hadith book logo

HADITH.One

HADITH.One

Urdu

Support

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Ibn Abi Shaybah

12. طلاق کا بیان۔

ابن أبي شيبة

18020

(۱۸۰۲۱) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ إدْرِیسَ ، وَوَکِیعٌ ، وَحَفْصٌ ، وَأَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِِ ، عَنْ مَالِکِ بْنِ الْحَارِثِ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ یَزِیدَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ؛ {فَطَلِّقُوہُنَّ لِعِدَّتِہِنَّ} قَالَ : فِی غَیْرِ جِمَاعٍ۔
(١٨٠٢١) حضرت عبداللہ (رض) قرآن مجید کی آیت { فَطَلِّقُوہُنَّ لِعِدَّتِہِنَّ } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ انھیں اس حال میں طلاق دو کہ وہ پاک ہوں اور اس طہر میں ان سے جماع نہ کیا ہو۔

18021

(۱۸۰۲۲) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِِ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِی الأَحْوَصِ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : إذَا أَرَادَ الرَّجُلُ أَنْ یُطَلِّقَ امْرَأَتَہُ ، فَلْیُطَلِّقْہَا طَاہِرًا فِی غَیْرِ جِمَاعٍ۔
(١٨٠٢٢) حضرت عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ جب آدمی اپنی بیوی کو طلاق دینے کا ارادہ کرے تو اسے اس حال میں طلاق دے کہ وہ پاک ہو اور اس طہر میں اس سے جماع نہ کیا ہو۔

18022

(۱۸۰۲۳) حَدَّثَنَا عَبْدُ السَّلاَمِ بْنُ حَرْبٍ ، عَنْ یَزِیدَ الدَّالاَنِیِّ ، عَنْ أَبِی الْعَلاَئِ ، عَنْ حُمَیْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحِمْیَرِیِّ ، قَالَ : بَلَغَ أَبَا مُوسَی أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَجَدَ عَلَیْہِمْ ، فَأَتَاہُ فَذَکَرَ ذَلِکَ لَہُ ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : یَقُولُ أَحَدُکُمْ : قَدْ تَزَوَّجْتُ ، قَدْ طَلَّقْتُ وَلَیْسَ کَذَا عِدَّۃُ الْمُسْلِمِینَ ، طَلِّقُوا الْمَرْأَۃَ فِی قُبُلِ عِدَّتِہَا۔ (ابن ماجہ ۲۰۱۷۔ ابن حبان ۴۲۶۵)
(١٨٠٢٣) حضرت حمید بن عبد الرحمن حمیری (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت ابو موسیٰ (رض) کو خبر پہنچی کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگوں سے ناراض ہوئے ہیں۔ حضرت ابو موسیٰ (رض) حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اس کا تذکرہ کیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ تم میں سے ایک کہتا ہے کہ میں نے شادی کی ! میں نے طلاق دے دی ! یہ مسلمانوں کا طریقہ نہیں ہے۔ عورت کی اس کی عدت کے شروع میں طلاق دو ۔ (کہ اس کے لیے عدت کو شمار کرنا آسان ہو)

18023

(۱۸۰۲۴) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنِ الْحَکَمِ ، قَالَ : سَمِعْتُ مُجَاہِدًا یُحَدِّثُ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ؛ فِی ہَذَا الْحَرْفِ : {یَا أَیُّہَا النَّبِیُّ إذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَائَ فَطَلِّقُوہُنَّ لِعِدَّتِہِنَّ} قَالَ : فِی قُبُلِ عِدَّتِہِنَّ۔
(١٨٠٢٤) حضرت ابن عباس (رض) قرآن مجید کی آیت { فَطَلِّقُوہُنَّ لِعِدَّتِہِنَّ } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ عورت کو اس کی عدت کے شروع میں طلاق دو ۔ (کہ اس کے لیے عدت کو شمار کرنا آسان ہو)

18024

(۱۸۰۲۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ یَزِیدَ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ قَالَ : قَالَ رَجُلٌ ، یَعْنِی عَلِیًّا ، لَوْ أَنَّ النَّاسَ أَصَابُوا حَدَّ الطَّلاَقِ مَا نَدِمَ رَجُلٌ عَلَی امْرَأَۃٍ ، یُطَلِّقُہَا وَہِیَ حَامِلٌ قَدْ تَبَیَّنَ حَمْلُہَا ، أَوْ طَاہِرٌ لَمْ یُجَامِعْہَا مُنْذُ طَہُرَت ، یَنْتَظِرُ حَتَّی إذَا کَانَ فِی قُبُلِ عِدَّتِہَا طَلَّقَہَا ، فَإِنْ بَدَا لَہُ أَنْ یُرَاجِعَہَا رَاجَعَہَا ، وَإِنْ بَدَا لَہُ أَنْ یُخَلِّیَ سَبِیلَہَا خَلَّی سَبِیلَہَا۔
(١٨٠٢٥) حضرت علی (رض) فرماتے ہیں کہ اگر لوگوں کو طلاق پر حد کا سامنا کرنا پڑے تو کوئی آدمی اپنی بیوی کو حالت حمل میں طلاق دینے کے بعد اور اس طہر میں طلاق دینے کے بعد جس میں اس سے جماع نہ کیا ہو، نادم نہ ہو، وہ انتظار کرے اور اسے عدت کے شروع میں طلاق دے، پھر اگر رجوع کرنا چاہے تو رجوع کرلے اور اگر اسے رخصت ہی کرنا چاہے تو رخصت کردے۔

18025

(۱۸۰۲۶) حدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، وَابْنِ سِیرِینَ ؛ أَنَّہُمَا قَالاَ : طَلاَقُ السُّنَّۃِ فِی قُبُلِ الْعِدَّۃِ ، یُطَلِّقُہَا طَاہِرًا فِی غَیْرِ جِمَاعٍ ، وَإِنْ کَانَ بِہَا حَمْلٌ طَلَّقَہَا مَتَی شَائَ۔
(١٨٠٢٦) حضرت حسن (رض) اور حضرت ابن سیرین (رض) فرماتے ہیں کہ طلاق سنت یہ ہے کہ عدت کے شروع میں طلاق دی جائے، وہ اسے اس حال میں طلاق دے کہ وہ پاک ہو اور اس سے جماع نہ کیا ہو، اور اگر وہ حاملہ ہو تو اسے جب چاہے طلاق دے دے۔

18026

(۱۸۰۲۷) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ : طَلَّقْتُ امْرَأَتِی وَہِیَ حَائِضٌ ، فَذَکَرَ ذَلِکَ عُمَرُ لِرَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : مُرْہُ فَلْیُرَاجِعْہَا حَتَّی تَطْہُرَ ، ثُمَّ تَحِیضَ ، ثُمَّ تَطْہُرَ ، ثُمَّ إِنْ شَائَ طَلَّقَہَا قَبْلَ أَنْ یُجَامِعَہَا ، وَإِنْ شَائَ أَمْسَکَہَا ، فَإِنَّہَا الْعِدَّۃُ الَّتِی قَالَ اللَّہُ۔ (مسلم ۱۰۹۴۔ مالک ۵۳)
(١٨٠٢٧) حضرت ابن عمر (رض) نے ایک مرتبہ اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دے دی۔ حضرت عمر (رض) نے اس بات کا تذکرہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کیا تو آپ نے فرمایا کہ ان سے کہو کہ وہ رجوع کرلیں، پھر عورت پاک ہو، پھر اسے حیض آئے، پھر جب پاک ہوتوچا ہے تو جماع سے پہلے اسے طلاق دے دے اور چاہے تو روک لے، کیونکہ عدت وہی ہے جو اللہ نے بیان فرمائی ہے۔

18027

(۱۸۰۲۸) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِِ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ أَبِی وَائِلٍ قَالَ : طَلَّقَ ابْنُ عُمَرَ امْرَأَتَہُ وَہِیَ حَائِضٌ ، فَأَتَی عُمَرُ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرَہُ ، فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مُرْہُ فَلْیُرَاجِعْہَا ، ثُمَّ لِیُطَلِّقْہَا طَاہِرًا فِی غَیْرِ جِمَاعٍ۔
(١٨٠٢٨) حضرت ابن عمر (رض) نے ایک مرتبہ اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دے دی۔ حضرت عمر (رض) نے اس بات کا تذکرہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کیا تو آپ نے فرمایا کہ ان سے کہو کہ وہ رجوع کرلیں، پھر پاک ہونے کے بعد جماع سے پہلے طلاق دے دیں۔

18028

(۱۸۰۲۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، مَوْلَی آلِ طَلْحَۃَ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ؛ أَنَّہُ طَلَّقَ امْرَأَتَہُ وَہِیَ حَائِضٌ ، فَذَکَرَ ذَلِکَ عُمَرُ لِلنَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ : مُرْہُ فَلْیُرَاجِعْہَا ثُمَّ لِیُطَلِّقْہَا طَاہِرًا ، أَوْ حَامِلاً۔ (مسلم ۵۔ ابوداؤد ۲۱۷۴)
(١٨٠٢٩) حضرت ابن عمر (رض) نے ایک مرتبہ اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دے دی۔ حضرت عمر (رض) نے اس بات کا تذکرہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کیا تو آپ نے فرمایا کہ ان سے کہو کہ وہ رجوع کرلیں، پھر پاک ہونے کی حالت میں یا حاملہ ہونے کی حالت میں طلاق دے دیں۔

18029

(۱۸۰۳۰) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ طَاوُوسٍ قَالَ : إذَا طَلَّقَہَا فِی طُہْرٍ قَدْ جَامَعَہَا فِیہِ ، لَمْ تَعْتَدَّ فِیہِ بِتِلْکَ الْحَیْضَۃِ۔
(١٨٠٣٠) حضرت طاؤس (رض) فرماتے ہیں کہ اگر ایسے طہر میں طلاق دی جس میں جماع کیا تھا تو وہ حیض شمار نہیں ہوگا۔

18030

(۱۸۰۳۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ حَسَنِ بْنِ صَالِحٍ ، عَنْ بَیَانٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ قَالَ : إذَا طَلَّقَہَا وَہِیَ طَاہِرٌ فَقَدْ طَلَّقَہَا لِلسُّنَّۃِ ، وَإِنْ کَانَ قَدْ جَامَعَہَا۔
(١٨٠٣١) حضرت شعبی (رض) فرماتے ہیں کہ جب حالت طہر میں طلاق دی تو سمجھو کہ طلاق سنت دی خواہ اس سے جماع کیا ہو۔

18031

(۱۸۰۳۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إسْرَائِیلَ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ ، وَمُجَاہِدٍ ؛ (فَطَلِّقُوہُنَّ لِعِدَّتِہِنَّ) قَالاَ : طَاہِرًا فِی غَیْرِ جِمَاعٍ۔
(١٨٠٣٢) حضرت عکرمہ (رض) اور حضرت مجاہد (رض) فرماتے ہیں کہ قرآن مجید کی آیت { فَطَلِّقُوہُنَّ لِعِدَّتِہِنَّ } کا مطلب یہ ہے کہ اسے حالت طہر میں بغیر جماع کے طلاق دے۔

18032

(۱۸۰۳۳) حَدَّثَنَا الثَّقَفِیُّ ، عَنْ خَالِدِ ، عَنْ مُحَمَّدٍ ؛ (فَطَلِّقُوہُنَّ لِعِدَّتِہِنَّ) قَالَ : طَاہِرًا ، أَوْ حَامِلاً۔
(١٨٠٣٣) حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں کہ قرآن مجید کی آیت { فَطَلِّقُوہُنَّ لِعِدَّتِہِنَّ } کا مطلب یہ ہے کہ اسے حالت طہر میں یا حالت حمل میں طلاق دے۔

18033

(۱۸۰۳۴) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ ، عَنْ عَبِیدَۃَ ، عَنْ عَلِیٍّ قَالَ : مَا طَلَّقَ رَجُلٌ طَلاَقَ السُّنَّۃِ فَنَدِمَ۔
(١٨٠٣٤) حضرت علی (رض) فرماتے ہیں کہ طلاق سنت دینے والا کبھی نادم نہیں ہوتا۔

18034

(۱۸۰۳۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ حَسَنِ بْنِ صَالِحٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ بْنِ مُہَاجِرٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ قَالَ : طَلاَقُ السُّنَّۃِ فِی قُبُلِ الطُّہْرِ مِنْ غَیْرِ جِمَاعٍ
(١٨٠٣٥) حضرت عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ طلاق سنت بغیر جماع کے طہر سے پہلے ہوتی ہے۔

18035

(۱۸۰۳۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إسْرَائِیلَ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِی الأَحْوَصِ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ قَالَ : مَنْ أَرَادَ الطَّلاَقَ الَّذِی ہُوَ الطَّلاَقُ فَلْیُطَلِّقْہَا تَطْلِیقَۃً ، ثُمَّ یَدَعَہَا حَتَّی تَحِیضَ ثَلاَثَ حِیَضٍ۔
(١٨٠٣٦) حضرت عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ جو شخص صحیح معنی میں طلاق دینا چاہتا ہے اسے چاہیے کہ صرف ایک طلاق دے کر عورت کو چھوڑ دے اور تین حیض گزرنے دے۔

18036

(۱۸۰۳۷) حَدَّثَنَا سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ حُجَیْرٍ ، عَنْ طَاوُوسٍ قَالَ : طَلاَقُ السُّنَّۃِ أَنْ یُطَلِّقَ الرَّجُلُ امْرَأَتَہُ طَاہِرًا فِی غَیْرِ جِمَاعٍ ، ثُمَّ یَدَعَہَا حَتَّی تَنْقَضِیَ عِدَّتُہَا۔
(١٨٠٣٧) حضرت طاؤس (رض) فرماتے ہیں کہ طلاق سنت یہ ہے کہ آدمی اپنی بیوی کو بغیر جماع کے طہر میں طلاق دے پھر اس کی عدت گذرنے دے۔

18037

(۱۸۰۳۸) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ الثَّقَفِیُّ ، عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّائِ ، عَنْ أَبِی قِلاَبَۃَ ؛ أَنَّہُ کَانَ یَقُولُ فِی طَلاَقِ السُّنَّۃِ : أَنْ یُطَلِّقَہَا وَاحِدَۃً ، ثُمَّ یَدَعَہَا حَتَّی تَبِینَ بِہَا۔
(١٨٠٣٨) حضرت ابو قلابہ (رض) فرماتے ہیں کہ طلاق سنت یہ ہے کہ آدمی ایک طلاق دے دے پھر اسے چھوڑ دے یہاں تک کہ وہ بائنہ ہوجائے۔

18038

(۱۸۰۳۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ زَیْدٍ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ عَتِیقٍ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ قَالَ : قَالَ عَلِیٌّ : لَوْ أَنَّ النَّاسَ أَصَابُوا حَدَّ الطَّلاَقِ ، مَا نَدِمَ رَجُلٌ عَلَی امْرَأَۃٍ ، یُطَلِّقُہَا وَاحِدَۃً ، ثُمَّ یَتْرُکُہَا حَتَّی تَحِیضَ ثَلاَثَ حِیَضٍ۔
(١٨٠٣٩) حضرت علی (رض) فرماتے ہیں کہ اگر لوگوں کو طلاق پر حد جاری ہو تو کوئی آدمی بیوی کو طلاق دینے کے بعد شرمندہ نہ ہو، وہ عورت کو ایک طلاق دے دے اور پھر اسے تین حیض آنے تک چھوڑے رکھے۔

18039

(۱۸۰۴۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالَ : کَانُوا یَسْتَحِبُّونَ أَنْ یُطَلِّقَہَا وَاحِدَۃً ، ثُمَّ یَتْرُکَہَا حَتَّی تَحِیضَ ثَلاَثَ حِیَضٍ۔
(١٨٠٤٠) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ اسلاف اس بات کو مستحب سمجھتے تھے کہ آدمی بیوی کو ایک طلاق دے پھر تین حیض تک اسے چھوڑے رکھے۔

18040

(۱۸۰۴۱) حَدَّثَنَا شَبَابَۃُ بْنُ سَوَّارٍ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنِ الْحَکَمِ ، وَحَمَّادٌ ؛ فِی طَلاَقِ السُّنَّۃِ قَالاَ : یُطَلِّقُ الرَّجُلُ امْرَأَتَہُ ، ثُمَّ یَدَعَہَا حَتَّی تَنْقَضِیَ عِدَّتُہَا۔
(١٨٠٤١) حضرت حکم (رض) اور حضرت حماد (رض) فرماتے ہیں کہ طلاق سنت یہ ہے کہ آدمی بیوی کو طلاق دے اور پھر عدت گذرنے تک اسے چھوڑے رکھے۔

18041

(۱۸۰۴۲) حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ الْعَقَدِیُّ ، عَنْ عَبْدِ الْحَکِیمِ بْنِ أَبِی فَرْوَۃَ ، قَالَ : سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِیزِ یَقُولُ : مَا بَالُ رِجَالٍ یَقُولُ أَحَدُہُمْ لاِمْرَأَتِہِ : اذْہَبِی إلَی أَہْلِکِ ، فَیُطَلِّقُہَا فِی أَہْلِہَا ، فَنَہَی عَنْ ذَلِکَ أَشَدَّ النَّہْیِ ، قَالَ عَبْدُ الْحَکِیمِ : یَعْنِی بِذَلِکَ الْعِدَّۃَ۔
(١٨٠٤٢) حضرت عمر بن عبد العزیز (رض) فرماتے ہیں کہ لوگوں کو کیا ہوا کہ ایک آدمی اپنی بیوی سے کہتا ہے کہ اپنے اہل کے پاس چلی جا ! اور پھر وہ اسے اس کے اہل میں طلاق دیتا ہے۔ انھوں نے اس سے سختی سے منع کیا۔

18042

(۱۸۰۴۳) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الْحَسَنِ قَالَ : سُئِلَ جَابِرٌ عَنْ حَامِلٍ کَیْفَ تُطْلَقُ ؟ فَقَالَ : یُطَلِّقُہَا وَاحِدَۃً ، ثُمَّ یَدَعُہَا حَتَّی تَضَعَ۔
(١٨٠٤٣) حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت جابر (رض) سے سوال کیا گیا کہ حاملہ کو کیسے طلاق دی جائے ؟ انھوں نے فرمایا کہ ایک طلاق دے دے، پھر وضع حمل تک اسے چھوڑے رکھے۔

18043

(۱۸۰۴۴) حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرٍ الْحَنَفِیُّ ، عَنِ ابْنِ أَبِی ذِئْبٍ قَالَ : سَأَلْتُ عَنْ ذَلِکَ الزُّہْرِیَّ ؟ فَقَالَ : کُلُّ ذَلِکَ لَہَا وَقْتٌ۔
(١٨٠٤٤) حضرت ابن ابی ذئب (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت زہری (رض) سے حاملہ کی طلاق کے وقت کے بارے میں سوال کیا تو انھوں نے فرمایا کہ سارا اس کا وقت ہے۔

18044

(۱۸۰۴۵) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ إدْرِیسَ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، وَمُحَمَّدٍ قَالاَ : إذَا کَانَتْ حَامِلاً طَلَّقَہَا مَتَی شَائَ۔
(١٨٠٤٥) حضرت حسن (رض) اور حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں کہ حاملہ کو جب چاہے طلاق دے سکتا ہے۔

18045

(۱۸۰۴۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، عَنْ سُفْیَانَ، عَنْ حَمَّادٍ قَالَ: کَانَ یَسْتَحِبُّ أَنْ یُطَلِّقَ الْحَامِلَ وَاحِدَۃً، ثُمَّ یَدَعَہَا حَتَّی تَضَعَ۔
(١٨٠٤٦) حضرت حماد (رض) فرماتے ہیں کہ مستحب ہے کہ حاملہ کو ایک طلاق دے دے پھر وضع حمل تک اسے چھوڑے رکھے۔

18046

(۱۸۰۴۷) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ یَمَانٍ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنْ عَامِرٍ قَالَ : تُطْلَقُ الْحَامِلُ بِالأَہِلَّۃِ۔
(١٨٠٤٧) حضرت عامر (رض) فرماتے ہیں کہ حاملہ کو چاند کے اعتبار سے طلاق دی جائے گی۔

18047

(۱۸۰۴۸) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنْ أَبِی قِلاَبَۃَ قَالَ : إذَا طَلَّقَ الرَّجُلُ امْرَأَتَہُ وَہِیَ حَائِضٌ ، فَلاَ تَعْتَدُّ بِہَا ، وَقَالَ الزُّہْرِیُّ وَقَتَادَۃُ مِثْلَہُ۔
(١٨٠٤٨) حضرت ابو قلابہ (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کسی شخص نے بیوی کو حالت حیض میں طلاق دی تو اس حیض کو عدت میں شمار نہیں کیا جائے گا۔ حضرت زہری (رض) اور حضرت قتادہ (رض) بھی یہی فرماتے ہیں۔

18048

(۱۸۰۴۹) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ الثَّقَفِیُّ ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ؛ فِی الَّذِی یُطَلِّقُ امْرَأَتَہُ وَہِیَ حَائِضٌ ، قَالَ : لاَ تَعْتَدُّ بِتِلْکَ الْحَیْضَۃِ۔
(١٨٠٤٩) حضرت ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کسی شخص نے اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دی تو اس حیض کو عدت میں شمار نہیں کیا جائے گا۔

18049

(۱۸۰۵۰) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنْ شُرَیْحٍ قَالَ : إذَا طَلَّقَ الرَّجُلُ امْرَأَتَہُ وَہِیَ حَائِضٌ ، لَمْ تَعْتَدَّ بِتِلْکَ الْحَیْضَۃِ۔
(١٨٠٥٠) حضرت شریح (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کسی شخص نے اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دی تو اس حیض کو عدت میں شمار نہیں کیا جائے گا۔

18050

(۱۸۰۵۱) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ، عَنْ لَیْثٍ، عَنْ طَاوُوسٍ قَالَ: إذَا طَلَّقَ الرَّجُلُ امْرَأَتَہُ وَہِیَ حَائِضٌ، لَمْ تَعْتَدَّ بِتِلْکَ الْحَیْضَۃِ۔
(١٨٠٥١) حضرت طاوس (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کسی شخص نے اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دی تو اس حیض کو عدت میں شمار نہیں کیا جائے گا۔

18051

(۱۸۰۵۲) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ قَالَ : لاَ تَعْتَدُّ بِہَا
(١٨٠٥٢) حضرت زہری (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کسی شخص نے اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دی تو اس حیض کو عدت میں شمار نہیں کیا جائے گا۔

18052

(۱۸۰۵۳) حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ ، وَعَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنِ ابْنِ أَبِی عَرُوبَۃَ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ، قَالَ : لاَ تَعْتَدُّ بِہَا۔
(١٨٠٥٣) حضرت سعید بن مسیب (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کسی شخص نے اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دی تو اس حیض کو عدت میں شمار نہیں کیا جائے گا۔

18053

(۱۸۰۵۴) حَدَّثَنَا عَبدَۃ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ أَبِی مَعْشَرٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالَ : لاَ تَعْتَدُّ بِہَا۔
(١٨٠٥٤) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کسی شخص نے اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دی تو اس حیض کو عدت میں شمار نہیں کیا جائے گا۔

18054

(۱۸۰۵۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، عَنْ إسْرَائِیلَ، عَنْ جَابِرٍ، عَنْ عَامِرٍ قَالَ: إذَا طَلَّقَہَا وَہِیَ حَائِضٌ، لَمْ تَعْتَدَّ بِتِلْکَ الْحَیْضَۃِ۔
(١٨٠٥٥) حضرت عامر (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کسی شخص نے اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دی تو اس حیض کو عدت میں شمار نہیں کیا جائے گا۔

18055

(۱۸۰۵۶) حَدَّثَنَا الضَّحَّاکُ بْنُ مَخْلَدٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَطَائٍ ؛ فِی الرَّجُلِ یُطَلِّقُ امْرَأَتَہُ سَاعَۃَ حَاضَتْ ، قَالَ : لاَ تَعْتَدُّ بِہَا۔
(١٨٠٥٦) حضرت عطائ (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کسی شخص نے اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دی تو اس حیض کو عدت میں شمار نہیں کیا جائے گا۔

18056

(۱۸۰۵۷) حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَبْدِ الْوَارِثِ ، عَنْ ہَمَّامٍ ، عَنْ مَالِکِ بْنِ دِینَارٍ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ زَیْدٍ قَالَ : لاَ تَعْتَدُّ بِتِلْکَ الْحَیْضَۃِ۔
(١٨٠٥٧) حضرت جابربن زید (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کسی شخص نے اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دی تو اس حیض کو عدت میں شمار نہیں کیا جائے گا۔

18057

(۱۸۰۵۸) حَدَّثَنَا ابْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنْ ہَمَّامٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ سَعِیدٍ ، وَخِلاَسٍ قَالاَ : لاَ تَعْتَدُّ بِتِلْکَ الْحَیْضَۃِ۔
(١٨٠٥٨) حضرت سعید (رض) اور حضرت خلاس (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کسی شخص نے اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دی تو اس حیض کو عدت میں شمار نہیں کیا جائے گا۔

18058

(۱۸۰۵۹) حَدَّثَنَا ابْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنْ حُمَیْدِ بْنِ الأَسْوَدِ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ قَالَ : لاَ تَعْتَدُّ بِہَا۔
(١٨٠٥٩) حضرت ابن سیرین (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کسی شخص نے اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دی تو اس حیض کو عدت میں شمار نہیں کیا جائے گا۔

18059

(۱۸۰۶۰) حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ ، عَنِ ابْنِ أَبِی عَرُوبَۃَ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : ہُوَ قُرْئٌ مِنْ أَقْرَائِہَا۔
(١٨٠٦٠) حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ وہ حیض بھی تین حیضوں میں سے ایک ہے۔

18060

(۱۸۰۶۱) حَدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ قَالَ : کَانَ یَقُولُ : تَعْتَدُّ بِتِلْکَ الْحَیْضَۃِ۔
(١٨٠٦١) حضرت حسن (رض) فرمایا کرتے تھے کہ اس حیض کو بھی عدت میں شمار کیا جائے گا۔

18061

(۱۸۰۶۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ سِیرِینَ ، قَالَ : قُلْتُ لابْنِ عُمَرَ : احْتَسَبْتَ بِہَا ؟ قَالَ : فَقَالَ : فَمَہْ ، یَعْنِی بِالتَّطْلِیقَۃِ۔
(١٨٠٦٢) حضرت انس بن سیرین (رض) کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن عمر (رض) سے سوال کیا کہ آپ حالت حیض میں دی گئی طلاق کا اعتبار کریں گے ؟ انھوں نے فرمایا کیوں نہیں !

18062

(۱۸۰۶۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ یَزِیدَ بْنِ إبْرَاہِیمَ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ ، عَنْ یُونُسَ بْنِ جُبَیْرٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ؛ أَنَّہُ طَلَّقَ امْرَأَتَہُ وَہِیَ حَائِضٌ ، فَقِیلَ لَہُ : احْتَسَبْتَ بِہَا ؟ یَعْنِی التَّطْلِیقَۃَ ، قَالَ : فَقَالَ : فَمَا یَمْنَعُنِی إِنْ کُنْتُ عَجَزْتُ وَاسْتَحْمَقْتُ ؟۔
(١٨٠٦٣) حضرت یونس بن جبیر (رض) کہتے ہیں کہ حضرت ابن عمر (رض) نے اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دی تھی۔ ان سے کسی نے پوچھا کہ آپ نے حیض میں دی گئی طلاق کا اعتبار کیا تھا انھوں نے فرمایا اگر مجھے نادانی یا لاچاری کا سامنا تھا تو مجھے کس چیز نے منع کیا ؟

18063

(۱۸۰۶۴) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ، عَنِ الأَعْمَشِِ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ، عَنْ أَبِی الأَحْوَصِ، عَنْ عَبْدِاللہِ قَالَ: إذَا أَرَادَ الرَّجُلُ أَنْ یُطَلِّقَہَا ثَلاَثًا لِلسُّنَّۃِ ، طَلَّقَہَا عِنْدَ کُلِّ طُہْرٍ وَاحِدَۃً ، وَتَعْتَدُّ بِحَیْضَۃٍ أُخْرَی عِنْدَ آخِرِ طَلاَقِہَا۔
(١٨٠٦٤) حضرت عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ اگر ایک آدمی اپنی بیوی کو طلاق سنت دینا چاہے تو اسے ہر طہر میں ایک طلاق دے اور آخری طلاق کے بعد والے حیض سے عدت شمار کرے۔

18064

(۱۸۰۶۵) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنِ الأَعْمَشِِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : عَلَیْہَا حَیْضَۃٌ أُخْرَی بَعْدَ آخِرِ تَطْلِیقَۃٍ۔
(١٨٠٦٥) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ آخری طلاق کے بعد ایک اور حیض کی عدت عورت پر لازم ہوگی۔

18065

(۱۸۰۶۶) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنْ أَبِی قِلاَبَۃَ ؛ أَنَّہُ کَانَ یَکْرَہُ أَنْ یُطَلِّقَ امْرَأَتَہُ عِنْدَ کُلِّ حَیْضَۃٍ ، وَإِنَّمَا یَفْعَلُ ذَلِکَ لِیُطَوِّلَ عَلَیْہَا ، فَإِذَا فَعَلَ ذَلِکَ ، فَعِدَّتُہَا مِنْ أَوَّلِ الْعِدَّۃِ مَا لَمْ یُرَاجِعْہَا۔
(١٨٠٦٦) حضرت ابو قلابہ (رض) ہر حیض سے پہلے عورت کو طلاق دینے کو مکروہ خیال فرماتے تھے، ان کے مطابق یہ عمل عورت کی عدت کو بڑھا دیتا ہے، اس صورت میں ان کے نزدیک عدت پہلی طلاق سے شمار کی جائے گی اگر درمیان میں رجوع نہ کیا ہو۔

18066

(۱۸۰۶۷) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ ؛ أَنَّہُ کَانَ یَقُولُ : إذَا طَلَّقَ الرَّجُلُ امْرَأَتَہُ فَمَکَثَتْ شَہْرًا ، ثُمَّ طَلَّقَہَا تَطْلِیقَۃً أُخْرَی ، فَإِنَّ عِدَّتَہَا مِنْ أَوَّلِ الطَّلاَقِ مَا لَمْ یُرَاجِعْہَا۔
(١٨٠٦٧) حضرت حسن (رض) فرمایا کرتے تھے کہ اگر آدمی اپنی بیوی کو طلاق دے، ایک مہینے بعد پھر دوسری طلاق دے تو اس کی عدت پہلی طلاق سے ہوگی جب تک رجوع نہ کیا ہو۔

18067

(۱۸۰۶۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ؛ فِی الرَّجُلِ یُطَلِّقُ امْرَأَتَہُ عِنْدَ کُلِّ حَیْضَۃٍ تَطْلِیقَۃً ، قَالَ : تَعْتَدُّ مِنْ أَوَّلِ طَلاَقِہَا ، مَا لَمْ تَکُنْ مُرَاجَعَۃً۔
(١٨٠٦٨) حضرت سعید بن مسیب (رض) فرماتے ہیں کہ اگر آدمی نے اپنی بیوی کو ہر حیض پر ایک طلاق دی تو عدت پہلی طلاق سے شمار کی جائے اگر رجوع نہ کیا ہو۔

18068

(۱۸۰۶۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنِ الأَعْمَشِِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، وَخَیْثَمَۃَ ؛ أَنَّہُمَا قَالاَ : کُلَّمَا حَاضَتْ وَقَعَتْ تَطْلِیقَۃٌ ، وَتَعْتَدُّ حَیْضَۃً أُخْرَی بَعْدَ الثَّلاَثِ ۔ قَالَ وَکِیعٌ : وَالنَّاسُ عَلَیْہِ۔
(١٨٠٦٩) حضرت ابراہیم (رض) اور حضرت خیثمہ (رض) فرماتے ہیں کہ جب بھی حائضہ ہو اور ایک طلاق واقع ہو تو تین کے بعد ایک اور حیض عدت گزارے گی۔ حضرت وکیع (رض) فرماتے ہیں کہ لوگوں کا عمل بھی یہی ہے۔

18069

(۱۸۰۷۰) حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّیَالِسِیُّ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ ، وَخِلاَسِ بْنِ عَمْرٍو ، أَنَّہُمَا قَالاَ : تَعْتَدُّ مِنْ آخِرِ طَلاَقِہَا ۔ قَالَ سَعِیدُ بْنُ الْمُسَیَّبِ : وَلاَ یُعْجِبُنَا ذَلِکَ۔
(١٨٠٧٠) حضرت جابر بن عبداللہ (رض) اور حضرت خلاس بن عمرو (رض) فرماتے ہیں کہ آخری طلاق کے بعد سے عدت شروع کرے گی۔ حضرت سعید بن مسیب (رض) فرماتے ہیں ہمیں یہ پسند نہیں۔

18070

(۱۸۰۷۱) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ؛ أَنَّہُ أَشْہَدَ عَلَی رَجْعَۃِ صَفِیَّۃَ حِینَ رَاجَعَہَا۔
(١٨٠٧١) حضرت ابن عمر (رض) نے جب حضرت صفیہ (رض) سے رجوع کیا تو اس پر گواہ بنائے۔

18071

(۱۸۰۷۲) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ ، عَنِ الشَّیْبَانِیِّ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ؛ أَنَّہُ سُئِلَ عَنْ رَجُلٍ طَلَّقَ امْرَأَتَہُ ثُمَّ رَاجَعَہَا ، فَیَجْہَلُ أَنْ یُشْہِدَ ؟ قَالَ : یُشْہِدُ إذَا عَلِمَ۔
(١٨٠٧٢) حضرت شعبی (رض) سے ایک آدمی کے بارے میں سوال کیا گیا کہ اس نے اپنی بیوی کو طلاق دی پھر رجوع کرلیا لیکن اسے گواہ بنانے کا علم نہیں تھا تو وہ کیا کرے ؟ انھوں نے فرمایا کہ جب معلوم ہو تب گواہ بنالے۔

18072

(۱۸۰۷۳) حَدَّثَنَا جَرِیرُ بْنُ عَبْدِ الْحَمِیدِ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ عَامِرٍ ؛ فِی الرَّجُلِ یُطَلِّقُ امْرَأَتَہُ ثُمَّ یُجَامِعُہَا قَبْلَ أَنْ یُشْہِدَ عَلَی رَجْعَتِہَا ، قَالَ : کَیْفَ تَقُولُ یَا مُغِیرَۃُ فِی رَجُلٍ فَعَلَ بِامْرَأَۃِ قَوْمٍ لَیْسَ مِنْہَا بِسَبِیلٍ ؟۔
(١٨٠٧٣) حضرت عامر (رض) سے سوال کیا گیا کہ اگر ایک آدمی نے اپنی بیوی کو طلاق دی پھر رجوع پر گواہ بنائے بغیر اس سے جماع کرلیا تو کیا حکم ہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ اے مغیرہ ! تم اس شخص کے بارے میں کیا کہو گے جو کسی قوم کی عورت کے ساتھ یہ کرے اور اس کا اس سے کوئی تعلق نہ ہو !

18073

(۱۸۰۷۴) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَیْدٍ ، عَنْ خَالِدٍ النِّیْلِی ، عَنْ أَبِی مَعْشَرٍ، عَنْ إبْرَاہِیمَ؛ فِی رَجُلٍ طَلَّقَ امْرَأَتَہُ فَأَشْہَدَ، ثُمَّ رَاجَعَہَا وَلَمْ یُشْہِدْ ، قَالَ : لَمْ یَکُنْ یُکْرَہُ ذَلِکَ تَأَثُّمًا ، وَلَکِنْ کَانَ یُخَافُ أَنْ یَجْحَدَ۔
(١٨٠٧٤) حضرت ابراہیم (رض) سے سوال کیا گیا کہ اگر ایک آدمی اپنی بیوی کو طلاق دے اور طلاق پر گواہ بنائے لیکن رجوع کرے تو رجوع پر گواہ نہ بنائے اس کا کیا حکم ہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ اس کا گناہ تو نہیں ہوتا لیکن لوگوں میں انکار کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

18074

(۱۸۰۷۵) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ ؛ فِی الرَّجُلِ یُطَلِّقُ امْرَأَتَہُ ثُمَّ یَغْشَاہَا وَلَمْ یُشْہِدْ ، قَالَ : غِشْیَانُہُ لَہَا مُرَاجَعَۃٌ ، فَلْیُشْہِدْ۔
(١٨٠٧٥) حضرت حسن (رض) سے سوال کیا گیا کہ اگر ایک آدمی اپنی بیوی کو ایک طلاق دے پھر اس سے جماع کرلے اور کسی کو گواہ نہ بنائے تو کیا حکم ہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ آدمی کو عورت سے جماع کرنا ہی رجوع ہے اب گواہ بنا لے۔

18075

(۱۸۰۷۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ (ح) وَعَنْ جَابِرٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ (ح) وَعَنْ سَلَیْمَانَ التَّیْمِیِّ ، عَنْ طَاوُوسٍ ، قَالُوا : الْجِمَاعُ رَجْعَۃٌ فَلْیُشْہِدْ۔
(١٨٠٧٦) حضرت ابراہیم، حضرت شعبی اور حضرت طاؤس (رض) فرماتے ہیں کہ جماع رجوع ہے، اب گواہ بنالے۔

18076

(۱۸۰۷۷) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ أَبِی غَنِیَّۃَ ، عَنْ جُوَیْبِرٍ ، عَنِ الضَّحَّاکِ ؛ فِی قَوْلِہِ : {وَأَشْہِدُوا ذَوَیْ عَدْلٍ مِنْکُمْ} قَالَ : أُمِرُوا أَنْ یُشْہِدُوا عِنْدَ الطَّلاَقِ وَالرَّجْعَۃِ۔
(١٨٠٧٧) حضرت ضحاک (رض) قرآن مجید کی آیت { وَأَشْہِدُوا ذَوَیْ عَدْلٍ مِنْکُمْ } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ لوگوں کو حکم دیا گیا ہے کہ طلاق اور رجوع پر گواہ بنائیں۔

18077

(۱۸۰۷۸) حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِی غَنِیَّۃَ، عَنْ أَبِیہِ، عَنِ الْحَکَمِ؛ فِی رَجُلٍ یُرَاجِعُ امْرَأَتَہُ وَلاَ یُشْہِدُ، قَالَ: فَلْیُشْہِدْ عَلَی رَجْعَتِہَا۔
(١٨٠٧٨) حضرت حکم (رض) سے سوال کیا گیا کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی سے رجوع کرے لیکن اس پر گواہ نہ بنائے تو کیا حکم ہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ اسے رجوع پر گواہ بنانے چاہئیں۔

18078

(۱۸۰۷۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَطَائٍ ، قَالَ : الْفُرْقَۃُ وَالرَّجْعَۃُ بِالشُّہُودِ۔
(١٨٠٧٩) حضرت عطائ (رض) فرماتے ہیں کہ جدائی اور رجوع گواہوں کے ساتھ ہوتے ہیں۔

18079

(۱۸۰۸۰) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنِ الْحَکَمِ ؛ فِی رَجُلٍ طَلَّقَ امْرَأَتَہُ ، فَحَنَثَ وَقَدْ غَشِیَہَا فِی عِدَّتِہَا ، وَقَدْ عَلِمَ بِذَلِکَ بَعْدَ انْقِضَائِ الْعِدَّۃِ ، قَالَ : غِشْیَانُہُ لَہَا مُرَاجَعَۃٌ۔
(١٨٠٨٠) حضرت حکم (رض) فرماتے ہیں کہ اگر ایک آدمی نے اپنی بیوی کو طلاق دی پھر عدت گزرنے کے بعد اس نے قسم کھائی کہ وہ عدت میں اس سے جماع کرچکا ہے تو اس کا جماع کرنا رجوع ہے۔

18080

(۱۸۰۸۱) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ؛ مِثل ذَلِکَ۔
(١٨٠٨١) حضرت ابراہیم (رض) سے بھی یونہی منقول ہے۔

18081

(۱۸۰۸۲) حدَّثَنَا الثَّقَفِیُّ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنْ مُحَمَّدٍ ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَیْنٍ ؛ أَنَّہُ سُئِلَ عَنْ رَجُلٍ طَلَّقَ وَلَمْ یُشْہِدْ ، وَرَاجَعَ وَلَمْ یُشْہِدْ ؟ فَقَالَ : طَلَّقَ فِی غَیْرِ عِدَّۃٍ ، وَرَاجَعَ فِی غَیْرِ سُنَّۃٍ ، لِیُشْہِدْ عَلَی مَا صَنَعَ۔
(١٨٠٨٢) حضرت عمران بن حصین (رض) سے سوال کیا گیا کہ اگر کوئی آدمی اپنی بیوی کو طلاق دے اور اس پر گواہ نہ بنائے اور رجوع کرے اور اس پر بھی گواہ نہ بنائے تو کیا حکم ہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ اس نے بغیر شرعی طریقے کے طلاق دی اور شرعی طریقے کے بغیر رجوع کیا اسے چاہیے کہ اس پر گواہ بنائے۔

18082

(۱۸۰۸۳) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ؛ أَنَّ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِیزِ کَتَبَ : أَنَّہَا وَاحِدَۃٌ بَائِنَۃٌ ۔ وَہُوَ قَوْلُ قَتَادَۃَ۔
(١٨٠٨٣) حضرت عمر بن عبدالعزیز (رض) نے خط میں لکھا کہ یہ ایک طلاق بائنہ ہوگی۔ یہی قتادہ (رض) کا بھی قول ہے۔

18083

(۱۸۰۸۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِینَارٍ ، عَنْ أَبِی الشَّعْثَائِ قَالَ : إذَا رَاجَعَ فِی نَفْسِہِ فَلَیْسَ بِشَیْئٍ۔
(١٨٠٨٤) حضرت ابو شعثائ (رض) فرماتے ہیں کہ دل میں رجوع کرنا کوئی چیز نہیں ہے۔

18084

(۱۸۰۸۵) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ سَعِیدٍ قَالَ : سُئِلَ عَنْ رَجُلٍ قَالَ لامْرَأَتِہِ : إِنْ دَخَلْتِ دَارَ فُلاَنٍ فَأَنْتِ طَالِقٌ ، فَدَخَلَتْ وَہُوَ لاَ یَشْعُرُ ، حَتَّی مَضَی لِذَلِکَ أَشْہُرٌ ؟ فَحَدَّثَنَا عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، وَسَعِیدٍ ، وَخِلاَسٍ قَالُوا : إذَا عَلِمَ أَشْہَدَ عَلَی مُرَاجَعَتِہَا۔
(١٨٠٨٥) حضرت سعید (رض) سے منقول ہے کہ اگر ایک آدمی نے اپنی بیوی سے کہا کہ اگر تو فلاں گھر میں داخل ہوئی تو تجھے طلاق ہے، وہ عورت اس گھر میں داخل ہوگئی لیکن مرد کو علم نہ تھا۔ اسے کئی مہینوں بعد پتہ چلا تو اس بارے میں حضرت حسن، حضرت سعید اور حضرت خلاس (رض) فرماتے ہیں کہ جب اسے علم ہو تو اپنے رجوع پر گواہ بنائے۔

18085

(۱۸۰۸۶) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ ؛ فِی رَجُلٍ قَالَ : إِنْ دَخَلْتِ دَارَ فُلاَنٍ فَأَنْتِ طَالِقٌ وَاحِدَۃً، فَدَخَلَتْ وَہُوَ لاَ یَشْعُرُ ، قَالَ: إِنْ کَانَ غَشِیَہَا فِی الْعِدَّۃِ فَغِشْیَانُہُ لَہَا مُرَاجَعَۃٌ ، وَإِلاَّ فَقَدْ بَانَتْ مِنْہُ بِوَاحِدَۃٍ۔
(١٨٠٨٦) حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ اگر ایک آدمی نے اپنی بیوی سے کہا کہ اگر تو فلاں شخص کے گھر میں داخل ہوئی تو تجھے ایک طلاق ہے، اگر وہ داخل ہوئی اور مرد کو علم نہیں تھا، اب اگر عدت میں آدمی نے اس سے جماع کیا تھا تو جماع کرنا رجوع ہے اور اگر نہیں کیا تھا تو عورت کو ایک طلاق بائنہ ہوجائے گی۔

18086

(۱۸۰۸۷) حَدَّثَنَا سَہْلُ بْنُ یُوسُفَ ، عَنْ حُمَیْدٍ ، عَنْ وَاقِعِ بْنِ سَحْبَانَ قَالَ : سُئِلَ عِمْرَانُ بْنُ حُصَیْنٍ عَنْ رَجُلٍ طَلَّقَ امْرَأَتَہُ ثَلاَثًا فِی مَجْلِسٍ ؟ قَالَ : أَثِمَ بِرَبِّہِ ، وَحُرِّمَتْ عَلَیْہِ امْرَأَتُہُ۔
(١٨٠٨٧) حضرت عمران بن حصین (رض) سے ایک مجلس میں تین طلاقیں دینے کے بارے میں سوال کیا گیا تو انھوں نے فرمایا کہ ایسا کرنے سے انسان اللہ کی بارگاہ میں گناہ گار ہوتا ہے لیکن اس کی بیوی اس پر حرام ہوجائے گی۔

18087

(۱۸۰۸۸) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، عَنِ الأَعْمَشِِ ، عَنْ مَالِکِ بْنِ الْحَارِثِ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : أَتَاہُ رَجُلٌ فَقَالَ : إنَّ عَمِّی طَلَّقَ امْرَأَتَہُ ثَلاَثًا ، فَقَالَ : إنَّ عَمَّک عَصَی اللَّہَ ، فَأَنْدَمَہُ اللَّہُ ، فَلَمْ یَجْعَلْ لَہُ مَخْرَجًا۔
(١٨٠٨٨) حضرت ابن عباس (رض) کے پاس ایک آدمی آیا اور اس نے کہا کہ میرے چچا نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دی ہیں۔ انھوں نے فرمایا کہ تیرے چچا نے اللہ کی نافرمانی کی ہے، اللہ اسے رسوا کرے، اب اس کے پاس کوئی چارا نہیں۔

18088

(۱۸۰۸۹) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَنْ شَقِیقِ بْنِ أَبِی عَبْدِ اللہِ ، عَنْ أَنَسٍ قَالَ : کَانَ عُمَرُ إذَا أُتِیَ بِرَجُلٍ قَدْ طَلَّقَ امْرَأَتَہُ ثَلاَثًا فِی مَجْلِسٍ ، أَوْجَعَہُ ضَرْبًا ، وَفَرَّقَ بَیْنَہُمَا۔
(١٨٠٨٩) حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) کے پاس ایک آدمی لایا گیا جس نے اپنی بیوی کو ایک مجلس میں تین طلاقیں دے دی تھیں، آپ نے اسے سزا دی اور دونوں کے درمیان جدائی کرادی۔

18089

(۱۸۰۹۰) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ، قَالَ : قُلْتُ لِلْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ : الرَّجُلُ یُرِیدُ أَنْ یُطَلِّقَ امْرَأَتَہُ ثَلاَثًا ؟ قَالَ : یُطَلِّقُہَا فِی مَقَاعِدَ مُخْتَلِفَۃٍ۔
(١٨٠٩٠) حضرت یحییٰ بن سعید (رض) کہتے ہیں کہ میں نے حضرت قاسم بن محمد (رض) سے سوال کیا کہ ایک آدمی اپنی بیوی کو تین طلاقیں دینا چاہے تو کیا یہ درست ہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ مختلف نشستوں میں اسے طلاق دے۔

18090

(۱۸۰۹۱) حَدَّثَنَا أَسْبَاطُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنْ نَافِعٍ قَالَ : قَالَ ابْنُ عُمَرَ : مَنْ طَلَّقَ امْرَأَتَہُ ثَلاَثًا ، فَقَدْ عَصَی رَبَّہُ ، وَبَانَتْ مِنْہُ امْرَأَتُہُ۔
(١٨٠٩١) حضرت ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کسی نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دیں تو اس نے اپنے رب کی نافرمانی کی اور اس کی بیوی اس سے جدا ہوجائے گی۔

18091

(۱۸۰۹۲) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَیْ ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ؛ فِی رَجُلٍ یُطَلِّقَ امْرَأَتَہُ ثَلاَثًا جَمِیعًا ، قَالَ : إنَّ فَعَلَ فَقَدْ عَصَی رَبَّہُ ، وَبَانَتْ مِنْہُ امْرَأَتُہُ۔
(١٨٠٩٢) حضرت زہری (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کسی نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دیں تو اس نے اپنے رب کی نافرمانی کی اور اس کی بیوی اس سے جدا ہوجائے گی۔

18092

(۱۸۰۹۳) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : کَانُوا یُنَکِّلُونَ مَنْ طَلَّقَ ثَلاَثًا فِی مَقْعَدٍ وَاحِدٍ۔
(١٨٠٩٣) حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ اسلاف ایک مجلس میں تین طلاقیں دینے والے کو سزا دیتے تھے۔

18093

(۱۸۰۹۴) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ ہِشَامٍ قَالَ : سُئِلَ مُحَمَّدٌ عَنِ الرَّجُلِ یُطَلِّقُ امْرَأَتَہُ ثَلاَثًا فِی مَقْعَدٍ وَاحِدٍ ؟ قَالَ : لاَ أَعْلَمُ بِذَلِکَ بَأْسًا ، قَدْ طَلَّقَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ امْرَأَتَہُ ثَلاَثًا ، فَلَمْ یُعَبْ ذَلِکَ عَلَیْہِ۔
(١٨٠٩٤) حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ایک مجلس میں تین طلاقیں دینے کے بارے میں سوال کیا گیا تو انھوں نے فرمایا کہ اس میں کوئی حرج نہیں۔ حضرت عبد الرحمن بن عوف (رض) نے اپنی بیوی کو ایک مجلس میں تین طلاقیں دی تھیں اور انھیں اس پر کسی قسم کی مذمت کا سامنا نہ ہوا۔

18094

(۱۸۰۹۵) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، عَنْ مُحَمَّدٍ قَالَ : کَانَ لاَ یَرَی بِذَلِکَ بَأْسًا۔
(١٨٠٩٥) حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نزدیک ایک مجلس میں تین طلاقیں دینے میں کوئی حرج نہیں۔

18095

(۱۸۰۹۶) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ أَبِی السَّفَرِ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ؛ فِی رَجُلٍ أَرَادَ أَنْ تَبِینَ مِنْہُ امْرَأَتُہُ، قَالَ: یُطَلِّقُہَا ثَلاَثًا۔
(١٨٠٩٦) حضرت شعبی (رض) فرماتے ہیں کہ اگر ایک آدمی نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دیں تو اس کی بیوی اس سے جدا ہوجائے گی۔

18096

(۱۸۰۹۷) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، عَنْ عَلْقَمَۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : أَتَاہُ رَجُلٌ فَقَالَ : إنِّی طَلَّقْت امْرَأَتِی تِسْعَۃً وَتِسْعِینَ مَرَّۃً ؟ قَالَ : فَمَا قَالُوا لَکَ ؟ قَالَ : قَالُوا : قَدْ حُرِّمَتْ عَلَیْک ، قَالَ : فَقَالَ عَبْدُ اللہِ : لَقَدْ أَرَادُوا أَنْ یُبْقُوا عَلَیْک ، بَانَتْ مِنْک بِثَلاَثٍ وَسَائِرُہُنَّ عُدْوَانٌ۔
(١٨٠٩٧) حضرت عبداللہ (رض) کے پاس ایک آدمی آیا اور اس نے کہا کہ میں نے اپنی بیوی کو ننانوے مرتبہ طلاق دے دی ہے ! انھوں نے اس سے پوچھا کہ تجھے لوگوں نے کیا کہا ؟ اس نے کہا کہ مجھے لوگوں نے کہا کہ تیری بیوی تجھ پر حرام ہوگئی۔ حضرت عبداللہ (رض) نے فرمایا کہ وہ چاہتے ہیں کہ تجھ پر رحم کریں، وہ تین طلاقوں کے بعد ہی بائنہ ہوگئی تھی، باقی طلاقیں گناہ ہیں۔

18097

(۱۸۰۹۸) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنِ الأَعْمَشِِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، عَنْ عَلْقَمَۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ؛ أَنَّہُ سُئِلَ عَنْ رَجُلٍ طَلَّقَ امْرَأَتَہُ مِئَۃَ تَطْلِیقَۃٍ ؟ قَالَ : حرَّمَتْہَا ثَلاَثٌ ، وَسَبْعَۃٌ وَتِسْعُونَ عُدْوَانٌ۔
(١٨٠٩٨) حضرت عبداللہ (رض) سے سوال کیا گیا کہ اگر ایک آدمی نے اپنی بیوی کو سو طلاقیں دیں تو کیا حکم ہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ عورت تین طلاقوں سے حرام ہوجائے گی اور ستانوے طلاقیں گناہ ہیں۔

18098

(۱۸۰۹۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، وَالأَعْمَشِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، عَنْ عَلْقَمَۃَ ، قَالَ : جَائَ رَجُلٌ إلَی عَبْدِ اللہِ ، فَقَالَ : إنِّی طَلَّقْت امْرَأَتِی مِئَۃً ؟ فَقَالَ : بَانَتْ مِنْک بِثَلاَثٍ ، وَسَائِرُہُنَّ مَعْصِیَۃٌ۔
(١٨٠٩٩) حضرت عبداللہ (رض) کے پاس ایک آدمی آیا اور اس نے عرض کیا کہ میں نے اپنی بیوی کو سو طلاقیں دے دی ہیں اب کیا حکم ہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ وہ تین طلاقوں سے بائنہ ہوگئی تھی باقی معصیت ہیں۔

18099

(۱۸۱۰۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ سَلَمَۃَ بْنِ کُہَیْلٍ ، عَنْ زَیْدِ بْنِ وَہْبٍ ؛ أَنَّ رَجُلاً بَطَّالاً کَانَ بِالْمَدِینَۃِ طَلَّقَ امْرَأَتَہُ أَلْفًا ، فَرُفِعَ إلَی عُمَرَ فَقَالَ : إنَّمَا کُنْت أَلْعَبُ ، فَعَلاَ عُمَرُ رَأْسَہُ بِالدُّرَّۃِ ، وَفَرَّقَ بَیْنَہُمَا۔
(١٨١٠٠) حضرت زید بن وہب (رض) فرماتے ہیں کہ مدینہ میں ایک بہت زیادہ ہنسی مزاح کرنے والا آدمی تھا۔ اس نے اپنے بیوی کو ایک ہزار طلاقیں دے دیں، اس کا معاملہ حضرت عمر (رض) کے پاس پیش کیا گیا تو اس نے کہا کہ میں تو مزاح کررہا تھا۔ حضرت عمر (رض) نے اس کے سر پر کوڑا مارا اور ان دونوں کے درمیان جدائی کرادی۔

18100

(۱۸۱۰۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ الأَعْمَشِِ ، عَنْ حَبِیبٍ ، قَالَ : جَائَ رَجُلٌ إلَی عَلِیٍّ ، فَقَالَ : إنِّی طَلَّقْتُ امْرَأَتِی أَلْفًا ؟ قَالَ : بَانَتْ مِنْک بِثَلاَثٍ ، وَاقْسِمْ سَائِرہُنَّ بَیْنَ نِسَائِک۔
(١٨١٠١) حضرت حبیب (رض) فرماتے ہیں کہ ایک آدمی حضرت علی (رض) کے پاس آیا اور اس نے کہا کہ میں نے اپنی بیوی کو ہزار طلاقیں دے دی ہیں، اب کیا حکم ہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ وہ تین طلاقوں سے ہی بائنہ ہوگئی تھی اور باقی طلاقیں اپنی دوسری بیویوں کے درمیان تقسیم کردے۔

18101

(۱۸۱۰۲) حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ ، عَنْ ہَارُونَ بْنِ عَنْتَرَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : کُنْتُ جَالِسًا عِنْدَ ابْنِ عَبَّاسٍ فَأَتَاہُ رَجُلٌ فَقَالَ : یَا ابْنَ عَبَّاسٍ ، إنَّہُ طَلَّقَ امْرَأَتَہُ مِئَۃَ مَرَّۃٍ ، وَإِنَّمَا قُلْتُہَا مَرَّۃً وَاحِدَۃً فَتَبِینُ مِنِّی بِثَلاَثٍ ، ہِیَ وَاحِدَۃٌ ؟ فَقَالَ : بَانَتْ مِنْک بِثَلاَثٍ ، وَعَلَیْک وِزْرُ سَبْعَۃٍ وَتِسْعِینَ۔
(١٨١٠٢) حضرت عنترہ (رض) فرماتے ہیں کہ میں حضرت ابن عباس (رض) کے پاس بیٹھا تھا کہ ان کے پاس آیا اور اس نے کہا اے ابن عباس ! میں نے اپنی بیوی کو سو طلاقیں دے دیں، میں نے یہ ایک ہی جملے میں دی ہیں، کیا وہ تین طلاقوں کے ذریعے مجھ سے بائنہ ہوگئی جبکہ وہ ایک ہی ہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ وہ تین طلاقوں کے ذریعے تجھ سے بائنہ ہوگئی اور تجھ پر ستانوے طلاقوں کا گناہ ہے۔

18102

(۱۸۱۰۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، قَالَ : حَدَّثَنِی عَمْرُو بْنُ مُرَّۃَ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ قَالَ : جَائَ رَجُلٌ إلَی ابْنِ عَبَّاسٍ ، فَقَالَ : إنِّی طَلَّقْت امْرَأَتِی أَلْفًا ، أَوَ مِئَۃً ، قَالَ : بَانَتْ مِنْک بِثَلاَثٍ ، وَسَائِرُہُنَّ وِزْرٌ ، اتَّخَذْت آیَاتِ اللہِ ہُزُوًا۔
(١٨١٠٣) حضرت سعید بن جبیر (رض) فرماتے ہیں کہ ایک آدمی حضرت ابن عباس (رض) کے پاس آیا اور اس نے کہا کہ میں نے اپنی بیوی کو ہزار یا سو طلاقیں دے دی ہیں، اس کا کیا حکم ہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ وہ تین طلاقوں سے بائنہ ہوگئی ہے اور باقی گناہ ہیں، تو نے اللہ کی آیات کو مذاق بنا لیا۔

18103

(۱۸۱۰۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، وَالْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ بُرْقَانَ ، عَنْ مُعَاوِیَۃَ بْنِ أَبِی تِحْیَی قَالَ : جَائَ رَجُلٌ إلَی عُثْمَانَ فَقَالَ : إنِّی طَلَّقْت امْرَأَتِی مِئَۃً ، قَالَ : ثَلاَثٌ یُحَرِّمْنَہَا عَلَیْک ، وَسَبْعَۃٌ وَتِسْعُونَ عُدْوَانٌ۔
(١٨١٠٤) حضرت معاویہ بن ابی تحیی (رض) کہتے ہیں کہ ایک آدمی حضرت عثمان (رض) کے پاس آیا اور اس نے کہا کہ میں نے اپنی بیوی کو سو طلاقیں دے دی ہیں اب کیا حکم ہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ وہ تین طلاقوں سے تجھ پر حرام ہوگئی اور باقی ستانوے گناہ ہیں !

18104

(۱۸۱۰۵) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، عَنْ شُعْبَۃَ، عَنْ طَارِقٍ ، عَنْ قَیْسِ بْنِ أَبِی حَازِمٍ ؛ أَنَّہُ سَمِعَہُ یُحَدِّثُ عَنِ الْمُغِیرَۃِ بْنِ شُعْبَۃَ؛ أَنَّہُ سُئِلَ عَنْ رَجُلٍ طَلَّقَ امْرَأَتَہُ مِئَۃً ؟ فَقَالَ : ثَلاَثٌ یُحَرِّمْنَہَا عَلَیْہِ ، وَسَبْعَۃٌ وَتِسْعُونَ فَضْلٌ۔
(١٨١٠٥) حضرت مغیرہ بن شعبہ (رض) سے سوال کیا گیا کہ اگر ایک آدمی اپنی بیوی کو سو طلاقیں دے دے تو کیا حکم ہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ تین طلاقوں سے وہ حرام ہوجائے گی اور ستانوے زائد ہیں۔

18105

(۱۸۱۰۶) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، عَنْ أَبِی مَعْشَرَ ، قَالَ : حدَّثَنَا سَعِیدٌ الْمَقْبُرِیُّ ، قَالَ : جَائَ رَجُلٌ إلَی عَبْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ وَأَنَا عِنْدَہُ ، فَقَالَ : یَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، إنَّہُ طَلَّقَ امْرَأَتَہُ مِئَۃَ مَرَّۃٍ ؟ قَالَ : بَانَتْ مِنْک بِثَلاَثٍ ، وَسَبْعَۃٌ وَتِسْعُونَ یُحَاسِبُک اللَّہُ بِہَا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ۔
(١٨١٠٦) حضرت سعید مقبری (رض) کہتے ہیں کہ میں حضرت عبداللہ بن عمر (رض) کے پاس تھا کہ ایک آدمی آیا اور اس نے کہا کہ اے ابو عبد الرحمن ! میں نے اپنی بیوی کو سو طلاقیں دے دی ہیں، کیا حکم ہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ وہ تین طلاقوں سے بائنہ ہوگئی ہے اور ستانوے طلاقوں کا قیامت کے دن تجھے حساب دینا ہوگا۔

18106

(۱۸۱۰۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنْ شُرَیْحٍ : قَالَ : إنِّی طَلَّقْتہَا مِئَۃً ؟ قَالَ : بَانَتْ مِنْک بِثَلاَثٍ ، وَسَائِرُہُنَّ إسْرَافٌ وَمَعْصِیَۃٌ۔
(١٨١٠٧) حضرت شریح (رض) سے ایک آدمی نے کہا کہ اس نے اپنی بیوی کو سو طلاقیں دے دی ہیں۔ انھوں نے فرمایا کہ وہ تین طلاقوں سے بائنہ ہوگئی اور باقی اسراف اور معصیت ہیں۔

18107

(۱۸۱۰۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ الْفَضْلِ بْنِ دَلْہَمٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : جَائَ رَجُلٌ إلَی الْحَسَنِ ، فَقَالَ : إنِّی طَلَّقْت امْرَأَتِی أَلْفًا قَالَ : بَانَتْ مِنْک الْعَجُوزُ۔
(١٨١٠٨) حضرت حسن (رض) کے پاس ایک آدمی آیا اور اس نے کہا کہ میں نے اپنی بیوی کو ہزار طلاقیں دیں تو انھوں نے فرمایا کہ بڑھیا تجھ سے جدا ہوگئی۔

18108

(۱۸۱۰۹) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنِ الأَعْمَشِِ ، عَنْ حَبِیبٍ ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَہْلِ مَکَّۃَ ، قَالَ : جَائَ رَجُلٌ إلَی عَلِیٍّ فَقَالَ: إنِّی طَلَّقْت امْرَأَتِی أَلْفًا ؟ قَالَ : الثَّلاَثُ تُحَرِّمُہَا عَلَیْک ، وَاقْسِمْ سَائِرَہُنَّ بَیْنَ أَہْلِک۔
(١٨١٠٩) حضرت علی (رض) کے پاس ایک آدمی آیا اور اس نے کہا کہ میں نے اپنی بیوی کو ہزار طلاقیں دے دیں۔ انھوں نے فرمایا کہ تین طلاقوں نے اسے تجھ پر حرام کردیا اور باقی کو اپنی دوسری بیویوں میں تقسیم کردے۔

18109

(۱۸۱۱۰) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ ، عَنْ عَلْقَمَۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ قَالَ : أَتَاہُ رَجُلٌ فَقَالَ: إنَّہُ کَانَ بَیْنِی وَبَیْنَ امْرَأَتِی کَلاَمٌ ، فَطَلَّقْتُہَا عَدَدَ النُّجُومِ ، قَالَ : تَکَلَّمْتَ بِالطَّلاَقِ ؟ قَالَ : نَعَمْ ، قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللہِ : قَدْ بَیَّنَ اللَّہُ الطَّلاَقَ ، فَمَنْ أَخَذ بِہِ فَقَدْ بُیِّنَ لَہُ ، وَمَنْ لَبَّسَ عَلَی نَفْسِہِ جَعَلْنَا بِہِ لَبْسَہُ ، وَاللَّہِ لاَ تُلَبِّسُوا عَلَی أَنْفُسِکُمْ وَنَتَحَمَّلُہُ عَنْکُمْ ، ہُوَ کَمَا تَقُولُونَ ، ہُوَ کَمَا تَقُولُونَ۔
(١٨١١٠) حضرت عبداللہ (رض) کے پاس ایک آدمی آیا اور اس نے کہا کہ میری اور میری بیوی کے درمیان کچھ بات چیت بڑھ گئی اور میں نے اسے ستاروں کی تعداد کے برابر طلاق دے دی۔ انھوں نے فرمایا کہ کیا تم نے طلاق کا لفظ کہا تھا ؟ اس نے کہا کہ جی ہاں۔ حضرت عبداللہ (رض) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے طلاق کو واضح کرکے بیان کردیا ہے، جو اس سے استفادہ کرے تو اس کے لیے وضاحت ہوجاتی ہے اور جو اسے اپنے لیے مشکل بنالے ہم اس کے لیے مشکل بنادیتے ہیں۔ خدا کی قسم ! اپنے نفوس کو ایسی مشکل میں نہ ڈالو جسے تمہاری طرف سے ہمیں برداشت کرنا پڑے۔ معاملہ وہی ہے جو تم کہتے ہو، معاملہ وہی ہے جو تم کہتے ہو۔

18110

(۱۸۱۱۱) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ ، عَنْ شُرَیْحٍ ، قَالَ : لَوْ قَالَہَا لِنِسَائِ الْعَالَمِینَ بَعْدَ أَنْ یَمْلِکَہُنَّ ، کُنَّ عَلَیْہِ حَرَامًا۔
(١٨١١١) حضرت شریح (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کسی آدمی نے ساری دنیا کی عورت کا مالک بننے کے بعد انھیں کہا کہ تمہیں ستاروں کی تعداد کے برابر طلاق ہے تو سب حرام ہوجائیں گی۔

18111

(۱۸۱۱۲) حدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ بْنُ إبْرَاہِیمَ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنْ عَمْرٍو ؛ سُئِلَ ابْنُ عَبَّاسٍ عَنْ رَجُلٍ طَلَّقَ امْرَأَتَہُ عَدَدَ النُّجُومِ ؟ فَقَالَ : یَکْفِیہِ مِنْ ذَلِکَ رَأْسُ الْجَوْزَائِ۔
(١٨١١٢) حضرت ابن عباس (رض) سے سوال کیا گیا کہ ایک آدمی نے اپنی بیوی کو ستاروں کی تعداد کے برابر طلاق دے دی تو کیا حکم ہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ اس کے لیے جوزاء ستارے کا سرا ہی کافی ہے۔

18112

(۱۸۱۱۳) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِیزِ بْنُ عَبْدِ الصَّمَدِ الْعَمِّیِّ ، عَنْ عَامِرٍ الأَحْوَلِ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ جَدِّہِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لاَ طَلاَقَ إلاَّ بَعْدَ نِکَاحٍ۔ (ترمذی ۱۱۸۱۔ احمد ۲/۲۰۷)
(١٨١١٣) حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ طلاق نکاح کے بعد ہی ہوتی ہے۔

18113

(۱۸۱۱۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْکَدِرِ ، عَمَّنْ سَمِعَ طَاوُوسًا یَقُولُ : قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لاَ طَلاَقَ إلاَّ بَعْدَ نِکَاحٍ ، وَلاَ عِتْقَ قَبْلَ مِلْکٍ۔ (عبدالرزاق ۱۱۴۵۵)
(١٨١١٤) حضرت طاؤس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ طلاق نکاح کے بعد اور آزادی ملکیت کے بعد ہوتی ہے۔

18114

(۱۸۱۱۵) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ مَیْسَرَۃَ ، عنِ النَّزَّالِ ، عَنْ عَلِیٍّ ، قَالَ : لاَ طَلاَقَ إلاَّ مِنْ بَعْدِ النِّکَاحِ۔ (ابوداؤد ۲۸۶۵۔ عبدالرزاق ۱۱۴۵)
(١٨١١٥) حضرت علی (رض) فرماتے ہیں کہ طلاق نکاح کے بعد ہی ہوتی ہے۔

18115

(۱۸۱۱۶) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَطَائٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : لاَ طَلاَقَ إلاَّ بَعْدَ نِکَاحِ ، وَلاَ عِتْقَ إلاَّ بَعْدَ مِلْکِ۔
(١٨١١٦) حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ طلاق نکاح کے بعد ہی ہوتی ہے اور آزادی ملکیت کے بعد ہوتی ہے۔

18116

(۱۸۱۱۷) حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ خَالِدٍ ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ عُرْوَۃَ ، عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ : لاَ طَلاَقَ إلاَّ بَعْدَ نِکَاحٍ۔ وَقَالَ الزُّہْرِیُّ : إذَا وَقَعَ النِّکَاحُ وَقَعَ الطَّلاَقُ۔ (حاکم ۴۱۹)
(١٨١١٧) حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ طلاق نکاح کے بعد ہی ہوتی ہے۔
حضرت زہری (رض) فرماتے ہیں کہ جب نکاح ہوگا تبھی طلاق ہوگی۔

18117

(۱۸۱۱۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا حَسَنُ بْنُ صَالِحٍ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : مَا أُبَالِی تَزَوَّجْتُہَا ، أَوْ وَضَعْتُ یَدِی عَلَی ہَذِہِ السَّارِیَۃِ ، یَعْنِی أَنَّہَا حَلاَلٌ۔
(١٨١١٨) حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ مجھے اس بات کی کوئی پروا نہیں کہ میں عورت سے شادی کروں یا اپنا ہاتھ اس ستون پر رکھوں، یعنی یہ حلال ہے۔

18118

(۱۸۱۱۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا ابْنُ أَبِی ذِئْبٍ ، عَنْ عَطَائٍ ، وَعَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْکَدِرِ ، عَنْ جَابِرٍ ، رَفََعَہُ ؛ قَالَ : لاَ طَلاَقَ قَبْلَ نِکَاحٍ۔ (بیہقی ۳۱۹)
(١٨١١٩) حضرت جابر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ نکاح سے پہلے طلاق نہیں ہوتی۔

18119

(۱۸۱۲۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ عَبْدِ الأَعْلَی ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ؛ أَنَّ مَرْوَانَ سَأَلَ عَنْہَا ابْنَ عَبَّاسٍ ؟ فَقَالَ : لاَ طَلاَقَ قَبْلَ نِکَاحٍ ، وَلاَ عِتْقَ قَبْلَ مِلْکٍ۔
(١٨١٢٠) حضرت سعید بن جبیر (رض) فرماتے ہیں کہ مروان نے اس بارے میں حضرت ابن عباس (رض) سے سوال کیا تو انھوں نے فرمایا کہ نکاح سے پہلے طلاق اور ملکیت سے پہلے آزادی نہیں ہوتی۔

18120

(۱۸۱۲۱) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ؛ فِی رَجُلٍ قَالَ : یَوْمَ أَتَزَوَّجُ فُلاَنَۃً ، فَہِیَ طَالِقٌ ، قَالَ : لَیْسَ بِشَیْئٍ۔
(١٨١٢١) حضرت سعید بن مسیب (رض) سے سوال کیا گیا کہ اگر کوئی شخص کہے کہ جس دن میں فلاں عورت سے شادی کروں تو اسے طلاق ہے، اس کا کیا حکم ہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ یہ کوئی چیز نہیں۔

18121

(۱۸۱۲۲) حدَّثَنَا خَلَفُ بْنُ خَلِیفَۃَ ، قَالَ : سَأَلْتُ مَنْصُورًا عَنِ الرَّجُلِ تُذْکَرُ لَہُ الْمَرْأَۃُ ، فَیَقُولُ : یَوْمَ أَتَزَوَّجُہَا فَہِیَ طَالِقٌ ؟ قَالَ : کَانَ الْحَسَنُ لاَ یَرَاہُ طَلاَقًا۔
(١٨١٢٢) حضرت خلف بن خلیفہ (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے منصور (رض) سے سوال کیا کہ اگر آدمی کسی عورت کا تذکرہ کرتے ہوئے کہے کہ جس دن میں اس سے شادی کروں اسے طلاق ہے تو اس کا کیا حکم ہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ حضرت حسن (رض) اسے کوئی چیز نہیں سمجھتے تھے۔

18122

(۱۸۱۲۳) حَدَّثَنَا مُعْتَمِرُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ ؛ أَنَّہُ کَانَ لاَ یَرَی بَأْسًا أَنْ یَتَزَوَّجَ الَّتِی یَقُولَ : یَوْمَ أَتَزَوَّجُہَا فَہِیَ طَالِقٌ۔
(١٨١٢٣) حضرت حسن (رض) اس بات کو کوئی اہمیت نہ دیتے تھے کہ آدمی یہ کہے کہ جس دن فلاں عورت سے میری شادی ہو اسے طلاق ہوجائے گی۔

18123

(۱۸۱۲۴) حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ عَطَائٍ ، وَطَاوُوسٍ ؛ مِثْلَہُ۔
(١٨١٢٤) حضرت عطاء اور حضرت طاؤس (رض) سے بھی یونہی منقول ہے۔

18124

(۱۸۱۲۵) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ أَبِی سُلَیْمَانَ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ؛ فِی الرَّجُلِ یَقُولُ : یَوْمَ أَتَزَوَّجُ فُلاَنَۃً فَہِیَ طَالِقٌ ، قَالَ : لَیْسَ بِشَیْئٍ ، إنَّمَا الطَّلاَقُ بَعْدَ النِّکَاحِ۔
(١٨١٢٥) حضرت سعید بن جبیر (رض) سے سوال کیا گیا کہ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ جس دن میں فلاں عورت سے شادی کروں تو اسے طلاق ہے ، اس کا کیا حکم ہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ یہ کوئی چیز نہیں، طلاق نکاح کے بعد ہوتی ہے۔

18125

(۱۸۱۲۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، عَنْ مُعَرِّفِ بْنِ وَاصِلٍ، عَنْ حَبِیبِ بْنِ أَبِی ثَابِتٍ؛ أَنَّ عَلِیَّ بْنَ حُسَیْنٍ قَالَ: لاَ طَلاَقَ قَبْلَ نِکَاحٍ۔
(١٨١٢٦) حضرت علی بن حسین (رض) فرماتے ہیں کہ نکاح سے پہلے طلاق نہیں ہوتی۔

18126

(۱۸۱۲۷) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنِ الْحَکَمِ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ حُسَیْنٍ ؛ أَنَّہُ قَالَ : لاَ طَلاَقَ إلاَّ بَعْدَ نِکَاحٍ۔
(١٨١٢٧) حضرت علی بن حسین (رض) فرماتے ہیں کہ طلاق نکاح کے بعد ہوتی ہے۔

18127

(۱۸۱۲۸) حَدَّثَنَا الثَّقَفِیُّ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنِی عَبْدُ اللہِ بْنُ رِفَاعَۃَ الأَنْصَارِیُّ ، أَنَّہُ ذَکَرَ لِسَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ أَنَّ رَجُلاً مِنَ الأَنْصَارِ ، قِیلَ لَہُ : ذُکِرَ لَنَا أَنَّک تَخْطُبُ فُلاَنَۃً ، امْرَأَۃً سَمَّوْہَا ، فَقَالَ الأَنْصَارِیُّ : ہِیَ طَالِقٌ إِنْ تَزَوَّجَہَا ، فَزَعَمَ عَبْدُ اللہِ أَنَّہُ سَأَلَ سَعِیدًا ؟ فَقَالَ : أَمَّا أَنَا فَلاَ أَرَاہُ شَیْئًا ، قَالَ یَحْیَی : وَبَلَغَنِی أَنَّ عُرْوَۃَ کَانَ یَقُولُ فِی ذَلِکَ مِثْلَ قَوْلِ سَعِیدٍ۔
(١٨١٢٨) حضرت سعید بن مسیب (رض) کے سامنے تذکرہ کیا گیا کہ ایک انصاری سے کسی نے کہا کہ ہم نے سنا ہے کہ تم فلاں عورت کو پیام نکاح بھجوا رہے ہو ؟ ان انصاری نے کہا کہ اگر میں اس سے شادی کروں تو اسے طلاق ہے۔ حضرت سعید (رض) نے فرمایا کہ میرے خیال میں تو اس بات کی کوئی اہمیت نہیں۔ حضرت یحییٰ (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عروہ (رض) بھی اسی بات کے قائل تھے۔

18128

(۱۸۱۲۹) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، وَوَکِیعٌ ، قَالاَ : حدَّثَنَا شُعْبَۃُ ، عَنْ أَبِی بِشْرٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ عَنْ شُرَیْحٍ ؛ قَالَ : لاَ طَلاَقَ إلاَّ بَعْدَ نِکَاحٍ۔
(١٨١٢٩) حضرت شریح (رض) فرماتے ہیں کہ طلاق نکاح کے بعد ہی ہوتی ہے۔

18129

(۱۸۱۳۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ مُعَرِّفٍ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنْ طَاوُوسٍ ؛ أَنَّہُ قَالَ : لاَ طَلاَقَ قَبْلَ نِکَاحٍ ، قَالَ : وَسَأَلْتُ الْقَاسِمَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ؟ فَقَالَ : لَیْسَ بِشَیْئٍ۔
(١٨١٣٠) حضرت طاوس (رض) فرماتے ہیں کہ نکاح سے پہلے طلاق نہیں ہوتی ` میں نے اس بارے میں قاسم بن عبدالرحمن سے سوال کیا تو انھوں نے فرمایا کہ یہ کچھ نہیں۔

18130

(۱۸۱۳۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ مُعَرِّفِ بْنِ وَاصِلٍ ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ رَوَاحٍ الضَّبِّیِّ ، قَالَ : سَأَلْتُ سَعِیدَ بْنَ الْمُسَیَّبِ، وَمُجَاہِدًا ، وَعَطَائً عَنْ رَجُلٍ قَالَ : یَوْمَ أَتَزَوَّجُ فُلاَنَۃً فَہِیَ طَالِقٌ ؟ فَقَالُوا : لَیْسَ بِشَیْئٍ ، قَالَ : وَقَالَ سَعِیدٌ : أَیَکُونُ سَیْلٌ قَبْلَ مَطَرٍ ؟۔
(١٨١٣١) حضرت حسن بن رواح ضبی (رض) کہتے ہیں کہ میں نے حضرت سعید بن مسیب، حضرت مجاہد اور حضرت عطاء (رض) سے سوال کیا کہ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ میں جس دن فلاں عورت سے شادی کروں تو اسے طلاق ہے، اس بات کا کیا حکم ہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ یہ کوئی چیز نہیں۔ حضرت سعید (رض) نے مثال سے بات سمجھاتے ہوئے فرمایا کہ کیا سیلاب بارش سے پہلے آسکتا ہے۔

18131

(۱۸۱۳۲) حَدَّثَنَا قَبِیصَۃُ ، قَالَ : حدَّثَنَا یُونُسُ بْنُ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ آدَمَ ، مَوْلَی خَالِدٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ، قَالَ : قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ : قَالَ اللَّہُ تَعَالَی {یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا إذَا نَکَحْتُمُ الْمُؤْمِنَاتِ ثُمَّ طَلَّقْتُمُوہُنَّ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَمَسُّوہُنَّ} ، فَلاَ یَکُونُ طَلاَقٌ حَتَّی یَکُونَ نِکَاحٌ۔ (سعید بن منصور ۱۰۲۸)
(١٨١٣٢) حضرت عبداللہ بن عباس (رض) قرآن مجید کی آیت { یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا إذَا نَکَحْتُمُ الْمُؤْمِنَاتِ ثُمَّ طَلَّقْتُمُوہُنَّ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَمَسُّوہُنَّ } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ طلاق اس وقت تک نہیں ہوسکتی جب تک نکاح نہ ہو۔

18132

(۱۸۱۳۳) حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ، عَنْ أُسَامَۃَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ کَعْبٍ، وَنَافِعِ بْنِ جُبَیْرٍ، قَالاَ: لاَ طَلاَقَ إلاَّ بَعْدَ نِکَاحٍ۔
(١٨١٣٣) حضرت محمد بن کعب اور حضرت نافع بن جبیر (رض) فرماتے ہیں کہ طلاق نکاح کے بعد ہی ہوتی ہے۔

18133

(۱۸۱۳۴) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، وَأَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ، قَالَ : کَانَ سَالِمٌ ، وَقَاسِمٌ ، وَعُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیزِ ؛ یَرَوْنَہُ جَائِزًا عَلَیْہِ۔
(١٨١٣٤) حضرت سالم، حضرت قاسم اور حضرت عمر بن عبدالعزیز (رض) اس طلاق کو جائز سمجھتے تھے۔

18134

(۱۸۱۳۵) حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، قَالَ : یُکَفُّ عَنْہَا۔
(١٨١٣٥) حضرت مجاہد (رض) فرماتے ہیں کہ اس عورت سے دور رہے۔

18135

(۱۸۱۳۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ (ح) وَعَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالاَ : إذَا وَقَّتَ وَقَعَ۔
(١٨١٣٦) حضرت شعبی (رض) اور حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ جب طلاق کو کسی وقت کے ساتھ خاص کردیا تو طلاق واقع ہوجائے گی۔

18136

(۱۸۱۳۷) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ مُطَرِّفٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ؛ أَنَّہُ سُئِلَ عَنْ رَجُلٍ قَالَ لامْرَأَتِہِ : کُلُّ امْرَأَۃٍ أَتَزَوَّجُہَا عَلَیْک فَہِیَ طَالِقٌ ، قَالَ : فَکُلُّ امْرَأَۃٍ یَتَزَوَّجُہَا عَلَیْہَا ، فَہِیَ طَالِقٌ۔
(١٨١٣٧) حضرت شعبی (رض) سے سوال کیا گیا کہ اگر کسی آدمی نے اپنی بیوی سے کہا کہ میں تیرے ہوئے جس عورت سے بھی شادی کروں اسے طلاق ہے، تو اس کا کیا حکم ہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ وہ اس بیوی کے ہوتے ہوئے جس عورت سے بھی شادی کرے گا اسے طلاق ہوجائے گی۔

18137

(۱۸۱۳۸) حَدَّثَنَا کَثِیرُ بْنُ ہِشَامٍ ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ بُرْقَانَ ، عَنْ حَبِیبِ بْنِ أَبِی مَرْزُوقٍ ، عَنْ عَطَائٍ قَالَ : إذَا الرَّجُلُ شَرَطَ لِلْمَرْأَۃِ عِنْدَ عَقْدِ النِّکَاحِ أَنَّ کُلَّ امْرَأَۃٍ یَتَزَوَّجُہَا عَلَیْہَا فَہِیَ طَالِقٌ ، وَکُلَّ سُرِّیَّۃٍ یَتَسَرَّی فَہِیَ حُرَّۃٌ ، جَازَ عَلَیْہِ۔
(١٨١٣٨) حضرت عطائ (رض) فرماتے ہیں کہ اگر ایک آدمی نے کسی عورت سے نکاح کرتے ہوئے یہ شرط لگائی کہ آدمی نے اس عورت کے ہوتے ہوئے کسی عورت سے شادی کی تو اسے طلاق اور اگر کوئی باندی اس کے پاس آئی تو وہ آزاد تو یہ شرط درست ہوگی۔

18138

(۱۸۱۳۹) حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ خَالِدٍ ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ سَعْدٍ ، قَالَ : قَالَ الزُّہْرِیُّ : إِذَا وَقَعَ النِّکَاحُ وَقَعَ الطَّلاَقُ۔
(١٨١٣٩) حضرت حضرت زہری (رض) فرماتے ہیں کہ جب نکاح واقع ہوگا تو طلاق بھی واقع ہوجائے گی۔

18139

(۱۸۱۴۰) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ حَمَّادٍ ؛ فِی رَجُلٍ قَالَ لامْرَأَتِہِ : کُلُّ امْرَأَۃٍ أَتَزَوَّجُہَا عَلَیْک فَہِیَ طَالِقٌ ، قَالَ : ہَذَا وَقْتٌ ہُوَ دَاخِلٌ عَلَیْہِ۔
(١٨١٤٠) حضرت حماد (رض) فرماتے ہیں کہ اگر ایک آدمی نے اپنی بیوی سے کہا کہ تیرے ہوتے ہوئے اگر میں نے کسی عورت سے شادی کی تو اسے طلاق ہے تو جب بھی یہ کسی سے نکاح کرے گا اسے طلاق ہوجائے گی۔

18140

(۱۸۱۴۱) حدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ حَنْظَلَۃَ قَالَ : سُئِلَ الْقَاسِمُ ، وَسَالِمٌ عَنْ رَجُلٍ قَالَ : یَوْمَ أَتَزَوَّجُ فُلاَنَۃً فَہِیَ طَالِقٌ ؟ قَالاَ : ہِیَ کَمَا قَالَ۔
(١٨١٤١) حضرت قاسم (رض) اور حضرت سالم (رض) سے سوال کیا گیا اگر کوئی آدمی یہ کہے کہ میں جس دن فلانی عورت سے شادی کروں اسے طلاق ہے تو اس کا کیا حکم ہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ جو اس نے کہا ہے اسی طرح ہوگا۔

18141

(۱۸۱۴۲) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ ، قَالَ : سَأَلْتُ الْقَاسِمَ عَنْ رَجُلٍ قَالَ : یَوْمَ أَتَزَوَّجُ فُلاَنَۃً فَہِیَ طَالِقٌ ؟ قَالَ : ہِیَ طَالِقٌ ، سُئِلَ عُمَرُ عَنْ رَجُلٍ قَالَ : یَوْمَ أَتَزَوَّجُ فُلاَنَۃً فَہِیَ عَلَیَّ کَظَہْرِ أُمِّی ؟ قَالَ : لاَ یَتَزَوَّجُہَا حَتَّی یُکَفِّرَ۔
(١٨١٤٢) حضرت عبید اللہ بن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت قاسم (رض) سے اس آدمی کے بارے میں سوال کیا جس نے کہا کہ جس دن میں فلانی عورت سے شادی کروں اسے طلاق ہے تو اس کا کیا حکم ہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ جب وہ اس سے شادی کرے گا اسے طلاق ہوجائے گی۔ حضرت عمر (رض) سے سوال کیا گیا کہ اگر کوئی آدمی کسی عورت کے بارے میں یہ کہے کہ جس دن میں فلاں عورت سے شادی کروں اس دن وہ میرے لیے میری ماں کی پشت کی طرح ہے تو اس کا کیا حکم ہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ وہ کفارہ دینے سے پہلے اس سے نکاح نہیں کرسکتا۔

18142

(۱۸۱۴۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ قَیْسٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، عَنِ الأَسْوَدِ ؛ أَنَّہُ وَقَّتَ امْرَأَۃً إِنْ تَزَوَّجَہَا ، فَسَأَلَ ابْنَ مَسْعُودٍ ؟ فَقَالَ : أَعْلِمْہَا الطَّلاَقَ ثُمَّ تَزَوَّجْہَا۔
(١٨١٤٣) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ حضرت اسود (رض) نے ایک عورت کو کہا کہ اگر وہ اس سے شادی کریں تو اسے طلاق ہے پھر اس بارے میں انھوں نے حضرت ابن مسعود (رض) سے سوال کیا تو انھوں نے فرمایا کہ اسے پہلے طلاق کا بتادو پھر اس سے شادی کرو۔

18143

(۱۸۱۴۴) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ حَمْزَۃَ ؛ أَنَّہُ سَأَلَ سَالِمًا ، وَالْقَاسِمَ ، وَأَبَا بَکْرِ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، وَأَبَا بَکْرِ بْنَ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ ، وَعَبْدَ اللہِ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ رَجُلٍ قَالَ : یَوْمَ أَتَزَوَّجُ فُلاَنَۃً فَہِیَ طَالِقٌ اَلْبَتَّۃَ ؟ فَقَالُوا کُلُّہُمْ : لاَ یَتَزَوَّجُہَا۔
(١٨١٤٤) حضرت عمر بن حمزہ (رض) کہتے ہیں کہ انھوں نے حضرت قاسم، حضرت ابوبکر بن عبد الرحمن اور حضرت ابوبکر بن عمرو (رض) سے اس آدمی کے بارے میں سوال کیا جس نے کہا کہ میں جس دن فلاں عورت سے شادی کروں اسے طلاق ہے تو اس کا کیا حکم ہے ؟ ان سب نے فرمایا کہ وہ اس سے شادی نہ کرے۔

18144

(۱۸۱۴۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ رَجُل ، عَنْ شُرَیْحٍ ؛ أَنَّ رَجُلاً سَأَلَہُ عَنْ رَجُلٍ قَالَ : یَوْمَ أَتَزَوَّجُ فُلاَنَۃً فَہِیَ طَالِقٌ ؟ فَقَالَ شُرَیْحٌ : إذَا سَمِعْتَ بَوَادِیَ النِّوْکَاء حُلَّ بِہ ، یَعْنِی أَنَّہَا طَالِقٌ۔
(١٨١٤٥) حضرت شریح (رض) سے ایک آدمی نے سوال کیا کہ ایک آدمی نے کہا کہ میں جس دن فلاں عورت سے شادی کروں اسے طلاق ہے تو اس کا کیا حکم ہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ جب وہ اس سے شادی کرے گا اسے طلاق ہوجائے گی۔

18145

(۱۸۱۴۶) حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ سُوَیْد بْنِ نَجِیحٍ الْکِنْدِیِّ ، قَالَ : سَأَلْتُ الشَّعْبِیَّ عَنْ رَجُلٍ قَالَ : إِنْ تَزَوَّجْتُ فُلاَنَۃً فَہِیَ طَالِقٌ ، أَوْ یَوْمَ أَتَزَوَّجُ فُلاَنَۃً فَہِیَ طَالِقٌ ؟ قَالَ الشَّعْبِیُّ : ہُوَ کَمَا قَالَ ، فَقُلْتُ : إنَّ عِکْرِمَۃَ یَزْعُمُ أَنَّ الطَّلاَقَ بَعْدَ النِّکَاحِ ، فَقَالَ : جَرْمِزٌ مولی ابن عباس۔
(١٨١٤٦) حضرت سوید بن نجیح (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت شعبی (رض) سے ایک آدمی کے بارے میں سوال کیا کہ اس نے کہا کہ اگر میں فلانی عورت سے شادی کروں تو اسے طلاق ہے ، اس کا کیا حکم ہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ جیسے اس نے کہا ہے ایسے ہی ہوگا۔ میں نے کہا کہ حضرت عکرمہ (رض) فرماتے ہیں کہ طلاق نکاح کے بعد ہوتی ہے۔ انھوں نے فرمایا کہ جرمز ابن عباس کے مولیٰ ہیں۔

18146

(۱۸۱۴۷) حَدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ قُدَامَۃَ ، قَالَ : قُلْتُ لِسَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللہِ : رَجُلٌ قَالَ : کُلُّ امْرَأَۃٍ یَتَزَوَّجُہَا فَہِیَ طَالِقٌ ، وَکُلُّ جَارِیَۃٍ یَشْتَرِیہَا فَہِیَ حُرَّۃٌ ، فَقَالَ : أَمَّا أَنَا فَلَوْ کُنْتُ لَمْ أَنْکِحْ وَلَمْ أَتَسَرَّ۔
(١٨١٤٧) حضرت عبداللہ (رض) سے سوال کیا گیا کہ اگر ایک آدمی یہ کہے کہ میں اگر کسی عورت سے شادی کروں تو اسے طلاق ہے اور اگر کوئی باندی خریدوں تو وہ آزاد ہے، اس کا کیا حکم ہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ اگر میں اس کی جگہ ہوتا تو نہ شادی کرتا اور نہ کوئی باندی خریدتا۔

18147

(۱۸۱۴۸) حدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ (ح) وَعَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالاَ : إذَا قَالَ کُلُّ فَلَیْسَ بِشَیْئٍ۔
(١٨١٤٨) حضرت شعبی (رض) اور حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ یہ کوئی چیز نہیں۔

18148

(۱۸۱۴۹) حَدَّثَنَا عِیسَی بْنُ یُونُسَ ، عَنِ الأَوْزَاعِیِّ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، وَمَکْحُولٍ ؛ فِی الرَّجُلِ یَقُولُ : کُلُّ امْرَأَۃٍ أَتَزَوَّجُہَا فَہِیَ طَالِقٌ ، أَنَّہُمَا کَانَا یُوجِبَانِ ذَلِکَ عَلَیْہِ۔
(١٨١٤٩) حضرت زہری (رض) اور حضرت مکحول (رض) سے اس بارے میں منقول ہے کہ اگر کوئی شخص یہ کہتا تھا کہ جس عورت سے میں شادی کروں تو اسے طلاق ہے وہ اس بات کو لازم قرار دیتے تھے۔

18149

(۱۸۱۵۰) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، قَالَ : حدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِکِ بْنُ أَبِی سُلَیْمَانَ ، قَالَ : سَأَلْتُ سَعِیدَ بْنَ جُبَیْرٍ عَنِ الرَّجُلِ یَقُولُ : کُلُّ امْرَأَۃٍ أَتَزَوَّجُہَا فَہِیَ طَالِقٌ ؟ قَالَ : کَیْفَ تُطَلِّقُ مَا لاَ تَمْلِکُ ؟ إنَّمَا الطَّلاَقُ بَعْدَ النِّکَاحِ۔
(١٨١٥٠) حضرت عبد الملک بن سلیمان (رض) کہتے ہیں کہ میں نے حضرت سعید بن جبیر (رض) سے سوال کیا کہ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ میں جس عورت سے شادی کروں اسے طلاق ہے تو اس کا کیا حکم ہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ جس کے تم مالک نہیں اسے طلاق کیسے دے سکتے ہو ؟ طلاق تو نکاح کے بعد ہوتی ہے۔

18150

(۱۸۱۵۱) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ، عَنْ مُطَرِّفٍ، عَنِ الْحَکَمِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَابْنِ مَسْعُودٍ، قَالاَ: فِی رَجُلٍ طَلَّقَ امْرَأَتَہُ ثَلاَثًا قَبْلَ أَنْ یَدْخُلَ بِہَا ، لاَ تَحِلُّ لَہُ حَتَّی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَہُ۔
(١٨١٥١) حضرت ابن عباس اور حضرت ابن مسعود (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو دخول سے پہلے تین طلاقیں دے دے تو وہ اس کے لیے اس وقت تک حلال نہیں جب تک کس دوسرے خاوند سے نکاح نہ کرلے۔

18151

(۱۸۱۵۲) حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إسْمَاعِیلَ ، عَنْ جَعْفَرٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ عَلِیٍّ قَالَ : إذَا طَلَّقَ الْبِکْرَ وَاحِدَۃً فَقَدْ بَتَّہَا ، وَإِذَا طَلَّقَہَا ثَلاَثًا لَمْ تَحِلَّ لَہُ حَتَّی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَہُ۔
(١٨١٥٢) حضرت علی (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کسی آدمی نے باکرہ کو ایک طلاق دی تو وہ بائنہ ہوجائے گی اور اگر وہ اسے دخول سے پہلے تین طلاقیں دے دے تو وہ اس کے لیے اس وقت تک حلال نہیں جب تک کس دوسرے خاوند سے نکاح نہ کرلے۔

18152

(۱۸۱۵۳) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ، عَنْ بُکَیْرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ الأَشَجِّ ، عَنْ عَطَائِ بْنِ یَسَارٍ ، قَالَ : کُنْتُ جَالِسًا عِنْدَ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو ، فَسَأَلَہُ رَجُلٌ عَنْ رَجُلٍ طَلَّقَ امْرَأَتَہُ بِکْرًا ثَلاَثًا ؟ قَالَ عَطَائٌ : فَقُلْتُ : ثَلاَثٌ فِی الْبِکْرِ وَاحِدَۃٌ ، وَقَالَ عَبْدُ اللہِ بْنُ عَمْرٍو : مَا یُدْرِیْکَ ؟ إنَّمَا أَنْتَ قَاصٍّ وَلَسْتَ بِمُفْتٍ ، الْوَاحِدَۃُ تُبَینُہَا وَالثَّلاَثُ تُحَرِّمُہَا حَتَّی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَہُ۔
(١٨١٥٣) حضرت عطائ (رض) فرماتے ہیں کہ میں حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) کے پاس بیٹھا تھا ان سے ایک آدمی نے سوال کیا کہ اگر کوئی شخص اپنی باکرہ بیوی کو تین طلاقیں دے دے تو اس کا کیا حکم ہے ؟ حضرت عطائ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے کہا کہ باکرہ کو تین کا کیا مطلب، اس کے لیے تو ایک ہی کافی ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) نے فرمایا کہ تمہیں کیا معلوم، تم قاضی ہو مفتی نہیں، ایک طلاق اسے بائنہ بنادے گی اور تین طلاقیں اسے حرام کردیں گی یہاں تک کہ وہ کسی دوسرے شخص سے شادی کرے۔

18153

(۱۸۱۵۴) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ، عَنْ بُکَیْرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ الأَشَجِّ ، عَنْ رَجُلٍ مِنَ الأَنْصَارِ یُقَالُ لَہُ : مُعَاوِیَۃُ ؛ أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ ، وَأَبَا ہُرَیْرَۃَ ، وَعَائِشَۃَ قَالُوا : لاَ تَحِلُّ لَہُ حَتَّی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَہُ۔
(١٨١٥٤) حضرت ابن عباس، حضرت ابوہریرہ اور حضرت عائشہ (رض) فرماتے ہیں کہ اگر بیوی کو دخول سے پہلے تین طلاقیں دے دے تو وہ اس کے لیے اس وقت تک حلال نہیں جب تک کسی دوسرے خاوند سے نکاح نہ کرلے۔

18154

(۱۸۱۵۵) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ الثَّقَفِیُّ ، عَنْ خَالِدٍ ، عَنِ الْحَکَمِ ، عَنْ أَبِی سَعِیدٍ ؛ فِی الَّذِی یُطَلِّقُ امْرَأَتَہُ ثَلاَثًا قَبْلَ أَنْ یَدْخُلَ بِہَا ، فَقَالَ : لاَ تَحِلُّ لَہُ حَتَّی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَہُ۔
(١٨١٥٥) حضرت ابو سعیدخدری (رض) فرماتے ہیں کہ اگر بیوی کو دخول سے پہلے تین طلاقیں دے دے تو وہ اس کے لیے اس وقت تک حلال نہیں جب تک کسی دوسرے خاوند سے نکاح نہ کرلے۔

18155

(۱۸۱۵۶) حدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ ، عَنْ جَابِرٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ أُمَّ سَلَمَۃَ سُئِلَتْ عَنْ رَجُلٍ طَلَّقَ امْرَأَتَہُ ثَلاَثًا قَبْلَ أَنْ یَدْخُلَ بِہَا ؟ فَقَالَتْ : لاَ تَحِلُّ لَہُ حَتَّی یَطَأَہَا غَیْرَہُ۔
(١٨١٥٦) حضرت ام سلمہ (رض) سے سوال کیا گیا کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو دخول سے پہلے تین طلاقیں دیدے تو کیا حکم ہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ جب تک دوسرا خاوند اس سے شادی کرکے ملاقات نہ کرلے یہ پہلے کے لیے حلال نہیں۔

18156

(۱۸۱۵۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ زِرٍّ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : إذَا طَلَّقَہَا ثَلاَثًا قَبْلَ أَنْ یَدْخُلَ بِہَا، فَہِیَ بِمَنْزِلَۃِ الْمَدْخُولِ بِہَا۔
(١٨١٥٧) حضرت عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ جب بیوی کو دخول سے پہلے تین طلاقیں دے دیں تو وہ اس عورت کے درجہ میں ہے جس سے دخول کیا ہو۔

18157

(۱۸۱۵۸) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ أَبِی وَائِلٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ؛ بِمِثْلِہِ۔
(١٨١٥٨) ایک اور سند سے یونہی منقول ہے۔

18158

(۱۸۱۵۹) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، قَالَ : حدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ بْنُ عُمَرَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمْر ۔(ح) وَعَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إیَاسِ بْنِ بُکَیْر ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، وَابْنِ عَبَّاسٍ ، وَعَائِشَۃَ ؛ فِی الرَّجُلِ یُطَلِّقُ امْرَأَتَہُ ثَلاَثًا قَبْلَ أَنْ یَدْخُلَ بِہَا ، قَالُوا: لاَ تَحِلُّ لَہُ حَتَّی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَہُ۔
(١٨١٥٩) حضرت ابن عباس، حضرت ابوہریرہ اور حضرت عائشہ (رض) فرماتے ہیں کہ اگر بیوی کو دخول سے پہلے تین طلاقیں دے دے تو وہ اس کے لیے اس وقت تک حلال نہیں جب تک کسی دوسرے خاوند سے نکاح نہ کرلے۔

18159

(۱۸۱۶۰) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنِ ابْنِ مَعقلٍ ؛ فِی رَجُلٍ یُطَلِّقُ امْرَأَتَہُ ثَلاَثًا قَبْلَ أَنْ یَدْخُلَ بِہَا ، قَالَ : لاَ تَحِلُّ لَہُ حَتَّی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَہُ۔
(١٨١٦٠) حضرت معقل (رض) فرماتے ہیں کہ اگر بیوی کو دخول سے پہلے تین طلاقیں دے دے تو وہ اس کے لیے اس وقت تک حلال نہیں جب تک کسی دوسرے خاوند سے نکاح نہ کرلے۔

18160

(۱۸۱۶۱) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ؛ فِی الرَّجُلِ یَتَزَوَّجُ الْمَرْأَۃَ فَیُطَلِّقُہَا ثَلاَثًا قَبْلَ أَنْ یَدْخُلَ بِہَا ، قَالَ : إِنْ قَالَ طَالِقٌ ثَلاَثًا ، کَلِمَۃً وَاحِدَۃً ، لَمْ تَحِلَّ لَہُ حَتَّی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَہُ ، وَإِذَا طَلَّقَہَا ثَلاَثًا طَلاَقًا مُتَّصِلاً فَہُوَ کَذَلِکَ۔
(١٨١٦١) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص نکاح کے بعد دخول سے پہلے عورت کو تین طلاقیں دے دے تو اگر اس نے ایک ہی لفظ میں تین طلاقیں دی ہیں تو یہ عورت اس کے لیے اس وقت تک حلال نہیں جب تک وہ کسی دوسرے آدمی سے شادی نہ کرلے اور اگر الگ الگ دی ہیں تب بھی یہی حکم ہے۔

18161

(۱۸۱۶۲) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ حُصَیْنٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : إذَا طَلَّقَہَا ثَلاَثًا قَبْلَ أَنْ یَدْخُلَ بِہَا ، لَمْ تَحِلَّ لَہُ حَتَّی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَہُ۔
(١٨١٦٢) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ آدمی اگر بیوی کو دخول سے پہلے تین طلاقیں دے دے تو وہ اس کے لیے اس وقت تک حلال نہیں جب تک کسی دوسرے شخص سے نکاح نہ کرلے۔

18162

(۱۸۱۶۳) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ؛ فِی الرَّجُلِ یُطَلِّقُ امْرَأَتَہُ ثَلاَثًا قَبْلَ أَنْ یَدْخُلَ بِہَا ، قَالَ : لاَ تَحِلُّ لَہُ حَتَّی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَہُ۔
(١٨١٦٣) حضرت شعبی (رض) فرماتے ہیں کہ آدمی اگر بیوی کو دخول سے پہلے تین طلاقیں دے دے تو وہ اس کے لیے اس وقت تک حلال نہیں جب تک کسی دوسرے شخص سے نکاح نہ کرلے۔

18163

(۱۸۱۶۴) حَدَّثَنَا الثَّقَفِیُّ ، عَنْ خَالِدٍ ، عَنْ مُحَمَّدٍ ، قَالَ : لاَ تَحِلُّ لَہُ حَتَّی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَہُ۔
(١٨١٦٤) حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں کہ آدمی اگر بیوی کو دخول سے پہلے تین طلاقیں دے دے تو وہ اس کے لیے اس وقت تک حلال نہیں جب تک کسی دوسرے شخص سے نکاح نہ کرلے۔

18164

(۱۸۱۶۵) حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ وَرْدَانَ ، عَنْ بُرْد ، عَنْ مَکْحُولٍ ؛ فِیمَنْ طَلَّقَ امْرَأَتَہُ قَبْلَ أَنْ یَدْخُلَ بِہَا ، إنَّہَا لاَ تَحِلُّ لَہُ حَتَّی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَہُ۔
(١٨١٦٥) حضرت مکحول (رض) فرماتے ہیں کہ آدمی اگر بیوی کو دخول سے پہلے تین طلاقیں دے دے تو وہ اس کے لیے اس وقت تک حلال نہیں جب تک کسی دوسرے شخص سے نکاح نہ کرلے۔

18165

(۱۸۱۶۶) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ، عَنْ شَقِیقِ بْنِ أَبِی عَبْدِ اللہِ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: لاَ تَحِلُّ لَہُ حَتَّی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَہُ۔
(١٨١٦٦) حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ آدمی اگر بیوی کو دخول سے پہلے تین طلاقیں دے دے تو وہ اس کے لیے اس وقت تک حلال نہیں جب تک کسی دوسرے شخص سے نکاح نہ کرلے۔

18166

(۱۸۱۶۷) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ، وَسَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ، وَحُمَیْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، قَالُوا : لاَ تَحِلُّ لَہُ حَتَّی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَہُ۔
(١٨١٦٧) حضرت سعید بن مسیب، حضرت سعید بن جبیر اور حضرت حمید بن عبد الرحمن (رض) فرماتے ہیں کہ آدمی اگر بیوی کو دخول سے پہلے تین طلاقیں دے دے تو وہ اس کے لیے اس وقت تک حلال نہیں جب تک کسی دوسرے شخص سے نکاح نہ کرلے۔

18167

(۱۸۱۶۸) حدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی، عَنْ دَاوُدَ، عَنْ عَامِرٍ؛ فِی رَجُلٍ طَلَّقَ امْرَأَتَہُ ثَلاَثًا قَبْلَ أَنْ یَدْخُلَ بِہَا ، قَالَ: أَکْرَہُہُ۔
(١٨١٦٨) حضرت عامر (رض) فرماتے ہیں کہ آدمی اگر بیوی کو دخول سے پہلے تین طلاقیں دے دے تو وہ اس کے لیے اس وقت تک حلال نہیں جب تک کسی دوسرے شخص سے نکاح نہ کرلے۔

18168

(۱۸۱۶۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إسْرَائِیلَ ، عَنْ عَبْدِ الأَعْلَی ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، عَنْ عَبِیدَۃَ (ح) وَعَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالاَ : إذَا طَلَّقَہَا ثَلاَثًا قَبْلَ أَنْ یَدْخُلَ بِہَا ، فَلاَ تَحِلُّ لَہُ حَتَّی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَہُ۔
(١٨١٦٩) حضرت عبیدہ اور ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ آدمی اگر بیوی کو دخول سے پہلے تین طلاقیں دے دے تو وہ اس کے لیے اس وقت تک حلال نہیں جب تک کسی دوسرے شخص سے نکاح نہ کرلے۔

18169

(۱۸۱۷۰) حَدَّثَنَا ابْنُ عَیّاشٍ ، عَنْ مُطَرِّفٍ ، عَنِ الْحَکَمِ ؛ فِی الرَّجُلِ یَقُولُ لامْرَأَتِہِ : أَنْتِ طَالِقٌ أَنْتِ طَالِقٌ ، أَنْتِ طَالِقٌ ، قَالَ : بَانَتْ بِالأُولَی وَالأُخْرَیَانِ لَیْسَ بِشَیْئٍ ، قَالَ : قُلْتُ : مَنْ یَقُولُ ہَذَا ؟ قَالَ : عَلِیٌّ ، وَزَیْدٌ ، وَغَیْرُہُمَا ، یَعْنِی قَبْلَ أَنْ یَدْخُلَ بِہَا۔
(١٨١٧٠) حضرت حکم (رض) فرماتے ہیں کہ اگر ایک آدمی نے اپنی بیوی کو دخول سے پہلے کہا کہ تجھے طلاق ہے، تجھے طلاق ہے، تجھے طلاق ہے تو وہ پہلے جملے سے ہی بائنہ ہوجائے گی اور باقی دونوں طلاقوں کا کوئی اثر نہیں۔ حضرت مطرف (رض) کہتے ہیں کہ میں نے ان سے پوچھا کہ اس بات کا قائل کون ہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ حضرت علی (رض) اور حضرت زید (رض) وغیرہ۔

18170

(۱۸۱۷۱) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الْحَکَمِ ، وَحَمَّادٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : إذَا قَالَ لامْرَأَتِہِ قَبْلَ أَنْ یَدْخُلَ بِہَا أَنْتِ طَالِقٌ ، أَنْتِ طَالِقٌ ، أَنْتِ طَالِقٌ ، فَقَد بَانَتْ بِوَاحِدَۃٍ وَسَقَطَتِ اثْنَتَانِ۔
(١٨١٧١) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ اگر ایک آدمی نے اپنی بیوی کو دخول سے پہلے کہا کہ تجھے طلاق ہے، تجھے طلاق ہے، تجھے طلاق ہے تو وہ پہلے جملے سے ہی بائنہ ہوجائے گی اور باقی دونوں طلاقوں کا کوئی اثر نہیں۔

18171

(۱۸۱۷۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنِ الْفُقَیْمِیِّ ، عَنْ أَبِی مَعْشَرٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : إذَا قَالَ قَبْلَ أَنْ یَدْخُلَ بِہَا أَنْتِ طَالِقٌ ، أَنْتِ طَالِقٌ ، أَنْتِ طَالِقٌ ، بَانَتْ بِالأُولَی ، وَالأُخْرَیَانِ لَیْسَ بِشَیْئٍ۔
(١٨١٧٢) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ اگر ایک آدمی نے اپنی بیوی کو دخول سے پہلے کہا کہ تجھے طلاق ہے، تجھے طلاق ہے، تجھے طلاق ہے تو وہ پہلے جملے سے ہی بائنہ ہوجائے گی اور باقی دونوں طلاقوں کا کوئی اثر نہیں۔

18172

(۱۸۱۷۳) حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّیَالِسِیُّ ، عَنْ ہَمَّام ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ خِلاَسٍ ، قَالَ : بَانَتْ بِالأُولَی۔
(١٨١٧٣) حضرت خلاس (رض) فرماتے ہیں کہ اگر ایک آدمی نے اپنی بیوی کو دخول سے پہلے کہا کہ تجھے طلاق ہے، تجھے طلاق ہے، تجھے طلاق ہے تو وہ پہلے جملے سے ہی بائنہ ہوجائے گی۔

18173

(۱۸۱۷۴) حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنِ الْحَکَمِ ، وَحَمَّادٍ ، قَالاَ : بَانَتْ بِالأُولَی ، وَثِنْتَانِ لَیْسَتَا بِشَیْئٍ۔
(١٨١٧٤) حضرت حکم (رض) اور حضرت حماد (رض) فرماتے ہیں کہ اگر ایک آدمی نے اپنی بیوی کو دخول سے پہلے کہا کہ تجھے طلاق ہے، تجھے طلاق ہے، تجھے طلاق ہے تو وہ پہلے جملے سے ہی بائنہ ہوجائے گی اور باقی دونوں طلاقوں کا کوئی اثر نہیں۔

18174

(۱۸۱۷۵) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَۃَ ، عَنْ دَاوُدَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : إذَا قَالَ لَہَا أَنْتِ طَالِقٌ ، أَنْتِ طَالِقٌ ، أَنْتِ طَالِقٌ ، قَبْلَ أَنْ یَدْخُلَ بِہَا ، فَقَدْ حُرِّمَتْ علیہ۔
(١٨١٧٥) حضرت شعبی (رض) فرماتے ہیں کہ اگر ایک آدمی نے اپنی بیوی کو دخول سے پہلے کہا کہ تجھے طلاق ہے، تجھے طلاق ہے، تجھے طلاق ہے تو وہ اس پر حرام ہوجائے گی۔

18175

(۱۸۱۷۶) حدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ عَطَائٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : إذَا طَلَّقَہَا ثَلاَثًا قَبْلَ أَنْ یَدْخُلَ بِہَا ، لَمْ تَحِلَّ لَہُ حَتَّی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَہُ ، وَلَوْ قَالَہَا تَتْرَی بَانَتْ بِالأُولَی۔
(١٨١٧٦) حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ اگر ایک آدمی نے اپنی بیوی کو دخول سے پہلے تین طلاقیں دے دیں تو وہ اس کے لیے اس وقت تک حلال نہیں جب تک وہ کسی دوسرے شخص سے شادی نہ کرلے، اگر اس نے یہ تین طلاقیں الگ الگ دیں تو وہ پہلی طلاق سے ہی بائنہ ہوجائے گی۔

18176

(۱۸۱۷۷) حَدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ طَاوُوسٍ ، وَعَطَائٍ ، أَنَّہُمَا قَالاَ : إذَا طَلَّقَ الرَّجُلُ امْرَأَتَہُ ثَلاَثًا قَبْلَ أَنْ یَدْخُلَ بِہَا ، فَہِیَ وَاحِدَۃٌ۔
(١٨١٧٧) حضرت طاوس (رض) اور حضرت عطائ (رض) فرماتے ہیں کہ اگر آدمی نے دخول سے پہلے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دیں تو ایک طلاق واقع ہوگی۔

18177

(۱۸۱۷۸) حَدَّثَنَا عَفَّانُ بْنُ مُسْلِمٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَیْدٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا أَیُّوبُ ؛ أَنَّ طَاوُوسًا قَالَ : جَائَ أَبُو الصَّہْبَائِ إلَی ابْنِ عَبَّاسٍ فَقَالَ لَہُ : ہَاتِ مِنْ ہُنْیَّاتِکَ : إنَّ الثَّلاَثَ کُنَّ یُحْسَبْنَ عَلَی عَہْدِ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَأَبِی بَکْرٍ وَصَدْرِ إمَارَۃِ عُمَرَ وَاحِدَۃً ، فَلَمَّا رَأَی عُمَرُ النَّاسَ قَدْ تَتَابَعُوا فِی الطَّلاَقِ ، فَأَجَازَہُنَّ عَلَیْہِ۔ (مسلم ۱۰۹۹۔ ابوداؤد ۲۱۹۲)
(١٨١٧٨) حضرت طاوس (رض) فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ ابو صہباء حضرت ابن عباس (رض) کے پاس آئے۔ انھوں نے کہا کہ تم اپنا تھوڑا سا وقت دو : تین طلاقیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں ، پھر حضرت ابوبکر (رض) کے زمانے اور پھر حضرت عمر (رض) کے ابتدائی زمانے میں ایک ہی شمار کی جاتی تھیں پھر جب حضرت عمر (رض) نے لوگوں کو دیکھا کہ انھوں نے طلاق دینے کو معمول ہی بنا لیا ہے تو انھوں نے تین طلاقوں کو تین قرار دے دیا۔

18178

(۱۸۱۷۹) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا سَعِیدٌ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ طَاوُوسٍ ، وَعَطَائٍ ، وَجَابِرِ بْنِ زَیْدٍ ؛ أَنَّہُمْ قَالُوا : إذَا طَلَّقَہَا ثَلاَثًا قَبْلَ أَنْ یَدْخُلَ بِہَا فَہِیَ وَاحِدَۃٌ۔
(١٨١٧٩) حضرت طاوس، حضرت عطاء اور حضرت جابر بن زید (رض) فرماتے ہیں کہ جب کسی آدمی نے اپنی بیوی کو دخول سے پہلے تین طلاقیں دے دیں تو وہ ایک ہی شمار ہوگی۔

18179

(۱۸۱۸۰) حَدَّثَنَا عَبْدُ السَّلاَمِ بْنُ حَرْبِ ، عَنْ مُغِیرَۃ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ؛ فِی رَجُلٍ طَلَّقَ امْرَأَتَہُ وَاحِدَۃً ، فَلَقِیَہُ رَجُلٌ فَیَقُولُ : طَلَّقْتَ امْرَأَتَکَ ؟ فَقَالَ : نَعَمْ ، ثُمَّ لَقِیَہُ آخَرُ ، فَقَالَ : طَلَّقْتَ ؟ قَالَ : نَعَمْ ، فَقَالَ : إِنْ کَانَ نَوَی الأُولَی فَہِیَ وَاحِدَۃٌ۔
(١٨١٨٠) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ اگر ایک آدمی اپنی بیوی کو ایک طلاق دے، پھر اسے ایک آدمی ملے اور اس سے پوچھے کہ کیا تم نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی ؟ وہ جواب دے ہاں دے دی، پھر ایک اور آدمی ملے وہ بھی یہی سوال کرے تو آدمی جواب دے کہ ہاں دے دی تو اگر ان کو جواب دینے میں اس نے پہلی طلاق کی نیت کی تھی تو طلاق ایک ہی رہے گی۔

18180

(۱۸۱۸۱) حَدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنِ الرَّجُلِ یُطَلِّقُ الْمَرْأَۃَ فَیَلْقَاہُ الرَّجُلُ ، فَیَقُولُ : طَلَّقْتَ ؟ فَیَقُولُ : نَعَمْ ، ثُمَّ یَلْقَاہُ آخَرُ فَیَقُولُ: طَلَّقْتَ؟ فَیَقُولُ: نَعَمْ ، فَحَدَّثَنَا عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ، عَنِ ابْنِ مَعْقِل، والشَّعْبِیِّ قَالاَ: إذَا أَرَادَ الأُولَی فَلاَ بَأْسَ۔
(١٨١٨١) حضرت ابن معقل (رض) اور حضرت شعبی (رض) فرماتے ہیں کہ اگر ایک آدمی اپنی بیوی کو ایک طلاق دے، پھر اسے ایک آدمی ملے اور اس سے پوچھے کہ کیا تم نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی ؟ وہ جواب دے ہاں دے دی، پھر ایک اور آدمی ملے وہ بھی یہی سوال کرے تو آدمی جواب دے کہ ہاں دے دی تو اگر ان کو جواب دینے میں اس نے پہلی طلاق کی نیت کی تھی اور طلاق ایک ہی رہے گی۔

18181

(۱۸۱۸۲) حدَّثَنَا عَبدَۃ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنِ الْحَسَنِ ؛ فِی رَجُلٍ طَلَّقَ امْرَأَتَہُ فَلُقِیَ ، فَقِیلَ لَہُ : طَلَّقْتَ امْرَأَتَکَ؟ فَقَالَ: نَعَمْ، فَقِیلَ لَہُ: طَلَّقْتَ امْرَأَتَکَ؟ فَقَالَ: نَعَمْ ، فَرُفِعَ ذَلِکَ إلَی عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، فَقَالَ: مَا نَوَی۔
(١٨١٨٢) حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے اپنی بیوی کو ایک طلاق دی، راستے میں اسے ایک آدمی ملا اس نے پوچھا کہ کیا تم نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی ؟ اس نے کہا ہاں۔ پھر ایک اور آدمی ملا اس نے بھی یہی سوال کیا تو اس نے پھر ہاں کہا۔ یہ معاملہ حضرت عمر (رض) کے پاس پیش کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ اس کی نیت کا اعتبار ہے۔

18182

(۱۸۱۸۳) حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّیَالِسِیُّ ، عَنْ عَبْدِ رَبِّہِ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ زَیْدٍ ، قَالَ : سَأَلْتُہُ عَنْ رَجُلٍ طَلَّقَ امْرَأَتَہُ تَطْلِیقَۃً، ثُمَّ طَلَّقَہَا أُخْرَی ، فَکَانَتَا اثْنَتَیْنِ ، ثُمَّ لَقِیَہُ رَجُلٌ ، فَقَالَ : طَلَّقْتَ امْرَأَتَکَ ؟ فَقَالَ : نَعَمْ ، قَالَ : فَقَالَ : إِنْ کَانَ إنَّمَا أَرَادَ مَا کَانَ طَلَّقَ ، فَلَیْسَ عَلَیْہِ شَیْئٌ۔
(١٨١٨٣) حضرت عبد ربہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے حضرت جابر بن زید (رض) سے سوال کیا کہ ایک آدمی نے اپنی بیوی کو ایک طلاق دی، راستے میں اسے ایک آدمی ملا اس نے پوچھا کہ کیا تم نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی ؟ اس نے کہا ہاں۔ پھر ایک اور آدمی ملا اس نے بھی یہی سوال کیا تو اس نے پھر ہاں کہا۔ تو اس کا کیا حکم ہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ اگر دونوں مرتبہ ہاں کہنے میں پہلی طلاق کی نیت تھی تو کچھ لازم نہیں۔

18183

(۱۸۱۸۴) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الشَّیْبَانِیِّ ، عَنْ حَمَّادٍ ؛ فِی رَجُلٍ قَالَ لامْرَأَتِہِ : أَنْتِ طَالِقٌ فَقَالَتْ : أَیُّ شَیْئٍ تَقُولُ ؟ ، فَقَالَ : أَنْتِ طَالِقٌ الْبَتَّۃَ ، فَقَالَ حَمَّادٌ : إِنْ کَانَ أَرَادَ أَنْ یُفَہِّمَہَا فَلاَ بَأْسَ۔
(١٨١٨٤) حضرت حماد (رض) فرماتے ہیں کہ اگر ایک آدمی نے اپنی بیوی سے کہا کہ تجھے طلاق ہے۔ اس کی بیوی نے کہا کہ تم کیا کہہ رہے ہو ؟ اس نے کہا میں تمہیں طلاق دے رہا ہوں تو اگر محض اسے سمجھانے کے لیے دوبارہ کہا تو ایک ہی طلاق ہوگی۔

18184

(۱۸۱۸۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، قَالَ : سَأَلْتُ الْحَکَمَ ، وَحَمَّاداً عَنِ الرَّجُلِ یَقُولُ لامْرَأَتِہِ : أَنْتِ طَالِقٌ ، أَنْتِ طَالِقُ ، أَنْتِ طَالِقٌ ؟ قَالاَ : ہِی ثَلاَثٌ ، إلاَّ أَنْ یَکُونَ نَوَی الأُولَی ، وَإِذَا قَالَ اعْتَدِّی ، فَمِثْلُ ذَلِکَ۔
(١٨١٨٥) حضرت شعبہ (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت حکم (رض) اور حضرت حماد (رض) سے سوال کیا کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی سے کہے کہ تجھے طلاق ہے، تجھے طلاق ہے، تجھے طلاق ہے تو کیا حکم ہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ تین طلاقیں ہوجائیں گی اور اگر اس نے ایک کی نیت کی ہو تو ایک ہوگی، اور اگر بیوی سے کہا کہ عدت شمار کر تو بھی یہی حکم ہے۔

18185

(۱۸۱۸۶) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ عُقْبَۃَ بْنُ أَبِی العَیزَارِ ، قَالَ : سَأَلْتُ إبْرَاہِیمَ عَنْ رَجُلٍ طَلَّقَ امْرَأَتَہُ تَطْلِیقَۃً ، أَوْ تَطْلِیقَتَیْنِ ، فَسَأَلَہُ رَجُلٌ : طَلَّقْتَ امْرَأَتَکَ کَذَا وَکَذَا ، ثَلاَثًا ، أَوْ أَرْبَعًا ؟ فَقَالَ الرَّجُلُ : نَعَمْ ؟ قَالَ إبْرَاہِیمُ : بَانَتْ مِنْہُ۔
(١٨١٨٦) حضرت عقبہ بن ابی عیزار (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابراہیم (رض) سے سوال کیا کہ اگر کسی شخص نے اپنی بیوی کو ایک یا دو طلاقیں دے دیں۔ پھر اس سے کسی آدمی نے سوال کیا تو کیا تو اپنی بیوی کو اتنی اتنی یعنی تین یا چار طلاقیں دے دیں اور آدمی نے جواب میں کہا ہاں تو حضرت ابراہیم (رض) نے فرمایا کہ وہ عورت بائنہ ہوجائے گی۔

18186

(۱۸۱۸۷) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنِ الْحَسَنِ ؛ فِی الرَّجُلِ یَقُولُ لامْرَأَتِہِ : أَنْتِ طَالِقٌ إلَی سَنَۃٍ ، قَالَ : یَقَعُ عَلَیْہَا یَوْمَ قَالَ۔
(١٨١٨٧) حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ اگر آدمی نے اپنی بیوی سے کہا کہ تجھے ایک سال تک طلاق ہے تو طلاق اسی وقت واقع ہوجائے گی۔

18187

(۱۸۱۸۸) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ؛ أَنَّہُ کَانَ لاَ یُؤَجِّلُ فِی الطَّلاَقِ۔
(١٨١٨٨) حضرت سعید بن (رض) مسیب فرماتے ہیں کہ طلاق کو مؤجل نہیں کیا جاسکتا۔

18188

(۱۸۱۸۹) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ؛ أَنَّہُ کَانَ لاَ یُؤَجِّلُ فِی الطَّلاَقِ۔
(١٨١٨٩) حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ طلاق کو مؤجل نہیں کیا جاسکتا۔

18189

(۱۸۱۹۰) حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ خَالِدٍ ، عَنِ ابْنِ أَبِی ذِئْبٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، قَالَ : إذَا طَلَّقَ إلَی أَجَلٍ وَقَعَ۔
(١٨١٩٠) حضرت زہری (رض) فرماتے ہیں کہ جب کسی خاص مدت کے لیے طلاق دی تو اسی وقت واقع ہوجائے گی۔

18190

(۱۸۱۹۱) حدَّثَنَا کَثِیرُ بْنُ ہِشَامٍ ، عَنْ فُرَاتٍ ، عَنْ عَبْدِ الْکَرِیمِ ، قَالَ : کَانَ الزُّہْرِیُّ یَقُولُ : تَعْتَدُّ یَوْمَ قَالَ۔
(١٨١٩١) حضرت زہری (رض) فرماتے ہیں کہ جس وقت طلاق دی اسی وقت سے عدت شروع ہوجائے گی۔

18191

(۱۸۱۹۲) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ، عَنْ مُغِیرَۃَ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالَ: مَنْ وَقَّتَ فِی الطَّلاَقِ وَقْتًا، فَدَخَلَ ذَلِکَ الْوَقْتُ، وَقَعَ الطَّلاَقُ۔
(١٨١٩٢) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کسی مدت کو مقرر کرکے اس سے طلاق دی تو طلاق اسی وقت واقع ہوگی۔

18192

(۱۸۱۹۳) حَدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ بْنُ عَیَّاشٍ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ بْنِ عُبَیْدٍ، عَنْ مَکْحُولٍ؛ أَنَّہُ کَانَ یَقُولُ: حتَّی یَجِیئَ الأَجَلُ۔
(١٨١٩٣) حضرت مکحول (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کسی مدت کو مقرر کرکے اس سے طلاق دی تو طلاق اسی وقت واقع ہوگی۔

18193

(۱۸۱۹۴) حَدَّثَنَا مُعَمَّرُ بْنُ سُلَیْمَانَ الرَّقِّیُّ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ بِشْرٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : إلَی أَجَلہ۔
(١٨١٩٤) حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کسی مدت کو مقرر کرکے اس سے طلاق دی تو طلاق اسی وقت واقع ہوگی۔

18194

(۱۸۱۹۵) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ حَبِیبٍ ، عَنْ عَمْرٍو ، قَالَ : سُئِلَ جَابِرُ بْنُ زَیْدٍ عَنْ رَجُلٍ قَالَ لامْرَأَتِہِ : إذَا أَہْلَلْتُ شَہْرَ کَذَا وَکَذَا ، فَامْرَأَتِی طَالِقٌ إلَی رَأْسِ السَّنَۃِ ؟ قَالَ : أرَی أَنَّہَا طَالِقٌ إلَی الأَجَلِ الَّذِی سَمَّی ، وَتَحِلُّ لَہُ فِیمَا دُونَ ذَلِکَ۔
(١٨١٩٥) حضرت جابر بن زید (رض) سے سوال کیا گیا کہ اگر ایک آدمی نے اپنی بیوی سے کہا کہ جب فلاں مہینہ آئے تو میری بیوی کو طلاق تو کیا حکم ہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ جب مقررہ مدت آئے گی تبھی طلاق واقع ہوگی اس وقت تک عورت حلال ہے۔

18195

(۱۸۱۹۶) حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ کُلَیْبٍ ، عَنْ سَلَمَۃَ بْنِ نَبَاتَۃَ ، عَنْ أَبِی ذَرٍّ ؛ أَنَّہُ قَالَ لِغُلاَمٍ لَہُ : ہُوَ عَتِیقٌ إلَی الْحَوْلِ۔
(١٨١٩٦) حضرت ابوذر (رض) نے اپنے ایک غلام کے بارے میں کہا تھا کہ وہ ایک سال بعد آزاد ہے۔

18196

(۱۸۱۹۷) حَدَّثَنَا جَرِیرُ بْنُ عَبْدِ الْحَمِیدِ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ؛ فِی رَجُلٍ قَالَ لامْرَأَتِہِ : اعْتَدِّی ، قَالَ : ہِیَ تَطْلِیقَۃٌ إذَا عَنَی الطَّلاَقَ۔
(١٨١٩٧) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ اگر ایک آدمی نے اپنی بیوی سے کہا کہ عدت شمار کر، اور اس سے طلاق کی نیت کی تو ایک طلاق واقع ہوجائے گی۔

18197

(۱۸۱۹۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ عَبْدِ رَبِّہِ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ زَیْدٍ ، قَالَ : ہِیَ تَطْلِیقَۃٌ۔
(١٨١٩٨) حضرت جابر بن زید (رض) فرماتے ہیں کہ اگر ایک آدمی نے اپنی بیوی سے کہا کہ عدت شمار کر، اور اس سے طلاق کی نیت کی تو ایک طلاق واقع ہوجائے گی۔

18198

(۱۸۱۹۹) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَطَائٍ ، قَالَ : اعْتَدِّی وَاحِدَۃً۔
(١٨١٩٩) حضرت عطائ (رض) فرماتے ہیں کہ اگر ایک آدمی نے اپنی بیوی سے کہا کہ عدت شمار کر، اور اس سے طلاق کی نیت کی تو ایک طلاق واقع ہوجائے گی۔

18199

(۱۸۲۰۰) حدَّثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : ہِیَ وَاحِدَۃٌ ، وَہُوَ أَحَقُّ بِہَا۔
(١٨٢٠٠) حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ اگر ایک آدمی نے اپنی بیوی سے کہا کہ عدت شمار کر، اور اس سے طلاق کی نیت کی تو ایک طلاق واقع ہوجائے گی، اور وہ اس سے رجوع کرنے کا زیادہ حق دار ہے۔

18200

(۱۸۲۰۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، قَالَ: سَأَلْتُ الْحَکَمَ ، وَحَمَّادًا عَنْ رَجُلٍ قَالَ لامْرَأَتِہِ: أَنْتِ طَالِقٌ ، أَنْتِ طَالِقٌ، أَنْتِ طَالِقٌ ، وَنَوَی الأُولَی ؟ قَالاَ : ہِیَ وَاحِدَۃٌ ، وَکَذَلِکَ إِذَا قَالَ اعتَدّی ، اعتَدّی۔
(١٨٢٠١) حضرت شعبہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت حکم (رض) اور حضرت حماد (رض) سے سوال کیا کہ اگر ایک آدمی نے اپنی بیوی کو کہا کہ تجھے طلاق ہے، تجھے طلاق ہے ، تجھے طلاق ہے اور ایک ہی طلاق کی نیت کی تو کیا حکم ہے ؟ ان دونوں نے فرمایا کہ ایک ہی طلاق واقع ہوگی اور اگر یہ کہا کہ عدت شمار کر، عدت شمار کر، تب بھی یہی حکم ہے۔

18201

(۱۸۲۰۲) حَدَّثَنَا سَہْلُ بْنُ یُوسُفَ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنِ الْحَکَمِ ، وَحَمَّادٍ ، قَالاَ : إذَا قَالَ الرَّجُلُ لامْرَأَتِہِ : اعْتَدِّی ، اعْتَدِّی ، وَقَالَ : إنِّی نَوَیْت وَاحِدَۃً ، فَہِی وَاحِدَۃٌ۔
(١٨٢٠٢) حضرت حکم (رض) اور حضرت حماد (رض) فرماتے ہیں کہ اگر ایک آدمی نے اپنی بیوی سے کہا کہ عدت شمار کر، عدت شمار کر اور ایک کی نیت کی تو ایک طلاق واقع ہوگی۔

18202

(۱۸۲۰۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ جَابِرٍ، عَنْ عَامِرٍ؛ فِی رَجُلٍ قَالَ لامْرَأَتِہِ: اعْتَدِّی ، اعْتَدِّی ، یَنْوِی ثَلاَثًا، قَالَ : ہِیَ وَاحِدَۃٌ۔
(١٨٢٠٣) حضرت عامر (رض) فرماتے ہیں کہ اگر ایک آدمی نے اپنی بیوی سے کہا کہ عدت شمار کر، عدت شمار کر اور تین کی نیت کی تو ایک طلاق واقع ہوگی۔

18203

(۱۸۲۰۴) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنِ الْحَسَنِ ؛ وَہُوَ قَوْلُ قَتَادَۃَ ، أَنَّہُمَا قَالاَ : إذَا قَالَ الرَّجُلُ لامْرَأَتِہِ : اعْتَدِّی ثَلاَثًا ، لَمْ تَحِلَّ لَہُ حَتَّی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَہُ۔
(١٨٢٠٤) حضرت حسن (رض) اور حضرت قتادہ (رض) فرماتے ہیں کہ اگر ایک آدمی نے اپنی بیوی سے تین مرتبہ کہا کہ ” عدت شمار کر “ تو وہ اس کے لیے حلال نہیں جب تک کسی اور سے شادی نہ کرلے۔

18204

(۱۸۲۰۵) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ عَامِرٍ ؛ مِثْلَہُ۔
(١٨٢٠٥) ایک اور سند سے یونہی منقول ہے۔

18205

(۱۸۲۰۶) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ یُونُسَ ، وَأَبِی حَرَّۃَ ، عَنِ الْحَسَنِ ؛ فِی رَجُلٍ قَالَ لامْرَأَتِہِ : أَنْتِ طَالِقٌ فَاعْتَدِّی ، قَالَ: ہِیَ وَاحِدَۃٌ ، وَإِذَا قَالَ : أَنْتِ طَالِقٌ وَاعْتَدِّی ، فَہِیَ اثْنَتَانِ۔
(١٨٢٠٦) حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ اگر ایک آدمی نے اپنی بیوی سے کہا کہ تجھے طلاق ہے عدت شمار کر، تجھے طلاق ہے عدت شمار کر، تو دو طلاقیں واقع ہوں گی۔

18206

(۱۸۲۰۷) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ ؛ قَالَ : لاَ یَجُوزُ طَلاَقُ الْمَجْنُونِ۔
(١٨٢٠٧) حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ مجنون کی طلاق درست نہیں۔

18207

(۱۸۲۰۸) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ دَاوُدَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : الْمَجْنُونُ لاَ یَجُوزُ طَلاَقُہُ۔
(١٨٢٠٨) حضرت شعبی (رض) فرماتے ہیں کہ مجنون کی طلاق درست نہیں۔

18208

(۱۸۲۰۹) حدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ ابْنِ أَبِی ذِئْبٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ أَبَانَ بْنِ عُثْمَانَ ، عَنْ عُثْمَانَ ، قَالَ : لَیْسَ لِمَجْنُونٍ وَلاَ لِسَکْرَانَ طَلاَقٌ۔
(١٨٢٠٩) حضرت عثمان (رض) فرماتے ہیں کہ مجنون اور نشہ میں مبتلا کی طلاق درست نہیں۔

18209

(۱۸۲۱۰) حدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّیَالِسِیُّ ، عَنْ ہَارُونَ ، قَالَ : سَأَلْتُ ابْنَ سِیرِینَ عَنْ طَلاَقِ الْمَجْنُونِ ؟ فَقَالَ : لَیْسَ بِشَیْئٍ ، وَالسُّلْطَانُ یَنْظُرُ فِیہِ ، یُسْأَلُ الْبَیِّنَۃَ أَنَّہُ طَلَّقَ وَتُصْبِر یَمِینَہُ۔
(١٨٢١٠) حضرت ہارون (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن سیرین (رض) سے مجنون کی طلاق کے بارے میں سوال کیا تو انھوں نے فرمایا کہ یہ کوئی چیز نہیں۔ سلطان اس میں غور فکر کرے گا اور گواہی طلب کرے گا کہ اس نے طلاق دی ہے اور قسم کا انتظار کرے گا۔

18210

(۱۸۲۱۱) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ حَبِیبٍ ، عَنْ عَمْرٍو ، قَالَ : سُئِلَ جَابِرٌ عَنْ رَجُلٍ طَلَّقَ امْرَأَتَہُ وَہُوَ مَجْنُونٌ ، حِینَ أَخَذَہُ جُنُونُہُ ؟ قَالَ : لاَ یَجُوزُ۔
(١٨٢١١) حضرت عمرو (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت جابر (رض) سے مجنون کی طلاق کے بارے میں سوال کیا گیا تو انھوں نے فرمایا کہ یہ کوئی درست نہیں۔

18211

(۱۸۲۱۲) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، قَالَ : لاَ یَجُوزُ طَلاَقُ الْمَجْنُونِ إذَا أُخِذَ بِہِ ، فَإِذَا صَحَّ فَہُوَ جَائِزٌ۔
(١٨٢١٢) حضرت زہری (رض) فرماتے ہیں کہ مجنون کی طلاق درست نہیں، جب وہ صحیح ہوجائے تو اس کی طلاق درست ہے۔

18212

(۱۸۲۱۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ الأَعْمَشِِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، عَنْ عَابِسِ بْنِ رَبِیعَۃَ ، عَنْ عَلِیٍّ ، قَالَ : کُلُّ طَلاَقٍ جَائِزٌ ، إلاَّ طَلاَقَ الْمَعْتُوہِ۔
(١٨٢١٣) حضرت علی (رض) فرماتے ہیں کہ ناقص العقل کی طلاق کے علاوہ ہر طلاق درست ہے۔

18213

(۱۸۲۱۴) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنِ الأَعْمَشِِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، عَنْ عَابِسِ بْنِ رَبِیعَۃَ ، قَالَ : سَمِعْتُ عَلِیًّا یَقُولُہُ۔
(١٨٢١٤) ایک اور سند سے یونہی منقول ہے۔

18214

(۱۸۲۱۵) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِِ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ، عَنْ إبْرَاہِیمَ، قَالَ: قَالَ عَلِیٌّ: کُلُّ طَلاَقٍ جَائِزٌ، إلاَّ طَلاَقَ الْمَعْتُوہِ۔
(١٨٢١٥) حضرت علی (رض) فرماتے ہیں کہ ناقص العقل کی طلاق کے علاوہ ہر طلاق درست ہے۔

18215

(۱۸۲۱۶) حدَّثَنَا أَبُو بَکْرٍ الْحَنَفِیُّ ، عَنْ أُسَامَۃَ ، عَنْ نَافِعٍ ؛ أَنَّ الْمُجَبِّرَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ طَلَّقَ امْرَأَتَہُ ، وَہُوَ مَعْتُوہٌ ، فَأَمَرَہَا ابْنُ عُمَرَ أَنْ تَعْتَدَّ ، فَقِیلَ لَہُ : إنَّہُ مَعْتُوہٌ ، فَقَالَ : إنِّی لَمْ أَسْمَعِ اللَّہَ اسْتَثْنَی لِمَعْتُوہٍ طَلاَقًا ، وَلاَ غَیْرَہُ۔
(١٨٢١٦) حضرت نافع (رض) فرماتے ہیں کہ مجبر بن عبدالرحمن (رض) نے اپنی بیوی کو ناقص العقل ہوجانے کی حالت میں طلاق دی تو حضرت ابن عمر (رض) نے ان کی بیوی کو عدت گزارنے کا حکم دیا۔ ان سے کہا گیا کہ وہ تو ناقص العقل ہیں۔ حضرت ابن عمر (رض) نے فرمایا کہ میں نے نہیں سنا کہ اللہ تعالیٰ نے ناقص العقل یا کسی اور کی طلاق کو مستثنیٰ قرار دیا ہو۔

18216

(۱۸۲۱۷) حدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : لَیْسَ لِمَعْتُوہٍ ، وَلاَ لِصَبِیٍّ طَلاَقٌ۔
(١٨٢١٧) حضرت شعبی (رض) فرماتے ہیں کہ ناقص العقل اور بچے کی طلاق نہیں ہوتی۔

18217

(۱۸۲۱۸) حَدَّثَنَا عَبْدُ السَّلاَمِ بْنُ حَرْبٍ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : إذَا طَلَّقَ الْمَعْتُوہُ فِی حَالِ إفَاقَتِہِ ، جَازَ۔
(١٨٢١٨) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ جب ناقص العقل شخص نے افاقہ کی حالت میں طلاق دی تو اس کی طلاق واقع ہوجائے گی۔

18218

(۱۸۲۱۹) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ، قَالَ : طَلاَقُہُ لَیْسَ بِشَیْئٍ۔
(١٨٢١٩) حضرت سعید بن مسیب (رض) فرماتے ہیں کہ معتوہ کی طلاق کوئی چیز نہیں ہے۔

18219

(۱۸۲۲۰) حدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، عَنْ إسْرَائِیلَ ، عَنْ أَبِی حَصِینٍ ، عَنْ شُرَیْحٍ ، قَالَ : لاَ یَجُوزُ طَلاَقُہُ۔
(١٨٢٢٠) حضرت شریح (رض) فرماتے ہیں کہ معتوہ کی طلاق کوئی چیز نہیں ہے۔

18220

(۱۸۲۲۱) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ جُوَیْبِرٍ ، عَنِ الضَّحَّاکِ ، قَالَ : لاَ یَجُوزُ طَلاَقُہُ۔
(١٨٢٢١) حضرت ضحاک (رض) فرماتے ہیں کہ معتوہ کی طلاق کوئی چیز نہیں ہے۔

18221

(۱۸۲۲۲) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، قَالَ : لَیْسَ لَہُ طَلاَقٌ۔
(١٨٢٢٢) حضرت زہری (رض) فرماتے ہیں کہ معتوہ کی طلاق کوئی چیز نہیں ہے۔

18222

(۱۸۲۲۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : کَانَ یُقَالُ : کُلُّ الطَّلاَقِ جَائِزٌ ، إلاَّ طَلاَقَ الْمَعْتُوہِ۔
(١٨٢٢٣) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ معتوہ کے علاوہ ہر ایک کی طلاق جائز ہے۔

18223

(۱۸۲۲۴) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ دَاوُدَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : لَیْسَ لِمَعْتُوہٍ طَلاَقٌ۔
(١٨٢٢٤) حضرت شعبی (رض) فرماتے ہیں کہ معتوہ کی طلاق کوئی چیز نہیں ہے۔

18224

(۱۸۲۲۵) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیِّبِ ؛ فِی الَّذِی بِہِ الْمَوْتَۃُ ، قَالَ : إذَا طَلَّقَ عِنْدَ أَخْذِہَا إِیَّاہُ فَلَیْسَ بِشَیْئٍ ، وَإِذَا أَفَاقَ فَطَلاَقُہُ جَائِزٌ۔
(١٨٢٢٥) حضرت سعید بن مسیب (رض) فرماتے ہیں کہ جس شخص کو موتہ (بےہوشی اور جنون کا دورہ) ہو اس کی طلاق کوئی چیز نہیں جب اسے افاقہ ہو تو اس کی طلاق جائز ہے۔

18225

(۱۸۲۲۶) حدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ أَبِی مَعْشَرٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ؛ مِثْلَہُ۔
(١٨٢٢٦) حضرت ابراہیم (رض) سے بھی یونہی منقول ہے۔

18226

(۱۸۲۲۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ یَزِیدَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، عَنِ الْحَسَنِ ؛ فِی الَّذِی تُصِیبُہُ الخَطْرَۃَ مِنَ الْجُنُونِ یُطَلِّقُ ، قَال الْحَسَنُ : لاَ یَلْزَمُہُ ، وَقَالَ قَتَادَۃُ : إذَا اشْتَرَی وَبَاعَ لَزِمَہُ ، وَإِذَا طَلَّقَ فِی حَالِ جُنُونِہِ لَمْ یَلْزَمْہُ۔
(١٨٢٢٧) حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ جس شخص پر پاگل پن کا دورہ ہو اور وہ طلاق دے تو اس کی طلاق نہیں ہوتی۔ حضرت قتادہ (رض) فرماتے ہیں کہ جب اس نے خریدو فروخت کی تو اس کا اعتبار ہوگا لیکن اگر حالت جنون میں طلاق دی تو طلاق نہیں ہوگی۔

18227

(۱۸۲۲۸) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ، عَنْ أَشْعَثَ، عَنِ الشَّعْبِیِّ؛ فِی الْمُصَابِ الَّذِی یُصِیبُہُ الْحَینُ قَالَ: طَلاَقُہُ وَعِتَاقُہُ جَائِزٌ۔
(١٨٢٢٨) حضرت شعبی (رض) اس شخص کے بارے میں جسے جنون وغیرہ کا دورہ پڑا ہو فرماتے ہیں کہ اس کا طلاق دینا اور آزاد کرنا درست ہے۔

18228

(۱۸۲۲۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ أَبِی الْمُعْتَمِرِ، عَنْ قَتَادَۃَ ، قَالَ: الْجُنُونُ جُنُونَانِ، فَإِنْ کَانَ لاَ یُفِیقُ لَمْ یَجُزْ لَہُ طَلاَقٌ، وَإِنْ کَانَ یُفِیقُ فَطَلَّقَ فِی حَالِ إفَاقَتِہِ لَزِمَہُ ذَلِکَ۔
(١٨٢٢٩) حضرت قتادہ (رض) فرماتے ہیں کہ جنون کی دو قسمیں ہیں، اگر جنو ن سے افاقہ نہ ہوتا ہو تو طلاق جائز نہیں اور اگر افاقہ ہوجاتا ہے تو افاقہ کی حالت کی طلاق درست ہے۔

18229

(۱۸۲۳۰) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ حَبِیبٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ ، قَالَ : وَجَدْنَا فِی کِتَابِ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو ، عَنْ عَمْرٍو : إذَا عَبِثَ الْمَجْنُونُ بِامْرَأَتِہِ ، طَلَّقَ عَنْہُ وَلِیُّہُ۔
(١٨٢٣٠) حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) کی کتاب میں تھا کہ جب مجنون اپنی بیوی کو پریشان کرتا ہو تو اس کا ولی عورت کو طلاق دے سکتا ہے۔

18230

(۱۸۲۳۱) حَدَّثَنَا الضَّحَّاکُ بْنُ مَخْلَدٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَطَائٍ ، قَالَ : یُطَلِّقُ وَلِیُّ الْمُوَسْوِسِ ، وَلْیَنْتَظِرْ عَسَی أَنْ یُفِیقَ۔
(١٨٢٣١) حضرت عطائ (رض) فرماتے ہیں کہ مجنون کا ولی اس کی طرف سے طلاق دے سکتا ہے لیکن وہ اس کے ٹھیک ہونے کا انتظار کرے۔

18231

(۱۸۲۳۲) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ، قَالَ : طَلاَقُ الْمَعْتُوہِ الْمَغْلُوبِ عَلَی عَقْلِہِ لَیْسَ بِشَیْئٍ ، طَلاَقُہُ إلَی وَلِیِّہِ۔
(١٨٢٣٢) حضرت سعید بن مسیب (رض) فرماتے ہیں کہ مغلوب العقل اور معتوہ کی طلاق درست نہیں، اس کی طرف سے اس کا ولی طلاق دے گا۔

18232

(۱۸۲۳۳) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ الثَّقَفِیُّ ، عَنْ أَیُّوبَ ، قَالَ : کَتَبْتُ إلَی أَبِی قِلاَبَۃَ فِی امْرَأَۃٍ زَوْجُہَا مَجْنُونٌ ، لاَ یَرْجُون أَنْ یَبْرَأَ ، یُطَلِّقُ عَنْہُ وَلِیُّہُ ؟ فَکَتَبَ إلَیَّ : لاَ ، إِنَّہَا امْرَأَۃٌ ابْتَلاَہَا اللَّہُ بِالْبَلاَئِ ، فَلْتَصْبِرْ۔
(١٨٢٣٣) حضرت ایوب (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابو قلابہ (رض) کو خط لکھا کہ ایسے مجنون کی بیوی جس کے ٹھیک ہونے کی کوئی امید نہ ہو تو کیا اس کی طرف سے ولی عورت کو طلاق دے سکتا ہے ؟ انھوں نے مجھے جواب میں لکھا کہ وہ طلاق نہیں دے سکتا، اس عورت کو اللہ نے آزمائش میں ڈالا ہے اسے چاہیے کہ صبر کرے۔

18233

(۱۸۲۳۴) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّہْرِیّ ، قَالَ : لاَ یَجُوزُ عَلَیْہِ طَلاَقُ وَلِیِّہِ۔
(١٨٢٣٤) حضرت زہری (رض) فرماتے ہیں کہ مجنون وغیرہ کے ولی کی طلاق درست نہیں۔

18234

(۱۸۲۳۵) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ جَدِّہِ ، قَالَ : کَتَبْتُ إلَی عُمَرَ فِی رَجُلٍ مَجْنُونٍ یُخَافُ أَنْ یَقْتُلَ امْرَأَتَہُ ، فَکَتَبَ إلَیَّ : أَنْ أَجِّلْہُ سَنَۃً یَتَدَاوَی۔
(١٨٢٣٥) حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر (رض) کو خط میں لکھا کہ ایسے مجنون کے بارے میں کیا حکم ہے جس کے بارے میں اندیشہ ہو کہ یہ اپنی بیوی کو مار ڈالے گا ؟ انھوں نے فرمایا کہ ایک سال تک علاج معالجہ کی مہلت دو ۔

18235

(۱۸۲۳۶) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ غِیَاثٍ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ عَطَائٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : لاَ یَجُوزُ طَلاَقُ الصَّبِیِّ۔
(١٨٢٣٦) حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ بچے کی طلاق نہیں ہوتی۔

18236

(۱۸۲۳۷) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : لاَ یَجُوزُ طَلاَقُ الصَّبِیِّ۔
(١٨٢٣٧) حضرت شعبی (رض) فرماتے ہیں کہ بچے کی طلاق نہیں ہوتی۔

18237

(۱۸۲۳۸) حدَّثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ، قَالَ : إذَا عَقَلَ الصَّبِیُّ الصَّلاَۃَ وَالصَّوْمَ ، فَطَلاَقُہُ جَائِزٌ۔ قَالَ : وَقَالَ الْحَسَنُ : لاَ یَجُوزُ طَلاَقُہُ حَتَّی یَحْتَلِمَ۔
(١٨٢٣٨) حضرت سعید بن مسیب (رض) فرماتے ہیں کہ جب بچے کو نماز اور روزے کی تمیز ہوجائے تو اس کی طلاق درست ہے اور حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ اس کے بالغ ہونے تک اس کی طلاق نہیں ہوتی۔

18238

(۱۸۲۳۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ ہَمَّامٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ بْنِ عِمْرَانَ الْعَنْزِیّ ، قَالَ : طَلَّقْتُ وَأَنَا غُلاَمٌ لَمْ أَحْتَلِمْ ، فَسَأَلْتُ سَعِیدَ بْنَ الْمُسَیَّبِ ؟ فَقَالَ : إذَا حَفِظْتِ الصَّلاَۃَ وَصُمْتَ رَمَضَانَ ، فَقَدْ جَازَ طَلاَقُکَ۔
(١٨٢٣٩) حضرت اسماعیل بن عنزی (رض) فرماتے ہیں کہ میں ایک نابالغ بچہ تھا، میں نے طلاق دے دی اور اس بارے میں حضرت سعید بن مسیب (رض) سے سوال کیا تو انھوں نے فرمایا کہ اگر تم نے نماز یاد کرلی ہے اور رمضان کے روزے رکھے ہیں تو تمہاری طلاق جائز ہے۔

18239

(۱۸۲۴۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ مَالِکٍ ، قَالَ : سَأَلْتُ الشَّعْبِیَّ عَنْ غُلاَمٍ طَلَّقَ ثَلاَثًا ؟ فَقَالَ : مَا أُرَاہُ إِذًا عَقلَ أَنَّ الثَّلاَثَ تُبِینُ أَنْ یَجْتَمِعَا۔
(١٨٢٤٠) حضرت علی بن مالک (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت شعبی (رض) سے سوال کیا کہ اگر کوئی بچہ تین طلاقیں دے دے تو کیا حکم ہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ اگر اسے اس بات کی سمجھ نہ ہوتی کہ تین طلاقوں سے جدائی ہوجاتی ہے تو میں اسے کچھ نہ سمجھتا۔

18240

(۱۸۲۴۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَمَّنْ سَمِعَ عَلِیًّا یَقُولُ : اُکْتُمُوا الصِّبْیَانَ النِّکَاحَ۔
(١٨٢٤١) حضرت علی (رض) فرماتے ہیں کہ بچوں کے نکاح کو پوشیدہ رکھو۔

18241

(۱۸۲۴۲) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ عَلِیٍّ ؛ بِنَحْوِ حَدِیثِ وَکِیعٍ۔
(١٨٢٤٢) ایک اور سند سے یونہی منقول ہے۔

18242

(۱۸۲۴۳) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ جُوَیْبِرٍ ، عَنِ الضَّحَّاکِ ، قَالَ : اُکْتُمُوا الصِّبْیَانَ النِّکَاحَ ، وَقَالَ : کُل طَلاَقٍ جَائِزٌ، إلاَّ طَلاَقَ الْمُبَرْسَمِ وَالْمَعْتُوہِ۔
(١٨٢٤٣) حضرت ضحاک (رض) فرماتے ہیں کہ بچوں کے نکاح کو پوشیدہ رکھو۔ اور فرماتے ہیں کہ ہر طلاق جائز ہے سوائے معتوہ اور ایسے شخص کی طلاق جسے برسم ہو یعنی ایسی بیماری میں جس میں انسان الٹی سیدھی باتیں کرنے لگتا ہے۔

18243

(۱۸۲۴۴) حَدَّثَنَا أَبوُ بَکْرِ بْنُ عَیَّاشٍ ، عَنْ مُطَرِّفٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : لَیْسَ عِتْقُ الصَّبِیِّ ، وَلاَ نِکَاحُہُ ، وَلاَ شَیْئٌ مِنْ أَمْرِہِ بِشَیْئٍ۔
(١٨٢٤٤) حضرت شعبی (رض) فرماتے ہیں کہ بچے کی آزادی اور نکاح اور کسی دوسری چیز کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔

18244

(۱۸۲۴۵) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنِ الْقَعْقَاعِ ، قَالَ : سَأَلْتُ إبْرَاہِیمَ عَنْ طَلاَقِ الصَّبِیِّ ؟ قَالَ : النِّسَائُ کَثِیرٌ۔
(١٨٢٤٥) حضرت قعقاع (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابراہیم (رض) سے بچے کی طلاق کے بارے میں سوال کیا تو انھوں نے فرمایا کہ عورتیں بہت ہیں۔

18245

(۱۸۲۴۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنِ الْقَعْقَاعِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ؛ فِی طَلاَقِ الصَّبِیِّ قَالَ : لَیْسَ بِشَیْئٍ ، وَالنِّسَائُ کَثِیرٌ۔
(١٨٢٤٦) حضرت قعقاع (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابراہیم (رض) سے بچے کی طلاق کے بارے میں سوال کیا تو انھوں نے فرمایا کہ یہ کوئی چیز نہیں اور عورتیں بہت ہیں۔

18246

(۱۸۲۴۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : کَانُوا یُزَوِّجُونَہُمْ وَہُمْ صِغَارٌ ، وَیَکْتُمُونَہُمُ النِّکَاحَ مَخَافَۃَ أَنْ یَقَعَ الطَّلاَقُ عَلَی أَلْسِنَتِہِمْ۔ قَالَ سُفْیَانُ : فَإِذَا وَقَعَ لَمْ یَرَوْہُ شَیْئًا۔
(١٨٢٤٧) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ اسلاف بچوں کی شادیاں کرادیا کرتے تھے اور نکاح کو ان سے پوشیدہ رکھتے تھے کہ کہیں ان کی زبان پر طلاق جاری نہ ہوجائے۔ حضرت سفیان (رض) فرماتے ہیں کہ اگر طلاق کا لفظ ان کی زبان پر آبھی جاتا تو اسے کچھ نہیں سمجھتے تھے۔

18247

(۱۸۲۴۸) حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّیَالِسِیُّ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ مُصْعَبٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ؛ فِی طَلاَقِ الصَّبِیِّ : لَیْسَ بِشَیْئٍ۔
(١٨٢٤٨) حضرت شعبی (رض) فرماتے ہیں کہ بچے کی طلاق کا کوئی اعتبار نہیں۔

18248

(۱۸۲۴۹) حدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، قَالَ : سَأَلْتُ الْحَکَمَ ، وَحَمَّادًا عَنْ طَلاَقِ الصَّبِیِّ ؟ فَقَالاَ : لاَ یَجُوزُ۔
(١٨٢٤٩) حضرت شعبہ (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت حکم (رض) اور حضرت حماد (رض) سے بچے کی طلاق کے بارے میں سوال کیا تو انھوں نے فرمایا کہ یہ درست نہیں۔

18249

(۱۸۲۵۰) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِیِلُ بْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ یُونُس ، قَالَ : حدَثَنِیِ رَجُلٌ مِنْ أَہْلِ الشَّامِ ، لَمْ أَرَ بِہِ بَأْسًا ، قَالَ : کُنَّا فِی غَزَاۃٍ ، فَبَرْسَمَ صَاحِبٌ لَنَا ، فَطلَّّقَ امْرَأَتَہُ ثَلاثَا ، فَلَمَا أفَاَقَ قَالُوا لَہُ : قُلْتَ کَذَا وَکذَا ، قَالَ : مَاَ أَعْلَمَنِی ، قُلْتُ : مِنْ ہَذَا قَلِیلاً ، وَلاَ کَثِیِرًا ، وَمَا أَعْرِفْہُ ، فَرَکِبَ رَجُلٌ مِنَّا إِلی عُمَرَ بْنُ عَبْدِ العَزِیزِ فِی حَاجَۃٍ ، فلَمَّا قضَی حَاجتَہُ سَأَلَہُ عَنْ ذَلِکَ ، فَدَیَّنَہُ۔
(١٨٢٥٠) حضرت یونس (رض) فرماتے ہیں کہ ایک شامی شخص نے مجھ سے بیان کیا کہ ہم ایک غزوہ میں تھے، کہ ہمارے ایک ساتھی کوالٹی سیدھی باتیں کرنے والی بیماری ہوگئی، اس نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دیں۔ جب اسے افاقہ ہوا تو لوگوں نے اس سے کہا کہ تو نے یہ یہ بات کی تھی، اس نے کہا کہ مجھے تو کوئی علم نہیں کہ میں نے اس طرح کی کوئی تھوڑی یا زیادہ بات کی ہو اور میں نہیں جانتا۔ ہم میں سے ایک سوار کسی ضرورت کے لیے حضرت عمر بن عبد العزیز (رض) کے پاس گیا جب اس نے ضرورت پوری کرلی تو اس بارے میں سوال کیا، انھوں نے فرمایا کہ اس سے کوئی اثر نہیں پڑتا۔

18250

(۱۸۲۵۱) حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ ، عَنْ یُونُسَ ، عَنْ مَیْمُونِ بْنِ مَہْرَانِ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ العَزِیزِ ؛ بِنَحْوِ حَدِیثِ ابْنِ عُلَیَّۃَ ، عَنْ یُونُس۔
(١٨٢٥١) ایک اور سند سے یونہی منقول ہے۔

18251

(۱۸۲۵۲) حَدَّثَنَا أَبوُ مُعَاویَۃَ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنِ الْحَکَم ، قَالَ : کَانَ یَقُولُ : طَلاَقُ الْمُبَرْسَمِ وَالْمَحْمومِ الَّذِی یَہْذِی ، ونِکَاحُ الْمَجْنُونِ لَیْسَ بِشَیْئٍ۔
(١٨٢٥٢) حضرت حکم (رض) فرماتے ہیں کہ برسم نامی بیماری کے شکار جو الٹی سیدھی باتیں کرتا ہو، اور بخار زدہ جو الٹی سیدھی باتیں کرتا ہو ان دونوں کی طلاق اور مجنون کا نکاح معتبر نہیں۔

18252

(۱۸۲۵۳) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ جُوَیْبِرٍ ، عَنِ الضَّحَّاکِ ، قَالَ : لاَ یَجُوزُ طَلاَق الْمُبَرْسَمِ ، وَالْمَغْلُوبِ عَلَی عَقْلِہِ فِی مَرَضِہِ۔
(١٨٢٥٣) حضرت ضحاک (رض) فرماتے ہیں کہ برسم کا شکار اور مغلوب العقل کی طلاق ان کے مرض میں درست نہیں۔

18253

(۱۸۲۵۴) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ حَبِیبٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ ہَرِمٍ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ زَیْدٍ ؛ فِی طَلاَقِ الْمُبَرْسَمِ الَّذِی یَہْذِی وَلاَ یَعْقِلُ ، مَا یَقُولُ ، قَالَ : لاَ طَلاَقَ لَہُ ، وَلاَ عِتَاقَ لَہُ مَا دَام عَلَی ذَلِک۔
(١٨٢٥٤) حضرت جابر بن زید (رض) فرماتے ہیں کہ برسم کے شکار شخص جو الٹی سیدھی باتیں کرتا ہو اور اسے اپنی باتوں کی سمجھ نہ ہو تو اس کی طلاق اور آزاد کرنے کا اعتبار نہیں۔

18254

(۱۸۲۵۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ جَابِر ، عَنْ عَامِرٍ (ح) وَعَنْ شَرِیکٍ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالاَ : لاَ یَجُوز طَلاَق الْمُبَرْسَمِ۔
(١٨٢٥٥) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ برسم کا شکار شخص کی طلاق معتبر نہیں۔

18255

(۱۸۲۵۶) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، عَنْ زُہَیْرٍ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالَ : لاَ یَجُوزُ طَلاَق الْمُبَرْسَمِ ، أَوْ مَنْ نَزلَ بِہِ بَلائٌ فِی غَیر نَشْوَی۔
(١٨٢٥٦) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ برسم کا شکار شخص کی طلاق معتبر نہیں، نیز وہ شخص جس پر نشے کے علاوہ کوئی آفت آئے اور اس کی عقل کو خراب کردے۔

18256

(۱۸۲۵۷) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ زَیْدٍ، عَنْ أَیُّوبَ، قَالَ: کَتَبْتُ إِلَی أَبِی قِلاَبَۃَ أَسْأَلَہُ عَنْ طَلاَقِ الْمُبَرْسَمِ؟ فَکَتَبَ إِلَیَّ : إِنَّہُ مَا شَہِدَتْ بِہِ الشُّہُودُ إِنْ کَانَ یَعْقِلُ فَطَلاَقُہُ جَائِزٌ ، وَإِنْ کَانَ لاَ یَعْقِلُ فَطَلاَقُہُ لاَ یَجُوزُ۔
(١٨٢٥٧) حضرت ایوب (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابو قلابہ (رض) کو خط لکھا اور ان سے برسم کے شکار شخص کی طلاق کے بارے میں سوال کیا۔ انھوں نے مجھے خط میں لکھا کہ اس میں گواہوں کی گواہی کا اعتبار ہوگا، اگر تو اسے سمجھ ہے تو اس کی طلاق جائز ہے اور اگر اسے سمجھ نہیں تو اس کی طلاق جائز نہیں ہے۔

18257

(۱۸۲۵۸) حَدَّثَنَا سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنِ ابْنِ أَبِی نَجِیحٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، قَالَ : طَلاَقُ السَّکْرَانِ جَائِزٌ۔
(١٨٢٥٨) حضرت مجاہد (رض) فرماتے ہیں کہ نشے میں مبتلا شخص کی طلاق درست ہے۔

18258

(۱۸۲۵۹) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ؛ قَالَ : طَلاَقُ النَّشْوَانِ جَائِزٌ۔
(١٨٢٥٩) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ نشے میں مبتلاشخص کی طلاق درست ہے۔

18259

(۱۸۲۶۰) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ عَطَائٍ ؛ أَنَّہُ کَانَ لاَ یُجِیزُ طَلاَقَ السَّکْرَانِ۔
(١٨٢٦٠) حضرت عطائ (رض) نشے میں مبتلا شخص کی طلاق کو درست قرار نہیں دیتے تھے۔

18260

(۱۸۲۶۱) حَدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ ابْنُ عُلَیَّۃَ، عَنْ أَیُّوبَ، عَنِ الْحَسَنِ، وَمُحَمَّدٍ، أَنَّہُمَا قَالاَ: طَلاَقُہُ جَائِزٌ، وَیُوجَعُ ظَہْرُہُ۔
(١٨٢٦١) حضرت حسن (رض) اور حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں کہ نشے میں مبتلا شخص کی طلاق درست ہے لیکن اسے کوڑے پڑیں گے۔

18261

(۱۸۲۶۲) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، وَمُحَمَّدٍ ؛ قَالاَ : طَلاَقُہُ جَائِزٌ۔
(١٨٢٦٢) حضرت حسن (رض) اور حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں کہ نشے میں مبتلا شخص کی طلاق درست ہے۔

18262

(۱۸۲۶۳) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ، قَالَ : طَلاَقُ السَّکْرَانِ جَائِزٌ۔
(١٨٢٦٣) حضرت سعید بن مسیب (رض) فرماتے ہیں کہ نشے میں مبتلا شخص کی طلاق درست ہے۔

18263

(۱۸۲۶۴) حَدَّثَنَا مُعْتَمِرُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَنْبَسَۃَ ؛ أَنَّ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِیزِ أَجَازَ طَلاَقَ السَّکْرَانِ وَجَلَدَہ۔
(١٨٢٦٤) حضرت عمر بن عبد العزیز (رض) نے نشے میں مبتلا شخص کی طلاق کو درست قرار دیا اور اسے کوڑے لگوائے۔

18264

(۱۸۲۶۵) حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إسْمَاعِیلَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ حَرْمَلَۃَ ، قَالَ : طَلَّقَ جَارٌ لِی سَکْرَان ، فَأَمَرَنِی أَنْ أَسْأَلَ سَعِیدَ بْنَ الْمُسَیَّبِ ؟ فَقَالَ : إِنْ أُصیْب فِیہِ الْحَقَّ ، فرِّقْ بَیْنَہُ وَبَیْنَ امْرَأَتِہِ ، وَضُرِبَ ثَمَانِینَ۔
(١٨٢٦٥) حضرت عبد الرحمن بن حرملہ (رض) فرماتے ہیں کہ میرے ایک پڑوسی نے نشے کی حالت میں اپنی بیوی کو طلاق دے دی، پھر مجھے کہا کہ میں حضرت سعید بن مسیب (رض) سے سوال کروں۔ ان سے سوال کیا تو انھوں نے فرمایا کہ دونوں کے درمیان جدائی کرادی جائے اور آدمی کو اسی کوڑے پڑیں گے۔

18265

(۱۸۲۶۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : طَلاَقُہُ جَائِزٌ۔
(١٨٢٦٦) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ نشے میں مبتلا شخص کی طلاق درست ہے۔

18266

(۱۸۲۶۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ جَعْفَرٍ ، عَنْ مَیْمُونٍ ، قَالَ : یَجُوزُ طَلاَقُہُ۔
(١٨٢٦٧) حضرت میمون (رض) فرماتے ہیں کہ نشے میں مبتلا شخص کی طلاق درست ہے۔

18267

(۱۸۲۶۸) حَدَّثَنَا ابْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنْ ہَمَّامٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ حُمَیْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، قَالَ : یَجُوزُ طَلاَقُ السَّکْرَانِ۔
(١٨٢٦٨) حضرت عبد الرحمن (رض) فرماتے ہیں کہ نشے میں مبتلا شخص کی طلاق درست ہے۔

18268

(۱۸۲۶۹) حَدَّثَنَا ابْنُ مَہْدِیٍّ ، قَالَ : قُلْتُ لِمَالِکٍ : حُدِّثْتَ أَنَّ سُلَیْمَانَ بْنَ یَسَارٍ ، وَسَعِیدَ بْنَ الْمُسَیَّبِ ، قَالاَ : طَلاَقُہُ جَائِزٌ ؟ قَالَ : نَعَمْ۔
(١٨٢٦٩) حضرت سلیمان بن یسار (رض) اور حضرت سعید بن مسیب (رض) فرماتے ہیں کہ نشے میں مبتلا شخص کی طلاق درست ہے۔

18269

(۱۸۲۷۰) حدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ جَرِیرِ بْنِ حَازِمٍ ، عَنِ الزُّبَیْرِ بْنِ الْخِرِّیتِ ، عَنْ أَبِی لَبِیدٍ ؛ أَنَّ عُمَرَ أَجَازَ طَلاَقَ السَّکْرَانِ بِشَہَادَۃِ نِسْوَۃ۔
(١٨٢٧٠) حضرت عمر (رض) نے عورتوں کی گواہی پر نشہ میں مبتلا شخص کی طلاق کو واقع قرار دیا۔

18270

(۱۸۲۷۱) حَدَّثَنَا عِیسَی بْنُ یُونُسَ، عَنِ الأَوْزَاعِیِّ، عَنِ الزُّہْرِیِّ قَالَ: إذَا طَلَّقَ، أَوْ أَعْتَقَ جَازَ عَلَیْہِ، وَأُقِیمَ عَلَیْہِ الْحَدُّ۔
(١٨٢٧١) حضرت زہری (رض) فرماتے ہیں کہ نشے میں مبتلا شخص نے جب کسی کو طلاق دی یا غلام کو آزاد کیا تو یہ واقع ہے اور حد قائم ہوگی۔

18271

(۱۸۲۷۲) حَدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ بْنُ عَیَّاشٍ ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِیزِ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : یَجُوزُ طَلاَقُہُ ،وَالْحَدُّ فِی ظَہْرِہِ۔
(١٨٢٧٢) حضرت شعبی (رض) فرماتے ہیں کہ نشے میں مبتلا شخص کی طلاق درست ہے، البتہ اس پر حدجاری ہوگی۔

18272

(۱۸۲۷۳) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ بْنِ سَالِمٍ ، عَنِ الْحَکَمِ ، قَالَ : مَنْ طَلَّقَ فِی سُکْرٍ مِنَ اللہِ ، فَلَیْسَ طَلاَقُہُ بِشَیْئٍ ، وَمَنْ طَلَّقَ فِی سُکْرٍ مِنَ الشَّیْطَانِ فَطَلاَقُہُ جَائِزٌ۔
(١٨٢٧٣) حضرت حکم (رض) فرماتے ہیں کہ اللہ کی طرف سے مغلوب العقل ہوجانے والے (جیسے مجنون یا معتوہ وغیرہ) کی طلاق نہیں ہوتی اور شیطان کی طرف سے مغلوب العقل ہونے والے (جیسے شرابی وغیرہ) کی طلاق ہوجاتی ہے۔

18273

(۱۸۲۷۴) حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِی حَنِیفَۃَ، عَنِ الْہَیْثُمِ، عَنْ عَامِرٍ، عَنْ شُرَیْحٍ، قَالَ: طَلاَقُ السَّکْرَانِ جَائِزٌ۔
(١٨٢٧٤) حضرت شریح (رض) فرماتے ہیں کہ نشے میں مبتلا شخص کی طلاق درست ہے۔

18274

(۱۸۲۷۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ ابْنِ أَبِی ذِئْبٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ أَبَانَ بْنِ عُثْمَانَ ، عَنْ عُثْمَانَ ، قَالَ : کَانَ لاَ یُجِیزُ طَلاَقَ السَّکْرَانِ وَالْمَجْنُونِ۔ قَالَ : وَکَانَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیزِ یُجِیزُ طَلاَقَہُ ،وَیُوجِعُ ظَہْرَہُ ، حَتَّی حَدَّثَہُ أَبَانُ بِذَلِکَ۔
(١٨٢٧٥) حضرت عثمان (رض) نشے میں مبتلا اور مجنون کی طلاق کو واقع قرار نہیں دیتے تھے جبکہ حضرت عمر بن عبد العزیز (رض) اسے واقع قرار دیتے تھے اور نشے باز پر حد جاری کرتے تھے۔

18275

(۱۸۲۷۶) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَوَائٍ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ زَیْدٍ ، وَعِکْرِمَۃَ ، وَعَطَائٍ ، وَطَاوُسٍ ، قَالُوا : لَیْسَ بِجَائِزٍ۔
(١٨٢٧٦) حضرت جابر بن زید، حضرت عکرمہ ، حضرت عطاء اور حضرت طاؤس (رض) فرماتے ہیں کہ نشے میں مبتلا شخص کی طلاق نہیں ہوتی۔

18276

(۱۸۲۷۷) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ؛ أَنَّ الْقَاسِمَ ، وَعُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِیزِ ، کَانَا لاَ یُجِیزَانِ طَلاَقَ السَّکْرَانِ۔
(١٨٢٧٧) حضرت قاسم (رض) اور حضرت عمر بن عبدالعزیز (رض) نشے میں مبتلا شخص کی طلاق کو درست قرار نہیں دیتے تھے۔

18277

(۱۸۲۷۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ رَبَاحٍ ، عَنْ عَطَائٍ ؛ أَِنَّہُ کَانَ لاَ یُجِیزُہُ۔
(١٨٢٧٨) حضرت عطائ (رض) نشے میں مبتلا شخص کی طلاق کو درست قرار نہیں دیتے تھے۔

18278

(۱۸۲۷۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ حَنْظَلَۃَ ، أَوْ غَیْرِہِ ، عَنْ طَاوُوسٍ ؛ أَنَّہُ کَانَ لاَ یُجِیزُہُ۔
(١٨٢٧٩) حضرت طاؤس (رض) نشے میں مبتلا شخص کی طلاق کو درست قرار نہیں دیتے تھے۔

18279

(۱۸۲۸۰) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنِ السُّمَیْطِ السَّدُوسِیِّ ، قَالَ : خَطَبْتُ امْرَأَۃً ، فَقَالُوا لِی : لاَ نُزَوِّجُک حَتَّی تُطَلِّقَ امْرَأَتَکَ ثَلاَثًا ، فَقُلْتُ : قَدْ طَلَّقْتہَا ثَلاَثًا ، قَالَ : فَزَوَّجُونِی ثُمَّ نَظَرُوا ، فَإِذَا امْرَأَتِی عِنْدِی، فَقَالُوا: أَلَیْسَ قَدْ طَلَّقْتَ امْرَأَتَکَ ؟ قُلْتُ : بَلی ، کَانَتْ تَحْتِی فُلاَنَۃُ بِنْتُ فُلاَنٍ ، فَطَلَّقْتہَا ، فَأَمَّا ہَذِہِ فَلَمْ أُطَلِّقْہَا ، فَأَتَیْت شَقِیقَ بْنَ مَجْزَأَۃَ بْنِ ثَوْرٍ وَہُوَ یُرِیدُ الْخُرُوجَ إلَی عُثْمَانَ ، فَقُلْتُ : سَلْ أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ عَنْ ہَذِہِ ، فَسَأَلَہُ ؟ فَقَالَ : نِیَّتُہُ۔
(١٨٢٨٠) سمیط سدوسی (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے ایک عورت کے لیے نکاح کا پیغام بھیجا، انھوں نے مجھے کہا کہ جب تک تم اپنی بیوی کو طلاق نہ دو ہم نکاح نہیں کریں گے، میں نے اسے تین طلاقیں دے دیں، انھوں نے میری شادی کرادی، شادی کے بعد انھوں نے دیکھا کہ میری بیوی تو میرے پاس ہے، انھوں نے کہا کہ تم نے اپنے بیوی کو طلاق نہیں دی تھی ؟ میں نے کہا کہ دی تھی۔ میرے نکاح میں فلانہ بنت فلاں تھی میں نے اس کو طلاق دی تھی اس کو نہیں دی تھی۔ پھر میں شقیق بن مجزاۃ کے پاس آیا وہ حضرت عثمان (رض) کے پاس جانے کا ارادہ کررہے تھے۔ میں نے ان سے کہا کہ امیر المومنین سے اس بارے میں سوال کرنا، انھوں نے سوال کیا تو حضرت عثمان نے فرمایا کہ اس کی نیت کا اعتبار ہے۔

18280

(۱۸۲۸۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ مُسْلِم ، عَنْ إبْرَاہِیمَ بْنِ مَیْسَرَۃَ ، عَنِ ابْنِ طَاوُوسٍ ، عَنْ أَبِیہِ ؛ أَنَّ رَجُلاً کَانَ جَالِسًا مَعَ امْرَأَتِہِ عَلَی وِسَادَۃٍ ، وَکَانَ الرَّجُلُ رضا ، فَقَالَ لامْرَأَتِہِ : أَنْتِ طَالِقٌ ، یَعْنِی الْوِسَادَۃَ ، فَقَالَ طَاوُوسٌ : مَا أَرَی عَلَیْک شَیْئًا۔
(١٨٢٨١) حضرت طاؤس سے سوال کیا گیا کہ ایک آدمی اپنی بیوی کے ساتھ ایک تکیے پر بیٹھا تھا، آدمی نے اپنی بیوی کو خطاب کرتے ہوئے تکیہ کی نیت کرتے ہوئے کہا کہ تجھے طلاق ہے، تو کیا حکم ہے ؟ حضرت طاؤس (رض) نے فرمایا کہ اس کی نیت کا اعتبار ہوگا۔

18281

(۱۸۲۸۲) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ؛ قَالَ : الطَّلاَقُ مَا عُنِیَ بِہِ الطَّلاَقَ۔
(١٨٢٨٢) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ طلاق سے جو نیت ہو وہی ہوتا ہے۔

18282

(۱۸۲۸۳) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ ، عَنْ عَطَائٍ ؛ فِی رَجُلٍ یَقُولُ لامْرَأَتِہِ : قدْ أَعْتَقْتُکِ ، قَالَ : لاَ یَکُونُ طَلاَقًا ، إلاَّ أَنْ یَکُونَ نَوَی ذَلِکَ۔
(١٨٢٨٣) حضرت عطائ (رض) فرماتے ہیں کہ اگر ایک آدمی نے اپنی بیوی سے کہا میں نے تجھے آزاد کیا اور طلاق کی نیت تھی تو طلاق ہوگی۔

18283

(۱۸۲۸۴) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ بْنِ رَجَائٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : قَالَ مَسْرُوقٌ : إنَّمَا الطَّلاَقُ مَا عُنِیَ بِہِ الطَّلاَقَ۔
(١٨٢٨٤) حضرت مسروق (رض) فرماتے ہیں کہ طلاق سے جو نیت ہو وہی ہوتا ہے۔

18284

(۱۸۲۸۵) حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ مُفَضَّلٍ ، عَنْ سَوَّارٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا أَبُو ثُمَامَۃَ ، وَامْرَأَتُہُ مِنْ أَہْلِنَا ؛ أَنَّ کِنَانَۃَ بْنَ نَقْبٍ کَانَتْ عِنْدَہُ امْرَأَۃٌ ، وَقَدْ وَلَدَتْ لَہُ أَوْلاَدًا فِی الْجَاہِلِیَّۃِ ، فَقَالَ لَہَا : مَا فَوْقَ نِطَاقِکَ مُحَرَّرٌ ، فَخَاصَمَتْہُ إلَی الأَشْعَرِیِّ ، فَقَالَ : أَرَدْتَ بِمَا قُلْتَ الطَّلاَقَ ؟ قَالَ : نَعَمْ ، قَالَ : فَقَدْ أَبَنَّاہَا مِنْک۔
(١٨٢٨٥) حضرت ابو ثمامہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ کنانہ بن نقب (رض) کے نکاح میں ایک عورت تھی، جس کے بطن سے زمانہ جاہلیت میں ان کی اولاد بھی ہوئی تھی، کنانہ نے اس عورت سے کہا کہ تیرے پیٹ سے اوپر کا حصہ آزاد ہے، وہ عورت جھگڑا لے کر حضرت ابوموسیٰ (رض) کے پاس آئی۔ حضرت ابو موسیٰ (رض) نے آدمی سے پوچھا کہ کیا تو نے طلاق کی نیت کی تھی۔ اس نے کہا جی ہاں۔ حضرت ابوموسیٰ (رض) نے فرمایا کہ پھر ہم نے اسے تجھ سے جدا کردیا۔

18285

(۱۸۲۸۶) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ؛ فِی رَجُلٍ قَالَ لامْرَأَتِہِ : أَنْتِ عَتِیقَۃٌ ، قَالَ : ہِیَ تَطْلِیقَۃٌ ، وَہُوَ أَحَقُّ بِہَا۔
(١٨٢٨٦) حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ اگر ایک آدمی نے اپنی بیوی کو طلاق کی نیت کرتے ہوئے کہا کہ تو آزاد ہے تو ایک طلاق پڑجائے گی اور وہ اس سے رجوع کرنے کا زیادہ حق دار ہے۔

18286

(۱۸۲۸۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ مُسْلِمٍ الْحَنَفِیِّ ، عَنْ عِیسَی بْنِ حِطَّانَ ، عَنِ الریَّانِ بْنِ صَبِرَۃَ الْحَنَفِیِّ ؛ أَنَّہُ کَانَ جَالِسًا فِی مَسْجِدِ قَوْمِہِ ، فَأَخَذَ نَوَاۃً ، فَقَالَ : نَوَاۃٌ طَالِقٌ ، نَوَاۃٌ طَالِقٌ ، ثَلاَثًا ، قَالَ : فَرُفِعَ إلَی عَلِیٍّ ، فَقَالَ : مَا نَوَیْتَ ؟ ، قَالَ : نَوَیْتُ امْرَأَتِی ، قَالَ : فَفَرَّقَ بَیْنَہُمَا۔
(١٨٢٨٧) حضرت عیسیٰ بن حطان کہتے ہیں کہ ریان بن صبرہ حنفی (رض) اپنی قوم کی مسجد میں بیٹھا تھا، اس نے ایک گٹھلی پکڑی اور تین مرتبہ کہا کہ گٹھلی کو طلاق ہے۔ یہ مقدمہ حضرت علی (رض) کے پاس پیش ہوا، آپ نے اس سے پوچھا کہ تیری نیت کیا تھی ؟ اس نے کہا کہ میں نے بیوی کو طلاق دینے کی نیت کی تھی اور حضرت علی (رض) نے ان کے درمیان جدائی کرادی۔

18287

(۱۸۲۸۸) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ أَبِی سُلَیْمَانَ ، عَنْ عَطَائٍ ، قَالَ : أُتِیَ ابْنُ مَسْعُودٍ فِی رَجُلٍ قَالَ لامْرَأَتِہِ : حَبْلُکِ عَلَی غَارِبِکَ ، فَکَتَبَ ابْنُ مَسْعُودٍ إلَی عُمَرَ ، فَکَتَبَ عُمَرُ : مُرْہُ فَلْیُوَافِینِی بِالْمَوْسِمِ ، فَوَافَاہُ بِالْمَوْسِمِ ، فَأَرْسَلَ إلَی عَلِیٍّ ، فَقَالَ لَہُ عَلِیٌّ : أَنْشُدُک بِاللَّہِ ، مَا نَوَیْتَ ؟ قَالَ : امْرَأَتِی ، قَالَ: فَفَرَّقَ بَیْنَہُمَا۔
(١٨٢٨٨) حضرت ابن مسعود (رض) کے پاس ایک آدمی لایا گیا اس نے اپنی بیوی سے کہا تھا کہ تیری رسی تیری گردن پر ہے۔ حضرت ابن مسعود (رض) نے حضرت عمر (رض) کو اس بارے میں خط لکھا، حضرت عمر (رض) نے جواب دیا کہ اسے کہو کہ موسم حج میں مجھے ملے۔ وہ آدمی موسم حج میں آیا، حضرت عمر (رض) نے حضرت علی (رض) کو بلوایا، حضرت علی (رض) نے اس آدمی سے کہا کہ میں تمہیں اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ تمہاری نیت کیا تھی ؟ اس نے کہا کہ میں نے بیوی کو طلاق دینے کی نیت کی تھی، حضرت علی (رض) نے ان دونوں کے درمیان جدائی کرادی۔

18288

(۱۸۲۸۹) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ، عَنْ مُغِیرَۃَ، عَنْ إبْرَاہِیمَ؛ فِی رَجُلٍ قَالَ لامْرَأَتِہِ: قدْ أَذِنْتُ لَکَ فَتَزَوَّجِی، قَالَ: إِنْ لَمْ یَنْوِ طَلاَقًا فَلَیْسَ بِشَیْئٍ، فَذُکِرَ ذَلِکَ لِلشَّعْبِیِّ، فَقَالَ الشَّعْبِیُّ: وَالَّذِی یُحْلَفُ بِہِ إنَّ أَہْوَنَ مِنْ ہَذَا لَیَکُونُ طَلاَقًا۔
(١٨٢٨٩) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ اگر ایک آدمی نے اپنی بیوی سے کہا کہ میں نے تجھے اجازت دی، تو شادی کرلے تو اگر طلاق کی نیت نہیں تھی تو یہ کچھ نہیں، یہ بات حضرت شعبی (رض) کے سامنے ذکر کی گئی تو انھوں نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے نام کی قسم کھائی جاتی ہے، اس سے بہتر یہ تھا کہ طلاق ہوجاتی۔

18289

(۱۸۲۹۰) حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ ، عَنْ أَبِی حَرَّۃَ ، عَنِ الْحَسَنِ ؛ فِی رَجُلٍ قَالَ لامْرَأَتِہِ : اُخْرُجِی مِنْ بَیْتِی ، مَا یُجْلِسُک فِی بَیْتِی ؟ لَسْتِ لِی بِامْرَأَۃٍ ، یَقُولُ ذَلِکَ ثَلاَثَ مَرَّاتٍ ، قَالَ الْحَسَنُ : ہَذِہِ وَاحِدَۃٌ ، وَیَنْظُرُ مَا نَوَی۔
(١٨٢٩٠) حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ اگر ایک آدمی نے اپنی بیوی سے کہا کہ میرے گھر سے نکل جا ! تو میرے گھر میں کیوں بیٹھی ہے ؟ تو میری بیوی نہیں ہے ! یہ تین مرتبہ کہا۔ حضرت حسن (رض) نے فرمایا لیکن یہ ایک مرتبہ ہوگا اور اس کی نیت کا اعتبار ہوگا۔

18290

(۱۸۲۹۱) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ؛ فِی الرَّجُلِ یَقُولُ لامْرَأَتِہِ : لاَ حَاجَۃَ لِی فِیکِ ، قَالَ : نِیَّتُہُ۔
(١٨٢٩١) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ اگر ایک آدمی نے اپنی بیوی سے کہا کہ مجھے تیری کوئی ضرورت نہیں تو اس کی نیت کا اعتبار ہوگا۔

18291

(۱۸۲۹۲) حَدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ بْنُ عَیَّاشٍ ، عَنْ عَبْیدِ اللہِ بْنِ عُبَیْدٍ ، عَنْ مَکْحُولٍ ؛ فِی رَجُلٍ قَالَ لامْرَأَتِہِ : لاَ حَاجَۃَ لِی فِیکِ ، قَالَ مَکْحُولٌ : لَیْسَ بِشَیْئٍ۔
(١٨٢٩٢) حضرت مکحول (رض) فرماتے ہیں کہ اگر ایک آدمی نے اپنی بیوی سے کہا کہ مجھے تیری کوئی ضرورت نہیں تو اس کا کوئی اعتبار نہیں۔

18292

(۱۸۲۹۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ شعبَۃَ ، قَالَ : سَأَلْتُ الْحَکَمَ ، وَحَمَّادًا عَنْ رَجُلٍ قَالَ لامْرَأَتِہِ : اذْہَبِی حَیْثُ شِئْتِ ، لاَ حَاجَۃَ لِی فِیکِ ؟ قَالاَ : إِنْ نَوَی طَلاَقًا فَوَاحِدَۃٌ ، وَہُوَ أَحَقُّ بِہَا۔
(١٨٢٩٣) حضرت شعبہ (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت حکم (رض) اور حضرت حماد (رض) سے پوچھا کہ اگر ایک آدمی نے اپنی بیوی سے کہا کہ مجھے تیری کوئی ضرورت نہیں تو کیا حکم ہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ اگر طلاق کی نیت کی تھی تو ایک طلاق واقع ہوجائے گی اور وہ اس سے رجوع کرنے کا زیادہ حق دار ہے۔

18293

(۱۸۲۹۴) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنِ عَمرو ، عَنِ الْحَسَنِ ؛ فِی رَجُلٍ قَالَ لامْرَأَتِہِ : اُخْرُجِی ، اسْتَتِرِی ، اذْہَبِی ، لاَ حَاجَۃَ لِی فِیکِ ، فَہِیَ تَطْلِیقَۃٌ ، إِنْ نَوَی الطَّلاَقَ۔
(١٨٢٩٤) حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ اگر ایک آدمی نے اپنی بیوی سے کہا کہ نکل جا، پردہ کرلے ، چلی جا، مجھے تیری کوئی ضرورت نہیں تو ایک طلاق پڑے گی اگر طلاق کی نیت کی ہو۔

18294

(۱۸۲۹۵) حدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّیَالِسِیُّ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنْ مَطَرٍ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ ؛ فِی رَجُلٍ قَالَ لامْرَأَتِہِ : إِلْحَقِی بِأَہْلِکِ، قَالَ : ہَذِہِ وَاحِدَۃٌ ، وَقَالَ قَتَادَۃُ : مَا أَعُدُّ ہَذَا شَیْئًا۔
(١٨٢٩٥) حضرت عکرمہ (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کسی آدمی نے اپنی بیوی سے کہا کہ اپنے گھر والوں کے پاس چلی جا تو ایک طلاق پڑجائے گی۔ حضرت قتادہ (رض) فرماتے ہیں کہ میں اس بات کو کچھ نہیں سمجھتا۔

18295

(۱۸۲۹۶) حَدَّثَنَا حُمَیْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ حَسَنِ بْنِ صَالِحٍ ، عَنْ مُطَرِّفٍ ، عَنِ الْحَکَمِ ؛ فِی رَجُلٍ قَالَ لامْرَأَتِہِ : قدْ خَلَّیْتُ سَبِیلَکِ ، قَالَ : نِیَّتُہُ ، قَالَ : أَرَأَیْتَ إِنْ نَوَی ثَلاَثًا ، قَالَ : أَخَافُ أَنْ یَکُونَ ذَلِکَ۔
(١٨٢٩٦) حضرت حکم (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کسی آدمی نے اپنی بیوی سے کہا کہ میں نے تیرا راستہ چھوڑ دیا تو اس کی نیت کا اعتبار ہوگا۔ ان سے سوال کیا گیا کہ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ اس نے تین کی نیت کی ہو ! انھوں نے کہا کہ مجھے خوف ہے کہ ایسا ہی ہے۔

18296

(۱۸۲۹۷) حَدَّثَنَا ابْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَۃَ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ فُضَیْلٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : إذَا قَالَ : لاَ سَبِیلَ لِی عَلَیْکِ ، فَہِیَ تَطْلِیقَۃٌ بَائِنَۃٌ۔
(١٨٢٩٧) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کسی شخص نے اپنی بیوی سے کہا کہ میرا تجھ پر کوئی حق نہیں تو ایک طلاق بائنہ پڑجائے گی۔

18297

(۱۸۲۹۸) حَدَّثَنَا ابْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنْ إسْرَائِیلَ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ عَامِرٍ ؛ مِثْلَہُ۔
(١٨٢٩٨) حضرت عامر (رض) سے بھی یونہی منقول ہے۔

18298

(۱۸۲۹۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ (ح) وَعَنْ جَابِرٍ ، عَنْ عَامِرٍ (ح) وَعَنْ عِمْرَانَ بْنِ مُسْلِمٍ ، عَنِ ابْنِ عِقَال ، عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ ، وَأَبِی مَالِکٍ ، وَعَبْدِ اللہِ بْنِ شَدَّادٍ قَالُوا : إذَا طَلَّقَ الرَّجُلُ امْرَأَتَہُ ثَلاَثًا وَہِیَ حَامِلٌ ، لَمْ تَحِلَّ لَہُ حَتَّی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَہُ۔
(١٨٢٩٩) حضرت ابراہیم، حضرت عامر، حضرت مصعب بن سعد، حضرت ابو مالک اور حضرت عبداللہ بن شداد (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کسی نے اپنی بیوی کو حالت حمل میں تین طلاقیں دے دیں تو وہ عورت اس کے لیے اس وقت تک حلال نہیں جب تک کسی دوسرے شخص سے شادی نہ کرلے۔

18299

(۱۸۳۰۰) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : إذَا کَتَبَ الطَّلاَقَ بِیَدِہِ ، وَجَبَ عَلَیْہِ۔
(١٨٣٠٠) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کسی نے اپنے ہاتھ سے اپنی بیوی کی طلاق لکھی تو یہ واقع ہوجائے گی۔

18300

(۱۸۳۰۱) حَدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ الْحَکَمِ الْبُنَانِیِّ ، قَالَ : حدَّثَنِی رَجُلٌ أَنَّ رَجُلاً کَتَبَ طَلاَقَ امْرَأَتِہِ عَلَی وِسَادَۃٍ ، فَسُئِلَ عَنْ ذَلِکَ الشَّعْبِیُّ ، فَرَآہُ طَلاَقًا۔
(١٨٣٠١) حضرت علی بن حکم بنانی (رض) فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے اپنے ہاتھ سے تکیے پر اپنی بیوی کے لیے طلاق لکھی۔ اس بارے میں حضرت شعبی (رض) سے سوال کیا گیا تو انھوں نے اسے طلاق قرار دیا۔

18301

(۱۸۳۰۲) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ ، عَنْ عَطَائٍ ؛ أَنَّہُ سُئِلَ عنْ رَجُلٍ کَتَبَ بِطَلاَقَ امْرَأَتِہِ ثُمَّ نَدِمَ، فَأَمْسَکَ الْکِتَابَ ؟ قَالَ : إِنْ أَمْسَکَ فَلَیْسَ بِشَیْئٍ ، وَإِنْ أَمْضَاہُ فَہُوَ طَلاَقٌ۔
(١٨٣٠٢) حضرت عطائ (رض) سے سوال کیا گیا کہ اگر کسی شخص نے اپنی بیوی کو طلاق لکھی، پھر نادم ہوا اور خط کو روک لیا تو طلاق ہوگی یا نہیں ؟ انھوں نے فرمایا کہ اگر روک لیا تو طلاق نہیں ہوگی اور اگر جانے دیا تو طلاق ہوجائے گی۔

18302

(۱۸۳۰۳) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ؛ فِی الرَّجُلِ یَکْتُبُ إلَی امْرَأَتِہِ بِطَلاَقِہَا ، ثُمَّ یَبْدُو لَہُ أَنْ یُمْسِکَ الْکِتَابَ ، قَالَ : لَیْسَ بِشَیْئٍ مَا لَمْ یَتَکَلَّمْ ، وَإِنْ بَعَثَ بِہِ إلَیْہَا ، اعْتَدَّتْ مِنْ یَوْمِ یَأْتِیہَا الْکِتَابُ۔
(١٨٣٠٣) حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کسی شخص نے اپنی بیوی کے نام طلاق لکھی، پھر اسے خیال آیا کہ اس خط کو روک دے، تو اگر وہ تکلم نہ کرے تو اس کی کوئی حیثیت نہیں، اگر خط بیوی کی طرح بھیج دیا تو جس دن سے خط اسے ملے اسی دن سے وہ عورت عدت شمار کرے گی۔

18303

(۱۸۳۰۴) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ عَبْدِ الْخَالِقِ ، عَنْ حَمَّادٍ قَالَ : إذَا کَتَبَ الرَّجُلُ إلَی امْرَأَتِہِ : إذَا أَتَاکِ کِتَابِی ہَذَا فَأَنْتِ طَالِقٌ ، فَإِنْ لَمْ یَأْتِہَا الْکِتَابُ ، فَلَیْسَ ہِی بِطَالِقٍ ، وَإِنْ کَتَبَ : أَمَّا بَعْدُ فَأَنْتِ طَالِقٌ ، فَہِیَ طَالِقٌ ، وَقَالَ ابْنُ شُبْرُمَۃُ : ہِیَ طَالِقٌ۔
(١٨٣٠٤) حضرت حماد (رض) فرماتے ہیں کہ اگر ایک آدمی نے اپنی بیوی کو خط لکھا اور اس میں تحریر کیا کہ جب میرا یہ خط تمہارے پاس آئے تو تمہیں طلاق ہے، اگر خط اس کے پاس نہ پہنچا تو طلاق نہ ہوگی، اور اگر خط میں لکھا : اما بعد ! تمہیں طلاق ہے۔ تو اگر خط نہ بھی پہنچے تو طلاق ہوجائے گی۔

18304

(۱۸۳۰۵) حَدَّثَنَا ہُشَیْمُ بْن بَشِیر ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ (ح) وَعَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سَالِمٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ (ح) وَعَنْ یُونُسَ، عَنِ الْحَسَنِ؛ فِی الْجَارِیَۃِ إذَا طُلِّقَتْ وَلَمْ تَبْلُغ الْمَحِیضَ، قَالُوا: تَعْتَدُّ بِالشُّہُورِ، فَإِنْ حَاضَتْ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَمْضِیَ الشُّہُورُ ، اسْتَأْنَفَتِ الْعِدَّۃَ بِالْحَیْضِ ، فَإِنْ حَاضَتْ بَعْدَ مَا مَضَتِ الشُّہُورُ ، فَقَدِ انْقَضَتْ عِدَّتُہَا۔
(١٨٣٠٥) حضرت حسن (رض) سے سوال کیا گیا کہ اگر کسی نابالغ بچی کو طلاق دی گئی تو وہ عدت کیسے گزارے گی ؟ انھوں نے فرمایا کہ وہ مہینوں کے حساب سے عدت گزارے گی، اگر مہینے ختم ہونے سے پہلے اسے حیض آجائے تو وہ عدت کو حیض کے اعتبار سے دوبارہ شروع کرے گی، اگر مہینے پورے ہونے کے بعد اسے حیض آیا تو اس کی عدت مکمل ہوگئی۔

18305

(۱۸۳۰۶) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِِ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ؛ فِی الرَّجُلِ یَتَزَوَّجُ الْجَارِیَۃَ فَیُطَلِّقُہَا قَبْلَ أَنْ تَبْلُغَ الْمَحِیضَ، قَالَ: تَعْتَدُّ ثَلاَثَۃَ أَشْہُرٍ ، فَإِنْ ہِیَ حَاضَتْ قَبْلَ أَنْ تَقْضِیَ الثَّلاَثَۃُ الأَشْہُرُ ، انْہَدَمَتْ عِدَّۃُ الشُّہُورِ، وَاسْتَأْنَفَتْ عِدَّۃَ الْحَیْضِ۔
(١٨٣٠٦) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ اگر آدمی نے نابالغ بچی کو طلاق دے دی تو وہ تین مہینے عدت گذارے گی، اگر تین مہینے پورے ہونے سے پہلے اسے حیض آگیا تو اس کی عدت منہدم ہوگئی اب وہ نئے سرے سے حیض کے اعتبار سے عدت پوری کرے۔

18306

(۱۸۳۰۷) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ حَبِیبٍ ، عَنْ عَمْرٍو ، قَالَ : سُئِلَ جَابِرُ بْنُ زَیْدٍ عَنْ جَارِیَۃٍ طُلِّقَتْ بَعْدَ مَا دَخَلَ بِہَا زَوْجُہَا ، وَہِیَ لاَ تَحِیضُ ، فَاعْتَدَّتْ شَہْرَیْنِ وَخَمْسَۃً وَعِشْرِینَ لَیْلَۃً ، ثُمَّ إنَّہَا حَاضَتْ ؟ قَالَ : تَعْتَدُّ بَعْدَ ذَلِکَ ثَلاَثَۃَ قُرُوئٍ ، وَکَذَلِکَ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ۔
(١٨٣٠٧) حضرت جابر بن زید (رض) سے سوال کیا گیا کہ ایک نابالغ لڑکی کو اس کے خاوند نے دخول کے بعد طلاق دے دی، اس نے دو مہینے پچیس دن کی عدت گزاری تھی کہ اسے حیض آگیا، اب وہ کیا کرے ؟ انھوں نے فرمایا کہ اب وہ تین حیض عدت کے گزارے، حضرت عبداللہ بن عباس (رض) بھی یہی فرمایا کرتے تھے۔

18307

(۱۸۳۰۸) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : إذَا کَانَتْ عِنْدَ الرَّجُلِ الْمَرْأَۃُ قَدْ أَیِسَتْ مِنَ الْمَحِیضِ ، أَوِ الْجَارِیَۃُ الَّتِی لَمْ تَحِضْ ، فَمَتَی مَا شَائَ طَلَّقَہَا۔
(١٨٣٠٨) حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ اگر مرد کے نکاح میں ایسی عورت ہو جسے عدم بلوغت یا بڑھاپے کی وجہ سے حیض نہ آتا ہو تو آدمی اسے جب چاہے طلاق دے دے۔

18308

(۱۸۳۰۹) حدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنْ جَرِیرِ بْنِ حَازِمٍ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِیزِ ، قَالَ : کَانَ یُعْجِبُہُ أَنْ یُطَلِّقَ الَّتِی لَمْ تَحِضْ عِنْدَ الإِہلاَل۔
(١٨٣٠٩) حضرت عمر بن عبد العزیز (رض) کو یہ بات پسند تھی کہ ایسی عورت کو چاند نکلنے پر طلاق دی جائے جسے حیض نہ آتاہو۔

18309

(۱۸۳۱۰) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : یُطَلِّقُہَا عِنْدَ الأَہِلَّۃِ۔
(١٨٣١٠) حضرت شعبی (رض) فرماتے ہیں کہ ایسی عورت کو چاند کے حساب سے طلاق دے۔

18310

(۱۸۳۱۱) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضیل ، عَنْ عُبَیْدَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالَ : إذَا کَانَتِ الْمَرْأَۃُ قَدْ قَعَدَتْ مِنَ الْمَحِیضِ ، وَالْجَارِیَۃُ لَمْ تَحِضْ، فَأَرَادَ الرَّجُلُ أَنْ یُطَلِّقَ، فَیُطَلِّق عِنْدَ غُرَّۃِ الْہِلاَلِ، وَلاَ یُطَلِّقُ غَیْرَہَا حَتَّی تَنْقَضِیَ عِدَّتُہَا۔
(١٨٣١١) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ اگر مرد کے نکاح میں ایسی عورت ہو جسے عدم بلوغت یا بڑھاپے کی وجہ سے حیض نہ آتا ہو تو آدمی اسے طلاق دینا چاہے تو چاند کی پہلی کو اسے طلاق دے دے پھر عدت پوری ہونے تک طلاق نہ دے۔

18311

(۱۸۳۱۲) حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُبَارَکِ ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنْ حَمَّادٍ ، قَالَ : سَأَلْتُہُ عَنْ رَجُلٍ قَالَ : امْرَأَتُہُ طَالِقٌ ، وَلَہُ أَرْبَعُ نِسْوَۃٍ ؟ قَالَ : یَضَعُ یَدَہُ عَلَی أَیَّتِہِنَّ شَائَ۔ قَالَ مَعْمَرٌ : وَکَانَ الْحَسَنُ یَقُولُ ذَلِکَ۔
(١٨٣١٢) حضرت معمر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے حضرت حماد (رض) سے سوال کیا کہ اگر ایک آدمی کی چار بیویاں ہوں اور وہ کہے کہ اس کی ایک بیوی کو طلاق ہے تو کیا حکم ہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ وہ جس پرچا ہے ہاتھ رکھ لے۔ حضرت معمر (رض) کہتے ہیں کہ حضرت حسن (رض) بھی یہی فرمایا کرتے تھے۔

18312

(۱۸۳۱۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ حُمَیْدٍ ، عَنْ أَبِی جَعْفَرٍ ؛ أَنَّ عَلِیًّا أَقْرَعَ بَیْنَہُنَّ۔
(١٨٣١٣) حضرت ابو جعفر (رض) فرماتے ہیں کہ کسی آدمی کے ایسا کہنے کی صورت میں حضرت علی (رض) نے قرعہ اندازی کرائی تھی۔

18313

(۱۸۳۱۴) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ (ح) وعَنْ رَجُلٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالاَ : إِنْ کَانَ سَمَّی شَیْئًا فَہُوَ مَا سَمَّی ، وَإِنْ لَمْ یَکُنْ سَمَّی مِنْہُنَّ شَیْئًا ، دَخَلَ عَلَیْہِنَّ الطَّلاَقُ۔
(١٨٣١٤) حضرت قتادہ (رض) اور حضرت شعبی (رض) فرماتے ہیں کہ اگر اس نے کسی ایک کا نام لیا تو اسی کو طلاق ہوگی اور اگر نام نہ لیا تو سب کو طلاق ہوجائے گی۔

18314

(۱۸۳۱۵) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ سَعِیدٍ ؛ أَنَّ عَرِیفًا لِبَنِی سَعْدٍ سَأَلَ الْحَسَنَ ، وَکَانَ السُّلْطَانُ اسْتَخْلَفَہُ ؟ فَقَالَ: لَکَ مَا نَوَیْتَ۔
(١٨٣١٥) حضرت حسن (رض) سے جب یہ سوال کیا گیا تو انھوں نے فرمایا کہ آدمی کی نیت کا اعتبار ہوگا۔

18315

(۱۸۳۱۶) حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ عَامِرٍ ، عَنْ حَمَّادٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ؛ فِی رَجُلٍ قَالَ : امْرَأَتُہُ طَالِقٌ ثَلاَثًا، وَلَہُ نِسْوَۃٌ ، فَقَالَ : إِنْ کَانَ نَوَی مِنْہُنَّ شَیْئًا فَہِیَ الَّتِی نَوَی ، وَإِنْ لَمْ یَکُنْ نَوَی مِنْہُنَّ شَیْئًا فَلْیَخْتَرْ أَیَّتَہنَّ شَائَ ، وَکَذَلِکَ الإِیلاَئُ وَالظِّہَارُ۔
(١٨٣١٦) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ اگر ایک شخص کی زیادہ بیویاں ہوں اور وہ کہے کہ اس کی ایک بیوی کی تین طلاق تو اگر کسی کی نیت کی تھی تو اسے طلاق ہوگی اور اگر کسی کی نیت نہیں کی تو ان میں سے جس کو چاہے اختیار کرلے۔ ایلاء اور ظہار کا بھی یہی حکم ہے۔

18316

(۱۸۳۱۷) حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَۃَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْعَدْنِِی ، قَالَ : سُئِلَ أَبُو جَعْفَرٍ عَنْ رَجُلٍ لَہُ أَرْبَعُ نِسْوَۃٍ ، فَاطَّلَعَتْ مِنْہُنَّ امْرَأَۃٌ ، فَقَالَ : أَنْتِ طَالِقٌ الْبَتَّۃَ ، فَدَخَلَ عَلَیْہِنَّ فَإِذَا کُلُّ وَاحِدَۃٍ مِنْہُنَّ تَقُولُ : ہِیَ ہَذِہِ ، وَتَقُولُ ہَذِہِ : ہِیَ ، فَلَمْ یَعْرِفْہَا ؟ قَالَ أَبُو جَعْفَرٍ : بِنَّ مِنْہُ جَمِیعًا۔
(١٨٣١٧) حضرت ابو جعفر (رض) سے سوال کیا گیا کہ ایک آدمی کی چار بیویاں تھیں، ان میں سے ایک بیوی نے اسے جھانکا تو اس نے کہا کہ تجھے قطعی طلاق ہے، جب وہ ان کے پاس آیا تو ہر ایک کہنے لگی کہ وہ دوسری تھی، وہ اسے پہچان بھی نہ سکا کہ وہ کون سی تھی تو کیا حکم ہے ؟ حضرت ابو جعفر (رض) نے فرمایا کہ سب اس سے جدا ہوجائیں گی۔

18317

(۱۸۳۱۸) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : قَالَ شُرَیْحٌ : إذَا بَدَأَ بِالطَّلاَقِ وَالْعَتَاقِ قَبْلَ الْمَثنویَّۃ وَقَعَ الطَّلاَقُ وَالْعَتَاقُ ، حَنِثَ ، أَوْ لَمْ یَحْنَثْ۔ وَقَالَ سَعِیدُ بْنُ جُبَیْرٍ : إذَا لَمْ یَحْنَثْ لَمْ یَقَعْ عَلَیْہ۔
(١٨٣١٨) حضرت شریح (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کسی آدمی نے طلاق یا عتاق کا تذکرہ کرکے ان شاء اللہ کہا تو طلاق اور عتاق واقع ہوجائیں گے، خواہ وہ قسم توڑ دے یا باقی رکھے۔ اور حضرت سعید بن جبیر (رض) فرماتے ہیں کہ اگر اس نے قسم نہیں توڑی تو پھر واقع نہیں ہوں گے۔

18318

(۱۸۳۱۹) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ (ح) وَإِسْمَاعِیلَ بْنِ سَالِمٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالاَ : إِذَا قَدَّمَ الطَّلاَقَ أَوْ أَخَّرَہُ ، فَہُوَ سَوَائٌ إِذَا وَصَلَہُ بِکَلاَمِہِ۔
(١٨٣١٩) حضرت حسن (رض) اور حضرت شعبی (رض) فرماتے ہیں کہ طلاق کا مقدم اور مؤخر کرنا ایک جیسا ہے، جب اسے کلام کے ساتھ ملا کرلائے۔

18319

(۱۸۳۲۰) حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ، وَالْحَسَنِ ، قَالاَ : لَہُ ثُنْیَاہُ قَدَّمَ الطَّلاَقَ ، أَوْ أَخَّرَہُ۔
(١٨٣٢٠) حضرت سعید بن مسیب (رض) اور حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ طلاق کو مقدم کرے یا مؤخر اس کا ان شاء اللہ کہنا باقی رہے گا۔

18320

(۱۸۳۲۱) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ؛ فِی الاِسْتِثْنَائِ فِی الطَّلاَقِ وَالْعِتْقِ ، قَالَ : لَہُ ثُنْیَاہُ قَدَّمَ الطَّلاَقَ ، أَوْ أَخَّرَہُ۔
(١٨٣٢١) حضرت زہری (رض) طلاق اور عتاق کے استثناء کے بارے میں فرماتے ہیں کہ طلاق کو مقدم کرے یا مؤخر اس کا ان شاء اللہ کہنا باقی رہے گا۔

18321

(۱۸۳۲۲) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃُ ، عَنِ الأَعْمَشِِ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، عَنْ شُرَیْحٍ قَالَ : إِذَا بَدَأَ بِالطَّلاَقِ وَقَعَ ، حَنِثَ ، أَوْ لَمْ یَحْنَثْ ، وَکَانَ یَقُولُ إِبْرَاہِیمُ : وَمَا یُدْرِی شُرَیْحًا۔
(١٨٣٢٢) حضرت شریح (رض) فرماتے ہیں کہ جب طلاق سے ابتداء کرے تو واقع ہوجائے گی حانث ہو یا نہ ہو اور حضرت ابراہیم (رض) فرماتے تھے کہ شریح نہیں جانتے۔

18322

(۱۸۳۲۳) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ، عَنْ سَعِیدٍ الزُّبَیْدِیِّ، قَالَ: أَتَیْتُ امْرَأَتِی طُرُوقًا، فَقَالَتْ لِی: مَا جِئْتَ بِہَذِہِ السَّاعَۃِ إِلاَّ وَلَک امْرَأَۃٌ غَیْرِی ، فَقُلْتُ: کُلُّ امْرَأَۃٍ لِی فَہِیَ طَالِقٌ ثَلاَثًا غَیْرَک ، فَسَأَلْتُ إِبْرَاہِیمَ ؟ فَقَالَ: لَیْسَ بِشَیْئٍ۔
(١٨٣٢٣) حضرت سعید زبیدی کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں رات کو اپنی بیوی کے پاس بہت دیر سے آیا تو وہ مجھے کہنے لگی تم میرے پاس اس وقت صرف اس لیے آئے ہو کہ تمہاری کوئی اور بیوی بھی ہے، میں نے کہا کہ اگر میری کوئی اور بیوی ہو تو اس کو طلاق ہے، میں نے اس بارے میں حضرت ابراہیم (رض) سے سوال کیا تو انھوں نے فرمایا کہ اس جملے میں کوئی حرج نہیں۔

18323

(۱۸۳۲۴) حَدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنِ الأَعْمَشِِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ؛ أَنَّہُ کَانَ یَرَی الاِسْتِثْنَائَ فِی الطَّلاَقِ۔
(١٨٣٢٤) حضرت ابراہیم (رض) طلاق میں استثناء کے قائل تھے۔

18324

(۱۸۳۲۵) حَدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ عَطَائٍ ، وَطَاوُوسٍ ، وَمُجَاہِدٍ ، وَالنَّخَعِیِّ ، وَالزُّہْرِیِّ ، قَالُوا: إِذَا قَالَ الرَّجُلُ لامْرَأَتِہِ : أَنْتِ طَالِقٌ ، إِنْ لَمْ أَفْعَلْ کَذَا وَکَذَا إِنْ شَائَ اللَّہُ ، فَلَہُ ثُنْیَاہُ۔
(١٨٣٢٥) حضرت عطائ، حضرت طاوس، حضرت مجاہد، حضرت نخعی اور حضرت زہری (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کسی آدمی نے اپنی بیوی سے کہا اگر میں ایسا ایسا نہ کروں تو ان شاء اللہ تجھے طلاق ہے تو اس کا استثناء قابل لحاظ ہوگا۔

18325

(۱۸۳۲۶) حدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنِ الْہَیْثُمِ ، عَنْ حَمَّادٍ ؛ فِی الرَّجُلِ قَالَ لامْرَأَتِہِ : أَنْتِ طَالِقٌ إِنْ شَائَ اللَّہُ ، قَالَ : لَہُ ثُنْیَاہُ ، وَقَالَ الْحَکَمُ مِثْلُ ذَلِکَ۔
(١٨٣٢٦) حضرت حماد (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کسی آدمی نے اپنی بیوی سے کہا کہ ان شاء اللہ تجھے طلاق ہے تو اس کا استثناء قابل لحاظ ہوگا۔ حضرت حکم (رض) بھی یونہی فرماتے ہیں۔

18326

(۱۸۳۲۷) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَۃَ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، وَإِیَاسِ بْنِ مُعَاوِیَۃَ ؛ فِی رَجُلٍ قَالَ لامْرَأَتِہِ : ہِیَ طَالِقٌ إِنْ شَائَ اللَّہُ ، قَالاَ : ذَہَبَتْ مِنْہُ۔
(١٨٣٢٧) حضرت قتادہ (رض) اور حضرت ایاس بن معاویہ (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کسی آدمی نے اپنی بیوی سے کہا کہ ان شاء اللہ تجھے طلاق ہے تو طلاق ہوجائے گی۔

18327

(۱۸۳۲۸) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : إِذَا قَالَ لامْرَأَتِہِ : ہِیَ طَالِقٌ إِنْ شَائَ اللَّہُ ، فَہِیَ طَالِقٌ ، وَلَیْسَ اسْتِثْنَاؤُہُ بِشَیْئٍ۔
(١٨٣٢٨) حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کسی آدمی نے اپنی بیوی سے کہا کہ ان شاء اللہ تجھے طلاق ہے تو طلاق ہوجائے گی اور اس کے استثناء کی کوئی حیثیت نہیں۔

18328

(۱۸۳۲۹) حَدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ بْنُ عَیَّاشٍ ، عَنْ مُعَاذِ بْنِ رِفَاعَۃَ ، عَنْ مَکْحُولٍ ، عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : إِذَا قَالَ الرَّجُلُ لامْرَأَتِہِ : أَنْتِ طَالِقٌ إِنْ شَائَ اللَّہُ ، فَلَیْسَتْ بِطَالِقٍ ، وَإِذا قَالَ لِعَبْدِہِ : أَنْتَ حُرٌّ إِنْ شَائَ اللَّہُ ، فَہُوَ حُرٌّ۔ (دارقطنی ۹۴۔ بیہقی ۳۶۱)
(١٨٣٢٩) حضرت معاذ بن جبل (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ جب کسی آدمی نے اپنی بیوی سے کہا کہ تجھے ان شاء اللہ طلاق ہے تو اسے طلاق نہیں ہوگی۔ اور اگر اپنے غلام سے کہا کہ تو ان شاء اللہ آزاد ہے تو غلام آزاد ہوجائے گا۔

18329

(۱۸۳۳۰) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ طَلْحَۃَ الْخُزَاعِیِّ ، عَنِ أَبِی یَزِیدَ الْمَدِینِیِّ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : لَیْسَ لِمُکْرَہٍ وَلاَ لِمُضْطَہَدٍ طَلاَقٌ۔
(١٨٣٣٠) حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ طلاق کے لیے مجبور کئے گئے اور زبردستی کئے گئے شخص کی طلاق نہیں ہوتی۔

18330

(۱۸۳۳۱) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، وَوَکِیعٌ ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَۃَ ، عَنْ حُمَیْدٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، عَنْ عَلِیٍّ ؛ أَنَّہُ کَانَ لاَ یَرَی طَلاَقَ الْمُکْرَہِ شَیْئًا۔
(١٨٣٣١) حضرت علی (رض) فرماتے ہیں کہ طلاق کے لیے مجبور کئے گئے شخص کی طلاق نہیں ہوتی۔

18331

(۱۸۳۳۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ الأَوْزَاعِیِّ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ أَبِی کَثِیرٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ؛ أَنَّہُ أَلْغَاہ۔
(١٨٣٣٢) حضرت ابن عباس (رض) نے ایسی طلاق کو لغو قرار دیا۔

18332

(۱۸۳۳۳) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ عبْیدِ اللہِ بْن عُمَرَ ، عَنْ ثَابِت، مَولَی أَہْلِ المَدِینَۃ ، عَنِ ابن عُمَرَ، وَابن الزُّبَیْرِ، قَالَ : کَانَا لاَ یَرَیَانِ طَلاَقَ الْمُکْرَہِ شَیْئًا۔
(١٨٣٣٣) حضرت ابن عمر اور حضرت ابن زبیر (رض) فرماتے ہیں کہ طلاق کے لیے مجبور کئے گئے شخص کی طلاق نہیں ہوتی۔

18333

(۱۸۳۳۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ الأَوْزَاعِیِّ ، عَنْ رَجُلٍ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ ؛ أَنَّہُ لَمْ یَرَہُ شَیْئًا۔
(١٨٣٣٤) حضرت عمر بن خطاب (رض) فرماتے ہیں کہ طلاق کے لیے مجبور کئے گئے شخص کی طلاق نہیں ہوتی۔

18334

(۱۸۳۳۵) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ بَشِیرٍ، عَنْ زَیْدِ بْنِ رُفَیْعٍ، عَنْ عُمَرَ بْنِ عَبْدِالْعَزِیزِ، قَالَ: لاَ طَلاَقَ وَلاَ عَتَاقَ عَلَی مُکْرَہٍ۔
(١٨٣٣٥) حضرت عمر بن عبد العزیز (رض) فرماتے ہیں کہ طلاق کے لیے مجبور کئے گئے شخص کی طلاق اور عتاق کا اعتبار نہیں۔

18335

(۱۸۳۳۶) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، وَیُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ ؛ أَنَّہُ کَانَ لاَ یَرَی طَلاَقَ الْمُکْرَہِ شَیْئًا۔
(١٨٣٣٦) حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ طلاق کے لیے مجبور کئے گئے شخص کی طلاق نہیں ہوتی۔

18336

(۱۸۳۳۷) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ ، عَنْ عَطَائٍ ؛ أَنَّہُ کَانَ لاَ یَرَاہُ شَیْئًا۔ قَالَ عَبْدُ الْمَلِکِ فِی حَدِیثِہِ : قَالَ عَطَائٌ : الشِّرْکُ أَعْظَمُ مِنَ الطَّلاَقِ۔
(١٨٣٣٧) حضرت عطائ (رض) فرماتے ہیں کہ شرک طلاق سے بڑھ کر ہے۔

18337

(۱۸۳۳۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ الأَوْزَاعِیِّ ، قَالَ : سَأَلْتُ عَطَائً عَنْ طَلاَقِ الْمُکْرَہِ ؟ فَقَالَ : لَیْسَ بِشَیْئٍ۔
(١٨٣٣٨) حضرت عطائ (رض) فرماتے ہیں کہ طلاق کے لیے مجبور کئے گئے شخص کی طلاق نہیں ہوتی۔

18338

(۱۸۳۳۹) حدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ جُوَیْبِرٍ ، عَنِ الضَّحَّاکِ ، قَالَ : کَانَ لاَ یَرَی طَلاَقَ الْمُکْرَہِ وَعَتَاقَہُ جَائِزًا۔
(١٨٣٣٩) حضرت ضحاک (رض) فرماتے ہیں کہ طلاق کے لیے مجبور کئے گئے شخص کی طلاق اور عتاق کا کوئی اعتبار نہیں۔

18339

(۱۸۳۴۰) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إنَّ اللَّہَ تَجَاوَزَ لَکُمْ عَنْ ثَلاَثٍ : الْخَطَأُ ، وَالنِّسْیَانُ ، وَمَا أُکْرِہْتُمْ عَلَیْہِ۔ (عبدالرزاق ۱۱۴۱۶۔ سعید بن منصور ۱۱۴۵)
(١٨٣٤٠) حضرت حسن (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تم سے تین چیزوں کو معاف کردیا : غلطی، بھول اور وہ کام جس پر تم مجبور کئے گئے۔

18340

(۱۸۳۴۱) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، قَالَ : حَدَّثَنَا شُعْبَۃُ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ؛ أَنَّ عَامِلاً مِنَ الْعُمَّالِ ضَرَبَ رَجُلاً حَتَّی طَلَّقَ امْرَأَتَہُ ، قَالَ : فَکُتِبَ فِیہِ إلَی عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِیزِ ، قَالَ : فَلَمْ یُجِزْ ذَلِکَ۔
(١٨٣٤١) حضرت محمد بن عبدالرحمن (رض) فرماتے ہیں کہ ایک عامل نے ایک شخص پر تشدد کیا اور اس نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی۔ جب یہ معاملہ حضرت عمر بن عبدالعزیز (رض) کے پاس پیش ہوا تو انھوں نے اس طلاق کو درست قرار نہیں دیا۔

18341

(۱۸۳۴۲) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ ، عَنْ ثَوْرٍ ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ بْنِ أَبِی صَالِحٍ ، عَنْ صَفِیَّۃَ بِنْتِ شَیْبَۃَ ، عَنْ عَائِشَۃَ ، قَالَتْ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لاَ طَلاَقَ وَلاَ عَتَاقَ فِی إغْلاَقٍ۔ (ابوداؤد ۲۱۸۷۔ احمد ۶/۲۷۶)
(١٨٣٤٢) حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ زبردستی دی گئی طلاق اور آزادی کا کوئی اعتبار نہیں۔

18342

(۱۸۳۴۳) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ سَیَّارٍ قَالَ : قُلْتُ لِلشَّعْبِیِّ : إنَّہُمْ یَزْعُمُونَ أَنَّک لاَ تَرَی طَلاَقَ الْمُکْرَہِ شَیْئًا ؟ قَالَ : إنَّہُمْ یَکْذِبُونَ عَلَیَّ۔
(١٨٣٤٣) حضرت سیار (رض) کہتے ہیں کہ میں نے حضرت شعبی (رض) سے کہا کہ لوگ آپ کے بارے میں کہتے ہیں کہ آپ مجبور کئے گئے شخص کی طلاق کو درست نہیں سمجھتے ؟ انھوں نے فرمایا کہ وہ مجھ پر جھوٹ گھڑتے ہیں۔

18343

(۱۸۳۴۴) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنِ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، قَالَ : طَلاَقُ الْمُکْرَہِ جَائِزٌ۔
(١٨٣٤٤) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ مجبور کئے گئے شخص کی طلاق ہوجاتی ہے۔

18344

(۱۸۳۴۵) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنِ الأَعْمَشِِ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، قَالَ : ہُوَ جَائِزٌ ، إِنَّمَا ہُوَ شَیْئٌ افْتَدَی بِہِ نَفْسَہُ۔
(١٨٣٤٥) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ مجبور کئے گئے شخص کی طلاق ہوجاتی ہے۔ یہ اس نے اپنی جان کا فدیہ دیا ہے۔

18345

(۱۸۳۴۶) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَۃَ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ زَیْدٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ؛ أَنَّہُ کَانَ یُجِیزُ طَلاَقَ الْمُکْرَہِ۔
(١٨٣٤٦) حضرت سعید بن مسیب (رض) فرماتے ہیں کہ مجبور کئے گئے شخص کی طلاق ہوجاتی ہے۔

18346

(۱۸۳۴۷) حَدَّثَنَا عَبْدُاللہِ بْنُ الْمُبَارَکِ، عَنْ رَجُلٍ، قَدْ سَمَّاہُ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ، عَنْ شُرَیْحٍ، قَالَ: طَلاَقُ الْمُکْرَہِ جَائِزٌ۔
(١٨٣٤٧) حضرت شریح (رض) فرماتے ہیں کہ مجبور کئے گئے شخص کی طلاق ہوجاتی ہے۔

18347

(۱۸۳۴۸) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، عَنْ جَرِیرِ بْنِ حَازِمٍ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنْ أَبِی قِلاَبَۃَ ؛ إِنَّ طَلاَقَ الْمُکْرَہِ جَائِزٌ۔
(١٨٣٤٨) حضرت ابو قلابہ (رض) فرماتے ہیں کہ مجبور کئے گئے شخص کی طلاق ہوجاتی ہے۔

18348

(۱۸۳۴۹) حدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ حَمَّادٍ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، قَالَ : لَوْ وُضِعَ السَّیْفُ عَلَی مَفْرِقِہِ ، ثُمَّ طَلَّقَ ، لأَجَزْتُ طَلاَقَہُ۔
(١٨٣٤٩) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ اگر ایک آدمی کے سر پر تلوار رکھی جائے اور پھر وہ طلاق دے دے تو میں اس طلاق کو واقع قرار دے دوں گا۔

18349

(۱۸۳۵۰) حَدَّثَنَا ابْنُ إِدْرِیسَ ، عَنْ حُصَیْنٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ؛ فِی الرَّجُلِ یُکْرَہُ عَلَی أَمْرٍ مِنْ أَمْرِ الْعَتَاقِ ، أَوِ الطَّلاَقِ قَالَ : إِذَا أَکْرَہَہُ السُّلْطَانُ جَازَ ، وَإِذَا أَکْرَہَہُ اللُّصُوصُ لَمْ یَجُزْ۔
(١٨٣٥٠) حضرت شعبی (رض) سے سوال کیا گیا کہ اگر کسی آدمی کو طلاق یا عتاق پر مجبور کیا گیا تو کیا حکم ہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ اگر سلطان نے مجبور کیا تو درست ہے اور اگر چوروں نے مجبور کیا تو درست نہیں۔

18350

(۱۸۳۵۱) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ ؛ فِی رَجُلٍ لَہُ امْرَأَتَانِ ، نَہَی إحْدَاہُمَا عَنِ الْخُرُوجِ ، فَخَرَجَتِ الَّتِی لَمْ یَنْہَ ، فَظَنَّ أَنَّہَا الَّتِی نَہَاہَا أَنْ تَخْرُجَ ، فَقَالَ : فُلاَنَۃُ خَرَجْتِ ؟ أَنْتِ طَالِقٌ ، قَالَ : تُطْلَقُ الَّتِی أَرَادَ وَنَوَی۔
(١٨٣٥١) حضرت حسن (رض) سے سوال کیا گیا کہ ایک آدمی کی دو بیویاں ہوں، وہ ایک کو نکلنے سے منع کرے، لیکن دوسری بیوی نکلے جسے نکلنے سے منع نہیں کیا تھا تو وہ سمجھے کہ وہ نکلی ہے جس کو منع کیا تھا لہٰذا وہ کہے کہ اے فلانی ! تو نکلی ؟ تجھے طلاق ہے۔ تو کیا حکم ہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ جس کی نیت کی ہے اسے طلاق ہوگی۔

18351

(۱۸۳۵۲) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، قَالَ : تُطْلَقَانِ جَمِیعًا ، تُطْلَقُ الَّتِی أَرَادَ بِتَسْمِیَتِہِ إِیَّاہَا ، وَتُطْلَقُ ہَذِہِ بِقَوْلِہِ لَہَا : أَنْتِ طَالِقٌ۔
(١٨٣٥٢) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ ایک آدمی کی دو بیویاں ہوں، وہ ایک کو نکلنے سے منع کرے، لیکن دوسری بیوی نکلے جسے نکلنے سے منع نہیں کیا تھا تو وہ سمجھے کہ وہ نکلی ہے جس کو منع کیا تھا لہٰذا وہ کہے کہ اے فلانی ! تو نکلی ؟ تجھے طلاق ہے۔ تو اس صورت میں دونوں کو طلاق ہوجائے گی، جس کا نام لیا اسے اس کے نام کی وجہ سے اور دوسری کو یہ کہنے کی وجہ سے کہ تجھے طلاق ہے۔

18352

(۱۸۳۵۳) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ؛ أَنَّہُ قَالَ فِی رَجُلٍ قَالَ لامْرَأَتِہِ : إِنْ خَرَجْتِ فَأَنْتِ طَالِقٌ، فَاسْتَعَارَتِ امْرَأَۃٌ ثِیَابَہَا فَلَبِسَتْہَا ، فَأَبْصَرَہَا زَوْجُہَا حِینَ خَرَجَتْ مِنَ الْبَابِ ، فَقَالَ : قَدْ فَعَلْتِ ؟ أَنْتِ طَالِقٌ، قَالَ : یَقَعُ طَلاَقُہُ عَلَی امْرَأَتِہِ۔
(١٨٣٥٣) حضرت زہری (رض) سے سوال کیا گیا کہ اگر ایک آدمی نے اپنی بیوی سے کہا کہ اگر تو نکلی تجھے طلاق ہے۔ اس کے بعد کسی عورت نے اس کی بیوی کے کپڑے مانگے اور پہن کر باہر جانے لگی، اس کے خاوند نے دیکھ کر کہا کہ تو باہر نکل گئی۔ لہٰذا تجھے طلاق ہے تو یہ طلاق اس کی بیوی کو ہوجائے گی۔

18353

(۱۸۳۵۴) حَدَّثَنَا عُمَرُ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ، عَنْ عَطَائٍ ، قَالَ: سَمِعْتُہُ یَقُولُ: إِنْ حَلَفَ رَجُلٌ عَلَی امْرَأَتِہِ أَنَّہَا لاَ تَخْرُجُ، فَخَرَجَتِ امْرَأَۃٌ لَہُ أُخْرَی ، فَقِیلَ لَہُ : ہَذِہِ امْرَأَتُک ، فَحَسِبَہَا الأُخْرَی فَطَلَّقَہَا ، قَالَ عَطَائٌ : لَیْسَ بِشَیْئٍ۔
(١٨٣٥٤) حضرت عطائ (رض) فرماتے ہیں کہ اگر ایک آدمی نے اپنی بیوی کو قسم دی کہ وہ باہر نہیں نکلے گی۔ لیکن اس کی کوئی دوسری بیوی باہر نکلی، اسے کسی نے کہا کہ وہ تیری بیوی ہے۔ وہ یہ سمجھا کہ شاید یہ وہ ہے جسے نکلنے سے منع کیا تھا اور اس نے اسے طلاق دے دی تو طلاق نہیں ہوگی۔

18354

(۱۸۳۵۵) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ یَزِیدَ ، عَنْ أَبِی الْعَلاَئِ ، عَنْ قَتَادَۃَ ؛ فِی رَجُلٍ کَانَتْ لَہُ امْرَأَتَانِ ، فَخَرَجَتْ إحْدَاہُمَا ، قَالَ : مَنْ ہَذِہِ ؟ قِیلَ : فُلاَنَۃُ ، قَالَ : إِنَّہَا طَالِقٌ ، وَکَانَتِ الَّتِی لَمْ یُسَمِّ ، قَالَ : قَدْ وَقَعَ الطَّلاَقُ عَلَیْہِمَا جَمِیعًا۔
(١٨٣٥٥) حضرت قتادہ (رض) سے سوال کیا گیا کہ اگر ایک آدمی کی دو بیویاں تھیں، ان میں سے ایک باہر نکلی اور اس نے سوال کیا کہ یہ کون ہے ؟ اسے بتایا گیا کہ فلانی ہے۔ اس نے کہا کہ اسے طلاق ہے، حالانکہ جس کا نام لیا گیا یہ وہ نہیں تھی۔ تو کیا حکم ہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ دونوں کو طلاق ہوجائے گی۔

18355

(۱۸۳۵۶) حَدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ عَامِرٍ ؛ فِی رَجُلٍ کَانَتْ لَہُ امْرَأَتَانِ ، أوْ مَمْلُوکَتَانِ فَدَعَا إِحْدَاہُمَا ، فَقَالَ : أَنْتِ طَالِقٌ ، فَأَجَابَتْہُ الأُخْرَی ، قَالَ : تُطْلَقُ الَّتِی سَمَّی ، وَإِنْ قَالَ لِعَبْدِہِ ، فَمِثْلُ ذَلِکَ۔
(١٨٣٥٦) حضرت عامر (رض) فرماتے ہیں کہ اگر ایک آدمی کی بیویاں یا دو باندیاں تھیں۔ اس نے ایک کو بلایا اور کہا کہ تجھے طلاق ہے۔ اسے دوسری نے جواب دیا تو اسے طلاق ہوگی جس کا اس نے نام لیا، اگر اپنے غلام سے کہا تب بھی یہی حکم ہے۔

18356

(۱۸۳۵۷) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِی عَدِیٍّ، عَنْ أَشْعَثَ، عَنِ الْحَسَنِ؛ فِی رَجُلٍ قَالَ لامْرَأَتِہِ: اِلْحَقِی بِأَہْلِکِ، قَالَ: نِیَّتُہُ۔
(١٨٣٥٧) حضرت حسن (رض) سے سوال کیا گیا کہ اگر ایک شخص اپنی بیوی سے کہا کہ ” اپنے گھر والوں کے پاس چلی جا “ تو کیا حکم ہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ اس کی نیت کا اعتبار ہے۔

18357

(۱۸۳۵۸) حَدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ عَامِرٍ ؛ فِی الرَّجُلِ یَقُولُ لامْرَأَتِہِ : اِلْحَقِی بِأَہْلِکِ ، قَالَ : لَیْسَ بِشَیْئٍ ، إِلاَّ أَنْ یَنْوِیَ طَلاَقًا فِی غَضَبٍ۔
(١٨٣٥٨) حضرت عامر (رض) سے سوال کیا گیا کہ اگر ایک شخص نے اپنی بیوی سے کہا کہ ” اپنے گھر والوں کے پاس چلی جا “ تو کیا حکم ہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ یہ کچھ نہیں، اگر غصے میں تھا اور طلاق کی نیت کی تو طلاق ہوجائے گی۔

18358

(۱۸۳۵۹) حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّیَالِسِیُّ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ ، قَالَ : إِذَا قَالَ : اِلْحَقِی بِأَہْلِکِ ، قَالَ : ہَذِہِ وَاحِدَۃٌ ، وَقَالَ قَتَادَۃُ : مَا أَعُدُّ ہَذَا شَیْئًا۔
(١٨٣٥٩) حضرت عکرمہ (رض) فرماتے ہیں کہ اگر ایک آدمی نے اپنی بیوی سے کہا کہ اپنے گھر والوں کے پاس چلی جا تو ایک طلاق ہوگئی۔ حضرت قتادہ (رض) فرماتے ہیں کہ میں اس کو کچھ بھی شمار نہیں کرتا۔

18359

(۱۸۳۶۰) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، قَالَ : سَأَلْتُ الْحَکَمَ ، وَحَمَّادًا عَنْ رَجُلٍ قَالَ لامْرَأَتِہِ : اُخْرُجِی، اِلْحَقِی بِأَہْلِکِ یَنْوِی الطَّلاَقَ ؟ قَالاَ : ہِیَ وَاحِدَۃٌ ، وَہُوَ أَحَقُّ بِرَجْعَتِہَا۔
(١٨٣٦٠) حضرت شعبہ (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت حکم (رض) اور حضرت حماد (رض) سے اس شخص کے بارے میں سوال کیا جس نے اپنی بیوی سے کہا کہ نکل جا، اپنے گھر والوں سے مل جا اور اس نے طلاق کی نیت بھی کی ہو تو کیا حکم ہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ ایک طلاق ہوگی اور وہ اس سے رجوع کرنے کا زیادہ حق دار ہے۔

18360

(۱۸۳۶۱) حَدَّثَنَا جَرِیرُ بْنُ عَبْدِ الْحَمِیدِ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنِ الْحَارِثِ الْعُکْلِیِّ ؛ فِی رَجُلٍ لَہُ أَرْبَعُ نِسْوَۃٍ فَقَالَ لَہُنَّ : بَیْنَکُنَّ ثَلاَثُ تَطْلِیقَاتٍ ، قَالَ : بَانَتْ کُلُّ وَاحِدَۃٍ مِنْہُنَّ بِثَلاَثِ تَطْلِیقَاتٍ ، وَالرَّجُلُ یُطَلِّقُ نِصْفَ تَطْلِیقَۃٍ ، قَالَ : ہِیَ تَطْلِیقَۃٌ تَامَّۃٌ۔
(١٨٣٦١) حضرت حارث عکلی (رض) فرماتے ہیں کہ اگر ایک آدمی کی چار بیویاں ہوں اور وہ ان سے کہے کہ تمہارے درمیان تین طلاقیں، تو ان میں سے ہر ایک تین طلاقوں کے ساتھ بائنہ ہوجائے گی، اور اگر آدمی نے اپنی بیوی کو آدھی طلاق دی تو وہ پوری ایک طلاق شمار کی جائے گی۔

18361

(۱۸۳۶۲) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ؛ فِی رَجُلٍ کَانَ لَہُ أَرْبَعُ نِسْوَۃٍ ، فَقَالَ لَہُنَّ : بَیْنَکُنَّ تَطْلِیقَۃٌ ، قَالَ : لِکُلِّ وَاحِدَۃٍ تَطْلِیقَۃٌ۔
(١٨٣٦٢) حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کسی شخص کی چار بیویاں ہوں اور کہے کہ تم سب کے درمیان ایک طلاق ہے تو سب کو ایک ایک طلاق ہوگی۔

18362

(۱۸۳۶۳) حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ رَوَّادُ بْنُ جَرَّاحٍ ، عَنِ الأَوْزَاعِیِّ ، قَالَ : قِیلَ لِعُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِیزِ : الرَّجُلُ یُطَلِّقُ امْرَأَتَہُ نِصْفَ تَطْلِیقَۃٍ ؟ قَالَ : ہِیَ تَطْلِیقَۃٌ۔
(١٨٣٦٣) حضرت اوزاعی (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز (رض) سے سوال کیا گیا کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو آدھی طلاق دے دے تو کیا حکم ہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ یہ ایک طلاق ہوگی۔

18363

(۱۸۳۶۴) حَدَّثَنَا ابْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَۃَ ، عَنْ حَمَّادٍ ، وَقَتَادَۃَ ؛ فِی رَجُلٍ کَانَ لَہُ أَرْبَعُ نِسْوَۃٍ ، فَقَالَ لَہُنَّ: بَیْنَکُنَّ تَطْلِیقَۃٌ ، قَالَ : عَلَی کُلِّ وَاحِدَۃٍ مِنْہُنَّ تَطْلِیقَۃٌ۔
(١٨٣٦٤) حضرت حماد (رض) اور حضرت قتادہ (رض) فرماتے ہیں کہ اگر ایک آدمی کی چار بیویاں ہوں اور وہ کہے کہ تم سب کے درمیان ایک طلاق ہے تو ہر ایک کو ایک طلاق ہوگی۔

18364

(۱۸۳۶۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ رَجُلٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : إِذَا قَالَ : أَنْتِ طَالِقٌ نِصْفَ ، أَوْ ثُلُثَ تَطْلِیقَۃٍ فَہِیَ تَطْلِیقَۃٌ۔
(١٨٣٦٥) حضرت شعبی (رض) فرماتے ہیں کہ اگر ایک آدمی نے اپنی بیوی کو کہا کہ تجھے آدھی یا ایک تہائی طلاق ہے تو وہ ایک طلاق ہوگی۔

18365

(۱۸۳۶۶) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، وَعَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ زُرَارَۃَ بْنِ أَوْفَی ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إِنَّ اللَّہَ تَجَاوَزَ ِلأَمَّتِی عَمَّا حَدَّثَتْ بِہِ أَنْفُسَہَا ، مَا لَمْ تَکَلَّمْ بِہِ ، أَوْ تَعْمَلْ بِہِ۔ (بخاری ۲۵۲۸۔ مسلم ۲۰۲)
(١٨٣٦٦) حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ بیشک اللہ تعالیٰ نے میری امت کے دل کے خیالات کو معاف کردیا ہے جب تک وہ ان تکلم نہ کریں یا اس کے تقاضے پر عمل نہ کرے۔

18366

(۱۸۳۶۷) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ ، عَنِ ابْنِ أَبِی عَرُوبَۃَ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ ، وَالْحَسَنِ ، أَنَّہُمَا قَالاَ : حدِیثُ النَّفْسِ بِالطَّلاَقِ لَیْسَ بِشَیْئٍ ، وَقَالَ ابْنُ سِیرِینَ : لَوْ لَمْ یُسْأَلْ کَانَ أَحَبَّ إلَیَّ۔
(١٨٣٦٧) حضرت ابن سیرین فرماتے ہیں کہ دل میں طلاق دینا کوئی چیز نہیں۔ ابن سیرین (رض) فرمایا کرتے تھے کہ اگر اس سے سوال نہ کیا جائے تو زیادہ اچھی بات ہے۔

18367

(۱۸۳۶۸) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنْ جَرِیرِ بْنِ حَازِمٍ ، عَنْ إِسْمَاعِیلَ بْنِ آدَمَ ، قَالَ : سَأَلْتُ مُحَمَّدَ بْنَ سِیرِینَ عَنِ الرَّجُلِ یُحَدِّثُ نَفْسَہُ بِالطَّلاَقِ ؟ قَالَ : لَیْسَ حَدِیثُ النَّفْسِ بِشَیْئٍ۔
(١٨٣٦٨) حضرت اسماعیل بن آدم (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے محمد بن سیرین (رض) سے سوال کیا کہ اگر کوئی شخص بیوی کو دل میں طلاق دے دے تو کیا حکم ہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ دل میں کی گئی بات کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔

18368

(۱۸۳۶۹) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ؛ مِثْلَہُ۔
(١٨٣٦٩) حضرت سعید بن جبیر (رض) سے بھی یونہی منقول ہے۔

18369

(۱۸۳۷۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِینَارٍ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ زَیْدٍ (ح) وَعَنْ سُفْیَانَ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَطَائٍ ، قَالاَ : لَیْسَ بِشَیْئٍ۔
(١٨٣٧٠) حضرت جابر بن زید (رض) اور حضرت عطائ (رض) فرماتے ہیں کہ دل میں دی گئی طلاق کا کوئی اعتبار نہیں۔

18370

(۱۸۳۷۱) حَدَّثَنَا عُمَرُ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَطَائٍ (ح) وَعَنْ عَمْرٍو ، عَنْ جَابِرِ بْنِ زَیْدٍ ؛ بِنَحْوِہِ۔
(١٨٣٧١) حضرت جابر بن زید (رض) سے یونہی منقول ہے۔

18371

(۱۸۳۷۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إِسْرَائِیلَ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ عَامِرٍ ، قَالَ : إِذَا حَدَّثَ نَفْسُہُ بِالطَّلاَقِ ، أَوِ العَتَاقِ ، فَلَیْسَ بِشَیْئٍ۔
(١٨٣٧٢) حضرت عامر فرماتے ہیں کہ اگر دل میں طلاق دی یا آزاد کیا تو اس کا کوئی اعتبار نہیں۔

18372

(۱۸۳۷۳) حَدَّثَنَا جَرِیرُ بْنُ عَبْدِ الْحَمِیدِ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، قَالَ : إِذَا جَعَلَ الرَّجُلُ أَمْرَ امْرَأَتِہِ بِیَدِ غَیْرِہِ ، فَمَا طَلَّقَ مِنْ شَیْئٍ فَہِیَ وَاحِدَۃٌ بَائِنَۃٌ۔
(١٨٣٧٣) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کا معاملہ کسی دوسرے آدمی کے سپرد کردے، پھر وہ دوسرا آدمی طلاق دے دے تو ایک طلاق بائنہ ہوگی۔

18373

(۱۸۳۷۴) حدَّثَنَا عَبْدُالأَعْلَی، عَنْ یُونُسَ، عَنِ الْحَسَنِ؛ فِی الرَّجُلِ یَجْعَلُ أَمْرَ امْرَأَتِہِ بِیَدِ رَجُلٍ، قَالَ: ہُوَ کَمَا قَالَ۔
(١٨٣٧٤) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کا معاملہ کسی دوسرے آدمی کے سپرد کردے، پھر وہ دوسرا آدمی جو کرے گا وہی نافذ ہوگا۔

18374

(۱۸۳۷۵) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ ، عَنْ عَطَائٍ ؛ فِی الرَّجُلِ یَقُولُ لِلرَّجُلِ : انْطَلِقْ فَطَلِّقْ عَنِّی فُلاَنَۃً ، قَالَ : ہُوَ جَائِزٌ ، ِإنْ طَلَّقَ جَازَ۔
(١٨٣٧٥) حضرت عطاء فرماتے ہیں کہ اگر ایک آدمی نے دوسرے آدمی سے کہا کہ جاؤ اور میری طرف سے فلانی عورت کو طلاق دے دو ۔ انھوں نے کہا کہ جائز ہے، اگر اس نے طلاق دی تو جائز ہے۔

18375

(۱۸۳۷۶) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، عَنْ زَکَرِیَّا ، قَالَ : سُئِلَ عَامِرٌ عَنْ رَجُلٍ جَعَلَ أَمْرَ امْرَأَتِہِ بِیَدِ رَجُلٍ آخَرَ ، فَطَلَّقَہَا الرَّجُلُ ثَلاَثًا ؟ فَقَالَ : ہِیَ وَاحِدَۃٌ ، إِنَّمَا جَعَلَ أَمْرَہَا بِیَدِہِ مَرَّۃً وَاحِدَۃً۔
(١٨٣٧٦) حضرت عامر سے سوال کیا گیا کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کا معاملہ کسی دوسرے آدمی کے سپرد کردے، پھر وہ دوسرا آدمی تین طلاق دے دے تو کیا حکم ہے، انھوں نے فرمایا کہ وہ ایک طلاق ہوگی، اس نے عورت کا معاملہ آدمی کے ہاتھ میں ایک مرتبہ ہی دیا تھا۔

18376

(۱۸۳۷۷) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ حَمَّادٍ ، قَالَ : إِذَا جَعَلَ الرَّجُلُ أَمْرَ امْرَأَتِہِ بِیَدِ رَجُلٍ ، فَطَلَّقَ ، فَہِیَ وَاحِدَۃٌ بَائِنَۃٌ۔
(١٨٣٧٧) حضرت حماد فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کا معاملہ کسی دوسرے آدمی کے سپرد کردے، پھر وہ دوسرا آدمی طلاق دے دے تو ایک طلاق بائنہ ہوگی۔

18377

(۱۸۳۷۸) حَدَّثَنَا کَثِیرُ بْنُ ہِشَامٍ ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ بُرْقَانَ ، قَالَ : سَمِعْتُ مَعْمَرًا یَذْکُرُ عَنِ الزُّہْرِیِّ ؛ فِی الرَّجُلِ یَجْعَلُ طَلاَقَ امْرَأَتِہِ بِیَدِہَا ، أَوْ بِیَدِ أَخِیہَا ، أَوْ أَبِیہَا ، أَوْ بِیَدِ أَحَدٍ ، فَالْقَوْلُ مَا قَالَ ، إِنْ طَلَّقَہَا وَاحِدَۃً فَوَاحِدَۃً ، وَإِنْ طَلَّقَہَا ثِنْتَیْنِ فَثِنْتَیْنِ ، وَإِنْ طَلَّقَ ثَلاَثًا فَثَلاَثًا۔
(١٨٣٧٨) حضرت زہری فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کی طلاق کا معاملہ اسی کے سپرد کرے، اس کے بھائی یا باپ یا کسی اور کے سپرد کردے تو مختار شخص جو بھی کرے وہ نافذ ہوگا۔ اگر ایک طلاق دی تو ایک، دو دیں تو دو ، اور اگر تین دیں تو تین۔

18378

(۱۸۳۷۹) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِِ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، قَالَ : جَائَ رَجُلٌ إِلَی عُمَرَ فَقَالَ : إِنِّی جَعَلْت أَمْرَ امْرَأَتِی بِیَدِہَا ، فَطَلَّقَتْ نَفْسَہَا ثَلاَثًا ، فَقَالَ عُمَرُ لِعَبْدِ اللہِ : مَا تَقُولُ ؟ فَقَالَ عَبْدُ اللہِ : أَرَاہَا وَاحِدَۃً، وَہُوَ أَمْلَکُ بِہَا ، فَقَالَ عُمَرُ : وَأَنَا أَیْضًا أَرَی ذَلِکَ۔
(١٨٣٧٩) حضرت مسروق فرماتے ہیں کہ ایک آدمی حضرت عمر (رض) کے پاس آیا اور اس نے کہا کہ میں نے اپنی بیوی کا معاملہ اس کے سپرد کردیا اور اس نے خود کو تین طلاقیں دے دیں، اب کیا حکم ہے ؟ حضرت عمر (رض) نے حضرت عبداللہ (رض) سے اس بارے میں سوال کیا تو انھوں نے فرمایا میرے خیال میں ایک طلاق ہوئی، اور آدمی بیوی سے رجوع کرنے کا زیادہ حق دار ہے۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا کہ میری بھی رائے یہی ہے۔

18379

(۱۸۳۸۰) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ ، عَنْ جَعْفَرٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ أَبَانَ بْنِ عُثْمَانَ ، عَنْ زَیْدِ بْنِ ثَابِتٍ ؛ أَنَّہُ قَالَ فِی رَجُلٍ قَالَ لامْرَأَتِہِ : إِنْ جُزْتِ عَتَبَۃَ ہَذَا الْبَابِ ، فَأَمْرُک بِیَدِکِ ، فَجَازَتْ ، فَطَلَّقَتْ نَفْسَہَا طَلاَقًا کَثِیرًا ، قَالَ زَیْدٌ : ہِیَ وَاحِدَۃٌ۔
(١٨٣٨٠) حضرت زیدبن ثابت (رض) سے سوال کیا گیا کہ اگر کسی شخص نے اپنی بیوی سے کہا کہ اگر تم نے اس دروازے کی چوکھٹ عبور کی، تو تمہارا معاملہ تمہارے ہاتھ میں ہے۔ اس عورت نے چوکھٹ عبور کی اور پھر عورت نے خود کو کئی طلاقیں دے دیں تو کیا حکم ہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ ایک طلاق ہوگی۔

18380

(۱۸۳۸۱) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنْ غَیْلاَنَ بْنِ جَرِیرٍ ، عَنْ أَبِی الْحَلاَلِ الْعَتَکِیِّ ؛ أَنَّہُ وَفَدَ إلَی عُثْمَانَ ، فَقَالَ : قُلْتُ : رَجُلٌ جَعَلَ أَمْرَ امْرَأَتِہِ بِیَدِہَا ، قَالَ : فَأَمْرُہَا بِیَدِہَا۔
(١٨٣٨١) حضرت ابو حلال عتکی ایک وفد کے ساتھ حضرت عثمان (رض) کی خدمت میں حاضر ہوئے، اور سوال کیا کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کا معاملہ اسی کے ہاتھ میں دے دے تو کیا حکم ہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ اس کا معاملہ اسی کے ہاتھ میں ہوگا۔

18381

(۱۸۳۸۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ أَبِی طَلْحَۃَ شَدَّادٍ ، عَنْ غَیْلاَنَ بْنِ جَرِیرٍ ، عَنْ أَبِی الْحَلاَلِ ، قَالَ : سَأَلْتُ عُثْمَانَ عَنْ رَجُلٍ جَعَلَ أَمْرَ امْرَأَتِہِ بِیَدِہَا ؟ قَالَ : الْقَضَائُ مَا قَضَتْ۔
(١٨٣٨٢) حضرت ابو الحلال (رض) کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عثمان (رض) سے سوال کیا کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کا معاملہ اسی کے سپرد کردے تو کیا حکم ہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ جو فیصلہ وہ کرے وہی نافذ ہوگا۔

18382

(۱۸۳۸۳) حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِی زَائِدَۃَ ، وَعَلِیُّ بْنُ ہَاشِمٍ ، عَنِ ابْنِ أَبِی لَیْلَی ، عَنِ الْحَکَمِ ، عَنْ مِقْسَمٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : الْقَضَائُ مَا قَضَتْ۔
(١٨٣٨٣) حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ اختیار دیئے جانے کی صورت میں جو فیصلہ بیوی کرے وہی نافذ ہوگا۔

18383

(۱۸۳۸۴) حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِی زَائِدَۃَ ، عن عُبَیْدِ اللہِ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : الْقَضَائُ مَا قَضَتْ۔
(١٨٣٨٤) حضرت ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ اختیار دیئے جانے کی صورت میں جو فیصلہ بیوی کرے وہی نافذ ہوگا۔

18384

(۱۸۳۸۵) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ فَضَالَۃَ بْنِ عُبَیْدٍ (ح) وَعَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ عَبْدِ رَبِّہِ ، عَنْ أَبِی عِیَاضٍ ، قَالَ : الْقَضَائُ مَا قَضَتْ۔
(١٨٣٨٥) حضرت ابو عیاض (رض) فرماتے ہیں کہ اختیار دیئے جانے کی صورت میں جو فیصلہ بیوی کرے وہی نافذ ہوگا۔

18385

(۱۸۳۸۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنِ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ، قَالَ : الْقَضَائُ مَا قَضَتْ۔
(١٨٣٨٦) حضرت سعید بن مسیب (رض) فرماتے ہیں کہ اختیار دیئے جانے کی صورت میں جو فیصلہ بیوی کرے وہی نافذ ہوگا۔

18386

(۱۸۳۸۷) حَدَّثَنَا حُمَیْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ حَسَنٍ ، عَنْ مُجَالِدٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ؛ فِی رَجُلٍ جَعَلَ أَمْرَ امْرَأَتِہِ بِیَدِہَا ، فَطَلَّقَتْ نَفْسَہَا ثَلاَثًا ، قَالَ : ہِیَ ثَلاَثٌ۔
(١٨٣٨٧) حضرت شعبی (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کسی شخص نے اپنی بیوی کا معاملہ اس کے سپرد کردیا اور اس نے خود کو تین طلاقیں دے دیں تو تین طلاقیں ہوجائیں گی۔

18387

(۱۸۳۸۸) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ ، عَنْ عُبَیْد اللہِ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ؛ فِی الرَّجُلِ یَجْعَلُ أَمْرَ امْرَأَتِہِ بِیَدِہَا ، قَالَ : الْقَضَائُ مَا قَضَتْ ، فَإِن تناکرا حُلِّف۔
(١٨٣٨٨) حضرت ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ اختیار دیئے جانے کی صورت میں جو فیصلہ بیوی کرے وہی نافذ ہوگا، اگر کوئی انکارکرے تو اس سے قسم لی جائے گی۔

18388

(۱۸۳۸۹) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ الثَّقَفِیُّ ، عَنْ بُرْدٍ ، عَنْ مَکْحُولٍ ، وَالزُّہْرِیِّ ، قَالاَ : الْقَضَائُ مَا قَضَتْ۔
(١٨٣٨٩) حضرت مکحول (رض) اور حضرت زہری (رض) فرماتے ہیں کہ اختیار دیئے جانے کی صورت میں جو فیصلہ بیوی کرے وہی نافذ ہوگا۔

18389

(۱۸۳۹۰) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، قَالَ : قُلْتُ لِلْحَکَمِ : قالَتْ : قَدْ طَلَّقْت نَفْسِی ثَلاَثًا ؟ قَالَ : قَدْ بَانَتْ مِنْہُ بِثَلاَثٍ ، یَعْنِی إِذَا جَعَلَ أَمْرَہَا بِیَدِہَا۔
(١٨٣٩٠) حضرت شعبہ (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت حکم (رض) سے سوال کیا اگر آدمی بیوی کا معاملہ اس کے سپرد کردے اور عورت کہے کہ میں نے خود کو تین طلاقیں دے دیں تو کیا حکم ہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ وہ تین طلاقوں کے ساتھ بائنہ ہوجائے گی۔

18390

(۱۸۳۹۱) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، عَنْ عَلْقَمَۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ؛ أَنَّ رَجُلاً جَعَلَ أَمْرَ امْرَأَتِہِ بِیَدِہَا ، فَطَلَّقَتْ نَفْسَہَا ثَلاَثًا ، قَالَ : ہِیَ وَاحِدَۃٌ ، ثُمَّ لَقِیَ عُمَرَ فَقَالَ : نِعْمَ مَا رَأَیْتَ۔
(١٨٣٩١) حضرت عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کسی شخص نے اپنی بیوی کا معاملہ اس کے سپرد کردیا اور اس نے خود کو تین طلاقیں دے دیں تو ایک طلاق واقع ہوگی۔ پھر وہ حضرت عمر (رض) سے ملے تو انھوں نے فرمایا کہ تم نے بہترین رائے دی ہے۔

18391

(۱۸۳۹۲) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ یُونُسَ ، قَالَ : حُدِّثْنَا إِذْ ذَاکَ ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِیزِ کَتَبَ فِی رَجُلٍ مِنْ بَنِی تَمِیمٍ جَعَلَ أَمْرَ امْرَأَتِہِ بِیَدِہَا ، قَالَ : إِنْ رَدَّتِ الأَمْرَ إِلَیْہِ فَلاَ شَیْئَ ، وَإِنْ طَلَّقَتْ نَفْسَہَا فَہِیَ وَاحِدَۃٌ ، وَہُوَ أَحَقُّ بِہَا۔
(١٨٣٩٢) حضرت عمر بن عبدالعزیز (رض) نے بنو تمیم کے ایک آدمی کے بارے میں لکھا جس نے اپنی بیوی کا معاملہ اس کے سپرد کردیا تھا کہ معاملہ مرد کی طرف لوٹے گا اور اگر عورت نے خود کو طلاق دی تو ایک طلاق ہوگی اور آدمی رجوع کا زیادہ حق دار ہے۔

18392

(۱۸۳۹۳) حَدَّثَنَا جَرِیرُ بْنُ عَبْدِ الْحَمِیدِ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ؛ فِی رَجُلٍ قَالَ لامْرَأَتِہِ : أَمْرُک بِیَدِکِ ، فَقَالَتْ : أَنْتَ طَالِقٌ ثَلاَثًا ، فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ : خَطَّأَ اللَّہُ نَوْئَہَا ، لَوْ قَالَتْ : أَنَا طَالِقٌ ثَلاَثًا ، لَکَانَ کَمَا قَالَتْ۔
(١٨٣٩٣) حضرت ابن عباس (رض) سے سوال کیا گیا کہ اگر کسی شخص نے اپنی بیوی کا معاملہ اس کے ہاتھ میں دے دیا اور پھر عورت نے کہا کہ تجھے تین طلاقیں ہیں تو کیا حکم ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ اللہ نے اس کی زبان پر غلط بات کو جاری کردیا، اگر وہ یہ کہتی کہ مجھے تین طلاقیں ہیں تو پھر طلاق ہوتی۔

18393

(۱۸۳۹۴) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، قَالَ : ذَکَرْتُہُ ِلإِبْرَاہِیمَ ، فَقَالَ : سَوَائٌ ہِیَ وَاحِدَۃٌ ، وَہُوَ أَمْلَکُ بِہَا إِنْ قَالَتْ : طَلَّقْتُکَ ، أَوْ طَلَّقْتُ نَفْسِی۔
(١٨٣٩٤) حضرت منصور (رض) کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابراہیم (رض) سے سوال کیا کہ اگر کسی شخص نے اپنی بیوی کا معاملہ اس کے ہاتھ میں دے دیا اور پھر عورت نے کہا کہ تجھے تین طلاقیں ہیں تو کیا حکم ہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ وہ خواہ یہ کہے کہ میں نے تجھے طلاق دی اور خواہ یہ کہے کہ میں نے خود کو طلاق دی۔ دونوں صورتوں میں ایک طلاق ہوجائے گی اور وہ خاوند رجوع کا زیادہ حق دار ہوگا۔

18394

(۱۸۳۹۵) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنْ عَطَائٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : خَطَّأَ اللَّہُ نَوْئَہَا۔
(١٨٣٩٥) حضرت ابن عباس (رض) سے سوال کیا گیا کہ اگر کسی شخص نے اپنی بیوی کا معاملہ اس کے ہاتھ میں دے دیا اور پھر عورت نے کہا کہ تجھے تین طلاقیں ہیں تو کیا حکم ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ اللہ نے اس کی زبان پر غلط بات کو جاری کردیا۔

18395

(۱۸۳۹۶) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، عَنِ الأَعْمَشِِ ، عَنْ حَبِیبٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ؛ فِی رَجُلٍ جَعَلَ أَمْرَ امْرَأَتِہِ بِیَدِہَا ، فَقَالَتْ : أَنْتَ طَالِقٌ ثَلاَثًا ، قَالَ : خَطَّأَ اللَّہُ نَوْئَہَا۔
(١٨٣٩٦) حضرت ابن عباس (رض) سے سوال کیا گیا کہ اگر کسی شخص نے اپنی بیوی کا معاملہ اس کے ہاتھ میں دے دیا اور پھر عورت نے کہا کہ تجھے تین طلاقیں ہیں تو کیا حکم ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ اللہ نے اس کی زبان پر غلط بات کو جاری کردیا۔

18396

(۱۸۳۹۷) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ الْعَبْدِیُّ ، قَالَ: حدَّثَنَا زَکَرِیَّا بْنُ أَبِی زَائِدَۃَ ، قَالَ: قَالَ مَنْصُورٌ ، حَدَّثَنِی إِبْرَاہِیمُ، عَنْ عَلْقَمَۃَ ، قَالَ : کُنْتُ عِنْدَ عَبْدِ اللہِ بْنِ مَسْعُودٍ فَأَتَاہُ رَجُلٌ ، فَقَالَ : یَا أَبَا عَبْدَ الرَّحْمَنِ ، إِنَّہُ کَانَ بَیْنِی وَبَیْنَ أَہْلِی بَعْضُ مَا یَکُونُ بَیْنَ النَّاسِ ، وَإِنَّہَا قَالَتْ : لَوْ کَانَ مَا بِیَدِکَ مِنَ الأَمْرِ بِیَدِی لَعَلِمْتَ مَا أَصْنَعُ؟ فَقُلْتُ لَہَا : ہُوَ بِیَدِکِ ، قَالَتْ : فَإِنِّی قَدْ طَلَّقْتُکَ ثَلاَثًا ، قَالَ عَبْدُ اللہِ : ہِیَ تَطْلِیقَۃٌ وَاحِدَۃٌ ، وَأَنْتَ أَحَقُّ بِہَا ، قَالَ : ثُمَّ ذَکَرْتُ ذَلِکَ لِعُمَرَ ، فَقَالَ : لَوْ قُلْتَ غَیْرَ ذَلِکَ لَرَأَیْتُ أَنَّک لَمْ تُصِبْ۔
(١٨٣٩٧) حضرت علقمہ (رض) فرماتے ہیں کہ میں حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) کے پاس تھا کہ ایک آدمی آیا اور اس نے کہا کہ اے ابو عبد الرحمن ! میرے اور میری بیوی کے درمیان کچھ جھگڑا ہوا، اس نے مجھے کہا کہ اگر تم اپنا معاملہ میرے ہاتھ میں دے دو تو تم دیکھنا کہ میں کیا کرتی ہں و ؟ میں نے کہا کہ وہ تیرے ہاتھ ہے، پھر اس نے خود کو تین طلاقیں دے دیں۔ حضرت عبداللہ (رض) نے فرمایا کہ ایک طلاق ہوئی، اور تم اس سے رجوع کرنے کے زیادہ حقدار ہو۔ وہ فرماتے ہیں کہ پھر میں نے اس کا تذکرہ حضرت عمر (رض) سے کیا تو انھوں نے فرمایا کہ اگر تم اس کے علاوہ کوئی اور بات کرتے تو میں سمجھتا کہ تم نے صحیح بات نہیں کی۔

18397

(۱۸۳۹۸) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ ، عَنِ الشَّیْبَانِیِّ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : قَالَ عبْدُ اللہِ : إِذَا خَیَّرَ الرَّجُلُ امْرَأَتَہُ فَاخْتَارَتْ نَفْسَہَا ، فَوَاحِدَۃٌ بَائِنَۃٌ ، وَإِنِ اخْتَارَتْ زَوْجَہَا فَلاَ شَیْئَ ، وَقَالَ عَلِیٌّ : إِنِ اخْتَارَتْ نَفْسَہَا فَوَاحِدَۃٌ بَائِنَۃٌ ، وَإِنِ اخْتَارَتْ زَوْجَہَا فَوَاحِدَۃٌ ، وَہُوَ أَمْلَکُ بِرجعَتِہَا ۔
(١٨٣٩٨) حضرت عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ گر کسی شخص نے اپنی بیوی کو اختیار دیا اور اس نے خود کو اختیار کرلیا تو ایک طلاق بائنہ ہوگی۔ اور اگر اس نے اپنے خاوند کو اختیار کیا تو کچھ نہیں ہوگا۔ حضرت علی (رض) فرماتے ہیں کہ اگر اس نے اپنے نفس کو اختیار کیا تو ایک طلاق بائنہ ہوگی اور اگر اس نے اپنے خاوند کو اختیار کیا تو بھی ایک طلاق ہوگی اور آدمی رجوع کا زیادہ حقدار ہوگا۔

18398

(۱۸۳۹۹) حدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، قَالَ : مَا أُبَالِی خَیَّرْتُ امْرَأَتِی وَاحِدَۃً ، أَوْ مِئَۃً ، أَوْ أَلْفًا ، بَعْدَ أَنْ تَخْتَارَنِی ، وَلَقَدْ أَتَیْتُ عَائِشَۃَ فَسَأَلْتہَا عَنْ ذَلِکَ ؟ فَقَالَتْ : قَدْ خَیَّرَنَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَاخْتَرْنَاہُ ، أَفَکَانَ طَلاَقًا ؟۔ (بخاری ۵۲۶۳۔ مسلم ۱۱۵۴)
(١٨٣٩٩) حضرت مسروق (رض) فرماتے ہیں کہ مجھے اس بات کی کوئی پروا نہیں کہ میری بیوی مجھے اختیار کرنے کے بعد ایک، سو یا ہزار طلاقیں اختیار کرلے۔ میں حضرت عائشہ (رض) کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان سے اس بارے میں سوال کیا تو انھوں نے فرمایا کہ ہمیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اختیار دیا تھا اور ہم نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اختیار کیا تھا تو کیا یہ طلاق ہوگئی ؟

18399

(۱۸۴۰۰) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ مُبَارَکٍ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ بِشْرٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ عِکْرِمَۃَ یُحَدِّثُ ؛ أَنَّ أَبَا الدَّرْدَائِ أُتِیَ وَہُوَ بِالشَّامِ فِی رَجُلٍ خَیَّرَ امْرَأَتَہُ فَاخْتَارَتْ زَوْجَہَا ، قَالَ : لَیْسَ بِشَیْئٍ ، قَالَ : وَکَانَ ابْنُ عَبَّاسٍ یُفْتِی بِذَلِکَ ، وَقَضَی بِہِ أَبَانُ بْنُ عُثْمَانَ بِالْمَدِینَۃِ۔
(١٨٤٠٠) حضرت عکرمہ (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت ابودردائ (رض) شام میں تھے کہ ان سے سوال کیا گیا کہ ایک مرد نے اپنی بیوی کو اختیار دے دیا اور اس نے اپنے خاوند کو اختیار کرلیا تو کیا حکم ہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ یہ کوئی چیز نہیں۔ راوی کہتے ہیں کہ حضرت ابن عباس (رض) بھی یہی فرمایا کرتے تھے اور حضرت ابان بن عثمان (رض) نے بھی مدینہ میں یہی فیصلہ فرمایا تھا۔

18400

(۱۸۴۰۱) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ مُوسَی بْنِ مُسْلِمٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، قَالَ : قَالَ عَلِیٌّ : إِذَا خَلَعَ الرَّجُلُ أَمْرَ امْرَأَتِہِ مِنْ عُنُقِہِ ، فَہِیَ وَاحِدَۃٌ وَإِنِ اخْتَارَتْہُ۔
(١٨٤٠١) حضرت علی (رض) فرماتے ہیں کہ جب آدمی نے اپنی بیوی کا معاملہ اپنی گردن سے اتار دیا تو ایک طلاق ہوگئی خواہ عورت اپنے خاوند کو ہی اختیار کرلے۔

18401

(۱۸۴۰۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ جَرِیرِ بْنِ حَازِمٍ ، عَنْ عِیسَی بْنِ عَاصِمٍ ، عَنْ زَاذَانَ ، قَالَ : کُنَّا جُلُوسًا عِنْدَ عَلِیٍّ ، فَسُئِلَ عَنِ الْخِیَارِ ؟ فَقَالَ : سَأَلَنِی عَنْہَا أَمِیرُ الْمُؤْمِنِینَ عُمَرُ ، فَقُلْتُ : إِنِ اخْتَارَتْ نَفْسَہَا فَوَاحِدَۃٌ بَائِنَۃٌ ، وَإِنِ اخْتَارَتْ زَوْجَہَا فَوَاحِدَۃٌ ، وَہُوَ أَحَقُّ بِہَا ، فَقَالَ : لَیْسَ کَمَا قُلْتَ : إِنِ اخْتَارَتْ نَفْسَہَا فَوَاحِدَۃٌ ، وَہُوَ أَحَقُّ بِہَا ، وَإِنِ اخْتَارَتْ زَوْجَہَا فَلاَ شَیْئَ ، وَہُوَ أَحَقُّ بِہَا ، فَلَمْ أَجِدْ بُدًّا مِنْ مُتَابَعَۃِ أَمِیرِ الْمُؤْمِنِینَ ۔ فَلَمَّا وُلِّیتُ وَأَتَیْتُ فِی الْفُرُوجِ رَجَعْت إلَی مَا کُنْت أَعْرِفُ ، فَقِیلَ لَہُ : رَأْیُکُمَا فِی الْجَمَاعَۃِ أَحَبُّ إِلَیْنَا مِنْ رَأْیِکَ فِی الْفُرْقَۃِ ، فَضَحِکَ عَلِیٌّ وَقَالَ : أَمَا إِنَّہُ أَرْسَلَ إِلَی زَیْدِ بْنِ ثَابِتٍ ، فَسَأَلَہُ ؟ فَقَالَ : إِنِ اخْتَارَتْ نَفْسَہَا فَثَلاَثٌ ، وَإِنِ اخْتَارَتْ زَوْجَہَا فَوَاحِدَۃٌ بَائِنَۃٌ۔
(١٨٤٠٢) حضرت زاذان (رض) فرماتے ہیں کہ ہم حضرت علی (رض) کے پاس بیٹھے تھے کہ ان سے اختیار کے بارے میں سوال کیا گیا۔ انھوں نے فرمایا کہ امیر المومنین حضرت عمر (رض) نے مجھ سے اس بارے میں سوال کیا تھا تو میں نے کہا تھا کہ اگر وہ اپنے نفس کو اختیار کرلے تو ایک طلاق بائنہ ہے اور اگر اپنے خاوند کو اختیار کرلے تو ایک طلاق ہوگی، اور خاوند رجوع کا زیادہ حق دار ہوگا۔ انھوں نے فرمایا کہ جو تم نے کہا ہے وہ درست نہیں، اگر وہ اپنے نفس کو اختیار کرلے تو ایک طلاق ہوگی اور آدمی رجوع کا زیادہ حقدار ہوگا، اور اگر اس نے اپنے خاوند کو اختیار کیا تو کچھ لازم نہ ہوا اور وہ آدمی اس عورت کا زیادہ حق دار ہوگا۔ امیر المومنین کے یہ فرمادینے کے بعد میرے پاس ان کی اتباع کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ جب مجھے امیر بنایا گیا اور میرے پاس شادی کے مسائل لائے جانے لگے تو میں نے دوبارہ سابقہ رائے کو اختیار کرلیا۔ ان سے کہا گیا کہ جماعت کے سامنے آپ کی جو رائے ہے وہ ہمارے نزدیک آپ کی تنہائی والی رائے سے زیادہ پسندیدہ ہے۔ اس پر حضرت علی (رض) مسکرا دیئے اور فرمایا کہ انھوں نے حضرت زید بن ثابت (رض) کی طرف پیغام بھیجا اور اس مسئلے کے بارے میں سوال کیا تو انھوں نے فرمایا کہ اگر اس نے اپنے نفس کو اختیار کرلیا تو تین طلاقیں ہوگئیں اور اگر اس نے اپنے خاوند کو اختیار کرلیا تو ایک طلاق ہوگی۔

18402

(۱۸۴۰۳) حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ ، عَنْ عَطَائٍ ؛ فِی الرَّجُلِ یَقُولُ لامْرَأَتِہِ : اخْتَارِی ، قَالَ : إِنِ اخْتَارَتْ نَفْسَہَا فَوَاحِدَۃٌ ، وَإِنِ اخْتَارَتْ زَوْجَہَا فَلاَ شَیْئَ۔
(١٨٤٠٣) حضرت عطائ (رض) فرماتے ہیں کہ اگر ایک آدمی نے اپنی بیوی سے کہا کہ اپنے آپ کو اختیار کرلے ، پس اگر اس نے اپنے آپ کو اختیار کرلیا تو ایک طلاق پڑگئی اور اگر اس نے اپنے خاوند کو اختیار کرلیا تو کچھ نہ ہوا۔

18403

(۱۸۴۰۴) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الْحَکَمِ ، عَنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِی لَیْلَی ، عَنْ زَیْدِ بْنِ ثَابِتٍ ، قَالَ : إِنِ اخْتَارَتْ نَفْسَہَا فَثَلاَثٌ ، وَإِنِ اخْتَارَتْ زَوْجَہَا فَوَاحِدَۃٌ۔
(١٨٤٠٤) حضرت زید بن ثابت (رض) فرماتے ہیں کہ اگر عورت نے اپنے نفس کو اختیار کرلیا تو تین طلاقیں ہوئیں اور اگر اپنے خاوند کو اختیار کرلیا تو ایک طلاق ہوئی۔

18404

(۱۸۴۰۵) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ أَبِی الزِّنَادِ ، عَنْ خَارِجَۃَ بْنِ زَیْدٍ ، وَأَبَانَ بْنِ عُثْمَانَ ، عَنْ زَیْدِ بْنِ ثَابِتٍ ، قَالَ : إِنِ اخْتَارَتْ نَفْسَہَا فَوَاحِدَۃٌ ، وَہُوَ أَمْلَکُ بِہَا ، وَإِنِ اخْتَارَتْ زَوْجَہَا فَلاَ شَیْئَ۔
(١٨٤٠٥) حضرت زید بن ثابت (رض) فرماتے ہیں کہ اگر عورت نے اپنے نفس کو اختیار کرلیا تو ایک طلاق ہوئی اور آدمی رجوع کا زیادہ حق دار ہوگا اور اگر اس نے اپنے خاوند کو اختیار کرلیا تو کوئی چیز لازم نہ ہوئی۔

18405

(۱۸۴۰۶) حدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِِ ، عَنْ مُسْلِمٍ ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، عَنْ عَائِشَۃَ ، قَالَتْ : خَیَّرَنَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَاخْتَرْنَاہُ ، فَلَمْ یَعْدُدْہَا عَلَیْنَا شَیْئًا۔ (بخاری ۵۲۶۲۔ مسلم ۲۸)
(١٨٤٠٦) حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں اختیار دیا۔ ہم نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اختیار فرمایا، آپ نے اس اختیار کو طلاق شمار نہیں فرمایا۔

18406

(۱۸۴۰۷) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ بْنِ أَبِی خَالِدٍ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، قَالَ : سَأَلْتُ أَبَا جَعْفَرٍ عَنْ الرَّجُلِ یُخَیِّرُ امْرَأَتَہُ ، فَتَخْتَارُ زَوْجَہَا ؟ قَالَ : لَیْسَ بِشَیْئٍ ، قُلْتُ : فَإِنِ اخْتَارَتْ نَفْسَہَا ؟ قَالَ : تَطْلِیقَۃٌ ، وَہُوَ أَحَقُّ بِرَجْعَتِہَا۔
(١٨٤٠٧) حضرت ابو اسحاق (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے ابوجعفر (رض) سے پوچھا کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو اختیار دے اور وہ اپنے خاوند کو اختیار کرلے تو کیا حکم ہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ یہ کوئی چیز نہیں۔ میں نے کہا کہ اگر عورت اپنے نفس کو اختیار کرلے تو کیا حکم ہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ ایک طلاق ہوگی اور آدمی رجوع کا زیادہ حق دا رہے۔

18407

(۱۸۴۰۸) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ؛ فِی رَجُلٍ خَیَّرَ امْرَأَتَہُ ، فَرَدَّتْ ذَلِکَ إلَیْہِ ، وَلَمْ تَقْضِ فِیہِ شَیْئًا ، قَالَ : لَیْسَ ذَلک بِشَیْء ۔
(١٨٤٠٨) حضرت سعید بن مسیب (رض) سے سوال کیا گیا کہ اگر کسی شخص نے اپنی بیوی کو اختیار دیا اور عورت نے اختیار مرد کو واپس دے دیا اور اس میں کوئی فیصلہ نہ کیا تو کیا حکم ہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ یہ کوئی چیز نہیں۔

18408

(۱۸۴۰۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ طَاوُوسٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ؛ أَنَّہُ کَانَ یَقُولُ فِی الْخِیَارِ ، مِثْلَ قَوْلِ عُمَرَ ، وَعَبْدِ اللہِ۔
(١٨٤٠٩) حضرت سعید بن مسیب (رض) سے سوال کیا گیا کہ اگر کسی شخص نے اپنی بیوی کو اختیار دیا اور عورت نے اختیار مرد کو واپس دے دیا اور اس میں کوئی فیصلہ نہ کیا تو کیا حکم ہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ یہ کوئی چیز نہیں۔

18409

(۱۸۴۱۰) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ ، عَنِ الأَعْمَشِِ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، عَنْ عُمَرَ ، وَعَبْدِ اللہِ ؛ أَنَّہُمَا قَالاَ : أَمْرُک بِیَدِکِ وَاخْتَارِی ، سَوَائٌ۔
(١٨٤١٠) حضرت عمر اور حضرت عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ مرد کا بیوی سے کہنا کہ ” تجھے اختیار ہے “ اور یہ کہنا کہ ” تیرا معاملہ تیرے ہاتھ ہے “ ایک جیسے ہیں۔

18410

(۱۸۴۱۱) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ دَاوُدَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، قَالَ : فِی قَوْلِہِمْ أَمْرُکِ بِیَدِکِ وَاخْتَارِی ، سَوَائٌ۔
(١٨٤١١) حضرت مسروق (رض) فرماتے ہیں کہ مرد کا بیوی سے کہنا کہ ” تجھے اختیار ہے “ اور یہ کہنا کہ ” تیرا معاملہ تیرے ہاتھ ہے “ ایک جیسے ہیں۔

18411

(۱۸۴۱۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنِ ابْنِ أَبِی لَیْلَی ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنْ عَلِیٍّ ، وَعَبْدِ اللہِ ، وَزَیْدٍ ، قَالُوا : أَمْرُک بِیَدِکِ وَاخْتَارِی ، سَوَائٌ۔
(١٨٤١٢) حضرت علی، حضرت عبداللہ اور حضرت زید (رض) فرماتے ہیں کہ مرد کا بیوی سے کہنا کہ ” تجھے اختیار ہے “ اور یہ کہنا کہ ” تیرا معاملہ تیرے ہاتھ ہے “ ایک جیسے ہیں۔

18412

(۱۸۴۱۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ (ح) وَعَنْ بَیَانٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالاَ : أَمْرُک بِیَدِکِ وَاخْتَارِی ، سَوَائٌ۔
(١٨٤١٣) حضرت ابراہیم (رض) اور حضرت شعبی (رض) فرماتے ہیں کہ مرد کا بیوی سے کہنا کہ ” تجھے اختیار ہے “ اور یہ کہنا کہ ” تیرا معاملہ تیرے ہاتھ ہے “ ایک جیسے ہیں۔

18413

(۱۸۴۱۴) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ ہِشَامٍ ؛ أَنَّہُ بَلَغَہُ أَنَّ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِیزِ جَعَلَ أَمْرَکِ بِیَدِکِ وَاخْتَارِی ، سَوَائً۔
(١٨٤١٤) حضرت عمر بن عبدالعزیز (رض) فرماتے ہیں کہ مرد کا بیوی سے کہنا کہ ” تجھے اختیار ہے “ اور یہ کہنا کہ ” تیرا معاملہ تیرے ہاتھ ہے “ ایک جیسے ہیں۔

18414

(۱۸۴۱۵) حَدَّثَنَا سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ عَمْرو ، عَنْ جَابِرِ بْنِ زَیْدٍ ، قَالَ : إِذَا خَیَّرَ الرَّجُلُ امْرَأَتَہُ ، فَہُوَ مَا قَالَتْ فِی مَجْلِسِہَا ، فَإِنْ تَفَرَّقَا فَلاَ شَیْئَ۔
(١٨٤١٥) حضرت جابر بن زید (رض) فرماتے ہیں کہ جب کوئی شخص اپنی بیوی کو اختیار دے دے تو یہ اختیار صرف مجلس تک باقی رہے گا جب مجلس برخاست ہوجائے تو اختیار ختم ہوجائے گا۔

18415

(۱۸۴۱۶) حَدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ بْنُ عَیَّاشٍ ، عَنِ الْمُثَنَّی ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ جَدِّہِ ؛ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ ، وَعُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ ، قَالاَ : أَیُّمَا رَجُلٍ مَلَّکَ امْرَأَتَہُ أَمْرَہَا ، أَوَ خَیَّرَہَا ، فَافْتَرَقَا مِنْ ذَلِکَ الْمَجْلِسِ، فَلَمْ تُحْدِثْ فِیہِ شَیْئًا ، فَأَمْرُہَا إلَی زَوْجِہَا۔
(١٨٤١٦) حضرت عمر بن خطاب اور حضرت عثمان بن عفان (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کسی شخص نے اپنی بیوی کو اختیار دے دیا، پھر ان کی مجلس برخاست ہوگئی اور عورت نے کوئی بات نہ کی تو معاملہ مرد کے پاس چلا جائے گا۔

18416

(۱۸۴۱۷) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنِ ابْنِ أَبِی نَجِیحٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللہِ : إِذَا جَعَلَ الرَّجُلُ أَمْرَ امْرَأَتِہِ بِیَدِ رَجُلٍ ، فَقَامَ قَبْلَ أَنْ یَقْضِیَ فِی ذَلِکَ شَیْئًا ، فَلاَ أَمْرَ لَہُ۔
(١٨٤١٧) حضرت عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کسی شخص نے اپنی بیوی کا معاملہ کسی آدمی کے سپرد کردیا اور اس آدمی نے کوئی فیصلہ نہ کیا اور مجلس برخاست ہوگئی تو اس کا اختیار ختم ہوگیا۔

18417

(۱۸۴۱۸) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ ، عَنْ جَابِرٍ ، قَالَ : إِذَا خَیَّرَ الرَّجُلُ امْرَأَتَہُ ، فَلَمْ تَخْتَرْ فِی مَجْلِسِہَا ذَلِکَ ، فَلاَ خِیَارَ لَہَا۔
(١٨٤١٨) حضرت جابر (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کسی شخص نے اپنی بیوی کو اختیار دیا اور عورت نے اس مجلس میں اختیار کو استعمال نہ کیا تو اس کا اختیار ختم ہوگیا۔

18418

(۱۸۴۱۹) حَدَّثَنَا ابْنُ عَیَّاشٍ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ قَالَ : إِذَا خَیَّرَ الرَّجُلُ امْرَأَتَہُ ، فَإِنِ اخْتَارَتْ ، وَإِلاَّ فَلَیْسَ لَہَا أَنْ تَخْتَارَ کُلَّمَا شَائَتْ۔
(١٨٤١٩) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کسی آدمی نے اپنی بیوی کو اختیار دیا، اب اگر عورت فوری طور پر اختیار کو استعمال کرلے تو ٹھیک ورنہ وہ جب کبھی بھی چاہے اختیار کو استعمال نہیں کرسکتی۔

18419

(۱۸۴۲۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنِ ابْنِ أَبِی نَجِیحٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، قَالَ : إِذَا قَامَتْ مِنْ مَجْلِسِہَا فَلاَ شَیْئَ۔
(١٨٤٢٠) حضرت مجاہد (رض) فرماتے ہیں کہ جب عورت مجلس سے اٹھ گئی تو اختیار ختم ہوگیا۔

18420

(۱۸۴۲۱) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ بَشِیر ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنِ عَطَائٍ ، وَعَمْرِو بْنِ دِینَارٍ ، قَالاَ : إِذَا افْتَرَقَا فِی التَّمْلِیکِ وَالتَّخْیِیرِ ، فَلاَ خِیَارَ لَہَا۔
(١٨٤٢١) حضرت عطائ (رض) اور حضرت عمرو بن دینار (رض) فرماتے ہیں کہ جب تملیک اور اختیار میں جدا ہوگئے تو اختیار ختم ہوگیا۔

18421

(۱۸۴۲۲) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ جَدِّہِ عبد اللہِ بْنِ عَمْرٍو ؛ فِی الرَّجُلِ یُخَیِّرُ امْرَأَتَہُ ، قَالَ : ذَلِکَ لَہَا مَا دَامَتْ فِی مَجْلِسِہَا۔
(١٨٤٢٢) حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) فرماتے ہیں کہ اگر آدمی نے اپنی بیوی کو اختیار دیا تو اختیار اس وقت تک باقی رہے گا جب تک دونوں مجلس میں رہیں۔

18422

(۱۸۴۲۳) حَدَّثَنَا عَبْدُ السَّلاَمِ بْنُ حَرْبٍ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ عَطَائٍ ، وَطَاوُسٍ ، وَمُجَاہِدٍ ؛ فِی الرَّجُلِ یُخَیِّرُ امْرَأَتَہُ ، قَالُوا : إِنْ قَامَتْ مِنْ مَجْلِسِہَا قَبْلَ أَنْ تَخْتَارَ ، فَلاَ خِیَارَ لَہَا۔
(١٨٤٢٣) حضرت عطائ، حضرت طاؤس اور حضرت مجاہد (رض) فرماتے ہیں کہ عورت اگر اختیار ملنے کے بعد اختیار کو مجلس میں استعمال نہ کرے تو اختیار ختم ہوجائے گا۔

18423

(۱۸۴۲۴) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنِی إِسْمَاعِیلُ بْنُ أَبِی خَالِدٍ ، عَنْ عَامِرٍ ، قَالَ : إِذَا خَیَّرَ الرَّجُلُ امْرَأَتَہُ ، فَلَمْ تَخْتَرْ فِی ذَلِکَ الْمَجْلِسِ ، فَلَیْسَ لَہَا فِی ذَلِکَ خِیَار۔
(١٨٤٢٤) حضرت عامر (رض) فرماتے ہیں کہ اگر مرد نے بیوی کو اختیار دیا اور اس نے مجلس میں اختیار کو استعمال نہ کیا تو اختیار ختم ہوگیا۔

18424

(۱۸۴۲۵) حَدَّثَنَا جَرِیرُ بْنُ عَبْدِ الْحَمِیدِ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنِ الْحَکَمِ ، عَنْ عَلِیٍّ ؛ فِی رَجُلٍ جَعَلَ أَمْرَ امْرَأَتِہِ بِیَدِہَا، قَالَ : ہُوَ لَہَا حَتَّی تَتَکَلَّمَ ، أَوْ جَعَلَ أَمْرَ امْرَأَتِہِ بِیَدِ رَجُلٍ ، قَالَ : ہُوَ بِیَدِہِ حَتَّی یَتَکَلَّمَ۔
(١٨٤٢٥) حضرت علی (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کسی شخص نے اپنی بیوی کا اختیار اس کے حوالے کردیا تو یہ اس وقت تک اس کے پاس رہے گا جب تک وہ کوئی بات نہ کرلے۔ اسی طرح اگر یہ اختیار کسی آدمی کے ہاتھ میں دیا تو یہ اس آدمی کے پاس بھی بات کرنے تک رہے گا، یعنی جب بات کی تو اختیار ختم ہوجائے گا۔

18425

(۱۸۴۲۶) حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّیَالِسِیُّ ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَۃَ ، عَنْ حُمَیْدٍ ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ مُسْلِمٍ ؛ أَنَّ رَجُلاً جَعَلَ أَمْرَ امْرَأَتِہِ بِیَدِہَا ، فَقَامَتْ وَلَمْ تَقْضِ شَیْئًا ، فَرُفِعَ إلَی ابْنِ الزُّبَیْرِ ، فَقَالَ : عَلَی مَا قُمْتِ ؟ قَالَتْ : عَلَی أَنْ لاَ أَرْجِعَ إلَیْہِ ، فَأَبَانَہَا عَنْہُ۔
(١٨٤٢٦) حضرت حسن بن مسلم (رض) فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے اپنی بیوی کا معاملہ اسی کو سونپ دیا وہ کھڑی ہوئی اور اس نے کوئی فیصلہ نہ کیا، یہ معاملہ حضرت عبداللہ بن زبیر (رض) کے پاس پیش ہوا، انھوں نے عورت سے پوچھا کہ تم کس نیت سے کھڑی ہوئی تھیں ؟ اس نے کہا کہ میں اس ارادے سے کھڑی ہوئی تھی کہ دوبارہ کبھی اس کے پاس نہ آؤں گی۔ حضرت عبداللہ بن زبیر (رض) نے اس عورت کو آدمی سے جدا کرادیا۔

18426

(۱۸۴۲۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ زَکَرِیَّا ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ؛ فِی رَجُلٍ خَیَّرَ امْرَأَتَہُ ، قَالَ : لَہُ أَنْ یَرْجِعَ مَا لَمْ تَتَکَلَّمْ۔
(١٨٤٢٧) حضرت شعبی (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو اختیار دے تو اس کے بولنے سے پہلے اختیار واپس لے سکتا ہے۔

18427

(۱۸۴۲۸) حَدَّثَنَا عُمَرُ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِینَارٍ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ زَیْدٍ ، قَالَ : لَہُ ذَلِکَ۔
(١٨٤٢٨) حضرت جابر بن زید (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو اختیار دے تو اس کے بولنے سے پہلے اختیار واپس لے سکتا ہے۔

18428

(۱۸۴۲۹) حَدَّثَنَا عُمَرُ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَطَائٍ ؛ فِی الرَّجُلِ یُخَیِّرُ امْرَأَتَہُ ، أَوْ یَجْعَلُ أَمْرَہَا بِیَدِہَا ، ثُمَّ یَرُدُّ ذَلِکَ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَقُولَ شَیْئًا ، قَالَ : لَہُ ذَلِکَ۔
(١٨٤٢٩) حضرت عطائ (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو اختیار دے تو اس کے بولنے سے پہلے اختیار واپس لے سکتا ہے۔

18429

(۱۸۴۳۰) حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ ، عَنْ جَرِیرِ بْنِ حَازِمٍ ، عَنِ ابْنِ أَبِی نَجِیحٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ قَالَ : قَالَ ابْنُ مَسْعُودٍ : إِذَا خَیَّرَ الرَّجُلُ امْرَأَتَہُ ، فَقَامَتْ مِنْ مَجْلِسِہَا ، فَلاَ أَمْرَ لَہَا ، فَإِنِ ارْتَجَعَ فِیہَا قَبْلَ أَنْ تَخْتَارَ ، فَلاَ شَیْئَ لَہَا۔
(١٨٤٣٠) حضرت ابن مسعود (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو اختیار دے اور وہ عورت مجلس سے اٹھ جائے تو عورت کا اختیار ختم ہوگیا اور اگر مرد عورت کے اختیار کو استعمال کرنے سے پہلے رجوع کرلے تو کوئی چیز لازم نہ ہوگی۔

18430

(۱۸۴۳۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ عَامِرٍ ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : إِذَا خَیَّرَہَا ثَلاَثًا ، فَاخْتَارَتْ نَفْسَہَا مَرَّۃً فَہِیَ ثَلاَثٌ۔
(١٨٤٣١) حضرت عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ اگر ایک آدمی نے اپنی بیوی کو تین طلاق کا اختیار دے دیا اور عورت نے خود کو ایک مرتبہ اختیار کیا تو تین طلاقیں واقع ہوجائیں گی۔

18431

(۱۸۴۳۲) حدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِِ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ؛ فِی رَجُلٍ خَیَّرَ امْرَأَتَہُ ثَلاَثَ مِرَارٍٍ ، فَاخْتَارَتْ نَفْسَہَا مَرَّۃً وَاحِدَۃً ، قَالَ : بَانَتْ مِنْہُ بِثَلاَثٍ۔
(١٨٤٣٢) حضرت شعبی (رض) فرماتے ہیں کہ اگر ایک آدمی نے اپنی بیوی کو تین طلاق کا اختیار دیا اور عورت نے خود کو ایک مرتبہ اختیار کیا تو تین طلاقیں واقع ہوجائیں گی۔

18432

(۱۸۴۳۳) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ إِسْمَاعِیلَ بْنِ أَبِی خَالِدٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ قَالَ : سُئِلَ عَنْ رَجُلٍ قَالَ لامْرَأَتِہِ : اخْتَارِی ، فَسَکَتَتْ ، ثُمَّ قَالَ : اخْتَارِی ، فَسَکَتَتْ ، ثُمَّ قَالَ : اخْتَارِی ، فَاخْتَارَتْ نَفْسَہَا عِنْدَ الثَّالِثَۃِ ؟ فَأَبَانَہَا مِنْہُ ، فَجَعَلَہَا ثَلاَثًا۔
(١٨٤٣٣) حضرت شعبی (رض) سے سوال کیا گیا کہ ایک آدمی نے عورت سے کہا تجھے اختیار ہے، وہ خاموش رہی، پھر کہا تجھے اختیار ہے وہ پھر خاموش رہی، پھر کہا تجھے اختیار ہے ، اب اس نے اپنے نفس کو اختیار کرلیا تو کیا حکم ہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ عورت بائنہ ہوجائے گی اور یہ تین طلاقیں ہوں گی۔

18433

(۱۸۴۳۴) حُدِّثْتُ عَنْ جَرِیرٍ، عَنْ مُغِیرَۃَ، عَنْ حَمَّادٍ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ، قَالَ: إِذَا خَیَّرَہَا ثَلاَثًا فَاخْتَارَتْ مَرَّۃً، فَہِیَ ثَلاَثٌ۔
(١٨٤٣٤) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ اگر ایک آدمی نے اپنی بیوی کو تین طلاق کا اختیار دیا اور عورت نے خود کو ایک مرتبہ اختیار کیا تو تین طلاقیں واقع ہوجائیں گی۔

18434

(۱۸۴۳۵) حَدَّثَنَا حُمَیْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ زُہَیْرٍ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ عَامِرٍ ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : سُکُوتُہَا رِضًا بِالزَّوْجِ ، إِذَا خَیَّرَہَا فَسَکَتَتْ۔
(١٨٤٣٥) حضرت عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ اگر ایک آدمی نے اپنی بیوی کو اختیار دیا اور وہ خاموش رہی تو خاموشی خاوند کے ساتھ رہنے کی رضامندی کی علامت ہے۔

18435

(۱۸۴۳۶) حَدَّثَنَا حُمَیْدُ ، عَنْ حَسَنٍ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، قَالَ : سُکُوتُہَا رِضًا بِالزَّوْجِ۔
(١٨٤٣٦) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ اگر ایک آدمی نے اپنی بیوی کو اختیار دیا اور وہ خاموش رہی تو خاموشی خاوند کے ساتھ رہنے کی رضامندی کی علامت ہے۔

18436

(۱۸۴۳۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا جَرِیرُ بْنُ حَازِمٍ ، عَنِ الزُّبَیْرِ بْنِ سَعِیدٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَلِیِّ بْنِ یَزِیدَ بْنِ رُکَانَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ جَدِّہِ ؛ أَنَّہُ طَلَّقَ امْرَأَتَہُ اَلْبَتَّۃَ ، فَأَتَی النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَسَأَلَہُ ؟ فَقَالَ : مَا أَرَدْتَ بِہَا ؟ فَقَالَ : وَاحِدَۃً ، قَالَ : آللَّہِ مَا أَرَدْتُ بِہَا إلاَّ وَاحِدَۃً ؟ قَالَ : آللَّہِ مَا أَرَدْتُ بِہَا إِلاَّ وَاحِدَۃً ، قَالَ : فَرَدَّہَا عَلَیْہِ۔ (ابوداؤد ۲۲۰۱۔ بیہقی ۳۴۲)
(١٨٤٣٧) حضرت عبداللہ بن علی بن یزید بن رکانہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ ان کے داد احضرت رکانہ (رض) نے اپنے بیوی کو قطعی طلاق دی، پھر وہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ سے اس بارے میں سوال کیا تو آپ نے پوچھا کہ اس سے تمہارا ارادہ کیا تھا ؟ انھوں نے کہا کہ ایک طلاق کا ارادہ تھا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پھر پوچھا کہ کیا خدا کی قسم ایک ہی طلاق کا ارادہ تھا ؟ انھوں نے فرمایا کہ میں اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ ایک ہی طلاق کا ارادہ تھا۔ لہٰذا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے نکاح کو باقی رکھا۔

18437

(۱۸۴۳۸) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ ، عَنِ الْحَسَنِ ، عَنْ عَلِیٍّ ، قَالَ : ہِیَ ثَلاَثٌ۔
(١٨٤٣٨) حضرت علی (رض) فرماتے ہیں کہ قطعی طلاق تین طلاقیں ہیں۔

18438

(۱۸۴۳۹) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ؛ فِی الْبَتَّۃِ ثَلاَثُ تَطْلِیقَاتٍ۔
(١٨٤٣٩) حضرت ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ قطعی طلاق تین طلاقیں ہیں۔

18439

(۱۸۴۴۰) حدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنِ الأَعْمَشِِ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، عَنْ عُمَرَ ، وَعَبْدِ اللہِ ، قَالاَ : تَطْلِیقَۃٌ ، وَہُوَ أَمْلَکُ بِہَا۔
(١٨٤٤٠) حضرت عمر اور حضرت عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ قطعی طلاق ایک طلاق ہے اور آدمی رجوع کا زیادہ حق دار ہوگا۔

18440

(۱۸۴۴۱) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبَّادٍ ، عَنِ الْمُطَّلِبِ بْنِ حَنْطَبٍ ، عَنْ عُمَرَ ؛ أَنَّہُ جَعَلَ اَلْبَتَّۃَ تَطْلِیقَۃً ، وَزَوْجُہَا أَمْلَکُ بِہَا۔
(١٨٤٤١) حضرت عمر (رض) فرماتے ہیں کہ قطعی طلاق ایک طلاق ہے اور آدمی رجوع کا زیادہ حق دار ہوگا۔

18441

(۱۸۴۴۲) حَدَّثَنَا سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ أَبِی سَلَمَۃَ ، عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ یَسَارٍ (ح) وَعَنِ ابْنِ أَبِی خَالِدٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ شَدَّادٍ ، عَنْ عُمَرَ ؛ مِثْلَہُ۔
(١٨٤٤٢) ایک اور سند سے یونہی منقول ہے۔

18442

(۱۸۴۴۳) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ الثَّقَفِیُّ ، عَنْ خَالِدٍ ، عَنْ حُمَیْدِ بْنِ ہِلاَلٍ ، عَنْ عُمَرَ ؛ فِی قَوْلِ الرَّجُلِ لامْرَأَتِہِ أَنْتِ طَالِقٌ اَلْبَتَّۃَ ، إِنَّہَا وَاحِدَۃٌ بَائِنٌ ، وَقَالَ عَلِیٌّ : ہِیَ ثَلاَثٌ ، وَقَالَ شُرَیْحٌ : نَقِفُہُ عَلَی بِدْعَتِہِ۔
(١٨٤٤٣) حضرت عمر (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی سے کہے کہ تجھے قطعی طلاق ہے تو ایک طلاق بائنہ پڑے گی۔ حضرت علی (رض) فرماتے ہیں کہ تین طلاقیں ہوں گی جبکہ حضرت شریح (رض) فرماتے ہیں کہ ہم اسے اس کی بدعت پر موقوف کریں گے۔

18443

(۱۸۴۴۴) حَدَّثَنَا ابْنُ إِدْرِیسَ، عَنِ الشَّیْبَانِیِّ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : شَہِدَ عَبْدُ اللہِ بْنُ شَدَّادٍ عِنْدَ عُرْوَۃَ بْنِ الْمُغِیرَۃِ، أَنَّ عُمَرَ جَعَلَہَا وَاحِدَۃً ، وَہُوَ أَحَقُّ بِہَا ، وَأَنَّ الْرَائِشَ بْنَ عَدِیٍّ شَہِدَ عَلَی عَلِیٍّ ، أَنَّہُ جَعَلَہَا ثَلاَثًا ، وَأَنَّ شُرَیْحًا قَالَ : نِیَّتُہُ۔
(١٨٤٤٤) حضرت عروہ بن مغیرہ (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے قطعی طلاق کو ایک طلاق قرار دیا اور خاوند کو رجوع کا حق دار ٹھہرایا۔ جبکہ رائش بن عدی (رض) نے حضرت علی (رض) کے بارے میں گواہی دی کہ انھوں نے طلاق قطعی کو تین طلاقیں قرار دیا۔ جبکہ حضرت شریح (رض) کے نزدیک اس کی نیت کا اعتبار ہوگا۔

18444

(۱۸۴۴۵) حَدَّثَنَا ابْنُ إِدْرِیسَ ، عَنْ دَاوُدَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : لَمَّا أَرْسَلَ عُرْوَۃُ إِلَی شُرَیْحٍ اعْتَلَّ عَلَیْہِ فَعَزَمَ عَلَیْہِ لَیَقُولَنَّ ، فَقَالَ : إِنَّ اللَّہَ سَنَّ سُنَنًا ، وَإِنَّ النَّاسَ قَدِ ابْتَدَعُوا ، وَإِنَّہُمْ عَمَدُوا إِلَی بِدَعِہِمْ فَخَلَطُوہَا بِالسُّنَنِ ، فَإِذَا انْتَہَی إلَیْک مِنْ ذَلِکَ شَیْئٌ ، فَمَیِّزُوا السُّنَنَ فَأَمْضُوہَا عَلَی وَجْہِہَا ، وَأَلْحِقُوا الْبِدَعَ بِأَہْلِہَا ، أَمَّا طَالِقٌ : فَمَعْرُوفَۃٌ ، وَأَمَّا اَلْبَتَّۃَ : فَبِدْعَۃٌ یُوقَفُ عَلَی بِدْعَتِہِ ، فَإِنْ شَائَ تَقَدَّمَ ، وَإِنْ شَائَ تَأَخَّرَ۔
(١٨٤٤٥) حضرت شعبی فرماتے ہیں کہ حضرت عروہ (رض) نے اس بارے میں حضرت شریح (رض) سے استفسار کیا، انھوں نے کوئی جواب دینے سے معذرت کی تو حضرت عروہ (رض) کے اصرار پر انھوں نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے دین پر عمل کرنے کے لیے شریعت کو مقرر کیا لیکن لوگوں نے اس میں بہت سی نئی باتیں ایجاد کر ڈالیں، انھوں نے بدعتوں کو سنتوں کے ساتھ خلط کرلیا، جب تمہارے پاس ایسا کوئی معاملہ آئے تو سنتوں کو الگ کرکے ان کے مطابق فیصلہ کرلیاکرو اور بدعتوں کواربابِ بدعت کے سپرد کردو۔ باقی جہاں تک طلاق کا معاملہ ہے تو وہ ایک معروف چیز ہے جبکہ قطعی ہونا ایک بدعت ہے جس کا مدار آدمی کی نیت پر ہے چاہے تو تقدم کرے اور چاہے تو تاخر۔

18445

(۱۸۴۴۶) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنْ نَافِعٍ ؛ أَنَّ ابْنَ عُمَرَ جَائَ بِظِئْرٍ لَہُ إِلَی عَاصِمِ بْنِ عُمَرَ ، وَابْنِ الزُّبَیْر ، فَقَالَ : إِنَّ ظِئْرِی ہَذَا طَلَّقَ امْرَأَتَہُ اَلْبَتَّۃَ قَبْلَ أَنْ یَدْخُلَ بِہَا ، فَہَلْ عِنْدَکُمَا بِذَلِکَ عِلْمٌ ؟ أَوْ ہَلْ تَجِدَانِ لَہُ رُخْصَۃً ؟ فَقَالاَ : لاَ ، وَلَکِنَّا تَرَکْنَا ابْنَ عَبَّاسٍ ، وَأَبَا ہُرَیْرَۃَ عِنْدَ عَائِشَۃَ ، فَأْتِہِمْ فَسَلْہُمْ ثُمَّ ارْجِعْ إلَیْنَا فَأَخْبِرْنَا، فَأَتَاہُمْ فَسَأَلَہُمْ ؟ فَقَالَ أَبُو ہُرَیْرَۃَ : لاَ تَحِلُّ لَہُ حَتَّی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَہُ ، وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ : بُتَّتْ ، وَذَکَرَ مِنْ عَائِشَۃَ مُتَابَعَۃً لَہُمَا۔
(١٨٤٤٦) حضرت نافع (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عمر (رض) اپنی رضاعی ماں کے خاوند کو حضرت عاصم بن عمر (رض) اور حضرت عبداللہ بن زبیر (رض) کے پاس لائے اور فرمایا کہ انھوں نے اپنی بیوی کو دخول سے پہلے طلاق قطعی دے دی ہے، آپ کے پاس اس بارے میں کوئی علم ہے ؟ یا آپ کے پاس اس بارے میں کوئی رخصت ہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ ہمیں تو علم نہیں، تم حضرت ابن عباس، حضرت ابوہریرہ اور حضرت عائشہ (رض) کے پاس جاؤ اور ان سے سوال کرو، پھر آکر ہمیں بھی بتاؤ۔ وہ گئے اور ان سے سوال کیا تو حضرت ابوہریرہ (رض) نے فرمایا کہ جب تک وہ دوسرے خاوند سے نکاح نہ کرلے اس کے لیے حلال نہیں۔ حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا کہ وہ بائنہ ہوگئی۔ جبکہ انھوں نے حضرت عائشہ (رض) کے حوالے سے بھی انہی حضرات کی متابعت کو نقل کیا۔

18446

(۱۸۴۴۷) حَدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنْ سَعِیدٍ ؛ فِی اَلْبَتَّۃَ : إِنْ نَوَی وَاحِدَۃً فَوَاحِدَۃٌ ، وَإِنْ نَوَی ثَلاَثًا فَثَلاَثٌ۔
(١٨٤٤٧) حضرت سعید (رض) طلاقِ قطعی کے بارے میں فرماتے ہیں کہ اگر ایک کی نیت کی تو ایک طلاق اور اگر تین کی نیت کی تو تین طلاقیں ہوں گی۔

18447

(۱۸۴۴۸) حدَّثَنَا جَرِیرُ بْنُ عَبْدِ الْحَمِیدِ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، قَالَ : إِنْ نَوَی طَلاَقًا فَأَدْنَی مَا یَکُونُ مِنْ نِیَّتِہِ فِی ذَلِکَ وَاحِدَۃٌ بَائِنٌ ، إِنْ شَائَ وَشَائَتْ تَزَوَّجَہَا ، وَإِنْ نَوَی ثَلاَثًا فَثَلاَثٌ۔
(١٨٤٤٨) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ اگر طلاق کی نیت کی ہے تو اس کی نیت کا کم از کم یعنی ایک طلاق بائنہ تو ہوجائے گی اگر چاہیں تو دوبارہ نکاح کرلیں اور اگر تین کی نیت کی تو تین طلاقیں ہوجائیں گی۔

18448

(۱۸۴۴۹) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِِ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، قَالَ : یُسْأَلُ عَنْ نِیَّتِہِ۔
(١٨٤٤٩) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ اس کی نیت کا پوچھا جائے گا۔

18449

(۱۸۴۵۰) حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ وَرْدَانَ ، عَنْ بُرْدٍ ، عَنْ مَکْحُولٍ ، قَالَ : ہِیَ ثَلاَثٌ۔
(١٨٤٥٠) حضرت مکحول (رض) فرماتے ہیں کہ تین طلاقیں ہوں گی۔

18450

(۱۸۴۵۱) حَدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ بْنُ عَیَّاشٍ ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ بْنِ عُبَیْدٍ ، عَنْ مَکْحُولٍ ، وَالزُّہْرِیِّ ، قَالاَ : ثَلاَثٌ۔
(١٨٤٥١) حضرت مکحول (رض) اور حضرت زہری (رض) فرماتے ہیں کہ تین طلاقیں ہوں گی۔

18451

(۱۸۴۵۲) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ، قَالَ : قَالَ أَبُو بَکْرٍ : سَأَلَنِی عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیزِ عَنْ اَلْبَتَّۃَ ؟ فَقُلْتُ لَہُ : إِنَّ أَبَانَ بْنَ عُثْمَانَ کَانَ یَقُولُ : ہِیَ وَاحِدَۃٌ ، فَقَالَ عُمَرُ : لَوْ کَانَ الطَّلاَقُ أَلْفًا ، مَا أَبْقَت اَلْبَتَّۃَ مِنْہُ شَیْئًا۔
(١٨٤٥٢) حضرت ابوبکر (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز (رض) نے مجھ سے طلاق قطعی کے بارے میں سوال کیا تو میں نے ان سے کہا کہ ابان بن عثمان فرمایا کرتے تھے کہ ایک طلاق ہوگی۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا کہ اگر طلاقیں ایک ہزار بھی ہوں تو طلاق قطعی دینے سے ایک طلاق بھی باقی نہیں رہے گی۔

18452

(۱۸۴۵۳) حَدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ بْنُ عَیَّاشٍ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ، عَنْ أَبِی بَکْرِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ ، قَالَ : قَالَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیزِ : یَا أَبَا بَکْرٍ ، اَلْبَتَّۃَ ، مَا یَقُولُ النَّاسُ فِیہَا ؟ فَقُلْتُ لَہُ : کَانَ أَبَانُ بْنُ عُثْمَانَ یَجْعَلُہَا وَاحِدَۃً ، فَقَالَ عُمَرُ : لَوْ أَنْ الطَّلاَقُ أَلْف ، مَا أَبْقَت اَلْبَتَّۃَ مِنْہُ شَیْئًا ، مَنْ قَالَ اَلْبَتَّۃَ ، فَقَدْ رَمَی بِالْغَایَۃِ الْقُصْوَی۔
(١٨٤٥٣) حضرت ابوبکر (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز (رض) نے مجھ سے طلاق قطعی کے بارے میں سوال کیا کہ لوگ اس کے بارے میں کیا کہتے ہیں، میں نے ان سے کہا کہ ابان بن عثمان (رض) فرمایا کرتے تھے کہ ایک طلاق ہوگی۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا کہ اگر طلاقیں ایک ہزار بھی ہوں تو طلاق قطعی دینے سے ایک طلاق بھی باقی نہیں رہے گی۔ جس نے قطعی کا لفظ کہا اس نے انتہاء کو چھو لیا۔

18453

(۱۸۴۵۴) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ؛ أَنَّ زَیْدَ بْنَ ثَابِتٍ کَانَ یَقُولُ فِی اَلْبَتَّۃَ : ثَلاَثٌ۔
(١٨٤٥٤) حضرت زید بن ثابت (رض) فرماتے ہیں کہ طلاق قطعی تین طلاقیں ہیں۔

18454

(۱۸۴۵۵) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ ، عَنِ الأَعْمَشِِ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، عَنْ عُمَرَ ، وَعَبْدِ اللہِ قَالاَ : فِی الْخَلِیَّۃِ تَطْلِیقَۃٌ، وَہُوَ أَمْلَکُ بِرَجْعَتِہَا۔
(١٨٤٥٥) حضرت عمر اور حضرت عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ عورت کو تخلیہ کا کہنا ایک طلاق ہے اور آدمی کو رجوع کا حق ہوگا۔

18455

(۱۸۴۵۶) حَدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ کُرْدُوسٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ؛ فِی الْخَلِیَّۃِ قَالَ : نِیَّتُہُ۔
(١٨٤٥٦) حضرت عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ عورت کو تخلیہ کا کہنے میں مرد کی نیت کا اعتبار ہوگا۔

18456

(۱۸۴۵۷) حدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ ، عَنِ الْحَسَنِ ، عَنْ عَلِیٍّ ، قَالَ : ہِیَ ثَلاَثٌ۔
(١٨٤٥٧) حضرت علی (رض) فرماتے ہیں کہ عورت کو تخلیہ کا کہناتین طلاقیں ہیں۔

18457

(۱۸۴۵۸) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : ہِیَ ثَلاَثٌ۔
(١٨٤٥٨) حضرت عمر (رض) فرماتے ہیں کہ عورت کو تخلیہ کا کہناتین طلاقیں ہیں۔

18458

(۱۸۴۵۹) حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَبْدِ الْوَارِثِ ، عَنْ وُہَیْبٍ ، عَنِ ابْنِ طَاوُوسٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : الْخَلِیَّۃُ مَا نَوَی۔
(١٨٤٥٩) حضرت طاؤس (رض) فرماتے ہیں کہ عورت کو تخلیہ کا کہنے میں نیت کا اعتبار ہوگا۔

18459

(۱۸۴۶۰) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ؛ فِی الْخَلِیَّۃِ : إِنْ نَوَی طَلاَقًا فَأَدْنَی مَا یَکُونُ تَطْلِیقَۃٌ بَائِنًا ، إِنْ شَائَتْ وَشَائَ تَزَوَّجَہَا ، وَإِنْ نَوَی ثَلاَثًا فَثَلاَثٌ۔
(١٨٤٦٠) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ جس شخص نے اپنی بیوی کو تخلیہ کا کہا اور طلاق کی نیت کی تو کم از کم ایک طلاق واقع ہوگی اور اگر چاہیں تو نکاح کرلیں اور اگر تین کی نیت کی تو تین طلاقیں ہوجائیں گی۔

18460

(۱۸۴۶۱) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ ، عَنِ الأَعْمَشِِ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، عَنْ عُمَرَ ، وَعَبْدِ اللہِ ؛ فِی الْبَرِیَّۃِ: قَالاَ : تَطْلِیقَۃٌ، وَہُوَ أَمْلَکُ بِہَا۔
(١٨٤٦١) حضرت عمر اور حضرت عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ اگر عورت کو بریء الذمہ کہا تو ایک طلاق ہوگی اور آدمی کو رجوع کا حق ہوگا۔

18461

(۱۸۴۶۲) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ ، عَنِ الْحَسَنِ ، عَنْ عَلِیٍّ ، قَالَ : ہِیَ ثَلاَثٌ۔
(١٨٤٦٢) حضرت علی (رض) فرماتے ہیں کہ اگر عورت کو بریء الذمہ کہا تو تین طلاقیں ہوجائیں گی۔

18462

(۱۸۴۶۳) حَدَّثَنَا ہُشَیْمُ بْنُ بَشِیرٍ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : ہِیَ ثَلاَثٌ۔
(١٨٤٦٣) حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ اگر عورت کو بریء الذمہ کہا تو تین طلاقیں ہوجائیں گی۔

18463

(۱۸۴۶۴) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنِ ابْنِ أَبِی خَالِدٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : کَانَ یَقُولُ : ہِیَ وَاحِدَۃٌ۔
(١٨٤٦٤) حضرت شعبی (رض) فرماتے ہیں کہ اگر عورت کو بریء الذمہ کہا تو ایک طلاق ہوگی۔

18464

(۱۸۴۶۵) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، قَالَ : ہُوَ کَمَا قَالَ۔
(١٨٤٦٥) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ جو کہا ہے وہی ہوگا۔

18465

(۱۸۴۶۶) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ حَمَّادٍ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، قَالَ : إِنْ نَوَی وَاحِدَۃً فَوَاحِدَۃٌ ، وَإِنْ نَوَی ثِنْتَیْنِ فَثِنْتَانِ ، وَإِنْ نَوَی ثَلاَثًا فَثَلاَثٌ۔
(١٨٤٦٦) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ اگر عورت کو بریء الذمہ کہا تو اگر ایک کی نیت کی تو ایک، دو کی نیت کی تو دو اور تین کی نیت کی تو تین طلاقیں ہوجائیں گی۔

18466

(۱۸۴۶۷) حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ وَرْدَانَ ، عَنْ بُرْدٍ ، عَنْ مَکْحُولٍ ؛ فِی الْبَرِیَّۃِ قَالَ : ہِیَ ثَلاَثٌ۔
(١٨٤٦٧) حضرت مکحول (رض) فرماتے ہیں کہ اگر عورت کو بریء الذمہ کہا تو تین طلاقیں ہوں گی۔

18467

(۱۸۴۶۸) حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَبْدِ الْوَارِثِ، عَنْ وُہَیْبٍ، عَنِ ابْنِ طَاوُوسٍ، عَنْ أَبِیہِ؛ فِی الْبَرِیَّۃِ ، قَالَ: مَا نَوَی۔
(١٨٤٦٨) حضرت طاؤس (رض) فرماتے ہیں کہ اگر عورت کو بریء الذمہ کہا تو نیت کا اعتبار ہوگا۔

18468

(۱۸۴۶۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ أَبِی الْمِنْہَالِ الطَّائِیِّ ، قَالَ : سَأَلْتُ الشَّعْبِیَّ عَنْ رَجُلٍ قَالَ لامْرَأَتِہِ : بَرِئْتُ مِنْکِ ؟ قَالَ : نِیَّتُہُ۔
(١٨٤٦٩) حضرت شعبی (رض) فرماتے ہیں کہ اگر عورت کو بریء الذمہ کہا تو نیت کا اعتبار ہوگا۔

18469

(۱۸۴۷۰) حدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ حَبِیبٍ ، عَنْ عَمْرٍو ، قَالَ : سُئِلَ جَابِرُ بْنُ زَیْدٍ عَنْ رَجُلٍ لَزِمَتْہُ امْرَأَتُہُ تَسْأَلُہُ الطَّلاَقَ ، فَقَالَ : اذْہَبِی فَأَنَا مِنْک بَرِیئٌ ، وَأَنْتِ مِنِّی بَرِیئَۃٌ ، وَلاَ یَنْوِی الطَّلاَقَ حِینَئِذٍ ؟ فَقَالَ : إِنْ لَمْ یَکُنْ نَوَی الطَّلاَقَ فَلَیْسَ بِطَلاَقٍ ، وَإِنْ کَانَ نَوَی الطَّلاَقَ فَہِیَ وَاحِدَۃٌ ، وَلَہُ أَنْ یُرَاجِعَہَا فِی عِدَّتِہَا۔
(١٨٤٧٠) حضرت عمرو (رض) کہتے ہیں کہ حضرت جابر بن زید (رض) سے سوال کیا گیا کہ اگر کسی آدمی کی بیوی اس سے طلاق پر اصرار کرے اور وہ اس سے کہے کہ جا تو میری طرف سے آزاد ہے اور میں تیری طرف سے آزاد ہوں اور وہ طلاق کی نیت نہ کرے تو کیا حکم ہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ اگر طلاق کی نیت نہ کی تو طلاق نہ ہوگی اور اگر طلاق کی نیت کی تو ایک طلاق ہوگی اور اسے عدت میں رجوع کرنے کا اختیار حاصل ہوگا۔

18470

(۱۸۴۷۱) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ؛ قَالَ فِی الْبَرِیَّۃِ : إِنْ نَوَی الطَّلاَقَ فَأَدْنَی مَا یَکُونُ مِنْ نِیَّتِہِ فِی ذَلِکَ وَاحِدَۃٌ بَائِنَۃٌ ، إِنْ شَائَتْ وَشَائَ تَزَوَّجَہَا ، وَإِنْ نَوَی ثَلاَثًا فَثَلاَثٌ۔
(١٨٤٧١) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ اگر عورت کو بریء الذمہ کہا تو طلاق کی نیت کرنے کی صورت میں کم از کم ایک طلاق بائنہ تو واقع ہوجائے گی اور اگر دونوں چاہیں تو آدمی اس سے شادی کرسکتا ہے اور اگر تین کی نیت کی تو تین طلاقیں ہوجائیں گی۔

18471

(۱۸۴۷۲) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : ہِیَ ثَلاَثٌ لاَ تَحِلُّ لَہُ حَتَّی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَہُ۔
(١٨٤٧٢) حضرت ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ اگر عورت کو بریء الذمہ کہا تو یہ تین طلاقیں ہیں اور یہ عورت اس کے لیے اس وقت تک حلال نہیں جب تک کسی اور شخص سے نکاح نہ کرلے۔

18472

(۱۸۴۷۳) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ؛ أَنْ زَیْدَ بْنَ ثَابِتٍ کَانَ یَقُولُ : الْبَرِیَّۃُ ثَلاَثٌ۔
(١٨٤٧٣) حضرت زید بن ثابت (رض) فرماتے ہیں کہ عورت کو بری اور آزاد کہنا تین طلاقوں کے قائم مقام ہے۔

18473

(۱۸۴۷۴) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ ، عَنِ الأَعْمَشِِ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، عَنْ عُمَرَ ، وَعَبْدِ اللہِ ؛ فِی الْبَائِنِ تَطْلِیقَۃٌ ، وَہُوَ أَمْلَکُ بِرَجْعَتِہَا۔
(١٨٤٧٤) حضرت عمر اور حضرت عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ اگر ایک آدمی نے اپنی بیوی سے کہا کہ تجھ مجھ سے جدا ہے تو یہ ایک طلاق ہے اور آدمی رجوع کا زیادہ حق دار ہے۔

18474

(۱۸۴۷۵) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ ، عَنِ الْحَسَنِ ، عَنْ عَلِیٍّ ، قَالَ : ہِیَ ثَلاَثٌ۔
(١٨٤٧٥) حضرت علی (رض) فرماتے ہیں کہ اگر ایک آدمی نے اپنی بیوی سے کہا کہ تو مجھ سے جدا ہے تو یہ تین طلاقوں کے برابر ہے۔

18475

(۱۸۴۷۶) حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ وَرْدَانَ ، عَنْ بُرْدٍ ، عَنْ مَکْحُولٍ ؛ فِی الْبَائِنِ قَالَ : ہِیَ ثَلاَثٌ۔
(١٨٤٧٦) حضرت مکحول (رض) فرماتے ہیں کہ اگر ایک آدمی نے اپنی بیوی سے کہا کہ تو مجھ سے جدا ہے تو یہ تین طلاقوں کے برابر ہے۔

18476

(۱۸۴۷۷) حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَبْدِ الْوَارِثِ ، عَنْ وُہَیْبٍ ، عَنِ ابْنِ طَاوُوسٍ ، عَنْ أَبِیہِ ؛ فِی الْبَائِنِ : مَا نَوَی۔
(١٨٤٧٧) حضرت طاؤس (رض) فرماتے ہیں کہ اس میں نیت کا اعتبار ہے۔

18477

(۱۸۴۷۸) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلیَۃَ ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ؛ فِی الْبَائِنَۃِ : ثَلاَثٌ۔
(١٨٤٧٨) حضرت زہری (رض) فرماتے ہیں کہ اگر ایک آدمی نے اپنی بیوی سے کہا کہ تو مجھ سے جدا ہے تو یہ تین طلاقوں کے برابر ہے۔

18478

(۱۸۴۷۹) حَدَّثَنَا أَبُو أَُسَامَۃَ ، قَالَ : حدَّثَنَا عُبَیدُ اللہِ بْنُ عُمَرَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : الْبَائِنُ ثَلاَثٌ ، لاَ تَحِلُّ لَہُ حَتَّی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَہُ۔
(١٨٤٧٩) حضرت ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ اگر ایک آدمی نے اپنی بیوی سے کہا کہ تو مجھ سے جدا ہے تو یہ تین طلاقوں کے برابر ہے۔ یہ عورت اس کے لیے اس وقت تک حلال نہیں جب تک وہ کسی دوسرے شخص سے شادی نہ کرلے۔

18479

(۱۸۴۸۰) حدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ؛ أَنَّ زَیْدَ بْنَ ثَابِتٍ کَانَ یَقُولُ فِی الْبَائِنَۃِ : ثَلاَثٌ۔
(١٨٤٨٠) حضرت زید بن ثابت فرماتے ہیں کہ اگر ایک آدمی نے اپنی بیوی سے کہا کہ تو مجھ سے جدا ہے تو یہ تین طلاقوں کے برابر ہے۔

18480

(۱۸۴۸۱) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ ، عَنِ الأَعْمَشِِ ، عَنِ الْمِنْہَالِ بْنِ عَمْرٍو ، عَنْ نُعَیْمِ بْنِ دَجَاجَۃَ ؛ فِی رَجُلٍ طَلَّقَ امْرَأَتَہُ تَطْلِیقَتَیْنِ ، ثُمَّ قَالَ : أَنْتِ عَلَیَّ حَرَجٌ ، فَقَالَ عُمَرُ : مَا ہِیَ بِأَہْوَنِہِنَّ۔
(١٨٤٨١) حضرت نعیم بن دجاجہ (رض) سے سوال کیا گیا کہ اگر کسی شخص نے اپنی بیوی کو دو طلاقیں دیں پھر کہا کہ تو میرے لیے مصیبت ہے۔ انھوں نے کہا کہ حضرت عمر (رض) نے فرمایا کہ وہ مصیبت سے کم تو نہیں۔

18481

(۱۸۴۸۲) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ خِلاَسٍ ، وَأَبِی حَسَّانَ ؛ أَنَّ عَلِیًّا کَانَ یَقُولُ : ثَلاَثٌ ، قَالَ قَتَادَۃُ : وَکَانَ ذَلِکَ رَأْیَ الْحَسَنِ یُفْتِی بِہِ۔
(١٨٤٨٢) حضرت علی (رض) فرمایا کرتے تھے کہ اگر کسی شخص نے اپنی بیوی سے کہا کہ تو میرے لیے مصیبت ہے تو یہ تین طلاقوں کے قائم مقام ہے اور حضرت قتادہ (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت حسن (رض) بھی یہی فرمایا کرتے تھے۔

18482

(۱۸۴۸۳) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ معمر ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ؛ فِی طَلاَقِ الْحَرَجِ : ثَلاَثٌ۔
(١٨٤٨٣) حضرت زہری (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کسی شخص نے اپنی بیوی سے کہا کہ تو میرے لیے مصیبت ہے تو یہ تین طلاقوں کے برابر ہے۔

18483

(۱۸۴۸۴) حَدَّثَنَا عَبْدُالصَّمَدِ بْنُ عَبْدِالْوَارِثِ، عَنْ وُہَیْبٍ، عَنِ ابْنِ طَاوُوسٍ، عَنْ أَبِیہِ؛ فِی طَلاَقِ الْحَرَجِ: مَا نَوَی۔
(١٨٤٨٤) حضرت طاؤس (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کسی شخص نے اپنی بیوی سے کہا کہ تو میرے لیے مصیبت ہے تو اس میں نیت کا اعتبار ہے۔

18484

(۱۸۴۸۵) حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّیَالِسِیُّ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ؛ أَنَّ عَلِیًّا قَالَ فِی طَلاَقِ الْحَرَجِ : ثَلاَثًا ، قَالَ : وَکَذَلِکَ قَالَ الْحَسَنُ۔
(١٨٤٨٥) حضرت علی (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کسی شخص نے اپنی بیوی سے کہا کہ تو میرے لیے مصیبت ہے تو یہ تین طلاقوں کے برابر ہے۔ حضرت حسن (رض) کی بھی یہی رائے تھی۔

18485

(۱۸۴۸۶) حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِیلَ ، عَنْ جَعْفَرٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ عَلِیٍّ ، قَالَ : إِذَا قَالَ الرَّجُلُ لامْرَأَتِہِ : أَنْتِ عَلَیَّ حَرَامٌ ، فَہِیَ ثَلاَثٌ۔
(١٨٤٨٦) حضرت علی (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کسی شخص نے اپنی بیوی سے کہا کہ تو مجھ پر حرام ہے تو یہ تین طلاقوں کے قائم مقام ہے۔

18486

(۱۸۴۸۷) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ ، عَنِ الْحَسَنِ ، عَنْ عَلِیٍّ ، قَالَ : ثَلاَثٌ۔
(١٨٤٨٧) حضرت علی (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کسی شخص نے اپنی بیوی سے کہا کہ تو مجھ پر حرام ہے تو یہ تین طلاقوں کے قائم مقام ہے۔

18487

(۱۸۴۸۸) حدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ مُخَوَّلٍ ، عَنْ عَامِرٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : الْحَرَامُ إِنْ نَوَی طَلاَقًا فَہِیَ وَاحِدَۃٌ ، وَہُوَ أَمْلَکُ بِرَجْعَتِہَا ، وَإِنْ لَمْ یَنْوِ طَلاَقًا ، فَہِیَ یَمِینٌ یُکَفِّرُہَا۔
(١٨٤٨٨) حضرت عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کسی شخص نے اپنی بیوی سے کہا کہ تو مجھ پر حرام ہے تو یہ ایک طلاق ہے اور وہ آدمی رجوع کا زیادہ حق دار ہے، اور اگر اس نے طلاق کی نیت نہ کی تو یہ قسم ہے جس کا کفارہ دے گا۔

18488

(۱۸۴۸۹) حَدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ مُخَوَّلٍ ، عَنْ أَبِی جَعْفَرٍ ؛ مِثْلَہُ۔
(١٨٤٨٩) حضرت ابوجعفر (رض) سے بھی یونہی منقول ہے۔

18489

(۱۸۴۹۰) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الْحَکَمِ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، عَن عَبْدِ اللہِ ؛ فِی الْحَرَامِ : إِنْ نَوَی یَمِینًا فَیَمِینٌ ، وَإِنْ نَوَی طَلاَقًا فَمَا نَوَی۔
(١٨٤٩٠) حضرت عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کسی شخص نے اپنی بیوی سے کہا کہ تو مجھ پر حرام ہے تو اگر قسم کی نیت کی تو قسم ہے اور اگر طلاق کی نیت کی تو طلاق ہے۔

18490

(۱۸۴۹۱) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ عَبْدِ الْخَالِقِ ، عَنْ حَمَّادٍ ، قَالَ : الْحَرَامُ وَاحِدَۃٌ بَائِنَۃٌ۔
(١٨٤٩١) حضرت حماد (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کسی شخص نے اپنی بیوی سے کہا کہ تو مجھ پر حرام ہے تو یہ ایک طلاق بائنہ ہے۔

18491

(۱۸۴۹۲) حَدَّثَنَا ابْنُ إِدْرِیسَ ، عَنِ الأَعْمَشِِ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، قَالَ : إِذَا قَالَ الرَّجُلُ لامْرَأَتِہِ : ہِیَ عَلَیْہِ حَرَامٌ ، یَنْوِی الطَّلاَقَ ، فَأَدْنَی مَا یَکُونُ تَطْلِیقَۃٌ بَائِنَۃٌ۔
(١٨٤٩٢) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ اگر ایک آدمی نے اپنی بیوی سے کہا کہ تو مجھ پر حرام ہے اور طلاق کی نیت کی تو ایک طلاق بائنہ ہوگی۔

18492

(۱۸۴۹۳) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، قَالَ : إِنْ نَوَی طَلاَقًا ، فَأَدْنَی مَا یَکُونُ منْ نِیَّتُہُ فِی ذَلِکَ وَاحِدَۃٌ بَائِنَۃٌ ، إِنْ شَائَ وَشَائَتْ تَزَوَّجَہَا ، وَإِنْ نَوَی ثَلاَثًا فَثَلاَثٌ۔
(١٨٤٩٣) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ اگر ایک آدمی نے اپنی بیوی سے کہا کہ تو مجھ پر حرام ہے اور طلاق کی نیت کی تو ایک طلاق بائنہ ہوگی، اگر وہ دونوں چاہیں تو آدمی اس سے نکاح کرلے اور اگر تین کی نیت کی تو تین طلاقیں ہوجائیں گی۔

18493

(۱۸۴۹۴) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ مَطَر ، عَنْ حُمَیْدِ بْنِ ہِلاَلٍ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ ہِشَامٍ ؛ أَنَّ زَیْدَ بْنَ ثَابِتٍ قَالَ : ہِیَ ثَلاَثٌ ، لاَ تَحِلُّ لَہُ حَتَّی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَہُ۔
(١٨٤٩٤) حضرت زید بن ثابت (رض) فرماتے ہیں کہ اگر ایک آدمی نے اپنی بیوی سے کہا کہ تو مجھ پر حرام ہے تو تین طلاقیں ہوجائیں گی اور عورت اس مرد کے لیے اس وقت تک حلال نہیں جب تک کسی دوسرے شخص سے شادی نہ کرلے۔

18494

(۱۸۴۹۵) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ؛ أَنَّ زَیْدَ بْنَ ثَابِتٍ کَانَ یَقُولُ فِی الْحَرَامِ : ثَلاَثٌ۔
(١٨٤٩٥) حضرت زید بن ثابت (رض) فرماتے ہیں کہ اگر ایک آدمی نے اپنی بیوی سے کہا کہ تو مجھ پر حرام ہے تو تین طلاقیں ہوجائیں گی۔

18495

(۱۸۴۹۶) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ مُبَارَکٍ ، عَنْ خَالِدٍ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ ، عَنْ عُمَرَ ، قَالَ : الْحَرَامُ یَمِینٌ۔
(١٨٤٩٦) حضرت عمر (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کسی شخص نے اپنی بیوی سے کہا کہ تو مجھ پر حرام ہے تو یہ قسم کے حکم میں ہے۔

18496

(۱۸۴۹۷) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ ، عَنْ عُمَرَ ؛ مِثْلَہُ۔
(١٨٤٩٧) ایک اور سند سے یونہی منقول ہے۔

18497

(۱۸۴۹۸) حدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ مَطَرٍ ، عَنْ عَطَائٍ ، عَنْ عَائِشَۃَ ، أَنَّہَا قَالَتْ : یَمِینٌ۔
(١٨٤٩٨) حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ اگر کسی شخص نے اپنی بیوی سے کہا کہ تو مجھ پر حرام ہے تو یہ قسم کے حکم میں ہے۔

18498

(۱۸۴۹۹) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ (ح) وَعَنْ جَابِرِ بْنِ زَیْدٍ ، وَسَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ، وَسَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ، وَسُلَیْمَانَ بْنِ یَسَارٍ ؛ أَنَّہُمْ قَالُوا : الْحَرَامُ یَمِینٌ۔
(١٨٤٩٩) حضرت ابن عباس، حضرت جابر بن زید، حضرت سعید بن جبیر، حضرت سعید بن مسیب، حضرت سلیمان بن یسار (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کسی شخص نے اپنی بیوی سے کہا کہ تو مجھ پر حرام ہے تو یہ قسم کے حکم میں ہے۔

18499

(۱۸۵۰۰) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ مَطَرٍ ، عَنْ أَبِی سَلَمَۃَ ، قَالَ : مَا أُبَالِی إِیَّاہَا حَرَّمْتُ ، أَوْ مائً فُرَاتاً۔
(١٨٥٠٠) حضرت ابوسلمہ (رض) فرماتے ہیں کہ عورت کو حرام کہنا اور فرات کے پانی کو حرام کہنا ایک جیسا ہے۔

18500

(۱۸۵۰۱) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ عَطَائٍ ، وَطَاوُسٍ ، قَالاَ : یَمِینٌ۔
(١٨٥٠١) حضرت عطائ (رض) اور حضرت طاؤس (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کسی شخص نے اپنی بیوی سے کہا کہ تو مجھ پر حرام ہے تو یہ قسم کے حکم میں ہے۔

18501

(۱۸۵۰۲) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنْ أَبِی قِلاَبَۃَ ، قَالَ : قَالَ أُناسٌ : ثَلاَثٌ ، وَقَالَ آخَرُونَ : کَفَّارَۃُ یَمِینٍ ، وَأَنَا أَرَی عَلَیْہِ کَفَّارَۃَ الظِّہَارِ۔
(١٨٥٠٢) حضرت ابو قلابہ (رض) فرماتے ہیں کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ بیوی کو حرام کہنے سے تین طلاقیں ہوجائیں گی اور بعض کہتے ہیں کہ قسم کا کفارہ دینا ہوگا جبکہ میری رائے یہ ہے کہ ظہار کا کفارہ دینا ہوگا۔

18502

(۱۸۵۰۳) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ، عَنْ سَعِیدٍ (ح) وَعَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ أَبِی جَعْفَرٍ ، قَالاَ : الْحَرَامُ یَمِینٌ۔
(١٨٥٠٣) حضرت سعید (رض) اور حضرت ابوجعفر (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کسی شخص نے اپنی بیوی سے کہا کہ تو مجھ پر حرام ہے تو یہ قسم کے حکم میں ہے۔

18503

(۱۸۵۰۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ مُبَارَکٍ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ أَبِی کَثِیرٍ ، قَالَ : حدَّثَنِی مَنْ لاَ أَتَّہِمُ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : الْحَرَامُ یَمِینٌ ، (قَدْ فَرَضَ اللَّہُ لَکُمْ تَحِلَّۃَ أَیْمَانِکُمْ)۔
(١٨٥٠٤) حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کسی شخص نے اپنی بیوی سے کہا کہ تو مجھ پر حرام ہے تو یہ قسم کے حکم میں ہے، اور اللہ تعالیٰ نے تم پر قسموں کے کفارے کو مقرر کیا ہے۔

18504

(۱۸۵۰۵) حَدَّثَنَا الثَّقَفِیُّ ، عَنْ بُرْدٍ ، عَنْ مَکْحُولٍ ، وَسُلَیْمَانَ بْنِ یَسَارٍ ، قَالاَ : الْحَرَامُ یَمِینٌ۔
(١٨٥٠٥) حضرت مکحول (رض) اور حضرت سلیمان بن یسار (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کسی شخص نے اپنی بیوی سے کہا کہ تو مجھ پر حرام ہے تو یہ قسم کے حکم میں ہے۔

18505

(۱۸۵۰۶) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، قَالَ : مَا أُبَالِی حَرَّمْتُہَا ، أَوْ حَرَّمْتُ جَفْنَۃً مِنْ ثَرِیدٍ۔
(١٨٥٠٦) حضرت مسروق (رض) فرماتے ہیں کہ میرے نزدیک عورت کو حرام کرنا اور ثرید کے پیالے کو حرام کرنا ایک جیسا ہے۔

18506

(۱۸۵۰۷) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ جُوَیْبِرٍ ، عَنِ الضَّحَّاکِ ؛ أَنَّ أَبَا بَکْرٍ ، وَعُمَرَ ، وَابْنَ مَسْعُودٍ ، قَالُوا: مَنْ قَالَ لامْرَأَتِہِ : ہِیَ عَلَیْہِ حَرَامٌ فَلَیْسَتْ عَلَیْہِ بِحَرَامٍ ، وَعَلَیْہِ کَفَّارَۃُ یَمِینٍ۔
(١٨٥٠٧) حضرت ابو بکر، حضرت عمر اور حضرت ابن مسعود (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کسی شخص نے اپنی بیوی سے کہا کہ تو میرے لیے حرام ہے تو وہ حرام نہیں ہوگی، اس پر قسم کا کفارہ لازم ہوگا۔

18507

(۱۸۵۰۸) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ إِسْمَاعِیلَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ: إذَا قَالَ الرَّجُلُ لامْرَأَتِہِ: أَنْتِ عَلَیَّ حَرَامٌ، فَلَیْسَ بِشَیْئٍ۔
(١٨٥٠٨) حضرت شعبی (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کسی شخص نے اپنی بیوی سے کہا کہ تو مجھ پر حرام ہے تو یہ کوئی چیز نہیں۔

18508

(۱۸۵۰۹) حَدَّثَنَا یَعْلَی ، عَنْ إِسْمَاعِیلَ ، قَالَ : قَالَ عَامِرٌ : زَعَمَ أُنَاسٌ أَنَّ عَلِیًّا کَانَ یَجْعَلُہَا عَلَیْہِ حَرَامًا ، حَتَّی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَہُ ، وَاللَّہِ مَا قَالَہَا عَلِیٌّ قَطُّ ، وَلأَنَا أَعْلَمُ بِہَا مَنِ الَّذِی قَالَہَا ؟ إنَّمَا قَالَ : مَا أَنَا بِمُحِلِّہَا لَہُ ، وَلاَ بِمُحَرِّمِہَا عَلَیْہِ ، إِنْ شَائَ فَلْیَتَقَدَّمْ ، وَإِنْ شَائَ فَلْیَتَأَخَّرْ۔
(١٨٥٠٩) حضرت عامر (رض) فرماتے ہیں کہ لوگوں کا خیال یہ ہے کہ حضرت علی (رض) کا مسلک یہ تھا کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو اپنے لیے حرام کہہ دے تو اس سے تین طلاقیں واقع ہوجاتی ہیں اور عورت اس خاوند کے لیے اس وقت تک حلال نہیں جب تک کسی دوسرے مرد سے شادی نہ کرلے۔ خدا کی قسم ! حضرت علی (رض) نے کبھی ایسا نہیں فرمایا اور نہ میں کسی ایسے شخص کو جانتا ہوں جو اس کا قائل تھا۔ حضرت علی (رض) نے فرمایا تھا کہ میں نہ تو اسے حلال قرار دیتا ہوں اور نہ حرام، اگر وہ چاہے تو تقدم کرلے اور اگر چاہے توتأخر کرلے۔

18509

(۱۸۵۱۰) حَدَّثَنَا عَبْدُ السَّلاَمِ بْنُ حَرْبٍ ، عَنْ خُصَیْفٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ؛ فِی الرَّجُلِ یَقُولُ لامْرَأَتِہِ : أَنْتِ عَلَیَّ حَرَامٌ ، قَالَ : یُعْتِقُ رَقَبَۃً ، وَإِنْ قَالَ ذَلِکَ ِلأَرْبَعٍ ، فَأَرْبَعُ رِقَابٍ۔
(١٨٥١٠) حضرت سعید بن جبیر (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کسی شخص نے اپنی بیوی سے کہا کہ تو مجھ پر حرام ہے تو ایک غلام آزاد کرے اور اگر یہ بات چار بیویوں سے کہی تو چار غلام آزاد کرے۔

18510

(۱۸۵۱۱) حَدَّثَنَا ابْنُ عَیَّاشٍ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ؛ فِی رَجُلٍ قَالَ : کُلُّ حِلٍّ عَلَیَّ فَہُوَ حَرَامٌ ، قَالَ : لَوْلاَ امْرَأَتُہُ ، لأَمَرْتُہُ أَنْ یُکَفِّرَ یَمِینَہُ۔
(١٨٥١١) حضرت سعید بن جبیر (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کسی شخص نے کہا کہ میرے لیے ہر حلال حرام ہے تو اگر اس کی بیوی نہ ہو تو میں اسے قسم کا کفارہ ادا کرنے کا حکم دوں گا۔

18511

(۱۸۵۱۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ ذَرٍّ ، قَالَ : سَأَلْتُ الشَّعْبِیَّ عَنْ رَجُلٍ قَالَ : کُلُّ حِلٍّ عَلَیَّ فَہُو حَرَامٌ ؟ قَالَ : لاَ یُوجِبُ طَلاَقًا ، وَلاَ یُحَرِّمُ حَلاَلاً ، یُکَفِّرُ یَمِینَہُ۔
(١٨٥١٢) حضرت عمر بن ذر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے حضرت شعبی (رض) سے سوال کیا کہ اگر کسی شخص نے کہا کہ میرے لیے ہر حلال حرام ہے تو کیا حکم ہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ یہ طلاق کو ثابت نہیں کرتا اور حلال کو حرام نہیں کرتا، وہ اپنی قسم کا کفارہ ادا کرے۔

18512

(۱۸۵۱۳) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ حَمَّادٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالَ : إذَا قَالَ : کُلُّ حِلٍّ عَلَیَّ حَرَامٌ ، إِنْ نَوَی طَلاَقًا فَہِیَ تَطْلِیقَۃٌ ، وَہُوَ أَمْلَکُ بِہَا ، وَإِنْ لَمْ یَنْوِ طَلاَقًا فَہِیَ یَمِینٌ یُکَفِّرُہَا۔
(١٨٥١٣) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کسی شخص نے کہا کہ میرے لیے ہر حلال حرام ہے تو اگر اس نے طلاق کی نیت کی تو ایک طلاق ہوگی اور وہ رجوع کا زیادہ حق دار ہے اور اگر طلاق کی نیت نہیں کی تو یہ قسم ہے اس کا کفارہ دے۔

18513

(۱۸۵۱۴) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ أَبِی جَعْفَرٍ قَالَ : إذَا قَالَ : کُلُّ حِلٍّ عَلَیَّ حَرَامٌ ، أَطْعَمَ عَشْرَۃَ مَسَاکِینَ۔
(١٨٥١٤) حضرت ابو جعفر (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کسی شخص نے کہا کہ میرے لیے ہر حلال حرام ہے تو دس مسکینوں کوکھاناکھلائے۔

18514

(۱۸۵۱۵) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنْ ہِشَامٍ الدَّسْتَوَائِیِّ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، وَجَابِرِ بْنِ زَیْدٍ ، قَالاَ: کُلُّ حِلٍّ عَلَیَّ حَرَامٌ ، کَفَّارَۃُ یَمِینٍ۔
(١٨٥١٥) حضرت حسن (رض) اور حضرت جابر بن زید (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کسی شخص نے کہا کہ میرے لیے ہر حلال حرام ہے تو قسم کا کفارہ دے۔

18515

(۱۸۵۱۶) حَدَّثَنَا حُمَیْدُ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ، عَنْ حَسَنِ بْنِ صَالِحٍ، عَنْ جَابِرٍ، عَنْ عَلِیٍّ؛ فِی الرَّجُلِ یَقُولُ لامْرَأَتِہِ: کُلُّ حِلٍّ عَلَیَّ فَہُوَ حَرَامٌ، قَالَ: تَحْرُمُ عَلَیْہِ امْرَأَتُہُ ، وَلاَ تَحِلُّ لَہُ حَتَّی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَہُ ، وَیُکَفِّرَ یَمِینَہُ مِنْ مَالِہِ۔
(١٨٥١٦) حضرت علی (رض) فرماتے ہیں کہ جس شخص نے اپنی بیوی کے بارے میں کہا کہ میرے لیے ہر حلال چیز حرام ہے تو اس کی بیوی اس پر حرام ہوجائے گی، اور اس عورت کے لیے دوسرے شخص سے نکاح کئے بغیر اس سے نکاح کرنا درست نہیں اور مرد اپنے مال میں سے قسم کا کفارہ ادا کرے۔

18516

(۱۸۵۱۷) حَدَّثَنَا جَرِیرُ بْنُ عَبْدِ الْحَمِیدِ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ؛ فِی الرَّجُلِ یَہَبُ امْرَأَتَہُ ِلأَہْلِہَا ، قَالَ : إِنْ قَبِلَہَا أَہْلُہَا فَتَطْلِیقَۃٌ یَمْلِکُ رَجْعَتَہَا ، وَإِنْ لَمْ یَقْبَلُوہَا فَلاَ شَیْئَ۔
(١٨٥١٧) حضرت عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی اسی کے گھر والوں کو ہبہ کردے تو اگر اس کے گھر والے قبول کرلیں تو ایک طلاق ہے اور اسے رجوع کا حق ہوگا اور اگر وہ قبول نہ کریں تو کچھ لازم نہیں۔

18517

(۱۸۵۱۸) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالَ : إِنْ قَبِلُوہَا فَتَطْلِیقَۃٌ یَمْلِکُ رَجْعَتَہَا۔
(١٨٥١٨) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی اسی کے گھر والوں کو ہبہ کردے تو اگر وہ قبول کرلیں تو ایک طلاق ہے اور اسے رجوع کا حق ہوگا۔

18518

(۱۸۵۱۹) حَدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ أَبِی حَصِینٍ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ وَثَّابٍ ، قَالَ بَعْضُ أَصْحَابِنَا : ہُوَ عَنْ مَسْرُوقٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ قَالَ: إذَا قَالَ الرَّجُلُ لامْرَأَتِہِ: اسْتَفْلِحِی بِأَمْرِکِ، أَوِ اخْتَارِی، أَوْ قَدْ وَہَبْتُکِ ِلأَہْلِکِ ، فَہِیَ تَطْلِیقَۃٌ۔
(١٨٥١٩) حضرت عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کسی شخص نے اپنی بیوی سے کہا تو اپنے معاملے کو خود دیکھ لے، یا کہا کہ تجھے اختیار ہے یا کہا کہ میں نے تجھے تیرے گھر والوں کے لیے ہبہ کردیا تو یہ ایک طلاق کے کلمات ہیں۔

18519

(۱۸۵۲۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ یَزِیدَ بْنِ إبْرَاہِیمَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : إِنْ قَبِلُوہَا فَوَاحِدَۃٌ بَائِنَۃٌ ، وَإِنْ لَمْ یَقْبَلُوہَا فَوَاحِدَۃٌ ، وَہُوَ أَحَقُّ بِرَجْعَتِہَا۔
(١٨٥٢٠) حضرت حسن (رض) ایک صحابی سے نقل کرتے ہیں کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی اسی کے گھر والوں کو ہبہ کردے تو اگر وہ قبول کرلیں تو ایک طلاق بائنہ ہے اور اگر وہ قبول نہ کریں تو ایک طلاق ہے اور مرد کو رجوع کا حق ہوگا۔

18520

(۱۸۵۲۱) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی، عَنْ سَعِیدٍ، عَنْ قَتَادَۃَ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ زَیْدِ بْنِ ثَابِتٍ قَالَ: إذَا وَہَبَہَا ِلأَہْلِہَا فَقَبِلُوہَا فَثَلاَثٌ ، لاَ تَحِلُّ لَہُ حَتَّی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَہُ ، وَإِنْ رَدُّوہَا فَوَاحِدَۃٌ ، وَہُوَ أَحَقُّ بِہَا ، وَبِہِ کَانَ یَأْخُذُ الْحَسَنُ۔
(١٨٥٢١) حضرت زید بن ثابت (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی اسی کے گھر والوں کو ہبہ کردے تو یہ تین طلاقوں کے قائم مقام ہے، اب وہ عورت اس خاوند کے لیے اس وقت تک حلال نہیں جب تک کسی دوسرے مرد سے شادی نہ کرلے۔ اگر وہ قبول کرنے سے انکار کردیں تو ایک طلاق ہے اور آدمی کو رجوع کا حق حاصل ہوگا۔ حضرت حسن (رض) کی بھی یہی رائے تھی۔

18521

(۱۸۵۲۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ عَبْدِ الْکَرِیمِ ، عَنْ عَطَائٍ ؛ فِی رَجُلٍ تَزَوَّجَ امْرَأَۃً ثُمَّ وَہَبَہَا ِلأَہْلِہَا ، قَالَ عَطَائٌ : إِنْ قَبِلُوہَا فَہِیَ تَطْلِیقَۃٌ بَائِنَۃٌ ، وَإِنْ رَدُّوہَا فَلاَ شَیْئَ۔
(١٨٥٢٢) حضرت عطائ (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی اسی کے گھر والوں کو ہبہ کردے تو اگر وہ قبول کرلیں تو ایک طلاق اور اگر وہ قبول نہ کریں تو کچھ لازم نہیں۔

18522

(۱۸۵۲۳) حَدَّثَنَا یُونُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، عَنْ عَبْدِ الْوَاحِدِ بْنِ زِیَادٍ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ طَاوُوسٍ ؛ فِی الَّتِی تُوہَبُ ِلأَہْلِہَا : تَطْلِیقَۃٌ ، وَہُوَ أَحَقُّ بِرَجْعَتِہَا۔
(١٨٥٢٣) حضرت طاؤس (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی اسی کے گھر والوں کو ہبہ کردے تو ایک طلاق ہے اور مرد کو رجوع کا حق ہوگا۔

18523

(۱۸۵۲۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حَدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ مُطَرِّفٍ ، عَنِ الْحَکَمِ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ الْجَزَّارِ ، عَنْ عَلِیٍّ ؛ فِی الْمَوْہُوبَۃِ ِلأَہْلِہَا : إِنْ قَبِلُوہَا فَتَطْلِیقَۃٌ بَائِنَۃٌ ، وَإِنْ رَدُّوہَا فَہِیَ وَاحِدَۃٌ ، وَہُوَ أَحَقُّ بِہَا۔
(١٨٥٢٤) حضرت علی (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی اسی کے گھر والوں کو ہبہ کردے تو اگر وہ قبول کرلیں تو ایک طلاق بائنہ اور اگر وہ انکار دیں تو ایک طلاق رجعی ہے اور مرد کو رجوع کا حق ہوگا۔

18524

(۱۸۵۲۵) حَدَّثَنَا عَبْدُالسَّلاَمِ بْنُ حَرْبٍ ، عَنْ مُطَرِّفٍ ، عَنِ الْحَکَمِ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ الْجَزَّارِ ، عَنْ عَلِیٍّ ؛ بِنَحْوٍ مِنْہُ۔
(١٨٥٢٥) ایک اور سند سے یونہی منقول ہے۔

18525

(۱۸۵۲۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ : إذَا وَہَبَہَا ِلأَہْلِہَا وَہُوَ لاَ یُرِیدُ بِذَلِکَ طَلاَقاً ، فَلَیْسَ بِشَیْئٍ قَبِلُوہَا ، أَوْ رَدُّوہَا ، وَإِنْ نَوَی طَلاَقًا ، فَہُوَ مَا نَوَی مِنَ الطَّلاَقِ قَبِلُوہَا ، أَوْ رَدُّوہَا۔
(١٨٥٢٦) حضرت وکیع (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی اسی کے گھر والوں کو ہبہ کردے تو اگر طلاق کا ارادہ نہیں تھا تو کچھ نہ ہوا خواہ وہ قبول کرلیں یا واپس کردیں اور اگر طلاق کی نیت کی تو جو نیت کی وہ واقع ہوگا خواہ وہ واپس کردیں یا قبول کرلیں۔

18526

(۱۸۵۲۷) حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ حُمَیْدٍ الطَّوِیلِ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : قالَتِ امْرَأَۃٌ لِزَوْجِہَا : أَرَاحَنِی اللَّہُ مِنْک ، قَالَ حُمَیْدٌ : أَوْ نَحْوًا مِنْ ہَذَا ، قَالَ : فَقَالَ : نَعَمْ ، فَنَعَمْ ، فَنَعَمْ ، قَالَ : فَأَتَی عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ فَذَکَرَ ذَلِکَ لَہُ ، فَقَالَ عُمَرُ : تُرِیدُ أَنْ أَتَحَمَّلَہَا عَنْک ؟ ہِیَ بِکَ ، ہِیَ بِک۔
(١٨٥٢٧) حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ ایک عورت نے اپنے خاوند سے کہا کہ اللہ نے مجھے تجھ سے راحت دی اور آدمی نے جواب میں کہا کہ ہاں، ہاں، ہاں ۔ یہ مقدمہ حضرت عمر (رض) کے پاس پیش کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ کیا تو چاہتا ہے کہ میں اس راحت کو تجھ سے دور کردوں، وہ تیرے ساتھ ہے وہ تیرے ساتھ ہے۔

18527

(۱۸۵۲۸) حَدَّثَنَا حُمَیْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ عُمَرَ بْنِ حُسَیْنٍ ، عَنْ جَعْفَرٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ عَلِیٍّ ؛ فِی رَجُلٍ طَلَّقَ امْرَأَتَہُ حِمْلَ بَعِیرٍ ، قَالَ : لاَ تَحِلُّ لَہُ حَتَّی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَہُ۔
(١٨٥٢٨) حضرت علی (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کسی شخص نے اپنی بیوی سے کہا کہ تجھے اونٹ کے بوجھ کے برابر طلاق ہے تو یہ عورت اس خاوند کے لیے حلال نہیں جب تک وہ کسی دوسرے مرد سے شادی نہ کرلے۔

18528

(۱۸۵۲۹) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، عَنْ أُسَیْدٍ ، عَنْ عَرْفَجَۃَ ، عَنْ عَائِشَۃَ ؛ فِی رَجُلٍ طَلَّقَ امْرَأَتَہُ وَاحِدَۃً کَأَلْفٍ ، قَالَتْ : لاَ تَحِلُّ لَہُ حَتَّی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَہُ۔
(١٨٥٢٩) حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ اگر کسی شخص نے اپنی بیوی سے کہا کہ تجھے ایک ایسی طلاق ہے جو ہزار طلاقوں کے برابر ہے تو یہ عورت اس خاوند کے لیے حلال نہیں جب تک وہ کسی دوسرے مرد سے شادی نہ کرلے۔

18529

(۱۸۵۳۰) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ؛ فِی الرَّجُلِ یُطَلِّقُ امْرَأَتَہُ ثَلاَثًا ثُمَّ یَجْحَدُہَا ، قَالَ : أَحَبُّ إلَیَّ أَنْ تُرَافِعَہُ إلَی السُّلْطَانِ ، فَإِنْ حَلَفَ فَأَحَبُّ إلَیَّ أَنْ تَفْتَدِیَ مِنْہُ إذَا ہُوَ حَلَفَ۔
(١٨٥٣٠) حضرت ابراہیم (رض) سے سوال کیا گیا کہ اگر ایک آدمی اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دے اور پھر انکار کردے تو کیا حکم ہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ یہ مقدمہ سلطان کے پاس لے جایا جائے اور اس آدمی سے قسم اٹھوائی جائے، اگر وہ قسم کھالے تو میرے خیال میں بہتر یہ ہے کہ عورت اسے فدیہ دے کر خلع کرلے۔

18530

(۱۸۵۳۱) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالَ : إِنْ کَانَتْ صَادِقَۃً ، فَقَدْ حَلَّت لَہَا الْفِدْیَۃُ۔
(١٨٥٣١) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ اگر ایک آدمی اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دے اور پھر انکار کردے تو اگر عورت سچی ہے تو اس کے لیے فدیہ دے کر خلع لینا درست ہے۔

18531

(۱۸۵۳۲) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : تُقَدِّمُہُ إلَی السُّلْطَانِ فَتَسْتَحْلِفُہُ۔
(١٨٥٣٢) حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ عورت ایسی صورت میں خاوند کو سلطان کے پاس لے جائے اور وہ اس سے قسم لے۔

18532

(۱۸۵۳۳) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ سُلَیْمَانَ التَّیْمِیِّ ، عَنِ الْحَسَنِ ؛ فِی الْمَرْأَۃِ تَدَّعِی أَنَّ زَوْجَہَا طَلَّقَہَا ثَلاَثًا وَلَیْسَ لَہَا بَیِّنَۃٌ ، قَالَ : کَانَ یَأْمُرُہَا أَنْ تَقَرَّ عِنْدَہُ وَلاَ تَفِرُّ۔
(١٨٥٣٣) حضرت حسن (رض) سے سوال کیا گیا کہ ایک عورت دعویٰ کرتی ہے کہ اس کے خاوند نے اسے تین طلاقیں دے دی ہیں، اس عورت کے پاس کوئی گواہی نہیں ہے وہ کیا کرے ؟ انھوں نے فرمایا کہ وہ اسی کے پاس رہے اس کے پاس سے کہیں نہ جائے۔

18533

(۱۸۵۳۴) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ دَاوُدَ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ زَیْدٍ قَالَ : ہُمَا زَانِیَانِ مَا اجْتَمَعَا۔
(١٨٥٣٤) حضرت جابر بن زید (رض) فرماتے ہیں کہ جب تک وہ اکٹھے رہیں گے زنا کریں گے۔

18534

(۱۸۵۳۵) حَدَّثَنَا ابْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ بْنِ مُہَاجِرٍ ، عن مجاہد قَالَ : کَانَتْ لابْنِ عُمَرَ سَبِیَّۃٌ ، فَکَانَ زَوْجُہَا یُسَارُّہَا بِالطَّلاَقِ ، فَقَالَتْ لابْنِ عُمَرَ : إنَّہُ یَکُونُ مِنْہُ الشَّیْئُ فِی السِّرِّ ، فَأَحْلَفَہُ وَتَرَکَہُ۔
(١٨٥٣٥) حضرت مجاہد (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عمر (رض) کی ایک باندی کا خاوند اسے علیحدگی میں طلاق دیتا تھا، اس باندی نے حضرت ابن عمر (رض) سے بات کی تو انھوں نے اس کے خاوند سے قسم لی اور اسے چھوڑ دیا۔

18535

(۱۸۵۳۶) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنِ الْہُذَیْلِ بْنِ بِلاَلٍ ، عَنْ شَیْخٍ یُکَنَّی : أَبَا عَمْرٍو ، قَالَ : کُنْتُ جَالِسًا عِنْدَ ابْنِ عَبَّاسٍ ، فَأَتَتْہُ امْرَأَۃٌ فَقَالَتْ : إنَّ زَوْجَہَا یُطَلِّقُہَا فِی السِّرِّ وَیَجْحَدُہا فِی الْعَلاَنِیَۃِ ، فَقَالَ : عَلَیْہِ أَنْ یَحْلِفَ أَرْبَعَ شَہَادَاتٍ بِاللَّہِ مَا طَلَّقَ ، وَالْخَامِسَۃَ أَنَّ لَعْنَۃَ اللہِ عَلَیْہِ إِنْ کَانَ فَعَلَ۔
(١٨٥٣٦) ایک بزرگ ابو عمرو (رض) فرماتے ہیں کہ میں حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کے پاس بیٹھا تھا کہ ایک عورت آئی اور اس نے کہا کہ میرا خاوند علیحدگی میں مجھے طلاق دیتا ہے اور لوگوں کے سامنے آکر انکار کردیتا ہے۔ انھوں نے فرمایا کہ آدمی کو چاہیے کہ اللہ کی چار قسمیں کھائے کہ اس نے طلاق نہیں دی اور پانچویں مرتبہ کہے کہ اگر اس نے طلاق دی ہو تو اس پر اللہ کی لعنت۔

18536

(۱۸۵۳۷) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنِ الْحَکَمِ بْنِ عَطِیَّۃَ ، قَالَ : سَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ سِیرِینَ ، وَسُئِلَ عَنِ الرَّجُلِ یُطَلِّقُ امْرَأَتَہُ ثَلاَثًا ، ثُمَّ یَجْحَدُہَا ؟ قَالَ : تَہْرُبُ مِنْہُ۔
(١٨٥٣٧) حضرت ابن سیرین (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو طلاق دینے کے بعد انکار کرے تو عورت اس کے پاس سے بھاگ جائے۔

18537

(۱۸۵۳۸) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ قَالَ : تَسْتَحْلِفُہُ دُبُرَ الصَّلاَۃِ ، فَإِنْ حَلَفَ رُدَّتْ عَلَیْہِ۔
(١٨٥٣٨) حضرت زہری (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص طلاق دینے کے بعد انکار کردے تو عورت نماز کے بعد اس سے قسم لے، اگر وہ قسم کھالے تو وہ عورت واپس آجائے گی۔

18538

(۱۸۵۳۹) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ حَمَّادٍ قَالَ : سَأَلْتُُہُ عَنْ رَجُلٍ طَلَّقَ امْرَأَتَہُ ثَلاَثًا ، وَلَیْسَ لَہَا بَیِّنَۃٌ ؟ قَالَ : تَفْتَدِی بِمَالِہَا ، قَالَ : قُلْتُ : فَإِنْ أَبَی ؟ قَالَ : تَہْرُبُ مِنْہُ وَلاَ تَقَارُّہُ۔
(١٨٥٣٩) حضرت شعبہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے حضرت حماد (رض) سے سوال کیا کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دے اور عورت کے پاس کوئی گواہی نہ ہو اور مرد انکار کردے تو کیا حکم ہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ عورت فدیہ دے کر اس مرد سے چھٹکارا حاصل کرلے۔ میں نے کہا اگر مرد انکار کرے تو پھر ؟ انھوں نے فرمایا کہ عورت اس کے پاس سے بھاگ جائے، اس کے پاس نہ ٹھہرے۔

18539

(۱۸۵۴۰) حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ مُعَاذٍ ، عَنْ سَوَّارِ ، عَنْ مُحَمَّدٍ قَالَ : کَانَ یَأْمُرُ مِثْلَ ہَذِہِ أَنْ تَہْرُبَ۔
(١٨٥٤٠) حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس صورت میں عورت کو مرد کے پاس سے بھاگ جانے کا مشورہ دیتے تھے۔

18540

(۱۸۵۴۱) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَرْوَانَ ، عَنْ عُمَارَۃَ قَالَ : سُئِلَ جَابِرُ بْنُ زَیْدٍ عَنْ رَجُلٍ غَلِطَ بِطَلاَقِ امْرَأَتِہِ ؟ فَقَالَ : لَیْسَ عَلَی الْمُؤْمِنِ غَلَطٌ۔
(١٨٥٤١) حضرت جابر بن زید (رض) سے سوال کیا گیا کہ اگر کوئی شخص بیوی سے کوئی بات کرنا چاہے لیکن غلطی سے بیوی کو طلاق کے کلمات زبان سے نکال دے تو کیا حکم ہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ غلطی سے نکلا ہوا لفظ مومن کو نقصان نہیں پہنچاتا۔

18541

(۱۸۵۴۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إسْرَائِیلَ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ عَامِرٍ ، وَالْحَکَمِ ؛ فِی رَجُلٍ أَرَادَ أَنْ یَتَکَلَّمَ بِشَیْئٍ ، فَغَلِطَ فَطَلَّقَ ، فَقَالَ الشَّعْبِیُّ : لَیْسَ بِشَیْئٍ ، وَقَالَ الْحَکَمُ : یَلْزَمُہُ۔
(١٨٥٤٢) حضرت عامر (رض) اور حضرت حکم (رض) سے سوال کیا گیا کہ اگر کوئی شخص بیوی سے کوئی بات کرنا چاہے لیکن غلطی سے بیوی کو طلاق کے کلمات زبان سے نکال دے تو کیا حکم ہے ؟ حضرت شعبی (رض) نے فرمایا کہ یہ کچھ نہیں جبکہ حضرت حکم (رض) نے فرمایا کہ طلاق ہوجائے گی۔

18542

(۱۸۵۴۳) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنِ الأَعْمَشِِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالَ : إذَا طَلَّقَ الرَّجُلُ امْرَأَتَہُ وَاحِدَۃً بَائِنًا ، وَقَعَ عَلَیْہِ طَلاَقُہُ مَا کَانَتْ فِی الْعِدَّۃِ۔
(١٨٥٤٣) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو طلاق بائنہ دے پھر اس کی عدت میں ایک اور طلاق دے دے تو عدت میں دی گئی ہر طلاق معتبر ہوگی۔

18543

(۱۸۵۴۴) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنِ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ؛ فِی الرَّجُلِ یُطَلِّقُ امْرَأَتَہُ طَلاَقًا بَائِنًا ، ثُمَّ یُتْبِعُہَا بِطَلاَقٍ فِی عِدَّتِہَا ، قَالَ : یَلْحَقُہَا طَلاَقُہُ مَا کَانَتْ فِی الْعِدَّۃِ۔
(١٨٥٤٤) حضرت سعید (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو طلاق بائنہ دے پھر اس کی عدت میں ایک اور طلاق دے دے تو عدت میں دی گئی ہر طلاق معتبر ہوگی۔

18544

(۱۸۵۴۵) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ أَبِی مَعْشَرٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ؛ مِثْلَہُ۔
(١٨٥٤٥) حضرت ابراہیم (رض) بھی یونہی فرماتے ہیں۔

18545

(۱۸۵۴۶) حَدَّثَنَا أَبُو عِصَامٍ رَوَّادُ بْنُ الْجَرَّاحِ ، عَنِ الأَوْزَاعِیِّ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، وَعَنْ مَکْحُولٍ ، وَعَطَائٍ ؛ فِی الرَّجُلِ یُطَلِّقُ امْرَأَتَہُ تَطْلِیقَۃً بَائِنَۃً ، ثُمَّ یُطَلِّقُہَا فِی عِدَّتِہَا ، قَالوا : یَقَعُ عَلَیْہَا الطَّلاَقُ۔
(١٨٥٤٦) حضرت مکحول (رض) اور حضرت زہری (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو طلاق بائنہ دے پھر اس کی عدت میں ایک اور طلاق دے دے تو عدت میں دی گئی ہر طلاق معتبر ہوگی۔

18546

(۱۸۵۴۷) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ، عَنْ إسْمَاعِیلَ، عَنِ الشَّعْبِیِّ، عَنْ شُرَیْحٍ قَالَ: یَلْزَمُ الْمُطَلَّقَۃَ الطَّلاَقُ فِی الْعِدَّۃِ۔
(١٨٥٤٧) حضرت شریح (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو طلاق بائنہ دے پھر اس کی عدت میں ایک اور طلاق دے دے تو عدت میں دی گئی ہر طلاق معتبر ہوگی۔

18547

(۱۸۵۴۸) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ ، عَنْ شُرَیْحٍ ؛ مِثْلَہُ۔
(١٨٥٤٨) حضرت شریح (رض) سے یونہی منقول ہے۔

18548

(۱۸۵۴۹) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ (ح) وَحَمَّادٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالاَ : یَلْزَمُہَا الطَّلاَقُ فِی الْعِدَّۃِ۔
(١٨٥٤٩) حضرت شعبی (رض) اور حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ عدت میں دی گئی طلاق معتبر ہے۔

18549

(۱۸۵۵۰) حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إسْمَاعِیلَ ، عَنْ جَعْفَرٍ ، عَنْ أَبِیہِ قَالَ : قَالَ عَلِیٌّ : الطَّلاَقُ وَالْعِدَّۃُ بِالنِّسَائِ۔
(١٨٥٥٠) حضرت علی (رض) فرماتے ہیں کہ طلاق اور عدت کا تعلق عورتوں سے ہے۔

18550

(۱۸۵۵۱) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ قَالَ : السُّنَّۃُ بِالْمَرْأَۃِ فِی الطَّلاَقِ ، أَوِ الْعِدَّۃِ۔
(١٨٥٥١) حضرت عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ دین میں طلاق اور عدت کا تعلق عورتوں سے ہے۔

18551

(۱۸۵۵۲) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنِ الأَعْمَشِِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالَ : الطَّلاَقُ وَالْعِدَّۃُ بِالنِّسَائِ۔
(١٨٥٥٢) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ طلاق اور عدت کا تعلق عورتوں سے ہے۔

18552

(۱۸۵۵۳) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، وَمُحَمَّدٍ ، أَنَّہُمَا قَالاَ : الطَّلاَقُ وَالْعِدَّۃُ بِالنِّسَائِ۔
(١٨٥٥٣) حضرت حسن (رض) اور حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں کہ طلاق اور عدت کا تعلق عورتوں سے ہے۔

18553

(۱۸۵۵۴) حَدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ أَیُّوبَ قَالَ : نُبِّئْتُ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ؛ بِمِثْلِ ذَلِکَ۔
(١٨٥٥٤) حضرت ابن عباس (رض) سے بھی یونہی منقول ہے۔

18554

(۱۸۵۵۵) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنْ نَافِعٍ قَالَ : تَبِینُ الأَمَۃُ مِنَ الْحُرِّ وَالْعَبْدِ بِتَطْلِیقَتَیْنِ۔
(١٨٥٥٥) حضرت نافع (رض) فرماتے ہیں کہ باندی خواہ آزاد کے نکاح میں ہو یا غلام کے دو طلاقوں سے بائنہ ہوجائے گی۔

18555

(۱۸۵۵۶) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ الْحُبَابِ ، عَنْ سَیْفٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ قَالَ : إذَا کَانَتِ الأَمَۃُ تَحْتَ الْحُرِّ فَطَلاَقُہَا ثِنْتَانِ ، وَعِدَّتُہَا حَیْضَتَانِ ، وَإِذَا کَانَتِ الْحُرَّۃُ تَحْتَ الْعَبْدِ ، فَطَلاَقُہَا ثَلاَثٌ ، وَعِدَّتُہَا ثَلاَثُ حِیَضٍ۔
(١٨٥٥٦) حضرت مجاہد (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کوئی باندی آزاد کے نکاح میں ہو تو اس کی طلاقیں دو اور عدت بھی دو حیض ہیں اور اگر آزادعورت غلام کے نکاح میں ہو تو اس کی طلاقیں تین اور عدت بھی تین حیض ہیں۔

18556

(۱۸۵۵۷) حَدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ یَسَارٍ ؛ أَنَّ نُفَیْعًا فَتی أَمِّ سَلَمَۃَ ، طَلَّقَ امْرَأَتَہُ وَہِیَ حُرَّۃٌ تَطْلِیقَتَیْنِ ، فَحَرَصُوا عَلَی أَنْ یَرُدُّوہَا عَلَیْہِ ، فَأَبَی عُثْمَانُ وَزَیْدٌ ، قَالَ سُلَیْمَانُ : وَیَقُولُ أَحَدٌ غَیْرَ ہَذَا؟ فَلَمَّا قَدِمْتُ الْمَدِینَۃَ ، کَتَبْتُ إلَی أَبِی قِلاَبَۃَ ، فَکَتَبَ إلَیَّ : إِنَّہُ حَدَّثَنِی مَنْ أَطْمَئِنُّ إلَی حَدِیثِہِ : أَنَّ زَیْدَ بْنَ ثَابِتٍ، وَقَبِیصَۃَ بْنَ ذُؤَیْبٍ ، قَالاَ : إذَا کَانَ زَوْجُہَا حُرًّا وَہِیَ أَمَۃٌ ، فَطَلاَقُہُ طَلاَقُ حُرٍّ ، وَعِدَّتُہَا عِدَّۃُ أَمَۃٍ ، وَإِنْ کَانَ زَوْجُہَا عَبْدًا وَہِیَ حُرَّۃٌ ، فَطَلاَقُہُ طَلاَقُ عَبْدٍ ، وَعِدَّتُہَا عِدَّۃُ حُرَّۃٍ۔
(١٨٥٥٧) حضرت سلیمان بن یسار (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت ام سلمہ (رض) کے ایک غلام نفیع نے اپنی آزاد بیوی کو دو طلاقیں دے دیں، لوگ چاہتے تھے کہ یہ خاتون واپس ان کے نکاح میں چلی جائیں۔ حضرت عثمان (رض) اور حضرت زید (رض) نے اس کا انکار کیا، حضرت سلیمان (رض) فرماتے ہیں کہ کیا کسی نے اس کے علاوہ کوئی بات کرنی ہے ؟ جب میں مدینہ آیا تو میں نے حضرت ابوقلابہ (رض) کو خط لکھا، انھوں نے مجھے جواب میں ایک حدیث لکھ بھیجی جس سے میرا دل مطمئن ہوگیا کہ زید بن ثابت (رض) اور قبیصہ بن ذؤیب (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کسی باندی کا خاوند آزاد ہو تو طلاق آزاد والی ہوگی اور عدت باندی والی اور اگر کسی آزاد عورت کا خاوند غلام ہو تو طلاق غلام والی ہوگی اور عدت آزاد والی۔

18557

(۱۸۵۵۸) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ أَیُّوبَ ، قَالَ : حَدَّثَنِی عَبْدُ اللہِ ، عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ یَسَارٍ قَالَ : الطَّلاَقُ بِالرِّجَالِ ، وَالْعِدَّۃُ بِالنِّسَائِ۔
(١٨٥٥٨) حضرت سلیمان بن یسار (رض) فرماتے ہیں کہ طلاق کا تعلق مردوں سے اور عدت کا عورتوں سے ہے۔

18558

(۱۸۵۵۹) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ ؛ مِثْلَہُ۔
(١٨٥٥٩) حضرت عکرمہ (رض) سے بھی یونہی منقول ہے۔

18559

(۱۸۵۶۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ (ح) وَعَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنْ مَکْحُولٍ (ح) وَسُفْیَانُ ، عَمَّنْ سَمِعَ إبْرَاہِیمَ ، وَالشَّعْبِیَّ ، قَالُوا : الطَّلاَقُ بِالرِّجَالِ ، وَالْعِدَّۃُ بِالنِّسَائِ۔
(١٨٥٦٠) بہت سے حضرات فرماتے ہیں کہ طلاق کا تعلق مردوں سے اور عدت کا عورتوں سے ہے۔

18560

(۱۸۵۶۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ أَبِی کَثِیرٍ ، عَنْ أَبِی سَلَمَۃَ قَالَ : حدَّثَنَا نُفَیْعٌ أَنَّہُ کَانَ مَمْلُوکًا وَتَحْتَہُ حُرَّۃٌ ، فَطَلَّقَہَا تَطْلِیقَتَیْنِ ، فَسَأَلَ عُثْمَانَ ، وَزَیْدًا ؟ فَقَالاَ : طَلاَقُکَ طَلاَقُ عَبْدٍ ، وَعِدَّتُہَا عِدَّۃُ حُرَّۃٍ۔
(١٨٥٦١) حضرت ابوسلمہ (رض) فرماتے ہیں کہ نفیع ایک غلام تھے اور ان کے نکاح میں ایک آزاد خاتون تھیں، انھوں نے اپنی بیوی کو دو طلاقیں دے دیں، اس بارے میں انھوں نے حضرت عثمان (رض) اور حضرت زید (رض) سے سوال کیا تو انھوں نے فرمایا کہ تمہاری طلاق غلام والی اور ان کی عدت آزاد عورتوں والی ہے۔

18561

(۱۸۵۶۲) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ : إذَا کَانَتِ الْحُرَّۃُ تَحْتَ الْعَبْدِ ، فَقَدْ بَانَتْ بِتَطْلِیقَتَیْنِ ، وَعِدَّتُہَا ثَلاَثُ حِیَضٍ ، وَإِذَا کَانَتِ الأَمَۃُ تَحْتَ الْحُرِّ ، فَقَدْ بَانَتْ مِنْہُ بِثَلاَثٍ ، وَعِدَّتُہَا حَیْضَتَانِ۔
(١٨٥٦٢) حضرت ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کوئی آزاد عورت کسی غلام کے نکاح میں ہو تو دو طلاقوں سے بائنہ ہوجائے گی اور تین حیض عدت گزارے گی اور اگر کوئی باندی کسی آزاد کے نکاح میں ہو تو تین طلاقوں سے بائنہ ہوگی اور دو حیض عدت گزارے گی۔

18562

(۱۸۵۶۳) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ، عَنِ ابْنِ الْمُسَیَّبِ قَالَ : الطَّلاَقُ لِلرِّجَالِ ،وَالْعِدَّۃُ لِلنِّسَائِ۔
(١٨٥٦٣) حضرت سعید بن مسیب (رض) فرماتے ہیں کہ طلاق کا تعلق مردوں سے اور عدت کا عورتوں سے ہے۔

18563

(۱۸۵۶۴) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، وَأَبُو أُسَامَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللہِ : بَیْعُ الأَمَۃِ طَلاَقُہَا۔
(١٨٥٦٤) حضرت عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ باندی کو بیچنا اس کی طلاق ہے۔

18564

(۱۸۵۶۵) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الْحَسَنِ (ح) وَعَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، عَنْ أَُبَی قَالَ : بَیْعُ الأَمَۃِ طَلاَقُہَا۔
(١٨٥٦٥) حضرت ابی (رض) فرماتے ہیں کہ باندی کو بیچنا اس کی طلاق ہے۔

18565

(۱۸۵۶۶) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، وَجَابِرٌ ، وَأَنَسٌ ، قَالوا : بَیْعُ الأَمَۃِ طَلاَقُہَا۔
(١٨٥٦٦) حضرت ابن عباس، حضرت جابر اور حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ باندی کو بیچنا اس کی طلاق ہے۔

18566

(۱۸۵۶۷) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ ، عَنِ ابْنِ أَبِی عَرُوبَۃَ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنِ الْحَسَنِ قَالَ : أَیُّہُمَا بِیعَ ، فَذَاکَ لَہَا طَلاَقٌ۔
(١٨٥٦٧) حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ غلام اور باندی میں سے جو بھی بیچا گیا تو یہ ان کی طلاق کی مانند ہے۔

18567

(۱۸۵۶۸) حَدَّثَنَا عَبدَۃ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ یَعْلَی بْنِ حَکِیمٍ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ قَالَ : أیُّہُمَا بِیعَ ، فَذَاکَ لَہَا طَلاَقٌ۔
(١٨٥٦٨) حضرت عکرمہ (رض) فرماتے ہیں کہ غلام اور باندی میں سے جو بھی بیچا گیا تو یہ ان کی طلاق کی مانند ہے۔

18568

(۱۸۵۶۹) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنِ الْحَکَمِ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ قَالَ : بُضَعُہَا فِی بَیْعِ أَیِّہِمَا کَانَ۔
(١٨٥٦٩) حضرت عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ غلام اور باندی میں سے جو بھی بیچا گیا تو یہ ان کی طلاق کی مانند ہے۔

18569

(۱۸۵۷۰) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ عَوْفٍ ، عَنِ الْحَسَنِ قَالَ : بَیْعُہُ طَلاَقُہَا۔
(١٨٥٧٠) حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ غلام کو بیچنا اس کی طلاق ہے۔

18570

(۱۸۵۷۱) حَدَّثَنَا یَعْلَی ، عَنْ إسْمَاعِیلَ قَالَ : سَأَلْتُ عَامِرًا عَنْ رَجُلٍ اشْتَرَیْ وَلِیْدَۃً وَلَہَا زَوْجٌ ، أَیَقَعُ عَلَیْہَا ؟ قَالَ : إِنْ وَقَعَ عَلَیْہَا لَمْ یُغَیَّر ذَلِکَ عَلَیْہِ أَحَدٌ ، قَاْلَ : وَإِنْ یَتَنَزَّہ خَیْرٌ لَہُ۔
(١٨٥٧١) حضرت اسماعیل (رض) کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عامر (رض) سے سوال کیا کہ اگر کوئی شخص خاوند والی باندی کو خریدے تو کیا اس سے جماع کرسکتا ہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ اگر وہ جماع کرلے تو کوئی تبدیلی نہیں آئے گی لیکن اس کا ایسی باندی سے دور رہنابہتر ہے۔

18571

(۱۸۵۷۲) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنِ ابْنِ أَبِی نَجِیحٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ قَالَ : إذَا بِیعَتِ الأَمَۃُ ، أَوْ وُہِبَتْ ، أَوْ وُرِثَتْ ، أَوْ أُعْتِقَتْ ، فَہُوَ فِرَاقٌ۔
(١٨٥٧٢) حضرت مجاہد (رض) فرماتے ہیں کہ اگر باندی کو بیچا گیا، ہبہ کیا گیا، کوئی اس کا وارث بن گیا یا اسے آزاد کیا گیا تو یہ خاوند سے اس کی جدائی ہے۔

18572

(۱۸۵۷۳) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ أَبِی سَلَمَۃَ ؛ أَنَّ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ عَوْفٍ اشْتَرَی جَارِیَۃً مِنْ عَاصِمِ بْنِ عَدِیٍّ ، فَأُخْبِرَ أَنَّ لَہَا زَوْجًا ، فَرَدَّہَا۔
(١٨٥٧٣) حضرت ابو سلمہ (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عبدالرحمن بن عوف (رض) نے عاصم بن عدی (رض) سے ایک باندی خریدی انھیں بتایا گیا کہ اس کا خاوند بھی ہے تو انھوں نے اس باندی کو واپس کردیا۔

18573

(۱۸۵۷۴) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ، عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ یَسَارٍ ؛ أَنَّ عَاصِمَ بْنَ عَدِیٍّ وَہَبَ لِعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ جَارِیَۃً ، فَلَمَّا دَنَا مِنْہَا أَخْبَرَتْہُ أَنَّ لَہَا زَوْجًا ، فَرَدَّہَا عَلَیْہِ۔
(١٨٥٧٤) حضرت سلیمان بن یسار (رض) فرماتے ہیں کہ عاصم بن عدی (رض) نے عبد الرحمن بن عوف (رض) کو ایک باندی ہدیہ میں دی، جب وہ اس کے قریب جانے لگے تو اس نے بتایا کہ اس کا خاوند ہے، پس حضرت عبدالرحمن (رض) نے اس باندی کو واپس کردیا۔

18574

(۱۸۵۷۵) حَدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ یَسَارٍ بْنِ نمیر ، عَنْ عُمَرَ ، قَالَ : اشْتَرَی بُضْعَہَا۔
(١٨٥٧٥) حضرت عمر (رض) فرماتے ہیں کہ اس نے اس کی شرمگاہ کو بھی خریدا ہے۔

18575

(۱۸۵۷۶) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ ؛ أَنَّ سَعْدًا اشْتَرَی جَارِیَۃً لَہَا زَوْجٌ ، فَلَمْ یَقْرَبْہَا حَتَّی اشْتَرَی بُضْعَہَا مِنْ زَوْجِہَا بِخَمْسِ مِئَۃٍ۔
(١٨٥٧٦) حضرت مصعب بن سعد فرماتے ہیں کہ حضرت سعد (رض) نے ایک ایسی باندی خریدی جس کا خاوند تھا ، وہ اس باندی کے اس وقت تک قریب نہ گئے جب تک اس کے خاوند سے اس کا حق پانچ سو کے عوض نہ خرید لیا۔

18576

(۱۸۵۷۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا یُونُسُ بْنُ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ ؛ أَنَّ سَعْدًا زَوَّجَ جَارِیَۃً لَہُ مَمْلُوکًا لَہُ ، فَتَبِعَتْہَا نَفْسُہُ ، قَالَ : فَجَعَلَ لِغُلاَمِہِ جُعْلاً عَلَی أَنْ یُطَلِّقَہَا۔
(١٨٥٧٧) حضرت مصعب بن سعد (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت سعد (رض) نے اپنی ایک باندی کی شادی اپنے ایک غلام سے کرادی۔ بعد میں انھوں نے خود اس باندی کو حاصل کرنے کا ارادہ کیا تو اپنے غلام کو اس بات پر عوض دیا کہ وہ اس کو طلاق دے دے۔

18577

(۱۸۵۷۸) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ ، عَنْ نَافِعٍ ؛ أَنَّ رَجُلاً أَہْدَی إلَی عُثْمَانَ جَارِیَۃً ، فَلَمَّا جَرَّدَہَا ، قَالَتْ : إنَّ لِی زَوْجًا ، فَرَدَّہَا إلَی مَوْلاَہَا ، وَقَالَ : أَہْدَیْتَ لِی جَارِیَۃً لَہَا زَوْجٌ۔
(١٨٥٧٨) حضرت نافع (رض) فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے عثمان (رض) کو اپنی باندی ہدیہ میں دے دی، جب انھوں نے اس سے جماع کرنا چاہا تو اس نے کہا کہ میرا ایک خاوند ہے، تو انھوں نے وہ اس کے مالک کو واپس کردی اور فرمایا کہ تو نے مجھے ایک ایسی باندی ہبہ کی جس کا خاوند تھا۔

18578

(۱۸۵۷۹) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ ہَاشم ، عَنِ ابْنِ أَبِی لَیْلَی ، عَنِ الشَّعْبِیِّ قَالَ : أہْدَی رَجُلٌ مِنْ ہَمْدَانَ لِعَلِیٍّ جَارِیَۃً ، فَلَمَّا أَتَتْہُ سَأَلَہَا عَلِیٌّ : أَفَارِغَۃٌ ، أَمْ مَشْغُولَۃٌ ؟ فَقَالَتْ : مَشْغُولَۃٌ یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ ، قَالَ : فَاعْتَزَلَہَا ، وَأَرْسَلَ إلَی زَوْجِہَا فَاشْتَرَی بُضْعَہَا مِنْہُ بِعِشْرِینَ وَأَرْبَعِ مِئَۃٍ۔
(١٨٥٧٩) حضرت شعبی (رض) فرماتے ہیں کہ ہمدان کے ایک آدمی نے اپنی ایک باندی حضرت علی (رض) کو ہدیہ میں دی، جب وہ ان کے پاس آئی تو حضرت علی (رض) نے اس سے سوال کیا کہ تو فارغہ ہے یا مشغول ہے ؟ اس نے کہا اے امیر المؤمنین ! میں مشغول ہوں یعنی میرا خاوند ہے، حضرت علی (رض) اس سے پیچھے ہٹ گئے اور اس کے خاوند کو پیغام بھیج کر بلوایا اور اس کا حق چار سو بیس میں خرید لیا۔

18579

(۱۸۵۸۰) حَدَّثَنَا عَبْدُ السَّلاَمِ بْنُ حَرْبٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : الْعَبْدُ أَحَقُّ بِامْرَأَتِہِ أَیْنَمَا وَجَدَہَا ، إلاَّ أَنْ یَکُونَ طَلَّقَہَا طَلاَقًا بَائِنًا۔
(١٨٥٨٠) حضرت ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ غلام اپنی بیوی کا زیادہ حق دار ہے جہاں کہیں بھی اسے پائے، البتہ اگر اس کو طلاق بائنہ دے دی تو اس کا حق ختم ہوگیا۔

18580

(۱۸۵۸۱) حَدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ قَالَ : نُبِّئْتُ أَنَّ عَبْدَ الرَّحْمَنِ رَأَی امْرَأَۃً فَأَعْجَبَتْہُ ، فَسَأَلَ عَنْہَا ؟ قَالُوا : ہَذِہِ أَمَۃٌ لِفُلاَنٍ ، فَاشْتَرَاہَا بِأَرْبَعَۃِ آلاَفٍ دِرْہَمٍ ، وَإِذَا لَہَا زَوْجٌ ، فَأَعْطَاہُ مِئَۃَ دِرْہَمٍ عَلَی أَنْ یُطَلِّقَہَا فَأَبَی ، فَزَادَہُ فَأَبَی ، فَزَادَہُ فَأَبَی حَتَّی بَلَغَ خَمْسَ مِئَۃِ دِرْہَمٍ فَأَبَی ، فَرَدَّہَا عَلَیْہِ۔
(١٨٥٨١) حضرت ابن سیرین (رض) فرماتے ہیں کہ مجھے خبر دی گئی کہ حضرت عبد الرحمن (رض) نے ایک عورت دیکھی جو انھیں بھلی محسوس ہوئی، انھوں نے اس کے متعلق پوچھا کہ یہ کون ہے ؟ انھیں بتایا گیا کہ یہ فلاں کی باندی ہے، انھوں نے چار ہزار درہم کے عوض اسے خرید لیا، بعد میں معلوم ہوا کہ اس کا خاوند بھی ہے، چنانچہ انھوں نے اس کے خاوند کو ایک سو درہم دیئے کہ وہ اسے طلاق دے دے، اس نے طلاق دینے سے انکار کردیا، انھوں نے رقم کو بڑھایا اس نے پھر انکار کیا وہ بڑھاتے رہے اور وہ انکار کرتا رہا یہاں تک کہ انھوں نے پانچ سو درہم دینے کی پیش کش کی لیکن اس نے پھر بھی انکار کردیا تو حضرت عبد الرحمن (رض) نے وہ باندی اس کو دے دی۔

18581

(۱۸۵۸۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، عَنْ مِسْعَرٍ، عَنْ مَعْبَدِ بْنِ خَالِدٍ، أَوْ عَنْ أَبِی حُصَیْنٍ؛ أَنَّ أَبَا مَسْعُودٍ کَرِہَ أَنْ یَطَأَہَا وَلَہَا زَوْجٌ۔
(١٨٥٨٢) حضرت ابو مسعود (رض) نے اس بات کو مکروہ قرار دیا ہے کہ آدمی عورت سے جماع کرے جبکہ اس کا خاوند بھی ہو۔

18582

(۱۸۵۸۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ مِسْعَرٍ ، عَنْ رَجُلٍ ، عَنْ شُرَیْحٍ قَالَ : إنِّی لأَکْرَہُ أَنْ أَطَأَ فَرْجَ امْرَأَۃٍ ، لَوْ وَجَدْتُ مَعَہَا رَجُلاً لَمْ أُقِمْ عَلَیْہِ الْحَدَّ۔
(١٨٥٨٣) حضرت شریح (رض) فرماتے ہیں کہ میں اس بات کو مکروہ خیال کرتا ہوں کہ میں کسی ایسی عورت سے جماع کروں جس کے ساتھ میں کسی آدمی کو دیکھوں تو اس پر حد جاری نہ کرسکوں۔

18583

(۱۸۵۸۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، وَعَلِیُّ بْنُ صَالِحٍ ، عَنْ قَیْسِ بْنِ وَہْبٍ الْہَمْدَانِیِّ ، عَنْ أَبِی سَلَمَۃَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ ؛ أَنَّہُ کَرِہَ أَنْ یَطَأَہَا وَلَہَا زَوْجٌ ۔ وَزَادَ فِیہِ عَلِیُّ بْنُ صَالِحٍ : وَقَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ : لاَ یَصْلُحُ زَوْجَانِ فِی الإِسْلاَمِ۔
(١٨٥٨٤) حضرت عبد الرحمن بن عوف (رض) نے اس بات کو مکروہ قرار دیا ہے کہ کسی ایسی عورت سے جماع کیا جائے جس کا خاوند ہو۔ ایک روایت میں یہ اضافہ ان کی طرف منسوب ہے کہ اسلام میں ایک عورت کے دو خاوند نہیں ہوسکتے۔

18584

(۱۸۵۸۵) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ أَبِی سُلَیْمَانَ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ سِیرِینَ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ؛ أَنَّ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ عَوْفٍ اشْتَرَی جَارِیَۃً لَہَا زَوْجٌ ، قَالَ : فَرَدَّہَا ، وَقَالَ : دَلَّسَتْ لِی إذَنْ۔
(١٨٥٨٥) حضرت عبد الرحمن بن عوف (رض) نے ایک ایسی باندی خریدی جس کا خاوند تھا پھر اسے واپس کردی اور فرمایا کہ وہ میرے لیے مشتبہ تھی۔

18585

(۱۸۵۸۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ یَزِیدَ الْمَکِّیِّ ، عَنْ سَالِمٍ ، وَالْقَاسِمِ ، وَعُبَیْدِ اللہِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ ، قَالُوا : قَالَ عُمَرُ : إنَّمَا الطَّلاَقُ بِیَدِ مَنْ یَحِلُّ لَہُ الْفَرْجُ۔
(١٨٥٨٦) حضرت عمر (رض) فرماتے ہیں کہ طلاق کا حق اسے ہوتا ہے جس کے لیے شرمگاہ حلال ہوتی ہے۔

18586

(۱۸۵۸۷) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ مُبَارَکٍ ، عَنْ أَبِی سَعِیدِ بن عَوْذ ، قَالَ : سَمِعْتُ سَعِیدَ بْنَ جُبَیْرٍ سَأَلَہُ رَجُلٌ فَقَالَ : أَنْکَحْتُ أَمَتِی عَبْدِی ؟ ثُمَّ أَرَدْتُ أَنْ أُفَرِّقَ بَیْنَہُمَا ؟ قَالَ : لَیْسَ لَکَ ذَلِکَ۔
(١٨٥٨٧) حضرت ابو سعید بن عوذ (رض) فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے حضرت سعید بن جبیر (رض) سے سوال کیا کہ میں نے اپنی باندی کا نکاح اپنے غلام سے کیا پھر میں نے سوچا کہ میں ان دونوں کے درمیان جدائی کرا دوں تو کیا میں ایسا کرسکتا ہوں ؟ انھوں نے فرمایا کہ تم ایسا نہیں کرسکتے۔

18587

(۱۸۵۸۸) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : إذَا أَذِنَ السَّیِّدُ ، فَالطَّلاَقُ بِیَدِ الْعَبْدِ۔
(١٨٥٨٨) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ جب آقا نے اجازت دی تو طلاق کا اختیار غلام کو ہی ہوگا۔

18588

(۱۸۵۸۹) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ حُصَیْنٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ قَالَ : إذَا تَزَوَّجَ بِإِذْنِ سَیِّدِہِ ، فَالطَّلاَقُ بِیَدِ الْعَبْدِ۔
(١٨٥٨٩) حضرت شعبی (رض) فرماتے ہیں کہ اگر غلام نے آقا کی اجازت سے شادی کی تو پھر بھی طلاق کا اختیار غلام کو ہی ہوگا۔

18589

(۱۸۵۹۰) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، عَنْ مُبَارَکِ بْنِ فَضَالَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ أَبِی إسْمَاعِیلَ ، عَنْ عَلِیٍّ ، وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ ، وَحُذَیْفَۃَ ، قَالُوا فِی الْعَبْدِ یَتَزَوَّجُ بِإِذْنِ مَوَالِیہِ : الطَّلاَقُ بِیَدِ الْعَبْدِ۔
(١٨٥٩٠) حضرت علی، حضرت عبد الرحمن بن عوف اور حضرت حذیفہ (رض) فرماتے ہیں کہ اگر غلام نے آقا کی اجازت سے شادی کی تو پھر بھی طلاق کا اختیار غلام کو ہی ہوگا۔

18590

(۱۸۵۹۱) حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ عَطَائٍ ، وَطَاوُوسٍ ، وَمُجَاہِدٍ قَالُوا : إذَا کَانَتِ الْمَمْلُوکَۃُ لِغَیْرِہِ ، أَوْ کَانَتْ عِنْدَہُ ، وَقَدْ أَذِنَ لَہُ أَنْ یَتَزَوَّجَہَا ، فَالطَّلاَقُ بِیَدِ الْمَمْلُوکِ۔
(١٨٥٩١) حضرت عطاء ، حضرت طاوس اور حضرت مجاہد (رض) فرماتے ہیں کہ اگر باندی کسی دوسرے شخص کی ملکیت ہو اور کسی غلام کا مالک اسے اس باندی سے شادی کرنے کی اجازت دے دے تو طلاق کا حق غلام کو ہوگا۔

18591

(۱۸۵۹۲) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ ، قَالَ : قُلْتُ ِلأَبِی : الرَّجُلُ یُنْکِحُ مَمْلُوکَہُ مَمْلُوکَتَہُ ، ہَلْ یَصِحُّ لَہُ أَنْ یَنْزِعَہَا مِنْہُ بِغَیْرِ طِیبِ نَفْسٍ مِنْہُ ؟ قَالَ : بِئْسَ مَا صَنَعَ۔
(١٨٥٩٢) حضرت ہشام بن عروہ (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے والد سے پوچھا کہ اگر کوئی شخص اپنی باندی کی اپنے غلام سے شادی کرا دے تو کیا اس کی رضامندی کے بغیر دونوں کو جدا کرسکتا ہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ اگر ایسا کرے تو بہت برا کرے گا۔

18592

(۱۸۵۹۳) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ ؛ أَنَّہُ کَانَ یَقُولُ : إذَا نَکَحَ الْعَبْدُ بِإِذْنِ سَیِّدِہِ ، فَإِنَّ الطَّلاَقَ بِیَدِ الْعَبْدِ ، إِنْ شَائَ طَلَّقَ ، وَإِنْ شَائَ أَمْسَکَ۔
(١٨٥٩٣) حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ غلام نے اپنے آقا کی اجازت سے شادی کی تو طلاق کا اختیار غلام کو ہوگا، اگر چاہے تو طلاق دے اور اگر چاہے تو روکے رکھے۔

18593

(۱۸۵۹۴) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ أَیُّوبَ ، قَالَ : قُلْتُ لِسَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ : إنَّ جَابِرَ بْنَ زَیْدٍ کَانَ یَقُولُ : إذَا زَوَّجَ السَّیِّدُ ، فَإِنَّ الطَّلاَقَ بِیَدِہِ ، فَقَالَ : کَذَبَ جَابِرُ بْنُ زَیْدٍ۔
(١٨٥٩٤) حضرت ایوب (رض) کہتے ہیں کہ میں نے حضرت سعید بن جبیر (رض) سے کہا کہ حضرت جابر بن زید (رض) فرمایا کرتے تھے کہ جب آقا نے غلام کی شادی کرائی تو طلاق کا حق اسی کو ہوگا، حضرت سعید بن جبیر (رض) فرماتے ہیں کہ جابر بن زید نے غلط کہا۔

18594

(۱۸۵۹۵) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، عَنْ مُحَمَّدٍ قَالَ : الطَّلاَقُ بِیَدِ مَنْ یَمْلِکُ الْبُضْعَ۔
(١٨٥٩٥) حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں کہ طلاق کا اختیار اسی کو ہوگا جو شرمگاہ کا حق رکھتا ہے۔

18595

(۱۸۵۹۶) حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ وَرْدَانَ ، عَنْ بُرْدٍ ، عَنْ مَکْحُولٍ قَالَ : إذَا تَزَوَّجَ الْعَبْدُ بِإِذْنِ مَوْلاَہُ ، فَطَلاَقُہُ بِیَدِ الْعَبْدِ ، لَیْسَ لِلِسَیِّدِ أَنْ یُطَلِّقَ عَنْہُ۔
(١٨٥٩٦) حضرت مکحول (رض) فرماتے ہیں کہ جب غلام نے اپنے آقا کی اجازت سے شادی کی تو طلاق کا حق غلام کو ہوگا۔ آقا اس کی طرف سے طلاق نہیں دے سکتا۔

18596

(۱۸۵۹۷) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ قَالَ : إذَا زَوَّجَ الرَّجُلُ عَبْدَہُ ، أَوْ أَذِنَ لَہُ فِی التَّزْوِیجِ ، فَإِنَّ الطَّلاَقَ بِیَدِ الْعَبْدِ۔
(١٨٥٩٧) حضرت زہری (رض) فرماتے ہیں کہ اگر آقا نے غلام کی شادی کرائی یا اسے شادی کی اجازت دی تو طلاق کا حق غلام کو ہوگا۔

18597

(۱۸۵۹۸) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ جُوَیْبِرٍ ، عَنِ الضَّحَّاکِ قَالَ : مَنْ زَوَّجَ عَبْدَہُ أَمَتَہُ بِمَہْرٍ وَبَیِّنَۃٍ ، لاَ یَصْلُحُ لَہُ أَنْ یَنْزِعَہَا مِنْہُ ، وَلاَ یَحِلُّ لَہُ فَرْجُہَا حَتَّی یَمُوتَ۔
(١٨٥٩٨) حضرت ضحاک (رض) فرماتے ہیں کہ جس شخص نے اپنے غلام کی اپنی باندی سے مہر کے ساتھ گواہوں کی موجودگی میں شادی کرادی تو وہ اس سے چھین نہیں سکتا، اور موت تک اب اس باندی کی شرمگاہ اس کے لیے حلال نہیں۔

18598

(۱۸۵۹۹) حَدَّثَنَا عَبِیدَۃُ بْنُ حُمَیْدٍ ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ : إذَا أَذِنَ السَّیِّدُ لِعَبْدِہِ أَنْ یَتَزَوَّجَ، فَالطَّلاَقُ بِیَدِ الْعَبْدِ۔
(١٨٥٩٩) حضرت ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ جب آقا نے اپنے غلام کو شادی کی اجازت دی تو طلاق کا اختیار غلام کو ہوگا۔

18599

(۱۸۶۰۰) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ ، وَابْنِ عَبَّاسٍ ، وَجَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ أَنَّہُمْ قَالُوا : الطَّلاَقُ بِیَدِ السَّیِّدِ۔
(١٨٦٠٠) حضرت انس بن مالک، حضرت ابن عباس، حضرت جابر بن عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ طلاق کا اختیار آقا کو ہوگا۔

18600

(۱۸۶۰۱) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ قَالَ : إذَا زَوَّجْتَ عَبْدَکَ أَمَتَکَ ، ثُمَّ بِعْتَہُ ، فَلَیْسَ لَکَ أَنْ تَمْنَعَہُ۔
(١٨٦٠١) حضرت سعید بن مسیب (رض) فرماتے ہیں کہ جب تم نے اپنے باندی کی اپنے غلام سے شادی کردی اور پھر غلام کو بیچ بھی دیا تو اسے اس کی بیوی کے پاس آنے سے منع نہیں کرسکتے۔

18601

(۱۸۶۰۲) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ، وَالْحَسَنِ قَالاَ : إذَا تَزَوَّجَ الْعَبْدُ بِإِذْنِ سَیِّدِہِ ، فَالطَّلاَقُ بِیَدِ الْعَبْدِ۔
(١٨٦٠٢) حضرت سعید بن مسیب (رض) اور حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ جب غلام نے اپنے آقا کی اجازت سے شادی کی تو طلاق کا حق غلام کو ہوگا۔

18602

(۱۸۶۰۳) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ حُصَیْنٍ ، عَنْ عَامِرٍ قَالَ : إذَا تَزَوَّجَ الْعَبْدُ بِغَیْرِ إذْنِ سَیِّدِہِ ، فَالطَّلاَقُ بِیَدِ سَیِّدِہِ۔
(١٨٦٠٣) حضرت عامر (رض) فرماتے ہیں کہ اگر غلام نے آقا کی اجازت کے بغیر شادی کی تو طلاق کا حق آقا کو ہوگا۔

18603

(۱۸۶۰۴) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ آدَمَ ، قَالَ : حدَّثَنَا إسْرَائِیلُ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ؛ فِی الْعَبْدِ یَتَزَوَّجُ بِغَیْرِ إذْنِ سَیِّدِہِ ، قَالَ : إِنْ شَائَ السَّیِّدُ أَبْطَلَ ذَلِکَ ، وَإِنْ شَائَ سَکَتَ۔
(١٨٦٠٤) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ اگر غلام نے آقا کی اجازت کے بغیر شادی کی تو آقا اگر چاہے تو نکاح کو ختم کردے اور اگر چاہے تو خاموش رہے۔

18604

(۱۸۶۰۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ بْنِ أَبِی خَالِدٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : إذَا تَزَوَّجَ الْعَبْدُ بِغَیْرِ إذْنِ سَیِّدِہِ ، فَالطَّلاَقُ بِیَدِ السَّیِّدِ ، وَإِذَا تَزَوَّجَ بِإِذْنِہِ ، فَالطَّلاَقُ بِیَدِ الْعَبْدِ۔
(١٨٦٠٥) حضرت شعبی (رض) فرماتے ہیں کہ اگر غلام نے آقا کی اجازت کے بغیر شادی کی تو طلاق کا حق آقا کو ہوگا، اور اگر آقا کی اجازت سے شادی کی تو طلاق کا حق غلام کو ہوگا۔

18605

(۱۸۶۰۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ قَالَ : حدَّثَنَا الْعُمَرِیُّ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، مِثْلَہُ۔
(١٨٦٠٦) حضرت ابن عمر (رض) سے بھی یونہی منقول ہے۔

18606

حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ بَقِیُّ بْنُ مَخْلَدٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا أَبُو بَکْرٍ عَبْدُ اللہِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِی شَیْبَۃَ قَالَ: (۱۸۶۰۷) حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ ، عَنْ خَالِدٍ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : إذَا أَسْلَمَتِ النَّصْرَانِیَّۃُ قَبْلَ زَوْجِہَا فَہِیَ أَمْلَکُ بِنَفْسِہَا۔
(١٨٦٠٧) حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ اگر عیسائی عورت اپنے خاوند سے پہلے اسلام قبول کرلے تو وہ اپنے نفس کی مختار ہوگی۔

18607

(۱۸۶۰۸) حَدَّثَنَا مُعْتَمِرُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ أَبِیہِ ؛ أَنَّ الْحَسَنَ ، وَعُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِیزِ قَالاَ فِی النَّصْرَانِیَّۃِ تُسْلِمُ تَحْتَ زَوْجِہَا ، قَالاَ : الإِسْلاَمُ أَخْرَجَہَا مِنْہُ۔
(١٨٦٠٨) حضرت حسن اور حضرت عمر بن عبدالعزیز (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کسی عیسائی کی عیسائی بیوی نے اسلام قبول کرلیا تو اسلام عورت کو اس کی بیوی ہونے سے نکال دے گا۔

18608

(۱۸۶۰۹) حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ عَطَائٍ ؛ فِی النَّصْرَانِیَّۃِ تُسْلِمُ تَحْتَ زَوْجِہَا قَالَ : یُفَرَّقُ بَیْنَہُمَا۔
(١٨٦٠٩) حضرت عطائ (رض) فرماتے ہیں کہ اگر عورت اپنے خاوند سے پہلے اسلام قبول کرلے تو دونوں کے درمیان جدائی کرادی جائے گی۔

18609

(۱۸۶۱۰) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمُحَارِبِیُّ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ عَطَائٍ ، وَطَاوُوسٍ ، وَمُجَاہِدٍ ؛ فِی نَصْرَانِیٍّ تَکُونُ تَحْتَہُ نَصْرَانِیَّۃٌ فَتُسْلِمُ ، قَالُوا : إِنْ أَسْلَمَ مَعَہَا فَہِیَ امْرَأَتُہُ ، وَإِنْ لَمْ یُسْلِمْ فُرِّقَ بَیْنَہُمَا۔
(١٨٦١٠) حضرت عطاء ، حضرت طاوس اور حضرت مجاہد (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کسی عیسائی شخص کی عیسائی بیوی اسلام قبول کرلے تو اگر اس کا خاوند بھی اسلام قبول کرلے تو یہ اس کی بیوی رہے گی اور اگر وہ اسلام قبول نہ کرے تو ان کے درمیان جدائی کرادی جائے گی۔

18610

(۱۸۶۱۱) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَنِ الشَّیْبَانِیِّ ، عَنِ السَّفَّاحِ بْنِ مَطَرٍ ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ کُرْدُوسٍ قَالَ : کَانَ رَجُلٌ مِنْ بَنِی تَغْلِبَ یُقَالُ لَہُ : عُبَادَۃَ بْنُ النُّعْمَانِ بْنِ زُرْعَۃَ ، عِنْدَہُ امْرَأَۃٌ مِنْ بَنِی تَمِیمٍ ، وَکَانَ عُبَادَۃَ نَصْرَانِیًّا ، فَأَسْلَمَتِ امْرَأَتُہُ وَأَبَی أَنْ یُسْلِمَ ، فَفَرَّقَ عُمَرُ بَیْنَہُمَا۔
(١٨٦١١) حضرت داؤد بن کردوس (رض) فرماتے ہیں کہ بنو تغلب کا ایک شخص عبادہ بن نعمان بن زرعہ جو کہ ایک عیسائی تھا، اس کے نکاح میں بنو تمیم کی ایک عیسائی عورت تھی، اس عورت نے اسلام قبول کرلیا لیکن عبادہ نے اسلام قبول کرنے سے انکار کردیا، اس پر حضرت عمر (رض) نے دونوں کے درمیان جدائی کرادی۔

18611

(۱۸۶۱۲) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ، عَنْ یُونُسَ، عَنِ الْحَسَنِ قَالَ: إذَا أَسْلَمَتِ الْمَرْأَۃُ قَبْلَ زَوْجِہَا انْقَطَعَ مَا بَیْنَہُمَا مِنَ النِّکَاحِ۔
(١٨٦١٢) حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ جب عورت نے اپنے خاوند سے پہلے اسلام قبول کرلیا تو ان کے نکاح کا رشتہ ختم ہوگیا۔

18612

(۱۸۶۱۳) حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ ، عَنِ الشَّیْبَانِیِّ ، عَنْ یَزِیدَ بْنِ عَلْقَمَۃَ ؛ أَنَّ رَجُلاً مِنْ بَنِی تَغْلِبَ یُقَالُ لَہُ : عُبَادَۃُ بْنُ النُّعْمَانِ ، وَکَانَ تَحْتَہُ امْرَأَۃٌ مِنْ بَنِی تَمِیمٍ فَأَسْلَمَتْ ، فَدَعَاہُ عُمَرُ فَقَالَ : إمَّا أَنْ تُسْلِمَ وَإِمَّا أَنْ أَنْزِعَہَا مِنْک، فَأَبَی أَنْ یُسْلِمَ ، فَنَزَعَہَا مِنْہُ عُمَرُ۔
(١٨٦١٣) حضرت یزید بن علقمہ (رض) فرماتے ہیں کہ بنو تغلب کا ایک آدمی جس کا نام عبادہ بن نعمان تھا، اس کے عقد میں بنو تمیم کی ایک عورت تھی، اس عورت نے اسلام قبول کرلیا تو حضرت عمر (رض) نے اس کے خاوند کو بلایا اور فرمایا کہ چاہو تو اسلام قبول کرلو بصورتِ دیگر ہم تمہاری بیوی کو تم سے جدا کردیں گے، اس نے اسلام قبول کرنے سے انکار کردیا تو حضرت عمر (رض) نے اس کی بیوی کو اس سے جدا کردیا۔

18613

(۱۸۶۱۴) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ مُطَرِّفٍ ، عَنِ الْحَکَمِ ؛ فِی الْیَہُودِیِّ ، أَوِ النَّصْرَانِیِّ تُسْلِمُ امْرَأَتُہُ عِنْدَہُ ، قَالَ : یُفَرَّقُ بَیْنَہُمَا۔
(١٨٦١٤) حضرت حکم (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کسی عیسائی یا یہودی کی بیوی نے اسلام قبول کرلیا تو ان کے درمیان جدائی کرادی جائے گی۔

18614

(۱۸۶۱۵) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنِ ابْنِ شُبْرُمَۃَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ قَالَ : سَأَلْتُ سَعِیدَ بْنَ جُبَیْرٍ عَنْ رَجُلٍ نَصْرَانِیٍّ وَامْرَأَتُہُ نَصْرَانِیَّۃٌ ، فَأَسْلَمَتْ ؟ قَالَ : فرِّق ، فرِّق۔
(١٨٦١٥) حضرت عمرو بن مرہ (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت سعید بن جبیر (رض) سے سوال کیا کہ اگر کسی عیسائی مرد کی عیسائی بیوی نے اسلام قبول کرلیا تو کیا حکم ہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ ان کے درمیان جدائی کرادو، ان کے درمیان جدائی کرادو۔

18615

(۱۸۶۱۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ، قَالَ : یُفَرَّقُ بَیْنَہُمَا۔
(١٨٦١٦) حضرت سعید بن جبیر (رض) فرماتے ہیں کہ اگر عورت اپنے خاوند سے پہلے اسلام قبول کرلے تو دونوں کے درمیان جدائی کرادی جائے گی۔

18616

(۱۸۶۱۷) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ مُطَرِّفٍ ، عَنْ عَامِرٍ ، عَنْ عَلِیٍّ قَالَ : إذَا أَسْلَمَتِ النَّصْرَانِیَّۃُ امْرَأَۃُ الْیَہُودِیِّ ، أَوِ النَّصْرَانِیِّ کَانَ أَحَقَّ بِبُضْعِہَا ، لأَنَّ لَہُ عَہْدًا۔
(١٨٦١٧) حضرت علی (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کسی یہودی یا عیسائی کی بیوی نے اسلام قبول کرلیا تو وہ اس کے خاوند ہونے کے زیادہ حق دار ہیں کیونکہ ان کا مسلمانوں سے معاہدہ ہے۔

18617

(۱۸۶۱۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ ہِشَامٍ ، وَشُعْبَۃَ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ، عَنْ عَلِیٍّ قَالَ : ہُوَ أَحَقُّ بِہَا مَا دَامَ فِی دَارِ الْہِجْرَۃِ۔
(١٨٦١٨) حضرت علی (رض) فرماتے ہیں کہ کافر خاوند اس کا زیادہ حق دار ہے جب تک وہ دونوں دارالہجرت میں ہوں۔

18618

(۱۸۶۱۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ یَزِیدَ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ یَزِیدَ الْخِطْمِیِّ ؛ أَنَّ عُمَرَ کَتَبَ : یُخَیَّرْنَ۔
(١٨٦١٩) حضرت عبداللہ بن یزید خطمی (رض) کہتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے خط میں اس بارے میں لکھا تھا کہ عورتوں کو اختیار دیا جائے گا۔

18619

(۱۸۶۲۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ قَالَ : ہُوَ أَحَقُّ بِہَا مَا کَانَتْ فِی الْمِصْرِ۔
(١٨٦٢٠) حضرت شعبی (رض) فرماتے ہیں کہ اس کا خاوند اس کا زیادہ حق دار ہوگا جب تک وہ عورت شہر میں ہو۔

18620

(۱۸۶۲۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالَ : یُقَرَّانِ عَلَی نِکَاحِہِمَا۔
(١٨٦٢١) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ ان دونوں کا نکاح باقی رہے گا۔

18621

(۱۸۶۲۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنِ الْحَکَمِ ؛ أَنَّ ہَانِیئَ بْنَ قَبِیصَۃَ الشَّیْبَانِیَّ ، وَکَانَ نَصْرَانِیًّا عِنْدَہُ أَرْبَعُ نِسْوَۃٍ فَأَسْلَمْنَ ، فَکَتَبَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ أَنْ یُقَرّن عِنْدَہُ۔
(١٨٦٢٢) حضرت حکم (رض) فرماتے ہیں کہ ہانی بن قبیصہ شیبانی ایک عیسائی تھا، اس کے عقد میں چار عورتیں تھیں، ان سب نے اسلام قبول کرلیا تو حضرت عمر بن خطاب (رض) نے حکم لکھا کہ وہ عورتیں اسی کے پاس رہیں گی۔

18622

(۱۸۶۲۳) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ ؛ أَنَّ نَصْرَانِیَّۃً أَسْلَمَتْ تَحْتَ نَصْرَانِیٍّ فَأَرَادُوا أَہْلَہَا أَنْ یَنْزِعُوہَا مِنْہُ ، فَتَرَحَّلُوا إلَی عُمَرَ فَخَیَّرَہَا۔
(١٨٦٢٣) حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ ایک عیسائی مرد کی عیسائی عورت نے اسلام قبول کرلیا، اس کے گھر والوں نے اسے اس کے خاوند سے آزاد کرانا چاہا تو وہ حضرت عمر (رض) کی طرف سفر کیا تو انھوں نے اس عورت کو اختیار دیا۔

18623

(۱۸۶۲۴) حَدَّثَنَا مُعْتَمِرُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ أَبِیہِ ؛ أَنَّ الْحَسَنَ ، وَعُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِیزِ قَالاَ : تَطْلِیقَۃٌ بَائِنَۃٌ۔
(١٨٦٢٤) حضرت حسن اور حضرت عمر بن عبدالعزیز (رض) فرماتے ہیں کہ یہ ایک طلاق بائنہ ہے۔

18624

(۱۸۶۲۵) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنِ الْحَسَنِ قَالَ : إِذَا کَانَ الرَّجُلُ وَامْرَأَتُہُ مُشْرِکَیْنِ فَأَسْلَمَتْ وَأَبَی أَنْ یُسْلِمَ بَانَتْ مِنْہُ بِوَاحِدَۃٍ ، وَقَالَ عِکْرِمَۃُ مِثْلَ ذَلِکَ۔
(١٨٦٢٥) حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ جب ایک آدمی اور اس کی بیوی مشرک ہوں اور بیوی اسلام قبول کرلے اور خاوند اسلام قبول کرنے سے انکار کردے تو عورت کو ایک طلاق بائنہ ہوجائے گی اور حضرت عکرمہ (رض) بھی یہی فرمایا کرتے تھے۔

18625

(۱۸۶۲۶) حَدَّثَنَا مَعْنُ بْنُ عِیسَی ، عَنِ ابْنِ أَبِی ذِئْبٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ قَالَ : تَفْرِیقُ الإِمَامِ تَطْلِیقَۃٌ۔
(١٨٦٢٦) حضرت زہری (رض) فرماتے ہیں کہ قاضی کا جدائی کرانا ایک طلاق ہے۔

18626

(۱۸۶۲۷) حَدَّثَنَا عَبْدُ السَّلاَمِ بْنُ حَرْبٍ ، عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ أَبِی فَرْوَۃَ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ؛ أَنَّ امْرَأَۃَ عِکْرِمَۃَ بْنِ أَبِی جَہْلٍ أَسْلَمَتْ قَبْلَہُ ، ثُمَّ أَسْلَمَ وَہِیَ فِی الْعِدَّۃِ ، فَرُدَّتْ إلَیْہِ ، وَذَلِکَ عَلَی عَہْدِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔ (مالک ۴۶)
(١٨٦٢٧) حضرت زہری (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عکرمہ بن ابی جہل کی بیوی نے ان سے پہلے اسلام قبول کرلیا، پھر ان کی عدت میں حضرت عکرمہ (رض) نے بھی اسلام قبول کرلیا تو وہ واپس ان کے نکاح میں چلی گئیں اور ایسا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عہد مبارک میں ہوا تھا۔

18627

(۱۸۶۲۸) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ، عَنْ سَعِیدٍ، عَنْ قَتَادَۃَ، عَنْ مُجَاہِدٍ قَالَ: إذَا أَسْلَمَ وَہِیَ فِی عِدَّتِہَا فَہِیَ امْرَأَتُہُ۔
(١٨٦٢٨) حضرت مجاہد (رض) فرماتے ہیں کہ اگر نومسلم عورت کا خاوند اس کی عدت میں اسلام قبول کرلے تو وہ اسی کی بیوی رہے گی۔

18628

(۱۸۶۲۹) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنِ ابْنِ أَبِی نَجِیحٍ ، عَنْ عَطَائٍ قَالَ : إِنْ أَسْلَمَ وَہِیَ فِی الْعِدَّۃِ فَہُوَ أَحَقُّ بِہَا۔
(١٨٦٢٩) حضرت عطائ (رض) فرماتے ہیں کہ اگر نومسلم عورت کا خاوند اس کی عدت میں اسلام قبول کرلے تو وہ اس کا زیادہ حقدار ہے۔

18629

(۱۸۶۳۰) حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَیْمُونٍ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِیزِ قَالَ : ہُوَ أَحَقُّ بِہَا مَا دَامَتْ فِی الْعِدَّۃِ۔
(١٨٦٣٠) حضرت عمر بن عبدالعزیز (رض) فرماتے ہیں کہ اگر نومسلم عورت کا خاوند اس کی عدت میں اسلام قبول کرلے تو وہ اسی کی بیوی رہے گی۔

18630

(۱۸۶۳۱) حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ عَطَائٍ قَالَ : إِنْ أَسْلَمَ وَہِیَ فِی الْعِدَّۃِ فَہِیَ امْرَأَتُہُ۔
(١٨٦٣١) حضرت عطائ (رض) فرماتے ہیں کہ اگر نومسلم عورت کا خاوند اس کی عدت میں اسلام قبول کرلے تو وہ اسی کی بیوی رہے گی۔

18631

(۱۸۶۳۲) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ یُونُسَ قَالَ : حُدِّثْنَا عَنْ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِیزِ قَالَ : إذَا أَسْلَمَ الزَّوْجُ بَعْدَ امْرَأَتِہِ خَیَّرَہَا مَا دَامَتْ فِی الْعِدَّۃِ ، أَوْ قَالَ : ہُوَ أَحَقُّ بِہَا مَا دَامَتْ فِی الْعِدَّۃِ۔
(١٨٦٣٢) حضرت عمر بن عبدالعزیز (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کے بعد اسلام قبول کرے تو عدت کے دوران عورت کو اختیار ہوگا، یا یہ فرمایا کہ عورت کی عدت میں اسلام قبول کرنے کی صورت میں وہ زیادہ حق دار ہوگا۔

18632

(۱۸۶۳۳) حَدَّثَنَا مُعْتَمِرُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ قَالَ : أَیُّمَا یَہُودِیٍّ ، أَوْ نَصْرَانِیٍّ أَسْلَمَ ، ثُمَّ أَسْلَمَتِ امْرَأَتُہُ فَہُمَا عَلَی نِکَاحِہِمَا ، إلاَّ أَنْ یَکُونَ فَرَّقَ بَیْنَہُمَا سُلْطَانٌ۔
(١٨٦٣٣) حضرت زہری (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کسی یہودی یا عیسائی نے اسلام قبول کیا پھر اس کی بیوی نے اسلام قبول کیا تو ان کا عقد باقی رہے گا البتہ اگر سلطان نے ان کے درمیان جدائی کرادی ہو تو پھر عقد ختم ہوگیا۔

18633

(۱۸۶۳۴) حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ، وَالْحَسَنِ أَنَّہُمَا قَالاَ : لَیْسَ فِی الظِّہَارِ وَقْتٌ ، وَلاَ یَدْخُلُ فِیہِ إیلاَئٌ ، وَإِنْ تَطَاوَلَ ذَلِکَ۔
(١٨٦٣٤) حضرت سعید بن مسیب (رض) اور حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ ظہار میں وقت نہیں ہوتا اور اس میں ایلاء داخل نہیں ہوتا خواہ وہ کتناہی طویل کیوں نہ ہوجائے۔

18634

(۱۸۶۳۵) حَدَّثَنَا عَبَّادٌ عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ أَبِی مَعْشَرٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، مِثْلَہُ۔
(١٨٦٣٥) حضرت ابراہیم (رض) سے بھی یونہی منقول ہے۔

18635

(۱۸۶۳۶) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ؛ فِی الرَّجُلِ یُظَاہِرُ مِنِ امْرَأَتِہِ ، وَلاَ یُوَقِّتُ أَجَلاً قَالَ : لاَ تَبِینُ مِنْہُ امْرَأَتُہُ وَإِنْ لَمْ یَقَعْ عَلَیْہَا ، مَا دَامَ یَتَلَوَّمُ فِی الْکَفَّارَۃِ۔
(١٨٦٣٦) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کسی شخص نے اپنی بیوی سے جماع کیا اور کوئی وقت مقرر نہ کیا تو اس کی بیوی اس سے جدا نہیں ہوگی خواہ وہ اس سے جماع نہ کرے، جبکہ تک کہ وہ کفارے کا انتظار کررہا ہے۔

18636

(۱۸۶۳۷) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالَ : لَیْسَ فِی الظِّہَارِ وَقْتٌ۔
(١٨٦٣٧) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ ظہار میں کوئی وقت نہیں ہوتا۔

18637

(۱۸۶۳۸) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ قَالَ : لَیْسَ فِی الظِّہَارِ وَقْتٌ۔
(١٨٦٣٨) حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ ظہار میں کوئی وقت نہیں ہوتا۔

18638

(۱۸۶۳۹) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ طَاوُوسٍ قَالَ : لَیْسَ فِی الظِّہَارِ وَقْتٌ۔
(١٨٦٣٩) حضرت طاؤس (رض) فرماتے ہیں کہ ظہار میں کوئی وقت نہیں ہوتا۔

18639

(۱۸۶۴۰) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ دَاوُدَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ؛ فِی رَجُلٍ قَالَ لامْرَأَتِہِ : إِنْ قَرَبْتُہَا سَنَۃً فَہِیَ عَلَیْہِ کَظَہْرِ أُمِّہِ ، قَالَ : فَقَالَ الشَّعْبِیُّ : لاَ یَدْخُلُ الإِیلاَئُ فِی الظِّہَارِ۔
(١٨٦٤٠) حضرت شعبی (رض) فرماتے ہیں کہ اگر ایک آدمی نے اپنی بیوی سے کہا کہ اگر میں ایک سال تک تیرے قریب آیا تو تو میرے لیے میری ماں کی پشت کی طرح ہے تو ایلاء ظہار میں داخل نہیں ہوگا۔

18640

(۱۸۶۴۱) حَدَّثَنَا سَہْلُ بْنُ یُوسُفَ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنِ الْحَکَمِ ، وَحَمَّادٍ قَالاَ : إذَا قَالَ الرَّجُلُ لامْرَأَتِہِ : ہِیَ عَلَیْہِ کَظَہْرِ أُمِّہِ أَرْبَعَۃَ أَشْہُرٍ ، فَمَضَتْ أَرْبَعَۃُ أَشْہُرٍ فَہُوَ إیلاَئٌ ، وَإِذَا قَالَ : ہِیَ عَلَیَّ کَظَہْرِ أُمِّی ، فَتَرَکَہَا سَنَۃً فَلَیْسَ بِإیلاَئٍ۔
(١٨٦٤١) حضرت حکم (رض) اور حضرت حماد (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کسی شخص نے اپنی بیوی کے بارے میں کہا کہ وہ اس کے لیے چار مہینے تک اس کی ماں کی پشت کی طرح ہے، اور چار مہینے گذر گئے تو یہ ایلاء ہے اور اگر یہ کہا کہ وہ اس کی ماں کی پشت کی طرح ہے اور پھر اسے ایک سال تک چھوڑے رکھا تو یہ ایلاء نہیں ہے۔

18641

(۱۸۶۴۲) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، عَنْ رَجُلٍ ، عَنْ عَلِیٍّ ، قَالَ : لاَ یَدْخُلُ إِیلاَئٌ فِی ظِہَارٍ ، وَلاَ ظِہَارٌ فِی إِیلاَئٍ۔
(١٨٦٤٢) حضرت علی (رض) فرماتے ہیں کہ ایلاء ظہار میں اور ظہار ایلاء میں داخل نہیں ہوتا۔

18642

(۱۸۶۴۳) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالَ : لَیْسَ فِی الظِّہَارِ وَقْتٌ ، إلاَّ أَنْ یَقُولَ : إِنْ قَرَبْتُکِ ، فَإِنْ قَالَ فَتَرَکَہَا أَرْبَعَۃَ أَشْہُرٍ بَانَتْ مِنْہُ بِالإِیلاَئِ۔
(١٨٦٤٣) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ ظہار میں کوئی وقت نہیں ہوتا لیکن اگر کسی نے اپنی بیوی سے کہا کہ اگر میں تیرے قریب آیا، تو پھر ظہار میں وقت داخل ہوسکتا ہے، اگر اس نے یہ کہا اور چار مہینے تک اسے چھوڑے رکھا تو عورت ایلاء کی وجہ سے بائنہ ہوجائے گی۔

18643

(۱۸۶۴۴) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنِ ابْنِ سَالِمٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ قَالَ : إذَا قَالَ الرَّجُلُ لامْرَأَتِہِ : أَنْتِ عَلَیَّ کَظَہْرِ أُمِّی إِنْ قَرَبْتُکِ ، فَإِنْ قَرَبَہَا وَقَعَ الظِّہَارُ ، وَإِنْ تَرَکَہَا أَرْبَعَۃَ أَشْہُرٍ بَانَتْ مِنْہُ بِالإِیلاَئِ۔
(١٨٦٤٤) حضرت شعبی (رض) فرماتے ہیں کہ اگر ایک آدمی نے اپنی بیوی سے کہا کہ اگر میں تیرے قریب آیا تو تو میرے لیے میری ماں کی پشت کی طرح ہے، اور اگر وہ اس کے قریب آیا تو ظہار ہوجائے گا اور اگر چار مہینے تک چھوڑے رکھا تو عورت ایلاء کی وجہ سے بائنہ ہوجائے گی۔

18644

(۱۸۶۴۵) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنِ الْحَسَنِ قَالَ : ہُوَ إیلاَئٌ۔
(١٨٦٤٥) حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ یہ ایلاء ہے۔

18645

(۱۸۶۴۶) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ عَنْ عَطَائٍ ؛ فِی رَجُلٍ قَالَ لامْرَأَتِہِ : إِنْ قَرَبْتُکِ فَأَنْتِ عَلَیَّ کَظَہْرِ أُمِّی ، فَتَرَکَہَا أَرْبَعَۃَ أَشْہُرٍ ، قَالَ : لَیْسَ بِشَیْئٍ۔
(١٨٦٤٦) حضرت عطائ (رض) فرماتے ہیں کہ اگر ایک شخص نے اپنی بیوی سے کہا اگر میں تیرے قریب آیا تو تو میرے لیے میری ماں کی پشت کی طرح ہے اور اسے چار مہینے تک چھوڑے رکھا تو یہ کوئی چیز نہیں۔

18646

(۱۸۶۴۷) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنِ الْحَسَنِ (ح) وَعَنْ أَبِی مَعْشَرٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالاَ : إذَا قَالَ الرَّجُلُ لامْرَأَتِہِ : إِنْ قَرَبْتُکِ فَأَنْتِ عَلَیَّ کَظَہْرِ أُمِّی ، فَإِنْ قَرَبَہَا فِی الأَرْبَعَۃِ الأَشْہُرِ فَہُوَ ظِہَارٌ ، وَقَدْ ثبت عَلَیْہِ ، وَإِنْ لَمْ یَقْرَبْہَا حَتَّی تَمْضِیَ أَرْبَعَۃُ أَشْہُرٍ فَہُوَ إیلاَئٌ ، وَقَدْ بَانَتْ مِنْہُ بِوَاحِدَۃٍ۔
(١٨٦٤٧) حضرت حسن (رض) اور حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ اگر ایک شخص نے اپنی بیوی سے کہا کہ اگر میں تیرے پاس آیا تو تو میرے لیے میری ماں کی پشت کی طرح ہے اور اگر وہ چار مہینے میں اس کے پاس آیا تو وہ ظہار ہے اور اگر نہ آیا تو ایلاء ہے اور عورت ایک طلاق سے بائنہ ہوجائے گی۔

18647

(۱۸۶۴۸) حَدَّثَنَا شَبَابَۃُ ، قَالَ : حدَّثَنَا شُعْبَۃُ ، عَنِ الْحَکَمِ ، وَحَمَّادٍ قَالاَ : سَأَلْتُہُمَا عنْ رَجُلٍ قَالَ لامْرَأَتِہِ : إِنْ قَرَبْتُکِ سَنَۃً فَأَنْتِ عَلَیَّ کَظَہْرِ أُمِّی ؟ قَالاَ : إذَا مَضَتْ أَرْبَعَۃُ أَشْہُرٍ فَہِیَ تَطْلِیقَۃٌ بَائِنۃٌ ، وَبِہِ یَأْخُذُ أَبُو بَکْرٍ۔
(١٨٦٤٨) حضرت شعبہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے حضرت حکم (رض) اور حضرت حماد (رض) سے سوال کیا کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی سے کہے کہ اگر میں ایک سال تک تیرے قریب آیا تو تو میرے لیے میری ماں کی پشت کی طرح ہے تو کیا حکم ہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ جب چار مہینے گذر جائیں تو ایک طلاق بائنہ ہوجائے گی۔

18648

(۱۸۶۴۹) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِِ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالَ : الْخُلْعُ تَطْلِیقَۃٌ بَائِنٌ ، وَالإِیلاَئُ وَالْمُبَارَأَۃُ کَذَلِکَ۔
(١٨٦٤٩) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ خلع طلاق بائنہ ہے اور اسی طرح ایلاء اور مباراۃ بھی۔

18649

(۱۸۶۵۰) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، قَالَ : قَالَ عَطَائٌ : کُلُّ طَلاَقٍ کَانَ نِکَاحُہُ مُسْتَقِیمًا ، إذَا تَفَرَّقَا فِی ذَلِکَ النِّکَاحِ ، وَإِنْ لَمْ یَتَکَلَّمْ بِالطَّلاَقِ فَہِیَ وَاحِدَۃٌ ، الْمُبَارَأَۃُ وَأَخْذُہُ الْفِدَائَ۔
(١٨٦٥٠) حضرت عطائ (رض) فرماتے ہیں کہ ہر وہ طلاق جس کا نکاح درست ہو جب میاں بیوی اس نکاح میں جدا ہوں گے (خواہ طلاق کا تکلم نہ کیا ہو ) تو وہ ایک طلاق ہوگی، جیسے مباراۃ اور خلع وغیرہ۔

18650

(۱۸۶۵۱) حَدَّثَنَا کَثِیرُ بْنُ ہِشَامٍ ، عَنْ جَعْفَرٍ ، قَالَ : قُلْتُ لِعَبْدِ الْکَرِیمِ : بَلَغَنِی أَنَّ الزُّہْرِیَّ کَانَ یَقُولُ : الْمُبَارَأَۃُ أَشَدُّ الطَّلاَقِ ؟ قَالَ : مَا نَرَاہُ إذَا أَخَذَ مِنْہَا شَیْئًا افْتَدَتْ بِہِ إلاَّ بِمَنْزِلَۃِ الْخُلْعِ۔
(١٨٦٥١) حضرت زہری (رض) فرمایا کرتے تھے کہ مباراۃ طلاق کی سخت ترین قسم ہے، جب مرد عورت سے کوئی فدیہ لے تو یہ خلع کے درجہ میں ہے۔

18651

(۱۸۶۵۲) حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ عَامِرٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ، وَالْحَسَنِ قَالاَ : کُلُّ فُرْقَۃٍ تَطْلِیقَۃٌ۔
(١٨٦٥٢) حضرت سعید بن مسیب (رض) اور حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ ہر جدائی طلاق ہے۔

18652

(۱۸۶۵۳) حَدَّثَنَا عَبْدُالسَّلاَمِ بْنُ حَرْبٍ، عَنْ مُغِیرَۃَ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالَ: کُلُّ فُرْقَۃٍ کَانَتْ مِنْ قِبَلِ الرِّجَال فَہِیَ طَلاَقٌ۔
(١٨٦٥٣) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ ہر وہ جدائی جو مردوں کی طرف سے آئے، طلاق ہے۔

18653

(۱۸۶۵۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : کُلُّ فُرْقَۃٍ فَہِیَ طَلاقٌ۔
(١٨٦٥٤) حضرت شعبی (رض) فرماتے ہیں کہ ہر جدائی طلاق ہے۔

18654

(۱۸۶۵۵) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ یَزِیدَ ، عَنْ أَبِی الْعَلاَئِ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، قَالَ : کُلُّ فُرْقَۃٍ فَہِیَ تَطْلِیقَۃٌ۔
(١٨٦٥٥) حضرت قتادہ (رض) فرماتے ہیں کہ ہر جدائی طلاق ہے۔

18655

(۱۸۶۵۶) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ حُبَابٍ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَطَائٍ قَالَ : کُلُّ فُرْقَۃٍ فَہِیَ تَطْلِیقَۃٌ۔
(١٨٦٥٦) حضرت عطائ (رض) فرماتے ہیں کہ ہر جدائی طلاق ہے۔

18656

(۱۸۶۵۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ أَبِی مَعْشَرٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالَ : کُلُّ فُرْقَۃٍ فَہِیَ تَطْلِیقَۃٌ بَائِنٌ۔
(١٨٦٥٧) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ ہر جدائی طلاق بائنہ ہے۔

18657

(۱۸۶۵۸) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ الْحُبَابِ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ طَاوُوسٍ ، قَالَ : لَیس کُلُّ فُرْقَۃٍ طَلاَقًا۔
(١٨٦٥٨) حضرت طاؤس (رض) فرماتے ہیں کہ ہر جدائی طلاق نہیں ہے۔

18658

(۱۸۶۵۹) حَدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ (ح) وَعَنْ لَیْثٍ ، عَنْ طَاوُوسٍ (ح) وَعَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سَالِمٍ ، عَنْ عَامِرٍ ، قَالُوا : إذَا کَانَتِ الأَمَۃُ تَحْتَ الْحُرِّ ، فَأُعْتِقَتْ فَاخْتَارَتْ نَفْسَہَا ، کَانَتْ فُرْقَۃً بِغَیْرِ طَلاَقٍ۔
(١٨٦٥٩) حضرت ابراہیم، حضرت طاؤس اور حضرت عامر (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کوئی باندی کسی آزاد شخص کے نکاح میں ہو، اس باندی کو آزاد کیا جائے اور وہ اپنے نفس کو اختیار کرلے تو یہ بغیر طلاق کے فرقت ہوگی۔

18659

(۱۸۶۶۰) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ حَمَّاد (ح) وعَنْ عُبَیدَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالاَ : إذَا أُعْتِقَتْ فَخُیِّرَتْ فَاخْتَارَتْ نَفْسَہَا ، فَہِیَ فُرْقَۃٌ بِغَیْرِ طَلاَقٍ۔
(١٨٦٦٠) حضرت حماد (رض) اور حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کسی باندی کو آزاد کیا گیا پھر اسے اختیار دیا گیا اور اس نے اپنے نفس کو اختیار کرلیا تو یہ بغیر طلاق کے فرقت ہوگی۔

18660

(۱۸۶۶۱) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ قَالَ : ہِیَ تَطْلِیقَۃٌ بَائِنٌ۔
(١٨٦٦١) حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ یہ طلاق بائن ہے۔

18661

(۱۸۶۶۲) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنْ مُحَمَّدٍ ، قَالَ : إذَا اخْتَارَتْ نَفْسَہَا فَہِیَ تَطْلِیقَۃٌ بَائِنٌ۔
(١٨٦٦٢) حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں کہ اگر اس نے اپنے نفس کو اختیار کرلیا تو یہ طلاق بائن ہے۔

18662

(۱۸۶۶۳) حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ عَیَّاشٍ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ؛ فِی الرَّجُلِ یَقُولُ لامْرَأَتِہِ : إِنْ شِئْتِ فَأَنْتِ طَالِقٌ ، قَالَ : إِنْ شَائَتْ فَہِیَ طَالِقٌ ، وَإِنْ لَمْ تَشَأْ فَلاَ شَیْئَ۔
(١٨٦٦٣) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی سے کہے کہ اگر تو چاہے تو تجھے طلاق ہے تو اگر وہ چاہے تو طلاق ہوگی اور اگر نہ چاہے تو طلاق نہیں ہوگی۔

18663

(۱۸۶۶۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ زَیْدٍ ، عَنْ حَفْصِ بْنِ سُلَیْمَانَ ، عَنِ الْحَسَنِ ؛ فِی رَجُلٍ قَالَ لامْرَأَتِہِ : أَنْتِ طَالِقٌ إِنْ شِئْتِ ، فَقَالَتْ : قَدْ شِئْتُ ، فَقَالَ : ہِیَ طَالِقٌ وَہُوَ أَحَقُّ بِالرَّجْعَۃِ ، وَإِذَا قَالَ : إِنْ شِئْتُ طَلَّقْتُکِ ، فَقَالَتْ : قَدْ شِئْتُ ، قَالَ : إِنْ شَائَ لَمْ یُطَلِّقْہَا۔
(١٨٦٦٤) حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی سے کہے کہ اگر تو چاہے تو تجھے طلاق ہے تو اگر عورت نے کہا کہ میں نے طلاق کو چاہ لیا تو اسے ایک طلاق ہوجائے گی اور مرد کو رجوع کا حق ہوگا اور اگر کہا کہ اگر تو چاہے تو میں تجھے طلاق دے دوں اور اس نے کہا کہ میں نے چاہ لیا تو اگر مرد چاہے تو طلاق دے دے۔

18664

(۱۸۶۶۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ بْنِ مَیْمُونٍ ، مَوْلَی آلِ سَمُرَۃَ ، عَنْ عُرْوَۃَ بْنِ فَائِدٍ ؛ أَنَّ رَجُلاً قَالَ لامْرَأَتِہِ : إِنْ فَعَلْتِ کَذَا وَکَذَا فَلَسْتِ لِی بِامْرَأَۃٍ ، فَفَعَلَتْہُ ، فَانْطَلَقَتْ مَعَہُ إلَی عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِی لَیْلَی ، فَقَالَ : مَا نَوَی ، وَأَتَتْ مَعَہُ أَبَا عَبْدِ اللہِ الْجَدَلِیَّ فَقَالَ : مَا نَوَی ، وَقَالَ سَعِیدُ بْنُ جُبَیْرٍ : لَیْسَ بِشَیْئٍ۔
(١٨٦٦٥) حضرت عروہ بن فائد (رض) کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے اپنی بیوی سے کہا کہ اگر تو فلاں فلاں کام کرے تو میری بیوی نہیں ہے، اس عورت نے وہی کام کیا، پھر وہ اپنے خاوند کے ساتھ حضرت عبد الرحمن بن ابی لیلیٰ (رض) کے پاس آئی انھوں نے فرمایا کہ جو نیت کی تھی وہ واقع ہوگیا، پھر وہ اپنے خاوند کے ساتھ حضرت ابو عبداللہ جدلی کے پاس گئی انھوں نے بھی فرمایا کہ جو نیت کی ہے وہ واقع ہوگیا، اور حضرت سعید بن جبیر (رض) نے فرمایا کہ یہ کچھ نہیں ہے۔

18665

(۱۸۶۶۶) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ ہِشَامٍ الدَّسْتَوَائِیِّ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، قَالَ : قُلْتُ لِسَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ : إنَّ الْحَجَّاجَ یُحَدِّثُ عَنْ أَبِیہِ ؛ أَنَّہُ قَالَ فِی رَجُلٍ قَالَ لامْرَأَتِہِ : لَسْتِ لِی بِامْرَأَۃٍ ، فَقَالَ : تَطْلِیقَۃٌ ، فَقَالَ سَعِیدٌ : مَا أَبْعَدَ۔
(١٨٦٦٦) حضرت قتادہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت سعید بن مسیب (رض) سے کہا کہ حجاج اپنے والد کے حوالے سے بیان کرتا ہے کہ ایک آدمی نے اپنی بیوی سے کہا کہ تو میری بیوی نہیں تو ایک طلاق ہوجائے گی، یہ سن کر حضرت سعید (رض) نے فرمایا کہ یہ بہت بعید از قیاس بات ہے۔

18666

(۱۸۶۶۷) حدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ؛ سُئِلَ عَنْ رَجُلٍ قَالَ لامْرَأَتِہِ : مَا أَنْتِ لِی بِامْرَأَۃٍ مِرَارًا ، وَہُوَ غَضْبَانُ ؟ قَالَ إبْرَاہِیمُ : مَا أُرَاہُ بَلَغَ ہَذَا ، إلاَّ وَہُوَ یُرِیدُ الطَّلاَقَ۔
(١٨٦٦٧) حضرت ابراہیم (رض) سے سوال کیا گیا کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی سے کئی مرتبہ غصے کی حالت میں کہے کہ تو میری بیوی نہیں تو کیا حکم ہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ میرے خیال میں وہ طلاق کا ارادہ کرکے ہی اس حد کو پہنچ سکتا ہے۔

18667

(۱۸۶۶۸) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ؛ أَنَّہُ قَالَ فِی رَجُلٍ قَالَ لامْرَأَتِہِ : لَسْتِ لِی بِامْرَأَۃٍ ، قَالَ: مَا نَوَی۔
(١٨٦٦٨) حضرت زہری (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کسی شخص نے اپنی بیوی سے کہا کہ تو میری بیوی نہیں تو اس کی نیت کا اعتبار ہے۔

18668

(۱۸۶۶۹) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَوَائٍ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ مَطَرٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، وَ عطَائٍ ؛ فِی رَجُلٍ قَالَ لامْرَأَتِہِ : لَسْت لِی بِامْرَأَۃٍ ، قَالاَ : کِذْبَۃٌ ، لَیْسَتْ بِشَیْئٍ۔
(١٨٦٦٩) حضرت حسن (رض) اور حضرت عطائ (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کسی شخص نے اپنی بیوی سے کہا کہ تو میری بیوی نہیں تو یہ جھوٹ ہے اور یہ کچھ نہیں۔

18669

(۱۸۶۷۰) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَوَائٍ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، قَالَ : إذَا وَاجَہَہَا بِہِ ، وَأَرَادَ الطَّلاَقَ ، فَہِیَ وَاحِدَۃٌ۔
(١٨٦٧٠) حضرت قتادہ (رض) فرماتے ہیں کہ جب اس کی طرف منہ کرکے کہا اور طلاق کا ارادہ کیا تو ایک طلاق ہوجائے گی۔

18670

(۱۸۶۷۱) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِِ ، عَنْ إِبرَاہِیمَ ، أَنَّہُ سُئِلَ عَنْ رَجُلٍ قِیلَ لَہُ : أَلَکَ امْرَأَۃٌ ؟ وَلَہُ امْرَأَۃٌ ، فَقَالَ : لاَ ، فَقَالَ إِبرَاہِیم : کِذْبَۃٌ کَذَبَہَا۔
(١٨٦٧١) حضرت ابراہیم (رض) سے سوال کیا گیا کہ اگر ایک صاحب زوجہ شخص سے پوچھا جائے کہ تیری کوئی بیوی ہے ؟ وہ جواب میں کہے نہیں تو کیا حکم ہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ اس نے ایک جھوٹ بولا ہے۔

18671

(۱۸۶۷۲) حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِی زَائِدَۃَ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، عَنْ عُمَرَ ، أَنَّہُ قَالَ : کِذْبَۃٌ ؛ فِی الرَّجُلِ لَہُ امْرَأَۃٌ فَیُسأَل : أَلَکَ امْرَأَۃٌ ؟ فَیَقُولُ : لاَ۔
(١٨٦٧٢) حضرت عمر (رض) سے سوال کیا گیا کہ اگر ایک صاحب زوجہ شخص سے پوچھا جائے کہ تیری کوئی بیوی ہے ؟ وہ جواب میں کہے نہیں تو کیا حکم ہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ اس نے ایک جھوٹ بولا ہے۔

18672

(۱۸۶۷۳) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ سیار ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : ہُوَ کَاذِبٌ۔
(١٨٦٧٣) حضرت شعبی (رض) فرماتے ہیں کہ وہ جھوٹا ہے۔

18673

(۱۸۶۷۴) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنِ الْحَکَمِ قَالَ : لَیْسَ بِشَیْئٍ۔
(١٨٦٧٤) حضرت حکم (رض) فرماتے ہیں کہ یہ کچھ نہیں۔

18674

(۱۸۶۷۵) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الْحَسَنِ قَالَ : ہُوَ کَاذِبٌ۔
(١٨٦٧٥) حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ وہ جھوٹا ہے۔

18675

(۱۸۶۷۶) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِِ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ؛ فِی رَجُلٍ قِیلَ لَہُ : طَلَّقْتَ امْرَأَتَکَ ؟ وَلَمْ یَکُنْ فَعَلَ ، فَقَالَ : نَعَمْ ، فَقَالَ : یَقَعُ عَلَیْہَا الطَّلاَقُ۔
(١٨٦٧٦) حضرت ابراہیم (رض) سے سوال کیا گیا کہ اگر کسی شخص سے سوال کیا جائے کہ کیا تو نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی ؟ وہ جواب میں کہے ہاں، حالانکہ اس نے طلاق نہ دی ہو تو کیا حکم ہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ طلاق واقع ہوجائے گی۔

18676

(۱۸۶۷۷) حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ ، عَنْ أَبِی حُرَّۃَ ، عَنِ الْحَسَنِ ؛ فِی رَجُلٍ قِیلَ لَہُ : طَلَّقْتَ امْرَأَتَکَ ؟ وَلَمْ یَکُنْ طَلَّقَہَا ، فَقَالَ : نَعَمْ ، فَقَالَ الْحَسَنُ : فَقَدْ طُلِّقَتْ۔
(١٨٦٧٧) حضرت حسن (رض) سے سوال کیا گیا کہ اگر کسی شخص سے سوال کیا جائے کہ کیا تو نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی ؟ وہ جواب میں کہے ہاں، حالانکہ اس نے طلاق نہ دی ہو تو کیا حکم ہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ اس عورت کو طلاق ہوگئی۔

18677

(۱۸۶۷۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إسْرَائِیلَ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ عَامِرٍ ؛ فِی الرَّجُلِ یُقَالُ لَہُ : طَلَّقْتَ ؟ وَلَمْ یَکُنْ طَلَّقَ ، فَیَقُولُ : نَعَمْ ، فَقَالَ : کِذْبَۃٌ۔
(١٨٦٧٨) حضرت عامر (رض) سے سوال کیا گیا کہ اگر کسی شخص سے سوال کیا جائے کہ کیا تو نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی ؟ وہ جواب میں کہے ہاں، حالانکہ اس نے طلاق نہ دی ہو تو کیا حکم ہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ اس نے ایک جھوٹ بولا۔

18678

(۱۸۶۷۹) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنِ ابْنِ شُبْرُمَۃُ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ قَالَ : النِّیَّۃُ فِیمَا خَفِیَ ، فَأَمَّا مَا ظَہَرَ ، فَلاَ نِیَّۃَ فِیہِ۔
(١٨٦٧٩) حضرت شعبی (رض) فرماتے ہیں کہ نیت مخفی چیزوں میں ہوتی ہے ظاہر چیزوں میں نیت کا اعتبار نہیں ہوتا۔

18679

(۱۸۶۸۰) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَیْدٍ ، عَنْ خَالِدِ بْنِ دِینَارٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ؛ فِی رَجُلٍ طَلَّقَ امْرَأَتَہُ وَاحِدَۃً یَنْوِی ثَلاَثًا ، قَالَ : ہِیَ وَاحِدَۃٌ۔
(١٨٦٨٠) حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ اگر ایک آدمی نے اپنی بیوی کو ایک طلاق دی اور نیت تین کی کی تو ایک طلاق واقع ہوگی۔

18680

(۱۸۶۸۱) حَدَّثَنَا حُمَیْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ جَعْفَرٍ الأَحْمَرِ ، عَنْ مُطَرِّفٍ ، عَنِ الْحَکَمِ ، قَالَ : ہِیَ وَاحِدَۃٌ۔
(١٨٦٨١) حضرت حکم (رض) فرماتے ہیں کہ ایک طلاق ہوگی۔

18681

(۱۸۶۸۲) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنِ الْحَکَمِ ؛ فِی رَجُلٍ قَالَ لامْرَأَتِہِ : أَنْتِ طَالِقٌ ، وَأَشَارَ بِیَدِہِ ثَلاَثًا ، قَالَ : فَسَأَلُوا لَہُ عَنْ ذَلِکَ ؟ فَقِیلَ : ہِیَ وَاحِدَۃٌ۔
(١٨٦٨٢) حضرت حکم (رض) سے سوال کیا گیا کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی سے کہے کہ تجھے طلاق ہے اور ہاتھ سے تین کا اشارہ کرے تو کیا حکم ہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ ایک طلاق واقع ہوگی۔

18682

(۱۸۶۸۳) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ بَیَانٍ ، قَالَ : سُئِلَ الشَّعْبِیُّ عَنْ أَبْوَابِ الطَّلاَقِ ؟ فَقَالَ الشَّعْبِیُّ : سُئِلَ رَجُلٌ مَرَّۃً : أَطَلَّقْتَ امْرَأَتَکَ ؟ قَالَ : فَأَوْمَأَ بِیَدِہِ بِأَرْبَعِ أَصَابِعَ ، وَلَمْ یَتَکَلَّمْ ، فَفَارَقَ امْرَأَتَہُ۔
(١٨٦٨٣) حضرت شعبی (رض) فرماتے ہیں کہ اگر ایک شخص سے سوال کیا گیا کہ کیا تو نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی اور اس نے انگلی سے چار کا اشارہ کیا اور کوئی بات نہ کی تو اس نے اپنی بیوی کو چھوڑ دیا۔

18683

(۱۸۶۸۴) حَدَّثَنَا ابْنُ مُبَارَکٍ ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیِّبِ ، قَالَ : اللِّعَانُ تَطْلِیقَۃٌ بَائِنَۃٌ۔
(١٨٦٨٤) حضرت سعید بن مسیب (رض) فرماتے ہیں کہ لعان ایک طلاق بائنہ ہے۔

18684

(۱۸۶۸۵) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ أَبِی حَنِیفَۃَ ، عَنْ حماد ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : اللِّعَانُ تَطْلِیقَۃٌ بَائِنَۃٌ۔
(١٨٦٨٥) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ لعان ایک طلاق بائنہ ہے۔

18685

(۱۸۶۸۶) حَدَّثَنَا ہُشَیم ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، قَالَ : قُلْتُ ِلإِبْرَاہِیمَ : الْمُلاَعِنُ أَشَدُّ مِنَ الَّذِی یُطَلِّقُ ثَلاَثًا ؟ فَقَالَ : نَعَمْ۔
(١٨٦٨٦) حضرت مغیرہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابراہیم (رض) سے پوچھا کہ کیا لعان کرنے والا تین طلاقیں دینے والے سے زیادہ شدید حکم والا ہے ؟ انھوں نے فرمایا ہاں۔

18686

(۱۸۶۸۷) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : الْمُلاَعَنَۃُ أَشَدُّ مِنَ الرَّجْمِ۔
(١٨٦٨٧) حضرت شعبی (رض) فرماتے ہیں کہ لعان سنگسار کرنے سے زیادہ سخت چیز ہے۔

18687

(۱۸۶۸۸) حَدَّثَنَا سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ ، وَسُلَیْمَانَ بْنِ یَسَارٍ ، وَحُمَیْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ؛ سَمِعْنَا أَبَا ہُرَیْرَۃَ یَقُولُ : سَأَلْتُ عُمَرَ عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَہْلِ الْبَحْرَیْنِ طَلَّقَ امْرَأَتَہُ تَطْلِیقَۃً ، أَوْ تَطْلِیقَتَیْنِ فَتَزَوَّجَتْ ، ثُمَّ إنَّ زَوْجَہَا طَلَّقَہَا ، ثُمَّ إنَّ الأَوَّلَ تَزَوَّجَہَا ، عَلَی کَمْ ہِیَ عِنْدَہُ ؟ قَالَ : ہِیَ عَلَی مَا بَقِیَ مِنَ الطَّلاَقِ۔
(١٨٦٨٨) حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر (رض) سے بحرین کے ایک آدمی کے بارے میں سوال کیا جس نے اپنی بیوی کو ایک یا دو طلاقیں دے دی تھیں، پھر اس عورت نے شادی کی اور اس کے دوسرے خاوند نے بھی اسے طلاق دے دی، پھر پہلے خاوند نے اس سے نکاح کیا تو اس کے پاس کتنی طلاقوں کا حق ہوگا، انھوں نے فرمایا کہ اس کے پاس باقی ماندہ طلاق کا حق ہوگا۔

18688

(۱۸۶۸۹) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ أَشْعَثَ ، وَحَجَّاجٍ ، عَنِ الْحَکَمِ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِی لَیْلَی ، عَنْ أُبَی ، قَالَ : تَرْجِعُ إلَیْہِ بِمَا بَقِیَ مِنَ الطَّلاَقِ۔
(١٨٦٨٩) حضرت ابی (رض) فرماتے ہیں کہ اب اس کے پاس باقی ماندہ طلاق کا حق رہے گا۔

18689

(۱۸۶۹۰) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ دَاوُدَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ؛ أَنَّ زِیَادًا سَأَلَ عِمْرَانَ بْنَ حُصَیْنٍ ،وَشُرَیْحًا عَنِ الرَّجُلِ یُطَلِّقُ امْرَأَتَہُ تَطْلِیقَۃً ، أَوْ تَطْلِیقَتَیْنِ ، فَتَبِینُ ، فَیَتَزَوَّجُہَا رَجُلٌ فَیُطَلِّقُہَا ، أَوْ یَمُوتُ عَنْہَا ، فَیَتَزَوَّجُہَا الأَوَّلُ ، عَلَی کَمْ تَکُونُ عِنْدَہُ؟ فَقَالَ عِمْرَانُ : عَلَی مَا بَقِیَ مِنَ الطَّلاَقِ ، وَقَالَ شُرَیْحٌ: نِکَاحٌ جَدِیدٌ ، وَطَلاَقٌ جَدِیدٌ۔
(١٨٦٩٠) حضرت شعبی (رض) کہتے ہیں کہ حضرت زیاد (رض) نے عمران بن حصین (رض) اور حضرت شریح (رض) سے اس شخص کے بارے میں سوال کیا جس نے اپنی بیوی کو ایک یا دو طلاقیں دے دیں، پھر وہ بائنہ ہوگئی اور پھر کسی آدمی نے اس سے شادی کرکے اسے طلاق دے دی یا وہ فوت ہوگیا، اور پھر پہلے آدمی نے اس سے شادی کرلی تو اس کے پاس کتنی طلاقوں کا حق باقی رہے گا ؟ حضرت عمران (رض) نے فرمایا کہ باقی ماندہ طلاقوں کا جبکہ حضرت شریح (رض) نے فرمایا کہ نیا نکاح اور نئی طلاق ہے۔

18690

(۱۸۶۹۱) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ ، قَالَ : کَانَ عُمَرُ ، وَأُبَیُّ ، وَأَبُو الدَّرْدَائِ، وَمُعَاذٌ ، یَقُولُونَ : تَرْجِعُ إلَیْہِ عَلَی مَا بَقِیَ۔
(١٨٦٩١) حضرت عمر، حضرت ابی، حضرت ابو درداء اور حضرت معاذ (رض) فرماتے ہیں کہ باقی ماندہ طلاقوں کا حق باقی رہے گا۔

18691

(۱۸۶۹۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، وَعَلِیُّ بْنُ ہَاشِمٍ ، عَنِ ابْنِ أَبِی لَیْلَی ، عَنْ مَزِیدَۃَ بْنِ جَابِرٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ عَلِیٍّ ، قَالَ : لاَ یَہْدِمُ الزَّوَاجَ ، إلاَّ الثَّلاَثُ۔
(١٨٦٩٢) حضرت علی (رض) فرماتے ہیں کہ شادی کے رشتے کو تین طلاقیں ہی ختم کرتی ہیں۔

18692

(۱۸۶۹۳) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنِ الْحَکَمِ ، عَنْ مَزِیدَۃَ بْنِ جَابِرٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ عَلِیٍّ قَالَ : عَلَی مَا بَقِیَ۔
(١٨٦٩٣) حضرت علی (رض) فرماتے ہیں کہ باقی ماندہ طلاقوں کا حق ہوگا۔

18693

(۱۸۶۹۴) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنِ الْحَکَمِ ، عَنِ ابْنِ أَبِی لَیْلَی ، عَنْ أُبی قَالَ : عَلَی مَا بَقِیَ۔
(١٨٦٩٤) حضرت ابی (رض) فرماتے ہیں کہ باقی ماندہ طلاقوں کا حق ہوگا۔

18694

(۱۸۶۹۵) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ ، قَالَ : قضَی عُمَرُ ، وَمُعَاذٌ ، وَزَیْدٌ ، وَأُبَیٌّ ، وَعَبْدُ اللہِ بْنُ عُمَرَ ؛ أَنَّہَا عَلَی مَا بَقِیَ مِنَ الطَّلاَقِ۔
(١٨٦٩٥) حضرت عمر، حضرت معاذ، حضرت زید، حضرت ابی اور حضرت عبداللہ بن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ باقی ماندہ طلاقوں کا حق ہوگا۔

18695

(۱۸۶۹۶) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، عَنْ عُمَرَ ، قَالَ : عَلَی مَا بَقِیَ مِنَ الطَّلاَقِ۔
(١٨٦٩٦) حضرت عمر (رض) فرماتے ہیں کہ باقی ماندہ طلاقوں کے ساتھ واپس آئے گی۔

18696

(۱۸۶۹۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ : ہِیَ عِنْدَہُ عَلَی طَلاَقٍ مُسْتَقْبَلٍ۔
(١٨٦٩٧) حضرت ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ ایسی صورت میں طلاق جدید کا حق ہوگا۔

18697

(۱۸۶۹۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، وَسُفْیَانُ ، عَنْ حَمَّادٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، وَابْنِ عُمَرَ قَالاَ : ہِیَ عِنْدَہُ عَلَی طَلاَقٍ جَدِیدٍ۔
(١٨٦٩٨) حضرت ابن عباس اور حضرت ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ ایسی صورت میں طلاق جدید کا حق ہوگا۔

18698

(۱۸۶۹۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنِ الْحَکَمِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : ہِیَ عِنْدَہُ عَلَی ثَلاَثٍ۔
(١٨٦٩٩) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ نئے عقد کی صورت میں عورت تین طلاقوں کے ساتھ واپس آئے گی۔

18699

(۱۸۷۰۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ الأَعْمَشِِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالَ : کَانَ أَصْحَابُ عَبْدِ اللہِ یَقُولُونَ : یَہْدِمُ الثَّلاَثَ ، وَلاَ یَہْدِمُ الْوَاحِدَۃَ وَالثِّنْتَیْنِ ، یَعْنِی طَلاَقًا جَدِیدًا۔
(١٨٧٠٠) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ (رض) کے شاگرد فرمایا کرتے تھے کہ تین طلاقیں نئی طلاق کا حق دلوا سکتی ہیں تو ایک اور دو طلاقیں کیوں نہیں دلوا سکتیں ؟

18700

(۱۸۷۰۱) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالَ : کَانَ أَصْحَابُ عَبْدِ اللہِ یَقُولُونَ : یَہْدِمُ الثَّلاَثَ ، وَلاَ یَہْدِمُ الْوَاحِدَۃَ وَالثِّنْتَیْنِ۔
(١٨٧٠١) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ (رض) کے شاگرد فرمایا کرتے تھے کہ تین طلاقیں نئی طلاق کا حق دلوا سکتی ہیں تو ایک اور دو طلاقیں کیوں نہیں دلوا سکتیں ؟

18701

(۱۸۷۰۲) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ طَلْحَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ؛ أَنَّ أَصْحَابَ عَبْدِ اللہِ کَانُوا یَقُولُونَ : یَہْدِمُ الْوَاحِدَۃَ وَالثِّنْتَیْنِ کَمَا یَہْدِمُ الثَّلاَثَ ، إلاَّ عَبِیْدَۃَ فَإِنَّہُ قَالَ : ہِیَ عَلَی مَا بَقِیَ۔
(١٨٧٠٢) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ (رض) کے شاگرد فرمایا کرتے تھے جبکہ حضرت عبیدہ فرماتے تھے کہ مرد کے پاس صرف باقی ماندہ طلاقوں کا حق ہوگا۔ ایک اور دو طلاقیں نئی طلاق کا حق دلوا سکتی ہیں جس طرح تین طلاقیں نئی طلاق کا حق دلواتی ہیں۔

18702

(۱۸۷۰۳) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ دَاوُدَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنْ شُرَیْحٍ قَالَ : عَلَی طَلاَقٍ جَدِیدٍ ، وَعَلَی نِکَاحٍ جَدِیدٍ۔
(١٨٧٠٣) حضرت شریح (رض) فرماتے ہیں کہ وہ نئی طلاق اور نئے نکاح کے ساتھ واپس آئے گی۔

18703

(۱۸۷۰۴) حَدَّثَنَا کَثِیرُ بْنُ ہِشَامٍ ، عَنْ جَعْفَرٍ ، عَنْ مَیْمُونٍ ، قَالَ : ہِیَ عِنْدَہُ عَلَی طَلاَقٍ جَدِیدٍ۔
(١٨٧٠٤) حضرت میمون (رض) فرماتے ہیں کہ وہ نئی طلاق کے ساتھ واپس آئے گی۔

18704

(۱۸۷۰۵) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، عَنْ رَجَائٍ ، عَنْ قَبِیصَۃَ ، قَالَ : قُلْتُ : رَجُلٌ طَلَّقَ امْرَأَتَہُ تَطْلِیقَۃ فَبَانَتْ مِنْہُ ، فَحَلَّتْ فَتَزَوَّجَتْ زَوْجًا ، فَدَخَلَ بِہَا ثُمَّ مَاتَ عَنْہَا ، أَوْ طَلَّقَہَا ، فَرَجَعَتْ إلَی الأَوَّلِ ، عَلَی کَمْ ہِیَ عِنْدَہُ ؟ قَالَ : عَلَی مَا بَقِیَ مِنَ الطَّلاَقِ ۔ قَالَ : قُلْتُ : فَطَلَّقَہَا أُخْرَی فَبَانَتْ مِنْہُ ، فَتَزَوَّجَتْ زَوْجًا فَدَخَلَ بِہَا ثُمَّ مَاتَ عَنْہَا ، أَوْ طَلَّقَہَا ، فَرَجَعَتْ إلَی زَوْجِہَا الأَوَّلِ ، عَلَی کَمْ ہِیَ عِنْدَہُ ؟ قَالَ : ہِیَ عَلَی مَا بَقِیَ ۔ قُلْتُ : فَطَلَّقَہَا أُخْرَی ، فَحَلَّتْ فَتَزَوَّجَتْ زَوْجًا ، ثُمَّ دَخَلَ بِہَا ثُمَّ مَاتَ عَنْہَا ، أَوْ طَلَّقَہَا ، فَرَجَعَتْ إلَی زَوْجِہَا الأَوَّلِ ، عَلَی کَمْ ہِیَ عِنْدَہُ ؟ قَالَ : ہِیَ عَلَی ثَلاَثٍ۔
(١٨٧٠٥) حضرت رجائ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے حضرت قبیصہ (رض) سے سوال کیا کہ ایک آدمی نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی اور وہ بائنہ ہوگئی، اس نے عدت پوری کی اور کسی مرد سے شادی کرلی، اس نے اس سے دخول کیا پھر وہ مرگیا یا اس کو طلاق دے دی، یہ پھر پہلے خاوند کے پاس واپس آئی تو کتنی طلاقوں کے ساتھ واپس آئے گی ؟ انھوں نے فرمایا کہ باقی ماندہ طلاقوں کے ساتھ، میں نے سوال کیا کہ اگر اس نے اسے دوسری مرتبہ طلاق دی، وہ بائنہ ہوگئی، پھر اس نے کسی آدمی سے نکاح کیا، اس نے اس سے دخول کیا اور پھر وہ مرگیا یا اسے طلاق دے دی، یہ پھر پہلے خاوند کے پاس واپس آئی تو کتنی طلاقوں کے ساتھ واپس آئے گی ؟ انھوں نے فرمایا کہ باقی ماندہ طلاقوں کے ساتھ، میں نے کہا کہ اس نے پھر طلاق دے دی، اس نے عدت کے بعد کسی اور مرد سے شادی کرلی ، اس نے اس سے دخول کیا اور پھر اسے طلاق دے دی یا مرگیا یہ عورت پھر پہلے خاوند کے پاس واپس آئی تو کتنی طلاقوں کے ساتھ واپس آئے گی ؟ انھوں نے فرمایا کہ تین طلاقوں کے ساتھ۔

18705

(۱۸۷۰۶) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالَ : إِنْ دَخَلَ بِہَا فَإِنَّہَا عِنْدَہُ عَلَی ثَلاَثِ تَطْلِیقَاتٍ ، وَإِنْ لَمْ یَدْخُلْ بِہَا فَإِنَّہَا عِنْدَہُ عَلَی بَقِیَّۃِ الطَّلاَقِ۔
(١٨٧٠٦) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ اگر اس نے دخول کیا تو تین طلاقوں کے ساتھ واپس آئے گی اور اگر دخول نہ کیا تو باقی ماندہ طلاقوں کے ساتھ واپس آئے گی۔

18706

(۱۸۷۰۷) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، قَالَ : یَقَعُ عَلَیْہَا عِنْدَ کُلِّ طُہْرٍ مَرَّۃً ، ثُمَّ یُمْسِکُ حَتَّی تَطْہُرَ ، فَإِذَا اسْتَبَانَ حَمْلُہَا بَانَتْ۔
(١٨٧٠٧) حضرت قتادہ (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کسی شخص نے اپنی بیوی سے کہا جب تو حاملہ ہوئی تو تجھے طلاق ہے تو آدمی کو چاہیے کہ ہر طہر میں اس سے جماع کرنے کے بعد دوبارہ جماع نہ کرے یہاں تک کہ وہ دوبارہ حیض آنے کے بعد پاک ہوجائے، جب اس کا حمل ظاہر ہوجائے تو وہ بائنہ ہوجائے گی۔

18707

(۱۸۷۰۸) حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ مُعَاذٍ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الْحَسَنِ ؛ أَنَّہُ قَالَ فِی رَجُلٍ قَالَ لامْرَأَتِہِ : إذَا حَمَلْتِ فَأَنْتِ طَالِقٌ ، قَالَ : یَغْشَاہَا إذَا طَہُرَتْ مِنَ الْحَیْضِ ، ثُمَّ یُمْسِکُ عَنْہَا إلَی مِثْلِ ذَلِکَ ، وَقَالَ ابْنُ سِیرِینَ : یَغْشَاہَا حَتَّی تَحْمِلَ۔
(١٨٧٠٨) حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ اگر ایک آدمی نے اپنی بیوی سے کہا کہ جب تو حاملہ ہوئی تجھے طلاق ہے، تو وہ عورت کے حیض سے پاک ہونے کے بعد اس سے جماع کرے اور پھر رک جائے۔ حضرت ابن سیرین (رض) فرماتے ہیں کہ اس کے حمل کے ظاہر ہونے تک اس سے جماع کرسکتا ہے۔

18708

(۱۸۷۰۹) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، وَعِکْرِمَۃَ ، وَکِتَابِ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِیزِ أَنَّہُمْ قَالُوا : إذَا سَبَقَ أَحَدُہُمَا صَاحِبَہُ بِالإِسْلاَمِ ، فَلاَ سَبِیلَ لَہُ عَلَیْہَا إلاَّ بِخِطْبَۃٍ۔
(١٨٧٠٩) حضرت حسن، حضرت عکرمہ اور حضرت عمر بن عبدالعزیز (رض) فرماتے ہیں کہ اگر مجوسی میاں بیوی میں سے کوئی ایک اسلام قبول کرلے تو مرد کو بغیر نئے سرے سے پیغام نکاح کے عورت پر کوئی حق نہیں رہا۔

18709

(۱۸۷۱۰) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ ؛ فِی الْمَجُوسِیَّیْنِ إذَا أَسْلَمَا فَہُمَا عَلَی نِکَاحِہِمَا ، فَإِنْ أَسْلَمَ أَحَدُہُمَا قَبْلَ صَاحِبِہِ ، فَقَدِ انْقَطَعَ مَا بَیْنَہُمَا مِنَ النِّکَاحِ۔
(١٨٧١٠) حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ اگر مجوسی میاں بیوی میں سے کوئی ایک اسلام قبول کرلے تو ان کا نکاح ختم ہوگیا۔

18710

(۱۸۷۱۱) حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ عَیَّاشٍ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ؛ مِثْلَہُ إلاَّ أَنَّہُ قَالَ : بَانَتْ مِنْہُ۔
(١٨٧١١) ایک اور سند سے یونہی منقول ہے۔

18711

(۱۸۷۱۲) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ ، عَنْ عَطَائٍ ؛ فِی الرَّجُلِ وَامْرَأَتِہِ یَکُونَانِ مُشْرِکَیْنِ فَیُسْلِمَانِ ، قَالَ: یَثْبُتُ نِکَاحُہُمَا ، فَإِنْ أَسْلَمَ أَحَدُہُمَا قَبْلَ الآخَرِ انْقَطَعَ مَا بَیْنَہُمَا ، یَعْنِی بِذَلِکَ الْمَجُوسَ وَالْمُشْرِکِینَ غَیْرَ أَہْلِ الْکِتَابِ۔
(١٨٧١٢) حضرت عطائ (رض) فرماتے ہیں کہ مشرک مردو عورت اگر اکٹھے اسلام قبول کرلیں تو ان کا نکاح باقی رہے گا اور اگر ایک اسلام قبول کرلے تو ان کا نکاح ختم ہوجائے گا، یہ حکم مجوسیوں اور مشرکوں کا ہے اہل کتاب کا نہیں۔

18712

(۱۸۷۱۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنِ الْحَکَمِ ؛ فِی الْمَجُوسِیَّیْنِ : إذَا أَسْلَمَ أَحَدُہُمَا قَبْلَ صَاحِبِہِ فُرِّقَ بَیْنَہُمَا۔
(١٨٧١٣) حضرت حکم (رض) فرماتے ہیں کہ اگر مجوسی میاں بیوی میں سے کوئی ایک اسلام قبول کرلے تو ان کے درمیان جدائی کرادی جائے گی۔

18713

(۱۸۷۱۴) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، عَنْ أَبِی الدَّرْدَائِ ، قَالَ : ثَلاَثٌ لاَ یُلْعَبُ بِہِنَّ : النِّکَاحُ ، وَالْعَتَاقُ ، وَالطَّلاَقُ۔
(١٨٧١٤) حضرت ابو دردائ (رض) فرماتے ہیں کہ تین چیزیں ایسی ہیں جن میں مزاح نہیں ہوتا : نکاح، عتاق اور طلاق

18714

(۱۸۷۱۵) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ سُحَیْمٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ، عَنْ عُمَرَ ، قَالَ : أَرْبَعٌ جَائِزَاتٌ عَلَی کُلِّ حَالٍ : الْعِتْقُ ، وَالطَّلاَقُ ، وَالنِّکَاحُ ، وَالنَّذْرُ۔
(١٨٧١٥) حضرت عمر (رض) فرماتے ہیں کہ چار چیزیں ہر حال میں نافذ ہوجاتی ہیں : غلام کی آزادی، طلاق، نکاح اور نذر

18715

(۱۸۷۱۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ أَبِی کِبْرَان ، عَنِ الضَّحَّاکِ ؛ قَالَ سَمِعْتُہُ یَقُولُ : ثَلاَثٌ لاَ یُلْعَبُ بِہِنَّ : الطَّلاَقُ ، وَالنِّکَاحُ ، وَالنَّذْرُ۔
(١٨٧١٦) حضرت ضحاک (رض) فرماتے ہیں کہ تین چیزوں میں مزاح نہیں ہوتا : طلاق، نکاح اور نذر

18716

(۱۸۷۱۷) حَدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ بْنُ عَیَّاشٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُہَاجِرٍ ، قَالَ : کَتَبَ عَبْدُ الْمَلِکِ بْنُ مَرْوَانَ ، وَسُلَیْمَانُ ، وَعُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیزِ ، وَیَزِیدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِکِ : مَا أَقَلْتُمُ السُّفَہَائَ عَنْ شَیْئٍ ، فَلاَ تُقِیلُوہُمُ الطَّلاَقَ وَالْعَتَاقَ۔
(١٨٧١٧) حضرت عمرو بن مہاجر (رض) کہتے ہیں کہ عبد الملک بن مروان، سلیمان، عمر بن عبد العزیز اور یزید بن عبدالملک (رض) نے خط میں لکھا تھا کہ تم بیوقوفوں کی سب باتوں کو معاف کردو لیکن طلاق اور غلام کی آزادی میں انھیں چھوٹ نہ دو ۔

18717

(۱۸۷۱۸) حَدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ بْنُ عَیَّاشٍ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ، قَالَ : ثَلاَثٌ لاَ لَعِبَ فِیہِنَّ : النِّکَاحُ ، وَالطَّلاَقُ ، وَالْعِتَاقُ۔
(١٨٧١٨) حضرت سعید بن مسیب (رض) فرماتے ہیں کہ تین چیزیں ایسی ہیں جن میں مزاح نہیں ہوتا : نکاح، طلاق اور آزادی

18718

(۱۸۷۱۹) حَدَّثَنَا عِیسَی بْنُ یُونُسَ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنِ الْحَسَنِ ، عَنِ أَبی الدَّردَاء ، قَالَ : کَانَ الرَّجُلُ فِی الْجَاہِلِیَّۃِ یُطَلِّقُ ثُمَّ یَرْجِعُ ، یَقُولُ : کُنْتُ لاَعِبًا ، وَیُعْتِقُ ثُمَّ یَرْجِعُ ، یَقُولُ : کُنْتُ لاَعِبًا ، فَأَنْزَلَ اللَّہُ تَعَالَی: {وَلاَ تَتَّخِذُوا آیَاتِ اللہِ ہُزُوًا} ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَنْ طَلَّقَ ، أَوْ حَرَّرَ ، أَوْ أَنْکَحَ ، أَوْ نَکَحَ ، فَقَالَ إنِّی کُنْتُ لاَعِبًا فَہُوَ جَائِزٌ۔ (طبری ۴۸۲۔ طبرانی ۷۸۰)
(١٨٧١٩) حضرت ابو دردائ (رض) فرماتے ہیں کہ زمانہ جاہلیت میں آدمی اپنی بیوی کو طلاق دینے کے بعد رجوع کرلیتا تھا اور کہتا تھا کہ میں تو مزاح کررہا تھا، غلام کو آزاد کرتا تھا اور رجوع کرلیتا تھا اور کہتا تھا کہ میں تو مزاح کررہا تھا، پھر اللہ تعالیٰ نے اس آیت کو نازل فرمایا { وَلاَ تَتَّخِذُوا آیَاتِ اللہِ ہُزُوًا } اللہ کی آیات کو مذاق نہ بناؤ، اس پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جس نے طلاق دی، غلام کو آزاد کرایا، نکاح کرایا یا نکاح کیا اور پھر کہا کہ میں تو مزاح کررہا تھا یہ چیزیں پھر بھی نافذ ہوجائیں گی۔

18719

(۱۸۷۲۰) حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِیزِ بْنِ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِیزِ ، عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ حَبِیبٍ الْمُحَارِبِیِّ ، قَالَ : کَتَبَ إلَیَّ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیزِ : مَہْمَا أَقَلْتَ السُّفَہَائَ مِنْ أَیْمَانِہِمْ ، فَلاَ تُقِلْہُمُ الْعَتَاقَ وَالطَّلاَقَ۔
(١٨٧٢٠) حضرت عمر بن عبد العزیز (رض) نے خط میں لکھا کہ بیوقوفوں کی ہر غلطی کو معاف کردو لیکن غلام کی آزادی اور طلاق دینے کو معاف نہ کرو۔

18720

(۱۸۷۲۱) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ، عَنْ یَحْیَی، عَنْ سَعِیدٍ، قَالَ: ثَلاَثٌ لَیْسَ فِیہِنَّ لَعِبٌ: الْعِتَاقُ، وَالطَّلاَقُ، وَالنِّکَاحُ۔
(١٨٧٢١) حضرت سعید (رض) فرماتے ہیں کہ تین چیزیں ایسی ہیں جن میں مزاح نہیں ہوتا : عتاق، طلاق اور نکاح

18721

(۱۸۷۲۲) حدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ مُطَرِّفٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ؛ فِی الرَّجُلِ یَقُولُ لامْرَأَتِہِ : بہشتم ، قَالَ : تَطْلِیقَۃٌ۔
(١٨٧٢٢) حضرت شعبی (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کسی آدمی نے اپنی بیوی کو ” بہشتم “ کہا تو ایک طلاق ہوجائے گی۔

18722

(۱۸۷۲۳) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالَ : طَلاَقُ الْعَجَمِیِّ بِلِسَانِہِ جَائِزٌ۔
(١٨٧٢٣) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ عجمی شخص کا اپنی زبان میں طلاق دینا جائز ہے۔

18723

(۱۸۷۲۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ أَبِی شِہَابٍ ، عَنْ جَبَلَۃَ بْنِ دَعْلَجٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ، قَالَ : إذَا طَلَّقَ الرَّجُلُ بِالْفَارِسِیَّۃِ قَالَ : یَلْزَمُہُ۔
(١٨٧٢٤) حضرت سعید بن جبیر (رض) فرماتے ہیں کہ فارسی میں طلاق دینے سے طلاق ہوجاتی ہے۔

18724

(۱۸۷۲۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ رَبِیعٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ؛ فِی الرَّجُلِ یَقُولُ لامْرَأَتِہِ : بہشتم ، قَالَ : یَلْزَمُہُ الطَّلاَقُ۔
(١٨٧٢٥) حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کسی آدمی نے اپنی بیوی کو ” بہشتم “ کہا تو ایک طلاق ہوجائے گی۔

18725

(۱۸۷۲۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ أَبِی حَصِینٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ؛ فِی الرَّجُلِ یَقُولُ لامْرَأَتِہِ: بہشتم ، بہشتم، بہشتم ، قَالَ : قَدْ قَالَہَا بِلِسَانِہِ ، ذَہَبَتْ مِنْہُ۔
(١٨٧٢٦) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ اگر ایک آدمی نے اپنی زبان میں بیوی کو ” بہشتم، بہشتم، بہشتم “ کہا تو طلاق ہوجائے گی۔

18726

(۱۸۷۲۷) حَدَّثَنَا مُعْتَمِرُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ أَبِی قِلاَبَۃَ ، وَابْنِ سِیرِینَ ، قَالاَ : لاَ یَحِلُّ الْخُلْعُ حَتَّی یُوجَدَ رَجُلٌ عَلَی بَطْنِہَا ، لأَنَّ اللَّہَ یَقُولُ : {إلاَّ أَنْ یَأْتِینَ بِفَاحِشَۃٍ مُبَیِّنَۃٍ}۔
(١٨٧٢٧) حضرت ابو قلابہ اور حضرت ابن سیرین (رض) فرماتے ہیں کہ آدمی کے لیے بیوی کو خلع کا کہنا اس وقت تک مناسب نہیں جب تک وہ اس کے پیٹ پر کسی دوسرے مرد کو نہ دیکھ لے، کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں {إلاَّ أَنْ یَأْتِینَ بِفَاحِشَۃٍ مُبَیِّنَۃٍ }۔

18727

(۱۸۷۲۸) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : لاَ یَحِلُّ لِلِرَّجُلِ أَنْ یَأْخُذَ فِدْیَۃً مِنَ امْرَأَتِہِ أَنْ لاَ تُطِیعَہُ ، وَلاَ تَبَرَّ لَہُ قَسَمًا ، فَإِنْ فَعَلَتْ ذَلِکَ ، فَکَانَ مِنْ قِبَلِہَا شَیْئٌ ، حَلَّتْ لَہُ الْفِدْیَۃُ ، فَإِنْ أَبَی أَنْ یَقْبَلَ مِنْہَا الْفِدْیَۃَ ، وَأَبَتْ أَنْ تُطِیعَہُ ، بَعَثَا حَکَمَیْنِ : حَکَمًا مِنْ أَہْلِہِ ، وَحَکَمًا مِنْ أَہْلِہَا۔
(١٨٧٢٨) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ مرد کے لیے صرف اتنی بات پر بیوی سے خلع کا فدیہ لینا درست نہیں کہ وہ اس کی اطاعت نہ کرے اور اس کی قسم کو پورا نہ کرے، البتہ اگر وہ ایسا کرلے تو اس کے لیے فدیہ حلال ہے، اگر خاوند فدیہ قبول کرنے سے انکار کرے اور عورت اطاعت سے انکار کرے تو دونوں فیصلے کے لیے دو آدمی مقرر کریں ایک عورت کے گھر والوں سے ایک مرد کے گھر والوں سے۔

18728

(۱۸۷۲۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : إذَا کَرِہَتِ الْمَرْأَۃُ زَوْجَہَا ، فَلْیَأْخُذْ مِنْہَا وَلْیَدَعْہَا۔
(١٨٧٢٩) حضرت شعبی (رض) فرماتے ہیں کہ اگر عورت اپنے خاوند کو ناپسند کرے تو آدمی اس سے فدیہ لے کر اسے چھوڑ دے۔

18729

(۱۸۷۳۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَۃَ ، عَنْ مَرْوَانَ الأَصْفَرِ ، عَنْ حُمَیْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحِمْیَرِیِّ ، قَالَ: یَطِیبُ لَکَ الْخُلْعُ إذَا قَالَتْ : لاَ أَغْتَسِلُ لَکَ مِنَ جَنَابَۃٍ ، وَلاَ أَبَرُّ لَکَ قَسَمًا ، وَلاَ أُطِیعُ لَکَ أَمْرًا۔
(١٨٧٣٠) حضرت حمید بن عبد الرحمن حمیری (رض) فرماتے ہیں کہ تمہارے لیے عورت سے خلع کرنا اس وقت اچھا ہے جب وہ کہے کہ میں نہ تو تمہارے لیے غسلِ جنابت کروں گی نہ تو تمہاری قسم پوری کروں گی اور نہ تمہارے حکم کی اطاعت کروں گی۔

18730

(۱۸۷۳۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إسْرَائِیلَ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ نُجَیّ ، عَنْ عَلِیٍّ ، قَالَ : یَطِیبُ لِلرَّجُلِ الْخُلْعُ إذَا قَالَتْ : لاَ أَغْتَسِلُ لَکَ مِنَ جَنَابَۃٍ ، وَلاَ أُطِیعُ لَکَ أَمْرًا ، وَلاَ أَبَرُّ لَکَ قَسَمًا ، وَلاَ أَکْرُمُ نَفْسًا۔
(١٨٧٣١) حضرت علی (رض) فرماتے ہیں کہ مرد کے لیے عورت سے اس وقت علیحدگی کرنا درست ہے جب عورت کہے کہ میں نہ تو تمہارے لیے غسلِ جنابت کروں گی، نہ تمہاری بات مانوں گی، نہ تمہاری قسم پوری کروں گی اور نہ کسی کا اکرام کروں گی۔

18731

(۱۸۷۳۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ بَذِیمَۃَ ، عَنْ مِقْسَمٍ قَالَ : إذَا عَصَتْکَ ، وَآذَتْکَ۔
(١٨٧٣٢) حضرت مقسم (رض) فرماتے ہیں کہ جب وہ تمہیں تکلیف دے یا تمہاری نافرمانی کرے تو تم اس سے قطع تعلقی کرلو۔

18732

(۱۸۷۳۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ یَزِید ، عَنِ الْحَسَنِ ؛ فِی قَوْلِہِ : (لاَ جُنَاحَ) قَالَ : ذَلِکَ فِی الْخُلْعِ ، إذَا قَالَتْ : لاَ أَغْتَسِلُ لَکَ مِنَ جَنَابَۃٍ۔
(١٨٧٣٣) حضرت حسن (رض) آیتِ خلع کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ یہ اس وقت مناسب ہے جب عورت کہے کہ میں تمہارے لیے غسلِ جنابت نہیں کروں گی۔

18733

(۱۸۷۳۴) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ مُطَرِّفٍ ، عَنْ خَالِدٍ السِّجِسْتَانِیِّ ، عَنِ الضَّحَّاکِ ؛ فِی قولہ تعالی : {لِتَذْہَبُوا بِبَعْضِ مَا آتَیْتُمُوہُنَّ إلاَّ أَنْ یَأْتِینَ بِفَاحِشَۃٍ مُبَیِّنَۃٍ} قَالَ : إذَا فَعَلَتْ ذَلِکَ ، حَلَّ لَہُ أَنْ یَأْخُذَ مِنْہَا۔
(١٨٧٣٤) حضرت ضحاک (رض) قرآن مجید کی آیت { لِتَذْہَبُوا بِبَعْضِ مَا آتَیْتُمُوہُنَّ إلاَّ أَنْ یَأْتِینَ بِفَاحِشَۃٍ مُبَیِّنَۃٍ } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اگر عورت ایسا کرے تو مرد کے لیے فدیہ لینا درست ہے۔

18734

(۱۸۷۳۵) حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِی غَنِیَّۃَ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ ، عَنْ عَطَائٍ ؛ فِی الرَّجُلِ یَخْلَعُ الْمَرْأَۃَ ، قَالَ : إذَا أَتَی ذَلِکَ مِنْ قِبَلِہَا فَلاَ بَأْسَ۔
(١٨٧٣٥) حضرت عطائ (رض) فرماتے ہیں کہ اگر برے تعلقات کا سبب عورت ہو تو مرد کے لیے خلع کرنا درست ہے۔

18735

(۱۸۷۳۶) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِینَارٍ ، قَالَ : قَالَ جَابِرُ بْنُ زَیْدٍ : إذَا کَانَ النُّشُوزُ مِنْ قِبَلِہَا حَلَّ لَہُ فِدَاؤُہَا۔
(١٨٧٣٦) حضرت جابر بن زید (رض) فرماتے ہیں کہ اگر برے تعلقات کا سبب عورت ہو تو مرد کے لیے فدیہ لینا درست ہے۔

18736

(۱۸۷۳۷) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ ہِشَامٍ ؛ أَنَّ عُرْوَۃَ کَانَ یَقُولُ : لاَ یَحِلُّ لَہُ الْفِدَائُ حَتَّی یَکُونَ الْفَسَادُ مِنْ قِبَلِہَا ، وَلَمْ یَکُنْ یَقُولُ : لاَ تَحِلُّ لَہُ حَتَّی تَقُولَ : لاَ أَبَرُّ لَکَ قَسَمًا ، وَلاَ أَغْتَسِلُ لَکَ مِنْ جَنَابَۃٍ۔
(١٨٧٣٧) حضرت عروہ (رض) فرمایا کرتے تھے کہ فدیہ اس وقت تک درست نہیں جب تک فساد عورت کی طرف سے نہ ہو، وہ یہ نہیں فرمایا کرتے تھے کہ فدیہ اس وقت تک درست نہیں جب تک عورت یہ نہ کہے کہ میں تیری قسم کو پورا نہیں کروں گی اور تیرے لیے غسل جنابت نہ کروں گی۔

18737

(۱۸۷۳۸) حدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ قَالَ: کَانَ طَاوُوسٌ یَقُولُ: یَحِلُّ لَہُ الْفِدَائُ مَا قَالَ اللَّہُ: { إلاَّ أَنْ یَخَافَا أَلاَّ یُقِیمَا حُدُودَ اللہِ } وَلَمْ یَکُنْ یَقُولُ قَوْلَ السُّفَہَائِ : حَتَّی تَقُولَ : لاَ أَغْتَسِلُ لَکَ مِنْ جَنَابَۃٍ ، وَلَکِنَّہُ کَانَ یَقُولُ: { إلاَّ أَنْ یَخَافَا أَلاَّ یُقِیمَا حُدُودَ اللہِ } فِیمَا افْتَرَضَ لِکُلِّ وَاحِدٍ مِنْہُمَا عَلَی صَاحِبِہِ ، فِی الْعِشْرَۃِ وَالصُّحْبَۃِ۔
(١٨٧٣٨) حضرت ابن جریج (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت طاؤس (رض) فرمایا کرتے تھے کہ خلع میں فدیہ اس وقت تک درست ہے جب تک دونوں کو خوف ہو کہ اللہ کی حدود کو قائم نہ رکھ سکیں گے، صرف اتنی بات پر فدیہ درست نہیں ہوتا کہ عورت کہے کہ میں تیرے لیے غسل جنابت نہ کروں گی، بلکہ اصل بنیاد اللہ کی حدود کو قائم نہ رکھنا ہے، اللہ کی حدود دونوں پر مقرر کی گئی ہیں جیسے اچھا سلوک اور صحبت۔

18738

(۱۸۷۳۹) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ قَالَ : سَأَلْتُ الْحَکَمَ عَنْ قَوْلِ الْمَرْأَۃِ لِزَوْجِہَا ، لاَ أَغْتَسِلُ لَکَ مِنْ جَنَابَۃٍ ، وَلاَ أَبَرُّ لَکَ قَسَمًا ، وَلاَ أُطِیعُ لَکَ أَمْرًا ؟ قَالَ : لَیْسَ بِشَیْئٍ ، یُمْسِکُہَا۔
(١٨٧٣٩) حضرت شعبہ (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت حکم (رض) سے عورت کے اس جملے کے بارے میں سوال کیا کہ وہ اپنے شوہر سے یہ کہے کہ میں تیرے لیے غسلِ جنابت نہیں کروں گی اور تیری قسم کو بھی پورا نہیں کروں گی اور تیری بات بھی نہیں مانوں گی، انھوں نے فرمایا کہ یہ کوئی اہم بات نہیں اسے اپنے پاس ہی رکھے۔

18739

(۱۸۷۴۰) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ ، قَالَ : سُئِلَ الْقَاسِمُ بْنُ مُحَمَّدٍ : {إلاَّ أَنْ یَخَافَا أَلاَّ یُقِیمَا حُدُودَ اللہِ} قَالَ : مَا اُفْتُرِضَ عَلَیْہِمَا فِی الْعِشْرَۃِ وَالصُّحْبَۃِ۔
(١٨٧٤٠) حضرت قاسم بن محمد (رض) سے قرآن مجید آیت {إلاَّ أَنْ یَخَافَا أَلاَّ یُقِیمَا حُدُودَ اللہِ } کے بارے میں سوال کیا گیا تو انھوں نے فرمایا کہ اس سے مراد حسن سلوک اور صحبت ہیں۔

18740

(۱۸۷۴۱) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ، عَنْ أَیُّوبَ، عَنْ کَثِیرٍ، مَوْلَی ابْنِ سَمُرَۃَ؛ أَنَّ عُمَرَ أُتِیَ بِامْرَأَۃٍ نَاشِزٍ، فَقَالَ لِزَوْجِہَا: اِخْلَعْہَا۔
(١٨٧٤١) حضرت کثیر مولی ابن سمرہ (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) کے پاس ایک ایسی عورت کا مقدمہ لایا گیا تو جو اپنے شوہر کی نافرمان تھی، آپ نے اس کے شوہر سے فرمایا کہ اس سے خلع کرلو۔

18741

(۱۸۷۴۲) حَدَّثَنَا عِیسَی بْنُ یُونُسَ ، عَنِ الأَوْزَاعِیِّ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، وَعَطَائٍ ، وَعَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ ، أَنَّہُم قَالُوا : لاَ یَحِلُّ الْخُلْعُ إلاَّ مِنَ النَّاشِزِ۔
(١٨٧٤٢) حضرت زہری، عطا اور عمرو بن شعیب (رض) فرماتے ہیں کہ خلع صرف نافرمان بیوی سے کیا جاسکتا ہے۔

18742

(۱۸۷۴۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ جُمْہَانَ ؛ أَنَّ امْرَأَۃً اخْتَلَعَتْ مِنْ زَوْجِہَا ، فَجَعَلہَا عُثْمَانُ تَطْلِیقَۃً ، وَمَا سَمَّی۔
(١٨٧٤٣) حضرت جمہان (رض) فرماتے ہیں کہ ایک عورت نے اپنے خاوند سے خلع لیا تو حضرت عثمان (رض) نے اسے ایک طلاق قرار دیا۔

18743

(۱۸۷۴۴) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ قَالَ : خَلَعَ جُمْہَانُ الأَسْلَمِیُّ امْرَأَۃً ، ثُمَّ نَدِمَ وَنَدِمَتْ، فَأَتَوْا عُثْمَانَ فَذَکَرُوا ذَلِکَ لَہُ ، قَالَ : فَقَالَ عُثْمَانُ : ہِیَ تَطْلِیقَۃٌ ، إلاَّ أَنْ تَکُونَ سَمَّیْتَ شَیْئًا ، فَہُوَ عَلَی مَا سَمَّیْتَ۔ (شافعی ۱۶۵۔ بیہقی ۳۱۶)
(١٨٧٤٤) حضرت عروہ (رض) فرماتے ہیں کہ جمہان اسلمی (رض) نے ایک عورت سے خلع کیا، پھر دونوں کو افسوس ہوا، دونوں حضرت عثمان (رض) کی خدمت میں حاضر ہوئے تو انھوں نے فرمایا کہ یہ ایک طلاق ہے، البتہ اگر طلاق کی تعداد مقرر کردو تو وہ مقرر کردہ کے مطابق ہے۔

18744

(۱۸۷۴۵) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ جُمْہَانَ ، عَنْ عُثْمَانَ قَالَ : الْخُلْعُ تَطْلِیقَۃٌ۔
(١٨٧٤٥) حضرت عثمان (رض) فرماتے ہیں کہ خلع ایک طلاق ہے۔

18745

(۱۸۷۴۶) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ ہِشَامٍ قَالَ : کَانَ أَبِی یَجْعَلُ الْخُلْعَ تَطْلِیقَۃً بَائِنَۃً۔
(١٨٧٤٦) حضرت ہشام (رض) فرماتے ہیں کہ میرے والد خلع کو ایک طلاق قرار دیتے تھے۔

18746

(۱۸۷۴۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ بْنِ یَزِیْدٍ ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِی عَاصِمٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ؛ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ جَعَلَ الْخُلْعَ تَطْلِیقَۃً۔ (عبدالرزاق ۱۱۷۵۸)
(١٨٧٤٧) حضرت سعید بن مسیب (رض) فرماتے ہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خلع کو ایک طلاق قرار دیا۔

18747

(۱۸۷۴۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ مُبَارَکٍ ، عَنْ یَحْیَی ، عَنْ أَبِی سَلَمَۃَ قَالَ : الْخُلْعُ تَطْلِیقَۃٌ بَائِنَۃٌ۔
(١٨٧٤٨) حضرت ابو سلمہ (رض) فرماتے ہیں کہ خلع ایک طلاق ہے۔

18748

(۱۸۷۴۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، وَابْنُ عُیَیْنَۃَ ، وَعَلِیُّ بْنُ ہَاشِمٍ ، عَنِ ابْنِ أَبِی لَیْلَی ، عَنْ طَلْحَۃَ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، عَن عَبْدِاللہِ قَالَ: لاَ تَکُونُ تَطْلِیقَۃً بَائِنَۃً ، إلاَّ فِی فِدْیَۃٍ ، أَوْ إیلاَئٍ ، إلاَّ أَنَّ عَلِیَّ بْنَ ہَاشِمٍ قَالَ : عَنْ عَلْقَمَۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ۔
(١٨٧٤٩) حضرت عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ ایک طلاق بائنہ صرف خلع اور ایلاء میں ہوتی ہے۔

18749

(۱۸۷۵۰) حَدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ (ح) وَجَابِرٌ ، عَنْ عَامِرٍ۔ (ح) وَعَطَائٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ، قَالُوا : الْخُلْعُ تَطْلِیقَۃٌ بَائِنَۃٌ۔
(١٨٧٥٠) حضرت ابراہیم، حضرت عامر ، حضرت عطاء اور حضرت سعید بن جبیر (رض) فرماتے ہیں کہ خلع ایک طلاق بائنہ ہے۔

18750

(۱۸۷۵۱) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِِ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالَ : الْخُلْعُ تَطْلِیقَۃٌ بَائِنَۃٌ ، وَالإِیلاَئُ وَالْمُبَارَأَۃُ کَذَلِکَ۔
(١٨٧٥١) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ خلع ایک طلاق بائنہ ہے اور اسی طرح ایلاء اور مباراۃ بھی۔

18751

(۱۸۷۵۲) حَدَّثَنَا عَبَّادٍ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، وَسَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ۔ (ح)وَیُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ ؛ فِی الرَّجُلِ یَخْلَعُ امْرَأَتَہُ قَالاَ : أَخْذُہُ الْمَالَ تَطْلِیقَۃٌ بَائِنَۃٌ۔
(١٨٧٥٢) حضرت حسن (رض) اور حضرت سعید بن مسیب (رض) فرماتے ہیں کہ خلع ایک طلاق بائنہ ہے۔

18752

(۱۸۷۵۳) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ مُوسَی بْنِ مُسْلِمٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ قَالَ : قَالَ عَلِیٌّ : إذَا خَلَعَ الرَّجُلُ أَمْرَ امْرَأَتِہِ مِنْ عُنُقِہِ ، فَہِیَ وَاحِدَۃٌ ، وَإِنِ اخْتَارَتْہُ۔
(١٨٧٥٣) حضرت علی (رض) فرماتے ہیں کہ خلع ایک طلاق بائنہ ہے خواہ عورت خود اختیار کرے۔

18753

(۱۸۷۵۴) حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُوسَی ، عَنْ شَیْبَانَ ، عَنْ یَحْیَی قَالَ : قَالَ قَبِیصَۃُ بْنُ ذُؤَیْبٍ : الْخُلْعُ تَطْلِیقَۃٌ ، إِنْ شَائَتْ تَزَوَّجَتْہُ بِصَدَاقٍ جَدِیدٍ۔
(١٨٧٥٤) حضرت قبیصہ بن ذؤیب (رض) فرماتے ہیں کہ خلع ایک طلاق ہے، اگر عورت چاہے تو نئے مہر پر نکاح کرلے۔

18754

(۱۸۷۵۵) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ، عَنْ مُطَرِّفٍ، عَنِ الشَّعْبِیِّ قَالَ: کُلُّ خُلْعٍ أُخِذَ عَلَیْہِ فِدَائٌ فَہُوَ طَلاَقٌ، وَہُوَ تَطْلِیقَۃٌ بَائِنَۃٌ۔
(١٨٧٥٥) حضرت شعبی (رض) فرماتے ہیں ہر وہ خلع جس کا عوض لیا گیا وہ ایک طلاق بائنہ ہے۔

18755

(۱۸۷۵۶) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنْ شُرَیْحٍ قَالَ : کُلُّ خُلْعٍ تَطْلِیقَۃٌ بَائِنَۃٌ۔
(١٨٧٥٦) حضرت شریح (رض) فرماتے ہیں کہ ہر خلع ایک طلاق بائنہ ہے۔

18756

(۱۸۷۵۷) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَطَائٍ ، قَالَ : الْخُلْعُ تَطْلِیقَۃٌ بَائِنَۃٌ۔
(١٨٧٥٧) حضرت عطائ (رض) فرماتے ہیں کہ خلع ایک طلاق بائنہ ہے۔

18757

(۱۸۷۵۸) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ قَالَ : ہُوَ تَطْلِیقَۃٌ بَائِنَۃٌ۔
(١٨٧٥٨) حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ خلع ایک طلاق بائنہ ہے۔

18758

(۱۸۷۵۹) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، قَالَ : ہُوَ تَطْلِیقَۃٌ بَائِنَۃٌ۔
(١٨٧٥٩) حضرت زہری (رض) فرماتے ہیں کہ خلع ایک طلاق بائنہ ہے۔

18759

(۱۸۷۶۰) حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ ثَوْرٍ ، عَنْ مَیْمُونٍ قَالَ : فِی قِرَائَۃِ أُبَیٍّ : الْخُلْعُ تَطْلِیقَۃٌ بَائِنَۃٌ۔
(١٨٧٦٠) حضرت ابی (رض) کی قراءت میں ہے وہ فرماتے ہیں کہ خلع ایک طلاق بائنہ ہے۔

18760

(۱۸۷۶۱) حَدَّثَنَا الثَّقَفِیُّ، عَنْ بُرْدٍ، عَنْ مَکْحُولٍ، قَالَ: کُلُّ مُفْتَدِیَۃٍ أَحَقُّ بِنَفْسِہَا، لاَ تَرْجِعُ إلَی زَوْجِہَا إلاَّ أَنْ تَشَائَ۔
(١٨٧٦١) حضرت مکحول (رض) فرماتے ہیں کہ ہر وہ عورت جس کے نفس کا فدیہ دیا گیا ہو وہ اپنے نفس کی زیادہ حق دار ہے، وہ اپنی مرضی سے ہی پہلے خاوند کی طرف لوٹ سکتی ہے۔

18761

(۱۸۷۶۲) حَدَّثَنَا مَخلَد بْنُ یَزِیدَ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ عَبْدِ الْعَزِیزِ ، عَنْ مَکْحُولٍ قَالَ : الْخُلْعُ تَطْلِیقَۃٌ۔
(١٨٧٦٢) حضرت مکحول (رض) فرماتے ہیں کہ خلع ایک طلاق بائنہ ہے۔

18762

(۱۸۷۶۳) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ؛ أَنَّ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ جَعَلَ الْخُلْعَ تَطْلِیقَۃً بَائِنَۃً۔
(١٨٧٦٣) حضرت عثمان (رض) فرماتے ہیں کہ خلع ایک طلاق بائنہ ہے۔

18763

(۱۸۷۶۴) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنْ یَحْیَی ، عَنْ أَبِی سَلَمَۃَ ؛ أَنَّہُ کَانَ یَقُولُ : الْخُلْعُ تَطْلِیقَۃٌ بَائِنَۃٌ۔
(١٨٧٦٤) حضرت ابو سلمہ (رض) فرماتے ہیں کہ خلع ایک طلاق بائنہ ہے۔

18764

(۱۸۷۶۵) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : الْخُلْعُ تَطْلِیقَۃٌ بَائِنَۃٌ ، وَمَا اشْتَرَطَتْ عَلَیْہِ مِنَ الطَّلاَقِ فَہُوَ لَہَا۔
(١٨٧٦٥) حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ خلع ایک طلاق بائنہ ہے، اور اگر عورت نے کسی طلاق کی شرط لگائی تو وہ بھی ہوجائے گی۔

18765

(۱۸۷۶۶) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنْ طَاوُوسٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : إنَّمَا ہُوَ فُرْقَۃٌ وَفَسْخٌ ، لَیْسَ بِطَلاَقٍ ، ذَکَرَ اللَّہُ الطَّلاَقَ فِی أَوَّلِ الآیَۃِ ، وَفِی آخِرِہَا ، وَالْخُلْعَ بَیْنَ ذَلِکَ ، فَلَیْسَ بِطَلاَقٍ قَالَ اللہ : {الطَّلاَقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاکٌ بِمَعْرُوفٍ ، أَوْ تَسْرِیحٌ بِإِحْسَانٍ} ۔
(١٨٧٦٦) حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ خلع صرف جدائی اور فسخِ نکاح ہے یہ طلاق نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے طلاق کا آیت کے شروع اور آخر میں تذکرہ فرمایا ہے درمیان میں خلع کا ذکر ہے، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں { الطَّلاَقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاکٌ بِمَعْرُوفٍ ، أَوْ تَسْرِیحٌ بِإِحْسَانٍ } [البقرۃ ٢٢٩]

18766

(۱۸۷۶۷) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ أَبِی عَرُوبَۃَ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ (ح) وَعَنْ أَبِی مَعْشَرٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالاَ : عِدَّۃُ الْمُخْتَلِعَۃِ عِدَّۃُ الْمُطَلَّقَۃِ۔
(١٨٧٦٧) حضرت سعید بن مسیب (رض) اور حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ خلع یافتہ عورت کی عدت مطلقہ کی طرح ہے۔

18767

(۱۸۷۶۸) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ ، قَالَ : کَانَ أَبِی یَقُولُ : تَعْتَدُّ ثَلاَثَ حِیَضٍ ، وَہُوَ أَوْلَی بِخِطْبَتِہَا فِی الْعِدَّۃِ۔
(١٨٧٦٨) حضرت عروہ (رض) فرماتے ہیں کہ وہ تین حیض تک عدت گزارے گی اور خلع کرنے والا خاوند عدت میں پیام نکاح کا زیادہ حق دار ہے۔

18768

(۱۸۷۶۹) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، وَہُشَیْمٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : کُلُّ فُرْقَۃٍ کَانَتْ بَیْنَ الرَّجُلِ وَالْمَرْأَۃِ ، فَعِدَّتُہَا عِدَّۃُ الْمُطَلَّقَۃِ۔
(١٨٧٦٩) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ مرد وعورت کے درمیان ہونے والی ہر جدائی میں عدت طلاق یافتہ عورت کی عدت جیسی ہوگی۔

18769

(۱۸۷۷۰) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ ؛ أَنَّہُ کَانَ یَقُولُہُ۔
(١٨٧٧٠) حضرت حسن (رض) بھی یہی فرماتے ہیں۔

18770

(۱۸۷۷۱) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ ، عَنْ سَالِمٍ ، قَالَ : عِدَّتُہَا ثَلاَثَ حِیَضٍ۔
(١٨٧٧١) حضرت سالم (رض) فرماتے ہیں کہ وہ تین حیض عدت گزارے گی۔

18771

(۱۸۷۷۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، وَہُشَیْمٌ ، عَنْ مَالِکِ بْنِ مِغْوَلٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ قَالَ : عِدَّتُہَا ثَلاَثَ قُرُوئٍ۔
(١٨٧٧٢) حضرت شعبی (رض) فرماتے ہیں کہ اس کی عدت تین حیض ہے۔

18772

(۱۸۷۷۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إسْرَائِیلَ ، عَنْ عَبْدِ الأَعْلَی ، عَنِ ابْنِ الْحَنَفِیَّۃِ ، عَنْ عَلِیٍّ ، قَالَ : عِدَّۃُ الْمُخْتَلِعَۃِ ، عِدَّۃُ الْمُطَلَّقَۃِ۔
(١٨٧٧٣) حضرت علی (رض) فرماتے ہیں کہ خلع یافتہ کی عدت طلاق یافتہ کی عدت کے برابر ہے۔

18773

(۱۸۷۷۴) حَدَّثَنَا ابْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ سَعِیدٍ ، وَأَبِی عِیَاضٍ ، وَخِلاَسٍ ، قَالُوا : عِدَّۃُ الْمُخْتَلِعَۃِ عِدَّۃُ الْمُطَلَّقَۃِ ، وَعِدَّۃُ الْمُلاَعَنَۃ عِدَّۃُ الْمُطَلَّقَۃِ۔
(١٨٧٧٤) حضرت سعید، ابو عیاض اور خلاس (رض) فرماتے ہیں کہ خلع یافتہ اور لعان کردہ عورت کی عدت مطلقہ کی عدت کی طرح ہے۔

18774

(۱۸۷۷۵) حَدَّثَنَا شَبَابَۃُ ، عَنْ مَالِکِ بْنِ أَنَسٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیِّبِ ، وَسُلَیْمَانَ بْنِ یَسَارٍ ، وَغَیْرِہِم ، أَنَّہُمْ کَانُوا یَقُولُونَ : عِدَّۃُ الْمُخْتَلِعَۃِ عِدَّۃُ الْمُطَلَّقَۃِ : ثَلاَثَۃُ قُرُوئٍ۔
(١٨٧٧٥) بہت سے حضرات فرماتے ہیں کہ خلع یافتہ کی عدت طلاق یافتہ کی طرح تین حیض ہے۔

18775

(۱۸۷۷۶) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، عَنْ عُثْمَانَ ؛ أَنَّہُ قَالَ : عِدَّۃُ الْمُخْتَلِعَۃِ حَیْضَۃٌ۔
(١٨٧٧٦) حضرت عثمان (رض) فرماتے ہیں کہ خلع یافتہ عورت کی عدت ایک حیض ہے۔

18776

(۱۸۷۷۷) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : عِدَّۃُ الْمُخْتَلِعَۃِ حَیْضَۃٌ۔
(١٨٧٧٧) حضرت ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ خلع یافتہ عورت کی عدت ایک حیض ہے۔

18777

(۱۸۷۷۸) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ؛ أَنَّ الرُّبَیِّعَ اخْتَلَعَتْ مِنْ زَوْجِہَا ، فَأَتَی عَمُّہَا عُثْمَانَ فَقَالَ : تَعْتَدُّ بِحَیْضَۃٍ ؟ قَالَ : تَعْتَدُّ بِحَیْضَۃٍ ، وَکَانَ ابْنُ عُمَرَ یَقُولُ : تَعْتَدُّ ثَلاَثَ حِیَضٍ ، حَتَّی قَالَ ہَذَا عُثْمَانُ ، فَکَانَ یُفْتِی بِہِ وَیَقُولُ : خَیْرُنَا وَأَعْلَمُنَا۔
(١٨٧٧٨) حضرت ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت رُبَیّع (رض) نے اپنے خاوند سے خلع لے لی، ان کے چچا حضرت عثمان (رض) کے پاس آئے تو حضرت عثمان (رض) نے فرمایا کہ وہ ایک حیض عدت گزارے گی، حضرت ابن عمر (رض) اس سے پہلے خلع یافتہ کی عدت تین حیض ہونے کے قائل تھے لیکن حضرت عثمان (رض) کے اس حکم کے بعد ایک حیض کے عدت ہونے کے قائل ہوگئے اور فرمایا کرتے تھے کہ وہ ہم سے بہتر اور ہم سے زیادہ جاننے والے تھے۔

18778

(۱۸۷۷۹) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَوَائٍ ، عَنِ ابْنِ أَبِی عَرُوبَۃَ ، عَنْ أَبِی الطُّفَیْلِ سَعِیدِ بْنِ حَمَلٍ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ ، قَالَ : عِدَّۃُ الْمُخْتَلِعَۃِ حَیْضَۃٌ ، قَضَاہَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی جَمِیلَۃَ ابِنْۃِ سَلُولٍ۔ (ابوداؤد ۲۲۰۶۔ عبدالرزاق ۱۱۸۵۸)
(١٨٧٧٩) حضرت عکرمہ (رض) فرماتے ہیں کہ خلع یافتہ عورت کی عدت ایک حیض ہے، اس کا فیصلہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جمیلہ بنت سلول (رض) کے بارے میں فرمایا تھا۔

18779

(۱۸۷۸۰) حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمُحَارِبِیِّ، عَنْ لَیْثٍ، عَنْ طَاوُوسٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: عِدَّتُہَا حَیْضَۃٌ۔
(١٨٧٨٠) حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ خلع یافتہ عورت کی عدت ایک حیض ہے۔

18780

(۱۸۷۸۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، مَوْلَی آلِ طَلْحَۃَ ، عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ یَسَارٍ ؛ أَنَّ الرُّبَیِّعَ اخْتَلَعَتْ فَأُمِرَتْ بِحَیْضَۃٍ۔
(١٨٧٨١) حضرت سلیمان بن یسار (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت رُبَیّع (رض) نے اپنے خاوند سے خلع لی اور پھر ایک حیض عدت گزارنے کا انھیں حکم دیا گیا۔

18781

(۱۸۷۸۲) حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ عَیَّاشٍ ، عَنْ مُطَرِّفٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : الْمُخْتَلِعَۃِ تَعْتَدُّ فِی بَیْتِ زَوْجِہَا ، لأَنَّہُ إِنْ شَائَ رَاجَعَہَا۔
(١٨٧٨٢) حضرت شعبی (رض) فرماتے ہیں کہ خلع یافتہ عورت اپنے خاوند کے گھر میں عدت گزارے گی تاکہ اگر وہ چاہے تو رجوع کرلے۔

18782

(۱۸۷۸۳) حَدَّثَنَا الثَّقَفِیُّ ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ؛ أَنَّ الرُّبَیِّعَ اخْتَلَعَتْ مِنْ زَوْجِہَا ، فَأَتَی مُعَوِّذٌ عُثْمَانَ فَسَأَلَہُ فَقَالَ : أَتَنْتَقِلُ ؟ قَالَ : نَعَمْ ، تَنْتَقِلُ۔
(١٨٧٨٣) حضرت ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت ربیع (رض) نے اپنے خاوند سے خلع لی تو (ربیع کے والد) حضرت معوذ (رض) حضرت عثمان (رض) کے پاس آئے اور ان سے سوال کیا کہ کیا وہ وہاں سے منتقل ہوسکتی ہیں ؟ حضرت عثمان (رض) نے فرمایا کہ ہاں وہ اس گھر سے منتقل ہوسکتی ہیں۔

18783

(۱۸۷۸۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنِ الْحَکَمِ ، عَنْ خَیْثَمَۃَ ، قَالَ : أُتِیَ بِشر بْنُ مَرْوَانَ فِی خُلْعٍ کَانَ بَیْنَ رَجُلٍ وَامْرَأَۃٍ ، فَلَمْ یُجِزْہُ ، فَقَالَ لَہُ عَبْدُ اللہِ بْنُ شِہَابٍ الْخَوْلاَنِیُّ : شَہِدْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ أُتِیَ فِی خُلْعٍ کَانَ بَیْنَ رَجُلٍ وَامْرَأَتِہِ ، فَأَجَازَہُ۔
(١٨٧٨٤) حضرت خیثمہ (رض) فرماتے ہیں کہ بشر بن مروان کے پاس میاں بیوی کے درمیان خلع کا ایک مسئلہ لایا گیا، بشر نے اس کی اجازت نہ دی، تو حضرت عبداللہ بن شہاب خولانی (رض) نے بشر سے کہا کہ میں حضرت عمر بن خطاب (رض) کے پاس حاضر تھا، ان کے پاس خلع کا ایک مسئلہ لایا گیا تو انھوں نے اس کی اجازت دے د ی تھی۔

18784

(۱۸۷۸۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنِ الْحَکَمِ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ؛ أَنَّ شُرَیْحًا أَجَازَ خُلْعًا دُونَ السُّلْطَانِ۔
(١٨٧٨٥) حضرت شریح (رض) نے سلطان کی مداخلت کے بغیر خلع کی اجازت دی ہے۔

18785

(۱۸۷۸۶) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ الرُّبَیِّعِ بِنْتِ مُعَوِّذِ ابْنِ عَفْرَائَ ؛ أَنَّ عَمَّہَا خَلَعَہَا مِنْ زَوْجِہَا ، وَکَانَ یَشْرَبُ الْخَمْرَ ، دُونَ عُثْمَانَ ، فَأَجَازَ ذَلِکَ عُثْمَانُ۔
(١٨٧٨٦) حضرت نافع (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت ربیع بنت معوذ (رض) کے چچا نے انھیں ان کے خاوند سے خلع لے کردی، ان کا خاوند شراب پیا کرتا تھا، یہ خلع انھوں نے امیر المومنین حضرت عثمان (رض) کی مداخلت کے بغیر لی، لیکن حضرت عثمان (رض) نے اسے جائز قرار دیا۔

18786

(۱۸۷۸۷) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ ، قَالَ : الْخُلْعُ جَائِزٌ دُونُ السُّلْطَانِ۔
(١٨٧٨٧) حضرت ابن سیرین (رض) فرماتے ہیں کہ خلع سلطان کے بغیر بھی جائز ہے۔

18787

(۱۸۷۸۸) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ؛ أَنَّہُ قَالَ : الْخُلْعُ جَائِزٌ دُونَ السُّلْطَانِ۔
(١٨٧٨٨) حضرت زہری (رض) فرماتے ہیں کہ خلع سلطان کے بغیر بھی جائز ہے۔

18788

(۱۸۷۸۹) حَدَّثَنَا الثَّقَفِیُّ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ، سَمِعَہُ یَقُولُ : کَانُوا یَخْتَلِعُونَ عِنْدَنَا دُونَ السُّلْطَانِ ، فَإِذَا رُفِعَ إلَی السُّلْطَانِ أَجَازَہُ۔
(١٨٧٨٩) حضرت یحییٰ بن سعید (رض) فرماتے ہیں کہ لوگ ہمارے پاس بغیر سلطان کے خلع کیا کرتے تھے، جب معاملہ سلطان کے پاس پیش ہوتا تو وہ بھی اس کی اجازت دے دیتے۔

18789

(۱۸۷۹۰) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ قَالَ : ہُوَ عِنْدَ السُّلْطَانِ۔
(١٨٧٩٠) حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ خلع سلطان کے پاس ہی ہوگی۔

18790

(۱۸۷۹۱) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ الثَّقَفِیُّ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ؛ فِی الْمُخْتَلِعَۃِ قَالَ : إِنْ کَانَتْ نَاشِزًا ، أَمَرَہُ السُّلْطَانُ أَنْ یَخْلَعَ۔
(١٨٧٩١) حضرت سعید بن جبیر (رض) خلع لینے والی عورت کے بارے میں فرماتے ہیں کہ اگر عورت نافرمان ہو تو سلطان مرد کو خلع کا حکم دے گا۔

18791

(۱۸۷۹۲) حَدَّثَنَا وَکِیعُ بْنُ الْجَرَّاحِ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ الْمُبَارَکِ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ أَبِی کَثِیرٍ ، قَالَ : کَانَ عِمْرَانُ بْنُ حُصَیْنٍ ، وَابْنُ مَسْعُودٍ یَقُولاَنِ فِی الَّتِی تَفْتَدِی مِنْ زَوْجِہَا : لَہَا طَلاَقٌ مَا کَانَتْ فِی عِدَّتِہَا۔
(١٨٧٩٢) حضرت عمران بن حصین (رض) اور حضرت ابن مسعود (رض) فرمایا کرتے تھے کہ خلع کے بعد عدت میں طلاق ہوجاتی ہے۔

18792

(۱۸۷۹۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ أَبِی فَضَالَۃَ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ أَبِی طَلَحْۃَ ، عَنْ أَبِی عَوْنٍ الأَعْوَرِ ، عَنْ أَبِی الدَّرْدَائِ ، قَالَ : لِلْمُخْتَلِعَۃِ طَلاَقٌ مَا دَامَتْ فِی الْعِدَّۃِ۔
(١٨٧٩٣) حضرت ابو الدردائ (رض) فرماتے ہیں کہ خلع کے بعد عدت میں طلاق ہوجاتی ہے۔

18793

(۱۸۷۹۴) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ مُبَارَکٍ ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ یَحْیَی ، عَنِ الضَّحَّاکِ ، قَالَ : اخْتَلَفَ ابْنُ مَسْعُودٍ ، وَابْنُ عَبَّاسٍ فِی الرَّجُلِ یَخْلَعُ امْرَأَتَہُ ثُمَّ یُطَلِّقُہَا ، قَالَ أَحَدُہُمَا : لَیْسَ طَلاَقُہُ بِشَیْئٍ ، وَقَالَ الآخَرُ : مَا دَامَتْ فِی الْعِدَّۃِ فَإِنَّ الطَّلاَقَ یَلْحَقُہَا۔
(١٨٧٩٤) حضرت ضحاک (رض) فرماتے ہیں کہ خلع کے بعد طلاق کے بارے میں حضرت عبداللہ بن مسعود اور حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کا اختلاف ہے، ایک فرماتے ہیں کہ اس طلاق کی کوئی حیثیت نہیں جبکہ دوسرے فرماتے ہیں کہ عدت میں طلاق موثر ہوگی۔

18794

(۱۸۷۹۵) حَدَّثَنَا ابْنُ مُبَارَکٍ ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ، قَالَ : یَلْحَقُہَا الطَّلاَقُ۔
(١٨٧٩٥) حضرت سعید بن مسیب (رض) فرماتے ہیں کہ خلع کے بعد عدت میں طلاق ہوجاتی ہے۔

18795

(۱۸۷۹۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ، قَالَ : یَجْرِی عَلَیْہَا الطَّلاَقُ مَا کَانَتْ فِی الْعِدَّۃِ۔
(١٨٧٩٦) حضرت سعید بن مسیب (رض) فرماتے ہیں کہ خلع کے بعد عدت میں طلاق ہوجاتی ہے۔

18796

(۱۸۷۹۷) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ؛ فِی الرَّجُلِ یَخْلَعُ امْرَأَتَہُ ثُمَّ یُطَلِّقُہَا ، قَالَ : أَخْذُہُ الْمَالَ تَطْلِیقَۃٌ ، وَکَلاَمُہُ بِالطَّلاَقِ تَطْلِیقَۃٌ۔
(١٨٧٩٧) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ خلع کرنے کے بعد اگر عورت کو طلاق دی تو آدمی کا مال لینا ایک طلاق ہے اور طلاق کا کہنا دوسری طلاق ہے۔

18797

(۱۸۷۹۸) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی بْنُ عَبْدِ الأَعْلَی ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ، وَخِلاَسٍ قَالاَ : یَلْحَقُہَا الطَّلاَقُ مَا کَانَتْ فِی الْعِدَّۃِ۔
(١٨٧٩٨) حضرت سعید بن مسیب (رض) اور حضرت خلاس (رض) فرماتے ہیں کہ خلع کے بعد عدت میں طلاق ہوجاتی ہے۔

18798

(۱۸۷۹۹) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ قَالَ : الْخُلْعُ تَطْلِیقَۃٌ بَائِنٌ ، وَمَا أَتْبَعَ مِنَ الطَّلاَقِ ، فَإِنَّہُ یَلْحَقُہَا مَا کَانَتْ فِی الْعِدَّۃِ۔
(١٨٧٩٩) حضرت زہری (رض) فرماتے ہیں کہ خلع ایک طلاق بائنہ ہے، خلع کے بعد عدت میں طلاق دینے سے بھی طلاق واقع ہوجاتی ہے۔

18799

(۱۸۸۰۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إسْرَائِیلَ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنْ مَسْرُوقٍ ؛ فِی الرَّجُلِ یَخْلَعُ امْرَأَتَہُ ثُمَّ یُطَلِّقُہَا ، قَالَ : ذَلِکَ أَبْعَدُ لَہُ مِنْہَا۔
(١٨٨٠٠) حضرت مسروق (رض) فرماتے ہیں کہ اگر ایک آدمی خلع کے بعد اپنے بیوی کو طلاق دے دے تو یہ اسے بیوی سے اور زیادہ دور کرنے والی چیز ہے۔

18800

(۱۸۸۰۱) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ، عَنْ إسْمَاعِیلَ، عَنِ الشَّعْبِیِّ، عَنْ شُرَیْحٍ، قَالَ: یَلْزَمُ الْمُطَلَّقَۃَ الطَّلاَقُ فِی الْعِدَّۃِ۔
(١٨٨٠١) حضرت شریح (رض) فرماتے ہیں کہ خلع کے بعد عدت میں طلاق ہوجاتی ہے۔

18801

(۱۸۸۰۲) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، وَمُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ (ح) وَعَنْ بَیَانٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ؛ فِی الْمَرْأَۃِ تُبَارِئُ زَوْجَہَا فَیُطَلِّقُہَا ، قَالاَ : یَقَعُ عَلَیْہَا مَا کَانَتْ فِی عِدَّتِہَا ۔ قَالَ سُفْیَانُ : نَرَی أَنَّہُ یَقَعُ۔
(١٨٨٠٢) حضرت ابراہیم (رض) اور حضرت شعبی (رض) فرماتے ہیں کہ اگر خلع کے بعد اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو طلاق دے تو عدت میں طلاق واقع ہوجائے گی۔ حضرت سفیان (رض) فرماتے ہیں کہ ہماری رائے بھی یہی ہے کہ طلاق واقع ہوجائے گی۔

18802

(۱۸۸۰۳) حَدَّثَنَا عِیسَی بْنُ یُونُسَ ، عَنِ الأَوْزَاعِیِّ ، عَنْ عَطَائٍ ؛ فِی الْمُخْتَلِعَۃِ ، قَالَ : یَلْحَقُہَا الطَّلاَقُ۔
(١٨٨٠٣) حضرت عطائ (رض) فرماتے ہیں کہ خلع کے بعد عدت میں طلاق ہوجاتی ہے۔

18803

(۱۸۸۰۴) حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُبَارَکِ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ، عَنْ عَطَائٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَابْنِ الزُّبَیْرِ ؛ أَنَّہُمَا قَالاَ : لَیْسَ بِشَیْئٍ۔
(١٨٨٠٤) حضرت ابن عباس اور حضرت ابن زبیر (رض) فرماتے ہیں کہ خلع کے بعد عدت میں طلاق دینے سے طلاق واقع نہیں ہوتی۔

18804

(۱۸۸۰۵) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ ہَرِمٍ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ زَیْدٍ ؛ أَنَّہُ کَانَ یَقُولُ : لاَ یَلْحَقُہَا طَلاَقُہُ إیَّاہَا ، مَا کَانَتْ فِی عِدَّۃٍ مِنْہُ بَائِنَۃً۔
(١٨٨٠٥) حضرت جابر بن زید (رض) فرماتے ہیں کہ خلع کے بعد عدت میں طلاق دینے سے طلاق واقع نہیں ہوتی۔

18805

(۱۸۸۰۶) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ یُونُسَ ، وَمَنْصُورٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، وَحَجَّاجٍ ، عَنْ عَطَائٍ ؛ فِی الْمُخْتَلِعَۃِ : لاَ یَقَعُ عَلَیْہَا طَلاَقُ زَوْجِہَا مَا کَانَتْ فِی عِدَّۃٍ مِنْہُ بَائِنَۃً۔
(١٨٨٠٦) حضرت عطائ (رض) فرماتے ہیں کہ خلع کے بعد عدت میں طلاق دینے سے طلاق واقع نہیں ہوتی، خواہ عورت عدت میں ہی کیوں نہ ہو۔

18806

(۱۸۸۰۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ حَسَنٍ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ طَاوُوسٍ قَالَ : لاَ یَقَعُ عَلَیْہَا الطَّلاَقُ مَا کَانَتْ فِی الْعِدَّۃ۔
(١٨٨٠٧) حضرت طاؤس (رض) فرماتے ہیں کہ خلع کے بعد عدت میں طلاق دینے سے طلاق واقع نہیں ہوتی، خواہ عورت عدت میں ہی کیوں نہ ہو۔

18807

(۱۸۸۰۸) حَدَّثَنَا حُمَیْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنِ الْحَسَنِ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، وَطَاوُوسٍ قَالاَ : إذَا خَلَعَ ثُمَّ طَلَّقَ ، لَمْ یَقَعْ طَلاَقُہُ۔
(١٨٨٠٨) حضرت شعبی (رض) اور حضرت طاؤس (رض) فرماتے ہیں کہ خلع کے بعد عدت میں طلاق دینے سے طلاق واقع نہیں ہوتی۔

18808

(۱۸۸۰۹) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ مَطَرٍ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ ؛ أَنَّ الْمُخْتَلِعَۃَ لاَ یَلْحَقُہَا الطَّلاَقُ فِی عِدَّتِہَا۔
(١٨٨٠٩) حضرت عکرمہ (رض) فرماتے ہیں کہ خلع کے بعد عدت میں طلاق دینے سے طلاق واقع نہیں ہوتی، خواہ عورت عدت میں ہی کیوں نہ ہو۔

18809

(۱۸۸۱۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ مُبَارَکٍ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ أَبِی کَثِیرٍ ، عَنْ أَبِی سَلَمَۃَ ، وَابْنِ ثَوْبَانَ ، قَالاَ : إِنْ طَلَّقَہَا فِی مَجْلِسِہِ لَزِمَہُ ، وَإِلاَّ فَلاَ۔
(١٨٨١٠) حضرت ابو سلمہ (رض) اور حضرت ابن ثوبان (رض) فرماتے ہیں کہ اگر خلع کی مجلس میں طلاق دی تو واقع ہوگی ورنہ نہیں۔

18810

(۱۸۸۱۱) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ زَکَرِیَّا بْنِ أَبِی زَائِدَۃَ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنِ الْحَکَمِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : لِلْمُخْتَلِعَۃِ السُّکْنَی وَالنَّفَقَۃُ۔
(١٨٨١١) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ خلع لینے والی عورت کو رہائش اور نفقہ ملے گا۔

18811

(۱۸۸۱۲) حَدَّثَنَا حُمَیْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ حَسَن ، عَنْ مُطَرِّفٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : لِلْمُخْتَلِعَۃِ السُّکْنَی وَالنَّفَقَۃُ ، لأَنَّہَا لَوْ شَائَتْ تَزَوَّجَتْ زَوْجَہَا فِی عِدَّتِہِا تَزَوَّجَتْہُ۔
(١٨٨١٢) حضرت شعبی (رض) فرماتے ہیں کہ خلع لینے والی عورت کو رہائش اور نفقہ ملے گا کیونکہ اگر وہ چاہے تو عدت میں اپنے شوہر سے شادی کرسکتی ہے۔

18812

(۱۸۸۱۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ حَمَّادٍ ، قَالَ : الْمُخْتَلِعَۃِ لَہَا النَّفَقَۃُ۔
(١٨٨١٣) حضرت حماد (رض) فرماتے ہیں کہ خلع لینے والی عورت کو نفقہ ملے گا۔

18813

(۱۸۸۱۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، وَعَبْدَۃُ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ الْبَصْرِیَّ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ؛ سُئِلَ عَنِ الْمُخْتَلِعَۃِ : لَہَا نَفَقَۃٌ ؟ فَقَالَ : کَیْفَ یُنْفِقُ عَلَیْہَا وَہُوَ یَأْخُذُ مِنْہَا ؟۔
(١٨٨١٤) حضرت شعبی (رض) سے سوال کیا گیا کہ کیا خلع لینے والی عورت کو نفقہ ملے گا انھوں نے فرمایا کہ وہ اس پر کیسے خرچ کرسکتا ہے حالانکہ مرد نے عورت سے پیسے وصول کئے ہیں۔

18814

(۱۸۸۱۵) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ ؛ أَنَّہُ کَانَ یَقُولُ : لَیْسَ لِلْمُخْتَلِعَۃِ وَلاَ لِلْمُطَلَّقَۃِ ثَلاَثًا سُکْنَی وَلاَ نَفَقَۃٌ۔
(١٨٨١٥) حضرت حسن (رض) فرمایا کرتے تھے کہ خلع لینے والی عورت کے لیے اور اس عورت کے لیے جسے تین طلاقیں دی جاچکی ہوں رہائش اور نفقہ نہیں ہے۔

18815

(۱۸۸۱۶) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ یَزِید ، عَنْ أَبِی الْعَلاَئِ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، قَالَ : لَیْسَ لِلْمُخْتَلِعَۃِ وَالْمُبَارِئَۃِ نَفَقَۃٌ۔
(١٨٨١٦) حضرت قتادہ (رض) فرماتے ہیں کہ خلع لینے والی اور نکاح سے فارغ ہوجانے والی عورت کے لیے نفقہ نہیں ہے۔

18816

(۱۸۸۱۷) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَطَائٍ ، قَالَ : لِلْمُمَلَّکَۃِ ، وَالْمُخَیِّرۃ ،وَالْمُخْتَلِعَۃِ ، مُتْعَۃٌ۔
(١٨٨١٧) حضرت عطائ (رض) فرماتے ہیں کہ جس عورت کو اس کے معاملے کا مالک بنادیا گیا ہو، یا اسے اختیار دے دیا گیا ہو یا اس نے خلع لی ہو، ایسی عورت کو متعہ ملے گا۔

18817

(۱۸۸۱۸) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، قَالَ : لِلْمُخْتَلِعَۃِ مُتْعَۃٌ۔
(١٨٨١٨) حضرت زہری (رض) فرماتے ہیں کہ خلع لینے والی عورت کو متعہ ملے گا۔

18818

(۱۸۸۱۹) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ، عَنْ مُطَرِّفٍ، عَنِ الشَّعْبِیِّ، قَالَ: لَیْسَ لِلْمُخْتَلِعَۃِ مُتْعَۃٌ، کَیْفَ یُمَتِّعُہَا وَہُوَ یَأْخُذُ مِنْہَا؟
(١٨٨١٩) حضرت شعبی (رض) فرماتے ہیں کہ خلع لینے والی عورت کو متعہ بھی نہیں ملے گا، وہ اسے کیسے متعہ دے حالانکہ وہ اس سے مال لے رہا ہے۔

18819

(۱۸۸۲۰) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ ، عَنِ ابْنِ أَبِی عَرُوبَۃَ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، قَالَ : لِکُلِّ مُطَلَّقَۃٍ مَتَاعٌ ، إلاَّ الْمُخْتَلِعَۃَ۔
(١٨٨٢٠) حضرت قتادہ (رض) فرماتے ہیں کہ خلع لینے والی عورت کے علاوہ ہر طلاق یافتہ کے لیے متعہ ہے۔

18820

(۱۸۸۲۱) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ، عَنْ شَرِیکٍ، عَنْ لَیْثٍ، عَنْ طَاوُوسٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: لَیْسَ لِلْمُخْتَلِعَۃِ مُتْعَۃٌ۔
(١٨٨٢١) حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ خلع لینے والی عورت کے لیے متعہ نہیں ہے۔

18821

(۱۸۸۲۲) حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ حَبیب بْنِ مِہْرَانَ التَّیمِیِّ ، قَالَ : سَأَلْتُ عَبْدَ اللہِ بْنَ أَبِی أَوْفَی عَنِ امْرَأَۃٍ اخْتَلَعَتْ مِنْ زَوْجِہَا بِبَقِیَّۃِ مَہْرٍ کَانَ لَہَا عَلَیْہِ ، فَہَلْ لَہُمَا أَنْ یَتَرَاجَعَا ؟ قَالَ : نَعَمْ ، إِنْ لَمْ یَکُنْ ذَکَرَ فِیہَا طَلاَقًا بِمَہْرٍ جَدِیدٍ ، قَالَ : وَسَأَلْتُ مَاہَانَ ؟ فَقَالَ : نَعَمْ ، وَلَوْ بِکُوزٍ مِنَ الْمَائِ۔
(١٨٨٢٢) حضرت حبیب بن مہران (رض) کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن ابی اوفی (رض) سے سوال کیا کہ اگر کسی عورت نے اپنے خاوند سے باقی ماندہ مہر کے عوض خلع کی تو کیا وہ رجوع کرسکتے ہیں، انھوں نے فرمایا کہ ہاں اگر طلاق کا ذکر نہ کیا ہو نئے مہر کے ساتھ رجوع کرسکتے ہیں۔ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ماہان (رض) سے سوال کیا تو انھوں نے فرمایا کہ ہاں خواہ پانی کی ایک صراحی کے بدلے ہی کیوں نہ ہو۔

18822

(۱۸۸۲۳) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ عَامِرٍ ، وَعَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالاَ : إذَا طَلَّقَ الرَّجُلُ امْرَأَتَہُ وَاحِدَۃً عَلَی جُعْلٍ ، فَلاَ یَمْلِکُ الرَّجْعَۃَ وَہُوَ خَاطِبٌ مِنَ الْخُطَّابِ۔
(١٨٨٢٣) حضرت عامر (رض) اور حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ جب آدمی نے اپنی بیوی کو کسی عوض کے بدلے ایک طلاق دے دی تو وہ رجوع کا حق نہیں رکھتا، بلکہ پیام نکاح بھجوائے گا۔

18823

(۱۸۸۲۴) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، قَالَ : کَانَ أَبِی یَقُولُ : صَاحِبُہَا أَوْلیَ بِخِطْبَتِہَا فِی الْعِدَّۃِ
(١٨٨٢٤) حضرت ہشام (رض) فرماتے ہیں کہ میرے والد کہا کرتے تھے کہ خلع یافتہ عورت کا خاوند عدت کے دوران پیام نکاح بھجوانے کا زیادہ حق دار ہے۔

18824

(۱۸۸۲۵) حَدَّثَنَا عَبدَۃ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ أَبِی مَعْشَرٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : إذَا خَلَعَہَا ثُمَّ نَدِمَا وَہِیَ فِی عِدَّتِہَا ، لَمْ تَرْجِعْ إلَیْہِ ، إلاَّ بِخِطْبَۃٍ۔
(١٨٨٢٥) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ جب مرد نے عورت کو خلع کے ذریعے طلاق دی، پھر دونوں کو ندامت ہوئی، جبکہ عورت اپنی عدت میں ہو تو وہ پیام نکاح کے بغیر رجوع نہیں کرسکتا۔

18825

(۱۸۸۲۶) حَدَّثَنَا الضَّحَّاکُ بْنُ مَخْلَدٍ ، عَنِ ابْنِ أَبِی ذِئْبٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، قَالَ : لاَ یَتَزَوَّجُہَا بِأَقَلَّ مِمَّا أَخَذَ مِنْہَا۔
(١٨٨٢٦) حضرت زہری (رض) فرماتے ہیں کہ جو کچھ آدمی نے بیوی سے لیا ہے اس سے کم پر نکاح نہیں کرسکتا۔

18826

(۱۸۸۲۷) حَدَّثَنَا کَثِیرُ بْنُ ہِشَامٍ ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ بُرْقَانَ ، قَالَ : سَمِعْتُ مَیْمُونَ بْنَ مِہْرَانَ یَقُولُ فِی الْمُخْتَلِعَۃِ : إذَا قَبِلَ مِنْہَا زَوْجُہَا الْفِدْیَۃَ ، ثُمَّ خَطَبَہَا بَعْدَ ذَلِکَ قَالَ : یَتَزَوَّجُہَا وَیُسَمِّی لَہَا مَہْرًا جَدِیدًا۔
(١٨٨٢٧) حضرت میمون بن مہران (رض) مختلعہ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ اگر خاوند نے اس سے فدیہ قبول کرلیا پھر اس کے بعد پیام نکاح بھجوایا تو وہ شادی کرسکتا ہے لیکن نیا مہر مقرر کرے گا۔

18827

(۱۸۸۲۸) حَدَّثَنَا إبْرَاہِیمُ بْنُ صَدَقَۃَ ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ ؛ فِی الْمُخْتَلِعَۃِ إذَا أَرَادَ زَوْجُہَا مُرَاجَعَتَہَا ، قَالَ : یَخْطُبُہَا بِمَہْرٍ جَدِیدٍ۔ (دارقطنی ۲۷۶۔ بیہقی ۳۱۴)
(١٨٨٢٨) حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ خلع یافتہ عورت کا خاوند اگر اس سے رجوع کرنا چاہے تو نئے مہر کے ساتھ پیام نکاح بھجوائے گا۔

18828

(۱۸۸۲۹) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَطَائٍ ؛ أَنَّ امْرَأَۃً أَتَتِ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ تَشْکُو زَوْجَہَا ، قَالَ : تَرُدِّینَ عَلَیْہِ مَا أَخَذْتِ مِنْہُ ؟ قَالَتْ : نَعَمْ ، وَأَزِیدُہُ ، قَالَ : أَمَّا زِیَادَۃً فَلاَ۔
(١٨٨٢٩) حضرت عطائ (رض) فرماتے ہیں کہ ایک عورت حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس اپنے خاوند کی شکایت لے کر آئی، آپ نے فرمایا کہ جو تم نے اس سے لیا تھا اسے واپس دے دیا ؟ اس نے کہا ہاں میں نے زیادہ دے دیا، آپ نے فرمایا کہ زیادتی نہیں کرسکتی۔

18829

(۱۸۸۳۰) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنِ الْحَکَمِ ، عَنْ عَلِیٍّ ، قَالَ : لاَ یَأْخُذُ مِنْہَا أَکْثَرَ مِمَّا أَعْطَاہَا۔
(١٨٨٣٠) حضرت علی (رض) فرماتے ہیں کہ عورت سے خلع کرتے ہوئے مہر سے زیادہ معاوضہ لینا درست نہیں۔

18830

(۱۸۸۳۱) حَدَّثَنَا ابن إدْرِیسُ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنِ الْحَکَمِ ، عَنْ عَلِیٍّ ؛ مِثْلَہُ۔
(١٨٨٣١) ایک اور سند سے یونہی منقول ہے۔

18831

(۱۸۸۳۲) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ ابْنِ طَاوُوسٍ، عَنْ أَبِیہِ قَالَ: لاَ یَحِلُّ لَہُ أَنْ یَأْخُذَ مِنْہَا أَکْثَرَ مِمَّا أَعْطَاہَا۔
(١٨٨٣٢) حضرت طاؤس (رض) فرماتے ہیں کہ عورت سے خلع کرتے ہوئے مہر سے زیادہ معاوضہ لینا درست نہیں۔

18832

(۱۸۸۳۳) حَدَّثَنَا ابْنُ مُبَارَکٍ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ بِشْرٍ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ ، قَالَ : لاَ یَأْخُذُ مِنْہَا أَکْثَرَ مِمَّا أَعْطَاہَا ، فَإِنَّ أَخْذ رَدَّ عَلَیْہا۔
(١٨٨٣٣) حضرت عکرمہ (رض) فرماتے ہیں کہ عورت سے خلع کرتے ہوئے مہر سے زیادہ معاوضہ لینا درست نہیں، اگر لیا تو واپس دینا ہوگا۔

18833

(۱۸۸۳۴) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ حُمَیْدٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ؛ أَنَّہُ کَرِہَ أَنْ یَأْخُذَ مِنْہَا أَکْثَرَ مِمَّا أَعْطَاہَا۔
(١٨٨٣٤) حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ عورت سے خلع کرتے ہوئے مہر سے زیادہ معاوضہ لینا درست نہیں۔

18834

(۱۸۸۳۵) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ یَزِیدَ ، عَنْ سُفْیَانَ بْنِ حُسَیْنٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، وَالْحَسَنِ قَالاَ : لاَ یَأْخُذُ مِنْہَا أَکْثَرَ مِمَّا أَعْطَاہَا۔
(١٨٨٣٥) حضرت زہری (رض) اور حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ عورت سے خلع کرتے ہوئے مہر سے زیادہ معاوضہ لینا درست نہیں۔

18835

(۱۸۸۳۶) حَدَّثَنَا عِیسَی بْنُ یُونُسَ ، عَنِ الأَوْزَاعِیِّ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، وَعَطَائٍ ، وَعَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ قَالُوا : لاَ یَأْخُذُ مِنْہَا زَوْجُہَا إلاَّ مَا أَعْطَاہَا۔
(١٨٨٣٦) حضرت زہری، حضرت عطاء اور حضرت عمرو بن شعیب (رض) فرماتے ہیں کہ عورت سے خلع کرتے ہوئے مہر سے زیادہ معاوضہ لینا درست نہیں۔

18836

(۱۸۸۳۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ أَبِی حَصِینٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ؛ أَنَّہُ کَرِہَ أَنْ یَأْخُذَ مِنْہَا أَکْثَرَ مِمَّا أَعْطَاہَا۔
(١٨٨٣٧) حضرت شعبی (رض) فرماتے ہیں کہ عورت سے خلع کرتے ہوئے مہر سے زیادہ معاوضہ لینا درست نہیں۔

18837

(۱۸۸۳۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، عَنْ سُفْیَانَ، عَنْ عَبْدِالْکَرِیمِ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ؛ أَنَّہُ کَرِہَ أَنْ یَأْخُذَ أَکْثَرَ مِمَّا أَعْطَاہَا۔
(١٨٨٣٨) حضرت سعید بن مسیب (رض) فرماتے ہیں کہ عورت سے خلع کرتے ہوئے مہر سے زیادہ معاوضہ لینا درست نہیں۔

18838

(۱۸۸۳۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، قَالَ : سَأَلْتُ الْحَکَمَ ، وَحَمَّادًا ؟ فَکَرِہَا أَنْ یَأْخُذَ مِنْہَا أَکْثَرَ مِمَّا أَعْطَاہَا۔
(١٨٨٣٩) حضرت شعبہ (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت حکم (رض) اور حضرت حماد (رض) سے اس بارے میں سوال کیا تو ان دونوں نے فرمایا کہ مہر سے زیادہ معاوضہ خلع کے لیے لینا درست نہیں۔

18839

(۱۸۸۴۰) حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ أَیُّوبَ ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ بُرْقَانَ ، عَنْ مَیْمُونٍ ، قَالَ : مَنْ خَلَعَ امْرَأَتَہُ فَأَخَذَ مِنْہَا أَکْثَرَ مِمَّا أَعْطَاہَا ، فَلَمْ یُسَرِّحْ بِإِحْسَانٍ۔
(١٨٨٤٠) حضرت میمون (رض) فرماتے ہیں کہ جس نے اپنی بیوی سے مہر سے زیادہ معاوضہ لیا اس نے احسان کے ساتھ رخصت نہیں کیا۔

18840

(۱۸۸۴۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ أَبِی حَنِیفَۃَ ، عَنْ عَمَّارِ بْنِ عِمْرَانَ الْہَمْدَانِیِّ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ عَلِیٍّ ؛ أَنَّہُ کَرِہَ أَنْ یَأْخُذَ مِنْہَا أَکْثَرَ مِمَّا أَعْطَاہَا۔
(١٨٨٤١) حضرت علی (رض) فرماتے ہیں کہ عورت سے خلع کرتے ہوئے مہر سے زیادہ معاوضہ لینا درست نہیں۔

18841

(۱۸۸۴۲) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ حُمَیْدٍ ، عَنْ رَجَائِ بْنِ حَیْوَۃَ ؛ أَنَّہُ سَأَلَہُ : کَیْفَ کَانَ الْحَسَنُ یَقُولُ فِی الْمُخْتَلِعَۃِ ؟ فَقَالَ : إنَّہُ کَانَ یَکْرَہُ أَنْ یَأْخُذَ مِنْہَا فَوْقَ مَا أَعْطَاہَا ، فَقَالَ رَجَائٌ : قَالَ قَبِیصَۃُ بْنُ ذُؤَیْبٍ : اقْرَاِ الآیَۃَ الَّتِی بَعْدَہَا : {فَإِنْ خِفْتُمْ أَنْ لاَّ یُقِیمَا حُدُودَ اللہِ فَلاَ جُنَاحَ عَلَیْہِمَا فِیمَا افْتَدَتْ بِہِ}۔
(١٨٨٤٢) حضرت رجاء بن حیوہ (رض) سے سوال کیا گیا کہ حضرت حسن (رض) خلع یافتہ کے بارے میں کیا فرمایا کرتے تھے، انھوں نے فرمایا کہ وہ اس بات کو مکروہ خیال فرماتے تھے کہ مہر سے زیادہ معاوضہ خلع لے۔ حضرت رجائ (رض) نے فرمایا کہ کہ قبیصہ بن ذؤیب (رض) فرماتے ہیں کہ اس کے بعد والی آیت پڑھو جس میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں (ترجمہ) اگر تمہیں خوف ہو کہ وہ دونوں اللہ کی حدود پر قائم نہیں رہ سکیں گے تو دونوں پر اس بات میں کوئی حرج نہیں کہ عورت کچھ فدیہ دے دے۔

18842

(۱۸۸۴۳) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنْ کَثِیرٍ ، مَوْلَی ابْنِ سَمُرَۃَ ؛ أَنَّ عُمَرَ أُتِیَ بِامْرَأَۃٍ نَاشِزٍ ، فَأَمَرَ بِہَا إلَی بَیْتٍ کَثِیرِ الزِّبْلِ ثَلاَثَاً ، ثُمَّ دَعَاہَا ، فَقَالَ : کَیْفَ وَجَدْتِ ؟ فَقَالَتْ : مَا وَجَدْتُ رَاحَۃً مُذْ کُنْتُ عِنْدَہُ ، إلاَّ ہَذِہِ اللَّیَالِیَ الَّتِی حُبِسْتُہَا ، قَالَ : اخْلَعْہَا وَلَوْ مِنْ قُرْطِہَا۔
(١٨٨٤٣) حضرت کثیر (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) کے پاس خاوند کی نافرمان ایک عورت لائی گئی، آپ نے اسے تین دن کے لیے بند کروا دیا، پھر اسے بلایا اور اس سے پوچھا کہ تم نے کیسا محسوس کیا ؟ اس نے کہا جب سے میری اس شخص سے شادی ہوئی ہے اس کے بعد سے لے کر اب تک مجھے صرف انہی دنوں میں راحت ملی ہے جن دنوں میں میں یہاں قید رہی ہوں، آپ نے اس کے خاوند سے فرمایا کہ اسے چھوڑ دو خواہ اس کے کان کی ایک بالی کے بدلے ہی کیوں نہ ہو۔

18843

(۱۸۸۴۴) حَدَّثَنَا عَفَّانُ بْنُ مُسْلِمٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا ہَمَّامٌ ، قَالَ : حَدَّثَنَا مَطَرٌ ، عَنْ ثَابِتٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ رَبَاحٍ ؛ أَنَّ عُمَرَ قَالَ : اخْلَعْہَا بِمَا دُونَ عِقَاصِہَا۔
(١٨٨٤٤) حضرت عمر (رض) فرماتے ہیں کہ عورت سے خلع کرلو خواہ اس کے بال باندھنے والے کپڑے سے کم چیز کے عوض ہی کیوں نہ ہو۔

18844

(۱۸۸۴۵) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ ، عَنْ نَافِعٍ ؛ أَنَّ مَوْلاَۃً لِصَفِیَّۃَ بِنْتِ أَبِی عُبَیْدٍ اخْتَلَعَتْ مِنْ زَوْجِہَا بِکُلِّ شَیْئٍ لَہَا ، حَتَّی اخْتَلَعَتْ بِبَعْضِ ثِیَابِہَا ، فَبَلَغَ ذَلِکَ ابْنَ عُمَرَ فَلَمْ یُنْکِرْہُ۔
(١٨٨٤٥) حضرت نافع (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت صفیہ بنت ابی عبید (رض) کی ایک مولاہ خاتون نے اپنے خاوند سے اپنی تمام چیزوں حتیٰ کہ اپنے بعض کپڑوں کے بدلے خلع لی، اور جب یہ بات حضرت ابن عمر (رض) کو معلوم ہوئی تو آپ نے اس سے منع نہ فرمایا۔

18845

(۱۸۸۴۶) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنْ عِکْرِمَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : تَخْتَلِعُ حَتَّی بِعِقَاصِہَا۔
(١٨٨٤٦) حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ عورت مرد سے خلع لے سکتی ہے خواہ بال باندھنے کا کپڑا تک دینا پڑے۔

18846

(۱۸۸۴۷) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنِ ابْنِ أَبِی نَجِیحٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ؛ مِثْلَہُ۔
(١٨٨٤٧) حضرت مجاہد (رض) سے بھی یونہی منقول ہے۔

18847

(۱۸۸۴۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنِ الْحَکَمِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : یَأْخُذُ مِنْہَا حَتَّی عِقَاصِہَا۔
(١٨٨٤٨) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ خاوند خلع کے عوض عورت سے ہر چیز حتی کہ اس کے بال باندھنے کا کپڑا بھی لے سکتا ہے۔

18848

(۱۸۸۴۹) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ ہَاشِمٍ ، عَنْ جُوَیْبِرٍ ، عَنِ الضَّحَّاکِ ، قَالَ : لاَ بَأْسَ أَنْ تَخْتَلِعَ الْمَرْأَۃُ مِنْ زَوْجِہَا ، وَإِنْ کَانَ أَکْثَرَ مِمَّا أَعْطَاہَا۔
(١٨٨٤٩) حضرت ضحاک (رض) فرماتے ہیں کہ اگر آدمی مہر سے زیادہ عوض لے کر بھی خلع کرے تو درست ہے۔

18849

(۱۸۸۵۰) حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ؛ فِی رَجُلٍ بَانَتْ مِنْہُ امْرَأَتُہُ بِخُلْعٍ ، أَوْ إیلاَئٍ ، فَتَزَوَّجَہَا ، ثُمَّ طَلَّقَہَا قَبْلَ أَنْ یَدْخُلَ بِہَا ، قَالَ : لَہَا الصَّدَاقُ کَامِلاً۔
(١٨٨٥٠) حضرت ابراہیم (رض) سے سوال کیا گیا کہ اگر ایک عورت اپنے خاوند سے خلع یا ایلاء کے ذریعے جدا ہوئی، پھر آدمی نے اسی عورت سے شادی کی اور دخول سے پہلے اسے طلاق دے دی تو کیا حکم ہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ عورت کو پورا مہر ملے گا۔

18850

(۱۸۸۵۱) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ زَکَرِیَّا بْنِ أَبِی زَائِدَۃَ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ ، وَأَشْعَثَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ؛ فِی الرَّجُلِ یُطَلِّقُ امْرَأَتَہُ تَطْلِیقَۃً بَائِنَۃً ، ثُمَّ یَتَزَوَّجُہَا فِی عِدَّتِہَا ، ثُمَّ یُطَلِّقُہَا قَبْلَ أَنْ یَدْخُلَ بِہَا ، قَالَ : لَہَا الصَّدَاقُ ، وَعَلَیْہَا عِدَّۃٌ مُسْتَقْبَلَۃٌ۔
(١٨٨٥١) حضرت شعبی (رض) سے سوال کیا گیا کہ اگر ایک آدمی اپنی بیوی کو طلاق بائنہ دیتا ہے، پھر آدمی نے اسی عورت سے اس کی عدت میں شادی کی اور دخول سے پہلے اسے طلاق دے دی تو کیا حکم ہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ عورت کو پورا مہر ملے گا اور عورت پر پوری عدت لازم ہوگی۔

18851

(۱۸۸۵۲) حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِی زَائِدَۃَ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ؛ مِثْلَہُ ، وَقَالَ : وَہُوَ أَمْلَکُ بِرَجْعَتِہَا۔
(١٨٨٥٢) حضرت ابراہیم (رض) سے یونہی منقول ہے اور وہ فرماتے ہیں کہ وہ اس سے رجوع کرنے کا زیادہ حق دار ہے۔

18852

(۱۸۸۵۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنِ الْحَکَمِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ؛ لَہَا الصَّدَاقُ کَامِلاً ، وَعَلَیْہَا الْعِدَّۃُ کَامِلَۃً۔
(١٨٨٥٣) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ اسے پورا مہر ملے گا اور عورت پر پوری عدت لازم ہوگی۔

18853

(۱۸۸۵۴) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِی ہِنْدٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ؛ فِی الْمَرْأَۃِ تَبِینُ مِنْ زَوْجِہَا بِتَطْلِیقَۃٍ ، أَوْ تَطْلِیقَتَیْنِ ، ثُمَّ یَتَزَوَّجُہَا ، ثُمَّ یُطَلِّقُہَا قَبْلَ أَنْ یَدْخُلَ بِہَا ، قَالَ : لَہَا نِصْفُ الصَّدَاقِ۔
(١٨٨٥٤) حضرت شعبی (رض) فرماتے ہیں کہ اگر ایک عورت اپنے خاوند سے ایک یا دو طلاقوں کے ذریعہ بائنہ ہوئی اور پھر آدمی نے اسی عورت سے شادی کرلی اور پھر اسے طلاق دے دی اور دخول نہ کیا تو عورت کو آدھا مہر ملے گا۔

18854

(۱۸۸۵۵) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ ؛ سُئِلَ عَنْ رَجُلٍ آلَی مِنِ امْرَأَتِہِ فَبَانَتْ مِنْہُ ، ثُمَّ تَزَوَّجَہَا فِی عِدَّتِہَا ، ثُمَّ طَلَّقَہَا قَبْلَ أَنْ یَدْخُلَ بِہَا ؟ قَالَ : لَہَا نِصْفُ الصَّدَاقِ ، وَلَیْسَ عَلَیْہَا عِدَّۃٌ۔
(١٨٨٥٥) حضرت حسن (رض) سے سوال کیا گیا کہ اگر ایک آدمی نے اپنی بیوی سے ایلاء کیا ، وہ اس سے جدا ہوئی اور اس نے اس کی عدت میں اس نے نکاح کیا اور دخول سے پہلے اسے طلاق دے دی تو کیا حکم ہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ عورت کو آدھا مہر ملے گا اور اس پر عدت نہیں ہوگی۔

18855

(۱۸۸۵۶) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ، وَمُحَمَّدُ بْنُ سَوَائٍ ، عَنِ ابْنِ أَبِی عَرُوبَۃَ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ ، وَالْحَسَنِ، قَالاَ : إذَا خَلَعَہَا ثُمَّ تَزَوَّجَہَا فِی عِدَّتِہَا ، ثُمَّ طَلَّقَہَا قَبْلَ أَنْ یَدْخُلَ بِہَا ، فَلَہَا نِصْفُ الصَّدَاقِ ، وَتُکْمِلُ مَا بَقِیَ عَلَیْہَا مِنَ الْعِدَّۃِ۔
(١٨٨٥٦) حضرت عکرمہ (رض) اور حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ اگر ایک آدمی نے اپنی بیوی سے خلع کیا اور پھر عدت میں اس سے شادی کرلی اور پھر دخول سے پہلے اسے طلاق دے دی تو عورت کو پورا مہر ملے گا اور عورت باقی عدت کو مکمل کرے گی۔

18856

(۱۸۸۵۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ حَسَنٍ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ طَاوُوسٍ ، قَالَ : لَہَا نِصْفُ الصَّدَاقِ۔
(١٨٨٥٧) حضرت طاؤس (رض) فرماتے ہیں کہ اسے آدھا مہر ملے گا۔

18857

(۱۸۸۵۸) حَدَّثَنَا کَثِیرُ بْنُ ہِشَامٍ ، عَنْ جَعْفَرٍ ، عَنْ مَیْمُونٍ ؛ فِی الْمُخْتَلِعَۃِ إذَا قَبِلَ مِنْہَا زَوْجُہَا الْفِدْیَۃَ ، ثُمَّ خَطَبَہَا بَعْدَ ذَلِکَ ، قَالَ : یَتَزَوَّجُہَا وَیُسَمِّی لَہَا صَدَاقًا ، فَإِنْ طَلَّقَہَا قَبْلَ أَنْ یَدْخُلَ بِہَا ، فَلَہَا نِصْفُ الصَّدَاقِ ، قَالَ جَعْفَرٌ : وَکَانَ غَیْرُ مَیْمُونٍ یَقُولُ : لَہَا الصَّدَاقُ کَامِلاً۔
(١٨٨٥٨) حضرت میمون (رض) فرماتے ہیں کہ اگر ایک آدمی نے بیوی سے خلع کا فدیہ لے لیا پھر اسے نکاح کا پیغام بھجوایا اور اس سے شادی کی اور مہر مقرر کیا پھر دخول سے پہلے اسے طلاق دے دی تو عورت کو آدھا مہر ملے گا۔ حضرت جعفر (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت میمون (رض) کے علاوہ دوسرے حضرات فرماتے ہیں کہ اسے آدھا مہر ملے گا۔

18858

(۱۸۸۵۹) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنِ الْحَارِثِ الْعُکْلِیِّ ؛ أَنَّہُ قَالَ : إذَا اخْتَلَعَتِ الْمَرْأَۃُ مِنْ زَوْجِہَا وَہُوَ مَرِیضٌ ، ثُمَّ مَاتَ فِی الْعِدَّۃِ ، فَلاَ مِیرَاثَ لَہَا۔
(١٨٨٥٩) حضرت حارث عکلی (رض) فرماتے ہیں کہ اگر ایک عورت نے خاوند کے مرض الموت میں اس سے خلع لی اور پھر وہ عدت میں مرگیا تو عورت کو میراث نہیں ملے گی۔

18859

(۱۸۸۶۰) حدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سَالِمٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ؛ مِثْلُ ذَلِک۔
(١٨٨٦٠) حضرت شعبی (رض) سے بھی یونہی منقول ہے۔

18860

(۱۸۸۶۱) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ الْحُبَابِ، عَنِ ابْنِ لَہِیعَۃَ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ رَبِیعَۃَ الْقُرَشِیِّ، عَنْ تَوْبَۃَ بْنِ نَمِرٍ، عَنْ سِمَاک ابْنِ عِمْرَانَ ؛ أَنَّ عَبْدَ الْمَلِکَ سَأَلَ قَبِیصَۃَ عَنِ الْمُخْتَلِعَۃِ یَتَوَارِثَانِ؟ قَالَ: لاَ، ِلأَنَّہَا افْتَدَتْ بِمَالِہَا طَیِّبۃً بِہِ نَفْسُہَا۔
(١٨٨٦١) حضرت سماک بن عمران (رض) کہتے ہیں کہ عبد الملک نے قبیصہ (رض) سے سوال کیا کہ خلع کرنے والے میاں بیوی ایک دوسرے کے وارث ہوں گے ؟ انھوں نے فرمایا کہ نہیں کیونکہ عورت نے اپنی خوشی سے اسے اپنے مال کا فدیہ دیا ہے۔

18861

(۱۸۸۶۲) حَدَّثَنَا ابْنُ مُبَارَکٍ ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنْ عَطَائٍ الْخُرَاسَانِیِّ ، عَنْ أَبِی سَلَمَۃَ ؛ أَنَّ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ ، وَزَیْدَ بْنَ ثَابِتٍ قَالاَ فِی الإِیلاَئِ : إذَا مَضَتْ أَرْبَعَۃُ أَشْہُرٍ فَہِیَ تَطْلِیقَۃٌ ، وَہِیَ أَمْلَکُ بِنَفْسِہَا۔
(١٨٨٦٢) حضرت عثمان بن عفان (رض) اور حضرت زید بن ثابت (رض) ایلاء کے بارے میں فرماتے ہیں کہ جب چار مہینے گذر جائیں تو یہ ایک طلاق ہے اور اس کے بعد عورت اپنے نفس کی زیادہ حق دار ہے۔

18862

(۱۸۸۶۳) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنْ أَبِی قِلاَبَۃَ ؛ أَنَّ النُّعْمَانَ بْنَ بَشِیرٍ آلَی مِنَ امْرَأَتِہِ ، فَقَالَ ابْنُ مَسْعُودٍ : إذَا مَضَتْ أَرْبَعَۃُ أَشْہُرٍ فَقَدْ بَانَتْ مِنْہُ بِتَطْلِیقَۃٍ۔
(١٨٨٦٣) حضرت نعمان بن بشیر (رض) نے اپنی بیوی سے ایلاء کیا تو حضرت ابن مسعود (رض) نے فرمایا کہ جب چار مہینے گذر گئے تو عورت ایک طلاق کے ساتھ بائنہ ہوگئی۔

18863

(۱۸۸۶۴) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، عَن عَبْدِ اللہِ قَالَ : إذَا آلَی ، فَمَضَتْ أَرْبَعَۃُ أَشْہُرٍ فَقَدْ بَانَتْ مِنْہُ بِتَطْلِیقَۃٍ۔
(١٨٨٦٤) حضرت عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ جب آدمی نے ایلاء کیا اور چار مہینے گذر گئے تو عورت ایک طلاق کے ساتھ بائنہ ہوگئی۔

18864

(۱۸۸۶۵) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِِ ، عَنْ حَبِیبٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، وَابْنِ عَبَّاسٍ قَالاَ : إذَا آلَی فَلَمْ یَفِیئْ حَتَّی تَمْضِیَ الأَرْبَعَۃُ الأَشْہُرُ فَہِیَ تَطْلِیقَۃٌ بَائِنَۃٌ۔
(١٨٨٦٥) حضرت ابن عمر اور حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ جب عورت نے مرد کے ساتھ ایلاء کیا اور ایفاء نہ کیا اور چار مہینے گذر گئے تو عورت کو ایک طلاق بائنہ ہوگئی۔

18865

(۱۸۸۶۶) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنِ الأَعْمَشِِ ، عَنْ حَبِیبٍ قَالَ : سَأَلْتُ سَعِیدًا أَمِیرَ مَکَّۃَ عَنِ الإِیلاَئِ ؟ فَقَالَ : کَانَ ابْنُ عَبَّاسٍ یَقُولُ : إذَا مَضَتْ أَرَبَعَۃُ أَشْہُرٍ مَلَکَتْ أَمْرَہَا ، وَکَانَ ابْنُ عُمَرَ یَقُولُ ذَلِکَ۔
(١٨٨٦٦) حضرت حبیب (رض) کہتے ہیں کہ امیر مکہ نے حضرت سعید (رض) سے ایلاء کے بارے میں سوال کیا تو انھوں نے فرمایا کہ حضرت ابن عباس (رض) فرمایا کرتے تھے کہ جب چار مہینے گذر جائیں تو عورت اپنے معاملہ کی مالک ہوجاتی ہے اور حضرت ابن عمر (رض) بھی یہی فرمایا کرتے تھے۔

18866

(۱۸۸۶۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنِ الْحَکَمِ ، عَنْ مِقْسَمٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : عَزِیمَۃُ الطَّلاَقِ انْقِضَائُ الأَرْبَعَۃِ الأَشْہُرِ ، وَالْفَیْئُ الْجِمَاعُ۔ (بیہقی ۳۷۹)
(١٨٨٦٧) حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ طلاق کی عزیمت چار مہینوں کا گذر جانا ہے۔

18867

(۱۸۸۶۸) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، وَیَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، عَنْ عَلِیٍّ قَالَ : إذَا مَضَتْ أَرْبَعَۃُ أَشْہُرٍ فَہِیَ تَطْلِیقَۃٌ بَائِنَۃٌ۔
(١٨٨٦٨) حضرت علی (رض) فرماتے ہیں کہ جب چار مہینے گذر جائیں تو یہ ایک طلاق بائنہ ہے۔

18868

(۱۸۸۶۹) حَدَّثَنَا عَبْدُالأَعْلَی، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ الزُّہْرِیِّ، عَنْ قَبِیصَۃَ قَالَ: إذَا مَضَتْ أَرْبَعَۃُ أَشْہُرٍ فَہِیَ تَطْلِیقَۃٌ بَائِنَۃٌ۔
(١٨٨٦٩) حضرت قبیصہ (رض) فرماتے ہیں کہ جب چار مہینے گذر جائیں تو یہ ایک طلاق بائنہ ہے۔

18869

(۱۸۸۷۰) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنِ الْحَکَمِ ، عَنْ مِقْسَمٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ (ح) وَعَنِ سَالِم ، عَن ابْنِ الْحَنَفِیَّۃِ ، قَالاَ : إذَا مَضَتْ أَرْبَعَۃُ أَشْہُرٍ فَہِیَ تَطْلِیقَۃٌ بَائِنَۃٌ۔
(١٨٨٧٠) حضرت ابن عباس (رض) اور حضرت ابن حنفیہ (رض) فرماتے ہیں کہ جب چار مہینے گذر جائیں تو یہ ایک طلاق بائنہ ہے۔

18870

(۱۸۸۷۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ بْنِ أَبِی خَالِدٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالَ : إذَا مَضَتْ أَرْبَعَۃُ أَشْہُرٍ فَہِیَ تَطْلِیقَۃٌ بَائِنَۃٌ، وَہِیَ أَمْلَکُ بِنَفْسِہَا۔
(١٨٨٧١) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ جب چار مہینے گذر جائیں تو یہ ایک طلاق بائنہ ہے، اور وہ مرد اس سے رجوع کرنے کا زیادہ حقد ار ہے۔

18871

(۱۸۸۷۲) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ مُجَالِدٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنْ مَسْرُوقٍ قَالَ : إذَا مَضَتْ أَرْبَعَۃُ أَشْہُرٍ فِی الإِیلاَئِ کَانَتْ تَطْلِیقَۃً بَائِنَۃً ، فَأَخْبَرْتُ شُرَیْحًا بِقَوْلِ مَسْرُوقٍ ، فَقَالَ بِہِ۔
(١٨٨٧٢) حضرت مسروق (رض) فرماتے ہیں کہ جب ایلاء کہ چار مہینے گذر جائیں تو یہ ایک طلاق بائنہ ہے، حضرت شریح (رض) کو جب حضرت مسروق (رض) کے اس قول کی خبر دی گئی تو انھوں نے کہا کہ یہی درست ہے۔

18872

(۱۸۸۷۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ یَزِیدَ بْنِ إبْرَاہِیمَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، وَابْنِ سِیرِینَ قَالاَ : إذَا مَضَتْ أَرْبَعَۃُ أَشْہُرٍ فَہِیَ تَطْلِیقَۃٌ بَائِنَۃٌ۔
(١٨٨٧٣) حضرت حسن (رض) اور حضرت ابن سیرین (رض) فرماتے ہیں کہ جب چار مہینے گذر جائیں تو یہ ایک طلاق بائنہ ہے۔

18873

(۱۸۸۷۴) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ مَالِکِ بْنِ أَنَسٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ، وَأَبِی بَکْرِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ ہِشَامٍ ، قَالاَ : إذَا مَضَتْ أَرْبَعَۃُ أَشْہُرٍ فِی الإِیلاَئِ فَہِیَ تَطْلِیقَۃٌ ، وَہُوَ أَحَقُّ بِرَجْعَتِہَا۔
(١٨٨٧٤) حضرت سعید بن مسیب (رض) اور حضرت ابوبکر بن عبدالرحمن (رض) فرماتے ہیں کہ جب ایلاء میں چار مہینے گذر جائیں تو یہ ایک طلاق بائنہ ہے، اور وہ مرد عورت سے رجوع کرنے کا زیادہ حقدار ہے۔

18874

(۱۸۸۷۵) حَدَّثَنَا ابْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ بْنِ أُمَیَّۃَ ، عَنْ مَکْحُولٍ قَالَ : إذَا مَضَتْ أَرْبَعَۃُ أَشْہُرٍ فَہِیَ وَاحِدَۃٌ ، وَہُوَ أَمْلَکُ بِہَا۔
(١٨٨٧٥) حضرت مکحول (رض) فرماتے ہیں کہ جب چار مہینے گذر جائیں تو یہ ایک طلاق بائنہ ہے، اور وہ مرد عورت سے رجوع کرنے کا زیادہ حقدار ہے۔

18875

(۱۸۸۷۶) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، عَنْ عَلْقَمَۃَ قَالَ : آلَی ابْنُ أَنَسٍ مِنَ امْرَأَتِہِ ، فَلَبِثَتْ سِتَّۃَ أَشْہُرٍ ، فَبَیْنَمَا ہُوَ جَالِسٌ فِی الْمَجْلِسِ إذْ ذکر ، فَأَتَی ابْنُ مَسْعُودٍ فَقَالَ : أَعْلِمْہَا أَنَّہَا قَدْ مَلَکَتْ أَمْرَہَا ، فَأَتَاہَا فَأَخْبَرَہَا ، فَقَالَتْ : فَأَنَا أَہْلُکَ ، وَأَصْدَقَہَا رِطْلاً۔
(١٨٨٧٦) حضرت علقمہ (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت انس (رض) کی اولاد میں ایک آدمی نے اپنی بیوی سے ایلاء کیا، وہ عورت چھ مہینے تک ٹھہری رہی، ایک مرتبہ وہ آدمی ایک مجلس میں بیٹھا تھا کہ اسے ایلاء یاد آگیا، وہ حضرت ابن مسعود (رض) کے پاس گیا اور ان سے سوال کیا تو انھوں نے فرمایا کہ اس عورت کو بتادو کہ وہ اپنے معاملے کی خود مالک بن گئی ہے، وہ آدمی اس کے پاس آیا اور اسے خبر دی، اس عورت نے کہا کہ میں تیری ہی بیوی ہوں اور آدمی نے اس عورت کو ایک رطل مہر دیا۔

18876

(۱۸۸۷۷) حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ ، عَنْ جَرِیرٍ ، قَالَ : قرَأْتُ فِی کِتَابِ أَبِی قِلاَبَۃَ عِنْدَ أَیُّوبَ : سَأَلْتُ أَبَا سَلَمَۃَ ، وَسَالِمًا عَنِ الإِیلاَئِ ؟ فَقَالاَ : إذَا مَضَتْ أَرْبَعَۃُ أَشْہُرٍ فَہِیَ تَطْلِیقَۃٌ۔
(١٨٨٧٧) حضرت جریر (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ایوب (رض) کے پاس موجود حضرت ابوقلابہ (رض) کے خط میں پڑھا ہے کہ میں نے حضرت ابوسلمہ (رض) اور حضرت سالم (رض) سے ایلاء کے بارے میں سوال کیا تو انھوں نے فرمایا کہ جب چار مہینے گذر جائیں تو ایک طلاق بائنہ ہوجاتی ہے۔

18877

(۱۸۸۷۸) حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ ، عَنْ جَرِیرِ بْنِ حَازِمٍ ، عَنْ قَیْسِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ عَطَائٍ قَالَ : إذَا مَضَتْ أَرْبَعَۃُ أَشْہُرٍ فَہِیَ تَطْلِیقَۃٌ بَائِنَۃٌ ، وَیَخْطُبُہَا زَوْجُہَا فِی عِدَّتِہَا ، وَلاَ یَخْطُبُہَا غَیْرُہُ۔
(١٨٨٧٨) حضرت عطائ (رض) فرماتے ہیں کہ جب چار مہینے گذر جائیں تو یہ ایک طلاق بائنہ ہے، عدت میں اس کا خاوند اس عورت کو پیام نکاح بھجواسکتا ہے کوئی اور نہیں بھجوا سکتا۔

18878

(۱۸۸۷۹) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنِ الشَّیْبَانِیِّ ، عَنْ الشَّعْبِیِّ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ سَلِمَۃَ بْنِ حَرْبٍ ؛ أَنَّ عَلِیًّا کَانَ یُوقِفُہُ بَعْدَ الأَرْبَعَۃِ حَتَّی یُبَیِّنَ رَجْعَۃً ، أَوْ طَلاَقًا۔
(١٨٨٧٩) حضرت عمرو بن سلمہ بن حرب (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت علی (رض) چار مہینے گذرنے کے بعد ایلاء کے حکم کو مُولِی پر موقوف رکھتے تھے کہ وہ خود بیان کرے کہ رجوع ہے یا طلاق ہے۔

18879

(۱۸۸۸۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنِ الشَّیْبَانِیِّ ، عَنْ بُکَیْرِ بْنِ الأَخْنَسِ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِی لَیْلَی ؛ أَنَّ عَلِیًّا أَوْقَفَہُ۔
(١٨٨٨٠) حضرت عبد الرحمن بن ابن ابی لیلیٰ (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت علی (رض) نے ایلاء کے حکم کو مُولِی پر موقوف قرار دیا۔

18880

(۱۸۸۸۱) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ؛ عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، عَنْ مَرْوَانَ ، عَنْ عَلِیٍّ ، قَالَ : یُوقَفُ عِنْدَ الأَرْبَعَۃِ حَتَّی یُبَیِّنَ طَلاَقًا ، أَوْ رَجْعَۃً۔
(١٨٨٨١) حضرت مروان (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت علی (رض) چار مہینے گذرنے کے بعد ایلاء کے حکم کو مُولِی پر موقوف رکھتے تھے کہ وہ خود بیان کرے کہ رجوع ہے یا طلاق ہے۔

18881

(۱۸۸۸۲) حَدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، عَنْ مَرْوَانَ ، عَنْ عَلِیٍّ قَالَ : أَمَّا أَنَا فَکُنْتُ أُوقِفُہُ بَعْدَ الأَرْبَعَۃِ ، فَإِمَّا أَنْ یَفِیئَ ، وَإِمَّا أَنْ یُطَلِّقَ ، وَقَالَ مَرْوَانُ : لَوْ وُلِّیتُ لَفَعَلْتُ مِثْلَ مَا یَفْعَلُ۔
(١٨٨٨٢) حضرت علی (رض) فرماتے ہیں کہ میں حکم کو مُولِی پر موقوف رکھوں گا کہ وہ چاہے تو رجوع کرلے اور چاہے تو طلاق دے دے، مروان کہتے ہیں کہ اگر میرے پاس یہ معاملہ لایا جائے تو میں بھی یہی کروں گا۔

18882

(۱۸۸۸۳) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، وَوَکِیعٌ ، عَنْ مِسْعَرٍ ، عَنْ حَبِیبِ بْنِ أَبِی ثَابِتٍ ، عَنْ طَاوُوسٍ ، عَنْ عُثْمَانَ ؛ أَنَّہُ کَانَ یَقُولُ بِقَوْلِ أَہْلِ الْمَدِینَۃِ : یُوقَفُ۔
(١٨٨٨٣) حضرت عثمان (رض) اہلِ مدینہ سے فرمایا کرتے تھے کہ حکم مُولِی پر موقوف ہوگا۔

18883

(۱۸۸۸۴) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ یَسَارٍ ؛ أَنَّ مَرْوَانَ أَوْقَفَہُ بَعْدَ سِتَّۃَ أَشْہُرٍ۔
(١٨٨٨٤) حضرت سلیمان بن یسار (رض) فرماتے ہیں کہ مروان نے ایلاء کے حکم کو چھ مہینے بعد مُوْلِی کے فیصلے پر موقوف رکھا۔

18884

(۱۸۸۸۵) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ، عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ یَسَارٍ ، عَنْ بِضْعَۃَ عَشَرَ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالُوا : یُوقَفُ۔
(١٨٨٨٥) حضرت سلیمان بن یسار (رض) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کچھ صحابہ سے نقل کرتے ہیں کہ حکم کو مُوْلِی پر موقوف رکھا جائے گا۔

18885

(۱۸۸۸۶) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ قَالَ : سَأَلْتُ ابْنَ عُمَرَ عَنِ الإِیلاَئِ ؟ فَقَالَ : الأُمَرَائُ یَقْضُونَ فِی ذَلِکَ۔
(١٨٨٨٦) حضرت سعید بن جبیر (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عمر (رض) سے ایلاء کے بارے میں سوال کیا تو انھوں نے فرمایا کہ اس میں امراء فیصلہ کریں گے۔

18886

(۱۸۸۸۷) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ، عَنِ ابْنِ أَبِی نَجِیحٍ، عَنْ مُجَاہِدٍ (ح) وَعَنِ ابْنِ طَاوُوسٍ عَنْ أَبِیہِ، قالُوا: فِی الإِیلاَئِ یُوقَفُ۔
(١٨٨٨٧) حضرت مجاہد (رض) اور حضرت طاؤس (رض) فرماتے ہیں کہ ایلاء میں فیصلہ مُوْلِی پر موقوف ہوگا۔

18887

(۱۸۸۸۸) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ الثَّقَفِیُّ ، عَنْ دَاوُدَ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِیزِ ؛ فِی الْمُوْلِی : یُوقَفُ۔
(١٨٨٨٨) حضرت عمر بن عبد العزیز (رض) فرماتے ہیں کہ ایلاء میں فیصلہ مُوْلِی پر موقوف ہوگا۔

18888

(۱۸۸۸۹) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ : لاَ یَحِلُّ لَہُ أَنْ یَفْعَلَ إلاَّ مَا أَمَرَہُ اللَّہُ ، إمَّا أَنْ یَفِیئَ ، وَإِمَّا أَنْ یَعْزِمَ۔
(١٨٨٨٩) حضرت ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ اس کے لیے صرف وہی کرنا حلال ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ چاہے تو رجوع کرلے اور چاہے تو طلاق دے دے۔

18889

(۱۸۸۹۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ حَسَنِ بْنِ فُرَاتٍ ، عَنِ ابْنِ أَبِی مُلَیْکَۃَ ، قَالَ : سَمِعْتُ عَائِشَۃَ تَقُولُ : یُوقَفُ الْمُوْلِی۔
(١٨٨٩٠) حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ ایلاء میں فیصلہ مُوْلِی پر موقوف ہوگا۔

18890

(۱۸۸۹۱) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ قَالَ : إذَا آلَی الرَّجُلُ مِنِ امْرَأَتِہِ وُقِفَ قَبْلَ أَنْ تَمْضِیَ الأَرْبَعَۃُ الأَشْہُرِ فَیُقَالُ لَہُ : اتَّقِ اللَّہَ فَإِمَّا أَنْ یَفِیئَ ، وَإِمَّا أَنْ تُطَلِّقَ طَلاَقًا یُعْرَفُ۔
(١٨٨٩١) حضرت شعبی (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی سے ایلاء کرے تو چار مہینے گذرنے سے پہلے اس سے کہا جائے گا کہ اللہ سے ڈرو یا تو رجوع کرلو اور چاہو تو طلاق دے دو ۔

18891

(۱۸۸۹۲) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، بِنَحْوِہِ۔
(١٨٨٩٢) حضرت ابراہیم (رض) سے بھی یونہی منقول ہے۔

18892

(۱۸۸۹۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ الأَعْمَشِِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالَ : یُوقَفُ الْمُوْلِی عِنْدَ انْقِضَائِ الأَرْبَعَۃِ ، فَإِنْ فَائَ فَہِیَ امْرَأَتُہُ ، وَإِنْ لَمْ یَفِیئْ فَہِیَ تَطْلِیقَۃٌ بَائِنَۃٌ۔
(١٨٨٩٣) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ چار مہینے گذرنے کے بعد مُوْلِی سے تفتیش کی جائے گی کہ اگر رجوع کرلے تو یہ اسی کی بیوی رہے گی اور اگر رجو ع نہ کرے تو یہ ایک طلاق بائنہ ہوگی۔

18893

(۱۸۸۹۴) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ دَاوُدَ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ قَالَ : إذَا مَضَتْ أَرْبَعَۃُ أَشْہُرٍ فَإِمَّا أَنْ یَفِیئَ ، وَإِمَّا أَنْ یُطَلِّقَ۔
(١٨٨٩٤) حضرت سعید بن مسیب (رض) فرماتے ہیں کہ جب چار مہینے گذر جائیں تو چاہے تو رجوع کرلے اور چاہے تو طلاق دے دے۔

18894

(۱۸۸۹۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ فِطَرٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ کَعْبٍ قَالَ : الإِیلاَئُ لَیْسَ بِشَیْئٍ ، یُوقَفُ۔
(١٨٨٩٥) حضرت محمد بن کعب (رض) فرماتے ہیں کہ ایلاء کوئی چیز نہیں، فیصلہ مُوْلِی پر موقوف ہوگا۔

18895

(۱۸۸۹۶) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ حَنْظَلَۃَ ، قَالَ : سَمِعْتُ الْقَاسِمَ بْنَ مُحَمَّدٍ وَسُئِلَ عَنِ الإِیلاَئِ ؟ قَالَ : یُوقَفُ فَیُقَالُ لِلَّذِی یَسْأَلُہُ : ہَلْ طَلَّقْتَ ؟ قَالَ : لاَ ، وَلَکِنْ یَدْعُو الإِمَامُ فَإِمَّا أَنْ یَفِیئَ ، وَإِمَّا أَنْ یُفَارِقَ۔
(١٨٨٩٦) حضرت حنظلہ (رض) کہتے ہیں کہ حضرت قاسم بن محمد (رض) سے ایلاء کے بارے میں سوال کیا گیا کہ کیا ایلاء کا فیصلہ مُوْلِی پر موقوف ہوگا کہ اس سے سوال کیا جائے گا ؟ انھوں نے فرمایا کہ نہیں، بلکہ امام بلائے گا اور پھر اس کے سامنے چاہے تو رجوع کرلے اور چاہے تو طلاق دے دے۔

18896

(۱۸۸۹۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُدَیْرٍ ، عَنْ أَبِی مِجْلِزٍ ؛ أَنَّہُ کَانَ لاَ یَجْعَلُ فِی الإِیلاَئِ طَلاَقًا۔
(١٨٨٩٧) حضرت ابو مجلز ایلاء کو طلاق نہیں سمجھتے تھے۔

18897

(۱۸۸۹۸) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ عَمْرٍو قَالَ : سَأَلْتُ سَعِیدَ بْنَ الْمُسَیَّبِ عَنِ الإِیلاَئِ ؟ فَقَالَ : لَیْسَ بِشَیْئٍ۔
(١٨٨٩٨) حضرت عمروکہتے ہیں کہ میں نے حضرت سعید بن مسیب (رض) سے ایلاء کے بارے میں سوال کیا تو انھوں نے فرمایا کہ یہ کوئی چیز نہیں۔

18898

(۱۸۸۹۹) حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ بْنُ مُوسَی ، عَنْ أَبَانَ الْعَطَّارِ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ، عَنْ أَبِی الدَّرْدَائِ قَالَ : الإِیلاَئُ مَعْصِیَۃٌ ، وَلاَ تَحْرُم عَلَیْہِ امْرَأَتَہُ۔
(١٨٨٩٩) حضرت ابو دردائ (رض) فرماتے ہیں کہ ایلاء ایک معصیت ہے اور اس سے بیوی حرام نہیں ہوتی۔

18899

(۱۸۹۰۰) حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ ، عَنْ جَرِیرِ بْنِ حَازِمٍ قَالَ : قرَأْتُ فِی کِتَابِ أَبِی قِلاَبَۃَ عِنْدَ أَیُّوبَ : سَأَلْتُ عُرْوَۃَ بْنَ الزُّبَیْرِ ، وَسَعِیدَ بْنَ الْمُسَیَّبِ ؟ فَقَالاَ : مَعْصِیَۃٌ ، وَلَیْسَ بِطَلاَقٍ۔
(١٨٩٠٠) حضرت عروہ بن زبیر (رض) اور حضرت سعید بن مسیب (رض) فرماتے ہیں کہ ایلاء معصیت ہے طلاق نہیں ہے۔

18900

(۱۸۹۰۱) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنِ الْحَکَمِ ، عَنْ مِقْسَمٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ (ح) وَعَنْ سَالِمٍ ، عَنِ ابْنِ الْحَنَفِیَّۃِ ، قَالاَ : إذَا مَضَتْ أَرْبَعَۃُ أَشْہُرٍ فِی الإِیلاَئِ فَہِیَ تَطْلِیقَۃٌ بَائِنَۃٌ ، وَعَلَیْہَا أَنْ تَعْتَدَّ ثَلاَثَۃَ قُرُوئٍ۔
(١٨٩٠١) حضرت ابن عباس (رض) اور حضرت ابن حنفیہ (رض) فرماتے ہیں کہ جب ایلاء میں چار مہینے گذر جائیں تو یہ ایک طلاق بائنہ ہے اور عورت پر تین حیض عدت گزارنا لازم ہوگا۔

18901

(۱۸۹۰۲) حَدَّثَنَا عَبْدُ السَّلاَمِ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ بَذِیمَۃَ ، عَنْ أَبِی عُبَیْدَۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ قَالَ : إذَا مَضَتْ أَرْبَعَۃُ أَشْہُرٍ فَہِیَ تَطْلِیقَۃٌ بَائِنٌ ، وَتَعْتَدُّ بَعْدَ ذَلِکَ ثَلاَثَ حِیَضٍ۔
(١٨٩٠٢) حضرت عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ جب ایلاء میں چار مہینے گذر جائیں تو یہ ایک طلاق بائنہ ہے اور عورت پر تین حیض عدت گزارنا لازم ہوگا۔

18902

(۱۸۹۰۳) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ الْحَسَنِ وَمُحَمَّدٍ قَالاَ : تَعْتَدُّ بَعْدَ أَرْبَعَۃِ أَشْہُرٍ عِدَّۃَ الْمُطَلَّقَۃِ۔
(١٨٩٠٣) حضرت حسن (رض) اور حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں کہ ایلاء کردہ عورت چار مہینے کے بعد مطلقہ والی عدت گزارے گی۔

18903

(۱۸۹۰۴) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنِ الْحَکَمِ وَحَمَّادٍ قَالاَ : إذَا آلَی الرَّجُلُ مِنِ امْرَأَتِہِ فَمَضَتْ أَرْبَعَۃُ أَشْہُرٍ ، فَإِنَّہَا تَعْتَدُّ بَعْدَ ذَلِکَ ثَلاَثَۃَ أَشْہُرٍ ، إذَا کَانَتْ لاَ تَحِیضُ۔
(١٨٩٠٤) حضرت حکم (رض) اور حضرت حماد (رض) فرماتے ہیں کہ جب ایک آدمی نے اپنی بیوی سے ایلاء کیا اور چار مہینے گذر گئے تو اگر اسے حیض نہ آتا ہو تو وہ تین مہینے عدت گزارے گی۔

18904

(۱۸۹۰۵) حَدَّثَنَا الثَّقَفِیُّ ، عَنْ بُرْدٍ ، عَنْ مَکْحُولٍ قَالَ : إذَا آلَی الرَّجُلُ مِنِ امْرَأَتِہِ فَمَضَتْ أَرْبَعَۃُ أَشْہُرٍ فَہِیَ تَطْلِیقَۃٌ ، وَتَسْتَقْبِلُ الْعِدَّۃَ۔
(١٨٩٠٥) حضرت مکحول (رض) فرماتے ہیں کہ جب ایک آدمی نے اپنی بیوی سے ایلاء کیا اور چار مہینے گذر گئے تو ایک طلاق ہوگئی اور وہ عدت نئے سرے سے گزارے گی۔

18905

(۱۸۹۰۶) حَدَّثَنَا سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنْ جَابِرِ بْنِ زَیْدٍ قَالَ : لَیْسَ عَلَیْہَا عِدَّۃٌ۔
(١٨٩٠٦) حضرت جابر بن زید (رض) فرماتے ہیں کہ اس پر عدت لازم نہیں ہے۔

18906

(۱۸۹۰۷) حَدَّثَنَا یَعْلَی بْنُ عُبَیْدَ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ ، عَنْ عَطَائٍ ؛ فِی رَجُلٍ آلَی مِنِ امْرَأَتِہِ حَتَّی مَضَتْ أَرْبَعَۃُ أَشْہُرٍ کَیْفَ تَعْتَدُّ ؟ قَالَ : تَعْتَدُّ ثَلاَثَۃَ قُرُوئٍ۔
(١٨٩٠٧) حضرت عطائ (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کسی شخص نے اپنی بیوی سے ایلاء کیا اور چار مہینے گذر گئے تو وہ تین حیض عدت کے گزارے گی۔

18907

(۱۸۹۰۸) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ عَامِرٍ الأَحْوَلِ ، عَنْ عَطَائٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ : إذَا آلَی مِنِ امْرَأَتِہِ شَہْرًا ، أَوْ شَہْرَیْنِ ، أَوْ ثَلاَثَۃً ، مَا لَمْ یَبْلُغِ الْحَدَّ فَلَیْسَ بِإِیلاَئٍ۔
(١٨٩٠٨) حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ جب ایک آدمی نے اپنی بیوی سے ایک مہینے، دو مہینے یا تین مہینے کا ایلاء کیا یعنی اتنا جو چار مہینے کی حد کو نہ پہنچے تو یہ ایلاء نہیں ہے۔

18908

(۱۸۹۰۹) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ ، عَنْ عَطَائٍ قَالَ : إذَا حَلَفَ عَلَی دُونِ الأَرْبَعَۃِ فَلَیْسَ بِإِیلاَئٍ۔
(١٨٩٠٩) حضرت عطائ (رض) فرماتے ہیں کہ جب چار مہینے سے کم بیوی سے دور رہنے کی قسم کھائی تو یہ ایلاء نہیں ہے۔

18909

(۱۸۹۱۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ طَاوُوسٍ ، وَعَنْ مُحَمَّدِ بْنِ زَیْدٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ قَالاَ : إذَا حَلَفَ عَلَی دُونِ الأَرْبَعَۃِ فَلَیْسَ بِإِیلاَئٍ۔
(١٨٩١٠) حضرت طاؤس (رض) اور حضرت سعید بن جبیر (رض) فرماتے ہیں کہ جب چار مہینے سے کم بیوی سے دور رہنے کی قسم کھائی تو یہ ایلاء نہیں ہے۔

18910

(۱۸۹۱۱) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ الْحُبَابِ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ؛ فِی رَجُلٍ حَلَفَ أَنْ لاَ یَقْرَبَ امْرَأَتَہُ ثَلاَثَۃَ أَشْہُرٍ ، فَتَرَکَہَا حَتَّی مَضَتْ أَرْبَعَۃُ أَشْہُرٍ ، قَالَ : لاَ یَکُونُ مُولِیًا۔
(١٨٩١١) حضرت شعبی (رض) فرماتے ہیں کہ اگر ایک آدمی نے قسم کھائی کہ وہ تین ماہ تک بیوی کے قریب نہیں جائے گا اور اسے چھوڑے رکھا اور چار مہینے گذر گئے تو یہ ایلاء نہیں ہوگا۔

18911

(۱۸۹۱۲) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ وَبَرَۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ؛ أَنَّ رَجُلاً آلَی مِنِ امْرَأَتِہِ عشرًا ، فَأَوْقَعَہُ عَلَیْہِ عَبْدُ اللہِ۔
(١٨٩١٢) حضرت عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ جس شخص نے دس دن کے لیے اپنی بیوی سے ایلاء کیا اس پر ایلاء کا حکم نافذ ہوگا۔

18912

(۱۸۹۱۳) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ الْحَسَنِ وَمُحَمَّدٍ قَالاَ : إذَا آلَی الرَّجُلُ مِنِ امْرَأَتِہِ شَہْرًا ، ثُمَّ تَرَکَہَا حَتَّی تَمْضِیَ أَرْبَعَۃُ أَشْہُرٍ ، إنَّہَا تَطْلِیقَۃٌ بَائِنَۃٌ
(١٨٩١٣) حضرت حسن (رض) اور حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں کہ اگر کسی شخص نے اپنی بیوی سے ایک مہینے تک کے لیے ایلاء کیا پھر چار مہینے گذر گئے تو ایک طلاق بائنہ پڑگئی۔

18913

(۱۸۹۱۴) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ حَمَّادٍ قَالَ : إذَا قَالَ الرَّجُلُ لامْرَأَتِہِ : وَاللَّہِ لاَ أَقْرَبُک الْیَوْمَ ، فَتَرَکَہَا أَرْبَعَۃَ أَشْہُرٍ فَہُوَ إیلاَئٌ۔
(١٨٩١٤) حضرت حماد (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کسی شخص نے اپنی بیوی سے کہا کہ خدا کی قسم ! میں آج تیرے قریب نہیں آؤں گا اور پھر چار مہینے تک اسے چھوڑے رکھا تو یہ ایلاء ہے۔

18914

(۱۸۹۱۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالَ : إذَا حَلَفَ عَلَی دُونِ أَرْبَعَۃٍ فَہُوَ مُولٍ۔
(١٨٩١٥) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ اگر چار مہینے سے کم کی قسم کھائی تو بھی ایلاء ہوگیا۔

18915

(۱۸۹۱۶) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ الْحُبَابِ ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَۃَ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنِ الْحَکَمِ ؛ فِی الرَّجُلِ یَحْلِفُ أَنْ لاَ یَقْرَبَ امْرَأَتَہُ شَہْرًا قَالَ : ہُوَ مُولٍ۔
(١٨٩١٦) حضرت حکم (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کسی آدمی نے قسم کھائی کہ وہ ایک ماہ تک اپنی بیوی کے قریب نہیں جائے گا تو وہ ایلاء کرنے والا ہے۔

18916

(۱۸۹۱۷) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، عَن أَبِی الشَّعْثَائِ قَالَ : آلَی رَجُلٌ مِنَ الْحَیِّ فَنُفِسَتِ امْرَأَتُہُ قَالَ : فَسَأَلَت عَلْقَمَۃَ وَالأَسْوَدَ وَمَسْرُوقًا فَقَالُوا : إذَا فَائَ بِلِسَانِہِ فَقَدْ فَائَ۔
(١٨٩١٧) حضرت ابو شعثائ (رض) کہتے ہیں کہ علاقے کے ایک آدمی نے اپنی بیوی سے ایلاء کیا پھر وہ عورت نفا س کا شکار ہوگئی تو میں نے اس بارے میں حضرت علقمہ، حضرت اسود اور حضرت مسروق (رض) سے سوال کیا، انھوں نے فرمایا کہ جب زبان سے قسم توڑنے کو کہہ دیا تو قسم ٹوٹ گئی۔

18917

(۱۸۹۱۸) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ رَجُلٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالَ : إذَا آلَی الرَّجُلُ مِنِ امْرَأَتِہِ فَمَنَعَہُ مِنْ جِمَاعِہَا مَرَضٌ ، أَوْ شُغْلٌ ، أَوْ عُذْرٌ مِنْہُ ، أَوْ مِنْہَا ، وَأَشْہَدَ عَلَی فَیْئِہِ أَجْزَأَہُ ذَلِکَ۔
(١٨٩١٨) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ جب آدمی نے اپنی بیوی سے ایلاء کیا، لیکن کسی مرض، مصروفیت یا عذر وغیرہ نے جماع سے روکے رکھا لیکن آدمی نے قسم سے رجوع پر گواہ بنالئے تو یہ کافی ہے۔

18918

(۱۸۹۱۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنْ أَبِی قِلاَبَۃَ قَالَ : إذَا رَاجَعَ بِلِسَانِہِ فَہِی رَجْعَۃٌ۔
(١٨٩١٩) حضرت ابو قلابہ (رض) فرماتے ہیں کہ جب کسی نے اپنی زبان سے رجوع کرلیا تو یہ رجوع ہے۔

18919

(۱۸۹۲۰) حَدَّثَنَا مَعْنُ بْنُ عِیسَی ، عَنِ ابْنِ أَبِی ذِئْبٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ قَالَ فِی الْمُولِی : إذَا کَانَ مَرِیضًا ، أَوْ کَانَ مُسَافِرًا ، أَوْ کَانَتْ حَائِضًا أَشْہَدَ عَلَی فَیْئِہِ۔
(١٨٩٢٠) حضرت زہری (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کسی شخص نے بیوی سے ایلاء کیا، پھر وہ بیمار ہوگیا یا بیوی سے دورسفر میں تھا یا بیوی حائضہ ہوگئی تو وہ رجوع پر کسی کو گواہ بنالے۔

18920

(۱۸۹۲۱) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، وَعِکْرِمَۃَ قَالاَ : إذَا کَانَ لَہُ عُذْرٌ یُعْذَرُ بِہِ فَأَشْہَدَ أَنَّہُ قَدْ فَائَ إلیہا فَذَلِکَ لَہُ۔
(١٨٩٢١) حضرت حسن (رض) اور حضرت عکرمہ (رض) فرماتے ہیں کہ اگر آدمی کو کوئی عذر ہو تو وہ عورت سے رجوع کرنے پر کسی کو گواہ بنالے۔

18921

(۱۸۹۲۲) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ ، عَنِ ابْنِ أَبِی عَرُوبَۃَ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنِ الْحَسَنِ قَالَ : إذَا آلَی الرَّجُلُ مِنَ امْرَأَتِہِ فَأَشْہَدَ أَنَّہُ قَدْ فَائَ فَذَلِکَ لَہُ۔
(١٨٩٢٢) حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ جب کسی آدمی نے اپنی بیوی سے ایلاء کی اور رجوع پر گواہ بنالیا تو کافی ہے۔

18922

(۱۸۹۲۳) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ مُطَرِّفٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ : الْفَیْئُ الْجِمَاعُ۔
(١٨٩٢٣) حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ ایلاء کی قسم کو ختم کرنے کا طریقہ جماع ہے۔

18923

(۱۸۹۲۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنِ الْحَکَمِ ، عَنْ مِقْسَمٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ : عَزِیمَۃُ الطَّلاَقِ انْقِضَائُ أَرْبَعَۃِ أَشْہُرٍ وَالْفَیْئُ الْجِمَاعُ۔
(١٨٩٢٤) حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ طلاق کے عزم کا پختہ ہونا چار مہینوں کا گذرنا ہے اور ایلاء کی قسم کو ختم کرنے کا طریقہ جماع ہے۔

18924

(۱۸۹۲۵) حَدَّثَنَا جَرِیرُ بْنُ عَبْدِ الْحَمِیدِ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ وَالْحَکَمِ قَالاَ : لاَ فَیْئَ إِلاَّ الْجِمَاعُ۔
(١٨٩٢٥) حضرت شعبی (رض) فرماتے ہیں کہ جماع کے بغیر ایلاء کی قسم ختم نہیں ہوتی۔

18925

(۱۸۹۲۶) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنِ الأَعْمَشِِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالَ : لاَ فَیْئَ إلاَّ الْجِمَاعُ۔
(١٨٩٢٦) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ جماع کے بغیر ایلاء کی قسم ختم نہیں ہوتی۔

18926

(۱۸۹۲۷) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ قَالَ : لاَ فَیْئَ إلاَّ الْجِمَاعُ۔
(١٨٩٢٧) حضرت شعبی (رض) فرماتے ہیں کہ جماع کے بغیر ایلاء کی قسم ختم نہیں ہوتی۔

18927

(۱۸۹۲۸) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ قَالَ : الْفَیْئُ الْجِمَاعُ۔
(١٨٩٢٨) حضرت شعبی (رض) فرماتے ہیں کہ ایلاء کی قسم کو ختم کرنے کا طریقہ جماع ہے۔

18928

(۱۸۹۲۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ بَذِیمَۃَ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ قَالَ : الْفَیْئُ الْجِمَاعُ۔
(١٨٩٢٩) حضرت سعید بن جبیر (رض) فرماتے ہیں کہ ایلاء کی قسم کو ختم کرنے کا طریقہ جماع ہے۔

18929

(۱۸۹۳۰) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سَالِمٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنْ عَلِیٍّ ، وَابْنِ مَسْعُودٍ ، وَابْنِ عَبَّاسٍ قَالُوا : الْفَیْئُ الْجِمَاعُ ، وَقَالَ ابْنُ مَسْعُودٍ : فَإِنْ کَانَ بِہِ عِلَّۃٌ مِنْ کِبَرٍ ، أَوْ مَرَضٍ ، أَوْ حَبْسٍ یَحُولُ بَیْنَہُ وَبَیْنَ الْجِمَاعِ ، فَإِنَّ فَیْئِہِ أَنْ یَفِیئَ بِقَلْبِہِ وَلِسَانِہِ۔
(١٨٩٣٠) حضرت علی، حضرت ابن مسعود اور حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ ایلاء کی قسم کو ختم کرنے کا طریقہ جماع ہے۔ حضرت ابن مسعود (رض) فرماتے ہیں کہ اگر اسے بڑھاپے کی وجہ سے کوئی عذر ہو، کوئی بیماری ہو، یا قید کی وجہ سے بیوی تک رسائی نہ رکھتا ہو تو زبان یا دل سے رجوع کرلینا بھی کافی ہے۔

18930

(۱۸۹۳۱) حَدَّثَنَا عَبْدُ السَّلاَمِ ، عَنْ خُصَیْفٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ أَنَّہُ سَأَلَہُ عَنْ رَجُلٍ آلَی مِنَ امْرَأَتِہِ فَقَالَ یَنَالُ مِنْہَا مَا یَنَالُ الرَّجُلُ مِنَ امْرَأَتِہِ إلاَّ أَنَّہ لم یُجَامِعَہَا فَإِنْ مَضَتْ أَرْبَعَۃُ أَشْہُرٍ قَبْلَ أَنْ یُجَامِعَہَا فَہِیَ طَالِقٌ بَائِنٌ۔
(١٨٩٣١) حضرت سعید بن جبیر (رض) سے سوال کیا گیا کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی سے ایلاء کرے اور اس کے بعد جماع کے علاوہ اپنی بیوی سے وہ سب کچھ کرلے جو ایک خاوند اپنی بیوی سے کرتا ہے تو کیا حکم ہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ اگر جماع سے پہلے چار مہینے گذر گئے تو طلاق بائنہ ہوجائے گی۔

18931

(۱۸۹۳۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ حُصَیْنٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنْ مَسْرُوقٍ قَالَ : الْفَیْئُ الْجِمَاعُ۔
(١٨٩٣٢) حضرت مسروق (رض) فرماتے ہیں کہ ایلاء کی قسم کو ختم کرنے کا طریقہ جماع ہے۔

18932

(۱۸۹۳۳) حَدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ أَنَّہُ کَانَ یَقُولُ فِی الإِیلاَئِ مِنَ الأَمَۃِ : إذَا مَضَی شَہْرَانِ ، وَلَمْ یَفِیئْ زَوْجُہَا ، فَقَدْ وَقَعَ الإِیلاَئُ۔
(١٨٩٣٣) حضرت حسن (رض) فرمایا کرتے تھے کہ اگر کسی شخص کے نکاح میں باندی ہو اور وہ اس سے ایلاء کرے تو دو مہینے گذر جانے پر ایلاء واقع ہوجائے گا۔

18933

(۱۸۹۳۴) حَدَّثَنَا عَبْدُ السَّلاَمِ بْنُ حَرْبٍ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ فِیمَنْ آلَی مِنْ أَمَۃٍ قَالَ : إیلاَؤُہَا شَہْرَانِ۔
(١٨٩٣٤) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ باندی سے ایلاء کی مدت دو ماہ ہے۔

18934

(۱۸۹۳۵) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ قَالَ : إِیلاَئُ الأَمَۃِ نِصْفُ إِیلاَئِ الْحُرَّۃِ۔
(١٨٩٣٥) حضرت شعبی (رض) فرماتے ہیں کہ باندی کا ایلاء آزاد عورت کے ایلاء سے ہے۔

18935

(۱۸۹۳۶) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الْحَکَمِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ مِثْلَہُ۔
(١٨٩٣٦) حضرت ابراہیم (رض) سے بھی یونہی منقول ہے۔

18936

(۱۸۹۳۷) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ جُوَیْبِرٍ ، عَنِ الضَّحَّاکِ فِی الْحُرِّ إذَا آلَی مِنَ الْأَمَۃِ ، أَوْ طَلَّقَہا فَعِدَّتُہَا نِصْفُ عِدَّۃِ الْحُرَّۃِ۔
(١٨٩٣٧) حضرت ضحاک (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کسی آزاد نے باندی سے ایلاء کیا یا اسے طلاق دی تو اس کی عدت آزاد عورت کی عدت کا نصف ہے۔

18937

(۱۸۹۳۸) حَدَّثَنَا شَبَابَۃُ قَالَ : حدَّثَنَا شُعْبَۃُ قَالَ : سَأَلْتُ الْحَکَمَ عَمَّنْ یُولِی مِنَ الْأَمَۃِ فَقَالَ : قَالَ إبْرَاہِیمُ : عِدَّتُہَا شَہْرَانِ ، وَسَأَلْت حَمَّادًا فَقَالَ مِثْلَ ذَلِکَ۔
(١٨٩٣٨) حضرت شعبہ (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت حکم (رض) سے سوال کیا کہ اگر کوئی شخص اپنی باندی سے ایلاء کرے تو کیا حکم ہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ حضرت ابراہیم (رض) فرماتے تھے کہ اس کی عدت دو ماہ ہے۔ اور میں نے حضرت حماد (رض) سے اس بارے میں سوال کیا تو انھوں نے بھی یہی فرمایا۔

18938

(۱۸۹۳۹) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ، عَنْ مُغِیرَۃَ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالَ: إذَا آلَی، ثُمَّ طَلَّقَ، أَوْ طَلَّقَ، ثُمَّ آلَی ہَدَمَ الطَّلاَقُ الإِیلاَئَ۔
(١٨٩٣٩) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کسی شخص نے اپنی بیوی سے ایلاء کیا پھر اسے طلاق دے دی یا طلاق دی پھر ایلاء کیا تو طلاق ایلاء کو ختم کردے گی۔

18939

(۱۸۹۴۰) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ قَالَ : ہُمَا کَفَرَسَیْ رِہَانٍ ، أَیُّہُمَا سَبَقَ أُخِذَتْ بِہِ ، وَإِنْ وَقَعَا جَمِیعًا أُخِذَتْ بِہِما۔
(١٨٩٤٠) حضرت شعبی (رض) فرماتے ہیں کہ طلاق اور ایلاء دوڑ کے دو گھوڑوں کی طرح ہیں، جو پہلے ہو اسی کا اعتبار ہوگا اور اگر دونوں اکٹھے ہوں تو دونوں کا اعتبار ہوگا۔

18940

(۱۸۹۴۱) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ أَنَّہُ کَانَ یَقُولُ مِثْلَ قَوْلِ الشَّعْبِیِّ۔
(١٨٩٤١) حضرت حسن (رض) بھی حضرت شعبی (رض) والی بات فرمایا کرتے تھے۔

18941

(۱۸۹۴۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ؛ فِی الرَّجُلِ یُولِی مِنِ امْرَأَتِہِ ، ثُمَّ یُطَلِّقُ قَالَ : إذَا مَضَتْ أَرْبَعَۃُ أَشْہُرٍ ، قَبْلَ أَنْ تَحِیضَ ثَلاَثَ حِیَضٍ ، فَقَدْ بَانَتْ۔
(١٨٩٤٢) حضرت شعبی (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کسی شخص نے اپنی بیوی سے ایلاء کیا پھرا سے طلاق دے دی، اگر تین حیض آنے سے پہلے چار مہینے گذر گئے تو وہ عورت بائنہ ہوگئی۔

18942

(۱۸۹۴۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ حَمَّادٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالَ : یَہْدِمُ الطَّلاَقُ الإِیلاَئَ۔
(١٨٩٤٣) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ طلاق ایلاء کو ختم کردیتی ہے۔

18943

(۱۸۹۴۴) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالَ : یَہْدِمُ الطَّلاَقُ الإِیلاَئَ۔
(١٨٩٤٤) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ طلاق ایلاء کو ختم کردیتی ہے۔

18944

(۱۸۹۴۵) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ قَالَ : یَہْدِمُ الطَّلاَقُ الإِیلاَئَ وَقَالَ عَلِیٌّ: ہُمَا کَفَرَسَیْ رِہَانٍ۔
(١٨٩٤٥) حضرت عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ طلاق ایلاء کو ختم کردیتی ہے، حضرت علی (رض) فرماتے ہیں کہ یہ دونوں دوڑ کے دو گھوڑوں کی طرح ہیں۔

18945

(۱۸۹۴۶) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ ، عَنْ أَبِی عُبَیْدَۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ قَالَ : الإِیلاَئُ فِی الرِّضَا وَالْغَضَبِ۔
(١٨٩٤٦) حضرت عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ ایلاء غصے اور خوشی دونوں حالتوں میں ہوتا ہے۔

18946

(۱۸۹۴۷) حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ ، عَنْ سِمَاکٍ ، عَنْ حُرَیْث بن عَمِیرَۃَ ، عَنْ أُمِّ عَطِیَّۃَ قَالَتْ : قَالَ جُبَیْرٌ لامْرَأَتِہِ : إن ابْنَ أَخِی مَعَ ابْنِکَ ، فَقَالَتْ : مَا أَسْتَطِیعُ أَنْ أُرْضِعَ اثْنَیْنِ ، قَالَ : فَحَلَفَ أَنْ لاَ یَقْرَبَہَا حَتَّی تَفْطِمَہُ قَالَ : فَلَمَّا فَطَمُوہُ مُرَّ بِہِ عَلَی الْمَجْلِسِ فَقَالَ الْقَوْمُ : حَسَنٌ مَا غَذَوْتُمُوہُ قَالَ : فَقَالَ جُبَیْرٌ : إنِّی حَلَفْت أَنْ لاَ أَقْرَبَہَا حَتَّی تَفْطِمَہُ ، قَالَ : فَقَالَ الْقَوْمُ : ہَذَا إیلاَئٌ ، فَقَالَ لَہُ عَلِیٌّ : إِنْ کُنْتَ فَعَلْتَ ذَلِکَ غَضَبًا ، فَلاَ تَحِلُّ لَکَ امْرَأَتُکَ ، وَإِلاَّ فَہِیَ امْرَأَتُکَ۔
(١٨٩٤٧) حضرت ام عطیہ (رض) فرماتی ہیں کہ حضرت جبیر (رض) نے اپنی بیوی سے کہا کہ میرے بھائی کا بیٹا تیرے بیٹے کے ساتھ دودھ پئے گا، انھوں نے کہا کہ میں دو بچوں کو دودھ نہیں پلا سکتی، حضرت جبیر (رض) نے قسم کھالی کہ جب تک وہ اس بچے کو دودھ نہیں چھڑا دیتیں اس وقت تک وہ اپنی بیوی کے قریب نہ جائیں گے۔ جب اس بچے کا دودھ چھڑا دیا گیا اور وہ لوگوں کے پاس سے گذرا تو لوگوں نے کہا کہ تم نے اسے اچھی غذا دی ہے، حضرت جبیر (رض) نے کہا کہ میں نے قسم کھائی تھی کہ میں اس وقت تک اپنی بیوی کے قریب نہیں جاؤں گا جب تک وہ اس کا دودھ نہیں چھڑا دیتی، لوگوں نے کہا کہ یہ ایلاء ہے، حضرت علی (رض) نے فرمایا کہ اگر تم نے غصے میں ایسا کیا تھا تو تمہارے لیے تمہاری بیوی حلال نہیں اور اگر غصے میں نہیں کیا تو یہ تمہاری بیوی ہے۔

18947

(۱۸۹۴۸) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ زُبَیْدٍ عَمَّنْ حَدَّثَہُ ، عَنْ عَلِیٍّ قَالَ : إنَّمَا الإِیلاَئُ فِی الْغَضَبِ۔
(١٨٩٤٨) حضرت علی (رض) فرماتے ہیں کہ ایلاء غصے میں ہوتا ہے۔

18948

(۱۸۹۴۹) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنِ الْقَعْقَاعِ بْنِ یَزِیدَ قَالَ : سَأَلْتُ الْحَسَنَ ، عَنِ الإِیلاَئِ فَقَالَ : إنَّمَا الإِیلاَئُ مَا کَانَ فِی الْغَضَبِ ، قَالَ : وَسَأَلْتُ ابْنَ سِیرِینَ فَقَالَ : مَا أَدْرِی مَا ہَذَا ؟ وَتَلاَ آیَۃَ الإِیلاَئِ۔
(١٨٩٤٩) حضرت قعقاع بن یزید (رض) کہتے ہیں کہ میں نے حضرت حسن (رض) سے ایلاء کے بارے میں سوال کیا تو انھوں نے فرمایا کہ ایلاء تو غصے میں ہوتا ہے۔ میں نے حضرت ابن سیرین (رض) سے اس بارے میں سوال کیا تو انھوں نے فرمایا کہ میں تو اسے نہیں جانتا، پھر انھوں آیت ایلاء تلاوت کی۔

18949

(۱۸۹۵۰) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، وَعَنْ مُطَرِّفٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ فِی رَجُلٍ حَلَفَ أَلاَّ یَقْرَبُ امْرَأَتَہُ حَتَّی تَفْطِمَ صَبِیَّہَا ، قَالاَ : إذَا مَضَتْ أَرْبَعَۃُ أَشْہُرٍ فَقَدْ دَخَلَ الإِیلاَئُ۔
(١٨٩٥٠) حضرت ابراہیم (رض) اور حضرت شعبی (رض) فرماتے ہیں کہ اگر ایک آدمی نے قسم کھائی کہ وہ اس وقت تک اپنی بیوی کے قریب نہیں جائے گا جب تک وہ اپنے بچے کا دودھ نہ چھڑا دے تو اگر وہ چار مہینے تک رکا رہے تو ایلاء داخل ہوجائے گا۔

18950

(۱۸۹۵۱) حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ بْنِ عَبْدِ الْمَلِکِ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ قَالَ : الإِیلاَئُ فِی الرِّضَی وَالْغَضَبِ سَوَائٌ۔
(١٨٩٥١) حضرت سعید بن جبیر (رض) فرماتے ہیں کہ غصے اور خوشی کا ایلاء برابر ہے۔

18951

(۱۸۹۵۲) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ، عَنْ سَعِیدٍ، عَنْ قَتَادَۃَ، عَنْ جَابِرِ بْنِ زَیْدٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: لاَ إیلاَئَ إلاَّ بِحَلَفٍ۔
(١٨٩٥٢) حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ ایلاء صرف قسم کے ساتھ ہی ہوتا ہے۔

18952

(۱۸۹۵۳) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَطَائٍ قَالَ : الإِیلاَئُ لاَ یَکُونُ إلاَّ بِحَلَفٍ عَلَی الْجِمَاعِ۔
(١٨٩٥٣) حضرت عطائ (رض) فرماتے ہیں کہ ایلاء جماع نہ کرنے کی قسم کھانے سے ہوتا ہے۔

18953

(۱۸۹۵۴) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنْ أَبِی حُرَّۃَ قَالَ : سَأَلْتُ الْحَسَنَ عَنْ رَجُلٍ ہَجَرَ امْرَأَتَہُ سَبْعَۃَ أَشْہُرٍ قَالَ : قَدْ َطَالَ الْہِجْرَانَ ، قُلْتُ : یَدْخُلُ عَلَیْہِ الإِیلاَئُ ؟ قَالَ : حَلَفَ ؟ قُلْتُ : لاَ ، قَالَ : لاَ إیلاَئَ إلاَّ بِیَمِین۔
(١٨٩٥٤) حضرت ابو حرہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے حضرت حسن (رض) سے سوال کیا کہ اگر کوئی شخص اپنی عورت کو سات مہینے تک چھوڑے رکھے تو کیا حکم ہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ اس نے جدائی کو بہت طول دے دیا، میں نے کہا کہ کیا ایلاء داخل ہوجائے گا ؟ انھوں نے فرمایا کہ کیا اس نے قسم کھائی تھی ؟ میں نے کہا نہیں، انھوں نے فرمایا کہ ایلاء قسم کے بغیر نہیں ہوتا۔

18954

(۱۸۹۵۵) حدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ أَبِی مَعْشَرٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالَ لاَ إیلاَئَ إلاَّ أَنْ یَحْلِفَ۔
(١٨٩٥٥) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ ایلاء صرف قسم کے ساتھ ہی ہوتا ہے۔

18955

(۱۸۹۵۶) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالَ : کُلُّ یَمِینٍ مَنَعَتْ جِمَاعًا حَتَّی تَمْضِیَ أَرْبَعَۃُ أَشْہُرٍ فَہِیَ إیلاَئٌ۔
(١٨٩٥٦) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ ہر وہ قسم جو جماع سے روک دے اور اس پر چار مہینے گذر جائیں تو ایلاء ہوجاتا ہے۔

18956

(۱۸۹۵۷) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ حَبِیبٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ ہَرِمٍ قَالَ : سُئِلَ جَابِرُ بْنُ زَیْدٍ ، عَنْ رَجُلٍ ہَجَرَ امْرَأَتَہُ فَمَضَتْ أَرْبَعَۃُ أَشْہُرٍ قَالَ : لاَ تَحْرِمُ عَلَیْہِ إلاَّ أَنْ یَکُونَ أَقْسَمَ بِاللَّہِ لاَ یَمَسُّہَا ، وَلاَ یُصَالِحُہَا ، فَإِنْ أَقْسَمَ عَلَی ذَلِکَ وَلَمْ یُرَاجِعْ حَتَّی تَمْضِیَ أَرْبَعَۃُ أَشْہُرٍ فَقَدْ بَانَتْ مِنْہُ ، وَہِیَ الْأَلِیَّۃُ۔
(١٨٩٥٧) حضرت جابر بن زید (رض) سے سوال کیا گیا کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو چھوڑے رکھے اور چار مہینے گذر جائیں تو کیا حکم ہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ وہ اس پر حرام نہیں ہوگی، البتہ اگر اس نے قسم کھائی ہو کہ کہ وہ اسے چھوئے گا بھی نہیں اور اس سے صلح نہیں کرے گا، اگر اس نے اس بات پر قسم کھائی ہو اور چار مہینے تک وہ اس سے رجوع نہ کرے تو عورت بائنہ ہوجائے گی اور ایلاء یافتہ ہوجائے گی۔

18957

(۱۸۹۵۸) حَدَّثَنَا ابْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ قَالَ : لاَ إیلاَئَ إلاَّ أَنْ یَحْلِفَ۔
(١٨٩٥٨) حضرت قتادہ (رض) فرماتے ہیں کہ قسم کے بغیر ایلاء نہیں ہوتا۔

18958

(۱۸۹۵۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ أَبِی السَّفَرِ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ قَالَ : کُلُّ یَمِینٍ مَنَعَتْ جِمَاعًا فَہِیَ إیلاَئٌ۔
(١٨٩٥٩) حضرت شعبی (رض) فرماتے ہیں کہ ہر ایسی قسم جو جماع سے منع کردے وہ ایلاء ہے۔

18959

(۱۸۹۶۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، وَمُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالَ : کُلُّ یَمِینٍ مَنَعَتْ جِمَاعًا فَہِیَ إیلاَئٌ۔
(١٨٩٦٠) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ ہر ایسی قسم جو جماع سے منع کردے وہ ایلاء ہے۔

18960

(۱۸۹۶۱) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ قَالَ: إذَا انْقَضَتْ عِدَّۃُ الإِیلاَئِ فطلق ، فَإِنَّہُ لاَ یَعُدُّہُ شَیْئًا۔
(١٨٩٦١) حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ اگر ایلاء کی عدت گذرنے کے بعد عورت کو طلاق دی تو پہلے والی عدت کا کوئی شمار نہ ہوگا۔

18961

(۱۸۹۶۲) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ، عَنْ مُغِیرَۃَ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالَ: إذَا قَالَ الرَّجُلُ لاِمْرَأَتِہِ وَہِیَ تَعْتَدُّ مِنْہُ فِی الإیلاَئِ، أَوْ طَلاَقٍ: ہِیَ طَالِقٌ ، فَإِنَّ طلاقہ ذَلِکَ جَائِزٌ عَلَیْہَا ، فَإِذَا قَالَ : أَنْتِ طَالِقٌ بَعْدَ مَا انْقَضَتْ عِدَّتُہَا فَلَیْسَ بِشَیْئٍ ، یُطَلِّقُ مَا لاَ یَمْلِکُ۔
(١٨٩٦٢) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کسی کی بیوی ایلاء یا طلاق کی عدت گذار رہی ہو اور عدت کے دوران آدمی اسے پھر طلاق دے دے تو طلاق درست ہے، اگر اس نے عدت گذرنے کے بعد طلاق دی تو اس طلاق کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔

18962

(۱۸۹۶۳) حَدَّثَنَا عَبْدُالأَعْلَی، عَنْ یُونُسَ، عَنِ الْحَسَنِ سُئِلَ عَنْ إیلاَئِ الْعَبْدِ مِنَ الْحُرَّۃِ فَقَالَ: تَرَبُّصُ أَرْبَعَۃَ أَشْہُرٍ۔
(١٨٩٦٣) حضرت حسن (رض) سے غلام شخص کی آزاد بیوی کی مدت ایلاء کے بارے میں سوال کیا گیا تو انھوں نے فرمایا کہ چار مہینے ہے۔

18963

(۱۸۹۶۴) حَدَّثَنَا أَبُو عِصَامٍ ، عَنِ الأَوْزَاعِیِّ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ قَالَ : إیلاَئُ الْعَبْدِ عَلَی النِّصْفِ مِنْ إیلاَئِ الْحُرِّ۔
(١٨٩٦٤) حضرت زہری (رض) فرماتے ہیں کہ غلام کے لیے مدت ایلاء آزاد کی مدت ایلاء کا نصف ہے۔

18964

(۱۸۹۶۵) حَدَّثَنَا عَبْدُ السَّلاَمِ بْنُ حَرْبٍ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ بَذِیمَۃَ ، عَنْ أَبِی عُبَیْدَۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ قَالَ : لاَ یَخْطُبُہَا فِی عِدَّتِہَا غَیْرُہُ فَإِذَا انْقَضَتْ عِدَّتُہَا کَانَ ہُوَ وَالنَّاسُ سَوَائً۔
(١٨٩٦٥) حضرت عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ عدت میں ایلاء کرنے والے خاوند کے علاوہ کوئی اسے پیام نکاح نہیں دے سکتا اور جب عدت گذر جائے تو وہ اور دوسرے لوگ برابر ہیں۔

18965

(۱۸۹۶۶) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ومحمد قَالَ : یَخْطُبُہَا ہُوَ فِی عِدَّتِہَا وَلاَ یَخْطُبُہَا غَیْرُہُ۔
(١٨٩٦٦) حضرت حسن (رض) اور حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں کہ وہ عدت میں پیام نکاح دے سکتا ہے اور کوئی نہیں دے سکتا۔

18966

(۱۸۹۶۷) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، عَنْ مُحَمَّدٍ قَالَ : کَانُوا یَقُولُونَ ، أَوْ یَتَحَدَّثُونَ فِی الإِیلاَئِ : إذَا مَضَتْ أَرْبَعَۃُ أَشْہُرٍ فَہِیَ تَطْلِیقَۃٌ بَائِنَۃٌ وَیَخْطُبُہَا فِی عِدَّتِہَا إِنْ شَائَ ، قَالَ ابْنُ عَوْنٍ : فَقُلْت لِمُحَمَّدٍ إنَّ عَامِرًا یَقُولُ : یَخْطُبُہَا فِی عِدَّتِہَا وَلاَ یَخْطُبُہَا غَیْرُہُ ، قَالَ : صَدَقَ عَامِرٌ۔
(١٨٩٦٧) حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں کہ اسلاف ایلاء کے بارے میں فرمایا کرتے تھے کہ جب چار مہینے گذر جائیں تو ایک طلاق بائنہ ہوجائے گی اور وہ اس کی عدت میں چاہے تو اسے پیام نکاح دے سکتا ہے۔ حضرت ابن عون (رض) کہتے ہیں کہ میں نے حضرت محمد سے کہا کہ حضرت عامر (رض) فرمایا کرتے تھے کہ وہ عدت میں پیام نکاح دے سکتا ہے اس کے علاوہ کوئی نہیں دے سکتا، انھوں نے فرمایا کہ حضرت عامر (رض) نے سچ کہا۔

18967

(۱۸۹۶۸) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ مُغِیرَۃَ أَنَّہُ سَمِعَ الشَّعْبِیَّ یُحَدِّثُ أَنَّہُ سَمِعَ مَسْرُوقًا قَالَ : إذَا مَضَتْ أَرْبَعَۃُ أَشْہُرٍ فَہِیَ وَاحِدَۃٌ بَائِنَۃٌ وَیَخْطُبُہَا زَوْجُہَا فِی عِدَّتِہَا وَلاَ یَخْطُبُہَا غَیْرُہُ۔
(١٨٩٦٨) حضرت مسروق (رض) فرماتے ہیں کہ جب چار مہینے گذر جائیں تو ایک طلاق بائنہ ہوجائے گی اور اس کا خاوند اس کی عدت میں اسے پیام نکاح دے سکتا ہے کوئی اور نہیں دے سکتا۔

18968

(۱۸۹۶۹) حَدَّثَنَا یَعْلَی بْنُ عُبَیْدٍ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ ، عَنْ عَطَائٍ قَالَ : لاَ تَعْتَدُّ مِنْ زَوْجِہَا إذَا أَرَادَ أَنْ یَتَزَوَّجَہَا وَلَکِنْ تَعْتَدُّ مِنَ النَّاسِ ثَلاَثَۃَ قُرُوئٍ۔
(١٨٩٦٩) حضرت عطائ (رض) فرماتے ہیں کہ ایلاء یافتہ عورت کا خاوند اگر اس سے شادی کرنا چاہے تو عدت گزارنے کی ضرورت نہیں اور اگر کوئی اور شادی کرنا چاہے تو تین حیض عدت کے گذارے گی۔

18969

(۱۸۹۷۰) حَدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ أَنَّہُ کَانَ یَقُولُ : لِلْمُطَلَّقَۃِ ثَلاَثًا وَہِیَ حَامِلٌ وَلِلْمُولَی عَنْہَا وَہِیَ حَامِلٌ النَّفَقَۃُ۔
(١٨٩٧٠) حضرت حسن (رض) فرمایا کرتے تھے کہ وہ عورت جسے تین طلاقیں دی گئی ہوں اور وہ حاملہ ہو اور جس سے ایلاء کیا گیا ہو اور وہ حاملہ ہو تو اس پر نفقہ واجب ہوگا۔

18970

(۱۸۹۷۱) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ ہِشَامٍ الدَّسْتَوَائِیِّ ، عَنْ حَمَّادٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالَ : لِلْمُطَلَّقَۃِ ثَلاَثًا وَالْمُولَی عَنْہَا وَالْمُخْتَلِعَۃِ وَالْمُلاَعَنَۃِ وَہُنَّ حَوَامِلُ لَہُنَّ النَّفَقَۃُ إلاَّ أَنْ یُشْتَرَطَ ذَلِکَ عَلَی الْمُخْتَلِعَۃِ۔
(١٨٩٧١) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ وہ عورت جسے تین طلاقیں دی گئی ہوں، یا اس سے ایلاء کیا گیا ہو یا اس نے خلع لی ہو یا اس سے لعان کیا گیا ہو، وہ یہ سب حاملہ ہوں تو ان کا نفقہ خاوند پر واجب ہے، اگر خلع لینے والی عورت سے نفقہ کے نہ لینے کی شرط لگائی گئی ہو تو نفقہ واجب نہیں۔

18971

(۱۸۹۷۲) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ فِی رَجُلٍ تَزَوَّجَ امْرَأَۃً فَعَاسَرَہُ أَہْلُہَا فَحَلَفَ أَنْ لاَ یَبْنِیَ بِہَا ، قَالَ الزُّہْرِیُّ : لاَ إیلاَئَ إلاَّ بَعْدَ دُخُولٍ۔
(١٨٩٧٢) حضرت زہری (رض) فرماتے ہیں کہ اگر ایک آدمی نے کسی عورت سے شادی کی پھر اس عورت کے گھر والوں نے آدمی کو پریشان کیا تو اس نے قسم کھالی کہ وہ اپنی بیوی سے جماع نہیں کرے گا تو یہ ایلاء نہیں کیونکہ ایلاء تو دخول کے بعد ہوتا ہے۔

18972

(۱۸۹۷۳) حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَطَائٍ قَالَ : إذَا آلَی مِنْہَا قَبْلَ أَنْ یَدْخُلَ بِہَا فَلَیْسَ بِإِیلاَئٍ ، قُلْتُ : وَإِنْ کَانَ عَلَی جِمَاعِہَا قَادِرًا ؟ قَالَ ، وَإِنْ کَانَ عَلَی جِمَاعِہَا قَادِرًا۔
(١٨٩٧٣) حضرت عطائ (رض) فرماتے ہیں کہ اگر آدمی نے دخول سے پہلے ایلاء کی تو یہ ایلاء نہیں۔ ان سے سوال کیا گیا کہ اگر وہ جماع پر قادر ہو کر جماع نہ کرے تو کیا حکم ہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ جماع پر قادر ہو کر جماع نہ کرے تب بھی یہی حکم ہے۔

18973

(۱۸۹۷۴) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ یَزِیدَ ، عَنْ أَبِی الْعَلاَئِ ، عَنْ أَبِی ہَاشِمٍ فِی رَجُل قَالَ لامْرَأَتِہِ : وَاللَّہِ لاَ أَبْنِی بِامْرَأَتِی فِی ہَذَا الْبَیْتِ ، ثُمَّ تَرَکَہَا حَتَّی مَضَتْ أَرْبَعَۃُ أَشْہُرٍ ، قَالَ : ہُوَ إیلاَئٌ وَقَالَ حَمَّادٌ : لَیْسَ بِإِیلاَئٍ۔
(١٨٩٧٤) حضرت ابو ہاشم (رض) فرماتے ہیں کہ اگر ایک آدمی نے اپنی بیوی کے بارے میں کہا کہ خدا کی قسم میں اس گھر میں اپنی بیوی سے جماع نہیں کروں گا پھر چار مہینے تک اس کے قریب نہ گیا تو یہ ایلاء ہے جبکہ حضرت حماد (رض) فرماتے ہیں کہ یہ ایلاء نہیں ہے۔

18974

(۱۸۹۷۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ حدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، عَن أَبِیہِ ، عَنْ مُجَاہِدٍ أَنَّ ابْنَ الزُّبَیْرِ تَزَوَّجَ امْرَأَۃً فَاسْتَزَادُوہُ فِی الْمَہْرِ فَحَلَفَ أَنْ لاَ یَزِیدَہُمْ وَلاَ یَدْخُلَ بِہَا حَتَّی یَکُونُوا ہُمَ الَّذِینَ یَطْلُبُونَ ذَلِکَ مِنْہُ قَالَ : فَتَرَکَہَا سِنِینَ ، ثُمَّ طَلَبُوا إلَیْہِ فَدَخَلَ بِہَا فَلَمْ یَرَہُ إیلاَئً ، قَالَ وَکِیعٌ : وَہُوَ قَوْلُ سُفْیَانَ وَکَذَلِکَ نَقُولُ۔
(١٨٩٧٥) حضرت مجاہد (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت ابن زبیر (رض) نے ایک عورت سے شادی کی، لوگوں نے مہر میں اضافے کا مطالبہ کیا حضرت ابن زبیر (رض) نے قسم کھالی کہ نہ تو مہر میں اضافہ کریں گے اور نہ ہی عورت سے دخول کریں گے، پھر دو سال تک انھیں چھوڑا رکھا، پھر لوگوں نے ان سے درخواست کی تو انھوں نے اپنی بیگم سے شرعی ملاقات فرمائی اور اسے ایلاء قرار نہ دیا، حضرت وکیع (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت سفیان (رض) کا بھی یہی مسلک ہے اور ہماری بھی یہی رائے ہے۔

18975

(۱۸۹۷۶) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ وَمُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ ، عَنِ الأَعْمَشِِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، عَنِ الأَسْوَدِ ، عَنْ عُمَرَ قَالَ: لاَ نجیز قَوْلُ الْمَرْأَۃِ فِی دِینِ اللہِ ، الْمُطَلَّقَۃُ ثَلاَثًا لَہَا السُّکْنَی وَالنَّفَقَۃُ ، زَادَ ابْنُ فُضَیْلٍ : وَقَالَتْ عَائِشَۃُ : مَا لَہَا فِی أَنْ تَذْکُرَ ہَذَا خَیْرٌ۔
(١٨٩٧٦) حضرت عمر (رض) فرماتے ہیں کہ ہم اللہ کے دین میں عورت کے قول کو جاری نہیں کرتے (یہ حضرت فاطمہ بنت قیس (رض) کے قول پر تعریض ہے) تین طلاقیں دی گئی عورت کے لیے خاوند پر رہائش اور نفقہ واجب ہوگا، حضرت ابن فضیل (رض) نے اپنی روایت میں اضافہ کیا ہے کہ حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ عورت کے لیے اس بات میں خیر نہیں کہ وہ اس کا تذکرہ کرے۔

18976

(۱۸۹۷۷) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، عَنْ عُمَرَ ، وَعَبْدِ اللہِ قَالاَ : لَہَا السُّکْنَی وَالنَّفَقَۃُ۔
(١٨٩٧٧) حضرت عمر اور حضرت عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ تین طلاقیں دی گئی عورت کو رہائش اور نفقہ ملے گا۔

18977

(۱۸۹۷۷) حضرت عمر اور حضرت عبد اللہwفرماتے ہیں کہ تین طلاقیں دی گئی عورت کو رہائش اور نفقہ ملے گا۔
(١٨٩٧٨) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ تین طلاقیں دی گئی عورت کو رہائش اور نفقہ ملے گا۔

18978

(۱۸۹۷۹) حَدَّثَنَا حُمَیْدٌ ، عَنْ حَسَنِ بْنِ صَالِحٍ ، عَنِ السُّدِّیِّ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ والشَّعْبِیِّ قَالَ : لَہَا السُّکْنَی وَالنَّفَقَۃُ۔
(١٨٩٧٩) حضرت ابراہیم (رض) اور حضرت شعبی (رض) فرماتے ہیں کہ تین طلاقیں دی گئی عورت کو رہائش اور نفقہ ملے گا۔

18979

(۱۸۹۸۰) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ ، عَنْ جَابِرٍ قَالَ : لِلْمُطَلَّقَۃِ النَّفَقَۃُ مَا لَمْ تَحْرُمْ فَإِذَا حَرُمَتْ فَلَہَا مَتَاعٌ بِالْمَعْرُوفِ۔
(١٨٩٨٠) حضرت جابر (رض) فرماتے ہیں کہ جس طلاق یافتہ عورت کو اس وقت تک نفقہ ملے گا جب تک وہ حرام نہ ہوجائے اور جب وہ حرام ہوجائے تو اسے نیکی کے ساتھ فائدہ دیا جائے گا۔

18980

(۱۸۹۸۱) حَدَّثَنَا أَسْبَاطُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، عَنْ أَشْعَثِ ، عَنِ الْحَسَنِ ، وَعَطَائٍ وَالشَّعْبِیِّ قَالُوا فِی الْمُطَلَّقَۃِ ثَلاَثًا : لَہَا السُّکْنَی وَلاَ نَفَقَۃَ۔
(١٨٩٨١) حضرت حسن، حضرت شعبی اور حضرت عطائ (رض) فرماتے ہیں کہ تین طلاقیں دی گئی عورت کو رہائش اور نفقہ ملے گا۔

18981

(۱۸۹۸۲) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ، عَنْ مُغِیرَۃَ قَالَ: ذَکَرْتُ لِإِبْرَاہِیمَ حَدِیثَ فَاطِمَۃَ بِنْتِ قَیْسٍ، فَقَالَ إبْرَاہِیمُ: قَالَ عُمَرُ: لاَنَدَعُ کِتَابَ اللہِ وَسُنَّۃَ رَسُولِہِ لِقَوْلِ امْرَأَۃٍ لاَ نَدْرِی حَفِظَتْ، أَوْ نَسِیَتْ، وَکَانَ عُمَرُ یَجْعَلُ لَہَا السُّکْنَی وَالنَّفَقَۃَ۔
(١٨٩٨٢) حضرت عمر (رض) فرماتے ہیں کہ ہم ایک عورت کے قول کی وجہ سے اللہ کی کتاب اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت کو نہیں چھوڑ سکتے، ہم نہیں جانتے کہ وہ عورت بھول گئی یا اس نے یاد رکھا، حضرت عمر (رض) طلاق یافتہ عورت کی رہائش اور نفقہ خاوند پر لازم کیا کرتے تھے۔

18982

(۱۸۹۸۳) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ قَالَ : سَأَلْتُ سَعِیدَ بْنَ الْمُسَیَّبِ ، عَنْ رَجُلٍ یُطَلِّقُ امْرَأَتَہُ وَہِیَ فی بَیْتٍ بِکِرَائٍ عَلَی مَنِ الْکِرَائُ ؟ قَالَ : عَلَی زَوْجِہَا ، قَالَ : فَإِنْ لَمْ یَکُنْ عِنْدَ زَوْجِہَا قَالَ : فَعَلَیْہَا ، قَالَ : فَإِنْ لَمْ یَکُنْ عِنْدَہَا ؟ قَالَ : فَعَلَی الأَمِیرِ۔
(١٨٩٨٣) حضرت یحییٰ بن سعید (رض) کہتے ہیں کہ میں نے حضرت سعید بن مسیب (رض) سے سوال کیا کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو طلاق دے اور وہ کسی کرائے کے گھر میں رہتی ہو تو کرایہ کس پر لازم ہوگا ؟ انھوں نے فرمایا کہ اس کے خاوند پر، میں نے پوچھا کہ اگر اس کے خاوند کے پاس کرایہ نہ ہو تو کس پر واجب ہوگا ؟ انھوں نے فرمایا کہ اس عورت پر، میں نے عرض کیا کہ اگر اس عورت کے پاس بھی نہ ہو تو پھر کس پر واجب ہوگا ؟ انھوں نے فرمایا کہ امیر پر۔

18983

(۱۸۹۸۴) حَدَّثَنَا شَبَابَۃُ قَالَ : حدَّثَنَا شُعْبَۃُ ، عَنِ الْحَکَمِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، عَنْ شُرَیْحٍ قَالَ : الْمُطَلَّقَۃُ ثَلاَثًا لَہَا السُّکْنَی وَالنَّفَقَۃُ۔
(١٨٩٨٤) حضرت شریح (رض) فرماتے ہیں کہ تین طلاقیں دی گئی عورت کو رہائش اور نفقہ ملے گا۔

18984

(۱۸۹۸۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ سَلَمَۃَ بْنِ کُہَیْلٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالَ : قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ : لاَ نَدَعُ کِتَابَ رَبِّنَا وَسُنَّۃَ نَبِیِّنَا لِقَوْلِ الْمَرْأَۃِ ، الْمُطَلَّقَۃُ ثَلاَثًا لَہَا السُّکْنَی وَالنَّفَقَۃُ۔
(١٨٩٨٥) حضرت عمر بن خطاب (رض) فرماتے ہیں کہ ہم ایک عورت کے قول کی وجہ سے اپنے رب کی کتاب اور اپنے نبی کی سنت کو نہیں چھوڑ سکتے، تین طلاقیں دی گئی عورت کو رہائش اور نفقہ ملے گا۔

18985

(۱۸۹۸۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ قَالَ : حدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ بُرْقَانَ ، عَنْ مَیْمُونِ بْنِ مِہْرَانَ قَالَ : قَالَ عُمَرُ : لاَ نَدَعُ کِتَابَ رَبِّنَا وَسُنَّۃَ نَبِیِّنَا صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِقَوْلِ امْرَأَۃٍ۔
(١٨٩٨٦) حضرت عمر بن خطاب (رض) فرماتے ہیں کہ ہم ایک عورت کے قول کی وجہ سے اپنے رب کی کتاب اور اپنے نبی کی سنت کو نہیں چھوڑ سکتے۔

18986

(۱۸۹۸۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ الْمَسْعُودِیِّ ، عَنِ الْحَکَمِ أَنَّ شُرَیْحًا قَالَ : الْمُطَلَّقَۃُ ثَلاَثًا لَہَا السُّکْنَی وَالنَّفَقَۃُ۔
(١٨٩٨٧) حضرت شریح فرماتے ہیں کہ تین طلاقیں دی گئی عورت کو رہائش اور نفقہ ملے گا۔

18987

(۱۸۹۸۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَۃُ، عَنِ الْحَکَمِ وَحَمَّادٍ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالَ: الْمُطَلَّقَۃُ ثَلاَثًا لَہَا السُّکْنَی وَالنَّفَقَۃُ.
(١٨٩٨٨) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ تین طلاقیں دی گئی عورت کو رہائش اور نفقہ ملے گا۔

18988

(۱۸۹۸۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ قَالَ : حَدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ أَبِی بَکْرِ بْنِ أَبِی الْجَہْمِ بْنِ صُخَیْرٍ الْعَدَوِیِّ ، قَالَ : سَمِعْتُ فَاطِمَۃَ بِنْتَ قَیْسٍ تَقُولُ : إنَّ زَوْجَہَا طَلَّقَہَا ثَلاَثًا فَلَمْ یَجْعَلْ لَہَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سُکْنَی وَلاَ نَفَقَۃً۔ (مسلم۴۸۔ ترمذی ۱۱۳۵)
(١٨٩٨٩) حضرت فاطمہ بنت قیس (رض) فرماتی ہیں کہ ان کے خاوند نے انھیں تین طلاقیں دیں تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انھیں رہائش اور نفقہ نہیں دلوایا۔

18989

(۱۸۹۹۰) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ قَالَ : قالَتْ فَاطِمَۃُ بِنْتُ قَیْسٍ : طَلَّقَنِی زَوْجِی عَلَی عَہْدِ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ثَلاَثًا فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لاَ سُکْنَی لَکِ وَلاَ نَفَقَۃَ۔ (مسلم ۱۱۱۷۔ ترمذی ۱۱۸۰)
(١٨٩٩٠) حضرت فاطمہ بنت قیس (رض) فرماتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عہد مبارک میں میرے خاوند نے مجھے تین طلاقیں دیں تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ تجھے رہائش اور نفقہ نہیں ملے گا۔

18990

(۱۸۹۹۱) حَدَّثَنَا فُضَیْلُ بْنُ عِیَاضٍ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالَ : الْمُطَلِّقُ ثَلاَثًا لاَ یُجْبَرُ عَلَی النَّفَقَۃِ۔
(١٨٩٩١) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ تین طلاقیں دینے والے کو نفقہ پر مجبور نہیں کیا جائے گا۔

18991

(۱۸۹۹۲) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ ، وَالْحَسَنِ قَالَ سَمِعْتہمَا یَقُولاَنِ : الْمُطَلَّقَۃُ ثَلاَثًا وَالْمُتَوَفَّی عَنْہَا لَیْسَ لَہُمَا سُکْنَی وَلاَ نَفَقَۃٌ۔
(١٨٩٩٢) حضرت عکرمہ اور حضرت حسن فرماتے ہیں کہ تین طلاقیں دی گئی عورت اور وہ عورت جس کا خاوند فوت ہوگیا ہو انھیں رہائش اور نفقہ نہیں ملے گا۔

18992

(۱۸۹۹۳) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ، عَنْ شُعْبَۃَ، عَنْ یَعْلَی بْنِ مُسْلِمٍ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ فِی الْمُطَلَّقَۃِ ثَلاَثًا لاَ نَفَقَۃَ لَہَا۔
(١٨٩٩٣) حضرت سعید بن جبیر (رض) فرماتے ہیں کہ جس عورت کو تین طلاقیں دی گئی ہوں اسے نفقہ نہیں ملے گا۔

18993

(۱۸۹۹۴) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ یَعْلَی بْنِ حَکِیمٍ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ : لاَ نَفَقَۃَ لَہَا۔
(١٨٩٩٤) حضرت ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ جس عورت کو تین طلاقیں دی گئی ہوں اسے نفقہ نہیں ملے گا۔

18994

(۱۸۹۹۵) حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إسْمَاعِیلَ ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ قَالَ : سَأَلْتُہ عَنِ الرَّجُلِ یُطَلِّقُ امْرَأَتَہُ الْبَتَّۃَ ہل لَہَا مِنْ نَفَقَۃٍ ؟ قَالَ : لاَ نَفَقَۃَ لَہَا۔
(١٨٩٩٥) حضرت ہشام بن عروہ (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے والد سے سوال کیا کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو حتمی طلاق دے دے تو کیا اسے نفقہ ملے گا ؟ انھوں نے فرمایا کہ اسے نفقہ نہیں ملے گا۔

18995

(۱۸۹۹۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إسْرَائِیلَ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِی الأَحْوَصِ ، عنْ عَبْدِ اللہِ قَالَ : لاَ یُطَلِّقُہَا وَہِیَ حَامِلٌ فَیُنَدِّمَہُ اللَّہُ فَیُنْفِقَ عَلَیْہَا حَمْلِہَا وَرَضَاعِہَا حَتَّی تَفْطِمَہُ۔
(١٨٩٩٦) حضرت عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ جو شخص بیوی کو حالت حمل میں طلاق دے اللہ اسے نادم کرے گا، اور حالت حمل اور حالت رضاعت میں اس پر خرچ کرے گا یہاں تک کہ بچے کادودھ چھڑوا دے۔

18996

(۱۸۹۹۷) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ أَنَّہُ کَانَ یَقُولُ : إذَا طَلَّقَ الرَّجُلُ امْرَأَتَہُ ثَلاَثًا وَہِیَ حَامِلٌ فَلَہَا عَلَیْہِ النَّفَقَۃُ حُرَّۃً کَانَتْ ، أَوْ أَمَۃً۔
(١٨٩٩٧) حضرت حسن (رض) فرمایا کرتے تھے کہ جب آدمی نے اپنی بیوی کو حالت حمل میں تین طلاقیں دیں تو عورت کا نفقہ مرد پر لازم ہوگا خواہ وہ آزاد ہو یا باندی۔

18997

(۱۸۹۹۸) حَدَّثَنَا حَاتِمٌ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنْ أَبِیہِ ؛ فِی الرَّجُلِ یُطَلِّقُ امْرَأَتَہُ الْبَتَّۃَ قَالَ : لاَ نَفَقَۃَ لَہَا إلاَّ أَنْ تَکُونَ حُبْلَی فَیُنْفِقَ عَلَیْہَا حَتَّی تَضَعَ حَمْلَہَا۔
(١٨٩٩٨) حضرت عروہ (رض) فرماتے ہیں کہ اگر ایک آدمی نے اپنی بیوی کو حتمی طلاق دے دی تو عورت کو نفقہ نہیں ملے گا لیکن اگر وہ حاملہ ہو تو نفقہ ملے گا یہاں تک کہ بچہ پیدا ہوجائے۔

18998

(۱۸۹۹۹) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنْ حَمَّادٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالَ : الْمُطَلَّقَۃُ ثَلاَثًا وَالْمُولَی عَنْہَا وَالْمُخْتَلِعَۃُ وَالْمُلاَعَنَۃُ وَہُنَّ حَوَامِلُ لَہُنَّ النَّفَقَۃُ۔
(١٨٩٩٩) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ وہ عورت جسے تین طلاقیں دی گئی ہوں، یا اس سے ایلاء کیا گیا ہو، یا اس نے خلع لیا ہو، یا اس سے لعان کیا گیا ہو اور یہ عورتیں حاملہ ہوں تو انھیں نفقہ ملے گا۔

18999

(۱۹۰۰۰) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، وَعَنْ یُونُسَ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ قَالاَ : لِکُلِّ حَامِلٍ نَفَقَۃٌ۔
(١٩٠٠٠) حضرت شعبی (رض) اور حضرت ابن سیرین (رض) فرماتے ہیں کہ ہر حاملہ کو نفقہ ملے گا۔

19000

(۱۹۰۰۱) حَدَّثَنَا حُمَیْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ زَکَرِیَّا قَالَ : سُئِلَ عَامِرٌ عَنِ الْمَرْأَۃِ یُطَلِّقُہَا زَوْجُہَا وَہِیَ حَامِلٌ أَیُنْفِقُ عَلَیْہَا ؟ قَالَ : نَعَمْ ، إذَا کَانَ حُرًّا۔
(١٩٠٠١) حضرت عامر (رض) سے سوال کیا گیا کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو حالت حمل میں طلاق دے دے تو کیا اسے نفقہ دے گا ؟ انھوں نے فرمایا کہ ہاں اگر آزاد مرد ہو تو نفقہ دے گا۔

19001

(۱۹۰۰۲) حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِی غَنِیۃَ ، عَنْ جُوَیْبِرٍ ، عَنِ الضَّحَّاکِ : {فَأَنْفِقُوا عَلَیْہِنَّ حَتَّی یَضَعْنَ حَمْلَہُنَّ} قَالَ : إذَا طَلَّقَہَا وَہِیَ حَامِلٌ أنفق عَلَیْہَا حَتَّی تَضَعَ۔
(١٩٠٠٢) حضرت ضحاک (رض) قرآن مجید کی آیت { فَأَنْفِقُوا عَلَیْہِنَّ حَتَّی یَضَعْنَ حَمْلَہُنَّ } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اگر کسی شخص نے اپنی بیوی کو حالت حمل میں طلاق دے دی تو وضع حمل تک اسے نفقہ دے گا۔

19002

(۱۹۰۰۳) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ مُبَارَکٍ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ أَنَّ أَبَا الْعَالِیَۃِ وَشُرَیْحًا قَالاَ : فِی الْمُخْتَلِعَۃِ الْحَامِلِ : لَہَا النَّفَقَۃُ۔
(١٩٠٠٣) حضرت ابو عالیہ (رض) اور حضرت شریح (رض) فرماتے ہیں کہ خلع لینے والی حاملہ کو نفقہ ملے گا۔

19003

(۱۹۰۰۴) حَدَّثَنَا ابْنُ مُبَارَکٍ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ أَبِی مَعْشَرٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالَ : لَہَا النَّفَقَۃُ إلاَّ أَنْ یَشْتَرِطَ۔
(١٩٠٠٤) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ خلع لینے والی عورت کو نفقہ ملے گا البتہ اگر اس نے نہ لینے کی شرط کو قبول کرلیا ہو تو پھر نہیں ملے گا۔

19004

(۱۹۰۰۵) حَدَّثَنَا ابْنُ مُبَارَکٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَطَائٍ قَالَ : لَہَا النَّفَقَۃُ إلاَّ أَنْ یَشْتَرِطَ عَلَیْہَا قَالَ وَقَالَ ابْنُ طَاوُوسٍ ، عَنْ أَبِیہِ : لَہَا النَّفَقَۃُ وَقَالَ عَمْرُو بْنُ دِینَارٍ : لَہَا النَّفَقَۃُ ، إنَّمَا یُنْفِقُ عَلَی وَلَدِہِ۔
(١٩٠٠٥) حضرت عطائ (رض) فرماتے ہیں کہ خلع لینے والی عورت کو نفقہ ملے گا البتہ اگر اس نے نہ لینے کی شرط کو قبول کرلیا ہو تو پھر نہیں ملے گا، حضرت طاوس فرماتے ہیں کہ اسے نفقہ ملے گا، حضرت عمرو بن دینار (رض) فرماتے ہیں کہ اسے نفقہ ملے گا، آدمی اپنی اولاد پر خرچ کرے گا۔

19005

(۱۹۰۰۶) حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَۃَ، عَنْ یَحْیَی، عَنِ الْقَاسِمِ فِی الْمُخْتَلِعَۃِ الْحَامِلِ: لاَ بُدَّ لَہَا مِنْ نَفَقَۃٍ۔
(١٩٠٠٦) حضرت قاسم (رض) خلع لینے والی حاملہ عورت کے بارے میں فرماتے ہیں کہ اسے نفقہ ضرور ملے گا۔

19006

(۱۹۰۰۷) حدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ حَمَّادٍ قَالَ : لَہَا النَّفَقَۃُ۔
(١٩٠٠٧) حضرت حماد (رض) فرماتے ہیں کہ اسے نفقہ ملے گا۔

19007

(۱۹۰۰۸) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ قَالَ : کَانَ یَجْعَلُ لَہَا النَّفَقَۃَ إذَا کَانَتْ حَامِلاً۔
(١٩٠٠٨) حضرت زہری (رض) فرماتے ہیں کہ اگر وہ حاملہ ہو تو اسے نفقہ ملے گا۔

19008

(۱۹۰۰۹) حَدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ ابْنُ عُلَیَّۃَ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنِ الشَّعْبِیِّ، وَعَنْ یُونُسَ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ قَالاَ: لِکُلِّ حَامِلٍ نَفَقَۃٌ۔
(١٩٠٠٩) حضرت شعبی (رض) اور حضرت ابن سیرین (رض) فرماتے ہیں کہ ہر حاملہ عورت کو نفقہ ملے گا۔

19009

(۱۹۰۱۰) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، أَنَّہُ قَالَ فِی الْمُخْتَلِعَۃِ الْحَامِلِ : لَہَا النَّفَقَۃُ۔
(١٩٠١٠) حضرت شعبی (رض) خلع لینے والی حاملہ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ اسے نفقہ ملے گا۔

19010

(۱۹۰۱۱) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ مُبَارَکٍ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ، وَالْحَسَنِ وَجَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ قَالُوا : لاَ نَفَقَۃَ لَہَا۔
(١٩٠١١) حضرت سعید بن مسیب، حضرت حسن اور حضرت جابر بن عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ خلع لینے والی عورت کو نفقہ نہیں ملے گا۔

19011

(۱۹۰۱۲) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ ؛ فِی الْحُرَّۃِ تَحْتَ الْعَبْدِ وَالأَمَۃِ تَحْتَ الْحُرِّ یُطَلَّقَانِ وَہُمَا حَامِلاَنِ ، لَہُمَا النَّفَقَۃُ۔
(١٩٠١٢) حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کوئی آزاد عورت کسی غلام کے نکاح میں ہو یا باندی کسی آزاد کے نکاح میں ہو اور ان کے حاملہ ہونے کی صورت میں انھیں طلاق ہوجائے تو انھیں نفقہ ملے گا۔

19012

(۱۹۰۱۳) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمُحَارِبِیُّ ، عَنِ الشَّیْبَانِیِّ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ فِی الْعَبْدِ یُطَلِّقُ امْرَأَتَہُ وَہِیَ حَامِلٌ قَالَ : عَلَیْہِ النَّفَقَۃُ حَتَّی تَضَعَ۔
(١٩٠١٣) حضرت شعبی (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کوئی غلام اپنی بیوی کو حالت حمل میں طلاق دیدے تو اس پر بچے کی پیدائش تک عورت کا نفقہ لازم ہوگا۔

19013

(۱۹۰۱۴) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الْحَکَمِ قَالَ : إذَا طَلَّقَ الْعَبْدُ امْرَأَتَہُ وَہِیَ حرۃ أَنْفَقَ عَلَیْہَا حَتَّی تَضَعَ فَإِذَا وَضَعَتْ لَمْ یُنْفِقْ عَلَیْہَا۔
(١٩٠١٤) حضرت حکم (رض) فرماتے ہیں کہ اگر غلام نے اپنی آزاد بیوی کو طلاق دے دی تو بچے کی پیدائش تک نفقہ اس پر لازم رہے گا، بچہ کی پیدائش کے بعد نفقہ لازم نہ ہوگا۔

19014

(۱۹۰۱۵) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ قَالَ : الْحُرُّ إذَا کَانَتْ تَحْتَہُ الأَمَۃُ فَطَلَّقَہَا ، فَإِنَّ عَلَیْہِ النَّفَقَۃَ حَتَّی تَضَعَ وَلَیْسَ عَلَیْہِ أَجْرُ الرَّضَاعِ۔
(١٩٠١٥) حضرت زہری (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کسی آزاد کے نکاح میں باندی ہو اور وہ اس کو طلاق دے دے تو بچے کی پیدائش تک اس پر نفقہ لازم ہے، اور اس پر دودھ پلانے کی اجرت لازم نہ ہوگی۔

19015

(۱۹۰۱۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنِ الزُّبَیْرِ بْنِ عَدِیٍّ ، عَنْ زَیْدِ بْنِ الْحَارِثِ ، عَنْ شُرَیْحٍ أَنَّ رَجُلاً طَلَّقَ وَلَمْ یَفْرِضْ وَلَمْ یَدْخُلْ فَجَبَرَہُ شُرَیْحٌ عَلَی الْمُتْعَۃِ۔
(١٩٠١٦) حضرت زید بن حارث (رض) فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی، لیکن اس کے لیے مہر مقرر نہ کیا اور نہ ہی اس سے دخول کیا تو حضرت شریح (رض) نے اسے متعہ کی ادائیگی پر مجبور کیا تھا۔

19016

(۱۹۰۱۷) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ ، عَنْ حَجَّاجٍ عَمَّنْ حَدَّثَہُ ، عَنِ ابْنِ مغفل قَالَ : إنَّمَا یُجْبَرُ عَلَی الْمُتْعَۃِ مَنْ طَلَّقَ وَلَمْ یَفْرِضْ وَلَمْ یَدْخُلْ۔
(١٩٠١٧) حضرت ابن مغفل (رض) فرماتے ہیں کہ اگر ایک آدمی نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی، حالانکہ نہ مہر مقرر کیا اور نہ اس سے شرعی ملاقات کی تو اسے متعہ کی ادائیگی پر مجبور کیا جائے گا۔

19017

(۱۹۰۱۸) حَدَّثَنَا حُمَیْدٌ ، عَنْ حَسَنٍ ، عَنْ مُطَرِّفٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ قَالَ : إذَا طَلَّقَ الرَّجُلُ امْرَأَتَہُ وَلَمْ یَفْرِضْ لَہَا وَلَمْ یَدْخُلْ بِہَا جُبِرَ عَلَی أَنْ یُمَتِّعَہَا۔
(١٩٠١٨) حضرت شعبی (رض) فرماتے ہیں کہ اگر ایک آدمی نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی، حالانکہ نہ مہر مقرر کیا اور نہ اس سے شرعی ملاقات کی تو اسے متعہ کی ادائیگی پر مجبور کیا جائے گا۔

19018

(۱۹۰۱۹) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنِ الْحَجَّاجِ ، عَنِ الْحَکَمِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالَ : إنَّمَا یُجْبَرُ عَلَی الْمُتْعَۃِ مَنْ طَلَّقَ وَلَمْ یَفْرِضْ وَلَمْ یَدْخُلْ۔
(١٩٠١٩) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ اگر ایک آدمی نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی، حالانکہ نہ مہر مقرر کیا اور نہ اس سے شرعی ملاقات کی تو اسے متعہ کی ادائیگی پر مجبور کیا جائے گا۔

19019

(۱۹۰۲۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ حَمَّادٍ قَالَ : یُمَتِّعُہَا بِمِثْلِ نِصْفِ مَہْرِ مِثْلِہَا۔
(١٩٠٢٠) حضرت حماد (رض) فرماتے ہیں کہ اسے متعہ میں مہرمثلی کا نصف دے گا۔

19020

(۱۹۰۲۱) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنْ عَطَائٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ : إذَا طَلَّقَ الرَّجُلُ امْرَأَتَہُ قَبْلَ أَنْ یَدْخُلَ بِہَا ، وَقَبْلَ أَنْ یَفْرِضَ لَہَا فَلَیْسَ لَہَا إلاَّ الْمَتَاعُ۔
(١٩٠٢١) حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ اگر ایک آدمی نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی، حالانکہ نہ مہر مقرر کیا اور نہ اس سے شرعی ملاقات کی تو عورت کو متعہ کے علاوہ کچھ نہیں ملے گا۔

19021

(۱۹۰۲۲) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ فِیمَنْ طَلَّقَ وَلَمْ یَفْرِضْ قَبْلَ أَنْ یَدْخُلَ قَالَ : لَہَا الْمُتْعَۃُ ، وَقَالَ ابْنُ سِیرِینَ : لَہَا مَعَ الْمُتْعَۃِ شَیْئٌ۔
(١٩٠٢٢) حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ اگر ایک آدمی نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی، حالانکہ نہ مہر مقرر کیا اور نہ اس سے شرعی ملاقات کی تو اسے متعہ کی ادائیگی پر مجبور کیا جائے گا، حضرت ابن سیرین (رض) فرماتے ہیں کہ اسے متعہ کے ساتھ بھی کچھ ملے گا۔

19022

(۱۹۰۲۳) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ : لِکُلِّ مُطَلَّقَۃٍ مُتْعَۃٌ إلاَّ الَّتِی طُلِّقَتْ قَبْلَ أَنْ یَدْخُلَ بِہَا ، فَإِنَّ لَہَا نِصْفَ الصَّدَاقِ۔
(١٩٠٢٣) حضرت ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ ہر طلاق یافتہ عورت کے لیے متعہ ہے، سوائے اس عورت کے جسے دخول سے پہلے طلاق دی گئی اسے نصف مہر ملے گا۔

19023

(۱۹۰۲۴) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ قَالَ : لِکُلِّ مُطَلَّقَۃٍ متعۃ دَخَلَ بِہَا ، أَوْ لَمْ یَدْخُلْ ، فَرَضَ لَہَا ، أَوْ لَمْ یَفْرِضْ لَہَا۔
(١٩٠٢٤) حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ ہر طلاق یافتہ عورت کے لیے متعہ ہے، اس سے دخول کیا ہو یا نہ کیا ہو، اس کے لیے مہر مقرر کیا ہو یا نہ کیا ہو۔

19024

(۱۹۰۲۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ أَبِی جَعْفَرٍ الرَّازِیّ ، عَنْ الربیع عن أَبِی الْعَالِیَۃِ قَالَ : لِکُلِّ مُطَلَّقَۃٍ مَتَاعٌ۔
(١٩٠٢٥) حضرت ابو عالیہ (رض) فرماتے ہیں کہ ہر طلاق یافتہ عورت کے لیے متعہ ہے۔

19025

(۱۹۰۲۶) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ قَالَ : لِکُلِّ مُطَلَّقَۃٍ مُتْعَۃٌ۔
(١٩٠٢٦) حضرت زہری (رض) فرماتے ہیں کہ ہر طلاق یافتہ عورت کے لیے متعہ ہے۔

19026

(۱۹۰۲۷) حَدَّثَنَا یَزِیدُ ، عَنِ ابْنِ أَبِی عَرُوبَۃَ ، عَنْ قَتَادَۃَ قَالَ : قُلْتُ لِسَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ : إنَّ الْحَسَنَ وَأَبَا الْعَالِیَۃِ یَجْعَلاَنِ لِلْمُطَلَّقَۃِ الَّتِی قَدْ دُخِلَ بِہَا الْمَتَاعَ وَالَّتِی لَمْ یُدْخَلْ بِہَا الْمَتَاعَ ، فَقَالَ سَعِیدٌ : إنَّمَا کَانَ لَہَا فِی سُورَۃِ الأَحْزَابِ فَلَمَّا نَزَلَتْ سُورَۃُ الْبَقَرَۃِ جُعِلَ لِلَّتِی فُرِضَ لَہَا نِصْفُ الصَّدَاقِ وَلاَ مُتْعَۃَ لَہَا۔
(١٩٠٢٧) حضرت قتادہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے حضرت سعید بن مسیب (رض) سے عرض کیا کہ حضرت حسن (رض) اور حضرت ابوعالیہ (رض) مدخول بہا اور غیرمدخول بہا دونوں کے لیے متعہ کو لازم قرار دیتے تھے، حضرت سعید (رض) نے فرمایا کہ سورة الاحزاب میں یہی تھا، جب سورة البقرۃ نازل ہوئی تو اس عورت کے لیے مہر کا آدھا فرض کردیا گیا جس کے لیے مہر مقرر ہوا تھا اور اسے متعہ نہیں ملے گا۔

19027

(۱۹۰۲۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ ابْنِ أَبِی لَیْلَی ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ : لِکُلِّ مُطَلَّقَۃٍ مَتَاعٌ إلاَّ الَّتِی طُلِّقَتْ وَقَدْ فُرِضَ لَہَا۔
(١٩٠٢٨) حضرت ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ ہر طلاق یافتہ عورت کو متعہ ملے گا سوائے اس عورت کے جس کے لیے مہر مقرر کیا گیا اور اسے طلاق دے دی گئی۔

19028

(۱۹۰۲۹) حَدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنِ ابْنِ أَبِی نَجِیحٍ ، عَنْ عَطَائٍ قَالَ : سُئِلَ : الرَّجُلُ یُطَلِّقُ امْرَأَتَہُ وَقَدْ فَرَضَ قَبْلَ أَنْ یَدْخُلَ بِہَا ، لَہَا مَتَاعٌ ؟ قَالَ : کَانَ عَطَائٌ یَقُولُ : لاَ مَتَاعَ لَہَا۔
(١٩٠٢٩) حضرت عطائ (رض) سے سوال کیا گیا کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کے لیے مہر مقرر کرے اور اسے دخول سے پہلے طلاق دے دے تو کیا اسے متعہ ملے گا ؟ انھوں نے فرمایا کہ اسے متعہ نہیں ملے گا۔

19029

(۱۹۰۳۰) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنْ نَافِعٍ قَالَ : إذَا طَلَّقَ الرَّجُلُ الْمَرْأَۃَ وَقَدْ فَرَضَ لَہَا فَلَہَا نِصْفُ الصَّدَاقِ وَلاَ مَتَاعَ لَہَا۔
(١٩٠٣٠) حضرت نافع (رض) فرماتے ہیں کہ اگر آدمی نے عورت کو طلاق دے دی اور اس کے لیے مہر مقرر کیا تھا تو اسے نصف مہر ملے گا اور اس کو متعہ بھی نہیں ملے گا۔

19030

(۱۹۰۳۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنِ الْمَسْعُودِیِّ ، عَنِ الْحَکَمِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، عَنْ شُرَیْحٍ قَالَ : إنَّ لَہَا فِی النِّصْفِ لَمَتَاعًا یَعْنِی الَّتِی لَمْ یُدْخَلْ بِہَا۔
(١٩٠٣١) حضرت شریح (رض) فرماتے ہیں کہ جس عورت سے دخول نہ کیا ہو اس کے لیے متعہ کے طور پر نصف مہر ہوگا۔

19031

(۱۹۰۳۲) حَدَّثَنَا سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنْ صَالِحِ بْنِ إبْرَاہِیمَ أَنَّ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ عَوْفٍ حَمَّم امْرَأَتَہُ الَّتِی طَلَّقَ جَارِیَۃً سَوْدَائَ۔
(١٩٠٣٢) حضرت صالح بن ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عبد الرحمن بن عوف (رض) نے اپنی بیوی کو طلاق دینے کے بعد متعہ میں ایک سیاہ باندی دی تھی۔

19032

(۱۹۰۳۳) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ یُونُسَ أَنَّہُ بَلَغَہُ أَنَّ أَنَسَ بْنَ مَالِکٍ مَتَّعَ امْرَأَتَہُ بِثَلاَثِ مِئَۃٍ۔
(١٩٠٣٣) حضرت یونس (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت انس بن مالک (رض) نے اپنی بیوی کو تین سو کا متعہ دیا۔

19033

(۱۹۰۳۴) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ أَبِی الْعُمَیْسِ ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ أَبِیہِ أَنَّ الْحَسَنَ بْنَ عَلِیٍّ مَتَّعَ امْرَأَتَہُ بِعَشَرَۃِ آلاَفٍ۔
(١٩٠٣٤) حضرت سعد (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت حسن بن علی (رض) نے اپنی بیوی کو دس ہزار کا متعہ دیا۔

19034

(۱۹۰۳۵) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ ، عَنِ ابْنِ عَجْلاَنَ ، عَنْ إیَاسٍ ، عَنْ أَبِی مجلَز قَالَ : سَأَلْتُ ابْنَ عُمَرَ ، عَنِ الْمُتْعَۃِ قَالَ : عَدَّ کَذَا عَدَّ کَذَا حَتَّی عَدَّ ثَلاَثِینَ۔
(١٩٠٣٥) حضرت ابو مجلز (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عمر (رض) سے متعہ کے بارے میں سوال کیا تو انھوں نے گنتے گنتے تیس تک گنا۔

19035

(۱۹۰۳۶) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَنْ دَاوُدَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنْ شُرَیْحٍ أَنَّہُ طَلَّقَ امْرَأَتَہُ فَمَتَّعَہَا بِثَلاَثِ مِئَۃٍ۔
(١٩٠٣٦) حضرت شعبی (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت شریح (رض) نے اپنی بیوی کو طلاق دی اور انھیں متعہ میں تین سو دیئے۔

19036

(۱۹۰۳۷) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، عَنِ الأَسْوَدِ أَنَّہُ طَلَّقَ امْرَأَتَہُ فَمَتَّعَہَا بِثَلاَثِ مِئَۃٍ۔
(١٩٠٣٧) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت اسود (رض) نے اپنی بیوی کو طلاق دی اور انھیں متعہ میں تین سو درہم دیئے۔

19037

(۱۹۰۳۸) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إِبْرَاْہِیْمَ ، عَنِ الأَسْوَدِ أَنَّہُ مَتَّعَ بِثَلاَثِ مِئَۃٍ۔
(١٩٠٣٨) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت اسود (رض) نے اپنی بیوی کو طلاق دی اور انھیں متعہ میں تین سو درہم دیئے۔

19038

(۱۹۰۳۹) حدَّثَنَا ابْنُ الدَّرَاوَرْدِیِّ ، عَنْ ہِشَامٍ أَنَّ أباہ طَلَّقَ فَمَتَّعَ بواحدۃ۔
(١٩٠٣٩) حضرت ہشام (رض) فرماتے ہیں کہ ان کے والد نے اپنی بیوی کو طلاق دی اور متعہ میں ایک دیا۔

19039

(۱۹۰۴۰) حدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَبْدِ اللہِ أَنَّہُ طَلَّقَ فَمَتَّعَ بِوَلِیدَۃٍ۔
(١٩٠٤٠) حضرت عبداللہ بن عبداللہ (رض) نے اپنی بیوی کو طلاق دی اور متعہ میں ایک باندی دی۔

19040

(۱۹۰۴۱) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، عَنِ الْعُمَرِیِّ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّہُ مَتَّعَ بِوَلِیدَۃٍ۔
(١٩٠٤١) حضرت ابن عمر (رض) نے اپنی بیوی کو طلاق دی اور متعہ میں ایک باندی دی۔

19041

(۱۹۰۴۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ بْنِ أُمیَۃ ، عَنْ عکرمۃ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ : أَرْفَعُ الْمُتْعَۃِ الْخَادِمُ ، ثُمَّ دُونَ ذَلِکَ : الْکِسْوَۃُ ، ثُمَّ دُونَ ذَلِکَ : النَّفَقَۃُ۔
(١٩٠٤٢) حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ سب سے اعلیٰ متعہ خادم ہے، پھر اس سے کم کپڑے پہنانا ہے اور پھر اس سے کم نفقہ ہے۔

19042

(۱۹۰۴۳) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ قَالَ : أَوْضَعُ الْمُتْعَۃِ الثَّوْبُ وَأَرْفَعُہَا الْخَادِمُ۔
(١٩٠٤٣) حضرت سعید بن مسیب (رض) فرماتے ہیں کہ سب سے کم تر متعہ کپڑا ہے اور سب سے اعلیٰ خادم ہے۔

19043

(۱۹۰۴۴) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ عَطَائٍ قَالَ : مِنْ أَوْسَطِ الْمُتْعَۃِ الدِّرْعُ وَالْخِمَارُ وَالْمِلْحَفَۃُ۔
(١٩٠٤٤) حضرت عطائ (رض) فرماتے ہیں کہ درمیانہ متعہ چادر، دوپٹہ اور اوڑھنی ہے۔

19044

(۱۹۰۴۵) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ داود ، عَنِ الشَّعْبِیِّ فِی مَتَاعِ الْمُطَلَّقَۃِ : ثِیَابُہَا فِی بَیْتِہَا ، الدِّرْعُ وَالْخِمَارُ وَالْمِلْحَفَۃُ وَالْجِلْبَابُ۔
(١٩٠٤٥) حضرت شعبی (رض) مطلقہ کے متعہ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ وہ گھر میں پہننے والے کپڑے ہیں : دوپٹہ، چادر، اوڑھنی اور بڑی چادر۔

19045

(۱۹۰۴۶) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ قَالَ: کَانَ النَّاسُ یُمَتِّعُونَ فَمِنْہُمْ مَنْ یُمَتِّعُ بِالْخَادِمِ وَمِنْہُمْ مَنْ کَانَ یُعْطِی الْمِائَتَیْنِ وَمِنْہُمْ مَنْ کَانَ یُعْطِی الدِّرْعَ وَالْخِمَارَ وَالْمِلْحَفَۃَ وَمِنْہُمْ مَنْ کَانَ یُعْطِی النَّفَقَۃَ۔
(١٩٠٤٦) حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ لوگ بیویوں کو متعہ دیا کرتے تھے، کوئی خادم دیتا تھا، کوئی دو سو دیتا تھا، کوئی چادر، دوپٹہ اور اوڑھنی دیا کرتا تھا اور کوئی نفقہ دیتا تھا۔

19046

(۱۹۰۴۷) حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمُقْرِیء ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ أَبِی أَیُّوبَ قَالَ : حدَّثَنِی عَقِیلٌ ، عَنِ ابْنِ شِہَابٍ قَالَ: أَعْلاَہُ الْخَادِمُ ، ثُمَّ الْکِسْوَۃُ ، ثُمَّ النَّفَقَۃُ۔
(١٩٠٤٧) حضرت ابن شہاب زہری (رض) فرماتے ہیں کہ سب سے اعلیٰ متعہ خادم ہے، پھر کپڑا اور پھر نفقہ۔

19047

(۱۹۰۴۸) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِی عَدِیٍّ ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ قَالَ : الْمُسْتَحَاضَۃُ تَعْتَدُّ بِالأَقْرَائِ۔
(١٩٠٤٨) حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ مستحاضہ اقراء (طہر یا حیض) کے اعتبار سے عدت گذارے گی۔

19048

(۱۹۰۴۹) حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ، عَنْ رَوْحِ بْنِ الْقَاسِمِ، عَنْ عَمْرُو بْنُ دِینَارٍ، عَنْ جَابِرَ بْنِ زَیْدٍ قَالَ تَعْتَدُّ بِالأَقْرَائِ۔
(١٩٠٤٩) حضرت جابر بن زید (رض) فرماتے ہیں کہ مستحاضہ اقراء (طہر یا حیض) کے اعتبار سے عدت گذارے گی۔

19049

(۱۹۰۵۰) حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ ، عَنْ رَوْحِ بْنِ الْقَاسِمِ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِینَارٍ قَالَ طَاوُوسٌ : تَعْتَدُّ بِالشُّہُورِ۔
(١٩٠٥٠) حضرت طاؤس (رض) فرماتے ہیں کہ مستحاضہ مہینوں کے اعتبار سے عدت گذارے گی۔

19050

(۱۹۰۵۱) حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ أَبِی رَجَائٍ ، عَنِ الْحَکَمِ ، وَعَطَائٍ أَنَّہُمَا قَالاَ : الْمُسْتَحَاضَۃُ تَعْتَدُّ بِالأَقْرَائِ۔
(١٩٠٥١) حضرت حکم (رض) اور حضرت عطائ (رض) فرماتے ہیں کہ مستحاضہ اقراء (طہر یا حیض) کے اعتبار سے عدت گذارے گی۔

19051

(۱۹۰۵۲) حَدَّثَنَا عَبْدُ السَّلاَمِ بْنُ حَرْبٍ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ مَطَرٍ ، عَنْ عَطَائٍ وَالْحَکَمِ ، وَالْحَسَنِ فِی الْمُسْتَحَاضَۃِ قَالُوا : تَعْتَدُّ بِأَیَّامِ أَقْرَائِہَا۔
(١٩٠٥٢) حضرت عطائ، حضرت حکم اور حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ مستحاضہ اقراء (طہر یا حیض) کے اعتبار سے عدت گذارے گی۔

19052

(۱۹۰۵۳) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ قَالَ : تَعْتَدُّ بِالأَقْرَائِ۔
(١٩٠٥٣) حضرت زہری (رض) فرماتے ہیں کہ مستحاضہ اقراء (طہر یا حیض) کے اعتبار سے عدت گذارے گی۔

19053

(۱۹۰۵۴) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُیَسَّرٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ بْن طَہْمَانَ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالَ : الْمُسْتَحَاضَۃُ تَعْتَدُّ بِالأَقْرَائِ۔
(١٩٠٥٤) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ مستحاضہ اقراء (طہر یا حیض) کے اعتبار سے عدت گذارے گی۔

19054

(۱۹۰۵۵) حَدَّثَنَا جَرِیرُ بْنُ عَبْدِ الْحَمِیدِ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ حَمَّادٍ قَالَ : إذَا طَلَّقَ الرَّجُلُ الْمُسْتَحَاضَۃَ فَحَاضَتِ الثَّالِثَۃَ أَدْنَی مَا کَانَتْ تَحِیضُ فَلاَ یَمْلِکُ زَوْجُہَا الرَّجْعَۃَ وَلاَ تَغْتَسِلُ وَلاَ تُصَلِّی حَتَّی یَأْتِیَ عَلَیْہَا أَکْثَرُ مِمَّا کَانَتْ تَحِیضُ۔
(١٩٠٥٥) حضرت حماد (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو استحاضہ کی حالت میں طلاق دے دے، اگر اسے تیسرا حیض ، حیض کی معمول کی مدت سے پہلے آجائے تو اس کا خاوند رجوع کا اختیار نہیں رکھتا، وہ غسل نہ کرے اور نہ نماز پڑھے یہاں تک کہ جتنے دن اسے حیض آتا ہے اس سے زیادہ دن گذر جائیں۔

19055

(۱۹۰۵۶) حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ خَالِدٍ ، عَنْ مَالِکٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ قَالَ : عِدَّۃُ الْمُسْتَحَاضَۃِ سَنَۃٌ۔
(١٩٠٥٦) حضرت سعید بن مسیب (رض) فرماتے ہیں کہ مستحاضہ کی عدت ایک سال ہے۔

19056

(۱۹۰۵۷) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ، عَنْ عِکْرِمَۃَ قَالَ إِنَّ مِنْ رِیبَۃِ الْمُسْتَحَاضَۃُ وَالَّتِی لاَ تَسْتَقِیمُ لَھَا حَیْضَۃٌ تَحِیضُ فِی الشَّہْرِ مَرَّتَیْنِ وَفِی الأَشْہُرِ مَرَّۃً عِدَّتُہَا ثَلاَثَۃُ أَشْہُرٍ قَالَ : فَکَانَ قَتَادَۃُ ذَلِکَ رَأْیُہُ۔
(١٩٠٥٧) حضرت عکرمہ (رض) فرماتے ہیں کہ مستحاضہ اور وہ عورت جس کے حیض کی کوئی ترتیب نہ ہو (کبھی ایک مہینے میں دو مرتبہ آجائے اور کبھی کئی مہینوں میں ایک مرتبہ آئے) اس کی عدت تین ماہ ہے۔ حضرت قتادہ (رض) بھی یہی فرماتے تھے۔

19057

(۱۹۰۵۸) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ أَبِی وَحْشِیَّۃَ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ زَیْدٍ قَالَ : تَذَاکَرَ ابْنُ عَبَّاسٍ ، وَابْنُ عُمَرَ امْرَأَۃَ الْمَفْقُودِ فَقَالاَ : جَمِیعًا : تَرَبَّصُ أَرْبَعَ سِنِینَ ، ثُمَّ یُطَلِّقُہَا وَلِیُّ زَوْجِہَا ، ثُمَّ تَرَبَّصُ أَرْبَعَۃَ أَشْہُرٍ وَعَشْرًا ، ثُمَّ تَذَاکَرَا النَّفَقَۃَ فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ : لَہَا النَّفَقَۃُ فِی مَالِہِ بِحَبْسِہَا نَفْسَہَا فِی سَبَبِہِ ، فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ : لَیْسَ کَذَلِکَ ، إذَنْ تُجْحِفُ بِالْوَرَثَۃِ وَلَکِنَّہَا تَأْخُذُ عَلَیْہِ فِی مَالِہِ فَإِنْ قَدِمَ فَذَلِکَ لَہَا عَلَیْہِ فِی مَالِہِ وَإِلاَّ فَلاَ شَیْئَ لَہَا۔
(١٩٠٥٨) حضرت جابر بن زید (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عباس اور حضرت عبداللہ بن عمر (رض) کے مابین اس عورت کے بارے میں گفتگو ہوئی جس کا خاوند گم ہوگیا ہو، دونوں حضرات نے فرمایا کہ وہ چار سال انتظار کرے گی پھر اس کے خاوند کا ولی اسے طلاق دے دے گا، پھر وہ چار مہینے اور دس دن تک عدت گذارے گی، پھر ان دونوں حضرات کے درمیان نفقہ کے بارے میں گفتگو ہوئی تو حضرت ابن عمر (رض) نے فرمایا کہ عورت کو مرد کے مال میں سے نفقہ ملے گا کیونکہ اس کی وجہ سے عورت رکی رہی ہے، حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا کہ ایسا نہیں ہے، اس طرح تو ورثہ کا نقصان ہوگا، البتہ عورت مرد کے مال میں سے لے گی اگر وہ آگیا تو وہ مال عورت کا ہوگا اور اگر وہ نہ آیا تو عورت کو کچھ نہیں ملے گا۔

19058

(۱۹۰۵۹) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنْ قَیْسِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ بُکَیْرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ الأَشَجِّ ، عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ یَسَارٍ ، عَنْ زَیْدِ بْنِ ثَابِتٍ قَالَ : إذَا طُلِّقَتِ النُّفَسَائُ لاَ تَعْتَدُّ بِذَلِکَ الدَّمِ۔
(١٩٠٥٩) حضرت زید بن ثابت (رض) فرماتے ہیں کہ جب نفاس والی عورت کو طلاق دی گئی تو وہ نفاس کو عدت میں شمار نہیں کرے گی۔

19059

(۱۹۰۶۰) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الْحَسَنِ قَالَ : سُئِلَ عَنِ الْمَرْأَۃِ النُّفَسَائِ ہَلْ تَعْتَدُّ بِالنِّفَاسِ ؟ قَالَ : لاَ تَعْتَدُّ بِنِفَاسِہَا۔
(١٩٠٦٠) حضرت حسن (رض) سے سوال کیا گیا کہ اگر نفاس والی عورت کو طلاق دی گئی تو کیا وہ نفاس کو عدت میں شمار کرے گی ؟ انھوں نے فرمایا کہ وہ نفاس کو عدت میں شمار نہیں کرے گی۔

19060

(۱۹۰۶۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَطَائٍ قَالَ : إذَا طَلُقَتْ وَہِیَ نُفَسَائُ لَمْ تَعْتَدَّ بِدَمِ نِفَاسِہَا فی عدتہا۔
(١٩٠٦١) حضرت عطائ (رض) فرماتے ہیں کہ اگر عورت کو حالت نفاس میں طلاق دی گئی تو وہ اسے عدت میں شمار نہیں کرے گی۔

19061

(۱۹۰۶۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ قَالَ: حدَّثَنَا جَرِیرُ بْنُ حَازِمٍ ، عَنْ قَیْسِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ بُکَیْرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ الأَشَجِّ ، عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ یَسَارٍ، عَنْ زَیْدِ بْنِ ثَابِتٍ قَالَ: إذَا طَلَّقَ الرَّجُلُ امْرَأَتَہُ وَہِیَ نُفَسَائُ لَمْ تَعْتَدَّ بِدَمِ نِفَاسِہَا فِی عِدَّتِہَا۔
(١٩٠٦٢) حضرت زید بن ثابت (رض) فرماتے ہیں کہ اگر عورت کو حالت نفاس میں طلاق دی گئی تو وہ اسے عدت میں شمار نہیں کرے گی۔

19062

(۱۹۰۶۳) حَدَّثَنَا جَرِیرُ بْنُ عَبْدِ الْحَمِیدِ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنِ الْحَارِثِ قَالَ : تَسْتَبِینُ الْمُسْتَحَاضَۃُ أَنَّہَا مُسْتَحَاضَۃٌ إذَا جَاوَزَتْ حَیْضَتُہَا آخِرَ مَا تَطْہُرُ فِیہِ النِّسَائُ۔
(١٩٠٦٣) حضرت حارث (رض) فرماتے ہیں کہ عورت کے مستحاضہ ہونے کا یقین اس وقت ہوگا جب اس کا حیض اس آخری حد کو پار کرجائے جس میں عورتیں پاک ہوجاتی ہیں۔

19063

(۱۹۰۶۴) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مُطَرِّفٍ ، عَنِ الْحَکَمِ قَالَ : إذَا أَدْرَکَ قُرْئٌ قُرْئًا فَہِیَ مُسْتَحَاضَۃٌ۔
(١٩٠٦٤) حضرت حکم (رض) فرماتے ہیں کہ جب ایک حیض دوسرے حیض تک پہنچ جائے تو عورت مستحاضہ ہے۔

19064

(۱۹۰۶۵) حَدَّثَنَا یَعْلَی بْنُ عُبَیْدٍ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ، عَنْ عُرْوَۃَ ، عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ : إنَّمَا الأَقْرَائُ الأَطْہَارُ۔
(١٩٠٦٥) حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ اقراء سے مراد طہر ہیں۔

19065

(۱۹۰۶۶) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنْ مَالِکِ بْنِ أَنَسٍ قَالَ : کَانَ الْقَاسِمُ وَسَالِمٌ یَقُولاَنِ : إن الأَقْرَائَ الأَطْہَارُ۔
(١٩٠٦٦) حضرت انس بن مالک (رض) فرماتے ہیں کہ اقراء سے مراد طہر ہیں۔

19066

(۱۹۰۶۷) حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِی غَنِیَۃَ ، عَنْ جُوَیْبِرٍ ، عَنِ الضَّحَّاکِ قَالَ : الأَقْرَائُ الْحِیَضُ۔
(١٩٠٦٧) حضرت ضحاک (رض) فرماتے ہیں کہ اقراء سے مراد حیض ہیں۔

19067

(۱۹۰۶۸) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنِ الأَعْمَشِِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالَ : عِدَّۃُ أُمِّ الْوَلَدِ ثَلاَثُ حِیَضٍ۔
(١٩٠٦٨) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ ام ولد باندی کی عدت تین حیض ہے۔

19068

(۱۹۰۶۹) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ قَالَ : ثَلاَثُ حِیَضٍ۔
(١٩٠٦٩) حضرت ابن سیرین (رض) فرماتے ہیں کہ ام ولد باندی کی عدت تین حیض ہے۔

19069

(۱۹۰۷۰) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ حَجَّاجٍ وَأَشْعَثُ ، عَنِ الْحَکَمِ ، عَنْ عَلِیٍّ قَالَ : ثَلاَثُ حِیَضٍ۔
(١٩٠٧٠) حضرت علی (رض) فرماتے ہیں کہ ام ولد باندی کی عدت تین حیض ہے۔

19070

(۱۹۰۷۱) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ عَامِرٍ ، عَنْ عَلِیٍّ مِثْلَہُ۔
(١٩٠٧١) حضرت علی (رض) سے یونہی منقول ہے۔

19071

(۱۹۰۷۲) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنِ الْحَارِثِ ، عَنْ عَلِیٍّ ، وَعَبْدِ اللہِ قَالاَ : ثَلاَثُ حِیَضٍ إذَا مَاتَ عَنْہَا۔
(١٩٠٧٢) حضرت علی (رض) اور حضرت عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ ام ولد باندی کی عدت تین حیض ہے۔ جب آقا فوت ہوجائے۔

19072

(۱۹۰۷۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَطَائٍ قَالَ : ثَلاَثَۃُ قُرُوئٍ۔
(١٩٠٧٣) حضرت عطائ (رض) فرماتے ہیں کہ ام ولد باندی کی عدت تین حیض ہے۔

19073

(۱۹۰۷۴) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ مَطَرٍ ، عَنْ رَجَائِ بْنِ حَیْوَۃَ ، عَنْ قَبِیصَۃَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ أَنَّہُ قَالَ : لاَ تُلْبِسُوا عَلَیْنَا سُنَّۃَ نَبِیِّنَا ، عِدَّتُہَا عِدَّۃُ الْمُتَوَفَّی عَنْہَا زَوْجُہَا۔ (ابوداؤد ۲۳۰۲۔ ابویعلی ۷۳۰۰)
(١٩٠٧٤) حضرت عمرو بن عاص (رض) فرماتے ہیں کہ ہم پر ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت کو خلط نہ کرو، ام ولد کی عدت وہی ہے جو اس عورت کی ہوتی ہے جس کا خاوند فوت ہوجائے۔

19074

(۱۹۰۷۵) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ عَنْ فَضَالَۃَ بْنِ عُبَیْد ، وَعَنْ عَبْدِ رَبِّہِ ، عَنْ أَبِی عِیَاضٍ أَنَّہُما قَالاَ : عِدَّتُہَا إذَا تُوُفِّیَ عَنْہَا زوجہا عِدَّۃُ الْحُرَّۃِ۔
(١٩٠٧٥) حضرت فضالہ بن عبید (رض) اور حضرت ابو عیاض (رض) فرماتے ہیں کہ ام ولد باندی کی عدت وہی ہے جو اس آزادعورت کی ہوتی ہے جس کا خاوند فوت ہوجائے۔

19075

(۱۹۰۷۶) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ دَاوُدَ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ قَالَ : عِدَّۃُ أُمِّ الْوَلَدِ إذَا تُوُفِّیَ عَنْہَا زوجہا أَرْبَعَۃُ أَشْہُرٍ وَعَشْرًا۔
(١٩٠٧٦) حضرت سعید بن مسیب (رض) فرماتے ہیں کہ جب ام ولد باندی کا آقا انتقال کرجائے تو اس کی عدت چار مہینے دس دن ہے۔

19076

(۱۹۰۷۷) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ حُمَیْدٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، وَسَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ أَنَّہُمَا قَالاَ : عدۃ أُمِّ الْوَلَدِ إذَا تُوُفِّیَ عَنْہَا سَیِّدُہَا أَرْبَعَۃُ أَشْہُرٍ وَعَشْرًا۔
(١٩٠٧٧) حضرت حسن (رض) اور حضرت سعید بن جبیر (رض) فرماتے ہیں کہ جب ام ولد باندی کا آقا انتقال کرجائے تو اس کی عدت چار مہینے دس دن ہے۔

19077

(۱۹۰۷۸) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ أَیُّوبَ قَالَ : سَأَلَ الحَکَم بن عُتَیْبََۃَ الزُّہْرِیَّ ، عَنْ عِدَّۃِ أُمِّ الْوَلَدِ إذَا تُوُفِّیَ عَنْہَا سَیِّدُہَا ، فَقَالَ : السَّنَۃُ ، فقَالَ : وما السَّنَۃُ ؟ قَالَ : بَرِیرَۃُ أُعْتِقَتْ فَاعْتَدَّتْ عِدَّۃَ الْحُرَّۃِ۔ (ابن ماجہ ۲۰۰۷۔ بیہقی ۲۵۱)
(١٩٠٧٨) حضرت حکم بن عتیبہ (رض) نے حضرت زہری (رض) سے ام ولد باندی کے آقا کے انتقال کر جانے کے بعد اس کی عدت کے بارے میں سوال کیا تو انھوں نے فرمایا کہ اس میں سنت ہے۔ انھوں نے پوچھا کہ کیا سنت ہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ حضرت بریرہ (رض) کو آزاد کیا گیا تو انھوں نے آزاد عورت والی عدت گزاری تھی۔

19078

(۱۹۰۷۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ قَالَ : عِدَّۃُ أُمِّ الْوَلَدِ أَرْبَعَۃُ أَشْہُرٍ وَعَشْرًا۔
(١٩٠٧٩) حضرت سعید بن مسیب (رض) فرماتے ہیں کہ جب ام ولد باندی کا آقا انتقال کرجائے تو اس کی عدت چار مہینے دس دن ہے۔

19079

(۱۹۰۸۰) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنِ ابْنِ أَبِی ذِئْبٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِیزِ ، وَسَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ مِثْلَ ذَلِکَ۔
(١٩٠٨٠) حضرت عمر بن عبدالعزیز (رض) اور حضرت سعید بن مسیب (رض) فرماتے ہیں کہ جب ام ولد باندی کا آقا انتقال کرجائے تو اس کی عدت چار مہینے دس دن ہے۔

19080

(۱۹۰۸۱) حَدَّثَنَا یَزِیدُ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ خِلاَسٍ ، عَنْ عَلِیٍّ مِثْلَ ذَلِکَ۔
(١٩٠٨١) حضرت علی (رض) فرماتے ہیں کہ جب ام ولد باندی کا آقا انتقال کرجائے تو اس کی عدت چار مہینے دس دن ہے۔

19081

(۱۹۰۸۲) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ ، وَابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ دَاوُدَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ : عِدَّتُہَا حَیْضَۃٌ۔
(١٩٠٨٢) حضرت ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ ام ولد باندی کی عدت ایک حیض ہے۔

19082

(۱۹۰۸۳) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ خَالِدٍ ، عَنْ أَبِی قِلاَبَۃَ قَالَ : عِدَّۃُ أُمِّ الْوَلَدِ إذَا تُوُفِّیَ عنہا سَیِّدُہَا حَیْضَۃٌ۔
(١٩٠٨٣) حضرت ابو قلابہ (رض) فرماتے ہیں کہ ام ولد باندی کے آقا کے انتقال کرجانے کی صورت میں اس کی عدت ایک حیض ہے۔

19083

(۱۹۰۸۴) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ أَنَّہُ کَانَ یَقُولُ : عِدَّتُہَا حَیْضَۃٌ إذَا تُوُفِّیَ عَنْہَا سَیِّدُہَا۔
(١٩٠٨٤) حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ ام ولد باندی کے آقا کے انتقال کرجانے کی صورت میں باندی (ام ولد باندی) کی عدت ایک حیض ہے۔

19084

(۱۹۰۸۵) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنِ ابْنِ سَالِمٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنْ زَیْدٍ قَالَ : عِدَّتُہَا حَیْضَۃٌ۔
(١٩٠٨٥) حضرت زید (رض) فرماتے ہیں کہ ام ولد باندی کے آقا کے انتقال کرجانے کی صورت میں باندی (ام ولد باندی) کی عدت ایک حیض ہے۔

19085

(۱۹۰۸۶) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ ، عَنْ جُوَیْبِرٍ ، عَنِ الضَّحَّاکِ قَالَ : عِدَّتُہَا حَیْضَۃٌ۔
(١٩٠٨٦) حضرت ضحاک (رض) فرماتے ہیں کہ ام ولد باندی کے آقا کے انتقال کرجانے کی صورت میں باندی کی عدت ایک حیض ہے۔

19086

(۱۹۰۸۷) حَدَّثَنَا حَفْصٌ، عَنْ إسْمَاعِیلَ، عَنِ الشَّعْبِیِّ قَالَ: عِدَّتُہَا حَیْضَۃٌ فَلِمَ لاَ تُوَرِّثُونَہَا إذَا جَعَلْتُمُوہَا ثَلاَثَ حِیَضٍ۔
(١٩٠٨٧) حضرت شعبی (رض) فرماتے ہیں کہ ام ولد باندی کے آقا کے انتقال کرجانے کی صورت میں ام ولد باندی کی عدت ایک حیض ہے۔ اگر تم اس کی عدت تین حیض قرار دیتے ہو تو اس کو آقا کا وارث کیوں نہیں بناتے ؟ !۔

19087

(۱۹۰۸۸) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ عَطَائٍ وَطَاوُسٍ قَالاَ : عِدَّۃُ أُمِّ الْوَلَدِ وَالسُّرِّیَّۃِ إذَا تُوُفِّیَ عَنْہَا سَیِّدُہَا شَہْرَانِ وَخَمْسُ لَیَالٍ۔
(١٩٠٨٨) حضرت عطائ (رض) اور حضرت طاؤس (رض) فرماتے ہیں کہ ام ولد باندی اور آقا سے ازدواجی تعلقات رکھنے والی باندی کا جب انتقال ہوجائے تو اس کی عدت دو مہینے پانچ راتیں ہے۔

19088

(۱۹۰۸۹) حَدَّثَنَا الثَّقَفِیُّ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ الْقَاسِمَ وَذُکِرَ لَہُ أَنَّ عَبْدَ الْمَلِکِ بْنَ مَرْوَانَ فَرَّقَ بَیْنَ رِجَالٍ وَنِسَائِہِمْ کُنَّ أُمَّہَاتِ أَوْلاَدٍ نُکِحْنَ بَعْدَ حَیْضَۃٍ ، أَوْ حَیْضَتَیْنِ حَتَّی یَعْتَدِدْنَ أَرْبَعَۃَ أَشْہُرٍ وَعَشْرًا فَقَالَ : سُبْحَانَ اللہِ ، یَقُولُ اللَّہُ فِی کِتَابِہِ : {وَالَّذِینَ یُتَوَفَّوْنَ مِنْکُمْ وَیَذَرُونَ أَزْوَاجًا} أَتُرَاہُنَّ مِنَ الأزْوَاج۔
(١٩٠٨٩) حضرت یحییٰ بن سعید (رض) کہتے ہیں کہ حضرت قاسم (رض) کے سامنے کسی نے تذکرہ کیا کہ عبد الملک بن مروان (رض) نے مردوں اور ان کی ایسی بیویوں کے درمیان جدائی کرادی جو اپنے آقاؤں کی ام ولد تھیں۔ لیکن ایک یا دو حیضوں کے بعد ان کے نکاح کرادیئے گئے تھے۔ عبدالملک بن مروان (رض) کا حکم تھا کہ وہ چار مہینے دس دن کی عدت گزاریں۔ یہ سن کر حضرت قاسم (رض) نے فرمایا سبحان اللہ ! اللہ تعالیٰ تو قرآن مجید میں فرماتے ہیں { وَالَّذِینَ یُتَوَفَّوْنَ مِنْکُمْ وَیَذَرُونَ أَزْوَاجًا } تو کیا یہ آقا ان کے خاوند ہیں ؟

19089

(۱۹۰۹۰) حَدَّثَنَا عِیسَی بْنُ یُونُسَ ، عَنِ الأَوْزَاعِیِّ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ أَبِی کَثِیرٍ أنَّ عَمْرَو بْنَ الْعَاصِ أَمَرَ أُمَّ وَلَدٍ أُعْتِقَتْ أَنْ تَعْتَدَّ ثَلاَثَ حِیَضٍ وَکَتَبَ إلَی عُمَرَ فَکَتَبَ یُحَسِّن رَأْیہ۔
(١٩٠٩٠) حضرت یحییٰ بن ابی کثیر (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عمرو بن عاص (رض) نے اس ام ولد کو جسے آزا د کیا گیا تھا حکم دیا کہ وہ تین حیض عدت کے گزارے اور حضرت عمر (رض) کو یہی فیصلہ لکھ کر بھیجا۔ حضرت عمر (رض) نے ان کی رائے کو پسند فرمایا۔

19090

(۱۹۰۹۱) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ أَنَّہُ کَانَ یَقُولُ : إذَا أَعْتَقَہَا فَعِدَّتُہَا ثَلاَثُ حِیَضٍ۔
(١٩٠٩١) حضرت حسن (رض) فرمایا کرتے تھے کہ جب ام ولد کو آزاد کیا گیا تو اس کی عدت تین حیض ہے۔

19091

(۱۹۰۹۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، عَنْ شُعْبَۃَ، عَنِ الْحَکَمِ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالَ: إذَا أَعْتَقَہَا، أَوْ مَاتَ عَنْہَا فَعِدَّتُہَا ثَلاَثُ حِیَضٍ۔
(١٩٠٩٢) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ ام ولد کو آزاد کرے یا اسے چھوڑ کر مرجائے تو اس کی عدت تین حیض ہے۔

19092

(۱۹۰۹۳) حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ وَرْدَانَ ، عَنْ بُرْدٍ ، عَنْ مَکْحُولٍ قَالَ : إذَا أَعْتَقَ الرَّجُلُ أُمَّ وَلَدِہِ اعْتَدَّتْ بِحَیْضَتَیْنِ : وَقَالَ الزُّہْرِیُّ : ثَلاَثَۃَ قُرُوئٍ۔
(١٩٠٩٣) حضرت مکحول (رض) فرماتے ہیں کہ اگر آدمی اپنی ام ولد کو آزاد کردے تو اس کی عدت دو حیض ہے۔ حضرت زہری (رض) فرماتے ہیں کہ اس کی عدت تین حیض ہے۔

19093

(۱۹۰۹۴) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ، عَنْ حَبِیبٍ، عَنْ عَمْرٍو قَالَ: سُئِلَ جَابِرُ بْنُ زَیْدٍ عَنِ الرَّجُلِ إذَا أَعْتَقَ سُرِّیَّتَہُ وَہُوَ صَحِیحٌ اعْتَدَّتْ ثَلاَثَۃَ قُرُوئٍ إذا کَانَتْ تَحِیضُ ، وَإِنْ لَمْ تَکُنْ تَحِیضُ فَعِدَّتُہَا ثَلاَثَۃُ أَشْہُرٍ إِنْ تَزَوَّجَہَا غَیْرُہُ۔
(١٩٠٩٤) حضرت جابر بن زید (رض) فرماتے ہیں کہ جب ایک آدمی نے اپنی ایسی باندی کو آزاد کیا جس سے اس کے ازدواجی تعلقات تھے تو اگر اسے حیض آتا ہو تو تین حیض عدت گزارے گی اور اگر اسے حیض نہ آتا ہو تو مہینے کی عدت گزارے گی۔

19094

(۱۹۰۹۵) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّہُ کَانَ یَقُولُ : عِدَّتُہَا حَیْضَۃٌ إذَا أَعْتَقَہَا ، أَوْ مَاتَ عَنْہَا۔
(١٩٠٩٥) حضرت ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ ام ولد کی عدت ایک حیض ہے خواہ اسے آزاد کیا جائے یا آقا مرجائے۔

19095

(۱۹۰۹۶) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ حَبِیبٍ الْمُعَلِّمِ ، عَنِ الْحَسَنِ ، عَنْ عَلِیٍّ : عِدَّۃُ الأَمَۃِ حَیْضَتَانِ فَإِنْ لَمْ تَکُنْ تَحِیضُ فَشَہْرٌ وَنِصْفٌ۔
(١٩٠٩٦) حضرت علی (رض) فرماتے ہیں کہ باندی کی عدت دو حیض ہے۔ اگر اسے حیض نہ آتے ہوں تو اس کی عدت ڈیڑھ مہینہ ہے۔

19096

(۱۹۰۹۷) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ قَالَ : عِدَّۃُ الأَمَۃِ حَیْضَتَانِ فَإِنْ لَمْ تَکُنْ تَحِیضُ فَشَہْرٌ وَنِصْفٌ۔
(١٩٠٩٧) حضرت سید بن مسیب (رض) فرماتے ہیں کہ باندی کی عدت دو حیض ہے۔ اگر حیض نہ آتے ہوں تو وہ ڈیڑھ مہینہ کی عدت گزارے گی۔

19097

(۱۹۰۹۸) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ أَبِی مَعْشَرٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ مِثْلَہُ۔
(١٩٠٩٨) حضرت ابراہیم (رض) سے بھی یونہی منقول ہے۔

19098

(۱۹۰۹۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ قَیْسٍ قَالَ : سَأَلْتُ سَالِمَ بْنَ عَبْدِ اللہِ ، عَنْ عِدَّۃِ الأَمَۃِ فَقَالَ : حَیْضَتَانِ فَإِنْ لَمْ تَکُنْ تَحِیضُ فَشَہْرٌ وَنِصْفٌ۔
(١٩٠٩٩) حضرت سالم بن عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ باندی کی عدت دو حیض ہے۔ اگر حیض نہ آتے ہوں تو وہ ڈیڑھ مہینہ کی عدت گزارے گی۔

19099

(۱۹۱۰۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ الأَعْمَشِِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالَ : عِدَّۃُ الأَمَۃِ حَیْضَتَانِ۔
(١٩١٠٠) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ باندی کی عدت دو حیض ہے۔

19100

(۱۹۱۰۱) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ قَالَ : إِنْ کَانَتْ تَحِیضُ فَحَیْضَتَانِ ، وَإِنْ کَانَتْ ممن لاَ تَحِیضُ فَشَہْرٌ وَنِصْفٌ۔
(١٩١٠١) حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ باندی کی عدت دو حیض ہے۔ اگر حیض نہ آتے ہوں تو وہ ڈیڑھ مہینہ کی عدت گزارے گی۔

19101

(۱۹۱۰۲) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ مَطَرٍ ، عَنْ عَطَائٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ : عِدَّۃُ الأَمَۃِ حَیْضَتَانِ إِنْ کَانَتْ تَحِیضُ فَإِنْ لَمْ تَکُنْ تَحِیضُ فَشَہْرٌ وَنِصْفٌ۔
(١٩١٠٢) حضرت ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ باندی کی عدت دو حیض ہے۔ اگر حیض نہ آتے ہوں تو وہ ڈیڑھ مہینہ کی عدت گزارے گی۔

19102

(۱۹۱۰۳) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ عَمْرِو سَمع عَمْرَو بْنَ أَوْسٍ یَقُولُ : أَخْبَرَنِی رَجُلٌ مِنْ ثَقِیفٍ یَقُولُ : سَمِعْت عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ یَقُولُ : لَوِ اسْتَطَعْت أَنْ أَجْعَلَ عِدَّۃَ الأَمَۃِ حَیْضَۃً وَنِصْفًا فَعَلْت فَقَالَ لَہُ رَجُلٌ : لَوْ جَعَلْتہَا شَہْرًا وَنِصْفًا فَسَکَتَ۔
(١٩١٠٣) حضرت عمر بن خطاب (رض) فرماتے ہیں کہ اگر میں باندی کی عدت ایک حیض اور نصف مقرر کرنے کی طاقت رکھتا تو ضرور ایسا کردیتا۔ ایک آدمی نے ان سے کہا کہ اگر آپ ان کی عدت ڈیڑھ مہینہ مقرر کردیں تو زیادہ بہتر ہے۔ اس پر حضرت عمر (رض) نے سکوت اختیار فرمالیا۔

19103

(۱۹۱۰۴) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ قَالَ : عِدَّۃُ الأَمَۃِ حَیْضَتَانِ فَإِنْ لَمْ تَکُنْ تَحِیضُ فَشَہْرَانِ۔
(١٩١٠٤) حضرت زہری (رض) فرماتے ہیں کہ باندی کی عدت دو حیض ہے۔ اگر حیض نہ آتے ہوں تو وہ ڈیڑھ مہینہ کی عدت گزارے گی۔

19104

(۱۹۱۰۵) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ جُوَیْبِرٍ ، عَنِ الضَّحَّاکِ فِی الأَمَۃِ الَّتِی لَمْ تَحِضْ وَقَدْ رَاہَقَتْ : عِدَّتُہَا خَمْسَۃٌ وَأَرْبَعُونَ یَوْمًا فَإِنْ کَانَتْ تَحِیضُ فَعِدَّتُہَا حَیْضَۃٌ۔
(١٩١٠٥) حضرت ضحاک (رض) فرماتے ہیں کہ ایسی باندی جو قریب البلوغ ہو اور اسے حیض نہ آتا ہو تو اس کی عدت پینتالیس دن ہیں۔ اگر اسے حیض آتا ہو تو اس کی عدت ایک حیض ہے۔

19105

(۱۹۱۰۶) حَدَّثَنَا أَبُو سَعِیدٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَطَائٍ ؛ فِی عِدَّۃِ الأَمَۃِ قَالَ : إِنْ کَانَتْ تَحِیضُ فَحَیْضَتَانِ ، وَإِنْ لَمْ تَکُنْ تَحِیضُ فَعِدَّتُہَا خَمْسَۃٌ وَأَرْبَعُونَ یَوْمًا۔
(١٩١٠٦) حضرت عطائ (رض) فرماتے ہیں کہ اگر باندی کو حیض آتا ہو تو اس کی عدت دو حیض ہیں اور اگر اسے حیض نہ آتا ہو تو اس کی عدت پینتالیس دن ہیں۔

19106

(۱۹۱۰۷) حَدَّثَنَا أَسْبَاطُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ قَالَ : عِدَّۃُ الأَمَۃِ مِثْلُ نِصْفِ عِدَّۃِ الْحُرَّۃِ۔
(١٩١٠٧) حضرت شعبی (رض) فرماتے ہیں کہ باندی کی عدت آزاد عورت کی عدت کا نصف ہے۔

19107

(۱۹۱۰۸) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ فِی الأَمَۃِ الَّتِی تُوطَأُ : إذَا بِیعَتْ ، أَوْ وُہِبَتْ ، أَوْ أُعْتِقَتْ فَلْتُسْتَبْرَأْ بِحَیْضَۃٍ۔
(١٩١٠٨) حضرت ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ وہ باندی جس سے جماع کیا گیا ہو اگر اسے بیچ دیا جائے یا ہبہ میں دے دیا جائے یا آزاد کردیا جائے تو وہ ایک حیض عدت گزارے گی۔

19108

(۱۹۱۰۹) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ حَمَّادٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ فِی الأَمَۃِ إذَا أُعْتِقَتْ قَالَ : عِدَّتُہَا ثَلاَثُ حِیَضٍ۔
(١٩١٠٩) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ جب باندی کو آزاد کردیا جائے تو اس کی عدت تین حیض ہے۔

19109

(۱۹۱۱۰) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنِ الْحَکَمِ ، عَنْ عَلِیٍّ فِی الأَمَۃِ إذَا أُعْتِقَتْ قَالَ: تَعْتَدُّ ثَلاَثَۃَ قُرُوئٍ۔
(١٩١١٠) حضرت علی (رض) فرماتے ہیں کہ جب باندی کو آزاد کردیا جائے تو اس کی عدت تین حیض ہے۔

19110

(۱۹۱۱۱) حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ وَرْدَانَ ، عَنْ بُرْدٍ ، عَنْ مَکْحُولٍ قَالَ : الأَمَۃُ إذَا أُعْتِقَتِ اعْتَدَّتْ بِحَیْضَتَیْنِ ، وَقَالَ الزُّہْرِیُّ : ثَلاَثَۃَ قُرُوئٍ۔
(١٩١١١) حضرت مکحول (رض) فرماتے ہیں کہ جب باندی کو آزاد کیا جائے تو وہ دو حیض عدت گزارے گی۔ حضرت زہری (رض) فرماتے ہیں کہ وہ تین حیض عدت گزارے گی۔

19111

(۱۹۱۱۲) حَدَّثَنَا عُمَرُ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَطَائٍ قَالَ : تَعْتَدُّ ثَلاَثَ حِیَضٍ۔
(١٩١١٢) حضرت عطائ (رض) فرماتے ہیں کہ جب باندی کو آزاد کردیا جائے تو اس کی عدت تین حیض ہے۔

19112

(۱۹۱۱۳) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ الْحَسَنِ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَمَرَ بَرِیرَۃَ أَنْ تَعْتَدَّ عِدَّۃَ الْحُرَّۃِ۔
(١٩١١٣) حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت بریرہ (رض) کو حکم دیا کہ وہ آزاد عورتوں والی عدت گزاریں۔

19113

(۱۹۱۱۴) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ خَالِدٍ ، عَنْ أَبِی مَعْشَرٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ أَنَّ بَرِیرَۃَ اعْتَدَّتْ عِدَّۃَ الْحُرَّۃِ۔
(١٩١١٤) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ جب حضرت بریرہ (رض) کو آزاد کیا گیا تو انھوں نے آزاد عورت والی عدت گزاری۔

19114

(۱۹۱۱۵) حَدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ قَالَ بَرِیرَۃُ أُعْتِقَتْ فَاعْتَدَّتْ عِدَّۃَ الْحُرَّۃِ۔
(١٩١١٥) حضرت زہری (رض) فرماتے ہیں کہ جب حضرت بریرہ (رض) کو آزاد کیا گیا تو انھوں نے آزاد عورت والی عدت گزاری۔

19115

(۱۹۱۱۶) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ فِی الأَمَۃِ طَلُقَتْ تَطْلِیقَتَیْنِ لَمْ یُدْرِکْہَا عَتَاقُہُ قَبْلَ أَنْ تَنْقَضِیَ قَالَ : تَعْتَدُّ عِدَّۃَ الأَمَۃِ۔
(١٩١١٦) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کسی باندی کو دو طلاقیں دی جائیں اور پھر اسے عدت کے پورا ہونے سے پہلے آزادی مل جائے تو باندی والی عدت گزارے گی۔

19116

(۱۹۱۱۷) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالَ : إذَا طُلِّقَتْ تَطْلِیقَۃً ، ثُمَّ أَدْرَکَہَا عَتَاقُہُ قَبْلَ أَنْ تَنْقَضِیَ عِدَّتُہَا اعْتَدَّتْ عِدَّۃَ الْحُرَّۃِ وَإِذَا طَلُقَتْ تَطْلِیقَتَیْنِ ، ثُمَّ أَدْرَکَتہَا عَتَاقُہُ اعْتَدَّتْ عِدَّۃَ الأَمَۃِ لَمَّا بَانَتْ مِنْہُ ، وَالْمُتَوَفَّی عَنْہَا کَذَلِکَ۔
(١٩١١٧) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ جب کسی باندی کو ایک طلاق دی جائے اور پھر اس کو عدت کے پورا ہونے سے پہلے آزادی مل جائے تو وہ آزاد عورت والی عدت گزارے گی۔ اگر اسے دو طلاقیں دی جائیں اور پھر اسے آزادی مل جائے تو وہ باندی والی عدت گزارے گی۔ یہی حکم اس باندی کا ہے جس کا خاوند مرجائے۔ اور پھر اسے آزادی بھی مل جائے۔

19117

(۱۹۱۱۸) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ أَنَّہُ قَالَ : إذَا طَلَّقَ الرَّجُلُ امْرَأَتَہُ وَہِیَ أَمَۃٌ تَطْلِیقَۃً ، ثُمَّ أُعْتِقَتْ فِی الْعِدَّۃِ فَعِدَّتُہَا عِدَّۃُ حُرَّۃٍ وَإِذَا طَلَّقَہَا تَطْلِیقَتَیْنِ ، ثُمَّ أُعْتِقَتْ قَالَ : لاَ یَتَزَوَّجُہَا حَتَّی تَزَوَّجَ زَوْجًا غَیْرَہُ ، وَعِدَّتُہَا عِدَّۃُ أَمَۃِ۔
(١٩١١٨) حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ جب آدمی نے اپنی ایسی بیوی کو جو کہ باندی تھی ایک طلاق دے دی، پھر عدت کے دوران اسے آزاد بھی کردیا گیا تو وہ آزاد عورت والی عدت گزارے گی۔ اور جب اس کو دو طلاقیں دیں اور پھر وہ آزاد کردی گئی تو وہ اس وقت تک اس سے شادی نہیں کرسکتا جب تک وہ کسی اور سے شادی نہ کرلے۔ اس کی عدت باندی والی عدت ہوگی۔

19118

(۱۹۱۱۹) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ زَیْدٍ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ الْحَکَمِ ، عَنِ الضَّحَّاکِ فِی الأَمَۃِ إذَا طُلِّقَتْ تَطْلِیقَتَیْنِ ، ثُمَّ أُعْتِقَتْ فِی عِدَّتِہَا قَالَ : تَعْتَدُّ حَیْضَتَیْنِ ، وَإِنْ طَلُقَتْ وَاحِدَۃً فَأُعْتِقَتْ فِی عِدَّتِہَا قَالَ : تَعْتَدُّ ثَلاَثَ حِیَضٍ وَزَوْجُہَا أَحَقُّ بِہَا۔
(١٩١١٩) حضرت ضحاک (رض) فرماتے ہیں کہ اگر ایک باندی کو دو طلاقیں دی گئیں۔ پھر اسے اس کی عدت میں آزاد کردیا گیا تو وہ دو حیض عدت گزارے گی۔ اگر اسے ایک طلاق دی گئی اور اسے اس کی عدت میں آزاد کردیا گیا تو وہ تین حیض عدت گزارے گی اور اس کا خاوند اس کا زیادہ حقدار ہوگا۔

19119

(۱۹۱۲۰) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ أَنَّہُ قَالَ : عِدَّتُہَا عِدَّۃُ الْحُرَّۃِ۔
(١٩١٢٠) حضرت سعید بن مسیب (رض) فرماتے ہیں کہ اس کی عدت آزاد عورت والی عدت ہوگی۔

19120

(۱۹۱۲۱) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ قَالَ: حدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ بْنُ أَبِی خَالِدٍ ، عَنْ عَامِرٍ قَالَ : إذَا طُلِّقَتِ الأَمَۃُ تَطْلِیقَتَیْنِ، ثُمَّ أُعْتِقَتْ عِنْدَ ذَلِکَ فَعِدَّتُہَا عِدَّۃُ الأَمَۃِ ، وَإِذَا طُلِّقَتْ وَاحِدَۃً ، ثُمَّ أُعْتِقَتْ عِنْدَ ذَلِکَ فَعِدَّتُہَا عِدَّۃُ الْحُرَّۃِ۔
(١٩١٢١) حضرت عامر (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کسی باندی کو دو طلاقیں دی گئیں پھر اسے آزاد کردیا گیا تو اس کی عدت باندی والی عدت ہوگی اور اگر اسے ایک طلاق دینے کے بعد آزاد کیا گیا تو اس کی عدت آزاد عورت والی عدت ہوگی۔

19121

(۱۹۱۲۲) حَدَّثَنَا جَرِیرُ بْنُ عَبْدِ الْحَمِیدِ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ فِی امْرَأَۃٍ مَاتَ عَنْہَا زَوْجُہَا ، ثُمَّ أُعْتِقَتْ قَالَ : تَمْضِی عَلَی عِدَّۃِ الأَمَۃِ وَلَیْسَ لَہَا إلاَّ عِدَّۃُ الأَمَۃِ۔
(١٩١٢٢) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کسی باندی کا خاوند انتقال کرجائے اور پھر اسے آزاد بھی کردیا جائے تو وہ باندی والی عدت گذارے گی۔

19122

(۱۹۱۲۳) حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ زُرْعَۃَ ، عَنِ ابْنِ سَالِمٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، أَنَّہُ کَانَ یَقُولُ : إذَا تُوُفِّیَ عَنْہَا زَوْجُہَا وَہِیَ مَمْلُوکَۃٌ فَأَدْرَکَہَا الْعِتْقُ وَہِیَ فِی عِدَّتِہَا فتتم أَرْبَعَۃُ أَشْہُرٍ وَعَشْرًا۔
(١٩١٢٣) حضرت شعبی (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کسی باندی کا خاوند انتقال کرجائے اور پھرا سے آزاد بھی کردیا جائے اور وہ عدت میں ہو تو وہ چار مہینے دس دن پورے کرے گی۔

19123

(۱۹۱۲۴) حَدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ صَالِحِ بْنِ مُسْلِمٍ قَالَ : قُلْتُ لِلشَّعْبِیِّ : رَجُلٌ طَلَّقَ امْرَأَتَہُ فَجَائَ آخَرُ فَتَزَوَّجَہَا ؟ قَالَ عُمَرُ : یُفَرَّقُ بَیْنَہُمَا وَتُکْمِلُ عِدَّتَہَا الأُولَی ، وَتأْتنِف مِنْ ہَذَا عِدَّۃً جَدِیدَۃً وَیُجْعَلُ الصَّدَاقُ فِی بَیْتِ الْمَالِ وَلاَ یَتَزَوَّجُہَا الثَّانِی أَبَدًا ، وَیَصِیرُ الأَوَّلُ خَاطِبًا ، وَقَالَ عَلِیٌّ : یُفَرَّقُ بَیْنَہَا وَبَیْنَ زَوْجِہَا ، وَتُکْمِلُ عِدَّتَہَا الأُولَی ، وَتَعْتَدُّ مِنْ ہَذَا عِدَّۃً جَدِیدَۃً ، وَیُجْعَلُ لَہَا الصَّدَاقُ بِمَا اسْتَحَلَّ مِنْ فَرْجِہَا ، وَیَصِیرَانِ کِلاَہُمَا خَاطِبَیْنِ۔
(١٩١٢٤) حضرت صالح بن مسلم (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو طلاق دے اور پھر عدت میں کوئی دوسرا آدمی اس سے شادی کرلے تو کیا حکم ہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ حضرت عمر (رض) فرماتے ہیں کہ ان دونوں کے درمیان جدائی کرادی جائے گی۔ اور وہ دوسرے خاوند سے نئے سرے سے عدت شروع کرے گی اور اس کا مہر بیت المال سے دیا جائے گا۔ دوسرا خاوند تو اس سے کبھی شادی نہیں کرسکتا اور پہلا خاوند پیام نکاح بھیج سکتا ہے۔ حضرت علی (رض) فرماتے ہیں کہ اس کے اور اس کے خاوند کے درمیان جدائی کرا دی جائے گی۔ وہ پہلی عدت کو پورا کرے گی اور اس خاوند سے نئی عدت گزارے گی۔ وہ آدمی ہی اس کا مہر دے گا اور وہ دونوں اسے پیام نکاح بھجوا سکتے ہیں۔

19124

(۱۹۱۲۵) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ بْنِ أَبِی خَالِدٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ وَالشَّعْبِیِّ فِی امْرَأَۃٍ تَزَوَّجَتْ فِی عِدَّتِہَا قَالَ الشَّعْبِیُّ : تَسْتَأْنِفُ ثَلاَثَۃَ قُرُوئٍ وَتُکْمِلُ مَا بَقِیَ عَلَیْہَا مِنَ الأَوَّلِ ، وَقَالَ إبْرَاہِیمُ : تُکْمِلُ مَا بَقِیَ مِنَ الأَوَّلِ وَتَسْتَأْنِفُ ثَلاَثَۃَ قُرُوئٍ۔
(١٩١٢٥) حضرت شعبی (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص عدت میں شادی کرلے اور پھر میاں بیوی کے درمیان جدائی کرادی جائے تو تین حیضوں سے نئے سرے سے عدت پوری کرے گی اور باقی ماندہ عدت کو پہلے حیض سے شروع کرے گی۔ اور حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ وہ پہلے خاوند کی باقی ماندہ عدت کو پورا کرے گی اور پھر نئے سرے سے تین حیض پورے کرے گی۔

19125

(۱۹۱۲۶) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ أَبِی غَنِیَّۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنِ الْحَکَمِ قَالَ : یُفَرَّقُ بَیْنَہُمَا وَتُکْمِلُ عِدَّتَہَا مِنَ الأَوَّلِ ، وَتَعْتَدُّ مِنْ مَائِ الآخَرِ ، وَیَکُونُ لَہَا الْمَہْرُ بِمَا اسْتَحَلَّ مِنْ فَرْجِہَا ، فَإِذَا انْقَضَتْ عِدَّتُہَا فَلْتَزَوَّجْہُ ، أَوْ غَیْرَہُ إِنْ شَائَتْ۔
(١٩١٢٦) حضرت حکم (رض) فرماتے ہیں کہ ان دونوں کے درمیان جدائی کرادی جائے گی۔ عورت پہلی عدت کو پورا کرے گی پھر دوسرے پانی کی عدت شروع کرے گی۔ اس کو دوسرے خاوند سے مہر بھی ملے گا۔ جب عدت پوری ہوجائے تو چاہے تو اس دوسرے مرد سے شادی کرلے اور چاہے تو کسی اور سے شادی کرلے۔

19126

(۱۹۱۲۷) حَدَّثَنَا عبد اللہ بْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ خِلاَسٍ ، عَنْ عَلِیٍّ ؛ فِی الرَّجُلِ یَتَزَوَّجُ الأَمَۃَ وَلَہَا وَلَدٌ مِنْ غَیْرِہِ فَیَمُوتُ قَالَ : لاَ یَقْرَبُہَا حَتَّی یَتَبَیَّنَ لَہُ مَا فِی بَطْنِہَا ، أَوْ تَحِیضَ حَیْضَۃً۔
(١٩١٢٧) حضرت علی (رض) فرماتے ہیں کہ اگر ایک عورت کا کوئی خاوند ہو اور اس عورت کے پیٹ میں کسی اور کا بچہ ہو تو مرد اس وقت تک عورت کے قریب نہیں آسکتا جب تک اس کے پیٹ کے بچے کی صورت حال واضح نہ ہوجائے یا جب تک اسے حیض نہ آجائے۔

19127

(۱۹۱۲۸) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ زَکَرِیَّا ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ مُسْلِمٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ بْنِ مَیْسَرَۃَ ، عَنْ عُمَرَ قَالَ : لاَ یَقْرَبُہَا حَتَّی یَنْظُرَ ہل بہا حَبْلٌ ، أَوْ لاَ۔
(١٩١٢٨) حضرت عمر (رض) فرماتے ہیں کہ اس وقت تک اس کے قریب نہ جائے جب تک یہ بات واضح نہ ہوجائے کہ وہ حاملہ ہے یا نہیں ہے۔

19128

(۱۹۱۲۹) حَدَّثَنَا یحیی بْنُ عَیَّاشٍ ، عَنِ الشَّیْبَانِیِّ ، عَنْ حَسَّانِ بْنِ الْمُخَارِقِ أَنَّ الْحَسَنَ بْنَ عَلِیٍّ قَالَ : لاَ یَقْرَبُہَا حَتَّی تَعْتَدَّ ، أَوْ قَالَ : حَتَّی تَحِیضَ۔
(١٩١٢٩) حضرت حسن بن علی (رض) فرماتے ہیں کہ وہ اس وقت تک اس کے قریب نہ جائے جب تک وہ عدت نہ گزار لے یا اسے حیض نہ آجائے۔

19129

(۱۹۱۳۰) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ أَنَّ الْحَسَنَ بْنَ عَلِیٍّ صَلَّی عَلَی جِنَازَۃٍ فَقَالَ لِلزَّوْجِ وَلِلْمَرْأَۃِ وَلَدٌ مِنْ غَیْرِہِ : لَیْسَ لَکَ أَنْ تَسْتَلْحِقَ سَہْمًا لَیْسَ لَک۔
(١٩١٣٠) حضرت حسن بن علی (رض) نے ایک جنازہ پڑھایا اور پھر خاوند سے فرمایا (جب کہ عورت کا کسی دوسرے مرد سے بچہ تھا) تیرے لیے یہ بات درست نہیں کہ تو کسی دوسرے کے حصے پر قبضہ جمائے۔

19130

(۱۹۱۳۱) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنِ الأَعْمَشِِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ وَعُمَارَۃَ قَالاَ : لاَ یَقْرَبُہَا حَتَّی یبین حَمْلٌ أَمْ لاَ۔
(١٩١٣١) حضرت ابراہیم (رض) اور حضرت عمارہ (رض) فرماتے ہیں کہ وہ اس وقت تک اس کے قریب نہ جائے جب تک حمل کا ہونا اور نہ ہونا ظاہر نہ ہوجائے۔

19131

(۱۹۱۳۲) حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِی زَائِدَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالَ : لاَ یَقْرَبُہَا حَتَّی تَحِیضَ حَیْضَۃً۔
(١٩١٣٢) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ وہ اس وقت تک اس کے قریب نہ جائے جب تک اسے حیض نہ آجائے۔

19132

(۱۹۱۳۳) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ سَعِیدٍ ، وَالْحَسَنِ قَالاَ : أَجَّلَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ الْعِنِّینَ سَنَۃً فَإِنِ اسْتَطَاعَہَا وَإِلاَّ فَرَّقَ بَیْنَہُمَا وَعَلَیْہَا الْعِدَّۃُ۔
(١٩١٣٣) حضرت سعید (رض) اور حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے نامرد کو ایک سال کی مہلت دی کہ اگر وہ جماع کی طاقت رکھے تو ٹھیک ورنہ میاں بیوی کے درمیان جدائی کرادی جائے گی اور عورت پر عدت لازم ہوگی۔

19133

(۱۹۱۳۴) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَطَائٍ قَالَ : إذَا مَضَتِ السَّنَۃُ اعْتَدَّتْ بَعْدَ السَّنَۃِ عِدَّۃَ الْمُطَلَّقَۃِ ، وَإِنْ لَمْ یُطَلِّقْہَا۔
(١٩١٣٤) حضرت عطائ (رض) فرماتے ہیں کہ جب مہلت کو ایک سال گزر جائے تو عورت مطلقہ والی عدت گزارے گی خواہ نامرد نے طلاق نہ دی ہو۔

19134

(۱۹۱۳۵) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ ؛ فِی امْرَأَۃِ الْعِنِّینِ قَالَ : عَلَیْہَا الْعِدَّۃُ إذَا فُرِّقَ بَیْنَہُمَا۔
(١٩١٣٥) حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ جب نامرد اور اس کی بیوی کے درمیان جدائی کرادی جائے تو اس پر عدت لازم ہوگی۔

19135

(۱۹۱۳۶) حَدَّثَنَا أَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَنْ ہِشَامِ بن عُرْوَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ قَالَ : عَلَیْہَا الْعِدَّۃُ۔
(١٩١٣٦) حضرت عروہ (رض) فرماتے ہیں کہ جب نامرد اور اس کی بیوی کے درمیان جدائی کرادی جائے تو اس پر عدت لازم ہوگی۔

19136

(۱۹۱۳۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ مُوسَی بْنِ أَبِی کَثِیرٍ أَبِی الصَّبَّاحِ قَالَ : قُلْتُ لِسَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ : کَمْ تَعْتَدُّ امْرَأَتُہُ ؟ یَعْنِی الْمُرْتَدَّ ، قَالَ : ثَلاَثَۃَ قُرُوئٍ ، قُلْتُ : فَإِنْ قُتِلَ ؟ قَالَ : أَرْبَعَۃَ أَشْہُرٍ وَعَشْرًا۔
(١٩١٣٧) حضرت موسیٰ بن ابی کثیر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے حضرت سعید بن مسیب (رض) سے پوچھا کہ مرتدشخص کی بیوی کتنی عدت گزارے گی ؟ انھوں نے فرمایا کہ تین حیض۔ میں نے پوچھا اگر اسے قتل کردیا جائے تو ؟ فرمایا چار مہینے دس دن۔

19137

(۱۹۱۳۸) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ وَالْحَکَمِ قَالاَ : ؛ فِی الرَّجُلِ الْمُسْلِمِ یَرْتَدُّ ، عَنِ الإِسْلاَمِ وَیَلْحَقُ بِأَرْضِ الْعَدُوِّ قَالاَ : تَعْتَدُّ امرأتہ ثَلاَثَۃَ قُرُوئٍ إِنْ کَانَتْ تَحِیضُ ، وَإِنْ کَانَتْ لاَ تَحِیضُ فَثَلاَثَۃَ أَشْہُرٍ ، وَإِنْ کَانَتْ حَامِلاً أن َتَضَعُ حَمْلَہَا ، ثُمَّ تَزَوَّجُ إِنْ شَائَتْ ، وَإِنْ ہُوَ رَجَعَ فَتَابَ قَبْلَ أَنْ تَنْقَضِیَ عِدَّتُہَا یَثْبُتَانِ عَلَی نِکَاحِہِمَا۔
(١٩١٣٨) حضرت شعبی (رض) اور حضرت حکم (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کوئی مسلمان مرتد ہو کر کافروں کی سرزمین میں چلا جائے تو اس کی بیوی کو اگر حیض آتا ہو تو تین حیض عدت گزارے گی اور اگر حیض نہ آتا ہو تو تین مہینے۔ اگر حاملہ ہو تو اس کی عدت وضع حمل ہے۔ پھر وہ چاہے تو شادی کرسکتی ہے۔ اگر اس کا خاوند عدت پوری ہونے سے پہلے واپس آجائے اور توبہ کرلے تو ان کا نکاح باقی رہے گا۔

19138

(۱۹۱۳۹) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ ، عَنِ الْحَسَنِ قَالَ : إذَا ارْتَدَّ الرَّجُلُ ، عَنِ الإِسْلاَمِ فَقَدْ بَانَتْ مِنْہُ امْرَأَتُہُ بِتَطْلِیقَۃٍ بَائِنَۃٍ وَلَیْسَ عَلَیْہَا سَبِیلٌ إِنْ رَجَعَ وَتَعْتَدُّ عِدَّۃَ الْمُطَلَّقَۃِ۔
(١٩١٣٩) حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص مرتد ہوجائے تو اس کی بیوی کو ایک طلاق بائنہ ہوجائے گی۔ اس کے پاس بیوی سے رجوع کرنے کا حق نہیں ہوگا اور عورت مطلقہ والی عدت گزارے گی۔

19139

(۱۹۱۴۰) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ ، عَنْ أَبِی مَعْشَرٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالَ : ہُوَ أَحَقُّ بہا مَا دَامَتْ فِی الْعِدَّۃِ، إِنْ رَجَعَ وَہِیَ فِی عِدَّتِہَا فَہِیَ امْرَأَتُہُ ، قَالَ أَبُو مَعْشَرٍ : فَکَتَبَ بِذَلِکَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیزِ إلَی عَبْدِ الْحَمِیدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ فِی الْمُرْتَدِّ۔
(١٩١٤٠) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ جب تک عورت عدت میں ہے وہ اس کا زیادہ حق دار ہوگا اگر عدت میں وہ رجوع کرلے تو وہ اسی کی بیوی رہے گی۔ حضرت ابو معشر (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز (رض) نے یہی بات حضرت عبد الحمید بن عبدالرحمن کی طرف مرتد کے بارے میں لکھی تھی۔

19140

(۱۹۱۴۱) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنْ زِیَادٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ قَالَ : سَأَلْتُ الشَّعْبِیَّ ، عَنِ امْرَأَۃٍ ذِمِّیَّۃٍ طُلِّقَتْ فَأَسْلَمَتْ فِی عِدَّتِہَا ، قَالَ : إذَا أَسْلَمَتْ فِی عِدَّتِہَا لَزِمَہَا مَا لَزِمَ الْمُسْلِمَاتِ۔
(١٩١٤١) حضرت زیاد بن عبدالرحمن (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت شعبی (رض) سے سوال کیا کہ اگر ذمیہ عورت کو طلاق ہوجائے یا اس کا خاوند مرجائے اور وہ عدت میں مسلمان ہوجائے تو کتنی عدت گزارے گی ؟ انھوں نے فرمایا کہ اسلام قبول کرنے کے بعد اس پر مسلمان عورتوں کے احکام لاگو ہوں گے۔

19141

(۱۹۱۴۲) حَدَّثَنَا ابْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنْ أَبِی حُرَّۃَ قَالَ : سُئِلَ الْحَسَنُ ، عَنْ نَصْرَانِیَّۃٍ تحت نَصْرَانِیٍّ فَأَسْلَمَتْ یُفَرَّقُ بَیْنَہُمَا ؟ قَالَ : نَعَمْ ، قَالَ : عَلَیْہَا عِدَّۃٌ قَالَ : نَعَمْ ، عَلَیْہَا عِدَّۃُ ثَلاَثِ حِیَضٍ ، أَوْ ثَلاَثَۃِ أَشْہُرٍ۔
(١٩١٤٢) حضرت ابو حرہ (رض) کہتے ہیں کہ حضرت حسن (رض) سوال کیا گیا کہ اگر کوئی نصرانی عورت جو کہ ایک نصرانی کے نکاح میں تھی۔ اگر اسلام قبول کرتی ہے تو کیا ان دونوں کے درمیان جدائی کرادی جائے گی ؟ انھوں نے فرمایا کہ ہاں اس پر عدت لازم ہوگی، تین حیض یاتین مہینے۔

19142

(۱۹۱۴۳) حَدَّثَنَا أَسْبَاطُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ قَالَ : سُئِلَ عَطَائٌ ، عَنِ الْمَرْأَۃِ یَمُوتُ زَوْجُہَا وَہو نَصْرَانِیّ ، ثُمَّ تُسْلِمُ کَمْ تَعْتَدُّ ؟ قَالَ : أَرْبَعَۃَ أَشْہُرٍ وَعَشْرًا۔
(١٩١٤٣) حضرت عطائ (رض) سے سوال کیا گیا کہ اگر کسی عورت کا عیسائی خاوند مرجائے اور عورت اسلام قبول کرلے تو وہ کتنی عدت گزارے گی ؟ انھوں نے فرمایا کہ چار مہینے اور دس دن۔

19143

(۱۹۱۴۴) حَدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ أَنَّہُ کَانَ یَقُولُ : طَلاَقُ الْیَہُودِیَّۃِ وَالنَّصْرَانِیَّۃ طَلاَقُ الْمُسْلِمَۃِ وَعِدَّتُہُمَا عِدَّۃُ الْحُرَّۃِ الْمُسْلِمَۃِ۔
(١٩١٤٤) حضرت حسن (رض) فرمایا کرتے تھے کہ عیسائی اور یہودی عورت کی طلاق مسلمان عورت کی طلاق کی طرح ہے اور ان کی عدت بھی آزاد مسلمان عورت کی طرح ہے۔

19144

(۱۹۱۴۵) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ، وَالْحَسَنِ فِیمَنْ تَزَوَّجَ الْیَہُودِیَّۃَ ، أَوِ النَّصْرَانِیَّۃَ عَلَی الْمُسْلِمَۃِ قَالَ : یَقْسِمُ بَیْنَہُمَا سَوَائً وَطَلاَقُہَا طَلاَقُ حُرَّۃٍ وَعِدَّتُہَا کَذَلِکَ۔
(١٩١٤٥) حضرت سعید بن مسیب (رض) اور حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کسی شخص نے مسلمان عورت کے ہوتے ہوئے کسی یہودی یاعیسائی عورت سے شادی کی تو ان کے درمیان برابری سے کام لے۔ ان کی طلاق اور عدت بھی آزاد مسلمان عورت کی طرح ہوگی۔

19145

(۱۹۱۴۶) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ عُبَیْدَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالَ : طَلاَقُ الْیَہُودِیَّۃِ وَالنَّصْرَانِیَّۃ طَلاَقُ الْحُرَّۃِ وَعِدَّتُہُمَا عِدَّۃُ الْحُرَّۃِ وَیَقْسِمُ لَہُمَا کَمَا یَقْسِمُ لِلْحُرَّۃِ۔
(١٩١٤٦) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ عیسائی اور یہودی عورت کی طلاق مسلمان عورت کی طلاق کی طرح ہے اور ان کی عدت بھی آزاد مسلمان عورت کی طرح ہے۔ اور ان کے درمیان تقسیم بھی آزاد عورت کی طرح کرے گا۔

19146

(۱۹۱۴۷) حَدَّثَنَا مَعْنُ بْنُ عِیسَی ، عَنِ ابْنِ أَبِی ذِئْبٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ قَالَ : عِدَّۃُ النَّصْرَانِیَّۃِ مِثْلُ عِدَّۃِ الْمُسْلِمَۃِ وَقِسْمَتُہُمَا سَوَائٌ۔
(١٩١٤٧) حضرت زہری (رض) فرماتے ہیں کہ نصرانیہ کی عدت مسلمان عورت کی طرح ہے اور ان کے درمیان تقسیم بھی برابر ہوگی۔

19147

(۱۹۱۴۸) حَدَّثَنَا أَسْبَاطُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، عَنْ مُطَرِّفٍ ، عَنْ عَامِرٍ ؛ فِی الرَّجُلِ یَتَزَوَّجُ الْمُسْلِمَۃَ وَالْیَہُودِیَّۃَ ، أَوِ النَّصْرَانِیَّۃَ قَالَ : یُسَوِّی بَیْنَہُمَا فی الْقَسم مِنْ مَالِہِ وَنَفْسِہِ۔
(١٩١٤٨) حضرت عامر (رض) فرماتے ہیں کہ وہ آدمی جو مسلمان، یہودیہ اور عیسائیہ عورت سے شادی کرے تو مال اور جان میں ان کے درمیان برابری کرے گا۔

19148

(۱۹۱۴۹) حَدَّثَنَا شَبَابَۃُ ، عَنْ شُعْبَۃَ قَالَ : سَأَلْتُ الْحَکَمَ وَحَمَّادًا عَنِ الرَّجُلِ یَتَزَوَّجُ النَّصْرَانِیَّۃَ فَقَالاَ : قِسْمَتُہُمَا سَوَائٌ۔
(١٩١٤٩) حضرت شعبہ (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت حکم (رض) اور حضرت حماد (رض) سے سوال کیا کہ اگر کوئی شخص کسی عیسائی عورت سے شادی کرے تو (مسلمان عورت کے ہوتے ہوئے ان دونوں میں برابری اور تقسیم کا) کیا حکم ہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ دونوں کے درمیان تقسیم میں برابری کرے گا۔

19149

(۱۹۱۵۰) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ أَبِی عَمْرٍو الْعَبْدِیِّ ، عَنْ عَلِیٍّ قَالَ : إذَا وَضَعَتْ وَلَدًا وَبَقِیَ فِی بَطْنِہَا وَلَدٌ فَہُوَ أَحَقُّ بِہَا مَا لَمْ تَضَعِ الآخَرَ۔
(١٩١٥٠) حضرت علی (رض) فرماتے ہیں کہ اگر عورت ایک بچے کو جنم دے اور دوسرا اس کے پیٹ میں ہو تو مرد اس سے رجوع کرسکتا ہے جب تک وہ دوسرے بچے کو جنم نہ دے دے۔

19150

(۱۹۱۵۱) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَطَائِ بْنِ مَیْسَرَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ : إذَا وَضَعَتْ وَلَدًا وَبَقِیَ فِی بَطْنِہَا وَلَدٌ فَہُوَ أَحَقُّ بِرَجْعَتِہَا مَا لَمْ تَضَعِ الآخَرَ۔
(١٩١٥١) حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ جب عورت نے ایک بچے کو جنم دیا اور ایک بچہ اس کے پیٹ میں باقی تھا تو مرد اس سے رجوع کرنے کا حقدار ہے جب تک وہ دوسرے بچے کو جنم نہ دے دے۔

19151

(۱۹۱۵۲) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَطَائٍ مِثْلَہُ۔
(١٩١٥٢) حضرت عطائ (رض) سے بھی یونہی منقول ہے۔

19152

(۱۹۱۵۳) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ أَبِی عَرُوبَۃَ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ، وَعَطَائٍ وَسُلَیْمَانَ بْنِ یَسَارٍ ؛ فِی الرَّجُلِ یُطَلِّقُ امْرَأَتَہُ تَطْلِیقَۃً فَتَضَعُ وَلَدًا ، ویکون فِی بَطْنِہَا آخَرُ ، فَیُرَاجِعُہَا زَوْجُہَا فِیمَا بَیْنَ ذَلِکَ قَالُوا : إِنْ شَائَ رَاجَعَہَا حَتَّی تَضَعَ الآخَرَ مِنْہما۔
(١٩١٥٣) حضرت قتادہ، حضرت سعید بن مسیب، حضرت عطاء اور حضرت سلیمان بن یسار (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو ایک طلاق دے اور اس کے بعد عورت ایک بچے کو جنم دے اور دوسرا بچہ اس کے رحم میں ہو تو دوسرے بچے کی پیدائش سے پہلے آدمی اس سے رجوع کرسکتا ہے۔

19153

(۱۹۱۵۴) حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّیَالِسِیُّ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنْ حَمَّادٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ فِی رَجُلٍ طَلَّقَ امْرَأَتَہُ وَفِی بَطْنِہَا وَلَدَانِ ، قَالَ ہُوَ أَحَقُّ بِرَجْعَتِہَا مَا لَمْ تَضَعَ الآخَرَ وَتَلاَ : {وَأُولاَتُ الأَحْمَالِ أَجَلُہُنَّ أَنْ یَضَعْنَ حَمْلَہُنَّ}۔
(١٩١٥٤) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ اگر ایک آدمی اپنی بیوی کو طلاق دے اور اس کے پیٹ میں دو بچے ہوں تو وہ دوسرے بچے کی پیدائش تک رجوع کا حق رکھتا ہے۔ پھر انھوں نے یہ آیت پڑھی { وَأُولاَتُ الأَحْمَالِ أَجَلُہُنَّ أَنْ یَضَعْنَ حَمْلَہُنَّ }

19154

(۱۹۱۵۵) حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ خَالِدٍ ، عَنِ ابْنِ أَبِی ذِئْبٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ فِی الَّذِی یُطَلِّقُ وَفِی بَطْنِہَا الولدان قَالَ لَہُ الرَّجْعَۃُ حَتَّی تَضَعَ مَا فِی بَطْنِہَا۔
(١٩١٥٥) حضرت زہری (رض) فرماتے ہیں کہ اگر ایک مرد اپنی بیوی کو طلاق دے اور اس کے رحم میں دو بچے ہوں تو مرد اس وقت تک رجوع کرسکتا ہے جب تک وہ دوسرے بچے کو جنم نہ دے۔

19155

(۱۹۱۵۶) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ قَالَ ہُوَ أَحَقُّ بِہَا مَا لَمْ تَضَعِ الآخَرَ۔
(١٩١٥٦) حضرت شعبی (رض) فرماتے ہیں کہ مرد اپنی بیوی سے اس وقت تک رجوع کرسکتا ہے جب تک دوسرے بچے کو جنم نہ دے دے۔

19156

(۱۹۱۵۷) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ وَالحَسَن وَسُلَیْمَانَ بْنِ یَسَارٍ وَعَطَائِ بْنِ أَبِی رَبَاحٍ قَالُوا : ہُوَ أَحَقُّ بِہَا مَا لَمْ تَضَعَ الآخَرَ۔
(١٩١٥٧) حضرت سعید بن مسیب (رض) ، حضرت حسن (رض) ، حضرت سلیمان بن یسار (رض) اور حضرت عطاء بن ابی رباح (رض) فرماتے ہیں کہ مرد اپنی بیوی سے اس وقت تک رجوع کرسکتا ہے جب تک دوسرے بچے کو جنم نہ دے دے۔

19157

(۱۹۱۵۸) حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِی زَائِدَۃَ ، عَنْ زَکَرِیَّا ، عَنْ عَامِرٍ قَالَ : کَانُوا یَقُولُونَ : لَوْ کَانَ وَلَدٌ وَاحِدٌ خَرَجَ مِنْہُ طَائِفَۃٌ کان یَمْلِکُ الرَّجْعَۃَ مَا لَمْ یَخْرُجْ کُلُّہُ۔
(١٩١٥٨) حضرت عامر (رض) فرماتے ہیں کہ اسلاف فرمایا کرتے تھے کہ اگر ایک بچے کا کچھ حصہ اپنی ماں کے رحم سے باہر آجائے تو پھر بھی خاوند کو رجوع کا حق ہوتا ہے جب تک بچہ پورے کا پورا باہر نہ آجائے۔

19158

(۱۹۱۵۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ قَالَ: حدَّثَنَا ابْنُ أَبِی خَالِد، عَنِ أَبِی حَنْظَلَۃَ، عَنِ الشَّعْبِیِّ قَالَ: ہُوَ أَحَقُّ بِہَا مَا لَمْ تَضَعِ الآخَرَ۔
(١٩١٥٩) حضرت شعبی (رض) فرماتے ہیں کہ مرد اپنی بیوی سے اس وقت تک رجوع کرسکتا ہے جب تک دوسرے بچے کو جنم نہ دے دے۔

19159

(۱۹۱۶۰) حَدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ قَالَ : إذَا تُوُفِّیَ الرَّجُلُ ، أَوْ طَلَّقَ امْرَأَتَہُ وَہِیَ حَامِلٌ فَوَضَعَتْ وَلَدًا وَبَقِیَ فِی بَطْنِہَا آخَرُ فَقَدِ انْقَضَتْ عِدَّتُہَا بِالأَوَّلِ۔
(١٩١٦٠) حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ جب کسی آدمی کا انتقال ہوگیا یا اس نے اپنی حاملہ بیوی کو طلاق دے دی۔ عورت نے بچے کو جنم دیا اور اس کے پیٹ میں ایک اور بچہ بھی تھا تو پہلے بچے کی پیدائش سے عدت پوری ہوگئی۔

19160

(۱۹۱۶۱) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الْحَکَمِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالَ : إذَا وَضَعَتْ أَحَدَہُمَا فَقَدْ بَانَتْ۔
(١٩١٦١) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ جب اس نے ایک بچہ جنم دے دیا تو وہ بائنہ ہوگئی۔

19161

(۱۹۱۶۲) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ قَالَ : إذَا وَضَعَتِ الأَوَّلَ فَقَدْ بَانَتْ ، قَالَ : قِیلَ لَہُ : تُزَوَّجُ ؟ قَالَ : لاَ ، قَالَ قَتَادَۃُ : خُصِم الْعَبْدُ۔
(١٩١٦٢) حضرت قتادہ (رض) فرماتے ہیں کہ جب اس نے ایک بچے جو جنم دے دیا تو وہ بائنہ ہوگئی۔ ان سے سوال کیا گیا کہ کیا اب وہ شادی کرسکتی ہے ؟ انھوں نے فرمایا نہیں۔ حضرت قتادہ فرماتے ہیں کہ بندے (حضرت عکرمہ) سے جھگڑا کیا گیا۔

19162

(۱۹۱۶۳) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالَ : تَعْتَدُّ الْمُطَلَّقَۃُ فِی بَیْتِ زَوْجِہَا ، وَلاَ تَکْتَحِلُ بِکُحْلٍ زِینَۃً۔
(١٩١٦٣) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ عورت اپنے خاوند کے گھر میں عدت گزارے گی۔ اور زینت والا سرمہ نہیں لگائے گی۔

19163

(۱۹۱۶۴) حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِی زَائِدَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، عَنْ مَسْرُوقٍ قَالَ : جَائَ رَجُلٌ إلَی عَبْدِ اللہِ فَقَالَ : إنِّی طَلَّقْتُ امْرَأَتِی ثَلاَثًا ، وَإِنَّہَا تُرِیدُ أَنْ تَخْرُجَ ، قَالَ : احْبِسْہَا ، قَالَ : لاَ تجلس قَالَ : قَیِّدْہَا قَالَ : إنَّ لَہَا إخْوَۃً غَلِیظَۃٌ رِقَابُہُمْ ، قَالَ : اسْتَعْدِ الأَمِیرَ۔
(١٩١٦٤) حضرت مسروق (رض) فرماتے ہیں کہ ایک آدمی حضرت عبداللہ (رض) کے پاس آیا اور اس نے کہا میں نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دی ہیں اور وہ گھر سے جانا چاہتی ہے۔ انھوں نے فرمایا کہ اسے روکے رکھو۔ اس آدمی نے کہا کہ وہ نہیں رکتی۔ انھوں نے فرمایا کہ اس قید کرو۔ اس آدمی نے کہا کہ اس عورت کے بھائی ہیں جو بڑے مضبوط اور توانا ہیں۔ حضرت عبداللہ (رض) نے فرمایا کہ امیر کی طرف رجوع کرو۔

19164

(۱۹۱۶۵) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ قَالَ : الْمُطَلَّقَۃُ تَزُورُ وَلاَ تَبِیتُ۔
(١٩١٦٥) حضرت عروہ (رض) فرماتے ہیں کہ طلاق یافتہ عورت اپنے اقارب سے ملاقات کرسکتی ہے لیکن وہاں رات نہیں گزار سکتی۔

19165

(۱۹۱۶۶) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ أَبِی عَرُوبَۃَ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ قَالَ : الْمُطَلَّقَۃُ ثَلاَثًا لاَ تَخْرُجُ مِنْ بَیْتِ زَوْجِہَا وَلاَ تَمَسُّ طِیبًا إلاَّ عِنْدَ الطُّہْرِ بنُبذۃ مِنْ قُسْطٍ وَأَظْفَارٍ۔
(١٩١٦٦) حضرت سعید بن مسیب (رض) فرماتے ہیں کہ جس عورت کو تین طلاقیں دے دی گئی ہوں وہ اپنے خاوند کے گھر سے باہر نہیں نکل سکتی۔ وہ خوشبو بھی صرف طہر میں لگائے جو کہ قسط اور اظفار نامی خوشبو میں سے معمولی سی۔

19166

(۱۹۱۶۷) حَدَّثَنَا أَبُو زُکَیر یَحْیَی بْنُ مُحَمَّدٍ الْقُرَشِیُّ ، عَنِ ابْنِ عَجْلاَنَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ نَضْلَۃَ قَالَ : طَلَّقْتُ بِنْت عَمٍّ لِی ثَلاَثًا الْبَتَّۃَ فَأَتَیْت سَعِیدَ بْنَ الْمُسَیَّبِ أَسْأَلُہُ فَقَالَ : تَعْتَدُّ فِی بَیْتِ زَوْجِہَا حَیْثُ طُلِّقَتْ ، قَالَ : وَسَأَلْت الْقَاسِمَ وَسَالِمًا وَأَبَا بَکْرِ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ وَخَارِجَۃَ بْنَ زَیْدٍ وَسُلَیْمَانَ بْنَ یَسَارٍ فکُلُّہُمْ یَقُولُ مِثْلَ قَوْلِ سَعِیدٍ۔
(١٩١٦٧) حضرت عبد الرحمن بن نضلہ (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے اپنی چچا زادبہن کو تین طلاقیں دے دیں پھر میں حضرت سعید بن مسیب (رض) کے پاس آیا کہ ان سے اس بارے میں سوال کروں۔ انھوں نے فرمایا کہ وہاں اپنے خاوند کے گھر میں عدت گزارے گی جہاں اسے طلاق دی گئی۔ وہ کہتے ہیں کہ میں نے اس بارے میں حضرت قاسم، سالم، ابوبکر بن عبد الرحمن بن حارث ، خارجہ بن زید اور سلیمان بن یسار (رض) سے سوال کیا تو ان سب نے وہی بات کی جو حضرت سعید بن مسیب (رض) نے فرمائی تھی۔

19167

(۱۹۱۶۸) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ فِی الْمُطَلَّقَۃِ ثَلاَثًا وَالْمُتَوَفَّی عَنْہَا زَوْجُہَا : تَعْتَدَّانِ فِی بَیْتِ زَوْجَیْہِمَا وَتُحِدَّانِ۔
(١٩١٦٨) حضرت زہری فرماتے ہیں کہ جس عورت کو تین طلاقیں دی گئی ہوں یا اس کا خاوند انتقال کرگیا ہو وہ اپنے خاوند کے گھر میں عدت گزاریں گی اور زیر ناف بالوں کو صاف کریں گی۔

19168

(۱۹۱۶۹) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ، عَنِ الْقَاسِمِ أَنَّ یَحْیَی بْنَ سَعِیدِ بْنِ الْعَاصِ طَلَّقَ امْرَأَتَہُ بِنْتَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَکَمِ ، فَانْطَلَقَتْ إلَی أَہْلِہَا ، فَأَرْسَلَتْ عَائِشَۃُ إلَی مَرْوَانَ : اتَّقِ اللَّہَ وَرُدَّ الْمَرْأَۃَ إلَی بَیْتِہَا ، فَقَالَ مَرْوَانُ : إنَّ عَبْدَ الرَّحْمَنِ غَلَبَنِی۔
(١٩١٦٩) حضرت قاسم (رض) فرماتے ہیں کہ یحییٰ بن سعید بن عاص (رض) نے اپنی بیوی (بنت عبد الرحمن بن حکم (رض) ) کو طلاق دی۔ وہ اپنے گھر والوں کے پاس چلی گئیں۔ اس پر حضرت عائشہ (رض) نے مروان کے پاس پیغام بھیجا کہ اللہ سے ڈرو اور عورت کو اس کے خاوند کے گھر واپس بھیج دو ۔ مروان نے کہا کہ عبد الرحمن (رض) مجھ پر غالب آگئے ہیں۔

19169

(۱۹۱۷۰) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ : لاَ تَبِیتُ الْمَبْتُوتَۃُ وَلاَ الْمُتَوَفَّی عَنْہَا زَوْجُہَا إلاَّ فِی بَیْتِہَا حَتَّی تَنْقَضِیَ عِدَّتُہَا۔
(١٩١٧٠) حضرت ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ جس عورت کو طلاق دے دی گئی ہو یا اس کا خاوند انتقال کرگیا ہو تو وہ اپنے خاوند کے گھر میں ہی رہے گی جب تک اس کی عدت پوری نہ ہوجائے۔

19170

(۱۹۱۷۱) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ قَالَ : طُلِّقَتِ امْرَأَۃٌ بِالْمَدِینَۃِ فَسُئِلَ فُقَہَائُ أَہْلِ الْمَدِینَۃِ فَقَالُوا : تَمْکُثُ فِی بَیْتِہَا ، فَسُئِلَ سَعِیدٌ : فَقَالَ : تَمْکُثُ۔
(١٩١٧١) حضرت یحییٰ بن سعید (رض) کہتے ہیں کہ مدینہ میں ایک عورت کو طلاق دی گئی پھر اس کے بارے میں مدینہ کے فقہاء سے سوال کیا گیا تو انھوں نے فرمایا کہ وہ اپنے خاوند کے گھر میں رہے گی۔ اس بارے میں حضرت سعید (رض) سے سوال کیا گیا تو انھوں نے فرمایا کہ وہ اپنے خاوند کے گھر میں ہی رہے گی۔

19171

(۱۹۱۷۲) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ قَالَ : قالَتْ فَاطِمَۃُ بِنْتُ قَیْسٍ : یَا رَسُولَ اللہِ ، إنِّی أَخَافُ أَنْ یُقْتَحَمَ عَلَیَّ قَالَ : فَأَمَرَہَا أَنْ تَحَوَّلَ۔ (مسلم ۱۱۲۱۔ ابن ماجہ ۲۰۳۳)
(١٩١٧٢) حضرت عروہ (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت فاطمہ بنت قیس (رض) نے (طلاق کے بعد) حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! مجھے اندیشہ ہے کہ اس گھر میں میرے ساتھ زیادتی کی جائے گی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انھیں اپنے اہل کے پاس جانے کی اجازت دے دی۔

19172

(۱۹۱۷۳) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ یُونُس ، عَنِ الْحَسَنِ ؛ فِی الْمُطَلَّقَۃِ ثَلاَثًا : تَعْتَدُّ فِی غَیْرِ بَیْتِہَا إِنْ شَائَتْ۔
(١٩١٧٣) حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ جس عورت کو تین طلاقیں دے دی گئی ہوں اگر وہ چاہے تو اپنے خاوند کے گھر کے علاوہ کہیں بھی عدت گزار سکتی ہے۔

19173

(۱۹۱۷۴) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ الثَّقَفِیُّ، عَنْ حَبِیبٍ قَالَ: سَأَلْتُ عَطَائً فَقَالَ: تَعْتَدُّ حَیْثُ شَائَتْ، وَقَالَہُ الْحَسَنُ أَیْضًا۔
(١٩١٧٤) حضرت حبیب (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عطائ (رض) سے مطلقہ کی عدت کے مقام کے بارے میں سوال کیا تو انھوں نے فرمایا کہ وہ جہاں چاہے وہاں عدت گزار سکتی ہے۔ حضرت (رض) حسن بھی یہی فرماتے تھے۔

19174

(۱۹۱۷۵) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بن عَمرو قَالَ : حدَّثَنَا أَبُو سَلَمَۃَ ، عَنْ فَاطِمَۃَ بِنْتِ قَیْسٍ قَالَ : کَتَبْتُ ذَلِکَ مِنْ فِیہَا کِتَابًا ، قَالَتْ: کُنْتُ عِنْدَ رَجُلٍ مِنْ بَنِی مَخْزُومٍ فَطَلَّقَنِی الْبَتَّۃَ، فَقَالَ لِی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: انْتَقِلِی إلَی ابْنِ أُمِّ مَکْتُومٍ، فَإِنَّہُ رَجُلٌ قَدْ ذَہَبَ بَصَرُہُ، فَإِنْ وَضَعْت شَیْئًا لَمْ یَرَ شَیْئًا۔ (مسلم ۱۱۱۶۔ ابوداؤد ۲۲۷۸)
(١٩١٧٥) حضرت فاطمہ بنت قیس (رض) فرماتی ہیں کہ میں بنومخزوم کے ایک آدمی کے نکاح میں تھی۔ انھوں نے مجھے حتمی طلاق دے دی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھ سے فرمایا کہ تم ابن ام مکتوم (رض) کے گھر چلی جاؤ۔ وہ نابینا آدمی ہیں۔ اگر تم ضرورت کے تحت اپنے کپڑے اتارو گی تو بھی وہ کچھ نہ دیکھ سکیں گے۔

19175

(۱۹۱۷۶) حَدَّثَنَا جَرِیرُ بْنُ عَبْدِ الْحَمِیدِ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ سُئِلَ عَنِ امْرَأَۃٍ طُلِّقَتْ وَہِیَ سَاکِنَۃٌ فِی بَیْتٍ بِکِرَائٍ فَقَالَ : إِنْ أَحْسَنَ أَنْ یُعْطِیَ أَجْرًا وَتَمْکُثَ فِی بَیْتِہَا حَتَّی تَنْقَضِیَ عِدَّتُہَا۔
(١٩١٧٦) حضرت ابراہیم (رض) سے سوال کیا گیا کہ ایک عورت کرائے کے گھر میں رہتی تھی اور اسے طلاق ہوگئی تو اب وہ کیا کرے ؟ انھوں نے فرمایا کہ بہتر ہے کہ آدمی مکان کا کرایہ دے اور وہ عدت کے پورا ہونے تک اسی گھر میں رہے۔

19176

(۱۹۱۷۷) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ الثَّقَفِیُّ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ قَالَ : سُئِلَ سعید بْنُ الْمُسَیَّبِ ، عَنِ امْرَأَۃٍ طُلِّقَتْ وَہِیَ فِی بَیْتٍ بِکِرَائٍ عَلَی مَنِ الْکِرَائُ ؟ قَالَ : عَلَی زَوْجِہَا۔
(١٩١٧٧) حضرت یحییٰ بن سعید (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت سعید بن مسیب (رض) سے سوال کیا گیا کہ اگر ایک عورت کرائے کے گھر میں رہتی ہو اور اسے طلاق ہوجائے تو کرایہ کون دے گا ؟ انھوں نے فرمایا کہ کرایہ اس کے خاوند پر لازم ہوگا۔

19177

(۱۹۱۷۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، عَنْ سُفْیَانَ، عَنْ حَبِیبِ بْنِ أَبِی ثَابِتٍ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ، وَعَنْ سُفْیَانَ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ أَنَّ عُمَرَ رَدَّ نِسْوَۃً حَاجَّاتٍ ، أَوْ مُعْتَمِرَاتٍ خَرَجْنَ فِی عِدَّتِہِنَّ۔
(١٩١٧٨) حضرت سعید بن مسیب (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے ان عورتوں کو واپس بھیج دیا جو عدت کے دنوں میں حج یا عمرے کے لیے گئی تھیں۔

19178

(۱۹۱۷۹) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ حُمَیْدٍ الأَعْرَجِ عن مجاہد أَنَّ عُمَرَ وَعُثْمَانَ رَدَّا نِسْوَۃً حَوَاجَّ أوْ مُعْتَمِرَاتٍ حَتَّی اعْتَدَدْنَ فِی بُیُوتِہِنَّ۔
(١٩١٧٩) حضرت مجاہد (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) اور حضرت عثمان (رض) نے عدت میں حج یا عمرے کے لیے جانے والی عورتوں کو واپس بھیج دیا تھا۔

19179

(۱۹۱۸۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ حَمَّادٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ أَنَّ ابْنَ مَسْعُودٍ رَدَّ نِسْوَۃً حَاجَّاتٍ أو مُعْتَمِرَاتٍ خَرَجْنَ فِی عِدَّتِہِنَّ۔
(١٩١٨١) حضرت ابن مسعود (رض) نے حج یا عمرے کے لیے نکلنے والی ان عورتوں کو واپس بھیج دیا جو عدت میں نکلی تھیں۔

19180

(۱۹۱۸۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ أَبِی الْمِقْدَامِ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ قَالَ : الْمُتَوَفَّی عَنْہَا وَالْمُطَلَّقَۃُ لاَ تَحُجُّ وَلاَ تَعْتَمِرُ وَلاَ تَلْبَسُ مُجْسَدًا۔
(١٩١٨١) حضرت سعید بن مسیب (رض) فرماتے ہیں کہ وہ عورت جس کا خاوند فوت ہوجائے یا جسے طلاق دے دی جائے وہ نہ حج کرے، نہ عمرہ کرے اور جسم کے ساتھ جڑا ہوا کپڑا بھی نہ پہنے۔

19181

(۱۹۱۸۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ مُبَارَکٍ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ أَبِی کَثِیرٍ أَنَّ ابْنَ عُمَرَ زَجَرَ امْرَأَۃً تَحُجُّ فِی عِدَّتِہَا۔
(١٩١٨٢) حضرت ابن عمر (رض) نے اس عورت کو ڈانٹا تھا جو اپنی عدت میں حج کے لیے گئی۔

19182

(۱۹۱۸۳) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ ، عَنْ جَابِرٍ قَالَ : رَدَّ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ نِسْوَۃً مِنْ ذِی الْحُلَیْفَۃِ حَاجَّاتٍ قُتِلَ أَزْوَاجُہُنَّ فِی بَعْضِ تِلْکَ الْمِیَاہِ۔
(١٩١٨٣) حضرت جابر (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) نے ان عورتوں کو ذو الحلیفہ سے واپس بھیج دیا تھا جو حج کرنے گئی تھیں جبکہ ان کے خاوند وہاں شہید کردیئے گئے تھے۔

19183

(۱۹۱۸۴) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنْ مَالِکِ بْنِ أَنَسٍ ، عَنْ حُمَیْدِ بْنِ قَیْسٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ قَالَ : رَدَّ عُمَرُ نِسْوَۃَ الْمُتَوَفَّی عَنْہُنَّ أَزْوَاجُہُنَّ مِنَ الْبَیْدَائِ ، فَمَنَعَہُنَّ الْحَجَّ۔
(١٩١٨٤) حضرت سعید بن مسیب (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے ان عورتوں کو بیداء سے واپس بھیج دیا تھا جن کے خاوند انتقال کرگئے تھے اور انھیں حج سے روک دیا تھا۔

19184

(۱۹۱۸۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ أُسَامَۃَ ، عَنِ الْقَاسِمِ ، وَعَنْ جَرِیرِ بْنِ حَازِمٍ ، عَنْ عَطَائٍ أَنَّ عَائِشَۃَ أَحَجَّتْ أُمَّ کُلْثُومٍ فِی عِدَّتِہَا۔
(١٩١٨٥) حضرت عطائ (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عائشہ (رض) نے حضرت ام کلثوم (رض) کو ان کی عدت میں حج کرایا۔

19185

(۱۹۱۸۶) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ عَطَائٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّہُ کَانَ لاَ یَرَی بَأْسًا لِلْمُطَلَّقَاتِ ثَلاَثًا وَالْمُتَوَفَّی عَنْہُنَّ أَزْوَاجُہُنَّ أَنْ یَحْجُجْنَ فِی عِدَّتِہِنَّ۔
(١٩١٨٦) حضرت ابن عباس (رض) اس بات میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے کہ عورتیں اپنی عدت میں حج کریں۔

19186

(۱۹۱۸۷) حَدَّثَنَا الثَّقَفِیُّ ، عَنْ حَبِیبٍ الْمُعَلِّمِ قَالَ : سَأَلْتُ عَطَائً عَنِ الْمُطَلَّقَۃِ ثَلاَثًا وَالْمُتَوَفَّی عَنْہَا : تَحُجَّانِ عَنْہُمَا فِی عِدَّتِہِمَا ؟ قَالَ : نَعَمْ ، وَقَالَ حَبِیبٌ : وَکَانَ الْحَسَنُ یَقُولُ مِثْلَ ذَلِکَ۔
(١٩١٨٧) حضرت حبیب معلم (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عطائ (رض) سے سوال کیا کہ کیا عورت اپنی عدت میں حج کرسکتی ہے۔ انھوں نے فرمایا ہاں کرسکتی ہے۔ حضرت حبیب (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت حسن (رض) بھی یہی فرمایا کرتے تھے۔

19187

(۱۹۱۸۸) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِسْحَاقَ ، عَنْ زَیْنَبَ بِنْتِ کَعْبِ بْنِ عُجْرَۃَ وَکَانَتْ تَحْتَ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ أَنَّ أُخْتَہُ الفُرَیْعَۃَ ابْنَۃَ مَالِکٍ قَالَتْ : خَرَجَ زَوْجِی فِی طَلَبِ أَعْلاَجٍ لَہُ فَأَدْرَکَہُمْ بِطَرَفِ الْقَدُوم فَقَتَلُوہُ فَجَائَ نَعْیُ زَوْجِی وَأَنَا فِی دَارٍ مِنْ دُورِ الأَنْصَارِ شَاسِعَۃٍ عَنْ دُورِ أَہْلِی فَأَتَیْت النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقُلْت : یَا رَسُولَ اللہِ ، إنَّہُ أَتَانِی نَعْیُ زَوْجِی وَأَنَا فِی دَارٍ شَاسِعَۃٌ ، عَنْ دَارِ أَہْلِی وَدَارِ إخْوَتِی وَلَمْ یَدَعْ مَالاً یُنْفَقُ عَلَیَّ وَلاَ مَالَ وَرِثْتہ وَلاَ دَارَ یَمْلِکُہَا فَإِنْ رَأَیْت أَنْ تَأْذَنَ فَأَلْحَقَ بدَارِ أَہْلِی ، ودَارِ إخْوَتِی ، فَإِنَّہُ أَحَبُّ إلَیَّ وَأَجْمَعُ إلَیَّ بَعْضَ أَمْرِی قَالَ : فَافْعَلِی إِنْ شِئْتِ ، قَالَتْ : فَخَرَجْت قَرِیرَۃَ عَیْنٍ لِمَا قَضَی اللَّہُ عَلَی لِسَانِ رَسُولِہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حَتَّی إذَا کُنْتُ فِی الْمَسْجِدِ ، أَوْ فِی بَعْضِ الْحُجْرَۃِ دَعَانِی فقال : کَیْفَ زَعَمْت ؟ قَالَتْ : فَقَصَصْت عَلَیْہِ الْقِصَّۃَ ، قَالَ : امْکُثِی فِی بَیْتِکَ الَّذِی کَانَ فِیہِ نعی زَوْجُک حَتَّی یَبْلُغَ الْکِتَابُ أَجَلَہُ ، قَالَتْ : فَاعْتَدَدْت فِیہِ أَرْبَعَۃَ أَشْہُرٍ وَعَشْرًا۔ (ترمذی ۱۲۰۴۔ ابوداؤد ۲۲۹۴)
(١٩١٨٨) حضرت ابو سعید خدری (رض) کی بہن حضرت فریعہ بنت مالک (رض) فرماتی ہیں کہ میرے خاوند اپنے عجمی غلاموں کی تلاش میں نکلے جو کہ فرار ہوگئے تھے۔ وہ انھیں مقام قدوم میں ملے جہاں انھوں نے میرے خاوند کو شہید کردیا۔ جب مجھے میرے خاوند کے انتقال کی خبر ملی تو اس وقت میں میں انصار کے ایک گھر میں تھی جو میرے اہل و عیال کے گھروں سے دور تھا۔ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئی اور میں نے عرض کیا کہ مجھے میرے خاوند کے انتقال کی خبر آپہنچی ہے اور میں ایک ایسے گھر میں ہوں جو میرے والدین اور میرے بھائیوں کے گھر سے دور ہے۔ میرے خاوند نے میرے لیے پیسے بھی نہیں چھوڑے جو مجھ پر خرچ کئے جائیں، نہ مال ہے جس کی میں وارث بنوں اور نہ ہی کوئی ایسا گھر ہے جس کے وہ مالک ہیں۔ اگر آپ مجھے اجازت دیں تو میں اپنے والدین اور اپنے بھائیوں کے گھر چلی جاؤں۔ یہ مجھے زیادہ پسند ہے اور اس میں میرے لیے زیادہ فائدہ ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ تم جو چاہو کرلو۔ حضرت فریعہ (رض) فرماتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ فیصلہ سن کر میں اس حال میں باہر آئی کہ میری آنکھیں ٹھنڈی تھیں۔ پھر اس کے بعد میں مسجد میں تھی یا کسی کمرے میں تھی کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے بلایا اور فرمایا کہ تم نے کیا فیصلہ کیا ؟ میں نے سارا واقعہ سنایا تو آپ نے فرمایا کہ اس گھر میں ہی ٹھہری رہو جس میں تمہارے خاوند کے انتقال کی خبر آئی تھی یہاں تک کہ مدت پوری ہوجائے۔ وہ فرماتی ہیں کہ پھر میں نے چار مہینے اور دس دن وہیں گزارے۔

19188

(۱۹۱۸۹) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، عَنْ عَلْقَمَۃَ أَنَّ نِسْوَۃً مِنْ ہَمْدَانَ قُتِلَ عَنْہُنَّ أَزْوَاجُہُنَّ فَقَالَ عَبْدُ اللہِ : یَجْتَمِعْنَ بِالنَّہَارِ وَیَبِتْنَ فِی بُیُوتِہِنَّ۔
(١٩١٨٩) حضرت علقمہ (رض) فرماتے ہیں کہ ہمدان کی کچھ عورتوں کے خاوندقتل کردیئے گئے تو حضرت عبداللہ (رض) نے انھیں حکم دیا کہ وہ دن کو جمع ہوجایا کریں اور رات اپنے گھروں میں گزارا کریں۔

19189

(۱۹۱۹۰) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالَ : تُوُفِّیَ عَنْ نِسْوَۃٍ مِنْ ہَمْدَانَ أَزْوَاجُہُنَّ فَأَرَدْنَ أَنْ یَجْتَمِعْنَ فِی بَیْتِ امْرَأَۃٍ مِنْہُمْ یَعْتَدِدْنَ فَأَرْسَلْنَ إلَی ابْنِ مَسْعُودٍ یَسْأَلْنَہُ قَالَ : تَعْتَدُّ کُلُّ امْرَأَۃٍ فِی بَیْتِہَا۔
(١٩١٩٠) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ ہمدان کی کچھ عورتوں کے خاوند قتل کردیئے گئے۔ انھوں نے ارادہ کیا کہ ان میں سے ایک عورت کے گھر میں عدت گزار لیں۔ اس بارے میں سوال کرنے کے لیے انھوں نے حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) کے پاس کسی کو بھیجا۔ آپ (رض) نے فرمایا کہ ہر عورت اپنے گھر میں عدت گزارے۔

19190

(۱۹۱۹۱) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنْ یُوسُفَ بْنِ مَاہَکَ ، عَنْ أُمِّہِ مُسَیْکَۃَ أَنَّ امْرَأَۃً زَارَتْ أَہْلَہَا وَہِیَ فِی عِدَّۃٍ فَتَمَخَّضَتْ عِنْدَہُم فَبَعَثُونِی إلَی عُثْمَانَ بَعْدَ ما صَلَّی الْعِشَائَ وَأَخَذَ مَضْجَعَہُ فَقُلْت : إنَّ فُلاَنَۃَ زَارَتْ أَہْلَہَا وَہِیَ فِی عِدَّتِہَا وَہِیَ تَمْخُضُ فَمَا تَأْمُرُنِی ؟ قَالَ : فَأَمَرَ بِہَا أَنْ تُحْمَلَ إلَی بَیْتِہَا فِی تِلْکَ الْحَالِ۔
(١٩١٩١) حضرت مسیکہ (رض) فرماتی ہیں کہ ایک عورت عدت میں اپنے گھروالوں سے ملاقات کرنے گئی۔ وہاں اس کے بچے کی ولادت کا وقت قریب آگیا۔ ان لوگوں نے مجھے حضرت عثمان (رض) کے پاس بھیجا کہ میں ان سے اس بارے میں سوال کروں۔ اس وقت وہ عشاء کی نماز پڑھ کر اپنے بستر پر جاچکے تھے۔ میں نے ان سے عرض کیا کہ فلاں عورت اپنی عدت میں اپنے گھروالوں سے ملاقات کے لیے گئی تھی وہاں اسے بچے کی پیدائش کا درد ہونے لگا ہے۔ آپ اس کے بارے میں مجھے کیا حکم دیتے ہیں ؟ انھوں نے فرمایا کہ اسے اسی حال میں اس کے گھر لے جایا جائے۔

19191

(۱۹۱۹۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ مُبَارَکٍ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ أَبِی کَثِیرٍ ، عَنِ ابْنِ ثَوْبَانَ أَنَّ امْرَأَۃً تُوُفِّیَ عَنْہَا زَوْجُہَا وَبِہَا فَاقَۃٌ فَسَأَلَتْ عُمَرَ أَنْ تَأْتِیَ أَہْلَہَا ؟ فَرَخَّصَ لَہَا أَنْ تَأْتِیَ أَہْلَہَا بَیَاضَ یَوْمِہَا۔
(١٩١٩٢) حضرت ابن ثوبان (رض) فرماتے ہیں کہ ایک عورت کے خاوند کا انتقال ہوگیا اور وہ فاقہ کا شکار تھی۔ اس نے حضرت عمر (رض) سے اجازت چاہی کہ وہ اپنے گھروالوں کے پاس چلی جائے۔ حضرت عمر (رض) نے اسے اس بات کی رخصت دے دی کہ دن کی روشنی میں وہاں چلی جایا کرے۔

19192

(۱۹۱۹۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ مُبَارَکٍ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ أَبِی کَثِیرٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَنَّ امْرَأَۃً مِنَ الأَنْصَارِ تُوُفِّیَ عَنْہَا زَوْجُہَا فَسَأَلَتْ زَیْدَ بْنَ ثَابِتٍ فَلَمْ یُرَخِّصْ لَہَا إلاَّ فِی بَیَاضِ یَوْمِہَا أَو لَیْلَتِہَا۔
(١٩١٩٣) حضرت محمد بن عبدالرحمن (رض) فرماتے ہیں کہ انصار کی ایک عورت کا خاوند فوت ہوگیا۔ اس نے اپنے گھر والوں کے پاس جانے کے بارے میں حضرت زید بن ثابت (رض) سے سوال کیا تو انھوں نے اسے روشنی میں ان کے پاس جانے کی اجازت دے دی۔

19193

(۱۹۱۹۴) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالَ : کَانَتِ امْرَأَۃٌ تَعْتَدُّ مِنْ زَوْجِہَا ، تُوُفِّیَ عَنْہَا ، فَاشْتَکَی أَبُوہَا، فَأَرْسَلَتْ إلَی أُمِّ سَلَمَۃَ تَسْأَلُہَا: تَأْتِی أَبَاہَا تُمَرِّضُہُ؟ فَقَالَتْ: إذَا کُنْتِ إِحَدَی طَرَفَیِ النَّہَارِ فِی بَیْتِکِ۔
(١٩١٩٤) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ ایک عورت کا خاوند فوت ہوگیا تھا اور وہ عدت میں تھی۔ اس دوران اس عورت کے والد بیمار ہوگئے۔ اس نے حضرت ام سلمہ (رض) کو پیغام بھیج کر سوال کیا کہ کیا وہ اپنے والد کی تیمارداری کے لیے جاسکتی ہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ اگر دن کے ایک کنارے میں اپنے گھر میں رہو تو جاسکتی ہو۔

19194

(۱۹۱۹۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، عَنْ إسْمَاعِیلَ، قَالَ: سَمِعْتُ إبْرَاہِیمَ یَقُولُ: الْمُتَوَفَّی عَنْہَا زَوْجُہَا لاَ تَبِیتُ فِی غَیْرِ بَیْتِہَا۔
(١٩١٩٥) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ جس عورت کا خاوند فوت ہوگیا ہو وہ اپنے گھر کے علاوہ کہیں رات نہیں رہ سکتی۔

19195

(۱۹۱۹۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ أُسَامَۃَ بْنِ زَیْدٍ ، عَنْ نَافِعٍ أَنَّ امْرَأَۃً تُوُفِّیَ زَوْجُہَا فَاعْتَدَّتْ فِی غیر بَیْتِہَا یَوْمًا فَأَمَرَہَا ابْنُ عُمَرَ أَنْ تَقْضِیَہُ۔
(١٩١٩٦) حضرت نافع (رض) فرماتے ہیں کہ ایک عورت جس کا خاوند فوت ہوگیا تھا اس نے عدت کے دنوں میں سے ایک دن اپنے گھر کے علاوہ کہیں گزارا۔ حضرت ابن عمر (رض) نے اسے وہ دن قضا کرنے کا حکم دیا۔

19196

(۱۹۱۹۷) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ قَالَ : سَأَلْتُ أَبِی ، عَنِ الْمُتَوَفَّی عَنْہَا زَوْجُہَا ، أَتَنْتَقِلُ ؟ قَالَ : لاَ ، إلاَّ أَنْ یَنْتَقِلَ أَہْلُہَا فَتَنْتَقِلَ مَعَہُمْ۔
(١٩١٩٧) حضرت ہشام بن عروہ (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے والد سے سوال کیا کہ وہ عورت جس کا خاوند فوت ہوگیا ہو کیا وہ شہر چھوڑ سکتی ہے ؟ انھوں نے فرمایا نہیں۔ البتہ اگر اس کے گھر والے چھوڑ رہے ہوں تو چھوڑ سکتی ہے۔

19197

(۱۹۱۹۸) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ خُصَیْفٍ قَالَ : سَأَلْتُ سَعِیدَ بْنَ الْمُسَیَّبِ ، عَنِ الْمُتَوَفَّی عَنْہَا زَوْجُہَا تَخْرُجُ مِنْ بَیْتِہَا ؟ قَالَ : لاَ۔
(١٩١٩٨) حضرت خصیف (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت سعید بن مسیب (رض) سے سوال کیا کہ جس عورت کا خاوند فوت ہوگیا ہو کیا وہ اپنے گھر سے نکل سکتی ہے ؟ انھوں نے فرمایا نہیں۔

19198

(۱۹۱۹۹) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنِ الْحَکَمِ قَالَ : کَانَ عُمَرُ وَعَبْدُ اللہِ یَقُولاَنِ : لاَ تَنْتَقِلُ۔
(١٩١٩٩) حضرت حکم (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) اور حضرت عبداللہ (رض) فرمایا کرتے تھے کہ وہ گھر تبدیل نہیں کرسکتی۔

19199

(۱۹۲۰۰) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ قَالَ : کَانَ أَصْحَابُ عَبْدِ اللہِ یَقُولُونَ : لاَ تَخْرُجُ حَتَّی تُوَفِّیَ أَجَلَہَا فِی بَیْتِ زَوْجِہَا۔
(١٩٢٠٠) حضرت عبداللہ (رض) کے شاگرد فرمایا کرتے تھے کہ جس عورت کا خاوند فوت ہوگیا ہو وہ اپنی عدت پوری کئے بغیر خاوند کے گھر سے نہیں نکل سکتی۔

19200

(۱۹۲۰۱) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ أَنَّ امْرَأَۃً مِنَ الأَنْصَارِ تُوُفِّیَ عَنْہَا زَوْجُہَا وَأَنَّ أَبَاہَا اشْتَکَی فَاسْتَأْذَنَتْ عُمَرَ فَلَمْ یُرَخِّصْ لَہَا إلاَّ فِی لَیلۃ۔
(١٩٢٠١) حضرت سعید بن مسیب (رض) فرماتے ہیں کہ انصار کی ایک عورت خاوند کے فوت ہونے کے بعد عدت گزار رہی تھی۔ کہ اس کے والد بیمار ہوگئے۔ اس نے حضرت عمر (رض) سے ان کی تیمارداری کی اجازت چاہی تو حضرت عمر (رض) نے صرف دن کے وقت انھیں جانے کی اجازت دی۔

19201

(۱۹۲۰۲) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَجْلاَنَ ، عَنْ عَوْفِ بْنِ أَبِی جمیلۃ قَالَ : تُوُفِّیَ صَدِیقٌ لِی وَتَرَکَ زرعا لَہُ بِقُبَائَ فَجَائَتِ امْرَأَتُہُ فَقَالَتْ : سَلِ ابْنَ عُمَرَ أَخْرُجُ فَأَقُومُ عَلَیْہِ ؟ فَأَتَیْت ابْنَ عُمَرَ فَقَالَ : تَخْرُجُ بِالنَّہَارِ وَلاَ تَبِیتُ بِاللَّیْلِ۔
(١٩٢٠٢) حضرت عوف بن ابی جمیلہ (رض) کہتے ہیں کہ میرے ایک دوست کا انتقال ہوگیا۔ قباء میں ان کا کھیت تھا۔ ان کی بیوی نے مجھ سے کہا کہ حضرت ابن عمر (رض) سے سوال کرو کہ کیا میں اس کھیت میں کام کرسکتی ہوں ؟ میں حضرت ابن عمر (رض) کے پاس آیا اور میں نے ان سے سوال کیا تو انھوں نے فرمایا کہ دن کے وقت نکل سکتی ہے رات کو نہیں نکل سکتی۔

19202

(۱۹۲۰۳) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ قَالَ : أَخْبَرَنَا ابْنُ عَوْنٍ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ سِیرِینَ أَنَّ ابْنَۃً لِعَبْدِ اللہِ بْنُ عُمَرَ تُوُفِّیَ زَوْجُہَا فَأَتَتْہُمْ فَأَرَادَتْ أَنْ تَبِیتَ عِنْدَہُمْ فَمَنَعَہَا عَبْدُ اللہِ بْنُ عُمَرَ وَقَالَ : ارْجِعِی إلَی بَیْتِکَ فَبِیتِی فِیہِ۔
(١٩٢٠٣) حضرت انس بن سیرین (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمر (رض) کی ایک بیٹی کے خاوند کا انتقال ہوگیا۔ وہ اپنے گھر والوں کے پاس آئی اور اس نے ارادہ کیا کہ وہ ان کے پاس رات گزارے۔ حضرت عبداللہ بن عمر (رض) نے انھیں ایسا کرنے سے منع فرمایا اور فرمایا کہ اپنے گھر چلی جاؤ اور وہیں رات گزارو۔

19203

(۱۹۲۰۴) حَدَّثَنَا جَرِیرُ بْنُ عَبْدِ الْحَمِیدِ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنِ الْحَکَمِ قَالَ : نَقَلَ عَلِیُّ أُمَّ کُلْثُومٍ حِیَن قُتِلَ عُمَرُ وَنَقَلَتْ عَائِشَۃُ أُخْتَہَا حِینَ قُتِلَ طَلْحَۃُ۔
(١٩٢٠٤) حضرت حکم (رض) فرماتے ہیں کہ جب حضرت عمر (رض) شہید ہوگئے تو حضرت علی (رض) نے اپنی صاحبزادی حضرت ام کلثوم (رض) کا گھر اور حضرت طلحہ (رض) کی شہادت کے بعد حضرت عائشہ (رض) نے اپنی بہن کا گھر تبدیل کرادیا تھا۔

19204

(۱۹۲۰۵) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَطَائٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ : تَخْرُجُ۔
(١٩٢٠٥) حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ خاوند کے فوت ہوجانے کے بعد عورت اس کے گھر سے جاسکتی ہے۔

19205

(۱۹۲۰۶) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنْ عَطَائٍ وَأَبِی الشَّعْثَائِ فِی الْمُتَوَفَّی عَنْہَا قَالاَ : تَخْرُجُ۔
(١٩٢٠٦) حضرت عطائ (رض) اور حضرت ابو شعثائ (رض) فرماتے ہیں کہ خاوند کے فوت ہوجانے کے بعد عورت اس کے گھر سے جاسکتی ہے۔

19206

(۱۹۲۰۷) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُیَسَّرٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَطَائٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، وَعَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ ، عَنْ جَابِرٍ أنہما قَالاَ : تَعْتَدُّ الْمُتَوَفَّی عَنْہَا زَوْجُہَا حَیْثُ شَائَتْ۔
(١٩٢٠٧) حضرت ابن عباس (رض) اور حضرت جابر (رض) فرماتے ہیں کہ جس عورت کا خاوند فوت ہوجائے وہ جہاں چاہے عدت گزار سکتی ہے۔

19207

(۱۹۲۰۸) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ قَالَ : کَانَ عَلِیٌّ یُرَحِّلُ الْمُتَوَفَّی عَنْہَا زَوْجُہَا۔
(١٩٢٠٨) حضرت علی (رض) خاوند کے فوت ہوجانے کے بعد عورت کو اس کے گھر سے جانے کی اجازت دیتے تھے۔

19208

(۱۹۲۰۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ فِرَاسٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ أَنَّ عَلِیًّا نَقَلَ أُمَّ کُلْثُومٍ بَعْدَ سَبْعٍ۔
(١٩٢٠٩) حضرت شعبی (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت علی (رض) (اپنی صاحبزادی) حضرت ام کلثوم (رض) کو ان کے شوہر (حضرت عمر (رض) ) کی شہادت کے سات دن بعد اپنے گھر لے آئے تھے۔

19209

(۱۹۲۱۰) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ فِی رَجُلٍ طَلَّقَ امْرَأَتَہُ فَحَاضَتْ حَیْضَۃً ، أَوْ حَیْضَتَیْنِ وَتَزَوَّجَتْ فِی عِدَّتِہَا فَانْقَضَتْ عِدَّتُہَا عِنْدَ زَوْجِہَا فَقَالَ : بَانَتْ مِنْہُ بِتَطْلِیقَۃٍ۔
(١٩٢١٠) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کوئی آدمی اپنی بیوی کو ایک طلاق دے دے اور اسے ایک یا دو حیض آجائیں، پھر وہ عورت عدت میں کسی سے شادی کرلے اور اس کی عدت دوسرے خاوند کے پاس پوری ہو تو وہ پہلے خاوند سے ایک طلاق کے ساتھ بائنہ ہوجائے گی۔

19210

(۱۹۲۱۱) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی قَالَ : سُئِلَ سَعِیدٌ عَنْ رَجُلٍ تَزَوَّجَ امْرَأَۃً فِی عِدَّتِہَا ، ثُمَّ عَلِمَ إِنَّہُ تَزَوَّجَہَا فِی عِدَّتِہَا وَقَدِ انْقَضَتْ عِدَّتُہَا عِنْدَہُ ، ہَلْ لِزَوْجِہَا الأَوَّلِ عَلَیْہَا رَجْعَۃٌ فَحَدَّثَنَا عَنْ عَلِیِّ بْنِ الْحَکَمِ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ زَیدٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ أَنَّہُ قَالَ : یُفَرَّقُ بَیْنَہُمَا وَلاَ رَجْعَۃَ لَہُ عَلَیْہَا لأَنَّ عِدَّتَہَا قَدِ انْقَضَتْ عِنْدَ ہَذَا۔
(١٩٢١١) حضرت عبدالاعلیٰ (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت سعید (رض) سے سوال کیا گیا کہ اگر کوئی شخص کسی عورت سے اس کی عدت میں شادی کرے اور پھر اسے بعد میں معلوم ہو کہ وہ عورت عدت میں ہے تو کیا پہلے خاوند کو رجوع کا حق ہے ؟ انھوں نے سند بیان کرنے کے بعد فرمایا کہ حضرت سعید بن جبیر (رض) فرماتے ہیں کہ ان دونوں کے درمیان جدائی کرائی جائے گی اور مرد کو رجوع کا حق نہیں ہوگا کیونکہ عورت کی عدت اس کے پاس پوری ہوگئی۔

19211

(۱۹۲۱۲) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ أَنَّہُ قَالَ : زَوْجُہَا أَحَقُّ بِہَا وَلاَ یَقْرَبُہَا حَتَّی تَنْقَضِیَ عِدَّتُہَا۔
(١٩٢١٢) حضرت قتادہ (رض) فرماتے ہیں کہ اس کا شوہر اس کا زیادہ حقدار ہے اور وہ عدت پوری ہونے تک اس کے قریب نہیں جائے گا۔

19212

(۱۹۲۱۳) حَدَّثَنَا ابْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ فِی رَجُلٍ طَلَّقَ امْرَأَتَہُ تَطْلِیقَۃً ، أَوْ تَطْلِیقَتَیْنِ فَحَاضَتْ عِنْدَہُ حَیْضَتَیْنِ ، ثُمَّ تزَوَّجَہَا رَجُلٌ فَحَاضَتْ عِنْدَہُ حَیْضَتَیْنِ قَالَ : بَانَتْ مِنَ الأَوَّلِ وَلاَ تُحْتَسَبُ بِہِ لِمَنْ بَعْدَہُ۔
(١٩٢١٣) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے اپنی بیوی کو ایک یا دو طلاقیں دیں، پھر اس کے پاس اسے دو حیض آئے اور پھر ایک آدمی نے اس سے شادی کی اور اس کے پاس اسے ایک حیض آیا تو وہ پہلے خاوند سے بائنہ ہوگئی اور اس کے بعد والے کو شمار نہیں کرے گی۔

19213

(۱۹۲۱۴) حَدَّثَنَا ابْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ قَالَ : تُحْتَسَبُ بِہِ۔
(١٩٢١٤) حضرت زہری (رض) فرماتے ہیں کہ اس کے بعد والے کو شمار کرے گی۔

19214

(۱۹۲۱۵) حَدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَن قَالَ : إِنْ تُوُفِّیَ عَنْہَا زَوْجُہَا یَعْنِی الأَمَۃَ اعْتَدَّتْ شَہْرَیْنِ وَخَمْسَ لَیَالٍ۔
(١٩٢١٥) حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کسی باندی کے خاوند کا انتقال ہوجائے تو وہ دو مہینے پانچ دن عدت گزارے گی۔

19215

(۱۹۲۱۶) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ أَبِی مَعْشَرٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالَ : عِدَّۃُ الأَمَۃِ إذَا مَاتَ عَنْہَا زَوْجُہَا نِصْفُ عِدَّۃِ الْحُرَّۃِ شَہْرَانِ وَخَمْسَۃُ أَیَّامٍ۔
(١٩٢١٦) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ باندی کی عدت آزاد عورت کی عدت کا نصف ہے یعنی دومہینے پانچ دن۔

19216

(۱۹۲۱۷) حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ بْنُ مُوسَی ، عَنْ شَیْبَانَ ، عَنْ فِرَاسٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ فِی مَمْلُوکَۃٍ تُوُفِّیَ عَنْہَا زَوْجُہَا حُرًّا فَعِدَّتُہَا شَہْرَانِ وَخَمْسَۃُ أَیَّامٍ۔
(١٩٢١٧) حضرت شعبی (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کسی باندی کے خاوند کا انتقال ہوجائے تو وہ دو مہینے پانچ دن عدت گزارے گی۔

19217

(۱۹۲۱۸) حَدَّثَنَا شَبَابَۃُ ، عَنْ لَیْثِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ بُکَیْر ، عَنِ ابْنِ الْمُسَیَّبِ ، وَابْنِ قُسَیْطٍ فِی الأَمَۃِ : إذَا تُوُفِّیَ عَنْہَا زَوْجُہَا حُرًّا فَعِدَّتُہَا شَہْرَانِ وَخَمْسَۃُ أَیَّامٍ۔
(١٩٢١٨) حضرت سعید بن مسیب (رض) اور حضرت ابن قسیط (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کسی باندی کے خاوند کا انتقال ہوجائے تو وہ دو مہینے پانچ دن عدت گزارے گی۔

19218

(۱۹۲۱۹) حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ وَرْدَانَ ، عَنْ بُرْدٍ ، عَنْ مَکْحُولٍ فِی الأَمَۃِ : إذَا مَاتَ عَنْہَا زَوْجُہَا اعْتَدَّتْ عِدَّۃَ الْحُرَّۃِ۔
(١٩٢١٩) حضرت مکحول (رض) فرماتے ہیں کہ اگر باندی کے خاوند کا انتقال ہوجائے تو وہ آزاد عورت والی عدت گزارے گی۔

19219

(۱۹۲۲۰) حَدَّثَنَا سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ یَسَارٍ أَنَّ مُعَاوِیَۃَ سَأَلَ زَیْدَ بْنَ ثَابِتٍ فَقَالَ : إذَا طَعَنَتْ فِی الْحَیْضَۃِ الثَّالِثَۃِ فَقَدْ بَرِئَتْ مِنْہُ۔
(١٩٢٢٠) حضرت زید بن ثابت (رض) فرماتے ہیں کہ جب عورت کا تیسرا حیض شروع ہوگیا تو وہ خاوند سے آزاد ہوگئی۔

19220

(۱۹۲۲۱) حَدَّثَنَا جَرِیرُ بْنُ عَبْدِ الْحَمِیدِ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ مُوسَی بْنِ شَدَّادٍ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ ثَابِتٍ قَالَ : کَانَ زَیْدُ بْنُ ثَابِتٍ یَقُولُ : إذَا حَاضَتِ المطلقۃ الْحَیْضَۃَ الثَّالِثَۃَ قَبْلَ أَنْ یُرَاجِعَہَا زَوْجُہَا فَلاَ یَمْلِکُ الرَّجْعَۃَ۔
(١٩٢٢١) حضرت زید بن ثابت (رض) فرمایا کرتے تھے کہ جب رجوع سے پہلے عورت کا تیسرا حیض شروع ہوگیا تو خاوند رجوع نہیں کرسکتا۔

19221

(۱۹۲۲۲) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ أَبِی بَکْرِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَنَّ عَائِشَۃَ وَزَیْدًا کَانَا یَقُولاَنِ : إذَا دَخَلَتْ فِی الدَّمِ الثَّالِثِ فَلَیْسَ لَہُ عَلَیْہَا الرَّجْعَۃُ۔
(١٩٢٢٢) حضرت عائشہ (رض) اور حضرت زید (رض) فرمایا کرتے تھے کہ جب عورت تیسرے حیض میں داخل ہوگئی تو اب آدمی رجوع نہیں کرسکتا۔

19222

(۱۹۲۲۳) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ وَزَیْدِ بْنِ ثَابِتٍ أَنَّہُمَا قَالاَ : إذَا حَاضَتِ الثَّالِثَۃَ فَقَدْ بَانَتْ۔
(١٩٢٢٣) حضرت عبداللہ بن عمر (رض) اور حضرت زید بن ثابت (رض) فرماتے ہیں کہ جب عورت کو تیسرا حیض آجائے تو وہ بائنہ ہوگئی۔

19223

(۱۹۲۲۴) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ الثَّقَفِیُّ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ، عَنْ أَبَانَ بْنِ عُثْمَانَ وَسَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللہِ قَالاَ : إذَا دَخَلَتْ فِی الْحَیْضَۃِ الثَّالِثَۃِ فَقَدْ بَانَتْ۔
(١٩٢٢٤) حضرت ابان بن عثمان (رض) اور حضرت سالم بن عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ جب عورت کو تیسرا حیض آجائے تو وہ بائنہ ہوگئی۔

19224

(۱۹۲۲۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ أَبِی الزِّنَادِ ، عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ یَسَارٍ ، عَنْ زَیْدِ بْنِ ثَابِتٍ قَالَ : إذَا دَخَلَتْ فِی الْحَیْضَۃِ الثَّالِثَۃِ فَقَدْ بَانَتْ مِنْہُ۔
(١٩٢٢٥) حضرت زید بن ثابت (رض) فرماتے ہیں کہ جب عورت کو تیسرا حیض آجائے تو وہ بائنہ ہوگئی۔

19225

(۱۹۲۲۶) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ ، عَنِ الأَعْمَشِِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، عَنْ عَمْرٍو ، وَعَبْدِ اللہِ أَنَّہُمَا قَالاَ : مَنْ طَلَّقَ امْرَأَتَہُ فَہُوَ أَحَقُّ بِرَجْعَتِہَا مَا لَمْ تَغْتَسِلْ مِنْ حَیْضَتِہَا الثَّالِثَۃِ۔
(١٩٢٢٦) حضرت عمر (رض) اور حضرت عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ طلاق دینے کے بعد آدمی اس وقت تک رجوع کا حق رکھتا ہے جب تک عورت تیسرے حیض سے غسل نہ کرلے۔

19226

(۱۹۲۲۷) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ ، عَنْ جَعْفَرِ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ عَلِیٍّ وَابْنِ عَبَّاسٍ قَالاَ : ہُوَ أَحَقُّ بِہا مَا لَمْ تَغْتَسِلْ مِنْ حَیْضَتِہَا الثَّالِثَۃِ۔
(١٩٢٢٧) حضرت علی (رض) اور حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ طلاق دینے کے بعد آدمی اس وقت تک رجوع کا حق رکھتا ہے جب تک عورت تیسرے حیض سے غسل نہ کرلے۔

19227

(۱۹۲۲۸) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنِ الْحَکَمِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، عَنِ الاَسْوَدِ ، عَنْ عُمَرَ ، وَعَبْدِ اللہِ أنہما قَالاَ : ہُوَ أَحَقُّ بِہَا۔
(١٩٢٢٨) حضرت عمر (رض) اور حضرت عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ طلاق دینے کے بعد آدمی اس وقت تک رجوع کا حق رکھتا ہے جب تک عورت تیسرے حیض سے غسل نہ کرلے۔

19228

(۱۹۲۲۹) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، عَنْ عَلْقَمَۃَ ، عَنْ عُمَرَ ، وَعَبْدِ اللہِ قَالاَ : ہُوَ أَحَقُّ بِہَا حَتَّی تَغْتَسِلَ مِنَ الْحَیْضَۃِ الثَّالِثَۃِ۔
(١٩٢٢٩) حضرت عمر (رض) اور حضرت عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ طلاق دینے کے بعد آدمی اس وقت تک رجوع کا حق رکھتا ہے جب تک عورت تیسرے حیض سے غسل نہ کرلے۔

19229

(۱۹۲۳۰) حَدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ بْنُ عَیَّاشٍ، عَنْ عُبَیْدِاللہِ الْکَلاَعِیِّ، عَنْ مَکْحُولٍ أَنَّ أَبَا بَکْرٍ وَعُمَرَ وَعَلِیًّا، وَابْنَ مَسْعُودٍ وَأَبَا الدَّرْدَائِ وَعُبَادَۃَ بْنَ الصَّامِتِ ، وَعَبْدَ اللہِ بْنَ قَیْسٍ الأَشْعَرِیَّ کَانُوا یَقُولُونَ ؛ فِی الرَّجُلِ یُطَلِّقُ امْرَأَتَہُ تَطْلِیقَۃً ، أَوْ تَطْلِیقَتَیْنِ : إنَّہُ أَحَقُّ بِہَا مَا لَمْ تَغْتَسِلْ مِنْ حَیْضَتِہَا الثَّالِثَۃِ ، یَرِثُہَا وَتَرِثُہُ مَا دَامَتْ فِی الْعِدَّۃِ۔
(١٩٢٣٠) حضرت ابو بکر، حضرت عمر، حضرت علی، حضرت ابن مسعود، حضرت ابو دردائ، حضرت عبادہ بن صامت اور حضرت عبداللہ بن قیس اشعری (رض) فرمایا کرتے تھے کہ ایک یا دو طلاقیں دینے کے بعد آدمی اس وقت تک رجوع کا حق رکھتا ہے جب تک عورت تیسرے حیض کا غسل نہ کرلے۔ جب تک وہ عدت میں ہے وہ دونوں ایک دوسرے کے وارث ہوں گے۔

19230

(۱۹۲۳۱) حَدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ بْنُ عَیَّاشٍ ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ بْنِ عُبَیْدٍ ، عَنْ مَکْحُولٍ قَالَ : قَالَ عُمَرُ : إِنْ دَخَلَ عَلَیْہَا الْمُغْتَسَلَ قَبْلَ أَنْ تُفِیضَ عَلَیْہَا الْمَائَ فَہُوَ أَحَقُّ بِہَا۔ (سعید بن منصور ۱۲۲۳)
(١٩٢٣١) حضرت عمر (رض) فرماتے ہیں کہ اگر عورت کے غسل خانے میں جانے کے بعدپانی ڈالنے سے پہلے وہ رجوع کرلے تو وہ اس کا حقدار ہے۔

19231

(۱۹۲۳۲) حَدَّثَنَا سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ، عَنْ عَلِیٍّ قَالَ : ہُوَ أَحَقُّ بِہَا حَتَّی تَغْتَسِلَ مِنَ الْحَیْضَۃِ الثَّالِثَۃِ۔
(١٩٢٣٢) حضرت علی (رض) فرماتے ہیں کہ طلاق دینے کے بعد آدمی اس وقت تک رجوع کا حق رکھتا ہے جب تک عورت تیسرے حیض سے غسل نہ کرلے۔

19232

(۱۹۲۳۳) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ ، عَنِ ابْنِ عَجْلاَنَ ، عَنْ مَکْحُولٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ قَالَ : لَوْ أَنَّ رَجُلاً دَخَلَ عَلَی امْرَأَتِہِ وَہِیَ تَغْتَسِلُ فَقَالَ : قَدْ رَاجَعْتُک فَقَالَتْ : کَذَبْت کَذَبْت ، وَصَبَّتِ الْمَائَ عَلَی رَأْسِہَا کَانَ أَحَقَّ بِہَا۔
(١٩٢٣٣) حضرت سعید بن مسیب (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کے پاس اس وقت جائے جب وہ تیسرے حیض سے فارغ ہونے کے بعد غسل کرنے لگی ہو اور اس سے کہے کہ میں نے تجھ سے رجوع کی، اور وہ عورت کہے کہ تو نے جھوٹ بولا ، تو نے جھوٹ بولا اور اپنے سر پر پانی ڈال لے تو بھی وہ شخص اس عورت کا زیادہ حقدار ہوگا۔

19233

(۱۹۲۳۴) حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ ، عَنْ جُوَیْبِرٍ ، عَنِ الضَّحَّاکِ بْنِ مُزَاحِمٍ أَنَّ امْرَأَۃً تَزَوَّجَتْ شَابًّا فَطَلَّقَہَا تَطْلِیقَۃً ، أَوْ تَطْلِیقَتَیْنِ قَالَ : فَأَتَاہَا وَہِیَ تَغْتَسِلُ مِنَ الْحَیْضَۃِ الثَّالِثَۃِ فَقَالَ : یَا فُلاَنَۃُ إنِّی قَدْ رَاجَعْتُک ، فَقَالَتْ : کَذَبْت، لَیْسَ ذَلِکَ إلَیْک ، فَارْتَفَعُوا إلَی عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ ، وَعِنْدَہُ عَبْدُ اللہِ بْنُ مَسْعُودٍ ، فَقَالَ عُمَرُ : مَا تَرَی یَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ ؟ قَالَ : فَقَالَ : أَنْشُدُک بِاَللَّہِ ، ہَلْ کُنْت لَطَمْتِیہِ بِالْمَائِ ؟ قَالَتْ : مَا فَعَلْت ، قَالَ : فَقَالَ : خُذْ بِیَدِہَا۔
(١٩٢٣٤) حضرت ضحاک بن مزاحم (رض) فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ ایک عورت نے کسی نوجوان سے شادی کی ۔ اس نوجوان نے اسے ایک یا دو طلاقیں دے دیں۔ پھر وہ اس کے پاس اس وقت آیا جب وہ عورت تیسرے حیض کا غسل کررہی تھی۔ اور اس سے کہا کہ اے فلانی ! میں نے تجھ سے رجوع کیا۔ اس عورت نے کہا کہ تو نے جھوٹ بولا ! تو ایسا کر ہی نہیں سکتا۔ پھر یہ مقدمہ حضرت عمر بن خطاب (رض) کے پاس پیش ہوا۔ ان کے پاس حضرت عبداللہ (رض) بھی بیٹھے تھے۔ حضرت عمر (رض) نے ان سے فرمایا کہ اے ابو عبدالرحمن ! آپ کی کیا رائے ہے ؟ انھوں نے عورت کو قسم دے کر پوچھا کہ کیا تو نے اپنے جسم پر پانی ڈال لیا تھا ؟ اس نے کہا نہیں۔ حضرت عبداللہ (رض) نے نوجوان سے فرمایا کہ اس کا ہاتھ پکڑ کر لے جا۔

19234

(۱۹۲۳۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ بْنِ أَبِی خَالِدٍ ، عَنِ الْحَکَمِ أَنَّ أَبَا کَنَفٍ طَلَّقَ امْرَأَتَہُ وَلَمْ یُعْلِمْہَا فَأَشْہَدَ عَلَی رَجْعَتِہَا ولم یعلمہا ، قَالَ : فَقَالَ لَہُ عُمَرُ : إِنْ أَدْرَکْتہَا قَبْلَ أَنْ تَتَزَوَّجَ فَأَنْتَ أَحَقُّ بِہَا۔
(١٩٢٣٥) حضرت حکم (رض) فرماتے ہیں کہ ابو کنف (رض) نے اپنی بیوی کو اطلاع دیئے بغیر طلاق دی اور پھر اطلاع دیئے بغیر رجوع کرلیا۔ حضرت عمر (رض) نے ان سے فرمایا کہ اگر تم اس کے شادی کرنے سے پہلے اسے پالو تو تم ہی اس کے حقدار ہو۔

19235

(۱۹۲۳۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنِ الْحَکَمِ قَالَ : قَالَ عَلِیٌّ : إذَا طَلَّقَہَا ، ثُمَّ أَشْہَدَ عَلَی رَجْعَتِہَا فَہِیَ امْرَأَتُہُ أَعْلَمَہَا ، أَوْ لَمْ یُعْلِمْہَا۔
(١٩٢٣٦) حضرت علی (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کسی نے اپنی بیوی کو طلاق دی اور پھر رجوع پر کسی کو گواہ بنا لے تو وہ اپنی بیوی کا زیادہ حقدار ہے اس کا اعلان کرے یا نہ کرے۔

19236

(۱۹۲۳۷) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ مُطَرَّف ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنْ عُمَیْرِ بْنِ یَزِیدَ قَالَ : کُنْتُ قَاعِدًا عِنْدَ شُرَیْحٍ فَجَائَ رَجُلٌ یُخَاصِمُ امْرَأَتہ فَقَالَتْ : طَلَّقَنِی وَلَمْ یُعْلِمْنِی الرَّجْعَۃَ حَتَّی مَضَتْ عِدَّتِی وَتَزَوَّجْت وَدَخَلَ بِی زَوْجِی فَقَالَ شُرَیْحٌ : أَلاَ أَعْلَمْتہَا الرَّجْعَۃَ کَمَا أَعْلَمْتہَا الطَّلاَقَ ؟ فَلَمْ یَرُدَّہَا عَلَیْہِ۔
(١٩٢٣٧) حضرت عمیر بن یزید (رض) فرماتے ہیں کہ میں حضرت شریح (رض) کے پاس بیٹھا تھا کہ ایک آدمی اپنی بیوی کا جھگڑا لے کرآیا۔ عورت کہتی تھی کہ اس نے مجھے طلاق دی، لیکن رجوع کا نہ بتایا، یہاں تک کہ میری عدت گزر گئی اور میں نے شادی کرلی۔ میرے خاوند نے مجھ سے دخول بھی کرلیا۔ حضرت شریح (رض) نے اس آدمی سے کہا کہ جیسے تم نے اسے طلاق کا بتایا تھا رجوع کا کیوں نہ بتایا ؟ ! پھر آپ نے عورت اسے واپس نہ کی۔

19237

(۱۹۲۳۸) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنْ جَابِرِ بْنِ زَیْدٍ قَالَ : إذَا طَلَّقَہَا ، ثُمَّ لَمْ یُخْبِرْہَا بِالرَّجْعَۃِ حَتَّی تَنْقَضِیَ الْعِدَّۃُ فَتَزَوَّجَتْ فَدَخَلَ بِہَا الزَّوْجُ الثَّانِی ، فَلاَ شَیْئَ لَہُ۔
(١٩٢٣٨) حضرت جابر بن زید (رض) فرماتے ہیں کہ جب ایک آدمی نے اپنی بیوی کو طلاق دی اور اسے رجوع کی اطلاع نہ دی یہاں تک کہ اس کی عدت گزر گئی اور اس نے شادی کرلی اور دوسرے خاوند نے اس سے دخول بھی کرلیا تو پہلے کو کچھ نہیں ملے گا۔

19238

(۱۹۲۳۹) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ ، عَنْ عَطَائٍ ؛ فِی رَجُلٍ طَلَّقَ امْرَأَتَہُ ، ثُمَّ رَاجَعَہَا فَکَتَمَہَا الرَّجْعَۃَ حَتَّی انْقَضَتْ عِدَّتُہَا ، قَالَ : إِنْ أَدْرَکَہَا قَبْلَ أَنْ تَزَوَّجَ فَہُوَ أَحَقُّ بِہَا ، وَإِلاَّ فَہُوَ ضَیَّعَ۔
(١٩٢٣٩) حضرت عطائ (رض) فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے اپنی بیوی کو طلاق دی اور پھر اس سے رجوع کرلیا لیکن رجوع کو خفیہ رکھا یہاں تک کہ عورت کی عدت گزر گئی۔ تو اگر عورت کے نکاح کرنے سے پہلے اس نے عورت کو پالیا تو وہ اس کی بیوی ہوگی اور اگر عورت نے شادی کرلی تو اس کی رجوع ضائع ہوگئی۔

19239

(۱۹۲۴۰) حَدَّثَنَا عَبدَۃ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ أَبِی مَعْشَرٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ؛ أَنَّ أَبَا کَنَفٍ طَلَّقَ امْرَأَتَہُ ، ثُمَّ سَافَرَ وَرَاجَعَہَا ، وَکَتَبَ إلَیْہَا بِذَلِکَ ، وَأَشْہَدَ عَلَی ذَلِکَ ، فَلَمْ یَبْلُغْہَا الْکِتَابُ حَتَّی انْقَضَتِ الْعِدَّۃُ ، فَتَزَوَّجَتِ الْمَرْأَۃُ فَرَکِبَ إلَی عُمَرَ ، فَقَصَّ عَلَیْہِ الْقِصَّۃَ فَقَالَ : أَنْتَ أَحَقُّ بِہَا مَا لَمْ یَدْخُلْ بِہَا۔
(١٩٢٤٠) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ ابوکنف (رض) نے اپنی بیوی کو طلاق دی اور پھر سفر پر چلے گئے اور بیوی سے رجوع کرلیا۔ اس کی طرف خط بھی لکھا اور اس رجوع پر گواہ بھی بنا لئے۔ عورت کو ان کا خط نہیں ملا اور عدت کے پورا ہونے پر اس نے شادی کرلی۔ ابو کنف (رض) حضرت عمر (رض) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سارا واقعہ عرض کیا۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا کہ تم اس عورت کے اس وقت تک زیادہ حقدار ہو جب تک وہ اس سے دخول نہ کرلے۔

19240

(۱۹۲۴۱) حَدَّثَنَا عَبدَۃ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ عَامِرٍ ، عَنْ حَمَّادٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ أَنَّ عَلِیًّا کَانَ یَقُولُ : ہُوَ أَحَقُّ بِہَا دُخِلَ بِہَا ، أَوْ لَمْ یُدْخَلْ۔
(١٩٢٤١) حضرت علی (رض) فرمایا کرتے تھے کہ اس صورت میں پہلا خاوند زیادہ حقدار ہے خواہ دوسرادخول کرے یا نہ کرے۔

19241

(۱۹۲۴۲) حَدَّثَنَا عَبدَۃ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ عُمَرَ ، عَنْ حَمَّادٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ أَنَّہُ کَانَ یَرَی ذَلِکَ۔
(١٩٢٤٢) حضرت ابراہیم (رض) کی رائے بھی یہی تھی۔

19242

(۱۹۲۴۳) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ قَالَ : حدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ ، قَالَ : سَمِعْتُ الْحَکَمَ بْنَ عُتَیْبَۃَ یَذْکُرُ ، عَنْ أَبِی کَنَفٍ أَنَّہُ طَلَّقَ امْرَأَتَہُ ، ثُمَّ رَاجَعَہَا وَلَمْ یُعْلِمْہَا الرَّجْعَۃَ فَتَزَوَّجَتْ فَرَکِب فِی ذَلِکَ إلَی عُمَرَ فَقَالَ : ارْجِعْ ، فإنْ وَجَدْتہَا لَمْ تَأْتِ زَوْجَہَا الَّذِی نَکَحَتْ فَہِیَ امْرَأَتُک ، فَرَجَعَ فَلَمْ یَجِدْہَا أَتَتْ زَوْجَہَا فَقَبَضَہَا۔
(١٩٢٤٣) حضرت حکم بن عتیبہ (رض) فرماتے ہیں کہ ابو کنف (رض) نے اپنی بیوی کو طلاق دی اور پھر ان سے رجوع کرلیا لیکن رجوع کی اطلاع انھیں نہ دی۔ پھر ان کی بیوی نے شادی کرلی۔ ابو کنف (رض) نے اس بارے میں حضرت عمر (رض) سے سوال کیا۔ حضرت عمر (رض) نے ان سے فرمایا کہ تم اپنی بیوی کے پاس جاؤ اور اگر ان کا خاوند ان کے قریب نہیں گیا تو وہ تمہاری بیوی ہے۔ وہ گئے اور دیکھا کہ ان کے خاوند ابھی ان کے قریب نہ گئے تھے۔ لہٰذا ابو کنف (رض) نے اپنی بیوی کو حاصل کرلیا۔

19243

(۱۹۲۴۴) حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ خَالِدٍ، عَنِ ابْنِ أَبِی ذِئْبٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ فِی رَجُلٍ طَلَّقَ امْرَأَتَہُ، ثُمَّ بَعَثَ إلَیْہَا بِالرَّجْعَۃِ فَلَمْ تَأْتِہَا الرَّجْعَۃُ حَتَّی تَزَوَّجَتْ قَالَ : بَانَتْ مِنْہُ ، وَإِنْ أَدْرَکَتْہَا الرَّجْعَۃُ قَبْلَ أَنْ تَزَوَّجَ فَہِیَ امْرَأَتُہُ۔
(١٩٢٤٤) حضرت سعید بن مسیب (رض) فرماتے ہیں کہ اگر ایک آدمی نے اپنی بیوی کو طلاق دی پھر اسے رجوع کا پیغام بھیجا۔ لیکن رجوع کا پیغام ملنے سے پہلے وہ شادی کرچکی تھی تو وہ عورت بائنہ ہوجائے گی اور اگر شادی کرنے سے پہلے رجوع کا پیغام ملا تو وہ اسی کی بیوی رہے گی۔

19244

(۱۹۲۴۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَمْرو ، عَنْ جَابِرِ بْنِ زَیْدٍ قَالَ : إذَا رَاجَعَ فِی نَفْسِہِ فَلَیْسَ بِشَیْئٍ۔
(١٩٢٤٥) حضرت جابر بن زید (رض) فرماتے ہیں کہ دل میں رجوع کرنے کی کوئی شرعی حیثیت نہیں۔

19245

حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ قَالَ : حدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِی شَیْبَۃَ قَالَ : (۱۹۲۴۶) حَدَّثَنَا أسْمَاعِیلُ بْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ أَیُّوبَ قَالَ : سَأَلْتُ سَعِیدَ بْنَ جُبَیْرٍ وَمُجَاہِدًا وَعَطَائً عَنِ الْمُتَوَفَّی عَنْہَا زَوْجُہَا ، مِنْ أَیِّ یَوْمٍ تَعْتَدُّ ؟ فَقَالُوا : مِنْ یَوْمِ یَمُوتُ قَالَ : وَسَمِعْت عِکْرِمَۃَ وَنَافِعًا وَمُحَمَّدَ بْنَ سِیرِینَ یَقُولُونَ : عِدَّتُہَا من یَوْمَ یَمُوتُ : وَقَالَ طَلْقُ بْنُ حَبِیبٍ : مِنْ یَوْمِ یَمُوتُ۔
(١٩٢٤٦) حضرت ایوب (رض) کہتے ہیں کہ میں نے حضرت سعید بن جبیر (رض) ، حضرت مجاہد (رض) اور حضرت عطائ (رض) سے سوال کیا کہ جس عورت کا خاوند فوت ہوجائے وہ کس دن سے عدت گزارے گی ؟ انھوں نے فرمایا کہ جس دن اس کے خاوند کا انتقال ہوا۔ حضرت عکرمہ (رض) ، حضرت نافع (رض) اور حضرت محمد بن سیرین (رض) کو میں نے فرماتے ہوئے سنا ہے کہ وہ اس دن سے عدت گزارے گی جس دن اس کے خاوند کا انتقال ہوا ہے۔ حضرت طلق بن حبیب (رض) بھی یہی فرماتے ہیں۔

19246

(۱۹۲۴۷) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ، عَنْ أَیُّوبَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِینَارٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ زَیْدٍ یَحْسِبُہُ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: یَوْمَ یَمُوتُ۔
(١٩٢٤٧) حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ وہ اس دن سے عدت گزارے گی جس دن خاوند کا انتقال ہوا ہے۔

19247

(۱۹۲۴۸) حدَّثَنَا أَبُوالأَحْوَصِ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ، عَنْ أَبِی الأَحْوَصِ، عَنْ عَبْدِ اللہِ قَالَ الْعِدَّۃُ مِنْ یَوْمِ یَمُوتُ وَیُطَلِّقُ۔
(١٩٢٤٨) حضرت عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ عدت اس دن سے شمار ہوتی ہے جس دن خاوند کا انتقال ہو یا جس دن وہ طلاق دے۔

19248

(۱۹۲۴۹) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ، عَنْ عُبَیْدِاللہِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: عِدَّتُہَا مِنْ یَوْمِ طَلَّقَہَا وَمِنْ یَوْمِ یَمُوتُ عَنْہَا۔
(١٩٢٤٩) حضرت ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ عدت اس دن سے شمار ہوگی جس دن آدمی طلاق دے یا جس دن اس کا انتقال ہو۔

19249

(۱۹۲۵۰) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عن خالد عَنْ أَبِی قِلاَبَۃَ ، وَابْنِ سِیرِینَ ، وَأَبِی الْعَالِیَۃِ ، قَالُوا : الْعِدَّۃُ مِنْ یَوْمِ یَمُوتُ وَمِنْ یَوْمِ طَلَّقَ ، فَمَنْ أَکَلَ مِنَ الْمِیرَاثِ شَیْئًا فَہُوَ مِنْ نَصِیبِہِ۔
(١٩٢٥٠) حضرت ابو قلابہ (رض) ، حضرت ابن سیرین (رض) اور حضرت ابو عالیہ (رض) فرماتے ہیں کہ عدت اس دن سے شمار ہوتی ہے جس دن خاوند کا انتقال ہو یا وہ طلاق دے۔ جس نے میراث میں سے کوئی چیز کھائی تو وہ اس کے حصہ میں سے شمار ہوگی۔

19250

(۱۹۲۵۱) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ حُصَیْنٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، قَالَ : تَعْتَدُّ الْمَرْأَۃُ مِنْ زَوْجِہَا وَہُوَ غَائِبٌ مِنْ یَوْمِ یَمُوتُ ، أَوْ مِنْ یَوْمِ یُطَلِّقُ۔
(١٩٢٥١) حضرت مسروق (رض) فرماتے ہیں کہ عدت اس دن سے شمار ہوتی ہے جس دن خاوند کا انتقال ہو یا جس دن وہ طلاق دے۔

19251

(۱۹۲۵۲) حَدَّثَنَا مُعْتَمِرُ بْنُ سُلَیْمَانَ، عَنْ بُرْدٍ، عَنْ مَکْحُولٍ وَالزُّہْرِیِّ قَالاَ: تَعْتَدُّ الْمَرْأَۃُ مِنْ یَوْمِ مَاتَ ، أَوْ طَلَّقَ۔
(١٩٢٥٢) حضرت مکحول (رض) اور حضرت زہری (رض) فرماتے ہیں کہ عدت اس دن سے شمار ہوتی ہے جس دن خاوند کا انتقال ہو یا جس دن وہ طلاق دے۔

19252

(۱۹۲۵۳) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالَ : تَقَعُ الْعِدَّۃُ مِنْ یَوْمِ یَمُوتُ وَیَوْمِ یَتَکَلَّمُ بِالطَّلاَقِ۔
(١٩٢٥٣) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ عدت اس دن سے شمار ہوتی ہے جس دن خاوند کا انتقال ہو یا جس دن وہ طلاق کی بات کرے۔

19253

(۱۹۲۵۴) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ عن لیث ، عَنِ الْحَکَمِ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ قَالَ : مِنْ یَوْمِ یَمُوتُ۔
(١٩٢٥٤) حضرت عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ عدت اس دن سے شمار ہوتی ہے جس دن خاوند کا انتقال ہو ۔

19254

(۱۹۲۵۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ قَالَ : تَعْتَدُّ مِنْ یَوْمِ تُوُفِّیَ عَنْہَا زَوْجُہَا۔
(١٩٢٥٥) حضرت شعبی (رض) فرماتے ہیں کہ عدت اس دن سے شمار ہوتی ہے جس دن خاوند کا انتقال ہو ۔

19255

(۱۹۲۵۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ أَبِی الأَشْہَبِ قَالَ : قَالَ جَابِرُ بْنُ زَیْدٍ : مِنْ یَوْمٍ یَمُوتُ ، أَوْ یُطَلِّقُ۔
(١٩٢٥٦) حضرت جابر بن زید (رض) فرماتے ہیں کہ عدت اس دن سے شمار ہوتی ہے جس دن خاوند کا انتقال ہو یا جس دن وہ طلاق دے۔

19256

(۱۹۲۵۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ قَالَ مِنْ یَوْمِ مَاتَ أَو طَلَّقَ۔
(١٩٢٥٧) حضرت سعید بن مسیب (رض) فرماتے ہیں کہ عدت اس دن سے شمار ہوتی ہے جس دن خاوند کا انتقال ہو یا جس دن وہ طلاق دے۔

19257

(۱۹۲۵۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، وَیَحْیَی بْنُ آدَمَ ، عَنْ شَرِیکٍ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ زَیْدٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ قَالَ : الْعِدَّۃُ مِنْ یَوْمِ یَمُوتُ ، ویوم یُطَلِّقُ۔
(١٩٢٥٨) حضرت عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ عدت اس دن سے شمار ہوتی ہے جس دن خاوند کا انتقال ہو یا جس دن وہ طلاق دے۔

19258

(۱۹۲۵۹) حدَّثَنَا حُمَیْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ حَسَنٍ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ زَیْدٍ أَوْقَفَہُ قَالَ : الْعِدَّۃُ مِنْ یَوْمِ یَمُوتُ وَیُطَلِّقُ۔
(١٩٢٥٩) حضرت عبد الرحمن بن زید (رض) فرماتے ہیں کہ عدت اس دن سے شمار ہوتی ہے جس دن خاوند کا انتقال ہو یا جس دن وہ طلاق دے۔

19259

(۱۹۲۶۰) حَدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنِ الْحَکَمِ أَنَّ عَلِیًّا قَالَ : مِنْ یَوْمِ یَأْتِیہَا الْخَبَرُ۔
(١٩٢٦٠) حضرت علی (رض) فرماتے ہیں کہ جس دن عورت کو خبر ملے اس دن سے عدت شروع کرے گی۔

19260

(۱۹۲۶۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إسْرَائِیلَ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنِ الْحَارِثِ ، عَنْ عَلِیٍّ قَالَ : مِنْ یَوْمِ یَأْتِیہَا الْخَبَرُ۔
(١٩٢٦١) حضرت علی (رض) فرماتے ہیں کہ جس دن عورت کو خبر ملے اس دن سے عدت شروع کرے گی۔

19261

(۱۹۲۶۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ أَبِی الأَشْہَبِ ، عَنِ الْحَسَنِ قَالَ : تَعْتَدُّ مِنْ یَوْمِ یَأْتِیہَا الْخَبَرُ۔
(١٩٢٦٢) حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ جس دن عورت کو خبر ملے اس دن سے عدت شروع کرے گی۔

19262

(۱۹۲۶۳) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنْ قَتَادَۃَ قَالَ مِنْ یَوْمِ یَأْتِیہَا الْخَبَرُ۔
(١٩٢٦٣) حضرت قتادہ فرماتے ہیں کہ جس دن عورت کو خبر ملے اس دن سے عدت شروع کرے گی۔

19263

(۱۹۲۶۴) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ قَالَ مِنْ یَوْمِ یَأْتِیہَا الْخَبَرُ۔
(١٩٢٦٤) حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ جس دن عورت کو خبر ملے اس دن سے عدت شروع کرے گی۔

19264

(۱۹۲۶۵) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنِ الْحَسَنِ وَخِلاَسٍ ؛ فِی الرَّجُلِ یُطَلِّقُ امْرَأَتَہُ وَہُوَ غَائِبٌ عَنْہَا قَالاَ : تَعْتَدُّ مِنْ یَوْمِ یَأْتِیہَا الْخَبَرُ۔
(١٩٢٦٥) حضرت حسن (رض) اور حضرت خلاس (رض) فرماتے ہیں کہ جس دن عورت کو خبر ملے اس دن سے عدت شروع کرے گی۔

19265

(۱۹۲۶۶) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنْ أَبِی قِلاَبَۃَ قَالَ : إذَا شَہِدَتِ الشُّہُودُ عَلَی طَلاَقٍ ، أَوْ مَوْتٍ فَعِدَّتُہَا مِنْ ذَلِکَ الْیَوْمِ۔
(١٩٢٦٦) حضرت ابو قلابہ (رض) فرماتے ہیں کہ عورت اس دن سے عدت شروع کرے گی جب گواہ فوتیدگی یا طلاق کی گواہی دیں۔

19266

(۱۹۲۶۷) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِی الْفُرَاتِ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ زَیْدٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ قَالَ : الْمُتَوَفَّی عَنْہَا زَوْجُہَا إذَا کَانَ غَائِبًا مِنْ یَوْمِ تُوُفِّیَ إذَا شَہِدَتْ عَلَی ذَلِکَ الشُّہُودُ۔
(١٩٢٦٧) حضرت سعید بن مسیب (رض) فرماتے ہیں کہ جس عورت کا خاوند فوت ہوجائے وہ اس وقت سے عدت شروع کرے گی جس دن گواہ اس کے فوت ہونے کی گواہی دے دیں۔

19267

(۱۹۲۶۸) حَدَّثَنَا کَثِیرُ بْنُ ہِشَامٍ ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ بُرْقَانَ ، قَالَ : سَمِعْتُ الْحَکَمَ یَقُولُ : سألت سَعِیدَ بْنَ جُبَیْرٍ ، عَنِ الْمُتَوَفَّی عَنْہَا زَوْجُہَا وَہُوَ غَائِبٌ مِنْ أی یوم تَعْتَدُّ ؟ قَالَ : مِنْ یَوْمِ مَاتَ زَوْجُہَا ، تَعْتَدُّ إذَا قَامَتِ الْبَیِّنَۃُ وَإِذَا طُلِّقَتْ فَمِثْلُ ذَلِکَ۔
(١٩٢٦٨) حضرت حکم (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت سعید بن جبیر (رض) سے سوال کیا کہ جس عورت کا خاوند فوت ہوجائے وہ کس دن سے عدت گزارنا شروع کرے گی ؟ انھوں نے فرمایا کہ اگر گواہی قائم ہوجائے تو جس دن اس کے خاوند کا انتقال ہوا اسی دن سے عدت گزارنا شروع کردے اور جب طلاق ہوجائے تب بھی یہی حکم ہے۔

19268

(۱۹۲۶۹) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنَ عُمَرَ قَالَ : تَعْتَدُّ مِنْ یَوْمِ مَاتَ ، أَوْ طَلَّقَ إذَا قَامَتِ الْبَیِّنَۃُ۔
(١٩٢٦٩) حضرت ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ عورت اس دن سے عدت شروع کرے گی جب فوتیدگی یا طلاق کی گواہی قائم ہوجائے۔

19269

(۱۹۲۷۰) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ وَسُلَیْمَانَ بْنِ یَسَارٍ أَنَّہُمَا قَالاَ : تَعْتَدُّ مِنْ یَوْمِ مَاتَ ، أَوْ طَلَّقَ إذَا قَامَتِ الْبَیِّنَۃُ۔
(١٩٢٧٠) حضرت سعید بن مسیب (رض) اور حضرت سلیمان بن یسار (رض) فرماتے ہیں کہ عورت اس دن سے عدت شروع کرے گی جب فوتیدگی یا طلاق کی گواہی قائم ہوجائے۔

19270

(۱۹۲۷۱) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ أَبِی مَعْشَرٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالَ : تَعْتَدُّ مِنْ یَوْمِ مَاتَ ، أَوْ طَلَّقَ إذَا قَامَتِ الْبَیِّنَۃُ۔
(١٩٢٧١) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ عورت اس دن سے عدت شروع کرے گی جب فوتیدگی یا طلاق کی گواہی قائم ہوجائے۔

19271

(۱۹۲۷۲) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنْ مُحَمَّدٍ قَالَ : تَعْتَدُّ الْمَرْأَۃُ مِنْ یَوْمِ مَاتَ ، أَوْ طَلَّقَ إذَا قَامَتِ الْبَیِّنَۃُ۔
(١٩٢٧٢) حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں کہ عورت اس دن سے عدت شروع کرے گی جب فوتیدگی یا طلاق کی گواہی قائم ہوجائے۔

19272

(۱۹۲۷۳) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنْ دَاوُدَ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ وَالشَّعْبِیِّ قَالاَ : إذَا قَامَتِ الْبَیِّنَۃُ فَالْعِدَّۃُ مِنْ یَوْمِ یَمُوتُ ، وَإِنْ لَمْ تَقُمْ فَیَوْمَ یَأْتِیہَا الْخَبَرُ۔
(١٩٢٧٣) حضرت سعید بن مسیب (رض) اور حضرت شعبی (رض) فرماتے ہیں کہ گواہی ہو تو عدت اس دن سے شروع ہوگی جس دن خاوند کا انتقال ہوا اور اگر گواہی نہ ہو تو اس دن سے جب اسے انتقال کی خبر ملی۔

19273

(۱۹۲۷۴) حَدَّثَنَا الثَّقَفِیُّ ، عَنْ بُرْدٍ ، عَنْ مَکْحُولٍ ؛ فِی الرَّجُلِ یُطَلِّقُ ، أَوْ یَمُوتُ وَہُوَ غَائِبٌ قَالَ : إِنْ قَامَتْ بَیِّنَۃٌ عَادِلَۃٌ إذَا اعْتَدَّتْ مِنْ یَوْمِ یَمُوتُ وَإِلاَّ فَمِنْ یَوْمِ یَأْتِیہَا الْخَبَرُ۔
(١٩٢٧٤) حضرت مکحول (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کسی نے غائب ہونے کی حالت میں اپنی بیوی کو طلاق دے دی یا فوت ہوگیا تو اگر عادل گواہی قائم ہوجائے تو عورت اسی دن سے عدت گزارنا شروع کرے جس دن انتقال ہوا اور اگر عادل گواہی نہ ہو تو اس دن سے عدت گزارے جس دن اسے اطلاع ملی۔

19274

(۱۹۲۷۵) حَدَّثَنَا الثَّقَفِیُّ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنْ رَجُلٍ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ زَیْدٍ قَالَ : إذَا شَہِدَتِ الشُّہُودُ فَمِنْ یَوْمِ مَاتَ یَعْنِی فِی الْعِدَّۃِ۔
(١٩٢٧٥) حضرت جابر بن زید (رض) فرماتے ہیں کہ جب گواہ گواہی دے دیں تو عورت اس دن سے عدت گزارے جس دن خاوند کا انتقال ہوا۔

19275

(۱۹۲۷۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ عَامِرٍ قَالَ : إبَاقُ الْعَبْدِ لَیْسَ بِطَلاَقٍ۔
(١٩٢٧٦) حضرت عامر (رض) فرماتے ہیں کہ غلام کا فرار ہونا طلاق نہیں ہے۔

19276

(۱۹۲۷۷) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ قَالَ : لَیْسَ ذَلِکَ لَہُ بِطَلاَقٍ۔
(١٩٢٧٧) حضرت قتادہ فرماتے ہیں کہ غلام کا فرار ہونا طلاق نہیں ہے۔

19277

(۱۹۲۷۸) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ عَوْفٍ ، عَنِ الْحَسَنِ قَالَ : إبَاقُہُ طَلاَقُہَا۔
(١٩٢٧٨) حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ غلام کا فرار ہونا طلاق ہے۔

19278

(۱۹۲۷۹) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنْ حَوْشَبٍ ، عَنِ الْحَسَنِ سُئِلَ عَنْ عَبْدٍ آبِقٍ وَلَہُ امْرَأَۃٌ فَقَالَ : إِنْ جَائَ قَبْلَ أَنْ تَنْقَضِیَ الْعِدَّۃُ فَہِیَ امْرَأَتُہُ ، وَإِنْ جَائَ بَعْدَ مَا انْقَضَتِ الْعِدَّۃُ فَقَدْ بَانَتْ مِنْہُ بِتَطْلِیقَۃٍ۔
(١٩٢٧٩) حضرت حوشب (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت حسن سے سوال کیا گیا کہ اگر شادی شدہ غلام فرار ہوجائے تو کیا حکم ہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ اگر وہ عدت پوری ہونے سے پہلے واپس آجائے تو وہ اسی کی بیوی ہوگی اور اگر عدت پوری ہوجائے تو وہ ایک طلاق کے ساتھ بائنہ ہوجائے گی۔

19279

(۱۹۲۸۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ ابْنِ أَبِی لَیْلَی ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّہُ کَانَ إذَا طَلَّقَ طَلاَقًا یَمْلِکُ الرَّجْعَۃَ لَمْ یَدْخُلْ حَتَّی یَسْتَأْذِنَ ، وَقَالَ الشَّعْبِیُّ : کَانَ أَصْحَابُنَا یَقُولُونَ : یَخْفِقُ بِنَعْلَیْہِ۔
(١٩٢٨٠) حضرت ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ وہ آدمی جس نے اپنی بیوی کو طلاق دی اور اس کے پاس رجوع کا حق تھا تو وہ اس کے پاس جانے سے پہلے اجازت طلب کرے گا۔ حضرت شعبی فرماتے ہیں کہ ہمارے اصحاب فرمایا کرتے تھے کہ وہ جوتوں کی آواز سے اسے اطلاع دے گا۔

19280

(۱۹۲۸۱) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ بن عمر ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّہُ طَلَّقَ امْرَأَتَہُ تَطْلِیقَۃً ، أَوْ تَطْلِیقَتَیْنِ ، فَکَانَ یَسْتَأْذِنُ عَلَیْہَا۔
(١٩٢٨١) حضرت نافع (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عمر (رض) نے اپنی بیوی کو ایک یا دو طلاقیں دے دیں تھیں اور وہ ان کے پاس جانے سے پہلے اجازت لیا کرتے تھے۔

19281

(۱۹۲۸۲) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالَ : تَعْتَدُّ الْمُطَلَّقَۃُ فِی بَیْتِ زَوْجِہَا وَلاَ تَکْتَحِلُ بِکُحْلٍ زِینَۃً وَلاَ یَدْخُلُ عَلَیْہَا إلاَّ بِإِذْنٍ وَلاَ یَکُونُ مَعَہَا فِی بَیْتِہَا۔
(١٩٢٨٢) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ طلاق یافتہ عورت اپنے خاوند کے گھر میں عدت گزارے گی اور وہ زینت کے لیے سرمہ نہیں لگائے گی اور اس کا خاوند اس کی اجازت سے ہی اس کے پاس آسکتا ہے۔ اور وہ اس کے ساتھ اس کے کمرے میں نہیں ہوگا۔

19282

(۱۹۲۸۳) حَدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ أَنَّہُ کَانَ یَقُولُ : إذَا دَخَلَ عَلَیْہَا فَلْیَسْتَأْنس وَلْیَتَنَحْنَحْ وَلاَ یغترنہا بِدُخُولٍ۔
(١٩٢٨٣) حضرت حسن (رض) فرمایا کرتے تھے کہ جب آدمی (اپنی طلاق یافتہ عدت گزارنے والی) بیوی کے پاس جانے لگے تو اسے اپنی آمد کا احساس دلا دے اور گلاصاف کرنے کی آواز نکال لے، اچانک اس کے پاس بلا اطلاع داخل نہ ہو۔

19283

(۱۹۲۸۴) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ قَالَ : إذَا طَلَّقَہَا تَطْلِیقَۃً ، فَإِنَّہُ یَسْتَأْذِنُ عَلَیْہَا۔
(١٩٢٨٤) حضرت سعید بن مسیب (رض) فرماتے ہیں کہ جب بیوی کو ایک طلاق دے دی تو اس کے پاس جانے سے پہلے اجازت طلب کرے۔

19284

(۱۹۲۸۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، وَعَنْ جَابِرٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ قَالاَ : یُشْعِرُ بِالتَّنَحْنُحِ۔
(١٩٢٨٥) حضرت ابراہیم (رض) اور حضرت مجاہد (رض) فرماتے ہیں کہ گلا صاف کرکے اسے اپنی آمد کا احساس دلائے۔

19285

(۱۹۲۸۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ رَبِیعٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، وَعَنْ طَلْحَۃَ ، عَنْ عَطَائٍ قَالَ : یُشْعِرُہَا بِالتَّنَحْنُحِ۔
(١٩٢٨٦) حضرت عطائ (رض) فرماتے ہیں کہ گلا صاف کرکے اسے اپنی آمد کا احساس دلائے۔

19286

(۱۹۲۸۷) حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَبْدِ الْوَارِثِ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ سُئِلَ عَنْ رَجُلٍ طَلَّقَ امْرَأَتَہُ تَطْلِیقَۃً یَسْتَأْذِنُ عَلَیْہَا ؟ قَالَ : یُصَوِّتُ وَیَتَنَحْنَحُ قَالَ : وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ : لاَ یَصْلُحُ أَنْ یَرَی شَعْرَہَا۔
(١٩٢٨٧) حضرت قتادہ (رض) سے سوال کیا گیا کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو ایک طلاق دے دے تو کیا اس کے پاس آنے سے پہلے اجازت طلب کرے گا ؟ انھوں نے فرمایا کہ ہاں وہ آواز دے اور گلا صاف کرنے کی آواز نکالے۔ اور حضرت عبداللہ بن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ اس کے لیے اس عورت کے بال دیکھنا درست نہیں ہے۔

19287

(۱۹۲۸۸) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّہُ کَانَ یَقُولُ : إذَا طَلَّقَ الرَّجُلُ امْرَأَتَہُ تَطْلِیقَۃً ، أَوْ تَطْلِیقَتَیْنِ لَمْ تَخْرُجْ مِنْ بَیْتِہِ إلاَّ بِإِذْنِہِ۔
(١٩٢٨٨) حضرت ابن عمر (رض) فرمایا کرتے تھے کہ اگر آدمی نے اپنی بیوی کو ایک یا دو طلاقیں دی ہوں تو عورت اس کی اجازت کے بغیر گھر سے باہر نہیں نکل سکتی۔

19288

(۱۹۲۸۹) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ أَبِی غَنِیَّۃَ ، عَنْ جُوَیْبِرٍ ، عَنِ الضَّحَّاکِ فِی قَوْلِہِ : {لاَ تُخْرِجُوہُنَّ مِنْ بُیُوتِہِنَّ وَلاَ یَخْرُجْنَ} ۔ قَالَ : لاَ تَخْرُجُ مِنْ بَیْتِہَا مَا کَانَ لَہُ عَلَیْہَا رَجْعَۃٌ۔
(١٩٢٨٩) حضرت ضحاک (رض) قرآن مجید کی آیت { لاَ تُخْرِجُوہُنَّ مِنْ بُیُوتِہِنَّ وَلاَ یَخْرُجْنَ } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ جب تک مرد کے پاس رجوع کا حق ہو عورت اس کے گھر سے نہیں نکل سکتی۔

19289

(۱۹۲۹۰) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ؛ فِی الرَّجُلِ یُطَلِّقُ امْرَأَتَہُ طَلاَقًا یَمْلِکُ الرَّجْعَۃَ قَالَ : تَکْتَحِلُ وَتَلْبَسُ الْمُصَبَّغ وَتَشَوَّفُ لَہُ ، وَلاَ تَضَعُ ثِیَابَہَا۔
(١٩٢٩٠) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ اگر آدمی نے اپنی بیوی کو طلاق رجعی دی ہو تو وہ سرمہ لگا سکتی ہے، رنگ والے کپڑے پہن سکتی ہے، بناؤسنگھار کرسکتی ہے۔ لیکن اپنے کپڑے نہیں اتارے گی۔

19290

(۱۹۲۹۱) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ؛ إذَا طَلَّقَ الرَّجُلُ امْرَأَتَہُ تَطْلِیقَۃً یَمْلِکُ الرَّجْعَۃَ تَزَیَّنَتْ لَہُ وَتَعَرَّضَتْ لَہُ وَاسْتَتَرَتْ۔
(١٩٢٩١) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ اگر آدمی نے اپنی بیوی کو طلاق رجعی دی ہو تو وہ اس کے لیے زیب وزینت اختیار کرے گی، اس کے سامنے آئے گی اور جسم کو ڈھانپ کر رکھے گی۔

19291

(۱۹۲۹۲) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ قَالَ : إذَا طَلَّقَ الرَّجُلُ امْرَأَتَہُ تَطْلِیقَۃً ، أَوْ تَطْلِیقَتَیْنِ فَإِنَّہَا تَزَیَّنُ وَتَشَوَّفُ لَہُ مِنْ غَیْرِ أَنْ تَضَعَ خِمَارَہَا عِنْدَہُ۔
(١٩٢٩٢) حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ اگر آدمی نے اپنی بیوی کو ایک یا دو طلاقیں دی ہوں تو وہ اس کے لیے زیب وزینت اور بناؤ سنگھار اختیار کرسکتی ہے لیکن اس کے سامنے اپنی چادر نہیں اتارے گی۔

19292

(۱۹۲۹۳) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ سَعِیدٍ قَالَ : إذَا طَلَّقَ الرَّجُلُ امْرَأَتَہُ تَطْلِیقَۃً ، فَإِنَّہُ یَسْتَأْذِنُ عَلَیْہَا ، وَتَلْبَسُ مَا شَائَتْ مِنَ الثِّیَابِ وَالْحُلِیِّ ، فَإِنْ لَمْ یَکُنْ لَہُمَا إلاَّ بَیْتٌ وَاحِدٌ ، فَلْیَجْعَلاَ بَیْنَہُمَا سِتْرًا ، وَیُسَلِّمُ إذَا دَخَلَ۔
(١٩٢٩٣) حضرت سعید (رض) فرماتے ہیں کہ جب آدمی نے اپنی بیوی کو ایک طلاق دی تو وہ اس کے پاس آنے سے پہلے اجازت طلب کرے گا۔ البتہ عورت جیسے کپڑے اور زیورات چاہے استعمال کرسکتی ہے۔ اگر ان دونوں کے پاس ایک ہی کمرہ ہو تو درمیان میں پردہ ڈال لیں اور آدمی آنے سے پہلے سلام کرے۔

19293

(۱۹۲۹۴) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ وَقَتَادَۃَ قَالاَ فِی الرَّجُلِ یُطَلِّقُ امْرَأَتَہُ تَطْلِیقَۃً ، أَوْ تَطْلِیقَتَیْنِ قَالاَ : تَشَوَّفُ لَہُ۔
(١٩٢٩٤) حضرت زہری (رض) اور حضرت قتادہ (رض) فرماتے ہیں کہ اگر ایک آدمی نے اپنی بیوی کو ایک یا دو طلاقیں دیں تو عورت اس کے لیے بناؤسنگھار کرسکتی ہے۔

19294

(۱۹۲۹۵) حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَبْدِ الْوَارِثِ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ قَالَ : قَالَ عَلِیٌّ : لتَشَوَّفُ لَہُ ، وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ : لاَ یَحِلُّ لَہُ أَنْ یَرَی شَعْرَہَا۔
(١٩٢٩٥) حضرت قتادہ (رض) فرماتے ہیں کہ طلاق رجعی کے بعد عورت اپنے خاوند کے لیے بناؤسنگھار کرسکتی ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ مرد کے لیے اس کے بال دیکھنا درست نہیں۔

19295

(۱۹۲۹۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ طَلْحَۃَ ، عَنْ عَطَاء قَالَ : تَزَیَّنُ لَہُ وَتَضَعُ لَہُ إذَا طَلَّقَہَا تَطْلِیقَۃً۔
(١٩٢٩٦) حضرت عطائ (رض) فرماتے ہیں کہ اگر آدمی نے اپنی بیوی کو ایک طلاق دی تو وہ اس کے لیے زیب وزینت اختیار کرسکتی ہے اور بن ٹھن کر رہ سکتی ہے۔

19296

(۱۹۲۹۷) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ الثَّقَفِیُّ ، عَنْ أَیُّوبَ قَالَ : کَتَبَ إلَیَّ عَطَائٌ الْخُرَاسَانِیُّ ، أَنَّہُ سَأَلَ سَعِیدَ بْنَ الْمُسَیَّبِ، وَفُقَہَائَ أَہْلِ الْمَدِینَۃِ ، قَالَ : وَأَحْسِبُہُ قَالَ : وَسُلَیْمَانَ بْنَ یَسَارٍ ، عنِ الْمُطَلَّقَۃِ وَالْمُتَوَفَّی عَنْہَا ، فَقَالُوا: تَحِدَّانِ وَتَتْرُکَانِ الْکُحْلَ وَالتَّخْضِیبَ وَالتَّطَیُّبَ وَالتَّمَشُّطَ۔
(١٩٢٩٧) حضرت عطاء خراسانی، حضرت سعید بن مسیب، فقہاء مدینہ اور حضرت سلیمان بن یسار (رض) فرماتے ہیں کہ وہ عورت جسے تین طلاقیں دے دی گئی ہوں اور وہ عورت جس کے خاوند کا انتقال ہوگیا ہو وہ دونوں زیر ناف بالوں کو صاف کریں گی لیکن سرمہ، خضاب، خوشبو اور کنگھی کا استعمال نہیں کریں گی۔

19297

(۱۹۲۹۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِیزِ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ قَالَ : الْمُطَلَّقَۃُ ثَلاَثًا وَالْمُتَوَفَّی عَنْہَا سَوَائٌ فِی الزِّینَۃِ۔
(١٩٢٩٨) حضرت سعید بن مسیب (رض) فرماتے ہیں کہ تین طلاق یافتہ عورت اور وہ جس کا خاوند فوت ہوگیا ہو زینت کے معاملے میں دونوں کا ایک حکم ہے۔

19298

(۱۹۲۹۹) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالَ : الْمُطَلَّقَۃُ ثَلاَثًا لاَ تَکْتَحِلُ بِکُحْلٍ زِینَۃً۔
(١٩٢٩٩) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ تین طلاق یافتہ عورت زینت کے لیے سرمہ نہیں لگائے گی۔

19299

(۱۹۳۰۰) حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَۃَ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنْ مُحَمَّدٍ قَالَ : الْمُطَلَّقَۃُ ثَلاَثًا وَالْمُتَوَفَّی عَنْہَا لاَ تَکْتَحِلاَنِ وَلاَ تَخْتَضِبَانِ۔
(١٩٣٠٠) حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں کہ وہ عورت جسے تین طلاقیں دے دی گئی ہوں اور وہ عورت جس کے خاوند کا انتقال ہوگیا ہو وہ دونوں سرمہ نہیں لگائیں گی اور خضاب بھی استعمال نہیں کریں گی۔

19300

(۱۹۳۰۱) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنِ الْحَکَمِ فِی الْمُطَلَّقَۃِ ثَلاَثًا : لاَ تَکْتَحِلُ وَلاَ تَزَیَّنُ ، وَہُوَ أَشَدُّ عِنْدَہُ مِنَ الْمُتَوَفَّی عِنْدَہُ۔
(١٩٣٠١) حضرت حکم (رض) فرماتے ہیں کہ جس عورت کو تین طلاقیں دے دی گئی ہوں وہ سرمہ نہیں لگائے گی اور زینت بھی اختیار نہیں کرے گی۔ اس کا حکم اس عورت سے زیادہ سخت ہے جس کا خاوند انتقال کرگیا ہو۔

19301

(۱۹۳۰۲) حَدَّثَنَا ابْنُ مُبَارَکٍ ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنْ عَطَائٍ الْخُرَاسَانِیِّ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ قَالَ : الْمُطَلَّقَۃُ ثَلاَثًا وَالْمُتَوَفَّی عَنْہَا سَوَائٌ فِی الزِّینَۃِ۔
(١٩٣٠٢) حضرت سعید بن مسیب (رض) فرماتے ہیں کہ وہ عورت جسے تین طلاقیں دے دی گئی ہوں اور وہ عورت جس کے خاوند کا انتقال ہوگیا ہو وہ دونوں زینت کے حکم میں برابر ہیں۔

19302

(۱۹۳۰۳) حَدَّثَنَا سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ حَفْصَۃَ ابْنَۃِ سِیرِینَ ، عَنْ أُمِّ عَطِیَّۃَ أَنَّہَا قَالَتْ : لاَ تَکْتَحِلُ وَلاَ تَخْتَضِبُ وَلاَ تَلْبَسُ ثَوْبًا مَصْبُوغًا ، إلاَّ ثَوْبَ عَصْبٍ ، وَلاَ تَطَیَّبُ إلاَّ عِنْدَ غُسْلِہَا مِنْ حَیْضَتِہَا بِنَبْذَۃٍ مِنْ قُسْطٍ ، وَأَظْفَارٍ ، تَقُولُ : فِی الْمُتَوَفَّی عَنْہَا۔
(١٩٣٠٣) حضرت ام عطیہ (رض) فرماتی ہیں کہ جس عورت کا خاوند انتقال کر گیا وہ وہ عدت میں سرمہ اور خضاب استعمال نہیں کرے گی، رنگا ہوا کپڑے نہیں پہنے گی، البتہ عصب نامی کپڑا پہن سکتی ہے۔ خوشبو استعمال نہیں کرے گی البتہ حیض کا غسل کرتے ہوئے قسط اور اظفار نامی خوشبو میں سے تھوڑی سی لگاسکتی ہے۔

19303

(۱۹۳۰۴) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَطَائٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ : کَانَ یَنْہَی الْمُتَوَفَّی عَنْہَا ، عَنِ الطِّیبِ وَالزِّینَۃِ۔
(١٩٣٠٤) حضرت ابن عباس (رض) اس عورت کو خوشبو اور زینت سے منع کیا کرتے تھے جس کے خاوند کا انتقال ہوگیا ہو۔

19304

(۱۹۳۰۵) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ أَیُّوبَ بْنِ مُوسَی ، عَنْ نَافِعٍ قَالَ : اشْتَکَتْ صَفِیَّۃُ عَیْنَہَا لَمَّا تُوُفِّیَ ابْنُ عُمَرَ ، فَکَانَتْ تَقْطُرُ فِیہَا الصَّبِرَ۔
(١٩٣٠٥) حضرت نافع (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عمر (رض) کے وصال کے بعد ان کی اہلیہ حضرت صفیہ کی آنکھ میں تکلیف ہوئی تو وہ آنکھ میں صبر نامی بوٹی کا پانی ٹپکایا کرتی تھیں۔ (یعنی علاج کے لیے بھی سرمہ نہیں لگاتی تھیں)

19305

(۱۹۳۰۶) حَدَّثَنَا حُمَیْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ حَسَنِ بْنِ صَالِحٍ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ لاَحِقِ بْنِ حُمَیْدٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ : تَتْرُکُ الْمُتَوَفَّی عَنْہَا الْکُحْلَ وَالطِّیبَ ، وَالْحُلِیَّ وَالْمُصَبَّغَۃَ۔
(١٩٣٠٦) حضرت ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ جس عورت کا خاوند انتقال کرجائے وہ سرمہ، خوشبو، زیور اور رنگ استعمال نہیں کرے گی۔

19306

(۱۹۳۰۷) حَدَّثَنَا حُمَیْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ حَسَنِ بْنِ صَالِحٍ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنِ الحسن مِثْلَہُ۔
(١٩٣٠٧) حضرت حسن (رض) سے بھی یونہی منقول ہے۔

19307

(۱۹۳۰۸) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ : الْمُتَوَفَّی عَنْہَا زَوْجُہَا لاَ تَکْتَحِلُ ، وَلاَ تَخْتَضِبُ ، وَلاَ تَلْبَسُ ثَوْبًا إلاَّ ثَوْبَ عَصْبٍ ، وَلاَ تَبِینُ عَنْ بَیْتِہَا ، وَلَکِنْ تَزُورُ بِالنَّہَارِ۔
(١٩٣٠٨) حضرت ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ وہ عورت جس کا خاوند انتقال کرگیا ہو وہ نہ سرمہ لگائے گی، نہ خضاب اور نہ ہی خوشبو، وہ صرف عصب نامی کپڑا پہنے گی۔ اپنے خاوند کے گھر سے باہر رات نہیں رہے گی البتہ اقارب سے ملاقات کے لیے جاسکتی ہے۔

19308

(۱۹۳۰۹) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ أَنَّ أمینۃ بِنْتَ عُثْمَانَ تُوُفِّیَ زَوْجُہَا فَرَمِدَتْ عَیْنُہَا ، فَبَعَثَتْ إلَی عَائِشَۃَ تَسْأَلُہَا ، فَنَہَتْہَا أَنْ تَکْتَحِلَ بِالإِثْمِدِ ، فَبَعَثَتْ إلَیہَا إنِّی قَد کُنت عَودتہ عَینِی ، وَإِنی قَد خَشَیت عَلَیہَا ، فَبَعَثَتُ إِلَیہَا لاَ تَکْتَحِلْ بِالإِثْمِدِ ، وَإِنِ أنْفَضَختْ عَیْنُک۔
(١٩٣٠٩) حضرت قتادہ (رض) فرماتے ہیں کہ امینہ بنت عثمان (رض) کے خاوند فوت ہوگئے، خاوند کی فوتیدگی کے بعد ان کی آنکھ میں تکلیف ہوگئی۔ انھوں نے حضرت عائشہ (رض) کے پاس کسی کو بھیج کر پوچھا کہ بیماری کی صورت میں میں آنکھوں میں اثمد سرمہ لگایا کرتی تھی۔ مجھے اپنی آنکھ کے ضائع ہونے کا اندیشہ ہے تو کیا میں وہی سرمہ استعمال کرلوں ؟ حضرت عائشہ (رض) نے فرمایا کہ اثمد سرمہ ہرگز نہ لگانا خواہ تمہاری آنکھ ہی ضائع ہوجائے۔

19309

(۱۹۳۱۰) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ قَالَ : سَأَلَتِ امْرَأَۃٌ فَقَالَتْ : إنِّی امْرَأَۃُ عَطَّارَۃٌ ، وَإِنَّ زَوْجِی قَدْ مَاتَ ، فَنَہَاہَا وَقَالَ : لاَ تَکْتَحِلِی إلاَّ مِنْ ضَرُورَۃٍ۔
(١٩٣١٠) حضرت لیث (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت مجاہد (رض) سے ایک عورت نے سوال کیا کہ میں خوشبو بیچتی ہوں اور میرے خاوند کا انتقال ہوگیا ہے کیا میرے لیے ایسا کرنا درست ہے ؟ حضرت مجاہد نے انھیں خوشبو کو ہاتھ لگانے سے منع کیا اور فرمایا کہ تم سرمہ بھی ضرورت کے تحت لگا سکتی ہو۔

19310

(۱۹۳۱۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ مَعْمَر ، عَنْ بُدَیْلِ بْنِ مَیْسَرَۃَ ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ مُسْلِمِ بْنِ یَنَّاق ، عَنْ صَفِیَّۃَ ابْنَۃِ شَیْبَۃَ ، عَنْ أُم سَلَمۃ قَالَتْ : لاَ تَلْبَسُ الْمُتَوَفَّی عَنْہَا فِی عِدَّتِہَا حَلْیًا۔
(١٩٣١١) حضرت ام سلمہ (رض) فرماتی ہیں کہ جس عورت کا خاوند فوت ہوجائے وہ اپنی عدت میں زیور نہیں پہن سکتی۔

19311

(۱۹۳۱۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ حَبِیبٍ ، عَنْ عَطَائٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، وَعَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ ، عَنْ جَابِرٍ قَالاَ : لاَ نَفَقَۃَ لَہَا ، یُنْفَقُ عَلَیْہَا مِنْ نَصِیبِہَا۔
(١٩٣١٢) حضرت ابن عباس (رض) اور حضرت جابر (رض) فرماتے ہیں کہ حاملہ عورت کا خاوند فوت ہوجائے تو اسے نفقہ نہیں ملے گا بلکہ اس پر اسی کے وراثتی حصے میں سے خرچ کیا جائے گا۔

19312

(۱۹۳۱۳) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ وَجَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ ، وَالْحَسَنِ قَالَ : کَانُوا یَقُولُونَ : لَیْسَ لَہَا نَفَقَۃٌ ، حَسْبُہَا الْمِیرَاثُ۔
(١٩٣١٣) حضرت سعید بن مسیب (رض) ، حضرت جابر بن عبداللہ (رض) اور حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ اسے نفقہ نہیں ملے گا اور اس کے لیے میراث کافی ہے۔

19313

(۱۹۳۱۴) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ عَطَائٍ قَالَ : مِنْ نَصِیبِہَا۔ (۱۹۳۱۴ م) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ عَطَائٍ قَالَ : مِنْ نَصِیبِہَا۔
(١٩٣١٤) حضرت عطائ فرماتے ہیں کہ اگر کسی حاملہ کا خاوند فوت ہوجائے تو اس پر اس کے وراثتی حصے میں سے خرچ کیا جائے گا۔
(١٩٣١٤ م) حضرت عطائ سے ایک اور سند سے یونہی منقول ہے۔

19314

(۱۹۳۱۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ جَعْفَرٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ قَالَ : قَالَ قَبِیصَۃُ بْنُ ذُؤَیْبٍ : لَوْ أَنْفَقْت عَلَیْہَا مِنْ غَیْرِ نَصِیبِہَا ، أَنْفَقْت عَلَیْہَا مِنْ نَصِیبِ الَّذِی فِی بَطْنِہَا۔
(١٩٣١٥) حضرت قبیصہ بن ذؤیب (رض) فرماتے ہیں کہ اگر میں عورت پر اس کے حصے کے علاوہ خرچ کروں تو میں اس کے حصے میں سے خرچ کروں گا جو اس کے پیٹ میں ہے۔

19315

(۱۹۳۱۶) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ وابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ قَالَ : یُنْفَقُ عَلَیْہَا مِنْ نَصِیبِہَا۔
(١٩٣١٦) حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کسی حاملہ کا خاوند فوت ہوجائے تو اس پر اس کے وراثتی حصے میں سے خرچ کیا جائے گا۔

19316

(۱۹۳۱۷) حَدَّثَنَا ابْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِینَارٍ ، أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ قَالَ : فی الْمُتَوَفَّی عَنْہَا وَہِیَ حَامِلٌ لاَ نَفَقَۃَ لَہَا وَقَضَی بِہِ فِینَا ابْنُ الزُّبَیْرِ۔
(١٩٣١٧) حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ اگر حاملہ عورت کا خاوند فوت ہوجائے تو اسے نفقہ نہیں ملے گا۔ حضرت ابن زبیر (رض) نے ہمارے بارے میں یہی فیصلہ فرمایا تھا۔

19317

(۱۹۳۱۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنِ الْحَکَمِ قَالَ : یُنْفَقُ عَلَیْہَا مِنْ نَصِیبِہَا وَسَمِعْت وَکِیعًا یَقُولُ : کَانَ سُفْیَانُ یَقُولُ : یُنْفَقُ عَلَیْہَا مِنْ نَصِیبِہَا۔
(١٩٣١٨) حضرت حکم (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کسی حاملہ کا خاوند فوت ہوجائے تو اس پر اس کے وراثتی حصے میں سے خرچ کیا جائے گا۔ حضرت سفیان فرماتے ہیں کہ اگر کسی حاملہ کا خاوند فوت ہوجائے تو اس پر اس کے وراثتی حصے میں سے خرچ کیا جائے گا۔

19318

(۱۹۳۱۹) حَدَّثَنَا الثَّقَفِیُّ ، عَنْ بُرْدٍ ، عَنْ مَکْحُولٍ قَالَ : نَفَقَتُہَا مِنْ نَصِیبِہَا۔
(١٩٣١٩) حضرت مکحول (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کسی حاملہ کا خاوند فوت ہوجائے تو اس پر اس کے وراثتی حصے میں سے خرچ کیا جائے گا۔

19319

(۱۹۳۲۰) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنْ عَلِیٍّ ، وَعَبْدِ اللہِ وَشُرَیْحٍ قَالُوا : یُنْفَقُ عَلَیْہَا مِنْ جَمِیعِ الْمَالِ۔
(١٩٣٢٠) حضرت علی (رض) ، حضرت عبداللہ (رض) اور حضرت شریح (رض) فرماتے ہیں کہ اگر حاملہ عورت کا خاوند فوت ہوجائے تو اس پر کل مال میں سے خرچ کیا جائے گا۔

19320

(۱۹۳۲۱) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ وَشُرَیْحٍ قَالاَ یُنْفَقُ عَلَیْہَا مِنْ جَمِیعِ الْمَالِ۔
(١٩٣٢١) حضرت عبداللہ اور حضرت شریح فرماتے ہیں کہ اگر حاملہ عورت کا خاوند فوت ہوجائے تو اس پر کل مال میں سے خرچ کیا جائے گا۔

19321

(۱۹۳۲۲) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ سُفْیَانَ بْنِ حُسَیْنٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ : یُنْفَقُ عَلَیْہَا مِنْ جَمِیعِ الْمَالِ۔
(١٩٣٢٢) حضرت ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ اگر حاملہ عورت کا خاوند فوت ہوجائے تو اس پر کل مال میں سے خرچ کیا جائے گا۔

19322

(۱۹۳۲۳) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ بْنِ أَبِی خَالِدٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ وَإِبْرَاہِیمَ قَالاَ یُنْفَقُ عَلَیْہَا مِنْ جَمِیعِ الْمَالِ۔
(١٩٣٢٣) حضرت شعبی (رض) اور حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ اگر حاملہ عورت کا خاوند فوت ہوجائے تو اس پر کل مال میں سے خرچ کیا جائے گا۔

19323

(۱۹۳۲۴) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : یُنْفَقُ عَلَیْہَا مِنْ جَمِیعِ الْمَالِ۔
(١٩٣٢٤) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ اگر حاملہ عورت کا خاوند فوت ہوجائے تو اس پر کل مال میں سے خرچ کیا جائے گا۔

19324

(۱۹۳۲۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنِ الْحَکَمِ ، عَنْ شُرَیْحٍ قَالَ : یُنْفَقُ عَلَیْہَا مِنْ جَمِیعِ الْمَالِ۔
(١٩٣٢٥) حضرت شریح (رض) فرماتے ہیں کہ اگر حاملہ عورت کا خاوند فوت ہوجائے تو اس پر کل مال میں سے خرچ کیا جائے گا۔

19325

(۱۹۳۲۶) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ زَکَرِیَّا ، عَنِ ابْنِ أَشْوَعَ قَالَ : کَانَ شُرَیْحٌ وَقُضَاۃُ أَہْلِ الْکُوفَۃِ یَقُولُونَ : یُنْفَقُ عَلَیْہَا مِنْ جَمِیعِ الْمَالِ۔
(١٩٣٢٦) حضرت شریح (رض) اور کوفہ کے قضاۃ فرماتے ہیں کہ اگر حاملہ عورت کا خاوند فوت ہوجائے تو اس پر کل مال میں سے خرچ کیا جائے گا۔

19326

(۱۹۳۲۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالَ : کَانَ أَصْحَابُنَا یَقُولُونَ : إِنْ کَانَ الْمَالُ لَہُ أُنْفِقَ عَلَیْہَا مِنْ جَمِیعِ الْمَالِ۔
(١٩٣٢٧) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ ہمارے اصحاب فرماتے ہیں کہ اگر حاملہ عورت کا خاوند فوت ہوجائے تو اس پر کل مال میں سے خرچ کیا جائے گا۔

19327

(۱۹۳۲۸) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنِ الْحَکَمِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالَ : کَانَ أَصْحَابُ عَبْدِ اللہِ یَقُولُونَ فِی الْمُتَوَفَّی عَنْہَا زَوْجُہَا : إِنْ کَانَ الْمَالُ کَثِیرًا فَنَفَقَتُہَا مِنْ نَصِیبِ الْغُلاَمِ ، وَإِنْ کَانَ الْمَالُ قَلِیلاً ، مِنْ جَمِیعِ الْمَالِ۔
(١٩٣٢٨) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ (رض) کے اصحاب فرمایا کرتے تھے کہ جس عورت کا خاوند فوت ہوجائے اگر وہ آدمی زیادہ مال والا ہو تو اس کا نفقہ بچے کے حصے میں سے ہوگا اور اگر تھوڑے مال والا ہو تو کل مال میں سے خرچ کیا جائے گا۔

19328

(۱۹۳۲۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ قَتَادَۃَ وَحَمَّادٍ ، وَعَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالُوا الحَامِل : الْمُتَوَفَّی عَنْہَا یُنْفَقُ عَلَیْہَا مِنْ جَمِیعِ الْمَالِ۔
(١٩٣٢٩) حضرت قتادہ (رض) ، حضرت حماد (رض) ، حضرت قتادہ (رض) اور حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ اگر حاملہ عورت کا خاوند فوت ہوجائے تو اس پر کل مال میں سے خرچ کیا جائے گا۔

19329

(۱۹۳۳۰) حَدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ یُونُسَ ، أن ابْنَ سِیرِینَ قَالَ : کَانَ یَرَی لِکُلِّ حَامِلٍ نَفَقَۃً قَالَ : فولی أُمِّ وَلَدٍ یَعْلَی بْنُ خَالِدٍ ، فَکَانَ یَرَی لَہَا النَّفَقَۃَ فَکَرِہَ أَنْ یُنْفِقَ دُونَ الْقَاضِی ، فَأَرْسَلَ إلَی عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ یَعْلَی فَمَنَعَہَا ہو ، قَالَ : کَانَ الْحَسَنُ یَقُولُ : یُنْفَقُ عَلَیْہَا فَإِنْ وَلَدَتْہُ حَیًّا فَنَفَقَتُہَا مِنْ نَصِیبِ وَلَدِہَا ، وَإِنْ وَلَدَتْہُ مَیِّتًا أُلْغِیَ ذَلِکَ۔
(١٩٣٣٠) حضرت ابن سیرین (رض) ہر حاملہ کے لیے نفقہ کے قائل تھے۔ یعلی بن خالد کی ام ولد کے لیے انھوں نے نفقہ کی رائے دی تھی لیکن وہ اس بات کو مکروہ خیال فرماتے تھے کہ ام ولد پر قاضی کے بغیر خرچ کیا جائے۔ انھوں نے عبد الملک بن یعلی کی طرف پیغام بھیجا تو انھوں نے نفقہ سے منع کردیا۔ حضرت حسن فرمایا کرتے تھے کہ اس پر خرچ کیا جائے گا۔ اگر زندہ بچے کو جنم دے تو اس کا نفقہ بچے کے حصے میں سے ہوگا اور اگر مردہ بچے کو جنم دے تو اسے لغو قرار دے دیا جائے گا۔

19330

(۱۹۳۳۱) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ الثَّقَفِیُّ ، عَنْ بُرْدٍ ، عَنْ مَکْحُولٍ قَالَ : إذَا کَانَتْ أُمُّ وَلَدٍ فَتُوُفِّیَ عَنْہَا سَیِّدُہَا فَنَفَقَتُہَا مِنْ نَصِیبِ الَّذِی فِی بَطْنِہَا۔
(١٩٣٣١) حضرت مکحول (رض) فرماتے ہیں کہ اگر ام ولد کا آقا فوت ہوجائے تو اس کا نفقہ اس کے حصے میں سے ہوگا جو اس کے پیٹ میں ہے۔

19331

(۱۹۳۳۲) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ ، قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللہِ : عِدَّۃُ الْمُطَلَّقَۃِ بِالْحَیْضِ ، وَإِنْ طَالَتْ ، قَالَ حَفْصٌ : فَذَکَرَ السَّنَۃَ وَأَکْثَرَ۔
(١٩٣٣٢) حضرت عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ طلاق یافتہ عورت کی عدت حیض سے شمار کی جائے گی خواہ وہ طویل ہی کیوں نہ ہوجائے۔ حضرت حفص فرماتے ہیں کہ انھوں نے ایک سال یا زائد کا تذکرہ کیا۔

19332

(۱۹۳۳۳) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ دَاوُدَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، وَعَنْ عُبَیْدَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ أَنَّہُمَا قَالاَ : تَعْتَدُّ بِالْحَیْضِ۔
(١٩٣٣٣) حضرت شعبی اور حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ وہ حیض کے اعتبار سے عدت گزارے گی۔

19333

(۱۹۳۳۴) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ قَالَ : قَالَ عُمَرُ : إذَا طُلِّقَتِ الْمَرْأَۃُ فَحَاضَتْ حَیْضَۃً ، أَوْ حَیْضَتَیْنِ ، ثُمَّ رَفَعَتْہَا حَیْضَتُہَا اعْتَدَّتْ لِلْحَیضِ ثَلاَثَۃَ أَشْہُرٍ ، ثُمَّ اعْتَدَّتْ لِلْحَمْلِ تِسْعَۃَ أَشْہُرٍ ، ثُمَّ حَلَّتْ لِلرِّجَالِ۔
(١٩٣٣٤) حضرت عمر (رض) فرماتے ہیں کہ اگر ایک عورت کو طلاق دی جائے، پھر اسے ایک یا دو حیض آئی اور اس کے بعد اس کا حیض بند ہوجائے تو وہ حیض کے لیے تین مہینے شمار کرے گی اور حمل کے لیے نومہینے شمار کرے گی، پھر مردوں کے لیے حلال ہوجائے گی۔

19334

(۱۹۳۳۵) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ ؛ فِی الْمَرْأَۃِ إذَا طَلَّقَہَا فَحَاضَتْ حَیْضَۃً ، أَوْ حَیْضَتَیْنِ تَرَبَّصُ سَنَۃً ، ثُمَّ تَمْکُثُ بَعْدَ السَّنَۃِ ثَلاَثَۃَ أَشْہُرٍ ، ثُمَّ تَزَوَّجَ۔
(١٩٣٣٥) حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کسی عورت کو طلاق دی گئی، پھر اسے ایک یا دو حیض آئے اور پھر حیض بند ہوگئے تو وہ ایک سال تک انتظار کرے اور ایک سال کے بعد پھر تین مہینے انتظار کرے پھر شادی کرے۔

19335

(۱۹۳۳۶) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ عَبْدِ الْحَمِیدِ بْنِ جَعْفَرٍ ، عَنْ یَزِیدَ بْنِ أَبِی حَبِیبٍ قَالَ : کَتَبَ إلَیَّ الزُّہْرِیُّ إنَّ رَجُلاً طَلَّقَ امْرَأَتَہُ وَہِیَ تُرْضِعُ ابْنًا لَہُ ، فَمَکَثَتْ سَبْعَۃَ أَشْہُرٍ ، أَوْ ثَمَانِیَۃَ أَشْہُرٍ لاَ تَحِیضُ فَقِیلَ لَہُ : إِنْ مِتَّ وَرِثَتْک فَقَالَ : احْمِلُونِی إلَی عُثْمَانَ فَحَمَلُوہُ فَأَرْسَلَ عُثْمَانُ إلَی عَلِیٍّ وَزَیْدٍ فَسَأَلَہُمَا فَقَالاَ : نَرَی أَنْ تَرِثَہُ ، فَقَالَ : وَلِمَ ؟ فَقَالاَ : لأَنَّہَا لَیْسَتْ مِنَ اللاَّئِی یَئِسْنَ مِنَ الْمَحِیضِ ، وَلاَ من اللاَّئِی لم یَحِضْنَ ، وَإِنَّمَا یَمْنَعُہَا مِنَ الْمَحِیضِ الرَّضَاعُ فَأَخَذَ الرَّجُلُ ابْنَہُ فَلَمَّا فَقَدَتْہُ حَاضَتْ حَیْضَۃً ، ثُمَّ حَاضَتْ فِی الشَّہْرِ الثَّانِی حَیْضَۃً أُخْرَی ، ثُمَّ مَاتَ قَبْلَ أَنْ تَحِیضَ الثَّالِثَۃ فَوَرِثَتْہُ
(١٩٣٣٦) حضرت یزید بن ابی حبیب (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت زہری نے میری طرف خط لکھا کہ ایک آدمی نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی، جبکہ وہ اس کے ایک بچے کو دودھ پلا رہی تھی۔ پھر وہ عورت سات مہینے یا آٹھ مہینے رکی رہی اسے حیض نہ آیا۔ آدمی سے کسی نے کہا کہ اگر تو مرگیا تو وہ تیری وارث ہوگی۔ اس نے کہا کہ مجھے حضرت عثمان (رض) کے پاس لے جاؤ، اسے حضرت عثمان کے پاس لے جایا گیا تو انھوں نے فرمایا کہ اسے حضرت علی (رض) اور حضرت زید (رض) کے پاس لے جاؤ اور یہ انہی سے اس بارے میں سوال کرے۔ انھوں دونوں حضرات نے فرمایا کہ ہماری رائے تو یہ ہے کہ وہ وارث ہوگی۔ اس نے کہا کہ اس کی وجہ کیا ہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ اس لیے کہ یہ ان عورتوں میں سے نہیں جو حیض سے مایوس ہیں اور ان میں سے بھی نہیں جنہیں حیض نہیں آتا۔ اس کو حیض نہ آنے کی وجہ بچے کو دودھ پلانا ہے۔ اس کے بعد آدمی نے اپنا بچہ اس سے لے لیا، بچے کادودھ چھڑوا دینے کے بعد اس عورت کو ایک حیض آیا، پھر دوسرے مہینے اسے دوسرا حیض آیا، پھر عورت کو تیسرا حیض آنے سے پہلے آدمی کا انتقال ہوگیا تو وہ عورت اس کی وارث بن گئی۔

19336

(۱۹۳۳۷) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ یَسَارٍ أَنَّ الأَحْوَصَ ، رَجُلاً مِنْ أَہْلِ الشَّامِ ، طَلَّقَ امْرَأَتَہُ تَطْلِیقَۃً ، أَوْ تَطْلِیقَتَیْنِ فَمَاتَ وَہِیَ فِی الْحَیْضَۃِ الثَّالِثَۃِ مِنَ الدَّمِ فَرُفِعَ ذَلِکَ إلَی مُعَاوِیَۃَ فَسَأَلَ عَنْہَا فَضَالَۃَ بْنَ عُبَیْدٍ وَمَنْ ہُنَاکَ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَلَمْ یُوجَدْ عِنْدَہُمْ فِیہَا عِلْمٌ فَبَعَثَ فیہا رَاکِبًا إلَی زَیْدِ بْنِ ثَابِتٍ فَقَالَ : لاَ تَرِثُہُ ، وَإِنْ مَاتَتْ لَمْ یَرِثْہَا قَالَ : کَانَ ابْنُ عُمَرَ یَرَی ذَلِکَ۔
(١٩٣٣٧) حضرت سلیمان بن یسار (رض) فرماتے ہیں کہ شام کے ایک آدمی جن کا احوص تھا انھوں نے اپنی بیوی کو ایک یا دو طلاقیں دے دیں، ابھی وہ عورت تیسرے حیض میں تھی کہ آدمی کا انتقال ہوگیا۔ یہ مقدمہ حضرت معاویہ (رض) کے پاس پیش کیا گیا تو انھوں نے اس بارے میں حضرت فضالہ بن عبید سے دوسرے صحابہ کرام (رض) سے سوال کیا۔ لیکن کسی نے اس کا جواب نہ دیا۔ لہٰذا ایک سوار کو حضرت زید بن ثابت (رض) کے پاس اس بارے میں سوال کرنے کے لیے بھیجا گیا انھوں نے فرمایا کہ وہ وارث نہیں ہوگی اور اگر عورت مرجائے تو خاوند بھی وارث نہیں ہوگا اور انھوں نے فرمایا کہ حضرت ابن عمر (رض) بھی یہی فرمایا کرتے تھے۔

19337

(۱۹۳۳۸) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعمَش ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، عَنْ عَلْقَمَۃَ أَنَّہُ طَلَّقَ امْرَأَتَہُ تَطْلِیقَۃً ، أَوْ تَطْلِیقَتَیْنِ فَحَاضَتْ حَیْضَۃً ، أَوْ حَیْضَتَیْنِ فِی سِتَّۃَ عَشَرَ شَہْرًا أَو سَبعَۃ عَشَرَ شَہْرًا ، ثُمَّ لَمْ تَحِضِ الثَّالِثَۃَ حَتَّی مَاتَتْ فَأَتَی عَبْدَ اللہِ فَذَکَرَ ذَلِکَ لَہُ فَقَالَ عَبْدُ اللہِ : حبَسَ اللَّہُ عَلَیْک مِیرَاثَہَا وَوَرَّثَہُ مِنْہَا۔
(١٩٣٣٨) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت علقمہ نے اپنی بیوی کو ایک یا دو طلاقیں دیں پھر خاتون کو سولہ یاسترہ مہینوں میں ایک یا دو حیض آئے، انھیں تیسرا حیض نہ آیا کہ ان کا انتقال ہوگیا۔ حضرت علقمہ حضرت عبداللہ کے پاس آئے اور ان سے اس بارے میں سوال کیا تو حضرت عبداللہ (رض) نے فرمایا کہ اللہ نے اس کی میراث تمہارے لیے روک کر رکھی۔ پھر حضرت عبداللہ نے انھیں وارث قرار دیا۔

19338

(۱۹۳۳۹) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ یَحْیَی بْنِ حَبَّانَ أَنَّ جدہ حبان بْنِ مُنْقِذٍ کَانَتْ عِنْدَہُ امْرَأَتَانِ امْرَأَۃٌ مِنْ بَنِی ہَاشِمٍ وَامْرَأَۃٌ مِنَ الأَنْصَارِ وَأَنَّہُ طَلَّقَ الأَنْصَارِیَّۃَ وَہِیَ تُرْضِعُ وَکَانَتْ إذَا أَرْضَعَتْ مَکَثَتْ سَنَۃً لاَ تَحِیضُ ، فَمَاتَ حِبَّانُ عِنْدَ رَأْسِ السَّنَۃِ فَوَرِثَہَا عُثْمَانُ وَقَالَ لِلْہَاشِمِیَّۃِ : ہَذَا رَأْیُ ابْنِ عَمِّکَ عَلِیِّ بْنِ أَبِی طَالِبٍ۔
(١٩٣٣٩) حضرت محمد بن یحییٰ بن حبان (رض) کہتے ہیں کہ ان کے دادا حضرت حبان بن منقذ کی دو بیویاں تھیں، ایک بنو ہاشم سے اور دوسری انصار سے۔ انھوں نے اپنی انصاریہ بیوی کو طلاق دے دی جبکہ وہ بچے کو دودھ پلاتی تھیں۔ جب وہ بچے کو دودھ پلاتی تھیں تو انھیں ایک سال تک حیض نہیں آتا تھا۔ حضرت حبان وہ سال پورا ہونے سے پہلے انتقال کرگئے تو حضرت عثمان (رض) نے ان کی بیوی کو وارث قرار دیا۔ اور ہاشمیہ بیوی سے فرمایا کہ یہی رائے تمہارے چچا زاد حضرت علی بن ابی طالب (رض) کی بھی ہے۔

19339

(۱۹۳۴۰) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ مَعْمَر ، عَنِ الزُّہْرِیِّ فِی الَّتِی لاَ تَحِیضُ إلاَّ فِی الأَشْہُرِ قَالَ : تَعْتَدُّ بِالْحَیْضِ ، وَإِنْ تَطَاوَلَ۔
(١٩٣٤٠) حضرت زہری (رض) فرماتے ہیں کہ جس عورت کو کئی مہینوں میں ایک مرتبہ حیض آتا ہو وہ بھی عدت حیض کے اعتبار سے گزارے گی خواہ حیض طویل ہی کیوں نہ ہوجائے۔

19340

(۱۹۳۴۱) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ خِلاَسٍ أَنَّ رَجُلاً طَلَّقَ امْرَأَتَہُ وَأَشْہَدَ رَجُلَیْنِ فِی السِّرِّ وَقَالَ : اکْتُمَا عَلَیّ ، فَکَتَمَا عَلَیْہِ ، حَتَّی انْقَضَتِ الْعِدَّۃُ فَارْتَفَعَا إلَی عَلِیٍّ فَاتَّہَمَ الشَّاہِدَیْنِ وَجَلَدَہُمَا وَلَمْ یَجْعَلْ لَہُ عَلَیْہَا رَجْعَۃً۔
(١٩٣٤١) حضرت خلاس (رض) فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی اور دو آدمیوں کو خفیہ طریقے سے گواہ بنایا اور ان سے کہا کہ اس راز کو چھپاکر رکھنا۔ انھوں نے اس بات کو خفیہ رکھا یہاں تک کہ عورت کی عدت گزر گئی۔ یہ مقدمہ انھوں نے حضرت علی (رض) کے پاس پیش کیا تو حضرت علی (رض) نے گواہ کو مجرم گردانتے ہوئے کوڑے لگوائے اور مرد کو رجوع کے حق سے محروم قرار دیا۔

19341

(۱۹۳۴۲) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ ابْنَ الزُّبَیْرِ طَلَّقَ امْرَأَتَہُ فَلَمْ یُعْلِمْہَا سَنَۃً فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ : بِئْسَ مَا صَنَعَ۔
(١٩٣٤٢) حضرت نافع (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت ابن زبیر (رض) نے اپنی ایک بیوی کو طلاق دی اور ایک سال تک انھیں طلاق کی خبر نہ دی۔ حضرت ابن عمر (رض) کو معلوم ہوا تو آپ نے فرمایا کہ تم نے بہت برا کیا۔

19342

(۱۹۳۴۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ قَیْسِ بْنِ مُسْلِمٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْتَشِرِ أَنَّ شُرَیْحًا طَلَّقَ امْرَأَتَہُ فَکَتَمَہَا الطَّلاَقَ حَتَّی انْقَضَتْ عِدَّتُہَا ، فَعَابُوا ذَلِکَ عَلَیْہِ۔
(١٩٣٤٣) حضرت محمد بن منتشر (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت شریح (رض) نے اپنی بیوی کو طلاق دی اور پھر طلاق کو چھپائے رکھا یہاں تک کہ عدت گزر گئی تو اہل علم نے اسے برا قرار دیا۔

19343

(۱۹۳۴۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ مُوسَی بْنِ عُبَیْدَۃَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ کَعْبٍ قَالَ : قَالَ عَلِیٌّ : الْحَکَمَانِ بِہِمَا یَجْمَعُ اللَّہُ وَبِہِمَا یُفَرِّقُ۔
(١٩٣٤٤) حضرت علی (رض) فرماتے ہیں کہ ثالثوں کے ذریعے اللہ تعالیٰ میاں بیوی کو جمع کرتا ہے اور انہی کے ذریعے جدا کرتا ہے۔

19344

(۱۹۳۴۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ قَالَ : مَا قَضَی الْحَکَمَانِ جَائِزٌ۔
(١٩٣٤٥) حضرت شعبی (رض) فرماتے ہیں کہ دو ثالث میاں بیوی کے درمیان جو فیصلہ کردیں وہ نافذ ہوگا۔ فرماتے ہیں کہ دو ثالث میاں بیوی کے درمیان جو فیصلہ کردیں وہ نافذ ہوگا۔

19345

(۱۹۳۴۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ مُبَارَکٍ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ أَبِی کَثِیرٍ ، عَنْ أَبِی سَلَمَۃَ قَالَ : الْحَکَمَانِ إِنْ شَائَا جَمَعَا ، وَإِنْ شَائَا فَرَّقَا۔
(١٩٣٤٦) حضرت ابو سلمہ (رض) فرماتے ہیں کہ ثالث چاہیں تو دونوں کو جمع کردیں اور چاہیں تو جدا کردیں۔

19346

(۱۹۳۴۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ أَبِی ہَاشِمٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ فِی قولہ تعالی : {إنْ یُرِیدَا إصْلاَحًا یُوَفِّقَ اللَّہُ بَیْنَہُمَا} قَالَ : ہُمَا الْحَکَمَانِ۔
(١٩٣٤٧) حضرت مجاہد (رض) قرآن مجید کی آیت {إنْ یُرِیدَا إصْلاَحًا یُوَفِّقَ اللَّہُ بَیْنَہُمَا } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اس سے مراد دو ثالث ہیں۔

19347

(۱۹۳۴۸) حَدَّثَنَا أَسْبَاطُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، عَنْ مُطَرِّفٍ ، عَنِ الْحَکَمِ قَالَ : إذَا الْحَکَمَانِ اخْتَلَفَا ، فَلاَ : حُکِمَ لَہُمَا وَیُجْعَلُ غَیْرُہُ وَإِنِ اتَّفَقَا جَازَ حُکْمُہُمَا۔
(١٩٣٤٨) حضرت حکم (رض) فرماتے ہیں کہ جب دو فیصلہ کرنے والوں میں اختلاف ہوجائے تو ان کے فیصلے کا کوئی اعتبار نہیں کسی اور کو ثالث بنایا جائے اور اگر ان کا اتفاق ہوجائے تو انہی کا فیصلہ نافذ ہوگا۔

19348

(۱۹۳۴۹) حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ طَاوُوسٍ فِی الْحَکَمَیْنِ : إذَا حَکَمَا فَخُذْ بِحُکْمِہِمَا وَلاَ تَتْبَعْ أَثَرَ غَیْرِہِمَا، وَإِنْ کَانَ قَدْ حُکِمَ قَبْلَہُمَا عَلَیْک۔
(١٩٣٤٩) حضرت طاؤس (رض) فرماتے ہیں کہ جب دو فیصلہ کرنے والے فیصلہ کردیں تو ان کا فیصلہ قبول کرلو اور کسی اور کے پیچھے مت جاؤ اگرچہ ان کی طرف سے تمہارے خلاف ہی فیصلہ کیا گیا ہو۔

19349

(۱۹۳۵۰) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ عَطَائٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ : {إنْ یُرِیدَا إصْلاَحًا یُوَفِّقَ اللَّہُ بَیْنَہُمَا} قَالَ : ہُمَا الْحَکَمَانِ۔
(١٩٣٥٠) حضرت ابن عباس (رض) قرآن مجید کی آیت {إنْ یُرِیدَا إصْلاَحًا یُوَفِّقَ اللَّہُ بَیْنَہُمَا } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اس سے مراد دو ثالث ہیں۔

19350

(۱۹۳۵۱) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ أَبِی الزِّنَادِ قَالَ : سَأَلْتُ سَعِیدَ بْنَ الْمُسَیَّبِ عَنِ الرَّجُلِ یَعْجِزُ عَنْ نَفَقَۃِ امْرَأَتِہِ فَقَالَ : یُفَرَّقُ بَیْنَہُمَا فَقُلْت : سُنَّۃً ؟ فَقَالَ : سُنَّۃً۔
(١٩٣٥١) حضرت ابو زناد (رض) کہتے ہیں کہ میں نے حضرت سعید بن مسیب (رض) سے سوال کیا کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کا نفقہ دینے سے عاجز آجائے تو اس کو طلاق پر مجبور کیا جائے گا یا نہیں ؟ انھوں نے فرمایا کہ ان دونوں کے درمیان جدائی کرادی جائے گی۔ میں نے پوچھا کہ کیا یہ سنت ہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ ہاں یہ سنت ہے۔

19351

(۱۹۳۵۲) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ قَالَ : سَأَلْتُہ عَنِ الرَّجُلِ یُعْسِرُ عَنْ نَفَقَۃِ امْرَأَتِہِ ، فَقَالَ : لاَ بُدَّ مِنْ أَنْ یُنْفِقَ ، أَوْ یُطَلِّقَ۔
(١٩٣٥٢) حضرت قتادہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے حضرت سعید بن مسیب (رض) سے سوال کیا کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کا نفقہ دینے سے عاجز آجائے تو اس کو طلاق پر مجبور کیا جائے گا یا نہیں ؟ انھوں نے فرمایا کہ یا اسے نفقہ دے ی اطلاق۔

19352

(۱۹۳۵۳) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ قَالَ : یُسْتَأْنَی بِہِ ، قَالَ : وَبَلَغَنِی أَنَّ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِیزِ قَالَ ذَلِکَ۔
(١٩٣٥٣) حضرت زہری (رض) فرماتے ہیں کہ اسے مہلت دی جائے گی اور فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن عبد العزیز (رض) بھی یونہی فرماتے ہیں۔

19353

(۱۹۳۵۴) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنِ الْحَسَنِ قَالَ : إذَا عَجَزَ الرَّجُلُ عَنْ نَفَقَۃِ امْرَأَتِہِ لَمْ یُفَرَّقْ بَیْنَہُمَا۔
(١٩٣٥٤) حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کانفقہ دینے سے عاجز آجائے تو دونوں کے درمیان جدائی نہیں کرائی جائے گی۔

19354

(۱۹۳۵۵) حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَطَائٍ ؛ فِی الرَّجُلِ یَعْجِزُ ، عَنْ نَفَقَۃِ امْرَأَتِہِ ، قَالَ : لاَ یُفَرَّقُ بَیْنَہُمَا ، امْرَأَۃً ابْتُلِیَتْ فَلْتَصْبِرْ۔
(١٩٣٥٥) حضرت عطائ (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کانفقہ دینے سے عاجز آجائے تو دونوں کے درمیان جدائی نہیں کرائی جائے گی۔ اس عورت پر آزمائش آئی ہے یہ صبر کرے۔

19355

(۱۹۳۵۶) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ قَالَ : سَأَلْتُ حَمَّادًا ، عَنْ رَجُلٍ تَزَوَّجَ امْرَأَۃً وَلَمْ یَکُنْ عِنْدَہُ مَا یُنْفِقُ قَالَ : یُؤَجَّلُ سَنَۃً ، قُلْتُ : فَإِنْ لَمْ یَجِدْ ؟ قَالَ : یُطَلِّقُہَا۔
(١٩٣٥٦) حضرت شعبہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے حضرت حماد سے سوال کیا کہ اگر کوئی شخص کسی عورت سے شادی کرے لیکن اس کے پاس اسے دینے کے لیے کچھ نہ ہو تو وہ کیا کرے ؟ انھوں نے فرمایا کہ اسے ایک سال کی مہلت دی جائے گی۔ میں نے کہا کہ اگر پھر بھی کچھ نہ ہوسکے تو کیا حکم ہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ وہ اسے طلاق دے دے۔

19356

(۱۹۳۵۷) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ قَالَ : یُفَرَّقُ بَیْنَہُمَا۔
(١٩٣٥٧) حضرت سعید بن مسیب (رض) فرماتے ہیں کہ ان دونوں کے درمیان جدائی کرادی جائے گی۔

19357

(۱۹۳۵۸) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ قَالَ : حدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ بْنُ عُمَرَ ، عَنْ نَافِعٍ ، قَالَ : کَتَبَ عُمَرُ إلَی أُمَرَائِ الأَجْنَادِ فِیمَنْ غَابَ عَنْ نِسَائِہِ مِنْ أَہْلِ الْمَدِینَۃِ یَأْمُرُہُمْ أَنْ یَرْجِعُوا إلَی نِسَائِہِمْ ، إمَّا أَنْ یُفَارِقُوا ، وَإِمَّا أَنْ یَبْعَثُوا بِالنَّفَقَۃِ ، فَمَنْ فَارَقَ مِنْہُمْ فَلْیَبْعَثْ بِنَفَقَۃِ مَا تَرَکَ۔
(١٩٣٥٨) حضرت نافع (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے مختلف علاقوں کی طرف روانہ کردہ لشکروں کے سپہ سالاروں کو حکم لکھا تھا کہ جو لوگ اپنی بیویوں سے دور ہیں انھیں حکم دو کہ وہ اپنی بیویوں کے پاس لوٹ جائیں۔ یا تو انھیں چھوڑ دیں یا انھیں نفقہ بھیجیں۔ جو اپنی بیوی کو چھوڑنا چاہتا ہے وہ اس نفقے کو بھی بھیجے جو اب تک نہیں بھیجا ہے۔

19358

(۱۹۳۵۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ أَبِی مَکِینٍ قَالَ : کَتَبَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیزِ : مَنْ غَابَ ، عَنِ امْرَأَتِہِ سَنَتَیْنِ فَلْیُطَلِّقْ ، أَوْ لِیَقْفِلْ إلَیْہَا۔
(١٩٣٥٩) حضرت عمر بن عبدالعزیز (رض) نے اپنے گورنروں کے نام یہ خط لکھا کہ جو شخص دو سال سے اپنی بیوی سے دور ہے وہ یا تو اسے طلاق دے دے یا اس کے لیے نفقہ بھیجے۔

19359

(۱۹۳۶۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ أَبِی مَکِینٍ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ قَالَ مَنْ غَابَ عَنِ امْرَأَتِہِ سَنَتَیْنِ فَلْیُطَلِّقْ ، أَوْ لِیَقْفِلْ إلَیْہَا۔
(١٩٣٦٠) حضرت عکرمہ (رض) فرماتے ہیں کہ جو شخص دو سال سے اپنی بیوی سے دور ہے وہ یا تو اسے طلاق دے دے یا اس کے لیے نفقہ بھیجے۔

19360

(۱۹۳۶۱) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ قَالَ : إذَا طَالَتْ غَیْبَۃُ الرَّجُلِ ، عَنِ امْرَأَتِہِ أَنْفَقَ عَلَی امْرَأَتِہِ ، أَوْ طَلَّقَہَا۔
(١٩٣٦١) حضرت شعبی (رض) فرماتے ہیں کہ جب آدمی کافی عرصے سے اپنی بیوی سے دور ہو تو یا تو اپنی بیوی کو نفقہ دے یا اسے طلاق دے دے۔

19361

(۱۹۳۶۲) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنِ الْحَکَمِ ؛ أَنَّہُ کَانَ لاَ یَرَی عَلَی الْغَائِبِ نَفَقَۃً۔
(١٩٣٦٢) حضرت حکم (رض) کے نزدیک بیوی سے دور شخص پر نفقہ واجب نہیں۔

19362

(۱۹۳۶۳) حَدَّثَنَا أَسْبَاطُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، عَنْ مُطَرِّفٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ قَالَ : إذَا طَالَتْ غَیْبَۃُ الرَّجُلِ عَنِ امْرَأَتِہِ فَلْیُرْسِلْ إلَیْہَا نَفَقَۃً ، أَوْ لِیُطَلِّقْہَا۔
(١٩٣٦٣) حضرت شعبی (رض) فرماتے ہیں کہ جو شخص کافی عرصے سے بیوی سے دورہو تو یا تو اسے نفقہ بھیجے یا اسے طلاق دے دے۔

19363

(۱۹۳۶۴) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِی عَدِیٍّ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَطَائٍ ؛ فِی الرَّجُلِ یَتَزَوَّجُ الْمَرْأَۃَ ، قَالَ : لاَ نَفَقَۃَ لَہَا حَتَّی یَدْخُلَ بِہَا۔
(١٩٣٦٤) حضرت عطائ (رض) فرماتے ہیں کہ آدمی جب آدمی کسی عورت سے نکاح کرے تو اسے اس وقت تک نفقہ نہیں ملے گا جب تک وہ اس سے دخول نہ کرلے۔

19364

(۱۹۳۶۵) حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ کَامِلِ بْنِ فُضَیْلٍ قَالَ : سَأَلْتُ الشَّعْبِیَّ عَنْ رَجُلٍ تَزَوَّجَ امْرَأَۃً فَلَمْ یَدْخُلْ بِہَا ، ثُمَّ غَابَ عَنْہَا فَلَمَّا قَدِمَ أَخَذَتْہُ بِالنَّفَقَۃِ ، فَقَالَ الشَّعْبِیُّ : لاَ نَفَقَۃَ لَہَا حَتَّی یَدْخُلَ بِہَا۔
(١٩٣٦٥) حضرت کامل بن فضیل (رض) کہتے ہیں کہ میں نے حضرت شعبی سے سوال کیا کہ اگر کوئی شخص کسی عورت سے شادی کرے اور اس سے دخول کئے بغیر کہیں چلا جائے تو جب وہ واپس آئے تو کیا عورت اس سے نفقہ لے گی۔ حضرت شعبی نے فرمایا کہ جب تک دخول نہ کرلے نفقہ نہیں ملے گا۔

19365

(۱۹۳۶۶) حَدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ ابْنُ عُلَیَّۃَ قَالَ : سُئِلَ یُونُسُ عَنْ رَجُلٍ تَزَوَّجَ امْرَأَۃً ، ثُمَّ غَابَ عَنْہَا قَبْلَ أَنْ یَدْخُلَ بِہَا ، ہَلْ لَہَا نَفَقَۃٌ ؟ فَقَالَ : کَانَ الْحَسَنُ لاَ یَرَی لَہَا عَلَیْہِ نَفَقَۃً حَتَّی یَدْخُلَ بِہَا إلاَّ أَنْ یَقُولُوا لَہُ : خُذْہَا فَلاَ یَأْخُذُہَا۔
(١٩٣٦٦) حضرت یونس (رض) سے سوال کیا گیا کہ اگر کوئی شخص کسی عورت سے نکاح کرے اور پھر اس سے دخول کئے بغیر کہیں دور چلا جائے تو کیا اس عورت کو نفقہ ملے گا ؟ انھوں نے فرمایا کہ حضرت حسن فرمایا کرتے تھے کہ اس عورت کو اس وقت تک نفقہ نہیں ملے گا جب تک وہ اس سے دخول نہ کرلے۔ یا پھر یہ کہ لڑکی کے اولیاء نے اسے کہا کہ لڑکی کو لے جا لیکن وہ ساتھ نہ لے جائے تو پھر نفقہ ملے گا۔

19366

(۱۹۳۶۷) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ حُسَامِ بْنِ مِصَکٍّ ، عَنْ أَبِی مَعْشَرٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالَ : لَیْسَ لِلْمَرْأَۃِ عَلَی زَوْجِہَا نَفَقَۃٌ إلاَّ مِنْ یَوْمِ تَطْلُبُ ذَلِکَ۔
(١٩٣٦٧) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ عورت کا نفقہ مرد پر اس وقت لازم ہوتا ہے جب عورت مطالبہ کرے۔

19367

(۱۹۳۶۸) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ عَنْ مُطَرِّف ، عَنْ عَامِرٍ قَالَ : لَیْسَ لِلرَّجُلِ أَنْ یُنْفِقَ عَلَی امْرَأَتِہِ إذَا کَانَ الْحَبْس مِنْ قِبَلِہَا۔
(١٩٣٦٨) حضرت عامر (رض) فرماتے ہیں کہ جب دوری کی وجہ عورت ہو تو وہ مرد پر نفقہ دیناواجب نہیں۔

19368

(۱۹۳۶۹) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ طَارِقٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، أَنَّہُ سُئِلَ عَنِ امْرَأَۃٍ خَرَجَتْ مِنْ بَیْتِہَا عَاصِیَۃً لِزَوْجِہَا ، أَلَہَا نَفَقَۃٌ ؟ قَالَ : لاَ ، وَإِنْ مَکَثَتْ عِشْرِینَ سَنَۃً۔
(١٩٣٦٩) حضرت شعبی (رض) سے سوال کیا گیا کہ اگر کوئی عورت خاوند کی نافرمانی میں گھر سے نکلے تو کیا اسے نفقہ ملے گا ؟ فرمایا کہ نہیں خواہ وہ بیس سال تک باہر رہے۔

19369

(۱۹۳۷۰) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ قَالَ : سَأَلْتُ الْحَکَمَ عَنِ امْرَأَۃٍ خَرَجَتْ مِنْ بَیْتِ زَوْجِہَا عَاصِیَۃً ، ہَلْ لَہَا نَفَقَۃٌ؟ قَالَ : نَعَمْ : وَسَأَلْت حَمَّادًا فَقَالَ : لَیْسَ لَہَا نَفَقَۃٌ۔
(١٩٣٧٠) حضرت شعبہ (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت حکم سے سوال کیا کہ اگر کوئی عورت خاوند کی نافرمانی میں گھر سے نکلے تو کیا اسے نفقہ ملے گا ؟ انھوں نے فرمایا ہاں۔ حضرت حماد سے سوال کیا تو انھوں نے فرمایا کہ اسے نفقہ نہیں ملے گا۔

19370

(۱۹۳۷۱) حَدَّثَنَا بَہْز بْنُ أَسَدٍ ، عَنْ أَبِی ہِلاَلٍ ، عَنْ ہَارُونَ قَالَ : سَأَلْتُ الْحَسَنَ عَنِ امْرَأَۃٍ خَرَجَتْ مُرَاغِمَۃً لِزَوْجِہَا ، لَہَا نَفَقَۃٌ ؟ قَالَ : لَہَا جَوَالِقُ مِنْ تُرَابٍ۔
(١٩٣٧١) حضرت ہارون (رض) کہتے ہیں کہ میں نے حضرت حسن (رض) سے سوال کیا کہ اگر کوئی عورت خاوند کی نافرمانی میں گھر سے نکلے تو کیا اسے نفقہ ملے گا ؟ انھوں نے فرمایا کہ اسے مٹی ملے گی۔

19371

(۱۹۳۷۲) حَدَّثَنَا سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنْ صَالِحٍ أَنَّ عُثْمَانَ وَرَّثَ امْرَأَۃَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ حِینَ طَلَّقَہَا فِی مَرَضِہِ بَعْدَ انْقِضَائِ الْعِدَّۃِ۔
(١٩٣٧٢) حضرت صالح (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عبد الرحمن بن عوف (رض) نے اپنی بیوی کو مرض الموت میں طلاق دی تو حضرت عثمان (رض) نے انھیں عدت گزرنے کے بعد میراث میں حصہ دار بنایا۔

19372

(۱۹۳۷۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ حَبِیبٍ ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ قُرَیْشٍ ، عَنْ أُبَیِّ بْنِ کَعْبٍ قَالَ : إذَا طَلَّقَہَا وَہُوَ مَرِیضٌ وَرَّثْتُہَا مِنْہُ وَلَوْ مَضَی سَنَۃٌ مَا لَمْ یَبْرَأْ ، أَوْ تتزوج۔
(١٩٣٧٣) حضرت ابی بن کعب (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو مرض الموت میں طلاق دے تو وہ وارث ہوگی۔ اگرچہ اس کے بعد ایک سال گزر جائے۔ البتہ اگر آدمی پھر سے تندرست ہوگیا یا عورت نے شادی کرلی تو پھر میراث نہیں ملے گی۔

19373

(۱۹۳۷۴) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ، عَنِ ابْنِ أَبِی مُلَیْکَۃَ قَالَ: سَأَلْتُ ابْنَ الزُّبَیْرِ عَنْ رَجُلٍ طَلَّقَ امْرَأَتَہُ وَہُوَ مَرِیضٌ ، ثُمَّ مَاتَ ، فَقَالَ : قَدْ وَرَّثَ عُثْمَانُ ابْنَۃَ الأَصْبَغِ الْکَلْبِیَّۃَ ، وَأَمَّا أَنَا فَلاَ أَرَی أَنْ تَرِثَ مَبْتُوتَۃٌ۔
(١٩٣٧٤) حضرت ابن ابی ملیکہ (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن زبیر (رض) سے سوال کیا کہ اگر کوئی شخص مرض الموت میں اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دے تو کیا وہ اس کے مال میں وراثت کا حصہ پائے گی ؟ انھوں نے فرمایا کہ حضرت عثمان نے اصبغ کی بیٹی کو میراث میں حصہ دلوایا تھا لیکن میرے خیال میں ایسی عورت وارث نہ ہوگی۔

19374

(۱۹۳۷۵) حَدَّثَنَا سَہْلُ بْنُ یُوسُفَ ، عَنْ حُمَیْدٍ ، عَنْ بَکْرٍ أَنَّ خَالِدَ بْنَ عَبْدِ اللہِ سَأَلَ الْحَسَنَ عَنْ رَجُلٍ طَلَّقَ امْرَأَتَہُ ثَلاَثًا فِی مَرَضِہِ فَمَاتَ ، وَقَدِ انْقَضَتْ عِدَّتُہَا ، قَالَ : تَرِثُ۔
(١٩٣٧٥) حضرت خالد بن عبداللہ (رض) نے حضرت حسن (رض) سے سوال کیا کہ اگر کوئی شخص مرض الموت میں اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دے تو کیا وہ اس کے مال میں وراثت کا حصہ پائے گی ؟ انھوں نے فرمایا کہ وہ وارث ہوگی۔

19375

(۱۹۳۷۶) حَدَّثَنَا عُبَید اللہِ ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ الأَسْوَدِ ، عَنْ عَطَاء قَالَ : لَوْ مَرِضَ سَنَۃً وَرَّثْتُہَا مِنْہُ۔
(١٩٣٧٦) حضرت عطائ (رض) فرماتے ہیں کہ اگر وہ ایک سال تک بیمار رہا تو عورت وارث ہوگی۔

19376

(۱۹۳۷۷) حَدَّثَنَا جَرِیرُ بْنُ عَبْدِ الْحَمِیدِ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، عَنْ شُرَیْحٍ قَالَ : أَتَانِی عُرْوَۃُ الْبَارِقِیُّ مِنْ عِنْدِ عُمَرَ ؛ فِی الرَّجُلِ یُطَلِّقُ امْرَأَتَہُ ثَلاَثًا فِی مَرَضِہِ : أَنَّہَا تَرِثُہُ مَا دَامَتْ فِی الْعِدَّۃِ وَلاَ یَرِثُہَا۔
(١٩٣٧٧) حضرت شریح (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) کی طرف سے میرے پاس عروہ بارقی آئے اور انھوں نے کہا کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو مرض الموت کی حالت میں تین طلاقیں دے دے تو اگر عورت اس کی وفات کے وقت عدت میں ہو تو وارث ہوگی۔ جبکہ مرد عورت کا وارث نہیں ہوگا۔

19377

(۱۹۳۷۸) حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرٍ ، عَنْ جَرِیرٍ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالَ : تَرِثُہُ وَلاَ یَرِثُہَا مَا دَامَتْ فِی الْعِدَّۃِ۔
(١٩٣٧٨) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ جب تک عورت عدت میں ہے وہ تو خاوند کی وار ث ہوگی لیکن وہ اس کا وارث نہیں ہوگا۔

19378

(۱۹۳۷۹) حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إسْمَاعِیلَ ، عَنْ جَعْفَرٍ ، عَنْ أَبِیہِ أَنَّ الْحَسَنَ بْنَ عَلِیٍّ طَلَّقَ امْرَأَتَہُ وَہُوَ مَرِیضٌ فَمَاتَ فَوَرِثَتْہُ۔
(١٩٣٧٩) حضرت جعفر (رض) کے والد فرماتے ہیں کہ حضرت حسن بن علی (رض) نے اپنی بیوی کو مرض الوفات میں طلاق دی اور پھر وہ ان کی وارث ہوئی تھی۔

19379

(۱۹۳۸۰) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ ، عَنْ دَاوُدَ وَأَشْعَثَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنْ شُرَیْحٍ قَالَ : إذَا طَلَّقَ ثَلاَثًا فِی مَرَضِہِ وَرِثَتْہُ مَا دَامَتْ فِی الْعِدَّۃِ۔
(١٩٣٨٠) حضرت شریح (رض) فرماتے ہیں کہ اگر آدمی نے اپنی بیوی کو مرض الموت میں طلاق دی تو اگر آدمی کے انتقال کے وقت عورت عدت میں تھی تو وہ وارث ہوگی۔

19380

(۱۹۳۸۱) حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ أَنَّ أُمَّ الْبَنِینَ بِنْتَ عُیَیْنَۃَ بْنِ حِصْنٍ کَانَتْ تَحْتَ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ فَلَمَّا حُصِرَ طَلَّقَہَا وَقَدْ کَانَ أَرْسَلَ إلَیْہَا لِیَشْتَرِیَ مِنْہَا ثُمْنَہَا فَأَبَتْ فَلَمَّا قُتِلَ أَتَتْ عَلِیًّا فَذَکَرَتْ ذَلِکَ لَہُ فَقَالَ : تَرَکَہَا حَتَّی إذَا أَشْرَفَ عَلَی الْمَوْتِ طَلَّقَہَا ، فَوَرَّثَہَا۔
(١٩٣٨١) حضرت شعبی (رض) فرماتے ہیں کہ ام بنین بنت عیینہ بن حصن (رض) ، حضرت عثمان بن عفان (رض) کے نکاح میں تھیں۔ جب حضرت عثمان (رض) کا کاشانہ خلافت میں محاصرہ کیا گیا تو انھوں نے ام بنین کو طلاق دے دی۔ وہ ان کی طرف پیغام بھیجا کرتے تھے کہ ان سے ان کا ثمن خرید لیں لیکن انھوں نے انکار کردیا۔ حضرت عثمان کی شہادت کے بعد ام بنین نے اس بات کا تذکرہ حضرت علی سے کیا تو انھوں نے فرمایا کہ انھوں نے اسے چھوڑ دیا پھر جب موت کے قریب ہوئے تو اسے طلاق دے دی اور اسے وارث بنادیا۔

19381

(۱۹۳۸۲) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَنِ الشَّیْبَانِیِّ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ أَنَّ ہِشَامَ بْنَ ہُبَیْرَۃَ کَتَبَ إلَی شُرَیْحٍ یَسْأَلُہُ عَنِ الرَّجُلِ یُطَلِّقُ امْرَأَتَہُ ثَلاَثًا فِی مَرَضِہِ ، فَکَتَبَ إلَیْہِ شُرَیْحٌ : أنَّہُ فَارٌّ مِنْ کِتَابِ اللہِ ، تَرِثُہُ۔
(١٩٣٨٢) حضرت شعبی (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت ہشام بن ہبیرہ (رض) نے حضرت شریح (رض) کو خط لکھا جس میں ان سے پوچھا کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو مرض الموت میں تین طلاقیں دے دے تو کیا وہ اس کی وارث ہوگی ؟ انھوں نے فرمایا کہ وہ اللہ کی کتاب سے بھاگنا چاہتا ہے، وہ وارث ہوگی۔

19382

(۱۹۳۸۳) حَدَّثَنَا حُمَید بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ حَسَنٍ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ طَاوُوسٍ ؛ فِی الرَّجُلِ طَلَّقَ امْرَأَتَہُ ثَلاَثًا فِی مَرَضِہِ قَالَ : تَرِثُہُ مَا دَامَتْ فِی الْعِدَّۃِ۔
(١٩٣٨٣) حضرت طاؤس (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص مرض الموت میں اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دے تو اگر اس کی عدت میں آدمی کا انتقال ہوجائے تو وہ وارث ہوگی۔

19383

(۱۹۳۸۴) حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إسْمَاعِیلَ ، عَنْ ہِشَامٍ قَالَ : سَأَلْتُ عُرْوَۃَ عَنِ الرَّجُلِ یُطَلِّقُ امْرَأَتَہُ الْبَتَّۃَ ، أَیَرِثُ أَحَدُہُمَا الآخَرَ ؟ وَہَلْ لَہَا نَفَقَۃٌ ؟ فَقَالَ : لاَ یَرِثُ أَحَدُہُمَا الآخَرَ وَلاَ نَفَقَۃَ لَہَا إلاَّ أَنْ تَکُونَ حُبْلَی ، فَیُنْفِقَ عَلَیْہَا حَتَّی تَضَعَ ، أَوْ یُطَلِّقَ مُضَارًّا فِی مَرَضِہِ۔
(١٩٣٨٤) حضرت ہشام (رض) کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عروہ سے سوال کیا کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو حتمی طلاق دے دے تو کیا وہ ایک دوسرے کے وارث ہوں گے ؟ اور کیا عورت کو نفقہ ملے گا ؟ انھوں نے فرمایا کہ وہ ایک دوسرے کے وارث نہیں ہوں گے اور عورت کو نفقہ بھی نہیں ملے گا، البتہ اگر حاملہ ہو تو نفقہ ملے گا۔ آدمی بچے کی پیدائش تک اس پر خرچ کرے گا ۔ اسی طرح اگر مرض الموت میں عورت کو نقصان پہنچانے کے لیے طلاق دے تب بھی یہی حکم ہے۔

19384

(۱۹۳۸۵) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ قَالَ أَخْبَرَنَا سَعِیدُ بْنُ أَبِی عَرُوبَۃَ ، عَنْ ہِشَامِ بن عُرْوَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ عَائِشَۃَ أَنَّہَا قَالَتْ فِی الْمُطَلَّقَۃِ ثَلاَثًا وَہُوَ مَرِیضٌ : تَرِثُہُ مَا دَامَتْ فِی الْعِدَّۃِ۔
(١٩٣٨٥) حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو مرض الموت میں تین طلاقیں دے دے تو اگر عدت میں آدمی کا انتقال ہوجائے تو عورت وارث ہوگی۔

19385

(۱۹۳۸۶) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ قَالَ : کَانُوا یَقُولُونَ : لاَ تَخْتَلِفُونَ مَنْ فَرَّ مِنْ کِتَابِ اللہِ رُدَّ إلَیْہِ یَعْنِی ؛ فِی الرَّجُلِ یُطَلِّقُ امْرَأَتَہُ وَہُوَ مَرِیضٌ۔
(١٩٣٨٦) حضرت ابن سیرین (رض) فرماتے ہیں کہ اہل علم فرمایا کرتے تھے کہ تو اختلاف نہیں کرو گے، جو شخص اللہ کی کتاب سے بھاگے گا اسے اسی کی طرف لوٹایا جائے گا یعنی وہ شخص جو مرض الوفات میں اپنی بیوی کو طلاق دے دے۔

19386

(۱۹۳۸۷) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنِ الْحَارِثِ فِی رَجُلٍ کَانَتْ تَحْتَہُ امْرَأَۃٌ عَلَی تَطْلِیقَۃٍ وَقَدْ کَانَ طَلَّقَہَا قَبْلَ ذَلِکَ تَطْلِیقَتَیْنِ فَیُطَلِّقُہَا فِی مَرَضِہِ فَمَاتَ فِی الْعِدَّۃِ : لاَ یَرِثُہَا وَلاَ تَرِثُہُ۔
(١٩٣٨٧) حضرت حارث (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو دو طلاقیں دے چکا ہو اور مرض الموت میں اسے تیسری طلاق دے دے اور عدت میں آدمی کا انتقال ہوجائے تو وہ دونوں ایک دوسرے کے وارث نہیں ہوں گے۔

19387

(۱۹۳۸۸) حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ وَرْدَانَ ، عَنْ یُونُسَ قَالَ : کَانَ الْحَسَنُ یَقُولُ : لَوْ أَنَّ رَجُلاً قَالَ : إِنْ دَخَلْتُ دَارَ بَنِی فُلاَنٍ فَامْرَأَتِی طَالِقٌ ، فَیَنْسَی فَیَدْخُلُہَا ، أَوْ دَخَلَہَا وَہُوَ لاَ یَعْلَمُ ، قَالَ : کَانَ یَجْعَلُہُ مِثْلَ العمد إلاَّ أَنْ یَشْتَرِطَ فَیَقُولُ : إلاَّ أَنْ أَنْسَی۔
(١٩٣٨٨) حضرت حسن (رض) فرمایا کرتے تھے کہ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ اگر میں فلاں کے گھر میں داخل ہوا تو میری بیوی کو طلاق ہے، پھر وہ بھول کر اس گھر میں داخل ہوگیا اور بغیر علم کے وہاں داخل ہوگیا تو یہ جان بوجھ کرجانے کی طرح ہوگا۔ البتہ اگر اس نے قسم کھاتے ہوئے بھول وغیرہ کو مستثنیٰ کیا تھا تو پھر طلاق نہیں ہوگی۔

19388

(۱۹۳۸۹) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ سُلَیْمٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُثْمَانَ قَالَ : حلَفَ أَخِی عُمَرُ بْنُ عُثْمَانَ : بِعْتِقِ جَارِیَۃٍ لَہُ أَلاَّ یَشْرَبَ مِنْ یدہا ، إلَی أَجَلٍ ضَرَبَہُ ، فَنَسِیَ قَبْلَ الأَجَلِ فَشَرِبَ ، فَاسْتَفْتَیْت لَہُ عَطَائً وَمُجَاہِدًا وَسَعِیدَ بْنَ جُبَیْرٍ ، وَعَلِیًّا الأَزْدِیَّ ، فَکُلُّہُمْ رَأَی أَنَّہَا حُرَّۃٌ۔
(١٩٣٨٩) حضرت عبداللہ بن عثمان (رض) فرماتے ہیں کہ میرے بھائی عمر بن عثمان (رض) نے اس بات کی قسم کھائی کہ فلاں مدت تک اگر فلاں باندی کے ہاتھ سے پیوں تو وہ آزاد ہے۔ پھر وہ مدت پوری ہونے سے پہلے بھول گئے اور اس کے ہاتھ سے پی لیا۔ میں نے حضرت عطائ، حضرت مجاہد، حضرت سعید بن جبیر اور حضرت علی ازدی (رض) سے اس بارے میں سوال کیا تو ان سب نے یہی کہا کہ وہ آزاد ہے۔

19389

(۱۹۳۹۰) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ سُلَیْمٍ قَالَ : حدَّثَنَا بِہَذَا الْحَدِیثِ ابْنُ جُرَیْجٍ فَأَنْکَرَ أَنْ یَکُونَ کان عَطَائٌ یَرَی فِی النِّسْیَانِ شَیْئًا ، قَالَ وَقَالَ عَطَائٌ : بَلَغَنِی أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : إنَّ اللَّہَ تَجَاوَزَ لأَمَّتِی ، عَنْ ثَلاَثٍ : عَنِ الْخَطَإِ وَالنِّسْیَانِ وَمَا اسْتُکْرِہُوا عَلَیْہِ۔ (حاکم ۳۶۲)
(١٩٣٩٠) حضرت عطائ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے میری امت سے تین چیزوں کو اٹھا لیا ہے : خطا، بھول اور وہ عمل جو زبردستی کرایا گیا ہو۔

19390

(۱۹۳۹۱) حُدِّثْتُ عَنِ ابْنِ مُبَارَکٍ ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ (ح) ، وَعَنْ مَعْمَرٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ عمر بن عَبْدِ الْعَزِیزِ ، أَنَّہُمَا کَانَا یُوجِبَانِ طَلاَقَ النِّسْیَانِ۔
(١٩٣٩١) حضرت زہری (رض) اور حضرت عمر بن عبدالعزیز (رض) بھول کردی گئی طلاق کو نافذ قرار دیتے تھے۔

19391

(۱۹۳۹۲) حَدَّثَنَا عُمَرُ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَبْدِ الکَرِیم أَبِی أُمَیَّۃَ ، عَنْ أَصْحَابِ عَبْدِ اللہِ بْنِ مَسْعُودٍ أنَّہُ جَائِزٌ عَلَیْہِ۔
(١٩٣٩٢) حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) کے اصحاب اس طلاق کو نافذ قرار دیتے تھے۔

19392

(۱۹۳۹۳) حَدَّثَنَا جَرِیرُ بْنُ عَبْدِ الْحَمِیدِ ، عَنْ عَطَائٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ قَالَ: سُئِلَ عَنِ الرَّجُلِ قَالَ لآخَرَ: إنَّک لَحَسُودٌ، فَقَالَ الآخَرُ : أَحْسَدُنَا امْرَأَتُہُ طَالِقٌ ثَلاَثًا ، قَالَ : نَعَمْ ، قَالَ : قَدْ خِبْتُمَا وَخَسِرْتُمَا وَبَانَتْ مِنْکُمَا امْرَأَتُکُمَا۔
(١٩٣٩٣) حضرت شعبی (رض) سے سوال کیا گیا کہ ایک آدمی نے دوسرے سے کہا تو بہت حاسد ہے۔ دوسرے نے کہا کہ ہم دونوں میں سے جو زیادہ حسد کرتا ہے اس کی بیوی کو طلاق۔ پہلے نے کہا ٹھیک ہے۔ اس کا کیا حکم ہے ؟ حضرت شعبی (رض) نے فرمایا کہ تم دونوں نے نقصان اٹھایا اور دونوں نے غلطی کی، تم دونوں کی بیویوں کو طلاق ہوگئی۔

19393

(۱۹۳۹۴) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنِ الْمُغِیرَۃِ ، عَنِ الْحَارِثِ قَالَ : أُدَیِّنُہما وَآمُرُہُمَا بِتَقْوَی اللہِ وَأَقُولُ : أَنْتُمَا أَعْلَمُ بِمَا حَلَفْتُمَا عَلَیْہِ قَالَ : وباب التدین فِی ہَذَا وَشِبْہِہِ۔
(١٩٣٩٤) حضرت حارث (رض) فرماتے ہیں کہ میں یہ بات ان کی دینداری پر چھوڑوں گا اور انھیں اللہ سے ڈرنے کا حکم دوں گا۔ اور کہوں گا کہ تم دونوں نے جو قسم کھائی ہے اس کے بارے میں تم زیادہ جانتے ہو۔ وہ فرماتے ہیں کہ دینداری کا باب اس مسئلے میں اس جیسے مسائل میں دیکھا جاتا ہے۔

19394

(۱۹۳۹۵) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی قَالَ : سُئِلَ سَعِیدٌ ، عَنْ رَجُلَیْنِ قَالَ أَحَدُہُمَا لِطَائِرٍ : إِنْ لَمْ یَکُنْ غُرَابًا فَامْرَأَتُہُ طَالِقٌ ثَلاَثًا ، وَقَالَ الآخَرُ : إِنْ لَمْ یَکُنْ حَمَامًا فَامْرَأَتُہُ طَالِقٌ ثَلاَثًا فَحَدَّثَنَا عَنْ قَتَادَۃَ قَالَ : إذَا طَارَ الطَّائِرُ وَلاَ تَدْرِی مَا ہُوَ فَلاَ یَقْرَبُہَا ہَذَا وَلاَ یَقْرَبُہَا ہَذَا۔
(١٩٣٩٥) حضرت سعید (رض) سے سوال کیا گیا کہ دو آدمیوں نے ایک پرندہ دیکھا، ایک نے کہا کہ اگر یہ کوا نہ ہو تو اس کی بیوی کو تین طلاق اور دوسرے نے کہا کہ اگر یہ کبوتر نہ ہو تو اس کی بیوی کو تین طلاق۔ تو انھوں نے حضرت قتادہ کا قول نقل کیا کہ وہ فرماتے تھے کہ جب پرندہ اڑا اور معلوم نہ تھا کہ وہ کیا ہے تو نہ یہ اپنی بیوی کے قریب جائے اور نہ یہ اپنی بیوی کے قریب جائے۔

19395

(۱۹۳۹۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ بَشِیرٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ فِی رَجُلَیْنِ مَرَّ عَلَیْہِمَا طَائِرٌ فَقَالَ أَحَدُہُمَا : امْرَأَتُہُ طَالِقٌ إِنْ لَمْ یَکُنْ طیرًا ، وَقَالَ الآخَرُ : امْرَأَتُہُ طَالِقٌ إِنْ لَمْ یَکُنْ غُرَابًا ، وَطَارَ الطیر قَالَ : یَعْتَزِلاَنِ نِسَائَہُمَا۔
(١٩٣٩٦) حضرت شعبی (رض) سے سوال کیا گیا کہ دو آدمیوں کے پاس سے ایک پرندہ گزرا، ایک نے کہا کہ اگر یہ پرندہ نہ تو اس کی بیوی کو طلاق ہے اور دوسرے نے کہا کہ اگر یہ کوا نہ ہو تو اس کی بیوی کو طلاق ہے اور وہ پرندہ اڑ گیا۔ حضرت شعبی نے فرمایا کہ وہ دونوں اپنی بیویوں سے علیحدہ ہوجائیں۔

19396

(۱۹۳۹۷) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنِ ابْنِ أَبِی ذِئْبٍ قَالَ : حدَّثَنَا الْحَارِثُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ حَمْزَۃَ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ قَالَ : کَانَتْ تَحْتَ ابْنِ عُمَرَ امْرَأَتُہُ ، وَکَانَ یُعْجَبُ بِہَا ، وَکَانَ عُمَرُ یَکْرَہُہَا فَقَالَ لَہُ : طَلِّقْہَا ، فَأَبَی فَذَکَرَہَا عُمَرُ لِرَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : أَطِعْ أَبَاک وَطَلِّقْہَا۔ (ترمذی ۱۱۸۹۔ ابوداؤد ۵۰۹۵)
(١٩٣٩٧) حضرت حمزہ بن عبداللہ بن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمر (رض) کی ایک بیوی تھیں جن سے وہ بہت محبت کرتے تھے، جبکہ حضرت عمر (رض) کو وہ عورت پسند نہ تھیں۔ حضرت عمر (رض) نے اپنے بیٹے حضرت عبداللہ (رض) سے کہا کہ اس کو طلاق دے دو ۔ انھوں نے طلاق دینے سے انکار کردیا تو حضرت عمر (رض) نے اس بات کا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے تذکرہ کیا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے فرمایا کہ اپنے والد کی اطاعت کرو اور اسے طلاق دے دے دو ۔

19397

(۱۹۳۹۸) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنِ الرُّکَیْنِ ، عَنْ أَبِی طَلْحَۃَ الأَسَدِیِّ قَالَ : کُنْتُ جَالِسًا عِنْدَ ابْنِ عَبَّاسٍ فَأَتَاہُ أَعْرَابِیَّانِ فَاکْتَنَفَاہُ فَقَالَ أَحَدُہُمَا : إنِّی کُنْت أَبْغِی إبِلاً لِی فَنَزَلْت بِقَوْمٍ فَأَعْجَبَتْنِی فَتَاۃٌ لَہُمْ فَتَزَوَّجْتہَا فَحَلَفَ أَبَوَایَ أَنْ لاَ یَضُمَّاہَا أَبَدًا ، وَحَلَفَ الْفَتَی فَقَالَ : عَلَیْہِ أَلْفُ مُحَرَّرٍ وَأَلْفُ ہَدِیَّۃٍ وَأَلْفُ بَدَنَۃٍ إِنْ طَلَّقَہَا ، فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ : مَا أَنَا بِالَّذِی آمُرُک أَنْ تُطَلِّقَ امْرَأَتَکَ وَلاَ أَنْ تَعُقَّ وَالِدَیْک ، قَالَ : فَمَا أَصْنَعُ بِہَذِہِ الْمَرْأَۃِ ؟ قَالَ : ابْرِرْ وَالِدَیْک۔
(١٩٣٩٨) حضرت ابوطلحہ اسدی (رض) کہتے ہیں کہ میں حضرت ابن عباس (رض) کے پاس بیٹھا تھا کہ دو دیہاتی اپنا جھگڑا لے کر آئے۔ ایک نے کہا کہ میں اپنا اونٹ تلاش کرتا ہوا ایک قوم میں جا پہنچا، ان کی ایک لڑکی مجھے بہت پسند آئی میں نے اس سے شادی کرلی۔ میرے والدین نے قسم کھالی ہے کہ وہ اس عورت کو بہو کے طور پر کبھی قبول نہ کریں گے۔ لڑکے نے قسم کھالی کہ اگر وہ اس کو طلاق دے تو اس پر ایک ہزار غلام آزاد کرنا، ایک ہزار ہدیے دینا اور ایک ہزار اونٹ صدقہ کرنا لازم ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا کہ میں نہ تو تمہیں طلاق دینے کا حکم دیتا ہوں اور نہ ہی والدین کی نافرمانی کا۔ اس نے کہا کہ پھر میں کیا کروں ؟ آپ نے فرمایا کہ والدین سے حسن سلوک کا معاملہ کرتے رہو۔

19398

(۱۹۳۹۹) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ ، عَنْ أَبِی عَبْدِ الرَّحْمَنِ قَالَ : کَانَ مِنَ الْحَیِّ فَتًی فِی بَیْتٍ لَمْ تَزَلْ بِہِ أُمُّہُ حَتَّی زَوَّجَتْہُ ابْنَۃَ عَمٍّ لَہُ فَعَلِقَ مِنْہَا مَعْلَقًا ، ثُمَّ قَالَتْ لَہُ أُمُّہُ : طَلِّقْہَا ، فَقَالَ : لاَ أَسْتَطِیعُ ، عَلِقَتْ مِنِّی مَا لاَ أَسْتَطِیعُ أَنْ أُطَلِّقَہَا مَعَہُ ، قَالَتْ : فَطَعَامُک وَشَرَابُک عَلَیَّ حَرَامٌ حَتَّی تُطَلِّقَہَا ، فَرَحَلَ إلَی أَبِی الدَّرْدَائِ إلَی الشَّامِ، فَذَکَرَ لَہُ شَأْنَہُ ، فَقَالَ : مَا أَنَا بِالَّذِی آمُرُک أَنْ تُطَلِّقَ امْرَأَتَکَ ، وَلاَ أَنَا بِالَّذِی آمُرُک أَنْ تَعُقَّ وَالِدَتک۔
(١٩٣٩٩) حضرت ابو عبدالرحمن (رض) فرماتے ہیں کہ ایک قبیلے میں ایک نوجوان تھا جس کی والدہ نے اصرار کرکے اس کی شادی اس کی چچا زاد بہن سے کرادی۔ پھر وہ لڑکا بھی اس سے محبت کرنے لگا۔ پھر اس کی والدہ نے اسے حکم دیا کہ اس لڑکی کو طلاق دے دے۔ اس نوجوان نے کہا کہ اب میں اسے چاہنے لگا ہوں اور اب اسے طلاق دینے کی طاقت نہیں رکھتا۔ اس کی ماں نے کہا کہ تیرا کھانا اور تیرا پانی مجھ پر حرام ہے جب تک تو اسے طلاق نہ دے دے۔ اس نوجوان نے شام کی طرف سفر کیا اور حضرت ابو دردائ (رض) کے پاس پہنچا اور ان سے سارا قصہ ذکر کیا۔ انھوں نے فرمایا کہ میں نہ تو تمہیں اپنی بیوی کو طلاق دینے کا حکم دیتا ہوں اور نہ ہی اپنی والدہ کی نافرمانی کا کہتا ہوں۔

19399

(۱۹۴۰۰) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ حُمَیْدٍ ، عَنِ الْحَسَنِ قَالَ : جَائَہُ رَجُلٌ فَقَالَ : إنَّ أُمَّہُ أَمَرَتْہُ أَنْ یَتَزَوَّجَ ، ثُمَّ أَمَرَتْہُ بَعدَ ذلِکَ أَنْ یُطَلِّقَ فَقَالَ الْحَسَنُ لَیسَ طَلاَقہ امرَأَتہ مِنْ بَرِّ أُمِّہ فِی شَیْئٍ۔
(١٩٤٠٠) حضرت حسن (رض) کے پاس ایک آدمی آیا اور اس نے کہا کہ اس کی ماں نے پہلے اسے حکم دیا کہ شادی کرلے اور پھر اسے حکم دیا کہ اب اپنی بیوی کو طلاق دے۔ حضرت حسن نے فرمایا کہ بیوی کو طلاق دینا ماں کی فرمان برداری کا حصہ نہیں ہے۔

19400

(۱۹۴۰۱) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ أَبِی بِشْرٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ ہَرِمٍ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ زَیْدٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ؛ فِی رَجُلٍ کُنَّ لَہُ نِسْوَۃٌ فَطَلَّقَ إحْدَاہُنَّ ، ثُمَّ مَاتَ ، لَمْ یَعْلَمْ أَیَّتَہنَّ طَلَّقَ ؟ قَالَ : فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ : یَنَالُہُنَّ مِنَ الطَّلاَقِ مَا یَنَالُہُنَّ مِنَ الْمِیرَاثِ۔
(١٩٤٠١) حضرت ابن عباس (رض) سے سوال کیا گیا کہ اگر ایک آدمی کی زیادہ بیویاں ہوں، وہ ایک کو طلاق دے اور فوت ہوجائے لیکن یہ معلوم نہ ہو کہ اس نے کس کو طلاق دی ہے تو کیا حکم ہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ ان سب کو طلاق کا اتنا حصہ ملے گا جتنا میراث میں سے ملے گا۔

19401

(۱۹۴۰۲) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ بْنِ سَالِمٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ فِی رَجُلٍ کُنَّ لَہُ أَرْبَعُ نِسْوَۃٍ فَطَلَّقَ إحْدَاہُنَّ ، ثُمَّ تَزَوَّجَ أُخْرَی ، ثُمَّ مَاتَ وَلَمْ یُدْرَ أَیَّتَہنَّ الَّتِی طَلَّقَ ، قَالَ : فَقَالَ الشَّعْبِیُّ : للأربع الأول ثَلاَثَۃُ أَرْبَاعِ الْمِیرَاثِ وَلِلْخَامِسَۃِ الرُّبُعُ۔
(١٩٤٠٢) حضرت شعبی (رض) فرماتے ہیں کہ ایک آدمی کی چار بیویاں تھیں، اس نے ان میں سے ایک کو طلاق دے کر ایک اور عورت سے شادی کرلی، پھر وہ انتقال کرگیا اور یہ معلوم نہ ہوا کہ اس نے کس کو طلاق دی تھی۔ اس صورت میں میراث کے تین ربع پہلی چار بیویوں کو ملیں گے اور پانچویں کو ایک ربع ملے گا۔

19402

(۱۹۴۰۳) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ أَبِی مَعْشَرٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ فِی رَجُلٍ کُنَّ لَہُ أَرْبَعُ نِسْوَۃٍ فَطَلَّقَ إحْدَاہُنَّ لاَ یَدْرِی أَیَّتَہنَّ طَلَّقَ ؟ ، ثُمَّ تَزَوَّجَ خَامِسَۃً ، ثُمَّ مَاتَ ، قَالَ : یُکْمَلُ لِہَذِہِ الَّتِی زَوَّجَ رُبُعُ الْمِیرَاثِ وَمَا بَقِیَ بَیْنَ ہَؤُلاَئِ الأَرْبَعِ۔
(١٩٤٠٣) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ اگر ایک آدمی کی چار بیویاں ہوں اور وہ ایک کو طلاق دے دے اور یہ معلوم نہ ہو کہ اس نے کس کو طلاق دی ہے اور پھر وہ پانچویں سے شادی کرلے تو جس سے شادی کی ہے اسے میراث میں سے ربع ملے گا اور باقی تین ربع باقی عورتوں کو مل جائیں گے۔

19403

(۱۹۴۰۴) حَدَّثَنَا عَبْدُالأَعْلَی، عَنْ بُرْدٍ، عَنْ مَکْحُولٍ فِی رَجُلٍ کُنَّ لَہُ أَرْبَعُ نِسْوَۃٍ فَطَلَّقَ إحْدَاہُنَّ، ثُمَّ تَزَوَّجَ خَامِسَۃً، ثُمَّ مَاتَ وَلاَ یَعْلَمْ أَیَّتَہنَّ طَلَّقَ ؟ قَالَ : رُبُعُ الثُّمُنِ لِلَّتِی تَزَوَّجَ أَخِیرًا وَثَلاَثَۃُ أَرْبَاعٍ بَیْنَ ہَؤُلاَئِ الأَرْبَعِ۔
(١٩٤٠٤) حضرت مکحول (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کسی آدمی کو چار بیویاں ہوں اور وہ ان میں سے ایک کو طلاق دے کر پانچویں سے شادی کرلے اور پھر اس کا انتقال ہوجائے اور معلوم نہ ہو کہ کس کو طلاق دی ہے ، اس صورت میں ثمن کاربع اس عورت کو ملے گا جس سے سب سے آخر میں شادی کی ہے اور تین ربع باقی چار عورتوں کو مل جائیں گے۔

19404

(۱۹۴۰۵) حَدَّثَنَا مُعْتَمِرُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ أَبِی عُثْمَانَ قَالَ : سُئِلَ عَطَائٌ عَنْ ذَلِکَ فَقَالَ : رُبُعُ الرُّبُعِ ، أَوْ رُبُعُ الثُّمُنِ لِلَّتِی تَزَوَّجَہَا آخِرًا وَیَقْسِمُ مَا بَقِیَ بَیْنَہُنَّ۔
(١٩٤٠٥) حضرت عطائ (رض) سے اس بارے میں سوال کیا گیا تو انھوں نے فرمایا کہ ربع کا ربع یا ثمن کا ربع اس عورت کو ملے گا جس سے سب سے آخر میں شادی کی اور باقی دوسری عورتوں کے درمیان تقسیم کردیا جائے گا۔

19405

(۱۹۴۰۶) حَدَّثَنَا عَبْدُالْوَہَّابِ بْنُ عَطَائٍ، عَنْ سَعِیدٍ، عَنْ قَتَادَۃَ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ، وَالْحَسَنِ قَالاَ: یُقْرَعُ بَیْنَہُنَّ۔
(١٩٤٠٦) حضرت سعید بن مسیب (رض) اور حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ ان کے درمیان قرعہ اندازی کی جائے گی۔

19406

(۱۹۴۰۷) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ بِشْرِ بْنِ مَنْصُورٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ؛ فِی رَجُلٍ قَالَ لامْرَأَتِہِ : ہِیَ طَالِقٌ إِنْ لَمْ یَتَزَوَّجْ عَلَیْہَا ، قَالَ : ہِیَ امْرَأَتُہُ حَتَّی یَتَزَوَّجَ ، فَإِنْ مَاتَ وَاحِدٌ مِنْہُمَا فَلاَ مِیرَاثَ بَیْنَہُمَا۔
(١٩٤٠٧) حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کسی شخص نے اپنی بیوی سے کہا کہ اگر وہ اس کے ہوتے ہوئے کسی اور عورت سے شادی نہ کرے تو اسے طلاق ہے۔ اس صورت میں جب یہ شادی کرلے تو اسے طلاق نہیں ہوگی۔ اگر دونوں میں سے کوئی ایک مرگیا تو ایک دوسرے کی میراث میں حصہ دار نہیں ہوں گے۔

19407

(۱۹۴۰۸) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ فِی رَجُلٍ حَلَفَ : امْرَأَتُہُ طَالِقٌ إِنْ لَمْ یَضْرِبْ غُلاَمَہُ مِئَۃَ سَوْطٍ ، قَالَ : ہِیَ امْرَأَتُہُ حَتَّی یَمُوتَ الْغُلاَمُ۔
(١٩٤٠٨) حضرت شعبی (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کسی آدمی نے قسم کھائی کہ اگر وہ اپنے غلام کو سو کوڑے نہ مارے تو اس کی بیوی کو طلاق ہے۔ اس قسم کی صورت میں غلام کے مرجانے تک وہ اس کی بیوی رہے گی۔

19408

(۱۹۴۰۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ غَیْلاَنَ ، عَنِ الْحَکَمِ قَالَ : امْرَأَتُہُ طَالِقٌ إِنْ لَمْ یَضْرِبْ غُلاَمَہُ ، فَأَبَقَ ، قَالَ : یُجَامِعُہَا وَیَتَوَارَثَانِ۔
(١٩٤٠٩) حضرت حکم (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کسی شخص نے اپنی بیوی سے کہا کہ اگر وہ اپنے غلام کو نہ مارے تو اس کی بیوی کو طلاق ہے۔ پھر اس کا غلام بھاگ گیا۔ وہ دونوں جماع کرسکتے ہیں اور ایک دوسرے کے وارث بھی ہوں گے۔

19409

(۱۹۴۱۰) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ حَمَّادٍ فِی رَجُلٍ قَالَ : إِنْ لَمْ آتِ الْبَصْرَۃَ فَامْرَأَتُہُ طَالِقٌ ، قَالَ : فَلَمْ یَأْتِہَا حَتَّی مَاتَتْ ، ثُمَّ أَتَاہَا بَعْدُ ، قَالَ : لاَ مِیرَاثَ لَہُ مِنْہَا ، إنَّمَا اسْتَبَانَ حنثہ الآنَ۔
(١٩٤١٠) حضرت حماد (رض) فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے اگر یہ قسم کھائی کہ اگر وہ بصرہ نہ گیا تو اس کی بیوی کو طلاق ہے، پھر وہ بصرہ نہ گیا یہاں تک کہ اس کی بیوی کا انتقال ہوگیا اور پھر وہ اس کے انتقال کے بعد بصرہ چلا گیا۔ اس صورت میں عورت کو میراث نہیں ملے گی اور آدمی کی قسم کا ٹوٹنا اب متحقق ہوگا۔

19410

(۱۹۴۱۱) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ قَالَ : إِنْ أتی البصرۃ بَعْدَ الْمَوْتِ وَرِثَہَا۔
(١٩٤١١) حضرت شعبی (رض) فرماتے ہیں کہ صورت مذکورہ میں اگر وہ اس کی موت کے بعد بصرہ گیا تو وہ اس عورت کا وارث ہوگا۔

19411

(۱۹۴۱۲) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ یَزِیدَ ، عَنْ أَبِی الْعَلاَئِ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ، وَالْحَسَنِ قَالاَ ؛ فِی الرَّجُلِ یَقُولُ لامْرَأَتِہِ : إِنْ لَمْ أَتَزَوَّجْ عَلَیْہَا ، وَإِنْ لَمْ أُخْرِجْک فَأَنْتِ طَالِقٌ ، قَالاَ : لاَ یَقْرَبُہَا ، وَإِنْ مَاتَ قَبْلَ ذَلِکَ لَمْ یَتَوَارَثَا۔
(١٩٤١٢) حضرت سعید بن مسیب (رض) اور حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ اگر ایک آدمی نے اپنی بیوی سے کہا کہ اگر میں نے تجھ پر کسی اور سے شادی نہ کی یا میں نے تجھے نہ نکالا تو تجھے طلاق ہے۔ اس صورت میں آدمی اپنی بیوی کے قریب نہیں جاسکتا اور اگر وہ دونوں ایک دوسرے کے وارث نہیں ہوں گے۔

19412

(۱۹۴۱۳) حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ مُعَاذٍ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الحسن ؛ فِی رَجُلٍ قَالَ : إِنْ لَمْ أَخْرُجْ إلَی وَاسِطَ فَامْرَأَتُہُ طَالِقٌ، قَالَ : یَغْشَاہَا وَلاَ یَتَوَارَثَانِ ، وَقَالَ ابْنُ سِیرِینَ : لاَ یَغْشَاہَا حَتَّی یَفْعَلَ مَا قَالَ۔
(١٩٤١٣) حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ اگر ایک شخص نے اپنی بیوی سے کہا کہ اگر میں واسط کی طرف نہ گیا تو اس کی بیوی کو طلاق۔ اس صورت میں آدمی اپنی بیوی سے جماع کرے گا اور وہ دونوں ایک دوسرے کے وارث نہیں ہوں گے۔ اور حضرت ابن سیرین فرماتے ہیں کہ وہ اس وقت تک اس سے جماع نہ کرے جب تک وہ کر نہ لے جس کا وہ کہہ رہا ہے۔

19413

(۱۹۴۱۴) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالَ : قَالَ شُرَیْحٌ : أَتَانِی عُرْوَۃُ الْبَارِقِیُّ مِنْ عِنْدِ عُمَرَ فِی الْمُطَلِّقِ ثَلاَثًا فِی مَرَضِہِ : ترثہ مَا دَامَتْ فِی الْعِدَّۃِ لاَ یَرِثُہَا وَعَلَیْہَا عِدَّۃُ الْمُتَوَفَّی عَنْہَا زَوْجُہَا۔
(١٩٤١٤) حضرت شریح (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عروہ بارقی میرے پاس حضرت عمر (رض) کی طرف سے پیغام لے کر آئے کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو مرض الوفات میں تین طلاقیں دے دے تو عورت اس کی وارث ہوگی جب کہ وہ عورت کا وارث نہیں ہوگا۔ اور عورت پر اس عورت کی عدت لازم ہوگی جس کا خاوند انتقال کرچکا ہو۔

19414

(۱۹۴۱۵) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالَ : عَلَیْہَا عِدَّۃُ الْمُتَوَفَّی عَنْہَا زَوْجُہَا۔
(١٩٤١٥) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ عورت پر اس عورت کی عدت لازم ہوگی جس کا خاوند انتقال کرچکا ہو۔

19415

(۱۹۴۱۶) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ الْحَسَنِ وَمُحَمَّدٍ قَالاَ : إِنْ مَاتَ الرَّجُلُ فِی عِدَّتِہَا اعْتَدَّتْ عِدَّۃَ الْمُتَوَفَّی عَنْہَا زَوْجُہَا أَرْبَعَۃَ أَشْہُرٍ وَعَشْرًا۔
(١٩٤١٦) حضرت حسن (رض) اور حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں کہ اگر آدمی کا انتقال عورت کی عدت میں ہوجائے تو وہ چار مہینے دس دن عدت گزارے گی۔

19416

(۱۹۴۱۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ زَکَرِیَّا ، عَنِ الشَّعْبِیِّ قَالَ : بَابٌ مِنَ الطَّلاَقِ جَسِیمٌ : إذَا وَرِثَتِ اعْتَدَّتْ۔
(١٩٤١٧) حضرت شعبی (رض) فرماتے ہیں کہ یہ طلاق کا ایک بہت طویل باب ہے، جب وہ وارث ہوگی تو عدت بھی گزارے گی۔

19417

(۱۹۴۱۸) حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ ، عَنْ حَبِیبٍ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنْ عِکْرِمَۃَ أَنَّہُ قَالَ : لَوْ لَمْ یَبْقَ مِنْ عِدَّتِہَا إلاَّ یَوْمٌ وَاحِدٌ ، ثُمَّ مَاتَ ، وَرِثَتْہُ وَاسْتَأْنَفَتْ عِدَّۃَ الْمُتَوَفَّی عَنْہَا۔
(١٩٤١٨) حضرت عکرمہ (رض) فرماتے ہیں کہ اگر عدت کا ایک ہی دن باقی رہ جائے اور وہ مرجائے تو عورت وارث ہوگی اور نئے سرے سے اس عورت کی عدت گزارے گی جس کا خاوند انتقال کرگیا ہو۔

19418

(۱۹۴۱۹) حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ ، عَنْ شَیْبَانَ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ عَامِرٍ ، عَنْ شُرَیْحٍ قَالَ : تَسْتَأْنِفُ الْعِدَّۃَ۔
(١٩٤١٩) حضرت عامر (رض) فرماتے ہیں کہ وہ نئے سرے سے عدت گزارے گی۔

19419

(۱۹۴۲۰) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَنْ دَاوُدَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنْ مَسْرُوقٍ قَالَ : حرَّمَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أُمَّ وَلَدِہِ وَحَلَفَ : أن لاَ یَقْرَبُہَا فَأَنْزَلَ اللَّہُ تَعَالَی : {یَا أَیُّہَا النَّبِیُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَا أَحَلَّ اللَّہُ لَکَ تَبْتَغِی مَرْضَاۃَ أَزْوَاجِکَ} إلَی آخِرِ الآیَۃِ فَقِیلَ لَہُ : أَمَّا الْحَرَامُ فَحَلاَلٌ وَأَمَّا الْیَمِینُ الَّتِی حَلَفت عَلَیْہَا فَقَدْ فَرَضَ اللَّہُ لکم تَحِلَّۃَ أَیْمَانِکُمْ فِی الْیَمِینِ الَّتِی حَلَفت عَلَیْہَا۔ (نسائی ۸۹۰۷۔ ابن جریر ۱۵۶)
(١٩٤٢٠) حضرت مسروق (رض) فرماتے ہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس بات کی قسم کھالی کہ اپنی ام ولد کے قریب نہیں جائیں گے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی { یَا أَیُّہَا النَّبِیُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَا أَحَلَّ اللَّہُ لَکَ تَبْتَغِی مَرْضَاۃَ أَزْوَاجِکَ } تو اس میں آپ سے کہا گیا کہ جسے حرام کیا ہے وہ حلال ہے اور جو قسم آپ نے کھائی ہے تو اللہ تعالیٰ نے قسموں کو کفارہ سکھا دیا ہے۔

19420

(۱۹۴۲۱) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ ؛ فِی رَجُلٍ قَالَ لأُمِّ وَلَدِہِ : أَنْتِ عَلَیَّ حَرَامٌ ، قَالَ :یُکَفِّرُ یَمِینَہُ وَیَأْتِی أَمَتَہُ۔
(١٩٤٢١) حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کسی آدمی نے اپنی ام ولد سے کہا کہ تو مجھ پر حرام ہے تو وہ اس قسم کا کفارہ ادا کرے اور اپنی باندی کے پاس جائے۔

19421

(۱۹۴۲۲) حَدَّثَنَا حُمَیْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ صَالِحٍ ، عَنِ ابْنِ أَبِی لَیْلَی قَالَ : إِنْ قَالَ : أَمَتُہُ عَلَیْہِ حَرَامٌ قَالَ : یُکَفِّرُ یَمِینَہُ وَیَأْتِی أَمَتَہُ۔
(١٩٤٢٢) حضرت ابن ابی (رض) لیلیٰ فرماتے ہیں کہ اگر کسی شخص نے کہا کہ اس کی باندی اس پر حرام ہے تو وہ اپنی قسم کا کفارہ دے اور اپنی باندی کے پاس جائے۔

19422

(۱۹۴۲۳) حَدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ بْنُ عَیَّاشٍ ، عَنْ عَطَائٍ الْخُرَاسَانِیِّ أَنَّ رَجُلاً طَلَّقَ امْرَأَتَہُ فَشَہِدَ عَلَیْہِ ثَلاَثَۃُ نَفَرٍ ، کُلُّ رَجُلٍ یَشْہَدُ فِی مَوْطِنٍ غَیْرِ مَوْطِنِ صَاحِبِہِ فَقَضَی عَبْدُ اللہِ بْنُ مَوْہَبٍ أَنَّہَا تَطْلِیقَۃٌ۔
(١٩٤٢٣) حضرت عطاء خراسانی (رض) فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی اور اس پر تین آدمیوں کو گواہ بنایا۔ ہر ایک شخص نے اس بات کی گواہی دی کہ اس نے الگ الگ جگہ طلاق دی ہے۔ اس صورت میں حضرت عبداللہ بن موہب نے فیصلہ فرمایا کہ یہ ایک طلاق ہوگی۔

19423

(۱۹۴۲۴) حدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ حَمَّادٍ قَالَ : إذَا قَالَ الرَّجُلُ لامْرَأَتِہِ : أَنْتِ طَالِقٌ إِنْ دَخَلْت بَیْتَ فُلاَنٍ ، فَأَدْخَلَتْ بَعْضَ جَسَدِہَا فَقَدْ وَقَعَ الطَّلاَقُ عَلَیْہَا۔
(١٩٤٢٤) حضرت حماد (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کسی آدمی نے اپنی بیوی سے کہا کہ اگر تو فلاں شخص کے گھر میں داخل ہوئی تو تجھے طلاق ہے اور اس نے اپنے جسم کا کچھ حصہ اس گھر میں داخل کیا توا سے طلاق ہوجائے گی۔

19424

(۱۹۴۲۵) حَدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ عَامِرٍ فِی رَجُلٍ قَالَ لامْرَأَتِہِ : لاَ تَحِلِّینَ لِی قَالَ : نِیَّتُہُ إِنْ نَوَی وَاحِدَۃً فَوَاحِدَۃٌ ، وَإِنْ نَوَی ثَلاَثًا فَثَلاَثٌ۔
(١٩٤٢٥) حضرت عامر (رض) فرماتے ہیں کہ اگر ایک آدمی نے اپنی بیوی سے کہا کہ تو میرے لیے حلال نہیں ہے تو اس کی نیت کا اعتبار ہوگا اگر اس نے ایک کی نیت کی تو ایک اور اگر تین کی نیت کی تو تین طلاقیں واقع ہوجائیں گی۔

19425

(۱۹۴۲۶) حَدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ مِثْلَہُ۔
(١٩٤٢٦) حضرت ابراہیم (رض) سے بھی یونہی منقول ہے۔

19426

(۱۹۴۲۷) حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ وَاقِدٍ مَوْلَی بَنِی حَنْظَلَۃَ قَالَ : سُئِلَ عَطَائُ بْنُ أَبِی رَبَاحٍ عَنْ رَجُلٍ أَخَذَ لِصًّا فَاجْتَمَعَ عَلَیْہِ النَّاسُ فَطَلَبُوا إلَیْہِ أَنْ یَتْرُکَہُ ، فَقَالَ : إِنْ تَرَکْتہ فَامْرَأَتہ طَالِقٌ ثَلاَثًا ، فَغَلَبَہُ عَلَی نَفْسِہِ فأُفْلِتَ مِنْہُ قَالَ : فَقَالَ عَطَائٌ : لَیْسَ عَلَیْہِ شَیْئٌ ، إِنَّمَا غَلَبَہ عَلَی نَفْسِہِ۔
(١٩٤٢٧) حضرت عطاء بن ابی رباح (رض) سے سوال کیا گیا کہ اگر کسی شخص نے کوئی چور پکڑا، پھر لوگ اس کے پاس جمع ہوگئے اور لوگوں نے اس سے مطالبہ کیا کہ اس چور کو چھوڑ دو ۔ اس نے کہا کہ اگر وہ اس کو چھوڑے تو اس کی بیوی کو تین طلاق ۔ پھر چور اس پر غالب آگیا اور اس سے بھاگ گیا تو حضرت عطاء نے فرمایا کہ اس پر کچھ لازم نہیں وہ اس پر غالب آگیا تھا۔

19427

(۱۹۴۲۸) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ أَنَّہُ کَانَ یَقُولُ : إذَا زَوَّجَ الرَّجُلُ ابْنَتَہُ وَہِیَ صَغِیرَۃٌ فَرَأَی أَنْ یَخْلَعَہَا فَذَلِکَ جَائِزٌ عَلَیْہَا ، فَقَالَ یُونُسُ : وَکَانَ غَیْرُ الْحَسَنِ لاَ یَرَی ذَلِکَ۔
(١٩٤٢٨) حضرت حسن (رض) فرمایا کرتے تھے کہ اگر کوئی شخص اپنی نابالغ بیٹی کی شادی کرادے پھر وہ اس کو خلع کرانا چاہے تو یہ جائز ہے۔ جبکہ حضرت حسن (رض) فرمایا کرتے تھے کہ خلع کرانا درست نہیں ہے۔

19428

(۱۹۴۲۹) حَدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ عَامِرٍ ، عَنْ شُرَیْحٍ أَنَّ رَجُلاً خَلَعَ ابْنَتَہُ فَلَمْ تَرْضَ ، قَالَ : وَقَعَ عَلَیْہَا الطَّلاَقُ وَأَبُوہَا ضَامِنٌ لِمَا افْتَدَی بِہِ۔
(١٩٤٢٩) حضرت شریح (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کسی شخص نے اپنی نابالغ بیٹی کی طرف سے خلع کرنا چاہا لیکن وہ راضی نہ ہوئی تو اس پر طلاق واقع ہوجائے گی اور اس کا والد فدیہ کا ضامن ہوگا۔

19429

(۱۹۴۳۰) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ آدَمَ قَالَ : حدَّثَنَا زُہَیْرٌ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ عَامِرٍ وَالْحَکَمِ فِی امْرَأَۃٍ قَالَ لَہَا زَوْجُہَا : إذَا حِضْت فَأَنْتِ طَالِقٌ ، فَارْتَفَعَتْ حَیْضَتُہَا وحبلت قَالاَ : لیُجَامِعُہَا حَتَّی تَحِیضَ ، وَقَالَ عَامِرٌ : إِنْ صَلَحَ فِی الْقَرِیبِ ، فَإِنَّہُ یَصْلُحُ فِی الْبَعِیدِ۔
(١٩٤٣٠) حضرت عامر (رض) اور حضرت حکم (رض) فرماتے ہیں کہ اگر ایک آدمی نے اپنی بیوی سے کہا کہ جب تجھے حیض آیا تو تجھے طلاق ہے۔ پھر اس کا حیض بند ہوگیا اور وہ حاملہ ہوگئی تو آدمی اس سے اس وقت تک جماع کرسکتا ہے جب تک اسے حیض نہ آجائے۔ حضرت عامر (رض) فرماتے ہیں کہ اگر وہ قریب میں درست ہے تو دور میں بھی درست ہے۔

19430

(۱۹۴۳۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ قَالَ : حدَّثَنَا شُعْبَۃُ قَالَ : سَأَلْتُ الْحَکَمَ وَحَمَّادًا عَنْ رَجُلٍ قَالَ لامْرَأَتِہِ : أَنْتِ طَالِقٌ کُلَّمَا شِئْت ، قَالَ الْحَکَمُ : کُلَّمَا شَائَتْ فَہِیَ طَالِقٌ ، وَقَالَ حَمَّادٌ : مَرَّۃً۔
(١٩٤٣١) حضرت شعبہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے حضرت حکم (رض) اور حضرت حماد (رض) سے سوال کیا کہ اگر ایک آدمی نے اپنی بیوی سے کہا کہ جب تو چاہے تجھے طلاق ہے تو کیا حکم ہے ؟ حضرت حکم نے فرمایا کہ وہ جب چاہے اسے طلاق ہوجائے گی اور حضرت حماد فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ طلاق ہوسکتی ہے۔

19431

(۱۹۴۳۲) حَدَّثَنَا عَفَّانُ قَالَ : حدَّثَنَا أَبُو عَوَانَۃَ ، عَنِ أَبِی بِشْرٍ ، عَنْ عَطَائٍ قَالَ : إذَا زَوَّجَ الأَبُ فَالطَّلاَقُ بِیَدِ الأَبِ، وَقَالَ مُجَاہِدٌ : مَنْ مَلَکَ النِّکَاحَ ، فَإِنَّ فِی یَدِہِ الطَّلاَقَ۔
(١٩٤٣٢) حضرت عطائ (رض) فرماتے ہیں کہ جب باپ نے شادی کرائی تو طلاق کا اختیار بھی اسی کو ہوگا۔ حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ جو نکاح کا مالک ہوگا وہی طلاق کا بھی مالک ہوگا۔

19432

(۱۹۴۳۳) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ أَنَّہُ کَانَ یَرَاہُ جَائِزًا۔
(١٩٤٣٣) حضرت ابراہیم (رض) حالتِ شرک میں دی گئی طلاق کو جائز قرار دیتے تھے۔

19433

(۱۹۴۳۴) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ، عَنْ حَجَّاجٍ، عَنْ عَطَائٍ وَعَنِ ابْنِ سَالِمٍ، عَنِ الشَّعْبِیِّ أَنَّہُمَا کَانَا یَرَیَانِ طَلاَقَ الشِّرْکِ جَائِزًا۔
(١٩٤٣٤) حضرت عطائ (رض) اور حضرت شعبی (رض) حالتِ شرک میں دی گئی طلاق کو جائز قرار دیتے تھے۔

19434

(۱۹۴۳۵) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ أَنَّہُ کَانَ لاَ یَرَاہُ جَائِزًا۔
(١٩٤٣٥) حضرت حسن (رض) حالتِ شرک میں دی گئی طلاق کو جائز نہیں سمجھتے تھے۔

19435

(۱۹۴۳۶) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ قَالَ : قُلْتُ لِعَطَائٍ : أَبَلَغَک ، أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ تَرَکَ أَہْلَ الْجَاہِلِیَّۃِ عَلَی مَا کَانُوا عَلَیْہِ مِنْ نِکَاحٍ ، أَوْ طَلاَقٍ ؟ قَالَ : نَعَمْ۔
(١٩٤٣٦) حضرت ابن جریج (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عطاء سے پوچھا کہ کیا آپ کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حوالے سے یہ بات پہنچی ہے کہ آپ نے اہل جاہلیت کو ان میں رائج نکاح اور طلاق کے ضابطوں کو باقی رکھا تھا ؟ انھوں نے فرمایا جی ہاں ایسا ہی ہے۔

19436

(۱۹۴۳۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ قَالَ : سَأَلْتُ الْحَکَمَ وَحَمَّادًا فَقَالاَ : جَائِزٌ یَعْنِی طَلاَقَ الشِّرْکِ۔
(١٩٤٣٧) حضرت شعبہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے حضرت حکم اور حضرت حماد سے حالت شرک میں دی گئی طلاق کے بارے میں سوال کیا تو انھوں نے فرمایا کہ یہ جائز ہے۔

19437

(۱۹۴۳۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ فِرَاسٍ ، عَنْ عَامِرٍ قَالَ : لَمْ یَزِدْہُ الإِسْلاَمُ إلاَّ شِدَّۃً۔
(١٩٤٣٨) حضرت عامر (رض) فرماتے ہیں کہ اسلام نے سختی میں اضافہ کیا ہے۔

19438

(۱۹۴۳۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ ابْنِ أَبِی عَرُوبَۃَ ، عَنْ قَتَادَۃَ أَنَّ رَجُلاً طَلَّقَ امْرَأَتَہُ فِی الْجَاہِلِیَّۃِ تَطْلِیقَتَیْنِ ، ثُمَّ أَسْلَمَ فَطَلَّقَہَا فِی الإِسْلاَمِ تَطْلِیقَۃً فَسَأَلَ عُمَرُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ عَوْفٍ فَقَالَ : طَلاَقُہُ فِی الشِّرْکِ لَیْسَ بِشَیْئٍ۔
(١٩٤٣٩) حضرت قتادہ (رض) فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے زمانہ جاہلیت میں اپنی بیوی کو دو طلاقیں دیدیں۔ پھر اسلام قبول کیا اور اسلام میں اپنی بیوی کو ایک طلاق دی۔ حضرت عمر (رض) نے اس بارے میں حضرت عبدالرحمن بن عوف (رض) سے سوال کیا تو انھوں نے فرمایا کہ حالت شرک میں دی گئی طلاق کا کوئی اعتبار نہیں۔

19439

(۱۹۴۴۰) حَدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّائِ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ فِی قَوْلِہِ تعالی : {وَلاَ یَحِلُّ لَہُنَّ أَنْ یَکْتُمْنَ مَا خَلَقَ اللَّہُ فِی أَرْحَامِہِنَّ} قَالَ : الْحَیْضُ ، ثُمَّ قَالَ خَالِدٌ : الدَّمُ۔
(١٩٤٤٠) حضرت عکرمہ (رض) قرآن مجید کی آیت { وَلاَ یَحِلُّ لَہُنَّ أَنْ یَکْتُمْنَ مَا خَلَقَ اللَّہُ فِی أَرْحَامِہِنَّ } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اس سے مراد حیض ہے اور حضرت خالد فرماتے ہیں کہ اس سے مراد خون ہے۔

19440

(۱۹۴۴۱) حدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ مُطَرِّفٍ ، عَنِ الْحَکَمِ ، عَنْ مُجَاہِدٍ وَإِبْرَاہِیمَ قَالَ أَحَدُہُمَا : الْحَبَلُ ، والحیض وَقَالَ الآخَرُ الْحَیْضُ۔
(١٩٤٤١) حضرت مجاہد (رض) قرآن مجید کی آیت { وَلاَ یَحِلُّ لَہُنَّ أَنْ یَکْتُمْنَ مَا خَلَقَ اللَّہُ فِی أَرْحَامِہِنَّ } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اس سے مراد حمل اور حیض ہے اور حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ اس سے مراد حیض ہے۔

19441

(۱۹۴۴۲) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنِ ابْنِ أَبِی نَجِیحٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ قَالَ : أَنْ تَقُولَ : أَنَا حَامِلٌ ، وَلَیْسَتْ بِحَامِلٍ ، أَوْ تَقُولَ : أَنَا حَائِلٌ ، وَلَیْسَتْ بِحَائِلٍ۔
(١٩٤٤٢) حضرت مجاہد (رض) قرآن مجید کی آیت { وَلاَ یَحِلُّ لَہُنَّ أَنْ یَکْتُمْنَ مَا خَلَقَ اللَّہُ فِی أَرْحَامِہِنَّ } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اس سے مراد یہ ہے کہ عورت یہ کہے کہ میں حاملہ ہوں حالانکہ وہ حاملہ نہ ہو۔ یا وہ یہ کہے کہ میں حائل ہونے والی ہوں حالانکہ وہ حائل ہونے والی نہ ہو۔

19442

(۱۹۴۴۳) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنْ عُبَیْدَۃَ ، عَنِ ابْنِ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ : الْحَیْضُ وَالْحَبَلُ ، وَقَالَ إبْرَاہِیمُ الْحَبَلُ۔
(١٩٤٤٣) حضرت ابن عباس (رض) قرآن مجید کی آیت { وَلاَ یَحِلُّ لَہُنَّ أَنْ یَکْتُمْنَ مَا خَلَقَ اللَّہُ فِی أَرْحَامِہِنَّ } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اس سے مرادحیض اور حمل ہے اور حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ اس سے مراد حمل ہے۔

19443

(۱۹۴۴۴) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ ، عَنْ جُوَیْبِرٍ ، عَنِ الضَّحَّاکِ قَالَ : الْوَلَدُ وَالْحَیْضُ۔
(١٩٤٤٤) حضرت ضحاک قرآن مجید کی آیت { وَلاَ یَحِلُّ لَہُنَّ أَنْ یَکْتُمْنَ مَا خَلَقَ اللَّہُ فِی أَرْحَامِہِنَّ } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اس سے مراداولاد اور حیض ہے۔

19444

(۱۹۴۴۵) حَدَّثَنَا شَبَابَۃُ ، عَنْ وَرْقَائَ ، عَنِ ابْنِ أَبِی نَجِیحٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ : {وَلاَ یَحِلُّ لَہُنَّ أَنْ یَکْتُمْنَ مَا خَلَقَ اللَّہُ فِی أَرْحَامِہِنَّ} قَالَ : لاَ یَحِلُّ لِلْمُطَلَّقَۃِ أَنْ تَقُولَ : أنا حَائِضٌ ، وَلَیْسَتْ بِحَائِضٍ ، وَلاَ تَقُولُ : إنِّی حُبْلَی ، وَلَیْسَتْ بِحُبْلَی وَلاَ تَقُولُ : لَسْت بِحُبْلَی ، وَہِیَ حُبْلَی۔
(١٩٤٤٥) حضرت مجاہد قرآن مجید کی آیت { وَلاَ یَحِلُّ لَہُنَّ أَنْ یَکْتُمْنَ مَا خَلَقَ اللَّہُ فِی أَرْحَامِہِنَّ } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اس سے مرادیہ ہے کہ طلاق شدہ عورت کے لیے یہ کہنا حلال نہیں کہ میں حائضہ ہوں حالانکہ وہ حائضہ نہ ہو اور یہ کہنا بھی جائز نہیں کہ میں حاملہ ہوں حالانکہ وہ حاملہ نہ ہو اور جب وہ حاملہ ہو تو یہ کہنا درست نہیں کہ میں حاملہ نہیں ہوں۔

19445

(۱۹۴۴۶) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ الثَّقَفِیُّ ، عَنْ خَالِدٍ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ (وَلاَ یَحِلُّ لَہُنَّ أَنْ یَکْتُمْنَ مَا خَلَقَ اللَّہُ فِی أَرْحَامِہِنَّ) قَالَ : الْحَیْضُ۔
(١٩٤٤٦) حضرت عکرمہ قرآن مجید کی آیت { وَلاَ یَحِلُّ لَہُنَّ أَنْ یَکْتُمْنَ مَا خَلَقَ اللَّہُ فِی أَرْحَامِہِنَّ } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اس سے مرادحیض ہے۔

19446

(۱۹۴۴۷) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ مُطَرِّفٍ ، عَنِ الْحَکَمِ ، عَنْ مُجَاہِدٍ {وَلاَ یَحِلُّ لَہُنَّ أَنْ یَکْتُمْنَ مَا خَلَقَ اللَّہُ فِی أَرْحَامِہِنَّ} قَالَ : الْحَبَلُ وَالْحَیْضُ قَالَ : وَقَالَ إبْرَاہِیمُ : الْحَیْضُ وَحْدَہُ۔
(١٩٤٤٧) حضرت مجاہد قرآن مجید کی آیت { وَلاَ یَحِلُّ لَہُنَّ أَنْ یَکْتُمْنَ مَا خَلَقَ اللَّہُ فِی أَرْحَامِہِنَّ } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اس سے مرادحمل اور حیض ہے اور حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ اس سے مراد حیض ہے۔

19447

(۱۹۴۴۸) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إبْرَاہِیمَ أَنَّ رَجُلاً قَالَ لامْرَأَتِہِ : أَنْتِ طَالِقٌ فَسَأَلَ الْقَاسِمَ وَسَالِمًا فَقَالاَ : نَرَی أَنْ نُحَلِّفَہُ مَا أَرَادَ البَتَّۃَ۔
(١٩٤٤٨) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کسی شخص نے اپنی بیوی سے کہا کہ تجھے طلاق ہے تو کیا حکم ہے ؟ وہ فرماتے ہیں کہ انھوں نے اس بارے میں حضرت سالم (رض) اور حضرت قاسم (رض) سے سوال کیا تو انھوں نے فرمایا کہ ہماری رائے یہ ہے کہ اس سے قسم لی جائے کہ اس نے حتمی طلاق کا ارادہ نہیں کیا۔

19448

(۱۹۴۴۹) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ الْحُبَابِ، عَنِ ابْنِ لَہِیعَۃَ ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ بْنِ أَبِی جَعْفَرٍ ، عَنْ بُکَیْرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ الأَشَجِّ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ فِی رَجُلٍ قَالَ لامْرَأَتِہِ : أَنْتِ طَالِقٌ ، ولَمْ یُسَمِّ عَدَدَ الطَّلاَقِ قَالَ : نحملہ ذَلِکَ ، إِنْ نَوَی وَاحِدَۃً ، أَوِ اثْنَتَیْنِ ، أَوْ ثَلاَثَۃً۔
(١٩٤٤٩) حضرت سعید بن مسیب (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کسی شخص نے اپنی بیوی سے کہا کہ تجھے طلاق ہے اور اس نے تعداد کا تذکرہ نہیں کیا تو اس کی نیت کا اعتبار ہوگا کہ ایک دی ہے یاد و یا تین۔

19449

(۱۹۴۵۰) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالَ : نَفَقَۃُ الْمُطَلَّقَۃِ کُلَّ یَوْمٍ نِصفُ صَاعٍ مِنْ بُرٍّ۔
(١٩٤٥٠) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ مطلقہ پر ہر روز گندم کا نصف صاع خرچ کیا جائے گا۔

19450

(۱۹۴۵۱) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ فِی امْرَأَۃٍ أَضَرَّ بِہَا زَوْجُہَا فَفَرَضَ لَہَا الشَّعْبِیُّ فِی کُلِّ شَہْرٍ خَمْسَۃَ عَشَرَ صَاعًا مِنْ حِنْطَۃٍ وَدِرْہَمَیْنِ۔
(١٩٤٥١) حضرت شعبی (رض) نے اس عورت کے لیے ہر مہینے میں گندم کے پندرہ صاع اور دو درہم لازم کئے جس کے خاوند نے اسے نقصان پہنچایا تھا۔

19451

(۱۹۴۵۲) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ یَمَانٍ ، عَنْ مِنْہَالِ بْنِ خَلِیفَۃَ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ خِلاَسٍ ، عَنْ عَلِیٍّ أنَّہُ فَرَضَ لاِمْرَأَۃٍ وَخَادِمِہَا اثْنَیْ عَشَرَ دِرْہَمًا کُلَّ شَہْرٍ : أَرْبَعَۃً لِلْخَادِمِ وَثَمَانِیَۃً لِلْمَرْأَۃِ۔
(١٩٤٥٢) حضرت علی (رض) نے نفقہ میں عورت اور اس کی خادمہ کے لیے ہر مہینے بارہ درہم مقرر کئے، چار خادمہ کے لیے اور آٹھ عورت کے لئے۔

19452

(۱۹۴۵۳) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأحمر ، عَنْ أُمِّ خَصِیبٍ الْوَابِشِیَّۃِ أَنَّ زَوْجَہَا تُوُفِّیَ وَتَرَکَہَا حَامِلاً ، فَخَاصَمَتْ إلَی شُرَیْحٍ ، فَقَضَی أَنْ یُنْفَقَ عَلَیْہَا مِنْ جَمِیعِ الْمَالِ خَمْسَۃَ عَشَرَ۔
(١٩٤٥٣) حضرت ام خصیب وابشیہ (رض) فرماتی ہیں کہ ان کے خاوند کا انتقال ہوگیا اور وہ حاملہ تھیں۔ وہ اپنا مقدمہ لے کر حضرت شریح کے پاس گئیں تو انھوں نے فرمایا کہ کل مال میں سے ان پر پندرہ دراہم خرچ کئے جائیں گے۔

19453

(۱۹۴۵۴) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الْحَکَمِ ، قَالَ : یُنْفِقُ عَلَی خَادِمٍ وَاحِدَۃً۔
(١٩٤٥٤) حضرت حکم (رض) فرماتے ہیں کہ خادمہ پر ایک درہم خرچ کیا جائے گا۔

19454

(۱۹۴۵۵) حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ قَالَ : خَاصَمَ عُمَرُ أُمَّ عَاصِمٍ فِی عَاصِمٍ إلَی أَبِی بَکْرٍ فَقَضَی لَہَا بِہِ مَا لَمْ یَکْبَرْ ، أَوْ یَتَزَوَّجْ فَیَخْتَارُ لِنَفْسِہِ قَالَ : ہِیَ أَعْطَفُ وَأَلْطَفُ وَأَرَقُّ وَأَحْنَی وَأَرْحَمُ۔
(١٩٤٥٥) حضرت عکرمہ (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے ام عاصم کو فریق بنا کر حضرت عاصم کی پرورش کا مسئلہ حضرت ابوبکر (رض) کے پاس پیش کیا۔ انھوں نے فیصلہ فرمایا کہ بچہ حضرت ام عاصم کے پاس رہے گا جب تک بالغ نہ ہوجائے اور یا جب تک شادی نہ کرلے۔ اور فرمایا کہ ماں بچے پر زیادہ مہربان، رحم کرنے والی، نرم دل اور شفقت کرنے والی ہوتی ہے۔

19455

(۱۹۴۵۶) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ یَزِیدَ بْنِ یَزِیدَ بْنِ جَابِرٍ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ بْنِ عُبَیْدِ اللہِ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ غَنم قَالَ : شَہِدْت عُمَرَ خَیَّرَ صَبِیًّا بَیْنَ أَبِیہِ وَأُمِّہِ۔
(١٩٤٥٦) حضرت عبد الرحمن بن غنم (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے بچے کو ماں اور باپ کے درمیان اختیار دیا۔

19456

(۱۹۴۵۷) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ أَیُّوبَ وَیُونُسَ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ ، عَنْ شُرَیْحٍ قَالَ : الأَبُ أَحَقُّ ، وَالأُمُّ أَرْفَقُ۔
(١٩٤٥٧) حضرت شریح (رض) فرماتے ہیں کہ باپ زیادہ حقدار ہے اور ماں زیادہ نرمی کرنے والی ہے۔

19457

(۱۹۴۵۸) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ زِیَادِ بْنِ سَعْدٍ ، أَوْ حُدِّثْت عَنْہُ ، عَنْ ہِلاَلِ بْنِ أَبِی مَیْمُونَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خَیَّرَ صَبِیًّا بَیْنَ أَبَوَیْہِ۔ (ترمذی ۱۳۵۷۔ احمد ۲/۲۴۶)
(١٩٤٥٨) حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بچے کو ماں باپ کے درمیان اختیار دیا۔

19458

(۱۹۴۵۹) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ قَالَ : ہِیَ أَحَقُّ بِوَلَدِہَا ، وَإِنْ تَزَوَّجَتْ۔
(١٩٤٥٩) حضرت حسن فرماتے ہیں عورت بچے کی زیادہ حق دار ہے خواہ شادی بھی کرلے۔

19459

(۱۹۴۶۰) حَدَّثَنَا یَعْلَی بْنُ عُبَیْدٍ ، عَنْ عُبَیْدَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالَ : إذَا طَلَّقَ الرَّجُلُ امْرَأَتَہُ فَہِیَ أَحَقُّ بِوَلَدِہَا مَا لَمْ تَتَزَوَّجْ ، أَوْ تَخْرُجْ بِہِ مِنَ الأَرْضِ۔
(١٩٤٦٠) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ جب آدمی اپنی بیوی کو طلاق دے دے تو عورت اس وقت تک بچے کی زیادہ حق دار ہے جب تک شادی نہ کرلے اور جب تک وہ علاقہ نہ چھوڑنا چاہے۔

19460

(۱۹۴۶۱) حَدَّثَنَا عُبَد اللہِ، عَنْ إسْرَائِیلَ، عَنْ جَابِرٍ، عَنْ عَامِرٍ، عَنْ مَسْرُوقٍ أنَّہُ خَیَّرَ صَبِیًّا بَیْنَ أَبَوَیْہِ أَیَّہُمَا یَخْتَارُ۔
(١٩٤٦١) حضرت مسروق (رض) نے ماں باپ کے بارے میں بچے کو اختیار دیا تھا۔

19461

(۱۹۴۶۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ مُبَارَکٍ ، عَنْ یَحْیَی بن أبی کثیر ، عَنْ سلمان أَبِی مَیْمُونَۃَ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ : جَائَتِ امْرَأَۃٌ إلَی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَدْ طَلَّقَہَا زَوْجُہَا فَأَرَادَتْ أَنْ تَأْخُذَ وَلَدَہَا قَالَ : فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : اسْتَہِمَا فِیہِ فَقَالَ الرَّجُلُ : مَنْ یَحُولُ بَیْنِی وَبَیْنَ ابْنِی ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِلاِبْنِ : اخْتَرْ أَیَّہُمَا شِئْت قَالَ : فَاخْتَارَ أُمَّہُ فَذَہَبَتْ بِہِ۔ (احمد ۲/۴۴۷۔ طحاوی ۳۰۸۸)
(١٩٤٦٢) حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ ایک عورت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئی۔ اس کے خاوند نے اسے طلاق دے دی تھی۔ وہ عورت اپنا بچہ لینا چاہتی تھی۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میاں بیوی بچے کے بارے میں قرعہ اندازی کرلو۔ آدمی نے کہا کہ میرے اور میرے بچے کے درمیان کون حائل ہوسکتا ہے ؟ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بچے سے فرمایا کہ جس کو چاہو اختیار کرلو۔ بچے نے ماں کو اختیار کرلیا اور وہ اسے لے کر چلی گئی۔

19462

(۱۹۴۶۳) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ مُجَالِدٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ أَنَّ أَبَا بَکْرٍ قَضَی بِعَاصِمِ بْنِ عُمَرَ لأُمِّہِ ، وَقَضَی عَلَی عُمَرَ بِالنَّفَقَۃِ۔
(١٩٤٦٣) حضرت شعبی (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت ابوہریرہ (رض) نے حضرت عاصم بن عمر کا فیصلہ ان کی والدہ کے حق میں کیا اور بچے کانفقہ حضرت عمر (رض) پر لازم کیا۔

19463

(۱۹۴۶۴) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ قَالَ : حدَّثَنَا سَعِیدُ بْنُ أَبِی عَرُوبَۃَ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ طَلَّقَ أُمَّ عَاصِمٍ ، ثُمَّ أَتی عَلَیْہَا ، وَفِی حِجْرِہَا عَاصِمٌ ، فَأَرَادَ أَنْ یَأْخُذَہُ مِنْہَا ، فَتَجَاذَبَاہُ بَیْنَہُمَا حَتَّی بَکَی الْغُلاَمُ ، فَانْطَلَقَا إلَی أَبِی بَکْرٍ فَقَالَ لَہُ أَبُو بَکْرٍ : یَا عُمَرُ ، مَسْحُہَا وَحِجْرُہَا وَرِیحُہَا خَیْرٌ لَہُ مِنْک حَتَّی یَشِبَّ الصَّبِیُّ فَیَخْتَارَ۔
(١٩٤٦٤) حضرت سعید بن مسیب (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) نے حضرت ام عاصم کو طلاق دے دی، پھر وہ ان کی گود میں سے حضرت عاصم کو لینے کے لیے آئے۔ ان دونوں نے بچے کو حاصل کرنا چاہا تو بچہ روپڑا۔ دونوں حضرت ابوبکر (رض) کے پاس گئے تو حضرت ابوبکر (رض) نے ان سے فرمایا کہ ماں کا پیار، ماں کی گود اور ماں کی خوشبو بچے کے لیے تم سے بہتر ہے۔ جب بچہ بڑا ہوگا تو وہ خود اختیار کرلے گا۔

19464

(۱۹۴۶۵) حدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ یَحْیَی ، عَنِ الْقَاسِمِ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ طَلَّقَ امرأتہ جَمِیلَۃَ بِنْتَ عَاصِمِ بْنِ ثَابِتِ بْنِ أَبِی الأَقْلَحِ فَتَزَوَّجَتْ ، فَجَائَ عُمَرُ فَأَخَذَ ابْنَہُ فَأَدْرَکَتْہُ الشَّمُوسُ ابْنَۃُ أَبِی عَامِرٍ الأَنْصَارِیَّۃُ ، وَہِیَ أُمُّ جَمِیلَۃَ ، فَأَخَذَتْہُ ، فَتَرَافَعَا إلَی أَبِی بَکْرٍ وَہُمَا مُتَشَبِّثَانِ ، فَقَالَ لِعُمَرَ : خَلِّ بَیْنَہَا وَبَیْنَ ابْنِہَا ، فأخذتہ۔
(١٩٤٦٥) حضرت قاسم (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) نے اپنی اہلیہ حضرت جمیلہ بنت عاصم بن ثابت کو طلاق دے دی۔ پھر جمیلہ بنت عاصم نے شادی کرلی۔ تو حضرت عمر (رض) اپنے بیٹے کو لینے کے لیے آئے۔ حضرت جمیلہ کی والدہ شموس بنت ابی عامر انصاریہ نے بچے کو اٹھا لیا اور دونوں اس مقدمے کو لے کر حضرت ابوبکر (رض) کے پاس گئے، انھوں نے حضرت عمر (رض) سے فرمایا کہ بچے اور اس کی ماں کے بیچ میں مت آؤ۔ پھر وہ بچے کو لے کر چلی گئیں۔

19465

(۱۹۴۶۶) حَدَّثَنَا وَکِیعُ بْنُ الْجَرَّاحِ ، عَنْ مُوسَی بْنِ عُبَیْدَۃَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ کَعْبٍ أَنَّ امْرَأَۃً مِنْ أَہْلِ الْبَادِیَۃِ کَانَتْ عِنْدَ رَجُلٍ مِنْ بَنِی عَمِّہَا فَمَاتَ عَنْہَا فَتَزَوَّجَہَا رَجُلٌ مِنَ الأَنْصَارِ فَجَائَ بَنُو عَمِّ الْجَارِیَۃِ فَقَالُوا : إنا أَخِذُو ابْنَتَنَا قَالَتْ : إنِّی أَنْشُدُکُمُ اللَّہَ أَنْ تَفَرقُوا بَیْنِی وَبَیْنَ ابْنَتِی فَأَنَا الْحَامِلُ وَأَنَا الْمُرْضِعُ وَلَیْسَ أَحَدٌ أخیر لقرب ابْنَتِی مِنِّی فَأَبَوا ، فَقَالَت : مَوْعِدُکُمْ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، ثُمَّ قَالَ : إذَا خَیَّرَک رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقُولِی : أَخْتَارُ اللَّہَ وَالإِیمَانَ وَدَارَ الْمُہَاجِرِینَ وَالأَنْصَارِ فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ ، لاَ تَذْہَبُونَ بِہَا مَا بَقِیَتْ عُنُقِی فِی مَکَانِہَا وَجَاؤُوا إلَی أَبِی بَکْرٍ فَقَضَی لَہُمْ بِہَا فَقَالَ بِلاَلٌ : یَا خَلِیفَۃَ رَسُولِ اللہِ ، شَہِدْت ہَؤُلاَئِ النَّفَرُ وَہَذِہِ الْمَرْأَۃُ عِنْدَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اخْتَصَمُوا فَقَضَی بِہَا لأُمِّہَا ، فَقَالَ أَبُو بَکْرٍ : وَأَنَا وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ ، لاَ یَذْہَبُونَ بِہَا مَا دَامَتْ عُنُقِی فِی مَکَانِہَا فَدَفَعَہَا إلَی أُمِّہَا۔
(١٩٤٦٦) حضرت محمد بن کعب (رض) فرماتے ہیں کہ دیہات کی ایک عورت اپنے چچا زاد کے گھر میں تھی۔ (اس خاوند سے اس کی ایک بیٹی پیدا ہوئی) اس کے خاوند کا انتقال ہوگیا تو اس نے ایک انصاری مرد سے شادی کرلی۔ اس شادی کے بعد لڑکی کے چچا زاد آگئے اور انھوں نے کہا کہ ہم اپنی بیٹی کو لے جائیں گے۔ اس عورت نے کہا کہ میں تمہیں اللہ کا واسطہ دیتی ہوں کہ تم میرے اور میری بیٹی کے درمیان میں نہ آؤ۔ میں نے اس کو پیٹ میں اٹھایا ہے اور میں نے اس کو دودھ پلایا ہے۔ مجھ سے بڑھ کر کوئی اس بچی کا استحقاق نہیں رکھتا۔ لوگوں نے اس کی بات کا انکار کیا تو اس نے کہا کہ تم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس چلو اور فیصلہ کرالو۔ پھر اس خاتون نے اپنی بچی سے کہا کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہیں اختیار دیں تو تم کہنا کہ میں نے اللہ کو، ایمان کو، مہاجرین اور انصار کے گھر کو اختیار کرلیا۔ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس حاضر ہوئے تو آپ نے فرمایا کہ اس ذات کی قسم ! جب تک میری جان ہے تم اسے نہیں لے جاسکتے۔ ( حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے وصال کے بعد) پھر وہ لوگ حضرت ابوبکر (رض) کے پاس آئے تو آپ نے بچی کا فیصلہ اس کے خاندان والوں کے حق میں کردیا۔ اس پر حضرت بلال (رض) نے عرض کیا اے اللہ کے رسول کے خلیفہ ! میری موجودگی میں یہ لوگ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے تھے، یہ عورت بھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس بیٹھی تھی۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس بچی کا فیصلہ عورت کے حق میں فرمایا تھا۔ اس پر حضرت ابوبکر (رض) نے فرمایا کہ اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے جب تک میں زندہ ہوں تم اس بچی کو نہیں لے جاسکتے۔ پھر آپ نے وہ بچی اس کی ماں کو دے دی۔

19466

(۱۹۴۶۷) حَدَّثَنَا یَعْلَی بْنُ عُبَیْدٍ ، عَنْ زَکَرِیَّا ، عَنِ الشَّعْبِیِّ فِی جَارِیَۃٍ أَرَادَتْ أُمُّہَا أَنْ تَخْرُجَ بِہَا مِنَ الْکُوفَۃِ فَقَالَ : عَصَبَتُہَا أَحَقُّ بِہَا مِنْ أُمِّہَا إِنْ خَرَجَتْ۔
(١٩٤٦٧) حضرت شعبی (رض) کے پاس ایک مقدمہ لایا گیا کہ ایک خاتون اپنی بیٹی کو کوفہ سے نکالنا چاہتی تھی۔ انھوں نے فرمایا کہ اگر ماں بچی کو شہر سے نکالنا چاہتی ہے تو بچی کے عصبات اس کے زیادہ حقدار ہیں۔

19467

(۱۹۴۶۸) حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ ، عَنْ یُونُسَ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ رَبِیعَۃَ ، عَنْ عُمَارَۃَ بْنِ رَبِیعَۃَ الْجَرْمِیِّ قَالَ : غَزَا أَبِی نَحْوَ الْبَحْرِ فِی بَعْضِ تِلْکَ الْمَغَازِی قَالَ : فَقُتِلَ فَجَائَ عَمِّی لِیَذْہَبَ بِی فَخَاصَمَتْہُ أُمِّی إلَی عَلِیٍّ قَالَ : وَمَعِی أَخٌ لِی صَغِیرٌ قَالَ : فَخَیَّرَنِی عَلِیٌّ ثَلاَثًا فَاخْتَرْت أُمِّی فَأَبَی عَمِّی أَنْ یَرْضَی قَالَ : فَوَکَزَہُ عَلِیٌّ بِیَدِہِ وَضَرَبَہُ بِدِرَّتِہِ وَقَالَ : وَہَذَا أَیْضًا لو قَدْ بَلَغَ خُیِّر۔
(١٩٤٦٨) حضرت عمارہ بن ربیعہ جرمی (رض) کہتے ہیں کہ میرے والد ایک سمندری غزوہ میں شہید ہوگئے۔ میرے چچا مجھے لینے کے لیے آگئے۔ میری والدہ اس مقدمہ کو لے کر حضرت علی (رض) کی خدمت میں حاضر ہوئیں۔ میرا چھوٹا بھائی بھی میرے ساتھ تھا۔ حضرت علی (رض) نے مجھے تین مرتبہ اختیار دیا تو میں نے اپنی والدہ کو اختیار کیا۔ میرے چچا نے اس فیصلے کو ماننے سے انکار کیا تو حضرت علی (رض) نے انھیں مکا مارا اور انھیں اپنا کوڑا مارا اور فرمایا کہ یہ فیصلہ ہوچکا اور جب یہ بالغ ہوگا تو اسے اختیار دیا جائے گا۔

19468

(۱۹۴۶۹) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ قَالَ : خَیَّرَ شُرَیْحٌ غُلاَمًا وَجَارِیَۃً یَتِیمَیْنِ فَاخْتَارَتِ الْجَارِیَۃُ مَوَالِیَہَا وَاخْتَارَ الْغُلاَمُ عَمَّتَہُ فِیمَا یَحْسَبُ فَأَجَازَہُ شُرَیْحٌ۔
(١٩٤٦٩) حضرت مغیرہ (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت شریح (رض) نے ایک یتیم لڑکے اور ایک یتیم لڑکی کو اختیار دیا۔ لڑکی نے اپنے موالی کو اور لڑکے نے اپنی پھوپھی کو اختیار کیا تو حضرت شریح نے اسے درست قرار دیا۔

19469

(۱۹۴۷۰) حَدَّثَنَا مُعَاوِیَۃُ بْنُ ہِشَامٍ قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ أَبِی السَّفَرِ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ فِی رَضَاعِ الصَّبِیِّ قَالَ : أُمُّہُ أَحَقُّ بِہِ مَا کَانَتْ فِی الْمِصْرِ فَإِذَا أَرَادَتْ أَنْ تَخْرُجَ بِہِ إلَی السَّوَادِ فَالأَوْلِیَائُ۔
(١٩٤٧٠) حضرت شعبی (رض) بچے کو دودھ پلانے کے بارے میں فرماتے ہیں کہ اگر اس کی ماں اسی شہر میں ہو تو وہ زیادہ حقدار ہے اور اگر وہ شہر کو چھوڑنا چاہے تو اولیاء اس انتظام کے زیادہ حقدار ہیں۔

19470

(۱۹۴۷۱) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ حَمَّادٍ ، قَالَ : سَمِعْتُہُ یَقُولُ : قُلْتُ لإبْرَاہِیمَ : مَا الإِیلاَئُ ؟ قَالَ : أَنْ یَحْلِفَ : لاَ یُکَلِّمُہَا وَلاَ یُجَامِعُہَا وَلاَ یَجْمَعُ رَأْسَہُ وَرَأْسَہَا وَلَیُغِیظَنَّہَا ، أَوْ لَیَسُوؤَنَّہَا۔
(١٩٤٧١) حضرت حماد (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابراہیم (رض) سے عرض کیا کہ ایلاء کیا چیز ہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ آدمی اس بات کی قسم کھالے کہ وہ بیوی سے بات نہیں کرے گا، اس سے جماع نہیں کرے گا، اس کا اور اس کی بیوی کا سر جمع نہیں ہوں گے۔ یا وہ اس پر ضرور بضرور بہت زیادہ غصہ ڈھائے گا یا وہ اس کے ساتھ بہت برا سلوک کرے گا۔

19471

(۱۹۴۷۲) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ مُبَارَکٍ ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنْ خُصَیْفٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ فِی رَجُلٍ قَالَ لامْرَأَتِہِ : وَاللَّہِ لأسُوئَنَّکِ قَالَ : إِنْ کَانَ یَعْنِی بِذَلِکَ امْرَأَۃً یَتَزَوَّجُہَا ، أَوْ جَارِیَۃً یَتَسَرَّاہَا فَلَیْسَ بِشَیْئٍ ، وَإِنْ کَانَ یَعْنِی الْجِمَاعَ فَہُوَ إیلاَئٌ۔
(١٩٤٧٢) حضرت شعبی (رض) فرماتے ہیں کہ اگر ایک آدمی نے اپنی بیوی سے کہا کہ خدا کی قسم میں تیرے ساتھ بہت برا سلوک کروں گا، اگر اس جملے سے اس کی مراد یہ تھی کہ وہ کسی اور عورت سے شادی کرے گا یا کسی باندی سے جماع کرے گا تو یہ کوئی چیز نہیں اور اگر مراد جماع نہ کرنے کی نیت تھی تو یہ ایلاء ہے۔

19472

(۱۹۴۷۳) حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، قَالَ : سَمِعْتُ الْحَکَمَ یَقُولُ ؛ فِی الرَّجُلِ قَالَ لامْرَأَتِہِ : وَاللَّہِ لأسُوئَنَّکِ ، فَتَرَکَہَا أَرْبَعَۃَ أَشْہُرٍ قَالَ : فَہُوَ إیلاَئٌ۔
(١٩٤٧٣) حضرت حکم (رض) فرماتے ہیں کہ اگر ایک آدمی نے اپنی بیوی سے کہا کہ خدا کی قسم ! میں تیرے ساتھ بہت برا سلوک کروں گا اور پھر چار مہینے تک اسے چھوڑے رکھا تو یہ ایلاء ہے۔

19473

(۱۹۴۷۴) حَدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ أَنَّ رَجُلاً ادَّعَی مَتَاعَ الْبَیْتِ فَجِئْنَ أَرْبَعُ نِسْوَۃٍ إلَی شُرَیْحٍ فَشَہِدْنَ قُلْنَ : دَفَعْنَا إلَیہ الصَّدَاقَ وَقُلْنَا : جَہِّزْہَا فَجَہَّزَہَا فَقَضَی عَلَیْہِ بِالْمَتَاعِ وَقَالَ : إنَّ عُقْرَہَا مِنْ مَالِک۔
(١٩٤٧٤) حضرت ابن سیرین (رض) فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے گھر کے سامان کا دعویٰ کیا، اس کی چاروں بیویاں حضرت شریح کے پاس آئیں اور انھوں نے گواہی دیتے ہوئے کہا کہ ہم نے اسے مہر دے دیا تھا۔ اور کہا تھا کہ اس کا سامان خرید لے تو اس نے سامان خرید لیا تھا۔ حضرت شریح (رض) نے سامان کا فیصلہ آدمی کے خلاف کیا اور فرمایا کہ اس کا تاوان تیرے مال سے ہوگا۔

19474

(۱۹۴۷۵) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ ، عَنْ أَیُّوبَ قَالَ : کَتَبْت إلَی أَبِی قِلاَبَۃَ أَسْأَلُہُ عَنِ الرَّجُلِ یُحَدِّثُ : الْبَیْتُ فِی مَتَاعِ الْمَرْأَۃِ ، لِمَنْ ہُوَ ؟ قَالَ : ہُوَ لَہُ مَا لَمْ یُعْطِہَا۔
(١٩٤٧٥) حضرت ایوب (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابو قلابہ (رض) کے نام ایک خط لکھا جس میں ان سے سوال کیا کہ ایک آدمی نے عورت کے سامان سے کمرہ تیار کیا پھر وہ مرگیا تو سامان کس کا ہوگا ؟ انھوں نے فرمایا کہ وہ مرد کا ہی ہوگا جب تک وہ عورت کو دے نہ دے۔

19475

(۱۹۴۷۶) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الْحَسَنِ قَالَ : مَا کَانَ لِلرِّجَالِ فَہُوَ لِلرِّجَالِ ، وَمَا کَانَ لِلنِّسَائِ فَہُوَ لِلنِّسَائِ ، وَمَا بَقِیَ فَہُوَ لِمَنْ أَقَامَ الْبَیِّنَۃَ۔
(١٩٤٧٦) حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ جھگڑے کی صورت میں جو چیزیں مردوں کی ہوتی ہیں وہ مردوں کی ہوں گی اور جو عورتوں کی ہوتی ہیں وہ عورتوں کی ہوں گی۔ اور باقی ماندہ اس کے لیے ہوگا جس نے گواہی قائم کی۔

19476

(۱۹۴۷۷) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ عُبَیدۃ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالَ : مَا کَانَ لِلرِّجَالِ فَہُوَ لِلرِّجَالِ وَمَا کَانَ لِلنِّسَائِ فَہُوَ لِلنِّسَائِ ، وَمَا بَقِیَ بَیْنَہُمْ۔
(١٩٤٧٧) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ جس چیز کا تعلق مردوں سے ہو وہ مردوں کے لیے ہے اور جس کا تعلق عورتوں سے ہو وہ عورتوں کو ملے گی اور جو باقی بچے وہ ان کے درمیان تقسیم ہوگا۔

19477

(۱۹۴۷۸) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنِ ابْنِ أَبِی عَرُوبَۃَ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنِ الْحَسَنِ ؛ فِی الَّتِی یُتَوَفَّی عَنْہَا زَوْجُہَا قَالَ : لَہَا مَا أَغْلَقَتْ عَامَّۃَ مَالِہَا إلاَّ مَا کَانَ مِنْ مَتَاعِ الرَّجُلِ الطَّیْلَسَانُ وَالْقَمِیصُ وَنَحْوُہُ۔
(١٩٤٧٨) حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ جس عورت کا خاوند فوت ہوجائے تو اس کے لیے آدمی کے مال میں سے وہ چیز ہوگی جس سے اپنے دروازے پر پردہ ڈال سکے۔ جیسے چادر اور قمیص وغیرہ۔

19478

(۱۹۴۷۹) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ حَمَّادٍ أنَّہُ سُئِلَ عَنْ مَتَاعِ الْبَیْتِ فَقَالَ : ثِیَابُ الْمَرْأَۃِ لِلْمَرْأَۃِ وَثِیَابُ الرَّجُلِ لِلرَّجُلِ وَمَا تَشَاجَرَا فَلَمْ یَکُنْ لِہَذَا وَلاَ لِہَذَا فَہُوَ لِلَّذِی فِی یَدِیہِ۔
(١٩٤٧٩) حضرت حماد (رض) سے گھر کے سامان کی بابت سوال کیا گیا تو انھوں نے فرمایا کہ عورت کے کپڑے عورت کے لیے اور مرد کے کپڑے مرد کے لیے ہیں۔ اور جس چیز کے بارے میں ان کا جھگڑا ہوجائے وہ اس کا ہوگا جس کے قبضے میں ہو۔

19479

(۱۹۴۸۰) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ بْنِ سَالِمٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، أَنَّہُ سَمِعَہُ یَقُولُ : إذَا دَخَلَتِ الْمَرْأَۃُ عَلَی زَوْجِہَا وَمَعَہَا حُلِیٌّ وَمَتَاعٌ فَمَکَثَتْ عِنْدَ زَوْجِہَا حَتَّی تَمُوتَ فَہُوَ مِیرَاثٌ ، وَإِنْ أَقَامَ أَہْلُہَا الْبَیِّنَۃَ أَنَّہُ کَانَ عَارِیَّۃً عِنْدَہَا إلاَّ أَنْ یَکُونُوا قَدْ أَعْلَمُوا بذَلِکَ الزَّوْجَ فِی حَیَاتِہَا قَبْلَ مَوْتِہَا۔
(١٩٤٨٠) حضرت شعبی (رض) فرماتے ہیں کہ جب عورت اپنے خاوند کے پاس آئے اور اس کے پاس زیورات اور سامان ہوں اور وہ اپنے خاوند کے پاس ٹھہرے۔ پھر اس کے خاوند کا انتقال ہوجائے تو یہ سب کچھ میراث ہوگا۔ خواہ عورت کے گھر والے اس بات پر گواہی بھی قائم کردیں کہ یہ اس کے پاس صرف استعمال کے لیے تھا۔ البتہ اگر وہ خاوند کی زندگی میں اس بات کو واضح کردیں تو ٹھیک ہے۔

19480

(۱۹۴۸۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ یَزِیدَ بْنِ أَبِی زِیَادٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ شَیْخًا کَانَ أَدْرَکَ شُرَیْحًا یَذْکُرُ عَنْ شُرَیْحٍ أَنَّہُ قَالَ فِی مَتَاعِ الْبَیْتِ : فَمَا کَانَ مِنْ سِلاَحِ ، أَوْ مَتَاعِ الرَّجُلِ فَہُوَ لِلرَّجُلِ۔
(١٩٤٨١) حضرت شریح (رض) گھر کے سامان کے بارے میں فرمایا کرتے تھے کہ ہتھیار اور مردوں کا سامان مرد کے لیے ہوگا۔

19481

(۱۹۴۸۲) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ أَبِی غَنِیۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنِ الْحَکَمِ قَالَ : إذَا مَاتَ الرَّجُلُ وَتَرَکَ مَتَاعًا مِنْ مَتَاعِ الْبَیْتِ فَمَا کَانَ لِلرَّجُلِ لاَ یَکُونُ لِلْمَرْأَۃِ فَہُوَ لِلرَّجُلِ وَمَا یَکُونُ لِلْمَرْأَۃِ لاَ یَکُونُ لِلرَّجُلِ ، ہُوَ لِلْمَرْأَۃِ ، وَمَا یَکُونُ لِلرِّجَالِ وَالنِّسَائِ فَہُوَ لِلرَّجُلِ إلاَّ أَنْ تُقِیمَ الْمَرْأَۃُ الْبَیِّنَۃَ أنَّہُ لَہَا۔
(١٩٤٨٢) حضرت حکم (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص انتقال کرجائے اور گھر میں کچھ سامان چھوڑے تو مردوں والا سامان مرد کے لیے اور عورتوں والا سامان عورت کے لیے ہوگا۔ اور جو مردوں اور عورتوں کے درمیان مشترک ہوتا ہے وہ مرد کے لیے ہوگا۔ البتہ اگر عورت اس بات پر گواہی قائم کردے کہ یہ اس کا ہے تو پھر اسی کا ہوگا۔

19482

(۱۹۴۸۳) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ وَعَبْدُ اللہِ بْنُ إدْرِیسَ ، عَنِ الشَّیْبَانِیِّ ، عَنِ ابْنِ مَعْقِلٍ قَالَ : رَضَاعُ الصَّبِیِّ مِنْ نَصِیبِہِ۔
(١٩٤٨٣) حضرت ابن معقل (رض) فرماتے ہیں کہ بچے کی رضاعت اس کے حصے میں سے ہوگی۔

19483

(۱۹۴۸۴) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ قَالَ رَضَاعُہُ مِنْ نَصِیبِہِ۔
(١٩٤٨٤) حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ بچے کی رضاعت اس کے حصے میں سے ہوگی۔

19484

(۱۹۴۸۵) حَدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنْ مُحَمَّدٍ قَالَ : أُتِیَ عَبْدُ اللہِ بْنُ عُتْبَۃَ فِی رَضَاعِ صَبِیٍّ فَجَعَلَ رَضَاعَہُ فی مَالِہِ وَقَالَ لِوَلِیِّہِ : لَوْ لَمْ یَکُنْ لَہُ مَالٌ لَجَعَلْنَا رَضَاعَہُ فِی مَالِکَ ، أَلاَ تَرَاہُ یَقُولُ : {وَعَلَی الْوَارِثِ مِثْلُ ذَلِکَ}
(١٩٤٨٥) حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عتبہ (رض) کے پاس ایک بچے کی رضاعت کا مقدمہ لایا گیا انھوں نے رضاعت بچے کے مال میں سے لازم فرمائی اور اس کے ولی سے کہا کہ اگر اس کا مال نہ ہوتا تو ہم آپ کے مال میں سے اس کے دودھ کا انتظام کرتے۔ کیا تم نے قرآن مجید کی یہ آیت نہیں پڑھی { وَعَلَی الْوَارِثِ مِثْلُ ذَلِکَ }

19485

(۱۹۴۸۶) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالَ کَانَ یَقُولُ : إِنْ وَفَّی رَضَاعَہُ نَصِیبُہُ فَہُوَ مِنْ نَصِیبِہِ ، وَإِنْ لَمْ یَفِ فَہُوَ مِنْ جَمِیعِ الْمَالِ۔
(١٩٤٨٦) حضرت ابراہیم (رض) فرمایا کرتے تھے کہ اگر بچے کا حصہ رضاعت کو پورا کردے تو اس کے حصے میں سے ہوگی اور اگر نہ ہو تو پھر پورے مال میں سے۔

19486

(۱۹۴۸۷) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنِ الْحَکَمِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، عَنْ شُرَیْحٍ فِی الرَّضِیعِ : یُنْفَقُ عَلَیْہِ مِنْ نَصِیبِہِ قَلِیلاً کَانَ ، أَوْ کَثِیرًا۔
(١٩٤٨٧) حضرت شریح (رض) فرماتے ہیں کہ دودھ پیتے بچے پر اس کے حصے میں سے خرچ کیا جائے گا وہ تھوڑا ہو یازیادہ۔

19487

(۱۹۴۸۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالَ : کَانَ أَصْحَابُنَا یَقُولُونَ : إِنْ کَانَ الْمَالُ لَہُ أُنْفِقَ عَلَیْہِ مِنْ جَمِیعِ الْمَالِ۔
(١٩٤٨٨) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ ہمارے اصحاب فرمایا کرتے تھے کہ بچے پر جمیع مال میں سے خرچ کیا جائے گا۔

19488

(۱۹۴۸۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، عَنْ شُرَیْحٍ قَالَ کَانَ یَقُولُ : النَّفَقَۃُ وَالرَّضَاعُ مِنْ جَمِیعِ الْمَالِ۔
(١٩٤٨٩) حضرت شریح (رض) فرمایا کرتے تھے کہ نفقہ اور رضاعت تمام مال میں سے ہوں گے۔

19489

(۱۹۴۹۰) حَدَّثَنَا سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنِ ابْنِ أَبِی نَجِیحٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ : {وَعَلَی الْوَارِثِ مِثْلُ ذَلِکَ} قَالَ : عَلَی الْوَارِثِ مِثْلُ مَا عَلَی أَبِیہِ أَنْ یَسْتَرْضِعَ لَہُ۔
(١٩٤٩٠) حضرت مجاہد (رض) قرآن مجید کی آیت { وَعَلَی الْوَارِثِ مِثْلُ ذَلِکَ } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ وارث پر وہی لازم ہے جو اس کے باپ پر لازم تھا یعنی اس کے دودھ کا انتظام کرنا۔

19490

(۱۹۴۹۱) حَدَّثَنَا جَرِیرُ بْنُ عَبْدِ الْحَمِیدِ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، وَمُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ {وَعَلَی الْوَارِثِ مِثْلُ ذَلِکَ} مثل مَا عَلَی أَبِیہِ مِنَ الرَّضَاعِ۔
(١٩٤٩١) حضرت ابراہیم (رض) قرآن مجید کی آیت { وَعَلَی الْوَارِثِ مِثْلُ ذَلِکَ } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ وارث پر وہی لازم ہے جو اس کے باپ پر لازم تھا یعنی اس کے دودھ کا انتظام کرنا۔

19491

(۱۹۴۹۲) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ وَحَمَّادٌ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالاَ : رَضَاعُ الصَّبِیِّ۔
(١٩٤٩٢) حضرت شعبی (رض) اور حضرت ابراہیم (رض) قرآن مجید کی آیت { وَعَلَی الْوَارِثِ مِثْلُ ذَلِکَ } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اس سے مراد بچے کے دودھ کا انتظام کرنا ہے۔

19492

(۱۹۴۹۳) حَدَّثَنَا عَبْدُاللہِ بْنُ إدْرِیسَ، عَنْ أَشْعَثَ وَہِشَامٍ، عَنِ الْحَسَنِ: {وَعَلَی الْوَارِثِ مِثْلُ ذَلِکَ} فَقَالَ: الرَّضَاعُ۔
(١٩٤٩٣) حضرت حسن (رض) قرآن مجید کی آیت { وَعَلَی الْوَارِثِ مِثْلُ ذَلِکَ } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اس سے مراد بچے کے دودھ کا انتظام کرنا ہے۔

19493

(۱۹۴۹۴) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الْحَسَنِ قَالَ عَلَیْہِ الرَّضَاعُ وَلَیْسَ عَلَیْہِ نَفَقَۃُ الحَامِلِ۔
(١٩٤٩٤) حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ وارث پر رضاع لازم ہے لیکن حاملہ کا نفقہ لازم نہیں ہے۔

19494

(۱۹۴۹۵) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ ، عَنْ أَشْعَثَ وَعَنِ الْحَکَمِ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ : لاَ یُضَارُّ۔
(١٩٤٩٥) حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ اسے نقصان نہیں پہنچایا جائے گا۔

19495

(۱۹۴۹۶) حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ، عَنْ جُوَیْبِرٍ، عَنِ الضَّحَّاکِ فِی ہَذِہِ الآیَۃِ: {وَعَلَی الْوَارِثِ مِثْلُ ذَلِکَ} قَالَ: الْوَالِدُ یَمُوتُ وَیَتْرُکُ وَلَدًا صَغِیرًا فَإِنْ کَانَ لَہُ مَالٌ فَرَضَاعُہُ فِی مَالِہِ ، وَإِنْ لَمْ یَکُنْ لَہُ مَالٌ فَرَضَاعُہُ عَلَی عَصَبَتِہِ۔
(١٩٤٩٦) حضرت ضحاک (رض) قرآن مجید کی آیت { وَعَلَی الْوَارِثِ مِثْلُ ذَلِکَ } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اگر باپ کا انتقال ہوجائے اور وہ چھوٹا بچہ چھوڑے تو اگر باپ کا مال ہے تو بچے کے دودھ کا انتظام اسی کے مال میں سے ہوگا اور اگر مال نہ ہوتویہ عصبات کی ذمہ داری ہوگی۔

19496

(۱۹۴۹۷) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ قَالَ : جَاؤُوا بِیَتِیمٍ إلَی عُمَرَ فَقَالَ : أَنْفِقْ عَلَیْہِ ، قَالَ : لَوْ لَمْ أَجِدْ إلاَّ أَقْصَی عَشِیرَتِہِ لَفَرَضْت عَلَیْہِمْ۔
(١٩٤٩٧) حضرت سعید بن مسیب (رض) فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ کچھ لوگ ایک یتیم بچے کو حضرت عمر بن خطاب (رض) کے پاس لائے اور عرض کیا کہ اس کے نفقہ کا انتظام کیجئے۔ آپ نے فرمایا کہ اگر مجھے اس کے دور کے رشتہ دار بھی مل جائیں تو بھی اس کا نفقہ ان پر لازم کروں گا۔

19497

(۱۹۴۹۸) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ قَالَ : شَہِدْت عَبْدَ اللہِ بْنَ عُتْبَۃَ قَالَ لِوَلِیِّ یَتِیمٍ: لَوْ لَمْ یَکُنْ لَہُ مَالٌ لَقَضَیْت عَلَیْک بِنَفَقَتِہِ لأَنَّ اللَّہَ تَعَالَی یَقُولُ : {وَعَلَی الْوَارِثِ مِثْلُ ذَلِکَ}
(١٩٤٩٨) حضرت ابن سیرین (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عتبہ نے ایک یتیم کے ولی سے کہا کہ اگر اس کا مال نہ ہوتا تو میں تجھ پر اس کا نفقہ لازم کرتا، کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں { وَعَلَی الْوَارِثِ مِثْلُ ذَلِکَ }

19498

(۱۹۴۹۹) حدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنْ جُوَیْبِرٍ ، عَنِ الضَّحَّاکِ {وَعَلَی الْوَارِثِ مِثْلُ ذَلِکَ} قَالَ : ہُوَ الْوَالِدُ ، یعنی : النَّفَقَۃُ عَلَی الْوَالِدِ فَإِنْ لَمْ یَکُنْ عِنْدَہُ فَعَلَی الْعَصَبَۃِ ، فَإِنْ لَمْ یَکُنْ عِنْدَہُ جُبِرَتِ الأُمُّ عَلَی رَضَاعِہِ ، وَإِذَا عَرَفَہَا الْوَلَدُ فَلَمْ یَأْخُذْ مِنْ غَیْرِہَا ، جُبِرَتْ عَلَی رَضَاعِہِ۔
(١٩٤٩٩) حضرت ضحاک (رض) قرآن مجید کی آیت { وَعَلَی الْوَارِثِ مِثْلُ ذَلِکَ } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اس سے مراد یہ ہے کہ بچے کانفقہ باپ پر لازم ہے، اگر وہ نہ ہو تو عصبات پر لازم ہے اور اگر وہ بھی نہ ہوں تو ماں کو دودھ پلانے کا حکم دیا جائے گا۔ اگر بچہ ماں کے علاوہ کسی سے دودھ نہ پیے تو اسے بچے کو دودھ پلانے پر مجبور کیا جائے گا۔

19499

(۱۹۵۰۰) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ : {وَعَلَی الْوَارِثِ مِثْلُ ذَلِکَ} قَالَ: عَلَی الْوَارِثِ أَنْ لاَ یُضَارَّ۔
(١٩٥٠٠) حضرت ابن عباس (رض) قرآن مجید کی آیت { وَعَلَی الْوَارِثِ مِثْلُ ذَلِکَ } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ وارث پر لازم ہے کہ اس کا نقصان نہ ہونے دے۔

19500

(۱۹۵۰۱) حَدَّثَنَا یُونُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَیْدٍ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ الْحَکَمِ ، عَنِ الضَّحَّاکِ : {وَعَلَی الْوَارِثِ مِثْلُ ذَلِکَ} قَالَ : لاَ یُضَارُّ۔
(١٩٥٠١) حضرت ضحاک قرآن مجید کی آیت { وَعَلَی الْوَارِثِ مِثْلُ ذَلِکَ } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ وارث پر لازم ہے کہ اس کا نقصان نہ ہونے دے۔

19501

(۱۹۵۰۲) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ إدْرِیسَ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ أَوْقَفَ بَنِی عَمِّ مَنْفُوسٍ کَلاَلَۃً بِرَضَاعِہِ عَلَی ابْنِ عَمٍّ لَہُ۔ (ابن جریر ۵۰۰)
(١٩٥٠٢) حضرت سعید بن مسیب (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) نے ایسے بچے کے دودھ کا انتظام اس کے چچا زاد مردوں پر کیا جس کے باپ کے انتقال کے بعد اس کا کوئی مال باقی نہیں رہا تھا۔

19502

(۱۹۵۰۳) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنِ الْحَسَنِ : وَعَلَی الْوَارِثِ مِثْلُ ذَلِکَ قَالَ : عَلَی الرِّجَالِ دُونَ النِّسَائِ۔
(١٩٥٠٣) حضرت حسن (رض) قرآن مجید کی آیت { وَعَلَی الْوَارِثِ مِثْلُ ذَلِکَ } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ بچے کے دودھ کا انتظام مرد کے ذمہ ہے عورت کے ذمہ نہیں۔

19503

(۱۹۵۰۴) حَدَّثَنَا مُعْتَمِرُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ : سُئِلَ عَنْ صَبِیٍّ لَہُ أُمٌّ وَعَمٌّ وَالأُمُّ مُوسِرَۃٌ وَالْعَمُّ مُعْسِرٌ فَقَالَ : النَّفَقَۃُ عَلَی الْعَمِّ۔
(١٩٥٠٤) حضرت حسن (رض) سے سوال کیا گیا کہ اس بچے کی ماں مال دار ہے جبکہ چچا غریب ہے، دودھ کے انتظام کی ذمہ داری کس پر ہوگی ؟ انھوں نے فرمایا کہ نفقہ چچاپرلازم ہے۔

19504

(۱۹۵۰۵) حَدَّثَنَا حُمَیْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ حَسَنٍ ، عَنْ مُطَرِّفٍ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، عَنْ زَیْدِ بْنِ ثَابِتٍ قَالَ : إذَا کَانَ عَمٌّ وَأُمٌّ فَعَلَی الأُمِّ بِقَدْرِ مِیرَاثِہَا وَعَلَی الْعَمِّ بِقَدْرِ مِیرَاثِہِ۔
(١٩٥٠٥) حضرت زید بن ثابت (رض) فرماتے ہیں کہ جب ماں بھی ہو اور چچا بھی تو ماں کی ذمہ داری اس کی میراث کے بقدر اور چچا کی ذمہ داری اس کی میراث کے بقدر ہوگی۔

19505

(۱۹۵۰۶) حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِی زَائِدَۃَ ، عَنْ مُجَالِدٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنْ مَسْرُوقٍ قَالَ : إذَا طَلَّقَ الرَّجُلُ امْرَأَتَہُ وَلَہَا مِنْہُ وَلَدٌ فَعَلَیْہِ الرَّضَاعُ۔
(١٩٥٠٦) حضرت مسروق (رض) فرماتے ہیں کہ جب آدمی نے اپنی بیوی کو طلاق دی اور اس کا دودھ پیتا بچہ تھا تو دودھ کا انتظام مرد پر لازم ہوگا۔

19506

(۱۹۵۰۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إسْرَائِیلَ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِی الأَحْوَصِ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ قَالَ : عَلَیْہِ رَضَاعُہُ حَتَّی تَفْطِمَہُ۔
(١٩٥٠٧) حضرت عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ جب آدمی نے اپنی بیوی کو طلاق دی اور اس کا دودھ پیتا بچہ تھا تو دودھ کا انتظام مرد پر لازم ہوگا۔ جبکہ بچہ دودھ پینا چھوڑ نہ دے۔

19507

(۱۹۵۰۸) حَدَّثَنَا أبو بکر الْحَنَفِیُّ ، عَنِ الضَّحَّاکِ بْنِ عُثْمَانَ قَالَ : سَأَلْتُ الْقَاسِمَ بْنَ مُحَمَّدٍ ، عَنِ الْمَرْأَۃِ یُفْرَضُ لَہَا مِنْ مَالِ ابْنَتِہَا ؟ قَالَ : نَعَمْ ، أَراہ حَقًّا۔
(١٩٥٠٨) حضرت ضحاک بن عثمان (رض) کہتے ہیں کہ میں نے حضرت قاسم بن محمد (رض) سے سوال کیا کہ کیا عورت کو اس کی بیٹی کے مال میں سے دیا جاسکتا ہے ؟ انھوں نے فرمایا ہاں، میں اسے درست سمجھتا ہوں۔

19508

(۱۹۵۰۹) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْر ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَطَائٍ قَالَ : قُلْتُ لِعَطَائٍ : الْیَتِیمُ أُمُّہُ مُحْتَاجَۃٌ أَیُنْفَقُ عَلَیْہَا مِنْ مَالِہِ ؟ قَالَ عَطَائٌ : لَیْسَ لَہَا شَیْئٌ ؟ قُلْتُ : لاَ ، قَالَ : نَعَمْ۔
(١٩٥٠٩) حضرت ابن جریج (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عطائ (رض) سے کہا کہ اگر کسی یتیم کی ماں محتاج ہو تو کیا اس پر اس کے مال میں سے خرچ کیا جاسکتا ہے ؟ انھوں نے پوچھا کہ کیا اس کی ماں کے پاس کچھ ہے ؟ میں نے عرض کیا نہیں۔ انھوں نے فرمایا کہ ہاں خرچ کیا جاسکتا ہے۔

19509

(۱۹۵۱۰) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَطَائٍ قَالَ : یَتَوَارَثَانِ مَا لَمْ یَتَلاَعَنَا۔
(١٩٥١٠) حضرت عطائ (رض) فرماتے ہیں کہ جب تک لعان نہ ہو ایک دوسرے کے وارث ہوں گے۔

19510

(۱۹۵۱۱) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالَ : یَتَوَارَثَانِ مَا لَمْ یَتَلاَعَنَا۔
(١٩٥١١) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ جب تک لعان نہ ہو ایک دوسرے کے وارث ہوں گے۔

19511

(۱۹۵۱۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ حَمَّادٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالَ : إذَا مَاتَ أَحَدُہُمَا قَبْلَ اللِّعَانِ تَوَارَثَا۔
(١٩٥١٢) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ جب لعان سے پہلے دونوں میں سے کوئی ایک مرگیا تو وہ وارث ہوں گے۔

19512

(۱۹۵۱۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنِ الْحَکَمِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالَ : یَرِثُہَا ، وَقَالَ الْحَکَمُ : یُضْرَبُ وَیَرِثُہَا۔
(١٩٥١٣) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ مرد عورت کا وارث ہوگا۔ حضرت حکم (رض) فرماتے ہیں کہ مرد کو کوڑے لگائے جائیں گے اور وہ وارث ہوگا۔

19513

(۱۹۵۱۴) حَدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ خَالِدٍ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ قَالَ فِی رَجُلٍ قَذَفَ امْرَأَتَہُ فَمَاتَتْ قَبْلَ أَنْ یُلاَعِنَہَا قَالَ : إِنْ أکْذَبَ نَفْسَہُ جُلِدَ وَوَرِثَ ، وَإِنْ أَقَامَ شُہُودًا وَرِثَ ، وَإِنْ حَلَفَ لَمْ یَرِثْ۔
(١٩٥١٤) حضرت عکرمہ (رض) فرماتے ہیں کہ اگر ایک آدمی نے اپنی بیوی پر زنا کی تہمت لگائی اور وہ عورت لعان سے پہلے انتقال کرگئی تو اگر وہ آدمی اپنی تکذیب کردے تو اسے کوڑے لگائے جائیں گے اور وہ وارث ہوگا اور اگر وہ گواہ پیش کردے تو وارث ہوگا اور اگر قسم کھائے تو وارث نہیں ہوگا۔

19514

(۱۹۵۱۵) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ زَیْدٍ أَنَّہُ قَالَ : إذَا مَاتَ أَحَدُہُمَا قَبْلَ الْمُلاَعَنَۃِ إِنْ ہِیَ أَقَرَّتْ بِہَا رُجِمَتْ وَصَارَ إلَیْہَا الْمِیرَاثُ وَإِنِ الْتَعَنَتْ وَرِثَتْ ، وَإِنْ لَمْ تُقِرَّ بِوَاحِدَۃٍ مِنْہُمَا فَلاَ مِیرَاثَ لَہَا وَلاَ عِدَّۃَ عَلَیْہَا۔
(١٩٥١٥) حضرت جابر بن زید (رض) فرماتے ہیں کہ جب ان دونوں میں سے کوئی ایک لعان سے پہلے مرگیا اور پھر اگر عورت زنا کا اقرار کرے تو اسے سنگسار کیا جائے گا اور میراث اس کے مال میں شامل ہوگی اور اگر وہ لعان کرے تو وارث ہوگی۔ اگر وہ ان دونوں چیزوں میں سے کسی کا اقرار نہ کرے تو اسے میراث نہیں ملے گی اور اس پر عدت بھی لازم نہیں ہوگی۔

19515

(۱۹۵۱۶) حدثنا إسْمَاعِیلَ بْنِ عُلَیَّۃَ ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ فِی رَجُلٍ قَذَفَ امْرَأَتَہُ ، ثُمَّ مَاتَتْ قَالاَ : یَرِثُہَا وَلاَ مُلاَعَنَۃَ بَیْنَہُمَا۔
(١٩٥١٦) حضرت زہری (رض) فرماتے ہیں کہ اگر ایک آدمی نے اپنی بیوی پر تہمت لگائی اور پھر وہ مرگئی تو آدمی اس عورت کا وارث ہوگا اور دونوں کے درمیان لعان نہ ہوگا۔

19516

(۱۹۵۱۷) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ ، عَنْ عَطَائٍ قَالَ : یُجْلَدُ وَلاَ مُلاَعَنَۃَ بَعْدَ الْمَوْتِ۔
(١٩٥١٧) حضرت عطائ (رض) فرماتے ہیں کہ اس صورت میں اسے کوڑے لگائے جائیں گے اور موت کے بعدلعان نہیں ہوتا۔

19517

(۱۹۵۱۸) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ قَالَ : إذَا قَذَفَہَا ، ثُمَّ مَاتَتْ قَبْلَ أَنْ یُلاَعِنَہَا قَالَ : إِنْ شَائَ أَکْذَبَ نَفْسَہُ وَوَرِثَ ، وَإِنْ شَائَ لاَعَنَ وَلَمْ یَرِثْ۔
(١٩٥١٨) حضرت شعبی (رض) فرماتے ہیں کہ اگر ایک آدمی نے اپنی بیوی پر زنا کی تہمت لگائی اور وہ لعان سے پہلے مرگئی تو اگر وہ چاہے تو اپنی تکذیب کردے اور وارث ہوجائے اور اگر چاہے تو لعان کرلے اس صورت میں وار ث نہیں ہوگا۔

19518

(۱۹۵۱۹) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الْحَکَمِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالَ : یَتَوَارَثَانِ مَا لَمْ یَتَلاَعَنَا۔
(١٩٥١٩) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ جب تک لعان نہ ہو ایک دوسرے کے وارث ہوں گے۔

19519

(۱۹۵۲۰) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ سَیَّارٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ فِی الْمُتَوَفَّی عَنْہَا وَہِیَ حَامِلٌ قَالَ : یُنْفَقُ عَلَیْہَا مِنْ جَمِیعِ الْمَالِ حَتَّی تَضَعَ ، ثُمَّ یُقْسَمُ الْمِیرَاثُ۔
(١٩٥٢٠) حضرت شعبی (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کسی حاملہ کا خاوند انتقال کرجائے تو بچے کی پیدائش تک اس پر کل مال میں سے خرچ کیا جائے گا پھر میراث تقسیم کی جائے گی۔

19520

(۱۹۵۲۱) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالَ : إذَا مَاتَ الرَّجُلُ وَامْرَأَتُہُ حُبْلَی لَمْ یُقْسَمِ الْمِیرَاثُ حَتَّی تَضَعَ۔
(١٩٥٢١) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ جب کسی حاملہ کا خاوند انتقال کرجائے تو بچے کی پیدائش تک میراث تقسیم نہیں کی جائے گی۔

19521

(۱۹۵۲۲) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ جُوَیْبِرٍ ، عَنِ الضَّحَّاکِ قَالَ : یُقْسَمُ وَیُتْرَکُ نَصِیبُ ذَکَرٍ فَإِنْ کَانَتْ أُنْثَی رُدَّ عَلَی الْوَرَثَۃِ ، وَإِنْ کَانَ ذَکَرًا کَانَ لَہُ۔
(١٩٥٢٢) حضرت ضحاک (رض) فرماتے ہیں کہ حاملہ کا خاوند انتقال کرجائے تو میراث تقسیم کردی جائے گی، اور ایک لڑکے کا حصہ چھوڑ دیا جائے گا اگر لڑکی پیدا ہوئی تو باقی ماندہ حصہ ورثاء میں تقسیم ہوگا اور اگر لڑکا ہوا تو اس کو مل جائے گا۔

19522

(۱۹۵۲۳) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنِ الشَّیْبَانِیِّ ، عَنْ حَمَّادٍ قَالَ : یُجْبَرُ کُلُّ ذِی مَحْرَمٍ عَلَی أَنْ یُنْفِقَ عَلَی مَحْرَمِہِ۔
(١٩٥٢٣) حضرت حماد (رض) فرماتے ہیں کہ ہر ذی محرم کو اپنے محرم پر خرچ کرنے پر مجبور کیا جائے گا۔

19523

(۱۹۵۲۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنِ الْحَسَنِ قَالَ : یُجْبَرُ عَلَی نَفَقَۃِ کُلِّ وَارِثٍ۔
(١٩٥٢٤) حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ ہر وارث کے نفقہ پر مجبور کیا جائے گا۔

19524

(۱۹۵۲۵) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ ، عَنِ الْحَسَنِ أَنَّ عُمَرَ جَبَرَ رَجُلاً عَلَی نَفَقَۃِ ابْنِ أَخِیہِ۔
(١٩٥٢٥) حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے ایک آدمی کو اپنے بھائی کا نفقہ دینے پر مجبور کیا تھا۔

19525

(۱۹۵۲۶) حَدَّثَنَا عَبْدُالأَعْلَی، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ الزُّہْرِیِّ قَالَ: یُجْبَرُ الرَّجُلُ عَلَی نَفَقَۃِ وَالِدَیہِ، یُنْفِقُ عَلَیْہِمَا بِالْمَعْرُوفِ۔
(١٩٥٢٦) حضرت زہری (رض) فرماتے ہیں کہ آدمی کو اس کے والدین کا نفقہ دینے پر مجبور کیا جائے گا اور وہ ان پر نیکی کے ساتھ خرچ کرے گا۔

19526

(۱۹۵۲۷) حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّیَالِسِیُّ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنْ حَمَّادٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالَ : یُجْبَرُ عَلَی نَفَقَۃِ أَخِیہِ ، إذَا کَانَ مُعْسِرًا۔
(١٩٥٢٧) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کسی کا بھائی تنگدست ہو تو اسے اس پر خرچ کرنے پر مجبور کیا جائے گا۔

19527

(۱۹۵۲۸) حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ مُعَاذٍ قَالَ : أَخْبَرَنَا أَشْعَثُ ، عَنِ الْحَسَنِ أَنَّہُ کَانَ یُلْزِمُ وَلَدَ ابْنِہِ إذَا کَانَ فَقِیرًا ، وَکَانَ الْجَدُّ غَنِیًّا۔
(١٩٥٢٨) حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ اگر دادا مالدار ہو تو اسے تنگدست پوتے پر خرچ کرنے کا حکم دیا جائے گا۔

19528

(۱۹۵۲۹) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ عَمْرٍو قَالَ رَجُلٌ لِجَابِرِ بْنِ زَیْدٍ : إنَّ أَبِی یَحْرِمُنِی مَالَہُ فَیَقُولُ : لاَ أُنْفِقُ عَلَیْک شَیْئًا ، فَقَالَ : خُذْ مِنْ مَالِ أَبِیک بِالْمَعْرُوفِ۔
(١٩٥٢٩) حضرت عمرو (رض) فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے حضرت جابر بن زید (رض) سے کہا کہ میرے والد مجھے اپنے مال سے محروم رکھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ میں تجھ پر خرچ نہیں کروں گا۔ انھوں نے فرمایا کہ اپنے باپ کے مال میں سے نیکی کے ساتھ لے لو۔

19529

(۱۹۵۳۰) حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ ؛ فِی الرَّجُلِ یَقُولُ لامْرَأَتِہِ : یَا أُخَیَّۃُ : قَالَ : مَا ہَذَا وَتَمْرتَانِ إلاَّ وَاحِدٌ۔
(١٩٥٣٠) حضرت حسن (رض) سے سوال کیا گیا کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو ” اے چھوٹی بہن “ کہہ دے تو کیا حکم ہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ یہ اور دو کھجوریں ایک جیسی چیز ہیں۔

19530

(۱۹۵۳۱) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ قَالَ : سَمِعَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَجُلاً یَقُولُ لامْرَأَتِہِ یَا أُخَیَّۃُ قَالَ : لاَ تَقُلْ لَہَا : یَا أُخَیَّۃُ۔ (ابوداؤد ۲۲۰۳)
(١٩٥٣١) حضرت عمرو بن شعیب (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک آدمی کو سنا کہ وہ اپنی بیوی کو اے چھوٹی بہن کہہ رہا تھا۔ آپ نے فرمایا کہ اسے اے چھوٹی بہن مت کہو۔

19531

(۱۹۵۳۲) حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّیَالِسِیُّ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سَلَمَۃَ ، عَنْ زِیَادٍ الأَعْلَمِ ، عَنِ الْحَسَنِ ؛ فِی امْرَأَۃٍ غَیَّبَتْ صِککَ رَجُلٍ فَقَالَ : أَنْتِ طَالِقٌ ثَلاَثًا إِنْ لَمْ تَکُنْ قد غَیَّبْتہَا ، فَقَالَ الْحَسَنُ : إِنْ کَانَ صَادِقًا فَہِیَ امْرَأَتُہُ ، وَسَمِعْت حَمَّادًا یَقُولُ : یُدَیَّنُ فِی ذَلِکَ۔
(١٩٥٣٢) حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ اگر ایک عورت نے اپنے خاوند کے پیسے چرالئے تو آدمی نے کہا کہ اگر تو نے نہ چرائے ہوں تو تجھے تین طلاق۔ حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ اگر آدمی سچا ہے تو وہ اس کی بیوی رہے گی۔ حضرت حماد (رض) فرماتے ہیں اس معاملے میں اس کی دینداری دیکھی جائے گی۔

19532

(۱۹۵۳۳) حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَۃَ ، عَنْ حُمَیْدٍ ، عَنِ الْحَسَنِ فِی رَجُلٍ ادَّعَتِ امْرَأَتُہُ أنَّہُ طَلَّقَہَا فَرَافَعَتْہُ إلَی السُّلْطَانِ فَاسْتَحْلَفَہُ إِنَّہُ لَمْ یُطَلِّقْ ، ثُمَّ رُدَّتْ عَلَیْہِ وَمَاتَ ، قَالَ الْحَسَنُ : تَرِثُہُ۔
(١٩٥٣٣) حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کسی عورت نے یہ دعویٰ کیا کہ اس کے خاوند نے اسے طلاق دے دی اور یہ مقدمہ لے کر سلطان کے پاس گئی۔ سلطان نے خاوند سے قسم لی کہ اس نے طلاق نہیں دی۔ پھر وہ عورت واپس اس کے ساتھ بھیج دی گئی اور خاوند مرگیا تو وہ عورت اس کی وارث ہوگی۔

19533

(۱۹۵۳۴) حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ ، عَنْ زَکَرِیَّا ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، أَنَّہُ سُئِلَ عَنْ رَجُلٍ طَلَّقَ امْرَأَتَہُ عِنْدَ رَجُلَیْنِ وَامْرَأَۃٍ فَشَہِدَ أَحَدُ الرَّجُلَیْنِ وَالْمَرْأَۃُ وَغَابَ الآخَرُ قَالَ : تُعْزَلُ عَنْہُ حَتَّی یَجِیئَ الْغَائِبُ۔
(١٩٥٣٤) حضرت شعبی (رض) سے سوال کیا گیا کہ اگر کوئی شخص دو مردوں اور ایک عورت کی موجودگی میں اپنی بیوی کو طلاق دے دے، پھر ایک مرد اور عورت گواہی دیں جبکہ دوسرا مرد موجود نہ ہو تو کیا حکم ہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ اس غائب شخص کے آنے تک بیوی کو اس کے خاوند سے الگ رکھا جائے گا۔

19534

(۱۹۵۳۵) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ أَبِی الْعَلاَئِ ، وَسَعِیدٌ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنِ الْحَسَنِ قَالَ : إذَا قَالَ الرَّجُلُ : إِنْ کَلَّمَ أَخَاہُ فَامْرَأَتُہُ طَالِقٌ ثَلاَثًا ، فَإِنْ شَائَ طَلَّقَہَا وَاحِدَۃً ، ثُمَّ تَرَکَہَا حَتَّی تَنْقَضِیَ عِدَّتُہَا ، فَإِذَا بَانَتْ کَلَّمَ أَخَاہُ ، ثُمَّ تَزَوَّجَہَا إِنْ شَائَ بَعْدُ۔
(١٩٥٣٥) حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ اگر ایک آدمی نے کہا کہ اگر اس نے اپنے بھائی سے بات کی تو اس کی بیوی کو تین طلاق۔ اگر وہ چاہے تو ایک طلاق دے دے اور پھر اسے چھوڑ دے یہاں تک کہ اس کی عدت گزر جائے اور جب وہ بائنہ ہوجائے تو اپنے بھائی سے بات کرلے۔ پھر اس کے بعد اگر چاہے تو اس سے شادی کرلے۔

19535

(۱۹۵۳۶) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ شَہْرِ بْنِ حَوْشَبٍ قَالَ : تَزَوَّجَ رَجُلٌ امْرَأَۃً عَلَی عَہْدِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَطَلَّقَہَا فَقَالَ لَہُ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : طَلَّقْتہَا ؟ قَالَ : نَعَمْ ، قَالَ : مِنْ بَأْسٍ ؟ قَالَ : لاَ یَا رَسُولَ اللہِ ، ثُمَّ تَزَوَّجَ أُخْرَی ، ثُمَّ طَلَّقَہَا فَقَالَ لَہُ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : طَلَّقْتہَا ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: مِنْ بَأْسٍ؟ قَالَ : لاَ یَا رَسُولَ اللہِ ، ثُمَّ تَزَوَّجَ أُخْرَی ، ثُمَّ طَلَّقَہَا فَقَالَ لَہُ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: أَطَلَّقْتَہَا؟ قَالَ : نَعَمْ ، قَالَ: مِنْ بَأْسٍ؟ قَالَ: لاَ یَا رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی الثَّالِثَۃِ : إنَّ اللَّہَ لاَ یُحِبُّ کُلَّ ذَوَّاقٍ مِنَ الرِّجَالِ وَلاَ کُلَّ ذَوَّاقَۃٍ مِنَ النِّسَائِ۔ (دارقطنی ۵۱۶۷۔ بزار ۱۴۹۸)
(١٩٥٣٦) حضرت شہر بن حوشب (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں ایک آدمی نے کسی عورت سے شادی کی، پھر اسے طلاق دے دی۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے پوچھا کہ کیا آپ نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی ؟ انھوں نے کہا جی ہاں۔ آپ نے فرمایا کوئی وجہ تھی ؟ انھوں نے کہا نہیں۔ انھوں نے پھر کسی عورت سے شادی کی، پھر اسے طلاق دے دی۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے پوچھا کہ کیا آپ نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی ؟ انھوں نے کہا جی ہاں۔ آپ نے فرمایا کوئی وجہ تھی ؟ انھوں نے کہا نہیں۔ انھوں نے پھر کسی عورت سے شادی کی، پھر اسے طلاق دے دی۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے پوچھا کہ کیا آپ نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی ؟ انھوں نے کہا جی ہاں۔ آپ نے فرمایا کوئی وجہ تھی ؟ انھوں نے کہا نہیں۔ تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کو ہر مزے چکھنے والا مرد اور ہر مزے چکھنے والی عورت پسند نہیں ہیں۔

19536

(۱۹۵۳۷) حَدَّثَنَا وَکِیعُ بْنُ الْجَرَّاحِ ، عَنْ معَرِّفٍ ، عَنْ مُحَارِبِ بْنِ دِثَارٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لَیْسَ شَیْئٌ مِمَّا أَحَلَّ اللَّہُ أَبْغَضَ إلَیْہِ مِنَ الطَّلاَقِ۔ (ابوداؤ د۲۱۷۰)
(١٩٥٣٧) حضرت محارب بن دثار (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے جن چیزوں کو حلال کیا ہے ان میں اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ ناپسندیدہ طلاق ہے۔

19537

(۱۹۵۳۸) حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إسْمَاعِیلَ ، عَنْ جَعْفَرٍ ، عَنْ أَبِیہِ قَالَ : قَالَ عَلِیٌّ : یَا أَہْلَ الْعِرَاقِ ، أَوْ یَا أَہْلَ الْکُوفَۃِ لاَ تُزَوِّجُوا حَسَنًا ، فَإِنَّہُ رَجُلٌ مِطْلاَقٌ۔
(١٩٥٣٨) حضرت جعفر (رض) کے والد روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی (رض) نے اہل عراق یا اہل کوفہ کو مخاطب کرکے فرمایا کہ اپنی بیٹیوں کی شادی حسن (رض) سے نہ کراؤ وہ بہت طلاق دینے والے آدمی ہیں۔

19538

(۱۹۵۳۹) حَدَّثَنَا حَاتِمُ ، عَنْ جَعْفَرٍ ، عَنْ أَبِیہِ قَالَ : قَالَ عَلِیٌّ : مَا زَالَ الْحَسَنُ یَتَزَوَّجُ وَیُطَلِّقُ حَتَّی حَسِبْت أَنْ یَکُونَ عَدَاوَۃً فِی الْقَبَائِلِ۔
(١٩٥٣٩) حضرت علی (رض) فرماتے ہیں کہ حسن (رض) شادی کرتے ہیں اور طلاق دیتے ہیں، یہاں تک کہ مجھے اندیشہ ہے کہ قبائل میں دشمنی کا سبب نہ بن جائیں۔

19539

(۱۹۵۴۰) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی قَالَ : سُئِلَ عَنْ رَجُلٍ قَالَ لامْرَأَتِہِ : إِنْ لَمْ أَکُنْ دَفَعْت إلَیْک کَذَا وَکَذَا فَأَنْتِ طَالِقٌ ثَلاَثًا ، قَالَ : فَحَدَّثَنَا سَعِیدٌ ، عَنْ قَتَادَۃَ أَنَّہُ قَالَ : إِنْ کَانَتْ لَہُ بَیِّنَۃٌ وَإِلاَّ فَقَدْ بَانَتْ مِنْہُ۔
(١٩٥٤٠) حضرت عبد الاعلیٰ (رض) سے ایک آدمی کے بارے میں سوال کیا گیا کہ اس نے اپنی بیوی سے کہا کہ اگر میں تجھے اتنا مال نہ دوں تو تجھے تین طلاقیں، اس کا کیا حکم ہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ حضرت سعید (رض) ، حضرت قتادہ (رض) کا فرمان نقل کرتے ہیں کہ اگر آدمی کے پاس گواہی ہو تو ٹھیک ورنہ عورت بائنہ ہوجائے گی۔

19540

(۱۹۵۴۱) حَدَّثَنَا یَعْلَی بْنُ عُبَیْدٍ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ أَبِی سُلَیْمَانَ ، عَنْ عَطَائٍ ؛ فِی امْرَأَۃٍ قَالَ لَہَا زَوْجُہَا : إِنْ لَمْ أُنْفِقْ عَلَیْک عَشَرَۃَ دَرَاہِمَ کُلَّ شَہْرٍ فَأَنْتِ طَالِقٌ ثَلاَثًا ، فَقَالَتِ الْمَرْأَۃُ : قَدْ مَضَتْ ثَلاَثَۃُ أَشْہُرٍ لَمْ تُنْفِقْ عَلَیَّ شَیْئًا، قَالَ : الْقَوْلُ مَا قَالَ الرَّجُلُ إلاَّ أَنْ تُقِیمَ الْمَرْأَۃُ الْبَیِّنَۃَ أَنَّہُ لَمْ یُنْفِقْ عَلَیْہَا۔
(١٩٥٤١) حضرت عطائ (رض) فرماتے ہیں کہ اگر ایک آدمی نے اپنی بیوی سے کہا کہ اگر میں تجھ پر ہر مہینے دس درہم خرچ نہ کروں تو تجھے تین طلاق۔ عورت نے دعویٰ کیا کہ اس نے تین مہینے سے مجھ پر کچھ خرچ نہیں کیا۔ اس صورت میں آدمی کا قول معتبر ہوگا البتہ اگر عورت خرچ نہ کرنے پر گواہی قائم کردے تو اس کی بات مانی جائے گی۔

19541

(۱۹۵۴۲) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ الْکُوفِیِّ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ فِی رَجُلٍ قَالَ لِغَرِیمِہِ : إِنْ لَمْ أَقْضِکَ حَقَّک قَبْلَ غُرُوبِ الشَّمْسِ فَامْرَأَتُہُ طَالِقٌ ، قَالَ : فَلَقِیَہُ مِنَ الْغَدِ فَزَعَمَ أنَّہُ لَمْ یُعْطِہِ شَیْئًا قَالَ : فَقَالَتْ لَہُ امْرَأَتُہُ : قَدْ طَلَّقْتنِی قَالَ : فَخَاصَمْتہ إلَی الشَّعْبِیِّ فَقَالَ الشَّعْبِیُّ : أَمَّا امْرَأَتُک فَنُدِینُک فِیہَا ، وَأَمَّا الرَّجُلُ فَبَیِّنَتُک فیہا أَنَّک دَفَعْت إلَیْہِ مَالَہُ وَإِلاَّ فَأَعْطِہِ حَقَّہُ۔
(١٩٥٤٢) حضرت شعبی (رض) فرماتے ہیں کہ اگر ایک شخص نے اپنے قرض خواہ سے کہا کہ اگر میں نے غروب شمس سے پہلے تیرا حق ادا نہ کیا تو میری بیوی کو طلاق۔ پھر وہ اس سے اگلے دن ملا اور اس نے کہا کہ اس نے کوئی چیز ادا نہیں کی۔ اس کی عورت نے اس سے کہا کہ تو نے مجھے طلاق دے دی ہے۔ پھر وہ یہ مقدمہ لے کر حضرت شعبی (رض) کے پاس گئی۔ حضرت شعبی (رض) نے کہا کہ جہاں تک تمہاری بیوی کا سوال ہے تو وہ ہم تمہاری دین داری پرچھوڑتے ہیں اور جہاں تک آدمی کی بات ہے تو تم گواہی لاؤ کہ تم نے اس کا حق ادا کردیا ہے ورنہ اس کا حق ادا کرو۔

19542

(۱۹۵۴۳) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ أنہ قَالَ ؛ فِی الرَّجُلِ یَقُولُ لامْرَأَتِہِ : قدْ خَلَعْتُک ، وَلَمْ یَکُنْ خَلَعَہَا قَالَ : قَدْ خَلَعَہَا وَلاَ شَیْئَ عَلَیْہِ۔
(١٩٥٤٣) حضرت ابراہیم (رض) سے سوال کیا گیا کہ اگر ایک آدمی نے اپنی بیوی سے کہا کہ میں نے تجھ سے خلع کی، حالانکہ اس نے خلع نہ کی ہو تو کیا حکم ہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ اس نے خلع کرلی اور اس پر کچھ لازم نہ ہوگا۔

19543

(۱۹۵۴۴) حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ مُعَاذٍ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الْحَسَنِ أَنَّہُ قَالَ: لاَ تُجْبَرُ الحرۃ عَلَی الرَّضَاعِ وَتُجْبَرُ أُمُّ الْوَلَدِ۔
(١٩٥٤٤) حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ آزاد عورت کو بچے کو دودھ پلانے پر مجبور نہیں کیا جائے گا جبکہ ام ولد کو مجبور کیا جائے گا۔

19544

(۱۹۵۴۵) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ جُوَیْبِرٍ ، عَنِ الضَّحَّاکِ قَالَ : إذَا کَانَ لِلْمَرْأَۃِ صَبِیٌّ مُرْضَعٌ فَہِیَ أَحَقُّ بِہِ وَلَہَا أَجْرُ الرَّضَاعِ مِثْلُہَا إِنْ قَبِلَتْہُ ، وَإِنْ لَمْ تَقْبَلْہُ اسْتَرْضَعَ لَہُ مِنْ غَیْرِہَا إِنْ قَبِلَ الصَّبِیُّ مِنْ غَیْرِہَا فَذَلِکَ ، وَإِنْ لَمْ یَقْبَلْ جُبِرَتْ عَلَی رَضَاعِہِ وَأُعْطِیَتْ أَجْرَ مِثْلِہَا۔
(١٩٥٤٥) حضرت ضحاک (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کسی عورت کا دودھ پینے والا بچہ ہو تو وہ اس کو دودھ پلانے کی زیادہ حقدار ہے، اور اس اس جیسی عورتوں کے برابر بدلہ ملے گا اگر وہ دودھ پلانے کو قبول کرلے۔ اور اگر وہ قبول نہ کرے تو کسی اور سے دودھ پلوایا جائے گا۔ اگر بچہ کسی اور عورت کا دودھ پینے لگے تو ٹھیک ورنہ اس کی ماں کو دودھ پلانے پر مجبور کیا جائے گا اور اسے اس کی قیمت دی جائے گی۔

19545

(۱۹۵۴۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ شَرِیکٍ ، عَنْ عَطَائٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ : {وَإِنْ تَعَاسَرْتُمْ فَسَتُرْضِعُ لَہُ أُخْرَی} قَالَ : إذَا قَامَ الرَّضَاعُ عَلَی شَیْئٍ فَالأُمُّ أَحَقُّ بِہِ۔
(١٩٥٤٦) حضرت سعید بن جبیر (رض) قرآن مجید کی آیت { وَإِنْ تَعَاسَرْتُمْ فَسَتُرْضِعُ لَہُ أُخْرَی } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اگر رضاعت کسی چیز پر قائم ہو تو ماں اس کی زیادہ حقدار ہے۔

19546

(۱۹۵۴۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ : إذَا کَانَ الْوَلَدُ لاَ یَأْخُذُ مِنْ غَیْرِہَا وَخَشِیَ عَلَیْہِ جُبِرَتْ۔
(١٩٥٤٧) حضرت سفیان (رض) فرماتے ہیں کہ اگر بچہ کسی اور عورت کا دودھ نہ پئے اور اس کی جان کو خطرہ ہو تو ماں کو ہی دودھ پلانے پر مجبور کیا جائے گا۔

19547

(۱۹۵۴۸) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أبْرَاہِیمَ قَالَ : قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ : {إلاَّ أَنْ یَأْتِینَ بِفَاحِشَۃٍ مُبَیِّنَۃٍ} قَالَ : الْفَاحِشَۃُ أَنْ تَبْذُوَ عَلَی أَہْلِہَا ، فإذَا فَعَلَتْ ذَلِکَ حَلَّ لَہُمْ أَنْ یُخْرِجُوہَا۔
(١٩٥٤٨) حضرت ابن عباس (رض) قرآن مجید کی آیت {إلاَّ أَنْ یَأْتِینَ بِفَاحِشَۃٍ مُبَیِّنَۃٍ } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ فاحشہ یہ ہے کہ وہ اپنے خاوند کے گھروالوں سے بدزبانی کرے، جب وہ ایسا کرے تو وہ اسے اس کے گھر سے نکال سکتے ہیں۔

19548

(۱۹۵۴۹) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَۃَ ، عَنْ مُوسَی بْنِ عُقْبَۃَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ فِی قَوْلِ اللہِ تعالی : (إلاَّ أَنْ یَأْتِینَ بِفَاحِشَۃٍ مُبَیِّنَۃٍ) قَالَ : خُرُوجُہَا مِنْ بَیْتِہا فَاحِشَۃٌ۔
(١٩٥٤٩) حضرت ابن عمر (رض) قرآن مجید کی آیت {إلاَّ أَنْ یَأْتِینَ بِفَاحِشَۃٍ مُبَیِّنَۃٍ } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ عورت کا گھر سے نکلنا فاحشہ ہے۔

19549

(۱۹۵۵۰) حدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ أَبِی سِنَانٍ ، عَنْ حَمَّادِ {وَلاَ یَخْرُجْنَ إلاَّ أَنْ یَأْتِینَ بِفَاحِشَۃٍ مُبَیِّنَۃٍ} قَالَ : إلاَّ أَنْ تَخْرُجَ لِحَدٍّ۔
(١٩٥٥٠) حضرت حماد قرآن مجید کی آیت { وَلاَ یَخْرُجْنَ إلاَّ أَنْ یَأْتِینَ بِفَاحِشَۃٍ مُبَیِّنَۃٍ } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ وہ کسی حد کے لیے نکلے تو درست ہے۔

19550

(۱۹۵۵۱) حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِی غَنِیَّۃَ ، عَنْ جُوَیْبِرٍ ، عَنِ الضَّحَّاکِ فِی قَوْلِہِ تعالی : {إلاَّ أَنْ یَأْتِینَ بِفَاحِشَۃٍ مُبَیِّنَۃٍ} الْفَاحِشَۃُ الْمُبَیِّنَۃُ عِصیان الزَّوج۔
(١٩٥٥١) حضرت ضحاک (رض) قرآن مجید کی آیت {إلاَّ أَنْ یَأْتِینَ بِفَاحِشَۃٍ مُبَیِّنَۃٍ } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ فاحشہ مبینہ سے مراد خاوند کی نافرمانی ہے۔

19551

(۱۹۵۵۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ حَسَنِ بْنِ صَالِحٍ ، عَنْ رَجُلٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ : {إلاَّ أَنْ یَأْتِینَ بِفَاحِشَۃٍ مُبَیِّنَۃٍ} قَالَ : خُرُوجُہَا فَاحِشَۃٌ۔
(١٩٥٥٢) حضرت شعبی (رض) قرآن مجید کی آیت {إلاَّ أَنْ یَأْتِینَ بِفَاحِشَۃٍ مُبَیِّنَۃٍ } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اس کا گھر سے نکلنا فاحشہ ہے۔

19552

(۱۹۵۵۳) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَۃَ ، عَنْ عَطَائٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ فِی رَجُلٍ أَخَذَ لُقْمَۃً ، فَقَالَ رَجُلٌ : إِنْ لَمْ تَأْکُلْہَا فَامْرَأَتُہُ طَالِقٌ فَجَازَتْ سِنَّوْرٌ فَأَخَذَتِ اللُّقْمَۃَ فَقَالَ : طُلِّقَتِ امْرَأَتُہُ۔
(١٩٥٥٣) حضرت شعبی (رض) سے سوال کیا گیا کہ اگر ایک آدمی نے دوسرے آدمی سے کہا کہ اگر تو نے یہ لقمہ نہ کھایا تو میری بیوی کو طلاق اور اتنے میں ایک بلی آئی اور اس لقمہ کو کھا گئی تو کیا حکم ہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ اس کی بیوی کو طلاق ہوگئی۔

19553

(۱۹۵۵۴) حَدَّثَنَا عَبِیدَۃُ بْنُ حُمَیْدٍ ، عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ قَالَ : جَائَ إلَی الشَّعْبِیِّ رَجُلٌ فَقَالَ رَجُلٌ قَالَ لامْرَأَتِہِ : إِنْ لَمْ تَأْکُلِی ہَذَا الْعِرْقَ ، فَامْرَأَتُہُ طَالِقٌ ثَلاَثًا ، فَجَائَتِ السِّنَّوْرُ ، فَأَخَذَتِ الْعِرْقَ ، فَقَالَ الشَّعْبِیُّ : لَمْ یَجْعَلْ لَہَا مَخْرَجًا ، لاَ جَعَلَ اللَّہُ لَہُ مَخْرَجًا۔
(١٩٥٥٤) حضرت شعبی (رض) کے پاس ایک آدمی آیا اور اس نے کہا کہ ایک آدمی نے اپنی بیوی سے کہا کہ اگر تو نے یہ چیز نہ کھائی تو تجھے تین طلاقیں، اتنے میں ایک بلی آئی اور اس نے وہ چیز کھالی۔ اس کا کیا حکم ہے ؟ حضرت شعبی (رض) نے فرمایا کہ اس نے عورت کا راستہ بند کیا اللہ تعالیٰ نے اس کا راستہ بند کردیا۔

19554

(۱۹۵۵۵) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ حَجَّاجٍ قَالَ : أَخْبَرَنِی مَنْ سَمِعَ إبْرَاہِیمَ وَأَتَاہُ رَجُلٌ بِکِتَابٍ ، فَقَالَ : إنَّ رَجُلاً کَتَبَ إلَی امْرَأَتِہِ فَجَعَلَ أَمْرَہَا بِیَدِہَا فَقَرَأَتِ الْکِتَابَ ، ثُمَّ وَضَعَتْہُ تَحْتَ الْفِرَاشِ ، فَقَامَتْ وَلَمْ تَقُلْ شَیْئًا ، قَالَ : لاَ شَیْئَ لَہَا۔
(١٩٥٥٥) حضرت ابراہیم (رض) کے پاس ایک آدمی ایک خط لے کر آیا اور اس نے کہا کہ ایک آدمی نے اپنی بیوی کے نام ایک خط لکھا اور اس میں اسے طلاق کا اختیار دیا، عورت نے خط پڑھا اور اسے بستر کے نیچے رکھ دیا۔ پھر وہ اپنی جگہ سے کھڑی ہوگئی اور کوئی بات نہ کی تو کیا حکم ہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ عورت کا اختیار باقی نہیں رہا۔

19555

(۱۹۵۵۶) حَدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ عَامِرٍ قَالَ : إذَا طَلَّقَ الْعَبْدُ طَلاَقًا یَمْلِکُ الرَّجْعَۃَ فَعَلَیْہِ النَّفَقَۃُ۔
(١٩٥٥٦) حضرت عامر (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کوئی غلام طلاق رجعی دے تو اس پر نفقہ لازم ہوگا۔

19556

(۱۹۵۵۷) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالَ : إذَا ادَّعَی الرَّجْعَۃَ بَعد انْقِضَائِ الْعِدَّۃِ فَعَلَیْہِ الْبَیِّنَۃُ۔
(١٩٥٥٧) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص عدت گزر جانے کے بعد رجوع کرلینے کا دعویٰ کرے تو اس پر گواہی لازم ہے۔

19557

(۱۹۵۵۸) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ قَالَ : إذَا ادَّعَی الرَّجْعَۃَ بَعد انْقِضَائِ الْعِدَّۃِ لَمْ یُصَدَّقْ ، وَإِنْ جَائَ بِبَیِّنَۃٍ۔
(١٩٥٥٨) حضرت زہری (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص عدت گزر جانے کے بعد رجوع کرلینے کا دعویٰ کرے تو اس کی تصدیق نہیں کی جائے گی خواہ وہ گواہی قائم کرلے۔

19558

(۱۹۵۵۹) حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ ، عَنْ جُوَیْبِرٍ ، عَنِ الضَّحَّاکِ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ قَالَ : إِنْ قَالَ بَعْدَ انْقِضَائِ الْعِدَّۃِ : قَدْ رَاجَعْتُک لَمْ یُصَدَّقْ۔
(١٩٥٥٩) حضرت عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص عدت گزر جانے کے بعد رجوع کرلینے کا دعویٰ کرے تو اس کی تصدیق نہیں کی جائے گی۔

19559

(۱۹۵۶۰) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ یَزِیدَ بْنِ زَادِیٍّ مَوْلَی بُجَیْلَۃَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، أَنَّہُ سُئِلَ عَنْ رَجُلٍ شَہِدَ عَلَیْہِ رَجُلاَنِ بِطَلاَقِ امْرَأَتِہِ ، فَفَرَّقَ الْقَاضِی بَیْنَہُمَا فَرَجَعَ أَحَدُ الشَّاہِدَیْنِ وَتَزَوَّجَہَا الآخَرُ ، قَالَ : فَقَالَ الشَّعْبِیُّ : مَضَی الْقَضَائُ ، وَلاَ یَلْتَفِتُ إلَی رُجُوعِ الَّذِی رَجَعَ۔
(١٩٥٦٠) حضرت شعبی (رض) سے سوال کیا گیا کہ اگر کسی آدمی کے بارے میں دو شخص گواہی دیں کہ اس نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی ہے، پھر قاضی ان دونوں کے درمیان جدائی کرادے ، اس کے بعد دونوں گواہوں میں سے ایک اپنی گواہی سے رجوع کرلے اور دوسرا اس عورت سے شادی کرلے تو کیا حکم ہے ؟ حضرت شعبی (رض) نے فرمایا کہ قضاء نافذ ہوچکی اب رجوع کرنے والے کے قول کا اعتبار نہیں ہوگا۔

19560

(۱۹۵۶۱) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ قَالَ : حدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ بْنُ سُمَیْعٍ ، عَنْ أَبِی رَزِینٍ قَالَ : أَتَی النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَجُلٌ فَقَالَ : یَا رَسُولَ اللہِ ، أَرَأَیْت قَوْلَ اللہِ تَعَالَی : {الطَّلاَقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاکٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِیحٌ بِإِحْسَانٍ} فَأَیْنَ الثَّالِثَۃُ ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : {إمْسَاکٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِیحٌ بِإِحْسَانٍ} ہِیَ الثَّالِثَۃُ۔ (ابوداؤد ۲۲۰۔ بیہقی ۳۴۰)
(١٩٥٦١) حضرت ابو رزین (رض) کہتے ہیں کہ ایک صاحب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے اور انھوں نے کہا کہ قرآن مجید کی آیت { الطَّلاَقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاکٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِیحٌ بِإِحْسَانٍ } میں دو طلاقوں کا تذکرہ ہے، تیسری طلاق کہاں ہے ؟ آپ نے فرمایا مہربانی کے ساتھ روکنا یا احسان کے ساتھ رخصت کردینا ہی تیسری طلاق ہے۔

19561

(۱۹۵۶۲) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنْ أَبِیہِ قَالَ : قَالَ رَجُلٌ لامْرَأَتِہِ عَلَی عَہْدِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لاَ أَقْرَبُک وَلاَ تَحِلِّینَ مِنِّی قَالَتْ : فَکَیْفَ تَصْنَعُ ؟ قَالَ : أُطَلِّقُک حَتَّی إذَا دَنَا مُضِیُّ عِدَّتِکَ رَاجَعْتُک ، فجزعت فَأَتَتِ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَأَنْزَلَ اللَّہُ تَعَالَی : {إمْسَاکٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِیحٌ بِإِحْسَانٍ} قَالَ : فَاسْتَقْبَلَہُ النَّاسُ جَدِیدًا ، مَنْ کَانَ طَلَّقَ وَمَنْ لَمْ یَکُنْ طَلَّقَ۔ (ترمذی ۱۱۹۲۔ مالک ۸۰)
(١٩٥٦٢) حضرت عروہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عہد مبارک میں ایک آدمی نے اپنی بیوی سے کہا کہ میں نہ تو تیرے قریب آؤں گا اور نہ تو میرے نکاح سے نکل سکے گی۔ عورت نے کہا کہ تم ایسا کس طرح کرو گے ؟ اس آدمی نے کہا کہ میں تجھے طلاق دوں گا اور جب تیری عدت پوری ہونے کا وقت قریب آئے گا تو میں تجھ سے رجوع کرلوں گا۔ وہ عورت پریشان ہو کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئی تو اس موقع پر قرآن مجید کی آیت {إمْسَاکٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِیحٌ بِإِحْسَانٍ } نازل ہوئی۔ پھر لوگوں کی یہ کیفیت ہوتی تھی کہ طلاق دی ہوتی تھی یا نہ دی ہوتی تھی۔ (درمیانی صورت کوئی نہ تھی)

19562

(۱۹۵۶۳) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِ ، عَنْ سِمَاکٍ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ قَالَ : {الطَّلاَقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاکٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِیحٌ بِإِحْسَانٍ} قَالَ : إذَا أَرَادَ الرَّجُلُ أَنْ یُطَلِّقَ امْرَأَتَہُ فَیُطَلِّقُہَا تَطْلِیقَتَیْنِ ، فَإِنْ أَرَادَ أَنْ یُرَاجِعَہَا کَانَتْ لَہُ عَلَیْہَا رَجْعَۃٌ ، وَإِنْ شَائَ طَلَّقَہَا أُخْرَی فَلاَ تَحِلُّ لَہُ حَتَّی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَہُ۔
(١٩٥٦٣) حضرت عکرمہ (رض) قرآن مجید کی آیت { الطَّلاَقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاکٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِیحٌ بِإِحْسَانٍ } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ جب کوئی شخص اپنی بیوی کو طلاق دینا چاہے تو اسے دو طلاقیں دے دے، پھر جب وہ اس سے رجوع کرنا چاہے تو کرلے اور اگر ایک چاہے تو ایک طلاق دے دے، اس تیسری طلاق کے بعد وہ عورت اس خاوند کے لیے اس وقت تک حلال نہیں جب تک کسی اور مرد سے شادی نہ کرلے۔

19563

(۱۹۵۶۴) حَدَّثَنَا عُبَید اللہ قَال أَخْبَرَنَا حَسَنُ بْنُ صَالِحٍ ، عَنْ سِمَاکٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ عِکْرِمَۃَ یَقُولُ : {الطَّلاَقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاکٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِیحٌ بِإِحْسَانٍ} قَالَ : إذَا طَلَّقَ الرَّجُلُ امْرَأَتَہُ وَاحِدَۃً فَإِنْ شَائَ نَکَحَہَا ، وَإِذَا طَلَّقَہَا ثِنْتَیْنِ فَإِنْ شَائَ نَکَحَہَا ، فَإِذَا طَلَّقَہَا ثَلاَثًا ، فَلاَ تَحِلُّ لَہُ حَتَّی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَہُ۔
(١٩٥٦٤) حضرت عکرمہ (رض) قرآن مجید کی آیت { الطَّلاَقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاکٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِیحٌ بِإِحْسَانٍ } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ جب آدمی اپنی بیوی کو ایک طلاق دے دے تو چاہے تو اس سے نکاح بحال کرلے ۔ اور جب دو طلاقیں دے تو چاہے تو اس سے نکاح کرلے اور جب تیسری طلاق دے دے تو اب وہ عورت اس کے لیے حلال نہیں جب تک کسی اور آدمی سے شادی نہ کرلے۔

19564

(۱۹۵۶۵) حَدَّثَنَا شَبَابَۃُ ، عَنْ وَرْقَائَ ، عَنِ ابْنِ أَبِی نَجِیحٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ : {الطَّلاَقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاکٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِیحٌ بِإِحْسَانٍ} قَالَ : یُطَلِّقُ الرَّجُلُ امْرَأَتَہُ طَاہِرًا مِنْ غَیْرِ جِمَاعٍ ، فَإِذَا حَاضَتْ ، ثُمَّ طَہُرَتْ فَقَدْ تَمَّ الْقُرْئُ ، ثُمَّ طَلَّقَ الثَّانِیَۃَ کَمَا طَلَّقَ الأُولَی إِنْ أَحَبَّ أَنْ یَفْعَلَ ، فَإِذَا طَلَّقَ الثَّانِیَۃَ ، ثُمَّ حَاضَتِ الْحَیْضَۃَ الثَّانِیَۃَ ، فَہَاتَانِ تَطْلِیقَتَانِ وَقُرْئَانِ ، ثُمَّ قَالَ اللَّہُ تَعَالَی لِلثَّالِثَۃِ : {فَإِمْسَاکٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِیحٌ بِإِحْسَانٍ} فَیُطَلِّقُہَا فِی ذَلِکَ الْقُرْئِ کُلِّہِ إِنْ شَائَ حِینَ تَجْمَعُ عَلَیْہَا ثِیَابَہَا۔
(١٩٥٦٥) حضرت مجاہد (رض) قرآن مجید کی آیت { الطَّلاَقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاکٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِیحٌ بِإِحْسَانٍ } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ آدمی اپنی بیوی کو ایسے طہر میں طلاق دے جس میں اس سے جماع نہ کیا ہو، پھر جب اسے حیض آئے اور پھر طہر آئے تو ایک قرء مکمل ہوگیا۔ پھر اسے دوسری طلاق اسی طرح دے جس طرح پہلی طلاق دی تھی۔ اگر وہ ایسا کرنا چاہے تو کرلے۔ پھر جب وہ دوسری طلاق دے دے اور اسے دوسرا حیض آجائے تو یہ دو طلاقیں اور دو قرء ہوگئے۔ پھر اللہ تعالیٰ تیسری طلاق کے بارے میں فرماتا ہے کہ { فَإِمْسَاکٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِیحٌ بِإِحْسَانٍ } پھر وہ اس پورے قرء میں اگر چاہے تو اس کو طلاق دے دے یہاں تک کہ عورت اپنے کپڑوں کو سمیٹ لے۔

19565

(۱۹۵۶۶) حَدَّثَنَا سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنْ طَاوُوسٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ : إنَّمَا ہُوَ فُرْقَۃٌ وَفَسْخٌ ، لَیْسَ بِطَلاَقٍ ، ذَکَرَ اللَّہُ الطَّلاَقَ فِی أَوَّلِ الآیَۃِ وَفی آخرہا وَالْخُلْعَ بَیْنَ ذَلِکَ فَلَیْسَ بِطَلاَقٍ ، قَالَ اللَّہُ تَعَالَی : {الطَّلاَقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاکٌ بِمَعْرُوفٍ ، أَوْ تَسْرِیحٌ بِإِحْسَانٍ}۔
(١٩٥٦٦) حضرت ابن عباس (رض) قرآن مجید کی آیت { الطَّلاَقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاکٌ بِمَعْرُوفٍ ، أَوْ تَسْرِیحٌ بِإِحْسَانٍ } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ وہ فرقت اور فسخ ہے طلاق نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آیت کے شروع میں اور آخر میں طلاق کا ذکر کیا ہے اور ان دونوں کے درمیان خلع کا ذکر کیا ہے جو کہ طلاق نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں { الطَّلاَقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاکٌ بِمَعْرُوفٍ ، أَوْ تَسْرِیحٌ بِإِحْسَانٍ }

19566

(۱۹۵۶۷) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ، عَنْ أَیُّوبَ قَالَ: قَالَ عِکْرِمَۃُ: لَعَلَّ اللَّہَ یُحْدِثُ بَعْدَ ذَلِکَ أَمْرًا قَالَ: مَا یُحْدِثُ بَعْدَ الثَّلاَثِ۔
(١٩٥٦٧) حضرت عکرمہ (رض) قرآن مجید کی آیت { لَعَلَّ اللَّہَ یُحْدِثُ بَعْدَ ذَلِکَ أَمْرًا } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اس سے مراد وہ ہے جو تین کے بعد ہو۔

19567

(۱۹۵۶۸) حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِی غَنِیَّۃ ، عَنْ جُوَیْبِرٍ ، عَنِ الضَّحَّاکِ : {لَعَلَّ اللَّہَ یُحْدِثُ بَعْدَ ذَلِکَ أَمْرًا} قَالَ : لَعَلَّہُ أَنْ یُرَاجِعَہَا فِی الْعِدَّۃِ۔
(١٩٥٦٨) حضرت ضحاک (رض) قرآن مجید کی آیت { لَعَلَّ اللَّہَ یُحْدِثُ بَعْدَ ذَلِکَ أَمْرًا } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اس سے مرادیہ ہے کہ شاید کہ وہ عدت میں رجوع کرلے۔

19568

(۱۹۵۶۹) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ دَاوُدَ الأَوْدِیِّ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ قَالَ : {لاَ تَدْرِی لَعَلَّ اللَّہَ یُحْدِثُ بَعْدَ ذَلِکَ أَمْرًا} قَالَ : لاَ نَدْرِی لَعَلَّک تَنْدَمُ فَیَکُونُ لَکَ سَبِیلٌ إلَی الرَّجْعَۃِ۔
(١٩٥٦٩) حضرت شعبی (رض) قرآن مجید کی آیت { لاَ تَدْرِی لَعَلَّ اللَّہَ یُحْدِثُ بَعْدَ ذَلِکَ أَمْرًا } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اس سے مرادیہ ہے کہ آپ نہیں جانتے کہ شاید بعد میں آپ نادم ہوں اور آپ کے لیے رجوع کا راستہ بن جائے۔

19569

(۱۹۵۷۰) حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ ، عَنْ جُوَیْبِرٍ ، عَنِ الضَّحَّاکِ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ قَالَ : إذَا طَلَّقَ سِرًّا رَاجَعَ سِرًّا فتلک رَجْعَۃٌ ، فَإِنْ وَاقَعَ فَلاَ بَأْسَ ، وَإِنْ طَلَّقَ عَلانِیَۃً وَرَاجَعَ فَلْیُشْہِدْ عَلَی رَجْعَتِہِ۔
(١٩٥٧٠) حضرت عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ جب پوشیدگی سے طلاق دی تو رجوع بھی پوشیدگی سے کرلے، تو یہ رجوع ہے۔ اگر اس کے بعد اس نے جماع بھی کرلیا تو کوئی حرج نہیں۔ اگر طلاق علانیہ دی اور رجوع کرلیا تو اپنے رجوع پر گواہ بنالے۔

19570

(۱۹۵۷۱) حَدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالَ : إذَا طَلَّقَ سِرًّا رَاجَعَ سِرًّا۔
(١٩٥٧١) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ جب طلاق پوشیدہ طریقے پر دی ہے تو رجوع بھی پوشیدہ کرے۔

19571

(۱۹۵۷۲) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ حُصَیْنٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ قَالَ : آلَی رَجُلٌ مِنِ امْرَأَتِہِ ، ثُمَّ مَاتَ عَنْہَا فِی آخِرِ عِدَّتِہَا قَالَ : تَعْتَدُّ أَحَدَ عَشَرَ شَہْرًا۔
(١٩٥٧٢) حضرت شعبی (رض) فرماتے ہیں کہ اگر ایک آدمی نے اپنی بیوی سے ایلاء کیا پھر وہ اس کی عدت کے آخری دنوں میں مرگیا تو عورت گیارہ مہینے عدت گزارے گی۔

19572

(۱۹۵۷۳) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی، عَنْ یُونُسَ، عَنِ الْحَسَنِ قَالَ : الْخُلْعُ تَطْلِیقَۃٌ بَائِنٌ وَمَا اشْتَرَطَتْ عَلَیْہِ مِنَ الطَّلاَقِ فَہُوَ لَہَا۔
(١٩٥٧٣) حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ خلع طلاق بائنہ ہے۔ اگر خلع لینے والی عورت نے طلاق کی شرط لگائی تو یہ شرط معتبر ہوگی۔

19573

(۱۹۵۷۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، عَنْ سُفْیَانَ، عَنْ مُغِیرَۃَ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالَ: الْمُکَاتَبَۃُ طَلاَقُہَا طَلاَقُ الأَمَۃِ وَعِدَّتُہَا عِدَّۃُ الأَمَۃِ۔
(١٩٥٧٤) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ مکاتبہ باندی کی طلاق کا حکم باندی کی طلاق والا ہے اور اس کی عدت بھی باندی کی عدت کی طرح ہے۔

19574

(۱۹۵۷۵) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ حَمَّادٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالَ : النَّفَقَۃُ عَلَی مَنْ تَعْتَدُّ مِنْ مَائِہِ۔
(١٩٥٧٥) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ نفقہ اس پر ہوگا جس کے پانی پر وہ عدت گزار رہی ہے۔

19575

(۱۹۵۷۶) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ ہِشام ، عَنِ الْحَسَنِ قَالَ : أَیُّہُمَا رُجِمَ الزَّوْجُ ، أَوِ الْمَرْأَۃُ فَلِصَاحِبِہِ مِنْہُ الْمِیرَاثُ۔
(١٩٥٧٦) حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ میاں بیوی میں سے کسی ایک کو اگر سنگسار کیا گیا تو دوسرے کو میراث ملے گی۔

19576

(۱۹۵۷۷) حَدَّثَنَا ابْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَۃَ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ عَلِیٍّ قَالَ : إذَا رُجِمَ فَلَہَا الْمِیرَاثُ۔
(١٩٥٧٧) حضرت علی (رض) فرماتے ہیں کہ اگر خاوند کو سنگسار کیا گیا تو بیوی کو میراث ملے گی۔

19577

(۱۹۵۷۸) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالَ : إذَا تَزَوَّجَ الرَّجُلُ الْمَرْأَۃَ ، ثُمَّ فَجَرَتْ أُقِیمَ عَلَیْہَا الْحَدُّ ، وَإِنْ مَاتَتْ تَحْتَ السِّیَاطِ وَرِثَہَا۔
(١٩٥٧٨) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ اگر آدمی نے کسی عورت سے شادی کی پھر اس عورت نے بدکاری کا ارتکاب کیا اور اس پر حد جاری ہوئی اور وہ مرگئی تو مرد عورت کا وارث ہوگا۔

19578

(۱۹۵۷۹) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ آدَمَ ، عَنْ زُہَیْرٍ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ عَامِرٍ فِی رَجُلٍ أَقَامَ أَرْبَعَۃَ شُہَدَائَ عَلَی امْرَأَتِہِ أَنَّہَا زَنَتْ قَالَ : تُرْجَمُ وَیَرِثُہَا۔
(١٩٥٧٩) حضرت عامر (رض) فرماتے ہیں کہ اگر ایک آدمی نے اپنی بیوی کے زناکار ہونے پر چار گواہ قائم کردیئے تو عورت کو سنگسار کیا جائے گا اور مرد اس کا وارث ہوگا۔

19579

(۱۹۵۸۰) حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ مُعَاذٍ قَالَ : أَخْبَرَنَا أَشْعَثُ ، عَنِ الْحَسَنِ ؛ فِی رَجُلٍ قَذَفَ امْرَأَتَہُ وَہِیَ صَغِیرَۃٌ قَالَ : لَیْسَ عَلَیْہِ حَدٌّ وَلاَ لِعَانٌ۔
(١٩٥٨٠) حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کسی آدمی نے اپنی نابالغ بیوی پر تہمت لگائی تو اس پر حد اور لعان لازم نہیں ہوں گے۔

19580

(۱۹۵۸۱) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ یَمَانٍ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ عَبْدِ الْکَرِیمِ ، عَنِ الْحَکَمِ وَالزُّہْرِیِّ فِی رَجُلٍ تَزَوَّجَ امْرَأَۃً عَلَی أَنَّ أَمْرَہَا بِیَدِ رَجُلٍ، قَالَ الْحَکَمُ: لَیْسَ بِشَیْئٍ، وَقَالَ الزُّہْرِیُّ: بَلَی، وَقَالَ سُفْیَانُ: رَأْیِی رَأْیُ الزُّہْرِیِّ۔
(١٩٥٨١) حضرت حکم (رض) اور حضرت زہری (رض) سے سوال کیا گیا کہ اگر کسی آدمی نے عورت سے اس شرط پر شادی کی کہ عورت کا معاملہ آدمی کے ہاتھ میں ہوگا۔ حضرت حکم (رض) نے فرمایا کہ یہ کوئی شرط نہیں۔ حضرت زہری (رض) نے فرمایا کہ کہیں نہیں ایسا ہی ہوگا۔ حضرت سفیان (رض) نے فرمایا کہ میری رائے وہی ہے جو حضرت زہری (رض) کی ہے۔

19581

(۱۹۵۸۲) حَدَّثَنَا حَکَّامُ الرَّازِیّ ، عَنْ عَنبَسَۃَ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ عَامِرٍ ، عَنْ مَسْرُوقٍ قَالَ : إذَا قَالَ الرَّجُلُ لامْرَأَتِہِ : أَنْتِ طَالِقٌ إذَا شِئْت ، فَقَدْ خَیَّرَہَا۔
(١٩٥٨٢) حضرت مسروق (رض) فرماتے ہیں کہ اگر ایک آدمی نے اپنی بیوی سے کہا کہ اگر تو چاہے تو تجھے طلاق ہے ، اسے گویا آدمی نے اختیار دے دیا۔

19582

(۱۹۵۸۳) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ زَکَرِیَّا ، عَنِ الشَّعْبِیِّ فِی امْرَأَۃٍ تَزَوَّجَتْ رَجُلاً فَمَکَثَتْ عِنْدَہُ سِنِینَ ، ثُمَّ قَدِمَ زَوْجُہَا فَأَخَذَہَا فَطَلَّقَہَا الآخَرُ قَالَ : لاَ طَلاَقَ لَہُ۔
(١٩٥٨٣) حضرت شعبی (رض) فرماتے ہیں کہ اگر ایک عورت نے کسی آدمی سے شادی کی اور پھر دو سال اس کے پاس رہی۔ پھر اس کا شوہر آیا اور اس عورت کو لے گیا۔ پھر دوسرے آدمی نے اس کو طلاق دے دی تو اس کی طلاق کا اعتبار نہیں ہے۔

19583

(۱۹۵۸۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، عَنْ سُفْیَانَ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ، عَنْ عَطَائٍ قَالَ : کُلُّ نِکَاحٍ فَاسِدٍ لاَ یَثْبُتُ فَلَیْسَ طَلاَقُہُ فِیہِ طَلاَق۔
(١٩٥٨٤) حضرت عطائ (رض) فرماتے ہیں کہ ہر نکاح فاسد کا کوئی اعتبار نہیں اور اس کی طلاق کی کوئی حیثیت نہیں۔

19584

(۱۹۵۸۵) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ صَالِحِ بْنِ مُسْلِمٍ قَالَ : سَأَلْتُ الشَّعْبِیَّ قُلْتُ : رَجُلٌ وَامْرَأَتُہُ حَکَّمَا رَجُلَیْنِ ، ثُمَّ بَدَا لَہُمَا أَنْ یَرْجِعَا ، قَالَ : ذَلِکَ لَہُمَا مَا لَمْ یَتَکَلَّمَا فَإِذَا تَکَلَّمَا فَلَیْسَ لَہُمَا أَنْ یَرْجِعَا۔
(١٩٥٨٥) حضرت صالح بن مسلم (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت شعبی (رض) سے سوال کیا کہ اگر میاں بیوی کسی آدمی کو ثالث بنائیں اور پھر رجوع کرلیں تو کیا حکم ہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ یہ ان کے لیے اس وقت تک ہے جب تک وہ بات نہ کریں، جب وہ دونوں بات کرلیں تو وہ رجوع نہیں کرسکتے۔

19585

(۱۹۵۸۶) حَدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ أَیُّوبَ قَالَ : قُلْتُ لِسَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ : کَیْفَ اللِّعَانُ ؟ قَالَ : خُذْ مَا فِی الْقُرْآنِ : أَشْہَدُ بِاللَّہِ أَشْہَدُ بِاَللَّہِ۔
(١٩٥٨٦) حضرت ایوب (رض) کہتے ہیں کہ میں نے حضرت سعید بن جبیر (رض) سے پوچھا کہ لعان کا کیا طریقہ ہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ وہ قرآن مجید میں مذکور لعان کے الفاظ کو اللہ کی قسم کے ساتھ ادا کریں۔

19586

(۱۹۵۸۷) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ الْعَبْدِیُّ قَالَ : حدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ مَیْمُونٍ ، عَنْ أَبِیہِ قَالَ : کَانَتْ أُمُّ کُلْثُومٍ تَحْتَ الزُّبَیْرِ بْنِ الْعَوَّامِ ، وَکَانَ رَجُلاً شَدِیدًا عَلَی النِّسَائِ فکرہتہ فَسَأَلَتْہُ أَنْ یُطَلِّقَہَا وَہِیَ حَامِلٌ ، فَأَبَی ، فَلَمَّا ضَرَبَہَا الطَّلْقُ أَلَحَّتْ عَلَیْہِ فِی تَطْلِیقَۃٍ ، فَطَلَّقَہَا وَاحِدَۃً وَہُوَ یَتَوَضَّأُ ، ثُمَّ خَرَجَ فَأَدْرَکَہُ إنْسَانٌ فَأَخْبَرَہُ أَنَّ أُمَّ کُلْثُومٍ قَدْ وَضَعَتْ حَمْلَہَا ، قَالَ : خَدَعَتْنِی خَدَعَہَا اللَّہُ ، فَأَتَی النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَذَکَرَ ذَلِکَ لَہُ وَأَخْبَرَہُ بِالَّذِی صَنَعَتْ فَقَالَ : سَبَقَ کِتَابُ اللہِ فِیہَا ، اخْطُبْہَا فَقَالَ : إنہا لاَ تَرْجِعُ لِی أَبَدًا۔ (ابن ماجہ ۲۰۲۶۔ بیہقی ۴۲۱)
(١٩٥٨٧) حضرت عمرو بن میمون (رض) اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ ام کلثوم (رض) حضرت زبیر بن عوام (رض) کے نکاح میں تھیں۔ وہ عورتوں پر سختی کرنے والے آدمی تھی۔ جس کی وجہ سے وہ انھیں ناپسند کرتی تھیں۔ انھوں نے حالت حمل میں حضرت زبیر (رض) سے طلاق کا مطالبہ کیا لیکن انھوں نے انکار کردیا۔ جب انھیں درد زہ ہونے لگا تو انھوں نے ایک طلاق کا پرزور مطالبہ کیا۔ حضرت زبیر (رض) وضو کررہے تھے انھوں نے ایک طلاق دے دی۔ جب وہ باہر آئے تو انھیں کسی نے بتایا کہ حضرت ام کلثوم (رض) نے بچے کو جنم دے دیا ہے۔ حضرت زبیر (رض) نے کہا اللہ اس کا ناس کرے اس نے مجھے دھوکا دیا ! پھر وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس حاضر ہوئے اور ان سے قصہ عرض کیا تو آپ نے فرمایا کہ اللہ کی کتاب غالب آگئی، تم انھیں نکاح کا پیام بھیج سکتے ہو۔ حضرت زبیر (رض) نے فرمایا کہ اب وہ کبھی میرے نکاح میں واپس نہیں آئیں گی۔

19587

(۱۹۵۸۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَطَائٍ قَالَ : إذَا طَلَّقَ الْمَمْلُوکُ فَلَیْسَ عَلَیْہِ مُتْعَۃٌ۔
(١٩٥٨٨) حضرت عطائ (رض) فرماتے ہیں کہ غلام اگر طلاق دے تو اس پر متعہ لازم نہیں۔

19588

(۱۹۵۸۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ حَمَّادٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، وَعَنْ جَابِرٍ ، عَنْ عَامِرٍ قَالَ : إذَا طَلَّقَ ، أَوْ أَعْتَقَ فِی مَنَامِہِ فَلَیْسَ بِشَیْئٍ۔
(١٩٥٨٩) حضرت عامر (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص خواب میں طلاق دے یا آزاد کردے تو اس کی کوئی حیثیت نہیں۔

19589

(۱۹۵۹۰) حَدَّثَنَا أَبُو بَکْر بْنُ عَیَّاشٍ ، عَنْ أَبِی حَصِینٍ ، عَنْ أَبِی ظَبْیَانَ ، عَنْ عَلِیٍّ قَالَ : رُفِعَ الْقَلَمُ ، عَنِ النَّائِمِ حَتَّی یَسْتَیْقِظَ۔ (ابوداؤد ۴۴۰۱۔ نسائی ۷۳۴۵)
(١٩٥٩٠) حضرت علی (رض) فرماتے ہیں کہ سویا ہوا انسان جاگنے تک مرفوع القلم ہے۔

19590

(۱۹۵۹۱) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَنْ حَمَّادٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، عَنِ الأَسْوَدِ ، عَنْ عَائِشَۃَ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : رُفِعَ الْقَلَمُ ، عَنْ ثَلاَثَۃٍ ، عَنِ النَّائِمِ حَتَّی یَسْتَیْقِظَ۔ (ابن ماجہ ۲۰۴۱۔ احمد ۱۰۰)
(١٩٥٩١) حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ تین لوگوں سے قلم اٹھالیا گیا ہے ایک سویا ہوا جب تک وہ جاگ نہ جائے۔

19591

(۱۹۵۹۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إسْرَائِیلَ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ عَامِرٍ فِی رَجُلٍ کُنَّ لَہُ أَرْبَعُ نِسْوَۃٍ فَلَحِقَتْ إحْدَاہُنَّ بِدَارِ الْحَرْبِ ، قَالَ : یُتْبِعُہَا الطَّلاَقَ ، ثُمَّ یَتَزَوَّجُ۔
(١٩٥٩٢) حضرت عامر (رض) سے سوال کیا گیا کہ اگر کسی آدمی کی چار بیویاں ہوں اور ان میں سے ایک دار الحرب چلی جائے تو کیا حکم ہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ اس کو طلاق دے کر شادی کرے۔

19592

(۱۹۵۹۳) حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ الأَزْرَقُ ، عَنْ أَبِی الْعَلاَئِ ، عَنِ الْحَسَنِ فِی رَجُلٍ قَالَ لامْرَأَتِہِ : إِنْ دَخَلْت دَارَ فُلاَنٍ فَأَنْتِ طَالِقٌ فَہُدِمَتِ الدَّارُ قَالَ : إذَا ہُدِمَتِ الدَّارُ فَلَیْسَ بِطَلاَقٍ وَقَالَ ابْنُ ہَاشِمٍ : إذَا کَانَتِ الدَّارُ فِی مِلْکِ الرَّجُلِ فَہُدِمَتْ ، أَوْ کَانَتْ طَرِیقًا فَدَخَلَتْہُ فَقَدْ وَقَعَ عَلَیْہَا الطَّلاَقُ۔
(١٩٥٩٣) حضرت حسن (رض) سے سوال کیا گیا کہ اگر ایک آدمی نے اپنی بیوی سے کہا کہ اگر تو فلاں شخص کے گھر میں داخل ہوئی تو تجھے طلاق ہے اس کے بعدوہ گھرگر گیا تو کیا حکم ہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ اگر گھر گرادیا گیا تو طلاق نہیں ہوگی۔ حضرت ابو ہاشم (رض) فرماتے ہیں کہ اگر گھر اس آدمی کا تھا اور یا راستہ بن گیا اور وہ عورت وہاں سے گذری توا سے طلاق ہوجائے گی۔

19593

(۱۹۵۹۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ قَالَ : حدَّثَنَا إسْرَائِیلُ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ عَامِرٍ قَالَ : أَشْہَدُ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَدْ طَلَّقَ۔
(١٩٥٩٤) حضرت عامر (رض) نے گواہی دی کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے طلاق دی تھی۔

19594

(۱۹۵۹۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ قَالَ : حَدَّثَنَا إسْرَائِیلُ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ أَبِی جَعْفَرٍ قَالَ : طَلَّقَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ امْرَأَتَیْنِ إحْدَاہُمَا مِنْ بَنِی عَامِرٍ۔
(١٩٥٩٥) حضرت ابو جعفر (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دو عورتوں کو طلاق دی، جن میں سے ایک بنو عامر سے تھی۔

19595

(۱۹۵۹۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا إسْرَائِیلُ، عَنْ جَابِرٍ، عَنْ مُجَاہِدٍ قَالَ: لَمْ یَکُنِ النَّبِیُّ یُطَلِّقُ، إنَّمَا کَانَ یَعْتَزِلُ۔
(١٩٥٩٦) حضرت مجاہد (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے طلاق نہیں دی تھی۔ آپ نے محض عزلت اختیار فرمائی تھی۔

19596

(۱۹۵۹۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ قَالَ حَدَّثَنَا ہِشَامٌ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ عُمَرَ ، أَنَّہُ تَزَوَّجَ امْرَأَۃً مِنْ بَنِی مَخْزُومٍ عَاقِرًا فَطَلَّقَہَا ، ثُمَّ قَالَ : مَا آتِی النِّسَائَ عَلَی لَذَّۃٍ ، فَلَوْلاَ الْوَلَدُ مَا أَرَدْتہنَّ۔
(١٩٥٩٧) حضرت عروہ (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے بنو مخزوم کی ایک بانجھ عورت سے شادی کی پھر اسے طلاق دے دی۔ پھر آپ (رض) نے فرمایا کہ میں عورتوں سے لذت کے حصول کے لیے ہم بستری نہیں کرتا اگر اولاد نہ ہوتی تو میں عورتوں کے پاس نہ پھٹکتا۔

19597

(۱۹۵۹۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ قَالَ : حَدَّثَنَا أََبُو ہِلال ، عَنْ قَتَادَۃَ أَنَّ عُمَرَ تَزَوَّجَ امْرَأَۃً فَإِذَا ہِیَ شَمْطَائُ فَطَلَّقَہَا۔
(١٩٥٩٨) حضرت قتادہ (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے ایک عورت سے شادی کی، وہ بانجھ نکلی تو آپ نے اسے طلاق دے دی۔

19598

(۱۹۵۹۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ قَالَ : حدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ بْنُ أَبِی خَالِدٍ ، عَنْ قَیْسِ بْنِ أَبِی حَازِمٍ قَالَ : طَلَّقَ خَالِدُ بْنُ الْوَلِیدِ امْرَأَتَہُ فَقَالَ : أَمَا إنِّی لَمْ أُطَلِّقْہَا مِنْ أَمْرٍ سَائَنِی وَلَکِنْ لَمْ یُصِبْہَا عِنْدِی بَلاَئٌ۔
(١٩٥٩٩) حضرت قیس بن ابی حازم (رض) کہتے ہیں کہ حضرت خالد بن ولید (رض) نے اپنی بیوی کو طلاق دی، پھر فرمایا کہ میں نے اسے کسی برائی کی وجہ سے طلاق نہیں دے۔ بلکہ اسے میرے پاس کوئی آزمائش نہیں پہنچی۔

19599

(۱۹۶۰۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ قَالَ : حدَّثَنَا مُوسَی بْنُ عُبَیْدَۃَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ کَعْبٍ الْقُرَظِیِّ ، وَعَبْدِ اللہِ بْنِ عُبَیْدَۃَ وَعُمَرَ بْنِ الْحَکَمِ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ تَزَوَّجَ امْرَأَۃً مِنْ بَنِی الْجَوْنِ فَطَلَّقَہَا وَہِیَ الَّتِی اسْتَعَاذَتْ مِنْہُ۔ (بخاری ۵۲۵۴۔ ابن ماجہ ۲۰۳۷)
(١٩٦٠٠) حضرت محمد بن کعب، حضرت عبداللہ بن عبیدہ (رض) اور حضرت عمر بن حکم (رض) فرماتے ہیں کہ نبی پاک (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بنو جون کی ایک عورت سے شادی کی، پھر اسے طلاق دے دی۔ یہ وہی عورت تھی جس نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پناہ مانگی تھی۔

19600

(۱۹۶۰۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ قَالَ : حدَّثَنَا سَلاَّمُ بْنُ قَاسِمٍ الثَّقَفِیُّ ، عَنْ أُمِّہِ ، عَنْ أُمِّ سَعِیدٍ : سُرِّیَّۃٌ کَانَتْ لِعَلِیٍّ قَالَتْ : قَالَ عَلِیٌّ : یَا أُمَّ سَعِیدٍ ، قَدِ اشْتَقْت أَنْ أَکُونَ عَرُوسًا ، قَالَتْ : وَعِنْدَہُ یَوْمَئِذٍ أَرْبَعُ نِسْوَۃٍ فَقُلْت : طَلِّقْ إحْدَاہُنَّ وَاسْتَبْدِلْ ، فَقَالَ : الطَّلاَقُ قَبِیحٌ ، أَکْرَہُہُ۔
(١٩٦٠١) حضرت ام سعید (رض) جو کہ حضرت علی (رض) کی باندی تھیں فرماتی ہیں کہ ایک دن حضرت علی (رض) نے ان سے فرمایا کہ اے ام سعید (رض) ! میرا دل چاہتا ہے کہ میں دلہا بنوں۔ اس وقت ان کے نکاح میں چار عورتیں تھیں۔ میں نے ان سے کہا کہ ایک کو طلاق دے دیجئے اور شادی کر لیجیے۔ انھوں نے فرمایا کہ طلاق براکام ہے مجھے پسند نہیں۔

19601

(۱۹۶۰۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ قَالَ : حدَّثَنَا أَبُو الأَشْہَبِ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إنَّ الْمُخْتَلِعَاتِ الْمُنْتَزِعَاتِ ہُنَّ الْمُنَافِقَاتُ۔ (احمد ۲/۴۱۴۔ بیہقی ۳۱۶)
(١٩٦٠٢) حضرت حسن (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ خلع اور طلاق طلب کرنے والی عورتیں ہی دراصل منافق عورتیں ہیں۔

19602

(۱۹۶۰۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ خَالِدٍ وَأَیُّوبَ ، عَنْ أَبِی قِلاَبَۃَ قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : أَیُّمَا امْرَأَۃٍ سَأَلَتْ زَوْجَہَا الطَّلاَقَ مِنْ غَیْرِ مَا بَأْسٍ لَمْ تَرِحْ رَائِحَۃَ الْجَنَّۃِ۔
(١٩٦٠٣) حضرت ابو قلابہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ جو عورت بغیر کسی پریشانی کے اپنے خاوند سے طلاق طلب کرے وہ جنت کی خوشبو بھی نہیں سونگھے گی۔

19603

(۱۹۶۰۴) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ عن حَمَّادِ بْنُ سَلَمۃ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنْ أَبِی قِلاَبَۃَ ، عَنْ أَبِی أَسْمَائَ ، عَنْ ثَوْبَانَ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِنَحْوِہِ۔ (ابوداؤد ۲۲۲۱۔ احمد ۵/۲۸۳)
(١٩٦٠٤) حضرت ثوبان سے ایک اور سند سے یونہی منقول ہے۔

19604

(۱۹۶۰۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَیْدٍ ، عَنْ أَبِی عَبْدِ اللہِ الشَقَرِیِّ أَنَّ امْرَأَۃً اخْتَلَعَتْ مِنْ زَوْجِہَا فَقَالَ إبْرَاہِیمُ : أَمَا إنَّہَا مُخَاصِمَتُک عِنْدَ اللہِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ۔
(١٩٦٠٥) حضرت ابو عبداللہ ثقفی (رض) فرماتے ہیں کہ ایک عورت نے اپنے خاوند سے خلع طلب کی تو حضرت ابراہیم (رض) نے فرمایا کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے دربار میں تیری مجرم ہوگی۔

19605

(۱۹۶۰۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ قَالَ : حدَّثَنَا أَبُو ہِلاَلٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ بُرَیْدَۃَ قَالَ : قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ : إذَا أَرَادَ النِّسَائُ الْخُلْعَ فَلاَ تَکْفُرُوہُنَّ۔
(١٩٦٠٦) حضرت عمر بن خطاب (رض) فرماتے ہیں کہ جب عورتیں خلع طلب کریں تو انھیں خاوند کی ناشکری پر مت ڈالو۔

19606

(۱۹۶۰۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ قَالَ : حدَّثَنَا ہِشَامُ بْنُ عُرْوَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ قَالَ : قَالَ عُمَرُ : لاَ تُکْرِہُوا فَتَیَاتِکُمْ عَلَی الرَّجُلِ الدَّمِیمِ فَإِنَّہُنَّ یُحْبِبْنَ مِنْ ذَلِکَ مَا تُحِبُّونَ۔
(١٩٦٠٧) حضرت عمر (رض) فرماتے ہیں کہ لڑکیوں کو پست قد اور بدشکل مرد سے شادی کرنے پر مجبور نہ کرو، کیونکہ جو تم پسند کرتے ہو اسے وہ بھی پسند کرتی ہیں۔

19607

(۱۹۶۰۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ قَالَ : حدَّثَنَا بَشِیرُ بْنُ سَلْمَانَ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ ، عَنِ ابْنِ عبَّاسٍ قَالَ : إنِّی أُحِبُّ أَنْ أَتَزَیَّنَ لِلْمَرْأَۃِ ، کَمَا أُحِبُّ أَنْ تَتَزَیَّنَ لِی الْمَرْأَۃُ ، لأَنَّ اللَّہَ تَعَالَی یَقُولُ : (وَلَہُنَّ مِثْلُ الَّذِی عَلَیْہِنَّ بِالْمَعْرُوفِ) وَمَا أُحِبُّ أَنْ أَسْتَنْطِفَ حَقِّی عَلَیْہَا ، لأَنَّ اللَّہَ تَعَالَی یَقُولُ : {وَلِلرِّجَالِ عَلَیْہِنَّ دَرَجَۃٌ}۔
(١٩٦٠٨) حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ مجھے یہ بات پسند ہے کہ میں عورت کے لیے خوبصورت بنوں جس طرح مجھے یہ بات پسند ہے کہ وہ میرے لیے خوبصورتی اختیار کرے۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ان کے لیے بھی وہ حقوق ہیں جو ان پر ذمہ داریاں ہیں۔ اور میں یہ بھی نہیں چاہتا کہ میں اس سے اپنا حق پورا پورا لوں کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ مردوں کا عورتوں پر ایک درجہ ہے۔

19608

(۱۹۶۰۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ زَیْدِ بْنِ أَسْلَمَ : {وَلِلرِّجَالِ عَلَیْہِنَّ دَرَجَۃٌ} قَالَ : إِمَارَۃٌ۔
(١٩٦٠٩) حضرت زید بن اسلم (رض) قرآن مجید کی آیت { وَلِلرِّجَالِ عَلَیْہِنَّ دَرَجَۃٌ} کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اس سے مراد حکم چلانا ہے۔

19609

(۱۹۶۱۰) حَدَّثَنَا أَزْہَرُ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، عَنْ مُحَمَّدٍ : (وَلِلرِّجَالِ عَلَیْہِنَّ دَرَجَۃٌ) قَالَ : لاَ أَعْلَمُ إلاَّ أَنَّ : (وَلَہُنَّ مِثْلُ الَّذِی عَلَیْہِنَّ) إذَا عَرَفْنَ تِلْکَ الدَّرَجَۃَ۔
(١٩٦١٠) حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قرآن مجید کی آیت { للرجال علیھن درجۃ } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اس سے مرادسوائے اس کے میں کچھ نہیں جانتا کہ جو عورتوں کے فرائض ہیں وہی مردوں کے بھی فرائض ہیں۔ جب وہ اس درجہ کو پہچان لیں۔

19610

(۱۹۶۱۱) حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ ، عَنْ إسْرَائِیلَ ، عَنِ السُّدِّیِّ ، عَنْ أَبِی مَالِکٍ : (وَلِلرِّجَالِ عَلَیْہِنَّ دَرَجَۃٌ) قَالَ : یُطَلِّقُہَا وَلَیْسَ لَہَا مِنَ الأَمْرِ شَیْئٌ۔
(١٩٦١١) حضرت مالک (رض) قرآن مجید کی آیت { للرجال علیھن درجۃ } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اس سے مرادیہ ہے کہ وہ اس کو طلاق دے سکتا ہے لیکن عورت کے ہاتھ میں طلاق کا اختیار نہیں ہے۔

19611

(۱۹۶۱۲) حَدَّثَنَا شَبَابَۃُ ، عَنْ وَرْقَائَ ، عَنِ ابْنِ أَبِی نَجِیحٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ : (وَلِلرِّجَالِ عَلَیْہِنَّ دَرَجَۃٌ) قَالَ فَضْلُ اللہِ ، مَا فَضَّلَہُ اللَّہُ بِہِ عَلَیْہَا مِنَ الْجِہَادِ ، وَفَضَّلَ مِیرَاثَہُ عَلَی مِیرَاثِہَا ، وَکُلُّ مَا فُضِّلَ بِہِ عَلَیْہَا۔
(١٩٦١٢) حضرت مجاہد (رض) قرآن مجید کی آیت { للرجال علیھن درجۃ } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اس سے مراد اللہ کا فضل ہے جو اللہ تعالیٰ نے مرد کو جہاد، میراث اور دوسرے احکامات میں عطا کیا ہے۔

19612

(۱۹۶۱۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ قَالَ : حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ حَبِیبِ بْنِ أَبِی ثَابِتٍ قَالَ : سَأَلْتُ الْحَکَمَ وَمُجَاہِدًا عَنْ رَجُلٍ کَانَتْ عِنْدَہُ امْرَأَۃٌ قَدْ دَخَلَ بِہَا ، فَتَزَوَّجَ عَلَیْہَا امْرَأَۃً ، فَقَالَتِ امْرَأَتُہُ الأُولَی : أَجْعَلُ لَکَ جُعْلاً عَلَی أَنْ تُطَلِّقَنِی تَطْلِیقَۃً ، وَتُطَلِّقَ امْرَأَتَکَ ہَذِہِ تَطْلِیقَۃً ، فَفَعَلَ فَقَالَ الْحَکَمُ : بَانَتَا جَمِیعًا ، وقَالَ مُجَاہِدٌ : بَانَتِ الَّتِی لَمْ یَدْخُلْ بِہَا ، وَوَقَعَ عَلَی الأُخْرَی تَطْلِیقَۃٌ۔ وَقَالَ وَکِیعٌ : والناس عَلَی قَوْلِ الْحَکَمِ۔
(١٩٦١٣) حضرت عبداللہ بن حبیب فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت حکم (رض) اور حضرت مجاہد (رض) سے سوال کیا کہ اگر کسی آدمی کے نکاح میں کوئی ایسی عورت ہو جس سے اس نے دخول کیا ہو۔ پھر وہ ایک اور عورت سے شادی کرلے اور پہلی بیوی یہ کہے کہ میں تمہیں اس بات پر اتنا معاوضہ دیتی ہوں کہ تم مجھے بھی ایک طلاق دے دو اور اس عورت کو بھی ایک طلاق دے دو ، اس آدمی نے ایسا ہی کیا تو اس صورت میں کیا حکم ہے ؟ حضرت حکم (رض) فرماتے ہیں کہ دونوں بائنہ ہوجائیں گی۔ حضرت مجاہد (رض) فرماتے ہیں کہ جس سے دخول نہیں کیا وہ بائنہ ہوجائے گی اور دوسری پر ایک طلاق واقع ہوگی۔

19613

(۱۹۶۱۴) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ قَالَ : حدَّثَنَا مِسْعَرٌ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ ، عَنْ أَبِی الْبَخْتَرِیِّ قَالَ : اشْتَکَی إبْرَاہِیمُ إلَی رَبِّہِ دَرْئًا فِی خُلُقِ سَارَۃَ ، فَأَوْحَی اللَّہُ تَعَالَی إلَیْہِ إِنَّ الْمَرْأَۃَ کَالضِّلَعِ ، فَإِنْ قَوَّمْتہَا کَسَرْتہَا ، وَإِنْ تَرَکْتہَا اعْوَجَّتْ ، فَالْبَسْ عَلَی مَا کَانَ فِیہَا۔
(١٩٦١٤) حضرت ابو بختری (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ سے حضرت سارہ کے اخلاق کی شکایت کی ، اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف وحی فرمائی کہ عورت پسلی کی طرح ہے، اگر تم اسے سیدھا کرنا چاہو گے تو اسے توڑ دو گے اور اگر چھوڑ دو گے تو ٹیڑھا کردو گے۔ اس کی عادتوں کے باوجود اس کے ساتھ گزارا کرو ۔

19614

(۱۹۶۱۵) حَدَّثَنَا ہَوْذَۃُ بْنُ خَلِیفَۃَ قَالَ : حدَّثَنَا عَوْفٌ ، عَنْ رَجُلٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ سَمُرَۃَ بْنَ جُنْدُبٍ یَخْطُبُ عَلَی مِنْبَرِ الْبَصْرَۃِ یَقُولُ : سَمِعْت رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : إنَّ الْمَرْأَۃَ خُلِقَتْ مِن ضِلَعٍ ، وَإِنَّک إِنْ تُرِدْ إقَامَۃَ الضِّلْعِ تَکْسِرْہ ، فَدَارِہَا تَعِشْ بِہَا ، فَدَارِہَا تَعِشْ بِہَا۔ (ابن حبان ۴۱۷۸۔ حاکم ۱۷۴)
(١٩٦١٥) حضرت سمرہ بن جندب (رض) نے بصرہ کے منبر پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد نقل فرمایا کہ عورت کو پسلی سے پیدا کیا گیا ہے، اگر تم پسلی کو سیدھا کرنا چاہو گے تو توڑ دو گے۔ تم اس کے ساتھ ہمدردی کرتے ہوئے زندگی گزارو۔ تم اس کے ساتھ ہمدردی کرتے ہوئے زندگی گزارو۔

19615

(۱۹۶۱۶) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ، عَنْ أَبِی طَلْقٍ، عَنْ أَبِیہِ، عَنْ أَوْسِ بْنِ ثُرَیْبٍ قَالَ: أَکْرَیْتُ الْحُجَّاجَ، فَدَخَلْت الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ، فَإِذَا عُمَرُ وَجَرِیرٌ ، قَالَ : فَقَالَ عُمَرُ لِجَرِیرٍ : یَا أَبَا عمْرٍو کَیْفَ تَصْنَعُ مَعَ نِسَائِکَ؟ فَقَالَ: یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ ، إنِّی أَلْقَی مِنْہُنَّ شِدَّۃً ، مَا أَسْتَطِیعُ أَنْ أَدْخُلَ بَیْتَ إحْدَاہُنَّ فِی غَیْرِ یَوْمِہَا ، وَلاَ أُقَبِّلُ ابْنَ إحْدَاہُنَّ فِی غَیْرِ یَوْم أُمِّہِ إلاَّ غَضِبْنَ : قَالَ : فَقَالَ عُمَرُ : إنَّ کَثِیرًا مِنْہُنَّ لاَ یُؤْمِنَّ بِاللَّہِ وَلاَ یُؤْمِنَّ لِلْمُؤْمِنِینَ ، لَعَلَّکَ أَنْ تَکُونَ فِی حَاجَۃِ إحْدَاہُنَّ فَتَتَّہِمُک ، قَالَ : فَقَالَ عَبْدُ اللہِ بْنُ مَسْعُودٍ ، وَہُوَ فِی الْقَوْمِ : یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ ، أَمَا تَعْلَمُ أَنَّ إبْرَاہِیمَ شَکَا إلَی اللہ دَرْئًا فِی خُلُقِ سَارَۃَ قَالَ : فَقِیلَ لَہُ : إنَّ الْمَرْأَۃَ مِثْلُ الضِّلَعِ إِنْ أَقَمْتہَا کَسَرْتہَا ، وَإِنْ تَرَکْتہَا اعْوَجَّتْ ، فَالْبَسْ أَہْلَک عَلَی مَا فِیہِمْ ، قَالَ : فَقَالَ عُمَرُ لِعَبْدِ اللہِ : إنَّ فِی قَلْبِکَ مِنَ الْعِلْمِ غَیْرَ قَلِیلٍ ، قَالَہَا ثَلاَثَ مَرَّاتٍ ، زَادَ فِیہِ بَعْضُ أَصْحَابِہِ ، أَظُنُّہُ سُفْیَانَ : مَا لَمْ یَرَ عَلَیْہَا خَرَبۃ فِی دِینِہَا۔
(١٩٦١٦) حضرت اوس بن ثریب (رض) کہتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ حج کے ارادے سے مسجد حرام میں داخل ہوئے تو مسجد میں حضرت عمر (رض) اور حضرت جریر (رض) تھے۔ حضرت عمر (رض) نے حضرت جریر (رض) سے پوچھا کہ اے ابو عمرو (رض) ! آپ کا اپنی عورتوں کے ساتھ کیسا رویہ ہے ؟ انھوں نے عرض کیا کہ مجھے ان کی طرف سے بہت سختی کا سامنا ہے۔ میں ان میں سے کسی کے کمرے میں باری کے بغیر داخل نہیں ہوسکتا۔ اگر میں ان میں سے کسی کے بچے کو بھی اس کی ماں کی باری کے علاوہ کسی اور دن چوم لوں تو وہ غصے میں آجاتی ہیں۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا کہ ان میں بہت سی عورتیں ایسی ہوتی ہیں جو اللہ پر ایمان نہیں رکھتیں اور نہ مومنین کو مانتی ہیں۔ بلکہ اگر تمہیں ان میں سے کسی کی کبھی ضرورت ہو تو وہ تم پر ہی الزام دھریں گی۔ اس پر حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) نے کہا کہ اے امیر المومنین ! کیا آپ نے نہیں سنا کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ سے حضرت سارہ (علیہ السلام) کے اخلاق اور ان کی نافرمانی کی شکایت کی تھی تو ان سے کہا گیا تھا کہ عورت پسلی کی طرح ہے، اگر تم اسے سیدھا کرنا چاہو گے تو توڑ دو گے اور اگر اسے چھوڑ دو گے تو ٹیڑھا کردو گے۔ ان کی عادتوں کے باوجود ان کے ساتھ گزارہ کرو۔ یہ سن کر حضرت عمر (رض) نے تین مرتبہ حضرت عبداللہ (رض) سے فرمایا کہ تمہارے دل میں بہت زیادہ علم ہے۔

19616

(۱۹۶۱۷) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَنْ زَائِدَۃَ ، عَنْ مَیْسَرَۃَ ، عَنْ أَبِی حَازِمٍ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : اسْتَوْصُوا بِالنِّسَائِ ، فَإِنَّ الْمَرْأَۃَ خُلِقَتْ مِنْ ضِلَعٍ ، وَإِنَّ أَعْوَجَ شَیْئٍ فِی الضِّلَعِ أَعْلاَہُ ، إِنْ ذَہَبْت تُقِیمُہُ کَسَرْتہ ، وَإِنْ تَرَکْتہ لَمْ یَزَلْ أَعْوَجَ ، اسْتَوْصُوا بِالنِّسَائِ۔ (بخاری ۳۳۳۱۔ مسلم ۶۰)
(١٩٦١٧) حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ عورتوں کے ساتھ بھلائی کرو، عورت کو پسلی سے پیدا کیا گیا ہے، پسلی میں بھی سب سے ٹیڑھا حصہ اوپر والا ہے، اگر تم اسے سیدھا کرنا چاہو گے تو توڑ دو گے۔ اگر تم اسے چھوڑ دو گے تو وہ اور ٹیڑھی ہوتی جائے گی۔ عورتوں کے ساتھ بھلائی کرو۔

19617

(۱۹۶۱۸) حَدَّثَنَا عَبِیْدَۃُ بْنُ حُمَیْدٍ ، عَنْ رُکَیْنٍ ، عَنْ نُعَیْمِ بْنِ حَنْظَلَۃَ قَالَ : قدِمَ جَرِیرُ بْنُ عَبْدِ اللہِ عَلَی عُمَرَ فَشَکَا إلَیْہِ مَا یَلْقَی مِنَ النِّسَائِ مِنْ سُوئِ أَخْلاَقِہِنَّ ، قَالَ : فَقَالَ عُمَرُ : إنِّی أَلْقَی مِثْلَ مَا تَلْقَی مِنْہُنَّ ، إنِّی لأَتِی قَالَ : السُّوقَ أَوِ النَّاسَ ، أَشْتَرِی مِنْہُمَ الدَّابَّۃَ ، أَوِ الثَّوْبَ فَتَقُولُ الْمَرْأْۃُ : إنَّمَا انْطَلَقَ یَنْظُرُ إلَی فَتَاتِہِمْ ، أَوْ یَخْطُبُ إلَیْہِمْ ، قَالَ : فَقَالَ عَبْدُ اللہِ بْنُ مَسْعُودٍ : أَوَمَا تَعْلَمُ ما شَکَا إبْرَاہِیمُ مِنْ دَرْئٍ فِی خُلُقِ سَارَۃَ ، فَأَوْحَی اللَّہُ إلَیْہِ : إنَّمَا ہِیَ مِن ضِلَعٍ فَخُذِ الضِّلْعَ فَأَقِمْہُ ، فَإِنِ اسْتَقَامَ وَإِلاَّ فَالْبَسْہَا عَلَی مَا فِیہَا۔
(١٩٦١٨) حضرت نعیم بن حنظلہ (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت جریر بن عبداللہ (رض) ایک مرتبہ حضرت عمر (رض) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنی بیویوں کی بداخلاقی کی شکایت کی۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا کہ جس پریشانی کا سامنا تمہیں ہے مجھے بھی ہے۔ میں جب کبھی بازار جاؤں یا لوگوں سے ملوں ، کوئی جانور یا کپڑا خریدوں تو کہنے لگتی ہیں کہ یہ بازار لڑکیوں کو دیکھنے جاتا ہے اور انھیں نکاح کا پیام دیتا ہے ! یہ سن کر حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) نے فرمایا کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ سے حضرت سارہ (علیہ السلام) کے اخلاق اور ان کی نافرمانی کی شکایت کی تھی تو ان سے کہا گیا تھا کہ عورت پسلی کی طرح ہے، اگر تم اسے سیدھا کرنا چاہو گے تو توڑ دو گے اور اگر اسے چھوڑ دو گے تو ٹیڑھا کردو گے۔ ان کی عادتوں کے باوجود ان کے ساتھ گزارہ کرو۔

19618

(۱۹۶۱۹) حَدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ مُغِیرَۃَ قَالَ : سَأَلْتُ إبْرَاہِیمَ عَنِ السِّقْطِ فَقَالَ : تَنْقَضِی بِہِ الْعِدَّۃُ۔
(١٩٦١٩) حضرت مغیرہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابراہیم (رض) سے سوال کیا کہ اگر نامکمل بچہ پیدا ہوجائے تو کیا عدت مکمل ہوجائے گی ؟ انھوں نے فرمایا کہ ہاں عدت مکمل ہوجائے گی۔

19619

(۱۹۶۲۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ قَالَ : حدَّثَنَا حَسَنٌ ، عَنْ مُطَرِّفٍ ، عَنْ عَامِرٍ قَالَ : السِّقْطُ بِمَنْزِلَۃِ الْوَلَدِ التَّامِّ۔
(١٩٦٢٠) حضرت عامر (رض) فرماتے ہیں کہ نامکمل بچہ پورے بچے کے حکم میں ہے۔

19620

(۱۹۶۲۱) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ الْحَسَنِ وَمُحَمَّدٍ قَالاَ : إِنْ أَسْقَطَتِ الْحُرَّۃُ ، فَقَدِ انْقَضَتْ عِدَّتُہَا۔
(١٩٦٢١) حضرت حسن (رض) اور حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں کہ جب عورت نے نامکمل بچے کو جنم دیا تو اس کی عدت مکمل ہوگئی۔

19621

(۱۹۶۲۲) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ شَقِیقٍ قَالَ : أَخْبَرَنَا حُسَیْنُ بْنُ وَاقِدٍ قَالَ : حدَّثَنَا أَبُو مُنَازِل ، قَالَ : سَمِعْتُ شُرَیْحًا یَقُولُ : إذَا أَسْقَطَتِ الْمَرْأَۃُ سِقْطًا تَمَّ عِدَّۃُ الْحُرَّۃِ ، وَأُعْتِقَتِ السُّرِّیۃُ۔
(١٩٦٢٢) حضرت شریح (رض) فرماتے ہیں کہ جب عورت نے نامکمل بچے کو جنم دیا تو آزاد عورت کی عدت مکمل ہوگئی اور باندی آزاد ہوگئی۔

19622

(۱۹۶۲۳) حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ الأَزْرَقُ، عَنْ أَبِی الْعَلاَئِ، عَنْ حَجَّاجٍ، عَنِ الْحَارِثِ أَنَّہُ قَالَ فِی الْمُطَلَّقَۃِ وَالْمُتَوَفَّی عَنْہَا إذَا رَمَتْ بِوَلَدِہَا قَبْلَ أَنْ یَتِمَّ خَلْقُہُ قَالَ : إذَا اسْتَبَانَ مِنْہُ شَیْئٌ حَلَّتْ لِلزَّوْجِ ، قَالَ وَقَالَ ابْنُ شُبْرُمَۃَ : حَتَّی یَسْتَبِینَ وَیَعْرِفَ إِنَّہُ وَلَدُہُ۔
(١٩٦٢٣) حضرت حارث (رض) فرماتے ہیں کہ عدت گزارنے والی عورت اگر ناتمام بچے جو جنم دے تو وہ خاوند کے لیے حلال ہوگئی اور ابن شبرمہ (رض) فرماتے ہیں کہ اگر بچہ اتناہو کہ اس کا انسان ہونا معلوم ہوسکے تو عدت مکمل ہوگئی۔

19623

(۱۹۶۲۴) حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِی عَدِیٍّ ، عَنْ أَشْعَثَ قَالَ : کَانَ الْحَسَنُ یَقُولُ : إذَا أَلْقَتْہُ عَلَقَۃً ، أَوْ مُضْغَۃً بَعْدَ أَنْ یُعْلَمَ أَنَّہُ حَمْلٌ فَفِیہِ الْغُرَّۃُ وَتَنْقَضِی بِہِ الْعِدَّۃُ ، وَإِنْ کَانَتْ أُمَّ وَلَدٍ أُعْتِقَتْ۔
(١٩٦٢٤) حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ جب عورت نے بچے کو جما ہوا خون یالوتھڑا ہونے کی حالت میں جنم دیا بعد اس کے کہ حمل ہونا معلوم ہوچکا تھا تو اس میں غرہ ہے۔ اور اس سے عدت پوری ہوجائے گی اور اگر ام ولد ہو تو آزاد ہوجائے گی۔

19624

(۱۹۶۲۵) حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا خَالِدُ بْنُ وَرْدَانَ قَالَ : سَأَلْتُ عَطَائً ، عَنْ رَجُلَیْنِ حَلَفَ کُلُّ وَاحِدٍ مِنْہُمَا : إنَّ مَا قُلْتُ کَذَلِکَ ، وَتَحْتَ أَحَدِہِمَا خَالَتِی قَالَ : یُدَیَّنَان۔
(١٩٦٢٥) حضرت خالد بن وردان (رض) کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عطائ (رض) سے سوال کیا کہ اگر دو آدمیوں کا کسی معاملے میں اختلاف ہوجائے اور ہر ایک اپنی بات کو حق کہے تو کیا حکم ہے ؟ جبکہ ان میں سے ایک کے نکاح میں میری خالہ ہے۔ انھوں نے فرمایا کہ ان کی دینداری کا اعتبار ہوگا۔

19625

(۱۹۶۲۶) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَوَاء ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ زَیْدٍ فِی رَجُلٍ قَالَ لامْرَأَتِہِ : إِنْ قَرُبْتُک سَنَۃً فَأَنْتِ طَالِقٌ ، قَالَ : إِنْ قَرَبَہَا قَبْلَ أَنْ تَمْضِیَ الأَرْبَعَۃُ أَشْہُرٍ فَہِیَ طَالِقٌ ثَلاَثًا ، وَإِنْ تَرَکَہَا حَتَّی تَمْضِیَ الأَرْبَعَۃُ أَشْہُرٍ ، فَقَدْ بَانَتْ مِنْہُ بِوَاحِدَۃٍ ، وَیَتَزَوَّجُہَا إِنْ شَائَ ، وَلاَ یَقْرَبُہَا حَتَّی تَمْضِیَ السَّنَۃُ۔
(١٩٦٢٦) حضرت جابر بن زید (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کسی آدمی نے اپنی بیوی سے کہا کہ اگر میں ایک سال تک تیرے قریب آیا تو تجھے طلاق ہے۔ پھر اگر چار مہینے پورے ہونے سے پہلے وہ اس کے قریب آیا تو اسے تین طلاقیں ہوجائیں گی۔ اور اگر اسے چھوڑے رکھایہاں تک کہ چار مہینے گزر گئے تو عورت ایک طلاق کے ساتھ بائنہ ہوجائے گی اور آدمی اگر چاہے تو اس سے نکاح کرلے لیکن سال پورا ہونے سے پہلے اس کے قریب نہ جائے۔

19626

(۱۹۶۲۷) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَوَاء ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنِ الْحَسَنِ قَالَ : إِنْ قَرَبَہَا قَبْلَ أَنْ تَمْضِیَ أَرْبَعَۃُ أَشْہُرٍ ، فَہِیَ طَالِقٌ ثَلاَثًا ، فَإِنْ تَرَکَہَا حَتَّی تَمْضِیَ أَرْبَعَۃُ أَشْہُرٍ ، فَقَدْ بَانَتْ مِنْہُ بِوَاحِدَۃٍ ، وَیَتَزَوَّجُہَا إِنْ شَائَ ، وَیَدْخُلُ بِہَا قَبْلَ أَنْ تَمْضِیَ السَّنَۃُ۔
(١٩٦٢٧) حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ اگر وہ چار مہینے پورے ہونے سے پہلے اس کے پاس آیا تو اسے تین طلاقیں ہوجائیں گی اور اگر اسے چھوڑ دیا یہاں تک کہ چار مہینے گزر گئے تو وہ ایک طلاق کے ساتھ بائنہ ہوجائے گی۔ اور اگر چاہے تو اس سے شادی کرلے اور سال پورا ہونے سے پہلے اس سے جماع کرسکتا ہے۔

19627

(۱۹۶۲۸) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَوَاء ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ حَمَّادٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالَ : إِنْ قَرُبَہَا قَبْلَ أَنْ تَمْضِیَ الأَرْبَعَۃُ أَشْہُرٍ فَہِیَ طَالِقٌ ثَلاَثًا ، وَإِنْ تَرَکَہَا حَتَّی تَمْضِیَ الأَرْبَعَۃُ أَشْہُرٍ ، فَقَدْ بَانَتْ مِنْہُ بِوَاحِدَۃٍ ، وَلاَ یَتَزَوَّجُہَا حَتَّی یَمْضِیَ مِنَ السَّنَۃِ أَقَلُّ مِمَّا یَدْخُلُ عَلَیْہِ الإِیلاَئُ ، شَہْرَانِ ، أَوْ ثَلاَثَۃٌ ، وَیَتَزَوَّجُہَا وَلاَ یَقْرَبُہَا حَتَّی تَمْضِیَ السَّنَۃُ وَذَلِکَ رَأْیُ سَعِیدٍ۔
(١٩٦٢٨) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ اگر وہ چار مہینے پورے ہونے سے پہلے اس کے قریب آیا تو اسے تین طلاقیں ہوجائیں گی۔ اور اگر چار مہینے تک اسے چھوڑے رکھا تو وہ ایک طلاق کے ساتھ بائنہ ہوجائے گی، اور وہ اس سے اس وقت تک شادی نہیں کرسکتا جب تک ایلاء سے کم دن یعنی دو یاتین مہینے نہ گزر جائیں۔ پھر وہ اس سے شادی کرلے لیکن ایک سال تک اس کے قریب نہ جائے۔ حضرت سعید (رض) کی بھی یہی رائے تھی۔

19628

(۱۹۶۲۹) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ عُرْوَۃَ ، عَنْ عَائِشَۃَ تُبَلِّغُ بِہِ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : لاَ یَحِلُّ لاِمْرَأَۃٍ تُحِدُّ عَلَی مَیِّتٍ فَوْقَ ثَلاَثٍ إلاَّ عَلَی زَوْجٍ۔ (مسلم ۶۵۔ احمد ۶/۳۷)
(١٩٦٢٩) حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ عورت اپنے خاوند کے علاوہ کسی کے لیے تین دن سے زیادہ سوگ نہیں مناسکتی۔

19629

(۱۹۶۳۰) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ، عَنْ حُمَیْدِ بْنِ نَافِعٍ أَنَّہُ سَمِعَ زَیْنَبَ بِنْتَ أُمِّ سَلَمَۃَ تُحَدِّثُ أَنَّہَا سَمِعَتْ أُمَّ سَلَمَۃَ وَأَمَّ حَبِیبَۃَ تَذْکُرَانِ أَنَّ امْرَأَۃً أَتَتِ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَذَکَرَتْ أَنَّ ابْنَۃً لَہَا تُوُفِّیَ عَنْہَا زَوْجُہَا فَاشْتَکَتْ عَیْنُہَا فَہِیَ تُرِیدُ أَنْ تَکْحُلہَا ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : قدْ کَانَتْ إحْدَاکُنَّ تَرْمِی بِالْبَعْرَۃِ عِنْدَ رَأْسِ الْحَوْلِ ، وَإِنَّمَا ہِیَ أَرْبَعَۃُ أَشْہُرٍ وَعَشْرًا ، قَالَ حُمَیْدٌ : فَسَأَلْت زَیْنَبَ : مَا رَمْیُہَا بِالْبَعْرَۃِ ؟ فَقَالَتْ : کَانَتِ امْرَأَۃٌ فِی الْجَاہِلِیَّۃِ عَمَدَتْ إلَی شَرِّ بَیْتٍ لَہَا ، فَجَلَسَتْ فِیہِ سَنَۃً ، فَإِذَا مَرَّتِ السَّنَۃُ خَرَجَتْ ، وَرَمَتْ بِبَعْرَۃٍ مِنْ وَرَائَہَا۔ (مسلم ۶۱۔ ترمذی ۱۱۹۷)
(١٩٦٣٠) حضرت ام سلمہ اور حضرت ام حبیبہ (رض) روایت کرتی ہیں کہ ایک مرتبہ ایک خاتون حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا کہ ان کی ایک بیٹی کا خاوند انتقال کرگیا ہے۔ اس کی آنکھ میں تکلیف ہے اور وہ سرمہ لگانا چاہتی ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ تم میں سے ایک سال پورے ہونے پر اونٹ کی مینگنی پھینکتی تھی، اب تو عدت چار مہینے دس دن ہے۔ حضرت حمید (رض) راوی کہتے ہیں کہ میں نے حضرت زینب بنت ام سلمہ (رض) سے سوال کیا کہ اونٹ کی مینگنی پھینکنے کا کیا مطلب ہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ زمانہ جاہلیت میں عورت خاوند کے انتقال کے بعد ایک بدترین کمرے میں جابیٹھتی تھی، ایک سال تک وہیں رہتی جب سال پورا ہوجاتا تو باہر نکلتی اور اپنے پیچھے اونٹ کی مینگنی پھینکتی تھی۔

19630

(۱۹۶۳۱) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ وَیَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ صَفِیَّۃَ بِنْتِ أَبِی عُبَیْدٍ أَنَّہَا سَمِعَتْ حَفْصَۃَ زَوْجَ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ تُحَدِّثُ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : لاَ یَحِلُّ لاِمْرَأَۃٍ تُؤْمِنُ بِاللَّہِ وَالْیَوْمِ الآخِرِ أَنْ تَحِدَّ عَلَی مَیِّتٍ فَوْقَ ثَلاَثٍ إلاَّ عَلَی زَوْجٍ۔ (احمد ۶/۲۸۶۔ طبرانی ۳۶۱)
(١٩٦٣١) حضرت حفصہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ جو عورت اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتی ہو اس کے لیے اپنے خاوند کے علاوہ کسی کے لیے تین دن سے زیادہ سوگ منانا درست نہیں۔

19631

(۱۹۶۳۲) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنْ حَفْصَۃَ ، عَنْ أُمِّ عَطِیَّۃَ قَالَتْ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لاَ یُحَدُّ عَلَی مَیِّتٍ فَوْقَ ثَلاَثٍ إلاَّ الْمَرْأَۃُ تَحِدُّ عَلَی زَوْجِہَا أَرْبَعَۃَ أَشْہُرٍ وَعَشْرًا وَلاَ تَلْبَسُ ثَوْبًا مَصْبُوغًا إلاَّ ثَوْبَ عَصْبٍ وَلاَ تَکْتَحِلُ وَلاَ تَطَیَّبُ إلاَّ عِنْدَ أَدْنَی طُہْرِہَا بِنُبْذَۃٍ مِنْ قُسْطٍ ، أَوْ أَظْفَارٍ۔ (بخاری ۵۳۴۲۔ مسلم ۱۱۲۸)
(١٩٦٣٢) حضرت ام عطیہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ کسی میت پر تین دن سے زیادہ سوگ منانا درست نہیں۔ البتہ عورت اپنے خاوند کا سوگ چار مہینے دس دن تک منائے گی۔ وہ رنگا ہوا کپڑا نہیں پہنے گی، صرف عصب شدہ کپڑا پہن سکتی ہے۔ سرمہ انھیں لگائے گی اور خوشبو بھی نہیں لگائے گی، البتہ اپنے طہر کے قریب ہونے پر قسط اور اظفار خوشبو تھوڑی سی لگا سکتی ہے۔

19632

(۱۹۶۳۳) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ، عَنِ التَّیْمِیِّ، عَنْ أَبِی مجلز قَالَ: قَالَ ابْنُ عُمَرَ: الْمُتَوَفَّی عَنْہَا زَوْجُہَا تَعْتَدُّ أَرْبَعَۃَ أَشْہُرٍ وَعَشْرًا ، فَقَالَ رَجُلٌ : إنَّ ہَذَا لَکَثِیرٌ فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ : قَدْ کُنَّ فِی الْجَاہِلِیَّۃِ یُحْدِدْنَ أَکْثَرَ مِنْ ہَذَا۔
(١٩٦٣٣) حضرت ابن عمر (رض) نے فرمایا کہ جس عورت کا خاوند انتقال کرجائے وہ چار مہینے دس دن عدت گزارے گی۔ ایک آدمی نے کہا کہ یہ بہت زیادہ ہے۔ حضرت ابن عمر (رض) نے فرمایا کہ جاہلیت میں عورتیں اس سے بھی زیادہ سوگ منایا کرتی تھیں۔

19633

(۱۹۶۳۴) حَدَّثَنَا عَبِیْدَۃُ ، عَنِ ابْنِ أَبِی لَیْلَی ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ صَفِیَّۃَ بِنْتِ أَبِی عُبَیْدٍ أَنَّہَا أَخْبَرَتْہُ أَنَّہَا سَمِعَتْ أُمَّ سَلَمَۃَ وَعَائِشَۃَ وَحَفْصَۃَ یَقُلْنَ قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لاَ یَحِلُّ لامْرَأَۃٍ تُؤْمِنُ بِاللَّہِ وَالْیَوْمِ الآخِرِ تَحُدُّ عَلَی مَیِّتٍ فَوْقَ ثَلاَثَۃِ أَیَّامٍ إلاَّ عَلَی بَعْلِہَا فَإِنَّہَا تَحِدُّ عَلَیْہِ أَرْبَعَۃَ أَشْہُرٍ وَعَشْرًا۔ (مسلم ۱۱۲۸)
(١٩٦٣٤) حضرت ام سلمہ (رض) ، حضرت عائشہ (رض) اور حضرت حفصہ (رض) فرماتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ جو عورت اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتی ہو وہ کسی میت پر تین دن سے زیادہ سوگ نہیں مناسکتی، سوائے اپنے خاوند کے، اس پر چار مہینے دس دن تک سوگ منائے گی

19634

(۱۹۶۳۵) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ أَنَّہُ کَانَ لاَ یَرَی الإِحْدَادَ شَیْئًا۔
(١٩٦٣٥) حضرت حسن (رض) سوگ کے قائل نہ تھے۔

19635

(۱۹۶۳۶) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ ، وَعَلِیُّ بْنُ ہِشَامٍ ، عَنِ الأَعْمَشِِ ، عَنْ أَبِی الضُّحَی ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، عَنْ أُبَیٍّ قَالَ : إنَّ مِنَ الأَمَانَۃِ أَنَّ الْمَرْأَۃَ اؤْتُمِنَتْ عَلَی فَرْجِہَا۔
(١٩٦٣٦) حضرت ابی الضحی (رض) فرماتے ہیں کہ عورت کے پاس اس کی شرمگاہ امانت کے طور پر رکھوائی گئی ہے۔

19636

(۱۹۶۳۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنِ الأَعْمَشِِ ، عَنْ أَبِی الضُّحَی ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، عَنْ أُبَیٍّ قَالَ : إنَّ مِنَ الأَمَانَۃِ أَنَّ الْمَرْأَۃَ اؤْتُمِنَتْ عَلَی فَرْجِہَا۔
(١٩٦٣٧) حضرت ابی الضحی (رض) فرماتے ہیں کہ امانت داری کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ عورت اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرے۔

19637

(۱۹۶۳۸) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ ، عَنِ ابْنِ أَبِی نَجِیحٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ : الْفَرْجُ أَمَانَۃٌ۔
(١٩٦٣٨) حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) فرماتے ہیں کہ شرمگاہ امانت ہے۔

19638

(۱۹۶۳۹) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنْ عُبَیْدِ بْنِ عُمَیْرٍ قَالَ : مِنَ الأَمَانَۃِ أَنَّ الْمَرْأَۃَ اؤْتُمِنَتْ عَلَی فَرْجِہَا۔
(١٩٦٣٩) حضرت عبید بن عمیر (رض) فرماتے ہیں کہ عورت کے پاس اس کی شرمگاہ امانت کے طور پر رکھوائی گئی ہے۔

19639

(۱۹۶۴۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ زَیْدٍ ، عَنْ أَیُّوبَ السِّخْتِیَانِیِّ ، عَنْ سلَیْمَانَ بْنِ یَسَارٍ قَالَ : ذُکِرَ عِنْدَہُ عِدَدُ النِّسَائِ فَقَالَ : إِنَّا لَمْ نُؤْمَرْ أَنْ نُفَتّحہنّ۔
(١٩٦٤٠) حضرت سلیمان بن یسار (رض) کے سامنے عورتوں کا تذکرہ کیا گیا تو فرمایا کہ ہمیں ان کے تذکرے کرنے کی اجازت نہیں۔

19640

(۱۹۶۴۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ بْنِ أَبِی خَالِدٍ ، عَنْ عَامِرٍ قَالَ : جَائَتِ امْرَأَۃٌ إلَی عَلِیٍّ طَلَّقَہَا زَوْجُہَا فَزَعَمَتْ أَنَّہَا حَاضَتْ فِی شَہْرٍ ثَلاَثَ حِیَضٍ ، وَطَہُرَتْ عِنْدَ کُلِّ قُرْئٍ وَصَلَّتْ ، فَقَالَ عَلِیٌّ لِشُرَیْحٍ : قُلْ فِیہَا فَقَالَ شُرَیْحٌ : إِنْ جَائَتْ بَیِّنَۃٌ مِنْ بِطَانَۃِ أَہْلِہَا مِمَّنْ یُرْضَی بِدِینِہِ وَأَمَانَتِہِ یَشْہَدُونَ أَنَّہَا حَاضَتْ فِی شَہْرٍ ثَلاَثَ حِیَضٍ وَطَہُرَتْ عِنْدَ کُلِّ قُرْئٍ وَصَلَّتْ فَہِیَ صَادِقَۃٌ وَإِلاَّ فَہِیَ کَاذِبَۃٌ فَقَالَ عَلِیٌّ : قالون ، وَعَقَدَ ثَلاَثِینَ بِیَدِہِ یَعْنِی بِالرُّومِیَّۃِ۔
(١٩٦٤١) حضرت عامر (رض) فرماتے ہیں کہ ایک عورت جس کے خاوند نے اسے طلاق دے دی تھی، حضرت علی (رض) کے پاس آئی اور اس کا خیال تھا کہ اسے ایک مہینے میں تین حیض آچکے ہیں اور وہ ہر حیض سے پاک ہو کر نماز پڑھ چکی ہے۔ حضرت علی (رض) نے حضرت شریح (رض) کو اس کا فیصلہ کرنے کا حکم دیا۔ انھوں نے فرمایا کہ اگر اس کے رشتہ داروں میں سے دیندار اور امانتدار لوگ گواہی دیں کہ اسے ایک مہینے میں تین حیض آئے ہیں اور یہ ہر حیض سے پاک ہو کر نماز ادا کرتی رہی ہے تو یہ سچی ہے اور اگر وہ گواہی نہ دیں تو یہ جھوٹی ہے۔ حضرت علی (رض) نے اس جواب پر رومی انداز میں پسندیدگی کا اظہار فرمایا۔

19641

(۱۹۶۴۲) حَدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ بْنُ عُلَیَۃَ ، عَنِ الجَلْدِ بْنِ أَیُّوبَ ، عَنْ مُعَاوِیَۃَ بْنِ قُرَّۃَ ، عَنْ أَنَسٍ قَالَ : قرُوئُ الْحَیْضِ : أَرْبَعٌ ، خَمْسٌ ، سِتٌّ ، سَبْعٌ ، ثَمَانٍ ، تِسْعٌ ، عَشَرٌ ، ثُمَّ تَغْتَسِلُ وَتُصَلِّی۔
(١٩٦٤٢) حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ حیض کے دن چار، پانچ، چھ، سات، آٹھ، نو اور دس ہوسکتے ہیں پھر غسل کرے اور نماز پڑھے۔

19642

(۱۹۶۴۳) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ، عَنْ أَشْعَثَ، عَنْ قَیْسٍ، عَنِ الحَسَن، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ أَبِی الْعَاصِ قَالَ: لاَ تَکُونُ الْمُسْتَحَاضَۃُ یَوْمًا وَلاَ یَوْمَیْنِ وَلاَ ثَلاَثَۃً حَتَّی تَبْلُغَ عَشَرَۃَ أَیَّامٍ ، فَإِذَا بَلَغَتْ عَشَرَۃَ أَیَّامٍ کَانَتْ مُسْتَحَاضَۃً۔
(١٩٦٤٣) حضرت عثمان بن ابی العاص (رض) فرماتے ہیں کہ ایک، دو یاتین دن خون آنے سے عورت مستحاضہ شمار نہیں ہوگی بلکہ جب دس دن پورے ہوجائیں تو عورت مستحاضہ ہوگی۔

19643

(۱۹۶۴۴) حَدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ بْنُ عَیَّاشٍ ، عَنِ أُمّ الضَّحَّاکِ بِنْتِ رَاشِدٍ قَالَتْ : سَمِعْت خَالِدَ بْنَ مَعْدَانَ یقول : أَقَلُّ مَا تَکُونُ حَیْضَۃُ الْمَرْأَۃِ ثَلاَثَۃَ أَیَّامٍ ، وَآخِرُہَا عَشَرَۃٌ۔
(١٩٦٤٤) حضرت خالد بن معدان (رض) فرماتے ہیں کہ عورت کے حیض کی کم از کم مدت تین دن اور زیادہ سے زیادہ دس دن ہے۔

19644

(۱۹۶۴۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَۃَ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ ثَابِتٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ زَیْدٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ قَالَ : الْحَیْضُ ثِنْتَا عَشْرَۃَ۔
(١٩٦٤٥) حضرت سعید بن جبیر (رض) فرماتے ہیں کہ حیض کی مدت بارہ دن ہیں۔

19645

(۱۹۶۴۶) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنْ عَطَائٍ قَالَ : أَقْصَی مَا تَجْلِسُ الْحَائِضُ خَمْسَ عَشْرَۃَ لَیْلَۃً۔
(١٩٦٤٦) حضرت عطائ (رض) فرماتے ہیں کہ حیض کی زیادہ سے زیادہ مدت پندرہ دن ہیں۔

19646

(۱۹۶۴۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ رَبِیعٍ ، عَنْ عَطَائٍ قَالَ : الْحَیْضُ خَمْسَ عَشْرَۃَ۔
(١٩٦٤٧) حضرت عطائ (رض) فرماتے ہیں کہ حیض پندرہ دن ہیں۔

19647

(۱۹۶۴۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ رَبِیعٍ ، عَنِ الْحَسَنِ قَالَ : أَقْرَاؤُہَا مَا کَانَتْ تَحِیضُ۔
(١٩٦٤٨) حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ جب تک حیض آئے وہی حیض کی مدت ہے۔

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔