hadith book logo

HADITH.One

HADITH.One

Urdu

Support

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Ibn Abi Shaybah

23. سزاؤں کا بیان

ابن أبي شيبة

28654

(۲۸۶۵۵) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ ، عَنْ جَعْفَرٍ ، عَنْ أَبِیہِ ؛ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ لأُِسَامَۃَ : یَا أُسَامَۃُ، لاَ تَشْفَعْ فِی حَدٍّ ، وَکَانَ إِذَا شَفَعَ شَفَّعَہُ۔ (ابن سعد ۶۹)
(٢٨٦٥٥) حضرت جعفر کے والد فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت اسامہ سے ارشاد فرمایا : اے اسامہ ! سزا کے بارے میں ہرگز سفارش مت کرو۔ اور آپ جب سفارش کرتے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کی سفارش قبول فرماتے ۔

28655

(۲۸۶۵۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَن وَاصِلٍ ، عَنْ أَبِی وَائِلٍ ، عَن کَعْبٍ ، قَالَ : لاَ یُشَفَّعْ فِی حَدٍّ۔
(٢٨٦٥٦) حضرت ابو وائل فرماتے ہیں کہ حضرت کعب نے ارشاد فرمایا : حد کے بارے میں ہرگز سفارش نہیں کی جائے گی۔

28656

(۲۸۶۵۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُرْوَۃَ ، عَنِ الْفُرَافِصَۃِ الْحَنَفِیِّ ، قَالَ : مَرُّوا عَلَی الزُّبَیْرِ بِسَارِقٍ فَتَشَفَّعَ لَہُ ، فَقَالُوا : أَتَشْفَعُ لِسَارِقٍ ؟ فَقَالَ : نَعَمْ ، مَا لَمْ یُؤْتَ بِہِ إِلَی الإِمَامِ ، فَإِذَا أُتِیَ بِہِ إِلَی الإِمَامِ ، فَلاَ عَفَا اللَّہُ عَنْہُ إِنْ عَفَا عَنْہُ۔
(٢٨٦٥٧) حضرت فرافصہ حنفی فرماتے ہیں کہ لوگ ایک چور کو لے کر حضرت زبیر کے پاس سے گزرے تو آپ نے اس کی سفارش فرمائی اس پر لوگ کہنے لگے : کیا آپ ایک چور کی سفارش کررہے ہیں ؟ آپ نے فرمایا : جی ہاں ! جب تک اسے امام کے پاس نہ لے جایا گیا ہو جب اسے امام کے پاس لے گئے تو اللہ بھی اسے معاف نہیں کرے گا اگر امام نے اسے معاف کردیا۔

28657

(۲۸۶۵۸) حَدَّثَنَا حُمَیْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُرْوَۃَ ، عَنِ الْفُرَافِصَۃِ ، عَنِ الزُّبَیْرِ ، مِثْلَہُ۔
(٢٨٦٥٨) حضرت فرافصہ سے حضرت زبیر کا مذکورہ ارشاد اس سند سے بھی منقول ہے۔

28658

(۲۸۶۵۹) حَدَّثَنَا حُمَیْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الرُّؤَاسِیُّ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنْ أَبِی حَازِمٍ ؛ أَنَّ عَلِیًّا شَفَعَ لِسَارِقٍ ، فَقِیلَ لَہُ، تَشْفَعُ لِسَارِقٍ ؟ فَقَالَ : نَعَمْ ، إِنَّ ذَلِکَ یُفْعَلُ مَا لَمْ یُبَلَّغْ بِہِ الإِمَامُ ، فَإِذَا بُلِّغَ بِہِ الإِمَامُ فَلاَ أَعْفَاہُ اللَّہُ إِنْ أَعْفَاہُ۔
(٢٨٦٥٩) حضرت ابو حازم فرماتے ہیں کہ حضرت علی نے ایک چور کی سفارش کی تو آپ سے پوچھا گیا : کیا آپ چور کی سفارش کر رہے ہیں ؟ آپ نے فرمایا : جی ہاں ! بیشک ایسا کیا جاسکتا ہے جب کہ اسے امام تک نہ پہنچا دیا گیا ہو اور جب امام کے پاس پہنچ جائے تو اللہ بھی اسے معاف نہیں کریں گے اگر اس نے اسے معاف کردیا ۔

28659

(۲۸۶۶۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ عُبَیْدٍ ، عَن سُلَیْمَانَ بْنِ أَبِی کَبْشَۃَ ؛ أَنَّ سَارِقًا مَرَّ بِہِ عَلَی سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ، وَعَطَائٍ فَشَفَعَا لَہُ ، فَقِیلَ لَہُمَا : وَتَرَیَانِ ذَلِکَ ؟ فَقَالاَ : نَعَمْ ، مَا لَمْ یُؤْتَ بِہِ إِلَی الإِمَامِ۔
(٢٨٦٦٠) حضرت سلیمان بن ابی کبشہ فرماتے ہیں کہ ایک چور کو حضرت سعید بن جبیر اور حضرت عطائ کے پاس سے گزارا گیا تو ان دونوں نے اس کی سفارش کی ان دونوں حضرات سے پوچھا گیا : آپ دونوں کی یہ رائے ہے ؟ ان دونوں نے فرمایا : جی ہاں ! جب تک اس کو امام کے پاس نہ لے جایا گیا ہو۔

28660

(۲۸۶۶۱) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ، عَنْ عَبْدِ الْوَہَّابِ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : مَنْ حَالَتْ شَفَاعَتُہُ دُونَ حَدٍّ مِنْ حُدُودِ اللہِ ، فَقَدْ ضَادَّ اللَّہَ فِی خَلْقِہِ۔ (ابوداؤد ۳۵۹۲۔ احمد ۷۰)
(٢٨٦٦١) حضرت عبدالوہاب فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عمر نے ارشاد فرمایا : جس شخص نے اپنی سفارش کو اللہ کی سزاؤں میں سے سزا کے لیے حائل کیا تو تحقیق اس نے اللہ کی اس کے حکم میں مخالفت کی۔

28661

(۲۸۶۶۲) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ عُرْوَۃَ ، عَنْ عَائِشَۃَ ؛ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کُلِّمَ فِی شَیْئٍ ، فَقَالَ : لَوْ کَانَتْ فَاطِمَۃُ ابْنَۃُ مُحَمَّدٍ لأَقَمْتُ عَلَیْہَا الْحَدَّ۔ (بخاری ۳۴۷۵۔ مسلم ۱۳۱۵)
(٢٨٦٦٢) حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کسی چیز کے بارے میں بات کی گئی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اگر وہ فاطمہ بنت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی ہوتی تو میں ضرور اس پر سزا جاری کرتا۔

28662

(۲۸۶۶۳) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ طَلْحَۃَ بْنِ رُکَانَۃَ ، عَنْ أُمِّہِ عَائِشَۃَ بِنْتِ مَسْعُودِ بْنِ الأَسْوَدِ ، عَنْ أَبِیہَا مَسْعُودٍ ، قَالَ : لَمَّا سَرَقَتِ الْمَرْأَۃُ تِلْکَ الْقَطِیفَۃَ مِنْ بَیْتِ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَعْظَمْنَا ذَلِکَ ، وَکَانَتِ الْمَرْأَۃُ مِنْ قُرَیْشٍ ، فَجِئْنَا إِلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نُکَلِّمُہُ وَقُلْنَا : نَحْنُ نَفْدِیہَا بِأَرْبَعِینَ أُوقِیَّۃً ، قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : تَطَّہَّرُ خَیْرٌ لَہَا ، فَلَمَّا سَمِعْنَا لِینَ قَوْلِ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، أَتَیْنَا أُسَامَۃَ ، فَقُلْنَا : کَلِّمْ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَلَمَّا رَأَی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ذَلِکَ ، قَامَ خَطِیبًا ، فَقَالَ : مَا إِکْثَارُکُمْ عَلَیَّ فِی حَدٍّ مِنْ حُدُودِ اللہِ ، وَقَعَ عَلَی أَمَۃٍ مِنْ إِمَائِ اللہِ ؟ وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ ، لَوْ کَانَتْ فَاطِمَۃُ بِنْتُ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَزَلَتْ بِالَّذِی نَزَلَتْ بِہِ ، لَقَطَعَ مُحَمَّدٌ یَدَہَا۔ (احمد ۴۰۹۔ طبرانی ۷۹۲)
(٢٨٦٦٣) حضرت مسعود فرماتے ہیں کہ جب اس عورت نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گھر سے چادر چوری کی تو ہم نے اس بات کو بہت بڑا سمجھا، اور اس عورت کا تعلق قریش سے تھا پس ہم لوگ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس بات چیت کرنے کے لیے آئے اور ہم نے عرض کی : ہم اس عورت کا چالیس اوقیہ چاندی فدیہ دیں گے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : وہ پاک ہوجائے یہ اس کے لیے بہت رہے۔ جب ہم لوگوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نرم بات سنی تو ہم حضرت اسامہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آئے اور ہم نے کہا : آپ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس بارے میں بات کریں جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ معاملہ دیکھا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خطبہ ارشاد فرمانے کے لیے کھڑے ہوگئے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم اللہ کی سزاؤں میں سے ایک سزا کے بارے میں مجھ پر کیوں اپنی تعداد کو بڑھا رہے ہو جو اللہ کی بندیوں میں سے ایک بندی پر ثابت ہوچکی ہے ؟ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے اگر فاطمہ بنت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی اس مقام پر اترتی جس مقام پر آج یہ عورت اتری ہے تو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ضرور اس کا ہاتھ کاٹ دیتے۔

28663

(۲۸۶۶۴) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنْ حَرْبِ بْنِ شَدَّادٍ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ أَبِی کَثِیرٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ ثَوْبَانَ ، عَنْ زُییْدِ بْنِ الصَّلْتِ ، قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا بَکْرٍ الصِّدِّیقَ ، یَقُولُ : لَوْ أَخَذْتُ شَارِبًا لأَحْبَبْتُ أَنْ یَسْتُرَہُ اللَّہُ ، وَلَوْ أَخَذْتُ سَارِقًا لأَحْبَبْتُ أَنْ یَسْتُرَہُ اللَّہُ۔
(٢٨٦٦٤) حضرت زیید بن الصلت فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوبکر کو یوں فرماتے ہوئے سنا : اگر میں کسی شرابی کو پکڑ لوں تو یہ میرے نزدیک پسندیدہ ہے کہ اللہ رب العزت اس کی پردہ پوشی کریں گے اور اگر میں کسی چور کو پکڑ لوں تو میرے نزدیک پسندیدہ ہے کہ اللہ رب العزت اس کی پردہ پوشی کریں گے۔

28664

(۲۸۶۶۵) حَدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ مَسْرُوقٍ ، عَن عِکْرِمَۃَ ، قَالَ : سُرِقَتْ عَیْبَۃٌ لِعَمَّارٍ بِالْمُزْدَلِفَۃِ ، فَوَضَعَ فِی أَثَرِہَا جَفْنًۃً، وَدَعَا الْقَافَۃَ ، فَقَالُوا: حَبَشِیٌّ، فَاتَّبَعُوا أَثَرَہُ حَتَّی انْتَہَوْا إِلَی حَائِطٍ وَہُوَ یُقَلِّبُہَا ، فَأَخَذَہَا وَتَرَکَہُ، فَقِیلَ لَہُ ؟ فَقَالَ : أَسْتُرُ عَلَیْہِ لَعَلَّ اللَّہَ أَنْ یَسْتُرَ عَلَیَّ۔
(٢٨٦٦٥) حضرت عکرمہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمار کی مزدلفہ میں زنبیل چوری ہوگئی تو آپ نے اس کے پیچھے ایک بڑا پیالہ رکھ دیا اور قیافہ شناس کو بلایا : پس وہ لوگ کہنے لگے : کہ کوئی حبشی ہے انھوں نے اس کے نشان کا پیچھا کیا : یہاں تک کہ وہ ایک باغ تک پہنچے اور وہ حبشی اسے الٹ پلٹ کررہا تھا آپ نے اپنی زنبیل لے لی اور اس حبشی کو چھوڑ دیا تو آپ سے اس بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا : میں نے اس کی پردہ پوشی کی شاید اللہ مجھ پر بھی پردہ پوشی فرما دے۔

28665

(۲۸۶۶۶) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَن عِکْرِمَۃَ ؛ أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ ، وَعَمَّارًا ، وَالزُّبَیْرَ أَخَذُوا سَارِقًا فَخَلَّوْا سَبِیلَہُ ، فَقُلْتُ لابْنِ عَبَّاسٍ : بِئْسَ مَا صَنَعْتُمْ حِینَ خَلَّیْتُمْ سَبِیلَہُ ، فَقَالَ : لاَ أُمَّ لَکَ ، أَمَّا لَوْ کُنْتَ أَنْتَ لَسَرَّک أَنْ یُخَلَّی سَبِیلُک۔
(٢٨٦٦٦) حضرت عکرمہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عباس حضرت عمار اور حضرت زبیر نے ایک چور کو پکڑا پھر انھوں نے اس کو جانے دیا۔ میں نے حضرت ابن عباس سے کہا : آپ سب نے برا کیا جب آپ نے اس کا راستہ خالی چھوڑا ! اس پر آپ نے فرمایا ! تیری ماں مرے، اگر اس کی جگہ تو ہوتا تو ضرور خواہش کرتا کہ تیرا راستہ خالی چھوڑ دیا جائے۔

28666

(۲۸۶۶۷) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَن عُبَیْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ ، عَن نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : قطَعَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی مِجَنٍّ قِیمَتُہُ ثَلاَثَۃُ دَرَاہِمَ۔ (بخاری ۶۷۹۷۔ مسلم ۱۳۱۴)
(٢٨٦٦٧) حضرت ابن عمر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک ڈھال کی وجہ سے ہاتھ کاٹا جس کی قیمت تین درہم تھی۔

28667

(۲۸۶۶۸) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ کَثِیرٍ ، وَإِبْرَاہِیمُ بْنُ سَعْدٍ ، قَالاَ جَمِیعًا : أَخْبَرَنَا الزُّہْرِیُّ ، عَنْ عَمْرَۃَ ، عَنْ عَائِشَۃَ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : الْقَطْعُ فِی رُبْعِ دِینَارٍ فَصَاعِدًا۔ (بخاری ۲۷۹۰۔ مسلم ۱۳۱۲)
(٢٨٦٦٨) حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ہاتھ کاٹنا چار دینار یا اس سے زائد میں ہوگا۔

28668

(۲۸۶۶۹) حَدَّثَنَا ابْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَن عِیسَی بْنِ أَبِی عَزَّۃَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ؛ أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَطَعَ فِی خَمْسَۃِ دَرَاہِمَ۔ (ابوداؤد ۲۴۳۔ ابویعلی ۵۳۳۳)
(٢٨٦٦٩) حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پانچ درہم میں ہاتھ کاٹا۔

28669

(۲۸۶۷۰) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ إِسْحَاقَ ، عَن وُہَیْبٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا أَبُو وَاقِدٍ ، عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : یُقْطَعُ السَّارِقُ فِی ثَمَنِ الْمِجَنِّ۔ (ابن ماجہ ۲۵۸۶۔ احمد ۱۶۹)
(٢٨٦٧٠) حضرت سعد فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ڈھال کی قیمت کے برابر کی چوری میں چور کا ہاتھ کاٹا جائے گا۔

28670

(۲۸۶۷۱) حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِیلَ ، عَنْ جَعْفَرٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ عَلِیٍّ ؛ أَنَّہُ قَطَعَ یَدَ سَارِقٍ فِی بَیْضَۃٍ حَدِیدٍ ، ثَمَنُہَا رُبْعُ دِینَارٍ۔
(٢٨٦٧١) حضرت جعفر کے والد فرماتے ہیں کہ حضرت علی نے ایک لوہے کے انڈے کی چوری میں چور کا ہاتھ کاٹ دیا جس کی قیمت چار دینار تھی۔

28671

(۲۸۶۷۲) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ جَدِّہِ ، قَالَ : سَمِعْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، یَقُولُ : الْقَطْعُ فِی ثَمَنِ الْمِجَنِّ۔ (احمد ۱۸۰۔ بیہقی ۲۵۹)
(٢٨٦٧٢) حضرت عبداللہ بن عمرو فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یوں ارشاد فرماتے ہوئے سنا : ہاتھ کاٹنا ڈھال کی قیمت میں ہوگا۔

28672

(۲۸۶۷۳) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ، عَنْ عَمْرَۃَ ، عَنْ عَائِشَۃَ أُمِّ الْمُؤْمِنِینَ ، قَالَتْ : الْقَطْعُ فِی رُبْعِ دِینَارٍ فَصَاعِدًا۔ (مالک ۸۳۲۔ ابن حبان ۴۴۶۲)
(٢٨٦٧٣) حضرت عمرہ فرماتی ہیں کہ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ نے ارشاد فرمایا : ہاتھ کاٹنا چار دینار یا اس سے زائد کی قیمت میں ہوگا۔

28673

(۲۸۶۷۴) حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِیَۃَ ، عَن حُمَیْدٍ ، قَالَ : سُئِلَ أَنَسٌ : فِی کَمْ یُقْطَعُ یَدُ السَّارِقِ ؟ فَقَالَ : قَدْ قَطَعَ أَبُو بَکْرٍ فِیمَا لاَ یَسُرُّنِی أَنَّہُ لِی بِخَمْسَۃِ دَرَاہِمَ ، أَوْ ثَلاَثَۃِ دَرَاہِمَ۔
(٢٨٦٧٤) حضرت حمید فرماتے ہیں کہ حضرت انس سے اس بارے میں پوچھا گیا کہ کتنی قیمت کی چوری میں چور کا ہاتھ کاٹا جائے گا ؟ آپ نے فرمایا : تحقیق حضرت ابوبکر نے اتنی قیمت میں ہاتھ کاٹا تھا کہ میں پسند نہیں کرتا کہ وہ چیز میرے لیے پانچ درہم یاتین درہم کی بھی ہو۔

28674

(۲۸۶۷۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ أَنَسٍ ؛ أَنَّ رَجُلاً سَرَقَ مِجَنًّا عَلَی عَہْدِ أَبِی بَکْرٍ فَقُطِعَ۔
(٢٨٦٧٥) حضرت قتادہ فرماتے ہیں کہ حضرت انس نے ارشاد فرمایا : ایک آدمی نے حضرت ابوبکر کے زمانے میں ایک ڈھال چوری کی تو اس کا ہاتھ کاٹ دیا گیا۔

28675

(۲۸۶۷۶) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ الثَّقَفِیُّ ، عَن خَالِدٍ ، عَن عِکْرِمَۃَ ، قَالَ : تُقْطَعُ الْیَدُ فِی ثَمَنِ الْمِجَنِّ ، قَالَ : قُلْتُ : ذَکَرَ لَکَ ثَمَنَہُ ؟ قَالَ : أَرْبَعَۃٌ ، أَوْ خَمْسَۃٌ۔
(٢٨٦٧٦) حضرت خالد فرماتے ہیں کہ حضرت عکرمہ نے ارشاد فرمایا، ڈھال کی قیمت کی چور ی میں چور کا ہاتھ کاٹ دیا جائے گا راوی کہتے ہیں میں نے عرض کی ! کیا آپ کے سامنے اس ڈھال کی قیمت بیان کی تھی ؟ آپ نے فرمایا : چار یا پانچ درہم۔

28676

(۲۸۶۷۷) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَن دَاوُد بْنِ فَرَاہِیجَ ؛ أَنَّہُ سَمِعَ أَبَا ہُرَیْرَۃَ ، وَأَبَا سَعِیدٍ الْخُدْرِیَّ ، یَقُولاَنِ : لاَ تُقْطَعُ الْیَدُ إِلاَّ فِی أَرْبَعَۃِ دَرَاہِمَ فَصَاعِدًا۔
(٢٨٦٧٧) حضرت داؤد بن فراھیج فرماتے ہیں کہ انھوں نے حضرت ابوہریرہ اور حضرت ابو سعید خدری کو یوں ارشاد فرماتے ہوئے سنا : چور کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا مگر چار درہم یا اس سے زائد کی چوری میں۔

28677

(۲۸۶۷۸) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ أَبِی بَکْرٍ ، عَنْ عَمْرَۃَ ، قَالَتْ: قَدْ عَلِمْت أَنَّ عُثْمَانَ قَطَعَ فِی أُتْرُجَّۃٍ، قُوِّمَتْ ثَلاَثَۃَ دَرَاہِمَ۔ (مالک ۸۳۲)
(٢٨٦٧٨) حضرت عبداللہ بن ابوبکر فرماتے ہیں کہ حضرت عمرہ نے ارشاد فرمایا : تحقیق میں جانتی ہوں کہ حضرت عثمان نے ایک سنگترے کی چوری میں ہاتھ کاٹا جس کی قیمت تین درہم لگائی گئی تھی۔

28678

(۲۸۶۷۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ أَبِی بَکْرٍ ، عَنْ عَمْرَۃَ ، عَنْ عَائِشَۃَ ، قَالَتْ : تُقْطَعُ فِی رُبْعِ دِینَارٍ ، وَقَالَتْ عَمْرَۃُ : قَطَعَ عُمَرُ فِی أُتْرُجَّۃٍ۔
(٢٨٦٧٩) حضرت عمرہ فرماتی ہیں کہ حضرت عائشہ نے ارشاد فرمایا : چار دینار میں ہاتھ کاٹا جائے گا۔ اور حضرت عمرہ نے فرمایا : حضرت عمر نے ایک سنگترے کی چوری میں ہاتھ کاٹا۔

28679

(۲۸۶۸۰) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَن بُرْدٍ ، عَنْ مَکْحُولٍ ، قَالَ : یُقْطَعُ السَّارِقُ فِی ثَمَنِ الْمِجَنِّ۔
(٢٨٦٨٠) حضرت برد فرماتے ہیں کہ حضرت مکحول نے ارشاد فرمایا : چور کا ہاتھ ڈھال کی قیمت کے برابر چوری میں کاٹا جائے گا۔

28680

(۲۸۶۸۱) حَدَّثَنَا ابْنُ إِدْرِیسَ ، عَنِ ابْنِ أَبِی عَرُوبَۃَ (ح) وَإِسْمَاعِیلُ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ، عَنْ عُمَرَ ، قَالَ : لاَ تُقْطَعُ الْخَمْسُ إِلاَّ فِی خَمْسٍ۔
(٢٨٦٨١) حضرت سعید بن مسیب فرماتے ہیں کہ حضرت عمر نے ارشاد فرمایا : پانچوں انگلیاں نہیں کاٹی جائیں گی مگر پانچ درہم تک کی چوری میں۔

28681

(۲۸۶۸۲) حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، عَنْ ہِشَامٍ، عَنْ قَتَادَۃَ، عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ یَسَارٍ ، قَالَ: لاَ تُقْطَعُ الْخَمْسُ إِلاَّ فِی خَمْسٍ۔
(٢٨٦٨٢) حضرت قتادہ فرماتے ہیں کہ حضرت سلیمان بن یسار نے ارشاد فرمایا : پانچوں انگلیاں نہیں کاٹی جائیں گی مگر پانچ درہم تک کی چوری میں۔

28682

(۲۸۶۸۳) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ، عَنْ سُفْیانَ، عن عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ، عَنْ أَبِیہِ؛ أَنَّ ابْنَ الزُّبَیْرِ قَطَعَ فِی نَعْلَیْنِ۔
(٢٨٦٨٣) حضرت قاسم فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن زبیر نے جوتوں کی چوری میں ہاتھ کاٹا۔

28683

(۲۸۶۸۴) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَن عُبَیْدِ اللہِ ، عَن نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : کَانُوا یَتَسَارَقُونَ السِّیَاطَ فِی طَرِیقِ مَکَّۃَ ، فَقَالَ عُثْمَانُ : لَئِنْ عُدْتُمْ لأَقْطَعَن فِیہِ۔
(٢٨٦٨٤) حضرت نافع فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عمر نے ارشاد فرمایا : حضرت نافع فرماتے ہیں کہ کچھ لوگ مکہ کے راستے سے کچھ چیزیں چوری کیا کرتے تھے۔ حضرت ابن عمر نے فرمایا کہ اگر تم نے دوبارہ ایسا کیا تو میں تمہارے ہاتھ کٹوا دوں گا۔

28684

(۲۸۶۸۵) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِی صَالِحٍ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لَعَنَ اللَّہُ السَّارِقَ ، یَسْرِقُ الْبَیْضَۃَ فَتُقْطَعُ یَدُہُ ، وَیَسْرِقُ الْحَبْلَ فَتُقْطَعُ یَدُہُ۔ (مسلم ۱۳۱۴۔ ابن ماجہ ۲۵۸۳)
(٢٨٦٨٥) حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اللہ چور پر لعنت کرے وہ انڈہ چوری کرتا ہے پس اس کا ہاتھ کاٹ دیا جاتا ہے اور وہ رسی چوری کرتا ہے پس اس کا ہاتھ کاٹ دیا جاتا ہے۔

28685

(۲۸۶۸۶) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ، عَنْ أَبِی بَکْرِ بْنِ مُحَمَّدٍ ، قَالَ : أُتِیَ عُثْمَانُ بِرَجُلٍ سَرَقَ أُتْرُجَّۃً ، فَقَوَّمَہَا رُبْعَ دِینَارٍ ، فَقَطَعَ یَدَہُ۔
(٢٨٦٨٦) حضرت ابوبکر بن محمد فرماتے ہیں کہ حضرت عثمان کے پاس ایک آدمی لایا گیا جس نے ایک سنگترہ چوری کیا تھا پس آپ نے اس کی قیمت چار دینار لگائی سو اس کا ہاتھ کاٹ دیا گیا۔

28686

(۲۸۶۸۷) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ ، قَالَ : حدَّثَنَی أَیُّوبُ بْنُ مُوسَی ، عَنْ عَطَائٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ : لاَ یُقْطَعُ السَّارِقُ فِی دُونِ ثَمَنِ الْمِجَنِّ ، وَثَمَنُ الْمِجَنِّ عَشَرَۃُ دَرَاہِمَ۔
(٢٨٦٨٧) حضرت عطائ فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عباس نے ارشاد فرمایا : ڈھال کی قیمت سے کم میں چور کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا، اور ڈھال کی قیمت دس دراھم ہیں۔

28687

(۲۸۶۸۸) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، وَعَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ جَدِّہِ ، قَالَ : کَانَ یَقُولُ : ثَمَنُ الْمِجَنِّ عَشَرَۃُ دَرَاہِمَ۔
(٢٨٦٨٨) حضرت عبداللہ بن عمرو فرمایا کرتے تھے کہ ڈھال کی قیمت دس دراھم ہیں۔

28688

(۲۸۶۸۹) حَدَّثَنَا ابْنُ مُبَارَکٍ ، وَوَکِیعٌ ، عَنِ الْمَسْعُودِیِّ ، عَنِ الْقَاسِمِ ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ ، أَنَّہُ قَالَ : لاَ یُقْطَعُ إِلاَّ فِی دِینَارٍ ، أَوْ عَشَرَۃِ دَرَاہِمَ۔
(٢٨٦٨٩) حضرت قاسم فرماتے ہیں کہ حضرت ابن مسعود نے ارشاد فرمایا : ہاتھ نہیں کاٹا جائے مگر ایک دینار یا دس دراھم کی قیمت میں۔

28689

(۲۸۶۹۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن حَمْزَۃَ الزَّیَّاتِ ، عَنِ الْحَکَمِ ، عَنْ أَبِی جَعْفَرٍ قَالَ : قیمَۃُ الْمِجَنِّ دِینَارٌ ، الَّذِی تُقْطَعُ فِیہِ الْیَدُ۔
(٢٨٦٩٠) حضرت حکم فرماتے ہیں کہ حضرت ابو جعفر نے ارشاد فرمایا : ڈھال کی قیمت ایک دینار ہے جس میں ہاتھ کاٹ دیا جائے گا۔

28690

(۲۸۶۹۱) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ أَبِی سُلَیْمَانَ ، عَنْ عَطَائٍ ، قَالَ : أَدْنَی مَا یُقْطَعُ فِیہِ السَّارِقُ ثَمَنُ الْمِجَنِّ ، وَکَانَ یُقَوَّمُ الْمِجَنُّ فِی زَمَانِہِمْ دِینَارًا ، أَوْ عَشَرَۃَ دَرَاہِمَ۔
(٢٨٦٩١) حضرت عبدالملک بن ابو سلیمان فرماتے ہیں کہ حضرت عطائ نے ارشاد فرمایا : سب سے کم درجہ کسی چیز میں جس میں چور کا ہاتھ کاٹا جاتا ہے وہ ڈھال کی قیمت ہے اور ڈھال کی قیمت صحابہ کے زمانے میں ایک دینار یا دس دراھم لگائی جاتی تھی۔

28691

(۲۸۶۹۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَن حَمَّادٍ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللہِ : لاَ تُقْطَعُ الْیَدُ إِلاَّ فِی تُرْسٍ ، أَوْ حَجَفَۃٍ ، قَالَ : قُلْتُ لإِبْرَاہِیمَ : کَمْ قِیمَتُہُ ؟ قَالَ : دِینَارٌ۔
(٢٨٦٩٢) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود نے ارشاد فرمایا : ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا مگر ڈھال یا چمڑے کی ڈھال میں راوی کہتے ہیں ! میں نے حضرت ابراہیم سے دریافت کیا : اس کی قیمت کتنی ہوتی ہے ؟ آپ نے فرمایا : ایک دینار۔

28692

(۲۸۶۹۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : کَانَ السَّارِقُ عَلَی عَہْدِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُقْطَعُ فِی ثَمَنِ الْمِجَنِّ ، وَکَانَ الْمِجَنُّ یَوْمَئِذٍ لَہُ ثَمَنٌ ، وَلَمْ یَکُنْ یُقْطَعُ فِی الشَّیْئِ التَّافِہِ۔ (عبدالرزاق ۱۸۹۵۹)
(٢٨٦٩٣) حضرت ہشام بن عروہ فرماتے ہیں کہ ان کے والد حضرت عروہ نے ارشاد فرمایا : نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں چور کا ہاتھ ڈھال کی قیمت کے برابر چیز کی چوری میں کاٹا جاتا تھا اور ڈھال کی اس وقت ایک قیمت ہوتی تھی۔ اور اس وقت حقیر اور گھٹیا چیز کی چوری میں ہاتھ نہیں کاٹا جاتا تھا۔

28693

(۲۸۶۹۴) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنِ ابْنِ طَاوُوسٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : یُقْطَعُ فِی ثَمَنِ الْمِجَنِّ۔
(٢٨٦٩٤) حضرت ابن طاؤس فرماتے ہیں کہ ان کے والد حضرت طاؤس نے ارشاد فرمایا : ڈھال کی قیمت میں ہاتھ کاٹا جائے گا۔

28694

(۲۸۶۹۵) حَدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ عَطِیَّۃَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَن ، عَنِ الْقَاسِمِ ، قَالَ : أُتِیَ عُمَرُ بِسَارِقٍ فَأَمَرَ بِقَطْعِہِ ، فَقَالَ عُثْمَانُ : إِنَّ سَرِقَتَہُ لاَ تَسْوَی عَشَرَۃَ دَرَاہِمَ ، قَالَ : فَأَمَرَ بِہَا عُمَرُ فَقُوِّمَتْ ثَمَانیَۃَ دَرَاہِمَ ، فَلَمْ یَقْطَعْہُ۔
(٢٨٦٩٥) حضرت قاسم فرماتے ہیں کہ حضرت عمر کے پاس ایک چور لایا گیا آپ نے اس کے ہاتھ کو کاٹنے کا حکم جاری فرمایا : اس پر حضرت عثمان کہنے لگے ! بیشک اس کی چوری کردہ چیز کی قیمت دس دراھم کے برابر نہیں، سو حضرت عمر نے اس کے بارے میں حکم دیا تو اس کی قیمت آٹھ دراھم لگائی گئی پس آپ نے اس کا ہاتھ نہیں کاٹا۔

28695

(۲۸۶۹۶) حَدَّثَنَا الثَّقَفِیُّ ، عَنِ الْمُثَنَّی ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ ، قَالَ : دَخَلْتُ عَلَی سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ، فَقُلْت لَہُ : إِنَّ أَصْحَابَک ؛ عُرْوَۃَ بْنَ الزُّبَیْرِ ، وَمُحَمَّدَ بْنَ مُسْلِمٍ الزُّہْرِیَّ ، وَابْنَ یَسَارٍ یَقُولُونَ : ثَمَنُ الْمِجَنِّ خَمْسَۃُ دَرَاہِمَ ، فَقَالَ : أَمَّا ہَذَا فَقَدْ مَضَتْ فِیہِ سُنَّۃٌ مِنْ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ؛ عَشَرَۃُ دَرَاہِمَ۔ (عبدالرزاق ۱۸۹۵۱)
(٢٨٦٩٦) حضرت عمرو بن شعیب فرماتے ہیں کہ میں حضرت سعید بن مسیب کے پاس داخل ہوا اور میں نے ان سے عرض کی ! یقیناً آپ کے اصحاب عروہ بن زبیر، محمد بن مسلم زھری اور ابن یسار یہ سب فرماتے ہیں : ڈھال کی قیمت پانچ دراھم ہیں۔ اس پر آپ نے فرمایا : بہرحال اس بارے میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت گزر چکی ہے وہ دس دراھم ہے۔

28696

(۲۸۶۹۷) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ عَائِشَۃَ ، قَالَتْ : لَمْ یَکُنْ یُقْطَعُ عَلَی عَہْدِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی الشَّیْئِ التَّافِہِ۔ (بخاری ۶۷۹۲۔ مسلم ۱۳۱۳)
(٢٨٦٩٧) حضرت عروہ فرماتے ہیں کہ حضرت عائشہ نے ارشاد فرمایا : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں میں حقیر اور گھٹیا چیز کی چوری میں ہاتھ نہیں کاٹا جاتا تھا۔

28697

(۲۸۶۹۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَن سُلَیْمَانَ بْنِ مُوسَی ، عَنْ عُثْمَانَ ، قَالَ : لَیْسَ عَلَیْہِ قَطْعٌ حَتَّی یَخْرُجَ بِالْمَتَاعِ مِنَ الْبَیْتِ۔
(٢٨٦٩٨) حضرت سلیمان بن موسیٰ فرماتے ہیں کہ حضرت عثمان نے ارشاد فرمایا : اس کا ہاتھ نہیں کٹے گا یہاں تک کہ وہ گھر سے سامان لے کر نکل جائے۔

28698

(۲۸۶۹۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : لَیْسَ عَلَیْہِ قَطْعٌ حَتَّی یَخْرُجَ بِالْمَتَاعِ مِنَ الْبَیْتِ۔
(٢٨٦٩٩) حضرت عمرو بن شعیب فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عمر نے ارشاد فرمایا، اس چور کا ہاتھ نہیں کٹے گا یہاں تک کہ وہ گھر سے سامان لے کر نکل جائے۔

28699

(۲۸۷۰۰) حَدَّثَنَا حُمَیْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَن مُوسَی بْنِ أَبِی الْفُرَاتِ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِیزِ ، قَالَ : لاَ یُقْطَعُ حَتَّی یَخْرُجَ بِالْمَتَاعِ مِنَ الْبَیْتِ۔
(٢٨٧٠٠) حضرت موسیٰ بن ابو الفرات فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز نے ارشاد فرمایا : اس کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا یہاں تک کہ وہ گھر سے سامان لے کر نکل جائے۔

28700

(۲۸۷۰۱) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ حُصَیْنٍ الْحَارِثِیِّ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنِ الْحَارِثِ ، عَنْ عَلِیٍّ ، قَالَ : أُتِیَ بِرَجُلٍ قَدْ نَقَبَ ، فَأُخِذَ عَلَی تِلْکَ الْحَالِ ، فَلَمْ یَقْطَعْہُ۔
(٢٨٧٠١) حضرت حارث فرماتے ہیں کہ حضرت علی کے پاس ایک آدمی لایا گیا تحقیق جس نے نقب لگائی تھی پس اسے اسی حالت میں پکڑ لیا گیا تو آپ نے اس کا ہاتھ نہیں کاٹا۔

28701

(۲۸۷۰۲) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، أَنَّہُ سُئِلَ عَنْ رَجُلٍ سَرَقَ سَرِقَۃً ، ثُمَّ کَوَّرَہَا ، فَأُدْرِکَ قَبْلَ أَنْ یَخْرُجَ مِنَ الْبَیْتِ ؟ قَالَ : لَیْسَ عَلَیْہِ قَطْعٌ۔
(٢٨٧٠٢) حضرت عاصم فرماتے ہیں کہ امام شعبی سے ایسے آدمی کے متعلق سوال کیا گیا جس نے چوری کی پھر سامان کو گٹھڑی میں لپیٹ لیا پس اسے گھر سے نکلنے سے قبل ہی پکڑلیا گیا ؟ آپ نے فرمایا : اس کا ہاتھ نہیں کٹے گا۔

28702

(۲۸۷۰۳) حَدَّثَنَا ابْنُ مُسْہِرٍ ، عَن زَکَرِیَّا ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : لَیْسَ عَلَیْہِ قَطْعٌ حَتَّی یُخْرِجَ الْمَتَاعَ مِنَ الْبَیْتِ۔
(٢٨٧٠٣) حضرت زکریا فرماتے ہیں کہ امام شعبی نے ارشاد فرمایا : اس کا ہاتھ نہیں کٹے گا یہاں تک کہ وہ سامان گھر سے نکال لے۔

28703

(۲۸۷۰۴) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، قَالَ : قُلْتُ لِعَطَائٍ : یُؤْخَذُ السَّارِقُ قَدْ أَخَذَ الْمَتَاعَ ، وَقَدْ جَمَعَہُ فِی الْبَیْتِ ؟ قَالَ : لاَ قَطْعَ عَلَیْہِ حَتَّی یَخْرُجَ بِہِ ، زَعَمُوا ، قَالَ : وَقَالَ عَمْرُو بْنُ دِینَارٍ : مَا أَرَی عَلَیْہِ قَطْعًا۔
(٢٨٧٠٤) حضرت ابن جریج فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عطائ سے دریافت کیا : چور کو سامان گھر میں جمع کرتے ہوئے پکڑ لیا گیا اس کا کیا حکم ہے ؟ آپ نے فرمایا : اس کا ہاتھ نہیں کٹے گا یہاں تک کہ وہ سامان کو نکال لے، صحابہ نے یوں کہا ہے اور حضرت عمروبن دینار نے فرمایا : میں رائے نہیں رکھتا کہ اس کا ہاتھ کٹے۔

28704

(۲۸۷۰۵) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَن دَاوُد ، عَنْ أَبِی حَرْبِ بْنِ أَبِی الأَسْوَدِ ؛ أَنَّ لِصًّا نَقَبَ بَیْتَ قَوْمٍ ، فَأَدْرَکَہُ الْحُرَّاسُ فَأَخَذُوہُ ، فَرُفِعَ إِلَی أَبِی الأَسْوَدِ ، فَقَالَ : وَجَدْتُمْ مَعَہُ شَیْئًا ، فَقَالُوا : لاَ ، فَقَالَ : الْبَائِسُ أَرَادَ أَنْ یَسْرِقَ فَأَعْجَلْتُمُوہُ ، فَجَلَدَہُ خَمْسَۃً وَعِشْرِینَ سَوْطًا۔
(٢٨٧٠٥) حضرت داؤد فرماتے ہیں کہ حضرت ابو حرب بن ابو الاسود نے فرمایا : ایک چورنے چند لوگوں کے گھر میں نقب لگائی اس کو چوکیداروں نے اسے دیکھ لیا اور اس کو پکڑ کر اس کا معاملہ حضرت ابو الاسود کی خدمت میں پیش کردیا۔ آپ نے پوچھا : تم نے اس کے پاس کوئی چیز پائی ؟ انھوں نے کہا، نہیں آپ نے فرمایا : اس غریب و حاجتمند نے چوری کا ارادہ کیا پس تم نے اس پر جلدی کی سو آپ نے اسے پچیس کوڑے مارے۔

28705

(۲۸۷۰۶) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَۃَ ، عَن حُمَیْدٍ ؛ أَنَّ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِیزِ کَتَبَ فِی سَارِقٍ : لاَ یُقْطَعُ حَتَّی یَخْرُجَ بِالْمَتَاعِ مِنَ الدَّارِ ، لَعَلَّہُ تَعْرِضُ لَہُ تَوْبَۃٌ قَبْلَ أَنْ یَخْرُجَ مِنَ الدَّارِ۔
(٢٨٧٠٦) حضرت حمید فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز نے چور کے بارے میں خط لکھا : اس کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا یہاں تک کہ وہ سامان لے کر گھر سے نکل جائے شاید کہ گھر سے نکلنے سے قبل ہی اسے توبہ کی توفیق مل جائے۔

28706

(۲۸۷۰۷) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ ، قَالَ : بَلَغَ عَائِشَۃَ أَنَّہُمْ یَقُولُونَ : إِذَا لَمْ یَخْرُجْ بِالْمَتَاعِ لَمْ یُقْطَعْ ، فَقَالَتْ : لَوْ لَمْ أَجِدْ إِلاَّ سِکِّینًا لَقَطَعْتُہُ۔
(٢٨٧٠٧) حضرت عبدالرحمن بن قاسم فرماتے ہیں کہ حضرت عائشہ کو یہ خبر پہنچی کہ وہ لوگ یوں کہتے ہیں ، جب چور سامان لے کر نہیں نکلا تو اس کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔ اس پر آپ نے ارشاد فرمایا : اگر میں نہ بھی پاؤں مگر ایک چھری تو بھی میں اس کا ہاتھ ضرور کاٹوں گی۔

28707

(۲۸۷۰۸) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، قَالَ : إِذَا زَنَی ، وَسَرَقَ ، وَقَتَلَ ، وَعَمِلَ حُدُودًا ، قَالَ : یُقْتَلُ ، وَلاَ یُزَادُ عَلَی ذَلِکَ۔
(٢٨٧٠٨) حضرت مغیرہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم نے ارشاد فرمایا : جب کوئی زنا کرے اور چوری کرے اور قتل کردے، سزاؤں والے کام کرے تو اسے قتل کردیا جائے اور اس پر زیادتی نہیں کی جائے گی۔

28708

(۲۸۷۰۹) حَدَّثَنَا حَفْصٌ، عَن مُجَالِدٍ، عَنِ الشَّعْبِیِّ، عَن مَسْرُوقٍ، قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللہِ: إِذَا اجْتَمَعَ حَدَّانِ أَحَدُہُمَا الْقَتْلُ ، أَتَی الْقَتْلُ عَلَی الآخَرِ۔
(٢٨٧٠٩) حضرت مسروق فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود نے ارشاد فرمایا : جب دوسزائیں جمع ہوجائیں ان میں سے ایک قتل ہو تو قتل دوسری سزا پر غالب آجائے گا۔

28709

(۲۸۷۱۰) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : إِذَا اجْتَمَعَتْ حُدُودٌ ، أُقِیمَتْ کُلُّہَا عَلَیْہِ۔
(٢٨٧١٠) حضرت عمر فرماتے ہیں بصری نے ارشاد فرمایا : جب بہت سی سزائیں جمع ہوجائیں تو ساری کی ساری اس پر قائم کی جائیں گی۔

28710

(۲۸۷۱۱) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِیزِ بْنُ مُحَمَّدٍ الدَّرَاوَرْدِیُّ ، عَن حُسَیْنِ بْنِ حَازِمٍ ، قَالَ : رَأَیْتُ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِیزِ ضَرَبَ عَنقَ سَارِقٍ ، بَعْدَ أَنْ قُطِعَتْ أَرْبَعُہُ۔
(٢٨٧١١) حضرت حسین بن حازم فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر بن عبدالعزیز کو کہ آپ نے چور کی گردن مار دی بعد ازیں کہ اس کے چاروں ہاتھ پاؤں کاٹ دیے گئے تھے۔

28711

(۲۸۷۱۲) حَدَّثَنَا ابْنُ الدَّرَاوَرْدِیِّ ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَہْلِ الشِّفَائِ ؛ أَنَّ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ ضَرَبَ عَنقَ قیناس بَعْدَ أَنْ قُطِعَتْ أَرْبَعُہُ۔
(٢٨٧١٢) حضرت ہشام بن عروہ شفاء کے باشندوں میں سے ایک آدمی سے نقل کرتے ہیں کہ حضرت عثمان بن عفان نے قیناس کی گردن مار دی بعد ازیں کہ اس کے چاروں ہاتھ، پاؤں کاٹ دیے گئے تھے۔

28712

(۲۸۷۱۳) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ؛ قَالَ : کَانَ عَطَائٌ یَقُولُ : إِنْ سَرَقَ وَشَرِبَ الْخَمْرَ ، ثُمَّ قَتَلَ ، فَہُوَ الْقَتْلُ ، لاَ یُقْطَعُ ، وَلاَ یُحَدُّ۔
(٢٨٧١٣) حضرت ابن جریج فرماتے ہیں کہ حضرت عطائ فرمایا کرتے تھے : اگر وہ چوری کرے اور شراب پی لے پھر وہ قتل بھی کردے تو اس کی سزا قتل ہوگی نہ ہاتھ کاٹا جائے گا اور نہ حد لگائی جائے گی۔

28713

(۲۸۷۱۴) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ أَبِی مُلَیْکَۃَ، یَقُولُ: تُقَامُ عَلَیْہِ الْحُدُودُ، ثُمَّ یُقْتَلُ۔
(٢٨٧١٤) حضرت ابن جریج فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن بی ملیکہ کو فرماتے ہوئے سنا اس پر سزائیں قائم کی جائیں گی پھر اسے قتل کردیا جائے گا۔

28714

(۲۸۷۱۵) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا سَعِیدُ بْنُ أَبِی عَرُوبَۃَ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : تُقَامُ عَلَیْہِ الْحُدُودُ ، ثُمَّ یُقْتَلُ۔
(٢٨٧١٥) حضرت قتادہ فرماتے ہیں کہ حضرت حسن بصری نے ارشاد فرمایا : اس پر سزائیں قائم کی جائیں گی پھر اسے قتل کردیا جائے ۔

28715

(۲۸۷۱۶) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا سَعِیدٌ ، عَنْ أَبِی مَعْشَرٍ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، قَالَ : إِذَا کَانَتْ حُدُودٌ فِیہَا قَتْلٌ ، فَإِنَّ الْقَتْلَ یَأْتِی عَلَی ذَلِکَ أَجْمَعَ۔
(٢٨٧١٦) حضرت ابو معشر فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم نے ارشاد فرمایا : جب سزاؤں میں قتل بھی ہو تو قتل ان پر غالب آجائے گا۔

28716

(۲۸۷۱۷) حَدَّثَنَا ابْنُ إِدْرِیسَ ، عَنِ الشَّیْبَانِیِّ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ؛ فِی الرَّجُلِ یَسْرِقُ فَتُقْطَعُ یَدُہُ ، قَالَ : لَیْسَ عَلَیْہِ شَیْئٌ إِلاَّ أَنْ یُوجَدَ مَعَہُ شَیْئٌ ، وَقَالَ حَمَّادٌ : یُتْبَعُ بِہَا۔
(٢٨٧١٧) حضرت شیبانی فرماتے ہیں ک حضرت شعبی سے ایسے شخص کے بارے میں مروی ہے جس نے چوری کی پس اس کا ہاتھ کاٹ دیا گیا۔ آپ نے فرمایا : اس چور پر کوئی چیز لازم نہیں ہوگی مگر وہ چیز جو اس کے پاس پائی جائے اور حضرت حماد نے فرمایا : وہ چیز واپس کی جائے گی۔

28717

(۲۸۷۱۸) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنِ الشَّیْبَانِیِّ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ (ح) وَأَشْعَثَ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ ، قَالاَ : لَیْسَ عَلَیْہِ شَیْئٌ إِذَا قُطِعَتْ یَدُہُ ، إِلاَّ أَنْ یُوجَدَ شَیْئٌ بِعَیْنِہِ۔
(٢٨٧١٨) حضرت شعبی اور حضرت ابن سیرین ان دونوں حضرات نے ارشاد فرمایا : جب چور کا ہاتھ کاٹ دیا گیا تو اس پر کوئی چیز لازم نہیں ہوگی مگر وہ چیز جو بعینہ اس کے پاس پائی جائے۔

28718

(۲۸۷۱۹) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنِ الشَّیْبَانِیِّ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ؛ أَنَّہُ قَالَ فِی السَّارِقِ : إِنْ وُجِدَتِ السَّرِقَۃُ عَندَہُ بِعَیْنِہَا أُخِذَتْ مِنْہُ ، وَقُطِعَتْ یَدُہُ ، وَإِنْ کَانَ قَدَ اسْتَہْلَکَہَا ، قُطِعَتْ یَدُہُ وَلاَ ضَمَانَ عَلَیْہِ۔
(٢٨٧١٩) حضرت شیبانی فرماتے ہیں کہ بیشک امام شعبی نے چور کے بارے میں ارشاد فرمایا : اگر چوری شدہ چیز بعینہ اس کے پاس پائی گئی تو وہ اس سے لے لی جائے گی اور اس کا ہاتھ کاٹ دیا جائے گا اور اگر اس نے وہ چیز خرچ کردی تو اس کا ہاتھ کاٹ دیا جائے گا اور اس پر کسی قسم کا ضمان نہیں ہوگا۔

28719

(۲۸۷۲۰) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ (ح) وَأَشْعَثَ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ ؛ مِثْلَہُ۔
(٢٨٧٢٠) مذکورہ ارشاد بعینہ حضرت ابراہیم اور حضرت ابن سیرین سے بھی منقول ہے۔

28720

(۲۸۷۲۱) حَدَّثَنَا الضَّحَّاکُ بْنُ مَخْلَدٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَطَائٍ ، قَالَ : لاَ یَغْرَمُ السَّارِقُ بَعْدَ قَطْعِ یَمِینِہِ ، إِلاَّ أَنْ تُوجَدَ السَّرِقَۃُ بِعَیْنِہَا ، فَتُؤْخَذَ مِنْہُ۔
(٢٨٧٢١) حضرت ابن جریج فرماتے ہیں کہ حضرت عطائ نے ارشاد فرمایا : چور کو اس کا دایاں ہاتھ کاٹنے کے بعد ضامن نہیں بنایا جائے گا مگر اس چوری شدہ مال کا جو بعینہٖ اس کے پاس موجود تھا اس سے لے لیا جائے گا۔

28721

(۲۸۷۲۲) حَدَّثَنَا سَہْلُ بْنُ یُوسُفَ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنِ الْحَسَنِ ؛ أَنَّہُ کَانَ یُضَمِّنُ السَّارِقَ بَعْدَ مَا یُقْطَعُ۔
(٢٨٧٢٢) حضرت عمرو فرماتے ہیں کہ حضرت حسن بصری چور کو اس کا ہاتھ کاٹ دئیے جانے کے بعد کسی چیز کا ضامن نہیں بناتے تھے۔

28722

(۲۸۷۲۳) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ ، وَلَیْسَ بِالأَحْمَرِ ، عَن قُرَیْشِ بْنِ حَیَّانَ الْعِجْلِیّ ، عَن مَطَرٍ الْوَرَّاقِ ،قَالَ : سُئِلَ سَعِیدُ بْنُ جُبَیْرٍ عَنِ الرَّجُلِ یَسْرِقُ السَّرِقَۃَ فَتُقْطَعُ یَدُہُ ، أَیَغْرَمُ السَّرِقَۃَ ؟ قَالَ : کَفَی بِالْقَطْعِ غُرْمًا۔
(٢٨٧٢٣) حضرت مطر ورآق فرماتے ہیں کہ حضرت سعید بن جبیر سے ایسے آدمی کے متعلق سوال کیا گیا تو اس کا ہاتھ کاٹ دیا گیا تو کیا اس کو چوری شدہ مال کی ادائیگی کا ذمہ دار بھی بنایا جائے گا ؟ آپ نے فرمایا : اس کا ہاتھ کاٹنا ضمان کے طور پر کافی ہے۔

28723

(۲۸۷۲۴) حَدَّثَنَا ابْنُ مُبَارَکٍ ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، قَالَ : دَخَلْتُ عَلَی عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِیزِ ، فَسَأَلَنِی عَنِ الْعَبْدِ الآبِقِ السَّارِقِ یُقْطَعُ ؟ فَقُلْتُ : مَا بَلَغَنِی فِیہِ شَیْئٌ ، فَلَمَّا قَدِمْتُ الْمَدِینَۃَ لَقِیتُ سَالِمَ بْنَ عَبْدِ اللہِ ، فَأَخْبَرَنِی أَنَّ عَبْدَ اللہِ بْنَ عُمَرَ قَطَعَ عَبْدًا لَہُ ، سَارِقًا ، آبِقًا۔
(٢٨٧٢٤) حضرت زہری فرماتے ہیں کہ میں حضرت عمر بن عبدالعزیز کے پاس داخل ہوا تو آپ نے مجھ سے بھگوڑے چور غلام کے متعلق سوال کیا کہ اس کا ہاتھ کاٹا جائے گا ؟ میں نے عرض کی، مجھے اس بارے میں کوئی روایت نہیں پہنچی۔ پس جب میں مدینہ منورہ آیا تو میں حضرت سالم بن عبداللہ سے ملا پس، آپ نے مجھے خبردی کہ حضرت عبداللہ بن عمر نے اپنے ایک غلام کا ہاتھ کاٹا تھا جو چور اور بھگوڑا تھا۔

28724

(۲۸۷۲۵) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَن نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، فِی الْعَبْدِ الآبِقِ یَسْرِقُ ، قَالَ : یُقْطَعُ۔
(٢٨٧٢٥) حضرت نافع فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عمر سے ایسے بھگوڑے غلام کے بارے میں مروی ہے جو چوری کرے آپ نے فرمایا : اس کا ہاتھ کاٹا جائے گا۔

28725

(۲۸۷۲۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إِسْرَائِیلَ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ عَامِرٍ ، قَالَ : یُقْطَعُ۔
(٢٨٧٢٦) حضرت جابر فرماتے ہیں کہ حضرت عامر نے ارشاد فرمایا : اس کا ہاتھ کاٹ دیا جائے گا۔

28726

(۲۸۷۲۷) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، عَن حَسَنِ بْنِ صَالِحٍ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ بْنِ عَامِرٍ ؛ أَنَّ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِیزِ سَأَلَ عُرْوَۃَ عَنْہُ ؟ فَقَالَ : یُقْطَعُ۔
(٢٨٧٢٧) حضرت ابراہیم بن عامر فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز نے حضرت عروہ سے اس بارے میں سوال کیا ؟ تو آپ نے ارشاد فرمایا : اس کا ہاتھ کاٹ دیا جائے گا۔

28727

(۲۸۷۲۸) حَدَّثَنَا أَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَۃَ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ؛ أَنَّ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِیزِ ، وَالْقَاسِمَ، قَالاَ : الْعَبْدُ الآبِقُ إِذَا سَرَقَ قُطِعَ۔
(٢٨٧٢٨) حضرت یحییٰ بن سعید فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز اور حضرت قاسم ان دونوں حضرات نے ارشاد فرمایا : بھگوڑا غلام جب چوری کے تو اس کا ہاتھ کاٹ دیا جائے گا۔

28728

(۲۸۷۲۹) حَدَّثَنَا مَحْبُوبٌ الْقَوَارِیرِیُّ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَن خَالِدٍ الْحَذَّائِ ، عَنِ الْحَسَنِ ؛ سُئِلَ عَنِ الْعَبْدِ الآبِقِ یَسْرِقُ ، تُقْطَعُ یَدَہُ ؟ قَالَ : نَعَمْ۔
(٢٨٧٢٩) حضرت خالد حذائ فرماتے ہیں کہ حضرت حسن بصری سے ایسے بھگوڑے غلام کے متعلق سوال کیا گیا جس نے چوری کی تھی کہ کیا اس کا ہاتھ کاٹ دیا جائے ؟ آپ نے فرمایا : جی ہاں۔

28729

(۲۸۷۳۰) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَن مُجَاہِدٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : لاَ یُقْطَعُ الْعَبْدُ الآبِقُ إِذَا سَرَقَ فِی إِبَاقِہِ۔
(٢٨٧٣٠) حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ حضرت عباس نے ارشاد فرمایا : بھگوڑے غلام کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے جب وہ اپنے بھاگنے کے زمانے میں چوری کرے۔

28730

(۲۸۷۳۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ ابْنِ أَبِی ذِئْبٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، قَالَ : کَانَ عُثْمَانُ ، وَمَرْوَانُ یَقُولاَنِ : لاَ یُقْطَعُ۔
(٢٨٧٣١) حضرت زہری فرماتے ہیں کہ حضرت عثمان اور مروان فرمایا کرتے تھے کہ اس کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔

28731

(۲۸۷۳۲) حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ خَالِدٍ ، عَنِ ابْنِ أَبِی ذِئْبٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ؛ أَنَّ عُثْمَانَ ، وَعُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِیزِ ، وَمَرْوَانَ کَانُوا لاَ یَقْطَعُونَ الْعَبْدَ الآبِقَ إِذَا سَرَقَ۔
(٢٨٧٣٢) حضرت زہری فرماتے ہیں کہ حضرت عثمان ، حضرت عمر بن عبدالعزیز اور حضرت مروان یہ سب حضرات بھگوڑے غلام کا ہاتھ نہیں کاٹتے تھے جب وہ چوری کرتا تھا۔

28732

(۲۸۷۳۳) حَدَّثَنَا ابْنُ إِدْرِیسَ ، عَن عُبَیْدِ اللہِ ، وَیَحْیَی ، عَن نَافِعٍ ، قَالَ : سَرَقَ عَبْدٌ لاِبْنِ عُمَرَ ، فَبَعَثَ بِہِ إِلَی سَعِیدِ بْنِ الْعَاصِ ، فَقَالَ : إِنَّ ہَذَا سَرَقَ فَاقْطَعْہُ ، قَالَ : لاَ یُقْطَعُ الْعَبْدُ الآبِقُ۔
(٢٨٧٣٣) حضرت نافع فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عمر کے ایک غلام نے چوری کی تو آپ نے اس کو حضرت سعید بن عاص کے پاس بھیج دیا اور فرمایا : بیشک اس نے چوری کی ہے آپ اس کا ہاتھ کاٹ دیں۔ انھوں نے فرمایا : بھگوڑے غلام کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔

28733

(۲۸۷۳۴) حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ ، عَن حَنْظَلَۃَ ، عَن سَالِمٍ ، عَنْ عَائِشَۃَ ، قَالَتْ : لَیْسَ عَلَیْہِ قَطْعٌ۔
(٢٨٧٣٤) حضرت سالم فرماتے ہیں کہ حضرت عائشہ نے ارشاد فرمایا : اس پر ہاتھ کاٹنے کی سزا نہیں ہے۔

28734

(۲۸۷۳۵) حَدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ أَبِی حَصِینٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : أُتِیَ عُثْمَانُ بِغُلاَمٍ قَدْ سَرَقَ ،فَقَالَ : انْظُرُوا إِلَی مُؤْتَزَرِہِ ، ہَلْ أَنْبَتَ ؟۔
(٢٨٧٣٥) حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ حضرت عثمان کے پاس ایک لڑکا لایا گیا جس نے چوری کی تھی۔ آپ نے فرمایا : اس کی ازار میں دیکھو کیا بال اگ آئے ہیں ؟

28735

(۲۸۷۳۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، عَنْ سُفْیَانَ، وَمِسْعَرٍ، عَنْ أَبِی حَصِینٍ، عَنْ عَبْدِاللہِ بْنِ عُبَیْدِ بْنِ عُمَیْرٍ، عَنْ عُثْمَانَ؛ بِمِثْلِہِ۔
(٢٨٧٣٦) حضرت عبداللہ بن عبید بن عمیر سے بھی حضرت عثمان کا مذکورہ ارشاد اس سند سے منقول ہے۔

28736

(۲۸۷۳۷) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ إِسْمَاعِیلَ بْنِ أُمَیَّۃَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ یَحْیَی بْنِ حَبَّانَ ، قَالَ : ابْتَہَرَ غُلاَمٌ مِنَّا فِی شِعْرہِ بِامْرَأَۃٍ ، فَرُفِعَ إِلَی عُمَرَ ، فَشَکَّ فِیہِ ، فَنَظَرَ إِلَیْہِ ، فَلَمْ یُوجَد أَنْبَتَ ، فَقَالَ : لَوْ وَجَدْتُک أَنْبَتَّ لَجَلَدْتُک ، أَوْ لَحَدَدْتُک۔ (ابوعبید ۲۸۹)
(٢٨٧٣٧) حضرت محمد بن یحییٰ بن حیان فرماتے ہیں کہ ہمارے ایک لڑکے نے ایک عورت کے خلاف جھوٹا دعویٰ کیا پس یہ معاملہ حضرت عمر کی خدمت میں پیش کیا گیا۔ آپ کو اس میں شک ہوا تو آپ نے اس کی طرف دیکھاتو انھیں لگا کہ یہ لڑکا ابھی پختہ نہیں ہوا ہے۔ اس پر آپ نے فرمایا : اگر میں تمہیں پختہ اور مضبوط دیکھتا تو میں ضرور تمہیں کوڑے لگاتا یا ضرور تمہیں سزا دیتا۔

28737

(۲۸۷۳۸) حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِیَۃَ ، عَن حُمَیْدٍ ، عَنْ أَنَسٍ ؛ أَنَّ أَبَا بَکْرٍ أُتِیَ بِغُلاَمٍ قَدْ سَرَقَ ، فَلَمْ یَتَبَیَّن احْتِلاَمُہُ، فَشَبَرَہُ فَنَقَصَ أُنْمُلَۃً ، فَتَرَکَہُ فَلَمْ یَقْطَعْہُ۔
(٢٨٧٣٨) حضرت انس فرماتے ہیں کہ حضرت ابوبکر کے پاس ایک لڑکے کو لایا گیا جس نے چوری کی تھی پس اس کا بالغ ہونا ظاہر نہ ہوا تو آپ نے اس کو ناپا تو انگلی کی ایک گرہ کم نکلا آپ اس کو چھوڑ دیا اور اس کا ہاتھ نہیں کاٹا۔

28738

(۲۸۷۳۹) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ الْحُبَابِ ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَۃ ، عَنْ قَتَادَۃ ، عَنْ خِلاَسٍ ، عَنْ عَلِیٍّ ، قَالَ : إِذَا بَلَغَ الْغُلاَمُ خَمْسَۃَ أَشْبَارٍ ، اقْتُصَّ مِنہِ ، وَاقْتُصَّ لَہُ۔
(٢٨٧٣٩) حضرت خلاس فرماتے ہیں کہ حضرت علی نے ارشاد فرمایا : جب لڑکا پانچ بالشت تک پہنچ جائے تو اس سے قصاص لیا جائے گا اور اس کے لیے قصاص لیا جائے گا۔

28739

(۲۸۷۴۰) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنِ ابْنِ أَبِی مُلَیْکَۃَ ، قَالَ : أُتِیَ ابْنُ الزُّبَیْرِ بِعَبْدٍ لِعُمَرَ بْنِ أَبِی رَبِیعَۃَ سَرَقَ ، فَأَمَرَ بِہِ فَشُبِرَ وَہُوَ وَصِیفٌ ، فَبَلَغَ سِتَّۃَ أَشْبَارٍ ، فَقَطَعَہُ۔
(٢٨٧٤٠) حضرت ابن ابی ملیکہ فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن زبیر کہ پاس عمر بن ابی ربیعہ کا ایک غلام لایا گیا جس نے چوری کی تھی پس آپ نے اس کے بارے میں حکم دیا تو اس کو ناپا گیا تو وہ نو عمر لڑکا تھا اور چھ بالشت تک پہنچ چکا تھا پس آپ نے اس کا ہاتھ کاٹ دیا۔

28740

(۲۸۷۴۱) حَدَّثَنَا ابْنُ مَہْدِیٍّ ، عَن ہَمَّامٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ؛ أَنَّ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِیزِ ، وَالْحَسَنَ کَانَا لاَ یُقِیمَانِ عَلَی الْغُلاَمِ حَدًّا حَتَّی یَحْتَلِمَ۔
(٢٨٧٤١) حضرت قتادہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز اور حضرت حسن بصری یہ دونوں حضرات لڑکے پر حد قائم نہیں کرتے تھے یہاں تک کہ وہ بالغ ہوجائے۔

28741

(۲۸۷۴۲) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَطَائٍ ، فِی الصَّبِیِّ یَسْرِقُ ، قَالَ : لاَ قَطْعَ عَلَیْہِ حَتَّی یَحْتَلِمَ ، وَقَالَ عَمْرُو بْنُ دِینَارٍ : مَا أَرَی عَلَیْہِ قَطْعًا۔
(٢٨٧٤٢) حضرت ابن جریج فرماتے ہیں کہ حضرت عطائ سے ایسے بچہ کے بارے میں مروی ہے جو چوری کرتا ہو آپ نے فرمایا : اس پر ہاتھ کاٹنے کی سزا جاری نہیں ہوگی۔ یہاں تک کہ وہ بالغ ہوجائے اور حضرت عمرو بن دینار نے ارشاد فرمایا : میری یہ رائے نہیں کہ اس پر ہاتھ کاٹنے کی سزا جاری ہو۔

28742

(۲۸۷۴۳) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ، عَن حَسَنٍ، عَن مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ، قَالَ: لاَ یُقْطَعُ حَتَّی یَعْقِلَ، یَعْنِی یَحْتَلِمَ۔
(٢٨٧٤٣) حضرت منصور فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم نے ارشاد فرمایا : اس کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا یہاں تک کہ وہ عقلمند ہوجائے یعنی بالغ ہوجائے۔

28743

(۲۸۷۴۴) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَن سُلَیْمَانَ بْنِ مُوسَی ، قَالَ : لاَ حَدَّ ، وَلاَ قَوَدَ عَلَی مَنْ لَمْ یَبْلُغِ الْحُلُمَ۔
(٢٨٧٤٤) حضرت ابن جریج فرماتے ہیں کہ حضرت سلیمان بن موسیٰ نے ارشاد فرمایا : نہ حد ہوگی اور نہ ہی قصاص ہوگا اس پر جو بلوغ کو نہ پہنچا ہو۔

28744

(۲۸۷۴۵) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ یَحْیَی ، عَن سُلَیْمَانَ بْنِ یَسَارٍ ، قَالَ : أُتِیَ عُمَرُ بِغُلاَمٍ قَدْ سَرَقَ ، فَأَمَرَ بِہِ فَشُبِرَ ، فَوُجِدَ سِتَّۃَ أَشْبَارٍ ، إِلاَّ أُنْمُلَۃً فَتَرَکَہُ ، فَسُمِّیَ الْغُلاَمُ ، نُمَیلَۃَ۔
(٢٨٧٤٥) حضرت سلمان بن یسار فرماتے ہیں کہ حضرت عمر کے پاس ایک لڑکا لایا گیا جس نے چوری کی تھی پس آپ کے حکم سے اسے ناپا گیا تو آپ نے اسے چھ بالشت جتنا پایا مگر انگلی کی ایک گرہ کم۔ سو آپ نے اسے چھوڑ دیا پس اس لڑکے کا نام ہی نمیلہ پڑگیا۔

28745

(۲۸۷۴۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن مُسْعِرٍ ، عَنِ الْقَاسِمِ ، قَالَ : أُتِیَ عَبْدُ اللہِ بِجَارِیَۃٍ سَرَقَتْ لَمْ تَحِضْ ، فَلَمْ یَقْطَعْہَا۔
(٢٨٧٤٦) حضرت قاسم فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود کے پاس ایک لڑکی لائی گئی جس نے چوری کی تھی اس کو حیض نہیں آیا تھا تو آپ نے اس کا ہاتھ نہیں کاٹا۔

28746

(۲۸۷۴۷) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ أَبِی مَعْشَرٍ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ؛ فِی الْجَارِیَۃِ تُزَوَّجُ فَیُدْخَلُ بِہَا ، ثُمَّ تُصِیبُ فَاحِشَۃً ، قَالَ : لَیْسَ عَلَیْہَا حَدٌّ حَتَّی تَحِیضَ۔
(٢٨٧٤٧) حضرت ابو معشر فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم سے ایسی لڑکی کے بارے میں مروی ہے جس کی شادی ہو سو اس کے ساتھ دخول کیا گیا پھر اس نے فحش کام کیا۔ آپ نے فرمایا : اس پر حد جاری نہیں ہوگی یہاں تک کہ اس کو حیض آجائے۔

28747

(۲۸۷۴۸) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنِ الْحَکَمِ ، قَالَ : لَیْسَ عَلَی الْجَارِیَۃِ حَدٌّ حَتَّی تَحِیضَ۔
(٢٨٧٤٨) حضرت شعبہ فرماتے ہیں کہ حضرت حکم نے ارشاد فرمایا : لڑکی پر حد جاری نہیں ہوگی یہاں تک کہ اسے حیض آجائے۔

28748

(۲۸۷۴۹) حَدَّثَنَا عَبْدُالأَعْلَی، عن مَعْمَرٍ، عَنِ الزُّہْرِیِّ، قَالَ: لَیْسَ عَلَی الْجَارِیَۃِ حَدٌّ حَتَّی تَحِیضَ، أَوْ تَحِیضَ لِدَاتُہَا۔
(٢٨٧٤٩) حضرت معمر فرماتے یں کہ حضرت زہری نے ارشاد فرمایا : لڑکی پر حد جاری نہیں ہوگی یہاں تک کہ اسے حیض آجائے یا اس کی ہم عمروں کو حیض آجائے۔

28749

(۲۸۷۵۰) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَن جُوَیْبِرٍ ، عَنِ الضَّحَّاکِ ، قَالَ : لَیْسَ عَلَی الْجَارِیَۃِ حَدٌّ حَتَّی تَحِیضَ ، أَوْ تَحِیضَ لِدَاتُہَا۔
(٢٨٧٥٠) حضرت جویبر فرماتے ہیں کہ حضرت ضحاک نے ارشاد فرمایا : لڑکی پر حد جاری نہیں ہوگی یہاں تک کہ اسے حیض آجائے یا اس کی ہم عمروں کو حیض آجائے۔

28750

(۲۸۷۵۱) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ، عَنْ أَبِی بَکْرٍ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ ؛ أَنَّہُ أُتِیَ بِجَارِیَۃٍ لَمْ تَبْلُغِ الْحَیْضَ ، أَخَذَتْ غُلاَمًا فَقَتَلَتْہُ ، وَغَیَّبَتْ مَا عَلَیْہِ ، فَلَمَّا رَآہَا قَدِ احْتَالَتْ حِیلَۃَ الْکَبِیرِ ، أَمَرَ بِہَا فَقُتِلَتْ۔
(٢٨٧٥١) حضرت یحییٰ بن سعید فرماتے ہیں کہ حضرت ابوبکر بن عمرو بن حزم کے بارے میں مروی ہے کہ آپ کے پاس ایک لڑکی لائی گئی جو حیض کی حالت کو نہیں پہنچی تھی اس نے ایک لڑکے کو پکڑ کر اسے قتل کردیا اور جو کچھ اس کے پاس موجود تھا اسے غائب کردیا پس جب آپ نے دیکھا کہ اس لڑکی نے بڑوں جیسی چال چلی ہے تو آپ نے اس کے بارے میں حکم دیا سو اسے قتل کردیا گیا۔

28751

(۲۸۷۵۲) حَدَّثَنَا عِیسَی بْنُ یُونُسَ ، عَنْ أَبِی بَکْرٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ مَکْحُولاً ، یَقُولُ : إِذَا بَلَغَ الْغُلاَمُ خَمْسَ عَشْرَۃَ سَنَۃً ، جَازَتْ شَہَادَتُہُ ، وَوَجَبَتْ عَلَیْہِ الْحُدُودُ۔
(٢٨٧٥٢) حضرت ابوبکر فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت مکحول کو یوں فرماتے ہوئے سنا : جب لڑکا پندرہ سال کی عمر کو پہنچ جائے تو اس کی گواہی جائز ہوجاتی ہے اور اس پر سزا ثابت ہوجائے گی۔

28752

(۲۸۷۵۳) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، قَالَ : إِذَا سَرَقَ مِرَارًا ، فَإِنَّمَا تُقْطَعُ یَدٌ وَاحِدَۃٌ ، وَإِذَا شَرِبَ الْخَمْرَ مِرَارًا ، وَإِذَا قَذَفَ مِرَارًا فَإِنَّمَا عَلَیْہِ حَدٌّ وَاحِدٌ۔
(٢٨٧٥٣) حضرت مغیرہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم نے ارشاد فرمایا : جب ایک شخص نے کئی بارچوری کی تو اس کا ایک ہی ہاتھ کاٹا جائے گا اور جب اس نے کئی بار شراب پی اور جب اس نے کئی بار تہمت لگائی تو اس پر ایک ہی حدلازم ہوگی۔

28753

(۲۸۷۵۴) حَدَّثَنَا سَہْلُ بْنُ یُوسُفَ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنِ الْحَسَنِ ؛ فِی الرَّجُلِ یُؤْخَذُ ، وَقَدْ زَنَی غَیْرَ مَرَّۃٍ بِامْرَأَۃٍ وَاحِدَۃٍ ، أَوْ أَکْثَرَ مِنْ ذَلِکَ مِنَ النِّسَائِ ؟ قَالَ : حَدٌّ وَاحِدٌ ، وَالسَّارِقُ یُؤْخَذُ وَقَدْ سَرَقَ مِرَارًا ، مِثْلُ ذَلِکَ۔
(٢٨٧٥٤) حضرت عمرو فرماتے ہیں کہ حضرت حسن بصری سے ایسے آدمی کے بارے میں مرو ی ہے جس کو پکڑا گیا اس حال میں کہ اس نے ایک عورت سے کئی مرتبہ زنا کیا یا کئی عورتوں سے کئی مرتبہ زنا کیا ؟ آپ نے فرمایا : ایک سزا ہوگی اور چور کو پکڑ لیا گیا جس نے کئی مرتبہ چوری کی تھی اس کے بارے میں ایسا ہی فرمایا۔

28754

(۲۸۷۵۵) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ ، قَالَ : کَانَ یَقُولُ ، أَوْ یُقَالُ : إِذَا سَرَقَ الرَّجُلُ مِنْ شَتَّی ، ثُمَّ قُطِعَ لِوَاحِدٍ ، کَانَ لَہُمْ جَمِیعًا۔
(٢٨٧٥٥) حضرت اشعث فرماتے ہیں کہ حضرت ابن سیرین نے فرمایا : یوں کہا جاتا تھا جب اس نے بہت سی چوریاں کیں پھر ایک آدمی کی وجہ سے اس کا ہاتھ کاٹ دیا گیا تو یہ ان تمام چوریوں کی سزا ہوگی۔

28755

(۲۸۷۵۶) حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَبْدِ الْوَارِثِ ، عَنْ ہِشَامٍ الدَّسْتَوَائِیِّ ، عَن حَمَّادٍ ، قَالَ : إِذَا سَرَقَ مِرَارًا فَلَمْ یَقْدِرُوا عَلَیْہِ إِلاَّ بَعْدُ ، فَإِنَّمَا تُقْطَعُ یَدٌ وَاحِدَۃٌ۔
(٢٨٧٥٦) حضرت ہشام دستوائی فرماتے ہیں کہ حضرت حماد نے ارشاد فرمایا : جب ایک شخص نے کئی بار چوری کی اور لوگ اس پر قابو نہ پاسکے مگر بعد میں جا کر تو اس کا ایک ہی ہاتھ کاٹا جائے گا۔

28756

(۲۸۷۵۷) حَدَّثَنَا ابْنُ إِدْرِیسَ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ ، قَالَ : إِذَا سَرَقَ مِنْ شَتَّی ، فَقُطِعَ لِبَعْضِہِمْ ، لَمْ یُقْطَعْ بَعْدُ ، إِلاَّ أَنْ یُحْدِثَ سَرِقَۃً۔
(٢٨٧٥٧) حضرت اشعث فرماتے ہیں کہ حضرت ابن سیرین نے ارشاد فرمایا : جب چور نے بہت سی چوریاں کیں پس ان میں سے کچھ کی وجہ سے اس کا ہاتھ کاٹ دیا جائے گا مگر یہ کہ وہ نئے سرے سے چوری کرلے۔

28757

(۲۸۷۵۸) حَدَّثَنَا عُمَرُ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَطَائٍ ، قَالَ : إِذَا سَرَقَ ، ثُمَّ سَرَقَ ، ثُمَّ أُتِیَ بِہِ فَحَدٌّ وَاحِدٌ ، وَکَذَلِکَ فِی الزِّنَی۔
(٢٨٧٥٨) حضرت ابن جریج فرماتے ہیں کہ حضرت عطائ نے ارشاد فرمایا : جب ایک شخص نے چوری کی پھر دوبارہ اس نے چوری کرلی پھر اسے پکڑ کر لایا گیا تو ایک ہی حدہوگی اور اسی طریقہ سے زنا میں ہوگا۔

28758

(۲۸۷۵۹) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، قَالَ : قَالَ ابْنُ شِہَابٍ فِی رَجُلٍ سَرَقَ ، ثُمَّ شُہِدَ عَلَیْہِ أَنَّہُ قَدْ سَرَقَ قَبْلَ ذَلِکَ مِرَارًا ، أَوِ اعْتَرَفَ مَعَ عُقُوبَتِہِ ؟ قَالَ : تُقْطَعُ یَدُہُ ، وَقَالَ ابْنُ شِہَابٍ فِی رَجُلٍ زَنَی فَشُہِدَ عَلَیْہِ ، أَوِ اعْتَرَفَ بِذَلِکَ ، قَالَ : یُقَامُ عَلَیْہِ حَدٌّ وَاحِدٌ۔
(٢٨٧٥٩) حضرت ابن جریج فرماتے ہیں کہ حضرت ابن شہاب سے ایسے آدمی کے بارے میں پوچھا گیا جس نے چوری کی تھی پھر اس کے خلاف گواہی دی گئی کہ اس نے اس سے پہلے کئی مرتبہ چوری کی ہے یا اس نے خود اپنی سزا کے ساتھ اس بات کا اعتراف کرلیا ہو تو اس کا کیا حکم ہے ؟ آپ نے فرمایا : اس کا ہاتھ کاٹ دیا جائے گا اور حضرت ابن شہاب نے یوں بھی فرمایا : ایک آدمی نے زنا کیا پس اس کے خلاف گواہی دی گئی یا اس نے خود اس بات کا اعتراف کرلیاتو اس پر بھی ایک ہی حد قائم کی جائے گی۔

28759

(۲۸۷۶۰) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ أَبِی حُرَّۃَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : یَجُوزُ إِقْرَارُ الْعَبْدِ فِیمَا أُقِرَّ بِہِ مِنْ حَدٍّ یُقَامُ عَلَیْہِ ، وَمَا أَقَرَّ بِہِ مِمَّا تَذْہَبُ فِیہِ رَقَبَتُہُ فَلاَ یَجُوزُ۔
(٢٨٧٦٠) حضرت ابو حرہ فرماتے ہیں کہ حضرت حسن بصری نے ارشاد فرمایا : غلام کا اقرار ان معاملات میں درست ہے جن میں اس پر حد قائم ہو۔ البتہ جن معاملات میں اس کی جان جائے ان میں اس کا اقرار درست نہیں ہے۔

28760

(۲۸۷۶۱) حَدَّثَنَا ابْنُ عَیَّاشٍ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ؛ أَنَّ عَبْدًا أَقَرَّ عِندَ شُرَیْحٍ بِالسَّرِقَۃِ ، فَلَمْ یَقْطَعْہُ۔
(٢٨٧٦١) حضرت اعمش فرماتے ہیں کہ حضرت ابو اسحاق نے ارشاد فرمایا : ایک غلام نے حضرت شریح کے سامنے چوری کا اقرار کیا تو آپ نے اس کا ہاتھ نہیں کاٹا۔

28761

(۲۸۷۶۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ جَابِرٍ ، وَعَبْدِ اللہِ بْنِ عیسی ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ؛ أَنَّہُ قَالَ : لَیْسَ عَلَی الْعَبْدِ یُقِرُّ بِالسَّرِقَۃِ قَطْعٌ۔
(٢٨٧٦٢) حضرت جابر اور حضرت عبداللہ بن عیسیٰ فرماتے ہیں کہ حضرت شعبی نے ارشاد فرمایا : اس غلام پر جو چوری کا اقرار کرلے ہاتھ کاٹنے کی سزا جاری نہیں ہوگی۔

28762

(۲۸۷۶۳) حَدَّثَنَا الضَّحَّاکُ بْنُ مَخْلَدٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَن سُلَیْمَانَ بْنِ مُوسَی ، قَالَ : لاَ یَجُوزُ اعْتِرَافُ الْعَبْدِ ، إِلاَّ بِبَیِّنَۃٍ۔
(٢٨٧٦٣) حضرت ابن جریج فرماتے ہیں کہ حضرت سلیمان بن موسیٰ نے ارشاد فرمایا : غلام کا اعتراف کرنا جائز نہیں ہوگا مگر گواہوں کے ساتھ۔

28763

(۲۸۷۶۴) حَدَّثَنَا الضَّحَّاکُ بْنُ مَخْلَدٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَطَائٍ ، قَالَ : لاَ یَجُوزُ اعْتِرَافُ الْعَبْدِ۔
(٢٨٧٦٤) حضرت ابن جریج فرماتے ہیں کہ حضرت عطائ نے ارشاد فرمایا : غلام کا اعتراف کرنا جائز نہیں ہے۔

28764

(۲۸۷۶۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إِسْرَائِیلَ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ أَبِی الضُّحَی ، وَالشَّعْبِیِّ ، قَالاَ : لاَ یُقَامُ عَلَی عَبْدٍ حَدٌّ بِاعْتِرَافٍ ، إِلاَّ بِبَیِّنَۃٍ۔
(٢٨٧٦٥) حضرت جابر فرماتے ہیں کہ حضرت ابو الضحی اور حضرت شعبی نے ارشاد فرمایا : غلام کے اعتراف کی وجہ سے اس پر حد قائم نہیں کی جائے گی مگر جبکہ وہ بینہ کے ساتھ ہو۔

28765

(۲۸۷۶۶) حَدَّثَنَا مُعَاذٌ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الْحَسَنِ ؛ أَنَّہُ کَانَ یَقُولُ : لاَ یَجُوزُ إِقْرَارُ الْعَبْدِ عَلَی نَفْسِہِ إِذَا بَلَغَ النَّفْسَ فِی خَطَأٍ ، وَلاَ عَمْدٍ۔
(٢٨٧٦٦) حضرت اشعث فرماتے ہیں کہ حضرت حسن بصری فرمایا کرتے تھے : کسی ایسے ارادی اور غیر ارادی جرم میں غلام کا اقرار معتبر نہیں ہے جس میں اس کی جان جاتی ہو۔

28766

(۲۸۷۶۷) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ أَبِی مَالِکٍ الأَشْجَعِیِّ ، قَالَ : حدَّثَنِی أَہْلُ ہُرْمُزَ وَالْحَیُّ ، عَن ہُرْمُزَ ، أَنَّہُ أَتَی عَلِیًّا ، فَقَالَ : إِنِّی أَصَبْتُ حَدًّا ، فَقَالَ : تُبْ إِلَی اللہِ وَاسْتَتَرَ ، قَالَ : یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ ، طَہِّرْنِی ، قَالَ : قُمْ یَا قَنْبَرُ ، فَاضْرِبْہُ الْحَدَّ ، وَلَیَکنْ ہُوَ یَعُدُّ لِنَفْسِہِ ، فَإِذَا نَہَاک فَانْتَہِ ، وَکَانَ مَمْلُوکًا۔
(٢٨٧٦٧) حضرت ابو مالک اشجعی فرماتے ہیں کہ اہل ھرمز اور حی بیان کرتے ہیں کہ ھرمز حضرت علی کی خدمت میں آیا اور کہنے لگا : بیشک میں نے حد کو پا لیا ہے آپ نے فرمایا : اللہ سے توبہ کرو اور اپنے گناہ کو چھپاؤ اس نے کہا اے امیرالمومنین ! آپ مجھے پاک کردیں۔ آپ نے فرمایا : اے قنبر ! کھڑے ہوجاؤ اور اس پر حد لگاؤ اور یہ خود ہی اپنی سزا شمار کرے گا پس جب یہ تمہیں روک دے تو رک جانا اور ھرمز ایک غلام تھا۔

28767

(۲۸۷۶۸) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ أَبِی بِشْرٍ ، عَن یُوسُفَ بْنِ مَاہِکٍ ؛ أَنَّ عَبْدًا لِبَعْضِ أَہْلِ مَکَّۃَ سَرَقَ رِدَائً لِصَفْوَانَ بْنِ أُمَیَّۃَ ، فَأُتِیَ بِہِ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَأَمَرَ بِقَطْعِہِ ، فَقَالَ : یَا رَسُولَ اللہِ ، تَقْطَعُہُ مِنْ أَجْلِ ثَوْبِی ؟ قَالَ : فَہَلاَ قَبْلَ أَنْ تَأْتِیَنِی بہ۔ (ابوداؤد ۴۳۹۴۔ ابن ماجہ ۲۵۹۵)
(٢٨٧٦٨) حضرت یوسف بن ماھک فرماتے ہیں کہ اہل مکہ میں سے کسی کے غلام نے حضرت صفوان بن امیہ کی چادر چوری کرلی پس اسے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس لایا گیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کا ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا اس پر حضرت صفوان کہنے لگے : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرے کپڑے کی وجہ سے اس کا ہاتھ کاٹیں گے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : پس یہ بات تم نے اس کو میرے پاس لانے سے پہلے کیوں نہ سوچی ؟

28768

(۲۸۷۶۹) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ أَبِی سُلَیْمَانَ ، عَنْ عَطَائٍ ؛ فِی الْعَبْدِ یَسْرِقُ ، قَالَ: یُقْطَعُ۔
(٢٨٧٦٩) حضرت عبدالملک بن أبی سلیمان فرماتے ہیں کہ حضرت عطائ سے ایسے غلام کے بارے میں مروی ہے جو چوری کرتا ہو۔ آپ نے فرمایا : اس کا ہاتھ کاٹ دیا جائے گا۔

28769

(۲۸۷۷۰) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنِی أَبُو بَکْرِ بْنُ عَبْدِ اللہِ ، عَنْ أَبِی الزِّنَادِ ؛ أَنَّہُ أَخْبَرَہُ أَنَّ عَبْدَ اللہِ بْنَ عَامِرٍ أَخْبَرَہُ ، أَنَّ أَبَا بَکْرٍ قَطَعَ یَدَ عَبْدٍ سَرَقَ۔
(٢٨٧٧٠) حضرت عبداللہ بن عامر فرماتے ہیں کہ حضرت ابوبکر نے ایک غلام کا ہاتھ کاٹ دیا جس نے چوری کی تھی۔

28770

(۲۸۷۷۱) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ إِسْمَاعِیلَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ؛ فِی أَرْبَعَۃٍ شَہِدُوا عَلَی رَجُلٍ بِالزِّنَی ، فَکَانَ أَحَدُہُمْ لَیْسَ بِعَدْلٍ ؟ قَالَ : یُدْرَأُ عَنْہُمُ الْحَدُّ لأَنَّہُمْ أَرْبَعَۃٌ۔
(٢٨٧٧١) حضرت اسماعیل فرماتے ہیں کہ حضرت شعبی سے چار آدمیوں کے بارے میں مروی ہے جنہوں نے ایک آدمی کے خلاف زنا کرنے کی گواہی دی اور ان میں سے ایک گواہ عادل نہیں تھا ؟ آپ نے فرمایا : اس شخص سے حد ختم کردی جائے گی اس لیے کہ گواہ چار ہوتے ہیں۔

28771

(۲۸۷۷۲) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ، عَنْ أَشْعَثَ، عَنِ الشَّعْبِیِّ، قَالَ: إِذَا شَہِدَ أَرْبَعَۃٌ بِالزِّنَی، ثُمَّ لَمْ یَکُونُوا عُدُولاً لَمْ أَجْلِدْہُمْ۔
(٢٨٧٧٢) حضرت اشعث فرماتے ہیں کہ حضرت شعبی نے ارشاد فرمایا : جب چار گواہوں نے زنا کی گواہی دی اور وہ سارے کے سارے عادل نہیں تھے تو ان کو کوڑے نہیں مارے جائیں گے۔

28772

(۲۸۷۷۳) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللہِ الأَنْصَارِیُّ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : إِذَا شَہِدَ أَرْبَعَۃٌ بِالزِّنَی عَلَی رَجُلٍ فَلَمْ یُعَدَّلُوا ، دُرِئَ عَنہُ الْحَدُّ ، وَلَمْ یُجْلَدْ أَحَد مِنْہُمْ۔
(٢٨٧٧٣) حضرت اشعث فرماتے ہیں کہ حضرت حسن بصری نے ارشاد فرمایا : جب چار آدمیوں نے ایک آدمی کے خلاف زنا کی گواہی دی اور ان چار کو عادل قرار نہیں دیا گیا تو اس شخض سے حد ختم ہوجائے گی اور ان میں سے کسی کو بھی کوڑے نہیں مارے جائیں گے۔

28773

(۲۸۷۷۴) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : کُنْتُ قَاعِدًا عِندَ عَلِیٍّ فَجَائَ رَجُلٌ ، فَقَالَ : یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ ، إِنِّی قَدْ سَرَقْتُ ، فَانْتَہَرَہُ ، ثُمَّ عَادَ الثَّانِیَۃَ ، فَقَالَ : إِنِّی قَدْ سَرَقْتُ ، فَقَالَ لَہُ عَلِیٌّ : قَدْ شَہِدْتَ عَلَی نَفْسِکَ شَہَادَتَیْنِ ، قَالَ : فَأَمَرَ بِہِ فَقُطِعَتْ یَدُہُ ، فَرَأَیْتُہَا مُعَلَّقَۃً ، یَعْنِی فِی عُنُقِہِ۔
(٢٨٧٧٤) حضرت عبدالرحمن فرماتے ہیں کہ میں حضرت علی کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ ایک آدمی آیا اور کہنے لگا ! اے امیرالمومنین ! بیشک میں نے چوری کی ہے پس آپ نے اس کو خوب جھڑک دیا، وہ دوسری مرتبہ پھر لوٹا اور کہنے لگا بیشک میں نے چوری کی ہے اس پر حضرت علی نے اس سے فرمایا : تحقیق تو نے اپنے خلاف دو مرتبہ گواہی دے دی ہے۔ راوی کہتے ہیں : پس آپ نے اس کے بارے میں حکم دیا تو اس کا ہاتھ کاٹ دیا گیا میں نے اس کے ہاتھ کو لٹکے ہوئے دیکھا اس کی گردن میں۔

28774

(۲۸۷۷۵) حَدَّثَنَا حُمَیْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَن حَسَنِ بْنِ صَالِحٍ ، عَن غَالِبٍ أَبِی الْہُذَیْلِ ، قَالَ : سَمِعْتُ سُبَیْعًا أَبَا سَالِمٍ ، یَقُولُ : شَہِدْتُ الْحَسَنَ بْنَ عَلِیٍّ وَأُتِیَ بِرَجُلٍ أَقَرَّ بِسَرِقَۃٍ ، فَقَالَ لَہُ الْحَسَنُ : فَلَعَلَّک اخْتَلَسْتَہُ ، لِکَیْ یَقُولَ لاَ ، حَتَّی أَقَرَّ عَندَہُ مَرَّتَیْنِ ، أَوْ ثَلاَثًا ، فَأَمَرَ بِہِ فَقُطِعَ۔
(٢٨٧٧٥) حضرت سبیع ابو سالم فرماتے ہیں کہ میں حضرت حسن بن علی کے پاس حاضر تھا اس حال میں ایک آدمی کو پکڑ کر لایا گیا جس نے چوری کا اقرار کیا تھا اس پر حضرت حسن نے فرمایا شاید تو نے چھین لیا ہوتا کہ وہ کہہ دے نہیں۔ یہاں تک کہ اس شخص نے آپ کے پاس دو یا تین مرتبہ اقرار کرلیا پس آپ کے حکم سے اس کا ہاتھ کاٹ دیا گاا۔

28775

(۲۸۷۷۶) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، قَالَ : قُلْتُ لِعَطَائٍ : رَجُلٌ شَہِدَ عَلَی نَفْسِہِ مَرَّۃً وَاحِدَۃً بِأَنَّہُ سَرَقَ ؟ قَالَ : حَسْبُہُ۔
(٢٨٧٧٦) حضرت ابن جریج فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عطائ سے دریافت کیا کہ ایک آدمی نے اپنے خلاف ایک مرتبہ گواہی دی کہ تحقیق اس نے چوری کی ہے ؟ آپ نے فرمایا : اس کے لیے کافی ہے۔

28776

(۲۸۷۷۷) حَدَّثَنَا ابْنُ إِدْرِیسَ ، عَنِ الشَّیْبَانِیِّ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ (ح) وَعَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ؛ أَنَّہُمَا قَالاَ : إِذَا قَذَفَ قَوْمًا جَمِیعًا جُلِدَ حَدًّا وَاحِدًا ، وَإِذَا قَذَفَ شَتَّی جُلِدَ لِکُلِّ وَاحِدٍ مِنْہُمْ حَدًّا۔
(٢٨٧٧٧) حضرت شعبی اور حضرت حسن بصری نے ارشاد فرمایا : جب کسی نے پوری قوم پر تہمت لگا دی تو اس پر ایک ہی سزا کے طور پر کوڑے لگائے جائیں گے اور جب اس نے مختلف لوگوں پر تہمت لگائی تو ان میں سے ہر ایک کی وجہ سے اس کو بطور سزا کے کوڑے لگائے جائیں گے۔

28777

(۲۸۷۷۸) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَن یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ ؛ فِی الرَّجُلِ یَقْذِفُ الْقَوْمَ جَمِیعًا ، قَالَ : یُجْلَدُ لِکُلِّ إِنْسَانٍ مِنْہُمْ حَدًّا۔
(٢٨٧٧٨) حضرت یونس فرماتے ہیں کہ حضرت حسن بصری سے ایسے آدمی کے بارے میں مروی ہے جس نے پوری قوم پر تہمت لگادی۔ آپ نے فرمایا : ان میں سے ہر ایک انسان کی وجہ سے اس کو بطور سزا کے کوڑے لگائے جائیں گے۔

28778

(۲۸۷۷۹) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ أَبِی مَعْشَرٍ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ؛ فِی الرَّجُلِ یَقْذِفُ الْقَوْمَ مُجْتَمَعِینَ بِقَذْفٍ وَاحِدٍ ، قَالَ : عَلَیْہِ حَدٌّ وَاحِدٌ۔وَقَالَ قَتَادَۃُ ، عَنِ الْحَسَنِ : لِکُلِّ رَجُلٍ مِنْہُمْ حَدٌّ۔
(٢٨٧٧٩) حضرت ابو معشر فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم سے ایسے شخص کے بارے میں مروی ہے جس نے ایک ہی تہمت پوری قوم پر لگادی ہو۔ آپ نے فرمایا : اس پر ایک ہی حد جاری ہوگی۔ اور حضرت قتادہ نے فرمایا : حضرت حسن بصری سے منقول ہے کہ ان میں سے ہر ایک آدمی کی وجہ سے حد ہوگی۔

28779

(۲۸۷۸۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَن حَمَّادٍ ، قَالَ : یُجْلَدُ حَدًّا وَاحِدًا۔
(٢٨٧٨٠) حضرت سفیان فرماتے ہیں کہ حضرت حماد نے ارشاد فرمایا : اس کو ایک ہی سزا دی جائے گی۔

28780

(۲۸۷۸۱) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، قَالَ : إِذَا قَذَفَ مِرَارًا فَحَدٌّ وَاحِدٌ۔
(٢٨٧٨١) حضرت مغیرہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم نے ارشاد فرمایا : جب اس نے کئی بار تہمت لگائی تو ایک ہی سزا ہوگی۔

28781

(۲۸۷۸۲) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ؛ أَنَّہُ کَانَ یَقُولُ : إِذَا قَذَفَ الرَّجُلُ الْقَوْمَ بِقَذْفٍ وَاحِدٍ ، فَإِنَّمَا عَلَیْہِ حَدٌّ وَاحِدٌ۔
(٢٨٧٨٢) حضرت معمر فرماتے ہیں کہ حضرت زہری فرمایا کرتے تھے : جب آدمی نے قوم پر ایک ہی تہمت لگادی تو اس پر ایک ہی سزا لازم ہوگی۔

28782

(۲۸۷۸۳) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ یَزِیدٍ ، عَنْ أَبِی الْعَلاَئِ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، وَأَبِی ہَاشِمٍ ؛ فِی رَجُلٍ افْتَرَی عَلَی قَوْمٍ جَمِیعًا ، قَالَ : عَلَیْہِ حَدٌّ وَاحِدٌ۔
(٢٨٧٨٣) حضرت ابو العلائ فرماتے ہیں کہ حضرت قتادہ اور حضرت ابو ہاشم سے ایسے آدمی کے بارے میں مروی ہے جس نے پوری قوم پر جھوٹی تہمت لگائی۔ آپ نے فرمایا ؟ اس پر ایک سزا لازم ہوگی۔

28783

(۲۸۷۸۴) حَدَّثَنَا الضَّحَّاکُ بْنُ مَخْلَدٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَطَائٍ ؛ فِی رَجُلٍ دَخَلَ عَلَی أَہْلِ بَیْتٍ ، فَقَذَفَہُمْ ، قَالَ : حدٌّ وَاحِدٌ۔
(٢٨٧٨٤) حضرت ابن جریج فرماتے ہیں کہ حضرت عطائ سے ایسے شخص کے بارے میں مروی ہے جو کسی گھرو الوں پر داخل ہوا اور اس نے ان پر تہمت لگادی۔ آپ نے فرمایا : ایک حد ہوگی۔

28784

(۲۸۷۸۵) حَدَّثَنَا الضَّحَّاکُ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَبْدِ الکریم ، عَنْ طَاوُوسٍ ، قَالَ : حَدٌّ وَاحِدٌ۔
(٢٨٧٨٥) حضرت عبدالکریم فرماتے ہیں کہ حضرت طاؤس نے ارشاد فرمایا : ایک ہی حد ہوگی۔

28785

(۲۸۷۸۶) حَدَّثَنَا ابْنُ إِدْرِیسَ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَن حَمَّادٍ ، قَالَ : یُجْلَدُ حَدًّا وَاحِدًا۔
(٢٨٧٨٦) حضرت ادریس فرماتے ہیں کہ حضرت حماد نے ارشاد فرمایا : اس کو ایک ہی سزا دی جائے گی۔

28786

(۲۸۷۸۷) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ؛ فِی الرَّجُلِ یَقْذِفُ الْقَوْمَ جَمِیعًا ، قَالَ : إِنْ کَانَ فِی کَلاَمٍ وَاحِدٍ فَحَدٌّ وَاحِدٌ : وَإِذَا فَرَّقَ ، فَعَلَیْہِ لِکُلِّ وَاحِدٍ مِنْہُمْ حَدٌّ ، وَالسَّارِقُ مِثْلُ ذَلِکَ۔
(٢٨٧٨٧) حضرت ہشام بن عروہ فرماتے ہیں کہ حضرت عروہ سے ایسے شخص کے بارے میں مروی ہے جس نے پوری قوم پر تہمت لگائی ہو۔ آپ نے فرمایا : اگر اس نے ایک ہی کلام میں تہمت لگائی تو اس پر ان میں سے ہر ایک کی وجہ سے سزا لازم ہوگی۔ اور چور کا بھی یہ ہی حکم ہے۔

28787

(۲۸۷۸۸) حَدَّثَنَا ہُشَیْمُ بْنُ بَشِیرٍ، عَنْ مُغِیرَۃَ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ؛ أَنَّہُ قَالَ: مَنْ قَذَفَ یَہُودِیًّا، أَوْ نَصْرَانِیًّا فَلاَ حَدَّ عَلَیْہِ۔
(٢٨٧٨٨) حضرت مغیرہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم نے ارشاد فرمایا : جس نے یہودی یا نصرانی پر تہمت لگائی تو اس پر کوئی حد نہیں ہوگی۔

28788

(۲۸۷۸۹) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ مُطَرِّفٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ؛ أَنَّہُ قَالَ مِثْلَ ذَلِکَ۔
(٢٨٧٨٩) حضرت شعبی سے بھی مذکورہ ارشاد اس سند سے منقول ہے۔

28789

(۲۸۷۹۰) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَن یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ ؛ أَنَّہُ کَانَ یَقُولُ ذَلِکَ
(٢٨٧٩٠) حضرت یونس فرماتے ہیں کہ حضرت حسن بصری بھی یہ ہی فرمایا کرتے تھے۔

28790

(۲۸۷۹۱) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، وَابْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : لَیْسَ عَلَی قَاذِفِ أَہْلِ الذِّمَّۃِ حَدٌّ۔
(٢٨٧٩١) حضرت ہشام فرماتے ہیں کہ حضرت عروہ نے ارشاد فرمایا : ذمی پر تہمت لگانے والے پر حد نہیں ہوگی۔

28791

(۲۸۷۹۲) حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَن طَاوُوسٍ ، وَمُجَاہِدٍ ، وَالشَّعْبِیِّ (ح) وَالْحَکَمِ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، قَالُوا : إِذَا کَانَتِ الْیَہُودِیَّۃُ وَالنَّصْرَانِیَّۃُ تَحْتَ مُسْلِمٍ ، فَلَیْسَ بَیْنَہُمَا مُلاَعَنۃٌ ، وَلَیْسَ عَلَی قَاذِفِہِمَا حَدٌّ۔
(٢٨٧٩٢) حضرت طاؤس حضرت مجاہد وغیرہ ان سب حضرات نے ارشاد فرمایا : جب یہودی اور عیسائی عورت کسی مسلمان کے تحت ہوں تو ان کے درمیان لعان نہیں ہوگا اور نہ ہی ان دونوں پر تہمت لگانے والے پر حد ہوگی۔

28792

(۲۸۷۹۳) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ أَبِی غَنِیَّۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنِ الْحَکَمِ ، قَالَ : إِذَا قَذَفَ الرَّجُلُ الرَّجُلَ ، وَلَہُ أُمٌّ یَہُودِیَّۃٌ ، أَوْ نَصْرَانِیَّۃٌ فَلاَ حَدَّ عَلَیْہِ۔
(٢٨٧٩٣) حضرت عبدالملک بن ابو غنیہ فرماتے ہیں کہ حضرت حکم نے ارشاد فرمایا : جب آدمی نے کسی آدمی پر تہمت لگائی اس حال میں کہ اس کی ماں یہودی یا عیسائی تھی تو اس پر حد نہیں ہوگی۔

28793

(۲۸۷۹۴) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، قَالَ : إِذَا قَذَفَ الْیَہُودِیُّ وَالنَّصْرَانِیُّ ، عُزِّرَ قَاذِفُہُ۔
(٢٨٧٩٤) حضرت معمر فرماتے ہیں کہ حضرت زھری نے ارشاد فرمایا : جب یہودی اور عیسائی پر تہمت لگائی جائے تو ان کے تہمت لگانے والے کو تعزیراً سزا دی جائے گی ۔

28794

(۲۸۷۹۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ أَبِی خَلْدَۃَ ، عَن عِکْرِمَۃَ ، قَالَ : لَوْ أُوتِیَتْ بِرَجُلٍ قَذَفَ یَہُودِیًّا ، أَوْ نَصْرَانِیًّا وَأَنَا وَالٍ ، لَضَرَبْتہ۔
(٢٨٧٩٥) حضرت ابو خلدہ فرماتے ہیں کہ حضرت عکرمہ نے ارشاد فرمایا : اگر میرے پاس ایسے آدمی کو لایا جائے جس نے کسی یہودی یا نصرانی پر تہمت لگائی ہو اور میں حاکم ہوں تو میں اسے ضرور ماروں گا۔

28795

(۲۸۷۹۶) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَن یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ ؛ سُئِلَ عَنْ رَجُلٍ قَذَفَ نَصْرَانِیَّۃً ؟ قَالَ : یُضْرَبُ إِنْ کَانَ لَہَا زَوْجٌ مُسْلِمٌ۔
(٢٨٧٩٦) حضرت یونس فرماتے ہیں کہ حضرت حسن بصری سے ایسے آدمی کے متعلق سوال کیا گیا جس نے عیسائی عورت پر تہمت لگائی ہو ؟ آپ نے فرمایا : اس کو مارا جائے گا اگر اس عورت کا خاوند مسلمان ہو۔

28796

(۲۸۷۹۷) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ؛ فِی النَّصْرَانِیَّۃِ وَالْیَہُودِیَّۃِ تُقْذَفُ وَلَہَا زَوْجٌ مُسْلِمٌ ، وَلَہَا مِنْہُ وَلَدٌ ، قَالَ : عَلَی قَاذِفِہَا الْحَدُّ۔
(٢٨٧٩٧) حضرت قتادہ فرماتے ہیں کہ حضرت سعید بن مسیب سے عیسائی اور یہودیہ عورت کے بارے میں مروی ہے جن پر تہمت لگائی گئی درآنحالیکہ اس کا خاوند مسلمان ہو اور اس کا اس سے ایک بچہ بھی ہو۔ آپ نے فرمایا : اس تہمت لگانے والے پر حد ہوگی۔

28797

(۲۸۷۹۸) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ أَبِی مَعْشَرٍ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، قَالَ : إِذَا کَانَتِ الْیَہُودِیَّۃُ وَالنَّصْرَانِیَّۃ تَحْتَ رَجُلٍ مُسْلِمٍ ، فَقَذَفَہَا رَجُلٌ فَلاَ حَدَّ عَلَیْہِ۔
(٢٨٧٩٨) حضرت ابو معشر فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم نے ارشاد فرمایا : جب یہودیہ اور عیسائی عورت کسی مسلمان آدمی کے تحت ہوں پھر کسی آدمی نے ان پر تہمت لگادی تو اس پر کوئی حد نہیں ہوگی۔

28798

(۲۸۷۹۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنِ الشَّیْبَانِیِّ ، عَنْ أَبِی بَکْرٍ بْنِ حَفْصٍ ؛ أَنَّ رَجُلاً قَذَفَ نَصْرَانِیَّۃً ، وَلَہَا ابْنٌ مُسْلِمٌ ، فَضَرَبَہُ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیزِ أَرْبَعَۃً وَثَلاَثِینَ سَوْطًا۔
(٢٨٧٩٩) حضرت ابوبکر بن حفص فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے عیسائی عورت پر تہمت لگائی درآنحالیکہ اس کا بیٹا مسلمان تھا، تو حضرت عمر بن عبدالعزیز نے اس آدمی کو چونتیس کوڑے لگائے۔

28799

(۲۸۸۰۰) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِی عَدِیٍّ، عَنْ أَشْعَثَ، عَنِ الْحَسَنِ؛ فِی النَّصْرَانِیِّ یَقْذِفُ الْمُسْلِمَ، قَالَ: یُجْلَدُ ثَمَانِینَ۔
(٢٨٨٠٠) حضرت اشعث فرماتے ہیں کہ حضرت حسن بصری سے ایسے عیسائی کے بارے میں مروی ہے جس نے مسلمان پر تہمت لگائی ہو آپ نے ارشاد فرمایا : اس کو اسی کوڑے مارے جائیں گے۔

28800

(۲۸۸۰۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَن طَارِقٍ ، قَالَ : شَہِدْتُ الشَّعْبِیَّ ضَرَبَ نَصْرَانِیًّا قَذَفَ مُسْلِمًا ثَمَانِینَ۔
(٢٨٨٠١) حضرت طارق فرماتے ہیں کہ میں حضرت شعبی کے پاس حاضر تھا انھوں نے ایک عیسائی کو اسی کوڑے لگائے جس نے مسلمان پر تہمت لگائی تھی۔

28801

(۲۸۸۰۲) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : إِذَا قَذَفَ النَّصْرَانِیُّ الْمُسْلِمَ جُلِدَ الْحَدَّ۔
(٢٨٨٠٢) حضرت ہشام بن عروہ فرماتے ہیں کہ حضرت عروہ نے ارشاد فرمایا : جب عیسائی مسلمان پر تہمت لگائے تو اسے حد لگائی جائے گی۔

28802

(۲۸۸۰۳) حَدَّثَنَا مَعْنُ بْنُ عِیسَی ، عَنِ ابْنِ أَبِی ذِئْبٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، قَالَ فِی أَہْلِ الذِّمَّۃِ : یُجْلَدُونَ فِی الْفِرْیَۃِ عَلَی الْمُسْلِمِینَ۔
(٢٨٨٠٣) حضرت ابن ابی ذئب فرماتے ہیں کہ امام زہری نے ذمیوں کے بارے میں ارشاد فرمایا : ان کو مسلمانوں پر تہمت لگانے کے جرم میں کوڑے لگائے جائیں گے۔

28803

(۲۸۸۰۴) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ مُطَرِّفٍ ، عَنْ عَامِرٍ ، قَالَ : أَتَانِی مُسْلِمٌ وَجُرْمُقَانِیٌّ ، قَدِ افْتَرَی کُلُّ وَاحِدٍ مِنْہُمَا عَلَی صَاحِبِہِ ، فَجَلَدْتُ الْجُرْمُقَانِیَّ ، وَتَرَکْت الْمُسْلِمَ ، فَأَتَی عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِیزِ فَذَکَرَ ذَلِکَ لَہُ ، فَقَالَ : أَحْسَنَ۔
(٢٨٨٠٤) حضرت مطرف فرماتے ہیں کہ حضرت عامر نے ارشاد فرمایا : میرے پاس ایک مسلمان اور نبطی شخص آیا، تحقیق ان دونوں میں سے ہر ایک نے اپنے ساتھی پر جھوٹا الزام لگایا تھا آپ فرماتے ہیں : میں نے اس نبطی کو کوڑے لگائے اور مسلمان کو چھوڑ دیا، سو وہ حضرت عمر بن عبدالعزیز کے پاس آیا اور آپ کے سامنے ذکر کیا۔ آپ ن فرمایا : انھوں نے اچھا کیا۔

28804

(۲۸۸۰۵) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ، عَنْ عَاصِمٍ ، قَالَ: شَہِدْتُ الشَّعْبِیَّ وَضَرَبَ نَصْرَانِیًّا قَذَفَ مُسْلِمًا ، فَقَالَ : اضْرِبْ، وَلاَ یُرَی إِبْطُک۔
(٢٨٨٠٥) حضرت عاصم فرماتے ہیں کہ میں امام شعبی کے پاس حاضر تھا درآنحالیکہ آپ نے ایک عیسائی کو مارا جس نے ایک مسلمان پر تہمت لگائی تھی۔ آپ نے فرمایا : مار اور تیری بغل نہ دکھائی دے۔

28805

(۲۸۸۰۶) حَدَّثَنَا مَخْلَدُ بْنُ یَزِیدَ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ عَطَائِ بْنِ أَبِی الْخُوار ، عَنْ عِکْرِمَۃَ مَوْلَی ابْنِ عَبَّاسٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ؛ فِی الْمَمْلُوکِ یَقْذِفُ الْحُرَّ ، قَالَ : یُجْلَدُ أَرْبَعِینَ۔
(٢٨٨٠٦) حضرت عکرمہ جو حضرت ابن عباس کے آزاد کردہ غلام ہیں وہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عباس سے ایسے غلام کے بارے میں مروی ہے جس نے آزاد پر تہمت لگائی ہو، آپ نے فرمایا : اسے چالیس کوڑے مارے جائیں گے۔

28806

(۲۸۸۰۷) حَدَّثَنَا عَبْدُ السَّلاَمِ ، عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ أَبِی فَرْوَۃَ ، عَنْ مَکْحُولٍ ، وَعَطَائٍ ؛ أَنَّ عُمَرَ ، وَعَلِیًّا کَانَا یَضْرِبَانِ الْعَبْدَ یَقْذِفُ الْحُرَّ أَرْبَعِینَ۔
(٢٨٨٠٧) حضرت مکحول اور حضرت عطائ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر اور حضرت علی یہ دونوں حضرات اس غلام کو چالیس کوڑے مارتے تھے جو آزاد پر تہمت لگادے۔

28807

(۲۸۸۰۸) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ ذَکْوَانَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَامِرِ بْنِ رَبِیعَۃَ ، قَالَ : کَانَ أَبُو بَکْرٍ الصِّدِّیقُ ، وَعُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ ، وَعُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ لاَ یَجْلِدُونَ الْعَبْدَ فِی الْقَذْفِ إِلاَّ أَرْبَعِینَ ، ثُمَّ رَأَیْتُہمْ یَزِیدُونَ عَلَی ذَلِکَ۔
(٢٨٨٠٨) حضرت عبداللہ بن عامر بن ربیعہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابوبکر صدیق ، حضرت عمر بن خطاب اور حضرت عثمان بن عفان یہ سب حضرات غلام کو تہمت لگانے میں کوڑے نہیں مارتے تھے مگر چالیس پھر میں نے ان حضرات کو دیکھا انھوں نے اس پر زیادتی فرما دی۔

28808

(۲۸۸۰۹) حَدَّثَنَا عَبْدِ السَّلام ، عَنْ مُطَرِفٍ ، عَنِ الشَّعْبِّی ، قَالَ : یُضْرَبُ أَرْبَعِینَ۔
(٢٨٨٠٩) حضرت مطہر فرماتے ہیں کہ حضرت شعبی نے ارشاد فرمایا : اس کو چالیس کوڑے مارے جائیں گے۔

28809

(۲۸۸۱۰) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ سعید ، عن أَبِی مَعْشَرٍ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، قَالَ : یُضْرَبُ أَرْبَعِینَ۔
(٢٨٨١٠) حضرت ابو معشر فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم نے ارشاد فرمایا : اسے چالیس کوڑے مارے جائیں گے۔

28810

(۲۸۸۱۱) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ عَلِیٍّ ، قَالَ : یُضْرَبُ أَرْبَعِینَ۔
(٢٨٨١١) حضرت قتادہ فرماتے ہیں کہ حضرت علی نے ارشاد فرمایا : اس غلام کو چالیس کوڑے مارے جائیں گے۔

28811

(۲۸۸۱۲) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ سَعِید بْنِ الْمُسَیْب ، وَالْحَسَنِ ؛ مِثْلَہُ۔
(٢٨٨١٢) حضرت سعید بن مسیب اور حضرت حسن بصری سے بھی مذکورہ ارشاد اس سند سے منقول ہے۔

28812

(۲۸۸۱۳) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ یُونُسُ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : یُضْرَبُ أَرْبَعِینَ۔
(٢٨٨١٣) حضرت یونس فرماتے ہیں کہ حضرت حسن بصری نے ارشاد فرمایا : اسے چالس کوڑے مارے جائیں گے۔

28813

(۲۸۸۱۴) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، عَن حَنْظَلَۃَ ، عَنِ الْقَاسِمِ ، قَالَ : یُضْرَبُ أَرْبَعِینَ۔
(٢٨٨١٤) حضرت حنظلہ فرماتے ہیں کہ حضرت قاسم نے ارشاد فرمایا : اس کو چالیس کوڑے مارے جائیں گے۔

28814

(۲۸۸۱۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سَعِید بْنِ حَسَّانَ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، قَالَ : أَرْبَعِینَ۔
(٢٨٨١٥) حضرت سعید بن حسان فرماتے ہیں حضرت مجاھد نے ارشاد فرمایا : چالیس کوڑے ہے۔

28815

(۲۸۸۱۶) حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ ، عَنْ جَرِیرٍ ، عَنْ قَیْسِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ طَاوُوسٍ ، قَالَ : یُضْرَبُ أَرْبَعِینَ۔
(٢٨٨١٦) حضرت قیس بن سعد فرماتے ہیں کہ حضرت طاؤس نے ارشاد فرمایا : اس غلام کو چالیس کوڑے مارے جائیں گے۔

28816

(۲۸۸۱۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، قَالَ : سَأَلْتُ الْحَکَمَ ، وَحَمَّادًا ؟ فَقَالاَ : یُضْرَبُ أَرْبَعِینَ۔
(٢٨٨١٧) حضرت شعبہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت حکم اور حضرت حماد سے پوچھا ؟ تو ان دونوں نے فرمایا : اس کو چالیس کوڑے مارے جائیں گے۔

28817

(۲۸۸۱۸) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ رَاشِدٍ ، عَنْ مَکْحُولٍ ، قَالَ : یُضْرَبُ أَرْبَعِینَ۔
(٢٨٨١٨) حضرت محمد بن راشد فرماتے ہیں کہ حضرت مکحول نے ارشاد فرمایا : اس کو چالیس کوڑے مارے جائیں گے۔

28818

(۲۸۸۱۹) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ الثَّقَفِیُّ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ، قَالَ : جَلَدَ أَبُو بَکْرٍ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ عَبْدًا قَذَفَ حُرًّا ثَمَانِینَ۔
(٢٨٨١٩) حضرت یحییٰ بن سعد فرماتے ہیں کہ حضرت ابوبکر بن محمد بن عمرو بن حزم نے ایک غلام کو اسی کوڑے مارے جس نے ایک آزاد شخص پر تہمت لگائی۔

28819

(۲۸۸۲۰) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، قَالَ : یُضْرَبُ ثَمَانِینَ۔
(٢٨٨٢٠) حضرت معمر فرماتے ہیں کہ حضرت زھری نے ارشاد فرمایا : اس غلام کو اسی کوڑے مارے جائیں گے۔

28820

(۲۸۸۲۱) حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ ، عَنِ الْمَسْعُودِیِّ ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، قَالَ : یُضْرَبُ ثَمَانِینَ۔
(٢٨٨٢١) حضرت مسعودی فرماتے ہیں کہ حضرت قاسم بن عبدالرحمن نے ارشاد فرمایا : اس کو اسی کوڑے مارے جائیں گے۔

28821

(۲۸۸۲۲) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، قَالَ : حدَّثَنَی جَرِیرُ بْنُ حَازِمٍ ، قَالَ : قَرَأْتُ کِتَابَ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِیزِ إِلَی عَدِیِّ بْنِ أَرْطَاۃَ : أَمَّا بَعْدُ ، کَتَبْتَ تَسْأَلُ عَنِ الْعَبْدِ یَقْفُو الْحُرَّ ، کَمْ یُجْلَدُ ، وَذَکَرْتَ أَنَّہُ بَلَغَک أَنِّی کُنْتُ أَجْلِدُہُ إِذْ أَنَا بِالْمَدِینَۃِ أَرْبَعِینَ جَلْدَۃً ، ثُمَّ جَلَدْتُہُ فِی آخِرِ عَمَلِی ثَمَانِینَ جَلْدَۃً ، وَإِنَّ جَلْدِی الأَوَّلَ کَانَ رَأْیًا رَأَیْتُہُ ، وَإِنَّ جِلْدِیَّ الأَخِیرَ وَافَقَ کِتَابَ اللہِ ، فَاجْلِدْہُ ثَمَانِینَ جَلْدَۃً۔
(٢٨٨٢٢) حضرت جریر بن حازم فرماتے ہیں کہ میں نے عدی بن ارطاہ کو لکھے گئے حضرت عمر بن عبدالعزیز کے خط کو پڑھا، حمد و صلوۃ کے بعد آپ نے اس غلام کے متعلق پوچھا جس نے آزاد پر بری تہمت لگائی ہو کہ اس کو کتنے کوڑے لگائے جائیں گے، اور آپ نے ذکر کیا ہے کہ آپ کو خبر پہنچی ہے کہ میں جب مدینہ میں تھا تو میں نے غلام کو چالیس کوڑے لگائے تھے پھر میں نے اس غلام کو اپنے آخری عمل میں اسی کوڑے لگائے تھے اور بیشک میں نے جو پہلے کوڑے مارے تھے وہ میری اپنی رائے تھی جو میں نے قائم کی تھی اور بیشک میں نے آخری عمل میں جو کوڑے مارے تھے وہ کتاب اللہ سے موافقت تھی پس تم بھی اسے اسی کوڑے مارو۔

28822

(۲۸۸۲۳) حَدَّثَنَا ابْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ أَبِی بَکْرٍ ، قَالَ : ضَرَبَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیزِ الْعَبْدَ یَقْذِفُ ثَمَانِینَ۔
(٢٨٨٢٣) حضرت عبداللہ بن ابوبکر فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز نے تہمت لگانے والے غلام کو اسی کوڑے مارے۔

28823

(۲۸۸۲۴) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَن رُزَیْقٍ ، قَالَ : کَتَبْتُ إِلَی عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِیزِ فِی رَجُلٍ قَذَفَ ابْنَہُ ، فَقَالَ ابْنُہُ : إِنْ جُلِدَ أَبِی اعْتَرَفْتُ ، فَکَتَبَ إِلَیْہِ عُمَرُ : اجْلِدْہُ ، إِلاَّ أَنْ یَعْفُوَ عَنْہُ۔
(٢٨٨٢٤) حضرت رزیق فرماتے ہیں کہ میں نے ایک ایسے آدمی کے بارے میں حضرت عمر بن عبدالعزیز کو خط لکھا جس نے اپنے بیٹے پر تہمت زنا لگائی تھی۔ اس کے بیٹے نے کہا : اگر میرے باپ کو کوڑے مارے گئے تو میں اعتراف کرلوں گا۔ سو حضرت عمر نے اس کو خط کا جواب لکھا میں اسے کوڑے ماروں گا مگر یہ کہ وہ اس کو معاف کردے۔

28824

(۲۸۸۲۵) حَدَّثَنَا الضَّحَّاکُ بْنُ مَخْلَدٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَطَائٍ ؛ فِی الرَّجُلِ یَقْذِفُ ابْنَہُ ، فَقَالَ : لاَ یُجْلَدُ۔
(٢٨٨٢٥) حضرت ابن جریج فرماتے ہیں کہ حضرت عطائ سے ایسے آدمی کے بارے میں مروی ہے جس نے اپنے بیٹے پر تہمت لگائی اس پر آپ نے فرمایا : اسے کوڑے نہیں مارے جائیں گے۔

28825

(۲۸۸۲۶) حَدَّثَنَا ابْنُ مَہْدِیٍّ ، عَن مُبَارَکٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ؛ فِی الرَّجُلِ یَقْذِفُ ابْنَہُ ، قَالَ : لَیْسَ عَلَیْہِ حَدٌّ۔
(٢٨٨٢٦) حضرت مبارک فرماتے ہیں کہ حضرت حسن بصری سے ایسے آدمی کے بارے میں مروی ہے جس نے اپنے بیٹے پر تہمت لگائی آپ نے فرمایا : اس پر حد نہیں ہوگی۔

28826

(۲۸۸۲۷) حَدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنِ الْقَاسِمِ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللہِ : لاَ حَدَّ إِلاَّ عَلَی رَجُلَیْنِ : رَجُلٌ قَذَفَ مُحْصَنَۃً ، أَوْ نَفَی رَجُلاً مِنْ أَبِیہِ ، وَإِنْ کَانَتْ أُمُّہُ أَمَۃً۔
(٢٨٨٢٧) حضرت عبدالرحمن فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود نے ارشاد فرمایا : حد جاری نہیں ہوگی مگر دو آدمیوں پر ایک وہ آدمی جس نے پاکدامن عورت پر تہمت لگائی یا وہ آدمی جس نے ایک آدمی کی اس کے باپ سے نفی کردی اگرچہ اس کی ماں باندی ہو۔

28827

(۲۸۸۲۸) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، قَالَ : إِذَا نَفَی الرَّجُلُ الرَّجُلَ مِنْ أَبِیہِ ، فَإِنَّ عَلَیْہِ الْحَدَّ ، وَإِنْ کَانَتْ أُمَّہُ مَمْلُوکَۃً۔
(٢٨٨٢٨) حضرت معمر فرماتے ہیں کہ حضرت زھری نے ارشاد فرمایا : جب آدمی نے آدمی کی اس کے باپ سے نفی کردی تو بیشک اس پر حد جاری ہوگی اگرچہ اس کی ماں باندی ہو۔

28828

(۲۸۸۲۹) حَدَّثَنَا ابْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ سَعِیدٍ الزُّبَیْدِیِّ ، عَن حَمَّادٍ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ؛ فِی الرَّجُلِ یَقُولُ لِلرَّجُلِ : لَسْتَ لأََبِیک ، وَأُمَّہُ أَمَۃٌ ، أَوْ یَہُودِیَّۃٌ ، أَوْ نَصْرَانِیَّۃٌ ، قَالَ : لاَ یُجْلَدُ۔
(٢٨٨٢٩) حضرت حماد فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم سے ایسے آدمی کے بارے میں مروی ہے جس نے ایک شخص کو یوں کہا : تو اپنے باپ کا نہیں ہے درآنحالیکہ اس کی ماں باندی تھی یا یہودیہ تھی یا عیسائی تھی تو اس شخص کو کوڑے نہیں مارے جائیں گے۔

28829

(۲۸۸۳۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَن شَیْخٍ مِنَ الأَزْدِ ؛ أَنَّ ابْنَ ہُبَیْرَۃَ سَأَلَ عَنہُ الْحَسَنَ ،وَالشَّعْبِیَّ ؟ فَقَالاَ : یُضْرَبُ الْحَدَّ ، یَقُولُ فِی الرَّجُلِ یَنْفِی الرَّجُلَ مِنْ أَبِیہِ ، وَأُمُّہُ أَمَۃٌ۔
(٢٨٨٣٠) حضرت سفیان قبیلہ ازد کے کسی شیخ سے نقل کرتے ہیں حضرت حسن بصری اور حضرت شعبی سے حضرت ابن ھبیرہ نے اس بارے میں سوال کیا ؟ تو ان دونوں حضرات نے فرمایا : اس پر حداً کوڑے لگائے جائیں گے یہ آپ نے اس شخص کے بارے میں فرمایا : جس نے ایک آدمی کی اس کے باپ سے نفی کردی تھی درآنحالیکہ اس کی ماں باندی تھی۔

28830

(۲۸۸۳۱) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَن یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : أُمُّ الْوَلَدِ لاَ یُجْلَدُ قَاذِفُہَا۔
(٢٨٨٣١) حضرت یونس فرماتے ہیں کہ حضرت حسن بصری نے ارشاد فرمایا : کہ ام ولد پر تہمت لگانے والے کو کوڑے نہیں مارے جائیں گے۔

28831

(۲۸۸۳۲) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ (ح) وَعَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، وَابْنِ سِیرِینَ ، قَالُوا : لَیْسَ عَلَی قَاذِفِ أُمِّ الْوَلَدِ حَدٌّ۔
(٢٨٨٣٢) حضرت عروہ ، حضرت حسن بصری اور حضرت ابن سیرین فرماتے ہیں کہ ام ولد پر تہمت لگانے والے پر حد نہیں ہوگی۔

28832

(۲۸۸۳۳) حَدَّثَنَا عَبَّادٌ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ ، عَنْ عَطَائٍ ؛ فِی رَجُلٍ قَذَفَ رَجُلاً أُمَّہُ أُمَّ وَلَدٍ ، قَالَ : لَیْسَ عَلَیْہِ حَدٌّ حَتَّی تُعْتقَ۔
(٢٨٨٣٣) حضرت عبدالملک فرماتے ہیں کہ حضرت عطائ سے ایسے آدمی کے بارے میں مروی ہے جس نے ایک آدمی پر تہمت لگائی جس کی ماں ام ولدہ تھی آپ نے فرمایا : اس پر حد لازم نہیں ہوگی یہاں تک کہ اسے آزاد کردیا جائے۔

28833

(۲۸۸۳۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، عَنْ سُفْیَانَ، عَنْ مُغِیرَۃَ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، وَالشَّعْبِیِّ ، قَالاَ: لَیْسَ عَلَی قَاذِفِ أُمِّ الْوَلَدِ شَیْئٌ۔
(٢٨٨٣٤) حضرت مغیرہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم اور حضرت شعبی نے ارشاد فرمایا : ام ولدہ پر تہمت لگانے والے پر کوئی چیز نہیں ہے۔

28834

(۲۸۸۳۵) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، قَالَ : لاَ یُجْلَدُ قَاذِفُ أُمِّ الْوَلَدِ۔
(٢٨٨٣٥) حضرت معمر فرماتے ہیں کہ حضرت زھری نے ارشاد فرمایا : ام ولدہ پر تہمت لگانے والے کو کوڑے نہیں مارے جائیں گے۔

28835

(۲۸۸۳۶) حَدَّثَنَا عَبَّادٌ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، وَمُحَمَّدٍ ، قَالاَ : لَیْسَ عَلَی قَاذِفِ أُمِّ الْوَلَدِ حَدٌّ۔
(٢٨٨٣٦) حضرت اشعث فرماتے ہیں کہ حضرت حسن بصری اور حضرت محمد نے ارشاد فرمایا، ام ولدہ پر تہمت لگانے والے پر حد نہیں ہوگی۔

28836

(۲۸۸۳۷) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِیلُ بْنُ إِبْرَاہِیمَ ، عَن أَیُّوبَ ، عَن نَافِعٍ ؛ أَنَّ بَعْضَ أُمَرَائِ الْفِتْنَۃِ سَأَلَ ابْنَ عُمَرَ عَن أُمِّ وَلَدٍ قُذِفَتْ ؟ فَأَمَرَ بِقَاذِفِہَا أَنْ یُجْلَدَ ثَمَانِینَ۔
(٢٨٨٣٧) حضرت نافع فرماتے ہیں کہ ایک فتنہ کے امیر نے حضرت ابن عمر سے ایسی ام ولدہ کے بارے میں سوال کیا جس پر تہمت لگائی گئی تھی ؟ تو آپ نے تہمت لگانے والے کے بارے میں حکم دیا کہ اسے اسی کوڑے مارے جائیں گے۔

28837

(۲۸۸۳۸) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ، عَن نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : یُجْلَدُ قَاذِفُ أُمِّ الْوَلَدِ۔
(٢٨٨٣٨) حضرت نافع فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عمر نے ارشاد فرمایا، ام ولدہ پر تہمت لگانے والے کو کوڑے مارے جائیں گے۔

28838

(۲۸۸۳۹) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ، قَالَ : اسْتَبَّ ابْنُ صَرِیحَۃ ، وَابْنُ أُمِّ وَلَدٍ ، فَسَبَّ ابْنُ الصَرِیحَۃِ ابْنَ أُمِّ الْوَلَدِ فَجُلِدَ۔
(٢٨٨٣٩) حضرت یحییٰ بن سعید فرماتے ہیں کہ حضرت سعید بن مسیب نے ارشاد فرمایا : صاف اور واضح کردار کی عورت کے بیٹے اور ام ولدہ کے بیٹے نے ایک دوسرے کو گالی دی۔ پھر واضح کردار والی عورت کے بیٹے نے ام ولدہ کے بیٹے کو گالی دیا س پرا سے کوڑے مارے گئے۔

28839

(۲۸۸۴۰) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ بْنِ عَطَائٍ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ أَبِی یَزِیدَ الْمَدَنِیِّ ؛ أَنَّ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِیزِ جَلَدَ رَجُلاً قَذَفَ أُمَّ وَلَدِ رَجُلٍ لَمْ تُعْتَقْ۔
(٢٨٨٤٠) حضرت ابو یزید مدنی فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز نے ایک آدمی کو کوڑے مارے جس نے ایک آدمی کی ام ولدہ پر تہمت لگائی تھی جس کو آزاد نہیں کیا گان تھا۔

28840

(۲۸۸۴۱) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ سَعِیدٍ ؛ أَنَّ عَدِیَّا کَتَبَ إِلَی عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِیزِ ، فَکَتَبَ : أَنِ اجْلِدْہُ الْحَدَّ۔
(٢٨٨٤١) حضرت سعید فرماتے ہیں کہ حضرت عدی نے حضرت عمر بن عبدالعزیز کو خط لکھا تو آپ نے جواب لکھا کہ تم اس کو حدًا کوڑے مارو۔

28841

(۲۸۸۴۲) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِیلُ بْنُ إِبْرَاہِیمَ ، عَن أَیُّوبَ ، قَالَ : کَتَبْتُ إِلَی أَبِی قلاَبَۃَ أَسْأَلُہُ عَنِ الْمَرْأَۃِ تُقْذَفُ ، وَقَدْ کَانَتْ مُلِکَتْ ؟ فَکَتَبَ إِلَیَّ : أَنَّ قَاذِفَہَا یُجْلَدُ ثَمَانِینَ۔
(٢٨٨٤٢) حضرت ایوب فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابو قلابہ کو خط لکھ کر آپ سے ایسی عورت کے متعلق سوال کیا جو مملوکہ رہ چکی تھی ؟ آپ نے مجھے جواب لکھا : اس پر تہمت لگانے والے کو اسی کوڑے مارے جائیں گے۔

28842

(۲۸۸۴۳) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ أَبِی مَعْشَرٍ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ؛ فِی أُمِّ الْوَلَدِ إِذَا أُعْتِقَتْ ، ثُمَّ قُذِفَتْ ، جُلِدَ قَاذِفُہَا۔
(٢٨٨٤٣) حضرت ابو معشر فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم سے ایسی ام ولدہ کے بارے میں مروی ہے کہ جب اسے آزاد کردیا گیا پھر اس پر تہمت لگائی گئی۔ آپ نے فرمایا : اس پر تہمت لگانے والے کو کوڑے مارے جائیں گے۔

28843

(۲۸۸۴۴) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ؛ أَنَّہُ کَانَ یَقُولُ : إِذَا مُلِکَتِ الْمَرْأَۃُ مَرَّۃً ، ثُمَّ أُعْتِقَتْ ، فَإِنَّ عَلَی قَاذِفِہَا الْحَدَّ۔
(٢٨٨٤٤) حضرت معمر فرماتے ہیں کہ حضرت زھری فرمایا کرتے تھے : جب عورت ایک مرتبہ مملوکہ ہوگئی پھر اسے آزاد کردیا گیا تو اس پر تہمت لگانے والے پر حد جاری ہوگی۔

28844

(۲۸۸۴۵) حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّیَالِسِیُّ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنِ الْحَسَنِ ؛ فِی امْرَأَۃٍ مُلِکَتْ مَرَّۃً ، ثُمَّ قُذِفَتْ ، قَالَ : لاَ یُجْلَدُ قَاذِفُہَا۔
(٢٨٨٤٥) حضرت قتادہ فرماتے ہیں کہ حضرت حسن بصری سے ایسی عورت کے بارے میں مروی ہے جو ایک مرتبہ مملوکہ ہوگئی پھر اس پر تہمت لگائی گئی۔ آپ نے فرمایا : اس پر تہمت لگانے والے کو کوڑے نہیں مارے جائیں گے۔

28845

(۲۸۸۴۶) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَن مَنْصُورٍ ، عَنْ أَبِی الضُّحَی (ح) وَعَن مُغِیرَۃَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالاَ : کَانَ عَلِیٌّ یَقُولُ : إِذَا سَرَقَ السَّارِقُ مِرَارًا قُطِعَتْ یَدُہُ وَرِجْلُہُ ، ثُمَّ إِنْ عَادَ اسْتَوْدَعْتُہُ السِّجْنَ۔
(٢٨٨٤٦) حضرت ابو الضحی اور حضرت شعبی فرماتے ہیں کہ حضرت علی فرمایا کرتے تھے : جب چور کئی بار چوری کرے گا تو میں اس کا ہاتھ اور پاؤں کاٹ دوں گا پھر اگر وہ دوبارہ چوری کرے گا تو میں اس کو جیل کی حفاظت میں دے دوں گا۔

28846

(۲۸۸۴۷) حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِیلَ ، عَنْ جَعْفَرٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : کَانَ عَلِیٌّ لاَ یَزِیدُ عَلَی أَنْ یَقْطَعَ لِسارِقٍ یَدًا وَرِجْلاً ، فَإِذَا أُتِیَ بِہِ بَعْدَ ذَلِکَ ، قَالَ : إِنِّی لأَسْتَحِی أَنْ لاَ یَتَطَہَّرَ لِصَلاَتِہِ ، وَلَکِنْ أَمْسِکُوا کَلْبَہ عَنِ الْمُسْلِمِینَ ، وَأَنْفِقُوا عَلَیْہِ مِنْ بَیْتِ الْمَالِ۔
(٢٨٨٤٧) حضرت جعفر کے والد فرماتے ہیں کہ حضرت علی اس بات پر زیادتی نہیں کرتے کہ وہ چور کا ایک ہاتھ اور پاوئں کاٹ دیتے پس جب اس کے بعد اسے دوبارہ لایا جاتا تو آپ فرماتے : بیشک مجھے شرم آتی ہے کہ یہ اپنی نماز کے لیے بھی پاکی حاصل نہ کرسکے لیکن تم مسلمانوں کو اس کے شر سے دور کردو اور اس پر بیت المال سے خرچ کرو۔

28847

(۲۸۸۴۸) حَدَّثَنَا عِیسَی بْنُ یُونُسَ ، عَنِ الأَوْزَاعِیُّ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، قَالَ : انْتَہَی أَبُو بَکْرٍ فِی قَطْعِ السَّارِقِ إِلَی الْیَدِ وَالرِّجْلِ۔
(٢٨٨٤٨) حضرت زھری فرماتے ہیں کہ حضرت ابوبکر صدیق نے چور کے کاٹنے میں ایک ہاتھ اور ایک پاؤں تک انتہا کی۔

28848

(۲۸۸۴۹) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ یَزِیدَ بْنِ جَابِرٍ ، عَنْ مَکْحُولٍ ؛ أَنَّ عُمَرَ قَالَ : إِذَا سَرَقَ فَاقْطَعُوا یَدَہُ ، ثُمَّ إِنْ عَادَ فَاقْطَعُوا رِجْلَہُ ، وَلاَ تَقْطَعُوا یَدَہُ الأُخْرَی ، وَذَرُوہُ یَأْکُلُ بِہَا الطَّعَامَ وَیَسْتَنْجِی بِہَا مِنَ الْغَائِطِ ، وَلَکِنِ احْبِسُوہُ عَنِ الْمُسْلِمِینَ۔
(٢٨٨٤٩) حضرت مکحول فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب نے ارشاد فرمایا : جب چور چوری کرے تو تم اس کا ایک ہاتھ کاٹ دو پھر اگر وہ دوبارہ چوری کرے تو تم اس کی ایک ٹانگ کاٹ دو اور تم اس کا دو سرا ہاتھ مت کاٹو اس کو چھوڑدو تاکہ وہ اس کے ذریعہ کھانا کھائے اور اپنا پاخانہ صاف کرے لیکن تم مسلمانوں سے اسے قید کردو۔

28849

(۲۸۸۵۰) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَن مَنْصُورٍ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، قَالَ : لاَ یُتْرَک ابْنُ آدَمَ کَالْبَہِیمَۃِ ، یُتْرَکُ لَہُ یَدٌ یَأْکُلُ بِہَا۔
(٢٨٨٥٠) حضرت منصور فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم نے ارشاد فرمایا : ابن آدم کو جانور کی طرح مت چھوڑو۔ اس کا ایک ہاتھ چھوڑ دو تاکہ اس کے ذریعہ کھائے۔

28850

(۲۸۸۵۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ ، عَنْ أَبِیہِ ؛ أَنَّ أَبَا بَکْرٍ أَرَادَ أَنْ یَقْطَعَ الرِّجْلَ بَعْدَ الْیَدِ وَالرِّجْلِ ، فَقَالَ عُمَرُ لَہُ : السُّنَّۃُ الْیَدُ۔
(٢٨٨٥١) حضرت قاسم فرماتے ہیں کہ حضرت ابوبکر صدیق نے ایک ہاتھ اور پاؤں کاٹنے کے بعد دوسری ٹانگ کاٹنے کا ارادہ کیا اس پر حضرت عمر نے ان سے ارشاد فرمایا : سنت ہاتھ کاٹنا ہے۔

28851

(۲۸۸۵۲) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَن خَالِدٍ الْحَذَّائِ ، عَن عِکْرِمَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : رَأَیْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ قَطَعَ یَدَ رَجُلٍ بَعْدَ یَدِہِ وَرِجْلِہِ۔
(٢٨٨٥٢) حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر بن خطاب کو دیکھا کہ آپ نے ایک آدمی کا ہاتھ کاٹ دیا اس کا ایک ہاتھ اور پاؤں کاٹنے کے بعد۔

28852

(۲۸۸۵۳) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ ، عَنْ عَطَائٍ ؛ سُئِلَ : أَیُقْطَعُ السَّارِقُ أَکْثَرَ مِنْ یَدِہِ وَرِجْلِہِ ؟ قَالَ : لاَ ، وَلَکِنَّہُ یُحْبَسُ۔
(٢٨٨٥٣) حضرت عبدالملک فرماتے ہیں کہ حضرت عطائ سے پوچھا گیا کہ چور کا ایک ہاتھ اور پاؤں سے زیادہ کوئی عضو کاٹا جائے گا ؟ آپ نے فرمایا : نہیں لیکن اسے قید کردیا جائے گا۔

28853

(۲۸۸۵۴) حَدَّثَنَا عِیسَی بْنُ یُونُسَ ، عَنِ الأَوْزَاعِیِّ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ أَبِی کَثِیرٍ ، قَالَ : کَتَبَ نَجْدَۃُ إِلَی ابْنِ عُمَرَ ، یَسْأَلُہُ : ہَلْ قَطَعَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الرِّجْلَ بَعْدَ الْیَدِ ؟ فَکَتَبَ إِلَیْہِ : أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَدْ قَطَعَ الرِّجْلَ بَعْدَ الْیَدِ۔
(٢٨٨٥٤) حضرت یحییٰ بن ابو کثیر فرماتے ہیں کہ نجدہ نے حضرت ابن عمر کو خط لکھ کر سوال کیا، کیا نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہاتھ کے بعد پاؤں کاٹا تھا ؟ تو آپ نے جواب لکھا ! یقیناً نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہاتھ کے بعد پاؤں کاٹا تھا۔

28854

(۲۸۸۵۵) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنِی عَبْدُ رَبِّہِ بْنُ أَبِی أُمَیَّۃَ بْنِ الْحَارِثِ ، عَنِ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ أَبِی رَبِیعَۃَ ؛ أَنَّہُ حَدَّثَہُ ، وَعَبْدُ الرَّحْمَن بْنُ سَابِطٍ أَیْضًا حَدَّثَاہُ ؛ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أُتِیَ بِعَبْدٍ قَدْ سَرَقَ فَقَطَعَ یَدَہُ ، ثُمَّ الثَّانِیَۃَ فَقَطَعَ رِجْلَہُ ، ثُمَّ أُتِیَ بِہِ فَقَطَعَ یَدَہُ ، ثُمَّ أُتِیَ بِہِ فَقَطَعَ رِجْلَہُ۔ (ابوداؤد ۲۴۷)
(٢٨٨٥٥) حضرت حارث بن عبداللہ بن ابو ربیعہ اور حضرت عبدالرحمن بن سابط یہ دونوں حضرات فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ایک غلام لایا گیا تحقیق اس نے چوری کی تھی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کا ہاتھ کاٹ دیا پھر دوبارہ چوری کی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کا پاؤں کاٹ دیا پھر دوبارہ اسے لایا گیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کا ہاتھ کاٹ دیا پھر اسے لایا گیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کا پاؤں کاٹ دیا۔

28855

(۲۸۸۵۶) حَدَّثَنَا ابْنُ إِدْرِیسَ ، عَنْ حُصَیْنٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ (ح) وَعَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ سَلِمَۃَ ؛ أَنَّ عَلِیًّا أُتِیَ بِسَارِقٍ فَقَطَعَ یَدَہُ الْیُمْنَی ، ثُمَّ أُتِیَ بِہِ فَقَطَعَ رِجْلَہُ الْیُسْرَی ، ثُمَّ أُتِیَ بِہِ الثَّالِثَۃَ ، فَقَالَ : إِنِّی لأَسْتَحْیِی أَنْ أَقْطَعَ یَدَہُ یَأْکُلُ بِہَا وَیَسْتَنْجِی بِہَا۔ وَفِیْ حَدِیثِ بَعْضِہِمْ : ضَرَبَہُ وَحَبَسَہُ۔
(٢٨٨٥٦) حضرت شعبی اور حضرت عبداللہ بن مسلمہ فرماتے ہیں کہ حضرت علی کے پاس ایک چور کو لایا گیا تو آپ نے اس کا دایاں ہاتھ کاٹ دیا پھر دوبارہ اسے لایا گیا تو آپ نے اس کا بایاں پاؤں کاٹ دیا۔ پھر اس کو تیسری مرتبہ لایا گیا تو آپ نے فرمایا : یقیناً مجھے شرم آتی ہے کہ میں اس کا یہ ہاتھ کاٹ دوں جس کے ذریعہ وہ کھاتا اور استنجا کرتا ہے۔ بعض راویوں کی حدیث میں یوں ہے : آپ نے اسے مارا اور اسے قید کردیا۔

28856

(۲۸۸۵۷) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ سَلَمَۃِ ، قَالَ : کَانَ عَلِیٌّ یَقُولُ فِی السَّارِقِ : إِذَا سَرَقَ قَطَعْت یَدَہُ ، فَإِنْ عَادَ قَطَعْتُ رِجْلَہُ ، فَإِنْ عَادَ اسْتَوْدَعْتُہُ السِّجْنَ۔
(٢٨٨٥٧) حضرت عبداللہ بن مسلمہ فرماتے ہیں کہ حضرت علی چور کے بارے میں فرمایا کرتے تھے کہ جب وہ چوری کرے گا تو میں اس کا ایک ہاتھ کاٹ دوں گا پس اگر وہ دوبارہ چوری کرے گا تو میں اس کا ایک پاؤں کاٹ دوں گا پس اگر وہ دوبارہ چوری کرے گا تو میں اسے جیل میں قید کردوں گا۔

28857

(۲۸۸۵۸) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ، عَنْ حَجَّاجٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِینَارٍ؛ أَنَّ نَجْدَۃَ کَتَبَ إِلَی ابْنِ عَبَّاسٍ یَسْأَلُہُ عَنِ السَّارِقِ؟ فَکَتَبَ إِلَیْہِ بِمِثْلِ قَوْلِ عَلِیٍّ۔
(٢٨٨٥٨) حضرت عمرو بن دینار فرماتے ہیں کہ نجدہ نے حضرت ابن عباس کو خط لکھ کر ان سے چور کے متعلق پوچھا ؟ تو آپ نے اس کو حضرت علی کے قول کی مثل جواب لکھا۔

28858

(۲۸۸۵۹) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَن سِمَاکٍ ، عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِہِ ؛ أَنَّ عُمَرَ اسْتَشَارَہُمْ فِی سَارِقٍ ، فَأَجْمَعُوا عَلَی مِثْلِ قَوْلِ عَلِیٍّ۔
(٢٨٨٥٩) حضرت سماک اپنے بعض اصحاب سے نقل کرتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب نے صحابہ سے چور کے بارے میں مشورہ طلب کیا تو ان سب نے حضرت علی کے قول کی مثل پر اتفاق کیا۔

28859

(۲۸۸۶۰) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَن ثُمَامَۃَ ؛ أَنَّ أَنَسَ بْنَ مَالِکٍ کَانَ إِذَا زَنَی مَمْلُوکُہُ ضَرَبَہُ الْحَدَّ۔
(٢٨٨٦٠) حضرت ثمامہ فرماتے ہیں کہ جب حضرت انس بن مالک کا غلام زنا کرتا تو آپ اس پر حد جاری کرتے۔

28860

(۲۸۸۶۱) حَدَّثَنَا سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَن عُبَیْدِ اللہِ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، وَزَیْدِ بْنِ خَالِدٍ ، وَشِبْلٍ ، قَالُوا: کُنَّا عَندَ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَسَأَلَہُ رَجُلٌ عَنِ الأَمَۃِ تَزْنِی قَبْلَ أَنْ تُحْصَنَ ؟ قَالَ : اجْلِدُوہَا ، فَإِنْ زَنَتْ فَاجْلِدُوہَا ، قَالَ فِی الثَّالِثَۃِ ، أَوْ فِی الرَّابِعَۃِ : فَبِیعُوہَا وَلَوْ بِضَفِیرٍ۔ (احمد ۱۱۶۔ ابن ماجہ ۲۵۶۵)
(٢٨٨٦١) حضرت ابوہریرہ ، حضرت شبل اور حضرت زید بن خالد فرماتے ہیں کہ ہم لوگ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس تھے کہ ایک آدمی نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے باندی کے متعلق پوچھا جو شادی شدہ ہونے سے قبل زنا کرتی ہو ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اس کو کوڑے لگاؤ۔ پس اگر وہ زنا کرے تو اس کو کوڑے لگاؤ۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تیسری یا چوتھی مرتبہ میں فرمایا : پس اس کو فروخت کردو اگرچہ بٹ دی ہوئی رسی کے بدلے ہی ہو۔

28861

(۲۸۸۶۲) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِ ، عَنْ عَبْدِ الأَعْلَی ، عَنْ أَبِی جَمِیلَۃَ ، عَنْ عَلِیٍّ ، قَالَ : أُخْبِرَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِأَمَۃٍ لَہُمْ فَجَرَتْ ، فَأَرْسَلَنِی إِلَیْہَا ، فَقَالَ : اذْہَبْ فَأَقِمْ عَلَیْہَا الْحَدَّ ، فَانْطَلَقْتُ فَوَجَدْتہَا لَمْ تَجِفَّ مِنْ دِمَائِہَا ، فَقَالَ : أَفْرَغْتَ ؟ فَقُلْتُ : وَجَدْتہَا لَمْ تَجِفَّ مِنْ دِمَائِہَا ، قَالَ : إِذَا جَفَّتْ مِنْ دِمَائِہَا فَاجْلِدْہَا ، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : وَأَقِیمُوا الْحُدُودَ عَلَی مَا مَلَکَتْ أَیْمَانُکُمْ۔ (ابوداؤد ۴۴۶۸۔ احمد ۸۹)
(٢٨٨٦٢) حضرت علی فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو لوگوں کی ایک باندی کے متعلق خبر دی گئی کہ اس نے گناہ کیا ہے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے اس کی طرف بھیجا اور فرمایا : تم جا کر اس پر حد قائم کرو پس میں گیا تو میں نے اس کو اس حال میں پایا کہ اس کا خون خشک نہیں ہوا تھا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کیا تم فارغ ہوگئے ؟ میں نے عرض کی کہ میں نے اسے اس حال میں پایا کہ اس کا خون خشک نہیں ہوا تھا ! آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جب اس کا خون خشک ہوجائے تو تم اسے کوڑے مارنا پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : تم اپنے ماتحتوں پر حد قائم کرو۔

28862

(۲۸۸۶۳) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، عَن ہَمَّامٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُرَحْبِیلَ ، قَالَ : جَائَ مَعْقِلُ الْمُزَنِیّ إِلَی عَبْدِ اللہِ ، فَقَالَ : جَارِیَتِی زَنَتْ فَاجْلِدُوہَا ؟ قَالَ : فَقَالَ عبْدُ اللہِ : اجْلِدْہَا خَمْسِینَ ، فَقَالَ : عَادَتْ ، فَقَالَ : اجْلِدْہَا۔
(٢٨٨٦٣) حضرت عمرو بن شرحبیل فرماتے ہیں کہ حضرت معقل مزنی حضرت عبداللہ بن مسعود کے پاس آئے اور کہنے لگے میری باندی نے زنا کیا ہے سو اسے کوڑے ماردو ! اس پر حضرت عبداللہ بن مسعود نے ارشاد فرمایا : اس کو پچاس کوڑے ماردو۔ انھوں نے کہا : وہ دوبارہ زنا کرے تو ؟ تو آپ نے فرمایا : اسے کوڑے مارنا۔

28863

(۲۸۸۶۴) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِیٍّ ؛ أَنَّ فَاطِمَۃَ حَدَّتْ جَارِیَۃً لَہَا۔
(٢٨٨٦٤) حضرت حسن بن محمد بن علی فرماتے ہیں کہ حضرت فاطمہ نے اپنی باندی پر حد جاری فرمائی۔

28864

(۲۸۸۶۵) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ أَبِی الزِّنَادِ ، عَن خَارِجَۃَ بْنِ زَیْدٍ ، عَنْ زَیْدٍ ؛ أَنَّہُ حَدَّ جَارِیَۃً لَہُ۔
(٢٨٨٦٥) حضرت خارجہ بن زید فرماتے ہیں کہ حضرت زید نے اپنی باندی پر حد جاری فرمائی۔

28865

(۲۸۸۶۶) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ، عَن خَالِدٍ، عَنْ أَبِی قِلاَبَۃَ؛ أَنَّ أَبَا الْمُہَلَّبِ کَانَ یَجْلِدُ أَمَتَہُ إِذَا فَجَرَتْ فِی مَجْلِسِ قَوْمِہِ۔
(٢٨٨٦٦) حضرت ابو قلابہ فرماتے ہیں کہ جب حضرت ابو المھلب کی باندی برا کام کرتی تو آپ اپنی قوم کی مجلس میں اسے کوڑے مارتے تھے۔

28866

(۲۸۸۶۷) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ، عَنْ مُغِیرَۃَ، عَنْ فُضَیْلٍ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ، قَالَ: کَانُوا یُرْسِلُونَ إِلَی خَدَمِہِمْ إِذَا زَنَیْنَ یَجْلِدُونَہُنَّ فِی الْمَجَالِسِ۔
(٢٨٨٦٧) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ صحابہ کے خادم جب زنا کرتے تو آپ ان کو بلاتے اور مجلسوں میں ان کو کوڑے مارتے تھے۔

28867

(۲۸۸۶۸) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ الثَّقَفِیُّ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَن نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ؛ أَنَّہُ کَانَ یَضْرِبُ أَمَتَہُ إِذَا فَجَرَتْ۔
(٢٨٨٦٨) حضرت نافع فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عمر اپنی باندی کو مارتے تھے جب وہ زنا کرتی۔

28868

(۲۸۸۶۹) حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : شَہِدْت أَبَا بَرْزَۃَ ضَرَبَ أَمَۃً لَہُ فَجَرَتْ ، قَالَ : وَعَلَیْہَا مِلْحَفَۃٌ قَدْ جُلِّلَتْ بِہَا ، قَالَ : وَعَندَہُ طَائِفَۃٌ مِنَ النَّاسِ ، قَالَ : ثُمَّ قَرَأَ {وَلْیَشْہَدْ عَذَابَہُمَا طَائِفَۃٌ مِنَ الْمُؤْمِنِینَ}۔
(٢٨٨٦٩) حضرت اشعث کے والد فرماتے ہیں کہ میں حضرت ابو برزہ کے پاس حاضر تھا انھوں نے اپنی ایک باندی کو مارا جس نے گناہ کا کام کیا تھا راوی کہتے ہیں اس باندی پر چادر لپٹی ہوئی تھی اور آپ کے پاس لوگوں کا ایک گروہ تھا آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی۔ ترجمہ :۔ اور چاہیے کہ مشاہدہ کرے ان کی سزا کا ایک گروہ مومنوں کا۔

28869

(۲۸۸۷۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، وَغُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِی لَیْلَی ، قَالَ : أَدْرَکْتُ أَشْیَاخَ الأَنْصَارِ إِذَا زَنَتِ الأَمَۃُ یَضْرِبُونَہَا فِی مَجَالِسِہِمْ۔
(٢٨٨٧٠) حضرت عمرو بن مرہ فرماتے ہیں کہ حضرت عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ نے فرمایا : کہ میں نے انصار کے شیوخ کو پایا کہ جب باندی زنا کرتی تو وہ اس کو اپنی مجلسوں میں مارتے تھے۔

28870

(۲۸۸۷۱) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، عَن عَلْقَمَۃَ ، وَالأَسْوَدِ ؛ أَنَّہُمَا کَانَا یُقِیمَانِ الْحُدُودَ عَلَی جِوَارِی الْحَیِّ إِذَا زَنَیْنَ فِی الْمَجَالِسِ۔
(٢٨٨٧١) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ حضرت علقمہ اور حضرت اسود محلہ کی باندیوں پر مجلسوں میں حد قائم کرتے تھے جب وہ زنا کرتیں۔

28871

(۲۸۸۷۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، عَنْ إِسْرَائِیلَ، عَنْ جَابِرٍ، عَنْ أَبِی جَعْفَرٍ ، قَالَ: لاَ تُطہِّر فِی الْحَیِّ إِلاَّ مَا مَلَکَتْ یَمِینُک۔
(٢٨٨٧٢) حضرت جابر فرماتے ہیں کہ حضرت ابو جعفر نے ارشاد فرمایا : تم محلے میں صرف اپنے مملوکوں کو پاک کرو۔

28872

(۲۸۸۷۳) حَدَّثَنَا ابْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِی مَیْسَرَۃَ ؛ أَنَّہُ کَانَ یَضْرِبُ إِمَائَ قَوْمِہِ یُطَہِّرُہُنَّ۔
(٢٨٨٧٣) حضرت ابو اسحاق فرماتے ہیں کہ حضرت ابو میسرہ اپنی قوم کی باندیوں کو مارتے تھے اور ان کو پاک کرتے تھے۔

28873

(۲۸۸۷۴) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَن مَنْصُورٍ ، قَالَ : لَقِیتُ عَبْدَ الرَّحْمَن بْنَ مَعْقِلٍ ، فَقُلْتُ : أَرَأَیْتَ الأَمَۃَ الَّتِی سَأَلَ عَنْہَا أَبُوک عَبْدَ اللہِ أَنَّہَا فَجَرَتْ ، فَأَمَرَہُ بِجِلْدِہَا ، کَانَتْ تَزَوَّجَتْ ؟ قَالَ : لاَ۔
(٢٨٨٧٤) حضرت منصور فرماتے ہیں کہ میں حضرت عبدالرحمن بن معقل سے ملا تو میں نے پوچھا ! اس باندی کے متعلق آپ کی کیا رائے ہے کہ جس کے بارے میں آپ کے والد نے حضرت عبداللہ بن مسعود سے سوال کیا تھا جس نے زنا کیا تھا اور آپ نے اسے کوڑے مارنے کا حکم دیا تھا : کیا وہ شادی شدہ تھی ؟ آپ نے فرمایا : نہیں۔

28874

(۲۸۸۷۵) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَن حَبِیبٍ ، عَنْ أَبِی صَالِحٍ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إِذَا زَنَتْ خَادِمُ أَحَدِکُمْ فَلْیَجْلِدْہَا ، فَإِنْ عَادَتْ فَلْیَجْلِدْہَا ، فَإِنْ عَادَتْ فَلْیَجْلِدْہَا ، فَإِنْ عَادَتْ فَلْیَبِعْہَا وَلَوْ بِحَبْلٍ مِنْ شَعْرٍ۔ (ترمذی ۱۴۴۰۔ نسائی ۷۲۴۰)
(٢٨٨٧٥) حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جب تم میں سے کسی کی باندی زنا کرے تو اسے چاہیے کہ وہ اسے کوڑے مارے پس اگر وہ دوبارہ زنا کرے تو اسے چاہیے کہ وہ اسے کوڑے مارے پس اگر وہ دوبارہ زنا کرے تو اسے چاہیے کہ وہ اسے فروخت کردے اگرچہ بالوں سے بنی ہوئی رسی کے عوض ہو۔

28875

(۲۸۸۷۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَن حَبِیبٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ (ح) وَعَنْ سُفْیَانَ ، عَن مَنْصُورٍ ، عَن مُجَاہِدٍ (ح) وَعَن شُعْبَۃَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ، قَالُوا : لَیْسَ عَلَی الأَمَۃِ حَدٌّ حَتَّی تُزَوَّجَ۔
(٢٨٨٧٦) حضرت ابن عباس ، حضرت مجاہد اور حضرت سعید بن جبیر فرماتے ہیں کہ باندی پر حد نہیں ر ہوگی یہاں تک کہ وہ شادی شدہ ہوجائے۔

28876

(۲۸۸۷۷) حَدَّثَنَا ابْنُ یَمَانٍ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنْ جَعْفَرٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ، قَالَ : لاَ تُجْلَدُ الأَمَۃُ حَتَّی تُحْصَنَ۔
(٢٨٨٧٧) حضرت جعفر فرماتے ہیں کہ حضرت سعید بن جبیر نے ارشاد فرمایا : باندی کو کوڑے نہیں مارے جائیں گے یہاں تک کہ وہ شادی شدہ ہوجائے۔

28877

(۲۸۸۷۸) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَن مَنْصُورٍ ، عَن مُجَاہِدٍ ، قَالَ : یَقُولُ أَہْلُ مَکَّۃَ : إِذَا فَجَرَتِ الأَمَۃُ وَلَمْ تَکُنْ تَزَوَّجَتْ قَبْلَ ذَلِکَ ، لاَ یُقَامُ عَلَیْہَا الْحَدُّ۔
(٢٨٨٧٨) حضرت منصور فرماتے ہیں کہ حضرت مجاہد نے ارشاد فرمایا : مکہ والے کہتے ہیں کہ جب باندی گناہ کا کام کرے اور وہ اس سے پہلے شادی شدہ نہیں تھی تو اس پر حد قائم نہیں کی جائے گی۔

28878

(۲۸۸۷۹) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ، عَنْ عَمْرٍو، عَن مُجَاہِدٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: لَیْسَ عَلَی الأَمَۃِ حَدٌّ حَتَّی تُحْصَنَ بِزَوْجٍ۔
(٢٨٨٧٩) حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عباس نے ارشاد فرمایا : باندی پر حد نہیں ہوگی یہاں تک کہ وہ کسی سے شادی کرلے۔

28879

(۲۸۸۸۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ مُبَارَکٍ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ أَبِی کَثِیرٍ ، عَن عِکْرِمَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : حدُّ الْمُکَاتَبِ حَدُّ الْمَمْلُوکِ۔
(٢٨٨٨٠) حضرت عکرمہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عباس نے ارشاد فرمایا : مکاتب کی سزا غلام کی سزا ہوگی۔

28880

(۲۸۸۸۱) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مُغِیْرَۃ ، قَالَ : حَدُّ الْمُکَاتَبِ حَدُّ الْمَمْلُوکِ ، مَا بَقِیَ عَلَیْہِ شَیْئٌ مِنْ مُکَاتَبَتِہِ۔
(٢٨٨٨١) حضرت جریر فرماتے ہیں کہ حضرت مغیرہ نے ارشاد فرمایا : مکاتب کی سزا غلام کی سزا ہوگی جب تک اس پر بدل کتابت میں سے کچھ بھی باقی ہے۔

28881

(۲۸۸۸۲) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ ، عَن صَالِحِ بْنِ حَیٍّ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : حَدُّ الْمَمْلُوکِ مَا بَقِیَ عَلَیْہِ شَیْئٌ۔
(٢٨٨٨٢) حضرت صالح بن حیّ فرماتے ہیں کہتے ہیں کہ حضرت شعبی نے ارشاد فرمایا : مکاتب کی سزا غلام کی سزا ہوگی جب تک اس پر بدل کتاب کا کچھ حصہ بھی باقی ہو۔

28882

(۲۸۸۸۳) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِد الأَحَمْر، عَنْ صَالِحِ بْنِ حَیِّ، عَنْ الشَّعْبِیِّ، قَالَ: یُضْرَبُ الْمُکَاتَبُ حَدَّ الْعَبْدِ حَتَّی یعْتقَ۔
(٢٨٨٨٣) حضرت صالح بن حی فرماتے ہیں کہ حضرت شعبی نے ارشاد فرمایا : مکاتب کو غلام کی سزا دی جائے گی یہاں تک کہ وہ آزاد ہوجائے۔

28883

(۲۸۸۸۴) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، قَالَ : حدَّہُ حَدُّ الْعَبْدِ۔
(٢٨٨٨٤) حضرت معمر فرماتے ہیں کہ حضرت زھری نے ارشاد فرمایا : اس کی سزا غلام کی سزا ہوگی۔

28884

(۲۸۸۸۵) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَن مَنْصُورٍ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، عَن عَلِیٍّ ؛ فِی الْمُکَاتَبِ إِذَا أَصَابَ حَدًّا ، قَالَ : یُضْرَبُ بِحِسَابِ مَا أَدَّی۔
(٢٨٨٨٥) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ حضرت علی اس مکاتب غلام کے بارے میں جو کسی قابل حد جرم کا ارتکاب کرے فرماتے ہیں کہ اس کی ادائیگی کے بقدر اسے سزا دی جائے گی۔

28885

(۲۸۸۸۶) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، وَعَبْدُ الرَّحِیمِ ، عَن مُجَالِدٍ ، عَنْ عَامِرٍ ، قَالَ : لاَ امْتِحَانَ فِی حَدٍّ۔
(٢٨٨٨٦) حضرت مجالد فرماتے ہیں کہ حضرت عامر نے ارشاد فرمایا، حد میں جانچ پڑتال نہیں ہوگی۔

28886

(۲۸۸۸۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن عِمْرَانَ بْنِ حُدَیْرٍ ، عَنْ أَبِی مِجْلَزٍ ، قَالَ : الْمِحْنَۃُ فِی الضِّنَّۃ أَنْ تُوعِدہ ، وَتُجْلَبَ عَلَیْہِ ، وَإِنْ ضَرَبْتُہُ سَوْطًا وَاحِدًا ، فَلَیْسَ اعْتِرَافُہُ بِشَیْئٍ۔
(٢٨٨٨٧) حضرت عمران بن حدیر فرماتے ہیں کہ حضرت ابو مجلز نے ارشاد فرمایا : تہمت اور آدمی پر عیب لگانے مں ٢ آزمائش یہ ہے کہ یوں کہے : تو نے اسے ڈرایا ہوگا اور اسے نقصان پہنچایا ہوگا اور اگر میں نے اسے ایک کوڑا بھی مارا تو اس کا اعتراف قابل قبول نہیں ہوگا۔

28887

(۲۸۸۸۸) حَدَّثَنَا ابْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ زَیْدٍ ، عَن وَاصِلٍ مَوْلَی أَبِی عُیَیْنَۃَ ، عَنْ أَبِی عُیَیْنَۃَ بْنِ الْمُہَلَّبِ ، قَالَ : سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِیزِ ، یَقُولُ : مَنْ أَقَرَّ بَعْدَ مَا ضُرِبَ سَوْطًا وَاحِدًا ، فَہُوَ کَذَّابٌ۔
(٢٨٨٨٨) حضرت ابو عیینہ بن مھلب فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر بن عبدالعزیز کو یوں فرماتے ہوئے سنا : جس شخص نے ایک کوڑا کھانے کے بعد اقرار کرلیا تو وہ شخص جھوٹا ہے۔

28888

(۲۸۸۸۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ عَامِرٍ ، وَالْحَکَمِ ، قَالاَ : الْمِحْنَۃُ بِدْعَۃٌ۔
(٢٨٨٨٩) حضرت جابر فرماتے ہیں کہ حضرت عامر اور حضرت حکم نے ارشاد فرمایا، آزمائش بدعت ہے۔

28889

(۲۸۸۹۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، عَنِ الْمَسْعُودِیِّ، عَنِ الْقَاسِمِ، عَنْ شُرَیْحٍ، قَالَ: الْقَیْدُ کُرْہٌ، وَالسِّجْنُ کَرْہٌ، وَالْوَعِیدُ کَرْہٌ۔
(٢٨٨٩٠) حضرت قاسم فرماتے ہیں کہ حضرت شریح نے ارشاد فرمایا : بیڑی ڈالنا مشقت ہے جیل مشقت ہے اور ڈرانا بھی مشقت و سختی ہے۔

28890

(۲۸۸۹۱) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنِ الشَّیْبَانِیِّ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ حَنْظَلَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : قَالَ عُمَرُ : لَیْسَ الرَّجُلُ بِأَمِینٍ عَلَی نَفْسِہِ إِنْ أَجَعْتَہُ ، أَوْ أَخَفْتَہُ ، أَوْ حَبَسْتَہُ۔
(٢٨٨٩١) حضرت حنظلہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر نے ارشاد فرمایا : آدمی اپنے نفس پر اعتماد نہیں کرے گا اگر تم اسے تکلیف دو گے یا اسے ڈراؤ گے یا اسے قید کردو گے۔

28891

(۲۸۸۹۲) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، قَالَ : قَالَ ابْنُ شِہَابٍ فِی رَجُلٍ اعْتَرَفَ بَعْدَ مَا جُلِدَ ، قَالَ : لَیْسَ عَلَیْہِ حَدٌّ۔
(٢٨٨٩٢) حضرت ابن جریج فرماتے ہیں کہ حضرت ابن شھاب سے ایسے آدمی کے بارے میں مروی ہے کہ جس نے کوڑے کھانے کے بعد اعتراف کر لاد ہو۔ آپ نے فرمایا : اس پر حد نہیں ہوگی۔

28892

(۲۸۸۹۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن مُبَارَکٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : قَالَ عُمَرُ : رَوِّعَ السَّارِقَ وَلاَ تُرَاعِہِ۔
(٢٨٨٩٣) حضرت حسن بصری فرماتے ہیں کہ حضرت عمر نے ارشاد فرمایا : تم چور کو ڈراؤ اور اس کے ساتھ نرمی مت کرو۔

28893

(۲۸۸۹۴) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا ابْنُ أَبِی ذِئْبٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَن طَارِقٍ الشَّامِیِّ ؛ أَنَّہُ أُتِیَ بِرَجُلٍ أُخِذَ فِی سَرِقَۃٍ فَضَرَبَہُ فَأَقَرَّ ، فَبَعَثَ إِلَی ابْنِ عُمَرَ یَسْأَلُہُ عَنْ ذَلِکَ ؟ فَقَالَ لَہُ ابْنُ عُمَرَ : لاَ تَقْطَعْہُ ، فَإِنَّہُ إِنَّمَا أَقَرَّ بَعْدَ ضَرْبِکَ إِیَّاہُ۔
(٢٨٨٩٤) حضرت زھری فرماتے ہیں کہ طارق شامی کے پاس ایک آدمی لایا گیا جسے چوری کے معاملہ میں پکڑا گیا تھا پس آپ نے حضرت ابن عمر کے پاس کسی کو بھیجا کہ ان سے اس بارے میں پوچھو ؟ اس پر حضرت ابن عمر نے ان سے فرمایا : تم اس کا ہاتھ مت کاٹو اس لیے کہ ہوسکتا ہے اس نے تمہاری مار کھانے کے بعد اس کا اقرار کرلیا ہو۔

28894

(۲۸۸۹۵) حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ عَطَائٍ ، قَالَ : سَأَلْتُہُ عَنِ الرَّجُلِ یَقُولُ لاِمْرَأَتِہِ : لَمْ أَجِدْکِ عَذْرَائَ ؟ قَالَ : لَیْسَ عَلَیْہِ شَیْئٌ ، إِنَّ الْعُذْرَۃَ تَذْہَبُ مِنَ الْوَثْبَۃِ ، وَالْمَرَضِ ، وَطُولِ التَّعَنیسِ۔
(٢٨٨٩٥) حضرت حجاج فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عطائ سے ایسے آدمی کے متعلق سوال کیا جو اپنی بیوی کو یوں کہہ دے : میں نے تجھے باکر نہیں پایا تو اس کا کیا حکم ہے ؟ آپ نے فرمایا : اس پر کوئی چیز لاز م نہیں اس لیے کہ دوشیزگی اچھل کود، بیماری اور لڑکی کی شادی دیر سے کرنے کی صورت میں بھی زائل ہوجاتی ہے۔

28895

(۲۸۸۹۶) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ الْحَکَمِ بْنِ أَبَانَ ، عَن سَالِمٍ ، قَالَ: سَأَلْتُہُ عَنِ الرَّجُلِ یَقُولُ لاِمْرَأَتِہِ لَمْ أَجِدْکِ عَذْرَائَ ؟ قَالَ : لاَ بَأْسَ ، الْعُذْرَۃُ تُذْہِبُہَا الْوَثْبَۃُ وَالشَّیْئُ۔
(٢٨٨٩٦) حضرت حکم بن ابان فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت سالم سے ایسے آدمی کے متعلق سوال کیا جو اپنی بیوی کو یوں کہہ دے : میں نے تجھے باکرہ نہیں پایا ؟ آپ نے فرمایا : کوئی حرج نہیں اس لیے کہ دوشیزگی اچھل کود اور کسی بھی چیز سے ختم ہوجاتی ہے۔

28896

(۲۸۸۹۷) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ الشَّیْبَانِیُّ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ؛ فِی الرَّجُلِ یَتَزَوَّجُ الْبِکْرَ ، ثُمَّ یَقُولُ : لَمْ أَجِدْکِ عَذْرَائَ ، قَالَ : لَیْسَ بِشَیْئٍ۔
(٢٨٨٩٧) حضرت شیبانی فرماتے ہیں کہ حضرت شعبی سے ایسے آدمی کے بارے میں مروی ہے جس نے باکرہ عورت سے شادی کی پھر یوں کہنے لگا : میں نے مجھے باکرہ نہیں پایا، آپ نے فرمایا، کوئی چیز لازم نہیں ہوگی۔

28897

(۲۸۸۹۸) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَن یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : کَانَ لاَ یَرَی ذَلِکَ قَذْفًا۔
(٢٨٨٩٨) حضرت یونس فرماتے ہیں کہ حضرت حسن بصری اس کو تہمت نہیں سمجھتے تھے۔

28898

(۲۸۸۹۹) حَدَّثَنَا عَبْدُ السَّلاَمِ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ؛ فِی الرَّجُلِ یَتَزَوَّجُ الْمَرْأَۃَ ، فَیَقُولُ : لَمْ أَجِدْہَا عَذْرَائَ ، قَالَ : لاَ حَدَّ عَلَیْہِ۔
(٢٨٨٩٩) حضرت مغیرہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم سے ایسے آدمی کے بارے میں مروی ہے جس نے عورت سے شادی کی اور کہنے لگا : میں نے اسے باکرہ نہیں پایا : آپ نے فرمایا : اس پر کوئی حد نہیں ہوگی۔

28899

(۲۸۹۰۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنِ الْحَکَمِ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، قَالَ : لَیْسَ بِقَذْفٍ۔
(٢٨٩٠٠) حضرت حضرت حکم فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم نے ارشاد فرمایا : یہ تہمت نہیں ہے۔

28900

(۲۸۹۰۱) حَدَّثَنَا ابْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَۃَ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَن سُلَیْمَانَ بْنِ یَسَارٍ ، وَعَطَائٍ ، وَالْحَسَنِ ؛ فِی الرَّجُلِ یَقُولُ لاِمْرَأَتِہِ لَمْ أَجِدْکِ عَذْرَائَ ؟ قَالُوا : إِنَّ الْعُذْرَۃَ تُذْہِبُہَا النَّیْطَۃُ ، وَاللِّیطَۃُ۔
(٢٨٩٠١) حضرت قتادہ فرماتے ہیں کہ حضرت سلیمان بن یسار، حضرت عطائ اور حضرت حسن بصری سے ایسے شخص بارے میں مروی ہے جس نے اپنی بیوی کو یوں کہا : میں نے تجھے باکرہ نہیں پایا ؟ اس سب حضرات نے فرمایا، بیشک دوشیزگی کو اچھل کود اور مار دھاڑ بھی زائل کردیتی ہے۔

28901

(۲۸۹۰۲) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ أَبِی حَنِیفَۃَ ، عَنِ الْہَیْثَمِ ، عَمَّنْ أَخْبَرَہُ ، عَنْ عَائِشَۃَ ، قَالَتْ : لَیْسَ عَلَیْہِ شَیْئٌ ، إِنَّ الْعُذْرَۃَ تَذْہَبُ مِنَ الْوَثْبَۃِ ، وَالْحَیْضَۃِ ، وَالْوُضُوئِ۔
(٢٨٩٠٢) ام المومنین حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ اس شخص پر کوئی چیز لازم نہیں ہوگی اس لیے کہ دو شیز گی اچھل کود، حیض اور وضو سے بھی زائل ہوجاتی ہے۔

28902

(۲۸۹۰۳) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ؛ فِی الرَّجُلِ یَقُولُ لامْرَأَتِہِ : لَمْ أَجِدْکِ عَذْرَائَ ، قَالَ سَعِیدٌ : حَدٌّ ، وَلاَ مُلاَعَنۃَ۔
(٢٨٩٠٣) حضرت قتادہ فرماتے ہیں کہ حضرت سعید بن مسیب سے ایسے آدمی کے بارے میں مروی ہے جو اپنی بیوی کو یوں کہہ دے میں نے تجھے باکرہ نہیں پایا ؟ حضرت سعید نے فرمایا : حد ہوگی اور لعان نہیں ہے۔

28903

(۲۸۹۰۴) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ الْحُبَابِ ، عَنِ ابْنِ لَہِیعَۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ ہُبَیْرَۃَ ، عَنْ رَجُلٍ قَدْ سَمَّاہُ ؛أَنَّ زَیْدَ بْنَ ثَابِتٍ، وَابْنَ عُمَرَ سُئِلاَ عَنْ رَجُلٍ قَالَ لاِمْرَأَتِہِ : لَمْ أَجِدْکِ عَذْرَائَ ؟ قَالاَ : إِنْ تَبَرَّأَ جُلِدَ الْحَدَّ ، وَکَانَتِ امْرَأَتَہُ ، وَإِنْ لَمْ یَتَبَرَّأْ لاَعَنَہَا وَفُرِّقَ بَیْنَہُمَا۔
(٢٨٩٠٤) حضرت عبداللہ بن ھبیرہ ایک آدمی سے جس کا آپ نے نام لیا اس سے مروی ہے کہ حضرت زید بن ثابت اور حضرت ابن عمر سے ایک آدمی کے متعلق سوال کیا گیا جس نے اپنی بیوی کو یوں کہہ دیا : میں نے تجھے باکرہ نہیں پایا ؟ ان دونوں حضرات نے فرمایا : اگر اس نے علیحدگی اختیار کرلی تو اس کو حداً کوڑے مارے جائیں گے اور وہ اس کی بیوی رہے گی اور اگر اس نے علیحدگی اختیار نہ کی تو ان دونوں کے درمیان لعان ہوگا اور ان دونوں کے درمیان تفریق کردی جائے گی۔

28904

(۲۸۹۰۵) حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ خَالِدٍ ، عَنِ ابْنِ أَبِی ذِئْبٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، قَالَ : إِذَا دَخَلَ الرَّجُلُ بِالْمَرْأَۃِ ، ثُمَّ قَالَ : لَمْ أَجِدْہَا عَذْرَائَ ، قَالَ : یُضْرَبُ الْحَدُّ ، وَلاَ یُلاَعَن ، لأَنَّہُ لَمْ یَقُلْ : إِنِّی رَأَیْتُک تَزْنِینَ۔
(٢٨٩٠٥) حضرت ابن ابی ذئب فرماتے ہیں کہ حضرت زھری نے ارشاد فرمایا : جب آدمی نے عورت سے دخول کرلیا پھر اس نے کہا ! میں نے اسے باکرہ نہیں پایا، اس پر حد لگائی جائے گی اور لعان نہیں کیا جائے گا۔ اس لیے کہ اس نے یوں نہیں کہا : بیشک میں نے تجھے زنا کرتے ہوئے دیکھا ہے۔

28905

(۲۸۹۰۶) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنِ ابْنِ شُبْرُمَۃَ ، قَالَ : کُنْتُ عَندَ الشَّعْبِیِّ ، فَأُتِیَ بِرَجُلٍ قَدْ أُخِذَ فِی حَدٍّ ، أَوْ قَذْفٍ، فَضَرَبَہُ الْحَدَّ وَعَلَیْہِ قَمِیصٌ ، مَا أَدْرِی مَا تَحْتَہُ۔
(٢٨٩٠٦) حضرت ابن شرمہ فرماتے ہیں کہ میں امام شعبی کے پاس تھا کہ ایک آدمی کو لایا گیا جس کو کسی حد یا تہمت کے معاملہ میں پکڑا گیا تھا تو آپ نے اس پر حد لگائی اس حال میں اس کے بدن پر قمیص تھی میں نہیں جانتا اس کے نیچے کیا تھا۔

28906

(۲۸۹۰۷) حَدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَن مُجَاہِدٍ (ح) وَعَنِ الْمُغِیرَۃِ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، قَالاَ : یُضْرَبُ الْقَاذِفُ وَعَلَیْہِ ثِیَابُہُ۔
(٢٨٩٠٧) حضرت مجاہد اور حضرت ابراہیم نے ارشاد فرمایا، تہمت لگانے والے کو مارا جائے گا اس حال میں کہ اس کے بدن پر کپڑے موجود ہوں۔

28907

(۲۸۹۰۸) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ إِسْمَاعِیلَ بْنِ أُمَیَّۃَ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاہِیمَ ، عَن أَبِیہِ ، قَالَ : إِنِّی لأَذْکُرُ مَسْکَ شَاۃٍ أَمَرَتْ بِہَا أمی فَذُبِحَتْ ، حِینَ ضَرَبَ عُمَرُ أَبَا بَکْرَۃَ ، فَجَعَلَ مَسْکَہَا عَلَی ظَہْرِہِ مِنْ شِدَّۃِ الضَّرْبِ۔
(٢٨٩٠٨) حضرت سعد بن ابراہیم فرماتے ہیں کہ ان کے والد حضرت ابراہیم نے ارشاد فرمایا : بیشک میں ذکر کروں گا اس بکری کی کھال کا جس کے بارے میں میری ماں نے حکم دیا تو اس کو ذبح کردیا گیا تھا جب حضرت عمر نے حضرت ابو بکرہ کو کوڑے مارے تھے تو آپ نے اس کی کھال کو آپ کی کمر پر ڈال دیا تھا مار کی شدت کی وجہ سے۔

28908

(۲۸۹۰۹) حَدَّثَنَا أَسْبَاطُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، عَنْ مُطَرِّفٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : یُضْرَبُ الْقَاذِفُ وَعَلَیْہِ ثِیَابُہُ ، إِلاَّ أَنْ یَکُونَ عَلَیْہِ فَرْوٌ ، أَوْ قَبَائٌ مَحْشُوٌّ ، حَتَّی یَجِدَ مَسَّ الضَّرْبِ۔
(٢٨٩٠٩) حضرت مطرف فرماتے ہیں کہ حضرت شعبی نے ارشاد فرمایا : تہمت لگانے والے کو کوڑے مارے جائیں گے درآنحالیکہ اس نے کپڑے پہنے ہوئے ہوں مگر یہ کہ پوستین لگا ہوا کپڑا یا روئی سے بھرا ہوا جبہ نہ ہوتا کہ وہ مار کی شدت محسوس کرے۔

28909

(۲۸۹۱۰) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الْحَجَّاجِ ، عَنِ الْوَلِیدِ بْنِ أَبِی مَالِکٍ ؛ أَنَّ أَبَا عُبَیْدَۃَ بْنَ الْجَرَّاحِ أُتِیَ بِرَجُلٍ فِی حَدٍ ، فَذَہَبَ الرَّجُلُ یَنْزِعُ قَمِیصَہُ ، وَقَالَ : مَا یَنْبَغِی لِجَسَدِی ہَذَا الْمُذْنِبِ أَنْ یُضْرَبَ وَعَلَیْہِ الْقَمِیصُ ، قَالَ : فَقَالَ أَبُو عُبَیْدَۃَ : لاَ تَدَعُوہُ یَنْزِعُ قَمِیصَہُ ، فَضَرَبَہُ عَلَیْہِ۔
(٢٨٩١٠) حضرت ولید بن ابو مالک فرماتے ہیں کہ حضرت ابو عبیدہ بن جراح کے پاس کسی سزا کے معاملہ میں ایک آدمی لایا گیا تو وہ آدمی خود اپنی قمیص اتارنے لگا اور کہا : میرے اس گناہ گار جسم کے لیے مناسب نہیں ہے کہ اسے قمیص پہننے کی حالت میں مارا جائے۔ حضرت ابو عبدہ نے فرمایا : تم اسے قمیص اتارنے کے لیے مت چھوڑو پس آپ نے اس کی قمیص پر ہی کوڑے مارے۔

28910

(۲۸۹۱۱) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَن حَمَّادٍ ، قَالَ : یُضْرَبُ الْقَاذِفُ وَعَلَیْہِ ثِیَابُہُ۔
(٢٨٩١١) حضرت شعبہ فرماتے ہیں کہ حضرت حماد نے ارشاد فرمایا : تہمت لگانے والے کو مارا جائے گا درآنحالیکہ اس نے کپڑے پہنے ہوئے ہوں۔

28911

(۲۸۹۱۲) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ ، عَنْ إِسْمَاعِیلَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : إِذَا قَذَفَ الرَّجُلُ فِی الشِّتَائِ لَمْ یُلْبَسْ ثِیَابَ الصَّیْفِ ، وَلَکِنْ یُضْرَبُ فِی ثِیَابِہِ الَّتِی قَذَفَ فِیہَا ، وَإِذَا قَذَفَ فِی الصَّیْفِ لَمْ یُلْبَسْ ثِیَابَ الشِّتَائِ ، یُضْرَبُ فِیمَا قَذَفَ فِیہِ۔
(٢٨٩١٢) حضرت اسماعیل فرماتے ہیں کہ حضرت حسن بصری نے ارشاد فرمایا : جب آدمی سردی میں کسی پر تہمت لگائے تو اسے گرمیوں کے کپڑے نہیں پہنائے جائیں گے لیکن اسے ان ہی کپڑوں میں کوڑے مارے جائیں جن میں اس نے تہمت لگائی تھی اور جب وہ گرمی میں تہمت لگائے تو اسے سردیوں کے کپڑے نہیں پہنائے جائیں گے اسے ان ہی کپڑوں میں کوڑے مارے جائیں گے جن میں اس نے تہمت لگائی تھی۔

28912

(۲۸۹۱۳) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاہِیمَ ، عَن أَبِیہِ ، عَن أُمِّہِ ، قَالَتْ : إِنِّی لأَذْکُرُ مَسْکَ شَاۃٍ ، ثُمَّ ذَکَرَ نَحْوًا مِنْ حَدِیثِ ابْنِ عُلَیَّۃَ۔
(٢٨٩١٣) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ ان کی والدہ نے ارشاد فرمایا : بیشک میں نے ضرور بکری کی کھال کا ذکر کروں گی۔ پھر انھوں ابن علیہ کی ماقبل میں گزری ہوئی حدیث والا مضمون بیان کیا۔

28913

(۲۸۹۱۴) حَدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَن سَلَمَۃَ بْنِ الْمَجْنُونِ ، قَالَ : قُلْتُ لِرَجُلٍ : یَا فَاعِلٌ بِأُمِّہِ ، قَالَ : فَقَدَّمُونِی إِلَی أَبِی ہُرَیْرَۃَ فَضَرَبَنِی۔ قَالَ : وَمَا أَوْجَعَنی إِلاَّ سَوْطٌ وَقَعَ عَلَی سَوْطٍ۔
(٢٨٩١٤) مسلمہ بن مجنون کہتے ہیں کہ میں نے ایک شخص سے کہا اے اپنی والدہ کے ساتھ کرنے والے تو اس بات پر لوگوں نے مجھے حضرت ابوہریرہ کے سامنے پیش کردیا۔ آپ نے مجھے مارا اور آپ نے مجھے تکلیف نہیں دی مگر ایک کوڑے کی جو دوسرے کوڑے پر پڑا ہوا تھا۔

28914

(۲۸۹۱۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنِ الْحَی ؛ أَنَّ امْرَأَۃً مِنَ الصَّبیْرِیِّینَ زَنَتْ ، فَأَلْبَسَہَا أَہْلُہَا دِرْعًا مِنْ حَدِیدٍ ، فَرُفِعَتْ إِلَی عَلِیٍّ فَضَرَبَہَا وَہُوَ عَلَیْہَا۔
(٢٨٩١٥) حضرت ابو اسحاق فرماتے ہیں کہ میرے قبیلہ کے ایک آدمی سے مروی ہے کہ صبیریین علاقہ کی ایک عورت نے زنا کیا تو اس کے گھر والوں نے اسے لوہے کی ذرہ پہنا کر اسے حضرت علی کے سامنے پیش کیا تو آپ نے اسے پہننے کی حالت میں ہی کوڑے مارے۔

28915

(۲۸۹۱۶) حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ ، عَنْ أَشْعَثَ بْنِ سُوَّارٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : شَہِدْتُ أَبَا بَرْزَۃَ یَضْرِبُ أَمَۃً لَہُ فَجَرَتْ ، وَعَلَیْہَا مِلْحَفَۃٌ۔
(٢٨٩١٦) حضرت سوار فرماتے ہیں کہ میں حضرت ابو برزہ کے پاس حاضر تھا کہ انھوں نے اپنی باندی کو مارا جس نے زنا کیا تھا درآنحالیکہ اس نے اوڑھنی پہنی ہوئی تھی۔

28916

(۲۸۹۱۷) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَن حَمَّادٍ ، قَالَ : أَمَّا الزَّانِی فَیُخْلَعُ عَنْہُ ثِیَابُہُ ، وَتَلا : {وَلاَ تَأْخُذْکُمْ بِہِمَا رَأْفَۃٌ فِی دِینِ اللہِ} ، قُلْتُ : ہَذَا فِی الْحُکْمِ ، قَالَ : ہَذَا فِی الْحُکْمِ وَالْجَلْدِ۔
(٢٨٩١٧) حضرت شعبہ فرماتے ہیں کہ حضرت حماد نے ارشاد فرمایا : جہاں تک زانی کا تعلق ہے تو اس کے کپڑے اتار دیے جائیں گے اور آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی : ترجمہ :۔ اور ان دونوں کے سلسلہ میں تمہیں ترس کھانے کا جانب دامن گیر نہ ہو اللہ کے دین کے معاملہ میں۔ راوی کہتے ہں ک : میں نے عرض کی : یہ آیت تو حکم کے بارے میں ہے۔ آپ نے فرمایا : یہ حکم اور کوڑے کے بارے میں ہے۔

28917

(۲۸۹۱۸) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ ، عَنْ الْحَجَّاجِ ، عَنِ الْوَلِیدِ بْنِ أَبِی مَالِکٍ ، قَالَ : أُتِیَ أَبُو عُبَیْدَۃَ بِرَجُلٍ قَدْ زَنَی ، فَقَالَ : إِنَّ ہَذَا الْجَسَدَ الْمُذْنِبَ لأَہْلٌ أَنْ یُضْرَبَ ، قَالَ : فَنَزَعَ عَنْہُ قَبَائَہُ ، فَأَبَی أَنْ یَضْرِبَہُ ، وَرَدَّ عَلَیْہِ قَبَائَہُ۔
(٢٨٩١٨) حضرت ولید بن ابو مالک فرماتے ہیں کہ حضرت ابو عبیدہ بن جراح کے پاس ایک آدمی لایا گیا جس نے زنا کیا تھا وہ کہنے لگا یہ گناہ گار جسم اس قابل ہے کہ اسے مارا جائے پھر اس نے اپنا جبہ اتار دیا پس آپ نے اس طرح مارنے سے انکار کیا اور اس پر اس کے جبہ کو واپس پہنا دیا۔

28918

(۲۸۹۱۹) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنِ الْقَاسِمِ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : أُتِیَ عَبْدُ اللہِ بِرَجُلٍ وُجِدَ مَعَ امْرَأَۃٍ فِی ثَوْبٍ ، قَالَ : فَضَرَبَہُمَا أَرْبَعِینَ أَرْبَعِینَ ، قَالَ : فَخَرَجُوا إِلَی عُمَرَ ، فَاسْتَعْدَوْا عَلَیْہِ ، فَلَقِیَ عُمَرُ عَبْدَ اللہِ ، فَقَالَ : قَوْمٌ اسْتَعْدَوْا عَلَیْک فِی کَذَا وَکَذَا ، قَالَ : فَأَخْبَرَہُ بِالْقِصَّۃِ ، فَقَالَ لِعَبْدِ اللہِ : کَذَلِکَ تَرَی ؟ قَالَ : نَعَمْ، قَالُوا : جِئْنَا نَسْتَعْدِیہِ ، فَإِذَا ہُوَ یَسْتَفْتِیہِ۔
(٢٨٩١٩) حضرت قاسم کے والد فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود کے پاس ایک آدمی لایا گیا جو کسی عورت کے ساتھ ایک کپڑے میں پایا گیا تھا۔ تو آپ نے ان دونوں کو چالیس چالیس کوڑے لگائے۔ راوی کہتے ہیں ! پھر وہ لوگ حضرت عمر کے پاس گئے حضرت عبداللہ کے خلاف مدد مانگنے کے لیے۔ حضرت عمر حضرت عبداللہ بن مسعود سے ملے اور فرمایا : کچھ لوگ تمہارے خلاف اس معاملہ میں مدد مانگ رہے ہیں تو آپ نے ان کو واقعہ کی اطلاع دی ۔ تو آپ یہ سن کر حضرت عبداللہ سے فرمانے لگے ! اس میں تمہاری ایسی رائے ہے ؟ آپ نے فرمایا : جی ہاں ! وہ لوگ کہنے لگے : ہم تو ان سے مدد مانگنے آئے تھے وہ تو خود ان سے فتویٰ پوچھ رہے ہیں۔

28919

(۲۸۹۲۰) حَدَّثَنَا حَاتِمٌ ، عَنْ جَعْفَرٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ عَلِیٍّ ، قَالَ : إِذَا وُجِدَ الرَّجُلُ مَعَ الْمَرْأَۃِ ، جُلِدَ کُلُّ وَاحِدٍ مِنْہُمَا مِئَۃ۔
(٢٨٩٢٠) حضرت جعفر کے والد فرماتے ہیں کہ حضرت علی نے ارشاد فرمایا : جب آدمی عورت کے ساتھ پایا جائے تو ان دونوں میں سے ہر ایک کو سو کوڑے مارے جائیں گے۔

28920

(۲۸۹۲۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَن سَلَمَۃَ ، عَنِ الْحَسَنِ الْعُرَنِیِّ ، عَنْ عبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِی لَیْلَی ؛ أَنَّ رَجُلاً کَانَ لَہُ عَسِیفٌ ، فَوَجَدَہُ مَعَ امْرَأَتِہِ فِی لِحَافٍ ، فَضَرَبَہُ عُمَرُ أَرْبَعِینَ۔
(٢٨٩٢١) حضرت عبدالرحمن بن ابی لیلی فرماتے ہیں کہ کسی آدمی کا ایک خدمت گار تھا پس اس شخص نے اسے اپنی بیوی کے ساتھ بستر میں پایا تو حضرت عمر نے اسے چالیس کوڑے مارے۔

28921

(۲۸۹۲۲) حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِیَۃَ ، عَن سُوَیْد بْنِ نَجِیحٍ ، عَن ظَبْیَانَ بْنِ عُمَارَۃَ ، قَالَ : أُتِیَ عَلِیٌّ بِرَجُلٍ وَامْرَأَۃٍ ، وَقَالَ رَجُلٌ : إِنَّا وَجَدْنَاہُمَا فِی لِحَافٍ وَاحِدٍ ، وَعَندَہُمَا خَمْرٌ وَرَیْحَانٌ ، قَالَ : فَقَالَ عَلِیٌّ : مُرْیِبَّانِ خَبِیثَانِ ، فَجَلَدَہُمَا ، وَلَمْ یَذْکُرْ حَدًّا۔
(٢٨٩٢٢) حضرت ظبیان بن عمارہ فرماتے ہیں کہ حضرت علی کے پاس ایک مرد اور عورت لائے گئے اور ایک آدمی کہنے لگا : بیشک ہم نے ان دونوں کو ایک ہی بستر میں پایا ہے اور ان کے پاس شراب اور ناز بو کی خوشبو بھی موجود تھی اس پر حضرت علی نے فرمایا : دونوں خبیث مشکوک ہیں، پھر آپ نے ان دونوں کو کوڑے مارے اور سزا ذکر نہیں کی۔

28922

(۲۸۹۲۳) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ آدَمَ ، عَنْ جَرِیرِ بْنِ حَازِمٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : تُجَزُّ رُؤُوسُہُمَا وَیُجْلَدَانِ ، فَذَکَرَ جَلْدًا لاَ أَحْفَظُہُ۔
(٢٨٩٢٣) حضرت جریر بن حازم فرماتے ہیں کہ حضرت حسن بصری نے ارشاد فرمایا : ان دونوں کے سر توڑے جائیں گے اور کوڑے مارے جائیں گے پس انھوں نے کوڑوں کی تعداد ذکر کی میں اس کو یاد نہ رکھ سکا۔

28923

(۲۸۹۲۴) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنِ أَبِی بِشْرٍ ، عَنْ أَبِی رَوْحٍ ؛ أَنَّ امْرَأَۃً تَشَبَّہَتْ بِأَمَۃٍ لِرَجُلٍ ، وَذَلِکَ لَیْلاً ، فَوَاقَعَہَا وَہُوَ یَرَی أَنَّہَا أَمَتُہُ ، قَالَ : فَرُفِعَ ذَلِکَ إِلَی عُمَرَ ، قَالَ : فَأَرْسَلَ إِلَی عَلِیٍّ ، فَقَالَ : اضْرِبِ الرَّجُلَ حَدًّا فِی السِّرِّ ، وَاضْرِبِ الْمَرْأَۃَ فِی الْعَلاَنِیَۃِ۔
(٢٨٩٢٤) حضرت ابو روح فرماتے ہیں کہ ایک عورت نے کسی آدمی کی باندی سے مشابہت اختیار کی اور یہ رات کا وقت تھا پس اس نے اس سے وطی کی اور وہ سمجھ رہا تھا کہ وہ اس کی باندی ہے۔ پھر یہ معاملہ حضرت عمر کے سامنے پیش کیا گیا۔ تو آپ نے حضرت علی کو قاصد بھیج کر بلایا اور فرمایا : آدمی پر پوشیدگی میں حد لگاؤ اور عورت پر اعلانیہ طور پر حد لگاؤ۔

28924

(۲۸۹۲۵) حَدَّثَنَا غَسَّانُ بْنُ مُضَرَ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ یَزِیدَ ، عَنْ أَبِی نَضْرَۃَ ، قَالَ : سُئِلَ ابْنُ عَبَّاسٍ : مَا حَدُّ اللُّوطِیِّ؟ قَالَ : یُنْظَرُ إلی أَعْلَی بِنَائٍ فِی الْقَرْیَۃِ فَیُرْمَی منہ مُنَکَّسًا ، ثُمَّ یُتْبَعُ الْحِجَارَۃُ۔
(٢٨٩٢٥) حضرت ابو نضرہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عباس نے فرمایا : بستی میں سب سے بلند عمارت دیکھی جائے گی پھر اس عمارت سے اوندھے منہ پھینک دیا جائے گا پھر اس کو پتھر مارے جائیں گے۔

28925

(۲۸۹۲۶) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنِی ابْنُ خُثَیْمٍ ، عَن مُجَاہِدٍ ، وَسَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ؛ أَنَّہُمَا سَمِعَا ابْنَ عَبَّاسٍ یَقُولُ فِی الرَّجُلِ یُوجَدُ ، أَوْ یُؤْخَذُ عَلَی اللُّوطِیَّۃِ : أَنَّہُ یُرْجَمُ۔
(٢٨٩٢٦) حضرت مجاہد اور حضرت سعید کو ایسے آدمی کے بارے میں ارشاد فرماتے ہوئے سنا جو اغلام بازی کرتا ہوا پایا گیا یا پکڑا گیا ! اس کو سنگسار کردیا جائے گا۔

28926

(۲۸۹۲۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ ابْنِ أَبِی لَیْلَی ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ الْوَلِیدِ ، عَنْ یَزِیدَ بْنِ قَیْسٍ ؛ أَنَّ عَلِیًّا رَجَمَ لُوطِیًّا۔
(٢٨٩٢٧) حضرت یزید بن قیس فرماتے ہیں کہ حضرت علی نے اغلام باز کو سنگسار کیا۔

28927

(۲۸۹۲۸) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَطَائٍ ؛ فِی الرَّجُلِ یَأْتِی الرَّجُلَ ، قَالَ : سُنَّتُہُ سُنَّۃُ الْمَرْأَۃِ۔
(٢٨٩٢٨) حضرت ابن جریج فرماتے ہیں کہ حضرت عطائ سے ایسے شخص کے بارے میں مروی ہے جو مرد سے اپنی حاجت پوری کرلے آپ نے فرمایا : اس کا طریقہ عورت کا طریقہ ہوگا سزا میں۔

28928

(۲۸۹۲۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ عَامِرٍ ، قَالَ : یُرْجَمُ أُحْصِنَ ، أَوْ لَمْ یُحْصَنْ۔
(٢٨٩٢٩) حضرت جابر فرماتے ہیں کہ حضرت عامر نے ارشاد فرمایا، اس کو سنگسار کردیا جائے گا شادی شدہ ہو یا نہ ہو۔

28929

(۲۸۹۳۰) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَن حَمَّادٍ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، قَالَ : حدُّ اللُّوطِیِّ حَدُّ الزَّانِی ، إِنْ کَانَ مُحْصَنًا فَالرَّجْمُ ، وَإِنْ کَانَ بِکْرًا فَالْجَلْدُ۔
(٢٨٩٣٠) حضرت حماد فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم نے ارشاد فرمایا : اغلام باز کی سزا زنا کرنے والے کی سزا کی طرح ہوگی اگر وہ شاد ی شدہ ہو تو سنگسار اور اگر کنوارہ ہو تو کوڑے۔

28930

(۲۸۹۳۱) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : اللُّوطِیُّ بِمَنْزِلَۃِ الزَّانِی۔
(٢٨٩٣١) حضرت ہشام فرماتے ہیں کہ حضرت حسن بصری نے ارشاد فرمایا، اغلام باز زانی کے درجہ میں ہوگا۔

28931

(۲۸۹۳۲) حَدَّثَنَا یَزِیدُ ، قَالَ : أَخْبَرَنَی سَعِیدٌ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنِ الْحَسَنِ (ح) وَعَنْ أبِی مَعْشَرٍ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، قَالاَ : اللُّوطِیُّ بِمَنْزِلَۃِ الزَّانِی۔
(٢٨٩٣٢) حضرت حسن بصری اور حضرت ابراہیم نے ارشاد فرمایا : اغلام باز زانی کے درجہ میں ہوگا۔

28932

(۲۸۹۳۳) حَدَّثَنَا یَزِیدُ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ أَبِی سُلَیْمَانَ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ؛ فِی اللُّوطِیِّ ، قَالَ : لَوْ کَانَ أَحَدٌ یُرْجَمُ مَرَّتَیْنِ رُجِمَ ہَذَا۔
(٢٨٩٣٣) حضرت حماد بن ابو سلیمان فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم نے اغلام باز کے بارے میں ارشاد فرمایا : اگر کسی کو دو مرتبہ سنگسار کیا جاتا تو اس کو کیا جاتا۔

28933

(۲۸۹۳۴) حَدَّثَنَا مَعْنُ بْنُ عِیسَی ، عَنِ ابْنِ أَبِی ذِئْبٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، قَالَ : یُرْجَمُ اللُّوطِیُّ إِذَا کَانَ مُحْصَنًا ، وَإِنْ کَانَ بِکْرًا جُلِدَ مِئَۃً۔
(٢٨٩٣٤) حضرت ابن ابی ذئب فرماتے ہیں کہ حضرت زہری نے ارشاد فرمایا : اغلام باز کو سنگسار کیا جائے گا جب کہ وہ شادی شدہ ہو اور اگر وہ کنوارہ ہو تو اسے سو کوڑے مارے جائیں گے۔

28934

(۲۸۹۳۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَن مَنْصُورٍ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ (ح) وَعَنْ سُفْیَانَ ، عَنِ الشَّیْبَانِیِّ ، عَنِ الْحَکَمِ ؛ فِی اللُّوطِیِّ : یُضْرَبُ دُونَ الْحَدِّ۔
(٢٨٩٣٥) حضرت ابراہیم اور حضرت حکم نے اغلام باز کے بارے میں ارشاد فرمایا : اس کو حد سے کم کوڑے مارے جائیں گے۔

28935

(۲۸۹۳۶) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَن عُبَیْدِ اللہِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ مَعْمَرٍ ، قَالَ : عَلَیْہِ الرَّجْمُ ، قِتْلَہُ قَوْمِ لُوطٍ۔
(٢٨٩٣٦) حضرت قتادہ فرماتے ہیں کہ حضرت عبید اللہ بن عبداللہ بن معمر نے ارشاد فرمایا : اس پر سنگسار کرنے کی سزا لازم ہوگی قوم لوط کے قتل کی نوعیت کی طرح۔

28936

(۲۸۹۳۷) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ زَیْدٍ ، قَالَ : حُرْمَۃُ الدُّبُرِ أَعْظَمُ مِنْ حُرْمَۃِ کَذَا۔ قَالَ قَتَادَۃُ : نَحْنُ نَحْمِلُہُ عَلَی الرَّجْمِ۔
(٢٨٩٣٧) حضرت قتادہ فرماتے ہیں کہ حضرت جابر بن زید نے ارشاد فرمایا : دبر کا حرام ہونا فلاں کے حرام ہونے سے زیادہ بڑا ہے حضرت قتادہ نے فرمایا : ہم اس کو سنگسار پر محمول کرتے تھے۔

28937

(۲۸۹۳۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ قَیْسٍ ، عَنْ أَبِی حَصَیْنٍ ؛ أَنَّ عُثْمَانَ أَشْرَفَ عَلَی النَّاسِ یَوْمَ الدَّارِ ، فَقَالَ : أَمَا عَلِمْتُمْ أَنَّہُ لاَ یَحِلُّ دَمُ امْرِئٍ مُسْلِمٍ إِلاَّ بِأَرْبَعَۃٍ : رَجُلٌ عَمِلَ عَمَلَ قَوْمِ لُوطٍ۔
(٢٨٩٣٨) حضرت ابو حصین فرماتے ہیں کہ حضرت عثمان نے ایک دن گھر سے جھانکا اور ارشاد فرمایا : کیا تم لوگ جانتے ہو کہ کسی مسلمان شخص کا خون حلال نہیں ہے مگر چار آدمیوں کا ایک وہ شخص جس نے قوم لوط کا عمل کیا۔

28938

(۲۸۹۳۹) حَدَّثَنَا غَسَّانُ بْنُ مُضَرَ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ یَزِیدَ، عَن سِنَانِ بْنِ سَلَمَۃَ؛ أَنَّہُ قَالَ لَہُ: نِعْمَ الرَّجُلُ إِنْ کَانَ لُوطِیًّا۔
(٢٨٩٣٩) حضرت سعید بن یزید فرماتے ہیں کہ حضرت سنان بن سلمہ نے ان سے ارشاد فرمایا : آدمی بہت اچھا ہوتا ہے اگر اس کا تعلق قوم لوط سے ہو۔

28939

(۲۸۹۴۰) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَن طَاوُوسٍ ؛ أَنَّہُ کَانَ یَقُولُ : لَیْسَ عَلَیْہِ حَدٌّ ، إِلاَّ أَنْ یَقُولَ : إِنَکَ تَعْمَلُ بِعَمَلِ قَوْمِ لُوطٍ۔
(٢٨٩٤٠) حضرت لیث فرماتے ہیں کہ حضرت طاؤس فرمایا کرتے تھے : اس پر حد نہیں ہوگی مگر وہ یوں کہے : بیشک تو قوم لوط کے عمل جیسا عمل کرتا ہے۔

28940

(۲۸۹۴۱) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ وَاضِحٍ ، عَن عُبَیْدِ بْنِ سُلَیْمَانَ ، عَنِ الضَّحَّاکِ ؛ بِنَحْوٍ مِنْ قَوْلِ طَاوُوسٍ۔
(٢٨٩٤١) حضرت ضحاک سے بھی حضرت طاؤس جیسا قول اس سند سے منقول ہے۔

28941

(۲۸۹۴۲) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ الْحُبَابِ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ أَبِی خَالِدٍ الْوَاسِطِیِّ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : لاَ أَعْلَمُ عَلَیْہِ حَدًّا۔
(٢٨٩٤٢) حضرت ابو خالد الواسطی فرماتے ہیں کہ حضرت شعبی نے ارشاد فرمایا : میں نہیں جانتا کہ اس پر حد لازم ہوگی۔

28942

(۲۸۹۴۳) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ أَبِی عَرُوبَۃَ ، عَن فَرْقَدٍ السَّبَخِیِّ ؛ أَنَّ رَجُلاً ، قَالَ لِرَجُلٍ : یَا لُوطِیُّ ، فَسَأَلَ الْحَسَنَ، وَمُحَمَّدًا؟ فَقَالاَ: لَیْسَ عَلَیْہِ حَدٌّ، وَقَالَ الْحَسَنُ: إِلاَّ أَنْ یَقُولَ: إِنَّک تَعْمَلُ بِعَمَلِ قَوْمِ لُوطٍ۔
(٢٨٩٤٣) حضرت فرقد سبخی فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے کسی آدمی سے کہا : اے لوطی ! تو اس شخص نے حضرت حسن بصری اور حضرت محمد سے پوچھا ؟ ان دونوں حضرات نے فرمایا : اس پر حد جاری نہیں ہوگی اور حضرت حسن بصری نے فرمایا : مگر وہ یوں کہہ دے، بیشک تو قوم لوط کے عمل کی طرح عمل کرنے والا ہے۔

28943

(۲۸۹۴۴) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ یَزِیدَ ، عَنْ أَبِی الْعَلاَئِ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، قَالَ : لَیْسَ علَیْہِ شَیْئٌ۔ وَقَالَ أَبُو ہَاشِمٍ : إِذَا قَالَ : إِنَّک تَنْکِحُ فُلاَنًا فِی دُبُرِہِ ، قَالَ : اجْلِدْہُ الْحَدَّ۔
(٢٨٩٤٤) حضرت ابو العلائ فرماتے ہیں کہ حضرت قتادہ نے ارشاد فرمایا : اس پر کوئی سزا نہیں ہوگی اور حضرت ابو ہاشم نے فرمایا : جب وہ یوں کہے : بیشک تو نے فلاں سے اس کی سرین میں وطی کی ہے تو اس کو حد قذف کے کوڑے لگیں گے۔

28944

(۲۸۹۴۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ أَبِی ہِلاَلٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَجُلٌ لأَبِی الأَسْوَدِ : یَا لُوطِیُّ ، فَقَالَ : یَرْحَمُ اللَّہُ لُوطًا ، وَلَمْ یَرَہُ شَیْئًا۔
(٢٨٩٤٥) حضرت قتادہ فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے حضرت ابو الاسود کو یوں کہا : اے لوطی ! تو آپ نے فرمایا : اللہ حضرت لوط پر رحم فرمائے۔ اور آپ نے اس کے بارے میں کسی چیز کو لازم نہیں سمجھا۔

28945

(۲۸۹۴۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن حَسَنٍ ، عَن مَنْصُورٍ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، قَالَ : یُجْلَدُ مَنْ فَعَلَہُ وَمَنْ رُمِی بِہِ۔
(٢٨٩٤٦) حضرت منصور فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم نے ارشاد فرمایا : کوڑے لگائے جائیں اس شخص کو جس نے یہ کام کیا اور جس پر یہ الزام لگایا جائے۔

28946

(۲۸۹۴۷) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ حَمَّادٍ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، قَالَ : مَنْ قَذَفَ بِہِ إِنْسَانًا جُلِدَ ، وَیُبْتَغی فِیہِ مِنَ الشُّہُودِ ، کَمَا یُبْتَغی فِی شُہُودِ الزِّنَی۔
(٢٨٩٤٧) حضرت حماد فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم نے ارشاد فرمایا : جو شخص کسی انسان پر یہ تہمت لگائے تو اسے کوڑے مارے جائیں گے اور اس میں گواہوں کو ایسے ہی تلاش کیا جائے گا جیسا کہ زنا کے گواہوں میں کیا جاتا ہے۔

28947

(۲۸۹۴۸) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، قَالَ : إِذَا قَذَفَ الرَّجُلُ الرَّجُلَ بِعَمَلِ قَوْمِ لُوطٍ ، أَوْ بِالْبَہِیمَۃِ جُلِدَ۔
(٢٨٩٤٨) حضرت معمر فرماتے ہیں کہ حضرت زہری نے ارشاد فرمایا : جب آدمی ایک شخص پر قوم لوط کے عمل کی یا جانور کے ساتھ بدفعلی کی تہمت لگائے تو اسے کو ڑے مارے جائیں گے۔

28948

(۲۸۹۴۹) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ عَبْدِ الْخَالِق ، عَنْ حَمَّادٍ ، قَالَ : عَلَیْہِ الْحَدّ۔
(٢٨٩٤٩) حضرت عبدالخالق فرماتے ہیں کہ حضرت حماد نے ارشاد فرمایا : اس پر حد قذف جاری ہوگی۔

28949

(۲۸۹۵۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ حَسَّانَ ، عَنْ عَبْدِ الْحَمِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ؛ أَنَّ رَجُلاً قَالَ لِرَجُلٍ : یَا لُوطِیُّ ، فَرُفِعَ إِلَی عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِیزِ ، فَجَعَلَ یَقُولُ : یَا لُوطِیُّ ، یَا مُحَمَّدِیُّ ، قَالَ : فَضَرَبَہُ بِضْعَۃَ عَشَرَ سَوْطًا ، ثُمَّ أَخْرَجَہُ مِنَ الْغَدِ ، فَأَکْمَلَ لَہُ الْحَدَّ۔
(٢٨٩٥٠) حضرت عبدالحمید بن جبیر فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے کسی آدمی کو کہا : اے لوطی، یہ معاملہ حضرت عمر بن عبدالعزیز کی خدمت میں پیش کیا گیا تو آپ نے یوں کہنا شروع کردیا : اے لوطی ! اے محمدی ! راوی کہتے ہیں : پھر آپ نے اسے دس سے اوپر کوڑے مارے پھر اگلے دن اسے نکالا اور اس کی سزا کو مکمل کیا۔

28950

(۲۸۹۵۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ أَبِی ہِلاَلٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، وَعِکْرِمَۃَ ؛ قَالَ الْحَسَنُ : لَیْسَ عَلَیْہِ حَدٌّ ، وَقَالَ عِکْرِمَۃُ : عَلَیْہِ الْحَدُّ۔
(٢٨٩٥١) حضرت ابو ہلال فرماتے ہیں کہ حضرت حسن بصری نے ارشاد فرمایا : اس پر حد قذف جاری نہیں ہوگی اور حضرت عکرمہ نے ارشاد فرمایا : اس پر حد قذف جاری ہوگی۔

28951

(۲۸۹۵۲) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : إِذَا قَذَفَ الرَّجُلُ الرَّجُلَ أُقِیمَ عَلَیْہِ الْحَدُّ ، فَإِنْ أَعَادَ عَلَیْہِ الْقَذْفَ فَلاَ حَدَّ عَلَیْہِ ، إِلاَّ أَنْ یُحْدِث لَہُ قَذْفًا آخَرُ۔
(٢٨٩٥٢) حضرت قتادہ فرماتے ہیں کہ حضرت حسن بصری نے ارشاد فرمایا : جب ایک شخص نے آدمی پر تہمت لگائی تو اس پر حدقذف قائم کردی جائے گی۔ پس اگر وہ دوبارہ اس پر تہمت لگائے تو اس پر حد قذف جاری نہیں ہوگی۔ مگر یہ کہ وہ ایک دوسری تہمت نئے سرے سے اس پر لگائے۔

28952

(۲۸۹۵۳) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَن عُیَیْنَۃَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ أَبِیہِ ؛ أَنَّ عُمَرَ لَمَّا أَمَرَ بِأَبِی بَکْرَۃَ وَأَصْحَابِہِ فَجُلِدُوا ، فَعَادَ أَبُو بَکْرَۃَ ، فَقَالَ : زَنَی الْمُغِیرَۃُ ، فَأَرَادَ عُمَرُ أَنْ یَجْلِدَہُ ، فَقَالَ لَہُ عَلِیٌّ : عَلَی مَا تَجْلِدُہُ ؟ وَہَلْ قَالَ إِلاَّ مَا قَدْ قَالَ ، فَتَرَکَہُ۔
(٢٨٩٥٣) حضرت عبدالرحمن فرماتے ہیں کہ حضرت عمر نے جب حضرت ابو بکرہ اور ان کے ساتھیوں کے متعلق حکم دیا تو ان کو کوڑے مارے گئے پھر حضرت ابو بکرہ نے دوبارہ کہا : مغیرہ نے زنا کیا ہے۔ تو حضرت عمر نے ان کو کوڑے مارنے کا ارادہ کیا تو حضرت علی نے آپ سے فرمایا : کس بات پر آپ اسے کوڑے ماریں گے ؟ کیا انھوں نے جو کہنا تھا وہ کہہ نہیں چکے ! تو آپ نے ان کو چھوڑ دیا۔

28953

(۲۸۹۵۴) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ فُضَیْلٍ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ؛فِی رَجُلٍ قَذَفَ رَجُلاً فَجُلِدَ ، ثُمَّ قَذَفَہُ أیضًا ، فَقَالَ : لاَ یُجْلَد۔
(٢٨٩٥٤) حضرت فضیل فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم سے ایسے شخص کے بارے میں مروی ہے جس نے ایک آدمی پر تہمت لگائی پس اسے کوڑے مارے گئے پھر بھی وہ اس پر تہمت لگاتا ہے۔ آپ نے فرمایا : اسے کوڑے نہیں مارے جائیں گے۔

28954

(۲۸۹۵۵) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِہِ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : لَیْسَ عَلَی قَاذِفٍ یَمِینٌ۔
(٢٨٩٥٥) حضرت شعبی نے ارشاد فرمایا : تہمت لگانے والے پر قسم نہیں ہے۔

28955

(۲۸۹۵۶) حَدَّثَنَا ابْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنِ ابْنِ أَبِی ذِئْبٍ ؛ أَنَّ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِیزِ أَحَلَّفَ رَجُلاً قَذَفَ۔
(٢٨٩٥٦) حضرت ابن ابی ذئب فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز نے ایک آدمی سے قسم اٹھوائی جس نے تہمت لگائی تھی۔

28956

(۲۸۹۵۷) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ ، قَالَ : سُئِلَ الْقَاسِمُ عَنْ رَجُلٍ یَقُولُ لِرَجُلٍ : یَا ابْنَ الْخَیَّاطِ ، أَوْ یَا ابْنَ الْحَجَّامِ ، أَوْ یَا ابْنَ الْجَزَّارِ ، وَلَیْسَ أَبُوہُ کَذَلِکَ ؟ فَقَالَ الْقَاسِمُ : قَدْ أَدْرَکْنَاہ وَمَا تُقَامُ الْحُدُودُ إِلاَّ فِی الْقَذْفِ الْبَیِّنِ ، أَوْ فِی النَّفْیِ الْبَیِّنِ۔
(٢٨٩٥٧) حضرت محمد بن اسحاق فرماتے ہیں کہ حضرت قاسم سے ایک آدمی کے متعلق پوچھا گیا جو کسی آدمی کو یوں کہہ دے : اے درزی کے بیٹے، یا اے پچھنے لگانے والے کے بیٹے، یا اے قصائی کے بیٹے اور حالانکہ اس کا باپ ایسا نہیں ہے تو اس کا کیا حکم ہے ؟ اس پر حضرت قاسم نے فرمایا : تحقیق ہم نے یوں پایا تھا کہ حدود قائم نہیں جاتی تھیں مگر واضح تہمت لگانے کی صورت میں یا واضح طور پر نفی کرنے کی صورت میں۔

28957

(۲۸۹۵۸) حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُبَارَک ، وَعَبْدُ الرَّزَّاقِ ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنْ عَبْدِ الْکَرِیمِ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ، قَالَ : لاَ حَدَّ إِلاَّ عَلَی مَنْ نَصَبَ الْحَدَّ نَصْبًا۔
(٢٨٩٥٨) حضرت عبدالکریم فرماتے ہیں کہ حضرت سعید بن مسیب نے ارشاد فرمایا : حد جاری نہیں ہوگی مگر اس شخص پر جو حد کو بالکل واضح طور پر گاڑے۔

28958

(۲۸۹۵۹) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ إِسْمَاعِیلَ بْنِ سَالِمٍ ؛ أَنَّ رَجُلَیْنِ کَانَ بَیْنَہُمَا لِحَائٌ ، فَقَالَ أَحَدُہُمَا للآخَرِ : مَا وُلِدَ بِالْکُوفَۃِ وَلَدُ زِنَی إِلاَّ فِی الأَخرِ شَبَہٌ مِنْہُ ، وَقَالَ الآخَرُ : لَوْ کُشِفَ مَا عَندَ الأَخرِ مَا بَقِیَتْ بِالْکُوفَۃِ فَاجِرَۃٌ إِلاَّ عَرَفَتْہُ ، فَسُئِلَ عَن ذَلِکَ الشَّعْبِیُّ ؟ فَقَالَ : لَیْسَ عَلَی وَاحِدٍ مِنْہُمَا حَدٌّ۔
(٢٨٩٥٩) حضرت اسماعیل بن سالم فرماتے ہیں کہ دو آدمیوں نے مبہم انداز میں زنا کی تہمت لگائی تو حضرت شعبی نے ان پر حد جاری نہ ہونے کا فتویٰ دیا۔

28959

(۲۸۹۶۰) حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ ، عَن زَمْعَۃَ ، عَنِ ابْنِ طَاوُوسٍ ، عَنْ أَبِیہِ ؛ أَنَّہُ کَانَ لاَ یَرَی فِی التَّعْرِیضِ حَدًّا۔
(٢٨٩٦٠) حضرت ابن طاؤس فرماتے ہیں کہ حضرت طاؤس مبہم بات میں حد کو لازم نہیں سمجھتے تھے۔

28960

(۲۸۹۶۱) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَن مَنْصُورٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : لَیْسَ عَلَیْہِ حَدٌّ حَتَّی یَقُولَ : یَا زَانٍ ، یَا زَانِیَۃ ، أَوْ یَا ابْنَ الزَّانِیَۃِ۔
(٢٨٩٦١) حضرت منصور فرماتے ہیں کہ حضرت حسن بصری نے ارشاد فرمایا : اس شخص پر حد نہیں ہوگی یہاں تک کہ یوں کہے : اے زانی، اے زانیہ یا اے زانیہ عورت کے بیٹے۔

28961

(۲۸۹۶۲) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَن حَمَّادٍ ؛ فِی الرَّجُلِ یَقُولُ لِلرَّجُلِ : إِنَّ فِی ظَہْرِکَ حَدُّ الزِّنَی ، قَالَ : إِنْ شَائَ قَالَ : إِنَّمَا قُلْتُ : إِنَّ فِی ظَہْرِکَ لَمَوْضِعًا ، قَالَ : لَیْسَ عَلَیْہِ حَدٌّ۔
(٢٨٩٦٢) حضرت شعبہ فرماتے ہیں کہ حضرت حماد سے ایسے شخص کے بارے میں مروی ہے جس نے ایک شخص کو کہا : بیشک تیری پیٹھ میں حد زنا لگے گی۔ آپ نے فرمایا : اگر وہ چاہے تو یوں کہہ دے کہ بیشک میں نے تو ایسے کہا تھا : بیشک تیری پیٹھ حد لگنے کی جگہ ہے آپ نے فرمایا : اس پر حد جاری نہیں ہوگی۔

28962

(۲۸۹۶۳) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ عَوْفٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ؛ أَنَّہُ قَالَ : لاَ یُجْلَد الْحَدَّ إِلاَّ فِی الْقَذْفِ الْمُصَرَّحِ۔
(٢٨٩٦٣) حضرت عوف فرماتے ہیں کہ حضرت حسن بصری نے ارشاد فرمایا : حد قذف واضح تہمت کی صورت میں ہی لگے گی۔

28963

(۲۸۹۶۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ إِبْرَاہِیم بْنِ عَامِرٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ؛ أَنَّ رَجُلاً قَالَ لِرَجُلٍ : یَا ابْنَ کِرَاثَۃٍ ، قَالَ : یُضْرَبُ الْحَدَّ۔ (عبدالرزاق ۱۳۷۰۹)
(٢٨٩٦٤) حضرت ابراہیم بن عامر فرماتے ہیں کہ حضرت سعید بن مسیب سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے کسی آدمی کو یوں کہہ دیا : اے گانے والی عورت کے بیٹے تو آپ نے فرمایا : اس پر حد قذف لگائی جائے گی۔

28964

(۲۸۹۶۵) حَدَّثَنَا ابْنُ إِدْرِیسَ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ، عَنْ أَبِی الرِّجَالِ ، عَن أُمِّہِ عَمْرَۃَ ، قَالَتْ : اسْتَبَّ رَجُلاَنِ ، فَقَالَ أَحَدُہُمَا : مَا أُمِّی بِزَانِیَۃٍ ، وَمَا أَبِی بِزَانٍ ، فَشَاوَرَ عُمَرُ الْقَوْمَ ، فَقَالُوا : مَدَحَ أَبَاہُ وَأُمَّہُ ، فَقَالَ : لَقَدْ کَانَ لَہُمَا مِنَ الْمَدْحِ غَیْرُ ہَذَا ، فَضَرَبَہُ۔
(٢٨٩٦٥) حضرت ابو الرجال فرماتے ہیں کہ ان کی والدہ حضرت عمرہ نے ارشاد فرمایا : دو آدمیوں نے ایک دوسرے کو گالیاں دیں، پس ان میں سے ایک کہنے لگا : میری ماں زانیہ عورت نہیں ہے اور میرا باپ بھی زانی نہیں، تو حضرت عمر نے اس بارے میں لوگوں سے مشورہ لیا، لوگوں نے کہا، اس نے تو اپنے باپ اور ماں کی تعریف کی ہے آپ نے فرمایا : ان دونوں کے لیے اس کے علاوہ بھی تعریف ہوسکتی تھی، پس آپ نے اس پر حد لگائی۔

28965

(۲۸۹۶۶) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنِ الْجَلْدِ بْنِ أَیُّوبَ ، عَن مُعَاوِیَۃَ بْنِ قُرَّۃَ ؛ أَنَّ رَجُلاً قَالَ لِرَجُلٍ : یَا ابْنَ شَامَّۃِ الْوَذْرِ ، فَاسْتَعْدَی عَلَیْہِ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ ، فَقَالَ : إِنَّمَا عَنیْتُ کَذَا وَکَذَا ، فَأَمَرَ بِہِ عُثْمَانُ فَجُلِدَ الْحَدَّ۔
(٢٨٩٦٦) حضرت معاویہ بن قرہ فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے کسی سے کہا : اے ابن شامۃ الوذر یعنی زنا کرنے والے کے بیٹے تو اس شخص نے حضرت عثمان بن عفان سے اس شخص کے خلاف مدد طلب کی تو وہ کہنے لگا : بیشک میں نے اس سے ایسے اور ایسے معنی مراد لیے ہیں۔ پس حضرت عثمان کے حکم سے اس پر حد لگائی گئی۔

28966

(۲۸۹۶۷) حدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، قَالَ : فِی التَّعْرِیضِ عُقُوبَۃٌ۔
(٢٨٩٦٧) حضرت مغیرہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم نے ارشاد فرمایا : مبہم بات میں بھی سزا ہے۔

28967

(۲۸۹۶۸) حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَۃَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : فِیہِ الْحَدُّ۔
(٢٨٩٦٨) حضرت ہشام فرماتے ہیں کہ ان کے والد حضرت عروہ نے ارشاد فرمایا : اس میں بھی حد لازم ہوگی۔

28968

(۲۸۹۶۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ ؛ أَنَّ سَمُرَۃَ قَالَ : مَنْ عَرَّضَ عَرَّضْنَا لَہُ۔
(٢٨٩٦٩) حضرت ابن سیرین فرماتے ہیں کہ حضرت سمرہ نے ارشاد فرمایا : جس شخص نے ہم سے مبہم بات کی تو ہم بھی اس سے مبہم بات کریں گے۔

28969

(۲۸۹۷۰) حَدَّثَنَا مُعَاذٌ ، عَنْ عَوْفٍ ، عَنْ أَبِی رَجَائٍ ؛ أَنَّ عُمَرَ ، وَعُثْمَانَ کَانَا یُعَاقِبَانِ فِی الْہِجَائِ۔
(٢٨٩٧٠) حضرت ابو رجائ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر اور حضرت عثمان عیب گیری کی صورت میں سزادیا کرتے تھے۔

28970

(۲۸۹۷۱) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَطَائٍ ؛ أَنَّہُ کَانَ یَرَی الضَّرْبَ فِی التَّعْرِیضِ۔
(٢٨٩٧١) حضرت ابن جریج فرماتے ہیں کہ حضرت عطائ مبہم بات کرنے کی صورت میں سزا کی رائے رکھتے تھے۔

28971

(۲۸۹۷۲) حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ ، عَنِ الأَوْزَاعِیِّ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ؛ أَنَّہُ کَانَ یَجْلِدُ الْحَدَّ فِی التَّعْرِیضِ۔
(٢٨٩٧٢) حضرت اوزاعی فرماتے ہیں کہ امام زھری مبہم بات کرنے کی صورت میں حداً کوڑے مارتے تھے۔

28972

(۲۸۹۷۳) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ، عَن سُلَیْمَانَ بْنِ یَسَارٍ ، عَنِ ابْنِ أَبِی رَبِیعَۃَ ، قَالَ : دَعَانَا عُمَرُ فِی فِتْیَانٍ مِنْ فِتْیَانِ قُرَیْشٍ ، فِی إِمَائٍ زَنَیْنَ مِنْ رَقِیقِ الإِمَارَۃِ ، فَضَرَبْنَاہُنَّ خَمْسِینَ خَمْسِینَ۔
(٢٨٩٧٣) حضرت ابن ابی ربیعہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر نے ہم قریش کے نو جوانوں کو ان باندیوں کے سلسلہ میں بلایا جنہوں نے زنا کیا تھا، حکومت کے غلاموں سے تو ہم نے باندیوں کو پچاس پچاس کوڑے مارے۔

28973

(۲۸۹۷۴) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، عَن ہَمَّامٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُرَحْبِیلَ ،قَالَ : جَائَ مَعْقِلٌ الْمُزَنِیُّ إِلَی عَبْدِ اللہِ ، فَقَالَ : إِنَّ جَارِیَتِی زَنَتْ ، فَقَالَ : اجْلِدْہَا خَمْسِینَ۔
(٢٨٩٧٤) حضرت عمرو بن شرحبیل فرماتے ہیں کہ حضرت معقل مزنی حضرت عبداللہ بن مسعود کے پاس آئے اور فرمایا : بیشک میری باندی نے زنا کیا ہے تو آپ نے فرمایا : اس کو پچاس کوڑے مارو۔

28974

(۲۸۹۷۵) حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ وَرْدَانَ ، عَن یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : إِذَا اعْتَرَفَ الْعَبْدُ بِالزِّنَی ، جَلَدَہُ سَیِّدُہُ خَمْسِینَ سَوْطًا۔
(٢٨٩٧٥) حضرت یونس فرماتے ہیں کہ حضرت حسن بصری نے ارشاد فرمایا : جب غلام زنا کا اعتراف کرلے تو اس کا آقا اسے پچاس کوڑے مارے گا۔

28975

(۲۸۹۷۶) حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ وَرْدَانَ ، عَن یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : إِذَا اعْتَرَفَ الْعَبْدُ بِشُرْبِ الْخَمْرِ ، جَلَدَہُ سَیِّدُہُ أَرْبَعِینَ سَوْطًا۔
(٢٨٩٧٦) حضرت یونس فرماتے ہیں کہ حضرت حسن بصری نے ارشاد فرمایا : جب غلام شراب پینے کا اعتراف کرلے تو اس کا آقا اس سے چا لیس کوڑے مارے گا۔

28976

(۲۸۹۷۷) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ الْقَطَّانُ ، عَن مَالِکِ بْنِ أَنَسٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، قَالَ : بَلَغَنِی عَنْ عُمَرَ ، وَعُثْمَانَ ، وَابْنِ عُمَرَ ؛ أَنَّہُمْ کَانُوا یَضْرِبُونَ الْعَبْدَ فِی الْخَمْرِ ثَمَانِینَ۔
(٢٨٩٧٧) حضرت زھری فرماتے ہیں کہ مجھے حضرت عمر ، حضرت عثمان اور حضرت ابن عمر کے متعلق خبر پہنچی ہے کہ یہ سب حضرات غلام کو شراب پینے کی صورت میں اسّی کوڑے مارتے تھے۔

28977

(۲۸۹۷۸) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ مُبَارَکٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ أَبِی أَیُّوبَ ، عَن مَعْرُوفِ بْنِ سُوَیْد ؛ أَنَّ قَوْمًا کَانُوا یَسْرِقُونَ رَقِیقَ النَّاسِ بِأَفْرِیقِیَّۃَ ، فَقَالَ عُلِیُّ بْنُ رَبَاحٍ : لَیْسَ عَلَیْہِمْ قَطْعٌ ، قَدْ کَانَ ہَذَا عَلَی عَہْدِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ ، فَلَمْ یَرَ عَلَیْہِمْ قَطْعًا ، وَقَالَ: ہَؤُلاَئِ خَلاَّبُونَ۔
(٢٨٩٧٨) حضرت معروف بن سوید فرماتے ہیں کہ کچھ لوگ افریقہ سے لوگوں کے غلام چوری کرتے تھے، حضرت علی بن رباح نے فرمایا : اس پر ہاتھ کاٹنے کی سزا جاری نہیں ہوگی تحقیق یہ حضرت عمر بن خطاب کے زمانے کی بات ہے۔ تو آپ نے بھی ان پر ہاتھ کاٹنے کی سزا کی رائے نہیں رکھی اور فرمایا : یہ لوگ چالاک وحیلہ باز ہیں۔

28978

(۲۸۹۷۹) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ: مَنْ سَرَقَ صغیرًا قُطِعَ۔
(٢٨٩٧٩) حضرت عمرو فرماتے ہیں کہ حضرت حسن بصری نے ارشاد فرمایا، جو کسی چھوٹے بچہ کو چوری کرلے تو اس کا ہاتھ کاٹا جائے گا۔

28979

(۲۸۹۸۰) حَدَّثَنَا مَعْنُ بْنُ عِیسَی، عَنِ ابْنِ أَبِی ذِئْبٍ، عَنِ الزُّہْرِیِّ؛ فِی الَّذِی یَسْرِقُ الصِّبْیَانَ وَالأَعَاجِمَ: تُقْطَعُ یَدُہُ۔
(٢٨٩٨٠) حضرت ابن ابی ذئب فرماتے ہیں کہ حضرت زھری سے اس شخص کے بارے میں مروی ہے جو بچوں اور عجمیوں کو چوری کرتا تھا۔ آپ نے فرمایا : اس کا ہاتھ کاٹا جائے گا۔

28980

(۲۸۹۸۱) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنِی مَعْنٌ ، أَوْ مَعْمَرٌ ، عَنْ ابْن شِہَابٍ ، قَالَ : سَأَلْتُہُ عَنْ رَجُلٍ سَرَقَ عَبْدًا أَعْجَمِیًا ؟ قَالَ : تُقْطَعُ یَدُہُ۔
(٢٨٩٨١) حضرت معن یا حضرت معمر فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن شھاب سے اس آدمی کے متعلق سوال کیا جس نے عجمی غلام چوری کیا تھا : اس کا کیا حکم ہے ؟ آپ نے فرمایا : اس کا ہاتھ کاٹا جائے گا۔

28981

(۲۸۹۸۲) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ، قَالَ: أُخْبِرْتُ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ قَطَعَ رَجُلاً فِی غُلاَمٍ سَرَقَہُ۔
(٢٨٩٨٢) حضرت ابن جریج فرماتے ہیں کہ مجھے خبر دی گئی ہے کہ حضرت عمر بن خطاب نے ایک لڑکے کے معاملے میں ایک آدمی کا ہاتھ کاٹ دیا جسے اس نے چوری کیا تھا۔

28982

(۲۸۹۸۳) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ ، عَنِ الْحَجَّاجِ ، عَنْ حُصَیْنٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنِ الْحَارِثِ ، عَنْ عَلِیٍّ ، قَالَ : فِی قَلِیلِ الْخَمْرِ وَکَثِیرہ ثَمَانُون۔
(٢٨٩٨٣) حضرت حارث فرماتے ہیں کہ حضرت علی نے ارشاد فرمایا : شراب کی تھوڑی اور زیادہ مقدار میں اسی کوڑے سزا ہے۔

28983

(۲۸۹۸۴) حَدَّثَنَا سَہْلُ بْنُ یُوسُفَ، عَنْ عَمْرٍو، عَنِ الْحَسَنِ؛ فِی الْخَمْرِ قَلِیلِہِ وَکَثِیرِہِ، وَإِنْ حُسْوَۃً ، فِیہَا الْحَدُّ۔
(٢٨٩٨٤) حضرت عمرو فرماتے ہیں کہ حضرت حسن بصری سے شراب کی تھوڑی اور زیادہ مقدار کی صورت میں مروی ہے کہ اگر ایک گھونٹ ہو تو اس میں بھی حد جاری ہوگی۔

28984

(۲۸۹۸۵) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سَالِمٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : مَنْ شَرِبَ مِنَ الْخَمْرَ قَلِیلاً، أَوْ کَثِیرًا ضُرِبَ حَدًّا۔
(٢٨٩٨٥) حضرت محمد بن سالم فرماتے ہیں کہ حضرت شعبی نے ارشاد فرمایا : جس شخص نے تھوڑی یا زیادہ شراب پی تو اس پر حد لگائی جائے گی۔

28985

(۲۸۹۸۶) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، قَالَ : قَالَ عَطَائٌ : إِنْ شَرِبَ رَجُلٌ مِنَ الْمُسْکِر مَا بَلَغَ أَنْ یُسْکِرَ ، فَقَدْ وَجَبَ عَلَیْہِ الْحَدُّ۔
(٢٨٩٨٦) حضرت ابن جریج فرماتے ہیں کہ حضرت عطائ نے ارشاد فرمایا : اگر کسی شخص نے نشہ آور چیز میں سے اتنی مقدار پی لی کہ وہ نشہ کی حالت کو پہنچ جائے تو تحقیق اس پر حد واجب ہوگئی۔

28986

(۲۸۹۸۷) حَدَّثَنَا مُعَاوِیَۃُ بْنُ ہِشَامٍ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَن حُصَیْنِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، یَرْفَعُہُ إِلَی عُمَرَ ، قَالَ : مَنْ شَرِبَ مِنَ الْخَمْرِ قَلِیلاً ، أَوْ کَثِیرًا ضُرِبَ الْحَدُّ۔
(٢٨٩٨٧) حضرت حصین بن عبدالرحمن فرماتے ہیں کہ حضرت عمر نے ارشاد فرمایا : جس شخص نے تھوڑی یا زیادہ شراب پی لی تو اس پر حد لگائی جائے گی۔

28987

(۲۸۹۸۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَطَائٍ ، قَالَ : لَیْسَ فِی شَیْئٍ مِنَ الشَّرَابِ حَدٌّ حَتَّی یُسْکِرَ ، إِلاَّ فِی الْخَمْرِ۔
(٢٨٩٨٨) حضرت ابن جریج فرماتے ہیں کہ حضرت عطائ نے ارشاد فرمایا : کسی مشروب میں حد نہیں ہے یہاں تک کہ وہ نشہ میں ہوجائے سوائے شراب کے۔

28988

(۲۸۹۸۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ رَجُلٍ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، قَالَ : یُضْرَبُ فِی الْخَمْرِ فِی قَلِیلِہَا وَکَثِیرِہَا۔
(٢٨٩٨٩) حضرت سفیان کسی آدمی سے نقل کرتے ہیں کہ حضرت ابراہیم نے ارشاد فرمایا : شراب تھوڑی اور زیادہ مقدار کی صورت میں کوڑے مارے جائیں گے۔

28989

(۲۸۹۹۰) حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ حُصَیْنٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنِ الْحَارِثِ ، عَنْ عَلِیٍّ ، قَالَ : حدُّ النَّبِیذِ ثَمَانُونَ۔
(٢٨٩٩٠) حضرت حارث فرماتے ہیں کہ حضرت علی نے ارشاد فرمایا : نبیذ کی حد اسی کوڑے ہیں۔

28990

(۲۸۹۹۱) حَدَّثَنَا ابْنُ مُسْہِرٍ، عَنِ الشَّیْبَانِیِّ، عَن حَسَّانَ بْنِ مُخَارِقٍ، قَالَ: بَلَغَنِی أَنَّ رَجُلاً سَایَرَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ فِی سَفَرٍ وَکَانَ صَائِمًا ، فَلَمَّا أَفْطَرَ أَہْوَی إِلَی قِرْبَۃٍ لِعُمَرَ مُعَلَّقَۃٍ فِیہَا نَبِیذٌ قَدْ خَضْخَضَہَا الْبَعِیرُ ، فَشَرِبَ مِنْہَا فَسَکِرَ ، فَضَرَبَہُ عُمَرُ الْحَدَّ ، فَقَالَ لَہُ : إِنَّمَا شَرِبْت مِنْ قِرْبَتِکَ ؟فَقَالَ لَہُ عُمَرُ : إِنَّمَا جَلَدْنَاک لِسُکْرِک۔
(٢٨٩٩١) حضرت حسان بن مخارق فرماتے ہیں کہ مجھے خبر پہنچی کہ ایک آدمی حضرت عمر بن خطاب کے ہمر اہ سفر میں گیا درآنحالیکہ وہ روزہ دار تھا جب اس نے روزہ افطار کرلیا تو اس نے اپنا ہاتھ حضرت عمر کے چمڑے کے مشکیزے کی طرف بڑھایا جو لٹکا ہوا تھا اور اس میں نبیذ موجود تھی جس کو اونٹ نے خوب ہلادیا تھا۔ پس اس شخص اسے پی لیا اور نشہ میں مدہوش ہوگیا اس پر حضرت عمر نے اس پر حد لگائی اس نے آپ سے کہا : بیشک میں نے تو تمہارے مشکیزے سے پی تھی ؟ آپ نے اس سے فرمایا : بیشک ہم نے تمہارے نشہ میں مدہوش ہونے کی وجہ سے تمہیں کوڑے مارے ہیں۔

28991

(۲۸۹۹۲) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ؛ فِی السَّکْرَانِ مِنَ النَّبِیذِ ، قَالَ : یُضْرَبُ ثَمَانِینَ۔
(٢٨٩٩٢) حضرت ہشام فرماتے ہیں کہ حضرت حسن بصری سے نبیذ پی کر نشہ میں مدہوش ہونے والے کے بارے میں مروی ہے کہ اسے اسی کوڑے مارے جائیں گے۔

28992

(۲۸۹۹۳) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَن عُبَیْدَۃَ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، قَالُ : یُضْرَبُ الْحَدُّ فِی النَّبِیذِ۔
(٢٨٩٩٣) حضرت عبیدہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم نے ارشاد فرمایا : نبیذ کے پینے کی صورت میں حدلگائی جائے گی۔

28993

(۲۸۹۹۴) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَن عُبَیْدَۃَ ، عَنْ أَبِی وَائِلٍ ، قَالَ : لَیْسَ فِیہِ حَدٌّ۔
(٢٨٩٩٤) حضرت عبیدہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابو وائل نے ارشاد فرمایا : اس میں حد جاری نہیں ہوگی۔

28994

(۲۸۹۹۵) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ أَبِی عَوْنٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ شَدَّادٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: فِی السّکْرِ مِنَ النَّبِیذِ ، ثَمَانُونَ۔
(٢٨٩٩٥) حضرت عبداللہ بن شداد فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عباس نے ارشاد فرمایا : نبیذ سے نشہ میں مدہوش ہونے کی صورت میں اسی کوڑے ہیں۔

28995

(۲۸۹۹۶) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَن شَقِیقٍ الضَّبِیِّ ، قَالَ : فِیہِ الْحَدُّ ، یُضْرَبُ ثَمَانِینَ۔
(٢٨٩٩٦) حضرت فضیل فرماتے ہیں کہ حضرت شقیق ضبی نے ارشاد فرمایا : اس میں حد ہوگی، اسی کوڑے مارے جائیں گے۔

28996

(۲۸۹۹۷) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَن مُجَالِدٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : کَانَ عَلِیٌّ یَرْزُقُ النَّاسَ الطِّلائَ فِی دِنَانٍ صِغَارٍ ، فَسَکِرَ مِنْہُ رَجُلٌ ، فَجَلَدَہُ عَلِیٌّ ثَمَانِینَ ، قَالَ : فَشَہِدُوا عَندَہُ أَنَّہُ إِنَّمَا سَکِرَ مِنَ الَّذِی رَزَقَہُمْ ، قَالَ : وَلِمَ شَرِبَ مِنْہُ حَتَّی سَکِرَ؟۔
(٢٨٩٩٧) حضرت شعبی فرماتے ہیں کہ حضرت علی نے چھوٹے مٹکوں میں لوگوں کو انگور کا پکا ہوا شیرہ دیا پس اس سے ایک آدمی نشہ میں مدہوش ہوگیا حضرت علی نے اسے اسی کوڑے مارے راوی کہتے ہیں سب لوگوں نے آپ کے پاس اس بات کی گواہی دی کہ یہ شخص اسی شیرہ سے نشہ میں مدہوش ہوا ہے جو آپ نے لوگوں کو دیا تھا۔ آپ نے فرمایا : اس نے اس میں سے اتنا کیوں پی لیا کہ یہ نشہ میں چور ہوگیا ؟

28997

(۲۸۹۹۸) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنِ ابْنِ أَبِی عَرُوبَۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ الدَّانَاجِ ، عَنْ حُضَیْنٍ أَبِی سَاسَانَ ؛ أَنَّہُ رَکِبَ أناسٌ مِنْ أَہْلِ الْکُوفَۃِ إِلَی عُثْمَانَ ، فَأَخْبَرُوہُ بِمَا کَانَ مِنْ أَمْرِ الْوَلِیدِ بْنِ عُقْبَۃَ مِنْ شُرْبِ الْخَمْرِ ، فَکُلِّمَہُ فِی ذَلِکَ عَلِیٌّ ، فَقَالَ عُثْمَانُ : دُونَک ابْنَ عَمِّکَ ، فَأَقِمْ عَلَیْہِ الْحَدَّ ، فَقَالَ عَلِیٌّ : قُمْ یَا حَسَنُ فَاجْلِدْہُ ، فَقَالَ : فِیمَ أَنْتَ مِنْ ہَذَا ؟ َولِّ ہَذَا غَیْرَک ، قَالَ : بَلْ ضَعُفْتَ ، وَوَہَنْتَ وَعَجَزْتَ ، قُمْ یَا عَبْدَ اللہِ بْنَ جَعْفَرٍ ، فَجَعَلَ یَجْلِدُہُ ، وَیَعُدُّ عَلِیٌّ حَتَّی بَلَغَ أَرْبَعِینَ ، فَقَالَ : کُفَّ ، أَوْ أَمْسِکْ ، جَلَدَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَرْبَعِینَ ، وَأَبُو بَکْرٍ أَرْبَعِینَ ، وَکَمَّلَہَا عُمَرُ ثَمَانِینَ ، وَکُلٌّ سُنَّۃٌ۔ (مسلم ۱۳۳۱۔ ابوداؤد ۴۴۷۵)
(٢٨٩٩٨) حضرت حضین ابو ساسان فرماتے ہیں کہ اہل کوفہ میں سے چند لوگ سوار ہو کر حضرت عثمان کے پاس آئے انھوں نے آپ کو ولید بن عقبہ کے شراب پینے کے متعلق بتلایا۔ تو حضرت علی نے اس بارے میں آپ سے بات کی۔ حضرت عثمان نے فرمایا : اپنے چچا زاد بھائی کے پاس جاؤ اور تم اس پر حد قائم کرو سو حضرت علی نے فرمایاٖ اے حسن ! کھڑے ہو اور اسے کوڑے مارو اس نے کہا : تم اس عمل کے اہل نہیں ! اپنے علاوہ کسی کو سپرد کرو آپ نے فرمایا : بلکہ تو ضعیف ہوگیا، کمزور ہوگیا اور عاجز ہوگیا ہے اے عبداللہ بن جعفر کھڑے ہوجاؤ پس انھوں نے اس کو کوڑے مارنے شروع کردیے اور حضرت علی شمار کررہے تھے یہاں تک کہ وہ چالیس تک پہنچ گئے، آپ نے فرمایا : ٹھہرو یا فرمایا : رک جاؤ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے چالیس کوڑے مارے ہیں اور حضرت ابوبکر نے بھی چایس کوڑے مارے ہیں اور حضرت عمر نے اس کی اسی کوڑے تک تکمیل فرمائی ہے اور تمام سنت طریقے ہیں۔

28998

(۲۸۹۹۹) حَدَّثَنَا ابْنُ إِدْرِیسَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ؛ أَنَّ عُمَرَ ضَرَبَ فِی الْخَمْرِ ثَمَانِینَ۔
(٢٨٩٩٩) حضرت حسن بصری فرماتے ہیں کہ حضرت عمر نے شراب میں اسی کوڑے لگائے۔

28999

(۲۹۰۰۰) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ ، عَنْ أَبِی عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ عَلِیٍّ ، قَالَ : شَرِبَ قَوْمٌ مِنْ أَہْلِ الشَّامِ الْخَمْرَ ، وَعَلَیْہِمْ یَزِیدُ بْنُ أَبِی سُفْیَانَ ، وَقَالُوا : ہِیَ لَنَا حَلاَلٌ ، وَتَأَوَّلُوا ہَذِہِ الآیَۃَ : {لَیْسَ عَلَی الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ جُنَاحٌ فِیمَا طَعِمُوا} الآیَۃَ ، قَالَ : فَکَتَبَ فِیہِمْ إِلَی عُمَرَ ، فَکَتَبَ : أَنِ ابْعَثْ بِہِمْ إِلَیَّ قَبْلَ أَنْ یُفْسِدُوا مَنْ قِبَلِکَ ، فَلَمَّا قَدِمُوا عَلَی عُمَرَ ، اسْتَشَارَ فِیہِمُ النَّاسَ ، فَقَالُوا : یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ ، نَرَی أَنَّہُمْ قَدْ کَذَبُوا عَلَی اللہِ ، وَشَرَعُوا فِی دِینِہِمْ مَا لَمْ یَأْذَنْ بِہِ اللَّہُ ، فَاضْرِبْ رِقَابَہُمْ ، وَعَلِیٌّ سَاکِتٌ ، فَقَالَ : مَا تَقُولُ یَا أَبَا الْحَسَنِ فِیہِمْ ؟ قَالَ : أَرَی أَنْ تَسْتَتِیبَہُمْ ، فَإِنْ تَابُوا جَلَدْتَہُمْ ثَمَانِینَ لِشُرْبِہم الْخَمْرِ ، وَإِنْ لَمْ یَتُوبُوا ضَرَبْتَ أَعْنَاقَہِمْ ، فَإِنَّہُمْ قَدْ کَذَبُوا عَلَی اللہِ ، وَشَرَعُوا فِی دِینِہِمْ مَا لَمْ یَأْذَنْ بِہِ اللَّہُ، فَاسْتَتَابَہُمْ فَتَابُوا ، فَضَرَبَہُمْ ثَمَانِینَ ثَمَانِینَ۔
(٢٩٠٠٠) حضرت ابو عبدالرحمن فرماتے ہیں کہ حضرت علی نے ارشاد فرمایا : اہل شام میں سے چند لوگوں نے شراب پی۔ اس وقت ان پر یزید بن ابو سفیان امیر تھے اور ا ن لوگوں نے کہا : اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ایمان اور اعمال صالحہ والوں پر کوئی چیز کھانے میں کوئی حرج نہیں۔ یزید بن ابی سفیان نے اس بارے میں حضرت عمر کو خط لکھا۔ حضرت عمر نے فرمایا کہ قبل اس کے کہ یہ لوگ فساد مچائیں انھیں میرے پاس بھجوا دو ۔ جب وہ آئے تو حضرت عمر نے ان کے بارے میں مشورہ کیا۔ آپ سے کہا گیا اے امیرالمومنین ! ان لوگوں نے اللہ کے بارے میں جھوٹ بولا اور شریعت میں شریعت کے خلاف بات کی۔ لہٰذا انھیں قتل کروا دیں۔ اس دوران حضرت علی خاموش رہے۔ حضرت عمر نے پوچھا اے ابوالحسن ! آپ کیا کہتے ہیں ؟ حضرت علی نے کہا کہ اگر وہ توبہ کرتے ہیں تو انھیں اسی کوڑے لگائیں اگر توبہ نہ کریں تو قتل کردیں۔ انھوں نے اللہ پر جھوٹ گھڑا ہے۔ حضرت عمر نے ان سے دریافت کیا تو انھوں نے توبہ کا اظہار کیا اس پر انھیں صرف اسی کوڑوں کی سزا دی گئی۔

29000

(۲۹۰۰۱) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو ، قَالَ : حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَۃَ ،وَمُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاہِیمَ ، وَالزُّہْرِیُّ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الأَزْہَرِ ، قَالَ : أُتِیَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِشَارِبٍ یَوْمَ حُنَیْنٍ ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِلنَّاسِ : قُومُوا إِلَیْہِ ، فقام إِلَیْہِ النَّاسُ فَضَرَبُوہُ بِنِعَالِہِمْ۔ (نسائی ۵۲۸۴۔ حاکم ۳۷۴)
(٢٩٠٠١) حضرت عبدالرحمن بن ازھر فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس غزوہ حنین کے دن ایک شرابی لایا گیا سو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں سے فرمایا : تم اس کی طرف اٹھو۔ پس لوگ اس کی طرف گئے اور انھوں نے اپنی جوتیوں سے اسے مارا۔

29001

(۲۹۰۰۲) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا الْمَسْعُودِیُّ ، عَنْ زَیْدٍ الْعَمِّیِّ ، عَنْ أَبِی نَضْرَۃَ ، عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ ؛ أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ضَرَبَ فِی الْخَمْرِ بِنَعْلَیْنِ أَرْبَعِینَ ، فَجَعَلَ عُمَرُ مَکَانَ کُلِّ نَعْلٍ سَوْطًا۔ (احمد ۶۷)
(٢٩٠٠٢) حضرت ابو سعید خدری فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے شراب میں چالیس جوتیاں ماریں اور حضرت عمر نے جوتی کے بدلے میں کوڑا ماناشروع کیا۔

29002

(۲۹۰۰۳) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا عِمْرَانُ بْنُ حُدَیْرٍ ، عَنِ السَّمَیْطِ بْنِ عُمَیْرٍ ، قَالَ : دَخَلَ رَجُلٌ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ الْمَسْجِدَ ، فَصَلَّی أَرْبَعًا ، فَقَالَ رَجُلٌ لِصَاحِبِہِ : رَأَیْتَ مَا رَأَیْتُ ؟ قَالَ : نَعَمْ ، فَأَخَذَاہُ فَأَتَیَا بِہِ أَبَا مُوسَی الأَشْعَرِیَّ ، فَقَالاَ : إِنَّ ہَذَا دَخَلَ الْمَسْجِدَ فَصَلَّی أَرْبَعًا ، فَقَالَ : ہَلْ غَیَّرَ ؟ فَقَالاَ : لاَ ، قَالَ : إِنَّ ہَذِہِ لَرِیبَۃٌ ، قَالَ : مَا حَمَلَک عَلَی مَا صَنَعْتَ ؟ قَالَ : مَا شَرِبْتہَا قَبْلَ الْیَوْمِ ، فَجَلَدَہُ ثَمَانِینَ۔
(٢٩٠٠٣) حضرت سمیط بن عمیر فرماتے ہیں کہ ایک آدمی جمعہ کے دن میں داخل ہوا اور اس نے چار رکعت نماز پڑھ لی اس پر ایک آدمی نے اپنے ساتھی سے کہا : کیا تم نے بھی وہی دیکھا جو میں نے دیکھا ؟ وہ کہنے لگا : ہاں پھر ان دونوں نے اس شخص کو پکڑا اور کہنے لگے : بیشک یہ شخص مسجد میں داخل ہوا اور اس نے چار رکعت نماز پڑھی آپ نے کہا : نہیں۔ آپ نے فرمایا : بیشک یہ تو شک کی بات ہے۔ آپ نے پوچھا : جو تجھے اس کام پر کس بات نے ابھارا ؟ اس شخص نے جواب دیا : میں نے آج سے پہلے کبھی شراب نہیں پی تو آپ نے اسے اسّی کوڑے مارے۔

29003

(۲۹۰۰۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ مِسْعَرٍ ، عَنْ زَیْدٍ الْعَمِّیِّ ، عَنْ أَبِی الصِّدِّیقِ النَّاجِی ، عَنْ أَبِی سَعِیدٍ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ؛ أَنَّہُ ضَرَبَ فِی الْخَمْرِ أَرْبَعِینَ۔ (ترمذی ۱۴۴۲۔ احمد ۳۲)
(٢٩٠٠٤) حضرت ابو سعید فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے شراب میں چالیس کوڑے مارے۔

29004

(۲۹۰۰۵) حَدَّثَنَا ابْنُ مُبَارَکٍ ، عَنْ مَعْمَرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَی عَبْدُ الْحَکِیمِ بْنُ فلاَنِ بْنِ یَعْلَی ، عَنْ أَبِیہِ ؛ أَنَّ یَعْلَی بْنَ أُمَیَّۃَ قَالَ لِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ ، أَوْ کَتَبَ إِلَیْہِ : إِنَّا نُؤْتَی بِقَوْمٍ قَدْ شَرِبُوا الشَّرَابَ ، فَعَلَی مَنْ نُقِیمُ الْحَدَّ ؟ فَقَالَ: اسْتَقْرِئْہُ الْقُرْآنَ ، وَأَلْقِ رِدَائَہُ بَیْنَ أَرْدِیَۃٍ ، فَإِنْ لَمْ یَقْرَأَ الْقُرْآنَ وَلَمْ یَعْرِفْ رِدَائَہُ ، فَأَقِمْ عَلَیْہِ الْحَدَّ۔
(٢٩٠٠٥) حضرت یعلی بن امیہ نے حضرت عمر بن خطاب سے فرمایا یا ان کو خط لکھا : بیشک ہمارے پاس ایسے لوگ لائے گئے ہیں جنہوں نے شراب پی ہے، پس ہم کس حالت میں ان پر حد قائم کریں ؟ حضرت عمر نے فرمایا : ان سے قرآن پڑھواؤ اور ان کی چادر بہت سی چادروں کے درمیان ڈال دو پس اگر وہ قرآن نہ پڑھ سکیں اور اپنی چادر کو نہ پہچان سکیں تو ان پر حد قائم کردو۔

29005

(۲۹۰۰۶) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، عَنْ مِسْعَرٍ، قَالَ: حدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ عَمْرِو بْنِ عُتْبَۃَ ، قَالَ : أُرَاہُ ذَکَرَہُ عَنْ عُمَرَ، أَنَّہُ قَالَ : لاَ حَدَّ إِلاَّ فِیمَا خَلَسَ الْعَقْلَ۔
(٢٩٠٠٦) حضرت ابوبکر بن عمرو بن عتبہ فرماتے ہیں کہ (مصنف فرماتے ہیں میرا خیال ہے کہ انھوں نے حضرت عمر سے نقل کیا) حضرت عمر نے ارشاد فرمایا : حد نہیں ہوگی مگر جب چیزوں میں عقل دھوکا کھاجائے۔

29006

(۲۹۰۰۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ مِسْعَرٍ ، عَنْ أَبِی بَکْرٍ بْنِ عَمْرِو بْنِ عُتْبَۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُتْبَۃَ ، قَالَ : أُرَاہُ عَنْ عُمَرَ، قَالَ : لاَ حَدَّ إِلاَّ فِیمَا خَلَسَ الْعَقْلَ۔
(٢٩٠٠٧) حضرت عبداللہ بن عتبہ فرماتے ہیں (مصنف فرماتے ہیں میرا خیال ہے کہ) حضرت عمر سے نقل فرمایا : کہ حد نہیں ہوگی مگر جب چیزوں میں عقل دھوکا کھاجائے۔

29007

(۲۹۰۰۸) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ سَعِیدٍ ، عَنْ عَطَائٍ ، قَالَ : إِذَا سَرَقَ الْمُسْلِمُ مِنَ الذِّمِّیِّ خَمْرًا ، قُطِعَ ، وَإِذَا سَرَقَہَا مِنْ مُسْلِمٍ لَمْ یُقْطَعْ۔
(٢٩٠٠٨) حضرت سعید بن سعید فرماتے ہیں کہ حضرت عطائ نے ارشاد فرمایا : جب مسلمان ذمی کی شراب چوری کرلے تو اس کا ہاتھ کاٹا جائے گا اور جب وہ کسی مسلمان کی شراب چوری کرلے تو اس کا ہاتھ نہیں کٹے گا۔

29008

(۲۹۰۰۹) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَن مُجَالِدٍ ، عَنْ عَامِرٍ ؛ أَنَّ شُرَیْحًا ضَمَّنَ مُسْلِمًا خَمْرًا أَہْرَاقَہَا لِذِمِّیٍّ۔
(٢٩٠٠٩) حضرت عامر فرماتے ہیں کہ حضرت شریح نے ایک مسلمان کو شراب کا ضامن بنایا جو اس نے کسی ذمی کی بہاد ی تھی۔

29009

(۲۹۰۱۰) حَدَّثَنَا الضَّحَّاکُ بْنُ مَخْلَدٍ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : مَنْ سَرَقَ مِنْ یَہُودِیٍّ ، أَوْ نَصْرَانِیٍّ ، أَوْ أَخَذَ مِنْ أَہْلِ الذِّمَّۃِ ، قُطِعَ۔
(٢٩٠١٠) حضرت اشعث فرماتے ہیں کہ حضرت حسن بصری نے ارشاد فرمایا : جس شخص نے یہودی یا عیسائی کی چوری کی یا ذمی سے لے لی تو اس کا ہاتھ کاٹا جائے گا۔

29010

(۲۹۰۱۱) حَدَّثَنَا مُعَمَّرُ بْنُ سُلَیْمَانَ الرَّقِّی ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ عَبْدِ الْجَبَّارِ بْنِ وَائِلٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : اسْتُکْرِہَتِ امْرَأَۃٌ عَلَی عَہْدِ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَدَرَأَ عَنہَا الْحَدَّ۔ (ترمذی ۱۴۵۳۔ ابن ماجہ ۲۵۹۸)
(٢٩٠١١) حضرت وائل بن عمر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں ایک عورت کو بدکاری کرنے پر مجبور کیا گیا تھا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس عورت سے سزا ختم کردی۔

29011

(۲۹۰۱۲) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَن عُبَیْدِ اللہِ ، عَن نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ؛ أَنَّ عُمَرَ أُتِیَ بِإِمَائٍ مِنْ إِمَائِ الإِمَارَۃِ اسْتَکْرَہَہُنَّ غِلْمَانٌ مِنْ غِلْمَانِ الإِمَارَۃِ ، فَضَرَبَ الْغِلْمَانَ وَلَمْ یَضْرِبِ الإِمَائَ۔
(٢٩٠١٢) حضرت ابن عمر فرماتے ہیں کہ حضرت عمر کے پاس حکومت کی باندیوں میں سے چند باندیاں لائی گئیں جن کو حکومت کے غلاموں میں سے چند غلاموں نے بدکاری پر مجبور کیا تھا تو آپ نے ان غلاموں کو کوڑے مارے اور ان باندیوں کو نہیں مارا۔

29012

(۲۹۰۱۳) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، عَن عُبَیْدِ اللہِ ، عَن نَافِعٍ ؛ أَنَّ رَجُلاً أَضَافَ أَہْلَ بَیْتٍ ، فَاسْتَکْرَہَ مِنْہُمُ امْرَأَۃً ، فَرُفِعَ ذَلِکَ إِلَی أَبِی بَکْرٍ ، فَضَرَبَہُ وَنَفَاہُ ، وَلَمْ یَضْرِبِ الْمَرْأَۃَ۔
(٢٩٠١٣) حضرت نافع فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے کسی گھر والوں کی دعوت کی پس اس نے ان میں سے ایک عورت کو بدکاری پر مجبور کیا، یہ معاملہ حضرت ابوبکر کی خدمت میں پیش کیا گیا تو آپ نے اس شخص کو کوڑے لگائے اور اس کو جلاوطن کردیا اور آپ نے اس عورت کو کوڑے نہیں د مارے۔

29013

(۲۹۰۱۴) حَدَّثَنَا مُعَمَّرُ بْنُ سُلَیْمَانَ الرَّقِّی ، عَنْ حَجَّاجٍ ؛ أَنَّ حَبَشِیًّا اسْتَکْرَہَ امْرَأَۃً مِنْہُمْ ، فَأَقَامَ عَلَیْہِ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیزِ الْحَدَّ ، وَأَمْکَنَہَا مِنْ رَقَبَتِہِ۔
(٢٩٠١٤) حضرت حجاج فرماتے ہیں کہ ایک حبشی نے اپنے میں سے کسی عورت کو بدکاری پر مجبور کیا تو حضرت عمر بن عبدالعزیز نے اس پر حد قائم فرمائی۔ اور آپ نے اس عورت کو اس کی ملکیت پہ قدرت دے دی۔

29014

(۲۹۰۱۵) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، وَالشُّعَبِیِّ ، وَالْحَسَنِ ، قَالُوا : لَیْسَ عَلَی مُسْتَکْرَہَۃٍ حَدٌّ۔
(٢٩٠١٥) حضرت اشعث فرماتے ہیں کہ حضرت زھری ، حضرت شعبی اور حضرت حسن بصری ان سب حضرات نے ارشاد فرمایا : بدکاری پر مجبور کی گئی عورت پر حد نہیں جاری ہوگی۔

29015

(۲۹۰۱۶) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، وَالزُّہْرِیِّ ، قَالاَ : لَیْسَ عَلَی مُسْتَکْرَہَۃٍ حَدٌّ۔
(٢٩٠١٦) حضرت اشعث فرماتے ہیں کہ حضرت حسن بصری اور زھری نے ارشاد فرمایا : بدکاری پر مجبور کی گئی عورت پر حد جاری نہیں ہوگی۔

29016

(۲۹۰۱۷) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ أَبِی حُرَّۃَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : اسْتَکْرَہَ عَبْدٌ امْرَأَۃً فَوَطِئَہَا ، فَاخْتَصَمَا إِلَی الْحَسَنِ وَہُوَ قَاضٍ یَوْمَئِذٍ ، فَضَرَبَہُ الْحَدَّ ، وَقَضَی بِالْعَبْدِ لِلْمَرْأَۃِ۔
(٢٩٠١٧) حضرت ابو حرہ فرماتے ہیں کہ حضرت حسن بصری نے ارشاد فرمایا : ایک غلام نے کسی عورت کو بدکاری پر مجبور کیا اور اس نے اس سے وطی کرلی، پھر وہ دونوں جھگڑا لے کر حضرت حسن بصری کی خدمت میں آئے اس حال میں کہ آپ ان دنوں قاضی تھے پس آپ نے اس غلام پر حد لگائی اور اس غلام کا عورت کے حق میں فیصلہ دے دیا۔

29017

(۲۹۰۱۸) حَدَّثَنَا شَبَابَۃُ بْنِ سَوَّارٍ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، قَالَ : سَأَلْتُ الْحَکَمَ ، وَحَمَّادًا عَنْ مَمْلُوکٍ افْتَرَعَ جَارِیَۃً ؟ فَقَالاَ : عَلَیْہِ الْحَدُّ ، وَلَیْسَ عَلَیْہِ الصَّدَاقُ۔
(٢٩٠١٨) حضرت شعبہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت حکم اور حضرت حماد سے ایک غلام کے متعلق دریافت کیا جس نے ایک لونڈی کی بکارت زائل کردی تھی ؟ ان دونوں حضرات نے فرمایا : اس پر حد جاری ہوگی اور اس پر مہر لازم نہیں ہوگا۔

29018

(۲۹۰۱۹) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، وَمُحَمَّدٍ ، قَالاَ : إِذَا قَتَلَ السَّکْرَانُ قُتِلَ۔
(٢٩٠١٩) حضرت ہشام فرماتے ہیں کہ حضرت حسن بصری اور حضرت محمد نے ارشاد فرمایا : جب نشہ میں مدہوش آدمی قتل کردے تو اسے بھی قتل کردیا جائے گا۔

29019

(۲۹۰۲۰) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، قَالَ : یُقْتَلُ۔
(٢٩٠٢٠) حضرت معمر فرماتے ہیں کہ حضرت زھری نے ارشاد فرمایا : اسے قتل کردیا جائے گا۔

29020

(۲۹۰۲۱) حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَۃَ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ؛ أَنَّ سَکْرَانَیْنِ قَتَلَ أَحَدُہُمَا صَاحِبَہُ ، قَالَ : فَقَتَلَہُ مُعَاوِیَۃُ۔
(٢٩٠٢١) حضرت یحییٰ بن سعید فرماتے ہیں کہ نشہ میں چور دو آدمیوں میں سے ایک نے اپنے ساتھی کو قتل کردیا تو حضرت معاویہ نے اس کو بھی بدلے میں قتل کردیا ۔

29021

(۲۹۰۲۲) حَدَّثَنَا عَبْدُالْوَہَّابِ، عَن بُرْدٍ، عَنْ مَکْحُولٍ، وَالزُّہْرِیِّ، قَالاَ: یَجُوزُ طَلاَقُ السَّکْرَانِ، وَیُقْطَعُ إِنْ سَرَقَ۔
(٢٩٠٢٢) حضرت برد فرماتے ہیں کہ حضرت مکحول اور حضرت زھری نے فرمایا : نشہ میں مدہوش شخص کا طلاق دینا جائز ہے اور اس کا ہاتھ کاٹا جائے گا اگر وہ چوری کرلے۔

29022

(۲۹۰۲۳) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، عَن حَنْظَلَۃَ بْنِ أَبِی سُفْیَانَ ، عَنِ الْقَاسِمِ ؛ سُئِلَ عَنِ السَّکْرَانِ یَسْرِقُ ؟ فَقَالَ : إِنْ کَانَ یُعْرَفُ بِالسَّرِقَۃِ قَبْلَ ذَلِکَ فَاقْطَعْہُ ، وَإِلاَّ فَلاَ۔
(٢٩٠٢٣) حضرت حنظلہ بن ابو سفیان فرماتے ہیں کہ حضرت قاسم سے اس نشہ میں مدہوش آدمی کے بارے میں سوال کیا گیا جس نے چوری کی تھی ؟ آپ نے فرمایا : اگر وہ اس سے پہلے چوری کے معاملے میں مشہور ہے تو اس کا ہاتھ کاٹ دو وگرنہ نہیں۔

29023

(۲۹۰۲۴) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سَالِمٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ؛ فِی النَّشْوَانِ : یُقْطَعُ إِنْ سَرَقَ ، وَیُؤْخَذُ بِجِنَایَاتِہِ کُلِّہَا۔
(٢٩٠٢٤) حضرت محمد بن سالم فرماتے ہیں کہ حضرت شعبی سے ابتدائی نشہ والے کے بارے میں مروی ہے کہ اگر وہ چوری کرے تو اس کا ہاتھ کاٹ دیا جائے گا۔ اور اس کو تمام جنایات میں پکڑا جائے گا۔

29024

(۲۹۰۲۵) حَدَّثَنَا عِیسَی بْنُ یُونُسَ ، عَنِ الأَوْزَاعِیِّ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ؛ فِی السَّکْرَانِ : إِذَا أَعْتَقَ ، أَوْ طَلَّقَ جَازَ عَلَیْہِ وَأُقِیمَ عَلَیْہِ الْحَدُّ۔
(٢٩٠٢٥) حضرت اوزاعی فرماتے ہیں کہ حضرت زھری سے نشہ میں مدہوش آدمی کے بارے میں مروی ہے کہ جب وہ آزاد کرلے یا طلاق دے تو اس کو مانا جائے گا اور اس پر حد قائم کی جائے گی۔

29025

(۲۹۰۲۶) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، قَالَ : إِنْ سَرَقَ قُطِعَ ، وَإِنْ قَتَلَ قُتِلَ۔
(٢٩٠٢٦) حضرت معمر فرماتے ہیں کہ حضرت زھری نے ارشاد فرمایا : اگر وہ چوری کرے تو اس کا ہاتھ کاٹ دیا جائے اور اگر وہ قتل کرے تو اسے بھی قتل کردیا جائے۔

29026

(۲۹۰۲۷) حَدَّثَنَا عَبْدُ السَّلاَمِ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، قَالَ : مَا تَکَلَّمَ بِہِ السَّکْرَانُ مِنْ شَیْئٍ أُقِیمَ عَلَیْہِ۔
(٢٩٠٢٧) حضرت مغیرہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم نے ارشاد فرمایا : نشہ میں مدہوش آدمی قابل حد بات کرے تو اس پر حد قائم کی جائے گی۔

29027

(۲۹۰۲۸) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، وَمُحَمَّدٍ ، قَالاَ : إِنْ سَرَقَ قُطِعَ۔
(٢٩٠٢٨) حضرت ہشام فرماتے ہیں کہ حضرت حسن بصری اور حضرت محمد بن سیرین نے ارشاد فرمایا : اگر وہ چوری کرے تو اس کا ہاتھ کاٹ دیا جائے۔

29028

(۲۹۰۲۹) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنِ الْحَسَنِ، قَالَ: أَرْبَعَۃٌ إِلَی السُّلْطَانِ؛ الزَّکَاۃُ، وَالصَّلاَۃُ، وَالْحُدُودُ، وَالْقَضَائُ۔
(٢٩٠٢٩) حضرت عاصم فرماتے ہیں کہ حضرت حسن بصری نے ارشاد فرمایا : چار چیزیں بادشاہ کے سپرد ہیں زکوۃ ، نماز، سزائیں اور فیصلے۔

29029

(۲۹۰۳۰) حَدَّثَنَا ابْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَۃَ ، عَنْ جَبَلَۃَ بْنِ عَطِیَّۃَ ، عَنِ ابْنِ مُحَیْرِیزٍ ، قَالَ : الْجُمُعَۃُ ، وَالْحُدُودُ ، وَالزَّکَاۃُ ، وَالْفَیْئُ إِلَی السُّلْطَانِ۔
(٢٩٠٣٠) حضرت جبلہ بن عطیہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابن محیریز نے ارشاد فرمایا : جمعہ، سزائیں، زکوۃ اور مال فئی بادشاہ کے سپرد ہیں۔

29030

(۲۹۰۳۱) حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ أَیُّوبَ ، عَنْ مُغِیرَۃَ بْنِ زِیَادٍ ، عَنْ عَطَائٍ الْخُرَاسَانِیِّ ، قَالَ : إِلَی السُّلْطَانِ الزَّکَاۃُ ، وَالْجُمُعَۃُ ، وَالْحُدُودُ۔
(٢٩٠٣١) حضرت مغیرہ بن زیاد فرماتے ہیں کہ حضرت عطاء خراسانی نے ارشاد فرمایا : زکوۃ ، جمعہ اور سزائیں بادشاہ کے سپرد ہیں۔

29031

(۲۹۰۳۲) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو ، عَنْ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِیزِ ، قَالَ : السُّلْطَانُ وَلِیُّ مَنْ حَارَبَ الدِّینَ ، وَإِنْ قَتَلَ أَخَا امْرِئٍ ، أَوْ أَبَاہُ۔
(٢٩٠٣٢) حضرت محمد بن عمرو فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز نے ارشاد فرمایا : بادشاہ ولی ہے اس شخص کا جو دین کی جنگ لڑے اگرچہ وہ کسی آدمی کے بھائی یا اس کے باپ کو قتل کردے۔

29032

(۲۹۰۳۳) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ؛ فِی رَجُلٍ قَالَ لِرَجُلٍ : یَا شَارِبَ خَمْرٍ ، قَالَ : لَیْسَ عَلَیْہِ حَدٌّ۔
(٢٩٠٣٣) حضرت مغیرہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم سے ایسے شخص کے بارے میں مروی ہے جو کسی آدمی کو یوں کہے : اے شراب پینے والے آپ نے فرمایا : اس پر حد جاری نہیں ہوگی۔

29033

(۲۹۰۳۴) حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ مُعَاذٍ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الْحَسَنِ ؛ فِی الرَّجُلِ یَقُولُ لِلرَّجُلِ : یَا شَارِبَ خَمْرٍ ، یَا سَکْرَانُ ، قَالَ : کَانَ لاَ یَرَی عَلَیْہِ حَدًّا۔
(٢٩٠٣٤) حضرت اشعث فرماتے ہیں کہ حضرت حسن بصری سے اس شخص کے بارے میں مروی ہے جو آدمی کو یوں کہہ دے : اے شراب پینے والے اے نشئی، آپ اس پر حد لازم نہیں سمجھتے تھے۔

29034

(۲۹۰۳۵) حَدَّثَنَا الضَّحَّاکُ بْنُ مَخْلَدٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَطَائٍ ، فِی الرَّجُلِ یَقُولُ لِلرَّجُلِ: یَا شَارِبُ، یَا سَارِقُ، قَالَ : لَیْسَ عَلَیْہِ حَدٌّ ، وَلَکِنْ سِیَاطٌ۔
(٢٩٠٣٥) حضرت ابن جریج فرماتے ہیں کہ حضرت عطائ سے اس شخص کے بارے میں مروی ہے جو آدمی کو یوں کہتا ہو : اے شرابی، اے چور آپ نے فرمایا : اس پر حد تو نہیں ہے لیکن چند کوڑے اسے مارے جائیں گے۔

29035

(۲۹۰۳۶) حَدَّثَنَا الضَّحَّاکُ بْنُ مَخْلَدٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَن سُلَیْمَانَ بْنِ مُوسَی ، قَالَ : سَأَلْنَا عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِیزِ عَنْ رَجُلٍ قَالَ لِرَجُلٍ : یَا شَارِبَ خَمْرٍ ، أَوْ یَا مُشْرِکُ ، أَوْ یَا سَکْرَانُ ، قُلْنَا : یُحَدُّ ؟ قَالَ : سُبْحَانَ اللہِ ، مَا یُحَدُّ إِلاَّ مَنْ قَذَفَ مُسْلِمًا۔
(٢٩٠٣٦) حضرت سلیمان بن موسیٰ فرماتے ہیں کہ ہم نے حضرت عمر بن عبدالعزیز سے ایک آدمی کے متعلق دریافت کیا جو کسی آدمی کو یوں کہہ دے : اے شراب پینے والے، یا اے مشرک یا اے نشہ میں مدہوش ہم نے پوچھا : کیا اس کو سزا دی جائے گی ؟ آپ نے فرمایا : سبحان اللہ ! سزا نہیں م دی جائے گی مگر اس شخص کو جو مسلمان پر تہمت لگائے۔

29036

(۲۹۰۳۷) حَدَّثَنَا ابْنُ یَمَانٍ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ عَامِرٍ ؛ فِی الرَّجُلِ یَقُولُ لِلرَّجُلِ : یَا شَارِبَ خَمْرٍ ، قَالَ : لاَ یُضْرَبُ۔
(٢٩٠٣٧) حضرت جابر فرماتے ہیں کہ حضرت عامر سے اس شخص کے بارے میں مروی ہے جو آدمی کو یوں کہتا ہو : اے شراب پینے والے، اسے مارا نہیں جائے گا۔

29037

(۲۹۰۳۸) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَن مَنْصُورٍ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ؛ فِی رَجُلٍ لاَعَنَ امْرَأَتَہُ ، فَفُرِّقَ بَیْنَہُمَا ، ثُمَّ أَکْذَبَ نَفْسَہُ ، قَالَ : یُجْلَدُ ، وَیُلْزَقُ بِہِ الْوَلَدُ۔
(٢٩٠٣٨) حضرت منصور فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم سے ایک آدمی کے بارے میں مروی ہے جس نے اپنی بیوی سے لعان کیا پھر اس نے خود کو جھٹلا دیا، آپ نے فرمایا : اسے کوڑے مارے جائیں گے اور اس بچہ کو اس سے ملادیا جائے گا۔

29038

(۲۹۰۳۹) حَدَّثَنَا حَفْصٌ، عَن دَاوُد، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ؛ فِی الْمُلاَعِن یُکَذِّبُ نَفْسَہُ، قَالَ: یُضْرَبُ وَہُوَ خَاطِبٌ۔
(٢٩٠٣٩) حضرت داؤد فرماتے ہیں کہ حضرت سعید بن مسیب سے اس لعان کرنے والے شخص کے بارے میں مروی ہے جو خود کو جھٹلا دے آپ نے فرمایا، اسے کوڑے مارے جائیں گے درآنحالیکہ وہ شادی کا پیغام دینے والا ہے۔

29039

(۲۹۰۴۰) حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرٍ بْنُ عَیَّاشٍ ، عَنْ مُطَرِّفٍ ، قَالَ : إِذَا قَذَفَ الرَّجُلُ امْرَأَتَہُ لاَعَنہَا ، فَإِنْ أَکْذَبَ نَفْسَہُ بَعْدَ ذَلِکَ جُلِدَ ، وَیُلْزَقُ بِہِ الْوَلَدُ ، وَرُدَّتْ إِلَیْہِ امْرَأَتُہُ۔
(٢٩٠٤٠) حضرت ابوبکر بن عیاش فرماتے ہیں کہ حضرت مطرف نے ارشاد فرمایا : جب آدمی نے اپنی بیوی پر تہمت لگائی اور اس سے لعان کیا پس اگر اس کے بعد اس نے خود کو جھٹلا دیا تو اسے کوڑے مارے جائیں گے اور اس بچہ کو اس سے ملادیا جائے گا اور اس کی بیوی کو اس کی طرف واپس لوٹا دیں گے۔

29040

(۲۹۰۴۱) حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرٍ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ؛ فِی الْمُلاَعِنِ یُکَذِّبُ نَفْسَہُ ، قَالَ : یُجْلَدُ الْحَدَّ۔
(٢٩٠٤١) حضرت مغیرہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم سے اس لعان کرنے والے کے بارے میں مروی ہے جو اپنے نفس کی تکذیب کر دے آپ نے فرمایا : اس پر حد جاری کی جائے گی۔

29041

(۲۹۰۴۲) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنِ الْحَکَمِ ، قَالَ : سَأَلْتُہُ عَنِ الرَّجُلِ یُلاَعِنُ امْرَأَتَہُ ، ثُمَّ أَقَرَّ بِالْوَلَدِ ؟ قَالَ : یُضْرَبُ الْحَدَّ ، وَیُلْزَقُ بِہِ الْوَلَدُ۔
(٢٩٠٤٢) حضرت شعبہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت حکم سے اس آدمی کے متعلق سوال کیا جو اپنی بیوی سے لعان کرے پھر بعد میں بچہ کا اقرار کرلے ؟ آپ نے فرمایا : اس پر حد لگائی جائے گی اور اس بچہ کو اس سے ملا دیا جائے گا۔

29042

(۲۹۰۴۳) حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَطَائٍ ؛ فِی الرَّجُلِ یَقْذِفُ امْرَأَتَہُ ، أَوْ یَنْتَفِی مِنْ وَلَدِ امْرَأَتِہِ ، ثُمَّ یُکَذِّبُ نَفْسَہُ ، قَالَ : یُحَدُّ۔
(٢٩٠٤٣) حضرت ابن جریج فرماتے ہیں کہ حضرت عطائ سے اس شخص کے بارے میں مروی ہے جس نے اپنی بیوی پر تہمت لگائی یا اس نے اپنی بیوی کے بچہ کی نفی کی پھر اس نے خود کو جھٹلا دیا ہو ! آپ نے فرمایا اس پر حد لگائی جائے گی۔

29043

(۲۹۰۴۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنِ ابْنِ شُبْرُمَۃَ ، عَنِ الْحَارِثِ (ح) وَعَنْ سُفْیَانَ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَطَائٍ (ح) وَعَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ؛ فِی الْمَلاَعِن یُکَذِّبُ نَفْسَہُ ، قَالُوا : یُضْرَبُ۔
(٢٩٠٤٤) حضرت حارث ، حضرت عطائ اور حضرت شعبی سے اس لعان کرنے والے شخص کے بارے میں مروی ہے جو خود کی تکذیب کردے ان سب حضرات نے فرمایا : اسے مارا جائے گا۔

29044

(۲۹۰۴۵) حَدَّثَنَا مُعْتَمِرُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الزُّبَیْرِ ، عَنْ مَکْحُولٍ ، قَالَ : إِذَا لاَعَنَ الرَّجُلُ ، وَأَبَتِ الْمَرْأَۃُ أَنْ تُلاَعِن ، رُجِمَتْ۔
(٢٩٠٤٥) حضرت محمد بن زبیر فرماتے ہیں کہ حضرت مکحول نے ارشاد فرمایا : جب آدمی نے لعان کرلیا اور بیوی نے لعان کرنے سے انکار کردیا تو اس کو سنگسار کرد یا جائے گا۔

29045

(۲۹۰۴۶) حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ مُعَاذٍ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : تُحْبَسُ۔
(٢٩٠٤٦) حضرت اشعث فرماتے ہیں کہ حضرت حسن بصری نے ارشاد فرمایا : اس عورت کو قید کردیا جائے گا۔

29046

(۲۹۰۴۷) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ الْمُحَارِبِیُّ، عَن جُوَیْبِرٍ ، عَنِ الضَّحَّاکِ؛ فِی الرَّجُلِ یَقْذِفُ امْرَأَتَہُ فَتَأْبَی أَنْ تُلاَعنہُ، قَالَ : تُجْلَدُ مِئَۃ ، وَتُرْجَمُ۔
(٢٩٠٤٧) حضرت جویبر فرماتے ہیں کہ حضرت ضحاک سے اس شخص کے بارے میں مروی ہے جس نے اپنی بیوی پر تہمت لگائی پس اس کی بیوی نے لعان کرنے سے انکار کردیا آپ نے فرمایا : اسے سو کوڑے مارے جائیں گے اور سنگسار کردیا جائے گا۔

29047

(۲۹۰۴۸) حَدَّثَنَا عُمَر، عَنْ عِیسَی الْخَیَّاط، عَنِ الشَّعْبِیِّ، قَالَ: مَنْ وَقَعَ عَلَیْہِ اللِّعَانُ فَأَبَی أَنْ یَحْلِفَ، أُقِیمَ عَلَیْہِ الْحَدُّ۔ وَقَالَ عِیسَی : سَمِعْت غَیْرَ الشَّعْبِیِّ یَقُولُ : یُجْبَرَانِ عَلَی اللِّعَانِ ، وَیُحْبَسَانِ حَتَّی یَتَلاَعَنَا۔
(٢٩٠٤٨) حضرت عیسیٰ الخیاط فرماتے ہیں کہ حضرت شعبی نے ارشاد فرمایا : جس شخص پر لعان واقع ہوا پس اس نے قسم اٹھانے سے انکار کردیا تو اس شخص پر حد قائم کی جائے گی اور حضرت عیسیٰ نے فرمایا : کہ میں نے امام شعبی کے علاوہ کو یوں فرماتے ہوئے سنا : ان دونوں کو لعان کرنے پر مجبور کیا جائے گا اور ان کو قید کردیا جائے گا یہاں تک کہ وہ دونوں لعان کرلیں۔

29048

(۲۹۰۴۹) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ یَمَانٍ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ مُطَرِّفٍ ، وَجَابِرٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ (ح) وَعَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَن مُجَاہِدٍ ، وَعَطَائٍ ، قَالُوا : إِذَا دُرِئَ فِی اللِّعَانِ أُلْزِقَ بِہِ الْوَلَدُ۔
(٢٩٠٤٩) حضرت شعبی ، حضرت مجاہد اور حضرت عطائ نے ارشاد فرمایا : جب لعان کا معاملہ ختم کردیا جائے تو اس بچہ کو اس سے ملا دیا جائے گا۔

29049

(۲۹۰۵۰) حَدَّثَنَا عَبْدُ السَّلاَمِ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ؛ فِی الرَّجُلِ یُلاَعنِ امْرَأَتَہُ ، ثُمَّ یَقْذِفُہَا ، قَالَ : یُضْرَبُ ، وَقَالَ عَامِرٌ : لاَ یُضْرَبُ۔
(٢٩٠٥٠) حضرت مغیرہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم سے اس شخص کے بارے میں مروی ہے جو اپنی بیوی سے لعان کرلے پھر وہ اس پر تہمت لگا دے۔ آپ نے فرمایا : اس پر حد لگائی جائے گی اور حضرت عامر نے فرمایا : اس کو حد نہیں لگائی جائے گی۔

29050

(۲۹۰۵۱) حَدَّثَنَا شَبَابَۃُ بْنُ سَوَّارٍ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، قَالَ : سَأَلْتُ الْحَکَمَ ، وَحَمَّادًا عَنِ الرَّجُلِ یُلاَعنِ امْرَأَتَہُ ، ثُمَّ تَلِدُ ، فَیَقُولُ : لَیْسَ ہَذَا مِنِّی ؟ قَالاَ : یُضْرَبُ۔
(٢٩٠٥١) حضرت شعبہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت حکم اور حضرت حماد سے اس آدمی کے متعلق دریافت کیا جس نے اپنی بیوی سے لعان کیا پھر اس کی بیوی نے بچہ جنا پس وہ کہنے لگا : یہ میرا نہیں ہے تو اس کا کیا حکم ہے ؟ ان دونوں حضرات نے فرمایا : اسے مارا جائے گا۔

29051

(۲۹۰۵۲) حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَطَائٍ ، قَالَ : إِنْ لاَعَنَتُہُ ، ثُمَّ قَذّفَہَا لَمْ یُحَدّ ۔ قَالَ : قُلْتُ : وَکَیْفَ وَقَدْ أَکْذَبَ نَفْسَہُ ؟ قَالَ : لاَ یُحَدُّ ، قَدْ بَائَ بِلَعَنَۃِ اللہِ فِی کِتَابِ اللہِ۔
(٢٩٠٥٢) حضرت ابن جریج فرماتے ہیں کہ حضرت عطائ نے ارشاد فرمایا : اگر ان دونوں نے لعان کرلیا پھر اس نے اپنی بیوی پر تہمت لگائی تو اس پر حد نہیں لگائی جائے گی۔

29052

(۲۹۰۵۳) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الْحَکَمِ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، قَالَ : إِذَا قَذَفَ الْمَجْلُودُ امْرَأَتَہُ جُلِدَ ، وَلاَ لِعَانَ بَیْنَہُمَا۔ قَالَ : وَسَأَلْتُ الْحَسَنَ ، وَعَامِرًا ؟ فَقَالاَ : یُلاَعِن۔
(٢٩٠٥٣) حضرت حکم فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم نے ارشاد فرمایا اگر کوڑے لگے ہوئے شخص نے اپنی بیوی پر تہمت لگائی تو اسے بھی کوڑے مارے جائیں گے اور ان دونوں کے درمیان لعان نہیں ہوگا۔ اور راوی فرماتے ہیں : میں نے حضرت حسن بصری اور حضرت عامر سے پوچھا ؟ تو ان دونوں حضرات نے فرمایا : وہ لعان کرے گا۔

29053

(۲۹۰۵۴) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَن مَنْصُورٍ ، وَحَمَّادٍ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، قَالَ : إِذَا قَذَفَ الرَّجُلُ امْرَأَتَہُ ، وَقَدْ کَانَ جُلِدَ الْحَدَّ ، جُلِدَ ، وَلاَ یُلاَعِن ، لأَََّنَّہُ لاَ تَجُوزُ شَہَادَتُہُ۔
(٢٩٠٥٤) حضرت منصور اور حضرت حماد فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم نے ارشاد فرمایا : جب آدمی نے اپنی بیوی پر تہمت لگائی درآنحالیکہ وہ سزا یافتہ تھا تو اسے کوڑے مارے جائیں گے اور وہ لعان نہیں کرے گا اس لیے کہ اس کی گواہی جائز نہیں ہے۔

29054

(۲۹۰۵۵) حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ عَامِرٍ ، عَن حَمَّادٍ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، قَالَ : إِذَا أَکْذَبَ الرَّجُلُ نَفْسَہُ مَا بَقِیَ مِنْ مُلاَعَنَتِہَا شَیْئٌ ، جُلِدَ وَہِیَ امْرَأَتُہُ۔
(٢٩٠٥٥) حضرت حماد فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم نے ارشاد فرمایا : جب آدمی خود کو جھٹلا دے جبکہ اس کے لعان میں سے کچھ جملے باقی ہوں تو اسے کوڑے مارے جائیں اور وہ اس کی بیوی ہوگی۔

29055

(۲۹۰۵۶) حَدَّثَنَا عَبَّادٌ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ أَبِی مَعْشَرٍ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، مِثْلَہُ۔
(٢٩٠٥٦) حضرت ابو معشر سے بھی حضرت ابراہیم کا مذکورہ ارشاد اس سند سے بھی منقول ہے۔

29056

(۲۹۰۵۷) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : إِذَا أَکْذَبَ نَفْسَہُ قَبْلَ أَنْ تَنْقَضِیَ الْمُلاَعنۃُ جُلِدَ وَہِیَ امْرَأَتُہُ ، وَإِنْ أَکْذَبَ نَفْسَہُ بَعْدَ الْمُلاَعَنَۃِ فَلاَ شَیْئَ۔
(٢٩٠٥٧) حضرت ہشام فرماتے ہیں کہ حضرت حسن بصری نے ارشاد فرمایا : جب آدمی نے لعان مکمل ہونے سے قبل خود کی تکذیب کردی تو اس کو کوڑے مارے جائیں گے اور وہ اس کی بیوی ہوگی اور اگر اس نے لعان کے بعد خود کی تکذیب کی تو کچھ نہیں ہوگا۔

29057

(۲۹۰۵۸) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَن بَیَانٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : مَنْ قَذَفَ ابْنَ الْمُلاَعنۃِ ، أَوْ قَذَفَ أُمَّہُ ضُرِبَ۔
(٢٩٠٥٨) حضرت بیان فرماتے ہیں کہ حضرت شعبی نے ارشاد فرمایا : جس شخص نے لعان کی گئی عورت کے بیٹے پر تہمت لگائی یا اس کی ماں پر تہمت لگائی تو اس شخص کو کوڑے مارے جائیں گے۔

29058

(۲۹۰۵۹) حَدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ (ح) وَعَن لَیْثٍ ، عَن مُجَاہِدٍ (ح) وَعَنْ جَابِرٍ ، وَابْنِ سَالِمٍ ، عَنْ عَامِرٍ ، قَالُوا : مَنْ قَذَفَ ابْنَ الْمُلاَعنۃِ جُلِدَ۔
(٢٩٠٥٩) حضرت ابراہیم ، حضرت مجاھد اور حضرت عامر نے ارشاد فرمایا : جس شخص نے لعان کی گئی عورت کے بیٹے پر تہمت لگائی تو اسے کوڑے مارے جائیں گے۔

29059

(۲۹۰۶۰) حَدَّثَنَا عَبْدُ السَّلاَمِ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَن مُجَاہِدٍ ، وَطَاوُوسٍ ؛ فِی الرَّجُلِ یَقُولُ لابْنِ الْمُلاَعنۃِ : یَا ابْنَ الزَّانِیَۃِ ، قَالَ : یُجْلَدُ ثَمَانِینَ۔
(٢٩٠٦٠) حضرت لیث فرماتے ہیں کہ حضرت مجاہد اور حضرت طاؤس سے اس شخص کے بارے میں مروی ہے کہ جو لعان کی گئی عورت کے بیٹے کو یوں کہے : اے زانیہ عورت کے بیٹے ! آپ نے فرمایا : اس کو اسی کوڑے مارے جائیں گے۔

29060

(۲۹۰۶۱) حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرٍ بْنُ عَیَّاشٍ ، عَن مُوسَی بْنِ عُبَیْدَۃَ ، عَن نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : مَنْ قَذَفَ ابْنَ الْمُلاَعنۃِ جُلِدَ۔
(٢٩٠٦١) حضرت نافع فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عمر نے ارشاد فرمایا : جس شخص نے لعان کی گئی عورت کے بیٹے پر تہمت لگائی اس شخص کو کوڑے مارے جائیں گے۔

29061

(۲۹۰۶۲) حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ مُعَاذٍ ، عَن عِمْرَانَ ، عَن عِکْرِمَۃَ ، قَالَ : مَنْ قَالَ لاِبْنِ الْمُلاَعنۃِ : یَا ابْنَ الْہَنَۃِ ، جُلِدَ الْحَدَّ۔
(٢٩٠٦٢) حضرت عمران فرماتے ہیں کہ حضرت عکرمہ نے ارشاد فرمایا : جو ملا عنہ کے بیٹے کو یوں کہے : اے گندی عورت کے بیٹے : تو اس پر حد قذف لگائی جائے گی۔

29062

(۲۹۰۶۳) حَدَّثَنَا أَسْبَاطُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، عَنْ مُطَرِّفٍ ، عَنْ عَامِرٍ ، قَالَ ، إِذَا قِیلَ لاِبْنِ الْمُلاَعنۃِ : لَسْتَ بِابْنِ فُلاَنٍ الَّذِی لاَعَنَ أُمَّک ، قَالَ : یُجْلَدُ الَّذِی یَقُولُ لَہُ ذَلِکَ۔
(٢٩٠٦٣) حضرت مطرف فرماتے ہیں کہ حضرت عامر نے ارشاد فرمایا : جب ملا عنہ عورت کے بیٹے کو یوں کہا گیا : تو اس فلاں آدمی کا بیٹا نہیں ہے جس نے تیری ماں کے ساتھ لعان کیا تھا۔ آپ نے فرمایا : کوڑے مارے جائیں گے اس شخص کو جس نے اسے یوں کہا کوڑے مارے جائیں گے۔

29063

(۲۹۰۶۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ عَبَّادِ بْنِ مَنْصُورٍ ، عَن عِکْرِمَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : مَنْ رَمَی ابْنَ الْمُلاَعنۃِ ، أَوْ أُمَّہُ ، جُلِدَ۔
(٢٩٠٦٤) حضرت عکرمہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عباس نے ارشاد فرمایا : جس شخص نے لعان کی گئی عورت کے بیٹے یا اس کی ماں پر تہمت لگائی تو اسے کوڑے مارے جائیں گے۔

29064

(۲۹۰۶۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ الْفَضْلِ بْنِ دَلْہَمٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : یُضْرَبُ قَاذِفُ ابْنِ الْمُلاَعنۃِ۔
(٢٩٠٦٥) حضرت فضل بن دلھم فرماتے ہیں کہ حضرت حسن بصری نے ارشاد فرمایا : ملا عنہ کے بیٹے پر تہمت لگانے والے کو کوڑے مارے جائیں گے۔

29065

(۲۹۰۶۶) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، قَالَ : إِنْ قَذَفَہَا إِنْسَانٌ جُلِدَ قَاذِفُہَا۔
(٢٩٠٦٦) حضرت مغیرہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم نے ارشاد فرمایا : اگر کسی شخص نے اس ملاعنہ پر تہمت لگائی تو تہمت لگانے والے کو کوڑے مارے جائیں گے۔

29066

(۲۹۰۶۷) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الْحَکَمِ، وَحَمَّادٍ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ؛ فِی الأَمَۃِ تَکُونُ تَحْتَ الْحُرِّ فَیَقْذِفُہَا، قَالَ : لاَ یُضْرَبُ الْحَدَّ ، وَلاَ یُلاَعِن۔
(٢٩٠٦٧) حضرت حکم اور حضرت حماد فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم سے اس باندی کے بارے میں مروی ہے جو آزاد کے ماتحت ہو پس وہ اس باندی پر تہمت لگادے آپ نے فرمایا : اس پر حد جاری نہیں ہوگی اور نہ ہی وہ لعان کرے گا۔

29067

(۲۹۰۶۸) حَدَّثَنَا عَبْدُ السَّلاَمِ ، عَنْ مُطَرِّفٍ ، عَنْ عَامِرٍ ؛ فِی الأَمَۃِ تَکُونُ تَحْتَ الْحُرِّ فَیَقْذِفُہَا ، قَالَ : لاَ حَدَّ عَلَیْہِما ، وَلاَ لِعَانَ۔
(٢٩٠٦٨) حضرت مطرف فرماتے ہیں کہ حضرت عامر سے اس باندی کے بارے میں مروی ہے جو آزاد کے ماتحت ہو پس وہ اس باندی پر تہمت لگا دے۔ آپ نے فرمایا : ان دونوں پر حد جاری نہیں ہوگی اور نہ لعان ہوگا۔

29068

(۲۹۰۶۹) حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَن طَاوُوسٍ ، وَمُجَاہِدٍ (ح) وَالْحَکَمِ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، وَالشَّعْبِیِّ ؛ فِی الرَّجُلِ تَکُونُ تَحْتَہُ الأَمَۃُ فَیَقْذِفُہَا ، قَالُوا : لَیْسَ بَیْنَہُمَا تَلاَعَنٌ ، وَلَیْسَ عَلَی قَاذِفِہَا حَدٌّ۔
(٢٩٠٦٩) حضرت طاؤس ، حضرت مجاھد ، حضرت ابراہیم اور حضرت شعبی ان سب حضرات سے اس شخص کے بارے میں مروی ہے جس کے ماتحت باندی ہو پس وہ اس پر تہمت لگا دے ان سب حضرات نے فرمایا : ان دونوں کے درمیان لعان نہیں ہوگا اور نہ ہی اس باندی پر تہمت لگانے والے پر حد قذف ہوگی۔

29069

(۲۹۰۷۰) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنِ الْحَکَمِ ، وَحَمَّادٍ ؛ فِی الْعَبْدِ تَکُونُ تَحْتَہُ الْحُرَّۃُ فَیَقْذِفُہَا ، قَالاَ : لَیْسَ بَیْنَہُمَا مُلاَعنۃٌ ، وَیُجْلَدُ۔
(٢٩٠٧٠) حضرت شعبہ فرماتے ہیں کہ حضرت حکم اور حضرت حماد سے اس غلام کے بارے میں مروی ہے جس کے نکاح میں آزاد عورت ہو پس وہ اس پر الزام لگادے۔ ان دونوں حضرات نے ارشاد فرمایا : ان کو کوڑے مارے جائیں گے۔

29070

(۲۹۰۷۱) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَیْدٍ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ ، عَنْ عَطَائٍ ؛ فِی الْیَہُودِیَّۃِ تُلاَعِنِ الْمُسْلِمَ ؟ قَالَ : لاَ ، وَلاَ الْعَبْدُ الْحُرَّۃَ ، وَلَکِنْ یُجْلَدُ الْعَبْدُ۔
(٢٩٠٧١) حضرت عبدالملک فرماتے ہیں کہ حضرت عطائ سے یہودی عورت کے بارے میں پوچھا گیا کار وہ مسلمان سے لعان کرسکتی ہے ؟ آپ نے فرمایا : نہیں اور نہ ہی غلام آزاد عورت سے لعان کرسکتا ہے لیکن اس غلام کو کوڑے مارے جائیں گے۔

29071

(۲۹۰۷۲) حَدَّثَنَا حُمَیْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَن حَسَنٍ ، عَنْ مُطَرِّفٍ ، عَنِ الْحَکَمِ ، وَعَامِرٍ ؛ فِی الْمَمْلُوکِ تَکُونُ لَہُ امْرَأَۃٌ حُرَّۃٌ ، فَتَجِیئُ بِوَلَدٍ فَیَنْتَفِی مِنْہُ ، قَالَ : یُضْرَبُ ، وَلاَ لِعَانَ بَیْنَہُمَا ، وَیُلْزَقُ بِہِ الْوَلَدُ۔ وَقَالَ عَامِرٌ ، وَالْحَکَمُ ؛ فِی الْحُرِّ تَحْتَہُ الأَمَۃُ ، فَجَائَتْ بِوَلَدٍ ، فَانْتَفَی مِنْہُ ، قَالاَ : لَیْسَ بَیْنَہُمَا لِعَانٌ ، وَیُلْزَقُ بِہِ الْوَلَدُ۔
(٢٩٠٧٢) حضرت مطرف فرماتے ہیں کہ حضرت حکم اور حضرت عامر سے اس غلام کے بارے میں مروی ہے جس کی بیوی آزاد ہو فرمایا : اس کو کوڑے مارے جائیں گے اور ان کے درمیان لعان نہیں ہوگا اور اس بچہ کو اس سے ملا دیا جائے گا اور حضرت عامر اور حضرت حکم ان دونوں حضرات نے اس آزاد شخص کے بارے میں فرمایا : جس کے ماتحت باندی تھی پس وہ بچہ لے آئی اور اس نے اس بچہ کی نفی کردی۔ ان دونوں حضرات نے فرمایا : ان دونوں کے درمیان لعان نہیں ہوگا اور اس بچہ کو اس کے ساتھ ملا دیا جائے گا۔

29072

(۲۹۰۷۳) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ؛ فِی الْعَبْدِ إِذَا کَانَ تَحْتَہُ الْحُرَّۃُ ، أَنَّہُ إِذَا قَذَفَہَا جُلِدَ ، وَلاَ یُلاَعِنُ ، وَإِذَا کَانَ حُرٌّ تَحْتَہُ أَمَۃٌ فَقَذَفَہَا ، فَإِنَّہُ لاَ یُجْلَدُ ، وَلاَ یُلاَعِنُ ، وَإِذَا کَانَ عَبْدٌ تَحْتَہُ أَمَۃٌ فَقَذَفَہَا ، فَإِنَّہُ لاَ یُجْلَدُ ، وَلاَ یُلاَعِنُ۔
(٢٩٠٧٣) حضرت معمر فرماتے ہیں کہ حضرت زھری سے اس غلام کے بارے میں مروی ہے کہ جب اس نے اس پر الزام لگادیا تو اس کو کوڑے مارے جائیں گے اور وہ لعان نہیں کرے گا اور جب آزاد آدمی کے ماتحت باندی ہو اور وہ اس پر الزام لگا دے تو نہ اسے کوڑے مارے جائیں اور نہ ہی وہ لعان کرے گا اور جب کسی غلام کے ماتحت باندی ہو اور وہ اس پر الزام لگا دے تو نہ اسے کوڑے مارے جائیں گے اور نہ ہی وہ لعان کرے گا۔

29073

(۲۹۰۷۴) حَدَّثَنَا سَہْلُ بْنُ یُوسُفَ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنِ الْحَسَنِ ؛ فِی أَرْبَعَۃٍ شَہِدُوا عَلَی رَجُلٍ أَنَّہُ طَلَّقَ امْرَأَتَہُ ثَلاَثًا ، فَأَنْکَرَ ، وَأَقَرَّ بِغَشَیَانِ الْمَرْأَۃِ ، فَقَالَ : لاَ حَدَّ عَلَیْہِ لأَنَّہُ مُخَاصِمٌ۔
(٢٩٠٧٤) حضرت عمرو فرماتے ہیں کہ حضرت حسن بصری سے ان چار آدمیوں کے بارے میں جنہوں نے ایک آدمی کے خلاف گواہی دی کہ بیشک اس نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دی ہیں پس اس شخص نے انکار کردیا اور بیوی سے جماع کا اقرار کیا۔ آپ نے فرمایا : اس پر حد نہیں ہوگی اس لیے کہ وہ انکار کررہا ہے۔

29074

(۲۹۰۷۵) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ زَیْدٍ ، وَہُوَ قَوْلُ قَتَادَۃَ ؛ أَنَّہُمَا قَالاَ : یُفَرَّقُ بَیْنَہُمَا بِشَہَادَۃِ اثْنَیْنِ وَثَلاَثَۃٍ ، وَیُرْجَمُ بِشَہَادَۃِ أَرْبَعَۃٍ۔
(٢٩٠٧٥) حضرت قتادہ اور حضرت جابر بن زید نے ارشاد فرمایا : ان دونوں کے درمیان دو اور تین آدمیوں کی گواہی سے تفریق ڈال دی جائے گی اور چار لوگوں کی گواہی سے اسے سنگسار کردیا جائے گا۔

29075

(۲۹۰۷۶) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ سَعِیدٍ ، قَالَ : نَبَّؤُوا عَنْ حَبِیْبِ بْنِ أَبِی ذِئْبٍ ، عَنْ عُمَرَ ، قَالَ : یُفَرَّقُ بَیْنَہُمَا بِشَہَادَۃِ أَرْبَعَۃٍ فَأَکْثَرَ ، فَإِنْ عَادَ رُجِمَ۔
(٢٩٠٧٦) حضرت سعید فرماتے ہیں کہ لوگوں نے حضرت حیبی بن ابی ذئب کے حوالہ سے خبر دی ہے کہ حضرت عمر نے ارشاد فرمایا : ان دونوں کے درمیان چار یا اس سے زیادہ آدمیوں کی گواہی سے تفریق کردی جائے گی پس اگر وہ دوبارہ لوٹے تو اسے سنگسار کردیا جائے۔

29076

(۲۹۰۷۷) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ سَعِیدٍ ، قَالَ : نَبَّؤُووا عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : یُفَرَّقُ بَیْنَہُمَا بِشَہَادَۃِ أَرْبَعَۃٍ ، وَأَکْثَرِ مِنْ ذَلِکَ رَجْمٌ۔
(٢٩٠٧٧) حضرت سعید فرماتے ہیں کہ لوگوں نے حضرت ابراہیم کے حوالے سے خبر دی ہے کہ آپ نے فرمایا : ان دونوں کے درمیان چار آدمیوں کی گواہی سے تفریق کردی جائے گی اور اس سے زیادہ کی صورت میں اسے سنگسار کیا جائے۔

29077

(۲۹۰۷۸) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سَالِمٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ؛ أَنَّہُ سُئِلَ عَنْ رَجُلٍ شَہِدَ عَلَیْہِ شُہُودٌ أَنَّہُ طَلَّقَ امْرَأَتَہُ ثَلاَثًا ، فَجَحَدَ ذَلِکَ ، وَأَنَّہُ کَانَ یَغْشَاہَا ؟ قَالَ : فَقَالَ الشَّعْبِیِّ : یُدْرَأُ عَنْہُ الْحَدُّ لإِنْکَارِہِ۔
(٢٩٠٧٨) حضرت محمد بن سالم فرماتے ہیں کہ حضرت شعبی سے ایک آدمی کے متعلق پوچھا گیا : جس کے خلاف چند گواہوں نے گواہی دی کہ بیشک اس نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی ہے پس اس نے اس کا انکار کردیا اور وہ اس سے جماع کرتا تھا، اس کا کیا حکم ہے ؟ حضرت شعبی نے فرمایا : اس کے انکار کرنے کی وجہ سے اس سے سزا کو ختم کردیا جائے گا۔

29078

(۲۹۰۷۹) حَدَّثَنَا الضَّحَّاکُ بْنُ مَخْلَدٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَطَائٍ ؛ فِی رَجُلٍ طَلَّقَ امْرَأَتَہُ فَأَشْہَدَ شَاہِدَیْنِ ، ثُمَّ قَدِمَ الْقَرْیَۃَ الَّتِی بِہَا الْمَرْأَۃُ ، فَغَشِیَہَا وَأَقَرَّ بِأَنْ قَدْ أَصَابَہَا ، وَأَنْکَرَ أَنْ یَکُونَ طَلَّقَہَا ، فَقَالَ عَطَائٌ : تَجُوزُ شَہَادَتُہُمَا ، وَیُفَرَّقُ بَیْنَہُمَا ، وَلاَ یُحَدُّ۔
(٢٩٠٧٩) حضرت ابن جریج فرماتے ہیں کہ حضرت عطائ سے ایک آدمی کے بارے میں مروی ہے جس نے اپنی بیوی کو طلاق دی پس دو گواہوں نے گواہی بھی دے دی پھر وہ شخص اس بستی میں آیا جہاں اس کی بیوی تھی اور اس نے اس سے جماع کیا۔ وہ شخص اس سے جماع کا اقرار کرتا ہے اور اس کو طلاق دینے کا انکار کرتا ہے۔ حضرت عطائ نے فرمایا : ان دونوں گواہوں کی گواہی جائز ہوگی اور ا ن کے درمیان تفرق کردی جائے گی اور اس شخص پر حد نہیں لگائی جائے گی۔

29079

(۲۹۰۸۰) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ؛ أَنَّ رَجُلاً طَلَّقَ امْرَأَتَہُ ثَلاَثًا ، ثُمَّ جَعَلَ یَغْشَاہَا بَعْدَ ذَلِکَ ، فَسُئِلَ عَن ذَلِکَ عَمَّارٌ ؟ فَقَالَ : لَئِنْ قَدَرْتُ عَلَی ہَذَا لأَرْجُمَنَّہُ۔
(٢٩٠٨٠) حضرت قتادہ فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دیں پھر اس نے اس کے بعد اس سے جماع کرنا شروع کردیا تو اس بارے میں حضرت عمار سے پوچھا گیا ؟ آپ نے فرمایا : اگر مجھے اس پر قدرت ہوتی تو میں ضرور اس کو سنگسار کردیتا۔

29080

(۲۹۰۸۱) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَوَائٍ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَن خِلاَسٍ ، عَنْ عَمَّارٍ ؛ بِنَحْوِہِ۔
(٢٩٠٨١) حضرت خلاس سے بھی حضرت عمار کا مذکورہ ارشاد منقول ہے۔

29081

(۲۹۰۸۲) حَدَّثَنَا حُمَیْدٌ ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ ، عَنْ جَرِیرِ بْنِ حَازِمٍ ، عَن عِیسَی بْنِ عَاصِمٍ ، قَالَ : خَرَجَ قَوْمٌ فِی سَفَرٍ ، فَمَرُّوا بِرَجُلٍ فَنَزَلُوا بِہِ ، فَطَلَّقَ امْرَأَتَہُ ثَلاَثًا ، فَمَضَی الْقَوْمُ فِی سَفَرِہِمْ ، ثُمَّ عَادُوا فَوَجَدُوہُ مَعَہَا ، فَقَدَّمُوہُ إِلَی شُرَیْحٍ، فَقَالُوا: إِنَّ ہَذَا طَلَّقَ امْرَأَتَہُ ثَلاَثًا وَوَجَدْنَاہُ مَعَہَا، فَأَنْکَرَ، فَقَالَ: تَشْہَدُونَ أَنَّہُ زَانٍ؟ فَأَعَادُوا عَلَیْہِ القَول کَمْا قَالُوا، فَقَالَ: تَشْہَدُونَ أَنَّہُ زَانٍ؟ فَأَعَادُوا عَلَیْہِ، فَفَرَّقَ بَیْنَہُمَا، وَلَمْ یَحُدَّہُمَا، وَأَجَازَ شَہَادَتَہُمَا۔
(٢٩٠٨٢) حضرت عیسیٰ بن عاصم فرماتے ہیں کہ چند لوگ سفر میں نکلے ان کا گزر ایک آدمی کے پاس سے ہوا تو انھوں نے اس کے پاس قیام کیا اس دوران اس آدمی نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دیں پھر وہ واپس لوٹے تو انھوں نے اس کو اس عورت کے ساتھ پایا سو انھوں نے اس کو حضرت شریح کے سامنے پیش کیا اور کہنے لگے : بیشک اس شخص نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دی تھیں اور ہم نے اسے اس عورت کے ساتھ پایا ہے اور وہ آدمی انکار کررہا تھا۔ اس پر آپ نے فرمایا : کیا تم گواہی دیتے ہو کہ یہ شخص زانی ہے ؟ پس انھوں نے اپنے قول کو دھرایا جیسا انھوں نے کہا تھا پھر آپ نے پوچھا : کیا تم گواہی دیتے ہو کہ یہ شخص زانی ہے ؟ انھوں نے پھر اپنی بات دھرائی سو آپ نے ان کے درمیان تفریق کردی اور ان دونوں پر حد نہیں لگائی اور ان کی گواہی کو جائز قرار دیا۔

29082

(۲۹۰۸۳) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللہِ الأَنْصَارِیُّ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الْحَسَنِ ؛ فِی الرَّجُلِ یَقُولُ لِلرَّجُلِ : أَخْبَرَنِی فُلاَنٌ أَنَّک زَنَیْتَ ، قَالَ : لَیْسَ عَلَیْہِ حَدٌّ لأَنَّہُ أَضَافَہُ إِلَی غَیْرِہِ۔
(٢٩٠٨٣) حضرت اشعث فرماتے ہیں کہ حضرت حسن بصری سے اس شخص کے بارے میں مروی ہے جس نے آدمی کو یوں کہا : مجھے فلاں نے خبر دی ہے کہ تو نے زنا کیا ہے۔ آپ نے فرمایا، اس پر حد قذف جاری نہیں ہوگی۔ اس لیے کہ اس نے اس بات کی نسبت کسی غیر کی طرف کی ہے۔

29083

(۲۹۰۸۴) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِہِ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ؛ أَنَّ رَجُلاً قَالَ لِرَجُلٍ : زَعَمَ فُلاَنٌ أَنَّک زَانٍ ، قَالَ : إِنْ جَائَ بِالْبَیِّنَۃِ ، وَإِلاَّ ضُرِبَ الْحَدَّ۔
(٢٩٠٨٤) حضرت شعبی فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے کسی سے کہا : فلاں نے کہا ہے کہ بیشک تو زانی ہے۔ آپ نے فرمایا : اگر وہ بینہ لے آئے تو ٹھیک وگرنہ اس شخص پر حد لگائی جائے گی۔

29084

(۲۹۰۸۵) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَن مَنْصُورٍ ، عَنِ الْحَارِثِ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، قَالَ : قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ : لأَنْ أُعَطِّلُ الْحُدُودَ بِالشُّبُہَاتِ أَحَبَّ إِلَیَّ مِنْ أَنْ أُقِیمَہَا فِی الشُّبُہَاتِ۔
(٢٩٠٨٥) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب نے ارشاد فرمایا : میں حدود کو شکوک و شبہات کی وجہ سے معطل کردوں یہ میرے نزدیک زیادہ پسندیدہ ہے اس بات سے کہ میں ان سزاؤں کو شبہات میں قائم کردوں۔

29085

(۲۹۰۸۶) حَدَّثَنَا عَبْدُ السَّلاَمِ ، عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ أَبِی فَرْوَۃَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ ، عَنْ أَبِیہِ ؛ أَنَّ مُعَاذًا ، وَعَبْدَ اللہِ بْنَ مَسْعُودٍ ، وَعُقْبَۃَ بْنَ عَامِرٍ ، قَالُوا : إِذَا اشْتَبَہَ عَلَیْک الْحَدُّ فَادْرَأْہُ۔
(٢٩٠٨٦) حضرت شعیب فرماتے ہیں کہ حضرت معاذ ، حضرت ابن مسعود اور حضرت عقبہ بن عامر ان سب حضرات نے ارشاد فرمایا : جب تم پر حد مشتبہ ہوجائے تو اس کو زائل کردو۔

29086

(۲۹۰۸۷) حَدَّثَنَا ابْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَن قَیْسِ بْنِ مُسْلِمٍ ، عَن طَارِقِ بْنِ شِہَابٍ ؛ أَنَّ امْرَأَۃً زَنَتْ ، فَقَالَ عُمَرُ : أُرَاہَا کَانَتْ تُصَلِّی مِنَ اللَّیْلِ فَخَشَعَتْ ، فَرَکَعَتْ فَسَجَدَتْ ، فَأَتَاہَا غَاوٍ مِنَ الْغُوَاۃِ فَتَجَتَّمَہَا ، فَأَرْسَلَ عُمَرُ إِلَیْہَا ، فَقَالَتْ کَمَا قَالَ عُمَرُ ، فَخَلَّی سَبِیلَہَا۔
(٢٩٠٨٧) حضرت طارق بن شھاب فرماتے ہیں کہ ایک عورت نے زنا کیا اس پر حضرت عمر نے فرمایا : میرا خیال ہے کہ وہ رات کو نماز پڑھ رہی تھی پس وہ ڈر گئی سو اس نے رکوع کیا پھر وہ سجدہ میں چلی گئی۔ اتنے میں گمراہوں میں سے ایک گمراہ شخص آیا ہوگا اور وہ اس کے اوپر چڑھ گیا ہوگا۔ حضرت عمر نے اس عورت کی طرف قاصد بھیجا تو اس عورت نے وہی بات کہی جو حضرت عمر نے بیان کی تھی۔ آپ نے اس کا راستہ چھوڑ دیا۔

29087

(۲۹۰۸۸) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، قَالَ : کَانُوا یَقُولُونَ ، ادْرَؤُوا الْحُدُودَ عَنْ عِبَادِ اللہِ مَا اسْتَطَعْتُمْ۔
(٢٩٠٨٨) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ صحابہ فرمایا کرتے تھے : سزاؤں کو اللہ رب العزت کے بندوں سے اپنی طاقت کے بقدر زائل کرو۔

29088

(۲۹۰۸۹) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَن بُرْدٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، قَالَ : ادْفَعُوا الْحُدُودَ لِکُلِّ شُبْہَۃٍ۔
(٢٩٠٨٩) حضرت برد فرماتے ہیں کہ حضرت زھری نے ارشاد فرمایا : ہر شبہ کی وجہ سے سزاؤں کو دور کردو۔

29089

(۲۹۰۹۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ أَبِی وَائِلٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : ادْرَؤُوا الْقَتْلَ وَالْجَلْدَ عَنِ الْمُسْلِمِینَ مَا اسْتَطَعْتُمْ۔
(٢٩٠٩٠) حضرت ابو وائل فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود نے ارشاد فرمایا : قتل اور کوڑے کو مسلمانوں سے اپنی طاقت کے بقدر زائل کرو۔

29090

(۲۹۰۹۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا الأَعْمَشُ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، قَالَ : قَالَ : اطْرُدُوا الْمُعْتَرِفِینَ۔
(٢٩٠٩١) حضرت اعمش فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم نے ارشاد فرمایا : اعتراف کرنے والوں سے سزاؤں کو دور کرو۔

29091

(۲۹۰۹۲) حَدَّثَنَا ابْنُ إِدْرِیسَ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ کُلَیْبٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : قَالَ أَبُو مُوسَی : أُتِیَت وَأَنَا بِالْیَمَنِ بِامْرَأَۃٍ حُبْلَی ، فَسَأَلْتُہَا ؟ فَقَالَتْ : مَا تَسْأَلُ عَنِ امْرَأَۃٍ حُبْلَی ثَیِّبٍ مِنْ غَیْرِ بَعْلٍ ؟ أَمَا وَاللَّہِ مَا خَالَلْتُ خَلِیلاً ، وَلاَ خَادَنْتُ خِدْنًا مُنْذُ أَسْلَمْتُ ، وَلَکِنْ بَیْنَا أَنَا نَائِمَۃٌ بِفِنَائِ بَیْتِی ، وَاللَّہِ مَا أَیْقَظَنِی إِلاَّ رَجُلٌ رقصنی وَأَلْقَی فِی بَطْنِی مِثْلَ الشِّہَابِ ، ثُمَّ نَظَرْت إِلَیْہِ مُقَفِّیًا مَا أَدْرِی مَنْ ہُوَ مِنْ خَلْقِ اللہِ ، فَکَتَبْتُ فِیہَا إِلَی عُمَرَ ، فَکَتَبَ عُمَرُ : وَافِنِی بِہَا ، وَبِنَاسٍ مِنْ قَوْمِہَا ، قَالَ : فَوَافَیْنَاہُ بِالْمَوْسِمِ ، فَقَالَ شَبَہَ الْغَضْبَانِ : لَعَلَّک قَدْ سَبَقْتَنِی بِشَیْئٍ مِنْ أَمْرِ الْمَرْأَۃِ ؟ قَالَ : قُلْتُ : لاَ ، ہِیَ مَعِی وَنَاسٌ مِنْ قَوْمِہَا ، فَسَأَلَہَا ، فَأَخْبَرَتْہُ کَمَا أَخْبَرَتْنِی ، ثُمَّ سَأَلَ قَوْمَہَا فَأَثْنَوْا خَیْرًا ، قَالَ : فَقَالَ عُمَرُ : شَابَّۃٌ تِہَامِیَّۃٌ نُوَمۃ ، قَدْ کَانَ یُفْعَلُ ، فَمَارَّہَا ، وَکَسَاہَا ، وَأَوْصَی قَوْمَہَا بِہَا خَیْرًا۔
(٢٩٠٩٢) حضرت کلیب فرماتے ہیں کہ حضرت ابو موسیٰ اشعری نے ارشاد فرمایا : میں یمن میں تھا کہ میرے پاس ایک حاملہ عورت لائی گئی میں نے اس سے اس بارے میں سوال کیا ؟ تو اس نے کہا : کیا آپ ایسی حاملہ عورت کے متعلق پوچھ رہے ہیں جو خاوند کے علاوہ سے ثیبہ کی گئی ہے ؟ اللہ کی قسم ! جب سے میں اسلام لائی ہوں نہ میں نے کسی کو دوست بنایا اور نہ ہی کسی کو ہمنشین بنایا ہے لیکن ایک دن میں اپنے گھر کے صحن میں سوئی ہوئی تھی۔ اللہ کی قسم ! مجھے بیدار نہیں کیا گیا مگر ایک آدمی نے اس نے مجھے ہلکے سے اٹھایا اور اس نے میرے پیٹ میں ستارے جیسی چیز ڈال دی پھر میں نے اسے دور کرتے ہوئے اس کی طرف غور سے دیکھا میں نہیں جانتی کہ وہ اللہ کی مخلوق میں سے کون تھا ؟ آپ فرماتے ہیں : میں نے اس بارے میں حضرت عمر کو خط لکھا : تو حضرت عمر نے جواب لکھا : اس عورت کو اور اس کی قوم کے چند لوگوں کو میرے پاس لے کر آؤ آپ فرماتے ہیں : ہم لوگ موسم حج میں ان کے پاس آئے حضرت عمر نے غصہ کی سی حالت میں فرمایا : شاید کہ تم اس عورت کے معاملہ میں مجھ پر کچھ سبقت لے گئے ہو ؟ میں نے کہا : نہیں، وہ عورت اور اس کی قوم کے چند لوگ میرے ساتھ ہیں۔ پھر آپ نے اس عورت سے سوال کیا، تو اس نے آپ کو بھی ویسے ہی بات بتلائی جیسے اس نے مجھے بتلائی تھی۔ پھر آپ نے اس کی قوم سے اس کے متعلق پوچھا : تو ان لوگوں نے اس کی تعریف بیان کی اس پر حضرت عمر نے فرمایا : تِھَامیۃ کی جوان عورت بہت سونے والی ہے کبھی کبھار ایسا ہوجاتا ہے پس آپ نے اسے خوراک دی اور اسے کپڑے پہنائے اور اس کی قوم کو اس کے ساتھ اچھے برتاؤ کی وصیت کی۔

29092

(۲۹۰۹۳) حَدَّثَنَا ابْنُ إِدْرِیسَ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ مَیْسَرَۃَ ، عَنِ النَّزَّالِ بْنِ سَبْرَۃَ ، قَالَ : بَیْنَمَا نَحْنُ بِمِنًی مَعَ عُمَرَ ، إِذَا امْرَأَۃٌ ضَخْمَۃٌ عَلَی حِمَارَۃٍ تَبْکِی ، قَدْ کَادَ النَّاسُ أَنْ یَقْتُلُوہَا مِنَ الزِّحَامِ ، یَقُولُونَ : زَنَیْتِ ، فَلَمَّا انْتَہَتْ إِلَی عُمَرَ ، قَالَ : مَا یُبْکِیکِ ؟ إِنَّ الْمَرأَۃ رُبَّمَا اسْتُکْرِہَتْ ، فَقَالَتْ : کُنْت امْرَأَۃً ثَقِیلَۃَ الرَّأْسِ ، وَکَانَ اللَّہُ یَرْزُقُنِی مِنْ صَلاَۃِ اللَّیْلِ ، فَصَلَّیْتُ لَیْلَۃً ثُمَّ نِمْتُ ، فَوَاللَّہِ مَا أَیْقَظَنِی إِلاَّ الرَّجُلُ قَدْ رَکِبَنِی ، فَنَظرتُ إِلَیْہِ مُقْفِیًا مَا أَدْرِی مَنْ ہُوَ مِنْ خَلْقِ اللہِ ، فَقَالَ عُمَرُ : لَوْ قَتَلْتُ ہَذِہِ خَشِیت عَلَی الأَخْشَبَیْنِ النَّارَ ، ثُمَّ کَتَبَ إِلَی الأَمْصَارِ : أَنْ لاَ تُقْتَلَ نَفْسٌ دُونَہُ۔
(٢٩٠٩٣) حضرت نزال بن سبرہ فرماتے ہیں کہ اس درمیان کہ ہم منی میں حضرت عمر کے ساتھ تھے ایک بھاری بھر کم عورت گدھے پر رو رہی تھی۔ قریب تھا کہ لوگ رش سے اس کو مار دیتے۔ وہ کہہ رہے تھے : تو نے زنا کیا ہے۔ پس جب وہ حضرت عمر کے پاس پہنچی آپ نے پوچھا : کس بات نے تجھے رلایا ؟ بیشک کبھی کبھار عورت کو بدکاری پر مجبور بھی کردیا جاتا ہے ! اس عورت نے کہا : میں بہت زیادہ سونے والی عورت ہوں اور اللہ رب العزت مجھے رات کی نماز کی توفیق عطا فرماتے تھے پس میں نے ایک رات نماز پڑھی پھر میں سو گئی اللہ کی قسم ! مجھے بیدار نہیں کیا مگر اس آدمی نے تحقیق جو مجھ پر سوار ہوچکا تھا۔ میں نے اس کو دور کرتے ہوئے غور سے دیکھا میں نہیں جانتی کہ وہ اللہ کی مخلوق میں سے کون تھا ؟ اس پر حضرت عمر نے ارشاد فرمایا : اگر میں اس کو قتل کردوں تو مجھے جہنم کی سختی کا خوف ہے پھر آپ نے شہروں میں خط لکھ دیا : کہ کسی جان کو بغیر وجہ کے قتل نہ کیا جائے۔

29093

(۲۹۰۹۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ یَزِیدَ بْنِ زِیَادٍ الْبَصْرِیِّ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ عُرْوَۃَ ، عَنْ عَائِشَۃَ ، قَالَتْ : ادْرَؤُوا الْحُدُودَ عَنِ الْمُسْلِمِینَ مَا اسْتَطَعْتُمْ ، فَإِذَا وَجَدْتُمْ لِلْمُسْلِمِ مَخْرَجًا ، فَخَلُّوا سَبِیلَہُ ، فَإِنَّ الإِمَامَ أَنْ یُخْطِیء فِی الْعَفْوِ ، خَیْرٌ مِنْ أَنْ یُخْطِئَ فِی الْعُقُوبَۃِ۔ (ترمذی ۱۴۲۴۔ حاکم ۳۸۴)
(٢٩٠٩٤) حضرت عروہ فرماتے ہیں کہ حضرت عائشہ نے ارشاد فرمایا : سزاؤں کو مسلمانوں سے اپنی طاقت کے بقدر دور کرو پس جب تم مسلمانوں کے لیے نکلنے کا کوئی راستہ پاؤ تو ان کو چھوڑ دو اس لیے کہ حاکم کا معافی میں غلطی کرنا سزا میں غلطی کرنے سے بہتر ہے۔

29094

(۲۹۰۹۵) حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ عَیَّاشٍ ، وَأَبُو الأَحْوَصِ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ أَبِی رَزِینٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : مَنْ أَتَی بَہِیمَۃً فَلاَ حَدَّ عَلَیْہِ۔ (ابوداؤد ۴۴۶۰)
(٢٩٠٩٥) حضرت ابو رزین فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عباس نے ارشاد فرمایا : جس نے جانور سے صحبت کی تو اس پر حد جاری نہیں ہوگی۔

29095

(۲۹۰۹۶) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَن مَنْصُورٍ ، عَنِ الْحَکَمِ ؛ فِیمَنْ أَتَی بَہِیمَۃً ، قَالَ : یُجْلَدُ ، وَلاَ یُبْلَغُ بِہِ الْحَدَّ۔
(٢٩٠٩٦) حضرت منصور فرماتے ہیں کہ حضرت حکم سے اس شخص کے بارے میں مروی ہے جو جانور سے جماع کرے آپ نے فرمایا : اسے کوڑے مارے جائیں گے اور کوڑوں کو حد کی مقدار تک نہیں پہنچایا جائے گا۔

29096

(۲۹۰۹۷) حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ عَطَائٍ ؛ فِی الَّذِی یَأْتِی الْبَہِیمَۃَ ، قَالَ : یُعَزَّرُ۔
(٢٩٠٩٧) حضرت حجاج فرماتے ہیں کہ حضرت عطائ سے اس شخص کے بارے میں مروی ہے کہ جو جانور سے جماع کرے آپ نے فرمایا : اسے تعزیزاً سزا دی جائے۔

29097

(۲۹۰۹۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ عَامِرٍ ، قَالَ : لَیْسَ عَلَی مَنْ أَتَی بَہِیمَۃً حَدٌّ ، وَلاَ عَلَی مَنْ رُمِی بِہَا۔
(٢٩٠٩٨) حضرت جابر فرماتے ہیں کہ حضرت عامر نے ارشاد فرمایا : اس شخص پر حد نہیں ہوگی جو جانور سے جماع کرلے اور نہ اس شخص پر جس پر اس بات کا الزام لگا دیا گیا ہو۔

29098

(۲۹۰۹۹) حَدَّثَنَا عِیسَی بْنُ یُونُسَ ، عَنْ أَبِی حَنِیفَۃَ ، عَن حَمَّادٍ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، قَالَ : قَالَ عُمَرُ : لَیْسَ عَلَی مَنْ أَتَی بَہِیمَۃً حَدٌّ۔
(٢٩٠٩٩) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ حضرت عمر نے ارشاد فرمایا : اس شخص پر حد نہیں ہوگی جو جانور سے جماع کرے۔

29099

(۲۹۱۰۰) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ عُبَیْدَۃَ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، قَالَ : مَنْ أَتَی بَہِیمَۃً فَلاَ حَدَّ عَلَیْہِ۔
(٢٩١٠٠) حضرت عبیدہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم نے ارشاد فرمایا : جو جانور سے جماع کرے اس پر حد جار ی نہیں ہوگی۔

29100

(۲۹۱۰۱) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَن بُدَیْلٍ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ زَیْدٍ ؛ أَنَّہُ قَالَ : إِذَا أَتَی الرَّجُلُ الْبَہِیمَۃَ ، أُقِیمَ عَلَیْہِ الْحَدُّ۔
(٢٩١٠١) حضرت بدیل فرماتے ہیں کہ حضرت جابر بن زید نے ارشاد فرمایا : جب آدمی جانور سے جماع کرے تو اس پر حد قائم کی جائے گی۔

29101

(۲۹۱۰۲) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا سُفْیَانُ بْنُ حُسَیْنٍ ، عَنْ أَبِی عَلِیٍّ الرَّحَبِیِّ ، عَن عِکْرِمَۃَ ، قَالَ : سُئِلَ الْحَسَنُ بْنُ عَلِیٍّ عَنْ رَجُلٍ أَتَی بَہِیمَۃً ؟ قَالَ : إِنْ کَانَ مُحْصَنًا رُجِمَ۔
(٢٩١٠٢) حضرت عکرمہ فرماتے ہیں کہ حضرت حسن بن علی سے ایک آدمی کے متعلق پوچھا گیا جس نے جانور سے جماع کیا تھا ؟ آپ نے فرمایا : اگر وہ شادی شدہ ہو تو اسے سنگسار کردیا جائے۔

29102

(۲۹۱۰۳) حَدَّثَنَا عَبْدُ السَّلاَمِ ، عَنِ ابْنِ أَبِی فَرْوَۃَ ، عَن بُکَیْرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ الأَشَجِّ ، عَن سُلَیْمَانَ بْنِ یَسَارٍ ؛ أَنَّہُ کَانَ یُقِیمُ عَلَیْہِ الْحَدَّ۔
(٢٩١٠٣) حضرت بکیر بن عبداللہ بن اشج فرماتے ہیں کہ حضرت سلیمان بن یسار اس شخص پر حد قائم کرتے تھے۔

29103

(۲۹۱۰۴) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ؛ فِیمَنْ یَأْتِی الْبَہِیمَۃَ وَالْغُلاَمَ ؟ قَالَ : عَلَیْہِ الْحَدُّ۔
(٢٩١٠٤) حضرت ہشام فرماتے ہیں کہ حضرت حسن بصری سے اس شخص کے بارے میں مروی ہے جو جانور اور غلام سے جماع کرتا ہو آپ نے فرمایا : اس پر حد جاری ہوگی۔

29104

(۲۹۱۰۵) حَدَّثَنَا مَعْنُ بْنُ عِیسَی ، عَنِ ابْنِ أَبِی ذِئْبٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، قَالَ : إِذَا وَقَعَ الرَّجُلُ بِالْبَہِیمَۃِ جُلِدَ الْحَدَّ تَامًّا ، وَمَنْ رَمَی امْرَأَۃً بِالْبَہِیمَۃِ فَعَلَیْہِ الْحَدُّ۔
(٢٩١٠٥) حضرت ابن ابی ذئب فرماتے ہیں کہ حضرت زھری نے ارشاد فرمایا : جب آدمی نے جانور سے جماع کیا تو اس پر مکمل حد لگائی جائے گی اور جو عورت پر جانور سے بدفعلی کا الزام لگائے تو اس پر حد لگے گی۔

29105

(۲۹۱۰۶) حَدَّثَنَا عَبْدُ السَّلاَمِ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ یَزِیدَ ، عَن مَسْرُوقٍ ؛ فِی الَّذِی یَأْتِی الْبَہِیمَۃَ ، قَالَ : إِذَا فَعَلَ بِہَا ، قَالَ : ذُبِحَتْ۔
(٢٩١٠٦) حضرت یزید فرماتے ہیں کہ حضرت مسروق سے اس شخص کے بارے میں مروی ہے جو جانور سے جماع کرے آپ نے فرمایا : جب اس نے ایسا کیا تو اس جانور کو ذبح کردیا جائے۔

29106

(۲۹۱۰۷) حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِی عَدِیٍّ ، عَن دَاوُد ، قَالَ : قَالَ مَسْرُوقٌ : یُرْجَمُ وَتُرْجَمُ الْحِجَارَۃ الَّتِی رُجِمَ بِہَا ، وَیُعْفَی أَثَرُہُ ، یَعْنِی فِی الَّذِی یَأْتِی الْبَہِیمَۃَ۔
(٢٩١٠٧) حضرت داؤد فرماتے ہیں کہ حضرت مسروق نے ارشاد فرمایا : جانور سے وطی کرنے والے کو سنگسار کیا جائے گا اور اس پتھر کو بھی سنگسار کیا جائے گا جس سے اسے رجم کیا گیا۔

29107

(۲۹۱۰۸) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنِ الْحَکَمِ ، قَالَ : مَنْ أَتَی الْبَہِیمَۃَ أُقِیمَ عَلَیْہِ الْحَدُّ۔
(٢٩١٠٨) حضرت لیث فرماتے ہیں کہ حضرت حکم نے ارشاد فرمایا : جو شخص جانور سے صحبت کرلے اس پر حد قائم کی جائے گی۔

29108

(۲۹۱۰۹) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنِ الْعَلاَئِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : مَنْ أَتَی بَہِیمَۃً لَمْ تُقمْ لَہُ قِیَامَۃٌ۔
(٢٩١٠٩) حضرت علاء بن مسیب فرماتے ہیں کہ ان کے والد حضرت مسیب نے ارشاد فرمایا : جو شخص جانور سے صحبت کرے تو اس پر حد جاری نہیں ہوگی۔

29109

(۲۹۱۱۰) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ؛ فِی الَّذِی یَأْتِی الْبَہِیمَۃَ ، قَالَ : عَلَیْہِ أَدْنَی الْحَدَّیْنِ ، أُحْصِنَ ، أَمْ لَمْ یُحْصَنْ۔
(٢٩١١٠) حضرت معمر فرماتے ہیں کہ حضرت زھری سے اس شخص کے بارے میں مروی ہے جو جانور سے جماع کرے آپ نے فرمایا : اس پر کم سے کم سزا نہیں جاری ہوگی : شادی شدہ ہو یا شادی شدہ نہ ہو۔

29110

(۲۹۱۱۱) حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ بْنُ مُوسَی ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ بْنِ إِسْمَاعِیلَ ، عَن دَاوُد بْنِ حُصَیْنٍ ، عَن عِکْرِمَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : اقْتُلُوا الْفَاعِلَ بِالْبَہِیمَۃِ وَالْبَہِیمَۃَ۔ (ابوداؤد ۴۴۵۹۔ حاکم ۳۵۵)
(٢٩١١١) حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جانور سے بدفعلی کرنے والے کو اور اس جانور کو قتل کردو۔

29111

(۲۹۱۱۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إِسْمَاعِیلَ بْنِ أَبِی خَالِدٍ ، عَنْ عُمَیْرِ بْنِ نُمَیْرٍ ، قَالَ : سُئِلَ ابْنُ عُمَرَ عَنْ جَارِیَۃٍ کَانَتْ بَیْنَ رَجُلَیْنِ ، فَوَقَعَ عَلَیْہَا أَحَدُہُمَا ؟ قَالَ : لَیْسَ عَلَیْہِ حَدٌّ ، ہُوَ خَائِنٌ یُقَوَّمُ عَلَیْہِ قِیمَۃٌ وَیَأْخُذُہَا۔
(٢٩١١٢) حضرت عمیر بن نمیر فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عمر سے ایک باندی کے متعلق سوال کیا گیا جو دو آدمیوں کے درمیان مشترک تھی پس ان میں سے ایک نے اس سے وطی کرلی تو اس کا کیا حکم ہے ؟ آپ نے فرمایا : اس پر حد جاری نہیں ہوگی وہ خائن شمار ہوگا اس پر قیمت لازم ہوجائے گی اور وہ اس باندی کو لے لے گا۔

29112

(۲۹۱۱۳) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَن دَاوُد ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ؛ فِی جَارِیَۃٍ کَانَتْ بَیْنَ رَجُلَیْنِ ، فَوَقَعَ عَلَیْہَا أَحَدُہُمَا ، قَالَ : یُضْرَبُ تِسْعَۃً وَتِسْعِینَ سَوْطًا۔
(٢٩١١٣) حضرت داؤد فرماتے ہیں کہ حضرت سعید بن مسیب سے اس باندی کے بارے میں مروی ہے جو دو آدمیوں کے درمیان مشترک ہو پس ان میں سے ایک نے اس سے وطی کرلی آپ نے فرمایا : اس کو ننانوے کوڑے مارے جائیں گے۔

29113

(۲۹۱۱۴) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ عَبْدَۃَ ، عَنْ شُرَیْحٍ ؛ أَنَّہُ دَرَأَ عَنہُ الْحَدَّ ، وَضَمَّنَہُ۔
(٢٩١١٤) حضرت عبدہ فرماتے ہیں کہ حضرت شریح نے اس سے سزا کو زائل کردیا اور اس کو ضامن بنایا۔

29114

(۲۹۱۱۵) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ؛ فِی الأَمَۃِ تَکُونُ بَیْنَ الشُّرَکَائِ ، فَیَقَعُ عَلَیْہَا أَحَدُہُمْ ، قَالَ : یُضْرَبُ مِئَۃً۔
(٢٩١١٥) حضرت معمر فرماتے ہیں کہ حضرت زھری سے اس باندی کے بارے میں مروی ہے جو چند شریکوں کے درمیان مشترک تھی پس ان میں سے ایک نے اس باندی سے وطی کرلی آپ نے فرمایا : اسے سو کوڑے مارے جائیں گے۔

29115

(۲۹۱۱۶) حَدَّثَنَا رَوَّادُ بْنُ الْجَرَّاحِ ، عَنِ الأَوْزَاعِیِّ ، عَنْ مَکْحُولٍ ؛ فِی جَارِیَۃٍ بَیْنَ ثَلاَثَۃٍ ، وَقَعَ عَلَیْہَا أَحَدُہُمْ ، فَقَالَ : عَلَیْہِ أَدْنَی الْحَدَّیْنِ مِئَۃً ، وَعَلَیْہِ ثُلُثَا ثَمَنِہَا ، وَثُلُثَا عُقْرُہَا ، وَیَلِی قِیمَۃَ الْوَلَدِ إِنْ کَانَ۔
(٢٩١١٦) حضرت اوزاعی فرماتے ہیں کہ حضرت مکحول سے ایک باندی کے بارے میں مروی ہے جو تین آدمیوں کے درمیان مشترک تھی پس ان میں سے ایک نے اس سے وطی کرلی۔ آپ نے فرمایا : اس پر کم از کم دو سزائیں جاری ہوں گی اور اس شخص پر اس کی قیمت کا دو تہائی حصہ لازم ہوگا اور شبہ میں وطی کرنے کی وجہ سے اس کے مہر کا دوتہائی حصہ لازم ہوگا اور اگر بچہ ہو تو اس کی قیمت بھی ساتھ ہوگی۔

29116

(۲۹۱۱۷) حَدَّثَنَا یَزِیدُ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : یُعَزَّرُ ، وَیُقَوَّمُ عَلَیْہِ۔
(٢٩١١٧) حضرت ہشام فرماتے ہیں کہ حضرت حسن بصری نے ارشاد فرمایا : اس کو تعزیزاً سزا دی جائے گئی اور اس پر اس باندی کی قیمت لازم کردی جائے گی۔

29117

(۲۹۱۱۸) حَدَّثَنَا کَثِیرُ بْنُ ہِشَامٍ ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ بُرْقَانَ ، قَالَ : بَلَغَنَا أَنَّ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِیزِ أُتِیَ بِجَارِیَۃٍ کَانَتْ بَیْنَ رَجُلَیْنِ ، فَوَطِئَہَا أَحَدُہُمَا ، فَاسْتَشَارَ فِیہَا سَعِیدَ بْنَ الْمُسَیَّبِ ، وَسَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ، وَعُرْوَۃَ بْنِ الزُّبَیْرِ ، فَقَالُوا : نَرَی أَنْ یُجْلَدَ دُونَ الْحَدِّ ، ویُقَوّموہا قِیمَۃً ، فَیَدْفَعُ إِلَی شَرِیکِہِ نِصْفَ الْقِیمَۃِ۔
(٢٩١١٨) حضرت جعفر بن برقان فرماتے ہیں کہ ہمیں خبر پہنچی ہے کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز کے پاس ایک باندی لائی گئی جو دو آدمیوں کے درمیان مشترک تھی پس ان میں سے ایک نے اس سے وطی کرلی تو آپ نے اس بارے میں حضرت سعید بن مسیب ، حضرت سعید بن جبیر اور حضرت عروہ بن زبیر وغیرہ حضرات سے مشورہ مانگا ان سب نے فرمایا : ہماری رائے یہ ہے کہ اس کو حد کی مقدار مقررہ سے کم کوڑے مارے جائیں اور انھوں نے اس باندی کی ایک قیمت مقرر فرمائی کہ وہ شخص اپنے شریک کوا س کی آدھی قیمت ادا کرے گا۔

29118

(۲۹۱۱۹) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَن یُونُسَ ؛ فِی رَجُلٍ یَقَعُ عَلَی جَارِیَۃٍ بَیْنَہُ وَبَیْنَ شَرِیکِہِ ، قَالَ : تُقَوَّمُ عَلَیْہِ۔
(٢٩١١٩) حضرت عبدالاعلی فرماتے ہیں کہ حضرت یونس سے ایک آدمی کے بارے میں مروی ہے جس نے ایک باندی سے وطی کرلی جو اس کے اور اس کے شریک کے درمیان مشترک تھی۔ آپ نے فرمایا : اس پر اس باندی کی قیمت لازم ہوگی۔

29119

(۲۹۱۲۰) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ؛ فِی جَارِیَۃٍ کَانَتْ بَیْنَ رَجُلَیْنِ ، فَوَقَعَ عَلَیْہَا أَحَدُہُمَا ، فَحَمَلَتْ ، قَالَ : تُقَوَّمُ عَلَیْہِ۔
(٢٩١٢٠) حضرت مغیرہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم سے ایک باندی کے بارے میں مروی ہے جو دو آدمیوں کے درمیان مشترک تھی پس ان میں سے ایک نے اس سے وطی کرلی سو وہ حاملہ ہوگئی آپ نے فرمایا : اس شخص پر قیمت لازم ہوگی۔

29120

(۲۹۱۲۱) حَدَّثَنَا حُمَیْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَن حَسَنٍ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَن طَاوُوسٍ ؛ فِی الْجَارِیَۃِ تَکُونُ بَیْنَ الرَّجُلَیْنِ ، فَیَطَؤُہَا أَحَدُہُمَا ، قَالَ : عَلَیْہِ الْعُقْرُ بِالْحِصَّۃِ۔
(٢٩١٢١) حضرت لیث فرماتے ہیں کہ حضرت طاؤس سے اس باندی کے بارے میں مروی ہے جو دو آدمیوں کے درمیان مشترک تھی پس ان میں سے ایک اس سے وطی کرلیتا ہے آپ نے فرمایا : اس شخص پر حصہ کے مطابق وطی بالشبہ کا مہر لازم ہوگا۔

29121

(۲۹۱۲۲) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ إِسْمَاعِیلَ بْنِ سَالِمٍ ، عَنِ الْحَکَمِ ؛ أَنَّہُ قَالَ فِی رَجُلٍ وَطِئَ جَارِیَۃً مِنَ الْفَیْئِ ، قَالَ : لَیْسَ عَلَیْہِ حَدٌّ ، لَہُ فِیہَا نَصِیبٌ۔
(٢٩١٢٢) حضرت اسماعیل بن سالم فرماتے ہیں کہ حضرت حکم سے ایک آدمی کے بارے میں مروی ہے جس نے مال غنیمت کی باندی سے وطی کرلی تھی آپ نے فرمایا : اس پر حد جاری نہیں ہوگی، جبکہ اس میں اس کا بھی حصہ ہو۔

29122

(۲۹۱۲۳) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ، عَنْ سَعِیدٍ، عَنْ قَتَادَۃَ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ، قَالَ: لَیْسَ عَلَیْہِ حَدٌّ، إِذَا کَانَ لَہُ فِیہَا نَصِیبٌ۔
(٢٩١٢٣) حضرت قتادہ فرماتے ہیں کہ حضرت سعید بن مسیب نے فرمایا : اس پر حد جاری نہیں ہوگی جبکہ اس مال غنیمت میں اس کا بھی حصہ ہو۔

29123

(۲۹۱۲۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن مُوسَی بْنِ عُبَیْدَۃَ ، عَنْ بُکَیْرِ بْنِ دَاوُد ؛ أَنَّ عَلِیًّا أَقَامَ عَلَی رَجُلٍ وَقَعَ عَلَی جَارِیَۃٍ مِنَ الْخُمُسِ الْحَدَّ۔
(٢٩١٢٤) حضرت بکیر بن داؤد فرماتے ہیں کہ حضرت علی نے ایک شخص پر حد جاری فرمائی جس نے مال خمس کی ایک باندی سے وطی کی تھی۔

29124

(۲۹۱۲۵) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : إِذَا کَانَ لَہُ فِی الْفَیْئِ شَیْئٌ ، عُزِّرَ وَتُقَوَّمُ عَلَیْہِ، وَکَذَلِکَ فِی جَارِیَۃٍ بَیْنَہُ وَبَیْنَ رَجُلٍ۔
(٢٩١٢٥) حضرت ہشام فرماتے ہیں کہ حضرت حسن بصری نے ارشاد فرمایا : جب مال غنیمت میں اس کا کچھ حصہ ہو تو اس کو تعزیزاً سزا د ی جائے گی اور اس پر قیمت لازم ہوگی اور یہی حکم ہے اس باندی کا جو اس کے اور کسی آدمی کے درمیان مشترک ہو۔

29125

(۲۹۱۲۶) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ أَبِی بِشْرٍ ، عَن حَبِیبِ بْنِ سَالِمٍ ؛ أَنَّ رَجُلاً وَقَعَ بِجَارِیَۃِ امْرَأَتِہِ ، فَأَتَتِ امْرَأَتُہُ النُّعْمَانَ بْنَ بَشِیرٍ فَأَخْبَرَتْہُ ، فَقَالَ : أَمَا إِنَّ عَندِی فِی ذَلِکَ خَبَرًا شَافِیًا ، أُحَدِّثْہُ عَن رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إِنْ کُنْتِ أَذِنْتِ لَہُ جَلَدْتہ مِئَۃً ، وَإِنْ کُنْت لَمْ تَأْذَنِی لَہُ رَجَمْتَہُ۔ (ترمذی ۱۴۵۲۔ احمد ۲۷۷)
(٢٩١٢٦) حضرت حبیب بن سالم فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے اپنی بیوی کی باندی سے وطی کرلی سو اس کی بیوی حضرت نعمان بن بشیر کے پاس آئی اور آپ کو اس بارے میں خبر دی آپ نے فرمایا : بیشک اس بارے میں میرے پاس ایک مکمل خبر ہے جو میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حوالہ سے بیان کرتا ہوں وہ یہ ہے کہ : اگر تو نے اس کو اجازت دی ہے تو میں اسے سو کوڑے ماروں گا، اور اگر تو نے اس کو اجازت نہیں دی تو میں اسے سنگسار کردوں گا۔

29126

(۲۹۱۲۷) حَدَّثَنَا عَلِی ابْنُ مُسْہِرٍ ، عَنِ الشَّیْبَانِیِّ ، عَن عِکْرِمَۃَ ، قَالَ : جَائَتِ امْرَأَۃٌ إِلَی عَلِیٍّ ، فَقَالَتْ : إِنَّ زَوْجِی وَقَعَ عَلَی وَلِیدَتِی ، قَالَ : إِنْ تَکُونِی صَادِقَۃً رَجَمْنَاہُ ، وَإِنْ تَکُونِی کَاذِبَۃً جَلَدْنَاکِ ، ثُمَّ تَضَرَّبَ النَّاسُ حَتَّی اخْتَلَطُوا ، فَذَہَبَتِ الْمَرْأَۃُ۔
(٢٩١٢٧) حضرت عکرمہ فرماتے ہیں کہ ایک عورت حضرت علی کے پاس آئی اور کہنے لگی، میرے شوہر نے میری باندی سے وطی کرلی ہے آپ نے فرمایا : اگر تو سچی ہے تو میں اسے سنگسار کروں گا اور اگر تو جھوٹی ہے تو میں تجھے کوڑے ماروں گا۔ لوگ اس بارے میں اضطراب کا شکار ہوئے اور ایک دوسرے سے الجھنے لگے اور وہ عورت چلی گئی۔

29127

(۲۹۱۲۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إِسْمَاعِیلَ بْنِ أَبِی خَالِدٍ ، عَن مُبَارَکِ بْنِ عُمَارَۃَ ، قَالَ : جَائَتِ امْرَأَۃٌ إِلَی عَلِیٍّ ، فَقَالَتْ : یَا وَیْلَہَا ، إِنَّ زَوْجَہَا وَقَعَ عَلَی جَارِیَتِہَا ، فَقَالَ : إِنْ کُنْتِ صَادِقَۃً رَجَمْنَاہُ ، وَإِنْ تَکُونِی کَاذِبَۃً جَلَدْنَاکِ۔
(٢٩١٢٨) حضرت مبارک بن عمارہ فرماتے ہیں کہ ایک عورت حضرت علی کی خدمت میں آ کر کہنے لگی : ہائے افسوس ! میرے شوہر نے میری باندی سے وطی کرلی ہے آپ نے فرمایا : اگر تو سچی ہے تو میں اس کو سنگسار کروں گا اور اگر تو جھوٹی ہے تو میں تجھے کوڑے ماروں گا۔

29128

(۲۹۱۲۹) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ مَکْحُولٍ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ: لاَ أُوتَی بِرَجُلٍ وَقَعَ عَلَی جَارِیَۃِ امْرَأَتِہِ، إِلاَّ فَعَلْتُ وَفَعَلْتُ۔
(٢٩١٢٩) حضرت مکحول فرماتے ہیں کہ حضرت عمر نے ارشاد فرمایا : میرے پاس کوئی بندہ نہ لایا جائے جس نے اپنی بیوی کی باندی سے وطی کی ہو ورنہ میں اس کے ساتھ ایسا اور ایسا معاملہ کروں گا۔

29129

(۲۹۱۳۰) حَدَّثَنَا ابْنُ إِدْرِیسَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، وَابْنِ سِیرِینَ ؛ کَانَا إِذَا سُئِلاَ عَنِ الرَّجُلِ یَقَعُ عَلَی جَارِیَۃِ امْرَأَتِہِ یَتْلُوَانِ ہَذِہِ الآیَۃَ : {وَالَّذِینَ ہُمْ لِفُرُوجِہِمْ حَافِظُونَ إِلاَّ عَلَی أَزْوَاجِہِمْ ، أَوْ مَا مَلَکَتْ أَیْمَانُہُمْ فَإِنَّہُمْ غَیْرُ مَلُومِینَ}۔
(٢٩١٣٠) حضرت ہشام فرماتے ہیں کہ حضرت حسن بصری اور حضرت محمد بن سیرین سے اس آدمی کے متعلق پوچھا گیا جو اپنی بیوی کی باندی سے وطی کرلے تو ان دونوں حضرات نے اس آیت کی تلاوت فرمائی۔ ترجمہ : اور وہ لوگ جو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے ہیں۔ وہ سوائے اپنی بیویوں اور باندیوں کے کہیں نہیں جاتے۔ اس بارے میں وہ قابل ملامت نہیں ہیں۔

29130

(۲۹۱۳۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ بَشِیرِ بْنِ سَلْمَانَ ، قَالَ : سَمِعْتُ إِبْرَاہِیمَ ، یَقُولُ : تَعْزِیرٌ وَلاَ حَدَّ۔
(٢٩١٣١) حضرت بشیر بن سلمان فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابراہیم کو یوں فرماتے ہوئے سنا : حد سے کم سزا ہوگی حد نہیں ہوگی۔

29131

(۲۹۱۳۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إِسْرَائِیلَ ، عَنْ سِمَاکٍ ، عَنْ مَعْبَدٍ ، وَعُبَیْدٍ بَنِی حُمْرَانَ ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ ؛ أَنَّہُ ضَرَبَہُ دُونَ الْحَدِّ۔
(٢٩١٣٢) حضرت معبد اور حضرت عبید بنی حمران دونوں حضرات فرماتے ہیں کہ حضرت ابن مسعود نے اس پر حد سے کم سزا لگائی۔

29132

(۲۹۱۳۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، قَالَ : قَالَ عَلْقَمَۃُ : مَا أُبَالِی وَقَعْتُ عَلَی جَارِیَۃِ امْرَأَتِی ، أَوْ جَارِیَۃِ عَوْسَجَۃَ ، رَجُلٍ مِنَ الْحَیِّ۔
(٢٩١٣٣) حضرت اعمش فرماتے ہیں کہ حضرت علقمہ نے ارشاد فرمایا : میں پروا نہیں کرتا کہ میں اپنی بیوی کی باندی سے وطی کروں یا عوسجہ کی باندی سے (ان کے قبلہھ کا ایک آدمی)

29133

(۲۹۱۳۴) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِی مَیْسَرَۃَ ؛ فِی رَجُلٍ یَأْتِی جَارِیَۃَ امْرَأَتِہِ ، أَنَّہُ قَالَ : مَا أُبَالِی أَتَیْتُہَا ، أَوْ جَارِیَۃً مِنَ الطَّرِیقِ۔
(٢٩١٣٤) حضرت ابو اسحاق فرماتے ہیں کہ حضرت ابو میسرہ سے ایک آدمی کے بارے میں مروی ہے جس نے اپنی بیوی کی باندی سے وطی کرلی تھی۔ آپ نے فرمایا : میں پروا نہیں کرتا میں اس سے وطی کروں یا راہ چلتی باندی سے۔

29134

(۲۹۱۳۵) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : عَلَیْہِ الْحَدُّ۔
(٢٩١٣٥) حضرت ہشام فرماتے ہیں کہ حضرت حسن بصری نے ارشاد فرمایا : اس پر حد جاری ہوگی۔

29135

(۲۹۱۳۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ عَامِرٍ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : قَالَ عُمَرُ : لَوْ أُتِیتُ بِرَجُلٍ وَقَعَ عَلَی جَارِیَۃِ امْرَأَتِہِ لَرَجَمْتُہُ۔
(٢٩١٣٦) حضرت ابن عمر فرماتے ہیں کہ حضرت عمر نے ارشاد فرمایا : اگر میرے پاس ایسا آدمی لایا گیا جس نے اپنی بیوی کی باندی سے وطی کی ہو تو میں ضرور اسے سنگسار کروں گا۔

29136

(۲۹۱۳۷) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أخْبَرَنَا ابْنُ أَبِی عَرُوبَۃَ ، عَنْ إِیَاسِ بْنِ مُعَاوِیَۃَ ، عَن نَافِعٍ ، قَالَ : جَائَتْ جَارِیَۃٌ إِلَی عُمَرَ ، فَقَالَتْ : یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ ، إِنَّ الْمُغِیرَۃَ یَطَؤُنِی ، وَإِنَّ امْرَأَتَہُ تَدْعُونِی زَانِیَۃً ، فَإِنْ کُنْتُ لَہَا فَانْہَہُ عَنْ غَشَیَانِی ، وَإِنْ کُنْتُ لَہُ فَانْہَ امْرَأَتَہُ عَن قَذْفِی ، فَأَرْسَلَ إِلَی الْمُغِیرَۃِ ، فَقَالَ : تَطَأُ ہَذِہِ الْجَارِیَۃَ ؟ قَالَ : نَعَمْ ، قَالَ : مِنْ أَیْنَ ؟ قَالَ : وَہَبَتْہَا لِی امْرَأَتِی ، قَالَ : وَاللَّہِ لَئِنْ لَمْ تَکُنْ وَہَبَتْہَا لَکَ لاَ تَرْجِعُ إِلَی أَہْلِکَ إِلاَّ مَرْجُومًا ، ثُمَّ ، وَقَالَ : انْطَلِقَا إِلَی امْرَأَۃِ الْمُغِیرَۃِ فَأَعْلِمَاہَا : لَئِنْ لَمْ تَکُونِی وَہَبْتِہَا لَہُ لَنَرْجُمَنَّہُ ، قَالَ : فَأَتَیَاہَا فَأَخْبِرَاہَا ، فَقَالَتْ : یَا لَہْفَاہُ ، أَیُرِیدُ أَنْ یَرْجُمَ بَعْلِی ، لاَہَا اللہِ إِذًا ، لَقَدْ وَہَبْتُہَا لَہُ ، قَالَ : فَخَلَّی عَنْہُ۔
(٢٩١٣٧) حضرت نافع فرماتے ہیں کہ ایک باندی حضرت عمر کے پاس آئی اور کہنے لگی : اے میرا لمومنین ! بیشک حضرت مغیرہ مجھ سے وطی کرتے ہیں اور ان کی بیوی مجھے زانیہ پکارتی ہے پس اگر میں ان کی بیوی کی ملکیت ہوں تو آپ ان کو مجھ سے وطی کرنے سے روک دیں اور اگر میں مغیرہ کی ملکیت ہوں تو آپ ان کی بیوی کو مجھ پر تہمت لگانے سے باز کریں۔ اس پر آپ نے قاصد بھیج کر حضرت مغیرہ کو بلایا اور پوچھا : کیا تم اس باندی سے وطی کرتے ہو ؟ انھوں نے فرمایا : جی ہاں، آپ نے پوچھا : تمہیں کہاں سے ملی ؟ انھوں نے فرمایا : یہ میری بیوی نے مجھے ہبہ کی ہے آپ نے فرمایا : اللہ کی قسم ! اگر اس نے یہ باندی تمہیں ھبہ نہ کی ہو تو تم آج گھر نیں و لوٹو گے مگر کوڑے کھا کر۔ پھر آپ نے فلاں اور فلاں کو حکم دیا اور ارشاد ر فرمایا : تم دونوں آدمی مغیرہ کی بیوی کے پاس جاؤ، اور اسے اس بارے میں بتلاؤ، اگر تو نے یہ باندی اس کو ھبہ نہیں کی تو ہم ضرور اسے سنگسار کردیں گے۔ پس وہ دنوں آدمی حضرت مغیرہ کی بیوی کے پاس آئے اور اسے اس بارے میں خبر دی۔ اس نے کہا : اے افسوس ! کیا وہ میرے شوہر کو سنگسار کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں ! تب اللہ اس سے جھگڑے، تحقیق اس کو میں نے وہ باندی ھبہ کی تو آپ نے انھیں چھوڑ دیا۔

29137

(۲۹۱۳۸) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إِبْرَاہِیم ، قَالَ : أَتَی رَجُلٌ ابْنَ مَسْعُودٍ ، فَقَالَ : إِنِّی وَقَعْت عَلَی جَارِیَۃِ امْرَأَتِی ، فَقَالَ : قَدْ سَتَرَ اللَّہُ عَلَیْک ، فَاسْتَتِرْ ، فَبَلَغَ ذَلِکَ عَلِیًّا ، فَقَالَ : لَوْ أَتَانِی الَّذِی أَتَی ابْنَ أُمِّ عَبْدٍ ، لَرَضَخْتُ رَأْسَہُ بِالْحِجَارَۃِ۔
(٢٩١٣٨) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ حضرت ابن مسعود کی خدمت میں ایک آدمی آیا اور کہنے لگا ! بیشک میں نے اپنی بیوی کی باندی سے جماع کرلیا۔ اس پر آپ نے فرمایا : تحقیق اللہ نے تیری ستر پوشی فرمائی ہے تو تو بھی ستر پوشی کر۔ یہ بات حضرت علی کو پہنچی تو آپ نے فرمایا : اگر میر سے پاس وہ شخص آتا جو حضرت ابن ام عبد کے پاس آیا تھا تو میں ضرور اس کا سر پتھروں سے کچل دیتا۔

29138

(۲۹۱۳۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنِ الْہَیْثَمِ بْنِ بَدْرٍ ، عَن حُرْقُوسٍ ، عَنْ عَلِیٍّ ؛ أَنَّ رَجُلاً وَقَعَ عَلَی جَارِیَۃِ امْرَأَتِہِ ، فَدَرَأَ عَنہُ الْحَدَّ۔ (عبدالرزاق ۱۳۴۸)
(٢٩١٣٩) حضرت حرقوس فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے اپنی بیوی کی باندی سے وطی کرلی تو حضرت علی سے اس سے حد کو ختم کردیا۔

29139

(۲۹۱۴۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ زَکَرِیَا ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ؛ أَنَّہُ قَالَ : لاَ حَدَّ عَلَیْہِ۔
(٢٩١٤٠) حضرت شعبی فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود نے ارشاد فرمایا : اس پر حد جاری نہیں ہوگی۔

29140

(۲۹۱۴۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إِسْمَاعِیلَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : جَائَ رَجُلٌ إِلَی عَبْدِ اللہِ ، فَقَالَ : إِنِّی وَقَعْتُ عَلَی جَارِیَۃِ امْرَأَتِی ، فَقَالَ : اتَّقِ اللَّہَ ، وَلاَ تَعُدْ۔
(٢٩١٤١) حضرت شعبی فرماتے ہیں کہ ایک آدمی حضرت عبداللہ بن مسعود کے پاس آیا اور کہنے لگا : بیشک میں نے اپنی بیوی کی باندی سے وطی کرلی ہے۔ اس پر آپ نے فرمایا : اللہ سے ڈر اور دوبارہ ایسی حرکت نہ کرنا۔

29141

(۲۹۱۴۲) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَن مَنْصُورٍ ، عَن رِبْعِیٍّ ، عَن عُقْبَۃَ بْنِ جَبَّار ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : لاَ حَدَّ عَلَیْہِ۔
(٢٩١٤٢) حضرت عقبہ بن جبار فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود نے ارشاد فرمایا : اس پر حد جاری نہیں ہوگی۔

29142

(۲۹۱۴۳) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ الْقَطَّانُ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنِ الشَّیْبَانِیِّ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنْ عَامِرِ بْنِ مَطَرٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ؛ فِی الرَّجُلِ یَقَعُ عَلَی جَارِیَۃِ امْرَأَتِہِ ، قَالَ : إِنَ اسْتَکْرَہَہَا فَہِیَ حُرَّۃٌ ، وَعَلَیْہِ مِثْلُہَا لِسَیِّدَتِہَا ، وَإِنْ کَانَتْ طَاوَعَتْہُ فَہِیَ لَہُ ، وَعَلَیْہِ مِثْلُہَا لِسَیِّدَتِہَا۔
(٢٩١٤٣) حضرت عامر بن مطر فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود سے اس شخص کے بارے میں مروی ہے جس نے اپنی بیوی کی باندی سے جماع کرلیا تھا۔ آپ نے فرمایا : اگر اس نے اسے بدکاری پر مجبور کیا تھا تو وہ باندی آزاد ہوگی اور اس شخص جیسی باندی اس مالکہ کے لیے لازم ہوگی اور اگر وہ باندی اس کے ہم نوا تھی تو یہ باندی اس شخص کی ہوجائے گی اور اس شخص پر اس جیسی باندی اس کی مالکہ کے لےْ لازم ہوگی۔

29143

(۲۹۱۴۴) حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّیَالِسِیُّ ، عَنْ جَرِیرٍ ، عَنْ قَیْسٍ ، عَنْ عَطَائٍ ، قَالَ : لاَ حَدَّ عَلَیْہِ۔
(٢٩١٤٤) حضرت قیس فرماتے ہیں کہ حضرت عطائ نے ارشاد فرمایا : اس شخص پر حد جاری نہیں ہوگی۔

29144

(۲۹۱۴۵) حَدَّثَنَا عَبْدُ السَّلاَمِ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، عَنْ سَلَمَۃَ بْنِ مَحَبِّقٍ ؛ أَنَّ رَجُلاً وَقَعَ عَلَی جَارِیَۃِ امْرَأَتِہِ، فَدَرَأَ عَنہُ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْحَدَّ۔ (ابوداؤد ۴۴۵۶۔ احمد ۴۶۷)
(٢٩١٤٥) حضرت سلمہ بن محبّق فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے اپنی بیوی کی باندی سے وطی کرلی تھی تو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے حد کو زائل کردیا۔

29145

حَدَّثَنَا أَبُو مُحَمَّدٍ عَبْدُ اللہِ بْنُ یُونُسَ، قَالَ: حدَّثَنَا أَبُو عَبْدِالرَّحْمَنِ بَقِیُّ بْنُ مَخْلَدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُوبَکْرٍ، قَالَ: (۲۹۱۴۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ؛ أَنَّ امْرَأَۃً تَزَوَّجَتْ فِی عِدَّتِہَا ، فَضَرَبَہَا عُمَرُ تَعْزِیرًا دُونَ الْحَدِّ۔
(٢٩١٤٦) حضرت سعید بن مسیب فرماتے ہیں کہ ایک عورت نے اپنی عدت کے دوران شادی کرلی تو حضرت عمر نے اس کو شرعی حد سے کم سزا دی۔

29146

(۲۹۱۴۷) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، قَالَ : قُلْتُ لِسَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ : إِنْ تَزَوَّجَہَا فِی عِدَّتِہَا عَمْدًا ؟ قَالَ : یُقَامُ عَلَیْہَا الْحَدُّ۔
(٢٩١٤٧) حضرت قتادہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت سعید بن مسیب سے دریافت کیا : اگر عورت جان بوجھ کر اپنی عدت کے دوران شادی کرلے ؟ آپ نے فرمایا : اس پر حد قائم کی جائے گی۔

29147

(۲۹۱۴۸) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ؛ أَنَّ مَرْوَانَ جَلَدَہُمَا أَرْبَعِینَ أَرْبَعِینَ ، وَفَرَّقَ بَیْنَہُمَا ، فَقَالَ لَہُ قبیصَۃُ بْنُ ذُؤَیْبٍ : لَوْ خَفَّفْتَ فَجَلَدْتَہُمَا عِشْرِینَ عِشْرِینَ۔
(٢٩١٤٨) حضرت زھری فرماتے ہیں کہ مروان نے ان دونوں میاں بیوی کو چالیس چالیس کوڑے مارے اور ان دونوں کے درمیان تفریق کردی۔ اس پر حضرت قبیصہ بن ذؤیب نے اس سے فرمایا : اگر تو تخفیف کرتا اور ان کو بیس بیس کوڑے مار دیتا تو بہتر تھا۔

29148

(۲۹۱۴۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إِسْرَائِیلَ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ عَامِرٍ (ح) وَعَنْ حَمَّادٍ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ؛فِی امْرَأَۃٍ نَکَحَتْ فِی عِدَّتِہَا ، قَالاَ : لَیْسَ عَلَیْہَا حَدٌّ۔
(٢٩١٤٩) حضرت عامر شعبی اور حضرت ابراہیم سے ایک عورت کے بارے میں مروی ہے جس نے اپنی عدت کے دوران ہی نکاح کرلیا تھا ان دونوں حضرات نے فرمایا : اس عورت پر حد جاری نہیں ہوگی۔

29149

(۲۹۱۵۰) حَدَّثَنَا شَرِیکٌ، عَن مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ، قَالَ: لاَ یُقَامُ عَلَی أَہْلِ الْکِتَابِ حَدٌّ فِی شُرْبِ خَمْرٍ، وَلاَ زِنًی۔
(٢٩١٥٠) حضرت منصور فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم نے ارشاد فرمایا : اہل کتاب پر شراب پینے اور زنا کرنے کے معاملہ میں حد قائم نہیں کی جائے گی۔

29150

(۲۹۱۵۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَن مُجَاہِدٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: لَیْسَ عَلَی أَہْلِ الْکِتَابِ حَدٌّ۔
(٢٩١٥١) حضرت مجاھد فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عباس نے ارشاد فرمایا : اہل کتاب پر حد جاری نہیں ہوگی۔

29151

(۲۹۱۵۲) حَدَّثَنَا عِیسَی بْنُ یُونُسَ ، عَنِ ابْنِ أَبِی عَرُوبَۃَ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ رَجَائٍ ، عَنْ قَبِیصَۃَ بْنِ ذُؤَیْبٍ ؛ أَنَّ رَجُلاً وَقَعَ عَلَی جَارِیَتِہِ وَلَہَا زَوْجٌ ، فَضَرَبَہُ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ مِئَۃً نَکَالاً۔
(٢٩١٥٢) حضرت قبیصہ بن ذؤیب فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے اپنی باندی سے وطی کرلی درآنحالیکہ اس کا خاوند تھا تو حضرت عمر نے اس شخص کو بطور سزا کے سو کوڑے مارے۔

29152

(۲۹۱۵۳) حَدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ جَامِعٍ ، عَنْ زَیْدِ بْنِ أَسْلَمَ ، قَالَ : أُتِیَ عُمَرُ بِرَجُلٍ وَقَعَ عَلَی أَمَتِہِ وَقَدْ زَوَّجَہَا ، فَضَرَبَہُ ضَرْبًا ، وَلَمْ یَبْلُغْ بِہِ الْحَدَّ۔
(٢٩١٥٣) حضرت زید بن اسلم فرماتے ہیں کہ حضرت عمر کے پاس ایک آدمی لایا گیا جس نے اپنی باندی سے وطی کی درآنحالیکہ وہ اس کی شادی کسی اور سے کرچکا تھا تو آپ نے اسے شرعی حد سے کم سزا دی۔

29153

(۲۹۱۵۴) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، قَالَ : إِذَا وَقَعَ الرَّجُلُ عَلَی أَمَتِہِ وَلَہَا زَوْجٌ ، فَإِنَّہُ یُجْلَدُ مِئَۃً ، أُحْصِنَ ، أَوْ لَمْ یُحْصَنْ ، فَإِنْ حَمَلَتْ ، فَالْوَلَدُ لِلْفِرَاشِ۔
(٢٩١٥٤) حضرت معمر فرماتے ہیں کہ حضرت زھری نے ارشاد فرمایا : جب آدمی نے اپنی باندی سے وطی کی درآنحالیکہ اس کا خاوند بھی تھا تو اس شخص کو سو کوڑے مارے جائیں گے وہ شادی شدہ ہو یا غیر شادی شدہ پس اگر وہ حاملہ ہوگئی تو بچہ صاحب فراش کا ہوگا۔

29154

(۲۹۱۵۵) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، قَالَ : سَأَلْتُ حَمَّادًا عَنِ الرَّجُلِ یَسْرِقُ مِنْ بَیْتِ الْمَالِ ؟ قَالَ : یُقْطَعُ ، وَقَالَ الْحَکَمُ : لاَ یُقْطَعُ۔
(٢٩١٥٥) حضرت شعبہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت حماد سے اس آدمی کے متعلق سوال کیا جو بیت المال سے چوری کرتا ہو ؟ آپ نے فرمایا : اس کا ہاتھ کاٹ دیا جائے گا اور حضرت حکم نے ارشاد فرمایا : اس کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔

29155

(۲۹۱۵۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ الْمَسْعُودِیِّ ، عَنِ الْقَاسِمِ ؛ أَنَّ رَجُلاً سَرَقَ مِنْ بَیْتِ الْمَالِ ، فَکَتَبَ فِیہِ سَعْدٌ إِلَی عُمَرَ ، فَکَتَبَ عُمَرُ إِلَی سَعْدٍ : لَیْسَ عَلَیْہِ قَطْعٌ ، لَہُ فِیہِ نَصِیبٌ۔
(٢٩١٥٦) حضرت قاسم فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے بیت المال سے چوری کی تو حضرت سعد نے اس بارے میں حضرت عمر کو خط لکھا۔ حضرت عمر نے حضرت سعد کو جواب لکھا : اس پر ہاتھ کاٹنے کی سزا جاری نہیں ہوگی کیونکہ اس کا بھی بیت المال میں حصہ ہے۔

29156

(۲۹۱۵۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، عَنْ شُعْبَۃَ، قَالَ: سَأَلْتُ الْحَکَمَ عن الرجل یَسْرِقُ مِنْ بَیْتِ الْمَالِ؟ قَالَ: لَیْسَ عَلَیْہِ قَطْعٌ۔
(٢٩١٥٧) حضرت شعبہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت حکم سے اس آدمی کے متعلق سوال کیا جو بیت المال سے چوری کرتا ہو ؟ آپ نے فرمایا : اس پر ہاتھ کاٹنے کی سزا جاری نہیں ہوگی۔

29157

(۲۹۱۵۸) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ؛ فِی الرَّجُلِ یَسْرِقُ مِنَ الْمَغْنَمِ ، قَالَ : لَیْسَ عَلَیْہِ حَدٌّ ، إِذَا کَانَ لَہُ فِیہِ نَصِیبٌ۔
(٢٩١٥٨) حضرت قتادہ فرماتے ہیں کہ حضرت سعید بن مسیب سے اس شخص کے بارے میں مروی ہے جو مال غنیمت سے چوری کرلے۔ آپ نے فرمایا : اس پر حد جاری نہیں ہوگی جب کہ اس شخص کا بھی حصہ ہو۔

29158

(۲۹۱۵۹) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : إِذَا سَرَقَ الرَّجُلُ مِنَ الْغَنِیمَۃِ ، وَلَہُ فِیہَا شَیْئٌ لَمْ یُقْطَعْ ، فَإِنْ سَرَقَ مِنْہَا وَلَیْسَ لَہُ فِیہَا نَصِیبٌ قُطِعَ۔
(٢٩١٥٩) حضرت ہشام فرماتے ہیں کہ حضرت حسن بصری نے ارشاد فرمایا : جب آدمی نے مال غنیمت سے چوری کی درآنحالیکہ اس کا بھی اس میں حصہ تھا تو اس کا ہاتھ نہیں کٹے گا اور اگر اس نے چوری کی مال غنیمت سے درآنحالیکہ اس کا اس میں حصہ نہیں تھا تو اس کا ہاتھ کاٹ دیا جائے گا۔

29159

(۲۹۱۶۰) حَدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ سِمَاکٍ ، عَنِ ابن عبَیْدِ بْنِ الأَبْرَصِ ؛ أَنَّ عَلِیًّا کَانَ یَقْسِمُ سِلاَحًا فِی الرَّحْبَۃِ ، فَأَخَذَ رَجُلٌ مِغْفَرًا ، فَالْتَحَفَ عَلَیْہِ ، فَوَجَدَہُ رَجُلٌ ، فَأَتَی بِہِ عَلِیًّا ، فَلَمْ یَقْطَعْہُ ، وَقَالَ : لَہُ فِیہِ شِرْکٌ۔
(٢٩١٦٠) حضرت ابن عبید بن ابرص فرماتے ہیں حضرت علی کشادہ میدان میں اسلحہ تقسیم کر رہے تھے کہ ایک آدمی نے ذرہ کی ٹوپی لے لی اور اسے اپنے سر پر رکھ لیا پس ایک آدمی نے اسے اس حالت میں پایا تو وہ اسے حضرت علی کے پاس لے آیا، آپ نے اس کا ہاتھ نہیں کاٹا اور فرمایا : اس کا بھی مال میں حصہ ہے۔

29160

(۲۹۱۶۱) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنِ السَّائِبِ بْنِ یَزِیدَ ؛ أَنَّ عَبْدَ اللہِ بْنَ عَمْرِو بْنِ الْحَضْرَمِیِّ ، قَالَ : أَتَیْتُ عُمَرَ بِغُلاَمٍ لِی ، فَقُلْتُ : اقْطَعْہُ ، قَالَ : وَمَا لَہُ ؟ قُلْتُ : سَرَقَ مِرْآۃً لاِمْرَأَتِی خَیْرٌ مِنْ سِتِّینَ دِرْہَمًا ، قَالَ عُمَرُ : غُلاَمُکُمْ یَسْرقُ مَتَاعَکُمْ۔
(٢٩١٦١) حضرت عبداللہ بن عمرو بن حضرمی فرماتے ہیں کہ میں حضرت عمر کے پاس اپنا ایک غلام لایا اور میں نے عرض کی، آپ اس کا ہاتھ کاٹ دیں، آپ نے پوچھا : اس کا قصور کیا ہے ؟ میں نے عرض کی : اس نے میری بیوی کا آئینہ چوری کیا ہے جو ساٹھ دراہم سے بہتر ہے، حضرت عمر نے فرمایا : تمہارے غلام نے تمہارا ہی مال چوری کیا ہے۔

29161

(۲۹۱۶۲) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، عَنْ ہَمَّامٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُرَحْبِیلَ ،قَالَ : جَائَ مَعْقِلٌ الْمُزَنِیّ إِلَی عَبْدِ اللہِ ، فَقَالَ : غُلاَمِی سَرَقَ قَبَائِی ، فَاقْطَعُہُ ؟ قَالَ عَبْدُ اللہِ : لاَ ، مَالِکُ بَعْضُہُ فِی بَعْضٍ۔
(٢٩١٦٢) حضرت عمرو بن شرحبیل فرماتے ہیں کہ حضرت معقل مزنی حضرت عبداللہ بن مسعود کے پاس آئے اور فرمایا : میرے غلام نے میرا چوغہ چوری کیا ہے تو آپ اس کا ہاتھ کاٹ دیں۔ حضرت عبداللہ نے فرمایا : نہیں، تیرے مال کا بعض حصہ میں بعض شائع ہے۔

29162

(۲۹۱۶۳) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنِ الْحَکَمِ ؛ أَنَّ عَلِیًّا ، قَالَ : إِذَا سَرَقَ عَبْدِی مِنْ مَالِی لَمْ أَقْطَعْہُ۔
(٢٩١٦٣) حضرت حکم فرماتے ہیں کہ حضرت علی نے ارشاد فرمایا : جب میرے غلام نے میرے مال سے چوری کی تھی تو میں نے اس کا ہاتھ نہیں کاٹا۔

29163

(۲۹۱۶۴) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : حَدَّثَنَا سَلَیْمُ بْنُ حَیَّانَ ، قَالَ : حدَّثَنَا سَعِیدُ بْنُ مِینَائَ ، قَالَ : کَانَ عَبْدُ اللہِ بْنُ الزُّبَیْرِ یَلِی صَدَقَۃَ الزُّبَیْرِ ، وَکَانَتْ فِی بَیْتٍ لاَ یَدْخُلُہُ أَحَدٌ غَیْرُہُ ، وَغَیْرُ جَارِیَۃٍ لَہُ ، فَفَقَدَ شَیْئًا مِنَ الْمَالِ، فَقَالَ لِلْجَارِیَۃِ : مَا کَانَ یَدْخُلُ ہَذَا الْبَیْتَ غَیْرِی وَغَیْرُک ، فَمَنْ أَخَذَ ہَذَا الْمَالَ ؟ فَأَقَرَّتِ الْجَارِیَۃُ ، فَقَالَ لِی : یَا سَعِیدُ ، انْطَلِقْ بِہَا فَاقْطَعْ یَدَہَا ، فَإِنَّ الْمَالَ لَوْ کَانَ لِی لَمْ یَکُنْ عَلَیْہَا قَطْعٌ۔
(٢٩١٦٤) حضرت سعید بن مینائ فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن زبیر حضرت زبیر کے صدقہ کا انتظام و انصرام سنبھالتے تھے اور وہ صدقہ کا مال اس گھر میں ہوتا تھا جس میں کوئی شخص حضرت عبداللہ بن زبیر اور ان کی باندی کے علاوہ داخل نہیں ہوسکتا تھا پس اس میں سے کچھ مال گم ہوگیا۔ تو آپ نے باندی سے کہا : اس گھر میں میرے اور تیرے علاوہ کوئی داخل نہیں ہوتا تو کس نے یہ مال لیا ہے ؟ باندی نے اقرار کرلیا۔ پھر آپ نے مجھ سے فرمایا : اے سعید اس کو لے جاؤ اور اس کا ہاتھ کاٹ د و اس لیے کہ اگر میرا ہوتا تو پھر اس کا ہاتھ نہ کٹتا۔

29164

(۲۹۱۶۵) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، عَنْ شُعْبَۃَ، قَالَ: سَأَلْتُ حَمَّادًا، وَالْحَکَمَ عَنِ الرَّجُلِ یَقَعُ عَلَی جَارِیَۃِ أُمِّہِ؟ قَالاَ: عَلَیْہِ الْحَدُّ۔
(٢٩١٦٥) حضرت شعبہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت حماد اور حضرت حکم سے اس آدمی کے متعلق دریافت کیا جو اپنی ماں کی باندی سے صحبت کرلے ؟ ان دونوں حضرات نے ارشاد فرمایا : اس پر حد جاری ہوگی۔

29165

(۲۹۱۶۶) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الْحَسَن ، قَالَ : لَیْسَ عَلَیْہِ حَدٌّ۔
(٢٩١٦٦) حضرت اشعث فرماتے ہیں کہ حضرت حسن بصری نے ارشاد فرمایا : اس پر حد جاری نہیں ہوگی۔

29166

(۲۹۱۶۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ الأَقْمَرِ ، عَنْ یَزِیدَ بْنِ أَبِی کَبْشَۃَ ؛ أَنَّ أَبَا الدَّرْدَائِ أُتِیَ بِامْرَأَۃٍ قَدْ سَرَقَتْ ، فَقَالَ لَہَا : سَلامَۃُ ، أَسَرَقْتِ ؟ قُولِی : لاَ۔
(٢٩١٦٧) حضرت یزید بن ابی کبشہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابوالدردائ کے پاس ایک عورت لائی گئی جس نے چوری کی تھی۔ آپ نے اس سے فرمایا : اے سلامہ ! کیا تو نے چوری کی ہے ؟ کہہ دے : نہیں۔

29167

(۲۹۱۶۸) حَدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ مَوْلًی لأَبِی مَسْعُودٍ ، عَنْ أَبِی مَسْعُودٍ ، قَالَ : أُتِیَ بِرَجُلٍ سَرَقَ ، فَقَالَ : أَسَرَقْتَ ؟ قُلْ : وَجَدْتُہُ ، قَالَ : وَجَدْتُہُ ، فَخَلَّی سَبِیلَہُ۔
(٢٩١٦٨) حضرت ابو مسعود نے ارشاد فرمایا : ایک آدمی لایا گیا جس نے چوری کی تھی۔ آپ نے پوچھا : کیا تو نے چوری کی ہے ؟ تو یوں کہہ دے : میں نے اس مال کو پایا ہے۔ اس نے کہہ دیا : میں نے اس مال کو پایا ہے۔ تو آپ نے اسے چھوڑ دیا۔

29168

(۲۹۱۶۹) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا سَعِیدُ بْنُ أَبِی عَرُوبَۃَ ، عَنْ سُلَیْمَانِ النَّاجِی ، عَنْ أَبِی الْمُتَوَکِّلِ ؛ أَنَّ أَبَا ہُرَیْرَۃَ أُتِیَ بِسَارِقٍ ، وَہُوَ یَوْمَئِذٍ أَمِیرٌ ، فَقَالَ : أَسَرَقْتَ ؟ أَسَرَقْتَ ؟ قُلْ : لاَ ، لاَ مَرَّتَیْنِ ، أَوْ ثَلاَثًا۔
(٢٩١٦٩) حضرت ابو المتوکل فرماتے ہیں کہ حضرت ابوہریرہ کے پاس ایک چور لایا گیا درآنحالیکہ ان دنوں آپ امیر تھے۔ آپ نے فرمایا : کا تو نے چوری کی ہے ؟ کیا تو نے چوری کی ہے ؟ یوں کہہ دو ، نہیں، نہیں، دو یا تین مرتبہ فرمایا۔

29169

(۲۹۱۷۰) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ یَزِیدَ بْنِ خُصَیْفَۃَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ ثَوْبَانَ؛ أَنَّ رَجُلاً سَرَقَ شَمْلَۃً، فَأُتِیَ بِہِ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالُوا : یَا رَسُولَ اللہِ ، ہَذَا سَرَقَ شَمْلَۃً ، فَقَالَ : مَا إِخَالَہُ سَرَقَ۔ (عبدالرزاق ۱۳۸۳۔ دارقطنی ۱۰۲)
(٢٩١٧٠) حضرت محمد بن عبدالرحمن بن ثوبان فرماتے ہیں کہ ایک آدی نے چادر چوری کی تو اس کو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس لایا گیا لوگ کہنے لگے : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! اس نے چادر چوری کی ہے اس پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میرا گمان نہیں ہے کہ اس نے چوری کی ہو۔

29170

(۲۹۱۷۱) حَدَّثَنَا حُمَیْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ حَسَنِ بْنِ صَالِحٍ ، عَنْ غَالِبٍ أَبِی الْہُذَیْلِ ، قَالَ : سَمِعْتُ سُبَیْعًا أَبَا سَالِمٍ ، یَقُولُ : شَہِدْتُ الْحَسَنَ بْنَ عَلِیٍّ ، وَأُتِیَ بِرَجُلٍ أَقَرَّ بِسَرِقَۃٍ ، فَقَالَ لَہُ الْحَسَنُ : لَعَلَّک اخْتَلَسْتَ ؟ لِکَیْ یَقُولَ : لاَ۔
(٢٩١٧١) حضرت سبیع ابو سالم فرماتے ہیں کہ میں حضرت حسن بن علی کے پاس حاضر تھا درآنحالیکہ ایک چور لایا گیا جس نے چوری کا اقرار کیا تھا اس پر حضرت حسن نے اس سے فرمایا : شاید کہ تو نے دھوکا سے چھین لیا ہوتا کہ وہ یوں کہہ دے کہ نہیں۔

29171

(۲۹۱۷۲) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ بْنِ خَالِدٍ ، قَالَ : أُتِیَ عُمَرُ بِسَارِقٍ قَدِ اعْتَرَفَ ، فَقَالَ عُمَرُ: إِنِّی لأَرَی یَدَ رَجُلٍ مَا ہِیَ بِیَدِ سَارِقٍ، قَالَ الرَّجُلُ: وَاللَّہِ مَا أَنَا بِسَارِقٍ، فَأَرْسَلَہُ عُمَرُ وَلَمْ یَقْطَعْہُ۔
(٢٩١٧٢) حضرت عکرمہ بن خالد فرماتے ہیں کہ حضرت عمر کے پاس ایک چور لایا گیا جس نے چوری کا اعتراف کیا تھا اس پر حضرت عمر نے فرمایا : بیشک میری رائے یہ ہے کہ اس آدمی کا ہاتھ یہ چور کا ہاتھ نہیں ہے، اس آدمی نے کہا : اللہ کی قسم : میں چور نہیں ہوں، سو حضرت عمر نے اسے چھوڑ دیا اور اس کا ہاتھ نہیں کاٹا۔

29172

(۲۹۱۷۳) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَطَائٍ ، قَالَ : کَانَ مَنْ مَضَی یُؤْتَی بِالسَّارِقِ ، فَیَقُولُ : أَسَرَقْتَ ؟ وَلاَ أَعْلَمہُ إِلاَّ سَمَّی أَبَا بَکْرٍ وَعُمَرَ۔
(٢٩١٧٣) حضرت ابن جریج فرماتے ہیں کہ حضرت عطائ نے ارشاد فرمایا : گزرے ہوئے لوگوں میں سے جن کے پاس چور لایا جاتا تھا وہ پوچھتے تھے : کیا تو نے چوری کی ہے ؟ اور میں نہیں جانتا ان کے بارے میں مگر یہ کہ آپ نے حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کا نام لیا۔

29173

(۲۹۱۷۴) حَدَّثَنَا عِیسَی بْنُ یُونُسَ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، قَالَ : حدَّثَنِی مِسْکِینٌ ، رَجُلٌ مِنْ أَہْلِی ، قَالَ : شَہِدْتُ عَلِیًّا أُتِیَ بِرَجُلٍ وَامْرَأَۃٍ وُجِدَا فِی خَرِبَۃٍ ، فَقَالَ لَہُ عَلِیٌّ : أَقَرُبْتَہَا ؟ فَجَعَلَ أَصْحَابُ عَلِیٍّ یَقُولُونَ لَہُ : قُلْ : لاَ ، فَقَالَ : لاَ ، فَخَلَّی سَبِیلَہُ۔
(٢٩١٧٤) حضرت ابن عون فرماتے ہیں کہ حضرت مسکین نے جو میرے گھر کے ایک فرد ہیں، مجھے بیان کیا کہ میں حضرت علی کے پاس حاضر تھا کہ ایک آدمی اور عورت کو لایا گیا جو دونوں ویران جگہ میں پائے گئے تھے، حضرت علی نے اس آدمی سے پوچھا : کیا تو اس عورت کے قریب ہوا تھا ؟ اس پر حضرت علی کے ہمنشینوں نے کہا : کہہ دے : نہیں اس آدمی نے کہا نہیں تو آپ نے اسے چھوڑ دیا۔

29174

(۲۹۱۷۵) حَدَّثَنَا ابْنُ مُبَارَکٍ ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنْ یَحْیَی ، عَنْ عِکْرِمَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ؛ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ لِمَاعِزِ بْنِ مَالِکٍ : لَعَلَّک قَبَّلْتَ ، أَوْ لَمَسْتَ ، أَوْ بَاشَرْتَ ۔ (احمد ۲۵۵۔ بخاری ۶۸۲۴)
(٢٩١٧٥) حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت ماعز بن مالک سے فرمایا : شاید کہ تو نے بوسہ لیا ہو یا چھوا ہو یا تو صرف اس سے گلے ملا ہوگا۔

29175

(۲۹۱۷۶) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ یَحْیَی بْنِ حَبَّانَ ، عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِیجٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لاَ قَطْعَ فِی ثُمَّرٍ ، وَلاَ کَثَرٍ۔ (احمد ۴۶۳۔ مالک ۸۳۹)
(٢٩١٧٦) حضرت رافع بن خدیج فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : پھل اور کھجور کے شگوفے کی چوری میں ہاتھ نہیں کٹے گا۔

29176

(۲۹۱۷۷) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ جَدِّہِ ، قَالَ : لَیْسَ فِی شَیْئٍ مِنَ الْحَیَوَانِ قَطْعٌ حَتَّی یَأْوِیَ الْمُرَاحَ ، وَلَیْسَ فِی شَیْئٍ مِنَ الثِّمَارِ قَطْعٌ حَتَّی یَأْوِیَ الْجَرِینَ۔
(٢٩١٧٧) حضرت شعیب فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمر نے ارشاد فرمایا : جانور میں کسی بھی صورت میں ہاتھ نہیں کٹے گا یہاں تک کہ وہ جانور کے رات رہنے کی جگہ تک پہنچ جائے اور نہ پھلوں کی کسی چوری میں ہاتھ کٹے گا یہاں تک کہ وہ کھجور کے خشک ہونے کی جگہ تک نہ پہنچ جائے۔

29177

(۲۹۱۷۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ سَعِیدٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : لَیْسَ فِی شَیْئٍ مِنَ الثِّمَارِ قَطْعٌ ، إِلاَّ مَا أَوَی الْجَرِینَ ، وَلَیْسَ فِی شَیْئٍ مِنَ الْمَاشِیَۃِ قَطْعٌ ، إِلاَّ فِیمَا آوَی الْمُرَاحَ۔
(٢٩١٧٨) حضرت سعید فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عمر نے ارشاد فرمایا : پھلوں میں سے کسی بھی صورت میں ہاتھ نہیں کٹے گا مگر جو کھجور کے خشک ہونے کی جگہ تک پہنچ جائے اور جانور میں بھی کسی صورت میں ہاتھ نہیں کٹے گا مگر اس صورت میں کہ وہ ان کے رات رہنے کی جگہ تک پہنچ جائے۔

29178

(۲۹۱۷۹) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ مَعْمَرٍ ، قَالَ : قَالَ یَحْیَی بْنُ أَبِی کَثِیرٍ ، قَالَ : قَالَ عُمَرُ : لاَ یُقْطَعُ فِی عِذْقٍ ، وَلاَ فِی عَامِ سَنَۃٍ۔
(٢٩١٧٩) حضرت یحییٰ بن ابی کثیر فرماتے ہیں کہ حضرت عمر نے ارشاد فرمایا : کھجور کے خوشوں کی چوری میں ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا اور نہ ہی قحط والے سال میں۔

29179

(۲۹۱۸۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ جَرِیرِ بْنِ حَازِمٍ ، وَالسُّرِیِّ بْنِ یَحْیَی ، عَنِ الْحَسَنِ ؛ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أُتِیَ بِرَجُلٍ سَرَقَ طَعَامًا ، فَلَمْ یَقْطَعْہُ۔ (ابوداؤد ۲۴۵۔ عبدالرزاق ۱۸۹۱۵)
(٢٩١٨٠) حضرت حسن بصری فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ایک آدمی لایا گیا جس نے کھانا چوری کیا تھا تو آپ نے اس کا ہاتھ نہیں کاٹا۔

29180

(۲۹۱۸۱) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ أَشْعَثَ بْنِ عَبْدِ الْمَلِکِ ، وَعَمْرٍو ، عَنِ الْحَسَنِ ؛ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أُتِیَ بِرَجُلٍ سَرَقَ طَعَامًا ، فَلَمْ یَقْطَعْہُ۔
(٢٩١٨١) حضرت حسن بصری فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ایک آدمی لایا گیا جس نے کھانا چوری کیا تھا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کا ہاتھ نہیں کاٹا۔

29181

(۲۹۱۸۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، قَالَ : سَأَلْتُ الْحَکَمَ عَنِ الرَّجُلِ یَسْرِقُ الطَّعَامَ ، أَوِ الْحِمَارَ مِنَ الصَّحْرَائِ ؟ فَقَالَ : لَیْسَ عَلَیْہِ قَطْعٌ۔
(٢٩١٨٢) حضرت شعبہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت حکم سے اس آدمی کے متعلق دریافت کیا جو کھانا چوری کرلے یا صحراء سے گدھا چوری کرلے ؟ آپ نے فرمایا : اس پر ہاتھ کاٹنے کی سزا جاری نہیں ہوگی۔

29182

(۲۹۱۸۳) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، قَالَ : سَمِعْتُ عَبْدَ الرَّحْمَن بْنَ الْقَاسِمِ ، قَالَ : قَطَعَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیزِ فِی مُدٍّ ، أَوْ أَمْدَادٍ مِنْ طَعَامٍ۔
(٢٩١٨٣) حضرت عبدالرحمن بن قاسم فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز نے ایک مد میں یا کھانے کے چند مدوں میں ہاتھ کاٹا۔

29183

(۲۹۱۸۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ ہِشَامٍ الدَّسْتَوَائِیِّ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ أَبِی کَثِیرٍ ، عَنْ حسان بْنِ زَاہِرٍ ، عَنْ حُصَیْنِ بْنِ حُدَیرٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ عُمَرَ وہو یَقُولُ : لاَ قَطْعَ فِی عِذْقٍ ، وَلاَ فِی عَامِ سَنَۃٍ۔
(٢٩١٨٤) حضرت حصین بن حدیر فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر کو سنا آپ ارشاد فرما رہے تھے : کھجور کے شگوفے کی چور ی میں اور قحط والے سال میں ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔

29184

(۲۹۱۸۵) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ؛ أَنَّہُ قَالَ: لَیْسَ فِی الثَمَرَۃِ قَطْعٌ، وَلاَ فِی الْمَاشِیَۃِ الرَّاعِیَۃِ، وَلَکِنْ فِیہَا نَکَالٌ وَتَضْعِیفُ الْغُرْمِ ، فَإِذَا آوَاہا الْمُرَاحُ ، أَوِ الْجَرِینُ ، یُقْطَعُ إِذَا سَرَقَ قَدْرَ رُبْعِ دِینَارٍ۔
(٢٩١٨٥) حضرت معمر فرماتے ہیں کہ حضرت زھری نے ارشاد فرمایا : پھل اور چرنے والے جانور کی چوری میں ہاتھ کاٹنے کی سزا نہیں ہوگی لیکن اس میں سخت سزا اور دگنا تاوان ادا کرنا ہوگا اور جب وہ شخص جانوروں کے رات رہنے کی جگہ یا کھجور خشک ہونے کی جگہ تک پہنچ جائے اس کا ہاتھ کاٹا جائے گا جب وہ چار دینار کی مقدار جتنی چوری کرلے۔

29185

(۲۹۱۸۶) حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ ، عَنْ حَکِیمِ بْنِ حَکِیمِ بْنِ عَبَّادِ بْنِ حُنَیْفٍ ، عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ مُرَّۃَ الزُّرَقِیِّ ؛ أَنَّ عَلِیًّا قَطَعَ سَارِقًا مِنَ الْخَصْرِ ، خَصْرِ الْقَدَمِ۔
(٢٩١٨٦) حضرت نعمان بن مرہ زرقی فرماتے ہیں کہ حضرت علی نے چور کے پاؤں کا تلوا کاٹ دیا۔

29186

(۲۹۱۸۷) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ ، عَنْ إِسْمَاعِیلَ الْحَنَفِیِّ ، عَنْ أُمِّ رَزِینٍ ، قَالَتْ : سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ یَقُولُ : أَیَعْجِزُ أُمَرَاؤُنَا ہَؤُلاَئِ أَنْ یَقْطَعُوا کَمَا قَطَعَ ہَذَا الأَعْرَابِیُّ ، یَعْنِی نَجْدَۃَ ، فَلَقَدْ قَطَعَ فَمَا أَخْطَأَ ، یَقْطَعُ الرِّجْلَ ، وَیَذَرُ عَاقِبَہَا۔
(٢٩١٨٧) حضرت ام رزین فرماتی ہیں کہ حضرت ابن عباس نے فرمایا کیا ہمارے حکمران اس سے عاجز آگئے ہیں کہ وہ اس طرح کاٹیں جیسا اس دیہاتی نجدہ نے کاٹا ہے۔ یعنی اس نے کاٹا ہے اور بالکل غلطی نہیں کی : اس نے پاؤں کاٹ دیا اور اس کی ایڑی چھوڑ دی۔

29187

(۲۹۱۸۸) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ ہَاشِمٍ ، وَعَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ ، عَنْ عَطَائٍ ، قَالَ : سُئِلَ عَنِ الْقَطْعِ ؟ فَقَالَ : أَمَّا الرِّجْلُ ، فَیُتْرَکُ لَہُ عَقِبُہُ۔
(٢٩١٨٨) حضرت عبدالملک فرماتے ہیں کہ حضرت عطائ سے کاٹنے کے متعلق پوچھا گیا ؟ آپ نے فرمایا : جہاں تک پاؤں کا تعلق ہے تو اس کی ایڑی چھوڑ دی جائے گی۔

29188

(۲۹۱۸۹) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ، عَنِ الْعَلاَئِ بْنِ عَبْدِالْکَرِیمِ، عَنْ أَبِی جَعْفَرٍ، قَالَ: الرِّجْلُ تُقْطَعُ مِنْ وَسَطِ الْقَدَمِ مِنْ مَفْصِلٍ۔
(٢٩١٨٩) حضرت علاء بن عبدالکریم فرماتے ہیں کہ حضرت ابو جعفر نے ارشاد فرمایا : پاؤں قدم کے درمیان والے جوڑ سے کاٹا جائے گا۔

29189

(۲۹۱۹۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ الْعَلاَئِ ، عَنْ أَبِی جَعْفَرٍ ؛ بِنَحْوِہِ۔
(٢٩١٩٠) حضرت ابو جعفر کا ارشاد اس سند سے بھی منقول ہے۔

29190

(۲۹۱۹۱) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَیْسَرٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِینَارٍ ، عنْ عِکْرِمَۃَ ؛ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ قَطَعَ الْیَدَ مِنَ الْمَفْصِلِ ، وَقَطَعَ عَلِیٌّ الْقَدَمَ ، وَأَشَارَ عَمْرٌو إِلَی شَطْرِہَا۔
(٢٩١٩١) حضرت عکرمہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب نے جوڑ سے ہاتھ کاٹا اور حضرت علی نے پاؤں کاٹا، حضرت عمرو بن دینار نے پاؤں کے نصف حصہ کی طرف اشارہ کیا۔

29191

(۲۹۱۹۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ مَسَرَّۃَ بْنِ مَعْبَدٍ اللَّخْمِیِّ ، قَالَ : سَمِعْتُ عَدِیَّ بْنِ عَدِیٍّ یُحَدِّثُ ، عَنْ رَجَائِ بْنِ حَیْوَۃَ ؛ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَطَعَ رَجُلاً مِنَ الْمَفْصِلِ۔ (۲۷۰)
(٢٩١٩٢) حضرت رجاء بن حیوہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جوڑ سے پاؤں کاٹا۔

29192

(۲۹۱۹۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سَمُرَۃَ أَبِی عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، قَالَ : رَأَیْتُ بِالْحِیرَۃ مَقْطُوعًا مِنَ الْمَفْصِلِ ، فَقُلْتُ : مَنْ قَطَعَک ؟ قَالَ : قَطَعَنی الرَّجُلُ الصَّالِحُ عَلِیٌّ ، أَمَا إِنَّہُ لَمْ یَظْلِمْنِی۔
(٢٩١٩٣) حضرت سمرہ ابو عبدالرحمن فرماتے ہیں کہ میں نے حیرہ میں ایک آدمی کو دیکھا جس کا جوڑ سے پاؤں کٹا ہوا تھا میں نے پوچھا : کس نے کاٹا ؟ اس نے کہا : نیک آدمی حضرت علی نے میرا پاؤں کاٹا بہرحال انھوں نے مجھ پر ظلم نہیں کیا۔

29193

(۲۹۱۹۴) حَدَّثَنَا أَبُو سَعْدٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِینَارٍ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ ؛ أَنَّ عُمَرَ قَطَعَ الْیَدَ مِنَ الْمَفْصِلِ۔
(٢٩١٩٤) حضرت عکرمہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر نے ہاتھ جوڑ سے کاٹا۔

29194

(۲۹۱۹۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ یَزِیدَ بْنِ خُصَیْفَۃَ ، عَنْ ابْنِ ثَوْبَانٍ ؛ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَطَعَ یَدَ رَجُلٍ ، ثُمَّ حَسَمَہُ۔
(٢٩١٩٥) حضرت ابن ثوبان فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک آدمی کا ہاتھ کاٹا پھر خون روکنے کے لیے اسے داغ دیا۔

29195

(۲۹۱۹۶) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ یَزِیدَ بْنِ خُصَیْفَۃَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، رفعہ ؛ مِثْلَہُ۔
(٢٩١٩٦) حضرت محمد بن عبدالرحمن سے بھی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مذکورہ فعل اس سند سے منقول ہے۔

29196

(۲۹۱۹۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ أَبِی سُفْیَانَ ؛ أَنَّ ابْنَ الزُّبَیْرِ أُتِیَ بِسَارِقٍ ، فَقَطَعَہُ ، فَقَالَ لَہُ أَبَانُ بْنُ عُثْمَانَ : احْسِمْہُ ، فَقَالَ : إِنَّک بِہِ لَرَحِیمٌ ، قَالَ : لاَ ، وَلَکِنَّہُ مِنَ السُّنَّۃِ۔
(٢٩١٩٧) حضرت عمرو بن ابو سفیان فرماتے ہیں کہ حضرت ابن زبیر کے پاس ایک چور لایا گیا پس آپ نے اس کا ہاتھ کاٹ دیا اس پر حضرت ابان بن عثمان نے ان سے فرمایا : اس کو داغ دو ۔ آپ نے فرمایا : تم تو اس پر بہت رحم کرنے والے ہو۔ آپ نے فرمایا : نہیں لیکن یہ عمل سنت ہے۔

29197

(۲۹۱۹۸) حَدَّثَنَا سَہْلُ بْنُ یُوسُفَ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : مِنَ السُّنَّۃِ حَسْمُ السَّارِقِ۔
(٢٩١٩٨) حضرت عمرو فرماتے ہیں کہ حضرت حسن بصری نے ارشاد فرمایا : چور کو داغ دینا سنت طریقہ ہے۔

29198

(۲۹۱۹۹) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ أَبْجَرَ ، عَنْ سَلَمَۃَ بْنِ کُہَیْلٍ ، عَنْ حُجِّیَّۃَ ؛ أَنَّ عَلِیًّا کَانَ یَقْطَعُ اللُّصُوصَ وَیَحْسِمُہُمْ وَیَحْبِسُہُمْ وَیُدَاوِیہِمْ ، فَإِذَا بَرَؤُوا ، قَالَ : أرْفَعُوا أَیْدِیَکُمْ ، فَیَرْفَعُونَہَا کَأَنَّہَا أُیُورُ الْحُمُرِ ، ثُمَّ یَقُولُ : مَنْ قَطَعَکُمْ ؟ فَیَقُولُونَ : عَلِیٌّ ، فَیَقُولُ : وَلِمَ ؟ فَیَقُولُونَ : إِنَّا سَرَقْنَا ، فَیَقُولُ : اللَّہُمَّ اشْہَدْ ، اللَّہُمَّ اشْہَدْ ، اذْہَبُوا۔
(٢٩١٩٩) حضرت حجیہ فرماتے ہیں کہ حضرت علی چوروں کے ہاتھ کاٹتے اور ان کو داغ دیتے پھر ان کو قید کردیتے اور ان کا دو ادوار کرتے۔ پس جب زخم تندرست ہوجاتا فرماتے، اپنے ہاتھوں کو اٹھاؤ سو وہ ان کو اٹھاتے گویا کہ وہ سرخ عضو تناسل ہوں پھر آپ فرماتے : تمہارے ہاتھ کس نے کاٹے ؟ وہ جواب دیتے : علی نے۔ آپ فرماتے : کیوں کاٹے ؟ وہ جواب دیتے۔ ہم نے چوری کی تھی۔ پس آپ فرماتے اے اللہ : تو گواہ رہ اے اللہ ! تو گواہ رہ، تم چلے جاؤ۔

29199

(۲۹۲۰۰) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنْ زُہَیْرِ بْنِ مُحَمَّدِ ، عَنْ یَزِیدَ بْنِ خُصَیْفَۃَ ، قَالَ : أُتِیَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیزِ بِرَجُلٍ قد سَرَقَ طَیْرًا ، فَاسْتَفْتَی فِی ذَلِکَ السَّائِبَ بْنَ یَزِیدَ ، فَقَالَ : مَا رَأَیْتُ أَحَدًا قَطَعَ فِی الطَّیْرِ ، وَمَا عَلَیْہِ فِی ذَلِکَ قَطْعٌ ، فَتَرَکَہُ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیزِ ، فَلَمْ یَقْطَعْہُ۔
(٢٩٢٠٠) حضرت یزید ابن خصیفہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز کے پاس ایک آدمی لایا گیا جس نے پرندہ چوری کیا تھا تو آپ نے اس بارے میں حضرت سائب بن یزید سے سے فتویٰ پوچھا انھوں نے فرمایا : میں نے کسی کو نہیں دیکھا جس نے پرندے کی چوری میں ہاتھ کاٹا ہو۔ اور اس بارے میں چور پر کاٹنے کی سزا جار ی نہیں ہوگی حضرت عمر بن عبدالعزیز نے اسے چھوڑ دیا اور اس کا ہاتھ نہیں کاٹا۔

29200

(۲۹۲۰۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْن یَسَارٍ ، قَالَ : أُتِیَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیزِ فِی رَجُلٍ سَرَقَ دَجَاجَۃً ، فَأَرَادَ أَنْ یَقْطَعَہُ ، فَقَالَ لَہُ أَبُو سَلَمَۃَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ : قَالَ عُثْمَانُ : لاَ قَطْعَ فِی الطَّیْرِ۔
(٢٩٢٠١) حضرت عبداللہ بن یسار فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز کے پاس ایک آدمی لایا گیا جس نے مرغی چوری کی تھی۔ تو آپ نے اس کا ہاتھ کاٹنے کا ارادہ فرمایا : حضرت ابو سلمہ بن عبدالرحمن نے ان سے فرمایا کہ حضرت عثمان نے ارشاد فرمایا : پرندے کی چوری میں کاٹنے کی سزا نہیں ہوگی۔

29201

(۲۹۲۰۲) حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ ، عَنْ أَبِی خَالِدٍ ، عَنْ رَجُلٍ ، عَنْ عَلِیٍّ ؛ أَنَّہُ کَانَ لاَ یَقْطَعُ فِی الطَّیْرِ۔
(٢٩٢٠٢) حضرت ابو خالد کسی آدمی سے نقل کرتے ہیں کہ حضرت علی پرندے کی چوری میں ہاتھ نہیں کاٹتے تھے۔

29202

(۲۹۲۰۳) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ بَعْضَ مَنْ أَرْضَی ، یَقُولُ : لاَ قَطْعَ فِی بَازٍ سُرِقَ ، وَإِنْ کَانَ ثَمَنُہُ دِینَارًا ، أَوْ أَکْثَرَ مِنْ ذَلِکَ۔
(٢٩٢٠٣) حضرت ابن جریج فرماتے ہیں کہ میں نے ایک قابل اعتماد بزرگ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ ہاتھ کاٹنے کی سزا نہیں ہوگی اس باز میں جس کو چوری کرلیا گیا ہو اگرچہ اس کی قیمت ایک دینار یا اس سے بھی زائد ہو۔

29203

(۲۹۲۰۴) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ ، قَالَ : کَانَ یَقُولُہُ۔
(٢٩٢٠٤) حضرت ابن جریج فرماتے ہیں کہ حضرت عمرو بن شعیب بھی یوں ہی فرمایا کرتے تھے۔

29204

(۲۹۲۰۵) حَدَّثَنَا عِیسَی بْنُ یُونُسَ ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، قَالَ : أُتِیَ مَرْوَانُ بْنُ الْحَکَمِ بِقَوْمٍ یَخْتَفُونَ الْقُبُورَ ، یَعْنِی یَنْبُشُونَ ، فَضَرَبَہُمْ وَنَفَاہُمْ ، وَأَصْحَابُ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مُتَوَافِرُونَ۔
(٢٩٢٠٥) حضرت زھری فرماتے ہیں کہ مروان بن حکم کے پاس چند لوگ لائے گئے جو قبروں سے کفن چوری کرتے تھے تو مروان نے ان کو مارا اور ان کو جلا وطن کردیا اس حال میں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ وافر مقدار میں موجود تھے۔

29205

(۲۹۲۰۶) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، قَالَ : أُخِذَ نَبَّاشٌ فِی زَمَانِ مُعَاوِیَۃَ ، زَمَانَ کَانَ مَرْوَانُ عَلَی الْمَدِینَۃِ ، فَسَأَلَ مَنْ کَانَ بِحَضْرَتِہِ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِالْمَدِینَۃِ وَالْفُقَہَائِ ؟ فَلَمْ یَجِدُوا أَحَدًا قَطَعَہُ ، قَالَ : فَأَجْمَعَ رَأْیُہُمْ عَلَی أَنْ یَضْرِبَہُ ، وَیُطَافَ بِہِ۔
(٢٩٢٠٦) حضرت زھری فرماتے ہیں کہ حضرت معاویہ کے زمانہ خلافت میں جب مروان مدینہ کا امیر تھا تو اس دوران ایک کفن چور کو پکڑا گیا تو مروان نے مدینہ میں موجود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ اور فقہاء سے اس کے متعلق پوچھا ؟ پس ان سب نے کسی کو نہیں پایا جس نے کفن چور کا ہاتھ کاٹا ہو سو ان سب کی رائے اس بات پر متفق ہوئی کہ اس کو مارا جائے اور چکر لگوایا جائے۔

29206

(۲۹۲۰۷) حَدَّثَنَا عِیسَی بْنُ یُونُسَ ، عَنْ مَعْمَرٍ ، قَالَ : بَلَغَنِی أَنَّ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِیزِ قَطَعَ نَبَّاشًا۔
(٢٩٢٠٧) حضرت معمر فرماتے ہیں کہ مجھے خبر پہنچی ہے کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز نے کفن چور کا ہاتھ کاٹا۔

29207

(۲۹۲۰۸) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الْحَجَّاجِ ، عَنِ الْحَکَمِ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، وَالشَّعْبِیِّ ، قَالاَ : یُقْطَعُ سَارِقُ أَمْوَاتِنَا ، کَمَا یُقْطَعُ سَارِقُ أَحْیَائِنَا۔
(٢٩٢٠٨) حضرت حکم فرماتے ہیں کہ حضرت شعبی اور حضرت ابراہیم نے ارشاد فرمایا : ہمارے مردوں کے چور کا بھی ایسے ہی ہاتھ کاٹا جائے گا جیسا کہ ہمارے زندوں کے چور کا کاٹا جاتا ہے۔

29208

(۲۹۲۰۹) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ حَجَاجٍ ، قَالَ : سَأَلْتُ عَطَائً عَنِ النَّبَّاشِ ؟ قَالَ : یُقْطَعُ۔
(٢٩٢٠٩) حضرت حجاج فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عطائ سے کفن چور کے متعلق پوچھا ؟ آپ نے فرمایا : اس کا ہاتھ کاٹا جائے گا۔

29209

(۲۹۲۱۰) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ ، عَنْ عَطَائٍ ؛ فِی النَّبَّاشِ ، قَالَ : ہُوَ بِمَنْزِلَۃِ السَّارِقِ ، یُقْطَعُ۔
(٢٩٢١٠) حضرت عبدالملک فرماتے ہیں کہ حضرت عطائ سے کفن چور کے بارے میں مروی ہے۔ آپ نے ارشاد فرمایا : وہ چور کے درجہ میں ہے اس کا ہاتھ کاٹا جائے گا۔

29210

(۲۹۲۱۱) حَدَّثَنَا حَفْصٌ، عَنْ أَشْعَثَ، قَالَ: سَأَلْتُ الْحَسَنَ عَنِ النَّبَّاشِ؟ فَقَالَ: یُقْطَعُ، وَسَأَلْتُ الشَّعْبِیَّ؟ فَقَالَ: یُقْطَعُ۔
(٢٩٢١١) حضرت اشعث فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت حسن بصری سے کفن چور کے متعلق سوال کیا ؟ تو آپ نے فرمایا : اس کا ہاتھ کاٹا جائے گا اور میں نے حضرت شعبی سے سوال کیا ؟ تو آپ نے بھی فرمایا : اس کا ہاتھ کاٹا جائے گا۔

29211

(۲۹۲۱۲) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الْحَکَمِ ، وَحَمَّادٍ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ؛ فِی النَّبَّاشِ ، قَالَ : یُقْطَعُ۔
(٢٩٢١٢) حضرت حکم اور حضرت حماد فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم سے کفن چور کے بارے میں مروی ہے آپ نے ارشاد فرمایا : اس کا ہاتھ کاٹا جائے گا۔

29212

(۲۹۲۱۳) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ، عَنْ مُغِیرَۃَ، عَنْ حَمَّادٍ ، وَأَصْحَابِہِ ، قَالُوا: یُقْطَعُ النَّبَّاشُ ، لأَنَّہُ قَدْ دَخَلَ عَلَی الْمَیِّتِ بَیْتَہُ۔
(٢٩٢١٣) حضرت مغیرہ فرماتے ہیں کہ حضرت حماد اور ان کے اصحاب نے فرمایا : کفن چور کا ہاتھ کاٹا جائے گا اس لیے کہ وہ میت کے گھر میں داخل ہوا تھا۔

29213

(۲۹۲۱۴) حَدَّثَنَا ابْنُ یَمَانٍ ، عَنْ شَیْخٍ ، عَنْ مَکْحُولٍ ، قَالَ : لاَ یُقْطَعُ ، إِلاَّ أَنْ یَکُونَ لِلْقَبْرِ بَابٌ۔
(٢٩٢١٤) حضرت ابن یمان کسی شیخ سے نقل کرتے ہیں کہ حضرت مکحول نے ارشاد فرمایا : ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا مگر یہ کہ قبر کا دروازہ ہو۔

29214

(۲۹۲۱۵) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ یَمَانٍ ، عَنْ إِسْرَائِیلَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ الْمُخْتَارِ ، عَنْ معاویۃ بْنِ قُرَّۃَ ، قَالَ : النَّبَّاشُ لِصٌّ ، فَاقْطَعْہُ۔
(٢٩٢١٥) حضرت عبداللہ بن مختار فرماتے ہیں کہ حضرت معاویہ بن قرہ نے ارشاد فرمایا : کفن چوری کرنے والا چور ہے پس اس کا ہاتھ کاٹ دو ۔

29215

(۲۹۲۱۶) حَدَّثَنَا ابْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَۃَ ، عَنْ حَجَّاجٍ ؛ أَنَّ مَسْرُوقًا ، وَإِبْرَاہِیمَ النَّخَعِیّ ، وَالشَّعْبِیَّ ، وَزَاذَانَ ، وَأَبَا زُرْعَۃَ بْنَ عَمْرِو بْنِ جَرِیرٍ ، کَانُوا یَقُولُونَ فِی النَّبَّاشِ : یُقْطَعُ۔
(٢٩٢١٦) حضرت حجاج فرماتے ہیں کہ حضرت مسروق ، حضرت ابراہیم نخعی ، حضرت شعبی حضرت زاذان اور حضرت ابو ذرعہ بن عمرو بن جریر یہ سب حضرات کفن چور کے بارے میں فرمایا کرتے تھے کہ اس کا ہاتھ کاٹا جائے گا۔

29216

(۲۹۲۱۷) حَدَّثَنَا شَیْخٌ لَقِیتُہُ بِمِنَی ، عَنْ رَوْحِ بْنِ الْقَاسِمِ ، عَنْ مُطَرِّفٍ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : لَیْسَ عَلَی النَّبَّاشِ قَطْعٌ ، وَعَلَیْہِ شَبِیہٌ بِالْقَطْعِ۔
(٢٩٢١٧) حضرت عکرمہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عباس نے ارشاد فرمایا : کفن چور پر ہاتھ کاٹنے کی سزا جاری نہیں ہوگی اس پر کاٹنے کے مشابہ سزا ہوگی۔

29217

(۲۹۲۱۸) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ حَجَاجٍ ، عَنْ أَبِی مُصْعَبٍ عَطَائِ بْنِ أَبِی مَرْوَانَ ، عَنْ أَبِیہِ ؛ أَنَّ عَلِیًّا أُتِیَ بِالنَّجَاشِیَّ سَکْرَانًا مِنَ الْخَمْرِ فِی رَمَضَانَ ، فَتَرَکَہُ حَتَّی صَحَا ، ثُمَّ ضَرَبَہُ ثَمَانِینَ ، ثُمَّ أَمَرَ بِہِ إِلَی السِّجْنِ ، ثُمَّ أَخْرَجَہُ مِنَ الْغَدِ فَضَرَبَہُ عِشْرِینَ ، فَقَالَ : ثَمَانِینَ لِلْخَمْرِ ، وَعِشْرینَ لِجُرْأَتِکَ عَلَی اللہِ فِی رَمَضَانَ۔
(٢٩٢١٨) حضرت ابو مروان فرماتے ہیں کہ حضرت علی کے پاس رمضان میں نجاشی شاعر لایا گیا جو نشہ میں دھت تھا تو آپ نے اسے چھوڑ دیا یہاں تک کہ وہ ٹھیک ہوگیا پھر آپ نے اسے اسی کوڑے مارے پھر آپ نے اس کو قید کرنے کا حکم دیا پھر آپ نے اگلے دن اسے نکالا اور اسے بیس کوڑے مارے اور فرمایا : اسی کوڑے شراب کی وجہ سے اور بیس کوڑے رمضان میں اللہ پر جرأت کرنے کی وجہ سے۔

29218

(۲۹۲۱۹) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوصِ ، عَنْ أَبِی الْحَارِثِ التَّیْمِیِّ ، عَن أَبِی مَاجِدٍ الْحَنَفِیِّ ، قَالَ : کُنْتُ عِنْدَ عَبْدِ اللہِ بْنِ مَسْعُودٍ قَاعِدًا ، فَجَائَہُ رَجُلٌ مِنَ الْمُسْلِمیَن بِابْنِ أَخٍ لَہُ ، فَقَالَ لَہُ : یَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَانَ ، ابْنُ أَخِی وَجَدْتُہُ سَکْرَانًا ، فَقَالَ عَبْدُ اللہِ : تَرْتِرُوہ ، وَمَزْمِزُوہ ، وَاستُنْکِہُوہ ، فَتُرْتِر ،وَمُزْمِز ، وَاستُنْکِہ ، فَوُجِدَ سَکْرَانًا ، فَدُفِعَ إِلَی السِّجْنِ ، فَلَمَا کَانَ الْغَدُ ، جِئْتُ وَجِیئَ بِہِ۔ (بیہقی ۳۱۸)
(٢٩٢١٩) حضرت ابو ماجد حنفی فرماتے ہیں کہ میں حضرت عبداللہ بن مسعود کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ مسلمانوں میں سے ایک آدمی اپنے بھتیجے کو لایا اور آپ سے کہنے لگا : اے ابو عبدالرحمن ! میرے بھائی کا بیٹا ہے میں نے اسے نشہ کی حالت میں پایا ہے اس پر حضرت عبداللہ بن مسعود نے فرمایا : تم اس کو اچھی طرح ہلاؤ، اس کو دھکیلو اور اس کے منہ کی بوسو نگھو پس اسے سنگھایا گیا تو آپ نے اسے نشہ کی حالت میں پایا، اسے جیل بھیج دیا گیا پس جب اگلا دن آیا تو میں آیا اور اسے بھی لایا گیا۔

29219

(۲۹۲۲۰) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، قَالَ : إِذَا سَکَرَ الإِنْسَانُ تُرِکَ حَتَّی یُفِیقَ ، ثُمَّ جُلِدَ۔
(٢٩٢٢٠) حضرت مغیرہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم نے ارشاد فرمایا : جب انسان نشہ میں دھت ہوجائے تو اسے چھوڑ دیا جائے یہاں تک کہ اسے افاقہ ہوجائے پھر اسے کوڑے مارے جائیں۔

29220

(۲۹۲۲۱) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : إِذَا سَکَرَ الإِمَامُ جُلِدَ وَہُوَ لاَ یَعْقِلُ ، فَإِِنَّہُ إِنْ عَقِلَ امْتَنَعَ۔
(٢٩٢٢١) حضرت مغیرہ فرماتے ہیں کہ حضرت شعبی نے ارشاد فرمایا : جب امام نشہ میں ہو تو اسے کوڑے مار دیے جائیں درآنحالیکہ وہ ہوش میں نہ ہو اس لیے کہ اگر وہ ہوش میں آئے گا تو وہ روک دے گا۔

29221

(۲۹۲۲۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، عَنِ ابْنِ أَبِی ذِئْبٍ، عَنِ الزُّہْرِیِّ، عَنِ السَّائِبِ بْنِ یَزِیدَ؛ أَنَّ عُمَرَ کَانَ یَضْرِبُ فِی الرِّیحِ۔
(٢٩٢٢٢) حضرت سائب بن یزید فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بو میں بھی سزا دیا کرتے تھے۔

29222

(۲۹۲۲۳) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، عَنْ عَلْقَمَۃَ ، قَالَ : قرَأَ عَبْدُ اللہِ سُورَۃَ یُوسُفَ بِحِمْصَ ، فَقَالَ رَجُلٌ : مَا ہَکَذَا أُنْزِلَتْ ، فَدَنَا مِنْہُ عَبْدُ اللہِ ، فَوَجَدَ مِنْہُ رِیحَ الْخَمْرِ ، فَقَالَ لَہُ : تُکَذِّبُ بِالْحَقِّ ، وَتَشْرَبُ الرِّجْسَ ، وَاللَّہِ ، لَہکَذَا أَقْرَأَنِیہَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، لاَ أَدَعُک حَتَّی أَحُدَّک ، فَجَلَدَہُ الْحَدَّ۔ (بخاری ۵۰۰۱۔ مسلم ۵۵۲)
(٢٩٢٢٣) حضرت علقمہ فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود نے حمص میں سورة یوسف کی تلاوت فرمائی اس پر ایک آدمی کہنے لگا یہ آیت ایسے نازل نہیں ہوئی ، پس حضرت عبداللہ بن مسعود اس کے قریب ہوئے تو آپ نے اس سے شراب کی بو پائی، آپ نے اس سے فرمایا : تو حق بات کی تکذیب کرتا ہے اور ناپاک چیز پیتا ہے ! اللہ کی قسم ! رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے یہ آیت اسی طرح پڑھائی ہے میں تجھے نہیں چھوڑوں گا یہاں تک کہ میں تجھ پر حد لگاؤں گا پھر آپ نے اس پر حد لگائی۔

29223

(۲۹۲۲۴) حَدَّثَنَا کَثِیرُ بْنُ ہِشَامٍ ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ بُرْقَانَ ، عَنْ یَزِیدَ بْنِ الأَصَمِّ ؛ أَنَّ ذَا قَرَابَۃٍ لَمَیْمُونَۃَ دَخَلَ عَلَیْہَا ، فَوَجَدَتْ مِنْہُ رِیحَ شَرَابٍ ، فَقَالَتْ : لَئِنْ لَمْ تَخْرُجْ إِلَی الْمُسْلِمِینَ فَیَحُدُّونَک ، أَوْ یُطَہِّرُونَک ، لاَ تَدْخُلْ عَلَیَّ بَیْتِی أَبَدًا۔
(٢٩٢٢٤) حضرت یزید بن اصم فرماتے ہیں کہ حضرت میمونہ کا ایک قریبی رشتہ دار آپ کے پاس آیا آپ نے اس سے شراب کی بو محسوس کی، آپ نے فرمایا : اگر تم مسلمانوں کے پاس جاؤ گے تو وہ تم پر حد لگائیں گے یا وہ تمہیں پاک کردیں گے تم میرے گھر کبھی داخل مت ہونا۔

29224

(۲۹۲۲۵) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنِ ابْنِ أَبِی مُلَیْکَۃَ ، قَالَ : کَتَبْتُ إِلَی ابْنِ الزُّبَیْرِ ، أَسْأَلُہُ عَنِ الرَّجُلِ یُوجَدُ مِنْہُ رِیحُ الشَّرَابِ ؟ فَقَالَ : إِنْ کَانَ مُدْمِنًا فَحُدَّہُ۔
(٢٩٢٢٥) حضرت ابن ابی ملیکہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن زبیر کو خط لکھ کر ان سے اس آدمی کے متعلق سوال کیا جس سے شراب کی بو محسوس ہو ؟ آپ نے فرمایا : اگر وہ عادی ہو تو اس پر حد لگائے۔

29225

(۲۹۲۲۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ شَرِیکٍ ، عَنِ ابْنِ أَبِی مُلَیْکَۃَ ، قَالَ : أُتِیتُ بِرَجُلٍ وُجِدَتْ مِنْہُ رِیحُ الْخَمْرِ، وَأَنَا قَاضٍ عَلَی الطَّائِفِ ، فَأَرَدْتُ أَنْ أَضْرِبَہُ ، فَقَالَ : إِنَّمَا أَکَلْتُ فَاکِہَۃً ، فَکَتَبْتُ إِلَی ابْنِ الزُّبَیْرِ ، فَکَتَبَ إِلَیَّ : إِنْ کَانَ مِنَ الْفَاکِہَۃِ مَا یُشْبِہُ رِیحَ الْخَمْرِ ، فَادْرَأْ عَنْہُ۔
(٢٩٢٢٦) حضرت محمد بن شریک فرماتے ہیں حضرت ابن ابی ملیکہ نے ارشاد فرمایا : میرے پاس ایک آدمی لایا گیا جس سے شراب کی بو آرہی تھی اور میں اس وقت طائف کا قاضی تھا میں نے اسے مارنے کا ارادہ کیا تو وہ کہنے لگا : بیشک میں نے تو پھل کھایا ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن زبیر کو خط لکھا تو آپ نے مجھے جواب لکھا : اگر پھلوں میں سے کسی پھل کی بو شراب کی بو کے مشابہ ہو تو تم اس سے سزا کو ختم کردو۔

29226

(۲۹۲۲۷) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَطَائٍ ، وَعَمْرِو بْنِ دِینَارٍ ، قَالاَ : لاَ حَدَّ فِی رِیحٍ۔
(٢٩٢٢٧) حضرت ابن جریج فرماتے ہیں کہ حضرت عطائ اور حضرت عمرو بن دینار نے ارشاد فرمایا : بو میں حد نہیں ہوگی۔

29227

(۲۹۲۲۸) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَطَائٍ ؛ أَنَّہُ کَانَ لاَ یَرَی فِی الرِّیحِ حَدًّا۔
(٢٩٢٢٨) حضرت ابن جریج فرماتے ہیں کہ حضرت عطائ بو کی صورت میں حد لگانے کی رائے نہیں رکھتے تھے۔

29228

(۲۹۲۲۹) حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ إِسْمَاعِیلَ بْنِ سُمَیْعٍ ، عَنْ مَالِکِ بْنِ عُمَیْرٍ الْحَنَفِیِّ ، قَالَ : أُتِیَ عُمَرُ بِابْنِ مَظْعُونٍ قَدْ شَرِبَ خَمْرًا ، فَقَالَ : مَنْ شُہُودُک ؟ قَالَ : فُلاَنٌ وَفُلاَنٌ ، وَعَتَّابُ بْنُ سَلَمَۃَ ، وَکَانَ یُسَمَّی عَتَّابُ الشَّیْخَ الصَّدُوقَ ، فَقَالَ : رَأَیْتُہُ یَقِیؤُہَا ، وَلَمْ أَرَہُ یَشْرَبُہَا ، فَجَلَدَہُ عُمَرُ الْحَدَّ۔
(٢٩٢٢٩) حضرت مالک بن عمیر بن حنفی فرماتے ہیں کہ حضرت عمر کے پاس مظعون کے ایک بیٹے کو لایا گیا تحقیق اس نے شراب پی تھی۔ آپ نے پوچھا : تمہارے گواہ کون ہیں ؟ اس نے کہا : فلاں اور فلاں اور عتاب بن سلمہ اور عتاب کو شیخ صدوق کے لقب سے پکارا جاتا تھا۔ انھوں نے کہا : میں نے اس کو قے کرتے ہوئے دیکھا ہے میں نے اسے شراب پیتے ہوئے نہیں دیکھا، سو حضرت عمر نے اس پر حد لگائی۔

29229

(۲۹۲۳۰) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ إِسْمَاعِیلَ بْنِ سُمَیْعٍ ، عَنْ مَالِکِ بْنِ عُمَیْرٍ ، عَنْ عَتَّابِ بْنِ سَلَمَۃَ ؛ أَنَّ عُمَرَ ضَرَبَہُ الْحَدَّ ، وَنَصَبَہُ لِلنَّاسِ ، إِلاَّ أَنَّہُ قَالَ : أُتِیَ بِحَفْصِ بْنِ عُمَرَ۔
(٢٩٢٣٠) حضرت عتاب بن سلمہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر نے اس پر حد لگائی اور اس کو لوگوں کے سامنے کھڑا کردیا مگر یہ کہ انھوں نے یوں فرمایا کہ حضرت حفص بن عمر کو لایا گیا۔

29230

(۲۹۲۳۱) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ الثَّقَفِیُّ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنْ أَبِی قِلاَبَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ؛ أَنَّہُ سُئِلَ عَنِ الْحَلْقِ ؟ فَقَالَ : جَعَلَہُ اللَّہُ تَعَالَی نُسُکًا وَسُنَّۃً ، وَجَعَلَہُ النَّاسُ عُقُوبَۃً۔
(٢٩٢٣١) حضرت ابو قلابہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عباس سے سر منڈوانے کے متعلق سوال کیا گیا ؟ آپ نے فرمایا : اللہ رب العزت نے اسے قربانی اور سنت بنایا ہے اور لوگوں نے اسے سزا بنادیا۔

29231

(۲۹۲۳۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ الأَوْزَاعِیِّ ، عَنْ رَوْحِ بْنِ یَزِید ، عَنْ بِشْرٍ ، عَنْ أبِیہِ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِیزِ ، قَالَ: إِیَّایَ وَحَلْقَ الرَّأْسِ وَاللِّحْیَۃِ۔
(٢٩٢٣٢) حضرت بشر کے والد فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز نے ارشاد فرمایا : مجھے سر اور ڈاڑھی منڈوانے سے دور رکھو۔

29232

(۲۹۲۳۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ مُسْلِمٍ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ بْنِ مَیْسَرَۃَ ، قَالَ : حدَّثَنِی الرِّضَا ، یَعْنِی طَاوُوسًا ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَنْ مَثَّلَ بِالشَّعْرِ فَلَیْسَ مِنَّا۔ (طبرانی ۱۰۹۷۷)
(٢٩٢٣٣) حضرت طاؤس فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جس نے بالوں کا مکمل مثلہ کردیا تو وہ ہم میں سے نہیں۔

29233

(۲۹۲۳۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ مُسْلِمٍ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ بْنِ مَیْسَرَۃَ ، عَن طَاوُوسٍ ، قَالَ : جَعَلَہُ اللَّہُ طَہُورًا ، وَجَعَلْتُمُوہُ عُقُوبَۃً۔
(٢٩٢٣٤) حضرت ابراہیم بن میسرہ فرماتے ہیں کہ حضرت طاؤس نے ارشاد فرمایا : اللہ رب العزت نے اسے پاکی بنایا تھا اور تم نے اسے سزا بنادیا۔

29234

(۲۹۲۳۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إِسْرَائِیلَ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ عَامِرٍ ، قَالَ : حلْقُ الرَّأْسِ فِی الْعُقُوبَۃِ بِدْعَۃٌ۔
(٢٩٢٣٥) حضرت جابر فرماتے ہیں کہ حضرت عامر نے ارشاد فرمایا : سزا میں سر کو منڈ وانا بدعت ہے۔

29235

(۲۹۲۳۶) حَدَّثَنَا عَائِذُ بْنُ حَبِیبٍ ، عَنِ ابْنِ أَبِی عَرُوبَۃَ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ خِلاَسٍ ، قَالَ : جِیئَ بِرَجُلٍ مَعَہُ أَرْبَعَۃٌ ، فَشَہِدَ ثَلاَثَۃٌ مِنْہُمْ بِالزِّنَی ، وَلَمْ یَمْضِ الرَّابِعُ ، فَجَلَدَ عَلِیٌّ الثَّلاَثَۃَ ، وَجَزَّ رَأْسَ الْمَشْہُودِ عَلَیْہِ۔
(٢٩٢٣٦) حضرت خلاس فرماتے ہیں کہ ایک آدمی کو لایا گیا جس کے ساتھ چار آدمی تھے پس ا ن میں سے تین نے زنا کی گواہی دی اور چوتھا شخص گواہی میں آگے نہیں بڑھا تو حضرت علی نے تین کو کوڑے مارے اور جس کے خلاف گواہی دی گئی تھی آپ نے اس کے بال کاٹ دیے۔

29236

(۲۹۲۳۷) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ مَکْحُولٍ ، وَالْوَلِیدِ بْنِ أَبِی مَالِکٍ ؛ أَنَّ عُمَرَ کَتَبَ فِی شَاہِدِ الزُّورِ : یُضْرَبُ أَرْبَعِینَ سَوْطًا ، وَیُسَخَّمُ وَجْہُہُ ، وَیُحْلَقُ رَأْسُہُ ، وَیُطَالُ حَبْسُہُ۔
(٢٩٢٣٧) حضرت مکحول اور حضرت ولید بن ابو مالک فرماتے ہیں کہ حضرت عمر نے جھوٹے گواہ کے بارے میں خط لکھا : اس کو چالیس کوڑے مارے جائیں اور اس کا چہرہ کالا کردیا جائے اور اس کا سر منڈوا دیا جائے اور اس کو لمبی قید میں ڈال دیا جائے۔

29237

(۲۹۲۳۸) حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُثْمَانَ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ مُصْعَبٍ ، قَالَ : أُتِیَ عَبْدُ اللہِ بْنُ الزُّبَیْرِ بِرَجُلٍ مِنْ بَنِی تَمِیمٍ ، فَأَمَرَ بِحَلْقِہِ۔
(٢٩٢٣٨) حضرت عمر بن مصعب فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن زبیر کے قبیلہ بنو تمیم کا ایک آدمی لایا گیا تو آپ نے اس کا سر منڈوانے کا حکم دیا۔

29238

(۲۹۲۳۹) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنْ فُضَیْلٍ ، عَنِ ابْنِ مُغَفَّلٍ ؛ أَنَّ رَجُلاً جَائَ إِلَی عَلِیٍّ فَسَارَّہُ ، فَقَالَ : یَا قَنْبَرُ ، أَخْرِجْہُ مِنَ الْمَسْجِدِ ، فَأَقِمْ عَلَیْہِ الْحَدَّ۔
(٢٩٢٣٩) حضرت ابن مغفل فرماتے ہیں کہ ایک آدمی حضرت علی کے پاس آیا اس نے آپ سے سرگوشی کی آپ نے فرمایا : اے قنبر ! اس کو مسجد سے باہرلے جاؤ اور اس پر حد قائم کرو۔

29239

(۲۹۲۴۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ قَیْسِ بْنِ مُسْلِمٍ ، عَنْ طَارِقِ بْنِ شِہَابٍ ؛ أَنَّ عُمَرَ أُتِیَ بِرَجُلٍ فِی شَیْئٍ ، فَقَالَ : أَخْرِجَاہُ مِنَ الْمَسْجِدِ ، فَأَخْرَجَاہُ۔
(٢٩٢٤٠) حضرت طارق بن شھاب فرماتے ہیں کہ حضرت عمر کے پاس کسی سزا کے معاملہ میں ایک آدمی لایا گیا، تو آپ نے فرمایا : اس کو مسجد سے باہر لے جاؤ پس وہ دونوں اس شخص کو باہر لے گئے۔

29240

(۲۹۲۴۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللہِ الشَّعَیْثِیِّ ، عَنِ الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ حَکِیمِ بْنِ حِزَامٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لاَ تُقَامُ الْحُدُودُ فِی الْمَسَاجِدِ ، وَلاَ یُسْتَقَادُ فِیہَا۔ (ابن ماجہ ۷۴۸)
(٢٩٢٤١) حضرت حکیم بن حزام فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : مسجدوں میں حدود قائم نہیں کی جائیں گی اور نہ ہی ان میں قصاص لیا جائے گا۔

29241

(۲۹۲۴۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، عَنْ مُبَارَکٍ، عَنْ ظَبْیَانَ بْنِ صَبَیْحٍ، قَالَ: قَالَ ابْنُ مَسْعُودٍ: لاَ تُقَامُ الْحُدُودُ فِی الْمَسَاجِدِ۔
(٢٩٢٤٢) حضرت ظبیان بن صبیح فرماتے ہیں کہ حضرت ابن مسعود نے ارشاد فرمایا : مسجدوں میں حدود قائم نہیں کی جائیں گی۔

29242

(۲۹۲۴۳) حَدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ لَیْثٍ ، عنْ مُجَاہِدٍ (ح) وَعَنْ جَابِرٍ ، عَنْ عَامِرٍ ، قَالاَ : کَانُوا یَکْرَہُونَ أَنْ یُقِیمُوا الْحُدُودَ فِی الْمَسَاجِدِ۔
(٢٩٢٤٣) حضرت مجاہد اور حضرت عامر ان دونوں حضرات نے ارشاد فرمایا : صحابہ مسجدوں میں حدود قائم کرنے کو مکروہ سمجھتے تھے۔

29243

(۲۹۲۴۴) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَطَائٍ ؛ أَنَّہُ کَرِہَ ، أَوْ کَانَ یَکْرَہُ الْجَلْدَ فِی الْمَسْجِدِ۔
(٢٩٢٤٤) حضرت ابن جریج فرماتے ہیں کہ حضرت عطائ نے مسجد میں کوڑے مارنے کو مکروہ سمجھایا مکروہ سمجھتے تھے۔

29244

(۲۹۲۴۵) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ إِسْمَاعِیلَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِینَارٍ ، عَنْ طَاوُوسٍ ، رَفَعَہُ ، قَالَ : لاَ تُقَامُ الْحُدُودُ فِی الْمَسَاجِدِ۔ (ترمذی ۱۴۰۱۔ ابن ماجہ ۲۵۹۹)
(٢٩٢٤٥) حضرت عمرو بن دینار فرماتے ہیں کہ حضرت طاؤس نے مرفوعاً بیان کیا ہے : مسجدوں میں حدود قائم نہیں کی جائیں گی۔

29245

(۲۹۲۴۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إِسْرَائِیل ، عَنْ عِیسَی بْنِ أَبِی عَزَّۃَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : شَہِدْتُہُ ،وَضَرَبَ رَجُلاً افْتَرَی عَلَی رَجُلٍ فِی قَمِیصٍ ، وَلَمْ یَضْرِبْہُ فِی الْمَسْجِدِ۔
(٢٩٢٤٦) حضرت عیسیٰ بن ابو عزہ فرماتے ہیں کہ میں حضرت شعبی کے پاس حاضر تھا، آپ نے ایک آدمی کو مارا جس نے کسی آدمی پر قمیص کے بارے میں جھوٹی تہمت لگائی تھی اور آپ نے اسے مسجد میں نہیں مارا۔

29246

(۲۹۲۴۷) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ خَالِدٍ الضَّبِّیِّ ، عَنْ مَکْحُولٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : جَنِّبُوا مَسَاجِدَکُمْ إِقَامَۃَ حُدُودِکُمْ۔ (ابن ماجہ ۷۵۰۔ طبرانی ۱۳۶)
(٢٩٢٤٧) حضرت مکحول فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اپنی مسجدوں کو اپنی حدود کے قائم کرنے سے دور رکھو۔

29247

(۲۹۲۴۸) حَدَّثَنَا ابْنُ یَمَانٍ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ أَبِی الضُّحَی ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، قَالَ : لِلْمَسْجِدِ حُرْمَۃٌ۔
(٢٩٢٤٨) حضرت ابو الضحی فرماتے ہیں کہ حضرت مسروق نے ارشاد فرمایا : مسجد کا ایک حرمت و احترام ہے۔

29248

(۲۹۲۴۹) حَدَّثَنَا ابْنُ یَمَانٍ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ أَبِی الضُّحَی ؛ أَنَّہُ کَرِہَ الضَّرْبَ فِی الْمَسْجِدِ۔
(٢٩٢٤٩) حضرت جابر فرماتے ہیں کہ حضرت ابو الضحی نے مسجدوں میں مارنے کو مکروہ سمجھا۔

29249

(۲۹۲۵۰) حَدَّثَنَا سَہْلُ بْنُ یُوسُفَ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : تُقَامُ الْحُدُودُ فِی الْمَسَاجِدِ کُلُّہَا ، إِلاَّ الْقَتْلَ۔
(٢٩٢٥٠) حضرت عمرو فرماتے ہیں کہ حضرت حسن بصری نے ارشاد فرمایا : مسجدوں میں ساری کی ساری حدود قائم کی جاسکتی ہیں سوائے قتل کے۔

29250

(۲۹۲۵۱) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ إِسْمَاعِیلَ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ ، عَنْ شُرَیْحٍ ؛ أَنَّہُ کَانَ یُقِیمُ الْحُدُودَ فِی الْمَسَاجِدِ۔
(٢٩٢٥١) حضرت ابن سیرین فرماتے ہیں کہ حضرت قاضی شریح مسجدوں میں حدود قائم کرتے تھے۔

29251

(۲۹۲۵۲) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ ، عَنْ عَطَائٍ ؛ فِی رَجُلٍ قَالَ لِرَجُلٍ : مَا تَأْتِی امْرَأَتُک إِلاَّ حَرَامًا ، قَالَ : کَذَبَ ، لَیْسَ عَلَیْہِ حَدٌّ۔
(٢٩٢٥٢) حضرت عبدالملک فرماتے ہیں کہ حضرت عطائ سے ایک شخص کے بارے میں مروی ہے جس نے کسی آدمی کو یوں کہا : تو اپنی بیوی سے وطی نہیں کرتا مگر حرام طریقہ سے، آپ نے فرمایا : اس نے جھوٹ بولا ہے اس پر حد جاری نہیں ہوگی۔

29252

(۲۹۲۵۳) حَدَّثَنَا عِیسَی بْنُ یُونُسَ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ ، عَنْ جَابِرٍ ، قَالَ : لَیْسَ عَلَی الْمُخْتَلِسِ ، وَلاَ عَلَی الْمُسْتَلِبِ ، وَلاَ الْخَائِنِ قَطْعٌ۔
(٢٩٢٥٣) حضرات ابو الزبیر فرماتے ہیں کہ حضرت جابر نے ارشاد فرمایا : چیز جھپٹنے والے پر اور لوٹنے والے پر اور خیانت کرنے والے پر ہاتھ کاٹنے کی سزا جاری نہیں ہوگی۔

29253

(۲۹۲۵۴) حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ ، عَنْ جَابِرٍ ، رَفَعَہُ ، بِنَحْوِہِ۔ (ابوداؤد ۴۳۹۱۔ ترمذی ۱۴۴۸)
(٢٩٢٥٤) حضرت ابو الزبیر سے حضرت جابر کا مذکورہ ارشاد اس سند سے مرفوعاً منقول ہے۔

29254

(۲۹۲۵۵) حَدَّثَنَا ابْنُ مُبَارَکٍ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ الزُّہْرِیِّ؛ أَنَّ مَرْوَانَ سَأَلَ زَیْدَ بْنَ ثَابِتٍ عَنِ الْخُلْسَۃِ؟ فَلَمْ یَرَ فِیہَا قَطْعًا۔
(٢٩٢٥٥) حضرت زھری فرماتے ہیں کہ مروان نے حضرت زید بن ثابت سے چیز جھپٹنے کے متعلق سوال کیا ؟ آپ نے اس میں ہاتھ کاٹنے کی رائے نہیں رکھی۔

29255

(۲۹۲۵۶) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنِ الْحَکَمِ ، قَالَ : قَالَ عَلِیٌّ : لَیْسَ عَلَی الْمُخْتَلِسِ قَطْعٌ۔
(٢٩٢٥٦) حضرت حکم فرماتے ہیں کہ حضرت علی نے ارشاد فرمایا : چیز جھپٹنے والے پر کاٹنے کی سزا جاری نہیں ہوگی۔

29256

(۲۹۲۵۷) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ خِلاَسٍ ؛ أَنَّ عَلِیًّا لَمْ یَکُنْ یَقْطَعْ فِی الْخُلْسَۃِ۔
(٢٩٢٥٧) حضرت خلاس فرماتے ہیں کہ حضرت علی نے چیز جھپٹنے میں ہاتھ نہیں کاٹا۔

29257

(۲۹۲۵۸) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ؛ أَنَّ غُلاَمًا اخْتَلَسَ طَوْقًا ، فَرُفِعَ إِلَی عَدِیِّ بْنِ أَرْطَاۃَ ، فَسَأَلَ الْحَسَنَ عَن ذَلِکَ ؟ فَقَالَ : لاَ قَطْعَ عَلَیْہِ ، وَسَأَلَ عَن ذَلِکَ إِیَاسَ بْنَ مُعَاوِیَۃَ ؟ فَأَمَرَہُ بِقَطْعِہِ ، فَلَمَّا اخْتَلَفَا ، کَتَبَ فِی ذَلِکَ إِلَی عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِیزِ ، فَکَتَبَ إِلَیْہِ عُمَرُ : إِنَّ الْعَرَبَ کَانَتْ تَدْعُوہَا عَدْوَۃَ الظَّہِیرَۃِ ، لاَ قَطْعَ عَلَیْہِ ، وَلَکِنْ أَوْجِعْ ظَہْرَہُ ، وَأَطِلْ حَبْسَہُ۔
(٢٩٢٥٨) حضرت قتادہ فرماتے ہیں کہ ایک غلام نے طوق جھپٹ لیا یہ معاملہ حضرت عدی بن ارطاۃ کے سامنے پیش کیا گیا تو آپ نے اس بارے میں حضرت حسن بصری سے پوچھا ؟ انھوں نے فرمایا : اس پر ہاتھ کاٹنے کی سزا جاری نہیں ہوگی۔ اور آپ نے حضرت ایاس بن معاویہ سے پوچھا ؟ انھوں نے اختلاف کا ا تو آپ نے حضرت عمر بن عبدالعزیز کو خط لکھا حضرت عمر نے آپ کو جواب لکھا : بیشک اہل عرب اس کو دن کی چوری پکارتے تھے اس پر ہاتھ کاٹنے کی سزا جاری نہیں ہوگی لیکن تم اس کی کمر کو تکلیف پہنچاؤ اور اس کو لمبی قید میں رکھو۔

29258

(۲۹۲۵۹) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ ہِشَامٍ ؛ أَنَّ عَدِیًّا رُفِعَ إِلَیْہِ رَجُلٌ اخْتَلَسَ خُلْسَۃً ، فَقَالَ إِیَاسٌ : عَلَیْہِ الْقَطْعُ ، وَقَالَ الْحَسَنُ : لاَ قَطْعَ عَلَیْہِ ، فَکَتَبَ عَدِیٌّ إِلَی عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِیزِ ، فَقَالَ : لَیْسَ عَلَیْہِ قَطْعٌ ، قَالَ : وَکَانَتِ الْعَرَبُ تُسَمِّیہَا عَدْوَۃَ الظَّہِیرَۃِ۔
(٢٩٢٥٩) حضرت ہشام فرماتے ہیں کہ حضرت عدی کے پاس ایک معاملہ پیش کیا گیا کہ ایک آدمی نے کوئی چیز جھپٹ لی تھی۔ حضرت ایاس نے فرمایا : اس پر ہاتھ کاٹنے کی سزا جاری ہوگی اور حضرت حسن بصری نے ارشاد فرمایا : اس پر ہاتھ کاٹنے کی سزاجاری نہیں ہوگی تو حضرت عدی نے اس بارے میں حضرت عمربن عبدالعزیز کو خط لکھا تو آپ نے فرمایا : اس پر ہاتھ کاٹنے سزا جاری نہیں ہوگی اس لیے کہ اہل عرب اسے دن کی چوری پکارتے تھے۔

29259

(۲۹۲۶۰) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، عَنْ مُحَمَّدٍ ، قَالَ : لَیْسَ فِی الْخُلْسَۃِ قَطْعٌ۔
(٢٩٢٦٠) حضرت حسن بصری فرماتے ہیں کہ حضرت محمد نے ارشاد فرمایا : جھپٹنے میں ہاتھ کاٹنے کی سزا نہیں ہوگی۔

29260

(۲۹۲۶۱) حَدَّثَنَا الضَّحَّاکُ بْنُ مَخْلَدٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ ، عَنْ جَابِرٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لَیْسَ عَلَی الْخَائِنِ قَطْعٌ۔
(٢٩٢٦١) حضرت جابر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : خیانت کرنے والے پر کاٹنے کی سزا جاری نہیں ہوگی۔

29261

(۲۹۲۶۲) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ ، عَنْ جَابِرٍ ، قَالَ : لَیْسَ عَلَی الْخَائِنِ قَطْعٌ۔
(٢٩٢٦٢) حضرت ابو الزبیر فرماتے ہیں کہ حضرت جابر نے ارشاد فرمایا : خیانیت کرنے والے پر کاٹنے کی سزا جاری نہیں ہوگی۔

29262

(۲۹۲۶۳) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : جَائَ رَجُلٌ إِلَی شُرَیْحٍ ، فَقَالَ : إِنَّ ہَذَا سَرَقَ مِنِّی ، فَقَالَ : وَمَنْ ہَذَا ؟ قَالَ : أَجِیرِی ، قَالَ : لَیْسَ بِسَارِقٍ مَنِ ائْتَمَنْتہ عَلَی بَیْتِک۔
(٢٩٢٦٣) حضرت شعبی فرماتے ہیں کہ ایک آدمی حضرت شریح کے پاس آیا اور کہنے لگا : بیشک اس شخص نے میرے ہاں چوری کی ہے آپ نے پوچھا : یہ کون شخص ہے ؟ اس نے کہا : میرا ملازم ہے آپ نے فرمایا : وہ شخص چور نہیں ہوسکتا جس کو تو نے اپنے گھر پر امین بنایا ہے۔

29263

(۲۹۲۶۴) حَدَّثَنَا الضَّحَّاکُ بْنُ مَخْلَدٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَطَائٍ ، قَالَ : لَیْسَ فِی الْخِیَانَۃِ قَطْعٌ۔
(٢٩٢٦٤) حضرت ابن جریج فرماتے ہیں کہ حضرت عطائ نے ارشاد فرمایا : خیانت میں کاٹنے کی سزا جاری نہیں ہوگی۔

29264

(۲۹۲۶۵) حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّیَالِسِیُّ ، عَنْ أَبِی حُرَّۃَ ، عَنِ الْحَسَنِ ؛ فِی غُلاَمٍ کَانَ مَعَ قَوْمٍ فِی السُّوقِ ، فَسَرَقَ بَعْضَ مَتَاعِہِمْ ، فَقَالَ : ہُوَ خَائِنٌ ، وَلاَ قَطْعَ عَلَیْہِ۔
(٢٩٢٦٥) حضرت ابو حرہ فرماتے ہیں کہ حضرت حسن بصری سے ایک غلام کے بارے میں مروی ہے جو چند لوگوں کے ساتھ بازار میں تھا کہ اس نے ان کا کچھ سامان چوری کرلیا آپ نے فرمایا : وہ خیانت کرنے والا ہے اور اس پر کاٹنے کی سزا جاری نہیں ہوگی۔

29265

(۲۹۲۶۶) حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ أَبِی عُثْمَانَ ، قَالَ : أُتِیَ عُمَرُ بِرَجُلٍ فِی حَدٍّ ، فَأُتِیَ بِسَوْطٍ ، فَقَالَ : أُرِیدُ أَلْیَنَ مِنْ ہَذَا ، فَأُتِیَ بِسَوْطٍ فِیہِ لِینٌ ، فَقَالَ : أُرِیدُ أَشَدَّ مِنْ ہَذَا ، فَأُتِیَ بِسَوْطٍ بَیْنَ السَّوْطَیْنِ ، فَقَالَ : اضْرِبْ ، وَلاَ یُرَی إِبْطُک ، وَأَعْطِ کُلَّ عُضْوٍ حَقَّہُ۔
(٢٩٢٦٦) حضرت ابو عثمان فرماتے ہیں کہ حضرت عمر کے پاس کسی سزا کے معاملے میں ایک آدمی لایا گیا اور کو ڑا بھی لایا گیا۔ آپ نے فرمایا : میں اس سے نرم خو چاہتا ہوں تو ایک کوڑا لایا گیا جس میں نرم خوئی تھی آپ نے فرمایا : میں اس سے زیادہ سخت چاہتا ہوں تو ان دونوں کوڑوں کے درمیان ایک کوڑا لایا گیا۔ آپ نے فرمایا : تو مار اور تیری بغل دکھائی مت دے اور تو ہر عضو کو اس کا حق عطا کر۔

29266

(۲۹۲۶۷) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِ ، عَنْ أَبِی الْحَارِثِ التَّیْمِیِّ ، عَنْ أَبِی مَاجِدٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ؛ أَنَّہُ دَعَا جَلاَّدًا ، فَقَالَ : اجْلِدْ وَارْفَعْ یَدَک ، وَأَعْطِ کُلَّ عُضْوٍ حَقَّہُ ، قَالَ : فَضَرَبَہُ الْحَدَّ ضَرْبًا غَیْرَ مُبَرِّحٍ۔
(٢٩٢٦٧) حضرت ابو ماجد فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود نے جلاد کو بلایا اور فرمایا : کوڑے مار اور اپنا ہاتھ بلند کر اور ہر عضو کو اس کا حق عطا کر راوی فرماتے ہیں : پس اس نے حد میں ایسی ضرب لگائی جو اذیت رساں نہیں تھی۔

29267

(۲۹۲۶۸) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنِ ابْنِ أَبِی لَیْلَی ، عَنْ عَدِیِّ بْنِ ثَابِتٍ ، عَنِ الْمُہَاجِرِ بْنِ عَمِیرَۃَ ، عَنْ عَلِیٍّ ، قَالَ : أُتِیَ بِرَجُلٍ سَکْرَانَ ، أَوْ فِی حَدٍّ ، فَقَالَ : اضْرِبْ ، وَأَعْطِ کُلَّ عُضْوٍ حَقَّہُ ، وَاتَّقِ الْوَجْہَ وَالْمَذَاکِیرَ۔
(٢٩٢٦٨) حضرت مہاجر بن عمیرہ فرماتے ہیں کہ حضرت علی کے پاس نشہ میں دھت یا کسی اور حد میں ایک آدمی لایا گیا آپ نے فرمایا : مارو اور ہر عضو کو اس کا حق دو اور چہرے اور شرمگاہوں پر مارنے سے بچو۔

29268

(۲۹۲۶۹) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِیلُ بْنُ إِبْرَاہِیمَ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : شَہِدْتُ أَبَا بَرْزَۃَ أَقَامَ الْحَدَّ عَلَی أَمَۃٍ لَہُ فِی دِہْلِیزِہِ ، وَعَندَہُ نَفَرٌ مِنْ أَصْحَابِہِ ، فَقَالَ : اجْلِدْہَا جَلْدًا بَیْنَ الْجَلْدَیْنِ ، لَیْسَ بِالْتَّمَطی ، وَلاَ بِالتَّخْفِیفِ۔
(٢٩٢٦٩) حضرت اشعث کے والد فرماتے ہیں کہ میں حضرت ابو برزہ کے پاس حاضر تھا کہ آپ نے گھر کی دہلیز میں اپنی ایک باندی پر حد جاری کی درآنحالیکہ آپ کے پاس آپ کے اصحاب کا ایک گروہ تھا آپ نے فرمایا : دونوں کوڑوں کے درمیان درمیانی حالت میں اسے کوڑے مارو نہ ہی بالکل پیچھے سے ہاتھ لا کر اور نہ ہی بالکل ہلکا۔

29269

(۲۹۲۷۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ عِمْرَانَ ، عَنْ أَبِی مِجْلَزٍ ، قَالَ : الْجَلاَدُ لاَ یَخْرُجُ إِبْطُہُ۔
(٢٩٢٧٠) حضرت عمران فرماتے ہیں کہ حضرت ابو مجلز نے ارشاد فرمایا : جلاد کی بغل باہر نہ نکلے۔

29270

(۲۹۲۷۱) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ عَاصِمٍ ، قَالَ : شَہِدْتُ الشَّعْبِیَّ وَضَرَبَ نَصْرَانِیًّا قَذَفَ مُسْلِمًا ، فَقَالَ : اضْرِبْ، وَأَعْطِ کُلَّ عُضْوٍ حَقَّہُ ، وَلاَ یُرَیَنَّ إِبْطَک۔
(٢٩٢٧١) حضرت عاصم فرماتے ہیں کہ میں حضرت شعبی کے پاس حاضر تھا آپ نے ایک عیسائی کو کوڑے مارے جس نے ایک مسلمان پر تہمت لگائی تھی آپ نے فرمایا : مارو، اور ہر عضو کو اس کا حق دو اور تمہاری بغل ہرگز دکھائی مت دے۔

29271

(۲۹۲۷۲) حَدَّثَنَا الضَّحَّاکُ بْنُ مَخْلَدٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَطَائٍ ، قَالَ : حدَّ الْفِرْیَۃِ ، وَحَدَّ الْخَمْرِ أَنْ تَجْلِدَ ، وَلاَ تَرْفَعْ یَدَک۔
(٢٩٢٧٢) حضرت ابن جریج فرماتے ہیں کہ حضرت عطائ نے ارشاد فرمایا : جھوٹی تہمت کی حد اور شراب کی حد یہ ہے کہ تم کوڑے مارو اور اپنے ہاتھ کو بلند مت کرو۔

29272

(۲۹۲۷۳) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ، عَنْ مُغِیرَۃَ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ، قَالَ: یُضْرَبُ الزَّانِی ضَرْبًا شَدِیدًا، وَیُقَسَّمُ الضَّرْبُ بَیْنَ أَعْضَائِہِ۔
(٢٩٢٧٣) حضرت مغیرہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم نے ارشاد فرمایا : زانی کو سخت شدید ضرب لگائی جائے گی اور ضرب اس کے مختلف اعضاء پر لگائی جائے گی۔

29273

(۲۹۲۷۴) حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَطَائٍ ، قَالَ : حدُّ الزِّنَی أَشَدُّ مِنْ حَدِّ الْخَمْرِ ، وَحَدُّ الْخَمْرِ وَالْفِرْیَۃِ وَاحِدٌ۔
(٢٩٢٧٤) حضرت ابن جریج فرماتے ہیں کہ حضرت عطائ نے ارشاد فرمایا : زنا کی سزا شراب کی سزا سے زیادہ سخت ہے شراب اور جھوٹی تہمت کی سزا ایک جیسی ہے۔

29274

(۲۹۲۷۵) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ إِسْمَاعِیلَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : یُضْرَبُ الزَّانِی أَشَدَّ مِنْ ضَرْبِ الشَّارِبِ ، وَیُضْرَبُ الشَّارِبُ أَشَدَّ مِنْ ضَرْبِ الْقَاذِفِ۔
(٢٩٢٧٥) حضرت اسماعیل فرماتے ہیں کہ حضرت حسن بصری نے ارشاد فرمایا : زانی کو شرابی سے زیادہ سخت کوڑے مارے جائیں گے اور شرابی کو تہمت لگانے والے سے زیادہ سخت کوڑے مارے جائیں گے۔

29275

(۲۹۲۷۶) حَدَّثَنَا عِیسَی بْنُ یُونُسَ ، عَنْ حَنْظَلَۃَ السَّدُوسِیِّ ، قَالَ : سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِکٍ ، یَقُولُ : کَانَ یُؤْمَرُ بِالسَّوْطِ ، فَتُقْطَعُ ثَمَرَتُہُ ، ثُمَّ یُدَقُّ بَیْنَ حَجَرَیْنِ ، ثُمَّ یُضْرَبَ بِہِ ، فَقُلْتُ لأَنَسٍ : فِی زَمَانِ مَنْ کَانَ ہَذَا ؟ قَالَ : فِی زَمَانِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ۔
(٢٩٢٧٦) حضرت حنظلہ سدوسی فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت انس بن مالک کو یوں فرماتے ہوئے سنا : کوڑے کے بارے میں حکم دیا جاتا تھا کہ اس کا نچلا کنارہ کاٹ دیا جائے پھر اس کو دو پتھروں کے درمیان رکھ کر باریک کرلیا جائے پھر اس سے مارا جائے۔ میں نے حضرت انس سے پوچھا : یہ کس کے زمانے میں ہوتا تھا ؟ آپ نے فرمایا : حضرت عمر بن خطاب کے زمانے میں۔

29276

(۲۹۲۷۷) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِ ، عَنْ أَبِی الْحَارِثِ التَّیْمِیِّ ، عَنِ أبی مَاجِدٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ؛ أَنَّہُ دَعَا بِسَوْطٍ فَدَقَّ ثَمَرَتَہُ حَتَّی آضَتْ لَہُ مِخْفَقَہُ ، وَدَعَا بِجَلاَّدٍ ، فَقَالَ : اجْلِدْ۔
(٢٩٢٧٧) حضرت ابو ماجد فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود نے کوڑا منگوایا اور اس کے نچلے کنارے کو باریک کیا یہاں تک کہ وہ کوڑا باریک ہوگیا آپ نے جلاد کو بلایا اور فرمایا ! کوڑے مارو۔

29277

(۲۹۲۷۸) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَجْلاَنَ ، عَن زَیْدِ بْنِ أَسْلَمَ ؛ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أُتِیَ بِرَجُلٍ قَدْ أَصَابَ حَدًّا ، فَأُتِیَ بِسَوْطٍ جَدِیدٍ شَدِیدٍ ، فَقَالَ : دُونَ ہَذَا ، فَأُتِیَ بِسَوْطٍ مُنْکَسِرٍ مُنْتَشِرٍ ، فَقَالَ : فَوْقَ ہَذَا ، فَأُتِیَ بِسَوْطٍ قَدْ دِیث ، یَعْنِی قَدْ لُیِّنَ ، فَقَالَ : ہَذَا۔ (مالک ۱۲)
(٢٩٢٧٨) حضرت زید بن اسلم فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ایک آدمی لایا گیا جس نے سزا پائی تھی، تو ایک نیا سخت قسم کا کوڑا لایا گیا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اس سے کم لاؤ تو ٹوٹا ہوا اور درمیان سے چیرا ہوا ایک کوڑا لایا گیا جس کو نرم بنایا گیا تھا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ہاں یہ ٹھیک ہے۔

29278

(۲۹۲۷۹) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ الثَّقَفِیُّ ، عَنِ الْمُثَنَّی ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ ، قَالَ : إِذَا وُجِدَ الْغُلُولُ عَندَ الرَّجُلِ ، أُخِذَ وَجُلِدَ مِئَۃً ، وَحُلِقَ رَأْسُہُ وَلِحْیَتُہُ ، وَأُخِذَ مَا کَانَ فِی رَحْلِہِ مِنْ شَیْئٍ إِلاَّ الْحَیَوَانَ ، وَأُحْرِقَ رَحْلُہُ ، وَلَمْ یَأْخُذْ سَہْمًا فِی الْمُسْلِمِینَ أَبَدًا ، قَالَ : وَبَلَغَنِی ؛ أَنَّ أَبَا بَکْرٍ وَعُمَرَ کَانَا یَفْعَلاَنِہِ۔
(٢٩٢٧٩) حضرت مثنی فرماتے ہیں کہ حضرت عمرو بن شعیب نے ارشاد فرمایا : جب خیانت کا مال آدمی کے پاس پایا جائے تو اسے پکڑ لیا جائے اور سو کوڑے مارے جائیں اور اس کا سر اور اس کی ڈاڑھی منڈوا دی جائے اور اس کے کجاوے میں جو کچھ ہو وہ لے لیا جائے سوائے جانور کے اور اس کا کجاوہ جلاد یا جائے اور وہ کبھی بھی مسلمانوں میں حصہ نہیں لے گا آپ نے فرمایا : مجھے خبر پہنچی ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر یہ دونوں حضرات یہ عمل کرتے تھے۔

29279

(۲۹۲۸۰) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ ، عَنْ جَابِرٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لَیْسَ فِی الْغُلُولِ قَطْعٌ۔
(٢٩٢٨٠) حضرت جابر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : خیانت میں ہاتھ کاٹنے کی سزا نہیں ہوگی۔

29280

(۲۹۲۸۱) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ ، عَنْ جَابِرٍ قَالَ : لَیْسَ فِی الْغُلُولِ قَطْعٌ۔
(٢٩٢٨١) حضرت ابو الزبیر فرماتے ہیں کہ حضرت جابر نے ارشاد فرمایا : خیانت میں ہاتھ کاٹنے کی سزا نہیں ہوگی۔

29281

(۲۹۲۸۲) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَن یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ ؛ فِی الْغُلُولِ إِذَا وُجِدَ عَندَ رَجُلٍ : یُحْرَقُ رَحْلُہُ۔
(٢٩٢٨٢) حضرت یونس فرماتے ہیں کہ حضرت حسن بصری سے خیانت کے مال کے بارے میں مروی ہے جب وہ کسی آدمی کے پاس پا یا جائے آپ نے فرمایا : اس کا کجاوہ جلا دیا جائے۔

29282

(۲۹۲۸۳) حَدَّثَنَا دَاوُد بْنُ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : حدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِیزِ بْنُ مُحَمَّدٍ ، عَن صَالِحِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ زَائِدَۃَ ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللہِ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ ؛ أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : مَنْ وَجَدْتُمُوہُ قَدْ غَلَّ فَحَرِّقُوا مَتَاعَہُ۔ (ابوداؤد ۲۷۰۶۔ ترمذی ۱۴۶۱)
(٢٩٢٨٣) حضرت عمر بن خطاب فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : تم جس شخص کو پاؤ کہ اس نے مال غنیمت میں خیانت کی ہے تو تم اس کا سامان جلا دو ۔

29283

(۲۹۲۸۴) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ عَطَائِ بْنِ أَبِی مَرْوَانَ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : أُوتِیَ عَلِیٌّ بِرَجُلٍ شَرِبَ خَمْرًا فِی رَمَضَانَ ، فَجَلَدَہُ ثَمَانِینَ ، وَعَزَّرَہُ عِشْرِینَ۔
(٢٩٢٨٤) حضرت ابو مروان فرماتے ہیں کہ حضرت علی کے پاس ایک آدمی لایا گیا جس نے رمضان کے مہینہ میں شراب پی تھی تو آپ نے اس کو اسی کوڑے مارے اور بیس کوڑے حد سے زائد سزا کے طور پر مارے۔

29284

(۲۹۲۸۵) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ أَبِی سِنَانٍ الْبَکْرِیِّ ، قَالَ : أُتِیَ عُمَرُ بِرَجُلٍ شَرِبَ خَمْرًا فِی رَمَضَانَ ، فَضَرَبَہُ ثَمَانِینَ ، وَعَزَّرَہُ عِشْرِینَ۔
(٢٩٢٨٥) حضرت ابو سنان البکری فرماتے ہیں کہ حضرت عمر کے پاس ایک آدمی لایا گیا جس نے رمضان میں شراب پی تھی تو آپ نے اسے اسی کوڑے مارے اور بیس کوڑے آپ نے حد سے زائد سزا کے طور پر مارے۔

29285

(۲۹۲۸۶) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنِ الأَسْوَدِ بْنِ ہِلاَلٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ، مِثْلَہُ۔
(٢٩٢٨٦) حضرت اسود بن ھلال نے حضرت عبداللہ بن مسعود سے بھی مذکورہ ارشاد نقل کیا ہے۔

29286

(۲۹۲۸۷) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ؛ فِی الْیَہُودِیِّ وَالنَّصْرَانِیِّ : إِنْ کَانَ أُحْصِنَ فِی شِرْکِہِ ، ثُمَّ أَسْلَمَ ، ثُمَّ أَصَابَ فَاحِشَۃً قَبْلَ أَنْ یُحْصَنَ فِی الإِسْلاَمِ ، قَالَ : یُرْجَمُ۔
(٢٩٢٨٧) حضرت معمر فرماتے ہیں کہ حضرت زھری سے یہودی اور عیسائی کے بارے میں مروی ہے اگر وہ اپنے شرک کے زمانے میں شادی شدہ تھے پھر وہ اسلام لے آئے۔ پھر اس نے اسلام میں شادی کرنے سے پہلے کوئی فحش کام کرلیا : آپ نے فرمایا : اسے سنگسار کردیا جائے گا۔

29287

(۲۹۲۸۸) حَدَّثَنَا ابْنُ إِدْرِیسَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : إِحْصَانُ الْیَہُودِیِّ وَالنَّصْرَانِیِّ فِی شِرْکِہِمَا إِحْصَانٌ ، وَلَیْسَ الْمَجُوسِیُّ بِإِحْصَانٍ۔
(٢٩٢٨٨) حضرت ہشام فرماتے ہیں کہ حضرت حسن بصری نے ارشاد فرمایا : یہودی اور عیسائی کا شرک کے زمانے میں شادی کرنا تو احصان ہوگا اور مجوسی محصن نہیں ہوگا۔

29288

(۲۹۲۸۹) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ زَیْدٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ؛ فِی أَرْبَعَۃٍ شَہِدُوا عَلَی امْرَأَۃٍ بِالزِّنَی أَحَدُہُمْ زَوْجُہَا ، قَالَ : یُلاَعِنُ الزَّوْجُ ، وَیُضْرَبُ الثَّلاَثَۃُ۔
(٢٩٢٨٩) حضرت جابر بن زید فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عباس سے ان چار آدمیوں کے بارے میں مروی ہے جنہوں نے ایک عورت کے خلاف زنا کی گواہی دی درآنحالیکہ ان میں سے ایک اس کا خاوند تھا آپ نے فرمایا : خاوند لعان کرے گا ان تینوں کو کوڑے مارے جائیں گے۔

29289

(۲۹۲۹۰) حَدَّثَنَا ابْنُ مُسْہِرٍ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ، مِثْلَہُ۔
(٢٩٢٩٠) حضرت سعد بن مسیب سے بھی مذکورہ ارشاد اس سند سے منقول ہے۔

29290

(۲۹۲۹۱) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، وَعَبْدَۃُ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : إِذَا جَاؤُوا جَمِیعًا مَعًا ، فَالزَّوْجُ أَجْوَزُہُمْ شَہَادَۃً۔
(٢٩٢٩١) حضرت قتادہ فرماتے ہیں کہ حضرت حسن بصری نے ارشاد فرمایا : جب وہ سب اکٹھے آئیں تو خاوند ان سب میں گواہی کا زیادہ حقدار ہوگا۔

29291

(۲۹۲۹۲) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الشَّیْبَانِیِّ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : یُقَامُ عَلَیْہا الْحَدُّ۔
(٢٩٢٩٢) حضرت شیبانی فرماتے ہیں کہ حضرت شعبی نے فرمایا : اس عورت پر حد قائم کردی جائے گی۔

29292

(۲۹۲۹۳) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الشَّیْبَانِیِّ ، عَن حَمَّادٍ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، قَالَ : یُلاَعِنُ الزَّوْجُ ، وَیُضْرَبُ الثَّلاَثَۃُ۔
(٢٩٢٩٣) حضرت حماد فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم نے ارشاد فرمایا : خاوند لعان کرے گا اور ان تینوں کو کوڑے مارے جائیں گے۔

29293

(۲۹۲۹۴) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، وَابْنِ عَبَّاسٍ ؛ فِی الرَّجُلِ یَبِیعُ امْرَأَتَہُ ، قَالاَ : یُعَاقَبَانِ ، وَیُنَکَّلاَنِ۔
(٢٩٢٩٤) حضرت قتادہ فرماتے ہیں کہ حضرت حسن بصری اور حضرت ابن عباس سے اس آدمی کے بارے میں مروی ہے جو اپنی بیوی کو فروخت کردے فرمایا : اس کو سزادی جائے گی اور عبرتناک سزا دی جائے گی۔

29294

(۲۹۲۹۵) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ حُبَاب ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَۃَ ، عَنْ قَتَادَۃَ ؛ فِی رَجُلٍ بَاعَ امْرَأَۃً وَہُمَا حُرَّانِ ، فَأُخِذَا عِندَ الْجِسْرِ، فِی أَوْسَاطِہِمَا الدَّنَانِیرُ، فَکُتِبَ إِلَی عُمَرَ بْنِ عَبْدِالْعَزِیزِ فِیہِمَا، فَکَتَبَ: أَنْ یُعَزَّرَا، وَیُسْتَوْدَعَا السِّجْنَ۔
(٢٩٢٩٥) حضرت حماد بن سلمہ فرماتے ہیں کہ حضرت قتادہ ایک آدمی کے بارے میں مروی ہے جس نے ایک عورت کو فروخت کردیا اس حال میں کہ وہ دونوں آزاد تھے۔ ان دونوں کو پل کے پاس سے پکڑا گیا ان دونوں کے درمیان دنا نیر تھے سو ان دونوں کے بارے میں حضرت عمر بن عبدالعزیز کو خط لکھا گیا تو آپ نے جواب لکھا : ان دونوں کو سزا دی جائے اور دونوں کو جیل میں ڈال دیا جائے۔

29295

(۲۹۲۹۶) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ یَزِیدَ ، عَنْ أَبِی الْعَلاَئِ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَن عِکْرِمَۃَ ، عنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ؛ فِی رَجُلَیْنِ بَاعَ أَحَدُہُمَا الآخَرَ ، قَالَ : یُرَدُّ الْبَیْعُ ، وَیُعَاقَبَانِ ، وَلاَ قَطْعَ عَلَیْہِمَا۔
(٢٩٢٩٦) حضرت عکرمہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عباس سے دو آدمیوں کے بارے میں مروی ہے جن میں سے ایک نے دوسرے کو فروخت کردیا تھا آپ نے فرمایا : بیع رد کردی جائے گی اور ان دونوں کو سزا دی جائے گی لیکن ان دونوں پر ہاتھ کاٹنے کی سزا جاری نہیں ہوگی۔

29296

(۲۹۲۹۷) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ ، عَنِ ابْنِ أَبِی عَرُوبَۃَ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَن خِلاَسٍ ، عَنْ عَلِیٍّ ، قَالَ : تُقْطَعُ یَدَہُ۔
(٢٩٢٩٧) حضرت خلاس فرماتے ہیں کہ حضرت علی نے ارشاد فرمایا : اس کا ہاتھ کاٹ دیا جائے گا۔

29297

(۲۹۲۹۸) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ ابْنِ شِہَابٍ ؛ فِی رَجُلٍ بَاعَ رَجُلاً حُرًّا ، قَالَ : یُعَاقَبَانِ ، الَّذِی بَاعَہُ وَالَّذِی أَقَرَّ بِالْبَیْعِ ، عُقُوبَۃً مُوجِعَۃً۔
(٢٩٢٩٨) حضرت معمر فرماتے ہیں کہ حضرت ابن شھاب سے ایک آدمی کے بارے میں مروی ہے جس نے ایک آزاد آدمی کو فروخت کردیا۔ آپ نے فرمایا : ان دونوں کو سزا دی جائے گی : یعنی جس شخص نے اس کو فروخت کیا ہو اور جس نے فروخت کا اقرار کیا ہو، اور دردناک سزا ہوگی۔

29298

(۲۹۲۹۹) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنِی مَعْمَرٌ ، عَنِ ابْنِ شِہَابٍ ؛ فِی رَجُلٍ بَاعَ ابْنَتَہُ ، فَوَقَعَ الْمُبْتَاعُ عَلَیْہَا ، فَقَالَ أَبُوہَا : حَمَلَنِی عَلَی بَیْعِہَا الْحَاجَۃُ ، قَالَ : یُجْلَدَانِ ، الأَبُ وَابْنَتُہُ ، مِئَۃٌ ، مِئَۃٌ ، إِنْ کَانَتْ قَدْ بَلَغَتْ ، وَیُرَدُّ إِلَی الْمُبْتَاعِ الثَمَنُ ، وَعَلَی الْمُبْتَاعِ صَدَاقُہَا بِمَا أَصَابَ مِنْہَا ، ثُمَّ یَغْرَمُ الأَبُ الصَّدَاقَ ، إِلاَّ أَنْ یَکُونَ الْمُبْتَاعُ قَدْ عَلِمَ أَنَّہَا حُرَّۃٌ ، فَعَلَیْہِ الصَّدَاقُ ، وَلاَ یَغْرَمُ الأَبُ لَہُ ، وَیُجْلَدُ مِئَۃً ، وَإِنْ کَانَتْ جَارِیَۃً لاَ تَعْقِلُ ، فَعَلَی الأَبِ النَّکَالُ۔
(٢٩٢٩٩) حضرت معمر فرماتے ہیں کہ حضرت ابن شھاب سے ایک آدمی کے بارے میں مروی ہے جس نے اپنی بیٹی کو فروخت کردیا تھا پس خریدنے والے نے اس سے صحبت کرلی۔ اس لڑکی کا والد کہنے لگا : ضرورت نے مجھے اس کے فروخت کرنے پر ابھارا آپ نے فرمایا : ان دونوں کو سو سو کوڑے مارے جائیں گے، اس باپ کو اور اس کی بیٹی کو اگر وہ لڑکی بالغ ہو، اور قیمت خریدنے والے کو واپس کی جائے گی، اور خریدنے والے پر اس لڑکی کا مہر لازم ہوگا بسبب اس سے وطی کرنے کے پھر وہ باپ مہر کی ادائیگی کا ذمہ دار ہوگا مگر یہ کہ خریدنے والے کو یہ معلوم ہو کہ وہ آزاد تھی تو اس پر مہر لازم ہوگا اور وہ باپ اس مہر کی ادائیگی کا ذمہ دار نہیں ہوگا اور اسے سو کوڑے مارے جائیں گے، اور اگر وہ چھوٹی بچی عقلمند نہ ہو تو باپ پر عبرتناک سزا جاری ہوگی۔

29299

(۲۹۳۰۰) حَدَّثَنَا جَرِیرُ بْنُ عَبْدِ الْحَمِیدِ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَن حَمَّادٍ ؛ فِی امْرَأَۃٍ بَاعَتْ أُخْتَہَا عَنْ أَمْرِہَا ، فَاشْتَرَاہَا رَجُلٌ ، فَوَطِئَہَا ، قَالَ : یُرَدُّ عَلَی الرَّجُلِ مَالُہُ ، وَتُعَاقَبُ الْمَرْأَۃُ وَأُخْتُہَا ، وَیَرْضَخُ لَہَا شَیْئًا۔
(٢٩٣٠٠) حضرت مغیرہ فرماتے ہیں کہ حضرت حماد سے ایک عورت کے بارے میں مروی ہے جس نے اپنے کام کی وجہ سے اپنی بہن کو فروخت کردیا پس ایک آدمی نے اسے خریدا اور اس سے وطی کرلی۔ آپ نے فرمایا : آدمی کو اس کا مال لوٹایا جائے گا اور اس لڑکی کو وہ تھوڑا سا مہر ادا کرے گا۔

29300

(۲۹۳۰۱) حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ ، عَن یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : شَاہِدُ الزُّورِ یُضْرَبُ شَیْئًا ، وَیُعَرَّفُ النَّاسُ ، وَیُقَالُ : إِنَّ ہَذَا شَہِدَ بِزُورٍ۔
(٢٩٣٠١) حضرت یونس فرماتے ہیں کہ حضرت حسن بصری نے ارشاد فرمایا : جھوٹے گواہ کو کچھ مارا جائے گا، اور لوگوں میں تشہیر کروا دی جائے اور کہا جائے : بیشک اس نے جھوٹی گواہی دی ہے۔

29301

(۲۹۳۰۲) حَدَّثَنَا عَبَّادُ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : شَاہِدُ الزُّورِ یُضْرَبُ مَا دُونَ الأَرْبَعِینَ ؛ خَمْسَۃً وَثَلاَثِینَ ، سِتَّۃً وَثَلاَثِینَ ، وَسَبْعَۃً وَثَلاَثِینَ۔
(٢٩٣٠٢) حضرت اشعث فرماتے ہیں کہ حضرت شعبی نے ارشاد فرمایا : جھوٹے گواہ کو چالیس سے کم کوڑے مارے جائیں گے : پینتیس، چھتیس اور سینتیس۔

29302

(۲۹۳۰۳) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، قَالَ : شَاہِدُ الزُّورِ یُعَزَّرُ۔
(٢٩٣٠٣) حضرت معمر فرماتے ہیں کہ حضرت زھری نے ارشاد فرمایا : جھوٹے گواہ کو حد سے کم سزا دی جائے گی۔

29303

(۲۹۳۰۴) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ الْمُحَارِبِیُّ ، عَنِ الْجَعْدِ أَبِی عُثْمَانَ ، قَالَ : کَانَ شُرَیْحٌ إِذَا أُتِیَ بِشَاہِدِ الزُّورِ خَفَقَہُ خَفَقَاتٍ۔
(٢٩٣٠٤) حضرت جعد ابو عثمان فرماتے ہیں کہ قاضی شریح کے پاس جب جھوٹا گواہ لایا جاتا تو آپ اسے چند کوڑے مارتے تھے۔

29304

(۲۹۳۰۵) حَدَّثَنَا الْمُحَارِبِیُّ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ سَعِیدٍ ؛ أَنَّ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِیزِ جَلَدَ شَاہِدَ الزُّورِ سَبْعِینَ سَوْطًا۔
(٢٩٣٠٥) حضرت عبداللہ بن سعید فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز نے جھوٹے گواہ کو ستر کوڑے مارے۔

29305

(۲۹۳۰۶) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ مَکْحُولٍ ، وَالْوَلِیدِ بْنِ أَبِی مَالِکٍ ، قَالاَ : کَتَبَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ فِی شَاہِدِ الزُّورِ ؛ یُضْرَبُ أَرْبَعِینَ سَوْطًا ، وَیُسَخَّمُ وَجْہُہُ ، وَیُحْلَقُ رَأْسُہُ ، وَیُطَافُ بِہِ ، وَیُطَالُ حَبْسُہُ۔
(٢٩٣٠٦) حضرت مکحول اور حضرت ولید بن ابو مالک فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب نے جھوٹے گواہ کے بارے میں خط لکھا : اس کو چالیس کوڑے مارے جائیں گے، اس کا چہرہ کالا کردیا جائے، اس کا سر منڈوا دیا جائے، اسے چکر لگوایا جائے اور اس کو لمبی مدت کے لیے قید کردیا جائے۔

29306

(۲۹۳۰۷) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، وَعَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، قَالَ : مَضَتِ السُّنَّۃُ مِنْ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَالْخَلِیفَتَیْنِ مِنْ بَعْدِہِ ، أَنْ لاَ تَجُوزَ شَہَادَۃُ النِّسَائِ فِی الْحُدُودِ۔
(٢٩٣٠٧) حضرت حجاج فرماتے ہیں کہ حضرت زھری نے ارشاد فرمایا : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد دو خلیفوں کے سنت گزر چکی ہے : حدود میں عورتوں کی گواہی جائز نہیں۔

29307

(۲۹۳۰۸) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ بَیَانٌ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ؛ سُئِلَ عَن ثَلاَثَۃٍ شَہِدُوا عَلَی رَجُلٍ بِالزِّنَی ، وَامْرَأَتَینِ ؟ قَالَ : لاَ یَجُوزُ حَتَّی یَکُونُوا أَرْبَعَۃً۔
(٢٩٣٠٨) حضرت بیان فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم سے سوال کاس گیا : ان تین آدمیوں اور دو عورتوں کے متعلق جنہوں نے ایک آدمی کے خلاف زنا کی گواہی دی ؟ آپ نے فرمایا : جائز نہیں یہاں تک کہ وہ چاروں آدمی ہوں۔

29308

(۲۹۳۰۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، عَنْ شُعْبَۃَ، عَنِ الْحَکَمِ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ، قَالَ: لاَ تَجُوزُ شَہَادَۃُ النِّسَائِ فِی الطَلاَقِ وَالْحُدُودِ۔
(٢٩٣٠٩) حضرت حکم فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم نے ارشاد فرمایا : طلاق اور حدود میں عورتوں کی گواہی جائز نہیں۔

29309

(۲۹۳۱۰) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ مُجَالِدٍ ، عَنْ عَامِرٍ ، قَالَ : لاَ تَجُوزُ شَہَادَۃُ النِّسَائِ فِی الْحُدُودِ۔
(٢٩٣١٠) حضرت مجالد فرماتے ہیں کہ حضرت عامر نے ارشاد فرمایا : سزاؤں میں عورتوں کی گواہی جائز نہیں۔

29310

(۲۹۳۱۱) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ ہَاشِمٍ ، وَوَکِیعٌ ، عَنْ زَکَرِیَّا ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : لاَ تَجُوزُ شَہَادَۃُ امْرَأَۃٍ فِی حَدٍّ ، وَلاَ شَہَادَۃُ عَبْدٍ۔
(٢٩٣١١) حضرت زکریا فرماتے ہیں کہ حضرت شعبی نے ارشاد فرمایا : کسی بھی حد میں عورت یا غلام کی گواہی جائز نہیں۔

29311

(۲۹۳۱۲) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : لاَ تَجُوزُ شَہَادَۃُ النِّسَائِ فِی الْحُدُودِ۔
(٢٩٣١٢) حضرت یونس فرماتے ہیں کہ حضرت حسن بصری نے ارشاد فرمایا : سزاؤں میں عورتوں کی گواہی جائز نہیں۔

29312

(۲۹۳۱۳) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ، عَنْ جُوَیْبِرٍ، عَنِ الضَّحَّاکِ، قَالَ: لاَ تَجُوزُ شَہَادَۃُ النِّسَائِ فِی دَمٍ ، وَلاَ حَدِّ دَمٍ۔
(٢٩٣١٣) حضرت جویبر فرماتے ہیں کہ حضرت ضحاک نے ارشاد فرمایا : عورتوں کی گواہی نہ کسی خون میں جائز ہے اور نہ کسی خون کی سزا میں۔

29313

(۲۹۳۱۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، قَالَ : سَمِعْتُ حَمَّادًا ، یَقُولُ : لاَ تَجُوزُ شَہَادَۃُ النِّسَائِ فِی الْحُدُودِ۔
(٢٩٣١٤) حضرت سفیان فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت حماد کو یوں ارشاد فرماتے ہوئے سنا : سزاؤں میں عورتوں کی گواہی جائز نہیں۔

29314

(۲۹۳۱۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ عَلِیُّ بْنُ صَالِحٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ عَبْد الرَّحْمن بن سَعِید بْنِ وَہْبٍ ، یَقُولُ : لاَ تَجُوزُ شَہَادَۃُ النِّسَائِ فِی الْحُدُودِ۔
(٢٩٣١٥) حضرت علی بن صالح فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عبدالرحمن بن سعید بن وھب کو یوں فرماتے ہوئے سنا : سزاؤں میں عورتوں کی گواہی جائز نہیں۔

29315

(۲۹۳۱۶) حَدَّثَنَا مَعْنُ بْنُ عِیسَی ، عَنِ ابْنِ أَبِی ذِئْبٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، قَالَ : لاَ یُجْلَدُ فِی شَیْئٍ مِنَ الْحُدُودِ ، إِلاَّ بِشَہَادَۃِ رَجُلَیْنِ۔
(٢٩٣١٦) حضرت ابن ابی ذئب فرماتے ہیں کہ حضرت زھری نے ارشاد فرمایا : سزاؤں میں کسی بھی صورت میں کوڑے نہیں مارے جائں ک گے مگر دو آدمیوں کی گواہی سے۔

29316

(۲۹۳۱۷) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنِ ابْنِ أَبِی نَجِیحٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ؛ {وَلْیَشْہَدْ عَذَابَہُمَا طَائِفَۃٌ مِنَ الْمُؤْمِنِینَ} ، قَالَ : أَدْنَاہ رَجُلٌ ، وَقَالَ عَطَائٌ : رَجُلاَنِ۔
(٢٩٣١٧) حضرت ابن ابی نجیح فرماتے ہیں کہ حضرت مجاھد سے آیت ” اور چاہیے کہ ان کی سزا کا مشاہدہ کرے مومنوں کا ایک گروہ۔ “ کی تفسیر میں مروی ہے آپ نے فرمایا : کم از کم ایک آدمی ہو، اور حضرت عطائ نے فرمایا : دو آدمی ہوں۔

29317

(۲۹۳۱۸) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ؛ {وَلْیَشْہَدْ عَذَابَہُمَا طَائِفَۃٌ مِنَ الْمُؤْمِنِینَ} ، قَالَ : عَشَرَۃٌ۔
(٢٩٣١٨) حضرت ہشام فرماتے ہیں کہ حضرت حسن بصری سے آیت { وَلْیَشْہَدْ عَذَابَہُمَا طَائِفَۃٌ مِنَ الْمُؤْمِنِینَ } کی تفسیر یوں مروی ہے آپ نے فرمایا : دس افراد ہوں۔

29318

(۲۹۳۱۹) حَدَّثَنَا مَعْنُ بْنُ عِیسَی ، عَنِ ابْنِ أَبِی ذِئْبٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، قَالَ : ثَلاَثَۃٌ فَصَاعِدًا۔
(٢٩٣١٩) حضرت ابن ابی ذئب فرماتے ہیں کہ حضرت زھری نے ارشاد فرمایا : تین یا اس سے زائد ہوں۔

29319

(۲۹۳۲۰) حَدَّثَنَا عَبَّادٌ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : شَہِدْتُ أَبَا بَرْزَۃَ ضَرَبَ أمَۃً لَہُ فَجَرَتْ ، وَعَلَیْہَا مِلْحَفَۃٌ قَدْ جُلِّلَتْ بِہَا ، وَعَندَہُ طَائِفَۃٌ مِنَ النَّاسِ ، ثُمَّ قَالَ : {وَلْیَشْہَدْ عَذَابَہُمَا طَائِفَۃٌ مِنَ الْمُؤْمِنِینَ}۔
(٢٩٣٢٠) حضرت اشعث کے والد حضرت سوار فرماتے ہیں کہ میں حضرت ابو برزہ کے پاس حاضر تھا۔ آپ نے اپنی ایک باندی کو کوڑے مارے جس نے زنا کیا تھا۔ درآنحالیکہ اس نے چادر پہنی ہوئی تھی جس نے اس کو ڈھانپا ہوا تھا۔ اور آپ کے پاس لوگوں کا ایک گروہ تھا پھر آپ نے آیت پڑھی : ترجمہ :۔ اور چاہیے کہ مشاہدہ کرے ان کی سزا کا مسلمانوں کا ایک گروہ۔

29320

(۲۹۳۲۱) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ حُبَابٍ ، عَنْ مُوسَی بْنِ عُبَیْدَۃَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ کَعْبٍ ، قَالَ : سَمِعْتُہُ یَقُولُ : (إِنْ یُعْفَ عَنْ طَائِفَۃٍ مِنْکُمْ) ، قَالَ : کَانَ رَجُلاً۔
(٢٩٣٢١) حضرت موسیٰ بن عبیدہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت محمد بن کعب کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا : آیت : ترجمہ :۔ اگر معاف کر بھی دیا جائے تم میں سے ایک گروہ کو۔ آپ نے فرمایا : وہ ایک آدمی تھا۔

29321

(۲۹۳۲۲) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ (ح) وَعَن مُغِیرَۃَ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ؛ أَنَّہُمَا قَالاَ : مَنْ قَذَفَ صَغِیرًا فَلاَ حَدَّ عَلَیْہِ۔
(٢٩٣٢٢) حضرت حسن بصری اور حضرت ابراہیم نے ارشاد فرمایا : جس شخص نے چھوٹے بچہ پر تہمت لگائی تو اس پر حد قذف جاری نہیں ہوگی۔

29322

(۲۹۳۲۳) حَدَّثَنَا مَعْنُ بْنُ عِیسَی ، عَنِ ابْنِ أَبِی ذِئْبٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، قَالَ : لاَ حَدَّ فِی غُلاَمٍ افْتُرِیَ عَلَیْہِ وَہُوَ صَغِیرٌ ، حَتَّی تَجِبَ عَلَیْہِ الْحُدُودُ۔
(٢٩٣٢٣) حضرت ابن ابی ذئب فرماتے ہیں کہ حضرت زھری نے ارشاد فرمایا : کوئی سزا نہیں ہوگی اس لڑکے میں جس پر جھوٹی تہمت لگائی گئی اس حال میں کہ وہ چھوٹا بچہ تھا یہاں تک کہ اس پر حد ود ثابت ہوجائیں۔

29323

(۲۹۳۲۴) حَدَّثَنَا مَعْنُ بْنُ عِیسَی ، عَنِ ابْنِ أَبِی ذِئْبٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، قَالَ : لَیْسَ عَلَی مَنَ دَعَی لِغَیْرِ أُمِّہِ حَدٌّ۔
(٢٩٣٢٤) حضرت ابن ابی ذئب فرماتے ہیں کہ حضرت زھری نے ارشاد فرمایا : جس نے کسی کو اس کی ماں کے علاوہ کی طرف منسوب کیا تو اس پر حد قذف جاری نہیں ہوگی۔

29324

(۲۹۳۲۵) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ أَبِی عَرُوبَۃَ ، عَنْ قَتَادَۃَ ؛ فِی رَجُلٍ قَالَ لِرَجُلٍ : لَسْتَ لِفُلاَنَۃَ ، أُمِّہِ ، قَالَ : کَانَ لاَ یُجْعَلُ عَلَیْہِ الْحَدُّ ، إِنَّمَا ہِیَ کَذْبَۃٌ۔
(٢٩٣٢٥) حضرت سعید بن ابی عروبہ فرماتے ہیں کہ حضرت قتادہ سے ایک آدمی کے بارے میں مروی ہے جس نے کسی آدمی کو کہا : فلاں عورت تیری ماں نہیں ہے، آپ نے فرمایا : بیشک اس پر سزا مقرر نہیں کی جائے گی اس لیے کہ یہ جھوٹ ہے۔

29325

(۲۹۳۲۶) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَوَائٍ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ رَجُلٍ ، عَنْ حَمَّادٍ ؛ مِثْلَہُ۔
(٢٩٣٢٦) حضرت حماد سے بھی مذکورہ ارشاد اس سند سے منقول ہے۔

29326

(۲۹۳۲۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ عَامِرٍ ، قَالَ : لَیْسَ عَلَیْہِ حَدٌّ۔
(٢٩٣٢٧) حضرت جابر فرماتے ہیں کہ حضرت عامر نے ارشاد فرمایا : اس شخص پر حدقذف جاری نہیں ہوگی۔

29327

(۲۹۳۲۸) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، قَالَ : فِی الضَّرْبِ۔
(٢٩٣٢٨) حضرت مغیرہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم نے ارشاد فرمایا : مارنے کی صورت میں ہے۔

29328

(۲۹۳۲۹) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِ ، عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : فِی الضَّرْبِ۔
(٢٩٣٢٩) حضر عطاء بن سائب فرماتے ہیں کہ حضرت شعبی نے ارشاد فرمایا : مار میں تمہیں نرمی دامن گیر نہ ہو۔

29329

(۲۹۳۳۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُدَیْرٍ ، عَنْ أَبِی مِجْلَزٍ ؛ فِی قَوْلِہِ تَعَالَی : {وَلاَ تَأْخُذْکُمْ بِہِمَا رَأْفَۃٌ فِی دِینِ اللہِ} ، قَالَ : إِقَامَۃُ الْحُدُودِ إِذَا رُفِعَتْ إِلَی السُّلْطَانِ۔
(٢٩٣٣٠) حضرت عمران بن حدیر فرماتے ہیں کہ حضرت ابو مجلز سے آیت : اور نہ دامن گیر ہو تم کو ان کے سلسلہ میں ترس کھانے کا جذبہ اللہ کے دین کے معاملہ میں مروی ہے آپ نے فرمایا : سزائیں قائم کردی جائیں جب معاملہ حاکم کے سامنے پیش کردیا گیا ہو۔

29330

(۲۹۳۳۱) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ عَطَائٍ (ح) وَعَنِ ابْنِ أَبِی نَجِیحٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ؛ فِی قَوْلِہِ تَعَالَی : {وَلاَ تَأْخُذْکُمْ بِہِمَا رَأْفَۃٌ فِی دِینِ اللہِ} ، قَالاَ : لَیْسَ بِالْقَتْلِ ، وَلَکِنْ فِی إِقَامَۃِ الْحَدِّ۔
(٢٩٣٣١) حضرت عطائ اور حضرت مجاھد سے اللہ رب العزت کے قول { وَلاَ تَأْخُذْکُمْ بِہِمَا رَأْفَۃٌ فِی دِینِ اللہِ } کے بارے میں مروی ہے ان دونوں حضرات نے فرمایا : قتل میں نہیں لیکن حدکو قائم کرنے میں نرمی نہ ہو۔

29331

(۲۹۳۳۲) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ عَطَائٍ ، قَالَ : إِقَامَۃُ الْحَدِّ ، أَمَا إِنَّہُ لَیْسَ بِشِدَّۃِ الْجَلْدِ۔
(٢٩٣٣٢) حضرت حجاج فرماتے ہیں کہ حضرت عطائ نے ارشاد فرمایا : حد قائم کرنے میں ہے بہرحال کوڑے مارنے میں سختی مراد نہیں ہے۔

29332

(۲۹۳۳۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنِ ابْنِ أَبِی نَجِیحٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ؛ {وَلاَ تَأْخُذْکُمْ بِہِمَا رَأْفَۃٌ فِی دِینِ اللہِ}، قَالَ : فِی إِقَامَۃِ الْحَدِّ ، یُقَامُ ، وَلاَ یُعَطَّلُ۔
(٢٩٣٣٣) حضرت ابن ابی نجیح فرماتے ہیں کہ حضرت مجاہد سے اللہ رب العزت کے قول { وَلاَ تَأْخُذْکُمْ بِہِمَا رَأْفَۃٌ فِی دِینِ اللہِ } کے بارے میں مروی ہے کہ آپ نے فرمایا : سزا قائم کرنے کے بارے میں ہے کہ سزا قائم کردی جائے اسے ختم نہ کیا جائے۔

29333

(۲۹۳۳۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ مُبَارَکٍ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ أَبِی کَثِیرٍ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ ، وَسُلَیْمَانَ بْنِ یَسَارٍ ؛ فِی الرَّجُلِ یَتَزَوَّجُ الأَمَۃَ ، وَلَمْ یَکُنْ تَزَوَّجَ حُرَّۃً قَبْلَہَا ، ثُمَّ یَفْجُرُ ، قَالَ سُلَیْمَانُ بْنُ یَسَارٍ : یُرْجَمُ ، وَقَالَ عِکْرِمَۃُ: یُجْلَدُ۔
(٢٩٣٣٤) حضرت یحییٰ بن ابی کثیر فرماتے ہیں کہ حضرت عکرمہ اور حضرت سلیمان بن یسار سے ایک آدمی کے بارے میں مروی ہے جس نے باندی سے شادی کی اور اس نے اس سے قبل کسی آزاد سے شادی نہیں کی تھی پھر اس نے بدکاری کرلی۔ حضرت سلیمان بن یسار نے فرمایا : اسے سنگسار کردیا جائے اور حضرت عکرمہ نے فرمایا : اسے کوڑے مارے جائیں گے۔

29334

(۲۹۳۳۵) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ ، عَنْ عَطَائٍ ، قَالَ : سُئِلَ عَنْ رَجُلٍ زَنَی وَلَہُ سَرَارِیُّ ؟ قَالَ : یُجْلَدُ ، وَلاَ یُرْجَمُ۔
(٢٩٣٣٥) حضرت عبدالملک فرماتے ہیں کہ حضرت عطائ سے ایک آدمی کے متعلق سوال کیا گیا جس نے زنا کیا درآنحالیکہ اس کی بہت سی باندیاں تھیں ؟ آپ نے فرمایا : اسے کوڑے مارے جائیں گے اور سنگسار نہیں کیا جائے گا۔

29335

(۲۹۳۳۶) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الْحَکَمِ ، وَحَمَّادٍ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، قَالَ : لاَ یُحْصن الْحُرَّ بِیَہُودِیَّۃٍ ، وَلاَ نَصْرَانِیَّۃٍ ، وَلاَ بِأَمَۃٍ۔
(٢٩٣٣٦) حضرت حکم اور حضرت حماد فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم نے ارشاد فرمایا : آزاد شخص یہودی عورت سے محصن نہیں بنتا نہ ہی عیسائی عوت سے اور نہ ہی باندی سے۔

29336

(۲۹۳۳۷) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُتْبَۃَ ، أَوْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُتْبَۃَ ؛ أَنَّ مَرْوَانَ سَأَلَہُ عَنِ الْحُرِّ تَکُونُ تَحْتَہُ الأَمَۃُ ، ثُمَّ یُصِیبُ فَاحِشَۃً ؟ قَالَ : یُرْجَمُ ، قَالَ : عَمَّنْ تَأْخُذُ ہَذَا ؟ قَالَ : أَدْرَکْنَا أَصْحَابَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُونَہُ۔ (بیہقی ۲۱۶)
(٢٩٣٣٧) حضرت عبید اللہ بن عبداللہ بن عتبہ یا حضرت عبداللہ بن عتبہ سے مروان نے اس آزاد آدمی کے متعلق سوال کیا جس کے ماتحت باندی ہو اور وہ زنا کرے ؟ آپ نے فرمایا : اسے سنگسار کردیا جائے گا۔ مروان نے پوچھا : آپ نے کس سے یہ حکم لیا ہے ؟ آپ نے فرمایا : ہم نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ کو یوں کہتے ہوئے پایا تھا۔

29337

(۲۹۳۳۸) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ ؛ أَنَّہُ کَانَ یَقُولُ : لاَ تُحْصِنُ الأَمَۃُ الْحُرَّ ، وَلاَ الْعَبْدُ الْحُرَّۃَ۔
(٢٩٣٣٨) حضرت یونس فرماتے ہیں کہ حضرت حسن بصری فرمایا کرتے تھے کہ باندی آزاد مرد کو محصن نہیں بنا سکتی اور غلام آزاد عورت کو محصن نہیں بنا سکتا۔

29338

(۲۹۳۳۹) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، وَہُوَ قَوْلُ قَتَادَۃَ ؛ أَنَّہُمَا کَانَا یَقُولاَنِ فِی الْحُرَّۃِ تَحْتَ الْعَبْدِ تَزْنِی ، السُّنَّۃُ أَنَّہَا تُرْجَمُ ، وَفِی الْحُرِّ تَحْتَہُ الأَمَۃُ : لاَ یُرْجَمُ۔
(٢٩٣٣٩) حضرت قتادہ اور حضرت حسن بصری فرمایا کرتے تھے اس آزاد عورت کے بارے میں جو غلام کے ماتحت ہونے کے باوجود زنا کرلے تو اس کو سنگسار کیا جائے گا اور اس آزاد شخص کے بارے میں جس کے ماتحت باندی ہو اس کو سنگسار نہیں کیا جائے گا۔

29339

(۲۹۳۴۰) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنِ الْفَضْلِ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ أَبِی کَثِیرٍ ؛ أَنَّ سُلَیْمَانَ بْنَ یَسَارٍ ، قَالَ : أَحْصَنَہَا وَأَحْصَنَتْہُ۔
(٢٩٣٤٠) حضرت یحییٰ بن ابی کثیر فرماتے ہیں کہ حضرت سلیمان بن یسار نے فرمایا : غلام آزاد عورت کو اور آزاد غلام عورت کو محصن بنا دے گا۔

29340

(۲۹۳۴۱) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ، قَالَ : أَحْصَنَہَا وَأَحْصَنَتْہُ ، قَالَ : الْحُرُّ الآنَ مَرْجُومٌ۔
(٢٩٣٤١) حضرت قتادہ فرماتے ہیں کہ حضرت سعید بن مسیب نے ارشاد فرمایا : غلام آزاد عورت کو اور باندی آزاد مرد کو محصن بنادیں گے۔ آپ نے فرمایا : آزاد اب سے سنگسار کیا جائے گا۔

29341

(۲۹۳۴۲) حَدَّثَنَا ابْنُ إِدْرِیسَ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، قَالَ : قَدِمْتُ الْمَدِیِنَۃ ، وَقَدَ أَجْمَعُوا عَلَی عَبْدٍ أُحْصِنَ بِحُرَّۃ أَنْ یرْجَم ، إِلاَّ عِکْرِمَۃ ، فَإِنَّہُ قَالَ : عَلَیْہِ نِصَفُ الْحَّدِ۔
(٢٩٣٤٢) حضرت لیث فرماتے ہیں کہ حضرت مجاھد نے فرمایا میں مدینہ آیا اس حال میں کہ سب فقہاء نے اتفاق کرلیا تھا ایک غلام پر جو کسی آزاد عورت سے محصن ہوا تھا کہ اسے سنگسار کردیا جائے سوائے حضرت عکرمہ کے کہ انھوں نے فرمایا : اس پر آدھی سزا جاری ہوگی۔

29342

(۲۹۳۴۳) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ أَبِی مَعْشَرٍ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ؛ فِی الْعَبْدِ تَکُونُ تَحْتَہُ الْحُرَّۃُ ، وَالْحُرِّ یَکُون تَحْتَہُ الأَمَۃُ، فَیَزْنِی أَحَدُہُمَا، قَالَ: لَیْسَ عَلَی وَاحِدٍ مِنْہُمَا رَجْمٌ، حَتَّی یَکُونَا حُرَّیْنِ مُسْلِمَیْنِ۔
(٢٩٣٤٣) حضرت ابو معشر فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم سے اس غلام کے بارے میں کہ آزاد عورت اس کے ماتحت ہو یا وہ آزاد شخص جس کے ماتحت باندی ہو ان میں سے کسی نے زنا کرلیا ہو ان کے بارے میں مروی ہے آپ نے فرمایا : ان میں سے کسی پر سنگسار کی سزا جاری نہیں ہوگی یہاں تک کہ وہ دونوں آزاد مسلمان ہوں۔

29343

(۲۹۳۴۴) حَدَّثَنَا ابْنُ إِدْرِیسَ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، قَالَ : إِحْصَانُ الأَمَۃِ أَنْ تَنْکِحَ الْحُرَّ ، وَإِحْصَانُ الْعَبْدِ أَنْ یَنْکِحَ الْحُرَّۃَ۔
(٢٩٣٤٤) حضرت لیث فرماتے ہیں کہ حضرت مجاھد نے ارشاد فرمایا : باندی کے شادی شدہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ آزاد سے نکاح کرلے۔

29344

(۲۹۳۴۵) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، وَالشَّعْبِیِّ ؛ فِی الْحُرِّ یَتَزَوَّجُ الْیَہُودِیَّۃَ وَالنَّصْرَانِیَّۃ ثُمَّ یَفْجُرُ ، فَقَالاَ : یُجْلَدُ ، وَلاَ یُرْجَمُ۔
(٢٩٣٤٥) حضرت مغیرہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم اور حضرت شعبی سے اس آزاد شخص کے بارے میں مروی ہے جو یہودی عورت اور عیسائی عورت سے شدی کرتا ہے پھر بدکاری کرلیتا ہے ان دونوں حضرات نے فرمایا : اسے کوڑے مارے جائیں گے اور سنگسار نہیں کیا جائے گا۔

29345

(۲۹۳۴۶) حَدَّثَنَا ابْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنْ زَمْعَۃَ ، عَنِ ابْنِ طَاوُوسٍ ، عَنْ أَبِیہِ ؛ أَنَّہُ کَانَ لاَ یَرَی أَنْ یُحْصِنَ الْحُرَّ ، إِلاَّ الْحُرَّۃُ الْمُسْلِمَۃُ۔
(٢٩٣٤٦) حضرت ابن طاؤس فرماتے ہیں کہ ان کے والد حضرت طاؤس رائے رکھتے تھے کہ آزاد آدمی کو آزاد مسلمان عورت کے علاوہ کوئی عورت محصن نہیں بنا سکتی۔

29346

(۲۹۳۴۷) حَدَّثَنَا عِیسَی بْنُ یُونُسَ ، عَنْ أَبِی بَکْرٍ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ أَبِی مَرْیَمَ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ أَبِی طَلْحَۃَ ، عَنْ کَعْبٍ؛ أَنَّہُ أَرَادَ أَنْ یَتَزَوَّجَ یَہُودِیَّۃً ، أَوْ نَصْرَانِیَّۃً ، فَسَأَلَ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَن ذَلِکَ ؟ فَنَہَاہُ عَنْہَا، وَقَالَ : إِنَّہَا لاَ تُحْصِنُک۔ (ابوداؤد ۲۰۶۔ طبرانی ۲۰۵)
(٢٩٣٤٧) حضرت علی بن ابی طلحہ فرماتے ہیں کہ حضرت کعب نے کسی یہودی یا عیسائی عورت سے شادی کرنے کا ارادہ کیا تو آپ نے اس بارے میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انھیں اس سے منع فرما دیا : اور فرمایا : بیشک وہ تجھے محصن نہیں بنا سکتی۔

29347

(۲۹۳۴۸) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ؛ أَنَّہُ کَانَ لاَ یَرَی مُشْرِکَۃً مُحْصِنَۃً۔
(٢٩٣٤٨) حضرت نافع فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عمر مشرکہ عورت کو پاکدامن نہیں سمجھتے تھے۔

29348

(۲۹۳۴۹) حَدَّثَنَا وَکِیعُ بْنُ الْجَرَّاحِ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ مُوسَی بْنِ عُقْبَۃَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : مَنْ أَشْرَکَ بِاَللَّہِ فَلَیْسَ بِمُحْصِن۔
(٢٩٣٤٩) حضرت نافع فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عمر نے ارشاد فرمایا : جس نے اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرایا تو وہ محصن نہیں۔

29349

(۲۹۳۵۰) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ ؛ أَنَّہُ کَانَ یَقُولُ : إِذَا تَزَوَّجَہَا وَہُوَ غَیْرُ مُسْلِمٍ ، لَمْ تُحْصِنْہُ حَتَّی یَطَأَہَا فِی الإِسْلاَمِ۔
(٢٩٣٥٠) حضرت یونس فرماتے ہیں کہ حضرت حسن بصری فرمایا کرتے تھے : جب آدمی ایک عورت سے شادی کرے درآنحالیکہ وہ غیر مسلم ہو تو اس نے اس کو محصن نہیں بنایا یہاں تک کہ وہ اس سے اسلام میں وطی کرلے۔

29350

(۲۹۳۵۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ بَشِیرٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ زَیْدٍ ، وَسَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ؛ فِی الْیَہُودِیَّۃِ وَالنَّصْرَانِیَّۃ تَکُونُ تَحْتَ الْمُسْلِمِ ، ثُمَّ یَفْجُرُ ، قَالاَ : یُرْجَمُ۔
(٢٩٣٥١) حضرت قتادہ فرماتے ہیں کہ حضرت جابر بن زید اور حضرت سعید بن مسیب سے اس یہودی اور عیسائی عورت کے بارے میں مروی ہے جو مسلمان کے ماتحت ہوں پھر وہ شخص بدکاری کرلے۔ ان دونوں حضرات نے فرمایا : اس کو سنگسار کردیا جائے گا۔

29351

(۲۹۳۵۲) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِیلُ بْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : کَانَ یَقُولُ : تُحْصِنُ الْیَہُودِیَّۃُ وَالنَّصْرَانِیَّۃُ الْمُسْلِمَ۔
(٢٩٣٥٢) حضرت یونس فرماتے ہیں کہ حضرت حسن بصری فرمایا کرتے تھے : یہودی اور عیسائی عورت مسلمان کو پاکدامن بنا دیتی ہے۔

29352

(۲۹۳۵۳) حَدَّثَنَا الضَّحَّاکُ بْنُ مَخْلَدٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَطَائٍ ؛ فِی الرَّجُلِ یَتَزَوَّجُ الْمَرْأَۃَ مِنْ أَہْلِ الْکِتَابِ ، أَنَّہَا تُحْصِنُہُ۔
(٢٩٣٥٣) حضرت ابن جریج فرماتے ہیں کہ حضرت عطائ سے اس آدمی کے بارے میں مروی ہے جو اہل کتاب عورت سے شادی کرلے : آپ نے فرمایا : بیشک وہ اسے پاکدامن محصن بنا دیتی ہے۔

29353

(۲۹۳۵۴) حَدَّثَنَا ابْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنْ إِسْرَائِیلَ ، عَنْ سَالِمٍ ، قَالَ : سَأَلْتُ سَعِیدَ بْنَ جُبَیْرٍ عَنِ الرَّجُلِ یَتَزَوَّجُ الْیَہُودِیَّۃَ، وَالنَّصْرَانِیَّۃَ ، وَالأَمَۃَ أَیُحْصَنُ بِہِنَّ ؟ قَالَ : نَعَمْ ، وَلَوْ مَا۔
(٢٩٣٥٤) حضرت سالم فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت سعید بن جبیر سے اس آدمی کے متعلق دریافت کیا جس نے یہودی، عیسائی باندی سے شادی کی ہو کیا وہ ان کی وجہ سے محصن بن جائے گا ؟ آپ نے فرمایا : جی ہاں اگرچہ جو بھی ہو۔

29354

(۲۹۳۵۵) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ حُصَیْنٍ ، عَنْ بَکْرٍ ، قَالَ : تَزَوَّجَتِ امْرَأَۃٌ عَبْدَہَا ، فَقِیلَ لَہَا ؟ فَقَالَتْ : أَلَیْسَ اللَّہُ یَقُولُ : {وَمَا مَلَکَتْ أَیْمَانُکُمْ} فَہَذَا مْلِکُ یَمِینِی ، وَتَزَوَّجَتِ امْرَأَۃٌ مِنْ غَیْرِ بَیِّنَۃٍ ، وَلاَ وَلِیٍّ ، فَقِیلَ لَہَا ؟ فَقَالَتْ : أَنَا ثَیِّبٌ ، وَقَدْ مَلَکْتُ أَمْرِی ، فَرُفِعَتا إِلَی عُمَرَ ، فَجَمَعَ النَّاسَ فَسَأَلَہُمْ ؟ فَقَالُوا : قَدْ خَاصَمَتَاک بِکِتَابِ اللہِ جَلَّ جَلاَلُہُ ، وَقَالَ عَلِیٌّ : قَدْ خَاصَمَتَاک بِکِتَابِ اللہِ ، فَجَلَدَ کُلَّ وَاحِدٍ مِنْہُمَا مِئَۃَ جَلْدَۃٍ ، ثُمَّ کَتَبَ إِلَی الأَمْصَارِ : أَیُّمَا امْرَأَۃٍ تَزَوَّجَتْ عَبْدَہَا ، أَوْ تَزَوَّجَتْ بِغَیْرِ وَلِیٍّ ، فَہِیَ بِمَنْزِلَۃِ الزَّانِیَۃِ۔
(٢٩٣٥٥) حضرت حصین فرماتے ہیں کہ حضرت بکر نے ارشاد فرمایا : ایک عورت نے اپنے غلام سے شادی کی پس اس سے اس بارے میں پوچھا گیا ؟ تو وہ کہنے لگی : کیا اللہ رب العزت نے یوں نہیں فرمایا : اور وہ جن کے تمہارے داہنے ہاتھ مالک ہیں، تو میرا داہنا ہاتھ اس کا مالک ہے، اور ایک دوسری عورت نے بغیر گواہی اور ولی کی اجازت کے بغیر شادی کی پس اس سے اس بارے میں پوچھا گیا ؟ تو وہ کہنے لگی : میں ثیبہ عورت ہوں اور مجھے میرے معاملہ کا اختیار ہے سو ان دونوں کا معاملہ حضرت عمر کی خدمت میں پیش کیا گیا۔ آپ نے لوگوں کو جمع کر کے ان سے ان دونوں کے بارے میں پوچھا ؟ لوگوں نے کہا ! تحقیق ان دونوں نے اللہ جل جلالہ کی کتاب سے جھگڑا کیا ہے اور حضرت علی نے بھی فرمایا : تحقیق ان دونوں نے اللہ جل جلالہ کی کتاب سے جھگڑا کیا ہے۔ سو آپ نے ان دنوں میں سے ہر ایک کو سو سو کوڑے مارے پھر آپ نے شہروں کے امراؤں کو خط لکھ دیا : جو کوئی عورت اپنے غلام سے شادی کرلے یا وہ ولی کی اجازت کے بغیر شادی کرلے تو زانیہ کے درجہ میں ہوگی۔

29355

(۲۹۳۵۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنِ الْحَکَمِ ؛ أَنَّ عُمَرَ کَتَبَ فِی امْرَأَۃٍ تَزَوَّجَتْ عَبْدَہَا ، أَنْ یُفَرَّقَ بَیْنَہُمَا ، وَیُقَامُ الْحَدُّ عَلَیْہَا۔
(٢٩٣٥٦) حضرت حکم فرماتے ہیں کہ حضرت عمر نے ایک عورت کے بارے میں خط لکھا جس نے اپنے غلام سے شادی کرلی تھی : کہ ان دونوں کے درمیان تفریق کردی جائے اور اس عورت پر حد قائم کردی جائے۔

29356

(۲۹۳۵۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إِسْمَاعِیلَ بْنِ مُسْلِمٍ ، قَالَ : سَأَلْتُ عَطَائً ، وَعَبْدَ اللہِ بْنَ عُبَیْدِ بْنِ عُمَیْرٍ ، وَمُجَاہِدًا عَنِ امْرَأَۃٍ کَانَ لَہَا عَبْدٌ ، فَأَرَادَتْ أَنْ تُعْتِقَہُ عَلَی أَنْ یَتَزَوَّجَہَا ؟ فَقَالَ عَطَائٌ ، وَعَبْدُ اللہِ بْنُ عُبَیْدٍ : تُعْتِقُہُ ، وَلاَ تُشَارِطُہُ ، وَقَالَ مُجَاہِدٌ : فِی ہَذَا عُقُوبَۃٌ مِنَ اللہِ وَمِنَ السُّلْطَانِ ، تُفَارِقُہُ ، وَیُقَامُ عَلَیْہَا الْحَدُّ۔
(٢٩٣٥٧) حضرت اسماعیل بن مسلم فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عطائ ، حضرت عبداللہ بن عبید بن عمیر اور حضرت مجاھد سے ایک عورت کے متعلق دریافت کیا جس کا ایک غلام تھا پس اس عورت نے اس کو اس شرط پر آزاد کرنے کا ارادہ کیا کہ وہ اس عورت سے شادی کرلے، اس کا کیا حکم ہے ؟ حضرت عطائ اور حضرت عبداللہ بن عبید نے فرمایا : وہ عورت اس کو آزاد کردے اور اس پر شرط نہ لگائے اور حضرت مجاھد نے فرمایا : اس میں اللہ کی اور حاکم کی سزا ہوگی : اس کو اس سے جدا کردیا جائے گا اور اس عورت پر حد قائم کردی جائے گی۔

29357

(۲۹۳۵۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ الأَسْوَدِ بْنِ شَیْبَانَ ، عَنْ أَبِی نَوْفَلِ بْنِ أَبِی عَقْرَبٍ ، قَالَ : جَائَتِ امْرَأَۃٌ إِلَی عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ ، فَقَالَتْ : یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ ، إِنِّی امْرَأَۃٌ کَمَا تَرَی ، وَغَیْرِی مِنَ النِّسَائِ أَجْمَلُ مِنِّی ، وَلِی عَبْدٌ قَدْ رَضِیتُ دِینَہُ وَأَمَانَتَہُ ، فَأَرَدْتُ أَنْ أَتَزَوَّجَہُ ، فَدَعَا بِالْغُلاَمِ فَضَرَبَہُمَا ضَرْبًا مُبَرِّحًا ، وَأَمَرَ فِی الْعَبْدِ فَبِیعَ فِی أَرْضِ غُرْبَۃٍ۔
(٢٩٣٥٨) حضرت ابو نوفل بن ابی عقرب فرماتے ہیں کہ ایک عورت حضرت عمر بن خطاب کے پاس آکر کہنے لگی اے امیر المومنین ! بیشک میں ایک عام عورت ہوں جیسا کہ آپ دیکھ رہے ہیں جبکہ دوسری عورتیں مجھ سے زیادہ خوبصورت ہیں اور میرا ایک غلام ہے تحقیق میں اس کے دین اور اس کی ایمان داری سے راضی ہوں اور میں اس سے شادی کرنا چاہتی ہوں اس پر آپ نے اس غلام کو بلایا اور ان دونوں کو سخت مار لگائی اور آپ نے غلام کے بارے میں حکم دیا تو اس کو اجنبی دور علاقہ میں فروخت کردیا گیا۔

29358

(۲۹۳۵۹) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِی عَدِیٍّ، عَنْ أَشْعَثَ، عَنِ الْحَسَنِ، قَالَ: إِذَا قَالَ: یَاابْنَ الزَّانِیَیْنِ، قَالَ: یُجْلَدُ حَدَّیْنِ۔
(٢٩٣٥٩) حضرت اشعث فرماتے ہیں کہ حضرت حسن بصری نے ارشاد فرمایا : جب وہ یوں کہے : اے دو زانیوں کے بیٹے ! تو اس کہنے والے کو دو حدیں لگائی جائیں گی۔

29359

(۲۹۳۶۰) حَدَّثَنَا ابْنُ مُبَارَکٍ ، عَنْ حُسَیْنٍ ، عَنْ مَکْحُولٍ ؛ فِی رَجُلٍ قَالَ لِرَجُلٍ : یَا زَانٍ ، یَاابْنَ الزَّانِیَۃِ ، قَالَ : یُضْرَبُ حَدَّیْنِ۔
(٢٩٣٦٠) حضرت حصین فرماتے ہیں کہ حضرت مکحول سے ایک آدمی کے بارے میں مروی ہے جس نے ایک آدمی کو یوں کہا : اے زانی اور زانیہ عورت کے بیٹے، آپ نے فرمایا : اس کو دو سزائیں دی جائیں گی۔

29360

(۲۹۳۶۱) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنِ الْمُجَالِدِ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنْ جَابِرٍ ، قَالَ : جَائَ مَاعِزُ بْنُ مَالِکٍ إِلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : إِنَّہُ قَدْ زَنَی ، فَقَالَ : أَمَا لِہَذَا أَحَدٌ ؟ فَرَدَّہُ ، ثُمَّ جَائَ ثَلاَثَ مِرَارٍ ، فَقَالَ : أَمَا لِہَذَا أَحَدٌ ، فَرَدَّہُ ، فَلَمَّا کَانَتِ الرَّابِعَۃُ ، قَالَ : ارْجُمُوہُ ، فَرَمَاہُ وَرَمَیْنَاہُ ، وَفَرَّ وَاتَّبَعَنَاہُ ، قَالَ عَامِرٌ : فَقَالَ لِی جَابِرٌ : فَہَاہُنَا قَتَلْنَاہُ۔ (بخاری ۵۲۷۰۔ مسلم ۱۳۱۸)
(٢٩٣٦١) حضرت جابر فرماتے ہیں کہ حضرت ماعز بن مالک نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا : بیشک میں نے زنا کیا ہے آپ نے پوچھا کیا اس کا کوئی گواہ ہے ؟ سو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انھیں واپس لوٹا دیا پھر وہ تین مرتبہ آئے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کیا اس کا کوئی گواہ ہے ؟ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو واپس لوٹا دیا جب وہ چوتھی مرتبہ آئے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم لوگ اس کو سنگسارکر دو سو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اور ہم نے اسے پتھر مارے اور وہ بھاگنے لگے تو ہم نے ان کا پیچھا کیا۔ حضرت عامر نے فرمایا : حضرت جابر نے مجھ سے فرمایا : ہم نے یہاں ان کو مارا تھا۔

29361

(۲۹۳۶۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ سَعْدٍ ، قَالَ : حدَّثَنَی یَزِیدُ بْنُ نُعَیْمٍ بْنِ ہَزَّالٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : کَانَ مَاعِزُ بْنُ مَالِکٍ فِی حَجْرِ أَبِی ، فَأَصَابَ جَارِیَۃً مِنَ الْحَیِّ ، فَقَالَ لَہُ أَبِی : إِئْتِ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَأَخْبِرْہُ بِمَا صَنَعْتَ ، یَسْتَغْفِرْ لَکَ ، وَإِنَّمَا یُرِیدُ بِذَلِکَ لِیَجْعَلَ لَہُ مَخْرَجًا ، فَأَتَاہُ ، فَقَالَ : یَا رَسُولَ اللہِ ، إِنِّی قَدْ زَنَیْت فَأَقِمْ عَلَیَّ کِتَابَ اللہِ ، فَأَعْرَضَ عَنْہُ ، ثُمَّ أَتَاہُ ، حَتَّی ذَکَرَ أَرْبَعَ مِرَارٍ ، ثُمَّ أَتَاہُ الرَّابِعَۃَ ، فَقَالَ : یَا رَسُولَ اللہِ ، إِنِّی قَدْ زَنَیْت فَأَقِمْ عَلَیَّ کِتَابَ اللہِ ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : أَلَیْسَ قَدْ قُلْتَہَا أَرْبَعَ مَرَّاتٍ ، فَبِمَنْ ؟ قَالَ : بِفُلاَنَۃٍ ، قَالَ : ہَلْ ضَاجَعْتہَا ؟ قَالَ : نَعَمْ ، قَالَ : ہَلْ بَاشَرْتَہَا ؟ قَالَ : نَعَمْ ، قَالَ : ہَلْ جَامَعْتہَا ؟ قَالَ : نَعَمْ ، قَالَ : فَأَمَرَ بِہِ لِیُرْجَمَ ، فَأُخْرِجَ إِلَی الْحَرَّۃِ ، فَلَمَّا وَجَدَ مَسَّ الْحِجَارَۃِ خَرَجَ یَشْتَدُّ، فَلَقِیَہُ عَبْدُ اللہِ بْنُ أُنَیْسٍ وَقَدْ أَعْجَزَ أَصْحَابَہُ ، فَانْتَزَعَ لَہُ بِوَظِیفِ بَعِیرٍ ، فَرَمَاہُ بِہِ فَقَتَلَہُ ، ثُمَّ أَتَی النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَذَکَرَ ذَلِکَ لَہُ ، فَقَالَ : ہَلاَّ تَرَکْتُمُوہُ ، لَعَلَّہُ یَتُوبُ ، فَیَتُوبَ اللَّہُ عَلَیْہِ ؟۔ (ابوداؤد ۴۴۱۸۔ احمد ۲۱۷)
(٢٩٣٦٢) حضرت نعیم بن ھزال فرماتے ہیں کہ ماعز بن مالک میرے والد کی پرورش میں تھے انھوں نے قبیلہ کی ایک باندی سے زنا کرلیا تو میرے والد نے ان سے کہا : تم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس جاؤ اور جو تم نے کیا ہے اس بارے میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بتلاؤ وہ تمہارے لیے استغفار کریں گے۔ اور میرے والد نے اس سے یہ ارادہ کیا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کے لیے کوئی راستہ نکالیں گے۔ پس وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا اور کہا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! بیشک میں نے زنا کیا ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مجھ پر کتاب اللہ کا حکم قائم فرما دیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے اعراض کیا پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے یہاں تک کہ راوی نے چار مرتبہ کا ذکر کیا۔ پھر وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس چوتھی بار آئے اور کہا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! بیشک میں نے زنا کیا ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مجھ پر کتا باللہ کا حکم قائم فرما دیں اس پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : کیا تم نے یہ بات چار مرتبہ نہیں کہی ؟ پس کس عورت سے کیا ؟ انھوں نے کہا : فلاں عورت سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کیا تم نے اس سے ہمبستری کی ؟ انھوں نے کہا، جی ہاں ! آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا : کیا تم نے اس سے وطی کی ؟ انھوں نے کہا، جی ہاں، ٓپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پھر پوچھا ! کیا تم نے اس سے جماع کیا ؟ انھوں نے کہا : جی ہاں، راوی کہتے ہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے متعلق حکم دیا تو اس کو سنگسار کیا گیا اور اسے حرہ کی زمین کی طرف لے جایا گیا جب انھوں نے پتھروں کی سختی محسوس کی وہ کراہتے ہوئے تکلیف سے نکلنے لگے۔ حضرت عبداللہ بن انیس اس سے ملے اور تحقیق اس کو مارنے والے ساتھی عاجز آگئے تھے انھوں نے اپنے اونٹ کی پنڈلی کا پتلا حصہ اکھیڑا اور ان کو اس سے مار کر انھیں قتل کردیا۔ پھر وہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آئے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے اس بات کا ذکر کیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم نے اس کو چھوڑ کیوں نہیں دیا شاید کہ وہ توبہ کرلیتا اور اللہ اس کی توبہ قبول کرلیتے ؟

29362

(۲۹۳۶۳) حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو ، عَنْ أَبِی سَلَمَۃَ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : جَائَ مَاعِزُ بْنُ مَالِکٍ إِلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : إِنِّی قَدْ زَنَیْتَ ، فَأَعْرَضَ عَنْہُ حَتَّی أَتَاہُ أَرْبَعَ مِرَارٍ ، فَأَمَرَ بِہِ أَنْ یُرْجَمَ ، فَلَمَّا أَصَابَتْہُ الْحِجَارَۃُ أَدْبَرَ یَشْتَدُّ ، فَلَقِیَہُ رَجُلٌ بِیَدِہِ لَحْیُ جَمَلٍ ، فَضَرَبَہُ فَصَرَعَہُ ، فَذُکِرَ لِلنَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِرَارُہُ حِینَ مَسَّتْہُ الْحِجَارَۃُ ، قَالَ : فَہَلاَّ تَرَکْتُمُوہُ۔ (بخاری ۵۲۷۲۔ مسلم ۱۶)
(٢٩٣٦٣) حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ ماعز بن مالک نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آئے اور کہنے لگے : بیشک میں نے زنا کیا ہے ! سو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے اعراض کیا یہاں تک کہ وہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس چوتھی مرتبہ آئے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے بارے میں حکم دیاتو ان کو سنگسار کیا گیا جب انہں پ پتھروں کی تکلیف پہنچی تو وہ تکلیف سے بھاگنے لگے اتنے میں اسے ایک آدمی ملا جس کے ہاتھ میں اونٹ کا جبڑا تھا پس اس نے اسے مارا اور اسے نیچے گرا دیا نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے ان کے بھاگنے کا معاملہ ذکر کیا گیا جب انھیں پتھروں کی تکلیف محسوس ہوئی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم نے اس کو چھوڑ کیوں نہیں دیا ؟ ’

29363

(۲۹۳۶۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إِسْرَائِیلَ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ عَامِرٍ ، عَنِ ابْنِ أَبْزَی ، عَنْ أَبِی بَکْرٍ ، قَالَ : أَتَی مَاعِزُ بْنُ مَالِکٍ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَأَقَرَّ عَندَہُ ثَلاَثَ مَرَّاتٍ ، فَقُلْتُ : إِنْ أَقْرَرْتَ عَندَہُ الرَّابِعَۃَ ، فَأَمَرَ بِہِ فَحُبِسَ ، یَعْنِی یُرْجَمُ۔ (احمد ۸۔ ابویعلی ۳۶)
(٢٩٣٦٤) حضرت ابوبکر فرماتے ہیں کہ ماعز بن مالک نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آئے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس تین مرتبہ اقرار کیا میں نے کہا : اگر تم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس چوتھی مرتبہ اقرار کرو تو سزا ہوگی ! سو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم سے اسے قید کردیا گیا یعنی سنگسار کردیا گیا۔

29364

(۲۹۳۶۵) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : شَہِدَ مَاعِزٌ عَلَی نَفْسِہِ أَرْبَعَ مَرَّاتٍ أَنَّہُ قَدْ زَنَی ، فَأَمَرَ بِہِ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ یُرْجَمَ۔
(٢٩٣٦٥) حضرت مغیرہ فرماتے ہیں کہ حضرت شعبی نے ارشاد فرمایا : ماعز بن مالک نے اپنے خلاف زنا کرنے کی چار مرتبہ گواہی دی تھی سو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم سے ان کو سنگسار کردیا گیا۔

29365

(۲۹۳۶۶) حَدَّثَنَا شَبَابَۃُ بْنُ سَوَّارٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا شُعْبَۃُ ، عَنْ سِمَاکٍ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَۃَ ، قَالَ : رَأَیْتُ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حِینَ أُتِیَ بِمَاعِزِ بْنِ مَالِکٍ ، أُتِیَ بِرَجُلٍ أَشْعَرَ ذِی عَضَلاَتٍ ، فِی إِزَارِہِ ، فَرَدَّہُ مَرَّتَیْنِ، ثُمَّ أَمَرَ بِرَجْمِہِ۔ (مسلم ۱۳۲۰۔ ابوداؤد ۴۴۲۲)
(٢٩٣٦٦) حضرت جابر بن سمرہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیکھا جب ماعز بن مالک کو لایا گیا تو ایک زیادہ بالوں والے اور مضبوط پیٹھے والے شخص کو لایا گیا جو تہہ بند پہنے ہوئے تھا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے دو مرتبہ واپس لوٹایا پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو سنگسار کرنے کا حکم دیا۔

29366

(۲۹۳۶۷) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا بَشِیرُ بْنِ الْمُہَاجِرٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَی عَبْدُ اللہِ بْنُ بُرَیْدَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ؛ أَنَّ مَاعِزَ بْنَ مَالِکٍ الأَسْلَمِیَّ أَتَی رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : إِنِّی قَدْ ظَلَمْتُ نَفْسِی وَزَنَیْتُ ، وَإِنِّی أُرِیدُ أَنْ تُطَہِّرَنِی ، فَرَدَّہُ ، فَلَمَّا کَانَ الْغَدُ أَتَاہُ أَیْضًا ، فَقَالَ : یَا رَسُولَ اللہِ ، إِنِّی قَدْ زَنَیْتُ ، فَرَدَّہُ الثَّانِیَۃَ ، فَأَرْسَلَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِلَی قَوْمِہِ ، فَقَالَ : أَتَعْلَمُونَ بِعَقْلِہِ بَأْسًا ؟ تُنْکِرُونَ مِنْہُ شَیْئًا ؟ فَقَالُوا : لاَ نَعْلَمُہُ إِلاَّ وَفِی الْعَقْلِ مِنْ صَالِحِینَا فِیمَا نُرَی ، قَالَ : فَأَتَاہُ الثَّالِثَۃَ ، فَأَرْسَلَ إِلَیْہِمْ أَیْضًا ، فَسَأَلَ عَنْہُ ؟ فَأَخْبَرُوہُ أَنَّہُ لاَ بَأْسَ بِہِ ، وَلاَ بِعَقْلِہِ ، فَلَمَّا کَانَ الرَّابِعَۃُ ، حَفَرَ لَہُ حُفْرَۃً ، ثُمَّ أَمَرَ بِہِ فَرُجِمَ۔ (مسلم ۱۳۲۳۔ ابوداؤد ۴۴۳۲)
(٢٩٣٦٧) حضرت بریدہ فرماتے ہیں کہ حضرت ماعز بن مالک اسلمی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آئے اور عرض کی : بیشک میں نے اپنی جان پر ظلم کیا ہے اور میں نے زنا کیا ہے، اور میں چاہتا ہوں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مجھے پاک کردیں، سو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو واپس کردیا جب اگلا دن آیا تو وہ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آگئے اور عرض کی : یا سول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! بیشک میں نے زنا کیا ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو دوسری مرتبہ بھی واپس لوٹا دیا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی قوم کی طرف قاصد بھیجا اور فرمایا : کیا تم اس کی عقل میں کوئی حرج سمجھتے ہو ؟ کیا تم اس میں کوئی غلط چیز دیکھتے ہو ؟ انھوں نے کہا : ہم اس کے بارے میں نہیں جانتے مگر یہ کہ اس کی عقل ہمارے نیک لوگوں کی طرح ہے جیسا کہ ہمیں دکھائی دیا۔ راوی کہتے ہیں : پس وہ تیسری بار نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی قوم کی طرف پھر قاصد بھیجا اور اس کے بارے میں سوال کیا ؟ ان لوگوں نے بتلایا کہ اس میں اور اس کی عقل میں کوئی حرج والی بات نہیں، پس جب وہ چوتھی مرتبہ آیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے لیے ایک گڑھا کھودا اور پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم سے انھیں سنگسار کردیا گیا۔

29367

(۲۹۳۶۸) حَدَّثَنَا مُعَاوِیَۃُ بْنُ ہِشَامٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ دَاوُد ، عَنْ أَبِی نَضْرَۃَ ، عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ ، قَالَ : جَائَ مَاعِزُ بْنُ مَالِکٍ فَاعْتَرَفَ بِالزِّنَی ثَلاَثَ مَرَّاتٍ ، فَسَأَلَ عَنْہُ ؟ ثُمَّ أَمَرَ بِہِ فَرُجِمَ ، فَرَمَیْنَاہُ بِالْخَزَفِ ، وَالْجَنْدَلِ ، وَالْعِظَامِ ، وَمَا حَفَرْنَا لَہُ ، وَلاَ أَوْثَقْنَاہُ ، فَسَبَقْنَا إِلَی الْحَرَّۃِ وَاتَّبَعَناہُ ، فَقَامَ إِلَیْنَا ، فَرَمَیْنَاہُ حَتَّی سَکَتَ ، فَمَا اسْتَغْفَرَ لَہُ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَلاَ سَبَّہُ۔ (مسلم ۱۳۲۱۔ ابوداؤد ۴۴۲۹)
(٢٩٣٦٨) حضرت ابو سعید خدری فرماتے ہیں ماعز بن مالک آئے اور انھوں نے تین مرتبہ زنا کا اعتراف کیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے متعلق سوال کیا ؟ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم سے انھیں سنگسار کردیا گیا، سو ہم نے انھیں ٹھیکری، چھوٹے چھوٹے پتھر اور ہڈیاں ماریں اور نہ ہم نے ان کے لیے کوئی گڑھا کھودا اور نہ ہم نے ان کو باندھا پس وہ ہم سے آگے حرہ مقام کی طرف دورڑے اور ہم نے ان کاپیچھا کیا سوو ہ ہماری طرف متوجہ ہو کر کھڑے ہوگئے پھر ہم نے انھیں پتھر مارے یہاں تک کہ وہ ساکت ہوگئے اور نہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے لیے استغفار کیا اور نہ ہی ان کو برا بھلا کہا۔

29368

(۲۹۳۶۹) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ الْمُغِیرَۃِ الطَّائِفِیِّ ، عَنِ ابْنِ شَدَّادٍ ، عَنْ أَبِی ذَرٍّ ، قَالَ : کُنَّا مَعَ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی سَفَرٍ ، فَجَائَ رَجُلٌ فَأَقَرَّ أَنَّہُ قَدْ زَنَی ، فَرَدَّہُ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ثَلاَثًا ، فَلَمَّا کَانَتِ الرَّابِعَۃُ وَنَزَلَ ، أَمَرَ بِہِ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَرُجِمَ ، وَشَقَّ ذَلِکَ عَلَیْہِ حَتَّی عَرَفْتُہَ فِی وَجْہِہِ ، فَلَمَّا سُرِّیَ عَنْہُ الْغَضَبُ ، قَالَ : یَا أَبَا ذَرٍّ ، إِنَّ صَاحِبَکُمْ قَدْ غُفِرَ لَہُ ، قَالَ : وَکَانَ یُقَالُ : إِنَّ تَوْبَتَہُ أَنْ یُقَامَ عَلَیْہِ الْحَدُّ۔ (احمد ۱۱۹۔ طحاوی ۱۴۲)
(٢٩٣٦٩) حضرت ابو ذر فرماتے ہیں کہ کسی سفر میں ہم لوگ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ تھے کہ ایک آدمی آیا اور اس نے زنا کا اقرار کیا سو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس شخص کو تین بار واپس لوٹا دیا جب وہ چوتھی بار آیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اترے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے متعلق حکم دیا سو اسے سنگسار کردیا گیا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر یہ بات بہت ہی ناگوار گزری یہاں تک کہ اس کا اثر میں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چہرہ میں محسوس کیا جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا غصہ ختم ہوگیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے ابو ذر ! تمہارے ساتھی کی مغفرت کردی گئی، راوی نے فرمایا : یوں کہا جاتا تھا، بیشک اس کی توبہ یہ ہے کہ اس پر حد قائم کردی جائے۔

29369

(۲۹۳۷۰) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَنِ الشَّیْبَانِیِّ ، عَنِ ابْنِ أَبِی أَوْفَی ، قَالَ : قُلْتُ لَہُ : رَجَمَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ؟ قَالَ : نَعَمْ ، قُلْتُ : بَعْدَ مَا أُنْزِلَتْ سُورَۃُ النُّورِ ، أَوْ قَبْلَہَا ؟ قَالَ : لاَ أَدْرِی۔ (بخاری ۶۸۱۳۔ مسلم ۱۳۲۸)
(٢٩٣٧٠) حضرت شیبانی فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن ابی اوفی سے دریافت کیا : کہ کیا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سنگسار کیا ہے ؟ انھوں نے فرمایا : جی ہاں، میں نے دریافت کیا : سورة نور کے نازل ہونے کے بعد یا اس سے پہلے ؟ انھوں نے فرمایا : مجھے نہیں معلوم۔

29370

(۲۹۳۷۱) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : قَالَ عُمَرُ : قَدْ خَشِیت أَنْ یَطُولَ بِالنَّاسِ زَمَانٌ حَتَّی یَقُولَ الْقَائِلُ : مَا نَجِدُ الرَّجْمَ فِی کِتَابِ اللہِ ، فَیَضِلُّوا بِتَرْکِ فَرِیضَۃٍ أَنْزَلَہَا اللَّہُ ، أَلاَ وَإِنَّ الرَّجْمَ حَقٌّ ، إِذَا أُحْصِنَ الرَّجُل ، أَوْ قَامَتِ الْبَیِّنَۃُ ، أَوْ کَانَ حَمْلٌ ، أَوِ اعْتِرَافٌ ، وَقَدْ قَرَأْتُہَا : {الشَّیْخُ وَالشَّیْخَۃُ إِذَا زَنَیَا فَارْجُمُوہُمَا الْبَتَّۃَ}۔ رَجَمَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَرَجَمْنَا بَعْدَہُ۔ قِیلَ لِسُفْیَانَ : رَجَمَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ؟ قَالَ : نَعَمْ۔ (بخاری ۲۸۲۹۔ مسلم ۱۳۱۷)
(٢٩٣٧١) حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ حضرت عمر نے ارشاد فرمایا : مجھے ڈر ہے کہ لوگوں پر لمبازمانہ گزرے گا یہاں تک کہ کہنے والا کہے گا : ہم تو رجم کے حکم کو کتاب اللہ میں نہیں پاتے ! سو وہ گمراہ ہوں گے ایک فریضہ کو چھوڑنے کی وجہ سے جس کا حکم اللہ نے نازل کیا ہے خبردار ! رجم کا حکم برحق ہے جب آدمی شادی شدہ ہو یا بینہ قائم ہوجائے یا حاملہ ہو یا اعتراف کیا ہو اور تحقیق میں نے اس کی تلاوت کی ہے ترجمہ :۔ شادی شدہ مرد اور شادی شدہ عورت جب دونوں زنا کریں تو تم ان کو لازمی طور پر سنگسار کرو۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد ہم نے سنگسار کیا ہے حضرت سفیان سے پوچھا گیا : کیا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سنگسار کیا ہے ؟ انھوں نے فرمایا : جی ہاں۔

29371

(۲۹۳۷۲) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ حَمَّادٍ ، قَالَ : سَأَلْتُہُ عَنِ الرَّجُلِ یُقِرُّ بِالزِّنَی ، کَمْ یُرَدُّ ؟ قَالَ : مَرَّۃً ، وَسَأَلْتُ الْحَکَمَ ؟ فَقَالَ : أَرْبَعَ مَرَّاتٍ۔
(٢٩٣٧٢) حضرت شعبہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت حماد سے اس آدمی کے متعلق سوال کیا جو زنا کا اقرر کرتا ہو کہ اس کو کتنی مرتبہ لوٹا جائے گا ؟ آپ نے فرمایا : ایک مرتبہ اور میں نے حضرت حکم سے سوال کیا ؟ تو آپ نے فرمایا : چار مرتبہ۔

29372

(۲۹۳۷۳) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ؛ أَنَّ مَاعِزَ بْنَ مَالِکٍ أَتَی أَبَا بَکْرٍ فَأَخْبَرَہُ أَنَّہُ زَنَی ، فَقَالَ لَہُ أَبُو بَکْرٍ : ذَکَرَتَ ہَذَا لأَحَدٍ غَیْرِی ؟ قَالَ : لاَ ، قَالَ لَہُ أَبُو بَکْرٍ : اسْتَتِرْ بِسِتْرِ اللہِ ، وَتُبْ إِلَی اللہِ ، فَإِنَّ النَّاسَ یُعَیِّرُونَ ، وَلاَ یُغَیِّرُونَ ، وَاللَّہُ یَقْبَلُ التَّوْبَۃَ عَن عِبَادِہِ ، فَلَمْ تَقَرَّ نَفْسُہُ، حَتَّی أَتَی عُمَرَ ، فَذَکَرَ مِثْلَ مَا ذکرَ لأَبِی بَکْرٍ ، فَقَالَ لَہُ عُمَرُ : مِثْلَ مَا قَالَ أَبُو بَکْرٍ ، فَلَمْ تَقَرَّ نَفْسُہُ حَتَّی أَتَی رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرَہُ أَنَّہُ قَدْ زَنَی ، فَأَعْرَضَ عَنْہُ ، حَتَّی قَالَ لَہُ ذَلِکَ مِرَارًا ، فَلَمَّا أَکْثَرَ ، بَعَثَ إِلَی قَوْمِہِ ، فَقَالَ لَہُمْ : ہَلَ اشْتَکَی ؟ أَبِہِ جِنَّۃٌ ؟ فَقَالُوا : لاَ وَاللَّہِ یَا رَسُولَ اللہِ ، إِنَّہُ صَحِیحٌ ، قَالَ : أَبِکْرٌ ، أَمْ ثَیِّبٌ ؟ قَالُوا : بَلْ ثَیِّبٌ ، فَأَمَرَ بِہِ فَرُجِمَ۔ (عبدالرزاق ۱۳۳۴۲)
(٢٩٣٧٣) حضرت سعید بن مسیب فرماتے ہیں کہ حضرت ماعز بن مالک حضرت ابوبکر کے پاس آئے اور انھیں اطلاع دی کہ میں نے زنا کیا ہے تو حضرت ابوبکر نے ان سے فرمایا : کیا تم نے اس بات کو میرے علاوہ کسی سے ذکر کیا ہے ؟ انھوں نے کہا : نہیں حضرت ابوبکر نے ان سے فرمایا : تم اللہ کی ستر پوشی کی وجہ سے اپنا عیب چھپاؤ اور اللہ سے توبہ کرو بیشک لوگ عار دلائے جاتے ہیں لیکن غیرت نہیں کھاتے کریں گے اور اللہ رب العزت اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے۔ پس ان کے نفس کو قرار نہیں آیا یہاں تک کہ وہ حضرت عمر کے سامنے ذکر کی تھی حضرت عمر نے بھی ان کو وہی جواب دیا جو حضرت ابوبکر نے دیا تھا۔ ان کے نفس کو قرار نہیں آیا یہاں تک کہ وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اطلاع دی کہ بیشک میں نے زنا کیا ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے اعراض کیا۔ یہاں تک کہ انھوں نے کئی مرتبہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے کہا جب بہت زیادہ ہوگیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی قوم کی طرف ایک قاصد بھیجا اور ان سے کہا : کیا یہ بیمار ہے ؟ یا اس کو جنون لاحق ہے ؟ انھوں نے عرض کی : نہیں، اللہ کی قسم ! یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! بیشک یہ بالکل صحیح ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا ! غیر شادی شدہ ہے یا شادی شدہ ؟ انھوں نے کہا : بلکہ شادی شدہ ہے۔ سو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم سے ان کو سنگسار کردیا گیا۔

29373

(۲۹۳۷۴) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا دَاوُد ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ، عَنْ عُمَرَ ، قَالَ : رَجَمَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَرَجَمَ أَبُو بَکْرٍ ، وَرَجَمْتُ۔ (ترمذی ۱۴۳۱۔ مالک ۱۰)
(٢٩٣٧٤) حضرت سعید بن مسیب فرماتے ہیں کہ حضرت عمر نے ارشاد فرمایا : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سنگسار کیا ہے، حضرت ابوبکر صدیق نے سنگسار کیا ہے اور میں نے سنگسار کیا ہے۔

29374

(۲۹۳۷۵) حَدَّثَنَا ابْنُ إِدْرِیسَ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ زَیْدٍ ، عَنْ یُوسُفَ بْنِ مِہْرَانَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : قَالَ عُمَرُ : الرَّجْمُ حَدٌّ مِنْ حُدُودِ اللہِ ، فَلاَ تُخْدَعُوا عَنْہُ ، وَآیۃُ ذَلِکَ : أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَجَمَ ، وَرَجَمَ أَبُو بَکْرٍ ، وَرَجَمْتُ أَنَا۔ (طیالسی ۲۵۔ عبدالرزاق ۱۳۳۶۴)
(٢٩٣٧٥) حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ حضرت عمر نے ارشاد فرمایا : رجم کرنا اللہ کی سزاؤں میں سے ایک سزا ہے پس تم لوگوں کو اس کے متعلق دھوکا میں مت ڈالا جائے اور اس کی نشانی یہ ہے کہ : بیشک رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سنگسار کیا حضرت ابوبکر نے سنگسار کیا اور میں نے بھی سنگسار کیا۔

29375

(۲۹۳۷۶) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاہِیمَ ، عَن أَبِی عُثْمَانَ بْنِ نَصْرٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : کُنْتُ فِیمَنْ رَجَمَ مَاعِزًا ، فَلَمَّا وَجَدَ مَسَّ الْحِجَارَۃِ ، قَالَ : رُدُّونِی إِلَی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَأَنْکَرْتُ ذَلِکَ ، فَأَتَیْتُ عَاصِمَ بْنَ عُمَرَ ، فَقَالَ : قَالَ الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَنَفِیَّۃِ : لَقَدْ بَلَغَنِی، فَأَنْکَرْتہ، فَأَتَیْتُ جَابِرًا، فَقُلْت: لَقَدْ ذَکَرَ الأَسْلَمِیُّ شَیْئًا مِنْ قَوْلِ مَاعِزِ بْنِ مَالِکٍ: رُدَّونِی، فَأَنْکَرْتُہُ، فَقَالَ: أَنَا فِیمَنْ رَجَمَہُ ، فَقَالَ: إِنَّہُ وَجَدَ مَسَّ الْحِجَارَۃِ ، قَالَ: رُدّونِی إِلَی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَإِنَّ قَوْمِی آذَوْنِی ، وَقَالُوا : ائْتِ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَإِنَّہُ غَیْرُ قَاتِلِکَ ، فَمَا أَقْلَعْنَا عَنْہُ حَتَّی قَتَلْنَاہُ ، فَلَمَا ذُکِرَ شَأْنُہُ لِلنَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : أَلاَ تَرَکْتُمُوہُ حَتَّی أَنْظُرَ فِی شَأْنِہِ۔ (نسائی ۷۲۰۶۔ احمد ۴۳۱)
(٢٩٣٧٦) حضرت ابو عثمان بن نصر فرماتے ہیں کہ میرے والد نے ارشاد فرمایا : میں ان لوگوں میں تھا جنہوں نے حضرت ماعز کو سنگسار کیا تھا پس جب انھوں نے پتھروں کی تکلیف محسوس کی تو کہنے لگے : تم لوگ مجھے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس واپس لوٹا دو پس میں نے اس بات سے انکار کردیا راوی کہتے ہیں میں حضرت عاصم بن عمر کے پاس آیا اور کہا : حضرت حسن بن محمد ابن حنفیہ فرماتے ہیں : تحقیق مجھے خبر پہنچی ہے کہ ! پس میں نے اس کا انکار کردیا میں پھر حضرت جابر کے پاس آیا اور میں نے کہا : تحقیق حضرت اسلمی نے ماعز بن مالک کے قول میں سے کچھ ذکر کیا ہے کہ ؟ تم لوگ مجھے لوٹا دو میں اس کا انکار کرتا ہوں ! سو انھوں نے جواب دیا : میں ان لوگوں میں تھا جنہوں نے ان کو سنگسار کیا تھا اور آپ نے فرمایا : بیشک انھوں نے پتھروں کی تکلیف محسوس کی اور کہا : مجھے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس لوٹا دو بیشک میری قوم نے مجھے تکلیف میں ڈالا، اور لوگوں نے کہا : تم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس چلے جاؤ وہ تمہیں قتل نہیں کریں گے پس ہم لوگوں نے انھیں نہیں چھوڑا یہاں تک کہ ہم نے ان کو مار دیا پھر جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے ان کی حالت کا ذکر کیا گیا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم نے اس کو چھوڑکیوں نہیں دیا یہاں تک کہ میں اس حالت میں غور کرلیتا ؟

29376

(۲۹۳۷۷) حَدَّثَنَا ہَوْذَۃُ بْنُ خَلِیفَۃَ ، قَالَ : حدَّثَنَا عَوْفٌ ، عَنْ مُسَاوِرِ بْنِ عُبَیْدٍ ، عَنْ أَبِی بَرْزَۃَ ،قَالَ : رَجَمَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَجُلاً مِنَّا ، یُقَالُ لَہُ : مَاعِزُ بْنُ مَالِکٍ۔ (احمد ۴۲۳۔ بزار ۳۸۵۵)
(٢٩٣٧٧) حضرت ابو برزہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہم میں سے ایک آدمی کو سنگسار کیا، جس کا نام ماعز بن مالک تھا۔

29377

(۲۹۳۷۸) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سُلَیْمٍ أَبِی ہِلاَلٍ ، عَنْ نَجِیحٍ أَبِی عَلِی ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : رَجَمَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَرَجَمَ أَبُو بَکْرٍ ، وَعُمَرُ وَأَمْرُہُمَا سُنَّۃٌ۔
(٢٩٣٧٨) حضرت نجیح ابو علی فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی زانی کو سنگسار کیا اور حضرت ابوبکر و عمر نے بھی زانی کو سنگسار کیا اور ان دونوں کا طریقہ بھی دین ہے۔

29378

(۲۹۳۷۹) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ آدَمَ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ زَیْدِ بْنِ أَسْلَمَ ، عَنْ یَزِیدَ بْنِ نُعَیْمٍ ، عَنْ أَبِیہِ ،قَالَ : جَائَ مَاعِزُ بْنُ مَالِکٍ إِلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : یَا رَسُولَ اللہِ ، إِنِّی قَدْ زَنَیْتُ فَأَقِمْ فِیَّ کِتَابَ اللہِ ، فَأَعْرَضَ عَنْہُ ، ثُمَّ قَالَ : إِنِّی قَدْ زَنَیْتُ ، فَأَقِمْ فِیَّ کِتَابَ اللہِ ، فَأَعْرَضَ عَنْہُ حَتَّی ذَکَرَ أَرْبَعَ مَرَّاتٍ ، قَالَ : اذْہَبُوا فَارْجُمُوہُ ، فَلَمَّا مَسَّہُ مَسَّ الْحِجَارَۃُ اشْتَدَّ ، فَخَرَجَ عَبْدُ اللہِ بْنُ أُنَیْسٍ ، أَوِ ابْنُ أَنَسٍ ، مِنْ بَادِیَتِہِ ، فَرَمَاہُ بِوَظِیفِ جَمَلٍ فَصَرَعَہُ ، فَرَمَاہُ النَّاسُ حَتَّی قَتَلُوہُ ، فَذُکِرَ ذَلِکَ لِلنَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِرَارُہُ ، فَقَالَ : ہَلاَّ تَرَکْتُمُوہُ یَتُوبُ ، فَیَتُوبَ اللَّہُ عَلَیْہِ ، یَا ہَزَّالُ ، أَوْ یَا ہِزَّانُ ، لَوْ سَتَرْتَہُ بِثَوْبِکَ ؛ کَانَ خَیْرًا لَکَ مِمَّا صَنَعْتَ۔ (بیہقی ۲۱۹۔ احمد ۲۱۷)
(٢٩٣٧٩) حضرت نعیم فرماتے ہیں کہ حضرت ماعز بن مالک نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے اور کہنے لگے : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) : بیشک میں نے زنا کیا ہے سو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مجھ پر کتاب اللہ کا حکم قائم کردیں آپ نے ان سے اعراض کیا انھوں نے پھر کہا : بیشک میں نے زنا کیا ہے سو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مجھ پر کتاب اللہ کا حکم قائم کردیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پھر ان سے اعراض کیا یہاں تک انھوں نے چار مرتبہ ذکر کردیا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اس کو لیجاؤ اور اسے سنگسار کردو پس جب ان کو پتھروں کی تکلیف بہت زیادہ محسوس ہوئی تو وہ دوڑے اتنے میں حضرت عبداللہ بن انیس یا ابن انس اپنے جنگل سے نکلے اور انھوں نے اس کو اونٹ کی پنڈلی مار کر ان کو نیچے گرادیا سو لوگوں نے ان کو پتھر مارے یہاں تک کہ ان کو قتل کردیا پھر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے ان کے بھاگنے کا ذکر کیا گیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم نے اس کو چھوڑ کیوں نہیں دیا کہ وہ توبہ کرلیتا اللہ اس کی توبہ قبول کرلیتے اے ھزال یایوں فرمایا : اے ھزان ! اگر تو اپنے کپڑے سے اس کو چھپا لیتا تو یہ تیرے لیے بہتر تھا اس کام سے جو تو نے کیا۔

29379

(۲۹۳۸۰) حَدَّثَنَا سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ بْنِ عَبْدِ اللہِ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، وَزَیْدِ بْنِ خَالِدٍ ، وَشِبْلٍ ؛ أَنَّہُمْ قَالُوا : کُنَّا عَندَ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَامَ رَجُلٌ ، فَقَالَ : أُنْشِدُک اللَّہَ إِلاَ قَضَیْتَ بَیْنَنَا بِکِتَابِ اللہِ ، فَقَالَ : خَصْمُہُ ، وَکَانَ أَفْقَہَ مِنْہُ: اقْضِ بَیْنَنَا بِکِتَابِ اللہِ ، وَائْذَنْ لِی حَتَّی أَقُولَ، قَالَ: قُلْ، قَالَ: إِنَّ ابْنِی کَانَ عَسِیفًا عَلَی ہَذَا ، وَإِنَّہُ زَنَی بِامْرَأَتِہِ ، فَافْتَدَیْتُ مِنْہُ بِمِئَۃِ شَاۃٍ وَخَادِمٍ ، فَسَأَلْتُ رِجَالاً مِنْ أَہْلِ الْعِلْمِ ؟ فَأُخْبِرْتُ أَنَّ عَلَی ابْنِی جَلْدَ مِئَۃٍ وَتَغْرِیبَ عَامٍ ، وَأَنَّ عَلَی امْرَأَۃِ ہَذَا الرَّجْمَ ، فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ ، لأَقْضِیَنَّ بَیْنَکُمَا بِکِتَابِ اللہِ ، الْمِئَۃُ شَاۃٍ وَالْخَادِمُ رَدٌّ عَلَیْک ، وَعَلَی ابْنِکَ جَلْدُ مِئَۃٍ وَتَغْرِیبُ عَامٍ، وَاغْدُ یَا أُنَیْسُ عَلَی امْرَأَۃِ ہَذَا، فَإِنَ اعْتَرَفْت فَارْجُمْہَا۔(بخاری ۲۳۱۵۔ ابن ماجہ ۲۵۴۹)
(٢٩٣٨٠) حضرت عبید اللہ بن عبداللہ ، حضرت ابوہریرہ حضرت زید بن خالد اور حضرت شبل ان سب حضرات نے ارشاد فرمایا : کہ ہم نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس تھے کہ ایک آدمی کھڑا ہو کر کہنے لگا : میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اللہ کی قسم دیتا ہوں مگر یہ کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے درمیان کتاب اللہ کے مطابق فلہار فرمائیں گے۔ اتنے میں اس کے مد مقابل نے بھی کہا ! اور وہ پہلے والے سے زیادہ سمجھدار تھا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے درمیان کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ فرمائیں اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مجھے اجازت مرحمت فرمائیں کہ میں کچھ کہوں، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کہو، اس نے کہا بیشک میرا بیٹا اس کا خدمت گار تھا اور اس نے اس کی بیوی سے زنا کرلیا پس میں نے اس کو سو بکریاں اور ایک خادم فدیہ دے کر اپنے بچے کو چھڑا لیا پھر میں نے علماء سے اس بارے میں پوچھا ؟ تو انھوں نے مجھے بتلایا کہ بیشک میرے بیٹے پر سو کوڑوں کی اور ایک سال کے لیے جلا وطنی کی سزا ہوگی اور اس عورت پر رجم کی سزا جاری ہوگی اس پر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے ضرور بالضرور تمہارے بیٹے پر سو کوڑوں اور ایک سال جلا وطنی کی سزا جاری ہوگی اور اے انیس ! اس عورت کے پاس جاؤ، پس اگر وہ اعتراف کرلے تو اس کو سنگسار کردو۔

29380

(۲۹۳۸۱) حَدَّثَنَا شَبَابَۃُ بْنُ سوَّارٍ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، عَنْ حِطَّانَ بْنِ عَبْدِ اللہِ ، عَنْ عُبَادَۃَ بْنِ الصَّامِتِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : خُذُوا عَنِی ، قَدْ جَعَلَ اللَّہُ لَہُنَّ سَبِیلاً ، الثَّیِّبُ بِالثَّیِّبِ ، وَالْبِکْرُ بِالْبِکْرِ ، الْبِکْرُ یُجْلَدُ وَیُنْفَی ، وَالثَّیِّبُ یُجْلَدُ وَیُرْجَمُ۔ (مسلم ۱۳۔ ابوداؤد ۴۴۱۵)
(٢٩٣٨١) حضرت عبادہ بن صامت فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : تم لوگ مجھ سے حکم لے لو تحقیق اللہ نے ان کے لیے راستہ مقرر فرما دیا ہے ثیبہ کے بدلے ثیبہ، اور باکر ہ کے بدلے باکرہ، اس طرح کہ باکرہ کو کوڑے مارے جائیں اور جلا وطن کردیا جائے اور ثیبہ کو کوڑے مارے جائیں اور سنگسار کردیا جائے۔

29381

(۲۹۳۸۲) حَدَّثَنَا شَرِیکُ بْنُ عَبْدِ اللہِ ، عَنْ فِرَاسٍ ، عَنْ عَامِرٍ ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، عنْ أُبَیٍّ ، قَالَ : إِذَا زَنَی الْبِکْرَانِ یُجْلَدَانِ وَیُنْفَیَانِ ، وَإِذَا زَنَی الثَّیِّبَانِ یُجْلَدَانِ وَیُرْجَمَانِ۔
(٢٩٣٨٢) حضرت مسروق فرماتے ہیں کہ حضرت ابی نے ارشاد فرمایا : جب دو غیر شادی شدہ زنا کرلیں تو ان دونوں کو کوڑے مارے جائیں گے اور جلا وطن کردیا جائے گا اور جب دو شادی شدہ زنا کریں تو ان دونوں کو کوڑے مارے جائیں گے اور ان دونوں کو سنگسار کردیا جائے گا۔

29382

(۲۹۳۸۳) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ، عَنْ إِسْمَاعِیلَ، عَنِ الشَّعْبِیِّ، عَنْ أُبَیٍّ؛ أَنَّہُ کَانَ یَرَی فِی الثَّیِّبِ یُجْلَدُ وَیُرْجَمُ۔
(٢٩٣٨٣) حضرت شعبی فرماتے ہیں کہ حضرت ابی شادی شدہ کے بارے میں یہ رائے رکھتے تھے کہ اسے کوڑے مارے جائیں گے اور سنگسار کردیا جائے گا۔

29383

(۲۹۳۸۴) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ مُسْلِمٍ ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، قَالَ : الْبِکْرَانِ یُجْلَدَانِ وَیُنْفَیَانِ ، وَالثَّیِّبَانِ یُجْلَدَانِ وَیُرْجَمَانِ۔
(٢٩٣٨٤) حضرت مسلم فرماتے ہیں کہ حضرت مسروق نے ارشاد فرمایا : دونوں غیر شادی شدہ مرد و عورت کو کوڑے مارے جائیں گے اور جلا وطن کردیا جائے گا اور دونوں شادی شدہ مرد و عورت کو کوڑے مارے جائیں گے اور سنگسار کردیا جائے گا۔

29384

(۲۹۳۸۵) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ حُصَیْنٍ ، وَالشَّیْبَانِیِّ ، وَأَشْعَثَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ؛ أَنَّ عَلِیًا جَلَدَ وَرَجَمَ۔
(٢٩٣٨٥) حضرت شعبی فرماتے ہیں کہ حضرت علی نے کوڑے مارے اور سنگسار کیا۔

29385

(۲۹۳۸۶) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ ، قَالَ : کَانَ عُمَرُ یَرْجُمُ وَیَجْلِدُ ، وَکَانَ عَلِیٌّ یَرْجُمُ وَیَجْلِدُ۔
(٢٩٣٨٦) حضرت ابن سیرین فرماتے ہیں کہ حضرت عمر سنگسار کرتے تھے اور کوڑے ما رتے تھے حضرت علی بھی سنگسار کرتے تھے اور کوڑے مارتے تھے۔

29386

(۲۹۳۸۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ الْمَسْعُودِیِّ ، عَنِ الْقَاسِمِ ، قَالَ : قَالَ أَبُو ذَرٍّ : الشَّیْخَانِ الثَّیِّبَانِ یُجْلَدَانِ وَیُرْجَمَانِ، وَالْبِکْرَانِ یُجْلَدَانِ وَیُنْفَیَانِ۔
(٢٩٣٨٧) حضرت قاسم فرماتے ہیں کہ حضرت ابو ذر نے ارشاد فرمایا : دونوں شادی شدہ مرد اور عورت کو کوڑے مارے جائیں گے اور دونوں کو سنگسار کردیا جائے گا اور دونوں غیر شادی شدہ مرد اور عورت کو کوڑے مارے جائیں گے اور دونوں کو جلا وطن کردیا جائے گا۔

29387

(۲۹۳۸۸) حَدَّثَنَا ابْنُ مَہْدِیٍّ ، عَن زَمْعَۃَ ، عَنِ ابْنِ طَاوُوسٍ، عَنْ أَبِیہِ، قَالَ: عَلَی الْمُحْصَنِ إِذَا زَنَی الرَّجْمُ، وَعَلَی الْبِکْرِ الْجَلْدُ وَالنَّفْیُ۔
(٢٩٣٨٨) حضرت ابن طاؤس فرماتے ہیں کہ ان کے والد حضرت طاؤس نے ارشاد فرمایا : شادی شدہ جب زنا کرے تو اس پر رجم کی سزا جاری ہوگی اور باکرہ پر کوڑوں اور جلا وطنی کی سزا جاری ہوگی۔

29388

(۲۹۳۸۹) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سَالِمٍ ، عَنْ عَامِرٍ ؛ فِی الْبِکْرِ إِذَا زَنَی یُنْفَی سَنَۃً۔
(٢٩٣٨٩) حضرت محمد بن سالم فرماتے ہیں کہ حضرت عامر اسے غیر شادی شدہ کے بارے میں مروی ہے کہ جب وہ زنا کرلے تو اس کو ایک سال کے لیے جلا وطن کردیا جائے۔

29389

(۲۹۳۹۰) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ أَبِیہِ ؛ أَنَّ عَلِیًّا جَلَدَ وَرَجَمَ، جَلَدَ یَوْمَ الْخَمِیسِ ، وَرَجَمَ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ۔
(٢٩٣٩٠) حضرت عبدالرحمن فرماتے ہیں کہ حضرت علی نے کوڑے مارے اور سنگسار کیا۔ آپ نے جمعرات کے دن کوڑے مارے اور جمعہ کے دن سنگسار کیا۔

29390

(۲۹۳۹۱) حَدَّثَنَا شَاذَانُ ، وَعَفَّانُ ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَۃَ ، عَن سِمَاکٍ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَۃَ ؛ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَجَمَ مَاعِزَ بْنَ مَالِکٍ ، وَلَمْ یَذْکُرْ جَلْدًا۔ (احمد ۹۲۔ طبرانی ۱۹۶۷)
(٢٩٣٩١) حضرت جابر بن سمرہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ماعز بن مالک کو سنگسار کیا اور آپ نے کوڑوں کا ذکر نہیں فرمایا۔

29391

(۲۹۳۹۲) حَدَّثَنَا شَبَابَۃُ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ صَفِیَّۃَ بِنْتِ أَبِی عُبَیْدٍ ، عَنْ أَبِی بَکْرٍ ؛ أَنَّہُ جَلَدَ رَجُلاً وَقَعَ عَلَی جَارِیَۃٍ بِکْرٍ ، فَأَحْبَلَہَا ، فَاعْتَرَفَ ، وَلَمْ یَکُنْ أُحْصِنَ ، فَأَمَرَ بِہِ أَبُو بَکْرٍ فَجُلِدَ ، ثُمَّ نُفِیَ۔
(٢٩٣٩٢) حضرت صفیہ بنت ابی عبید فرماتی ہیں کہ حضرت ابوبکر نے ایک آدمی کو کوڑے مارے جس نے کسی باکرہ باندی سے وطی کر کے اسے حاملہ کردیا تھا اور اس نے اعتراف بھی کیا تھا اور وہ شادی شدہ نہیں تھا تو حضرت ابوبکر کے حکم سے اسے کوڑے مارے گئے پھر اسے جلا وطن کردیا گیا۔

29392

(۲۹۳۹۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَن زَیْدِ بْنِ أَسْلَمَ ، عْن أَبِیہِ ؛ أَنَّ عُمَرَ نَفَی إِلَی فَدَکَ۔
(٢٩٣٩٣) حضرت اسلم فرماتے ہیں کہ حضرت عمر نے فدک کی طرف جلا وطن کردیا۔

29393

(۲۹۳۹۴) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنِ ابْنِ یَسَارٍ مَوْلًی لِعُثْمَانَ ، قَالَ : جَلَدَ عُثْمَانُ امْرَأَۃً فِی زِنًا ، ثُمَّ أَرْسَلَ بِہَا مَوْلًی لَہُ ، یُقَالُ لَہُ : الْمُہْرِیُّ ، إِلَی خَیْبَرَ ، فَنَفَاہَا إِلَیْہَا۔
(٢٩٣٩٤) حضرت ابن یسار جو کہ حضرت عثمان کے آزاد کردہ غلام ہیں وہ فرماتے ہیں : حضرت عثمان نے ایک عورت کو زنا میں کوڑے مارے پھر آپ نے اس کو اس کے مالک جس کا نام مھری تھا کے ساتھ خیبر بھیج دیا آپ نے اس کو وہاں جلا وطن کیا تھا۔

29394

(۲۹۳۹۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنِ الْحَیِّ ؛ أَنَّ عَلِیًّا نَفَی إِلَی الْبَصْرَۃِ۔
(٢٩٣٩٥) حضرت حی فرماتے ہیں کہ حضرت علی نے بصرہ کی طرف جلا وطن کردیا۔

29395

(۲۹۳۹۶) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنِ الأَجْلَحِ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، قَالَ : أُتِیَ عَلِیٌّ بِجَارِیَۃٍ مِنْ ہَمْدَانَ ، فَضَرَبَہَا وَسَیَّرَہَا إِلَی الْبَصْرَۃِ سَنَۃً۔
(٢٩٣٩٦) حضرت ابو اسحاق فرماتے ہیں کہ حضرت علی کے پاس ھمدان کی ایک باندی لائی گئی۔ آپ نے اسے کوڑے مارے اور آپ نے اسے ایک سال کے لیے بصرہ کی طرف جلا وطن کرکے روانہ کردیا۔

29396

(۲۹۳۹۷) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ إِسْمَاعِیلَ بْنِ سَالِمٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : قُلْتُ لَہُ فِی زَمَنِ ابْنِ ہُبَیْرَۃَ : مِنْ أَیْنَ یُنْفَی فِی الزِّنَی ؟ قَالَ : مِنْ عَمَلِہِ إِلَی عَمِلِ غَیْرِہِ۔
(٢٩٣٩٧) حضرت اسماعیل بن سالم فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت شعبی سے حضرت ابن ھبیرہ کے زمانے میں دریافت کیا : کہاں سے لے کر کہاں تک زنا کی سزا میں جلا وطن کیا جائے گا ؟ آپ نے فرمایا : اس کے شہر سے دوسرے شہر تک۔

29397

(۲۹۳۹۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ رَجُلٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ؛ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَفَی إِلَی خَیْبَرَ۔
(٢٩٣٩٨) حضرت حسن بصری فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خیبر کی طرف جلا وطن کیا۔

29398

(۲۹۳۹۹) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ ، عَن نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ؛ أَنَّ أَبَا بَکْرٍ نَفَی رَجُلاً وَامْرَأَۃً حَوْلاً۔
(٢٩٣٩٩) حضرت ابن عمر فرماتے ہیں کہ حضرت ابو بکرصدیق نے ایک آدمی اور ایک عورت کو ایک سال کے لیے جلا وطن کیا۔

29399

(۲۹۴۰۰) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ؛ أَنَّ عُمَرَ نَفَی إِلَی الْبَصْرَۃِ۔
(٢٩٤٠٠) حضرت زھری فرماتے ہیں کہ حضرت عمر نے بصرہ کی طرف جلا وطن کرد یا۔

29400

(۲۹۴۰۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن زَکَرِیَّا أَبِی عِمْرَانَ ، قَالَ : سَمِعْتُ شَیْخًا یُحَدِّثُ ، عَنِ ابْنِ أَبِی بَکْرَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ؛ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَجَمَ امْرَأَۃً فَحَفَرَ إِلَی الثَّنْدُوَۃِ۔ (ابوداؤد ۴۴۴۰۔ احمد ۳۶)
(٢٩٤٠١) حضرت ابو بکرہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک عورت کو سنگسار کیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے لیے پستان تک گڑھا کھودا۔

29401

(۲۹۴۰۲) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ الْقَطَّانُ ، عَن مُجَالِدٍ ، عَنْ عَامِرٍ ؛ أَنَّ عَلِیًّا رَجَمَ امْرَأَۃً ، فَحَفَرَ لَہَا إِلَی السُّرَّۃِ ، وَأَنَا شَاہِد ذَلِکَ۔
(٢٩٤٠٢) حضرت عامر فرماتے ہیں کہ حضرت علی نے ایک عورت کو سنگسار کیا تو آپ نے اس کے لیے ناف تک گڑھا کھودا اور میں اس کا گواہ ہوں۔

29402

(۲۹۴۰۳) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا بَشِیرُ بْنُ الْمُہَاجِرِ ، قَالَ : حدَّثَنَی عَبْدُ اللہِ بْنُ بُرَیْدَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ؛ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَتَتْہُ الْغَامِدِیَّۃُ ، فَأَقَرَّتْ عَندَہُ بِالزِّنَی ، فَأَمَرَ بِہَا ، فَحُفِرَ لَہَا إِلَی صَدْرِہَا ، وَأَمَرَ النَّاسَ فَرَجَمُوا ، ثُمَّ أَمَرَ بِہَا فَصُلِّیَ عَلَیْہَا ، ثُمَّ دُفِنَتْ۔ (مسلم ۱۳۲۳۔ ابوداؤد ۴۴۳۹)
(٢٩٤٠٣) حضرت بریدہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس غامدیہ عورت آئی اور اس نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس زنا کا اقرار کرلیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے بارے میں حکم دیا تو اس کے سینہ تک گڑھا کھودا گیا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں کو حکم دیا تو انھوں نے پتھر مارے پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم سے اس پر نماز جنازہ پڑھ کر اس کو دفن کردیا گیا۔

29403

(۲۹۴۰۴) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِ ، عَنْ سِمَاکٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : جَائَتِ امْرَأَۃٌ مِنْ بَارِقَ إِلَی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَتْ : إِنِّی قَدْ زَنَیْت فَأَقِمْ فِیَّ حَدَّ اللہِ ، قَالَ : فَرَدَّہَا النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حَتَّی شَہِدَتْ عَلَی نَفْسِہَا شَہَادَاتٍ ، قَالَ : فَقَالَ لَہَا النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : ارْجِعِی ، فَلَمَّا وَضَعَتْ حَمْلَہَا أَمَرَہَا النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَتَطَہَّرَتْ ، وَلَبِسَتْ أَکْفَانَہَا ، ثُمَّ أُمِرَ بِہَا فَرُجِمَتْ ، فَأَصَابَ خَالِدَ بْنَ الْوَلِیدِ مِنْ دَمِہَا فَسَبَّہَا ، فَنَہَاہُ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : لَقَدْ تَابَتْ تَوْبَۃً لَوْ تَابَہَا صَاحِبُ مَکْسٍ لَقُبِلَ مِنْہُ۔ (ابوداؤد ۲۴۹)
(٢٩٤٠٤) حضرت حسن بصری فرماتے ہیں کہ بارق مقام سے ایک عورت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئی اور کہنے لگی : بیشک میں نے زنا کیا ہے سو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرے بارے میں اللہ کی سزا نافذ فرما دیں ! نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو لوٹا دیا یہاں تک کہ اس نے اپنے نفس کے خلاف بہت سی گواہیاں دیں تو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے فرمایا : تم واپس جاؤ پس جب اس نے اپنا حمل وضع کردیا تو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے حکم دیا تو وہ پاک ہوگئی اور اس نے اپنا کفن پہن لیا پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم سے اسے سنگسار کردیا گیا اس کا کچھ خون حضرت خالد بن ولید کو لگ گیا تو آپ نے اس کو برا بھلا کہا تو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو منع کیا اور فرمایا : تحقیق اس نے ایسی توبہ کی ہے کہ اگر چنگی وصول کرنے والا ایسی توبہ کرتا تو اس کی توبہ قبول کرلی جاتی۔

29404

(۲۹۴۰۵) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ، قَالَ: حدَّثَنَا بَشِیرُ بْنُ مُہَاجِرٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ بُرَیْدَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : جَائَتِ الْغَامِدِیَّۃُ ، فَقَالَتْ : یَا رَسُولَ اللہِ ، إِنِّی قَدْ زَنَیْتُ ، وَإِنِّی أُرِیدُ أَنْ تُطَہِّرَنِی ، وَإِنَّہُ رَدَّہَا ، فَلَمَّا کَانَ الْغَدُ ، قَالَتْ : یَا نَبِیَّ اللہِ ، لِمَ تَرُدَّنِی ؟ فَلَعَلَّک أَنْ تُرَدِّدَنِی کَمَا رَدَّدْتَ مَاعِزَ بْنَ مَالِکٍ ، فَوَاللَّہِ إِنِّی لِحُبْلَی ، قَالَ : إِمَّا لاَ ، فَاذْہَبِی حَتَّی تَلِدِی ، فَلَمَّا وَلَدَتْ أَتَتْہُ بِالصَّبِیِّ فِی خِرْقَۃٍ ، قَالَتْ : ہَذَا قَدْ وَلَدْتُہُ ، قَالَ : اذْہَبِی فَأَرْضِعِیہِ ، حَتَّی تَفْطِمِیہِ ، فَلَمَّا فَطَمَتْہُ أَتَتْہُ بِالصَّبِیِّ ، وَفِی یَدِہِ کِسْرَۃُ خُبْزٍ ، فَقَالَتْ : ہَذَا یَا نَبِیَّ اللہِ قَدْ فَطَمْتُہُ ، وَقَدْ أَکَلَ الطَّعَامَ ، فَدُفَعَ الصَّبِیَّ إِلَی رَجُلٍ مِنَ الْمُسْلِمِینَ ، ثُمَّ أَمَرَ بِہَا فَحُفِرَ لَہَا إِلَی صَدْرِہَا ، وَأَمَرَ النَّاسَ فَرَجَمُوا ، فَأَقْبَلَ خَالِدُ بْنُ الْوَلِیدِ بِحَجَرٍ فَرَمَی رَأْسَہَا ، فَانْتَضَخَ الدَّمُ عَلَی وَجْہِ خَالِدِ بْنِ الْوَلِیدِ ، فَسَمِعَ نَبِیُّ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سَبَّہُ إِیَّاہَا ، فَقَالَ : مَہْلاً یَا خَالِدُ بْنَ الْوَلِیدِ ، فَوَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ ، لَقَدْ تَابَتْ تَوْبَۃً لَوْ تَابَہَا صَاحِبُ مَکْسٍ لَغُفِرَ لَہُ ، ثُمَّ أَمَرَ بِہَا فَصُلَّیَ عَلَیْہَا وَدُفِنَتْ۔
(٢٩٤٠٥) حضرت بریدہ فرماتے ہیں کہ ایک غامدیہ عورت آئی اور کہنے لگی : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! میں نے زنا کیا ہے اور بیشک میں چاہتی ہوں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مجھے پاک کردیں، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو واپس لوٹا دیا پس جب اگلا دن ہوا اس نے کہا ! یا نبی اللہ ! آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے کیوں لوٹا دیا جیسا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ماعز بن مالک کو واپس لوٹا دیا تھا ! اللہ کی قسم ! بیشک میں حاملہ ہوں ! آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : بالکل نہیں، تم جاؤ یہاں تک کہ تم بچہ پیدا کردو، پس جب اس نے بچہ جنا تو وہ بچہ کو پھٹے پرانے کپڑے میں لے کر آئی اور کہنے لگی : میں نے اس کو جن دیا ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم جاؤ اس کو دودھ پلاؤ یہاں تک کہ اس کا دودھ چھڑا دو پس جب اس عورت نے اس کا دودھ چھڑا دیا تو وہ اس بچہ کو لے کر آئی اس حال میں کہ اس کے ہاتھ میں روٹی کا ٹکڑا تھا۔ اس عورت نے کہا ! اے اللہ کے نبی ! تحقیق میں نے اس کا دودھ چھڑا دیا ہے اور تحقیق اس نے کھانا کھایا ہے سو اس بچہ کو مسلمانوں میں سے ایک آدمی کے حوالہ کردیا گیا پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم سے اس کے سینہ تک گھڑا کھودا گیا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں کو حکم دیا تو لوگوں نے اسے پتھر مارے حضرت خالد بن ولید ایک پتھر لائے اور اس کے سر میں مارا تو اس کے خون کی چھینٹیں حضرت خالد بن ولید کے چہرے پر پڑیں تو اللہ کے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو اس عورت کو برا بھلا کہتے ہوئے سنا : آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ٹھہرواے خالد بن ولید ! پس قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے تحقیق اس نے ایسی توبہ کی ہے اگر چنگی وصول کرنے والا بھی ایسی توبہ کرتا تو اس کی مغفرت کردی جاتی۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم سے اس کی نماز جنازہ پڑھی گئی اور اس کو دفن کردیا گیا۔

29405

(۲۹۴۰۶) حَدَّثَنَا عَفَّانُ بْنُ مُسْلِمٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا أَبَانُ الْعَطَّارُ ، قَالَ : حَدَّثَنَی یَحْیَی بْنُ أَبِی کَثِیرٍ ، عَنْ أَبِی قِلاَبَۃَ ، عَنْ أَبِی الْمُہَلَّبِ ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَیْنٍ ؛ أَنَّ امْرَأَۃً مِنْ جُہَیْنَۃَ أَتَتِ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَتْ : إِنِّی أَصَبْتُ حَدًّا فَأَقِمْہُ عَلَیَّ ، وَہِیَ حَامِلٌ ، فَأَمَرَ بِہَا أَنْ یُحْسَنَ إِلَیْہَا حَتَّی تَضَعَ ، فَلَمَّا أَنْ وَضَعَتْ ، جِیئَ بِہَا إِلَی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَأَمَرَ بِہَا ، فَشُکَّتْ عَلَیْہَا ثِیَابُہَا ، ثُمَّ رَجَمَہَا وَصَلَّی عَلَیْہَا ، فَقَالَ عُمَرُ : یَا نَبِیَّ اللہِ ، أَتُصَلِّی عَلَیْہَا وَقَدْ زَنَتْ ؟ فَقَالَ : لَقَدْ تَابَتْ تَوْبَۃً لَوْ قُسِمَتْ بَیْنَ سَبْعِینَ مِنْ أَہْلِ الْمَدِینَۃِ لَوَسِعَتْہُمْ ، وَہَلْ وَجَدْتَ أَفْضَلَ مِنْ أَنْ جَادَتْ بِنَفْسِہَا۔ (مسلم ۱۳۲۴۔ ابوداؤد ۴۴۳۷)
(٢٩٤٠٦) حضرت عمران بن حصین فرماتے ہیں کہ قبیلہ جھینہ کی ایک عورت نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئی اور کہنے لگی بیشک مجھ پر حد لازم ہوگئی سو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کو مجھ پر قائم فرمادیں اس حال میں کہ وہ حاملہ تھی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے بارے میں حکم دیا کہ اس کے ساتھ اچھا سلوک کیا جائے یہاں تک کہ وہ حمل وضع کردے پس جب اس نے حمل وضع کردیا تو اس کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس لایا گیا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم سے اس پر کپڑے ڈال دیے گئے پھر اس کو سنگسار کیا اور اس کی نماز جنازہ پڑھی حضرت عمر نے فرمایا : اے اللہ کے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! کیا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کی نماز جنازہ پڑھیں گے حالانکہ اس نے زنا کیا ہے ؟ اس پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : البتہ تحقیق اس نے ایسی توبہ کی ہے کہ اگر اس کی توبہ مدینہ والوں میں سے ستر لوگوں کے درمیان تقسیم کردیا جائے تو وہ ان کو گھیر لے کیا تم کسی کو افضل پاؤ گے اس سے جس نے اپنی جان دیدی ہو۔

29406

(۲۹۴۰۷) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَنِ الأَجْلَحِ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : أُتِیَ عَلِیٌّ بِشُرَاحَۃَ ، امْرَأَۃٍ مِنْ ہَمْدَانَ ، وَہِیَ حُبْلَی مِنْ زِنًی ، فَأَمَرَ بِہَا عَلِیٌّ فَحُبِسَتْ فِی السِّجْنِ ، فَلَمَّا وَضَعَتْ مَا فِی بَطْنِہَا ، أَخْرَجَہَا یَوْمَ الْخَمِیسِ ، فَضَرَبَہَا مِئَۃ سَوْطٍ ، وَرَجَمَہَا یَوْمَ الْجُمُعَۃِ۔
(٢٩٤٠٧) حضرت شعبی فرماتے ہیں کہ حضرت علی کے پاس شراحہ قبیلہ ھمدان کی ایک عورت لائی گئی درآنحالیکہ وہ زنا سے حاملہ تھی حضرت علی نے اس کے بارے میں حکم دیا تو اس کو جیل میں قید کردیا گیا پس جب اس نے اپنے پیٹ میں موجود حمل کو وضع کردیا تو اس کو جمعرات کے دن نکالا اور آپ نے اسے سو کو ڑے مارے اور اس کو جمعہ کے دن سنگسار کردیا۔

29407

(۲۹۴۰۸) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِی سُفْیَانَ ، عَنْ أَشْیَاخِہِ ؛ أَنَّ امْرَأَۃً غَابَ عنہا زَوْجُہَا ، ثُمَّ جَائَ وَہِیَ حَامِلٌ ، فَرَفَعَہَا إِلَی عُمَرَ ، فَأَمَرَ بِرَجْمِہَا ، فَقَالَ مُعَاذٌ : إِنْ یَکُنْ لَکَ عَلَیْہَا سَبِیلٌ ، فَلاَ سَبِیلَ لَکَ عَلَی مَا فِی بَطْنِہَا ، فَقَالَ عُمَرُ : احْبِسُوہَا حَتَّی تَضَعَ ، فَوَضَعَتْ غُلاَمًا لَہُ ثَنِیَّتَانِ ، فَلَمَّا رَآہُ أَبُوہُ ، قَالَ : ابْنِی ، ابْنِی ، فَبَلَغَ ذَلِکَ عُمَرَ ، فَقَالَ : عَجَزَتِ النِّسَائُ أَنْ تَلِدْنَ مِثْلَ مُعَاذٍ ، لَوْلاَ مُعَاذٌ ہَلَکَ عُمَرُ۔
(٢٩٤٠٨) حضرت ابو سفیان اپنے شیوخ سے نقل کرتے ہیں کہ ایک عورت کا خاوند غائب ہوگیا تھا پھر وہ واپس آیا اس حال میں کہ اس کی بیوی حاملہ تھی سو اس نے اس عورت کو حضرت عمر کے سامنے پیش کردیا آپ نے اس کو سنگسار کرنے کا حکم دیا اس پر حضرت معاذ نے فرمایا : اگرچہ آپ کے پاس اس عورت کے خلاف جواز موجود ہے لیکن جو بچہ اس کے پیٹ میں موجود ہے اس کے خلاف تو آپ کے پاس کوئی جواز نہیں ہے، تو حضرت عمر نے فرمایا : اس عورت کو قید کردو یہاں تک کہ وہ بچہ جن دے اس عورت نے بچہ جنا درآنحالیکہ اس کے دو دانت تھے۔ جب اس کے باپ نے اسے دیکھا تو کہنے لگا۔ میرا بیٹا میرا بیٹا یہ خبر حضرت عمر کو پہنچی تو آپ نے فرمایا : عورتیں حضرت معاذ جیسے لوگ پیدا کرنے سے عاجز آگئی ہیں۔ اگر معاذ نہ ہوتے تو عمر ہلاک ہوجاتا۔

29408

(۲۹۴۰۹) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنِ الْحَسَن بْن سَعْدٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحَمَن بْنِ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : أُتِیَ عَلِیٌّ بِامْرَأَۃٍ قَدْ زَنَتْ ، فَحَبَسَہَا حَتَّی وَضَعَتْ وَتَعَلَّتْ مِنْ نِفَاسہَا۔
(٢٩٤٠٩) حضرت عبدالرحمن بن عبداللہ فرماتے ہیں کہ حضرت علی کے پاس ایک عورت لائی گئی تحقیق اس نے زنا کیا تھا تو آپ نے اسے قید کردیا یہاں تک کہ اس نے بچہ جنا اور اس کے نفاس کا خون بند ہوا اور وہ پاک ہوگئی۔

29409

(۲۹۴۱۰) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنِ الْقَاسِمِ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ عَلِیٍّ ؛ مِثْلَہُ۔
(٢٩٤١٠) حضرت عبدالرحمن سے حضرت علی کا مذکورہ ارشاد بعینہ اس سند سے بھی منقول ہے۔

29410

(۲۹۴۱۱) حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ بْنُ مُوسَی ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ صَالِحٍ ، عَنْ سِمَاکٍ ، قَالَ : حدَّثَنِی ذُہلُ بْنُ کَعْبٍ ، قَالَ : أَرَادَ عُمَرُ أَنْ یَرْجُمَ الْمَرْأَۃَ الَّتِی فَجَرَتْ وَہِیَ حَامِلٌ ، فَقَالَ لَہُ مُعَاذٌ : إِذًا تَظْلِمُہَا ، أَرَأَیْتَ الَّذِی فِی بَطْنِہَا ، مَا ذَنْبُہُ ؟ عَلاَمَ تَقْتُلْ نَفْسَیْنِ بِنَفْسٍ وَاحِدَۃٍ ؟ فَتَرَکَہَا حَتَّی وَضَعَتْ حَمْلَہَا ، ثُمَّ رَجَمَہَا۔
(٢٩٤١١) حضرت ذھل بن کعب فرماتے ہیں کہ حضرت عمر نے اس عورت کو سنگسار کرنے کا ارادہ کیا جس نے بدکاری کی تھی اور وہ حاملہ تھی حضرت معاذ نے آپ سے فرمایا : تب تو آپ اس پر ظلم کرو گے آپ کی کیا رائے ہے اس جان کے بارے میں جو اس کے پیٹ میں موجود ہے۔ اس کا کیا گناہ ہے ؟ کس وجہ سے آپ ایک جان کے بدلے دو جانوں کو قتل کرو گے ؟ سو آپ نے اس عورت کو چھوڑ دیا یہاں تک کہ اس نے اپنا حمل وضع کیا پھر آپ نے اسے سنگسار کیا۔

29411

(۲۹۴۱۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنِ الْمِنْہَالِ ، عَنْ زَاذَانَ ؛ أَنَّ عَلِیًّا أَمَرَ بِہَا فَلُفَّتْ فِی عَبَائِۃٍ۔
(٢٩٤١٢) حضرت زاذان فرماتے ہیں کہ حضرت علی کے حکم سے عورت کو چوغہ میں مکمل لپیٹ دیا گیا۔

29412

(۲۹۴۱۳) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ صَالِحِ بْنِ صَالِحٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَعِیدِ الْہَمْدَانِیِّ ، عَنْ مَسْعُودٍ ، رَجُلٍ مِنْ آلِ أَبِی الدَّرْدَائِ ؛ أَنَّ عَلِیًّا لَمَّا رَجَمَ شُرَاحَۃَ ، جَعَلَ النَّاسُ یَلْعَنُونَہَا ، فَقَالَ : أیُّہَا النَّاسُ ، لاَ تَلْعَنُوہَا ، فَإِنَّہُ مَنْ أُقِیمَ عَلَیْہِ عَصَا حَدٍّ ، فَہُوَ کَفَّارَتُہُ ، جَزَائَ الدَّیْن بِالدَّیْنِ۔
(٢٩٤١٣) حضرت مسعود جو آل ابو الدرداء کے ایک فرد ہیں وہ فرماتے ہیں کہ جب حضرت علی نے شراحہ کو سنگسار کیا تو لوگوں نے اس پر لعن طعن کرنا شروع کردیا۔ اس پر آپ نے فرمایا اے لوگو ! اس پر لعن طعن مت کرو۔ اس لیے کہ جس شخص پر سزا کا کوڑا مار دیا جائے تو وہ اس کا کفارہ ہوجاتا ہے قرض کی جزا قرض کے بدلے میں۔

29413

(۲۹۴۱۴) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ إِدْرِیسَ ، عَنْ یَزِیدَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِی لَیْلَی ؛ أَنَّ عَلِیًّا کَانَ إِذَا شَہِدَ عَندَہُ الشُّہُودُ عَلَی الزِّنَی ، أَمَرَ الشُّہُودَ أَنْ یَرْجُمُوا ، ثُمَّ رَجَمَ ، ثُمَّ رَجَمَ النَّاسُ ، وَإِذَا کَانَ إِقْرَارًا ، بَدَأَ ہُوَ فَرَجَمَ، ثُمَّ رَجَمَ النَّاسُ۔
(٢٩٤١٤) حضرت عبدالرحمن بن ابی لیلی فرماتے ہیں کہ حضرت علی کے پاس جب گواہ زنا کی گواہی دیتے پھر آپ گواہوں کو پتھر مارنے کا حکم دیتے پھر آپ پتھر مارتے پھر لوگ پتھر مارتے اور جب اقرار کرتا تو آپ خود ابتدا کرتے سو اسے پتھر مارتے پھر لوگ اسے پتھر مارتے۔

29414

(۲۹۴۱۵) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ مَسْعُودٍ ، عَنْ عَلِیٍّ ، قَالَ : أَیُّہَا النَّاسُ ، إِنَّ الزِّنَی زِنَائَانِ : زِنَی سِرٍّ ، وَزِنَی عَلاَنِیَۃٍ ، فَزِنَی السِّرِّ ، أَنْ یَشْہَدَ الشُّہُودُ فَتَکُونَ الشُّہُودُ أَوَّلَ مَنْ یَرْمِی ، ثُمَّ الإِمَامُ ، ثُمَّ النَّاسُ ، وَزِنَی الْعَلاَنِیَۃِ ، أَنْ یَظْہَرَ الْحَبَلُ ، أَوِ الاِعْتِرَافُ ، فَیَکُونُ الإِمَامُ أَوَّلَ مَنْ یَرْمِی ، قَالَ : وَفِی یَدِہِ ثَلاَثَۃُ أَحْجَارٍ ، قَالَ : فَرَمَاہَا بِحَجَرٍ فَأَصَابَ صِمَاخَہَا فَاسْتَدَارَتْ ، وَرَمَی النَّاسُ۔
(٢٩٤١٥) حضرت عبدالرحمن بن عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ حضرت علی نے ارشاد فرمایا : اے لوگو بیشک زنا دو طرح کا ہوتا ہے۔ پوشیدہ زنا اور اعلانیہ زنا پس پوشیدہ زنا تو یہ ہے کہ گواہ زنا کی گواہی دیں سو گواہ سب سے پہلے پتھر مارنے والے ہوں گے پھر حاکم پھر لوگ اور اعلانیہ زنا یہ ہے کہ حمل ظاہر ہوجائے یا اعتراف کرلے سو امام سب سے پہلے پتھر مارنے والا ہوگا راوی کہتے ہیں آپ کے ہاتھ میں کچھ پتھر تھے سو آپ نے اس عورت کو ایک پتھر مارا جو اس کے کان کے سوراخ میں جا لگا تو وہ گھومنے لگی اور لوگوں نے پتھر مارے۔

29415

(۲۹۴۱۶) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنِ الْقَاسِمِ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ عَلِیٍّ ؛ مِثْلُہُ۔
(٢٩٤١٦) حضرت عبدالرحمن سے حضرت علی کا مذکورہ ارشاد اس سند سے بھی بعنہا منقول ہے۔

29416

(۲۹۴۱۷) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنِ الْحَکَمِ ، قَالَ : سَمِعْتُ عَمْرَو بْنَ نَافِعٍ ، یُحَدِّثُ عَنْ عَلِیٍّ ، قَالَ : الرَّجْمُ رَجْمَانِ ، فَرَجْمٌ یَرْجُمُ الإِمَامُ ، ثُمَّ النَّاسُ ، وَرَجْمٌ یَرْجُمُ الشُّہُودُ ، ثُمَّ الإِمَامُ ، ثُمَّ النَّاسُ ، فَقُلْتُ لِلْحَکَمِ : مَا رَجْمُ الإِمَامِ ؟ قَالَ : إِذَا وَلَدَتْ ، أَوْ أَقَرَّتْ ، وَرَجْمُ الشُّہُودِ إِذَا شَہِدُوا۔
(٢٩٤١٧) حضرت عمرو بن نافع فرماتے ہیں کہ حضرت علی نے ارشاد فرمایا : رجم کی دو قسمیں ہیں ایک رجم وہ جو حاکم پتھر مارتا ہے پھر لوگ اور ایک رجم وہ جو گواہ پتھر مارتے ہیں پھر حاکم پھر لوگ راوی کہتے ہیں : میں نے حضرت حکم سے عرض کی : امام کا رجم کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا : جب وہ عورت بچہ پیدا کرلے یا وہ اقرار کرلے اور گواہوں کا رجم یہ ہے کہ جب وہ گواہی دے دیں۔

29417

(۲۹۴۱۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، قَالَ : قُلْتُ لِلْحَکَمِ : مَا رَجْمُ الإِمَامِ ؟ قَالَ : إِذَا وَلَدَتْ ، أَوْ أَقَرَّتْ ، وَإِذَا شَہِدَ الشُّہُودُ بَدَأَ الشُّہُودُ۔
(٢٩٤١٨) حضرت شعبہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت حکم سے دریافت کیا حاکم کا رجم کرنا کیا ہوتا ہے ؟ آپ نے فرمایا : جب عورت بچہ پیدا کرلے یا اقرار کرلے اور جب گواہ گواہی دے دیں، تو گواہ ہی ابتدا کریں گے۔

29418

(۲۹۴۱۹) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنِ التَّیْمِیِّ ، عَنْ أَبِی عُثْمَانَ ، قَالَ : لَمَّا شَہِدَ أَبُو بَکْرَۃَ وَصَاحِبَاہُ عَلَی الْمُغِیرَۃِ ، جَائَ زِیَادٌ ، فَقَالَ لَہُ عُمَرُ : رَجُلٌ لَنْ یَشْہَدَ إِنْ شَائَ اللَّہُ إِلاَّ بِحَقٍّ ، قَالَ : رَأَیْتُ انْبِہَارًا وَمَجْلِسًا سَیِّئًا ، فَقَالَ عُمَرُ : ہَلْ رَأَیْتَ الْمِرْوَدَ دَخَلَ الْمُکْحُلَۃِ ؟ قَالَ : لاَ ، فَأَمَرَ بِہِمْ فَجُلِدُوا۔
(٢٩٤١٩) حضرت ابو عثمان فرماتے ہیں کہ جب حضرت ابو بکرہ اور ان کے دو ساتھیوں نے حضرت مغیرہ کے خلاف گواہی دے دی تو زیاد آئے حضرت عمر نے ان سے فرمایا : ایک آدمی ہرگز گواہی نہیں دے گا ان شاء اللہ مگر حق بات کی۔ اس نے کہا : میں نے حیران کن بات اور بری مجلس دییھت اس پر حضرت عمر نے پوچھا کیا تو نے سلائی کو سرمہ دانی میں داخل ہونے کی طرح دیکھا ؟ اس نے کہا نہیں حضرت عمر نے ان کے متعلق حکم دیا تو ان سب کو کوڑے مارے گئے۔

29419

(۲۹۴۲۰) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ آدَمَ ، قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَیْدٍ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ عَتِیقٍ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ ؛ أَنَّ أُنَاسًا شَہِدُوا عَلَی رَجُلٍ فِی زِنًی ، قَالَ : فَقَالَ عُثْمَانُ بِیَدِہِ ہَکَذَا : تَشْہَدُونَ أَنَّہُ ،وَجَعَلَ یُدْخِلُ إِصْبَعَہُ السَّبَّابَۃَ فِی إِصْبَعِہِ الْیُسْرَی ، وَقَدْ عَقَدَ بِہَا عَشْرًۃ۔
(٢٩٤٢٠) حضرت ابن سیرین فرماتے ہیں کہ چند لوگوں نے ایک آدمی کے خلاف زنا کی گواہی دی تو حضرت عثمان نے اپنا ہاتھ اس طرح کر کے فرمایا : تم اس بات کی گواہی دیتے ہو، اور آپ نے اپنی شہادت کی انگلی کو اپنی بائیں انگلی میں ڈالا اور دس کا عدد بنایا۔

29420

(۲۹۴۲۱) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ عَوْفٍ ، عَنْ قَسَامَۃَ بْنِ زُہَیْرٍ ، قَالَ : لَمَّا کَانَ مِنْ شَأْنِ أَبِی بَکْرَۃَ وَالْمُغِیرَۃِ بْنِ شُعْبَۃَ الَّذِی کَانَ ، قَالَ أَبُو بَکْرَۃَ : اجْتَنِبْ ، أَوْ تَنَحَّ عَن صَلاَتِنَا ، فَإِنَّا لاَ نُصَلِّی خَلْفَک ، قَالَ : فَکَتَبَ إِلَی عُمَرَ فِی شَأْنِہِ ، قَالَ : فَکَتَبَ عُمَرُ إِلَی الْمُغِیرَۃِ : أَمَّا بَعْدُ ، فَإِنَّہُ قَدْ رَقِیَ إِلَیَّ مِنْ حَدِیثِکَ حَدِیثٌ ، فَإِنْ یَکُنْ مَصْدُوقًا عَلَیْک ، فَلأَنْ تَکُونَ مِتَّ قَبْلَ الْیَوْمِ خَیْرٌ لَکَ ، قَالَ : فَکَتَبَ إِلَیْہِ وَإِلَی الشُّہُودِ ، أَنْ یُقْبِلُوا إِلَیْہِ۔ فَلَمَّا انْتَہَوْا إِلَیْہِ ، دَعَا الشُّہُودَ فَشَہِدُوا ، فَشَہِدَ أَبُو بَکْرَۃَ ، وَشِبْلُ بْنُ مَعْبَدٍ ، وَأَبُو عَبْدِ اللہِ نَافِعٌ ، قَالَ : فَقَالَ عُمَرُ حِینَ شَہِدَ ہَؤُلاَئِ الثَّلاَثَۃُ : أَوْدَی الْمُغِیرَۃِ أَرْبَعَۃٌ ، وَشَقَّ عَلَی عُمَرَ شَأْنُہُ جِدًّا ، فَلَمَّا قَامَ زِیَادٌ ، قَالَ: لَنْ یَشْہَدْ إِنْ شَائَ اللَّہُ إِلاَّ بِحَقٍّ ، ثُمَّ شَہِدَ ، فَقَالَ : أَمَّا الزِّنَی فَلاَ أَشْہَدُ بِہِ ، وَلَکِنِّی قَدْ رَأَیْتُ أَمْرًا قَبِیحًا، فَقَالَ عُمَرُ : اللَّہُ أَکْبَرُ ، حُدُّوہُمْ ، فَجَلَدَہُمْ ، فَلَمَّا فَرَغَ مِنْ جَلْدِ أَبِی بَکْرَۃَ ، قَامَ أَبُو بَکْرَۃَ ، فَقَالَ : أَشْہَدُ أَنَّہُ زَانٍ ، فَذَہَب عُمَرُ یُعِیدَ عَلَیْہِ الْحَدَّ ، فَقَالَ عَلِیٌّ : إِنْ جَلَدْتَہُ فَارْجُمْ صَاحِبَک ، فَتَرَکَہُ ، فَلَمْ یُجْلَدْ فِی قَذفٍ مَرَّتَیْنِ بَعْدُ۔
(٢٩٤٢١) حضرت قسامہ بن زھیر فرماتے ہیں کہ جب حضرت ابو بکرہ اور حضرت مغیرہ بن شعبہ کا معاملہ ہوا تھا تو وہ اس طرح تھا حضرت ابو بکرہ نے کہا : دور رہو ہماری نمازوں سے بیشک ہم تمہارے پیچھے نماز نہیں پڑھیں گے سو حضرت مغیرہ نے ان کے بارے میں حضرت عمر کو خط لکھا : حضرت عمر نے حضرت مغیرہ کو جواب لکھا کہ : حمدو صلوٰۃ کے بعد بیشک اس نے مجھے تمہاری باتوں میں سے ایک بات پہنچائی ہے پس اگر وہ تمہارے خلاف سچی ہے تو ضرور تمہارا آج کے دن سے پہلے مرجانا تمہارے لیے بہتر تھا۔ اور پھر آپ نے ان کو اور گواہوں کو خط لکھا کہ وہ سب میرے پاس آئیں۔
پس جب وہ سب لوگ حضرت عمر کے پاس پہنچ گئے تو آپ نے گواہوں کو بلایا سو انھوں نے گواہی دی پس حضرت ابو بکرہ ، حضرت شبل بن معبد اور ابو عبداللہ نافع نے گواہی دی راوی کہتے ہیں : جب یہ تینوں گواہی دے چکے تو حضرت عمر نے فرمایا : مغیرہلاک ہوگیا چوتھے آدمی آئے ! اور حضرت عمر پر ان کی یہ حالت بہت بھاری گزری۔ سو جب زیاد کھڑا ہوا تو آپ نے فرمایا : یہ ہرگز گواہی نہیں دے گا ان شاء اللہ مگر حق بات کی پھر اس نے گواہی دی اور کہا : جہاں تک زنا کا تعلق ہے تو میں اس کی گواہی نہیں دیتا لیکن تحقیق میں نے فحش معاملہ دیکھا ہے اس پر حضرت عمر نے فرمایا : اللہ اکبر ان تینوں کو کوڑے مارو سو آپ نے ان کو کوڑے مارے پس جب حضرت ابو بکرہ کھڑے ہوئے اور کہنے لگے : میں گواہی دیتا ہوں کہ بیشک وہ زانی ہے ! سو حضرت عمر ان پر دوبارہ حد جاری کرنے کے لیے جانے لگے اس پر حضرت علی نے فرمایا : اگر تم اس کو کوڑے مارتے ہو تو اپنے ساتھی کو بھی سنگسار کرو ! پس حضرت عمر نے ان کو چھوڑ دیا اور ایک تہمت میں دو مرتبہ اس کے بعد کوڑے نہیں مارے گئے۔

29421

(۲۹۴۲۲) حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّیَالِسِیُّ ، عَنْ أَبِی خَلْدَۃَ ، قَالَ : لَقِیَنِی سَعِیدُ بْنُ أَرْطَبَان ، عَمُّ ابْنِ عَوْنٍ ، فَقَالَ : أَتُرِیدُ أَنْ تَأْتِیَ أَبَا الْعَالِیَۃِ ؟ قُلْتُ : نَعَمْ ، قَالَ : فَقُلْ لَہُ : شَہِدَ الْحَسَنُ ، وَابْنُ سِیرِینَ ، وَثَابِتٌ الْبُنَانِیُّ عَلَی امْرَأَۃٍ وَرَجُلٍ أَنَّہُمَا زَنَیَا ، وَأَقَرَّتِ الْمَرْأَۃُ ، وَأَنْکَرَ الرَّجُلُ ؟ فَسَأَلْتُ أَبَا الْعَالِیَۃِ عَن ذَلِکَ ؟ فَقَالَ : لَقِیْتَ رَجُلاً مِنْ أَہْلِ الأَہْوَائِ ؛ یُجْلَدُ الْحَسَنُ ثَمَانِینَ ، وَمُحَمَّدٌ ثَمَانِینَ ، وَثَابِتٌ ثَمَانِینَ ، وَتُرْجَمُ الْمَرْأَۃُ بِاعْتِرَافِہَا ، وَیَذْہَبُ الرَّجُلُ لَیْسَ عَلَیْہِ شَیْئٌ۔
(٢٩٤٢٢) حضرت ابو خلدہ فرماتے ہیں کہ سعید بن ارطبان جو حضرت ابن عون کے چچا ہیں ان کی مجھ سے ملاقات ہوئی وہ کہنے لگے کیا تمہارا حضرت ابو العالیہ کے پاس جانے کا ارادہ ہے ؟ میں نے کہا : جی ہاں انھوں نے کہا ! تم ان سے کہنا حضرت حسن بصری ، حضرت ابن سیرین اور حضرت ثابت بنانی ان سب حضرات نے ایک آدمی اور ایک عورت کے خلاف گواہی دی ہے کہ ان دونوں نے زنا کیا ہے اور اس عورت نے اقرار کرلیا اور آدمی نے انکار کردیا تو کیا حکم ہے ؟ راوی کہتے ہیں، پس میں نے حضرت ابو العالیہ سے اس کے متعلق سوال کیاٖ انھوں نے فرمایا : تمہاری نفس پرستوں میں سے کسی آدمی سے ملاقات ہوئی ہے حسن بصری کو اسی کوڑے مارے جائیں گے اور محمد کو اسی کوڑے مارے جائیں گے اور ثابت بنانی کو اسی کوڑے اور اس عورت کو اعتراف کرنے کی وجہ سے سنگسار کردیا جائے گا اور آدمی چلا جائے گا اور اس پر کوئی سزا لاگو نہیں ہوگی۔

29422

(۲۹۴۲۳) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ؛ أَنَّ الْیَہُودَ قَالُوا لِلنَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَا حَدَّ ذَلِکَ ؟ یَعْنونَ الرَّجْمَ ، قَالَ : إِذَا شَہِدَ أَرْبَعَۃٌ أَنَّہُمْ رَأَوْہُ یُدْخِلُ کَمَا یُدْخِلُ الْمِیلُ فِی الْمُکْحُلَۃِ ، فَقَدْ وَجَبَ الرَّجْمُ۔
(٢٩٤٢٣) حضرت شعبی فرماتے ہیں کہ یہودیوں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا : اس کی حد کیا ہے یعنی سنگسار کرنے کی ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جب چار آدمی گواہی دے دیں کہ بیشک انھوں نے اس شخص کو داخل کرتے ہوئے دیکھا ہے جیسا کہ سلائی سرمہ دانی میں داخل کرتے ہیں تو تحقیق رجم ثابت ہوگیا۔

29423

(۲۹۴۲۴) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنِ الشَّیْبَانِیِّ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : إِذَا شَہِدَ أَرْبَعَۃٌ عَلَی شَیْئٍ ،مَنَعُوا ظُہُورَہُمْ ، وَجَازَتْ شَہَادَاتُہُمْ۔
(٢٩٤٢٤) حضرت شیبانی فرماتے ہیں کہ حضرت شعبی نے ارشاد فرمایا : جب چار آدمیوں نے کسی چیز کی گواہی دی تو انھوں نے اپیب پشتوں کی حفاظت کرلی اور ان کی گواہی جائز ہوگی۔

29424

(۲۹۴۲۵) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ، عَنْ جَعْفَرٍ، عَنْ أَبِیہِ، قَالَ: قَالَ عَلِّیٌّ: مَا أُحِبَّ أَنْ أَکُونَ أَوَّلَ الشُّہُودِ الأَرْبَعَۃِ۔
(٢٩٤٢٥) حضرت جعفر کے والد فرماتے ہیں کہ حضرت علی نے ارشاد فرمایا : میں پسند نہیں کرتا کہ میں چار میں سب سے پہلا گواہ ہوں۔

29425

(۲۹۴۲۶) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَطَائٍ ، قَالَ : أُتِیَ عَلِیٌّ بِرَجُلٍ وَشَہِدَ عَلَیْہِ رَجُلاَنِ أَنَّہُ سَرَقَ ، فَأَخَذَ فِی شَیْء مِنْ أُمُورِ النَّاسِ ، وَتَہَدَّدَ شُہُودَ الزُّورِ ، فَقَالَ : لاَ أُوتَی بِشَاہِدِ زُورٍ إِلاَّ فَعَلْتُ بِہِ کَذَا وَکَذَا ، قَالَ : ثُمَّ طَلَبَ الشَّاہِدَیْنِ فَلَمْ یَجِدْہُمَا ، فَخَلَّی سَبِیلَہُ۔
(٢٩٤٢٦) حضرت عطائ فرماتے ہیں کہ حضرت علی کے پاس ایک آدمی لایا گیا اور اس کے خلاف دو گواہوں نے گواہی دی کہ اس نے چوری کی ہے۔ پس آپ لوگوں کے معاملات میں سے کسی کے کام میں مشغول ہوگئے اور آپ نے جھوٹے گواہوں کو ڈانٹ پلائی اور فرمایا : میرے پاس کسی جھوٹے گواہ کو نہ لایا جائے مگر میں اس کے ساتھ ایسا اور ایسا معاملہ کروں گا راوی نے فرمایا : پھر آپ نے ان دونوں گواہوں کو طلب کیا تو ان کو نہ پایا سو آپ نے اس شخص کو آزاد چھوڑد یا۔

29426

(۲۹۴۲۷) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ شَدَّادٍ ؛ أَنَّ امْرَأَۃً رُفِعَتْ إِلَی عُمَرَ ، أَقَرَّتْ بِالزِّنَی أَرْبَعَ مَرَّاتٍ ، فَقَالَ : إِنْ رَجَعْتِ لَمْ نُقِمْ عَلَیْکِ الْحَدَّ ، فَقَالَتْ : لاَ یَجْتَمِعُ عَلَیَّ أَمْرَانِ ؛ آتِی الْفَاحِشَۃَ ، وَلاَ یُقَامُ عَلَیَّ الْحَدُّ ، قَالَ : فَأَقَامَہُ عَلَیْہَا۔
(٢٩٤٢٧) حضرت عبداللہ بن شداد فرماتے ہیں کہ ایک عورت کو حضرت عمر کے سامنے پیش کیا گیا جس نے چار مرتبہ زنا کا اقرار کیا۔ اس پر آپ نے فرمایا : اگر تو واپس لوٹ جائے تو ہم تجھ پر حد قائم نہیں کریں گے اس عورت نے کہا : مجھ پر پھر دو معاملہ جمع ہوجائیں گے ! میں نے فحش کام کیا اور مجھ پر حد بھی نہیں لگائی گئی تو آپ نے اس پر حد قائم کردی۔

29427

(۲۹۴۲۸) حَدَّثَنَا حَفْصٌ، عَنْ حَجَّاجٍ، عَنْ نَافِع، عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ یَسَارٍ؛ أَنَّ أَبَا وَاقِدٍ بَعَثَہُ عُمَرُ إِلَیْہَا ، فَذَکَرَ مِثْلَہُ۔
(٢٩٤٢٨) حضرت سلیمان بن یسار فرماتے ہیں کہ حضرت ابو واقد حضرت عمر کونے اس عورت کی طرف بھیجا پھر آپ نے ماقبل جیسی حدیث ذکر کی۔

29428

(۲۹۴۲۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إِسْرَائِیلَ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ عَامِرٍ ، وَعَطَائٍ ، قَالاَ : إِذَا أَقَرَّ بِحَدِّ زِنًی ، أَوْ سَرِقَۃٍ ، ثُمَّ جَحَدَ دُرِئَ عَنْہُ۔
(٢٩٤٢٩) حضرت جابر فرماتے ہیں کہ حضرت عامر شعبی اور حضرت عطائ ان دونوں حضرات نے ارشاد فرمایا : جب کوئی حد زنا یا حد سرقہ کا اقرار کرلے پھر وہ انکار کرے تو اس سے سزا ختم کردی جائے گی۔

29429

(۲۹۴۳۰) حَدَّثَنَا ابْنُ مُبَارَکٍ ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَۃَ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ یَعْمُرَ ، قَالَ : إِنْ کَانَ أَقَرَّ فَقَدْ أَنْکَرَ ، یَعْنِی الَّذِی یُقِرُّ بِالْحَدِّ ، ثُمَّ یَرْجِعُ۔
(٢٩٤٣٠) حضرت قتادہ فرماتے ہیں کہ حضرت یحییٰ بن یعمر نے ارشاد فرمایا : اگر کسی نے اقرار کیا پھر انکار کردیا یعنی وہ شخص جو حد کا اقرار کرلے پھر رجوع کرلے۔

29430

(۲۹۴۳۱) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ الْحُبَابِ ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَۃَ ، عَنْ حُمَیْدٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ؛ فِی الرَّجُلِ یُقِرُّ عِنْدَ النَّاسِ ، ثُمَّ یَجْحَدُ ، قَالَ : یُؤْخَذُ بِہِ۔
(٢٩٤٣١) حضرت حمید فرماتے ہیں کہ حضرت حسن بصری سے اس آدمی کے بارے میں مروی ہے جو لوگوں کے سامنے اقرار کرلے پھر انکار کردے آپ نے فرمایا : اس کو اس وجہ سے پکڑا جائے گا۔

29431

(۲۹۴۳۲) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِی عَدِیٍّ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الْحَسَنِ ؛ فِی الرَّجُلِ یُقِرُّ بِالْحَدِّ دُونَ السُّلْطَانِ ، ثُمَّ یَجْحَدُ إِذَا رُفِعَ ، لَمْ یَرَ أَنْ یَلْزَمَہُ۔
(٢٩٤٣٢) حضرت اشعث فرماتے ہیں کہ حضرت حسن بصری سے اس آدمی کے بارے میں مروی ہے جو بادشاہ کی غیر موجودگی میں حد کا اقرار کرلے پھر وہ انکار کردے جب اسے پیش کیا جائے۔ تو آپ نے یہ رائے نہیں رکھی کہ اس پر لازم کردیا جائے۔

29432

(۲۹۴۳۳) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنَی إِسْمَاعِیلُ ، عَنِ ابْنِ شِہَابٍ ،قَالَ : مَنِ اعْتَرَفَ مِرَارًا کَثِیرَۃً بِسَرِقَۃٍ ، أَوْ بِحَدٍّ ثُمَّ أَنْکَرَ ، لَمْ یَجُزْ عَلَیْہِ شَیئٌ۔
(٢٩٤٣٣) حضرت اسماعیل فرماتے ہیں کہ حضرت ابن شھاب نے ارشاد فرمایا : جو شخص کئی مرتبہ چوری یا حد کا اعتراف کرلے پھر وہ انکار کردے تو اس پر کوئی چیز نافد نہیں ہوگی۔

29433

(۲۹۴۳۴) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ دَاوُد ، عَنْ زِیَادِ بْنِ عُثْمَان ؛ أَنَّ رَجُلاً مِن النَّصَارَی اسْتَکْرَہ امْرَأَۃً مُسْلِمَۃً عَلَی نَفْسِہَا ، فَرُفِعَ إِلَی أَبِی عُبَیْدَۃَ بْنِ الْجَرَّاحِ ، فَقَالَ : مَا عَلَی ہَذَا صَالَحْنَاکُم ، فَضَرَبَ عُنُقَہُ۔
(٢٩٤٣٤) حضرت زیاد بن عثمان فرماتے ہیں کہ ایک عیسائی آدمی نے ایک مسلمان عورت کو بدکاری پر مجبور کیا سوا س شخص کو حضرت ابو عبیدہ بن جراح کی خدمت میں پیش کردیا گیا، آپ نے فرمایا : کیا ہم نے تم سے اس کام پر مصالحت کی تھی ؟ آپ نے اس کی گردن اڑا دی۔

29434

(۲۹۴۳۵) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنِ الْمُجَالِدِ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنْ سُوَیْدِ بْنِ غَفَلَۃَ ؛ أَنَّ رَجُلاً مِنْ أَہْلِ الذِّمَّۃِ ، مِنْ نُبَیْطِ أَہْلِ الشَّامِ نَخَسَ بِامْرَأَۃٍ عَلَی دَابَّۃٍ ، فَلَمْ تَقَعْ ، فَدَفَعَہَا بِیَدِہِ فَصَرَعَہَا ، فَانْکَشَفَتْ عَنْہَا ثِیَابُہَا ، فَجَلَسَ لِیُجَامِعَہَا ، فَرُفِعَ إِلَی عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ ، وَقَامَتْ عَلَیْہِ الْبَیِّنَۃُ ، فَأَمَرَ بِہِ فَصُلِبَ ، وَقَالَ : لَیْسَ عَلَی ہَذَا عَاہَدْنَاکُمْ۔
(٢٩٤٣٥) حضرت سوید بن غفلہ فرماتے ہیں کہ ایک ذمی آدمی نے جس کا تعلق شام کے نبطی قبیلہ سے تھا اس نے ایک عورت کی پہلو میں لکڑی ماری جو سواری پر سوار تھی پس وہ نیچے نہیں گری تو اس نے اس کو ہاتھ سے دھکا دیا اور اسے نیچے گرادیا اور اس عورت کے کپڑے کھل گئے۔ پھر وہ بیٹھ گیا تاکہ اس سے جماع کرلے پس اس شخص کو حضرت عمر بن خطاب کی خدمت میں پیش کیا گیا اور اس پر بینہ بھی قائم ہوگیا پھر آپ کے حکم سے اس کو سولی پر لٹکا دیا گیا اور آپ نے فرمایا : اس کام پر ہم نے تم سے معاہدہ نہیں کیا تھا !

29435

(۲۹۴۳۶) حَدَّثَنَا أَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَۃَ ، عَنْ قَتَادَۃَ ؛ أَنَّ عَبْدَ الْمَلِکِ بْنَ مَرْوَانَ أُتِیَ بِرَجُلٍ مِنْ أَہْلِ الذِّمَّۃِ اسْتَکْرَہَ امْرَأَۃً مُسْلِمَۃً ، فَخَصَاہُ۔
(٢٩٤٣٦) حضرت قتادہ فرماتے ہیں کہ عبدالملک بن مروان کے پاس ایک ذمی آدمی لایا گیا جس نے کسی مسلمان عورت کو بدکاری پر مجبور کیا تھا تو انھوں نے اس کو خصی کردیا۔

29436

(۲۹۴۳۷) حَدَّثَنَا الْبَکْرَاوِیُّ ، عَنْ إِسْمَاعِیلَ بْنِ مُسْلِمٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : إِذَا اسْتَکْرَہَ الذِّمِّیُّ الْمُسْلِمَۃَ قُتِلَ۔
(٢٩٤٣٧) حضرت اسماعیل بن مسلم فرماتے ہیں کہ حضرت حسن بصری نے ارشاد فرمایا : جب ذمی شخص مسلمان عورت کو بدکاری پر مجبور کرے تو اسے قتل کردیا جائے۔

29437

(۲۹۴۳۸) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِیلُ بْنُ إِبْرَاہِیمَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاہِیمَ ، عَنْ عَطَائِ بْنِ یَسَارٍ ؛ أَنَّ مَاعِزَ بْنَ مَالِکٍ أَتَی النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَأَقَرَّ عَلَی نَفْسِہِ بِالزِّنَی ، قَالَ : وَبِمَنْ ، قَالَ : بِفُلاَنَۃَ مَوْلاَۃِ ابْنِ فُلاَنٍ ، فَأَرْسَلَ إِلَیْہَا فَأَنْکَرَتْ ، فَخَلَّی سَبِیلَہَا ، وَأَخَذَہُ بِمَا أَقَرَّ عَلَی نَفْسِہِ ، وَلَمْ یُذْکَرْ أَنَّہُ جَلَدَہُ حَدَّ الْفِرْیَۃِ فِیہَا۔ (احمد ۳۳۹)
(٢٩٤٣٨) حضرت عطاء بن یسار فرماتے ہیں کہ ماعز بن مالک نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے اور انھوں نے خود زنا کا اقرار کیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا ! کس کے ساتھ ؟ انھوں نے کہا : فلاں عورت کے ساتھ جو ابن فلاں کی باندی ہے۔ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس عورت کی طرف قاصد بھیجا اس نے انکار کردیا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس عورت کو چھوڑ دیا اور ان کو پکڑ لیا جس نے خود زنا کا اقرار کیا تھا اور یہ ذکر نہیں کیا گیا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو تہمت کی حد لگائی تھی۔

29438

(۲۹۴۳۹) حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِی عَدِیٍّ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الْحَسَنِ ؛ فِی رَجُلٍ قَالَ : زَنَیْت بِفُلاَنَۃٍ ، قَالَ : عَلَیْہِ لَہَا الْحَدُّ۔
(٢٩٤٣٩) حضرت اشعث فرماتے ہیں کہ حضرت حسن بصری سے ایک آدمی کے بارے میں مروی ہے جس نے یوں کہا تھا : میں نے فلاں عورت کے ساتھ زنا کیا ہے، آپ نے فرمایا : اس آدمی پر اس عورت کی وجہ سے حد لاگو ہوگی۔

29439

(۲۹۴۴۰) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ صَالِحِ بْنِ مُسْلِمٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ؛ فِی رَجُلٍ قَالَ لاِمْرَأَۃٍ : أَشْہَدُ أَنِّی قَدْ زَنَیْتُ بِکِ ، قَالَ : أَضْرَبُہُ بِمَا افْتَرَی عَلَیْہَا ، وَلاَ أَضْرِبُہُ بِمَا افْتَرَی عَلَی نَفْسِہِ إِلاَّ بِبَیِّنَۃٍ۔
(٢٩٤٤٠) حضرت صالح بن مسلم فرماتے ہیں کہ حضرت شعبی سے ایک آدمی کے بارے میں مروی ہے جس نے کسی عورت کو یوں کہہ دیا بیشک میں نے تیرے ساتھ زنا کیا ہے۔ آپ نے فرمایا : میں اسے اس وجہ سے تو ماروں گا کہ اس نے اس عورت پر جھوٹا الزام لگایا ہے اور اس شخص کو اپنی ذات پر تہمت لگانے کی وجہ سے نہیں ماروں گا مگر بینہ کے ساتھ۔

29440

(۲۹۴۴۱) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، قَالَ : یُجْلَدُ حَدَّیْنِ ، قُلْتُ : فَإِنْ أَکْذَبَ ؟ قَالَ : یُجْلَدُ حَدًّا، وَیُدْرَأُ عَنْہُ آخَرُ۔
(٢٩٤٤١) حضرت سعید فرماتے ہیں کہ حضرت قتادہ نے ارشاد فرمایا : اس کو دوسزاؤں کے کوڑے مارے جائیں گے میں نے پوچھا : اگر اس کا جھوٹ ظاہر ہوجائے ؟ آپ نے فرمایا : اس پر ایک حد کے کوڑے مارے جائیں گے اور دوسری حد اس سے ختم کردی جائے گی۔

29441

(۲۹۴۴۲) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ یَعْلَی التَّیْمِیُّ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، قَالَ : إِذَا قَالَتِ الْمَرْأَۃُ : زَنَی بِی فُلاَنٌ ، فلا تُجْلَدُ ، وَلاَ یُجْلَدُ۔
(٢٩٤٤٢) حضرت منصور فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم نے ارشاد فرمایا : جب عورت یوں کہے کہ : فلاں نے میرے ساتھ زنا کیا ہے تو نہ اس عورت کو کوڑے مارے جائیں گے اور نہ اس فلاں کو کوڑے مارے جائیں گے۔

29442

(۲۹۴۴۳) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ ہِشَام ، عَنِ الْحَسَن ، قَالَ : إِذَا قَذَفَ الرَّجُلُ الرَّجُلَ بِالْمَرَأَۃِ ؛ جُلِدَ حَدَّینِ ؛ حَدّ لِلْرَجُلِ ، وَحَدّ لِلْمَرَأَۃ۔
(٢٩٤٤٣) حضرت ہشام فرماتے ہیں کہ حضرت حسن بصری نے ارشاد فرمایا : جب آدمی دوسرے آدمی پر عورت کے ساتھ تہمت لگا دے تو اس پر دوسزاؤں کے کوڑے مارے جائیں گے ایک سزا آدمی کی وجہ سے اور دوسری سزا عورت کی وجہ سے۔

29443

(۲۹۴۴۴) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ عُبَیْدَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : إِذَا قَالَ الرَّجُلُ لِلْرَجُلِ : إِنَّ فُلاَنًا زَنَی بِفُلاَنَۃَ ، فَلَیْسَ عَلَیْہِ إِلاَّ حَدٌّ وَاحِدٌ۔
(٢٩٤٤٤) حضرت عبیدہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم نے ارشاد فرمایا : جب آدمی دوسرے آدمی سے یوں کہے : بیشک فلاں شخص نے فلاں عورت کے ساتھ زنا کیا ہے تو اس پر صرف ایک ہی حد لاگوہوگی۔

29444

(۲۹۴۴۵) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : إِذَا قَذَفَ الرَّجُلُ امْرَأَتَہُ بِرَجُلٍ مُسَمًّی ، أُقِیمَ عَلَیْہِ الْحَدُّ۔ وَقَالَ ابْنُ سِیرِینَ : لاَ حَدَّ عَلَیْہِ ، کَانَ الَّذِی لاَعَنَ بِہِ النَّبیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَذَفَہَا بِابْنِ سَحْمَائَ۔
(٢٩٤٤٥) حضرت اشعت فرماتے ہیں کہ حضرت حسن بصری نے ارشاد فرمایا : جب آدمی اپنی بیوی پر کسی آدمی کا نام لے کر الزام لگائے تو اس پر حد قذف قائم کی جائے گی۔ اور حضرت ابن سیرین نے فرمایا : اس پر حد لاگو نہیں ہوگی۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایسے شخص سے لعان کروایا تھا جس نے اپنی بیوی پر ابن سحماء کے ساتھ بدکاری کی تہمت لگائی تھی۔

29445

(۲۹۴۴۶) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سَالِمٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : إِذَا قَذَفَ الرَّجُلُ امْرَأَتَہُ بِرَجُلٍ مُسَمًّی ، لَمْ یَکُنْ عَلَیْہِ لَہُمَا إِلاَّ حَدٌّ وَاحِدٌ ، قَالَ : أَیْہَُما أَخَذَہُ بِحَدِّہِ ؛ لَمْ یَکُنْ لِلآخَرِ حَدٌّ ۔ إِنْ بَدَأَتِ الْمَرْأَۃُ فَلاَعَنَتَہُ ، لَمْ یُضْرَبُ لِلْرَجُلِ ، وَإِنْ ضُرِبَ لِلْرَجُلِ لَمْ یَلاَعَنْ لِلْمَرَأَۃِ۔
(٢٩٤٤٦) حضرت محمد بن سالم فرماتے ہیں کہ حضرت شعبی نے ارشاد فرمایا : جب اپنی بیوی پر کسی آدمی کا نام لے کر تہمت لگائے تو اس پر ان دونوں کی وجہ سے صرف ایک ہی حد لاگو ہوگی۔ آپ نے فرمایا : ان دونوں میں سے جس نے بھی اس کو اپنی سزا کے لیے پکڑ لیا تو دوسرے کے لے ف سزا کا اختیار نہیں ہوگا۔ اگر عورت نے ابتدا کرلی تو وہ اپنے خاوند سے لعان کرے گی اور آدمی کی وجہ سے اسے کوڑے نہیں مارے جائیں گے اور اگر اسے آدمی کی وجہ سے کوڑے مارے جائیں گے تو عورت سے لعان نہیں ہوگا۔

29446

(۲۹۴۴۷) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ؛ فِی رَجُلٍ قَالَ لامْرَأَتِہِ : رَأَیْتُکِ تَزْنِینَ قَبْلَ أَنْ تَکُونِین عَندِی ، قَالَ سَعِیدٌ : حَدٌّ ، وَلاَ مُلاَعَنَۃَ۔ وَقَالَ الْحَسَنُ : لاَ حَدَّ ، وَلاَ مُلاَعَنۃَ ، لأَنَّہُ قَالَ لَہَا ذَلِکَ وَہِیَ عَندَہُ۔
(٢٩٤٤٧) حضرت قتادہ فرماتے ہیں کہ حضرت سعید بن مسیب سے ایک آدمی کے بارے میں مروی ہے جس نے اپنی بیوی کو یوں کہہ دیا : تجھے میں نے میرے پاس ہونے سے پہلے کبھی زنا کرتے ہوئے دیکھا تھا، حضرت سعید نے فرمایا : اس پر حد قذف لگائی جائے گی اور لعان نہیں ہوگا اور حضرت حسن بصری نے ارشاد فرمایا : نہ حد قذف ہوگی اور نہ لعان ہوگا۔ اس لیے کہ اس نے اس عورت کو اس وقت کہا ہے جبکہ وہ اس کے پاس تھی۔

29447

(۲۹۴۴۸) حَدَّثَنَا ابْنُ مُبَارَکٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَطَائٍ ؛ فِی رَجُلٍ قَالَ لاِمْرَأَتِہِ : زَنَیْتِ وَأَنْتِ أَمَۃٌ ، قَالَ : یُحَدُّ۔
(٢٩٤٤٨) حضرت ابن جریج فرماتے ہیں کہ حضرت عطائ سے ایک آدی کے بارے میں مروی ہے جس نے اپنی بیوی کو یوں کہا : تو نے زنا کیا تھا درآنحالیکہ تو باندی تھی۔ آپ نے فرمایا : اس پر حد لگائی جائے گی۔

29448

(۲۹۴۴۹) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ الْحُبَابِ ، عَنْ أَبِی عَوَانَۃَ ، عَنْ أَبِی بِشْرٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ ہَرمٍ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ زَیْدٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ؛ فِی رَجُلٍ طَلَّقَ امْرَأَتَہُ وَاحِدَۃً ، ثُمَّ قَذَفَہَا ، قَالَ : یُجْلَدُ الْحَدَّ ، لَیْسَ کَمَنْ لَمْ یُطَلِّقْ وَقَالَ ابْنُ عُمَرَ : یُلاَعِنْ إِذَا کَانَ یَمْلِکُ الرَّجْعَۃَ۔
(٢٩٤٤٩) حضرت جابر بن زید فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عباس سے ایک آدمی کے بارے میں مروی ہے جس نے اپنی بیوی کو ایک طلاق دی پھر اس نے اس پر الزام لگا دیا ہو آپ نے فرمایا : اس پر حد قذف لگائی جائے گی۔ وہ ایسا نہیں ہوگا جیسا کہ اس نے طلاق نہیں دی۔
اور حضرت ابن عمر نے فرمایا : وہ لعان کرسکتا ہے جبکہ رجوع کرنے کا مالک ہو۔

29449

(۲۹۴۵۰) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : إِذَا طَلَّقَ الرَّجُلُ امْرَأَتَہُ ثَلاَثًا ، ثُمَّ قَذَفَہَا ، قَالَ : یُجْلَدُ الْحَدَّ ، إِلاَّ أَنْ تَکُونَ حَامِلاً ، فَإِنْ کَانَتْ حَامِلاً لاَعَنْہَا۔
(٢٩٤٥٠) حضرت یونس فرماتے ہیں کہ حضرت حسن بصری نے اشاد فرمایا : جب آدمی نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دیں پھر اس نے اس پر الزام لگا دیا تو اس شخص پر حد قذف لگائی جائے گی مگر یہ کہ وہ حاملہ ہو پس اگر وہ حاملہ ہوئی تو وہ اس سے لعان کرے گا۔

29450

(۲۹۴۵۱) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنِ الْحَکَمِ ؛ فِی رَجُلٍ طَلَّقَ امْرَأَتَہُ ثَلاَثًا وَہِیَ حُبْلَی ، ثُمَّ انْتَفَی مِمَّا فِی بَطْنِہَا ، قَالَ : یُجْلَدُ ، وَیُلْزَقُ بِہِ الْوَلَدُ۔
(٢٩٤٥١) حضرت منصور فرماتے ہیں کہ حضرت حکم سے ایک آدمی کے بارے میں مروی ہے جس نے اپنی بیوی کو حاملہ ہونے کی حالت میں تین طلاقیں دے دیں پھر اس نے اس کے پیٹ میں موجود بچہ کی بھی نفی کردی آپ نے فرمایا : اس کو کوڑے مارے جائیں گے اور اس بچہ کو اس سے ملا دیا جائے گا۔

29451

(۲۹۴۵۲) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، قَالَ : إِذَا طَلَّقَ ثَلاَثًا ، ثُمَّ انْتَفَی مِنْ وَلَدِہِ وَہُوَ لاَ یَمْلِکُ الرَّجْعَۃَ، جُلِدَ ، وَأُلْزِقَ بِہِ الْوَلَدُ ، وَإِذَا انْتَفَی مِنْ وَلَدِہِ وَہُوَ یَمْلِکُ الرَّجْعَۃَ لاَعَنَ ، وَنُفِیَ عَنْہُ الْوَلَدَ ، وَإِنْ کَانَ لَمْ یُقِرَّ بِہِ قَطُّ۔
(٢٩٤٥٢) حضرت مغیرہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم نے ارشاد فرمایا : جب آدمی نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دیں پھر اس نے اپنے بچہ کی نفی کردی اس حال میں کہ وہ حق رجعت کا مالک نہ ہو تو اس کو کوڑے مارے جائیں گے اور اس بچہ کو اس کے ساتھ ملا دیا جائے گا۔ اور جب اس نے اپنے بچہ کی نفی کردی اس حال میں کہ وہ حق رجعت کا مالک ہو تو وہ لعان کرے گا اور اس بچہ کی اس سے نفی کردی جائے گی اگرچہ اس نے ہرگز بھی اس کا اقرار نہ کیا ہو۔

29452

(۲۹۴۵۳) حَدَّثَنَا ابْنُ إِدْرِیسَ ، عَنِ الشَّیْبَانِیِّ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ؛ فِی رَجُلٍ طَلَّقَ امْرَأَتَہُ طَلاَقًا بَائِنًا ،فَادَّعَتْ حَمْلاً فَانْتَفَی مِنْہُ ، قَالَ : یُلاَعِنُہَا۔
(٢٩٤٥٣) حضرت شیبانی فرماتے ہیں کہ حضرت شعبی سے ایک آدمی کے بارے میں مروی ہے کہ جس نے اپنی بیوی کو طلاق بائنہ دے دی تھی پس اس عورت نے حمل کا دعویٰ کیا تو اس نے اس بچہ کی نفی کردی آپ نے فرمایا : وہ اس سے لعان کرے گا۔

29453

(۲۹۴۵۴) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ؛ أَنَّہُ سُئِلَ عَنْ رَجُلٍ طَلَّقَ امْرَأَتَہُ ثَلاَثًا ، فَجَائَتْ بِحَمْلٍ ، فَانْتَفَی مِنْہُ ؟ قَالَ : فَقَالَ : یُلاَعِنْ ، قَالَ : فَقَالَ الْحَارِثُ : یَا أَبَا عَمْرو ، إِنَّ اللَّہَ قَالَ فِی کِتَابِہِ : (وَالَّذِینَ یَرْمُونَ أَزْوَاجَہُمْ) ، أَفَتَرَاہَا لَہُ زَوْجَۃً ؟ قَالَ : فَقَالَ الشَّعْبِیُّ : إِنِّی لأَسْتَحِی إِذَا رَأَیْتُ الْحَقَّ أَنْ لاَ أَرْجِع إِلَیْہِ۔
(٢٩٤٥٤) حضرت مغیرہ فرماتے ہں ل کہ حضرت شعبی سے ایک آدمی کے متعلق سوال کیا گیا جس نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دی تھیں۔ پھر وہ حاملہ ہو کر آئی اور اس نے حمل کی نفی کردی ؟ آپ نے فرمایا : وہ لعان کرے گا راوی کہتے ہیں حضرت حارث نے فرمایا : اے ابو عمر ! یقیناً اللہ رب العزت نے اپنی کتاب میں یوں فرمایا ہے ! وہ لوگ جو اپنی بیویوں پر تہمت لگاتے ہیں کیا اس نے اپنی بیوی پر تہمت لگائی ہے ؟ اس پر حضرت شعبی نے فرمایا : بیشک مجھے حیا آتی ہے کہ جب میں حق بات کو پہچان لوں اور اس کی طرف رجوع نہ کروں۔

29454

(۲۹۴۵۵) حَدَّثَنَا عَبَّادٌ ، عَنِ الشَّیْبَانِیِّ ، عَنِ الْحَکَمِ ، وَحَمَّادٍ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ؛ فِی الرَّجُلِ یُطَلِّقُ امْرَأَتَہُ طَلاَقًا بَائِنًا ، ثُمَّ یَقْذِفُہَا ، قَالَ : یُضْرَبُ۔
(٢٩٤٥٥) حضرت حکم اور حضرت حماد فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم سے اس آدمی کے بارے میں مروی ہے جس نے اپنی بیوی کو طلاق بائنہ دے دی ہ پھر وہ اس پر تہمت لگائے آپ نے فرمایا : اس کو کوڑے مارے جائیں گے۔

29455

(۲۹۴۵۶) حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُثْمَانَ الْقُرَشِیُّ ، عَنْ عُثْمَانَ البَتِّی ، قَالَ : کَانَ الْقَاسِمُ بْنُ مُحَمَّدٍ یَقُولُ فِی رَجُلٍ طَلَّقَ امْرَأَتَہُ ، ثُمَّ قَالَ لَہَا : زَنَیْتِ وَأَنْتِ امْرَأَتِی ، قَالَ : یُلاَعِنُ۔
(٢٩٤٥٦) حضرت عثمان بتی فرماتے ہیں کہ حضرت قاسم بن محمد ایک آدمی کے بارے میں فرمایا کرتے تھے۔ جس نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی تھی پھر اس نے اس سے کہا : تو نے زنا کیا حالانکہ تو میری بیوی ہے۔ آپ نے فرمایا : وہ لعان کرے گا۔

29456

(۲۹۴۵۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إِسْمَاعِیلَ بْنِ أَبِی خَالِدٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ؛ فِی رَجُلٍ قَذَفَ ، ثُمَّ طَلَّقَ ثَلاَثًا ، قَالَ : یُلاَعِنُہَا مَا کَانَتْ فِی الْعِدَّۃِ۔
(٢٩٤٥٧) حضرت اسماعیل بن ابی خالد فرماتے ہیں کہ حضرت شعبی سے ایک آدمی کے بارے میں مروی ہے جس نے تہمت لگائی پھر اس نے تین طلاقیں دے دیں آپ نے فرمایا : وہ اپنی بیوی سے لعان کرے گا جب تک وہ عدت میں ہو۔

29457

(۲۹۴۵۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، قَالَ : إِذَا کَانَ یَمْلِکُ الرَّجْعَۃَ لاَعَنَ ، وَإِذَا کَانَ لاَ یَمْلِکُ الرَّجْعَۃَ جُلِدَ۔
(٢٩٤٥٨) حضرت مغیرہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم نے ارشاد فرمایا : جب تک وہ حق رجعت کا مالک نہ ہو تو اسے کوڑے مارے جائیں گے۔

29458

(۲۹۴۵۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، قَالَ : سَمِعْتُ حَمَادًا ، یَقُولُ : لاَ حدَّ وَلاَ لِعَان۔
(٢٩٤٥٩) حضرت سفیان فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت حماد کو یوں فرماتے ہوئے سنا نہ حد ہوگی اور نہ ہی لعان۔

29459

(۲۹۴۶۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ غَیْلاَنَ ، عَنِ الْحَکَمِ ، قَالَ : یُضْرَبُ۔
(٢٩٤٦٠) حضرت غیلان فرماتے ہیں کہ حضرت حکم نے ارشاد فرمایا : اس کو کوڑے مارے جائیں گے۔

29460

(۲۹۴۶۱) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی، عَنِ ابْنِ أَبِی عَرُوبَۃَ، عَنْ عَامِرٍ ، عَنْ مَکْحُولٍ؛ أَنَّہُ قَالَ : إِذَا قَذَفَ ثُمَّ طَلَّقَ ، لاَعَنَ۔
(٢٩٤٦١) حضرت عامر فرماتے ہیں کہ حضرت مکحول نے ارشاد فرمایا : جب وہ تہمت لگائے پھر وہ طلاق دے تو وہ لعان کرے گا۔

29461

(۲۹۴۶۲) حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِی عَدِیٍّ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الْحَسَنِ ؛ فِی الرَّہْنِ ، لَمْ یَرَ عَلَیْہِ حَدًّا۔
(٢٩٤٦٢) حضرت اشعث فرماتے ہیں کہ حضرت حسن بصری کی گروی کے معاملہ میں حد رائے نہیں تھی۔

29462

(۲۹۴۶۳) حَدَّثَنَا أَسْبَاطُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، عَنْ مُطَرِّفٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : إِذَا رَہَنْتَ وَلِیدَتَکَ ، فَلاَ تَقَعْنَّ عَلَیْہَا حَتَّی تَفْتَکَّہَا۔
(٢٩٤٦٣) حضرت مطرف فرماتے ہیں کہ حضرت شعبی نے ارشاد فرمایا : جب تو اپنی باندی کو گروی رکھے تو ہرگز اس سے جماع مت کر یہاں تک کہ اس کو رہن سے آزاد کرا لے۔

29463

(۲۹۴۶۴) حَدَّثَنَا ابْنُ مُبَارَکٍ ، عَنْ أَبِی بَکْرِ بْنِ أَبِی مَرْیَمَ ، عَنْ حَکِیمِ بْنِ عُمَیْرٍ ، قَالَ : کَتَبَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ : أَلاَ لاَ یَجْلِدَنَّ أَمِیرُ جَیْشٍ ، وَلاَ سَرِیَّۃٍ أَحَدًا الْحَدَّ ، حَتَّی یَطْلُعَ الدَّرْبِ ، لِئَلاَّ تَحْمِلَہُ حَمِیَّۃُ الشَّیْطَانِ أَنْ یَلْحَقَ بِالْکُفَّارِ۔
(٢٩٤٦٤) حضرت حکیم بن عمیر فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب نے خط لکھا : خبردار ! ہرگز امرہ لشکر یا امیر گروہ کسی ایک کو حد کے کوڑے مت مارے یہاں تک کہ شہر کا راستہ ظاہر ہوجائے کہیں ایسا نہ ہو کہ شیطان کی حمیت و غیرت اس پر حملہ کردے اور وہ کفار سے جا ملے۔

29464

(۲۹۴۶۵) حَدَّثَنَا ابْنُ مُبَارَکٍ ، عَنْ أَبِی بَکْرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ أَبِی مَرْیَمَ ، عنْ حُمَیْدِ بْنِ فُلاَنِ بْنِ رُومَانَ ؛ أَنَّ أَبَا الدَّرْدَائِ نَہَی أَنْ یُقَامَ عَلَی أَحَدٍ حَدٌّ فِی أَرْضِ الْعَدُوِّ۔
(٢٩٤٦٥) حضرت حمید بن فلان بن رومان فرماتے ہیں کہ حضرت ابو الدردائ نے کسی پر بھی دشمن کے علاقہ میں حد قائم کرنے سے منع فرمایا ہے۔

29465

(۲۹۴۶۶) حَدَّثَنَا عِیسَی بْنُ یُونُسَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، عَنْ عَلْقَمَۃَ ، قَالَ : غَزَوْنَا أَرْضَ الرُّومِ وَمَعَنا حُذَیْفَۃُ ، وَعَلَیْنَا رَجُلٌ مِنْ قُرَیْشٍ ، فَشَرِبَ الْخَمْرَ ، فَأَرَدْنَا أَنْ نَحُدَّہُ ، فَقَالَ حُذَیْفَۃُ : أَتَحُدُّونَ أَمِیرَکُمْ ، وَقَدْ دَنَوْتُمْ مِنْ عَدُوِّکُمْ ، فَیَطْمَعُونَ فِیکُمْ ؟ فَقَالَ : لأَشْرَبَنَّہَا ، وَإِنْ کَانَتْ مُحَرَّمَۃً ، وَلأَشْرَبَنَّہَا عَلَی رَغْمِ مَنْ رَغِمَ۔
(٢٩٤٦٦) حضرت علقمہ فرماتے ہیں کہ ہم رومیوں سے جنگ کر رہے تھے۔ ہمارے ساتھ حضرت حذیفہ بھی تھے۔ ایک قریشی ہمارا امیر تھا۔ اس نے شراب پی ہم نے اس پر حد جاری کرنا چاہی تو حضرت حذیفہ نے کہا کہ کیا تم اپنے امیر پر حد قائم کرو گے حالانکہ تم اپنے دشمن کے قریب ہو۔ اس طرح تو وہ تم پر حاوی ہوجائے گا۔ اس پر وہ امیر کہنے لگا کہ میں شراب پیوں گا ضراہ وہ حرام ہے۔

29466

(۲۹۴۶۷) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَوَائٍ ، عَنْ خَالِدٍ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ زَیْدٍ ؛ فِیمَنْ أَتَی ذَاتَ مَحْرَمٍ مِنْہُ ، قَالَ : ضَرْبَۃُ عُنُقٍ۔
(٢٩٤٦٧) حضرت خالد فرماتے ہیں کہ حضرت جابر بن زید نے اس شخص کے بارے میں فرمایا : جو اپنی محرم سے وطی کرلے آپ نے فرمایا : گردن ماری جائے گی۔

29467

(۲۹۴۶۸) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ عَبَّادِ بْنِ مَنْصُورٍ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : اقْتُلُوا کُلَّ مَنْ أَتَی ذَاتَ مَحْرَمٍ۔
(٢٩٤٦٨) حضرت عکرمہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عباس نے ارشاد فرمایا : ہر اس شخص کو قتل کردو جو اپنی محرم سے وطی کرلے۔

29468

(۲۹۴۶۹) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنْ عَدِیٍّ بْنِ ثَابِتٍ ، عَنِ الْبَرَائِ بْنِ عَازِبٍ ؛ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَعَثَ إِلَی رَجُلٍ تَزَوَّجَ امْرَأَۃَ أَبِیہِ ، فَأَمَرَہُ أَنْ یَأْتِیَہُ بِرَأْسِہِ۔ (ترمذی ۱۳۶۲۔ ابن ماجہ ۲۶۰۷)
(٢٩٤٦٩) حضرت براء بن عازب فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک آدمی کی طرف قاصد بھیجا جس نے اپنے باپ کی بیوی سے شادی کرلی تھی آپ نے اس کو حکم دیا کہ وہ اس کا سر لے کر آئے۔

29469

(۲۹۴۷۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ حَسَنِ بْنِ صَالِحٍ ، عَنِ السَّدِیِّ ، عَنْ عَدِیِّ بْنِ ثَابِتٍ ، عَنِ الْبَرَائِ ، قَالَ : لَقِیت خَالِی وَمَعَہُ الرَّایَۃُ ، فَقُلْتُ لَہُ ؟ فَقَالَ : بَعَثَنِی النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِلَی رَجُلٍ تَزَوَّجَ امْرَأَۃَ أَبِیہِ أَنْ أَقْتُلَہُ ، أَوْ أَضْرِبَ عُنُقَہُ۔ (ابوداؤد ۴۴۵۱۔ احمد ۲۹۰)
(٢٩٤٧٠) حضرت عدی بن ثابت فرماتے ہیں کہ حضرت برائ نے ارشاد فرمایا : کہ میں اپنے ماموں سے ملا اس حال میں کہ ان کے پاس جھنڈا تھا میں نے ان سے اس بارے میں پوچھا ؟ تو آپ نے فرمایا : نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے ایک آدمی کی طرف بھیجا ہے جس نے اپنے باپ کی بیوی سے شادی کرلی ہے کہ میں اسے قتل کردوں یا اس کی گردن اڑادوں۔

29470

(۲۹۴۷۱) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِی عَدِیٍّ ، عَنْ حُمَیْدٍ ، عَنْ بَکْرٍ ، قَالَ : رُفِعَ إِلَی الْحَجَّاجِ رَجُلٌ زَنَی بِابْنَتِہِ ، فَقَالَ : مَا أَدْرِی بِأَیِّ قِتْلَۃٍ أَقْتُلُ ہَذَا ، وَہَمَّ أَنْ یَصْلُبَہُ ، فَقَالَ لَہُ عَبْدُ اللہِ بْنُ مُطَرِّفٍ ، وَأَبُو بُرْدَۃَ : سَتَرَ اللَّہُ ہَذِہِ الأُمَّۃَ ، أَحَبَّ البَلاَئِ مَا سَتَرَ الإِسْلاَمَ ، اقْتُلْہُ ، قَالَ : صَدَقْتُمَا ، فَأَمَرَ بِہِ فَقُتِلَ۔
(٢٩٤٧١) حضرت بکر فرماتے ہیں کہ ایک آدمی کو حجاج کے سامنے پیش کیا گیا جس نے اپنی بیٹی سے زنا کیا تھا تو حجاج کہنے لگا : مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ میں اس کو کس طریقہ سے قتل کروں ؟ اور اس نے اس کو سولی پر چڑھانے کا ارادہ کیا۔ تو حضرت عبداللہ بن مطرف اور حضرت ابو بردہ نے اس سے فرمایا : اللہ نے اس امت کی ستر پوشی کی ہے۔ پسندیدہ بلاء وہ ہے جس کی اسلام نے ستر پوشی کی تم اسے قتل کردو اس نے کہا : تم دونوں نے سچ کہا تو اس کے حکم سے اس کو قتل کردیا گیا۔

29471

(۲۹۴۷۲) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ عَمْرٍو ، قَالَ : سَأَلْتُہُ : مَا کَانَ الْحَسَنُ یَقُولُ فِیمَنْ تَزَوَّجَ ذَاتَ مَحْرَمٍ مِنْہُ ، وَہُوَ یَعْلَمُ ؟ قَالَ : عَلَیْہِ الْحَدُّ۔
(٢٩٤٧٢) حضرت حفص فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عمرو سے دریافت کیا حضرت حسن بصری اس شخص کے بارے میں کیا فرمایا کرتے تھے جو جانتے ہوئے بھی اپنی محرم سے شادی کرلے ؟ آپ نے فرمایا : اس پر حد جاری ہوگی۔

29472

(۲۹۴۷۳) حَدَّثَنَا سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ حُمَیْدٍ الأَعْرَجِ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ صَیْفِیٍّ ؛ أَنَّ عُمَرَ کَتَبَ إِلَی أَبِی مُوسَی : أَلاَ یُبْلَغُ فِی تَعْزِیرٍ أَکْثَرُ مِنْ ثَلاَثِینَ۔
(٢٩٤٧٣) حضرت یحییٰ بن عبداللہ بن صیفی فرماتے ہیں کہ حضرت عمر نے حضرت ابو موسیٰ کو خط لکھا ؟ تعزیر میں تیس سے زیادہ مقدار میں کوڑے نہ ہوں۔

29473

(۲۹۴۷۴) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ جَامِعٍ ، عَنْ أَبِی وَائِلٍ ؛ أَنَّ رَجُلاً کَتَبَ إِلَی أُمِّ سَلَمَۃَ فِی دَیْنٍ لَہُ قِبَلَہَا ، یحرّجُ عَلَیْہَا فِیہِ ، فَأَمَرَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ أَنْ یُضْرَبَ ثَلاَثِینَ جَلْدَۃً۔ قَالَ بَعْضُ أَصْحَابِنَا : کُلُّہَا یُبْضِعُ وَیُحْدرُ۔
(٢٩٤٧٤) حضرت ابو وائل فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے حضرت ام سلمہ کو خط لکھا اپنے قرض کے بارے میں جوان پر لازم تھا اس نے اس خط میں آپ کو پریشان کیا۔ تو حضرت عمر نے حکم دیا کہ اس شخص کو تیس کوڑے مارے جائیں گے۔

29474

(۲۹۴۷۵) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : التَّعْزِیرُ مَا بَیْنَ السَّوْطِ إِلَی الأَرْبَعِینَ۔
(٢٩٤٧٥) حضرت اشعث فرماتے ہیں کہ حضرت شعبی نے ارشاد فرمایا : تعزیر کی مقدار ایک کوڑے سے چالیس کوڑوں کے مابین ہے۔

29475

(۲۹۴۷۶) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ صَدَقَۃَ بْنِ عَبْدِ اللہِ ، عَنِ الْحَارِثِ بْنِ عُتْبَۃَ ؛ أنَّ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِیزِ أُتِیَ بِرَجُلٍ یَسُبُّ عُثْمَانَ ، فَقَالَ : مَا حَمَلَک عَلَی أَنْ سَبَبْتَہُ ؟ قَالَ : أُبْغِضُہُ ، قَالَ : وَإِنْ أَبْغَضْتَ رَجُلاً سَبَبْتَہُ ، قَالَ : فَأَمَرَ بِہِ فَجُلِدَ ثَلاَثِینَ جَلْدَۃً۔
(٢٩٤٧٦) حضرت حارث بن عتبہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز کے پاس ایک آدمی لایا گیا جو حضرت عثمان کو گالیاں دیتا تھا، آپ نے پوچھا ! کس بات نے تجھے ان کو گالیاں دینے پر ابھارا ؟ اس نے کہا : میں ان سے بغض رکھتا ہوں آپ نے فرمایا : اگر تو کسی آدمی سے بغض رکھے گا تو اس کا مطلب ہے کہ تو اسے گالی دے ؟ تو آپ کے حکم سے اس کو تیس کوڑے مارے گئے۔

29476

(۲۹۴۷۷) حَدَّثَنَا ابْنُ إِدْرِیسَ ، عَنْ طَلْحَۃَ بْنِ یَحْیَی ، قَالَ : کُنْتُ جَالِسًا عَندَ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِیزِ ، فَجَائَہُ رَجُلٌ ، فَسَأَلَہُ الْفَرِیضَۃَ ؟ فَلَمْ یَفْرِضْ لَہُ ، فَقَالَ : ہُوَ کَافِرٌ بِاللَّہِ إِنْ لَمْ یَفْرِضْ لَہُ ،قَالَ : فَضَرَبَہُ مَا بَیْنَ الْعَشَرَۃِ إِلَی الْخَمْسَۃِ عَشَرَ۔
(٢٩٤٧٧) حضرت طلحہ بن یحییٰ فرماتے ہیں کہ میں حضرت عمر بن عبدالعزیز کے پاس بیٹھا ہوتا تھا کہ آپ کے پاس ایک آدمی آیا اور اس نے آپ سے روزینہ مقرر کرنے کا سوال کیا آپ نے اس کے لیے حصہ مقرر نہیں کیا تو وہ کہنے لگا : وہ اللہ کے ساتھ کفر کرنے والا ہے اگر وہ حصہ مقرر نہ کرے ! راوی کہتے ہیں ! پس آپ نے اسے دس سے پندرہ کوڑے مارے۔

29477

(۲۹۴۷۸) حَدَّثَنَا شَبَابَۃُ ، قَالَ : حدَّثَنَا لَیْثُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنْ یَزِیدَ بْنِ أَبِی حَبِیبٍ ، عَنْ بُکَیْرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ ، عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ یَسَارٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ جَابِرٍ ، عَنْ أَبِی بُرْدَۃَ بْنِ نِیَارٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لاَ یُجْلَدُ فَوْقَ عَشَرَۃِ أَسْوَاطٍ ، إِلاَّ فِی حَدٍّ۔ (بخاری ۶۸۴۸۔ ابوداؤد ۴۴۸۵)
(٢٩٤٧٨) حضرت ابو بردہ بن نیار فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : دس سے زیادہ کوڑے نہیں مارے جائیں گے مگر کسی حد میں۔

29478

(۲۹۴۷۹) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ إِسْمَاعِیلَ بْنِ أَبِی خَالِدٍ ، عَنْ عِمْرَانَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ؛ أَنَّہُ سُئِلَ عَنْ أَرْبَعَۃٍ شَہِدُوا عَلَی رَجُلٍ أَنَّہُ لَیْسَ ابْنَ فُلاَنٍ ، وَشَہِدَ أَرْبَعَۃٌ أَنَّہُ ابْنُ فُلاَنٍ ؟ فَقَالَ : ادْرَأْ عَن ہَؤُلاَئِ لأَنَّہُمْ أَرْبَعَۃٌ ، وَأُصَدِّقَ الآخَرِینَ۔
(٢٩٤٧٩) حضرت عمران فرماتے ہیں کہ حضرت شعبی سے ان چار آدمیوں کے متعلق سوال کیا گیا جنہوں نے ایک آدمی پر گواہی دی کہ وہ فلاں کا بیٹا نہیں ہے اور چار آدمیوں نے یہ گواہی دی کہ بیشک وہ فلاں شخص کا بیٹا ہے ان کا کیا حکم ہے ؟ آپ نے فرمایا : میں ان سے سزا ختم کردوں گا اس لیے کہ وہ چار ہیں اور میں دوسرے کی تصدیق کروں گا۔

29479

(۲۹۴۸۰) حَدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ عَبْدِ الْکَرِیِمِ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ ، قَالَ : قَالَ عُمَرُ لِعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ : أَرَأَیْتَ لَوْ کُنْتَ الْقَاضِیَ وَالْوَالِیَ ، ثُمَّ أَبْصَرْتَ إِنْسَانًا عَلَی حَدٍّ ، أَکُنْتَ مُقِیمًا عَلَیْہِ ؟ قَالَ : لاَ ، حَتَّی یَشْہَدَ مَعِی غَیْرِی ، قَالَ : أَصَبْتَ ، وَلَوْ قُلْتَ غَیْرَ ذَلِکَ لَمْ تُجِدْ۔
(٢٩٤٨٠) حضرت عکرمہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر نے حضرت عبدالرحمن بن عوف سے دریافت کیا؍ تمہاری کیا رائے ہے کہ اگر تم قاضی اور حاکم ہو پھر تم کسی شخص کو کسی حد کے کام میں مبتلا دیکھو تو کیا تم اس پر حد قائم کرو گے یا نہیں ؟ انھوں نے جواب دیا : نہیں، یہاں تک کہ اس کے ساتھ کوئی اور بھی گواہی دے آپ نے فرمایا : تم نے درست بات کی اور اگر تم اس کے علاوہ کوئی بات کہتے تو تم صحیح نہ ہوتے۔

29480

(۲۹۴۸۱) حَدَّثَنَا ابْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنْ سُفْیَانَ ، قَالَ : سَمِعْتُ حَمَّادًا ، یَقُولُ : سَمِعْنَا أَنَّ الْحَاکِمَ یُجَوِّزُ قَوْلَہُ فِیمَا اعْتُرِفَ عَندَہُ إِلاَّ الْحُدُودَ۔
(٢٩٤٨١) حضرت سفیان فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت حماد کو یوں فرماتے ہوئے سنا : یقیناً حاکم کا قول ان معاملات میں جائز ہے جس کا اس کے سامنے اعتراف کیا گیا سوائے حدود کے۔

29481

(۲۹۴۸۲) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ، عَنْ أَشْعَثَ، عَنِ الْحَسَنِ؛ أَنَّہُ سُئِلَ عَنِ الْمَرْأَۃِ تَعَلَّقُ بِالرَّجُلِ فَتَقُولُ: فَعَلَ بِی؟ فَقَالَ الْحَسَنُ: قَذَفَتْ رَجُلاً مِنَ الْمُسْلِمِینَ، عَلَیْہَا الْحَدُّ۔ قَالَ: وَقَالَ إِبْرَاہِیمُ : ہِیَ طَالِبَۃُ حَقٍّ، کَیْفَ تَقُولُ؟
(٢٩٤٨٢) حضرت اشعث فرماتے ہیں کہ حضرت حسن بصری سے اس عورت کے متعلق دریافت کیا گیا جو آدمی سے چمٹ جائے اور یوں کہے : اس نے میرے ساتھ بدکاری کی ہے تو اس کا کیا حکم ہے ؟ آپ نے فرمایا : اس نے ایک مسلمان آدمی پر تہمت لگائی اس پر حد قذف جاری ہوگی حضرت ابراہیم نے فرمایا : وہ حق کا مطالبہ کر رہی ہے، تم کیسے کہہ سکتے ہو ؟

29482

(۲۹۴۸۳) حَدَّثَنَا عَبْد الرَّحیم ، عَنِ الأَشْعَثِ ، عَنِ الْحَسَنِ ؛ فِی رَجُلٍ قَالَتْ لَہُ امْرَأَۃٌ : إِنَّ ہَذَا زَنَی بِی ، قَالَ : تُجْلَدُ بِقَذْفِہَا الرَّجُلَ ، وَلاَ یُجْلَدُ الرَّجُلُ۔
(٢٩٤٨٣) حضرت اشعث فرماتے ہیں کہ حضرت حسن بصری سے ایک آدمی کے بارے میں مروی ہے جس سے کسی عورت نے یوں کہا : بیشک اس نے مجھ سے زنا کیا ہے، آپ نے فرمایا : اس عورت کو آدمی پر تہمت لگانے کی وجہ سے کوڑے مارے جائیں گے اور اس آدمی کو کوڑے نہیں مارے جائیں گے۔

29483

(۲۹۴۸۴) حَدَّثَنَا ابْنُ إِدْرِیسَ ، عَنْ أَبِیہِ ، وَعَمِّہِ ، وَیَحْیَی بْنِ أَبِی الْہَیْثَمِ ، عَنْ جَدِّہِ ؛ أَنَّہُ شَہِدَ عَلِیًّا وَأُتِیَ بِرَجُلٍ وَامْرَأَۃٍ ، وُجِدَا فِی خَرِبِ مُرَادٍ ، فَأُتِیَ بِہِمَا عَلِیٌّ ، فَقَالَ : بِنْتُ عمِّی وَیَتِیمَتِی فِی حَجْرِی ، فَجَعَلَ أَصْحَابُہُ یَقُولُونَ : قُولِی زَوْجِی ، فَقَالَتْ : ہُوَ زَوْجِی ، فَقَالَ عَلِیٌّ : خُذْ بِیَدِ امْرَأَتِک۔
(٢٩٤٨٤) حضرت یحییٰ بن ابو الھیثم کے دادا فرماتے ہیں کہ میں حضرت علی کے پاس حاضر تھا کہ آپ کے پاس ایک آدمی اور ایک عورت لائے گئے جو کسی ویران جگہ میں پائے گئے تھے سوا ن دونوں کو حضرت علی کے پاس لایا گیا وہ آدمی کہنے لگا : میرے چچا کی بیٹی ہے، اور یتیم مر ی پرورش میں ہے تو آپ کے ہمنشینوں نے یوں کہنا شروع کردیا : یوں کہہ دو ! میرا خاوند ہے تو اس عورت نے کہہ دیا وہ میرا خاوند ہے اس پر حضرت علی نے فرمایا : تو اپنی بیوی کا ہاتھ پکڑلے۔

29484

(۲۹۴۸۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنِ الْحَکَمِ ، وَحَمَّادٍ ، قَالاَ : یُدْرَأُ عَنْہُ۔
(٢٩٤٨٥) حضرت شعبہ نے فرماتے ہیں کہ حضرت حکم اور حضرت حماد نے ارشاد فرمایا : اس سے سزا ختم کردی جائے گی۔

29485

(۲۹۴۸۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ عَامِرٍ ، قَالَ : یُدْرَأُ عَنْہُ۔
(٢٩٤٨٦) حضرت جابر فرماتے ہیں کہ حضرت عامر نے ارشاد فرمایا : اس سے سزا ہٹا دی جائے گی۔

29486

(۲۹۴۸۷) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ؛ فِی الْمَرْأَۃِ تُوجَدُ مَعَ الرَّجُلِ ، فَتَقُولُ : تَزَوَّجَنِی ، فَقَالَ إِبْرَاہِیمُ : لَوْ کَانَ ہَذَا حَقًّا مَا کَانَ عَلَی زَانٍ حَدٌّ۔
(٢٩٤٨٧) حضرت ابن فضیل فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم سے اس عورت کے بارے میں مروی ہے جو آدمی کے ساتھ پائی گئی تھی پس اس عورت نے کہا : اس نے مجھ سے شادی کی ہے۔ حضرت ابراہیم نے فرمایا : اگر یہ بات سچ ہو کسی بھی زانی پر حد نہ ہو۔

29487

(۲۹۴۸۸) حَدَّثَنَا عِیسَی بْنُ یُونُسَ ، عَنِ الأَوْزَاعِیِّ ، قَالَ : سَأَلْتُ الزُّہْرِیَّ عَنْ رَجُلٍ نَفَی رَجُلاً مِنْ أَبٍ لَہُ فِی الشِّرْکِ ؟ فَقَالَ : عَلَیْہِ الْحَدُّ ، لأَنَّہُ نَفَاہُ مِنْ نَسَبِہِ۔
(٢٩٤٨٨) حضرت اوزاعی فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت زھری سے ایک آدمی کے متعلق سوال کیا جو شرک کے زمانے میں کسی آدمی کی اس کے باپ سے نفی کر دے ؟ آپ نے فرمایا : اس پر حد جاری ہوگی، اس لیے کہ اس نے اس کے نسب کی نفی کی ہے۔

29488

(۲۹۴۸۹) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ؛ أَنَّ رَجُلاً مِنَ الْمُہَاجِرِینَ افْتُرِیَ عَلَیْہِ عَلَی عَہْدِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ ، وَکَانَتْ أُمُّہُ مَاتَتْ فِی الْجَاہِلِیَّۃِ ، فَجَلَدَہُ عُمَرُ لِحُرْمَۃِ الْمُسْلِمِ۔
(٢٩٤٨٩) حضرت معمر فرماتے ہیں کہ حضرت زھری نے ارشاد فرمایا : ایک مہاجر آدمی پر حضرت عمر بن خطاب کے زمانے میں تہمت لگائی گئی اس حال میں کہ اس کی ماں زمانہ جاہلیت میں وفات پاچکی تھی تو حضرت عمر نے مسلمان کی حرمت کی وجہ سے اس کو کوڑے مارے۔

29489

(۲۹۴۹۰) حَدَّثَنَا ابْنُ إِدْرِیسَ ، عَنْ عَمِّہِ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ؛ أَنَّہُ سُئِلَ عَنْ رَجُلٍ قَذَفَ رَجُلاً ، وَأُمُّہُ مُشْرِکَۃٌ ؟ قَالَ : أَرَأَیْتَ لَوْ أَنَّ رَجُلاً قَذَفَ الأَشْعَثَ ، أَلَمْ یُضْرَبْ ؟۔
(٢٩٤٩٠) حضرت شعبی سے ایک آدمی کے متعلق سوال کیا گیا جس نے کسی آدمی پر تہمت لگائی اس حال میں کہ اس کی ماں مشرک تھی ؟ آپ نے فرمایا : تمہاری کیا رائے ہے کہ اگر کوئی آدمی اشعث پر تہمت لگائے تو کیا اسے نہیں مارا جائے گا ؟

29490

(۲۹۴۹۱) حَدَّثَنَا ابْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ سَعِیدٍ الزُّبَیْدِیِّ ، عَنْ حَمَّادٍ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ؛ فِی الرَّجُلِ یَقُولُ لِلرَّجُلِ : لَسْتَ لأَبِیک ، وَأُمُّہُ أَمَۃٌ ، أَوْ یَہُودِیَّۃٌ ، أَوْ نَصْرَانِیَّۃٌ ، قَالَ : لاَ حَدَّ عَلَیْہِ۔
(٢٩٤٩١) حضرت حضرت حماد فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم سے اس آدمی کے بارے میں مروی ہے جو آدمی کو یوں کہے : تو اپنے باپ کا نہیں ہے اور اس کی ماں باندی تھی یا یہودی یا عیسائی تھی۔ آپ نے فرمایا : اس پر حد جاری نہیں ہوگی۔

29491

(۲۹۴۹۲) حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِی غَنِیۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنِ الْحَکَمِ ، قَالَ : إِذَا قَذَفَ الرَّجُلُ الرَّجُلَ ، وَلَہُ أُمٌّ یَہُودِیَّۃٌ ، أَوْ نَصْرَانِیَّۃٌ ، فَلاَ حَدَّ عَلَیْہِ۔
(٢٩٤٩٢) حضرت ابو غنیہ فرماتے ہیں کہ حضرت حکم نے ارشاد فرمایا : جب آدمی ایسے آدمی پر تہمت لگائے درآنحالیکہ اس کی ماں یہودی یا عیسائی تھی سو اس پر حد جاری نہیں ہوگی۔

29492

(۲۹۴۹۳) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ حَمَّادٍ ؛ فِی الرَّجُلِ یَغِیبُ عَنِ امْرَأَتِہِ ، وَلَمْ یَدْخُلْ بِہَا ، فَتَجِیئُ بِحَمْلٍ ، أَوْ بِوَلَدٍ ، قَالَ : إِنْ کَانَتْ غَیْبَتُہُ بِأَرْضٍ بَعِیدَۃٍ لَمْ تُصَدَّقْ ، وَیُقَامُ عَلَیْہَا الْحَدُّ ، وَإِنْ کَانَ فِی أَرْضٍ قَرِیبَۃٍ یُرَوْنَ أَنَّہُ یَأْتِیہَا سِرًّا ، صُدِّقَتْ بِالْوَلَدِ أَنَّہُ مِنْ زَوْجِہَا۔
(٢٩٤٩٣) حضرت مغیرہ فرماتے ہیں کہ حضرت حماد سے اس آدمی کے بارے میں مروی ہے جو اپنی بولی سے غائب ہوگیا ہو اور اس نے اس سے دخول بھی نہ کیا ہو پس وہ عورت حاملہ ہوگئی یا بچہ لے آئی۔ آپ نے فرمایا : اگر اس کا غائب ہونا کسی دور کے علاقہ میں ہوا ہو تو اس عورت کی تصدیق نہیں کی جائے گی اور اس پر حد قائم کردی جائے گی اور اگر وہ کسی قریب کے علاقہ ہی میں غائب ہوا ہو تو یوں سمجھا جائے گا کہ وہ اس کے پاس پوشیدگی میں آتا تھا تو بچہ کی عورت کی حق میں تصدیق کی جائے گی کہ وہ اسی شوہر سے ہے۔

29493

(۲۹۴۹۴) حَدَّثَنَا عِیسَی بْنُ یُونُسَ ، عَنِ الأَوْزَاعِیِّ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، قَالَ : لَوْ أَنَّ رَجُلاً قَذَفَ رَجُلاً ، فَعَفَا وَأَشْہَدَ ، ثُمَّ جَائَ بِہِ إِلَی الإِمَامِ بَعْدَ ذَلِکَ ، أَخَذَ لَہُ بِحَقِّہِ ، وَلَوْ مَکَثَ ثَلاَثِینَ سَنَۃً۔
(٢٩٤٩٤) حضرت اوزاعی فرماتے ہیں کہ حضرت زھری نے ارشاد فرمایا : اگر کسی آدمی نے کسی پر تہمت لگائی پس اس شخص نے معاف کردیا اور گواہ بنا لیا پھر اس کے بعد وہ پھر اسے امام کے پاس لے آیا تو اس کے حق میں اس کو پکڑا جائے گا اگرچہ وہ تیس سال ٹھہرا رہا ہو۔

29494

(۲۹۴۹۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، قَالَ : سَأَلْتُ الْحَسَنَ ، وَابْنَ سِیرِینَ عَنِ الرَّجُلِ یَفْتَرِی عَلَی الرَّجُلِ فَیَعْفُو ؟ قَالَ الْحَسَنُ : لاَ ، وَقَالَ ابْنُ سِیرِینَ : مَا أَدْرِی۔
(٢٩٤٩٥) حضرت ابن عون فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت حسن بصری اور حضرت ابن سیرین سے اس آدمی کے متعلق دریافت کیا جس نے آدمی پر جھوٹی تہمت لگا دی ہو پس اس شخص نے معاف کردیا تو کیا حکم ہے ؟ حضرت حسن بصری نے فرمایا : نہیں، اور حضرت ابن سیرین نے فرمایا میں نہیں جانتا۔

29495

(۲۹۴۹۶) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ رُزَیْقٍ ، قَالَ : کَتَبْتُ إِلَی عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِیزِ فِی رَجُلٍ قَذَفَ ابْنَہُ : فَقَالَ ابْنَہُ : إِنْ جُلِدَ أَبِی اعْتَرَفْتُ ، فَکَتَبَ إِلَیَّ عُمَرُ : أَنِ اجْلِدْہُ ، إِلاَّ أَنْ یَعْفُوَ عَنْہُ۔
(٢٩٤٩٦) حضرت رزیق فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر بن عبدالعزیز کو ایک آدمی کے بارے میں خط لکھا جس نے اپنے بیٹے پر الزام لگایا تھا، تو اس کے بیٹے نے کہا : اگر میرے باپ کو کوڑے مارے جائیں گے تو میں اعتراف کرلوں گا۔ حضرت عمر نے مجھے اس کا جواب لکھا : تم اس کو کوڑے مارو مگر یہ کہ وہ اسے معاف کر دے۔

29496

(۲۹۴۹۷) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ زَکَرِیَّا ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ عَامِرٍ ؛ أَنَّہُ سُئِلَ عَنْ رَجُلٍ أَرَادُوا أَنْ یَقْطَعُوا یَدَہُ ، یَعْنِی الْیُمْنَی ، فَقَدَّمَ یَدَہُ الْیُسْرَی ، فَقُطِعَتْ ؟ قَالَ : لاَ تُقْطَعُ الْیُمْنَی۔
(٢٩٤٩٧) حضرت جابر فرماتے ہیں کہ حضرت عامر سے ایک آدمی کے متعلق دریافت کیا گیا کہ لوگوں نے اس کے دائیں ہاتھ کو کاٹنا چاہا پس اس نے اپنے بائیں ہاتھ کو آگے بڑھا دیا سو وہ کاٹ دیا گیا تو اس کا کیا حکم ہے ؟ آپ نے فرمایا : دائیں کو نہیں کاٹا جائے گا۔

29497

(۲۹۴۹۸) حَدَّثَنَا عِیسَی بْنُ یُونُسَ ، عَنِ الأَوْزَاعِیِّ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ أَبِی کَثِیرٍ ؛ أَنَّ عَلِیًّا أَمْضَی ذَلِکَ۔
(٢٩٤٩٨) حضرت یحییٰ بن ابی کثیر فرماتے ہیں کہ حضرت علی نے اس کو نافذ قرار دیا۔

29498

(۲۹۴۹۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، عَنْ سُفْیَانَ، عَنْ جَابِرٍ، عَنْ عَامِرٍ؛ فِی إِمَامٍ أُتِیَ بِسَارِقٍ، فَجَہلَ فَقُطِعَ یَسَارُہُ، قَالَ: یُتْرَکُ۔
(٢٩٤٩٩) حضرت جابر فرماتے ہیں کہ حضرت عامر سے حاکم کے بارے میں مروی ہے جس کے پاس ایک چور لایا گیا پس لاعلمی سے اس کا بایاں ہاتھ کاٹ دیا گیا، آپ نے فرمایا : اس کو چھوڑ دیا جائے۔

29499

(۲۹۵۰۰) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُیَسَّرٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَمَّنْ حَدَّثَہُ ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ ، قَالَ : اجْتَمَعْتُ أَنَا وَسَعِیدُ بْنُ الْمُسَیَّبِ فِی الرَّجُلِ إِذَا أُمِرَ بِقَطْعِ یَمِینِہِ ، أَنَّہُ إِنْ دَسَّ إِلَی الْحَجَّامِ یَسَارَہُ فَقَطَعَہَا ، قَالاَ : یَدُہُ تُبطلُ ، وَالْقَوَدُ فِی مَوْضِعِہِ۔
(٢٩٥٠٠) حضرت قاسم بن محمد فرماتے ہیں کہ میں اور حضرت سعید بن مسیب اس آدمی کے بارے میں اکٹھے ہوئے کہ جب اس کے دائیں ہاتھ کو کاٹنے کا حکم دیا گیا اگر اس نے حجام کے سامنے اپنا بایاں ہاتھ پیش کردیا اور وہ اس ہاتھ کو کاٹ دے ان دونوں حضرات نے فرمایا : اس کا ہاتھ رائیگاں جائے گا اور قصاص اپنی جگہ رہے گا۔

29500

(۲۹۵۰۱) حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِیلَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ حَرْمَلَۃَ ، قَالَ : طَلَّقَ جَارٌ لِی سَکْرَانُ ، فَأَمَرَنِی أَنْ أَسْأَلَ سَعِیدَ بْنَ الْمُسَیَّبِ ، قَالَ : إِنْ أُصِیبَ فِیہِ الْحَقُّ جُلِدَ ثَمَانِینَ ، وَفُرِّقَ بَیْنَہُ وَبَیْنَ أَہْلِہِ۔
(٢٩٥٠١) حضرت عبدالرحمن بن حرملہ فرماتے ہیں کہ میرے ایک پڑوسی نے نشہ کی حالت میں طلاق دے دی پھر اس نے مجھے حکم دیا کہ میں حضرت سعید بن مسیب سے سوال کروں، آپ نے فرمایا : اگر اس میں وہ حق پر ہو تو اسے اسّی کوڑے مارے جائیں گے اور اس کے اور اس کی گھر والی کے درمیان تفریق کردی جائے گی۔

29501

(۲۹۵۰۲) حَدَّثَنَا مُعْتَمِرُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَنبَسَۃَ ؛ أَنَّ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِیزِ أَجَازَ طَلاَقَہُ ، وَجَلَدَہُ۔
(٢٩٥٠٢) حضرت عبدالرحمن بن عنبسہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز نے اس کی طلاق کو نافذ قرار دیا اور اس کو کوڑے مارے۔

29502

(۲۹۵۰۳) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِیلُ بْنُ إِبْرَاہِیمَ ، عَن أَیُّوبَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، وَابْنِ سِیرِینَ ؛ أَنَّہُمَا قَالاَ : طَلاَقُ السَّکْرَانِ جَائِزٌ ، وَیُجْلَدُ ظَہْرُہُ۔
(٢٩٥٠٣) حضرت ایوب فرماتے ہیں کہ حضرت حسن بصری اور حضرت ابن سیرین نے ارشاد فرمایا : نشہ میں دھت شخص کا طلاق دینا جائز ہے اور اس کی کمر پر کوڑے مارے جائیں گے۔

29503

(۲۹۵۰۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ جَعْفَرٍ ، عَن مَیْمُونَ ، قَالَ : یَجُوزُ طَلاَقُہُ وَیُجْلَدُ۔
(٢٩٥٠٤) حضرت جعفر فرماتے ہیں کہ میمون نے ارشاد فرمایا : اس کا طلاق دینا جائز ہے اور اسے کوڑے مارے جائیں گے۔

29504

(۲۹۵۰۵) حَدَّثَنَا عِیسَی بْنُ یُونُسَ ، عَنِ الأَوْزَاعِیُّ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، قَالَ: إِذَا أَعْتَقَ ، أَوْ طَلَّقَ السَّکْرَانُ جَازَ طَلاَقُہُ، وَأُقِیمَ عَلَیْہِ الْحَدُّ۔
(٢٩٥٠٥) حضرت اوزاعی فرماتے ہیں کہ حضرت زھری نے ارشاد فرمایا : جب نشہ کی حالت میں آزاد کرے یا طلاق دے تو اس کا طلاق دینا جائز ہوگا اور اس پر حد قائم کی جائے گی۔

29505

(۲۹۵۰۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَمَّنْ سَمِعَ الشَّعْبِیَّ ، یَقُولُ : یَجُوزُ طَلاَقُہُ ، وَیُوجَعُ ظَہْرُہُ۔
(٢٩٥٠٦) حضرت شعبی نے فرمایا : اس کا طلاق دینا جائز ہے اور اس کی پیٹھ کو تکلیف دی جائے گی۔

29506

(۲۹۵۰۷) حَدَّثَنَا عُبَادَۃُ بْنُ الْعَوَّامِ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ عَامِرٍ ، عَن حَمَّادٍ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ؛ أَنَّ عَلِیًّا وَعَبْدَ اللہِ اخْتَلَفَا فِی أُمِّ وَلَدٍ بَغَتْ ، فَقَالَ عَلِیٌّ : تُجْلَدُ ، وَلاَ نَفْیَ عَلَیْہَا ، وَقَالَ عَبْدُ اللہِ : تُجْلَدُ وَتُنْفَی۔
(٢٩٥٠٧) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ حضرت علی اور حضرت عبداللہ بن مسعود نے اس ام ولدہ کے حکم میں اختلاف کیا ہے جس نے بدکاری کی ہو۔ حضرت علی نے فرمایا : اسے کوڑے مارے جائیں گے اور اس پر جلاوطنی کی سزا لاگو نہیں ہوگی اور حضرت عبداللہ بن مسعود نے فرمایا : اسے کوڑے مارے جائیں گے اور اس کو جلاوطن کیا جائے گا۔

29507

(۲۹۵۰۸) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ آدَمَ قَالَ : حدَّثَنَا إِسْرَائِیلُ ، عَن مَنْصُورٍ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ؛ فِی أُمِّ الْوَلَدِ تَفْجُرُ ، قَالَ : یُقَامُ عَلَیْہَا حَدُّ الأَمَۃِ ، وَہِیَ عَلَی مَنْزِلَتِہَا۔
(٢٩٥٠٨) حضرت منصور فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم سے اس ام ولدہ کے بارے میں مروی ہے جو بدکاری کرلے، آپ نے فرمایا : اس پر باندی کی حد قائم کی جائے گی اور وہ اسی کے درجہ میں ہے۔

29508

(۲۹۵۰۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، قَالَ : سَمِعْتُ حَمَّادًا ، یَقُولُ : لاَ تَجُوزُ شَہَادَۃٌ عَلَی شَہَادَۃٍ فِی حَدٍّ۔
(٢٩٥٠٩) حضرت سفیان فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت حماد کو یوں فرماتے ہوئے سنا : حد میں گواہی پر گواہی جائز نہیں۔

29509

(۲۹۵۱۰) حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِی زَائِدَۃَ ، عَنِ ابْنِ سَالِمٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : لاَ تَجُوزُ شَہَادَۃٌ عَلَی شَہَادَۃٍ فِی قِصَاصٍ ، وَلاَ حَدٍّ۔
(٢٩٥١٠) حضرت ابن سالم فرماتے ہیں کہ حضرت شعبی نے ارشاد فرمایا : قصاص اور حد میں گواہی پر گواہی جائز نہیں۔

29510

(۲۹۵۱۱) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنْ حَمَّادٍ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، قَالَ : لاَ تَجُوزُ شَہَادَۃُ الرَّجُلِ عَلَی الرَّجُلِ فِی الْحُدُودِ۔
(٢٩٥١١) حضرت حماد فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم نے ارشاد فرمایا : حدود میں آدمی کا آدمی کے خلاف گواہی دینا جائز نہیں۔

29511

(۲۹۵۱۲) حَدَّثَنَا حُمَیْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَن حَسَنٍ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَن طَاوُوسٍ ، وَعَطَائٍ ؛ قَالاَ : لاَ تَجُوزُ شَہَادَۃٌ عَلَی شَہَادَۃٍ فِی حَدٍّ۔
(٢٩٥١٢) حضرت لیث فرماتے ہیں کہ حضرت طاؤس اور حضرت عطائ نے ارشاد فرمایا : حد میں گواہی پر گواہی جائز نہیں۔

29512

(۲۹۵۱۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إِسْرَائِیلَ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ عَامِرٍ ، عَنْ شُرَیْحٍ ، وَمَسْرُوقٍ ؛ أَنَّہُمَا قَالاَ : لاَ تَجُوزُ شَہَادَۃٌ عَلَی شَہَادَۃٍ فِی حَدٍّ ، وَلاَ یُکْفَلاَنِ فِی حَدٍّ۔
(٢٩٥١٣) حضرت عامر فرماتے ہیں کہ حضرت شریح اور حضرت مسروق نے ارشاد فرمایا : حد میں گواہی پر گواہی جائز نہیں اور وہ دونوں حد میں کفیل نہیں ہوں گے۔

29513

(۲۹۵۱۴) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ إِدْرِیسَ ، عَنْ مُطَرِّفٍ ، عَنْ عَامِرٍ ، قَالَ : إِذَا ہَرَبَ إِلَی الْحَرَمِ ، فَقَدْ أَمِنَ ، فَإِنْ أَصَابَہُ فِی الْحَرَمِ ، أُقِیمَ عَلَیْہِ الْحَدُّ فِی الْحَرَمِ۔
(٢٩٥١٤) حضرت مطرف فرماتے ہیں کہ حضرت عامر نے ارشاد فرمایا : جب وہ حرم کی طرف بھاگ گیا تو تحقیق وہ امن میں ہوگیا، پس اگر اس نے حرم میں کوئی قابل سزا کام کیا تو حرم میں اس پر حد قائم کی جائے گی۔

29514

(۲۹۵۱۵) حَدَّثَنَا ابْنُ إِدْرِیسَ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ عَطَائٍ ؛ أَنَّ الْوَلِیدَ أَرَادَ أَنْ یُقِیمَ عَلَی رَجُلٍ الْحَدَّ فِی الْحَرَمِ ، فَقَالَ لَہُ عُبَیْدُ بْنُ عُمَیْرٍ : لاَ تُقِمْہُ إِلاَّ أَنْ یَکُونَ أَصَابَہُ فِیہِ۔
(٢٩٥١٥) حضرت عطائ فرماتے ہیں کہ حضرت ولید نے حرم میں ایک آدمی پر حد قائم کرنے کا ارادہ کیا تو حضرت عبید بن عمیر نے ان سے فرمایا : تم اس پر حد قائم مت کرو مگر جبکہ اس نے حرم میں ہی قابل سزا کام کیا ہو۔

29515

(۲۹۵۱۶) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ إِدْرِیسَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، وَعَطَائٍ ، قَالاَ : إِذَا أَصَابَ حَدًّا فِی غَیْرِ الْحَرَمِ ، ثُمَّ لَجَأَ إِلَی الْحَرَمِ ، أُخْرِجَ مِنَ الْحَرَمِ حَتَّی یُقَامَ عَلَیْہِ۔
(٢٩٥١٦) حضرت ہشام فرماتے ہیں کہ حضرت حسن بصری اور حضرت عطائ نے ارشاد فرمایا : جب کسی پر حرم کے علاوہ میں حد لازم ہوئی پھر اس نے حرم میں پناہ لے لی تو اس کو حرم سے نکالا جائے گا یہاں تک کہ اس پر حد قائم کردی جائے۔

29516

(۲۹۵۱۷) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِ ، عَن خُصَیْفٍ ، عَن مُجَاہِدٍ ، قَالَ : إِذَا أَصَابَ الرَّجُلُ الْحَدَّ فِی غَیْرِ الْحَرَمِ ، ثُمَّ أَتَی الْحَرَمَ ، أُخْرِجَ مِنَ الْحَرَمِ فَأُقِیمَ عَلَیْہِ الْحَدُّ ، وَإِذَا أَصَابَہُ فِی الْحَرَمِ أُقِیمَ عَلَیْہِ فِی الْحَرَمِ۔
(٢٩٥١٧) حضرت خصیف فرماتے ہیں کہ حضرت مجاہد نے ارشاد فرمایا : جب آدمی پر غیر حرم میں حد لازم ہوجائے پھر وہ حرم میں آجائے تو اسے حرم سے نکالا جائے گا پھر اس پر حد قائم کی جائے گی اور جب حرم میں ہی اس پر حد لازم ہوگئی تو حرم میں ہی اس پر حد قائم کی جائے گی۔

29517

(۲۹۵۱۸) حَدَّثَنَا عَبْدُ السَّلاَمِ بْنُ حَرْبٍ ، عَن خُصَیْفٍ ، عَن مُجَاہِدٍ ؛ أَنَّ رَجُلاً قَتَلَ رَجُلاً ، ثُمَّ دَخَلَ الْحَرَمَ ، قَالَ : یُؤْخَذُ فَیُخْرَجُ بِہِ مِنَ الْحَرَمِ ، ثُمَّ یُقَامُ عَلَیْہِ الْحَدُّ ۔ یَقُولُ : الْقَتْلُ۔
(٢٩٥١٨) حضرت خصیف فرماتے ہیں کہ حضرت مجاہد سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے کسی آدمی کو قتل کردیا پھر وہ حرم میں داخل ہوگیا۔ آپ نے فرمایا : اس کو پکڑا جائے گا اور حرم سے باہر نکالا جائے گا پھر اس پر حد قائم کردی جائے گی آپ نے فرمایا : وہ قتل ہوگا۔

29518

(۲۹۵۱۹) حَدَّثَنَا عَبْدُ السَّلاَمِ ، عَنْ عَطَائٍ ، عَنْ سَعِیدٍ (ح) وَعَبْدِ الْمَلِکِ ، عَنْ عَطَائٍ ؛ فِی الرَّجُلِ یَقْتُلُ ، ثُمَّ یَدْخُلُ الْحَرَمَ ، قَالَ : لاَ یُبَایِعُہُ أَہْلُ مَکَّۃَ ، وَلاَ یَشْتَرُونَ مِنْہُ ، وَلاَ یَسْقُونَہُ ، وَلاَ یُطْعِمُونَہُ ، وَلاَ یُؤْوُونَہُ ، وَلاَ یُنْکِحُونَہُ حَتَّی یَخْرُجَ فَیُؤْخَذَ بِہِ۔ (ابن جریر ۱۳)
(٢٩٥١٩) حضرت حضرت سعید اور حضرت عطائ سے اس شخص کے بارے میں مروی ہے جو قتل کر دے پھر حرم میں داخل ہوجائے، فرمایا : مکہ والے اس سے خریدو فروخت نہیں کریں گے اور نہ اسے پلائیں گے اور نہ کھلائیں گے اور نہ اس کو پناہ دیں گے اور نہ اس سے نکاح کریں گے۔ یہاں تک کہ وہ نکل جائے پس اس کو پکڑ لیا جائے گا۔

29519

(۲۹۵۲۰) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ عَطَائٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، وَابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالاَ : لَوْ وَجَدْنَا قَاتِلَ آبَائِنَا فِی الْحَرَمِ لَمْ نَقْتُلْہُ۔
(٢٩٥٢٠) حضرت عطائ فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عمر اور حضرت ابن عباس نے ارشاد فرمایا : اگر ہم اپنے آباؤاجداد کے قاتل کو بھی حرم میں پالیں تو ہم اس کو قتل نہیں کریں گے۔

29520

(۲۹۵۲۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، قَالَ : سَأَلْتُ الْحَکَمَ ، وَحَمَّادًا عَنِ الرَّجُلِ یَقْتُلُ ، ثُمَّ یَدْخُلُ الْحَرَمَ ؟ قَالَ حَمَّادٌ : یُخْرَجُ فَیُقَامُ عَلَیْہِ الْحَدُّ ، وَقَالَ الْحَکَمُ : لاَ یُبَایَعُ ، وَلاَ یُؤَاکَلُ۔
(٢٩٥٢١) حضرت شعبہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت حکم اور حضرت حماد سے اس آدمی کے متعلق دریافت کیا جو قتل کر دے پھر حرم میں داخل ہوجائے اس کا کیا حکم ہے ؟ حضرت حماد نے فرمایا : اس کو نکالا جائے گا پھر اس پر حد قائم کی جائے گی اور حضرت حکم نے فرمایا : اس سے خریدو فروخت نہیں کی جائے گی اور اس کو کھانا نہیں کھلایا جائے گا۔

29521

(۲۹۵۲۲) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنی أَبُو بَکْرِ بْنُ عَبْدِ اللہِ ، أَنَّ خَالِدَ بْنَ مَعْبَدٍ حَدَّثَہُ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ، وَعُبَیْدِ اللہِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُتْبَۃَ ؛ أَنَّہُمَا سُئِلاَ عَنِ السَّارِقِ یَسْرِقُ ، فَیَطْرَحُ سَرِقَتَہُ خَارِجًا مِنَ الْبَیْتِ ، وَیُوجَدُ فِی الْبَیْتِ الَّذِی سَرَقَ فِیہِ الْمَتَاعَ ، أَعَلَیْہِ الْقَطْعُ ؟ فَقَالاَ : عَلَیْہِ الْقَطْعُ۔
(٢٩٥٢٢) حضرت خالد بن معبد فرماتے ہیں کہ حضرت سعید بن مسیب اور حضرت عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ ان دونوں حضرات سے اس چور کے متعلق سوال کیا گیا جو چوری کر کے چوری شدہ مال گھر سے باہر پھینک دے اور وہ اس گھر میں پایا جائے جس میں اس نے سامان چوری کیا تھا، تو کیا اس پر ہاتھ کاٹنے کی سزا لاگو ہوگی ؟ ان دونوں حضرات نے فرمایا : اس پر ہاتھ کاٹنے کی سزا لاگو ہوگی۔

29522

(۲۹۵۲۳) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنَی مَعْمَرٌ ، عَن خُصَیْفٍ ، قَالَ : فَقَدَ قَوْمٌ مَتَاعًا لَہُمْ مِنْ بَیْتِہِمْ ، فَرَأَوْا نَقْبًا فِی الْبَیْتِ ، فَخَرَجُوا یَنْظُرُونَ ، فَإِذَا رَجُلاَنِ یَسْعَیَانِ، فَأَدْرَکُوا أَحَدَہُمَا مَعَہُ مَتَاعُہُمْ، وَأَفْلَتَہُمَ الآخَرُ ، فَأَتَیَا بِہِ ، فَقَالَ : لَمْ أَسْرِقْ شَیْئًا ، وَإِنَّمَا اسْتَأْجَرَنِی ہَذَا الَّذِی أٌفْلِتَ، وَدَفَعَ إِلَیَّ ہَذَا الْمَتَاعَ لأَحْمِلَہُ لَہُ ، لاَ أَدْرِی مِنْ أَیْنَ جَائَ بِہِ ؟ قَالَ خُصَیْفٌ : فَکُتِبَ فِیہِ إِلَی عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِیزِ ، فَکَتَبَ : أَنْ یُنَکَّلَہُ وَیُخْلدَہُ السِّجْنَ ، وَلاَ یَقْطَعَہُ۔
(٢٩٥٢٣) حضرت معمر فرماتے ہیں کہ حضرت خصیف نے ارشاد فرمایا : کچھ لوگوں نے اپنا کچھ سامان گھر سے گم پایا انھوں نے گھر میں نقب لگی دیکھی، تو وہ دیکھنے کے لیے نکلے، دو آدمیوں کو چلتے ہوئے دیکھا، انھوں نے ان میں سے ایک کو پکڑ لیا جس کے پاس سامان تھا اور دوسرا ان سے جان چھڑا کر بھاگ گیا۔ وہ لوگ اسے لے آئے، وہ کہنے لگا : میں نے کوئی چیز چوری نہیں کی، مجھے تو اس شخص نے اجرت پر رکھا تھا جو بھاگ گیا اور اس نے یہ سامان میرے حوالہ کیا تھا تاکہ میں اس کو اٹھا لوں۔ میں نہیں جانتا کہ وہ کہاں سے لایا تھا ؟ حضرت خصیف نے فرمایا : اس بارے میں حضرت عمر بن عبدالعزیز کو خط لکھا گیا : آپ نے جواب لکھا : اس کو سخت سزا دی جائے گی اور اس کو جیل میں ڈال دیا جائے گا اور اس کا ہاتھ نہیں کٹے گا۔

29523

(۲۹۵۲۴) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ إِسْمَاعِیلَ بْنِ أَبِی خَالِدٍ ، عَنْ عَامِرٍ ؛ فِی رَجُلٍ أَخَذَ مِنْ رَجُلٍ ثَوْبًا ، فَقَالَ : سَرَقْتَہُ ؟ فَقَالَ : إِنَّمَا أَخَذْتُہُ بِحَقٍّ لِی عَلَیْہِ ، فَقَالَ الشَّعْبِیُّ : لاَ حَدَّ عَلَیْہِ۔
(٢٩٥٢٤) حضرت اسماعیل بن ابی خالد فرماتے ہیں کہ حضرت عامر سے ایک آدمی کے بارے میں مروی ہے جس نے کسی آدمی سے کپڑا لیا، پس وہ کہنے لگا : تو نے یہ چوری کیا ہے، اس نے کہا : بیشک میں نے یہ کپڑا لیا ہے اپنے اس حق کے عوض جو اس پر لازم تھا، تو اس کا کیا حکم ہے ؟ حضرت شعبی نے فرمایا : اس پر حد جاری نہیں ا ہوگی۔

29524

(۲۹۵۲۵) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، قَالَ : قَالَ عَطَائٌ : إِنْ وُجِدَتْ سَرِقَۃً مَعَ رَجُلِ سَوْئٍ یُتَّہَمُ فَقَالَ : ابْتَعْتَہَا ، فَلَمْ یعیِّن مِمَّنِ ابْتَاعَہَا مِنْہُ ، أَوْ قَالَ : وَجَدْتُہَا ، لَمْ یُقْطَعْ ، وَلَمْ یُعَاقَبْ۔
(٢٩٥٢٥) حضرت ابن جریج فرماتے ہیں کہ حضرت عطائ نے ارشاد فرمایا : اگر چوری شدہ مال ایسے برے آدمی کے پاس پایا گیا جو تہمت یافتہ تھا اور وہ یوں کہے : میں نے اسے خریدا ہے اور وہ معین نہیں کررہا ہے کہ اس شخص کو جس سے اس نے خریدا ہے، یا وہ یوں کہے : مجھے یہ ملا ہے تو اس کا ہاتھ نہیں کٹے گا اور نہ اسے سزا دی جائے گی۔

29525

(۲۹۵۲۶) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، قَالَ : کَتَبَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیزِ بِکِتَابٍ قَرَأْتُہُ : إِذَا وُجِدَ الْمَتَاعُ مَعَ الرَّجُلِ الْمُتَّہم فَقَالَ : ابْتَعْتَہُ ، فَلَمْ ینفذہُ ، فَاشْدُدْہُ فِی السِّجْنِ وَثَاقًا ، وَلاَ تَحُلَّہُ بِکَلاَمِ أَحَدٍ حَتَّی یَأْتِیَ فِیہِ أَمْرُ اللہِ ، قَالَ : فَذَکَرْتُ ذَلِکَ لِعَطَائٍ ، فَأَنْکَرَہُ۔
(٢٩٥٢٦) حضرت ابن جریج فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز نے ایک خط لکھا تھا میں نے اسے پڑھا : جب سامان تہمت زدہ آدمی کے پاس پایا جائے اور وہ کہے : میں نے اسے خریدا ہے، لیکن اسے استعمال نہیں کیا۔ اسے قید خانے میں ڈال دیا جائے گا اور اس کے ساتھ کسی کے کلام کو درست قرار نہ دو ۔ یہاں تک کہ اللہ حقیقت کو آشکارا کر دے۔ میں نے بات کا ذکر حضرت عطاء سے کیا تو انھوں نے اسے عجیب قرار دیا۔

29526

(۲۹۵۲۷) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنِ ابْنِ طَاوُوسٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : سَمِعْتُ ابْنَ الزُّبَیْرِ ، یَقُولُ : مَنْ رَفَعَ السِّلاَحَ ، ثُمَّ وَضَعَہُ ، فَدَمُہُ ہَدَرٌ۔ قَالَ : وَکَانَ طَاوُوسٌ یَرَی ذَلِکَ أَیْضًا۔
(٢٩٥٢٨) حضرت طاؤس فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن زبیر کو یوں فرماتے ہوئے سنا : جو اسلحہ اٹھائے پھر اسے رکھ دے تو اس کا خون رائیگاں و باطل ہے اور حضرت طاؤس بھی یہی رائے رکھتے تھے۔

29527

(۲۹۵۲۸) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنِی مَعْمَرٌ ، عَنِ ابْنِ شِہَابٍ ؛ أَنَّ رَجُلاً ضَرَبَ رَجُلاً بِالسَّیْفِ ، فَلَمْ یَقْطَعْ مَرْوَانُ بْنُ الْحَکَمِ یَدَہُ ، وَأَنَّ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِیزِ قَطَعَ یَدَ رَجُلٍ فِی ذَلِکَ بِکِتَابِ الْوَلِیدِ بْنِ عَبْدِ الْمَلِکِ۔ (عبدالرزاق ۱۸۶۸۶)
(٢٩٥٢٨) حضرت ابن شہاب فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے کسی آدمی کو تلوار سے مارا تو مروان بن حکم نے اس کا ہاتھ نہیں کاٹا اور حضرت عمر بن عبدالعزیز نے اسی معاملہ میں ایک آدمی کا ہاتھ کاٹا ولید بن عبدالملک کے خط کی وجہ سے۔

29528

(۲۹۵۲۹) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنَی زِیَادٌ ؛ أَنَّ ابْنَ شِہَابٍ أَخْبَرَہُ ، قَالَ : ضَرَبَ صَفْوَانُ بْنُ الْمُعَطَّلِ حَسَّانَ بْنَ الْفُرَیْعَۃِ بِالسَّیْفِ فِی ہِجَائٍ ہَجَاہُ ، فَلَمْ یَقْطَعْ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَدَہُ۔ (عبدالرزاق ۱۸۶۸۶)
(٢٩٥٢٩) حضرت ابن شہاب فرماتے ہیں کہ صفوان بن معطل نے حسان بن فریعہ کو تلوار سے مارا ایک مذمت کے معاملہ میں جو اس نے اس کی مذمت کی تھی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کا ہاتھ نہیں کاٹا۔

29529

(۲۹۵۳۰) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَن عُبَیْدِ اللہِ ، عَن نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَنْ رَفَعَ عَلَیْنَا السِّلاَحَ فَلَیْسَ مِنَّا۔ (بخاری ۶۸۷۴۔ مسلم ۹۸)
(٢٩٥٣٠) حضرت ابن عمر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جو شخص ہم پر اسلحہ اٹھائے وہ ہم میں سے نہیں ؟

29530

(۲۹۵۳۱) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنِ الْعَلاَئِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ، عَن خَیْثَمَۃَ ، قَالَ : قَالَ عُمَرُ : لَیْسَ مِنَّا مَنْ شَہَرَ السِّلاَحَ عَلَیْنَا۔
(٢٩٥٣١) حضرت خیثمہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر نے ارشاد فرمایا : وہ شخص ہم میں سے نہیں ہے جو ہم پر اسلحہ تانے۔

29531

(۲۹۵۳۲) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ بن عَبْدِ الْحَمِیدِ ، أَوْ حُدَّثْتُ عَنْہُ ، عَن مَنْصُورٍ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، عَن عَلْقَمَۃَ ، بِنَحْوِہِ۔
(٢٩٥٣٢) حضرت ابراہیم نے حضرت علقمہ سے بھی مذکورہ ارشاد نقل کیا ہے۔

29532

(۲۹۵۳۳) حَدَّثَنَا مُصْعَبُ بْنُ الْمِقْدَامِ ، عَن عِکْرِمَۃَ بْنِ عَمَّارٍ ، عَنْ إِیَاسِ بْنِ سَلَمَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَنْ سَلَّ عَلَیْنَا السَّیْفَ فَلَیْسَ مِنَّا۔ (مسلم ۱۶۲۔ احمد ۴۶)
(٢٩٥٣٣) حضرت سلمہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جو ہم پر تلوار سونتے وہ ہم میں سے نہیں۔

29533

(۲۹۵۳۴) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ آدَمَ ، عَن شَرِیکٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَجْلاَنَ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَنْ رَفَعَ عَلَیْنَا السِّلاَحَ فَلَیْسَ مِنَّا۔ (بخاری ۱۲۸۰۔ مسلم ۱۶۴)
(٢٩٥٣٤) حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جو شخص ہم پر اسلحہ بلند کرے وہ ہم میں سے نہیں۔

29534

(۲۹۵۳۵) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، سُلَیْمَانُ بْنُ حَیَّانَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِی ظَبْیَانَ ، عَن أُسَامَۃَ ، قَالَ : بَعَثَنَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی سَرِیَّۃٍ ، فَصَبَّحْنَا الْحُرَقَاتِ مِنْ جُہَیْنَۃَ ، فَأَدْرَکْت رَجُلاً ، فَقَالَ : لاَ إِلَہَ إِلاَّ اللَّہُ ، فَطَعَنتُہُ ، فَوَقَعَ فِی نَفْسِی مِنْ ذَلِکَ ، فَذَکَرْتُہُ لِلنَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : قَالَ لاَ إِلَہَ إِلاَّ اللَّہُ وَقَتَلْتَہُ ؟ قَالَ : قُلْتُ : یَا رَسُولَ اللہِ ، إِنَّمَا قَالَہَا فَرَقًا مِنَ السِّلاَحِ ، قَالَ : فَأَلاَّ شَقَقْتَ عَن قَلْبِہِ حَتَّی تَعْلَمَ قَالَہَا فَرَقًا ، أَمْ لاَ ؟ قَالَ : فَمَا زَالَ یُکَرِّرُہَا عَلَیَّ ، حَتَّی تَمَنَّیْت أَنِّی أَسْلَمْت یَوْمَئِذٍ۔ (بخاری ۴۲۶۹۔ مسلم ۱۸۵)
(٢٩٥٣٥) حضرت ابو ظبیان فرماتے ہیں کہ حضرت اسامہ نے ارشاد فرمایا : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں ایک لشکر میں بھیجا ہم نے قبیلہ جہینہ کے باغات کے پاس صبح کی تو مجھے ایک آدمی ملا اس نے کہا : لا الہ الا اللہ پس میں نے اسے نیزہ مار دیا، پھر اس بارے میں میرے دل میں بےچینی پیدا ہوئی، میں نے یہ بات نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے ذکر کی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اس نے لا الہ الا اللہ پڑھا اور پھر بھی تو نے اسے قتل کردیا ؟ میں نے عرض کی : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! اس نے تو یہ کلمہ اسلحہ کے خوف سے پڑھا تھا ! آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تو نے اس کا دل کیوں نہیں چیر لیا تاکہ تجھے معلوم ہوجاتا کہ اس نے یہ کلمہ خوف سے پڑھا ہے یا نہیں ؟ آپ فرماتے ہیں : آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مسلسل مجھ پر یہ بات دھراتے رہے یہاں تک کہ مجھے خواہش ہوئی کہ میں نے آج کے دن ہی اسلام قبول کیا ہوتا۔

29535

(۲۹۵۳۶) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِی ظَبْیَانَ ، عَن أُسَامَۃَ ، قَالَ : بَعَثْنَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی سَرِیَّۃٍ ، فَذَکَرَ نَحْوَہُ۔ (مسلم ۱۵۸۔ طبرانی ۳۹۴)
(٢٩٥٣٦) حضرت ابوظبیان فرماتے ہیں کہ حضرت اسامہ نے ارشاد فرمایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں ایک لشکر میں بھیجا۔ پھر راوی نے ماقبل والا مضمون بیان کیا۔

29536

(۲۹۵۳۷) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِی سُفْیَانَ ، عَنْ جَابِرٍ (ح) وَعَنْ أَبِی صَالِحٍ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالا : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : أُمِرْت أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّی یَقُولُوا : لاَ إِلَہَ إِلاَّ اللَّہُ ، فَإِذَا قَالُوہَا مَنَعُوا مِنِّی دِمَائَہُمْ وَأَمْوَالَہُمْ إِلاَّ بِحَقِّہَا ، وَحِسَابُہُمْ عَلَی اللہِ۔ (ابوداؤد ۲۶۳۳۔ ترمذی ۲۶۰۶)
(٢٩٥٣٧) حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے قتال کروں یہاں تک کہ وہ لا الہ الا اللہ کہہ لیں۔ پس جب وہ یہ کلمہ پڑھ لیں گے تو انھوں نے مجھ سے اپنے خون اور اپنے اموال کو محفوظ کرلیا مگر ان کے حق کی وجہ سے اور ان کا حساب اللہ کے ذمہ ہوگا۔

29537

(۲۹۵۳۸) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنْ أَبِی مَالِکٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : سَمِعْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، یَقُولُ: مَنْ وَحَّدَ اللَّہَ ، وَکَفَرَ بِمَا یُعْبَدُ مِنْ دُونِہِ ، فَقَدْ حَرُمَ دَمُہُ ، وَحِسَابُہُ عَلَی اللہِ۔ (مسلم ۳۷۔ احمد ۷۷۲)
(٢٩٥٣٨) حضرت طارق بن اشیم اشجعی فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یوں ارشاد فرماتے ہوئے سنا : جو شخص اللہ کی وحدانیت کا اقرار کرے اور اس کے سوا جن باطل چیزوں کی عبادت کی جاتی ہے ان کو جھٹلا دے تو تحقیق اس کا خون حرام ہوگیا اور اس کا حساب اللہ کے ذمہ ہے۔

29538

(۲۹۵۳۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ ، عَنْ جَابِرٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : أُمِرْت أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّی یَقُولُوا : لاَ إِلَہَ إِلاَّ اللَّہُ ، فَإِذَا قَالُوہَا عَصَمُوا مِنِّی دِمَائَہُمْ وَأَمْوَالَہُمْ إِلاَّ بِحَقِّہَا ، وَحِسَابُہُمْ عَلَی اللہِ ، ثُمَّ قَرَأَ : {فَذَکِّرْ إِنَّمَا أَنْتَ مُذَکِّرٌ لَسْت عَلَیْہِمْ بِمُصَیْطِرٍ}۔ (مسلم ۵۲۔ ترمذی ۳۳۴۱)
(٢٩٥٣٩) حضرت جابر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے قتال کروں یہاں تک کہ وہ کلمہ لا الہ الا اللہ پڑھ لیں پس جب وہ یہ کلمہ پڑھ لیں گے تو انھوں نے مجھ سے اپنی جانوں اور اپنے اموال کو محفوظ کرلیا مگر ان کے کسی حق کی وجہ سے اور ان کا حساب اللہ کے ذمہ ہوگا۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ آیات تلاوت کیں : سو (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) تم نصیحت کرتے رہو، تم ہو بس نصیحت کرنے والے، تم ان پر کوئی جبر کرنے والے نہیں ہو۔

29539

(۲۹۵۴۰) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ بَکْرٍ السَّہْمِیُّ ، عَن حَاتِمِ بْنِ أَبِی صَغِیرَۃَ ، عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ سَالِمٍ ، أَنَّ عَمْرَو بْنَ أَوْسٍ أَخْبَرَہُ ، عَنْ أَبِیہِ ؛ أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : أُمِرْت أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّی یَقُولُوا لاَ إِلَہَ إِلاَّ اللَّہُ۔
(٢٩٥٤٠) حضرت اوس فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے قتال کروں یہاں تک کہ وہ کلمہ لا الہ الا اللہ پڑھ لیں۔

29540

(۲۹۵۴۱) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، عَنْ أَبَانَ بْنِ عَبْدِ اللہِ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ بْنِ جَرِیرٍ ، عَنْ جَرِیرٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : أُمِرْت أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّی یَقُولُوا لاَ إِلَہَ إِلاَّ اللَّہُ۔ (طبرانی ۲۳۹۲)
(٢٩٥٤١) حضرت جریر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے قتال کروں یہاں تک کہ وہ کلمہ لا الہ الا اللہ پڑھ لیں۔

29541

(۲۹۵۴۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ صَالِحٍ مَوْلَی التَّوْأَمَۃِ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : أُمِرْت أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّی یَقُولُوا لاَ إِلَہَ إِلاَّ اللَّہُ ، فَإِذَا قَالُوہَا حَرُمَتْ عَلَیَّ دِمَاؤُہُمْ وَأَمْوَالُہُمْ إِلاَّ بِحَقِّہَا ، وَحِسَابُہُمْ عَلَی اللہِ۔ (احمد ۴۷۵)
(٢٩٥٤٢) حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے قتال کروں یہاں تک کہ وہ کلمہ لا الہ الا اللہ پڑھ لیں۔ پس جب وہ یہ کلمہ پڑھ لیں گے تو مجھ پر ان کی جانیں اور ان کے اموال حرام ہیں مگر ان کے کسی حق کی وجہ سے اور ان کا حساب اللہ کے ذمہ ہوگا۔

29542

(۲۹۵۴۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَن حَبِیبِ بْنِ أَبِی عَمْرَۃَ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ، قَالَ : خَرَجَ الْمِقْدَادُ بْنُ الأَسْوَدِ فِی سَرِیَّۃٍ ، فَمَرُّوا بِرَجُلٍ فِی غُنَیْمَۃٍ لَہُ ، فَأَرَادُوا قَتْلَہُ ، فَقَالَ : لاَ إِلَہَ إِلاَّ اللَّہُ ، فَقَالَ الْمِقْدَادُ : وَدَّ لَوْ فَرَّ بِأَہْلِہِ وَمَالِہِ ، قَالَ : فَلَمَّا قَدِمُوا ، ذَکَرُوا ذَلِکَ لِلنَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَنَزَلَتْ : {یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا إِذَا ضَرَبْتُمْ فِی سَبِیلِ اللہِ فَتَبَیَّنُوا ، وَلاَ تَقُولُوا لِمَنْ أَلْقَی إِلَیْکُمُ السَّلاَمَ لَسْتَ مُؤْمِنًا تَبْتَغُونَ عَرَضَ الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا} قَالَ : الْغَنِیمَۃُ ، {فَعَندَ اللہِ مَغَانِمُ کَثِیرَۃٌ کَذَلِکَ کُنْتُمْ مِنْ قَبْلُ} قَالَ: تَکْتُمُونَ إِیمَانَکُمْ مِنَ الْمُشْرِکِینَ ، {فَمَنَّ اللَّہُ عَلَیْکُمْ} فَأَظْہَرَ الإِسْلاَمَ ، {فَتَبَیَّنُوا} وَعِیدًا مِنَ اللہِ ، {إِنَّ اللَّہَ کَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِیرًا}۔
(٢٩٥٤٣) حضرت سعید بن جبیر فرماتے ہیں کہ حضرت مقداد بن اسود کسی لشکر میں نکلے سو ان لوگوں کا گزر ایک آدمی کے پاس سے ہوا جو اپنے ریوڑ میں تھا۔ ان لوگوں نے اس کو قتل کرنا چاہا تو اس نے کلمہ لا الہ الا اللہ پڑھ لیا، اس پر حضرت مقداد نے فرمایا : وہ چاہتا ہے کہ اگر وہ اپنے گھر والوں اور اپنے مال کو لے کر بھاگ جائے تو اچھا ہے۔ راوی کہتے ہیں : پس جب یہ لوگ واپس آئے تو انھوں نے یہ واقعہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے ذکر کیا اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ ” اے ایمان والو ! جب نکلو تم (جہاد کے لیے) اللہ کی راہ میں تو خوب تحقیق کرلیا کرو اور نہ کہو اس شخص کو جو کرے تم کو سلام کہ نہیں ہے تو مومن، کیا حاصل کرنا چاہتے ہو تم ساز و سامان دنیاوی زندگی کا ؟ آپ نے فرمایا : مراد بکری کا ریوڑ ہے، ترجمہ ” تو اللہ کے ہاں غنیمتیں ہیں بہت، ایسے تو تم اسلام سے پہلے تھے۔ “ فرمایا : تم اپنے ایمان کو مشرکنم سے چھپاتے تھے۔ ترجمہ ” پھر اللہ نے تم پر احسان کیا مراد پس اسلام کو غلبہ دیا۔ ترجمہ ” لہٰذا خوب تحقیق کیا کرو “ فرمایا : اللہ کی طرف سے وعید ہے۔ ترجمہ ” بیشک اللہ ہر اس بات سے جو تم کرتے ہو پوری طرح باخبر ہے۔

29543

(۲۹۵۴۴) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ إِسْرَائِیلَ ، عَن سِمَاکٍ ، عَن عِکْرِمَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : مَرَّ رَجُلٌ مِنْ بَنِی سُلَیْمٍ عَلَی نَفَرٍ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَمَعَہُ غَنَمٌ ، فَسَلَّمَ عَلَیْہِمْ ، فَقَالُوا : مَا سَلَّمَ عَلَیْکُمْ إِلاَّ لِیَتَعَوَّذَ مِنْکُمْ ، فَعَمَدُوا إِلَیْہِ فَقَتَلُوہُ ، وَأَخَذُوا غَنَمَہُ ، فَأَتَوْا بِہَا رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَأَنْزَلَ اللَّہُ : {یَا أَیُّہَا الَّذِینَ أَمَّنُوا إِذَا ضَرَبْتُمْ فِی سَبِیلِ اللہِ فَتَبَیَّنُوا وَلاَ تَقُولُوا لِمَنْ أَلْقَی إِلَیْکُمَ السَّلاَمَ لَسْت مُؤْمِنًا تَبْتَغُونَ عَرَضَ الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا فَعَندَ اللہِ مَغَانِمُ کَثِیرَۃٌ} إِلَی آخِرِ الآیَۃِ۔
(٢٩٥٤٤) حضرت عکرمہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عباس نے ارشاد فرمایا : کہ قبیلہ بنو سلیم کے ایک آدمی کا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ پر گزر ہوا درآنحالیکہ اس کے پاس بھیڑ بکریاں بھی تھیں تو اس نے ان کو سلام کیا۔ پس وہ کہنے لگے : اس نے تمہیں سلام نہیں کیا مگر اس لیے کہ وہ تم سے بچ جائے، سو انھوں نے اس کا ارادہ کیا اور اس کو قتل کردیا اور اس کی بھیڑ بکریاں لے لیں۔ اور وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس لے آئے۔ اس پر اللہ رب العزت نے یہ آیت اتاری : ” اے ایمان والو ! جب تم نکلو (جہاد کے لیے) اللہ کی راہ میں تو خوب تحقیق کرلیا کرو اور نہ کہو اس شخص کو جو تم کو سلام کرے کہ تو مومن نہیں ہے کیا تم دنیاوی زندگی کا ساز و سامان حاصل کرنا چاہتے ہو ؟ سو اللہ کے ہاں بہت غنیمتیں ہیں۔ “ (الخ)

29544

(۲۹۵۴۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا إِسْرَائِیلُ ، عَن سِمَاکٍ ، عَن عِکْرِمَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، بِمِثْلِہِ ، وَلَمْ یَذْکُرْ : فَأَتَوْا بِہَا النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔
(٢٩٥٤٥) حضرت عکرمہ سے حضرت ابن عباس کا مذکورہ ارشاد اس سند سے بھی منقول ہے۔ لیکن انھوں نے یہ بات ذکر نہیں کی کہ وہ لوگ اس ریوڑ کو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس لے گئے۔

29545

(۲۹۵۴۶) حَدَّثَنَا شَبَابَۃُ بْنُ سَوَّارٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا لَیْثُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنِ ابْنِ شِہَابٍ ، عَنْ عَطَائِ بْنِ یَزِیدَ اللَّیْثِیِّ ، عَن عُبَیْدِ اللہِ بْنِ عَدِیِّ بْنِ الْخِیَارِ ، عَنِ الْمِقْدَادِ ؛ أَنَّہُ أَخْبَرَہُ أَنَّہُ قَالَ : یَا رَسُولَ اللہِ ، أَرَأَیْتَ إِنْ لَقِیتُ رَجُلاً مِنَ الْکُفَّارِ ، فَقَاتَلَنِی فَضَرَبَ إِحْدَی یَدَیَّ بِالسَّیْفِ فَقَطَعَہَا ، ثُمَّ لاَذَ مَنِی بِشَجَرَۃٍ ، فَقَالَ : أَسْلَمْتُ لِلَّہِ ، أَقْتُلُہُ یَا رَسُولَ اللہِ ، بَعْدَ أَنْ قَالَہَا ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لاَ تَقْتُلْہُ ، فَقُلْتُ : یَا رَسُولَ اللہِ ، قَطَعَ یَدِی ، ثُمَّ قَالَ ذَلِکَ بَعْدَ أَنْ قَطَعَہَا ، فَأَقْتُلُہُ ؟ قَالَ : لاَ تَقْتُلْہُ ، وَإِنْ قَتَلْتَہُ فَإِنَّہُ بِمَنْزِلَتِکَ قَبْلَ أَنْ تَقْتُلَہُ ، وَأَنْتَ بِمَنْزِلَتِہِ قَبْلَ أَنْ یَقُولَ الْکَلِمَۃَ الَّتِی قَالَ۔ (مسندہ ۴۸۶)
(٢٩٥٤٦) حضرت عبیداللہ بن عدی بن خیار فرماتے ہیں کہ حضرت مقداد نے پوچھا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی کیا رائے ہے کہ اگر میں کفار کے کسی آدمی سے ملوں پس وہ مجھ سے قتال کرے اور میرے ایک ہاتھ کو تلوار کی ضرب سے کاٹ دے۔ پھر وہ شخص درخت کی آڑ میں مجھ سے پناہ مانگنے لگے اور کہے کہ میں اللہ کے لیے اسلام لایا، یا رسول اللہ ! کیا میں یہ کلمہ پڑھنے کے بعد اس کو قتل کر دوں ؟ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : تم اسے قتل مت کرو۔ میں نے عرض کی : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! اس نے میرا ہاتھ کاٹا پھر اس نے یہ کاٹنے کے بعد یہ کلمہ پڑھا ہو پھر میں اسے قتل کر دوں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم اسے قتل مت کرو، اور اگر تم نے اسے قتل کردیا تو بیشک تمہارے درجہ میں ہوجائے گا جیسا کہ تم اس کو قتل کرنے سے پہلے تھے اور تم اس کے درجہ میں ہو جاؤ گے جیسا کہ وہ اس کلمہ کو کہنے سے پہلے تھا جو کلمہ اس نے پڑھا ہے۔

29546

(۲۹۵۴۷) حَدَّثَنَا شَبَابَۃُ بْنُ سَوَّارٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ الْمُغِیرَۃِ ، عنْ حُمَیْدِ بْنِ ہِلاَلٍ ، قَالَ : جَائَ أَبُو الْعَالِیَۃِ إِلَیَّ وَإِلَی صَاحِبٍ لِی ، فَقَالَ : ہَلُمَّا فَإِنَّکُمَا أَشَبُّ مِنِّی ، وأَوْعَی لِلْحَدِیثِ مِنِّی ، فَانْطَلَقْنَا حَتَّی أَتَیْنَا بِشْرَ بْنَ عَاصِمٍ اللَّیْثِیَّ ، فقال أَبُو الْعَالِیَۃِ : حَدِّثْ ہَذَیْنِ حَدِیثَکَ ، فَقَالَ : حَدَّثَنَا عٌُقْبَۃُ بْنُ مَالِکِ اللَّیْثِیُّ ، قَالَ : بَعَثَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سَرِیَّۃً ، فَأَغَارَتْ عَلَی الْقَوْمِ ، فَشَدَّ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ ، فَاتَّبَعَہُ رَجُلٌ مِنَ السَّرِیَّۃِ مَعَہُ سَیْفٌ شَاہِرٌ ، فَقَالَ الشَّادُّ مِنَ الْقَوْمِ : إِنِّی مُسْلِمٌ ، فَلَمْ یَنْظُرْ فِیمَا قَالَ ، فَضَرَبَہُ فَقَتَلَہُ ، فَنُمِّیَ الْحَدِیثُ إِلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَوْلاً شَدِیدًا ، فَبَلَغَ الْقَاتِلَ ، فَبَیْنَمَا النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَخْطُبُ ، إِذْ قَالَ الْقَاتِلُ : وَاللَّہِ یَا نَبِیَّ اللہِ ، مَا قَالَ الَّذِی قَالَ إِلاَّ تَعَوُّذًا مِنَ الْقَتْلِ ، فَأَعْرَضَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْہُ ، وَعَمَّنْ یَلِیہِ مِنَ النَّاسِ ، وَفَعَلَ ذَلِکَ مَرَّتَیْنِ ، کُلُّ ذَلِکَ یُعْرِضُ عَنْہُ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِوَجْہِہِ ، فَلَمْ یَصْبِرْ أَنْ قَالَ الثَّالِثَۃَ مِثْلَ ذَلِکَ ، وَأَقْبَلَ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِوَجْہِہِ ، تُعْرَفُ الْمَسَائَۃُ فِی وَجْہِہِ ، فَقَالَ : إِنَّ اللَّہَ أَبَی عَلَیَّ فِیمَنْ قَتَلَ مُؤْمِنًا ، ثَلاَثَ مَرَّاتٍ یَقُولُ ذَلِکَ۔ (ابوداؤد ۲۶۲۰۔ احمد ۲۸۸)
(٢٩٥٤٧) حضرت حمید بن ہلال فرماتے ہیں کہ حضرت ابو العالیہ میرے اور میرے ایک ساتھی کے پاس آئے اور فرمانے لگے : آؤ، بیشک تم دونوں مجھ سے زیادہ نوجوان ہو، اور حدیث کو مجھ سے زیادہ محفوظ رکھنے والے ہو۔ سو ہم لوگ گئے یہاں تک کہ ہم حضرت بشر بن عاصم لیثی کی خدمت میں حاضر ہوئے حضرت ابو العالیہ نے فرمایا : تو اپنی حدیث ان دونوں سے بیان کردو، انھوں نے فرمایا کہ حضرت عقبہ بن مالک لیثی نے ہمیں بیان کیا کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک لشکر روانہ کیا جس نے قوم پر حملہ کردیا پس اس قوم سے ایک آدمی دوڑ لگا دی، تو لشکر کے ایک آدمی نے اس کا پیچھا کیا اور اس کے پاس ننگی تلوار تھی، اس قوم سے دوڑنے والے شخص نے کہا : بیشک میں مسلمان ہوں۔ اس لشکر کے آدمی نے اس کی بات میں غور نہیں کیا اور اس کو وار کر کے قتل کردیا۔ پھر یہ بات نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک پہنچائی گئی تو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خطبہ ارشاد فرما رہے تھے اس وقت قاتل نے کہا : یا نبی اللہ ! اللہ کی قسم ! اس نے جو بھی بات کہی وہ صرف قتل سے بچنے کے لیے کہی تھی۔ پس نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے اعراض کیا اور ان لوگوں سے بھی جو اس کے ساتھ ملے ہوئے تھے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دو مرتبہ ایسا کیا، ہر بار نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے اپنا چہرہ پھیرلیا۔ پس اس سے صبر نہ ہوسکا تو اس نے تیری بار بھی یہی بات کی۔ تو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنا چہرہ اس کی طرف متوجہ کیا اس حال میں کہ ناراضگی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چہرے سے معلوم ہو رہی تھی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : بیشک اللہ نے مجھ پر انکار کیا ہے اس شخص کے بارے میں جو مومن کو قتل کر دے۔ تین مرتبہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ بات ارشاد فرمائی۔

29547

(۲۹۵۴۸) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا سُفْیَانُ بْنُ حُسَیْنٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَن عُبَیْدِ اللہِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُتْبَۃَ ، قَالَ : لَمَّا ارْتَدَّ مَنِ ارْتَدَّ عَلَی عَہْدِ أَبِی بَکْرٍ ، أَرَادَ أَبُو بَکْرٍ أَنْ یُجَاہِدَہُمْ ، فَقَالَ عُمَرُ : أَتُقَاتِلُہُمْ وَقَدْ سَمِعْت رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، یَقُولُ : مَنْ شَہِدَ أَنْ لاَ إِلَہَ إِلاَّ اللَّہُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللہِ ، حَرُمَ مَالُہُ إِلاَّ بِحَقٍّ ، وَحِسَابُہُمْ عَلَی اللہِ تَعَالَی ؟ فَقَالَ أَبُو بَکْرٍ : أَنَّی لاَ أَقَاتِلُ مَنْ فَرَّقَ بَیْنَ الصَّلاَۃِ وَالزَّکَاۃِ، وَاللَّہِ لأَقَاتِلَنَّ مَنْ فَرَّقَ بَیْنَہُمَا حَتَّی أَجْمَعَہُمَا ، قَالَ عُمَرُ : فَقَاتَلْنَا مَعَہُ فَکَانَ رَشْدًا ، فَلَمَّا ظَفِرَ بِمَنْ ظَفِرَ بِہِ مِنْہُمْ ، قَالَ : اخْتَارُوا مِنِّی خَصْلَتَیْنِ ؛ إِمَّا حَرْبٌ مُجْلِیَۃٌ ، وَإِمَّا الْخِطَّۃُ الْمُخْزِیَۃُ ۔ قَالُوا : ہَذِہِ الْحَرْبُ الْمُجْلِیَۃُ قَدْ عَرَفْنَاہَا ، فَمَا الْخِطَّۃُ الْمُخْزِیَۃُ ؟ قَالَ : تَشْہَدُونَ عَلَی قَتْلاَنَا أَنَّہُمْ فِی الْجَنَّۃِ ، وَعَلَی قَتْلاَکُمْ أَنَّہُمْ فِی النَّارِ ، فَفَعَلُوا۔ (بخاری ۱۳۹۹۔ مسلم ۳۲)
(٢٩٥٤٨) حضرت زھری فرماتے ہیں کہ حضرت عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ نے ارشاد فرمایا : جب مرتد ہوگئے وہ لوگ جو حضرت ابوبکر صدیق کے زمانے میں مرتد ہوئے تھے تو حضرت ابوبکر نے ان سے جہاد کرنے کا ارادہ کیا۔ اس پر حضرت عمر نے فرمایا : کیا تم ان سے قتال کرو گے حالانکہ تم نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یوں فرماتے ہوئے سنا ہے : جو شخص اس بات کی گواہی دے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں۔ تو اس کا مال حرام ہوگیا مگر کسی حق کی وجہ سے اور ان کا حساب اللہ کے ذمہ ہوگا ؟ حضرت ابوبکر نے فرمایا : بیشک میں قتال کروں گا اس شخص سے جو نماز اور زکوۃ کے درمیان فرق کرے گا، اللہ کی قسم ! میں ضرور قتال کروں گا اس شخص سے جو ان دونوں کے درمیان فرق کرے گا، یہاں تک کہ میں ان دونوں کو اکٹھا کر دوں۔ حضرت عمر فرماتے ہیں : سو ہم نے ان کے ساتھ قتال کیا اور وہ ہدایت پر تھے، پس جب وہ کامیاب ہوگئے ان لوگوں کی مدد سے جنہوں نے ان کے ساتھ کوشش کی تھی۔ آپ نے فرمایا : تم لوگ میری طرف سے دو باتیں اختیار کرلو : یا تو خوفناک جنگ یا پھر رسوا کردینے والا صلح کا منصوبہ۔ ان لوگوں نے کہا : اس خوفناک جنگ کو تو ہم نے پہچان لیا۔ پس یہ رسوا کردینے والا منصوبہ کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا : تم ہمارے مقتولین پر گواہی دو کہ بیشک وہ جنت میں ہیں اور اپنے مقتولین پر گواہی دو کہ بیشک وہ جہنم میں ہیں۔ پس انھوں نے ایسا کیا۔

29548

(۲۹۵۴۹) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا أَبَانُ بْنُ عَبْدِ اللہِ الْبَجَلِیُّ ، قَالَ : حَدَّثَنِی إِبْرَاہِیمُ بْنُ جَرِیرٍ ، عَنْ جَرِیرٍ، قَالَ: إِنَّ نَبِیَّ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَعَثَنِی إِلَی الْیَمَنِ أُقَاتِلُہُمْ وَأَدْعُوہُمْ ، فَإِذَا قَالُوا لاَ إِلَہَ إِلاَّ اللَّہُ، حَرُمَتْ عَلَیْکُمْ أَمْوَالُہُمْ وَدِمَاؤُہُمْ۔
(٢٩٥٤٩) حضرت جریر فرماتے ہیں کہ اللہ کے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے یمن کی طرف بھیجا تاکہ میں ان سے قتال کروں اور میں ان کو دین کی دعوت دوں۔ پس جب انھوں نے کلمہ لا الہ الا اللہ پڑھ لیا تو تم پر ان کے اموال اور ان کی جانیں حرام ہوگئیں۔

29549

(۲۹۵۵۰) حَدَّثَنَا مُعَاوِیَۃُ بْنُ ہِشَامٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِی ذِئْبٍ ، عَن خَالِہِ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ، قَالَ : ضُرِبَ ابْنٌ لَہُ فِی الشَّرَابِ وَطِیفَ بِہِ ، فَقَالَ : مَا أَجِدُ عَلَیْہِ فِی ضَرْبِہِ إِیَّاہُ ، وَلَکِنِّی أَجِدُ عَلَیْہِ أَنَّہُ طَافَ بِہِ ، وَہُوَ شَیْئٌ لَمْ یَفْعَلْہُ الْمُسْلِمُونَ۔
(٢٩٥٥٠) حضرت محمد بن عبدالرحمن بن ابی ذئب اپنے ماموں سے نقل کرتے ہیں کہ حضرت سعید بن مسیب کے ایک بیٹے کو شراب پینے کے جرم میں مارا گیا اور اس کو چکر لگوایا گیا۔ تو آپ نے فرمایا : مجھے اس کو پڑنے والی مار پر کوئی غم نہیں لیکن مجھے غم ہے تو اس بات پر کہ اس کو چکر لگوایا گیا یہ ایسی چیز ہے جس کو مسلمانوں نے کبھی نہیں کیا۔

29550

(۲۹۵۵۱) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ إِسْمَاعِیلَ بْنِ سُمَیْعٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ مَالِکَ بْنَ عُمَیْرٍ ، یَقُولُ : سَمِعْت عَتَّابَ بْنَ سَلَمَۃَ ، یَقُولُ : سَأَلَنِی عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ عَنْ رَجُلٍ قَالَ : رَأَیْتہُ یَشْرَبُہَا ؟ فَقُلْتُ : لَمْ أَرَہُ یَشْرَبُہَا ، وَلَکِنْ رَأَیْتہ یَقِیؤُہَا ، قَالَ : فَضَرَبَہُ الْحَدَّ ، وَنَصَبَہُ لِلنَّاسِ۔
(٢٩٥٥١) حضرت عتاب بن سلمہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب نے مجھ سے ایک آدمی کے متعلق پوچھا کہ کیا تم نے اس شخص کو شراب پیتے ہوئے دیکھا ہے۔ میں نے کہا : میں نے اس کو شراب پیتے ہوئے نہیں بلکہ اس کو شراب کی قیٔ کرتے ہوئے دیکھا ہے، راوی کہتے ہیں : تو آپ نے اس پر حد جاری کی اور اس کو لوگوں کے سامنے کھڑا کیا۔

29551

(۲۹۵۵۲) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنِ الْحَکَمِ ؛ فِی الرَّجُلِ یَقُولُ لِلرَّجُلِ : زَنَیْتَ وَأَنْتَ مُشْرِکٌ ، قَالَ : لاَ یُحَدُّ۔
(٢٩٥٥٢) حضرت حضرت شعبہ فرماتے ہیں کہ حضرت حکم سے اس آدمی کے بارے میں مروی ہے جو آدمی کو یوں کہہ دے : تو نے زنا کیا اس حال میں کہ تو مشرک تھا۔ آپ نے فرمایا : اس پر حد نہیں لگائی جائے گی۔

29552

(۲۹۵۵۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ؛ أَنَّہُ قَالَ : إِذَا قَالَ : زَنَیْتَ وَأَنْتَ مُشْرِکٌ ، یُقَامُ عَلَیْہِ الْحَدُّ۔
(٢٩٥٥٣) حضرت وکیع فرماتے ہیں کہ حضرت سفیان نے ارشاد فرمایا : جب یوں کہے : تو نے زنا کیا تھا اس حال میں کہ تو مشرک تھا۔ تو اس پر حد قائم کی جائے گی۔

29553

(۲۹۵۵۴) حَدَّثَنَا سَہْلُ بْنُ یُوسُفَ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنِ الْحَسَنِ ؛ فِی الْکَافِرِ یَزْنِی ، فَیُقَامُ عَلَیْہِ الْحَدَّ ثُمَّ یُسْلِمْ ، فَیَقْذِفُہُ رَجُلٌ ، وَیَقُولُ : إِنَّمَا عَنیْتُ زِنَاہُ الَّذِی کَانَ فِی کُفْرِہِ ؟ قَالَ : یُقَامُ عَلَی قَاذِفِہِ الْحَدُّ۔
(٢٩٥٥٤) حضرت عمرو فرماتے ہیں کہ حضرت حسن بصری سے اس کافر کے بارے میں مروی ہے جو زنا کرے اور اس پر حد قائم کردی جائے پھر وہ اسلام لے آئے، پھر کوئی آدمی اس پر تہمت لگائے اور یوں کہے : بیشک میں نے اس کا وہ زنا مراد لیا ہے جو اس نے کافر ہونے کی حالت میں کیا تھا۔ آپ نے فرمایا : اس پر تہمت لگانے والے پر حد قائم کی جائے گی۔

29554

(۲۹۵۵۵) حَدَّثَنَا مَعْنُ بْنُ عِیسَی ، عَنِ ابْنِ أَبِی ذِئْبٍ ، قَالَ : سَأَلْتُ الزُّہْرِیَّ عَنِ امْرَأَۃٍ زَنَتْ وَہِیَ یَہُودِیَّۃٌ ، أَوْ نَصْرَانِیَّۃٌ، أَوْ مَجُوسِیَّۃٌ، ثُمَّ أَسْلَمَتْ، فَقَذَفَہَا رَجُلٌ؟ فَقَالَ ابْنُ شِہَابٍ: لَیْسَ عَلَی مَنْ قَذَفَہَا حَدٌّ، وَلَکِنْ یُنَکَّلُ۔
(٢٩٥٥٥) حضرت ابن ابی ذئب فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت زھری سے ایک عورت کے متعلق سوال کیا جس نے زنا کیا تھا درآنحالیکہ وہ یہودی یا عیسائی یا آتش پرست تھی پھر وہ اسلام لے آئی۔ سو کسی آدمی نے اس پر تہمت لگا دی تو اس کا کیا حکم ہے ؟ تو حضرت ابن شہاب نے فرمایا اس عورت پر تہمت لگانے والے پر حد جاری نہیں ہوگی لیکن اسے عبرتناک سزا دی جائے گی۔

29555

(۲۹۵۵۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إِسْرَائِیلَ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ عَامِرٍ ؛ فِی الرَّجُلِ یَنْفِی الرَّجُلَ مِنْ فَخْذِہِ ، قَالَ : لاَ یُضْرَبُ ، إِلاَّ أَنْ یَنْفِیَہُ مِنْ أَبِیہِ۔
(٢٩٥٥٦) حضرت جابر فرماتے ہیں کہ حضرت عامر سے اس شخص کے بارے میں مروی ہے جو آدمی کی اس کے قبیلہ کی شاخ سے نفی کر دے۔ آپ نے فرمایا : اسے نہیں مارا جائے گا مگر یہ کہ وہ اس کی اس کے باپ سے نفی کر دے۔

29556

(۲۹۵۵۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، عَنْ سُفْیَانَ، عَنْ رَجُلٍ، عَنِ الْحَکَمِ ، قَالَ: إِذَا قَالَ : لَسْتَ مِنْ بَنِی تَمِیمٍ ، قَالَ : یُضْرَبُ۔
(٢٩٥٥٧) حضرت سفیان کسی آدمی سے نقل کرتے ہیں کہ حضرت حکم نے ارشاد فرمایا : جب کوئی یوں کہے کہ تو قبیلہ بنو تمیم میں سے نہیں ہے۔ آپ نے فرمایا : اسے مارا جائے گا۔

29557

(۲۹۵۵۸) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ ، قَالَ : سَمِعْتُ الشَّعْبِیَّ ، قَالَ فِی رَجُلٍ یَقُولُ لِلرَّجُلِ : یَا زَانٍ ، وَہُوَ یَعْلَمُ أَنَّہُ قَدْ زَنَی ، أَیُحَدُّ ؟ قَالَ : نَعَمْ ، إِنَّ اللَّہَ یَقُولُ : {ثُمَّ لَمْ یَأْتُوا بِأَرْبَعَۃِ شُہَدَائَ}۔
(٢٩٥٥٨) حضرت عبدالملک فرماتے ہیں کہ حضرت شعبی سے ایک آدمی کے متعلق پوچھا گیا جس نے آدمی سے یوں کہہ دیا : اے زانی ! اور وہ جانتا ہے کہ اس نے زنا کیا ہے تو کیا اس پر حد قذف لگائی جائے گی ؟ آپ نے فرمایا : جی ہاں، بیشک اللہ رب العزت نے فرمایا : پھر وہ چار گواہ نہ لاسکے۔

29558

(۲۹۵۵۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ أَبِی حَصِینٍ ؛ أَنَّ رَجُلاً قَالَ لِرَجُلٍ : یَا روسبیہ ، فَضَرَبَہُ عُرْوَۃُ بْنُ الْمُغِیرَۃِ الْحَدَّ ، فَأَعْجَبَ ذَلِکَ الشَّعْبِیَّ۔
(٢٩٥٥٩) حضرت سفیان فرماتے ہیں کہ حضرت ابوحینن نے ارشاد فرمایا کہ ایک آدمی نے کسی آدمی کو یوں کہہ دیا : اے بدکار تو حضرت عروہ بن مغیرہ نے اس پر حد جاری کی اور اس بات نے امام شعبی کو حیرت میں ڈال دیا۔

29559

(۲۹۵۶۰) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ یَعْلَی بْنُ الْحَارِثِ ، قَالَ : حدَّثَنَا أَبِی ، عَنْ غَیْلاَنَ بْنِ جَامِعٍ ، عَنْ أَشْعَثَ بْنَ سُلَیْمَانَ ، قَالَ : جِیئَ بِرَجُلٍ إِلَی الْقَاسِمِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ وَہُوَ قَاضٍ ، قَالَ : فَشُہِدَ عَلَیْہِ أَنَّہُ قَالَ لِرَجُلٍ : یَا روسبیہ ، فَجَلَدَہُ الْحَدَّ۔
(٢٩٥٦٠) حضرت اشعث بن سلیمان فرماتے ہیں کہ حضرت قاسم بن عبدالرحمن کے پاس ایک آدمی لایا گیا اس حال میں کہ آپ قاضی تھے، اور اس کے خلاف گواہی دی گئی کہ اس نے کسی آدمی کو یوں کہا ہے : اے بدکار ! تو آپ نے اس پر حد جاری کی۔

29560

(۲۹۵۶۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، عَنْ صَالِحِ بْنِ مَعْبَدٍ، عَنِ الشَّعْبِیِّ؛ فِی الرَّجُلِ یَقُولُ لِلرَّجُلِ: یَا مَعْفُوج، قَالَ: عَلَیْہِ الْحَدُّ۔
(٢٩٥٦١) حضرت صالح بن معبد فرماتے ہیں کہ حضرت شعبی سے اس شخص کے بارے میں مروی ہے جو آدمی کو یوں کہہ دے : اے لواطت کا عمل کروانے والے ! آپ نے فرمایا : اس پر حد قذف جاری ہوگی۔

29561

(۲۹۵۶۲) حَدَّثَنَا ابْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ الْوَلِیدِ ، قَالَ : شَہِدْتُ ابْنَ أَشْوَعَ أُتِیَ بِرَجُلٍ قَالَ لِرَجُلٍ : یَا مَفْعُولُ ، فَجَلَدَہُ الْحَدَّ۔
(٢٩٥٦٢) حضرت یحییٰ بن ولید فرماتے ہیں کہ میں حضرت ابن اشوع کے پاس حاضر تھا کہ ایک آدمی کو لایا گیا جس نے کسی کو یوں کہا تھا : اے مفعول ! تو آپ نے اس پر حد قذف جاری کی۔

29562

(۲۹۵۶۳) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنْ عُبَیْدَۃَ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، قَالَ : یُجْلَدُ۔
(٢٩٥٦٣) حضرت عبیدہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم نے ارشاد فرمایا : اسے کوڑے مارے جائیں گے۔

29563

(۲۹۵۶۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ أَبِی ہِلاَلٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، وَعِکْرِمَۃَ ؛ فِی الرَّجُلِ یَقُولُ لِلرَّجُلِ : یَا مُخَنَّثُ ، قَالَ عِکْرِمَۃُ : عَلَیْہِ الْحَدُّ ۔ وَقَالَ الْحَسَنُ : لَیْسَ عَلَیْہِ الْحَدُّ۔
(٢٩٥٦٤) حضرت ابوہلال فرماتے ہیں کہ حضرت حسن بصری اور حضرت عکرمہ سے اس شخص کے بارے میں مروی ہے جو آدمی کو یوں کہہ دے : اے ہجڑے ! حضرت عکرمہ نے فرمایا : اس پر حد جاری ہوگی اور حضرت حسن بصری نے فرمایا : اس پر حد جاری نہیں ہوگی۔

29564

(۲۹۵۶۵) حَدَّثَنَا ابْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنْ أَبِی ہِلاَلٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : لَیْسَ عَلَیْہِ حَدٌّ۔
(٢٩٥٦٥) حضرت ابوہلال فرماتے ہیں کہ حضرت حسن بصری نے ارشاد فرمایا : اس پر حد جاری نہیں ہوگی۔

29565

(۲۹۵۶۶) حَدَّثَنَا ابْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ عَامِرٍ ، قَالَ : إِذَا قَالَ : یَا مُخَنَّثُ فَلَیْسَ عَلَیْہِ حَدٌّ۔
(٢٩٥٦٦) حضرت جابر فرماتے ہیں کہ حضرت عامر نے ارشاد فرمایا : جب کوئی یوں کہے : اے ہجڑے ! تو اس پر حد جاری نہیں ہوگی۔

29566

(۲۹۵۶۷) حَدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ عُمَیْرٍ ، قَالَ : قَالَ عَلِیٌّ : قَوْلُ الرَّجُلِ لِلرَّجُلِ : یَا خَبِیثُ ، یَا فَاسِقُ ، قَالَ : ہُنَّ فَوَاحِشُ ، وَفِیہِنَّ عُقُوبَۃٌ ، وَلاَ تَقُولُہُنَّ فَتَعَوَّدَہُنَّ۔
(٢٩٥٦٧) حضرت عبدالملک بن عمیر فرماتے ہیں کہ حضرت علی نے ارشاد فرمایا : آدمی کا آدمی کو یوں کہنا : اے خبیث، اے فاسق، آپ نے فرمایا یہ بری باتیں ہیں اور اس میں سزا ہوگی اور وہ ان کلمات کو مت کہے، پس وہ ان کا عادی ہوجائے گا۔

29567

(۲۹۵۶۸) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الْحَسَنِ ؛ أَنَّ أَبَا بَکْرٍ قَالَ فِی الرَّجُلِ یَقُولُ لِلرَّجُلِ : یَا خَبِیثُ ، یَا فَاسِقُ ، قَالَ : قَدْ قَالَ قَوْلاً سَیِّئًا ، وَلَیْسَ فِیہِ عُقُوبَۃٌ ، وَلاَ حَدٌّ۔
(٢٩٥٦٨) حضرت حسن بصری فرماتے ہیں کہ حضرت ابوبکر صدیق نے اس آدمی کے بارے میں جس نے آدمی کو یوں کہا : اے خبیث، اے فاسق، یوں فرمایا : تحقیق اس شخص نے بری بات کہی اور اس میں سزا اور حد نہیں ہوگی۔

29568

(۲۹۵۶۹) حَدَّثَنَا ابْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ إِسْحَاقَ ، قَالَ : شَہِدْتُ سَالِمًا ، وَالْقَاسِمَ وَسَأَلَہُمَا أَمِیرُ الْمَدِینَۃِ عَنْ رَجُلٍ قَالَ لِرَجُلٍ یَا فَاسِقُ ؟ فَقَرَآ ہَذِہِ الآیَۃَ : {إِنْ جَائَکُمْ فَاسِقٌ بِنَبَأٍ فَتَبَیَّنُوا}، وَقَالاَ : الْفَاسِقُ : الْکَذَّابُ ، یُعَزَّرُ أَسْوَاطًا۔
(٢٩٥٦٩) حضرت عبدالرحمن بن اسحاق فرماتے ہیں کہ حضرت سالم اور حضرت قاسم بن عبدالرحمن کے پاس حاضر تھا کہ شہر کے امیر نے ان دونوں حضرات سے ایک آدمی کے متعلق سوال کیا جس نے کسی آدمی کو یوں کہا تھا : اے فاسق، تو اس کا کیا حکم ہے ؟ تو ان دونوں حضرات نے اس آیت کی تلاوت فرمائی : اگر تمہارے پاس کوئی فاسق خبر لے کر آئے تو اس کی خوب تحقیق کرلیا کرو۔ ان دونوں حضرات نے فرمایا : فاسق کا مطلب جھوٹا ہے، اس شخص کو شرعی حد سے کم کوڑے مارے جائیں گے۔

29569

(۲۹۵۷۰) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ ؛ فِی الرَّجُلِ یَقُولُ لِلرَّجُلِ : یَا خَبِیثُ ، قَالَ : ہُوَ قَوْلُ سَیْئٍ ، وَلَیْسَ فِیہِ عُقُوبَۃٌ۔
(٢٩٥٧٠) حضرت ابو الزبیر فرماتے ہیں کہ حضرت جابر بن عبداللہ سے اس شخص کے بارے میں مروی ہے جو آدمی کو یوں کہہ دے : اے خبیث، آپ نے فرمایا : یہ بری بات ہے اور اس میں کوئی سزا نہیں ہوگی۔

29570

(۲۹۵۷۱) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ إِسْمَاعِیلَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : لَوْ أَنَّ رَجُلاً قَالَ لِرَجُلٍ : ادَّعَاک عَشَرَۃٌ ، لَمْ یَکُنْ عَلَیْہِ حَدٌّ۔
(٢٩٥٧١) حضرت اسماعیل فرماتے ہیں کہ حضرت شعبی نے ارشاد فرمایا : اگر کوئی آدمی کسی آدمی کو یوں کہے : دس نے تیرے بارے میں دعوی کیا تو اس پر حد جاری نہیں ہوگی۔

29571

(۲۹۵۷۲) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ رَقبۃَ ، عَنْ حَمَّادٍ ؛ فِی الرَّجُلِ یَقُولُ لِلرَّجُلِ : أَنْتَ دَعِیٌّ ، لَیْسَ عَلَیْہِ حَدٌّ۔
(٢٩٥٧٢) حضرت رقبہ فرماتے ہیں کہ حضرت حماد سے اس آدمی کے بارے میں مروی ہے جو آدمی کو یوں کہہ دے : اے لے پالک، تو اس پر حد جاری نہیں ہوگی۔

29572

(۲۹۵۷۳) حَدَّثَنَا أَبُو عِصَامٍ ، عَنِ الأَوْزَاعِیِّ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ؛ فِی الرَّجُلِ یَقُولُ لِلرَّجُلِ مِنَ الْعَرَبِ : إِنَّک لَمَوْلًی ، قَالَ : یُضْرَبُ الْحَدَّ۔
(٢٩٥٧٣) حضرت اوزاعی فرماتے ہیں کہ حضرت زھری سے اس شخص کے بارے میں مروی ہے جو عرب کے آدمی کو یوں کہہ دے : بیشک تو غلام ہے، آپ نے فرمایا : اس پر حد لگائی جائے گی۔

29573

(۲۹۵۷۴) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ سُفْیَانَ بْنِ حُسَیْنٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : إِذَا زَنَی الرَّجُلُ بِالصَّبِیَّۃِ جُلِدَ وَلَمْ یُرْجَمْ ، وَلَیْسَ عَلَی الصَّبِیَّۃِ شَیْئٌ ، وَإِذَا زَنَی غُلاَمٌ بِامْرَأَۃٍ جُلِدَتْ وَلَمْ تُرْجَمْ ، وَعَلَی الْغُلاَمِ تَعْزِیرٌ۔
(٢٩٥٧٤) حضرت سفیان بن حسین فرماتے ہیں کہ حضرت حسن بصری نے ارشاد فرمایا : جب آدمی چھوٹی بچی سے زنا کرے تو اسے کوڑے مارے جائیں گے اور اسے سنگسار نہیں کیا جائے گا اور اس بچی پر کچھ لازم نہیں ہوگا اور جب کوئی بچہ کسی عورت سے زنا کرے تو اس عورت کو کوڑے مارے جائیں گے اور اس عورت کو سنگسار نہیں کیا جائے گا اور اس بچہ پر شرعی حد سے کم سزا ہوگی۔

29574

(۲۹۵۷۵) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنِ الْمُغِیرَۃِ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ؛ فِی رَجُلٍ افْتَضَّ صَبِیَّۃً ، قَالَ : عَلَیْہِ عُقْرُہَا۔
(٢٩٥٧٥) حضرت مغیرہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم سے ایک آدمی کے بارے میں مروی ہے جس نے کسی بچی کا پردہ بکارت زائل کردیا ہو آپ نے فرمایا : اس پر اس بچی کے لیے وطی بالشبہ کا مہر لازم ہوگا۔

29575

(۲۹۵۷۶) حَدَّثَنَا عَمْرُ بْنُ عَلِیِّ بْنِ عَطَائِ بْنِ مُقَدَّمٍ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ مَکْحُولٍ ، عَنِ ابْنِ مُحَیْرِیزٍ ، عَنْ فَضَالَۃَ بْنِ عُبَیْدٍ ، قَالَ : سَأَلْتُہُ عَن تَعْلِیقِ الْیَدِ فِی الَعُنُقِ ؟ فَقَالَ : السُّنَّۃُ ، قَطَعَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَدَ رَجُلٍ ، ثُمَّ عَلَّقَہَا فِی عُنُقِہِ۔ (ابوداؤد ۴۴۱۱۔ ترمذی ۱۴۴۷)
(٢٩٥٧٦) حضرت ابن محیریز فرماتے ہیں کہ حضرت فضالہ بن عبید سے میں نے گردن میں ہاتھ لٹکا دینے کے متعلق سوال کیا ؟ آپ نے فرمایا : سنت ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک آدمی کا ہاتھ کاٹا پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے اس کی گردن میں لٹکا دیا۔

29576

(۲۹۵۷۷) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنِ الْقَاسِمِ ، عَنْ أَبِیہِ ؛ أَنَّ عَلِیًّا قَطَعَ یَدَ سَارِقٍ فَرَأَیْتہَا مُعَلَّقَۃً ، یَعْنِی فِی عُنُقِہِ۔
(٢٩٥٧٧) حضرت عبدالرحمن فرماتے ہیں کہ حضرت علی نے ایک چور کا ہاتھ کاٹا، پس میں نے اسے لٹکا ہوا دیکھا یعنی اس کی گردن میں۔

29577

(۲۹۵۷۸) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ أَبِیہِ ؛ أَنَّ عَلِیًّا قَطَعَ یَدَ رَجُلٍ ، ثُمَّ عَلَّقَہَا فِی عُنُقِہِ۔
(٢٩٥٧٨) حضرت عبدالرحمن فرماتے ہیں کہ حضرت علی نے ایک چور کا ہاتھ کاٹا پھر آپ نے اسے اس کی گردن میں لٹکا دیا۔

29578

(۲۹۵۷۹) حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ مُعَاذٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا أَشْعَثُ ، عَنِ الْحَسَنِ ؛ أَنَّہُ قَالَ : یُقْتَلُ السُّحَّارُ ، وَلاَ یُسْتَتَابُون۔
(٢٩٥٧٩) حضرت اشعث فرماتے ہیں کہ حضرت حسن بصری نے ارشاد فرمایا : جادو گروں کو قتل کردیا جائے گا اور ان سے تو یہ طلب نہیں کی جائے گی۔

29579

(۲۹۵۸۰) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ حَارِثَۃَ بْنِ مُضَرِّبٍ؛ أَنَّ جُنْدَبًا قَتَلَ سَاحِرًا، أَوْ أَرَادَ أَنْ یَقْتُلَہُ۔
(٢٩٥٨٠) حضرت حارثہ بن مضرب فرماتے ہیں کہ حضرت جندب نے ایک جادو گر کو قتل کردیا یا آپ نے اس کو قتل کرنے کا ارادہ کیا۔

29580

(۲۹۵۸۱) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنْ قَیْسِ بْنِ عُبَادٍ ؛ أنَّہُ قَتَلَ سَاحِرًا۔
(٢٩٥٨١) حضرت سالم فرماتے ہیں کہ حضرت قیس بن عباد نے ایک جادو گر کو قتل کیا۔

29581

(۲۹۵۸۲) حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّیَالِسِیُّ ، عَنْ ہَمَّامِ بْنِ یَحْیَی ؛ أَنَّ عَامِلَ عُمَانَ کَتَبَ إِلَی عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِیزِ فِی سَاحِرَۃٍ أَخَذَہَا ، فَکَتَبَ إِلَیْہِ عُمَرُ : إِنَ اعْتَرَفَتْ ، أَوْ قَامَتْ عَلَیْہَا الْبَیِّنَۃُ ، فَاقْتُلْہَا۔
(٢٩٥٨٢) حضرت ھمام بن یحییٰ فرماتے ہیں کہ عمان کے گورنر نے حضرت عمر بن عبدالعزیز کو ایک جادو گرنی کے بارے میں خط لکھا جس کو اس نے پکڑا تھا۔ پس حضرت عمر نے اس کی طرف جواب لکھا : اگر وہ عورت اعتراف کرلے یا اس پر بینہ قائم ہوجائے تو اس کو قتل کردو۔

29582

(۲۹۵۸۳) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ ، عَن نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ؛ أَنَّ جَارِیَۃً لِحَفْصَۃَ سَحَرَتْہَا ، وَوَجَدُوا سِحْرَہَا ، وَاعْتَرَفَتْ ، فَأَمَرَت عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنُ زَیْدٍ فَقَتَلَہَا ، فَبَلَغَ ذَلِکَ عُثْمَانَ فَأَنْکَرَہُ ، وَاشْتَدَّ عَلَیْہِ ، فَأَتَاہُ ابْنُ عُمَرَ فَأَخْبَرَہُ أَنَّہَا سَحَرَتْہَا ، وَوَجَدُوا سِحْرَہَا ، وَاعْتَرَفَتْ بِہِ ، فَکَأَنَّ عُثْمَانُ إِنَّمَا أَنْکَرَ ذَلِکَ لأَنَّہَا قُتِلَتْ بِغَیْرِ إِذْنِہِ۔
(٢٩٥٨٣) حضرت نافع فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عمر نے ارشاد فرمایا : حضرت حفصہ کی ایک باندی نے ان پر جادو کردیا اور لوگوں نے اس کو جادو کرتا ہوا پا لیا، اور اس نے اعتراف بھی کرلیا۔ حضرت حفصہ نے حضرت عبدالرحمن بن زید کو حکم دیا تو آپ نے اسے قتل کردیا، جب یہ خبر حضرت عثمان کو پہنچی تو آپ نے اس بات کو پسند نہیں کیا اور اس پر غصہ کا اظہار کیا۔ سو حضرت ابن عمر آپ کے پاس تشریف لائے اور انھیں خبر دی کہ بیشک اس نے آپ پر جادو کردیا تھا، اور لوگوں نے اس کو جادو کرتا ہوا بھی پایا تھا، اور اس جادو گرنی نے اس کا اعتراف بھی کیا تھا۔ تو گویا حضرت عثمان نے اس بات کو ناپسند کیا اس لیے کہ اسے آپ کی اجازت کے بغیر قتل کیا گیا تھا۔

29583

(۲۹۵۸۴) حَدَّثَنَا مُعْتَمِرُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ زَیْدٍ أَبِی الْمُعَلَّی ، قَالَ : حدَّثَنِی شُرْطِیٌّ لِسِنَانِ بْنِ سَلَمَۃَ ؛ أَنَّ سِنَانًا أُتِیَ بِسَاحِرَۃٍ ، فَأَمَرَ بِہَا أَنْ تُلْقَی فِی الْبَحْرِ۔
(٢٩٥٨٤) حضرت زید ابو المعلی فرماتے ہیں کہ مجھے حضرت سنان بن سلمہ کے ایک سپاہی نے بیان کیا کہ حضرت سنان کے پاس ایک جادو گرنی کو لایا گیا، تو آپ نے اس کے متعلق حکم دیا تو اسے سمندر میں ڈال دیا گیا۔

29584

(۲۹۵۸۵) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ عَمْرٍو ؛ سَمِعَ بَجَالَۃ ، یَقُولُ : کُنْتُ کَاتِبًا لِجَزْئِ بْنِ مُعَاوِیَۃَ ، فَأَتَانَا کِتَابُ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ : أَنَ اقْتُلُوا کُلَّ سَاحِرٍ وَسَاحِرَۃٍ ، قَالَ : فَقَتَلْنَا ثَلاَثَ سَوَاحِرَ۔
(٢٩٥٨٥) حضرت بجالہ فرماتے ہیں کہ میں حضرت جزء بن معاویہ کا کاتب تھا۔ پس ہمارے پاس حضرت عمر بن خطاب کا خط آیا کہ تم ہر جادو گر اور جادو گرنی کو قتل کردو تو ہم نے تین جادو گروں کو قتل کیا۔

29585

(۲۹۵۸۶) حَدَّثَنَا الثَّقَفِیُّ، عَنِ الْمُثَنَّی، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ؛ فِی السَّاحِرِ إِذَا اعْتَرَفَ قُتِلَ۔
(٢٩٥٨٦) حضرت عمرو بن شعیب فرماتے ہیں کہ حضرت سعید بن مسیب نے جادو گر کے بارے میں ارشاد فرمایا : جب وہ اعتراف کرلے تو اسے قتل کردیا جائے۔

29586

(۲۹۵۸۷) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنِ الْحَسَنِ ؛ فِی السَّاحِرِ ، قَالَ : یُقْتَلُ۔
(٢٩٥٨٧) حضرت عمرو فرماتے ہیں کہ حضرت حسن بصری جادو گر کے بارے میں مروی ہے آپ نے فرمایا : اسے قتل کردیا جائے۔

29587

(۲۹۵۸۸) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : لَمَّا قَدِمَ عَلَی عُمَرَ فَتْحُ تَسْتُرَ ، وَتَسْتُرُ مِنْ أَرْضِ الْبَصْرَۃِ ، سَأَلَہُمْ : ہَلْ مِنْ مُغْرِبَۃٍ ؟ قَالُوا : رَجُلٌ مِنَ الْمُسْلِمِینَ لَحِقَ بِالْمُشْرِکِینَ فَأَخَذْنَاہُ، قَالَ : فَمَا صَنَعْتُمْ بِہِ ؟ قَالُوا : قَتَلْنَاہُ ، قَالَ : أَفَلاَ أَدْخَلْتُمُوہُ بَیْتًا ، وَأَغْلَقْتُمْ عَلَیْہِ بَابًا ، وَأَطْعَمْتُمُوہُ کُلَّ یَوْمٍ رَغِیفًا ، ثُمَّ اسْتَتَبْتُمُوہُ ثَلاَثًا ، فَإِنْ تَابَ ، وَإِلاَّ قَتَلْتُمُوہُ ، ثُمَّ قَالَ : اللَّہُمَّ لَمْ أَشْہَدْ ، وَلَمْ آمُرْ ، وَلَمْ أَرْضَ إِذْ بَلَغَنِی ، أَوْ قَالَ : حِینَ بَلَغَنِی۔
(٢٩٥٨٨) حضرت عبدالرحمن فرماتے ہیں کہ جب حضرت عمر کے پاس تستر کے فتح ہونے کی خبر آئی۔ تستر بصرہ کے ایک علاقہ کا نام ہے۔ تو آپ نے ان لوگوں سے پوچھا : کیا کوئی اور دور دراز کی خبر ہے ؟ ان لوگوں نے کہا : مسلمانوں کا ایک آدمی مشرکین سے مل گیا تھا تو ہم نے اس کو پکڑ لیا۔ آپ نے پوچھا : تم نے اس کے ساتھ کیا معاملہ کیا ؟ انھوں نے کہا : ہم نے اسے قتل کردیا تھا۔ آپ نے فرمایا : تم نے اسے گھر میں داخل کیوں نہیں کیا اور تم اس پر دروازہ بند کردیتے اور تم اس کو ہر روز ایک چپاتی کھلا دیتے پھر تم اس سے تین مرتبہ توبہ طلب کرتے، پس اگر وہ توبہ کرلیتا تو ٹھیک ورنہ تم اس کو قتل کردیتے ! پھر آپ نے فرمایا : اے اللہ ! میں حاضر نہیں تھا اور نہ میں نے حکم دیا اور نہ میں راضی ہوا جب مجھے خبر پہنچی۔

29588

(۲۹۵۸۹) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ، عَنْ أَشْعَثَ، عَنِ الشَّعْبِیِّ، قَالَ: قَالَ عَلِیٌّ: یُسْتَتَابُ الْمُرْتَدُّ ثَلاَثًا، فَإِنْ عَادَ قُتِلَ۔
(٢٩٥٨٩) حضرت شعبی فرماتے ہیں کہ حضرت علی نے ارشاد فرمایا : مرتد سے تین مرتبہ توبہ طلب کی جائے گی پس اگر وہ دوبارہ کفر کرے تو اسے قتل کردیا جائے۔

29589

(۲۹۵۹۰) حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ مُعَاذٍ، عَنِ ابْنِ جَرِیرٍ، عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ مُوسَی، عَنْ عُثْمَانَ، قَالَ: یُسْتَتَابُ الْمُرْتَدُّ ثَلاَثًا۔
(٢٩٥٩٠) حضرت سلیمان بن موسیٰ فرماتے ہیں کہ حضرت عثمان نے ارشاد فرمایا : مرتد سے تین مرتبہ توبہ طلب کی جائے گی۔

29590

(۲۹۵۹۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ عَبْدِ الْکَرِیمِ ، عَمَّنْ سَمِعَ ابْنَ عُمَرَ ، یَقُولُ : یُسْتَتَابُ الْمُرْتَدُّ ثَلاَثًا ، فَإِنْ تَابَ تُرِکَ ، وَإِنْ أَبَی قُتِلَ۔
(٢٩٥٩١) حضرت ابن عمر فرماتے ہیں کہ مرتد سے تین مرتبہ توبہ طلب کی جائے گی پس اگر وہ توبہ کرلے تو اسے چھوڑ دیا جائے اور اگر وہ انکار کر دے تو اسے قتل کردیا جائے۔

29591

(۲۹۵۹۲) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنِ الْمُغِیرَۃِ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ؛ فِی الْمُرْتَدُّ یُسْتَتَابُ ، فَإِنْ تَابَ تُرِکَ ، وَإِنْ أَبَی قُتِلَ۔
(٢٩٥٩٢) حضرت مغیرہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم نے ارشاد فرمایا : مرتد سے توبہ طلب کی جائے گی پس اگر وہ توبہ کرلے تو اسے چھوڑ دیا جائے اور اگر وہ انکار کر دے تو اسے قتل کردیا جائے۔

29592

(۲۹۵۹۳) حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عنْ حُمَیْدِ بْنِ ہِلاَلٍ ؛ أَنَّ مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ أَتَی أَبَا مُوسَی وَعَندَہُ رَجُلٌ یَہُودِیٌّ ، فَقَالَ : مَا ہَذَا ؟ فَقَالَ : ہَذَا یَہُودِیٌّ أَسْلَمَ ، ثُمَّ ارْتَدَّ وَقَدِ اسْتَتَابَہُ أَبُو مُوسَی شَہْرَیْنِ ، قَالَ : فَقَالَ مُعَاذٌ : لاَ أَجْلِسُ حَتَّی أَضْرِبُ عُنُقَہُ ، قَضَائُ اللہِ وَقَضَائُ رَسُولِہِ۔ (بخاری ۶۹۲۳۔ مسلم ۱۴۵۶)
(٢٩٥٩٣) حضرت حمید بن ہلال فرماتے ہیں کہ حضرت معاذ بن جبل ، حضرت ابو موسیٰ کے پاس تشریف لائے اس حال میں کہ ان کے پاس ایک یہودی آدمی تھا۔ آپ نے پوچھا : اس کا کیا معاملہ ہے ؟ انھوں نے فرمایا : یہ یہودی اسلام لایا پھر مرتد ہوگیا اور حضرت ابوموسیٰ نے اس سے دو ماہ تک توبہ طلب کی۔ اس پر حضرت معاذ نے فرمایا : میں نہیں بیٹھوں گا یہاں تک کہ میں اس کی گردن اڑا دوں، اللہ کا فیصلہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فیصلہ ہے !

29593

(۲۹۵۹۴) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ حَیَّانَ ، عَنِ ابْنِ شِہَابٍ ، قَالَ : یُدْعَی إِلَی الإِسْلاَمِ ثَلاَثَ مَرَّاتٍ ، فَإِنْ أَبَی ضُرِبَتْ عُنُقُہُ۔
(٢٩٥٩٤) حضرت حیان فرماتے ہیں کہ حضرت ابن شہاب زھری نے ارشاد فرمایا : اس کو تین مرتبہ اسلام کی دعوت دی جائے گی پس اگر وہ انکار کر دے تو اس کی گردن اڑا دی جائے گی۔

29594

(۲۹۵۹۵) حَدَّثَنَا ابْنُ بَکْرٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، قَالَ : قَالَ عَطَائٌ فِی الإِنْسَانِ یَکْفُرُ بَعْدَ إِسْلاَمِہِ : یُدْعَی إِلَی الإِسْلاَمِ ، فَإِنْ أَبَی قُتِلَ۔
(٢٩٥٩٥) حضرت ابن جریج فرماتے ہیں کہ حضرت عطائ نے اس انسان کے بارے میں ارشاد فرمایا : جو اسلام لانے کے بعد کفر اختیار کرلے کہ اس کو اسلام کی دعوت دی جائے گی پس اگر وہ انکار کر دے تو اسے قتل کردیا جائے۔

29595

(۲۹۵۹۶) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنِی عَمْرُو بْنُ دِینَارٍ ؛ فِی الرَّجُلِ یَکْفُرُ بَعْدَ إِیمَانِہِ ، قَالَ : سَمِعْتُ عُبَیْدَ بْنَ عُمَیْرٍ ، یَقُولُ : یُقْتَلُ۔
(٢٩٥٩٦) حضرت ابن جریج فرماتے ہیں کہ حضرت عمرو بن دینار نے اس آدمی کے بارے میں جو ایمان کے بعد کفر اختیار کرلے فرمایا : میں نے حضرت عبید بن عمیر کو یوں فرماتے ہوئے سنا : اسے قتل کردیا جائے گا۔

29596

(۲۹۵۹۷) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَنْ بَدَّلَ دِینَہُ فَاقْتُلُوہُ۔ (بخاری ۶۹۲۲۔ ابوداؤد ۴۳۵۱)
(٢٩٥٩٧) حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جو شخص اپنا دین بدل لے تو تم اسے قتل کردو۔

29597

(۲۹۵۹۸) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَۃَ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ خِلاَسٍ ، عن علی ؛ فِی الْمُرْتَدَّۃِ تُسْتَأْمَی ، وَقَالَ : تُقْتَلُ۔
(٢٩٥٩٨) حضرت خلاس فرماتے ہیں کہ حضرت علی سے اس مرتدہ عورت کے بارے میں مروی ہے جس کو قیدی بنا لیا گیا کہ آپ نے فرمایا : اس کو قتل کردیا جائے گا۔

29598

(۲۹۵۹۹) حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، وَوَکِیعٌ ، عَنْ أَبِی حَنِیفَۃَ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ أَبِی رَزِینٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: لاَ یُقْتَلْنَ النِّسَائُ إِذَا ہُنَّ ارْتَدَدْنَ عَنِ الإِسْلاَمِ ، وَلَکِنْ یُحْبَسْنَ وَیُدْعَیْنَ إِلَی الإِسْلاَمِ ، وَیُجْبَرْنَ عَلَیْہِ۔
(٢٩٥٩٩) حضرت ابورزین فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عباس نے ارشاد فرمایا : عورتوں کو قتل نہیں کیا جائے گا جب وہ اسلام سے مرتد ہوجائیں لیکن ان کو قید کرلیا جائے گا اور ان کو اسلام کی طرف بلایا جائے گا اور اس پر انھیں مجبور کیا جائے گا۔

29599

(۲۹۶۰۰) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ عَطَائٍ ؛ فِی الْمُرْتَدَّۃِ ، قَالَ : لاَ تُقْتَلُ۔
(٢٩٦٠٠) حضرت لیث فرماتے ہیں کہ حضرت عطائ نے مرتدہ عورت کے بارے میں ارشاد فرمایا : اسے قتل نہیں کیا جائے گا۔

29600

(۲۹۶۰۱) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ عمرو ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : لاَ تُقْتَلُ۔
(٢٩٦٠١) حضرت عمرو فرماتے ہیں کہ حضرت حسن بصری نے ارشاد فرمایا : اس عورت کو قتل نہیں کیا جائے گا۔

29601

(۲۹۶۰۲) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : لاَ تَقْتُلُوا النِّسَائَ إِذَا ہُنَّ ارْتَدَدْنَ عَنِ الإِسْلاَمِ ، وَلَکِنْ یُدْعَیْنَ إِلَی الإِسْلاَمِ ، فَإِنْ ہُنَّ أَبَیْنَ سُبِینَ ، فَیُجْعَلْنَ إِمَائَ الْمُسْلِمِینَ ، وَلاَ یُقْتَلْنَ۔
(٢٩٦٠٢) حضرت اشعث فرماتے ہیں کہ حضرت حسن بصری نے ارشاد فرمایا : تم عورتوں کو قتل مت کرو جب وہ اسلام سے مرتد ہوجائیں۔ لیکن ان کو اسلام کی طرف بلایا جائے گا پس اگر وہ انکار کردیں تو ان کو قیدی بنا لیا جائے اور ان کو مسلمانوں کی باندیاں بنادیا جائے اور ان کو قتل نہ کیا جائے۔

29602

(۲۹۶۰۳) حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ ، عَنْ أَبِی حَرَّۃَ ، عَنِ الْحَسَنِ ؛ فِی الْمَرْأَۃِ تَرْتَدُّ عَنِ الإِسْلاَمِ ، قَالَ : لاَ تُقْتَلُ ، تُحْبَسُ۔
(٢٩٦٠٣) حضرت ابوحرہ فرماتے ہیں کہ حضرت حسن بصری سے اس عورت کے بارے میں مروی ہے جو اسلام سے مرتد ہوجائے۔ آپ نے فرمایا : اس کو قتل نہیں کیا جائے گا اس کو قید کردیا جائے گا۔

29603

(۲۹۶۰۴) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ عُبَیدۃ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : لاَ تُقْتَلُ۔
(٢٩٦٠٤) حضرت عبیدہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم نے ارشاد فرمایا : اس کو قتل نہیں کیا جائے گا۔

29604

(۲۹۶۰۵) حَدَّثَنَا ابْنُ إِدْرِیسَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ؛ فِی الْمُرْتَدَّۃِ : تُسْتَتَابُ ، فَإِنْ تَابَتْ ، وَإِلاَّ قُتِلَتْ۔
(٢٩٦٠٥) حضرت ہشام فرماتے ہیں کہ حضرت حسن بصری نے مرتدہ عورت کے بارے میں ارشاد فرمایا : اس سے توبہ طلب کی جائے گی پس اگر وہ توبہ کرلے تو ٹھیک ورنہ اسے قتل کردیا جائے گا۔

29605

(۲۹۶۰۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِیزِ ؛ أَنَّ أُمَّ وَلَدٍ لِرَجُلٍ مِنَ الْمُسْلِمِینَ ارْتَدَّتْ ، فَبَاعَہَا بِدَوْمَۃِ الْجَنْدَلِ ، مِنْ غَیْرِ أَہْلِ دِینِہَا۔
(٢٩٦٠٦) حضرت یحییٰ بن سعید فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز سے مروی ہے مسلمانوں میں سے ایک آدمی کی ام ولدہ مرتد ہوگئی تو آپ نے اس کو دومۃ الجندل میں اس کے دین کے مخالف آدمی کو فروخت کردیا۔

29606

(۲۹۶۰۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ أَبِی مَعْشَرٍ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ؛ فِی الْمَرْأَۃِ تَرْتَدُّ عَنِ الإِسْلاَمِ ، قَالَ : تُسْتَتَابُ ، فَإِنْ تَابَتْ ، وَإِلاَّ قُتِلَتْ۔
(٢٩٦٠٧) حضرت ابو معشر فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم سے اس عورت کے بارے میں مروی ہے جو اسلام سے مرتد ہوجائے، آپ نے فرمایا : اس سے توبہ طلب کی جائے گی پس اگر وہ توبہ کرلے تو ٹھیک ورنہ اسے قتل کردیا جائے۔

29607

(۲۹۶۰۸) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ، عَنْ سَعِیدٍ، عَنْ أَبِی مَعْشَرٍ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ، قَالَ: تُسْتَتَابُ، فَإِنْ تَابَتْ، وَإِلاَّ قُتِلَتْ۔
(٢٩٦٠٨) حضرت ابو معشر فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم نے ارشاد فرمایا : اس سے توبہ طلب کی جائے گی پس اگر وہ توبہ کرلے تو ٹھیک ورنہ اسے قتل کردیا جائے۔

29608

(۲۹۶۰۹) حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنْ حَمَّادٍ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، قَالَ : تُقْتَلُ۔
(٢٩٦٠٩) حضرت حماد فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم نے ارشاد فرمایا : اس عورت کو قتل کردیا جائے گا۔

29609

(۲۹۶۱۰) حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ عَیَّاشٍ ، عَنْ أَبِی حَصِینٍ ، عَنْ سُوَیْدِ بْنِ غَفَلَۃَ ؛ أَنَّ عَلِیًّا حَرَقَ زَنَادِقَۃً بِالسُّوقِ ، فَلَمَّا رَمَی عَلَیْہِمْ بِالنَّارِ ، قَالَ : صَدَقَ اللَّہُ وَرَسُولُہُ ، قَالَ : ثُمَّ انْصَرَفَ ، فَاتَّبَعْتُہُ ، قَالَ : أَسُوَیْدُ ؟ قُلْتُ : نَعَمْ ، یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ ، سَمِعْتُک تَقُولُ شَیْئًا ، قَالَ : یَا سُوَیْد ، إِنِّی مَعَ قَوْمٍ جُہَّالٍ ، فَإِذَا سَمِعْتنِی أَقُولُ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَہُوَ حَقٌّ۔
(٢٩٦١٠) حضرت سوید بن غفلہ فرماتے ہیں کہ حضرت علی نے ملحدوں کو بازار میں جلا دیا پس جب آپ نے ان پر آگ ڈالی آپ نے فرمایا : اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سچ فرمایا۔ پھر آپ واپس چلے گئے۔ راوی کہتے ہیں : میں آپ کے پھے لح ہو لیا تو وہ متوجہ ہوئے اور پوچھا : کیا سوید ہو ؟ میں نے کہا : جی ہاں ! اے امیر المومنین، میں نے آپ کو کچھ فرماتے ہوئے سنا ! آپ نے فرمایا : اے سوید ! بیشک میں جاہل لوگوں کے ساتھ ہوں۔ پس جب تم مجھے یوں کہتے ہوئے سنو کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تو وہ حق ہے۔

29610

(۲۹۶۱۱) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عُبَیْدٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : کَانَ أُنَاسٌ یَأْخُذُونَ الْعَطَائَ وَالرِّزْقَ وَیُصَلُّونَ مَعَ النَّاسِ کَانُوا یَعْبُدُونَ الأَصْنَامَ فِی السِّرِّ ، فَأُتِیَ بِہِمْ عَلِیُّ بْنُ أَبِی طَالِبٍ فَوَضَعَہُمْ فِی الْمَسْجِدِ ، أَوْ قَالَ : فِی السِّجْنِ ، ثُمَّ قَالَ : یَا أَیُّہَا النَّاسُ ، مَا تَرَوْنَ فِی قَوْمٍ کَانُوا یَأْخُذُونَ مَعَکُم الْعَطَائَ وَالرِّزْقَ ، وَیَعْبُدُونَ ہَذِہِ الأَصْنَامَ ؟ قَالَ النَّاسُ : اقْتُلْہُمْ ، قَالَ : لاَ ، وَلَکِنْ أَصْنَعُ بِہِمْ کَمَا صُنِعَ بِأَبِینَا إِبْرَاہِیمَ صلوات اللہ علیہ ، فَحَرَّقَہُمْ بِالنَّارِ۔
(٢٩٦١١) حضرت عبدالرحمن بن عبید فرماتے ہیں کہ حضرت عبید نے فرمایا : کچھ لوگ تھے جو سالانہ اور ماہانہ وظیفہ لے تَ تھے اور لوگوں کے ساتھ نماز پڑھتے تھے اور وہ پوشیدگی میں بتوں کی بھی پوجا کرتے تھے تو ان لوگوں کو حضرت علی کے پاس لایا گیا تو انھوں نے ان کو مسجد میں یا جیل میں ڈال دیا۔ پھر فرمایا : اے لوگو ! تمہاری کیا رائے ہے ان لوگوں کے بارے میں جو تمہارے ساتھ سالانہ اور ماہانہ وظیفہ لیتے ہیں اور ان بتوں کو بھی پوجتے ہیں ؟ لوگوں نے کہا : آپ ان کو قتل کردو۔ آپ نے فرمایا : نہیں، لیکن میں ان کے ساتھ ایسا معاملہ کروں گا جو ہمارے والد حضرت ابراہیم کے ساتھ کیا گیا۔ سو آپ نے ان کو آگ میں جلا ڈالا۔

29611

(۲۹۶۱۲) حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ أَیُّوبَ بْنِ نُعْمَانَ ، قَالَ : شَہِدْتُ عَلِیًّا فِی الرَّحْبَۃِ ، وَجَائَ رَجُلٌ ، فَقَالَ : یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ ، إِنَّ ہَاہُنَا أَہْلَ بَیْتٍ لَہُمْ وَثَنٌ فِی دَارِہِمْ یَعْبُدُونَہُ ، فَقَامَ عَلِیٌّ یَمْشِی حَتَّی انْتَہَی إِلَی الدَّارِ ، فَأَمَرَہُمْ فَدَخَلُوا ، فَأَخْرَجُوا إِلَیْہِ تِمْثَالَ رُخَامٍ ، فَأَلْہَبَ عَلِیٌّ الدَّارَ۔
(٢٩٦١٢) حضرت ایوب بن نعمان فرماتے ہیں کہ میں حضرت علی کے پاس کشادہ میدان میں حاضر تھا کہ ایک آدمی آیا اور کہنے لگا : اے امیرالمومنین ! بیشک وہاں ایک گھر والے ہیں جن کے گھروں میں بت ہیں وہ ان کو پوجتے ہیں، پس حضرت علی کھڑے ہو کر چلنے لگے۔ یہاں تک کہ آپ اس گھر تک پہنچے آپ نے لوگوں کو حکم دیا تو وہ داخل ہوئے اور انھوں نے آپ کی طرف سنگ مرمر کے مجسّمے نکالے، پس حضرت علی نے اس گھر کو جلا دیا۔

29612

(۲۹۶۱۳) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِ ، عَنْ سِمَاکٍ ، عَنْ قَابُوسَ بْنِ مُخَارِقٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : بَعَثَ عَلِیٌّ مُحَمَّدَ بْنَ أَبِی بَکْرٍ أَمِیرًا عَلَی مِصْرَ ، فَکَتَبَ مُحَمَّدٌ إِلَی عَلِیٍّ یَسْأَلُہُ عَنْ زَنَادِقَۃٍ ؛ مِنْہُمْ مَنْ یَعْبُدُ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ ، وَمِنْہُمْ مَنْ یَعْبُدُ غَیْرَ ذَلِکَ ، وَمِنْہُمْ مَنْ یُدْعَی لِلإِسْلاَمِ ؟ فَکَتَبَ عَلِیٌّ وَأمَرَہُ بِالزَّنَادِقَۃِ ؛ أَنْ یَقْتُلَ مَنْ کَانَ یَدْعِی الإِسْلاَمِ ، وَیُتْرَکُ سَائِرُہُمْ یَعْبُدُونَ مَا شَاؤُوا۔
(٢٩٦١٣) حضرت مخارق فرماتے ہیں کہ حضرت علی نے محمد بن ابی بکر کو مصر پر امیر بنا کر بھیجا، پس محمد نے حضرت علی کو خط لکھ کر آپ سے زنادقہ کے متعلق پوچھا : ان میں سے کچھ لوگ سورج اور چاند کو پوجتے ہیں، اور ان میں سے کچھ ان کے علاوہ چیزوں کو پوجتے ہیں اور ان میں سے کچھ اسلام کا دعویٰ کرتے ہیں ان کا کیا حکم ہے ؟ حضرت علی نے خط لکھا اور انھیں زنادقہ کے متعلق حکم دیا کہ : وہ ان کو قتل کردیں جو اسلام کا دعویٰ کرتے ہیں اور باقی سب کو چھوڑ دیں وہ جس کی چاہیں عبادت کریں۔

29613

(۲۹۶۱۴) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ؛ أَنَّہُ بَلَغَہُ أَنَّ عَلِیًّا أَخَذَ زَنَادِقَۃً فَأَحْرَقَہُمْ ، قَالَ : فَقَالَ : أَمَّا أَنَا فَلَوْ کُنْتُ لَمْ أُعَذِّبْہُمْ بِعَذَابِ اللہِ ، وَلَوْ کُنْتُ أَنَا لَقَتَلْتہمْ ، لِقَوْلِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَنْ بَدَّلَ دِینَہُ فَاقْتُلُوہُ۔
(٢٩٦١٤) حضرت عکرمہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عباس کو خبر پہنچی کہ حضرت علی نے زندیقوں کو پکڑ کر ان کو جلا ڈالا ہے۔ تو آپ نے فرمایا : جہاں تک میرا تعلق ہے تو میں ان کو اللہ کے عذاب کے طریقہ سے عذاب نہیں دیتا اور اگر میں ہوتا تو میں ان کو قتل کردیتا۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حدیث کی وجہ سے کہ جو شخص اپنا دین تبدیل کرلے تو تم اسے قتل کردو۔

29614

(۲۹۶۱۵) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ سِمَاکٍ ، عَنِ ابْنِ عُبَیْدِ بْنِ الأَبْرَصِ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ أَبِی طَالِبٍ ؛ أَنَّہُ أُتِیَ بِرَجُلٍ کَانَ نَصْرَانِیًّا فَأَسْلَمَ ، ثُمَّ تَنَصَّرَ ، قَالَ : فَسَأَلَہُ عَنْ کَلِمَۃٍ ، فَقَالَ لَہُ ، فَقَامَ إِلَیْہِ عَلِیٌّ فَرَفَسَہُ بِرِجْلِہِ ، فَقَامَ النَّاسُ إِلَیْہِ فَضَرَبُوہُ حَتَّی قَتَلُوہُ۔
(٢٩٦١٥) حضرت ابن عبید بن ابرصی فرماتے ہیں کہ حضرت علی بن ابی طالب کے پاس ایک آدمی لایا گیا جو عیسائی تھا پس اس نے اسلام قبول کرلیا پھر اس نے عیسائیت اختیار کرلی۔ راوی کہتے ہیں آپ نے اس سے اس بات کے متعلق پوچھا : تو اس نے آپ کو بتادیا۔ سو حضرت علی اس کی طرف کھڑے ہوئے اور اس کے سینہ پر اپنی لات ماری تو لوگ بھی کھڑے ہو کر اسے مارنے لگے یہاں تک کہ اسے قتل کردیا۔

29615

(۲۹۶۱۶) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ سَعِیدِ بْنِ حَیَّانَ ، عَنْ عَمَّارٍ الدَّہْنِیِّ ، قَالَ : حدَّثَنَی أَبُو الطُّفَیْلِ ، قَالَ : کُنْتُ فِی الْجَیْشِ الَّذِینَ بَعَثَہُ عَلِیُّ بْنُ أَبِی طَالِبٍ إِلَی بَنِی نَاجِیَۃَ ، قَالَ : فَانْتَہَیْنَا إِلَیْہِمْ ، فَوَجَدْنَاہُمْ عَلَی ثَلاَثِ فِرَقٍ ، قَالَ : فَقَالَ أَمِیرُنَا لِفِرْقَۃٍ مِنْہُمْ : مَا أَنْتُمْ ؟ قَالُوا : نَحْنُ قَوْمٌ مِنَ النَّصَارَی لَمْ نَرَ دِینًا أَفْضَلَ مِنْ دِینِنَا ، فَثَبَتْنَا عَلَیْہِ ، فَقَالَ : اعْتَزَلُوا ، ثُمَّ قَالَ لِفِرْقَۃٍ أُخْرَی : مَا أَنْتُمْ ؟ قَالُوا : نَحْنُ قَوْمٌ کُنَّا نَصَارَی فَأَسْلَمْنَا فَثَبَتْنَا عَلَی الإِسْلاَمِ ، فَقَالَ : اعْتَزَلُوا ، ثُمَّ قَالَ لِلثَّالِثَۃِ : مَا أَنْتُمْ ؟ قَالُوا : نَحْنُ قَوْمٌ کُنَّا نَصَارَی فَأَسْلَمْنَا، ثُمَّ رَجَعْنَا، فَلَمْ نَرَ دِینًا أَفْضَلَ مِنْ دِینِنَا الأَوَّلِ، فَتَنَصَّرْنَا، فَقَالَ لَہُمْ: أَسْلِمُوا ، فَأَبَوْا، فَقَالَ لأَصْحَابِہِ : إِذَا مَسَحْتُ رَأْسِی ثَلاَثَ مَرَّاتٍ ، فَشُدُّوا عَلَیْہِمْ ، فَفَعَلُوا ، فَقَتَلُوا الْمُقَاتِلَۃَ ، وَسَبَوْا الذَّرِیۃَ۔
(٢٩٦١٦) حضرت ابوالطفیل فرماتے ہیں کہ میں اس لشکر میں تھا جسے حضرت علی بن ابی طالب نے بنو ناجیہ کی طرف بھیجا، آپ فرماتے ہیں : پس ہم ان کے پاس پہنچ گئے۔ تو ہم نے ان لوگوں کو تین گروہوں میں پایا، پس ہمارے امیر نے ان میں سے ایک گروہ سے پوچھا ! تمہارا کیا معاملہ ہے ؟ انھوں نے کہا : ہم لوگ عیسائی تھے ہم نے اپنے دین سے افضل کسی دین کو نہیں سمجھا۔ پس ہم اس پر ثابت قدم رہے۔ اس پر امیر نے کہا : تم الگ ہو جاؤ۔ پھر اس نے ایک دوسرے گروہ سے پوچھا : تمہارا کیا معاملہ ہے ؟ انھوں نے کہا : ہم لوگ عیسائی تھے پس ہم نے اسلام قبول کرلیا پھر ہم اسلام پر ثابت قدم رہے۔ تو امیر نے کہا : تم بھی الگ ہو جاؤ۔ پھر امیر نے تیسرے گروہ سے پوچھا : تمہارا کیا معاملہ ہے ؟ وہ کہنے لگے ! ہم لوگ عیسائی تھے۔ پس ہم اسلام لے آئے پھر ہم نے رجوع کرلیا۔ پس ہم نے اپنے پہلے دین سے افضل کسی دین کو نہیں سمجھا۔ سو ہم نے عیسائیت اختیار کرلی سو امیر نے ان سے کہا : تم اسلام لے آؤ۔ ان لوگوں نے انکار کردیا تو امیر نے اپنے ساتھیوں سے کہا : جب میں تین مرتبہ اپنے سر پر ہاتھ پھیر لوں تو تم ان پر حملہ کردینا۔ پس انھوں نے ایسا ہی کیا اور لڑنے والوں کو قتل کردیا اور ان کی اولاد کو قیدی بنا لیا۔

29616

(۲۹۶۱۷) حَدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ طَاوُوسٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : لاَ تُسَاکِنُکُمُ الْیَہُودُ وَالنَّصَارَی ، إِلاَّ أَنْ یُسْلِمُوا ، فَمَنْ أَسْلَمَ مِنْہُمْ ثُمَّ ارْتَدَّ ، فَلاَ تَضْرِبُوا إِلاَّ عُنُقَہُ۔
(٢٩٦١٧) حضرت طاؤس فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عباس نے ارشاد فرمایا : تمہارے ساتھ یہود و نصاریٰ ایک جگہ مت رہیں مگر یہ کہ وہ اسلام لے آئیں۔ پس ان میں سے جو اسلام لے آئے پھر وہ مرتد ہوجائے تو تم مت مارو مگر اس کی گردن پر۔

29617

(۲۹۶۱۸) حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا حَسَنٌ ، عَنِ ابْنِ أَبِی لَیْلَی ؛ فِی رَجُلٍ سَرَقَ مِنَ الْکَعْبَۃِ ؟ قَالَ : لَیْسَ عَلَیْہِ قَطْعٌ۔
(٢٩٦١٨) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ حضرت ابن ابی لیلیٰ سے ایک آدمی کے بارے میں مروی ہے جس نے خانہ کعبہ سے چوری کی تھی۔ آپ نے فرمایا : اس پر ہاتھ کاٹنے کی سزا جاری نہیں ہوگی۔

29618

(۲۹۶۱۹) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ أَبِی بَزَّۃَ ، عَن مُجَاہِدٍ (ح) وَعَن لَیْثٍ ، عَنْ عَطَائٍ ، وَمُجَاہِدٍ (ح) وَجُوَیْبِرٍ ، عَنِ الضِّحَاکِ (ح) وَأَبِی حَرَّۃَ ، عَنِ الْحَسَنِ ؛ أَنَّہُمْ قَالُوا فِی الْمُحَارِبِ : الإِمَامُ فِیہِ مُخَیَّرٌ۔
(٢٩٦١٩) حضرت عطائ ، حضرت مجاہد ، حضرت ضحاک اور حضرت حسن بصری ان سب حضرات نے جنگ کرنے والے کے بارے میں فرمایا : حاکم کو اس کے بارے میں اختیار ہے۔

29619

(۲۹۶۲۰) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو ، عَنْ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِیزِ ، قَالَ : السُّلْطَانُ وَلِیُّ قَتْلِ مَنْ حَارَبَ الدِّینَ۔
(٢٩٦٢٠) حضرت محمد بن عمرو فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز نے ارشاد فرمایا : بادشاہ اس شخص کے قتل کا ولی ہے جو دین سے جنگ کرے۔

29620

(۲۹۶۲۱) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ الْحُبَابِ ، عَنْ أَبِی ہِلاَلٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ، قَالَ : الإِمَامُ مُخَیَّرٌ فِی الْمُحَارِبِ۔
(٢٩٦٢١) حضرت قتادہ فرماتے ہیں کہ حضرت سعید بن مسیب نے ارشاد فرمایا : جنگ کرنے والے کے بارے میں بادشاہ کو اختیار ہے۔

29621

(۲۹۶۲۲) حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ خَالِدٍ ، عَنِ ابْنِ أَبِی ذِئْبٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ؛ فِی الْمَرْأَۃِ تَقَعُ عَلَی الْمَرْأَۃِ ، قَالَ : تُضْرَبُ أَدْنَی الْحَدَّیْنِ۔
(٢٩٦٢٢) حضرت ابن ابی ذئب فرماتے ہیں کہ حضرت زھری سے اس عورت کے بارے میں مروی ہے جو عورت سے ہم بستری کرے۔ آپ نے فرمایا : اس پر دو حدوں میں سے ادنیٰ حد لگائی جائے گی۔

29622

(۲۹۶۲۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ الْحَارِثِ الْحَاطِبِیَّ ، عَنْ حَفْصَۃَ بِنْتِ زَیْدٍ ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ ؛ فِی الْمَرْأَۃِ تَرْکَبُ الْمَرْأَۃَ ، قَالَ : لَیَلْقَیْنَ اللَّہَ وَہُمَا زَانِیَتَانِ۔
(٢٩٦٢٣) حضرت حفصہ بنت زید فرماتی ہیں کہ حضرت سالم بن عبداللہ بن عمر سے اس عورت کے بارے میں مروی ہے جو عورت پر چڑھ جائے۔ آپ نے فرمایا : ان دونوں کو اللہ کے حوالہ کردو وہ دونوں زانیہ ہیں۔

29623

(۲۹۶۲۴) حَدَّثَنَا ابْنُ إِدْرِیسَ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ حَمَّادٍ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، قَالَ : {إِنَّمَا جَزَائُ الَّذِینَ یُحَارِبُونَ اللَّہَ وَرَسُولَہُ} ، قَالَ : إِذَا خَرَجَ وَأَخَافَ السَّبِیلَ ، وَأَخَذَ الْمَالَ ، قُطِعَتْ یَدُہُ وَرِجْلُہُ مِنْ خِلاَفٍ ، وَإِذَا أَخَافَ السَّبِیلَ ، وَلَمْ یَأْخُذَ الْمَالَ نُفِیَ ، وَإِذَا قَتَلَ قُتِلَ ، وَإِذَا أَخَافَ السَّبِیلَ وَأَخَذَ الْمَالَ وَقَتَلَ صُلِبَ۔
(٢٩٦٢٤) حضرت حماد فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم نے آیت : بیشک بدلہ ہے ان لوگوں کا جو اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جنگ کرتے ہیں۔ فرمایا : جب وہ نکلے اور مسافر کو خوف میں مبتلا کرے اور مال چھین لے۔ تو اس کا ایک ہاتھ اور ایک پاؤں مخالف سمت سے کاٹ دیا جائے گا اور جب وہ مسافر کو خوف میں مبتلا کرے اور مال نہ چھینے تو اس کو جلاوطن کردیا جائے گا اور جب وہ قتل بھی کرے تو اسے بھی قتل کردیا جائے گا اور جب وہ مسافر کو خوف میں مبتلا کرے اور مال چھین لے اور قتل بھی کر دے تو اس کو سولی پر لٹکا دیا جائے گا۔

29624

(۲۹۶۲۵) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، قَالَ : حُدَّثْتُ عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ، قَالَ : مَنْ حَارَبَ فَہُوَ مُحَارِبٌ ، قَالَ سَعِیدٌ : فَإِنْ أَصَابَ دَمًا قُتِلَ ، وَإِنْ أَصَابَ دَمًا وَمَالاً صُلِبَ ، فَإِنَّ الصَّلْبَ ہُوَ أَشَدُّ ، وَإِذَا أَصَابَ مَالاً وَلَمْ یُصِبْ دَمًا قُطِعَتْ یَدُہُ وَرِجْلُہُ ، لِقَوْلِ اللہِ جَلَّ جَلاَلہ : {أَوْ تُقَطَّعَ أَیْدِیہِمْ وَأَرْجُلُہُمْ مِنْ خِلاَفٍ} ، فَإِنْ تَابَ فَتَوْبَتُہُ بَیْنَہُ وَبَیْنَ اللہِ ، وَیُقَامُ عَلَیْہِ الْحَدُّ۔
(٢٩٦٢٥) حضرت ابن جریج فرماتے ہیں کہ مجھے بیان کیا گیا ہے کہ حضرت سعید بن جبیر نے ارشاد فرمایا : جو لڑائی کرے وہ جنگ جو ہے۔ حضرت سعید نے فرمایا : پس اگر وہ خون کر دے تو اسے قتل کردیا جائے گا اور اگر وہ خون کر دے اور مال چھین لے تو اسے سولی پر لٹکا دیا جائے گا۔ پس بیشک سولی دینا زیادہ سخت ہے اور جب وہ مال چھین لے اور اس کا خون نہ کرے تو اس کا ہاتھ اور اس کی ایک ٹانگ کاٹ دی جائے گی۔ اللہ جل جلالہ کے اس قول کی وجہ سے۔ ترجمہ : یا ان کے ہاتھ اور ان کے پاؤں مخالف سمت سے کاٹ دیے جائیں۔ پس اگر وہ توبہ کرے تو اس کی توبہ اللہ اور اس کے درمیان ہوگی اور اس پر حد قائم کی جائے گی۔

29625

(۲۹۶۲۶) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ عَطِیَّۃَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ؛ فِی قَوْلِہِ : {إِنَّمَا جَزَائُ الَّذِینَ یُحَارِبُونَ اللَّہَ وَرَسُولَہُ وَیَسْعَوْنَ فِی الأَرْضِ فَسَادًا أَنْ یُقَتَّلُوا ، أَوْ یُصَلَّبُوا ، أَوْ تُقَطَّعَ أَیْدِیہِمْ وَأَرْجُلُہُمْ مِنْ خِلاَفٍ} حَتَّی خَتَمَ الآیَۃَ ، فَقَالَ : إِذَا حَارَبَ الرَّجُلُ فَقَتَلَ وَأَخَذَ الْمَالَ ، قُطِعَتْ یَدُہُ وَرِجْلُہُ مِنْ خِلاَفٍ وَصُلِبَ ، وَإِذَا قَتَلَ وَلَمْ یَأْخُذِ الْمَالَ قُتِلَ ، وَإِذَا أَخَذَ الْمَالَ وَلَمْ یَقْتُلْ ، قُطِعَتْ یَدُہُ وَرِجْلُہُ مِنْ خِلاَفٍ ، وَإِذَا لَمْ یَقْتُلْ وَلَمْ یَأْخُذِ الْمَالَ نُفِیَ۔
(٢٩٦٢٦) حضرت عطیہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عباس سے آیت کی تفسیر مروی ہے ” صرف یہی سزا ہے ان لوگوں کی جو جنگ کرتے ہیں اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اور بھاگ دوڑ کرتے ہیں زمین میں فساد مچانے کے لیے کہ وہ قتل کیے جائیں سولی پر چڑھائے جائیں یا کاٹے جائیں ان کے ہاتھ اور پاؤں مخالف سمتوں سے یہاں تک کہ انھوں نے آیت ختم کی۔ آپ نے فرمایا : جب آدمی جنگ کرے، پس قتل کر دے اور مال چھین لے تو اس کا ایک ہاتھ اور پاؤں مخالف سمت سے کاٹ دیا جائے اور سولی پر چڑھا دیا جائے۔ اور جب قتل کرے اور مال نہ چھینے تو اسے بھی قتل کردیا جائے، اور جب مال چھین لے اور قتل نہ کرے تو اس کا ایک ہاتھ اور پاؤں مخالف سمت سے کاٹ دیا جائے اور جب قتل نہ کرے اور نہ مال چھینے تو اسے جلا وطن کردیا جائے۔

29626

(۲۹۶۲۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن عِمْرَانَ بْنِ حُدَیْرٍ ، عَنْ أَبِی مِجْلَزٍ ؛ فِی ہَذِہِ الآیَۃِ : {إِنَّمَا جَزَائُ الَّذِینَ یُحَارِبُونَ اللَّہَ وَرَسُولَہُ} قَالَ : إِذَا قَتَلَ وَأَخَذَ الْمَالَ قُتِلَ ، وَإِذَا أَخَذَ الْمَالَ وَأَخَافَ السَّبِیلَ صُلِبَ ، وَإِذَا قَتَلَ وَلَمْ یَعْدُ ذَلِکَ قُتِلَ ، وَإِذَا أَخَذَ الْمَالَ وَلَمْ یَعْدُ ذَلِکَ قُطِعَ ، وَإِذَا أَفْسَدَ نُفِیَ۔
(٢٩٦٢٧) حضرت عمران بن حدیر فرماتے ہیں کہ حضرت ابو مجلز نے اس آیت کے بارے میں : ” صرف یہی سزا ہے ان لوگوں کی جو اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کرتے ہیں (الخ) ۔ آپ نے فرمایا : جب قتل کر دے اور مال چھین لے تو اسے قتل کردیا جائے اور جب مال چھین لے اور مسافر کو خوف میں مبتلا کرے تو اس کو سولی پر لٹکا دیا جائے اور جب وہ قتل کرے اور مال نہ چھینے تو اس کو قتل کیا جائے اور جب وہ مال چھین لے اور قتل نہ کرے تو اس کا ہاتھ کاٹ دیا جائے گا اور جب وہ فساد پھیلائے تو اسے جلا وطن کردیا جائے۔

29627

(۲۹۶۲۸) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، قَالَ: مَنْ وَطِئَ فَرْجًا بِجَہَالَۃٍ ، دُرِئَ عَنْہُ الْحَدُّ ، وَضَمِنَ الْعُقْرَ۔
(٢٩٦٢٨) حضرت مغیرہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم نے ارشاد فرمایا : جس نے جہالت سے کسی شرمگاہ سے وطی کرلی تو اس سے حد زائل کردی جائے گی اور اس شخص کو وطی بالشبہ کے مھر کا ضامن بنایا جائے گا۔

29628

(۲۹۶۲۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ أَیُّوبَ الہُجَیمیِّ ، عَنْ عَمِّہِ ، قَالَ : رَأَیْتُ سَلْمَانَ بْنَ رَبِیعَۃَ أَخَذَ رَجُلاً فِی حَدٍّ فَأَضْجَعَہُ ، ثُمَّ ضَرَبَہُ۔
(٢٩٦٢٩) حضرت ایوب الھجیمی اپنے چچا سے نقل کرتے ہیں کہ میں نے حضرت سلمان بن ربیعہ کو دیکھا انھوں نے کسی حد میں ایک آدمی کو پکڑا پس اسے لٹا دیا پھر انھوں نے اسے مارا۔

29629

(۲۹۶۳۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ أَبِیہِ ؛ أَنَّ عَلِیًّا ضَرَبَ رَجُلاً وَہُوَ قَاعِدٌ ، عَلَیْہِ عَبَائَۃٌ لَہُ قَسْطَلاَن۔
(٢٩٦٣٠) حضرت عبداللہ فرماتے ہیں کہ حضرت علی نے ایک آدمی کو مارا، درآنحالیکہ وہ شخص بیٹھا ہوا تھا اور اس پر شفق کی سرخی کے رنگ کی چادر تھی۔

29630

(۲۹۶۳۱) حَدَّثَنَا شَرِیکٌ، عَنْ سِمَاکٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَۃَ؛ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَجَمَ یَہُودِیًّا وَیَہُودِیَّۃً۔
(٢٩٦٣١) حضرت جابر بن سمرہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک یہودی اور یہودیہ عورت کو سنگسار کیا۔

29631

(۲۹۶۳۲) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَن مُجَالِدٍ ، عَنْ عَامِرٍ ، عَنْ جَابِرٍ ؛ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَجَمَ یَہُودِیًّا وَیَہُودِیَّۃً۔
(٢٩٦٣٢) حضرت جابر فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک یہودی اور یہودیہ عورت کو سنگسار کیا۔

29632

(۲۹۶۳۳) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ بْنُ عُمَرَ ، عَن نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ؛ أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَجَمَ یَہُودِیَّیْنِ ، أَنَا فِیمَنْ رَجَمَہُمَا۔
(٢٩٦٣٣) حضرت ابن عمر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دو یہودیوں کو سنگسار کیا اور میں ان کو سنگسار کرنے والے لوگوں میں تھا۔

29633

(۲۹۶۳۴) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، وَوَکِیعٌ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مُرَّۃَ ، عَنْ الْبَرَائِ ؛ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَجَمَ یَہُودِیًّا۔
(٢٩٦٣٤) حضرت براء فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک یہودی کو سنگسار کیا۔

29634

(۲۹۶۳۵) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ؛ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَجَمَ یَہُودِیًّا ، أَوْ یَہُودِیَّۃً۔
(٢٩٦٣٥) حضرت شعبی فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک یہودی مرد یا یہودیہ عورت کو سنگسار کیا۔

29635

(۲۹۶۳۶) حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَاشِدٍ ، عَنْ مَکْحُولٍ ؛ فِی رَجُلٍ دَخَلَ حَمَّامًا ؛ فَأَخَذَ جُبَّۃً فَلَبِسَہَا بَیْنَ قَمِیصَیْنِ ، قَالَ : یُقْطَعُ۔
(٢٩٦٣٦) حضرت محمد بن راشد فرماتے ہیں کہ حضرت مکحول سے ایک آدمی کے بارے میں مروی ہے جو حمام میں داخل ہوا پس اس نے ایک جبہ لیا اور اس کو دو قمیصوں کے درمیان پہن لیا۔ آپ نے فرمایا : اس کا ہاتھ کاٹا جائے گا۔

29636

(۲۹۶۳۷) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ حُبَابٍ ؛ قَالَ : أَخْبَرَنَی مُعَاوِیَۃُ بْنُ صَالِحٍ ؛ قَالَ : حَدَّثَنَی أَبُو الزَّاہِرِیَّۃِ ، عَن جُبَیْرِ بْنِ نُفَیْرٍ، عَنْ أَبِی الدَّرْدَائِ ؛ أَنَّہُ سُئِلَ عَن سَارِقِ الْحَمَّامِ ؟ فَقَالَ : لاَ قَطْعَ عَلَیْہِ۔
(٢٩٦٣٧) حضرت جبیر بن نفیر فرماتے ہیں کہ حضرت ابوالدردائ سے حمام کے چور کے متعلق پوچھا گیا ؟ آپ نے فرمایا : اس پر ہاتھ کاٹنے کی سزا جاری نہیں ہوگی۔

29637

(۲۹۶۳۸) حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ عَامِرٍ ، قَالَ : تُضْرَبُ النِّسَائُ ضَرْبًا دُونَ ضَرْبٍ ، وَسَوْطًا دُونَ سَوْطٍ ، وَتُتَّقَی وُجُوہُہُنَّ ، وَلاَ یُمَدَّدْنَ ، وَلاَ یُجَرَّدْنَ۔
(٢٩٦٣٨) حضرت جابر فرماتے ہیں کہ حضرت عامر نے ارشاد فرمایا : عورتوں کو ایسی ضرب لگائی جائے گی جو عام ضرب سے کم ہو اور ایسا کوڑا ماریں گے جو ہلکا ہو اور ان کے چہروں کو بچایا جائے گا اور لمبا ہاتھ کر کے انھیں نہیں مارا جائے گا، اور نہ انھیں ننگا کر کے مارا جائے گا۔

29638

(۲۹۶۳۹) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنْ أَبِیہِ ؛ قَالَ : شَہِدْتُ أَبَا بَرْزَۃَ ضَرَبَ أَمَۃً لَہُ قَدْ فَجَرَتْ ، وَعَلَیْہَا مِلْحَفَۃٌ ، ضَرْبًا لَیْسَ بِالتَّمَطِّی ، وَلاَ بِالتَّخْفِیفِ۔
(٢٩٦٣٩) حضرت سوار فرماتے ہیں کہ میں حضرت ابوبرزہ کے پاس حاضر تھا آپ نے اپنی ایک باندی کو مارا جس نے بدکاری کی تھی۔ اور اس نے اوڑھنی پہنی ہوئی تھی اور ایسی مار کہ نہ بہت زیادہ سخت تھی اور نہ بہت ہلکی۔

29639

(۲۹۶۴۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ عَامِرٍ ؛ قَالَ : النِّسَائُ لاَ یُجَرَّدْنَ ، وَلاَ یُمْدَّدْنَ ، یُضْرَبْنَ ضَرْبًا دُونَ ضَرْبٍ ، وَسَوْطًا دُونَ سَوْطٍ ، وَتُتَّقَی وُجُوہُہُنَّ۔
(٢٩٦٤٠) حضرت سفیان فرماتے ہیں کہ حضرت عامر نے ارشاد فرمایا : عورتوں کو برہنہ نہیں کیا جائے گا ، اور نہ لمبے ہاتھ سے مارا جائے گا اور عام ضرب سے ہلکی ضرب، اور کوڑے سے ہلکا کوڑا مارا جائے گا اور ان کے چہروں کو بچایا جائے گا۔

29640

(۲۹۶۴۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ الْمَسْعُودِیِّ ، عَنِ الْقَاسِمِ ؛ أَنَّ أَبَا بَکْرٍ أُتِیَ بِرَجُلٍ انْتَفَی مِنْ أَبِیہِ ، فَقَالَ أَبُو بَکْرٍ : اضْرِبِ الرَّأْسَ ، فَإِنَّ الشَّیْطَانَ فِی الرَّأْسِ ۔
(٢٩٦٤١) حضرت قاسم فرماتے ہیں کہ حضرت ابوبکر کے پاس ایک شخص کو لایا گیا جو اپنے باپ سے بری الذمہ ہوگیا تھا، اس پر حضرت ابوبکر نے فرمایا : سر پر مارو اس لیے کہ شیطان سر میں ہے۔

29641

(۲۹۶۴۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إِسْرَائِیلَ ، عَنْ عِیسَی بْنِ أَبِی عَزَّۃَ ، قَالَ : شَہِدْتُ الشَّعْبِیَّ وَنَہَی عَنْ ضَرْبَ رَأْسِ رَجُلٍ افْتَرَی عَلَی رَجُلٍ ، وَہُوَ یُجْلَدُ۔
(٢٩٦٤٢) حضرت عیسیٰ بن ابی عزہ فرماتے ہیں کہ میں حضرت شعبی کے پاس حاضر تھا اور آپ نے ایک آدمی کے سر پر مارنے سے منع کیا جس نے کسی آدمی پر جھوٹی تہمت لگائی تھی اور آپ اسے کوڑے مار رہے تھے۔

29642

(۲۹۶۴۳) حَدَّثَنَا ابْنُ مُبَارَکٍ ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ الأَسْوَدِ ، قَالَ : سُئِلَ عَطَائٌ عَنِ الرَّجُلِ یَسْمَعُ الرَّجُلَ یَقْذِفُ الرَّجُلَ ، أَیُبَلِّغُہُ ؟ قَالَ : لاَ ، إِنَّمَا تُجَالِسُونَ بِالأَمَانَۃِ۔
(٢٩٦٤٣) حضرت عثمان بن اسود فرماتے ہیں کہ حضرت عطائ سے اس آدمی کے متعلق پوچھا گیا جو آدمی کو تہمت لگاتے ہوئے سنے، کیا وہ اس بات کو پہنچا دے ؟ آپ نے فرمایا : نہیں بیشک تمہاری مجلسیں امانت ہیں۔

29643

(۲۹۶۴۴) حَدَّثَنَا ابْنُ مُبَارَکٍ، عَن جُوَیْبِرٍ، عَنِ الضَّحَّاکِ؛ فِی رَجُلٍ قَذَفَ أمْرَأَتَہُ، ثُمَّ ادَّعَی شُہُودًا غَیْبًا، قَالَ: لاَ یُؤَجَّلُ۔
(٢٩٦٤٤) حضرت جویبر فرماتے ہیں کہ حضرت ضحاک سے ایک آدمی کے بارے میں مروی ہے جس نے اپنی بیوی پر تہمت لگائی پھر اس نے غائب گواہی کا دعویٰ کیا۔ آپ نے فرمایا اسے مہلت نہیں دی جائے گی۔

29644

(۲۹۶۴۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ ابْنِ عُلاَثَۃَ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللہِ الْعُقَیْلِیِّ ، قَالَ : قَذَفَ رَجُلٌ رَجُلاً ، فَرَفَعَہُ إِلَی عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِیزِ ، فَادَّعَی الْقَاذِفُ الْبَیِّنَۃَ عَلَی مَا قَالَ لَہُ بِأَرْمِینِیَّۃَ ، یَعْنِی غَیْبًا ، قَالَ : فَقَالَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیزِ: الْحَدُّ لاَ یُؤَخَّرُ ، لَکِنْ إِنْ جِئْتَ بِبَیِّنَۃٍ قَبِلْتُ شَہَادَتَہُمْ۔
(٢٩٦٤٥) حضرت ابو علاثہ محمد بن عبداللہ عقیلی فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے کسی آدمی پر تہمت لگائی۔ سو اس شخص کو حضرت عمر بن عبدالعزیز کے سامنے پیش کردیا گیا، پس تہمت لگانے والے نے بینہ کے متعلق دعویٰ کیا کہ ایک شخص نے اسے آرمینیہ میں بتلایا تھا یعنی وہ غائب ہے۔ اس پر حضرت عمر بن عبدالعزیز نے فرمایا : حد کو مؤخر نہیں کیا جاسکتا، لیکن اگر تم بینہ لے آئے تو میں ان کی گواہی قبول کرلوں گا۔

29645

(۲۹۶۴۶) حَدَّثَنَا ابْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَۃَ ، عَن حُمَیْدٍ ، عَن بَکْرٍ ؛ أَنَّ رَجُلاً قَذَفَ رَجُلاً ، فَرَفَعَہُ إِلَی عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ ، فَأَرَادَ أَنْ یَجْلِدَہُ ، فَقَالَ : أَنَا أُقِیمُ الْبَیِّنَۃَ ، فَتَرَکَہُ۔
(٢٩٦٤٦) حضرت بکر فرماتے ہیں کہ بیشک ایک شخص نے کسی آدمی پر تہمت لگائی تو اس کو حضرت عمر بن خطاب کے سامنے پیش کیا گیا۔ پس آپ نے اسے کوڑے مارنے کا ارادہ کیا تو وہ کہنے لگا : میں بینہ قائم کر دوں گا پس آپ نے اسے چھوڑ دیا۔

29646

(۲۹۶۴۷) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ الْحَسَنِ وَمُحَمَّدٍ ، قَالاَ : إِذَا قَتَلَ السَّکْرَانُ قُتِلَ۔
(٢٩٦٤٧) حضرت ہشام فرماتے ہیں کہ حضرت حسن بصری اور حضرت محمد نے ارشاد فرمایا : جب نشہ میں مدہوش شخص قتل کر دے تو اسے بھی قتل کردیا جائے۔

29647

(۲۹۶۴۸) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، قَالَ : یُقْتَلُ۔
(٢٩٦٤٨) حضرت معمر فرماتے ہیں کہ حضرت زھری نے ارشاد فرمایا : اسے قتل کردیا جائے گا۔

29648

(۲۹۶۴۹) حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّیَالِسِیُّ ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَۃَ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ؛ أَنَّ سَکْرَانَیْنِ قَتَلَ أَحَدُہُمَا صَاحِبَہُ : فَقَتَلَہُ مُعَاوِیَۃُ۔
(٢٩٦٤٩) حضرت یحییٰ بن سعید فرماتے ہیں کہ دو نشہ میں مدہوش آدمیوں میں سے ایک نے اپنے ساتھی کو قتل کردیا تو حضرت معاویہ نے اس کو بھی قتل کردیا۔

29649

قالَ أَبُو بَکْرٍ : ہَذَا مَا حَفِظْت عَنْ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہُ قَضَی بِہِ وَأَجَازَ فِیہِ الْقَضَائَ۔ حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ بَقِیُّ بْنُ مَخْلَدٍ قَالَ : حدَّثَنَا أَبْو بَکْرٍ قَالَ : (۲۹۶۵۰) حدَّثَنَا سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَن عُبَیْدِ اللہِ بْنِ أَبِی یَزِیدَ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَضَی بِالْوَلَدِ لِلْفِرَاشِ۔
(٢٩٦٥٠) حضرت عمر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بچہ کا فیصلہ خاوند کے حق میں فرمایا۔

29650

(۲۹۶۵۱) حَدَّثَنَا ابْنُ إِدْرِیسَ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ ، عَنْ جَابِرٍ قَالَ : قضَی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی کُلِّ شَرِکٍ لَمْ یُقْسَمْ رَبْعَۃٍ ، أَوْ حَائِطٍ ، لاَ یَحِلُّ لَہُ أَنْ یَبِیعَ حَتَّی یَسْتَأْذِنَ شَرِیکَہُ ، فَإِنْ شَائَ أَخَذَ ، وَإِنْ شَائَ تَرَکَ ، فَإِنْ بَاعَ وَلَمْ یُؤْذِنْہُ ، فَہُوَ أَحَقُّ بِہِ۔ (مسلم ۱۲۲۹۔ ابوداؤد ۳۵۰۷)
(٢٩٦٥١) حضرت جابر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہر اس حصہ میں جس کو تقسیم نہ کیا گیا ہو گھر کی صورت میں ہو یا باغ کی صورت میں ہو یوں فیصلہ فرمایا کہ مالک کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے شریک کی اجازت کے بغیر اس کو بیچ دے۔ پس اگر وہ چاہے تو رکھ لے گا اور اگر چاہے گا تو اس کو چھوڑ دے گا اور اگر مالک نے بیچ دیا اور شریک کو بتلایا نہیں تو وہ اس حصہ کا زیادہ حق دار ہوگا۔

29651

(۲۹۶۵۲) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَن مَنْصُورٍ ، عَنِ الْحَکَمِ ، عَنْ عَلِیٍّ ، وَعَبْدِ اللہِ قَالا : قضَی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِالشُّفْعَۃِ لِلْجِوَارِ۔
(٢٩٦٥٢) حضرت علی اور حضرت عبداللہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے شفعہ کا فیصلہ پڑوسی کے حق میں فرمایا۔

29652

(۲۹۶۵۳) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ الْعَبْدِیُّ قَالَ : حدَّثَنَا نَافِعُ بْنُ عُمَرَ ، عَنِ ابْنِ أَبِی مُلَیْکَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَضَی بِالْیَمِینِ عَلَی الْمُدَّعَی عَلَیْہِ۔
(٢٩٦٥٣) حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مدعی علیہ سے قسم لے کر فیصلہ فرمایا۔

29653

(۲۹۶۵۴) حَدَّثَنَا ابْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَن فِرَاسٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَن مَسْرُوقٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ أَنَّہُ سُئِلَ ، عَنْ رَجُلٍ تَزَوَّجَ امْرَأَۃً فَمَاتَ عنہا وَلَمْ یَدْخُلْ بِہَا وَلَمْ یَفْرِضْ لَہَا صَدَاقًا قَالَ عَبْدُ اللہِ : لَہَا الصَّدَاقُ وَلَہَا الْمِیرَاثُ وَعَلَیْہَا الْعِدَّۃُ ، وَقَالَ مَعْقِلُ بْنُ سِنَانٍ : شَہِدْت رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَضَی فِی بِرْوَعَ ابنَۃ وَاشِقٍ بِمِثْلِ ذَلِکَ۔
(٢٩٦٥٤) حضرت مسروق فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود سے ایک آدمی کے متعلق پوچھا گیا جس نے کسی عورت سے شادی کی پھر وہ مرگیا اور اس آدمی نے اس سے ہمبستری نہیں کی تھی اور نہ ہی اس کا مہر مقرر کیا تھا، اب اس کیا ہوگا ؟ تو حضرت عبداللہ نے فرمایا کہ اس عورت کو مہر مثلی ملے گا اور وراثت بھی ملے گی اور اس پر عدت بھی واجب ہوگی۔ اس پر معقل بن سنان نے فرمایا کہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس حاضر تھا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بروع بنت واشق کے بارے میں بالکل ایسا ہی فیصلہ فرمایا تھا۔

29654

(۲۹۶۵۵) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِِ ، عَن سِمَاکٍ ، عَن تَمِیمِ بْنِ طَرَفَۃَ قَالَ : اخْتَصَمَ رَجُلانِ إِلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی جَمَلٍ ، فَجَائَ کُلُّ وَاحِدٍ مِنْہُمَا إِلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِشَاہِدَیْنِ یَشْہَدَانِ أَنَّہُ جَمَلُہُ فَقَضَی بِہِ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَیْنَہُمَا۔
(٢٩٦٥٥) حضرت تمیم بن طرفہ فرماتے ہیں کہ دو شخص ایک اونٹ کا جھگڑا لے کر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ پھر ان دونوں میں سے ہر ایک دو دو گواہ لے کر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آگئے جو دونوں کے حق میں گواہی دے رہے تھے کہ یہ اونٹ اس کا ہے۔ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان دونوں کے حق میں اونٹ کا فیصلہ فرما دیا۔

29655

(۲۹۶۵۶) حَدَّثَنَا ابْنُ مُسْہِرٍ ، عَنِ الشَّیْبَانِیِّ ، عَن سَلَمَۃَ بْنِ کُہَیْلٍ قَالَ : کُنَّا جُلُوسًا عِنْدَ شُرَیْحٍ إِذْ أَتَاہُ قَوْمٌ یَخْتَصِمُونَ إِلَیْہِ فِی عُمْرَی جُعِلَتْ لِرَجُلِ حَیَاتَہُ ، فَقَالَ لَہُ : ہِیَ لَہُ حَیَاتَہُ وَمَوْتَہُ ، فَأَقْبَلَ عَلَیْہِ الَّذِی قَضَی عَلَیْہِ یُنَاشِدُہُ فَقَالَ شُرَیْحٌ : لَقَدْ لامَنِی ہَذَا فِی أَمْرٍ قَضَی بِہِ رسول اللہ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔
(٢٩٦٥٦) حضرت سلمہ بن کھیل فرماتے ہیں کہ ہم لوگ قاضی شریح کی مجلس میں تھے کہ چند لوگ ان کے پاس ایک ایسے گھر کا جھگڑا لے کر آئے جو کسی آدمی کو پوری زندگی کے لیے دے دیا گیا ہو۔ تو قاضی شریح نے ان کو کہا کہ یہ اس آدمی کو زندگی میں ملے گا اور موت کے بعد اس کے ورثاء کو ملے گا۔ تو جس کے خلاف فیصلہ دیا وہ آپ کی طرف متوجہ ہوا اور قسمیں دینا شروع کردیں۔ قاضی شریح نے فرمایا : یہ شخص مجھے ایک ایسے معاملہ میں ملامت کررہا ہے جس کا فیصلہ خود حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے۔

29656

(۲۹۶۵۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنِ الْمِسْوَرِ أَنَّ عُمَرَ اسْتَشَارَ النَّاسَ فِی إِمْلاصِ الْمَرْأَۃِ، فَقَالَ الْمُغِیرَۃُ بْنُ شُعْبَۃَ : شَہِدْت رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَضَی فِیہِ بِغُرَّۃِ عَبْدٍ ، أَوْ أَمَۃٍ ، فَقَالَ عُمَرُ : لَتَأْتِیَنَّ بِمَنْ یَشْہَدُ ، فَشَہِدَ لَہُ مُحَمَّدُ بْنُ مَسْلَمَۃَ۔
(٢٩٦٥٧) حضرت مسور فرماتے ہیں کہ حضرت عمر لوگوں سے ایسی عورت کے بارے میں مشورہ طلب کر رہے تھے کہ جس کا کسی نے حمل ساقط کردیا ہو ؟ تو مغیرہ بن شعبہ نے فرمایا کہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس حاضر تھا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایسے معاملے میں ایک غلام یا باندی کا فیصلہ فرمایا۔ حضرت عمر نے فرمایا کہ تم کوئی ایسا شخص لاؤ جو تمہارے ساتھ اس بات کی گواہی دے ، تو محمد بن مسلمہ نے ان کے حق میں گواہی دی۔

29657

(۲۹۶۵۸) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ یَعْلَی التَّیْمِیُّ ، عَن مَنْصُورٍ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، عَن عُبَیْدِ بْنِ نُضَیْلَۃَ ، عَنِ الْمُغِیرَۃِ بْنِ شُعْبَۃَ قَالَ : قضَی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَی عَاقِلَتِہَا االدِّیَۃِ ، وَفِی الْحَمْلِ غُرَّۃٌ۔
(٢٩٦٥٨) حضرت مغیرہ بن شعبہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خاندان والوں پر دیت کا اور حمل (کو) ساقط کرنے کے معاملہ میں ایک غلام یا باندی دینے کا فیصلہ فرمایا۔

29658

(۲۹۶۵۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ أَبِی قَیْسٍ ، عَن ہُزَیْلِ بْنِ شُرَحْبِیلَ قَالَ : جَائَ رَجُلٌ إِلَی أَبِی مُوسَی وَسَلْمَانَ بْنِ رَبِیعَۃَ فَسَأَلَہُمَا عَنِ ابْنَۃٍ ، وَابْنَۃِ ابْنٍ ، وَأُخْتٍ لأَبٍ وَأُمٍّ ، فَقَالا : لِلابْنَۃِ النِّصْفُ ، وَمَا بَقِیَ فَلِلأُخْتِ ، وَائْتِ ابْنَ مَسْعُودٍ فَاسْأَلْہُ فَإِنَّہُ سَیُتَابِعُنَا ، فَأَتَی الرَّجُلُ ابْنَ مَسْعُودٍ فَسَأَلَہُ وَأَخْبَرَہُ بِمَا قَالا : فَقَالَ ابْنُ مَسْعُودٍ : {لقَدْ ضَلَلْتُ إِذًا وَمَا أَنَا مِنَ الْمُہْتَدِینَ} وَلَکِنْ سَأَقْضِی بِمَا قَضَی بِہِ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لِلابْنَۃِ النِّصْفُ ، وَلابْنَۃِ الابْنِ السُّدُسُ تَکْمِلَۃَ الثُّلُثَیْنِ ، وَمَا بَقِیَ فَلِلأُخْتِ۔ (بخاری ۶۷۴۲۔ ابوداؤد ۲۸۸۲)
(٢٩٦٥٩) حضرت ھزیل بن شرحبیل فرماتے ہیں کہ ایک آدمی حضرت ابو موسیٰ اور سلیمان بن ربیعہ ان دونوں کے پاس آیا اور ان دونوں سے بیٹی پوتی اور حقیقی بہن کے وراثت میں حصہ سے متعلق سوال کیا ؟ تو ان دونوں حضرات نے جواب میں فرمایا کہ بیٹی کو آدھا مال ملے گا اور جو کچھ بچ جائے گا وہ بہن کو ملے گا اور ساتھ ہی یہ کہا کہ تم ابن مسعود کے پاس جاؤ اور ان سے بھی پوچھ لو وہ بھی یہی جواب دیں گے تو وہ آدمی ابن مسعود کے پاس گیا اور ان سے پوچھا اور جو بات ان دونوں حضرات نے کہی تھی اس کی خبر دی ۔ تو ابن مسعود نے کہا یقیناً تب تو میں گمراہ ہوں گا اور ہدایت پانے والوں میں سے نہیں ہوں گا اور لیکن عنقریب میں وہ فیصلہ کروں گا جو فیصلہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس بارے میں فرمایا تھا کہ بیٹی کو آدھا مال ملے گا اور پوتی کو چھٹا حصہ ملے گا دو ثُلْث مکمل کرنے کے لئے۔ اور جو کچھ بچ جائے گا وہ بہن کو ملے گا۔

29659

(۲۹۶۶۰) حَدَّثَنَا سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَن عُبَیْدِ اللہِ ، عَن زَیْدِ بْنِ خَالِدٍ وَشَبْلٍ ، وَأَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالُوا : کُنَّا عِنْدَ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَأَتَاہُ رَجُلٌ فَقَالَ : أَنْشُدُک اللَّہَ ، إِلاَّ قَضَیْت بَیْنَنَا بِکِتَابِ اللہِ ، فَقَالَ خَصْمُہُ ، وَکَانَ أَفْقَہَ مِنْہُ : أَجَلْ یَا رَسُولَ اللہِ اقْضِ بَیْنَنَا بِکِتَابِ اللہِ وَائْذَنْ لِی حَتَّی أَقُولَ ، قَالَ : قُلْ ، قَالَ : إِنَّ ابْنِی کَانَ عَسِیفًا عَلَی ہَذَا ، وَالْعَسِیفُ : الأَجِیرُ ، وَإِنَّہُ زَنَی بِامْرَأَتِہِ فَافْتَدَیْت مِنْہُ بِمِئَۃِ شَاۃٍ وَخَادِمٍ ، فَسَأَلْت رِجَالاً مِنْ أَہْلِ الْعِلْمِ فَأُخْبِرْت أَنَّ عَلَی ابْنِی جَلْدَ مِئَۃ وَتَغْرِیبَ عَامٍ ، وَأَنَّ عَلَی امْرَأَۃِ ہَذَا الرَّجْمَ ، فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ ، لأَقْضِیَنَّ بَیْنَکُمَا بِکِتَابِ اللہِ : الْمِئَۃُ شَاۃٍ وَالْخَادِمُ رَدٌّ عَلَیْک ، وَعَلَی ابْنِکَ جَلْدُ مِئَۃ وَتَغْرِیبُ عَامِ ، وَاغْدُ یَا أُنَیْسُ عَلَی امْرَأَۃِ ہَذَا فَإِنَ اعْتَرَفَتْ فَارْجُمْہَا۔
(٢٩٦٦٠) حضرت زید بن خالد اور شبل اور ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس تھے کہ ایک آدمی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ میں آپ کو اللہ کا واسطہ دیتا ہوں مگر یہ کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے مابین کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ فرمائیں۔ تو اس کا مخالف جو کہ اس سے زیادہ سمجھ دار تھا کہنے لگا ! جی ہاں اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ہمارے درمیان کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ فرمائیں اور مجھے اجازت دیجئے کہ میں کچھ کہوں ! آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کہو ! اس نے کہا کہ میرا بیٹا اس شخص کے پاس ملازم تھا تو اس نے اس کی بیوی کے ساتھ زنا کیا تو میں نے اس کے فدیہ میں سو بکریاں اور خادم دیا پھر علماء سے اس کے متعلق پوچھا ؟ تو انھوں نے مجھے بتایا کہ میرے بیٹے کو سو کوڑے سزا اور ایک سال کی جلا وطنی ہوگی اور اس شخص کی بیوی کو سنگسار کیا جائے گا۔ تو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے کہ میں ضرور بالضرور تمہارے درمیان کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ کروں گا ! سو بکریاں اور خادم تمہیں واپس دیے جائیں گے اور تمہارے بیٹے کو سو کوڑے اور ایک سال کی جلا وطنی کی سزاملے گی۔ اور اے انیس ! اس عورت کے پاس جاؤ اگر وہ زنا کا اقرار کرے تو اسے سنگسار کردو۔

29660

(۲۹۶۶۱) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ الْحُبَابِ قَالَ : حدَّثَنَا سَیْفُ بْنُ سُلَیْمَانَ الْمَکِّیُّ قَالَ : أَخْبَرَنَی قَیْسُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِینَارٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَضَی بِیَمِینٍ وَشَاہِدٍ۔
(٢٩٦٦١) حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک گواہ اور قسم کے ساتھ فیصلہ فرمایا۔

29661

(۲۹۶۶۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنِ الْحَارِثِ ، عَنْ عَلِیٍّ قَالَ : قَضَی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِالدَّیْنِ قَبْلَ الْوَصِیَّۃِ وَأَنْتُمْ تَقْرَؤُونَ : {مِنْ بَعْدِ وَصِیَّۃٍ یُوصِی بِہَا أَوْ دَیْنٍ} وَأَنَّ أَعْیَانَ بَنِی الأُمِّ یَتَوَارَثُونَ دُونَ بَنِی الْعَلاَّتِ۔ (ابن ماجہ ۲۷۱۵۔ احمد ۱۳۱)
(٢٩٦٦٢) حضرت علی فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وصیت سے پہلے قرض کے متعلق فیصلہ فرمایا ہے حالانکہ تم لوگ قرآن کی یہ آیت پڑھتے ہو ” بعد وصیت کے جو ہوچکی ہے یا قرض کے بعد اور یقیناً حقیقی بہن، بھائی وارث بنتے ہیں نہ کہ باپ شریک۔

29662

(۲۹۶۶۳) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَن مَہْدِیِّ بْنِ مَیْمُونٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِی یَعْقُوبَ ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ سَعْدٍ قَالَ: حدَّثَنِی رَبَاحٌ ، عَنْ عُثْمَانَ ، أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَضَی أَنَّ الْوَلَدَ لِلْفِرَاشِ۔
(٢٩٦٦٣) حضرت عثمان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بچہ کا فیصلہ خاوند کے حق میں فرمایا۔

29663

(۲۹۶۶۴) حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ ، عَنْ سُفْیَانَ بْنِ حُسَیْنٍ ، عَنْ شَیْبَۃَ بْنِ مُسَاوِرٍ قَالَ : کَتَبَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیزِ فَقُرِئَ عَلَیْنَا کِتَابُہُ أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَضَی فِی الْمُوضِحَۃِ بِخَمْسٍ مِنَ الإِبِلِ ، وَلَمْ یَقْضِ فِیمَا سِوَی ذَلِکَ۔
(٢٩٦٦٤) حضرت شیبہ بن مساور فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن عبد العزیز نے ایک دستاویز لکھی اور پھر ہمیں پڑھ کر سنائی کہ بیشک رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سر کے زخم میں پانچ اونٹوں کا فیصلہ فرمایا اور اس کے علاوہ کسی اور چیز کا فیصلہ نہیں فرمایا۔

29664

(۲۹۶۶۵) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِی مَالِکِ بْنِ ثَعْلَبَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ثَعْلَبَۃَ بْنِ أَبِی مَالِکٍ قَالَ : قضَی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی مَہْزُورِ وَادِی بَنِی قُرَیْظَۃَ أَنْ یَحْبِسَ الْمَائَ إِلَی الْکَعْبَیْنِ ، لاَ یَحْبِسُ الأَعْلَی عَلَی الأَسْفَلِ۔ (طبرانی ۱۳۸۶)
(٢٩٦٦٥) حضرت ثعلبہ بن ابی مالک فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مھزور کے بارے میں جو کہ بنی قریظہ کی ایک وادی ہے یہ فیصلہ فرمایا کہ پانی ٹخنوں تک روکا جائے، اور اوپر والے نیچے والوں پر اس سے زیادہ مت روکیں۔

29665

(۲۹۶۶۶) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنِ ابْنِ طَاوُوس ، عَنْ أَبِیہِ قَالَ : قضَی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی السِّنِّ بِخَمْسٍ مِنَ الإِبِلِ۔
(٢٩٦٦٦) حضرت طاو وس فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک دانت کی دیت میں پانچ اونٹوں کا فیصلہ فرمایا۔

29666

(۲۹۶۶۷) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ سَعِیدٍ وَحرَامِ بْنِ سَعْدٍ أَنَّ نَاقَۃً لِلْبَرَائِ دَخَلَتْ حَائِطَ قَوْمٍ فَأَفْسَدَتْ عَلَیْہِمْ ، فَقَضَی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّ حِفْظَ الأَمْوَالِ عَلَی أَہْلِہَا بِالنَّہَارِ ، وَأَنَّ عَلَی أَہْلِ الْمَاشِیَۃِ مَا أَصَابَتِ الْمَاشِیَۃُ بِاللَّیْلِ۔
(٢٩٦٦٧) حضرت سعید اور حرام بن سعد دونوں فرماتے ہیں کہ حضرات براء کی ایک اونٹنی کسی قوم کے باغ میں داخل ہوگئی اور ان کے باغ کو تباہ کردیا۔ تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ فیصلہ فرمایا کہ دن میں مال کی حفاظت کرنا مالک کی ذمہ داری ہے اور مویشیوں کا مالک تاوان ادا کرے گا جبکہ مویشی نے رات کو نقصان پہنچایا ہو۔

29667

(۲۹۶۶۸) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ وَمُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ أَبِی عَرُوبَۃَ ، عَن غَالِبٍ التَّمَّارِ، عنْ حُمَیْدِ بْنِ ہِلالٍ، عَن مَسْرُوقِ بْنِ أَوْسٍ ، عَنْ أَبِی مُوسَی الأَشْعَرِیِّ أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَضَی فِی الأَصَابِعِ عَشْرًا مِنَ الإِبِلِ۔
(٢٩٦٦٨) حضرت ابو موسیٰ اشعری فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انگلیوں کی دیت میں دس اونٹوں کا فیصلہ فرمایا۔

29668

(۲۹۶۶۹) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ مَطَرٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ جَدِّہِ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَضَی فِی الأَصَابِعِ عَشْرًا عَشْرًا۔
(٢٩٦٦٩) حضرت شعیب کے دادا عبداللہ بن عمرو فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انگلیوں کی دیت میں دس دس اونٹوں کا فیصلہ فرمایا۔

29669

(۲۹۶۷۰) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ عُثْمَانَ الْبَتِّیِّ ، عَنْ عَبْدِ الْحَمِیدِ بْنِ سَلَمَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ جَدِّہِ أَنَّ أَبَوَیْہِ اخْتَصَمَا فِیہِ إِلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَحَدُہُمَا کَافِرٌ وَالآخَرُ مُسْلِمٌ ، فَخَیَّرَہُ ، فَتَوَجَّہَ إِلَی الْکَافِرِ ، فَقَالَ اللَّہُمَّ اہْدِہِ فَتَوَجَّہَ إِلَی الْمُسْلِمِ فَقَضَی لَہُ بِہِ۔ (نسائی ۶۳۸۷۔ احمد ۴۴۶)
(٢٩٦٧٠) حضرت عبد الحمید کے دادا حضرت رافع بن سنان فرماتے ہیں کہ میرے والدین میرے بارے میں جھگڑا لے کر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس حاضر ہوئے ان دونوں میں سے ایک کافر اور دوسرا مسلمان تھا، تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت رافع کو اختیار دیا تو وہ کافر کی طرف متوجہ ہونے لگے۔ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دعا فرمائی ” اے اللہ اس کو ہدایت دے “ تو وہ مسلمان کی طرف متوجہ ہوگئے ۔ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مسلمان کے لیے ہی ان کا فیصلہ فرما دیا۔

29670

(۲۹۶۷۱) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ الْعَبْدِیُّ ، حدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو ، عَنْ أَبِی سَلَمَۃَ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ : قَضَی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی الْجَنِینِ غُرَّۃً : عَبْدًا ، أَوْ أَمَۃً ، فَقَالَ الَّذِی قَضَی عَلَیْہِ : أَنَعْقِلُ مَنْ لاَ شَرِبَ ، وَلا أَکَلَ ، وَلا صَاحَ ، وَلا اسْتَہَلَّ ، وَمِثْلُ ذَلِکَ یُطَل ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إِنَّ ہَذَا لَیَقُولُ بِقَوْلِ شَاعِرٍ ، فِیہِ غُرَّۃٌ : عَبْدٌ ، أَوْ أَمَۃٌ۔ (ابن ماجہ ۲۶۳۹)
(٢٩٦٧١) حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حمل ساقط کرنے کی دیت میں ایک غلام یا باندی کا فیصلہ فرمایا تو جس کے خلاف فیصلہ فرمایا تھا وہ کہنے لگا ! کیا ہم اس کی دیت ادا کریں جس نے نہ کچھ کھایا ہے نہ پیا ہے اور نہ ہی رویا ہے اور چلّایا ہے ! اور اس قسم کا خون تو رائیگاں جاتا ہے ! تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ یہ شخص تو کسی شاعر کے مثل بات کرتا ہے۔ بہرحال حمل ساقط کرنے کی دیت ایک غلام یا باندی ہے۔

29671

(۲۹۶۷۲) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ عَوْفٍ قَالَ : قرِئَ عَلَیْنَا کِتَابُ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِیزِ أَیُّمَا رَجُلٍ أَفْلَسَ فَأَدْرَکَ رَجُلٌ مَتَاعَہُ بِعَیْنِہِ ، فَہُوَ أَحَقُّ بِہِ مِنْ سَائِرِ الْغُرَمَائِ إلا أن یکون اقتضی من مالہ شیئًا ، فہو أسوۃ الغرماء ، قَضَی بِذَلِکَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔
(٢٩٦٧٢) حضرت عوف فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن عبد العزیز کا خط پڑھ کر سنایا گیا : کہ جو کوئی بھی مفلس ہوگیا پھر کسی آدمی نے اپنا ذاتی سامان اس شخص کے پاس پا لیا تو وہ اکیلا تمام قرض خواہوں سے اس مال کا زیادہ حق دار ہوگا مگر یہ کہ اس نے اس مفلس کے مال سے کچھ حصہ لے لیا ہو تو باقی مال تمام قرض خواہوں کے لیے برابر ہوگا۔ کیونکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسی طریقہ سے یہ فیصلہ فرمایا تھا۔

29672

(۲۹۶۷۳) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَوَائٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ أَبِی عَرُوبَۃَ ، عَنْ أَبِی الطُّفَیْلِ سَعِیدِ بْنِ حَمْلٍ ، عَن عِکْرِمَۃَ قَالَ: عِدَّۃُ الْمُخْتَلِعَۃِ حَیْضَۃٌ ، قَضَاہَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی جَمِیلَۃَ ابْنَۃِ سَلُولَ۔
(٢٩٦٧٣) حضرت عکرمہ فرماتے ہیں کہ خلع یافتہ عورت کی عدت ایک حیض شمار ہوگی، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جمیلہ بنت سلول کے بارے میں یہ فیصلہ فرمایا تھا۔

29673

(۲۹۶۷۴) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ حَجَّاجٍ ، عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الأَعْسَمِ أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَضَی فِی الْعَبْدِ وَسَیِّدِہِ قَضِیَّتَیْنِ ، قَضَی فِی الْعَبْدِ إِذَا خَرَجَ مِنْ دَارِ الْحَرْبِ قَبْلَ سَیِّدِہِ ، فَہُوَ حُرٌّ ، فَإِنْ خَرَجَ سَیِّدُہُ بَعْدَہُ لَمْ یردہ عَلَیْہِ ، وَإِنْ خَرَجَ السَّیِّدُ قَبْلَ الْعَبْدِ مِنْ دَارِ الْحَرْبِ ، ثُمَّ خَرَجَ الْعَبْدُ بَعْدَ ردّہ عَلَی سَیِّدِہِ۔ (سعید بن منصور ۲۸۰۶)
(٢٩٦٧٤) حضرت ابو سعید الاعسم فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غلام اور اس کے آقا کے بارے میں دو فیصلے فرمائے ہیں : غلام کے بارے میں یہ فیصلہ فرمایا کہ جب وہ دارالحرب سے اپنے آقا سے پہلے نکل آیا تو وہ آزاد ہوگا۔ پھر اگر غلام کے بعد آقا بھی نکل آیا تو غلام کو واپس لوٹایا نہیں جائے گا، اور اگر آقا غلام سے پہلے دارالحرب سے نکل آیا پھر اس کے بعد غلام نکلا تو غلام کو آقا کی طرف لوٹایا جائے گا۔

29674

(۲۹۶۷۵) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ مَنْصُورٍ ، عَن عِکْرِمَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : فَرَّقَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَیْنَہُمَا یَعْنِی الْمُتَلاعِنَیْنِ ، وَقَضَی أَنْ لاَ بَیْتَ لَہَا عَلَیْہِ ، وَلا قُوتَ مِنْ أَجْلِ أَنَّہُمَا یَتَفَرَّقَانِ مِنْ غَیْرِ طَلاقٍ ، وَلا مُتَوَفًّی عَنہَا ، وَقَضَی أَنْ لاَ یُدْعَی ولدہا لأبٍ وَلا تُرْمَی ہِیَ ، وَلا یُرْمَی وَلَدُہَا ، وَمَنْ رَمَاہَا ، أَوْ رَمَی وَلَدَہَا فَعَلَیْہِ الْحَدُّ۔
(٢٩٦٧٥) حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لِعان کرنے والے زوجین کے درمیان تفریق کی اور یہ فیصلہ فرمایا کہ آدمی کے ذمہ نہ ہی عورت کی رہائش ہے اور نہ ہی نفقہ ہے اس لیے کہ وہ دونوں بغیر طلاق کے جدا ہوئے ہیں اور نہ ہی یہ عورت متوفی عنھا زوجھا کے قبیل میں سے ہے اور یہ فیصلہ فرمایا کہ اس عورت کے بچہ کو باپ کی طرف منسوب نہیں کیا جائے گا اور نہ ہی اس عورت پر تہمت لگائی جائے گی اور نہ ہی اس کے بچہ پر تہمت لگائی جائے گی اور جس نے عورت پر یا اس کے بچہ پر تہمت لگائی تو اس پر حد قذف جاری ہوگی۔

29675

(۲۹۶۷۶) حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِیلَ ، عَنْ جَعْفَرٍ ، عَنْ أَبِیہِ قَالَ : قَالَ عَلِیٌّ : مَنْ بَاعَ عَبْدًا ، وَلَہُ مَالٌ فَمَالُہُ لِلْبَائِعِ إِلاَّ أَنْ یَشْرِطَ الْمُبْتَاعُ ، قَضَی بِہِ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔
(٢٩٦٧٦) حضرت علی فرماتے ہیں کہ جس شخص نے کوئی غلام فروخت کیا اور اس غلام کے پاس کچھ مال تھا تو وہ مال فروخت کرنے والے کو ملے گا مگر یہ کہ خریدنے والا شرط لگا دے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایسے ہی فیصلہ فرمایا تھا۔

29676

(۲۹۶۷۷) حَدَّثَنَا عِیسَی بْنُ یُونُسَ ، عَنْ أَبِی بَکْرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ أَبِی مَرْیَمَ ، عَن ضَمْرَۃَ بْنِ حَبِیبٍ قَالَ : قَضَی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَی ابْنَتِہِ فَاطِمَۃَ بِخِدْمَۃِ الْبَیْتِ ، وَقَضَی عَلَی عَلِیٍّ بِمَا کَانَ خَارِجًا مِنَ الْبَیْتِ مِنَ الْخِدْمَۃِ۔
(٢٩٦٧٧) حضرت ضمرہ بن حبیب فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے گھر کے کام کاج کی ذمہ داری حضرت فاطمہ کے ذمہ لگائی اور گھر سے باہر کے کام کاج کی ذمہ داری حضرت علی کو سونپی۔

29677

(۲۹۶۷۸) حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ عَیَّاشٍ ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِیزِ بْنِ رُفَیْعٍ ، عَنِ ابْنِ أَبِی مُلَیْکَۃَ قَالَ : قَضَی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِالشُّفْعَۃِ فِی کُلِّ شَیْئٍ فِی الأَرْضِ وَالدَّارِ وَالْجَارِیَۃِ وَالدَّابَّۃِ ، فَقَالَ عَطَائٌ إِنَّمَا الشُّفْعَۃُ فِی الأَرْضِ وَالدَّارِ ، فَقَالَ ابْنُ أَبِی مُلَیْکَۃَ : تَسْمَعُنی لاَ أُمَّ لَکَ أَقُولُ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَتَقُول ہَذَا ؟۔
(٢٩٦٧٨) حضرت ابن ابی ملیکہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہر چیز میں شفعہ کا فیصلہ فرمایا : زمین ہو، گھر ہو ، باندی ہو، جانور ہو ، تو عطائ نے کہا کہ شفعہ تو صرف گھر اور زمین میں ہوتا ہے تو ابن ابی ملیکہ نے فرمایا ! تیری ماں مرے ! تو نے سنا نہیں ؟ میں کہہ رہا ہوں : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے، اور تو یہ بات کہہ رہا ہے ؟ !

29678

(۲۹۶۷۹) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ، عَنْ عَمْرٍو، عَن عِکْرِمَۃَ قَالَ: قضَی النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِرَجُلٍ مِنَ الأَنْصَارِ قَتَلَہُ مَوْلَی بَنِی عَدِیٍّ بِالدِّیَۃِ اثْنَیْ عَشَرَ أَلْفًا، وَفِیہِمْ نَزَلَتْ: {وَمَا نَقَمُوا إِلاَّ أَنْ أَغْنَاہُمُ اللَّہُ وَرَسُولُہُ مِنْ فَضْلِہِ}۔
(٢٩٦٧٩) حضرت عکرمہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انصار کے ایک آدمی کے لیے جس کو بنو عدی کے آزاد کردہ غلام نے قتل کردیا تھا بارہ ہزار (12000) کی دیت کا فیصلہ فرمایا۔ اور انھیں لوگوں کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی ” اور نہیں دیا ان لوگوں نے بدلہ مگر یہ کہ اللہ اور اس کے رسول نے اپنے فضل سے ان کو غنی کردیا۔ “

29679

(۲۹۶۸۰) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ زَکَرِیَّا بْنِ أَبِی زَائِدَۃَ ، عن داود ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنْ عَلْقَمَۃَ قَالَ : جَائَ رَجُلٌ إِلَی ابْنِ مَسْعُودٍ فَقَالَ : إِنَّ رَجُلاً مِنَّا تَزَوَّجَ امْرَأَۃً ولَمْ یَفْرِضْ لَہَا وَلَمْ یُجَامِعْہَا حَتَّی مَاتَ ، فَقَالَ ابْنُ مَسْعُودٍ : مَا سُئِلْتُ عَن شَیْئٍ مُنْذُ فَارَقْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَشَدَّ عَلَیَّ مِنْ ہَذَا ، قَالَ : فَتَرَدَّدَ فِیہَا شَہْرًا فَقَالَ : سَأَقُولُ فِیہَا بِرَأْیِی ، فَإِنْ کَانَ صَوَابًا فَمِنَ اللہِ ، وَإِنْ کَانَ خَطَأً فَمِنِّی وَالشَّیْطَانِ ، أَرَی أَنَّ لَہَا مَہْرَ نِسَائِہَا لاَ وَکْسَ ، وَلا شَطَطَ ، وَلَہَا الْمِیرَاثُ ، وَعَلَیْہَا عِدَّۃُ الْمُتَوَفَّی عنہا زَوْجُہَا ، فَقَامَ نَاسٌ مِنْ أَشْجَعَ فَقَالُوا : نَشْہَدُ أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَضَی بِمِثْلِ الَّذِی قَضَیْت فِی امْرَأَۃٍ مِنَّا یُقَالُ لَہَا بِرْوَعُ ابْنَۃُ وَاشِقٍ ، قَالَ فَمَا رَأَیْت ابْنَ مَسْعُودٍ فَرِحَ کما فَرِحَ یَوْمَئِذٍ۔
(٢٩٦٨٠) حضرت علقمہ فرماتے ہیں کہ ایک آدمی حضرت عبداللہ بن مسعود کی خدمت میں حاضر ہوا اور سوال کیا کہ ہمارے ایک آدمی نے ایک عورت سے نکاح کیا اور ابھی نہ اس کا مہر مقرر کیا تھا اور نہ ہی ہمبستری کی تھی کہ وہ آدمی مرگیا ؟ تو عبداللہ بن مسعود نے فرمایا : جب سے میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جدا ہوا ہوں تو مجھ سے کسی چیز کے بارے میں سوال نہیں کیا گیا جو اس سوال سے زیادہ بھاری ہو ! عکرمہ فرماتے ہیں کہ آپ اس مسئلہ میں ایک مہینہ تک شک و شبہ میں مبتلا رہے پھر فرمایا کہ عنقریب میں اس مسئلہ میں اپنی ذاتی رائے پیش کرتا ہوں پس اگر وہ درست ہوئی تو اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہوگی اور اگر غلط ہوئی تو وہ رائے میری طرف سے اور شیطان کی طرف سے ہوگی، میری رائے یہ ہے کہ اس عورت کو مہر مثلی ملے گا نہ اس سے کم نہ اس سے زیادہ، اور اس عورت کو وراثت بھی ملے گی اور اس عورت پر فوت شدہ زوج کی عدت گزارنا واجب ہوگی تو قبیلہ اشجع کے چند لوگ کھڑے ہوئے اور کہا : ہم گواہی دیتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہماری ایک عورت کے بارے میں یہی فیصلہ فرمایا تھا جو آپ نے فیصلہ کیا ہے اور اس عورت کا نام بِرْوع بنت واشق تھا۔ عکرمہ فرماتے ہیں کہ میں نے ابن مسعود کو جتنا اس دن خوش دیکھا کبھی اتنا خوش نہیں دیکھا تھا۔

29680

(۲۹۶۸۱) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ زکریا بن أَبِی زَائِدَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَن حَبِیبِ بْنِ أَبِی ثَابِتٍ ، عَن حُمَیْدٍ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ قَالَ : نَحَلَ رَجُلٌ مِنَّا أُمَّہُ نخلاً حَیَاتَہَا ، فَلَمَّا مَاتَتْ قَالَ : أَنَا أَحَقُّ بِنخْلِی ، فَقَضَی النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہَا مِیرَاثٌ۔ (مسلم ۱۲۴۷)
(٢٩٦٨١) حضرت جابر بن عبداللہ فرماتے ہیں کہ ہم میں سے ایک آدمی نے اپنی والدہ کو ان کی زندگی میں ایک کھجور کا درخت دے دیا۔ جب اس کی والدہ فوت ہوگئیں تو وہ کہنے لگا کہ میں اپنے کھجور کے درخت کا زیادہ حق دار ہوں لیکن نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس درخت کے میراث ہونے کا فیصلہ فرمایا۔

29681

(۲۹۶۸۲) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ زکریا بن أَبِی زَائِدَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَن خَالِدِ بْنِ سَلَمَۃَ قَالَ : حدَّثَنِی مُحَمَّدُ بْنُ أَبِی ضرَارٍ قَالَ : اخْتَصَمَ رَجُلانِ إِلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَضَی عَلَی أَحَدِہِمَا ، قَالَ : فَأَحدَّ کَأَنَّہُ یُنْکِرُ وَیَرَی غَیْرَ ذَلِکَ ، فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ أَقْضِی بِمَا أَرَی ، فَمَنْ قَضَیْت لہ مِنْ حق أَخِیہِ شَیْئًا فَلا یَأْخُذْہُ۔
(٢٩٦٨٢) حضرت محمد بن ابی ضرار فرماتے ہیں کہ دو آدمی کوئی جھگڑا لے کر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان دونوں میں سے ایک کے خلاف فیصلہ فرما دیا، محمد بن ابی ضرار فرماتے ہیں کہ وہ آدمی گھورنے لگا، گویا وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فیصلہ کا انکار کررہا تھا اور اس کے برخلاف چاہ رہا تھا، تو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میں صرف انسان ہوں جو مناسب سمجھتا ہوں میں وہ فیصلہ کردیتا ہوں۔ پس اگر میں نے کسی کے لیے اس کے بھائی کے حق کا فیصلہ کردیا ہو تو اس کو چاہیے کہ وہ اس حق کو نہ لے۔

29682

(۲۹۶۸۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، حدَّثَنَا ابْنُ أَبِی ذِئْبٍ ، عَن مَخْلَدِ بْنِ خُفَافِ بْنِ إِیمَاء بْنِ رَحْضَۃَ الْغِفَارِیِّ ، عَنْ عُرْوَۃَ بْنِ الزُّبَیْرِ ، عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ : قَضَی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : أَنَّ خَرَاجَ الْعَبْدِ بِضَمَانِہِ۔ (ابوداؤد ۳۵۰۲۔ ترمذی ۱۲۸۵)
(٢٩٦٨٣) حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غلام سے استفادے کا فیصلہ اس کے حق میں فرمایا ہے جو اس کی ذمہ داری اٹھا تا ہے۔

29683

(۲۹۶۸۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَن زَیْنَبَ ابنۃ أُمِّ سَلَمَۃَ ، عَن أُمِّ سَلَمَۃَ قَالَتْ قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إِنَّکُمْ تَخْتَصِمُونَ إِلَیَّ ، وَإِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ ، وَلَعَلَّ بَعْضَکُمْ أَنْ یَکُونَ أَلْحَنَ بِحُجَّتِہِ مِنْ بَعْضٍ ، وَإِنَّمَا أَقْضِی بَیْنَکُمْ عَلَی نَحْوِ مما أَسْمَعُ مِنْکُمْ ، فَمَنْ قَضَیْت لَہُ مِنْ حَقِّ أَخِیہِ شَیْئًا فَلا یَأْخُذْہُ ، فَإِنَّمَا أَقْطَعُ لَہُ قِطْعَۃً مِنَ النَّارِ ، یَأْتِی بِہَا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ۔
(٢٩٦٨٤) حضرت ام سلمہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ تم لوگ میرے پاس جھگڑے لے کر آتے ہو ، اور میں تو ایک انسان ہی ہوں، اور شاید کہ تم میں سے کچھ لوگ دوسروں کی نسبت اپنی دلیل کو اچھا کر کے بیان کرتے ہیں تو میں جو کچھ تم سے سنتا ہوں اس کی بنیاد پر تمہارے درمیان فیصلہ کردیتا ہوں۔ پس جس کسی کے لیے بھی میں نے اس کے بھائی کے حق کا فیصلہ کردیا ہو تو اس کو چاہیے کہ وہ اس حق کو نہ لے کیونکہ میں نے اس کو آگ کا ایک ٹکڑا دیا ہے جو وہ قیامت کے دن لے کر آئے گا۔

29684

(۲۹۶۸۵) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ أَبِی عَرُوبَۃَ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ أَبِی بُرْدَۃَ ، عَنْ أَبِی مُوسَی أَنَّ رَجُلَیْنِ ادَّعَیَا دَابَّۃً لَیْسَ لِوَاحِدٍ مِنْہُمَا بَیِّنَۃٌ فَقَضَی بِہَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَیْنَہُمَا۔
(٢٩٦٨٥) حضرت ابو موسیٰ فرماتے ہیں کہ دو آدمیوں نے ایک جانور کے بارے میں دعویٰ کیا، ان دونوں میں سے کسی کے پاس بھی گواہ نہیں تھے، تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس جانور کا دونوں کے حق میں فیصلہ فرما دیا۔

29685

(۲۹۶۸۶) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ قَالَ : قضَی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی الذَّکَرِ إِذَا اسْتُؤْصِلَ ، أَوْ قُطِعَتْ حَشَفَتُہُ الدِّیَۃَ مِئَۃ مِنَ الإِبِلِ۔
(٢٩٦٨٦) حضرت زھری فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آلہ تناسل کے بارے میں جبکہ اسے جڑ سے کاٹ دیا گیا ہو یا اس کے سرے کو کاٹا گیا ہو دیت یعنی سو اونٹوں کا فیصلہ فرمایا۔

29686

(۲۹۶۸۷) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی بْنُ عَبْدِالأَعْلَی ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ قَالَ: دَعَانِی عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیزِ فَسَأَلَنِی عَنِ الْقَسَامَۃِ فَقَالَ : إِنَّہُ قَدْ بَدَا لِی أَنْ أَرُدَّہَا إِنَّ الأَعْرَابِیَّ یَشْہَدُ ، وَالرَّجُلُ الْغَائِبُ یَجِیئُ فَیَشْہَدُ ، فَقُلْتُ : یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ ، إِنَّک لَنْ تَسْتَطِیعَ رَدَّہَا ، قَضَی بِہَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَالْخُلَفَائُ بَعْدَہُ۔
(٢٩٦٨٧) امام زہری فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن عبد العزیز نے مجھے بلایا اور قسامت کے متعلق پوچھا ؟ اور کہنے لگے کہ میرا یہ خیال ہو رہا ہے کہ میں اس کو ختم کر دوں۔ کیونکہ ایک بدّو آ کر گواہی دیتا ہے اور اسی طریقہ سے ایک ایسا آدمی جو موقع سے غائب ہوتا ہے وہ آتا ہے اور وہ گواہی دے دیتا ہے۔ تو امام زہری فرماتے ہیں کہ میں نے کہا : اے امیر المؤمنین ! اس کو ختم کرنا آپ کی استطاعت میں نہیں ہے کیونکہ خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اور ان کے بعد خلفاء راشدین نے اس کا فیصلہ فرمایا ہے۔

29687

(۲۹۶۸۸) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ آدَمَ قَالَ: حدَّثَنَا ابْنُ أَبِی ذِئْبٍ، عَنِ ابْنِ شِہَابٍ، عَنْ أَبِی سَلَمَۃَ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللہِ قَالَ : قَضَی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِالْعُمْرَی لَہُ وَلِعَقِبِہِ بَتْلَۃً ، لَیْسَ لِلْمُعْطِی فِیہَا شَرْطٌ ، وَلا ثُنْیَا۔
(٢٩٦٨٨) حضرت جابر بن عبداللہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے زمین کا فصلہَ اس کے آباد کرنے والے کے لیے فرمایا اور یہ کہ اس کے بعد والوں کے لیے کچھ نہیں ہوگا۔ اس میں دینے والے کی کسی شرط یا استثناء کا اعتبار نہیں ہوگا۔

29688

(۲۹۶۸۹) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ جَعْفَرٍ ، عَنْ أَبِیہِ أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَضَی بِابْنَۃِ حَمْزَۃَ لِجَعْفَرٍ ، وَقَالَ : إِنَّ خَالَتَہَا عَندَہُ ، وَالْخَالَۃُ وَالِدَۃٌ۔ (ابوداؤد ۲۲۷۴۔ احمد ۹۸)
(٢٩٦٨٩) حضرت سید محمد باقر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت حمزہ کی بیٹی کو حضرت جعفر کی پرورش میں دینے کا فیصلہ فرمایا اور کہا کہ بیشک حمزہ کی بیٹی کی خالہ جعفر کے نکاح میں ہیں اور خالہ والدہ کی طرح ہوتی ہیں۔

29689

(۲۹۶۹۰) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی قَالَ : حدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ ، عَنْ مَکْحُولٍ ، قَالَ : قَضَی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی الْمُوضِحَۃِ فَصَاعِدًا ؛ قَضَی فِی الْمُوضِحَۃِ : بِخَمْسٍ مِنَ الإِبِلِ ، وَفِی المنقَّلۃ : خمس عشرۃ ، وفی المأمومۃ : الثلث ، وفی الجائفۃ : الثلث۔
(٢٩٦٩٠) حضرت مکحول فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سر یا چہرے کے اس زخم میں جو ہڈی تک پہنچ جائے یا اس سے بڑھ جائے یوں فیصلہ فرمایا کہ جو زخم ہڈی تک پہنچ جائے اس میں پانچ اونٹ ہیں اور وہ زخم جو ہڈی کو توڑ کر اس کی جگہ سے ہٹا دے اس میں پندرہ اونٹ ہیں۔ اور جو زخم ام الدماغ تک پہنچ جائے اس میں کل دیت کے تیسرے حصہ کا فیصلہ فرمایا اور جو زخم پیٹ کے اندر تک پہنچ جائے اس میں بھی دیت کے تیسرے حصہ کا فیصلہ فرمایا۔

29690

(۲۹۶۹۱) حَدَّثَنَا عبد الرحیم بن سلیمان ، عن أشعث ، عن الزہری قَالَ : قَضَی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی الصُّلْبِ الدِّیَۃَ۔
(٢٩٦٩١) امام زہری فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کمر کی ریڑھ کی ہڈی میں مکمل دیت کا فیصلہ فرمایا۔

29691

(۲۹۶۹۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَن دَاوُد بْنِ أَبِی ہِنْدٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُبَیْدِ بْنِ عُمَیْرٍ قَالَ : کَتَبَ إِلَیَّ أَخٌ مِنْ بَنِی زُرَیْقٍ : لِمَنْ قَضَی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِابْنِ الْمُلاعَنَۃِ ؟ فَکَتَبْت إِلَیْہِ أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَضَی بِہِ لأُِمِّہِ ، ہِیَ بِمَنْزِلَۃِ أَبِیہِ وَبِمَنْزِلَۃِ أُمِّہِ۔ (عبدالرزاق ۱۲۴۷۶)
(٢٩٦٩٢) حضرت عبداللہ بن عبید بن عمیر فرماتے ہیں کہ بنو زریق کے ایک بھائی نے مجھے خط لکھ کر پوچھا ؟ کہ لعان کرنے والی کے بچہ کا فیصلہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کس کے حق میں فرمایا تھا ؟ تو میں نے جواب میں اس کی طرف لکھا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ماں کے حق میں اس بچہ کا فیصلہ فرمایا تھا کہ وہ اس بچہ کے لیے باپ کے درجہ میں بھی ہے اور ماں کے درجہ میں بھی۔

29692

(۲۹۶۹۳) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِِ ، عَن سِمَاکٍ ، عَنْ خَالِدِ بْنِ عَرْعَرَۃَ ، عَنْ عَلِیٍّ ، قَالَ : لَمَّا أَرَادُوا أَنْ یَرْفَعُوا الْحَجَرَ الأَسْوَدَ ، اخْتَصَمُوا فِیہِ فَقَالُوا : یَحْکُمُ بَیْنَنَا أَوَّلُ رَجُلٍ یَخْرُجُ مِنْ ہَذِہِ السِّکَّۃِ ، قَالَ : فَکَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَوَّلَ مَنْ خَرَجَ علیہم ، فَقَضَی بَیْنَہُمْ أَنْ یَجْعَلُوہُ فِی مِرْطٍ ، ثُمَّ یَرْفَعَہُ جَمِیعُ الْقَبَائِلِ کُلِّہَا۔ (حاکم ۴۵۸)
(٢٩٦٩٣) حضرت علی فرماتے ہیں کہ جب قریش مکہ نے حجر اسود کو اٹھا کر اس کی جگہ پر رکھنے کا ارادہ کیا تو ان کے درمیان جھگڑا ہوگیا۔ تو انھوں نے کہا کہ ہمارے درمیان وہ شخص فیصلہ کرے گا جو سب سے پہلے اس گلی سے نکلے گا، حضرت علی فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پہلے شخص تھے جو ان کے پاس تشریف لائے۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے درمیان یوں فیصلہ فرمایا کہ سب لوگ مل کر حجرِ اسود کو ایک چادر میں رکھیں، پھر تمام قبائل والے اکٹھے اس چادر کو اٹھائیں۔

29693

(۲۹۶۹۴) حَدَّثَنَا شَبَابَۃُ بْنُ سَوَّارٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا ابْنُ أَبِی ذِئْبٍ ، عَنْ أَبِی الْمُعْتَمِرِ عن عمر بْنِ خَلْدَۃَ الأَنْصَارِیِّ ، قَالَ : جِئنا أَبا ہُرَیْرَۃَ فِی صَاحِبٍ لَنَا أُصِیبَ بِہَذَا الدَّیْنِ ، یَعْنِی أَفْلَسَ ، فَقَالَ : قَضَی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی رَجُلٍ مَاتَ ، أَوْ أَفْلَسَ أَنَّ صَاحِبَ الْمَتَاعِ أَحَقُّ بِمَتَاعِہِ إِذَا وَجَدَہُ إِلاَّ أَنْ یَتْرُکَ صَاحِبُہُ وَفَائً۔ (ابوداؤد ۳۵۱۸۔ ابن ماجہ ۲۳۶۰)
(٢٩٦٩٤) حضرت عمر بن خلدۃ الانصاری فرماتے ہیں کہ ہم حضرت ابوہریرہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اپنے ایک دوست کے معاملہ میں جو کہ قرض میں پھنس گیا تھا یعنی وہ مفلس اور دیوالیہ ہوگیا تھا تو ابوہریرہ نے فرمایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایسے شخص کے بارے میں جو مرگیا ہو یا مفلس ہوگیا ہو یوں فیصلہ فرمایا کہ صاحب مال جب اپنا مال بعینہ اس کے پاس پائے تو وہ اپنے مال کا زیادہ حق دار ہے البتہ اگر مالک اپنا حق پورا پورا چھوڑ دے تو ٹھیک ہے۔

29694

(۲۹۶۹۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ رَاشِدٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : سَمِعْتُہ یَقُولُ : قَضَی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِالْجِوَارِ۔
(٢٩٦٩٥) حضرت شعبی فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پڑوس کو (شفعہ میں) معیارِ حق قرار دیا۔

29695

(۲۹۶۹۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ علی بْنِ مُبَارَکٍ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ أَبِی کَثِیرٍ ، عَنْ یَزِیدَ بْنِ نُعَیْمٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ أَنَّ نَضْرَۃَ بْنَ أَکْثَم تَزَوَّجَ امْرَأَۃً وَہِیَ حَامِلٌ ، فَفَرَّقَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَیْنَہُمَا ، وَقَضَی لَہَا بِالصَّدقۃ۔ (ابوداؤد ۲۱۲۴)
(٢٩٦٩٦) حضرت سعید بن المسیب فرماتے ہیں کہ نضرہ بن اکثم نے ایک حاملہ عورت سے شادی کی ۔ تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان دونوں کے درمیان تفریق کردی اور عورت کے حق میں مہر کا فیصلہ فرمایا۔

29696

(۲۹۶۹۷) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی بْنُ عَبْدِ الأَعْلَی ، عَن یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ أَنَّ عُمَرَ قَالَ : مَنْ یَعْلَمُ قَضِیَّۃَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی الْجَدِّ ، فَقَالَ : مَعْقِلُ بْنُ یَسَارٍ الْمُزَنِیّ فِینَا قَضَی بِہِ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : بمَاذَا ؟ قَالَ : السُّدُسُ ، قَالَ : مَعَ مَنْ ؟ قَالَ : لاَ أَدْرِی ، قَالَ : لاَ دَرَیْت فَمَاذَا تُغْنِی إِذًا۔ (ابوداؤد ۲۸۸۹۔ ابن ماجہ ۲۷۲۳)
(٢٩٦٩٧) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ حضرت عمر نے ایک دن فرمایا کہ کون شخص دادا سے متعلق رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فیصلہ کو جانتا ہے ؟ تو معقل بن یسار المزنی کہنے لگے کہ ہمارے ایک آدمی کے بارے میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کا فیصلہ فرمایا تھا۔ حضرت عمر نے کہا : کہ کس چیز کا ؟ وہ کہنے لگے ! چھٹے حصہ کا ، حضرت عمر نے کہا :ـ تمہارے ساتھ کون شخص اس بات کی گواہی دے گا ؟ معقل نے کہا : کہ میں کسی کو نہیں جانتا۔ آپ نے کہا : تو نہیں جانتا ! تب کیا فائدہ ؟

29697

(۲۹۶۹۸) حَدَّثَنَا مُعْتَمِرُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَن طَاوُوس ، أَنَّ امْرَأَتَیْنِ ضَرَّتَیْنِ رَمَتْ إِحْدَاہُمَا الأُخْرَی فَأَسْقَطَتْ جَنِینًا ، فَقَضَی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیہِ عَبْدًا ، أَوْ أَمَۃً ، أَوْ فَرَسًا۔
(٢٩٦٩٨) حضرت طاو وس کہتے ہیں کہ دو سوکنیں آپس میں لڑ پڑیں، اور ایک نے دوسرے کو کچھ مارا اور اس کا حمل ساقط کردیا، تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس معاملہ میں ایک غلام یا باندی یا گھوڑے کا فیصلہ فرمایا۔

29698

(۲۹۶۹۹) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ أَبِی عَرُوبَۃَ عَمَّنْ حَدَّثَہُ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ أَبِی کَثِیرٍ ، عَنْ أَبِی الْحَسَنِ مَوْلًی لِبَنِی نَوْفَلٍ ، قَالَ : کُنْتُ أَنَا وَامْرَأَتِی مَمْلُوکَیْنِ فَطَلَّقْتُہَا ثِنْتَیْنِ ، ثُمَّ أُعْتِقْنَا بَعْدُ ، فَأَرَدْت مُرَاجَعَتَہَا ، فَانْطَلَقْت إِلَی ابْنِ عَبَّاسٍ فَسَأَلْتُہُ ، عَن مُرَاجَعَتِہَا فَقَالَ : إِنْ رَاجَعْتہَا فَہِیَ عِنْدَکَ عَلَی وَاحِدَۃٍ ، وَمَضَتِ اثْنَتَانِ ، قَضَی بِذَلِکَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔
(٢٩٦٩٩) حضرت ابو الحسن جو کہ بنو نوفل کے آزاد کردہ غلام ہیں فرماتے ہیں کہ میں اور میری بیوی ہم دونوں غلام تھے پس میں نے اپنی بیوی کو دو طلاقیں دے دیں، پھر طلاق دینے کے بعد ہم دونوں کو آزاد کردیا گیا، تو میں نے اپنی بیوی سے رجوع کرنے کا ارادہ کیا اور مں ل رجوع سے متعلق فتویٰ لینے حضرت ابن عباس کے پاس گیا، تو انھوں نے فرمایا : اگر تم اس سے رجوع کرتے ہو تو تمہارے پاس ایک طلاق کا حق ہوگا اور دو طلاقوں کا حق ختم ہوگیا ہے کیونکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسی طرح فیصلہ فرمایا ہے۔

29699

(۲۹۷۰۰) حَدَّثَنَا ابْنُ إِدْرِیسَ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ کُلَیْبٍ ، عَنْ أَبِیہِ قَالَ : أَتَیْتُ عُمَرَ رضی اللہ ، عَنہ وَہُوَ بِالْمَوْسِمِ فنادیت مِنْ وَرَائِ الْفُسْطَاطِ : أَلا إِنِّی فُلانُ بْنُ فُلانٍ الْجَرْمِیُّ ، وَإِنَّ ابْنَ أُخْتٍ لَنَا عَانَ فِی بَنِی فُلانٍ وَقَدْ عَرَضْنَا عَلَیْہِ قَضِیَّۃَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فأبی ؟ قَالَ : فرفع عمر جانب الفسطاط ، فقال : تعرف صاحبک ؟ فقَالَ : نَعَمْ ، فقال : ہو ذاک ؛ انطلقا بہ حتی ینفذ لک قضیۃ رسول اللہ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : وَکُنَّا نَتَحَدَّثُ أَنَّ الْقَضِیَّۃَ کَانَتْ أَرْبَعًا مِنَ الإِبِلِ۔ (ابویعلی ۱۶۴)
(٢٩٧٠٠) حضرت کلیب فرماتے ہیں کہ میں حج کے زمانے میں حضرت عمر کے پاس آیا، پس میں نے خیمہ کے پیچھے سے انھیں آواز دی، خبردار ! میں فلاں بن فلاں قبیلہ جرمی کا باشندہ ہوں، اور بیشک ہمارا بھانجھا فلاں قبیلے والوں کی قید میں ہے اور ہم نے ان کے سامنے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فیصلہ پیش کیا ہے پس انھوں نے اس کو ماننے سے انکار کردیا ہے ؟ کلیب کہتے ہیں : حضرت عمر نے خیمہ کی ایک جانب کو اٹھایا پھر فرمانے لگے : تو اپنے ساتھی کو پہچانتا ہے ؟ تو کلیب نے کہا : جی ہاں ! وہ سامنے ہے، پھر عمر نے فرمایا : تم دونوں اس کے پاس جاؤ یہاں تک کہ تیرے لیے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فیصلہ نافذ کردیا جائے گا کلیب کہتے ہیں : ہم کہہ رہے تھے کہ فیصلہ چار اونٹوں کا تھا۔

29700

(۲۹۷۰۱) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ ، عَن مُجَالِدٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ قَالَ : ضَرَبَتِ امْرَأَۃٌ امْرَأَۃً فَقَتَلَتْہَا وَأَلْقَتْ جَنِینًا مَیِّتًا، قَالَ : فَقَضَی النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِالدِّیَۃِ عَلَی عَاقِلَۃِ الْقَاتِلَۃِ ، وَلَمْ یَجْعَلْ عَلَی وَلَدِہَا ، وَلا عَلَی زَوْجِہَا شَیْئًا وَقَضَی بِالدِّیَۃِ لِزَوْجِ الْمَقْتُولَۃِ وَوَلَدِہَا ، وَلَمْ یَجْعَلْ لِعَصَبَتِہَا مِنْہَا شَیْئًا۔
(٢٩٧٠١) حضرت شعبی کہتے ہیں کہ ایک عورت نے دوسری عورت کو اتنی زور سے مارا کہ اس کو قتل کردیا اور اس مردہ عورت نے ایک مرا ہوا بچہ جنا۔ شعبی کہتے ہیں : نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دیت کا بوجھ قاتلہ عورت کے خاندان والوں پر ڈالا اور قاتلہ عورت کے بیٹے اور شوہر پر دیت کا کچھ بار بھی نہیں ڈالا ، اور دیت کا فیصلہ مقتولہ عورت کے شوہر اور بیٹے کے لیے کیا اور مقتولہ عورت کے عصبی رشتہ داروں کو اس دیت میں سے کچھ حصہ بھی نہیں دیا۔

29701

(۲۹۷۰۲) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِی جَعْفَرٍ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِیٍّ وَعَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ، وَعَنْ أَبَانَ بْنِ صَالِحٍ ، عَن مُجَاہِدٍ قَالُوا : تَغَایَرَتِ امْرَأَتَانِ لِحَمْلِ بْنِ مَالِکِ بْنِ النَّابِغَۃِ ، فَحَمَلَتْ إِحْدَاہُمَا عَلَی الأُخْرَی بِعَمُودِ فُسْطَاطٍ فَضَرَبَتْہَا فَأَلْقَتْ مَا فِی بَطْنِہَا وَمَاتَتْ ، فَرُفِعَ ذَلِکَ إِلَی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَضَی بِدِیَتِہَا عَلَی عَاقِلَۃِ الْقَاتِلَۃِ وَقَضَی فِی الْجَنِینِ بِغُرَّۃٍ عَبْدٍ ، أَوْ أَمَۃٍ فَقَالَ أَبُو الْقَاتِلَۃ ، أَوْ عَمُّہَا : أَنَدِی مَنْ لاَ أَکَلَ ، وَلا شَرِبَ ، وَلا صَاحَ ، ولا اسْتَہَلَّ ، وَمثل ذَلِکَ یُطَل ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إِنَّ ہَذَا یَقُولُ بِقَوْلِ شَاعِرٍ ، نَعَمْ ، فِیہِ غُرَّۃٌ : عَبْدٌ ، أَوْ أَمَۃٌ۔ (بخاری ۶۷۴۰۔ مسلم ۱۳۰۹)
(٢٩٧٠٢) امام ابو جعفر محمد بن علی ، سعید بن المسیب اور حضرت مجاہد یہ سب حضرات فرماتے ہیں کہ حمل بن مالک بن النابغۃ کی دو بیویوں نے ایک دوسرے سے غیرت کھائی، تو ان میں سے ایک نے خیمہ کی لکڑی اٹھا کر اس زور سے ماری کہ دوسری عورت نے مردہ بچہ جنا اور خود بھی مرگئی، پس یہ معاملہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے پیش کیا گیا، تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دیت کا بوجھ قاتلہ عورت کے خاندان والوں پر ڈالنے کا فیصلہ فرمایا۔ اور مردہ بچہ کی دیت میں ایک غلام یا باندی کا فیصلہ فرمایا تو قاتلہ عورت کا باپ یا چچا کہنے لگا : کیا ہم اس کی دیت ادا کریں جس نے نہ کھایا ہے نہ کچھ پیا ہے نہ رویا ہے اور نہ ہی چلّایا ہے، اور اس قسم کا خون رائیگاں جاتا ہے ؟ تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : یہ شخص تو شاعر وہ جیسا کلام کرتا ہے، جی ہاں ! مردہ بچہ کی دیت غلام یا باندی ہوگی۔

29702

(۲۹۷۰۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ جَعْفَرٍ ، عَنْ أَبِیہِ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَضَی بِشَاہِدٍ وَیَمِین المدعی ، فَقَالَ أَبُو جَعْفَرٍ : وَقَضَی بِہِ عَلِیٌّ فِیکُمْ۔
(٢٩٧٠٣) حضرت ابو جعفر کہتے ہیں کہ بیشک رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک گواہ ہونے کی صورت میں مدّعی سے قسم لے کر فیصلہ فرمایا ہے، پھر ابو جعفر فرمانے لگے : حضرت علی نے بھی اسی طریقہ سے تمہارے درمیان فیصلہ کیا ہے۔

29703

(۲۹۷۰۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ قَالَ: حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ إِسْمَاعِیلَ بْنِ أُمَیَّۃَ قَالَ : قَضَی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فِی رَجُلٍ قَتَلَ رَجُلاً وَأَمْسَکَہُ آخَرَ : أَنْ یُقتل القَاتل ویُحبس الممسک۔
(٢٩٧٠٤) حضرت اسماعیل بن امیہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایسے آدمی کے بارے میں جس نے کسی آدمی کو قتل کیا ہو اور دوسرے آدمی نے اس مقتول کو روکا ہو، یوں فیصلہ فرمایا ہے کہ قاتل کو قصاصاً قتل کیا جائے گا، اور روکنے والے کو قید میں ڈال دیا جائے گا۔

29704

(۲۹۷۰۵) حَدَّثَنَا وکیع ، قَالَ : حَدَّثَنَا ابن أبی ذئب ، عن الحکم بن مسلم السالمی ، عن عبد الرحمن بن ہرمز الأعرج قَالَ : قضی رَسُول اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : أن لاَ تَجُوزُ شَہَادَۃُ الظِّنَّۃِ ، وَلا الْحِنَۃِ ولا الجِنَّۃ۔ (عبدالرزاق ۱۵۳۶۶۔ حاکم ۹۹)
(٢٩٧٠٥) حضرت عبد الرحمن بن ھُرمُز الاعرج فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فیصلہ فرمایا ہے کہ تہمت زدہ کی گواہی قبول کرنا جائز نہیں ہے اور نہ ہی دشمن کی اور نہ ہی مجنون کی گواہی قبول کرنا جائز ہے۔

29705

(۲۹۷۰۶) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِِ ، عَن سِمَاکٍ ، عَن حَنَشِ بْنِ الْمُعْتَمِرِ قَالَ : حُفِرَت زُبْیَۃٌ بِالْیَمَنِ لِلأَسَدِ ، فَوَقَعَ فِیہَا الأَسَدُ ، فَأَصْبَحَ النَّاسُ یَتَدَافَعُونَ عَلَی رَأْسِ الْبِئْرِ ، فَوَقَعَ فِیہَا رَجُلٌ فَتَعَلَّقَ بِرَجُلٍ ، ثُمَّ تَعَلَّقَ الآخَرُ بِآخَرَ ، فَہَوَی فِیہَا أَرْبَعَۃٌ فَہَلَکُوا جَمِیعًا ، فَلَمْ یَدْرِ النَّاسُ کَیْفَ یَصْنَعُونَ ، فَجَائَ عَلِیٌّ رحمہ اللہ فَقَالَ : إِنْ شِئْتُمْ قَضَیْت بَیْنَکُمْ بِقَضَائٍ یَکُونُ حَاجِزًا بَیْنَکُمْ حَتَّی تَأْتُوا النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : فَإِنِّی أَجْعَلُ الدِّیَۃَ عَلَی مَنْ حَضَرَ رَأْسَ الْبِئْرِ ، فَجَعَلَ لِلأَوَّلِ الَّذِی ہُوَ فِی الْبِئْرِ رُبْعَ الدِّیَۃِ ، وَلِلثَّانِی ثُلُثَ الدِّیَۃِ ، وَلِلثَّالِثِ نِصْفَ الدِّیَۃِ ، وَلِلرَّابِعِ الدِّیَۃَ کَامِلَۃً ، قَالَ : فَتَرَاضَوْا عَلَی ذَلِکَ حَتَّی أَتَوُا النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرُوہُ بِقَضَائِ عَلِیٍّ فَأَجَازَ الْقَضَائَ۔
(٢٩٧٠٦) حضرت حنش بن المعتمر فرماتے ہیں کہ یمن میں شیر کو قید کرنے کے لیے ایک گڑھا کھودا گیا، تو شیر اس میں گرگیا، پھر لوگوں نے کنویں کے سر پر ایک دوسرے کو دھکا دینا شروع کردیا ۔ پس کنویں میں ایک آدمی گرنے لگا تو اس نے دوسرے آدمی کو پکڑ لیا پھر دوسرے نے تیسرے کو پکڑ لیا اس طرح چار آدمی کنویں میں گرگئے اور سب ہلاک ہوگئے، پس لوگ نہیں جانتے تھے کہ وہ اب کیا کریں ؟ تو حضرت علی تشریف لائے اور فرمانے لگے اگر تم چاہو تو میں تمہارے درمیان ایک فیصلہ کرتا ہوں جو تمہارے درمیان رکاوٹ ہوگا یہاں تک کہ تم لوگ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس جاؤ، اور کہا کہ دیت ان لوگوں پر ڈالتا ہوں جو کنویں کے منہ کے ارد گرد تھے، پس پہلا شخص جو کنویں میں گرا تھا اسے دیت کا چوتھائی حصہ ملے گا اور دوسرے کو دیت کا تیسرا حصہ ملے گا اور تیسرے کو دیت کا آدھا حصّہ ملے گا اور چوتھے شخص کو کامل دیت ملے گی، حضرت حنش بن المعتمر فرماتے ہیں کہ سب لوگ اس فیصلہ پر رضا مند ہوگئے اور حضرت علی کے فیصلہ کے متعلق بتلایا تو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس فیصلہ کو نافذ فرما دیا۔

29706

(۲۹۷۰۷) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَن زَائِدَۃَ ، عَن سِمَاکٍ ، عَن حَنَشٍ ، عَنْ عَلِیٍّ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إِذَا تَقَاضَی إِلَیْک رَجُلانِ فَلا تَقْضِ لِلأَوَّلِ حَتَّی تَسْمَعَ مَا یَقُولُ الآخَرُ ، فَإِنَّک سَوْفَ تَرَی کَیْفَ تَقْضِی ، قَالَ عَلِیٌّ : فَمَا زِلْت بَعْدَہَا قَاضِیًا۔
(٢٩٧٠٧) حضرت علی فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جب کبھی تیرے پاس دو آدمی کوئی مسئلہ لے کر آئیں تو کبھی بھی پہلے کے حق میں فیصلہ مت دو جب تک کہ دوسرے کی بات نہ سن لو، پھر یقیناً تو عنقریب دیکھے گا کہ تو نے کیسے فیصلہ کیا ہے ! پھر حضرت علی فرمانے لگے : پھر اس کے بعد سے میں ہمیشہ ایسے ہی فیصلہ کرتا ہوں۔

29707

(۲۹۷۰۸) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ ، عَنْ أَبِی الْبَخْتَرِیِّ ، عَنْ عَلِیٍّ قَالَ : بَعَثَنِی النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِلَی أَہْلِ الْیَمَنِ لأَقْضِیَ بَیْنَہُمْ ، قُلْتُ : یَا رَسُولَ اللہِ : إِنَّہ لاَ عِلْمَ لِی بِالْقَضَائِ ، فَضَرَبَ بِیَدِہِ عَلَی صَدْرِی ، وَقَالَ : اللَّہُمَّ اہْدِ قَلْبَہُ وَسَدِّدْ لِسَانَہُ ، قَالَ : فَمَا شَکَکْت فِی قَضَائٍ بَیْنَ اثْنَیْنِ حَتَّی جَلَسْت مَجْلِسِی ہَذَا۔ (احمد ۸۸۔ حاکم ۸۸)
(٢٩٧٠٨) حضرت علی فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے یمن والوں کی طرف قاضی بنا کر بھیجا تاکہ میں ان کے درمیان فیصلے کروں۔ میں نے کہا : اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! مجھے تو فیصلہ سے متعلق کوئی علم نہیں ہے ؟ تو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنا ہاتھ مبارک میرے سینہ پر مارا اور فرمایا : اے اللہ اس کے دل کو ہدایت نصیب فرما اور اس کی زبان کو سیدھا فرما دے۔ حضرت علی فرماتے ہیں کہ جب سے میں اس جگہ میں بیٹھا ہوں تو مجھے کبھی بھی دو بندوں کے درمیان کسی فیصلہ میں شک نہیں ہوا۔

29708

(۲۹۷۰۹) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ یَعْلَی التَّیْمِیُّ ، عَن مَنْصُورٍ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، عَن عُبَیْدِ بْنِ نُضَیْلۃ ، عَنِ الْمُغِیرَۃِ بْنِ شُعْبَۃَ قَالَ : شَہِدْت رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَضَی فِیہِ بِغُرَّۃٍ عَبْدٍ ، أَوْ أَمَۃٍ ، فَقَالَ عمر : لِتَجِیئَ بِمَنْ یَشْہَدُ مَعَک ، فَشَہِدَ لَہُ مُحَمَّدُ بْنُ مَسْلَمَۃَ۔
(٢٩٧٠٩) حضرت مغیرہ بن شعبہ فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس حاضر تھا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حمل ساقط کرنے کے جھگڑے میں ایک غلام یا باندی کا فیصلہ فرمایا، حضرت عمر فرمانے لگے : کسی آدمی کو لاؤ جو تمہارے حق میں گواہی دیں۔

29709

(۲۹۷۱۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ أَبِی عَوْنٍ ، عَنِ الْحَارِثِ بْنِ عَمْرٍو الْہُذَلِیِّ ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَہْلِ حِمْصَ مِنْ أَصْحَابِ مُعَاذٍ ، عَن مُعَاذٍ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَمَّا بَعَثَہُ قَالَ : کَیْفَ تَقْضِی ، قَالَ : أَقْضِی بِکِتَابِ اللہِ ، قَالَ : فَإِنْ لَمْ یَکُنْ فی کِتَابِ اللہ ؟ قَالَ : أَقْضِی بِسُنَّۃِ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : فَإِنْ لَمْ تَکُنْ سُنَّۃٌ مِنْ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ؟ قَالَ : أَجْتَہِدُ بِرَأْیِی ، قَالَ : فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : الْحَمْدُ لِلَّہِ الَّذِی وَفَّقَ رَسُولَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔
(٢٩٧١٠) حضرت معاذ فرماتے ہیں کہ جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انھیں قاضی بنا کر بھیجا تو فرمانے لگے تم کیسے فیصلہ کرو گے ؟ حضرت معاذ نے کہا : کتاب اللہ کے ذریعہ، نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کہا : اگر کوئی بات کتاب اللہ میں نہ ہوئی ؟ حضرت معاذ نے کہا کہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت کے مطابق فیصلہ کروں گا، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اگر وہ بات رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت میں نہ ہوئی ؟ حضرت معاذ نے کہا میں اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا، حضرت معاذ کہتے ہیں کہ پھر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کہ تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قاصد ( پیامبر) کو حق سے موافقت کی توفیق عطا فرمائی۔

29710

(۲۹۷۱۱) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَن زَائِدٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِی لَیْلَی ، عَنِ الْحَکَمِ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ شَدَّادٍ ، عَنِ ابْنَۃِ حَمْزَۃَ ، قَالَ مُحَمَّدٌ : وَہِیَ أُخْتُ ابْنِ شَدَّادٍ لأُِمِّہِ ، قَالَتْ : مَاتَ مَوْلی لی وَتَرَکَ ابْنَتَہُ، فَقَسَمَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَالَہُ بَیْنِی وَبَیْنَ ابْنَتِہِ ، فَجَعَلَ لِی النِّصْفَ وَلَہَا النِّصْفَ۔ (ابن ماجہ ۲۷۳۴۔ طبرانی ۸۷۴)
(٢٩٧١١) حضرت بنت حمزہ جو کہ ابن شداد کی ماں شریک بہن ہیں فرماتی ہیں کہ میرا ایک آزاد کردہ غلام فوت ہوگیا اور اپنی ایک بیٹی چھوڑی، پس رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کا مال میرے اور اس کی بیٹ کے درمیان تقسیم فرما دیا، آدھا حصہ مجھے دیا اور آدھا حصہ اس کی بیٹی کو دیا۔

29711

(۲۹۷۱۲) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، عَنْ إِسْرَائِیلَ ، عَن سِمَاکٍ ، عَن عِکْرِمَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : قضَی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی الرِّکَازِ الْخُمُسَ۔
(٢٩٧١٢) حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مدفون خزانہ میں خمس کا فیصلہ فرمایا ہے۔

29712

(۲۹۷۱۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ قَالَ : قضَی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِالْعَقْلِ عَلَی الْعَصَبَۃِ ، وَالدِّیَۃُ مِیرَاثٌ۔ (عبدالرزاق ۱۷۷۶۸)
(٢٩٧١٣) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دیت کا بوجھ عصبہ رشتہ داروں پر ڈالا، اور دیت کو مقتول کی وراثت شمار فرمایا۔

29713

(۲۹۷۱۴) حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ عَیَّاشٍ ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِیزِ بْنِ رُفَیْعٍ ، عَنِ ابْنِ أَبِی مُلَیْکَۃَ ، قَالَ : قضَی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِالشُّفْعَۃِ فِی کُلِّ شَیْئٍ : الأَرْضِ ، وَالدَّارِ ، وَالْجَارِیَۃِ ، وَالدَّابَّۃِ ، فَقَالَ عَطَائٌ : إِنَّمَا الشُّفْعَۃُ فِی الأَرْضِ وَالدَّارِ ، فَقَالَ لَہُ ابْنُ أَبِی مُلَیْکَۃَ : تَسْمَعنی لاَ أُمَّ لَکَ أَقُولُ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَتَقُولُ ہَذَا ؟!!۔
(٢٩٧١٤) حضرت ابن ابی ملیکہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہر چیز میں شفعہ کا فیصلہ فرمایا ہے ! زمین ہو، گھر ہو ، باندی ہو ، جانور ہو، تو عطائ کہنے لگے : شفعہ تو صرف زمین اور گھر میں ہوتا ہے۔ حضرت ابن ابی ملیکہ نے ان سے کہا : تیری ماں مرے، تو سنتا ہی نہیں ہے میں کہہ رہا ہوں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے اور تو یہ بات کررہا ہے ؟ !۔

29714

(۲۹۷۱۵) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، حدَّثَنَا ابْنُ أَبِی عَرُوبَۃَ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَن سُلَیْمَانَ بْنِ یَسَارٍ ، وَقَالَ : الْقَسَامَۃُ حَقٌّ قَضَی بِہَا النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَیْنَمَا الأَنْصَارُ عِنْدَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِذْ خَرَجَ رَجُلٌ مِنْہُمْ ، ثُمَّ خَرَجُوا مِنْ عِنْدِ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَإِذَا ہُمْ بِصَاحِبِہِمْ یَتَشَحَّطُ فِی دَمِہِ ، فَرَجَعُوا إِلَی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالُوا : قَتَلَتْنَا یَہُود ، وَسَمُّوا رَجُلاً مِنْہُمْ ، وَلَمْ تَکُنْ لَہُمْ بَیِّنَۃٌ، فَقَالَ لَہُمْ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : شَاہِدَانِ مِنْ غَیْرِکُمْ حَتَّی أَدْفَعَہُ إِلَیْکُمْ بِرُمَّتِہِ ، فَلَمْ تَکُنْ لَہُمْ بَیِّنَۃٌ فَقَالَ : اسْتَحَقُّوا بخمسین قَسَامَۃً أَدْفَعُہُ إِلَیْکُمْ بِرُمَّتِہِ ، فقَالُوا : إِنَّا نَکْرَہُ أَنْ نَحْلِفَ عَلَی غَیْبٍ ، فَأَرَادَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ یَأْخُذَ قَسَامَۃَ الْیَہُودِ بِخَمْسِینَ مِنْہُمْ ، فَقَالَتِ الأَنْصَارُ : یَا رَسُولَ اللہِ ، إِنَّ الْیَہُودَ لاَ یُبَالُونَ الْحَلِفَ ، مَتَی نَقْبَلُ ہَذَا مِنْہُمْ یَأْتُونَا عَلَی آخِرِنَا ، فَوَدَاہُ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ عَندِہِ۔
(٢٩٧١٥) حضرت سلیمان بن یسار فرماتے ہیں کہ قسامت کا معاملہ برحق ہے ، کیونکہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کا فیصلہ فرمایا ہے۔ ہم انصار رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس تھے کہ انصار میں سے ایک آدمی نکل گیا ، اچانک انھوں نے اپنے ساتھی کو دیکھا کہ وہ خون میں لت پت پڑا تڑپ رہا ہے ! تو وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس واپس لوٹے اور کہنے لگے کہ یہود نے ہمارے آدمی کو قتل کردیا اور انھوں نے یہود کے ایک آدمی کا نام لیا، اور ان لوگوں کے پاس گواہی نہیں تھی، تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے فرمایا : تمہارے علاوہ اگر دو گواہ گواہی دیں تو میں اس کو تمہارے حوالے کر دوں ؟ پس ان کے پاس گواہی نہیں تھی، تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم لوگ پچاس قسمیں اٹھا لو میں اس کو تمہارے حوالہ کر دوں گا ؟ تو انصار کہنے لگے : ہم ناپسند کرتے ہیں کہ اَن دیکھی بات پر قسم اٹھائیں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پچاس یہودیوں سے قسمیں لینا چاہیں تو انصار کہنے لگے : اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! بیشک یہود قسم کی پروا نہیں کرتے ہم کس طرح ان کی قسمیں قبول کرلیں یہ تو پھر ہمارے دوسرے لوگوں کو مار دیا کریں گے ؟ تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس مقتول کی اپنے پاس سے دیت عطاء فرمائی۔

29715

(۲۹۷۱۶) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِیلُ بْنُ عُلَیَّۃَ ، عَن دَاوُد ، عَنِ الشَّعْبِیِّ قَالَ : کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقْضِی بِالْقَضَائَ ، ثُمَّ یَنْزِلُ الْقُرْآنُ بِغَیْرِ الَّذِی قَضَی بِہِ فَلا یَرُدُّہُ ، وَیَسْتَأْنِفُ۔
(٢٩٧١٦) حضرت شعبی فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کوئی فیصلہ فرماتے تھے پھر قرآن اس فیصلہ کے برعکس نازل ہوتا تھا جو فیصلہ آپ نے کیا ہوتا تھا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کو لوٹاتے نہیں تھے اور ازسر نو فیصلہ فرماتے۔

29716

(۲۹۷۱۷) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِِ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنِ النَّجْرَانِیِّ قَالَ : قُلْتُ لِعَبْدِ اللہِ بْنِ عمَرَ : أُسْلِمُ فِی نَخْلٍ قَبْلَ أَنْ یُطْلِعَ ، قَالَ : لاَ ، قُلْتُ : لِمَ ؟ قَالَ : إِنَّ رَجُلاً أَسْلَمَ فِی عَہْدِ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی حَدِیقَۃِ نَخْلٍ قَبْلَ أَنْ تُطْلِعَ ، فَلَمْ تُطْلِعْ شَیْئًا ذَلِکَ الْعَامَ ، فَقَالَ الْمُشْتَرِی : ہُوَ لِی حَتَّی تُطْلِعَ ، وَقَالَ الْبَائِعُ : إِنَّمَا بِعْتُک النَّخْلَ ہَذِہِ السَّنَۃَ، فَاخْتَصَمَا إِلَی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِلْبَائِعِ : أَجَدَّ مِنْ نَخْلِکَ شَیْئًا ؟ قَالَ : لاَ ، قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : فَبِمَ تَسْتَحِلُّ مَالَہُ ؟ ارْدُدْ عَلَیْہِ مَا أَخَذْت مِنْہُ ، وَلا تُسْلِمُوا فِی نَخْلٍ حَتَّی یَبْدُوَ صَلاحُہُ۔ (ابوداؤد ۳۴۶۱۔ احمد ۱۵)
(٢٩٧١٧) حضرت النجرانی فرماتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن عمر سے پوچھا : کھجور کے درختوں میں شگوفے نکلنے سے پہلے بیع سلم کی جاسکتی ہے ؟ ابن عمر نے فرمایا : نہیں کی جاسکتی۔ میں نے پوچھا : کیوں نہیں ہوسکتی ؟ حضرت عبداللہ بن عمر نے فرمایا : کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں ایک آدمی نے کھجور کے درختوں میں شگوفے نکلنے سے پہلے بیع سلم کی تھی، تو اس سال کوئی شگوفہ نہیں نکلا تو مشتری کہنے لگا : یہ میری ملکیت میں ہوں گے جب تک کہ شگوفے نکل آئیں اور بائع نے کہا : میں نے تو درخت صرف اس سال کے لیے فروخت کیے تھے، تو دونوں آدمی جھگڑا لے کر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بائع سے فرمایا : کیا مشتری نے تمہارے درخت میں سے کچھ کاٹا ہے ؟ بائع نے کہا : کچھ نہیں، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تو پھر اس کا مال تمہارے لیے کیونکر حلال ہوسکتا ہے ؟ جو کچھ تم نے اس سے لیا ہے اس کو واپس کر ۔ اور آئندہ کوئی کھجور کے درخت میں بیع سلم نہ کرے یہاں تک کہ پھلوں کی صلاحیت ظاہر ہوجائے۔

29717

(۲۹۷۱۸) حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ بْنُ مُوسَی قَالَ : أَخْبَرَنَا إِسْرَائِیلُ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ الْمُخْتَارِ ، عَنِ الْحَسَنِ قَالَ : قَضَی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی رَجُلٍ عَضَّ یَدَ رَجُلٍ فَنَزَعَ الرَّجُلُ یَدَہُ مِنْ فِیہِ فَانْتَزَعَتْ ثَنِیَّتَہُ ، فَانْطَلَقَ الرَّجُلُ إِلَی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إِنَّہُ لَمْ یَدَعْک تَأْکُلُ یَدَہُ ، فَلَمْ یَقْضِ لَہُ مِنَ الدِّیَۃِ شَیْئًا۔
(٢٩٧١٨) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایسے آدمی کے بارے میں فیصلہ فرمایا جس نے کسی آدمی کا ہاتھ دانتوں سے کاٹا تو اس آدمی نے اپنا ہاتھ اس کے منہ سے کھینچا تو اس کے سامنے والے نیچے کے دانت ٹوٹ گئے۔ پس وہ آدمی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس چلا گیا، تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : بیشک اس نے تجھے نہ چھوڑا تاکہ تو اس کا ہاتھ کھا جاتا ! آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے حق میں کچھ بھی دیت کا فیصلہ نہیں فرمایا۔

29718

(۲۹۷۱۹) حَدَّثَنَا شَبَابَۃُ بْنُ سَوَّارٍ ، حدَّثَنَا ابْنُ أَبِی ذِئْبٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنِ الْمُغِیرَۃِ بْنِ شُعْبَۃَ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَضَی فِی الْمَرْأَۃِ تُقْتَلُ : یَرِثُہَا وَلَدُہَا وَالْعَقْلُ عَلَی عَصَبَتِہَا۔
(٢٩٧١٩) حضرت مغیرہ بن شعبہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایسی عورت کے بارے میں جس کو قتل کردیا گیا ہو یوں فصلہ فرمایا : اس کا بیٹا اس کا وارث بنے گا اور دیت کا بوجھ عصبی رشتہ داروں پر ہوگا۔

29719

(۲۹۷۲۰) حَدَّثَنَا شَبَابَۃُ ، حدَّثَنَا ابْنُ أَبِی ذِئْبٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ قَالَ : قَضَی النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لاَ یَرِثُ قَاتِلُ مَنْ قَتَلَ وَلِیَّہُ شَیْئًا مِنَ الدِّیَۃ عَمْدًا ، أَوْ خَطَأً۔ (ابوداؤد ۳۶۰۔ بیہقی ۲۱۹)
(٢٩٧٢٠) حضرت سعید بن المسیب فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فیصلہ فرمایا ہے کہ وہ قاتل جس نے اپنے ولی کو قتل کردیا ہو قتل عمد یا قتل خطاء کی صورت میں تو وہ دیت میں سے کچھ حصہ کا بھی وارث نہیں بنے گا۔

29720

(۲۹۷۲۱) حَدَّثَنَا شَبَابَۃُ ، حَدَّثَنَا ابْنِ أَبِی ذِئْبٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ؛ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَضَی فِی الْقَسَامَۃِ أَنَّ الْیَمِینَ عَلَی الْمُدَّعَی عَلَیْہِ۔
(٢٩٧٢١) امام زہری فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حلف کے بارے میں یوں فیصلہ فرمایا ہے کہ حلف مدعیٰ علیہ کے ذمہ ہے۔

29721

(۲۹۷۲۲) حَدَّثَنَا شَبَابَۃُ ، حدَّثَنَا ابْنُ أَبِی ذِئْبٍ ، عَنْ أَبِی جَابِرٍ الْبَیَاضِیِّ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ قَالَ : قَضَی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی الرَّجُلِ یُغَیِّرُ شَہَادَتَہُ ، قَالَ : یُؤْخَذُ بِالأُولَی۔ (عبدالرزاق ۱۵۵۰۸)
(٢٩٧٢٢) حضرت سعید بن المسیب فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایسے آدمی کے بارے میں جس نے اپنی گواہی کو تبدیل کردیا ہو، فیصلہ کرتے ہوئے فرمایا کہ پہلی گواہی کو لیا جائے گا۔

29722

(۲۹۷۲۳) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ أَبِی مَعْشَرٍ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ؛ فِی الرَّجُلِ یُقِرُّ بِالْوَلَدِ ، ثُمَّ یَنْتَفِی مِنْہُ ، قَالَ : یُلاعن بِکِتَابِ اللہِ ، وَیُلْزَمُ الْوَلَدَ بِقَضَائِ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔
(٢٩٧٢٣) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ جو آدمی پہلے تو اپنے بچہ کا اقرار کرے پھر اس سے نسب کی نفی کر دے، تو کتاب اللہ کے حکم کی وجہ سے وہ لعان کرے گا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فیصلہ کی وجہ سے بچہ اس کے لیے لازم قرار دے دیا جائے گا۔

29723

(۲۹۷۲۴) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حدَّثَنَا ہَمَّامٌ ، َدَّثَنَا قَتَادَۃُ ، عَن عِکْرِمَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : إِنَّ زَوْجَ بَرِیرَۃَ کَانَ عَبْدًا أَسْوَدَ یُسَمَّی مُغِیثًا ، فَقَضَی النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیہَا أَرْبَعَ قَضِیَّاتٍ ، قَضَی أَنَّ مَوَالِیَہَا اشْتَرَطُوا الْوَلائَ ، فَقَضَی أَنَّ الْوَلائَ لِمَنْ أَعْطَی الثَّمَنَ ، وَخَیَّرَہَا ، وَأَمَرَہَا أَنْ تَعْتَدَّ ، وَتُصُدِّقَ عَلَیْہَا بِصَدَقَۃٍ ، فَأَہْدَتْ مِنْہا إِلَی عَائِشَۃَ فَذَکَرَتْ ذَلِکَ لِلنَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ : ہُوَ لَہَا صَدَقَۃٌ وَلَنَا ہَدِیَّۃٌ۔ (بخاری ۵۲۸۰۔ ابوداؤد ۲۲۲۵)
(٢٩٧٢٤) حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ بریرہ کا شوہر حبشی کالا غلام تھا جس کا نام مغیث تھا ۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بریرہ کے بارے میں چار فیصلے فرمائے تھے ! بریرہ کے آزاد کرنے والوں نے حق ولاء کی شرط لگائی تھی پس نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فیصلہ فرمایا کہ حق ولاء اس شخص کو ملے گا جو ثمن ادا کرے گا۔ اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو زوج کے بارے میں اختیار دیا تھا اور ان کو حکم دیا کہ وہ عدت گزاریں۔ اور بریرہ کو کچھ صدقہ ملا تھا انھوں نے اس میں سے کچھ حصہ حضرت عائشہ کو ہدیہ دیا تھا تو حضرت عائشہ نے یہ بات نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے ذکر فرمائی ۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : یہ صدقہ ہے اس کے لیے اور ہدیہ ہے ہمارے لیے۔

29724

(۲۹۷۲۵) حَدَّثَنَا شَبَابَۃُ ، حدَّثَنَا لَیْثُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنِ ابْنِ شِہَابٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ : قَضَی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی جَنِینِ امْرَأَۃٍ مِنْ بَنِی لَحْیَانَ سَقَطَ مَیِّتًا بِغُرَّۃٍ عَبْدٍ ، أَوْ أَمَۃٍ ، ثُمَّ إِنَّ الْمَرْأَۃَ الَّتِی قَضَی عَلَیْہَا بِالْغُرَّۃِ تُوُفِّیَتْ ، فَقَضَی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّ مِیرَاثَہَا لِزَوْجِہَا وَبَنِیہَا ، وَأَنَّ الْعَقْلَ عَلَی عَصَبَتِہَا۔ (بخاری ۶۷۴۰۔ مسلم ۱۳۰۹)
(٢٩٧٢٥) حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بنو لحیان کی عورت جس نے مردہ بچہ جنا تھا اس کے حق میں ایک غلام یا باندی کا فیصلہ فرمایا۔ پھر وہ عورت جس کے خلاف غرّہ کا فیصلہ فرمایا تھا وہ مرگئی۔ تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فیصلہ فرمایا کہ اس کی میراث اس کے شوہر اور اس کے بیٹے کو ملے گی، اور دیت کا ادا کرنا عورت کے عصبی رشتہ داروں کی ذمہ داری ہوگی۔

29725

(۲۹۷۲۶) حَدَّثَنَا مُعَاوِیَۃُ بْنُ ہِشَامٍ ، حَدَّثَنَا الثَّوْرِیِّ ، عَن حُمَیْدٍ الأَعْرَجِ ، عَن طَارِقٍ الْمَکِّیِّ ، عَنْ جَابِرٍ قَالَ : قضَی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی امْرَأَۃٍ مِنَ الأَنْصَارِ أَعْطَاہَا ابْنُہَا حَدِیقَۃً مِنْ نَخْلٍ فَمَاتَتْ ، فَقَالَ ابْنُہَا : إِنَّمَا أَعْطَیْتہَا حَیَاتَہَا ، وَلَہُ إِخْوَۃٌ ، فَقَالَ لَہُ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : ہِیَ لَہَا حَیَاتَہَا وَمَوْتَہَا ، قَالَ : فإِنی کُنْتُ تَصَدَّقْتُ بِہَا عَلَیْہَا ، قَالَ : فَذَاکَ أَبْعَدُ لَک۔ (ابوداؤد ۳۵۵۲۔ بیہقی ۱۷۴)
(٢٩٧٢٦) حضرت جابر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انصار کی ایک عورت کے بارے میں فیصلہ فرمایا جسے اس کے بیٹے نے کھجور کا ایک باغ عطیہ دیا تھا پس وہ عورت مرگئی تو اس کا بیٹا کہنے لگا میں نے تو یہ باغ اپنی ماں کو صرف ان کی زندگی کے لیے دیا تھا ، اور اس انصاری کا بھائی بھی تھا، تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ یہ ہدیہ ان کی زندگی اور موت دونوں کے لیے شمار ہوگا ۔ انصاری کہنے لگے : یقیناً میں نے تو یہ باغ ان پر صدقہ کیا تھا ۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : پس اب تو یہ تیرے لیے بہت بعید ہے۔

29726

(۲۹۷۲۷) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَطَائٍ ، أو ابْنِ أَبِی مُلَیْکَۃَ وَعَمْرِو بْنِ دِینَارٍ قَالا : مَا زِلْنَا نَسْمَعُ أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَضَی فِی الْعَبْدِ الآبِقِ یُؤخَدُ خَارِجًا مِنَ الْحَرَمِ دِینَارًا وَعَشَرَۃَ دَرَاہِمَ۔
(٢٩٧٢٧) حضرت ابن ابی ملیکہ اور عمرو بن دینار فرماتے ہیں کہ ہم ہمیشہ سے یہی سنتے رہتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھگوڑے غلام کے بارے میں جس کو حرم سے باہر پکڑا گیا ہو ایک دینار یا دس دراہم کا فیصلہ فرمایا ہے۔

29727

(۲۹۷۲۸) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنْ مُحَمَّدٍ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَمَّا قَضَی بالْوَلَدَ لابْنِ زَمْعَۃَ قَالَ : یا سَوْدَۃ : احْتَجِبِی مِنْہُ ، وَقَالَ : إِنِّی لَوْ لَمْ أَفْعَلْ ہَذَا لَمْ یَشَأْ رَجُلٌ أَنْ یَدَّعِیَ وَلَدَ رَجُلٍ إِلاَّ ادَّعَاہُ۔ (بخاری ۲۰۵۳۔ مسلم ۱۰۸۰)
(٢٩٧٢٨) امام محمد بن سیرین فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بچہ کا فیصلہ ابن زمعہ کے حق میں فرمایا تو کہا : اے سودہ تم اس بچہ سے پردہ کرو، اور فرمانے لگے : کہ اگر میں یہ فیصلہ نہ کرتا تو جس آدمی کا بھی دل چاہتا کہ وہ کسی کے بچہ کے بارے میں دعویٰ کرے تو وہ دعویٰ کردیتا۔

29728

(۲۹۷۲۹) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حدَّثَنَا ہَمَّامٌ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ أَبِی بُرْدَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ جَدِّہِ أَنَّ رَجُلَیْنِ ادَّعَیَا بَعِیرًا ، فَبَعَثَ کُلٌّ مِنْہُمَا بِشَاہِدَیْنِ ، فَقَضَی فِیہِ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَیْنَہُمَا۔
(٢٩٧٢٩) حضرت ابو بردہ کے والد فرماتے ہیں : کہ دو آدمیوں نے ایک اونٹ کے بارے میں دعویٰ کردیا ، پس ان دونوں میں سے ہر ایک دو دو گواہ لے آیا۔ تو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس اونٹ کا دونوں کے درمیان فیصلہ فرما دیا۔

29729

(۲۹۷۳۰) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ قَالَ : أَخْبَرَنَا جُوَیْرِیَۃُ بْنُ أَسْمَائَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ یَزِیدَ مَوْلَی الْمُنْبَعِثِ ، عَنْ رَجُلٍ ، عَن سُرَّقٍ أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَضَی بِشَاہِدٍ وَیَمِینٍ۔
(٢٩٧٣٠) حضرت سُرَّق فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک گواہ ہونے کی صورت میں مدّعی سے قسم لے کر فیصلہ فرمایا ہے۔

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔