاؤ، کیونکہ اللہ کا نام تو ہر چیز پر ہے، بلکہ یوں کہو اٹھاؤ اللہ کے نام کے ساتھ۔

12189

(۱۲۱۹۰) حدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ سُلَیْمَانَ التَّیْمِیِّ ، عَنْ بَکْرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ الْمُزَنِیّ ، قَالَ : إذَا حَمَلْت السَّرِیرَ فَقُلْ : بِسْمِ اللہِ وَسَبِّحْ۔
(١٢١٩٠) حضرت بکر بن عبداللہ المزنی فرماتے ہیں کہ جب چارپائی کو اٹھاؤ تو بسم اللہ پڑھو اور تسبیح (سبحان اللہ) پڑھو۔

12190

(۱۲۱۹۱) حدَّثَنَا مُعْتَمِرُ بْنُ سُلَیْمَانَ، عَنْ أَبِیہِ، عَنْ بَکْرِ بْنِ عَبْدِاللہِ قَالَ إذَا حَمَلَ، فَقَالَ: بِسْمِ اللہِ وَسَبَّحَ مَا حَمَلَ۔
(١٢١٩١) حضرت بکر بن عبداللہ فرماتے ہیں کہ جب جنازے کی چارپائی اٹھاؤ تو بسم اللہ پڑھو اور اللہ کی پاکی بیان کرو۔

12191

(۱۲۱۹۲) حدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ الْقَطَّانُ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ مُوسَی بْنِ أَبِی عَائِشَۃَ ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُتْبَۃَ ، عَنْ عَائِشَۃَ ، وَابْنِ عَبَّاسٍ ، أَنَّ أَبَا بَکْرٍ قَبَّلَ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَعْدَ مَوْتِہِ۔ (بخاری ۵۷۱۱۔ ترمذی ۳۹۰)
(١٢١٩٢) حضرت عائشہ اور حضرت عبداللہ بن عباس فرماتے ہیں کہ حضرت ابوبکر صدیق نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے بعد آپ کو بوسہ دیا۔

12192

(۱۲۱۹۳) حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُبَیْدِ اللہِ ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ ، عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ : قَبَّّلَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عُثْمَانَ بْنَ مَظْعُونٍ وَہُوَ مَیِّتٌ فَرَأَیْت دُمُوعَہُ تَسِیلُ عَلَی خَدَّیْہِ۔ (ترمذی۹۸۹۔ ابوداؤد۳۱۵۵)
(١٢١٩٣) حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عثمان بن مظعون کو وفات کے بعد بوسہ دیا، میں نے دیکھا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آنسو آپ کے رخسار مبارک پر بہہ رہے تھے۔

12193

(۱۲۱۹۴) حدَّثَنَا مَرْحُومُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیزِ ، عَنْ أَبِی عِمْرَانَ الْجَوْنِیِّ ، عَنْ یَزِیدَ بْنِ بَابَنُوسَ ، عَنْ عَائِشَۃَ ، أَنَّ أَبَا بَکْرٍ قَبَّلَ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَعْدَ مَوْتِہِ۔ (ابن سعد ۲۶۵)
(١٢١٩٤) حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ حضرت ابوبکر صدیق نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے بعد آپ کو بوسہ دیا۔

12194

(۱۲۱۹۵) حدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ ابْنِ أَبِی خَالِدٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ الْبَہِیِّ مَوْلَی آلِ الزُّبَیْرِ ، أَنَّ أَبَا بَکْرٍ جَائَ إلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَعْدَ مَا قُبِضَ فَکَشَفَ عَنْ وَجْہِہِ فَأَکَبَّ عَلَیْہِ فَقَبَّلَہُ ، وَقَالَ : بِأَبِی أَنْتَ وَأُمِّی مَا أَطْیَبَ حَیَاتَکَ وَأَطْیَبَ مِیتَتُکَ۔
(١٢١٩٥) حضرت عبداللہ البھی فرماتے ہیں کہ حضرت ابوبکر صدیق آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے بعد تشریف لائے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چہرے سے کپڑا ہٹایا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جھکے اور آپ کو بوسہ دیا اور پھر فرمایا : میرے ماں باپ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر قربان، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی بھی کتنی پاکیزہ تھی اور موت بھی کتنی پاکیزہ ہے۔

12195

(۱۲۱۹۶) حدَّثَنَا عَفَّانُ ، حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا عَاصِمُ بْنُ بَہْدَلَۃَ ، قَالَ : لَمَّا مَاتَ أَبُو وَائِلٍ قَبَّلَ أَبُو بُرْدَۃَ جَبْہَتَہُ۔
(١٢١٩٦) حضرت عاصم بن بہدلہ فرماتے ہیں کہ جب حضرت ابو وائل کا انتقال ہوا تو حضرت ابو بردہ نے آپ کی پیشانی کا بوسہ لیا۔

12196

(۱۲۱۹۷) حدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ زَائِدَۃَ بْنِ نَشِیطٍ ، عَنْ حُسَیْنِ بْنِ أَبِی عَائِشَۃَ ، عَنْ أَبِی خَالِدٍ الْوَالِبِیِّ ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَزَّی رَجُلاً ، فَقَالَ : یَرْحَمُہُ اللَّہُ وَیَأْجُرُک۔
(١٢١٩٧) حضرت خالد الوالبی فرماتے ہیں کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب کسی شخص کی تعزیت کرتے تو فرماتے : اللہ تعالیٰ اس پر رحم فرمائے اور آپ کو اجر دے۔

12197

(۱۲۱۹۸) حدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ یَمَانَ، عَنْ أَشْعَثَ، عَنْ شِمُر، أَنَّہُ کَانَ إذَا عَزَّی مُصَابًا ، قَالَ: اصْبِرْ لِحُکْمِ اللہِ رَبِّک۔
(١٢١٩٨) حضرت اشعث فرماتے ہیں کہ حضرت شمر جب کسی کی تعزیت کرتے تو فرماتے، اپنے رب کے حکم کے آگے صبر کر۔

12198

(۱۲۱۹۹) حدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ أَبِی مَوْدُودَ ، عَنْ طَلْحَۃَ بْنِ عُبَیْدِ اللہِ بْنِ کَرِیزٍ ، قَالَ : قَالَ مَنْ عَزَّی مُصَابًا کَسَاہُ اللَّہُ رِدَائً یُحْبَرُ بِہِ یَعْنِی یُغْبَطُ بِہِ۔
(٩٩ ١٢١) حضرت عبداللہ بن کریز فرماتے ہیں کہ جو کسی مصیبت زدہ کی تعزیت کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو ایسی چادر پہنائیں گے کہ اس پر رشک کیا جائے گا۔

12199

(۱۲۲۰۰) حدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَۃَ ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ نَافِذٍ ، قَالَ : قُلْتُ لعبید اللہِ بْنِ عُبَیْدٍ کَیْفَ کَانَا ہَذَانِ الشَّیْخَانِ یُعَزِّیَانِ یَعْنِی ابْنَ الزُّبَیْرِ ، وعبید بْنَ عُمَیر ، قَالَ : کَانَا یَقُولاَنِ أَعْقَبَک اللَّہُ عُقْبَی الْمُتَّقِینَ صَلَوَاتٍ مِنْہُ وَرَحْمَۃٍ ، وَجَعَلَک مِنَ الْمُہْتَدِینَ ، وَأَعْقَبَک کَمَا أَعْقَبَ عِبَادَہُ الأَنْبِیَائَ وَالصَّالِحِینَ۔
(١٢٢٠٠) حضرت داو ‘ د بن نافذ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عبید اللہ بن عبید سے دریافت کیا یہ دونوں حضرات (ابن زبیر اور عبید بن عمیہ) کس طرح تسلی اور دلاسا دیتے تھے ؟ فرمایا یہ دونوں فرماتے تھے کہ اللہ تعالیٰ تجھے متقین والا ٹھکانا دے، مغفرت اور رحمت ہو اس کی طرف سے اور تجھے ہدایت پانے والوں میں سے بنائے، اور تجھے ٹھکانا دے (آخرت میں) جیسے انبیاء اور صالحین کو ٹھکانا دیا۔

12200

(۱۲۲۰۱) حدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ مَنْصُورِ بْنِ صَفِیَّۃَ ، قَالَ : سَمِعْتُ رَجُلاً یُقَالُ لَہُ یُوسُفُ یُحَدِّثُ أُمِّی ، قَالَ : مَنْ کَفَّنَ مَیِّتًا کَانَ کَمَنْ کَفَلَہُ صَغِیرًا حَتَّی یَکُونَ کَبِیرًا۔
(١٢٢٠١) حضرت منصور بن صفیہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت یوسف سے وہ روایت کرتے ہیں اپنی والدہ سے کہ جس نے میت کو کفن پہنایا وہ اس شخص کی طرح ہے جو بچے کی پرورش کر کے اس کو بڑا کر دے۔

12201

(۱۲۲۰۲) حدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ أَبِی رَافِعٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنِی مُخْبِرٌ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَنْ کَفَّنَ مَیِّتًا کَسَاہُ اللَّہُ مِنْ سُنْدُسِ الْجَنَّۃِ وَحَرِیرِہَا۔ (حاکم ۳۵۴)
(١٢٢٠٢) حضرت سعید بن المسیب سے مروی ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جو شخص میت کو کفن پہنائے گا اللہ تعالیٰ اس کو جنت کا ریشمی لباس پہنائے گا۔

12202

(۱۲۲۰۳) حدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ : جَائَ رَجُلٌ إلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : إنَّ أُمِّی افْتَتَلتْ نَفْسَہَا ، وَأَنَّہَا لَوْ تَکَلَّمَتْ تَصَدَّقَتْ ، فَہَلْ لَہَا مِنْ أَجْرٍ إِنْ تَصَدَّقْت عَنْہَا ، قَالَ : نَعَمْ۔ (بخاری ۲۷۶۰۔ مسلم ۵۱)
(١٢٢٠٣) حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ ایک شخص نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا : میری والدہ کا اچانک انتقال ہوگیا اور بیشک وہ اگر گفتگو کرتی تو صدقہ و خیرات کرتی، اگر اب میں ان کی طرف سے صدقہ کروں تو کیا ان کو اجر ملے گا ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ہاں۔

12203

(۱۲۲۰۴) حدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ جَدِّہِ ، أَنَّہُ سَأَلَ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : یَا رَسُولَ اللہِ إنَّ الْعَاصِ بْنَ وَائِلٍ کَانَ یَأْمُرُ فِی الْجَاہِلِیَّۃِ أَنْ تُنْحَرَ مِئَۃ بَدَنَۃٍ ، وَإِنَّ ہِشَامَ بْنَ الْعَاصِ نَحَرَ حِصَّتَہُ مِنْ ذَلِکَ خَمْسِینَ بَدَنَۃً ، أَفَأَنْحَرُ عَنْہُ ، فَقَالَ : إنَّ أَبَاک لَوْ کَانَ أَقَرَّ بِالتَّوْحِیدِ فَصُمْت عَنْہُ ، أَوْ تَصَدَّقْت عَنْہُ ، أَوْ أَعْتَقْتَ عَنْہُ بَلَغَہُ ذَلِکَ۔ (بیہقی ۲۷۹)
(١٢٢٠٤) حضرت عمرو بن شعیب اپنے والد اور دادا سے روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا کہ اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! عاص بن وائل نے زمانہ جاہلیت میں حکم دیا تھا کہ سو اونٹ ذبح کیے جائیں اور ہشام بن العاص نے ان کے حصہ کے پچاس اونٹ ذبح کیے تھے، کیا میں ان کی طرف سے ذبح کروں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اگر تیرے والد نے توحید کا اقرار کرلیا تھا تو تمہارے ان کی طرف سے روزہ رکھنے سے، صدقہ کرنے سے اور غلام آزاد کرنے سے ان کو ثواب ملے گا۔

12204

(۱۲۲۰۵) حدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ أَبِی سَعِیدٍ ، قَالَ : لَوْ تَصَدَّقَ ، عَنِ الْمَیِّتِ بِکُرَاعٍ لَتَبِعَہُ۔
(١٢٢٠٥) حضرت سعید بن ابو سعید فرماتے ہیں کہ اگر میت کی طرف سے تھوڑا سا گوشت صدقہ کیا جائے تو البتہ اس کو ثواب پہنچتا ہے۔

12205

(۱۲۲۰۶) حدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، أَنَّ سَعْدَ بْنَ عُبَادَۃَ اسْتَفْتَی النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی نَذْرٍ کَانَ عَلَی أُمِّہِ تُوُفِّیَتْ قَبْلَ أَنْ تَقْضِیَہُ ، فَقَالَ : اقْضِہِ عَنْہَا۔ (بخاری ۶۶۹۸۔ مسلم ۱۲۶۰)
(١٢٢٠٦) حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ حضرت سعد بن عبادہ نے حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اپنی والدہ کی نذر کے بارے میں دریافت فرمایا کہ وہ نذر پوری کرنے سے پہلے ہی وفات پا گئی ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم ان کی طرف سے پوری کردو۔

12206

(۱۲۲۰۷) حدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَبْدِ الْوَارِثِ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَۃَ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ أَبِی صَالِحٍ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : إنَّ الرَّجُلَ لَیُرْقَی الدَّرَجَۃَ ، فَیَقُولُ : مَا ہَذَا فَیُقَالُ بِاسْتِغْفَارِ وَلَدِکَ مِنْ بَعْدِکَ لَک۔ (احمد ۲/۵۰۹۔ بیہقی ۷۹)
(١٢٢٠٧) حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : بیشک کسی شخص کا ایک درجہ (جنت میں) بڑھ جاتا ہے، وہ پوچھتا ہے یہ کیسے ہوا ؟ تو اس کو کہا جاتا ہے یہ اس استغفار کی وجہ سے ہے جو تیرے بیٹے نے تیرے بعد تیرے لیے کی۔

12207

(۱۲۲۰۸) حدَّثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ الثَّقَفِیُّ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ، قَالَ : إنَّ الرَّجُلَ لَیُرْفَعُ بِدُعَائِ وَلَدِہِ لَہُ مِنْ بَعْدِہِ۔
(١٢٢٠٨) حضرت سعید بن مسیب فرماتے ہیں کہ بیشک آدمی کا درجہ (جنت) بڑھ جاتا ہے اس کے بیٹے کی دعا کی وجہ سے جو وہ اس کے مرنے کے بعد اس کے لیے مانگتا ہے۔

12208

(۱۲۲۰۹) حدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ حَبِیبِ بْنِ أَبِی ثَابِتٍ ، عَنْ عَطَائٍ ، وعَنْ َسُفْیَانَ عن زَیْدِ بْنِ أَسْلَمَ قَالا : جَائَ رَجُلٌ إلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : یَا رَسُولَ اللہِ أُعْتِقُ عَنْ أَبِی وَقَدْ مَاتَ ؟ قَالَ : نَعَمْ۔ (عبدالرزاق ۱۶۳۴۰)
(١٢٢٠٩) حضرت سفیان اور حضرت زید بن اسلم سے مروی ہے کہ ایک شخص رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا : اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! میرے والد کا انتقال ہوچکا ہے کیا میں ان کی طرف سے غلام آزاد کر دوں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ہاں۔

12209

(۱۲۲۱۰) حدَّثَنَا وَکِیعٌ ، حدَّثَنَا ابْنُ رَوَّادٍ ، حدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنِ الْحَجَّاجِ بْنِ دِینَارٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إنَّ مِنَ الْبِرِّ بَعْدَ الْبِرِّ أَنْ تُصَلِّیَ عَلَیْہِمَا مَعَ صَلاَتِکَ ، وَأَنْ تَصُومَ عْنہُمَا مَعَ صِیَامِکَ ، وَأَنْ تَصَدَّقَ عَنْہُمَا مَعَ صَدَقَتِک۔
(١٢٢١٠) حضرت حجاج بن دینار سے مروی ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : بیشک نیکی کے بعد نیکی یہ ہے کہ تو والدین کے لیے اپنی نماز کے ساتھ نماز ادا کر، اور ان کی طرف سے روزہ رکھ اپنے روزے کے ساتھ، اور اپنے صدقہ کے ساتھ ان کی طرف سے بھی صدقہ کر۔

12210

(۱۲۲۱۱) حدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَطَائٍ ، قَالَ یُقْضَی ، عَنِ الْمَیِّتِ أَرْبَعٌ الْعِتْقُ وَالصَّدَقَۃُ وَالْحَجُّ وَالْعُمْرَۃُ۔
(١٢٢١١) حضرت عطائ فرماتے ہیں کہ میت کی طرف سے چار کام (اعمال) کیے جاسکتے ہیں، غلام آزاد کرنا، صدقہ کرنا، حج کرنا اور عمرہ کرنا۔

12211

(۱۲۲۱۲) حدَّثَنَا وَکِیعٌ، عَنْ أَبِیہِ، عَنْ عَبْدِالْکَرِیمِ، عَنْ عَطَائٍ، قَالَ: یَتْبَعُ الْمَیِّتَ بَعْدَ مَوْتِہِ الْعِتْقُ وَالْحَجُّ وَالصَّدَقَۃُ۔
(١٢٢١٢) حضرت عطائ فرماتے ہیں کہ میت کے مرنے کے بعد اس کی طرف سے غلام آزاد کرنے، حج کرنے اور صدقہ کرنے کا ثواب اسے ملتا ہے۔

12212

(۱۲۲۱۳) حدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَطَائٍ ، عَنِ ابْنِ بُرَیْدَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : کُنْتُ جَالِسًا عِنْدَ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إذْ جَائَتْہُ امْرَأَۃٌ ، فَقَالَتْ : إِنَّہُ کَانَ عَلَی أُمِّی صَوْمُ شَہْرَیْنِ أَفَیَجْزِی عَنْہَا أَنْ أَصُومَ عَنْہَا ، قَالَ : نَعَمْ قَالَتْ فَإِنَّ أُمِّی لَمْ تَحُجَّ قَطُّ أَفَیَجْزِی أَنْ أَحُجَّ عَنْہَا ، قَالَ : نَعَمْ۔ (مسلم ۱۵۸۔ احمد۳۵۱)
(١٢٢١٣) حضرت بریدہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ میں حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں بیٹھا ہوا تھا ایک عورت حاضر ہوئی اور عرض کیا : میری والدہ کے ذمہ دو مہینے کے روزے تھے کیا یہ کافی ہے کہ میں ان کی طرف سے روزے رکھ لوں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ہاں اس نے عرض کیا : میری والدہ نے کبھی حج نہیں کیا تھا کیا کافی ہے (جائز ہے) کہ میں ان کی طرف سے حج کرلوں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ہاں۔

12213

(۱۲۲۱۴) حدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ صَالِحٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَطَائٍ ، عَنْ أَبِی جَعْفَرٍ ، أَنَّ الْحَسَنَ وَالْحُسَیْنَ کَانَا یُعْتِقَانِ ، عَنْ عَلِیٍّ بَعْدَ مَوْتِہِ۔
(١٢٢١٤) حضرت ابو جعفر فرماتے ہیں کہ حضرات حسنین حضرت عیِ کی وفات کے بعد ان کی طرف سے غلام آزاد کرتے تھے۔

12214

(۱۲۲۱۵) حدَّثَنَا شَبَابَۃُ بْنُ سَوَّارٍ ، عَنْ لَیْثِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ زَیْدِ بْنِ أَبِی حَبِیبٍ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ سِنَان ، عَنْ أَنَسٍ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : الصَّبْرُ فِی الصَّدْمَۃِ الأُولَی۔ (ترمذی ۹۸۷۔ ابن ماجہ ۱۵۹۶)
(١٢٢١٥) حضرت انس سے مروی ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : حیقی صبر وہ ہے جو مصیبت کے آغاز پر کیا جائے۔

12215

(۱۲۲۱۶) حدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ مُجَاہِدٍ، قَالَ: کَانَ یُقَالُ إنَّمَا الصَّبْرُ عِنْدَ الصَّدْمَۃِ الأُولَی۔
(١٢٢١٦) حضرت مجاہد فرماتے ہیں حقیقی صبر وہ ہے جو مصیبت کے آغاز پر ہو۔

12216

(۱۲۲۱۷) حدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللہِ الْعُقَیْلِیِّ ، عَنْ أَبِی سَلَمَۃَ الْحِمْصِیِّ ، قَالَ الصَّبْرُ عِنْدَ الصَّدْمَۃِ الأُولَی۔
(١٢٢١٧) حضرت ابو سلمہ الحمصی فرماتے ہیں کہ حقیقی صبر وہ ہے جو مصیبت کے آغاز پر کیا جائے۔

12217

(۱۲۲۱۸) حدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ أبی بُکَیْر ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ ثَابِتٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ أَنَسًا یَقُولُ إنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : إنَّ الصَّبْرَ فِی أَوْ عِنْدَ الصَّدْمَۃِ الأُولَی۔ (بخاری ۱۲۵۲۔ ابوداؤد ۳۱۱۵)
(١٢٢١٨) حضرت ثابت فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت انس سے حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد سنا صبر وہی ہے جو صدمہ کے آغاز پر کیا جائے۔

12218

(۱۲۲۱۹) حدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنِ أَبِی حَمْزَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : الصَّبْرُ عِنْدَ الصَّدْمَۃِ الأُولَی۔
(١٢٢١٩) حضرت ابراہیم سے مروی ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : حقیقی صبر وہی ہے جو صدمہ کے آغاز پر ہو۔

12219

(۱۲۲۲۰) حدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃُ ، عَنْ حَبِیبِ بْنِ الشَّہِیدِ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ ، أَنَّ زَیْدَ بْنَ ثَابِتٍ اسْتَأْذَنَ عُثْمَانَ فِی نَبْشِ قُبُورٍ کَانَتْ فِی مَسْجِدِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَأَذِنَ لَہُ فَنَبَشَہَا وَأَخْرَجَہَا مِنَ الْمَسْجِدِ ، قَالَ وَإِنَّمَا کَانَتْ تُرِکَتْ فِی الْمَسْجِدِ لأَنَّہُ کَانَ فِی أَرَقَّائِ النَّاسِ قِلَّۃٌ۔
(١٢٢٢٠) حضرت ابن سیرین فرماتے ہیں کہ حضرت زید بن ثابت نے حضرت عثمان سے اجازت مانگی کہ جو قبریں مسجد نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں ہیں ان کو اکھیڑ (کھود) دیا جائے، تو آپ نے ان کو اجازت دے دی، تو انھوں نے ان قبروں کو کھود کر مسجد سے نکال دیا (اور کہیں اور دفنا دیا) اور وہ قبریں مسجد میں اس لیے چھوڑی گئی تھی کہ لوگوں کی نرم زمینیں بہت کم تھیں۔

12220

(۱۲۲۲۱) حدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَنْ أَبِی التَّیَّاحِ ، عَنْ أَنَسٍ ، أَنَّ مَسْجِدَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ لِبَنِی النَّجَّارِ ، فَقَالَ لَہُم رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : ثَامِنُونِی بِہِ فَقَالُوا : لاَ نَلْتَمِسُ بِہِ ثَمَنًا إِلاَّ عِنْدَ اللہِ وَکَانَ فِیہِ قُبُورٌ مِنْ قُبُورِ الْمُشْرِکِینَ وَنَخْلٌ وَحَرْثٌ فَأَمَرَ بِالْحَرْثِ فحرث وَبِالنَّخْلِ فَقُطِعَ وَبِالْقُبُورِ فَنُبِشَتْ۔ (بخاری ۴۲۸۔ مسلم ۱۰)
(١٢٢٢١) حضرت انس سے مروی ہے کہ مسجد نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بنی نجار کی تھی، حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے فرمایا : مجھ سے اس کا ثمن لے لو، انھوں نے عرض کیا ہم اس کا ثمن اللہ تعالیٰ سے چاہتے ہیں، اور مسجد میں مشرکین کی قبریں، کھجور کے درخت اور کھیتی تھی، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کھیتی کو کاٹنے، درختوں کو کاٹنے اور قبروں کو کھودنے کا حکم دیا۔

12221

(۱۲۲۲۲) حدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ، أَخْبَرَنَا إسْمَاعِیلُ، أَخْبَرَنَا قَیْسٌ، قَالَ رَمَی مَرْوَانُ طَلْحَۃَ یَوْمَ الْجَمَلِ بِسَہْمٍ فِی رُکْبَتِہِ فَمَاتَ فَدَفَنَّاہُ عَلَی شَاطِیئِ الْکَلاَّئِ فَرَأَی بَعْضُ أَہْلِہِ ، أَنَّہُ قَالَ أَلاَ تُرِیحُونِی مِنْ ہَذَا الْمَائِ فَإِنِّی قد غَرِقْت ثَلاَثَ مَرَّاتٍ یَقُولُہَا ، قَالَ فَنَبَشُوہُ فَاشْتَرَوْا لَہُ دَارًا مِنْ دور آلِ أَبِی بَکْرَۃَ بِعَشْرَۃِ آلاَفٍ فَدَفَنُوہُ فِیہَا۔
(١٢٢٢٢) حضرت قیس فرماتے ہیں کہ جنگ جمل میں مروان نے حضرت طلحہ کے گھٹنے پر نیزہ مارا جس سے وہ شھید ہوگئے اور ان کو بصرہ میں دفن کردیا گیا، ان کے اھل میں سے کسی نے ان کو خواب میں دیکھا انھوں نے فرمایا : کیا تم مجھے راحت نہیں پہنچاؤ گے اس پانی سے ؟ بیشک مں ڈوب رہا ہوں، تین بار یہی کہا، پھر انھوں نے اس قبر کو کھودا اور ان کے لیے حضرت ابو بکرہ کے آل کے گھروں میں سے ایک گھر دس ہزار کا خرید کر اس میں ان کو دفن کردیا۔

12222

(۱۲۲۲۳) حدَّثَنَا أَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ ، حدَّثَنَا شُعْبَۃُ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، عَنِ عُمَرَ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : الْمَیِّتُ یُعَذَّبُ فِی قَبْرِہِ بِالنِّیَاحَۃِ۔ (بخاری ۱۲۹۲۔ مسلم ۶۳۹)
(١٢٢٢٣) حضرت عمر سے مروی ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : بیشک قبر میں میت کو عذاب دیا جاتا ہے (ان کے رشتہ داروں کے) نوحہ کرنے کی وجہ سے۔

12223

(۱۲۲۲۴) حدَّثَنَا وَکِیعٌ ، حدَّثَنَا سَعِیدُ بْنُ عُبَیْدٍ وَمُحَمَّدُ بْنُ قَیْسٍ الأَسَدِیُّ ، سَمِعَاہ مِنْ عَلِیِّ بْنِ رَبِیعَۃَ الْوَالِبِیِّ ، قَالَ أَوَّلُ مَنْ نِیحَ عَلَیْہِ بِالْکُوفَۃِ قَرَظَۃُ بْنُ کَعْبٍ الأَنْصَارِیُّ فَقَامَ الْمُغِیرَۃُ بْنُ شُعْبَۃَ ، فَقَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : مَنْ نِیحَ عَلَیْہِ ، فَإِنَّہُ یُعَذَّبُ فِی قَبْرِہِ بِمَا نِیحَ عَلَیْہِ۔ (بخاری ۱۲۹۱۔ مسلم ۶۴۴)
(١٢٢٢٤) حضرت سعید بن عبید اور حضرت محمد بن قیس فرماتے ہیں کہ ہم نے حضرت علی بن ربیعہ الوالبی سے سنا کہ کوفہ میں سب سے پہلے مرنے والے پر نوحہ قرظہ بن کعب الانصاری نے کیا، حضرت مغیرہ بن شعبہ کھڑے ہوگئے اور فرمایا : میں نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہیں ہوئے سنا کہ : جو شخص مرنے والے پر نوحہ کرتا ہے تو اس نوحہ کی وجہ سے اس کو قبر میں عذاب دیا جاتا ہے۔

12224

(۱۲۲۲۵) حدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ عُبَیْدٍ ، عَنْ عُبَادَۃَ بْنِ الْوَلِیدِ بْنِ عُبَادَۃَ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَنْ نِیحَ عَلَیْہِ ، فَإِنَّہُ یُعَذَّبُ بِمَا نِیحَ عَلَیْہِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ۔ (احمد ۶۱)
(١٢٢٢٥) حضرت عبداللہ بن عمر سے مروی ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جو مرنے والے پر نوحہ کرتا ہے تو اس نوحہ کی وجہ سے اس کو قبر میں عذاب دیا جاتا ہے۔

12225

(۱۲۲۲۶) حدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ حَفْصَۃَ ، عَنْ أُمِّ عَطِیَّۃَ قَالَتْ لَمَّا نَزَلَتْ {إذَا جَائَک الْمُؤْمِنَاتُ یُبَایِعْنَکَ) إلَی قَوْلِہِ : {وَلاَ یَعْصِینَک فِی مَعْرُوفٍ} قَالَتْ : کان مِنْہُ النِّیَاحَۃَ فَقُلْتُ : یَا رَسُولَ اللہِ إِلاَّ آلَ فُلاَنٍ فَإِنَّہُمْ قَدْ کَانُوا أَسْعَدُونِی فِی الْجَاہِلِیَّۃِ ، فَقَالَ : إِلاَّ آلَ فُلاَنٍ۔ (بخاری ۴۸۹۲۔ مسلم ۳۲)
(١٢٢٢٦) حضرت ام عطیہ فرماتی ہیں کہ جب قرآن پاک کی آیت { اِذَا جَائَکَ الْمُؤْمِنَاتُ یُبَایِعْنَکَ } سے لے کر { وَلاَ یَعْصِیْنَکَ فِیْ مَعْرُوفٍ } تک نازل ہوئیں تو اس میں نوحہ نہ کرنا بھی شامل تھا، میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! سوائے فلان کی آل کے، بیشک انھوں نے زمانہ جاہلیت میں میری مدد کی تھی، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : سوائے فلان کے آل کے۔

12226

(۱۲۲۲۷) حدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ یَزِیدَ بْنِ عَبْدِ اللہِ - مَوْلَی الصَّہْبَائِ - عَنْ شَہْرِ بْنِ حَوْشَبٍ ، عَنْ أُمِّ سَلَمَۃَ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، {وَلاَ یَعْصِینَک فِی مَعْرُوفٍ} قَالَ : النَّوْحُ۔ (ترمذی ۳۳۰۷۔ احمد ۳۲۰)
(١٢٢٢٧) حضرت ام سلمہ سے مروی ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : قرآن کی آیت { وَلاَ یَعْصِیْنَکَ فِیْ مَعْرُوفٍ } میں نوحہ نہ کرنا بھی شامل ہے۔

12227

(۱۲۲۲۸) حدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِی صَالِحٍ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إنَّ مِمَّا بِالنَّاسِ کُفْرًا النِّیَاحَۃُ وَالطَّعَنُ فِی الأَنْسَابِ۔ (مسلم ۱۲۱۔ ترمذی ۱۰۰۱)
(١٢٢٢٨) حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : بیشک لوگوں میں دو کفر کی (علامتیں) موجود ہیں، نوحہ کرنا اور نسب میں طعن کرنا۔

12228

(۱۲۲۲۹) حدَّثَنَا عَفَّانُ ، حدَّثَنَا أَبَانٌ الْعَطَّارُ ، حدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ أَبِی کَثِیرٍ ، عَنْ زَیْدِ عن أَبِی سَلاَّمٍ ، عَنْ أَبِی مَالِکٍ الأَشْعَرِیِّ ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : أَرْبَعٌ فِی أُمَّتِی مِنَ الْجَاہِلِیَّۃِ لاَ یَتْرُکُونَہُنَّ الْفَخْرُ فِی الأَحْسَابِ ، وَالطَّعَنُ فِی الأَنْسَابِ وَالاِسْتِسْقَائُ بِالنُّجُومِ وَالنِّیَاحَۃُ ، وَالنَّائِحَۃُ إذَا لَمْ تَتُبْ مِنْ قَبْلِ مَوْتِہَا تُقَامُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ عَلَیْہَا سِرْبَالٌ مِنْ قَطِرَانٍ وَدِرْعٌ مِنْ جَرَبٍ۔ (مسلم ۲۹۔ احمد ۵/۳۴۲)
(١٢٢٢٩) حضرت ابو مالک اشعری سے مروی ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : میری امت میں زمانہ جاہلتو کی چار باتیں موجود ہیں انھوں نے ان کو ترک نہ کیا، حسب پر فخر کرنا، نسب میں طعن کرنا، ستاروں سے پانی طلب کرنا اور نوحہ کرنا اور نوحہ کرنے والی اگر توبہ کرنے سے قبل فوت ہوجائے تو اس کو قیامت کے دن کھڑا کیا جائے گا اور اس پر تارکول کی قمیص اور خارش زدہ چادر ہوگی۔

12229

(۱۲۲۳۰) حدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ ابْنِ أَبِی خَالِدٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنِ الْحَارِثِ ، عَنْ عَلِیٍّ ، قَالَ نُہِیَ عَنِ النَّوْحِ۔ (ابوداؤد ۲۰۶۹۔ عبدالرزاق ۱۰۷۹)
(١٢٢٣٠) حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ نوحہ کرنے سے منع کیا گیا ہے۔

12230

(۱۲۲۳۱) حدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ مُجَالِدٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ، عَنْ عَلِیٍّ ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، أَنَّہُ نَہَی عَنِ النَّوْحِ۔
(١٢٢٣١) حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نوحہ کرنے سے منع فرمایا۔

12231

(۱۲۲۳۲) حدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ سَالِمٍ : (وَلاَ یَعْصِینَک فِی مَعْرُوفٍ) قَالَ : النَّوْحُ۔
(١٢٢٣٢) حضرت سالم فرماتے ہیں کہ قرآن پاک کی آیت { وَلاَ یَعْصِیْنَکَ فِیْ مَعْرُوفٍ } سے مراد نوحہ نہ کرنا ہے۔

12232

(۱۲۲۳۳) حدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ ہِلاَلِ بْنِ خَبَّابٍ ، عَنْ أَبِی الْبَخْتَرِیِّ ، قَالَ : النَّوْحُ عَلَی الْمَیِّتِ مِنْ أَمْرِ الْجَاہِلِیَّۃِ۔
(١٢٢٣٣) حضرت ابو البختری فرماتے ہیں کہ میت پر نوحہ جاہلیت کے کاموں میں سے ہے۔

12233

(۱۲۲۳۴) حدَّثَنَا وَکِیعٌ ، حدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ عُثْمَانَ الْکِلاَبِیُّ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَطِیَّۃَ الأَنْصَارِیِّ، عَنْ أُمِّہِ ، قَالَ : قُلْتُ لَہَا مَا الْمَعْرُوفُ الَّذِی نُہِیتُنَّ عَنْہُ قَالَتِ : النِّیَاحَۃُ۔ (احمد ۵/۸۵۔ ابوداؤد ۱۱۳۲)
(١٣١٣٤) حضرت اسماعیل بن عبد الرحمن بن عطیہ الانصاری فرماتے ہیں کہ میں نے اپنی والدہ سے عرض کیا (قرآن پاک میں) وہ کونسا معروف ہے جس سے آپ کو روکا گیا ؟ انھوں نے فرمایا نوحہ کرنا۔

12234

(۱۲۲۳۵) حدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ زَیْدِ بْنِ أَسْلَمَ : (وَلاَ یَعْصِینَک فِی مَعْرُوفٍ) قَالَ : لاَ یَشْقُقْنَ جَیْبًا ، وَلاَ یَخْمُشْنَ وَجْہًا ، وَلاَ یَنْشُرْنَ شَعْرًا ، وَلاَ یَدْعُونَ وَیْلاً۔
(١٢٢٣٥) حضرت زید بن اسلم فرماتے ہیں کہ قرآن پاک کی آیت { وَلاَ یَعْصِیْنَکَ فِیْ مَعْرُوفٍ } سے مراد، عورتیں اپنے گریبان چاک نہیں کریں گی، چہروں پر نہیں ماریں گی، بالوں کو نہیں پھیلائے (بکھیریں) گی اور آہ آہ (مصیبت کے وقت چیخنا اور نوحہ کرنا) نہیں پکاریں گی۔

12235

(۱۲۲۳۶) حدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ أَبِی جَعْفَرٍ الرَّازِیّ ، عَنِ الرَّبِیعِ ، عَنْ أَبِی الْعَالِیَۃِ (وَلاَ یَعْصِینَک فِی مَعْرُوفٍ) قَالَ : فِی کُلِّ أَمْرٍ وَافَقَ لِلَّہِ طَاعَۃً وَلَمْ یَرْضَ لِنَبِیِّہِ أَنْ یُطَاعَ فِی مَعْصِیَۃِ اللہِ۔
(١٢٢٣٦) حضرت ابو العالیہ فرماتے ہیں کہ { وَلاَ یَعْصِیْنَکَ فِیْ مَعْرُوفٍ } میں معروف سے مراد ہر وہ کام ہے جو اللہ کی اطاعت کے موافق ہو، اور اس کا نبی راضی نہ ہوگا کہ اللہ کی معصیت میں اس کی اطاعت کی جائے۔

12236

(۱۲۲۳۷) حدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ قَاسِمٍ الْجُعْفِیِّ ، قَالَ : سَمِعْتُ الشَّعْبِیَّ یَقُولُ لُعِنَتِ النَّائِحَۃُ وَالْمُمْسِکَۃُ۔
(١٢٢٣٧) حضرت شعبی فرماتے ہیں کہ نوحہ کرنے والی اور نوحہ سننے والی پر لعنت کی گئی ہے۔

12237

(۱۲۲۳۸) حدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ ہَاشِمٍ ، وَوَکِیعٌ ، عَنِ ابْنِ أَبِی لَیْلَی ، عَنْ عَطَائٍ ، عَنْ جَابِرٍ ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : إنَّمَا نَہَیتُ عَنِ النَّوْحِ۔ (ترمذی ۱۰۰۵)
(١٢٢٣٨) حضرت جابر فرماتے ہیں کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نوحہ کرنے سے منع فرمایا۔

12238

(۱۲۲۳۹) حدَّثَنَا شَرِیکٌ، عَنْ یَعْلَی، عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ، قَالَ: کَانَ أَبُو الْبَخْتری رَجُلاً رَقِیقا وَکَانَ یَسْمَعُ النَّوْحَ۔
(١٢٢٣٩) حضرت عطاء بن السائب فرماتے ہیں کہ حضرت ابو البختری بڑے نرم دل کے تھے اور وہ نوحہ بھی سنتے تھے۔

12239

(۱۲۲۴۰) حدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ صَالِحٍ ، قَالَ أَرَاہُ عَنْ أَبِی وَائِلٍ ، أَنَّہُ کَانَ یَسْتَمِعُ النَّوْحَ وَیَبْکِی۔
(١٢٢٤٠) حضرت سعید بن صالح فرماتے ہیں کہ حضرت ابو وائل نوحہ سنتے اور روتے تھے۔

12240

(۱۲۲۴۱) حدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَنِ الشَّیْبَانِیِّ ، عَنْ أَبِی بُرْدَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ لَمَّا أُصِیبَ عُمَرُ جَعَلَ صُہَیْبٌ یَقُولُ وَا أَخَاہُ ، قَالَ : فَقَالَ لَہُ عُمَرُ یَا صُہَیْبُ أَمَا عَلِمْت ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : إنَّ الْمَیِّتَ لَیُعَذَّبُ بِبُکَائِ الْحَیِّ۔ (بخاری ۱۲۹۰۔ مسلم ۱۹)
(١٢٢٤١) حضرت ابو بردہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ جب حضرت عمر کو زخم لگا تو حضرت صھیب ہائے ہمارے بھائی (کہہ کر رونے لگے) حضرت عمر نے فرمایا : اے صھیب ! کیا تجھے نہیں معلوم کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے : بیشک زندوں کے رونے کی وجہ سے میت کو عذاب ہوتا ہے ؟

12241

(۱۲۲۴۲) حدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ، حدَّثَنَا عُبَیْدِ اللہِ بْنُ عُمَرُ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ عَبْدِ اللہِ، أَنَّ حَفْصَۃَ بَکَتْ عَلَی عُمَرَ، فَقَالَ: مَہْلاً یَا بُنَیَّۃَ أَلَمْ تَعْلَمِی أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ: إنَّ الْمَیِّتَ لَیُعَذَّبُ بِبُکَائِ أَہْلِہِ عَلَیْہِ۔ (مسلم ۱۶۔ احمد ۱/۳۶)
(١٢٢٤٢) حضرت عبداللہ بن عمر سے مروی ہے کہ جب حضرت عمر زخمی ہوئے تو حضرت حفصہ نے رونا شروع کردیا تو حضرت عمر نے فرمایا : اے بیٹی ! رونا چھوڑ دے کیا تو نہیں جانتی کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ بیشک میت کو عذاب دیا جاتا ہے اس کے اھل کے اس پر رونے کی وجہ سے۔

12242

(۱۲۲۴۳) حدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، قَالَ : سَمِعْتُ عَبْدَ اللہِ بْنَ صُبَیْحٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ سِیرِینَ ، قَالَ ذَکَرُوا عِنْدَ عِمْرَانَ بْنِ الْحُصَیْنِ الْمَیِّتَ یُعَذَّبُ بِبُکَائِ الْحَیِّ قَالُوا : وَکَیْفَ یُعَذَّبُ بِبُکَائِ الْحَیِّ ، قَالَ قَدْ قَالَہُ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔ (احمد ۴/۴۳۷)
(١٢٢٤٣) حضرت محمد بن سیرین فرماتے ہیں کہ حضرت عمران بن حصین کے سامنے ذکر کیا کہ میت کو عذاب ہوتا ہے زندوں کے رونے کی وجہ سے، لوگوں نے پوچھا کیسے عذاب ہوتا ہے زندہ کے رونے کی وجہ سے ؟ آپ نے فرمایا کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے۔

12243

(۱۲۲۴۴) حدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِی صَالِحٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إنَّ الْمَیِّتَ لَیُعَذَّبُ بِبُکَائِ الْحَیِّ۔ (بخاری ۱۲۸۶۔ مسلم ۲۴)
(١٢٢٤٤) حضرت عبداللہ بن عمر سے مروی ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : بیشک میت کو زندہ کے رونے کی وجہ سے عذاب دیا جاتا ہے۔

12244

(۱۲۲۴۵) حدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنِ ابْنِ أَبِی نَجِیحٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ عُبَیْدِ بْنِ عُمَیْرٍ ، قَالَ قَالَتْ أُمُّ سَلَمَۃَ لَمَّا مَاتَ أَبُو سَلَمَۃَ قُلْتُ غَرِیبۃ وَفِی أَرْضِ غُرْبَۃٍ لأبکینہ بُکَائً یُتَحَدَّثُ عَنْہُ ، فَکُنْت تَہَیَّأْت لِلْبُکَائِ إذْ أَقْبَلَتِ امْرَأَۃٌ مِنَ الصعید تُرِیدُ أَنْ تُسْعِدَنِی فَاسْتَقْبَلَہَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : تُرِیدِینَ أَنْ تُدْخِلِی الشَّیْطَانَ بَیْتًا أَخْرَجَہُ اللَّہُ مِنْہُ مَرَّتَیْنِ قَالَتْ : فَسَکَتُّ عَنِ الْبُکَائِ فَلَمْ أَبْکِ۔ (مسلم ۱۰۔ احمد ۶/۲۸۹)
(١٢٢٤٥) حضرت ام سلمہ فرماتی ہیں کہ جب حضرت ابو سلمہ کا انتقال ہوا تو میں نے کہا میں مسافرہ ہوں، اجنبی زمین میں ہوں، میں ان کے لیے ایسا روؤں گی جو اس سے بیان کیا جائے گا، جب میں نے رونے کا (نوحہ) ارادہ کیا تو ایک عورت اونچی زمین سے میرے پاس آئی جو میری مدد کرنا چاہتی تھی رونے میں، بس حضور اقدس متوجہ ہوئے اور فرمایا : کیا تم دونوں چاہتی ہو شیطان کو اس گھر میں داخل کردو جس سے اللہ تعالیٰ نے اس کو نکالا ہے ؟ دو بار یہی ارشاد فرمایا، فرماتی ہیں میں رونے سے خاموش ہوگئی پھر میں نہ روئی۔

12245

(۱۲۲۴۶) حدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، حدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ : لَمَّا أَتَتْ وَفَاۃُ جَعْفَرٍ عَرَفْنَا فِی وَجْہِ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْحُزْنَ فَدَخَلَ عَلَیْہِ رَجُلٌ ، فَقَالَ : یَا رَسُولَ اللہِ إنَّ النِّسَائَ یَبْکِینَ ، قَالَ : فَارْجِعْ إلَیْہِنَّ فَأَسْکِتْہُنَّ ، فَإِنْ أَبَیْنَ فَاحْثُ فِی وُجُوہِہِنَّ التُّرَابَ قَالَ: قَالَتْ عَائِشَۃُ : فَقُلْت فِی نَفْسِی وَاللَّہِ لاَ تَرَکْت نَفْسَک ، وَلاَ أَنْتَ مُطِیعٌ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔ (بخاری ۱۲۹۹۔ مسلم ۶۴۴)
(١٢٢٤٦) حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ جب حضرت جعفر کی وفات کی اطلاع آئی تو میں نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چہرہ انور پر غم کے اثرات دیکھے، ایک شخص حاضر ہوا اور عرض کیا : اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! عورتیں رو رہی ہیں، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ان کی طرف جاؤ ان کو چپ کر اؤ اگر خاموش ہونے سے انکار کردیں تو ان کے چہروں پر مٹی ڈال دو ، حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ میں نے اپنے دل میں کہا خدا کی قسم تو نے اپنے نفس کو نہ چھوڑا اور نہ ہی تو رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مطیع ہے۔

12246

(۱۲۲۴۷) حدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، حدَّثَنَا ہِشَامُ بْنُ عُرْوَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ عَائِشَۃَ ، أَنَّہَا قِیلَ لَہَا إنَّ ابْنَ عُمَرَ یَرْفَعُ إلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إنَّ الْمَیِّتَ یُعَذَّبُ بِبُکَائِ الْحَیِّ ، فَقَالَتْ وَہَلَ أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ إنَّمَا قَالَ : إنَّ أَہْلَ الْمَیِّتِ لَیَبْکُونَ عَلَیْہِ ، وَإِنَّہُ لَیُعَذَّبُ بِجُرْمِہِ۔ (بخاری ۳۹۷۸۔ مسلم ۲۵)
(١٢٢٤٧) حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ ان سے کہا گیا کہ حضرت عبداللہ بن عمر مرفوعا روایت کرتے ہیں کہ میت کو قبر میں عذاب دیا جاتا ہے زندہ کے رونے کی وجہ سے فرماتی ہیں کہ حضرت ابو عبد الرحمن کا گمان یہ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یوں فرمایا : میت کے گھر والے اس پر رو رہے ہوتے ہیں اور اس کو اپنے جرموں کی وجہ سے عذاب ہو رہا ہوتا ہے۔

12247

(۱۲۲۴۸) حدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، حدَّثَنَا مِسْعَرٌ ، عَنِ الْہَجَرِیِّ ، عَنِ ابْنِ أَبِی أَوْفَی ، قَالَ : رَأَی النِّسَائَ یَتَرَثَّیْنَ ، فَقَالَ : لاَ تَتَرَثَّیْنَ فَإِنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَہَانَا ، أَن نَتَرَاثی۔ (ابن ماجہ ۱۵۹۲۔ طیالسی ۸۲۵)
(١٢٢٤٨) حضرت الھجری سے مروی ہے کہ حضرت ابن ابی اوفیٰ نے عورتوں کو میت پر (واویلا مچا کر) روتے ہوئے دیکھا تو فرمایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نوحے کرنے سے منع فرمایا ہے۔

12248

(۱۲۲۴۹) حدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، حدَّثَنَا إسْرَائِیلُ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عِیسَی ، عَنْ جَبْرِ بْنِ عَتِیکٍ ، عَنْ عَمِّہِ ، قَالَ دَخَلْت مَعَ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَی رَجُلٍ مِنَ الأَنْصَارِ وَأَہْلُہُ یَبْکُونَ فَقُلْت أَتَبْکُونَ عَلَیْہِ وَہَذَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : دَعْہُم یَبْکِینَ مَا دَامَ عِنْدَہُنَّ فَإِذَا وَجَبَ لَمْ یَبْکِینَ۔ (ابوداؤد ۳۱۰۲۔ احمد ۵/۴۴۶)
(١٢٢٤٩) حضرت جبر بن عتیک اپنے چچا سے روایت کرتے ہیں کہ میں حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ایک انصاری شخص (کے جنازے پر) حاضر ہوا اس کے گھر والے اس پر رو رہے تھے، میں نے کہا کیا تم روتے ہو یہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (تم میں) موجود ہیں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا چھوڑ دو ان کو رونے دو ، جب اس پر واجب ہوجائے گا (قبر میں اتار دیا جائے گا تو) یہ نہیں روئیں گی۔

12249

(۱۲۲۵۰) حدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ أَبِی عُثْمَانَ ، عَنْ أُسَامَۃَ بْنِ زَیْدٍ ، قَالَ دَمَعَتْ عَیْنُ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حِینَ أُتِیَ بِابْنَۃِ زَیْنَبَ وَنَفْسُہَا تَقَعْقَعُ: کأَنَّہَا فِی شَنٍّ ، قَالَ فَبَکَی ، قَالَ: فَقَالَ لَہُ: رَجُلٌ تَبْکِی وَقَدْ نَہَیْتَ عَنِ الْبُکَائِ ، فَقَالَ: إنَّمَا ہَذِہِ رَحْمَۃٌ جَعَلَہَا اللَّہُ فِی قُلُوبِ عِبَادِہِ وَإِنَّمَا یَرْحَمُ اللَّہُ مِنْ عِبَادِہِ الرُّحَمَائَ۔ (مسلم ۶۳۶۔ احمد ۵/۲۰۴)
(١٢٢٥٠) حضرت اسامہ بن زید سے مروی ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس جب حضرت زینب کی بیٹی کو لایا گیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آنکھوں میں آنسو آگئے، حضرت زینب کا سانس اکھڑ رہا تھا، گویا کہ وہ بڑھاپے میں ہیں، یہ حالت دیکھ کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رو پڑے، ایک شخص نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ رو رہے ہیں حالانکہ آپ نے تو رونے سے منع کیا ہوا ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : یہ تو رحمت (کے آنسو) ہیں جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے دلوں میں رکھی ہے، بیشک اللہ پاک اس پر رحم کرتا ہے جو اس کے بندوں پر رحم کرنے والا ہو۔

12250

(۱۲۲۵۱) حدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ ہَاشِمٍ ، عَنِ ابْنِ أَبِی لَیْلَی ، عَنْ عَطَائٍ ، عَنْ جَابِرٍ ، قَالَ أَخَذَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِیَدِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ فَخَرَجَ بِہِ إلَی النَّخْلِ فَأُتِیَ بِإِبْرَاہِیمَ وَہُوَ یَجُودُ بِنَفْسِہِ فَوُضِعَ فِی حَجْرِہِ ، فَقَالَ : یَا بُنَیَّ لاَ أَمْلِکُ لَکَ مِنَ اللہِ شَیْئًا وَذَرَفَتْ عَیْنَاہُ ، فَقَالَ لَہُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ تَبْکِی یَا رَسُولَ اللہِ أَوَ لَمْ تَنْہَ عَنِ الْبُکَائِ ، قَالَ : إنَّمَا نَہَیْتُ عَنِ النَّوْحِ ، عَنْ صَوْتَیْنِ أَحْمَقَیْنِ فَاجِرَیْنِ ، صَوْتٍ عِنْدَ نِغمَۃ لَہْوٍ وَلَعِبٍ ، وَمَزَامِیرِ شَیْطَانٍ ، وَصَوْتٍ عِنْدَ مُصِیبَۃٍ ، خَمْشِ وُجُوہٍ ، وَشَقِّ جُیُوبٍ ، وَرَنَّۃِ شَیْطَانٍ ، إنَّمَا ہَذِہِ رَحْمَۃٌ ، وَمَنْ لاَ یَرْحَمْ لاَ یُرْحَمْ ، یَا إبْرَاہِیمَ لَوْلا أَنَّہُ أَمْرٌ حَقٌّ ، وَوَعْدٌ صِدْقٌ ، وَسَبِیلٌ مَأتِیَّۃٌ ، وَأَنَّ أُخْرَانَا سَیََلْحَقَ أُولنَا لَحَزِنَّا عَلَیْک حُزْنًا أَشَدَّ مِنْ ہَذَا ، وَإِنَّا بِکَ لَمَحْزُونُونَ ، تَبْکِی الْعَیْنُ وَیَحْزَنُ الْقَلْبُ ، وَلاَ نَقُولُ مَا یُسْخِطُ الرَّبَّ۔
(١٢٢٥١) حضرت جابر سے مروی ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عبد الرحمن بن عوف کا ہاتھ پکڑا اور کھجور کے درختوں کی طرف گئے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بیٹے ابراہیم کو لایا گیا وہ اس وقت قریب المرگ تھے، ان کو حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی گود میں رکھا گیا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے بیٹے ! میں تیرے لیے اللہ تعالیٰ سے کسی چیز کا مالک نہیں ہوں اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آنکھوں میں آنسو آگئے، حضرت عبد الرحمن نے عرض کیا اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ رو رہے ہیں ؟ کیا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے رونے سے منع نہیں کیا ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میں نے نوحہ کرنے سے منع کیا ہے، دو فاجر اور احمق آوازوں سے : نغمہ کے وقت لھو ولعب کی آواز اور شیطان کی بانسری (کی آواز) اور مصیبت کی وقت کی آواز : چہروں کو نوچنا، گریبان چاک کرنا اور شیطان کی طرح زور سے چیخنا، بیشک یہ تو رحمت کے آنسو ہیں، اور جو رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جاتا، اے ابراہیم اگر یہ امر حق نہ ہوتا، وعدہ سچا نہ ہوتا اور راستہ اور جہت انجانی نہ ہوتی اور ہمارے آخر والے عنقریب ہمارے پہلوں سے ملنے والے نہ ہوتے تو ہمارا غم تیرے بارے میں اس سے زیادہ ہوتا، اور ہم تیری وجہ سے البتہ غم گین ہیں آنیں ور روتی ہیں اور دل غم گین اور مغموم ہے اور ہم ایسی بات نہیں کریں گے جس سے ہمارا رب ناراض ہو۔

12251

(۱۲۲۵۲) حدَّثَنَا وَکِیعٌ ، حدَّثَنَا ہِشَامُ بْنُ عُرْوَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ عَائِشَۃَ ، قَالَ ذُکِرَ لَہَا حَدِیثُ ابْنِ عُمَرَ ، إنَّ الْمَیِّتَ لَیُعَذَّبُ بِبُکَائِ الْحَیِّ ، فَقَالَتْ : وَہَلَ أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ کَمَا وَہَلَ یَوْمَ قَلِیبِ بَدْرٍ إنَّمَا قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إِنَّہُ لَیُعَذَّبُ وَإِنَّ أَہْلَہُ لَیَبْکُونَ عَلَیْہِ۔ (احمد ۶/۲۰۹)
(١٢٢٥٢) حضرت عروہ سے مروی ہے کہ حضرت عائشہ کے سامنے حضرت عبداللہ بن عمر کی حدیث بیان کی گئی کہ میت کو زندہ کے رونے کی وجہ سے عذاب دیا جاتا ہے آپ نے فرمایا حضرت ابو عبد الرحمن کو اسی طرح غلطی ہوئی ہے جس طرح انھیں بدر کے کنویں کے مقتولوں کے بارے میں غلطی ہوئی تھی۔ بیشک رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : بیشک میت کو عذاب دیا جا رہا ہوتا ہے اور اس کے گھر والے اس پر رو رہے ہوتے ہیں۔

12252

(۱۲۲۵۳) حدَّثَنَا شَبَابَۃُ بْنُ سَوَّارٍ ، حدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ الْمُغِیرَۃِ ، عَنْ ثَابِتٍ ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وُلِدَ لِی اللَّیْلَۃَ غُلاَمٌ فَسَمَّیْتُہُ بِاسْمِ أَبِی إبْرَاہِیمَ ، قَالَ ، ثُمَّ دَفَعَہُ إلَی أُمِّ سَیْفٍ امْرَأَۃِ قَیْنٍ بِالْمَدِینَۃِ یُقَالُ لَہُ أَبُو سَیْفٍ ، فَانْطَلَقَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَانْطَلَقْتُ مَعَہُ ، فَصَادَفْنَا أَبَا سَیْفٍ یَنْفُخُ فِی کِیرِہِ ، وَقَدِ امْتَلأَ الْبَیْتُ دُخَانًا ، فَأَسْرَعْت الْمَشْیَ بَیْنَ یَدَیِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حَتَّی انْتَہِیَ إلَی أَبِی سَیْفٍ، فَقُلْت: یَا أَبَا سَیْفٍ أَمْسِکْ أَمْسِکْ جَائَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَأَمْسَکَ، فَدَعَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِالصَّبِیِّ فَضَمَّہُ إلَیْہِ ، وَقَالَ مَا شَائَ اللَّہُ أَنْ یَقُولَ ، قَالَ أَنَسٌ : فَلَقَدْ رَأَیْتُہُ یَکِیدُ بِنَفْسِہِ ، قَالَ : فَدَمَعَتْ عَیْنَا النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : تَدْمَعُ الْعَیْنُ وَیَحْزَنُ الْقَلْبُ ، وَلاَ نَقُولُ إِلاَّ مَا یرضی رَبَّنَا وَإِنَّا بِکَ یَا إبْرَاہِیمَ لَمَحْزُونُونَ۔ (مسلم ۶۲۔ ابوداؤد ۳۱۱۸)
(١٢٢٥٣) حضرت انس سے مروی ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : رات میرا بیٹا پیدا ہوا ہے اور میں نے اس کا نام اپنے والد کے نام پر ابراہیم رکھا ہے۔
پھر آپ نے اس کو ام سیف کے پاس دودھ پلانے کے لیے بھیج دیا جو مدینہ کے ابو سیف لوہار کی بیوی تھی۔ پھر حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چلے اور میں بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ چلا، ہم اچانک ابو سیف کے پاس پہنچے جو اپیا دھونکنی میں پھونک مار رہا تھا جس کی وجہ سے سارے گھر میں دھواں بھرا ہوا تھا، میں حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے تیز چل کر ابو سیف کے پاس پہنچا اور اس سے کہا : اے ابو سیف رک جا رک جا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے ہیں، تو وہ رک گیا، پھر حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے بیٹے کو بلایا اور اس کو سینے سے لگایا اور کہا جو اللہ نے چاہا، حضرت انس فرماتے ہیں کہ میں نے ان (ابراہیم) کو دیکھا کہ وہ نزع کی تکلیف میں مبتلا ہیں، آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے، حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : آنکھیں بہہ رہی ہیں اور دل غم گین ہے اور ہم بات نہیں کریں گے مگر جس سے ہمارا رب راضی ہو اور اے ابراہیم ! ہم تیری وجہ سے بہت غم گین اور مغموم ہیں۔

12253

(۱۲۲۵۴) حدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ بْنُ مُوسَی ، حدَّثَنَا أُسَامَۃُ بْنُ زَیْدٍ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : رَجَعَ رَسُولُ اللہِ یَوْمَ أُحُدٍ فَسَمِعَ نِسَائَ بَنِی عَبْدِ الأَشْہَلِ یَبْکِینَ عَلَی ہَلْکَاہُنَّ ، فَقَالَ : لَکِنَّ حَمْزَۃَ لاَ بَوَاکِیَ لَہُ فَجِئْنَ نِسَائُ الأَنْصَارِ فَبَکَیْنَ عَلَی حَمْزَۃَ فَرَقَدَ فَاسْتَیْقَظَ ، فَقَالَ : یَا وَیْحَہنَّ إنَّہُنَّ لَہَاہُنَا حَتَّی الآنَ مُرُوہُنَّ فَلْیَرْجِعْنَ ، وَلاَ یَبْکِینَ عَلَی ہَالِکٍ بَعْدَ الْیَوْمِ۔ (احمد ۲/۴۰۔ حاکم ۱۹۴)
(١٢٢٥٤) حضرت عبداللہ بن عمر سے مروی ہے حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) احد کے دن جب واپس لوٹے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بنی عبد الاشھل کی خواتین کو اپنے مردوں پر روتے ہوئے سنا تو فرمایا : حمزہ کے لیے کوئی رونے والی نہیں ہے تو انصار کی عورتیں آئیں اور حمزہ پر رونے لگیں تو نبی پاک (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بےتاب ہو کر اٹھے اور فرمایا : اللہ ان کا بھلا کرے یہ ابھی تک یہیں ہیں ان سے کہو کہ چلی جائیں اور آج کے بعد کسی مرنے والے پر ہرگز نہ روئیں۔

12254

(۱۲۲۵۵) حدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُوسَی ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ زَیْدٍ ، قَالَ : حدَّثَنِی عَطَائُ بْنُ السَّائِبِ حدَّثَنَا عِکْرِمَۃُ ، قَالَ : کَانَ ابْنُ عَبَّاسٍ یَقُولُ احْفَظُوا ہَذَا الْحَدِیثَ إنَّ إحْدَی بَنَاتِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَتْ فِی الْمَوْتِ قَالَ: فَوَضَعَہَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَی یَدَیْہِ ، وَوَضَعَ رَأْسَہَا عَلَی ثَدْیَیْہِ وَہِیَ تَسُوقُ حَتَّی قضت فَوَضَعَہَا وَہُوَ یَبْکِی ، قَالَ : فَصَاحَتْ أُمُّ أَیْمَنَ ، فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لاَ أَرَاک تَبْکِین عِنْدَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَتْ : أَوَلاَ أَرَی رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَبْکِی ، قَالَ : إنِّی لَمْ أَبْکِ وَلَکِنَّہَا رَحْمَۃٌ۔ (احمد ۱/۲۷۳)
(١٢٢٥٥) حضرت عکرمہ فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عباس نے فرمایا اس حدیث کو یاد کرو، حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ایک بیٹی موت کے قریب تھی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انھیں اپنے ہاتھوں پر اٹھایا اور سینے سے لگایا، راوی کہتے ہیں کہ وہ قریب المرگ تھیں یہاں تک کہ ان کا انتقال ہوگیا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو نیچے رکھا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رو رہے تھے، حضرت ام ایمن نے چیخنا شروع کردیا، حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : تیرے لیے مناسب نہیں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے روئے، حضرت ام ایمن نے فرمایا : کیا میں رسول اللہ کو روتے ہوئے نہیں دیکھ رہی ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : میں نہیں رو رہا یہ تو رحمت کے آنسو ہیں۔

12255

(۱۲۲۵۶) حدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، حدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو ، حدَّثَنِی أَبِی ، عَنْ عَلْقَمَۃَ بْنِ وَقَّاصٍ ، عَنْ عَائِشَۃَ أُمِّ الْمُؤْمِنِینَ قَالَتْ : حَضَرَہ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَأَبُو بَکْرٍ ، وَعُمَرُ یَنْعِی سَعْدَ بْنَ مُعَاذٍ فَوَالَّذِی نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہِ إنِّی لأَعْرِفُ بُکَائَ عُمَرَ مِنْ بُکَائِ أَبِی بَکْرٍ وَإِنِّی لَفِی حُجْرَتِی ، قَالَتْ : فَکَانُوا کَمَا قَالَ اللَّہُ {رُحَمَائُ بَیْنَہُمْ} ، قَالَ عَلْقَمَۃُ : أَیْ أُمَّاہُ کَیْفَ کَانَ یَصْنَعُ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : کَانَتْ عَیْنُہُ لاَ تَدْمَعُ عَلَی أَحَدٍ وَلَکِنَّہُ کَانَ إذَا وَجَدَ فَإِنَّمَا ہُوَ آخِذٌ بِلِحْیَتِہِ۔(احمد ۶/۱۴۱۔ ابن حبان ۶۴۳۹)
(١٢٢٥٦) حضرت علقمہ بن وقاص سے مروی ہے کہ حضرت عائشہ نے فرمایا : حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر حضرت سعد بن معاذ کے پاس حاضر تھے، قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جان ہے میں پہچان رہی تھی کہ یہ ابوبکر کے رونے کی آواز ہے یہ حضرت عمر کی ہے اور میں اپنے حجرے میں تھی، فرماتی ہیں کہ وہ تو ایسے تھے جیسے اللہ نے فرمایا ہے { رُحَمَائُ بَیْنَہُمْ } آپس میں رحم دل، حضرت علقمہ نے فرمایا : امی جان حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (غم میں) کیا کرتے تھے ؟ امی عائشہ نے فرمایا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کسی پر (آواز نکال کر نوحہ کے انداز میں) نہیں ب روتے تھے جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کوئی غم پاتے تو اپنی داڑھی مبارک پکڑ لیتے۔

12256

(۱۲۲۵۷) حدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ زَیْدٍ ، عَنْ أَبِی عُثْمَانَ ، قَالَ : أَتَیْتُ عُمَرَ بِنَعْیِ النُّعْمَانِ بْنِ مُقَرِّنٍ فَوَضَعَ یَدَہُ عَلَی رَأْسِہِ ، وَجَعَلَ یَبْکِی۔
(١٢٢٥٧) حضرت ابو عثمان فرماتے ہیں کہ میں حضرت عمر کے پاس حضرت نعمان بن مقرن کی وفات کی خبر لایا تو آپ نے اپنا ہاتھ سر پر رکھ کر رونا شروع کردیا۔

12257

(۱۲۲۵۸) حدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنِ الْہَجَرِیِّ ، عَنِ ابْنِ أَبِی أَوْفَی ، قَالَ : إِنْ بَکَتْ بَاکِیَۃٌ ، أَوْ دَمَعَتْ عَیْنٌ فَلاَ بَأْسَ وَلَکِنْ قَدْ نُہِینَا ، عَنِ التَّرَثِّی۔
(١٢٢٥٨) حضرت ابن ابی اوفی فرماتے ہیں کہ کوئی روئے یا اس کے آنسو نکل آئیں اس میں کوئی حرج نہیں ہے، لیکن واویلا مچانے اور نوحہ کے انداز میں رونے سے منع کیا گیا ہے۔

12258

(۱۲۲۵۹) حدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عن ابن عون ، عَنْ نَافِعٍ ، قَالَ : کَانَ ابْنُ عُمَرَ فِی السُّوقِ فَنُعِیَ إلَیْہِ حُجْرٌ فَأَطْلَقَ حَبْوَتَہُ وَقَامَ وغلبہ النَّحِیبُ۔
(١٢٢٥٩) حضرت نافع فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمر بازار میں تھے آپ کو حجر کی وفات کی اطلاع دی گئی تو آپ نے اپنی چادر پکڑی اور کھڑے ہوگئے اور آپ پر رونے کا غلبہ ہوگیا۔

12259

(۱۲۲۶۰) حدَّثَنَا وَکِیعٌ ، حدَّثَنَا إسْرَائِیلُ ، عَنْ أبی إِسْحَاقَ ، عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ الْبَجَلِیِّ ، عَنْ أَبِی مَسْعُودٍ وَثَابِتِ بْنِ یَزِیدٍ وَقَرَظَۃَ بْنِ کَعْبٍ قَالُوا : رُخِّصَ لَنَا فِی الْبُکَائِ عَلَی الْمَیِّتِ فِی غَیْرِ نَوْحٍ۔
(١٢٢٦٠) حضرت عامر بن سعد البجلی سے مروی ہے کہ حضرت ابی مسعود ، حضرت ثابت بن زید اور حضرت قرظہ بن کعب فرماتے ہیں کہ میت پر نوحہ کے بغیر رونے کی اجازت دی گئی ہے۔

12260

(۱۲۲۶۱) حدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ ، قَالَ دَخَلْت عَلَی أَبِی مَسْعُودٍ وَقَرَظَۃَ بْنِ کَعْبٍ فَقَالاَ : إنَّہُ رُخِّصَ لَنَا فِی الْبُکَائِ عِنْدَ الْمُصِیبَۃِ۔ (حاکم ۱۸۴۔ طبرانی ۸۲)
(١٢٢٦١) حضرت عامر بن سعد فرماتے ہیں کہ میں حضرت ابی مسعود اور حضرت قرظہ بن کعب کے پاس آیا تو آپ دونوں حضرات نے فرمایا : بیشک ہمیں مصیبت میں رونے کی اجازت دی گئی ہے۔

12261

(۱۲۲۶۲) حدَّثَنَا غُنْدَرٌ، عَنْ شُعْبَۃَ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ، عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ أَبِی مَسْعُودٍ وَثَابِتِ بْنِ یَزَیْدٍ نَحْوَہُ۔ (حاکم ۱۸۴)
(١٢٢٦٢) حضرت عامر بن سعد سے اسی کے مثل منقول ہے۔

12262

(۱۲۲۶۳) حدَّثَنَا عَفَّانُ ، حدَّثَنَا وُہَیْبٌ ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ ، عَنْ وَہْبِ بْنِ کَیْسَانَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَطَائٍ ، عَنْ سَلَمَۃَ بْنِ الأَزْرَقِ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : مُرَّ عَلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِجِنَازَۃٍ یُبْکَی عَلَیْہَا وَأَنَا مَعَہُ ، وَعُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ فَانْتَہَرَ عُمَرُ اللاَّتِی یَبْکِینَ مَعَ الْجِنَازَۃِ ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : دَعْہُنَّ یَا ابْنَ الْخَطَّابِ فَإِنَّ النَّفْسَ مُصَابَۃٌ وَالْعَیْنَ دَامِعَۃٌ وَالْعَہْدَ قَرِیبٌ۔ (احمد ۲/۴۰۸۔ عبدالرزاق ۶۶۷۴)
(١٢٢٦٣) حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس سے ایک جنازہ گزرا جس کے ساتھ رونے والی عورتیں بھی تھیں میں اور حضرت عمر بھی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ تھے، حضرت عمر نے جنازے کے ساتھ رونے والیوں کو ڈانٹا تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے خطاب کے بیٹے ! ان کو چھوڑ دو ، بیشک نفس مصیبت زدہ ہے، اور آنکھیں آنسو بہا رہی ہیں اور وعدہ (مقرر وقت) قریب ہے۔

12263

(۱۲۲۶۴) حدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ ، عَنْ وَہْبِ بْنِ کَیْسَانَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَطَائٍ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِنَحْوِہِ۔
(١٢٢٦٤) حضرت ابوہریرہ سے اسی کے مثل منقول ہے۔

12264

(۱۲۲۶۵) حدَّثَنَا سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنِ الأَسْوَد بْنِ قَیْسٍ ، عَنْ نُبَیْحٍ ، عَنْ جَابِرٍ ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَمَرَ أَنْ یَرُدوا الْقَتْلَی إلَی مَصَارِعِہِمْ۔ (ابوداؤد ۳۱۵۷۔ ترمذی ۱۷۱۷)
(١٢٢٦٥) حضرت جابر سے مروی ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حکم فرمایا مقتولوں کو (ان کی لاش کو) جہاں وہ قتل ہوئے ہیں (میدان) وہاں لوٹا دو (جہاں قتل ہوئے ہیں وہیں ان کو دفناؤ) ۔

12265

(۱۲۲۶۶) حدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ السَّائِبِ ، قَالَ : سَمِعْتُ شَیْخًا فِی بَنِی عَامِرٍ أَحَدِ بَنِی سُوَاء ۃ یُقَالُ لَہُ عَبْدُ اللہِ بْنُ مَعِیَّۃَ ، قَالَ : أُصِیبَ رَجُلاَنِ مِنَ الْمُسْلِمِینَ یَوْمَ الطَّائِفِ ، قَالَ : فَحُمِلاَ إلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَبَلَغَہُ ذَلِکَ فَبَعَثَ أَنْ یُدْفَنَا حَیْثُ أُصِیبَا ، أَوْ لُقِیَا۔
(١٢٢٦٦) حضرت عبداللہ بن معیہ فرماتے ہیں کہ طائف کے دن دو مسلمان شہید ہوئے تو لوگ ان کی لاشوں کو اٹھا کر حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس لے جانے لگے، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس کی اطلاع ملی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جہاں شہید کیے گئے ہیں وہیں ان کو دفن کرو۔

12266

(۱۲۲۶۷) حدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ مَنْصُورِ بْنِ صَفِیَّۃَ ، عَنْ أُمِّہِ قَالَتْ أَتَیْتُ عَائِشَۃَ أُعَزِّیہَا بِأَخٍ لَہَا مَاتَ فِی مَکَان فَحُمِلَ وَہُوَ مَیِّتٌ فَدُفِنَ فِی مَکَان أُخَرَ ، فَقَالَتْ فِی نَفْسِی مِنْہُ شَیْئٌ إِلاَّ إنِّی وَدِدْت ، أَنَّہُ کَانَ دُفِنَ حَیْثُ مَاتَ۔
(١٢٢٦٧) حضرت منصور بن صفیہ اپنی والدہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ تشریف لائیں تو ان کو دلاسا دیا جا رہا تھا ان کے بھائی کے بارے میں جس کا ایک جگہ انتقال ہوگیا تھا، ان کی مفت کو دوسری جگہ لا کر دفن کردیا گیا تھا، آپ نے فرمایا : میرے دل میں اس کے متعلق کچھ نہیں ہے سوائے اس بات کے کہ میں چاہتی تھی کہ جہاں یہ فوت ہوئے ہیں وہیں ان کو دفن کردیا جاتا۔

12267

(۱۲۲۶۸) حدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ بْنِ یَزِیدَ ، عَنِ ابْنِ بُہْمَانَ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : قَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : تُدْفَنُ الأَجْسَادُ حَیْثُ تُقْبَضُ الأَرْوَاحُ۔ (ابن سعد ۲۹۳)
(١٢٢٦٨) حضرت جابر بن عبداللہ سے مروی ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : مردوں کو وہیں دفناؤ جہاں ان کی روح قبض کی جائے۔

12268

(۱۲۲۶۹) حدَّثَنَا وَکِیعٌ ، حدَّثَنَا الأَسْوَد بْنُ شَیْبَانَ ، عَنْ خَالِدِ بْنِ سُمَیْرٍ ، عَنْ بَشِیرِ بْنِ نَہِیکٍ ، عَنْ بَشِیرِ بْنِ الْخَصَاصِیَۃِ ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَأَی رَجُلاً یَمْشِی بَیْنَ الْقُبُورِ فِی نَعْلَیْہِ ، فَقَالَ : یَا صَاحِبَ السِّبْتِیَّتَیْنِ أَلْقِہِمَا۔ (نسائی ۲۱۷۵۔ ابوداؤد ۳۲۲۲)
(١٢٢٦٩) حضرت بشیر بن الخصاصیہ سے مروی ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک شخص کو قبروں کے درمیان جوتے پہن کر چلتے ہوئے دیکھا تو فرمایا : اے جوتوں والے (گائے کی کھال کے جوتے والے) ان کو اتار دے۔

12269

(۱۲۲۷۰) حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّیَالِسِیُّ ، عَنْ جَرِیرِ بْنِ حَازِمٍ ، قَالَ : رَأَیْتُ الْحَسَنَ ، وَابْنَ سِیرِینَ یَمْشِیَانِ بَیْنَ الْقُبُورِ فِی نِعَالِہِمَا۔
(١٢٢٧٠) حضرت جریر بن حازم فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت حسن اور حضرت ابن سیرین کو قبروں کے درمیان جوتے پہن کر چلتے ہوئے دیکھا۔

12270

(۱۲۲۷۱) حدَّثَنَا مُعْتَمِرُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ رَجُلٍ یُقَالُ لَہُ النُّعْمَانُ الْجَنَدِیُّ ، عَنِ ابْنِ طَاوُوس ، عَنْ أَبِیہِ ، أَنَّہُ کَرِہَ أَنْ یُسْتَسْقَی مِنَ الآبَارِ الَّتِی تَکُونُ بَیْنَ ظَہْرَانَیِ الْمَقَابِرِ۔
(١٢٢٧١) حضرت ابن طاؤس اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ وہ قبرستان میں موجود کنووں سے پانی بھرنے کو مکروہ سمجھتے تھے۔

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔