hadith book logo

HADITH.One

HADITH.One

Urdu

Support

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Ibn Abi Shaybah

31. فضائل کا بیان

ابن أبي شيبة

32295

حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ الرَّحْمن ، حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرٍ عَبْدِ اللہِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِی شَیْبَۃ ، قَالَ : (۳۲۲۹۶) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ یَزِیدَ بْنِ أَبِی زِیَادٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ الْحَارِثِ ، عَنْ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ بْنِ رَبِیعَۃَ : أَنَّ أُنَاسًا مِنَ الأَنْصَارِ قَالُوا لِلنَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إنَّا نَسْمَعُ مِنْ قَوْمِکَ حَتَّی یَقُولَ الْقَائِلُ مِنْہُمْ : إنَّمَا مَثَلُ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَثَلُ نَخْلَۃٍ أَنْبَتَتْ فِی کَبَائٍ ، قَالَ : فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : أَیُّہَا النَّاسُ ، مَنْ أَنَا ؟ قَالُوا : أَنْتَ رَسُولُ اللہِ عَلَیْکَ السَلام ، فَقَالَ : أَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ ، قَالَ : فَمَا سَمِعْنَاہُ انْتَمَی قَبْلَہَا قَطُّ ، ثُمَّ قَالَ : أَلاَ إنَّ اللَّہَ خَلَقَ خَلْقَہُ ، ثُمَّ فَرَّقَہُمْ فِرْقَتَیْنِ ، فَجَعَلَنِی مِنْ خَیْرِ الْفَرِقَیْنِ ، ثُمَّ جَعَلَہُمْ قَبَائِلَ فَجَعَلَنِی مِنْ خَیْرِہِمْ قَبِیلَۃً ، فَأَنَا خَیْرُکُمْ بَیْتًا وَخَیْرُکُمْ نَفْسًا۔ (ترمذی ۳۵۳۲۔ احمد ۱۶۶)
(٣٢٢٩٦) عبد المطلب بن ربیعہ سے روایت ہے کہ انصار کے کچھ لوگوں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا کہ ہم آپ کی قوم سے سنتے ہیں اور کہنے والے کہتے ہیں کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مثال تو اس درخت کی سی ہے جو کسی میدان میں اگ جائے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اے لوگو ! میں کون ہوں ؟ لوگوں نے کہا کہ آپ اللہ کے رسول ہیں، آپ پر سلام ہو، آپ نے فرمایا : میں محمد بن عبداللہ بن عبد المطلب ہوں، کہتے ہیں کہ ہم نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس سے پہلے اس نسبت کو بیان کرتے نہیں سنا، پھر فرمایا خبردار ! بیشک اللہ نے اپنی مخلوق کو پیدا کیا اور ان کو دو جماعتوں میں تقسیم فرما دیا پھر مجھے بہترین جماعت میں کردیا، پھر ان کے قبیلے بنائے اور مجھے بہترین قبیلے میں بنایا، پس میں گھر کے اعتبار سے بھی تم سب سے بہتر ہوں اور نفس کے اعتبار سے بھی تم سے بہتر ہوں۔

32296

(۳۲۲۹۷) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ أَبِی بُکَیْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا زُہَیْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مُحَمَّدٍ ، عَنِ الطُّفَیْلِ بْنِ أُبَیٍّ ، عَنْ أَبِیہِ : أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : إذَا کَانَ یَوْمُ الْقِیَامَۃِ کُنْت إمَامَ النَّاسِ وَخَطِیبَہُمْ وَصَاحِبَ شَفَاعَتِہِمْ ، وَلاَ فَخْرَ۔ (احمد ۱۳۷۔ ترمذی ۳۶۱۳)
(٣٢٢٩٧) اُبی ّ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جب قیامت کا دن ہوگا میں لوگوں کا امام، ان کا خطیب اور ان کی سفارش کرنے والا ہوں گا اور مجھے کوئی فخر نہیں۔

32297

(۳۲۲۹۸) حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إسْمَاعِیلَ ، عَنْ جَعْفَرٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : خَرَجْت مِنْ نِکَاحٍ ، لَمْ أَخْرُجْ مِنْ سِفَاحٍ مِنْ لَدُنْ آدَمَ ، لَمْ یُصِبْنِی سِفَاحُ الْجَاہِلِیَّۃِ۔ (بیہقی ۱۹۰)
(٣٢٢٩٨) جعفر کے والد فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میں نکاح سے پیدا ہوا ہوں، اور بدکاری سے پیدا نہیں ہوا آدم (علیہ السلام) سے اب تک، جاہلیت کی بدکاری مجھ تک نہیں پہنچی۔

32298

(۳۲۲۹۹) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، أَخْبَرَنَا سَیَّارٌ ، أَخْبَرَنَا یَزِیدُ الْفَقِیرُ ، أَخْبَرَنَا جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللہِ : أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : أُعْطِیت خَمْسًا لَمْ یُعْطَہُنَّ أَحَدٌ صِرْت بِالرُّعْبِ مَسِیرَۃَ شَہْرٍ، وَجُعِلَتْ لِیَ الأَرْضُ طَہُورًا وَمَسْجِدًا ، فَأَیُّمَا رَجُلٍ مِنْ أُمَّتِی أَدْرَکَتْہُ الصَّلاَۃُ فَلِیُصَلِ ، وَأُحِلَّتْ لِیَ الْغَنَائِمُ وَلَمْ تُحلَّ لأَحَدٍ قَبْلِی ، وَأُعْطِیت الشَّفَاعَۃَ ، وَکَانَ النَّبِیُّ یُبْعَثُ إلَی قَوْمِہِ خَاصَّۃً وَبُعِثْت إلَی النَّاسِ عَامَّۃً۔
(٣٢٢٩٩) جابر بن عبداللہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ مجھے پانچ خصلتیں عطا کی گئی ہیں جو کسی کو نہیں دی گئیں مجھے ایک مہینہ کی مسافت تک رعب کے ذریعے مدد دی گئی، اور زمین میرے لیے پاک اور نماز کی جگہ بنائی گئی، پس میری امت کے جس آدمی پر نماز کا وقت جہاں بھی آجائے پڑھ لے، اور میرے لیے غنیمتیں حلال کردی گئیں، اور مجھ سے پہلے کسی کے لیے حلال نہیں کی گئیں، اور مجھے شفاعت عطا کی گئی، اور پہلے نبی خاص اپنی قوم کی طرف بھیجے جاتے تھے اور میں تمام لوگوں کی طرف بھیجا گیا ہوں۔

32299

(۳۲۳۰۰) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ یَزِیدَ بْنِ أَبِی زِیَادٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ وَمِقْسَمٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : أُعْطِیت خَمْسًا ، وَلاَ أَقُولُہُ فَخْرًا : بُعِثْت إلَی الأَحْمَرِ وَالأَسْوَد ، وَجُعِلَتْ لِی الأَرْضُ طَہُورًا وَمَسْجِدًا ، وَأُحِلَّ لِی المنغنم وَلَمْ یحِلَّ لأَحَدٍ قَبْلِی ، وَنُصِرْت بِالرُّعْبِ ، فَہُوَ یَسِیرُ أَمَامِی مَسِیرَۃَ شَہْرٍ، وَأُعْطِیت الشَّفَاعَۃَ فَأَخَّرْتہَا لأُمَّتِی إلَی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ وَہِیَ نَائِلَۃٌ إنْ شَائَ اللَّہُ مَنْ لَمْ یُشْرِکْ بِاللہِ شَیْئًا۔
(٣٢٣٠٠) ابن عباس روایت کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ مجھے پانچ خصلتیں عطا کی گئی ہیں، اور میں ان کو فخر سے بیان نہیں کرتا ، مجھے سرخ و سیاہ کی طرف بھیجا گیا، اور میرے لیے زمین کو پاک اور نماز کی جگہ بنایا گیا، اور میرے لیے مال غنیمت حلال کردیا گیا، جبکہ مجھ سے پہلے کسی کے لیے حلال نہیں تھا، اور میری رعب کے ذریعے مدد کی گئی، کہ وہ میرے آگے ایک مہینہ دور کی مسافت تک چلتا ہے، اور مجھے شفاعت عطا کی گئی اور میں نے اس کو اپنی امت کے لیے قیامت کے دن تک مؤخر کردیا، اور ان شاء اللہ یہ ہر اس آدمی کو حاصل ہونے والی ہے جس نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرایا۔

32300

(۳۲۳۰۱) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو ، عَنْ أَبِی سَلَمَۃَ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : نُصِرْت بِالرُّعْبِ ، وَأُعْطِیت جَوَامِعَ الْکَلِمِ ، وَأُحِلَّ لِی الْمَغْنَمُ ، وَبَیْنَما أَنَا نَائِمٌ أُتِیت بِمَفَاتِیحِ خَزَائِنِ الأَرْضِ فَتُلَّتْ فِی یَدِی۔ (بخاری ۲۹۷۷۔ مسلم ۳۷۲)
(٣٢٣٠١) حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میری رعب کے ذریعے مدد کی گئی، اور مجھے جامع کلمات عطا کیے گئے ، اور میرے لیے مالِ غنیمت کو حلال کردیا گیا، اور اس دوران کہ میں سویا ہوا تھا میرے پاس زمین کے خزانوں کی کنجیاں لائی گئیں اور میرے ہاتھوں میں ڈال دی گئیں۔

32301

(۳۲۳۰۲) حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ بْنُ مُوسَی ، أَخْبَرَنَا إسْرَائِیلُ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِی بُرْدَۃَ بْنِ أَبِی مُوسَی ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : أُعْطِیت خَمْسًا لَمْ یُعْطَہُنَّ نَبِیٌّ کَانَ قَبْلِی : بُعِثْت إلَی الأَحْمَرِ وَالأَسْوَدِ ، وَنُصِرْت بِالرُّعْبِ مَسِیرَۃَ شَہْرٍ ، وَجُعِلَتْ لِی الأَرْضُ طَہُورًا وَمَسْجِدًا ، وَأُحِلَّتْ لِی الْغَنَائِمُ وَلَمْ تَحِلَّ لِنَبِیٍّ کَانَ قَبْلِی ، وَأُعْطِیت الشَّفَاعَۃَ ، فَإِنَّہُ لَیْسَ مِنْ نَبِیٍّ إلاَّ وَقَدْ سَأَلَ شَفَاعَتَہُ وَإِنِّی أَخَّرْت شَفَاعَتِی : جَعَلْتہَا لِمَنْ مَاتَ لاَ یُشْرِکُ بِاللہِ شَیْئًا۔
(٣٢٣٠٢) حضرت ابو موسیٰ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ مجھے پانچ خصلتیں عطا کی گئیں جو مجھ سے پہلے کسی نبی کو عطا نہیں کی گئیں، مجھے سرخ و سیاہ کی طرف بھیجا گیا ، اور میری ایک مہینہ کی مسافت تک رعب کے ذریعے مدد کی گئی، اور میرے لیے زمین کو پاک اور نماز کی جگہ بنایا گیا، اور میرے لیے مالِ غنیمت کو حلال کیا گیا، جو مجھ سے پہلے کسی نبی کے لیے حلال نہیں کیا گیا تھا، اور مجھے شفاعت کی دولت عطا کی گئی، کیونکہ ہر نبی نے اپنی شفاعت مانگ لی، اور میں نے اپنی شفاعت کو مؤخر کر کے ہر اس شخص کے لیے کیا ہے جو اس حال میں مرا کہ اللہ کے ساتھ شرک نہ کرتا ہو۔

32302

(۳۲۳۰۳) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ مَسْعُودِ بْنِ مَالِکٍ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إنِّی نُصِرْت بِالصَّبَا ، وَأُہْلِکَتْ عَادٌ بِالدَّبُورِ۔ (بخاری ۱۰۳۵۔ مسلم ۱۷)
(٣٢٣٠٣) حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میری بادِ صبا کے ذریعے مدد کی گئی اور قوم عاد کو مغرب کی سمت کی ہوا سے ہلاک کیا گیا۔

32303

(۳۲۳۰۴) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ أَبِی بُکَیْرٍ ، عَنْ زُہَیْرِ بْنِ مُحَمَّدٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِیلٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِیِّ ابْنِ الْحَنَفِیَّۃِ : أنَّہُ سَمِعَ عَلِیَّ بْنَ أَبِی طَالِبٍ یَقُولُ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : أُعْطِیت مَا لَمْ یُعْطَ أَحَدٌ مِنَ الأَنْبِیَائِ ، قُلْنَا : یَا رَسُولَ اللہِ ! مَا ہُوَ ؟ قَالَ : نُصِرْت بِالرُّعْبِ ، وَأُعْطِیت مَفَاتِیحَ الأَرْضِ ، وَسُمِّیت أَحْمَدَ ، وَجُعِلَ التُّرَابُ لِی طَہُورًا ، وَجُعِلَتْ أُمَّتِی خَیْرَ الأُمَمِ۔ (احمد ۹۸۔ بزار ۶۵۶)
(٣٢٣٠٤) حضرت علی بن ابی طالب فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ مجھے وہ خوبیاں عطا کی گئیں جو مجھ سے پہلے کسی نبی کو عطا نہیں کی گئیں، ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ ! وہ کیا ہیں ؟ فرمایا کہ میری رعب کے ذریعے مدد کی گئی، اور مجھے زمین کی کنجیاں عطا کی گئیں ، اور میرا نام احمد رکھا گیا اور مٹی کو میرے لیے پاک کرنے والا بنایا دیا گیا، اور میری امت کو سب سے بہترین امت بنایا گیا۔

32304

(۳۲۳۰۵) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ مِسْعَرٍ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ مَیْسَرَۃ ، عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ ، قَالَ : قَالَ کَعْبٌ: إنَّ أَوَّلَ مَنْ یَأْخُذُ بِحَلْقَۃِ بَابِ الْجَنَّۃِ فَیُفْتَحُ لَہُ : مُحَمَّدٌ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، ثُمَّ قَرَأَ آیَۃً مِنَ التَّوْرَاۃِ: أخرانا قداما ، الآخِرُونَ الأَوَّلُونَ۔
(٣٢٣٠٥) مصعب بن سعد کہتے ہیں کہ حضرت کعب نے فرمایا کہ سب سے پہلے جو شخص جنت کے دروازے کے حلقے کو پکڑے گا اور وہ کھل جائے گا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں، پھر انھوں نے توراۃ کی یہ آیت تلاوت فرمائی ” أخرانا قداما ، الآخِرُونَ الأَوَّلُونَ “۔

32305

(۳۲۳۰۶) حَدَّثَنَا محمد بْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ أَبِی مَالِکٍ الأَشْجَعِیِّ ، عَنْ رِبْعِیٍّ ، عَنْ حُذَیْفَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : فُضِّلْنَا عَلَی النَّاسِ بِثَلاَثٍ : جُعِلَتْ لَنَا الأَرْضُ کُلُّہَا مَسْجِدًا ، وَجُعِلَتْ لَنَا تُرْبَتُہَا إذَا لَمْ نَجِدَ الْمَائَ طَہُورًا ، وَأُوتِیت ہَذِہِ الآیَاتِ مِنْ بَیْتِ کَنْزٍ تَحْتَ الْعَرْشِ مِنْ آخِرِ سُورَۃِ الْبَقَرَۃِ ، لَمْ یُعْطَ مِنْہُ أَحَدٌ قَبْلِی ، وَلاَ یُعْطَی منہ أَحَدٌ بَعْدِی۔
(٣٢٣٠٦) حضرت حذیفہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ہمیں لوگوں پر تین فضیلتیں عطا کی گئیں ہیں، ہمارے لیے پوری زمین نماز کی جگہ بنادی گئی ہے، اور ہمارے لیے اس کی مٹی پاک کرنے والی بنائی گئی ہے جبکہ ہم پانی کو نہ پائیں، اور یہ آیات مجھے عرش کے نیچے خزانے کے کمرے سے عطا کی گئی ہیں یعنی سورة بقرہ کی آخری آیات ، اس میں سے مجھ سے پہلے کسی کو نہیں دی گئی، اور نہ میرے بعد کسی کو دی جائیں گی۔

32306

(۳۲۳۰۷) حَدَّثَنَا مالک بن إسْمَاعِیلَ ، عَنْ مِنْدَلٍ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، عَنْ عُبَیْدِ بْنِ عُمَیْرٍ ، عَنْ أَبِی ذَرٍّ ، قَالَ : خَرَجْت فِی طَلَبِ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَوَجَدْتہ یُصَلِّی ، فَانْتَظَرْتہ حَتَّی صَلَّی ، فَقَالَ : أُوتِیت اللَّیْلَۃَ خَمْسًا لَمْ یُؤْتَہُنَّ نَبِیٌّ قَبْلِی : نُصِرْت بِالرُّعْبِ فَیُرْعَبُ الْعَدُوُّ مِنْ مَسِیرَۃِ شَہْرٍ ، وَأُرْسِلْت إلَی الأَحْمَرِ وَالأَسْوَدِ ، وَجُعِلَتْ لِی الأَرْضُ طَہُورًا وَمَسْجِدًا ، وَأُحِلَّتْ لِی الْغَنَائِمُ وَلَمْ تَحِلَّ لأَحَدٍ کَانَ قَبْلِی ، وَقِیلَ : سَلْ تُعْطَہُ ، فَاخْتَبَأْتُہَا ، فَہِیَ نَائِلَۃٌ مِنْکُمْ مَنْ لَمْ یُشْرِکْ بِاللہِ۔
(٣٢٣٠٧) حضرت ابو ذر فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تلاش میں نکلا تو میں نے آپ کو نماز پڑھتے ہوئے پایا ، پس میں آپ کا انتظار کرتا رہا یہاں تک کہ آپ نے نماز پڑھ لی، پھر آپ نے فرمایا : مجھے اس رات پانچ فضیلتیں عطا کی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی نبی کو عطا نہیں کی گئیں ، میری رعب کے ذریعے مدد کی گئی، پس دشمن ایک مہینے کی مسافت پر مجھ سے مرعوب ہوجاتا ہے، اور مجھے سرخ و سیاہ کی طرف بھیجا گیا ہے، اور میرے لیے زمین کو پاک کرنے والا اور نماز کی جگہ بنادیا گیا ہے، اور میرے لیے مال غنیمت حلال کردیا گیا ، جو مجھ سے پہلے کسی کے لیے حلال نہیں ہوا، اور کہا گیا کہ آپ سوال کریں آپ کو عطا کیا جائے گا ، میں نے اس کو ذخیرہ کرلیا، پس یہ تم میں سے ہر اس شخص کو پہنچنے والا ہے جس نے اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہیں کیا۔

32307

(۳۲۳۰۸) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَنْ زَائِدَۃَ ، عَنِ الْمُخْتَارِ ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ : قَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : أَنَا أَوَّلُ شَفِیعٍ فِی الْجَنَّۃِ ، وَقَالَ : مَا صُدِّقَ نَبِیٌّ مِنَ الأَنْبِیَائِ مَا صُدِّقْت ، وَإِنَّ مِنَ الأَنْبِیَائِ لَنَبِیًّا مَا صَدَّقَہُ مِنْ أُمَّتِہِ إلاَّ رَجُلٌ وَاحِدٌ۔ (مسلم ۳۳۰۔ احمد ۱۴۰)
(٣٢٣٠٨) حضرت انس فرماتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میں جنت میں پہلا شفیع ہوں، اور فرمایا کہ کسی نبی کی اتنی تصدیق نہیں کی گئی جتنی میری کی گئی، اور انبیاء میں ایسے نبی بھی ہیں جن کی تصدیق ان کی امت میں ایک سے زائد آدمی نے نہیں کی۔

32308

(۳۲۳۰۹) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ : {عَسَی أَنْ یَبْعَثَک رَبُّک مَقَامًا مَحْمُودًا} قَالَ : یُقْعِدُہُ عَلَی الْعَرْشِ۔
(٣٢٣٠٩) مجاہد فرماتے ہیں کہ { عَسَی أَنْ یَبْعَثَک رَبُّک مَقَامًا مَحْمُودًا } کی تفسیر یہ ہے کہ اللہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عرش پر بٹھائیں گے۔

32309

(۳۲۳۱۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، عَنْ عُبَیْدِ بْنِ عُمَیْرٍ : {وَإِنَّ لَہُ عنْدَنَا لَزُلْفَی} قَالَ: ذِکْرُ الدُّنُوَّ مِنْہُ۔
(٣٢٣١٠) عبید بن عمیر فرماتے ہیں کہ { وَإِنَّ لَہُ عنْدَنَا لَزُلْفَی } میں اللہ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قرب کا ذکر فرمایا ہے۔

32310

(۳۲۳۱۱) حَدَّثَنَا الثَّقَفِیُّ ، عَنْ حُمَیْدٍ ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : دَخَلْت الْجَنَّۃَ فَإِذَا أَنَا بِنَہْرٍ یَجْرِی ، حَافَاتُہُ خِیَامُ اللُّؤْلُؤِ فَضَرَبْت بِیَدَیَّ إلَی الطِّینِ فَإِذَا مِسْکٌ أَذْفَرُ ، قَالَ : فَقُلْتُ لِجِبْرِیلَ : مَا ہَذَا؟ قَالَ : ہذا الْکَوْثَرِ الَّذِی أَعْطَاک اللَّہُ عَزَّ وَجَلَّ۔ (احمد ۱۰۳۔ ابن حبان ۶۴۷۲)
(٣٢٣١١) حضرت انس فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میں جنت میں داخل ہوا تو ایک نہر دیکھی جس کے کناروں پر موتیوں کے خیمے تھے ، میں نے مٹی میں اپنا ہاتھ مارا تو خوشبودار مشک تھی، میں نے جبرائیل (علیہ السلام) سے کہا کہ یہ کیا ہے ؟ فرمایا یہ کوثر ہے جو اللہ عزوجلّ نے آپ کو عطا فرمائی ہے۔

32311

(۳۲۳۱۲) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَنِ الْمُخْتَارِ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ ، قَالَ : بَیْنَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَیْنَ أَظْہُرِنَا إذْ أَغْفَی إغْفَائَۃً ، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَہُ مُتَبَسِّمًا فَقُلْنَا : مَا لَکَ یَا رَسُولَ اللہِ ؟ قَالَ : نَزَلَتْ عَلَیَّ آنِفًا سُورَۃٌ ، فَقَرَأَ بسم اللہ الرَّحْمَن الرحیم : {إنَّا أَعْطَیْنَاک الْکَوْثَرَ فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ إنَّ شَانِئَک ہُوَ الأَبْتَرُ} ثُمَّ قَالَ : أَتَدْرُونَ مَا الْکَوْثَرُ ؟ قُلْنَا : اللَّہُ وَرَسُولُہُ أَعْلَمُ ، قَالَ : فَإِنَّہُ نَہْرٌ وَعَدَنِیہِ رَبِّی ، عَلَیْہِ خَیْرٌ کَثِیرٌ، ہُوَ حَوْضٌ تَرِدُ عَلَیْہِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ أُمَّتِی ، آنِیَتُہُ عَدَدُ النُّجُومِ ، فَیُخْتَلَجُ الْعَبْدُ مِنْہُمْ فَأَقُولُ : رَبِّ إِنَّہُ مِنْ أَصْحَابِی ، فَیَقُولُ : لاَ ، إنَّک لاَ تَدْرِی مَا أَحْدَثَ بَعْدَک۔ (مسلم ۵۳۔ احمد ۱۰۲)
(٣٢٣١٢) حضرت انس فرماتے ہیں اس دوران کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے درمیان بیٹھے تھے کہ آپ کو ایک اونگھ آئی، پھر آپ نے مسکراتے ہوئے اپنا سر اٹھایا ، ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ 5! آپ کو کیا ہوا َ ؟ فرمایا کہ ابھی مجھ پر ایک سورت نازل ہوئی ہے، اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پڑھا {إنَّا أَعْطَیْنَاک الْکَوْثَرَ فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ إنَّ شَانِئَک ہُوَ الأَبْتَرُ } پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کیا تم جانتے ہو کہ کوثر کیا ہے ؟ ہم نے عرض کیا اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں ، فرمایا کہ وہ ایک نہر ہے جس کا میرے ربّ نے مجھ سے وعدہ فرمایا ہے، اس پر بہت سی خیر ہے، اور وہ حوض ہے جس پر قیامت کے دن میری امت آئے گی، اس کے برتن ستاروں کی تعداد میں ہیں، پس ایک بندہ اس سے روک دیا جائے گا، میں کہوں گا کہ اے میرے رب ! بیشک یہ میرے ساتھیوں میں سے ہے، اللہ تعالیٰ فرمائیں گے ، نہیں تم نہیں جانتے کہ اس نے تمہارے بعد کیا بدعت جاری کی ہے۔

32312

(۳۲۳۱۳) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ یَحْیَی بْنِ حِبَّانَ ، عَنْ خَوْلَۃَ بِنْتِ حَکِیمٍ، قَالَتْ : قلْت : یَا رَسُولَ اللہِ إنَّ لَک حَوْضًا ؟ قَالَ : نَعَمْ ، وَأَحَبُّ مَنْ وَرَدَہُ إلَیَّ قَوْمُک۔ (احمد ۴۰۹)
(٣٢٣١٣) خولہ بنت حکیم کہتی ہیں کہ میں نے کہا یا رسول اللہ ! کیا آپ کا کوئی حوض ہے ؟ فرمایا جی ہاں ! اور اس پر آنے والوں میں مجھے سب سے زیادہ محبوب تمہاری قوم ہے۔

32313

(۳۲۳۱۴) حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إسْمَاعِیلَ ، عَنِ الْمُہَاجِرِ بْنِ الْمِسْمَارِ ، عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ ، قَالَ : کَتَبْت إلَی جَابِرِ بْنِ سَمُرَۃَ : أَخْبِرْنِی بِشَیْئٍ سَمِعْتہ مِنْ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : فَکَتَبَ إِلَیَّ : سَمِعْتہ یَقُولُ : أَنَا الْفَرَطُ عَلَی الْحَوْضِ۔ (مسلم ۱۴۵۳۔ احمد ۸۹)
(٣٢٣١٤) عامر بن سعد فرماتے ہیں کہ میں نے جاببر بن سمرہ کو لکھا کہ مجھے ایسی بات بتائیے جو آپ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنی ہو، انھوں نے لکھا کہ میں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے ہوئے سنا کہ میں حوض پر پہلے سے پہنچنے والا ہوں۔

32314

(۳۲۳۱۵) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ ، عَنْ قَیْسٍ ، عَنِ الصُّنَابِحِ ، قَالَ : سَمِعْتہ یَقُولُ : سَمِعْت رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : أَنَا فَرَطُکُمْ عَلَی الْحَوْضِ۔ (بخاری ۷۳۳۵۔ احمد ۲۳۶)
(٣٢٣١٥) صُنابح فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے سنا کہ میں تمہارے لیے حوض پر پہلے پہنچنے والا ہوں۔

32315

(۳۲۳۱۶) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ وَابْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ ، عَنْ خبیبِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ حَفْصِ بْنِ عَاصِمٍ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَا بَیْنَ قَبْرِی وَمِنْبَرِی رَوْضَۃٌ مِنْ رِیَاضِ الْجَنَّۃِ ، وَمِنْبَرِی عَلَی حَوْضِی۔
(٣٢٣١٦) حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میری قبر اور منبر کے درمیان جنت کے باغات میں سے ایک باغ ہے، اور میرا منبر میرے حوض پر ہوگا۔

32316

(۳۲۳۱۷) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِی وَائِلٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : أَنَا فَرَطُکُمْ عَلَی الْحَوْض۔ (بخاری ۶۵۷۵۔ مسلم ۱۷۹۶)
(٣٢٣١٧) حضرت عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میں حوض پر تمہارے لیے تم سے پہلے پہنچنے والا ہوں۔

32317

(۳۲۳۱۸) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ رَافِعٍ ، عَنْ أُمِّ سَلَمَۃَ ، قَالَتْ : سَمِعْت رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَی ہَذَا الْمِنْبَرِ یَقُولُ : إنِّی لَکُمْ سَلَفٌ عَلَی الْکَوْثَرِ۔ (مسلم ۱۷۹۵۔ احمد ۲۹۷)
(٣٢٣١٨) حضرت ام سلمہ فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے ہوئے سنا کہ میں حوض پر تمہارے لیے تم سے پہلے پہنچنے والا ہوں۔

32318

(۳۲۳۱۹) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ ، عَنْ مُحَارِبِ بْنِ دِثَارٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : الْکَوْثَرُ نَہْرٌ فِی الْجَنَّۃِ حَافَتَاہُ مِنْ ذَہَبٍ ، وَمَجْرَاہُ عَلَی الْیَاقُوتِ وَالدُّرِ ، تُرْبَتُہُ أَطْیَبُ مِنَ الْمِسْک ، وَمَاؤُہُ أَحْلَی مِنَ الْعَسَلِ وَأَشَدُّ بَیَاضًا مِنَ الثَّلْجِ۔ (ترمذی ۳۳۶۱۔ دارمی ۲۸۳۷)
(٣٢٣١٩) حضرت ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ کوثر جنت کی نہر ہے ، اس کے کنارے سونے کے ہیں اور اس کے بہنے کی جگہ یاقوت اور موتی پر ہے، اس کی مٹی مشک سے زیادہ پاکیزہ ہے، اور اس کا پانی شہد سے زیادہ میٹھا ہے، اور برف سے زیادہ سفید ہے۔

32319

(۳۲۳۲۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ مِسْعَرٍ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ عُمَیْرٍ ، عَنْ جُنْدُبٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : أَنَا فَرَطُکُمْ عَلَی الْحَوْضِ۔ (مسلم ۱۷۹۲۔ احمد ۳۱۳)
(٣٢٣٢٠) حضرت جند ب فرماتے ہیں کہ میں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے ہوئے سنا کہ میں تمہارے لیے حوض پر پہلے پہنچنے والا ہوں۔

32320

(۳۲۳۲۱) حَدَّثَنَا محمد بْنُ بِشْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ بْنُ عُمَرَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إنَّ أَمَامَکُمْ حَوْضًا کَمَا بَیْنَ جَرْبَائَ وَأَذْرُحَ۔ (مسلم ۳۴۔ ابوداؤد ۴۷۱۲)
(٣٢٣٢١) حضرت ابن عمر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ بیشک تمہارے سامنے ایسا حوض ہے جو ’ جربائ ‘ اور ’ اذرح ‘ کی درمیانی مسافت کے برابر ہے۔

32321

(۳۲۳۲۲) حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إسْمَاعِیلَ ، عَنْ أنیس بْنِ أَبِی یَحْیَی ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ أَبِی سَعِیدٍ ، قَالَ : خَرَجَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَوْماً وَنَحْنُ فِی الْمَسْجِدِ وَہُوَ عَاصِبٌ رَأْسَہُ بِخِرْقَۃٍ فِی الْمَرَضِ الَّذِی مَاتَ فِیہِ ، فَأَہْوَی قِبَلَ الْمِنْبَرِ فَاتَّبَعنَاہُ ، فَقَالَ : وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ ، إنِّی لَقَائِمٌ عَلَی الْحَوْضِ السَّاعَۃَ۔ (دارمی ۷۷۔ ابویعلی ۱۱۵۰)
(٣٢٣٢٢) حضرت ابو سعید فرماتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نکلے، اور ہم مسجد میں تھے، اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے سر پر پٹی باندھ رکھی تھی، اس مرض میں جس میں آپ کی وفات ہوئی، آپ منبر کی طرف چلے ، ہم آپ کے پیچھے چلے گئے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے میں اس وقت گویا کہ حوض پر کھڑا ہوں۔

32322

(۳۲۳۲۳) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ حُصَیْنٍ ، عَنْ أَبِی وَائِلٍ ، عَنْ حُذَیْفَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لَیَرِدَنَّ عَلَی حَوْضِی أَقْوَامٌ فَیُخْتَلَجُونَ دُونِی۔ (بخاری ۶۵۷۶۔ احمد ۴۷۳)
(٣٢٣٢٣) حضرت حذیفہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ بہت سے لوگ میرے حوض پر آئیں گے لیکن مجھ سے دور روک دیے جائیں گے۔

32323

(۳۲۳۲۴) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ ، عَنْ مُرَّۃَ ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : قامَ فِینَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : إنِّی فَرَطُکُمْ عَلَی الْحَوْضِ۔
(٣٢٣٢٤) مُرّہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ایک صحابی سے نقل فرماتے ہیں، فرمایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میں حوض پر تم سے پہلے پہنچنے والا ہوں۔

32324

(۳۲۳۲۵) حَدَّثَنَا ہَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَن بْنُ عَبْدِ اللہِ بْنِ دِینَارٍ ، عَنْ أَبِی حَازِمٍ ، عَنْ سَہْلِ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : أَنَا فَرَطُکُمْ عَلَی الْحَوْضِ، مَنْ وَرَدَ عَلَیَّ شَرِبَ مِنْہُ وَمَنْ شَرِبَ مِنْہُ لَمْ یَظْمَأْ أَبَدًا۔ (بخاری ۶۵۸۵۔ مسلم ۱۷۹۳)
(٣٢٣٢٥) حضرت سہل بن سعد فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میں حوض پر تم سے پہلے پہنچنے والا ہوں، جو میرے پاس آئے گا اس میں سے پی لے گا، اور جو اس سے پی لے گا اس کو کبھی پیاس نہ لگے گی۔

32325

(۳۲۳۲۶) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، أَخْبَرَنَا شُعْبَۃُ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ أَنَسٍ ، عَنْ أُسَیْدَ بْنِ الحُضَیْرٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إنَّکُمْ سَتَرَوْنَ بَعْدِی أَثَرَۃً ، فَاصْبِرُوا حَتَّی تَلْقَوْنِی عَلَی الْحَوْضِ۔ (بخاری ۳۷۹۲۔ احمد ۳۵۱)
(٣٢٣٢٦) حضرت اسید بن حضیر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ عنقریب تم میرے بعد ترجیح دیکھو گے ، پس صبر کرو یہاں تک کہ حوض پر مجھ سے ملو۔

32326

(۳۲۳۲۷) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حدَّثَنَا وُہَیْبٌ ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ یَحْیَی ، عَنْ عَبَّادِ بْنِ تَمِیمٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ زَیْدٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِلأَنْصَارِ : إِنَّکُمْ سَتَلْقَوْنَ بَعْدِی أَثَرَۃً ، فَاصْبِرُوا حَتَّی تَلْقَوْنِی عَلَی الْحَوْضِ۔ (بخاری ۴۳۳۰۔ مسلم ۷۳۸)
(٣٢٣٢٧) حضرت عبداللہ بن زید فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انصار سے فرمایا کہ تم عنقریب میرے بعد ترجیح دیکھو گے، پس صبر کرو یہاں تک کہ حوض پر مجھ سے ملو۔

32327

(۳۲۳۲۸) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا وُہَیْبٌ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ خُثَیْمٍ ، عَنِ ابْنِ أَبِی مُلَیْکَۃَ ، عَنْ عَائِشَۃَ ، قَالَتْ : سَمِعْت رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : إنِّی عَلَی الْحَوْضِ أَنْتَظِرُ مَنْ یَرِدُ عَلَیَّ الْحَوْضَ۔ (مسلم ۱۷۹۴۔ ابویعلی ۴۴۳۷)
(٣٢٣٢٨) حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے سنا کہ میں حوض پر پانی پینے کے لیے آنے والوں کا منتظر ہوں گا۔

32328

(۳۲۳۲۹) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِیزِ بْنُ عَبْدِ الصَّمَدِ الْعَمِّیُّ ، عَنْ أَبِی عِمْرَانَ الْجَوْنِیِّ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ الصَّامِتِ ، عَنْ أَبِی ذَرٍّ ، قَالَ : قلْت : یَا رَسُولَ اللہِ ، مَا آنِیَۃُ الْحَوْضِ ؟ قَالَ : وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ لاَنِیَتُہُ أَکْثَرُ مِنْ عَدَدِ نُجُومِ السَّمَائِ وَکَوَاکِبِہَا فِی اللَّیْلَۃِ الْمُظْلِمَۃِ الْمُصْحِیَۃِ ، مَنْ شَرِبَ مِنْہَا لَمْ یَظْمَا ، عَرْضُہُ مِثْلُ طُولِہِ مَا بَیْنَ عُمَانَ إلَی أَیْلَۃَ ، مَاؤُہُ أَشَدُّ بَیَاضًا مِنَ اللَّبَنِ وَأَحْلَی مِنَ الْعَسَلِ۔ (مسلم ۱۷۹۸۔ احمد ۱۴۹)
(٣٢٣٢٩) حضرت ابو ذر فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ 5! حوض کے برتن کیسے ہوں گے ؟ فرمایا اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے اس کے برتن آسمان کے ستاروں سے زیادہ ہیں، اور اس کے ستاروں سے مراد صاف آسمان والی رات کے ستارے ہیں، جس نے اس سے پی لیا وہ پیاسا نہ ہوگا، اس کی چوڑائی اس کی لمبائی کی طرح عمان سے أیلہ کی درمیانی مسافت جتنی ہے، اس کا پانی دودھ سے زیادہ سفید اور شہد سے زیادہ میٹھا ہے۔

32329

(۳۲۳۳۰) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِی الْجَعْدِ ، عَنْ مَعْدَانَ بْنِ أَبِی طَلْحَۃَ الْیَعْمُرِیِّ ، عَنْ ثَوْبَانَ مَوْلَی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : أَنَا عِنْدَ عُقْرِ حَوْضِی أَذُودُ عَنْہُ النَّاسَ لأَہْلِ الْیَمِینِ إنِّی لاَضْرِبُہُمْ بِعَصَایَ حَتَّی تَرْفَضَّ ، قَالَ : فَسُئِلَ نَبِیُّ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ سِعَۃِ الْحَوْضِ ؟ فَقَالَ : ہُوَ مَا بَیْنَ مَقَامِی ہَذَا إلَی عَمَّانَ ، مَا بَیْنَہُمَا شَہْرٌ أَوْ نَحْوُ ذَلِکَ، فَسُئِلَ نَبِیُّ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ شَرَابِہِ ؟ فَقَالَ : أَشَدُّ بَیَاضًا مِنَ اللَّبَنِ وَأَحْلَی مِنَ الْعَسَلِ ، یَصُبُّ فِیہِ مِیزَابَانِ مِدَادُہُ ، أَوْ مِدَادُہُمَا مِنَ الْجَنَّۃِ أَحَدُہُمَا وَرِقٌ وَالآخَرُ ذَہَبٌ۔ (مسلم ۱۷۹۹۔ احمد ۲۷۵)
(٣٢٣٣٠) حضرت ثوبان، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آزاد کردہ غلام فرماتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میں اپنے حوض کے پانی پینے کی جگہ ہوں گا، اور اہل یمن کے لیے لوگوں کو دور ہٹاؤں گا یہاں تک کہ لوگ چھٹ جائیں گے، اس پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے حوض کی وسعت کے بارے میں سوال کیا گیا تو فرمایا کہ وہ میری اس جگہ سے عمّان کی درمیانی مسافت تک ہے، ان دونوں علاقوں کے درمیان ایک ماہ یا اس کے قریب مسافت ہے، پھر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کے پانی کے بارے میں سوال کیا گیا تو فرمایا کہ وہ دودھ سے زیادہ سفید اور شہد سے زیادہ میٹھا ہے، اس میں جنت سے دو پرنالے گریں گے جن کا بہاؤ جنت سے ہوگا، ایک پرنالہ چاندی کا اور دوسرا سونے کا ہوگا۔

32330

(۳۲۳۳۱) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ زَیْدٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، عَنْ أَبِی بَکْرَۃَ : أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : لَیَرِدَنَّ عَلَیَّ الْحَوْضَ رِجَالٌ مِمَّنْ صَحِبَنِی وَرَآنِی حَتَّی إذَا رُفِعُوا إلَیَّ اخْتُلِجُوا دُونِی فَلأَقُولَنَّ : رَبِ أَصْحَابِی ، فَلَیُقَالُنَّ : إنَّک لاَ تَدْرِی مَا أَحْدَثُوا بَعْدَک۔ (احمد ۴۸)
(٣٢٣٣١) حضرت ابو بکرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میرے حوض پر بہت سے لوگ آئیں گے جو میرے ساتھ رہے ہوں گے اور انھوں نے مجھے دیکھا ہوگا ، یہاں تک کہ جب وہ میری طرف اٹھائے جائیں گے تو ان کو مجھ سے روک دیا جائے گا، میں کہوں گا کہ اے میرے رب ! یہ میرے ساتھی ہیں، اللہ فرمائیں گے کہ آپ نہیں جانتے کہ انھوں نے آپ کے بعد کیا بدعات جاری کی ہیں۔

32331

(۳۲۳۳۲) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو حَیَّانَ ، عَنْ أَبِی زُرْعَۃَ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : أُتِیَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَوْمًا بِلَحْمٍ فَرَفَعْت إلَیْہِ الذِّرَاعَ ، وَکَانَتْ تُعْجِبُہُ ، فَنَہَسَ مِنْہَا نَہْسَۃً ، ثُمَّ قَالَ : أَنَا سَیِّدُ النَّاسِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ، وَہَلْ تَدْرُونَ بِمَ ذَاکَ یَجْمَعُ اللَّہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ الأَوَّلِینَ وَالآخِرِینَ فِی صَعِیدٍ وَاحِدٍ ، فَیُسْمِعہُمَ الدَّاعِی وَیَنْفُذُہُمَ الْبَصَرُ ، وَتَدْنُو الشَّمْسُ ، فَیَبْلُغُ النَّاسُ مِنَ الْغَمِّ وَالْکَرْبِ مَا لاَ یُطِیقُونَ ، وَلاَ یَحْتَمِلُونَ ، فَیَقُولُ بَعْضُ النَّاسِ لِبَعْضٍ : أَلاَ تَرَوْنَ مَا قَدْ بَلَغَکُمْ ، أَلاَ تَنْظُرُونَ مَنْ یَشْفَعُ لَکُمْ إلَی رَبِّکُمْ۔ فَیَقُولُ بَعْضُ النَّاسِ لِبَعْضہم : أَبُوکُمْ آدَم ، فَیَأْتُونَ آدَمَ فَیَقُولُونَ : یَا آدَمُ أَنْتَ أَبُو الْبَشَرِ ، خَلَقَکَ اللَّہُ بِیَدِہِ، وَنَفَخَ فِیک مِنْ رُوحِہِ ، وَأَمَرَ الْمَلاَئِکَۃَ فَسَجَدُوا لَک ، اشْفَعْ لَنَا إلَی رَبِّکَ ، أَلاَ تَرَی مَا نَحْنُ فِیہِ ؟ أَلاَ تَرَی إلَی مَا قَدْ بَلَغَنَا ؟ فَیَقُولُ لَہُمْ : إنَّ رَبِّی قَد غَضِبَ الْیَوْمَ غَضَبًا لَمْ یَغْضَبْ قَبْلَہُ مِثْلَہُ ، وَلَنْ یَغْضَبَ بَعْدَہُ مِثْلَہُ ، وَإِنَّہُ نَہَانِی عَنِ الشَّجَرَۃِ فَعَصَیْتہ ، نَفْسِی نَفْسِی ، اذْہَبُوا إلَی غَیْرِی ، اذْہَبُوا إلَی نُوحٍ۔ فَیَأْتُونَ نُوحًا فَیَقُولُونَ : یَا نُوحُ أَنْتَ أَوَّلُ الرُّسُلِ إلَی أَہْلِ الأَرْضِ ، وَسَمَّاک اللَّہُ عَبْدًا شَکُورًا ، اشْفَعْ لَنَا إلَی رَبِّکَ ، أَلاَ تَرَی إِلَی مَا نَحْنُ فِیہِ ، أَلاَ تَرَی مَا قَدْ بَلَغْنَا إِلَیْہ ؟ فَیَقُولُ لَہُمْ : إنَّ رَبِّی قَدْ غَضِبَ الْیَوْمَ غَضَبًا لَمْ یَغْضَبْ قَبْلَہُ مِثْلَہُ ، وَلَنْ یَغْضَبَ بَعْدَہُ مِثْلَہُ ، وَإِنَّہُ قَدْ کَانَتْ لِی دَعْوَۃٌ دَعَوْت بِہَا عَلَی قَوْمِی ، نَفْسِی نَفْسِی ، اذْہَبُوا إلَی غَیْرِی ، اذْہَبُوا إلَی إبْرَاہِیمَ۔ فَیَأْتُونَ إبْرَاہِیمَ فَیَقُولُونَ : یَا إبْرَاہِیمُ ، أَنْتَ نَبِیُّ اللہِ وَخَلِیلُہُ مِنْ أَہْلِ الأَرْضِ ، اشْفَعْ لَنَا إلَی رَبِّکَ ، أَلاَ تَرَی مَا نَحْنُ فِیہِ ؟ أَلاَ تَرَی مَا قَدْ بَلَغَنَا ؟ فَیَقُولُ لَہُمْ إبْرَاہِیمُ : إنَّ رَبِّی قَدْ غَضِبَ الْیَوْمَ غَضَبًا لَمْ یَغْضَبْ قَبْلَہُ مِثْلَہُ ، وَلاَ یَغْضَبُ بَعْدَہُ مِثْلَہُ ، وَذَکَرَ کِذَبَاتِہِ ، نَفْسِی نَفْسِی ، اذْہَبُوا إلَی غَیْرِی ، اذْہَبُوا إلَی مُوسَی۔ فَیَأْتُونَ مُوسَی فَیَقُولُونَ : یَا مُوسَی ، أَنْتَ رَسُولُ اللہِ ، فَضَّلَک اللَّہُ بِرِسَالَتِہِ وَبِتَکْلِیمِہِ ، عَلَی النَّاسِ ، اشْفَعْ لَنَا إلَی رَبِّکَ ، أَلاَ تَرَی إلَی مَا نَحْنُ فِیہِ ؟ أَلاَ تَرَی مَا قَدْ بَلَغَنَا ؟ فَیَقُولُ لَہُمْ مُوسَی : إنَّ رَبِّی قَدْ غَضِبَ الْیَوْمَ غَضَبًا لَمْ یَغْضَبْ قَبْلَہُ مِثْلَہُ ، وَلاَ یَغْضَبُ بَعْدَہُ مِثْلَہُ ، وَإِنِّی قَتَلْت نَفْسًا لَمْ أُومَرْ بِقَتْلِہَا ، نَفْسِی نَفْسِی ، اذْہَبُوا إلَی غَیْرِی ، اذْہَبُوا إلَی عِیسَی۔ فَیَأْتُونَ عِیسَی ، فَیَقُولُونَ : یَا عِیسَی، أَنْتَ رَسُولُ اللہِ ، وَکَلَّمْت النَّاسَ فِی الْمَہْدِ ، وَکَلِمَتُہُ أَلْقَاہَا إلَی مَرْیَمَ وَرُوحٌ مِنْہُ ، اشْفَعْ لَنَا إلَی رَبِّکَ ، أَلاَ تَرَی مَا نَحْنُ فِیہِ ؟ أَلاَ تَرَی مَا قَدْ بَلَغَنَا ؟ فَیَقُولُ لَہُمْ عِیسَی : إنَّ رَبِّی قَدْ غَضِبَ الْیَوْمَ غَضَبًا لَمْ یَغْضَبْ قَبْلَہُ مِثْلَہُ ، وَلاَ یَغْضَبُ بَعْدَہُ مِثْلَہُ - وَلَمْ یَذْکُرْ لَہُ ذَنْبًا - نَفْسِی نَفْسِی، اذْہَبُوا إلَی غَیْرِی ، اذْہَبُوا إلَی مُحَمَّدٍ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔ فَیَأْتُونِی فَیَقُولُونَ : یَا مُحَمَّدُ أَنْتَ رَسُولُ اللہِ وَخَاتَمُ الأَنْبِیَائِ ، وَغَفَرَ اللَّہُ لَک مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِکَ وَمَا تَأَخَّرَ ، اشْفَعْ لَنَا إلَی رَبِّکَ ، أَلاَ تَرَی مَا نَحْنُ فِیہِ ؟ أَلاَ تَرَی مَا قَدْ بَلَغَنَا ؟ فَأَنْطَلِقُ فَآتِی تَحْتَ الْعَرْشِ فَأَقَعُ سَاجِدًا لِرَبِّی ، ثُمَّ یَفْتَحُ اللَّہُ عَلَیَّ وَیُلْہِمُنِی مِنْ مَحَامِدِہِ ، وَحُسْنِ الثَّنَائِ عَلَیْہِ شَیْئًا لَمْ یَفْتَحْہُ لأَحَدٍ قَبْلِی ، ثُمَّ قِیلَ : یَا مُحَمَّدُ ، ارْفَعْ رَأْسَک ، سَلْ تُعْطَہُ ، اشْفَعْ تُشَفَّعْ ، فَأَرْفَعُ رَأْسِی فَأَقُولُ : یَا رَبِّ أُمَّتِی ، یَا رَبِّ أُمَّتِی ، مَرَّاتٍ ، فَیُقَالُ : یَا مُحَمَّدُ ، أَدْخِلَ الْجَنَّۃَ مِنْ أُمَّتِکَ مَنْ لاَ حِسَابَ عَلَیْہِمْ مِنَ الْبَابِ الأَیْمَنِ مِنْ أَبْوَابِ الْجَنَّۃِ وَہُمْ شُرَکَائُ النَّاسِ فِیمَا سِوَی ذَلِکَ مِنَ الأَبْوَابِ۔ ثُمَّ قَالَ : وَالَّذِی نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہِ ، إنَّ مَا بَیْنَ الْمِصْرَاعَیْنِ مِنْ مَصَارِعِ الْجَنَّۃِ لَکَمَا بَیْنَ مَکَّۃَ وَہَجَرَ ، أَوْ کَمَا بَیْنَ مَکَّۃَ وَبُصْرَی۔ (بخاری ۳۳۴۰۔ مسلم ۱۸۴)
(٣٢٣٣٢) حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ایک دن گوشت لایا گیا، آپ کو اس کا بازو کا گوشت پیش کیا گیا جو آپ کو پسند تھا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس میں سے ایک مرتبہ نوچا پھر فرمایا میں قیامت کے دن لوگوں کا سردار ہوں گا، اور تم جانتے ہو کہ یہ کس طرح ہوگا ؟ اللہ قیامت کے دن اولین و آخرین کو ایک میدان میں جمع فرمائیں گے، پس ایک پکارنے والے کی پکار ان کو سنوائیں گے اور ان کی نظریں تیز ہوجائیں گی، اور سورج قریب ہوجائے گا اور لوگوں کو اتنی تکلیف اور غم ہوگا کہ جس کی ان کے اندر طاقت نہ ہوگی، لوگ ایک دوسرے سے کہیں گے کہ کیا تم دیکھتے نہیں کہ تمہیں کیا مصیبت آ پڑی ہے ؟ کیا تم کوئی ایسا شخص نہیں دیکھتے جو تمہارے رب کی طرف تمہاری سفارش کرے ؟
(٢) چنانچہ لوگ ایک دوسرے سے کہیں گے کہ تمہارے باپ آدم (علیہ السلام) ہیں، وہ آدم (علیہ السلام) کے پاس جائیں گے اور کہیں گے اے آدم ! آپ انسانوں کے باپ ہیں ، اللہ نے آپ کو اپنے ہاتھ سے پیدا فرمایا، اور آپ کے اندر اپنی جانب سے روح پھونکی، اور ملائکہ کو حکم دیا کہ آپ کو سجدہ کریں، ہمارے لیے اپنے رب کی طرف سفارش کریں، کیا آپ دیکھتے نہیں کہ ہم کس حال میں ہیں ؟ کیا آپ ہماری مصیبت کو نہیں دیکھتے ؟ وہ فرمائیں گے کہ میرے رب آج ایسے غصہ میں ہیں کہ اس سے پہلے کبھی نہیں تھے، اور اس کے بعد کبھی نہ ہوں گے، اور اللہ نے مجھے درخت کے پاس جانے سے منع فرمایا تھا لیکن میں نے اس کی نافرمانی کی، مجھے تو اپنی جان کی امان چاہیے ، تم کسی اور کے پاس جاؤ تم نوح (علیہ السلام) کے پاس جاؤ،
(٣) چنانچہ وہ حضرت نوح (علیہ السلام) کے پاس جائیں گے، اور کہیں گے اے نوح ! آپ زمین والوں کی طرف پہلے رسول ہیں، اور اللہ نے آپ کو شکر گزار بندے کا نام دیا ہے، ہمارے لیے اپنے رب کی طرف سفارش کیجیے ، کیا آپ دیکھتے نہیں کہ ہم کس حال میں ہیں ؟ کیا آپ دیکھتے نہیں کہ ہمیں کیا مصیبت آ پڑی ہے ؟ نوح (علیہ السلام) ان سے فرمائیں گے کہ میرے رب آج ایسے غصے میں ہیں کہ کبھی اس سے پہلے نہ تھے اور کبھی آج کے بعد نہ ہوں گے، اور میرے پاس ایک دعا کا اختیار تھا جو میں نے اپنی قوم کے خلاف کردی، مجھے اپنی جان کی امان چاہیے، تم کسی اور کے پاس جاؤ، تم ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس جاؤ۔
(٤) چنانچہ وہ ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس جائیں گے اور کہیں گے اے ابراہیم ! آپ اللہ کے نبی اور زمین والوں میں سے اس کے خلیل ہیں، ہمارے لیے اپنے رب کے ہاں سفارش فرمائیں ، کیا آپ دیکھتے نہیں کہ ہم کس حال میں ہیں ؟ کیا آپ دیکھتے نہیں کہ ہم پر کیا مصیبت آ پڑی ہے ؟ چنانچہ ابراہیم (علیہ السلام) ان سے کہیں گے کہ میرا رب آج ایسے غصے میں ہے کہ کبھی اس سے پہلے نہ تھا، اور نہ کبھی اس کے بعد اس جیسے غصے میں ہوگا، اور وہ اپنے جھوٹ ذکر فرمائیں گے، مجھے اپنی جان کی امان چاہیے ، تم کسی اور کے پاس جاؤ، تم موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس جاؤ۔
(٥) چنانچہ وہ موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس جائیں گے ، اور کہیں گے اے موسیٰ ! آپ اللہ کے رسول ہیں، اللہ نے آپ کو اپنی رسالت اور ہم کلامی کے ذریعے فضیلت بخشی ، ہمارے لیے اپنے رب کی طرف سفارش کریں، کیا آپ دیکھتے نہیں کہ ہم کس حال میں ہیں ؟ کیا آپ دیکھتے نہیں کہ ہمیں کیا مصیبت آ پڑی ہے ؟ چنانچہ موسیٰ (علیہ السلام) ان سے کہیں گے کہ آج میرا رب ایسے غصے میں ہے کہ کبھی اس سے پہلے نہ تھا او کبھی اس کے بعد نہ ہوگا، اور میں نے ایک ایسی جان کو قتل کیا تھا جس کے قتل کا مجھے حکم نہیں تھا، مجھے اپنی جان کی امان چاہیے، تم کسی اور کے پاس جاؤ، تم عیسیٰ (علیہ السلام) کے پاس جاؤ۔
(٦) چنانچہ وہ عیسیٰ (علیہ السلام) کے پاس آئیں گے اور کہیں گے اے عیسیٰ ! آپ اللہ کے رسول ہیں اور آپ نے لوگوں سے پنگھوڑے میں بات کی، اور آپ اللہ کا کلمہ ہیں جو اس نے مریم کی طرف القاء کیا تھا، اور اس کی روح ہیں، ہمارے لیے اپنے رب سے سفارش کر دیجئے، کیا آپ دیکھتے نہیں کہ ہم کس حال میں ہیں ؟ کیا آپ دیکھتے نہیں کہ ہمیں کیا مصیبت آ پڑی ہے ؟ چنانچہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ان سے کہیں گے کہ میرا رب آج ایسے غصے میں ہے کہ اس سے پہلے ایسے غصے میں نہیں تھا اور نہ اس کے بعد ایسے غصے میں ہوگا، اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کا کوئی گناہ ذکر نہیں فرمایا، مجھے اپنی جان کی امان چاہیے ، تم کسی اور کے پاس چلے جاؤ، تم محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس چلے جاؤ۔
(٧) چنانچہ وہ میرے پاس آئیں گے اور کہیں گے اے محمد ! آپ اللہ کے رسول اور خاتم الانبیاء ہیں، اور اللہ نے آپ کے اگلے پچھلے تمام گناہ معاف فرمائے ہیں ، ہمارے لیے اپنے رب سے سفارش کیجیے، کیا آپ دیکھتے نہیں کہ ہم کس حال میں ہیں ؟ کیا آپ دیکھتے نہیں کہ ہمیں کیا مصیبت آ پڑی ہے ؟ میں عرش کے نیچے جاؤں گا اور اپنے رب کو سجدہ کرنے کے لیے گر جاؤں گا، پھر اللہ میرا سینہ کھولیں گے ، اور مجھے اپنی حمدو ثناء القاء فرمائیں گے جو مجھ سے پہلے کسی کے لیے کسی کو القاء نہیں فرمائی ہوگی، پھر کہا جائے گا اے محمد ! اپنا سر اٹھائیے ، سوال کیجیے، آپ کو عطا کیا جائے گا، سفارش کیجئے آپ کی سفارش قبول ہوگی، میں اپنا سر اٹھاؤں گا، اور کہوں گا اے میرے رب ! میری امت ! میری امت ! کئی مرتبہ ایسا کہوں گا ، پھر کہا جائے گا اے محمد ! آپ اپنی امت میں سے جنت میں ان لوگوں کو جنت کے دروازوں میں سے دائیں دروازے سے داخل کریں جن پر کوئی حساب نہیں، اور دوسرے دروازوں میں وہ دوسرے لوگوں کے ساتھ جنت میں داخل ہونے میں شریک ہوں گے۔
پھر آپ نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں محمد کی جان ہے، بیشک جنت کے دو کو اڑوں کے درمیان اتنا فاصلہ ہے جتنا مکہ اور ھَجَر کے درمیان، یا جتنا مکہ اور بصریٰ کے درمیان۔

32332

(۳۲۳۳۳) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ أَبِی عُثْمَانَ ، عَنْ سَلْمَانَ ، قَالَ : تُعْطَی الشَّمْسُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ حَرَّ عَشْرِ سِنِینَ ، ثُمَّ تُدْنَی مِنْ جَمَاجِمِ النَّاسِ حَتَّی تَکُونَ قَابَ قَوْسَیْنِ فَیَعْرَقُونَ حَتَّی یَرْشَحَ الْعَرَقُ قَامَۃً فِی الأَرْضِ ، ثُمَّ یَرْتَفِعُ حَتَّی یُغَرْغِرُ الرَّجُلُ ، قَالَ سَلْمَانُ : حَتَّی یَقُولَ الرَّجُلُ : غَرْ غَرْ ، فَإِذَا رَأَوْا مَا ہُمْ فِیہِ قَالَ بَعْضُہُمْ لِبَعْضٍ : أَلاَ تَرَوْنَ مَا أَنْتُمْ فِیہِ ، ائْتُوا أَبَاکُمْ آدَمَ فَلْیَشْفَعْ لَکُمْ إلَی رَبِّکُمْ ، فَیَأْتُونَ آدَمَ فَیَقُولُونَ : یَا أَبَانَا ، أَنْتَ الَّذِی خَلَقَک اللَّہُ بِیَدِہِ وَنَفَخَ فِیک مِنْ رُوحِہِ وَأَسْکَنَک جَنَّتَہُ ، قُمْ فَاشْفَعْ لَنَا إلَی رَبِّنَا فَقَدْ تَرَی مَا نَحْنُ فِیہِ ، فَیَقُولُ : لَسْتُ ہناک وَلَسْت بِذَاکَ فَأَیْنَ الْفَعْلَۃُ ؟ فَیَقُولُونَ : إلَی مَنْ تَأْمُرُنَا فَیَقُولُ : ائْتُوا عَبْدًا جَعَلَہُ اللَّہُ شَاکِرًا۔ فَیَأْتُونَ نُوحًا فَیَقُولُونَ : یَا نَبِیَّ اللہِ ، أَنْتَ الَّذِی جَعَلَک اللَّہُ شَاکِرًا وَقَدْ تَرَی مَا نَحْنُ فِیہِ قُمْ فَاشْفَعْ لَنَا ، فَیَقُولُ : لَسْتُ ہُنَاکَ وَلَسْت بِذَاکَ ، فَأَیْنَ الْفَعْلَۃُ ؟ فَیَقُولُونَ : إلَی مَنْ تَأْمُرُنَا ؟ فَیَقُولُ : ائْتُوا خَلِیلَ الرَّحْمَن إبْرَاہِیمَ۔ فَیَأْتُونَ إبْرَاہِیمَ فَیَقُولُونَ : یَا خَلِیلَ الرَّحْمَان قَدْ تَرَی مَا نَحْنُ فِیہِ فَاشْفَعْ لَنَا إلَی رَبِّنا ، فَیَقُولُ : لَسْتُ ہُنَاکَ وَلَسْت بِذَاکَ ، فَأَیْنَ الْفَعْلَۃُ ؟ فَیَقُولُونَ : إلَی مَنْ تَأْمُرُنَا ؟ فَیَقُولُ : ائْتُوا مُوسَی عَبْدًا اصْطَفَاہُ اللہ بِرِسَالتِہِ وَبِکَلامِہِ۔ فَیَأْتُونَ مُوسَی فَیَقُولُونَ : قَدْ تَرَی مَا نَحْن فِیہِ ، فَاشْفَع لَنَا إِلیَ رَبِّنَا ، فَیَقُول : لَسْتُ ہُنَاکَ ، وَلَسْت بِذَاکَ ، فَأَیْنَ الْفَعْلَۃُ ؟ فَیَقُولُونَ : إلَی مَنْ تَأْمُرُنَا ؟ فَیَقُولُ : ائْتُوا کَلِمَۃَ اللہِ وَرُوحَہُ عِیسَی ابْنَ مَرْیَمَ۔ فَیَأْتُونَ عِیسَی فَیَقُولُونَ : یَا کَلِمَۃَ اللہِ وَرُوحَہُ ، قَدْ تَرَی مَا نَحْنُ فِیہِ ، فَاشْفَعْ لَنَا إلَی رَبِّنَا ، فَیَقُولُ : لَسْتُ ہُنَاکَ ، وَلَسْت بِذَاکَ ، فَأَیْنَ الْفَعْلَۃُ ؟ فَیَقُولُونَ : إلَی مَنْ تَأْمُرُنَا ؟ فَیَقُولُ : ائْتُوا عَبْدًا فَتَحَ اللَّہُ بِہِ وَخَتَمَ ، وَغَفَرَ لَہُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہِ وَمَا تَأَخَّرَ ، وَیَجیء فِی ہَذَا الْیَوْمِ آمِنًا۔ فَیَأْتُونَ مُحَمَّدًا صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَیَقُولُونَ : یَا نَبِیَّ اللہِ أنت الذی فَتَحَ اللَّہُ بِکَ وَخَتَمَ ، وَغَفَرَ لَک مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِکَ وَمَا تَأَخَّرَ ، وَجِئْت فِی ہَذَا الْیَوْمِ آمِنًا ، وَقَدْ تَرَی مَا نَحْنُ فِیہِ فَاشْفَعْ لَنَا إلَی رَبِّنَا ، فَیَقُولُ : أَنَا صَاحِبُکُمْ ، فَیَخْرُجُ یَحُوشُ النَّاسِ حَتَّی یَنْتَہِیَ إلَی بَابِ الْجَنَّۃِ ، فَیَأْخُذَ بِحَلْقَۃٍ فِی الْبَابِ مِنْ ذَہَبٍ ، فَیَقْرَعُ الْبَابَ ، فَیُقَالُ : مَنْ ہَذَا ؟ فَیُقَالُ : مُحَمَّدٌ ، قَالَ : فَیُفْتَحُ لَہُ ، فَیَجِیئُ حَتَّی یَقُومَ بَیْنَ یَدَیَ اللہِ ، فَیَسْتَأْذِنُ فِی السُّجُودِ فَیُؤْذَنُ لَہُ فَیَسْجُدُ ، فَیُنَادِی : یَا مُحَمَّدُ ! ارْفَعْ رَأْسَک ، سَلْ تُعْطَہُ ، وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ ، وَادْعُ تُجَبْ ، قَالَ : فَیَفْتَحُ اللَّہُ عَلَیْہِ مِنَ الثَّنَائِ وَالتَّحْمِیدِ وَالتَّمْجِیدِ مَا لَمْ یُفْتَحْ لأَحَدٍ مِنَ الْخَلاَئِقِ ، قَالَ : فَیَقُولُ : رَبِّ أُمَّتِی أُمَّتِی ، ثُمَّ یَسْتَأْذِنُ فِی السُّجُودِ فَیُؤْذَنُ لَہُ فَیَسْجُدُ فَیَفْتَحُ اللَّہُ عَلَیْہِ مِنَ الثَّنَائِ وَالتَّحْمِیدِ وَالتَّمْجِیدِ مَا لَمْ یُفْتَحْ لأَحَدٍ مِنَ الْخَلاَئِقِ ، وَیُنَادَی : یَا مُحَمَّدُ ! یَا مُحَمَّدُ ! ارْفَعْ رَأْسَک سَلْ تُعْطَہُ وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ وَادْعُ تُجَبْ ، فَیَرْفَعُ رَأْسَہُ فَیَقُولُ : یَا رَبِ أُمَّتِی أُمَّتِی مَرَّتَیْنِ أَوْ ثَلاَثًا۔ قَالَ سَلْمَانُ : فَیَشْفَعُ فِی کُلِّ مَنْ کَانَ فِی قَلْبِہِ مِثْقَالُ حَبَّۃٍ مِنْ حِنْطَۃٍ مِنْ إیمَانٍ ، أَوْ مِثْقَالُ شَعِیرَۃٍ مِنْ إیمَانٍ ، أَوْ مِثْقَالُ حَبَّۃِ خَرْدَلٍ مِنْ إیمَانٍ ، فَذَلِکُمَ الْمَقَامُ الْمَحْمُودُ۔
(٣٢٣٣٣) حضرت سلمان فرماتے ہیں کہ قیامت کے دن سورج کو دس سال کی گرمی دے دی جائے گی، پھر اس کو لوگوں کے سروں کے قریب کردیا جائے گا یہاں تک کہ دو کمانوں کے درمیانی فاصلے کی دوری پر ہوگا، چنانچہ لوگوں کو پسینہ آئے گا یہاں تک کہ پسینہ زمین میں قد آدم ہوجائے گا، پھر بلند ہوگا یہاں تک کہ آدمی ” غر غر “ کہے گا ، سلمان فرماتے ہیں کہ یہاں تک کہ آدمی غر غر کہنے لگے گا، جب وہ اپنی حالت دیکھیں گے تو ایک دوسرے کو کہیں گے کہ کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ تم کس حالت میں ہو ؟ اپنے باپ آدم (علیہ السلام) کے پاس جاؤ کہ وہ تمہارے لیے تمہارے رب کی طرف سفارش کرے ، چنانچہ وہ آدم (علیہ السلام) کے پاس جائیں گے اور کہیں گے اے ہمارے باپ ! آپ ہی ہیں جن کو اللہ نے اپنے ہاتھ سے پیدا فرمایا، اور آپ میں روح پھونکی، اور آپ کو اپنی جنت میں ٹھہرایا، اٹھیے اور ہمارے لیے سفارش کیجئے، کیا آپ ہماری حالت کو دیکھ رہے ہیں، وہ فرمائیں گے کہ میرا یہ مقام نہیں، اور میں اس مرتبہ کا نہیں، تو میں ایسا کس طرح کروں ؟ وہ کہیں گے کہ پھر آپ ہمیں کس کے پاس جانے کا حکم فرماتے ہیں ؟ وہ فرمائیں گے کہ تم اس بندے کے پاس جاؤ جس کو اللہ نے شکر گزار قرار دیا ہے۔
(٢) چنانچہ وہ نوح (علیہ السلام) کے پاس آئیں گے اور کہیں گے کہ اے اللہ کے نبی ! آپ ہی ہیں جن کو اللہ نے شکر گزار قرار دیا ہے ، اور آپ ہماری حالت دیکھ رہے ہیں، اٹھیے اور ہمارے لیے سفارش کیجئے ، وہ فرمائیں گے کہ میرا یہ مقام نہیں اور میرا یہ مرتبہ نہیں، پس میں یہ کیسے کروں، وہ کہیں گے کہ آپ ہمیں کس کے پاس جانے کا حکم دیتے ہیں ؟ وہ فرمائیں گے کہ تم اللہ کے خلیل ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس جاؤ۔
(٣) چنانچہ وہ ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس آئیں گے اور کہیں گے اے اللہ کے خلیل ! آپ ہماری حالت دیکھ رہے ہیں، پس ہمارے لیے اپنے رب سے سفارش کر دیجئے، وہ فرمائیں گے کہ میرا یہ مقام نہیں، اور میں اس مرتبے کا نہیں، میں کیسے یہ کام کروں ؟ وہ کہیں گے کہ آپ ہمیں کس کے پاس جانے کا حکم دیتے ہیں ؟ وہ فرمائیں گے کہ تم موسیٰ کے پاس جاؤ، جن کو اللہ نے اپنی رسالت اور اپنی ہم کلامی کے لیے چنا تھا۔
(٤) چنانچہ وہ موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس جائیں گے، اور کہیں گے کہ آپ ہماری حالت دیکھ رہے ہیں پس ہمارے لیے اپنے رب سے سفارش کر دیجئے، وہ فرمائیں گے کہ میرا یہ مقام نہیں اور میں اس مرتبے کا نہیں، میں ایسا کیسے کروں ؟ وہ کہیں گے کہ آپ ہمیں کس کے پاس جانے کا حکم دیتے ہیں ؟ وہ فرمائیں گے کہ تم اللہ کے کلمہ اور اس کی روح عیسیٰ (علیہ السلام) بن مریم (علیہ السلام) کے پاس جاؤ۔
(٥) چنانچہ وہ عیسیٰ (علیہ السلام) کے پاس جائیں گے اور کہیں گے اے اللہ کے کلمہ اور اے روح اللہ ! آپ ہماری حالت دیکھ رہے ہیں پس ہمارے لیے اپنے رب سے سفارش کر دیجئے، وہ فرمائیں گے کہ میرا یہ مقام نہیں اور میں اس مرتبے کا نہیں، ایسا کیسے کروں ؟ وہ کہیں گے کہ آپ ہمیں کس کے پاس جانے کا حکم فرماتے ہیں ؟ وہ فرمائیں گے کہ تم اس بندے کے پاس جاؤ جس کے ذریعے اللہ نے کھولا اور جس کے ذریعے مہر لگائی، اور اس کے اگلے پچھلے گناہ معاف فرمائے ، اور وہ اس دن امن کے ساتھ آئیں گے۔
(٦) چنانچہ وہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئیں گے اور کہیں گے اے اللہ کے نبی 5! آپ ہی ہیں جس کے ذریعے اللہ نے کھولا اور جس کے ذریعے مہر لگائی، اور آپ کے اگلے پچھلے تمام گناہ معاف فرمائے، اور اس دن آپ امن کے ساتھ آئے، اور آپ ہماری حالت دیکھ رہے ہیں، پس ہمارے رب سے ہماری سفارش کر دیجئے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرمائیں گے کہ میں تمہارے ساتھ ہوں۔ چنانچہ آپ لوگوں کو ہٹاتے ہوئے نکلیں گے یہاں تک کہ جنت کے دروازے پر آئیں گے، اور درواز میں لگے ہوئے سونے کے حلقے کو پکڑیں گے اور دروازہ کھٹکھٹائیں گے ، پس کہا جائے گا یہ کون ہے ؟ جواب دیا جائے گا کہ یہ محمد ہیں، کہتے ہیں کہ پھر آپ کے لیے دروازہ کھول دیا جائے گا، پھر آپ آئیں گے اور اللہ کے سامنے کھڑے ہوں گے ، اور سجدے کی اجازت چاہیں گے، اور آپ کو اجازت دی جائے گی تو آپ سجدہ کریں گے، چنانچہ آپ کو پکارا جائے گا اے محمد ! اپنا سر اٹھائیے ، سوال کیجئے ، آپ کو دیا جائے گا، سفارش کیجئے آپ کی سفارش قبول کی جائے گی، اور دعا کیجئے آپ کی دعا قبول کی جائے گی، کہتے ہیں کہ پھر اللہ آپ کے دل پر ایسی حمدو ثناء القاء فرمائیں گے جو مخلوقات میں کسی کو القاء نہیں ہوئی ہوگی، آپ فرمائیں گے اے رب ! میری اُمت، میری امت، پھر سجدے کی اجازت مانگیں گے، پھر آپ کو اجازت دی جائے گی اور آپ سجدہ کریں گے ، پھر اللہ آپ کے دل میں ایسی حمد وثناء القاء فرمائیں گے جو مخلوقات میں سے کسی کو القاء نہیں ہوئی ہوگی، اور پکارا جائے گا اے محمد ! اے محمد ! اپنا سر اٹھائیے، مانگیے آپ کو دیا جائے گا، سفارش کیجئے آپ کی سفارش قبول کی جائے گی، اور دعا کیجئے آپ کی دعا قبول کی جائے گی، آپ اپنا سر اٹھائیں گے اور فرمائیں گے اے رب ! میری امت، میری امت، دو یا تین مرتبہ، حضرت سلمان فرماتے ہیں کہ آپ کی سفارش ہر اس آدمی کے بارے میں قبول کی جائے گی جس کے دل میں گندم کے دانے کے برابر بھی ایمان ہوگا، یا ایک جو کے وزن کے برابر ایمان ہوگا، یا ایک رائی کے وزن کے بقدر ایمان ہوگا، یہی مقام محمود ہے۔

32333

(۳۲۳۳۴) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ آدَمَ ، حَدَّثَنَا إسْرَائِیلُ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ غَالِبٍ ، عَنْ حُذَیْفَۃَ ، قَالَ : سَیِّدُ وَلَدِ آدَمَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ مُحَمَّدٌ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔ (مسلم ۱۷۸۲۔ احمد ۳۸۸)
(٣٢٣٣٤) عبداللہ غالب روایت کرتے ہیں کہ حضرت حذیفہ نے فرمایا کہ قیامت کے دن اولاد آدم کے سردار محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہوں گے۔

32334

(۳۲۳۳۵) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، حَدَّثَنَا سَعِیدُ بْنُ أَبِی عَرُوبَۃَ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ أَنَسٍ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : یَجْتَمِعُ الْمُؤْمِنُونَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ فَیَقُولُونَ : لَوِ اسْتَشْفَعْنَا إلَی رَبِّنَا وَیُلْہَمُونَ ذَلِکَ فَأَرَاحَنَا مِنْ مَکَانِنَا ہَذَا ، فَیَأْتُونَ آدَم فَیَقُولُونَ لَہُ : یَا آدَم أَنْتَ أَبُو الْبَشَرِ ، وَخَلَقَک اللَّہُ بِیَدِہِ ، وَنَفَخَ فِیک مِنْ رُوحِہِ ، وَعَلَّمَک أَسْمَائَ کُلِّ شَیْئٍ ، فَاشْفَعْ لَنَا إلَی رَبِّنَا یُرِحْنَا مِنْ مَکَانِنَا ہَذَا ، قَالَ : لَسْتُ ہُنَاکُمْ ، وَیَشْکُو إلَیْہِمْ ، أَوْ یَذْکُرُ خَطِیئَتَہُ الَّتِی أَصَابَ ، فَیَسْتَحِی رَبَّہُ ، وَلَکِنِ ائْتُوا نُوحًا فَإِنَّہُ أَوَّلُ رَسُولٍ أُرْسِلَ إلَی أَہْلِ الأَرْضِ ، فَیَأْتُونَ نُوحًا ، فَیَقُولُ : لَسْتُ ہُنَاکُمْ ، وَیَذْکُرُ سُؤَالَہُ رَبَّہُ مَا لَیْسَ لَہُ بِہِ عِلْمٌ ، فَیَسْتَحِی رَبَّہُ ، وَلَکِنِ ائْتُوا إبْرَاہِیمَ خَلِیلَ الرَّحْمَن ، فَیَأْتُونَہُ ، فَیَقُولُ : لَسْتُ ہُنَاکُمْ ، وَلَکِنِ ائْتُوا مُوسَی عَبْدًا کَلَّمَہُ اللَّہُ وَأَعْطَاہُ التَّوْرَاۃَ ، فَیَأْتُونَہُ فَیَقُولُ : لَسْتُ ہُنَاکُمْ ، وَیَذْکُرُ لَہُمْ قَتْلَ النَّفْسِ بِغَیْرِ نَفْسٍ ، فَیَسْتَحِی رَبَّہُ مِنْ ذَلِکَ ، وَلَکِنِ ائْتُوا عَبْدَ اللہِ وَرَسُولَہُ وَکَلِمَۃَ اللہِ وَرُوحَہُ ، فَیَأْتُونَ عِیسَی فَیَقُولُ : لَسْت لِذَاکُمْ وَلَسْت ہُنَاکُمْ ، وَلَکِنِ ائْتُوا مُحَمَّدًا عَبْدًا غَفَرَ اللَّہُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہِ وَمَا تَأَخَّرَ۔ قَالَ : قَالَ الْحَسَنُ : قَالَ : فَأَنْطَلِقُ فَأَمْشِی بَیْنَ سِمَاطَیْنِ مِنَ الْمُؤْمِنِینَ ، انْقَطَعَ قَوْلُ الْحَسَنِ ، فَأَسْتَأْذِنُ عَلَی رَبِّی فَیُؤْذَنُ لِی ، فَإِذَا رَأَیْت رَبِّی وَقَعْت سَاجِدًا ، فَیَدَعُنْی مَا شَائَ اللَّہُ أَنْ یَدَعَنِی فَیُقَالُ أَوْ یَقُولُ : ارْفَعْ رَأْسَک ، قُلْ تُسْمَعْ ، وَسَلْ تُعْطَہُ ، وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ ، فَأَرْفَعُ رَأْسِی فَأَحْمَدُہُ تَحْمِیدًا یُعَلِّمُنِیہِ فَأُشَفَّعُ ، فَیَحُدُّ لِی حَدًّا فَأُدْخِلُہُمَ الْجَنَّۃَ ، ثُمَّ أَعُودُ إلَیْہِ الثَانِیَۃً ، فَإِذَا رَأَیْت رَبِّی وَقَعْت سَاجِدًا ، فَیَدَعُنِی مَا شَائَ اللَّہُ أَنْ یَدَعَنِی ، ثُمَّ یَقُولُ مِثْلَ قَوْلِہِ الأَوَّلِ : قُلْ تُسْمَعْ وَسَلْ تُعْطَہُ وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ ، فَأَرْفَعُ رَأْسِی فَأَحْمَدُہُ تَحْمِیدًا یُعَلِّمُنِیہِ ، فَیُقَالُ : سَلْ تُعْطَہُ وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ ، فَیَحُدُّ لِی حَدًّا فَأُدْخِلُہُمُ الْجَنَّۃَ ، ثُمَّ أَعُودُ إلَیْہِ فِی الرَّابِعَۃِ فَأَقُولُ: یَا رَبِّ ، مَا بَقِیَ إلاَّ مَنْ حَبَسَہُ الْقُرْآنُ۔
(٣٢٣٣٥) حضرت انس روایت کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ قیامت کے دن مؤمنین جمع ہوں گے اور کہیں گے کہ اگر ہم اپنے رب کے سامنے سفارشی پیش کریں۔ ” اس بات کا ان کو القاء ہوگا “ تو اللہ ہمیں اس جگہ راحت عطا فرما دیں گے، چنانچہ وہ آدم (علیہ السلام) کے پاس آئیں گے اور ان سے کہیں گے اے آدم ! آپ انسانوں کے باپ ہیں اور اللہ نے آپ کو اپنے ہاتھ سے پیدا کیا ہے، اور آپ میں اپنی روح پھونکی اور آپ کو ہر چیز کے نام سکھائے، آپ ہمارے لیے ہمارے رب سے سفارش کریں، کہ وہ اس جگہ سے ہمیں آرام بخشیں، وہ فرمائیں گے کہ میرا یہ مقام نہیں ، اور ان سے شکایت ذکر کریں گے یا اپنی غلطی بیان کریں گے جو آپ سے سرزد ہوئی تھی، اور اپنے رب سے شرمائیں گے ، لیکن تم نوح (علیہ السلام) کے پاس جاؤ کہ وہ سب سے پہلے رسول ہیں جن کو اہل زمین کی طرف بھیجا گیا، چنانچہ وہ نوح (علیہ السلام) کے پاس جائیں گے، لیکن وہ کہیں گے کہ میرا یہ مقام نہیں ، اور وہ اپنے رب سے اس سوال کا ذکر کریں گے جس کا ان کو علم نہیں تھا، اور اپنے رب سے شرمائیں گے لیکن تم ابراہیم خلیل اللہ کے پاس جاؤ، وہ ان کے پاس جائیں گے، وہ کہیں گے کہ میرا یہ مقام نہیں، تم موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس جاؤ جن سے اللہ نے کلام فرمایا اور ان کو توراۃ عطا فرمائی، وہ ان کے پاس جائیں گے لیکن وہ کہیں گے کہ میرا یہ مقام نہیں، اور ان سے بغیر کسی جان کے عوض کے ایک جان کو قتل کرنے کا ذکر فرمائیں گے اور اس وجہ سے اپنے رب سے شرمائیں گے، لیکن تم اللہ کے بندے اور اس کے رسول اور اس کے کلمہ اور روح اللہ کے پاس جاؤ، وہ عیسیٰ (علیہ السلام) کے پاس آئیں گے، وہ کہیں گے کہ میں اس کام کے لیے نہیں ، اور میرا یہ مقام نہیں ، لیکن تم محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس جاؤ جن کے پچھلے اور اگلے گناہ اللہ نے معاف فرما دیے ہیں ، حسن فرماتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ پھر میں مؤمنین کی دو قطاروں کے درمیان چلوں گا، ” حسن کا قول ختم ہوگیا۔ ‘ ‘ پھر اپنے رب سے اجازت مانگوں گا اور مجھے اجازت دے دی جائے گی، جب میں اپنے رب کو دیکھوں گا تو سجدے میں گر جاؤں گا، اللہ تعالیٰ جتنا عرصہ چاہیں گے مجھے اس حال میں چھوڑیں گے ، پھر کہا جائے گا ، یا پھر کہیں گے کہ اپنا سر اٹھاؤ، کہو تمہاری بات سنی جائے گی، اور مانگو تمہیں دیا جائے گا، اور شفاعت کرو تمہاری شفاعت قبول کی جائے گی، میں اپنا سر اٹھاؤں گا اور اللہ کی ایسی حمد کروں گا جو مجھے اللہ سکھائیں گے، پس میری شفاعت قبول کی جائے گی، اللہ مجھے ایک حد بیان فرمائیں گے اور میں اتنے لوگوں کو جنت میں داخل کر دوں گا، پھر میں دوبارہ واپس آؤں گا، جب اپنے رب کو دیکھوں گا سجدے میں گر جاؤں گا، اللہ مجھے کافی عرصہ اس حال میں رکھیں گے، پھر پہلے کی طرح فرمائیں گے کہ کہو تمہاری بات سنی جائے گی، مانگو تمہیں عطا کیا جائے گا، اور شفاعت کرو تمہاری شفاعت قبول کی جائے گی میں اپنا سر اٹھاؤں گا، اور ایسی حمد کروں گا جو اللہ مجھے سکھائیں گے، پھر کہا جائے گا مانگیے آپ کو دیا جائے گا ، اور شفاعت کیجئے آپ کی شفاعت کو قبول کیا جائے گا، پھر اللہ میرے لیے ایک حد قائم فرمائیں گے اور میں ان کو جنت میں داخل کروں گا، پھر میں چوتھی مرتبہ اللہ کی طرف لوٹ کر آؤں گا اور کہوں گا اے میرے رب ! ان لوگوں کے علاوہ کوئی باقی نہیں رہا جن کو قرآن نے روک لیا ہے۔

32335

(۳۲۳۳۶) حَدَّثَنَا مالک بن إسْمَاعِیلَ ، حَدَّثَنَا یَعْقُوبُ بْنُ عَبْدِ اللہِ الْقُمِّیّ ، عَنْ حَفْصِ بْنِ حُمَیْدٍ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إنِّی مُمْسِکٌ بِحُجَزِکُمْ ہَلُمُّوا عَنِ النَّارِ ، وَتَغْلِبُونِی تُقَاحِمُونَ فِیہَا تَقَاحُمَ الْفَرَاشِ وَالْجَنَادِبِ ، وَأُوشِکُ أَنْ أُرْسِلَ حُجَزَکُمْ وَأَفْرُطَ لَکُمْ عَنْ - أَوْ عَلَی - الْحَوْضِ، وَتَرِدُونَ عَلَیَّ مَعًا وَأَشْتَاتًا۔ (بزار ۲۰۴)
(٣٢٣٣٦) حضرت عمر بن خطاب فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میں تمہارے دامنوں کو پکڑتا ہوں گا کہ جہنم سے بچ جاؤ، لیکن تم مجھ پر غالب آئے ہو اور اس میں پروانوں کی طرح گھسے چلے جاتے ہو، اور قریب ہے کہ میں تمہارے دامنوں کو چھوڑ دوں۔ اور تمہارے لیے تم سے پہلے حوض پر پہنچ جاؤں، اور تم میرے پاس اکٹھے اور گروہ در گروہ آؤ گے۔

32336

(۳۲۳۳۷) حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ سَعْدٍ ، أَبُو دَاوُدَ الحَفَرِیُّ ، عَنْ شَرِیکٍ ، عَنِ الرُّکَیْنِ ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ حَسَّانَ ، عَنْ زَیْدِ بْنِ ثَابِتٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إنِّی تَارِکٌ فِیکُمَ الْخَلِیفَتَیْنِ مِنْ بَعْدِی : کِتَابَ اللہِ وَعِتْرَتِی أَہْلَ بَیْتِی ، وَإِنَّہُمَا لَنْ یَتَفَرَّقَا حَتَّی یَرِدَا عَلَیَّ الْحَوْضَ۔ (احمد ۱۸۲۔ طبرانی ۴۹۲۱)
(٣٢٣٣٧) حضرت زید بن ثابت فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میں تم میں اپنے بعد دو خلیفے چھوڑ رہا ہوں ، اللہ کی کتاب اور میرا خاندان اہل بیت، اور دونوں ہرگز جدا نہیں ہوں گے یہاں تک کہ حوض پر میرے پاس آجائیں۔

32337

(۳۲۳۳۸) حَدَّثَنَا یَعْلَی بْنُ عُبَیْدٍ ، عَنْ أَبِی حَیَّانَ ، عَنْ یَزِیدَ بْنِ حَیَّانَ ، عَنْ زَیْدِ بْنِ أَرْقَمَ ، قَالَ : بَعَثَ إلَیَّ عُبَیْدُ اللہِ بْنُ زِیَادٍ فَأَتَیْتہ ، فَقَالَ : مَا أَحَادِیثُ تُحَدِّثُ بِہَا بَلَغَتْنَا وَتَرْوِیہَا عَنْ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لاَ نَسْمَعُہَا فِی کِتَابٍ لَہُ وَتُحَدِّثُ أَنَّ لَہُ حَوْضًا ، فَقَالَ : قَدْ حَدَّثَنَا عَنْہُ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَوَعَدَنَاہُ۔ (احمد ۳۳۶۔ طبرانی ۵۰۲۱)
(٣٢٣٣٨) حضرت زید بن ارقم فرماتے ہیں کہ عبید اللہ بن زیاد نے مجھے پیغام بھیجا تو میں اس کے پاس گیا، اس نے کہا کہ یہ کیسی احادیث ہیں جن کو آپ بیان کرتے ہیں جو ہم تک پہنچی ہیں اور آپ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ان کی روایت کرتے ہیں، ہم نے ان کو کتاب اللہ میں نہیں پڑھا، اور آپ کہتے ہو کہ آپ کا کوئی حوض ہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں اس کا بیان بھی فرمایا ہے اور ہم سے اس کا وعدہ بھی فرمایا ہے۔

32338

(۳۲۳۳۹) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، حَدَّثَنَا زَکَرِیَّا ، عَنْ عَطِیَّۃَ ، عَنْ أَبِی سَعِیدٍ : أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : إنَّ لِی حَوْضًا طُولُہُ مَا بَیْنَ الْکَعْبَۃِ إلَی بَیْتِ الْمَقْدِسِ أَبْیَضَ مِثْلَ اللَّبَنِ ، آنِیَتُہُ مِثْلُ عَدَدِ نُجُومِ السَّمَائِ ، وَإِنِّی أَکْثَرُ الأَنْبِیَائِ تَبَعًا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ۔ (ابن ماجہ ۴۳۰۱۔ ابویعلی ۱۰۲۴)
(٣٢٣٣٩) حضرت ابوسعید فرماتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میرا ایک حوض ہے جس کی لمبائی کعبہ سے بیت المقدس کے درمیانی فاصلے جتنی ہے، وہ دودھ کی طرح سفید ہے ، اس کے برتن آسمان کے ستاروں کے برابر ہیں، اور میں قیامت کے دن تمام انبیاء سے زیادہ متبعین والا ہوں گا۔

32339

(۳۲۳۴۰) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ أَبِی حَصِینٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنْ عَاصِمٍ الْعَدَوِیِّ ، عَنْ کَعْبِ بْنِ عُجْرَۃَ ، قَالَ : خَرَجَ إلَیَّ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ جُلُوسٌ عَلَی وِسَادَۃٍ مِنْ أَدَمٍ ، فَقَالَ : إِنَّہُ سَیَکُونُ أُمَرَائُ ، فَمَنْ دَخَلَ عَلَیْہِمْ فَصَدَّقَہُمْ بِکَذِبِہِمْ ، وَأَعَانَہُمْ عَلَی ظُلْمِہِمْ ، فَلَیْسَ مِنِّی وَلَسْت مِنْہُ ، وَلَیْسَ یَرِدُ عَلَیَّ الْحَوْضَ ، وَمَنْ لَمْ یُصَدِّقْہُمْ بِکَذِبِہِمْ وَیُعِنْہُمْ عَلَی ظُلْمِہِمْ فَہُوَ مِنِّی وَأَنَا مِنْہُ وَہُوَ وَارِدٌ عَلَیَّ الْحَوْضَ۔ (ترمذی ۲۲۵۹۔ احمد ۲۴۳)
(٣٢٣٤٠) حضرت کعب بن عجرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے پاس آئے جبکہ ہم چمڑے کے تکیوں پر ٹیک لگائے بیٹھے تھے، آپ نے فرمایا کہ عنقریب امراء ہوں گے ، جو ان کے پاس گیا اور ان کے جھوٹ کی تصدیق کی، اور ان کی ظلم پر اعانت کی وہ مجھ سے نہیں اور میں اس سے نہیں، اور وہ حوض پر میرے پاس نہیں آئے گا، اور جس نے ان کے جھوٹ کی تصدیق نہ کی اور ان کے ظلم پر ان کی اعانت نہ کی وہ مجھ سے ہے اور میں اس سے ہوں، اور وہ حوض پر میرے پاس آئے گا۔

32340

(۳۲۳۴۱) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، حَدَّثَنَا زَکَرِیَّا حَدَّثَنَا عَطِیَّۃُ الْعَوْفِیُّ : أَنَّ أَبَا سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ حَدَّثَہُ ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : کُلُّ نَبِیٍّ قَدْ أُعْطِیَ عَطِیَّۃً فَتَنَجَّزَہَا وَإِنِّی أَخْتَبَأْت عَطِیَّتِی لِشَفَاعَۃِ أُمَّتِی۔ (احمد ۲۰۔ ابویعلی ۱۰۱۰)
(٣٢٣٤١) حضرت ابو سعید خدری فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ہر نبی کو ایک تحفہ دیا گیا اس نے اس کو جلدی وصول کرلیا، اور میں نے اس کو ذخیرہ کرلیا اپنی امت کی شفاعت کے لئے۔

32341

(۳۲۳۴۲) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِی صَالِحٍ ، عَنْ أَبِی سَعِیدٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : یُدْعَی نُوحٌ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ فَیُقَالُ لَہُ : ہَلْ بَلَّغْت ؟ فَیَقُولُ : نَعَمْ ، فَیُدْعَی قَوْمُہُ فَیُقَالُ : ہَلْ بَلَّغَکُمْ ؟ فَیَقُولُونَ : مَا أَتَانَا مِنْ نَذِیرٍ ، وَمَا أَتَانَا مِنْ أَحَدٍ ، قَالَ : فَیُقَالُ لِنُوحٍ : مَنْ یَشْہَدُ لَک ؟ فَیَقُولُ : مُحَمَّدٌ وَأُمَّتُہُ ، قَالَ : فَذَلِکَ قَوْلُہُ {وَکَذَلِکَ جَعَلْنَاکُمْ أُمَّۃً وَسَطًا} ، قَالَ : الْوَسَطُ الْعَدْلُ ، قَالَ : فَیُدْعَوْنَ فَیَشْہَدُونَ لَہُ بِالْبَلاَغِ ، قَالَ : ثُمَّ أَشْہَدُ عَلَیْکُمْ بَعْدُ۔ (بخاری ۳۳۳۹۔ ترمذی ۲۹۶۱)
(٣٢٣٤٢) حضرت ابو سعید فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ قیامت کے دن نوح (علیہ السلام) کو بلایا جائے گا اور ان سے کہا جائے گا کہ کیا انھوں نے تمہیں پیغام پہنچا دیا تھا ؟ وہ کہیں گے کہ ہمارے پاس کوئی ڈرانے والا نہیں آیا ، اور ہمارے پاس کوئی نہیں آیا، نوح (علیہ السلام) سے کہا جائے گا کہ تمہارے لیے کون گواہی دے گا ؟ وہ کہیں گے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان کی امت، فرمایا کہ یہ معنی ہے اللہ کے فرمان { وَکَذَلِکَ جَعَلْنَاکُمْ أُمَّۃً وَسَطًا } کا ” الوسط “ کا معنی ہے معتدل ، فرماتے ہیں کہ وہ ان کے لیے پیغام پہنچانے کی گواہی دیں گے، فرمایا کہ پھر میں اس کے بعد تمہارے لیے گواہی دوں گا۔

32342

(۳۲۳۴۳) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ حَفْصٍ ، عَنِ الْمَسْعُودِیِّ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ أَبِی وَائِلٍ ، قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللہِ : إنَّ اللَّہَ اتَّخَذَ إبْرَاہِیمَ خَلِیلاً ، وَإِنَّ صَاحِبَکُمْ خَلِیلُ اللہِ ، إِنَّ مُحَمَّدًا أَکْرَمُ الْخَلْقِ عَلَی اللہِ ، ثُمَّ قَرَأَ : {عَسَی أَنْ یَبْعَثَک رَبُّک مَقَامًا مَحْمُودًا}۔ (مسند ۳۳۳)
(٣٢٣٤٣) حضرت ابو وائل فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ نے فرمایا کہ بیشک اللہ نے ابراہیم (علیہ السلام) کو خلیل بنایا ہے، اور تمہارے ساتھی اللہ کے خلیل ہیں، بیشک کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے ہاں مخلوق میں سب سے زیادہ معزّز ہیں، پھر انھوں نے پڑھا { عَسَی أَنْ یَبْعَثَک رَبُّک مَقَامًا مَحْمُودًا }۔

32343

(۳۲۳۴۴) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو ، عَنْ أَبِی سَلَمَۃَ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : قَالَ اللَّہُ : {وَنُفِخَ فِی الصُّوَرِ فَصَعِقَ مَنْ فِی السَّمَاوَاتِ وَمَنْ فِی الأَرْضِ} إلَی قَوْلِہِ: {فَإِذَا ہُمْ قِیَامٌ یَنْظُرُونَ} فَأَکُونُ أَوَّلَ مَنْ رَفَعَ رَأْسَہُ ، فَإِذَا مُوسَی آخِذٌ بِقَائِمَۃٍ مِنْ قَوَائِمِ الْعَرْشِ ، فَلاَ أَدْرِی أَرَفَعَ رَأْسَہُ قَبْلِی ، أَوْ کَانَ مِمَّنِ اسْتَثْنَی اللَّہُ۔ (بخاری ۲۴۱۱۔ ابن ماجہ ۴۲۷۴)
(٣٢٣٤٤) حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ نے فرمایا { وَنُفِخَ فِی الصُّوَرِ فَصَعِقَ مَنْ فِی السَّمَاوَاتِ وَمَنْ فِی الأَرْضِ ۔۔۔ فَإِذَا ہُمْ قِیَامٌ یَنْظُرُونَ } کی تفسیر یہ ہے کہ میں سب سے پہلے اپنا سر اٹھاؤں گا کہ موسیٰ (علیہ السلام) عرش کے پایوں میں سے ایک پایہ پکڑے ہوں گے، مجھے علم نہیں کہ وہ اپنا سر پہلے اٹھائیں گے یا ان لوگوں سے ہوں گے جن کو اللہ مستثنیٰ فرمائیں گے۔

32344

(۳۲۳۴۵) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ ، عَنْ طَلْحَۃَ مَوْلَی قَرَظَۃَ ، عَنْ زَیْدِ بْنِ أَرْقَمَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَا أَنْتُمْ بِجُزْئٍ مِنْ مِئَۃِ أَلْفِ جُزْئٍ مِمَّنْ یَرِدُ عَلِیَّ الْحَوْضَ ، قُلْنَا لِزَیْدٍ: کَمْ کُنْتُمْ یَوْمَئِذٍ ؟ قَالَ : مَا بَیْنَ السِّتِّمِئَۃ إِلَی السَّبْعِمِئَۃ۔ (ابوداؤد ۴۷۱۳۔ احمد ۳۶۹)
(٣٢٣٤٥) حضرت زید بن ارقم فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جو لوگ میرے حوض پر آئیں گے تم ان کا لاکھواں حصّہ بھی نہیں ہو، راوی کہتے ہیں کہ ہم نے زید سے پوچھا کہ آپ اس وقت کتنے تھے فرمایا کہ چھ سو سے سات سو کے درمیان۔

32345

(۳۲۳۴۶) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَنْ زَائِدَۃَ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ زِرٍّ ، عَنْ حُذَیْفَۃَ ، قَالَ : الْحَوْضُ أَبْیَضُ مِنَ اللَّبَنِ ، وَأَحْلَی مِنَ الْعَسَلِ ، وَأَبْرَدُ مِنَ الثَّلْجِ ، وَأَطْیَبُ رِیحًا مِنَ الْمِسْک ، آنِیَتُہُ عَدَدَ نُجُومِ السَّمَائِ ، مَا بَیْنَ أَیْلَۃَ وَصَنْعَائَ ، مَنْ شَرِبَ مِنْہُ لَمْ یَظْمَأْ بَعْدَ ذَلِکَ أَبَدًا۔ (احمد ۳۹۰)
(٣٢٣٤٦) حضرت حذیفہ فرماتے ہیں کہ حوض دودھ سے زیادہ سفید، شہد سے زیادہ میٹھا، برف سے زیادہ ٹھنڈا اور مشک سے زیادہ خوشبودار ہے، اس کے برتن آسمان کے ستاروں کی تعداد میں ہیں، اور وہ ایلہ سے صنعاء تک کی مسافت جتنا ہے، جس نے اس سے پی لیا کبھی پیاسا نہ ہوگا۔

32346

(۳۲۳۴۷) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنِ ابْنِ أَبِی نَجِیحٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ : {وَإِنَّہُ لَذِکْرٌ لَک وَلِقَوْمِک} یُقَالُ : مِمَّنْ ہَذَا الرَّجُلُ ؟ فَیُقَالُ : مِنَ الْعَرَبِ ، فَیُقَالُ : مِنْ أَیِّ الْعَرَبِ ؟ فَیُقَالُ : مِنْ قُرَیْشٍ : {وَرَفَعْنَا لَک ذِکْرَک} لاَ أُذْکَرُ إلاَّ ذکرتَ : أَشْہَدُ أَنْ لاَ إلَہَ إلاَّ اللَّہُ ، وَأَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللہِ۔
(٣٢٣٤٧) مجاہد اللہ کے فرمان { وَإِنَّہُ لَذِکْرٌ لَک وَلِقَوْمِک } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ پوچھا جائے گا کہ یہ آدمی کن لوگوں میں سے ہے ؟ جواب دیا جائے گا کہ عرب میں سے ، پوچھا جائے گا کہ عرب کے کون سے قبیلے سے ؟ جواب دیا جائے گا قریش سے، { وَرَفَعْنَا لَک ذِکْرَک } کی تفسیر یہ ہے کہ جب بھی میرا ذکر ہوگا تمہارا بھی ذکر ہوگا، أَشْہَدُ أَنْ لاَ إلَہَ إلاَّ اللَّہُ ، وَأَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللہِ ۔

32347

(۳۲۳۴۸) حَدَّثَنَا شَرِیکُ بْنُ عَبْدِ اللہِ ، عَنِ ابْنِ شُبْرُمَۃَ ، عَنِ الْحَسَنِ : فِی قَوْلِہِ {أَلَمْ نَشْرَحْ لَک صَدْرَک}: بلی ، مُلِئَ حُکْمًا وَعِلْمًا {وَوَضَعْنَا عَنْک وِزْرَک الَّذِی أَنْقَضَ ظَہْرَک} ، قَالَ : مَا أَثْقَلَ الْحِمْلَ الظَّہْرَ {وَرَفَعْنَا لَک ذِکْرَک} بَلَی ، لاَ یُذْکَرُ إلاَّ ذُکِرْت مَعَہُ۔
(٣٢٣٤٨) ابن شبرمہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت حسن نے اللہ کے ارشاد { أَلَمْ نَشْرَحْ لَک صَدْرَک } کی تفسیر میں فرمایا ” کیوں نہیں ! بلکہ آپ حکمت اور علم سے بھرے ہوئے ہیں “ ، { وَوَضَعْنَا عَنْک وِزْرَک الَّذِی أَنْقَضَ ظَہْرَک } فرمایا کہ بوجھ نے پشت کو بوجھل نہیں کیا، { وَرَفَعْنَا لَک ذِکْرَک } کہ جب بھی اللہ کا ذکر ہوگا آپ کا ذکر بھی ساتھ ہوگا۔ “

32348

(۳۲۳۴۹) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ سُفْیَانَ بْنِ حسین ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جُبَیْرِ بْنِ مُطْعِمٍ ، عَنْ أَبِیہِ : أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : إنَّ لِی أَسْمَائً ، أَنَا مُحَمَّدٌ ، وَأَنَا أَحْمَدُ ، وَأَنَا الْمَاحِی یَمْحُو اللَّہُ بِی الْکُفْرَ، وَأَنَا الْحَاشِرُ یُحْشَرُ النَّاسُ عَلَی قَدَمَی، وَأَنَا الْعَاقِبُ۔ قَالَ لَہُ إنْسَانٌ: مَا الْعَاقِبُ؟ قَالَ: لاَ نَبِیَّ بَعْدَہُ۔ (بخاری ۳۵۳۳۔ مسلم ۱۸۲۸)
(٣٢٣٤٩) حضرت جبیر بن مطعم فرماتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میرے بہت سے نام ہیں، میں محمد ہوں، میں احمد ہوں، اور میں ماحی ہوں، میرے ذریعے اللہ کفر کو مٹائیں گے، اور میں حاشر ہوں ، لوگوں کو میرے قدموں سے اٹھایا جائے گا، اور میں عاقب ہوں ، ایک شخص نے عرض کیا کہ عاقب کا کیا معنی ہے ؟ فرمایا کہ جس کے بعد کوئی نبی نہ ہو۔

32349

(۳۲۳۵۰) حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ بْنُ مُوسَی ، عَنْ إسْرَائِیلَ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ زِرٍّ ، عَنْ حُذَیْفَۃَ ، قَالَ : مَرَّ بِی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : أَنَا مُحَمَّدٌ ، وَأَحْمَدُ ، وَالْمُقَفِّی ، وَالْحَاشِرُ۔ (ترمذی ۳۶۸۔ ابن سعد ۱۰۴)
(٣٢٣٥٠) حضرت حذیفہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرے پاس سے گزرے اور فرمایا کہ میں محمد ہوں، احمد ہوں، مُقفِّی ہوں اور حاشر ہوں۔

32350

(۳۲۳۵۱) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، عَنِ الْمَسْعُودِیِّ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ ، عَنْ أَبِی عُبَیْدَۃَ ، عَنْ أَبِی مُوسَی ، قَالَ: سَمَّی لَنَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَفْسہ أَسْمَائً ، فَمِنْہَا مَا حَفِظْنَا ، قَالَ : أَنَا مُحَمَّدٌ ، وَأَنَا أَحْمَدُ ، وَالْمُقَفِّی ، وَالْحَاشِرُ ، وَنَبِیُّ التَّوْبَۃِ ، وَنَبِیُّ الْمَلْحَمَۃِ۔ (احمد ۴۰۴۔ ابن سعد ۱۰۵)
(٣٢٣٥١) حضرت ابو موسیٰ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں اپنے نام بیان فرمائے ان میں سے بعض ہم نے یاد کرلیے، فرمایا میں محمد ہوں، احمد ہوں، مُقفِّی ہوں، حاشر ہوں، نبی التوبہ ہوں اور نبی الملحمہ ہوں۔

32351

(۳۲۳۵۲) حَدَّثَنَا الْعَلاَئُ بْنُ عُصَیْمٍ ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ زَیْدٍ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنْ أَبِی قِلاَبَۃَ ، عَنْ أَبِی أَسْمَائَ ، عَنْ ثَوْبَانَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إنَّ اللَّہَ زَوَی لِی الأَرْضَ فَرَأَیْتُ مَشَارِقَہَا وَمَغَارِبَہَا ، وَإِنَّ أُمَّتِی سَیَبْلُغُ مُلْکُہَا مَا زُوِیَ لِی مِنْہَا ، وَأُعْطِیت الْکَنْزَیْنِ الأَحْمَرَ وَالأَبْیَضَ ، قَالَ حَمَّادٌ : وَسَمِعْتہ مَرَّۃً وَاحِدَۃً یَقُولُ : فَأَوَّلْتہَا مُلْکَ فَارِسٍ وَالرُّومِ وَإِنِّی سَأَلْت رَبِّی لأُمَّتِی أَنْ لاَ یُہْلِکَہَا بِسَنَۃٍ بِعَامَّۃٍ ، وَلاَ یُسَلِّطَ عَلَیْہِمْ عَدُوًّا مِنْ سِوَی أَنْفُسِہِمْ ، یَسْتَبِیحُ بَیْضَتَہُمْ ، وَإِنَّ رَبِّی قَالَ لِی : یَا مُحَمَّدُ ، إنِّی إذَا قَضَیْت قَضَائً فَإِنَّہُ لاَ یُرَدُ ، وَإِنِّی أُعْطِیک لأُمَّتِکَ أَنْ لاَ أُہْلِکَہَا بِسَنَۃٍ بعَامَّۃٍ ، وَلاَ أُسَلِّطَ عَلَیْہِمْ عَدُوًّا مِنْ سِوَی أَنْفُسِہِمْ یَسْتَبِیحُ بَیْضَتَہُمْ ، وَلَوْ أَجْتَمَعَ عَلَیْہِمْ مَنْ بَیْنِ أَقْطَارِہَا ، أَوَ قَالَ : مِنْ أَقْطَارِہَا۔ (مسلم ۲۲۱۵۔ ابوداؤد ۴۲۴۹)ق
(٣٢٣٥٢) حضرت ثوبان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے میرے لیے زمین کو لپیٹ دیا اور میں نے اس کے مشرق و مغرب دیکھے، اور میری امت کی حکومت وہاں تک جائے گی جہاں تک میرے لیے لپیٹا گیا ، اور مجھے دو خزانے دیے گئے، سرخ وسفید ، حماد فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے راوی کو یہ کہتے سنا کہ ” میں نے اس کی تعبیر ملک فارس اور روم سے لی، اور میں نے اپنے رب سے سوال کیا کہ میری امت کو عام قحط سے ہلاک نہ فرمانا، اور ان پر کوئی ایسا دشمن مسلط نہ فرمانا جوا ان کو جڑ سے ختم کر دے ، اور میرے رب نے مجھ سے فرمایا کہ اے محمد ! جب میں کوئی فیصلہ کردیتا ہوں تو وہ رد نہیں کیا جاسکتا، اور میں نے آپ کی یہ دعا قبول کرلی کہ ان کو عام قحط سے ہلاک نہیں کروں گا، اور ان پر غیروں میں سے کوئی دشمن مسلّط نہیں کروں گا جو ان کو جڑ سے ختم کر دے ، اگرچہ ان پر پوری طاقت جمع کر کے حملہ آور ہو۔

32352

(۳۲۳۵۳) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا عُثْمَان بْنُ حَکِیمٍ ، عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ أَبِیہِ : أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَقْبَلَ ذَاتَ یَوْمٍ مِنَ الْعَالِیَۃِ حَتَّی إذَا مَرَّ بِمَسْجِدِ بَنِی مُعَاوِیَۃَ قَالَ : دَخَلَ فَرَکَعَ فِیہِ رَکْعَتَیْنِ وَصَلَّیْنَا مَعَہُ ، وَدَعَا رَبَّہُ طَوِیلاً ، ثُمَّ انْصَرَفَ إلَیْنَا ، فَقَالَ : سَأَلْتُ رَبِّی ثَلاَثًا ، فَأَعْطَانِی اثْنَتَیْنِ وَمَنَعَنِی وَاحِدَۃً ، سَأَلْت رَبِّی أَنْ لاَ یُہْلِکَ أُمَّتِی بِالسَّنَۃِ فَأَعْطَانِیہَا ، وَسَأَلْتُہُ أَنْ لاَ یُہْلِکَ أُمَّتِی بِالْغَرَقِ فَأَعْطَانِیہَا ، وَسَأَلْتُہُ أَنْ لاَ یَجْعَلَ بَأْسَہُمْ بَیْنَہُمْ فَرُدَّت عَلَیَّ۔
(٣٢٣٥٣) حضرت سعد فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک دن عوالی مدینہ سے تشریف لائے یہاں تک کہ جب مسجد بنی معاویہ سے گزرے تو اس میں داخل ہوئے اور دو رکعتیں پڑھیں اور ہم نے بھی آپ کے ساتھ پڑھیں اور آپ نے اللہ سے طویل دعا مانگی، پھر ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا کہ میں نے اپنے رب سے تین دعائیں کی، دو اللہ نے قبول فرما لیں اور ایک کے قبول کرنے سے انکار فرما دیا، میں نے اپنے رب سے سوال کیا کہ میری امت کو قحط سے ہلاک نہ فرمائے ، اللہ نے اس کو قبول فرما لیا، اور میں نے اس سے سوال کیا کہ میری امت کو ڈوبنے کے عذاب سے ہلاک نہ فرمائے، اس کو بھی قبول فرما لیا، اور میں نے اس سے سوال کیا کہ ان کو آپس میں لڑنے سے بچا لے، اس دعاء کو رد فرما دیا۔

32353

(۳۲۳۵۴) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ ، عَنْ حَکِیمِ بْنِ حَکِیمٍ ، عَنْ علِیِّ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ حُذَیْفَۃَ بْنِ الْیَمَانِ ، قَالَ : خَرَجَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إلَی حَرَّۃِ بَنِی مُعَاوِیَۃَ ، وَاتَّبَعْتُ أَثَرَہُ حَتَّی ظَہَرَ عَلَیْہَا ، فَصَلَّی الضُّحَی ثَمَانِیَ رَکَعَاتٍ طَوَّلَ فِیہِنَّ ، ثُمَّ انْصَرَفَ فَقَالَ : یَا حُذَیْفَۃُ ، طَوَّلْت عَلَیْک ؟ قُلْتُ : اللَّہُ وَرَسُولُہُ أَعْلَمُ ، قَالَ : إنِّی سَأَلْت اللَّہَ ثَلاَثًا ، فَأَعْطَانِی اثْنَتَیْنِ وَمَنَعَنِی وَاحِدَۃً ، سَأَلْتُہُ أَنْ لاَ یُظْہِرَ عَلَی أُمَّتِی غَیْرَہَا فَأَعْطَانِیہَا ، وَسَأَلْتُہُ أَنْ لاَ یُہْلِکَہَا بِالسِّنِینَ فَأَعْطَانِیہَا ، وَسَأَلْتُہُ أَنْ لاَ یَجْعَلَ بَأْسَہُمْ بَیْنَہُمْ ، فَمَنَعَنِی۔
(٣٢٣٥٤) حضرت حذیفہ بن یمان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بنو معاویہ کے محلہ کی طرف تشریف لے گئے اور میں آپ کے پیچھے چلا، یہاں تک کہ آپ وہاں پہنچ گئے تو آپ نے چاشت کی آٹھ رکعات پڑھیں اور طویل پڑھیں، پھر مڑے اور فرمایا اے حذیفہ ! میں نے تم پر طوالت کردی ؟ میں نے کہا اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں، فرمایا کہ میں نے اللہ سے تین چیزوں کا سوال کیا دو اس نے عطاء فرما دیں اور ایک سے منع فرما دیا، میں نے سوال کیا کہ میری امت پر غیر کو غالب نہ کرنا ، اس کو قبول فرما لیا، اور میں نے سوال کیا کہ اس کو قحط سے ہلاک نہ فرمانا، اس کو بھی قبول فرما لیا، اور میں نے سوال کیا کہ ان کو آپس کی جنگ میں مبتلا نہ فرمانا، اس کو منع فرما دیا۔

32354

(۳۲۳۵۵) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ مَالِکِ بْنِ مِغْوَلٍ ، عَنِ الزُّبَیْرِ بْنِ عَدِیٍّ ، عَنْ طَلْحَۃَ ، عَنْ مُرَّۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : لَمَّا أُسْرِیَ بِرَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اُنْتُہِیَ بِہِ إلَی سِدْرَۃِ الْمُنْتَہَی وَہِیَ فِی السَّمَائِ السَّادِسَۃِ، وَإِلَیْہَا یَنْتَہِی مَا یُخْرَجُ بِہِ مِنَ الأَرْضِ ، فَیُقْبَضُ مِنْہَا ، وَإِلَیْہَا یَنْتَہِی مَا یُہْبَطُ بِہِ مِنْ فَوْقِہَا ، فَیُقْبَضُ مِنْہَا {إذْ یَغْشَی السِّدْرَۃَ مَا یَغْشَی} ، قَالَ : فَرَاشٌ بِہِ مِنْ ذَہَبٍ ، قَالَ : فَأُعْطِیَ ثَلاَثًا : أُعْطِیَ الصَّلَوَاتِ الْخَمْسَ ، وَأُعْطِیَ خَوَاتِیمَ سُورَۃِ الْبَقَرَۃِ ، وَغُفِرَ لِمَنْ لاَ یُشْرِکُ بِاللہِ مِنْ أُمَّتِہِ الْمُقْحِمَاتُ۔ (مسلم ۲۷۹۔ احمد ۳۸۷)
(٣٢٣٥٥) مُرّہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت عبداللہ نے فرمایا کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو معراج کروائی گئی تو آپ کو سدرۃ المنتہیٰ تک پہنچایا گیا، جو چھٹے آسمان میں ہے، اور اسی تک وہ اعمال پہنچتے ہیں جو زمین سے لائے جاتے ہیں، اور وہاں سے ان سے لے لیے جاتے ہیں، اور اسی تک وہ چیزیں پہنچتی ہیں جو اوپر سے اتاری جاتی ہیں اور اس جگہ لے لی جاتی ہیں، {إذْ یَغْشَی السِّدْرَۃَ مَا یَغْشَی } کا معنی ہے کہ سونے کی تتلیاں اس کو ڈھانپ لیتی ہیں، راوی کہتے ہیں کہ وہاں آپ کو تین چیزیں عطا کی گئیں، پانچ نمازیں، سورة بقرہ کی آخری آیات، اور آپ کی امت کے شرک نہ کرنے والوں کے گناہ معاف کردیے گئے۔

32355

(۳۲۳۵۶) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ زِرٍّ ، عَنْ حُذَیْفَۃَ : أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أُتِیَ بِالْبُرَاقِ وَہُوَ دَابَّۃٌ أَبْیَضُ طَوِیلٌ ، یَضَعُ حَافِرَہُ عِنْدَ مُنْتَہَی طَرْفِہِ ، قَالَ : فَلَمْ یُزَایِلْ ظَہْرَہُ ہُوَ وَجِبْرِیلُ حَتَّی أَتَیَا بَیْتَ الْمَقْدِسِ ، وَفُتِحَتْ لَہُمَا أَبْوَابُ السَّمَائِ ، وَرَأَیَ الْجَنَّۃَ وَالنَّارَ ، قَالَ حذیفۃ : لَمْ یُصَلِّ فِی بَیْتِ الْمَقْدِسِ۔ (ترمذی ۳۱۴۷۔ احمد ۳۹۴)
(٣٢٣٥٦) حضرت حذیفہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس براق لایا گیا جو سفید لمبا جانور ہے، اور وہ اپنی نظر کی انتہاء پر ایک قدم رکھتا ہے، آپ اس کی پیٹھ پر جبرائیل کے ساتھ بیٹھے رہے یہاں تک کہ بیت المقدس پہنچ گئے، اور ان کے لیے آسمان کے دروازے کھول دیے گئے اور آپ نے جنت اور دوزخ کو دیکھا، حضرت حذیفہ فرماتے ہیں کہ بیت المقدس میں آپ نے نماز نہیں پڑھی۔

32356

(۳۲۳۵۷) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَنِ الشَّیْبَانِیِّ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ شَدَّادٍ ، قَالَ : لَمَّا أُسْرِیَ بِالنَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أُتِیَ بِدَابَّۃٍ دُونَ الْبَغْلِ وَفَوْقَ الْحِمَارِ ، یَضَعُ حَافِرَہُ عِنْدَ مُنْتَہَی طَرْفِہِ ، یُقَالُ لَہُ : الْبُرَاقُ ، وَمَرَّ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِعِیرٍ لِلْمُشْرِکِینَ فَنَفَرَتْ ، فَقَالُوا : یَا ہَؤُلاَئِ ، مَا ہَذَا ؟ قَالُوا : مَا نَرَی شَیْئًا ، مَا ہَذِہِ إلاَّ رِیحٌ ، حَتَّی أَتَی بَیْتَ الْمَقْدِسِ ، فَأُتِیَ بِإِنَائَیْنِ فِی وَاحِدٍ خَمْرٌ وَفِی الآخَرِ لَبَنٌ ، فَأَخَذَ اللَّبَنَ ، فَقَالَ لَہُ جِبْرِیلُ : ہُدِیت وَہُدِیَتْ أُمَّتُک۔ ثُمَّ سَارَ إلَی مِصْرَ۔
(٣٢٣٥٧) حضرت عبداللہ بن شداد فرماتے ہیں کہ جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو معراج کروائی گئی تو آپ کے پاس ایک جانور لایا گیا جو خچر سے چھوٹا اور گدھے سے بڑا تھا، وہ اپنا پاؤں وہاں رکھتا تھا جہاں اس کی نظر کی انتہاء ہوتی اس کا نام براق تھا، اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مشرکین کے ایک قافلے کے پاس سے گزرے، وہ اونٹ بدک گئے، وہ کہنے لگے یہ کیا ہے ؟ دوسروں نے جواب دیا کہ ہم کو تو کچھ نظر نہیں آرہا، یہ تو ایک ہوا ہی تھی، یہاں تک کہ آپ بیت المقدس پہنچ گئے، پھر آپ کے پاس دو برتن لائے گئے ، ایک میں شراب اور دوسرے میں دودھ تھا، آپ نے دودھ کو لیا، جبرائیل نے کہا کہ آپ کو ہدایت دی گئی اور آپ کی امت کو بھی ہدایت دی گئی، پھر آپ مصر کی طرف چلے۔

32357

(۳۲۳۵۸) حَدَّثَنَا ہَوْذَۃُ ، قَالَ : حدَّثَنَا عَوْفٌ ، عَنْ زُرَارَۃَ بْنِ أَوْفَی ، قَالَ : قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ ، قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لَمَّا کَانَ لَیْلَۃُ أُسْرِیَ بِی ، وَأَصْبَحْتُ بِمَکَّۃَ ، فَظِعْتُ بِأَمْرِی ، وَعَرَفْتُ أَنَّ النَّاسَ مُکَذِّبِی ، فَقَعَدَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مُعْتَزِلاً حَزِینًا ، فَمَرَّ بِہِ أَبُو جَہْلٍ فَجَائَ حَتَّی جَلَسَ إلَیْہِ ، فَقَالَ لَہُ کَالْمُسْتَہْزِئِ : ہَلْ کَانَ مِنْ شَیْئٍ ؟ قَالَ : نَعَمْ ، قَالَ : وَمَا ہُوَ ؟ قَالَ : إنِّی أُسْرِیَ بِی اللَّیْلَۃَ ، قَالَ : إلَی أَیْنَ ؟ قَالَ : إلَی بَیْتِ الْمَقْدِسِ ، قَالَ : ثُمَّ أَصْبَحْت بَیْنَ أظْہُرِنَا ؟ قَالَ : نَعَمْ ، فَلَمْ یُرِہِ أنَّہُ یُکَذِّبُہُ مَخَافَۃَ أَنْ یَجْحَدَ الْحَدِیثَ إنْ دَعَا قَوْمَہُ إلَیْہِ، قَالَ: أَتُحَدِّثُ قَوْمَک مَا حَدَّثْتنِی إنْ دَعَوْتُہُمْ إلَیْک؟ قَالَ: نَعَمْ ، قَالَ: ہَیَّا یَامَعْشَرَ بَنِی کَعْبِ بْنِ لُؤَیٍّ ہَلُمَّ ، قَالَ : فَتَنَفَّضَتِ الْمَجَالِسُ ، فَجَاؤُوا حَتَّی جَلَسُوا إلَیْہِمَا ، فَقَالَ لَہُ : حَدِّثْ قَوْمَک مَا حَدَّثْتنِی ، قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إنِّی أُسْرِیَ بِی اللَّیْلَۃَ ، قَالُوا : إلَی أَیْنَ ؟ قَالَ : إلَی بَیْتِ الْمَقْدِسِ ، قَالُوا : ثُمَّ أَصْبَحْت بَیْنَ ظَہْرَانِینَا ؟ قَالَ : نَعَمْ ، قَالَ : فَبَیْنَ مُصَفِّقٍ وَبَیْنَ وَاضِعٍ یَدَہُ عَلَی رَأْسِہِ مُتَعَجِّبًا لِلْکَذِبِ - زَعَمَ -! وَقَالُوا لِی : أَتَسْتَطِیعُ أَنْ تَنْعَتَ لَنَا الْمَسْجِدَ ؟ قَالَ : وَفِی الْقَوْمِ مَنْ قَدْ سَافَرَ إلَی ذَلِکَ الْبَلَدِ وَرَأَی الْمَسْجِدَ ، قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : فَذَہَبْت أَنْعَتُ لَہُمْ ، فَمَا زِلْت أَنْعَتُ لَہُمْ وَأَنْعَتُ حَتَّی الْتَبَسَ عَلَیَّ بَعْضُ النَّعْتِ ، فَجِیئَ بِالْمَسْجِدِ وَأَنَا أَنْظُرُ إلَیْہِ حَتَّی وُضِعَ دُونَ دَارِ عَقِیْلٍ - أَوْ دَارِ عِقَاْل - ، فَنَعَتُّہُ وَأَنَا أَنْظُرُ إلَیْہِ ، فَقَالَ : الْقَوْمُ : أَمَّا النَّعْتُ فَوَاللہِ قَدْ أَصَابَ۔ (نسائی ۱۱۲۸۵۔ احمد ۳۰۹)
(٣٢٣٥٨) حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جب معراج کی رات ہوئی اور میں نے مکہ میں صبح کی تو میں اپنے معاملے میں حیران ہوگیا اور مجھے لگا کہ لوگ مجھے جھٹلائیں گے، چنانچہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اکیلے غمزدہ بیٹھ گئے، چنانچہ ابو جہل آپ کے پاس سے گزرا تو آپ کے پاس آکر بیٹھ گیا، اور آپ سے مذاق کے انداز میں کہا کہ کیا کچھ ہوا ہے ؟ آپ نے فرمایا جی ہاں ! اس نے کہا کیا ہوا ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ مجھے آج رات معراج کروائی گئی، اس نے کہا کہاں کی ؟ فرمایا بیت المقدس کی، اس نے کہا کہ پھر صبح آپ ہمارے پاس پہنچ گئے ؟ فرمایا جی ہاں ! اس نے تکذیب ظاہر نہ کی اس خوف سے کہ اگر وہ اپنی قوم کو آپ کے پاس بلائے گا تو کہیں آپ انکار نہ کردیں، چنانچہ اس نے کہا اے بنو کعب بن لؤیّ کی جماعت ! آؤ ، چنانچہ مجلس چھٹ گئی اور وہ ان دونوں کے پاس آ کر بیٹھ گئے، اس نے آپ سے کہا کہ اپنی قوم کو بھی وہ بات بیان کیجئے جو آپ نے مجھے بیان کی تھی، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ آج رات مجھے معراج کروائی گئی، انھوں نے کہا کہاں کی ؟ آپ نے فرمایا بیت المقدس کی ، وہ کہنے لگے پھر صبح کے وقت آپ ہمارے پاس پہنچ گئے ؟ آپ نے فرمایا جی ہاں ! کہتے ہیں کہ بعض تالیاں پیٹنے لگے اور بعض نے تعجب سے اپنے سر پر ہاتھ رکھا، اور مجھے کہنے لگے کہ کیا آپ ہمیں مسجد کی صفت بیان کرسکتے ہیں ؟ اور لوگوں میں سے بعض نے اس شہر کا سفر کیا ہوا تھا اور مسجد کو دیکھا ہوا تھا، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میں ان کو صفت بیان کرنے لگا، یہاں تک کہ بعض صفات میں مجھے شک ہوگیا، چنانچہ مسجد کو میرے سامنے لایا گیا جبکہ میں اس کو دیکھ رہا تھا، اور دار عقیل یا دار عقال کے سامنے رکھ دی گئی، میں اس کو دیکھ کر اس کی صفت بیان کرنے لگا، لوگ کہنے لگے کہ صفت تو بخدا بالکل درست ہے۔

32358

(۳۲۳۵۹) حَدَّثَنَا مُعَاوِیَۃُ بْنُ ہِشَامٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا عَمَّارُ بْنُ رُزَیْقٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عِیسَی ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : بَیْنَمَا جِبْرِیلُ جَالِسًا عِنْدَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إذْ سَمِعَ نَقِیضًا مِنْ فَوْقِہِ فَرَفَعَ رَأْسَہُ ، فَقَالَ : لَقَدْ فُتِحَ بَابٌ مِنَ السَّمَائِ مَا فُتِحَ قَطُّ ، قَالَ : فَأَتَاہُ مَلَکٌ ، فَقَالَ : أَبْشِرْ بِنُورَیْنِ أُوتِیتہمَا لَمْ یُعْطَہُمَا مَنْ کَانَ قَبْلَک : فَاتِحَۃُ الْکِتَابِ وَخَوَاتِیمُ سُورَۃِ الْبَقَرَۃِ ، لَمْ تَقْرَأْ مِنْہَا حَرْفًا إلاَّ أُعْطِیتہ۔ (مسلم ۵۵۴۔ حاکم ۵۵۸)
(٣٢٣٥٩) حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ اس دوران کہ جبرائیل رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس بیٹھے تھے کہ آپ نے اپنے اوپر ٹوٹنے کی آواز سنی، آپ نے سر اٹھایا تو فرمایا کہ آسمان کا ایک دروازہ کھولا گیا ہے جو آج سے پہلے کبھی نہیں کھلا تھا، چنانچہ آپ کے پاس ایک فرشتہ آیا اور اس نے کہا کہ آپ کو دو نوروں کی بشارت ہو جو آپ کو عطا کیے گئے ہیں اور آپ سے پہلے کسی کو عطا نہیں کئے گئے، سورة الفاتحۃ اور سورة البقرہ کی آخری آیات، آپ ان میں سے جس حرف کو پڑھیں گے آپ کو عطا کردیا جائے گا۔

32359

(۳۲۳۶۰) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِی ہِنْدٍ ، قَالَ : حدَّثَنِی عَبْدُ اللہِ بْنُ قَیْسٍ ، قَالَ : کُنْتُ عِنْدَ ابْنِ أَبِی بُرْدَۃَ ذَاتَ لَیْلَۃٍ ، فَدَخَلَ عَلَیْنَا الْحَارِثُ بْنُ أُقَیْشٍ فَحَدَّثَ الْحَارِثُ أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : إنَّ مِنْ أُمَّتِی مَنْ یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ بِشَفَاعَتِہِ أَکْثَرُ مِنْ مُضَرَ۔
(٣٢٣٦٠) عبداللہ بن قیس کہتے ہیں کہ میں ایک رات حضرت ابو بردہ کے پاس تھا کہ حارث بن أقیش ہمارے پاس آئے، اور انھوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میری امت میں بعض لوگ ایسے ہوں گے جن کی شفاعت سے قبیلہ مضر کے لوگوں سے بھی زیادہ لوگ جنت میں داخل ہوں گے۔

32360

(۳۲۳۶۱) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا زَکَرِیَّا ، قَالَ : حَدَّثَنَا عَطِیَّۃُ ، عَنْ أَبِی سَعِیدٍ : أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : إنَّ مِنْ أُمَّتِی مَنْ یَشْفَعُ لِلرَّجُلِ وَلأَہْلِ بَیْتِہِ فَیَدْخُلُونَ الْجَنَّۃَ بِشَفَاعَتِہِ۔ (ترمذی ۲۴۴۰۔ احمد ۶۳)
(٣٢٣٦١) حضرت ابو سعید فرماتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میری امت میں بعض لوگ ایسے ہوں گے جو کسی آدمی اور اس کے اہل بیت کے لیے شفاعت کریں گے اور وہ اس کی شفاعت سے جنت میں داخل ہوجائیں گے۔

32361

(۳۲۳۶۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَۃَ ، عَنْ ثَابِتٍ ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لَقَدْ أُوذِیت فِی اللہِ وَمَا یُؤْذَی أَحَد ، وَلَقَدْ أُخِفْت فِی اللہِ وَمَا یُخَافُ أَحَد ، وَلَقَدْ أَتَتْ عَلَیَّ ثَالِثَۃٌ مَا بَیْنَ یَوْمٍ وَلَیْلَۃٍ مَا لِی وَلِبِلاَلٍ طَعَامٌ یَأْکُلُہُ ذُو کَبِدٍ إلاَّ مَا وَارَاہُ إبِطُ بِلاَلٍ۔ (ابن ماجہ ۱۵۱۔ احمد ۱۲۰)
(٣٢٣٦٢) حضرت انس فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ مجھے اللہ کے راستے میں اتنی اذیتیں دی گئیں جتنی کسی کو نہیں دی گئیں، اور مجھے اللہ کے بارے میں اتنا ڈرایا گیا جتنا کسی اور کو نہیں ڈرایا گیا، اور ہم پر تیسری رات ایسی آئی کہ میرے اور بلال کے پاس کوئی ایسی چیز نہیں تھی جس کو کوئی کلیجہ رکھنے والا شخص کھائے، سوائے اس کے جس کو بلال کی بغل چھپالے۔

32362

(۳۲۳۶۳) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ أَبِی بُکَیْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنِی إبْرَاہِیمُ بْنُ طَہْمَانَ ، قَالَ : حَدَّثَنِی سِمَاکُ بْنُ حَرْبٍ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إنِّی لاَعْرِفُ حَجَرًا بِمَکَّۃَ یُسَلِّمُ عَلَیَّ قَبْلَ أَنْ أُبْعَثَ ، إنِّی لأعْرِفُہُ الآنَ۔ (مسلم ۱۷۸۲۔ ترمذی ۳۶۲۴)
(٣٢٣٦٣) حضرت جابر بن سمرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میں مکہ میں ایسے پتھر کو پہچانتا ہوں جو مجھے میری بعثت سے پہلے سلام کرتا تھا، میں اس کو اب بھی پہچانتا ہوں۔

32363

(۳۲۳۶۴) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا مُوسَی بْنُ مُسْلِمٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَابِطٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إنَّ اللَّہَ تَجَلَّی لِی فِی أَحْسَنِ صُورَۃٍ فَسَأَلَنِی : فِیمَ اخْتَصَمَ الْمَلاَ الأَعْلَی؟ قَالَ : فَقُلْتُ : رَبِّی لاَ عِلْمَ لِی بِہِ ، قَالَ : فَوَضَعَ یَدَہُ بَیْنَ کَتِفَیَّ حَتَّی وَجَدْتُ بَرْدَہَا بَیْنَ ثَدْیَیَّ ، أَوْ وَضَعَہَا بَیْنَ ثَدْیَیَّ حَتَّی وَجَدْتُ بَرْدَہَا بَیْنَ کَتِفَیَّ ، فَمَا سَأَلَنِی عَنْ شَیْئٍ إلاَّ عَلِمْتہ۔
(٣٢٣٦٤) حضرت عبد الرحمن بن سابط فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ بیشک اللہ تعالیٰ نے میرے سامنے بہترین صورت میں تجلی فرمائی اور مجھ سے سوال کیا کہ ملأ اعلیٰ کس چیز کے بارے میں جھگڑتے ہیں ، میں نے عرض کیا اے میرے رب ! مجھے اس کا علم نہیں، کہتے ہیں کہ پھر اللہ نے اپنا ہاتھ میرے دونوں کندھوں کے درمیان رکھا یہاں تک کہ میں نے اس کی ٹھنڈک اپنے سینے میں پائی، یا فرمایا کہ اللہ نے اپنا ہاتھ میرے سینے پر رکھا یہاں تک کہ میں نے اس کی ٹھنڈک اپنے کندھوں کے درمیان پائی، اور مجھ سے جس چیز کے بارے میں بھی سوال کیا اس کو میں نے جان لیا۔

32364

(۳۲۳۶۵) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا سَعْدُ بْنُ سَعِیدٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِی أَنَسُ بْنُ مَالِکٍ ، قَالَ : بَعَثَنِی أَبُو طَلْحَۃَ إلَی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لأَدْعُوَہُ ، قَالَ : فَأَقْبَلْت وَرَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَعَ النَّاسِ ، قَالَ : فَنَظَرَ إلَیَّ فَاسْتَحْیَیْت فَقُلْتُ : أَجِبْ أَبَا طَلْحَۃَ ، فَقَالَ لِلنَّاسِ : قُومُوا ، فَقَالَ أَبُو طَلْحَۃَ : یَا رَسُولَ اللہِ ، إنَّمَا صَنَعْت شَیْئًا لَک ، قَالَ : فَمَسَّہَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَدَعَا فِیہَا بِالْبَرَکَۃِ ، وَقَالَ : أَدْخِلْ نَفَرًا مِنْ أَصْحَابِی عَشْرَۃً ، فَأَکَلُوا حَتَّی شَبِعُوا ، فَمَا زَالَ یُدْخِلُ عَشْرَۃٌ وَیُخْرِجُ عَشْرَۃٌ ، حَتَّی لَمْ یَبْقَ مِنْہُمْ أَحَدٌ إلاَّ دَخَلَ فَأَکَلَ حَتَّی شَبِعَ ، ثُمَّ ہَیَّأَہَا فَإِذَا ہِیَ مِثْلُہَا حِینَ أَکَلُوا مِنْہَا۔ (مسلم ۱۶۱۲۔ احمد ۲۱۸)
(٣٢٣٦٥) حضرت انس بن مالک فرماتے ہیں کہ حضرت ابو طلحہ نے مجھے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف آپ کو بلانے کے لیے بھیجا ، چنانچہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا جبکہ آپ لوگوں کے ساتھ تھے، آپ نے مجھے دیکھا تو میں شرمایا، اور میں نے عرض کیا کہ ابو طلحہ کے پاس چلیے، آپ نے لوگوں سے فرمایا کہ اٹھو، ابو طلحہ نے عرض کیا یا رسول اللہ 5! میں نے تو صرف آپ کے لیے چیز تیار کی تھی، کہتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو ہاتھ لگایا اور اس میں برکت کی دعا فرمائی، اور فرمایا کہ میرے دس صحابہ کو بلاؤ، انھوں نے کھایا یہاں تک کہ سیر ہوگئے، چنانچہ آپ مسلسل دس کو بلاتے اور دس کو فارغ کرتے رہے یہاں تک کہ کوئی نہ بچا جو کھانا کھا کر سیر نہ ہوگیا ہو، پھر آپ نے اس کو برابر کیا تو وہ اتنا ہی تھا جتنا کھانے سے پہلے تھا۔

32365

(۳۲۳۶۶) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا سُلَیْمَانُ التَّیْمِیُّ ، عَنْ أَبِی الْعَلاَئِ بْنِ الشِّخِّیرِ ، عَنْ سَمُرَۃََ بْنِ جُنْدُبٍ : أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أُتِیَ بِقَصْعَۃٍ مِنْ ثَرِیدٍ فَوُضِعَتْ بَیْنَ یَدَیَ الْقَوْمِ فَتَعَاقَبُوہَا إلَی الظُّہْرِ مِنْ غَدْوَۃٍ ، یَقُومُ قَوْمٌ وَیَجْلِسُ آخَرُونَ ، فَقَالَ رَجُلٌ : یَا سَمُرَۃُ أَکَانَتْ تُمَدُّ ؟ قَالَ سَمُرَۃُ : مِنْ أَیِّ شَیْئٍ کُنَّا نَعْجَبُ ؟ مَا کَانَتْ تُمَدُّ إلاَّ مِنْ ہَاہُنَا وَأَشَارَ بِیَدِہِ إلَی السَّمَائِ۔ (ترمذی ۳۶۲۵۔ احمد ۱۸)
(٣٢٣٦٦) حضرت سمرہ بن جندب فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ثرید کا ایک پیالہ لایا گیا اور لوگوں کے سامنے رکھ دیا گیا، وہ ایک دوسرے کے بعد صبح سے دوپہر تک آ کر کھاتے رہے ، ایک جماعت اٹھتی اور دوسری بیٹھ جاتی، ایک آدمی نے پوچھا اے سمرہ ! کیا وہ بڑھ رہا تھا ؟ سمرہ نے فرمایا کہ بھلا ہمیں کس چیز پر تعجب ہوتا، وہ تو وہاں سے بڑھ رہا تھا اور انھوں نے اپنے ہاتھ سے آسمان کی طرف اشارہ کیا۔

32366

(۳۲۳۶۷) حَدَّثَنَا الْمُحَارِبِیُّ ، عَنْ عَبْدِ الْوَاحِدِ بْنِ أَیْمَنَ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : قلْت لِجَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ : حَدِّثْنِی بِحَدِیثٍ عَنْ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سَمِعْتہ مِنْہُ أَرْوِیہِ عَنْک ، فَقَالَ جَابِرٌ : کُنَّا مَعَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَوْمَ الْخَنْدَقِ نَحْفِرُ فِیہِ فَلَبِثْنَا ثَلاَثَۃَ أَیَّامٍ لاَ نَطْعَمُ طَعَامًا ، وَلاَ نَقْدِرُ عَلَیْہِ ، فَعَرَضَتْ فِی الْخَنْدَقِ کُدْیَۃٌ ، فَجِئْت إلَی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقُلْتُ : یَا رَسُولَ اللہِ ، ہَذِہِ کُدْیَۃٌ قَدْ عَرَضَتْ فِی الْخَنْدَقِ ، فَرَشَشْنَا عَلَیْہَا الْمَائَ ، قَالَ : فَقَامَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَبَطْنُہُ مَعْصُوبٌ بِحَجَرٍ ، فَأَخَذَ الْمِعْوَلَ ، أَوِ الْمِسْحَاۃَ ، ثُمَّ سَمَّی ثَلاَثًا ، ثُمَّ ضَرَبَ ، فَعَادَتْ کَثِیبًا أَہْیَلَ۔ فَلَمَّا رَأَیْت ذَلِکَ مِنْ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قُلْتُ : یَا رَسُولَ اللہِ ائْذَنْ لِی ، فَأَذِنَ لِی ، فَجِئْت امْرَأَتِی ، فَقُلْتُ : ثَکِلَتْک أُمُّکِ ، قَدْ رَأَیْت مِنْ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ شَیْئًا لاَ أَصْبِرُ عَلَیْہِ ، فَمَا عِنْدَکِ ؟ قَالَتْ : عِنْدِی صَاعٌ مِنْ شَعِیرٍ ، وَعَنَاقٌ ، قَالَ : فَطَحَنَّا الشَّعِیرَ ، وَذَبَحْنَا الْعَنَاقَ وَسَلَخْنَاہَا وَجَعَلْنَاہَا فِی الْبُرْمَۃِ ، وَعَجَنَّا الشَّعِیرَ ، ثُمَّ رَجَعْت إلَی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَلَبِثْت سَاعَۃً ، وَاسْتَأْذَنْتہ فَأَذِنَ لِی ، فَجِئْت فَإِذَا الْعَجِینُ قَدْ أَمْکَنَ ، فَأَمَرْتہَا بِالْخَبْزِ ، وَجَعَلْت الْقِدْرَ عَلَی الأَثَافِیِّ ، ثُمَّ جِئْت رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَسَارَرْتہ ، فَقُلْتُ : إنَّ عِنْدَنَا طُعَیِّمًا لَنَا ، فَإِنْ رَأَیْت أَنْ تَقُومَ مَعِی أَنْتَ وَرَجُلٌ أَوْ رَجُلاَنِ مَعَک فَعَلْت ، قَالَ : وَکَمْ ہُوَ ؟ قُلْتُ : صَاعٌ مِنْ شَعِیرٍ ، وَعَنَاقٌ ، قَالَ : ارْجِعْ إلَی أَہْلِکَ وَقُلْ لَہَا : لاَ تَنْزِعِ الْبُرْمَۃَ مِنَ الأَثَافِیِّ ، وَلاَ تُخْرِجِی الْخُبْزَ مِنَ التَّنُّورِ حَتَّی آتِیَ۔ ثُمَّ قَالَ لِلنَّاسِ : قُومُوا إلَی بَیْتِ جَابِرٍ ، قَالَ : فَاسْتَحْیَیْت حَیَائً لاَ یَعْلَمُہُ إلاَّ اللَّہُ ، فَقُلْتُ لاِمْرَأَتِی ثَکِلَتْک أُمُّک ، جَائَک رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِأَصْحَابِہِ أَجْمَعِینَ ، فَقَالَتْ : أَکَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سَأَلَک عَنِ الطَّعَامِ ؟ فَقُلْتُ : نَعَمْ ، فَقَالَتْ : اللَّہُ وَرَسُولُہُ أَعْلَمُ ، قَدْ أَخْبَرْتہ بِمَا کَانَ عِنْدَنَا ، قَالَ : فَذَہَبَ عَنِّی بَعْضُ مَا کُنْت أَجِدُ ، وَقُلْت لَہَا : صَدَقْت۔ قَالَ : فَجَائَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَدَخَلَ ، ثُمَّ قَالَ : لاَصْحَابِہِ : لاَ تَضَاغَطُوا ، ثُمَّ بَرَکَ عَلَی التَّنُّورِ وَعَلَی الْبُرْمَۃِ ، ثُمَّ جَعَلْنَا نَأْخُذُ مِنَ التَّنُّورِ الْخُبْزَ وَنَأْخُذُ اللَّحْمَ مِنَ الْبُرْمَۃِ ، فَنَثْرُدُ وَنَغْرِفُ وَنُقَرِّبُ إلَیْہِمْ ، وَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لِیَجْلِسْ عَلَی الصَّحْفَۃِ سَبْعَۃٌ ، أَوْ ثَمَانِیَۃٌ ، قَالَ : فَلَمَّا أَکَلُوا کَشَفْنَا التَّنُّورَ وَالْبُرْمَۃَ ، فَإِذَا ہُمَا قَدْ عَادَا إلَی أَمْلإِ مَا کَانَا ، فَنَثْرُدُ وَنَغْرِفُ وَنُقَرِّبُ إلَیْہِمْ ، فَلَمْ نَزَلْ نَفْعَلُ کَذَلِکَ ، کُلَّمَا فَتَحْنَا التَّنُّورَ وَکَشَفْنَا عَنِ الْبُرْمَۃِ وَجَدْنَاہُمَا أَمْلأَ مَا کَانَا ، حَتَّی شَبِعَ الْمُسْلِمُونَ کُلُّہُمْ وَبَقِیَ طَائِفَۃٌ مِنَ الطَّعَامِ ، فَقَالَ لَنَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إنَّ النَّاسَ قَدْ أَصَابَتْہُمْ مَخْمَصَۃٌ ، فَکُلُوا وَأَطْعِمُوا۔ قَالَ : فَلَمْ نَزَلْ یَوْمَنَا نَأْکُلُ وَنُطْعِمُ ، قَالَ : وَأَخْبَرَنِی أَنَّہُمْ کَانُوا ثَمَانَمِئَۃٍ ، أَوْ ثَلاَثَمَئَۃٍ۔ (بخاری ۴۱۰۲۔ مسلم ۱۶۱۰)
(٣٢٣٦٧) ایمن فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت جابر بن عبداللہ سے عرض کیا کہ مجھے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کوئی حدیث بیان کریں جو آپ نے ان سے سنی ہو میں اس کو آپ کے حوالے سے روایت کروں گا، حضرت جابر نے فرمایا کہ ہم خندق کے دن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس خندق کھود رہے تھے، چنانچہ ہم نے تین دن نہ کچھ کھایا اور نہ اس پر قادر تھے، چنانچہ خندق میں ایک چٹان آڑے آگئی، میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا اور عرض کیا یا رسول اللہ ! یہ چٹان خندق میں آڑھے آگئی ہے، ہم نے اس پر پانی چھڑکا، چنانچہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اٹھے اور آپ کے پیٹ پر پتھر بندھا ہوا تھا، آپ نے کدال کو یا پھاوڑے کو پکڑا، پھر تین مرتبہ بسم اللہ پڑھی ، پھر اس پر ضرب لگائی تو وہ ریت کی طرح ہوگیا۔
(٢) جب میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی یہ حالت دیکھی تو میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! مجھے اجازت دیجئے، آپ نے مجھے اجازت دی، میں اپنی بیوی کے پاس آیا اور میں نے کہا تجھے تیری ماں روئے، میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ایسی حالت دیکھی ہے جس پر مجھے صبر نہیں آتا، تمہارے پاس کیا ہے ؟ انھوں نے کہا میرے پاس ایک صاع جو اور بکری کا چھ ماہ کا بچہ ہے، کہتے ہیں کہ ہم نے جو کو ٹے اور بکری کو ذبح کیا، اور ہم نے اس کی کھال اتاری اور اس کو ہنڈیا میں ڈال دیا اور جو کا آٹا گوندھا پھر میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا اور ایک گھڑی ٹھہرا اور پھر آپ سے اجازت طلب کی آپ نے اجازت دے دی، پھر میں آیا تو آٹا تیار تھا، میں نے اس کو روٹیاں پکانے کا کہا اور ہنڈیا کو چولہے پر چڑھایا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آ کر سرگوشی کی ، میں نے عرض کیا کہ ہمارے پاس تھوڑا سا کھانا ہے، اگر آپ اور آپ کے ساتھ ایک یا دو آدمی میرے ساتھ شریک آجائیں تو بہتر ہے، آپ نے پوچھا کہ وہ کتنا ہے ؟ میں نے عرض کیا ایک صاع جو اور ایک بکری کا بچہ ہے، آپ نے فرمایا اپنے گھر جاؤ اور گھر والوں سے کہو کہ ہنڈیا کو چولہے سے نہ اتاریں اور روٹیوں کو تنور سے نہ نکالیں یہاں تک کہ میں آ جاؤں۔
(٣) پھر آپ نے لوگوں سے فرمایا کہ جابر کے گھر کی طرف چلو ، کہتے ہیں کہ مجھے ایسی شرم آئی کہ اللہ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا، میں نے اپنی بیوی سے کہا کہ تیری ماں تجھے روئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تیرے گھر تمام صحابہ کے ساتھ آ رہے ہیں، اس نے کہا کہ کیا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تم سے کھانے کا پوچھا تھا ؟ میں نے کہا جی ہاں ! اس نے کہا اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں، آپ نے ان کو اپنا کھانا بتلا دیا ہے، میری پریشانی کم ہوگئی اور میں نے کہا کہ تم نے سچ کہا۔
(٤) کہتے ہیں کہ پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آئے اور اندر داخل ہوگئے اور آپ نے اپنے صحابہ سے فرمایا کہ ہجوم نہ کرو، پھر آپ نے تنور اور ہنڈیا پر برکت کی دعا فرمائی، اور ہم تنور سے روٹی اور ہنڈیا سے گوشت لیتے رہے اور ثرید بنا کر لوگوں کو پیش کرتے رہے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ایک پیالے پر سات یا آٹھ آدمی بیٹھیں ، جب انھوں نے کھالیا تو ہم نے تنور سے پردہ ہٹایا اور ہنڈیا سے ڈھکن اٹھایا، تو وہ پہلے سے زیادہ بھرے ہوئے تھے، پھر ہم ثرید کرتے اور چمچ بھر کر اس میں ڈالتے اور ان کے قریب کرتے اور ایسا ہی کرتے رہے، جب بھی تنور کھولتے اور ہنڈیا کھولتے ان کو پہلے سے زیادہ بھرا ہوا پاتے، یہاں تک کہ تمام مسلمان سیر ہوگئے ، اور کھانا بھی بچ گیا، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہم سے فرمایا کہ لوگوں کو بھوک لگی ہے اس لیے تم کھاؤ اور کھلاؤ، کہتے ہیں کہ ہم سارا دن کھاتے اور کھلاتے رہے، کہتے ہیں کہ ہم اس وقت آٹھ سو یا تین سو تھے۔

32367

(۳۲۳۶۸) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنْ جَابِرٍ ، قَالَ : تُوُفِّیَ - أَوِ اُسْتُشْہِدَ - عَبْدُ اللہِ بْنُ عَمْرِو بْنِ حَرَامٍ ، فَاسْتَعَنْتُ بِرَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَی غُرَمَائِہِ أَنْ یَضَعُوا مِنْ دَیْنِہِمْ شَیْئًا ، فَأَبَوْا ، فَقَالَ لِی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : اذْہَبْ فَصَنِّفْ تَمْرَک أَصْنَافًا ، ثُمَّ أَعْلِمْنِی ، قَالَ : فَفَعَلْت فَجَعَلْتُ الْعَجْوَۃَ عَلَی حدَۃٍ ، وَصَنَّفْتہ أَصْنَافًا ، ثُمَّ أَعْلَمْت رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : فَجَائَ فَقَعَدَ عَلَی أَعْلاَہُ ، أَوْ فِی وَسَطِہِ ، ثُمَّ قَالَ : کِلْ لِلْقَوْمِ ، فَکِلْتُ لَہُمْ حَتَّی وَفَّیْتُہُمْ ، وَہِیَ تَمْرِی ، کَأَنَّہُ لَمْ یَنْقُصْ مِنْہُ شَیْئٌ۔ (بخاری ۲۱۲۷۔ احمد ۳۱۳)
(٣٢٣٦٨) حضرت جابر فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمرو بن حرام فوت ہوئے، یا فرمایا کہ شہید ہوئے تو میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ان کے قرض خواہوں پر مدد چاہی کہ وہ اپنے قرضے سے کچھ چھوڑ دیں، انھوں نے انکار کیا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھ سے فرمایا کہ جاؤ اور اپنی کھجوروں کی ڈھیریاں لگاؤ اور پھر مجھے بتاؤ، کہتے ہیں کہ میں نے ایسا ہی کیا اور عجوہ کو علیحدہ کیا اور علیحدہ علیحدہ ڈھیریاں لگا دیں پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بتایا، کہتے ہیں کہ پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آئے اور ان کے اوپر کی طرف یا ان کے درمیان میں بیٹھ گئے پھر فرمایا کہ لوگوں کے لیے وزن کرو، میں نے وزن کیا یہاں تک کہ ان کو پورا پورا دے دیا، اور میری کھجوروں میں کوئی کمی واقع نہ ہوئی۔

32368

(۳۲۳۶۹) حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إسْمَاعِیلَ ، عَنْ أُنَیْسِ بْنِ أَبِی یَحْیَی ، عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ سَالِمٍ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : خَرَجَ عَلَیَّ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَوْمًا ، فَقَالَ : اُدْعُ لِی أَصْحَابَک ، یَعْنِی أَصْحَابَ الصُّفَّۃِ ، فَجَعَلْتُ أَتَتَبَّعُہُمْ رَجُلاً رَجُلاً أُوقِظُہُمْ حَتَّی جَمَعْتُہُمْ ، فَجِئْنَا بَابَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَاسْتَأْذَنَّا فَأَذِنَ لَنَا ، قَالَ أَبُو ہُرَیْرَۃَ : وَوُضِعَتْ بَیْنَ أَیْدِینَا صَحْفَۃٌ فِیہَا صَنِیعٌ قَدْرُ مُدَّ مِنْ شَعِیرٍ ، قَالَ : فَوَضَعَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَدَہُ عَلَیْہَا ، فَقَالَ : خُذُوا بِسْمِ اللہِ ، فَأَکَلْنَا مَا شِئْنَا ، ثُمَّ رَفَعْنَا أَیْدِیَنَا ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حِینَ وُضِعَتِ الصَّحْفَۃُ : وَالَّذِی نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہِ ، مَا أَمْسَی فِی آلِ مُحَمَّدٍ طَعَامٌ غَیْرُ شَیْئٍ تَرَوْنَہُ ، فَقِیلَ لأَبِی ہُرَیْرَۃَ : قَدْرُ کَمْ کَانَتْ حِینَ فَرَغْتُمْ ، قَالَ : مِثْلَہَا حِینَ وُضِعَتْ إلاَّ أَنَّ فِیہَا أَثَرَ الأَصَابِعِ۔ (طبرانی ۲۹۲۸)
(٣٢٣٦٩) حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک دن ہمارے پاس آئے اور فرمایا کہ میرے پاس اپنے ساتھیوں کو بلاؤ یعنی اصحاب صفہ کو، میں ایک ایک آدمی کو تلاش کرنے لگا، اور ان کو بیدار کر کے جمع کرنے لگا، پھر ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دروازے پر آئے اور اجازت چاہی آپ نے اجازت دے دی، ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ ہمارے سامنے ایک پیالہ رکھا گیا جس میں ایک مد جو کے بقدر کھانا تھا، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس پر اپنا ہاتھ رکھا اور فرمایا کہ اللہ کے نام پر لے لو، ہم نے جتنا چاہا کھایا، پھر ہم نے اپنے ہاتھ اٹھا لیے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جبکہ پیالہ رکھا گیا کہ اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں محمد کی جان ہے آل محمد میں اس کے علاوہ کوئی کھانا نہیں جو تم دیکھ رہے ہو، حضرت ابوہریرہ سے کہا گیا کہ جب تم فارغ ہوئے اس وقت کتنا بچا ہوا تھا ؟ انھوں نے فرمایا اتنا ہی جتنا رکھتے ہوئے تھا، مگر اس میں انگلیوں کے نشانات تھے۔

32369

(۳۲۳۷۰) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا مُوسَی الْجُہَنِیُّ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : سَمِعْتہ یَقُولُ : قَالَ نَبِیُّ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِجُلَسَائِہِ یَوْمًا : أَیَسُرُّکُمْ أَنْ تَکُونُوا ثُلُثَ أَہْلِ الْجَنَّۃِ ؟ قَالُوا : اللَّہُ وَرَسُولُہُ أَعْلَمُ ، قَالَ: أَفَیَسُرُّکُمْ أَنْ تَکُونُوا نِصْفَ أَہْلِ الْجَنَّۃِ ؟ قَالُوا : اللَّہُ وَرَسُولُہُ أَعْلَمُ ، قَالَ : فَإِنَّ أُمَّتِی یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ثُلُثَا أَہْلِ الْجَنَّۃِ ، إنَّ النَّاسَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ عِشْرُونَ وَمِئَۃُ صَفٍّ ، وَإِنَّ أُمَّتِی مِنْ ذَلِکَ ، ثَمَانُونَ صَفًّا۔ (مسلم ۲۰۰۔ احمد ۴۵۳)
(٣٢٣٧٠) حضرت شعبی فرماتے ہیں کہ ایک دن نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے اھل مجلس سے فرمایا کہ کیا اس پر تم خوش ہو کہ تم اھل جنت کا ایک تہائی ہو ؟ لوگوں نے کہا اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں آپ نے فرمایا کہ پھر کیا تم اس پر خوش ہو کہ تم اہل جنت کا نصف ہو ؟ انھوں نے کہا اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں ، آپ نے فرمایا کہ پھر میری امت قیامت کے دن اہل جنت کا دو تہائی ہوگی، لوگ قیامت کے دن ایک سو بیس صفوں میں ہوں گے اور میری امت کی اسّی صفیں ہوں گی۔

32370

(۳۲۳۷۱) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ أَبِی سِنَانٍ ضِرَارِ بْنِ مُرَّۃَ ، عَنْ مُحَارِبِ بْنِ دِثَارٍ ، عَنِ ابْنِ بُرَیْدَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : أَہْلُ الْجَنَّۃِ عِشْرُونَ وَمِئَۃُ صَفٍّ ، ہَذِہِ الأُمَّۃُ مِنْہَا ثَمَانُونَ صَفًّا۔ (ترمذی ۲۵۴۶۔ احمد ۳۴۷)
(٣٢٣٧١) حضرت بریدہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اہل جنت کی ایک سو بیس صفیں ہوں گی، اور اس امت کی اسّی صفیں ہوں گی۔

32371

(۳۲۳۷۲) حَدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ بْنُ عَیَّاشٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ زِیَادٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا أُمَامَۃَ الْبَاہِلِیَّ یَقُولُ : سَمِعْت رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : وَعَدَنِی رَبِّی أَنْ یُدْخِلَ الْجَنَّۃَ مِنْ أُمَّتِی سَبْعِینَ أَلْفًا ، مَعَ کُلِّ أَلْفٍ سَبْعُونَ أَلْفًا، لاَ حِسَابَ عَلَیْہِمْ ، وَلاَ عَذَابَ، وَثَلاَثُ حَثَیَاتٍ مِنْ حَثَیَاتِ رَبِّی۔ (ترمذی ۲۴۳۷۔ احمد ۲۵۰)
(٣٢٣٧٢) حضرت ابو امامہ باھلی فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے ہوئے سنا کہ میرے رب نے مجھ سے وعدہ کیا ہے کہ میری امت میں سے ایسے ستر ہزار کو جنت میں داخل فرمائیں گے کہ ہر ہزار کے ساتھ ایسے ستر ہزار ہوں گے جن پر کوئی حساب ہوگا نہ عذاب، پھر میرے رب کی تین لپیں ہوں گی۔

32372

(۳۲۳۷۳) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِیَادٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا الْحَارِثُ بْنُ حَصِیرَۃَ ، قَالَ : حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مَسْعُودٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : کَیْفَ أَنْتُمْ وَرُبُعُ الْجَنَّۃِ ، لَکُمْ رُبُعُہَا ، وَلِسَائِرِ النَّاسِ ثَلاَثَۃُ أَرْبَاعِہَا ، قَالَ : فَقَالُوا : اللَّہُ وَرَسُولُہُ أَعْلَمُ ، قَالَ : فَکَیْفَ أَنْتُمْ وَثُلُثُہَا ، قَالُوا : فَذَاکَ کَثِیرٌ ، قَالَ : فَکَیْفَ أَنْتُمْ وَالشَّطْرُ ، قَالُوا : فَذَاکَ أَکْثَرُ ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : أَہْلُ الْجَنَّۃِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ عِشْرُونَ وَمِئَۃُ صَفٍ ، أَنْتُمْ ثَمَانُونَ صَفًّا۔ (احمد ۴۵۳۔ ابویعلی ۵۳۳۷)
(٣٢٣٧٣) حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ تمہارا کیا خیال ہے جنت کے ایک چوتھائی حصّے کے بارے میں، کہ تمہارے لیے اس کا ایک چوتھائی اور بقیہ لوگوں کے لیے تین چوتھائی ہو ؟ لوگوں نے کہا اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں، پھر فرمایا کہ پھر جنت کے ایک تہائی کے بارے میں کیا خیال ہے ؟ انھوں نے کہا کہ یہ تو بہت ہے، پھر آپ نے فرمایا کہ تم نصف کے بارے میں کیا کہتے ہو ؟ انھوں نے کہا کہ یہ تو بہت ہی زیادہ ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اہل جنت قیامت کے دن ایک سو بیس صفوں میں ہوں گے اور تم اسّی صفوں میں ہو گے۔

32373

(۳۲۳۷۴) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَیْدٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا بُدَیْلٌ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ شَقِیقٍ ، عَنْ قَیْسِ بْنِ عُبَادٍ ، عَنْ کَعْبٍ ، قَالَ : أَہْلُ الْجَنَّۃِ عِشْرُونَ وَمِئَۃُ صَفٍّ ، ثَمَانُونَ مِنْ ہَذِہِ الأُمَّۃِ۔
(٣٢٣٧٤) حضرت کعب فرماتے ہیں کہ اہل جنت کی ایک سو بیس صفیں ہوں گی اور اس امت کی اسّی صفیں ہوں گی۔

32374

(۳۲۳۷۵) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنْ حُمَیْدٍ ، عَنْ أَنَسٍ : أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : لَمَّا انْتَہَیْت إلَی سِدْرَۃِ الْمُنْتَہَی إذَا وَرَقُہَا أَمْثَالُ آذَانِ الْفِیلَۃِ وَإِذَا نَبْقُہَا أَمْثَالُ الْقِلاَلِ ، فَلَمَّا غَشِیَہَا مِنْ أَمْرِ اللہِ مَا غَشِیَہَا تَحَوَّلَتْ فَذَکَرْت الْیَاقُوتَ۔ (بخاری ۳۲۰۷۔ احمد ۱۲۸)
(٣٢٣٧٥) حضرت انس فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جب میں سدرۃ المنتہیٰ تک پہنچا تو اس کے پتے ہاتھی کے کانوں جتنے تھے، اس کا پھل بڑے مٹکوں کی طرح تھا، جب اس کو اللہ کے حکم سے عجیب کیفیت طاری ہوئی تو وہ بدل گیا اور مجھے یاقوت یاد آگیا۔

32375

(۳۲۳۷۶) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ حُمَیْدٍ ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ : مَا شَمَمْت رِیحًا قَطُّ مِسْکًا ، وَلا عَنْبَرًا أَطْیَبَ مِنْ رِیحِ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَلاَ مَسِسْت خَزًّا ، وَلاَ حَرِیرًا أَلْیَنَ مِنْ کَفِّ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔ (بخاری ۳۵۶۱۔ مسلم ۱۸۱۴)
(٣٢٣٧٦) حضرت انس فرماتے ہیں کہ میں نے مشک یا عنبر اور کوئی بھی خوشبو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خوشبو سے زیادہ اچھی نہیں سونگھی، اور میں نے خالص عنبر یا خالص ریشم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ہتھیلی سے زیادہ نرم نہیں پایا۔

32376

(۳۲۳۷۷) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، عَنِ الأَجْلَحِ ، عَنْ ذَیَّالِ بْنِ حَرْمَلَۃَ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : أَقْبَلْنَا مَعَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ سَفَرٍ ، حَتَّی إذَا دُفِعْنَا إلَی حَائِطٍ مِنْ حِیطَانِ بَنِی النَّجَّارِ إذَا فِیہِ جَمَلٌ قَطِمٌ - یَعْنِی : ہَائِجًا - لاَ یَدْخُلُ الْحَائِطَ أَحَدٌ إلاَّ شَدَّ عَلَیْہِ ، قَالَ : فَجَائَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حَتَّی أَتَی الْحَائِطَ فَدَعَا الْبَعِیرَ فَجَائَ وَاضِعًا مِشْفَرَہُ فِی الأَرْضِ حَتَّی بَرَکَ بَیْنَ یَدَیْہِ ، فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : ہَاتُوا خِطَامًا ، فَخَطَمَہُ وَدَفَعَہُ إلَی أَصْحَابِہِ ، ثُمَّ الْتَفَتَ إلَی النَّاسِ ، فَقَالَ : إِنَّہُ لَیْسَ شَیْئٌ بَیْنَ السَّمَائِ وَالأَرْضِ إلاَّ وَیَعْلَمُ أَنِّی رَسُولُ اللہِ غَیْرَ عَاصِی الْجِنِّ وَالإِنْسِ۔ (احمد ۳۱۰۔ دارمی ۱۸)
(٣٢٣٧٧) حضرت جابر بن عبداللہ فرماتے ہیں کہ ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ایک سفر سے واپس آئے، یہاں تک کہ جب بنو نجار کے باغ تک پہنچے تو اس میں ایک وحشی اونٹ تھا، جو بھی اس باغ میں داخل ہوتا اس پر حملہ کردیتا، نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آئے اور اونٹ کو بلایا، وہ زمین میں اپنا جبڑا گھسیٹتا ہوا آیا اور اس نے آپ کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے ، نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ نکیل لاؤ، آپ نے اس کو نکیل ڈالی اور اس کے مالکوں کے حوالے کردیا، پھر لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا کہ آسمان و زمین کے درمیان کوئی بھی ایسا نہیں جو یہ نہ جانتا ہو کہ میں اللہ کا رسول ہوں، سوائے نافرمان انسانوں اور جنوں کے۔

32377

(۳۲۳۷۸) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ وَوَکِیعٌ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مُرَّۃَ ، عَنْ أَبِی الأَحْوَصِ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إنِّی أَبْرَأُ إلَی کُلِّ خَلِیلٍ مِنْ خُلّتہ ، غَیْرَ أَنَّ اللَّہَ قَدِ اتَّخَذَ صَاحِبَکُمْ خَلِیلاً۔ قَالَ وَکِیعٌ : مِنْ خِلِّہِ۔ (مسلم ۱۸۵۶۔ ترمذی ۳۶۵۵)
(٣٢٣٧٨) حضرت عبداللہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میں ہر دوست کی دوستی سے بری ہوں، مگر اللہ نے تمہارے ساتھی کو دوست بنایا ہے، وکیع کی روایت میں ” من خلّٖہ “ ہے۔

32378

(۳۲۳۷۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بن السَائب ، عَنْ زَاذَانَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إنَّ لِلَّہِ مَلاَئِکَۃً سَیَّاحِینَ فِی الأَرْضِ یُبَلِّغُونَنِی عَنْ أُمَّتِی السَّلاَمَ۔
(٣٢٣٧٩) حضرت عبداللہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ کے بعض فرشتے زمین میں چکر لگانے والے ہیں جو میری امت کا سلام مجھ تک پہنچاتے ہیں۔

32379

(۳۲۳۸۰) حَدَّثَنَا عَبَیْدُ اللہِ ، عَنْ إسْرَائِیلَ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إبراہیم ، عَنْ عَلْقَمَۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : بَیْنَمَا نَحْنُ مَعَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَلَیْسَ مَعَنا مَائٌ ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَنَا : اُطْلُبُوا مَنْ مَعَہُ فَضْلُ مَائٍ ، فَأُتِیَ بِمَائٍ فَصَبَّہُ فِی إنَائٍ ، ثُمَّ وَضَعَ کَفَّہُ فِیہِ ، فَجَعَلَ الْمَائُ یَخْرُجُ مِنْ بَیْنِ أَصَابِعِہِ ، ثُمَّ قَالَ : حَیَّ عَلَی الطَّہُورِ الْمُبَارَکِ ، وَالْبَرَکَۃُ مِنَ اللہِ ، قَالَ : فَشَرِبْنَا مِنْہُ ، قَالَ عَبْدُ اللہِ وَکُنَّا نَسْمَعُ تَسْبِیحَ الطَّعَامِ وَنَحْنُ نَأْکُلُ۔ (بخاری ۳۵۷۹۔ احمد ۴۰۱)
(٣٢٣٨٠) حضرت عبداللہ فرماتے ہیں کہ اس دوران کہ ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ تھے اور ہمارے پاس پانی نہیں تھا، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جس کسی کے پاس بچا کھچا پانی ہو لاؤ، آپ کے پاس پانی لایا گیا، آپ نے اس کو ایک برتن میں ڈالا پھر اپنا ہاتھ اس میں ڈالا، تو آپ کی انگلیوں سے پانی نکلنے لگا، پھر آپ نے فرمایا کہ مبارک پاک پانی اور اللہ کی طرف سے برکت پر آؤ، کہتے ہیں کہ ہم نے اس میں سے پیا، حضرت عبداللہ فرماتے ہیں کہ ہم کھاتے ہوئے کھانے کی تسبیح سنا کرتے تھے۔

32380

(۳۲۳۸۱) حَدَّثَنَا عَبِیدَۃُ بْنُ حُمَیْدٍ ، عَنِ الأَسْوَدِ بْنِ قَیْسٍ ، عَنْ نُبَیْحِ بْنِ عَبْدِ اللہِ الْعَنَزِیِّ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : سَافَرْنَا مَعَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَحَضَرَت الصَّلاَۃُ ، فَجَائَ رَجُلٌ بِفَضْلِہِ فِی إدَاوَۃٍ فَصَبَّہُ فِی قَدَحٍ ، قَالَ : فَتَوَضَّأَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، ثُمَّ إنَّ الْقَوْمَ أَتَوْا بَقِیَّۃَ الطَّہُورِ وَقَالُوا : تَمَسَّحُوا تَمَسَّحُوا ، قَالَ : فَسَمِعَہُمْ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : عَلَی رِسْلِکُمْ ، قَالَ : فَضَرَبَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَدَہُ فِی الْقَدَحِ فِی جَوْفِ الْمَائِ ، ثُمَّ قَالَ : أَسْبِغُوا الطَّہُورَ ، قَالَ : فَقَالَ جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللہِ : وَالَّذِی أَذْہَبَ بَصَرہ لَقَدْ رَأَیْت الْمَائَ یَخْرُجُ مِنْ بَیْنِ أَصَابِعِ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَمَا رَفَعَ یَدَہُ حَتَّی تَوَضَّؤُوا أَجْمَعُونَ ، فَقَالَ الأَسْوَدُ : حَسِبتہُ قَالَ : کُنَّا مِئَتَیْنِ أَوْ زِیَادَۃً۔ (بخاری ۳۵۷۶۔ احمد ۲۹۲)
(٣٢٣٨١) حضرت جابر بن عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ سفر کیا تو نماز کا وقت ہوگیا، ایک آدمی ایک برتن میں بچا ہوا پانی لایا، اس نے اس کو ایک پیالے میں ڈال دیا، تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وضو فرمایا پھر لوگ اپنا وضو کا بچا ہوا پانی لانے لگے اور کہنے لگے کہ مسح کرلو مسح کرلو، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو سن لیا، فرمایا کہ ٹھہر جاؤ، پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنا ہاتھ پانی میں رکھا اور فرمایا کہ کامل وضو کرو، جابر بن عبداللہ فرماتے ہیں کہ اس ذات کی قسم جس نے میری بصارت لے لی، میں نے پانی کو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی انگلیوں سے نکلتے ہوئے دیکھا، آپ نے ہاتھ نہیں اٹھایا تھا یہاں تک کہ سب نے وضو کرلیا، اسود راوی فرماتے ہیں کہ میرا گمان ہے کہ میں نے آپ کو فرماتے سنا کہ ہم دو سو یا اس سے زیادہ تھے۔

32381

(۳۲۳۸۲) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ حُمَیْدٍ الطَّوِیلِ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ ، قَالَ : حضَرَتِ الصَّلاَۃُ فَقَامَ مَنْ کَانَ قَرِیبًا مِنَ الْمَسْجِدِ فَتَوَضَّأَ ، وَبَقِیَ نَاسٌ ، فَأُتِیَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِمِخْضَبٍ مِنْ حِجَارَۃٍ فِیہِ مَائٌ ، فَوَضَعَ کَفَّہُ فِی الْمِخْضَبِ فَصَغُرَ الْمِخْضَبُ ، أَنْ یَبْسُطَ کَفَّہُ فِیہِ ، فَضَمَّ أَصَابِعَہُ فَتَوَضَّأَ الْقَوْمُ جَمِیعًا، قُلْنَا : کَمْ کَانُوا ؟ قَالَ : ثَمَانِینَ رَجُلاً۔ (بخاری ۳۵۷۵۔ احمد ۱۰۶)
(٣٢٣٨٢) حضرت انس بن مالک فرماتے ہیں کہ نماز کا وقت ہوا اور جو لوگ مسجد کے قریب تھے کھڑے ہوئے اور وضو کیا اور کچھ لوگ باقی رہ گئے، پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس پتھر کا ایک برتن لایا گیا جس میں پانی تھا ، آپ نے اپنا ہاتھ اس میں رکھ دیا وہ اتنا چھوٹا تھا کہ آپ ہاتھ کو پھیلا نہ سکے، آپ نے انگلیاں ملا لیں اور سب لوگوں نے وضو کرلیا، راوی کہتے ہیں کہ ہم نے پوچھا کہ وہ کتنے لوگ تھے ؟ انھوں نے کہا کہ اسّی آدمی۔

32382

(۳۲۳۸۳) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ زَکَرِیَّا ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنِ الْبَرَائِ ، قَالَ : نَزَلْنَا یَوْمَ الْحُدَیْبِیَۃِ فَوَجَدْنَا مَائَہَا قَدْ شَرِبَہُ أَوَائِلُ النَّاسِ فَجَلَسَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَی الْبِئْرِ ، ثُمَّ دَعَا بِدَلْوٍ مِنْہَا ، فَأَخَذَ مِنْہُ بَفِیِہ ، ثُمَّ مَجَّہُ فِیہَا وَدَعَا اللَّہَ ، فَکَثُرَ مَاؤُہَا حَتَّی تَرَوَّی النَّاسُ مِنْہَا۔ (بخاری ۳۵۷۷۔ احمد ۲۹۰)
(٣٢٣٨٣) حضرت براء فرماتے ہیں کہ ہم نے حدیبیہ کے دن پڑاؤ کیا تو ہم نے دیکھا کہ اس کا پانی پہلے آنے والے لوگوں نے پی لیا تھا، نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کنویں پر بیٹھ گئے اور ایک ڈول منگایا، اور اس میں سے اپنے منہ مبارک میں پانی لیا اور اس میں ڈال دیا اور اللہ سے دعا کی ، چنانچہ اس کا پانی زیادہ ہوگیا، یہاں تک کہ لوگ اس سے سیراب ہوگئے۔

32383

(۳۲۳۸۴) حَدَّثَنَا مَرْوَانُ ، عَنْ عَوْفٍ ، عَنْ أَبِی رَجَائٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا عِمْرَانُ بْنُ الْحُصَیْنِ ، قَالَ : کُنَّا مَعَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی سَفَرٍ فَشَکَا النَّاسُ إلَیْہِ الْعَطَشَ، فَدَعَا فُلاَنًا وَدَعَا عَلِیًّا : فَقَالَ اذْہَبَا فَابْغِیَا لَنَا الْمَائَ ، فَانْطَلَقَا فَتَلَقَّیَا امْرَأَۃً مَعَہَا مَزَادَتَانِ ، أَوْ سَطِیحَتَانِ ، قَالَ : فَجَائَا بِہَا إلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَدَعَا النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِإِنَائٍ فَأَفْرَغَ فِیہِ مِنْ أَفْوَاہِ الْمَزَادَتَیْنِ ، أَوِ السَّطِیحَتَیْنِ ، ثُمَّ أَوْکَأَ أَفْوَاہَہُمَا ، وَأَطْلَقَ الْعَزَالِی ، وَنُودِیَ فِی النَّاسِ : أَنَ اسْقُوا وَاسْتَقُوا ، قَالَ : فَسَقَی مَنْ سَقَی ، وَاسْتَقَی مَنِ اسْتَقَی ، قَالَ : وَہِیَ قَائِمَۃٌ تَنْظُرُ إلَی مَا یُصْنَعُ بِمَائِہَا ، قَالَ : فَوَاللہِ لَقَدْ أُقْلِعَ عنہا حِینَ أُقْلِعَ ، وَإِنَّہُ لَیُخَیَّلُ إلَیْنَا أَنَّہَا أَشَدُّ مِلأۃً مِنْہَا حِیثُ ابْتَدَأَ فِیہَا ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : وَاللہِ مَا رَزَأْنَاک مِنْ مَائِکَ شَیْئًا وَلَکِنَّ اللَّہَ سَقَانَا۔ (بخاری ۳۴۴۔ مسلم ۴۷۶)
(٣٢٣٨٤) حضرت عمران بن حصین فرماتے ہیں کہ ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ایک سفر میں تھے کہ لوگوں کو پیاس کی شکایت ہوئی ، آپ نے فلاں کو اور علی کو بلایا ، اور فرمایا کہ جاؤ اور ہمارے لیے پانی تلاش کرو، چنانچہ وہ چلے اور انھیں ایک عورت ملی جس کے پاس دو مٹکے یا مشکیزے تھے، وہ اس عورت کو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس لائے ، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک برتن منگایا اور اس میں مشکیزوں یا مٹکوں کے منہ سے پانی ڈالا پھر ان کے منہ بند کردیے اور رسّی چھوڑی، اور لوگوں میں اعلان کردیا گیا کہ پانی لے لو اور بھر لو، چنانچہ جس نے پینا تھا پی لیا اور جس نے بھرنا تھا بھر لیا، اور وہ کھڑی دیکھ رہی تھی کہ اس کے پانی کا کیا کیا جار ہا ہے، کہتے ہیں واللہ ! اس کو اس طرح چھوڑا گیا کہ ہمیں گمان ہو رہا تھا کہ وہ پہلے سے زیادہ بھرا ہوا ہے ، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ واللہ ! ہم نے تمہارے پانی سے کچھ کم نہیں کیا بلکہ ہمیں اللہ نے پلایا ہے۔

32384

(۳۲۳۸۵) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا مِسْعَرٌ ، قَالَ : حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ مُرَّۃَ ، قَالَ : حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ سَلِمَۃَ ، قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللہِ : کُلَّ شَیْئٍ أُوتِیَ نَبِیُّکُمْ إلاَّ مَفَاتِیحَ الْخَمْسِ {إنَّ اللَّہَ عِنْدَہُ عِلْمُ السَّاعَۃِ ، وَیُنَزِّلُ الْغَیْثَ ، وَیَعْلَمُ مَا فِی الأَرْحَامِ ، وَمَا تَدْرِی نَفْسٌ مَاذَا تَکْسِبُ غَدًا} الآیَۃَ کُلہَا۔ (بخاری ۱۰۳۹۔ احمد ۳۸۶)
(٣٢٣٨٥) حضرت عبداللہ فرماتے ہیں کہ تمہارے نبی کو ہر چیز دی گئی سوائے پانچ چیزوں کی کنجیوں کے، { اِنَّ اللّٰہَ عِنْدَہٗ عِلْمُ السَّاعَۃِ وَ یُنَزِّلُ الْغَیْثَ وَ یَعْلَمُ مَا فِی الْاَرْحَامِ وَ مَا تَدْرِیْ نَفْسٌ مَّاذَا تَکْسِبُ غَدًا وَ مَا تَدْرِیْ نَفْسٌ بِاَیِّ اَرْضٍ تَمُوْتُ اِنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ}۔ ترجمہ : بیشک قیامت کا علم اللہ کے پاس ہے۔ یہی بارش برساتا ہے۔ وہی جانی ہے کہ رحم مادر میں کیا ہے۔ کوئی نفس نہیں جانتا کہ وہ کل کیا کرے گا اور کوئی نفس نہیں جانتا کہ وہ کس زمین میں مرے گا۔ بیشک اللہ جاننے والا اور خبر رکھنے والا ہے۔

32385

(۳۲۳۸۶) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُصْعَبٍ ، عَنِ الأَوْزَاعِیِّ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ أَبِی سَلَمَۃَ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ : أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : أَنَا سَیِّدُ وَلَدِ آدَمَ ، وَأَنَا أَوَّلُ مَنْ تَنْشَقُّ عَنْہُ الأَرْضُ ، وَأَنَا أَوَّلُ شَافِعٍ وَأَوَّلُ مُشَفَّعٍ۔ (ترمذی ۳۶۱۱)
(٣٢٣٨٦) حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میں اولادِ آدم کا سردار ہوں اور مجھ سے زمین سب سے پہلے ہٹے گی، اور میں پہلا سفارش کرنے والا ہوں اور پہلا شخص ہوں جس کی سفارش قبول کی جائے گی۔

32386

(۳۲۳۸۷) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو ، عَنْ أَبِی سَلَمَۃَ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إنَّ مِنْبَرِی ہَذَا لَعَلَی تُرْعَۃٍ مِنْ تُرَعِ الْجَنَّۃِ۔ (احمد ۴۵۰۔ بیہقی ۲۴۷)
(٣٢٣٨٧) حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میرا یہ منبر امید ہے جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہوگا۔

32387

(۳۲۳۸۸) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، قَالَ سَمِعْت ہِشَامًا قَالَ : حدَّثَنَا الْحَسَنُ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : أَنَا سَابِقُ الْعَرَبِ۔ (ابن سعد ۲۱)
(٣٢٣٨٨) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میں عرب میں سب سے سبقت کرنے والا ہوں۔

32388

(۳۲۳۸۹) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُصْعَبٍ ، عَنِ الأَوْزَاعِیِّ ، عَنْ أَبِی عَمَّارٍ ، عَنْ وَاثِلَۃَ بْنِ الأَسْقَعِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إنَّ اللَّہَ اصْطَفَی مِنْ وَلَدِ إبْرَاہِیمَ إسْمَاعِیلَ ، وَاصْطَفَی مِنْ بَنِی إسْمَاعِیلَ بَنِی کِنَانَۃَ ، وَاصْطَفَی مِنْ بَنِی کِنَانَۃَ قُرَیْشًا ، وَاصْطَفَی مِنْ قُرَیْشٍ بَنِی ہَاشِمٍ ، وَاصْطَفَانِی مِنْ بَنِی ہَاشِمٍ۔ (مسلم ۱۷۸۲۔ ترمذی ۳۶۰۶)
(٣٢٣٨٩) حضرت واثلہ بن اسقع فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ بیشک اللہ نے ابراہیم (علیہ السلام) کی اولاد سے اسماعیل (علیہ السلام) کو اور قریش سے بنی ہاشم کو اور مجھے بنو ہاشم سے چن لیا ہے۔

32389

(۳۲۳۹۰) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِی سُفْیَانَ ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ : جَائَ جِبْرِیلُ إلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَہُوَ جَالِسٌ حَزِینٌ قَدْ ضَرَبَہُ بَعْضُ أَہْلِ مَکَّۃَ ، قَالَ : فَقَالَ : مَا لَک ؟ قَالَ : فَعَلَ بِی ہَؤُلاَئِ وَہَؤُلاَئِ ، قَالَ : أَتُحِبُّ أَنْ أُرِیَک آیَۃً ؟ قَالَ : نَعَمْ ، فَنَظَرَ إلَی شَجَرَۃٍ مِنْ وَرَائِ الْوَادِی ، فَقَالَ : اُدْعُ تِلْکَ الشَّجَرَۃَ ، فَدَعَاہَا فَجَائَتْ تَمْشِی حَتَّی قَامَتْ بَیْنَ یَدَیْہِ ، ثُمَّ قَالَ لَہَا : ارْجِعِی ، فَرَجَعَتْ حَتَّی عَادَتْ إِلَی مَکَانِہَا ، فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : حَسْبِی حَسْبِی۔ (احمد ۱۱۳۔ دارمی ۲۳)
(٣٢٣٩٠) ابو سفیان روایت کرتے ہیں کہ حضرت انس فرماتے ہیں کہ جبرائیل نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے جبکہ آپ غم گین بیٹھے تھے، آپ کو بعض اہل مکہ نے مارا تھا، انھوں نے کہا آپ کو کیا ہوا ؟ آپ نے فرمایا کہ ان ان لوگوں نے میرے ساتھ برا سلوک کیا ہے، انھوں نے عرض کیا کیا آپ یہ بات پسند کرتے ہیں کہ میں آپ کو نشانی دکھاؤں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ ہاں۔ پس انھوں نے وادی کے پیچھے دیکھا اور کہا کہ اس درخت کو بلائیں، آپ نے اس کو بلایا تو وہ چلتا ہوا آیا یہاں تک کہ آپ کے سامنے کھڑا ہوگیا، پھر کہا کہ واپس چلے جاؤ تو وہ واپس چلا گیا اور اپنی جگہ لوٹ گیا، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ مجھے کافی ہے مجھے کافی ہے۔

32390

(۳۲۳۹۱) حَدَّثَنَا قُرَادُ أبو نُوحٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا یُونُسُ بْنُ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِی بَکْرٍ بْنِ أَبِی مُوسَی ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ: خَرَجَ أَبُو طَالِبٍ إلَی الشَّامِ وَخَرَجَ مَعَہُ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَأَشْیَاخٌ مِنْ قُرَیْشٍ ، فَلَمَّا أَشْرَفُوا عَلَی الرَّاہِبِ ہَبَطُوا فَحَلُّوا رِحَالَہُمْ ، فَخَرَجَ إلَیْہِمَ الرَّاہِبُ ، وَکَانُوا قَبْلَ ذَلِکَ یَمُرُّونَ فَلاَ یَخْرُجُ إلَیْہِمْ ، وَلاَ یَلْتَفِتُ ، قَالَ : فَہُمْ یَحِلُّونَ رِحَالَہُمْ فَجَعَلَ یَتَخَلَّلُہُمْ حَتَّی جَائَ فَأَخَذَ بِیَدِ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : ہَذَا سَیِّدُ الْعَالَمِینَ ، ہَذَا رَسُولُ رَبِّ الْعَالَمِینَ ، ہَذَا یَبْعَثُہُ اللَّہُ رَحْمَۃً لِلْعَالَمِینَ ، فَقَالَ لَہُ أَشْیَاخٌ مِنْ قُرَیْشٍ : مَا عِلْمُک ؟ فَقَالَ : إنَّکُمْ حِینَ أَشْرَفْتُمْ مِنَ الْعَقَبَۃِ لَمْ یَبْقَ شَجَرٌ ، وَلاَ حَجَرٌ إلاَّ خَرَّ سَاجِدًا ، وَلاَ یَسْجُدُون إلاَّ لِنَبِیٍّ۔ (ترمذی ۳۶۲۰)
(٣٢٣٩١) ابوبکر بن ابی موسیٰ راوی ہیں کہ حضرت ابو موسیٰ فرماتے ہیں کہ ابو طالب شام کی طرف نکلے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے ساتھ نکلے اور قریش کے کچھ بزرگ بھی، جب وہ راہب کے قریب پہنچے، تو اپنے کجاوے کھولے ، راہب ان کے پاس گیا اور اس سے پہلے وہ اس کے پاس سے گزرتے تو نہ وہ نکل کر ان کے پاس آتا نہ ان کی طرف متوجہ ہوتا، چنانچہ وہ اپنے کجاوے کھول رہے تھے اور وہ ان کے درمیان سے ہوتا ہوا آیا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ہاتھ پکڑا اور کہنے لگا کہ یہ جہانوں کا سردار ہے، یہ رب العالمین کا رسول ہے، اس کو اللہ تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجیں گے، قریش کے بزرگوں نے اس سے کہا کہ آپ کو کیسے علم ہے ؟ اس نے کہا کہ تم گھاٹی سے جب چڑھے ہو تو کوئی پتھر اور درخت ایسا نہیں تھا جو سجدے میں نہ گرگیا ہو، اور یہ چیزیں نبی کے علاوہ کسی کو سجدہ نہیں کرتیں۔

32391

(۳۲۳۹۲) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَنْ زَائِدَۃَ ، عَنْ عَمَّارٍ ، عَنْ أَبِی سَلَمَۃَ ، عَنْ أُمِّ سَلَمَۃَ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : إنَّ قَوَائِمَ مِنْبَرِی رَوَاتِبُ فِی الْجَنَّۃِ۔ (احمد ۲۸۹۔ ابن حبان ۳۷۴۹)
(٣٢٣٩٢) حضرت ام سلمہ روایت کرتی ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میرے منبر کے پائے جنت میں گڑے ہوئے ہیں۔

32392

(۳۲۳۹۳) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّحْمَن بْنُ إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِی بُرْدَۃَ ، عَنْ أَبِی مُوسَی ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : أُوتِیتُ جَوَامِعَ الْکَلِمِ وَفَوَاتِحَہُ وَخَوَاتِمَہُ۔
(٣٢٣٩٣) حضرت ابو موسیٰ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ مجھے جامع کلمات اور ابتداء کرنے والے اور انتہاء کرنے والے کلمات عطا کیے گئے۔

32393

(۳۲۳۹۴) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ شَمْرٍ ، قَالَ : صَلَّی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ذَاتَ یَوْمٍ فَجَائَتِ الذِّئَابُ فَعَوَتْ خَلْفَہُ ، فَلَمَّا انْصَرَفَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : ہَذِہِ الذِّئَابُ أَتَتْکُم تُخْبِرُکُمْ أَنْ تَقْسِمُوا لَہَا مِنْ أَمْوَالِکُمْ مَا یُصْلِحُہَا ، أَوْ تُخَلُّوہَا فَتُغِیرَ عَلَیْکُمْ ، قَالُوا : دَعْہَا فَلْتُغِرْ عَلَیْنَا۔ (دارمی ۲۲)
(٣٢٣٩٤) شمر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک دن نماز پڑھی تو بھیڑیے آپ کے پیچھے آ کر بھونکنے لگے، جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سلام پھیرا تو فرمایا کہ یہ بھیڑیے تمہارے پاس یہ بتانے آئیں ہیں کہ تم اپنے مالوں میں سے ان کے لیے کچھ تیار کر کے دے دیا کرو، ورنہ تم اس بات کے لیے تیار رہو کہ یہ تم پر حملہ آور ہوجائیں۔

32394

(۳۲۳۹۵) حَدَّثَنَا سَہْلُ بْنُ یُوسُفَ ، عَنْ حُمَیْدٍ ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ : سُئِلَ : ہَلْ کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَرْفَعُ یَدَیْہِ ؟ قَالَ : نَعَمْ ، شَکَا النَّاسُ ذَاتَ جُمُعَۃٍ فَقَالُوا : یَا رَسُولَ اللہِ ، قُحِطَ الْمَطَرُ ، وَأَجْدَبَتِ الأَرْضُ ، وَہَلَکَ الْمَالُ ، قَالَ : فَرَفَعَ یَدَیْہِ حَتَّی رَأَیْت إبِطَیْہِ ، وَمَا فِی السَّمَائِ قَزَعَۃُ سَحَابٍ ، فَمَا صَلَّیْنَا حَتَّی إنَّ الشَّابَّ الْقَوِیَّ الْقَرِیبَ الْمَنْزِلِ لَیُہِمُّہُ الرُّجُوعُ إلَی مَنْزِلِہِ ، فَقَالَ : فَدَامَتْ عَلَیْنَا جُمُعَۃً ، قَالَ : فَقَالُوا : یَا رَسُولَ اللہِ تَہَدَّمَتِ الدُّورُ وَاحْتُبِسَتِ الرُّکْبَانُ ، قَالَ : فَتَبَسَّمَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ سُرْعَۃِ مَلاَلَۃِ ابْنِ آدَمَ ، فَقَالَ : اللَّہُمَ حَوَالَیْنَا وَلاَ عَلَیْنَا ، قَالَ : فَأَصْحَتِ السَّمَائُ۔
(٣٢٣٩٥) حمید کہتے ہیں کہ حضرت انس سے سوال پوچھا گیا کہ کیا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے ہاتھ اٹھاتے تھے ؟ انھوں نے فرمایا جی ہاں ! ایک جمعہ لوگوں نے شکایت کی اور کہا یا رسول اللہ ! بارش کا قحط ہوگیا ہے اور زمین خشک ہوگئی اور مال ہلاک ہوگیا ہے، آپ نے اپنے ہاتھ بلند کیے یہاں تک کہ میں نے آپ کے بغل دیکھے، اور اس وقت آسمان میں بادل کا کوئی ٹکڑا نہیں تھا، ہم نے ابھی تک نماز نہیں پڑھی تھی کہ جوان مضبوط جسم کے آدمی کو بھی گھر پہنچنے کی فکر لگی ہوئی تھی، کہتے ہیں کہ ایک جمعہ تک ہم پر بارش ہوتی رہی، پھر لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! گھر گرگئے اور سوار محبوس ہوگئے، راوی نے فرمایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ابن آدم کے اتنی جلدی اکتا جانے پر مسکرائے، اور فرمایا اے اللہ ! ہمارے ارد گرد برسائیے اور ہم پر نہ برسائیے، کہتے ہیں کہ اس پر آسمان صاف ہوگیا۔

32395

(۳۲۳۹۶) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ مَالِکِ بْنِ الْحَارِثِ ، عَنْ مُغِیثِ بْنِ سُمَیٍّ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : أُنْزِلَتْ عَلَیَّ تَوْرَاۃٌ مُحْدَثَۃٌ ، فِیہَا نُورُ الْحِکْمَۃِ وَیَنَابِیعُ الْعِلْمِ ، لِتُفْتَحَ بِہَا أَعْیُنًا عُمْیًا ، وَقُلُوبًا غُلْفًا وَآذَانًا صُمًّا ، وَہِیَ أَحْدَثُ الْکُتُبِ بِالرَّحْمَان۔ (دارمی ۳۳۲۷)
(٣٢٣٩٦) مغیث بن سمی فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ مجھ پر نئی توراۃ نازل ہوئی ہے جس میں حکمت کا نور اور علم کے سرچشمے ہیں، تاکہ اس سے اللہ اندھی آنکھوں اور بند دلوں اور بہرے کانوں کو کھول دیں، اور وہ رحمن کی سب سے آخری کتاب ہے۔

32396

(۳۲۳۹۷) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، قَالَ : حدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ عَبْدِ اللہِ بْنِ أَبِی فَرْوَۃَ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ أَبِی سَعِیدٍ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : سَأَلْتُ الشَّفَاعَۃَ لأُمَّتِی ، فَقَالَ : لَک سَبْعُونَ أَلْفًا یَدْخُلُونَ الْجَنَّۃَ بِغَیْرِ حِسَابٍ ، قُلْتُ : زِدْنِی ، قَالَ : لَک مَعَ کُلِّ أَلْفٍ سَبْعُونَ أَلْفًا ، قُلْتُ : زِدْنِی ، قَالَ : فَإِنَّ لَک ہَکَذَا وَہَکَذَا وَہَکَذَا ، فَقَالَ أَبُو بَکْرٍ : حَسْبُنَا ، فَقَالَ عُمَرُ : یَا أَبَا بَکْرٍ ، دَعْ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ أَبُو بَکْرٍ : یَا عُمَرُ ، إنَّمَا نَحْنُ حَفْنَۃٌ مِنْ حَفَنَاتِ اللہِ۔ (ترمذی ۲۴۳۷۔ احمد ۲۵۰)
(٣٢٣٩٧) حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میں نے اپنی امت کے لیے شفاعت کا سوال کیا تو اللہ نے فرمایا کہ تمہارے لیے ستر ہزار ہیں، جو جنت میں بغیر حساب کے داخل ہوں گے، میں نے کہا اے میرے رب ! اور اضافہ فرمائیے ! فرمایا کہ تمہارے لیے ہر ستر ہزار کے ساتھ ستر ہزار ہیں ، میں نے کہا اور اضافہ فرمائیے ، فرمایا کہ تمہارے لیے اتنے اور اتنے اور اتنے ہیں، ابوبکر نے عرض کیا کہ ہمیں کافی ہے، حضرت عمر نے فرمایا کہ اے ابوبکر ! رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو چھوڑ دیجئے، حضرت ابوبکر نے فرمایا کہ اے عمر ! ہم تو اللہ کی ایک ہی لپ ہیں۔

32397

(۳۲۳۹۸) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : حدَّثَنَا زُہَیْرٌ ، قَالَ : حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ یَزِیدُ الأَسَدِیُّ ، قَالَ : حَدَّثَنِی عَوْنُ بْنُ أَبِی جُحَیْفَۃَ السُّوَائِیُّ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَلْقَمَۃَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِی عَقِیلٍ ، قَالَ : انْطَلَقْنَا فِی وَفْدٍ فَأَتَیْنَا رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ قَائِلٌ مِنَّا : یَا رَسُولَ اللہِ ، أَلاَ سَأَلْت رَبَّک مُلْکًا کَمُلْکِ سُلَیْمَانَ ، فَضَحِکَ وَقَالَ : لَعَلَّ لِصَاحِبِکُمْ عِنْدَ اللہِ أَفْضَلَ مِنْ مُلْکِ سُلَیْمَانَ ، إنَّ اللَّہَ لَمْ یَبْعَثْ نَبِیًّا إلاَّ أَعْطَاہُ دَعْوَۃً ، فَمِنْہُمْ مَنِ اتَّخَذَ بِہَا دُنْیَا فَأُعْطِیَہَا ، وَمِنْہُمْ مَنْ دَعَا بِہَا عَلَی قَوْمِہِ إذْ عَصَوْہُ فَأُہْلِکُوا ، وَإِنَّ اللَّہَ أَعْطَانِی دَعْوَۃً فَاخْتَبَأْتُہَا عِنْدَ رَبِّی شَفَاعَۃً لأُمَّتِی یَوْمَ الْقِیَامَۃِ۔
(٣٢٣٩٨) عبد الرحمن بن ابی عقیل فرماتے ہیں کہ ہم ایک وفد میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے، ہم میں سے ایک شخص نے عرض کیا یا رسول اللہ ! کیا آپ نے اپنے رب سے سلیمان (علیہ السلام) کی سلطنت جیسی سلطنت کا سوال نہیں کیا ؟ آپ ہنسے اور فرمایا شاید تمہارا ساتھی اللہ کے ہاں سلیمان (علیہ السلام) کی سلطنت سے افضل ہو، بیشک اللہ نے جس نبی کو مبعوث فرمایا اس کو ایک دعا عطا فرمائی، بعض نے دنیا کو اختیار کیا تو اللہ نے ان کو عطا فرما دی، اور بعض نے اپنی قوم کی نافرنی کے وقت اس کو اپنی قوم کی بد دعا میں استعمال کیا، چنانچہ وہ ہلاک کردیے گئے، اور اللہ نے مجھے دعا عطا فرمائی تو میں نے اس کو اپنے رب کے ہاں اپنی امت کی شفاعت کے لیے ذخیرہ کرلیا۔

32398

(۳۲۳۹۹) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُصْعَبٍ ، عَنِ الأَوْزَاعِیِّ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ أَبِی کَثِیرٍ ، عَنْ ہِلاَلِ بْنِ أَبِی مَیْمُونَۃَ ، عَنْ عَطَائِ بْنِ یَسَارٍ ، عَنْ رِفَاعَۃَ الْجُہَنِیِّ ، قَالَ : صدَرْنَا مَعَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ : لَقَدْ وَعَدَنِی رَبِّی أَنْ یُدْخِلَ مِنْ أُمَّتِی الْجَنَّۃَ سَبْعِینَ أَلْفًا بِغَیْرِ حِسَابٍ وَلاَ عَذَابٍ۔ (طیالسی ۱۲۹۱۔ احمد ۱۶)
(٣٢٣٩٩) حضرت رفاعہ جہنی سے روایت ہے فرمایا کہ ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ لوٹے تو آپ نے فرمایا کہ میرے رب نے مجھ سے وعدہ فرمایا ہے کہ میری امت میں سے ستر ہزار کو بغیر حساب اور عذاب کے جنت میں داخل فرمائیں گے۔

32399

(۳۲۴۰۰) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، قَالَ : أَخْبَرَنِی عَبْدُ الْمَلِکِ ، قَالَ سَمِعْت أَبَا جَعْفَرٍ یُحَدِّثُ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : أُعْطِیتُ الشَّفَاعَۃَ وَہِیَ نَائِلَۃٌ مَنْ لَمْ یُشْرِکْ بِاللہِ شَیْئًا۔
(٣٢٤٠٠) حضرت ابو جعفر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ مجھے شفاعت عطا کی گئی ہے، اور وہ میری امت میں سے ہر اس شخص کو پہنچنے والی ہے جس نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرایا ہو۔

32400

(۳۲۴۰۱) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ بْنُ أَبِی خَالِدٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ عِیسَی ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِی لَیْلَی ، قَالَ : أَخْبَرَنِی أُبَیّ بْنُ کَعْبٍ : أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ لَہُ : یَا أُبَی ، إنَّ رَبِّی أَرْسَلَ إلَیَّ أَنْ أَقْرَأَ الْقُرْآنَ عَلَی حَرْفٍ ، فَرَدَدْت إلَیْہِ أَنْ ہَوِّنْ عَلَی أُمَّتِی ، فَرَدَّ إلَیَّ أَنْ أَقْرَأَ الْقُرْآنَ عَلَی سَبْعَۃِ أَحْرُفٍ ، وَلَک بِکُلِّ رَدَّۃٍ رَدَدْتُکَہَا مَسْأَلَۃٌ تَسْأَلُنِیہَا ، قَالَ : قُلْتُ : اللَّہُمَّ اغْفِرْ لأُمَّتِی ، اللَّہُمَّ اغْفِرْ لأُمَّتِی ، وَأَخَّرْتُ الثَّالِثَۃَ إلَی یَوْمٍ یَرْغَبُ إلَیَّ فِیہِ الْخَلْقُ حَتَّی إبْرَاہِیمُ۔ (مسلم ۵۶۲۔ احمد ۱۲۷)
(٣٢٤٠١) حضرت ابی ّ فرماتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھ سے فرمایا کہ اے ابی ّ ! میرے رب نے مجھ پر وحی فرمائی کہ قرآن کو ایک حرف پر پڑھو، میں نے عرض کیا کہ میری امت پر آسانی فرمائیے، اللہ نے فرمایا کہ قرآن کو سات حروف پر پڑھو اور ہر مرتبہ کے بدلے تمہارے لیے ایک دعا ہے جس کا آپ مجھ سے سوال کریں، آپ نے فرمایا اے اللہ ! میری امت کی مغفرت فرما، اے اللہ میری امت کی مغفرت فرما، اور میں نے تیسری دعا اس دن کے لیے مؤخر کردی ہے جس میں مخلوق میری طرف رغبت کرے گی یہاں تک کہ ابراہیم (علیہ السلام) بھی۔

32401

(۳۲۴۰۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إسْرَائِیلَ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ صِلَۃَ ، عَنْ حُذَیْفَۃَ ، قَالَ : یُجْمَعُ النَّاسُ فِی صَعِیدٍ وَاحِدٍ یَنْفُذُہُمُ الْبَصَرُ وَیُسْمِعُہُمُ الدَّاعِی فَیُنَادِی مُنَادٍ : یَا مُحَمَّدُ ، عَلَی رُؤُوسِ الأَوَّلِینَ وَالآخِرِینَ ، فَیَقُولُ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لَبَّیْکَ وَسَعْدَیْکَ ، وَالْخَیْرُ فِی یَدَیْک ، الْمَہْدِیُّ مَنْ ہَدَیْت ، تَبَارَکْت وَتَعَالَیْت ، وَمِنْک وَإِلَیْک ، لاَ مَلْجَأَ وَلاَ مَنْجَا إلاَّ إلَیْک ، سُبْحَانَک رَبَّ الْبَیْتِ ، تَبَارَکْت رَبَّنَا وَتَعَالَیْت ، قَالَ حُذَیْفَۃُ : فَذَلِکَ الْمَقَامُ الْمَحْمُودُ۔ (نسائی ۱۱۲۹۴۔ طیالسی ۴۱۴)
(٣٢٤٠٢) صلہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت حذیفہ نے فرمایا کہ لوگوں کو ایک میدان میں جمع کیا جائے گا، ان کی نظر تیز ہوگی، اور ان کو پکارنے والے کی پکار سنائی دے گی، چنانچہ ایک پکارنے والا پکارے گا اولین و آخرین کے سامنے، کہ اے محمد ! آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرمائیں گے لبیک وسعدیک ، تمام بھلائیاں آپ کے ہاتھ میں ہیں، ہدایت یافتہ وہ ہے جس کو آپ ہدایت عطا فرمائیں، آپ برکت اور بلندی والے ہیں، اور آپ ہی کی طرف سے ملتا ہے اور آپ ہی کی طرف پہنچتا ہے، آپ سے پناہ اور نجات کی جگہ نہیں مگر آپ کی طرف، آپ پاک ہیں، بیت اللہ کے مالک ہیں، اے ہمارے رب آپ بابرکت اور بلند ہیں، حذیفہ فرماتے ہیں کہ یہی مقام محمود ہے۔

32402

(۳۲۴۰۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ دَاوُدَ الأَوْدِیِّ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی قَوْلِہِ : {عَسَی أَنْ یَبْعَثَک رَبُّک مَقَامًا مَحْمُودًا} ، قَالَ : الشَّفَاعَۃُ۔ (ترمذی ۳۱۳۷۔ احمد ۴۴۱)
(٣٢٤٠٣) حضرت ابوہریرہ (رض) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اللہ کے فرمان { عَسَی أَنْ یَبْعَثَک رَبُّک مَقَامًا مَحْمُودًا } کی تفسیر نقل کرتے ہیں کہ اس سے مراد شفاعت ہے۔

32403

(۳۲۴۰۴) حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُوسَی ، قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَنْ فَرْقَدٍ السَّبَخِیِّ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ : أَنَّ امْرَأَۃً جَائَتْ بِابْنٍ لَہَا إلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ : یَا رَسُولَ اللہِ إنَّ ابْنِی ہَذَا بِہِ جُنُونٌ یَأْخُذُہُ عِنْدَ غَدَائِنَا وَعَشَائِنَا ، فَیَخْبُثُ ، قَالَ : فَمَسَحَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صَدْرَہُ وَدَعَا ، فَثَعَّ ثَعَّۃً ، خَرَجَ مِنْ جَوْفِہِ مِثْلُ الْجِرْوِ الأَسْوَدِ۔
(٣٢٤٠٤) حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ ایک عورت اپنے بیٹے کو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس لائی، اور اس نے کہا یا رسول اللہ ! میرے اس بیٹے کو جنون ہے، اور اس کو دو پہر اور شام کے وقت پر طاری ہوتا ہے، اور یہ بری حرکات کرتا ہے، کہتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے سینے پر ہاتھ پھیرا اور دعا فرمائی ، اس نے قے کی تو اس کے پیٹ سے سیاہ بڑے چوہے کی شکل کا ایک جاندار نکلا۔

32404

(۳۲۴۰۵) حَدَّثَنَا یُونُسُ بْنُ مُحَمَّدِ وَعَفَّانُ ، قَالاَ : حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَن عَمَّارِ بْنِ أَبِی عَمَّارٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ : أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یَخْطُبُ إلَی جِذْعٍ ، فَلَمَّا اتَّخَذَ الْمِنْبَرَ تَحَوَّلَ إلَیْہِ ، فَحَنَّ الْجِذْعُ حَتَّی أَخَذَہُ فَاحْتَضَنَہُ فَسَکَنَ ، فَقَالَ : لَوْ لَمْ أَحْتَضِنْہُ لَحَنَّ إلَی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ۔ (احمد ۲۶۶۔ دارمی ۳۹)
(٣٢٤٠٥) حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک شہتیر سے ٹیک لگا کو خطبہ دیا کرتے تھے، جب آپ نے منبر بنوا لیا تو اس کی طرف منتقل ہوگئے، چنانچہ وہ شہتیر رونے لگا یہاں تک کہ آپ نے اس کو پکڑ کر گلے لگا لیا تو اس کو سکون ہوگیا، تو آپ نے فرمایا کہ اگر میں اس کو گلے نہ لگاتا تو یہ قیامت تک روتا رہتا۔

32405

(۳۲۴۰۶) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ أَبِی حَازِمٍ ، قَالَ أَتَوْا سَہْلَ بْنَ سَعْدٍ فَقَالُوا : مِنْ أَیِّ شَیْئٍ مِنْبَرُ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ؟ قَالَ : مَا بَقِیَ أَحَدٌ مِنَ النَّاسِ أَعْلَمُ بِہِ مِنِّی ، قَالَ : ہُوَ مِنْ أَثْلِ الْغَابَۃِ ، وَعَمِلَہُ فُلاَنٌ - مَوْلَی فُلاَنَۃَ - لِرَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَکَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَسْتَنِدُ إلَی جِذْعٍ فِی الْمَسْجِدِ یُصَلِّی إِلَیْہِ إذَا خَطَبَ ، فَلَمَّا اتَّخَذَ الْمِنْبَرَ فَقَعَدَ عَلَیْہِ حَنَّ الْجِذْعُ ، قَالَ : فَأَتَاہُ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَوَطَّدَہُ ، - وَلَیْسَ فِی حَدِیثِ أَبِی حَازِمٍ : فوطدہ - حَتَّی سَکَنَ۔ (بخاری ۴۴۸۔ مسلم ۳۸۷)
(٣٢٤٠٦) ابو حازم فرماتے ہیں کہ لوگ حضرت سہل بن سعد کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا منبر کس چیز کا تھا ؟ فرمانے لگے کہ مجھ سے زیادہ اس کو جاننے والا کوئی باقی نہیں رہا، فرمایا کہ وہ جنگل کے جھاؤ کے درخت کا تھا، اور اس کو فلاں عورت کے آزاد کردہ غلام فلاں شخص نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے تیار کیا تھا ، اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مسجد کے ایک شہتیر سے ٹیک لگاتے اور جب خطبہ دیتے تو اس کے بعد اس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے، جب منبر تیار ہوا اور آپ اس پر بیٹھ گئے تو وہ شہتیر رونے لگا، چنانچہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کے پاس آئے اور اس کو زمین میں ٹھہرایا یہاں تک کہ اس کو سکون ہوگیا، اور ابو حازم کی روایت میں ” فوطدہ “ کے الفاظ نہیں ہیں۔ “

32406

(۳۲۴۰۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ عَبْدِ الْوَاحِدِ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ جَابِرٍ ، قَالَ : کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَخْطُبُ إلَی جِذْعِ نَخْلَۃٍ ، فَقَالَتْ لَہُ امْرَأَۃٌ مِنَ الأَنْصَارِ : یَا رَسُولَ اللہِ ، إنَّ لِی غُلاَمًا نَجَّارًا ، أَفَلاَ آمُرُہُ یَصْنَعُ لَک مِنْبَرًا ؟ قَالَ : بَلَی ، فَاتَّخَذَ مِنْبَرًا ، فَلَمَّا کَانَ یَوْمُ الْجُمُعَۃِ خَطَبَ عَلَی الْمِنْبَرِ ، قَالَ : فَأَنَّ الْجِذْعُ الَّذِی کَانَ یَقُومُ عَلَیْہِ کَمَا یَإن الصَّبِیِّ ، فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إنَّ ہَذَا بَکَی لِمَا فَقَدَ مِنَ الذِّکْرِ۔ (بخاری ۴۴۹۔ احمد ۳۰۰)
(٣٢٤٠٧) حضرت جابر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک کھجور کے تنے سے ٹیک لگا کر خطبہ دیتے تھے، چنانچہ ایک انصاری عورت نے عرض کیا یا رسول اللہ 5! میرا ایک بڑھئی غلام ہے کیا میں اس کو حکم نہ دوں کہ آپ کے لیے منبر بنائے ؟ آپ نے فرمایا کیوں نہیں، چنانچہ اس نے منبر بنایا ، جب جمعے کا دن ہوا تو آپ نے منبر پر خطبہ دیا، چنانچہ وہ شہتیر رونے لگا جس سے آپ ٹیک لگاتے تھے جیسے بچہ روتا ہے، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اس کو اس لیے رونا آگیا کہ اس کے پاس سے ذکر ختم ہوگیا۔

32407

(۳۲۴۰۸) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ مُجَالِدٍ ، عَنْ أَبِی الْوَدَّاکِ ، عَنْ أَبِی سَعِیدٍ ، قَالَ : کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَخْطُبُ إلَی جِذْعٍ ، فَأَتَاہُ رَجُلٌ رُومِیٌّ ، فَقَالَ : أَصْنَعُ لَک مِنْبَرًا تَخْطُبُ عَلَیْہِ ، فَصَنَعَ لَہُ مِنْبَرَہُ ہَذَا الَّذِی تَرَوْنَ ، فَلَمَّا قَامَ عَلَیْہِ فَخَطَبَ حَنَّ الْجِذْعُ حُنَیْنَ النَّاقَۃِ عَلَی وَلَدِہَا ، فَنَزَلَ إلَیْہِ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَضَمَّہُ إلَیْہِ ، فَسَکَنَ ، فَأَمَرَ بِہِ أَنْ یُدْفَنَ ، وَیُحْفَرَ لَہُ۔ (دارمی ۳۷۔ ابویعلی ۱۰۶۲)
(٣٢٤٠٨) حضرت ابو سعید فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک شہتیر سے ٹیک لگا کر خطبہ دیتے تھے، چنانچہ ایک رومی شخص آپ کے پاس آیا اور اس نے کہا کیا میں آپ کے لیے ایک منبر بناؤں جس پر کھڑے ہو کر آپ خطبہ دیں ؟ چنانچہ اس نے آپ کے لیے یہ منبر بنایا جو آپ دیکھ رہے ہو، جب آپ اس پر کھڑے ہوئے اور خطبہ دیا تو وہ اس طرح رونے لگا جس طرح اونٹنی اپنے بچے پر روتی ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اتر کر اس کے پاس آئے اور اس کو اپنے سینے سے لگایا تو وہ خاموش ہوگیا، پھر آپ نے اس کو ایک جگہ کھود کر دفن کرنے کا حکم فرمایا۔

32408

(۳۲۴۰۹) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَنْ ثَابِتٍ ، عَنْ أَنَسٍ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، مِثْلَ حَدِیثِ ابْنِ عَبَّاسٍ الْمَاضِی۔ (ابن ماجہ ۱۴۱۵۔ احمد ۲۴۹)
(٣٢٤٠٩) حضرت انس نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے حضرت ابن عباس کی گزشتہ روایت کی طرح روایت کرتے ہیں۔

32409

(۳۲۴۱۰) حَدَّثَنَا سُوَیْد بْنُ عَمْرٍو الْکَلْبِیُّ وَمَالِکَ بن إسْمَاعِیلَ ، عَنْ أَبِی عَوَانَۃَ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ أَبِی الْمَلِیحِ ، عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِکٍ الأَشْجَعِیِّ ، قَالَ : عَرَّسَ بِنَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ذَاتَ لَیْلَۃٍ ، فَافْتَرَشَ کُلُّ وَاحِدٍ مِنَّا ذِرَاعَ رَاحِلَتِہِ فَانْتَبَہْت بَعْضَ اللَّیْلِ فَإِذَا نَاقَۃُ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَیْسَ قُدَّامَہَا أَحَد، فَانْطَلَقْت أَطْلُبُ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَإِذَا مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ وَعَبْدُ اللہِ بْنُ قَیْسٍ قَائِمَانِ ، قَالَ : قُلْتُ أَیْنَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ؟ قَالاَ : لاَ نَدْرِی ، غَیْرَ أَنَّا سَمِعْنَا صَوْتًا فِی أَعْلَی الْوَادِی ، فَإذا مِثْلُ ہَزِیرِ الرَّحَی ، فَلَمْ نَلْبَثْ إلاَّ یَسِیرًا حَتَّی أَتَی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : إِنَّہُ أَتَانِی اللَّیْلَۃَ آتٍ مِنْ رَبِّی فَخَیَّرَنِی أَنْ یُدْخِلَ نِصْفَ أُمَّتِی الْجَنَّۃَ وَبَیْنَ الشَّفَاعَۃِ ، وَإِنِّی اخْتَرْت الشَّفَاعَۃَ ، قَالَ : فَقُلْنَا : یَا رَسُولَ اللہِ ، نَنْشُدُک اللَّہَ وَالصُّحْبَۃَ لَمَا جَعَلْتَنَا مِنْ أَہْلِ شَفَاعَتِکَ ، قَالَ : فَأَنْتُمْ مِنْ أَہْلِ شَفَاعَتِی ، قَالَ : فَأَقْبَلْنَا مَعَانِیقَ إلَی النَّاسِ ، قَالَ : فَإِذَا ہُمْ قَدْ فَزِعُوا وَفَقَدُوا نَبِیَّہُمْ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : إِنَّہُ أَتَانِی اللَّیْلَۃَ آتٍ مِنْ رَبِّی فَخَیَّرَنِی بَیْنَ أَنْ یُدْخِلَ نِصْفَ أُمَّتِی الْجَنَّۃَ وَبَیْنَ الشَّفَاعَۃِ ، وَإِنِّی اخْتَرْت الشَّفَاعَۃَ ، فَقَالُوا : یَا رَسُولَ اللہِ ، نَنْشُدُک اللَّہَ وَالصُّحْبَۃَ ، لَمَا جَعَلْتَنَا مِنْ أَہْلِ شَفَاعَتِکَ ، فَلَمَّا أَضَبُّوا عَلَیْہِ ، قَالَ : فَإِنِّی أُشْہِدُ مَنْ حَضَرَ أَنَّ شَفَاعَتِی لِمَنْ مَاتَ مِنْأُمَّتِی لاَ یُشْرِکُ بِاللہِ شَیْئًا۔ (ابن خزیمۃ ۳۸۷)
(٣٢٤١٠) حضرت عوف بن مالک اشجعی فرماتے ہیں کہ ایک رات رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے پاس ٹھہرے ، چنانچہ ہم میں سے ہر ایک نے اپنی سواری کے اگلے پاؤں پر سرہانہ لگا لیا، میں رات کے کسی حصّے میں بیدار ہوا تو دیکھا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اونٹنی کے سامنے کوئی نہیں، چنانچہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تلاش کرنے نکلا تو معاذ بن جبل اور عبداللہ بن قیس کھڑے تھے، میں نے کہا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہاں ہیں ؟ کہنے لگے کہ ہمیں اس کے علاوہ کوئی علم نہیں کہ ہم نے وادی کے اوپر کی جانب سے ایک آواز سنی تو سنا کہ پن چکّی جیسی آواز آرہی تھی، چنانچہ ہم تھوڑا ہی چلے تھے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لے آئے، اور فرمایا کہ آج رات میرے پاس میرے رب کی طرف سے ایک آنے والا آیا، اور اس نے مجھے میری امت کے نصف لوگوں کے جنت میں داخل ہونے اور شفاعت کے درمیان اختیار دیا اور میں نے شفاعت کو اختیار کیا ہے، ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم آپ کو اللہ کا اور آپ کی صحبت کا واسطہ دیتے ہیں کہ آپ ہمیں اپنے اہل شفاعت میں سے کر دیجئے، آپ نے فرمایا تم میری شفاعت کے حصّہ داروں میں ہو، کہتے ہیں کہ ہم تیزی سے لوگوں کے پاس آئے تو وہ گھبرائے ہوئے تھے اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تلاش کر رہے تھے، آپ نے فرمایا کہ آج رات میرے پاس میرے رب کی طرف سے ایک آنے والا آیا، اور اس نے مجھے میری امت کے نصف لوگوں کے جنت میں داخل کیے جانے اور میری شفاعت کے درمیان اختیار دیا، اور میں نے شفاعت کو اختیار کیا ہے، لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم آپ کو اللہ کا اور آپ کی صحبت کا واسطہ دیتے ہیں کہ آپ ہمیں اپنے اہل شفاعت میں کر دیجئے، آپ نے فرمایا کہ میں تمام حاضرین کو گواہ بناتا ہوں کہ میری شفاعت میری امت کے ہر اس شخص کے لیے ہوگی جو اس حال میں مرے گا کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرتا ہوگا۔

32410

(۳۲۴۱۱) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَیْدٍ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِی الْجَعْدِ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : مَرَّ بِی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَأَنَا أَسُوقُ بَعِیرًا لِی وَأَنَا فِی آخِرِ النَّاسِ وَہُوَ یَظْلَع ، أَوْ قَدَ اعْتَلَّ ، قَالَ : مَا شَأْنُہُ ؟ فَقُلْتُ : یَا رَسُولَ اللہِ : یَظْلَع ، أَوْ قَدَ اعْتَلَّ ، فَأَخَذَ شَیْئًا کَانَ فِی یَدِہِ فَضَرَبَہُ ، ثُمَّ قَالَ : ارْکَبْ ، فَلَقَدْ کُنْت أَحْبِسُہُ حَتَّی یَلْحَقُونِی۔ (مسلم ۱۲۲۲۔ نسائی ۶۲۳۵)
(٣٢٤١١) حضرت جابر بن عبداللہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرے پاس سے گزرے جبکہ میں اپنے اونٹ کو ہانک رہا تھا اور سب لوگوں سے پیچھے تھا اور میرا اونٹ لنگڑا یا بیمار تھا، آپ نے فرمایا اس کو کیا ہوا ؟ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! لنگڑا یا بیمار ہے، آپ نے ایک چیز لی جو آپ کے ہاتھ میں تھی، اور اس کو مارا ، پھر فرمایا سوار ہو جاؤ، چنانچہ میں اس کو روکتا تھا تاکہ لوگ مجھ تک پہنچ جائیں۔

32411

(۳۲۴۱۲) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا عُثْمَان بْنُ حَکِیمٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنِی عَبْدُ الرَّحْمَن بْنُ عَبْدِ الْعَزِیزِ ، عَنْ یَعْلَی بْنِ مُرَّۃَ ، قَالَ : لَقَدْ رَأَیْت مِنْ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ثَلاَثًا مَا رَآہَا أَحَدٌ قَبْلِی ، وَلاَ یَرَاہَا أَحَدٌ مِنْ بَعْدِی : لَقَدْ خَرَجْت مَعَہُ فِی سَفَرٍ حَتَّی إذَا کُنَّا بِبَعْضِ الطَّرِیقِ مَرَرْنَا بِامْرَأَۃٍ جَالِسَۃٍ مَعَہَا صَبِیٌّ ، قَالَتْ : یَا رَسُولَ اللہِ ، ابْنِی ہَذَا أَصَابَہُ بَلاَئٌ، وَأَصَابَنَا مِنْہُ بَلاَئٌ ، یُؤْخَذُ فِی الْیَوْمِ لاَ أَدْرِی کَمْ مَرَّۃً ، قَالَ : نَاوِلِینِیہِ ، فَرَفَعَتْہُ إلَیْہِ ، فَجَعَلَہُ بَیْنَہُ وَبَیْنَ وَاسِطَۃِ الرَّحْلِ ، ثُمَّ فَغَرَ فَاہُ فَنَفَثَ فِیہِ ثَلاَثًا بِسْمِ اللہِ أَنَا عَبْدُ اللہِ اخْسَأْ عَدُوَّ اللہِ ، قَالَ : ثُمَّ نَاوَلَہَا إیَّاہُ ، ثُمَّ قَالَ : الْقَیْنَا بِہِ فِی الرَّجْعَۃِ فِی ہَذَا الْمَکَانِ ، فَأَخْبِرِینَا بِمَا فَعَلَ، قَالَ : فَذَہَبْنَا وَرَجَعْنَا ، فَوَجَدْنَاہَا فِی ذَلِکَ الْمَکَانِ مَعَہَا شِیَاہٌ ثَلاَثٌ ، فَقَالَ : مَا فَعَلَ صَبِیُّک ؟ قَالَتْ : وَالَّذِی بَعَثَک بِالْحَقِ مَا أَحْسَسْنَا مِنْہُ شَیْئًا حَتَّی السَّاعَۃِ فَاجْتَزِر ہَذِہِ الْغَنَمَ ، قَالَ : انْزِلْ فَخُذْ مِنْہَا وَاحِدَۃً وَرُدَّ الْبَقِیَّۃَ۔ قَالَ: وَخَرَجْت مَعَہُ ذَاتَ یَوْمٍ إلَی الْجَبَّانَۃِ ، حَتَّی إذَا بَرَزْنَا قَالَ : اُنْظُرْ وَیْحَک ، ہَلْ تَرَی مِنْ شَیْئٍ یُوَارِینِی؟ قُلْتُ : یَا رَسُولَ اللہِ ، مَا أَرَی شَیْئًا یُوَارِیک إلاَّ شَجَرَۃً مَا أَرَاہَا تُوَارِیک ، قَالَ : مَا قُرْبُہَا شَیْئٌ ؟ قُلْتُ : شَجَرَۃٌ خَلْفَہَا ، وَہِیَ مِثْلُہَا أَوْ قَرِیبٌ مِنْہَا ، قَالَ : اذْہَبْ إلَیْہِمَا فَقُلْ لَہُمَا إنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَأْمُرُکُمَا أَنْ تَجْتَمِعَا بِإِذْنِ اللہِ تَعَالَی ، قَالَ : فَاجْتَمَعَتَا فَبَرَزَ لِحَاجَتِہِ ، ثُمَّ رَجَعَ فَقَالَ : اذْہَبْ إلَیْہِمَا فَقُلْ لَہُمَا : إنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَأْمُرُکُمَا أَنْ تَرْجِعَ کُلُّ وَاحِدَۃٍ مِنْکُمَا إلَی مَکَانِہَا۔ قَالَ : وَکُنْت جَالِسًا مَعَہُ ذَاتَ یَوْمٍ إذْ جَائَ جَمَلٌ یَخِبُّ حَتَّی ضَرَبَ بِجِرَانِہِ بَیْنَ یَدَیْہِ ، ثُمَّ ذَرَفَتْ عَیْنَاہُ ، فَقَالَ : اُنْظُرْ وَیْحَک لِمَنْ ہَذَا الْجَمَلُ ؟ إنَّ لَہُ لَشَأْنًا ، فَخَرَجْت أَلْتَمِسُ صَاحِبَہُ فَوَجَدْتُہُ لِرَجُلٍ مِنَ الأَنْصَارِ، فَدَعَوْتُہُ إلَیْہِ ، فَقَالَ : مَا شَأْنُ جَمَلِکَ ہَذَا ؟ قَالَ : وَمَا شَأْنُہُ ؟ قَالَ : لاَ أَدْرِی وَاللہِ مَا شَأْنُہُ ، عَمِلْنَا عَلَیْہِ وَنَضَحْنَا عَلَیْہِ حَتَّی عَجَزَ عَنِ السِّقَایَۃِ ، فَائْتَمَرْنَا الْبَارِحَۃَ أَنْ نَنْحَرَہُ وَنُقَسِّمَ لَحْمَہُ ، قَالَ : فَلاَ تَفْعَلْ ، ہَبْہُ لِی، أَوْ بِعْنِیہِ ، قَالَ : ہُوَ لَک یَا رَسُولَ اللہِ ، فَوَسَمَہُ سِمَۃِ الصَّدَقَۃِ ، ثُمَّ بَعَثَ بِہِ۔
(٣٢٤١٢) حضرت یعلی بن مرّہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تین نشانیاں دیکھی ہیں جو نہ مجھ سے پہلے کسی نے دیکھیں نہ میرے بعد کوئی دیکھے گا، میں آپ کے ساتھ ایک سفر میں نکلا یہاں تک کہ ہم راستے میں ایک عورت کے پاس سے گزرے جس کے ساتھ ایک بچہ تھا، اس نے کہا یا رسول اللہ ! میرے اس بیٹے کو ایک مصیبت آئی ہے، آپ نے فرمایا مجھے دو ، اس نے بچہ آپ کو دیا، آپ نے اس کو اپنے اور کجاوے کے درمیانی حصّے کے درمیان رکھ لیا، پھر آپ نے اس کا منہ کھولا اور اس میں تین مرتبہ ” بِسْمِ اللہِ أَنَا عَبْدُ اللہِ اخْسَأْ عَدُوَّ اللہِ “ کہہ کر پھونکا ، پھر وہ بچہ اس کو دے دیا، اور فرمایا کہ واپسی میں ہمیں اسی جگہ ملنا ، اور بتانا کہ کیا ہوا، کہتے ہیں کہ ہم گئے اور پھر لوٹے اور اس عورت کو اس جگہ دیکھا ، اس کے پاس بہت سی بکریاں تھیں، آپ نے فرمایا تمہارے بچے کا کیا ہوا ؟ اس نے کہا اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے ہم کو اس کے بارے میں ابھی تک کچھ محسوس نہیں ہوا، آپ نے یہ بکریاں لے لیں آپ نے فرمایا اترو اور ایک بکری لے لو اور باقی واپس کردو۔
کہتے ہیں کہ ایک دن میں آپ کے ساتھ میدان کی طرف نکلا یہاں تک کہ جب ہم دور نکل گئے تو آپ نے فرمایا دیکھو کیا تم کوئی چیز دیکھتے ہو جو مجھے چھپالے ؟ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ 5! مجھے آپ کو چھپانے والی کوئی چیز نظر نہیں آرہی سوائے ایک درخت کے جو آپ کو چھپا نہیں سکتا، آپ نے فرمایا اس کے قریب کوئی چیز نہیں ؟ میں نے عرض کیا اس کے پیچھے ایک درخت ہے جو اتنا ہی ہے یا اس کے قریب ہے، آپ نے فرمایا ان دونوں کے پاس جاؤ اور ان سے کہو کہ اللہ کے رسول تمہیں حکم دیتے ہیں کہ تم بحکم خدا کٹھے ہو جاؤ، کہتے ہیں کہ وہ دونوں درخت اکٹھے ہوگئے، تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی حاجت کے لیے تشریف لے گئے، پھر لوٹ آئے اور فرمایا کہ ان کے پاس جاؤ اور ان سے کہو کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تم دونوں کو حکم دیتے ہیں کہ تم میں سے ہر ایک اپنی جگہ لوٹ جائے۔
کہتے ہیں کہ ایک دن میں آپ کے ساتھ بیٹھا تھا کہ ایک اونٹ روتا ہوا آیا، اور آپ کے سامنے بیٹھ گیا، پھر اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا دیکھو یہ کس کا اونٹ ہے ؟ اس کی بری حالت ہے، کہتے ہیں کہ میں اس کے مالک کو ڈھونڈنے نکلا تو وہ اونٹ انصار میں سے ایک آدمی کا پایا، میں نے اس کو آپ کے پاس بلایا ، آپ نے فرمایا کہ تمہارے اس اونٹ کا کیا قصّہ ہے ؟ اس نے بخدا میں نہیں جانتا کہ اس کی کیا حالت ہے البتہ یہ معلوم ہے کہ ہم نے اس پر کام کیا اور پانی اٹھوایا، یہاں تک کہ یہ پانی اٹھانے سے عاجز ہوگیا پھر شام کو ہمارا مشورہ ہوا کہ اس کو ذبح کردیں اور اس کا گوشت تقسیم کردیں، آپ نے فرمایا ایسا نہ کرو یہ مجھے ہبہ کردو یا بیچ دو ، اس نے کہا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! یہ آپ کا ہے، آپ نے اس پر صدقہ کا نشان لگایا اور پھر اس کو بھیج دیا۔

32412

(۳۲۴۱۳) حَدَّثَنَا عُبَیْدُاللہِ بْنُ مُوسَی، قَالَ: أَخْبَرَنَا إسْمَاعِیلُ بْنُ عَبْدِالْمَلِکِ، عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: خَرَجْت مَعَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی سَفَرٍ، وَکَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لاَ یَأْتِی الْبَرَازَ حَتَّی یَتَغَیَّبَ فَلاَ یُرَی ، فَنَزَلْنَا بِفَلاَۃٍ مِنَ الأَرْضِ لَیْسَ فِیہَا شَجَرَۃٌ وَلاَ عَلَمٌ، فَقَالَ: یَا جَابِرُ اجْعَلْ فِی إِدَاوَتِکَ مَائ، ثُمَّ انْطَلَقَ بِنَا ، قَالَ : فَانْطَلَقْنَا حَتَّی لاَ نُرَی فَإِذَا ہُوَ بِشَجَرَتَیْنِ بینہما أَرْبَعَۃ أَذْرعْ ، فَقَالَ : یَا جَابِر انْطَلِقْ إلَی ہَذِہِ الشَّجَرَۃِ فَقُلْ لَہَا : یَقُولُ لَک رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : الْحَقِی بِصَاحِبَتِکَ حَتَّی أَجْلِسَ خَلْفَکُمَا ، فَرَجَعَتْ إلَیْہَا فَجَلَسَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خَلْفَہُمَا ، ثُمَّ رَجَعَتَا إلَی مَکَانِہِمَا۔ فَرَکِبْنَا وَرَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : بَیْنَنَا کَأَنَّمَا عَلَی رُؤُوسِنَا الطَّیْرُ تُظِلُّنَا ، فَعَرَضَتْ لَنَا امْرَأَۃٌ مَعَہَا صَبِیٌّ لَہَا، فَقَالَتْ: یَا رَسُولَ اللہِ، إنَّ ابْنِی ہَذَا یَأْخُذُہُ الشَّیْطَانُ کُلَّ یَوْمٍ مِرَارًا، فَوَقَفَ بِہَا، ثُمَّ تَنَاوَلَ الصَّبِیَّ فَجَعَلَہُ بَیْنَہُ وَبَیْنَ مُقَدَّمِ الرَّحْلِ ، ثُمَّ قَالَ : اخْسَأْ عَدُوَّ اللہِ ، أَنَا رَسُولُ اللہِ ثَلاَثًا ، ثُمَّ دَفَعَہُ إلَیْہَا ، فَلَمَّا قَضَیْنَا سَفَرَنَا مَرَرْنَا بِذَلِکَ الْمَوْضِعِ فَعَرَضَتْ لَنَا الْمَرْأَۃُ مَعَہَا صَبِیُّہَا وَمَعَہَا کَبْشَانِ تَسُوقُہُمَا، فَقَالَتْ: یَا رَسُولَ اللہِ، اقْبَلْ مِنِّی ہَذَیْن، فَوَالَّذِی بَعَثَک بِالْحَقِ مَا عَادَ إلَیْہِ بَعْدُ، فَقَالَ: خُذُوا مِنْہَا أَحَدَہُمَا، وَرُدُّوا عَلَیْہَا الآخَرَ۔ قَالَ : ثُمَّ سِرْنَا وَرَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَیْنَنَا کَأَنَّمَا عَلَی رُؤُوسِنَا الطَّیْرُ تُظِلُّنَا ، فَإِذَا جَمَلٌ نَادٌّ حَتَّی إذَا کَانَ بَیْنَ السِّمَاطَیْنِ خَرَّ سَاجِدًا ، فَجَلَسَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، ثُمَّ قَالَ: عَلَیَّ النَّاسَ، مَنْ صَاحِبُ ہَذَا الْجَمَلِ ؟ فَإِذَا فِتْیَۃٌ مِنَ الأَنْصَارِ ، قَالُوا : ہُوَ لَنَا یَا رَسُولَ اللہِ ، قَالَ : فَمَا شَأْنُہُ ؟ قَالُوا: سَنَیْنَا عَلَیْہِ مُنْذُ عِشْرِینَ سَنَۃً ، وَکَانَتْ بِہِ شُحَیْمَۃٌ ، فَأَرَدْنَا أَنْ نَنْحَرَہُ ، فَنَقْسِمُہُ بَیْنَ غِلْمَانِنَا ، فَانْفَلَتَ مِنَّا ، قَالَ : تَبِیعُونَہُ ، قَالُوا : لاَ ، بَلْ ہُوَ لَک یَا رَسُولَ اللہِ ، قَالَ : إمَّا لاَ فَأَحْسِنُوا إلَیْہِ حَتَّی یَأْتِیَہُ أَجَلُہُ۔
(٣٢٤١٣) حضرت جابر فرماتے ہیں کہ میں ایک سفر میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ نکلا ، اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قضائے حاجت کے لیے نہ جاتے یہاں تک کہ اتنی دور چلے جائیں کہ نظر نہ آئیں، چنانچہ ہم ایک چٹیل میدان میں اترے جس میں کوئی درخت یا ٹیلہ نہیں تھا، آپ نے فرمایا اے جابر ! اپنے برتن میں پانی ڈالو، پھر ہمارے ساتھ چلو، کہتے ہیں کہ ہم چلے یہاں تک کہ ہم نظر نہیں آ رہے تھے ، وہاں آپ کو دو درخت نظر آئے جن کے درمیان چار ہاتھ کا فاصلہ تھا، آپ نے فرمایا اے جابر ! اس درخت کے پاس جاؤ اور اس کے کہو کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تم سے فرما رہے ہیں کہ اپنے ساتھ والے درخت کے ساتھ مل جاؤ تاکہ میں تمہارے پیچھے بیٹھ سکوں، چنانچہ وہ درخت دوسرے سے مل گیا ، اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے پیچھے بیٹھ گئے، پھر وہ اپنی جگہ واپس چلے گئے۔
(٢) پھر ہم سوار ہوئے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے درمیان تھے، گویا کہ ہمارے سروں پر پرندے سایہ فگن ہیں، چنانچہ ہمارا ایک عورت سے سامنا ہوا جس کے ساتھ اس کا بچہ تھا، اس نے کہا یا رسول اللہ 5! میرے اس بیٹے کو ہر روز کئی مرتبہ شیطان پکڑ لیتا ہے، آپ اس کے لیے ٹھہرے اور بچے کو لیا اور اس کو اپنے اور کجاوے کے اگلے حصّے کے درمیان رکھا، پھر فرمایا اے اللہ کے دشمن ! دفع ہوجا، میں اللہ کا رسول ہوں، تین مرتبہ اس طرح فرمایا، پھر بچہ عورت کو دے دیا، جب ہم اس سفر سے واپس ہوئے تو ہم اس جگہ سے گزرے وہ عورت ہمارے سامنے آئی اور اس کے پاس دو مینڈھے تھے جن کو وہ ہانک رہی تھی، اس نے عرض کی یا رسول اللہ مجھ سے یہ قبول کر لیجیے، اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے وہ اس کے پاس دوبارہ نہیں آیا ، آپ نے فرمایا اس سے ایک لے لو اور دوسرا واپس کردو۔
(٣) فرماتے ہیں کہ پھر ہم چلے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے درمیان تھے، اس طرح تھے کہ گویا ہمارے سروں پر پرندے سایہ فگن ہیں، اچانک ایک اونٹ دو قطاروں کے درمیان بھاگتا ہوا آیا اور سجدے میں گرگیا، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیٹھ گئے اور فرمایا کہ اے لوگو ! کون اس اونٹ کا مالک ہے ؟ معلوم ہوا کہ انصار کے چند جوان ہیں، کہنے لگے یا رسول اللہ ! یہ ہمارا ہے، آپ نے فرمایا کہ اس کی کیا حالت ہے ؟ وہ کہنے لگے کہ ہم نے بیس سال اس سے پانی لگوایا ہے، اور اس میں کچھ چربی ہے اس لیے ہم اس کو ذبح کرنا چاہتے ہیں اور اپنے غلاموں میں اس کو تقسیم کرنا چاہتے ہیں ، لیکن یہ ہم سے چھوٹ گیا، آپ نے فرمایا کہ کیا تم اس کو بیچتے ہو ؟ وہ کہنے لگے نہیں، بلکہ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ آپ کو ہدیہ ہے، آپ نے فرمایا کہ اگر بیچنا نہیں چاہتے تو اس کے ساتھ حسن سلوک کرو یہاں تک کہ اس کی موت آجائے۔

32413

(۳۲۴۱۴) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ یَزِیدَ بْنِ أَبِی زِیَادٍ ، عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ عَمْرٍو بن الأَحْوَصِ ، عَنْ أُمِّہِ أُمِّ جُنْدُبٍ ، قَالَتْ : رَأَیْت رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَمَی جَمْرَۃَ الْعَقَبَۃِ مِنْ بَطْنِ الْوَادِی یَوْمَ النَّحْرِ وَہُوَ عَلَی دَابَّۃٍ ، ثُمَّ انْصَرَفَ وَتَبِعَتْہُ امْرَأَۃٌ مِنْ خَثْعَمَ ، وَمَعَہَا صَبِیٌّ لَہَا بِہِ بَلاَئٌ ، فَقَالَتْ : یَا رَسُولَ اللہِ ، إنَّ ہَذَا ابْنِی وَبَقِیَّۃُ أَہْلِی ، وَإِنَّ بِہِ بَلاَئً لاَ یَتَکَلَّمُ ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : ائْتُونِی بِشَیْئٍ مِنْ مَائٍ ، فَأُتِیَ بِہِ فَغَسَلَ یَدَیْہِ وَمَضْمَضَ فَاہُ ، ثُمَّ أَعْطَاہَا ، فَقَالَ : اسْقِیہِ مِنْہُ ، وَصُبِّی عَلَیْہِ مِنْہُ ، وَاسْتَشْفِی اللَّہَ لَہُ ، قَالَتْ : فَلَقِیتُ الْمَرْأَۃَ ، فَقُلْتُ : لَوْ وَہَبْت لِی مِنْہُ ، فَقَالَتْ : إنَّمَا ہُوَ لِہَذَا الْمُبْتَلَی، فَلَقِیت الْمَرْأَۃَ مِنَ الْحَوْلِ فَسَأَلْتُہَا عَنِ الْغُلاَمِ ، فَقَالَتْ : بَرَأَ وَعَقَلَ عَقْلاً لَیْسَ کَعُقُولِ النَّاسِ۔ (ابوداؤد ۱۹۶۱۔ احمد ۵۰۳)ق
(٣٢٤١٤) حضرت امّ جندب فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیکھا کہ آپ نے یوم النحر کو بطن الوادی سے جمرۃ العقبۃ کی رمی کی، جبکہ آپ سواری پر تھے، پھر آپ مڑے اور قبیلہ خثعم کی ایک عورت آپ کے پیچھے ہوئی، اس کے ساتھ اس کا ایک بچہ بھی تھا جس پر اثر تھا، کہنے لگی یا رسول اللہ ! یہ میرا بیٹا اور میرا وارث ہے، اور اس کو ایک اثر ہے جس کی وجہ سے بولتا نہیں، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میرے پاس تھوڑا پانی لاؤ، آپ کے پاس پانی لایا گیا تو آپ نے اپنے ہاتھ دھوئے اور کلی کی اور اس کو پانی دے دیا، اور فرمایا کہ اس کو اس سے پلاؤ اور اس پر اس سے چھڑکو، اور اللہ سے اس کے لیے شفاء مانگو ، کہتی ہیں کہ میں ایک عورت سے ملی اور اس سے کہا کہ اگر تھوڑا سا پانی اس میں سے مجھے دے دیں تو کیسا ہے، وہ کہنے لگی کہ یہ تو اس آفت زدہ کے لیے ہے، پھر میں ایک سال کے بعد عورت سے ملی اور اس سے لڑکے کے بارے میں پوچھا تو اس نے کہا کہ وہ صحت یاب ہوگیا اور ایسا عقل مند ہوگیا کہ عام لوگ اتنے عقل مند نہیں ہوتے۔

32414

(۳۲۴۱۵) حَدَّثَنَا أَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ ، عَنْ مَہْدِیِّ بْنِ مَیْمُونً ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ أَبِی یَعْقُوبَ ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ جَعْفَرٍ ، قَالَ : أَرْدَفَنِی النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ذَاتَ یَوْمٍ خَلْفَہُ فَأَسَرَّ إلَیَّ حَدِیثًا لاَ أُحَدِّثُہُ أَحَدًا مِنَ النَّاسِ ، وَکَانَ مِمَّا یُعْجِبُہ ، یَعْنِی النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، أَنْ یَسْتَتِرَ بِہِ لِقَضَائِ حَاجَتِہِ ہَدَفٌ ، أَوْ حَائِشُ نَخْلٍ ، فَدَخَلَ یَوْمًا حَائِشَ نَخْلِ الأَنْصَارِ فَرَأَی فِیہِ بَعِیرًا ، فَلَمَّا رَآہُ الْبَعِیرُ خَرَّ وَذَرَفَتْ عَیْنَاہُ ، قَالَ : فَمَسَحَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سَرَاتَہُ وَذِفْرَاہُ فَسَکَنَ ، فَقَالَ : لِمَنْ ہَذَا الْبَعِیرُ ؟ أَوْ مَنْ رَبُّ ہَذَا الْبَعِیرِ ؟ قَالَ : فَقَالَ الأَنْصَارِیُّ : أَنَا یَا رَسُولَ اللہِ ، فَقَالَ : أَحْسِنْ إلَیْہِ فَقَدْ شَکَا إلَیَّ أَنَّک تُجِیعُہُ وَتُدْئِبُہُ۔ (ابوداؤد ۲۵۴۲۔ احمد ۲۰۶)
(٣٢٤١٥) حضرت عبداللہ بن جعفر فرماتے ہیں کہ ایک دن نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے اپنا ردیف بنایا اور مجھے رازداری سے ایک بات بتلائی جو میں کسی کو نہیں بتاؤں گا، اور آپ کو یہ پسند تھا کہ قضاء حاجت کے لیے آپ کو کوئی ٹیلہ یا کھجور کے درخت کا جھنڈ چھپالے، ایک مرتبہ آپ انصار کے درختوں کے جھنڈ میں داخل ہوئے تو اس میں ایک اونٹ دیکھا ، جب اونٹ نے آپ کو دیکھا تو گرگیا اور اس کی آنکھیں بہنے لگیں، چنانچہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کی پیٹھ اور گردن پر ہاتھ پھیرا تو وہ پرسکون ہوگیا، آپ نے فرمایا کہ یہ اونٹ کس کا ہے ؟ یا فرمایا کہ اس اونٹ کا مالک کون ہے ؟ تو ایک انصاری نے کہا یا رسول اللہ 5! میں ہوں، آپ نے فرمایا کہ اس کے ساتھ اچھا سلوک کرو، کیونکہ یہ مجھے شکایت کررہا ہے کہ تم اس کو بھوکا رکھتے ہو اور ہمیشہ کام میں لگا کر رکھتے ہو۔

32415

(۳۲۴۱۶) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ الْمُبَارَکِ ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ : أَنَّ یَہُودِیًّا حَلَبَ لِلنَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَاقَۃً ، فَقَالَ : اللَّہُمَّ جَمِّلْہُ ، فَاسْوَدَّ شَعْرُہُ۔
(٣٢٤١٦) حضرت قتادہ فرماتے ہیں کہ ایک یہودی نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے اونٹنی کو دوہا، تو آپ نے فرمایا اے اللہ ! اس کو خوبصورت فرما، چنانچہ اس کے بال سیاہ ہوگئے۔

32416

(۳۲۴۱۷) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ الْحُبَابِ ، قَالَ : حدَّثَنِی حُسَیْنُ بْنُ وَاقِدٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِی ابْنِ نَہِیکٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ عَمْرَو بْنَ أَخْطَبَ أَبَا زَیْدٍ الأَنْصَارِیَّ ، یَقُولُ : اسْتَسْقَی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَجِئْتُہُ بِقَدَحٍ ، فَکَانَتْ فِیہِ شَعْرَۃٌ فَنَزَعَہَا ، قَالَ : اللَّہُمَّ جَمِّلْہُ ، فَلَقَدْ رَأَیْتُہُ وَہُوَ ابْنُ أَرْبَعٍ وَتِسْعِینَ ، وَمَا فِی رَأْسِہِ طَاقَۃٌ بَیْضَائُ۔ (ترمذی ۳۶۲۹۔ احمد ۳۴۱)
(٣٢٤١٧) حضرت ابن نھیک فرماتے ہیں کہ میں نے عمرو بن اخطب ابو زید انصاری کو فرماتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پانی طلب کیا ، تو میں آپ کے پاس ایک پیالہ لایا، اس میں ایک بال تھا میں نے اس کو نکال دیا تو آپ نے فرمایا اے اللہ ! اس کو خوبصورت فرما، کہتے ہیں کہ میں نے ان کو چورانوے سال کی عمر میں دیکھا کہ اس وقت بھی ان کے سر میں سفید بال نہیں تھا۔

32417

(۳۲۴۱۸) حَدَّثَنَا مُعَلَّی بْنُ مَنْصُورٍ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ حَمْزَۃَ ، عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ أَبِی فَرْوَۃَ ، عَنْ یُوسُفَ بْنِ سُلَیْمَانَ ، عَنْ جَدَّتَہ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الْحَمِقِ : أنَّہُ سَقَی النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَبَنًا ، فَقَالَ : اللَّہُمَّ أَمْتِعْہُ بِشَبَابِہِ ، فَلَقَدْ أَتَتْ عَلَیْہِ ثَمَانُونَ سَنَۃً لاَ یَرَی شَعَرَۃً بَیْضَائَ۔ (مسند ۸۶۴)
(٣٢٤١٨) حضرت عمرو بن الحمق فرماتے ہیں کہ انھوں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دودھ پلایا، آپ نے فرمایا کہ اے اللہ ! اس کو اس جوانی سے فائدہ پہنچا ، چنانچہ ان کی عمر اسّی سال ہوگئی اور ان کے سر میں ایک سفید بال بھی نہ تھا۔

32418

(۳۲۴۱۹) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ جَعْدَۃَ ، عَنْ رَجُلٍ حَدَّثَہُ ، عَنْ أُمِّ مَالِکٍ الأَنْصَارِیَّۃِ ، قَالَ : جَائَتْ أُمُّ مَالِکٍ بِعُکَّۃِ سَمْنٍ إلَی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَأَمَرَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِلاَلاً فَعَصَرَہَا ، ثُمَّ دَفَعَہَا إلَیْہَا فَرَجَعَتْ فَإِذَا ہِیَ مَمْلُوئَۃٌ ، فَأَتَتِ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَتْ : أَنَزَلَ فِی شَیْئٌ یَا رَسُولَ اللہِ ؟ قَالَ : وَمَا ذَاکَ یَا أُمَّ مَالِکٍ ، قَالَتْ : رَدَدْت عَلَیَّ ہَدِیَّتِی ، قَالَ : فَدَعَا بِلاَلاً فَسَأَلَہُ عَنْ ذَلِکَ ، فَقَالَ : وَالَّذِی بَعَثَک بِالْحَقِ ، لَقَدْ عَصَرْتُہَا حَتَّی اسْتَحْیَیْت ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : ہَنِیئًا لَک یَا أُمَّ مَالِکَ ، ہَذِہِ بَرَکَۃٌ عَجَّلَ اللَّہُ لَکِ ثَوَابَہَا ، ثُمَّ عَلَّمَہَا أَنْ تَقُولَ فِی دُبُرِ کُلِّ صَلاَۃٍ سُبْحَانَ اللہِ عَشْرًا وَالْحَمْدُ لِلَّہِ عَشْرًا وَاللَّہُ أَکْبَرُ عَشْرًا۔ (احمد ۳۴۰۔ طبرانی ۳۵۱)
(٣٢٤١٩) یحییٰ بن جعدہ ایک آدمی کے واسطے سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت ام مالک انصاریہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس گھی کی ایک مشک لائیں، چنانچہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بلال کو اس کے نچوڑنے کا حکم دیا اور پھر ان کو مشک واپس کردی، وہ لوٹیں تو دیکھا کہ وہ مشک بھری ہوئی ہے، چنانچہ وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئیں اور کہا یا رسول اللہ ! کیا میرے بارے میں کوئی حکم نازل ہوا ہے ؟ آپ نے فرمایا اے ام مالک ! کیا ہوا ؟ کہنے لگیں کہ آپ نے میرا ہدیہ واپس کردیا، آپ نے حضرت بلال کو بلایا اور ان سے اس بارے میں سوال کیا، انھوں نے کہا کہ اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا میں نے اس کو اتنا نچوڑا کہ مجھے شرم آنے لگی، چنانچہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اے امّ مالک ! تمہیں مبارک ہو یہ برکت ہے جس کا ثواب اللہ نے تمہیں جلد عطا کیا ہے، پھر آپ نے ان کو ہر نماز کے بعد دس مرتبہ سبحان اللہ، دس مرتبہ الحمد للہ اور دس مرتبہ اللہ اکبر کہنے کی تعلیم فرمائی۔

32419

(۳۲۴۲۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ یَزِیدَ الْفَائشِیِّ ، عَنِ ابْنَۃٍ لِخَبَّابٍ، قَالَتْ : خَرَجَ أَبِی فِی غَزَاۃٍ فِی عَہْدِ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَکَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَتَعَاہَدُنَا فَیَحْلِبُ عَنْزًا لَنَا ، فَکَانَ یَحْلِبُہَا فِی جَفْنَۃٍ لَنَا فَتَمْتَلِئُ ، فَلَمَّا قَدِمَ خَبَّابٌ کَانَ یَحْلبَہَا فَعَادَ حِلاَبُہَا۔ (احمد ۳۷۲۔ ابن سعد ۲۹۰)
(٣٢٤٢٠) عبد الرحمن بن یزید فائشی حضرت خباب کی بیٹی سے روایت کرتے ہیں فرمایا کہ میرے والد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں ایک لڑائی میں نکلے، تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہماری خبر گیری کرتے اور ہماری بکریوں کا دودھ دوہتے، اور آپ اس کو ایک بڑے پیالے میں دوہتے اور وہ بھر جاتا، جب خباب آئے اور وہ اس کا دودھ دوہتے تو اس کا دودھ کا پرانا برتن استعمال ہونے لگا۔

32420

(۳۲۴۲۱) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، قَالَ : کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إذَا قَرَأَ : {وَإِذْ أَخَذْنَا مِنَ النَّبِیِّینَ مِیثَاقَہُمْ وَمِنْک وَمِنْ نُوحٍ} یَقُولُ : بُدِئَ بِی فِی الْخَیْرِ ، وَکُنْت آخِرَہُمْ فِی الْبَعْثِ۔ (احمد ۱۲۷۔ ابن حبان ۶۴۰۴)
(٣٢٤٢١) حضرت قتادہ فرماتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب { وَإِذْ أَخَذْنَا مِنَ النَّبِیِّینَ مِیثَاقَہُمْ وَمِنْک وَمِنْ نُوحٍ } پڑھتے تو فرماتے کہ خیر کی ابتداء مجھ سے کی گئی اور بعثت میں میں ان سب سے آخری ہوں۔

32421

(۳۲۴۲۲) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِی عُبَیْدَۃَ بْنِ مَعْن ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِی سُفْیَانَ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ ، قَالَ : خَرَجَ إلَیْنَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ذَاتَ یَوْمٍ وَہُوَ غَضْبَانُ وَنَحْنُ نَرَی أَنَّ مَعَہُ جِبْرِیلَ ، قَالَ : فَمَا رَأَیْت یَوْمًا کَانَ أَکْثَرَ بَاکِیًا مُتَقَنِّعًا مِنْہُ ، قَالَ : سَلُونِی فَوَاللہِ لاَ تَسْأَلُونِی عَنْ شَیْئٍ إلاَّ أَنْبَأْتُکُمْ بِہِ ، قَالَ : فَقَامَ إلَیْہِ رَجُلٌ فَقَالَ : یَا رَسُولَ اللہِ ، أَفِی الْجَنَّۃِ أَنَا أَمْ فِی النَّارِ ؟ قَالَ : لاَ ، بَلْ فِی النَّارِ ، قَالَ : فَقَامَ إلَیْہِ آخَرُ، فَقَالَ : یَا رَسُولَ اللہِ ، مَنْ أَبِی ؟ قَالَ : أَبُوک حُذَافَۃُ ، قَالَ : فَقَامَ إلَیْہِ آخَرُ ، فَقَالَ : أَعْلَیْنَا الْحَجُّ فِی کُلِّ عَامٍ؟ قَالَ : لَوْ قُلْتُہَا لَوَجَبَتْ ، وَلَوْ وَجَبَتْ مَا قُمْتُمْ بِہَا ، وَلَوْ لَمْ تَقُومُوا بِہَا لَعُذِّبْتُمْ۔ قَالَ : فَقَامَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ ، فَقَالَ : رَضِینَا بِاللہِ رَبًّا وَبِالإِسْلاَمِ دِینًا وَبِمُحَمَّدٍ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَسُولا ، یَا رَسُولَ اللہِ ، کُنَّا حَدِیثِی عَہْدٍ بِجَاہِلِیَّۃٍ ، فَلاَ تُبْدِ سَوْآتِنَا ، وَلاَ تَفْضَحْنَا لِسَرَائِرِنَا وَاعْفُ عَنَّا عَفَا اللَّہُ عَنْک ، قَالَ : فَسُرِّیَ عَنْہُ ، ثُمَّ الْتَفَتَ نَحْوَ الْحَائِطِ ، فَقَالَ : لَمْ أَرَ کَالْیَوْمِ فِی الْخَیْرِ وَالشَّرِ ، رَأَیْت الْجَنَّۃَ وَالنَّارَ دُونَ ہَذَا الْحَائِطِ۔ (بخاری ۹۳۔ مسلم ۱۸۳۲)
(٣٢٤٢٢) حضرت انس بن مالک فرماتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غصے کی حالت میں ہمارے پاس آئے، اور ہم سمجھتے تھے کہ آپ کے ساتھ جبرائیل ہیں، کہتے ہیں کہ میں نے اس دن سے زیادہ رونے والا کوئی دن نہیں پایا، آپ نے فرمایا کہ مجھ سے سوال کرو، بخدا تم مجھ سے جس چیز کا بھی سوال کرو گے میں تمہیں اس کی خبر دوں گا، کہتے ہیں کہ ایک آدمی کھڑا ہوا اور اس نے عرض کیا یا رسول اللہ ! میں جنت میں ہوں یا دوزخ میں ، آپ نے فرمایا کہ نہیں بلکہ دوزخ میں ، دوسرا آدمی کھڑا ہوا اور اس نے کہا یا رسول اللہ ! میرا والد کون ہے ؟ فرمایا کہ تمہارا والد حذافہ ہے، ایک اور آدمی کھڑا ہوا اور اس نے کہا یا رسول اللہ ! کیا ہم پر ہر سال حج فرض ہے ؟ آپ نے فرمایا اگر میں یہ کہہ دوں تو واجب ہوجائے گا۔ اگر واجب ہوا تو تم اس کو ادا نہیں کرسکو گے، اور اگر تم اس کو ادا نہ کرو گے تو تمہیں عذاب دیا جائے گا۔
کہتے ہیں کہ اس پر حضرت عمر بن خطاب کھڑے ہوئے اور عرض کیا ” رَضِینَا بِاللہِ رَبًّا وَبِالإِسْلاَمِ دِینًا وَبِمُحَمَّدٍ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَسُولا “ یا رسول اللہ ! ہمارا جاہلیت کا زمانہ قریب ہے، آپ ہماری برائیاں ظاہر نہ فرمائیں، اور ہمیں ہمارے پوشیدہ کاموں کی وجہ سے رسوا نہ فرمائیے، اور ہمیں معاف فرمائیے ، اللہ نے آپ کو معاف فرما دیا ہے، کہتے ہیں کہ اس کے بعد آپ کی یہ حالت ختم ہوگئی، پھر آپ دیوار کی طرف متوجہ ہوئے ، اور فرمایا کہ میں نے آج کی طرح خیر و شر میں کوئی چیز نہیں دیکھی، میں نے جنت اور دوزخ کو اس دیوار کے پاس پایا۔

32422

(۳۲۴۲۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : أَبْطَأَ جِبْرِیلُ عَلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَجَزِعَ جَزَعًا شَدِیدًا ، فَقَالَتْ لَہُ خَدِیجَۃُ : إنِّی أَرَی رَبَّکَ قَدْ قَلاَکَ مِمَّا یَرَی مِنْ جَزْعِکَ ، قَالَ : فَنَزَلَتْ : {وَالضُّحَی وَاللَّیْلِ إذَا سَجَی مَا وَدَّعَک رَبُّک ، وَمَا قَلَی}۔ (بخاری ۱۱۲۴۔ مسلم ۱۴۲۱)
(٣٢٤٢٣) حضرت عروہ فرماتے ہیں کہ جبرائیل نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آنے میں تاخیر کی تو آپ بہت گھبرائے ، حضرت خدیجہ نے کہا کہ میرا خیال ہے کہ آپ کے رب نے آپ کو چھوڑ دیا ہے کیونکہ اس نے آپ کی گھبراہٹ کو دیکھا ہے، اس پر یہ آیات نازل ہوئیں { وَالضُّحَی وَاللَّیْلِ إذَا سَجَی مَا وَدَّعَک رَبُّک ، وَمَا قَلَی }۔

32423

(۳۲۴۲۴) حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ طَلْحَۃَ ، عَنْ أَسْبَاطِ بْنِ نَصْرٍ الْہَمْدَانِیِّ ، عَنْ سِمَاکٍ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَۃَ ، قَالَ : صَلَّیْت مَعَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صَلاَۃَ الأُولَی ، ثُمَّ خَرَجَ إلَی أَہْلِہِ وَخَرَجْت مَعَہُ ، فَاسْتَقْبَلَہُ وِلدَانٌ فَجَعَلَ یَمْسَحُ خَدَّ أَحَدِہِمْ وَاحِدًا وَاحِدًا ، قَالَ : وَأَمَّا أَنَا فَمَسَحَ خَدَّیَّ ، فَوَجَدْتُ لِیَدِہِ بَرْدًا وَرِیحًا کَأَنَّمَا أَخْرَجَہَا مِنْ جُؤْنَۃِ عَطَّارٍ۔ (مسلم ۱۸۱۴۔ طبرانی ۱۹۴۴)
(٣٢٤٢٤) حضرت جابر بن سمرہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ صلوۃ الأولٰی پڑھی، پھر آپ اپنے گھر کی طرف چلے اور میں بھی چلا، چنانچہ آپ کے پاس بچے آئے تو آپ ایک ایک کے رخسار پر ہاتھ پھیرنے لگے، کہتے ہیں آپ نے میرے رخسار پر بھی ہاتھ پھیرا تو میں نے اس کی ٹھنڈک اور خوشبو محسوس کی گویا کہ ابھی عطر فروش کے تھیلے سے نکالا ہو۔

32424

(۳۲۴۲۵) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ أَبِی بِشْرٍ ، قَالَ : سَأَلْتُ سَعِیدَ بْنَ جُبَیْرٍ عَنِ الْکَوْثَرِ ؟ فَقَالَ : ہُوَ الْخَیْرُ الْکَثِیرُ الَّذِی أَعْطَاہُ اللَّہُ إیَّاہُ۔
(٣٢٤٢٥) حضرت ابو بشر فرماتے ہیں کہ میں نے سعید بن جبیر سے کوثر کے بارے میں سوال کیا تو انھوں نے فرمایا وہ خیر کثیر ہے جو اللہ نے آپ کو عطا فرمائی ہے۔

32425

(۳۲۴۲۶) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ عُمَارَۃَ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ ، قَالَ : ہُوَ النُّبُوَّۃُ وَالْخَیْرُ الَّذِی أَعْطَاہُ اللَّہُ۔
(٣٢٤٢٦) عمارہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت عکرمہ فرماتے یں کہ اس سے مراد نبوت اور خیر ہے جو اللہ نے آپ کو عطا فرمائی۔

32426

(۳۲۴۲۷) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ فُلَیت ، عَنْ جَسْرَۃَ ، عَنْ أَبِی ذَرٍّ ، قَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَہُوَ یُصَلِّی ذَاتَ لَیْلَۃٍ وَہُوَ یُرَدِّدُ آیَۃً حَتَّی أَصْبَحَ ، بِہَا یَرْکَعُ ، وَ بِہَا یَسْجُدُ {إنْ تُعَذِّبْہُمْ فَإِنَّہُمْ عِبَادُک} ، قَالَ : قُلْتُ : یَا رَسُولَ اللہِ ، مَا زِلْت تُرَدِّدُ ہَذِہِ الآیَۃَ حَتَّی أَصْبَحْت ، قَالَ : إنِّی سَأَلْت رَبِّی الشَّفَاعَۃَ لأُمَّتِی وَہِیَ نَائِلَۃٌ لِمَنْ لاَ یُشْرِکُ بِاللہِ شَیْئًا۔ (بیہقی ۱۳)
(٣٢٤٢٧) حضرت ابو ذر فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایک رات نماز میں بار بار رکوع اور سجدے میں یہ آیت دہراتے ہوئے سنا {إنْ تُعَذِّبْہُمْ فَإِنَّہُمْ عِبَادُک } میں نے عرض کیا یا رسول اللہ 5! آپ صبح تک اس آیت کو دہراتے رہے ؟ فرمایا کہ میں نے اپنے رب سے اپنی امت کے لیے شفاعت کا سوال کیا ہے، اور وہ ہر اس آدمی کو حاصل ہونے والی ہے جو اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتا ہو۔

32427

(۳۲۴۲۸) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ عَطَائٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ، قَالَ : لَمَّا أَنْزَلَ اللَّہُ: {تَبَّتْ یَدَا أَبِی لَہَبٍ} جَائَتِ امْرَأَۃُ أَبِی لَہَبٍ إلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَمَعَہُ أَبُو بَکْرٍ ، فَقَالَ أَبُو بَکْرٍ : یَا نَبِیَّ اللہِ ، أَنَّہَا سَتُؤذیک ، فَقَالَ : إِنَّہُ سَیُحَالُ بَیْنِی وَبَیْنَہَا ، قَالَ : فَلَمْ تَرَہُ ، فَقَالَتْ لأَبِی بَکْرٍ : ہَجَانَا صَاحِبُک ، فَقَالَ : وَاللہِ مَا یَنْطِقُ الشِّعْرَ وَلاَ یَقُولُہُ ، فَقَالَتْ : إنَّک لَمُصَدَّقٌ ، قَالَ : فَانْدَفَعَتْ رَاجِعَۃً ، فَقَالَ أَبُو بَکْرٍ : یَا رَسُولَ اللہِ ، مَا رَأَتْک، قَالَ : فَقَالَ : لَمْ یَزَلْ مَلَکٌ بَیْنِی وَبَیْنَہَا یَسْتُرُنِی حَتَّی ذَہَبَتْ۔ (ابن حبان ۶۵۱۱۔ ابو یعلی ۲۵)
(٣٢٤٢٨) حضرت سعید بن جبیر فرماتے ہیں کہ جب اللہ نے { تَبَّتْ یَدَا أَبِی لَہَبٍ } نازل فرمائی تو ابو لہب کی بیوی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئی جبکہ آپ کے ساتھ ابوبکر تھے ، حضرت ابوبکر نے عرض کیا اے اللہ کے نبی ! یہ آپ کو تکلیف دے گی، آپ نے فرمایا کہ میرے اور اس کے درمیان پردہ حائل ہوجائے گا، چنانچہ آپ اس کو نظر نہ آئے، اس نے حضرت ابوبکر سے کہا کہ آپ کے ساتھی نے ہمیں غصے میں مبتلا کردیا ہے، انھوں نے فرمایا کہ بخدا وہ نہ تو شعر بنا سکتے ہیں نہ شعر کہتے ہیں، اس نے کہا کہ آپ صحیح کہتے ہیں، اس کے بعد وہ چلی گئی، حضرت ابو بکر نے عرض کی یا رسول اللہ ! کیا اس نے آپ کو نہیں دیکھا ؟ آپ نے فرمایا کہ ایک فرشتہ میرے اور اس کے درمیان رہا اور مجھے چھپاتا رہا۔ یہاں تک کہ وہ چلی گئی۔

32428

(۳۲۴۲۹) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِی صَالِحٍ ، عَنْ أَبِی سَعِیدٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إنَّمَا مَثَلِی وَمَثَلُ النَّبِیُّینَ کَمَثَلِ رَجُلٍ بَنَی دَارًا فَأَتَمَّہَا إلاَّ لَبِنَۃً وَاحِدَۃً ، فَجِئْت أَنَا فَأَتْمَمْت تِلْکَ اللَّبِنَۃَ۔ (مسلم ۱۷۹۱۔ احمد ۹)
(٣٢٤٢٩) حضرت ابو سعید فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میری اور انبیاء کی مثال اس آدمی کی سی ہے جس نے گھر بنایا ہو اور اس کو مکمل کردیا ہو اور ایک اینٹ چھوڑ دی ہو ، میں آیا اور میں نے اس اینٹ کی جگہ کو پر کردیا۔

32429

(۳۲۴۳۰) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا سَلِیمُ بْنُ حَیَّانَ ، قَالَ : حَدَّثَنَا سَعِیدُ بْنُ مِینَائَ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : مَثَلِی وَمَثَلُ الأَنْبِیَائِ کَمَثَلِ رَجُلٍ بَنَی دَارًا، فَأَتَمَّہَا وَأَکْمَلَہَا إلاَّ مَوْضِعَ لَبِنَۃٍ ، فَجَعَلَ النَّاسُ یَدْخُلُونَہَا وَیَتَعَجَّبُونَ مِنْہَا وَیَقُولُونَ : لَوْلاَ مَوْضِعُ اللَّبِنَۃِ ، قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : فَأَنَا مَوْضِعُ اللَّبِنَۃِ جِئْت فَخَتَمْت الأَنْبِیَائَ۔ (بخاری ۳۵۳۴۔ مسلم ۱۷۹۱)
(٣٢٤٣٠) حضرت جابر بن عبداللہ فرماتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میری اور انبیاء کی مثال اس شخص کی سی ہے جس نے گھر بنایا ہو اور اس کو مکمل کردیا ہو سوائے ایک اینٹ کی جگہ کے، چنانچہ لوگ اس میں داخل ہوں اور اس پر تعجب کریں اور کہیں کہ اگر یہ اینٹ کی جگہ خالی نہ ہوتی تو اچھا ہوتا، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں کہ میں اس اینٹ کی جگہ ہوں، میں آیا اور میں نے انبیاء کو ختم کردیا۔

32430

(۳۲۴۳۱) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَنْ زَائِدَۃَ ، عَنْ حُصَیْنٍ ، عَنْ حَبِیبِ بْنِ أَبِی ثَابِتٍ ، قَالَ : جَائَ رَجُلٌ إلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : یَا رَسُولَ اللہِ ، جِئْت مِنْ عِنْدِ حَیٍّ مَا یَتَرَوَّحُ لَہُمْ رَاعٍ ، وَلاَ یَخْطِرُ لَہُمْ فَحْلٌ فَادْعُ اللَّہَ لَنَا ، فَقَالَ : اللَّہُمَّ اسْقِ بِلاَدَک وَبَہَائِمَک وَانْشُرْ رَحْمَتَکَ ، قَالَ : ثُمَّ دَعَا فَقَالَ : اللَّہُمَّ اسْقِنَا غَیْثًا مُغِیثًا ، مَرِیئًا مَرِیعًا ، طَیِّبًا غَدَقًا ، عَاجِلاً غَیْرَ رَائِثٍ ، نَافِعًا غَیْرَ ضَارٍّ ، قَالَ : فَمَا نَزَلَ حَتَّی مَا جَائَ أَحَدٌ مِنْ وَجْہٍ مِنَ الْوُجُوہِ إلاَّ قَالَ : مُطِرْنَا وَأُحْیِینَا۔ (ابوداؤد ۱۲۰۰۔ ابن ماجہ ۱۲۷۰)
(٣٢٤٣١) حبیب بن ابی ثابت فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا اور اس نے کہا یا رسول اللہ ! میں ایسے قبیلے سے آیا ہوں جن کا چرواہا آرام نہیں پاتا اور ان کے نر جانور اپنی دم نہیں ہلاتے، آپ ہمارے لیے دعا کریں، آپ نے فرمایا اے اللہ ! اپنے شہروں اور جانوروں کو پانی سے سیراب کیجیے اور اپنی رحمت کے دروازے کھول دیجئے، پھر آپ نے دعا کی ” اے اللہ ! ہمیں خوب برسنے والی ، سبزے والی، پاکیزگی والی اور موٹے قطروں والی جلدی آنے والی، نفع پہنچانے والی نہ کہ نقصان پہنچانے والی بارش عطا فرما۔ “ چنانچہ اتنی بارش برسی کہ جس طرف سے بھی کوئی آدمی آتا وہ کہتا کہ ہمارے علاقے میں بارش ہوئی اور زمین زندہ ہوگئی۔

32431

(۳۲۴۳۲) حَدَّثَنَا مُعَاوِیَۃُ بْنُ ہِشَامٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ أَیُّوبَ بْنِ مُوسَی ، یَرْفَعُہُ إلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إنِّی بُعِثْت خَاتَمًا وَفَاتِحًا ، وَاخْتُصِرَ لِی الْحَدِیثُ اخْتِصَارًا ، فَلاَ یُہْلِکَُکُم المشرکون۔ (عبدالرزاق ۲۰۰۶۲)
(٣٢٤٣٢) حضرت ایوب بن موسیٰ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مرفوعاً روایت کرتے ہیں کہ مجھے ختم کرنے والا اور شروع کرنے والا بنا کر بھیجا گیا ہے، اور میرے لیے بات کو مختصر کردیا گیا ہے، اس لیے تمہیں مشرکین ہلاک نہ کردیں۔

32432

(۳۲۴۳۳) حَدَّثَنَا مُعَاوِیَۃُ بْنُ ہِشَامٍ ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ زَیْدِ بْنِ أَسْلَمَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إنَّمَا بُعِثْت لأُتَمِّمَ صَلاحَ الأَخْلاَقِ۔ (احمد ۳۸۱۔ حاکم ۶۱۳)
(٣٢٤٣٣) حضرت زید بن اسلم فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ مجھے بہترین اخلاق کی تکمیل کے لیے بھیجا گیا۔

32433

(۳۲۴۳۴) حَدَّثَنَا مُعَاوِیَۃُ بْنُ عَمْرٍو ، قَالَ : حدَّثَنَا زَائِدَۃُ بْنُ قُدَامَۃَ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ مُسْلِمٍ ، قَالَ : قَالَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ - أَوْ مَنْ شَائَ اللَّہُ مِنْہُمْ - : یَا رَسُولَ اللہِ مَا نَوْلُنَا أَنْ نُفَارِقَک فِی الدُّنْیَا فَإِنَّک لَوْ مُتَّ رُفِعْت فَوْقَنَا فَلَمْ نَرَک ، فَأَنْزَلَ اللَّہُ : {وَمَنْ یُطِعَ اللَّہَ وَالرَّسُولَ فَأُولَئِکَ مَعَ الَّذِینَ أَنْعَمَ اللَّہُ عَلَیْہِمْ مِنَ النَّبِیِّینَ وَالصِّدِّیقِینَ وَالشُّہَدَائِ وَالصَّالِحِینَ وَحَسُنَ أُولَئِکَ رَفِیقًا}۔ (طبرانی ۱۲۵۵۹)
(٣٢٤٣٤) حضرت مسلم فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ نے یا ان میں سے بعض نے کہا یا رسول اللہ ! ہمارا آپ سے دنیا میں جدا ہونے کے بعد کیا ہوگا، کہ اگر آپ فوت ہوئے تو آپ بلند درجات پر پہنچ جائیں گے اور ہم آپ کو دیکھ نہ سکیں گے، چنانچہ اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی { وَمَنْ یُطِعَ اللَّہَ وَالرَّسُولَ فَأُولَئِکَ مَعَ الَّذِینَ أَنْعَمَ اللَّہُ عَلَیْہِمْ مِنَ النَّبِیِّینَ وَالصِّدِّیقِینَ وَالشُّہَدَائِ وَالصَّالِحِینَ وَحَسُنَ أُولَئِکَ رَفِیقًا }۔

32434

(۳۲۴۳۵) حَدَّثَنَا مُعَاوِیَۃُ بْنُ عَمْرٍو ، قَالَ : حدَّثَنَا زَائِدَۃُ ، عَنْ بَیَانٍ ، عَنْ حَکِیمِ بْنِ جَابِرٍ ، قَالَ : لَمَّا أنْزِلَتْ ہَذِہِ الآیَۃُ {آمَنَ الرَّسُولُ بِمَا أُنْزِلَ إلَیْہِ مِنْ رَّبِّہِ} ، قَالَ جِبْرِیلُ لِلنَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إنَّ اللَّہَ قَدْ أَحْسَنَ الثَّنَائَ عَلَیْک وَعَلَی أُمَّتِکَ ، سَلْ تُعْطَہُ ، قَالَ : فَقَرَأَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ہَذِہِ الآیَۃَ حَتَّی خَتَمَہَا : {لاَ یُکَلِّفُ اللَّہُ نَفْسًا إلاَّ وُسْعَہَا} إلَی آخِرِ الآیَۃِ۔ (طبری ۱۵۳)
(٣٢٤٣٥) حضرت حکیم بن جابر فرماتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی { آمَنَ الرَّسُولُ بِمَا أُنْزِلَ إلَیْہِ مِنْ رَّبِّہِ } تو جبرائیل نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فرمایا کہ بیشک اللہ نے آپ کی اور آپ کی امت کی بہترین تعریف فرمائی ہے، آپ مانگئے آپ کو عطا کیا جائے گا، چنانچہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ آیت آخر تک پڑھی، { لاَ یُکَلِّفُ اللَّہُ نَفْسًا إلاَّ وُسْعَہَا } ۔۔۔ الخ

32435

(۳۲۴۳۶) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ الْعَلاَفُ ، عَنْ حُسَینِ بْنِ عَلِیٍّ: فِی قَوْلِہِ: {وَیَتْلُوہُ شَاہِدٌ مِّنْہُ}، قَالَ : ہُوَ مُحَمَّدٌ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ شَاہِدٌ مِنَ اللہِ۔ (ابن جریر ۱۴)
(٣٢٤٣٦) حضرت حسین بن علی اللہ کے فرمان { وَیَتْلُوہُ شَاہِدٌ مِّنْہُ } کے بارے میں فرماتے ہیں کہ اس سے مراد محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں جو اللہ کی طرف سے گواہ ہیں۔

32436

(۳۲۴۳۷) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، عَنْ عُمَیْرِ بْنِ إِسْحَاقَ ، قَالَ : لَمَّا خَرَجَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَأَبُو بَکْرٍ إلَی الْمَدِینَۃِ ، تَبِعَہُمَا سُرَاقَۃُ بْنُ مَالِکٍ ، فَلَمَّا رَآہُمَا قَالَ : ہَذَانِ فَرُّ قُرَیْشٍ لَوْ رَدَدْت عَلَی قُرَیْشٍ فَرَّہَا ، قَالَ : فَطَفَّ فَرَسُہُ عَلَیْہِمَا ، قَالَ : فَسَاخَتِ الْفَرَسُ ، قَالَ : فَادْعُ اللَّہَ أَنْ یُخْرِجَہَا ، وَلاَ أَقْرَبُکُمَا ، قَالَ : فَخَرَجَتْ فَعَادَتْ حَتَّی فَعَلَ ذَلِکَ مَرَّتَیْنِ ، أَوْ ثَلاَثًا ، قَالَ : تَبًّا وتَعْسًا ، ثُمَّ قَالَ : ہَلْ لَک إلاَّ الزَّادُ وَالْحُمْلاَنِ ؟ قَالاَ : لاَ نُرِیدُ ، وَلاَ حَاجَۃَ لَنَا فِی ذَلِکَ ، أَغْنِ عَنَّا نَفْسَک ، قَالَ : کَفَیْتُکُمَا۔ (ابن سعد ۲۳۲)
(٣٢٤٣٧) حضرت عمیر بن اسحاق فرماتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور حضرت ابوبکر مدینہ کی طرف نکلے تو سراقہ بن مالک نے ان کا تعاقب کیا، جب اس نے ان دونوں کو دیکھا تو کہا کہ یہ قریش کے مفرور ہیں، میں قریش کو ان کے مفرورین پہنچاتا ہوں، چنانچہ اس نے اپنے گھوڑے کو ان پر کو دوایا تو اس کے گھوڑے کے پاؤں دھنس گئے، وہ کہنے لگا کہ اللہ سے دعا کیجیے کہ ان کو نکال دے، میں آپ کے قریب نہیں آؤں گا، چنانچہ وہ نکل گئے ، پھر اس نے ایسا ہی کیا، اور دو یا تین مرتبہ ایسا ہی ہوا، کہنے لگا ھلاک و برباد ہو، پھر کہنے لگا کیا آپ کو توشہ اور سواری کی ضرورت ہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ ہم نہیں چاہتے ، اور ہمیں اس کی ضرورت نہیں، ہمیں اپنے آپ سے کافی ہوجائیں، اس نے کہا کہ میں تمہیں کافی ہوں۔

32437

(۳۲۴۳۸) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ عَطَائٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : سَأَلَ مُوسَی رَبَّہُ مَسْأَلَۃً : {وَاخْتَارَ مُوسَی قَوْمَہُ سَبْعِینَ رَجُلاً} حَتَّی بَلَغَ {مَکْتُوبًا عِنْدَہُمْ فِی التَّوْرَاۃِ وَالإِنْجِیلِ} فَأُعْطِیَہَا مُحَمَّدٌ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔ (بزار ۲۲۱۳)
(٣٢٤٣٨) سعید بن جبیر روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ حضرت موسیٰ نے اپنے آپ سے سوال کیا { وَاخْتَارَ مُوسَی قَوْمَہُ سَبْعِینَ رَجُلاً ۔۔۔ مَکْتُوبًا عِنْدَہُمْ فِی التَّوْرَاۃِ وَالإِنْجِیلِ } وہ سوال محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے قبول کرلیا گیا۔

32438

(۳۲۴۳۹) حَدَّثَنَا عِیسَی بْنُ یُونُسَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ یَزِیدَ بْنِ جَابِرٍ ، عَنْ مَکْحُولٍ ، قَالَ : کَانَ فِی تُرْسِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَبْشٌ مُصَوَّرٌ فَشَقَّ ذَلِکَ عَلَیْہِ ، فَأَصْبَحَ وَقَدْ ذَہَبَ اللَّہُ بِہِ۔
(٣٢٤٣٩) حضرت مکحول فرماتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ڈھال میں ایک مینڈھے کی تصویر بنی ہوئی تھی، آپ پر وہ شاق ہوئی ، چنانچہ صبح کو وہ ختم ہوگئی۔

32439

(۳۲۴۴۰) حَدَّثَنَا مُعَاوِیَۃُ بْنُ ہِشَامٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ عَمَّارٍ ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِی الْجَعْدِ ، قَالَ : ذُکِرَتِ الأَنْبِیَائُ عِنْدَ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَلَمَّا ذُکِرَ ہُو َقَالَ : ذَاکَ خَلِیلُ اللہِ۔ (مسلم ۱۸۵۵۔ احمد ۳۷۷)
(٣٢٤٤٠) حضرت سالم بن ابی الجعد فرماتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے انبیاء کا ذکر کیا گیا، جب آپ کا ذکر ہوا تو آپ نے فرمایا یہ اللہ کا دوست ہے۔

32440

(۳۲۴۴۱) حَدَّثَنَا مُعَاوِیَۃُ بْنُ ہِشَامٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ المُخْتَارِ بْنِ فُلْفُلٍ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : أَنَا أَکْثَرُ الأَنْبِیَائِ تَبَعًا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ، وَأَنَا أَوَّلُ مَنْ یَقْرَعُ بَابَ الْجَنَّۃِ۔ (مسلم ۱۸۸۔ ابویعلی ۳۹۴۶)
(٣٢٤٤١) حضرت انس بن مالک فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میں قیامت کے دن سب سے زیادہ متبعین والا ہوں گا، اور میں ہی سب سے پہلے جنت کا دروازہ کھٹکھٹاؤں گا۔

32441

(۳۲۴۴۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِی صَالِحٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : أیہَا النَّاسُ إنَّمَا أَنَا رَحْمَۃٌ مُہْدَاۃٌ۔ (ابن سعد ۱۹۲۔ دارمی ۱۵)
(٣٢٤٤٢) حضرت ابو صالح فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اے لوگو ! میں تحفہ کی ہوئی رحمت ہوں۔

32442

(۳۲۴۴۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِیلٍ ، عَنْ طُفَیْلِ بْنِ أُبَیٍّ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : قَالَ رَجُلٌ : یَا رَسُولَ اللہِ ، أَرَأَیْت إنْ جَعَلْتُ صَلاَتِی کُلَّہَا صَلاَۃً عَلَیْک ، قَالَ : إذنْ یَکْفِیک اللَّہُ مَا أَہَمَّکَ مِنْ أَمْرِ دُنْیَاک وَآخِرَتِک۔
(٣٢٤٤٣) حضرت ابی ّ فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے عرض کیا یا رسول اللہ ! اگر میں اپنے تمام ذکر میں آپ پر درود بھیجتا رہوں تو کیسا ہے ؟ فرمایا کہ تب اللہ تمہاری دنیا وآخرت کے تمام اھم کاموں کے لیے کافی ہوجائیں گے۔

32443

(۳۲۴۴۴) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ کَعْبٍ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: صَلُّوا عَلَیَّ فَإِنَّ صَلاَۃً عَلَیَّ زَکَاۃٌ لَکُمْ ، وَسَلُوا اللَّہَ لِی الْوَسِیلَۃَ ، قَالُوا : وَمَا الْوَسِیلَۃُ یَا رَسُولَ اللہِ ؟ قَالَ : أَعْلَی دَرَجَۃٍ فِی الْجَنَّۃِ ، لاَ یَنَالُہَا إلاَّ رَجُلٌ وَاحِدٌ ، أَرْجُو أَنْ أَکُونَ أَنَا ہُوَ۔
(٣٢٤٤٤) حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ مجھ پر درود بھیجو کیونکہ مجھ پر درود بھیجنا تمہاری پاکیزگی ہے، اور میرے لیے اللہ سے وسیلے کا سوال کرو، صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! وسیلہ کیا ہے ؟ فرمایا کہ جنت میں اعلیٰ درجہ ہے جس کو ایک ہی آدمی پاسکتا ہے ، مجھے امید ہے کہ وہ آدمی میں ہوں۔

32444

(۳۲۴۴۵) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَنْ صَلَّی عَلَیَّ صَلاَۃً وَاحِدَۃً صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ عَشْرَ صَلَوَاتٍ۔
(٣٢٤٤٥) حضرت شعبی فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جس نے مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجا اللہ اس پر دس مرتبہ رحمت بھیجیں گے۔

32445

(۳۲۴۴۶) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ یُونُسَ بْنِ عَمْرٍو ، عَنْ بُرَیْدِ بْنِ أَبِی مَرْیَمَ ، عْن أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَنْ صَلَّی عَلَیَّ صَلاَۃً وَاحِدَۃً صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ عَشْرَ صَلَوَاتٍ ، وَحَطَّ عَنْہُ عَشْرَ سَیِّئَاتٍ۔
(٣٢٤٤٦) حضرت انس بن مالک فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جس نے مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجا اللہ اس پر دس مرتبہ رحمت بھیجیں گے، اور اس کے دس گناہ معاف فرمائیں گے۔

32446

(۳۲۴۴۷) حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا مُوسَی بْنُ یَعْقُوبَ الزَّمْعِیُّ ، قَالَ : أَخْبَرَنِی عَبْدُ اللہِ بْنُ کَیْسَانَ ، قَالَ : أَخْبَرَنِی عَبْدُ اللہِ بْنُ شَدَّادِ بْنِ الْہَادِ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إنَّ أَوْلَی النَّاسِ بِی یَوْمَ الْقِیَامَۃِ أَکْثَرُہُمْ عَلَیَّ صَلاَۃً۔ (ترمذی ۴۸۴۔ ابن حبان ۹۱۱)
(٣٢٤٤٧) حضرت ابن مسعود فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ قیامت کے دن میرے سب سے زیادہ قریب وہ شخص ہوگا جو سب سے زیادہ مجھ پر درود بھیجتا ہوگا۔

32447

(۳۲۴۴۸) حَدَّثَنَا یُونُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، عَنْ حَمَّادٍ بْنِ سَلَمَۃ ، عَنْ ثَابِتٍ ، عَنْ سُلَیْمَانَ مَوْلَی الْحَسَنِ بْنِ عَلِیٍّ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ أَبِی طَلْحَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ : أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ جَائَ ذَاتَ یَوْمٍ وَالسُّرُورُ فِی وَجْہِہِ، فَقَالُوا : یَا رَسُولَ اللہِ إنَّا لَنَرَی السُّرُورَ فِی وَجْہِکَ ؟ فَقَالَ : إِنَّہُ أَتَانِی الْمَلَکُ ، فَقَالَ : یَا مُحَمَّدُ أَمَا یُرْضِیک أنَّہُ لاَ یُصَلِّی عَلَیْک مِنْ أُمَّتِکَ أَحَدٌ إلاَّ صَلَّیْت عَلَیْہِ عَشْرًا ، وَلاَ یُسَلِّمُ عَلَیْک أَحَدٌ مِنْ أُمَّتِکَ إلاَّ سَلَّمْتُ عَلَیْہِ عَشْرًا ؟ قَالَ : بَلَی۔
(٣٢٤٤٨) حضرت ابو طلحہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک دن تشریف لائے جبکہ آپ کے چہرے پر خوشی کے آثار دکھائی دیتے ہیں، آپ نے فرمایا کہ میرے پاس ایک فرشتہ آیا ، اور اس نے کہا اے محمد ! کیا آپ اس پر راضی نہیں ہیں کہ آپ کی امت میں سے جو بھی ایک مرتبہ آپ پر درود بھیجے میں اس پر دس مرتبہ رحمت بھیجوں، اور جو آپ پر ایک مرتبہ سلام بھیجے میں اس پر دس مرتبہ سلام بھیجوں، آپ نے فرمایا ، کیوں نہیں !

32448

(۳۲۴۴۹) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ الْحُبَابِ، عَنْ مُوسَی بْنِ عُبَیْدَۃَ، قَالَ: حدَّثَنِی قَیْسُ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ أَبِی صَعْصَعَۃَ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاہِیمَ، عَن أَبِیہِ، عَنْ جَدِّہِ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ: أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: سَجَدْت شُکْرًا فِیمَا أَبْلاَنِی مِنْ أُمَّتِی : مَنْ صَلَّی عَلَیَّ صَلاَۃً کُتِبَتْ لَہُ عَشْرُ حَسَنَاتٍ ، وَحُطَّ عَنْہُ عَشْرُ سَیِّئَاتٍ۔
(٣٢٤٤٩) حضرت عبد الرحمن بن عوف فرماتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میں نے شکر کا سجدہ کیا اس نعمت پر جو اللہ نے مجھے میری امت کی جانب سے عطا فرمائی، کہ جس نے مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجا، اس کے لیے دس نیکیاں لکھی جائیں گی اور اس کے دس گناہ معاف کیے جائیں گے۔

32449

(۳۲۴۵۰) حَدَّثَنَا ہشیم ، عن الْعَوَّامِ ، قَالَ : حدَّثَنِی رَجُلٌ مِنْ بَنِی أَسَدٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ ، إِنَّہُ قَالَ : مَنْ صَلَّی عَلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کُتِبَتْ لَہُ عَشْرُ حَسَنَاتٍ وَحُطَّ عَنْہُ عَشْرُ سَیِّئَاتٍ وَرُفِعَ لَہُ عَشْرُ دَرَجَاتٍ۔
(٣٢٤٥٠) حضرت عبداللہ بن عمر فرماتے ہیں کہ جس نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر درود بھیجا اس کے لیے دس نیکیاں لکھی جائیں گی اور اس کے دس گناہ معاف کیے جائیں گے ، اور اس کے دس درجات بلند کیے جائیں گے۔

32450

(۳۲۴۵۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُبَیْدِ اللہِ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَامِرِ بْنِ رَبِیعَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَنْ صَلَّی عَلَیَّ لَمْ تَزَلَ الْمَلاَئِکَۃُ تُصَلِّی عَلَیْہِ مَا دَامَ یُصَلِّی عَلَی ، فَلْیُقِلَّ الْعَبْدُ مِنْ ذَلِکَ ، أَوْ یُکْثِر۔
(٣٢٤٥١) حضرت عامر بن ربیعہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جس نے مجھ پر درود بھیجا ملائکہ اس کے لیے اس وقت تک دعائیں کرتے رہتے ہیں جب تک وہ مجھ پر درود بھیجتا رہتا ہے، لہٰذا بندہ چاہے تو کم درود بھیجے یا زیادہ بھیجے۔

32451

(۳۲۴۵۲) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا حُصَیْنٌ ، عَنْ یَزِیدَ الرَّقَاشِیِّ ، قَالَ : إنَّ مَلَکًا مُوَکَّلٌ بِمَنْ صَلَّی عَلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ یُبَلِّغَ عَنْہُ إلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، أَنَّ فُلاَنًا مِنْ أُمَّتِکَ صَلَّی عَلَیْک۔
(٣٢٤٥٢) حصین روایت کرے ہیں کہ یزید رقاشی نے فرمایا کہ ایک فرشتہ اس آدمی پر مقرر ہوتا ہے جو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر درود بھیجتا ہے، کہ اس کا درود نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک پہنچائے کہ آپ کے فلاں امتی نے آپ پر درود بھیجا ہے۔

32452

(۳۲۴۵۳) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ ، عَنْ جَعْفَرٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَنْ ذُکِرْت عِنْدَہُ فَنَسِیَ الصَّلاَۃَ عَلَیَّ خَطِئَ طَرِیقَ الْجَنَّۃِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ۔ (ابن ماجہ ۹۰۸)
(٣٢٤٥٣) حضرت جعفر کے والد فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جس کے سامنے میرا ذکر کیا گیا اور وہ مجھ پر درود بھیجنا بھول گیا وہ قیامت کے دن جنت کے راستے سے بھٹک جائے گا۔

32453

(۳۲۴۵۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ بَدْرِ بْنِ عُثْمَانَ ، قَالَ : سَمِعْتُ عِکْرِمَۃَ ، قَالَ : الْکَوْثَرُ مَا أُعْطِیَہُ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنَ الْخَیْرِ وَالنُّبُوَّۃِ وَالإِسْلاَمِ۔
(٣٢٤٥٤) بدر بن عثمان فرماتے ہیں کہ حضرت عکرمہ نے فرمایا کہ کوثر وہ بھلائی، نبوت اور اسلام ہے جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عطا کی گئی۔

32454

(۳۲۴۵۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ فِطْرٍ ، عَنْ عَطَائٍ ، قَالَ {إنَّا أَعْطَیْنَاک الْکَوْثَرَ} ، قَالَ : حوْضٌ فِی الْجَنَّۃِ أُعْطِیہ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔
(٣٢٤٥٥) حضرت عطا، اللہ کے فرمان {إنَّا أَعْطَیْنَاک الْکَوْثَرَ } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ کوثر جنت میں ایک حوض ہے جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عطا کیا گیا۔

32455

(۳۲۴۵۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ بَدْرِ بْنِ عُثْمَانَ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ ، قَالَ : لَمَّا أُوحِیَ إلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَتْ قُرَیْشٌ : بُتِرَ مُحَمَّدٌ مِنَّا ، فَنَزَلَتْ : {إنَّ شَانِئَک ہُوَ الأَبْتَرُ} : الَّذِی رَمَاک بِہِ ہُوَ الأَبْتَرُ۔ (طبری ۳۳۰)
(٣٢٤٥٦) حضرت عکرمہ فرماتے ہیں کہ جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر وحی کی گئی تو قریش نے کہا کہ محمد ہم سے کاٹ دیے گئے ، چنانچہ آیت {إنَّ شَانِئَک ہُوَ الأَبْتَرُ } نازل ہوئی ، کہ جس نے آپ کو یہ بات کہی وھی مقطوع النسل ہے۔

32456

(۳۲۴۵۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ أَبِی یَعْلَی ، عَنْ رَبِیعِ بْنِ خُثَیْمٍ ، قَالَ : لاَ نُفَضِّلُ عَلَی نَبِیِّنَا مُحَمَّدٍ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَحَدًا ، وَلاَ نُفَضِّلُ عَلَی إبْرَاہِیمَ خَلِیلِ اللہِ أَحَدًا۔
(٣٢٤٥٧) حضرت ابو یعلی حضرت ربیع بن خثیم سے روایت کرتے ہیں کہ فرمایا کہ ہم اپنے نبی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر کسی کو فضیلت نہیں دیتے، اور نہ ابراہیم خلیل اللہ (علیہ السلام) پر کسی کو فضیلت دیتے ہیں۔

32457

(۳۲۴۵۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ یَحْیَی ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ أَبِی سَعِیدٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لاَ تُخَیِّرُوا بَیْنَ الأَنْبِیَائِ۔ (بخاری ۶۹۱۶۔ مسلم ۱۸۴۵)
(٣٢٤٥٨) حضرت ابو سعید فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ انبیاء کو ایک دوسرے سے افضل قرار نہ دو ۔

32458

(۳۲۴۵۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سَلَمَۃَ بْنِ نُبَیْطٍ ، عَنِ الضِّحَاکِ ، قَالَ : جَائَ جِبْرِیلُ إلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَأَقْرَأَہُ آخِرَ الْبَقَرَۃِ حَتَّی إذَا حَفِظَہَا ، قَالَ : اقْرَأْہَا عَلَی ، فَقَرَأَہَا النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَجَعَلَ جِبْرِیلُ یَقُولُ : ذَلِکَ لَک ، ذَلِکَ لَک {لاَ تُؤَاخِذْنَا إنْ نَسِینَا أَوْ أَخْطَأْنَا}۔ (ابن جریر ۱۶۰)
(٣٢٤٥٩) ضحاک فرماتے ہیں کہ جبرائیل نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے اور آپ کو سورة بقرہ کی آخری آیات پڑھائیں، یہاں تک کہ جب آپ کو یاد ہوگئیں تو فرمایا کہ مجھے پڑھ کر سنائیے، چنانچہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پڑھتے رہے اور جبرائیل کہتے رہے ” یہ آپ کے لیے ہے یہ آپ کے لیے ہے، کہ ہمارا مؤاخذہ نہ فرمائیے اگر ہمیں بھول ہوجائے یا غلطی ہوجائے۔ “

32459

(۳۲۴۶۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ حَبِیبٍ ، عَنْ خَیْثَمَۃ ، قَالَ : قیلَ لِلنَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إنْ شِئْت أَعْطَیْنَاک مَفَاتِحَ الأَرْضِ وَخَزَائِنَہَا ، لاَ یَنْقُصُک ذَلِکَ عِنْدَنَا شَیْئًا فِی الآخِرَۃِ ، وَإِنْ شِئْت جَمَعْتُہَا لَک فِی الآخِرَۃِ ، قَالَ : لاَ ، بَلَ اجْمَعْہَا لِی فِی الآخِرَۃِ ، فَنَزَلَتْ : {تَبَارَکَ الَّذِی إنْ شَائَ جَعَلَ لَک خَیْرًا مِنْ ذَلِکَ جَنَّاتٍ تَجْرِی مِنْ تَحْتِہَا الأَنْہَارُ وَیَجْعَلْ لَک قُصُورًا}۔
(٣٢٤٦٠) حضرت خیثمہ فرماتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا گیا کہ اگر آپ چاہیں تو ہم آپ کو زمین کی کنجیاں اور اس کے خزانے عطا کردیں اور آخرت میں اس سے ہمارے ہاں کوئی کمی نہ ہوگی، اور اگر آپ چاہیں تو اپنے لیے آخرت میں جمع کرلیں، آپ نے فرمایا بلکہ میں اس کو اپنے لیے آخرت میں جمع کروں گا، چنانچہ آیت نازل ہوئی { تَبَارَکَ الَّذِی إنْ شَائَ جَعَلَ لَک خَیْرًا مِنْ ذَلِکَ جَنَّاتٍ تَجْرِی مِنْ تَحْتِہَا الأَنْہَارُ وَیَجْعَلْ لَک قُصُورًا }۔

32460

(۳۲۴۶۱) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ زِرِّ بْنِ حُبَیْشٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مَسْعُودٍ : إِنَّہُ قَالَ : کُنْتُ غُلاَمًا یَافِعًا أَرْعَی غَنَمًا لِعُقْبَۃَ بْنِ أَبِی مُعَیْطٍ ، فَجَائَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَأَبُو بَکْرٍ - وَقَدْ فَرَّا مِنَ الْمُشْرِکِینَ - فَقَالاَ : یَا غُلاَمُ ، ہَلْ لَکَ مِنْ لَبَنٍ تَسْقِینَا ؟ قُلْتُ : إنِّی مُؤْتَمَنٌ وَلَسْت سَاقِیَکُمَا ، فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : ہَلْ عِنْدَکَ مِنْ جَذَعَۃٍ لَمْ یَنْزُ عَلَیْہَا الْفَحْلُ ؟ قُلْتُ : نَعَمْ ، فَأَتَیْتُہُمَا بِہَا فَاعْتَقَلَہَا النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَمَسَحَ الضَّرْعَ وَدَعَا فَحَفَلَ الضَّرْعُ ، ثُمَّ أَتَاہُ أَبُو بَکْرٍ بِصَخْرَۃٍ مُنْقَعِرَۃٍ - أَوْ مُنْقَرَۃٍ - فَاحْتَلَبَ فِیہَا ، فَشَرِبَ وَشَرِبَ أَبُو بَکْرٍ ، ثُمَّ شَرِبْت ، ثُمَّ قَالَ لِلضَّرْعِ : اقْلِصْ ، فَقَلَصَ ، قَالَ : فَأَتَیْتُہُ بَعْدَ ذَلِکَ فَقُلْتُ : عَلِّمْنِی مِنْ ہَذَا الْقَوْلِ ، قَالَ : إنَّک غُلاَمٌ مُعَلَّمٌ۔
(٣٢٤٦١) حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ میں نوجوان لڑکا تھا اور عقبہ بن ابی معیط کی بکریاں چراتا تھا، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور حضرت ابوبکر آئے جبکہ وہ دونوں مشرکین سے فرار ہوئے تھے، اور فرمایا اے لڑکے ! کیا تمہارے پاس ہمیں پلانے کے لیے کچھ دودھ ہے ؟ میں نے کہا کہ میں امین ہوں، اور آپ کو پلا نہیں سکتا، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ کیا تمہارے پاس کوئی چھ ماہ کی بکری ہے جس پر کوئی نر نہ کو دا ہو ؟ میں نے کہا جی ہاں ! میں ان کے پاس لایا، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کی ٹانگیں کھولیں اور تھنوں کو ہاتھ لگایا اور دعا فرمائی، پھر حضرت ابوبکر آپ کے پاس ایک کھدا ہوا پتھر لائے ، آپ نے اس میں دودھ دوہا، آپ نے دودھ پیا اور حضرت ابوبکر نے بھی پیا، پھر میں نے پیا، پھر آپ نے تھن سے فرمایا سکڑ جا، چنانچہ وہ سکڑ گیا، اس کے بعد میں آپ کے پاس آیا اور عرض کیا کہ ان باتوں میں سے مجھے بھی سکھا دیجئے ، فرمایا کہ تم تعلیم یافتہ لڑکے ہو۔

32461

(۳۲۴۶۲) حَدَّثَنَا یعلی بْنُ عُبَیْدٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا أَبُو سنان ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مَالِکٍ ، عَنْ مَکْحُولٍ ، قَالَ : کَانَ لِعُمَرَ عَلَی رَجُلٍ مِنَ الْیَہُودِ حَقٌّ ، فَأَتَاہُ یَطْلُبُہُ فَلَقِیَہُ ، فَقَالَ لَہُ عُمَرُ : لاَ وَالَّذِی اصْطَفَی مُحَمَّدًا صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَی الْبَشَرِ ، لاَ أُفَارِقُک وَأَنَا أَطْلُبُک بِشَیْئٍ ، فَقَالَ الْیَہُودِیُّ : مَا اصْطَفَی اللَّہُ مُحَمَّدًا عَلَی الْبَشَرِ ، فَلَطَمَہُ عُمَرُ ، فَقَالَ : بَیْنِی وَبَیْنَکَ أَبُو الْقَاسِمِ ، فَقَالَ : إنَّ عُمَرَ قَالَ : لاَ وَالَّذِی اصْطَفَی مُحَمَّدًا صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَی الْبَشَرِ قُلْتُ لَہُ : مَا اصْطَفَی اللَّہُ مُحَمَّدًا عَلَی الْبَشَرِ ، فَلَطَمَنِی ، فَقَالَ : أَمَّا أَنْتَ یَا عُمَرُ ، فَأَرْضِہِ مِنْ لَطْمَتِہِ ، بَلَی یَا یَہُودِی ، آدم صفی اللہ ، وإبراہیم خلیل اللہ ، وموسی نجی اللہ ، وعیسی روح اللہ ، وأنا حبیب اللہ ، بَلَی یَا یَہُودِی تَسَمّی اللَّہُ بِاسْمَیْنِ سَمَّی بِہِمَا أُمَّتِی ہُوَ السَّلاَمُ ، وَسَمَّی أُمَّتِی الْمُسْلِمِینَ ، وَہُوَ الْمُؤْمِنُ وَسَمَّی أُمَّتِی الْمُؤْمِنِینَ ، بَلَی یَا یَہُودِی ، طَلَبْتُمْ یَوْمًا ذُخِرَ لَنَا ، الْیَوْمَ لَنَا وَغَدًا لَکُمْ ، وَبَعْدَ غَدٍ لِلنَّصَارَی ، بَلَی یَا یَہُودِی ، أَنْتُمَ الأَوَّلُونَ وَنَحْنُ الآخِرُونَ السَّابِقُونَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ، بَلَی إنَّ الْجَنَّۃَ مُحَرَّمَۃٌ عَلَی الأَنْبِیَائِ حَتَّی أَدْخُلَہَا ، وَہِیَ مُحَرَّمَۃٌ عَلَی الأُمَمِ حَتَّی تَدْخُلَہَا أُمَّتِی۔
(٣٢٤٦٢) حضرت مکحول فرماتے ہیں کہ حضرت عمر کا ایک یہودی پر حق تھا، آپ اس سے مطالبہ کرنے آئے اور اس سے ملے اور فرمایا اس ذات کی قسم جس نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو چنا ہے میں تجھ سے اس وقت تک جدا نہ ہوں گا جب تک تھوڑی سی چیز باقی نہ رہ جائے، یہودی نے کہا اللہ نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو انسانوں پر نہیں چنا، حضرت عمر نے اس کو طمانچہ مارا، اور فرمایا کہ میرے اور تمہارے درمیان ابوالقاسم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فیصلہ کریں گے، اس نے کہا عمر نے مجھ سے کہا تھا کہ ” اس ذات کی قسم جس نے محمد کو انسانوں پر فضیلت بخشی ہے، ” میں نے کہا کہ اللہ نے محمد کو انسانوں پر فضیلت نہیں بخشی، اس پر انھوں نے مجھے طمانچہ مارا ، آپ نے فرمایا اے عمر ! تم اس کو تھپڑ مارنے کی وجہ سے اس کو راضی کرو، اور اے یہودی ! ہاں آدم صفی اللہ، ابراہیم خلیل اللہ ، موسیٰ نجی اللہ، عیسیٰ روح اللہ، اور میں حبیب اللہ ہوں ، اے یہودی ! ہاں اللہ نے اپنے دو نام اختیار فرمائے اور میری امت کو بھی عطا کیے، وہ ” السلام “ ہے، اور اس نے میری امت کا نام مسلمین رکھا ہے اور وہ ” مومن “ ہے اور اس نے میری امت کا نام ” مؤمنین “ رکھا ہے، ہاں ! اے یہودی تم نے اس دن کو تلاش کیا جو ہمارے لیے ذخیرہ کیا گیا تھا ، آج کا دن ہمارا، کل کا تمہارا اور پرسوں کا نصاریٰ کا ہے، ہاں اے یہودی ! تم پہلے ہو اور ہم آخری ہیں اور جنت میں قیامت کے دن سب سے پہلے پہنچنے والے ہیں، ہاں بیشک جنت انبیاء پر حرام ہے یہاں تک کہ میں اس میں داخل ہو جاؤں ، اور وہ تمام امتوں پر حرام ہے یہاں تک کہ میری امت اس میں داخل ہوجائے۔

32462

(۳۲۴۶۳) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو ، عَنْ أَبِی سَلَمَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ : {وَلَقَدْ رَآہُ نَزْلَۃً أُخْرَی} ، قَالَ : رَأَی رَبَّہُ۔ (ترمذی ۳۲۸۰)
(٣٢٤٦٣) حضرت ابن عباس { وَلَقَدْ رَآہُ نَزْلَۃً أُخْرَی } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ آپ نے اپنے رب کو دیکھا تھا۔

32463

(۳۲۴۶۴) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِیزِ بْنُ عُمَرَ ، قَالَ : حَدَّثَنِی رَجُلٌ مِنْ بَنِی سَلاَمَانِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ أُمِّہِ : أَنَّ خَالَہَا حَبِیبَ بْنَ فویکٍ حَدَّثَہَا : أَنَّ أَبَاہُ خَرَجَ بِہِ إلَی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَعَیْنَاہُ مُبْیَضَّتَانِ لاَ یُبْصِرُ بِہِمَا شَیْئًا ، فَسَأَلَہُ : مَا أَصَابَہُ ؟ قَالَ : کُنْتُ أُمَرِّنُ خَیْلاً لِی ، فَوَقَعَتْ رِجْلِی عَلَی بَیْضِ حَیَّۃٍ فَأُصِیبَ بَصَرِی ، فَنَفَثَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی عَیْنَیْہِ فَأَبْصَرَ ، قَالَ : فَرَأَیْتُہُ یُدْخِلُ الْخَیْطَ فِی الإِبْرَۃِ وَإِنَّہُ لاَبْنُ ثَمَانِینَ سَنَۃً ، وَإِنَّ عَیْنَیْہِ لَمُبْیَضَّتَانِ۔
(٣٢٤٦٤) حبیب بن فویک فرماتے ہیں کہ ان کے والد ان کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس لے گئے جب کہ ان کی آنکھیں سفید تھیں اور وہ ان سے کوئی چیز نہیں دیکھ سکتے تھے ، آپ نے ان سے پوچھا کہ تمہیں کیا ہوا ہے ؟ انھوں نے عرض کیا کہ میں اپنے گھوڑے کو سدھا رہا تھا تو میرا پاؤں ایک سانپ کے انڈے پر پڑگیا، جس سے میری آنکھ متاثر ہوئی ، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی آنکھوں میں پھونکا تو وہ دیکھنے لگے، کہتے ہیں کہ میں نے ان کو دیکھا کہ اسّی سال کی عمر میں سوئی میں دھاگہ ڈال رہے تھے اور ان کی آنکھیں سفید تھیں۔

32464

(۳۲۴۶۵) حَدَّثَنَا عِیسَی بْنُ یُونُسَ ، عَنْ عُمَرَ مَوْلَی غُفْرَۃَ ، قَالَ : حَدَّثَنِی إبْرَاہِیمُ بْنُ مُحَمَّدٍ مِنْ وَلَدِ عَلِیٍّ ، قَالَ : کَانَ عَلِیٌّ إذَا نَعَتَ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : لَمْ یَکُنْ بِالطَّوِیلِ الْمُمَغَّطِ ، وَلاَ بِالْقَصِیرِ الْمُتَرَدِّد ، کَانَ رَبْعَۃً مِنَ الرِّجَالِ ، کَانَ جَعْدَ الشَّعْرِ ، وَلَمْ یَکُنْ بِالْجَعْدِ الْقَطِطِ ، وَلاَ بِالسَّبْطِ ، کَانَ جَعْدًا رَجِلا ، وَلَمْ یَکُنْ بِالْمُطَہَّمِ ، وَلاَ الْمُکَلْثَمِ ، کَانَ فِی الْوَجْہِ تَدْوِیرٌ ، أَبْیَضَ مُشْرَبًا حُمْرَۃً ، أَدْعَجَ الْعَیْنَیْنِ ، أَہْدَبَ الأَشْفَارِ ، جَلِیلَ الْمُشَاشِ وَالْکَتَدِ ، أَجْرَدَ ، ذَا مَسْرُبَۃٍ ، شَثْنَ الْکَفَّیْنِ وَالْقَدَمَیْنِ ، إذَا مَشَی تَقَلَّعَ کَأَنَّمَا یَمْشِی فِی صَبَبٍ ، إِذَا الْتَفَتَ الْتَفَتَ مَعًا ، بَیْنَ کَتِفَیْہِ خَاتَمُ النُّبُوَّۃِ وَہُوَ خَاتَمُ النَّبِیُّینَ ، أَجْوَدَ النَّاسِ کَفًّا ، وَأَجْرَأَ النَّاسِ صَدْرًا ، وَأَصْدَقَ النَّاسِ لَہْجَۃً ، وَأَوْفَی النَّاسِ بِذِمَّۃٍ ، وَأَلْیَنَہُمْ عَرِیکَۃً ، وَأَکْرَمَہُمْ عِشْرَۃً ، مَنْ رَآہُ بَدِیہَۃً ہَابَہُ ، وَمَنْ خَالَطَہُ مَعْرِفَۃً أَحَبَّہُ ، یَقُولُ نَاعِتُہُ : لَمْ أَرَ مِثْلَہُ قَبْلَہُ وَلاَ بَعْدَہُ۔ (احمد ۸۹۔ ابن سعد ۴۱۰)
(٣٢٤٦٥) حضرت ابراہیم بن محمد جو حضرت علی کی اولاد میں سے ہیں فرماتے ہیں کہ حضرت علی جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صفت بیان فرماتے تو فرماتے کہ آپ نہ لمبے تھے اور نہ بہت چھوٹے قد والے، آپ متوسط قد کے مالک تھے، اور آپ ہلکے گھنگریالے بالوں والے تھے اور بہت گھنگریالے بالوں والے تھے نہ بالکل سیدھے بالوں والے تھے، بلکہ آپ ہلکے خمدار بالوں والے تھے، آپ بہت گوشت والے تھے نہ گول چہرے والے، بلکہ آپ کے چہرے میں ہلکی گولائی تھی، آپ گوری رنگت والے تھے جس میں سرخی ملی ہوئی تھی، آپ کی آنکھ کی سیاہی شدید سیاہ تھی اور پلکیں لمبی تھیں۔ کندھوں کا بالائی اور درمیانی حصّہ مضبوط تھا، بغیر بالوں کے تھے اور آپ کے سینے پر ناف تک بالوں کی لڑی تھی، موٹی ہتھیلی اور قدموں والے تھے جب چلتے تو مضبوطی سے چلتے گویا ڈھلوان کی طرف جا رہے ہوں، جب کسی طرف مڑتے تو پورے مڑتے ، آپ کے کندھوں کے درمیان نبوت کی مہر تھی، اور آپ خاتم النبیین تھے، سب سے زیادہ سخی اور سب سے زیادہ جری تھے، اور سب سے زیادہ سچے اور سب سے زیادہ وعدہ پورا کرنے والے تھے، اور سب سے زیادہ عمدہ معاشرت والے تھے، جو آپ کو اچانک دیکھتا تو ہیبت زدہ ہوجاتا، اور جو مل جل کر معرفت کے ساتھ رہتا آپ سے محبت کرنے لگتا، آپ کی صفت بیان کرنے والا کہتا ہے کہ میں نے آپ جیسا آپ سے پہلے دیکھا نہ آپ کے بعد۔

32465

(۳۲۴۶۶) حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ سِمَاکٍ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَۃَ ، قَالَ : کَانَتْ فِی سَاقَیْ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حُمُوشَۃٌ ، وَکَانَ لاَ یَضْحَکُ إلاَّ تَبَسُّمًا ، وَکُنْت إذَا نَظَرْت قُلْتُ : أَکْحَلَ الْعَیْنَیْنِ وَلَیْسَ بِأَکْحَلَ۔ (ابویعلی ۷۴۲۴)
(٣٢٤٦٦) حضرت جابر بن سمرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پنڈلیاں قدرے پتلی تھیں، آپ ہنستے تو صرف مسکراتے، اور جب آپ ان کی طرف دیکھیں گے تو کہیں گے کہ آپ نے سرمہ لگایا ہوا ہے حالانکہ آپ نے سرمہ نہیں لگایا ہوتا تھا۔

32466

(۳۲۴۶۷) حَدَّثَنَا شَرِیکُ بْنُ عَبْدِ اللہِ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ عُمَیْرٍ ، عَنْ نَافِعِ بْنِ جُبَیْرٍ ، عَنْ عَلِیٍّ : إِنَّہُ وَصَفَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : کَانَ عَظِیمَ الْہَامَۃِ ، أَبْیَضَ مُشْرَبًا حُمْرَۃً ، عَظِیمَ اللِّحْیَۃِ ضَخْمَ الْکَرَادِیسِ ، شَثْنَ الْکَفَّیْنِ وَالْقَدَمَیْنِ ، طَوِیلَ الْمَسْرُبَۃِ ، کَثِیرَ شَعْرِ الرَّأْسِ ، رَجِلَہ ، یَتَکَفَّأُ فِی مِشْیَتِہِ کَأَنَّمَا یَنْحَدِرُ فِی صَبَبٍ، لاَ طَوِیلٌ ، وَلاَ قَصِیرٌ ، لَمْ أَرَ مِثْلَہُ قَبْلَہُ وَلاَ بَعْدَہُ۔ (ابن حبان ۶۳۱۱۔ احمد ۱۳۴)
(٣٢٤٦٧) حضرت نافع بن جبیر حضرت علی سے روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صفت بیان کی اور فرمایا کہ آپ بڑے سر والے، سرخی مائل گورے، بڑی داڑھی والے، موٹی ہڈیوں والے، موٹی ہتھیلیوں اور قدموں والے، سینے سے ناف تک لمبی بالوں کی لکیر والے، اور گھنے اور ہلکے خمدار بالوں والے تھے، اپنی چال میں مضبوطی اختیار کرتے گویا کہ ڈھلوان میں اتر رہے ہوں، کہ بہت لمبے اور نہ بہت چھوٹے قد والے تھے، میں نے آپ جیسا آپ سے پہلے دیکھا نہ آپ کے بعد۔

32467

(۳۲۴۶۸) حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ بْنُ مُوسَی ، عَنْ إسْرَائِیلَ ، عَنْ سِمَاکٍ : إِنَّہُ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ سَمُرَۃَ یَقُولُ : کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَدْ شَمِطَ مُقَدَّمُ رَأْسِہِ وَلِحْیَتِہِ ، فَکَانَ إذَا ادَّہَنَ ، ثُمَّ مَشَطَہُ لَمْ یَبِنْ ، وَکَانَ کَثِیرَ شَعْرِ اللِّحْیَۃِ ، فَقَالَ رَجُلٌ : وَجْہُہُ مِثْلُ السَّیْفِ ؟ فَقَالَ : لاَ ، بَلْ کَانَ مِثْلَ الشَّمْسِ وَالْقَمَرِ ، مُسْتَدِیرٌ ، وَرَأَیْت الْخَاتَمَ بَیْنَ کَتِفَیْہِ مِثْلَ بَیْضَۃِ الْحَمَامَۃِ تُشْبِہُ جَسَدَہُ۔ (مسلم ۱۸۲۳۔ احمد ۱۰۴)
(٣٢٤٦٨) حضرت جابر بن سمرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سر اور داڑھی کے اگلے حصّے کے بال سفید ہوگئے تھے، جب آپ تیل لگاتے اور پھر کنگھی کرتے تو وہ نظر نہ آتے اور آپ کی داڑھی کے بال بہت زیادہ تھے، ایک آدمی کہنے لگا کہ آپ کا چہرہ تلوار کی طرح تھا ؟ فرمایا نہیں ، بلکہ سورج اور چاند کی طرح گول تھا، اور میں نے آپ کے کندھوں کے درمیان کبوتری کے انڈے کے برابر نبوت کی مہر دیکھی، جو آپ کے جسم کے مشابہ تھی۔

32468

(۳۲۴۶۹) حَدَّثَنَا ہَوْذَۃُ ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَوْفٌ، عَنْ یَزِیدَ الْفَارِسِیِّ، قَالَ: رَأَیْتُ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی ألنَّوْمِ زَمَنَ ابْنِ عَبَّاسٍ عَلَی الْبَصْرَۃِ، قَالَ: فَقُلْتُ لابْنِ عَبَّاسٍ: إنِّی قَد رَأَیْت رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی النَّوْمِ ، قَالَ : فَہَلْ تَسْتَطِیعُ تَنْعَتُ ہَذَا الرَّجُلَ الَّذِی رَأَیْت ؟ قُلْتُ : نَعَمْ ، أَنْعَتُ لَک رَجُلاً بَیْنَ الرَّجُلَیْنِ جِسْمُہُ وَلَحْمُہُ أَسْمَرُ فِی الْبَیَاضِ، حَسَنَ الْمَضْحَکِ، أَکْحَلَ الْعَیْنَیْنِ جَمِیلَ دَوَائِرِ الْوَجْہِ، قَدْ مَلاَتْ لِحْیَتَہُ مِنْ لَدُنْ ہَذِہِ إلَی ہَذِہِ - وَأَشَارَ بِیَدِہِ إلَی صُدْغَیْہِ - حَتَّی کَادَتْ تَمْلاَ نَحْرَہُ - قَالَ عَوْفٌ : وَلاَ أَدْرِی مَا کَانَ مَعَ ہَذَا مِنَ النَّعْتِ - ، فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ : لَوْ رَأَیْتہ فِی الْیَقِظَۃِ مَا اسْتَطَعْت أَنْ تَنْعَتَہُ فَوْقَ ہَذَا۔ (احمد ۳۶۱)
(٣٢٤٦٩) حضرت یزید فارسی فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حضرت ابن عباس کی بصرہ پر حکومت کے زمانے میں خواب میں دیکھا، چنانچہ میں نے حضرت ابن عباس سے عرض کیا کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خواب میں دیکھا ہے، انھوں نے فرمایا کہ کیا تم حضور کی صفت بیان کرسکتے ہو ؟ میں نے کہا جی ہاں ! آپ کی جسامت درمیانی، آپ گندمی رنگ کے بہترین مسکراہٹ والے، سرمگیں آنکھوں والے، خوبصورت چہرے والے ہیں، آپ کی داڑھی نے آپ کے چہرے کو یہاں سے یہاں تک بھرا ہوا ہے، اور انھوں نے کنپٹیوں کی طرف اشارہ کیا ، یہاں تک کہ قریب ہے کہ آپ کے سینے کو بھر دے، عوف کہتے ہیں کہ اس کے علاوہ صفات مجھے یاد نہیں رہیں، چنانچہ حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ اگر تم بیداری میں حضور کو دیکھتے تو اس سے زیادہ بہتر صفت بیان نہ کرسکتے۔

32469

(۳۲۴۷۰) حَدَّثَنَا سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْکَدِرِ ، سَمِعَ جَابِرًا یَقُولُ : مَا سُئِلَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ شَیْئًا قَطُّ فَقَالَ : لاَ۔ (بخاری ۶۰۳۴۔ مسلم ۱۸۰۵)
(٣٢٤٧٠) حضرت جابر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کسی ایسی چیز کا سوال نہیں کیا گیا کہ جس کے جواب میں آپ نے ” نہیں “ کہا ہو۔

32470

(۳۲۴۷۱) حَدَّثَنَا یَعْلَی بْنُ عُبَیْدٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَعْرِضُ الْکِتَابَ عَلَی جِبْرِیلَ فِی کُلِّ رَمَضَانَ ، فَإِذَا أَصْبَحَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنَ اللَّیْلَۃِ الَّتِی یَعْرِضُ فِیہَا مَا یَعْرِضُ أَصْبَحَ وَہُوَ أَجْوَدُ مِنَ الرِّیحِ الْمُرْسَلَۃِ لاَ یُسْأَلُ شَیْئًا إلاَّ أَعْطَاہُ۔
(٣٢٤٧١) حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جبرائیل کے ساتھ ہر رمضان میں قرآن کا دور کرتے تھے، جب اس رات کی صبح ہوتی جس میں آپ نے دور کیا ہوتا تو آپ تیز ہوا سے بھی زیادہ سخی ہوتے، اور آپ سے جس چیز کا بھی سوال کیا جاتا وہی عطا فرما دیتے۔

32471

(۳۲۴۷۲) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا ثَابِتٌ ، عَنْ أَنَسٍ : أَنَّ أَبَا بَکْرٍ کَانَ رَدِیفَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ مَکَّۃَ إلَی الْمَدِینَۃِ ، وَکَانَ أَبُو بَکْرٍ یَخْتَلِفُ إلَی الشَّامِ ، قَالَ : وَکَانَ یُعْرَفُ وَکَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لاَ یُعْرَفُ ، فَکَانُوا یَقُولُونَ : یَا أَبَا بَکْرٍ، مَنْ ہَذَا الْغُلاَمُ بَیْنَ یَدَیْک ، قَالَ : ہَذَا ہَادٍ یَہْدِی السَّبِیلَ ، قَالَ ، فَلَمَّا دَنَوَا مِنَ الْمَدِینَۃِ نَزَلاَ الْحَرَّۃَ ، وَبَعَثَوا إلَی الأَنْصَارِ فَجَاؤُوا ، قَالَ : فَشَہِدْتُہُ یَوْمَ دَخَلَ الْمَدِینَۃَ فَمَا رَأَیْتُ یَوْمًا کَانَ أَحْسَنَ ، وَلاَ أَضْوَأَ مِنْ یَوْمٍ دَخَلَ عَلَیْنَا فِیہِ ، وَشَہِدْتُہُ یَوْمَ مَاتَ فَمَا رَأَیْتُ یَوْمًا کَانَ أَقْبَحَ ، وَلاَ أَظْلَمَ مِنْ یَوْمٍ مَاتَ فِیہِ ، صَلَوَاتُ اللہِ وَرَحْمَتُہُ وَرِضْوَانُہُ عَلَیْہِ۔ (احمد ۱۲۲۔ ترمذی ۳۶۱۸)
(٣٢٤٧٢) حضرت انس فرماتے ہیں کہ حضرت ابوبکر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ مکہ سے مدینہ تک ردیف تھے، اور حضرت ابوبکر شام میں آتے جاتے تھے، اور معروف تھے، اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس قدر معروف نہ تھے، چنانچہ لوگ کہتے اے ابو بکر ! تمہارے ساتھ یہ لڑکا کون ہے ؟ آپ فرماتے کہ یہ رہنما ہے جو مجھے راستہ بتلا رہا ہے ، جب وہ مدینہ کے قریب ہوئے تو حرّہ کے مقام پر ٹھہرے اور انھوں نے انصار کے پاس پیغام بھیجا تو وہ آگئے ، کہتے ہیں کہ میں نے آپ کو اس دن دیکھا جب آپ مدینہ میں داخل ہوئے، میں نے کوئی دن اس دن سے اچھا اور روشن نہیں پایا جس دن آپ ہمارے پاس آئے تھے، اور میں نے آپ کو اس دن دیکھا جس دن آپ فوت ہوئے، تو میں نے کوئی دن اس دن سے زیادہ برا اور تاریک نہیں پایا جس دن آپ فوت ہوئے، آپ پر اللہ کی رحمت اور رضا ہو۔

32472

حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ الرَّحْمن ، حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرٍ بْنِ أَبِی شَیْبَۃ ، قَالَ : (۳۲۴۷۳) حَدَّثَنَا وَکِیعُ بْنُ الْجَرَّاحِ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنِ الْمُغِیرَۃِ بْنِ النُّعْمَانِ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : قامَ فِینَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : أَوَّلُ الْخَلاَئِقِ یُلْقَی بِثَوْبٍ إبْرَاہِیمُ۔ (مسلم ۲۱۹۴۔ ترمذی ۳۱۶۷)
(٣٢٤٧٣) حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے درمیان کھڑے ہوئے اور فرمایا کہ تمام مخلوقات میں سب سے پہلے ابراہیم (علیہ السلام) کو لباس پہنایا جائے گا۔

32473

(۳۲۴۷۴) حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ عَیَّاشٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا أَبُو حَصِینٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ : {وَإِبْرَاہِیمَ الَّذِی وَفَّی} قَالَ : بَلَّغَ مَا أُمِرَ بِہِ۔
(٣٢٤٧٤) حضرت سعید بن جبیر اللہ کے فرمان { وَإِبْرَاہِیمَ الَّذِی وَفَّی } کا معنی بیان فرماتے ہیں کہ ان کو جس چیز کا حکم دیا گیا تھا اس کو پہنچا دیا۔

32474

(۳۲۴۷۵) حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ عَیَّاشٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا عَاصِمٌ ، عَنْ زِرٍّ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : الأَوَّاہُ الدُّعَائُ۔ یُرِیدُ {إنَّ إبْرَاہِیمَ لاَوَّاہٌ}۔
(٣٢٤٧٥) حضرت عبداللہ فرماتے ہیں کہ الأَوَّاہُ کا معنی ہے بہت دعا کرنے والا، مرا د آیت {إنَّ إبْرَاہِیمَ لاَوَّاہٌ} ہے۔

32475

(۳۲۴۷۶) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَنِ الْمُخْتَارِ بْنِ فُلْفُلٍ ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ : جَائَ رَجُلٌ إلَی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : یَا خَیْرَ الْبَرِیَّۃِ ، فَقَالَ : ذَاکَ إبْرَاہِیمُ۔ (مسلم ۱۸۳۹۔ ابوداؤد ۴۶۳۹)
(٣٢٤٧٦) حضرت انس فرماتے ہیں کہ ایک آدمی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا اور اس نے کہا اے مخلوق میں سب سے بہترین شخص ! آپ نے فرمایا کہ وہ تو ابراہیم ہیں۔

32476

(۳۲۴۷۷) حَدَّثَنَا یَعْلَی بْنُ عُبَیْدٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ بْنُ أَبِی خَالِدٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ، قَالَ : یُحْشَرُ النَّاسُ عُرَاۃً حُفَاۃً ، فَأَوَّلُ مَنْ یُلْقَی بِثَوْبٍ إبْرَاہِیمُ۔
(٣٢٤٧٧) حضرت سعید بن جبیر فرماتے ہیں کہ لوگوں کو برہنہ اٹھایا جائے گا، اور سب سے پہلے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو کپڑا پہنایا جائے گا۔

32477

(۳۲۴۷۸) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ قَابُوسَ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : لَمَّا فَرَغَ إبْرَاہِیمُ عَلَیْہِ السَّلاَمُ مِنْ بِنَائِ الْبَیْتِ الْعَتِیقِ قِیلَ لَہُ : {أَذِّنْ فِی النَّاسِ بِالْحَجِّ} قَالَ : رَبِ وَمَا یَبْلُغُ صَوْتِی ؟ قَالَ : أَذِّنْ وَعَلَیَّ الْبَلاَغُ ، فَقَالَ إبْرَاہِیمُ عَلَیْہِ السَّلاَمُ : یَا أَیُّہَا النَّاسُ کُتِبَ عَلَیْکُمَ الْحَجُّ إلَی الْبَیْتِ الْعَتِیقِ ، قَالَ : فَسَمِعَہُ مَا بَیْنَ السَّمَائِ إلَی الأَرْضِ ، أَلاَ تَرَی أَنَّ النَّاسَ یَجِیئُونَ مِنْ أَقَاصِی الأَرْضِ یُلَبُّونَ۔
(٣٢٤٧٨) حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ جب ابراہیم (علیہ السلام) بیت اللہ کی تعمیر سے فارغ ہوئے تو آپ سے کہا گیا کہ لوگوں میں حج کا اعلان کردو، انھوں نے کہا کہ اے میرے رب ! میری آواز کیسے پہنچے گی، اللہ نے فرمایا تم اعلان کردو، پہنچانا میری ذمہ داری ہے، چنانچہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا اے لوگو ! تم پر بیت اللہ کا حج فرض کیا گیا ہے، چنانچہ اس آواز کو آسمان اور زمین کے درمیان ہر چیز نے سنا، کیا تم دیکھتے نہیں کہ لوگ اس کی طرف زمین کے دور دراز حصوں سے لبیک کی صدا لگاتے ہوئے آتے ہیں۔

32478

(۳۲۴۷۹) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِی عُبَیْدَۃَ بْنِ مَعْن ، قَالَ : حدَّثَنِی أَبِی ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِی صَالِحٍ ، قَالَ : انْطَلَقَ إبْرَاہِیمُ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَمْتَارُ فَلَمْ یَقْدِرْ عَلَی الطَّعَامِ ، فَمَرَّ بِسِہْلَۃٍ حَمْرَائَ ، فَأَخَذَ مِنْہَا ثُمَّ رَجَعَ إلَی أَہْلِہِ ، فَقَالُوا : مَا ہَذَا ؟ قَالَ : حِنْطَۃٌ حَمْرَائُ ، قَالَ : ففَتَحُوہَا فَوَجَدُوہَا حِنْطَۃً حَمْرَائَ ، قَالَ : فَکَانَ إذَا زَرَعَ مِنْہَا شَیْئًا خَرَجَ سُنْبُلَۃً مِنْ أَصْلِہَا إلَی فَرْعِہَا حَبًّا مُتَرَاکِبًا۔
(٣٢٤٧٩) حضرت ابو صالح فرماتے ہیں کہ ابراہیم (علیہ السلام) خوراک کی تلاش میں نکلے لیکن کھانا لانے پر قادر نہ ہوئے ، چنانچہ آپ سرخ ریتلی زمین پر سے گزرے تو اس سے کچھ ریت لے لی، اور اپنے گھر واپس گئے، انھوں نے کہا یہ کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ سرخ گندم ہے، انھوں نے اس کو کھولا تو اس میں سرخ گندم تھی، چنانچہ وہ جب بھی کچھ بوتے اس کی بالیوں سے کئی دانے نکلتے۔

32479

(۳۲۴۸۰) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ أَبِی عُثْمَانَ ، عَنْ سَلْمَانَ ، قَالَ : لَمَّا أُرِیَ إبْرَاہِیمُ مَلَکُوتَ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ رَأَی عَبْدًا عَلَی فَاحِشَۃٍ فَدَعَا عَلَیْہِ فَہَلَکَ ، ثُمَّ رَأَی آخَرَ فَدَعَا عَلَیْہِ فَہَلَکَ ، فَقَالَ اللَّہُ: أَنْزِلُوا عَبْدِی ، لاَ یُہْلِکُ عِبَادِی۔
(٣٢٤٨٠) حضرت سلمان فرماتے ہیں کہ جب ابراہیم (علیہ السلام) کو آسمانوں اور زمین کا ملک دکھایا گیا تو انھوں نے ایک بندے کو فحش کام کرتے ہوئے دیکھا، چنانچہ آپ نے اس کو بد دعا دی تو وہ ہلاک ہوگیا، پھر دوسرے کو دیکھا اور اس کو بد دعا دی تو وہ بھی ہلاک ہوگیا، چنانچہ اللہ نے فرمایا کہ میرے بندے کو اتارو، کہیں یہ میرے بندوں کو ہلاک نہ کر دے۔

32480

(۳۲۴۸۱) حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ مُعَاذٍ ، عَنِ التَّیْمِیِّ ، عَنْ أَبِی عُثْمَانَ ، عَنْ سَلْمَانَ ، قَالَ : أُرْسِلَ عَلَی إبْرَاہِیمَ عَلَیْہِ السَّلاَمُ أَسَدَانِ مُجَوَّعَانِ ، قَالَ : فَلَحَسَاہُ وَسَجَدَا لَہُ۔
(٣٢٤٨١) حضرت سلمان فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) پر دو بھوکے شیر چھوڑے گئے ، چنانچہ وہ آپ کو چاٹنے لگے اور آپ کو سجدہ کرنے لگے۔

32481

(۳۲۴۸۲) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مُلیلٍ ، عَنْ عَلِیٍّ : فِی قَوْلِہِ : {یَا نَارُ کُونِی بَرْدًا وَسَلاَمًا عَلَی إبْرَاہِیمَ} قَالَ : لَوْلا أَنَّہُ قَالَ {وَسَلاَمًا} لَقَتَلَہُ بَرْدُہَا۔
(٣٢٤٨٢) عبداللہ بن ملیل حضرت علی سے اللہ کے فرمان { یَا نَارُ کُونِی بَرْدًا وَسَلاَمًا عَلَی إبْرَاہِیمَ } کے تحت نقل کرتے ہیں ، فرمایا کہ اگر اللہ { وَسَلاَمًا } نہ فرماتے تو وہ اتنی ٹھنڈی ہوجاتی کہ اس سے ان کی جان چلی جاتی۔

32482

(۳۲۴۸۳) حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ ثَابِتٍ ، قَالَ : حدَّثَنِی مُوسَی مَوْلَی أَبِی بَکْرَۃَ ، قَالَ : حَدَّثَنِی سَعِیدُ بْنُ جُبَیْرٍ ، قَالَ : لَمَّا أری إبْرَاہِیمُ عَلَیْہِ السَّلاَمُ فِی الْمَنَامِ ذَبْحَ إِسْحَاقَ سَارَ بِہِ مَسِیرَۃَ شَہْرٍ فِی غَدَاۃٍ وَاحِدَۃٍ حَتَّی أَتَی الْمَنْحَرَ بِمِنًی ، فَلَمَّا صَرَفَ اللَّہُ عَنْہُ الذَّبْحَ قَامَ بِکَبْشٍ فَذَبَحَہُ ، ثُمَّ رَجَعَ بِہِ مَسِیرَۃَ شَہْرٍ فِی رَوْحَۃٍ وَاحِدَۃٍ ، طُوِیَتْ لَہُ الأَوْدِیَۃُ وَالْجِبَالُ۔
(٣٢٤٨٣) حضرت سعید بن جبیر فرماتے ہیں کہ جب ابراہیم (علیہ السلام) کو خواب میں حضرت اسحاق (علیہ السلام) کا ذبح ہونا دکھلایا گیا تو وہ ان کو ایک دن میں ایک مہینے دور کی مسافت پر لے گئے یہاں تک کہ منی میں نحر کرنے کی جگہ آگئے، جب اللہ نے ذبح کو ان سے دور فرما دیا تو انھوں نے مینڈھے کو ذبح کردیا، پھر ایک شام میں ایک مہینے کی مسافت سے واپس آگئے، ان کے لیے وادیوں اور پہاڑوں کو لپیٹ دیا گیا۔

32483

(۳۲۴۸۴) حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ أَبِی سُلَیْمَانَ ، عَنْ کَعْبٍ ، قَالَ : مَا أَحْرَقَتِ النَّارُ مِنْ إبْرَاہِیمَ إلاَّ وِثَاقَہُ۔
(٣٢٤٨٤) حضرت کعب فرماتے ہیں کہ آگ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی رسّی کے علاوہ کسی چیز کو نہیں جلایا۔

32484

(۳۲۴۸۵) حَدَّثَنَا مُعَاوِیَۃُ بْنُ ہِشَامٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ زَیْدِ بْنِ أَسْلَمَ ، عْن عَبْدِ اللہِ بْنِ عُبَیْدِ بْنِ عُمَیْرٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : قَالَ مُوسَی : یَا رَبِّ : ذَکَرْت إبْرَاہِیمَ وَإِسْحَاقَ وَیَعْقُوبَ ، بِمَ أَعْطَیْتَہُمْ ذَاکَ ؟ قَالَ : إنَّ إبْرَاہِیمَ لَمْ یُعْدَلْ بِی شَیْئٍ إلاَّ اخْتَارَنِی ، وَإِنَّ إِسْحَاقَ جَادَ لِی بِنَفْسِہِ فَہُوَ لِمَا سِوَاہَا أَجْوَدُ ، وَإِنَّ یَعْقُوبَ لَمْ أَبْتَلِہِ بِبَلاَئٍ إلاَّ زَادَ بِی حُسْنَ ظَنٍّ۔
(٣٢٤٨٥) حضرت عبید بن عمیر فرماتے ہیں کہ حضرت موسیٰ نے فرمایا اے میرے رب ! آپ نے حضرت ابراہیم، اسحاق اور یعقوب ۔ کا ذکر فرمایا ہے، آپ نے ان کو یہ فضیلت کیسے عطا فرمائی ہے ؟ اللہ نے فرمایا کہ ابراہیم کو جس چیز کے ذریعے بھی مجھ سے پھیرنے کی کوشش کی گئی انھوں نے مجھے اختیار کیا، اور اسحاق نے اپنے نفس کو میرے لیے قربان کیا، تو وہ دوسری چیزوں کو زیادہ قربان کرنے والے ہیں، اور یعقوب کو میں نے جس طرح بھی آزمایا میرے ساتھ ان کا حسن ظن پہلے سے بڑھ گیا۔

32485

(۳۲۴۸۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ سَلَمَۃَ ، عَنْ مُجَاہِدٍ : {وَأَذِّنْ فِی النَّاسِ بِالْحَجِّ} قَالَ : لَمَّا أُمِرَ إبْرَاہِیمُ أَنْ یُؤَذِّنَ بِالْحَجِّ فَقَامَ ، فَقَالَ : یَا أَیُّہَا النَّاسُ ، أَجِیبُوا رَبَّکُمْ ، فَأَجَابُوہُ : لَبَّیْکَ اللَّہُمَّ لَبَّیْکَ۔
(٣٢٤٨٦) حضرت مجاہد { وَأَذِّنْ فِی النَّاسِ بِالْحَجِّ } کے تحت فرماتے ہیں ل کہ جب ابراہیم (علیہ السلام) کو حج کا اعلان کرنے کا حکم دیا گیا تو وہ کھڑے ہوئے اور کہا اے لوگو ! اپنے رب کے حکم پر لبیک کہو، چنانچہ انھوں نے جواب دیا لَبَّیْکَ اللَّہُمَّ لَبَّیْکَ ۔

32486

(۳۲۴۸۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنِ ابْنِ أَبِی نَجِیحٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ : {وَإِذَ ابْتَلَی إبْرَاہِیمَ رَبُّہُ بِکَلِمَاتٍ فَأَتَمَّہُنَّ} قَالَ : اُبْتُلِیَ بِالآیَاتِ الَّتِی بَعْدَہَا۔
(٣٢٤٨٧) مجاہد ایک دوسری سند سے { وَإِذَ ابْتَلَی إبْرَاہِیمَ رَبُّہُ بِکَلِمَاتٍ فَأَتَمَّہُنَّ } کی تفسیر میں فرماتے ہیں : یعنی جب ان کو ان آیات کے ذریعے مبتلا کیا گیا جو اس آیت کے بعد ہیں۔

32487

(۳۲۴۸۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ : {وَإِذَ ابْتَلَی إبْرَاہِیمَ رَبُّہُ بِکَلِمَاتٍ} قَالَ : مِنْہُنَّ الْخِتَانُ۔
(٣٢٤٨٨) حضرت شعبی نے { وَإِذَ ابْتَلَی إبْرَاہِیمَ رَبُّہُ بِکَلِمَاتٍ } کے تحت فرمایا کہ ان کلمات میں ایک ختنہ بھی ہے۔

32488

(۳۲۴۸۹) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ دَاوُدَ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ : {وَإِذَ ابْتَلَی إبْرَاہِیمَ رَبُّہُ بِکَلِمَاتٍ} قَالَ : لَمْ یُبْتَلْ أَحَدٌ بِہَذَا الدِّینِ فَأَقَامَہُ إلاَّ إبْرَاہِیمُ علیہ السلام۔
(٣٢٤٨٩) عکرمہ حضرت ابن عباس سے { وَإِذَ ابْتَلَی إبْرَاہِیمَ رَبُّہُ بِکَلِمَاتٍ } کے تحت نقل کرتے ہیں، فرمایا کہ کوئی شخص ایسا نہیں جس کو اس دین میں آزمائش میں ڈالا گیا ہو اور وہ اس آزمائش میں پورا اترا ہو سوائے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے۔

32489

(۳۲۴۹۰) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ فِرَاسٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو ، قَالَ : أَوَّلُ کَلِمَۃٍ قَالَہَا إبْرَاہِیمُ حِینَ أُلْقِیَ فِی النَّارِ : حَسْبُنَا اللَّہُ وَنِعْمَ الْوَکِیلُ۔
(٣٢٤٩٠) شعبی روایت کرتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمرو نے فرمایا کہ سب سے پہلا کلمہ جو ابراہیم (علیہ السلام) نے آگ میں گرنے کے بعد کہا وہ حَسْبُنَا اللَّہُ وَنِعْمَ الْوَکِیلُ ہے۔

32490

(۳۲۴۹۱) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ، عَنْ سَعِیدٍ : أَنَّ إبْرَاہِیمَ أَوَّلُ النَّاسِ أَضَافَ الضَّیْفَ ، وَأَوَّلُ النَّاسِ اُخْتُتِنَ ، وَأَوَّلُ النَّاسِ قَلَّمَ أَظْفَارَہُ ، وَجَزَّ شَارِبَہُ ، وَاسْتَحَدَّ۔
(٣٢٤٩١) حضرت سعید سے روایت ہے کہ سب سے پہلے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے مہمان کی مہمان نوازی کی، اور سب سے پہلے ختنہ کیا، اور سب سے پہلے ناخن تراشے، اور مونچھیں کتروائیں اور زیر ناف بال صاف کیے۔

32491

(۳۲۴۹۲) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ، عَنْ سَعِیدٍ : أنَّ إبْرَاہِیمَ عَلَیْہِ السَّلاَمُ أَوَّلُ مَنْ رَأَی الشَّیْبَ ، فَقَالَ : یَا رَبِ ، مَا ہَذَا ؟ قَالَ : الْوَقَارُ ، قَالَ : یَا رَبِ ، زِدْنِی وَقَارًا۔
(٣٢٤٩٢) یحییٰ بن سعید حضرت سعید سے ہی روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے سب سے پہلے سفید بالوں کو دیکھا، عرض کیا اے میرے رب ! یہ کیا ہے ؟ اللہ نے فرمایا یہ وقار ہے آپ نے عرض کیا اے میرے رب ! میرے وقار میں اضافہ فرما۔

32492

(۳۲۴۹۳) حَدَّثَنَا عِیسَی بْنُ یُونُسَ ، عَنْ رَبِیعَۃَ بْنِ عُثْمَانَ التَّیْمِیِّ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاہِیمَ ، عَن أَبِیہِ : أنَّہُ قَالَ : أَوَّلُ مَنْ خَطَبَ عَلَی الْمَنَابِرِ إبْرَاہِیمُ خَلِیلُ اللہِ علیہ السلام۔
(٣٢٤٩٣) سعد بن ابراہیم کہتے ہیں کہ حضرت ابراہیم نے فرمایا کہ سب سے پہلے منبر پر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے خطبہ دیا۔

32493

(۳۲۴۹۴) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ : {فَمَا وَجَدْنَا فِیہَا غَیْرَ بَیْتٍ مِنَ الْمُسْلِمِینَ} قَالَ : لُوطٌ عَلَیْہِ السَّلاَمُ وَابْنَتَیْہِ۔
(٣٢٤٩٤) حضرت مجاہد اللہ کے فرمان { فَمَا وَجَدْنَا فِیہَا غَیْرَ بَیْتٍ مِنَ الْمُسْلِمِینَ } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اس سے مراد لوط (علیہ السلام) اور ان کی دو بیٹیاں ہیں۔

32494

(۳۲۴۹۵) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ الْمُغِیرَۃِ ، عَنْ حُمَیْدِ بْنِ ہِلاَلٍ ، قَالَ : قَالَ جُنْدُبٌ ، قَالَ حُذَیْفَۃُ : لَمَّا أُرْسِلَتِ الرُّسُلُ إلَی قَوْمِ لُوطٍ لِیُہْلِکُوہُمْ قِیلَ لَہُمْ: لاَ تُہْلِکُوہُمْ حَتَّی یَشْہَدَ عَلَیْہِمْ لُوطٌ ثَلاَثَ مِرَارٍ، قَالَ: وَکَانَ طَرِیقُہُمْ عَلَی إبْرَاہِیمَ عَلَیْہِ السَّلاَمُ ، قَالَ : فَأَتَوْا إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : فَلَمَّا بَشَّرُوہُ بِمَا بَشَّرُوہُ ، قَالَ : {فَلَمَّا ذَہَبَ عَنْ إبْرَاہِیمَ الرَّوْعُ وَجَائَتْہُ الْبُشْرَی یُجَادِلُنَا فِی قَوْمِ لُوطٍ} قَالَ : وَکَانَ مُجَادَلَتُہُ إیَّاہُمْ إِنَّہُ قَالَ : أَرَأَیْتُمْ إنْ کَانَ فِیہَا خَمْسُونَ مِنَ الْمُسْلِمِینَ أَتُہْلِکُونَہُمْ ؟ قَالُوا : لاَ ، قَالَ : أَفَرَأَیْتُمْ إنْ کَانَ فِیہَا أَرْبَعُونَ ؟ قَالَ : قَالُوا : لاَ ، حَتَّی انْتَہَی إلَی عَشْرَۃٍ ، أَوْ خَمْسَۃٍ - حُمَیْدٌ شَکَّ فِی ذَلِکَ - ، قَالَ : قَالُوا : فَأَتَوْا لُوطًا وَہُوَ یَعْمَلُ فِی أَرْضٍ لَہُ ، قَالَ : فَحَسِبَہُمْ بَشَرًا ، قَالَ : فَأَقْبَلَ بِہِمْ خَفِیًّا حَتَّی أَمْسَی إلَی أَہْلِہِ۔ قَالَ: فَمَشَوْا مَعَہُ فَالْتَفَتَ إلَیْہِمْ، قَالَ: وَمَا تَدْرُونَ مَا یَصْنَعُ ہَؤُلاَئِ؟ قَالُوا: وَمَا یَصْنَعُونَ؟ فَقَالَ: مَا مِنَ النَّاسِ أَحَدٌ ہُوَ شَرّ مِنْہُمْ، قَالَ: فَلَبِسُوا آدَاتَہُمْ عَلَی مَا قَالَ، وَمَشَوْا مَعَہُ، قَالَ: ثُمَّ قَالَ مِثْلَ ہَذَا، فَأَعَادَ عَلَیْہِمْ مِثْلَ ہَذَا ثَلاَثَ مِرَارٍ ، قَالَ: فَانْتَہَی بِہِمْ إلَی أَہْلِہِ ، قَالَ : فَانْطَلَقَتِ امْرَأَتُہُ الْعَجُوزُ - عَجُوزُ السُّوئِ - إلَی قَوْمِہِ ، فَقَالَتْ : لَقَدْ تَضَیَّفَ لُوطٌ اللَّیْلَۃَ رِجَالاً مَا رَأَیْت رِجَالاً قَطُّ أَحْسَنَ مِنْہُمْ وُجُوہًا ، وَلاَ أَطْیَبَ رِیحًا مِنْہُمْ۔ قَالَ : فَأَقْبَلُوا یُہْرَعُونَ إلَیْہِ حَتَّی دَافَعُوہُ الْبَابَ حَتَّی کَادُوا یَغْلِبُونَہُ عَلَیْہِ ، قَالَ : فَأَہْوَی مَلَکٌ مِنْہُمْ بِجَنَاحِہِ ، فَصَفَقَہُ دُونَہُمْ ، قَالَ : وَعَلاَ لُوطٌ الْبَابَ وَعَلَوْہ مَعَہُ ، قَالَ : فَجَعَلَ یُخَاطِبُہُمْ : {ہَؤُلاَئِ بَنَاتِی ہُنَّ أَطْہَرُ لَکُمْ فَاتَّقُوا اللَّہَ وَلاَ تُخْزُونِی فِی ضَیْفِی أَلَیْسَ مِنْکُمْ رَجُلٌ رَشِیدٌ} قَالَ : فَقَالُوا : {لَقَدْ عَلِمْتَ مَا لَنَا فِی بَنَاتِکَ مِنْ حَقٍّ وَإِنَّک لَتَعْلَمُ مَا نُرِیدُ} قَالَ : فَقَالَ : {لَوْ أَنَّ لِی بِکُمْ قُوَّۃً ، أَوْ آوِی إلَی رُکْنٍ شَدِیدٍ} قَالَ : قَالُوا : {یَا لُوطُ إنَّا رُسُلُ رَبِّکَ لَنْ یَصِلُوا إلَیْک} قَالَ : فَذَاکَ حِینَ عَلِمَ أَنَّہُمْ رُسُلُ اللہِ ، ثُمَّ قَرَأَ إلَی قَوْلِہِ : {أَلَیْسَ الصُّبْحُ بِقَرِیبٍ}۔ قَالَ : وَقَالَ مَلَکٌ : فَأَہْوَی بِجَنَاحِہِ ہَکَذَا - یَعْنِی : شِبْہَ الضَّرْبِ - ، فَمَا غَشِیَہُ أَحَدٌ مِنْہُمْ تِلْکَ اللَّیْلَۃَ إلاَّ عَمِیَ ، قَالَ : فَبَاتُوا بِشَرِّ لَیْلَۃٍ عُمْیَانًا یَنْتَظِرُونَ الْعَذَابَ ، قَالَ : وَسَارَ بِأَہْلِہِ ، قَالَ : اسْتَأْذَنَ جِبْرِیلُ فِی ہَلَکَتِہِمْ ، فَأُذِنَ لَہُ ، فَاحْتَمَلَ الأَرْضَ الَّتِی کَانُوا عَلَیْہَا ، قَالَ : فَأَلْوَی بِہَا حَتَّی سَمِعَ أَہْلُ سَمَائِ الدُّنْیَا ضُغَائَ کِلاَبِہِمْ ، قَالَ ، ثُمَّ قَلَبَہَا بِہِمْ ، قَالَ : فَسَمِعَتِ امْرَأَتُہُ - یَعْنِی : لُوطًا عَلَیْہِ السَّلاَمُ - الْوَجْبَۃَ وَہِیَ مَعَہُ فَالْتَفَتَتْ فَأَصَابَہَا الْعَذَابُ ، قَالَ : وَتَتَبَّعَتْ سُفّارَہُمْ بِالْحِجَارَۃِ۔
(٣٢٤٩٥) جندب روایت کرتے ہیں کہ حضرت حذیفہ نے فرمایا کہ جب قوم لوط (علیہ السلام) کو ہلاک کرنے کے لیے دو فرشتے بھیجے گئے تو ان سے کہا گیا کہ ان کو اس وقت تک ہلاک نہ کرنا جب تک لوط (علیہ السلام) ان پر تین مرتبہ گواہی نہ دے دیں، کہتے ہیں کہ ان کا راستہ ابراہیم (علیہ السلام) سے ہو کر گزرتا تھا، چنانچہ وہ ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس آئے اور ان کو خوشخبری سنائی، اللہ فرماتے ہیں { فَلَمَّا ذَہَبَ عَنْ إبْرَاہِیمَ الرَّوْعُ وَجَائَتْہُ الْبُشْرَی یُجَادِلُنَا فِی قَوْمِ لُوطٍ } کہتے ہیں کہ ان کا ان سے جھگڑا اس طرح ہوا کہ انھوں نے فرمایا کہ اگر اس بستی میں پچاس مسلمان ہوں تو کیا تم ان کو ہلاک کر ڈالو گے ؟ انھوں نے کہا نہیں، آپ نے فرمایا تو پھر اگر اس میں چالیس مسلمان ہوں تو کیا تم ان کو ہلاک کر ڈالو گے ؟ انھوں نے کہا نہیں، یہاں تک کہ آپ دس یا پانچ تک پہنچ گئے، حمید راوی کو اس میں شک ہے۔ چنانچہ وہ اس کے بعد لوط (علیہ السلام) کے پاس پہنچے جبکہ وہ اپنی زمین پر کام کر رہے تھے، انھوں نے ان کو انسان سمجھا، چنانچہ وہ ان کو خفیہ طور پر اپنے گھر لے چلے۔
(٢) اس کے بعد وہ ان کے ساتھ چلے، تو آپ ان کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا کہ کیا تمہیں معلوم ہے کہ یہ لوگ کیا کرتے ہیں ؟ وہ کہنے لگے کیا کرتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا کہ لوگوں میں ان سے بدترین کوئی نہیں، چنانچہ انھوں نے اس پر کوئی بات نہ کی، اور ان کے ساتھ چلنے لگے، پھر انھوں نے دوبارہ ایسے ہی کہا، تو انھوں نے بھی وہی جواب دیا، تین مرتبہ انھوں نے ایسا ہی کیا، اس کے بعد وہ ان کو گھر لے کر پہنچ گئے، چنانچہ ان کی بڑھیا بیوی ان کی قوم کے پاس آئی اور کہنے لگی کہ لوط کے پاس آج رات ایسے آدمی مہمان ہوئے ہیں جن سے زیادہ خوبصورت اور خوشبودار لوگ نہیں دیکھے۔
(٣) چنانچہ وہ دوڑتے ہوئے ان کے پاس آئے یہاں تک کہ دروازہ دھکیلنے لگے قریب تھا کہ اس کو گرا دیتے، چنانچہ ایک فرشتے نے اپنا پر ان کو مارا اور ان کو ہٹا دیا، اور لوط (علیہ السلام) دروازے پر چڑھ گئے اور وہ بھی چڑھ گئے، اور آپ نے ان سے مخاطب ہو کر فرمایا ” یہ میری بیٹیاں ہیں یہ تمہارے لیے زیادہ پکیزہ ہیں۔ مجھے میرے مہمانوں کے بارے میں رسوا نہ کرو۔ کیا تم میں کوئی سمجھ دار آدمی نہیں ہے۔ “ وہ کہنے لگے ” تم جانتے ہو کہ ہمارا تمہاری بیٹیوں میں کوئی حق نہیں اور جو ہمارا ارادہ ہے وہ بھی تمہیں پتہ ہے۔ “ آپ نے فرمایا : ” کاش مجھے کوئی قوت حاصل ہوتی اور کاش میں بھی کسی مضبوط مددگار سے مدد لے سکتا۔ “ وہ کہنے لگے ” اے لوط ! ہمارے تمہارے رب کے بھیجے ہوئے ہیں اور یہ ہم تک نہیں پہنچ سکتے۔ “ اس وقت ان کو علم ہوا کہ وہ اللہ کے بھیجے ہوئے فرشتے ہیں۔ پھر آپ نے (أَلَیْسَ الصُّبْحُ بِقَرِیبٍ ) تک تلاوت فرمائی۔
(٤) کہتے ہیں کہ ایک فرشتے نے اپنے پر کو اس طرح حرکت دی جس طرح مارتے ہیں چنانچہ جہاں تک وہ پر پہنچے سب لوگ اندھے ہوگئے ، چنانچہ انھوں نے اندھے ہونے کی حالت میں بدترین رات گزاری اور وہ عذاب کا انتظار کر رہے تھے، اور لوط (علیہ السلام) اپنے گھر والوں کو لے کر چلے اور جبرائیل نے ان کو ہلاک کرنے کی اجازت مانگی اور ان کو اجازت دے دی گئی، انھوں نے اس زمین کو اٹھایا جس پر وہ تھے اور اس کو بلند کردیا یہاں تک کہ آسمان دنیا کے فرشتوں نے ان کے کتوں کی آوازیں سنیں، پھر انھوں نے اس کو پلٹ دیا، آپ کی بیوی نے جو آپ کے ساتھ تھی آواز سنی اور اس نے مڑ کر دیکھا تو اس کو بھی عذاب نے آلیا، اور ان کے سفیروں پر بھی پتھر برسے۔

32495

(۳۲۴۹۶) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : خَرَجَ مُوسَی عَلَیْہِ السَّلاَمُ یُنَادِی : لَبَّیْکَ ، قَالَ : وَجِبَالُ الرَّوْحَائِ تُجِیبُہُ۔
(٣٢٤٩٦) حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ فرمایا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پکارتے تھے ” لبیک “ اور روحاء کے پہاڑ ان کا جواب دیتے تھے۔

32496

(۳۲۴۹۷) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ إِسْحَاقَ ، قَالَ : حدَّثَنَا وُہَیْبٌ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ یَحْیَی ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ أَبِی سَعِیدٍ : أَنَّ رَجُلاً مِنَ الأَنْصَارِ سَمِعَ رَجُلاً مِنَ الْیَہُودِ وَہُوَ فِی السُّوقِ وَہُوَ یَقُولُ : وَالَّذِی اصْطَفَی مُوسَی عَلَی الْبَشَرِ ، فَضَرَبَ وَجْہَہُ ، وَقَالَ : أَیْ خَبِیثُ ، أَعَلَی أَبِی الْقَاسِمِ ؟ فَانْطَلَقَ الْیَہُودِیُّ إلَی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : یَا أَبَا الْقَاسِمِ ، ضَرَبَ وَجْہِی فُلاَنٌ ، فَأَرْسَلَ إلَیْہِ فَدَعَاہُ ، فَقَالَ : لِمَ ضَرَبْت وَجْہَہُ ، فَقَالَ : إنِّی مَرَرْت بِہِ فِی السُّوقِ فَسَمِعْتُہُ یَقُولُ : وَالَّذِی اصْطَفَی مُوسَی عَلَی الْبَشَرِ ، فَأَخَذَتْنِی غَضْبَۃٌ فَضَرَبْتُ وَجْہَہُ ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لاَ تُخَیِّرُوا بَیْنَ الأَنْبِیَائِ ، فَإِنَّ النَّاسَ یُصْعَقُونَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ فَأَرْفَعُ رَأْسِی فَإِذَا أَنَا بِمُوسَی آخِذٌ بِقَائِمَۃٍ مِنْ قَوَائِمِ الْعَرْشِ فَلاَ أَدْرِی أَصَعِقَ فِیمَنْ صَعِقَ فَأَفَاقَ قَبْلِی ، أَوْ حُوسِبَ بِصَعْقَتِہِ الأُولَی ، أَوَ قَالَ : کَفَتْہُ صَعْقَتُہُ الأُولَی۔
(٣٢٤٩٧) حضرت ابو سعید فرماتے ہیں کہ انصار کے ایک آدمی نے ایک یہودی کو بازار میں یہ کہتے سنا کہ ” اس ذات کی قسم جس نے موسیٰ کو انسانوں پر فضیلت دی، اس نے اس کے منہ پر تھپڑ مار دیا، اور کہا اے خبیث ! کیا ابو القاسم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر بھی ؟ چنانچہ وہ یہودی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس گیا اور کہا کہ اے ابو القاسم ! فلاں شخص نے میرے چہرے پر مارا ہے، آپ نے ایک آدمی بھیج کر اس کو بلوایا اور فرمایا کہ تم نے اس کے چہرے پر کیوں مارا ؟ اس نے کہا کہ میں اس کے پاس سے بازار میں گزر رہا تھا کہ میں نے اس کو کہتے ہوئے سنا کہ ” اس ذات کی قسم جس نے موسیٰ کو انسانوں پر فضیلت دی “ چنانچہ مجھے غصہ آیا اور میں نے اس کے چہرے پر مار دیا، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ انبیاء کو ایک دوسرے پر ترجیح نہ دو کیونکہ لوگوں کو قیامت کے دن ایک جھٹکا دیا جائے گا، چنانچہ میں اپنا سر اٹھاؤں گا تو موسیٰ (علیہ السلام) عرش کے پائے پکڑے ہوں گے، مجھے علم نہیں کہ ان کو لوگوں کے ساتھ جھٹکا دیا جائے گا اور پھر ان کو مجھ سے پہلے افاقہ ہوجائے گا یا پہلا جھٹکا ان کو کافی ہوجائے گا۔

32497

(۳۲۴۹۸) حَدَّثَنَا یَعْلَی بْنُ عُبَیْدٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ بْنُ أَبِی خَالِدٍ ، عَنْ عَامِرٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ الْحَارِثِ ، عَنْ کَعْبٍ، قَالَ: إنَّ اللَّہَ قَسَمَ کَلاَمُہُ وَرُؤْیَتَہُ بَیْنَ مُوسَی وَمُحَمَّدٍ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَکَلَّمَہُ مُوسَی مَرَّتَیْنِ، وَرَآہُ مُحَمَّدٌ مَرَّتَیْنِ۔ (حاکم ۵۷۵)
(٣٢٤٩٨) عبداللہ بن حارث روایت کرتے ہیں کہ حضرت کعب نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام اور دیدار کو موسیٰ (علیہ السلام) اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے درمیان تقسیم فرما دیا ہے، چنانچہ دو مرتبہ موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ سے ہم کلامی کی اور دو مرتبہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ تعالیٰ کودیکھا۔

32498

(۳۲۴۹۹) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنِ الْجُرَیْرِیِّ ، عَنْ أَبِی السَّلیل ، عَنْ قَیْسِ بْنِ عُبَادٍ - وَکَانَ مِنْ أکْثَرِ النَّاسِ ، أَوْ مِنْ أَحْدَثِ النَّاسِ ، عَنْ بَنِی إسْرَائِیلَ - قَالَ : فَحَدَّثَنَا أَنَّ الشِّرْذِمَۃَ الَّذِینَ سَمَّاہُمْ فِرْعَوْنُ مِنْ بَنِی إسْرَائِیلَ کَانُوا سِتَّمِئَۃِ أَلْفٍ ، وَکَانَ مُقَدَّمَۃُ فِرْعَوْنَ سَبْعَمِئَۃِ أَلْفٍ ، کُلُّ رَجُلٍ مِنْہُمْ عَلَی حِصَانٍ ، عَلَی رَأْسِہِ بَیْضَۃٌ وَبِیَدِہِ حَرْبَۃٌ وَہُوَ خَلْفَہُمْ فِی الدُّہْمِ ، فَلَمَّا انْتَہَی مُوسَی عَلَیْہِ السَّلاَمُ بِبَنِی إسْرَائِیلَ إلَی الْبَحْرِ ، قَالَتْ بَنُو إسْرَائِیلَ : أَیْنَ مَا وَعَدْتنَا ہَذَا الْبَحْرُ بَیْنَ أَیْدِینَا ، وَہَذَا فِرْعَوْنُ وَجُنُودُہُ قَدْ دَہَمَنَا أَو مِنْ خَلْفِنَا ، فَقَالَ مُوسَی عَلَیْہِ السَّلاَمُ لِلْبَحْرِ : انْفَلِقْ أَبَا خَالِدٍ ، فَقَالَ : لاَ أَنَفْلِقُ لَک یَا مُوسَی ، أَنَا أَقْدَمُ مِنْک خَلْقًا ، أَوْ أَشَدُّ ، قَالَ : فَنُودِیَ : {أَنَ اضْرِبْ بِعَصَاک الْبَحْرَ} فَضَرَبَ {فَانْفَلَقَ}۔ قَالَ الْجُرَیْرِیُّ : وَکَانُوا اثْنَیْ عَشَرَ سِبْطًا ، وَکَانَ لِکُلِّ سِبْطٍ مِنْہُمْ طَرِیقٌ ، فَلَمَّا انْتَہَی أَوَّلُ جُنُودِ فِرْعَوْنَ إلَی الْبَحْرِ ہَابَتِ الْخَیْلُ اللہب ، وَمُثِّلَ لِحِصَانٍ مِنْہَا فَرَسٌ وَدِیقٌ ، فَوَجَدَ رِیحَہَا ، فَأبسلَ تَتْبَعُہُ الْخَیْلُ ، فَلَمَّا تَتَامَّ آخِرُ جُنُودِ فِرْعَوْنَ فِی الْبَحْرِ خَرَجَ آخِرُ بَنِی إسْرَائِیلَ مِنَ الْبَحْرِ فَانْصَفَقَ عَلَیْہِمْ ، فَقَالَتْ بَنُو إسْرَائِیلَ : مَا مَاتَ فِرْعَوْنُ ، وَمَا کَانَ لِیَمُوتَ أَبَدًا ، قَالَ : فَلَمْ یَعُدُ أَنْ سَمَّعَ اللَّہُ تَکْذِیبَہُمْ نَبِیَّہُ ، فَرَمَی بِہِ عَلَی السَّاحِلِ کَأَنَّہُ ثَوْرٌ أَحْمَرُ یَتَرَاء اہُ بَنُو إسْرَائِیلَ۔ (ابن جریر ۱۹)
(٣٢٤٩٩) ابو السّلیل حضرت قیس بن عباد سے روایت کرتے ہیں جو بنی اسرائیل کے بارے میں سب سے زیادہ روایت کرنے والے تھے، کہتے ہیں کہ انھوں نے ہمیں بیان کیا کہ وہ جماعت جن کے نام فرعون نے لکھے ہوئے تھے چھ لاکھ لوگ تھے اور فرعون کا مقدمۃ الجیش سات لاکھ افراد پر مشتمل تھا، اور ہر شخص گھوڑے پر سوار ہوتا اور اس کے سر پر خود ہوتا، اور اس کے ہاتھ میں نیزہ ہوتا ، اور وہ ان لوگوں کے پیچھے پیچھے ہوتا، جب موسیٰ (علیہ السلام) بنی اسرائیل کو سمندر تک لے گئے تو بنی اسرائیل کہنے لگے کہاں ہے جس کا تم نے ہم سے وعدہ کیا ہے، سمندر ہمارے سامنے ہے اور فرعون اور اس کا لشکر ہم پر چڑھا آ رہا ہے، یا کہا کہ ہمارے پیچھے ، موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ اے سمندر ! پھٹ جا، اس نے کہا اے موسیٰ میں آپ کے لیے نہیں پھٹتا، میں پیدائش میں آپ سے مقدم ہوں، یا کہا مضبوط ہوں، چنانچہ آواز دی گئی کہ سمندر پر اپنا عصار مارو، آپ نے عصا مارا تو وہ پھٹ گیا۔
جُریری کہتے ہیں کہ وہ بارہ قبیلے تھے اور ہر قبیلے کا ایک راستہ جدا تھا، جب فرعون کے لشکر کا پہلا حصّہ سمندر تک پہنچا تو گھوڑے مشعلوں سے ڈر گئے، اور ہر گھوڑے کے سامنے ایک مادہ گھوڑی کی شکل آگئی چنانچہ گھوڑے تیزی سے ان کے پیچھے دوڑنے لگے، جب لشکر کا آخری حصّہ سمندر میں پہنچ گیا تو بنی اسرائیل سمندر سے باہر نکل گئے، چنانچہ سمندر ان پر مل گیا، بنی اسرائیل کہنے لگے کہ فرعون نہیں مرا، اور وہ تو کبھی نہیں مرے گا، چنانچہ ابھی اللہ نے ان کی تکذیب ان کے نبی تک بھی نہ پہنچائی تھی کہ سمندر نے اس کو ساحل پر ڈال دیا گویا کہ وہ سرخ رنگ کا بیل تھا، اس کو بنی اسرائیل دیکھنے لگے۔

32499

(۳۲۵۰۰) حَدَّثَنَا شَبَابَۃُ، عَنْ یُونُسَ بْنِ أَبِی إِسْحَاقَ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَیْمُونٍ، عَنْ عَبْدِاللہِ بْنِ مَسْعُودٍ: أَنَّ مُوسَی عَلَیْہِ السَّلاَمُ حِینَ أَسْرَی بِبَنِی إسْرَائِیلَ بَلَغَ فِرْعَوْنَ، فَأَمَرَ بِشَاۃٍ فَذُبِحَتْ، ثُمَّ قَالَ: لاَ وَاللہِ لاَ یُفْرَغُ مِنْ سَلْخِہَا حَتَّی یَجْتَمِعَ إلَیَّ سِتُّمِئَۃِ أَلْفٍ مِنَ الْقِبْطِ، قَالَ: فَانْطَلَقَ مُوسَی عَلَیْہِ السَّلاَمُ حَتَّی انْتَہَی إلَی الْبَحْرِ، فَقَالَ لَہُ: اُفْرُقْ، فَقَالَ: الْبَحْرُ: لَقَدَ اسْتَکْبَرْت یَا مُوسَی، وَہَلَ فَرَقْت لأَحَدٍ مِنْ وَلَدِ آدَمَ فَأَفْرُقَ لَک؟ قَالَ: وَمَعَ مُوسَی عَلَیْہِ السَّلاَمُ رَجُلٌ عَلَی حِصَانٍ لَہُ ، فَقَالَ لَہُ ذَاکَ الرَّجُلُ : أَیْنَ أُمِرْت یَا نَبِیَّ اللہِ ؟ قَالَ : مَا أُمِرْت إلاَّ بِہَذَا الْوَجْہِ ، قَالَ : فَأَقْحَمَ فَرَسَہُ فَسَبَحَ بِہِ فَخَرَجَ ، فَقَالَ : أَیْنَ أُمِرْت یَا نَبِیَّ اللہِ ؟ قَالَ : مَا أُمِرْت إلاَّ بِہَذَا الْوَجْہِ ، قَالَ : وَاللہِ مَا کَذَبْت ، وَلاَ کُذِّبْت ، قَالَ : ثُمَّ اقْتَحَمَ الثَّانِیَۃَ فَسَبَحَ بِہِ ، ثُمَّ خَرَجَ ، فَقَالَ: أَیْنَ أُمِرْت یَا نَبِیَّ اللہِ ؟ قَالَ : مَا أُمِرْت إلاَّ بِہَذَا الْوَجْہِ ، قَالَ : وَاللہِ مَا کَذَبْت ، وَلاَ کُذِّبْت ، قَالَ : فَأَوْحَی اللَّہُ إلَی مُوسَی عَلَیْہِ السَّلاَمُ : {أَنَ اضْرِبْ بِعَصَاک} فَضَرَبَ مُوسَی بِعَصَاہُ {فَانْفَلَقَ ، فَکَانَ کُلُّ فِرْقٍ کَالطَّوْدِ الْعَظِیمِ} کَالْجَبَلِ الْعَظِیمِ ، فَکَانَ فِیہِ اثْنَا عَشَرَ طَرِیقًا لاِثْنَیْ عَشَرَ سِبْطًا ، لِکُلِّ سِبْطٍ طَرِیقٌ یَتَرَائَوْنَ ، فَلَمَّا خَرَجَ أَصْحَابُ مُوسَی وَتَتَامَّ أَصْحَابُ فِرْعَوْنَ الْتَقَی الْبَحْرُ عَلَیْہِمْ فَأَغْرَقَہُمْ۔
(٣٢٥٠٠) عمرو بن میمون حضرت عبداللہ بن مسعود سے روایت کرتے ہیں کہ جب موسیٰ (علیہ السلام) بنی اسرائیل کو رات کے وقت لے کر چلے تو فرعون کا لشکر پہنچ گیا، آپ نے ایک بکری کو ذبح کرنے کا حکم دیا اور فرمایا کہ اس کی کھال اترنے سے پہلے چھ لاکھ قبطی میرے پاس جمع ہوجائیں، چنانچہ موسیٰ (علیہ السلام) ان کو لے کر چلے یہاں تک کہ سمندر تک پہنچ گئے تو اس سے فرمایا پھٹ جا، سمندر نے کہا اے موسیٰ ! تم تکبر کرتے پھرتے ہو ، کیا میں اولادِ آدم میں کسی کے لیے پھٹا ہوں کہ تمہارے لیے پھٹ جاؤں ؟
کہتے ہیں کہ موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ ایک آدمی گھوڑے پر سوار تھا، اس نے کہا اے اللہ کے نبی ! آپ کو کس طرف آنے کا حکم ہوا ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ مجھے تو اس طرف ہی آنے کا حکم ہوا ہے، چنانچہ اس نے اپنے گھوڑے کو سمندر میں ڈالا اور اس پر تیرنے لگا پھر نکلا اور کہا اے اللہ کے نبی ! آپ کو کہاں جانے کا حکم ہوا ہے ؟ ّ آپ نے فرمایا کہ مجھے تو اس طرف ہی آنے کا حکم ہوا ہے، اس نے کہا بخدا نہ آپ نے جھوٹ بولا اور نہ آپ کی تکذیب کی گئی، اس کے بعد اللہ نے موسیٰ (علیہ السلام) کی طرف وحی فرمائی کہ اپنی لاٹھی سمندر پر مارو، آپ نے اس پر لاٹھی ماری تو وہ پھٹ گیا اور ہر راستہ بڑے ٹیلے کی طرح ہوگیا ، چنانچہ اس میں بارہ قبیلوں کے لیے بارہ راستے بن گئے، اور ہر قبیلے کا راستہ جدا تھا اور وہ ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے ، جب موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھی نکل گئے اور فرعون کے ساتھی سب کے سب سمندر میں پہنچ گئے تو سمندر ان پر مل گیا اور وہ سب ڈوب گئے۔

32500

(۳۲۵۰۱) عن أبی نضرۃ ، عن جابر: {فَصَعِقَ مَن فِی السَّمَاوَاتِ وَمَن فِی الأَرْضِ إِلاَّ مَن شَاء اللَّہُ} قَالَ: موسی ممن استثنی اللہ۔
(٣٢٥٠١) حضرت جابر نے اللہ کے فرمان { فَصَعِقَ مَن فِی السَّمَاوَاتِ وَمَن فِی الأَرْضِ إِلاَّ مَن شَاء اللَّہُ } کے تحت فرمایا کہ موسیٰ (علیہ السلام) ان لوگوں میں سے ہیں جن کو اللہ نے مستثنیٰ فرمایا ہے۔

32501

(۳۲۵۰۲) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ سُلَیْمَانَ التَّیْمِیِّ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ عُمَارَۃَ بْنِ عَبْدٍ ، عَنْ عَلِیٍّ ، قَالَ: انْطَلَقَ مُوسَی وَہَارُونُ علیہما السلام وَانْطَلَقَ شَبَّر وَشَبِیر، فَانْتَہَوْا إلَی جَبَلٍ فِیہِ سَرِیرٌ فَنَامَ عَلَیْہِ ہَارُونُ فَقُبِضَ رُوحُہُ ، فَرَجَعَ مُوسَی إلَی قَوْمِہِ ، فَقَالُوا : أَنْتَ قَتَلْتہ ، حَسَدْتَنَا عَلَی خُلُقِہِ ، أَوْ عَلَی لِینِہِ ، أَوْ کَلِمَۃً نَحْوَہَا - الشَّکُّ مِنْ سُفْیَانَ - ، قَالَ : کَیْفَ أَقْتُلُہُ وَمَعِی ابْنَاہُ ؟ قَالَ : فَاخْتَارُوا من شئتم ، قَالَ: فَاخْتَارُوا مِنْ کُلِّ سِبْطٍ عَشْرَۃً ، قَالَ : وَذَلِکَ قَوْلُہُ : {وَاخْتَارَ مُوسَی قَوْمَہُ سَبْعِینَ رَجُلاً} فَانْتَہَوْا إلَیْہِ فَقَالُوا : مَنْ قَتَلَک یَا ہَارُونُ ، قَالَ : مَا قَتَلَنِی أَحَد ، وَلَکِنْ تَوَفَّانِی اللَّہُ ، قَالُوا : یَا مُوسَی مَا تُعْصَی بَعْدُ، قَالَ: فَأَخَذَتْہُمَ الرَّجْفَۃُ، فَجَعَلَ یَتَرَدَّدُ یَمِینًا وَشِمَالاً وَیَقُولُ : {لَوْ شِئْت أہْلَکْتَہُمْ مِنْ قَبْلُ وَإِیَّایَ أَتُہْلِکُنَا بِمَا فَعَلَ السُّفَہَائُ مِنَّا إنْ ہِیَ إلاَّ فِتْنَتُک} قَالَ : فَدَعَا اللَّہَ فَأَحْیَاہُمْ وَجَعَلَہُمْ أَنْبِیَائَ کُلَّہُمْ۔ (ابن جریر ۷۳)
(٣٢٥٠٢) حضرت علی (رض) فرماتے ہیں کہ موسیٰ اور ہارون (علیہ السلام) اور شبر اور شبیر چلے اور ایک پہاڑ تک پہنچے جس میں ایک بستر تھا چنانچہ ہارون (علیہ السلام) اس پر سو گئے، اور ان کی روح قبض ہوگئی، چنانچہ موسیٰ (علیہ السلام) اپنی قوم کے پاس واپس آئے، تو ان کی قوم کہنے لگی کہ ان کو آپ نے قتل کیا ہے، اور ان کے اخلاق کی وجہ سے آپ کو ہم پر حسد ہوا ہے، یا کہا کہ ان کی نرمی پر، یا اس جیسا کوئی کلمہ کہا، شک سفیان راوی کی طرف سے ہے، آپ نے فرمایا کہ میں ان کو کیسے قتل کرسکتا ہوں جب کہ میرے ساتھ ان کے بیٹے ہیں پھر آپ نے فرمایا کہ جن کو چاہو چن لو، چنانچہ انھوں نے ہر قبیلے سے دس افراد چنے، یہی معنی ہے اللہ کے فرمان { وَاخْتَارَ مُوسَی قَوْمَہُ سَبْعِینَ رَجُلاً } کا ، جب وہ ان کے پاس پہنچے تو ان سے پوچھا اے ہارون ! آپ کو کس نے قتل کیا ہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ مجھے کسی نے قتل نہیں کیا بلکہ مجھے اللہ نے وفات دی ، وہ کہنے لگے اے موسیٰ ! آج کے بعد ہم آپ کی نافرمانی نہیں کریں گے، چنانچہ ایک زلزلہ آیا اور وہ ہلاک ہوگئے، اور دائیں بائیں پریشان پھرنے لگے اور عرض کی { لَوْ شِئْت أہْلَکْتَہُمْ مِنْ قَبْلُ وَإِیَّایَ أَتُہْلِکُنَا بِمَا فَعَلَ السُّفَہَائُ مِنَّا إنْ ہِیَ إلاَّ فِتْنَتُک } اس کے بعد انھوں نے دعا کی تو اللہ نے ان کو زندہ کردیا اور ان سب کو انبیاء بنادیا۔

32502

(۳۲۵۰۳) حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ ، قَالَ : حدَّثَنَا إسْرَائِیلُ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَیْمُونٍ الأَوْدِیِّ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ ، أَنَّ مُوسَی عَلَیْہِ السَّلاَمُ لَمَّا وَرَدَ مَائَ مَدْیَنَ وَجَدَ عَلَیْہِ أُمَّۃً مِنَ النَّاسِ یَسْقُونَ ، فَلَمَّا فَرَغُوا أَعَادُوا الصَّخْرَۃَ عَلَی الْبِئْرِ ، وَلاَ یُطِیقُ رَفْعَہَا إلاَّ عَشْرَۃُ رِجَالٍ ، فَإِذَا ہُوَ بِامْرَأَتَیْنِ تَذُودَانِ ، قَالَ : مَا خَطْبُکُمَا فَحَدَّثَتَاہُ فَأَتَی الْحَجَرَ فَرَفَعَہُ ، ثُمَّ لَمْ یَسْتَقِ إلاَّ ذَنُوبًا وَاحِدًا حَتَّی رُوِیَتِ الْغَنَمُ وَرَجَعَتِ الْمَرْأَتَانِ إلَی أَبِیہِمَا فَحَدَّثَتَاہُ ، وَتَوَلَّی مُوسَی عَلَیْہِ السَّلاَمُ إلَی الظِّلِّ ، فَقَالَ : {رَبِّ إنِّی لِمَا أَنْزَلْتَ إلَیَّ مِنْ خَیْرٍ فَقِیرٌ}۔ قَالَ : {فَجَائَتْہُ إحْدَاہُمَا تَمْشِی عَلَی اسْتِحْیَائٍ} وَاضِعَۃً ثَوْبَہَا عَلَی وَجْہِہَا ، {قَالَتْ إنَّ أَبِی یَدْعُوک لِیَجْزِیَک أَجْرَ مَا سَقَیْتَ لَنَا} قَالَ لَہَا : امْشِی خَلْفِی وَصِفِی لِی الطَّرِیقَ ، فَإِنِّی أَکْرَہُ أَنْ تُصِیبَ الرِّیحُ ثَوْبَک فَیَصِفَ لِی جَسَدَک ، فَلَمَّا انْتَہَی إلَی أَبِیہَا قَصَّ عَلَیْہِ ، قَالَتْ إحْدَاہُمَا : {یَا أَبَتِ اسْتَأْجِرْہُ إنَّ خَیْرَ مَنِ اسْتَأْجَرْتَ الْقَوِیُّ الأَمِینُ} قَالَ : یَا بُنَیَّۃُ ، مَا عِلْمُک بِأَمَانَتِہِ وَقُوَّتِہِ ، قَالَتْ : أَمَّا قُوَّتُہُ فَرَفْعُہُ الْحَجَرَ ، وَلاَ یُطِیقُہُ إلاَّ عَشْرَۃٌ ، وَأَمَّا أَمَانَتُہُ ، فَقَالَ : لِی امْشِی خَلْفِی وَصِفِی لِی الطَّرِیقَ فَإِنِّی أَخَافُ أَنْ تُصِیبَ الرِّیحُ ثَوْبَک فَیَصِفَ جَسَدَک۔ فَقَالَ : عُمَرُ فَأَقْبَلَتْ إلَیْہِ لَیْسَتْ بِسَلْفَعٍ مِنَ النِّسَائِ لاَ خَرَّاجَۃٍ وَلأَوَلاَجَۃٍ ، وَاضِعَۃً ثَوْبُہَا عَلَی وَجْہِہَا۔
(٣٢٥٠٣) عمرو بن میمون أودی روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب فرماتے ہیں کہ جب موسیٰ (علیہ السلام) مدین کے پانی پر پہنچے، تو اس پر بعض لوگوں کو پانی بھرتے ہوئے دیکھا، جب وہ فارغ ہوئے تو انھوں نے دوبارہ کنویں پر چٹان رکھ دی، اور اس کو دس سے کم آدمی نہیں اٹھا سکتے تھے، آپ نے وہاں دو عورتوں کو دیکھا جو اپنی بکریاں ہٹا رہی تھیں، آپ نے ان سے پوچھا کہ تمہاری کیا حالت ہے ؟ انھوں نے آپ کو بتائی، تو آپ پتھر کے پاس آئے اور اس کو اٹھایا پھر ایک ہی ڈول کھینچا تھا کہ بکریاں سیراب ہوگئیں، اور وہ دونوں عورتیں اپنے والد کے پاس چلی گئیں، اور ان سے قصّہ بیان کیا، اور موسیٰ (علیہ السلام) سائے میں تشریف لے گئے اور فرمایا { رَبِّ إنِّی لِمَا أَنْزَلْتَ إلَیَّ مِنْ خَیْرٍ فَقِیرٌ} کہتے ہیں کہ ان میں سے ایک عورت حیاء کے ساتھ اپنے چہرے پر کپڑا رکھے ہوئے آپ کے پاس آئی، اور کہنے لگی کہ میرے والد آپ کو بلاتے ہیں تاکہ تمہیں ہماری بکریوں کو پانی پلانے کی اجرت دیں، آپ نے فرمایا کہ میرے پیچھے چلو اور مجھے راستہ بتاتی رہو، کیونکہ مجھے یہ بات بری لگتی ہے کہ ہوا آپ کے کپڑوں پر لگے تو آپ کا جسم مجھے نظر آئے ، جب وہ اپنے والد کے پاس پہنچی تو اس نے قصہ بیان کیا اور کہا ابا جان اس کو اجرت پر رکھ لیں، بیشک بہترین مزدور وہ ہے جو مضبوط اور امانت دار ہو، انھوں نے فرمایا اے بیٹی ! تمہیں اس کی امانت اور طاقت کا کیسے علم ہوا ؟ اس نے کہا قوت کا علم اس طرح ہوا کہ انھوں نے پتھر کو اکیلے اٹھایا جبکہ اس کو دس آدمی اٹھاتے ہیں، اور اس کی امانت کا علم اس طرح ہوا کہ اس نے مجھے کہا کہ میرے پیچھے چلو اور مجھے راستہ بتاؤ۔ کیونکہ مجھے ڈر ہے کہ تمہارے کپڑوں پر ہوا لگے اور مجھے تمہارا جسم نظر آئے۔
حضرت عمر فرماتے ہیں کہ وہ ان کے پاس آئی اس طرح کہ جری عورتوں کی طرح نہیں تھی اور نہ بہت گھر سے نکلنے اور داخل ہونے والی تھی اور اپنے چہرے پر کپڑا رکھے ہوئے تھی۔

32503

(۳۲۵۰۴) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنِ الْمِنْہَالِ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ، وَعَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ الْحَارِثِ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : لَمَّا أَتَی مُوسَی قَوْمَہُ فَأَمَرَہُمْ بِالزَّکَاۃِ ، فَجَمَعَہُمْ قَارُونُ ، فَقَالَ : ہَذَا قَدْ جَائَکُمْ بِالصَّوْمِ وَالصَّلاَۃِ وَبِأَشْیَائَ تُطِیقُونَہَا ، فَتَحْتَمِلُونَ أَنْ تُعْطُوہُ أَمْوَالَکُمْ ؟ قَالُوا : مَا نَحْتَمِلُ أَنْ نُعْطِیَہُ أَمْوَالَنَا فَمَا تَرَی؟ قَالَ : أَرَی أَنْ نُرْسِلَ إلَی بَغِیِّ بَنِی إسْرَائِیلَ فَنَأْمُرَہَا أَنْ تَرْمِیَہُ عَلَی رُؤُوسِ الأَحْبَارِ وَالنَّاسِ بِأَنَّہُ أَرَادَہَا عَلَی نَفْسِہَا ، فَفَعَلُوا ، فَرَمَتْ مُوسَی عَلَیْہِ السَّلاَمُ عَلَی رُؤُوسِ النَّاسِ ، فَدَعَا اللَّہَ عَلَیْہِمْ ، فَأَوْحَی اللَّہُ تَعَالَی إلَی الأَرْضِ أَنْ أَطِیعِیہِ، فَقَالَ لَہَا مُوسَی عَلَیْہِ السَّلاَمُ: خُذِیہِمْ، فَأَخَذَتْہُمْ إلَی أَعقَابہم فَجَعَلُوا یَقُولُونَ: یَامُوسَی یَا مُوسَی فَقَالَ: خُذِیہِمْ ، فَأَخَذَتْہُمْ إلَی رُکَبِہِمْ، قَالَ: فَجَعَلُوا یَقُولُونَ: یَا مُوسَی یَا مُوسَی، قَالَ: خُذِیہِمْ، فَأَخَذَتْہُمْ إلَی حُجَزِہِمْ ، فَجَعَلُوا یَقُولُونَ یَا مُوسَی یَا مُوسَی، قَالَ: خُذِیہِمْ، فَأَخَذَتْہُمْ إلَی أَعْنَاقِہِمْ، فَجَعَلُوا یَقُولُونَ : یَا مُوسَی یَا مُوسَی، قَالَ: فَأَخَذَتْہُمْ فَغَیَّبَتْہُمْ ، فَأَوْحَی اللَّہُ تَعَالَی إلَی مُوسَی عَلَیْہِ السَّلاَمُ: یَا مُوسَی، سَأَلَک عِبَادِی وَتَضَرَّعُوا إلَیْک فَأَبَیْت أَنْ تُجِیبَہُمْ، أَمَا وَعِزَّتِی لَوْ إیَّایَ دَعَوْنِی لاَجَبْتُہُمْ۔ (حاکم ۴۰۸)
(٣٢٥٠٤) عبداللہ بن حارث حضرت ابن عباس سے روایت کرتے ہیں کہ جب موسیٰ (علیہ السلام) اپنی قوم کے پاس آئے اور ان کو زکوۃ کا حکم فرمایا تو قارون نے ان کو جمع کیا اور کہا کہ یہ تمہارے پاس ایسے حکم لائے یعنی نماز، روزہ وغیرہ کا جس کی تم طاقت رکھتے ہو، تو کیا تم اس کی طاقت رکھتے ہو کہ ان کو اپنے اموال دو ؟ وہ کہنے لگے ہمیں اس کی طاقت نہیں ، تمہارا کیا خیال ہے ؟ اس نے کہا کہ میرا خیال ہے کہ ہم بنو اسرائیل کی زانیہ کو پیغام بھیجیں اور اس کو حکم دیں کہ لوگوں کے سامنے ان پر تہمت لگائے کہ انھوں نے اس کی عزت پر حملہ کیا ہے، چنانچہ انھوں نے ایسا ہی کیا، اور اس عورت نے موسیٰ (علیہ السلام) کو لوگوں کے سامنے تہمت لگائی آپ نے ان کے خلاف بد دعا کی، اللہ تعالیٰ نے زمین کی طرف وحی فرمائی کہ ان کی اطاعت کرو، چنانچہ موسیٰ (علیہ السلام) نے اس سے کہا کہ ان کو پکڑ لے، اس نے ان کو گھٹنوں تک پکڑ لیا ، چنانچہ وہ کہنے لگے اے موسیٰ ! اے موسیٰ ! آپ نے پھر فرمایا کہ ان کو پکڑ لے ، چنانچہ اس نے ان کو گھٹنوں تک پکڑلیا، وہ کہنے لگے اے موسیٰ ! اے موسیٰ ! آپ نے پھر فرمایا کہ ان کو پکڑ لے ، چنانچہ اس نے ان کو کمر تک پکڑ لیا، پھر وہ کہنے لگے اے موسیٰ ! اے موسیٰ ! آپ نے فرمایا ان کو پکڑ لے، چنانچہ اس نے ان کو گردن تک پکڑ لیا، وہ کہنے لگے اے موسیٰ ! اے موسیٰ ! پھر زمین نے ان کو غائب کردیا، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کی طرف وحی فرمائی کہ اے موسیٰ ! تم سے میرے بندوں نے سوال کیا اور تمہارے سامنے گریہ زاری کی، لیکن تم نے ان کی بات ماننے سے انکار کردیا، میری عزت کی قسم ! اگر وہ مجھے پکارتے تو میں ان کی دعا قبول کرلیتا۔

32504

(۳۲۵۰۵) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَنْ مُوسَی بْنِ قَیْسٍ ، عَنْ سَلَمَۃَ بْنِ کُہَیْلٍ : {وَأَلْقَیْت عَلَیْک مَحَبَّۃً مِنِّی} قَالَ: حَبَّبْتُک إلَی عِبَادِی۔
(٣٢٥٠٥) حضرت سلمہ بن کہیل اللہ کے فرمان { وَأَلْقَیْت عَلَیْک مَحَبَّۃً مِنِّی } کی تفسیر میں بیان فرماتے ہیں ، یعنی ” میں نے آپ کو اپنے بندوں کا محبوب بنادیا۔

32505

(۳۲۵۰۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ : {وَقَرَّبْنَاہُ نَجِیًّا} حَتَّی سَمِعَ صَرِیفَ الْقَلَمِ۔
(٣٢٥٠٦) حضرت ابن عباس سے { وَقَرَّبْنَاہُ نَجِیًّا } کے تحت منقول ہے کہ اتنا قریب ہوگئے کہ انھوں نے قلموں کے چلنے کی آواز سنی۔

32506

(۳۲۵۰۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ أَبِی مَعْشَرٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ کَعْبٍ ، قَالَ : سُئِلَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَیَّ الأَجَلَیْنِ قَضَی مُوسَی عَلَیْہِ السَّلاَمُ ؟ قَالَ : أَوْفَاہُمَا وَأَتَمَّہُمَا۔
(٣٢٥٠٧) حضرت محمد بن کعب فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا گیا کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے دو ، مدتوں میں سے کس مدت کو پورا کیا ؟ فرمایا کہ ان میں سے بڑی اور کامل مدت کو۔

32507

(۳۲۵۰۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : سُئِلَ أَیُّ الأَجَلَیْنِ قَضَی مُوسَی ؟ قَالَ : أَتَمَّہُمَا وَآخِرَہُمَا۔ (حمیدی ۵۳۵۔ بزار ۲۲۴۶)
(٣٢٥٠٨) حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ آپ سے سوال کیا گیا کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے دو ، مدتوں میں سے کس مدت کو پورا کیا ؟ فرمایا کہ ان میں سے بڑی اور کامل مدت کو۔

32508

(۳۲۵۰۹) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، قَالَ: حدَّثَنَا الأَعْمَشُ ، عَنِ الْمِنْہَالِ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ: فِی قَوْلِہِ: {لاَ تَکُونُوا کَالَّذِینَ آذَوْا مُوسَی فَبَرَّأَہُ اللَّہُ مِمَا قَالُوا وَکَانَ عِنْدَ اللہِ وَجِیہًا} قَالَ : قَالَ لَہُ قَوْمُہُ : إِنَّہُ آدَرُ ، قَالَ : فَخَرَجَ ذَاتَ یَوْمٍ یَغْتَسِلُ ، فَوَضَعَ ثِیَابَہُ عَلَی صَخْرَۃٍ ، فَخَرَجَتِ الصَّخْرَۃُ تَشْتَدُّ بِثِیَابِہِ ، وَخَرَجَ یَتْبَعُہَا عُرْیَانًا حَتَّی انْتَہَتْ بِہِ إلَی مَجَالِسِ بَنِی إسْرَائِیلَ ، قَالَ : فَرَأَوْہُ لَیْسَ بِآدَرَ ، قَالَ : فَذَاکَ قَوْلُہُ {فَبَرَّأَہُ اللَّہُ مِمَا قَالُوا وَکَانَ عِنْدَ اللہِ وَجِیہًا}۔
(٣٢٥٠٩) سعید بن جبیر حضرت ابن عباس سے اللہ کے فرمان { لاَ تَکُونُوا کَالَّذِینَ آذَوْا مُوسَی فَبَرَّأَہُ اللَّہُ مِمَا قَالُوا وَکَانَ عِنْدَ اللہِ وَجِیہًا } کی تفسیر میں روایت کرتے ہیں کہ آپ کی قوم نے آپ سے کہا کہ آپ کو ” اُدرہ “ بیماری ہے، چنانچہ ایک دن آپ غسل کے لیے نکلے تو آپ نے اپنے کپڑے ایک پتھر پر رکھ دیے چنانچہ وہ پتھر ان کے کپڑوں کو لے کر بھاگنے لگا، اور آپ برہنہ اس کا پیچھا کرنے لگے، یہاں تک کہ وہ پتھر آپ کو بنی اسرائیل کی مجلس میں لے گیا، چنانچہ انھوں نے دیکھا کہ ان کو ” اُدرہ “ بیماری نہیں ، کہتے ہیں کہ یہی اللہ کے فرمان { فَبَرَّأَہُ اللَّہُ مِمَا قَالُوا وَکَانَ عِنْدَ اللہِ وَجِیہًا } کا معنی ہے۔

32509

(۳۲۵۱۰) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، قَالَ : حَدَّثَنَا عَوْفٌ ، عَنِ الْحَسَنِ وَخِلاَسِ بْنِ عَمْرٍو وَمُحَمَّدٍ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ : فِی قَوْلِہِ : {یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا لاَ تَکُونُوا کَاَلَّذِینَ آذَوْا مُوسَی فَبَرَّأَہُ اللَّہُ مِمَا قَالُوا وَکَانَ عِنْدَ اللہِ وَجِیہًا} قَالَ: کَانَ مِنْ أَذَاہُمْ إیَّاہُ أَنَّ نَفَرًا مِنْ بَنِی إسْرَائِیلَ ، قَالُوا : مَا یَسْتَتِرُ مِنَّا مُوسَی ہَذَا السَّتر إلاَّ مِنْ عَیْبٍ بِجِلْدِہِ : إمَّا بَرَصٌ ، وَإِمَّا آفَۃٌ ، وَإِمَّا أُدْرَۃٌ ، وَإِنَّ اللَّہَ أَرَادَ أَنْ یُبَرِّئَہُ مِمَا قَالُوا : قَالَ : وَإِنَّ مُوسَی عَلَیْہِ السَّلاَمُ خَلاَ ذَاتَ یَوْمٍ وَحْدَہُ ، فَوَضَعَ ثَوْبَہُ عَلَی حَجَرٍ ، ثُمَّ دَخَلَ یَغْتَسِلُ ، فَلَمَّا فَرَغَ أَقْبَلَ عَلَی ثَوْبِہِ لِیَأْخُذَہُ عَدَا الْحَجَرُ بِثَوْبِہِ ، فَأَخَذَ مُوسَی عَلَیْہِ السَّلاَمُ عَصَاہُ فِی أَثَرِہِ فَجَعَلَ یَقُولُ : ثَوْبِی یَا حَجَرُ ! ثَوْبِی یَا حَجَرُ! حَتَّی انْتَہَی إلَی مَلأ مِنْ بَنِی إسْرَائِیلَ فَرَأَوْہُ عُرْیَانًا ، فَإِذَا کَأَحْسَنِ الرِّجَالِ خَلْقًا ، فَبَرَّأَہُ اللَّہُ مِمَّا یَقُولُونَ ، قَالَ : وَقَامَ الْحَجَرُ فَأَخَذَ ثَوْبَہُ فَلَبِسَہُ ، وَطَفِقَ مُوسَی یَضْرِبُ الْحَجَرَ بِعَصَاہُ ، فَوَاللہِ إنَّ بِالْحَجَرِ الآنَ مِنْ أَثَرِ ضَرْبِ مُوسَی نَدَبًا ، ذَکَرَ ثَلاَث ، أَوْ أَرْبَع ، أَوْ خَمْس۔ (احمد ۵۱۴۔ طبری ۵۱)
(٣٢٥١٠) حضرت ابوہریرہ (رض) سے اللہ کے فرمان { یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا لاَ تَکُونُوا کَاَلَّذِینَ آذَوْا مُوسَی فَبَرَّأَہُ اللَّہُ مِمَا قَالُوا وَکَانَ عِنْدَ اللہِ وَجِیہًا } کی تفسیر میں روایت ہے فرمایا کہ انھوں نے آپ کو اذیت اس طرح تھی کہ بنو اسرائیل کی ایک جماعت نے ان سے کہا کہ موسیٰ ہم سے اس لیے چھپتے ہیں کہ ان کی جلد میں کوئی عیب ہے یا برص ہے یا کوئی اور بیماری یا أُدرہ بیماری ہے، اللہ تعالیٰ نے آپ کو ان کی اس بات سے بری کرنے کا ارادہ فرمایا تو ایک دن موسیٰ (علیہ السلام) خلوت میں گئے اور اپنے کپڑے ایک پتھر پر رکھے پھر داخل ہو کر غسل کرنے لگے، جب فارغ ہوئے تو اپنے کپڑوں کی طرف آئے تاکہ کپڑے لے لیں، چنانچہ پتھر دوڑنے لگا، موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی لاٹھی پکڑی اور اس کے پیچھے پیچھے یہ کہتے ہوئے دوڑنے لگے اے پتھر ! میرے کپڑے، اے پتھر ! میرے کپڑے ، یہاں تک کہ جب وہ بنو اسرائیل کی مجلس میں پہنچا اور انھوں نے آپ کو برہنہ دیکھا تو آپ بہترین جسامت والے تھے، اس طرح اللہ نے آپ کو ان کی باتوں سے بری فرما دیا، اور پتھر ٹھہر گیا اور آپ نے اپنے کپڑے لے کر پہنے اور موسیٰ (علیہ السلام) اپنی لاٹھی سے پتھر کو مارنے لگے، بخدا پتھر پر اب بھی موسیٰ (علیہ السلام) کی ضرب کے نشانات ہیں، تین ہیں یا چار یا پانچ۔

32510

(۳۲۵۱۱) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، قَالَ : حدَّثَنَا عَوْفٌ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : لَمَّا سُخِّرَتَ الرِّیحُ لِسُلَیْمَانَ بْنِ دَاوُد عَلَیْہِ السَّلاَمُ کَانَ یَغْدُو مِنْ بَیْتِ الْمَقْدِسِ فَیَقِیلُ بِفَزِیرَا ، ثُمَّ یَرُوحُ فَیَبِیتُ فِی کَابُلَ۔
(٣٢٥١١) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ جب سلیمان بن داؤد (علیہ السلام) کے لیے ہوا کو مسخّر کیا گیا تو وہ صبح بیت المقدس سے نکلتے اور دوپہر کو فزیرا میں قیلولہ فرماتے تھے، اور پھر شام کو چلتے تو کابل میں رات گزارتے تھے۔

32511

(۳۲۵۱۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُلَیْمَانَ ، عَنْ ضِرَارِ بْنِ مُرَّۃَ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ، قَالَ : کَانَ سُلَیْمَانُ یُوضَعُ لَہُ سِتُّمِئَۃِ أَلْفِ کُرْسِیٍّ۔
(٣٢٥١٢) حضرت سعید بن جبیر فرماتے ہیں کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے لیے چھ لاکھ کرسیاں لگائی جاتی تھیں۔

32512

(۳۲۵۱۳) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، قَالَ : حدَّثَنَا الأَعْمَشُ ، عَنِ الْمِنْہَالِ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : کَانَ سُلیمَان بن دَاوُد عَلَیْہِ السَّلاَمُ یُوضَعُ لَہُ سِتُّمِئَۃِ أَلْفِ کُرْسِیٍّ ، ثُمَّ یَجِیئُ أَشْرَافُ الإِنْسِ حَتَّی یَجْلِسُوا مِمَّا یَلِی الأَیْمَنَ ، ثُمَّ یَجِیئُ أَشْرَافُ الْجِنِّ حَتَّی یَجْلِسُوا مِمَّا یَلِی الأَیْسَرَ ، ثُمَّ یَدْعُوَ الطَّیْرَ فَتُظِلُّہُمْ ، ثُمَّ یَدْعُوَ الرِّیحَ فَتَحْمِلَہُمْ ، فَیَسِیرُ فِی الْغَدَاۃِ الْوَاحِدَۃِ مَسِیرَۃَ شَہْرٍ ، فَبَیْنَمَا ہُوَ ذَاتَ یَوْمٍ یَسِیرُ فِی فَلاَۃٍ مِنَ الأَرْضِ فَاحْتَاجَ إلَی الْمَائِ ، فَدَعَا الْہُدْہُدَ فَجَائَ فَنَقَرَ الأَرْضَ فَأَصَابَ مَوْضِعَ الْمَائِ ثُمَّ تَجِیئُ الشَّیَاطِینُ ذَلِکَ الْمَائَ فَتَسْلَخُہُ کَمَا یُسْلَخُ الإِہَابُ فَیَسْتَخْرِجُوا الْمَائَ مِنْہُ۔ قَالَ : فَقَالَ لَہُ نَافِعُ بْنُ الأَزْرَقِ : قِفْ یَا وَقَّافُ ، أَرَأَیْت قَوْلَک الْہُدْہُدُ یَجِیئُ فَیَنْقُرُ الأَرْضَ فَیُصِیبُ مَوْضِعَ الْمَائِ کَیْفَ یُبْصِرُ ہَذَا ، وَلاَ یُبْصِرُ الْفَخَّ یَجِیئُ إلَیْہِ حَتَّی یَقَعَ فِی عُنُقِہِ ، فَقَالَ لَہُ ابْنُ عَبَّاسٍ : وَیْحَک ، إنَّ الْقَدَرَ حَالَ دُونَ الْبَصَرِ۔
(٣٢٥١٣) حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ حضرت سلیمان بن داؤد (علیہ السلام) کے لیے چھ لاکھ کرسیاں لگائی جاتی تھیں، پھر انسانوں میں سے شرفاء آتے اور دائیں جانب بیٹھ جاتے، اور پھر جنوں کے شرفاء آتے اور بائیں جانب بیٹھ جاتے، پھر آپ پرندوں کو بلاتے اور وہ ان پر سایہ کرتے، پھر ہوا کو بلاتے اور وہ ان کو اٹھاتی ، اور آپ ایک صبح میں ایک مہینے کی مسافت قطع کرتے، ایک دن آپ اسی طرح ایک میدان میں جارہے تھے کہ آپ کو پانی کی ضرورت ہوئی، آپ نے ہد ہد کو بلایا، وہ آیا اور اس نے زمین میں چونچ ماری اور پانی کی جگہ بتلائی، پھر اس جگہ شیاطین آئے اور انھوں نے اس جگہ کو اس طرح کھودا جس طرح بکری کی کھال اتاری جاتی ہے اور انھوں نے اس جگہ سے پانی نکالا۔
کہتے ہیں کہ اس پر نافع بن ازرق نے کہا اے ٹھہرنے والے ٹھہر جائیے، آپ کہتے ہیں کہ ہدہد نے آ کر زمین میں پانی کی جگہ چونچ ماری، اس کو یہ کیسے نظر آتا ہے جبکہ اس کو جال بھی نظر نہیں آتا جو آ کر اس کی گردن میں پڑجاتا ہے، حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ تمہارا ناس ہو، تقدیر آنکھوں کے سامنے حائل ہوجاتی ہے۔

32513

(۳۲۵۱۴) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ حُصَیْنٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ شَدَّادٍ ، قَالَ : کَانَ کُرْسِیُّ سُلَیْمَانَ یُوضَعُ عَلَی الرِّیحِ وَکَرَاسِیُّ مَنْ أَرَاْدَ مِنَ الْجِنِّ وَالإِنْسِ ، فَاحْتَاجَ إلَی الْمَائِ فَلَمْ یَعْلَمُوا بِمَکَانِہِ وَتَفَقَّدَ الطَّیْرَ عِنْدَ ذَلِکَ فَلَمْ یَجِدَ الْہُدْہُدَ فَتَوَعَّدَہُ ، وَکَانَ عَذَابُہُ نَتْفَہُ وَتَشْمِیسَہُ ، قَالَ : فَلَمَّا جَائَ اسْتَقْبَلَہُ الطَّیْرُ فَقَالُوا : قَدْ تَوَعَّدَک سُلَیْمَانُ ، فَقَالَ : الْہُدْہُدُ : اسْتَثْنَی ؟ قَالُوا : نَعَمْ ، إلاَّ أَنْ تَجِیئَ بِعُذْرٍ ، وَکَانَ عُذْرُہُ أَنْ جَائَ بِخَبَرِ صَاحِبَۃِ سَبَأٍ ، قَالَ : فَکَتَبَ إلَیْہِمْ سُلَیْمَان : {إِنَّہُ مِن سُلَیْمَانَ وَإِنَّہُ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ ، أَلاَّ تَعْلُوا عَلَیَّ وَأْتُونِی مُسْلِمِینَ}۔ قَالَ : فَأَقْبَلَتْ بِلْقِیسُ ، فَلَمَّا کَانَتْ عَلَی قَدْرِ فَرْسَخٍ ، قَالَ سُلَیْمَانُ : {أَیُّکُمْ یَأْتِینِی بِعَرْشِہَا قَبْلَ أَن یَأْتُونِی مُسْلِمِینَ ، قَالَ عِفْریتٌ مِّنَ الْجِنِّ أَنَا آتِیکَ بِہِ قَبْلَ أَن تَقُومَ مِن مَّقَامِکَ وَإِنِّی عَلَیْہِ لَقَوِیٌّ أَمِینٌ} قَالَ : فَقَالَ سُلَیْمَانُ: أُرِیدُ أَعْجَلَ مِنْ ذَلِکَ، {قَالَ الَّذِی عِندَہُ عِلْمٌ مِّنَ الْکِتَابِ أَنَا آتِیکَ بِہِ قَبْلَ أَن یَرْتَدَّ إِلَیْکَ طَرْفُکَ}۔ قَالَ : فَأَخْبَرَنِی مَنْصُورٌ ، عَنْ مُجَاہِدٍ إِنَّہُ دَخَلَ فِی نَفَقٍ تَحْتَ الأَرْضِ فَجَائَہُ بِہِ ، قَالَ سُلَیْمَانُ : غَیِّرُوہُ ، {فَلَمَّا جَاء تْ قِیلَ أَہَکَذَا عَرْشُکِ} ، قَالَ : فَجَعَلَتْ تَعْرِفُ وَتُنْکِرُ ، وَعَجِبَتْ مِنْ سُرْعَتِہِ ، وَ{قَالَتْ کَأَنَّہُ ہُوَ} {قِیلَ لَہَا اُدْخُلِی الصَّرْحَ فَلَمَّا رَأَتْہُ حَسِبَتْہُ لُجَّۃً وَکَشَفَتْ عَنْ سَاقَیْہَا} فَإِذَا امْرَأَۃٌ شَعْرَائُ ، قَالَ : فَقَالَ سُلَیْمَانُ : مَا یُذْہِبُ ہَذَا ؟ قَالُوا : النُّورَۃُ ، قَالَ فَجُعِلَتِ النُّورَۃُ یَوْمَئِذٍ۔
(٣٢٥١٤) حضرت عبداللہ بن شداد فرماتے ہیں کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی کرسی ہوا پر رکھی جاتی اور اس کے ساتھ جن جنات اور انسانوں کو آپ چاہتے ان کی کرسیاں رکھی جاتیں، آپ کو پانی کی ضرورت ہوئی لیکن لوگوں کو اس کا علم نہ تھا، چنانچہ آپ نے اس وقت پرندوں کو تلاش کیا تو ہد ہد کو نہ پایا، آپ نے اس کو دھمکی دی ، اور اس کی سزا یہ تھی کہ اس کے پر اکھیڑ کر اس کو دھوپ میں رکھا جائے، جب وہ آیا تو پرندوں نے اس سے ملاقات کی اور کہا کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے تمہارے لیے سزا کا اعلان کیا ہے، ہدہد نے کہا کیا انھوں نے کوئی استثناء کیا ہے ؟ وہ کہنے لگے جی ہاں ! یہ کہ آپ کوئی عذر بیان کریں، اور اس کا عذر یہ تھا کہ وہ ملکہ سبا کا قصہ دیکھ کر آیا تھا، چنانچہ سلیمان (علیہ السلام) نے ان کو لکھا {إِنَّہُ مِن سُلَیْمَانَ وَإِنَّہُ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ ، أَلاَّ تَعْلُوا عَلَیَّ وَأْتُونِی مُسْلِمِینَ } کہتے ہیں کہ بلقیس چلی ، جب وہ ایک فرسخ کی مسافت پر تھی تو سلیمان (علیہ السلام) نے فرمایا { أَیُّکُمْ یَأْتِینِی بِعَرْشِہَا قَبْلَ أَن یَأْتُونِی مُسْلِمِینَ ، قَالَ عِفْریتٌ مِّنَ الْجِنِّ أَنَا آتِیکَ بِہِ قَبْلَ أَن تَقُومَ مِن مَّقَامِکَ وَإِنِّی عَلَیْہِ لَقَوِیٌّ أَمِینٌ} حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے فرمایا میں اس سے زیادہ جلدی چاہتا ہوں، { قَالَ الَّذِی عِندَہُ عِلْمٌ مِّنَ الْکِتَابِ أَنَا آتِیکَ بِہِ قَبْلَ أَن یَرْتَدَّ إِلَیْکَ طَرْفُکَ }، کہتے ہیں کہ مجھے منصور نے مجاہد کے حوالے سے بیان کیا کہ وہ زمین کے نیچے ایک سرنگ میں داخل ہوئے اور اس کو لے آئے، حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے فرمایا اس کو تبدیل کردو۔ { قِیلَ لَہَا ادْخُلِی الصَّرْحَ فَلَمَّا رَأَتْہُ حَسِبَتْہُ لُجَّۃً وَکَشَفَتْ عَنْ سَاقَیْہَا } چنانچہ دیکھا وہ بہت بال والی عورت تھیں، حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے فرمایا کہ اس کو کیا چیز ختم کرے گی ؟ لوگوں نے کہا چونا چنانچہ اس وقت چونے کا استعمال ہوا۔

32514

(۳۲۵۱۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ الْعَلاَئِ بْنِ عَبْدِ الْکَرِیمِ ، قَالَ : سَمِعْتُ مُجَاہِدًا یَقُولُ : لَمَا قَالَ : {أَنَا آتِیک بِہِ قَبْلَ أَنْ تَقُومَ مِنْ مَقَامِک} ہَذَا ، قَالَ : أَنَا أُرِیدُ أَعْجَلَ مِنْ ہَذَا ، {قَالَ الَّذِی عِنْدَہُ عِلْمٌ مِنَ الْکِتَابِ أَنَا آتِیک بِہِ قَبْلَ أَنْ یَرْتَدَّ إلَیْک طَرْفُک} ، قَالَ : فَخَرَجَ الْعَرْشُ مِنْ نَفَقٍ مِنَ الأَرْضِ۔
(٣٢٥١٥) مجاہد فرماتے ہیں کہ جب جن نے کہا { أَنَا آتِیک بِہِ قَبْلَ أَنْ تَقُومَ مِنْ مَقَامِک } تو انھوں نے کہا کہ میں اس سے زیادہ جلدی چاہتا ہوں، چنانچہ { قَالَ الَّذِی عِنْدَہُ عِلْمٌ مِنَ الْکِتَابِ أَنَا آتِیک بِہِ قَبْلَ أَنْ یَرْتَدَّ إلَیْک طَرْفُک } کہتے ہیں کہ اس کا تخت زمین کی سرنگ سے نکل آیا۔

32515

(۳۲۵۱۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ عَطَائٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ : {قَبْلَ أَنْ تَقُومَ مِنْ مَقَامِک} قَالَ: مَجْلِسُ الرَّجُلِ الَّذِی یَجْلِسُ فِیہِ حَتَّی یَخْرُجَ مِنْ عِنْدِہِ۔
(٣٢٥١٦) مجاہد حضرت ابن عباس سے اللہ کے فرمان { قَبْلَ أَنْ تَقُومَ مِنْ مَقَامِک } کی تفسیر میں روایت کرتے ہیں کہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ آدمی کی وہ مجلس جس میں وہ بیٹھے یہاں تک کہ حاضرین اٹھ جائیں۔

32516

(۳۲۵۱۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ ثَابِتٍ بْنِ عُمَارَۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مَعْبَدٍ الزِّمَّانِیِّ، قَالَ: لَمْ تَنْزِلْ {بسم اللہ الرَّحْمَن الرحیم} فِی شَیْئٍ مِنَ الْقُرْآنِ إلاَّ فِی سُورَۃِ النَّمْلِ {إِنَّہُ مِنْ سُلَیْمَانَ وَإِنَّہُ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمَن الرَّحِیمِ}۔
(٣٢٥١٧) عبداللہ بن معبد زِمّانی فرماتے ہیں کہ { بسم اللہ الرَّحْمَن الرحیم } سورۃ النمل کے علاوہ قرآن پاک میں کسی جگہ نازل نہیں ہوئی، ارشاد فرمایا {إِنَّہُ مِنْ سُلَیْمَانَ وَإِنَّہُ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمَن الرَّحِیمِ }۔

32517

(۳۲۵۱۸) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ بْنِ أَبِی خَالِدٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ : {قَبْلَ أَنْ یَرْتَدَّ إلَیْک طَرْفُک} قَالَ: رَفَعَ طَرْفَہُ فَلَمْ یَرْجِعْ إلَیْہِ طَرْفُہُ حَتَّی نَظَرَ إلَی الْعَرْشِ بَیْنَ یَدَیْہِ۔
(٣٢٥١٨) حضرت سعید بن جبیر فرماتے ہیں کہ { قَبْلَ أَنْ یَرْتَدَّ إلَیْک طَرْفُک } کی تفسیر یہ ہے کہ انھوں نے اپنی نظر اوپر اٹھائی ، ابھی نیچے ان کی نظر نہیں پہنچی تھی کہ انھوں نے تخت کو اپنے سامنے دیکھا۔

32518

(۳۲۵۱۹) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ ، عَنْ أَبِی صَالِحٍ : {وَإِنِّی مُرْسِلَۃٌ إلَیْہِمْ بِہَدِیَّۃٍ} قَالَ : کَانَتْ ہَدِیَّتُہَا لَبِنَۃً مِنْ ذَہَبٍ۔
(٣٢٥١٩) حضرت ابو صالح فرماتے ہیں کہ { وَإِنِّی مُرْسِلَۃٌ إلَیْہِمْ بِہَدِیَّۃٍ } کی تفسیر یہ ہے کہ انھوں نے سونے کی اینٹیں ہدیہ کی تھیں۔

32519

(۳۲۵۲۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ عَطَائٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : أسْمُہَا بِلْقِیسُ بِنْتُ ذِی شَرہ ، وَکَانَتْ ہَلْبَائَ شَعْرَائَ۔
(٣٢٥٢٠) سعید بن جبیر حضرت ابن عباس سے روایت کرتے ہیں کہ ان کا نام بلقیس بنت ذی شرہ تھا اور وہ بہت زیادہ بالوں والی تھی۔

32520

(۳۲۵۲۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنِ ابْنِ أَبِی لَیْلَی ، عَنِ الْحَکَمِ ، عَنْ مُجَاہِدٍ : أَنَّ صَاحِبَۃَ سَبَأٍ کَانَتْ جِنِّیَّۃً شَعْرَائَ۔
(٣٢٥٢١) حکم حضرت مجاہد سے روایت کرتے ہیں کہ قوم سبا کی ملکہ جنیہ اور بہت زیادہ بالوں والی تھی۔

32521

(۳۲۵۲۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا الأَعْمَشُ ، عَنِ الْمِنْہَالِ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ : {وَإِنِّی مُرْسِلَۃٌ إلَیْہِمْ بِہَدِیَّۃٍ} ، قَالَ : أَرْسَلَتْ بِذَہَبٍ ، أَوْ لَبِنَۃٍ مِنْ ذَہَبٍ ، فَلَمَّا قَدِمُوا إذَا حِیطَانُ الْمَدِینَۃِ مِنْ ذَہَبٍ، فَذَلِکَ قَوْلُہُ : {أَتُمِدُّونَنِی بِمَالٍ فَمَا أَتَانِی اللَّہُ خَیْرٌ مِمَّا آتَاکُمْ} الآیَۃَ۔
(٣٢٥٢٢) سعید بن جبیر حضرت ابن عباس سے { وَإِنِّی مُرْسِلَۃٌ إلَیْہِمْ بِہَدِیَّۃٍ } کے تحت روایت کرتے ہیں فرمایا کہ انھوں نے سونایا سونے کی اینٹیں بھیجیں، جب وہ لے کر پہنچے تو دیکھا کہ شہر کی دیواریں سونے کی ہیں، یہ معنی ہے اللہ کے فرمان { أَتُمِدُّونَنِی بِمَالٍ فَمَا أَتَانِی اللَّہُ خَیْرٌ مِمَّا آتَاکُمْ } الخ۔

32522

(۳۲۵۲۳) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : سَمِعْتُ حُمَیْدَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ یُحَدِّثُ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أنَّہُ قَالَ : قَالَ - یَعْنِی اللَّہَ عَزَّ وَجَلَّ - : لاَ یَنْبَغِی لِعَبْدٍ لِی أَنْ یَقُولَ : أَنَا خَیْرٌ مِنْ یُونُسَ بْنِ مَتَّی۔ (بخاری ۳۴۱۶۔ مسلم ۱۶۶)
(٣٢٥٢٣) حضرت ابوہریرہ (رض) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کرتے ہیں کہ اللہ عزوجل نے فرمایا کہ میرے کسی بندے کے لیے جائز نہیں کہ وہ یہ کہے کہ میں یونس بن متّی سے بہتر ہوں۔

32523

(۳۲۵۲۴) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ سَلِمَۃَ ، عَنْ عَلِیٍّ ، قَالَ : قَالَ - یَعْنِی اللَّہَ عَزَّ وَجَلَّ - : لَیْسَ لِعَبْدٍ لِی أَنْ یَقُولَ : أَنَا خَیْرٌ مِنْ یُونُسَ بْنِ مَتَّی ، سَبَّحَ اللَّہَ فِی الظُّلُمَاتِ۔ (طحاوی ۱۰۱۳)
(٣٢٥٢٤) عبداللہ بن سلمہ حضرت علی سے روایت کرتے ہیں فرمایا کہ اللہ عزوجل نے فرمایا کہ میرے کسی بندے کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ یہ کہے کہ میں یونس بن متّی سے بہتر ہوں ، انھوں نے اندھیروں میں اللہ کی پاکی بیان کی۔

32524

(۳۲۵۲۵) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِی وَائِلٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لَیْسَ لأَحَدٍ أَنْ یَقُولَ أَنَا خَیْرٌ مِنْ یُونُسَ بْنِ مَتَّی۔ (بخاری ۳۴۱۲۔ احمد ۳۹۰)
(٣٢٥٢٥) حضرت عبداللہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ کسی کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ یہ کہے کہ میں یونس بن متّی سے بہتر ہوں۔

32525

(۳۲۵۲۶) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا شُعْبَۃُ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ أَبِی الْعَالِیَۃِ ، قَالَ : حَدَّثَنِی ابْنُ عَمِّ نَبِیِّکُمْ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ابْنَ عَبَّاسٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لَیْسَ لِعَبْدٍ أَنْ یَقُولَ : أَنَا خَیْرٌ مِنْ یُونُسَ بْنِ مَتَّی۔ (بخاری ۷۵۳۹۔ ابوداؤد ۴۶۳۶)
(٣٢٥٢٦) حضرت ابو العالیہ فرماتے ہیں کہ مجھے تمہارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چچا زاد حضرت ابن عباس نے بیان کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ کسی بندے کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ یہ کہے کہ میں یونس بن متّی سے بہتر ہوں۔

32526

(۳۲۵۲۷) حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا إسْرَائِیلُ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَیْمُونٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ مَسْعُودٍ فِی بَیْتِ الْمَالِ ، عَنْ یُونُسَ قَالَ : إنَّ یُونُسَ کَانَ قَدْ وَعَدَ قَوْمَہُ الْعَذَابَ وَأَخْبَرَہُمْ إِنَّہُ یَأْتِیہِمْ إلَی ثَلاَثَۃِ أَیَّامٍ ، فَفَرَّقُوا بَیْنَ کُلِّ وَالِدَۃٍ وَوَلَدِہَا ، ثُمَّ خَرَجُوا فَجَأَرُوا إلَی اللہِ وَاسْتَغْفَرُوا ، فَکَفَّ اللَّہُ عَنْہُمَ الْعَذَابَ ، وَغَدَا یُونُسُ یَنْتَظِرُ الْعَذَابَ فَلَمْ یَرَ شَیْئًا ، وَکَانَ مَنْ کَذَبَ وَلَمْ تَکُنْ لَہُ بَیِّنَۃٌ قُتِلَ ، فَانْطَلَقَ مُغَاضِبًا حَتَّی أَتَی قَوْمًا فِی سَفِینَۃٍ فَحَمَلُوہُ وَعَرَفُوہُ ، فَلَمَّا دَخَلَ السَّفِینَۃَ رَکَدَتْ ، وَالسُّفُنُ تَسِیرُ یَمِینًا وَشِمَالاً ، فَقَالُوا : مَا لِسَفِینَتِکُمْ ؟ قَالُوا : مَا نَدْرِی ، قَالَ یُونُسُ : إنَّ فِیہَا عَبْدًا أَبَقَ مِنْ رَبِّہِ ، وَإِنَّہَا لاَ تَسِیرُ حَتَّی تُلْقُوہُ ، فَقَالُوا : أَمَّا أَنْتَ یَا نَبِیَّ اللہِ فَلا وَاللہِ لاَ نُلْقِیک۔ فَقَالَ لَہُمْ یُونُسُ : فَاقْتَرِعُوا فَمَنْ قُرِعَ فَلْیَقَعْ ، فَقَرَعَہُمْ یُونُسُ فَأَبَوْا أَنْ یَدَعُوہُ ، فَقَالُوا : مَنْ قَرَعَ ثَلاَثَ مَرَّاتٍ فَلْیَقَعْ ، فَقَرَعَہُمْ یُونُسُ ثَلاَثَ مَرَّاتٍ فَوَقَعَ ، وَقَدْ کَانَ وُکِّلَ بِہِ الْحُوتُ ، فَلَمَّا وَقَعَ ابْتَلَعَہُ فَأَہْوَی بِہِ إلَی قَرَارِ الأَرْضِ ، فَسَمِعَ یُونُسُ عَلَیْہَ السَلام تَسْبِیحَ الْحَصَی {فَنَادَی فِی الظُّلُمَاتِ أَنْ لاَ إلَہَ إلاَّ أَنْتَ سُبْحَانَک إنِّی کُنْت مِنْ ألظَّالِمِینَ} ظُلُمَاتٌ ثَلاَثٌ ، ظُلْمَۃُ بَطْنِ الْحُوتِ ، وَظُلْمَۃُ الْبَحْرِ ، وَظُلْمَۃُ اللَّیْلِ ، قَالَ : {فَنَبَذْنَاہُ بِالْعَرَائِ وَہُوَ سَقِیمٌ} قَالَ : کَہَیْئَۃِ الْفَرْخِ الْمَمْعُوطِ ، لَیْسَ عَلَیْہِ رِیشٌ ، وَأَنْبَتَ اللَّہُ عَلَیْہِ شَجَرَۃً مِنْ یَقْطِینٍ کَانَ یَسْتَظِلُّ بِہَا وَیُصِیبُ مِنْہَا ، فَیَبِسَتْ فَبَکَی عَلَیْہَا حِینَ یَبِسَتْ ، فَأَوْحَی اللَّہُ إلَیْہِ : تَبْکِی عَلَی شَجَرَۃٍ یَبِسَتْ ، وَلاَ تَبْکِی عَلَی مِئَۃِ أَلْفٍ أَوْ یَزِیدُونَ أَرَدْت أَنْ تُہْلِکَہُمْ۔ فَخَرَجَ فَإِذَا ہُوَ بِغُلاَمٍ یَرْعَی غَنَمًا ، فَقَالَ : مِمَّنْ أَنْتَ یَا غُلاَمُ ، فَقَالَ : مِنْ قَوْمِ یُونُسَ ، قَالَ : فَإِذَا رَجَعْت إلَیْہِمْ فَأَخْبِرْہُمْ أَنَّک قَدْ لَقِیت یُونُسَ ، قَالَ : فَقَالَ الْغُلاَمُ : إنْ تَکُنْ یُونُسَ فَقَدْ تَعْلَمُ أَنَّہ مَنْ کَذَبَ وَلَمْ تَکُنْ لَہُ بَیِّنَۃٌ أَنْ یُقْتَلَ ، فَمَنْ یَشْہَدُ لِی ، فَقَالَ لَہُ یُونُسُ : تَشْہَدُ لَک ہَذِہِ الشَّجَرَۃُ ، وَہَذِہِ الْبُقْعَۃُ ، فَقَالَ الْغُلاَمُ : مُرْہُمَا ، فَقَالَ لَہُمَا یُونُسُ : إنْ جَائَ کُمَا ہَذَا الْغُلاَمُ فَاشْہَدَا لَہُ ، قَالَتَا : نَعَمْ ، فَرَجَعَ الْغُلاَمُ إلَی قَوْمِہِ وَکَانَ لَہُ إخْوَۃٌ وَکَانَ فِی مَنَعَتِہِ ، فَأَتَی الْمَلِکَ ، فَقَالَ : إنِّی لَقِیت یُونُسَ وَہُوَ یَقْرَأُ عَلَیْکُمَ السَّلاَمَ ، فَأَمَرَ بِہِ الْمَلِکُ أَنْ یُقْتَلَ ، فَقَالُوا لَہُ : إنَّ لَہُ بَیِّنَۃً ، فَأَرْسَلْ مَعَہُ فَانْتَہَوْا إلَی الشَّجَرَۃِ وَالْبُقْعَۃِ ، فَقَالَ لَہُمَا الْغُلاَمُ : أَنْشُدُکُمَا بِاللہِ ہَلْ أَشْہَدَکُمَا یُونُسُ ؟ قَالَتَا : نَعَمْ ، فَرَجَعَ الْقَوْمُ مَذْعُورِینَ یَقُولُونَ : تَشْہَدُ لَہُ الشَّجَرُ وَالأَرْضُ ، فَأَتَوْا الْمَلِکَ فَحَدَّثُوہُ بِمَا رَأَوْہُ۔ فَقَالَ عَبْدُ اللہِ : فَتَنَاوَلَہُ الْمَلِکُ فَأَخَذَ بِیَدِ الْغُلاَمِ فَأَجْلَسَہُ فِی مَجْلِسِہِ ، وَقَالَ : أَنْتَ أَحَقُّ بِہَذَا الْمَکَانِ مِنِّی۔ قَالَ عَبْدُ اللہِ ، فَأَقَامَ لَہُمْ ذَلِکَ الْغُلاَمُ أَمْرَہُمْ أَرْبَعِینَ سَنَۃً۔
(٣٢٥٢٧) عمرو بن میمون فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود نے ہمیں بیت المال میں بیان فرمایا کہ حضرت یونس (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے عذاب کے آنے کا وعدہ کیا اور ان کو بتایا کہ ان پر تین دن کے اندر عذاب آئے گا ، چنانچہ انھوں نے ہر ماں کو اس کے بچے سے جدا کیا پھر نکلے اور اللہ سے گریہ زاری اور استغفار کرنے لگے، چنانچہ اللہ نے ان سے عذاب کو روک لیا، اور حضرت یونس (علیہ السلام) اگلے دن عذاب کا انتظار کرنے لگے لیکن ان کو کچھ نظر نہ آیا، اور اس زمانے میں جو شخص جھوٹ بولتا اس کو قتل کردیا جاتا، چنانچہ وہ غصّے میں نکلے، یہاں تک کہ ایک کشتی میں آئے اور انھوں نے ان کو پہچان کر سوار کرلیا، جب آپ کشتی پر سوار ہوئے تو کشتی رک گئی، کشتیاں دائیں اور بائیں چلا کرتی تھیں، وہ کہنے لگے کہ کشتی کو کیا ہوگیا، دوسرے جواب میں کہنے لگے کہ ہمیں کچھ معلوم نہیں، حضرت یونس (علیہ السلام) نے فرمایا کہ اس میں ایک بندہ ہے جوا پنے مالک سے بھاگ کر آیا ہے ، اور کشتی اس وقت تک نہیں چلے گی جب تک تم اس کو پانی میں نہیں ڈال دو گے، انھوں نے کہا اے اللہ کے نبی ! بخدا آپ کو تو ہم نہیں ڈال سکتے۔
(٢) چنانچہ یونس (علیہ السلام) نے فرمایا کہ قرعہ ڈال لو، جس کے نام قرعہ آئے اس کو گرا دیا جائے، چنانچہ یونس (علیہ السلام) کے نام قرعہ نکلا، لیکن انھوں نے آپ کو گرانے سے انکار کردیا، پھر وہ کہنے لگے کہ جس کے نام تین مرتبہ قرعہ نکل آئے اس کو گرا دو ، چنانچہ تین مرتبہ یونس (علیہ السلام) کے نام قرعہ نکلا، آپ پر ایک مچھلی مقرر کی گئی تھی، جب آپ گرے تو اس نے آپ کو نگل لیا اور ان کو لے کر زمین کی تہہ تک چلی گئی چنانچہ یونس (علیہ السلام) نے کنکریوں کی تسبیح سنی { فَنَادَی فِی الظُّلُمَاتِ أَنْ لاَ إلَہَ إلاَّ أَنْتَ سُبْحَانَک إنِّی کُنْت مِنْ ألظَّالِمِینَ } انھوں نے تین تاریکیوں میں تسبیح کی، مچھلی کے پیٹ کا اندھیرا، سمندر کی تاریکی اور رات کا اندھیرا، اللہ فرماتے ہیں کہ پھر ہم نے ان کو میدان میں ڈال دیا جبکہ وہ بیمار تھے، اور اس پرندے کی طرح ہوگئے تھے جس کے پر نہیں ہوتے، اور اللہ نے ان پر ایک کدو کا پودا اگایا، جس سے آپ سایہ لیتے اور کھاتے، چنانچہ وہ خشک ہوگیا تو آپ رونے لگے، چنانچہ اللہ نے وحی فرمائی کہ آپ پودے کے خشک ہونے پر تو روتے ہیں اور ایک لاکھ سے زیادہ لوگوں پر نہیں روتے جن کو ہلاک کرنے کا آپ نے ارادہ کیا تھا۔
(٣) چنانچہ آپ نکلے اور ایک لڑکے پاس پہنچے جو بکریاں چرا رہا تھا اور اس سے فرمایا اے لڑکے ! تمہارا کس قوم سے تعلق ہے ! اس نے کہا قوم یونس سے ، آپ نے فرمایا : جب تم ان کے پاس جاؤ تو بتانا کہ تمہاری حضرت یونس (علیہ السلام) سے ملاقات ہوئی ہے لڑکے نے کہا کہ اگر آپ یونس ہیں تو آپ جانتے ہیں کہ جو شخص جھوٹ بولتا ہے اور اس کے پاس کوئی دلیل نہ ہو تو اس کو قتل کردیا جاتا ہے، تو میرے لیے کون گواہی دے گا ؟ حضرت یونس نے اس سے فرمایا کہ تمہارے لیے یہ درخت گواہی دے گا اور یہ جگہ، لڑکے نے کہا کہ ان کو حکم دے دیجئے، چنانچہ حضرت یونس (علیہ السلام) نے ان سے فرمایا کہ جب یہ لڑکا تمہارے پاس آئے تو اس کے لیے گواہی دے دینا، انھوں نے کہا ٹھیک ہے، چنانچہ وہ لڑکا اپنی قوم کے پاس واپس چلا گیا اور اس کے بھائی بھی تھے، اور وہ اثرو رسوخ کا مالک تھا چنانچہ وہ بادشاہ کے پاس گیا اور کہا کہ میں حضرت یونس (علیہ السلام) سے ملا ہوں اور وہ آپ کو سلام کہتے ہیں ، بادشاہ نے اس کو قتل کرنے کا حکم دیا تو لوگوں نے کہا کہ اس کے پاس گواہی ہے ، چنانچہ بادشاہ نے اس کے ساتھ کچھ لوگوں کو بھیج دیا وہ درخت اور جگہ کے پاس پہنچے اور لڑکے نے ان سے کہا کہ میں تمہیں اللہ کا واسطہ دیتا ہوں کیا حضرت یونس (علیہ السلام) نے تمہیں گواہ بنایا ہے ؟ انھوں نے کہا جی ہاں ! چنانچہ لوگ خوفزدہ ہو کر واپس لوٹے اور کہنے لگے یہ درخت اور زمین بھی اس لڑکے کے لیے گواہی دیتے ہیں، اور بادشاہ کے پاس پہنچے اور جو کچھ دیکھا تھا اس کے سامنے بیان کردیا۔
(٤) حضرت عبداللہ فرماتے ہیں کہ بادشاہ نے اس لڑکے کا ہاتھ پکڑا اور اس کو اپنی جگہ بٹھایا اور کہا کہ تم اس جگہ کے مجھ سے زیادہ حق دار ہو، حضرت عبداللہ فرماتے ہیں کہ اس کے بعد وہ لڑکا چالیس سال تک ان کا حاکم رہا۔

32527

(۳۲۵۲۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، عَنْ سُفْیَانَ، عَنِ السُّدِّیِّ، عَنْ أَبِی مَالِکٍ، قَالَ: مَکَثَ یُونُسُ فِی بَطْنِ الْحُوتِ أَرْبَعِینَ یَوْمًا۔
(٣٢٥٢٨) حضرت ابو مالک فرماتے ہیں کہ حضرت یونس (علیہ السلام) چالیس سال تک مچھلی کے پیٹ میں رہے۔

32528

(۳۲۵۲۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ سَالِمٍ : {فَنَادَی فِی الظُّلُمَاتِ} قَالَ : حوتٌ فِی حُوتٍ وَظُلْمَۃِ الْبَحْرِ۔
(٣٢٥٢٩) منصور حضرت سالم سے { فَنَادَی فِی الظُّلُمَاتِ } کی تفسیر میں روایت کرتے ہیں فرمایا کہ اس سے مراد مچھلی کے پیٹ کی تاریکی اور سمندر کی تاریکی ہے۔

32529

(۳۲۵۳۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ، قَالَ : سَمِعْتہ یَقُولُ : {فَنَادَی فِی الظُّلُمَاتِ} قَالَ : ظُلْمَۃُ اللَّیْلِ ، وَظُلْمَۃُ الْبَحْرِ ، وَظُلْمَۃُ الْحُوتِ۔
(٣٢٥٣٠) حضرت سعید بن جبیر فرماتے ہیں کہ { فَنَادَی فِی الظُّلُمَاتِ } سے مراد رات کا اندھیرا، سمندر کا اندھیرا، اور مچھلی کا اندھیرا ہے۔

32530

(۳۲۵۳۱) حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ بْنُ مُوسَی ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ الْحَارِثِ ، قَالَ : لَمَّا الْتَقَمَہُ الْحُوتُ فَنَبَذَ بِہِ إلَی الأَرْضِ ، فَسَمِعَہَا تُسَبِّحُ ، فَہَیَّجَتْہُ عَلَی التَّسْبِیحِ۔
(٣٢٥٣١) عمرو بن مرّہ حضرت عبداللہ بن حارث سے روایت کرتے ہیں فرمایا کہ جب مچھلی نے آپ کا لقمہ بنایا اور آپ کو زمین پر ڈال دیا اور آپ نے اس کو تسبیح پڑھتے ہوئے سنا تو اس سے آپ کو تسبیح پڑھنے کی ترغیب ہوئی ۔

32531

(۳۲۵۳۲) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ أَبِی بُکَیر ، قَالَ : حدَّثَنَا شِبْلُ بْنُ عَبَّادٍ ، عَنِ ابْنِ أَبِی سُلَیْمَانَ ، عَنِ ابْنِ أَبِی نَجِیحٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، قَالَ : قَالَتْ مَرْیَمُ : کُنْت إذَا خَلَوْت أَنَا وَعِیسَی حَدَّثَنِی وَحَدَّثْتُہُ ، وَإِذَا شَغَلَنِی عَنْہُ إنْسَانٌ سَبَّحَ فِی بَطْنِی وَأَنَا أَسْمَعُ۔
(٣٢٥٣٢) مجاہد فرماتے ہیں کہ حضرت مریم نے فرمایا کہ جب میں خلوت میں ہوتی تو عیسیٰ مجھ سے باتیں کرتے اور میں ان سے باتیں کرتی، اور جب کوئی آدمی سامنے آتا تو وہ میرے پیٹ میں تسبیح کرتے اور میں سنا کرتی تھی۔

32532

(۳۲۵۳۳) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ أَبِی بُکَیْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا شِبْلٌ ، عَنِ ابْنِ أَبِی نَجِیحٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: مَا تَکَلَّمَ عِیسَی عَلَیْہِ السَّلاَمُ إلاَّ بِالآیَاتِ الَّتِی تَکَلَّمَ بِہَا حَتَّی بَلَغَ مَبْلَغَ الصِّبْیَانِ۔
(٣٢٥٣٣) مجاہد ایک دوسری سند سے حضرت ابن عباس سے روایت کرتے ہیں فرمایا کہ عیسیٰ (علیہ السلام) نے بچپن میں ان آیات کے علاوہ کوئی بات نہیں کی جو اللہ نے ارشاد فرمائی تھی۔

32533

(۳۲۵۳۴) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ حُصَیْنٍ ، عَنْ ہِلاَلِ بْنِ یَِسَافٍ ، قَالَ : لَمْ یَتَکَلَّمْ فِی الْمَہْدِ إلاَّ ثَلاَثَۃٌ : عِیسَی عَلَیْہِ السَّلاَمُ ، وَصَاحِبُ یُوسُفَ ، وَصَاحِبُ جُرَیْجٍ۔
(٣٢٥٣٤) حضرت ہلال بن یساف فرماتے ہیں کہ گود میں تین بچوں کے علاوہ کسی نے بات نہیں کی، حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ، حضرت یوسف (علیہ السلام) کی گواہی دینے والا بچہ، اور جریج کے لیے گواہی دینے والا بچہ۔

32534

(۳۲۵۳۵) حَدَّثَنَا مُعَاوِیَۃَ ، قَالَ : حدَّثَنَا عَمَّارُ بْنُ رُزَیْقٍ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ : {وَإِنَّہُ لَعِلْمٌ لِلسَّاعَۃِ} قَالَ : خُرُوجُ عِیسَی ابْنِ مَرْیَمَ علیہ السلام۔
(٣٢٥٣٥) مجاہد حضرت ابن عباس سے { وَإِنَّہُ لَعِلْمٌ لِلسَّاعَۃِ } کی تفسیر میں روایت کرتے ہیں فرمایا کہ اس سے مراد حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا نزول ہے۔

32535

(۳۲۵۳۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ ثَابِتِ بْنِ ہُرْمُزَ ، عَنْ شَیْخٍ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ : {لِیُظْہِرَہُ عَلَی الدِّینِ کُلِّہِ} قَالَ : خُرُوجُ عِیسَی علیہ السلام۔
(٣٢٥٣٦) ثابت بن ہرمز ایک شیخ کے حوالے سے حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کرتے ہیں فرمایا کہ { لِیُظْہِرَہُ عَلَی الدِّینِ کُلِّہِ } سے مراد حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا نزول ہے۔

32536

۳۲۵۳۷) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، قَالَ : حدَّثَنَا الأَعْمَشُ ، عَنِ الْمِنْہَالِ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : لَمَّا أَرَادَ اللَّہُ أَنْ یَرْفَعَ عِیسَی عَلَیْہِ السَّلاَمُ إلَی السَّمَائِ خَرَجَ عَلَی أَصْحَابِہِ - وَہُمَ اثْنَا عَشَرَ رَجُلاً - مِنْ عین فی الْبَیْتِ وَرَأْسُہُ یَقْطُرُ مَائً ، فَقَالَ لَہُمْ : أَمَا إنَّ مِنْکُمْ مَنْ سَیَکْفُرُ بِی اثْنَتَیْ عَشْرَۃَ مَرَّۃً بَعْدَ أَنْ آمَنَ بِی ، ثُمَّ قَالَ : أَیُّکُمْ سَیُلْقَی عَلَیْہِ شَبَہِی فَیُقْتَلَ مَکَانِی وَیَکُونُ مَعِی فِی دَرَجَتِی ؟ فَقَامَ شَابٌّ مِنْ أَحْدَثِہِمْ ، فَقَالَ : أَنَا، فَقَالَ عِیسَی : اجْلِسْ ، ثُمَّ أَعَادَ عَلَیْہِمْ فَقَامَ الشَّابُّ ، فَقَالَ عِیسَی : اجْلِسْ ، ثُمَّ أَعَادَ عَلَیْہِمْ فَقَامَ الشَّابُّ، فَقَالَ : أَنَا ، فَقَالَ : نَعَمْ أَنْتَ ذَاکَ ، قَالَ : فَأُلْقِیَ عَلَیْہِ شَبَہُ عِیسَی۔ قَالَ : وَرُفِعَ عِیسَی عَلَیْہِ السَّلاَمُ مِنْ رَوْزَنَۃٍ کَانَتْ فِی الْبَیْتِ إلَی السَّمَائِ ، قَالَ : وَجَائَ الطَّلَبُ مِنَ الْیَہُودِ فَأَخَذُوا الشَّبِیہَ فَقَتَلُوہُ ، ثُمَّ صَلَبُوہُ ، وَکَفَرَ بِہِ بَعْضُہُمُ اثْنَتَیْ عَشْرَۃَ مَرَّۃً بَعْدَ أَنْ آمَنَ بِہِ ، فَتَفَرَّقُوا ثَلاَثَ فِرَقٍ ، قَالَ : فَقَالَت فِرْقَۃٌ : کَانَ فِینَا اللَّہُ مَا شَائَ ، ثُمَّ صَعِدَ إلَی السَّمَائِ ، وَہَؤُلاَئِ الْیَعْقُوبِیَّۃُ ، وَقَالَتْ فِرْقَۃٌ : کَانَ فِینَا ابْنُ اللہِ ، ثُمَّ رَفَعَہُ اللَّہُ إلَیْہِ ، وَہَؤُلاَئِ النَّسْطُورِیَّۃُ ، وَقَالَتْ فِرْقَۃٌ : کَانَ فِینَا عَبْدُ اللہِ وَرَسُولُہُ مَا شَائَ اللَّہُ ، ثُمَّ رَفَعَہُ اللَّہُ إلَیْہِ ، وَہَؤُلاَئِ الْمُسْلِمُونَ۔ فَتَظَاہَرَتِ الْکَافِرَتَانِ عَلَی الْمُسْلِمَۃِ فَقَاتَلُوہَا فَقَتَلُوہَا ، فَلَمْ یَزَلَ الإسْلاَمُ طَامِسًا حَتَّی بَعَثَ اللَّہُ مُحَمَّدًا صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَأَنْزَلَ اللَّہُ عَلَیْہِ : {فَآمَنَتْ طَائِفَۃٌ مِنْ بَنِی إسْرَائِیلَ} یَعْنِی : الطَّائِفَۃَ الَّتِی آمَنَتْ فِی زَمَنِ عِیسَی {وَکَفَرَتْ طَائِفَۃٌ} یَعْنِی : الطَّائِفَۃَ الَّتِی کَفَرَتْ فِی زَمَنِ عِیسَی {فَأَیَّدْنَا الَّذِینَ آمَنُوا} فِی زَمَانِ عِیسَی {عَلَی عَدُوِّہِمْ} بِإِظْہَارِ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ دِینَہُمْ عَلَی دِینِ الْکُفَّارِ {فَأَصْبَحُوا ظَاہِرِینَ}۔ (نسائی ۱۱۵۹۱)
(٣٢٥٣٧) سعید بن جبیر روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو آسمان کی طرف اٹھانے کا ارادہ فرمایا تو وہ اپنے حواریوں کے پاس تشریف لائے، جو اس وقت بارہ تھے، اور آپ کے سر سے اس وقت پانی کے قطرے ٹپک رہے تھے اور آپ نے فرمایا کہ تم میں سے بعض لوگ مجھ پر ایمان لانے کے بعد میرے ساتھ بارہ مرتبہ کفر کریں گے، پھر آپ نے فرمایا کہ تم میں سے کون اس کے لیے تیار ہے کہ اس پر میری شبییہ ڈالی جائے اور وہ میری جگہ قتل ہوجائے، اور وہ میرے ساتھ میرے درجے میں ہوگا، چنانچہ ایک نوجوان کھڑا ہوا، اور کہنے لگا میں تیار ہوں، حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا بیٹھ جاؤ، پھر دوبارہ آپ نے سوال کیا تو وہ جوان پھر کھڑا ہوا، آپ نے فرمایا بیٹھ جاؤ، آپ نے تیسری مرتبہ سوال کیا تو وہ جوان کھڑا ہوا اور کہنے لگا میں تیار ہوں، آپ نے فرمایا ٹھیک ہے تم ہی ہو ، چنانچہ اس پر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی شبیہ ڈال دی گئی۔
کہتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) گھر کے ایک روشن دان سے آسمان کی طرف اٹھا لیے گئے، اور یہودیوں کی فوج آئی اور اس نے آپ کے ہم شکل کو گرفتار کر کے قتل کردیا، پھر اس کو سولی چڑھا دیا، اور ان میں سے ایک نے آپ کے ساتھ بارہ مرتبہ کفر کیا، اس کے بعد ان کی تین جماعتیں ہوگئیں، چنانچہ ایک جماعت کہنے لگی کہ اللہ تعالیٰ ایک عرصے تک ہمارے درمیان رہے پھر آسمان کی طرف چلے گئے، یہ یعقوبیہ ہیں، اور ایک جماعت کہنے لگی کہ اللہ کے بیٹے ہمارے درمیان تھے پھر اللہ نے ان کو اٹھا لیا، یہ نسطوریہ ہیں، اور ایک جماعت نے کہا کہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ایک عرصہ ہمارے ساتھ رہے، پھر اللہ نے ان کو اٹھا لیا، یہ مسلمان ہیں، چنانچہ کافر جماعتیں مسلمانوں پر غالب آگئیں ، اور انھوں نے ان سے قتال کر کے ان کو قتل کردیا، اور اسلام مٹا رہا یہاں تک کہ اللہ نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مبعوث فرمایا اور اللہ نے آیت نازل فرمائی { فَآمَنَتْ طَائِفَۃٌ مِنْ بَنِی إسْرَائِیلَ } یعنی وہ جماعت ایمان لائی جو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے زمانے میں تھی، اور ایک جماعت نے کفر کیا، جو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے زمانے میں تھی، ‘ ‘ چنانچہ ہم نے ایمان لانے والی جماعت کی مدد کی ” یعنی جو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے زمانے میں ایمان لائے تھے۔ ” ان کے دشمنوں پر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دین کو کفار کے دین پر غالب کر کے “ اور وہ غالب ہوگئے۔ “

32537

(۳۲۵۳۸) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، عَنْ عُبَیْدِ بْنِ عُمَیْرٍ ، قَالَ : کَانَ عِیسَی ابْنُ مَرْیَمَ عَلَیْہِ السَّلاَمُ لاَ یَرْفَعُ عَشَائً لِغَدَائٍ ، وَلاَ غَدَائً لِعَشَائٍ ، وَکَانَ یَقُولُ : إنَّ مَعَ کُلِّ یوم رِزْقَہُ ، وَکَانَ یَلْبَسُ الشَّعرَ ، وَیَأْکُلُ الشَّجَرَ ، وَیَنَامُ حَیْثُ أَمْسَی۔
(٣٢٥٣٨) حضرت عبید بن عمیر فرماتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) شام کے کھانے کو صبح کے لیے اور صبح کے کھانے کو شام کے لیے نہیں بچاتے تھے، اور آپ فرماتے تھے کہ ہر دن کے ساتھ اس کا رزق ہے، اور آپ بالوں کا بنا ہوا لباس پہنتے، اور درختوں کے پتے کھالیتے، اور جہاں شام ہوتی سو جاتے۔

32538

(۳۲۵۳۹) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ خَیْثَمَۃ، قَالَ: مَرَّتِ امْرَأَۃٌ بِعِیسَی ابْنِ مَرْیَمَ عَلَیْہِ السَّلاَمُ، فَقَالَتْ: طُوبَی لِبَطْنٍ حَمَلَک ، وَلِثَدْیٍ أَرْضَعَک ، فَقَالَ عِیسَی عَلَیْہِ السَّلاَمُ : طُوبَی لِمَنْ قَرَأَ الْقُرْآنَ وَاتَّبَعَ مَا فِیہِ۔
(٣٢٥٣٩) حضرت خیثمہ فرماتے ہیں کہ ایک عورت حضرت عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) کے پاس سے گزری ، اور اس نے کہا کہ خوشخبری ہو اس پیٹ کے لیے جس نے آپ کو اٹھایا، اور اس چھاتی کے لیے جس نے آپ کو دودھ پلایا، حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ خوشخبری ہو اس شخص کے لیے جس نے قرآن پڑھا اور جو کچھ اس میں ہے اس پر عمل کیا۔

32539

(۳۲۵۴۰) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَجْلاَنَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ یَعْقُوبَ ، قَالَ : قَالَ عِیسَی ابْنُ مَرْیَمَ : لاَ تُکْثِرُوا الْکَلاَمُ بِغَیْرِ ذِکْرِ اللہِ فَتَقْسُوَ قُلُوبُکُمْ ، فَإِنَّ الْقَلْبَ الْقَاسِیَ بَعِیدٌ مِنَ اللہِ وَلَکِنْ لاَ تَعْلَمُونَ ، لاَ تَنْظُرُوا فِی ذُنُوبِ الْعِبَادِ کَأَنَّکُمْ أَرْبَابٌ ، وَانْظُرُوا فِی ذُنُوبِکُمْ کَأَنَّکُمْ عَبِید ، فَإِنَّمَا النَّاسُ رَجُلاَنِ : مُبْتَلًی وَمُعَافًی ، فَارْحَمُوا أَہْلَ الْبَلاَئِ ، وَاحْمَدُوا اللَّہَ عَلَی الْعَافِیَۃِ۔
(٣٢٥٤٠) حضرت محمد بن یعقوب فرماتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ بن مریم نے فرمایا کہ اللہ کے ذکر کے علاوہ کوئی بات نہ کرو کیونکہ اس سے تمہارے دل سخت ہوجائیں گے اور سخت دل اللہ سے دور ہیں لیکن تم نہیں جانتے بندوں کے گناہوں کو اس طرح مت دیکھو گویا کہ تم ان کے رب ہو بلکہ اپنے گناہوں کو اس طرح دیکھو کہ تم بندے ہو کیونکہ لوگ دو طرح کے ہوتے ہیں ایک وہ جو آزمائش میں مبتلا ہیں دوسرے وہ جو عافیت میں ہیں لہٰذا تم آزمائش میں مبتلا لوگوں پر رحم کرو اور عافیت پر اللہ کی تعریف کرو۔

32540

(۳۲۵۴۱) حَدَّثَنَا شَرِیکٌ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ أَبِی صَالِحٍ رَفَعَہُ إلَی عِیسَی ، قَالَ: قَالَ: لاَصْحَابِہِ اتَّخِذُوا الْمَسَاجِدَ مَسَاکِنَ ، وَاتَّخِذُوا الْبُیُوتَ مَنَازِلَ ، وَانْجُوا مِنَ الدُّنْیَا بِسَلاَمٍ ، وَکُلُوا مِنْ بَقْلِ الْبَرِیَّۃِ ، وَزَادَ فِیہِ الأَعْمَشُ : وَاشْرَبُوا مِنَ مَائِ الْقَرَاحِ۔
(٣٢٥٤١) حضرت ابو صالح مرفوعاً حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے ساتھیوں سے فرمایا کہ مسجدوں کو ٹھکانا بناؤ اور گھروں کو راستے کی منزل سمجھو اور دنیا سے سلامتی کے ساتھ نجات پا جاؤ اور دیہات کی سبزیاں کھایا کرو، اعمش اس میں یہ اضافہ کرتے ہیں کہ سادہ پانی پیو۔

32541

(۳۲۵۴۲) حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ ، عَنِ الْعَلاَئِ بْنِ مُسَیَّبِ ، عَنْ رَجُلٍ حَدَّثَہُ ، قَالَ : قَالَ الْحَوَارِیُّونَ لِعِیسَی ابْنِ مَرْیَمَ علیہ السلام : مَا تَأْکُلُ ؟ قَالَ : خُبْزَ الشَّعِیرِ ، قَالُوا : وَمَا تَلْبَسُ ؟ قَالَ : الصُّوفَ ، قَالُوا : وَمَا تَفْتَرِشُ ؟ قَالَ : الأَرْضَ ، قَالُوا : کُلُّ ہَذَا شَدِیدٌ ، قَالَ : لَنْ تَنَالُوا مَلَکُوتَ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ حَتَّی تُصِیبُوا ہَذَا عَلَی لَذَّۃٍ۔ أَوَ قَالَ : عَلَی شَہْوَۃٍ۔
(٣٢٥٤٢) علاء بن مسیب ایک آدمی کے واسطے سے روایت کرتے ہیں کہ فرمایا کہ حواریوں نے حضرت عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) سے عرض کی کہ آپ کیا کھاتے ہیں انھوں نے فرمایا جو کی روٹی ، وہ کہنے لگے آپ کیا پہنتے ہیں آپ نے فرمایا اون، کہنے لگے کہ آپ کا بستر کیا ہے آپ نے فرمایا ، زمین، کہنے لگے یہ سب تو بہت مشکل ہے آپ نے فرمایا کہ تم آسمانوں اور زمین کی بادشاہت اس وقت تک نہیں پاسکتے جب تک یہ چیزیں لذت کے باوجود یا فرمایا کہ شہوت کے باوجود استعمال نہ کرو۔

32542

(۳۲۵۴۳) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْر ، قَالَ : حدَّثَنَا مِسْعَرٌ ، عَنْ أَبِی حَصِینٍ ، قَالَ سَمِعْتہ یَذْکُرُ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ: فِی قَوْلِہِ : {إنَّکُمْ ، وَمَا تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللہِ حَصَبُ جَہَنَّمَ أَنْتُمْ لَہَا وَارِدُونَ} قَالَ : فَذَکَرُوا عِیسَی وَعُزَیْرًا أَنَّہُمَا کَانَا یُعْبَدَانِ ، فَنَزَلَتْ ہَذِہِ الآیَۃُ مِنْ بَعْدِہَا : {إنَّ الَّذِینَ سَبَقَتْ لَہُمْ مِنَّا الْحُسْنَی أُولَئِکَ عَنْہَا مُبْعَدُونَ} قَالَ : عِیسَی ابْنُ مَرْیَمَ علیہ السلام۔
(٣٢٥٤٣) حضرت ابو حصین حضرت سعید بن جُبیر سے ” اللہ کے فرمان {إنَّکُمْ ، وَمَا تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللہِ حَصَبُ جَہَنَّمَ أَنْتُمْ لَہَا وَارِدُونَ } کی تفسیر میں روایت کرتے ہیں فرمایا کہ انھوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت عزیر کا ذکر کیا کہ ان کی بھی عبادت کی جاتی تھی چنانچہ اس کے بعد یہ آیت نازل ہوئی، (إنَّ الَّذِینَ سَبَقَتْ لَہُمْ مِنَّا الْحُسْنَی أُولَئِکَ عَنْہَا مُبْعَدُونَ ) فرمایا کہ اس سے مراد عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) ہیں۔

32543

(۳۲۵۴۴) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَنْ زَائِدَۃَ ، عَنْ مَیْسَرَۃَ الأَشْجَعِیِّ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : سَأَلْتُ کَعْبًا عَنْ رَفْعِ إدْرِیسَ مَکَانًا عَلِیًّا ؟ فَقَالَ : أَمَّا رَفْعُ إدْرِیسَ مَکَانًا عَلِیًّا ، فَکَانَ عَبْدًا تَقِیًّا ، یُرْفَعُ لَہُ مِنَ الْعَمَلِ الصَّالِحِ مَا یُرْفَعُ لأَہْلِ الأَرْضِ فِی أَہْلِ زَمَانِہِ ، قَالَ : فَعَجِبَ الْمَلَکُ الَّذِی کَانَ یَصْعَدُ عَلَیْہِ عَمَلُہُ ، فَاسْتَأْذَنَ رَبَّہُ إلَیْہِ ، قَالَ : رَبِّ ائْذَنْ لِی إلَی عَبْدِکَ ہَذَا فَأَزُورَہُ ، فَأَذِنَ لَہُ ، فَنَزَلَ ، قَالَ : یَا إدْرِیسُ ، أَبْشِرْ فَإِنَّہُ یُرْفَعُ لَک مِنَ الْعَمَلِ الصَّالِحِ مَا لاَ یُرْفَعُ لأَہْلِ الأَرْضِ ، قَالَ : وَمَا عِلْمُک ؟ قَالَ : إنِّی مَلَکٌ ، قَالَ : وَإِنْ کُنْت مَلَکًا ، قَالَ : فَإِنِّی عَلَی الْبَابِ الَّذِی یَصْعَدُ عَلَیْہِ عَمَلُک۔ قَالَ : أَفَلاَ تَشْفَعُ لِی إلَی مَلَکِ الْمَوْتِ فَیُؤَخِّرَ مِنْ أَجَلِی لأَزْدَادَ شُکْرًا وَعِبَادَۃً ؟ قَالَ لَہُ الْمَلَکُ : لاَ یُؤَخِّرُ اللَّہُ نَفْسًا إذَا جَائَ أَجَلُہَا ، قَالَ : قَدْ عَلِمْت وَلَکِنَّہُ أَطْیَبُ لِنَفْسِی ، فَحَمَلَہُ الْمَلَکُ عَلَی جَنَاحِہِ فَصَعِدَ بِہِ إلَی السَّمَائِ فَقَالَ : یَا مَلَکَ الْمَوْتِ ، ہَذَا عَبْدٌ تَقِیٌّ نَبِی ، یُرْفَعُ لَہُ مِنَ الْعَمَلِ الصَّالِحِ مَا لاَ یُرْفَعُ لأَہْلِ الأَرْضِ ، وَإِنَّہُ أَعْجَبَنِی ذَلِکَ ، فَاسْتَأْذَنْت إلَیْہِ رَبِّی ، فَلَمَّا بَشَّرْتہ بِذَلِکَ سَأَلَنِی لأَشْفَعَ لَہُ إلَیْک لِیُؤَخَّرَ مِنْ أَجَلِہِ فَیَزْدَادَ شُکْرًا وَعِبَادَۃً لِلَّہِ ، قَالَ : وَمَنْ ہَذَا ؟ قَالَ : إدْرِیسُ ، فَنَظَرَ فِی کِتَابٍ مَعَہُ حَتَّی مَرَّ بِاسْمِہِ ، فَقَالَ : وَاللہِ مَا بَقِیَ مِنْ أَجَلِ إدْرِیسَ شَیْئٌ ، فَمَحَاہُ فَمَاتَ مَکَانَہُ۔
(٣٢٥٤٤) عکرمہ حضرت ابن عباس سے روایت کرتے ہیں فرمایا کہ میں نے حضرت کعب سے سوال کیا حضرت ادریس (علیہ السلام) کیسے اٹھائے گئے ؟ انھوں نے فرمایا کہ حضرت ادریس (علیہ السلام) کے بلند جگہ پر پہنچنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ پرہیزگار بندے تھے ان کے اتنے نیک اعمال آسمان پر پہنچتے تھے جتنے اس زمانے کے تمام لوگوں کے اعمال تھے چنانچہ اس فرشتے کو تعجب ہوا جس کے پاس اعمال پہنچتے تھے اس نے اللہ تعالیٰ سے اجازت مانگی کہ اے اللہ مجھے اجازت دیجئے کہ میں آپ کے اس بندے کی زیارت کروں اللہ نے ان کو اجازت دے دی فرشتہ آیا اور ان کو کہا کہ اے ادریس آپ کو بشارت ہو کہ آپ کے اتنے نیک اعمال آسمان پر پہنچتے ہیں کہ جو تمام اہل زمین کے اعمال سے بڑھ کر ہوتے ہیں آپ نے فرمایا تمہیں کیسے معلوم ہوا ؟ اس نے کہا میں فرشتہ ہوں ، آپ نے فرمایا کہ اگر تم فرشتے ہو تب بھی آپ کو کیسے معلوم ہوا ؟ اس نے کہا کہ میں اس دروازے پر مقرر ہوں جس سے آپ کے اعمال جاتے ہیں۔
آپ نے فرمایا کیا تم ملک الموت سے میری سفارش کرسکتے ہو کہ وہ میری موت مؤخر کر دے تاکہ میں زیادہ شکر اور عبادت کرسکوں فرشتے نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کسی آدمی کی موت کو مؤخر نہیں کرتے جب موت کا وقت آجاتا ہے آپ نے فرمایا کہ مجھے اس کا علم ہے لیکن یہ میرے لیے زیادہ خوشی کا باعث ہے چنانچہ فرشتے نے آپ کو اپنے پر پر اٹھایا اور آسمان پر لے گیا اور کہا اے ملک الموت یہ پرہیزگار بندے اور نبی ہیں اور ا ن کے اتنے نیک اعمال آسمان پر جاتے ہیں جو تمام اہل زمین کے نہیں جاتے اور مجھے یہ بات بہت اچھی لگی اور میں اللہ سے اجازت لے کر اس کے پاس گیا جب میں نے ان کو اس کی بشارت دی تو انھوں نے مجھ سے فرمایا کہ میں ان کے لیے سفارش کروں تاکہ ان کی موت کا وقت مؤخر ہوجائے اور یہ اللہ کا شکر اور عبادت کرسکیں، انھوں نے کہا یہ کون ہیں ؟ فرشتے نے کہا ادریس (علیہ السلام) چنانچہ ملک الموت نے اپنے رجسٹر میں دیکھا جب ان کے نام پر پہنچا تو کہنے لگے خدا کی قسم ادریس (علیہ السلام) کی موت میں کوئی وقت باقی نہیں اور ان کے نام کو مٹا دیا چنانچہ وہ وہیں فوت ہوگئے۔

32544

(۳۲۵۴۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، عَنْ سُفْیَانَ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ مُجَاہِدٍ: {وَرَفَعَنَاہُ مَکَانًا عَلِیًّا} فَقَالَ: فِی السَّمَائِ الرَّابِعَۃِ۔
(٣٢٥٤٥) منصور حضرت مجاہد سے { وَرَفَعَنَاہُ مَکَانًا عَلِیًّا } کے تحت روایت کرتے ہیں کہ اللہ نے آپ کو چوتھے آسمان پر پہنچا دیا۔

32545

(۳۲۵۴۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ أَبِی ہَارُونَ ، عَنْ أَبِی سَعِیدٍ ، قَالَ : فِی السَّمَائِ الرَّابِعَۃِ۔
(٣٢٥٤٦) حضرت ابو سعید سے روایت ہے فرمایا کہ اللہ نے آپ کو چوتھے آسمان پر پہنچایا۔

32546

(۳۲۵۴۷) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ إِسْحَاقَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَیْمُونٍ ، قَالَ : کَانَ ہُودٌ عَلَیْہِ السَّلاَمُ خُلِّد فِی قَوْمِہِ ، وَإِنَّہُ کَانَ قَاعِدًا فِی قَوْمِہِ ، فَجَائَ سَحَابٌ مُکْفَہِرٌّ فَقَالُوا : {ہَذَا عَارِضٌ مُمْطِرُنَا} فَقَالَ : ہُودٌ عَلَیْہِ السَّلاَمُ: {بَلْ ہُوَ مَا اسْتَعْجَلْتُمْ بِہِ رِیحٌ فِیہَا عَذَابٌ أَلِیمٌ} فَجَعَلَتْ تُلْقِی الْفُسْطَاطَ وَتَجِیئُ بِالرَّجُلِ الْغَائِبِ۔
(٣٢٥٤٧) حضرت عمرو بن میمون فرماتے ہیں کہ حضرت ہود (علیہ السلام) کو اپنی قوم میں بہت عمر دی گئی تھی، اور آپ اپنی قوم میں بیٹھے تھے کہ ایک گہرا بادل آیا، لوگوں نے کہا کہ یہ بادل ہم پر بارش برسائے گا، حضرت ہود (علیہ السلام) نے فرمایا بلکہ یہ وہی ہے جس کا تم نے مطالبہ کیا تھا، اس میں ہوا ہے جس میں دردناک عذاب ہے، چنانچہ وہ ہوا خیمے اڑانے لگی، اور سفر پر گئے ہوئے لوگوں کو لانے لگی۔

32547

(۳۲۵۴۸) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : إنْ کَانَ دَاوُد عَلَیْہِ السَّلاَمُ لَیَخْطُبُ النَّاسَ وَفِی یَدِہِ الْقُفَّۃُ مِنَ الْخُوصِ فَإِذَا فَرَغَ نَاوَلَہَا بَعْضَ مَنْ إلَی جَنْبِہِ یَبِیعُہَا۔
(٣٢٥٤٨) حضرت عروہ فرماتے ہیں کہ حضرت داؤد (علیہ السلام) لوگوں کو خطبہ دیتے تھے جبکہ ان کے ہاتھ میں پتوں کی بنی ہوئی ٹوکری ہوتی تھی، جب آپ فارغ ہوتے تو کسی قریب بیٹھنے والے کو دے دیتے تاکہ اس کو بیچ لے۔

32548

(۳۲۵۴۹) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، قَالَ : لَمَّا أَصَابَ دَاوُد الْخَطِیئَۃُ ، وَإِنَّمَا کَانَتْ خَطِیئَتُہُ إِنَّہُ لَمَّا أَبْصَرَہَا أَمَرَ بِہَا فَعَزَلَہَا ، فَلَمْ یَقْرَبْہَا ، فَأَتَاہُ الْخَصْمَانِ فَتَسَوَّرُوا فِی الْمِحْرَابِ ، فَلَمَّا أَبْصَرَہُمَا قَامَ إلَیْہِمَا ، فَقَالَ : اُخْرُجَا عَنِّی ، مَا جَائَ بِکُمَا إلَیّ َ؟ فَقَالاَ : إنَّمَا نُکَلِّمُک بِکَلاَمُ یَسِیرٍ ، {إنَّ ہَذَا أَخِی لَہُ تِسْعٌ وَتِسْعُونَ نَعْجَۃً وَلِی نَعْجَۃٌ وَاحِدَۃٌ} وَہُوَ یُرِیدُ أَنْ یَأْخُذَہَا مِنِّی ، قَالَ : فَقَالَ دَاوُد عَلَیْہِ السَّلاَمُ : وَاللہِ إِنَّہُ أَحَقُّ أَنْ یکسر مِنْہُ مِنْ لَدُنْ ہَذِہِ إلَی ہَذِہِ - یَعْنِی مِنْ أَنْفِہِ إلَی صَدْرِہِ - فَقَالَ الرَّجُلُ : ہَذَا دَاوُد قَدْ فَعَلَہُ۔ فَعَرَفَ دَاوُد عَلَیْہِ السَّلاَمُ أَنَّہ إنَّمَا ، یُعْنَی بِذَلِکَ ، وَعَرَفَ ذَنْبَہُ ، فَخَرَّ سَاجِدًا أَرْبَعِینَ یَوْمًا وَأَرْبَعِینَ لَیْلَۃً ، وَکَانَتْ خَطِیئَتُہُ مَکْتُوبَۃً فِی یَدِہِ ، یَنْظُرُ إلَیْہَا لِکَیْ لاَ یَغْفُلَ حَتَّی نَبَتَ الْبَقْلُ حَوْلَہُ مِنْ دُمُوعِہِ مَا غَطَّی رَأْسَہُ، فَنَادَی بَعْدَ أَرْبَعِینَ یَوْمًا : قَرِحَ الْجَبِینُ وَجَمَدَتِ الْعَیْنُ ، وَدَاوُد لَمْ یُرْجَعْ إلَیْہِ فِی خَطِیئَۃٍ بشَیْئٌ فَنُودِیَ : أَجَائِعٌ فَتُطْعَمُ ؟ أَمْ عُرْیَانُ فَتُکْسَی ؟ أَمْ مَظْلُومٌ فَتُنْصَرُ ؟ قَالَ : فَنَحَبَ نَحْبَۃً ہَاجَ مَا یَلِیہِ مِنَ الْبَقْلِ حِینَ لَمْ یَذْکُرْ ذَنْبَہُ فَعِنْدَ ذَلِکَ غُفِرَ لَہُ ، فَإِذَا کَانَ یَوْمُ الْقِیَامَۃِ قَالَ لَہُ رَبُّہُ : کُنْ أَمَامِی ، فَیَقُولُ : أَیْ رَبِّ ذَنْبِی ذَنْبِی ، فَیَقُولُ لَہُ : کُنْ مِنْ خَلْفِی ، فَیَقُولُ : أَیْ رَبِّ ذَنْبِی ذَنْبِی ، فَیَقُولُ لَہُ : خُذْ بِقَدَمِی فَیَأْخُذُ بِقَدَمِہِ۔
(٣٢٥٤٩) مجاہد سے روایت ہے فرمایا کہ جب حضرت داؤد (علیہ السلام) سے غلطی ہوئی ، اور ان کی غلطی یہ تھی کہ جب انھوں نے اس عورت کو دیکھا تو اس کو دور کردیا، اور اس کے قریب نہیں گئے چنانچہ دو جھگڑنے والے آپ کے پاس آئے اور انھوں نے دیوار کو پھاندا، جب آپ نے ان کو دیکھا تو کھڑے ہو کر ان کے پاس گئے اور فرمایا کہ میرے پاس سے چلے جاؤ، تم یہاں کس غرض سے آئے ہو ؟ وہ کہنے لگے کہ ہم آپ سے تھوڑی سی بات کرنا چاہتے ہیں، میرے اس بھائی کی ننانوے مینڈھیاں ہیں اور میری ایک مینڈھی ہے اور یہ مجھ سے وہ ایک بھی لینا چاہتا ہے، حضرت داؤد (علیہ السلام) نے فرمایا کہ واللہ ! یہ اس کا مستحق ہے کہ اس کا یہاں سے یہاں تک کا جسم توڑ دیا جائے، یعنی ناک سے سینے تک، وہ آدمی کہنے لگا کہ داؤد نے یہ کام کردیا۔
چنانچہ حضرت داؤد (علیہ السلام) کو معلوم ہوگیا کہ وہ اس سے کیا مراد لے رہا ہے، اور ان کو اپنے گناہ کا علم ہوگیا، چنانچہ وہ چالیس دن رات سجدے میں رہے اور ان کا گناہ ان کے ہاتھ میں لکھا رہتا تاکہ کسی وقت بھول نہ جائیں، یہاں تک کہ ان کے آنسوؤں کی وجہ سے ان کے گرد خود رو سبزیاں اگ گئیں، چنانچہ انھوں نے چالیس دن کے بعد پکارا کہ پیشانی زخمی ہوگئی، اور آنکھ خشک ہوگئی اور داؤد کی غلطی کے بارے میں کوئی ذکر نہیں ہوا، چنانچہ پکارا گیا کیا کوئی بھوکا ہے کہ اس کو کھانا کھلایا جائے ؟ یا کوئی برہنہ ہے کہ اس کو پہنایا جائے ؟ یا کوئی مظلوم ہے کہ اس کی مدد کی جائے ؟ چنانچہ آپ اتنا روئے کہ جس سے آپ کے قریب کی گھاس زرد ہوگئی، اس وقت اللہ نے آپ کو معاف فرما دیا ، جب قیامت کا دن ہوگا تو اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ میرے سامنے آؤ، وہ عرض کریں گے کہ میرا گناہ ! اللہ فرمائیں گے کہ میرے پیچھے آؤ وہ کہیں گے کہ اے رب ! میرا گناہ، اللہ ان سے فرمائیں گے کہ میرے قدم پکڑ لو، چنانچہ وہ اللہ کے قدموں کو پکڑ لیں گے۔

32549

(۳۲۵۵۰) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِیِّ ، قَالَ : بَلَغَنَا أَنَّ دَاوُد نَبِیَّ اللہِ جَزَّأَ الصَّلاَۃَ عَلَی بُیُوتِہِ عَلَی نِسَائِہِ وَوَلَدِہِ ، فَلَمْ تَکُنْ تَأْتِی سَاعَۃٌ مِنَ اللَّیْلِ وَالنَّہَارِ إلاَّ وَإِنْسَانٌ قَائِمٌ مِنْ آلِ دَاوُد یُصَلِّی ، فَعَمَّتُہُمْ ہَذِہِ الآیَۃُ : {اعْمَلُوا آلَ دَاوُد شُکْرًا وَقَلِیلٌ مِنْ عِبَادِی الشَّکُورُ}۔
(٣٢٥٥٠) حضرت ثابت بنانی فرماتے ہیں کہ ہمیں یہ خبر پہنچی ہے کہ اللہ کے نبی داؤد (علیہ السلام) نے اپنے گھر کی عورتوں اور اپنی اولاد پر نماز کو تقسیم فرما دیا تھا، چنانچہ رات دن کی کوئی گھڑی ایسی نہ تھی کہ آل داؤد میں سے کوئی نہ کوئی شخص نماز نہ پڑھ رہا ہوتا، چنانچہ ا ن کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی { اعْمَلُوا آلَ دَاوُد شُکْرًا وَقَلِیلٌ مِنْ عِبَادِی الشَّکُورُ }۔

32550

(۳۲۵۵۱) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا مُعَاوِیَۃُ بْنُ عَبْدِ الْکَرِیمِ ، قَالَ : حَدَّثَنَا الْحَسَنُ : أَنَّ دَاوُد النَّبِیُّ عَلَیْہِ السَّلاَمُ قَالَ : إلَہِی ، وَلَوْ أَنَّ لِکُلِّ شَعَرَۃٍ مِنِّی لِسَانَیْنِ یُسَبِّحَانِکَ اللَّیْلَ وَالنَّہَارَ مَا قَضَیْت حَقَّ نِعْمَۃً مِنْ نِعَمِک عَلَیَّ۔
(٣٢٥٥١) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ حضرت داؤد (علیہ السلام) نے فرمایا کہ اگر میرے ہر بال کو دو زبانیں بھی عطا کردی جائیں اور وہ دن رات آپ کی تسبیح بیان کرتی رہیں تب بھی میں آپ کی نعمتوں میں سے ایک نعمت کا حق بھی ادا نہیں کرسکتا۔

32551

(۳۲۵۵۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ مِسْعَرٍ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ الأَقْمَرِ ، عَنْ أَبِی الأَحْوَصِ ، قَالَ : دَخَلَ الْخَصْمَانِ عَلَی دَاوُد عَلَیْہِ السَّلاَمُ وَکُلُّ وَاحِدٍ مِنْہُمَا أَخَذَ بِرَأْسِ صَاحِبِہِ۔
(٣٢٥٥٢) حضرت ابو الأحوص فرماتے ہیں کہ حضرت داؤد (علیہ السلام) کے پاس دو جھگڑا کرنے والے آئے، اور ہر ایک نے دوسرے کا سر پکڑ رکھا تھا۔

32552

(۳۲۵۵۳) حَدَّثَنَا خَلَفُ بْنُ خَلِیفَۃَ ، عَنْ أَبِی ہَاشِمٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ، قَالَ : إنَّمَا کَانَتْ فِتْنَۃُ دَاوُد النَّظَرَ۔
(٣٢٥٥٣) حضرت سعید بن جبیر سے روایت ہے فرمایا کہ حضرت داؤد (علیہ السلام) کی آزمائش ان کی نظر کا پڑنا تھی۔

32553

(۳۲۵۵۴) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ ، عَنْ أَبِی عَبْدِ اللہِ الْجَدَلِیِّ ، قَالَ : مَا رَفَعَ دَاوُد عَلَیْہِ السَّلاَمُ رَأْسَہُ إلَی السَّمَائِ حَتَّی مَاتَ۔
(٣٢٥٥٤) عطاء بن سائب حضرت عبداللہ بجلی سے روایت کرتے ہیں فرمایا کہ حضرت داؤد (علیہ السلام) نے موت تک آسمان کی طرف چہرہ نہیں اٹھایا۔

32554

(۳۲۵۵۵) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، قَالَ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ زَیْدٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، عَنِ الأَحْنَفِ بْنِ قَیْسٍ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : أَنَّ دَاوُد عَلَیْہِ السَّلاَمُ ، قَالَ : أَیْ رَبِ ، إنَّ بَنِی إسْرَائِیلَ یَسْأَلُونَک بِإِبْرَاہِیمَ وَإِسْحَاقَ وَیَعْقُوبَ فَاجْعَلْنِی یَا رَبِّ لَہُمْ رَابِعًا ، فَأَوْحَی اللَّہُ إلَیْہِ : أَنْ یَا دَاوُد إنَّ إبْرَاہِیمَ أُلْقِیَ فِی النَّارِ فِی سَبَبِی فَصَبَرَ ، وَتِلْکَ بَلِیَّۃٌ لَمْ تَنَلْک ، وَإِنَّ إِسْحَاقَ بَذَلَ مہجۃ نَفْسَہُ فِی سَبَبِی فَصَبَرَ فَتِلْکَ بَلِیَّۃٌ لَمْ تَنَلْک ، وَإِنَّ یَعْقُوبَ أَخَذْتَ حَبِیبَہُ حَتَّی ابْیَضَّتْ عَیْنَاہُ فَصَبَرَ وَتِلْکَ بَلِیَّۃٌ لَمْ تَنَلْک۔ (بزار ۱۳۰۷۔ طبری ۲۳)
(٣٢٥٥٥) حضرت احنف بن قیس نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت داؤد (علیہ السلام) نے فرمایا کہ اے رب ! بنی اسرائیل آپ سے حضرت ابراہیم، اسحاق اور یعقوب ۔ کے واسطے سے دعائیں کرتے ہیں، اے اللہ ! مجھے ان میں سے چوتھا بنادیجئے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف وحی فرمائی کہ ” ابراہیم کو میری وجہ سے آگ میں ڈالا گیا اور انھوں نے صبر کیا اور تمہیں ایسی آزمائش نہیں آئی، اور اسحاق نے میرے لیے اپنی جان قربان کی، اور صبر کیا، اور یہ آزمائش بھی تم پر نہیں آئی، اور میں نے یعقوب کے محبوب کو لے لیا یہاں تک کہ ان کی آنکھیں سفید ہوگئیں، انھوں نے بھی صبر کیا، اور یہ آزمائش بھی تم پر نہیں آئی۔

32555

(۳۲۵۵۶) قَالَ عَلِیُّ بْنُ زَیْدٍ: وَحَدَّثَنِی خَلِیفَۃُ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ: أَنَّ دَاوُد حَدَّثَ نَفْسَہُ إنِ اُبْتُلِیَ أَنْ یَعْتَصِمَ، فَقِیلَ لَہُ: إنَّک سَتُبْتَلَی وَتَعْلَمُ الْیَوْمَ الَّذِی تُبْتَلَی فِیہِ فَخُذْ حِذْرَک، فَقِیلَ لَہُ: ہَذَا الْیَوْمُ الَّذِی تُبْتَلَی فِیہِ، فَأَخَذَ الزَّبُورَ فَوَضَعَہُ فِی حِجْرِہِ وَأَغْلَقَ بَابَ الْمِحْرَابِ وَأَقْعَدَ مَنْصَفًا عَلَی الْبَابِ ، وَقَالَ : لاَ تَأْذَنْ لأَحَدٍ عَلَیَّ الْیَوْمَ۔ فَبَیْنَمَا ہُوَ یَقْرَأُ الزَّبُورَ إذْ جَائَ طَائِرٌ مُذْہَبٌ کَأَحْسَنِ مَا یَکُونُ الطَّیْرُ، فِیہِ مِنْ کُلِّ لَوْنٍ، فَجَعَلَ یَدْرُجُ بَیْنَ یَدَیْہِ فَدَنَا مِنْہُ ، فَأَمْکَنَ أَنْ یَأْخُذَہُ ، فَتَنَاوَلَہُ بِیَدِہِ لِیَأْخُذَہُ ، فَاسْتَوْفَزَہُ مِنْ خَلْفِہِ ، فَأَطْبَقَ الزَّبُورَ وَقَامَ إلَیْہِ لِیَأْخُذَہُ ، فَطَارَ فَوَقَعَ عَلَی کُوَّۃِ الْمِحْرَابِ ، فَدَنَا مِنْہُ أَیْضًا لِیَأْخُذَہُ فَوَقَعَ عَلَی خُصٍ ، فَأَشْرَفَ عَلَیْہِ لِیَنْظُرَ أَیْنَ وَقَعَ فَإِذَا ہُوَ بِالْمَرْأَۃِ عِنْدَ بِرْکَتِہَا تَغْتَسِلُ مِنَ الْمَحِیضِ ، فَلَمَّا رَأَتْ ظِلَّہُ حَرَّکَتْ رَأْسَہَا فَغَطَّتْ جَسَدَہَا بِشَعْرِہَا ، فَقَالَ دَاوُد لِلْمَنْصَفِ : اذْہَبْ فَقُلْ لِفُلاَنَۃَ تَجِیئُ ، فَأَتَاہَا فَقَالَ لَہَا : إنَّ نَبِیَّ اللہِ یَدْعُوک ، فَقَالَتْ : مَا لِی وَلِنَبِیِّ اللہِ ؟ إنْ کَانَتْ لَہُ حَاجَۃٌ فَلْیَأْتِنِی ، أَمَّا أَنَا فَلاَ آتِیہِ ، فَأَتَاہُ الْمَنْصَفُ فَأَخْبَرَہُ بِقَوْلِہَا ، فَأَتَاہَا: وَأَغْلَقَتِ الْبَابَ دُونَہُ، فَقَالَتْ: مَا لَک یَا دَاوُد، أَمَا تَعْلَمُ إِنَّہُ مَنْ فَعَلَ ہَذَا رَجَمْتُمُوہُا وَوَعَظَتْہُ فَرَجَعَ۔ وَکَانَ زَوْجُہَا غَازِیًا فِی سَبِیلِ اللہِ ، فَکَتَبَ دَاوُد عَلَیْہِ السَّلاَمُ إلَی أَمِیرِ الْمَغْزَی : اُنْظُرْ أُورْیًّا فَاجْعَلْہُ فِی حَمَلَۃِ التَّابُوتِ - وَکان حَمَلَۃِ التَّابُوتِ : إمَّا أَن یفتح علیہم ، وَإمَّا أَن یقتلو - فقدمہ فی حَمَلَۃِ التَّابُوتِ فَقُتِلَ ، فَلَمَّا انْقَضَتْ عِدَّتُہَا خَطَبَہَا فَاشْتَرَطَتْ عَلَیْہِ : إنْ وَلَدَتْ غُلاَمًا أَنْ یَجْعَلَہُ الْخَلِیفَۃَ مِنْ بَعْدِہِ ، وَأَشْہَدَتْ عَلَیْہِ خَمْسِینَ مِنْ بَنِی إسْرَائِیلَ وَکَتَبَتْ عَلَیْہِ بِذَلِکَ کِتَابًا ، فَمَا شَعَرَ لِفِتْنَتِہِ أنَّہُ فُتِنَ ، حَتَّی وَلَدَتْ سُلَیْمَانَ وَشَبَّ ، فَتَسَوَّرَ الْمَلکَانُ عَلَیْہِ الْمِحْرَابَ ، فَکَانَ مِنْ شَأْنِہِمَا مَا قَصَّ اللَّہُ وَخَرَّ دَاوُد سَاجِدًا فَغَفَرَ اللَّہُ لَہُ وَتَابَ ، وَتَابَ اللَّہُ عَلَیْہِ۔ فَطَلَّقَہَا وَجَفَا سُلَیْمَانَ وَأَبْعَدَہُ ، فَبَیْنَمَا ہُوَ مَعَہ فِی مَسِیرٍ لَہُ - وَہُوَ فِی نَاحِیَۃِ الْقَوْمِ - إذْ أَتَی عَلَی غِلْمَانٍ لَہُ یَلْعَبُونَ فَجَعَلُوا یَقُولُونَ : یَا لاَ دِّینُ ، یَا لاَ دِّینُ ، فَوَقَفَ دَاوُد ، فَقَالَ : مَا شَأْنُ ہَذَا یُسَمَّی لاَ دِّینَ ، فَقَالَ : سُلَیْمَانُ وَہُوَ فِی نَاحِیَۃِ الْقَوْمِ : أَمَا إِنَّہُ لَوْ سَأَلَنِی عَنْ ہَذِہِ لاَخْبَرْتہ بِأَمْرِہِ ، فَقِیلَ لِدَاوُدَ : إنَّ سُلَیْمَانَ قَالَ کَذَا وَکَذَا ، فَدَعَاہُ فَقَالَ : مَا شَأْنُ ہَذَا الْغُلاَمِ سُمِّیَ لاَ دِّینَ ؟ فَقَالَ : سَأَعْلَمُ لَک عِلْمَ ذَلِکَ ، فَسَأَلَ سُلَیْمَانُ عَنْ أَبِیہِ کَیْفَ کَانَ أَمْرُہُ ؟ فَقِیلَ لَہ : إنَّ أَبَاہُ کَانَ فِی سَفَرٍ لَہُ مَعَ أَصْحَابٍ لَہُ وَکَانَ کَثِیرَ الْمَالِ فَأَرَادُوا قَتْلَہُ ، فَأَوْصَاہُمْ ، فَقَالَ : إنِّی تَرَکْت امْرَأَتِی حُبْلَی ، فَإِنْ وَلَدَتْ غُلاَمًا فَقُولُوا لَہَا تُسَمِّیہِ لاَ دِّینَ ، فَبَعَثَ سُلَیْمَانُ إلَی أَصْحَابِہِ ، فَجَاؤُوا فَخَلاَ بِأَحَدِہِمْ فَلَمْ یَزَلْ حَتَّی أَقَرَّ ، وَخَلاَ بِالآخَرِینَ ، فَلَمْ یَزَلْ بِہِمْ حَتَّی أَقَرُّوا کُلُّہُمْ، فَرَفَعَہُمْ إلَی دَاوُد فَقَتَلَہُمْ فَعَطَفَ عَلَیْہِ بَعْضَ الْعَطْفِ۔ وَکَانَتِ امْرَأَۃٌ عَابِدَۃٌ مِنْ بَنِی إسْرَائِیلَ وَکَانَتْ تَبَتَّلَتْ ، وَکَانَتْ لَہَا جَارِیَتَانِ جَمِیلَتَانِ ، وَقَدْ تَبَتَّلَتِ الْمَرْأَۃُ لاَ تُرِیدُ الرِّجَالَ ، فَقَالَتْ إحْدَی الْجَارِیَتَیْنِ لِلأُخْرَی : قَدْ طَالَ عَلَیْنَا ہَذَا الْبَلاَئُ ، أَمَّا ہَذِہِ فَلاَ تُرِیدُ الرِّجَالَ ، وَلاَ نَزَالُ بِشَرٍّ مَا کُنَّا لَہَا ، فَلَوْ أَنَّا فَضَحْنَاہَا فَرُجِمَتْ ، فَصِرْنَا إلَی الرِّجَالِ ، فَأَخَذَتَا مَائَ الْبَیْضِ فَأَتَتَاہَا وَہِیَ سَاجِدَۃٌ فَکَشَفَتَا عنہا ثَوْبَہَا وَنَضَحَتَا فِی دُبُرِہَا مَائَ الْبَیْضِ وَصَرَخَتَا : أَنَّہَا قَدْ بَغَتْ ، وَکَانَ مَنْ زَنَی مِنْہُمْ حَدُّہُ الرَّجْمُ فَرُفِعَتْ إلَی دَاوُد عَلَیْہِ السَّلاَمُ وَمَائُ الْبَیْضِ فِی ثِیَابِہَا فَأَرَادَ رَجْمَہَا ، فَقَالَ سُلَیْمَانُ : أَمَا إِنَّہُ لَوْ سَأَلَنِی لاَنْبَأْتہ ، فَقِیلَ لِدَاوُدَ : إنَّ سُلَیْمَانَ قَالَ کَذَا وَکَذَا ، فَدَعَاہُ ، فَقَالَ : مَا شَأْنُ ہَذِہِ ؟ مَا أَمْرُہَا ؟ فَقَالَ : ائْتُونِی بِنَارٍ فَإِنَّہُ إنْ کَانَ مَائَ الرِّجَالِ تَفَرَّقَ ، وَإِنْ کَانَ مَائَ الْبَیْضِ اجْتَمَعَ ، فَأُتِیَ بِنَارٍ فَوَضَعَہَا عَلَیْہِ فَاجْتَمَعَ فَدَرَأَ عَنْہَا الرَّجْمَ ، وَعَطَفَ عَلَیْہِ بَعْضَ الْعَطْفِ وَأَحَبَّہُ۔ ثُمَّ کَانَ بَعْدَ ذَلِکَ أَصْحَابُ الْحَرْثِ وَأَصْحَابُ الشَّائِ ، فَقَضَی دَاوُد عَلَیْہِ السَّلاَمُ لأَصْحَابِ الْحَرْثِ بِالْغَنَمِ ، فَخَرَجُوا وَخَرَجَتِ الرُّعَائُ مَعَہُمَ الْکِلاَبُ ، فَقَالَ سُلَیْمَانُ : کَیْفَ قَضَی بَیْنَکُمْ ؟ فَأَخْبَرُوہُ ، فَقَالَ : لَوْ وُلِّیت أَمْرَہُمْ لَقَضَیْت بَیْنَہُمْ بِغَیْرِ ہَذَا الْقَضَائِ ، فَقِیلَ لِدَاوُدَ : إنَّ سُلَیْمَانَ یَقُولُ کَذَا وَکَذَا ، فَدَعَاہُ فَقَالَ: کَیْفَ تَقْضِی ؟ فَقَالَ : أَدْفَعُ الْغَنَمَ إلَی أَصْحَابِ الْحَرْثِ ہَذَا الْعَامَ فَیَکُونُ لَہُمْ أَوْلاَدُہَا وَسَلاَہَا وَأَلْبَابُہَا وَمَنَافِعُہَا لہم العام ، وَیَبْذُرُ ہَؤُلاَئِ مِثْلَ حَرْثِہِمْ ، فَإِذَا بَلَغَ الْحَرْثُ الَّذِی کَانَ عَلَیْہِ أَخَذَ ہَؤُلاَئِ الْحَرْثَ وَدَفَعَ ہَؤُلاَئِ إلَی ہَؤُلاَئِ الْغَنَمَ ، قَالَ : فَعَطَفَ عَلَیْہِ۔ قَالَ حَمَّادٌ : وَسَمِعْت ثَابِتًا یَقُولُ : ہُوَ أُورِیَّا۔
(٣٢٥٥٦) خلیفہ حضرت ابن عباس سے روایت کرتے ہیں ، فرمایا کہ حضرت داؤد (علیہ السلام) کے دل میں یہ بات آئی کہ اگر وہ آزمائش میں ڈالے جائیں گے تو محفوظ رہیں گے، ان سے کہا گیا کہ تم عنقریب آزمائش میں ڈالے جاؤ گے، اور تمہیں اس دن کا علم ہوجائے گا جس میں تمہیں آزمائش میں ڈالا جائے گا، اس لیے احتیاط رکھو، چنانچہ ان سے کہا گیا کہ آج تمہیں آزمایا جائے گا، چنانچہ آپ نے زبور پکڑی اور اپنی بغل میں لی اور محراب کا دروازہ بند کردیا اور دروازے پر خادم کو بٹھایا اور فرمایا کہ آج کسی کو مت آنے دینا۔
(٢) چنانچہ آپ زبور پڑھ رہے تھے کہ ایک خوبصورت پرندہ آیا جس میں مختلف رنگ تھے، اور وہ آپ کے پاس آنے لگا، اور قریب ہوگیا، اور آپ کو اسے اٹھانے کی قدرت ہوگئی، آپ نے اس کو ہاتھ میں لینے کا ارادہ کیا تو وہ کود کر آپ کے پیچھے چلا گیا، چنانچہ آپ نے زبور بند کی اور اس کو پکڑنے کے لیے اٹھے ، لیکن وہ اڑ کر محراب کے روشن دان پر بیٹھ گیا، آپ اس کے قریب ہوئے تو وہ ایک گھونسلے میں داخل ہوگیا، آپ نے اس کو جھانکا تاکہ اس کو دیکھیں کہ کہاں گیا ہے اچانک آپ کی نظر ایک عورت پر پڑی جو اپنے حوض کے پاس حیض کا غسل کر رہی تھی، جب اس نے آپ کا سایہ دیکھا تو اپنے سر کو حرکت دی اور اپنے جسم کو اپنے بالوں سے چھپالیا حضرت داؤد (علیہ السلام) نے خادم سے کہا کہ جاؤ اور فلاں عورت سے کہو کہ میرے پاس آئے ، اس نے جا کر اس عورت سے کہا کہ اللہ کے نبی تمہیں بلا رہے ہیں، وہ کہنے لگی کہ اللہ کے نبی سے مجھ کو کیا کام ؟ اگر انھیں کوئی ضرورت ہے تو میرے پاس آجائیں ، میں تو ان کے پاس نہیں جاتی، خادم آپ کے پاس آیا اور آپ کو اس کی بات بتائی، آپ اس کے پاس گئے تو اس نے دروازہ بند کرلیا اور کہنے لگی داؤد (علیہ السلام) تمہیں کیا ہوگیا ہے ؟ کیا تم نہیں جانتے کہ جو ایسا کرتا ہے تم اس کو سنگسار کرتے ہو ؟ اور اس نے آپ کو نصیحت کی تو آپ واپس لوٹ گئے۔
(٣) اور اس عورت کا شوہر اللہ کے راستے میں مجاہد تھا، چنانچہ حضرت داؤد (علیہ السلام) نے جہاد کے امیر کو حکم دیا کہ اوریا کو ” حملۃ التابوت “ میں شامل کردو، اور ” حملۃ التابوت “ وہ فوج تھی جن کو یا فتح حاصل ہوتی یا وہ قتل ہوجاتے تھے، چنانچہ اس نے اس کو ” حملۃ التابوت “ میں شامل کر کے آگے بھیج دیا، اور وہ قتل ہوگیا، جب اس عورت کی عدت ختم ہوئی تو آپ نے اس کو پیغام دیا، اس نے شرط لگائی کہ اگر اس کا لڑکا ہوا تو اس کو اپنے بعد خلیفہ بنائیں گے، اور اس پر بنی اسرائیل کے پچاس لوگوں کو گواہ بنایا، اور اس پر ایک تحریر لکھی، چنانچہ آپ کو اپنی آزمائش کا احساس ہی نہ ہوا، یہاں تک کہ اس نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو جنا اور وہ جوان ہوگئے، پھر دو فرشتے ان کے پاس محراب پھلانگ کر آئے اور ان کا قصہ اللہ نے قرآن میں بیان فرمایا ہے، اور داؤد (علیہ السلام) سجدے میں گرگئے ، چنانچہ اللہ نے ان کی مغفرت فرما دی اور ان کی توبہ قبول فرما لی۔
(٤) چنانچہ انھوں نے اس کو طلاق دے دی اور سلیمان (علیہ السلام) کو دور کردیا، چنانچہ اس دوران ایک مرتبہ آپ ایک میدان سے گزر رہے تھے کہ اپنے لڑکوں کے پاس پہنچے جو کہہ رہے تھے، اے لادین ! اے لادین ! حضرت داؤد (علیہ السلام) ٹھہر گئے اور پوچھا کہ اس کا نام ” لادین “ کیوں رکھا گیا ہے ؟ سلیمان (علیہ السلام) جو ایک کونے میں تھے کہنے لگے کہ اگر مجھ سے پوچھیں تو میں ان کو بتادوں گا، داؤد (علیہ السلام) سے کہا گیا کہ سلیمان اس طرح کہہ رہے ہیں، آپ نے ان کو بلایا اور کہا کہ اس لڑکے کا نام ” لادین “ کیوں رکھا گیا ہے ؟ انھوں نے کہا کہ میں آپ کو اس کے بارے میں بتاتا ہوں، حضرت سلیمان نے اس سے اس کے والد کے قصّے کے بارے میں پوچھا، تو ان کو بتایا گیا کہ اس کے والد اپنے ساتھیوں کے ساتھ ایک سفر پر گئے تھے، اور وہ بہت مالدار تھے، لوگوں نے ان کو قتل کرنے کا ارادہ کیا تو انھوں نے ان کو وصیت کی کہ میں نے اپنی بیوی کو حاملہ چھوڑا ہے، اگر وہ لڑکا جنے گا تو اس سے کہنا کہ اس کا نام ” لادین “ رکھے، چنانچہ حضرت سلیمان نے اس کے ساتھیوں کو بلایا، وہ آئے تو انھوں نے ان میں سے ایک کے ساتھ خلوت کی، اور اس سے بات کرتے رہے یہاں تک کہ اس نے اقرار کرلیا، اور دوسروں کے ساتھ خلوت کی تو ان سے باتیں کرتے رہے یہاں تک کہ سب نے اقرار کرلیا، چنانچہ انھوں نے ان کو حضرت داؤد (علیہ السلام) کے پاس بھیج دیا اور انھوں نے ان کو قتل کردیا، چنانچہ آپ اس کے بعد ان پر کچھ مہربان ہوگئے۔
(٥) اور بنی اسرائیل میں ایک عابدہ عورت تھی اور وہ رہبانیت اختیار کیے ہوئے تھی ، اس کی دو خوبصورت باندیاں تھیں، اور وہ عورت مردوں سے کوئی تعلق نہ رکھتی تھی، چنانچہ ان میں سے ایک باندی نے دوسری سے کہا کہ ہم پر یہ مصیبت لمبی ہوگئی ہے، یہ تو مردوں کو چاہتی نہیں، اور ہم جب تک اس کے پاس رہیں گی بری حالت میں رہیں گی، کیا اچھا ہو اگر ہم اس کو رسوا کردیں اور اس کو سنگسار کردیا جائے اور ہم مردوں کے پاس پہنچ جائیں، چنانچہ انھوں نے انڈے کا پانی لیا اور اس کے پاس آئیں جبکہ وہ سجدے میں تھی اور اس کے کپڑے کو ہٹایا اور اس کی دبر میں انڈے کا پانی ڈال دیا، اور شور کردیا کہ اس نے زنا کیا ہے ، اور ان میں زانی کی سزا سنگسار تھی، چنانچہ حضرت داؤد (علیہ السلام) کے پاس معاملہ آیا، جبکہ اس کے کپڑوں پر انڈے کا پانی لگا ہوا تھا، آپ نے اس کو سنگسار کرنے کا ارادہ کیا، تو حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے فرمایا کہ اگر یہ مجھ سے سوال کریں تو میں ان کو بتاؤں، حضرت داؤد (علیہ السلام) سے کہا گیا کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) ایسا ایسا کہتے ہیں۔ آپ نے ان کو بلایا اور کہا کہ اس کا کیا قصہ ہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ میرے پاس آگ لاؤ، اگر یہ مردوں کا پانی ہوگا تو جدا جدا ہوا جائے گا، اور اگر انڈے کا پانی ہوا تو اکٹھا ہوجائے گا، چنانچہ آگ لائی گئی، آپ نے اس پر آگ کو رکھا تو وہ جمع ہوگیا، چنانچہ آپ نے اس سے رجم کو ساقط کردیا، اور اس کے بعد آپ حضرت سلیمان پر اور مہربان ہوگئے اور ان سے محبت کرنے لگے۔
(٦) اس کے بعد کھیت والوں اور بکریوں والوں کا قصہ پیش آیا، حضرت داؤد (علیہ السلام) نے کھیت والوں کے لیے بکریوں کا فیصلہ فرما دیا، وہ نکلے اور چرواہے بھی نکلے جن کے ساتھ کتے تھے، چنانچہ حضرت سلیمان نے ان سے کہا کہ انھوں نے تمہارے درمیان کیا فیصلہ کیا ہے ؟ انھوں نے بتایا تو آپ نے کہا کہ اگر ان کا معاملہ میرے سپرد ہوتا تو میں ان کے درمیان کوئی اور فیصلہ کرتا، حضرت داؤد (علیہ السلام) کو یہ بات بتائی گئی تو انھوں نے ان کو بلایا اور پوچھا کہ آپ کیسے فیصلہ کریں گے ؟ انھوں نے کہا کہ میں اس سال کے لیے کھیت والوں کو بکریاں دوں گا اور ان کے بچے اور دودھ اور منافع اس سال ان کو ملیں گے، اور یہ لوگ ان کے لیے ان کے کھیت میں بیج ڈالیں گے، جب پہلے کی طرح کھیت ہوجائے تو یہ لوگ کھیت لے لیں، اور ان کی بکریاں دے دیں، کہتے ہیں کہ اس کے بعد آپ ان پر مہربان ہوگئے۔
حماد کہتے ہیں کہ میں نے ثابت کو فرماتے سنا کہ وہ شخص اور یا تھا۔

32556

(۳۲۵۵۷) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنِ الْفَزَارِیِّ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنِ الْمِنْہَالِ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ الْحَارِثِ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : أَوْحَی اللَّہُ إلَی دَاوُد عَلَیْہِ السَّلاَمُ أَنْ : قُلْ لِلظَّلَمَۃِ : لاَ یَذْکُرُونِی ، فَإِنَّہُ حَقٌّ عَلَیَّ أَنْ أَذْکُرَ مَنْ ذَکَرَنِی ، وَإِنَّ ذِکْرِی إیَّاہُمْ أَنْ أَلْعَنْہُمْ۔
(٣٢٥٥٧) عبداللہ بن حارث حضرت ابن عباس سے روایت کرتے ہیں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد (علیہ السلام) کو وحی کی کہ ظالموں سے کہو کہ میرا ذکر نہ کیا کریں، کیونکہ ذکر کرنے والے کا مجھ پر حق یہ ہے کہ میں اس کا ذکر کرتا ہوں، اور ظالموں کے لیے میرا ذکر یہ ہے کہ میں ان پر لعنت کرتا ہوں۔

32557

(۳۲۵۵۸) حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا شَرِیک ، عَنِ السُّدِّیِّ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : مَاتَ دَاوُد عَلَیْہِ السَّلاَمُ یَوْمَ السَّبْتِ فُجَأۃً وَکَانَ یَسبِت ، فَعَکَفَتِ الطَّیْرُ عَلَیْہِ تُظِلُّہُ۔
(٣٢٥٥٨) سعید بن جبیر حضرت ابن عباس سے روایت کرتے ہیں فرمایا کہ حضرت داؤد (علیہ السلام) اچانک ہفتے کے دن فوت ہوگئے ، اور آپ ہفتے کو عبادت کیا کرتے تھے ، چنانچہ پرندوں نے آپ پر سایہ کیا۔

32558

(۳۲۵۵۹) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ أَبِی بُکَیْرٍ، قَالَ: حدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ الْمُہَلَّبِ أَبُو کُدَیْنَۃَ ، عَنْ عَطَائٍ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ : {یَا جِبَالُ أَوِّبِی مَعَہُ} قَالَ : سَبِّحِی۔
(٣٢٥٥٩) سعید بن جبیر بھی حضرت ابن عباس سے روایت کرتے ہیں کہ { یَا جِبَالُ أَوِّبِی مَعَہُ } کا مطلب ہے اے پہاڑو ! تسبیح کرو۔

32559

(۳۲۵۶۰) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ وَوَکِیعٌ ، عَنْ مِسْعَرٍ ، عَنْ أَبِی حَصِینٍ ، عَنْ أَبِی عَبْدِ الرَّحْمَنِ : {یَا جِبَالُ أَوِّبِی مَعَہُ} قَالَ : سَبِّحِی۔
(٣٢٥٦٠) ابو حصین حضرت ابو عبد الرحمن سے روایت کرتے ہیں کہ { یَا جِبَالُ أَوِّبِی مَعَہُ } کا مطلب ہے اے پہاڑو ! تسبیح کرو۔

32560

(۳۲۵۶۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، عَنْ سُفْیَانَ، عَنْ لَیْثٍ، عَنْ مُجَاہِدٍ، قَالَ: بَکَی مِنْ خَطِیئَتِہِ حَتَّی ہَاجَ مَا حَوْلَہُ مِنْ دُمُوعِہِ۔
(٣٢٥٦١) مجاہد فرماتے ہیں کہ آپ اپنی غلطی پر اتنا روئے کہ آنسوؤں سے آپ کے ارد گرد کی گھاس زرد ہوگئی۔

32561

(۳۲۵۶۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِی مَیْسَرَۃَ : {أَوِّبِی} قَالَ : سَبِّحِی۔
(٣٢٥٦٢) ابو میسرہ فرماتے ہیں کہ { أَوِّبِی } کا معنی ہے تسبیح کرو۔

32562

(۳۲۵۶۳) حَدَّثَنَا وَکِیعُ بْنُ الْجَرَّاحِ ، عَنْ إسْرَائِیلَ ، عَنْ سِمَاکٍ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ {لَمْ نَجْعَلْ لَہُ مِنْ قَبْلُ سَمِیًّا} قَالَ : لَمْ یُسَمَّ أَحَدٌ قَبْلَہُ یَحْیَی۔
(٣٢٥٦٣) عکرمہ حضرت ابن عباس سے روایت کرتے ہیں فرمایا { لَمْ نَجْعَلْ لَہُ مِنْ قَبْلُ سَمِیًّا } کی تفسیر یہ ہے کہ آپ سے پہلے کسی کا نام یحییٰ نہیں رکھا۔

32563

(۳۲۵۶۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنِ ابْنِ أَبِی نَجِیحٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، قَالَ : مِثْلَہُ۔
(٣٢٥٦٤) مجاہد سے بھی اس جیسی روایت منقول ہے۔

32564

(۳۲۵۶۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ بْنِ سُلَیْمَانَ الْعَبْدِیِّ ، عَنْ رَجُلٍ مِنْہُمْ یُقَالُ لَہُ : مَہْدِیٌّ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ : {وَآتَیْنَاہُ الْحُکْمَ صَبِیًّا} قَالَ : اللُّبُّ۔
(٣٢٥٦٥) مہدی عکرمہ سے { وَآتَیْنَاہُ الْحُکْمَ صَبِیًّا } کا معنی نقل کرتے ہیں کہ اس سے مراد عقل ہے۔

32565

(۳۲۵۶۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ رَجُلٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ : {وَآتَیْنَاہُ الْحُکْمَ صَبِیًّا} قَالَ : الْقُرْآنَ۔
(٣٢٥٦٦) مجاہد { وَآتَیْنَاہُ الْحُکْمَ صَبِیًّا } کا معنی نقل کرتے ہیں کہ اس سے مراد قرآن ہے۔

32566

(۳۲۵۶۷) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ مَنْصُورِ بْنِ صَفِیَّۃَ ، عَنْ أُمِّہِ ، قَالَ : دَخَلَ ابْنُ عُمَرَ الْمَسْجِدَ وَابْنُ الزُّبَیْرِ مَصْلُوبٌ ، فَقَالُوا : ہذہ أَسْمَائُ ، قَالَ : فَأَتَاہَا فَذَکَّرَہَا وَوَعَظَہَا ، وَقَالَ لَہَا : إنَّ الْجِیفَۃَ لَیْسَتْ بِشَیْئٍ ، وَإِنَّمَا الأَرْوَاحُ عِنْدَ اللہِ فَاصْبِرِی وَاحْتَسِبِی ، قَالَتْ : وَمَا یَمْنَعنی مِنَ الصَّبْرِ وَقَدْ أُہْدِیَ رَأْسُ یَحْیَی بْنِ زَکَرِیَّا إلَی بَغِیٍّ مِنْ بَغَایَا بَنِی إسْرَائِیلَ۔
(٣٢٥٦٧) منصور بن صفیہ اپنی والدہ سے روایت کرتے ہیں فرمایا کہ حضرت ابن عمر مسجد میں داخل ہوئے جب کہ ابن زبیر (رض) کو سولی پر لٹکایا ہوا تھا، لوگ کہنے لگے کہ یہ حضرت اسماء تشریف فرما ہیں، آپ ان کے پاس گئے ، ان کو وعظ و نصیحت کی اور فرمایا کہ جسم کوئی چیز نہیں بلکہ اللہ کے پاس تو روحیں پہنچتی ہیں، اس لیے تم صبر کرو اور ثواب کی امید رکھو، انھوں نے فرمایا کہ مجھے صبر سے کیا چیز روکے گی جبکہ یحییٰ بن زکریا (علیہ السلام) کا سر بنی اسرائیل کی زانیہ کو دیا گیا تھا ؟

32567

(۳۲۵۶۸) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : مَا قُتِلَ یَحْیَی بْنُ زَکَرِیَّا إلاَّ فِی امْرَأَۃٍ بَغِیٍّ ، قَالَتْ لِصَاحِبِہَا : لاَ أَرْضَی عَنْک حَتَّی تَأْتِیَنِی بِرَأْسِہِ ، قَالَ : فَذَبَحَہُ فَأَتَاہَا بِرَأْسِہِ فِی طَسْتٍ۔
(٣٢٥٦٨) حضرت عروہ فرماتے ہیں کہ حضرت یحییٰ بن زکریا (علیہ السلام) کو ایک زانیہ عورت کی خاطر قتل کیا گیا تھا جس نے اپنے ساتھی سے کہا تھا کہ میں تجھ سے اس وقت تک راضی نہ ہوں گی جب تک تو میرے پاس ان کا سر نہ لائے، کہتے ہیں کہ اس نے ان کو ذبح کیا اور ایک طشت میں اس کے پاس ان کا سر لے آیا۔

32568

(۳۲۵۶۹) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ مُجَاہِدٍ: فِی قَوْلِہِ: {لَمْ نَجْعَلْ لَہُ مِنْ قَبْلُ سَمِیًّا} قَالَ: مِثْلَہُ فِی الْفَضْلِ۔
(٣٢٥٦٩) مجاہد سے { لَمْ نَجْعَلْ لَہُ مِنْ قَبْلُ سَمِیًّا } کی تفسیر میں منقول ہے کہ اس سے مراد ان جیسی فضیلت ہے۔

32569

(۳۲۵۷۰) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو ، قَالَ : مَا مِنْ أَحَدٍ إلاَّ وَقَدْ أَخْطَأَ ، أَوْ ہَمَّ بِخَطِیئَۃٍ ، لَیْسَ یَحْیَی بْنَ زَکَرِیَّا ، ثُمَّ قَرَأَ : {وَسَیِّدًا وَحَصُورًا} ، ثُمَّ رَفَعَ مِنَ الأَرْضِ شَیْئًا ، ثُمَّ قَالَ : مَا کَانَ مَعَہُ إلاَّ مِثْلُ ہَذَا۔
(٣٢٥٧٠) سعید بن مسیب حضرت عبداللہ بن عمرو سے روایت کرتے ہیں فرمایا کہ ہر شخص نے یا تو غلطی کی یا غلطی کا ارادہ کیا سوائے یحییٰ بن زکریا (علیہ السلام) کے، پھر آپ نے پڑھا { وَسَیِّدًا وَحَصُورًا } پھر زمین سے ایک چیز اٹھائی اور فرمایا کہ ان کے پاس اس سے بڑھ کر کچھ نہیں تھا۔

32570

(۳۲۵۷۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ شَرِیکٍ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنْ سَعِیدٍ : {وَسَیِّدًا وَحَصُورًا} قَالَ : الْحَلِیمُ۔
(٣٢٥٧١) حضرت سعید سے { وَسَیِّدًا وَحَصُورًا } کا معنی منقول ہے، ” بردبار “۔

32571

(۳۲۵۷۲) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ زَیْدٍ ، عَنْ یُوسُفَ بْنِ مِہْرَانَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : مَا مِنْ أَحَدٍ إلاَّ وَقَدْ أَخْطَأَ ، أَوْ ہَمَّ بِخَطِیئَۃٍ إلاَّ یَحْیَی بْنَ زَکَرِیَّا۔ (احمد ۲۹۵۔ ابویعلی ۲۵۳۸)
(٣٢٥٧٢) حضرت ابن عباس نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کرتے ہیں فرمایا کہ ہر شخص نے یا تو غلطی کی یا غلطی کا ارادہ کیا، سوائے یحییٰ بن زکریا (علیہ السلام) کے۔

32572

(۳۲۵۷۳) حَدَّثَنَا شَبَابَۃُ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنِ الْحَکَمِ ، عَنْ مُجَاہِدٍ : {لَمْ نَجْعَلْ لَہُ مِنْ قَبْلُ سَمِیًّا} قَالَ : شِبْہًا۔
(٣٢٥٧٣) مجاہد سے { لَمْ نَجْعَلْ لَہُ مِنْ قَبْلُ سَمِیًّا } کے تحت منقول ہے کہ اس کا معنی یہ ہے کہ ان جیسا کوئی نہیں بنایا گیا۔

32573

(۳۲۵۷۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إسْرَائِیلَ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو ، قَالَ : ذُو الْقَرْنَیْنِ نَبِیٌّ۔
(٣٢٥٧٤) مجاہد حضرت عبداللہ بن عمرو سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت ذوالقرنین نبی تھے۔

32574

(۳۲۵۷۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ الْعَلاَئِ بْنِ عَبْدِ الْکَرِیمِ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، قَالَ : کَانَ مَلِکَ الأَرْضِ۔
(٣٢٥٧٥) مجاہد ایک اور سند سے روایت کرتے ہیں فرمایا کہ وہ پوری زمین کے بادشاہ تھے۔

32575

(۳۲۵۷۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، عَنْ بَسَّامٍ، عَنْ أَبِی الطُّفَیْلِ، عَنْ عَلِیٍّ، قَالَ: کَانَ رَجُلاً صَالِحًا، نَاصَحَ اللَّہَ فَنَصَحَہُ فَضُرِبَ عَلَی قَرْنِہِ الأَیْمَنِ فَمَاتَ فَأَحْیَاہُ اللَّہُ ، ثُمَّ ضُرِبَ عَلَی قَرْنِہِ الأَیْسَرِ فَمَاتَ فَأَحْیَاہُ اللَّہُ ، وَفِیکُمْ مِثْلُہُ۔
(٣٢٥٧٦) ابو طفیل حضرت علی سے روایت کرتے ہیں فرمایا کہ آپ نیک آدمی تھے ، آپ نے اللہ سے خیر خواہی کا اظہار کیا تو اللہ نے آپ کی دستگیری فرمائی، چنانچہ ان کے سر کی دائیں جانب مارا گیا اور وہ فوت ہوگئے تو اللہ نے ان کو زندگی دے دی، پھر ان کے سر کی بائیں جانب مارا گیا اور وہ فوت ہوئے تو اللہ نے پھر ان کو زندگی دے دی، اور تم میں ان جیسے موجود ہیں۔

32576

(۳۲۵۷۷) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ حَبِیبِ بْنِ أَبِی ثَابِتٍ ، عَنْ أَبِی الطُّفَیْلِ ، قَالَ : سُئِلَ عَلِیٌّ عَنْ ذِی الْقَرْنَیْنِ ؟ فَقَالَ : لَمْ یَکُنْ نَبِیًّا ، وَلاَ مَلِکًا ، وَلَکِنَّہُ کَانَ عَابِدًا نَاصَحَ اللَّہَ فَنَصَحَہُ ، فَدَعَا قَوْمَہُ إلَی اللہِ فَضُرِبَ عَلَی قَرْنِہِ الأَیْمَنِ فَمَاتَ فَأَحْیَاہُ اللَّہُ ، ثُمَّ دَعَا قَوْمَہُ إلَی اللہِ فَضُرِبَ عَلَی قَرْنِہِ الأَیْسَرِ فَمَاتَ فَأَحْیَاہُ اللَّہُ فَسُمِّیَ ذَا الْقَرْنَیْنِ۔
(٣٢٥٧٧) ابو طفیل ایک دوسری سند سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی سے ذوالقرنین کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ وہ نبی تھے نہ بادشاہ ، بلکہ وہ ایک نیک بندے تھے جنہوں نے اللہ سے خیرخواہی کی تو اللہ نے ان کے ساتھ خیر خواہی کی، چنانچہ آپ نے اپنی قوم کو اللہ کی طرف دعوت دی، اور آپ کے سر کے دائیں جانب مارا گیا اور وہ مرگئے تو اللہ نے ان کو پھر زندہ کردیا، اور پھر انھوں نے اپنی قوم کو اللہ کی طرف بلایا ، اور دوبارہ ان کے سر کی بائیں جانب مارا گیا تو وہ دوبارہ مرگئے ، چنانچہ اللہ نے ان کو دوبارہ زندہ کردیا، اس لیے ان کا نام ” ذوالقرنین “ مشہور ہوگیا۔

32577

(۳۲۵۷۸) حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ بْنُ مُوسَی ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ سِمَاکٍ ، عَنْ حَبِیبِ بْنِ حِمَازٍ ، قَالَ : قیلَ لِعَلِیٍّ : کَیْفَ بَلَغَ ذُو الْقَرْنَیْنِ الْمَشْرِقَ وَالْمَغْرِبَ ؟ قَالَ : سُخِّرَ لَہُ السَّحَابُ ، وَبُسِطَ لَہُ النُّورُ ، وَمُدَّ لَہُ الأَسْبَابُ ، ثُمَّ قَالَ : أَزِیدُک ؟ قَالَ : حَسْبِی۔
(٣٢٥٧٨) حبیب بن حماز کہتے ہیں کہ حضرت علی سے پوچھا گیا کہ ذوالقرنین مشرق اور مغرب تک کیسے پہنچے ؟ آپ نے فرمایا کہ آپ کے لیے بادل کو مسخر کردیا گیا، اور آپ کے لیے نور کو بچھا دیا گیا اور اسباب وسیع کردیے گئے ، پھر آپ نے فرمایا کہ اور بتاؤں ؟ اس نے کہا بس کافی ہے۔

32578

(۳۲۵۷۹) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ حُصَیْنٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، قَالَ : لَمْ یَمْلِکَ الأَرْضَ کُلَّہَا إلاَّ أَرْبَعَۃٌ : مُسْلِمَانِ وَکَافِرَانِ ، فَأَمَّا الْمُسْلِمَانِ : فَسُلَیْمَانُ بْنُ دَاوُد ، وَذُو الْقَرْنَیْنِ ، وَأَمَّا الْکَافِرَانِ فَبُخْتَ نُصَّرَ ، وَالَّذِی حَاجَّ إبْرَاہِیمَ فِی رَبِّہِ۔
(٣٢٥٧٩) مجاہد فرماتے ہیں کہ پوری سر زمین کے بادشاہ صرف چار ہوئے ہیں، دو مسلمان اور دو کافر، مسلمان تو حضرت سلیمان بن داؤد اور ذوالقرنین ہیں، اور کافر ایک تو بخت نصر اور دوسرا وہ ہے جس نے ابراہیم (علیہ السلام) سے ان کے رب کے بارے میں جھگڑا کیا۔

32579

(۳۲۵۸۰) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ، عَنْ یُونُسَ، عَنِ الْحَسَنِ، قَالَ: أُلْقِیَ یُوسُفُ فِی الْجُبِّ وَہُوَ ابْنُ سَبْعَ عَشْرَۃَ سَنَۃً، وَکَانَ فِی الْعُبُودِیَّۃِ وَفِی السِّجْنِ وَفِی الْمُلْکِ ثَمَانِینَ سَنَۃً ، ثُمَّ جُمِعَ شَمْلُہُ فَعَاشَ بَعْدَ ذَلِکَ ثَلاَثًا وَعِشْرِینَ سَنَۃً۔
(٣٢٥٨٠) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) سترہ برس کی عمر میں کنویں میں ڈالے گئے، اور آپ نے غلامی اور قید اور بادشاہت میں اسّی سال کا عرصہ گزارا ، پھر آپ کا خاندان مجتمع ہوا تو اس کے بعد آپ اسّی سال زندہ رہے۔

32580

(۳۲۵۸۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، عَنْ رَبِیعَۃَ الْجُرَشِیِّ ، قَالَ : قسِمَ الْحُسْنُ نِصْفَیْنِ ، فَأُعْطِیَ یُوسُفُ وَأُمُّہُ نِصْفَ حُسْنِ الْخَلْقِ ، وَسَائِرُ الْخَلْقِ نِصْفًا۔
(٣٢٥٨١) ربیعہ جرشی سے روایت ہے کہ حسن کے دو حصّے کئے گئے، چنانچہ حضرت یوسف اور ان کی والدہ کو آدھا حسن عطا کیا گیا، اور باقی تمام مخلوق کو آدھا عطا کیا گیا۔

32581

(۳۲۵۸۲) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ أَبِی سَعِیدٍ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : سُئِلَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَنْ أَکْرَمُ النَّاسِ ؟ قَالَ : أَتْقَاہُمْ لِلَّہِ ، قَالُوا : لَیْسَ ، عَنْ ہَذَا نَسْأَلُک ، قَالَ : فَأَکْرَمُ النَّاسِ یُوسُفُ نَبِیُّ اللہِ ، بْنُ نَبِیِّ اللہِ ، بْنِ نَبِیِّ اللہِ ، بْنِ خَلِیلِ اللہِ صَلَوَاتُ اللہِ عَلَیْہِمْ۔ (بخاری ۳۳۷۴۔ مسلم ۱۸۴۶)
(٣٢٥٨٢) حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا گیا کہ سب سے زیادہ کریم کون ہے ؟ فرمایا جو سب سے زیادہ متقی ہو، اس نے کہا کہ ہم آپ سے یہ نہیں پوچھ رہے تو آپ نے فرمایا کہ پھر سب سے کریم اللہ کے نبی یوسف (علیہ السلام) ہیں جو اللہ کے نبی کے بیٹے اور ان کے والد اللہ کے نبی کے بیٹے اور ان کے والد اللہ کے خلیل کے بیٹے ہیں۔ علیھم السلام۔

32582

(۳۲۵۸۳) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَنْ ثَابِتٍ ، عَنْ أَنَسٍ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : أُعْطِیَ یُوسُفُ شَطْرَ الْحُسْنِ۔
(٣٢٥٨٣) حضرت انس روایت کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ یوسف (علیہ السلام) کو آدھا حسن عطا کیا گیا۔

32583

(۳۲۵۸۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِی الأَحْوَصِ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : أُعْطِیَ یُوسُفُ عَلَیْہِ السَّلاَمُ وَأُمُّہُ ثُلُثَ حُسْنِ الْخَلْقِ۔
(٣٢٥٨٤) حضرت عبداللہ فرماتے ہیں کہ یوسف (علیہ السلام) اور ان کی والدہ کو مخلوق کے حسن کے ایک تہائی حصّہ عطا کیا گیا۔

32584

(۳۲۵۸۵) حَدَّثَنَا وَکِیع ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُدَیْرٍ ، عَنْ أَبِی مِجْلَزٍ ، قَالَ : جَائَ عَبْدُ اللہِ بْنُ عَبَّاسٍ إلَی ابْنِ سَلاَمٍ ، فَقَالَ : إنِّی أُرِیدُ أَنْ أَسْأَلَک عَنْ ثَلاَثٍ ، قَالَ : تَسْأَلُنِی وَأَنْتَ تَقْرَأُ الْقُرْآنَ ؟ قَالَ : نَعَمْ ، قَالَ : فَسَلْ ، قَالَ أَخْبِرْنِی عَنْ تُبَّعٍ مَا کَانَ ؟ وَعَنْ عُزَیْرٍ مَا کَانَ ؟ وَعَنْ سُلَیْمَانَ لِمَ تَفَقَّدَ الْہُدْہُدَ ؟۔ فَقَالَ : أَمَّا تُبَّعٌ : فَکَانَ رَجُلاً مِنَ الْعَرَبِ ، فَظَہَرَ عَلَی النَّاسِ وسبی فِتْیَۃً مِنَ الأَحْبَارِ فَاسْتَدْخَلَہُمْ ، وَکَانَ یُحَدِّثُہُمْ وَیُحَدِّثُونَہُ ، فَقَالَ قَوْمُہُ : إنَّ تُبَّعًا قَدْ تَرَکَ دِینَکُمْ وتَابَعَ الْفِتْیَۃَ ، فَقَالَ تُبَّعٌ لِلْفِتْیَۃِ : قَدْ تَسْمَعُونَ مَا قَالَ ہَؤُلاَئِ ، قَالُوا : بَیْنَنَا وَبَیْنَہُمَ النَّارُ الَّتِی تُحْرِقُ الْکَاذِبَ وَیَنْجُو مِنْہَا الصَّادِقُ ، قَالُوا : نَعَمْ ، قَالَ تُبَّعٌ لِلْفِتْیَۃِ : اُدْخُلُوہَا ، قَالَ : فَتَقَلَّدُوا مَصَاحِفَہُمْ فَدَخَلُوہَا ، فَانْفَرَجَتْ لَہُمْ حَتَّی قَطَعُوہَا ، ثُمَّ قَالَ لِقَوْمِہِ : اُدْخُلُوہَا ، فَلَمَّا دَخَلُوہَا سَفَعَتِ النَّارُ وُجُوہَہُمْ فَنَکَصُوا ! فَقَالَ : لَتَدْخُلُنَّہَا ، قَالَ : فَدَخَلُوہَا فَانْفَرَجَتْ لَہُمْ ، حَتَّی إذَا تَوَسَّطُوہَا أَحَاطَتْ بِہِمْ فَأَحْرَقَتْہُمْ۔ قَالَ : فَأَسْلَمَ تُبَّعٌ وَکَانَ رَجُلاً صَالِحًا۔ وَأَمَّا عُزَیْرٌ : فَإِنَّ بَیْتَ الْمَقْدِسِ لَمَّا خَرِبَ وَدَرَسَ الْعِلْمُ وَمُزِّقَت التَّوْرَاۃُ ، کَانَ یَتَوَحَّشُ فِی الْجِبَالِ ، فَکَانَ یَرِدُ عَیْنًا یَشْرَبُ مِنْہَا ، قَالَ : فَوَرَدَہَا یَوْمًا فَإِذَا امْرَأَۃٌ قَدْ تَمَثَّلَتْ لَہُ ، فَلَمَّا رَآہَا نَکَصَ ، فَلَمَّا أَجْہَدَہُ الْعَطَشُ أَتَاہَا فَإِذَا ہِیَ تَبْکِی ، قَالَ : مَا یُبْکِیک ؟ قَالَتْ : أَبْکِی عَلَی ابْنِی ، قَالَ : کَانَ ابْنُک یَرْزُقُ ؟ قَالَتْ : لاَ ، قَالَ : کَانَ یَخْلُقُ ؟ قَالَتْ : لاَ ، قَالَ : فَلاَ تَبْکِینَ عَلَیْہِ ، قَالَتْ : فَمَنْ أَنْتَ ؟ أَتُرِیدُ قَوْمَک ؟ اُدْخُلْ ہَذَہ الْعَیْنَ فَإِنَّک سَتَجِدُہُمْ ، قَالَ : فَدَخَلَہَا ، قَالَ : فَکَانَ کُلَّمَا دَخَلَہَا زِیدَ فِی عِلْمِہِ حَتَّی انْتَہَی إلَی قَوْمِہِ ، وَقَدْ رَدَّ اللَّہُ إلَیْہِ عِلْمَہُ ، فَأَحْیَا لَہُمَ التَّوْرَاۃَ وَأَحْیَا لَہُمَ الْعِلْمَ ، قَالَ : فَہَذَا عُزَیْرٌ۔ وَأَمَّا سُلَیْمَانُ : فَإِنَّہُ نَزَلَ مَنْزِلاً فِی سَفَرٍ فَلَمْ یَدْرِ مَا بُعْدُ الْمَائِ مِنْہُ ، فَسَأَلَ مَنْ یَعْلَمُ عِلْمَہُ ؟ فَقَالُوا : الْہُدْہُدُ ، فَہُنَاکَ تَفَقَّدَہُ۔
(٣٢٥٨٥) ابو مجلز فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عباس حضرت عبداللہ بن سلام کے پاس آئے اور فرمایا کہ میں آپ سے تین باتیں پوچھنا چاہتا ہوں، انھوں نے کہا کہ آپ مجھ سے سوال کر رہے ہیں حالانکہ آپ خود قرآن پڑھتے ہیں، انھوں نے فرمایا جی ہاں ! حضرت نے فرمایا پوچھیے، فرمایا کہ ایک تُبَّع کے بارے میں کہ کون تھے ؟ اور عزیر کے بارے میں کہ کون تھے ؟ اور سلیمان (علیہ السلام) کے بارے میں کو انھوں نے ہد ہد کو کیوں تلاش کیا ؟
انھوں نے فرمایا کہ تُبَّع عرب کے ایک آدمی تھے، لوگوں پر غالب آگئے اور بہت سے عیسائی علماء کو پکڑ لیا اور ان سے بات چیت کرتے، ان کی قوم کہنے لگی کہ تبّع نے تمہارا دین چھوڑ دیا اور غلاموں کی اتباع کرلی، چنانچہ تُبَّع نے ان غلاموں سے کہا کہ تم سن رہے ہو کہ لوگ کیا کہہ رہے ہیں ؟ وہ کہنے لگے کہ ہمارے اور آپ کے درمیان آگ فیصلہ کرے گی اور وہ جھوٹے کو جلا دے گی اور سچا نجات پا جائے گا، وہ کہنے لگے ٹھیک ہے، چنانچہ تبّع نے ان غلاموں سے کہا کہ اس آگ میں داخل ہو جاؤ، چنانچہ وہ اس میں داخل ہوئے تو آگ نے ان کے چہروں کو جھلسا دیا ، اور وہ واپس پلٹ گئے، وہ کہنے لگا کہ تمہیں داخل ہونا پڑے گا، چنانچہ وہ اس میں داخل ہوئے ، جب اس کے درمیان پہنچ گئے تو آگ نے ان کو گھیر کر جلا دیا، اس پر تُبَّع اسلام لے آئے اور وہ نیک آدمی تھے۔
اور عزیر تو ان کا قصہ یہ ہے کہ جب بیت المقدس ویران ہوگیا اور علم مٹ گیا اور توراۃ کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا گیا، تو وہ پہاڑوں میں اکیلے رہتے تھے، اور ایک چشمے پر جا کر اس سے پانی پیا کرتے تھے، ایک دن اس پر آئے تو ایک عورت ان کو دکھائی دی، جب آپ نے اس کو دیکھا تو واپس پلٹ گئے ، جب آپ کو پیاس نے تکلیف میں ڈالا تو آپ دوبارہ آئے ، دیکھا کہ عورت رو رہی ہے، آپ نے فرمایا کہ تم کس پر رو رہی ہو ؟ کہنے لگی میں اپنے بیٹے پر رو رہی ہوں ، آپ نے فرمایا کیا وہ تمہیں رزق دیتا تھا ؟ کہنے لگی نہیں، آپ نے فرمایا کیا اس نے کچھ پیدا کیا تھا ؟ کہنے لگی نہیں، آپ نے فریایا کہ پھر تم اس پر مت رو، وہ کہنے لگی آپ کون ہیں ؟ کیا آپ اپنی قوم کے پاس جانا چاہتے ہیں ؟ اس چشمے میں داخل ہوجائیے آپ ان کے پاس پہنچ جائیں گے، چنانچہ آپ اس میں داخل ہوگئے، آپ جتنا داخل ہوتے جاتے آپ کے علم میں اضافہ ہوتا رہتا، یہاں تک کہ آپ اپنی قوم کے پاس پہنچ گئے ، اور اللہ نے آپ کا علم آپ پر لوٹا دیا پھر آپ نے توراۃ کا احیاء کیا، اور علم کو زندہ کیا، اس کے بعد عبداللہ بن سلام نے فرمایا یہ حضرت عزیر کا قصہ ہے۔
رہے حضرت سلیمان (علیہ السلام) ، تو وہ ایک جگہ سفر میں ٹھہرے اور ان کو پانی کی دوری کا علم نہ تھا، آپ نے پوچھا کہ اس کا کس کو علم ہے ؟ لوگوں نے بتادیا کہ ہد ہد کو، اس وقت آپ نے اس کو تلاش کیا۔

32585

(۳۲۵۸۶) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ وَوَکِیعٌ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مُرَّۃَ ، عَنْ أَبِی الأَحْوَصِ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إنِّی أَبْرَأُ إِلَی کُلِّ خَلِیلٍ مِنْ خُلَّتِہِ غَیْرَ أَنَّ اللَّہَ اتَّخَذَ صَاحِبَکُمْ خَلِیلاً ، وَلَوْ کُنْتُ مُتَّخِذًا خَلِیلاً لاتَّخَذْتُ أَبَا بَکْرٍ خَلِیلاً ، إلاَّ أَنَّ وَکِیعًا قَالَ : مِنْ خِلِّہِ۔
(٣٢٥٨٦) حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : یقیناً میں ہر دوست کی دوستی سے بیزار ہوں مگر یہ کہ بلاشبہ اللہ نے تمہارے ساتھی کو دوست بنایا ہے۔ اور اگر میں کسی کو دوست بناتا تو ابوبکر (رض) کو دوست بنایا۔ اور حضرت وکیع (رض) نے من خلہ کے الفاظ نقل فرمائے ہیں۔

32586

(۳۲۵۸۷) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ ، قَالَ : قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ فِی الجد : أَمَّا الَّذِی قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لَوْ کُنْتُ مُتَّخِذًا مِنْ ہَذِہِ الأُمَّۃِ خَلِیلاً لاتَّخَذْتُہُ ، فَقَضَاہُ أَبًا۔ (بخاری ۳۶۵۶۔ دارمی ۲۹۱۰)
(٣٢٥٨٧) حضرت عکرمہ (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عباس (رض) نے جَدْ کے بارے میں ارشاد فرمایا : کہ وہ شخص جس کے بارے میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اگر میں اس امت میں سے کسی کو دوست بناتا تو ابوبکر کو بناتا۔ پس حضرت ابوبکر (رض) نے باپ کے حق میں فیصلہ فرمایا۔

32587

(۳۲۵۸۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ عَطِیَّۃَ ، عَنْ أَبِی سَعِیدٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: إنَّ أَہْلَ الدَّرَجَاتِ الْعُلَی لَیَرَوْنَ مَنْ ہُوَ أَسْفَلُ مِنْہُمْ کَمَا تَرَوْنَ الْکَوْکَبَ الطَّالِعَ فِی الأُفُقِ مِنْ آفَاقِ السَّمَائِ، وَإِنَّ أَبَا بَکْرٍ وَعُمَرَ مِنْہُمْ وَأَنْعَمَا۔ (ترمذی ۳۶۵۸۔ احمد ۲۷)
(٣٢٥٨٨) حضرت ابو سعید (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : بیشک جنت میں بلند درجے والے لوگوں کو ان سے نچلے طبقہ والے لوگ ایسے ہیں دیکھیں گے جیسے تم لوگ آسمان کے کنارے میں طلوع ہونے والے ستارے کو دیکھتے ہو ۔ اور بلاشبہ حضرت ابوبکر (رض) اور حضرت عمر (رض) ان لوگوں میں سے ہوں گے اور اچھی زندگی میں ہوں گے۔

32588

(۳۲۵۸۹) حَدَّثَنَا یُونُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا فُلَیْحُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ سَالِمٍ أَبِی النَّضْرِ ، عَنْ عُبَیْدِ بْنِ حُنَیْنٍ وَبُسْرِ بْنِ سَعیدٍ ، عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ ، قَالَ : خَطَبَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ النَّاسَ ، فَقَالَ : إنَّ أَمَنَّ النَّاسِ عَلَیَّ فِی صُحْبَتِہِ وَمَالِہِ أَبُو بَکْرٍ ، وَلَوْ کُنْتُ مُتَّخِذًا مِنَ النَّاسِ خَلِیلاً لاتَّخَذْت أَبَا بَکْرٍ ، وَلَکِنْ أُخُوَّۃُ الإسْلاَمِ وَمَوَدَّتُہُ ، لاَ یَبْقَی فِی الْمَسْجِدِ بَابٌ إلاَّ سُدَّ إلاَّ بَابَ أَبِی بَکْرٍ۔ (بخاری ۳۹۰۴۔ مسلم ۱۸۵۵)
(٣٢٥٨٩) حضرت ابو سعید خدری (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں سے خطاب فرمایا : اور کہا : یقیناً لوگوں میں سے مجھ پر سب سے زیادہ احسان کرنے والے اپنی محبت اور مال کے اعتبار سے ابوبکر ہیں۔ اگر میں لوگوں میں سے کسی کو دوست بناتا تو ابوبکر کو دوست بناتا لیکن ان سے اسلامی اخوت اور محبت ہے۔ اور مسجد میں کھلنے والے تمام دروازے بند کردیے جائیں سوائے ابوبکر کے دروازے کے۔

32589

(۳۲۵۹۰) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِی صَالِحٍ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَا نَفَعَنِی مَالٌ مَا نَفَعَنِی مَالُ أَبِی بَکْرٍ ، قَالَ : فَبَکَی أَبُو بَکْرٍ ، فَقَالَ : ہَلْ أَنَا وَمَالِی إلاَّ لَکَ یَا رَسُولَ اللہِ۔ (ترمذی ۳۶۶۱۔ احمد ۲۵۳)
(٣٢٥٩٠) حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : مجھے کسی کے مال نے اتنا نفع نہیں پہنچایا جتنا ابوبکر کے مال نے نفع پہنچایا۔ راوی فرماتے ہیں : یہ بات سن کر حضرت ابوبکر (رض) رو پڑے۔ پھر فرمایا : اے اللہ کے رسول 5! میں اور میرا مال تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے ہی ہے !

32590

(۳۲۵۹۱) حَدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ أَشْعَثَ بن أَبِی الشَّعْثَائِ ، عَنِ الأَسْوَدِ بْنِ ہِلاَلٍ ، أَنَّ أَعْرَابِیًّا لَہُمْ قَالَ : شَہِدْتُ صَلاَۃَ الصُّبْحِ مَعَ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ذَاتَ یَوْمٍ فَأَقْبَلَ عَلَی النَّاسِ بِوَجْہِہِ ، فَقَالَ : رَأَیْت أُنَاسًا مِنْ أُمَّتِی الْبَارِحَۃَ وُزِنُوا ، فَوُزِنَ أَبُو بَکْرٍ فَوَزَنَ ، ثُمَّ وُزِنَ عُمَرُ فَوَزَنَ۔ (احمد ۶۳)
(٣٢٥٩١) حضرت اسود بن ھلال (رض) فرماتے ہیں کہ ایک اعرابی نے ان کو بیان کیا ! کہ میں نے ایک دن نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ صبح کی نماز پڑھی پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے چہرہ کے ساتھ لوگوں کی جانب متوجہ ہوئے اور فرمایا : میں نے گزشتہ رات دیکھا کہ لوگوں کے اعمال کا وزن کیا گیا ۔ پس ابوبکر (رض) کے اعمال کا وزن کیا گیا تو وہ وزن دار ہوگیا اور حضرت عمر (رض) کے اعمال کا وزن کیا گیا تو وہ بھی وزن دار ہوگیا۔

32591

(۳۲۵۹۲) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا ہَمَّامٌ ، قَالَ : حَدَّثَنَا ثَابِتٌ ، عَنْ أَنَسٍ ، أَنَّ أَبَا بَکْرٍ حَدَّثَہُ ، قَالَ : قُلْتُ لِلنَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ فِی الْغَارِ : لَوْ أَنَّ أَحَدَہُمْ یَنْظُرُ إِلَی قَدَمَیْہِ لأَبْصَرَنَا تَحْتَ قَدَمَیْہِ ، فَقَالَ : یَا أَبَا بَکْرٍ ، مَا ظَنُّک بِاثْنَیْنِ اللَّہُ ثَالِثُہُمَا۔ (ترمذی ۳۰۹۶۔ احمد ۴)
(٣٢٥٩٢) حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت ابوبکر (رض) نے بیان کیا کہ : میں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا اس حال میں کہ ہم غار میں تھے۔ اگر ان لوگوں میں سے کوئی ایک اپنے قدموں کی طرف دیکھ لے تو وہ ہمیں اپنے پیروں کے نیچے دیکھ لے گا ! تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اے ابوبکر ! تمہارا کیا گمان ہے ان دو کے بارے میں جن کا تیسرا اللہ ہو ؟ !

32592

(۳۲۵۹۳) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ أَبِی مَالِکٍ الأَشْجَعِیِّ ، عَنْ سَالِمٍ ، قَالَ : قلْت لابْنِ الْحَنَفِیَّۃِ : أَبُو بَکْرٍ کَانَ أَوَّلَ الْقَوْمِ إسْلاَمًا ، قَالَ : لاَ ، قُلْتُ مِمَّ عَلاَ أَبُو بَکْرٍ ، وَبَسَقَ حَتَّی لاَ یُذْکَرَ غَیْرُ أَبِی بَکْرٍ ، فَقَالَ : کَانَ أَفْضَلَہُمْ إسْلاَمًا حِینَ أَسْلَمَ حَتَّی لَحِقَ بِاللہِ۔
(٣٢٥٩٣) حضرت سالم (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن حنفیہ (رض) سے پوچھا : کیا حضرت ابوبکر (رض) لوگوں میں سب سے پہلے شخص تھے جنہوں نے اسلام قبول کیا تھا ؟ انھوں نے کہا : نہیں ! میں نے عرض کیا ! کیوں پھر حضرت ابوبکر (رض) بلند درجہ والے اور شہرت یافتہ ہوگئے یہاں تک کہ ابوبکر (رض) کے علاوہ کسی اور ذکر ہی نہیں ہوتا ؟ تو آپ (رض) نے فرمایا : جب آپ (رض) اسلام لائے تو آپ (رض) لوگوں میں سب سے افضل تھے اسلام کے اعتبار سے یہاں تک کہ آپ (رض) اللہ سے جا ملے۔

32593

(۳۲۵۹۴) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ خَالِدٍ ، عَنْ أَبِی قِلاَبَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : أَرْحَمُ أُمَّتِی أَبُو بَکْرٍ۔
(٣٢٥٩٤) حضرت ابو قلابہ (رض) فرماتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : میری امت میں سے سب سے زیادہ رحم کرنے والے ابوبکر ہیں۔

32594

(۳۲۵۹۵) حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ عَوْفٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَعَتَ یَوْمًا الْجَنَّۃَ ، وَمَا فِیہَا مِنَ الْکَرَامَۃِ ، فَقَالَ فِیمَا یَقُولُ : إنَّ فِیہَا لَطَیْرًا أَمْثَالَ الْبُخْتِ ، فَقَالَ أَبُو بَکْرٍ : یَا رَسُولَ اللہِ ، إنَّ تِلْکَ الطَّیْرَ نَاعِمَۃٌ ، فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : یَا أَبَا بَکْرٍ ، مَنْ یَأْکُلُ مِنْہَا أَنْعَمُ مِنْہَا ، وَاللہِ یَا أَبَا بَکْرٍ ، إنِّی لأَرْجُو أَنْ تَکُونَ مِمَّنْ یَأْکُلُ مِنْہَا۔ (احمد ۲۲۱)
(٣٢٥٩٥) حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک دن جنت میں اور اس میں پائی جانے والی نعمتوں کا ذکر فرمایا : پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے بارے میں ارشاد فرمایا : بلاشبہ اس میں پائے جانے والے پرندے خراسانی اونٹ کے مانند ہوں گے۔ پس ابوبکر (رض) نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول 5! کیا وہ پرندے موٹے بھی ہوں گے ؟ تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اے ابوبکر ! جو ان کو کھائے گا تو وہ اس سے خوش ہوگا۔ اللہ کی قسم ! اے ابوبکر ! میں امید کرتا ہوں کہ تم ان پرندوں کے کھانے والوں میں سے ہو گے۔

32595

(۳۲۵۹۶) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَیْمُونٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : قَالَ رَجُلٌ لِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ : مَا رَأَیْت مِثْلَک ، قَالَ : رَأَیْتَ أَبَا بَکْرٍ ؟ قَالَ : لاَ ، قَالَ : لَوْ قُلْتَ نَعَمْ إنِّی رَأَیْتہ ، لأَوْجَعْتُکَ۔
(٣٢٥٩٦) حضرت میمون (رض) فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے حضرت عمر بن خطاب (رض) سے کہا : میں نے آپ (رض) جیسا کوئی نہیں دیکھا ! آپ (رض) نے فرمایا : تو نے حضرت ابوبکر (رض) کو دیکھا ہے ؟ اس نے کہا : نہیں ! آپ (رض) نے فرمایا : اگر تو کہتا : جی ہاں ! میں نے ان کو دیکھا ہے تو میں تجھے سزا دیتا۔

32596

(۳۲۵۹۷) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : قَالَ عُمَرُ : لأَنْ أُقَدَّمَ فَتُضْرَبَ عُنُقِی أَحَبُّ إلَیَّ مِنْ أَنْ أَتَقَدَّمَ قَوْمًا فِیہِمْ أَبُو بَکْرٍ۔
(٣٢٥٩٧) حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) نے ارشاد فرمایا : اگر میرے آگے چلنے کی وجہ سے تم میری گردن اڑاؤ تو مجھے پسند ہے کہ میں ایسے لوگوں میں آگے نکلوں جن میں حضرت ابوبکر (رض) بھی ہوں۔

32597

(۳۲۵۹۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ أَسِیدٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : کنا نَقُولُ فِی زَمَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : خَیْرُ النَّاسِ أَبُو بَکْرٍ ، وَعُمَرُ۔ (احمد ۲۶)
(٣٢٥٩٨) حضرت ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ ہم لوگ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں کہا کرتے تھے : لوگوں میں سب سے بہترین حضرت ابوبکر (رض) اور حضرت عمر (رض) ہیں۔

32598

(۳۲۵۹۹) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ سُہَیْلٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : کُنَّا نَعُدُّ وَرَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حَیٌّ : أَبُو بَکْرٍ وَعُمَرَ وَعُثْمَانَ ، ثُمَّ نَسْکُتُ۔ (ابوداؤد ۴۶۰۳۔۔ احمد ۱۴)
(٣٢٥٩٩) حضرت ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی میں حضرت ابوبکر (رض) اور حضرت عمر (رض) اور حضرت عثمان (رض) کو بہترین لوگوں میں شمار کرتے تھے ۔ پھر ہم خاموش ہوجاتے۔

32599

(۳۲۶۰۰) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ خَالِدِ بْنِ سَلَمَۃَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عن مسروق ، قَالَ : حبُّ أَبِی بَکْرٍ وَعُمَرَ وَمَعْرِفَۃُ فَضْلِہِمَا مِنَ السُّنَّۃِ۔
(٣٢٦٠٠) حضرت شعبی (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت مسروق (رض) نے ارشاد فرمایا : حضرت ابوبکر (رض) اور حضرت عمر (رض) سے محبت کرنا اور ان دونوں کے افضل ہونے کو پہچاننا سنت میں سے ہے۔

32600

(۳۲۶۰۱) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِیزِ بْنِ سِیَاہٍ ، عَنْ حَبِیبِ بْنِ أَبِی ثَابِتٍ فِی قَوْلِہِ : {فَأَنْزَلَ اللَّہُ سَکِینَتَہُ عَلَیْہِ} قَالَ : عَلَی أَبِی بَکْرٍ ، قَالَ : فَأَمَّا النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَدْ کَانَتِ السَّکِینَۃُ عَلَیْہِ قَبْلَ ذَلِکَ۔
(٣٢٦٠١) حضرت عبد العزیز بن سیاہ (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت حبیب بن ابی ثابت (رض) نے اللہ رب العزت کے اس قول { فَأَنْزَلَ اللَّہُ سَکِینَتَہُ عَلَیْہِ } ترجمہ : پس اللہ نے اس پر اپنی سکینہ نازل فرمائی۔ کے بارے میں فرمایا : کہ حضرت ابوبکر (رض) مراد ہیں۔ فرمایا : باقی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر تو سکینہ و رحمت اس سے قبل تھی ہی۔

32601

(۳۲۶۰۲) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : أَعْتَقَ أَبُو بَکْرٍ مِمَّا کَانَ یُعَذَّبُ فِی اللہِ سَبْعَۃً : عَامِرَ بْنَ فُہَیْرَۃَ وَبِلاَلاً وَزِنِّیرَۃ وَأَمَّ عُبَیْسٍ وَالنَّہْدِیَّۃَ وابنتہا ، وَجَارِیَۃِ بنی عَمْرِو بْنِ مُؤَمِّلٍ۔
(٣٢٦٠٢) حضرت ہشام بن عروہ (رض) فرماتے ہیں کہ ان کے والد حضرت عروہ (رض) نے فرمایا : حضرت ابوبکر (رض) نے ان سات لوگوں کو آزاد فرمایا : جن کو اللہ کے راستہ میں عذاب دیا جاتا تھا۔ وہ سات لوگ یہ ہیں : حضرت عامر بن فہیرہ (رض) ، حضرت بلال (رض) ، حضرت زنیرہ (رض) ، حضرت ام عبیس (رض) ، حضرت نھدیہ، اور ان کی بیٹی اور بنو عمرو بن مؤمل کی ایک باندی۔

32602

(۳۲۶۰۳) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ مُطَرِّفٍ ، عَنْ عَامِرٍ ، أَنَّ عُمَرَ ، قَالَ : لاَ أَسْمَعُ بِأَحَدٍ فَضَّلَنِی عَلَی أَبِی بَکْرٍ إلاَّ جَلَدْتہ أَرْبَعِینَ۔
(٣٢٦٠٣) حضرت عامر (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے ارشاد فرمایا : میں کسی کو بھی یوں نہ سنوں کہ اس نے مجھے حضرت ابوبکر (رض) پر فضیلت دی ہے ورنہ میں اسے چالیس ( 40) کوڑے ماروں گا۔

32603

(۳۲۶۰۴) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ حُبَابٍ ، عَنْ مُوسَی بْنِ عُبَیْدَۃَ ، قَالَ : أَخْبَرَنِی أَبُو مُعَاذٍ ، عَنْ خَطَّابٍ ، أَوْ أَبِی الْخَطَّابِ ، عَنْ عَلِیٍّ ، قَالَ : بَیْنَا أَنَا جَالِسٌ عِنْدَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إذْ أَقْبَلَ أَبُو بَکْرٍ ، وَعُمَرُ ، فَقَالَ : یَا عَلِی ، ہَذَانِ سَیِّدَا کُہُولِ أَہْلِ الْجَنَّۃِ إلاَّ مَا کَانَ مِنَ الأَنْبِیَائِ فَلاَ تُخْبِرْہُمَا۔ (ترمذی ۳۶۶۔ ابن ماجہ ۹۵)
(٣٢٦٠٤) حضرت علی (رض) فرماتے ہیں کہ اس درمیان کہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس بیٹھا تھا کہ حضرت ابوبکر (رض) اور حضرت عمر (رض) تشریف لائے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اے علی ! یہ دونوں اہل جنت میں سے بوڑھوں کے سردار ہیں، سوائے انبیاء کے۔ پس تم ان دونوں کو خبر مت دینا۔

32604

(۳۲۶۰۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ عُمَیْرٍ ، عَنْ مَوْلًی لِرِبْعِیِّ بْنِ حِرَاشٍ ، عَنْ رِبْعِیِّ بْنِ حِرَاشٍ ، عَنْ حُذَیْفَۃَ ، قَالَ : کُنَّا جُلُوسًا عِنْدَ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : إنِّی لاَ أَدْرِی مَا قَدْرُ بَقَائِی فِیکُمْ ، اقْتَدُوا بِاللَّذَیْنِ مِنْ بَعْدِی وَأَشَارَ إِلَی أَبِی بَکْرٍ وَعُمَرَ۔ (ترمذی ۳۷۹۹۔ احمد ۳۹۸۵)
(٣٢٦٠٥) حضرت ربعی بن حراش (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت حذیفہ (رض) نے ارشاد فرمایا : ہم لوگ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس بیٹھے تھے پس آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : یقیناً میں نہیں جانتا کہ میں تمہارے درمیان کب تک رہوں گا۔ تم لوگ میرے بعد ان دونوں کی اقتدا کرنا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت ابوبکر (رض) اور حضرت عمر (رض) کی طرف اشارہ فرمایا۔

32605

(۳۲۶۰۶) حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ أَبِی جَعْفَرٍ ، عَنِ الرَّبِیعِ ، قَالَ : مَکْتُوبٌ فِی الْکِتَابِ الأَوَّلِ : مَثَلُ أَبِی بَکْرٍ مَثَلُ الْقَطْرِ حَیْثُمَا وَقَعَ نَفَعَ۔
(٣٢٦٠٦) حضرت ابو جعفر (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت ربیع (رض) نے ارشاد فرمایا : پہلی کتاب میں یوں لکھا ہوا تھا : ابوبکر کی مثال بارش کے قطرے کی سی ہے۔ جہاں بھی گرتا ہے فائدہ دیتا ہے۔

32606

(۳۲۶۰۷) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ سُہَیْلٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : نِعْمَ الرَّجُلُ أَبُو بَکْرٍ ، نِعْمَ الرَّجُلُ عُمَرُ ، نِعْمَ الرَّجُلُ ثَابِتُ بْنُ قَیْسِ بْنِ شَمَّاسٍ ، وَنِعْمَ الرَّجُلُ عَمْرو بْنِ الْجَمُوحِ ، وَنِعْمَ الرَّجُلُ أَبُو عُبَیْدَۃَ بْنُ الْجَرَّاحِ۔ (ترمذی ۳۷۹۵۔ احمد ۴۱۹)
(٣٢٦٠٧) حضرت سھیل (رض) کے والد (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ابوبکر ! اچھے آدمی ہیں۔ عمر اچھے آدمی ہیں، عمرو بن جموح اچھے آدمی ہیں، اور ابو عبیدہ بن جراح اچھے آدمی ہیں۔

32607

(۳۲۶۰۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ جَامِعٍ ، عَنْ مُنْذِرٍ ، عَنِ ابْنِ الْحَنَفِیَّۃِ ، قَالَ : قلْت لأَبِی : مَنْ خَیْرُ النَّاسِ بَعْدَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ؟ قَالَ : أَبُو بَکْرٍ ، قَالَ : قُلْتُ : ثُمَّ مَنْ قَالَ ثُمَّ عُمَرُ ، قَالَ : قُلْتُ : فَأَنْتَ، قَالَ : أَبُوک رَجُلٌ مِنَ الْمُسْلِمِینَ۔ (بخاری ۳۶۷۱۔ ابوداؤد ۴۶۰۵)
(٣٢٦٠٨) حضرت ابن حنفیہ (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے والد حضرت علی (رض) سے پوچھا : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد لوگوں میں سب سے بہترین شخص کون تھا ؟ انوہں نے فرمایا : ابوبکر تھے۔ میں نے پوچھا : پھر کون تھا ؟ انھوں نے فرمایا : عمر تھے۔ میں نے پوچھا : اور آپ ؟ انھوں نے فرمایا : تمہارا والد مسلمانوں میں سے ایک عام آدمی تھا۔

32608

(۳۲۶۰۹) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا صَدَقَۃُ بْنُ الْمُثَنَّی ، قَالَ : سَمِعْتُ جَدِّی رِیَاحَ بْنَ الْحَارِثِ یَذْکُرُ ؛ أَنَّہُ شَہِدَ الْمُغِیرَۃَ بْنَ شُعْبَۃَ ، وَکَانَ بِالْکُوفَۃِ فِی الْمَسْجِدِ الأَکْبَرِ ، وَکَانُوا أَجْمَعَ مَا کَانُوا یَمِینًا وَشِمَالاً ، حَتَّی جَائَ رَجُلٌ مِنْ أَہْلِ الْمَدِینَۃِ ، یُدْعَی سَعِیدَ بْنَ زَیْدِ بْنِ عمرو بن نُفَیْلٍ ، فَرَحَّبَ بِہِ الْمُغِیرَۃُ ، وَأَجْلَسَہُ عِنْدَ رِجْلَیْہِ عَلَی السَّرِیرِ ، فَبَیْنَا ہُوَ عَلَی ذَلِکَ ، إذْ دَخَلَ رَجُلٌ مِنْ أَہْلِ الْکُوفَۃِ ، یُدْعَی قَیْسَ بْنَ عَلْقَمَۃَ ، فَاسْتَقْبَلَ الْمُغِیرَۃُ فَسَبَّ وَسَبَّ ، فَقَالَ لَہُ الْمَدَنِیُّ : یَا مُغِیرَ بْنَ شُعْبَ ، مَنْ یَسُبُّ ہَذَا السَّابُّ ؟ قَالَ : یَسُبُّ عَلِیَّ بْنَ أَبِی طَالِبٍ ، قَالَ لَہُ مَرَّتَیْنِ : یَا مُغِیرَ بْنَ شُعْبَ ، یَا مُغِیرَ بْنَ شُعْبَ ، أَلاَ أَسْمَعُ أَصْحَابَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُسَبُّونَ عِنْدَکَ لاَ تُنْکِرُ ، وَلاَ تُغَیِّرُ ، فَإِنِّی أَشْہَدُ عَلَی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِمَا سَمِعَتْ أُذُنَایَ ، وَبِمَا وَعَی قَلْبِی ، فَإِنِّی لَنْ أَرْوِیَ عَنْہُ مِنْ بَعْدِہِ کَذِبًا ، فَیَسْأَلُنِی عَنْہُ إذَا لَقِیتُہُ ، أَنَّہُ قَالَ : أَبُو بَکْرٍ فِی الْجَنَّۃِ ، وَعُمَرُ فِی الْجَنَّۃِ ، وَعُثْمَان فِی الْجَنَّۃِ ، وَعَلِیٌّ فِی الْجَنَّۃِ ، وَطَلْحَۃُ فِی الْجَنَّۃِ ، وَالزُّبَیْرُ فِی الْجَنَّۃِ ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ فِی الْجَنَّۃِ ، وَسَعْدٌ فِی الْجَنَّۃِ ، وَآخَرُ تَاسِعٌ ، لَوْ أَشَائُ أَنْ أُسَمِّیَہُ لَسَمَّیْتُہُ ، قَالَ : فَخَرَجَ أَہْلُ الْمَسْجِدِ یُنَاشِدُونَہُ بِاللہِ : یَا صَاحِبَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، مَنِ التَّاسِعُ ؟ قَالَ : نَشَدْتُمُونِی بِاللہِ ، وَاللَّہُ عَظِیمٌ ، أَنَا تَاسِعُ الْمُؤْمِنِینَ ، وَنَبِیُّ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْعَاشِرُ ، ثُمَّ أَتْبَعَہَا ، وَاللہِ لَمَشْہَدٌ شَہِدَہُ الرَّجُلُ مِنْہُمْ یَوْمًا وَاحِدًا فِی سَبِیلِ اللہِ ، مَعَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، اغْبَرَّ فیہ وَجْہِہِ أَفْضَلُ مِنْ عَمَلِ أَحَدِکُمْ ، وَلَوْ عُمِّرَ عُمُرَ نُوحٍ۔ (ابوداؤد ۴۶۱۸۔ ابن ماجہ ۱۳۳)
(٣٢٦٠٩) حضرت صدقہ بن مثنی (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے دادا حضرت ریاح بن حارث (رض) کو یوں فرماتے ہوئے سنا کہ میں حضرت مغیرہ بن شعبہ (رض) کے پاس حاضر تھا۔ اس حال میں کہ آپ (رض) کوفہ کی ایک بڑی مسجد میں تھے۔ اور سب لوگ آپ (رض) کے دائیں بائیں جمع تھے۔ یہاں تک کہ اہل مدینہ میں سے ایک شخص تشریف لائے جن کو سعید بن زید بن عمرو بن نفیل کے نام سے پکارا جا رہا تھا۔ پس حضرت مغیرہ بن شعبہ (رض) نے ان کو خوش آمدید کہا۔ اور انھوں نے ان کو تخت پر اپنی ٹانگوں کے پاس بٹھا لیا۔ پس وہ اسی حالت میں تھے کہ اہل کوفہ میں سے ایک شخص جس کو قیس بن علقمہ کے نام سے پکارا جا رہا تھا داخل ہوا۔ تو حضرت مغیرہ (رض) نے اس کا استقبال کیا پس انھوں نے بھی سب و شتم کیا اور اس شخص نے بھی سب و شتم کیا ۔ تو اس مدنی شخص نے ان سے کہا : اے مغیرہ بن شعبہ ! یہ گالی دینے والا کس کو گالی دے رہا تھا ؟ مغیرہ (رض) نے فرمایا : علی (رض) کو گالیاں دے رہا تھا ! اس مدنی نے ان کو دو مرتبہ کہا : اے مغیرہ بن شعبہ ! اے مغیرہ بن شعبہ ! خبردار کہ میں سن رہا ہوں کہ تیرے پاس رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب کو برا بھلا کہا جا رہا ہے نہ تو تعجب کررہا ہے اور نہ ہی تو غیرت کھا رہا ہے ! میں گواہی دیتا ہوں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اس بات کی کہ میرے دونوں کانوں نے سنا : اور میرے دل نے اس کو محفوظ کیا : یقیناً ہرگز میں روایت نہیں کرتا ان کے چلے جانے کے بعد جھوٹ کے ڈر سے۔ پس وہ مجھ سے پوچھیں گے جب وہ مجھے ملیں گے۔ اس لیے کہ انھوں نے فرمایا : ابوبکر جنت میں ہیں، اور عمر جنت میں ہیں ، عثمان جنت میں ہیں، علی جنت میں ہیں۔ طلحہ جنت میں ہیں ، زبیر جنت میں ہیں، عبد الرحمن بن عوف جنت میں ہیں ، اور سعد جنت میں ہیں۔ اور آخری نواں اگر میں اس کا نام لینا چاہوں تو میں اس کا نام لے سکتا ہوں۔
راوی کہتے ہیں : پھر مسجد والے نکلے ان کو قسمیں دے کر پوچھ رہے تھے : اے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھی ! نواں کون تھا ؟ انھوں نے فرمایا : تم لوگوں نے مجھے قسم دی اور اللہ بہت عظیم ہے۔ میں مومنوں میں سے نواں شخص ہوں۔ اور اللہ کے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دسویں ہیں۔ پھر اس کے بعد بیان کیا : اللہ کی قسم وہ مقام جس میں صحابہ میں سے ایک آدمی اللہ کے راستہ میں ایک دن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ حاضر ہوا جہاں اس کا چہرہ خاک آلود ہوا ہو تو وہ تم میں سے ہر ایک کے عمل سے افضل ہوگا اگرچہ اس کو حضرت نوح (علیہ السلام) جتنی عمر دے دی گئی ہو۔

32609

(۳۲۶۱۰) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ عَطَائٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إنَّ فِی الْجَنَّۃِ طَیْرًا أَمْثَالَ الْبُخْتِ یَأْتِی الرَّجُلُ فَیُصِیبُ مِنْہَا ، ثُمَّ یَذْہَبُ کَأَنْ لَمْ یُنْقِصْ مِنْہَا شَیْئًا ، فَقَالَ أَبُو بَکْرٍ : یَا رَسُولَ اللہِ ، إنَّ تِلْکَ الطَّیْرَ نَاعِمَۃٌ ، قَالَ : وَمَنْ یَأْکُلُہ أَنْعَمُ مِنْہُ ، أَمَا إنَّک مِمَّنْ یَأْکُلُہَا۔
(٣٢٦١٠) حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : یقیناً جنت میں خراسانی اونٹ کی مانند ایک پرندہ ہوگا۔ ایک آدمی آئے گا اور اس کو کھائے گا ۔ پھر وہ پرندہ چلا جائے گا۔ گویا کہ اس میں سے کوئی چیز بھی کم نہ ہوئی ہو، تو حضرت ابوبکر (رض) نے فرمایا : اے اللہ کے رسول 5! بلاشبہ وہ پرندہ تو بہت موٹا ہوگا ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اور جو شخص اس سے کھائے گا وہ زیادہ خوشحال ہوگا۔ تم اس کے کھانے والوں میں سے ہوگے۔

32610

(۳۲۶۱۱) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِِ ، عَنْ حُصَیْنٍ ، عَنْ ہِلاَلِ بْنِ یَِسَافٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ ظَالِمٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ زَیْدٍ ، قَالَ : أَشْہَدُ عَلَی تِسْعَۃٍ أَنَّہُمْ فِی الْجَنَّۃِ ، وَلَوْ شَہِدْت عَلَی الْعَاشِرِ لَصَدَقْت ، قَالَ : قُلْتُ : وَمَا ذَاکَ ، قَالَ : کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَی حِرَائٍ ، وَأَبُو بَکْرٍ ، وَعُمَرُ وَعُثْمَان وَعَلِیٌّ وَطَلْحَۃُ وَالزُّبَیْرُ وَسَعْدُ بْنُ مَالِکٍ ، وَعَبْدُ الرَّحْمَن بْنُ عَوْفٍ ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : اثْبُتْ حِرَائُ فَإِنَّہُ لَیْسَ عَلَیْک إلاَّ نَبِیٌّ ، أَوْ صِدِّیقٌ ، أَوْ شَہِیدٌ ، قَالَ : قُلْتُ : مَنِ الْعَاشِرُ ، قَالَ : أَنَا۔ (ابوداؤد ۴۶۱۶۔ ابن حبان ۶۹۹۶)
(٣٢٦١١) حضرت عبداللہ بن ظالم (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت سعید بن زید (رض) نے ارشاد فرمایا : میں نو لوگوں کے بارے میں گواہی دیتا ہوں کہ یقیناً وہ جنت میں ہوں گے اور اگر میں دسویں کے بارے میں بھی گواہی دوں تو یقیناً میں سچا ہوں گا۔ راوی کہتے ہیں : میں نے پوچھا ! وہ کون ہے ؟ تو آپ (رض) نے فرمایا : کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حراء پہاڑی پر تھے اور ابو بکر، عمر، عثمان، علی، طلحہ، زبیر، سعد بن مالک، اور عبد الرحمن بن عوف (رض) بھی ساتھ تھے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اے حرائ ! ٹھہر جاؤ، نہیں تم پر مگر ایک نبی یا صدیق یا شہید۔ راوی کہتے ہیں میں نے پوچھا : دسواں شخص کون تھا ؟ آپ (رض) نے فرمایا : کہ میں ہوں۔

32611

(۳۲۶۱۲) حَدَّثَنَا خَلَفُ بْنُ خَلِیفَۃَ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ بْنِ أَبِی خَالِدٍ ، أَنَّ عَائِشَۃَ نَظَرَتْ إِلَی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَتْ یَا سَیِّدَ الْعَرَبِ ، قَالَ : أَنَا سَیِّدُ وَلَدِ آدَمَ ، وَلاَ فَخْرَ ، وَأَبُوک سَیِّدُ کُہُولِ الْعَرَبِ۔
(٣٢٦١٢) حضرت اسماعیل بن ابی خالد (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عائشہ (رض) نے حضرت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف دیکھ کر فرمایا : اے عرب کے سردار ! اس پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میں پوری اولاد آدم کا سردار ہوں اور اس پر مجھے کوئی فخر نہیں ہے۔ اور تیرے والد جنت کے بوڑھوں کے سردار ہوں گے۔

32612

(۳۲۶۱۳) حَدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِی جُحَیْفَۃَ ، قَالَ: قَالَ عَلِیٌّ: خَیْرُ ہَذِہِ الأُمَّۃِ بَعْدَ نَبِیِّہَا أَبُو بَکْرٍ، وَبَعْدَ أَبِی بَکْرٍ عُمَرُ ، وَلَوْ شِئْت أَنْ أُحَدِّثَکُمْ بِالثَّالِثِ فَعَلْت۔ (احمد ۱۰۶)
(٣٢٦١٣) حضرت ابو حجیفہ (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت علی (رض) نے ارشاد فرمایا : نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد اس امت کے بہترین شخص حضرت ابوبکر (رض) ہیں اور حضرت ابوبکر (رض) کے بعد حضرت عمر (رض) ہیں ، اور اگر میں چاہوں کہ تیسرے شخص کے بارے میں بتاؤں تو میں ایسا کرسکتا ہوں۔

32613

(۳۲۶۱۴) حَدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ أَبِی جُحَیْفَۃَ ، عَنْ عَلِیٍّ مِثْلَہُ۔ (ابن ابی عاصم ۱۲۰۲)
(٣٢٦١٤) حضرت ابو حجیفہ (رض) سے حضرت علی (رض) کا ما قبل والا فرمان اس سند سے بھی منقول ہے۔

32614

(۳۲۶۱۵) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَنْ زَائِدَۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِیلٍ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : مَشَیْت مَعَ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِلَی امْرَأَۃِ رَجُلٍ مِنَ الأَنْصَارِ ، قَالَ : فَرَشَّتْ لَہُ أُصُولَ نَخْلٍ ، وَذَبَحَتْ لَنَا شَاۃً ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لَیَدْخُلَنَّ رَجُلٌ مِنْ أَہْلِ الْجَنَّۃِ ، فَدَخَلَ أَبُو بَکْرٍ ، ثُمَّ قَالَ : لَیَدْخُلَنَّ رَجُلٌ مِنْ أَہْلِ الْجَنَّۃِ ، فَدَخَلَ عُمَرُ ، ثُمَّ قَالَ : لَیَدْخُلَنَّ رَجُلٌ مِنْ أَہْلِ الْجَنَّۃِ ، ثُمَّ قَالَ : اللَّہُمَّ إِنْ شِئْتَ جَعَلْتَہُ عَلِیًّا ، فَدَخَلَ عَلِیٌّ۔
(٣٢٦١٥) حضرت جابر بن عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ایک انصاری آدمی کی بیوی کے پاس گیا تو اس نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے کھجور کی چھال سے بنی ہوئی دری بچھائی اور ہمارے لیے ایک بکری ذبح کی ۔ پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ضرور بالضرور ایک آدمی داخل ہوگا جو اہل جنت میں سے ہوگا پس حضرت ابوبکر (رض) داخل ہوئے، پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ضرور بالضرور ایک آدمی داخل ہوگا جو اہل جنت میں سے ہوگا پس حضرت عمر (رض) داخل ہوئے۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ضرور بالضرور ایک آدمی داخل ہوگا جو اہل جنت میں سے ہوگا۔ پھر فرمایا : اے اللہ ! اگر تو چاہے تو یہ آدمی علی کو بنا دے۔ پس حضرت علی (رض) داخل ہوئے۔

32615

(۳۲۶۱۶) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ، عَنْ زَائِدَۃَ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عُبَیْدِاللہِ، قَالَ: حدَّثَنَا الْحُرُّ بْنُ صَیَّاحٍ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ الأَخْنَسِ النَّخَعِیِّ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ زَیْدٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : أَبُو بَکْرٍ فِی الْجَنَّۃِ ، وَعُمَرُ فِی الْجَنَّۃِ وَعَلِیٌّ وَعُثْمَان فِی الْجَنَّۃِ وَطَلْحَۃُ فِی الْجَنَّۃِ وَالزُّبَیْرُ فِی الْجَنَّۃِ ، وَعَبْدُ الرَّحْمَن بْنُ عَوْفٍ فِی الْجَنَّۃِ وَسَعْدُ بْنُ أَبِی وَقَّاصٍ فِی الْجَنَّۃِ ، وَلَوْ شِئْتُ لَسَمَّیْتُ التَّاسِعَ۔(نسائی ۸۲۱۰۔ احمد ۱۸۸)
(٣٢٦١٦) حضرت سعید بن زید (رض) فرماتے ہیں میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے سنا کہ ابوبکر جنت میں ہے، عمر جنت میں ہے، علی جنت میں ہے، عثمان جنت میں ہے، طلحہ جنت میں ہے، زبیر جنت میں ہے، اور عبد الرحمن بن عوف (رض) جنت میں ہے اور سعد بن ابی وقاص (رض) جنت میں ہے، اور اگر میں چاہوں تو نویں آدمی کا نام بھی لے سکتا ہوں۔

32616

(۳۲۶۱۷) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ مِسْعَرٍ ، عَنْ أَبِی عَوْنٍ الثَّقَفِیِّ ، عَنْ أَبِی صَالِحٍ الْحَنَفِیِّ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ أَبِی طَالِبٍ ، قَالَ : قِیلَ لِی ، وَلأَبِی بَکْرٍ الصِّدِّیقِ یَوْمَ بَدْرٍ : مَعَ أَحَدِکُمَا جِبْرِیلُ ، وَمَعَ الآخَرِ مِیکَائِیلُ ، وَإِسْرَافِیلُ مَلَکٌ عَظِیمٌ یَشْہَدُ الْقِتَالَ ، أَوْ یَقِفُ فِی الصَّفِّ۔ (احمد ۱۴۷۔ ابن سعد ۱۷۵)
(٣٢٦١٧) حضرت ابو صالح حنفی (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت علی (رض) نے ارشاد فرمایا : مجھے اور حضرت ابوبکر (رض) سے غزوہ بدر کے دن کہا گیا : تم دونوں میں سے ایک کے ساتھ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) ہیں اور دوسرے کے ساتھ حضرت میکائیل ہیں۔ اور حضرت اسرافیل عظیم فرشتہ ہیں جو قتال کے لیے حاضر ہیں یا فرمایا : کہ وہ صف میں کھڑے ہوئے ہیں۔

32617

(۳۲۶۱۸) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ السَّرِیِّ بْنِ یَحْیَی ، عَنْ بِسْطَامِ بْنِ مُسْلِمٍ قَالَ : بَعَثَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَمْرَو بْنَ الْعَاصِ عَلَی سَرِیَّۃٍ ، فِیہَا أَبُو بَکْرٍ وَعُمَرُ ، فَلَمَّا قَدِمُوا ، اشْتَکَی أَبُو بَکْرٍ وَعُمَرُ عَمْرًا ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لاَ یَتَأَمَّرُ عَلَیْکُمَا أَحَدٌ بَعْدِی۔
(٣٢٦١٨) حضرت بسطام بن مسلم (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عمرو بن العاص (رض) کو ایک لشکر کا امیر بنا کر بھیجا جس میں حضرت ابوبکر اور حضرت عمر (رض) بھی تھے۔ پس جب وہ لوگ واپس آئے تو حضرت ابوبکر (رض) اور حضرت عمر (رض) نے حضرت عمرو (رض) کی شکایت کی ۔ تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم دونوں پر میرے بعد کسی کو بھی امیر نہیں بنایا جائے گا۔

32618

(۳۲۶۱۹) حَدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : قَالَ عُمَرُ : وَدِدْتُ أَنِّی مِنَ الْجَنَّۃِ حَیْثُ أَرَی أَبَا بَکْرٍ۔
(٣٢٦١٩) حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے ارشاد فرمایا : میں پسند کرتا ہوں کہ میں جنت کے ایسے حصہ میں ہوں جہاں سے حضرت ابوبکر (رض) کو دیکھ سکوں۔

32619

(۳۲۶۲۰) حَدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : قَالَ رَجُلٌ لِعُمَرَ : یَا خَیْرَ النَّاسِ ، فَقَالَ : إنِّی لَسْتُ بِخَیْرِ النَّاسِ ، فَقَالَ : وَاللَّہِ مَا رَأَیْت قَطُّ رَجُلاً خَیْرًا مِنْک ، قَالَ : مَا رَأَیْتَ أَبَا بَکْرٍ ؟ قَالَ : لاَ ، قَالَ : لَوْ قُلْتَ : نَعَمْ ، لَعَاقَبْتُکَ ، قَالَ ، وَقَالَ عُمَرُ : (یلہم) بَیْنِی وَبَیْنَ أَبِی بَکْرٍ ، یَوْمٌ مِنْ أَبِی بَکْرٍ خَیْرٌ مِنْ آلِ عُمَرَ۔
(٣٢٦٢٠) حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے حضرت عمر (رض) کو یوں پکارا : اے لوگو میں سے بہترین شخص ! تو حضرت عمر (رض) نے فرمایا : یقیناً میں لوگوں میں سے سب سے بہتر نہیں ہوں۔ پھر اس آدمی نے کہا : اللہ کی قسم میں نے تو کبھی بھی آپ (رض) سے بہتر شخص نہیں دیکھا ! حضرت عمر (رض) نے فرمایا : کیا تو نے ابوبکر (رض) کو نہیں دیکھا ؟ اس نے کہا : نہیں ! آپ (رض) نے فرمایا : اگر تو کہتا : جی ہاں ! تو میں تجھے ضرور سزا دیتا ۔ راوی فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : ابوبکر کی زندگی کا ایک دن عمر کی ساری آل کے اعمال سے بہتر ہے۔

32620

(۳۲۶۲۱) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا إسْمَاعِیلُ ، عَنْ قَیْسٍ ، قَالَ : قَالَ عَمْرٌو : أَیُّ النَّاسِ أَحَبُّ إلَیْک یَا رَسُولَ اللہِ ؟ قَالَ : وَلِمَا ؟ قَالَ : لِنُحِبَّ مَنْ تُحِبُّ ، قَالَ : أَحَبُّ النَّاسِ إلَیَّ عَائِشَۃُ ، قَالَ : لَسْتُ أَسْأَلُک عَنِ النِّسَائِ ، إنَّمَا أَسْأَلُک عَنِ الرِّجَالِ ، فَقَالَ مَرَّۃً : أَبُوہَا ، وَقَالَ مَرَّۃً : أَبُو بَکْرٍ۔ (بخاری ۳۶۶۲۔ حاکم ۱۲)
(٣٢٦٢١) حضرت قیس (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عمرو (رض) نے پوچھا : اے اللہ کے رسول 5! لوگوں میں سب سے زیادہ پسندیدہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نزدیک کون ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کیوں ؟ آپ (رض) نے عرض کیا : تاکہ ہم بھی اس سے محبت رکھیں جس سے آپ محبت کرتے ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : مجھے لوگوں میں سے سب سے زیادہ پسند ” عائشہ “ ہیں۔ آپ (رض) نے عرض کیا میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عورتوں سے متعلق نہیں پوچھ رہا بلکہ میں مردوں میں سے پوچھ رہا ہوں۔ پس آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک مرتبہ فرمایا : ان کے والد اور ایک مرتبہ فرمایا : ” ابوبکر (رض) “

32621

(۳۲۶۲۲) حَدَّثَنَا یَزِیدُ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا الْعَوَّامُ ، عَنِ أَبِی الْہُذَیْلِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَا مِنْ أَحَدٍ أَمَنُّ عَلَیْنَا فِی ذَاتِ یَدِہِ مِنْ أَبِی بَکْرٍ ، وَلَوْ کُنْتُ مُتَّخِذًا خَلِیلاً لاتَّخَذْت أَبَا بَکْرٍ ، وَلَکِنْ أَخِی وَصَاحِبِی وَعَلَی دِینِی ، وَصَاحِبُکُمْ قَدِ اتُّخِذَ خَلِیلاً ، یَعْنِی نَفْسَہُ۔
(٣٢٦٢٢) حضرت ابو الھذیل (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : : کوئی ایک بھی مجھ پر ابوبکر سے زیادہ احسان کرنے والا نہیں ہے اپنی ذات سے بھی زیادہ، اور اگر میں کسی کو دوست بناتا تو میں ابوبکر کو بناتا ۔ لیکن وہ میرے دینی بھائی اور ساتھی ہیں ، اور تمہارے ساتھی کو یقیناً دوست بنا لیا گیا ہے۔ یعنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ۔

32622

(۳۲۶۲۳) حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ عُمَرُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنْ بَدْرِ بْنِ عُثْمَانَ ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ بْنِ مَرْوَانَ ، عَنْ أَبِی عَائِشَۃَ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : خَرَجَ إلَیْنَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ذَاتَ غَدَاۃٍ ، فَقَالَ : رَأَیْت آنِفًا کَأَنِّی أُعْطِیتُ الْمَقَالَیدَ وَالْمَوَازِینَ ، فَأَمَّا الْمَقَالَیدُ فَہَذِہِ الْمَفَاتِیحُ ، فَوُضِعْتُ فِی کِفَّۃٍ وَوُضِعَتْ أُمَّتِی فِی کِفَّۃٍ فَرَجَحْتُ بِہِمْ ، ثُمَّ جِیئَ بِأَبِی بَکْرٍ فَرَجَحَ ، ثُمَّ جِیئَ بِعُمَرَ فَرَجَحَ ، ثُمَّ جِیئَ بِعُثْمَانَ فَرَجَحَ ، ثُمَّ رُفِعَتْ ، قَالَ : فَقَالَ لَہُ رَجُلٌ : فَأَیْنَ نَحْنُ ؟ قَالَ : حَیْثُ جَعَلْتُمْ أَنْفُسَکُمْ۔
(٣٢٦٢٣) حضرت ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک صبح ہمارے پاس تشریف لائے، اور فرمایا : میں نے ابھی ابھی خواب میں دیکھا کہ مجھے چابیاں اور ترازو دیا گیا، بہرحال چابیاں وہ تو یہ ہیں۔ پھر مجھے ترازو کے ایک پلڑے میں رکھا گیا اور میری امت کو ایک پلڑے میں رکھ دیا گیا پس میرا پلڑا جھک گیا۔ پھر ابوبکر کو لایا گیا پس اس کا پلڑا بھی بھاری ہوگیا۔ پھر عمر (رض) کو لایا گیا تو اس کا پلڑا بھی بھاری ہوگیا۔ پھر عثمان کو لایا گیا پس اس کا پلڑا بھی بھاری ہوگیا۔ پھر اس ترازو کو اٹھا لیا گیا۔ راوی فرماتے ہیں پس ایک آدمی نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا : ہم کہاں ہوں گے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جہاں تم اپنے آپ کو رکھو گے۔

32623

(۳۲۶۲۴) حَدَّثَنَا قَبِیصَۃُ ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَۃَ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ زَیْدٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِی بَکْرَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : وَفَدْنَا إِلَی مُعَاوِیَۃَ ، قَالَ : فَمَا أُعْجِبَ بِوَفْدٍ مَا أُعْجِبَ بِنَا ، فَقَالَ : یَا أَبَا بَکْرَۃَ ، حَدِّثْنِی بِشَیْئٍ سَمِعْتہ مِنْ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ وَکَانَتْ تُعْجِبُہُ الرُّؤْیَا یُسْأَلُ عنہا فَسَمِعْتہ یَقُولُ : رَأَیْت مِیزَانًا أُنْزِلَ مِنَ السَّمَائِ فَوُزِنْتُ فِیہِ أَنَا ، وَأَبُو بَکْرٍ فَرَجَحْتُ بِأَبِی بَکْرٍ ، ثُمَّ وُزِنَ أَبُو بَکْرٍ بِعُمَرَ فَرَجَحَ أَبُو بَکْرٍ ، ثُمَّ وُزِنَ عُمَرُ وَعُثْمَان فَرَجَحَ عُمَرُ بِعُثْمَانَ ، ثُمَّ رُفِعَ الْمِیزَانُ إِلَی السَّمَائِ ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خِلاَفَۃٌ وَنُبُوَّۃٌ ، ثُمَّ یُؤْتِی اللَّہُ الْمُلْکَ مَنْ یَشَائُ ، قَالَ : فَزُجَّ فِی أَقْفِیَتِنَا فَأُخْرِجْنَا۔
(٣٢٦٢٤) حضرت ابو بکرہ (رض) فرماتے ہیں کہ ہم لوگ وفد کی صورت میں حاضر ہوئے۔ آپ (رض) نے فرمایا : مجھے کوئی وفد اتنا پسند نہیں آیا جتنا ہمارا وفد پسند آیا۔ پھر فرمایا : اے ابو بکرہ (رض) ! مجھے کوئی ایسی بات بیان کریں جو آپ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنی ہو۔ آپ (رض) نے فرمایا : میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے ہوئے سنا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پسند فرماتے تھے کہ جب ان سے خوابوں کے بارے میں پوچھا جاتا ! آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میں نے ایک ترازو دیکھا جو آسمان سے اترا، پس اس میں میرا اور ابوبکر (رض) کا وزن کیا گیا تو میر پلڑا ابوبکر سے بھاری ہوگیا۔ پھر ابوبکر کا عمر کے ساتھ وزن کیا گیا تو ابوبکر کا پلڑا بھاری ہوگیا۔ پھر عمر اور عثمان کا وزن کیا گیا تو عمر کا پلڑا عثمان پر بھاری ہوگیا۔ پھر ترازو کو آسمان کی طرف اٹھا لیا گیا۔ پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : خلافت اور نبوت ہوگی پھر اللہ جس کو چاہیں گے ملک عطا فرما دیں گے ۔ راوی کہتے ہیں : پس ہمیں گدی سے پکڑ کر نکال دیا گیا۔

32624

(۳۲۶۲۵) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنْ مُحَمَّدٍ ، قَالَ : ذَکَرَ رَجُلاَنِ عُثْمَانَ ، فَقَالَ أَحَدُہُمَا : قُتِلَ شَہِیدًا ، فَتَعَلَّقَ بِہِ الآخَرُ فَأَتَی بِہِ عَلِیًّا ، فَقَالَ : إِنَّ ہَذَا یَزْعُمُ أَنَّ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ قُتِلَ شَہِیدًا ، قَالَ : قُلْتُ ذَاکَ ؟ قَالَ : نَعَمْ ، أَمَا تَذْکُرُ یَوْمَ أَتَیْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَعِنْدَہُ أَبُو بَکْرٍ ، وَعُمَرُ وَعُثْمَان ، فَسَأَلْت النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَأَعْطَانِی ، وَسَأَلْت أَبَا بَکْرٍ فَأَعْطَانِی ، وَسَأَلْت عُمَرَ فَأَعْطَانِی ، وَسَأَلْت عُثْمَانَ فَأَعْطَانِی ، فَقُلْتُ : یَا رَسُولَ اللہِ ، ادْعُ اللَّہَ أَنْ یُبَارِکَ لِی ، قَالَ : وَمَا لَکَ لاَ یُبَارَکُ لَکَ وَقَدْ أَعْطَاک نَبِیٌّ وَصِدِّیقٌ وَشَہِیدَانِ ، فَقَالَ عَلِیٌّ : دَعْہُ ، دَعْہُ ، دَعْہُ۔ (ابویعلی ۱۵۹۸)
(٣٢٦٢٥) حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں کہ دو آدمیوں نے حضرت عثمان (رض) کا ذکر کیا پس ان میں سے ایک کہنے لگا۔ ان کو شہید کردیا گیا ، تو دوسرا اس کو پکڑ کر حضرت علی (رض) کے پاس لے آیا اور کہنے لگا : بلاشبہ یہ شخص کہتا ہے کہ یقیناً حضرت عثمان (رض) کو شہید کردیا گیا تھا ! آپ (رض) نے فرمایا : تم نے یہ کہا ہے ؟ اس شخص نے کہا : جی ہاں ! کہا آپ (رض) کو یاد نہیں وہ دن جب میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور حضرت ابوبکر اور حضرت عمر اور حضرت عثمان (رض) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس تھے۔ پس میں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مانگا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے عطا فرمایا : اور میں نے حضرت ابوبکر (رض) سے سوال کیا تو انھوں نے بھی مجھے عطا فرمایا : اور میں نے حضرت عمر (رض) سے سوال کیا تو انھوں نے بھی مجھے عطا فرمایا : اور میں نے حضرت عثمان (رض) سے سوال کیا تو انھوں نے بھی مجھے عطا کیا۔ پس میں نے عرض کی۔ اے اللہ کے رسول 5! میرے لیے برکت کی دعا فرما دیجئے اللہ مجھے برکت عطا کرے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تجھے برکت کیوں نہیں دی جائے گی حالانکہ تجھے ایک نبی، اور ایک صدیق اور دو شہیدوں نے عطا کیا ہے ؟ ! پس حضرت علی (رض) نے فرمایا : اس کو چھوڑ دو ، اس کو چھوڑ دو ، اس کو چھوڑ دو ۔

32625

(۳۲۶۲۶) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ سَلِمَۃَ ، عَنْ عَلِیٍّ أَنَّہُ قَالَ : أَلاَ أُخْبِرُکُمْ بِخَیْرِ ہَذِہِ الأُمَّۃِ بَعْدَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : أَبُو بَکْرٍ ، وَعُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ۔
(٣٢٦٢٦) حضرت عبداللہ بن سلمہ (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت علی (رض) نے ارشاد فرمایا : کیا میں تمہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد اس امت کے بہترین شخص کے متعلق خبر نہ دوں ؟ پس وہ حضرت ابوبکر (رض) اور حضرت عمر بن خطاب (رض) ہیں۔

32626

(۳۲۶۲۷) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، قَالَ : حدَّثَنَا الأَعْمَشُ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ زَیْدِ بْنِ یُثَیْعٍ ، قَالَ : کَانَ أَبُو بَکْرٍ مَعَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَوْمَ بَدْرٍ عَلَی الْعَرِیشِ۔ (طبری ۱۹۰)
(٣٢٦٢٧) حضرت ابو اسحاق (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت زید بن یثیع (رض) فرماتے ہیں کہ غزوہ بدر کے دن حضرت ابوبکر (رض) جھونپڑی میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ تھے۔

32627

(۳۲۶۲۸) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ حُمَیْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لِکُلِّ أَہْلِ عَمَلٍ بَابٌ مِنْ أَبْوَابِ الْجَنَّۃِ یُدْعَوْنَ مِنْہُ بِذَاکَ الْعَمَلِ، فَلأَہْلِ الصِّیَامِ بَابٌ یُقَالُ لَہُ الرَّیَّانُ ، فَقَالَ أَبُو بَکْرٍ : یَا رَسُولَ اللہِ ، فَہَلْ مِنْ أَحَدٍ یُدْعَی مِنْ تِلْکَ الأَبْوَابِ کُلِّہَا ، قَالَ : نَعَمْ ، وَإِنِّی أَرْجُو أَنْ تَکُونَ مِنْہُمْ یَا أَبَا بَکْرٍ۔
(٣٢٦٢٨) حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ہر عمل والے کے لیے جنت کے دروازوں میں سے ایک دروازہ ہے۔ اور وہ اس عمل کی وجہ سے اس دروازے سے پکارے جائیں گے۔ پس روزہ دار کے لیے بھی ایک دروازہ ہے جسے ریان کہتے ہیں۔ تو حضرت ابوبکر (رض) نے فرمایا : کیا کوئی شخص ایسا ہوگا جو ان سب دروازوں سے پکارا جائے گا ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جی ہاں ! اور یقیناً مجھے امید ہے کہ اے ابوبکر تم ان میں سے ہو گے۔

32628

(۳۲۶۲۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِیزِ بْنِ عَبْدِ اللہِ الْمَاجِشُونِ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْکَدِرِ ، عَنْ جَابِرٍ ، قَالَ : قَالَ عُمَرُ : أَبُو بَکْرٍ سَیِّدُنَا وَأَعْتَقَ سَیِّدَنَا ، یَعْنِی بِلالاً۔ (بخاری ۳۷۵۴)
(٣٢٦٢٩) حضرت جابر (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے ارشاد فرمایا : ابوبکر ہمارے سردار ہیں اور انھوں نے ہمارے سردار یعنی حضرت بلال (رض) کو آزاد کروایا۔

32629

(۳۲۶۳۰) حَدَّثَنَا یَزِیدُ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ زَیْدٍ ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ ، عَنْ عَائِشَۃَ ، قَالَتْ : تَمَثَّلْتُ بِہَذَا الْبَیْتِ ، وَأَبُو بَکْرٍ یَقْضِی وَأَبْیَضُ یُسْتَسْقَی الْغَمَامُ بِوَجْہِہِ ثُمَالُ الْیَتَامَی عِصْمَۃٌ لِلأَرَامِلِ فَقَالَ أَبُو بَکْرٍ : ذَلِکَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔
(٣٢٦٣٠) حضرت قاسم بن محمد (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عائشہ (رض) نے ارشاد فرمایا : میں اس شعر کو بطور نمونے کے پڑھ رہی تھی اس حال میں کہ ابوبکر فیصلہ فرما رہے تھے۔
اور سفید چہرے والے جن کے چہرے کے وسیلہ سے بادلوں سے پانی طلب کیا جاتا ہے۔
یتیموں کے فریاد رس اور بیواؤں کی عصمت ہیں۔
تو حضرت ابوبکر (رض) نے فرمایا : وہ تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں۔

32630

(۳۲۶۳۱) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ ، عَنْ مَکْحُولٍ ، عَنْ غُضَیْفِ بْنِ الْحَارِثِ رَجُلٍ مِنْ أَیْلَۃَ ، عَنْ أَبِی ذَرٍّ ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : إنَّ اللَّہَ وَضَعَ الْحَقَّ عَلَی لِسَانِ عُمَرَ۔ (ابوداؤد ۶۹۵۵۔ احمد ۱۶۵)
(٣٢٦٣١) حضرت ابوذر (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے عمر کی زبان پر حق کو جاری فرما دیا ہے۔

32631

(۳۲۶۳۲) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ بْنُ عُمَرَ ، قَالَ : حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ سَالِمٍ ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِاللہِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ أَبِیہِ، أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: أُرِیتُ فِی النَّوْمِ کَأَنِّی أَنْزِعُ بِدَلْوِ بَکْرَۃٍ عَلَی قَلِیبٍ، فَجَائَ أَبُو بَکْرٍ فَنَزَعَ ذَنُوبًا، أَوْ ذَنُوبَیْنِ فَنَزَعَ نَزْعًا ضَعِیفًا وَاللَّہُ یَغْفِرُ لَہُ، ثُمَّ جَائَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ فَاسْتَسْقَی فَاسْتَحَالَتْ غَرْبًا، فَلَمْ أَرَ عَبْقَرِیًّا مِنَ النَّاسِ یَفْرِی فَرِیَّہُ حَتَّی رَوِیَ النَّاسُ وَضَرَبُوا بِالْعَطَنِ۔
(٣٢٦٣٢) حضرت عبداللہ بن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : مجھے خواب میں دکھلایا گیا : گویا کہ میں کنویں پر چرخی سے ڈول کھینچ رہا ہوں پس ابوبکر آئے پھر انھوں نے ایک یا دو ڈول نکالے اور انھوں نے بہت کمزوری سے ڈول کھینچا۔ اللہ ان کی مغفرت کرے ، پھر عمر بن خطاب آیا پس اس نے پانی نکالا یہاں تک کہ چمڑے کا ڈول ٹیڑھا ہوگیا ۔ پس میں نے ایسا کوئی زورآور شخص نہیں دیکھا جو عمر (رض) جیسا حیرت انگیز کام کرتا ہو۔ اور وہ سب لوگ پانی کے پاس بیٹھ گئے۔

32632

(۳۲۶۳۳) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو ، عَنْ أَبِی سَلَمَۃَ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : بَیْنَا أَنَا أَسْقِی عَلَی بِئْرٍ إذْ جَائَ ابْنُ أَبِی قُحَافَۃَ فَنَزَعَ ذَنُوبًا ، أَوْ ذَنُوبَیْنِ فِیہِمَا ضَعْفٌ وَاللَّہُ یَغْفِرُ لَہُ ، ثُمَّ جَائَ عُمَرُ فَنَزَعَ حَتَّی اسْتَحَالَتْ فِی یَدِہِ غَرْبًا ، وَضَرَبَ النَّاسُ بِالْعَطَنِ فَمَا رَأَیْت عَبْقَرِیًّا یَفْرِی فَرِیَّہُ۔ (بخاری ۳۶۶۴۔ مسلم ۱۸۶۰)
(٣٢٦٣٣) حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اس درمیان کہ میں کنویں پر پانی پی رہا تھا کہ ابن ابی قحافہ آئے پس انھوں نے ایک یا دو ڈول نکالے بڑی کمزوری سے ، اور اللہ ان کی مغفرت فرمائے۔ پھر عمر بن خطاب نے آ کر ڈول کھینچا یہاں تک کہ ان کے ہاتھ میں چمڑے کے ڈول کے نشان پڑگئے اور لوگ پانی کے قریب بیٹھ گئے ۔ پس میں نے ایسا کوئی زورآور شخص نہیں دیکھا جو ان جیسا حیرت انگیز کام کرتا ہو۔

32633

(۳۲۶۳۴) حَدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنِ الأَشْعَثِ ، عَنِ الأَسْوَدِ بْنِ ہِلالٍ ، أَنَّ أَعْرَابِیًّا لَہُمْ ، قَالَ : شَہِدْت صَلاۃَ الصُّبْحِ مَعَ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ذَاتَ یَوْمٍ ، فَأَقْبَلَ عَلَی النَّاسِ بِوَجْہِہِ ، فَقَالَ : رَأَیْت نَاسًا مِنْ أُمَّتِی الْبَارِحَۃَ ، وُزِنُوا فَوُزِنَ أَبُو بَکْرٍ فَوَزَنَ ، ثُمَّ وُزِنَ عُمَرُ فَوَزَنَ۔
(٣٢٦٣٤) حضرت اسود بن ھلال (رض) فرماتے ہیں کہ ایک دیہاتی نے ان سے بیان کیا کہ میں ایک دن صبح کی نماز میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ حاضر تھا۔ پس آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے چہرے کے ساتھ لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا : میں نے گزشتہ رات اپنی امت کے لوگوں کو دیکھا کہ ان کا وزن کیا جا رہا ہے۔ پس ابوبکر (رض) کا وزن کیا گیا تو ان کا پلڑا بھاری ہوگیا۔ پھر عمر (رض) کا وزن کیا گیا تو ان کا پلڑا بھاری ہوگیا۔

32634

(۳۲۶۳۵) حَدَّثَنَا عبد اللہِ بْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ زَکَرِیَّا ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاہِیمَ ، عَن أَبِی سَلَمَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إِنَّہُ کَانَ فِیمَنْ مَضَی رِجَالٌ مُحَدَّثون فِی غَیْرِ نُبُوَّۃٍ ، فَإِنْ یَکُنْ فِی أُمَّتِی أَحَدٌ مِنْہُمْ فَعُمَرُ۔ (مسلم ۱۸۶۴۔ ترمذی ۳۶۹۳)
(٣٢٦٣٥) حضرت ابو سلمہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : یقیناً گزرے ہوئے لوگوں میں کچھ آدمی ایسے ہوتے تھے جن کا گمان صحیح ہوتا تھا وہ نبی نہیں ہوتے تھے۔ پس اگر میری امت میں کوئی ان میں سے ہیں تو وہ حضرت عمر (رض) ہیں۔

32635

(۳۲۶۳۶) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ إدْرِیسَ وَوَکِیعٌ وَابْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ ، عَنْ قَیْسٍ ، قَالَ : قَالَ عبْدُ اللہِ : مَا زِلْنَا أَعِزَّۃً مُنْذُ أَسْلَمَ عُمَرُ۔ (بخاری ۳۶۸۴۔ حاکم ۸۴)
(٣٢٦٣٦) حضرت قیس (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) نے ارشاد فرمایا : جب حضرت عمر (رض) اسلام لائے تو ہم ہمیشہ کے لیے معزز ہوگئے۔

32636

(۳۲۶۳۷) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ إدْرِیسَ ، عَنِ الشَّیْبَانِیِّ وَإِسْمَاعِیلَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : قَالَ عَلِیٌّ : مَا کُنَّا نُبْعِدُ أَنَّ السَّکِینَۃَ تَنْطِقُ بِلِسَانِ عُمَرَ۔
(٣٢٦٣٧) امام شعبی (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت علی (رض) نے ارشاد فرمایا : ہم اس بات کو بعید نہیں سمجھتے تھے کہ بلاشبہ سکینہ و رحمت حضرت عمر (رض) کی زبان سے بولتی ہے۔

32637

(۳۲۶۳۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا الأَعْمَشُ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، عَنِ الأَسْوَدِ ، قَالَ عَبْدُ اللہِ : إذَا ذُکِرَ الصَّالِحُونَ فَحَیَّ ہَلاً بِعُمَرَ۔
(٣٢٦٣٨) حضرت اسود (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ کے سامنے جب صلحاء کا ذکر کیا جاتا تو وہ فوراً حضرت عمر (رض) کا نعرہ لگاتے۔

32638

(۳۲۶۳۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ قَیْسِ بْنِ مُسْلِمٍ ، عَنْ طَارِقِ بْنِ شِہَابٍ ، قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللہِ : إذَا ذُکِرَ الصَّالِحُونَ فَحَیَّ ہَلاً بِعُمَرَ۔
(٣٢٦٣٩) حضرت طارق بن شھاب (رض) فرماتے ہیں کہ جب حضرت عبداللہ کے سامنے صلحاء اور نیکوکاروں کا ذکر کیا جاتا تو آپ (رض) فورا سے حضرت عمر کا نعرہ لگاتے۔

32639

(۳۲۶۴۰) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ أَبِی سُلَیْمَانَ ، عَنْ وَاصِلٍ الأَحْدَبِ ، عَنْ زَیْدِ بْنِ وَہْبٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : إنَّ عُمَرَ کَانَ لِلإِسْلامِ حِصْنًا حَصِینًا ، یَدْخُلُ فِیہِ الإسْلامُ ، وَلا یَخْرُجُ مِنْہُ ، فَلَمَّا قُتِلَ عُمَرُ انْثَلَمَ الْحِصْنُ فَالإِسْلامُ یَخْرُجُ مِنْہُ وَلا یَدْخُلُ فِیہِ۔
(٣٢٦٤٠) حضرت زید بن وھب (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) نے ارشاد فرمایا : بلاشبہ حضرت عمر اسلام کے لیے مضبوط قلعہ کی حیثیت رکھتے تھے۔ جن میں اسلام داخل ہوا اور اس سے اسلام نکلا نہیں۔ پس جب حضرت عمر (رض) کو قتل کردیا گیا تو اس قلعہ میں شگاف پڑگیا۔ پھر اسلام اس سے نکل گیا اور اس میں دوبارہ داخل نہیں ہوا۔

32640

(۳۲۶۴۱) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ قَیْسِ بْنِ مُسْلِمٍ ، عَنْ طَارِقِ بْنِ شِہَابٍ ، قَالَ : قالَتْ أُمُّ أَیْمَنَ لَمَّا قُتِلَ عُمَرُ الْیَوْمَ وَہَی الإسْلامُ۔
(٣٢٦٤١) حضرت طارق بن شھاب (رض) فرماتے ہیں کہ جس دن حضرت عمر (رض) کو قتل کیا گیا تو حضرت ام ایمن (رض) نے فرمایا : آج اسلام میں شگاف پیدا ہوگیا۔

32641

(۳۲۶۴۲) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَنْ زَائِدَۃَ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ زِرٍّ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : لَقِیَ رَجُلٌ شَیْطَانًا فِی بَعْضِ طُرُقِ الْمَدِینَۃِ فَاتخِذا فَصُرِعَ الشَّیْطَانَ ، فَسئلَ عَبْدُ اللہِ ، فَقَالَ : مَنْ تظنونہ إلاَّ عُمَرَ۔ (بیہقی ۱۲۳)
(٣٢٦٤٢) حضرت زر (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) نے ارشاد فرمایا : ایک آدمی کو مدینہ کی ایک گلی میں شیطان ملا ۔ پس ان دونوں نے ایک دوسرے کو پکڑ لیا پھر شیطان کو پچھاڑ دیا گیا۔ حضرت عبداللہ (رض) سے پوچھا گیا کہ وہ شخص کون تھا ؟ آپ (رض) نے فرمایا : تمہارے گمان میں حضرت عمر (رض) کے علاوہ کون ہوسکتا ہے ؟ !

32642

(۳۲۶۴۳) حَدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، وعَنْ إبْرَاہِیمَ بْنِ الْمُہَاجِرِ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، قَالَ : کَانَ عُمَرُ إذَا رَأَی الرَّأْیَ نَزَلَ بِہِ الْقُرْآنُ۔
(٣٢٦٤٣) حضرت ابراہیم بن مہاجر (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت مجاہد (رض) نے ارشاد فرمایا : حضرت عمر (رض) کی جو رائے ہوتی قرآن ویسے ہی نازل ہوجاتا۔

32643

(۳۲۶۴۴) حَدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنِ الْمُسَیَّبِ ، قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللہِ : مَا کُنَّا نَتَعَاجَمُ أَصْحَابَ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، أَنَّ مَلَکًا یَنْطِقُ بِلِسَانِ عُمَرَ۔
(٣٢٦٤٤) حضرت مسیب (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) نے ارشاد فرمایا : ہم لوگ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب اس بات کو کنایۃً نہیں کرتے تھے کہ یقیناً فرشتہ حضرت عمر (رض) کی زبان کے مطابق بات کرتا ہے۔

32644

(۳۲۶۴۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ وَاصِلٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، قَالَ : کُنَّا نُحَدَّثُ ، أَوْ کُنَّا نَتَحَدَّثُ ، أَنَّ الشَّیَاطِینَ کَانَتْ مُصَفَّدَۃً فِی زَمَانِ عُمَرَ ، فَلَمَّا أُصِیبَ بُثَّتْ۔
(٣٢٦٤٥) حضرت واصل (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت مجاہد (رض) نے ارشاد فرمایا : ہم تو آپس میں یوں بات کرتے تھے کہ یقیناً شیطان حضرت عمر (رض) کے زمانے میں ہتھکڑیوں میں جکڑ بند تھا۔ پس جب آپ (رض) کی وفات ہوگئی تو وہ آزاد ہوگیا۔

32645

(۳۲۶۴۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ وَاصِلٍ ، عَنْ أَبِی وَائِلٍ ، قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللہِ : مَا رَأَیْت عُمَرَ إلاَّ وَکَأَنَّ بَیْنَ عَیْنَیْہِ مَلَکًا یُسَدِّدُہُ۔
(٣٢٦٤٦) حضرت ابو وائل (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) نے ارشاد فرمایا : میں حضرت عمر (رض) کے بارے میں رائے نہیں رکھتا تھا مگر یہ کہ گویا فرشتہ ان کی دو آنکھوں کے درمیان ہے اور ان کی راہنمائی کر کے سیدھے راستہ پر چلا رہاے۔

32646

(۳۲۶۴۷) حَدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ عُمَیْرٍ ، عَنْ زَیْدِ بْنِ وَہْبٍ ، قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللہِ : إنَّ أَہْلَ الْبَیْتِ مِنَ الْعَرَبِ لَمْ تَدْخُلْ عَلَیْہِمْ مُصِیبَۃُ عُمَرَ لأَہْلُ بَیْتِ سُوئٍ۔
(٣٢٦٤٧) حضرت زید بن وھب (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے ارشاد فرمایا : یقیناً عرب میں سے وہ گھرانہ جن پر حضرت عمر (رض) کی وفات کی آفت داخل نہیں ہوئی یقیناً وہ برا گھرانہ ہے۔

32647

(۳۲۶۴۸) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ وَالثَّقَفِیُّ ، عَنْ حُمَیْدٍ ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ : قَالَ أَبُو طَلْحَۃَ یَوْمَ مَاتَ عُمَرُ : مَا أَہْلُ بَیْتٍ حَاضِرٍ ، وَلا بَادٍ إلاَّ وَقَدْ دَخَلَ عَلَیْہِمْ نَقْصٌ۔
(٣٢٦٤٨) حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) کی وفات کے دن حضرت طلحہ (رض) نے ارشاد فرمایا : کوئی شہر ی یا دیہاتی گھرانہ ایسا نہیں ہے مگر یہ کہ ان کا نقصان ہوا۔

32648

(۳۲۶۴۹) حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ ، عَنِ الْعُمَرِیِّ ، عَنْ جَہْمِ بْنِ أَبِی الْجَہْمِ ، عَنِ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَۃَ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إنَّ اللَّہَ جَعَلَ الْحَقَّ عَلَی لِسَانِ عُمَرَ وَقَلْبِہِ۔ (ابن حبان ۶۸۸۹)
(٣٢٦٤٩) حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : یقیناً اللہ تعالیٰ نے حق کو عمر کی زبان اور دل میں رکھ دیا ہے۔

32649

(۳۲۶۵۰) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَنْ زَائِدَۃَ ، قَالَ : قَالَ عَبْدُ الْمَلِکِ : حَدَّثَنِی قَبِیصَۃُ بْنُ جَابِرٍ ، قَالَ : مَا رَأَیْت رَجُلاً أَعْلَمَ بِاللہِ ، وَلا أَقْرَأَ لِکِتَابِ اللہِ ، وَلا أَفْقَہَ فِی دِینِ اللہِ مِنْ عُمَرَ۔
(٣٢٦٥٠) حضرت عبد الملک (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت قبیصہ بن جابر (رض) نے ارشاد فرمایا : میں نے کوئی شخص نہیں دیکھا جو حضرت عمر (رض) سے زیادہ اللہ کو جاننے والا، اور کتاب اللہ کو سب سے زیادہ پڑھنے والا اور اللہ کے دین میں زیادہ سمجھ رکھنے والا ہو۔

32650

(۳۲۶۵۱) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَنْ زَائِدَۃَ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ ، عَنْ زَیْدِ بْنِ وَہْبٍ ، قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللہِ : مَا أَظُنُّ أَہْلَ بَیْتٍ مِنَ الْمُسْلِمِینَ لَمْ یَدْخُلْ عَلَیْہِمْ حُزْنُ عُمَرَ یَوْمَ أُصِیبَ عُمَرُ إلاَّ أَہْلَ بَیْتِ سُوئٍ ، إنَّ عُمَرَ کَانَ أَعْلَمَنَا بِاللہِ وَأَقْرَأَنَا لِکِتَابِ اللہِ وَأَفْقَہَنَا فِی دِینِ اللہِ۔
(٣٢٦٥١) حضرت زید بن وھب (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) نے ارشاد فرمایا : میرا گمان نہیں ہے کہ مسلمانوں کا کوئی گھرانہ ایسا ہو جہاں حضرت عمر کی وفات کے دن حضرت عمر (رض) کا غم داخل نہ ہوا ہو، مگر یہ کہ کوئی برا گھرانہ ہوگا۔ یقیناً حضرت عمر (رض) ہم میں سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ کی معرفت رکھنے والے، اور اللہ کی کتاب کو ہم سب میں زیادہ پڑھنے والے، اور اللہ کے دین کے بارے میں ہم سب سے زیادہ سمجھ رکھنے والے تھے۔

32651

(۳۲۶۵۲) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَنْ زَائِدَۃَ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ أَبِی النَّجُودِ ، عَنْ زِرٍّ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : إذَا ذُکِرَ الصَّالِحُونَ فَحَیَّ ہَلاً بِعُمَرَ ، إنَّ إسْلامَہُ کَانَ نَصْرًا ، وَإِنَّ إمَارَتَہُ کَانَتْ فَتْحًا ، وَایْمُ اللہِ ، مَا أَعْلَمُ عَلَی الأَرْضِ شَیْئًا إلاَّ وَقَدْ وَجَدَ فَقْدَ عُمَرَ حَتَّی الْعِضَاہُ ، وَایْمُ اللہِ إنِّی لأَحْسَبُ بَیْنَ عَیْنَیْہِ مَلَکًا یُسَدِّدُہُ وَیُرْشِدُہُ ، وَایْمُ اللہِ إِنِّی لأَحْسَبُ الشَّیْطَانَ یَفْرَقُ أَنْ یُحْدِثَ فِی الإِسْلاَمِ فَیَرُدَّ عَلَیْہِ عُمَرُ ، وَایْمُ اللہِ لَوْ أَعْلَمُ أَنَّ کَلْبًا یُحِبُّ عُمَرَ لأَحْبَبْتہ۔
(٣٢٦٥٢) حضرت زر (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) کے سامنے نیکو کاروں کا ذکر کیا جاتا تو وہ فوراً حضرت عمر (رض) کا نعرہ لگاتے۔ اور فرماتے ! یقیناً ان کا اسلام مسلمانوں کی مدد تھی اور ان کی خلافت مسلمانوں کی فتح تھی۔ اللہ کی قسم ! میں نہیں جانتا زمین پر کسی چیز کو مگر یہ کہ ہر چیز نے حضرت عمر (رض) کی کمی محسوس کی یہاں تک کہ کانٹے دار درختوں نے بھی۔ اللہ کی قسم ! بلاشبہ میں گمان کرتا تھا کہ ان کی دونوں آنکھوں کے درمیان ایک فرشتہ ہے جو ان کو سیدھی راہ دکھاتا ہے اور ان کی راہنمائی کرتا ہے۔ اور اللہ کی قسم ! بلاشبہ شیطان خوف کھاتا تھا اس بات سے کہ وہ اسلام میں کوئی رخنہ ڈالے اس لیے کہ حضرت عمر (رض) اس کو اس پر واپس لوٹا دیں گے۔ اللہ کی قسم ! اگر مجھے معلوم ہوجائے کہ کوئی کتا بھی حضرت عمر (رض) سے محبت کرتا ہے تو میں اس سے بھی محبت کرنے لگوں۔

32652

(۳۲۶۵۳) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، وَأَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ مِسْعَرٍ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ مَیْسَرَۃَ ، عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ ، قَالَ : إنَّ عُمَرَ فِی الْجَنَّۃِ ، وَإِنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا رَأَی فِی نَوْمِہِ وَفِی یَقْظَتِہِ فَہُوَ حَقٌ ، إِنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : بَیْنَمَا أَنَا فِی الْجَنَّۃِ إذ رَأَیْت فِیہَا دَارًا ، فَقُلْتُ : لِمَنْ ہَذِہِ ؟ فَقِیلَ : لِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ۔ (احمد ۲۴۵۔ ابن حبان ۶۸۸۴)
(٣٢٦٥٣) حضرت مصعب بن سعد (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت معاذ بن جبل (رض) نے فرمایا : یقیناً عمر (رض) جنت میں ہیں، اور حضرت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جو کچھ نیند اور بیداری میں دیکھا وہ سب حق ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میں جنت میں تھا کہ میں نے اس میں ایک گھر دیکھا پس میں نے پوچھا : یہ کس کے لیے ہے ؟ تو کہا گیا : عمر بن خطاب کے لیے۔

32653

(۳۲۶۵۴) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنْ حُمَیْدٍ ، عَنْ أَنَسٍ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : دَخَلْت الْجَنَّۃَ فَإِذَا أَنَا بِقَصْرٍ مِنْ ذَہَبٍ ، فَقُلْتُ : لِمَنْ ہَذَا ؟ قَالُوا : لِشَابٍّ مِنْ قُرَیْشٍ ، فَظَنَنْت أَنِّی أَنَا ہُوَ ، فَقُلْتُ : لِمَنْ ہُوَ؟ قَالُوا : لِعُمَرَ۔ (احمد ۱۷۹۔ ابن حبان ۶۸۸۷)
(٣٢٦٥٤) حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ یقیناً نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : میں جنت میں داخل ہوا تو میں نے ایک خوبصورت سونے سے بنا ہوا محل دیکھا تو میں نے پوچھا : یہ کس کا گھر ہے ؟ فرشتوں نے کہا : قریش کے ایک نوجوان کا۔ پس میں نے گمان کیا کہ یقیناً وہ میں ہی ہوں گا ، تو میں نے پوچھا : وہ کون سا نوجوان ہے ؟ انھوں نے کہا : عمر بن خطاب ۔

32654

(۳۲۶۵۵) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عُمَرَ ، عَنْ أَبِی سَلَمَۃَ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : دَخَلْت الْجَنَّۃَ فَإِذَا فِیہَا قَصْرٌ مِنْ ذَہَبٍ فَأَعْجَبَنِی حُسْنُہُ ، فَسَأَلْت : لِمَنْ ہَذَا ؟ فَقِیلَ لِی : لِعُمَرَ ، فَمَا مَنَعَنِِی أَنْ أَدْخُلَہُ إلاَّ لِمَا أَعْلَمُ مِنْ غَیْرَتِکَ یَا أَبَا حَفْصٍ ، فَبَکَی عُمَرُ ، وَقَالَ : یَا رَسُولَ اللہِ ، عَلَیْک أَغَارُ ؟!۔ (بخاری ۳۲۴۲۔ احمد ۳۳۹)
(٣٢٦٥٥) حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : میں جنت میں داخل ہوا تو اس میں میں نے ایک سونے کا محل دیکھا جس کی خوبصورتی مجھے بہت اچھی لگی ۔ پس میں نے پوچھا : یہ کس کے لیے ہے ؟ تو مجھے بتایا گیا : عمر بن خطاب کے لیے۔ پس مجھے کسی بات نے بھی نہیں روکا اس میں داخل ہونے سے مگر یہ کہ مجھے اے ابو حفص تیری غیرت کا خیال آیا۔ تو حضرت عمر (رض) رونے لگے اور فرمایا : اے اللہ کے رسول 5! کیا میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر غیرت کھاؤں گا ؟ !

32655

(۳۲۶۵۶) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ عَمْرٍو سَمِعَ جَابِرًا یَقُولُ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : دَخَلْت الْجَنَّۃَ فَرَأَیْتُ فِیہَا دَارًا ، أَوْ قَصْرًا ، فَسَمِعْت صَوْتًا ، فَقُلْتُ : لِمَنْ ہَذَا قِیلَ : لِعُمَرَ ، فَأَرَدْت أَنْ أَدْخُلَہَا فَذَکَرْت غَیْرَتَکَ ، فَبَکَی عُمَرُ وَقَالَ : یَا رَسُولَ اللہِ ، أَعَلَیْکَ أَغَارُ ؟!۔ (مسلم ۱۸۶۲۔ احمد ۳۰۹)
(٣٢٦٥٦) حضرت جابر (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : میں جنت میں داخل ہوا تو میں نے اس میں ایک گھر یا محل دیکھا پس میں نے آواز سنی تو میں نے پوچھا : یہ کس کا ہے ؟ جواب دیا گیا : عمر بن خطاب کا۔ پھر میں نے اس میں داخل ہونا چاہا تو مجھے تمہاری غیر ت یاد آگئی۔ اس پر حضرت عمر (رض) رونے لگے اور فرمایا : اے اللہ کے رسول 5! کیا میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر غیرت کھاؤں گا ؟ !۔

32656

(۳۲۶۵۷) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ حُبَابٍ ، قَالَ : حدَّثَنِی حُسَیْنُ بْنُ وَاقِدٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِی عَبْدُ اللہِ بْنُ بُرَیْدَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : مَرَرْت بِقَصْرٍ مِنْ ذَہَبٍ مُشْرِفٍ مُرَبع ، فَقُلْتُ : لِمَنْ ہَذَا الْقَصْرُ فَقِیلَ : لِرَجُلٍ مِنَ الْعَرَبِ ، فَقُلْتُ : أَنَا عَرَبِی ، لِمَنْ ہَذَا الْقَصْرُ ، قَالُوا : لِرَجُلٍ مِنْ أُمَّۃِ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قُلْتُ : أَنَا مُحَمَّد ، لِمَنْ ہَذَا الْقَصْرُ ، قَالُوا : لِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ۔ (ترمذی ۳۶۸۹۔ احمد ۳۵۴)
(٣٢٦٥٧) حضرت بریدہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : میرا گزر ایک مربع محل پر سے ہوا جس میں بالاخانہ تھے۔ تو میں نے پوچھا : یہ محل کس کا ہے ؟ جواب دیا گیا : اہل عرب میں سے ایک آدمی کا۔ اس پر میں نے کہا : میں بھی عربی ہوں۔ یہ محل کس کا ہے ؟ انھوں نے کہا : محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت کے ایک فرد کا۔ میں نے کہا : میں ہی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہوں۔ یہ محل کس کا ہے ؟ انھوں نے کہا : عمر بن خطاب کا۔

32657

(۳۲۶۵۸) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ حُبَابِ ، عَنْ حُسَیْنِ بْنِ وَاقِدٍ ، قَالَ : حدَّثَنِی عَبْدُ اللہِ بْنُ بُرَیْدَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : إنِّی لأَحْسَبُ الشَّیْطَانَ یَفْرَقُ مِنْک یَا عُمَرُ !۔ (ترمذی ۳۶۹۰۔ احمد ۳۵۳)
(٣٢٦٥٨) حضرت بریدہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : میرا خیال ہے کہ اے عمر ! شیطان تجھ سے ڈرتا ہے۔

32658

(۳۲۶۵۹) حَدَّثَنَا خَلَفُ بْنُ خَلِیفَۃَ ، عَنْ أَبِی ہَاشِمٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ {وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِینَ} ، قَالَ : عُمَرُ۔
(٣٢٦٥٩) حضرت ابو ہاشم (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت سعید بن جبیر (رض) نے قرآن کی اس آیت { وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِینَ } کے بارے میں فرمایا : : کہ حضرت عمر (رض) مراد ہیں۔

32659

(۳۲۶۶۰) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ خَلَفِ بْنِ حَوْشَبٍ ، عَنْ أَبِی السَّفَرِ ، قَالَ : رُؤیَ عَلَی عَلِیٍّ بُرْدٌ کَانَ یُکْثِرُ لُبْسَہُ ، قَالَ : فَقِیلَ لَہُ : إنَّک لَتُکْثِرُ لُبْسَ ہَذَا الْبُرْدِ ، فَقَالَ : إِنَّہُ کَسَانِیہِ خَلِیلِی وَصَفِیِّی وَصَدِیقِی وَخَاصَّتِی عُمَرُ ، إنَّ عُمَرَ نَاصَحَ اللَّہَ فَنَصَحَہُ اللَّہُ ، ثُمَّ بَکَی۔
(٣٢٦٦٠) حضرت ابو السفر (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت علی (رض) کو اکثر ایک چادر پہنے دیکھا گیا تو ان سے پوچھا گیا ؟ بلاشبہ آپ (رض) اکثر یہ چادر پہنتے ہیں ؟ آپ (رض) نے فرمایا : یہ میرے بہت قریبی ، مخلص اور خاص دوست عمر بن خطاب (رض) نے مجھے پہنائی تھی۔ یقیناعمر (رض) نے اللہ سے خالص توبہ کی تو اللہ نے ان کی توبہ کو بھی قبول فرما لیا۔ پھر آپ (رض) رونے لگے۔

32660

(۳۲۶۶۱) حَدَّثَنَا ابْنُ مُبَارَکٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ زَیْدِ بْنِ أَسْلَمَ ، عْن أَبِیہِ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : مَا زَالَ عُمَرُ جَادًّا جَوَّادًا مِنْ حِینِ قُبِضَ حَتَّی انْتَہَی۔
(٣٢٦٦١) حضرت ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) مسلسل سخاوت فرماتے تھے جب سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات ہوئی تھی یہاں تک کہ آپ (رض) کا بھی انتقال ہوگیا۔

32661

(۳۲۶۶۲) حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا إبْرَاہِیمُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنْ صَالِحِ بْنِ کَیْسَانَ ، عَنِ ابْنِ شِہَابٍ ، عَن عبد الحمید بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ زَیْدٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ ، مَا سَلَکْتَ فَجًّا إلاَّ سَلَکَ الشَّیْطَانُ فَجًّا سِوَاہُ ، یَقُولُہُ لِعُمَرَ۔ (بخاری ۳۲۹۴۔ مسلم ۲۲)
(٣٢٦٦٢) حضرت سعد (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے تو (عمر) نہیں کسی راستہ پر چلتا مگر یہ کہ شیطان اس راستہ سے ہٹ کر کسی اور راستہ پر چلا جاتا ہے۔

32662

(۳۲۶۶۳) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ، قَالَ: حدَّثَنِی کَہْمَسٌ ، قَالَ : حَدَّثَنِی عَبْدُ اللہِ بْنُ شَقِیقٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِی الأَقْرَعُ شَکَّ کَہْمَسٌ : لاَ أَدْرِی الأَقْرَعُ الْمُؤَذِّنُ ہُوَ ، أَوْ غَیْرُہُ ، قَالَ أَرْسَلَ عُمَرُ إِلَی الأُسْقُفِ قَالَ : فَہُوَ یَسْأَلُہُ وَأَنَا قَائِمٌ عَلَیْہِمَا أُظِلُّہُمَا مِنَ الشَّمْسِ، فَقَالَ لَہُ: ہَلْ تَجِدُنَا فِی کِتَابِکُمْ، فَقَالَ: صِفَتَکُمْ وَأَعْمَالَکُمْ، قَالَ: فما تَجِدُنِی، قَالَ : أَجِدُک قَرْنًا مِنْ حَدِیدٍ ، قَالَ : فَنَفِطَ عُمَرُ فِی وَجْہِہِ وَقال َ: قَرْنٌ حَدِیدٌ ؟ قَالَ : أَمِینٌ شَدِیدٌ ، فَکَأَنَّہُ فَرِحَ بِذَلِکَ ، قَالَ : فَمَا تَجِدُ بَعْدِی ؟ قَالَ : خَلِیفَۃٌ صِدق یُؤْثِرُ أَقْرَبِیہِ ، قَالَ : یقول عُمَرُ : یَرْحَمُ اللہ ابن عَفَّان ، قَالَ : فَمَا تَجِدُ بَعْدَہُ ؟ قَالَ : صَدَع من حَدِید ، قَالَ : وَفِی یَدِ عُمَرَ شَیئٌ یُقَلِّبُہُ ، قَالَ : فَنَبَذَہُ فَقَالَ: یَا دَفْرَاہُ - مَرَّتَیْنِ ، أَوْ ثَلاَثًا ، قَالَ: فَلاَ تَقُلْ ذَلِکَ یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ، فَإِنَّہُ خَلِیفَۃٌ مُسْلِمٌ وَرَجُلٌ صَالِحٌ، وَلَکِنَّہُ یُسْتَخْلَفُ، وَالسَّیْفُ مَسْلُولٌ ، وَالدَّامُ مُہَْرَاقٍ ، قَالَ : ثُمَّ الْتَفَتَ إِلَیَّ ثُمَّ قَالَ : الصَّلاَۃُ۔ (ابوداؤد ۴۶۱۵)
(٣٢٦٦٣) حضرت عبداللہ بن شقیق (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت اقرع (رض) نے ارشاد فرمایا : حضرت کھمس (رض) کو شک تھا فرمایا : میں نہیں جانتا کہ اقرع سے مراد مؤذن ہیں یا کوئی اور ۔۔۔ بہرحال حضرت عمر (رض) نے قاصد بھیج کر بڑے پادری کو بلا کر پوچھا اس حال میں کہ میں ان دونوں کے پاس کھڑا ہو کر ان دونوں پر سورج کی دھوپ سے سایہ کررہا تھا، کیا تمہاری کتابوں میں ہمارا ذکر موجود ہے ؟ تو اس پادری نے کہا : تمہارے اوصاف اور تمہارے اعمال کا ذکر ہے۔ آپ (رض) نے پوچھا : میرے بارے میں تمہیں کیا کچھ پتہ ہے ؟ اس نے کہا : آپ (رض) کے بارے میں لوہے کے سینگ کا ذکر پاتا ہوں۔ راوی کہتے ہیں۔ حضرت عمر (رض) کے چہرے میں غصہ کے آثار نمودار ہوئے اور فرمایا : لوہے کا سینگ ؟ اس نے کہا : مراد ہے کہ بہت زیادہ امانت دار ہو، تو آپ (رض) کو اس سے بہت خوشی ہوئی۔ فرمایا : میرے بعد کا کیسے ذکر ہے ؟ اس نے کہا : سچا خلیفہ ہوگا جو اپنے قریبی رشتہ داروں کو ترجیح دے گا۔ راوی کہتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : اللہ ابن عفان پر رحم کرے۔ آپ (رض) نے پوچھا : ان کے بعد کا کیسے ذکر ہے ؟ بہت شدید شگاف ہوگا۔ راوی کہتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) کے ہاتھ میں کوئی چیز تھی جسے آپ (رض) الٹ پلٹ رہے تھے۔ آپ (رض) نے اس کو پھینک دیا اور دو یا تین مرتبہ فرمایا : افسوس ذلیل شخص پر ! اس نے کہا : اے امیر المؤمنین ! آپ ایسے مت کہیے۔ یقیناً وہ مسلمان خلیفہ ہوں گے اور نیک آدمی ہوں گے۔ لیکن انھیں خلیفہ بنایا جائے گا اس حال میں کہ تلوار لٹکی ہوئی ہوگی اور خون بہایا جا چکا ہوگا۔ راوی کہتے ہیں پھر آپ (رض) نے میری طرف متوجہ ہو کر فرمایا : نماز کا وقت ہے۔

32663

(۳۲۶۶۴) حَدَّثَنَا عَفَّانُ قَالَ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ قَالَ أَخْبَرَنَا الأَشْعَثُ بْنُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ الْجَرْمِیُّ عَنْ أَبِیہِ عَنْ سَمُرَۃَ بْنَ جُنْدُبٍ أَنَّ رَجُلاً قَالَ : یَا رَسُولَ اللہ ! رَأَیْتُ کَأَنَّ دَلْوًا دُلِّیَ مِنَ السَّمَائِ فَجَائَ أَبُو بَکْرٍ فَأَخَذَ بِعَرَاقِیہَا فَشَرِبَ شَرَابًا وَفِیہِ ضَعْفٌ ، ثُمَّ جَائَ عُمَرُ فَأَخَذَ بِعَرَاقِیہَا فَشَرِبَ حَتَّی تَضَلَّعَ ، ثُمَّ جَائَ عُثْمَانُ فَأَخَذَ بِعَرَاقِیہَا فَشَرِبَ حَتَّی تَضَلَّعَ۔
(٣٢٦٦٤) حضرت سمرہ بن جندب (رض) فرماتے ہیں کہ بلاشبہ ایک آدمی نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول 5! رات کو میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک ڈول آسمان سے نیچے اترا۔ پس حضرت ابوبکر (رض) آئے ! انھوں نے اس کو دونوں کناروں سے پکڑا اور پانی پیا اس حال میں کہ ان میں کمزوری تھی۔ پھر حضرت عمر (رض) آئے انھوں نے اس کو دونوں کناروں سے پکڑ کر پانی پیا یہاں تک کہ وہ سیراب ہوگئے۔ پھر حضرت عثمان (رض) انھوں نے بھی اس کے دونوں کناروں کو پکڑ کر پانی پیا یہاں تک کہ وہ سیراب ہوگئے۔

32664

(۳۲۶۶۵) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ عَنِ الأَعْمَشِ عَنْ أَبِی صَالِحٍ عَنْ مَالِکِ الدَّارِ ، قَالَ : وَکَانَ خَازِنَ عُمَرَ عَلَی الطَّعَامِ ، قَالَ : أَصَابَ النَّاسَ قَحْطٌ فِی زَمَنِ عُمَرَ ، فَجَائَ رَجُلٌ إِلَی قَبْرِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : یَا رَسُولَ اللہِ ، اسْتَسْقِ لأُمَّتِکَ فَإِنَّہُمْ قَدْ ہَلَکُوا ، فَأَتَی الرَّجُلَ فِی الْمَنَامِ فَقِیلَ لَہُ : ائْتِ عُمَرَ فَأَقْرِئْہُ السَّلامَ ، وَأَخْبِرْہُ أَنَّکُمْ مُسْتَقِیمُونَ وَقُلْ لَہُ : عَلَیْک الْکَیْسُ ، عَلَیْک الْکَیْسُ ، فَأَتَی عُمَرَ فَأَخْبَرَہُ فَبَکَی عُمَرُ ، ثُمَّ قَالَ : یَا رَبِّ لاَ آلُو إلاَّ مَا عَجَزْت عَنْہُ۔
(٣٢٦٦٥) حضرت مالک الدار (رض) حضرت عمر (رض) کے شعبہ طعام میں خزانچی تھے فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) کے زمانے میں لوگ قحط سالی میں مبتلا ہوگئے پس ایک آدمی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قبر پر حاضر ہو کر یوں کہنے لگا : اے اللہ کے رسول 5! اپنی امت کے لیے پانی طلب کیجئے وہ ہلاک ہوگئی ہے ! تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس آدمی کو خواب میں نظر آئے اور اس سے کہا : عمر (رض) کے پاس جا کر اسے میرا سلام کہو اور اسے بتاؤ کہ لوگ سیراب ہونے کی جگہ میں ہیں، اور اس سے کہو : تم پر دانشمندی لازم ہے۔ تم پر دانشمندی لازم ہے۔ پس وہ آدمی حضرت عمر (رض) کی خدمت میں حاضر ہوا اور حضرت عمر (رض) کو اس خواب کی خبر دی ، تو حضرت عمر (رض) رونے لگے پھر فرمایا : اے میرے پروردگار ! کوئی کوتاہی نہیں مگر میں اس سے عاجز آگیا۔

32665

(۳۲۶۶۶) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ شَقِیقٍ ، قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللہِ : لَوْ وُضِعَ عِلْمُ أَحْیَائِ الْعَرَبِ فِی کِفَّۃٍ وَوُضِعَ عِلْمُ عُمَرَ فِی کِفَّۃٍ لَرَجَحَ بِہِمْ عِلْمُ عُمَرَ۔
(٣٢٦٦٦) حضرت شقیق (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) نے ارشاد فرمایا : اگر عرب کے زندہ لوگوں کا علم ترازو کے ایک پلڑے میں رکھ دیا جائے اور حضرت عمر (رض) کا علم دوسرے پلڑے میں رکھ دیا جائے تو حضرت عمر (رض) کا علم ان سب پر بھاری ہوگا۔

32666

(۳۲۶۶۷) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ سَالِمٍ ، قَالَ : جَائَ أَہْلُ نَجْرَانَ إِلَی عَلِیٍّ فَقَالُوا : یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ کِتَابُک بِیَدِکَ وَشَفَاعَتُک بِلِسَانِکَ ، أَخْرَجَنَا عُمَرُ مِنْ أَرْضِنَا فَارْدُدْنَا إلَیْہَا ، فَقَالَ لَہُمْ عَلِیٌّ : وَیْحَکُمْ ، إنَّ عُمَرَ کَانَ رَشِیدَ الأَمْرِ ، وَلا أُغَیِّرُ شَیْئًا صَنَعَہُ عُمَرُ ، قَالَ الأَعْمَشُ ، فَکَانُوا یَقُولُونَ : لَوْ کَانَ فِی نَفْسِہِ عَلَی عُمَرَ شَیْئٌ لاغْتَنَمَ ہَذَا عَلِیٌّ۔
(٣٢٦٦٧) حضرت سالم (رض) فرماتے ہیں کہ اہل نجران نے حضرت علی (رض) کی خدمت میں حاضر ہو کر درخواست کی : اے امیرالمؤمنین ! آپ (رض) کا اپنا ہاتھ سے حکم لکھنا اور اپنی زبان سے شفاعت کرنا احسان ہوگا۔ حضرت عمر (رض) نے ہمیں ہماری زمین سے نکال دیا تھا۔ آپ (رض) ہمیں واپس وہاں بھیج دیں۔ تو حضرت علی (رض) نے اسے فرمایا : تمہارے لیے ہلاکت ہو یقیناً حضرت عمر (رض) صحیح معاملہ پر قائم تھے۔ اور میں ہرگز اس چیز کو نہیں بدلوں گا جو حضرت عمر (رض) نے فیصلہ کیا تھا۔ حضرت اعمش (رض) نے فرمایا : پس وہ لوگ کہتے تھے۔ اگر ان کے دل میں حضرت عمر (رض) کے بارے میں تھوڑی سی بھی ناراضگی ہوتی تو وہ اس موقع سے ضرور فائدہ اٹھاتے۔

32667

(۳۲۶۶۸) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ حَجَّاجٍ عَمَّنْ أَخْبَرَہُ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : قَالَ عَلِیٌّ حِینَ قَدِمَ الْکُوفَۃَ : مَا قَدِمْت لأَحُلَّ عُقْدَۃً شَدَّہَا عُمَرُ۔
(٣٢٦٦٨) امام شعبی (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت علی (رض) جب کوفہ آئے تو فرمایا : میں اس لیے آیا کہ حضرت عمر (رض) نے جو گرہ لگائی ہے۔ اس کو کھولوں۔

32668

(۳۲۶۶۹) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا مِسْعَرٌ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ عُمَیْرٍ ، عَنِ الصَّقْرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ ، عَنْ عُرْوَۃَ بْنِ الزُّبَیْرِ ، عَنْ عَائِشَۃَ : أَنَّ الْجِنَّ بَکَتْ عَلَی عُمَرَ قَبْلَ أَنْ یُقْتَلَ بِثَلاثٍ ، فَقَالَتْ : أَبَعْدَ قَتِیلٍ بِالْمَدِینَۃِ أَصْبَحَتْ لَہُ الأَرْضُ تَہْتَزُّ الْعِضَاہُ بِأَسْوُقِ۔ جَزَی اللَّہُ خَیْرًا مِنْ أَمِیرٍ وَبَارَکَتْ یَدُ اللہِ فِی ذَاکَ الأَدِیمِ الْمُمَزَّقِ۔ فَمَنْ یَسْعَ ، أَوْ یَرْکَبْ جَنَاحَیْ نَعَامَۃٍ لِیُدْرِکَ مَا أسدیت بِالأَمْسِ یُسْبَقِ۔ قَضَیْت أُمُورًا ثُمَّ غَادَرْت بَعْدَہَا بَوَائِقَ فِی أَکْمَامِہَا لَمْ تُفَتَّقْ۔ وَمَا کُنْتُ أَخْشَی أَنْ تَکُونَ وَفَاتُہُ بِکَفَّیْ سَبَنْتی أَخْضَرِ الْعَیْنِ مُطْرِقِ
(٣٢٦٦٩) حضرت عروہ بن زبیر (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عائشہ (رض) نے ارشاد فرمایا : بلاشبہ جن بھی حضرت عمر (رض) کے شہید ہونے سے تین دن قبل رو پڑے اور یہ اشعار کہے : (ترجمہ) مدینہ منورہ میں شہید ہونے والے کی جدائی پر زمین اپنے عضاء نامی درخت کے ساتھ کانپ رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ امیر المومنین حضرت عمر (رض) کو جزائے خیر عطا فرمائے اور ان کے جسم میں برکت عطا فرمائے۔ اگر کوئی سواری پر سوار ہو کر آپ کے کارناموں کو دہرانا چاہے تو ایسا نہیں کرسکتا۔ آپ کے فیصلے خوشوں کے پھل کی طرح عمدہ ہیں۔ مجھے اس بات کا ڈر ہے کہ ان کی وفات نیلی آنکھوں والے مکار درندے (ابولؤلؤ) کے ہاتھوں ہوگی۔

32669

(۳۲۶۷۰) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ زَیْدِ بْنِ وَہْبٍ ، قَالَ : جَائَ رَجُلانِ إِلَی عَبْدِ اللہِ ، فَقَالَ أَحَدُہُمَا : یَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، کَیْفَ تَقْرَأُ ہَذِہِ الآیَۃَ ، فَقَالَ لَہُ عَبْدُ اللہِ مَنْ أَقْرَأَک ؟ قَالَ : أَبُو حَکِیمٍ الْمُزَنِیّ ، وَقَالَ لِلآخَرِ: مَنْ أَقْرَأَک ؟ قَالَ : أَقْرَأَنِی عُمَرُ ، قَالَ : اقْرَأْ کَمَا أَقْرَأَک عُمَرُ ، ثُمَّ بَکَی حَتَّی سَقَطَتْ دُمُوعُہُ فِی الْحَصَا ، ثُمَّ قَالَ : إنَّ عُمَرَ کَانَ حِصْنًا حَصِینًا عَلَی الإسْلامِ ، یَدْخُلُ فِیہِ ، وَلا یَخْرُجُ مِنْہُ ، فَلَمَّا مَاتَ عُمَرُ انْثَلَمَ الْحِصْنُ فَہُوَ یَخْرُجُ مِنْہُ وَلا یَدْخُلُ فِیہِ۔
(٣٢٦٧٠) حضرت زید بن وھب (رض) فرماتے ہیں کہ دو آدمی حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) کی خدمت میں حاضر ہوئے پھر ان دونوں میں سے ایک کہنے لگا : آپ اس آیت کو کیسے پڑھتے ہیں ؟ تو حضرت عبداللہ (رض) نے اس سے پوچھا : تمہیں یہ آیت کس نے پڑھائی ؟ اس نے کہا : حضرت ابو حکیم المزنی نے ۔ اور آپ (رض) نے دوسرے سے پوچھا : تمہیں یہ آیت کس نے پڑھائی ؟ اس نے کہا : مجھے حضرت عمر (رض) نے پڑھائی۔ آپ (رض) نے فرمایا : تم پڑھو جیسا کہ حضرت عمر (رض) نے تمہیں پڑھایا ، پھر رونے لگے یہاں تک کہ آپ (رض) کے آنسو کنکریوں پر گرنے لگے۔ پھر فرمایا : بلاشبہ حضرت عمر (رض) اسلام کے مضبوط و مستحکم قلعہ تھے جس میں اسلام داخل ہوا اور ان سے نکلا نہیں۔ پس جب حضرت عمر (رض) کا انتقال ہوگیا تو اس قلعہ میں شگاف پڑگیا پس وہ اس سے نکل گیا اور اس میں داخل نہیں ہوا۔

32670

(۳۲۶۷۱) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ أَبِی عُثْمَانَ ، أَنَّہُ کَانَتْ فِی یَدِہِ قَنَاۃٌ یَمْشِی عَلَیْہَا ، وَکَانَ یُکْثِرُ أَنْ یَقُولَ : وَاللہِ لَوْ أَشَائُ أَنْ تَنْطِقَ قَنَاتِی ہَذِہِ لَنَطَقَتْ ، لَوْ کَانَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ مِیزَانًا مَا کَانَ فِیہِ مِیطُ شَعْرَۃٍ۔
(٣٢٦٧١) حضرت عاصم (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت ابو عثمان (رض) کے ہاتھ میں ایک لکڑی ہوتی تھی۔ جس کی مدد سے وہ چلتے تھے اور اکثر یوں فرماتے تھے : اگر اللہ چاہے کہ میری لاٹھی بولے تو یہ ضرور بولتی۔ آپ (رض) فرماتے ہیں : اگر حضرت عمر بن خطاب (رض) ترازو ہوتے تو پھر بال برابر بھی ناانصافی نہ ہوتی۔

32671

(۳۲۶۷۲) حَدَّثَنَا مُعْتَمِرُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : سَمِعْتُ الْحَسَنَ یَقُولُ : خَطَبَ عُمَرُ وَالْمُغِیرَۃُ بْنُ شُعْبَۃَ امْرَأَۃً ، فَأَنْکَحُوا الْمُغِیرَۃَ وَتَرَکُوا عُمَرَ ، أو قَالَ : رَدُّوا عُمَرَ ، قَالَ : فَقَالَ نَبِیُّ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لَقَدْ تَرَکُوا ، أَوْ رَدُّوا خَیْرَ ہَذِہِ الأُمَّۃِ۔
(٣٢٦٧٢) حضرت سلیمان (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت حسن (رض) کو یوں فرماتے ہوئے سنا کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) اور حضرت مغیرہ بن شعبہ (رض) نے ایک عورت کی طرف پیغام نکاح بھیجا تو اس کے اہل خانہ نے حضرت مغیرہ (رض) سے اس عورت کا نکاح کردیا اور حضرت عمر (رض) کو چھوڑ دیا یا راوی نے یوں کہا : کہ حضرت عمر (رض) کے پیغام کو رد کردیا۔ تو اس پر اللہ کے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : البتہ تحقیق انھوں نے اس امت کے بہترین شخص کو چھوڑا یا فرمایا : رد کیا۔

32672

(۳۲۶۷۳) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَرْوَانَ ، عَنْ یُونُسَ ، قَالَ : کَانَ الْحَسَنُ رُبَّمَاْ ذُکِرَ عُمَرَ ، فَقَالَ : وَاللہِ مَا کَانَ بِأَوَّلِہِمْ إسْلاَمًا ، وَلاَ أَفْضَلِہِمْ نَفَقَۃً فِی سَبِیلِ اللہِ ، وَلَکِنَّہُ غَلَبَ النَّاسَ بِالزُّہْدِ فِی الدُّنْیَا وَالصَّرَامَۃِ فِی أَمْرِ اللہِ ، وَلاَ یَخَافُ فِی اللہِ لَوْمَۃَ لاَئِمٍ۔
(٣٢٦٧٣) حضرت یونس (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت حسین (رض) کبھی حضرت عمر (رض) کا ذکر کرتے تو فرماتے : اللہ کی قسم اگرچہ وہ پہلے اسلام لانے والوں میں سے نہیں تھے اور نہ ہی اللہ کے راستہ میں خرچ کرنے والوں میں زیادہ افضل تھے لیکن وہ دنیا سے بےرغبتی میں لوگوں پر غالب تھے۔ اور اللہ کے دین کے معاملہ میں سخت مزاج تھے۔ اور اللہ کے بارے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈرتے تھے۔

32673

(۳۲۶۷۴) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ أَبِی بُکَیْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا شُعْبَۃُ ، عَنْ قَیْسِ بْنِ مُسْلِمٍ ، عَنْ طَارِقِ بْنِ شِہَابٍ ، قَالَ : کُنَّا نَتَحَدَّثُ أَنَّ السَّکِینَۃَ تَنْزِلُ عَلَی لِسَانِ عُمَرَ۔ (طبرانی ۸۲۰۲)
(٣٢٦٧٤) حضرت قیس بن مسلم (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت طارق بن شھاب (رض) نے ارشاد فرمایا : ہم لوگ آپس میں یوں بات کرتے تھے کہ بلاشبہ سکینہ و رحمت حضرت عمر (رض) کی زبان پر نازل ہوتی ہے۔

32674

(۳۲۶۷۵) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ، قَالَ: حدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَۃَ، قَالَ: قَالَ سَعْدٌ: أَمَا وَاللہِ، مَا کَانَ بِأَقْدَمِنَا إسْلاَمًا وَلَکِنْ قَدْ عَرَفْت بِأَیِّ شَیْئٍ فَضَلَنَا، کَانَ أَزْہَدَنَا فِی الدُّنْیَا، یَعْنِی عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ۔
(٣٢٦٧٥) حضرت ابو سلمہ (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت سعد (رض) نے ارشاد فرمایا : بہرحال اللہ کی قسم ! اگرچہ وہ ہم میں اسلام کے اعتبار سے زیادہ قدیم نہیں تھے لیکن میں نے ان کو ہر چیز میں افضل پایا وہ ہم لوگوں میں سب سے زیادہ دنیا سے بےرغبت تھے۔ یعنی حضرت عمر بن خطاب (رض) ۔

32675

(۳۲۶۷۶) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ ، عَنْ زُبَیْدٍ ، قَالَ : لَمَّا حَضَرَتْ أَبَا بَکْرٍ الْوَفَاۃُ أَرْسَلَ إِلَی عُمَرَ لِیَسْتَخْلِفَہُ ، قَالَ : فَقَالَ النَّاسُ : اسْتَخْلَفْت عَلَیْنَا فَظًّا غَلِیظًا ، فَلَوْ مَلَکَنَا کَانَ أَفَظَّ وَأَغْلَظَ ، مَاذَا تَقُولُ لِرَبِّکَ إذَا أَتَیْتہ وَقَدِ اسْتَخْلَفْت عَلَیْنَا ، قَالَ : أَتُخَوِّفُونِی بِرَبِّی ، أَقُولُ : اللَّہُمَّ أَمَّرْت عَلَیْہِمْ خَیْرَ أَہْلِک۔
(٣٢٦٧٦) حضرت اسماعیل (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت زبید (رض) نے ارشاد فرمایا : جب حضرت ابوبکر (رض) کی وفات کا وقت قریب ہوا تو آپ (رض) نے قاصد بھیج کر حضرت عمر (رض) کو بلایا تاکہ ان کو خلیفہ بنادیں۔ تو لوگ کہنے لگے ! آپ (رض) ہم پر سخت مزاج کو خلیفہ بنادیں گے۔ پس اگر وہ ہمارے مالک ہوگئے تو وہ مزید سخت شدید مزاج والے ہوجائیں گے۔ آپ (رض) اپنے رب کو کیا جواب دیں گے جب آپ ان کے پاس جائیں گے کہ آپ نے ان کو ہم پر خلیفہ بنادیا ؟ آپ (رض) نے فرمایا : کیا تم لوگ مجھے میرے رب سے خوف دلاتے ہو ؟ ! میں جواب دوں گا : اے اللہ ! میں نے ان لوگوں پر تیرے سب سے بہترین بندے کو امیر بنادیا۔

32676

(۳۲۶۷۷) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ مَعْرُوفِ بْنِ أَبِی مَعْرُوفٍ الْمَوْصِلِیِّ ، قَالَ : لَمَّا أُصِیبَ عُمَرُ سَمِعْنَا صَوْتًا : لِیَبْکِ عَلَی الإسْلاَمِ مَنْ کَانَ بَاکِیًا فَقَدْ أَوْشَکُوا ہَلْکَی ، وَمَا قَدُمَ الْعَہْدُ وَأَدْبَرَتِ الدُّنْیَا وَأَدْبَرَ خَیْرُہَا وَقَدْ مَلَّہَا مَنْ کَانَ یُوقِنُ بِالْوَعْدِ
(٣٢٦٧٧) حضرت معروف بن ابی معروف الموصلی (رض) فرماتے ہیں کہ جب حضرت عمر (رض) کی وفات ہوگئی تو ہم لوگوں نے ایک آواز سنی جو یہ اشعار پڑھ رہی تھی : (ترجمہ) اسلام پر ہر رونے والے کو رونا چاہیے۔ وہ ہلاکت کے قریب پہنچ گئے۔ وہ ابھی بہت زمانہ نہیں گزرا۔ دنیا ختم ہوگئی اور دنیا کا بہترین شخص چلا گیا۔ جو اس کے وعدوں کا یقین رکھتا تھا آج پریشان ہے۔

32677

(۳۲۶۷۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ ہَارُونَ بْنِ أَبِی إِبْرَاہِیمَ ، عَن عَبْدِ اللہِ بْنِ عُبَیْدِ بْنِ عُمَیْرٍ ، قَالَ : دَخَلَ ابْنُ عَبَّاسٍ عَلَی عُمَرَ حِینَ طُعِنَ ، فَقَالَ لَہُ : یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ ، إِنْ کَانَ إسْلاَمُک لَنَصْرًا ، وَإِنْ کَانَتْ إمَارَتُک لَفَتْحًا ، وَاللہِ لَقَدْ مَلأَتِ الأَرْضَ عَدْلاً حَتَّی إنَّ الرَّجُلَیْنِ لَیَتَنَازَعَانِ فَیَنْتَہِیَانِ إِلَی أَمْرِکَ ، قَالَ عُمَرُ : أَجْلِسُونِی ، فَأَجْلَسُوہُ ، قَالَ : رُدَّ عَلَیَّ کَلاَمُک ، قَالَ : فَرَدَّہُ عَلَیْہِ ، قَالَ : فَتَشْہَدُ لِی بِہَذَا الْکَلاَمُ یَوْمَ تَلْقَاہُ ، قَالَ : نَعَمْ ، قَالَ : فَسَّرَ ذَلِکَ عُمَرَ وَفَرِحَ۔
(٣٢٦٧٨) حضرت عبداللہ بن عبید بن عمیر (رض) فرماتے ہیں کہ جب حضرت عمر (رض) کو نیزہ مارا گیا تو حضرت ابن عباس (رض) آپ (رض) کے پاس تشریف لائے اور آپ (رض) سے فرمایا : اے امیر المؤمنین : یقیناً آپ کا اسلام مسلمانوں کی مدد ثابت ہوا، اور آپ کی خلافت مسلمانوں کی فتح۔ اللہ کی قسم ! آپ (رض) نے زمین کو عدل و انصاف سے بھر دیا۔ یہاں تک کہ اگر دو آدمیوں کے درمیان جھگڑا ہوتا تو وہ دونوں آپ کی طرف اپنا معاملہ سونپ دیتے۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : لوگو مجھے بٹھا دو ۔ پس لوگوں نے ان کو بٹھایا ۔ آپ (رض) نے فرمایا : مجھ پر دوبارہ اپنی بات دہراؤ ۔ تو حضرت ابن عباس (رض) نے دوبارہ اپنی بات دہرائی۔ آپ (رض) نے فرمایا : کیا تم اس بات کی اس دن گواہی دو گے جب تم اپنے رب سے ملو گے ؟ انھوں نے فرمایا : جی ہاں ! راوی کہتے ہیں۔ اس بات سے حضرت عمر (رض) مسرور ہوئے اور بہت خوش ہوئے۔

32678

(۳۲۶۷۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سَلَمَۃَ بْنِ وَرْدَانَ ، قَالَ : سَمِعْتُ أَنَسًا یَقُولُ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لأَصْحَابِہِ : مَنْ شَہِدَ مِنْکُمْ جِنَازَۃً ، قَالَ عُمَرُ أَنَا : قَالَ : مَنْ عَادَ مِنْکُمْ مَرِیضًا ، قَالَ عُمَرُ : أَنَا ، قَالَ : مَنْ تَصَدَّقَ ، قَالَ عُمَرُ : أَنَا ، قَالَ : مَنْ أَصْبَحَ مِنْکُمْ صَائِمًا ، قَالَ عُمَرُ : أَنَا ، قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : وَجَبَتْ وَجَبَتْ۔
(٣٢٦٧٩) حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے صحابہ (رض) سے پوچھا : تم میں سے کون جنازہ میں حاضر ہوا ؟ حضرت عمر (رض) نے عرض کیا : میں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم میں سے کس نے مریض کی عیادت کی ؟ حضرت عمر (رض) نے عرض کیا : میں نے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کس نے صدقہ دیا ؟ حضرت عمر (رض) نے عرض کیا : میں نے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم میں سے کس نے روزے کی حالت میں صبح کی ؟ حضرت عمر (رض) نے عرض کیا : میں نے اس پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جنت واجب ہوگئی، جنت واجب ہوگئی۔

32679

(۳۲۶۸۰) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، حَدَّثَنَا مِسْعَرٌ ، عَنْ مُوسَی بْنِ أَبِی کَثِیرٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، قَالَ : مَرَّ عُمَرُ بِرَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَہُوَ وَعَائِشَۃُ وَہُمَا یَأْکُلاَنِ حَیْسًا ، فَدَعَاہُ فَوَضَعَ یَدَہُ مَعَ أَیْدِیہِمَا ، فَأَصَابَتْ یَدُہُ یَدَ عَائِشَۃَ ، فَقَالَ : أَوَّہْ ، لَوْ أُطَاعُ فِی ہَذِہِ وَصَوَاحِبِہَا مَا رَأَتْہُنَّ أَعْیُنٌ ، وَذَلِکَ قَبْلَ آیَۃِ الْحِجَابِ ، قَالَ : فَنَزَلَتْ آیَۃُ الْحِجَابِ۔ (بخاری ۱۰۵۳۔ نسائی ۱۱۴۱۹)
(٣٢٦٨٠) حضرت مجاہد (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) کا گزر ایک دفعہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس سے ہوا اس حال میں کہ حضرت عائشہ (رض) بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ تھیں۔ اور آپ دونوں حلوہ کھا رہے تھے ۔ پس آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عمر (رض) کو بھی بلا لیا۔ آپ (رض) نے ان دونوں کے ہاتھوں کے ساتھ ہی اپنا ہاتھ ڈالا تو آپ (رض) کا ہاتھ حضرت عائشہ (رض) کے ہاتھ سے ٹکرا گیا اس پر آپ (رض) نے فرمایا : اوہ ! اگر اس کے اور اس کے ساتھیوں کے معاملہ میں میری بات مانی جاتی تو اس کو اور اس کے ساتھیوں کو کوئی آنکھ بھی نہ دیکھ سکتی ۔ یہ حجاب کا حکم اترنے سے پہلے کا واقعہ تھا۔ پس اس پر آیت نازل ہوگئی۔

32680

(۳۲۶۸۱) حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إسْمَاعِیلَ ، عَنْ جَعْفَرٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : جَائَ عَلِیٌّ إِلَی عُمَرَ وَہُوَ مُسَجًّی ، فَقَالَ : مَا عَلَی وَجْہِ الأَرْضِ أَحَدٌ أَحَبُّ إلَیَّ أَنْ أَلْقَی اللَّہَ بِصَحِیفَتِہِ مِنْ ہَذَا الْمُسَجَّی۔
(٣٢٦٨١) حضرت جعفر (رض) فرماتے ہیں کہ ان کے والد نے ارشاد فرمایا : حضرت علی (رض) حضرت عمر (رض) کے پاس تشریف لائے اس حال میں کہ وہ چادر سے ڈھکے ہوئے تھے تو آپ (رض) نے فرمایا : اس کرہ زمین پر کوئی شخص نہیں جو میرے نزدیک پسندیدہ ہو اس ڈھکے ہوئے شخص سے کہ میں چاہتا ہوں کہ اللہ سے اس کے نامہ اعمال کے ساتھ ملوں۔

32681

(۳۲۶۸۲) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ یَعْقُوبَ ، عَنْ جَعْفَرٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ، أَنَّ جِبْرِیلَ ، قَالَ لِرَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : أَقْرِئْ عُمَرَ السَّلاَمَ وَأَخْبِرْہُ ، أَنَّ رِضَاہُ حُکْمٌ وَغَضَبَہُ عِزٌّ۔ (ابن عدی ۲۶۱)
(٣٢٦٨٢) حضرت سعید بن جبیر (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ارشاد فرمایا : حضرت عمر (رض) کو سلام کہیے : اور انھیں خبر دیجئے کہ یقیناً ان کی رضا ہی فیصلہ ہے اور ان کا غصہ معزز ہے۔

32682

(۳۲۶۸۳) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا الصَّلْتُ بْنُ بَہْرَامُ ، عَنْ سَیَّارٍ أَبِی الْحَکَمِ ، أَنَّ أَبَا بَکْرٍ لَمَّا ثَقُلَ أَطْلَعَ رَأْسَہُ إِلَی النَّاسِ مِنْ کُوَّۃٍ ، فَقَالَ : یَا أَیُّہَا النَّاسُ إنِّی قَدْ عَہِدْت عَہْدًا ، أَفَتَرْضَوْنَ بِہِ فَقَامَ النَّاسُ فَقَالُوا : قَدْ رَضِینَا ، فَقَامَ عَلِیٌّ ، فَقَالَ : لاَ نَرْضَی إلاَّ أَنْ یَکُونَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ ، فَکَانَ عُمَرَ۔
(٣٢٦٨٣) حضرت صلت بن بھرام (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت سیار ابو الحکم (رض) نے ارشاد فرمایا : حضرت ابوبکر (رض) کی بیماری جب بڑھ گئی تو وہ روشن دان سے لوگوں کی طرف متوجہ ہو کر فرمانے لگے : اے لوگو ! میں نے ایک فیصلہ کیا ہے کیا تم لوگ اس سے خوش ہوئے ؟ پس لوگ کھڑے ہوئے اور فرمایا۔ ہم راضی نہیں ہوں گے مگر یہ کہ وہ حضرت عمر بن خطاب (رض) ہوں۔ تو وہ حضرت عمر (رض) ہی تھے۔

32683

(۳۲۶۸۴) حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ عُمَرُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ رِبْعِیٍّ ، قَالَ : سَمِعْتُ حُذَیْفَۃَ یَقُولُ : مَا کَانَ الإسْلاَمُ فِی زَمَانِ عُمَرَ إلاَّ کَالرَّجُلِ الْمُقْبِلِ مَا یَزْدَادُ إلاَّ قُرْبًا ، فَلَمَّا قُتِلَ عُمَرُ کَانَ کَالرَّجُلِ الْمُدْبِرِ مَا یَزْدَادُ إلاَّ بُعْدًا۔
(٣٢٦٨٤) حضرت ربعی (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت حذیفہ (رض) کو یوں فرماتے ہوئے سنا کہ نہیں تھا اسلام حضرت عمر (رض) کے زمانے میں مگر پذیرائی حاصل کرنے والے آدمی کی طرح روز بروز جس کی پذیرائی میں اضافہ ہو رہا ہو۔ پس جب حضرت عمر (رض) کو شہید کردیا گیا تو وہ ہوگیا پیچھے جانے والی آدمی کی طرح جو روز بروز دور ہوتا جا رہا ہو۔

32684

(۳۲۶۸۵) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، قَالَ : حدَّثَنَا الأَعْمَشُ ، عَنْ شِمْرٍ ، قَالَ : لَکَأَنَّ عِلْمَ النَّاسِ کَانَ مَدْسُوسًا فِی جُحْرٍ مَعَ عِلْمِ عُمَرَ۔
(٣٢٦٨٥) حضرت اعمش (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت شمر نے ارشاد فرمایا : حضرت عمر (رض) کے علم کے سامنے لوگوں کا علم ایک سوراخ میں چھپا ہوا تھا۔

32685

(۳۲۶۸۶) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ حُصَیْنٍ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ جَاوَانَ ، عَنِ الأَحْنَفِ بْنِ قَیْسٍ ، قَالَ : قدِمْنَا الْمَدِینَۃَ فَجَائَ عُثْمَان فَقِیلَ : ہَذَا عُثْمَان ، فَدَخَلَ عَلَیْہِ مُلَیَّۃٌ لَہُ صَفْرَائُ قَدْ قَنَّعَ بِہَا رَأْسَہُ ، قَالَ : ہَاہُنَا عَلِیٌّ ، قَالُوا : نَعَمْ ، قَالَ : ہَاہُنَا طَلْحَۃُ ، قَالُوا : نَعَمْ ، قَالَ ہَاہُنَا الزُّبَیْرُ ، قَالُوا : نَعَمْ ، قَالَ : ہَاہُنَا سَعْدٌ ، قَالُوا : نَعَمْ ، قَالَ : أَنْشُدُکُمْ بِاللہِ الَّذِی لاَ إلَہَ إلاَّ ہُوَ ، أَتَعْلَمُونَ ، أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : مَنْ یَبْتَاعُ مِرْبَدَ بَنِی فُلاَنٍ غَفَرَ اللَّہُ لَہُ ، فَابْتَعْتہ بِعِشْرِینَ أَلْفًا ، أَوْ خَمْسَۃٍ وَعِشْرِینَ أَلْفًا ، فَأَتَیْت النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقُلْتُ : قَدِ ابْتَعْتہ ، فَقَالَ : اجْعَلْہُ فِی مَسْجِدِنَا وَأَجْرُہُ لَکَ ، قَالَ : فَقَالُوا : اللَّہُمَّ نَعَمْ ، قَالَ : أَنْشُدُکُمْ بِاللہِ الَّذِی لاَ إلَہَ إلاَّ ہُوَ ، أَتَعْلَمُونَ أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : مَنْ یَبْتَاعُ رُومَۃَ غَفَرَ اللَّہُ لَہُ ، فَابْتَعْتہَا بِکَذَا وَکَذَا ، ثُمَّ أَتَیْتہ ، فَقُلْتُ : قَدِ ابْتَعْتہَا ، فَقَالَ : اجْعَلْہَا سِقَایَۃً لِلْمُسْلِمِینَ وَأَجْرُہَا لَکَ، قَالَ : قَالُوا : اللَّہُمَّ نَعَمْ ، قَالَ : أَنْشُدُکُمْ بِاللہِ الَّذِی لاَ إلَہَ إلاَّ ہُوَ ، أَتَعْلَمُونَ أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَظَرَ فِی وُجُوہِ الْقَوْمِ ، فَقَالَ : مَنْ جَہِّزَ ہَؤُلاَئِ غَفَرَ اللَّہُ لَہُ ، یَعْنِی جَیْشَ الْعُسْرَۃِ ، فَجَہَّزْتُہُمْ حَتَّی لَمْ یَفْقِدُوا عَقَالاً ، وَلاَ خِطَامًا ، قَالُوا : اللَّہُمَّ نَعَمْ ، قَالَ : قَالَ : اللَّہُمَّ اشْہَدْ ثَلاَثًا۔ (احمد ۷۰۔ ابن حبان ۶۹۲۰)
(٣٢٦٨٦) حضرت عمر بن جاوان (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت احنف بن قیس (رض) نے ارشاد فرمایا : ہم لوگ مدینہ میں تھے کہ حضرت عثمان (رض) تشریف لائے۔ کہا گیا کہ یہ حضرت عثمان (رض) ہیں۔ آپ (رض) داخل ہوئے اس حال میں کہ آپ (رض) پر زرد رنگ کی چادر تھی جس سے آپ (رض) نے اپنا سر ڈھانپا ہوا تھا۔ آپ (رض) نے پوچھا : یہاں حضرت علی (رض) ہیں ؟ لوگوں نے عرض کیا : جی ہاں ! آپ (رض) نے پوچھا : یہاں حضرت طلحہ (رض) ہیں ؟ لوگوں نے عرض کیا : جی ہاں ! آپ (رض) نے پوچھا : یہاں حضرت زبیر (رض) ہیں ؟ لوگوں نے عرض کیا : جی ہاں ! آپ (رض) نے پوچھا : یہاں حضرت سعد (رض) ہیں ؟ لوگوں نے عرض کیا : جی ہاں ! آپ (رض) نے فرمایا : میں تم لوگوں کو قسم دے کر پوچھتا ہوں اس ذات کی جس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں کہ کیا تم لوگ جانتے ہو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس فرمان کو جو آپ (رض) نے ارشاد فرمایا : کہ جو شخص فلاں قبیلہ کے اونٹ کا باڑ ا خریدے گا تو اللہ اس کی مغفرت فرما دیں گے تو میں نے وہ باڑا بیس ہزار یا پچیس ہزار میں خریدا۔ پھر میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور میں نے عرض کیا : تحقیق میں نے وہ باڑا خرید لیا۔ اس پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : تم اس جگہ کو ہماری مسجد کے لیے وقف کردو اور اس کا اجر وثواب تمہیں ملے گا ؟ راوی کہتے ہیں : ان سب حضرات نے یک زبان ہو کر کہا : اللہ کی قسم ! ایسی ہی بات ہے۔
آپ (رض) نے فرمایا : میں تم لوگوں کو قسم دیتا ہوں اس اللہ کی جس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں : کیا تم لوگ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس فرمان کے متعلق جانتے ہو جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص رومہ میٹھے پانی کا کنواں خریدے گا تو اللہ اس کی مغفرت فرما دیں گے۔ تو میں نے اس کنویں کو اتنے اور اتنے روپوں میں خریدا ، پھر میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا میں نے عرض کیا : تحقیق میں نے اس کو خرید لیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم اسے مسلمانوں کے پینے کے لیے وقف کردو اور اس کا اجر تمہیں ملے گا ؟
راوی کہتے ہیں : ان سب حضرات نے یک زبان ہو کر فرمایا : اللہ کی قسم ! ایسی ہی بات ہے۔
آپ (رض) نے فرمایا : میں تم لوگوں کو قسم دے کر پوچھتا ہوں اس اللہ کی جس کے سوا کوئی معبود نہیں کیا تم لوگ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس فرمان کو جانتے ہو جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اس حال میں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگوں کے چہرے کی طرف دیکھ رہے تھے۔ کہ کون شخص ہے جو ان لوگوں کے سفر کا سامان مہیا کرے گا ۔ اللہ اس شخص کی مغفرت فرما دیں گے۔ یعنی غزوہ تبوک میں۔ تو میں نے ان سب کے لیے سامان مہیا کیا یہاں تک کہ ان لوگوں کو اونٹ کی نکیل اور اونٹ کے پیر کی رسی کی بھی کمی نہیں ہوئی ؟۔ ان سب حضرات نے یک زبان ہو کر فرمایا : اللہ کی قسم ! ایسی ہی بات ہے، آپ (رض) نے تین مرتبہ فرمایا : اے اللہ ! تو گواہ رہ۔

32686

(۳۲۶۸۷) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، قَالَ : حدَّثَنَا کَہْمَسُ بْنُ الْحَسَنِ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ شَقِیقٍ ، قَالَ َ: حَدَّثَنِی ہَرَم بْنُ الْحَارِثِ وَأُسَامَۃُ بْنُ خُرَیمٍ وَکَانَا یُغَازِیَانِ فَحَدَّثَانِی حَدِیثًا ، وَلاَ یَشْعُرُ کُلُّ وَاحِدٍ مِنْہُمَا أَنَّ صَاحِبَہُ حَدَّثَنِیہِ عَنْ مُرَّۃَ الْبَہْزِیِّ ، قَالَ : بَیْنَمَا نَحْنُ مَعَ نَبِیِّ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ذَاتَ یَوْمٍ فِی طَرِیقٍ مِنْ طُرُقِ الْمَدِینَۃِ، فَقَالَ : کَیْفَ تَصْنَعُونَ فِی فِتْنَۃٍ تَثُورُ فِی أَقْطَارِ الأَرْضِ کَأَنَّہَا صَیَاصِی بقر ، قَالُوا : فَنَصْنَعُ مَاذَا یَا رَسُولَ اللہِ قَالَ : عَلَیْکُمْ بِہَذَا وَأَصْحَابِہِ ، قَالَ : فَأَسْرَعْت حَتَّی عَطَفْت عَلَی الرَّجُلِ ، فَقُلْتُ : ہَذَا یَا نَبِیَّ اللہِ ، قَالَ : ہَذَا فَإِذَا ہُوَ عُثْمَان۔ (احمد ۳۳۔ ابن حبان ۶۹۱۴)
(٣٢٦٨٧) حضرت مرۃ البھزی (رض) فرماتے ہیں کہ اس درمیان کہ ہم لوگ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ایک دن مدینہ کی گلیوں میں سے ایک گلی میں تھے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : تم لوگوں کا کیا حال ہوگا اس فتنہ میں جو اطراف زمین میں پھوٹ پڑے گا گویا کہ وہ گائے کے دو سینگوں کی طرح ہوگا۔ صحابہ (رض) نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ہم لوگ اس صورت میں کیا کریں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم لوگوں پر لازم ہے اس شخص کی اور اس کی جماعت کی پیروی کرنا۔ راوی کہتے ہیں : پس میں نے جلدی کی یہاں تک کہ میں اس آدمی کے پاس پہنچ گیا پھر میں نے عرض کیا : اے اللہ کے نبی 5! یہ شخص ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : یہی شخص ہے۔ تو وہ حضرت عثمان (رض) تھے۔

32687

(۳۲۶۸۸) حَدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ ، عَنْ کَعْبِ بْنِ عُجْرَۃَ أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ذَکَرَ فِتْنَۃً فَقَرَّبَہَا ، فَمَرَّ رَجُلٌ مُقَنَّعٌ ، فَقَالَ : ہَذَا وَأَصْحَابُہُ یَوْمَئِذٍ عَلَی الْہُدَی فَانْطَلَقَ الرَّجُلُ فَأَخَذَ بِمَنْکِبَیْہِ وَأَقْبَلَ بِوَجْہِہِ إِلَی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : ہَذَا ، قَالَ : نَعَمْ ، فَإِذَا ہُوَ عُثْمَان۔ (ابن ماجہ ۱۱۱۔ احمد ۲۴۳)
(٣٢٦٨٨) حضرت کعب بن عجرہ (رض) فرماتے ہیں کہ بلاشبہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فتنہ کا ذکر فرمایا : اور اس کو بہت قریب بتلایا۔ پھر ایک شخص گزرا جس کا سر چادر میں چھپا ہوا تھا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اس دن یہ شخص اور اس کی جماعت ہدایت پر ہوگی۔ پس ایک آدمی اس کے پیچھے گیا اور اس کو کندھے سے پکڑ کر اس کا چہرہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف پھیرا اور پوچھا : یہ شخص ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جی ہاں ! پس وہ حضرت عثمان (رض) تھے۔

32688

(۳۲۶۸۹) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنْ أَبِی قِلاَبَۃَ ، قَالَ : لَمَّا قُتِلَ عُثْمَان قَامَ خُطَبَائُ بِإِیلِیَائَ فَقَامَ مِنْ آخِرِہِمْ رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُقَالُ لَہُ مُرَّۃُ بْنُ کَعْبٍ ، فَقَالَ : لَوْلاَ حَدِیثٌ سَمِعْتہ مِنْ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا قُمْت ، إنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ذَکَرَ فِتْنَۃً أَحْسَبُہُ ، قَالَ : فَقَرَّبَہَا فَمَرَّ رَجُلٌ مُقَنَّعٌ ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : ہَذَا وَأَصْحَابُہُ یَوْمَئِذٍ عَلَی الْحَقِ ، فَانْطَلَقْت فَأَخَذْت بِمَنْکِبَیْہِ ، فَأَقْبَلْت بِوَجْہِہِ إِلَی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقُلْتُ : ہَذَا ، فَقَالَ : نَعَمْ ، فَإِذَا ہُوَ عُثْمَان۔ (احمد ۲۳۵)
(٣٢٦٨٩) حضرت ابو قلابہ (رض) فرماتے ہیں کہ جب حضرت عثمان (رض) کو شہید کردیا گیا تو ایلیاء مقام پر بہت سے خطیبوں نے خطاب کیا پس ان کے آخر میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ایک صحابی جن کا نام کعب بن مرہ (رض) تھا وہ کھڑے ہوئے اور فرمایا : اگر یہ حدیث میں نے خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نہ سنی ہوتی تو میں کبھی کھڑا نہ ہوتا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فتنہ کا ذکر کیا ۔ میر اگمان ہے کہ اس کو بہت قریب بتلایا تو ایک آدمی جس کا سر چادر سے چھپا ہوا تھا وہ گزرا ۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اس دن یہ شخص اور اس کی جماعت حق پر ہوگی۔ پس میں اس شخص کے پیچھے گیا پھر میں نے اس کو کندھوں سے پکڑ کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف اس کے چہرے کو پھیرا اور پوچھا : یہ شخص ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جی ہاں۔ پس وہ حضرت عثمان (رض) تھے۔

32689

(۳۲۶۹۰) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا صَدَقَۃُ بْنُ الْمُثَنَّی ، قَالَ : سَمِعْتُ جَدِّی رِیَاحَ بْنَ الْحَارِثِ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ زَیْدٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یقول : عُثْمَان فِی الْجَنَّۃِ۔
(٣٢٦٩٠) حضرت سعید بن زید (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ عثمان جنت میں ہیں۔

32690

(۳۲۶۹۱) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ خَالِدٍ ، عَنْ أَبِی قِلاَبَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : أَصْدَقُ أُمَّتِی حَیَائً عُثْمَان۔
(٣٢٦٩١) حضرت ابو قلابہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : میری امت میں سب سے زیادہ حیادار عثمان (رض) ہیں۔

32691

(۳۲۶۹۲) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنْ أَبِی قِلاَبَۃَ أَنَّ رَجُلاً مِنْ قُرَیْشٍ یُقَالُ لَہُ ثُمَامَۃُ کَانَ عَلَی صَنْعَائَ ، فَلَمَّا جَائَہُ قَتْلُ عُثْمَانَ بَکَی فَأَطَالَ الْبُکَائَ ، فَلَمَّا أَفَاقَ ، قَالَ : الْیَوْمَ انْتُزِعَتِ النُّبُوَّۃُ ، أَوَ قَالَ : خِلاَفَۃُ النُّبُوَّۃِ وَصَارَتْ مُلْکًا وَجَبْرِیَّۃً ، مَنْ غَلَبَ عَلَی شَیْئٍ أَکَلَہُ۔
(٣٢٦٩٢) حضرت ابو قلابہ (رض) فرماتے ہیں کہ قریش کا ایک آدمی جس کو ثمامہ کہتے تھے؛ وہ صنعاء میں تھا جب اس کو حضرت عثمان (رض) کے قتل کی خبر پہنچی پس وہ رونے لگا اور کافی دیر تک روتا رہا۔ جب وہ خاموش ہوا تو کہنے لگا۔ آج نبوت یا نبوت کی خلافت چھین لی گئی ۔ اور بادشاہت اور ظلم ہوگا۔ جو جس چیز پر غالب آئے گا اس کو کھاجائے گا۔

32692

(۳۲۶۹۳) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ الْعَبْدِیُّ ، عَنْ مِسْعَرٍ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ عُمَیْرٍ ، عَنْ مُوسَی بْنِ طَلْحَۃَ ، قَالَ : قالَتْ عَائِشَۃُ : کَانَ عُثْمَان أَحْصَنَہُمْ فَرْجًا وَأَوْصَلَہُمْ للرَّحِمِ۔
(٣٢٦٩٣) حضرت موسیٰ بن طلحہ (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عائشہ (رض) نے ارشاد فرمایا : حضرت عثمان (رض) سب سے زیادہ شرمگاہ کی حفاظت کرنے والے اور سب سے زیادہ صلہ رحمی فرمانے والے تھے۔

32693

(۳۲۶۹۴) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ أَنَّ عُثْمَانَ حَمَلَ فِی جَیْشِ الْعُسْرَۃِ عَلَی أَلْفِ بَعِیرٍ إلاَّ سَبْعِینَ کَمَّلَہَا خَیْلاً۔
(٣٢٦٩٤) حضرت سعید (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت قتادہ (رض) نے ارشاد فرمایا : کہ بلاشبہ حضرت عثمان (رض) نے غزوہ تبوک میں مجاہدین کو ستر کم ایک ہزار اونٹوں پر سوار کیا۔ اور ہزار کے عدد کو ستر گھوڑوں سے مکمل کیا۔

32694

(۳۲۶۹۵) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ سِنَانٍ ، قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللہِ حِینَ اسْتُخْلِفَ عُثْمَان : مَا أَلَوْنَا عَنْ أَعْلاَہا ، ذَا فُوْقُ۔
(٣٢٦٩٥) حضرت عبداللہ بن سنان (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عثمان (رض) کو جب خلیفہ بنادیا گیا تو حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) نے ارشاد فرمایا : ہم نے اپنے میں سے سب سے بلند مرتبہ کو منتخب کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔

32695

(۳۲۶۹۶) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ الْعَبْدِیُّ ، قَالَ : حدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ بْنُ أَبِی خَالِدٍ ، عَنْ حَکِیمِ بْنِ جَابِرٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ عَبْدَ اللہِ یَقُولُ حِینَ بُویِعَ عُثْمَان : مَا أَلَوْنَا عَنْ أَعْلَی ذَا فُوْقُ۔
(٣٢٦٩٦) حضرت عثمان (رض) سے بیعت کرلی گئی تو حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) کو میں نے یوں فرماتے ہوئے سنا کہ ہم لوگوں نے اپنے میں سب سے بلند مرتبہ کو منتخب کرنے میں کچھ کمی نہیں کی۔

32696

(۳۲۶۹۷) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ یَزِیدِ بْنِ أَبِی الْمَلِیحِ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ : لَوْ أَنَّ النَّاسَ اجْتَمَعُوا عَلَی قَتْلِ عُثْمَانَ لَرُجِمُوا بِالْحِجَارَۃِ کَمَا رُجِمَ قَوْمُ لُوطٍ۔
(٣٢٦٩٧) حضرت ابو الملیح (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عباس (رض) نے ارشاد فرمایا : اگر سب لوگ حضرت عثمان (رض) کے قتل پر یکجا ہوجاتے تو ان پر ایسے ہی پتھر برسائے جاتے جیسا کہ قوم لوط پر برسائے گئے تھے۔

32697

(۳۲۶۹۸) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ ، عَنْ نَافِعٍ أَنَّ رَجُلاً یُقَالُ لَہُ جَہْجَاہٌ تَنَاوَلَ عَصًی کَانَتْ فِی یَدِ عُثْمَانَ فَکَسَرَہَا بِرُکْبَتِہِ ، فَرَمَی من ذَلِکَ الْمَوْضِعِ بِآکِلَۃٍ۔q
(٣٢٦٩٨) حضرت عبید اللہ بن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت نافع (رض) نے ارشاد فرمایا : بلاشبہ ایک آدمی جس کو جھجاہ کہا جاتا تھا۔ اس نے حضرت عثمان (رض) کے ہاتھ سے لکڑی چھین کر اس کو اپنے گھٹنے کی مدد سے توڑ دیا تو اس کے اس جگہ میں عضو کو کھانے والی بیماری ہوگئی۔

32698

(۳۲۶۹۹) حَدَّثَنَا ابْنُ مُبَارَکٍ ، عَنِ ابْنِ لَہِیعَۃَ ، عَنْ زِیَادِ بْنِ أَبِی حَبِیبٍ ، قَالَ : قَالَ کَعْبٌ : کَأَنِّی أَنْظُرُ إِلَی ہَذَا وَفِی یَدِہِ شِہَابَانِ مِنْ نَارٍ ، یَعْنِی قَاتِلَ عُثْمَانَ فَقَتَلَہُ۔
(٣٢٦٩٩) حضرت زیاد بن ابی حبیب (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت کعب (رض) نے ارشاد فرمایا : گویا کہ میں دیکھ رہا ہوں اس کی طرف کہ اس کے دونوں ہاتھوں میں آگ کے انگارے ہیں یعنی حضرت عثمان (رض) کے قاتل کو جس نے ان کو قتل کیا۔

32699

(۳۲۷۰۰) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، قَالَ: حدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ قَالَ: أَخْبَرَنَا قَیْسٌ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا أَبُو سَہْلَۃَ مَوْلَی عُثْمَانَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی مَرَضِہِ : وَدِدْتُ أَنَّ عِنْدِی بَعْضَ أَصْحَابِی ، فَقَالَتْ عَائِشَۃُ : أَدْعُو لَکَ أَبَا بَکْرٍ ؟ قَالَتْ : فَسَکَتَ ، فَعَرَفْت أَنَّہُ لاَ یُرِیدُہُ ، فَقُلْتُ : أَدْعُو لَکَ عُمَرَ ؟ فَسَکَتَ ، فَعَرَفْت أَنَّہُ لاَ یُرِیدُہُ ، قُلْتُ : فَأَدْعُو لَکَ عَلِیًّا ؟ فَسَکَتَ ، فَعَرَفْت أَنَّہُ لاَ یُرِیدُہُ ، قُلْتُ : فَأَدْعُو لَکَ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ ؟ قَالَ : نَعَمْ ، فَدَعَوْتُہُ ، فَلَمَّا جَائَ أَشَارَ إلَیَّ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ تَبَاعَدِی ، فَجَائَ فَجَلَسَ إِلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَجَعَلَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ لَہُ وَلَوْنُ عُثْمَانَ یَتَغَیَّرُ ، قَالَ قَیْسٌ : فَأَخْبَرَنِی أَبُو سَہْلَۃَ ، قَالَ : لَمَّا کَانَ یَوْمُ الدَّارِ قِیلَ لِعُثْمَانَ : أَلاَ تُقَاتِلُ ، فَقَالَ : إنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَہِدَ إلَیَّ عَہْدًا وَإِنِّی صَابِرٌ عَلَیْہِ ، قَالَ أَبُو سَہْلَۃَ : فَیَرَوْنَ أَنَّہُ ذَلِکَ الْمَجْلِسُ۔ (ابن سعد ۶۶۔ احمد ۵۲)
(٣٢٧٠٠) حضرت ابو سھلہ (رض) جو کہ حضرت عثمان (رض) کے آزاد کردہ غلام ہیں فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے مرض الوفات میں ارشاد فرمایا : میں چاہتا ہوں کہ میرے پاس میرا ایک ساتھی ہو۔ تو حضرت عائشہ (رض) نے عرض کیا : کیا میں ابوبکر (رض) کو بلا دوں ؟ آپ فرماتی ہیں۔ کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خاموش رہے۔ میں سمجھ گئی کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کو بلانا نہیں چاہتے۔ تو میں نے عرض کیا : کہ میں عمر (رض) کو بلا دوں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خاموش رہے۔ میں سمجھ گئی کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کو بھی بلانا نہیں چاہتے ۔ میں نے عرض کیا : کہ میں علی (رض) کو بلا دوں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خاموش رہے۔ میں سمجھ گئی کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کو بھی بلانا نہیں چاہتے ۔ میں نے عرض کیا : میں عثمان بن عفان (رض) کو بلا دوں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جی ہاں ! پس میں نے ان کو بلوا دیا ۔ جب وہ حاضر ہوئے تو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے دور ہونے کے لیے اشارہ کیا۔ پس وہ آئے اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس بیٹھ گئے ۔ پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے کچھ فرماتے رہے اور حضرت عثمان کا رنگ تبدیل ہو رہا تھا۔
حضرت قیس فرماتے ہیں کہ حضرت ابو سھلہ (رض) نے مجھے بتلایا : کہ جب حضرت عثمان (رض) گھر میں محصور تھے۔ تو ان کو کہا گیا : آپ (رض) قتال کیوں نہیں کرتے ؟ ! تو آپ (رض) نے فرمایا : یقیناً رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھ سے ایک وعدہ لیا تھا اور میں اس پر صبر کرنے والا ہوں۔
حضرت ابو سھلہ (رض) فرماتے ہیں۔ صحابہ (رض) کا گمان تھا کہ وہ اسی مجلس میں وعدہ ہو اتھا۔

32700

(۳۲۷۰۱) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَامِرٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ عُثْمَانَ یَقُولُ : إنَّ أَعْظَمَکُمْ عِنْدِی غَنَائً مَنْ کَفَّ سِلاَحَہُ وَیَدَہُ۔
(٣٢٧٠١) حضرت عبداللہ بن عامر (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عثمان (رض) نے ارشاد فرمایا : تم میں سے میرے نزدیک مجھے سب سے زیادہ نفع پہنچانے والا وہ شخص ہوگا جو اپنے ہتھیار اور ہاتھ کو جنگ کرنے سے روک دے۔

32701

(۳۲۷۰۲) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ: حدَّثَنَا وُہَیْبٌ وَحَمَّادٌ ، قَالاَ: حَدَّثَنَا عبد اللہِ بْنُ عُثْمَانَ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، عَن عِکْرِمَۃَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ فِی قَوْلِہِ : {ہَلْ یَسْتَوِی ہُوَ وَمَنْ یَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَہُوَ عَلَی صِرَاطٍ مُسْتَقِیمٍ} قَالَ : ہُوَ عُثْمَان بْنُ عَفَّانَ۔
(٣٢٧٠٢) حضرت ابن عباس (رض) قرآن مجید کی آیت { ہَلْ یَسْتَوِی ہُوَ وَمَنْ یَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَہُوَ عَلَی صِرَاطٍ مُسْتَقِیمٍ } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اس سے مراد حضرت عثمان بن عفان (رض) ہیں۔

32702

(۳۲۷۰۳) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا سَعِیدُ بْنُ زَیْدٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا عَاصِمُ بْنُ بَہْدَلَۃَ ، قَالَ : حَدَّثَنَا أَبُو وَائِلٍ ، عَنْ عَائِشَۃَ ، قَالَتْ: کَانَ عُثْمَان یَکْتُبُ وَصِیَّۃَ أَبِی بَکْرٍ ، قَالَتْ: فَأُغْمِیَ عَلَیْہِ فَعَجَّلَ وَکَتَبَ : عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، فَلَمَّا أَفَاقَ ، قَالَ لَہُ أَبُو بَکْرٍ : مَنْ کَتَبْت ، قَالَ : عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ ، قَالَ : کَتَبْتَ الَّذِی أَرَدْتُ ، الَّذِی آمُرُک بِہِ ، وَلَوْ کَتَبْتَ نَفْسَک کُنْتَ لَہَا أَہْلاً۔
(٣٢٧٠٣) حضرت ابو وائل (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عائشہ (رض) نے ارشاد فرمایا : کہ حضرت عثمان (رض) حضرت ابوبکر (رض) کی وصیت لکھ رہے تھے کہ آپ (رض) پر بےہوشی طاری ہوگئی۔ تو حضرت عثمان (رض) نے جلدی سے حضرت عمر بن خطاب (رض) کا نام لکھ دیا۔ پس جب آپ (رض) کو افاقہ ہوا تو حضرت ابوبکر (رض) نے ان سے پوچھا : تم نے کس کا نام لکھا ؟ انھوں نے فرمایا : عمر بن خطاب (رض) کا۔ آپ (رض) نے فرمایا : تو نے وہی بات لکھی کہ میں نے یہی چاہا تھا کہ اس کے لکھنے کا تمہیں حکم دوں۔ اور اگر تم اپنا نام بھی لکھ دیتے تو تم بھی اس منصب کے اہل تھے۔

32703

(۳۲۷۰۴) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَنْ زَائِدَۃَ ، عَنْ کُلَیْبِ بْنِ وَائِلٍ ، عَنْ حَبِیبِ بْنِ أَبِی مُلَیْکَۃَ ، قَالَ : سَأَلَ رَجُلٌ ابْنَ عُمَرَ ، عَنْ عُثْمَانَ ، فَقَالَ : شَہِدَ بَدْرًا ، فَقَالَ : لاَ فَقَالَ : ہَلْ شَہِدَ بَیْعَۃَ الرِّضْوَانِ ، فَقَالَ : لاَ قَالَ : فَہَلْ تَوَلَّی یَوْمَ الْتَقَی الْجَمْعَانِ ، قَالَ : نَعَمْ ، قَالَ : ثُمَّ ذَہَبَ الرَّجُلُ فَقِیلَ لابْنِ عُمَرَ : إنَّ ہَذَا یَزْعُمُ أَنَّک عِبْت عُثْمَانَ ، قَالَ : رُدُّوہُ علی ، قَالَ : فَرَدُّوہُ عَلَیْہِ ، فَقَالَ لَہُ : ہَلْ عَقَلْت مَا قُلْتُ لَکَ ، قَالَ : نَعَمْ ، قَالَ : سَأَلْتُنِی ہَلْ شَہِدَ عُثْمَان بَدْرًا ، فَقُلْتُ لَکَ : لاَ فَقَالَ : إنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : اللَّہُمَّ إنَّ عُثْمَانَ فِی حَاجَتِکَ وَحَاجَۃِ رَسُولِکَ ، فَضَرَبَ لَہُ بِسَہْمِہِ ، وَسَأَلْتنِی ہَلْ شَہِدَ بَیْعَۃَ الرِّضْوَانِ ، قَالَ : فَقُلْتُ لَکَ : لاَ وَإِنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَعَثَہُ إِلَی الأَحْزَابِ لِیُوَادِعُونَا وَیُسَالِمُونَا فَأَبَوْا ، وَإِنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَایَعَ لَہُ وَقَالَ : اللَّہُمَّ إنَّ عُثْمَانَ فِی حَاجَتِکَ وَحَاجَۃِ رَسُولِکَ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، ثُمَّ مَسَحَ بِإِحْدَی یَدَیْہِ عَلَی الأُخْرَی فَبَایَعَ لَہُ ، وَسَأَلْتنِی ہَلْ کَانَ عُثْمَان تَوَلَّی یَوْمَ الْتَقَی الْجَمْعَانِ ، قَالَ : فَقُلْتُ : نَعَمْ ، وَإِنَّ اللَّہَ ، قَالَ : {إنَّ الَّذِینَ تَوَلَّوْا مِنْکُمْ یَوْمَ الْتَقَی الْجَمْعَانِ إنَّمَا اسْتَزَلَّہُمَ الشَّیْطَانُ بِبَعْضِ مَا کَسَبُوا وَلَقَدْ عَفَا اللَّہُ عَنْہُمْ} فَاذْہَبْ فَاجْہَدْ عَلَی جَہْدِک۔ (ابوداؤد ۲۷۲۰۔ طبرانی ۱۲۵)
(٣٢٧٠٤) حضرت حبیب بن ابی ملیکہ (رض) فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے حضرت ابن عمر (رض) سے حضرت عثمان (رض) کے متعلق پوچھا : کہ کیا وہ غزوہ بدر میں حاضر ہوئے تھے ؟ آپ (رض) نے فرمایا : نہیں۔ پھر اس نے پوچھا : کیا وہ بیعت الرضوان میں حاضر ہوئے تھے ؟ تو آپ (رض) نے فرمایا : نہیں ! اس نے پوچھا : کہ کیا وہ اس دن پیٹھ پھیر کر بھاگ گئے تھے جس دن دو لشکر آمنے سامنے ہوئے تھے ( غزوہ احد) ؟ آپ (رض) نے فرمایا : جی ہاں ! راوی کہتے ہیں : پھر وہ آدمی چلا گیا تو حضرت ابن عمر (رض) سے کہا گیا : بلاشبہ یہ آدمی سمجھا کہ آپ (رض) نے حضرت عثمان (رض) کا عیب بیان کیا ہے۔ آپ (رض) نے فرمایا : اس کو میرے پاس واپس بلاؤ۔ پس اس شخص کو واپس لے آئے۔ پھر آپ (رض) نے فرمایا : جو میں نے تمہیں کہا ہے کیا تم اسے سمجھے بھی ہو ؟ اس نے کہا : جی ہاں !
آپ (رض) نے فرمایا : تم نے مجھ سے سوال کیا کہ کیا حضرت عثمان (رض) غزوہ بدر میں شریک ہوئے تھے ؟ تو میں نے تمہیں جواب دیا کہ نہیں ہوئے۔ اس لیے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اے اللہ ! بلاشبہ عثمان تیری اور تیرے رسول کی حاجت میں ہے۔ اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مال غنیمت میں ان کا حصہ بھی مقرر فرمایا : اور تم نے مجھ سے سوال کیا کہ کیا حضرت عثمان (رض) بیعت الرضوان میں حاضر تھے ؟ تو میں نے تمہیں جواب دیا کہ نہیں تھے۔ اس لیے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو مشرکوں کی طرف بھیجا کہ وہ لوگ ہم سے مصالحت کرلیں مگر ان لوگوں نے انکار کردیا۔ تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے لیے بیعت لی۔ اور فرمایا : اے اللہ ! بلاشبہ عثمان تیری اور تیرے رسول کی حاجت میں ہے۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے ایک ہاتھ کو دوسرے ہاتھ میں دے کر ان کی طرف سے بھی بیعت کی اور تم نے مجھ سے سوال کیا کہ کیا حضرت عثمان اس دن پیٹھ پھیر کر بھاگ گئے تھے جس دن دو لشکروں کا آمنا سامنا ہوا ؟ تو میں نے تمہیں جواب دیا : جی ہاں ! اور یقیناً اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا : ( ترجمہ : بیشک وہ لوگ جو پیٹھ پھیر گئے تم میں سے جس دن باہم ٹکرائیں دو فوجیں۔ اس کا سبب صرف یہ تھا کہ قدم ڈگمگا دیے تھے ان کے شیطان نے بوجہ بعض ان حرکتوں کے جو وہ کر بیٹھے تھے۔ بہرحال معاف کردیا اللہ نے انہیں) پس تم جاؤ اور جو میرے خلاف کرنا ہے کرو۔

32704

(۳۲۷۰۵) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَنْ زَائِدَۃَ ، عَنْ أَبِی حَصِینٍ ، عَنْ سعد بْنِ عُبَیْدَۃَ ، قَالَ : سَأَلَ رَجُلٌ ابْنَ عُمَرَ ، عَنْ عُثْمَانَ فَذَکَرَ أَحْسَنَ أَعْمَالِہِ ، ثُمَّ قَالَ : لَعَلَّ ذَلِکَ یَسُوئُک ، فَقَالَ : أَجَلْ ، فَقَالَ : أَرْغَمَ اللَّہُ بِأَنْفِکَ۔
(٣٢٧٠٥) حضرت سعد بن عبیدہ (رض) فرماتے ہیں کہ ایک آدمی حضرت ابن عمر (رض) سے حضرت عثمان (رض) کے متعلق پوچھا : تو آپ (رض) نے ان کے اچھے اعمال کا ذکر فرمایا : پھر ارشاد فرمایا : شاید کہ تم ان کے بارے میں برا گمان رکھتے ہو ؟ اس شخص نے کہا : جی ہاں ! آپ (رض) نے فرمایا : اللہ تیری ناک خاک آلود کرے۔

32705

(۳۲۷۰۶) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِی أَیُّوبَ ، عَنْ ہِلاَلِ بْنِ أَبِی حُمَیْدٍ ، قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللہِ بْنُ عُکَیْمٍ : لاَ أُعِینُ عَلَی قَتْلِ خَلِیفَۃٍ بَعْدَ عُثْمَانَ أَبَدًا ، قَالَ : فَقِیلَ لَہُ : وَأَعَنْت عَلَی دَمِہِ ، قَالَ : إنِّی أَعُدُّ ذِکْرَ مَسَاوِئِہِ عَوْنًا عَلَی دَمِہِ۔
(٣٢٧٠٦) حضرت ھلال بن ابی حمید (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عکیم (رض) نے ارشاد فرمایا : میں حضرت عثمان کے شہید ہوجانے کے بعد کبھی بھی خلیفہ کے قتل پر مدد نہیں کروں گا۔ راوی فرماتے ہیں کہ ان سے پوچھا گیا کہ کیا آپ نے ان کے قتل پر مدد کی تھی ؟ انھوں نے کہا : یقیناً میں نے ان کے خون پر اتنی مدد کی کہ میں ان کی برائیاں شمار کرتا تھا۔

32706

(۳۲۷۰۷) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنْ یَحْیَی ، قَالَ : سَمِعْتُ عَبْدَ اللہِ بْنَ عَامِرٍ یَقُولُ : لَمَّا تشعب النَّاسُ فِی الطَّعْنِ عَلَی عُثْمَانَ قَامَ أَبِی فَصَلَّی مِنَ اللَّیْلِ ثم نام ، قَالَ : فَقِیلَ لَہُ : قُمْ فَاسْأَلَ اللَّہَ أَنْ یُعِیذَک مِنَ الْفِتْنَۃِ الَّتِی أَعَاذَ مِنْہَا عِبَادَہُ الصَّالِحِینَ ، قَالَ : فَقَامَ فَمَرِضَ ، قَالَ : فَمَا رُئِیَ خَارِجًا حَتَّی مَاتَ۔
(٣٢٧٠٧) حضرت یحییٰ (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن عامر (رض) کو یوں فرماتے ہوئے سنا کہ جب حضرت عثمان (رض) پر طعن وتشنیع کے بارے میں لوگوں میں آراء مختلف ہونے لگیں تو میرے والد کھڑے ہوئے اور رات کی نماز پڑھی پھر وہ سو گئے۔ راوی کہتے ہیں : کہ پس ان کو کہا گیا : کھڑے ہو کر اللہ سے سوال کرو کہ وہ تمہیں بھی اس فتنہ سے محفوظ رکھے جیسے اس نے اپنے نیک بندوں کو اس سے محفوظ رکھا۔ راوی فرماتے ہیں کہ انھوں نے قیام کیا پھر وہ بیمار ہوگئے ۔ پھر ان کو باہر نہیں دیکھا گیا یہاں تک کہ ان کی وفات ہوگئی۔

32707

(۳۲۷۰۸) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ حُبَابٍ ، قَالَ : حدَّثَنِی مُعَاوِیَۃُ بْنُ صَالِحٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِی رَبِیعَۃُ بْنُ یَزِیدَ الدِّمَشْقِیُّ ، قَالَ : حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ قَیْسٍ أَنَّہُ سَمِعَ النُّعْمَانَ النُّعْمَانَ بْنَ بَشِیرٍ أَنَّہُ أَرْسَلَہُ مُعَاوِیَۃُ بْنُ أَبِی سُفْیَانَ بِکِتَابٍ إِلَی عَائِشَۃَ فَدَفَعَہُ إلَیْہَا ، فَقَالَتْ لِی : أما أُحَدِّثُک بِحَدِیثٍ سَمِعْتہ مِنْ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قُلْتُ : بَلَی ، قَالَتْ : إنِّی عِنْدَہُ ذَاتَ یَوْمٍ أَنَا وَحَفْصَۃُ ، فَقَالَ : لَوْ کَانَ عِنْدَنَا رَجُلٌ یُحَدِّثُنَا فَقُلْتُ : یَا رَسُولَ اللہِ ، أَبْعَثُ إِلَی أَبِی بَکْرٍ فَیَجِیئُ فَیُحَدِّثُنَا ، قَالَ : فَسَکَتَ ، فَقَالَتْ حَفْصَۃُ : یَا رَسُولَ اللہِ ، أَبْعَثُ إِلَی عُمَرَ فَیُحَدِّثُنَا ، فَسَکَتَ ، قَالَتْ : فَدَعَا رَجُلاً فأصر إلَیْہِ دُونَنَا فَذَہَبَ ، ثُمَّ جَائَ عُثْمَان فَأَقْبَلَ عَلَیْہِ بِوَجْہِہِ فَسَمِعْتُہُ یَقُولُ : یَا عُثْمَان ، إنَّ اللَّہَ لَعَلَّہُ أَنْ یُقَمَّصَکَ قَمِیصًا ، فَإِنْ أَرَادُوک عَلَی خَلْعِہِ فَلاَ تَخْلَعْہُ ثَلاَثًا ، قُلْتُ : یَا أُمَّ الْمُؤْمِنِینَ ، أَیْنَ کُنْتِ عَنْ ہَذَا الْحَدِیثِ ، قَالَتْ : أُنْسِیتُہُ کَأَنِّی لَمْ أَسْمَعْہُ قَطُّ۔ (ابن ماجہ ۱۱۲۔ احمد ۱۴۹)
(٣٢٧٠٨) حضرت عبداللہ بن قیس (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت نعمان بن بشیر (رض) نے ارشاد فرمایا : کہ حضرت معاویہ بن ابی سفیان (رض) نے ان کو ایک خط دے کر حضرت عائشہ (رض) کے پاس بھیجا تو انھوں نے وہ خط ان کو دے دیا تو حضرت عائشہ (رض) نے فرمایا : کیا میں تمہیں وہ حدیث بیان نہ کروں جو میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنی تھی ؟ میں نے کہا : کیوں نہیں ! ضرور سنائیں۔ آپ (رض) نے فرمایا : ایک دن میں اور حضرت حفصہ (رض) ، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس تھیں تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرمانے لگے۔ کاش کہ ہمارے پاس کوئی آدمی ہوتا تو وہ ہم سے بات کرتا ۔ میں نے کہا : اے اللہ کے رسول 5! میں حضرت ابوبکر (رض) کو پیغام نہ بھیج دوں کہ وہ آئیں اور ہم سے بات چیت کریں ؟ پس آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خاموش رہے۔ پھر حضرت حفصہ (رض) نے کہا : اے اللہ کے رسول 5! میں حضرت عمر (رض) کی طرف پیغام نہ بھیج دوں کہ وہ ہم سے بات چیت کریں ۔ پس آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خاموش رہے ۔ آپ (رض) نے فرمایا : کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک آدمی کو بلا کر ہم سے ہٹ کر اس سے سرگوشی کی پھر وہ چلا گیا پھر حضرت عثمان (رض) حاضر ہوئے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنا چہرہ ان کی طرف متوجہ کیا۔ پھر میں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا : اے عثمان : شاید اللہ تعالیٰ تمہیں ایک قمیص پہنائیں گے پس اگر کچھ لوگ اس کو تم سے اتروانا چاہیں تو تم ہرگز اس کو مت اتارنا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ تین بار ارشاد فرمایا۔ راوی کہتے ہیں : میں نے عرض کی۔ اے ام المؤمنین ! آپ (رض) نے پہلے یہ حدیث کیوں بیان نہیں کی ؟ آپ (رض) نے فرمایا : مجھے یہ بھلا دی گئی تھی گویا کہ میں نے اس کو کبھی سنا ہی نہ ہو۔

32708

(۳۲۷۰۹) حَدَّثَنَا عُبَیْدُاللہِ بْنُ مُوسَی، قَالَ: أَخْبَرَنِی مُوسَی بْنُ عُبَیْدَۃَ، عَنْ إیَاسِ بْنِ سَلَمَۃَ، عَنْ أَبِیہِ أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَایَعَ لِعُثْمَانَ ِإِحْدَی یَدَیْہِ عَلَی الأُخْرَی، فَقَالَ النَّاسُ: ہَنِیئًا لأَبِی عَبْدِاللہِ یَطُوفُ بِالْبَیْتِ آمِنًا، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: لَوْ مَکَثَ کَذَا وَکَذَا سَنَۃً مَا طَافَ حَتَّی أَطُوفَ۔ (طبرانی ۱۴۴)
(٣٢٧٠٩) حضرت ایاس بن سلمہ (رض) فرماتے ہیں کہ ان کے والد حضرت سلمہ (رض) نے ارشاد فرمایا : بلاشبہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عثمان (رض) کے لیے اپنا داہنا ہاتھ دوسرے ہاتھ پر رکھ کر بیعت لی، تو لوگوں نے کہا : ابو عبداللہ کے لیے تو خوش نصیبی ہے کہ وہ امن سے بیت اللہ کا طواف کررہا ہے۔ اس پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اگر وہ اتنے اور اتنے سال بھی ٹھہرتا تو طواف نہ کرتا یہاں تک کہ میں طواف کرلیتا۔

32709

(۳۲۷۱۰) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَیْدٍ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ، عَنْ سَالِمٍ ، قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللہِ بْنُ عُمَرَ: لَقَدْ عِبْتُمْ عَلَی عُثْمَانَ أَشْیَائَ لَوْ أَنَّ عُمَرَ فَعَلَہَا مَا عِبْتُمُوہَا۔
(٣٢٧١٠) حضرت سالم (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمر (رض) نے ارشاد فرمایا : البتہ تحقیق تم لوگ حضرت عثمان پر چند چیزوں کا عیب لگاتے ہو ۔ اگر حضرت عمر (رض) نے ان کاموں کو کیا ہوتا تو تم کبھی بھی ان پر عیب نہ لگاتے۔

32710

(۳۲۷۱۱) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا وُہَیْبٌ ، قَالَ : حَدَّثَنَا دَاوُد ، عَنْ زِیَادِ بْنِ عَبْدِ اللہِ ، عَنْ أُمِّ ہِلاَلٍ ابْنَۃِ وَکِیعٍ ، عَنِ امْرَأَۃِ عُثْمَانَ ، قَالَتْ : أَغْفَی عُثْمَان ، فَلَمَّا اسْتَیْقَظَ ، قَالَ : إنَّ الْقَوْمَ یَقْتُلُونِی ، فَقُلْتُ : کَلاَّ یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ ، فَقَالَ : إنِّی رَأَیْت رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَأَبَا بَکْرٍ وَعُمَرَ ، قَالَ : فَقَالُوا : أَفْطِرْ عِنْدَنَا اللَّیْلَۃَ ، أَوْ قَالُوا : إنک تُفْطِرُ عِنْدَنَا اللَّیْلَۃَ۔
(٣٢٧١١) حضرت ام ھلال بنت وکیع فرماتی ہیں کہ حضرت عثمان (رض) کی زوجہ نے ارشاد فرمایا : کہ حضرت عثمان (رض) اونگھ رہے تھے جب بیدار ہوئے تو فرمانے لگے : یقیناً میری قوم مجھے قتل کر دے گی۔ تو میں نے کہا : ہرگز نہیں اے امیر المؤمنین ! تو آپ (رض) نے فرمایا : میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور حضرت ابوبکر (رض) اور حضرت عمر (رض) کو خواب میں دیکھا ۔ راوی کہتے ہیں کہ انھوں نے یوں فرمایا : آج رات تم ہمارے ساتھ افطار کرو یا یوں فرمایا : تم آج رات ہمارے ساتھ افطار کرو گے۔

32711

(۳۲۷۱۲) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ الأَسَدِیُّ ، قَالَ : حدَّثَنَا إبْرَاہِیمُ بْنُ طَہْمَانَ ، عَنْ مُوسَی بْنِ عُقْبَۃَ ، عَنْ جَدِّہِ أَبِی حبیبۃ ، قَالَ : دَخَلْت الدَّارَ عَلَی عُثْمَانَ وَہُوَ مَحْصُورٌ ، فَسَمِعْت أَبَا ہُرَیْرَۃَ یَقُولُ : سَمِعْت رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : إنَّکُمْ سَتَلْقَوْنَ بَعْدِی فِتْنَۃً وَاخْتِلاَفًا ، قَالَ : فَقَالَ لَہُ قَائِلٌ : فَمَا تَأْمُرُنِی ، فَقَالَ : عَلَیْکُمْ بِالأَمِیرِ وَأَصْحَابِہِ ، وَضَرَبَ عَلَی مَنْکِبِ عُثْمَانَ۔ (حاکم ۹۹)
(٣٢٧١٢) حضرت ابو حبیبہ (رض) فرماتے ہیں کہ میں حضرت عثمان (رض) کے گھر میں داخل ہوا جب بلوائیوں نے ان کے گھر کا گھیراؤ کیا ہوا تھا۔ پس میں نے وہاں حضرت ابوہریرہ (رض) کو فرماتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : عنقریب میرے بعد تم فتنہ اور اختلاف پاؤ گے۔ راوی کہتے ہیں : کہ ایک پوچھنے والے نے پوچھا : آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمیں کسی بات کا حکم دیتے ہیں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم پر امیر اور اس کے ساتھیوں کی اطاعت لازم ہے۔ اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عثمان (رض) کے کندھے پر ہاتھ مارا۔

32712

(۳۲۷۱۳) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِی صَالِحٍ ، قَالَ : کَانَ أبو ہریرۃ إذَا ذَکَرَ قَتْلَ عُثْمَانَ بَکَی فَکَأَنِّی أَسْمَعُہُ یَقُولُ : ہَاہْ ہَاہْ ینتحب۔ (ابن سعد ۸۱)
(٣٢٧١٣) حضرت اعمش (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت ابو صالح (رض) نے ارشاد فرمایا : کہ حضرت ابوہریرہ (رض) جب حضرت عثمان (رض) کے قتل کا ذکر فرماتے تو رونے لگتے۔ گویا کہ میں اب بھی ان کے سسکنے کی آواز سن رہا ہوں۔

32713

(۳۲۷۱۴) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ خَیْثَمَۃ ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، عَنْ عَائِشَۃَ ، قَالَ : قالَتْ حِینَ قُتِلَ عُثْمَان تَرَکْتُمُوہُ کَالثَّوْبِ النَّقِیِّ مِنَ الدَّنَسِ ، ثُمَّ قَرَّبْتُمُوہُ فَذَبَحْتُمُوہُ کَمَا یُذْبَحُ الْکَبْشُ ، ہلا کَانَ ہَذَا قَبْلَ ہَذَا ، قَالَ : فَقَالَ لَہَا مَسْرُوقٌ : ہَذا عَمَلک أَنْتِ کَتَبْت إِلَی أُنَاسٍ تَأْمُرِینَہُمْ بِالْخُرُوجِ ، قَالَ : فَقَالَتْ عَائِشَۃُ: لاَ وَالَّذِی آمَنَ بِہِ الْمُؤْمِنُونَ وَکَفَرَ بِہِ الْکَافِرُونَ ، مَا کَتَبْتُ إلَیْہِمْ سَوْدَائَ فِی بَیْضَائَ حَتَّی جَلَسْتُ مَجْلِسِی ہَذَا ، قَالَ الأَعْمَشُ : فَکَانُوا یَرَوْنَ أَنَّہُ کُتِبَ عَلَی لِسَانِہَا۔
(٣٢٧١٤) حضرت مسروق (رض) فرماتے ہیں کہ جب حضرت عثمان (رض) کو قتل کردیا گیا تو اس وقت حضرت عائشہ (رض) نے ارشاد فرمایا : تم لوگوں نے اس کو چھوڑ دیا ہے جیسا کہ گندگی صاف کپڑے کو چھوڑ دیتی ہے۔ پھر تم نے ان کو قریب کر کے ذبح کردیا جیسا کہ کسی مینڈھے کو ذبح کیا جاتا ہے۔ یہ بات اس سے پہلے کیوں نہیں ہوئی ؟ تو حضرت مسروق (رض) نے ان سے عرض کیا : یہ تو آپ (رض) کے عمل کی وجہ سے ہوا کہ آپ (رض) ہی نے لوگوں کو خط لکھ کر ان کو خروج کا حکم دیا ! راوی کہتے ہیں : کہ اس پر حضرت عائشہ (رض) نے فرمایا : نہیں ! قسم ہے اس ذات کی جس پر تمام مومن ایمان لائے اور کافروں نے جس کے ساتھ کفر کیا۔ میں نے کسی سفیدی پر سیاہی سے نہیں لکھا یہاں تک کہ میں اپنی اس جگہ پر بیٹھ گئی۔
امام اعمش (رض) فرماتے ہیں : پس ان لوگوں کی رائے یہی تھی کہ یہ سب ان کی زبان پر لکھ دیا گیا تھا۔

32714

(۳۲۷۱۵) حَدَّثَنَا شَبَابَۃُ ، قَالَ: حدَّثَنَا شُعْبَۃُ ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ إیَاسٍ ، عَنْ یُوسُفَ بْنِ مَاہِکٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ حَاطِبٍ، قَالَ: سَمِعْتُ عَلِیًّا یَخْطُبُ یَقُولُ: {إنَّ الَّذِینَ سَبَقَتْ لَہُمْ مِنَّا الْحُسْنَی أُولَئِکَ عَنْہَا مُبْعَدُونَ} قَالَ عُثْمَان مِنْہُمْ۔
(٣٢٧١٥) حضرت محمد بن حاطب (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت علی (رض) کو یہ خطبہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ آپ (رض) نے یہ آیت پڑھی ( بیشک وہ لوگ کہ ( فیصلہ) ہوچکا ہے پہلے ہی جن کے لیے ہماری طرف سے اچھے انجام کا یہ اس سے دور رکھے جائیں گے ) آپ (رض) نے فرمایا : حضرت عثمان (رض) ان ہی لوگوں میں سے تھے۔

32715

(۳۲۷۱۶) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، قَالَ : حدَّثَنَا ہِشَامٌ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِیرِینَ ، عَنْ عُقْبَۃَ بْنِ أَوْسٍ السَّدُوسِیِّ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ ، قَالَ : یَکُونُ فِی ہَذِہِ الأُمَّۃِ اثْنَا عَشَرَ خَلِیفَۃً : أَبُو بَکْرٍ أَصَبْتُمَ اسْمَہُ ، وَعُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ قَرْنٌ مِنْ حَدِیدٍ أَصَبْتُمَ اسْمَہُ ، وَعُثْمَان بْنُ عَفَّانَ ذُو النُّورَیْنِ أُوتِیَ کِفْلَیْنِ مِنَ الرَّحْمَۃِ ، قُتِلَ مَظْلُومًا ، أَصَبْتُمَ اسْمَہُ۔
(٣٢٧١٦) حضرت عقبہ بن اوس السَّدوسی (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمر (رض) نے ارشاد فرمایا : کہ اس امت میں بارہ (12) خلیفہ ہوں گے۔ ابوبکر (رض) ، تم لوگوں کو ان کے نام کی تصدیق ہوچکی۔ اور عمر بن خطاب (رض) جو بہت امانت دار ہوں گے۔ تم لوگوں کو ان کے نام کی تصدیق بھی حاصل ہوچکی اور عثمان بن عفان (رض) ذوالنورین جنہیں رحمت کی دو ذمہ داریاں سونپی گئیں۔ اور ظلماً قتل کیا گیا ۔ تم لوگوں کو ان کے نام کی بھی تصدیق حاصل ہوچکی۔

32716

(۳۲۷۱۷) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَنْ مُجَمِّعٍ ، قَالَ : دَخَلَ عَبْدُ الرَّحْمَن بْنُ أَبِی لَیْلَی عَلَی الْحَجَّاجِ ، فَقَالَ لِجُلَسَائِہِ : إذَا أَرَدْتُمْ أَنْ تَنْظُرُوا إِلَی رَجُلٍ یَسُبُّ أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ عُثْمَانَ فَہَذَا عِنْدَکُمْ ، یَعْنِی عَبْدَ الرَّحْمَن ، فَقَالَ عَبْدُ الرَّحْمَن : مَعَاذَ اللہِ أَیُّہَا الأَمِیرُ أَنْ أَکُونَ أَسُبُّ عُثْمَانَ إِنَّہُ لَیَحْجِزُنِی ، عَنْ ذَلِکَ آیَۃٌ فِی کِتَابِ اللہِ ، قَالَ اللَّہُ : {لِلْفُقَرَائِ الْمُہَاجِرِینَ الَّذِینَ أُخْرِجُوا مِنْ دِیَارِہِمْ وَأَمْوَالِہِمْ یَبْتَغُونَ فَضْلاً مِنَ اللہِ وَرِضْوَانًا وَیَنْصُرُونَ اللَّہَ وَرَسُولَہُ أُولَئِکَ ہُمَ الصَّادِقُونَ} ، فَکَانَ عُثْمَان مِنْہُمْ۔
(٣٢٧١٧) حضرت مجمع (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عبد الرحمن بن ابی لیلیٰ (رض) حجاج بن یوسف کے پاس تشریف لے گئے تو وہ اپنے ہم نشینوں سے کہنے لگا : اگر تم ایسے شخص کو دیکھنا چاہو جو امیر المؤمنین حضرت عثمان (رض) کو سب و شتم کرتا ہو تو یہ شخص یعنی عبد الرحمن تمہارے پاس ہیں ان کو دیکھ لو۔ اس پر حضرت عبد الرحمن (رض) نے فرمایا : اے امیر ! اللہ کی پناہ، اس بات سے کہ میں حضرت عثمان (رض) کو سب و شتم کروں۔ یقیناً کتاب اللہ میں پائی جانے والی اس آیت مبارکہ نے مجھے اس کام سے روک دیا اور محفوظ رکھا۔ اللہ نے ارشاد فرمایا : (ترجمہ : نیز وہ مال) ان مفلس مہاجروں کے لیے ہے جو نکال باہر کیے گئے ہیں اپنے گھروں سے اور اپنی جائدادوں سے ۔ جو تلاش کرتے ہیں فضل اللہ کا اور اس کی خوشنودی ، اور مدد کرتے ہیں اللہ اور اس کے رسول کی، یہی سچے لوگ ہیں ) حضرت عثمان ان لوگوں میں سے تھے۔

32717

(۳۲۷۱۸) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ الْحُبَابِ ، قَالَ : حدَّثَنِی ابْنُ لَہِیعَۃَ ، قَالَ : حَدَّثَنِی یَزِیدُ بْنُ عَمْرٍو الْمَعَافِرِیُّ ، قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا ثَوْرٍ الْفَہْمِیَّ یَقُولُ : قَدِمَ عَبْدُ الرَّحْمَن بْنُ عُدَیْسٍ الْبَلَوِیُّ وَکَانَ مِمَّنْ بَایَعَ تَحْتَ الشَّجَرَۃِ فَصَعِدَ الْمِنْبَرَ فَحَمِدَ اللَّہَ وَأَثْنَی عَلَیْہِ ، ثُمَّ ذَکَرَ عُثْمَانَ ، فَقَالَ أَبُو ثَوْرٍ : فَدَخَلْتُ عَلَی عُثْمَانَ وَہُوَ مَحْصُورٌ ، فَقُلْتُ : إنَّ فُلاَنًا ذَکَرَ کَذَا وَکَذَا ، فَقَالَ عُثْمَان : وَمِنْ أَیْنَ وَقَدِ اخْتَبَأْتُ عِنْدَ اللہِ عَشْرًا : إنِّی لَرَابِعُ الإسْلاَمِ، وَقَدْ زَوَّجَنِی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ابْنَتَہُ ، ثُمَّ ابْنَتَہُ ، وَقَدْ بَایَعْت رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِیَدِی ہَذِہِ الْیُمْنَی فَمَا مَسِسْتُ بِہَا ذَکَرِی ، وَلاَ تَغَنَّیْتُ ، وَلاَ تَمَنَّیْت ، وَلاَ شَرِبْت خَمْرًا فِی جَاہِلِیَّۃٍ ، وَلاَ إسْلاَمٍ ، وَقَدْ قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَنْ یَشْتَرِی ہَذِہِ الزَّنقَۃَ ، وَیَزِیدُہَا فِی الْمَسْجِدِ لَہُ بَیْتٌ فِی الْجَنَّۃِ ، فَاشْتَرَیْتہَا وَزِدْتہَا فِی الْمَسْجِدِ۔ (ابن ابی عاصم ۱۳۰۸)
(٣٢٧١٨) حضرت یزید بن عمرو المعاصری (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت ابو ثور الفھمی (رض) نے ارشاد فرمایا : کہ عبد الرحمن بن عدیس جو کہ ان لوگوں میں ہیں جنہوں نے درخت کے نیچے بیعت کی تھی وہ بلوائیوں کے پاس آیا اور منبر پر چڑھا : حمدو ثنا کے بعد اس نے حضرت عثمان (رض) کا ذکر کیا۔ تو حضرت ابو ثور (رض) فرماتے ہیں کہ میں محاصرے کے دوران حضرت عثمان (رض) کے پاس حاضر ہوا اور میں نے عرض کیا کہ فلاں شخص آپ (رض) کے بارے میں ایسے اور ایسے کہہ رہا ہے۔ پس حضرت عثمان (رض) نے فرمایا : ایسی بات کیسے ہوسکتی ہے ؟ حالانکہ میں نے اللہ کے پاس دس خصوصیات ذخیرہ کی ہوئی ہیں۔ وہ یہ کہ میں اسلام لانے والا چوتھا شخص ہوں۔ اور تحقیق رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے سے اپنی ایک بیٹی کا نکاح کیا، پھر دوسری بیٹی کا نکاح کیا اور تحقیق میں نے اپنے اس دائیں ہاتھ سے رسول اللہ سے بیعت کی تو پھر کبھی بھی میں نے اس سے اپنی شرمگاہ کو نہیں چھوا۔ اور نہ ہی میں نے کبھی عشق و معشوقی کی۔ اور نہ ہی کبھی اس چیز کی میں نے کبھی تمنا و آرزو کی ۔ اور میں نے نہ تو زمانہ جاہلیت میں اور نہ ہی زمانہ اسلام میں کبھی شراب پی۔ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا تھا کہ کون شخص اس راستہ کے حصہ کو خرید کر اس سے مسجد کی توسیع کرے گا تو اس کے لیے اس کے بدلہ جنت میں گھر ہوگا ؟ پس میں نے اس جگہ کو خرید کر مسجد کی توسیع کی تھی۔

32718

(۳۲۷۱۹) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا مِسْعَرٌ ، قَالَ : حَدَّثَنِی عَبْدُ الرَّحْمَن بْنُ مِلْحَانَ ، قَالَ : ذُکِرَ عِنْدَ ابْنِ عُمَرَ عُثْمَان ، وَعُمَرُ ، فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ : أَرَأَیْتَ لَوْ کَانَ لَکَ بَعِیرَانِ أَحَدُہُمَا قَوِیٌّ ، وَالآخَرُ ضَعِیفٌ أَکُنْتَ تَقْتُلُ الضَّعِیفَ۔
(٣٢٧١٩) حضرت مسعر (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عبد الرحمن بن ملحان (رض) نے ارشاد فرمایا : کہ حضرت ابن عمر (رض) کے سامنے حضرت عثمان (رض) اور حضرت عمر (رض) کا ذکر کیا گیا تو آپ (رض) نے ارشاد فرمایا : تیری کیا رائے ہے کہ اگر تیرے پاس دو اونٹ ہوں جن میں سے ایک قوی ہو اور دوسرا ا کمزور ہو تو کیا تم کمزور اونٹ کو قتل کردو گے ؟

32719

(۳۲۷۲۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ مِسْعَرٍ ، عَنْ أَبِی سَلْمَانَ ، قَالَ : سَأَلْتُ ابْنَ عُمَرَ ، عَنْ عُثْمَانَ ، فَقَالَ مِسْعَرٌ : إمَا قَالَ: تَحْسَبُہُ ، أَوَ قَالَ : نَحْسَبُہُ مِنْ خِیَارِنَا۔
(٣٢٧٢٠) حضرت مسعر (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت ابو سلیمان (رض) نے فرمایا : کہ میں نے حضرت ابن عمر (رض) سے حضرت عثمان (رض) کے متعلق سوال کیا۔ راوی فرماتے ہیں آپ (رض) نے یوں فرمایا : کہ تم ان کو ہم میں سب سے بہتر سمجھو یا یوں فرمایا : ہم لوگ ان کو اپنے میں سب سے بہترین اور افضل سمجھتے تھے۔

32720

(۳۲۷۲۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ مِسْعَرٍ ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ عُمَیْرٍ ، عَنْ کُلْثُومٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ ابْنَ مَسْعُودٍ یَقُولُ : مَا أُحِبُّ أَنِّی رَمَیْت عُثْمَانَ بِسَہْمٍ ، قَالَ مسعر : أُرَاہُ أَرَادَ قَتْلَہُ ، وَلاَ أَنَّ لِی مِثْلَ أُحُدٍ ذَہَبًا۔
(٣٢٧٢١) حضرت کلثوم (رض) فرماتی ہیں کہ حضرت ابن مسعود (رض) یوں فرماتے تھے : کہ میں پسند نہیں کرتا کہ حضرت عثمان (رض) کو قتل کے ارادے سے ایک تیر بھی ماروں جس کے بدلہ اگرچہ مجھے احد پہاڑ کے برابر بھی سونا ملے۔

32721

(۳۲۷۲۲) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْقَاسِمِ الأَسَدِیُّ ، عَنِ الأَوْزَاعِیِّ ، عَنْ حَسَّانَ بْنِ عَطِیَّۃَ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ لِعُثْمَانَ : غَفَرَ اللَّہُ لَکَ مَا قَدَّمْت ، وَمَا أَخَّرْت ، وَمَا أَسْرَرْت ، وَمَا أَعْلَنْت ، وَمَا أَخْفَیْت ، وَمَا أَبْدَیْت ، وَمَا ہُوَ کَائِنٌ إِلَی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ۔ حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ قَالَ : حَدَّثَنَا أَبُو بَکْر عَبْدُ اللہِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِی شَیْبَۃَ قَالَ :
(٣٢٧٢٢) حضرت حسان بن عطیہ (رض) فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عثمان (رض) سے ارشاد فرمایا تھا۔ اللہ تمہارے ان گناہوں کو بخش دے جو تم نے پہلے کیے اور جو تم بعد میں کرو گے اور جو تم نے پوشیدگی میں کیے اور جو تم نے اعلانیہ طور پر کیے۔ اور جو تم نے چھپائے اور جو تم نے ظاہر کیے اور جو کچھ قیامت کے دن تک کرو گے۔

32722

(۳۲۷۲۳) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا مِسْعَرٌ ، قَالَ : حَدَّثَنِی أَبُو عَوْنٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ حَاطِبٍ ، قَالَ : ذُکِرَ عُثْمَان ، فَقَالَ الْحَسَنُ بْنُ عَلِیٍّ : ہَذَا أَمِیرُ الْمُؤْمِنِینَ یَأْتِیکُمَ الآنَ فَیُخْبِرُکُمْ ، قَالَ : فَجَائَ عَلِیٌّ ، فَقَالَ : کَانَ عُثْمَان مِنَ الَّذِینَ {آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ ثُمَّ اتَّقَوْا وَآمَنُوا ثُمَّ اتَّقَوْا وَأَحْسَنُوا وَاللَّہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِینَ} حَتَّی أَتَمَّ الآیَۃَ۔
(٣٢٧٢٣) حضرت محمد بن حاطب (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عثمان (رض) کا ذکر کیا گیا تو حضرت حسن بن علی (رض) نے ارشاد فرمایا : یہ امیر المؤمنین ابھی تمہارے پاس آئیں گے تو وہی تم لوگوں کو ان کے بارے میں بتائیں گے ۔ راوی کہتے ہیں : پس حضرت علی (رض) تشریف لائے ۔ اور فرمایا : کہ حضرت عثمان (رض) ان لوگوں میں سے تھے پھر یہ آیت مکمل تلاوت فرمائی۔ ترجمہ : وہ لوگ ایمان پر قائم رہے اور اچھے کام کیے پھر حرام چیزوں سے بچے اور احکام الٰہی کو مانا پھر تقویٰ اختیار کیا اور اچھے کام کیے ۔ اور اللہ دوست رکھتا ہے اچھے کام کرنے والوں کو۔

32723

(۳۲۷۲۴) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو ، عَنْ أَبِی سَلَمَۃَ ، قَالَ : قَالَ نَافِعُ بْنُ عَبْدِ الْحَارِثِ : دَخَلَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حَائِطًا مِنْ حِیطَانِ الْمَدِینَۃِ ، وَقَالَ لِی : أَمْسِکْ عَلَی الْبَاب ، فَجَائَ حَتَّی جَلَسَ عَلَی الْقُفِّ وَدَلَّی رِجْلَیْہِ فِی الْبِئْرِ فَضُرِبَ الْبَابُ ، فَقُلْتُ : مَنْ ہَذَا ؟ قَالَ : أَبُو بَکْرٍ ، قُلْتُ : یَا رَسُولَ اللہِ ہَذَا أَبُو بَکْرٍ ، فَقَالَ : ائْذَنْ لَہُ وَبَشِّرْہُ بِالْجَنَّۃِ ، قَالَ : فَأَذِنْت لَہُ وَبَشَّرْتُہُ بِالْجَنَّۃِ ، فَجَائَ فَجَلَسَ مَعَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَی الْقُفِّ وَدَلَّی رِجْلَیْہِ فِی الْبِئْرِ ، ثُمَّ ضُرِبَ الْبَابُ ، فَقُلْتُ : مَنْ ہَذَا ، قَالَ : عُمَرُ ، قُلْتُ : یَا رَسُولَ اللہِ ہَذَا عُمَرُ ، فَقَالَ : ائْذَنْ لَہُ وَبَشِّرْہُ بِالْجَنَّۃِ ، قَالَ : فَأَذِنْت لَہُ وَبَشَّرْتُہُ بِالْجَنَّۃِ فَجَائَ فَجَلَسَ مَعَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَی الْقُفِّ وَدَلَّی رِجْلَیْہِ فِی الْبِئْرِ ، ثُمَّ ضُرِبَ الْبَابُ فَقُلْتُ : مَنْ ہَذَا ، قَالَ : عُثْمَان ، قُلْتُ : یَا رَسُولَ اللہِ ہَذَا عُثْمَان ، قَالَ : ائْذَنْ لَہُ وَبَشِّرْہُ بِالْجَنَّۃِ مَعَ بَلاَئٍ ، قَالَ : فَأَذِنْتُ لَہُ وَبَشَّرْتُہُ بِالْجَنَّۃِ فَدَخَلَ فَجَلَسَ مَعَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَی الْقُفِّ وَدَلَّی رِجْلَیْہِ فِی الْبِئْرِ۔ (ابوداؤد ۵۱۴۶۔ احمد ۵۱۴۶)
(٣٢٧٢٤) حضرت نافع بن حارث (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ کے باغات میں سے ایک باغ میں داخل ہوئے اور مجھے فرمایا : کہ مجھ پر دروازہ بند کردو۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے یہاں تک کہ کنویں کے گرد بنی ہوئی منڈیر پر بیٹھ گئے اور اپنی دونوں ٹانگیں کنویں میں لٹکا لیں۔ پس دروازہ بجایا گیا تو میں نے پوچھا : کون شخص ہے ؟ اس نے کہا : ابوبکر ہوں۔ میں نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول 5! یہ ابوبکر (رض) ہیں۔ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ان کو اجازت دے دو اور ان کو جنت کی خوشخبری بھی سنا دو ۔ پس وہ آئے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ کنویں کے منڈیر پر بیٹھ گئے اور آپ (رض) نے بھی اپنی دونوں ٹانگیں کنویں میں لٹکا لیں۔ پھر دروازہ بجا۔ میں نے پوچھا : کون شخص ہے ؟ اس نے کہا : عمر (رض) ہوں۔ میں نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول 5! یہ عمر (رض) ہیں۔ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ان کو بھی اجازت دے دو اور جنت کی خوشخبری بھی سنا دو ۔ راوی کہتے ہیں میں نے ان کو آنے کی اجازت دی اور جنت کی خوش خبری بھی سنا دی۔ پس وہ تشریف لائے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ کنویں کے منڈیر پر بیٹھ گئے اور آپ (رض) نے بھی اپنی دونوں ٹانگیں کنویں میں لٹکا لیں۔ پھر دروازہ بجا۔ میں نے پوچھا : کون شخص ؟ وہ کہنے لگا ! عثمان (رض) ہوں۔ میں نے عرض کیا۔ اے اللہ کے رسول 5! یہ عثمان (رض) ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ان کو بھی اجازت دے دو ۔ اور جنت کی خوشخبری بھی سنا دو ۔ آزمائش کے ساتھ۔ راوی کہتے ہیں میں نے ان کو بھی اجازت دی اور جنت کی خوشخبری بھی سنا دی۔ پس وہ داخل ہوئے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ کنویں کے منڈیر پر بیٹھ گئے اور اپنی دونوں ٹانگیں کنویں میں لٹکا لیں۔

32724

(۳۲۷۲۵) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا سُفْیَانُ بْنُ حُسَیْنٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : لَمَّا عَرَضَ عُمَرُ ابْنَتَہُ عَلَی عُثْمَانَ ، قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : أَلاَ أَدُلُّ عُثْمَانَ عَلَی مَنْ ہُوَ خَیْرٌ مِنْہَا ، وَأَدُلُّہَا عَلَی مَنْ ہُوَ خَیْرٌ لَہَا مِنْ عُثْمَانَ ، قَالَ : فَتَزَوَّجَہَا رَسُولُ اللہِ وَزَوَّجَ عُثْمَانَ ابْنَتَہُ۔ (حاکم ۱۰۶)
(٣٢٧٢٥) حضرت سفیان بن حسین (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت حسن (رض) نے ارشاد فرمایا : کہ جب حضرت عمر (رض) نے اپنی بیٹی کا رشتہ حضرت عثمان (رض) پر پیش کیا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : کیا میں راہنمائی نہ کروں اس شخص پر جو عثمان سے زیادہ بہتر ہے۔ اور میں اس کی راہنمائی نہ کروں عثمان کے لیے اس عورت پر جو اس عورت سے بہتر ہو۔ راوی کہتے ہیں۔ پس رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عمر (رض) کی بیٹی سے خود نکاح کرلیا۔ اور حضرت عثمان (رض) کا نکاح اپنی بیٹی سے کروا دیا۔

32725

(۳۲۷۲۶) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ أَنَّہُ ذُکِرَ عِنْدَہُ عُثْمَان ، فَقَالَ رَجُلٌ : إِنَّہُمْ یَسُبُّونَہُ ، فَقَالَ : وَیْحَہُمْ یَسُبُّونَ رَجُلاً دَخَلَ عَلَی النَّجَاشِیِّ فِی نَفَرٍ مِنْ أَصْحَابِ محمد صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَکُلُّہُمْ أَعْطَی الْفِتْنَۃَ غَیْرَہُ ، قَالُوا : وَمَا الْفِتْنَۃُ الَّتِی أَعْطَوْہَا ، قَالَ : کَانَ لاَ یَدْخُلُ عَلَیْہِ أَحَدٌ إلاَّ أَوْمَأَ إلیہ بِرَأْسِہِ فَأَبَی عُثْمَان ، فَقَالَ : مَا مَنَعَک أَنْ تَسْجُدَ کَمَا سَجَدَ أَصْحَابُک ، فَقَالَ : مَا کُنْتُ لأَسْجُدَ لأَحَدٍ دُونَ اللہِ عَزَّ وَجَلَّ۔
(٣٢٧٢٦) حضرت عاصم (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت ابن سیرین (رض) کے پاس حضرت عثمان (رض) کا ذکر کیا گیا تو ایک آدمی کہنے لگا۔ یقیناً لوگ تو ان کو گالیاں دیتے ہیں ! اس پر آپ (رض) نے فرمایا : ہلاکت ہے ان لوگوں کے لیے جو ایسے شخص کو گالیاں دیتے ہیں جو نجاشی بادشاہ پر داخل ہوا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب کے ایسے گروہ میں سے کہ سب ان کے علاوہ فتنہ میں پڑگئے تھے ! لوگوں نے پوچھا : کہ وہ لوگ کس فتنہ میں پڑے تھے ؟ آپ (رض) نے فرمایا : جو شخص بھی اس بادشاہ پر داخل ہوتا تو وہ سر جھکا کر اس کو سلام کرتا۔ پس حضرت عثمان (رض) نے ایسا کرنے سے انکار کردیا ، تو اس بادشاہ نے پوچھا : تمہیں کس چیز نے سجدہ کرنے سے روکا جیسا کہ تمہارے ساتھیوں نے سجدہ کیا ؟ تو آپ (رض) نے ارشاد فرمایا : میں اللہ عزوجل کے علاوہ کسی کو بھی سجدہ نہیں کرتا۔

32726

(۳۲۷۲۷) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ وَوَکِیعٌ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ عَدِیِّ بْنِ ثَابِتٍ ، عَنْ زِرِّ بْنِ حُبَیْشٍ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ أَبِی طَالِبٍ ، قَالَ : وَالَّذِی فَلَقَ الْحَبَّۃَ وَبَرَأَ النَّسَمَۃَ إِنَّہُ لَعَہْدُ النَّبِیِّ الأُمِّیِّ إلَیَّ أَنَّہُ لاَ یُحِبُّنِی إلاَّ مُؤْمِنٌ ، وَلاَ یُبْغِضُنِی إلاَّ مُنَافِقٌ۔ (احمد ۹۵۔ ابن حبان ۶۹۲۴)
(٣٢٧٢٧) حضرت زر بن حبیش (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت علی (رض) نے ارشاد فرمایا : قسم ہے اس ذات کی جس نے دانہ کو پھاڑ کر پیدا کیا اور انسان کو وجود بخشا یقیناً نبی امی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھ عہد کیا تھا کہ صرف مخلص مومن ہی مجھ سے محبت کرے گا۔ اور منافق ہی مجھ سے بغض رکھے گا۔

32727

(۳۲۷۲۸) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ وَوَکِیعٌ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَیْدَۃَ ، عَنِ ابْنِ بُرَیْدَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَنْ کُنْتُ وَلِیَّہُ فَعَلِیٌّ وَلِیُّہُ۔ (احمد ۳۵۰۔ بزار ۲۵۳۵)
(٣٢٧٢٨) حضرت بریدہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : میں جس کا دوست ہوں علی بھی اس کا دوست ہے۔

32728

(۳۲۷۲۹) حَدَّثَنَا جَرِیرُ بْنُ عَبْدِ الْحَمِیدِ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ أُمِّ مُوسَی ، عَنْ أُمِّ سَلَمَۃَ ، قَالَتْ : وَالَّذِی أَحْلِفُ بِہِ إِنْ کَانَ عَلِیٌّ لأَقْرَبَ النَّاسِ عَہْدًا بِرَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَتْ : عُدْنَا رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَوْمَ قُبِضَ فِی بَیْتِ عَائِشَۃَ فَجَعَلَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ غَدَاۃً بَعْدَ غَدَاۃٍ یَقُولُ : جَائَ عَلِیٌّ؟ مِرَارًا ، قَالَتْ : وَأَظُنُّہُ کَانَ بَعَثَہُ فِی حَاجَۃٍ ، قَالَتْ : فَجَائَ بَعْدُ فَظَنَنَّا أَنَّ لَہُ إلَیْہِ حَاجَۃً ، فَخَرَجْنَا مِنَ الْبَیْتِ فَقَعَدْنَا بِالْبَابِ ، فَکُنْت مِنْ أَدْنَاہُمْ مِنَ الْبَابِ ، فَأَکَبَّ عَلَیْہِ عَلِیٌّ فَجَعَلَ یُسَارُّہُ وَیُنَاجِیہِ ، ثُمَّ قُبِضَ مِنْ یَوْمِہِ ذَلِکَ ، فَکَانَ أَقْرَبَ النَّاسِ بِہِ عَہْدًا۔ ئنسائی ۷۱۰۸۔ طبرانی ۸۸۷)
(٣٢٧٢٩) حضرت ام موسیٰ (رض) فرماتی ہیں کہ حضرت ام سلمہ (رض) نے ارشاد فرمایا : میں قسم اٹھاتی ہوں کہ حضرت علی (رض) لوگوں میں سب سے زیادہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قریب تھے عہد کے اعتبار سے۔ آپ فرماتی ہیں۔ ہم لوگ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عیادت کر رہے تھے جس دن حضرت عائشہ (رض) کے گھر میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا وصال ہوا ۔ پس رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صبح میں ہر تھوڑی دیر بعد بار بار فرماتے کہ علی (رض) آگیا ؟ آپ (رض) فرماتی ہیں۔ مجھے یہ گمان تھا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو کسی کام بھیجا ہے۔ پس وہ تھوڑی دیر میں آگئے تو ہم نے محسوس کیا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان سے کوئی کام ہے اس لیے ہم گھر سے نکل کر دروازے کے پاس بیٹھ گئے۔ پس ان سب میں دروازے کے سب سے زیادہ قریب میں تھی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت علی (رض) کو اپنی طرف متوجہ کیا اور ان سے سرگوشی فرماتے رہے۔ پھر اسی دن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا وصال ہوگیا۔ تو آپ (رض) ہی سب سے زیادہ عہد کے اعتبار سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قریب تھے۔

32729

(۳۲۷۳۰) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ، عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَیْدَۃَ ، قَالَ: سَأَلَ رَجُلٌ ابْنَ عُمَرَ ، فَقَالَ: أَخْبِرْنِی، عَنْ عَلِیٍّ ، قَالَ : إذَا أَرَدْت أَنْ تَسْأَلَ عَنْ عَلِیٍّ فَانْظُرْ إِلَی مَنْزِلِہِ مِنْ مَنْزِلِ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ہَذَا مَنْزِلُہُ وَہَذَا مَنْزِلُ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : فَإِنِّی أَبْغَضُہُ ، قَالَ : فَأَبْغَضَک اللَّہُ۔
(٣٢٧٣٠) حضرت سعد بن عبیدہ (رض) فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے حضرت ابن عمر (رض) سے پوچھا : کہ آپ (رض) مجھے حضرت علی (رض) کے متعلق بتلائیے ۔ آپ (رض) نے فرمایا : جب تو حضرت علی (رض) کے متعلق کچھ پوچھنا چاہے تو پس رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گھر کے قریب ہی ان کا گھر دیکھ لیا کر۔ یہ ان کا گھر ہے اور یہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا گھر ہے۔ اس آدمی نے کہا : میں تو ان سے بغض رکھتا ہوں ! آپ (رض) نے فرمایا : پس پھر اللہ بھی تجھ سے بغض رکھتے ہیں۔

32730

(۳۲۷۳۱) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ ، عَنْ أَبِی الْبَخْتَرِیِّ ، عَنْ عَلِیٍّ ، قَالَ : بَعَثَنِی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِلَی أَہْلِ الْیَمَنِ لأَقْضِیَ بَیْنَہُمْ ، فَقُلْتُ : یَا رَسُولَ اللہِ ، إنِّی لاَ عِلْمَ لِی بِالْقَضَائِ ، قَالَ : فَضَرَبَ بِیَدِہِ عَلَی صَدْرِی ، فَقَالَ : اللَّہُمَّ اہْدِ قَلْبَہُ وَسَدِّدْ لِسَانَہُ ، فَمَا شَکَکْت فِی قَضَائٍ بَیْنَ اثْنَیْنِ حَتَّی جَلَسْتُ مَجْلِسِی ہَذَا۔
(٣٢٧٣١) حضرت علی (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے یمن والوں کے پاس بھیجنا چاہا تاکہ میں ان کے درمیان فیصلے کروں۔ پس میں نے کہا : اے اللہ کے رسول 5! مجھے تو قضاء سے متعلق کچھ بھی معلوم نہیں، آپ (رض) فرماتے ہیں : آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے میرے سینہ پر اپنا ہاتھ مار کر یہ دعا فرمائی۔ اے اللہ ! اس کے دل کو ہدایت عطا فرما۔ اور اس کی زبان کو سیدھا کر دے۔ پس مجھے کبھی بھی دو بندوں کے درمیان فیصلہ کرنے میں شک نہیں ہوا۔ یہاں تک کہ آج میں اس جگہ پر بیٹھا ہوا ہوں۔

32731

(۳۲۷۳۲) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ ، عَنْ أَبِی الْبَخْتَرِیِّ ، عَنْ عَلِیٍّ ، قَالُوا : لَہُ : أَخْبِرْنَا عَنْ نَفْسِکَ ، قَالَ : کُنْتُ إذَا سَأَلْتُ أُعْطِیت وَإِذَا سَکَتّ ابْتُدِئْت۔ (نسائی ۸۵۰۵)
(٣٢٧٣٢) حضرت عمرو بن مرہ (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت ابو البختری (رض) نے ارشاد فرمایا : کہ لوگوں نے حضرت علی (رض) سے کہا : کہ آپ (رض) ہمیں اپنے بارے میں بتلائیے ؟ آپ (رض) نے فرمایا : جب میں کچھ سوال کرتا تھا تو مجھے عطاء کردیا جاتا تھا۔ اور جب میں خاموش ہوتا تھا تو مجھ ہی سے شروعات کی جاتی تھی۔

32732

(۳۲۷۳۳) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ عَوْفٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرِو ابْنِ ہِنْدٍ الْجَمَلِیِّ ، عَنْ عَلِیٍّ ، قَالَ : کُنْتُ إذَا سَأَلْت رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَعْطَانِی ، وَإِذَا سَکَتّ ابْتَدَأَنِی۔ (ترمذی ۳۷۲۲۔ حاکم ۱۲۵)
(٣٢٧٣٣) حضرت عبداللہ بن عمرو بن ھند الجملی (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت علی (رض) نے ارشاد فرمایا : میں جب کبھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کچھ مانگتا تھا تو آپ (رض) مجھے عطا فرما دیتے ۔ اور جب میں خاموش ہوتا تھا تو مجھ ہی سے شروعات فرماتے۔

32733

(۳۲۷۳۴) حَدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ حُبْشِیِّ بْنِ جُنَادَۃَ ، قَالَ : قلْت لَہُ : یَا أَبَا أسْحَاقَ ، أَیْنَ رَأَیْتہ ، قَالَ : وَقَفَ عَلَیْنَا فِی مَجْلِسِنَا ، فَقَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : عَلِیٌّ مِنِّی وَأَنَا مِنْہُ، وَلاَ یُؤَدِّی عَنِّی إلاَّ عَلِیٌّ۔ (ترمذی ۳۷۱۹۔ ابن ماجہ ۱۱۹)
(٣٢٧٣٤) حضرت ابو اسحاق فرماتے ہیں کہ حضرت حبشی بن جنادہ (رض) نے ارشاد فرمایا : اس پر حضرت شریک (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے ان سے پوچھا : اے ابو اسحق ! آپ (رض) نے ان کو یہاں دیکھا ؟ آپ (رض) نے فرمایا : حضرت حبشی (رض) ہماری مجلس میں ٹھہرے تھے اور فرمایا : کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یوں فرماتے سنا : علی مجھ سے ہیں اور میں ان سے ہوں اور میری طرف سے علی (رض) کے علاوہ کوئی بھی ادائیگی نہیں کرے گا۔

32734

(۳۲۷۳۵) حَدَّثَنَا مُطَّلِبُ بْنُ زِیَادٍ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِیلٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللہِ، قَالَ: کُنَّا بِالْجُحْفَۃِ بِغَدِیرِ خُمٍّ إذْ خَرَجَ عَلَیْنَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَأَخَذَ بِیَدِ عَلِیٍّ ، فَقَالَ : مَنْ کُنْتُ مَوْلاَہُ فَعَلِیٌّ مَوْلاَہُ۔
(٣٢٧٣٥) حضرت جابر بن عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ ہم غدیر خم کے موقع پر حجفہ مقام میں تھے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے پاس تشریف لائے پھر حضرت علی (رض) کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا : میں جس کا دوست ہوں پس علی بھی اس کا دوست ہے۔

32735

(۳۲۷۳۶) حَدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ حَنَشِ بْنِ الْحَارِثِ ، عَنْ رِیَاحِ بْنِ الْحَارِثِ ، قَالَ : بَیْنَا عَلِیٌّ جَالِسًا فِی الرَّحْبَۃِ إذْ جَائَ رَجُلٌ عَلَیْہِ أَثَرُ السَّفَرِ ، فَقَالَ : السَّلاَمُ عَلَیْک یَا مَوْلاَیَ ، فَقَالَ : مَنْ ہَذَا ، فَقَالُوا : ہَذَا أَبُو أَیُّوبَ الأَنْصَارِیُّ ، فَقَالَ : إنِّی سَمِعْت رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : مَنْ کُنْتُ مَوْلاَہُ فَعَلِیٌّ مَوْلاَہُ۔ (طبرانی ۴۰۵۲)
(٣٢٧٣٦) حضرت ریاح بن حارث (رض) فرماتے ہیں کہ اس درمیان کہ حضرت علی (رض) کشادہ جگہ میں بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک ایک آدمی آیا جس پر سفر کے نشانات واضح تھے۔ اس نے کہا : اے میرے دوست تجھ پر سلامتی ہو۔ آپ نے پوچھا : یہ کون شخص ہے ؟ تو لوگوں نے کہا : یہ حضرت ابو ایوب انصاری (رض) ہیں ، پھر انھوں نے فرمایا : میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یوں فرماتے ہوئے سنا : میں جس کا دوست ہوں پس علی بھی اس کا دوست ہے۔

32736

(۳۲۷۳۷) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنِ الْحَکَمِ ، عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِی وَقَّاصٍ ، قَالَ : خَلَّفَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلِیَّ بْنَ أَبِی طَالِبٍ فِی غَزْوَۃِ تَبُوکَ ، فَقَالَ : یَا رَسُولَ اللہِ تُخَلِّفُنِی فِی النِّسَائِ وَالصِّبْیَانِ ، فَقَالَ : أَمَا تَرْضَی أَنْ تَکُونَ مِنِّی بِمَنْزِلَۃِ ہَارُونَ مِنْ مُوسَی غَیْرَ أَنَّہُ لاَ نَبِیَّ بَعْدِی۔ (بخاری ۴۴۱۶۔ مسلم ۳۱)
(٣٢٧٣٧) حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غزوہ تبوک کے موقع پر حضرت علی (رض) کو جانشین بنایا تو آپ (رض) کہنے لگے : اے اللہ کے رسول 5! آپ مجھے عورتوں اور بچوں میں چھوڑ کر جا رہے ہیں ؟ اس پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : کیا تم اس بات سے خوش نہیں ہو کہ تم میرے نزدیک ایسے ہی ہو جیسے حضرت ہارون (علیہ السلام) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے نزدیک تھے ؟

32737

(۳۲۷۳۸) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : سَمِعْتُ إبْرَاہِیمَ بْنَ سَعْدٍ یُحَدِّثُ عَنْ سَعْدٍ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، أَنَّہُ قَالَ لِعَلِیٍّ : أَمَا تَرْضَی أَنْ تَکُونَ مِنِّی بِمَنْزِلَۃِ ہَارُونَ مِنْ مُوسَی۔ (بخاری ۳۷۰۶۔ مسلم ۱۸۷۱)
(٣٢٧٣٨) حضرت سعد (رض) فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت علی (رض) سے ارشاد فرمایا : کیا تم اس بات پر خوش نہیں ہو کہ تم میرے نزدیک ایسے ہی ہو جیسے حضرت ہارون (علیہ السلام) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے نزدیک تھے۔

32738

(۳۲۷۳۹) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ مُوسَی الْجُہَنِیِّ ، قَالَ : حدَّثَتْنِی فَاطِمَۃُ ابْنَۃُ عَلِیٍّ ، قَالَتْ : حَدَّثَتْنِی أَسْمَائُ ابْنَۃُ عُمَیْسٍ ، قَالَتْ : سَمِعْت رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ لِعَلِیٍّ : أَنْتَ مِنِّی بِمَنْزِلَۃِ ہَارُونَ مِنْ مُوسَی ، إلاَّ أَنَّہُ لَیْسَ نَبِیٌّ بَعْدِی۔ (نسائی ۸۱۴۳۔ احمد ۴۳۸)
(٣٢٧٣٩) حضرت اسماء بنت عمیس (رض) فرماتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت علی (رض) کو یوں ارشاد فرمایا : تم میرے نزدیک ایسے ہی ہو جیسے حضرت ہارون حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے نزدیک تھے۔ مگر یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔

32739

(۳۲۷۴۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ فُضَیْلِ بْنِ مَرْزُوقٍ ، عَنْ عَطِیَّۃَ ، عَنْ زَیْدِ بْنِ أَرْقَمَ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ لِعَلِیٍّ : أَنْتَ مِنِّی بِمَنْزِلَۃِ ہَارُونَ مِنْ مُوسَی ، إلاَّ أَنَّہُ لَیْسَ نَبِیٌّ بَعْدِی۔
(٣٢٧٤٠) حضرت زید بن ارقم (رض) فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت علی (رض) سے ارشاد فرمایا : تم میرے نزدیک ایسے ہی ہو جیسے حضرت ہارون حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے نزدیک تھے۔ مگر یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔

32740

(۳۲۷۴۱) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ مُوسَی بْنِ مُسْلِمٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَابِطٍ، عَنْ سَعْدٍ، قَالَ: قدِمَ مُعَاوِیَۃُ فِی بَعْضِ حَجَّاتِہِ، فَأَتَاہُ سَعْدٌ، فَذَکَرُوا عَلِیًّا، فَنَالَ مِنْہُ مُعَاوِیَۃُ، فَغَضِبَ سَعْدٌ، فَقَالَ: تَقُولُ ہَذَا لِرَجُلٍ، سَمِعْت رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ لَہُ ثَلاَثُ خِصَالٍ ، لأَنْ تَکُونَ لِی خَصْلَۃٌ مِنْہَا أَحَبُّ إلَیَّ مِنَ الدُّنْیَا ، وَمَا فِیہَا : سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : مَنْ کُنْتُ مَوْلاَہُ فَعَلِیٌّ مَوْلاَہ ، وَسَمِعْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : أَنْتَ مِنِّی بِمَنْزِلَۃِ ہَارُونَ مِنْ مُوسَی ، إلاَّ أَنَّہُ لاَ نَبِیَّ بَعْدِی ، وَسَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : لأُعْطِیَنَّ الرَّایَۃَ رَجُلاً یُحِبُّ اللَّہَ وَرَسُولَہُ۔(مسلم ۱۸۷۱۔ ترمذی ۲۹۹۹)
(٣٢٧٤١) حضرت عبدالرحمن بن سابط (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت سعد (رض) نے ارشاد فرمایا : کہ حضرت معاویہ (رض) ایک حج کے موقع پر تشریف لائے تو حضرت سعد (رض) ان کے پاس آئے تو لوگوں نے حضرت علی (رض) کا ذکر کیا اس پر حضرت معاویہ (رض) نے کچھ الفاظ کہے پس حضرت سعد (رض) کو غصہ آگیا آپ (رض) نے فرمایا : تم یہ بات ایسے آدمی کے بارے میں کر رہے ہو کہ میں نے خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس کے بارے میں یہ تین خصوصیات ارشاد فرماتے ہوئے سنا۔ اور مجھے ان خصوصیات میں سے کسی ایک کامل جانا میرے نزدیک دنیا اور جو کچھ اس میں موجود ہے۔ اس سے بھی پسند ہے۔ میں نے سنا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میں جس کا دوست ہوں۔ علی بھی اس کا دوست ہے۔ میں نے سنا کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : تم میرے نزدیک ایسے ہی ہو جیسا کہ حضرت ہارون (علیہ السلام) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے نزدیک تھے۔ مگر یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔ اور میں نے سنا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : کہ میں ضرور بالضرور ایسے آدمی کو جھنڈا دوں گا جس سے اللہ اور اس کا رسول محبت کرتے ہیں۔

32741

(۳۲۷۴۲) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، عَنِ الْحَارِثِ بْنِ حَصِیرَۃَ ، قَالَ : حَدَّثَنِی أَبُو سُلَیْمَانَ الْجُہَنِیُّ ، یَعْنِی زَیْدَ بْنَ وَہْبٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ عَلِیًّا عَلَی الْمِنْبَرِ وَہُوَ یَقُولُ : أَنَا عَبْدُ اللہِ ، وَأَخُو رَسُولِہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، لَمْ یَقُلْہَا أَحَدٌ قَبْلِی ، وَلاَ یَقُولُہَا أَحَدٌ بَعْدِی إلاَّ کَذَّابٌ مُفْتَرٍ۔
(٣٢٧٤٢) حضرت ابو سلیمان الجھنی (رض) یعنی زید بن وھب (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت علی (رض) کو منبر پر یوں فرماتے ہوئے سنا کہ میں اللہ کا بندہ ہوں اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا بھائی ہوں۔ کسی ایک نے بھی مجھ سے پہلے یہ نہیں کہا اور نہ ہی کوئی میرے بعد یہ کہے گا مگر جھوٹا شخص۔

32742

(۳۲۷۴۳) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ ہَاشِمٍ ، عَنِ ابْنِ أَبِی لَیْلَی ، عَنِ الْحَکَمِ ، وَالْمِنْہَالِ ، وَعِیسَی ، عَنْ عبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِی لَیْلَی ، قَالَ : کَانَ عَلِیٌّ یَخْرُجُ فِی الشِّتَائِ فِی إزَارٍ وَرِدَائٍ ثَوْبَیْنِ خَفِیفَیْنِ ، وَفِی الصَّیْفِ فِی الْقَبَائِ الْمَحْشُوِّ وَالثَّوْبِ الثَّقِیلِ ، فَقَالَ : النَّاسُ لِعَبْدِ الرَّحْمَنِ : لَوْ قُلْتُ لأَبِیک فَإِنَّہُ یَسْمرُ مَعَہُ ، فَسَأَلْت أَبِی ، فَقُلْتُ : إنَّ النَّاسَ قَدْ رَأَوْا مِنْ أَمِیرِ الْمُؤْمِنِینَ شَیْئًا اسْتَنْکَرُوہُ ، قَالَ : وَمَا ذَاکَ ، قَالَ : یَخْرُجُ فِی الْحَرِّ الشَّدِیدِ فِی الْقَبَائِ الْمَحْشُوِّ وَالثَّوْبِ الثَّقِیلِ ، وَلاَ یُبَالِی ذَلِکَ ، وَیَخْرُجُ فِی الْبَرْدِ الشَّدِیدِ فِی الثَّوْبَیْنِ الْخَفِیفَیْنِ وَالْمُلاَئَتَیْنِ لاَ یُبَالِی ذَلِکَ وَلاَ یَتَّقِی بَرْدًا ، فَہَلْ سَمِعْت فِی ذَلِکَ شَیْئًا فَقَدْ أَمَرُونِی أَنْ أَسْأَلَک أَنْ تَسْأَلَہُ إذَا سَمَرْت عِنْدَہُ ، فَسَمَرَ عِنْدَہُ ، فَقَالَ : یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ ، إنَّ النَّاسَ قَدْ تَفَقَّدُوا مِنْک شَیْئًا ، قَالَ : وَمَا ہُوَ ، قَالَ : تَخْرُجُ فِی الْحَرِّ الشَّدِیدِ فِی الْقَبَائِ الْمَحْشُوِّ أو الثَّوْبِ الثَّقِیلِ وَتَخْرُجُ فِی الْبَرْدِ الشَّدِیدِ فِی الثَّوْبَیْنِ الْخَفِیفَیْنِ وَفِی الْمُلاَئَتَیْنِ لاَ تُبَالِی ذَلِکَ ، وَلاَ تَتَّقِی بَرْدًا ، قَالَ : وَمَا کُنْتَ مَعَنَا یَا أَبَا لَیْلَی بِخَیْبَرَ ، قَالَ : قُلْتُ بَلَی ، وَاللہِ قَدْ کُنْت مَعَکُمْ ، قَالَ : فَإِنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَعَثَ أَبَا بَکْرٍ فَسَارَ بِالنَّاسِ فَانْہَزَمَ حَتَّی رَجَعَ إلَیْہِ ، وَبَعَثَ عُمَرَ فَانْہَزَمَ بِالنَّاسِ حَتَّی انْتَہَی إلَیْہِ ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لأُعْطِیَنَّ الرَّایَۃَ رَجُلاً یُحِبُّ اللَّہَ وَرَسُولَہُ وَیُحِبُّہُ اللَّہُ وَرَسُولُہُ ، یَفْتَحُ اللَّہُ لَہُ ، لَیْسَ بِفَرَّارٍ فَأَرْسَلَ إلَیَّ فَدَعَانِی ، فَأَتَیْتہ وَأَنَا أَرْمَدُ لاَ أُبْصِرُ شَیْئًا ، فَتَفَلَ فِی عَیْنِی ، وَقَالَ : اللَّہُمَّ اکْفِہِ الْحَرَّ وَالْبَرْدَ ، قَالَ فَمَا آذَانِی بَعْدُ حَرٌّ ، وَلاَ بَرْدٌ۔ (احمد ۹۹)
(٣٢٧٤٣) حضرت حکم (رض) اور حضرت منھال (رض) اور حضرت عیسیٰ (رض) ، یہ سب حضرات فرماتے ہیں کہ حضرت عبد الرحمن بن ابی لیلیٰ (رض) نے فرمایا : کہ حضرت علی (رض) سردیوں میں تہہ بند اور چادر دو باریک کپڑوں میں نکلتے تھے۔ اور گرمیوں میں گرم چوغہ اور بھاری کپڑوں میں نکلتے ! تو لوگ حضرت عبدالرحمن سے کہنے لگے : اگر آپ (رض) اپنے والد سے پوچھ لیں تو وہ آپ کو بتلا دیں گے اس لیے کہ وہ رات کو ان سے بات چیت کرتے ہیں۔ پس میں نے اپنے والد سے پوچھا : کہ لوگ امیر المؤمنین میں ایسی چیز دیکھتے ہیں جس کو وہ عجیب سمجھتے ہیں ؟ انھوں نے پوچھا : وہ کیا چیز ہے ؟ میں نے کہا : آپ (رض) سخت گرمی میں گرم چوغہ اور بھاری کپڑوں میں نکلتے ہیں اور آپ (رض) کو اس کی پروا بھی نہیں ہوتی۔ اور سخت سردی میں آپ (رض) دو باریک کپڑوں اور چھوٹی چادروں میں نکلتے ہیں اور آپ (رض) کو اس چیز کی بالکل پروا بھی نہیں ہوتی اور نہ ہی آپ (رض) سردی سے بچتے ہیں۔ کیا آپ (رض) نے ان سے اس بارے میں کچھ سنا ہے ؟ اس لیے کہ لوگوں نے مجھے کہا ہے کہ میں آپ سے کہوں کے آپ حضرت علی (رض) سے جب رات کو بات کریں تو اس بارے میں دریافت کریں۔
پس جب رات کو انھوں نے حضرت علی (رض) سے بات چیت کی تو ان سے کہا : اے امیر المؤمنین : لوگوں نے آپ (رض) کی ایک چیز کا جائزہ لیا ہے۔ آپ (رض) نے پوچھا : وہ کیا ہے ؟ انھوں نے کہا : آپ (رض) سخت گرمی میں گرم چوغہ یا بھاری کپڑوں میں نکلتے ہیں۔ اور شدید سردی کی حالت میں آپ (رض) دو باریک کپڑوں اور چادروں میں نکلتے ہیں۔ اور آپ (رض) کو اس بات کی پروا بھی نہیں ہوتی۔ اور نہ ہی آپ (رض) سردی سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں ! آپ (رض) نے فرمایا : اے ابو لیلیٰ کیا تم غزوہ خیبر کے موقع پر ہمارے ساتھ نہیں تھے ؟ میں نے کہا : کیوں نہیں ! اللہ کی قسم میں تمہارے ساتھ تھا۔ آپ (رض) نے فرمایا : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت ابوبکر (رض) کو بھیجا وہ لوگوں کو لے کر گئے پس وہ شکست کھا کر واپس لوٹ آئے ۔ اور حضرت عمر (رض) کو بھیجا مگر وہ بھی شکست کھا کر واپس آئے، پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : میں ضرور بالضرور ایسے شخص کو جھنڈا دوں گا جو اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے محبت کرتا ہے اور اللہ اور اس کا رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس شخص سے محبت کرتے ہیں۔ اللہ اس کو فتح عطا فرمائیں گے ۔ وہ شخص پیٹھ پھیر کر بھاگنے والا نہیں ہے۔ پس آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قاصد بھیجا مجھے بلانے کے لیے۔ میں حاضر خدمت ہوگیا ، اور میں آشوب چشم میں مبتلا تھا میں کچھ بھی نہیں دیکھ سکتا تھا۔ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے میری آنکھ میں لعاب ڈالا ، پھر دعا فرمائی۔ اے اللہ ! تو سردی اور گرمی سے اس کی کفایت فرما۔ آپ (رض) نے فرمایا : اس کے بعد سے مجھے کبھی سردی اور گرمی نے تکلیف نہیں پہنچائی۔

32743

(۳۲۷۴۴) حَدَّثَنَا أَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ ، عَنْ شَرِیکٍ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ رِبْعِیٍّ ، عَنْ عَلِیٍّ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : یَا مَعْشَرَ قُرَیْشٍ ، لَیَبْعَثَنَّ اللَّہُ عَلَیْکُمْ رَجُلاً مِنْکُمْ قَدِ امْتَحَنَ اللَّہُ قَلْبَہُ لِلإِیمَانِ فَیَضْرِبُکُمْ ، أَوْ یَضْرِبُ رِقَابَکُمْ ، فَقَالَ أَبُو بَکْرٍ : أَنَا ہُوَ یَا رَسُولَ اللہِ ، قَالَ : لاَ فَقَالَ عُمَرُ : أَنَا ہُوَ یَا رَسُولَ اللہِ ، قَالَ : لاَ ، وَلَکِنَّہُ خَاصِفُ النَّعْلِ ، وَکَانَ أَعْطَی عَلِیًّا نَعْلَہُ یَخْصِفُہَا۔ (ترمذی ۲۶۶۰۔ احمد ۱۵۵)
(٣٢٧٤٤) حضرت علی (رض) فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اے گروہ قریش ! اللہ تعالیٰ ضرور بالضرور ایک آدمی بھیجیں گے جو تم ہی میں سے ہوگا۔ تحقیق اللہ نے اس کے دل کو ایمان کے لیے چن لیا ہے۔ پس وہ تمہیں قتل کرے گا یا یوں فرمایا : کہ وہ تمہاری گردنیں مارے گا۔ تو حضرت ابوبکر (رض) نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول 5! کیا وہ شخص میں ہوں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : نہیں ، حضرت عمر (رض) نے عرض کیا۔ اے اللہ کے رسول 5! کیا وہ شخص میں ہوں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : نہیں بلکہ وہ جوتوں میں پیوند لگانے والا ہے۔ اور حضرت علی (رض) کو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک جوتا مرحمت فرمایا تھا جس میں انھوں نے پیوند لگایا تھا۔

32744

(۳۲۷۴۵) حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِی غنیۃ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ بْنِ رَجَائٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ ، قَالَ : کُنَّا جُلُوسًا فِی الْمَسْجِدِ فَخَرَجَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَجَلَسَ إلَیْنَا وَلَکَأَنَّ عَلَی رُؤُوسِنَا الطَّیْرَ ، لاَ یَتَکَلَّمُ أَحَدٌ مِنَّا ، فَقَالَ : إنَّ مِنْکُمْ رَجُلاً یُقَاتِلُ النَّاسَ عَلَی تَأْوِیلِ الْقُرْآنِ کَمَا قُوتِلْتُمْ عَلَی تَنْزِیلِہِ ، فَقَامَ أَبُوبَکْرٍ، فَقَالَ: أَنَا ہُوَ یَا رَسُولَ اللہِ، قَالَ: لاَ، فَقَامَ عُمَرُ، فَقَالَ: أَنَا ہُوَ یَا رَسُولَ اللہِ، قَالَ: لاَ، وَلَکِنَّہُ خَاصِفُ النَّعْلِ فِی الْحُجْرَۃِ ، قَالَ : فَخَرَجَ عَلَیْنَا عَلِیٌّ وَمَعَہُ نَعْلُ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُصْلِحُ مِنْہَا۔ (احمد ۳۱۔ حاکم ۱۲۲)
(٣٢٧٤٥) حضرت رجائ (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت ابو سعید خدری (رض) نے ارشاد فرمایا : کہ ہم لوگ مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے اور ہمارے پاس بیٹھ گئے : ہم میں سے کوئی بھی بات نہیں کررہا تھا گویا کہ ہمارے سروں پر پرندے بیٹھے ہوں۔ تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : تم میں سے ایک آدمی ہوگا جو لوگوں سے قتال کرے گا قرآنی تاویل پر جیسا کہ اس کے اترنے پر تم سے قتال کیا گیا تھا۔ پس حضرت ابوبکر (رض) کھڑے ہوئے اور عرض کیا : اے اللہ کے رسول 5! کیا وہ شخص میں ہوں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : نہیں۔ پھر حضرت عمر (رض) کھڑے ہوئے اور عرض کیا : اے اللہ کے رسول 5! کیا وہ شخص میں ہوں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : نہیں بلکہ وہ شخص حجرے میں جوتے کو پیوند لگا رہا ہے۔ راوی کہتے ہیں۔ پس حضرت علی (رض) ہمارے پاس آئے اس حال میں کہ ان کے پاس رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا جوتا تھا جس کو انھوں نے ٹھیک کیا تھا۔

32745

(۳۲۷۴۶) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، قَالَ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاہِیمَ ، عَن سَلَمَۃَ بْنِ أَبِی الطُّفَیْلِ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ أَبِی طَالِبٍ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ لَہُ : یَا عَلِی ، إنَّ لَکَ کَنْزًا فِی الْجَنَّۃِ وَإِنَّک ذُو قَرْنَیْہَا فَلاَ تُتْبِعَ النَّظْرَۃَ النَّظْرَۃَ فَإِنَّمَا لَکَ الأُولَی وَلَیْسَتْ لَکَ الآخِرَۃُ۔
(٣٢٧٤٦) حضرت علی (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت علی (رض) سے فرمایا کہ تمہارے لیے جنت میں ایک خزانہ ہے اور تم اس کے مالک ہو۔ جب کسی پر ایک نظر پڑجائے تو دوسری نظر مت ڈالو۔ کیونکہ ایک نظر تو معاف ہے لیکن دوسری معاف نہیں ہے۔

32746

(۳۲۷۴۷) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، عَنِ الْعَلاَئِ بْنِ الصَّالِحِ ، عَنِ الْمِنْہَالِ ، عَنْ عَبَّادِ بْنِ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : سَمِعْتُ عَلِیًّا یَقُولُ : أَنَا عَبْدُ اللہِ ، وَأَخُو رَسُولِہِ ، وَأَنَا الصِّدِّیقُ الأَکْبَرُ ، لاَ یَقُولُہَا بَعْدِی إلاَّ کَذَّابٌ مُفْتَرٍ ، وَلَقَدْ صَلَّیْت قَبْلَ النَّاسِ بِسَبْعِ سِنِینَ۔
(٣٢٧٤٧) حضرت عباد بن عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت علی (رض) نے ارشاد فرمایا : میں اللہ کا بندہ ہوں۔ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا بھائی ہوں۔ اور میں صدیق اکبر ہوں۔ نہیں کہے گا اس بات کو میرے بعد مگر جھوٹا کذاب شخص۔ اور تحقیق میں نے لوگوں سے سات سال پہلے نماز پڑھی۔

32747

(۳۲۷۴۸) حَدَّثَنَا شَبَابَۃُ ، قَالَ : حدَّثَنَا شُعْبَۃُ ، عَنْ سَلَمَۃَ ، عَنْ حَبَّۃَ الْعُرَنِیِّ ، عَنْ عَلِیٍّ ، قَالَ : أَنَا أَوَّلُ رَجُلٍ صَلَّی مَعَ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔ (احمد ۱۴۱۔ ابن سعد ۲۱)
(٣٢٧٤٨) حضرت حبۃ العرنی (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت علی (رض) نے ارشاد فرمایا : میں پہلا آدمی ہوں جس نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ نماز پڑھی۔

32748

(۳۲۷۴۹) حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ ، عَنْ طَلْحَۃَ بْنِ جَبْرٍ ، عَنِ الْمُطَّلِبِ بْنِ عَبْدِ اللہِ ، عَنْ مُصْعَبِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ ، فَقَالَ : لَمَّا افْتَتَحَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَکَّۃَ انْصَرَفَ إِلَی الطَّائِفِ فَحَاصَرَہَا تسع عَشْرَۃَ ، أَوْ ثَمَانِ عَشْرَۃَ ، فَلَمْ یَفْتَتِحْہَا ، ثُمَّ ارْتَحَلَ رَوْحَۃً ، أَوْ غَدْوَۃً فَنَزَلَ ، ثُمَّ ہَجَّرَ ، ثُمَّ قَالَ : أَیُّہَا النَّاسُ إنِّی فَرَطٌ لَکُمْ وَأُوصِیکُمْ بِعِتْرَتِی خَیْرًا ، وَإِنَّ مَوْعِدَکُمَ الْحَوْضُ ، وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ ، لَتُقِیمُنَّ الصَّلاَۃَ وَلَتُؤْتُنَّ الزَّکَاۃَ ، أَوْ لأَبْعَثَنَّ إلَیْکُمْ رَجُلاً مِنِّی ، أَوْ کَنَفْسِی فَلَیَضْرِبَنَّ أَعْنَاقَ مُقَاتِلَتِہِمْ وَلَیَسْبِیَنَّ ذَرَارِیَّہُمْ ، قَالَ : فَرَأَی النَّاسُ أَنَّہُ أَبُو بَکْرٍ ، أَوْ عُمَرُ ، فَأَخَذَ بِیَدِ عَلِیٍّ ، فَقَالَ : ہَذَا۔ (بزار ۱۰۵۰۔ حاکم ۱۲۰)
(٣٢٧٤٩) حضرت عبد الرحمن بن عوف (رض) فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مکہ فتح کرلیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) طائف کی طرف لوٹے۔ اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اٹھارہ یا انیس دن تک طائف کا محاصرہ کیا۔ لیکن اس کو فتح نہ کرسکے۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صبح یا شام کے وقت کوچ فرمایا : پس آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ٹھہرے پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دوپہر کو چلنے لگے پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے لوگو ! بیشک میں تم سے پہلے پہنچنے والا ہوں گا ، اور میں تمہیں اپنی اولاد کے بارے میں بھلائی کی وصیت کرتا ہوں ۔ اور تم سے وعدے کی جگہ حوض کوثر کا مقام ہے۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے چاہیے کہ تم ضرور بالضرور نماز قائم کرو اور زکوۃ ادا کرو یا پھر میں تمہاری طرف اپنے ایک آدمی کو بھیجوں گا ۔ یا اپنے جیسے ایک آدمی کو بھیجوں گا ۔ پس وہ ضرور بالضرور ان میں سے قتال کرنے والوں کی گردنوں کو مارے گا ۔ اور ان کی اولادوں کو قیدی بنا لے گا۔ راوی کہتے ہیں : لوگوں کا خیال تھا کہ وہ شخص حضرت ابوبکر (رض) یا حضرت عمر (رض) ہوں گے۔ پس آپ (رض) نے حضرت علی (رض) کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا : وہ شخص یہ ہے۔

32749

(۳۲۷۵۰) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ یَزِیدَ بْنِ أَبِی زِیَادٍ ، عَنْ أَبِی فَاخِتَۃَ ، قَالَ : حدَّثَنِی ہُبَیْرَۃُ بْنُ یَرِیمَ ، عْن عَلِیٍّ ، قَالَ : أُہْدِیَ إِلَی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حُلَّۃٌ مُسَیَّرَۃٌ بِحَرِیرٍ ، إمَّا سَدَاہَا حَرِیرٌ ، أَوْ لَحْمَتُہَا، فَأَرْسَلَ بِہَا إلَی، فَأَتَیْتُہُ فَقُلْتُ: مَا أَصْنَعُ بِہَا، أَلْبَسُہَا، فَقَالَ: لاَ، إنِّی لَمَا أَرْضَی لَکَ مَا أَکْرَہُ لِنَفْسِی۔
(٣٢٧٥٠) حضرت ہبیرہ بن یریم (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت علی (رض) نے ارشاد فرمایا : کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایک جوڑا ہدیہ دیا گیا جو ریشم سے مزین تھا۔ یا تو اس کا تانا ریشم کا تھا یا اس کا بانا ریشم کا تھا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وہ جوڑا مجھے بھیج دیا ۔ میں وہ جوڑا لے کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوگیا۔ اور میں نے دریافت کیا کہ میں اس کا کیا کروں ؟ کیا میں اس کو پہن لوں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : نہیں ! بیشک میں تیرے لیے وہ چیز پسند نہیں کرتا جو چیز میں اپنے لیے ناپسند کروں۔

32750

(۳۲۷۵۱) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ یَزِیدَ بْنِ أَبِی زِیَادٍ ، عَنْ أَبِی فَاخِتَۃَ ، قَالَ : حدَّثَنِی جَعْدَۃُ بْنُ ہُبَیْرَۃَ ، عَنْ عَلِیٍّ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِنَحْوٍ مِنْ حَدِیثِ عَبْدِ الرَّحِیمِ۔
(٣٢٧٥١) حضرت علی (رض) سے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ما قبل والا ارشاد اس سے بھی منقول ہے۔

32751

(۳۲۷۵۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ نَاجِیَۃَ بْنِ کَعْبٍ ، عَنْ عَلِیٍّ ، قَالَ لَمَّا مَاتَ أَبُو طَالِبٍ أَتَیْتُ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقُلْتُ : یَا رَسُولَ اللہِ ، إنَّ عَمَّک الشَّیْخَ الضَّالَّ قَدْ مَاتَ ، قَالَ : فَقَالَ : انْطَلِقْ فَوَارِہِ ، ثُمَّ لاَ تُحَدِّثَنَّ شَیْئًا حَتَّی تَأْتِیَنِی ، قَالَ : فَوَارَیْتہ ، ثُمَّ أَتَیْتہ فَأَمَرَنِی فَاغْتَسَلْت ، ثُمَّ دَعَا لِی بِدَعَوَاتٍ مَا أُحِبُّ أَنَّ لِی بِہِنَّ مَا عَلَی الأَرْضِ مِنْ شَیْئٍ۔
(٣٢٧٥٢) حضرت ناجیۃ بن کعب (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت علی (رض) نے ارشاد فرمایا : کہ جب ابو طالب کی وفات ہوگئی تو میں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا۔ اے اللہ کے رسول 5! بلاشبہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا بوڑھا گمراہ چچا وفات پا گیا ۔ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : تم ان کو لے جا کر دفن کردو۔ پھر تم ہرگز کچھ مت کرنا۔ یہاں تک کہ میرے پاس آجانا۔ آپ (رض) فرماتے ہیں : پس میں نے ان کو دفن کردیا۔ پھر میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس حاضر ہوا۔ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے غسل کا حکم دیا ۔ پس میں نے غسل کیا، پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے میرے لیے چند دعائیں کی۔ میں پسند نہیں کرتا اس بات کو کہ میرے لیے ان دعاؤں کے عوض زمین پر یہ یہ چیزیں ہوں۔

32752

(۳۲۷۵۳) حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا إسْرَائِیلُ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ ہَانِئِ بْنِ ہَانِئٍ ، عَنْ عَلِیٍّ ، قَالَ : قَالَ لِی النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : أَنْتَ مِنِّی وَأَنَا مِنْک۔ (ابوداؤد ۲۲۷۴۔ احمد ۹۸)
(٣٢٧٥٣) حضرت علی (رض) فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھ سے ارشاد فرمایا : تم مجھ سے ہو اور میں تم سے ہوں۔

32753

(۳۲۷۵۴) حَدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ زَیْدِ بْنِ یُثَیْعٍ ، قَالَ : بَلَغَ عَلِیًّا أَنَّ أُنَاسًا یَقُولُونَ فِیہِ ، قَالَ : فَصَعِدَ الْمِنْبَرَ ، فَقَالَ : أَنْشُدُ اللَّہَ رَجُلاً ، وَلا أَنْشُدُہُ إلاَّ مِنْ أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سَمِعَ مِنَ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ شَیْئًا إلاَّ قَامَ ، فَقَامَ مِمَّا یَلِیہِ سِتَّۃٌ ، وَمِمَّا یَلِی سعید بْنَ وَہْبٍ سِتَّۃٌ فَقَالُوا : نَشْہَدُ أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : مَنْ کُنْتُ مَوْلاہُ فَعَلِیٌّ مَوْلاہُ ، اللَّہُمَّ وَالِ مَنْ وَالاہُ وَعَادِ مَنْ عَادَاہُ۔ (احمد ۱۰۲۲۔ بزار ۲۵۴۱)
(٣٢٧٥٤) حضرت زید بن یثیع (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت علی (رض) کو خبر ملی کہ چند لوگ ان کے بارے میں کچھ بات کر رہے ہیں۔ تو آپ (رض) منبر پر چڑھ کر فرمانے لگے۔ میں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب میں سے اس شخص کو قسم دیتا ہوں۔ جس نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے میرے بارے میں کچھ سنا ہے۔ تو وہ کھڑا ہوجائے ۔ پس چھ کے قریب لوگ کھڑے ہوگئے اور ان میں حضرت سعید بن وھب (رض) چھٹے مل گئے۔ پھر ان سب لوگوں نے فرمایا : ہم گواہی دیتے ہیں اس بات کی کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : میں جس کا دوست ہوں پس علی بھی اس کا دوست ہے۔ اے اللہ ! تو بھی دوست رکھ ! اس شخص کو جو اس سے دوستی رکھے۔ اور تو دشمنی کر اس شخص سے جو اس سے دشمنی رکھے۔

32754

(۳۲۷۵۵) حَدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ أَبِی یَزِیدَ الأَوْدِیِّ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : دَخَلَ أَبُو ہُرَیْرَۃَ الْمَسْجِدَ فَاجْتَمَعْنَا إلَیْہِ ، فَقَامَ إلَیْہِ شَابٌّ ، فَقَالَ : أَنْشُدُک بِاللہِ ، أَسَمِعْت رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ مَنْ کُنْتُ مَوْلاہُ فَعَلِیٌّ مَوْلاہُ ، اللَّہُمَّ وَالِ مَنْ وَالاہُ وَعَادِ مَنْ عَادَاہُ ، فَقَالَ : نَعَمْ ، فَقَالَ الشَّابُّ : أَنَا مِنْک بَرِیئٌ ، أَشْہَدُ أَنَّک قَدْ عَادَیْت مَنْ وَالاہُ وَوَالَیْت مَنْ عَادَاہُ ، قَالَ فَحَصَبَہُ النَّاسُ بِالْحَصَا۔ (بزار ۲۵۳۱۔ ابویعلی ۶۳۹۲)
(٣٢٧٥٥) حضرت ابو یزید الاودی (رض) فرماتے ہیں کہ ان کے والد (رض) نے ارشاد فرمایا : کہ حضرت ابوہریرہ (رض) مسجد میں تشریف لائے تو ہم لوگ ان کے پاس جمع ہوگئے پھر ایک نوجوان نے کھڑے ہو کر ان سے کہا : میں آپ (رض) کو اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں۔ کیا آپ (رض) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے۔ میں جس کا دوست ہوں پس علی (رض) بھی اس کا دوست ہے۔ اے اللہ ! تو بھی اس کو دوست بنا جو علی (رض) کو دوست رکھتا ہو۔ اور تو اس سے دشمنی کر جو شخص اس سے دشمنی رکھتا ہو ؟ تو آپ (رض) نے فرمایا : جی ہاں ! پھر وہ نوجوان کہنے لگا : میں آپ (رض) سے بری ہوں۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ یقیناً آپ (رض) نے دشمنی کی اس شخص سے جو ان کو دوست رکھتا ہے اور آپ (رض) نے دوستی کی اس شخص سے جو ان سے دشمنی رکھتا ہے۔ راوی کہتے ہیں۔ پس لوگوں نے اس نوجوان کو کنکریاں ماریں۔

32755

(۳۲۷۵۶) حَدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ عَیَّاشٍ الْعَامِرِیِّ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ شَدَّادٍ ، قَالَ قَدِمَ عَلَی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَفْدُ آل سَرْحٍ مِنَ الْیَمَنِ ، فَقَالَ لَہُمْ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَتُقِیمُنَّ الصَّلاۃَ وَلَتُؤْتُنَّ الزَّکَاۃَ وَلَتَسْمَعْن وَلَتُطِیعَنْ ، أَوْ لأبْعَثَنَّ إلَیْکُمْ رَجُلاً کَنَفْسِی یُقَاتِلُ مُقَاتِلَتَکُمْ وَیَسْبِی ذَرَارِیَّکُمْ ، اللَّہُمَّ أَنَا ، أَوْ کَنَفْسِی ، ثُمَّ أَخَذَ بِیَدِ عَلِیٍّ۔ (احمد ۱۰۲۴)
(٣٢٧٥٦) حضرت عبداللہ بن شداد (رض) فرماتے ہیں کہ یمن کے سرح قبیلہ کا ایک وفد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آیا ، تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے ارشاد فرمایا : چاہیے کہ تم ضرور بالضرور نماز قائم کرو اور زکوۃ ادا کرو۔ اور بات سنو اور اطاعت کرو۔ یا پھر میں تمہاری طرف ایک ایسا آدمی بھیجوں گا جو میرے جیسا ہے وہ تمہارے لڑنے والوں سے قتال کرے گا اور تمہاری اولادوں کو قیدی بنا لے گا۔ اللہ کی قسم ! وہ میں یا میرے جیسا ہے۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت علی (رض) کا ہاتھ پکڑا۔

32756

(۳۲۷۵۷) حَدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ ضَمْرَۃَ ، قَالَ : خَطَبَ الْحَسَنُ بْنُ عَلِیٍّ حِینَ قُتِلَ عَلِیٌّ، فَقَالَ : یَا أَہْلَ الْکُوفَۃِ ، أَوْ یَا أَہْلَ الْعِرَاقِ لَقَدْ کَانَ بَیْنَ أَظْہُرِکُمْ رَجُلٌ قُتِلَ اللَّیْلَۃَ ، أَوْ أُصِیبَ الْیَوْمَ لَمْ یَسْبِقْہُ الأَوَّلُونَ بِعِلْمٍ ، وَلا یُدْرِکُہُ الآخِرُونَ : کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إذَا بَعَثَہُ فِی سَرِیَّۃٍ کَانَ جِبْرِیلُ عَنْ یَمِینِہِ وَمِیکَائِیلُ ، عَنْ یَسَارِہِ ، فَلا یَرْجِعُ حَتَّی یَفْتَحَ اللَّہُ عَلَیْہِ۔
(٣٢٧٥٧) حضرت عاصم بن ضمرہ (رض) فرماتے ہیں جب حضرت علی (رض) کو شہید کردیا گیا تو حضرت حسن بن علی (رض) نے خطبہ دیا جس میں ارشاد فرمایا : اے کوفہ والو یا یوں فرمایا : اے عراق والو ! تحقیق تمہارے سامنے ایک آدمی تھا جس کو رات کو شہید کردیا گیا یا یوں فرمایا : کہ جو آج فوت ہوگیا۔ پہلے لوگ اس سے علم میں نہیں بڑھے اور نہ ہی بعد والے لوگ اس کے علم کو پاسکیں گے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب اس کو کسی لشکر میں بھیجتے تو حضرت جبرائیل (علیہ السلام) اس کی دائیں طرف ہوتے تھے اور حضرت میکائیل اس کی بائیں طرف ہوتے۔ پس وہ شخص واپس نہیں لوٹتا تھا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس کو فتح عطا فرما دیتے۔

32757

(۳۲۷۵۸) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا الأَعْمَشُ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِی لَیْلَی ، قَالَ : ذُکِرَ عِنْدَہُ قَوْلُ النَّاسِ فِی عَلِیٍّ ، فَقَالَ : قَدْ جَالَسْنَاہُ وَوَاکَلْنَاہُ وَشَارَبْنَاہُ وَقُمْنَا لَہُ عَلَی الأَعْمَالِ ، فَمَا سَمِعْتہ یَقُولُ شَیْئًا مِمَّا یَقُولُونَ ، إنَّمَا یَکْفِیکُمْ أَنْ تَقُولُوا : ابْنُ عَمِّ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَخَتَنُہُ، وَشَہِدَ بَیْعَۃَ الرِّضْوَانِ ، وَشَہِدَ بَدْرًا۔
(٣٢٧٥٨) حضرت عمرو بن مرہ (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عبد الرحمن بن ابی لیلیٰ (رض) کے سامنے حضرت علی (رض) کے متعلق لوگوں کی باتیں ذکر کی گئیں تو انھوں نے فرمایا : ہم لوگ آپس میں بیٹھے ہیں ہم نے اکٹھے کھایا پیا ہے۔ اور ہم ان کے اعمال پر رضا مند ہیں پس میں نے تو کبھی بھی نہیں سنی وہ بات جو لوگ کہتے ہیں۔ بیشک تمہارے لیے اتنا کافی ہے کہ تم یوں کہہ دیا کرو۔ وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چچا زاد بھائی ہیں۔ اور ان کے داماد ہیں وہ بیعت الرضوان کے موقع پر حاضر تھے اور غزوہ بدر میں شریک ہوئے تھے۔

32758

(۳۲۷۵۹) حَدَّثَنَا یَعْلَی بْنُ عُبَیْدٍ ، عَنْ أَبِی مَنِینٍ وَہُوَ یَزِیدُ بْنُ کَیْسَانَ ، عَنْ أَبِی حَازِمٍ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لأَدْفَعَنَّ الرَّایَۃَ إِلَی رَجُلٍ یُحِبُّ اللَّہَ وَرَسُولَہُ ، قَالَ : فَتَطَاوَلَ الْقَوْمُ ، فَقَالَ: أَیْنَ عَلِیٌّ فَقَالُوا : یَشْتَکِی عَیْنَیْہِ ، فَدَعَاہُ فَبَزَقَ فِی کَفَّیْہِ ، وَمَسَحَ بِہِمَا عَیْنَی عَلِیٍّ ، ثُمَّ دَفَعَ إلَیْہِ الرَّایَۃَ، فَفَتَحَ اللَّہُ عَلَیْہِ یَوْمَئِذٍ۔ (مسلم ۱۸۷۱۔ احمد ۳۸۴)
(٣٢٧٥٩) حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : میں ضرور بالضرور آج ایسے شخص کو جھنڈا دوں گا جو اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے محبت کرتا ہے۔ راوی کہتے ہیں۔ پس لوگ قدم اونچے کرکے اپنے آپ کو ظاہر کرنے لگے۔ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : علی کہاں ہے ؟ لوگوں نے عرض کیا : ان کی دونوں آنکھوں میں تکلیف ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو بلایا اور اپنی ہتھیلی میں لعاب مبارک ڈالا اور اس کے ساتھ حضرت علی (رض) کی دونوں آنکھوں کو مسلا۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو جھنڈا دیا۔ پس اسی دن اللہ نے ان کو فتح عطا فرما دی۔

32759

(۳۲۷۶۰) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ یَزِیدَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِی لَیْلَی ، قَالَ : بَیْنَمَا النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عِنْدَہُ نَفَرٌ مِنْ أَصْحَابِہِ ، فَأَرْسَلَ إِلَی نِسَائِہِ فَلَمْ یَجِدْ عِنْدَ امْرَأَۃٍ مِنْہُنَّ شَیْئًا ، فَبَیْنَمَا ہُمْ کَذَلِکَ إذْ ہُمْ بِعَلِیٍّ قَدْ أَقْبَلَ شعثًا مُغْبَرًّا ، عَلَی عَاتِقِہِ قَرِیبٌ مِنْ صَاعٍ مِنْ تَمْرٍ قَدْ عَمِلَ بِیَدِہِ ، فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: مَرْحَبًا بِالْحَامِلِ وَالْمَحْمُولِ ، ثُمَّ أَجْلَسَہُ فَنَفَضَ ، عَنْ رَأْسِہِ التُّرَابَ ، ثُمَّ قَالَ : مَرْحَبًا بِأَبِی تُرَابٍ ، فَقَرَّبَہُ ، فَأَکَلُوا حَتَّی صَدَرُوا ، ثُمَّ أَرْسَلَ إِلَی نِسَائِہِ إِلَی کُلِّ وَاحِدَۃٍ مِنْہُنَّ طَائِفَۃً۔
(٣٢٧٦٠) حضرت عبد الرحمن بن ابی لیلیٰ (رض) فرماتے ہیں کہ اس درمیان کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ان کے اصحاب کی ایک جماعت تھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی بیویوں کے پاس کھانے کا پیغام بھیجا لیکن کسی بھی بیوی کے پاس کھانے کی کوئی چیز بھی نہ ملی۔ تو اچانک حضرت علی (رض) سامنے سے آتے ہوئے نظر آئے جو غبار آلود اور پراگندہ حال میں تھے اور ان کے کندھے پر ایک صاع کے قریب کھجوریں تھیں۔ جو انھوں نے مزدوری کر کے حاصل کی تھیں۔ پس نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : خوش آمدید بوجھ اٹھانے والے کو اور اٹھائے ہوئے بوجھ کو، پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو اپنے پاس بٹھایا اور ان کے سر سے مٹی جھاڑی پھر ارشاد فرمایا : خوش آمدید ابوتراب ! پھر انھوں نے کھجوروں کو قریب کیا۔ یہاں تک کہ سب نے سیر ہو کر کھائیں ۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی تمام ازواج مطہرات کو بھی اس میں سے حصہ بھیجا۔

32760

(۳۲۷۶۱) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ دَفَعَ الرَّایَۃَ إِلَی عَلِیٍّ ، فَقَالَ : لأَدْفَعَنَّہَا إِلَی رَجُلٍ یُحِبُّ اللَّہَ وَرَسُولَہُ وَیُحِبُّہُ اللَّہُ وَرَسُولُہُ ، قَالَ : فَتَفَلَ فِی عَیْنَیْہِ وَکَانَ أَرْمَدَ ، قَالَ : وَدَعَا لَہُ فَفُتِحَتْ عَلَیْہِ خَیْبَرُ۔ (عبدالرزاق ۱۰۳۹۵)
(٣٢٧٦١) حضرت زہری (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت سعید بن مسیب (رض) نے ارشاد فرمایا : نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت علی (رض) کو جھنڈا دیا اور فرمایا : میں ایسے شخص کو جھنڈا دے رہا ہوں جو اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے محبت کرتا ہے اور اللہ اور اس کا رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس سے محبت کرتے ہیں۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی دونوں آنکھوں میں لعاب ڈالا کیونکہ وہ آشوب چشم میں مبتلا تھے۔ اور ان کے لیے دعا فرمائی پس اللہ نے ان کو خیبر میں فتح دے دی۔

32761

(۳۲۷۶۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ أَسِیْدَ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : لَقَدْ أُوتِیَ عَلِیُّ بْنُ أَبِی طَالِبٍ ثَلاثَ خِصَالٍ لأَنْ تَکُونَ لِی وَاحِدَۃٌ مِنْہُنَّ أَحَبُّ إلَیَّ مِنْ حُمْرِ النَّعَمِ : زَوَّجَہُ ابْنَتَہُ فَوَلَدَتْ لَہُ ، وَسَدَّ الأَبْوَابَ إلاَّ بَابَہُ ، وَأَعْطَاہُ الْحَرْبَۃَ یَوْمَ خَیْبَرَ۔
(٣٢٧٦٢) حضرت عمر بن اسید (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عمر (رض) نے ارشاد فرمایا : حضرت علی (رض) بن ابی طالب کو تین خصوصیات عطا کی گئیں ۔ مجھے ان میں سے ایک کامل جانا میرے لیے سرخ اونٹوں سے بہتر ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی بیٹی ان کے نکاح میں دی جس سے ان کی اولاد بھی ہوئی اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تمام دروازے بند کروا دیے سوائے ان کے دروازے کے ۔ اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غزوہ خیبر کے دن ان کو جھنڈا عطا فرمایا۔

32762

(۳۲۷۶۳) حَدَّثَنَا ہَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ ، قَالَ : حدَّثَنَا عِکْرِمَۃُ بْنُ عَمَّارٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِی إیَاسُ بْنُ سَلَمَۃَ ، قَالَ : أَخْبَرَنِی أَبِی أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَرْسَلَہُ إِلَی عَلِیٍّ ، فَقَالَ : لأُعْطِیَنَّ الرَّایَۃَ رَجُلاً یُحِبُّ اللَّہَ وَرَسُولَہُ وَیُحِبُّہُ اللَّہُ وَرَسُولُہُ ، قَالَ : فَجِئْت بِہِ أَقُودُہُ أَرْمَدَ ، قَالَ : فَبَصَقَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی عَیْنَیْہِ، ثُمَّ أَعْطَاہُ الرَّایَۃَ ، وَکَانَ الْفَتْحُ عَلَی یَدَیْہِ۔ (مسلم ۱۴۳۳۔ احمد ۵۱)
(٣٢٧٦٣) حضرت ایاس بن سلمہ (رض) فرماتے ہیں کہ میرے والد نے مجھے خبر دی کہ بیشک رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو حضرت علی (رض) کو بلانے کے لیے بھیجا۔ اور ارشاد فرمایا : میں ضرور بالضرور ایسے آدمی کو جھنڈا دوں گا جو اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے محبت کرتا ہے اور اللہ اور اس کا رسول 5! اس سے محبت کرتے ہیں۔ راوی کہتے ہیں پس میں ان کو لایا اس حال میں کہ میں ان کو راستہ دکھانے کے لیے آگے چل رہا تھا کیونکہ وہ آشوب چشم میں مبتلا تھے ۔ پس رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی آنکھوں میں لعاب مبارک ڈالا پھر ان کو جھنڈا مرحمت فرمایا۔ اور اسی دن اللہ نے ان کے ہاتھ پر فتح دے دی۔

32763

(۳۲۷۶۴) حَدَّثَنَا أَبُوبَکْرِ بْنُ عَیَّاشٍ، عَنْ صَدَقَۃَ بْنِ سَعِیدٍ، عَنْ جُمَیْعِ بْنِ عُمَیْرٍ، قَالَ: دَخَلْتُ عَلَی عَائِشَۃَ أَنَا وَأُمِّی وَخَالَتِی، فَسَأَلْنَاہَا: کَیْفَ کَانَ عَلِیٌّ عِنْدَہُ، فَقَالَتْ: تَسْأَلُونِی عَنْ رَجُلٍ وَضَعَ یَدَہُ مِنْ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَوْضِعًا لَمْ یَضَعْہَا أَحَد ، وَسَالَتْ نَفْسُہُ فِی یَدِہِ ، وَمَسَحَ بِہَا وَجْہَہُ وَمَاتَ ، فَقِیلَ : أَیْنَ تَدْفِنُونہُ، فَقَالَ عَلِیٌّ : مَا فِی الأَرْضِ بُقْعَۃٌ أَحَبُّ إِلَی اللہِ مِنْ بُقْعَۃٍ قُبَضَ فِیہَا نَبِیَّہُ ، فَدَفَنَّاہُ۔ (ابویعلی ۴۸۴۵)
(٣٢٧٦٤) حضرت جُمَیع بن عمیر (رض) فرماتے ہیں کہ میں میری والدہ اور میری خالہ حضرت عائشہ (رض) کی خدمت میں حاضر ہوئے پس ہم نے ان سے پوچھا : کہ حضرت علی (رض) کا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نزدیک کیا مقام تھا ؟ آپ (رض) نے ارشاد فرمایا : تم نے مجھ سے ایک ایسے آدمی کے بارے میں سوال کیا جس نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بدن پر ایسی جگہ ہاتھ رکھا جہاں کسی نے بھی نہیں رکھا۔ اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جان ان ہاتھ میں نکلی کہ انھوں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چہرے پر ہاتھ پھیرا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا وصال ہوگیا۔ پوچھا گیا : تم لوگ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کہاں دفن کرو گے ؟ تو حضرت علی (رض) نے فرمایا : اللہ کے نزدیک زمین کا کوئی ٹکڑا اس حصہ سے زیادہ محبوب نہیں جس میں اس نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات ہوئی۔ لہٰذا ہم نے اسی جگہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تدفین کردی۔

32764

(۳۲۷۶۵) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، عَنْ زَکَرِیَّا ، عَنْ مُصْعَبِ بْنِ شَیْبَۃَ ، عَنْ صَفِیَّۃَ بِنْتِ شَیْبَۃَ ، قَالَتْ : قالَتْ عَائِشَۃُ : خَرَجَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ غَدَاۃً وَعَلَیْہِ مِرْطٌ مُرَحَّلٌ مِنْ شَعْرٍ أَسْوَدَ ، فَجَائَ الْحَسَنُ فَأَدْخَلَہُ مَعَہُ ، ثُمَّ جَائَ حُسَیْنٌ فَأَدْخَلَہُ مَعَہُ ، ثُمَّ جَائَتْ فَاطِمَۃُ فَأَدْخَلَہَا ، ثُمَّ جَائَ عَلِیٌّ فَأَدْخَلَہُ ، ثُمَّ قَالَ : {إنَّمَا یُرِیدُ اللَّہُ لِیُذْہِبَ عَنْکُمَ الرِّجْسَ أَہْلَ الْبَیْتِ وَیُطَہِّرَکُمْ تَطْہِیرًا}۔ (مسلم ۱۸۸۳۔ ابوداؤد ۴۰۲۸)
(٣٢٧٦٥) حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صبح کے وقت نکلے اس حال میں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایسی کالی چادر تھی جس پر اونٹوں کے کجاوے کی تصویریں بنی ہوئی تھیں۔ پس حضرت حسن (رض) آئے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو اس میں داخل کیا۔ پھر حضرت حسین (رض) آئے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو بھی چادر میں داخل کرلیا ۔ پھر حضرت فاطمہ (رض) آئیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو بھی چادر میں داخل کرلیا پھر حضرت علی (رض) آئے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو بھی چادر میں داخل کرلیا۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ آیت تلاوت فرمائی۔ ترجمہ : اللہ تو بس یہ چاہتا ہے کہ دور کر دے تم سے گندگی ، اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گھر والو اور پاک کر دے تمہیں پوری طرح ۔

32765

(۳۲۷۶۶) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُصْعَبٍ ، عَنِ الأَوْزَاعِیِّ ، عَنْ شَدَّادٍ أَبِی عَمَّارٍ ، قَالَ : دَخَلْتُ عَلَی وَاثِلَۃَ ، وَعِنْدَہُ قَوْمٌ فَذَکَرُوا علیا فَشَتَمُوہُ فَشَتَمَہُ مَعَہُمْ ، فَقَالَ : أَلا أُخْبِرُک بِمَا سَمِعْت مِنْ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قُلْتُ : بَلَی ، قَالَ : أَتَیْتُ فَاطِمَۃَ أَسْأَلُہَا عَنْ عَلِیٍّ ، فَقَالَتْ : تَوَجَّہَ إِلَی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَجَلَسَ ، فَجَائَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَمَعَہُ عَلِیٌّ وَحَسَنٌ وَحُسَیْنٌ کُلُّ وَاحِدٍ مِنْہُمَا آخِذٌ بِیَدِہِ حتی دخل ، فَأَدْنَی عَلِیًّا وَفَاطِمَۃَ فَأَجْلَسَہُمَا بَیْنَ یَدَیْہِ وَأَجْلَسَ حَسَنًا وَحُسَیْنًا کُلَّ وَاحِدٍ مِنْہُمَا عَلَی فَخِذِہِ ، ثُمَّ لَفَّ عَلَیْہِمْ ثَوْبَہُ ، أَوَ قَالَ : کِسَاء ، ثُمَّ تَلا ہَذِہِ الآیَۃَ : {إنَّمَا یُرِیدُ اللَّہُ لِیُذْہِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ أَہْلَ الْبَیْتِ} ، ثُمَّ قَالَ : اللَّہُمَّ ہَؤُلائِ أَہْلُ بَیْتِی ، وَأَہْلُ بَیْتِی أَحَقُّ۔ (احمد ۱۰۷۔ طبرانی ۱۶۰)
(٣٢٧٦٦) حضرت شداد ابو عمارہ (رض) فرماتے ہیں کہ میں حضرت واثلہ (رض) کی خدمت میں حاضر ہوا اس حال میں کہ ان کے پاس چند لوگ بیٹھے ہوئے تھے ۔ پس ان لوگوں نے حضرت علی (رض) کا ذکر کیا پھر ان کو سب و شتم کرنے لگے تو میں نے بھی ان کے ساتھ ان کو برا بھلا کہا۔ تو حضرت واثلہ (رض) نے فرمایا : کیا میں تمہیں اس حدیث کے بارے میں نہ بتلاؤں جو میں نے خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنی ؟ میں نے کہا : کیوں نہیں ضرور سنائیں۔ آپ (رض) نے فرمایا : میں حضرت فاطمہ (رض) کے پاس گیا میں نے ان سے حضرت علی (رض) کے متعلق پوچھا : تو وہ فرمانے لگیں ! آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس گئے ہیں پس میں بیٹھ کر انتظار کرنے لگا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائیں درآنحالیکہ حضرت علی (رض) ، حضرت حسن (رض) اور حضرت حسین (رض) بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ تھے۔ ان سب نے ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑا ہوا تھا یہاں تک کہ وہ گھر میں داخل ہوگئے۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت علی (رض) اور حضرت فاطمہ (رض) کو اپنے قریب کیا اور ان دونوں کو اپنے سامنے بٹھا لیا ۔ اور حضرت حسن (رض) اور حضرت حسین (رض) کو بھی بٹھایا یہ دونوں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ران پر تھے۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سب پر اپنا کپڑا یا چادر ڈال دی ۔ پھر یہ آیت تلاوت فرمائی۔ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گھر والو ! اللہ تو بس یہ چاہتا ہے کہ تم سے گندگی کو دور کر دے۔
پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے اللہ ! یہ لوگ میرے گھر والے ہیں۔ اور میرے گھر والے سب سے زیادہ حقدار ہیں۔

32766

(۳۲۷۶۷) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ عَوْفٍ ، عَنْ عَطِیَّۃَ أَبِی الْمُعَذَّلِ الطُّفَاوِیِّ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : أَخْبَرَتْنِی أُمُّ سَلَمَۃَ أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ عِنْدَہَا فِی بَیْتِہَا ذَاتَ یَوْمٍ ، فَجَائَتِ الْخَادِمُ ، فَقَالَتْ : عَلِیٌّ وَفَاطِمَۃُ بِالسُّدَّۃِ ، فَقَالَ : تَنَحِّی لِی ، عَنْ أَہْلِ بَیْتِی ، فَتَنَحَّیت فِی نَاحِیَۃِ الْبَیْتِ ، فَدَخَلَ عَلِیٌّ وَفَاطِمَۃُ وَحَسَنٌ وَحُسَیْنٌ ، فَوَضَعَہُمَا فِی حِجْرِہِ ، وَأَخَذَ عَلِیًّا بِإِحْدَی یَدَیْہِ فَضَمَّہُ إلَیْہِ ، وَأَخَذَ فَاطِمَۃَ بِالْیَدِ الأُخْرَی فَضَمَّہَا إلَیْہِ وَقَبَّلَہَا ، وَأَغْدَفَ عَلَیْہِمْ خَمِیصَۃً سَوْدَائَ ، ثُمَّ قَالَ : اللَّہُمَّ إلَیْک لاَ إِلَی النَّارِ ، أَنَا وَأَہْلُ بَیْتِی ، قَالَتْ : فَنَادَیْتہ ، فَقُلْتُ : وَأَنَا یَا رَسُولَ اللہِ ، قَالَ : وَأَنْتِ۔ (احمد ۲۹۶۔ طبرانی ۹۳۹)
(٣٢٧٦٧) حضرت ام سلمہ (رض) فرماتی ہیں کہ ایک دن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرے گھر میں میرے پاس تھے۔ کہ خادمہ نے آکر عرض کیا : حضرت علی (رض) اور حضرت فاطمہ (رض) دروازے پر ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میرے گھر والوں کے لیے جگہ بناؤ۔ پس میں گھر کے ایک کونے میں ہوگئی۔ تو حضرت علی (رض) ، حضرت فاطمہ (رض) ، حضرت حسن (رض) اور حضرت حسین (رض) تشریف لائے۔ پھر دونوں بچوں کو تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی گود میں بٹھا لیا ۔ اور اپنے ایک ہاتھ سے علی (رض) کو پکڑ کر اپنے سے چمٹا لیا اور دوسرے ہاتھ سے فاطمہ (رض) کو پکڑ کر اپنے سے چمٹا لیا اور ان کا بوسہ بھی لیا۔ اور ان سب پر اپنی کالی چادر ڈال دی۔ پھر ارشاد فرمایا : اے اللہ ! تیری طرف پناہ پکڑتے ہیں نہ کہ جہنم کی طرف میں اور میرے گھر والے ۔ حضرت ام سلمہ (رض) فرماتی ہیں۔ میں نے پکار کر کہا : اے اللہ کے رسول 5! میں بھی ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تو بھی۔

32767

(۳۲۷۶۸) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ بْنِ أَبِی خَالِدٍ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ ہُبَیْرَۃَ بْنِ یَرِیمَ ، قَالَ : سَمِعْتُ الْحَسَنَ بْنَ عَلِیٍّ قَامَ خَطِیبًا فَخَطَبَ النَّاسَ ، فَقَالَ : یَا أَیُّہَا النَّاسُ ، لَقَدْ فَارَقَکُمْ أَمْسِ رَجُلٌ مَا سَبَقَہُ الأَوَّلُونَ ، وَلا یُدْرِکُہُ الآخِرُونَ وَلَقَدْ کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَبْعَثُہُ الْمَبْعَثَ فَیُعْطِیہِ الرَّایَۃَ فَمَا یَرْجِعُ حَتَّی یَفْتَحَ اللَّہُ عَلَیْہِ ، جِبْرِیلُ عَنْ یَمِینِہِ وَمِیکَائِیلُ ، عَنْ شِمَالِہِ ، مَا تَرَکَ بَیْضَائَ ، وَلا صَفْرَائَ إلاَّ سَبْعَمِئَۃِ دِرْہَمٍ فَضَلَتْ مِنْ عَطَائِہِ ، أَرَادَ أَنْ یَشْتَرِیَ بِہَا خَادِمًا۔ (احمد ۱۹۹۔ بزار ۲۵۷۴)
(٣٢٧٦٨) حضرت ابو اسحاق (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت ھبیرہ بن یریم (رض) نے ارشاد فرمایا : کہ حضرت حسن بن علی (رض) خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے پھر لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا : اے لوگو ! کل تم سے ایک ایسا شخص جد اہو گیا کہ نہیں سبقت لے جاسکے اس سے پہلے لوگ اور نہ ہی بعد والے لوگ اس کا مقام پاسکتے ہیں۔ تحقیق رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کو کسی لشکر میں بھیجتے تو ان کو جھنڈا عطا فرماتے پس وہ واپس نہیں لوٹتے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ ان کو فتح عطا فرما دیتے۔ جبرائیل (علیہ السلام) ان کے دائیں جانب ہوتے اور میکائیل (علیہ السلام) ان کے بائیں جانب ہوتے۔ انھوں نے کوئی سونا، چاندی نہیں چھوڑا سوائے سات درہموں کے جو میں نے ان کی بخشش میں سے بچائے تھے۔ اس لیے کہ ان سے ایک خادم خریدنے کا ارادہ تھا۔

32768

(۳۲۷۶۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ ، عَنْ أَبِی حَمْزَۃَ مَوْلَی الأَنْصَارِ ، عَنْ زَیْدِ بْنِ أَرَقْمَ ، قَالَ : أَوَّلُ مَنْ أَسْلَمَ مَعَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلِیٌّ ، فقَالَ عَمْرُو بْنُ مُرَّۃَ : فَأَتَیْت إبْرَاہِیمَ فَذَکَرْت ذَلِکَ لَہُ فَأَنْکَرَہُ وقال : أَبُو بَکْر۔ (احمد ۳۶۸۔ طیالسی ۶۷۸)
(٣٢٧٦٩) حضرت ابو حمزہ (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت زید بن ارقم (رض) نے ارشاد فرمایا : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ سب سے پہلے اسلام لانے والے شخص حضرت علی (رض) تھے۔
عمرو بن مرہ کہتے ہیں : میں حضرت ابراہیم (رض) کے پاس حاضر ہوا اور میں نے ان سے یہ بات ذکر کی تو انھوں نے اس کا انکار کیا اور فرمایا : سب سے پہلے اسلام لانے والے حضرت ابوبکر (رض) ہیں۔
(

32769

۳۲۷۷۰) حدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ جَبَلَۃَ ، قَالَ : کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إذَا لَمْ یَغْزُ أَعْطَی سِلاحَہُ عَلِیًّا أَوْ أُسَامَۃَ۔
(٣٢٧٧٠) حضرت ابو اسحاق (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت جبلہ (رض) نے ارشاد فرمایا : نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب کسی غزوہ میں شریک نہ ہوتے تو اپنے ہتھیار حضرت علی (رض) یا حضرت اسامہ (رض) کو مرحمت فرما دیتے۔

32770

(۳۲۷۷۱) حَدَّثَنَا مالک بن إسْمَاعِیلَ، قَالَ: حدَّثَنَا مَسْعُود بْنُ سَعْدٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ ، عَنِ الْفَضْلِ بْنِ مَعْقِلٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ نِیَارٍ الأَسْلَمِیِّ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شَاسٍ ، قَالَ : قَالَ لِی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : قَدْ آذَیْتَنِی : قَالَ : قُلْتُ : یَا رَسُولَ اللہِ ، مَا أُحِبُّ أَنْ أُوذِیَکَ ، قَالَ : مَنْ آذَی عَلِیًّا فَقَدْ آذَانِی۔ (بزار ۲۵۶۱۔ احمد ۴۸۳)
(٣٢٧٧١) حضرت عمرو بن شاس (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھ سے ارشاد فرمایا : تحقیق تو نے مجھے ایذاء پہنچائی۔ میں نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول 5! میں اس بات کو کبھی پسند نہیں کرتا کہ میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایذاء پہنچاؤں ! آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس شخص نے علی (رض) کو ایذاء پہنچائی۔ تحقیق اس نے مجھے ایذاء پہنچائی۔

32771

(۳۲۷۷۲) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ أَبِی سُلَیْمَانَ ، قَالَ : قلْت لِعَطَائٍ : کَانَ فِی أَصْحَابِ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَحَدٌ أَعْلَمَ مِنْ عَلِیٍّ ، قَالَ : لاَ ، وَاللَّہِ مَا أَعْلَمُہُ !۔
(٣٢٧٧٢) حضرت عبد الملک بن ابی سلیمان (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عطائ (رض) سے پوچھا : کیا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب (رض) میں کوئی شخص ایسا بھی تھا جو حضرت علی (رض) سے زیادہ علم والا ہو ؟ آپ (رض) نے فرمایا : نہیں اللہ کی قسم ! میں کسی کو نہیں جانتا۔

32772

(۳۲۷۷۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إسْرَائِیلَ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ حُبْشِیٍّ ، قَالَ : خَطَبَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِیٍّ بَعْدَ وَفَاۃِ عَلِیٍّ ، فَقَالَ : لَقَدْ فَارَقَکُمْ رَجُلٌ بِالأَمْسِ لَمْ یَسْبِقْہُ الأَوَّلُونَ بِعِلْمٍ ، وَلا یُدْرِکُہُ الآخِرُونَ ، کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُعْطِیہِ الرَّایَۃَ فَلا یَنْصَرِفُ حَتَّی یَفْتَحَ اللَّہُ عَلَیْہِ۔ (احمد ۱۹۹)
(٣٢٧٧٣) حضرت عمرو بن حبشی (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت حسن بن علی (رض) نے حضرت علی (رض) کی وفات کے بعد ہم سے خطاب فرمایا : تحقیق کل تم سے وہ شخص جدا ہوگیا کہ پہلے لوگ اس کے علم کو نہیں پا سکے اور نہ بعد والے پا سکے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کو جھنڈا عطا کرتے تھے پھر وہ واپس نہیں لوٹتے تھے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ ان کو فتح عطا فرما دیتا۔

32773

(۳۲۷۷۴) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ یَعْلَی ، عَنْ یُونُسَ بْنِ خَبَّابٍ ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ : خَرَجْت أَنَا وَعَلِیٌّ مَعَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فِی حوائط الْمَدِینَۃِ ، فَمَرَرْنَا بِحَدِیقَۃٍ ، فَقَالَ عَلِیٌّ : مَا أَحْسَنَ ہَذِہِ الْحَدِیقَۃَ یَا رَسُولَ اللہِ ، قَالَ : فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : حَدِیقَتُک فِی الْجَنَّۃِ أَحْسَنُ مِنْہَا یَا عَلِی ، حَتَّی مَرَّ بِسَبْعِ حَدَائِقَ ، کُلُّ ذَلِکَ یَقُولُ عَلِیٌّ : مَا أَحْسَنَ ہَذِہِ الْحَدِیقَۃَ یَا رَسُولَ اللہِ ، فَیَقُولُ : حَدِیقَتُک فِی الْجَنَّۃِ أَحْسَنُ مِنْ ہَذِہِ۔ (طبرانی ۱۱۰۸۴)
(٣٢٧٧٤) حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ میں اور حضرت علی (رض) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ مدینہ کے باغات میں تشریف لے گئے۔ پس ہم لوگ ایک باغ کے پاس سے گزرے تو حضرت علی (رض) نے فرمایا : اے اللہ کے رسول 5! یہ کتنا خوبصورت باغ ہے ؟ اس پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے علی (رض) ! تیرا جو باغ جنت میں ہے وہ اس سے کئی درجہ زیادہ خوبصورت ہے۔ یہاں تک کہ سات باغوں کے پاس سے گزرے ہر جگہ حضرت علی (رض) نے فرمایا : اے اللہ کے رسول 5! یہ باغ کتنا خوبصورت ہے ؟ پس آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے جاتے : تیرا جو باغ جنت میں ہے وہ اس سے کئی درجہ خوبصورت ہے۔

32774

(۳۲۷۷۵) حَدَّثَنَا مُعَاوِیَۃُ بْنُ ہِشَامٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا قَیْسٌ ، عَنْ سَلَمَۃَ بْنِ کُہَیْلٍ ، عَنْ أَبِی صَادِقٍ ، عَنْ عُلَیْمٍ ، عَنْ سَلْمَانَ ، قَالَ : إنَّ أَوَّلَ ہَذِہِ الأُمَّۃِ وُرُودًا عَلَی نَبِیِّہَا أَوَّلُہَا إسْلامًا عَلِیُّ بْنُ أَبِی طَالِبٍ۔
(٣٢٧٧٥) حضرت علیم (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت سلمان (رض) نے ارشاد فرمایا : بلاشبہ اس امت میں سب سے پہلا شخص جو اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس وارد ہوگا۔ وہ سب سے پہلے اسلام لانے والے حضرت علی بن ابی طالب (رض) ہیں۔

32775

(۳۲۷۷۶) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ فِطْرٍ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِی عَبْدِ اللہِ الْجَدَلِیِّ ، قَالَ : قالَتْ لِی أُمُّ سَلَمَۃَ : یَا أَبَا عَبْدِ اللہِ ، أَیُسَبُّ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیکُمْ ، ثُمَّ لاَ تُغَیِّرُونَ ، قَالَ : قُلْتُ : وَمَنْ یَسُبُّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَتْ : یُسَبُّ عَلِیٌّ وَمَنْ یُحِبُّہُ ، وَقَدْ کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُحِبُّہُ۔ (احمد ۳۲۳۔ ابویعلی ۶۹۷۷)
(٣٢٧٧٦) حضرت ابو عبداللہ جدلی (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت ام سلمہ (رض) نے مجھ سے ارشاد فرمایا : اے ابو عبداللہ ! تمہارے درمیان رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سب و شتم کیا جاتا ہے پھر بھی تم لوگ غیرت نہیں کھاتے ؟ آپ (رض) فرماتے ہیں : میں نے عرض کیا : کون شخص رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سب وشتم کرسکتا ہے ؟ آپ (رض) نے فرمایا : حضرت علی (رض) اور ان سے محبت کرنے والوں کو سب و شتم کیا جاتا ہے۔ اور تحقیق رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے محبت فرماتے تھے۔

32776

(۳۲۷۷۷) حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ ، عَنِ ابْنِ فُضَیْلٍ ، عَنْ أَبِی نَصْرٍ ، عَنْ مُسَاوِرٍ الْحِمْیَرِیِّ ، عَنْ أُمِّہِ ، عَنْ أُمِّ سَلَمَۃَ ، قَالَتْ : سَمِعْت رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : لاَ یُبْغِضُ عَلِیًّا مُؤْمِنٌ ، وَلا یُحِبُّہُ مُنَافِقٌ۔ (احمد ۲۹۲۔ طبرانی ۸۸۵)
(٣٢٧٧٧) حضرت ام سلمہ (رض) فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے کہ کوئی مومن علی (رض) سے بغض نہیں رکھے گا اور کوئی منافق علی (رض) سے محبت نہیں کرے گا۔

32777

(۳۲۷۷۸) حَدَّثَنَا مُعَاوِیَۃُ بْنُ ہِشَامٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا عَمَّارٌ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنِ الْمِنْہَالِ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ الْحَارِثِ ، عَنْ عَلِیٍّ ، قَالَ : إنَّمَا مَثَلُنَا فِی ہَذِہِ الأُمَّۃِ کَسَفِینَۃِ نُوحٍ وَکَبَابِ حِطَّۃٍ فِی بَنِی إسْرَائِیلَ۔
(٣٢٧٧٨) حضرت عبداللہ بن حارث (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت علی (رض) نے ارشاد فرمایا : بیشک ہماری مثال اس امت میں حضرت نوح (علیہ السلام) کی کشتی کی سی ہے۔ اور بنی اسرائیل میں پائے جانے والے مغفرت کے دروازے کی سی ہے۔

32778

(۳۲۷۷۹) حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ ، عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ قَرْمٍ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ زِرٍّ ، قَالَ : قَالَ عَلِیٌّ : لاَ یُحِبُّنَا مُنَافِقٌ ، وَلا یُبْغِضُنَا مُؤْمِنٌ۔
(٣٢٧٧٩) حضرت زرّ فرماتے ہیں کہ حضرت علی (رض) نے ارشاد فرمایا : کوئی بھی منافق ہم سے محبت نہیں کرے گا اور کوئی بھی مومن ہم سے بغض نہیں رکھے گا۔

32779

(۳۲۷۸۰) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، قَالَ : حدَّثَنِی مُحَمَّدُ بْنُ طَلْحَۃَ ، عَنْ أَبِی عُبَیْدَۃَ بْنِ الْحَکَمِ الأَزْدِیِّ یَرْفَعُ حَدِیثَہُ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ لِعَلِیٍّ: إنک سَتَلْقَی بَعْدِی جَہْدًا، قَالَ: یَا رَسُولَ اللہِ ، فِی سَلامَۃٍ من دِینِی، قَالَ : نَعَمْ ، فِی سَلامَۃٍ مِنْ دِینِک۔ (حاکم ۱۴۰)
(٣٢٧٨٠) حضرت ابو عبیدہ بن حکم الازدی (رض) مرفوع حدیث بیان فرماتے ہیں کہ حضرت نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت علی (رض) سے ارشاد فرمایا : عنقریب تو میرے بعد ایک جدوجہد کرے گا۔ آپ (رض) نے دریافت فرمایا : اے اللہ کے رسول 5! یہ جدوجہد میرے دین کی سلامتی کے بارے میں ہوگی ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ہاں ! تیرے دین کی حفاظت کے بارے میں ہوگی۔

32780

(۳۲۷۸۱) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا عَلِیُّ بْنُ زَیْدٍ ، عَنْ عَدِیِّ بْنِ ثَابِتٍ ، عَنِ الْبَرَائِ ، قَالَ : کُنَّا مَعَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی سَفَرٍ ، قَالَ : فَنَزَلْنَا بِغَدِیرِ خُمٍّ ، قَالَ : فَنُودِیَ : الصَّلاۃُ جَامِعَۃٌ ، وَکُسِحَ لِرَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ تَحْتَ شَجَرَۃٍ فَصَلَّی الظُّہْرَ فَأَخَذَ بِیَدِ عَلِیٍّ ، فَقَالَ : أَلَسْتُمْ تَعْلَمُونَ أَنِّی أَوْلَی بِالْمُؤْمِنِینَ مِنْ أَنْفُسِہِمْ ، قَالُوا : بَلَی ، قَالَ : أَلَسْتُمْ تَعْلَمُونَ أَنِّی أَوْلَی بِکُلِّ مُؤْمِنٍ مِنْ نَفْسِہِ ، قَالُوا : بَلَی ، قَالَ : فَأَخَذَ بِیَدِ عَلِیٍّ ، فَقَالَ : اللَّہُمَّ مَنْ کُنْتُ مَوْلاہُ فَعَلِیٌّ مَوْلاہُ ، اللَّہُمَّ وَالِ مَنْ وَالاہُ وَعَادِ مَنْ عَادَاہُ ، قَالَ : فَلَقِیَہُ عُمَرُ بَعْدَ ذَلِکَ ، فَقَالَ : ہَنِیئًا لَکَ یَا ابْنَ أَبِی طَالِبٍ ، أَصْبَحْت وَأَمْسَیْت مَوْلَی کُلِّ مُؤْمِنٍ وَمُؤْمِنَۃٍ۔ (نسائی ۸۴۷۳۔ احمد ۲۸۱)
(٣٢٧٨١) حضرت عدی بن ثابت (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت برائ (رض) نے ارشاد فرمایا : ہم لوگ ایک سفر میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ تھے۔ ہم لوگوں نے غدیر خم کے مقام پر پڑاؤ ڈالا۔ پس ندا لگائی گئی کہ نماز کے لیے جمع ہو جاؤ۔ اور ایک درخت کے نیچے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے جگہ صاف کی گئی پس آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ظہر کی نماز پڑھائی۔ اور پھر حضرت علی (رض) کا ہاتھ پکڑ کر ارشاد فرمایا : کیا تم لوگوں کو علم نہیں کہ میں سب مومنین پر ان کی جانوں سے بھی زیادہ مقدم ہوں ؟ صحابہ (رض) نے عرض کیا : کیوں نہیں ! راوی فرماتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت علی (رض) کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا : اے اللہ ! میں جس کا دوست ہوں پس علی بھی اس کا دوست ہے۔ اے اللہ ! جو شخص اس کو دوست رکھے پس تو بھی اس کو دوست رکھ۔ اور جو اس سے دشمنی کرے تو بھی اس سے دشمنی فرما۔ راوی فرماتے ہیں : اس کے بعد حضرت عمر (رض) ان سے ملے اور فرمایا : اے ابو طالب کے بیٹے ! تمہیں مبارک ہو۔ تم نے ہر مومن مرد اور مومن عورت کا دوست ہونے کی حالت میں صبح و شام کی۔

32781

(۳۲۷۸۲) حَدَّثَنَا أَبُو الْجَوَّابِ ، قَالَ : حدَّثَنَا یُونُسُ بْنُ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنِ أَبِی إِسْحَاق ، عن الْبَرَائِ بْنِ عَازِبٍ ، قَالَ : بَعَثَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ جَیْشَیْنِ عَلَی أَحَدِہِمَا عَلِیُّ بْنُ أَبِی طَالِبٍ ، وَعَلَی الآخَرِ خَالِدُ بْنُ الْوَلِیدِ ، فَقَالَ : إِنْ کَانَ قِتَالٌ فَعَلِیٌّ عَلَی النَّاسِ ، فَافْتَتَحَ عَلِیٌّ حِصْنًا فَاتَّخَذَ جَارِیَۃً لِنَفْسِہِ ، فَکَتَبَ خَالِدٌ بِسَوْأتہ ، فَلَمَّا قَرَأَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْکِتَابَ ، قَالَ : مَا تَقُولُ فِی رَجُلٍ یُحِبُّ اللَّہَ وَرَسُولَہُ وَیُحِبُّہُ اللَّہُ وَرَسُولُہُ۔ (ترمذی ۱۷۰۴۔ احمد ۳۵۶)
(٣٢٧٨٢) حضرت براء بن عازب (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دو لشکر بھیجے جن میں سے ایک پر حضرت علی (رض) کو امیر بنایا اور دوسرے لشکر پر حضرت خالد بن ولید (رض) کو ، پھر ارشاد فرمایا : اگر لڑائی ہو تو اس صورت میں حضرت علی (رض) لوگوں پر امیر ہوں گے۔ پس حضرت علی (رض) نے قلعہ کو فتح کرلیا۔ اور ایک باندی کو اپنے لیے خاص کرلیا اس پر حضرت خالد (رض) نے خط لکھ کر اس بات کی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خبر دی۔ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ خط پڑھا تو ارشاد فرمایا : تم کیا کہتے ہو ایسے شخص کے بارے میں جو اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو محبوب رکھتا ہے۔ اور اللہ اور اس کا رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کو محبو ب رکھتے ہیں۔

32782

(۳۲۷۸۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا الأَعْمَشُ ، عَنْ عَطِیَّۃَ بْنِ سَعْدٍ ، قَالَ : دَخَلْنَا عَلَی جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ وَہُوَ شَیْخٌ کَبِیرٌ وَقَدْ سَقَطَ حَاجِبَاہُ عَلَی عَیْنَیْہِ ، قَالَ : فَقُلْتُ : أَخْبِرْنَا عَنْ ہَذَا الرَّجُلِ عَلِیِّ بْنِ أَبِی طَالِبٍ ، قَالَ : فَرَفَعَ حَاجِبَیْہِ بِیَدَیْہِ ، ثُمَّ قَالَ : ذَاکَ مِنْ خَیْرِ الْبَشَرِ۔
(٣٢٧٨٣) حضرت عطیہ بن سعید (رض) فرماتے ہیں کہ ہم لوگ حضرت جابر بن عبداللہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اس حال میں کہ وہ بہت بوڑھے تھے اور ان کی پلکیں ان کی آنکھوں پر گری ہوئی تھیں۔ راوی کہتے ہیں۔ میں نے ان سے عرض کیا : آپ (رض) ہمیں اس شخص یعنی حضرت علی (رض) بن ابی طالب (رض) کے متعلق بتلائیے ۔ پس آپ (رض) نے اپنے ہاتھ سے دونوں پلکوں کو اٹھایا پھر ارشاد فرمایا : : یہ تو خیر البشر ہیں۔

32783

(۳۲۷۸۴) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، قَالَ : حَدَّثَنِی یَزِیدُ الرِّشْکُ، عَنْ مُطَرِّفٍ ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَیْنٍ ، قَالَ : بَعَثَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سَرِیَّۃً وَاسْتَعْمَلَ عَلَیْہِمْ عَلِیًّا ، فَصَنَعَ عَلِیٌّ شَیْئًا أَنْکَرُوہُ ، فَتَعَاقَدَ أَرْبَعَۃٌ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ یذکروا أمرہم لرسول اللہ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَکَانُوا إذَا قَدِمُوا مِنْ سَفَرٍ بَدَؤُوا بِرَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَسَلَّمُوا عَلَیْہِ وَنَظَرُوا إلَیْہِ ، ثُمَّ یَنْصَرِفُونَ إِلَی رِحَالِہِمْ ، قَالَ : فَلَمَّا قَدِمَتِ السَّرِیَّۃُ سَلَّمُوا عَلَی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَامَ أَحَدُ الأَرْبَعَۃِ ، فَقَالَ : یَا رَسُولَ اللہِ ، أَلَمْ تَرَ أَنَّ عَلِیًّا صَنَعَ کَذَا وَکَذَا ، فَأَقْبَلَ إلَیْہِ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُعْرَفُ الْغَضَبُ فِی وَجْہِہِ ، فَقَالَ : مَا تُرِیدُونَ مِنْ عَلِیٍّ ، مَا تُرِیدُونَ مِنْ عَلِیٍّ ، عَلِیٌّ مِنِّی وَأَنَا مِنْ عَلِی ، وَعَلِیٌّ وَلِیُّ کُلِّ مُؤْمِنٍ بَعْدِی۔ (ابوداؤد ۸۲۹۔ احمد ۴۳۷)
(٣٢٧٨٤) حضرت عمران بن حصین (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک لشکر بھیجا اور حضرت علی (رض) کو ان پر امیر مقرر کردیا۔ پس حضرت علی (رض) نے کچھ ایسا کام کیا جس کو لوگوں نے ناپسند کیا۔ تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب میں سے چار لوگوں نے اس بات کا عہد کیا کہ وہ اس بات کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے ذکر کریں گے۔ اور یہ لوگ جب سفر سے واپس آگئے تو انھوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بتلانے کا ارادہ کیا۔ پس انھوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سلام کیا اور ان کی طرف دیکھا پھر لوگ اپنے کجاو وں کی طرف پلٹ گئے۔ راوی کہتے ہیں : کہ جب سارے لشکروا لے آگئے ۔ اور انھوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سلام کرلیا تو ان چاروں میں سے ایک شخص کھڑا ہو کر کہنے لگا : اے اللہ کے رسول 5! آپ کی کیا رائے ہے علی (رض) کے بارے میں کہ انھوں نے یہ کام کیا ہے۔ تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس شخص کی طرف متوجہ ہوئے اس حال میں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چہرے پر غصہ کے آثار نمایاں تھے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم لوگ علی (رض) سے کیا چاہتے ہو ؟ ! تم لوگ علی (رض) سے کیا چاہتے ہو ؟ ! علی مجھ سے ہیں اور میں علی (رض) سے ہوں اور علی میرے بعد ہر مومن کے دوست ہیں۔

32784

(۳۲۷۸۵) حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا شَقِیقُ بْنُ أَبِی عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ خَالِدِ بْنِ عُرْفُطَۃَ، قَالَ : أَتَیْتُ سَعْدَ بْنَ مَالِکٍ بِالْمَدِینَۃِ ، فَقَالَ : ذُکِرَ لِی أَنَّکُمْ تَسُبُّونَ عَلِیًّا ، قَالَ : قَدْ فَعَلْنَا ، قَالَ : فَلَعَلَّک قَدْ سَبَبْتہ ، قَالَ : قُلْتُ : مَعَاذَ اللہِ ، قَالَ : فَلا تَسُبَّہُ ، فَلَوْ وُضِعَ الْمِنْشَارُ عَلَی مَفْرِقِی ، عَلَی أَنْ أَسُبَّ عَلِیًّا ، مَا سَبَبْتہ أَبَدًا ، بَعْدَ مَا سَمِعْتُ مِنْ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا سَمِعْتُ۔ (ابویعلی ۷۷۳)
(٣٢٧٨٥) حضرت ابوبکر بن خالد بن عُرْفطہ (رض) فرماتے ہیں کہ میں حضرت سعد بن مالک (رض) کے پاس مدینہ میں آیا ، تو انھوں نے کہا : مجھ سے ذکر کیا گیا ہے کہ تم لوگ حضرت علی (رض) کو گالیاں دیتے ہو ؟ آپ (رض) نے کہا : جی ہاں ! آپ (رض) نے پوچھا : شاید کہ تم بھی ان کو گالیاں دیتے ہو ؟ میں نے عرض کیا : اللہ کی پناہ ! آپ (رض) نے فرمایا : تم کبھی ان کو گالی مت دینا۔ پس اگر میرے سر کے درمیان میں آرا رکھ دیا جائے کہ میں حضرت علی (رض) کو گالی دوں ! میں کبھی بھی ان کو گالی نہیں دوں گا اس حدیث کے سننے کے بعد جو میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سن چکا ہوں۔

32785

(۳۲۷۸۶) حَدَّثَنَا حُمَیْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَمَّنْ حدثہ عن مَیْمُونَۃَ ، قَالَت : لَمَّا کَانَتِ الْفُرْقَۃُ قِیلَ لِمَیْمُونَۃَ ابْنَۃِ الْحَارِثِ : یَا أُمَّ الْمُؤْمِنِینَ ، فَقَالَتْ : عَلَیْکُمْ بِابْنِ أَبِی طَالِبٍ فَوَاللہِ مَا ضَلَّ ، وَلا ضُلَّ بِہِ۔ (طبرانی ۱۲۔ حاکم ۱۴۱)
(٣٢٧٨٦) حضرت میمونہ (رض) فرماتی ہیں کہ جب جدائی کا وقت تھا تو میمونہ بنت حارث سے کہا گیا : اے ام المؤمنین ! آپ علی بن ابی طالب (رض) کو لازم پکڑ لو۔ اللہ کی قسم نہ وہ گمراہ ہیں اور نہ ان کی وجہ سے کوئی گمراہ ہوا۔

32786

(۳۲۷۸۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ : {أَجَعَلْتُمْ سِقَایَۃَ الْحَاجِّ وَعِمَارَۃَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ} قَالَ: نَزَلَتْ فِی عَلِیٍّ وَالْعَبَّاسِ۔ (عبدالرزاق ۲۶۹)
(٣٢٧٨٧) حضرت اسماعیل (رض) فرماتے ہیں کہ امام شعبی (رض) نے ارشاد فرمایا : قرآن کی یہ آیت { أَجَعَلْتُمْ سِقَایَۃَ الْحَاجِّ وَعِمَارَۃَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ } حضرت علی (رض) اور حضرت عباس (رض) کے بارے میں نازل ہوئی۔

32787

(۳۲۷۸۸) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، قَالَ : قَالَ عَلِیٌّ : إِنَّہُ لَمْ یَعْمَلْ بِہَا أَحَدٌ قَبْلِی ، وَلا یَعْمَلُ بِہَا أَحَدٌ بَعْدِی ، کَانَ لِی دِینَارٌ فَبِعْتہ بِعَشْرَۃِ دَرَاہِمَ ، فَکُنْت إذَا نَاجَیْت رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ تَصَدَّقْت بِدِرْہَمٍ حَتَّی نَفِدَتْ ، ثُمَّ تَلا ہَذِہِ الآیَۃَ : {یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا إذَا نَاجَیْتُمُ الرَّسُولَ فَقَدِّمُوا بَیْنَ یَدَیْ نَجْوَاکُمْ صَدَقَۃً}۔ (ابن جریر ۲۰)
(٣٢٧٨٨) حضرت مجاہد (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت علی (رض) نے ارشاد فرمایا : ایک آیت ایسی ہے کہ نہ مجھ سے پہلے اس پر کسی نے عمل کیا اور نہ ہی میرے بعد کوئی اس پر عمل کرے گا۔ میرے پاس ایک دینار تھا میں نے اس کو دس دراہم کے عوض بیچ دیا پس جب بھی میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کوئی سرگوشی کرتا تو میں ایک درہم صدقہ کردیتا یہاں تک کہ وہ دراہم ختم ہوگئے۔ پھر آپ (رض) نے یہ آیت تلاوت فرمائی۔ اے ایمان والو ! جب تم لوگ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے علیحدگی میں بات کرنا چاہو تو تم علیحدگی میں بات کرنے سے پہلے کچھ صدقہ پیش کرو۔

32788

(۳۲۷۸۹) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ آدَمَ، قَالَ: حدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ الأَشْجَعِیُّ ، عَنْ سُفْیَانَ بْنِ سعید ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ الْمُغِیرَۃِ الثَّقَفِیِّ ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِی الْجَعْدِ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ عَلْقَمَۃَ الأَنْمَارِیِّ ، عَنْ عَلِیٍّ ، قَالَ : لَمَّا نَزَلَتْ ہَذِہِ الآیَۃُ : {یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا إذَا نَاجَیْتُمُ الرَّسُولَ فَقَدِّمُوا بَیْنَ یَدَیْ نَجْوَاکُمْ صَدَقَۃً} ، قَالَ : قَالَ لِی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: مَا تَرَی دِینَار ، قُلْتُ : لاَ یُطِیقُونَہُ ، قَالَ : فَکَمْ قُلْت : شَعِیرَۃٌ ، قَالَ: إنَّک لَزَہِیدٌ، قَالَ: فَنَزَلَتْ : {أَأَشْفَقْتُمْ أَنْ تُقَدِّمُوا بَیْنَ یَدَیْ نَجْوَاکُمْ صَدَقَاتٍ} الآیَۃَ ، قَالَ : فبی خَفَّفَ اللَّہُ عَنْ ہَذِہِ الأُمَّۃِ۔ (ترمذی ۳۳۰۰۔ ابن حبان ۶۹۴۲)
(٣٢٧٨٩) حضرت علی بن علقمہ انماری (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت علی (رض) نے ارشاد فرمایا : جب یہ آیت اتری ! اے ایمان والو ! جب تم لوگ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے علیحدگی میں بات کرنا چاہو تو تم علیحدگی میں بات کرنے سے پہلے کچھ صدقہ پیش کرو۔ پس رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھ سے ارشاد فرمایا : تمہاری کیا رائے ہے ؟ کیا ایک دینار میں کافی ہے ؟ میں نے عرض کیا : لوگ اتنے کی طاقت نہیں رکھتے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا : تو کتنا ہونا چاہیے ؟ میں نے عرض کیا تھوڑے سے جَو مقرر کردیے جائیں ۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : یقیناً یہ تو بہت ہی کم ہے۔ حضرت علی (رض) فرماتے ہیں۔ اتنے میں دوسری آیت اتری گئی : ترجمہ : کیا تم لوگ ڈر گئے اس بات سے کہ پیش کرو اپنی علیحدگی کی گفتگو سے پہلے صدقات ؟ الایۃ۔ آپ (رض) نے فرمایا : پس میری وجہ سے اللہ نے اس امت پر آسانی فرما دی۔

32789

(۳۲۷۹۰) حَدَّثَنَا خَلَفُ بْنُ خَلِیفَۃَ ، عَنْ أَبِی ہَارُونَ ، قَالَ : کُنْتُ مَعَ ابْنِ عُمَرَ جَالِسًا إذْ جَائَہُ نَافِعُ بْنُ الأَزْرَقِ فَقَامَ عَلَی رَأْسِہِ ، فَقَالَ : وَاللہِ إنِّی لأَبْغَضُ عَلِیًّا ، قَالَ : فَرَفَعَ إلَیْہِ ابْنُ عُمَرَ رَأْسَہُ ، فَقَالَ : أَبْغَضَک اللَّہُ ، تُبْغِضُ رَجُلاً سَابِقَۃٌ مِنْ سَوَابِقِہِ خَیْرٌ مِنَ الدُّنْیَا وَمَا فِیہَا۔
(٣٢٧٩٠) حضرت ابو ہارون (رض) فرماتے ہیں کہ میں حضرت ابن عمر (رض) کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا کہ اچانک نافع بن ازرق آیا، اور آپ (رض) کے سر پر کھڑا ہو کر کہنے لگا۔ اللہ کی قسم ! میں علی (رض) سے بغض رکھتا ہوں۔ راوی کہتے ہیں۔ کہ حضرت ابن عمر (رض) نے اپنا سر اٹھا کر ارشاد فرمایا : اللہ بھی تجھ سے بغض رکھے اس لیے کہ تو ایسے شخص سے بغض رکھتا ہے جو سبقت لے جانے والا ہے۔ اور دنیا اور اس میں موجود تمام چیزوں سے بہتر ہے۔

32790

(۳۲۷۹۱) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَنْ فِطْرٍ ، عَنْ أَبِی الطُّفَیْلِ ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : لَقَدْ جَائَ فِی عَلِیٍّ مِنَ الْمَنَاقِبِ مَا لَوْ أَنَّ مَنْقَبًا مِنْہَا قُسِمَ بَیْنَ النَّاسِ لأوْسَعَہُمْ خَیْرًا۔
(٣٢٧٩١) حضرت ابو الطفیل (رض) فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب (رض) میں سے ایک نے ارشاد فرمایا : کہ حضرت علی (رض) میں اتنے بہترین اوصاف جمع ہیں کہ ان میں سے اگر ایک وصف کو بھی لوگوں کے درمیان تقسیم کردیا جائے تو وہ خیر کے اعتبار سے بہت زیادہ وسیع ہو۔

32791

(۳۲۷۹۲) حَدَّثَنَا خَلَفُ بْنُ خَلِیفَۃَ ، عَنْ حَجَّاجِ بْنِ دِینَارٍ ، عَنْ مُعَاوِیَۃَ بْنِ قُرَّۃَ ، قَالَ : کُنْتُ أَنَا وَالْحَسَنُ جَالِسَیْنِ نَتَحَدَّثُ ، إذْ ذَکَرَ الْحَسَنُ عَلِیًّا ، فَقَالَ : أَرَاہُمَ السَّبِیلَ ، وَأَقَامَ لَہُمَ الدِّینَ إِذْ اعْوَجَّ۔
(٣٢٧٩٢) حضرت معاویہ بن قرہ (رض) فرماتے ہیں کہ میں اور حضرت حسن (رض) بیٹھے ہوئے باتیں کر رہے تھے کہ حضرت حسن (رض) نے حضرت علی (رض) کا ذکر فرمایا : اور فرمایا : آپ (رض) لوگوں میں سب سے زیادہ سیدھے راستے والے اور لوگوں کے دین کو سیدھا فرمانے والے تھے جب اس میں ٹیڑھ پن پیدا ہوجاتا ۔

32792

(۳۲۷۹۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنِ الْحُرِّ بْنِ صَیَّاحٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الأَخْنَسِ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ زَیْدٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : عَلِیٌّ فِی الْجَنَّۃِ۔ (ابوداؤد ۴۶۱۷۔ احمد ۱۸۸)
(٣٢٧٩٣) حضرت سعید بن زید (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے کہ : علی (رض) جنت میں ہیں۔

32793

(۳۲۷۹۴) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، عَنْ شَرِیکٍ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، قَالَ : قالَتْ فَاطِمَۃُ : یَا رَسُولَ اللہِ ، زَوَّجْتَنِی حَمْشَ السَّاقَیْنِ عَظِیمَ الْبَطْنِ أَعْمَشَ الْعَیْنِ، قَالَ: زَوَّجْتُک أَقْدَمَ أُمَّتِی سِلْمًا، وَأَعْظَمَہُمْ حِلْمًا، وَأَکْثَرَہُمْ عِلْمًا۔ (عبدالرزاق ۹۷۸۳)
(٣٢٧٩٤) حضرت ابو اسحاق (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت فاطمہ (رض) نے فرمایا : اے اللہ کے رسول 5! آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے میرا نکاح ایسے شخص سے کردیا جو کمزور پنڈلیوں والا، بڑے پیٹ والا اور کمزور نگاہ کا حامل ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میں نے تمہارا نکاح ایسے شخص سے کیا ہے جو میری امت میں سب سے زیادہ صلح کو مقدم رکھنے والا اور سب سے عظیم بردبار اور سب سے زیادہ علم والا ہے۔

32794

(۳۲۷۹۵) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ، عَنِ ابْنِ أَبِی غَنِیَّۃَ، عَنِ الْحَکَمِ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ بُرَیْدَۃَ، قَالَ : غزوت مَعَ عَلِیٍّ إِلَی الْیَمَنِ فَرَأَیْتُ مِنْہُ جَفْوَۃً ، فَلَمَّا قَدِمْت عَلَی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : ذَکَرْت عَلِیًّا فَتنَقَّصْتُہُ ، فَجَعَلَ وَجْہُ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَتَغَیَّرُ، فَقَالَ: أَلَسْت أَوْلَی بِالْمُؤْمِنِینَ مِنْ أَنْفُسِہِمْ ، قُلْتُ : بَلَی یَا رَسُولَ اللہِ ، قَالَ : مَنْ کُنْتُ مَوْلاہُ فَعَلِیٌّ مَوْلاہُ۔ (احمد ۳۴۷۔ حاکم ۱۱۰)
(٣٢٧٩٥) حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت بریدہ (رض) نے ارشاد فرمایا : میں حضرت علی (رض) کے ساتھ یمن لڑنے کے لیے گیا۔ تو میں نے ان میں کچھ زیادتی دیکھی۔ جب میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس حاضر ہوا تو میں نے حضرت علی (رض) کا ذکر کیا اور ان کا نقص بیان کیا : اس پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چہرے کا رنگ متغیر ہوگیا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : کیا میں مومنین پر ان کی جانوں سے زیادہ مقدم نہیں ہوں ؟ میں نے عرض کیا : کیوں نہیں اے اللہ کے رسول 5! ضرور ۔ آپ نے فرمایا : میں جس کا دوست ہوں پس علی (رض) بھی اس کا دوست ہے۔

32795

(۳۲۷۹۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ أَبِی التَّیَّاحِ ، عَنْ أَبِی السَّوَّارِ الْعَدَوِیِّ ، قَالَ : قَالَ عَلِیٌّ لَیُحِبُّنِی قَوْمٌ حَتَّی یَدْخُلُوا النَّارَ فِی حُبِّی وَلَیُبْغِضُنِی قَوْمٌ حَتَّی یَدْخُلُوا النَّارَ فِی بُغْضِی۔
(٣٢٧٩٦) حضرت ابو السوّار العدوی (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت علی (رض) نے ارشاد فرمایا : ضرور بالضرور مجھ سے کچھ لوگ اتنی محبت کریں گے یہاں تک کہ وہ لوگ میری محبت کی وجہ سے جہنم میں جائیں گے اور ضرور بالضرور کچھ لوگ مجھ سے بغض رکھیں گے یہاں تک کہ وہ لوگ مجھ سے بغض کی وجہ سے جہنم میں جائیں گے۔

32796

(۳۲۷۹۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ حَمَّادٍ ، عَنِ ابْنِ أَبِی نَجِیحٍ ، عَنْ أبی التیاح عن أَبِی حبرۃ ، قَالَ : سَمِعْتُ عَلِیًّا یَقُولُ : یَہْلِکُ فِی رَجُلانِ : مُفْرِطٌ فِی حُبِّی وَمُفْرِطٌ فِی بُغْضِی۔
(٣٢٧٩٧) حضرت ابو حبیرہ (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت علی (رض) نے ارشاد فرمایا : دو شخص میرے بارے میں ہلاکت میں پڑیں گے۔ ایک میری محبت میں حد سے بڑھنے والا، اور دوسرا مجھ سے بغض کرنے میں حد سے بڑھنے والا۔

32797

(۳۲۷۹۸) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَنْ سِمَاکٍ ، عَنْ أَنَسٍ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَعَثَ بِبَرَائَۃٍ مَعَ أَبِی بَکْرٍ إِلَی مَکَّۃَ ، فَدَعَاہُ فَبَعَثَ عَلِیًّا ، فَقَالَ : لاَ یُبَلِّغُہَا إلاَّ رَجُلٌ مِنْ أَہْلِ بَیْتِی۔ (ترمذی ۳۰۹۰۔ احمد ۲۱۲)
(٣٢٧٩٨) حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سورة توبہ کی آیات دے کر حضرت ابوبکر (رض) کو مکہ بھیجا۔ پھر حضرت علی (رض) کو بلا کر ان کو بھیجا۔ اور فرمایا : یہ آیات صرف میرے گھر کا ہی آدمی پہنچائے گا۔

32798

(۳۲۷۹۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ نُعَیْمِ بْنِ حَکِیمٍ ، عَنْ أَبِی مَرْیَمَ ، قَالَ : سَمِعْتُ عَلِیًّا یَقُولُ : یَہْلِکُ فِیَّ رَجُلانِ : مُفْرِطٌ فِی حُبِّی وَمُفْرِطٌ فِی بُغْضِی۔
(٣٢٧٩٩) حضرت ابو مریم (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت علی (رض) کو یوں فرماتے ہوئے سنا ہے کہ میرے بارے میں دو شخص ہلاکت میں پڑیں گے ۔ ایک وہ شخص جو میری محبت میں حد سے بڑھے گا۔ اور دوسرا وہ شخص جو مجھ سے بغض کرنے میں حد سے بڑھے گا۔

32799

(۳۲۸۰۰) حَدَّثَنَا أَبُو الْجَوَّابِ ، عَنْ یُونُسَ بْنِ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ زَیْدِ بْنِ یُثَیْعٍ ، عَنْ أَبِی ذَرٍّ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لَیَنْتَہِیَنَّ بنو ولیعۃ ، أَوْ لأَبْعَثَنَّ إلَیْہِمْ رَجُلاً کَنَفْسِی فَیُمْضِی فِیہِمْ أَمْرِی ، فَیَقْتُلُ الْمُقَاتِلَۃَ وَیَسْبِی الذُّرِّیَّۃَ۔ (نسائی ۸۴۵۷۔ احمد ۹۶۶)
(٣٢٨٠٠) حضرت ابو ذر (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ضرور بالضرور بنو ولیعہ قبیلہ روکے گا یا یوں ارشاد فرمایا : کہ میں ضرور بالضرور ان کی طرف ایک ایسا آدمی بھیجوں گا جو ان میں میرا حکم جاری کرے گا۔ اور قتال کرنے والوں سے قتال کرے گا اور ان کی ذریت کو قیدی بنائے گا۔

32800

(۳۲۸۰۱) حَدَّثَنَا مُطَّلِبُ بْنُ زِیَادٍ ، عَنِ السُّدِّیِّ ، قَالَ : صَعِدَ عَلِیٌّ الْمِنْبَرَ ، فَقَالَ : اللَّہُمَّ الْعَنْ کُلَّ مُبْغِضٍ لَنَا ، قَالَ : وَکُلَّ مُحِبٍّ لَنَا غَالٍ۔
(٣٢٨٠١) حضرت سدی (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت علی (رض) منبر پر چڑھے اور ارشاد فرمایا : اے اللہ ! تو لعنت کر ہر اس شخص پر جو ہم سے بغض رکھنے والا ہے۔ اور ہر اس شخص پر جو ہم سے محبت کرنے میں غلوّ کرنے والا ہے۔

32801

(۳۲۸۰۲) حَدَّثَنَا مُطَّلِبُ بْنُ زِیَادٍ ، عَنْ لَیْثٍ ، قَالَ : دَخَلْتُ عَلَی أَبِی جَعْفَرٍ فَذَکَرَ ذُنُوبَہُ ، وَمَا یَخَافُ ، قَالَ : فَبَکَی ، ثُمَّ قَالَ : حَدَّثَنِی جَابِرٌ أَنَّ عَلِیًّا حَمَلَ الْبَابَ یَوْمَ خَیْبَرَ حَتَّی صَعِدَ الْمُسْلِمُونَ فَفَتَحُوہَا وَإِنَّہُ جُرِّبَ فَلَمْ یَحْمِلْہُ إلاَّ أَرْبَعُونَ رَجُلاً۔ (بیہقی ۲۱۲)
(٣٢٨٠٢) حضرت لیث (رض) فرماتے ہیں کہ میں حضرت ابو جعفر (رض) کے پاس آیا پس انھوں نے گناہوں کا ذکر کیا اور خوف سے رونے لگے ۔ پھر ارشاد فرمایا : کہ مجھے حضرت جابر (رض) نے بیان کیا : بلاشبہ حضرت علی (رض) نے خیبر کے دن دروازے کو اٹھا لیا یہاں تک کہ مسلمان قلعہ پر چڑھ گئے اور انھوں نے قلعہ کو فتح کرلیا، اور بیشک آزمایا گیا پس نہیں اٹھا سکے اس دروازے کو مگر چالیس آدمی۔

32802

(۳۲۸۰۳) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ وَاقِدِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ زَیْدٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، عَنْ أَبِی بَکْرٍ ، قَالَ : یَا أَیُّہَا النَّاسُ ، ارْقُبُوا مُحَمَّدًا صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی أَہْلِ بَیْتِہِ۔ (بخاری ۳۷۵۱)
(٣٢٨٠٣) حضرت ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت ابوبکر (رض) نے ارشاد فرمایا : اے لوگو ! تم محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گھر والوں کی حفاظت کرو۔

32803

(۳۲۸۰۴) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنِ الْحَکَمِ ، عَنْ مِقْسَمٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ لِعَلِیٍّ : أَنْتَ أَخِی وَصَاحِبِی۔
(٣٢٨٠٤) حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت علی (رض) سے ارشاد فرمایا : بیشک تو میرا بھائی اور میرا ساتھی ہے۔

32804

(۳۲۸۰۵) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ قَالَ: سمعت أبا مکین، عَنْ خَالِہِ أبی أُمَیَّۃَ أَنَّ عَلِیًّا مَرَّ عَلَی دَارٍ فِی مرادِ تُبْنی، فَسَقَطَتْ عَلَیْہِ کَسْرَۃُ لَبِنَۃٍ، أَوْ قِطْعَۃُ لَبِنَۃٍ ، فَدَعَا اللَّہَ أَنْ لاَ یُتِمَّ بِنَائَہَا، قَالَ : فَمَا وُضِعَ فِیہَا لَبِنَۃٌ عَلَی لَبِنَۃٍ۔
(٣٢٨٠٥) حضرت ابو مکین (رض) فرماتے ہیں کہ ان کے ماموں حضرت ابو امیہ (رض) نے ارشاد فرمایا : کہ حضرت علی (رض) مقامِ مراد میں ایک گھر کے پاس سے گزرے جس کی تعمیر جاری تھی کہ آپ (رض) پر ایک اینٹ کا ٹکڑا گرپڑا ، آپ (رض) نے اللہ سے دعا کی کہ اس کی تعمیر مکمل نہ ہو، راوی فرماتے ہیں ، پھر اس گھر میں ایک اینٹ پر دوسری اینٹ نہیں رکھی گئی۔

32805

(۳۲۸۰۶) حَدَّثَنَا مُطَّلِبُ بْنُ زِیَادٍ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: کُنَّا مَعَ أَبِی جَعْفَرٍ فِی الْمَسْجِدِ وَغُلامٌ یَنْظُرُ إِلَی أَبِی جَعْفَرٍ وَیَبْکِی، فَقَالَ لَہُ أَبُو جَعْفَرٍ : مَا یُبْکِیک ؟ قَالَ : مِنْ حُبِّکُمْ ، قَالَ : نَظَرْت حَیْثُ نَظَرَ اللَّہُ وَاخْتَرْت مَنْ خَیَّرَہُ اللَّہُ۔
(٣٢٨٠٦) حضرت جابر (رض) فرماتے ہیں کہ ہم لوگ حضرت ابو جعفر (رض) کے ساتھ مسجد میں تھے اس حال میں کہ ایک لڑکا حضرت ابو جعفر (رض) کو دیکھے جا رہا تھا اور رو رہا تھا۔ پس ابو جعفر (رض) نے اس سے فرمایا : تجھے کس چیز نے رلا دیا۔ اس نے عرض کیا۔ آپ (رض) لوگوں کی محبت نے۔ آپ (رض) نے فرمایا : تو نے دیکھا جہاں اللہ نے دیکھا۔ اور تو نے چنا اس شخص کو جس کو اللہ نے چنا۔

32806

(۳۲۸۰۷) حَدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ بْنُ إبْرَاہِیمَ ابْنِ عُلَیَّۃَ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنْ عَائِشَۃَ بِنْتِ سَعْدٍ ، قَالَ : سَمِعْتُہَا تَقُولُ : أَبِی وَاللہِ الَّذِی جَمَعَ لَہُ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَبَوَیْہِ یَوْمَ أُحُدٍ۔ (احمد ۱۳۰۱)
(٣٢٨٠٧) حضرت ایوب (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ بنت سعد (رض) کو فرماتے ہوئے سنا کہ میرے والد، اللہ کی قسم ! رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے احد کے دن ان کے لیے اپنے والدین کو جمع فرمایا۔

32807

(۳۲۸۰۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاہِیمَ ، عَن عَبْدِ اللہِ بْنِ شَدَّادٍ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ أَبِی طَالِبٍ ، قَالَ : مَا سَمِعْت رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَفْدِی بِأَبَوَیْہِ أَحَدًا إلاَّ سَعْدًا فَإِنِّی سَمِعْتہ یَقُولُ یَوْمَ أُحُدٍ: ارْمِ سَعْدُ ، فِدَاک أَبِی وَأُمِّی۔ (بخاری ۲۹۰۵۔ مسلم ۱۸۷۶)
(٣٢٨٠٨) حضرت علی بن ابی طالب (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے نہیں سنا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کسی ایک کے لیے اپنے والدین کو فدا کیا ہو سوائے حضرت سعد (رض) کے۔ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے ہوئے سنا : غزوہ احد کے دن ۔ اے سعد ! تم پر میرے ماں ، باپ قربان ہوں۔ تم تیر چلاؤ۔

32808

(۳۲۸۰۹) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ، قَالَ : سَمِعْتُ سَعْدَ بْنَ أَبِی وَقَّاصٍ یُحَدِّثُ أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ جَمَعَ لَہُ أَبَوَیْہِ یَوْمَ أُحُدٍ۔ (بخاری ۳۷۲۵۔ ترمذی ۲۸۳۰)
(٣٢٨٠٩) حضرت سعید بن المسیب (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) کو فرماتے ہوئے سنا کہ بیشک رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غزوہ احد کے دن ان کے لیے اپنے والدین کو جمع فرمایا۔

32809

(۳۲۸۱۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ ، عَنْ قَیْسٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ سَعْدًا یَقُولُ : إنِّی لأَوَّلُ رَجُلٍ مِنَ الْعَرَبِ رَمَی بِسَہْمٍ فِی سَبِیلِ اللہِ فِی الْغَزْوِ عِنْدَ الْقِتَالِ۔ (بخاری ۳۷۲۸۔ مسلم ۲۲۷۸)
(٣٢٨١٠) حضرت قیس (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت سعد (رض) کو یوں فرماتے ہوئے سنا کہ اہل عرب میں سے میں پہلا شخص ہوں جس نے اللہ کے راستہ میں قتال کے وقت پہلا تیر چلایا۔

32810

(۳۲۸۱۱) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ أَبِی بَلْجٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ مُصْعَبَ بْنَ سَعْدٍ یُحَدِّثُ أَنَّ سَعْدًا کَاتَبَ غُلامًا لَہُ فَأَرَادَ مِنْہُ شَیْئًا ، فَقَالَ : مَا عِنْدِی مَا أُعْطِیک ، وَعَمَدَ إِلَی دَنَانِیرَ فَخَصَفَہَا فِی نَعْلَیْہِ ، فَدَعَا سَعْدٌ عَلَیْہِ فَسُرِقَتْ نَعْلاہُ۔
(٣٢٨١١) حضرت ابو بلج (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت مصعب بن سعد (رض) کو فرماتے ہوئے سنا کہ حضرت سعد (رض) نے اپنے ایک غلام سے مکاتبت کا معاملہ کیا ، تو انھوں نے اس غلام سے کچھ رقم کا مطالبہ کیا تو وہ کہنے لگا میرے پاس کچھ نہیں ہے جو میں آپ کو دوں۔ اور آپ (رض) نے کچھ دیناروں کا مطالبہ کیا تھا جو اس نے اپنی جوتیوں میں چھپا لیے تھے۔ پس حضرت سعد (رض) نے اس کے لیے بد دعا کی تو اس کے دونوں جوتے چوری ہوگئے۔

32811

(۳۲۸۱۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ الْحُصَیْنِ ، عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ أَبِیہِ أَنَّہُ سَمِعَ رَجُلاً یَتَنَاوَلُ عَلِیًّا فَدَعَا عَلَیْہِ فَتَخَبَّطَتْہُ بُخْتِیَّۃٌ فَقَتَلَتْہُ۔
(٣٢٨١٢) حضرت مصعب بن سعد (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت سعد (رض) نے ایک آدمی کو سنا جو حضرت علی (رض) کے بارے میں غلط بات کررہا تھا پس آپ (رض) نے اس کے لیے بد دعا کی ۔ تو ایک خراسانی اونٹنی نے اس کو روندا اور مار دیا۔

32812

(۳۲۸۱۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، عَنْ إسْمَاعِیلَ، عَنْ قَیْسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: اتَّقُوا دَعَوَاتِ سَعْدٍ۔ (ابن سعد ۱۴۲)
(٣٢٨١٣) حضرت قیس (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : حضرت سعد (رض) کی بددعاؤں سے بچو۔

32813

(۳۲۸۱۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنِ الْحُرِّ بْنِ الصَّیَّاحِ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الأَخْنَسِ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ زَیْدٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : سَعْدٌ فِی الْجَنَّۃِ۔
(٣٢٨١٤) حضرت سعید بن زید (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ سعد (رض) جنت میں ہیں۔

32814

(۳۲۸۱۵) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ أَنَّ عَبْدَ اللہِ أَخْبَرَہُ أَنَّ عَائِشَۃَ کَانَتْ تَتَحَدَّثُ أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سَہِرَ ذَاتَ لَیْلَۃٍ وَہُوَ إِلَی جَنْبِی ، قَالَتْ : فَقُلْتُ : یَا رَسُولَ اللہِ ، مَا شَأْنُک ، فَقَالَ : لَیْتَ رَجُلاً صَالِحًا مِنْ أُمَّتِی یَحْرُسُنِی اللَّیْلَۃَ ، قَالَ : فَبَیْنَا نَحْنُ کَذَلِکَ إذْ سَمِعْت صَوْتَ السِّلاحِ ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَنْ ہَذَا ، فَقَالَ : أَنَا سَعْدُ بْنُ مَالِکٍ ، قَالَ : مَا جَائَ بِکَ قُلْتُ : جِئْت أَحْرُسُک یَا رَسُولَ اللہِ ، قَالَ : فَسَمِعْت غَطِیطَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی نَوْمِہِ۔ (بخاری ۲۸۸۵۔ مسلم ۴۰)
(٣٢٨١٥) حضرت عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عائشہ (رض) بیان فرمایا کرتی تھیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک رات جاگے رہے اس حال میں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرے پہلو میں تھے۔ میں نے پوچھا : اے اللہ کے رسول 5! آپ کو کیا ہوا ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کاش میری امت کا کوئی نیک آدمی رات کو میری چوکیداری کرے۔ حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں۔ کہ ہم ابھی اسی درمیان ہی تھے کہ میں نے ہتھیار کی آواز سنی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا : کون شخص ہے ؟ آواز آئی ۔ میں سعد بن مالک ہوں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا : تم کیوں آئے ہو ؟ انھوں نے کہا : اے اللہ کے رسول 5! میں آپ کی حفاظت کرنے کے لیے آیا ہوں۔ حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں۔ پھر میں نے نیند میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خراٹوں کی آواز سنی۔

32815

(۳۲۸۱۶) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، قَالَ : حدَّثَنَا مِسْعَرٌ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاہِیمَ ، عَن أَبِیہِ ، عَنْ سَعْدٍ ، قَالَ : رَأَیْتُ عَنْ یَمِینِ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَعَنْ شِمَالِہِ ، یَوْمَ أُحُدٍ ، رَجُلَیْنِ عَلَیْہِمَا ثِیَابٌ بِیضٌ ، مَا رَأَیْتہمَا قَبْلُ ، وَلا بَعْدُ ، یَعْنِی جِبْرِیلَ وَمِیکَائِیلَ۔ (مسلم ۱۸۰۲۔ ابن حبان ۶۹۸۷)
(٣٢٨١٦) حضرت سعد (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے غزوہ احد کے دن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دائیں اور بائیں جانب دو آدمی دیکھے جو سفید کپڑوں میں تھے۔ میں نے ان کو نہ اس سے پہلے کبھی دیکھا نہ بعد میں کبھی دیکھا۔ یعنی حضرت جبرائیل (علیہ السلام) اور حضرت میکائیل (علیہ السلام) ۔

32816

(۳۲۸۱۷) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ ہَاشِمِ بْنِ ہاشم ، قَالَ : سَمِعْتُ سَعِیدَ بْنَ الْمُسَیَّبِ یَقُولُ : کَانَ سَعْدُ بْنُ أَبِی وَقَّاصٍ أَشَدَّ الْمُسْلِمِینَ یَوْمَ أُحُدٍ۔
(٣٢٨١٧) حضرت ہاشم بن ہاشم (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت سعید بن مسیب (رض) نے ارشاد فرمایا : کہ حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) غزوہ احد کے دن مسلمانوں میں سب سے زیادہ سخت حملہ کرنے والے شخص تھے۔

32817

(۳۲۸۱۸) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عُتْبَۃَ ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، قَالَ : أَوَّلُ مَنْ رَمَی بِسَہْمٍ فِی سَبِیلِ اللہِ سَعْدُ بْنُ أَبِی وَقَّاصٍ رضی اللَّہُ عَنْہُ۔
(٣٢٨١٨) حضرت عبد الرحمن بن عتبہ (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت قاسم بن عبد الرحمن نے ارشاد فرمایا : اللہ کے راستہ میں سب سے پہلے تیر چلانے والے شخص حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) ہیں۔

32818

(۳۲۸۱۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ ، عَنْ قَیْسٍ ، قَالَ : رَأَیْتُ یَدَ طَلْحَۃَ بْنِ عُبَیْدِ اللہِ شَلائَ ، وَقَی بِہَا النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَوْمَ أُحُدٍ۔ (بخاری ۴۰۶۳۔ ابن ماجہ ۱۲۸)
(٣٢٨١٩) حضرت قیس (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت طلحہ بن عبید اللہ (رض) کا ہاتھ دیکھا جو مفلوج تھا۔ اس کے ذریعہ انھوں نے غزوہ احد کے دن نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا بچاؤ کیا تھا۔

32819

(۳۲۸۲۰) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ مُوسَی بْنِ عُبَیْدِ اللہِ بْنِ إِسْحَاقَ بْنِ طَلْحَۃَ ، عَنْ مُوسَی بْنِ طَلْحَۃَ ، قَالَ : لَقَدْ رَأَیْت بِطَلْحَۃِ أَرْبَعَۃً وَعِشْرِینَ جُرْحًا جُرِحَہَا مَعَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔
(٣٢٨٢٠) حضرت موسیٰ بن طلحہ (رض) فرماتے ہیں کہ تحقیق میں نے حضرت طلحہ (رض) کے ہاتھ پر چوبیس زخم دیکھے جو ان کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ لگے تھے۔

32820

(۳۲۸۲۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنِ الْحُرِّ بْنِ صَیَّاحٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الأَخْنَسِ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ زَیْدٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : طَلْحَۃُ فِی الْجَنَّۃِ۔
(٣٢٨٢١) حضرت سعید بن زید (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یوں ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ طلحہ (رض) جنت میں ہیں۔

32821

(۳۲۸۲۲) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ طَلْحَۃَ بْنِ یَحْیَی ، عَنْ عَمِّہِ عِیسَی بْنِ طَلْحَۃَ أَنَّ أَعْرَابِیًّا أَتَی رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَسَأَلَہُ عَنِ الَّذِینَ قَضَوْا نَحْبَہُمْ فَأَعْرَضَ عَنْہُ ، ثُمَّ سَأَلَہُ فَأَعْرَضَ عَنْہُ ، قَالَ : وَدَخَلَ طَلْحَۃُ بْنُ عُبَیْدِ اللہِ مِنْ بَابِ الْمَسْجِدِ عَلَیْہِ ثَوْبَانِ أَخْضَرَانِ ، فَقَالَ : ہَذَا مِنَ الَّذِینَ قَضَوْا نَحْبَہُمْ۔ (ترمذی ۳۲۰۳۔ ابن سعد ۲۱۸)
(٣٢٨٢٢) حضرت عیسیٰ بن طلحہ (رض) فرماتے ہیں کہ ایک دیہاتی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے ان لوگوں کے متعلق دریافت کیا جنہوں نے اپنی ذمہ داری پوری کردی ؟ پس آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے اعراض فرمایا : اس نے پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پھر اس سے اعراض فرمایا : راوی کہتے ہیں۔ اتنے میں حضرت طلحہ بن عبید اللہ مسجد کے دروازے سے داخل ہوئے اس حال میں کہ ان پر دو سبز چادریں تھیں۔ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : یہ ان لوگوں میں سے ہیں جنہوں نے اپنی ذمہ داری پوری کی۔

32822

(۳۲۸۲۳) حَدَّثَنَا یعمر بْنُ بِشْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا ابْنُ مُبَارَکٍ ، عَنِ ابن إِسْحَاقَ ، قَالَ : حَدَّثَنِی یَحْیَی بْنُ عَبَّادٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ الزُّبَیْرِ ، عَنِ الزُّبَیْرِ ، قَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ یَوْمَئِذٍ ، یَعْنِی یَوْمَ أُحُدٍ : أَوْجَبَ طَلْحَۃُ ، یَعْنِی یَوْمَ أُحُدٍ۔ (ترمذی ۱۶۹۲۔ حاکم ۲۵)
(٣٢٨٢٣) حضرت زبیر (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس دن یعنی غزوہ احد کے دن یوں فرماتے ہوئے سنا کہ : طلحہ (رض) نے واجب کرلی۔ (جنت)

32823

(۳۲۸۲۴) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ زَکَرِیَّا ، عَنْ عَامِرٍ أَنَّ طَلْحَۃَ وَقَی رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِیَدِہِ فَضُرِبَتْ فَشَلَّتْ إصْبَعُہُ۔
(٣٢٨٢٤) حضرت عامر (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت طلحہ (رض) نے اپنے ہاتھ کے ساتھ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا بچاؤ کیا تو ان کو اتنے زخم آئے کہ ان کی انگلی مفلوج ہوگئی۔

32824

(۳۲۸۲۵) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : جَمَعَ لِی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَبَوَیْہِ یَوْمَ قُرَیْظَۃَ ، فَقَالَ : بِأَبِی وَأُمِّی۔ (نسائی ۱۰۰۳۰۔ ابن حبان ۶۹۸۴)
(٣٢٨٢٥) حضرت عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ ان کے والد حضرت زبیر (رض) نے ارشاد فرمایا : کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے میرے لیے غزوہ بنو قریظہ کے دن اپنے والدین کو جمع کیا اور ارشاد فرمایا : میرے ماں باپ تجھ پر قربان ہوں۔

32825

(۳۲۸۲۶) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْکَدِرِ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : الزُّبَیْرُ ابْنُ عَمَّتِی وَحَوَارِیٌّ مِنْ أُمَّتِی۔ (نسائی ۸۲۱۲۔ احمد ۴۱۳)
(٣٢٨٢٦) حضرت جابربن عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : زبیر میری پھوپھی کے بیٹے ہیں۔ اور میری امت میں سے میرے حواری ہیں۔

32826

(۳۲۸۲۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنِ الْحُرِّ بْنِ صَیَّاحٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الأَخْنَسِ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ زَیْدٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : الزُّبَیْرُ فِی الْجَنَّۃِ۔
(٣٢٨٢٧) حضرت سعید بن زید (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یوں ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ زبیر (رض) جنت میں ہیں۔

32827

(۳۲۸۲۸) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللہِ بْنِ یُونُسَ ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَۃَ ، عَنْ عَلِیٍّ ، قَالَ : حدَّثَنِی مَنْ رَأَی الزُّبَیْرَ بْنَ الْعَوَّامِ وَصَدْرُہُ کَأَنَّہُ الْعُیُونُ مِنَ الطَّعْنِ وَالرَّمْیِ۔
(٣٢٨٢٨) حضرت علی بن زید بن جدعان (رض) فرماتے ہیں کہ مجھے اس شخص نے بیان کیا جس نے حضرت زبیر بن عوام (رض) کی زیارت کی کہ ان کا سینہ گویا کہ وہ تیروں اور نیزوں کا چشمہ ہو !۔

32828

(۳۲۸۲۹) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ ، عَنْ عُرْوَۃَ ، قَالَ : إن أَوَّل رَجُلٍ سَلَّ سَیْفًا فِی اللہِ الزُّبَیْرُ ، نُفِخَتْ نَفْخَۃٌ : أُخِذَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَخَرَجَ الزُّبَیْرُ یَشُقُّ النَّاسَ بِسَیْفِہِ وَرَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِأَعْلَی مَکَّۃَ ، فَقَالَ : مَا لَکَ یَا زُبَیْرُ ، قَالَ : أُخْبِرْت أَنَّک أُخِذْت ، قَالَ : فَصَلَّی عَلَیْہِ وَدَعَا لَہُ وَلِسَیْفِہِ۔
(٣٢٨٢٩) حضرت ہشام بن عروہ (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عروہ (رض) نے ارشاد فرمایا : بیشک سب سے پہلا آدمی جس نے اللہ کے راستہ میں تلوار سونتی وہ حضرت زبیر (رض) ہیں۔ یہ خبر اڑا دی گئی ، کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پکڑ لیا گیا ہے۔ ! پس حضرت زبیر (رض) نکلے کہ وہ لوگوں کو اپنی تلوار سے چیرتے ہوئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس پہنچے جبکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ کے اونچے مقام پر تھے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا : اے زبیر (رض) ! تجھے کیا ہوا ؟ آپ (رض) نے فرمایا : مجھے خبر ملی کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پکڑ لیا گیا : آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے حق میں دعائے خیر کی اور ان کی تلوار کے لیے بھی دعا فرمائی۔

32829

(۳۲۸۳۰) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ ، عَنْ عُرْوَۃَ أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ یَوْمَ الْخَنْدَقِ : مَنْ رَجُلٌ یَذْہَبُ فَیَأْتِینِی بِخَبَرِ بَنِی قُرَیْظَۃَ ، فَرَکِبَ الزُّبَیْرُ فَجَائَہُ بِخَبَرِہِمْ ، ثُمَّ عَادَ ، فَقَالَ : ثَلاثَ مَرَّاتٍ : مَنْ یَأْتِینِی بِخَبَرِہِمْ ، فَقَالَ : الزُّبَیْرُ : نَعَمْ ، قَالَ : وَجَمَعَ لِلزُّبَیْرِ أَبَوَیْہِ ، فَقَالَ : فِدَاک أَبِی وَأُمِّی، وَقَالَ لِلزُّبَیْرِ : لِکُلِّ نَبِیٍّ حَوَارِیٌّ ، وَحَوَارِیَّ الزُّبَیْرُ ، وَابْنُ عَمَّتِی۔ (ترمذی ۳۷۴۵۔ احمد ۳۰۷)
(٣٢٨٣٠) حضرت عروہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غزوہ خندق کے دن ارشاد فرمایا : کون شخص جائے گا اور میرے پاس بنو قریظہ والوں کی خبر لائے گا ؟ پس حضرت زبیر (رض) سوار ہوئے اور ان کی خبر لائے۔ پھر لوٹے پس آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تین مرتبہ فرمایا : کون شخص میرے پاس ان کی خبر لے کر آئے گا۔ ہر مرتبہ حضرت زبیر (رض) نے کہا : جی ہاں ! میں لاؤں گا۔
حضرت عروہ (رض) فرماتے ہیں ! آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت زبیر (رض) کے لیے اپنے والدین کو جمع کیا اور ارشاد فرمایا : تجھ پر میرے ماں ، باپ قربان ہوں۔ اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت زبیر (رض) سے فرمایا : ہر نبی کا ایک حواری ہوتا ہے اور میرے حواری زبیر (رض) ہیں اور وہ میری پھوپھی کے بیٹے ہیں۔

32830

(۳۲۸۳۱) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَنْ زَائِدَۃَ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ زِرٍّ ، عَنْ عَلِیٍّ ، قَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : لِکُلِّ نَبِیٍّ حَوَارِیٌّ ، وَحَوَارِیَّ الزُّبَیْرُ۔ (ترمذی ۳۷۴۴۔ احمد ۸۹)
(٣٢٨٣١) حضرت علی (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یوں فرماتے ہوئے سنا کہ ہر نبی کا ایک حواری ہوتا ہے۔ میرے حواری زبیر ہیں۔

32831

(۳۲۸۳۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ ، عَنِ الْبَہِیِّ ، عَنْ عُرْوَۃَ ، عَنْ عَائِشَۃَ ، قَالَ : قالَتْ لِی : کَانَ أبواک مِنَ الَّذِینَ اسْتَجَابُوا لِلَّہِ وَالرَّسُولِ مِنْ بَعْدِ مَا أَصَابَہُمَ الْقَرْحُ۔ (مسلم ۱۸۸۱)
(٣٢٨٣٢) حضرت عروہ (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عائشہ (رض) نے مجھ سے ارشاد فرمایا : تمہارے والد ان لوگوں میں سے ہیں۔ جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پکار پر لبیک کہا باوجودیکہ وہ زخم کھاچکے تھے۔

32832

(۳۲۸۳۳) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا سَعِیدُ بْنُ أَبِی عَرُوبَۃَ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنْ نَافِعٍ ، قَالَ : سَمِعَ ابْنُ عُمَرَ رَجُلاً یَقُولُ : أَنَا ابْنُ حَوَارِیِّ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ : إِنْ کُنْتَ مِنْ آلِ الزُّبَیْرِ وَإِلاَّ فَلاَ۔ (طبرانی ۲۲۵)
(٣٢٨٣٣) حضرت نافع (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عمر (رض) نے ایک آدمی کو یوں کہتے ہوئے سنا کہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حواری کا بیٹا ہوں اس پر حضرت ابن عمر (رض) نے فرمایا : اگر تو آل زبیر (رض) میں سے ہے تو ٹھیک ہے ورنہ ایسا نہیں ہے۔

32833

(۳۲۸۳۴) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، قَالَ : لَمْ یَکُنْ مَعَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَوْمَ بَدْرٍ غَیْرُ فَرَسَیْنِ أَحَدُہُمَا عَلَیْہِ الزُّبَیْرُ۔ (ابن سعد ۱۰۳)
(٣٢٨٣٤) حضرت ہشام (رض) فرماتے ہیں کہ غزوہ بدر کے دن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ صرف دو گھوڑے تھے جن میں سے ایک پر حضرت زبیر (رض) سوار تھے۔

32834

(۳۲۸۳۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنِ الْحُرِّ بْنِ صیاح ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الأَخْنَسِ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ زَیْدٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : عَبْدُ الرَّحْمَن بْنُ عَوْفٍ فِی الْجَنَّۃِ۔
(٣٢٨٣٥) حضرت سعید بن زید (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یوں فرماتے ہوئے سنا ہے کہ عبد الرحمن (رض) بن عوف (رض) جنت میں ہیں۔

32835

(۳۲۸۳۶) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، قَالَ : حدَّثَنَا مِسْعَرٌ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إبْرَاہِیمَ أَنَّ عَلِیًّا وَعَمْرَو بْنَ الْعَاصِ أَتَیَا قَبْرَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ فَذَکَرَ أَنَّ أَحَدَہُمَا قَالَ : اذْہَبَ ابْنَ عَوْفٍ فَقَدْ أَدْرَکْت صَفْوَہَا وَسَبَقْت رَنْقَہَا ، وَقَالَ الآخَرُ : اذْہَبَ ابْنَ عَوْفٍ فَقَدْ ذَہَبْت بِبَطِنَتِکَ لَمْ تَتَغَضْغَضْ مِنْہَا شَیْئًا۔ (احمد ۱۲۵۵۔ حاکم ۳۰۸)
(٣٢٨٣٦) حضرت سعد بن ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت علی (رض) اور حضرت عمرو بن العاص (رض) دونوں حضرات حضرت عبد الرحمن بن عوف (رض) کی قبر پر تشریف لائے، ان دونوں میں سے ایک نے ایسے ان کا ذکر فرمایا : ابن عوف چلے گئے ۔ پس تحقیق تم نے اپنی سچائی کو پا لیا۔ اور تم جھوٹ اور گدلے پن پر غالب آگئے ۔ اور دوسرے نے یوں فرمایا : ابن عوف (رض) چلے گئے۔ تحقیق تم اپنے نامہ اعمال کو ایسے لے گئے کہ تم نے اس کے اجر میں سے کچھ بھی کمی نہیں کی۔

32836

(۳۲۸۳۷) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : سَمِعْتُ أَبِی یُحَدِّثُ أَنَّہُ سَمِعَ عَمْرَو بْنَ الْعَاصِ قَالَ : لَمَّا مَاتَ عَبْدُ الرَّحْمَن بْنُ عَوْفٍ قَالَ : اذْہَبَ ابْنُ عَوْفٍ بِبطْنَتَکَ لَمْ تَتَغَضْغَضْ مِنْہَا شَیئًا۔
(٣٢٨٣٧) حضرت سعد بن ابراہیم فرماتے ہیں کہ جب حضرت عبدالرحمن بن عوف (رض) کا انتقال ہوگیا تو حضرت عمرو بن عاص (رض) نے فرمایا ” ابن عوف چلے گئے اور انھوں نے اپنے اجر کو حکومت یا امارت سے کم نہیں کیا۔ “

32837

(۳۲۸۳۸) حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ عَیَّاشٍ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ زِرٍّ ، قَالَ : کَانَ الْحَسَنُ وَالْحُسَیْنُ یَثِبَانِ عَلَی ظَہْرِ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَہُوَ یُصَلِّی ، فَجَعَلَ النَّاسُ یُنَحُّونَہُمَا ، فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : دَعُوہُمَا بِأَبِی ہُمَا وَأُمِّی ، مَنْ أَحَبَّنِی فَلْیُحِبَّ ہَذَیْنِ۔ (ابن حبان ۶۹۷۰۔ طبرانی ۲۶۴۴)
(٣٢٨٣٨) حضرت زر (رض) فرماتے ہیں کہ حضرات حسنین (رض) رسول اللہ کی کمر مبارک پر کھیل رہے ہوتے اس حال میں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز پڑھ رہے ہوتے۔ پس لوگ ان دونوں کو ہٹانے لگتے تو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے : ان کو چھوڑ دو ۔ ان دونوں پر میرے ماں باپ قربان ہوں۔ جو شخص مجھ سے محبت کرتا ہے اس کو چاہیے کہ وہ ان دونوں سے بھی محبت کرے۔

32838

(۳۲۸۳۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ أَبِی الْجَحَّافِ ، عَنْ أَبِی حَازِمٍ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ، قَالَ: قَالَ، یَعْنِی النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : اللَّہُمَّ إنِّی أُحِبُّہُمَا فَأَحِبَّہُمَا ، یَعْنِی حَسَنًا وَحُسَیْنًا۔ (احمد ۵۳۱۔ ابویعلی ۶۱۸۷)
(٣٢٨٣٩) حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دعا فرمائی : اے اللہ ! میں ان دونوں سے محبت کرتا ہوں پس تو بھی ان دونوں سے محبت فرما۔ یعنی حسن (رض) اور حسین (رض) سے۔

32839

(۳۲۸۴۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ یَزِیدَ بْنِ أَبِی زِیَادٍ ، عَنِ ابْنِ أَبِی نُعْمٍ ، عَنْ أَبِی سَعِیدٍ ، قَالَ : قَالَ ، یَعْنِی النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : الْحَسَنُ وَالْحُسَیْنُ سَیِّدَا شَبَابِ أَہْلِ الْجَنَّۃِ۔ (ترمذی ۳۷۶۸۔ احمد ۶۴)
(٣٢٨٤٠) حضرت ابو سعید (رض) فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : حسن (رض) اور حسین (رض) جنت کے نوجوانوں کے سردار ہیں۔

32840

(۳۲۸۴۱) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ حُبَابٍ ، عَنْ إسْرَائِیلَ ، عَنْ مَیْسَرَۃَ النَّہْدِیِّ ، عَنِ الْمِنْہَالِ بْنِ عَمْرٍو ، عَنْ زِرِّ بْنِ حُبَیْشٍ، عَنْ حُذَیْفَۃَ ، قَالَ : أَتَیْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَصَلَّیْت مَعَہُ الْمَغْرِبَ ، ثُمَّ قَامَ یُصَلِّی حَتَّی صَلَّی الْعِشَائَ ، ثُمَّ خَرَجَ فَاتَّبَعْتُہُ ، فَقَالَ : مَلَکٌ عَرَضَ لِی اسْتَأْذَنَ رَبَّہُ أَنْ یُسَلِّمَ عَلَیَّ وَیُبَشِّرَنِی أَنَّ الْحَسَنَ وَالْحُسَیْنَ سَیِّدَا شَبَابِ أَہْلِ الْجَنَّۃِ۔
(٣٢٨٤١) حضرت زرّ بن حبیش (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت حذیفہ (رض) نے ارشاد فرمایا : کہ میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا ۔ پس میں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ مغرب کی نماز پڑھی۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز پڑھتے رہے یہاں تک کہ عشاء کی نماز پڑھی اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) باہر تشریف لے گئے تو میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تلاش کرنے لگا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ایک فرشتہ میرے سامنے پیش ہوا اس نے اپنے رب سے اجازت مانگی تھی کہ وہ مجھ پر درود وسلام بھیجے اور اس نے مجھے خوشخبری سنائی کہ حسن اور حسین دونوں جنت کے نوجوانوں کے سردار ہیں۔

32841

(۳۲۸۴۲) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَنْ أَبِی مُوسَی ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : رَفَعَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْحَسَنَ بْنَ عَلِیٍّ مَعَہُ عَلَی الْمِنْبَرِ ، فَقَالَ : إنَّ ابْنِی ہَذَا سَیِّد ، وَلَعَلَّ اللَّہَ سَیُصْلِحُ بِہِ بَیْنَ فِئَتَیْنِ مِنَ الْمُسْلِمِینَ۔ (بخاری ۲۷۰۴)
(٣٢٨٤٢) حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے ساتھ منبر پر حضرت حسن بن علی (رض) کو بلند کر کے فرمایا : بیشک میرا یہ بیٹا سردار ہے۔ اور عنقریب اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ مسلمانوں کے دو گروہوں کے درمیان صلح کروائیں گے۔

32842

(۳۲۸۴۳) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِِ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ عَلِیٍّ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : الْحَسَنُ وَالْحُسَیْنُ سَیِّدَا شَبَابِ أَہْلِ الْجَنَّۃِ۔ (طبرانی ۲۵۹۹)
(٣٢٨٤٣) حضرت علی (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : حسن (رض) اور حسین (رض) دونوں جنت کے نوجوانوں کے سردار ہیں۔

32843

(۳۲۸۴۴) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا وُہَیْبٌ ، قَالَ : حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ خُثَیْمٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ أَبِی رَاشِدٍ، عَنْ یَعْلَی الْعَامِرِیِّ ؛ أَنَّہُ جَائَ حَسَنٌ وَحُسَیْنٌ یَسْعَیَانِ إِلَی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَضَمَّہُمَا إلَیْہِ ، وَقَالَ : إنَّ الْوَلَدَ مَبْخَلَۃٌ مَجْبَنَۃٌ۔ (ابن ماجہ ۳۶۶۔ احمد ۱۷۲)
(٣٢٨٤٤) حضرت یعلی العامری (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت حسن (رض) اور حضرت حسین (رض) دونوں دوڑتے ہوئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان دونوں کو اپنے سینہ سے لگا لیا اور فرمایا : اولاد بخل اور بزدلی کا باعث ہے۔

32844

(۳۲۸۴۵) حَدَّثَنَا مالک بن إسْمَاعِیلَ ، عَنْ أَسْبَاطِ بْنِ نَصْرٍ ، عَنِ السُّدِّیِّ ، عَنْ صُبَیْحٍ مَوْلَی أُمِّ سَلَمَۃَ ، عَنْ زَیْدِ بْنِ أَرْقَمَ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ لِفَاطِمَۃَ ، وعَلِیٍّ ، وَحَسَنٍ ، وَحُسَیْنٍ : أَنَا حَرْبٌ لِمَنْ حَارَبَکُمْ ، وَسِلْمٌ لِمَنْ سَالَمَکُمْ۔ (ابن ماجہ ۱۴۵۔ ابن حبان ۶۹۷۷)
(٣٢٨٤٥) حضرت زید بن ارقم (رض) فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت فاطمہ (رض) ، حضرت علی (رض) ، حضرت حسن (رض) اور حضرت حسین (رض) سے ارشاد فرمایا : تمہاری جس کے ساتھ لڑائی اور جنگ میری بھی اس سے جنگ ہے، اور تمہاری جس کے ساتھ صلح تو میری بھی اس سے صلح ہے۔

32845

(۳۲۸۴۶) حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا مُوسَی بْنُ یَعْقُوبَ الزَّمْعِیُّ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ أَبِی بَکْرِ بْنِ زَیْدِ بْنِ الْمُہَاجِرِ، قَالَ: أَخْبَرَنِی مُسْلِمُ بْنُ أَبِی سَہْلٍ النَّبَّالُ، قَالَ: أَخْبَرَنِی حَسَنُ بْنُ أُسَامَۃَ بْنِ زَیْدٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِی أَبِی أُسَامَۃُ ، قَالَ: طَرَقْتُ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ذَاتَ لَیْلَۃٍ لِبَعْضِ الْحَاجَۃِ ، قَالَ: فَخَرَجَ إلَیَّ وَہُوَ مُشْتَمِلٌ عَلَی شَیْئٍ لاَ أَدْرِی مَا ہُوَ، فَلَمَّا فَرَغْت مِنْ حَاجَتِی قُلْتُ: مَا ہَذَا الَّذِی أَنْتَ مُشْتَمِلٌ عَلَیْہِ، فَکَشَفَ فَإِذَا حَسَنٌ وَحُسَیْنٌ عَلَی وَرِکَیْہِ ، فَقَالَ: ہَذَانِ ابْنَایَ وَابْنَا ابْنَتِی ، اللَّہُمَّ إنَّک تَعْلَمُ أَنِّی أُحِبُّہُمَا فَأَحِبَّہُمَا۔ (ترمذی ۳۷۶۹۔ ابن حبان ۶۹۶۷)
(٣٢٨٤٦) حضرت اسامہ بن زید (رض) فرماتے ہیں کہ ایک رات میں کسی حاجت کے لیے نکلا تو میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پایا۔ پس آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میری طرف تشریف لائے اس حال میں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کچھ اٹھایا ہوا تھا مجھے نہیں معلوم تھا کہ وہ کیا ہے ؟ جب میں اپنی ضرورت سے فارغ ہوا ! تو میں نے پوچھا کہ یہ کیا چیز ہے جس کو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اٹھایا ہوا ہے ؟ پس آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے چادر ہٹائی تو وہ حضرت حسن (رض) اور حضرت حسین (رض) جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ران پر تھے۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : یہ دونوں میرے بیٹے ہیں اور میرے نواسے ہیں۔ اے اللہ ! تو جانتا ہے کہ میں ان دونوں سے محبت کرتا ہوں۔ پس تو بھی ان دونوں سے محبت فرما۔

32846

(۳۲۸۴۷) حَدَّثَنَا ہَوْذَۃُ بْنُ خَلِیفَۃَ ، عَنِ التَّیْمِیِّ ، عَنْ أَبِی عُثْمَانَ ، عَنْ أُسَامَۃَ بْنِ زَیْدٍ ، قَالَ: کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَأْخُذُنِی وَالْحَسَنَ فَیَقُولُ : اللَّہُمَّ إنِّی أُحِبُّہُمَا فَأَحِبَّہُمَا۔ (بخاری ۳۷۳۵۔ طبرانی ۲۶۴۲)
(٣٢٨٤٧) حضرت اسامہ بن زید (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مجھے اور حضرت حسن (رض) کو پکڑ کر یوں دعا فرمایا کرتے تھے : اے اللہ ! میں ان دونوں سے محبت کرتا ہوں پس تو بھی ان دونوں سے محبت فرما۔

32847

(۳۲۸۴۸) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : لَمَّا أَرَادَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ یُلاَعِنَ أَہْلَ نَجْرَانَ أَخَذَ بِیَدِ الْحَسَنِ وَالْحُسَیْنِ وَکَانَتْ فَاطِمَۃُ تَمْشِی خَلْفَہُ۔ (حاکم ۵۹۳)
(٣٢٨٤٨) حضرت مغیرہ (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت شعبی (رض) نے ارشاد فرمایا : کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اہل نجران سے مباھلہ کرنے کا ارادہ فرمایا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت حسن (رض) اور حضرت حسین (رض) کا ہاتھ پکڑا اور حضرت فاطمہ (رض) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیچھے چل رہی تھیں۔

32848

(۳۲۸۴۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ سَالِمٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إنِّی سَمَّیْتُ ابْنَیَّ ہَذَیْنِ بِاسْمِ ابْنَیْ ہَارُونَ : شَبِّرٌ ، وَشَبِّیرًا۔ (حاکم ۱۶۸۔ طبرانی ۲۷۷۸)
(٣٢٨٤٩) حضرت سالم (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : میں نے اپنے ان دو بیٹوں کا نام شَبِّرْ اور شبیر حضرت ہارون (علیہ السلام) کے دو بیٹوں کے ناموں پر رکھا ہے۔

32849

(۳۲۸۵۰) حَدَّثَنَا عِیسَی بْنُ یُونُسَ ، عَنِ الأَوْزَاعِیِّ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ أَبِی کَثِیرٍ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سَمِعَ بُکَائَ الْحَسَنِ ، أَوِ الْحُسَیْنِ فَقَامَ فَزِعًا ، فَقَالَ : إنَّ الْوَلَدَ لَفِتْنَۃٌ ، لَقَدْ قُمْت إلَیْہِ ، وَمَا أَعْقِلُ۔
(٣٢٨٥٠) حضرت یحییٰ بن ابی کثیر (رض) فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت حسن (رض) یا حضرت حسین (رض) کے رونے کی آواز سنی ، تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) گھبرا کر کھڑے ہوگئے۔ پھر ارشاد فرمایا : بیشک اولاد بھی فتنہ ہے تحقیق میں ان کے لیے کھڑا ہوا اور مجھے سمجھ بھی نہیں آئی۔

32850

(۳۲۸۵۱) حَدَّثَنَا ہَوْذَۃُ بْنُ خَلِیفَۃَ ، عَنِ التَّیْمِیِّ ، عَنْ أَبِی عُثْمَانَ ، عَنْ أُسَامَۃَ قَالَ : کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَأْخُذُنِی وَالْحَسَنَ فَیَقُولُ : اللَّہُمَّ إنِّی أُحِبُّہُمَا فَأَحِبَّہُمَا۔
(٣٢٨٥١) حضرت اسامہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مجھے اور حضرت حسن (رض) کو پکڑ کر یوں دعا فرمایا کرتے تھے۔ اے اللہ ! میں ان دونوں سے محبت کرتا ہوں پس تو بھی ان دونوں سے محبت فرما۔

32851

(۳۲۸۵۲) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ الْحَارِثِ ، عَنْ زُہَیْرِ بْنِ الأَقْمَرِ ، قَالَ : بَیْنَمَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِیٍّ یَخْطُبُ إذْ قَامَ رَجُلٌ مِنَ الأَسْدِ آدَم طِوَالٌ ، فَقَالَ : لقد رَأَیْت رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَاضِعَہُ فِی حبوتہ یَقُولُ : مَنْ أَحَبَّنِی فَلْیُحِبَّہُ ، فَلْیُبَلِّغَ الشَّاہِدُ الْغَائِبَ۔ (بخاری ۳۱۲۔ احمد ۳۶۶)
(٣٢٨٥٢) حضرت زہیر بن اقمر (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت حسن بن علی (رض) خطبہ ارشاد فرما رہے تھے کہ قبیلہ ازد کا ایک شخص بہت لمبے قد والا تھا کھڑا ہو کر کہنے لگا : تحقیق میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیکھا ہے کہ وہ اپنا ہاتھ اس شخص کی کوکھ میں رکھ کر ارشاد فرما رہے تھے : جو شخص مجھ سے محبت کرتا ہے پس چاہیے کہ وہ اس سے محبت کرے اور چاہیے کہ حاضر شخص اس بات کو غائب شخص تک پہنچا دے۔

32852

(۳۲۸۵۳) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ الْحُبَابِ ، قَالَ : حدَّثَنِی حُسَیْنُ بْنُ وَاقِدٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِی عَبْدُ اللہِ بْنُ بُرَیْدَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَخْطُبُنَا فَأَقْبَلَ حَسَنٌ وَحُسَیْنٌ عَلَیْہِمَا قَمِیصَانِ أَحْمَرَانِ یَمْشِیَانِ وَیَعْثُرَانِ وَیَقُومَانِ فَنَزَلَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَأَخَذَہُمَا فَوَضَعَہُمَا بَیْنَ یَدَیْہِ ، ثُمَّ قَالَ : صَدَقَ اللَّہُ وَرَسُولُہُ : (إنَّمَا أَمْوَالُکُمْ وَأَوْلادُکُمْ فِتْنَۃٌ) رَأَیْت ہَذَیْنِ فَلَمْ أَصْبِرْ ، ثُمَّ أَخَذَ فِی خُطْبَتِہِ۔
(٣٢٨٥٣) حضرت بریدہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمیں خطبہ ارشاد فرما رہے تھے کہ اتنے میں حضرت حسن (رض) اور حضرت حسین (رض) سامنے سے تشریف لائے اس حال میں کہ ان دونوں نے سرخ قمیصیں پہنی ہوئی تھیں۔ وہ دونوں چلتے پھر ٹھوکر کھا کر گرجاتے پھر کھڑے ہوتے۔ تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) منبر سے اترے اور ان دونوں کو پکڑ کر اپنے سامنے بٹھا لیا پھر ارشاد فرمایا : اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سچ ارشاد فرمایا : یقیناً تمہارے اموال اور تمہاری اولادیں فتنہ ہیں۔ میں نے ان دو ونوں کو دیکھا پس مجھ سے صبر نہیں ہوا۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خطبہ شروع فرما دیا۔

32853

(۳۲۸۵۴) حَدَّثَنَا أَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ ، قَالَ : حدَّثَنِی مَہْدِیُّ بْنُ مَیْمُونٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ أَبِی یَعْقُوبَ ، عَنِ ابْنِ أَبِی نُعْمٍ ، قَالَ : کُنْتُ جَالِسًا عِنْدَ ابْنِ عُمَرَ فَأَتَاہُ رَجُلٌ فَسَأَلَہُ عَنْ دَمِ الْبَعُوضِ ؟ فقال لہ ابن عمر : ممن أنت ؟ فقال : رجل مِنْ أَہْلِ الْعِرَاقِ ، فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ : ہَا انْظُرُوا ہَذَا یَسْأَلُنِی عَنْ دَمِ الْبَعُوضِ وَہُمْ قَتَلُوا ابْنَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَقَدْ سَمِعْت رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : ہُمَا رَیْحَانَتِی مِنَ الدُّنْیَا۔ (بخاری ۵۹۹۴۔ احمد ۹۳)
(٣٢٨٥٤) حضرت ابن ابی نعیم (رض) فرماتے ہیں کہ میں حضرت ابن عمر (رض) کے پاس بیٹھا ہوا تھا اتنے میں ایک آدمی آیا اور اس نے مچھر کے خون سے متعلق سوال کیا۔ تو حضرت ابن عمر (رض) نے اس سے ارشاد فرمایا : تم کہاں کے ہو ؟ اس نے کہا : کہ میں اہل عراق میں سے ہوں۔ اس پر حضرت ابن عمر (رض) نے فرمایا : اوہ ! لوگو اس کی طرف دیکھو یہ ایک مچھر کے خون کے متعلق مجھ سے سوال کررہا ہے حالانکہ ان لوگوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بیٹے کو قتل کردیا ! اور میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یوں ارشاد فرماتے ہوئے سنا تھا کہ : وہ دونوں میری دنیا کی بہاریں ہیں۔

32854

(۳۲۸۵۵) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنِی جَرِیرُ بْنُ حَازِمٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ أَبِی یَعْقُوبَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ شَدَّادٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : دُعِیَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِصَلاۃٍ ، فَخَرَجَ وَہُوَ حَامِلٌ حَسَنًا ، أَوْ حُسَیْنًا فَوَضَعَہُ إِلَی جَنْبِہِ فَسَجَدَ بَیْنَ ظَہْرَانَیْ صَلاتِہِ سَجْدَۃً أَطَالَ فِیہَا ، قَالَ أَبِی : فَرَفَعْت رَأْسِی مِنْ بَیْنِ النَّاسِ فَإِذَا الْغُلامُ عَلَی ظَہْرِ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَأَعَدْت رَأْسِی فَسَجَدْت ، فَلَمَّا سَلَّمَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ لَہُ الْقَوْمُ : یَا رَسُولَ اللہِ لَقَدْ سَجَدْت فِی صَلاتِکَ ہَذِہِ سَجْدَۃً مَا کُنْت تَسْجُدُہَا ، أَفَکَانَ یُوحَی إلَیْک ؟ قَالَ : لاَ وَلَکِنَّ ابْنِی ارْتَحَلَنِی فَکَرِہْت أَنْ أُعَجِّلَہُ حَتَّی یَقْضِیَ حَاجَتَہُ۔ (احمد ۴۹۳۔ حاکم ۶۲۶)
(٣٢٨٥٥) حضرت عبداللہ بن شداد (رض) فرماتے ہیں کہ ان کے والد حضرت شداد (رض) نے ارشاد فرمایا : کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نماز کے لیے بلایا گیا۔ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس حال میں تشریف لائے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت حسن (رض) اور حضرت حسین (رض) کو اٹھایا ہوا تھا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو اپنے پہلو میں بٹھایا ہوا تھا۔ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان دونوں کی پیٹھوں کے درمیان اپنی نماز کا سجدہ ادا کیا اور بہت لمبا سجدہ کیا ۔ میرے والد نے کہا : کہ میں نے تمام لوگوں کے درمیان سے سر اٹھایا۔ تو دیکھا ایک بچہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پیٹھ پر بیٹھا ہوا ہے۔ تو میں نے دوبارہ اپنا سر سجدہ میں رکھ دیا۔ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سلام پھیرا تو لوگوں نے پوچھا : اے اللہ کے رسول 5! آج آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی نماز میں ایسا سجدہ کیا جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کبھی زندگی بھر نہیں کیا۔ کیا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر کوئی وحی کی جار ہی تھی ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : نہیں ! بلکہ میرا بیٹا مجھ پر سوار ہوگیا تھا۔ تو میں نے ناپسند کیا کہ میں جلدی سے اٹھ جاؤں یہاں تک کہ وہ اپنی خواہش پوری کرلے۔

32855

(۳۲۸۵۶) حَدَّثَنَا شَبَابَۃُ ، قَالَ : حدَّثَنَا شُعْبَۃُ ، عَنْ عَدِیِّ بْنِ ثَابِتٍ ، عَنِ الْبَرَائِ ، قَالَ : رَأَیْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حَمَلَ الْحَسَنَ بْنَ عَلِیٍّ عَلَی عَاتِقِہِ ، وَقَالَ : اللَّہُمَّ إنِّی أُحِبُّہُ فَأَحِبَّہُ ، قَالَ شُعْبَۃُ : فَقُلْتُ لِعَدِیٍّ : حَسَنٌ، قَالَ : نَعَمْ۔ (بخاری ۳۷۴۹۔ احمد ۲۸۳)
(٣٢٨٥٦) حضرت براء بن عازب (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیکھا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت حسن بن علی (رض) کو اپنے کندھے پر اٹھایا ہوا تھا۔ اور فرمایا : اے اللہ ! میں اس سے محبت کرتا ہوں ۔ پس تو بھی اس سے محبت فرما۔ شعبہ (رض) کہتے ہیں۔ میں نے حضرت عدی (رض) سے پوچھا : حضرت حسن (رض) سے ؟ آپ (رض) نے فرمایا : جی ہاں !

32856

(۳۲۸۵۷) حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا مُعَاوِیَۃُ بْنُ أَبِی مُزَرِّدٍ الْمَدِینِیُّ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : بَصُرَ عَیْنَایَ ہَاتَانِ وَسَمِعَ أُذُنَایَ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَہُوَ آخِذٌ بِیَدِ حَسَنٍ ، أَوْ حُسَیْنٍ وَہُوَ یَقُولُ : تَرَقَّ عَیْنَ بَقَّۃٍ ، قَالَ : فَیَضَعُ الْغُلامُ قَدَمَہُ عَلَی قَدَمِ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، ثُمَّ یَرْفَعُہُ فَیَضَعُہُ عَلَی صَدْرِہِ ، ثُمَّ یَقُولُ: افْتَحْ فَاک ، قَالَ: ثُمَّ یُقَبِّلُہُ ، ثُمَّ یَقُولُ: اللَّہُمَّ إنِّی أُحِبُّہُ فَأَحِبَّہُ۔ (بخاری ۲۴۹۔ طبرانی ۲۶۵۲)
(٣٢٨٥٧) حضرت ابو مزَرَّد مدینی (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت ابوہریرہ (رض) نے ارشاد فرمایا : میری ان دونوں آنکھوں نے دیکھا اور میرے دونوں کانوں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سنا۔ اس حال میں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت حسن (رض) یا حضرت حسین (رض) کا ہاتھ پکڑا ہو اتھا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرما رہے تھے۔ آنکھ کی طرح پتلا ہوجا ۔ راوی کہتے ہیں۔ کہ پس بچے نے اپنا پاؤں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاؤں پر رکھا پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو اٹھا کر اپنے سینہ پر بٹھا لیا۔ اور پھر ارشاد فرمایا : اپنا منہ کھولو۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کا بوسہ لیا اور ارشاد فرمایا : اے اللہ ! میں اس سے محبت کرتا ہوں پس تو بھی اس سے محبت فرما۔

32857

(۳۲۸۵۸) حَدَّثَنَا مُطَّلِبُ بْنُ زِیَادٍ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ أَبِی جَعْفَرٍ ، قَالَ : اصْطَرَعَ الْحَسَنُ وَالْحُسَیْنُ ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ہی حُسَیْنٌ ، فَقَالَتْ فَاطِمَۃُ : کَأَنَّہُ أَحَبُّ إلَیْک ؟ قَالَ : لاَ وَلَکِنَّ جِبْرِیلَ یَقُولُ : ہی حُسَیْنٌ۔ (ابن عدی ۱۶۷۸)
(٣٢٨٥٨) حضرت ابو جعفر (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت حسن (رض) اور حضرت حسین (رض) نے ایک دوسرے کو پچھاڑا، تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : حسین (رض) جلدی کرو۔ حضرت فاطمہ (رض) نے پوچھا : کہ وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو زیادہ پسند ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : نہیں بلکہ جبرائیل (علیہ السلام) کہہ رہے تھے۔ حسین (رض) جلدی کرو۔

32858

(۳۲۸۵۹) حَدَّثَنَا مُطَّلِبُ بْنُ زِیَادٍ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ أَبِی جَعْفَرٍ ، قَالَ : مَرَّ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِالْحَسَنِ وَالْحُسَیْنِ وَہُوَ حَامِلُہُمَا عَلَی مَجْلِسٍ مِنْ مَجَالِسِ الأَنْصَارِ فَقَالُوا : یَا رَسُولَ اللہِ نَعِمَتِ الْمَطِیَّۃُ ، قَالَ : وَنِعْمَ الرَّاکِبَانِ۔ (طبرانی ۳۹۹۹)
(٣٢٨٥٩) حضرت ابو جعفر (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت حسن (رض) اور حضرت حسین (رض) کو اٹھائے ہوئے انصار کی مجلسوں میں سے ایک مجلس پر گزرے۔ تو وہ لوگ کہنے لگے ۔ کتنی اچھی سواری ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : دونوں سوار بھی بہت اچھے ہیں۔

32859

(۳۲۸۶۰) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا وُہَیْبٌ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُثْمَانَ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ أَبِی رَاشِدٍ ، عَنْ یَعْلَی الْعَامِرِیِّ أَنَّہُ خَرَجَ مَعَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إِلَی طَعَامٍ دَعُوا لَہُ ، فَإِذَا حُسَیْنٌ یَلْعَبُ مَعَ الْغِلْمَانِ فِی الطَّرِیقِ فاستمثل أَمَامَ الْقَوْمِ ، ثُمَّ بَسَطَ یَدَہُ وَطَفِقَ الصَّبِیُّ یَفِرُّ ہَاہُنَا مَرَّۃً وَہَاہُنَا ، وَجَعَلَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُضَاحِکُہُ حَتَّی أَخَذَہُ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَجَعَلَ إحْدَی یَدَیْہِ تَحْتَ ذَقْنِہِ وَالأُخْرَی تَحْتَ قَفَاہُ ، ثُمَّ أَقْنَعَ رَأْسَہُ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَوَضَعَ فَاہُ عَلَی فِیہِ فَقَبَّلَہُ ، فَقَالَ : حُسَیْنٌ مِنِّی وَأَنَا مِنْ حُسَیْنٍ ، أَحَبَّ اللَّہُ مَنْ أَحَبَّ حُسَیْنًا ، حُسَیْنٌ سِبْطٌ مِنَ الأَسْبَاطِ۔ (ترمذی ۳۷۷۵۔ ابن حبان ۸۰۷)
(٣٢٨٦٠) حضرت یعلی یعمری (رض) فرماتے ہیں کہ وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ کھانے کی دعوت میں جانے کے لیے نکلے ، تو راستہ میں حضرت حسین (رض) بچوں کے ساتھ کھیل رہے تھے۔ تو وہ لوگوں کے سامنے کھڑے ہوگئے پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنا ہاتھ بڑھایا تو بچہ نے ادھر ادھر بھاگنا شروع کردیا۔ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہنستے رہے۔ پھر یہاں تک کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو پکڑا اور اپنا ایک ہاتھ ان کی تھوڑی کے نیچے رکھا اور اپنا دوسرا ہاتھ ان کی گدی کے نیچے رکھا پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنا سر نیچے جھکا کر اپنے منہ کو ان کے منہ پر رکھ کر ان کا بوسہ لیا اور ارشاد فرمایا : حسین مجھ سے ہے اور میں حسین (رض) سے ہوں۔ اور حسین (رض) تمام نواسوں میں سب سے بہتر نواسے ہیں۔

32860

(۳۲۸۶۱) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ بْنِ أَبِی خَالِدٍ ، عَنْ عَامِرٍ ، قَالَ : أُخْبِرْت أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَرْسَلَ إِلَی امْرَأَۃِ جَعْفَرٍ أَنِ ابْعَثِی إلَیَّ بَنِی جَعْفَرٍ ، قَالَ : فَأُتِیَ بِہِمْ ، فَقَالَ : اللَّہُمَّ إنَّ جَعْفَرًا قَدْ قَدِمَ إلَیْک إِلَی أَحْسَنِ الثَّوَابِ فَاخْلُفْہُ فِی ذُرِّیَّتِہِ بِخَیْرِ مَا خَلَفْت عَبْدًا مِنْ عِبَادِکَ الصَّالِحِینَ۔(احمد ۱۶۹۰)
(٣٢٨٦١) حضرت عامر (رض) فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت جعفر (رض) کی بیوی کی طرف قاصد بھیجا کہ وہ حضرت جعفر (رض) کے بیٹوں کو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس بھیج دیں۔ پس ان بچوں کو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس لایا گیا۔ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یوں دعا فرمائی۔ اے اللہ ! یقیناً جعفر تیرے پاس آگیا اچھے ثواب کی طرف۔ پس تو اس کی اولاد میں سب سے بہتر شخص کو جانشین بنا۔ جیسے تو نے اپنے نیک بندوں میں سے ایک بندے کو جانشین بنایا۔

32861

(۳۲۸۶۲) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ بْنِ أَبِی خَالِدٍ ، عَنْ عَامِرٍ ، قَالَ : لَمَّا قَدِمَ جَعْفَرٌ مِنْ أَرْضِ الْحَبَشِ لَقِیَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ أَسْمَائَ بِنْتَ عُمَیْسٍ ، فَقَالَ لَہَا : سَبَقْنَاکُمْ بِالْہِجْرَۃِ وَنَحْنُ أَفْضَلُ مِنْکُمْ ، فَقَالَتْ : لاَ أَرْجِعُ حَتَّی آتِیَ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَدَخَلَتْ عَلَیْہِ ، فَقَالَتْ : یَا رَسُولَ اللہِ ، لَقِیت عُمَرَ فَزَعَمَ أَنَّہُ أَفْضَلُ مِنَّا وَأَنَّہُمْ سَبَقُونَا بِالْہِجْرَۃِ ، فَقَالَ : نَبِیُّ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : بَلْ أَنْتُمْ ہَاجَرْتُمْ مَرَّتَیْنِ قَالَ إسْمَاعِیلُ : فَحَدَّثَنِی سَعِیدُ بْنُ أَبِی بُرْدَۃَ ، قَالَ : قَالَتْ یَوْمَئِذٍ لِعُمَرَ : مَا ہُوَ کَذَلِکَ ، کُنَّا مُطَرَّدِینَ بِأَرْضِ الْبُغَضَائِ وَالْبُعَدَائِ وَأَنْتُمْ عِنْدَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَعِظُ جَاہِلَکُمْ وَیُطْعِمُ جَائِعَکُمْ۔
(٣٢٨٦٢) حضرت عامر (رض) فرماتے ہیں کہ جب حضرت جعفر (رض) حبشہ سے آئے تو حضرت عمر بن خطاب (رض) حضرت اسماء بنت عمیس (رض) سے ملے اور ان سے فرمایا : ہم لوگ ہجرت میں تم سے سبقت لے گئے اور ہم تم سے افضل ہیں۔ تو وہ کہنے لگیں۔ میں واپس نہیں لوٹوں گی یہاں تک کہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آؤں۔ پھر وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر داخل ہوئیں اور عرض کیا : اے اللہ کے رسول 5! میں عمر (رض) سے ملی تو انھوں نے کہا : کہ یقیناً وہ ہم سے افضل ہیں۔ اور بیشک وہ ہم سے ہجرت میں سبقت لے گئے ہیں ! اس پر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : نہیں بلکہ تم لوگوں نے دو مرتبہ ہجرت کی۔
حضرت اسماعیل (رض) فرماتے ہیں کہ مجھے حضرت سعید بن ابی بردہ (رض) نے بیان فرمایا : اس دن حضرت اسمائ (رض) نے حضرت سے یوں فرمایا : ایسی بات نہیں۔ ہم لوگ تو دشمنوں اور نسب سے دور لوگوں کی زمین میں تھے ۔ اور تم لوگ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ تھے۔ جو تمہارے جاہلوں کو نصیحت فرما دیتے اور تم میں سے بھوکوں کو کھانا کھلا دیتے۔

32862

(۳۲۸۶۳) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ بْنِ أَبِی خَالِدٍ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا أَبُو مَیْسَرَۃَ أَنَّہُ لَمَّا أَتَی النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَتْلُ جَعْفَرٍ وَزَیْدٍ ، وَعَبْدِ اللہِ بْنِ رَوَاحَۃَ ذَکَرَ أَمْرَہُمْ ، فَقَالَ : اللَّہُمَّ اغْفِرْ لِزَیْدٍ ثَلاثًا ، اللَّہُمَّ اغْفِرْ لِجَعْفَرٍ وَلِعَبْدِ اللہِ بْنِ رَوَاحَۃَ۔
(٣٢٨٦٣) حضرت ابو میسرہ (رض) فرماتے ہیں کہ جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حضرت جعفر (رض) ، حضرت زید اور حضرت عبداللہ بن رواحہ (رض) کے شہید ہونے کی خبر ملی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کا ذکر فرمایا : پھر یوں دعا فرمائی۔ اے اللہ ! زید کی مغفرت فرما۔ تین مرتبہ فرمایا : اے اللہ ! جعفر کی مغفرت فرما اور عبداللہ بن رواحہ کی بھی۔

32863

(۳۲۸۶۴) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ آدَمَ ، قَالَ : حدَّثَنَا قُطْبَۃُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیزِ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ عَدِیِّ بْنِ ثَابِتٍ ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِی الْجَعْدِ ، قَالَ : أُرِیَہُمَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی النَّوْمِ فرَأَی جَعْفَرًا مَلَکًا ذَا جَنَاحَیْنِ مُضَرَّجًا بِالدِّمَائِ ، وَزَیْدًا مُقَابِلُہُ عَلَی السَّرِیرِ ، وَابْنَ رَوَاحَۃَ جَالِسًا مَعَہُمْ کَأَنَّہُمْ مُعْرِضُونَ عَنْہُ۔
(٣٢٨٦٤) حضرت سالم بن ابی الجعد (رض) فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ تینوں خواب میں دکھلائے گئے۔ پس آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت جعفر کو دو پروں والے فرشتہ کی صورت میں دیکھا جو خون میں لت پت تھے۔ اور زید ان کے سامنے تخت پر تھے اور ابن رواحہ (رض) بھی ان کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے۔ گویا کہ وہ ان سے اعراض کرنے والے تھے۔

32864

(۳۲۸۶۵) حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا إسْرَائِیلُ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ ہُبَیْرَۃَ بْنِ یَرِیمَ ، وہَانِئٍ ، عَنْ علِیٍّ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِجَعْفَرٍ : أَشْبَہْت خَلْقِی وَخُلُقِی۔
(٣٢٨٦٥) حضرت علی (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت جعفر (رض) سے ارشاد فرمایا : تم تخلیق اور اخلاق میں میرے مشابہہ ہو۔

32865

(۳۲۸۶۶) حَدَّثَنَا عَبْد اللہ بن نُمَیْر ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنِ الْحَکَمِ ، عَنْ مِقْسَمٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ لِجَعْفَرٍ : أَشْبَہْت خَلْقِی وَخُلُقِی۔
(٣٢٨٦٦) حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت جعفر (رض) سے ارشاد فرمایا : تم تخلیق اور اخلاق میں میرے مشابہہ ہو۔

32866

(۳۲۸۶۷) حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ بْنُ مُوسَی ، عَنْ إسْرَائِیلَ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنِ الْبَرَائِ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ لِجَعْفَرٍ : أَشْبَہْت خَلْقِی وَخُلُقِی۔ (بخاری ۲۶۹۹۔ ترمذی ۳۷۶۵)
(٣٢٨٦٧) حضرت براء بن عازب (رض) فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت جعفر (رض) سے ارشاد فرمایا : تم تخلیق اور اخلاق میں میرے مشابہہ ہو۔

32867

(۳۲۸۶۸) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَنْ زَائِدَۃَ ، عَنْ أَبِی فَرْوَۃَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِی لَیْلَی أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : أَمَّا أَنْتَ یا جَعْفَر فَأَشْبَہْت خَلْقِی وَخُلُقِی۔
(٣٢٨٦٨) حضرت عبد الرحمن بن ابی لیلیٰ (رض) فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : تم اے جعفر ! تخلیق اور اخلاق میں میرے مشابہہ ہو۔

32868

(۳۲۸۶۹) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ ، عَنْ زَکَرِیَّا ، عَنْ عَامِرٍ أَنَّ جَعْفَرَ بْنَ أَبِی طَالِبٍ قُتِلَ یَوْمَ مُؤْتَۃَ بِالْبَلْقَائِ ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: اللَّہُمَّ اخْلُفْ جَعْفَرًا فِی أَہْلِہِ بِأَفْضَلِ مَا خَلَفْت عَبْدًا مِنْ عِبَادِکَ الصَّالِحِینَ۔
(٣٢٨٦٩) حضرت عامر (رض) فرماتے ہیں کہ غزوہ موتہ کے دن بلقاء مقام پر حضرت جعفر (رض) کو قتل کردیا گیا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دعا فرمائی : اے اللہ ! تو جعفر کے اہل خانہ میں اس شخص کو جانشین بنا جس کو تو نے اپنے نیک بندوں میں سے جانشین بنایا ہو۔

32869

(۳۲۸۷۰) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَنِ الأَجْلَحِ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : أُتِیَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حِینَ افْتَتَحَ خَیْبَرَ فَقِیلَ لَہُ : قَدِمَ جَعْفَرٌ مِنْ عِنْدِ النَّجَاشِیِّ ، فَقَالَ : مَا أَدْرِی بِأَیِّہِمَا أَنَا أَفْرَحُ بِقُدُومِ جَعْفَرٍ ، أَوْ بِفَتْحِ خَیْبَرَ ، ثُمَّ تَلَقَّاہُ وَالْتَزَمَہُ وَقَبَّلَ مَا بَیْنَ عَیْنَیْہِ۔
(٣٢٨٧٠) امام شعبی (رض) فرماتے ہیں کہ جب خیبر کا قلعہ فتح ہوا تو کسی نے آ کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حضرت جعفر (رض) کے نجاشی کے پاس سے آنے کی خبر سنائی اس پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : مجھے نہیں معلوم کہ مجھے ان دونوں میں سے کس بات کی زیادہ خوشی ہے۔ جعفر (رض) کے آنے کی یا خیبر کے فتح ہونے کی۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے ملے اور ان کو اپنے سے چمٹا لیا پھر دونوں آنکھوں کے درمیان والی جگہ پر ان کا بوسہ لیا۔

32870

(۳۲۸۷۱) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا زَکَرِیَّا ، عَنْ عَامِرٍ أَنَّ عَلِیًّا تَزَوَّجَ أَسْمَائَ ابْنَۃَ عُمَیْسٍ فَتَفَاخَرَ ابْنَاہَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ وَمُحَمَّدُ بْنُ أَبِی بَکْرٍ ، فَقَالَ : کُلُّ وَاحِدٍ مِنْہُمَا : أَنَا أَکْرَمُ مِنْک ، وَأَبِی خَیْرٌ مِنْ أَبِیک ، فَقَالَ لَہَا عَلِیٌّ : اقْضِی بَیْنَہُمَا ، فَقَالَتْ : مَا رَأَیْت شَابًّا مِنَ الْعَرَبِ خَیْرًا مِنْ جَعْفَرٍ ، وَمَا رَأَیْت کَہْلاً کَانَ خَیْرًا مِنْ أَبِی بَکْرٍ ، فَقَالَ لَہَا عَلِیٌّ : مَا تَرَکْت لَنَا شَیْئًا وَلَوْ قُلْت غَیْرَ ہَذَا لَمَقَتُّک ، فَقَالَتْ : وَاللہِ إنَّ ثَلاثَۃً أَنْتَ أَخَسُّہُمْ لَخِیَارٌ۔ (ابن سعد ۲۸۵)
(٣٢٨٧١) حضرت عامر (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت علی (رض) نے حضرت اسماء بنت عمیس (رض) سے شادی کرلی، تو حضرت اسماء کے بیٹے محمد بن جعفر اور محمد بن ابی بکر آپس میں ایک دوسرے پر فخر کرنے لگے۔ ان ددنوں میں سے ایک نے کہا : میں تجھ سے زیادہ معزز ہوں اور میرا باپ تیرے باپ سے افضل ہے اس پر حضرت علی (رض) نے فرمایا : میں ان دونوں کے درمیان فیصلہ کروں گا۔ اتنے میں حضرت اسمائ (رض) نے فرمایا : میں نے عرب کا کوئی جوان جعفر (رض) سے بہتر نہیں دیکھا۔ اور میں نے کوئی بوڑھا ابوبکر (رض) سے بہتر نہیں دیکھا۔ تو حضرت علی (رض) نے ان سے کہا : تو نے ہمارے لیے کوئی بات ہی نہیں چھوڑی۔ اگر تم اس کے علاوہ کچھ اور جواب دیتی تو میں تم سے بہت سخت ناراض ہوتا۔ حضرت اسمائ (رض) نے فرمایا : اور تم ان تینوں میں سب سے کم بہتر ہو۔

32871

(۳۲۸۷۲) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، عَنْ عُمَیْرِ بْنِ إِسْحَاقَ أَنَّ حَمْزَۃَ کَانَ یُقَاتِلُ بَیْنَ یَدَیِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِسَیْفَیْنِ وَیَقُولُ : أَنَا أَسَدُ اللہِ وَأَسَدُ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔ (حاکم ۱۹۲)
(٣٢٨٧٢) حضرت ابن عون (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عمیر بن اسحاق (رض) نے ارشاد فرمایا : کہ حضرت حمزہ (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آگے دو تلواروں سے لڑا کرتے تھے اور فرماتے جاتے ! میں اللہ کا شیر ہوں اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا شیر ہوں۔

32872

(۳۲۸۷۳) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ ، عَنْ زَکَرِیَّا ، عَنْ عَامِرٍ ، قَالَ : قتِلَ حَمْزَۃُ یَوْمَ أُحُدٍ وَقُتِلَ حَنْظَلَۃُ بْنُ الرَّاہِبِ الَّذِی طَہَّرَتْہُ الْمَلائِکَۃُ یَوْمَ أُحُدٍ۔ (بیہقی ۱۵)
(٣٢٨٧٣) حضرت زکریا (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عامر (رض) نے ارشاد فرمایا : غزوہ احد کے دن حضرت حمزہ (رض) کو شہید کردیا گیا۔ اور حضرت حنظلہ بن راھب (رض) کو بھی شہید کردیا گیا جن کو فرشتوں نے غسل دے کر پاک کیا۔

32873

(۳۲۸۷۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ، قَالَ : لَمَّا أُصِیبَ حَمْزَۃُ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ وَمُصْعَبُ بْنُ عُمَیْرٍ یَوْمَ أُحُدٍ وَرَأَوْا مِنَ الْخَیْرِ مَا رَأَوْا ، قَالُوا : یَا لَیْتَ إخْوَانَنَا یَعْلَمُونَ مَا أَصَبْنَا مِنَ الْخَیْرِ کَیْ یَزْدَادُوا رَغْبَۃً ، فَقَالَ اللَّہُ : أَنَا أُبَلِّغُ عَنْکُمْ فَأَنْزَلَ اللَّہُ : {وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِینَ قُتِلُوا فِی سَبِیلِ اللہِ أَمْوَاتًا بَلْ أَحْیَائٌ عِنْدَ رَبِّہِمْ یُرْزَقُونَ} إِلَی قَوْلِہِ {وَأَنَّ اللَّہَ لاَ یُضِیعُ أَجْرَ الْمُؤْمِنِینَ}۔
(٣٢٨٧٤) حضرت سالم (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت سعید بن جبیر (رض) نے ارشاد فرمایا : جب حضرت حمزہ بن عبد المطلب اور حضرت مصعب بن عمیر (رض) غزوہ احد کے دن شہید ہوگئے اور انھوں نے جو ثواب و انعام دیکھنا تھا دیکھ لیا تو کہنے لگے۔ کاش ہمارے بھائی بھی اس کے بارے میں جان لیتے جو ہمیں ثواب و انعام ملا ہے تاکہ ان کے شوق میں مزید اضافہ ہوتا۔ تو اللہ رب العزت نے فرمایا : میں تمہاری طرف سے یہ پیغام ان کو پہنچاؤں گا ۔ پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں ! ترجمہ : اور تم ہرگز گمان مت کرو ان لوگوں کو مردہ جو اللہ کے راستہ میں قتل کردیے گئے بلکہ وہ اپنے رب کے ہاں زندہ ہیں اور رزق دیے جاتے ہیں۔ اللہ کے اس قول تک ۔۔۔ اور یقیناً اللہ مومنین کا اجر ضائع نہیں کرتا۔

32874

(۳۲۸۷۵) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ یَزِیدَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ الْحَارِثِ ، قَالَ : حدَّثَنِی عَبْدُ الْمُطَّلِبِ بْنُ رَبِیعَۃَ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ أَنَّ الْعَبَّاسَ دَخَلَ عَلَی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وأنا عندہ ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَنْ أَغْضَبَک ، قَالَ : یَا رَسُولَ اللہِ : مَا لَنَا وَلِقُرَیْشٍ إذَا تَلاقَوْا تَلاقَوْا بِوُجُوہٍ مُبَشِّرَۃٍ ، وَإِذَا لَقَوْنَا لَقَوْنَا بِغَیْرِ ذَلِکَ ، قَالَ : فَغَضِبَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حَتَّی احْمَرَّ وَجْہُہُ وَحَتَّی اسْتَدَرَّ عَرَقٌ بَیْنَ عَیْنَیْہِ ، وَکَانَ إذَا غَضِبَ اسْتَدَرَّ ، فَلَمَّا سُرِّیَ عَنْہُ ، قَالَ : وَالَّذِی نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہِ لاَ یَدْخُلُ قَلْبَ رَجُلٍ الإِیمَانُ حَتَّی یُحِبَّکُمْ لِلَّہِ وَلِرَسُولِہِ ، ثُمَّ قَالَ : أَیُّہَا النَّاسُ ، مَنْ آذَی الْعَبَّاسَ فَقَدْ آذَانِی، إنَّمَا عَمُّ الرَّجُلِ صِنْوُ أَبِیہِ۔ (ترمذی ۳۷۸۵۔ احمد ۲۰۷)
(٣٢٨٧٥) حضرت عبد المطب بن ربیعہ بن حارث بن عبد المطلب (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عباس (رض) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے اس حال میں کہ میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس تھا۔ تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : کس نے آپ (رض) کو غصہ دلایا ؟ آپ (رض) نے فرمایا : اے اللہ کے رسول 5! قریش کے لوگوں کو ہم سے کیا ہوا ؟ جب وہ آپس میں ملتے ہیں تو بڑے خوشگوار چہرے سے ملتے ہیں اور جب ہم سے ملتے ہیں تو وہ اس طرح نہیں ہوتے ؟ راوی کہتے ہیں : یہ بات سن کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو غصہ آگیا یہاں تک کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا چہرہ غصہ سے سرخ ہوگیا اور دونوں آنکھوں کے درمیان موجود رَگ پھڑکنے لگی۔ اور جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غصہ ہوتے تو یہ رگ پھڑکتی تھی۔ پس جب آپ (رض) چلے گئے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جان ہے۔ ایمان ہرگز داخل نہیں ہوگا کسی آدمی کے دل میں یہاں تک کہ وہ تم لوگوں سے اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وجہ سے محبت کرے ، پھر ارشاد فرمایا : اے لوگو ! جس نے حضرت عباس (رض) کو اذیت پہنچائی، تحقیق اس نے مجھے ایذا پہنچائی۔ بیشک آدمی کا چچا اس کے باپ کی مانند ہوتا ہے۔

32875

(۳۲۸۷۶) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ شَابُورٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : احْفَظَونِی فِی الْعَبَّاسِ فَإِنَّہُ بَقِیَّۃُ آبَائِی ، وَإِنَّ عَمَّ الرَّجُلِ صِنْوُ أَبِیہِ۔
(٣٢٨٧٦) حضرت مجاہد (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : تم لوگ میری حفاظت کیا کرو حضرت عباس (رض) کے بارے میں۔ پس بیشک میرے آباؤ اجداد میں سے بس وہی باقی ہیں۔ اور بیشک آدمی کا چچا باپ کی مانند ہوتا ہے۔

32876

(۳۲۸۷۷) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ أَبِی الضُّحَی مُسْلِمِ بْنِ صُبَیْحٍ ، قَالَ : قَالَ الْعَبَّاسُ : یَا رَسُولَ اللہِ إنَّا لَنَرَی وُجُوہَ قَوْمٍ وَقَائِعَ أَوْقَعْتُہَا فِیہِمْ ، فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لَنْ یُصِیبُوا خَیْرًا حَتَّی یُحِبُّوکُمْ لِلَّہِ وَلِقَرَابَتِی ، أتَرْجُو سَلْہَبٌ شَفَاعَتِی ، وَلا یَرْجُوہَا بَنُو عَبْدِ الْمُطَّلِبِ۔ (طبرانی ۱۲۲۲۸)
(٣٢٨٧٧) حضرت ابو الضحی مسلم بن صبیح (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عباس (رض) نے فرمایا : اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ہم لوگوں کے چہروں میں ناگواریاں دیکھتے ہیں ، تو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : یہ لوگ ہرگز بھلائی نہیں پاسکتے یہاں تک کہ یہ تم سے محبت کریں میری قرابت کی وجہ سے، اے بنو سلہب والو کیا تم میری شفاعت کی امید کرتے ہو اور بنو عبد المطلب والے نہیں کرتے۔

32877

(۳۲۸۷۸) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا ثَابِتٌ ، عَنْ أَبِی عُثْمَانَ النَّہْدِیِّ أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ لِلْعَبَّاسِ : ہَلُمَّ ہَاہُنَا فَإِنَّک صِنْوی ۔ (ابن سعد ۲۶)
(٣٢٨٧٨) حضرت ابو عثمان النھدی (رض) فرماتے ہیں بیشک رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عباس (رض) سے ارشاد فرمایا : یہاں آؤ، بیشک آپ (رض) تو میرے والد کی طرح ہو۔

32878

(۳۲۸۷۹) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ ، عَنْ زَکَرِیَّا ، عَنْ عَامِرٍ ، قَالَ : انْطَلَقَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَمَعَہُ الْعَبَّاسُ وَکَانَ الْعَبَّاسُ ذَا رَأْیٍ ، فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : أَیْ عَمِّ إذَا رَأَیْت لِی خَطَأ فَمُرْنِی بِہِ۔ (ابن ابی عاصم ۳۴۹)
(٣٢٨٧٩) حضرت عامر (رض) فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لے جا رہے تھے اور حضرت عباس (رض) بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ تھے۔ حضرت عباس (رض) نے کوئی بات دیکھی۔ تو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اے چچا جان ! جب آپ (رض) مجھ میں کوئی غلطی دیکھیں تو مجھے اس بارے میں بتلادیں۔

32879

(۳۲۸۸۰) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنِی إسْمَاعِیلُ بْنُ أَبِی خَالِدٍ ، عَنْ شُعَیْبِ بْنِ یَسَارٍ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ ، قَالَ : دَعَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ابْنَ عَبَّاسٍ فَأَجْلَسَہُ فِی حِجْرِہِ ، وَمَسَحَ عَلَی رَأْسِہِ وَدَعَا لَہُ بِالْعِلْمِ۔ (ابن ابی عاصم ۲۷۹)
(٣٢٨٨٠) حضرت عکرمہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت ابن عباس (رض) کے لیے برکت کی دعا فرمائی۔ پس ان کو اپنی گود میں بٹھایا اور ان کے سر پر ہاتھ پھیرا اور علم کی دعا فرمائی۔

32880

(۳۲۸۸۱) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ ، عَنْ شُعَیْبِ بْنِ یَسَارٍ ، قَالَ : جَائَ طَیْرٌ أَبْیَضُ فَدَخَلَ فِی کَفَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ حِینَ أُدْرِجَ ، ثُمَّ مَا رُئِیَ بَعْدُ۔ (طبرانی ۱۰۵۸۱۔ حاکم ۵۴۴)
(٣٢٨٨١) حضرت اسماعیل (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت شعیب بن یسار (رض) نے ارشاد فرمایا : جب حضرت ابن عباس (رض) کو کفن میں رکھا گیا تو ایک سفید پرندہ آیا اور ان کے کفن میں داخل ہوگیا پھر اس کے بعد کبھی اس پرندے کو نہیں دیکھا گیا۔

32881

(۳۲۸۸۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِی حَفْصَۃَ ، عَنْ رَجُلٍ یُقَالُ لَہُ أَبُو کُلْثُومٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ ابْنَ الْحَنَفِیَّۃِ یَقُولُ فِی جِنَازَۃِ ابْنِ عَبَّاسٍ : الْیَوْمَ مَاتَ رَبَّانِیُّ الْعِلْمِ۔
(٣٢٨٨٢) حضرت ابو کلثوم (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن حنفیہ (رض) کو حضرت ابن عباس (رض) کے جنازہ میں یوں فرماتے سنا : آج کامل علم والا فوت ہوگیا۔

32882

(۳۲۸۸۳) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِی الضُّحَی ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللہِ : لَوْ أَدْرَکَ ابْنُ عَبَّاسٍ أَسْنَانَنَا مَا عَاشَرَہُ مِنَّا رَجُلٌ۔
(٣٢٨٨٣) حضرت مسروق (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ (رض) نے ارشاد فرمایا : اگر ابن عباس (رض) ہمارا زمانہ پاتے تو ہم میں سے کوئی آدمی ان کے علم کے دسویں حصہ تک نہ پہنچتا ۔

32883

(۳۲۸۸۴) حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ مُسْلِمٍ ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللہِ : نِعْمَ تُرْجُمَانُ الْقُرْآنِ ابْنُ عَبَّاسٍ۔
(٣٢٨٨٤) حضرت مسروق (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) نے ارشاد فرمایا : ابن عباس (رض) بہترین ترجمان القرآن ہیں۔

32884

(۳۲۸۸۵) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ بَکْرٍ ، عَنْ حَاتِمِ بْنِ أَبِی صَغِیرَۃَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِینَارٍ أَنَّ کُرَیْبًا أَخْبَرَہُ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : دَعَا لِی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ یَزِیدَنِی اللہ عِلْمًا وَفَہْمًا۔ (احمد ۳۳۰)
(٣٢٨٨٥) حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے میرے لیے دعا فرمائی کہ اللہ میرے علم اور سمجھ میں مزید ترقی فرمائے۔

32885

(۳۲۸۸۶) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عن زکریا ، عَنْ عَامِرٍ ، قَالَ : دَخَلَ الْعَبَّاسُ عَلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَلَمْ یَرَ عِنْدَہُ أَحَدًا ، فَقَالَ لَہُ ابْنُہُ : لَقَدْ رَأَیْت عِنْدَہُ رَجُلاً ، فَقَالَ الْعَبَّاسُ : یَا رَسُولَ اللہِ زَعَمَ ابْنُ عَمِّکَ أَنَّہُ رَأَی عِنْدَکَ رَجُلاً ، فَقَالَ عَبْدُ اللہِ : نَعَمْ وَالَّذِی أَنْزَلَ عَلَیْک الْکِتَابَ ، قَالَ : ذَاکَ جِبْرِیلُ۔ (طیالسی ۲۷۰۸۔ احمد ۲۹۴)
(٣٢٨٨٦) حضرت عامر (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عباس (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے تو انھوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس کسی بھی شخص کو نہیں دیکھا حالانکہ ان کے بیٹے نے ان سے کہا تھا کہ تحقیق میں نے آپ (رض) کے پاس ایک آدمی کو دیکھا۔ اس پر حضرت عباس (رض) نے فرمایا : اے اللہ کے رسول 5! آپ کا چچا زاد بھائی کہتا ہے کہ اس نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس کسی آدمی کو دیکھا ہے۔ تو حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) فرمانے لگے۔ جی ہاں ! قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر کتاب اتاری۔ وہ جبرائیل تھے۔

32886

(۳۲۸۸۷) حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ حَرْبٍ قَالَ: حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُثْمَانَ بْنِ خُثَیْمٍ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: کُنْتُ فِی بَیْتِ مَیْمُونَۃَ ابْنَۃِ الْحَارِثِ فَوَضَعْت لِرَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ طَہُورَہُ ، فَقَالَ : مَنْ وَضَعَ ہَذَا ، فَقَالَتْ مَیْمُونَۃُ : عَبْدُ اللہِ ، فَقَالَ : اللَّہُمَّ فَقِّہْہُ فِی الدِّینِ وَعَلِّمْہُ التَّأْوِیلَ۔ (احمد ۲۳۸)
(٣٢٨٨٧) حضرت سعید بن جبیر (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عباس (رض) نے ارشاد فرمایا : میں ام المؤمنین حضرت میمونہ بنت الحارث کے گھر میں تھا کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے وضو کا پانی رکھ دیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا : یہ پانی کس نے رکھا ہے ؟ حضرت میمونہ (رض) نے عرض کیا عبداللہ نے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دعا فرمائی۔ اے اللہ ! اس کو دین کی سمجھ عطا فرما اور اس کو تفسیر سکھا۔

32887

(۳۲۸۸۸) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ کُلَیْبٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ عُمَرَ سَأَلَ أَصْحَابَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، عَنْ شَیْئٍ ، قَالَ : فَسَأَلَنِی فَأَخْبَرْتہ ، فَقَالَ : أَعْیَیتمُونِی أَنْ تَأْتُوا بِمِثْلِ مَا أَتَی بِہِ ہَذَا الْغُلامُ الَّذِی لَمْ تَجْتَمِعْ شؤن رَأْسِہِ۔
(٣٢٨٨٨) حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب سے کسی شے کے بارے میں سوال کیا۔ پھر انھوں نے وہ بات مجھ سے پوچھی تو میں نے ان کو بتلا دی پھر وہ کہنے لگے۔ تم لوگ مجھ پر عیب پر عیب لگاتے ہو کہ تم لاتے ہو اس جیسے بچہ کو جس کی ابھی تک سر کی ہڈیاں بھی مجتمع نہیں ہوئیں۔

32888

(۳۲۸۸۹) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ إدْرِیسَ ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عُبَیْدِ اللہِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ بْنِ سُوَیْد ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ یَزِیدَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : قَالَ لِی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إِذْنُک عَلَی أَنْ تَرْفَعَ الْحِجَابَ ، وَأَنْ تَسْمَعَ سِوَادِی حَتَّی أَنْہَاک۔ (مسلم ۱۷۰۸۔ ابن ماجہ ۱۳۹)
(٣٢٨٨٩) حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھ سے ارشاد فرمایا : تمہاری اجازت گھر میں آنے کے لیے اتنی ہے کہ پردہ اٹھایا جائے، اور میری آواز سنو اور چلے آؤ جب تک کہ میں تمہیں منع نہ کروں۔

32889

(۳۲۸۹۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا الْمَسْعُودِیُّ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ عُمَیْرٍ ، عَنْ أَبِی الْمَلِیحِ الْہُذَلِیِّ ، قَالَ : کَانَ عَبْدُ اللہِ یَسْتُرُ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إذَا اغْتَسَلَ ، وَیُوقِظُہُ إذَا نَامَ ، وَیَمْشِی مَعَہُ فِی الأَرْضِ وَحْشًا۔ (ابن سعد ۱۵۳)
(٣٢٨٩٠) حضرت ابو الملیح الھذلی (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) پردہ کیا کرتے تھے جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غسل فرماتے اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بیدار کرتے تھے جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سو جاتے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ زمین میں اکیلے چلتے تھے۔

32890

(۳۲۸۹۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا الْمَسْعُودِیُّ ، عَنْ عَیَّاشٍ الْعَامِرِیِّ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ شَدَّادٍ الْکِنَانِیِّ ، قَالَ : کَانَ ابْنَ مَسْعُودٍ صَاحِبُ الْوِسَادِ وَالسِّوَاکِ۔ (ابن سعد ۱۵۳)
(٣٢٨٩١) حضرت عبداللہ بن شداد کنانی (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) ، نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے تکیہ اٹھانے والے راز دار تھے۔

32891

(۳۲۸۹۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا الْمَسْعُودِیُّ ، عَنِ القاسم ، قَالَ : کَانَ عَبْدُ اللہِ یُلْبِسُ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَعْلَیْہِ وَیَمْشِی أَمَامَہُ۔ (ابن سعد ۱۵۳)
(٣٢٨٩٢) حضرت قاسم (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جوتے پہناتے تھے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آگے چلتے تھے۔

32892

(۳۲۸۹۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنِ الْحَارِثِ ، عَنْ عَلِیٍّ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لَوْ کُنْتُ مُسْتَخْلِفًا عَنْ غَیْرِ مَشُورَۃٍ لاسْتَخْلَفْت ابْنَ أُمِّ عَبْدٍ۔ (ترمذی ۳۸۰۹۔ احمد ۷۶)
(٣٢٨٩٣) حضرت علی (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اگر میں کسی کو بغیر مشورے کے خلیفہ بناتا تو ابن ام عبد (رض) کو بناتا۔

32893

(۳۲۸۹۴) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، قَالَ : حدَّثَنِی زَائِدَۃُ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ أَبِی النَّجُودِ ، عَنْ زِرٍّ ، قَالَ : جَعَلَ الْقَوْمُ یَضْحَکُونَ مِمَّا تَصْنَعُ الرِّیحُ بِعَبْدِ اللہِ تکفتہ ، قَالَ : فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لَہُوَ أَثْقَلُ عِنْدَ اللہِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ مِیزَانًا مِنْ أُحُدٍ۔ (ابوداؤد ۳۵۵۔ احمد ۳۲۰)
(٣٢٨٩٤) حضرت عاصم بن ابی النجود (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت زر بن حبیش (رض) نے ارشاد فرمایا : کہ لوگ ہنسا کرتے تھے اس بات سے کہ جب ہوا تیز چلتی تو حضرت عبداللہ کو الٹ پلٹ کرتی۔ تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : بیشک یہ قیامت کے دن اللہ کے نزدیک ترازو میں احد پہاڑ سے بھی زیادہ بھاری ہوں گے۔

32894

(۳۲۸۹۵) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِی عُبَیْدَۃَ ، قَالَ : حدَّثَنَا أَبِی ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنِ الْعَلائِ بْنِ بَدْرٍ ، عَنْ تَمِیمِ بْنِ حَذْلَمَ ، قَالَ : قَدْ جَالَسْت أَصْحَابَ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَأَبَا بَکْرٍ وَعُمَرَ فَمَا رَأَیْت أحدا أَزْہَدَ فِی الدُّنْیَا، وَلا أَرْغَبَ فِی الآخِرَۃِ، وَلا أَحَبَّ إلَیَّ أَنْ أَکُونَ فِی مِسْلاَخِہِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ مِنْک یَا عَبْدَاللہِ بْنَ مَسْعُودٍ۔
(٣٢٨٩٥) حضرت تمیم بن حذلم (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے بہت سے اصحاب محمد (رض) کی مجلسیں اختیار کی ہیں۔ حضرت ابوبکر (رض) کی، حضرت عمر (رض) کی، پس میں نے کسی ایک کو بھی ابن مسعود (رض) سے زیادہ دنیا سے اعراض کرنے والا اور آخرت میں رغبت رکھنے والا نہیں دیکھا۔ اے عبداللہ بن مسعود (رض) نہ ہی مجھے پسند ہے کہ میں قیامت کے دن آپ (رض) کو چھوڑ کر ان کے ساتھ ہوں۔

32895

(۳۲۸۹۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : رَضِیت لأُمَّتِی مَا رَضِیَ لَہَا ابْنُ أُمِّ عَبْدٍ۔ (حاکم ۳۱۸۔ طبرانی ۸۴۵۸)
(٣٢٨٩٦) حضرت قاسم بن عبد الرحمن (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : میں نے اپنی امت کے لیے وہی بات پسند کی جس کو ابن ام عبد نے پسند کیا ہو۔

32896

(۳۲۸۹۷) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ أُمِّ مُوسَی ، قَالَتْ : سَمِعْت عَلِیًّا یَقُولُ : أَمَرَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ابْنَ مَسْعُودٍ أَنْ یَصْعَدَ شَجَرَۃً فَیَأْتِیَہُ بِشَیْئٍ مِنْہَا ، فَنَظَرَ أَصْحَابُہُ إِلَی حُمُوشَۃِ سَاقَیْہِ فَضَحِکُوا مِنْہَا، فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: مَا یُضْحِکُکُمْ لَرِجْلُ عَبْدِاللہِ فِی الْمِیزَانِ أَثْقَلُ مِنْ أُحُدٍ۔ (احمد ۱۱۴۔ ابویعلی ۵۹۱)
(٣٢٨٩٧) حضرت علی (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت ابن مسعود (رض) کو حکم دیا کہ وہ درخت پر چڑھیں اور کچھ پھل لے کر آئیں۔ پس رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب (رض) ان کی پتلی پنڈلیوں کو دیکھ کر ہنسنے لگے۔ اس پر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : تم کیوں ہنستے ہو ؟ عبداللہ بن مسعود کی ایک ٹانگ ترازو میں احد پہاڑ سے بھی زیادہ بھاری ہوگی۔

32897

(۳۲۸۹۸) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِی عُبَیْدَۃَ ، قَالَ : حدَّثَنِی أَبِی ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللہِ بْنُ مَسْعُودٍ ، لَقَدْ رَأَیْتُنِی سَادِسَ سِتَّۃٍ مَا عَلَی ظَہْرِ الأَرْضِ مُسْلِمٌ غَیْرُنَا۔ (ابن حبان ۶۲۔ حاکم ۳۱۳)
(٣٢٨٩٨) حضرت عبد الرحمن (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) نے ارشاد فرمایا : میں نے اپنے آپ کو چھ میں سے چھٹا دیکھا ہے۔ زمین کی پشت پر ہمارے علاوہ کوئی بھی مسلمان نہیں تھا۔

32898

(۳۲۸۹۹) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، عَن عَلْقَمَۃَ ، عَنْ عُمَرَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَنْ سَرَّہُ أَنْ یَقْرَأَ الْقُرْآنَ رَطْبًا کَمَا أُنْزِلَ ، فَلْیَقْرَأْہُ عَلَی قِرَائَۃِ ابْنِ أُمِّ عَبْدٍ۔
(٣٢٨٩٩) حضرت عمر (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جو شخص چاہتا ہے کہ قرآن پاک کو تر و تازہ پڑھے جیسا کہ وہ نازل کیا گیا ہے پس اس کو چاہیے کہ وہ ابن ام عبد کی قراءت پر اس کو پڑھے۔

32899

(۳۲۹۰۰) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ شَقِیقٍ ، عَنْ حُذَیْفَۃَ ، قَالَ : لَقَدْ عَلِمَ الْمَحْفُوظُونَ مِنْ أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّ ابْنَ مَسْعُودٍ أَقْرَبُہُمْ عِنْدَ اللہِ وَسِیلَۃً یَوْمَ الْقِیَامَۃِ۔ (احمد ۳۹۵)
(٣٢٩٠٠) حضرت شقیق (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت حذیفہ (رض) نے ارشاد فرمایا : تحقیق محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خوش قسمت اصحاب جانتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) قیامت کے دن مرتبہ میں اللہ کے سب سے زیادہ نزدیک ہوں گے ۔

32900

(۳۲۹۰۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا الأَعْمَشُ ، عَنْ مَالِکِ بْنِ الْحَارِثِ ، عَنْ أَبِی خَالِدٍ ، قَالَ : وَفَدْت إِلَی عُمَرَ فَفَضَّلَ أَہْلَ الشَّامِ عَلَیْنَا فِی الْجَائِزَۃِ ، فَقُلْنَا لَہُ ، فَقَالَ : یَا أَہْلَ الْکُوفَۃِ أَجَزِعْتُمْ أَنْ فَضَّلْت أَہْلَ الشَّامِ عَلَیْکُمْ فِی الْجَائِزَۃِ لِبُعْدِ شُقَّتِہِمْ ، فَقَدْ آثَرْتُکُمْ بِابْنِ أُمِّ عَبْدٍ۔
(٣٢٩٠١) حضرت مالک بن حارث (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت ابو خالد (رض) نے ارشاد فرمایا : کہ میں وفد لے کر حضرت عمر (رض) کے پاس آیا تو انھوں نے شام والوں کو انعام دینے میں ہم پر فضیلت دی، اس بارے میں ہم نے ان سے پوچھا : تو انھوں نے فرمایا : اے کوفہ والو ! کیا تم گھبراتے ہو اس بات سے کہ میں نے انعام دینے میں شام والوں کو تم پر فضیلت دی تمہاری روزی کی وجہ سے ۔ تحقیق میں نے ام عبد کے مقابلہ میں خود پر تم کو ترجیح دی ہے۔

32901

(۳۲۹۰۲) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ زَیْدِ بْنِ وَہْبٍ ، قَالَ : أَقْبَلَ عَبْدُ اللہِ ذَاتَ یَوْمٍ ، وَعُمَرُ جَالِسٌ ، فَقَالَ : کَنِیفٌ مُلِیء فِقْہًا۔
(٣٢٩٠٢) حضرت زید بن وھب (رض) فرماتے ہیں کہ ایک دن حضرت عمر (رض) بیٹھے ہوئے تھے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) کو سامنے سے آتا ہوا دیکھ کر فرمایا : ” داڑھی والا فقہ سے بھرا ہوا ہے۔ “

32902

(۳۲۹۰۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ حَارِثَۃَ بْنِ مُضَرِّبٍ ، قَالَ : قرِئَ عَلَیْنَا کِتَابُ عُمَرَ : أَمَّا بَعْدُ فإنی قَدْ بَعَثْت إلَیْکُمْ عَمَّارَ بْنَ یَاسِرٍ أَمِیرًا ، وَعَبْدَ اللہِ بْنَ مَسْعُودٍ مُؤَدِّبًا وَوَزِیرًا وَہُمَا مِنَ النُّجَبَائِ مِنْ أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَآثَرْتُکُمْ بِابْنِ أُمِّ عَبْدٍ عَلَی نَفْسِی۔
(٣٢٩٠٣) حضرت ابو اسحاق (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت حارثہ بن مضرب (رض) نے ارشاد فرمایا : ہم لوگوں کو حضرت عمر (رض) کا خط پڑھ کر سنایا گیا۔ جس میں لکھا تھا : حمد و صلوۃ کے بعد، پس تحقیق میں نے حضرت عمار بن یاسر (رض) کو تمہاری طرف امیر بنا کر بھیجا اور حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) کو استاذ اور وزیر بنا کر ۔ یہ دونوں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے شریف ساتھیوں میں سے ہیں۔ اور میں نے حضرت ابن ام عبد (رض) کے معاملہ میں خود پر دوسروں کو ترجیح دے دی۔

32903

(۳۲۹۰۴) حَدَّثَنَا أَبُو معاویۃ ، قَالَ : حدَّثَنَا الأَعْمَشُ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ ، عَنْ أَبِی الْبَخْتَرِیِّ ، عَنْ عَلِیٍّ ، قَالُوا : أَخْبِرْنَا عَنْ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : عَلِمَ الْقُرْآنَ وَالسُّنَّۃَ ، وَکَفَی بِذَلِکَ عِلْمًا۔
(٣٢٩٠٤) حضرت ابو البختری (رض) فرماتے ہیں کہ لوگوں نے حضرت علی (رض) سے عرض کیا : آپ (رض) ہمیں حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) کے بارے میں بتلائیے۔ آپ (رض) نے فرمایا : انھوں نے قرآن و حدیث کو سیکھا۔ اور ان کو یہ چیز علم کے اعتبار سے کافی تھی۔

32904

(۳۲۹۰۵) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ صَالِحِ بْنِ حَیَّانَ ، عَنِ ابْنِ بُرَیْدَۃَ (قَالُوا لِلَّذِینَ أُوتُوا الْعِلْمَ مَاذَا قَالَ آنِفًا) ہُوَ عَبْدُ اللہِ بْنُ مَسْعُودٍ۔
(٣٢٩٠٥) حضرت صالح بن حیان (رض) فرماتے ہیں حضرت ابن بریدہ (رض) نے ارشاد فرمایا : قرآن کی اس آیت (قَالُوا لِلَّذِینَ أُوتُوا الْعِلْمَ مَاذَا قَالَ آنِفًا) وہ لوگ پوچھتے ہیں ان لوگوں سے جن کو علم دیا گیا کہ کیا کہا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابھی ابھی ؟ اس سے حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) مراد ہیں۔

32905

(۳۲۹۰۶) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، عَن عَلْقَمَۃَ ، قَالَ : کَانَ عَبْدُ اللہِ یُشَبَّہُ بِالنَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی ہَدْیِہِ وَدَلِّہِ وَسَمْتِہِ۔
(٣٢٩٠٦) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت علقمہ (رض) نے ارشاد فرمایا : کہ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) چلنے میں ، ہدایت اور طریقہ میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مشابہ تھے۔

32906

(۳۲۹۰۷) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا الأَعْمَشُ ، عَنْ حَبَّۃَ بْنِ جُوَیْنٍ ، قَالَ : کُنَّا جُلُوسًا عِنْدَ عَلِیٍّ فَذَکَرْنَا بَعْضَ قَوْلِ عَبْدِ اللہِ وَأَثْنَی الْقَوْمُ عَلَیْہِ فَقَالُوا : یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ مَا رَأَیْنَا رَجُلاً أَحْسَنَ خُلُقًا ، وَلا أَرْفَقَ تَعْلِیمًا ، وَلا أَشَدَّ وَرَعًا ، وَلا أَحْسَنَ مُجَالَسَۃً مِنَ ابْنِ مَسْعُودٍ ، فَقَالَ عَلِیٌّ : نَشَدْتُکُمَ اللَّہَ إِنَّہُ لَلصِّدْقُ مِنْ قُلُوبِکُمْ ، قَالُوا : نَعَمْ ، قَالَ : اللَّہُمَّ إنِّی أُشْہِدُک أَنِّی أَقُولُ مِثْلَ مَا قَالُوا ، وَأَفْضَلُ۔
(٣٢٩٠٧) حضرت اعمش (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت حبہ بن جُوین (رض) نے ارشاد فرمایا : ہم لوگ حضرت علی (رض) کے پاس بیٹھے ہوئے تھے اتنے میں ہم نے حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) کی کچھ باتوں کا ذکر کیا اور لوگ ان کی تعریف کرنے لگے اور کہا : اے امیر المؤمنین ! ہم نے کسی شخص کو بھی نہیں دیکھا جو حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) سے زیادہ اچھے اخلاق والا، تعلیم میں نرمی کرنے والا، اور سب سے زیادہ تقوی والا، اور اچھی مجلسوں والا ہو، اس پر حضرت علی (رض) نے ارشاد فرمایا : میں تم لوگوں کو اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا تم یہ بات صدق دل سے کہہ رہے ہو ؟ لوگوں نے کہا : جی ہاں ! آپ (رض) نے فرمایا : اے اللہ ! بیشک میں تجھے گواہ بناتا ہوں کہ بلاشبہ میں بھی وہی بات کہتا ہوں جو ان لوگوں نے کہی۔ کہ وہ افضل ہیں۔

32907

(۳۲۹۰۸) حَدَّثَنَا یَعْلَی ، قَالَ: حدَّثَنَا الأَعْمَشُ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِی عُبَیْدَۃَ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا مُوسَی یَقُولُ: لَمَجْلِسٌ کُنْتُ أُجَالِسُہُ عَبْدَ اللہِ أَوْثَقُ مِنْ عَمَلِ سَنَۃٍ۔
(٣٢٩٠٨) حضرت ابو عبیدہ (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت ابو موسیٰ (رض) نے ارشاد فرمایا : کہ وہ مجلسیں جن میں حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) کے ساتھ میں بیٹھا کرتا تھا۔ وہ سنت پر عمل کرنے کے اعتبار سے بہت مضبوط تھیں۔

32908

(۳۲۹۰۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ ہَانِئِ بْنِ ہَانِئٍ ، عَنْ عَلِیٍّ ، قَالَ : کُنَّا جُلُوسًا عِنْدَ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَجَائَ عَمَّارٌ یَسْتَأْذِنُ ، فَقَالَ : ائْذَنُوا لَہُ مَرْحَبًا بِالطَّیِّبِ الْمُطَیَّبِ۔ (ابن حبان ۷۰۷۵۔ احمد ۱۳۰)
(٣٢٩٠٩) حضرت علی (رض) فرماتے ہیں کہ ہم لوگ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ حضرت عمار بن یاسر (رض) نے آنے کے لیے اجازت طلب کی ۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ان کو اجازت دو ، خوش آمدید پاکیزہ فطرت شخص کے لیے۔

32909

(۳۲۹۱۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ أبی عمار ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُرَحْبِیلَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : عَمَّارٌ مُلِئَ إیمَانًا إِلَی مُشَاشِہِ۔
(٣٢٩١٠) حضرت عمرو بن شرحبیل (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : عمار (رض) پورے کے پورے ایمان سے بھرئے ہوئے ہیں۔

32910

(۳۲۹۱۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنِ أَبِی لَیْلَی الْکِنْدِیِّ ، قَالَ : جَائَ خَبَّابٌ إِلَی عُمَرَ ، فَقَالَ : ادْنُہُ فَمَا أَحَدٌ أَحَقُّ بِہَذَا الْمَجْلِسِ مِنْک إلاَّ عَمَّارٌ فَجَعَلَ خَبَّابٌ یُرِیہِ آثَارًا بِظَہْرِہِ مِمَّا عَذَّبَہُ الْمُشْرِکُونَ۔
(٣٢٩١١) حضرت ابو لیلی کندی (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت خباب (رض) حضرت عمر (رض) کے پاس تشریف لائے۔ آپ (رض) نے فرمایا : قریب ہو جاؤ پس کوئی شخص بھی اس مجلس کا زیادہ حقدار نہیں ہے سوائے حضرت عمار (رض) کے۔ پھر حضرت خباب (رض) نے اپنی کمر پر مشرکین کی تکلیفوں کے نشان دکھلائے۔

32911

(۳۲۹۱۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ عَمَّارٍ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : ابْنُ سُمَیَّۃَ مَا خُیِّرَ بَیْنَ أَمْرَیْنِ إلاَّ اخْتَارَ أَرْشَدَہُمَا۔ (احمد ۳۸۹۔ حاکم ۳۸۸)
(٣٢٩١٢) حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : سمیہ (رض) کے بیٹے یعنی حضرت عمار (رض) کو جب بھی دو امروں میں اختیار دیا گیا تو انھوں نے زیادہ درست امر کو اختیار فرمایا۔

32912

(۳۲۹۱۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ سَلَمَۃَ بْنِ کُہَیْلٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَا لَہُمْ وَلِعَمَّارٍ یَدْعُوہُمْ إِلَی الْجَنَّۃِ وَیَدْعُونَہُ إِلَی النَّارِ ، وَکَذَلِکَ دَأْبُ الأَشْقِیَائِ الْفُجَّارِ۔ (احمد ۱۵۹۸)
(٣٢٩١٣) حضرت مجاہد (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ا ن لوگوں کو عمار (رض) کے بارے میں کیا ہوا ؟ عمار (رض) ان کو جنت کی طرف بلاتا ہے اور وہ لوگ اس جہنم کی طرف بلاتے ہیں ؟ اور یہی عادت و طریقہ ہے بدبخت اور فاجروں کا۔

32913

(۳۲۹۱۴) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا مِسْعَرٌ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ ، عَنْ أَبِی الْبَخْتَرِیِّ ، قَالَ : سُئِلَ عَلِیٌّ ، عَنْ عَمَّارٍ ، قَالَ : مُؤْمِنٌ نَسِیّ ، وَإِنْ ذَکَّرْتہ ذَکَرَ ، وَقَدْ دَخَلَ الإِیمَانُ فِی سَمْعِہِ وَبَصَرِہِ ، وَذَکَرَ مَا شَائَ اللَّہُ مِنْ جَسَدِہِ۔
(٣٢٩١٤) حضرت ابو البختری (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت علی (رض) سے حضرت عمار (رض) کے متعلق پوچھا گیا : آپ (رض) نے فرمایا : بھولنے والے مومن تھے۔ جب تم ان کو یاد کراتے تو ان کو یاد آجاتا۔ اور تحقیق ایمان ان کے کان اور ان کی آنکھ میں داخل ہوا۔ اور آپ (رض) نے ان کے جسم کے اس حصہ کو ذکر کیا جو اللہ نے چاہا۔

32914

(۳۲۹۱۵) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، قَالَ : حدَّثَنَا الأَعْمَشُ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ ، عَنْ أَبِی الْبَخْتَرِیِّ ، عَنْ عَلِیٍّ ، قَالَ : قَالُوا لَہُ : أَخْبِرْنَا عَنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالُوا : أَخْبِرْنَا عَنْ عَمَّارٍ ، قَالَ : مُؤْمِنٌ نَسِیّ وَإِنْ ذَکَّرْتہ ذَکَرَ۔
(٣٢٩١٥) حضرت علی (رض) سے لوگوں نے کہا کہ ہمیں حضرت عمار (رض) کے بارے میں بتائیں۔ انھوں نے فرمایا کہ وہ ایک ایسے مومن تھے جنھیں بھلا دیا گیا۔ اگر یاد کرو تو یاد آجائیں۔

32915

(۳۲۹۱۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ أَبِی قَیْسٍ ، عَنْ ہُذَیْلٍ ، قَالَ : أُتِیَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقِیلَ لَہُ : إنَّ عَمَّارًا وَقَعَ عَلَیْہِ جَبَلٌ فَمَاتَ ، قَالَ : مَا مَاتَ عَمَّارٌ۔ (ابن سعد ۲۵۴۔ احمد ۱۵۹۷)
(٣٢٩١٦) حضرت ھذیل (رض) فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس کوئی شخص آیا اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بتلایا گیا کہ حضرت عمار (رض) پر دیوار گرگئی جس سے ان کی موت واقع ہوگئی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : عمار (رض) نہیں مرے۔

32916

(۳۲۹۱۷) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ آدَمَ ، قَالَ : حدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ أَبِی زَائِدَۃَ ، عَنْ وَرْدَانَ الْمُؤَذِّنِ أَنَّہُ سَمِعَ الْقَاسِمَ بْنَ مُخَیْمِرَۃَ یَقُولُ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مُلِئَ عَمَّارٌ إیمَانًا إلَی الْمُشَاشِ وَہُوَ مِمَّنْ حُرِّمَ عَلَی النَّارِ۔ (ابن عساکر ۴۳)
(٣٢٩١٧) حضرت قاسم بن مخیمرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : عمار (رض) پورے پورے ایمان سے بھرے ہوئے ہیں۔ یہ ان لوگوں میں سے ہیں جن پر جہنم کو حرام کردیا گیا ہے۔

32917

(۳۲۹۱۸) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا الْعَوَّامُ بْنُ حَوْشَبٍ ، عَنْ سَلَمَۃَ بْنِ کُہَیْلٍ ، عَنْ عَلْقَمَۃَ ، عَنْ خَالِدِ بْنِ الْوَلِیدِ ، قَالَ : کَانَ بَیْنِی وَبَیْنَ عَمَّارٍ کَلاَمٌ فَانْطَلَقَ عَمَّارٌ یَشْکُونِی إلَی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَأَتَیْت رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَہُوَ یَشْکُونِی ، فَجَعَلَ عَمَّارٌ لاَ یَزِیدُہُ إلاَّ غِلْظَۃً ، وَرَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سَاکِتٌ فَبَکَی عَمَّارٌ ، وَقَالَ : یَا رَسُولَ اللہِ أَلاَ تَسْمَعُہُ قَالَ : فَرَفَعَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إلَیَّ رَأْسَہُ ، فَقَالَ : مَنْ عَادَی عَمَّارًا عَادَاہُ اللَّہُ وَمَنْ أَبْغَضَ عَمَّارًا أَبْغَضَہُ اللَّہُ ، قَالَ : فَخَرَجْت فَمَا کَانَ شَیْئٌ أَبْغَضُ إلَیَّ مِنْ غَضَبِ عَمَّارٍ ، فَلَقِیتہ فَرَضِیَ۔ (احمد ۸۹۔ حاکم ۳۹۰)
(٣٢٩١٨) حضرت علقمہ (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت خالد بن ولید (رض) نے ارشاد فرمایا : کہ میرے اور عمار (رض) کے درمیان کچھ تلخ کلامی ہوگئی۔ پس عمار (رض) گئے اور جا کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو میری شکایت کرنے لگے۔ تو میں بھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آیا اس حال میں کہ وہ میری شکایت کر رہے تھے۔ گفتگو کے دوران حضرت عمار (رض) کا غصہ بڑھتا ہی چلا جا رہا تھا۔ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خاموش تھے۔ پھر عمار (رض) رونے لگے اور کہا : اے اللہ کے رسول 5! کیا آپ (رض) نہیں سن رہے ؟ اس پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے میری طرف اپنا سر اٹھایا اور ارشاد فرمایا : جو عمار سے دشمنی کرے گا اللہ تعالیٰ اس شخص سے دشمنی کریں گے ، اور جو عمار (رض) سے بغض رکھے گا اللہ تعالیٰ اس شخص سے بغض رکھیں گے۔ حضرت خالد بن ولید (رض) فرماتے ہیں کہ میں گھر سے نکلا تھا اس حال میں کہ حضرت عمار (رض) سے زیادہ کوئی چیز مجھے مبغوض نہیں تھی۔ پھر میں ان سے ملا پس وہ راضی ہوگئے۔

32918

(۳۲۹۱۹) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا الْمَسْعُودِیُّ ، عَنِ الْقَاسِمِ بن عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، قَالَ : أَوَّلُ مَنْ بَنَی مَسْجِدًا یُصَلَّی فِیہِ عَمَّارُ بْنُ یَاسِرٍ۔ (ابن ابی عاصم ۱۱۷)
(٣٢٩١٩) حضرت مسعودی (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت قاسم بن عبد الرحمن (رض) نے ارشاد فرمایا : پہلی مسجد جس میں نماز پڑھی گئی اس کے بنانے والے حضرت عمار بن یاسر (رض) تھے۔

32919

(۳۲۹۲۰) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ حُصَیْنٍ ، عَنْ أَبِی مَالِکٍ : {إلاَّ مَنْ أُکْرِہَ وَقَلْبُہُ مُطْمَئِنٌّ بِالإِیمَانِ} قَالَ : نَزَلَتْ فِی عَمَّارٍ۔ (ابن جریر ۱۸۲)
(٣٢٩٢٠) حضرت حصین (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت ابو مالک (رض) نے ارشاد فرمایا : قرآن کی آیت {إلاَّ مَنْ أُکْرِہَ وَقَلْبُہُ مُطْمَئِنٌّ بِالإِیمَانِ } (مگر وہ شخص جس کو مجبور کیا گیا اس حال میں کہ اس کا دل ایمان پر مطمئن تھا) یہ آیت حضرت عمار (رض) کے بارے میں نازل ہوئی۔

32920

(۳۲۹۲۱) حَدَّثَنَا عَثَّامُ بْنُ عَلِیٍّ ، قَالَ : حدَّثَنَا الأَعْمَشُ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ ہَانِئِ بْنِ ہَانِئٍ ، قَالَ : اسْتَأْذَنَ عَمَّارٌ عَلَی عَلِیٍّ ، فَقَالَ : مَرْحَبًا بِالطَّیِّبِ الْمُطَیَّبِ سَمِعْت رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : مُلِئَ عَمَّارٌ إیمَانًا إِلَی مُشَاشِہِ۔
(٣٢٩٢١) حضرت ھانی بن ھانی (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عمار (رض) نے حضرت علی (رض) سے آنے کے لیے اجازت مانگی تو آپ (رض) نے فرمایا : خوش آمدید پاکیزہ فطرت شخص کے لیے۔ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یوں فرماتے ہوئے سنا : عمار (رض) پورے کے پورے ایمان سے بھرے ہوئے ہیں۔

32921

(۳۲۹۲۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إسْرَائِیلَ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنِ الْحَکَمِ : (إلاَّ مَنْ أُکْرِہَ وَقَلْبُہُ مُطْمَئِنٌّ بِالإِیمَانِ) قَالَ : نَزَلَتْ فِی عَمَّارٍ۔
(٣٢٩٢٢) حضرت جابر (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت حکم (رض) نے قرآن کی اس آیت : ترجمہ : مگر وہ شخص جس کو مجبور کیا گیا اور اس کا دل ایمان پر مطمئن تھا۔ کے بارے میں ارشاد فرمایا : کہ یہ آیت حضرت عمار (رض) کے بارے میں نازل ہوئی۔

32922

(۳۲۹۲۳) حَدَّثَنَا یَزِیدُ ، عَنْ حُمَیْدٍ الطَّوِیلِ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ أنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : یَقْدَمُ عَلَیْکُمْ قَوْمٌ ہُمْ أَرَقُّ أَفْئِدَۃً ، قَالَ : فَقَدِمَ الأَشْعَرِیُّونَ وَفِیہِمْ أَبُو مُوسَی ، قَالَ : فَجَعَلُوا یَرْتَجِزُونَ وَیَقُولُونَ : غَدًا نَلْقَی الأَحِبَّۃ مُحَمَّدًا وَحِزْبَہْ۔ (احمد ۱۰۵)
(٣٢٩٢٣) حضرت انس بن مالک (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : کچھ لوگ تمہارے پاس آئیں گے جو دل کے بہت زیادہ نرم ہوں گے۔ راوی کہتے ہیں۔ پس قبیلہ اشعر کے لوگ آئے جن میں حضرت ابو موسیٰ (رض) بھی تھے ۔ وہ لوگ رجزیہ اشعار پڑھ رہے تھے : ترجمہ : کل ہم محبوب لوگوں سے ملیں گے، محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اور ان کے گروہ سے۔

32923

(۳۲۹۲۴) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ مَالِکِ بْنِ مِغْوَلٍ ، عَنِ ابْنِ بُرَیْدَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لَقَدْ أُوتِیَ الأَشْعَرِیُّ مِزْمَارًا مِنْ مَزَامِیرِ آلِ دَاوُد۔
(٣٢٩٢٤) حضرت بریدہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : قبیلہ اشعر والوں کو آل داؤد (علیہ السلام) کے لہجوں میں سے ایک لہجہ دیا گیا۔

32924

(۳۲۹۲۵) حُدِّثْت عَنِ ابْنِ عُیَیْنَۃَ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ عُرْوَۃَ ، عَنْ عَائِشَۃَ ، قَالَتْ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لقد أُوتِیَ الأَشْعَرِیُّ مِزْمَارًا مِنْ مَزَامِیرِ آلِ دَاوُد۔
(٣٢٩٢٥) حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : تحقیق قبیلہ اشعر والوں کو آل داؤد (علیہ السلام) کے لہجوں میں سے ایک لہجہ دیا گیا۔

32925

(۳۲۹۲۶) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ محمد بن عمرو ، عَنْ أبی سلمۃ ، عن أبی ہریرۃ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لَقَدْ أُوتِیَ أَبُو مُوسَی مِزْمَارًا مِنْ مَزَامِیرِ آلِ دَاوُد۔
(٣٢٩٢٦) حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : تحقیق ابو موسیٰ اشعری کو حضرت داؤد (علیہ السلام) کے گھرانے کے لہجوں میں سے ایک لہجہ دیا گیا۔

32926

(۳۲۹۲۷) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ سِمَاکٍ ، عَنْ عِیَاضٍ الأَشْعَرِیِّ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: لأبِی مُوسَی : ہُمْ قَوْمُ ہَذَا ، یَعْنِی فِی قَوْلِہِ : {فَسَوْفَ یَأْتِی اللَّہُ بِقَوْمٍ یُحِبُّہُمْ وَیُحِبُّونَہُ} قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ہُمْ قَوْمُ ہَذَا۔ (ابن سعد ۱۰۷۔ حاکم ۳۱۳)
(٣٢٩٢٧) حضرت عیاض اشعری (رض) فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت ابوموسیٰ اشعری (رض) سے ارشاد فرمایا : یہ لوگ وہی قوم ہیں یعنی اللہ تعالیٰ کے ارشاد ” پس عنقریب اللہ ایسی قوم کو لائیں گے جن سے وہ محبت کرتے ہیں اور وہ لوگ اللہ سے محبت کرتے ہیں۔ “ کے بارے میں فرمایا : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : یہ وہی قوم ہیں۔

32927

(۳۲۹۲۸) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ بیان ، عَنْ قَیْسٍ ، قَالَ : کَانَ بَیْنَ خَالِدِ بْنِ الْوَلِیدِ وَبَیْنَ رَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مُحَاوَرَۃٌ ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَا لَکُمْ وَلِسَیْفٍ مِنْ سُیُوفِ اللہِ سَلَّہُ اللَّہُ عَلَی الْکُفَّارِ۔ (ابن سعد ۳۹۵۔ احمد ۱۴۷۹)
(٣٢٩٢٨) حضرت قیس (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت خالد بن ولید (رض) اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب میں کسی ایک کے درمیان کچھ تلخ کلامی ہوگئی ، اس پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : تم لوگوں کو کیا ہوا اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار کے بارے میں جس کو اللہ نے کفار پر سونتا ہے ؟

32928

(۳۲۹۲۹) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا أَبُو مَعْشَرٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ أَبِی سَعِیدٍ الْمَقْبُرِیِّ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : ہَبَطْتُ مَعَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ ثَنِیَّۃِ ہَرْشی فَانْقَطَعَ شِسْعُہُ فَنَاوَلْتُہُ نَعْلِی فَأَبَی أَنْ یَقْبَلَہَا وَجَلَسَ فِی ظِلِّ شَجَرَۃٍ لِیُصْلِحَ نَعْلَہُ فَقَالَ لِی : انْظُرْ مَنْ تَرَی قُلْتُ : ہَذَا فُلانُ بْنُ فُلانٍ ، قَالَ : بِئْسَ عَبْدُ اللہِ فُلانٌ ، ثُمَّ قَالَ لِی : انْظُرْ إِلَی مَنْ تَرَی قُلْتُ ، ہَذَا فُلانٌ ، قَالَ : نِعْمَ عَبْدُ اللہِ فُلانٌ ، وَالَّذِی قَالَ لَہُ : نِعْمَ عَبْدُ اللہِ فُلانٌ خَالِدُ بْنُ الْوَلِیدِ۔ (ترمذی ۳۸۴۶)
(٣٢٩٢٩) حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ کسی سخت گھاٹی میں اتر رہا تھا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے جوتا کا تسمہ ٹوٹ گیا۔ میں نے اپنا جوتا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیا پس آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو قبول کرنے سے انکار کردیا۔ اور درخت کے سائے میں بیٹھ گئے تاکہ اپنا جوتا صحیح کریں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھ سے کہا : تم کس کو دیکھ رہے ہو ؟ میں نے کہا : فلاں بن فلاں کو ، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : فلاں اللہ کا بندہ بُرا ہے۔ پھر مجھ سے فرمایا : تم کس کو دیکھ رہے ہو ؟ میں نے کہا : یہ فلاں شخص ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : فلاں اللہ کا بندہ بہت اچھا ہے۔ اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ بھی فرمایا : کہ فلاں اللہ کا بندہ بہت اچھا ہے۔ یعنی حضرت خالد بن ولید (رض) ۔

32929

(۳۲۹۳۰) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَنْ زَائِدَۃَ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ عُمَیْرٍ ، قَالَ : بَعَثَ عُمَرُ أَبَا عُبَیْدَۃَ عَلَی الشَّامِ وَعَزَلَ خَالِدَ بْنَ الْوَلِیدِ ، فَقَالَ : خَالِدُ بْنُ الْوَلِیدِ : بُعِثَ عَلَیْکُمْ أَمِینُ ہَذِہِ الأُمَّۃِ ، قَالَ أَبُو عُبَیْدَۃَ ، سَمِعْت رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : خَالِد سَیْفٌ مِنْ سُیُوفِ اللہِ وَنِعْمَ فَتَی الْعَشِیرَۃِ۔ (احمد ۹۰)
(٣٢٩٣٠) حضرت عبد الملک بن عمیر (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے حضرت ابو عبیدہ (رض) کو شام والوں پر امیر بنا کر بھیجا اور حضرت خالد بن ولید (رض) کو معزول کردیا۔ اس پر حضرت خالد بن ولید (رض) نے ارشاد فرمایا : تم لوگوں پر اس امت کے امین شخص کو امیر بنا کر بھیجا گیا۔ حضرت ابو عبیدہ (رض) نے ارشاد فرمایا : میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ خالد اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار ہیں۔ اور قبیلہ کے سب سے اچھے جوان ہیں۔

32930

(۳۲۹۳۱) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ عُثْمَانَ أَبِی الْیَقْظَانِ ، عَنْ أَبِی حَرْبِ بْنِ أَبِی الأَسْوَدِ الدَّیلِیِّ ، قَالَ : سَمِعْتُ عَبْدَ اللہِ بْنَ عَمْرٍو یقول : سَمِعْت رَسُولَ اللہِ یَقُولُ : مَا أَقَلَّتِ الْغَبْرَائُ ، وَلا أَظَلَّتِ الْخَضْرَائُ مِنْ رَجُلٍ أَصْدَقَ مِنْ أَبِی ذَرٍّ۔ (ترمذی ۳۸۰۱۔ احمد ۱۶۳)
(٣٢٩٣١) حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ نہ زمین پناہ دیتی ہے اور نہ ہی آسمان سایہ کرتا ہے ابو ذر سے زیادہ کسی سچے انسان پر۔

32931

(۳۲۹۳۲) حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُوسَی ، قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ زَیْدِ بْنِ جُدْعَانَ ، عَنْ بِلالِ بْنِ أَبِی الدَّرْدَائِ ، عَنْ أَبِی الدَّرْدَائِ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : مَا أَظَلَّتِ الْخَضْرَائُ ، وَلاَ أَقَلَّتِ الْغَبْرَائُ مِنْ ذِی لَہْجَۃٍ أَصْدَقَ مِنْ أَبِی ذَرٍّ۔ (احمد ۴۴۲۔ ابن سعد ۲۲۸)
(٣٢٩٣٢) حضرت ابوالدردائ (رض) فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : نہ آسمان سایہ کرتا ہے اور نہ ہی زمین پناہ دیتی ہے ابوذر (رض) سے زیادہ لہجہ کے اعتبار سے کسی سچے انسان کو۔

32932

(۳۲۹۳۳) حَدَّثَنَا یَزِیدُ ، عَنْ أَبِی أُمَیَّۃَ بْنِ یَعْلَی الثَّقَفِیِّ ، عَنْ أَبِی الزِّنَادِ ، عَنِ الأَعْرَجِ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَا أَظَلَّتِ الْخَضْرَائُ ، وَلا أَقَلَّتِ الْغَبْرَائُ مِنْ ذِی لَہْجَۃٍ أَصْدَقَ مِنْ أَبِی ذَرٍّ، وَمَنْ سَرَّہُ أَنْ یَنْظُرَ إِلَی تَوَاضُعِ عِیسَی ابْنِ مَرْیَمَ فَلْیَنْظُرْ إِلَی أَبِی ذَرٍّ۔ (ابن سعد ۲۲۸)
(٣٢٩٣٣) حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : نہ آسمان سایہ کرتا ہے اور نہ زمین پناہ دیتی ہے ابوذر سے زیادہ لہجہ کے اعتبار سے سچے انسان کو۔ اور جو شخص چاہتا ہے کہ وہ حضرت عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) کی عاجزی و انکساری کو دیکھے تو اس کو چاہیے کہ وہ ابوذر (رض) کی طرف دیکھ لے۔

32933

(۳۲۹۳۴) حَدَّثَنَا یَزِیدُ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو ، عَنْ عِرَاکِ بْنِ مَالِکٍ ، قَالَ : قَالَ أَبُو ذَرٍّ : إنِّی لأَقْرَبُکُمْ مِنْ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَجْلِسًا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ، قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَنْ خَرَجَ مِنَ الدُّنْیَا کَہَیْئَۃِ مَا تَرَکْتُہُ فِیہَا ، وَإِنَّہُ وَاللہِ مَا مِنْکُمْ مِنْ أَحَدٍ إلاَّ قَدْ تَشَبَّثَ مِنْہَا بِشَیْئٍ غَیْرِی۔ (احمد ۱۶۵۔ ابن سعد ۲۲۸)
(٣٢٩٣٤) حضرت عراک بن مالک (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت ابوذر (رض) نے ارشاد فرمایا : یقیناً میں تم سب میں قیامت کے دن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زیادہ قریب ہوں گا مجلس کے اعتبار سے۔ اس لیے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : بیشک تم میں سے سب سے زیادہ میرے قریب قیامت کے دن وہ شخص ہوگا جو دنیا سے ایسے نکلے جیسا کہ میں نے اس کو اس دنیا میں چھوڑ اتھا۔ اور یقیناً اللہ کی قسم ! تم میں سے کوئی شخص بھی نہیں ہے میرے سوا مگر یہ کہ وہ کچھ نہ کچھ دنیا سے چمٹ گیا۔

32934

(۳۲۹۳۵) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِیٍّ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إنَّمَا فَاطِمَۃُ بَضْعَۃٌ مِنِّی ، فَمَنْ أَغْضَبَہَا أَغْضَبَنِی۔
(٣٢٩٣٥) حضرت محمد بن علی (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : فاطمہ میرے جسم کا ٹکڑا ہے۔ پس جس نے اس کو غصہ دلایا اس نے مجھے غصہ دلایا۔

32935

(۳۲۹۳۶) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو ، عَنْ أَبِی سَلَمَۃَ ، عَنْ عَائِشَۃَ ، قَالَتْ : قلْت لِفَاطِمَۃَ ابْنَۃِ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : رَأَیْتُک حِینَ أَکْبَبْت عَلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی مَرَضِہِ فَبَکَیْتِ، ثُمَّ أَکْبَبْتِ عَلَیْہِ ثَانِیَۃً فَضَحِکْتِ ، قَالَتْ : أَکْبَبْتُ عَلَیْہِ فَأَخْبَرَنِی إِنَّہُ مَیِّتٌ فَبَکَیْتُ ، ثُمَّ أَکْبَبْتُ عَلَیْہِ الثَّانِیَۃَ فَأَخْبَرَنِی أَنِّی أَوَّلُ أَہْلِہِ لُحُوقًا بِہِ ، وَأَنِّی سَیِّدَۃُ نِسَائِ أَہْلِ الْجَنَّۃِ إلاَّ مَرْیَمَ ابْنَۃَ عِمْرَانَ ، فَضَحِکْتُ۔ (بخاری ۳۶۲۳۔ مسلم ۹۹)
(٣٢٩٣٦) حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ میں نے حضرت فاطمہ (رض) سے پوچھا : میں نے تجھے دیکھا تھا جب تم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جھکیں ان کے مرض وفات میں پھر رونے لگیں۔ پھر تم دوبارہ ان پر جھکیں پس دوسری مرتبہ تم ہنس پڑیں ؟ ! آپ (رض) نے فرمایا : میں جب پہلے جھکی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے بتلایا کہ وہ فوت ہونے والے ہیں۔ تو میں رو پڑی۔ پھر میں دوبارہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جھکی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے بتلایا کہ میں اپنے گھر والوں میں سب سے پہلے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ملوں گی۔ اور بیشک میں جنت کی تمام عورتوں کی سردار ہوں۔ سوائے مریم بن عمران کے۔ تو اس بات پر میں ہنس پڑی۔

32936

(۳۲۹۳۷) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ الْحُبَابِ ، عَنْ إسْرَائِیلَ ، عَنْ مَیْسَرَۃَ النَّہْدِیِّ ، عَنِ الْمِنْہَالِ بْنِ عَمْرٍو ، عَنْ زِرِّ بْنِ حُبَیْشٍ ، عَنْ حُذَیْفَۃَ ، قَالَ : أَتَیْتُ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَخَرَجَ فَاتَّبَعْتہ ، فَقَالَ : مَلَکٌ عَرَضَ لِی اسْتَأْذَنَ رَبَّہُ أَنْ یُسَلِّمَ عَلَیَّ وَیُخْبِرَنِی أَنَّ فَاطِمَۃَ سَیِّدَۃُ نِسَائِ أَہْلِ الْجَنَّۃِ۔
(٣٢٩٣٧) حضرت حذیفہ (رض) فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) باہر نکل گئے پھر میں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تلاش کیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ایک فرشتہ آیا تھا اس نے اپنے رب سے اجازت مانگی تھی مجھ پر درود وسلام پڑھنے کی، اور اس نے مجھے بتلایا کہ حضرت فاطمہ (رض) جنت کی عورتوں کی سردار ہیں۔

32937

(۳۲۹۳۸) حَدَّثَنَا شَاذَانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ زَیْدٍ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یَمُرُّ بِبَیْتِ فَاطِمَۃَ سِتَّۃَ أَشْہُرٍ إذَا خَرَجَ إِلَی الْفَجْرِ فَیَقُولُ : الصَّلاۃَ یَا أَہْلَ الْبَیْتِ {إنَّمَا یُرِیدُ اللَّہُ لِیُذْہِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ أَہْلَ الْبَیْتِ وَیُطَہِّرَکُمْ تَطْہِیرًا}۔ (ترمذی ۳۲۰۶۔ ابویعلی ۳۹۶۶)
(٣٢٩٣٨) حضرت انس بن مالک (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب صبح فجر کی نماز کے لیے نکلتے تو چھ مہینے تک حضرت فاطمہ (رض) کے گھر سے گزرتے رہے اور فرماتے ! اے گھر والو ! نماز کا وقت ہے۔ پس اللہ تو یہی چاہتا ہے کہ اے نبی کے گھر والو ! تم سے گندگی کو دور کر دے۔ اور تمہیں پوری طرح پاک کر دے۔

32938

(۳۲۹۳۹) حَدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ أَبِی فَرْوَۃَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِی لَیْلَی ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : فَاطِمَۃُ سَیِّدَۃُ نِسَائِ الْعَالَمِینَ بَعْدَ مَرْیَمَ ابْنَۃِ عِمْرَانَ وَآسِیَۃَ امْرَأَۃِ فِرْعَوْنَ وَخَدِیجَۃَ ابْنَۃِ خُوَیْلِدٍ۔ (ترمذی ۳۸۷۸۔ نسائی ۸۳۵۵)
(٣٢٩٣٩) حضرت عبد الرحمن بن ابی لیلیٰ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : فاطمہ (رض) تمام جہان کی عورتوں کی سردار ہیں۔ مریم بنت عمران، فرعون کی بیوی آسیہ، اور خدیجہ بنت خویلد کے بعد۔

32939

(۳۲۹۴۰) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، عَنْ زَکَرِیَّا ، عَنْ عَامِرٍ ، قَالَ : خَطَبَ عَلِیٌّ بِنْتَ أَبِی جَہْلٍ إِلَی عَمِّہَا الْحَارِثِ بْنِ ہِشَامٍ ، فَاسْتَأْمَرَ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیہَا ، فَقَالَ : عَنْ حَسَبِہَا تَسْأَلُنِی ، قَالَ عَلِیٌّ : قَدْ أَعْلَمُ مَا حَسَبُہَا وَلَکِنْ تَأْمُرُنِی بِہَا ؟ قَالَ : لاَ فَاطِمَۃُ بِضْعَۃٌ مِنِّی ، وَلا أُحِبُّ أَنْ تَجْزَعَ ، فَقَالَ عَلِیٌّ : لاَ آتِی شَیْئًا تَکْرَہُہُ۔ (حاکم ۱۵۸)
(٣٢٩٤٠) حضرت عامر (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت علی (رض) نے ابو جہل کی بیٹی کے لیے اس کے چچا حارث بن ہشام کو پیام نکاح بھیجا پھر آپ (رض) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بھی اس بارے میں مشورہ مانگا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا : کیا تم اس کے حسب ونسب کے بارے میں مجھ سے پوچھ رہے ہو ؟ حضرت علی (رض) نے عرض کیا : میں جانتا ہوں اس کا حسب و نسب کیا ہے۔ لیکن کیا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مجھے اس کی اجازت دیتے ہیں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : نہیں ! فاطمہ میرے جسم کا ٹکڑا ہے۔ اور میں پسند نہیں کرتا کہ وہ پریشان ہو۔ اس پر حضرت علی (رض) نے فرمایا : میں کوئی ایسا کام نہیں کروں گا جس کو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ناپسند کرتے ہوں۔

32940

(۳۲۹۴۱) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ بْنِ سُمَیْعٍ ، عَنْ مُسْلِمٍ الْبَطِینِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : عَائِشَۃُ زَوْجِی فِی الْجَنَّۃِ۔ (ابن سعد ۶۶)
(٣٢٩٤١) حضرت مسلم بطین (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : عائشہ (رض) جنت میں بھی میری بیوی ہیں۔

32941

(۳۲۹۴۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ ، عَنْ مُرَّۃَ ، عَنْ أَبِی مُوسَی ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : کَمُلَ مِنَ الرِّجَالِ کَثِیرٌ وَلَمْ یَکْمُلْ مِنَ النِّسَائِ إلاَّ آسِیَۃُ امْرَأَۃُ فِرْعَوْنَ وَمَرْیَمُ ابْنَۃُ عِمْرَانَ ، وَفَضْلُ عَائِشَۃَ عَلَی النِّسَائِ کَفَضْلِ الثَّرِیدِ عَلَی الطَّعَامِ۔ (مسلم ۱۸۸۶۔ ترمذی ۱۸۳۴)
(٣٢٩٤٢) حضرت ابو موسیٰ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : بہت سے آدمی کامل ہوئے اور عورتوں میں کامل نہیں ہوئیں مگر آسیہ فرعون کی بیوی، اور مریم بنت عمران (رض) اور عائشہ (رض) کی فضیلت عورتوں پر ایسی ہے جیسے ثرید کی فضیلت سب کھانوں پر۔

32942

(۳۲۹۴۳) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، عَنْ زُہَیْرٍ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : عَائِشَۃُ تَفْضُلُ النِّسَائَ کَمَا یُفَضَّلُ الثَّرِیدُ سَائِرِ الطَّعَامِ۔
(٣٢٩٤٣) حضرت مصعب بن سعد (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : عائشہ عورتوں پر ایسی ہی فضیلت رکھتی ہیں جیسا کہ ثرید کھانوں پر فضیلت رکھتا ہے۔

32943

(۳۲۹۴۴) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ بْنِ أَبِی خَالِدٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِی الضَّحَّاکِ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ زَیْدِ بْنِ جُدْعَانَ ، قَالَ : حُدِّثْنَا أَنَّ عَبْدَ اللہِ بْنَ صَفْوَانَ وَآخَرَ مَعَہُ أَتَیَا عَائِشَۃَ ، فَقَالَتْ عَائِشَۃُ : یَا فُلانُ ہَلْ سَمِعْت حَدِیثَ حَفْصَۃَ ، فَقَالَ : نَعَمْ یَا أُمَّ الْمُؤْمِنِینَ ، فَقَالَ لَہَا عَبْدُ اللہِ بْنُ صَفْوَانَ : وَمَا ذَاکَ یَا أُمَّ الْمُؤْمِنِینَ ، قَالَتْ : خِلالٌ فِی تِسْعٌ لَمْ تَکُنْ فِی أَحَدٍ مِنَ النَّاسِ إلاَّ مَا آتَی اللَّہُ مَرْیَمَ ابْنَۃَ عِمْرَانَ ، وَاللہِ مَا أَقُولُ ہَذَا أَنِّی أَفْتَخِرُ عَلَی صَوَاحِبِی ، قَالَ عَبْدُ اللہِ بْنُ صَفْوَانَ : وَمَا ہِیَ یَا أُمَّ الْمُؤْمِنِینَ ، قَالَتْ : نَزَلَ الْمَلَکُ بِصُورَتِی ، وَتَزَوَّجَنِی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِسَبْعِ سِنِینَ ، وَأُہْدِیت إلَیْہِ لِتِسْعِ سِنِینَ ، وَتَزَوَّجَنِی بِکْرًا لَمْ یُشْرِکْہُ فِیَّ أَحَدٌ مِنَ النَّاسِ ، وَأَتَاہُ الْوَحْیُ وَأَنَا وَإِیَّاہُ فِی لِحَافٍ وَاحِدٍ ، وَکُنْت مِنْ أَحَبِّ النَّاسِ إلَیْہِ ، وَنَزَلَ فِی آیَاتٌ مِنَ الْقُرْآنِ کَادَتِ الأُمَّۃُ تَہْلِکُ فِیہِنَ ، وَرَأَیْت جِبْرِیلَ وَلَمْ یَرَہُ أَحَدٌ مِنْ نِسَائِہِ غَیْرِی ، وَقُبِضَ فِی بَیْتِی لَمْ یکن أَحَدٌ غَیْرُ الْمَلَکِ وَأَنَا۔ (بخاری ۱۰۹۶۔ حاکم ۱۰)
(٣٢٩٤٤) حضرت عبد الرحمن بن محمد بن زید فرماتے ہیں کہ ہمیں بیان کیا گیا ہے کہ حضرت عبداللہ بن صفوان اور ان کے ساتھ ایک دوسرا آدمی یہ دونوں حضرت عائشہ (رض) کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ حضرت عائشہ (رض) نے فرمایا : اے فلاں ! کیا تو نے حضرت حفصہ (رض) کی حدیث سنی ؟ اس نے عرض کیا : جی ہاں ! ام المؤمنین، اس پر حضرت عبداللہ بن صفوان (رض) نے ان سے پوچھا : اے ام المؤمنین ! وہ حدیث کیا ہے ؟ آپ (رض) نے فرمایا : مجھ میں نو خصلتیں ایسی ہیں جو لوگوں میں سے کسی میں بھی نہیں ہیں۔ سوائے ان کے جو اللہ نے حضرت مریم بنت عمران کو عطا فرمائیں۔ اللہ کی قسم ! میں یہ نہیں کہتی کہ میں اپنی ساتھیوں پر فخر کرتی ہوں عبداللہ بن صفوان نے پوچھا : اے ام المؤمنین ! وہ خصلتیں کیا ہیں ؟
آپ (رض) نے فرمایا : فرشتہ میری تصویر لے کر اترا، اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھ سے شادی کی جب کہ میں سات سال کی تھی اور مجھے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے پیش کیا گیا نو سال کی عمر میں۔ اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صرف مجھ باکرہ سے شادی کی۔ اور اس میں میرا کوئی بھی شریک نہیں۔ اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس وحی آتی اس حال میں کہ میں اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک ہی بستر میں ہوتے۔ اور میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو لوگوں میں سب سے زیادہ محبوب تھی۔ اور میرے بارے میں قرآن کی چند آیات اتریں۔ اور قریب تھا کہ امت ان کے بارے میں ہلاک کردی جاتی۔ اور میں نے حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کو دیکھا اور میرے علاوہ کسی عورت نے بھی ان کو نہیں دیکھا۔ اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا وصال میرے گھر میں ہوا جہاں میرے اور فرشتہ کے سوا کوئی نہیں تھا۔

32944

(۳۲۹۴۵) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ ، عَنْ مجالد ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، قَالَ : أَخْبَرَتْنِی عَائِشَۃُ ، قَالَتْ : بَیْنَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ جَالِسٌ فِی الْبَیْتِ إذْ دَخَلَ الْحُجْرَۃَ عَلَیْنَا رَجُلٌ عَلَی فَرَسٍ فَقَامَ إلَیْہِ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : فَوَضَعَ یَدَہُ عَلَی مَعْرَفَۃِ الْفَرَسِ فَجَعَلَ یُکَلِّمُہُ ، قَالَتْ : ثُمَّ رَجَعَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقُلْتُ : یَا رَسُولَ اللہِ مَنْ ہَذَا الَّذِی کُنْتَ تُنَاجِی ، قَالَ : وَہَلْ رَأَیْت أَحَدًا ، قَالَتْ : قُلْتُ : نَعَمْ ، رَأَیْت رَجُلاً عَلَی فَرَسٍ ، قَالَ : بِمَنْ شَبَّہْتہ ، قَالَتْ : بِدِحْیَۃَ الْکَلْبِیِّ ، قَالَ : ذَاکَ جِبْرِیلُ ، قَالَ : قَدْ رَأَیْت خَیْرًا : قَالَت : ثُمَّ لَبِثْت مَا شَائَ اللَّہُ أَنْ یلْبَثَ فَدَخَلَ جِبْرِیلُ وَرَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی الْحُجْرَۃِ ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : یَا عَائِشَۃُ ، قُلْتُ : لَبَّیْکَ وَسَعْدَیْکَ یَا رَسُولَ اللہِ ، قَالَ : ہَذَا جِبْرِیلُ وَقَدْ أَمَرَنِی أَنْ أُقْرِئَک مِنْہُ السَّلاَمَ ، قَالَتْ : قُلْتُ : أَرْجِعْ إلَیْہِ مِنِّی السَّلامَ وَرَحْمَۃَ اللہِ وَبَرَکَاتِہِ ، جَزَاک اللَّہُ مِنْ دَخِیلٍ خَیْرَ مَا یَجْزِی الدُّخَلائَ ، قَالَتْ : وَکَانَ یَنْزِلُ الْوَحْیُ عَلَی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَأَنَا وَہُوَ فِی لِحَافٍ وَاحِدٍ۔ (طبرانی ۹۵۔ حمیدی ۲۷۷)
(٣٢٩٤٥) حضرت مسروق (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عائشہ (رض) نے مجھے خبر دی کہ اس درمیان کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) گھر میں بیٹھے ہوئے تھے ایک گھوڑے پر سوار آدمی حجرے میں ہم پر داخل ہوا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اٹھ کر اس کی طرف گئے اور اپنا ہاتھ گھوڑے کی گردن پر رکھا ۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس شخص سے بات کرنا شروع کردی۔ حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) واپس لوٹے۔ تو میں نے پوچھا : اے اللہ کے رسول 5! یہ کون شخص تھا جس سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سرگوشی فرما رہے تھے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کیا تم نے کسی کو دیکھا ؟ حضرت عائشہ (رض) کہتی ہیں : میں نے عرض کیا : جی ہاں ! میں نے ایک آدمی کو گھوڑے پر سوار دیکھا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا : تو نے اس شخص کو کس کے مشابہہ پایا ؟ آپ (رض) نے جواب دیا : حضرت دحیہ کلبی (رض) کے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : وہ جبرائیل (علیہ السلام) تھے تحقیق تو نے خیر کی بات دیکھی۔
حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں۔ پھر وہ ٹھہرے جب تک اللہ نے چاہا کہ وہ ٹھہریں۔ پس حضرت جبرائیل (علیہ السلام) داخل ہوئے اس حال میں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حجرے میں تھے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے عائشہ (رض) ! میں نے کہا : میں حاضر ہوں : اے اللہ کے رسول 5! آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : یہ جبرائیل (علیہ السلام) ہیں، تحقیق انھوں نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں تمہیں ان کی طرف سے سلام کہوں۔ میں نے کہا : آپ بھی میری طرف سے ان کو کہہ دیں، اللہ کی سلامتی ، رحمت ہو اور برکتیں ہوں۔ اللہ مہمان کو جو تمام داخل ہونے والے مہمانوں میں سب سے بہتر مہمان ہے بہترین بدلہ عطا فرمائے ۔ آپ (رض) نے فرمایا : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر وحی اترتی تھی۔ اس حال میں کہ میں اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک ہی بستر میں ہوتے ۔

32945

(۳۲۹۴۶) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ ، قَالَ : حدَّثَنِی مُصْعَبُ بْنُ إِسْحَاقَ بْنِ طَلْحَۃَ أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : قَدْ أُرِیتُ عَائِشَۃَ فِی الْجَنَّۃِ لِیَہُونَ عَلَیَّ بِذَلِکَ مَوْتِی کَأَنِّی أَرَی کَفَّہَا۔ (ابن سعد ۶۵)
(٣٢٩٤٦) حضرت مصعب بن اسحاق بن طلحہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : تحقیق جنت میں مجھے عائشہ دکھلائی گئی، تاکہ اس کی وجہ سے مجھ پر میری موت آسان ہوجائے۔ گویا کہ میں نے اس کا ہاتھ دیکھا۔

32946

(۳۲۹۴۷) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَنْ زَائِدَۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : فَضْلُ عَائِشَۃَ عَلَی النِّسَائِ کَفَضْلِ الثَّرِیدِ عَلَی سَائِرِ الطَّعَامِ۔ (بخاری ۵۴۱۹۔ ترمذی ۳۸۸۷)
(٣٢٩٤٧) حضرت انس بن مالک (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : عائشہ (رض) کی فضیلت عورتوں پر ایسی ہی ہے جیسا کہ ثرید کی فضیلت تمام کھانوں پر۔

32947

(۳۲۹۴۸) حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ شَرِیکٍ ، عَنِ ابْنِ أَبِی مُلَیْکَۃَ ، قَالَ : قَالَتْ عَائِشَۃُ : تُوُفِّیَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی بَیْتِی وَبَیْنَ سَحْرِی وَنَحْرِی۔ (بخاری ۳۱۰۰۔ احمد ۴۸)
(٣٢٩٤٨) حضرت ابن ابی ملیکہ (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عائشہ (رض) نے ارشاد فرمایا : کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے میرے گھر میں میرے سینہ اور پیٹ کے درمیان وفات پائی۔

32948

(۳۲۹۴۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنِ الْحَکَمِ ، عَنْ أَبِی وَائِلٍ أَنَّ عَلِیًّا بَعَثَ عَمَّارًا وَالْحَسَنَ یَسْتَنْفِرَانِ النَّاسَ، قَالَ : فَقَامَ رَجُلٌ فَوَقَعَ فِی عَائِشَۃَ ، فَقَالَ عَمَّارٌ : إِنَّہَا لَزَوْجَۃُ نَبِیِّنَا صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی الدُّنْیَا وَالآخِرَۃِ ، وَلَکِنَّ اللَّہَ ابْتَلاَنَا بِہَا لِیَعْلَمَ إیَّاہُ نُطِیعُ ، أَوْ إیَّاہَا۔ (بخاری ۳۷۷۲۔ احمد ۲۶۵)
(٣٢٩٤٩) حضرت ابو وائل (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت علی (رض) نے حضرت عمار (رض) اور حضرت حسین (رض) کو بھیجا کہ یہ دونوں لوگوں سے مدد طلب کریں۔ ایک آدمی کھڑا ہوا اور حضرت عائشہ (رض) میں عیب نکالنے لگا ، تو حضرت عمار (رض) نے فرمایا : یقیناً وہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زوجہ مطہرہ (رض) ہیں دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ لیکن اللہ نے ہمیں ان کے ذریعہ آزمائش میں ڈالا ہے کہ ہم اس کی (حضرت علی (رض) ) فرمان برداری کرتے ہیں یا ان کی۔

32949

(۳۲۹۵۰) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، قَالَ : حدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ بْنُ أَبِی خَالِدٍ ، عَنْ رَجُلٍ ، عَنْ عَمَّارٍ ، قَالَ : إنَّ عَائِشَۃَ زَوْجَۃُ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی الْجَنَّۃِ۔
(٣٢٩٥٠) حضرت عمار (رض) نے فرمایا : کہ یقیناً عائشہ (رض) جنت میں بھی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زوجہ ہیں۔

32950

(۳۲۹۵۱) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا مُوسَی الْجُہَنِیُّ ، عَنْ أَبِی بَکْرِ بْنِ حَفْصٍ ، قَالَ : جَائَتْ أُمُّ رُومَانَ وَہِیَ أُمُّ عَائِشَۃَ ، وَأَبُو بَکْرٍ إِلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالاَ : یَا رَسُولَ اللہِ ادْعُ اللَّہَ لِعَائِشَۃَ دَعْوَۃً نَسْمَعُہَا ، فَقَالَ عِنْدَ ذَلِکَ : اللَّہُمَّ اغْفِرْ لِعَائِشَۃَ ابْنَۃِ أَبِی بَکْرٍ مَغْفِرَۃً وَاجِبَۃً ظَاہِرَۃً وَبَاطِنَۃً۔ (حاکم ۱۲)
(٣٢٩٥١) حضرت ابوبکر بن حفص فرماتے ہیں کہ حضرت ام رومان جو حضرت عائشہ (رض) کی والدہ ہیں یہ اور حضرت ابوبکر (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے، ان دونوں نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول 5! آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ سے عائشہ کے لیے دعا فرمائیں جس کو ہم بھی سن لیں۔ اس وقت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دعا فرمائی۔ اے اللہ ! تو عائشہ بنت ابی بکر (رض) کی مغفرت فرما ضروری، ظاہری طور پر بھی اور باطنی طور پر بھی۔

32951

(۳۲۹۵۲) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ زَکَرِیَّا ، عَنْ عَامِرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا أَبُو سَلَمَۃَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَنَّ عَائِشَۃَ حَدَّثَتْہُ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ لَہَا : إنَّ جِبْرِیلَ یَقْرَأُ عَلَیْک السَّلاَمَ ، قَالَتْ عَائِشَۃُ : وَعَلَیْہِ السَّلاَمُ وَرَحْمَۃُ اللہِ وَبَرَکَاتُہُ۔
(٣٢٩٥٢) حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے فرمایا : بیشک جبرائیل (علیہ السلام) تم کو سلام کہہ رہے ہیں۔ حضرت عائشہ (رض) نے فرمایا : ان پر بھی سلامتی ہو۔ اور اللہ کی رحمت اور برکتیں ہوں۔

32952

(۳۲۹۵۳) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ عُمَارَۃَ بْنِ الْقَعْقَاعِ ، عَنْ أَبِی زُرْعَۃَ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : سَمِعْتہ یَقُولُ: أَتَی جِبْرِیلُ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : ہَذِہِ خَدِیجَۃُ قَدْ أَتَتْک ، مَعَہَا إنَائٌ فِیہِ إدَامٌ ، أَوْ طَعَامٌ، أَوْ شَرَابٌ ، فَإِذَا ہِیَ أَتَتْک فَاقْرَأْ عَلَیْہَا السَّلاَمَ مِنْ رَبِّہَا وَبَشِّرْہَا بِبَیْتٍ فِی الْجَنَّۃِ مِنْ قَصَبٍ لاَ صَخَبَ فِیہِ ، وَلاَ نَصَبَ۔ (بخاری ۳۸۲۰۔ مسلم ۱۸۸۷)
(٣٢٩٥٣) حضرت ابو زرعہ (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوہریرہ (رض) کو یوں ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آ کر عرض کیا۔ یہ خدیجہ (رض) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئیں ہیں، اس حال میں کہ ان کے ساتھ ایک برتن ہے جس میں سالن یا کھانا یا پانی ہے۔ پس جب یہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آجائیں تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کو ان کے رب کی طرف سے سلام کہہ دیں۔ اور ان کو جنت میں موتیوں سے بنے ہوئے گھر کی بشارت بھی سنا دیں۔ جس میں نہ تو شورو غل ہوگا اور نہ تھکاوٹ۔

32953

(۳۲۹۵۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ وَیَعْلَی ، عَنْ إسْمَاعِیلَ بْنِ أَبِی خَالِدٍ ، عَنِ ابْنِ أَبِی أَوْفَی ، قَالَ : سَمِعْتہ یَقُولُ : بَشَّرَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خَدِیجَۃَ بِبَیْتٍ فِی الْجَنَّۃِ مِنْ قَصَبٍ لاَ صَخَبَ فِیہِ ، وَلاَ نَصَبَ۔ (مسلم ۱۸۸۸۔ بخاری ۱۷۹۲)
(٣٢٩٥٤) حضرت ابن ابی اوفی (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت خدیجہ (رض) کو جنت میں موتیوں سے بنے ہوئے گھر کی بشارت سنائی جس میں نہ تو شوروغل ہوگا اور نہ ہی تھکاوٹ ہوگی۔

32954

(۳۲۹۵۵) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، وَأَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ جَعْفَرٍ ، عَنْ عَلِیٍّ ، قَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : خَیْرُ نِسَائِہَا مَرْیَمُ ابْنَۃَ عِمْرَانَ وَخَیْرُ نِسَائِہَا خَدِیجَۃُ۔ (بخاری ۳۴۳۲۔ مسلم ۶۹)
(٣٢٩٥٥) حضرت علی (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یوں ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ عورتوں میں سب سے بہتر مریم بنت عمران (رض) ہیں۔ اور عورتوں میں سب سے بہتر خدیجہ (رض) ہیں۔

32955

(۳۲۹۵۶) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِی صَالِحٍ ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : أَتَی جِبْرِیلُ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : بَشِّرْ خَدِیجَۃَ بِبَیْتٍ فِی الْجَنَّۃِ مِنْ قَصَبٍ لاَ صَخَبَ فِیہِ ، وَلاَ نَصَبَ۔
(٣٢٩٥٦) حضرت ابو صالح (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب (رض) میں سے کسی ایک سے نقل فرماتے ہیں کہ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے اور فرمایا : حضرت خدیجہ (رض) کو جنت میں موتیوں سے بنے ہوئے گھر کی خوشخبری سنا دیں جس میں نہ تو شوروغل ہوگا اور نہ ہی کسی قسم کی تھکاوٹ ہوگی۔

32956

(۳۲۹۵۷) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : حَسْبُک مِنْ نِسَائِ الْعَالَمِینَ بِأَرْبَعٍ : خَدِیجَۃَ ابْنَۃِ خُوَیْلِدٍ وَفَاطِمَۃَ ابْنَۃِ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَآسِیَۃَ امْرَأَۃِ فِرْعَوْنَ وَمَرْیَمَ ابْنَۃِ عِمْرَانَ۔ (ترمذی ۳۸۷۸۔ احمد ۱۳۳۸)
(٣٢٩٥٧) حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : تجھے تمام جہان کی عورتوں میں سے چار ہی کافی ہیں۔ خدیجہ بنت خویلد (رض) ، فاطمہ بنت محمد (رض) ، آسیہ (رض) فرعون کی بیوی، اور مریم بنت عمران (رض) ۔

32957

(۳۲۹۵۸) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَنْ ثَابِتٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِی لَیْلَی ، قَالَ : بَیْنَمَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ جَالِسٌ مَعَہُ جِبْرِیلُ إذْ أَقْبَلَتْ خَدِیجَۃُ ، فَقَالَ جِبْرِیلُ : یَا رَسُولَ اللہِ ، ہَذِہِ خَدِیجَۃُ فَأَقْرِئْہَا مِنَ اللہِ تَبَارَکَ وَتَعَالَی السَّلاَمَ وَمِنِّی۔
(٣٢٩٥٨) حضرت عبد الرحمن بن ابی لیلیٰ (رض) فرماتے ہیں کہ اس درمیان کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف فرما تھے اور حضرت جبرائیل (علیہ السلام) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ تھے کہ حضرت خدیجہ (رض) آئیں۔ تو حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے فرمایا : اے اللہ کے رسول 5! یہ خدیجہ (رض) ہیں۔ پس آپ ان کو اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے اور میری طرف سے سلام کہہ دیں۔

32958

(۳۲۹۵۹) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الشَّیْبَانِیِّ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عُبَیْدِ اللہِ الثَّقَفِیِّ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مُعَاذٌ بَیْنَ یَدَیِ الْعُلَمَائِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ رَتْوَۃٌ۔ (طبرانی ۴۱)
(٣٢٩٥٩) حضرت محمد بن عبید اللہ الثقفی (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : معاذ (رض) قیامت کے دن علماء کے سامنے بڑے مرتبہ والے ہوں گے۔

32959

(۳۲۹۶۰) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَنْ زَائِدَۃَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مُعَاذٌ بَیْنَ یَدَیِ الْعُلَمَائِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ نُبْذَۃٌ۔
(٣٢٩٦٠) حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : معاذ (رض) قیامت کے دن علماء کے سامنے بڑے مرتبہ والے ہوں گے۔

32960

(۳۲۹۶۱) حَدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ خَالِدٍ ، عَنْ أَبِی قِلاَبَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إنَّ لِکُلِّ أُمَّۃٍ أَمِینًا ، وَإِنَّ أَمِینَنَا أَیَّتُہَا الأُمَّۃُ أَبُو عُبَیْدَۃَ بْنُ الْجَرَّاحِ۔ (مسلم ۱۸۸۱۔ ابویعلی ۲۸۰۰)
(٣٢٩٦١) حضرت ابو قلابہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : یقیناً ہر امت کا ایک امین ہوتا ہے۔ اور بیشک ہماری امت کا امین ابو عبیدہ بن جراح ہیں۔

32961

(۳۲۹۶۲) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَا مِنْ أَصْحَابِی أَحَدٌ إلاَّ لَوْ شِئْت اتَّخَذْت عَلَیْہِ بَعْضَ خُلُقِہِ غَیْرَ أَبِی عُبَیْدَۃَ۔
(٣٢٩٦٢) حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : میرے صحابہ (رض) میں سے کوئی ایک بھی نہیں ہے مگر یہ کہ میں چاہتا ہوں اس کے اخلاق کو تبدیل کر دوں سوائے ابو عبیدہ (رض) کے۔

32962

(۳۲۹۶۳) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ زَکَرِیَّا بْنِ أَبِی زَائِدَۃَ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ صِلَۃَ بْنِ زُفَرَ ، عَنْ حُذَیْفَۃَ قَالَ : أَتَی النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أُسْقُفُ نَجْرَانَ الْعَاقِبُ وَالسَّیِّدُ فَقَالاَ : ابْعَثْ مَعَنَا رَجُلاً أَمِینًا حَقَّ أَمِینٍ ، فَاسْتَشْرَفَ لَہَا أَصْحَابُ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : قُمْ یَا أَبَا عُبَیْدَۃَ بْنَ الْجَرَّاحِ۔ (بخاری ۳۷۴۵۔ مسلم ۱۸۸۲)
(٣٢٩٦٣) حضرت حذیفہ (رض) فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس نجران کے دو پادری آئے عاقب اور سید۔ ان دونوں نے کہا : آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے ساتھ ایسے شخص کو بھیجیں جو پوری طرح امانت دار ہو۔ تو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہن خواہش کرنے لگے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے ابو عبیدہ ! تم کھڑے ہو جاؤ۔

32963

(۳۲۹۶۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ صِلَۃَ ، عَنْ حُذَیْفَۃَ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِنَحْوِہِ۔ (مسلم ۱۸۸۲۔ ترمذی ۳۷۹۶)
(٣٢٩٦٤) حضرت حذیفہ (رض) سے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ما قبل والا ارشاد اس سند سے بھی منقول ہے۔

32964

(۳۲۹۶۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا الأَعْمَشُ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : قَالَ عُمَرُ : مَنْ أَسْتَخْلِفُ لَوْ کَانَ أَبُو عُبَیْدَۃَ بْنُ الْجَرَّاحِ۔
(٣٢٩٦٥) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) کہنے لگے۔ میں کس کو خلیفہ بناؤں ؟ ! کاش کہ ابو عبیدہ بن جراح ہوتے۔

32965

(۳۲۹۶۶) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ سُہَیْلِ بْنِ أَبِی صَالِحٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : نِعْمَ الرَّجُلُ أَبُو عُبَیْدَۃَ بْنُ الْجَرَّاحِ۔
(٣٢٩٦٦) حضرت ابو صالح (رض) فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ابو عبیدہ بن جراح (رض) اچھے شخص ہیں۔

32966

(۳۲۹۶۷) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ عَطِیَّۃَ ، قَالَ : جَائَ رَجُلٌ یُقَالُ لَہُ عُبَادَۃُ بْنُ الصَّامِتِ ، فَقَالَ : یَا رَسُولَ اللہِ إنَّ لِی مَوَالِیَ مِنَ الْیَہُودِ کَثِیرٌ عَدَدُہُمْ حاضر نصرہم ، وَأَنَا أَبْرَأُ إلَی اللہِ وَرَسُولِہِ مِنْ وِلاَیَۃِ یَہُودٍ ، فَأَنْزَلَ اللَّہُ فِی عُبَادَۃَ : {إنَّمَا وَلِیُّکُمُ اللَّہُ وَرَسُولُہُ وَالَّذِینَ آمَنُوا} الآیَۃَ إلَی قَوْلِہِ : {بِأَنَّہُمْ قَوْمٌ لاَیَعْقِلُونَ}۔
(٣٢٩٦٧) حضرت عطیہ (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عبادہ بن صامت (رض) آئے اور فرمایا : اے اللہ کے رسول 5! میرے یہود میں بہت سے موالی ہیں۔ جن کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ اور ان کی مدد موجود ہے۔ اور میں یہود کی ولایت سے اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف بری ہوں۔ پس اللہ رب العزت نے حضرت عبادہ (رض) کے بارے میں یہ آیت اتاری : {إنَّمَا وَلِیُّکُمُ اللَّہُ وَرَسُولُہُ وَالَّذِینَ آمَنُوا } سے لے کر { بِأَنَّہُمْ قَوْمٌ لاَیَعْقِلُونَ } تک۔

32967

(۳۲۹۶۸) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِیزِ بْنِ رُفَیْعٍ ، قَالَ : لَمَّا سَارَ عَلِیٌّ إلَی صِفِّینَ اسْتَخْلَفَ أَبَا مَسْعُودٍ عَلَی النَّاسِ ، قَالَ : فَلَمَّا قَدِمَ عَلِیٌّ ، قَالَ لَہُ : أَنْتَ الْقَائِلُ مَا بَلَغَنِی عَنْک یَا فَرُّوخُ ، إنَّک شَیْخٌ قَدْ ذَہَبَ عَقْلُک ، قَالَ : أَذَہَبَ عَقْلِی وَقَدْ وَجَبَتْ لِی الْجَنَّۃُ فِی اللہِ وَرَسُولِہِ ، أَنْتَ تَعْلَمُہُ۔
(٣٢٩٦٨) حضرت عبد العزیز بن رفیع (رض) فرماتے ہیں کہ جب حضرت علی (رض) جنگ صفین میں جانے لگے تو حضرت ابو مسعود (رض) کو لوگوں پر خلیفہ بنادیا۔ پس جب حضرت علی (رض) واپس لوٹے تو ان سے فرمایا : کیا تو نے وہ بات کی ہے جو مجھے تمہاری طرف سے پہنچی ہے اے فروخ ؟ ! یقیناً تم بوڑھے ہو تحقیق تمہاری عقل چلی گئی ۔ آپ (رض) نے فرمایا : کیا میری عقل چلی گئی۔ پھر اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مطابق میرے لیے جنت واجب ہوگئی تم اس کو بہتر جانتے ہو۔

32968

(۳۲۹۶۹) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَنْ زَائِدَۃَ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : قالَتْ عَائِشَۃُ : مَا یَنْبَغِی لأَحَدٍ أَنْ یُبْغِضَ أُسَامَۃَ بَعْدَ مَا سَمِعْت مِنْ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : مَنْ کَانَ یُحِبُّ اللَّہَ وَرَسُولَہُ فَلْیُحِبَّ أُسَامَۃَ۔ (احمد ۱۵۶)
(٣٢٩٦٩) حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ کسی ایک کے لیے بھی مناسب نہیں ہے کہ وہ اسامہ (رض) سے بغض رکھے ۔ مجھ سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اس بات کو سن لینے کے بعد۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو شخص اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے محبت کرتا ہے پس اس کو چاہیے کہ وہ اسامہ سے بھی محبت کرے۔

32969

(۳۲۹۷۰) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، قَالَ : حدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ ، عَنْ قَیْسٍ أَنَّ أُسَامَۃَ بْنَ زَیْدٍ لَمَّا قُتِلَ أَبُوہُ قَامَ بَیْنَ یَدَیَ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَدَمَعَتْ عَیْنُ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، ثُمَّ جَائَ مِنَ الْغَدِ فَقَامَ مَقَامَہُ بِالأَمْسِ ، فَقَالَ لَہُ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : أُلاَقِی مِنْک الْیَوْمَ مَا لاَقَیْت مِنْک أَمْسِ۔ (احمد ۱۵۳۰)
(٣٢٩٧٠) حضرت قیس (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت اسامہ بن زید (رض) کے والد کو جب قتل کردیا گیا تو یہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے کھڑے تھے۔ اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آنسو بہہ رہے تھے۔ پھر اگلا دن آیا اور یہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جگہ پر کھڑے تھے۔ تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے فرمایا : آج میں تم سے اس جگہ مل رہا ہوں جہاں میں تم سے کل ملا تھا ؟

32970

(۳۲۹۷۱) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ قَطَعَ بَعْثًا قِبَلَ مُؤْتَۃَ وَأَمَّرَ عَلَیْہِمْ أُسَامَۃَ بْنَ زَیْدٍ ، وَفِی ذَلِکَ الْبَعْثِ أَبُو بَکْرٍ ، وَعُمَرُ ، قَالَ : فَکَأنَّ نَاسًا مِنَ النَّاسِ طَعَنُوا فِی ذَلِکَ لِتَأْمِیرِ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أُسَامَۃَ عَلَیْہِمْ ، فَقَامَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَخَطَبَ النَّاسَ ، فَقَالَ : إنَّ أُنَاسًا مِنْکُمْ قَدْ طَعَنُوا عَلَیَّ فِی تَأْمِیرِ أُسَامَۃَ ، وَإِنَّمَا طَعَنُوا فِی تَأْمِیرِ أُسَامَۃَ کَمَا طَعَنُوا فِی تَأْمِیرِ أَبِیہِ ، وَایْمُ اللہِ إِنْ کَانَ لَخَلِیقًا لِلإِمَارَۃِ ، وَإِنْ کَانَ لَمِنْ أَحَبِّ النَّاسِ إلَیَّ ، وَإِنَّ ابْنَہُ لأَحَبُّ النَّاسِ إلَیَّ مِنْ بَعْدِہِ ، وَإِنِّی لأَرْجُو أَنْ یَکُونَ مِنْ صَالِحِیکُمْ ، فَاسْتَوْصُوا بِہِ خَیْرًا۔ (بخاری ۳۷۳۰۔ مسلم ۱۸۸۴)
(٣٢٩٧١) حضرت عروہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے موتہ کی جانب بھیجنے کے لیے لشکر تیار کیا اور حضرت اسامہ بن زید (رض) کو ان پر امیر بنادیا حالانکہ اس لشکر میں حضرت ابوبکر (رض) اور حضرت عمر (رض) بھی تھے۔ راوی کہتے ہیں۔ پس گویا لوگوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اسامہ کو لشکر پر امیر بنانے پر ناگواری کا اظہار کیا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خطبہ ارشاد فرمانے کے لیے کھڑے ہوئے اور فرمایا : بیشک تم میں سے کچھ لوگوں نے مجھ سے ناگواری کا اظہار کیا ہے اسامہ کو امیر بنانے پر۔ اور بیشک انھوں نے اسامہ کو امیر بنانے سے پہلے اس کے باپ کو امیر بنائے جانے پر بھی ناگواری کا اظہار کیا تھا۔ اور اللہ کی قسم ! وہ امارت کے زیادہ قابل تھے۔ اور بیشک وہ بھی لوگوں میں سب سے زیادہ مجھے محبوب تھے۔ اور اس کے بعد اس کا بیٹا بھی مجھے لوگوں میں سب سے زیادہ محبوب ہے۔ اور بیشک میں امید کرتا ہوں۔ کہ یہ تمہارے نیکو کاروں میں سے ہوگا۔ پس تم لوگ اس کے ساتھ بھلائی کا معاملہ کرو۔

32971

(۳۲۹۷۲) حَدَّثَنَا شَرِیکٌ، عَنِ الْعَبَّاسِ بْنِ ذُرَیْحٍ، عَنِ الْبَہِیِّ، عَنْ عَائِشَۃَ، قَالَتْ: عَثَرَ أُسَامَۃُ بِعَتَبَۃِ الْبَابِ فَشُجَّ فِی وَجْہِہِ ، فَقَالَ لِی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : أَمِیطِی عَنْہُ الأَذَی ، فَقَذَرْتُہُ فَجَعَلَ یَمُصُّ الدَّمَ وَیَمُجُّہُ، عَنْ وَجْہِہِ وَیَقُولُ : لَوْ کَانَ أُسَامَۃُ جَارِیَۃً لَکَسَوْتُہُ وَحَلَّیْتُہُ حَتَّی أُنَفِّقہُ۔ (ابن ماجہ ۱۹۷۶۔ ابن سعد ۶۱)
(٣٢٩٧٢) حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ حضرت اسامہ (رض) دروازے کی چوکھٹ سے ٹھوکر کھا کر گرپڑے اور ان کے چہرے میں چوٹ لگ گئی۔ اس پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھ سے فرمایا : تم اس سے اذیت کی چیز کو ہٹا دو تو میں نے اس کو اکھاڑ دیا۔ پس رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خون کو چوستے جاتے اور کلیاں کرتے جاتے۔ اور فرماتے : اگر اسامہ لڑکی ہوتی تو میں اس کو کپڑے پہناتا اور زیور پہناتا یہاں تک کہ میں اس کو فروخت کردیتا۔

32972

(۳۲۹۷۳) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَیْدٍ ، عَنْ وَائِلِ بْنِ دَاوُد ، قَالَ : سَمِعْتُ الْبَہِیَّ یُحَدِّثُ أَنَّ عَائِشَۃَ کَانَتْ تَقُولُ : مَا بَعَثَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ زَیْدَ بْنَ حَارِثَۃَ فِی جَیْشٍ قَطُّ إلاَّ أَمَّرَہُ عَلَیْہِمْ وَلَوْ کَانَ حَیًّا بَعْدَہُ اسْتَخْلَفَہُ۔ (احمد ۲۲۷)
(٣٢٩٧٣) حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت زید بن حارثہ (رض) کو کبھی کسی لشکر میں نہیں بھیجا مگر یہ کہ ان کو اس پر امیر بنایا ۔ اور اگر وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد زندہ ہوتے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کو خلیفہ بنا دیتے۔

32973

(۳۲۹۷۴) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا وُہَیْبٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا مُوسَی بْنُ عُقْبَۃَ ، قَالَ : حَدَّثَنِی سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ أَنَّ عَبْدَ اللہِ بْنَ عُمَرَ ، قَالَ : مَا کُنَّا نَدْعُوہُ إلاَّ زَیْدُ بْنُ مُحَمَّدٍ حَتَّی نَزَلَ الْقُرْآنُ : {ادْعُوہُمْ لأَبَائِہِمْ ہُوَ أَقْسَطُ عِنْدَ اللہِ}۔ (بخاری ۴۷۸۲۔ مسلم ۱۸۸۴)
(٣٢٩٧٤) حضرت سالم بن عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمر (رض) نے ارشاد فرمایا : ہم لوگ ان کو نہیں پکارتے تھے مگر زید بن محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نام سے یہاں تک کہ قرآن کی آیت اتری (ترجمہ) تم پکارو انھیں ان کو باپوں کے نام سے ۔ یہ اللہ کے نزدیک زیادہ انصاف کی بات ہے۔

32974

(۳۲۹۷۵) حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ ، عَنْ إسْرَائِیلَ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنِ الْبَرَائِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِزَیْدٍ : أَمَّا أَنْتَ یَا زَیْدُ فَأَخُونَا وَمَوْلاَنَا۔
(٣٢٩٧٥) حضرت براء بن عازب (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے زید (رض) سے ارشاد فرمایا : تم اے زید ہمارے بھائی اور ہمارے دوست ہو۔

32975

(۳۲۹۷۶) حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ ، عَنْ إسْرَائِیلَ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ ہَانِئِ بْنِ ہَانِئٍ ، عن علی ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہُ۔
(٣٢٩٧٦) حضرت علی (رض) سے بھی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ماقبل حدیث منقول ہے۔

32976

(۳۲۹۷۷) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، قَالَ : حدَّثَنِی خَالِدُ بْنُ أَبِی کَرِیمَۃَ ، عَنْ سَعِیدٍ أن یَسَارًا السَّدُوسِیِّ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لأُبَیِّ بْنِ کَعْبٍ : إنِّی أُمِرْت أَنْ أُقْرِئَک الْقُرْآنَ ، قَالَ : وَذَکَرَنِی رَبِّی ، قَالَ : نَعَمْ ، قَالَ : فَما أَقْرَأَنِی آیَۃً فَأَعَدْتہَا عَلَیْہِ ثَانِیَۃً۔ (بخاری ۳۸۰۹۔ مسلم ۵۵۰)
(٣٢٩٧٧) حضرت عکرمہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت ابی بن کعب (رض) سے ارشاد فرمایا : بیشک مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں تمہیں قرآن پڑھاؤں۔ آپ (رض) نے پوچھا : میرے رب نے میرا ذکر کیا ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جی ہاں ! آپ (رض) فرماتے ہیں، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مجھے جو بھی آیت پڑھاتے تو میں دوبارہ اس کو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے دہراتا۔

32977

(۳۲۹۷۸) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، عَنِ الأَجْلَحِ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبْزَی ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ أُبَیٍّ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : أُمِرْت أَنْ أَقْرَأَ عَلَیْک الْقُرْآنَ ، قَالَ : قُلْتُ : یَا رَسُولَ اللہِ : وَذُکِرْتُ ثَمَّ ؟ قَالَ : نَعَمْ ، قَالَ أُبَیٌّ : فبِفَضْلِ اللہِ وَبِرَحْمَتِہِ فَبِذَلِکَ فَلْیَفْرَحُوا فِی قِرَائَۃِ أُبَیٍّ : فَلْتَفْرَحُوا۔
(٣٢٩٧٨) حضرت ابی (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں تم کو قرآن پڑھاؤں۔ میں نے پوچھا : اے اللہ کے رسول 5! میرا ذکر کیا گیا ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جی ہاں ! حضرت ابی (رض) نے فرمایا : پس اللہ کے فضل اور اس کی رحمت کے ساتھ ، پس اس وجہ سے چاہیے کہ وہ خوش ہوں ۔ اور حضرت ابی ّ کی قراءت میں ہے کہ پس تم خوش ہو۔ فلیفر حوا کی بجائے فلتفرحوا ہے۔

32978

(۳۲۹۷۹) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِی سُفْیَانَ ، عَنْ جَابِرٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لَقَدِ اہْتَزَّ الْعَرْشُ لِمَوْتِ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ۔ (بخاری ۳۸۰۳۔ مسلم ۱۹۱۵)
(٣٢٩٧٩) حضرت جابر (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : حضرت سعد بن معاذ (رض) کی موت کی وجہ سے عرش بھی حرکت میں آگیا۔

32979

(۳۲۹۸۰) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ جَدِّہِ ، عَنْ عَائِشَۃَ ، عَنْ أُسَیْدَ بْنِ حُضَیْرٍ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لَقَدِ اہْتَزَّ الْعَرْشُ لِمَوْتِ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ۔ (طبرانی ۵۵۳۔ ابن ابی عاصم ۱۹۲۷)
(٣٢٩٨٠) حضرت اسید بن حضیر (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : سعد بن معاذ (رض) کی موت سے عرش بھی حرکت میں آگیا۔

32980

(۳۲۹۸۱) حَدَّثَنَا ہَوْذَۃُ ، قَالَ : حدَّثَنَا عَوْفٌ ، عَنْ أَبِی نَضْرَۃَ ، عَنْ أَبِی سَعِیدٍ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : لَقَدِ اہْتَزَّ الْعَرْشُ لِمَوْتِ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ۔ (احمد ۲۳۔ ابویعلی ۱۲۵۵)
(٣٢٩٨١) حضرت ابو سعید (رض) فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : تحقیق سعد بن معاذ (رض) کی موت سے عرش بھی حرکت میں آگیا۔

32981

(۳۲۹۸۲) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ عَطَائٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : اہْتَزَّ الْعَرْشُ لِحُبِّ لِقَائِ سَعْدًا ، قَالَ : إنَّمَا ، یَعْنِی السَّرِیرَ ، قَالَ : تَفَسَّخَتْ أَعْوَادُہُ ، قَالَ : دَخَلَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَبْرَہُ فَاحْتَبَسَ، فَلَمَّا خَرَجَ، قِیلَ: یَا رَسُولَ اللہِ ، مَا حَبَسَک ، قَالَ : ضُمَّ سَعْدُ فِی الْقَبْرِ ضَمَّۃً فَدَعَوْت اللَّہَ أَنْ یَکْشِفَ عَنْہُ۔ (نسائی ۲۱۸۲۔ حاکم ۲۰۶)
(٣٢٩٨٢) حضرت مجاہد (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عمر (رض) نے ارشاد فرمایا : حضرت سعد (رض) سے ملاقات کی محبت میں عرش بھی جھوم اٹھا۔ اور اس کی لکڑیاں ٹکڑے ٹکڑے ہوگئیں۔ آپ (رض) نے فرمایا : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کی قبر میں داخل ہوئے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کافی دیر رکے رہے۔ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نکلے تو پوچھا گیا : اے اللہ کے رسول 5! کس چیز نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو روکا ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : سعد کو قبر میں بالکل جوڑ دیا گیا پھر میں نے اللہ سے دعا کی تو قبر کشادہ ہوگئی۔

32982

(۳۲۹۸۳) حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ ، عَنْ إسْرَائِیلَ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ رَجُلٍ حَدَّثَہُ ، عَنْ حُذَیْفَۃَ ، قَالَ : لَمَّا مَاتَ سَعْدُ بْنُ مُعَاذٍ ، قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : اہْتَزَّ الْعَرْشُ لِرُوحِ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ۔ (ابن سعد ۴۳۴)
(٣٢٩٨٣) حضرت حذیفہ (رض) فرماتے ہیں کہ جب حضرت سعد بن معاذ (رض) کی وفات ہوئی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : سعد بن معاذ (رض) کی روح کی وجہ سے عرش بھی حرکت میں آگیا۔

32983

(۳۲۹۸۴) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا إسْمَاعِیلُ بْنُ أَبِی خَالِدٍ ، عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ رَاشِدٍ ، عَنِ امْرَأَۃٍ مِنَ الأَنْصَارِ یُقَالُ لَہَا أَسْمَائُ ابْنَۃُ یَزِیدَ ، قَالَتْ : لَمَّا أُخْرِجَ بِجِنَازَۃِ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ صَاحَتْ أُمُّہُ ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لأُمِّ سَعْدٍ : أَلاَ یَرْقَأُ دَمْعُک وَیَذْہَبُ حُزْنُک فَإِنَّ ابْنَک أَوَّلُ مَنْ ضَحِکَ لَہُ اللَّہُ وَاہْتَزَّ لَہُ الْعَرْشُ۔ (احمد ۴۵۶۔ طبرانی ۴۶۷)
(٣٢٩٨٤) حضرت اسحاق بن راشد (رض) فرماتے ہیں کہ ایک انصاری عورت جس کا نام اسماء بنت یزید ہے انھوں نے فرمایا : جب حضرت سعد بن معاذ (رض) کا جنازہ نکالا گیا تو ان کی والدہ چیخیں۔ اس پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی والدہ سے ارشاد فرمایا : تمہارے آنسو کیوں خشک نہیں ہو رہے اور تمہارا غم کیوں ختم نہیں ہو رہا ؟ ! یقیناً تمہارا بیٹا وہ پہلا شخص ہے جس کے لیے اللہ مسکرائے اور عرش بھی اس کی وجہ سے حرکت میں آگیا۔

32984

(۳۲۹۸۵) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو ، وَقَالَ : حَدَّثَنَا وَاقِدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ، قَالَ : دَخَلْتُ عَلَی أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ حِینَ قَدِمَ الْمَدِینَۃَ مَعَ ابْنِ أَخِی فَسَلَّمْت عَلَیْہِ ، فَقَالَ : مَنْ أَنْتَ ؟ فَقُلْتُ : أَنَا وَاقِدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ ، قَالَ : فَبَکَی فَأَکْثَرَ الْبُکَائَ ، ثُمَّ قَالَ : إنَّک شَبِیہُ بِسَعْدٍ ، إنَّ سَعْدًا کَانَ مِنْ أَعْظَمِ النَّاسِ وَأَطْوَلِہِمْ ، وَإِنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَعَثَ بَعْثًا إلَی أُکَیْدِرِ دُومَۃَ فَأَرْسَلَ بِحُلَّۃٍ مِنْ دِیبَاجٍ مَنْسُوجٍ فِیہَا الذَّہَبُ ، فَلَبِسَہَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَجَعَلَ النَّاسُ یَلْمِسُونَہَا بِأَیْدِیہِمْ فَقَالَ : أَتَعْجَبُونَ مِنْ ہَذِہِ ، قَالُوا : یَا رَسُولَ اللہِ ، مَا رَأَیْنَاک أَحْسَنَ مِنْک الْیَوْمَ ، قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لَمَنَادِیلُ سَعْدٍ فِی الْجَنَّۃِ أَحْسَنُ مِمَّا تَرَوْنَ۔ (احمد ۱۲۱۔ ترمذی ۱۷۲۳)
(٣٢٩٨٥) حضرت واقد بن عمرو بن سعد بن معاذ (رض) فرماتے ہیں کہ جب میں اپنے بھائی کے ساتھ مدینہ آیا تو میں حضرت انس (رض) کے پاس داخل ہوا۔ اور میں نے ان کو سلام کیا۔ آپ (رض) نے پوچھا : تم کون ہو ؟ میں نے کہا : میں واقد بن عمرو بن سعد بن معاذ ہوں۔ آپ (رض) رونے لگے اور بہت روئے۔ پھر آپ (رض) نے فرمایا : یقیناً تم حضرت کے مشابہہ ہو۔ بیشک وہ لوگوں میں سب سے عظیم اور بڑے آدمی تھے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اکیدر دومہ کی طرف ایک لشکر بھیجا تو اس نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایک جوڑا بھیجا جو ریشم کا تھا اور اس میں سونے کا کام ہو اتھا۔ پس رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو ملبوس فرمایا : تو لوگ اس کپڑے کو خوبصورتی کی وجہ سے ہاتھ لگا رہے تھے اس پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کیا تم کو یہ اچھا لگا ؟ لوگوں نے کہا : اے اللہ کے رسول 5! ہم نے آج تک اس سے اچھا اور خوبصورت کوئی کپڑا نہیں دیکھا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : سعد (رض) کے رومال جنت میں اس سے بھی خوبصورت ہیں جو کپڑا تم دیکھ رہے ہو۔

32985

(۳۲۹۸۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنِ الْبَرَائِ بْنِ عَازِبٍ ، قَالَ : أُہْدِیَ لِلنَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ثَوْبٌ مِنْ حَرِیرٍ فَجَعَلُوا یَعْجَبُونَ مِنْ لِینِہِ ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لَمَنَادِیلُ سَعْدٍ فِی الْجَنَّۃِ أَلْیَنُ مِنْ ہَذَا۔ (بخاری ۶۶۴۰۔ ابن ماجہ ۱۵۷)
(٣٢٩٨٦) حضرت براء بن عازب (رض) فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایک ریشم کا جوڑا ہدیہ دیا گیا۔ تو لوگ اس کی ملائمت سے تعجب کرنے لگے۔ اس پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جنت میں سعد کے رومال اس سے کہیں زیادہ نرم ہیں۔

32986

(۳۲۹۸۷) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ سِمَاکٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ شَدَّادٍ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ لِسَعْدٍ وَہُوَ یَکِیدُ بِنَفْسِہِ : جَزَاک اللَّہُ خَیْرًا مِنْ سَیِّدِ قَوْمٍ فَقَدْ صَدَقْت اللَّہَ مَا وَعَدْتہ وَہُوَ صَادِقٌ مَا وَعَدَک۔
(٣٢٩٨٧) حضرت عبداللہ بن شداد (رض) فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت سعد (رض) سے فرمایا : جبکہ وہ جان کنی کی حالت میں تھے ۔ اللہ تمہیں قوم کے سردار کو بہترین بدلہ عطا فرمائے۔ پس تم نے جو اللہ سے وعدہ کیا تھا تو نے وہ سچ کر دکھایا اور وہ بھی اپنے وعدہ کو پورا کرنے میں سچا ہے جو اس نے تم سے وعدہ کیا ۔

32987

(۳۲۹۸۸) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُرَحْبِیلَ ، قَالَ : لَمَّا أُصِیبَ سَعْدُ بْنُ مُعَاذٍ بِالرَّمْیَۃِ یَوْمَ الْخَنْدَقِ جَعَلَ دَمُہُ یَسِیلُ عَلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَجَائَ أَبُو بَکْرٍ فَجَعَلَ یَقُولُ : وَانْقِطَاعَ ظَہْرَاہُ ، فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : یَا أَبَا بَکْرٍ ، فَجَائَ عُمَرُ ، فَقَالَ : إنَّا لِلَّہِ وَإِنَّا إلَیْہِ رَاجِعُونَ۔ (احمد ۱۵۰۲)
(٣٢٩٨٨) حضرت عمرو بن شرحبیل (رض) فرماتے ہیں کہ جب غزوہ خندق کے دن حضرت سعد بن معاذ (رض) کو تیر لگا تو ان کا خون نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر گررہا تھا : پس ابوبکر (رض) آئے اور کہنے لگے : اس کی کمر ٹوٹے ! اس پر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے ابوبکر ! پھر حضرت عمر (رض) آئے اور انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھی۔

32988

(۳۲۹۸۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، عَنْ مِسْعَرٍ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، قَالَ: کَانَ أَبُو الدَّرْدَائِ مِنَ الَّذِینَ أُوتُوا الْعِلْمَ۔
(٣٢٩٨٩) حضرت مسعر (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت قاسم بن عبد الرحمن (رض) نے ارشاد فرمایا : حضرت ابو الدردائ (رض) ان لوگوں میں سے ہیں جن کو علم عطا کیا گیا تھا۔

32989

(۳۲۹۹۰) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، قَالَ : حدَّثَنَا الأَعْمَشُ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ الأَعْمَشُ : أُرَاہُ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : قَدِمَتْ عَلَی عُمَرَ حُلَلٌ ، فَجَعَلَ یُقَسِّمُہَا بَیْنَ النَّاسِ فَمَرَّتْ بِہِ حُلَّۃٌ نَجْرَانِیَّۃٌ جَیِّدَۃٌ ، فَوَضَعَہَا تَحْتَ فَخِذِہِ حَتَّی مَرَّ عَلَی اسْمِی ، فَقُلْتُ : اکْسُنِیہَا ، فَقَالَ : أَکْسُوہَا وَاللہِ رَجُلاً خَیْرًا مِنْک وَأَبُوہُ خَیْرٌ مِنْ أَبِیک ، فَدَعَا عَبْدَ اللہِ بن حنظلۃ بْنَ الرَّاہِبِ ، فَکَسَاہُ إیَّاہَا۔
(٣٢٩٩٠) حضرت اعمش (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عمر (رض) نے ارشاد فرمایا : حضرت عمر (رض) کے پاس چند جوڑے آئے۔ تو وہ ان جوڑوں کو لوگوں کے درمیان تقسیم فرما رہے تھے۔ اتنے میں ایک نجرانی جوڑا آیا جو قیمتی تھا وہ آپ (رض) نے اپنی ران کے نیچے رکھ لیا : یہاں تک کہ میرا نام آگیا۔ میں نے کہا : مجھے یہ جوڑا پہنا دیں آپ (رض) نے فرمایا : اللہ کی قسم ! یہ جوڑا میں ایسے آدمی کو پہناؤں گا جو تجھ سے بہتر ہے اور اس کا باپ تیرے باپ سے بہتر ہے۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عبداللہ بن حنظلہ بن راھب (رض) کو بلایا۔ اور یہ جوڑا اس کو پہنا دیا۔

32990

(۳۲۹۹۱) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا زَکَرِیَّا ، قَالَ : سَمِعْتُ عَامِرًا یَقُولُ : شَبَّہَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ثَلاَثَۃَ نَفَرٍ مِنْ أُمَّتِہِ ، قَالَ : دِحْیَۃُ الْکَلْبِیُّ یُشْبِہُ جِبْرِیلَ ، وَعُرْوَۃُ بْنُ مَسْعُودٍ الثَّقَفِیُّ یُشْبِہُ عِیسَی ابْنَ مَرْیَمَ ، وَعَبْدُ الْعُزَّی یُشْبِہُ الدَّجَّالَ۔ (ابن سعد ۲۵۰)
(٣٢٩٩١) حضرت عامر (رض) فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی امت کے تین افراد کو تشبیہ دی۔ حضرت دحیہ کلبی (رض) مشابہ ہیں جبرائیل (علیہ السلام) کے ۔ اور حضرت عروہ بن مسعود الثقفی مشابہ ہیں حضرت عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) کے ، اور عبد العزی مشابہ ہے دجال کے۔

32991

(۳۲۹۹۲) حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُوسَی ، قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِیِّ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِی لَیْلَی أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ دَعَا لِعَبْدِ اللہِ بْنِ رَوَاحَۃَ : اللَّہُمَّ زِدْہُ طَاعَۃً إلَی طَاعَتِکَ وَطَاعَۃِ رَسُولِکَ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔ (بیہقی ۲۵۷)
(٣٢٩٩٢) حضرت عبد الرحمن بن ابی لیلیٰ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عبداللہ بن رواحہ (رض) کے لیے دعا فرمائی ! اے اللہ ! تو اس کی فرمان برداری میں مزید اضافہ فرما اپنی فرمان برداری کی طرف اور اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی فرمان برداری کی طرف۔

32992

(۳۲۹۹۳) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ ، عَنْ قَیْسٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِعَبْدِ اللہِ بْنِ رَوَاحَۃَ : أَلاَ تُحَرِّکُ بِنَا الرِّکَابَ ، فَقَالَ عَبْدُ اللہِ : إنِّی قَدْ تَرَکْت قَوْلِی ، قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ : اسْمَعْ وَأَطِعْ فَنَزَلَ یَسُوقُ نَبِیَّ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَیَقُولُ : اللَّہُمَّ لَوْلاَ أَنْتَ مَا اہْتَدَیْنَا وَلاَ تَصَدَّقْنَا وَلاَ صَلَّیْنَا فَأَنْزِلَنْ سَکِینَۃً عَلَیْنَا وَثَبِّتِ الأَقْدَامَ إِنْ لاَقَیْنَا إنَّ الَّذِینَ کَفَرُوا بَغَوْا عَلَیْنَا فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : اللَّہُمَّ ارْحَمْہُ ، فَقَالَ عُمَرُ : وَجَبَتْ۔
(٣٢٩٩٣) حضرت قیس (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عبداللہ بن رواحہ (رض) سے ارشاد فرمایا : تم کیوں ہماری رکاب کو نہیں حرکت دیتے ؟ تو عبداللہ (رض) نے فرمایا : تحقیق میں نے اپنا شعر چھوڑ دیا۔ حضرت عمر بن خطاب (رض) نے فرمایا : سنو اور اطاعت کرو۔ پس آپ (رض) اترے اور اللہ کے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سواری کو ہانک رہے تھے اور یہ اشعار پڑھ رہے تھے۔
اے اللہ ! اگر آپ نہ ہوتے ہمیں ہدایت نہ ملتی،
اور نہ ہم صدقہ دیتے اور نہ ہم نماز پڑھتے،
پس تو ہم پر سکینہ ورحمت نازل فرما،
اور ہمارے قدموں کو ثبات عطا فرما اگر ہماری دشمن سے ملاقات ہوجائے۔
بیشک کافروں نے ہم پر سرکشی کی۔
اس پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے اللہ ! تو اس پر رحم فرما ۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : جنت واجب ہوگئی۔

32993

(۳۲۹۹۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِی صَالِحٍ ، قَالَ : لَمَّا بَلَغَ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَوْلُ سَلْمَانَ لأَبِی الدَّرْدَائِ إنَّ لأَہْلِکَ عَلَیْک حَقًّا وَلِبَصَرِکَ عَلَیْک حَقًّا ، قَالَ : فَقَالَ : ثَکِلَتْ سَلْمَانَ أُمُّہُ ، لَقَدِ اتَّسَعَ من الْعِلْمِ۔ (ابن سعد ۸۴)
(٣٢٩٩٤) حضرت ابو صالح (رض) فرماتے ہیں کہ جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو وہ بات پہنچی جو حضرت سلمان (رض) نے حضرت ابو الدردائ (رض) سے کہی تھی۔ کہ یقیناً تیرے گھر والوں کا بھی تجھ پر حق ہے۔ اور تیری آنکھ کا بھی تجھ پر حق ہے۔ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : سلمان کو اس کی ماں گم پائے ۔ تحقیق اس کا علم بہت وسیع ہے۔

32994

(۳۲۹۹۵) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : سَلْمَانُ سَابِقُ فَارِسَ۔
(٣٢٩٩٥) حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : سلمان (رض) ایران والوں میں سبقت لے جانے والے ہیں۔

32995

(۳۲۹۹۶) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ ، عَنْ أَبِی الْبَخْتَرِیِّ ، قَالَ : قالَوا لِعَلِیٍّ : أَخْبِرْنَا عَنْ سَلْمَانَ ، قَالَ : أَدْرَکَ الْعِلْمَ الأَوَّلَ وَالْعِلْمَ الآخِرَ ، بَحْرٌ لاَ ینزع قَعْرُہُ ، ہُوَ مِنَّا أَہْلَ الْبَیْتِ۔ (حاکم ۵۹۸)
(٣٢٩٩٦) حضرت ابو البختری (رض) فرماتے ہیں کہ لوگوں نے حضرت علی (رض) سے پوچھا : آپ (رض) ہمیں حضرت سلمان (رض) کے بارے میں بتلائیں۔ آپ (رض) نے فرمایا : انھوں نے پہلے لوگوں اور بعد کے لوگوں کا علم پایا۔ ایسے سمندر تھے کہ جس کی گہرائی کو نہیں خالی کیا جاسکتا۔ وہ ہمارے گھر والوں میں سے تھے۔

32996

(۳۲۹۹۷) حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ مُعَاذٍ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللہِ : لَقَدْ رَأَیْتنَا وَإِنَّا لَمُتَوَافِرُونَ ، وَمَا فِینَا أَحَدٌ أَمْلَکُ لِنَفْسِہِ مِنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ۔
(٣٢٩٩٧) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) نے ارشاد فرمایا : تحقیق میں نے ہمارے لوگوں کو دیکھا۔ بیشک ہم سب وافر مال والے تھے۔ اور ہم میں کوئی شخص ایسا نہیں تھا۔ جو اپنے نفس پر حضرت عبداللہ بن عمر سے زیادہ مالک ہو ۔

32997

(۳۲۹۹۸) حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ ، عَنْ حُصَیْنٍ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنْ جَابِرٍ ، قَالَ : مَا مِنَّا أَحَدٌ أَدْرَکَ الدُّنْیَا إلاَّ وَقَدْ مَالَ بِہَا ، أَوْ مَالَتْ بِہِ إلاَّ عَبْدَ اللہِ بْنَ عُمَرَ۔
(٣٢٩٩٨) حضرت سالم (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت جابر (رض) نے ارشاد فرمایا : ہم میں سے کوئی شخص بھی نہیں جس نے دنیا کو پایا مگر یہ کہ وہ اس کی طرف مائل ہوگیا سوائے حضرت عبداللہ بن عمر (رض) کے۔

32998

(۳۲۹۹۹) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ أَبِی بُکَیْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا زَائِدَۃُ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ زِرٍّ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : کَانَ أَوَّلَ مَنْ أَظْہَرَ إسْلاَمُہُ سَبْعَۃٌ : رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَأَبُو بَکْرٍ ، وَعَمَّارٌ وَأُمُّہُ سُمَیَّۃُ وَصُہَیْبٌ وَبِلاَلٌ وَالْمِقْدَادُ ، فَأَمَّا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَمَنَعَہُ اللَّہُ بِعَمِّہِ أَبِی طَالِبٍ ، وَأَمَّا أَبُو بَکْرٍ فَمَنَعَہُ اللَّہُ بِقَوْمِہِ ، وَأَمَّا سَائِرُہُمْ فَأَخَذَہُمُ الْمُشْرِکُونَ فَأَلْبَسُوہُمْ أَدْرَاعَ الْحَدِیدِ وَصَہَرُوہُمْ فِی الشَّمْسِ ، فَمَا مِنْہُمْ مِنْ أَحَدٍ إلاَّ وَأَتَاہُمْ عَلَی مَا أَرَادُوا إلاَّ بِلاَلاً فَإِنَّہُ ہَانَتْ عَلَیْہِ نَفْسُہُ فِی اللہِ وَہَانَ عَلَی قَوْمِہِ فَأَخَذُوہُ فَأَعْطَوْہُ الْوِلْدَانَ فَجَعَلُوا یَطُوفُونَ بِہِ فِی شِعَابِ مَکَّۃَ وَہُوَ یَقُولُ : أَحَدٌ أَحَدٌ۔ (حاکم ۲۸۴۔ ابن حبان ۷۰۸۳)
(٣٢٩٩٩) حضرت زر (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) نے ارشاد فرمایا : سب سے پہلے اسلام کو ظاہر کرنے والے سات اشخاص تھے حضرت رسول اللہ، حضرت ابو بکر، حضرت عمار (رض) ، اور ان کی والدہ حضرت سمیہ (رض) ، حضرت صھیب، حضرت بلال اور حضرت مقداد (رض) ، بہرحال رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اللہ نے ان کے چچا ابو طالب کے ذریعہ حفاظت فرمائی۔ اور ابوبکر (رض) کی اللہ نے ان کی قوم کے ذریعہ حفاظت فرمائی۔ اور باقی سب کو قریش نے پکڑ لیا۔ اور لوہے کی زرہیں پہنا کر سورج کی تپش میں ڈال دیا۔ ان سب میں سے کوئی نہیں تھا مگر یہ کہ وہ ان کے ارادوں کے سامنے پست پڑگئے۔ سوائے حضرت بلال (رض) کے ۔ پس انھوں نے اللہ کے بارے میں اپنے نفس کو بےوقعت کرلیا۔ اور قوم کے لیے آسان ہوگئے۔ پس ان لوگوں نے ان کو پکڑ کر بچوں کے حوالہ کردیا۔ اور بچے ان کو مکہ کی گلیوں میں چکر لگواتے تھے اس حال میں کہ یہ اَحَد اَحَد پکار رہے ہوتے کہ اللہ ایک ہے۔

32999

(۳۳۰۰۰) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، قَالَ : أَوَّلُ مَنْ أَظْہَرَ الإسْلاَمَ سَبْعَۃٌ : رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَأَبُو بَکْرٍ وَبِلاَلٌ وَخَبَّابٌ وَصُہَیْبٌ وَعَمَّارٌ وَسُمَیَّۃُ أُمُّ عَمَّارٍ ، قَالَ : فَأَمَّا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَمَنَعَہُ عَمُّہُ ، وَأَمَّا أَبُو بَکْرٍ فَمَنَعَہُ قَوْمُہُ وَأُخِذَ الآخَرُونَ فَأَلْبَسُوہُمْ أَدْرَاعَ الْحَدِیدِ ، ثُمَّ صَہَرُوہُمْ فِی الشَّمْسِ حَتَّی بَلَغَ الْجُہْدُ مِنْہُمْ کُلَّ مَبْلَغٍ ، فَأَعْطَوْہُمْ کُلَّ مَا سَأَلُوا ، فَجَائَ إلَی کُلِّ رَجُلٍ مِنْہُمْ قَوْمُہُ بِأَنْطَاعِ الأَدَمِ فِیہَا الْمَائُ فَأَلْقَوْہُمْ فِیہِ ، ثُمَّ حُمِلُوا بِجَوَانِبِہِ إلاَّ بِلاَلا ، فَجَعَلُوا فِی عُنُقِہِ حَبْلاً ، ثُمَّ أَمَرُوا صِبْیَانَہُمْ یَشْتَدُّونَ بِہِ بَیْنَ أَخْشَبَیْ مَکَّۃَ وَجَعَلَ یَقُولُ : أَحَدٌ أَحَدٌ۔ (احمد ۲۸۲)
(٣٣٠٠٠) حضرت منصور (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت مجاہد (رض) نے ارشاد فرمایا : سب سے پہلے اسلام ظاہر کرنے والے سات لوگ تھے۔ حضرت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، حضرت ابوبکر (رض) ، حضرت بلال (رض) ، حضرت خباب (رض) ، حضرت صھیب (رض) ، حضرت عمار (رض) ، حضرت سمیہ (رض) جو حضرت عمار (رض) کی والدہ ہیں۔ بہرحال رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حفاظت ان کے چچا نے کی، اور ابوبکر (رض) کی حفاظت ان کی قوم نے کی، باقی سب لوگوں کو پکڑ لیا گیا اور پھر کافروں نے انھیں لوہے کی زرہیں پہنائیں پھر ان کو سورج کی تپش میں ڈال دیا۔ یہاں تک کہ ان میں سے ایک کو انتہاء کی مشقتیں برداشت کرنا پڑیں پس ان لوگوں نے ان کو ہر چیز دی جو انھوں نے مانگی۔ ان میں سے ہر ایک آدمی کی طرف قوم کے افراد چمڑے کے بڑے مشکیزے میں پانی لاتے اور ان کو اس میں ڈال دیتے۔ پھر ان کو پہلوؤں سے اٹھا لیتے، سوائے حضرت بلال (رض) کے۔ کفار نے ان کی گردن میں رسی ڈالی پھر بچوں کو حکم دیا کہ وہ ان کو مکہ کے دو پہاڑوں کے درمیان گھسیٹیں۔ اس حال میں بھی آپ (رض) کہہ رہے ہوتے۔ اَحَد اَحَد ، اللہ ایک ہے۔

33000

(۳۳۰۰۱) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ الْحُبَابِ ، قَالَ : حدَّثَنِی حُسَیْنُ بْنُ وَاقِدٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِی عَبْدُ اللہِ بْنُ بُرَیْدَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : سَمِعْتُ خَشْخَشَۃً أَمَامِی فَقُلْت ، مَنْ ہَذَا ، قَالُوا : بِلاَلٌ ، فَأَخْبَرَہُ، قَالَ : بِمَا سَبَقْتَنِی إلَی الْجَنَّۃِ ، قَالَ : یَا رَسُولَ اللہِ مَا أَحْدَثْتُ إلاَّ تَوَضَّأْتُ ، وَلاَ تَوَضَّأْت ، إلاَّ رَأَیْت أَنَّ لِلَّہِ عَلَیَّ رَکْعَتَیْنِ أُصَلِّیہِمَا قَالَ : بِہَا۔ (ابن حبان ۷۰۸۷۔ ابن خزیمۃ ۱۲۰۹)
(٣٣٠٠١) حضرت بریدہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : میں نے اپنے آگے آہٹ کی آواز سنی تو میں نے پوچھا : یہ کون ہے ؟ فرشتوں نے کہا : بلال (رض) ہیں۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس بات کی خبر حضرت بلال (رض) کو دی اور پوچھا : کس عمل کی وجہ سے تم مجھ پر سبقت لے گئے ؟ آپ (رض) نے فرمایا : اے اللہ کے رسول 5! مجھے کبھی حدث لاحق نہیں ہوا مگر میں نے وضو کرلیا ۔ اور میں نے کبھی وضو نہیں کیا مگر یہ کہ میں نے سوچا کہ بیشک اللہ کا مجھ پر حق ہے دو رکعتوں کا، میں نے ان کو پڑھا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اسی وجہ سے ۔

33001

(۳۳۰۰۲) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ ، عَنْ قَیْسٍ ، قَالَ : اشْتَرَی أَبُو بَکْرٍ بِلاَلاً بِخَمْسِ أَوَاقٍ ، ثُمَّ أَعْتَقَہُ ، قَالَ : فَقَالَ لَہُ بِلاَلٌ : یَا أَبَا بَکْرٍ إِنْ کُنْتَ إنَّمَا أَعْتَقْتنِی لِتَتَّخِذَنِی خَازِنًا ، فَاتَّخِذْنِی خَازِنًا وَإِنْ کُنْت إنَّمَا أَعْتَقْتنِی لِلَّہِ فَدَعَنْی فَأَعْمَلُ لِلَّہِ ، قَالَ : فَبَکَی أَبُو بَکْرٍ ، ثُمَّ قَالَ : بَلْ أَعْتَقْتُک لِلَّہِ۔ (بخاری ۳۷۵۵)
(٣٣٠٠٢) حضرت قیس (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت ابوبکر (رض) نے حضرت بلال کو پانچ اوقیہ چاندی کے عوض خریدا پھر آزاد کردیا۔ اس پر حضرت بلال (رض) نے ان سے کہا : اگر تم نے مجھے اس لیے آزاد کیا کہ تم مجھے اپنا خزانچی بنا لو، پس تم مجھے چاہو تو خزانچی بنا لو، اور اگر تم نے مجھے آزاد کیا ہے اللہ کے لیے تو مجھے فارغ چھوڑ دو تاکہ میں اللہ کے لیے عمل کروں۔ راوی کہتے ہیں پس حضرت ابوبکر (رض) یہ سن کر رو پڑے پھر فرمایا : بلکہ میں نے تمہیں اللہ کے لیے آزاد کردیا۔

33002

(۳۳۰۰۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِیزِ بْنِ عَبْدِ اللہِ الْمَاجِشُونِ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْکَدِرِ ، عَنْ جَابِرٍ ، قَالَ : قَالَ عُمَرُ : أَبُو بَکْرٍ سَیِّدُنَا وَأَعْتَقَ سَیِّدَنَا ، یَعْنِی بِلاَلاً۔
(٣٣٠٠٣) حضرت جابر (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے ارشاد فرمایا : ابوبکر (رض) ہمارے آقا ہیں۔ اور انھوں نے ہمارے آقا کو آزاد کیا یعنی حضرت بلال (رض) کو۔

33003

(۳۳۰۰۴) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : حدَّثَنَا ۔۔ کَانَ بِلاَلٌ خَازِنَ أَبِی بَکْرٍ وَمُؤَذِّنَ النَّبِیّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔
(٣٣٠٠٤) حضرت ہشام (رض) فرماتے ہیں کہ ان کے والد حضرت عروہ (رض) نے ارشاد فرمایا : کہ حضرت بلال (رض) حضرت ابوبکر کے خزانچی تھے اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مؤذن تھے۔

33004

(۳۳۰۰۵) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، قَالَ : سَمِعْتُ ہِشَامًا ، قَالَ : حَدَّثَنَا الْحَسَنُ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : بِلاَلٌ سَابِقٌ الْحَبَشَ۔
(٣٣٠٠٥) حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : حضرت بلال (رض) حبشہ والوں سے سبقت لے گئے۔

33005

(۳۳۰۰۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ بْنُ أَبِی خَالِدٍ ، عَنْ قَیْسِ بْنِ أَبِی حَازِمٍ ، عَنْ جَرِیرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : مَا حَجَبَنِی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مُنْذُ أَسْلَمْت ، وَلاَ رَآنِی قَطُّ إلاَّ تَبَسَّمَ۔ (مسلم ۱۹۲۵۔ طبرانی ۱۲۲۱)
(٣٣٠٠٦) حضرت قیس بن ابی حازم (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت جریر بن عبداللہ (رض) نے ارشاد فرمایا : جب سے میں اسلام لایا ہوں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے کبھی محروم نہیں رکھا۔ اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کبھی میری طرف نہیں دیکھا مگر یہ کہ تبسم فرماتے ۔

33006

(۳۳۰۰۷) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، عَنْ یُونُسَ بْنِ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنِ الْمُغِیرَۃِ بْنِ شِبْلِ بْنِ عَوْفٍ ، عَنْ جَرِیرٍ ، قَالَ : لَمَّا دَنَوْت مِنَ الْمَدِینَۃِ أَنَخْت رَاحِلَتِی ، ثُمَّ حَلَلْت عَیْبَتِی وَلَبِسْت حُلَّتِی ، قَالَ : فَدَخَلْت وَرَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَخْطُبُ فَسَلَّمْت عَلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَرَمَانِی النَّاسُ بِالْحَدْقِ ، فَقُلْتُ لِجَلِیسِی : یَا عَبْدَ اللہِ أَذَکَرَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ أَمْرِی شَیْئًا ، قَالَ : نَعَمْ ذَکَرَک بِأَحْسَنِ الذِّکْرِ ، فقَالَ : بَیْنَمَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَخْطُبُ إذْ عَرَضَ لَہُ فِی خُطْبَتِہِ ، فَقَالَ : إِنَّہُ سَیَدْخُلُ عَلَیْکُمْ مِنْ ہَذَا الْفَجِّ ، أَوْ مِنْ ہَذَا الْبَابِ مِنْ خَیْرِ ذِی یَمَنٍ عَلَی وَجْہِہِ مَسْحَۃُ مَلَکٍ ، قَالَ جَرِیرٌ : فَحَمِدْت اللَّہَ عَلَی مَا أَبْلاَنِی۔ (نسائی ۸۳۰۴۔ احمد ۳۵۹)
(٣٣٠٠٧) حضرت مغیرہ بن شبل بن عوف (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت جریر بن عبداللہ (رض) نے ارشاد فرمایا : جب میں مدینہ منورہ کے قریب ہوا تو میں نے اپنی سواری کو بٹھایا پھر میں نے اپنا گندا جوڑا اتارا۔ اور صاف جوڑا پہنا۔ پھر میں مدینہ میں داخل ہوا اس حال میں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خطبہ ارشاد فرما رہے تھے ۔ میں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سلام کیا تو لوگوں نے بڑی عزت کی نگاہ سے مجھے دیکھا اس پر میں نے اپنے ساتھ بیٹھے شخص سے پوچھا : اے اللہ کے بندے ! کیا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرے معاملہ کے بارے میں کچھ ذکر فرمایا تھا ؟ اس شخص نے کہا : جی ہاں ! آپ (رض) نے تمہارا بہت اچھا تذکرہ فرمایا تھا۔ آپ (رض) فرماتے ہیں کہ اس درمیان کے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خطبہ ارشاد فرما رہے تھے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : بیشک عنقریب تمہارے پاس اس کشادہ راستہ سے یا اس دروازے سے ایک شخص آئے گا جو بہت خیر و برکت والا ہوگا اور اس کے چہرے پر فرشتہ کی سی چھاپ ہوگی۔ حضرت جریر (رض) فرماتے ہیں۔ پس میں نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ اس نے مجھے اس انعام سے نوازا۔

33007

(۳۳۰۰۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ ، عَنْ قَیْسٍ ، عَنْ جَرِیرٍ ، قَالَ : قَالَ لِی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : أَلاَ تُرِیحُنِی مِنْ ذِی الْخَلَصَۃِ بَیْتٍ کَانَ لِخَثْعَمَ فِی الْجَاہِلِیَّۃِ یُسَمَّی الْکَعْبَۃَ الْیَمَانِیَّۃَ ، قَالَ : قُلْتُ : یَا رَسُولَ اللہِ إنِّی رَجُلٌ لاَ أَثْبُتُ عَلَی الْخَیْلِ ، قَالَ : فَمَسَحَ فِی صَدْرِی ، وَقَالَ : اللَّہُمَّ اجْعَلْہُ ہَادِیًا مَہْدِیًّا حَتَّی وَجَدْت بَرْدَہَا۔ (مسلم ۱۹۲۶۔ احمد ۳۶۰)
(٣٣٠٠٨) حضرت جریر (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھ سے ارشاد فرمایا : کیا تم مجھے ذی الخلصہ سے راحت دلا سکتے ہو ؟ ذی الخلصہ زمانہ جاہلیت میں خثعم کا گھر تھا جسے کعبہ یمانیہ کہا جاتا تھا۔ انھوں نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول 5! بیشک میں ایسا شخص ہوں جو گھوڑے پر مضبوط نہیں بیٹھ سکتا۔ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے میرے سینہ پر اپنا ہاتھ مبارک پھیرا اور دعا فرمائی، اے اللہ ! اس کو ہدایت یافتہ اور ہدایت دینے والا بنا دے۔ راوی کہتے ہیں کہ میں نے اس کی ٹھنڈک محسوس کی۔

33008

(۳۳۰۰۹) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ بِشَفَاعَۃِ رَجُلٍ مِنْ أُمَّتِی مِثْلُ رَبِیعَۃَ وَمُضَرَ ، قَالَ : حَدَّثَنِی حَوْشَبٌ : قَالَ : فَقُلْنَا لِلْحَسَنِ : ہَلْ سَمَّی لَکُمْ ، قَالَ : نَعَمْ أُوَیْسٌ الْقَرَنِیُّ۔ (ترمذی ۲۴۳۸۔ احمد ۴۶۹)
(٣٣٠٠٩) حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : میری امت میں سے ایک آدمی کی شفاعت کی وجہ سے قبیلہ ربیعہ اور قبیلہ مضر کے جتنے افراد جنت میں داخل ہوں گے۔ حضرت حویثب (رض) فرماتے ہیں کہ ہم نے حضرت حسن (رض) سے پوچھا : کیا تمہیں اس شخص کا نام بتلایا گیا تھا : آپ (رض) نے فرمایا : جی ہاں ! حضرت اویس قرنی (رض) ۔

33009

(۳۳۰۱۰) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ الْمُغِیرَۃِ ، عَنِ الْجَرِیرِیِّ ، عَنْ أَبِی نَضِرَۃَ ، عَنْ أُسَیْرِ بْنِ جَابِرٍ ، عَنْ عُمَرَ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہُ قَالَ : سَیَقْدَمُ عَلَیْکُمْ رَجُلٌ یُقَالُ لَہُ أُوَیْسٌ کَانَ بِہِ بَیَاضٌ ، فَدَعَا اللَّہَ لَہُ فَأَذْہَبَہُ اللَّہُ ، فَمَنْ لَقِیَہُ مِنْکُمْ فَمُرُوہُ فَلْیَسْتَغْفِرْ لَہُ ، قَالَ : فَلَقِیَہُ عُمَرُ ، فَقَالَ : اسْتَغْفِرْ لِی ، فَاسْتَغْفَرَ لَہُ۔ (مسلم ۱۹۶۸۔ احمد ۳۸)
(٣٣٠١٠) حضرت عمر فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : عنقریب تمہارے پاس ایک شخص آئے گا جس کا نام اویس ہوگا۔ اس کے چہرے پر ایک سفید نشان ہوگا۔ پس وہ اللہ سے دعا کرے گا تو اللہ اس کو ختم فرما دیں گے۔ تم میں سے جو شخص بھی اس سے ملے تو وہ اس کو اپنے لیے استغفار کرنے کا حکم دے۔ راوی کہتے ہیں : حضرت عمر (رض) ان سے ملے اور فرمایا : میرے لیے استغفار کرو۔ تو آپ (رض) نے ان کے لیے استغفار فرمایا۔

33010

(۳۳۰۱۱) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ، عَنْ مُعَاذِ بْنِ رِفَاعَۃَ بْنِ رَافِعٍ الأَنْصَارِیِّ ، أَنَّ مَلَکًا أَتَی رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : کَیْفَ أَصْحَابُ بَدْرٍ فِیکُمْ ، فَقَالَ : أَفْضَلُ النَّاسِ ، فَقَالَ الْمَلَکُ : وَکَذَلِکَ مَنْ شَہِدَ بَدْرًا مِنَ الْمَلاَئِکَۃِ۔ (بخاری ۳۹۹۲)
(٣٣٠١١) حضرت یحییٰ بن سعید (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت معاذ بن رفاعہ (رض) نے فرمایا : بیشک ایک فرشتہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور پوچھا : تمہارے میں اصحاب بدر کی کیا شان ہے ؟ اس پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : لوگوں میں سب سے افضل ہیں۔ تو فرشتہ نے عرض کیا : اسی طریقہ سے ہم میں بھی وہ فرشتے سب سے افضل ہیں جو غزوہ بدر میں حاضر ہوئے تھے۔

33011

(۳۳۰۱۲) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ مُحَمَّدٍ ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ بْنِ أَبِی رَافِعٍ أَخْبَرَہُ ، عَنْ عَلِیٍّ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَا یُدْرِیک لَعَلَّ اللَّہَ قَدِ اطَّلَعَ عَلَی أَہْلِ بَدْرٍ ، فَقَالَ : اعْمَلُوا مَا شِئْتُمْ فَقَدْ غَفَرْت لَکُمْ۔ (بخاری ۳۰۰۷۔ مسلم ۱۹۴۱)
(٣٣٠١٢) حضرت علی (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : تمہیں کیا معلوم یقیناً اللہ تعالیٰ بدر میں شرکت کرنے والوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا : تم جو چاہے عمل کرو تحقیق میں نے تمہاری مغفرت فرما دی ہے۔

33012

(۳۳۰۱۳) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَۃَ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ أَبِی النَّجُودِ ، عَنْ أَبِی صَالِحٍ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إنَّ اللَّہَ تَبَارَکَ وَتَعَالَی اطَّلَعَ عَلَی أَہْلِ بَدْرٍ ، فَقَالَ : اعْمَلُوا مَا شِئْتُمْ فَقَدْ غَفَرْت لَکُمْ۔ (ابوداؤد ۴۶۲۲۔ احمد ۲۹۶)
(٣٣٠١٣) حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : یقیناً اللہ تبارک و تعالیٰ بدر والوں کی طرف متوجہ ہوا اور ارشاد فرمایا : تم جو چاہے عمل کرو۔ تحقیق میں نے تمہاری مغفرت کردی۔

33013

(۳۳۰۱۴) حَدَّثَنَا شَبَابَۃُ بْنُ سَوَّارٍ ، عَنْ لَیْثِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ ، عَنْ جَابِرٍ أَنَّ عَبْدَ حَاطِبِ بْنَ أَبِی بَلْتَعَۃَ أَتَی رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِیَشْتَکِیَ حَاطِبًا ، فَقَالَ : یَا رَسُولَ اللہِ ، لَیَدْخُلَنَّ حَاطِبٌ النَّارَ ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : کَذَبْت لاَ یَدْخُلُہَا إِنَّہُ قَدْ شَہِدَ بَدْرًا وَالْحُدَیْبِیَۃَ۔
(٣٣٠١٤) حضرت جابر (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت حاطب بن ابی بلتعہ (رض) کا غلام رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آیا تاکہ وہ حضرت حاطب (رض) کی شکایت کرے اور کہنے لگا : اے اللہ کے رسول 5! حاطب ضرور بالضرور جہنم میں داخل ہوں گے ۔ اس پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : تو نے جھوٹ کہا وہ جہنم میں نہیں داخل ہوں گے، اس لیے کہ وہ غزوہ بدر اور حدیبیہ میں حاضر ہوئے تھے۔

33014

(۳۳۰۱۵) حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ، عَنْ إسْرَائِیلَ، عَنْ سِمَاکِ بْنِ حَرْبٍ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ: {کُنْتُمْ خَیْرَ أُمَّۃٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ} قَالَ: الَّذِینَ ہَاجَرُوا مَعَ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إلَی الْمَدِینَۃِ۔
(٣٣٠١٥) حضرت سعید بن جبیر (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عباس (رض) نے قرآن کی اس آیت ( تم بہترین امت ہو لوگوں کی نفع رسانی کے لیے نکالے گئے ) کے بارے میں ارشاد فرمایا : وہ لوگ مراد ہیں جنہوں نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ مدینہ کی طرف ہجرت کی۔

33015

(۳۳۰۱۶) حَدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِیزِ بْنِ صُہَیْبٍ ، عَنْ أَنَسٍ أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَأَی نِسَائً وَصِبْیَانًا مِنَ الأَنْصَارِ مُقْبِلِینَ مِنْ عُرْسٍ ، فَقَالَ : اللَّہُمَّ أَنْتُمْ مِنْ أَحَبِّ النَّاسِ إلَیَّ۔ (بخاری ۳۷۸۵۔ مسلم ۱۹۴۸)
(٣٣٠١٦) حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انصار کی عورتوں کو کسی شادی کی تقریب سے آتا دیکھ کر ارشاد فرمایا : اللہ کی قسم ! تم لوگ مجھے لوگوں میں سب سے زیادہ محبوب ہو۔

33016

(۳۳۰۱۷) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ ہَاشِمٍ ، عَنِ ابْنِ أَبِی لَیْلَی ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنِ ابْنِ شُرَحْبِیلَ ، عَنْ قَیْسِ بْنِ سَعْدِ بْنِ عُبَادَۃَ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہُ قَالَ : اللَّہُمَّ صَلِّ عَلَی الأَنْصَارِ وَعَلَی ذُرِّیَّۃِ الأَنْصَارِ وَعَلَی ذُرِّیَّۃِ ذُرِّیَّۃِ الأَنْصَارِ۔ (طبرانی ۸۹۰)
(٣٣٠١٧) حضرت قیس بن سعد بن عبادہ (رض) فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اے اللہ ! تو انصار پر رحمت فرما، اور انصار کے بچوں پر بھی اور انصار کے بچوں کے بچوں پر بھی۔

33017

(۳۳۰۱۸) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُمَرَ بْنِ قَتَادَۃَ ، عَنْ مَحْمُودِ بْنِ لَبِیدٍ ، عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لَوْ سَلَکَ النَّاسُ وَادِیًا وَشِعْبًا وَسَلَکْتُمْ وَادِیًا وَشِعْبًا لَسَلَکْت وَادِیَکُمْ وَشِعْبَکُمْ أَنْتُمْ شِعَارٌ وَالنَّاسُ دِثَارٌ ، وَلَوْلاَ الْہِجْرَۃُ کُنْتُ امْرَئًا مِنَ الأَنْصَارِ ، ثُمَّ رَفَعَ یَدَیْہِ حَتَّی إِنِّی لأَرَی بَیَاضَ إبِطَیْہِ مَا تَحْتَ مَنْکِبَیْہِ ، فَقَالَ : اللَّہُمَ اغْفِرْ لِلأَنْصَارِ وَلأَبْنَائِ الأَنْصَارِ وَلأَبْنَائِ أَبْنَائِ الأَنْصَارِ۔ (ابویعلی ۱۰۸۷)
(٣٣٠١٨) حضرت ابو سعید خدری (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اگر لوگ ایک وادی اور گھاٹی میں چلیں اور اے انصار ! تم دوسری وادی اور گھاٹی میں چلو تو ضرور میں تمہاری وادی اور گھاٹی میں چلوں گا۔ تم لوگ میرے لیے ایسے ہی ہو جیسے کپڑے کا اندرونی حصہ اور باقی لوگ جیسے کپڑے کا بیرونی حصہ، اور اگر ہجرت اہم معاملہ نہ ہوتا تو میں انصار کا ایک آدمی ہوتا۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے دونوں ہاتھ بلند کیے۔ یہاں تک کہ میں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کندھوں کے نیچے بغلوں کی سفیدی دیکھی۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دعا فرمائی : اے اللہ ! تو انصار کی مغفرت فرما۔ اور ان کی اولاد کی مغفرت فرما۔

33018

(۳۳۰۱۹) حَدَّثَنَا شَبَابَۃُ ، قَالَ : حدَّثَنَا شُعْبَۃُ ، قَالَ : حَدَّثَنَا عَدِیُّ بْنُ ثَابِتٍ ، عَنِ الْبَرَائِ بْنِ عَازِبٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : الأَنْصَارُ لاَ یُحِبُّہُمْ إلاَّ مُؤْمِنٌ ، وَلاَ یُبْغِضُہُمْ إلاَّ مُنَافِقٌ ، وَمَنْ أَحَبَّہُمْ أَحَبَّہُ اللَّہُ وَمَنْ أَبْغَضَہُمْ أَبْغَضَہُ اللَّہُ۔ (بخاری ۳۷۸۳۔ مسلم ۸۵)
(٣٣٠١٩) حضرت براء بن عازب (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : انصار سے محبت نہیں کرے گا سوائے مومن کے، اور ان سے بغض نہیں رکھے گا سوائے منافق کے۔ اور جو شخص ان سے محبت رکھتا ہے اللہ بھی اس سے محبت کرتا ہے۔ اور جو شخص ان سے بغض رکھتا ہے، اللہ بھی ان سے بغض رکھتا ہے۔

33019

(۳۳۰۲۰) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ الْعَبْدِیُّ ، قَالَ : حدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو ، عَنْ أَبِی سَلَمَۃَ ، عَنْ أبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لَوْ أَنَّ النَّاسَ سَلَکُوا وَادِیًا ، أَوْ شِعْبًا وَسَلَکَ الأَنْصَارُ وَادِیًا ، أَوْ شِعْبًا لَسَلَکْت وَادِیَ الأَنْصَارِ ، أَوْ شِعْبَہُمْ ، وَلَوْلاَ الْہِجْرَۃُ لَکُنْت امْرَئًا مِنَ الأَنْصَارِ۔ (دارمی ۲۵۱۴)
(٣٣٠٢٠) حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اگر لوگ کسی ایک وادی یا گھاٹی میں چلیں اور انصار دوسری وادی یا گھاٹی میں چلیں تو میں ضرور انصاری کی وادی یا گھاٹی میں چلوں گا۔ اور اگر ہجرت اہم معاملہ نہ ہوتا تو میں بھی انصار کا ایک آدمی ہوتا۔

33020

(۳۳۰۲۱) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍوَ قَالَ : حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَۃَ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَنْ أَحَبَّ الأَنْصَارَ ؛ أَحَبَّہُ اللَّہُ ، وَمَنْ أَبْغَضَ الأَنْصَارَ ؛ أَبْغَضَہُ اللَّہُ۔ (احمد ۵۰۱۔ ابویعلی ۷۳۲۹)
(٣٣٠٢١) حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جو شخص انصار سے محبت کرے گا تو اللہ بھی اس سے محبت کرے گا اور جو شخص انصار سے بغض رکھے گا تو اللہ بھی اس سے بغض رکھے گا۔

33021

(۳۳۰۲۲) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ، قَالَ: حدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍوَ قَالَ: حَدَّثَنَا سَعْدُ بْنُ الْمُنْذِرِ، عَنْ حَمْزَۃَ بْنِ أَبِی أُسَیْدَ الأَنْصَارِیِّ، عَنِ الْحَارِثِ بْنِ زِیَادٍ مِنْ أَصْحَابِ بَدْرٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: مَنْ أَحَبَّ الأَنْصَارَ أَحَبَّہُ اللَّہُ حتی یَلْقَاہُ، وَمَنْ أَبْغَضَ الأَنْصَارَ أَبْغَضَہُ اللَّہُ حِینَ یَلْقَاہُ۔ (احمد ۲۲۱۔ طبرانی ۳۳۵۷)
(٣٣٠٢٢) حضرت حارث بن زیاد (رض) جو کہ بدری صحابی ہیں فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جو شخص انصار سے محبت کرے گا تو اللہ تعالیٰ بھی اس سے محبت کریں گے یہاں تک کہ وہ اللہ سے ملاقات کرے اور جو شخص انصار سے بغض رکھے گا تو اللہ بھی اس سے بغض رکھیں گے یہاں تک کہ وہ اللہ سے ملاقات کرے۔

33022

(۳۳۰۲۳) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ أَنَّ سَعْدَ بْنَ إبْرَاہِیمَ أَخْبَرَہُ ، عَنِ الْحَکَمِ بْنِ مِینَائ، عَنْ یَزِیدَ بْنِ جَارِیَۃَ ، أَنَّہُ کَانَ جَالِسًا فِی نَفَرٍ مِنَ الأَنْصَارِ فَمَرَّ عَلَیْہِمْ مُعَاوِیَۃُ فَسَأَلَہُمْ عَنْ حَدِیثِہِمْ ، فَقَالُوا : کُنَّا فِی حَدِیثٍ مِنْ حَدِیثِ الأَنْصَارِ ، فَقَالَ مُعَاوِیَۃُ : أَفَلاَ أَزِیدُکُمْ حَدِیثًا سَمِعْتہ مِنْ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالُوا : بَلَی یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ ، قَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ: مَنْ أَحَبَّ الأَنْصَارَ أَحَبَّہُ اللَّہُ ، وَمَنْ أَبْغَضَ الأَنْصَارَ أَبْغَضَہُ اللَّہُ۔ (احمد ۹۶۔ ابویعلی ۷۳۳۰)
(٣٣٠٢٣) حضرت حکم بن مینائ (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت یزید بن جاریہ (رض) نے ارشاد فرمایا : کہ میں انصار کے ایک گروہ میں بیٹھا ہوا تھا کہ ہم پر حضرت معاویہ (رض) کا گزر ہوا تو انھوں نے لوگوں سے ان کی گفتگو کے متعلق پوچھا ؟ لوگوں نے عرض کیا : کہ ہم لوگ انصار کے بارے میں گفتگو کر رہے تھے۔ اس پر حضرت معاویہ (رض) نے ارشاد فرمایا : کیا میں بھی تمہیں ایسی حدیث نہ سناؤں جو میں نے خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے ہوئے سنا ؟ لوگوں نے کہا : اے امیر المؤمنین : کیوں نہیں ! ضرور ! آپ (رض) نے فرمایا : میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے ہوئے سنا جو شخص انصار سے محبت کرے گا تو اللہ بھی اس سے محبت کریں گے۔ اور جو شخص انصار سے بغض رکھے گا تو اللہ بھی اس سے بغض رکھے گا۔

33023

(۳۳۰۲۴) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ، عَنْ زَکَرِیَّا ، عَنْ عَطِیَّۃَ ، عَنْ أَبِی سَعِیدٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: أَلاَ إنَّ عَیْبَتِی الَّتِی آوِی إلَیْہَا أَہْلُ بَیْتِی، وَإِنَّ کَرِشِی الأَنْصَارُ ، فَاعْفُوا عَنْ مُسِیئِہِمْ وَاقْبَلُوا مِنْ مُحْسِنِہِمْ۔ (ترمذی ۳۹۰۴۔ احمد ۸۹)
(٣٣٠٢٤) حضرت ابو سعید خدری (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : خبردار میرے خاص لوگ جن کی طرف میں نے پناہ پکڑی وہ میرے گھر کے لوگ ہیں۔ اور یقیناً میرے راز دار انصار ہیں۔ پس تم لوگ ان کی برائیوں سے درگزر کرو اور ان کی نیکیوں کو پسند کرو۔

33024

(۳۳۰۲۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ ابْنِ أَبِی لَیْلَی ، عَنْ عَدِیٍّ ، عَنِ الْبَرَائِ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : اقْبَلُوا مِنْ مُحْسِنِہِمْ ، وَتَجَاوَزُوا عَنْ مُسِیئِہِمْ ، یَعْنِی الأَنْصَارَ۔
(٣٣٠٢٥) حضرت براء بن عازب (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ان کی نیکیوں کو پسند کرو اور ان کی برائیوں سے درگزر کرو۔ یعنی انصار کے لوگوں کی۔

33025

(۳۳۰۲۶) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَیْدٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِی شُمَیْلَۃَ ، قَالَ : حَدَّثَنِی رَجُلٌ ، عَنْ سَعِیدٍ الصَّرَّافِ - أَوْ ہُوَ عَنْ سَعِیدٍ الصَّرَّافِ - عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ سَعْدِ بْنِ عُبَادَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إنَّ ہَذَا الْحَیَّ مِنَ الأَنْصَارِ مِحْنَۃٌ ، حُبُّہُمْ إیمَانٌ ، وَبُغْضُہُمْ نِفَاقٌ۔ (احمد ۷)
(٣٣٠٢٦) حضرت سعد بن عبادہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : یقیناً یہ انصار کا قبیلہ آزمائش ہیں۔ ان سے محبت ایمان کی علامت ہے اور ان سے بغض نفاق کی علامت ہے۔

33026

(۳۳۰۲۷) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ أَبِی بُکَیْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا زُہَیْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِیلٍ ، عَنِ الطُّفَیْلِ بْنِ أُبَیٍّ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : لَوْلاَ الْہِجْرَۃُ لَکُنْت امْرَئًا مِنَ الأَنْصَارِ ، وَلَوْ سَلَکَ النَّاسُ وَادِیًا ، أَوْ شِعْبًا لَسَلَکْت مَعَ الأَنْصَارِ۔ (ترمذی ۳۸۹۹۔ احمد۱۳۷)
(٣٣٠٢٧) حضرت اُبیّ (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے ہوئے سنا کہ اگر ہجرت اہم معاملہ نہ ہوتا تو میں بھی انصار ہی میں سے ایک آدمی ہوتا، اور اگر انصار کسی ایک وادی یا گھاٹی میں چلیں تو میں بھی انصار کے ساتھ چلوں گا۔

33027

(۳۳۰۲۸) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا حُمَیْدٌ ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : النَّاسُ دِثَارٌ وَالأَنْصَارُ شِعَارٌ ، الأَنْصَارُ کَرِشِی وَعَیْبَتِی ، وَلَوْلاَ الْہِجْرَۃُ لَکُنْت امْرَئًا مِنَ الأَنْصَارِ۔ (نسائی ۸۳۲۶۔ احمد ۲۰۱)
(٣٣٠٢٨) حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : لوگ میرے لیے کپڑے کے بیرونی حصہ کی طرح ہیں۔ اور انصار میرے لیے کپڑے کے اندرونی حصہ کی طرح ہیں۔ اور انصار میرے خاص رازدار لوگ ہیں۔ اگر ہجرت اہم معاملہ نہ ہوتا تو میں بھی انصار کا ایک آدمی ہوتا۔

33028

(۳۳۰۲۹) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَۃَ ، عَنْ ثَابِتٍ ، عَنْ أَبِی بَکْرِ بْنِ أَنَسٍ ، قَالَ : کَتَبَ زَیْدُ بْنُ أَرْقَمَ إلَی أَنَسٍ یُعَزِّیہِ بِوَلَدِہِ وَأَہْلِہِ الَّذِینَ أُصِیبُوا یَوْمَ الْحَرَّۃِ ، فَکَتَبَ فِی کِتَابِہِ : وَإِنِّی مُبَشِّرُک بِبُشْرَی مِنَ اللہِ ، سَمِعْت رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : اللَّہُمَّ اغْفِرْ لِلأَنْصَارِ وَلأَبْنَائِ الأَنْصَارِ وَلأَبْنَائِ أَبْنَائِ الأَنْصَارِ، وَلِنِسَائِ الأنصار وَلِنِسَائِ أَبْنَائِ الأَنْصَارِ وَلِنِسَائِ أَبْنَائِ أَبْنَائِ الأَنْصَارِ۔ (ابن حبان ۷۲۸۱۔ احمد ۳۷۴)
(٣٣٠٢٩) حضرت ثابت (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت ابوبکر بن انس (رض) نے فرمایا : کہ حضرت زید بن ارقم (رض) نے حضرت انس (رض) کو خط لکھ کر ان سے ان کے بچہ اور بیوی کی تعزیت کی جو حرّہ کے دن شہید ہوگئے تھے۔ آپ (رض) نے اپنے خط میں لکھا : اور میں تمہیں اللہ کی طرف سے ایک خوشخبری سناتا ہوں جو میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے ہوئے سنی ہے۔ آپ (رض) نے فرمایا : اے اللہ ! تو انصار کی مغفرت فرما، اور انصار کی اولاد کی، اور انصار کی اولاد کی اولاد کی، اور انصار کی عورتوں کی، اور انصار کی اولاد کی عورتوں کی ۔ اور انصار کی اولاد کی اولاد کی عورتوں کی بھی۔

33029

(۳۳۰۳۰) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُمَرَ ، قَالَ : کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إذَا ذَکَرَ الأَنْصَارَ ، قَالَ : أَعِفَّۃٌ صُبُرٌ۔ (ترمذی ۳۹۰۳۔ احمد ۱۵۰)
(٣٣٠٣٠) حضرت عاصم بن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب بھی انصار کا ذکر کرتے تو فرماتے کہ پاک دامنی اور صبر سے لبریز ہیں۔

33030

(۳۳۰۳۱) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُمَرَ بْنِ قَتَادَۃَ أَنَّ قَتَادَۃَ بْنَ النُّعْمَانِ سَقَطَتْ عَیْنُہُ عَلَی وَجْنَتِہِ یَوْمَ أُحُدٍ فَرَدَّہَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَکَانَتْ أَحْسَنَ عَیْنَیْہِ وَأَحَدَّہُمَا۔ (ابن سعد ۴۵۳۔ ابویعلی ۱۵۴۶)
(٣٣٠٣١) حضرت عاصم بن عمر بن قتادہ (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت قتادہ بن نعمان (رض) کی آنکھ غزوہ احد کے دن ان کے رخسار سے گرگئی تھی۔ پس رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دوبارہ اس کو اس کی جگہ پر لوٹا دیا تو آپ (رض) کی آنکھ پہلے سے زیادہ خوبصورت اور تیز ہوگئی تھی۔

33031

(۳۳۰۳۲) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَدَّ یَدَ خَبِیبِ بْنِ یَسَافٍ ، ضُرِبَ یَوْمَ بَدْرٍ عَلَی حَبْلِ الْعَاتِقِ ، فَرَدَّہَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَلَمْ یُرَ مِنْہَا إلاَّ مِثْلُ خَطٍّ۔ (بیہقی ۱۷۸۔ احمد ۴۵۴)
(٣٣٠٣٢) حضرت محمد بن اسحاق (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت خبیب بن اساف (رض) کا ہاتھ ان کی جگہ پر لوٹا دیا، جو غزوہ بدر کے دن گردن اور مونڈھے کے درمیان سے کٹ گیا تھا۔ پس رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے لوٹا دیا۔ وہ جگہ یوں معلوم ہوتی تھی جیسے کوئی ہلکا سا نشان ہو۔

33032

(۳۳۰۳۳) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُمَرَ ، قَالَ : جَائَ رَجُلٌ إلَی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَجَعَلَ یَذْکُرُ قُرَیْشًا ، وَمَا جَمَعَتْ وَجَعَلَ یَتَوَعَّدُہُ بِہِمْ ، فَقَالَ لَہُ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : یَأْبَی ذَلِکَ عَلَیْک بَنُو قَیْلَۃَ ، إنَّہُمْ قَوْمٌ فِی حَدِّہِمْ فَرْطٌ۔
(٣٣٠٣٣) حضرت عاصم بن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ ایک آدمی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا۔ اور قریش اور ان کی جمعیت کا ذکر کر کے ان کی طرف سے دھمکیاں دینے لگا۔ اس پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے ارشاد فرمایا : قبیلہ اوس اور خزرج والے تیرے خلاف بغاوت کرتے ہیں اور بیشک یہ ایسی قوم ہیں کہ جن کے غصہ کے سامنے کوئی ٹھہر نہیں سکتا۔

33033

(۳۳۰۳۴) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، عَنْ شُعْبَۃَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ، قَالَ سَمِعْت أَبَا حَمْزَۃَ، قَالَ: قالَتِ الأَنْصَارُ: یَا رَسُولَ اللہِ، إنَّ لِکُلِّ نَبِیٍّ أَتْبَاعًا ، وَإِنَّا قَدِ اتَّبَعْنَاکَ ، فَادْعُ اللَّہَ أَنْ یَجْعَلَ أَتْبَاعَنَا مِنَّا ، فَدَعَا لَہُمْ أَنْ یَجْعَلَ أَتْبَاعَہُمْ مِنْہُمْ۔ قَالَ فَنَمَّیْتُ ذَلِکَ إلَی عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِی لَیْلَی ، فَقَالَ : قَدْ زَعَمَ ذَلِکَ زَیْدٌ۔ (بخاری ۳۷۸۸۔ حاکم ۸۵)
(٣٣٠٣٤) حضرت عمرو بن مرہ (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابو حمزہ (رض) کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ انصار نے کہا : اے اللہ کے رسول 5! بیشک ہر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیروکار ہوتے ہیں اور تحقیق ہم نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی فرمان برداری کی ، تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ سے دعا کیجئے کہ وہ ہمیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیروکار بنادیں اس پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے حق میں دعا فرمائی کہ اللہ ان کو پیروکاروں میں سے بنا دے۔
راوی کہتے ہیں : میں نے اس کی سند حضرت عبد الرحمن بن ابی لیلیٰ (رض) کے سامنے بیان کی تو آپ (رض) نے فرمایا : یہ حضرت زید (رض) نے فرمایا۔

33034

(۳۳۰۳۵) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا شُعْبَۃُ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ أَنَسٍ ، عَنْ أُسَیْدَ بْنِ حُضَیْرٍ أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ لِلأَنْصَارِ : إنَّکُمْ سَتَرَوْنَ بَعْدِی أَثَرَۃً ، قَالُوا : فَمَا تَأْمُرُنَا ، قَالَ : تَصْبِرُونَ حَتَّی تَلْقَوْنِی عَلَی الْحَوْضِ۔
(٣٣٠٣٥) حضرت اسید بن حضیر (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انصار سے فرمایا : عنقریب میرے بعد تم پاؤ گے کہ دوسروں کو تم پر ترجیح دی جائے گی۔ انھوں نے عرض کیا : آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمیں کس بات کا حکم دیتے ہیں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم صبر کو اختیار کرنا یہاں تک کہ مجھے حوض کوثر پر آملو۔

33035

(۳۳۰۳۶) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا وُہَیْبٌ ، قَالَ : حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ یَحْیَی ، عَنْ عَبَّادِ بْنِ تَمِیمٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ زَیْدٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لَوْلاَ الْہِجْرَۃُ لَکُنْت امْرَئًا مِنَ الأَنْصَارِ ، وَلَوْ سَلَکَ النَّاسُ وَادِیًا ، أَوْ شِعْبًا ، لَسَلَکْتُ وَادِیَ الأَنْصَارِ وَشِعْبَہُمْ ، الأَنْصَارُ شِعَارٌ وَالنَّاسُ دِثَارٌ ، وَإِنَّکُمْ سَتَلْقَوْنَ بَعْدِی أَثَرَۃً ، فَاصْبِرُوا حَتَّی تَلْقَوْنِی عَلَی الْحَوْضِ۔
(٣٣٠٣٦) حضرت عبداللہ بن زید (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اگر ہجرت اہم معاملہ نہ ہوتا تو میں بھی انصار ہی میں سے ایک شخص ہوتا۔ اگر لوگ کسی ایک وادی یا گھاٹی میں چلیں ، تو میں انصار کی وادی یا گھاٹی میں چلوں گا۔ انصار میرے لیے کپڑے کے اندرونی حصہ کی طرح ہیں۔ اور باقی لوگ میرے لیے کپڑے کے بیرونی حصہ کی طرح ہیں۔ اور بیشک عنقریب تم لوگ دیکھو گے کہ دوسروں کو تم پر ترجیح دی جائے گی۔ پس تم صبر کرنا یہاں تک کہ تم مجھ سے حوض کوثر پر ملاقات کرو۔

33036

(۳۳۰۳۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاہِیمَ ، عَن عَبْدِ الرَّحْمَنِ الأَعْرَجِ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : قرَیْشٌ ، وَالأَنْصَارُ ، وَجُہَیْنَۃُ ، وَمُزَیْنَۃُ ، وَأَسْلَمُ ، وَغِفَارٌ ، مَوَالِی اللہِ وَرَسُولِہِ ، لاَ مَوْلَی لَہُمْ غَیْرَہُ۔ (بخاری ۳۵۰۴۔ مسلم ۱۹۵۴)
(٣٣٠٣٧) حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : قریش، انصار، قبیلہ جھینہ، قبیلہ مزینہ اور قبیلہ اسلم اور غفار والے، اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دوست ہیں۔ ان کے سوا ان کا کوئی دوست نہیں۔

33037

(۳۳۰۳۸) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ ، عَنْ حُمَیْدٍ ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ : خَرَجَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ غَدَاۃً بَارِدَۃً وَالْمُہَاجِرُونَ وَالأَنْصَارُ یَحْفِرُونَ الْخَنْدَقَ ، فَلَمَّا نَظَرَ إلَیْہِمْ ، قَالَ : أَلاَ إنَّ الْعَیْشَ عَیْشُ الآخِرَۃْ فَاغْفِرْ لِلأَنْصَارِ وَالْمُہَاجِرَۃ۔ فَأَجَابُوہ : نَحْنُ الَّذِینَ بَایَعُوا مُحَمَّدَا عَلَی الْجِہَادِ مَا بَقِینَا أَبَدَا۔ (نسائی ۸۳۳۳)
(٣٣٠٣٨) حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صبح سویرے نکلے اس حال میں کہ مہاجرین اور انصار خندق کھود رہے تھے۔ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی طرف دیکھا تو یہ شعر پڑھا : ترجمہ :
خبردار ! اصل زندگی تو آخرت کی زندگی ہے۔
اے اللہ ! تو انصار اور مہاجرین کی مغفرت فرما۔
پس صحابہ (رض) نے جواباً یہ شعر پڑھا :
ہم تو وہ لوگ ہیں جنہوں نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیعت کی،
جہاد پر جب تک ہم لوگ باقی ہیں۔

33038

(۳۳۰۳۹) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ عَدِیٍّ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لاَ یُبْغِضُ الأَنْصَارَ رَجُلٌ یُؤْمِنُ بِاللہِ وَالْیَوْمِ الآخِرِ۔
(٣٣٠٣٩) حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : انصار سے بغض نہیں رکھے گا ایسا شخص جو اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو۔

33039

(۳۳۰۴۰) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِی صَالِحٍ ، عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لاَ یُبْغِضُ الأَنْصَارَ رَجُلٌ یُؤْمِنُ بِاللہِ وَالْیَوْمِ الآخِرِ۔ (مسلم ۸۶۔ احمد ۳۴)
(٣٣٠٤٠) حضرت ابو سعید خدری (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : انصار سے بغض نہیں رکھے گا ایسا شخص جو اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو۔

33040

(۳۳۰۴۱) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ الْمُغِیرَۃِ ، قَالَ : حَدَّثَنَا ثَابِتٌ الْبُنَانِیُّ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ رَبَاحٍ، قَالَ : وَفَدْنَا وُفُودًا لِمُعَاوِیَۃَ وَفِینَا أَبُو ہُرَیْرَۃَ ، وَذَلِکَ فِی رَمَضَانَ ، فَقَالَ : أَلاَ أُعَلِّمُکُمْ بِحَدِیثٍ مِنْ حَدِیثِکُمْ یَا مَعْشَرَ الأَنْصَارِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : یَا مَعْشَرَ الأَنْصَارِ ، قَالُوا : لَبَّیْکَ یَا رَسُولَ اللہِ ، قَالَ : قُلْتُمْ : أَمَّا الرَّجُلُ فَأَدْرَکَتْہُ رَغْبَۃٌ فِی قَرْیَتِہِ وَرَأْفَۃٌ بِعَشِیرَتِہِ قَالَ : قَدْ قُلْنَا ذَاکَ یَا رَسُولَ اللہِ ، قَالَ : فَمَا اسمی إذًا ، قَالَ کَلاَّ إنِّی عَبْدُ اللہِ وَرَسُولُہُ ، ہَاجَرْت إلَیْکُمْ ، الْمَحْیَا مَحْیَاکُمْ وَالْمَمَاتُ مَمَاتُکُمْ ، قَالَ : فَأَقْبَلُوا إلَیْہِ یَبْکُونَ یَقُولُونَ : وَاللہِ یَا رَسُولَ اللہِ ، مَا قُلْنَا الَّذِی قُلْنَا إلاَّ الضِّنَّ بِاللہِ وَرَسُولِہِ ، قَالَ : إِنَّ اللَّہَ وَرَسُولَہُ یُصَدِّقَانِکُمْ وَیَعْذِرَانِکُمْ۔ (مسلم ۱۴۰۵۔ ابن حبان ۴۷۶۰)
(٣٣٠٤١) حضرت عبداللہ بن رباح (رض) فرماتے ہیں کہ ہم لوگ وفد کی صورت میں آئے، اس حال میں کہ ہم میں حضرت ابوہریرہ (رض) بھی موجود تھے۔ اور یہ رمضان کا مہینہ تھا۔ آپ (رض) نے فرمایا : اے گروہ انصار ! کیا میں تمہیں تمہارے متعلق ایک حدیث نہ سناؤں ؟ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اے گروہ انصار ! لوگوں نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول 5! ہم حاضر ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم لوگ کہتے ہو : ایک آدمی کو اپنے علاقہ میں رغبت ہوگئی اور اس کو اپنے قبیلہ سے محبت ہے ! ہم نے یہ کہا ہے ! اے اللہ کے رسول 5! آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تب تو یہ میر انام نہیں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ہرگز نہیں۔ بیشک میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں۔ میں نے تمہاری طرف ہجرت کی۔ جینا تمہارے ساتھ ہے اور مرنا بھی تمہارے ساتھ ۔ راوی کہتے ہیں سب صحابہ رونے لگے اور کہنے لگے : اے اللہ کے رسول 5! ہم نے یہ بات جو کہی صرف اس مقصد سے کہ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا قرب مقصود تھا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : بیشک اللہ اور اس کا رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دونوں تمہاری تصدیق کرتے ہیں اور تمہارا عذر قبول کرتے ہیں۔

33041

(۳۳۰۴۲) حَدَّثَنَا یَعْلَی بْنُ عُبَیْدٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ بْنُ أَبِی خَالِدٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ أَبِی قَتَادَۃَ ، قَالَ : أُخْبِرْت أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : لَوْلاَ الْہِجْرَۃُ لَکُنْت امْرَئًا مِنَ الأَنْصَارِ۔
(٣٣٠٤٢) حضرت عبداللہ بن ابی قتادہ (رض) فرماتے ہیں کہ مجھے خبر دی گئی کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اگر ہجرت اہم معاملہ نہ ہوتا تو میں بھی انصار میں سے ایک شخص ہوتا۔

33042

(۳۳۰۴۳) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ حباب ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ ہَارُونَ الأَنْصَارِیِّ ، قَالَ : حدَّثَنِی مُعَاذُ بْنُ رِفَاعَۃَ بْنِ رَافِعٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : اللَّہُمَّ اغْفِرْ لِلأَنْصَارِ وَلِذَرَارِیِّ الأَنْصَارِ وَلِذَرَارِیِّ ذَرَارِیِّہِمْ وَلِمَوَالِیہِمْ وَجِیرَانِہِمْ۔ (مسند ۴۱۳۷۔ ابن حبان ۷۲۸۳)
(٣٣٠٤٣) حضرت رفاعہ بن رافع (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دعا فرمائی : اے اللہ ! تو انصار کی مغفرت فرما، اور انصار کی اولاد کی بھی، اور ان کی اولاد کی اولاد کی بھی، اور ان کے غلاموں کی بھی اور ان کے پڑوسیوں کی بھی۔

33043

(۳۳۰۴۴) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا ابْنُ الْغَسِیلِ ، قَالَ : حَدَّثَنَا عِکْرِمَۃُ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : جَلَسَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَوْمًا عَلَی الْمِنْبَرِ عَلَیْہِ مِلْحَفَۃٌ مُتَوَشِّحًا بِہَا عَاصِبٌ رَأْسَہُ بِعِصَابَۃٍ دَسْمَائَ ، قَالَ : فَحَمِدَ اللَّہَ وَأَثْنَی عَلَیْہِ ، ثُمَّ قَالَ : یا أَیُّہَا النَّاسُ تَکْثُرُونَ وَیَقِلُّ الأَنْصَارُ حَتَّی یَکُونُوا کَالْمِلْحِ فِی الطَّعَامِ ، فَمَنْ وَلِیَ مِنْ أَمْرِہِمْ شَیْئًا فَلْیَقْبَلْ مِنْ مُحْسِنِہِمْ وَلْیَتَجَاوَزْ عَنْ مُسِیئِہِمْ۔ (بخاری ۹۲۷۔ احمد ۲۸۹)
(٣٣٠٤٤) حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) منبر پر بیٹھے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے چادر کو احرام کی سی حالت میں لیا ہوا تھا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے سر پر کالی پٹی باندھی ہوئی تھی، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ کی حمد و ثنا بیان کی پھر ارشاد فرمایا : اے لوگو ! تم لوگ زیادہ ہو اور انصار تھوڑے ہیں۔ یہاں تک کہ یہ کھانے میں نمک کی مقدار کے برابر ہوجائیں گے۔ پس جس شخص کو ان سے کوئی واسطہ پڑے تو اس کو چاہیے کہ وہ ان کی نیکیوں کو قبول کرے اور ان کی برائیوں سے درگزر کرے۔

33044

(۳۳۰۴۵) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ طَلْحَۃَ ، قَالَ : کَانَ یُقَالُ : بُغْضُ الأَنْصَارِ نِفَاقٌ۔ (بخاری ۳۷۸۴۔ مسلم ۱۲۹)
(٣٣٠٤٥) حضرت طلحہ (رض) فرماتے ہیں کہ یوں کہا جاتا تھا کہ انصار سے بغض رکھنا نفاق ہے۔

33045

(۳۳۰۴۶) حَدَّثَنَا شَبَابَۃُ بْنُ سَوَّارٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا شُعْبَۃُ ، عَنْ مُعَاوِیَۃَ بْنِ قُرَّۃَ أَنَّہُ سَمِعَ أَنَسًا یُحَدِّثُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : اللَّہُمَّ أَصْلِحِ الأَنْصَارَ وَالْمُہَاجِرَۃَ۔ (احمد ۱۷۲)
(٣٣٠٤٦) حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اے اللہ ! تو انصار اور مہاجرین کی اصلاح فرما۔

33046

(۳۳۰۴۷) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ زَیْدٍ ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ : رَأَی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نِسَائً وَصِبْیَانًا مِنَ الأَنْصَارِ مُقْبِلِینَ مِنْ عُرْسٍ ، فَقَالَ : اللَّہُمَّ أَحَبُّ النَّاسِ إلَیَّ۔ (مسلم ۱۹۴۹۔ ابن حبان ۷۲۷۰)
(٣٣٠٤٧) حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انصار کی عورتوں اور بچوں کو شادی کی ایک تقریب سے آتے ہوئے دیکھا تو ارشاد فرمایا : اے اللہ ! لوگوں میں میرے سب سے عزیز ترین لوگ یہ ہیں۔

33047

(۳۳۰۴۸) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ إدْرِیسَ ، قَالَ : حدَّثَنَا ہَاشِمُ بْنُ ہَاشِمٍ ، عَنْ أَبِی جَعْفَرٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لاَ تَقَدَّمُوا قُرَیْشًا فَتَضِلُّوا ، وَلاَ تَأَخَّرُوا عنہا فَتَضِلُّوا ، خِیَارُ قُرَیْشٍ خِیَارُ النَّاسِ ، وَشِرَارُ قُرَیْشٍ شِرَارُ النَّاسِ ، وَالَّذِی نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہِ ، لَوْلاَ أَنْ تَبْطَرَ قُرَیْشٌ لأَخْبَرْتُہَا مَا لِخِیَارِہَا عِنْدَ اللہِ ، أَوْ مَا لَہَا عِنْدَ اللہِ۔
(٣٣٠٤٨) حضرت ابو جعفر (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : تم قریش سے آگے مت بڑھو ورنہ گمراہ ہو جاؤ گے اور قریش سے پیچھے مت رہو ورنہ گمراہ ہو جاؤ گے۔ قریش کے بہترین لوگ تمام لوگوں میں بہترین ہیں، اور قریش کے بدترین لوگ تمام لوگوں میں بدترین لوگ ہیں۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جان ہے اگر قریش آپے سے باہر نہ ہوجاتے تو میں ان کو بتلاتا کہ وہ اللہ کے نزدیک سب سے بہترین ہیں۔

33048

(۳۳۰۴۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا الأَعْمَشُ ، عَنْ أَبِی سفیان ، عَنْ جَابِرٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : النَّاسُ تَبَعٌ لِقُرَیْشٍ فِی الْخَیْرِ وَالشَّرِّ۔ (مسلم ۱۴۵۱۔ احمد ۳۷۹)
(٣٣٠٤٩) حضرت جابر (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : لوگ بھلائی اور برائی میں قریش کے تابع ہیں۔

33049

(۳۳۰۵۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنِ ابْنِ خُثَیْمٍ عَنْ إسْمَاعِیلَ بْنِ عُبَیْدِ اللہ بْنِ رِفَاعَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ جَدِّہِ ، قَالَ : جَمَعَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قُرَیْشًا ، فَقَالَ : ہَلْ فِیکُمْ مِنْ غَیْرِکُمْ ، فقَالُوا : لاَ إلاَّ ابْنَ أُخْتِنَا وَمَوْلاَنَا وَحَلِیفَنَا ، فَقَالَ ابْنُ أُخْتِکُمْ مِنْکُمْ ، وَحَلِیفُکُمْ مِنْکُمْ ، وَمَوْلاَکُمْ مِنْکُمْ ، إنَّ قُرَیْشًا أَہْلُ صِدْقٍ وَأَمَانَۃٍ ، فَمَنْ بَغَی لَہُمَ الْعَوَاثِرَ کَبَّہُ اللَّہُ عَلَی وَجْہِہِ۔
(٣٣٠٥٠) حضرت رفاعہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قریش کو جمع کیا اور فرمایا : کیا تم میں کوئی غیر تو نہیں ؟ لوگوں نے کہا : نہیں سوائے ہمارے بھانجوں کے اور ہمارے غلاموں اور حلیفوں کے ۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تمہارے بھانجے تم میں سے ہیں اور تمہارے حلیف بھی تم میں سے ہیں اور تمہارے غلام بھی تم میں سے ہیں۔ بیشک قریش سچے اور دیانت دار ہیں۔ جو شخص ان کی غلطیاں اور لغزشیں تلاش کرے گا تو اللہ اس کو اوندھے منہ گرائیں گے۔

33050

(۳۳۰۵۱) حَدَّثَنَا یَعْلَی بْنُ عُبَیْدٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو ، عَنْ أَبِی سَلَمَۃَ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : النَّاسُ تَبَعٌ لِقُرَیْشٍ فِی ہَذَا الأَمْرِ ، خِیَارُہُمْ تَبَعٌ لِخِیَارِہِمْ وَشِرَارُہُمْ تَبَعٌ لِشِرَارِہِمْ۔ (بخاری ۳۴۹۵۔ مسلم ۱۴۵۱)
(٣٣٠٥١) حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : لوگ اس معاملہ میں قریش کے تابع ہیں۔ لوگوں میں سے بہترین لوگ قریش کے بہترین لوگوں کے تابع ہیں۔ اور لوگوں میں بدترین لوگ قریش کے بدترین لوگوں کے تابع ہیں۔

33051

(۳۳۰۵۲) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنِ ابْنِ أَبِی ذِئْبٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ طَلْحَۃَ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَوْفٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الأَزْہَرِ ، عَنْ جُبَیْرِ بْنِ مُطْعِمٍ أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : إنَّ لِلْقُرَشِیِّ مِثْلَ قُوَّۃِ رَجُلَیْنِ مِنْ غَیْرِ قُرَیْشٍ ، قِیلَ لِلزُّہْرِیِّ : مَا عَنْی بِذَلِکَ ، قَالَ فِی نُبْلِ الرَّأْیِ۔ (احمد ۸۱۔ ابن حبان ۶۲۶۵)
(٣٣٠٥٢) حضرت جبیر بن مطعم (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : بیشک ایک قریشی کو غیر قریشی آدمیوں کی قوت حاصل ہوتی ہے۔ امام زہری (رض) سے پوچھا گیا : اس سے کیا مراد ہے ؟ آپ (رض) نے فرمایا : رائے کی پختگی مراد ہے۔

33052

(۳۳۰۵۳) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ سَہْلِ بْنِ أَبِی حَثْمَۃَ أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : تَعَلَّمُوا مِنْ قُرَیْشٍ ، وَلاَ تُعَلِّمُوہَا ، وَقَدِّمُوا قُرَیْشًا ، وَلاَ تُؤَخِّرُوہَا ، فَإِنَّ لِلْقُرَشِیِّ قُوَّۃَ الرَّجُلَیْنِ مِنْ غَیْرِ قُرَیْشٍ۔ (عبدالرزاق ۱۹۸۹۳۔ بیہقی ۱۲۱)
(٣٣٠٥٣) حضرت سھل بن ابی حثمہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : تم لوگ قریش سے سیکھو۔ ان کو سکھاؤ مت، اور قریش کو آگے کرو اور تم ان کو پیچھے مت کرو۔ یقیناً ایک قریشی کو دو غیر قریشی آدمیوں جتنی طاقت حاصل ہوتی ہے۔

33053

(۳۳۰۵۴) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مُبَشِّرٍ ، عَنْ زَیْدِ بْنِ أَبِی عَتَّابٍ ، قَالَ قَامَ مُعَاوِیَۃُ عَلَی الْمِنْبَرِ، فَقَالَ : قَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : النَّاسُ تَبَعٌ لِقُرَیْشٍ فِی ہَذَا الأَمْرِ ، خِیَارُہُمْ فِی الْجَاہِلِیَّۃِ خِیَارُہُمْ فِی الإسْلاَمِ إذَا فَقِہُوا ، وَاللہِ لَوْلاَ أَنْ تَبْطَرَ قُرَیْشٌ لأَخْبَرْتُہَا بِمَا لِخِیَارِہَا عِنْدَ اللہِ۔ (طبرانی ۷۹۲)
(٣٣٠٥٤) حضرت زید بن ابی عتاب (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت معاویہ (رض) نے منبر پر کھڑے ہو کر فرمایا : کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : لوگ قریش کے تابع ہیں اس معاملہ خلافت میں۔ قریش کے جو لوگ جاہلیت میں بہترین تھے وہ اسلام میں بھی بہترین ہیں جبکہ ان کو سمجھ دی گئی ہو۔ اللہ کی قسم اگر قریش آپے سے باہر نہ ہوجاتے تو میں ان کو بتلاتا کہ وہ اللہ کے نزدیک کتنے بہترین آدمی ہیں !

33054

(۳۳۰۵۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا الأَعْمَشُ ، قَالَ : حَدَّثَنَا سہل أبو الأسود ، عَنْ بُکَیْر الْجَزَرِیِّ ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ : أَتَانَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ فِی بَیْتِ رَجُلٍ مِنَ الأَنْصَارِ فَأَخَذَ بِعِضَادَتَیَ الْبَابِ ، ثُمَّ قَالَ : الأَئِمَّۃُ مِنْ قُرَیْشٍ۔ (بخاری ۱۸۷۵۔ احمد ۱۸۳)
(٣٣٠٥٥) حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے پاس تشریف لائے اس حال میں کہ ہم لوگ ایک انصاری آدمی کے گھر میں تھے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دروازے کی چوکھٹ کے دونوں بازو پکڑے پھر ارشاد فرمایا : ائمہ قریش میں سے ہوں گے۔

33055

(۳۳۰۵۶) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ عَوْفٍ ، عَنْ زِیَادِ بْنِ مِخْرَاقٍ ، عَنْ أَبِی کِنَانَۃَ ، عَنْ أَبِی مُوسَی ، قَالَ : قامَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَی بَابٍ فِیہِ نَفَرٌ مِنْ قُرَیْشٍ ، فَقَالَ : إنَّ ہَذَا الأَمْرَ فِی قُرَیْشٍ۔
(٣٣٠٥٦) حضرت ابو موسیٰ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک دروازے پر کھڑے ہوئے جہاں قریش کا گروہ تھا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : بیشک یہ خلافت کا معاملہ قریش میں ہی ہوگا۔

33056

(۳۳۰۵۷) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ حَبِیبِ بْنِ أَبِی ثَابِتٍ ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ الْحَارِثِ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُتْبَۃَ ، عَنْ أَبِی مَسْعُودٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِقُرَیْشٍ : إنَّ ہَذَا الأَمْرَ فِیکُمْ وَأَنْتُمْ وُلاَتُہُ۔ (طبرانی ۷۲۰)
(٣٣٠٥٧) حضرت ابو مسعود (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قریش سے فرمایا : بیشک یہ خلافت کا معاملہ تمہارے درمیان ہی ہوگا اور تم ہی نگران ہو گے۔

33057

(۳۳۰۵۸) حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ مُعَاذٍ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ زَیْدٍ ، قَالَ سَمِعْت أَبِی یَقُولُ سَمِعْت ابْنَ عُمَرَ یَقُولُ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لاَ یَزَالُ ہَذَا الأَمْرُ فِی قُرَیْشٍ مَا بَقِیَ مِنَ النَّاسِ اثْنَانِ۔ قَالَ عَاصِمٌ فِی حَدِیثِہِ : وَحَرَّکَ إصْبَعَیْہِ۔ (بخاری ۳۵۰۱۔ احمد ۲۹)
(٣٣٠٥٨) حضرت ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : خلافت کا معاملہ قریش میں رہے گا جب تک دو ولوگ بھی باقی ہوں۔ حضرت عاصم (رض) نے اپنی حدیث میں بیان کیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی دو انگلیوں کو حرکت بھی دی۔

33058

(۳۳۰۵۹) حَدَّثَنَا یُونُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، عَنْ لَیْثِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ یَزِیدَ بْنِ الْہَادِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ صَالِحِ بْنِ کَیْسَانَ ، عَنِ ابْنِ شِہَابٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِی سُفْیَانَ ، عَنْ یُوسُفَ بْنِ أَبِی عَقِیلٍ ، عَنْ سَعْدٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : مَنْ یُرِدْ ہَوَانَ قُرَیْشٍ یُہِنْہُ اللَّہُ۔ (ترمذی ۳۹۰۵۔ احمد ۱۷۱)
(٣٣٠٥٩) حضرت سعد (رض) فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جو شخص قریش کی اہانت کا ارادہ کرتا ہے تو اللہ اسے ذلیل کردیتے ہیں۔

33059

(۳۳۰۶۰) حَدَّثَنَا قَبِیصَۃُ بْنُ عُقْبَۃَ ، عَنْ سُفْیَانَ عَنِ الْحَارِثِ بْنِ حَصِیرَۃَ ، عَنْ أَبِی صَادِقٍ ، عَنْ عَلِیٍّ ، قَالَ : قرَیْشٌ أَئِمَّۃُ الْعَرَبِ ، أَبْرَارُہَا أَئِمَّۃُ أَبْرَارِہَا ، وَفُجَّارُہَا أَئِمَّۃِ فُجَّارِہَا۔
(٣٣٠٦٠) حضرت ابو صادق (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت علی (رض) نے ارشاد فرمایا : قریش عرب کے سردار ہیں۔ ان کے نیک لوگ نیکو کاروں کے سردار ہیں، اور ان کے فاسق و فاجر لوگ فساق و فجار کے سردار ہیں۔

33060

(۳۳۰۶۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ مِسْعَرٍ ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ الْمُغِیرَۃِ الثَّقَفِیِّ ، عَنْ أَبِی صَادِقٍ ، عَنْ رَبِیعَۃَ بْنِ نَاجِدٍ ، عَنْ عَلِیٍّ ، قَالَ : إنَّ قُرَیْشًا ہُمْ أَئِمَّۃُ الْعَرَبِ أَبْرَارُہَا أَئِمَّۃُ أَبْرَارِہَا ، وَفُجَّارُہَا أَئِمَّۃُ فُجَّارِہَا ، وَلِکُلٍّ حَقٌّ فَأَدُّوا إلَی کُلِّ ذِی حَقٍّ حَقَّہُ۔ (بزار ۷۵۹۔ حاکم ۷۵)
(٣٣٠٦١) حضرت ربیعہ بن ناجد (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت علی (رض) نے ارشاد فرمایا : بیشک قریش عرب کے سردار ہیں۔ اور ان کے نیک لوگ نیکوکاروں کے سردار ہیں۔ اور ان کے بد لوگ بدکاروں کے سردار ہیں۔ اور ہر ایک کا حق ہوتا ہے۔ پس تم ہر حق دار کو اس کا حق ادا کرو۔

33061

(۳۳۰۶۲) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ الْحُبَابِ ، قَالَ : حدَّثَنِی مُعَاوِیَۃُ بْنُ صَالِحٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِی أَبُو مَرْیَمَ ، قَالَ سَمِعْت أَبَا ہُرَیْرَۃَ یَقُولُ : إنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : الْمُلْکُ فِی قُرَیْشٍ ، وَالْقَضَائُ فِی الأَنْصَارِ ، وَالأَذَانُ فِی الْحَبَشَۃِ وَالسُّرْعَۃُ فِی الْیَمَنِ۔ (احمد ۳۶۴۔ ترمذی ۳۹۳۶)
(٣٣٠٦٢) حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : خلافت قریش میں ہوگی۔ اور قضاء انصار میں ہوگی۔ اور اذان کا شعبہ حبشہ میں ہوگا اور جلدی یمن میں ہوگی۔

33062

(۳۳۰۶۳) حَدَّثَنَا شَبَابَۃُ بْنُ سَوَّارٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا شُعْبَۃُ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِینَارٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ عُبَیْدَ بْنَ عُمَیْرٍ یَقُولُ : دَعَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِقُرَیْشٍ ، فَقَالَ : اللَّہُمَّ کَمَا أَذَقْت أَوَّلَہُمْ عَذَابًا فَأَذِقْ آخِرَہُمْ نَوَالاً۔ (احمد ۲۴۲۔ ترمذی ۳۹۰۸)
(٣٣٠٦٣) حضرت عبید بن عمیر (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قریش کے لیے یوں دعا فرمائی۔ اے اللہ ! جیسے تو نے پہلے لوگوں کو عذاب چکھایا ایسے ہی تو ان کے آخری لوگوں کو اپنی نعمت اور عطاء چکھا دے۔

33063

(۳۳۰۶۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا إبْرَاہِیمُ بْنُ یزید ، قَالَ : حَدَّثَنِی عَمِّی أَبُو صَادِقٍ ، عَنْ عَلِیٍّ ، قَالَ : الأَئِمَّۃُ مِنْ قُرَیْشٍ۔
(٣٣٠٦٤) حضرت ابو صادق (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت علی (رض) نے ارشاد فرمایا : ائمہ قریش میں سے ہوں گے۔

33064

(۳۳۰۶۵) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَنْ زَکَرِیَّا ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : أَخْبَرَنِی عَبْدُ اللہِ بْنُ مُطِیعِ بْنِ الأَسْوَدِ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یقول یَوْمَ فَتْحِ مَکَّۃَ یَقُولُ : لاَ یُقْتَلُ قُرَشِیٌّ صَبْرًا بَعْدَ ہَذَا الْیَوْمِ إلَی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ۔ (احمد ۴۱۲۔ ابن حبان ۳۷۱۸)
(٣٣٠٦٥) حضرت مطیع بن اسود (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے فتح مکہ کے دن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ آج کے دن کے بعد قیامت کے دن تک کسی قریشی کو نشانہ لے کر قتل نہیں کیا جائے گا۔

33065

(۳۳۰۶۶) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللہِ الأَسَدِیُّ ، عَنِ ابْنِ أَبِی ذِئْبٍ ، عَنْ جُبَیْرِ بْنِ أَبِی صَالِحٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِی وَقَّاصٍ ، أنَّ رَجُلاً قُتِلَ ، فَقِیلَ لِلنَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : أَبْعَدَہُ اللَّہُ ، إِنَّہُ کَانَ یُبْغِضُ قُرَیْشًا۔ (بزار ۱۱۸۳۔ طبرانی ۸۹۵)
(٣٣٠٦٦) حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) فرماتے ہیں کہ ایک آدمی قتل ہوگیا پس اس کے بارے میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بتلایا گیا : اس پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ اس کو اپنی رحمت سے دور کرے۔ بیشک وہ قریش سے بغض رکھتا تھا۔

33066

(۳۳۰۶۷) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا زَکَرِیَّا ، قَالَ : حَدَّثَنَا سَعْدُ بْنُ إبْرَاہِیمَ أَنَّہُ بَلَغَہُ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : النَّاسُ تَبَعٌ لِقُرَیْشٍ ، بَرُّہُمْ لِبَرِّہِمْ وَفَاجِرُہُمْ لِفَاجِرِہِمْ۔
(٣٣٠٦٧) حضرت سعید بن ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ ان کو خبر پہنچی ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : لوگ قریش کے تابع ہیں، نیکو کار نیکوکاروں کے تابع ہیں، اور بدکردار بدکاروں کے تابع ہیں۔

33067

(۳۳۰۶۸) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو ، عَنْ أَبِی سَلَمَۃَ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : خَیْرُ نِسَائٍ رَکِبْنَ الإِبِلَ نِسَائُ قُرَیْشٍ ، أَحْنَاہُ عَلَی وَلَدٍ فِی صِغَرِہِ وَأَرْعَاہُ عَلَی بَعْلٍ فِی ذَاتِ یَدِہِ۔ (احمد ۵۰۲)
(٣٣٠٦٨) حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اونٹوں پر سوار ہونے والی عورتوں میں سب سے بہتر قریش کی عورتیں ہیں۔ جو اپنے بچہ پر اس کی کم سنی میں بہت شفقت والی ہوتی ہیں۔ اور اپنے خاوند کے بارے میں بہت اچھی نگران ہوتی ہیں۔

33068

(۳۳۰۶۹) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَاشِدٍ ، عَنْ مَکْحُولٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : خَیْرُ نِسَائٍ رَکِبْنَ الإِبِلَ نِسَائُ قُرَیْشٍ ، أَحْنَاہُ عَلَی وَلَدٍ فِی صِغَرِہِ ، وَأَرْعَاہُ عَلَی بَعْلٍ فِی ذَاتِ یَدِہِ ، وَلَوْ عَلِمْت أَنَّ مَرْیَمَ ابْنَۃَ عِمْرَانَ رَکِبَتْ بَعِیرًا مَا فَضَّلْت عَلَیْہَا أَحَدًا۔ (ابن سعد ۱۵۲)
(٣٣٠٦٩) حضرت مکحول (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اونٹوں پر سوار ہونے والی عورتوں میں سب سے بہتر قریش کی عورتیں ہیں۔ جو اپنے بچہ پر اس کی کم سنی میں بہت شفقت کرتی ہیں۔ اور پنے خاوند کے بارے میں بہت اچھی نگران ہوتی ہیں۔ اور اگر مجھے معلوم ہوتا کہ حضرت مریم بنت عمران اونٹ پر سوار ہوئیں تو میں ان پر کسی کو بھی فضیلت نہ بخشتا۔

33069

(۳۳۰۷۰) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : خَیْرُ نِسَائٍ رَکِبْنَ الإِبِلَ صَالِحُ نِسَائِ قُرَیْشٍ أَرْعَاہُ عَلَی زَوْجٍ فِی ذَاتِ یَدِہِ ، وَأَحْنَاہُ عَلَی وَلَدٍ فِی صِغَرِہِ۔
(٣٣٠٧٠) حضرت عروہ بن زبیر (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اونٹوں پر سوار ہونے والی عورتوں میں سب سے بہترین اور نیک قریش کی عورتیں ہیں۔ جو اپنے خاوند کے بارے میں بہت اچھی نگران ہوتی ہیں۔ اور اپنے بچہ پر اس کی کم سنی کی حالت میں بہت شفقت کرتی ہیں۔

33070

(۳۳۰۷۱) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ وَوَکِیعٌ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِی صَالِحٍ ، عَنْ أَبِی سَعِیدٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لاَ تَسُبُّوا أَصْحَابِی فَوَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ لَوْ أَنَّ أَحَدَکُمْ أَنْفَقَ مِثْلَ أُحُدٍ ذَہَبًا مَا أَدْرَکَ مُدَّ أَحَدِہِمْ ، وَلاَ نَصِیفَہُ۔ (مسلم ۱۹۶۷۔ ابن حبان ۶۹۹۴)
(٣٣٠٧١) حضرت ابو سعید (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : تم میرے اصحاب کو گالی مت دو ۔ پس قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے۔ اگر تم میں سے کوئی شخص احد پہاڑ کے برابر سونا بھی خرچ کرے تو ان کے خرچ کیے ہوئے ایک مد کو اور نہ ہی اس کے نصف کو پہنچ سکتا ہے۔

33071

(۳۳۰۷۲) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَنْ أَبِی مُوسَی ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لأَصْحَابِہِ : أَنْتُمْ فِی النَّاسِ کَالْمِلْحِ فِی الطَّعَامِ ، قَالَ : ثُمَّ قَالَ الْحَسَنُ : وَلاَ یَطِیبُ الطَّعَامُ إلاَّ بِالْمِلْحِ ، ثُمَّ یَقُولُ الْحَسَنُ : کَیْفَ بِقَوْمٍ ذَہَبَ مِلْحُہُمْ۔ (ابویعلی ۲۷۵۴۔ عبدالرزاق ۲۰۳۷۷)
(٣٣٠٧٢) حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے اصحاب سے ارشاد فرمایا : تم لوگوں میں ایسے ہی ہو جیسے کھانے میں نمک : راوی کہتے ہیں : پھر حضرت حسن (رض) نے فرمایا : کھانا بغیر نمک کے اچھا نہیں ہوتا ، پھر اس کے بعد حضرت حسن (رض) نے فرمایا : اس قوم کا کیا ہوگا جس کا نمک جاتا رہے ؟

33072

(۳۳۰۷۳) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَنْ مُجَمِّعِ بْنِ یَحْیَی ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ أَبِی بُرْدَۃَ ، عَنْ أَبِی بُرْدَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : أَصْحَابِی أَمَنَۃٌ لأُمَّتِی ، فَإِذَا ذَہَبَ أَصْحَابِی أَتَی أُمَّتِی مَا یُوعَدُونَ۔ (مسلم ۱۹۶۱۔ احمد ۳۹۹)
(٣٣٠٧٣) حضرت ابو بردہ (رض) کے والد فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : میرے صحابہ میری امت کے بھروسے کے لوگ ہیں۔ پس جب میرے صحابہ چلے جائیں گے تو میری امت کو جن چیزوں سے ڈرایا گیا ہے وہ واقع ہوجائیں گی۔

33073

(۳۳۰۷۴) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِِ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، عَن عَبِیدَۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : خَیْرُ أُمَّتِی الْقَرْنُ الَّذِینَ یَلُونِی ، ثُمَّ الَّذِینَ یَلُونَہُمْ ، ثُمَّ الَّذِینَ یَلُونَہُمْ ، ثُمَّ یَجِیئُ قَوْمٌ تَسْبِقُ شَہَادَۃُ أَحَدِہِمْ یَمِینَہُ وَیَمِینُہُ شَہَادَتَہُ۔ (بخاری ۲۶۵۲۔ مسلم ۱۹۶۲)
(٣٣٠٧٤) حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : میری امت کا بہترین زمانہ وہ ہے جو میرے ساتھ ملا ہوا ہے۔ پھر وہ زمانہ ہے جو ان صحابہ (رض) کے ساتھ ملا ہوا ہے۔ پھر وہ لوگ جو ان کے ساتھ ملے ہوئے ہیں۔ پھر ایک قوم آئے گی جس میں ایک شخص کی گواہی اس کی قسم سے سبقت لے جائے گی اور اس کی قسم اس کی گواہی سے سبقت لے جائے گی۔

33074

(۳۳۰۷۵) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ جَدِّہِ ، عَنْ جَعْدَۃَ بْنِ ہُبَیْرَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : خَیْرُ النَّاسِ قَرْنِی ، ثُمَّ الَّذِینَ یَلُونَہُمْ ، ثُمَّ الَّذِینَ یَلُونَہُمْ ، ثُمَّ الآخَرُ أَرْدَی۔ (طبرانی ۲۱۸۸۔ حاکم ۱۹۱)
(٣٣٠٧٥) حضرت جعد ۔ بن ھبیرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : لوگوں میں سب سے بہترین میرے زمانے کے لوگ ہیں۔ پھر وہ لوگ جو ان کے ساتھ ملے ہوئے ہیں، پھر وہ لوگ جن کا زمانہ ان کے ساتھ ملا ہوا ہو، پھر دوسرے لوگ ردی ہیں۔

33075

(۳۳۰۷۶) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَنْ زَائِدَۃَ ، عَنِ السُّدِّیِّ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ الْبَہِیِّ ، عَنْ عَائِشَۃَ ، قَالَتْ : سَأَلَ رَجُلٌ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: أَیُّ النَّاسِ خَیْرٌ، قَالَ: الْقَرْنُ الَّذِی أَنَا فِیہِ، ثُمَّ الثَّانِی، ثُمَّ الثَّالِثُ۔(مسلم ۱۹۶۵)
(٣٣٠٧٦) حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ ایک آدمی نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا : بہترین لوگ کون سے ہیں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اس زمانے کے لوگ جس زمانہ میں خود میں موجود ہوں۔ پھر دوسرے زمانہ کے پھر تیسرے زمانہ کے۔

33076

(۳۳۰۷۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا الأَعْمَشُ ، قَالَ : حَدَّثَنَا ہِلاَلُ بْنُ یَسَافَ ، قَالَ : سَمِعْتُ عِمْرَانَ بْنَ حُصَیْنٍ یَقُولُ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : خَیْرُ النَّاسِ قَرْنِی ، ثُمَّ الَّذِینَ یَلُونَہُمْ ، ثُمَّ الَّذِینَ یَلُونَہُمْ ، ثُمَّ الَّذِینَ یَلُونَہُمْ۔ (ترمذی ۲۲۲۱۔ ابن حبان ۷۲۲۹)
(٣٣٠٧٧) حضرت عمران بن حصین (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : بہترین لوگ میرے زمانہ کے ہیں پھر وہ لوگ جو ان کے ساتھ ملے ہوئے ہوں گے پھر وہ لوگ جو ان کے ساتھ ملے ہوئے ہوں گے، پھر وہ لوگ جو ان کے ساتھ ملے ہوئے ہوں گے۔

33077

(۳۳۰۷۸) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ أَبِی جَمْرَۃَ ، قَالَ : حدَّثَنِی زَہْدَمُ بْنُ مُضَرِّبٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ عِمْرَانَ بْنَ حُصَیْنٍ یُحَدِّثُ أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یَقُولُ : إنَّ خَیْرَکُمْ قَرْنِی ، ثُمَّ الَّذِینَ یَلُونَہُمْ ، ثُمَّ الَّذِینَ یَلُونَہُمْ ، قَالَ : فَلاَ أَدْرِی ، قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَعْدَ قَرْنِہِ مَرَّتَیْنِ ، أَوْ ثَلاَثًا۔ (مسلم ۱۹۶۴۔ طبرانی ۵۸۲)
(٣٣٠٧٨) حضرت عمران بن حصین (رض) فرماتے ہیں کہ بیشک رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرمایا کرتے تھے ۔ بیشک تم میں بہترین لوگ میرے زمانہ کے لوگ ہیں۔ پھر وہ لوگ جو ان کے ساتھ ملے ہوئے ہیں پھر وہ لوگ جو ان کے ساتھ ملے ہوئے ہیں۔ راوی فرماتے ہیں : کہ میں نہیں جانتا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے زمانہ کے بعد دو مرتبہ یہ جملہ ارشاد فرمایا یا تین مرتبہ ؟

33078

(۳۳۰۷۹) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ یَعْلَی التَّیْمِیُّ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ عُمَیْرٍ ، عَنْ قَبِیصَۃَ بْنِ جَابِرٍ ، قَالَ : خَطَبَنَا عُمَرُ بِبَابِ الْجَابِیَۃِ ، فَقَالَ : إنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَامَ فِینَا کَمَقَامِی فِیکُمْ ، ثُمَّ قَالَ : أَیُّہَا النَّاسُ : اتَّقُوا اللَّہَ فِی أَصْحَابِی ، ثُمَّ الَّذِینَ یَلُونَہُمْ ، ثُمَّ الَّذِینَ یَلُونَہُمْ ، ثُمَّ یَفْشُو الْکَذِبُ وَشَہَادَۃُ الزُّورِ۔ (ابن ماجہ ۲۳۶۲۔ طبرانی ۲۴۵)
(٣٣٠٧٩) حضرت قبیصہ بن جابر (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے ہمیں جابیہ کے دروازے پر کھڑے ہو کر خطاب کیا اور ارشاد فرمایا : بیشک رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے درمیان ایسے کھڑے ہوئے جیسا کہ آج میں تمہارے درمیان کھڑا ہوا ہوں۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے لوگو ! میرے صحابہ (رض) کے بارے میں اللہ سے ڈرو، پھر ان لوگوں کے بارے میں جو ان سے ملے ہوئے ہیں ، اور پھر ان لوگوں کے بارے میں بھی جو ان سے ملے ہوئے ہوں۔ پھر جھوٹ اور جھوٹی شہادت پھیل جائے گی۔

33079

(۳۳۰۸۰) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَنْ زَائِدَۃَ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ خَیْثَمَۃ ، عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِیرٍ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : خَیْرُ النَّاسِ قَرْنِی ، ثُمَّ الَّذِینَ یَلُونَہُمْ ، ثُمَّ الَّذِینَ یَلُونَہُمْ ، ثُمَّ یَأْتِی قَوْمٌ تَسْبِقُ شَہَادَتُہُمْ أَیْمَانَہُمْ وَأَیْمَانُہُمْ شَہَادَتَہُمْ۔ (احمد ۲۷۶۔ بزار ۲۷۶۷)
(٣٣٠٨٠) حضرت نعمان بن بشیر (رض) فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : بہترین لوگ میرے زمانے کے لوگ ہیں پھر وہ لوگ جو ان کے ساتھ ملے ہوئے ہوں گے پھر وہ لوگ جو ان کے ساتھ ملے ہوں گے۔ پھر ایک قوم آئے گی جس کی گواہی ان کی قسموں پر سبقت لے جائے گی۔ اور ان کی قسمیں ان کی گواہیوں پر سبقت لے جائیں گی۔

33080

(۳۳۰۸۱) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَنِ الْجَرِیرِیِّ ، عَنْ أَبِی نَضْرَۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مَوَلَۃَ ، قَالَ : کُنْتُ أَسِیرُ مَعَ بُرَیْدَۃَ الأَسْلَمِیِّ ، فَقَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : خَیْرُ ہَذِہِ الأُمَّۃِ الْقَرْنُ الَّذِی بُعِثْت فِیہِمْ ، ثُمَّ الَّذِینَ یَلُونَہُمْ ، ثُمَّ الَّذِینَ یَلُونَہُمْ ، ثُمَّ الَّذِینَ یَلُونَہُمْ ، ثُمَّ یَکُونُ فِیہِمْ قَوْمٌ تَسْبِقُ شَہَادَتُہُمْ أَیْمَانَہُمْ وَأَیْمَانُہُمْ شَہَادَتَہُمْ۔ (احمد ۳۵۰)
(٣٣٠٨١) حضرت عبداللہ بن مَوَلہ (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت بریدہ اسلمی (رض) کے ساتھ چل رہا تھا کہ آپ (رض) نے فرمایا : میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یوں ارشاد فرماتے ہوئے سنا : اس امت کے بہترین افراد اس زمانے کے لوگ ہیں جس میں مجھے مبعوث کیا گیا پھر وہ لوگ ہیں جو ان کے ساتھ ملے ہوئے ہیں پھر وہ لوگ جو ان کے ساتھ ملے ہوئے ہوں گے پھر وہ لوگ جو ان کے ساتھ ملے ہوئے ہوں۔ پھر ایک ایسی قوم ہوگی جن کی گواہیاں ان کی قسموں پر سبقت لے جائیں گی اور ان کی قسمیں ان کی گواہیوں پر سبقت لے جائیں گی۔

33081

(۳۳۰۸۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ نُسَیْرِ بْنِ ذُعْلُوقٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ یَقُولُ : لاَ تَسُبُّوا أَصْحَابَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَلَمَقَامُ أَحَدِہِمْ سَاعَۃً خَیْرٌ مِنْ عَمَلِ أَحَدِکُمْ عُمْرَہُ۔
(٣٣٠٨٢) حضرت نسیر بن ذعلوق (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عمر (رض) کو یوں فرماتے ہوئے سنا : کہ تم لوگ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب کو گالیاں مت دو ۔ کیونکہ ان میں سے کسی ایک کا اللہ کی راہ میں ایک گھڑی کھڑا ہونا تمہارے میں سے ایک کی عمر بھر کی عبادت سے کہیں بہتر ہے۔

33082

(۳۳۰۸۳) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا الأَعْمَشُ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُرَحْبِیلَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : خَیْرُ النَّاسِ قَرْنِی ، ثُمَّ الَّذِینَ یَلُونَہُمْ ، ثُمَّ الَّذِینَ یَلُونَہُمْ ، ثُمَّ یَجِیئُ أَقْوَامٌ یُعْطُونَ الشَّہَادَۃَ قَبْلَ أَنْ یُسْأَلُوہَا۔
(٣٣٠٨٣) حضرت عمرو بن شرحبیل (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : بہترین لوگ میرے زمانے کے لوگ ہیں ، پھر وہ لوگ جو ان کے ساتھ ملے ہوئے ہوں گے، پھر وہ لوگ جو ان کے ساتھ ملے ہوئے ہوں گے ، پھر ایسے لوگ آئیں گے جو سوال کرنے سے پہلے ہی گواہیاں دے دیا کریں گے۔

33083

(۳۳۰۸۴) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ الْحُبَابِ ، قَالَ : حدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ الْعَلاَئِ أَبُو الزَّبْرِ الدِّمَشْقِیُّ ، قَالَ : حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ عَامِرٍ ، عَنْ وَاثِلَۃَ بْنِ الأَسْقَعِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لاَ تَزَالُونَ بِخَیْرٍ مَا دَامَ فِیکُمْ مَنْ رَآنِی وَصَاحَبَنِی ، وَاللہِ لاَ تَزَالُونَ بِخَیْرٍ ، مَا دَامَ فِیکُمْ مَنْ رَأَی مَنْ رَآنِی ، وَصَاحَبَ مَنْ صَاحَبَنِی ، وَاللہِ لاَ تَزَالُونَ بِخَیْرٍ ، مَا دَامَ فِیکُمْ مَنْ رَأَی مَنْ رَأَی مَنْ رَآنِی ، وَصَاحَبَ مَنْ صَاحَبَ مَنْ صَاحَبَنِی ۔ (طبرانی ۲۰۷)
(٣٣٠٨٤) حضرت واثلہ بن اسقع (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : تم لوگ ہمیشہ خیر میں رہو گے جب تک تم میں مجھے دیکھنے والا اور میری صحبت اختیار کرنے والا موجود ہو۔ اللہ کی قسم ! تم لوگ ہمیشہ خیر میں رہو گے جب تک تم میں وہ شخص ہو جس نے میری زیارت کرنے والے کو دیکھا اور میری صحبت اختیار کرنے والے کی صحبت اختیار کی ، اور اللہ کی قسم ! تم لوگ ہمیشہ خیر میں رہو گے جب تک تمہارے میں وہ شخص موجود ہو جس نے زیارت کی میرے صحابی کو دیکھنے والے کی اور میرے صحابی کی صحبت اختیار کرنے والے کی صحبت اختیار کی۔

33084

(۳۳۰۸۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ عَائِشَۃَ ، قَالَتْ ، أُمِرُوا بِالاِسْتِغْفَارِ لأَصْحَابِ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَسَبُّوہُمْ۔
(٣٣٠٨٥) حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ لوگوں کو اصحاب (رض) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے استغفار کا حکم دیا گیا تھا اور تم لوگ ان کو گالیاں دیتے ہو ! ! !

33085

(۳۳۰۸۶) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ خَالِدٍ ، عَنْ عَطَائٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَنْ سَبَّ أَصْحَابِی فَعَلَیْہِ لَعَنْۃُ اللہِ۔ (احمد ۱۷۳۳)
(٣٣٠٨٦) حضرت عطائ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جس شخص نے میرے صحابی کو گالی دی پس اس پر اللہ کی لعنت ہے۔

33086

(۳۳۰۸۷) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ ذَرٍّ ، قَالَ : إنِّی لَقَائِمٌ مَعَ الشَّعْبِیِّ ذَاتَ یَوْمٍ فَأَتَاہُ رَجُلٌ ، فَقَالَ : مَا تَقُولُ فِی عَلِیٍّ وَعُثْمَانَ ، فَقَالَ : إنِّی لَغَنِیٌّ أَنْ یَطْلُبَنِی عَلِیٌّ وَعُثْمَان یَوْمَ الْقِیَامَۃِ بِمَظْلِمَۃٍ۔
(٣٣٠٨٧) حضرت عمر بن ذر (رض) فرماتے ہیں کہ میں ایک دن امام شعبی (رض) کے ساتھ کھڑا تھا کہ ان کے پاس ایک آدمی آیا اور اس نے پوچھا : آپ (رض) حضرت علی (رض) اور حضرت عثمان (رض) کے بارے میں کیا کہتے ہیں ؟ اس پر آپ (رض) نے جواب دیا : میں اس بات سے لاپرواہوں کہ قیامت کے دن حضرت علی (رض) اور حضرت عثمان (رض) مجھ سے شکوہ ظلم کریں۔

33087

(۳۳۰۸۸) حَدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ ابْنُ عُلَیَّۃَ عن أیوب ، قَالَ نُبِّئْت عَنْ نَافِعٍ أَنَّہُ حَدَّثَ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہُ قَالَ : مَنِ اسْتَطَاعَ أَنْ یَمُوتَ بِالْمَدِینَۃِ فَلْیَمُتْ بِہَا ، فَإِنِّی أَشْفَعُ لِمَنْ مَاتَ بِہَا۔ (ترمذی ۳۹۱۷۔ ابن حبان ۳۷۴۱)
(٣٣٠٨٨) حضرت نافع (رض) فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جو شخص اس بات کی استطاعت رکھتا ہے کہ وہ مدینہ میں مرجائے تو اس کو چاہیے کہ وہ مدینہ میں مرے۔ پس بیشک میں اس شخص کے لیے شفاعت کروں گا جو اس میں مرے گا۔

33088

(۳۳۰۸۹) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِِ ، عَنْ سِمَاکٍ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَۃَ ، قَالَ : سَمِعْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : إنَّ اللَّہَ سَمَّی الْمَدِینَۃَ طَابَۃَ۔ (مسلم ۱۰۰۷۔ احمد ۱۰۱)
(٣٣٠٨٩) حضرت جابر بن سمرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو میں نے ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ یقیناً اللہ نے مدینہ کا نام طابہ ( پاکیزہ) رکھا ہے۔

33089

(۳۳۰۹۰) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أبی یَحْیَی ، عَنِ الْحَارِثِ بْنِ أَبِی یَزِیدَ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللہِ یَقُولُ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : الْمَدِینَۃُ کَالْکِیرِ تَنْفِی الْخَبَثَ کَمَا یَنْفِی الْکِیرُ خَبَثَ الْحَدِیدِ۔ (احمد ۳۸۵)
(٣٣٠٩٠) حضرت جابر بن عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : مدینہ لوہار کی دھونکنی کی طرح ہے یہ برائی کو ایسے ہی دور کرتا ہے جیسا کہ دھونکنی لوہے کا میل دور کردیتی ہے۔

33090

(۳۳۰۹۱) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَنْ مُجَالِدٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنْ فَاطِمَۃَ بِنْتِ قَیْسٍ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : ہَذِہِ طِیبَۃُ ، یَعْنِی الْمَدِینَۃَ ، وَالَّذِی نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہِ ، مَا فِیہَا طَرِیقٌ وَاسِعٌ ، وَلاَ ضَیِّقٌ إلاَّ عَلَیْہِ مَلَکٌ شَاہِرٌ بِالسَّیْفِ إلَی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ۔ (ابوداؤد ۴۳۲۷۔ احمد ۳۷۳)
(٣٣٠٩١) حضرت فاطمہ بنت قیس (رض) فرماتی ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : یہ طیبہ ( پاکیزہ ) ہے یعنی مدینہ منورہ۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ ٔ قدرت میں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جان ہے اس میں کوئی کشادہ اور تنگ راستہ نہیں ہے مگر یہ کہ اس میں قیامت تک کے لیے ایک فرشتہ مقرر ہے جو تلوار سونتے ہوئے کھڑا ہے۔

33091

(۳۳۰۹۲) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا مِسْعَرٌ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاہِیمَ ، عَن أَبِیہِ ، عَنْ أَبِی بَکْرَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لَنْ یَدْخُلَ الْمَدِینَۃَ رُعْبُ الْمَسِیحِ الدَّجَّالِ ، لَہَا یَوْمَئِذٍ سَبْعَۃُ أَبْوَابٍ، لِکُلِّ بَابٍ مَلَکَانِ۔ (بخاری ۱۸۷۹۔ احمد ۴۷)
(٣٣٠٩٢) حضرت ابو بکرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ہرگز مدینہ میں کانے دجال کا خوف داخل نہ ہو سکے گا۔ اس دن مدینہ کے سات دروازے ہوں گے، اور ہر دروازے پر دو فرشتے مقرر ہوں گے۔

33092

(۳۳۰۹۳) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْکَدِرِ ، قَالَ : سَمِعْتُ جَابِر بن عبد اللہ یحدث عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : الْمَدِینَۃُ کَالْکِیرِ تَنْفِی خَبَثَہَا وَتُنْصِعُ طَیِّبَہَا۔ (احمد ۳۹۲۔ بخاری ۱۸۸۳)
(٣٣٠٩٣) حضرت جابر بن عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : مدینہ لوہار کی دھونکنی کی طرح ہے جو گندگی کو ختم کرتا ہے۔ اور اس کی پاکیزگی میں نکھار پیدا کرتا ہے۔

33093

(۳۳۰۹۴) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ ہَاشِمُ بْنِ ہَاشِمٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ نسطاس عْن جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَنْ أَخَافَ أَہْلَ الْمَدِینَۃِ فَعَلَیْہِ لَعَنْۃُ اللہِ وَالْمَلاَئِکَۃِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِینَ ، لاَ یَقْبَلُ اللَّہُ مِنْہُ صَرْفًا ، وَلاَ عَدْلا ، مَنْ أَخَافَہَا فَقَدْ أَخَافَ مَا بَیْنَ ہَذَیْنِ : مَا بَیْنَ جَنْبَیْہِ۔ (ابوداؤد ۱۷۶۰۔ احمد ۳۵۷)
(٣٣٠٩٤) حضرت جابر بن عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جس شخص نے مدینہ والوں کو ڈرایا پس اس پر اللہ کی ، اس کے فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی لعنت ہو ، اس سے نہ کوئی نیکی قبول کی جائے گی اور نہ ہی کوئی فدیہ ، جس نے ان کو ڈرایا اس نے ان کے دونوں گوشوں والوں کو ڈرایا۔ یعنی دونوں کناروں کے لوگوں کو۔

33094

(۳۳۰۹۵) حَدَّثَنَا یُونُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَۃَ ، عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِ اللہِ بن أبی طلحۃ ، عَنْ أَنَسٍ أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : الدَّجَّالُ یَطْوِی الأَرْضَ کُلَّہَا إلاَّ مَکَّۃَ وَالْمَدِینَۃَ ، قَالَ : فَیَأْتِی الْمَدِینَۃَ فَیَجِدُ بِکُلِّ نَقْبٍ مِنْ أَنْقَابِہَا صُفُوفًا مِنَ الْمَلاَئِکَۃِ ، فَیَأْتِی سَبْخَۃَ الْجُرُفِ فَیَضْرِبُ رِوَاقَہُ ، ثُمَّ تَرْجُفُ الْمَدِینَۃُ ثَلاَثَ رَجَفَاتٍ فَیَخْرُجُ إلَیْہِ کُلُّ مُنَافِقٍ وَمُنَافِقَۃٍ۔ (بخاری ۱۸۸۱۔ مسلم ۲۲۶۶)
(٣٣٠٩٥) حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : دجال ساری زمین کو طے کرے گا سوائے مکہ اور مدینہ کے ۔ پس جب وہ مدینہ کے پاس آئے گا تو وہ اس کی دیواروں میں سے ہر دیوار پر فرشتوں کی صفیں پائے گا پھر وہ پانی کی کھوکھلی جگہ پر آ کر اس کی بنیاد کو پکڑے گا اور تین مرتبہ ہلائے گا ، پس ہر منافق مرد اور منافقہ عورت اس کی طرف نکل کر آجائے گی۔

33095

(۳۳۰۹۶) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ ، عَنْ خُبَیْبِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ حَفْصِ بْنِ عَاصِمٍ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إنَّ الإِیمَانَ لَیَأْرِزُ إلَی الْمَدِینَۃِ کَمَا تَأْرِزُ الْحَیَّۃُ إلَی جُحْرِہَا۔ (بخاری ۱۸۷۶۔ مسلم ۲۳۳)
(٣٣٠٩٦) حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : بیشک ایمان مدینہ کی طرف ایسے ہی سمٹ جائے گا جیسا کہ سانپ اپنے بل کی طرف سمٹ آتا ہے۔

33096

(۳۳۰۹۷) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ عَدِیِّ بْنِ ثَابِتٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ یَزِیدَ ، عَنْ زَیْدِ بْنِ ثَابِتٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إِنَّہَا طَابَۃُ وَإِنَّہَا تَنْفِی الْخَبَثَ ، یَعْنِی الْمَدِینَۃَ۔ (بخاری ۱۸۸۴۔ مسلم ۱۰۰۶)
(٣٣٠٩٧) حضرت زید بن ثابت (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : بیشک یہ طابہ ( پاکیزہ) ہے ، اور ہر برائی کو دور کردیتا ہے یعنی مدینہ منورہ۔

33097

(۳۳۰۹۸) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَنِ الشَّیْبَانِیِّ ، عَنْ یُسَیْرِ بْنِ عَمْرٍو ، عَنْ سَہْلِ بْنِ حُنَیْفٍ ، قَالَ : أَہْوَی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِیَدِہِ إلَی الْمَدِینَۃِ ، فَقَالَ : إِنَّہَا حَرَمٌ آمِنٌ۔ (مسلم ۱۰۰۳۔ احمد ۴۸۶)
(٣٣٠٩٨) حضرت سھل بن حنیف (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے ہاتھ سے مدینہ کی طرف اشارہ کر کے فرمایا : بیشک یہ امن والا حرم ہے۔

33098

(۳۳۰۹۹) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِی صَالِحٍ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : أَتَاکُمْ أَہْلُ الْیَمَنِ ، ہُمْ أَلْیَنُ قُلُوبًا وَأَرَقُّ أَفْئِدَۃً ، الإِیمَانُ یَمَانٍ وَالْحِکْمَۃُ یَمَانِیَّۃٌ ، وَرَأْسُ الْکُفْرِ قِبَلَ الْمَشْرِقِ۔ (مسلم ۷۳۔ احمد ۲۵۲)
(٣٣٠٩٩) حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : تمہارے پاس یمن والے آئیں گے۔ وہ دل کے اعتبار سے بہت نرم ہیں۔ ایمان یمنی ہے اور حکمت بھی یمنی ہے اور کفر کی بنیاد مشرق کی جانب سے ہے۔

33099

(۳۳۱۰۰) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ ، عَنْ قَیْسٍ ، عَنْ أَبِی مَسْعُودٍ ، قَالَ : أَشَارَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِیَدِہِ نَحْوَ الْیَمَنِ ، فَقَالَ : إنَّ الإیمان ہَاہُنَا ، وَإِنَّ الْقَسْوَۃَ وَغِلَظَ الْقُلُوبِ فِی الْفَدَّادِینَ عِنْدَ أُصُولِ أَذْنَابِ الإِبِلِ فِی رَبِیعَۃَ وَمُضَرَ۔ (بخاری ۳۳۰۲۔ مسلم ۷۱)
(٣٣١٠٠) حضرت ابو مسعود (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے ہاتھ سے یمن کی جانب اشارہ کر کے ارشاد فرمایا : یقیناً ایمان یہاں موجود ہے۔ بیشک دلوں کی سختی قبیلہ ربیعہ اور قبیلہ مضر کے اونٹوں کے متکبر مالکوں میں ہے۔

33100

(۳۳۱۰۱) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ آدَمَ ، عَنْ أَبِی الأَحْوَصِ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِی سُفْیَانَ ، عَنْ جَابِرٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : الإِیمَانُ فِی أَہْلِ الْحِجَازِ ، وَالْقَسْوَۃُ وَغِلَظُ الْقُلُوبِ قِبَلَ الْمَشْرِقِ فِی رَبِیعَۃَ وَمُضَرَ۔ (مسلم ۷۳۔ احمد ۳۳۵)
(٣٣١٠١) حضرت جابر (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ایمان تو حجاز والوں میں ہے اور دلوں کی سختی مشرق کی جانب قبیلہ ربیعہ اور قبیلہ مضر والوں میں ہے۔

33101

(۳۳۱۰۲) حَدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِی سَلَمَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : الإِیمَانُ یَمَانٍ وَالْحِکْمَۃُ یَمَانِیَّۃٌ وَہُمْ قَوْمٌ فِیہِمْ حَیَائٌ وَضَعْفٌ وربما قَالَ : عِی۔ (بخاری ۳۴۹۹۔ مسلم ۸۲)
(٣٣١٠٢) حضرت ابو سلمہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ایمان تو یمنی ہے اور حکمت بھی یمنی ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن میں حیا اور کمزوری ہے۔ اور کبھی ارشاد فرمایا : جن میں عاجزی ہے۔

33102

(۳۳۱۰۳) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنِ ابْنِ أَبِی ذِئْبٍ ، عَنِ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنِ ابْنِ جُبَیْرِ بْنِ مُطْعِمٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : کُنَّا مَعَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی مَسِیرٍ لَہُ ، فَقَالَ : یَطْلُعُ عَلَیْکُمْ أَہْلُ الْیَمَنِ کَأَنَّہُمَ السَّحَابُ ، ہُمْ خَیْرُ مَنْ فِی الأَرْضِ ، فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الأَنْصَارِ : إلاَّ نَحْنُ یَا رَسُولَ اللہِ ، فَقَالَ کَلِمَۃً ضَعِیفَۃً : إلاَّ أَنْتُمْ۔ (ابوداؤد ۹۴۵۔ احمد ۸۲)
(٣٣١٠٣) حضرت جبیر بن مطعم (رض) فرماتے ہیں کہ ہم لوگ ایک سفر میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ تھے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : تمہارے پاس یمن والے آئیں گے گویا کہ وہ بادلوں کی مانند ہوں گے ، وہ زمین میں سب سے بہترین لوگ ہیں اس پر ایک انصاری صحابی (رض) نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول 5! مگر ہم لوگ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کمزور کلام : مگر تم لوگ۔

33103

(۳۳۱۰۴) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَۃَ ، عَنْ جَبَلَۃَ بْنِ عَطِیَّۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَوْفٍ الدِّمَشْقِیِّ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : الإِیمَانُ یَمَانٍ فِی خندف وَجُذَامَ۔ (طبرانی ۸۵۷)
(٣٣١٠٤) حضرت عبداللہ بن عوف دمشقی (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ایمان تو یمنی ہے، خندف اور جذام کے لوگوں میں۔

33104

(۳۳۱۰۵) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ أَبِی بُکَیْرٍ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ إمَامِ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ ، عَنْ خَیْثَمَۃ ، قَالَ : سُئِلَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : أَیُّ النَّاسِ خَیْرٌ ، فَقَالَ : أَہْلُ الْیَمَنِ۔ (احمد ۱۶۵۱)
(٣٣١٠٥) حضرت خیثمہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا گیا : بہترین لوگ کون سے ہیں ؟ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : یمن کے لوگ۔

33105

(۳۳۱۰۶) حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ ، عَنْ إسْرَائِیلَ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ قَیْسِ بْنِ أَبِی حَازِمٍ ، قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللہِ : الإِیمَانُ یَمَانٌ۔
(٣٣١٠٦) حضرت قیس بن ابی حازم (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) نے ارشاد فرمایا : ایمان تو یمنی ہے۔

33106

(۳۳۱۰۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ بْنِ عَمَّارٍ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : خَرَجَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ بَیْتِ عَائِشَۃَ ، فَقَالَ : رَأْسُ الْکُفْرِ من ہَاہُنَا مِنْ حَیْثُ یَطْلُعُ قَرْنُ الشَّیْطَانِ ، یَعْنِی الْمَشْرِقَ۔ (مسلم ۲۲۲۹۔ احمد ۲۳)
(٣٣١٠٧) حضرت عبداللہ بن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت عائشہ (رض) ام المؤمنین کے گھر سے نکلے اور ارشاد فرمایا : کفر کی بنیاد تو یہاں سے ہے جہاں شیطان کے سینگ طلوع ہوتے ہیں ، یعنی مشرق میں سے۔

33107

(۳۳۱۰۸) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ ، عَنِ الأَجْلَحِ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ شَرِیکٍ ، عَنْ جُنْدُبٍ الأَزْدِیِّ ، قَالَ : خَرَجْنَا مَعَ سَلْمَانَ إلَی الْحِیرَۃِ فَالْتَفَتَ إلَی الْکُوفَۃِ ، فَقَالَ : قُبَّۃُ الإسْلاَمِ ، مَا مِنْ أَخْصَاصٍ یُدْفَعُ عنہا مَا یُدْفَعُ ، عَنْ ہَذِہِ الأخصاص إلاَّ أَخْصَاص کَانَ بِہَا مُحَمَّدٌ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَلاَ تَذْہَبُ الدُّنْیَا حَتَّی یَجْتَمِعَ کُلُّ مُؤْمِنٍ فِیہَا ، أَوْ رَجُلٌ ہَوَاہُ إلَیْہَا۔
(٣٣١٠٨) حضرت جندب ازدی (رض) فرماتے ہیں کہ ہم لوگ حضرت سلمان (رض) کے ساتھ حیرہ مقام کی طرف نکلے۔ پھر آپ (رض) کوفہ کی طرف متوجہ ہوئے اور ارشاد فرمایا : اسلام کا خیمہ ہے۔ اس کے گھروں میں سے کوئی گھر بھی افضل نہیں ہے سوائے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گھروں کے، اور دنیا ختم نہیں ہوگی یہاں تک کہ مؤمن اس میں جمع ہوگا یا اس میں آنے کی خواہش کرے گا۔

33108

(۳۳۱۰۹) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ شَرِیکٍ ، قَالَ : حدَّثَنِی جُنْدُبٌ ، قَالَ : کُنَّا مَعَ سَلْمَانَ وَنَحْنُ جَاؤُونَ مِنَ الْحِیرَۃِ ، فَقَالَ : الْکُوفَۃُ قُبَّۃُ الإسْلاَمِ مَرَّتَیْنِ۔
(٣٣١٠٩) حضرت جندب (رض) فرماتے ہیں کہ ہم لوگ حضرت سلمان (رض) کے ساتھ تھے ، اور ہم حیرہ مقام سے آئے تھے، آپ (رض) نے دو مرتبہ فرمایا : کوفہ اسلام کا خیمہ ہے۔

33109

(۳۳۱۱۰) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنْ حُذَیْفَۃَ ، قَالَ : مَا یُدْفَعُ عَنْ أَخْبِیَۃٍ مَا یَدْفَعُ عَنْ أَخْبِیَۃٍ کَانَتْ بِالْکُوفَۃِ لَیْسَ أَخْبِیَۃٌ کَانَتْ مَعَ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔
(٣٣١١٠) حضرت سالم (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت حذیفہ (رض) نے ارشاد فرمایا : کوئی گھر بھی اہل کوفہ کے گھروں سے افضل نہیں ہے سوائے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گھروں کے۔

33110

(۳۳۱۱۱) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ ہِلاَلِ بْنِ یَِسَافٍ ، عَنْ رَبِیعِ بْنِ عُمَیْلَۃَ ، عَنْ حُذَیْفَۃَ ، قَالَ : اخْتَلَفَ رَجُلٌ مِنْ أَہْلِ الْکُوفَۃِ وَرَجُلٌ مِنْ أَہْلِ الشَّامِ فَتَفَاخَرَا ، فَقَالَ الْکُوفِیُّ : نَحْنُ أَصْحَابُ یَوْمِ الْقَادِسِیَّۃِ، وَیَوْمِ کَذَا وَیَوْمِ کَذَا وَیَوْمِ کَذَا ، وَقَالَ الشَّامِیُّ : نَحْنُ أَصْحَابُ الْیَرْمُوکِ وَیَوْمِ کَذَا وَیَوْمِ کَذَا ، فَقَالَ حُذَیْفَۃُ : کِلاَہُمَا لَمْ یَشْہَدْہُ اللَّہُ ، ہُلْکَ عَادٌ وَثَمُودُ لَمْ یُؤَامِرْہُ اللَّہُ فِیہِمَا لَمَّا أَہْلَکَہُمَا ، وَمَا مِنْ قَرْیَۃٍ أَحْرَی أَنْ تدفع عنہا عَظِیمَۃً ، یَعْنِی الْکُوفَۃَ۔
(٣٣١١١) حضرت ربیع بن عمیلہ (رض) فرماتے ہیں کہ کوفہ کے ایک آدمی اور شام کے ایک آدمی کے درمیان جھگڑا ہوگیا۔ یہ دونوں آپس میں فخر کرنے لگے۔ کوفی نے کہا : ہم تو جنگ قادسیہ کے دن والے لوگ ہیں۔ اور شامی کہنے لگا : ہم تو جنگ یرموک والے ہیں اور فلاں فلاں دن والے لوگ ہیں۔ اس پر حضرت حذیفہ (رض) نے ارشاد فرمایا : اللہ نے عاد اور ثمود کی ہلاکت میں ان دونوں کو گواہ نہیں بنایا تھا اور نہ ہی ان دونوں سے اس بارے میں مشورہ کیا تھا اور کوئی بستی بھی اس لائق نہیں کہ اس شہر جتنی اس کی فضیلت بیان کی جائے، یعنی کوفہ جتنی۔

33111

(۳۳۱۱۲) حَدَّثَنَا شَبَابَۃُ ، قَالَ : حدَّثَنَا شُعْبَۃُ ، عَنْ سَلَمَۃَ بْنِ کُہَیْلٍ ، عَنْ حَبَّۃَ الْعُرَنِیِّ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ ، قَالَ : یَا أَہْلَ الْکُوفَۃِ ، أَنْتُمْ رَأْسُ الْعَرَبِ وَجُمْجُمَتُہَا وَسَہْمِی الَّذِی أَرْمِی بِہِ إِنْ أَتَانِی شَیْئٌ مِنْ ہَاہُنَا وَہَاہُنَا ، وَإِنِّی بَعَثْت إلَیْکُمْ بِعَبْدِ اللہِ بْنِ مَسْعُودٍ وَاخْتَرْتہ لَکُمْ وَآثَرْتُکُمْ بِہِ عَلَی نَفْسِی إثْرَۃً۔
(٣٣١١٢) حضرت حبہ العرنی (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) نے ارشاد فرمایا : اے کوفہ والو ! تم عرب کی بنیاد ہو، اور میرا شہر ہو جس کے ذریعہ میں مقابلہ کرتا ہوں اگر کوئی چیز میرے پاس ادھر ادھر سے آجائے ، اور بیشک میں نے تمہاری طرف حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) کو بھیجا ہے اور میں نے ان کو تمہارے لیے چنا۔ اور ان کے معاملہ میں تم لوگوں کو اپنے آپ پر ترجیح دی۔

33112

(۳۳۱۱۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ حَبِیبِ بْنِ أَبِی ثَابِتٍ ، عَنْ نَافِعِ بْنِ جُبَیْرٍ ، قَالَ : کَتَبَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ إلَی أَہْلِ الْکُوفَۃِ إلَی وُجُوہِ النَّاسِ۔
(٣٣١١٣) حضرت نافع بن جبیر (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) نے کوفہ والوں کی طرف خط لکھا : تو ان کو اس لقب سے نوازا۔ معزز لوگوں کی طرف۔

33113

(۳۳۱۱۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ أَنَّ عُمَرَ کَتَبَ إلَی أَہْلِ الْکُوفَۃِ : إلَی رَأْسِ الْعَرَبِ۔
(٣٣١١٤) امام شعبی (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) نے کوفہ والوں کی طرف خط لکھا : تو انھیں اس لقب سے نوازا۔ عرب کی بنیاد کی طرف۔

33114

(۳۳۱۱۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إسْرَائِیلَ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ عَامِرٍ ، قَالَ : کَتَبَ عُمَرُ إلَیْہِمْ : إلَی رَأْسِ أَہْلِ الإسْلاَمِ۔
(٣٣١١٥) حضرت عامر (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) نے کوفہ والوں کی طرف خط لکھا تو ان کو اس لقب سے نوازا۔ اسلام کی بنیاد کی طرف۔

33115

(۳۳۱۱۶) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ ، عَنِ الأَجْلَحِ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ أَبِی الْہُذَیْلِ ، قَالَ : یَأْتِی عَلَی النَّاسِ زَمَانٌ یُخَیِّمُ کُلُّ مُؤْمِنٍ بِالْکُوفَۃِ۔
(٣٣١١٦) حضرت اجلح (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ ابو الھذیل (رض) نے ارشاد فرمایا : لوگوں پر ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ ہر مومن کوفہ میں پڑاؤ ڈالے گا۔

33116

(۳۳۱۱۷) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ شِمْرٍ ، قَالَ : قَالَ عُمَرُ : الْکُوفَۃُ رُمْحُ اللہِ وَکَنْزُ الإِیمَانِ وَجُمْجُمَۃُ الْعَرَبِ یجزون ثُغُورَہُمْ وَیَمُدُّونَ الأَمْصَارَ۔
(٣٣١١٧) حضرت شمر (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے ارشاد فرمایا : کوفہ اللہ کا نیزہ ہے۔ اسلام کا خزانہ ہے۔ اور عرب کا معزز قبیلہ ہے۔ یہ لوگ اپنی سرحدوں کی حفاظت کرتے ہیں اور شہروں کو بڑھاتے ہیں۔

33117

(۳۳۱۱۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا مِسْعَرٌ ، عَنِ الرُّکَیْنِ بْنِ الرَّبِیعِ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : قَالَ حُذَیْفَۃُ : مَا أَخْبِیَۃٍ بَعْدَ أَخْبِیَۃٍ کَانَتْ مَعَ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِبَدْرٍ یُدْفَعُ عنہا مَا یُدْفَعُ عَنْ ہَذِہِ ، یَعْنِی الْکُوفَۃَ۔
(٣٣١١٨) حضرت ربیع (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت حذیفہ (رض) نے ارشاد فرمایا : نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اصحاب بدر کے گھروں کے بعد کوئی گھر ایسا نہیں جس کی فضیلت اس سے زیادہ ہو یعنی کوفہ سے۔

33118

(۳۳۱۱۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ شَرِیکٍ ، عَنْ جُنْدُبٍ ، عَنْ سَلْمَانَ ، قَالَ : الْکُوفَۃُ قُبَّۃُ الإسْلاَمِ ، یَأْتِی عَلَی النَّاسِ زَمَانٌ لاَ یَبْقَی فِیہَا مُؤْمِنٌ إلاَّ بِہَا ، أَوْ قَلْبُہُ یَہْوَی إلَیْہَا۔
(٣٣١١٩) حضرت جندب (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت سلمان (رض) نے ارشاد فرمایا : کوفہ اسلام کا خیمہ ہے۔ لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا جس میں کوئی مومن باقی نہیں رہے گا مگر وہ اس میں جمع ہوگا یا اس کا دل اس میں جمع ہونے کی خواہش کرے گا۔

33119

(۳۳۱۲۰) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ أَبِی رَجَائٍ ، قَالَ : سَأَلْتُ الْحَسَنَ : أَہْلُ الْکُوفَۃِ أَشْرَفُ ، أَوْ أَہْلُ الْبَصْرَۃِ ، قَالَ : کَانَ یُبْدَأُ بِأَہْلِ الْکُوفَۃِ۔
(٣٣١٢٠) حضرت ابو رجاء (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت حسن (رض) سے پوچھا : اہل کوفہ زیادہ شریف ہیں یا اہل بصرہ ؟ آپ (رض) نے فرمایا : ابتداء تو کوفہ سے کی جاتی تھی۔

33120

(۳۳۱۲۱) حَدَّثَنَا یَعْلَی بْنُ عُبَیْدٍ ، عَنِ الأَجْلَحِ ، عَنْ عَمَّارٍ ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِی الْجَعْدِ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ ، قَالَ : یَا أَہْلَ الْکُوفَۃِ ، أَنْتُمْ أَسْعَدُ النَّاسِ بِالْمَہْدِیِّ۔
(٣٣١٢١) حضرت سالم بن ابی الجعد (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) نے ارشاد فرمایا : اے کوفہ والو ! تم سب لوگوں میں ہدایت یافتہ ہونے کے اعتبار سے زیادہ خوش بخت ہو۔

33121

(۳۳۱۲۲) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا عَطَائُ بْنُ السَّائِبِ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو ، قَالَ : قَالَ لِی : مِمَّنْ أَنْتَ ، فَقُلْتُ : مِنْ أَہْلِ الْکُوفَۃِ ، فَقَالَ : وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ ، لَیُسَافَرُ مِنْہَا إلَی أَرْضِ الْعَرَبِ لاَ تَمْلِکُونَ قَفِیزًا ، وَلاَ دِرْہَمًا ، ثُمَّ لاَ یُنْجِیکُمْ۔
(٣٣١٢٢) حضرت ابن سائب (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) نے مجھ سے پوچھا : تم کہاں سے تعلق رکھتے ہو ؟ میں نے کہا : کوفہ والوں میں سے ہوں۔ اس پر آپ (رض) نے فرمایا : قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے کہ انھوں نے سفر کیا عرب کی ایسی زمین کی طرف جہاں نہ تم ایک قفیز کے مالک ہو گے نہ ہی ایک درہم کے۔ اور تمہیں نجات بھی نہیں ملے گی۔

33122

(۳۳۱۲۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ عَبْدِ رَبِّہِ بْنِ أَبِی رَاشِدٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ یَقُولُ : الْبَصْرَۃُ خَیْرٌ مِنَ الْکُوفَۃِ۔
(٣٣١٢٣) حضرت عبدربہ بن ابو راشد (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عمر (رض) نے ارشاد فرمایا : بصرہ کوفہ سے بہتر ہے۔

33123

(۳۳۱۲۴) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ الْمُغِیرَۃِ ، عَنْ ثَابِتٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِی لَیْلَی ، قَالَ : طُفْت الأَمْصَارَ فَمَا رَأَیْت مِصْرًا أکثر مُتَہَجَّدًا مِنْ أَہْلِ الْبَصْرَۃِ۔
(٣٣١٢٤) حضرت ثابت (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عبد الرحمن بن ابی لیلیٰ (رض) نے ارشاد فرمایا : میں بہت سے شہروں میں پھرا ہوں پس میں نے کوئی شہر ایسا نہیں دیکھا جو بصرہ سے زیادہ تہجد گزار لوگوں والا ہو۔

33124

(۳۳۱۲۵) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ سُفْیَانَ ، قَالَ : حدَّثَنَا إبْرَاہِیمُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْتَشِرِ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ قَالَ حُذَیْفَۃُ : إنَّ أَہْلَ الْبَصْرَۃِ لاَ یَفْتَحُونَ بَابَ ہُدَی ، وَلاَ یترکون بَابَ ضَلاَلَۃٍ ، وَإِنَّ الطُّوفَانَ قَدْ رُفِعَ عَنِ الأَرْضِ کُلِّہَا إلاَّ الْبَصْرَۃَ۔
(٣٣١٢٥) حضرت محمد بن منتشر (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت حذیفہ (رض) نے ارشاد فرمایا : یقیناً بصرہ والے نہ ہدایت کا دروازہ کھولتے ہیں نہ ضلالت و گمراہی کا دروازہ چھوڑتے ہیں ، اور یقیناً طوفان ساری زمین والوں سے دور ہوگیا سوائے بصرہ کے۔

33125

(۳۳۱۲۶) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ أَبِی عُثْمَانَ ، قَالَ : جَائَ رَجُلٌ إلَی حُذَیْفَۃَ ، فَقَالَ : إنِّی أُرِیدُ الْخُرُوجَ إلَی الْبَصْرَۃِ ، فَقَالَ : لاَ تَخْرُجْ إلَیْہَا ، قَالَ : إنَّ لِی بِہَا قَرَابَۃً ؟ قَالَ : لاَ تَخْرُجْ ، قَالَ : لاَ بُدَّ مِنَ الْخُرُوجِ قَالَ : فَانْزِلْ عَدْوَتَہَا ، وَلاَ تَنْزِلْ سُرَّتَہا۔
(٣٣١٢٦) حضرت ابو عثمان (رض) فرماتے ہیں کہ ایک آدمی حضرت حذیفہ (رض) کی خدمت میں آیا اور کہنے لگا : میرا بصرہ جانے کا ارادہ ہے۔ تو آپ (رض) نے فرمایا : مت جاؤ۔ اس شخص نے کہا : بیشک وہاں میرے قریبی رشتہ دار ہیں۔ آپ (رض) نے فرمایا : مت جاؤ۔ اس شخص نے کہا : جانا ضروری ہے۔ آپ (رض) نے فرمایا : اس کے کناروں پر ہی اترنا، اس کے درمیان میں مت اترنا۔

33126

(۳۳۱۲۷) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ مُعَاوِیَۃَ بْنِ قُرَّۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إذَا فَسَدَ أَہْلُ الشَّامِ فَلاَ خَیْرَ فِیکُمْ۔ (ابن حبان ۷۳۰۳۔ احمد ۴۳۶)
(٣٣١٢٧) حضرت قرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جب شام والے بگڑ جائیں تو تمہارے لیے کوئی بھلائی نہیں ہوگی۔

33127

(۳۳۱۲۸) حَدَّثَنَا یَزِیدُ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا شُعْبَۃُ ، عَنْ یَزِیدَ بْنِ خُمَیْرٍ ، عَنْ أَبِی زید عن أبی أَیُّوبَ الأَنْصَارِیِّ ، قَالَ : لَیُہَاجِرَنَّ الرَّعْدُ وَالْبَرْقُ والبرکات إلَی الشَّامِ۔
(٣٣١٢٨) حضرت ابو زید (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت ابو ایوب انصاری (رض) نے ارشاد فرمایا : ضرور بالضرور گرج، بجلی اور بارش شام کی طرف آئے گی۔

33128

(۳۳۱۲۹) حَدَّثَنَا یَزِیدُ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا الْمَسْعُودِیُّ ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، قَالَ : مَدَّ الفُرات عَلَی عَہْدِ عَبْدِ اللہِ فَکَرِہَ النَّاسُ ذَلِکَ ، فقَالَ : أَیُّہَا النَّاسُ ، لاَ تَکْرَہُوا مَدَّہُ فَإِنَّہُ یُوشِکُ أَنْ یُلْمَسَ فِیہِ طَسْتٌ مِنْ مَائٍ فَلاَ یُوجَدُ ، وَذَاکَ حِینَ یَرْجِعُ کُلُّ مَائٍ إلَی عُنْصُرِہِ ، فَیَکُونُ الْمَائُ وَبَقِیَّۃُ الْمُؤْمِنِینَ یَوْمَئِذٍ بِالشَّامِ۔
(٣٣١٢٩) حضرت مسعود (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت قاسم بن عبد الرحمن (رض) نے ارشاد فرمایا : کہ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) کے زمانہ میں فرات دریا بہت زیادہ بھر گیا ، تو لوگوں نے اسے برا سمجھا۔ اس پر آپ (رض) نے فرمایا : اے لوگو ! اس کے بڑھنے کو بُرا مت سمجھو۔ بیشک وہ وقت قریب ہے کہ اس میں پانی کی سلفچی تلاش کی جائے گی تو وہ بھی نہیں ملے گی۔ اور یہ اس وقت ہوگا جب سارا پانی اپنی اصل کی طرف لوٹ جائے گا۔ اور اس دن پانی اور بقیہ مومنین صرف شام میں ہوں گے۔

33129

(۳۳۱۳۰) حَدَّثَنَا یَزِیدُ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ : {وَآوَیْنَاہُمَا إِلَی رَبْوَۃٍ ذَاتِ قَرَارٍ وَمَعِینٍ} قَالَ : دِمَشْقُ۔
(٣٣١٣٠) حضرت یحییٰ بن سعید (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت سعید بن مسیب (رض) نے اس آیت کی تفسیر یوں بیان کی :
آیت { وَآوَیْنَاہُمَا إِلَی رَبْوَۃٍ ذَاتِ قَرَارٍ وَمَعِینٍ } اس میں دمشق شہر مراد ہے۔

33130

(۳۳۱۳۱) حَدَّثَنَا عِیسَی بْنُ یُونُسَ ، عَنْ أَبِی بَکْرٍ الْغَسَّانِیِّ ، عَنْ حَبِیبٍ ، قَالَ : قَالَ کَعْبٌ : أَحَبُّ الْبِلاَدِ إلَی اللہِ الشَّامُ وَأَحَبُّ الشَّامِ إلَیْہِ الْقُدْسُ ، وَأَحَبُّ الْقُدْسِ إلَیْہِ جَبَلٌ بِنَابُلُسَ ، لَیَأْتِیَنَّ عَلَی النَّاسِ زَمَانٌ یَتَمَاسُّونَہُ ، أَوْ یَتَمَاسَحُونَہُ بِالْحِبَالِ بَیْنَہُمْ۔
(٣٣١٣١) حضرت ابوبکر غسانی (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت حبیب (رض) نے ارشاد فرمایا : شہروں میں محبوب ترین شہر اللہ کے نزدیک شام ہے۔ اور شام میں محبوب ترین جگہ مقام قدس ہے ، اور مقام قدس میں محبوب ترین جگہ اللہ کے نزدیک نابلس کا پہاڑ ہے۔ ضرور بالضرور لوگوں پر ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ وہ اس کے درمیان رسی ڈال کر اس کو چھوئیں گے۔

33131

(۳۳۱۳۲) حَدَّثَنَا عِیسَی بْنُ یُونُسَ ، عَنْ أَبِی بَکْرٍ ، عَنْ أَبِی الزَّاہِرِیَّۃِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَعْقِلُ الْمُسْلِمِینَ مِنَ الْمَلاَحِمِ دِمَشْقُ ، وَمَعْقِلُہُمْ مِنَ الدَّجَّالِ بَیْتُ الْمَقْدِسِ ، وَمَعْقِلُہُمْ مِنْ یَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ بَیْتُ الطُّورِ۔
(٣٣١٣٢) حضرت ابو الزاھریہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جنگوں کے دوران دمشق مسلمانوں کی پناہ گاہ ہوگا۔ اور دجال سے جنگ کی صورت میں بیت المقدس مسلمانوں کی پناہ گاہ ہوگا اور یاجوج ماجوج سے جنگ کے وقت بیت الطور مسلمانوں کی پناہ گاہ ہوگا۔

33132

(۳۳۱۳۳) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ إِسْحَاقَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا یَحْیَی بْنُ أَیُّوبَ ، عَنْ یَزِیدَ بْنِ أَبِی حَبِیبٍ أَنَّ عَبْدَ الرَّحْمَن بْنَ شِمَاسَۃَ الْمُہْرِیَّ أَخْبَرَہُ ، عَنْ زَیْدِ بْنِ ثَابِتٍ ، قَالَ : بَیْنَمَا نَحْنُ حَوْلَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نُؤَلِّفُ الْقُرْآنَ مِنَ الرِّقَاعِ إذْ قَالَ : طُوبَی لِلشَّامِ ، قِیلَ : یَا رَسُولَ اللہِ ، وبم ذَاکَ وَلِمَ ذَاکَ ، قَالَ : إنَّ مَلاَئِکَۃَ الرَّحْمَن بَاسِطَۃٌ أَجْنِحَتَہَا عَلَیْہَا۔
(٣٣١٣٣) حضرت زید بن ثابت (رض) فرماتے ہیں کہ اس درمیان کہ ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارد گرد جمع تھے اور قرآن کو جمع کر رہے تھے چمڑوں سے۔ اچانک آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : شام کے لیے خوشخبری ہے۔ پوچھا گیا : اے اللہ کے رسول 5! کس وجہ سے اور کیوں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : یقیناً رحمت کے فرشتوں نے ان پر اپنے پَر پھیلائے ہوئے ہیں۔

33133

(۳۳۱۳۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ حُصَیْنٍ ، عَنْ أَبِی مَالِکٍ {الأَرْضِ الَّتِی بَارَکْنَا فِیہَا} قَالَ : الشَّامُ۔
(٣٣١٣٤) حضرت حصین (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت ابو مالک (رض) نے قرآن کی اس آیت { الأَرْضِ الَّتِی بَارَکْنَا فِیہَا } ترجمہ : وہ زمین جس کو ہم نے بابرکت بنادیا۔ “ کے بارے میں فرمایا : کہ اس میں شام مراد ہے

33134

(۳۳۱۳۵) حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِی عَدِیٍّ ، عَنْ عَوْفٍ ، عَنْ خُلَیْدٍ الْعَصْرِیِّ ، قَالَ : لَمَّا وَرَدَ عَلَیْنَا سَلْمَانُ أَتَیْنَاہُ لِنَسْتَقْرِئَہُ ، فَقَالَ : إنَّ الْقُرْآنَ عَرَبِیٌّ فَاسْتَقْرِئُوہُ عَرَبِیًّا ، فَکَانَ زَیْدُ بْنُ صُوحَانَ یُقْرِئُنَا ، فَإِذَا أَخَطَأَ أَخَذَ عَلَیْہِ سَلْمَانُ ، وَإِذَا أَصَابَ ، قَالَ : أَیْمُ اللہِ۔
(٣٣١٣٥) حضرت خلید العصری (رض) فرماتے ہیں کہ جب حضرت سلمان (رض) ہمارے ہاں تشریف لائے تو ہم لوگ ان کی خدمت میں آئے تاکہ ہم ان سے قرآن مجید پڑھیں۔ آپ (رض) نے فرمایا : یقیناً قرآن عربی ہے۔ پس تم لوگ اس کو کسی عربی سے پڑھو۔ تو حضرت زید بن صوحان (رض) ہمیں پڑھایا کرتے تھے۔ جب وہ کوئی غلطی کرتے تو حضرت سلمان (رض) ان کو غلطی پر پکڑ لیتے۔ اور جب وہ درست کرلیتے تو آپ (رض) فرماتے : اللہ کی قسم ! ایسے ہی ہے۔

33135

(۳۳۱۳۶) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : جَعَلَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِدَائَ الْعَرَبِیِّ یَوْمَ بَدْرٍ أَرْبَعِینَ أُوقِیَّۃً ، وَجَعَلَ فِدَائَ الْمَوْلَی عِشْرِینَ أُوقِیَّۃً ، وَالأُوقِیَّۃُ أَرْبَعُونَ دِرْہَمًا۔
(٣٣١٣٦) حضرت مغیرہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم (رض) نے ارشاد فرمایا : کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غزوہ بدر کے دن ایک عربی کا فدیہ چالیس اوقیہ مقرر فرمایا : اور ایک غلام کا فدیہ بیس اوقیہ مقرر فرمایا۔ اور ایک اوقیہ چالیس درہم کا ہوتا ہے۔

33136

(۳۳۱۳۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، عَنْ مِسْعَرٍ، عَنْ وَبَرَۃَ، عَنْ خَرَشَۃَ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ: ہَلاَکُ الْعَرَبِ إذَا بَلَغَ أَبْنَائُ بَنَاتِ فَارِسَ۔
(٣٣١٣٧) حضرت خرشہ (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے ارشاد فرمایا : عرب کی ہلاکت ہوگی جب فارس کی لڑکیوں کی اولاد بالغ ہوجائے گی۔

33137

(۳۳۱۳۸) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ حُصَیْنِ بْنِ عُمَرَ ، عَنْ مُخَارِقٍ ، عَنْ طَارِقِ بْنِ شِہَابٍ ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَنْ غَشَّ الْعَرَبَ لَمْ یَدْخُلْ فِی شَفَاعَتِی وَلَمْ تَنَلْہُ مَوَدَّتِی۔ (ترمذی ۳۹۲۸)
(٣٣١٣٨) حضرت عثمان بن عفان (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جو شخص اہل عرب کو دھوکا دے گا وہ میری شفاعت میں داخل نہیں ہوگا۔ اور نہ ہی میری محبت پائے گا۔

33138

(۳۳۱۳۹) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِِ، عَنْ شَبِیبِ بْنِ غَرْقَدَۃَ، عَنِ الْمُسْتَظِلِّ بْنِ حُصَیْنٍ، قَالَ خَطَبَنَا عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، فَقَالَ : قدْ عَلِمْت وَرَبِّ الْکَعْبَۃِ مَتَی تَہْلِکُ الْعَرَبُ ، فَقَامَ إلَیْہِ رَجُلٌ مِنَ الْمُسْلِمِینَ ، فَقَالَ : مَتَی یَہْلِکُونَ یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ، قَالَ: حِینَ یَسُوسُ أَمَرَہُمْ مَنْ لَمْ یُعَالِجْ الْجَاہِلِیَّۃِ وَلَمْ یَصْحَبِ الرَّسُولَ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔
(٣٣١٣٩) حضرت مستظل بن حصین (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) ہم سے خطاب فرما رہے تھے آپ (رض) نے فرمایا : ربِ کعبہ کی قسم ! تحقیق مجھے معلوم ہے کہ اہل عرب کب ہلاک ہوں گے ؟ مسلمانوں میں سے ایک آدمی نے کھڑے ہو کر پوچھا : اے امیر المؤمنین : یہ لوگ کب ہلاک ہوں گے ؟ آپ (رض) نے فرمایا : جب اس کا معاملہ وہ شخص سنبھالے گا جس نے نہ جاہلیت میں کبھی کوئی تدبیر وغیرہ کی اور نہ ہی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صحبت اختیار کی ہو۔

33139

(۳۳۱۴۰) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ أَبِی سِنَانٍ ، عَنْ حُصَیْنٍ الْمُزَنِیّ ، قَالَ : قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ : إنَّمَا مَثَلُ الْعَرَبِ مِثْلُ جَمَلٍ أَنِفٍ اتَّبَعَ قَائِدَہُ فَلْیَنْظُرْ قَائِدُہُ حَیْثُ یَقُودُ ، فَأَمَّا أَنَا فَوَرَبِّ الْکَعْبَۃِ لأَحْمِلَنَّہُمْ عَلَی الطَّرِیقِ۔
(٣٣١٤٠) حضرت حصین مزنی (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) نے ارشاد فرمایا : بیشک اہل عرب کی مثال اس اونٹ کی سی ہے جو شریف ہو اور اپنے چلانے والے کا تابع ہو۔ پس ان کے قائد کو چاہیے کہ وہ دیکھے کہ وہ ان کی کس طرف راہنمائی کررہا ہے۔ باقی رہا میں تو رب کعبہ کی قسم ! میں ضرور بالضرور ان کو سیدھے راستہ پر ڈالوں گا۔

33140

(۳۳۱۴۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ ، عَنْ قَیْسٍ ، قَالَ : کَانَ عَمْرُو بْنُ مَعْدِی کَرِبَ یَمُرُّ عَلَیْنَا أَیَّامَ الْقَادِسِیَّۃِ وَنَحْنُ صُفُوفٌ فَیَقُولُ : یَا مَعْشَرَ الْعَرَبِ کُونُوا أسودا أشداء ، فإنما الأسد من أَغْنَی شَأْنَہُ ، إِنَّمَا الْفَارِسِیُّ تَیْسٌ بَعْدَ أَنْ یَلْقَی نَیْزَکَہُ۔
(٣٣١٤١) حضرت قیس (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عمرو بن معد یکرب (رض) قادسیہ کے دن ہمارے پاس سے گزرے اس حال میں کہ ہم صفوں میں تھے ، آپ (رض) نے فرمایا : اے گروہ عرب ! تم لوگ سخت حملہ کرنے والے شیر بن جاؤ۔ بیشک شیر تو اپنی حالت سے بے پروا ہوتا ہے۔ بیشک ایرانی تو اس ہرن کی طرح ہیں جس کو نیزہ لگ چکا ہو۔

33141

(۳۳۱۴۲) حَدَّثَنَا سُوَیْد الْکَلْبِیُّ ، قَالَ : حدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِیزِ بْنُ أَبِی سَلَمَۃَ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللہِ بن کَثِیرَ بْنِ الصَّلْتِ ، قَالَ : نکح مَوْلَی لَنَا عَرَبِیَّۃٌ ، فَأَتَی عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِیزِ فَاسْتَعْدَی عَلَیْہِ ، فَقَالَ : وَاللہِ قَدْ عَدَا مَوْلَی آلِ کَثِیرٍ طَوْرَہُ۔
(٣٣١٤٢) حضرت محمد بن عبدا اللہ بن کثیر بن الصلت (رض) فرماتے ہیں کہ ہمارے ایک آزاد کردہ غلام نے ایک عربی عورت سے نکاح کرلیا۔ تو اس کو حضرت عمر بن عبد العزیز (رض) کے پاس لایا گیا اور اس کے خلاف مدد مانگی گئی تو آپ (رض) نے فرمایا : اللہ کی قسم ! تحقیق آل کثیر کے غلام نے اپنے رتبہ اور اپنی حد سے بڑھ کر کام کیا۔

33142

(۳۳۱۴۳) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللہِ بْنِ الزُّبَیْرِ الأَسَدِیُّ ، عَنِ ابْنِ أَبِی ذِئْبٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ، عَنْ عُمَرَ أَنَّہُ نَہَی أَنْ یَتَزَوَّجَ الْعَرَبِیُّ الأَمَۃَ ، وَأَنَّہُ قَضَی فِی الْعَرَبِ یَتَزَوَّجُونَ الإِمَائَ وَأَوْلاَدُہُمْ بِالْفِدَائِ : سِتُّ قَلاَئِصَ ، الرِّجَالُ وَالنِّسَائُ سَوَائٌ ، وَالْمَوَالِی مِثْلُ ذَلِکَ إذَا لَمْ یَعْلَمْ ، قَالَ الزُّہْرِیُّ : الْعَرَبِیُّ وَالْمَوْلَی لاَ یَسْتَوِیَانِ فِی النَّسَبِ۔
(٣٣١٤٣) حضرت سعید بن مسیب فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے عربی کو باندی کے ساتھ شادی کرنے سے منع فرمایا۔ آپ نے باندیوں کے ساتھ شادی کرنے والے عربوں کے بارے میں چھ قلائص کا فیصلہ فرمایا مرد و عورت اس میں برابر ہیں اور موالی کا بھی یہی حکم ہے جبکہ معلوم نہ ہو۔ حضرت زہری فرماتے ہیں کہ عربی اور موالی نسب میں برابر نہیں۔

33143

(۳۳۱۴۴) حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ حَرْبٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِی رَزِینٍ ، قَالَ حَدَّثَتْنِی أُمِّی ، قَالَتْ : کَانَتْ أُمُّ الْحُرَیْرِ إذَا مَاتَ رَجُلٌ مِنَ الْعَرَبِ اشْتَدَّ عَلَیْہَا ذَلِکَ ، فَقِیلَ لَہَا : یَا أُمَّ الحُرَیْرِ ، إنَّا نَرَاک إذَا مَاتَ رَجُلٌ مِنَ الْعَرَبِ اشْتَدَّ عَلَیْک ، قَالَتْ : سَمِعْت مَوْلاَیَ یَقُولُ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إنَّ مِنَ اقْتِرَابِ السَّاعَۃِ ہَلاَکُ الْعَرَبِ۔ وَکَانَ مَوْلاَہَا طَلْحَۃُ بْنُ مَالِکٍ۔ (ترمذی ۳۹۲۹)
(٣٣١٤٤) حضرت محمد بن ابی رزین (رض) اپنی والدہ سے نقل کرتے ہیں کہ حضرت ام جریر (رض) پر بہت ہی سخت ہوتی یہ بات کہ جب عرب کا کوئی آدمی مرجاتا ، تو ان سے اس بارے میں پوچھا گیا : اے ام جریر (رض) ! یقیناً ہم نے آپ (رض) کو دیکھا کہ جب عرب کا کوئی آدمی مرجاتا ہے تو آپ (رض) پر یہ بات بہت ہی سخت گزرتی ہے۔ آپ (رض) نے فرمایا : میں نے اپنے آقا کو یوں فرماتے ہوئے سنا : کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : بیشک عرب کا ہلاک ہونا قیامت کے قریب ہونے کی نشانی ہے۔ اور ان کے آقا حضرت طلحہ بن مالک (رض) تھے۔

33144

(۳۳۱۴۵) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِی یَعْقُوبَ، قَالَ سَمِعْت عَبْدَ الرَّحْمَن بْنَ أَبِی بَکْرَۃَ یُحَدِّثُ، عَنْ أَبِیہِ أَنَّ الأَقْرَعَ بْنَ حَابِسٍ جَائَ إلَی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : إنَّمَا بَایَعَک سُرَّاقُ الْحَاجِّ مِنْ أَسْلَمَ وَغِفَارٍ وَمُزَیْنَۃَ وَأَحْسِبُ جُہَیْنَۃَ ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : أَرَأَیْت إِنْ کَانَ أَسْلَمُ وَغِفَارٌ وَأَحْسِبُ جُہَیْنَۃَ خَیْرًا مِنْ بَنِی تَمِیمٍ وَمِنْ بَنِی عَامِرٍ وَأَسَدٍ وَغَطَفَانَ أخَابُوا وَخَسِرُوا ، قَالَ : نَعَمْ ، قَالَ : فَوَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ إنَّہُمْ لأَخْیَرُ مِنْہُمْ۔ (بخاری ۳۵۱۶۔ مسلم ۱۹۵۵)
(٣٣١٤٥) حضرت عبد الرحمن بن ابی بکرہ (رض) اپنے والد سے بیان کرتے ہیں کہ ان کے والد حضرت ابو بکرہ (رض) نے ارشاد فرمایا : کہ حضرت اقرع بن حابس (رض) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے اور عرض کیا : بیشک آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے قبیلہ اسلم ، غفار، مزینہ۔۔۔ راوی کہتے ہیں۔۔۔ میرا گمان ہے کہ قبیلہ جھینہ بھی کہا۔۔۔ کے چوروں نے بیعت کی۔ اس پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : تیری کیا رائے ہے اگر قبیلہ اسلم، اور غفار، اور جھینہ والے قبیلہ بنو تمیم اور بنو عامر ، اسد اور غطفان والوں سے بہتر ہوں تو کیا وہ لوگ خسارے اور نقصان میں نہیں ؟ آپ (رض) نے کہا : جی ہاں ! آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : پس قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ ٔ قدرت میں میری جان ہے یقیناً یہ ان سے بہتر ہیں۔

33145

(۳۳۱۴۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ عُمَیْرٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِی بَکْرَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : أَرَأَیْتُمْ إِنْ کَانَتْ جُہَیْنَۃُ وَأَسْلَمُ وَغِفَارٌ خَیْرًا مِنْ بَنِی تَمِیمٍ وَمِنْ بَنِی عَبْدِ اللہِ بْنِ غَطَفَانَ وَعَامِرِ بْنِ صَعْصَعَۃَ وَمَدَّ بِہَا صَوْتَہُ ، قَالُوا : یَا رَسُولَ اللہِ ، فَقَدْ خَابُوا وَخَسِرُوا ، قَالَ : فَإِنَّہُمْ خَیْرٌ۔ (بخاری ۳۵۱۵۔ مسلم ۱۹۵۶)
(٣٣١٤٦) حضرت ابو بکرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : تمہاری کیا رائے ہے اگر قبیلہ جھینہ، اسلم ، اور قبیلہ غفار والے قبیلہ بنو تمیم اور عبداللہ بن غطفان ، اور عامر بن صعصعہ وغیرہ سے بہتر ہوں ؟ اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ کہتے ہوئے اپنی آواز کو لمبا کیا۔ صحابہ (رض) نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول 5! پھر تو وہ لوگ خسارے اور نقصان میں ہوں گے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : یقیناً یہ ہی بہتر لوگ ہیں۔

33146

(۳۳۱۴۷) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا سَلَمَۃَ یُحَدِّثُ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : أَسْلَمُ وَغِفَارٌ وَمُزَیْنَۃُ وَمَنْ کَانَ مِنْ جُہَیْنَۃَ ، أَوْ جُہَیْنَۃُ ، خَیْرٌ مِنْ بَنِی تَمِیمٍ وَمِنْ بَنِی عَامِرٍ وَالْحَلِیفَیْنِ : أَسَدٍ وَغَطَفَانَ۔ (مسلم ۱۹۵۵۔ احمد ۴۶۸)
(٣٣١٤٧) حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : قبیلہ اسلم، قبیلہ غفار، قبیلہ مزینہ اور جو لوگ قبیلہ جھینہ میں سے ہیں یا یوں فرمایا کہ قبیلہ جھینہ والے قبیلہ بنو تمیم اور قبیلہ بنو عامر اور ان دونوں کے حلیف قبیلہ اسد اور قبیلہ غطفان سے بہتر ہیں۔

33147

(۳۳۱۴۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاہِیمَ ، عَن عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ ہُرْمُزَ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : قرَیْشٌ وَالأَنْصَارُ وَأَسْلَمُ وَغِفَارٌ مَوَالٍ لِلَّہِ وَلِرَسُولِہِ ، وَلاَ مَوْلَی لَہُمْ غَیْرَہُ۔
(٣٣١٤٨) حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : قبیلہ قریش ، انصار ، قبیلہ اسلم، اور قبیلہ غفار والے اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دوست ہیں۔ ان لوگوں کا ان کے سوا کوئی دوست نہیں۔

33148

(۳۳۱۴۹) حَدَّثَنَا مُعَاوِیَۃُ بْنُ ہِشَامٍ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ رَاشِدٍ ، عَنْ إیَاسِ بْنِ سَلَمَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : أَسْلَمُ سَالَمَہَا اللَّہُ وَغِفَارٌ غَفَرَ اللَّہُ لَہَا۔ (احمد ۴۸)
(٣٣١٤٩) حضرت سلمہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : قبیلہ اسلم والے اللہ ان کی حفاظت فرمائے اور قبیلہ غفار والے اللہ ان کی مغفرت فرمائے۔

33149

(۳۳۱۵۰) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا ابْنُ إِسْحَاقَ ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ أَبِی أَنَسٍ ، عَنْ حَنْظَلَۃَ بْنِ عَلِیٍّ الأَسْلَمِیِّ ، عَنْ خُفَافِ بْنِ إیمَائِ بْنِ رَحَضَۃَ الْغِفَارِیِّ ، قَالَ : صَلَّی بِنَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَلَمَّا رَفَعَ رَأْسَہُ مِنَ الرَّکْعَۃِ الآخِرَۃِ ، قَالَ : أَسْلَمُ سَالَمَہَا اللَّہُ وَغِفَارٌ غَفَرَ اللَّہُ لَہَا ، ثُمَّ أَقْبَلَ ، فَقَالَ : إنِّی لَسْتُ أَنَا قُلْتُ ہَذَا ، وَلَکِنَّ اللَّہَ قَالَہُ۔
(٣٣١٥٠) حضرت خفاف بن ایماء بن رحضہ غفاری (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں نماز پڑھائی جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دوسری رکعت سے اپنا سر اٹھایا تو ارشاد فرمایا : قبیلہ اسلم والے اللہ ان کو سلامت رکھے۔ اور قبیلہ غفار والے اللہ ان کی مغفرت فرمائے۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہماری طرف متوجہ ہوئے اور ارشاد فرمایا : یقیناً میں نے یہ بات نہیں کہی۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا۔

33150

(۳۳۱۵۱) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ الأَسَدِیُّ ، قَالَ : حدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ زَکَرِیَّا ، عَنْ سَعْدِ بْنِ طَارِقٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِی سَالِمُ بْنُ أَبِی الْجَعْدِ أَنَّ أَبَا الدَّرْدَائِ کَانَ یَحْلِفُ بِاللہِ : لاَ تَبْقَی قَبِیلَۃٌ إلاَّ ضَارَعَتِ النَّصْرَانِیَّۃَ غَیْرَ قَیْسٍ ، یَا مَعْشَرَ الْمُسْلِمِینَ فَأَحِبُّوا قَیْسًا ، یَا مَعْشَرَ الْمُسْلِمِینَ فَأَحِبُّوا قَیْسًا۔
(٣٣١٥١) حضرت سالم بن ابی الجعد (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت ابو الدردائ (رض) اللہ کی قسم اٹھا کر فرماتے تھے کہ کوئی قبیلہ بھی باقی نہیں رہے گا مگر یہ کہ سب نصرانیوں کے مشابہ ہوجائیں گے۔ سوائے قبیلہ قیس والوں کے۔ اے گروہ مسلمین ! قیس والوں سے محبت کرو، اے گروہ مسلمین ! قیس والوں سے محبت کرو۔

33151

(۳۳۱۵۲) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ ، قَالَ : حدَّثَنَا أَبُو الْحریشِ ، عَنْ زَیْدِ بْنِ مُحَمَّدٍ ، قَالَ : کُنْتُ فِی غَزَاۃٍ مَعَ مَسْلَمَۃَ بْنِ عَبْدِ الْمَلِکِ بِالتُّرْک فَہَدَّدَہُ رَسُولُ خَاقَانَ وَکَتَبَ إلَیْہِ : لأَلْقَیَنَّکَ بِحَزَاوَرَۃِ التُّرْک ، فَکَتَبَ إلَیْہِ مَسْلَمَۃُ : إنَّک تَلْقَانِی بِحَزَاوَرَۃِ التُّرْکِ وَأَنَا أَلْقَاک بِحَزَاوَرَۃِ الْعَرَبِ ، یَعْنِی قَیْسًا۔
(٣٣١٥٢) حضرت زید بن محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں کہ میں حضرت مسلمہ بن عبد الملک (رض) کے ساتھ ترک کے کسی غزوہ میں تھا ۔ تو خاقان بادشاہ کے قاصد نے ان کو بہت دھمکیاں دیں اور ان کو خط لکھا۔ میں تمہارے ساتھ ملوں گا ترک کے طاقتور نوجوانوں کے ساتھ۔ تو اس کے جواب میں حضرت مسلمہ (رض) نے اس کو خط لکھا : بیشک تم ہم سے ملو گے ترک کے طاقتوروں کے ساتھ، میں تم سے ملوں گا عرب کے طاقتوروں کے ساتھ یعنی قبیلہ قیس والوں کے ساتھ۔

33152

(۳۳۱۵۳) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا الْعَوَّامُ ، قَالَ: حَدَّثَنِی مَنْصُورٌ، عَنْ رِبْعِیِّ بْنِ حِرَاشٍ، عَنْ حُذَیْفَۃَ، قَالَ : ادْنُوا یَا مَعْشَرَ مُضَرَ إنَّ مِنْکُمْ سَیِّدَ وَلَدِ آدَمَ ، وَمِنْکُمْ سَوَابِقُ کَسَوَابِقِ الْخَیْلِ۔
(٣٣١٥٣) حضرت ربعی بن حراش (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت حذیفہ (رض) نے ارشاد فرمایا : اے گروہ مضر ! قریب ہو جاؤ، بیشک اولادِ آدم کے سردار تم میں سے ہیں ، اور تم لوگوں میں ہی سبقت لے جانے والے ہوں گے جیسا کہ گھوڑوں کی دوڑ میں سبقت لے جانے والے ہوتے ہیں۔

33153

(۳۳۱۵۴) حَدَّثَنَا حُمَیْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ الْمُؤَمَّلِ ، عَنْ عَطَائٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إذَا اخْتَلَفَ النَّاسُ فَالْحَقُّ فِی مُضَرَ۔ (ابو یعلی ۲۵۱۳۔ طبرانی ۱۱۴۱۸)
(٣٣١٥٤) حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جب لوگ اختلاف کرنے لگیں گے تو حق قبیلہ مضر میں ہوگا۔

33154

(۳۳۱۵۵) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، عَنْ سُفْیَانَ ، قَالَ : قَالَ عُمَرُ : قَیْسٌ مَلاَحِمُ الْعَرَبِ۔
(٣٣١٥٥) حضرت سفیان (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے ارشاد فرمایا : قبیلہ قیس عرب کے جنگجو ہیں۔

33155

(۳۳۱۵۶) حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ عَوْنِ بْنِ أَبِی جُحَیْفَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : أَتَیْنَا رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِالأَبْطَحِ فِی قُبَّۃٍ لَہُ حَمْرَائَ ، فَقَالَ : مَنْ أَنْتُمْ قُلْنَا : بَنُو عَامِرٍ ، قَالَ : مَرْحَبًا أَنْتُمْ مِنِّی۔ (طبرانی ۲۶۴۔ بزار ۲۸۳۱)
(٣٣١٥٦) حضرت ابو جحیفہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ابطح مقام پر ہمارے پاس تشریف لائے اس حال میں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سرخ چوغہ میں تھے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا : تم کون لوگ ہو ؟ ہم نے عرض کیا : قبیلہ بنو عامر کے لوگ ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : خوش آمدید ۔ تم لوگ مجھ میں سے ہو۔

33156

(۳۳۱۵۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ مِسْعَرٍ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ مَیْسَرَۃَ ، عَنِ النَّزَّالِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إنَّا کُنَّا وَأَنْتُمْ فِی الْجَاہِلِیَّۃِ بَنِی عَبْدِ مَنَافٍ فَنَحْنُ الْیَوْمَ بَنُو عَبْدِ اللہِ وأنتم بنو عبد اللہ۔ (بخاری ۱۲)
(٣٣١٥٧) حضرت نزال (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : یقیناً ہم لوگ اور تم لوگ زمانہ جاہلیت میں بنو عبد مناف کہلاتے تھے۔ پس آج کے دن ہم بھی بنو عبداللہ ہیں اور تم بھی بنو عبداللہ ہو۔

33157

(۳۳۱۵۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ أبی ہِلاَلٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : اللَّہُمَّ اکْفِنِی عَامِرًا وَاہْدِ بَنِی عَامِرٍ۔ (عبدالرزاق ۱۹۸۸۴)
(٣٣١٥٨) حضرت قتادہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اے اللہ ! تو میری کفایت فرما : عامر بن طفیل سے اور تو ہدایت عطا فرما قبیلہ بنو عامر بن صعصعہ کو۔

33158

(۳۳۱۵۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ مِسْعَرٍ ، عَنْ خَشْرَمٍ الْجَعْفَرِیِّ أَنَّ مُلاَعِبَ الأَسِنَّۃِ عَامِرَ بْنَ مَالِکٍ بَعَثَ إِلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَسْأَلُہُ الدَّوَائَ أو الشِّفَائَ مِنْ دَائٍ نَزَلَ بِہِ فَبَعَثَ إلَیْہِ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِعَسَلٍ، أَوْ بعُکَّۃٍ مِنْ عَسَلٍ۔
(٣٣١٥٩) حضرت خشرم جعفری (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عامر بن مالک (رض) نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف ایک قاصد دوا مانگنے کے لیے یا کسی بیماری سے شفاء کے لیے بھیجا۔ تو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی طرف شہد یا شہد کا مشکیزہ بھیج دیا۔

33159

(۳۳۱۶۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ، قَالَ : جَائَتِ ابْنَۃُ خَالِدِ بْنِ سِنَانٍ الْعَبْسِیِّ إلَی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : مَرْحَبًا بِابْنَۃِ أَخِی مَرْحَبًا بِابْنَۃِ نَبِیٍّ ضَیَّعَہُ قَوْمُہُ۔ (بزار ۲۳۶۱۔ طبرانی ۱۲۲۵۰)
(٣٣١٦٠) حضرت سعید بن جبیر (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت خالد بن سنان العبسی کی بیٹی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آئی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو فرمایا : خوش آمدید میرے بھائی کی بیٹی کو خوش آمدید، نبی کی بیٹی کو جس کو اس کی قوم نے ضائع کردیا تھا۔

33160

(۳۳۱۶۱) حَدَّثَنَا أَبُو نُعَیْمٍ ، عَنْ شَرِیکٍ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، قَالَ : قَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : یَا بَنِی عَبْسٍ ، مَا شِعَارُکُمْ ، قَالُوا : حَرَامٌ ، قَالَ : بَلْ شِعَارُکُمْ حَلاَلٌ۔
(٣٣١٦١) حضرت ابو اسحاق (رض) فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے بنو عبس والو ! تمہاری نشانی کیا ہے ؟ انھوں نے عرض کیا : حرام۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : بلکہ تمہاری نشانی تو ” حلال “ ہے۔

33161

(۳۳۱۶۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا أَبُو الضَّرِیسِ عُقْبَۃُ بْنُ عَمَّارٍ الْعَبْسِیُّ ، عَنْ مَسْعُودِ بْنِ حِرَاشٍ أَخٍ لِرِبْعِیِّ بْنِ حِرَاشٍ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ سَأَلَ الْعَبْسِیِّینَ : أَیُّ الْخَیْلِ وَجَدْتُمُوہُ أَصْبَرُ فِی حَرْبِکُمْ ، قَالُوا : الْکُمَیْتُ۔
(٣٣١٦٢) حضرت مسعود بن حراش (رض) جو حضرت ربعی بن حِراش (رض) کے بھائی ہیں فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) نے قبیلہ بنو عبس والوں سے پوچھا : تم لوگ جنگوں میں کون سا گھوڑا زیادہ صابر پاتے ہو ؟ انھوں نے عرض کیا : سیاہ و سرخ رنگ کے گھوڑے کو۔

33162

(۳۳۱۶۳) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ الثَّقَفِیُّ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُثْمَانَ بْنِ خُثَیْمٍ ، عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ ، عَنْ جَابِرٍ أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حَاصَرَ أَہْلَ الطَّائِفِ فَجَائَہُ أَصْحَابُہُ فَقَالُوا : یَا رَسُولَ اللہِ ، أَحْرَقَتْنَا نِبَالُ ثَقِیفٍ ، فَادْعُ اللَّہَ عَلَیْہِمْ ، فَقَالَ : اللَّہُمَّ اہْدِ ثَقِیفًا۔ (احمد ۳۴۳)
(٣٣١٦٣) حضرت جابر (رض) فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے طائف والوں کا محاصرہ کیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ (رض) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آئے اور کہنے لگے : اے اللہ کے رسول 5! ثقیف کے تیروں نے ہمیں جلادیا۔ پس آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ سے ان کے خلاف بد دعا کریں۔ اس پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دعا فرمائی۔ اے اللہ ! قبیلہ ثقیف کو ہدایت عطا فرما۔

33163

(۳۳۱۶۴) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ بْنِ نَافِعٍ ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ مُسْلِمٍ ، عَنْ طَاوُوسٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لَقَدْ ہَمَمْت أَنْ لاَ أَقْبَلَ إلاَّ مِنْ قُرَشِیٍّ ، أَوْ أَنْصَارِیٍّ ، أَوْ ثَقَفِیٍّ۔ (عبدالرزاق ۱۶۵۲۱۔ ابن حبان ۶۳۸۴)
(٣٣١٦٤) حضرت طاؤس (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : تحقیق میں نے پختہ ارادہ کرلیا کہ میں کسی سے ہدیہ قبول نہیں کروں گا سوائے قریشی سے یا انصاری سے یا ثقفی سے۔

33164

(۳۳۱۶۵) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ مِسْعَرٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ أَبِی سَعِیدٍ الْمَقْبُرِیِّ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لَقَدْ ہَمَمْت أَنْ لاَ أَقْبَلَ ہَدِیَّۃً إلاَّ مِنْ قُرَشِیٍّ ، أَوْ أَنْصَارِیٍّ ، أَوْ ثَقَفِیٍّ ، أَوْ دَوْسِیٍّ۔ (ترمذی ۳۹۴۶)
(٣٣١٦٥) حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : تحقیق میں نے پختہ ارادہ کرلیا ہے کہ میں کسی سے بھی ہدیہ قبول نہیں کروں گا مگر قریشی سے یا انصاری سے یا ثقفی سے یا دوسی سے۔

33165

(۳۳۱۶۶) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ أَبِی جَمْرَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ وَفْدَ عَبْدِ الْقَیْسِ أَتَوْا رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَنِ الْوَفْدُ ، أَوْ مَنِ الْقَوْمُ ، قَالَ : قَالُوا : رَبِیعَۃُ ، قَالَ : مَرْحَبًا بِالْوَفْدِ ، أَوْ بِالْقَوْمِ غَیْرَ خَزَایَا ، وَلاَ النَّدَامَی۔
(٣٣١٦٦) حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ قبیلہ عبد القیس کا وفد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا۔ تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا : کون سا وفد ہے ؟ یا یوں کہا : کون لوگ ہیں ؟ ان لوگوں نے عرض کیا : قبیلہ ربیعہ کے لوگ ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : وفد کو یا یوں فرمایا : لوگوں کو خوش آمدید جو نہ دنیا میں رسوا ہوں نہ آخرت میں شرمندہ۔

33166

(۳۳۱۶۷) حَدَّثَنَا أَبُو نُعَیْمٍ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْوَلِیدِ ، قَالَ : حدَّثَنِی شِہَابُ بْنُ عَبَّادٍ الْعَصَرِیُّ أَنَّ أَبَاہُ حَدَّثَہُ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ وَقَفَ عَلَیْہِمْ بِعَرَفَاتٍ ، فَقَالَ : لِمَنْ ہَذِہِ الأَخْبِیَۃُ ؟ فَقَالُوا : لِعَبْدِ الْقَیْسِ ، فَدَعَا لَہُمْ وَاسْتَغْفَرَ لَہُمْ۔
(٣٣١٦٧) حضرت عباد العصری (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) عرفات کے میدان میں ایک جگہ ٹھہرے اور پوچھا : یہ کن لوگوں کے خیمے ہیں ؟ لوگوں نے کہا : قبیلہ عبد القیس کے۔ تو آپ (رض) نے ان کے لیئے دعا فرمائی اور ان کے لیے استغفار کیا۔

33167

(۳۳۱۶۸) حَدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ یُونُسَ ، قَالَ ذَکَرَ عَبْدُ الرَّحْمَن بْنُ أَبِی بَکْرَۃَ ، قَالَ : قَالَ أَشَجُّ بَنِی عَصَرَ : قَالَ لِی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إنَّ فِیک لِخُلُقَیْنِ یُحِبُّہُمَا اللَّہُ ، فَقُلْتُ : مَا ہُمَا قَالَ : الْحِلْمُ وَالْحَیَائُ ، قَالَ : قُلْتُ : قَدِیمًا ، کَانَ فِیَّ أَوْ حَدِیثًا ؟ قَالَ : بَلْ قَدِیمًا ، قَالَ : قُلْتُ : الْحَمْدُ لِلَّہِ الَّذِی جَبَلَنِی عَلَی خُلُقَیْنِ یُحِبُّہُمَا۔
(٣٣١٦٨) حضرت عبد الرحمن بن ابی بکرہ (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت اشج بنو عصر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھ سے ارشاد فرمایا : یقیناً تم میں دو خصلتیں ایسی ہیں کہ اللہ ان کو پسند کرتے ہیں۔ میں نے پوچھا : وہ دونوں کون سی ہیں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : بردباری اور حیائ۔ میں نے پوچھا : یہ مجھ میں پرانی ہیں یا جدید ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : نہیں بلکہ پرانی ہیں۔ میں نے کہا : اللہ کا شکر ہے جس نے میری جبلت میں دو خصلتیں پیدا کیں جن کو وہ پسند کرتا ہے۔

33168

(۳۳۱۶۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ جَامِعِ بْنِ شَدَّادٍ ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ مُحْرِزٍ الْمَازِنِیِّ ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَیْنٍ ، قَالَ : جَائَتْ بَنُو تَمِیمٍ إِلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : أَبْشِرُوا یَا بَنِی تَمِیمٍ ، فَقَالُوا : یَا رَسُولَ اللہِ ، بَشَّرْتَنَا فَأَعْطِنَا۔ (بخاری ۳۱۹۰۔ احمد ۴۳۳)
(٣٣١٦٩) حضرت عمران بن حصین (رض) فرماتے ہیں کہ قبیلہ بنو تمیم والے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آئے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے بنو تمیم ! خوشی مناؤ۔ تو ان لوگوں نے کہا : اے اللہ کے رسول 5! آپ نے ہمیں خوشخبری سنائی۔ پس آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمیں کچھ عطا کریں۔

33169

(۳۳۱۷۰) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ وَاصِلٍ ، عَنِ الْمَعْرُورِ بْنِ سُوَیْد ، عَنِ ابْنِ فَاتِکٍ ، قَالَ : قَالَ لِی کَعْبٌ : إنَّ أَشَدَّ أَحْیَائِ الْعَرَبِ عَلَی الدَّجَّالِ لَقَوْمُک ، یَعْنِی بَنِی تَمِیمٍ۔
(٣٣١٧٠) حضرت ابن فاتک (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت کعب (رض) نے مجھ سے ارشاد فرمایا : بیشک عرب کے زندہ لوگوں میں سے دجال پر سب سے زیادہ سخت تمہاری قوم ہوگی یعنی قبیلہ بنو تمیم۔

33170

(۳۳۱۷۱) حَدَّثَنَا أَبُو نُعَیْمٍ ، عَنْ مُسَافِرٍ الْجَصَّاصِ ، عَنْ فَصِیلِ بْنِ عَمْرٍو ، وَقَالَ : ذَکَرُوا بَنِی تَمِیمٍ عِنْدَ حُذَیْفَۃَ ، فَقَالَ : إنَّہُمْ أَشَدُّ النَّاسِ عَلَی الدَّجَّالِ۔
(٣٣١٧١) حضرت فضیل بن عمرو (رض) فرماتے ہیں کہ لوگوں نے حضرت حذیفہ (رض) کے پاس قبیلہ بنو تمیم کا ذکر فرمایا : تو آپ (رض) نے فرمایا : بیشک بنو تمیم والے لوگوں میں سب سے زیادہ سخت ہوں گے دجال کے مقابلہ میں۔

33171

(۳۳۱۷۲) حَدَّثَنَا أَبُو نُعَیْمٍ ، عَنْ مِنْدَلٍ ، عَنْ ثَوْرٍ ، عَنْ رَجُلٍ ، قَالَ : خَطَبَ رَجُلٌ مِنَ الأَنْصَارِ امْرَأَۃً ، فَقَالَ لَہُ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَا یَضُرُّک إذَا کَانَتْ ذَاتَ دِینٍ وَجَمَالٍ أَنْ لاَ تَکُونَ مِنْ آلِ حَاجِبِ بْنِ زُرَارَۃَ۔
(٣٣١٧٢) حضرت ثور (رض) ایک آدمی سے نقل فرماتے ہیں کہ انصار کے ایک شخص نے کسی عورت کو نکاح کا پیغام بھیجا۔ اس پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے فرمایا : یہ بات تیرے لیے نقصان دہ نہیں ہے کہ وہ عورت دیندار اور خوبصورت ہو اور نہ یہ بات کہ وہ حاجب بن زرارہ تمیمی کے خاندان میں سے ہو۔

33172

(۳۳۱۷۳) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، عَنْ أَبِی خَلْدَۃَ ، عَنْ أَبِی الْعَالِیَۃِ ، قَالَ : قرَأَ عَلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ کُلِّ خَمْسٍ رَجُلٌ، فَاخْتَلَفُوا فِی اللُّغَۃِ فَرَضِیَ قِرَائَتَہُمْ کُلَّہُمْ، فَکَانَ بَنُو تَمِیمٍ أَعْرَبَ الْقَوْمِ۔(ابن جریر ۱۹)
(٣٣١٧٣) حضرت ابو العالیہ (رض) فرماتے ہیں کہ ہر پانچ میں سے ایک آدمی نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے قرآن مجید کی قرات کی۔ پس ان لوگوں نے زبان میں اختلاف کیا پھر بھی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سب کی قرات سے راضی ہوئے اور قبیلہ بنو تمیم لوگوں میں سے زیادہ عربی زبان میں فصیح تھے۔

33173

(۳۳۱۷۴) حَدَّثَنَا ہَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ ، قَالَ : حدَّثَنَا شُعْبَۃُ ، عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّائِ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ أَنَّ أَبَا مُوسَی کَتَبَ إلَی عُمَرَ فِی ثَمَانیَۃَ عَشَرَ تِجْفَافًًا فَأَصَابَہَا ، فَکَتَبَ إلَیْہِ عُمَرُ أَنْ ضَعْہَا فِی أَشْجَعِ حَیٍّ مِنَ الْعَرَبِ ، قَالَ : فَوَضَعَہَا فِی بَنِی رِیَاحٍ حَیٍّ مِنْ بَنِی تَمِیمٍ۔
(٣٣١٧٤) حضرت ابن سیرین (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت ابو موسیٰ (رض) نے حضرت عمر (رض) سے خط لکھ کر دریافت کیا ان اٹھارہ زرہوں کے بارے میں جو ان کو ملی تھیں۔ تو حضرت عمر (رض) نے ان کو جواب میں لکھا : کہ ان زرہوں کو عرب کے سب سے بہادر قبیلہ والوں کے دے دو ۔ راوی فرماتے ہیں : کہ آپ (رض) نے یہ زرہیں بنو ریاح جو بنو تمیم کی ایک شاخ ہے ان کو مرحمت فرما دیں۔

33174

(۳۳۱۷۵) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : أَوَّلُ مَنْ بَایَعَ یَوْمَ الْحُدَیْبِیَۃِ أَبُو سِنَانٍ الأَسَدِیُّ۔ (ابن سعد ۱۰۰)
(٣٣١٧٥) حضرت اسماعیل (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت شعبی (رض) نے ارشاد فرمایا : غزوہ حدیبیہ والے دن سب سے پہلے بیعت کرنے والے شخص حضرت ابو سنان اسدی (رض) تھے۔

33175

(۳۳۱۷۶) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ ، قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ بَہْدَلَۃَ ، عَنْ أبِی وَائِلٍ أَنَّ وَفْدَ بَنِی أَسَدٍ أَتَوْا رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: مَنْ أَنْتُمْ فَقَالُوا: نَحْنُ بَنُو زِنْیَۃَ، فَقَالَ: أَنْتُمْ بَنُو رِشْدَۃَ۔
(٣٣١٧٦) حضرت ابو وائل (رض) فرماتے ہیں کہ قبیلہ بنو اسد کا وفد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے پوچھا : تم کون لوگ ہو ؟ انھوں نے عرض کیا : ہمارا تعلق قبیلہ بنو زِنَیَۃ سے ہے۔ اس پر آپ (رض) نے فرمایا : تم تو بنو رشدہ ہو۔ ( زنیہ سے زنا کی طرف ذہن منتقل ہونے کی وجہ سے بنو رشدہ لقب عطا فرمایا) ۔

33176

(۳۳۱۷۷) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : حدَّثَنَا الْوَلِیدُ ، عَنْ سِمَاکِ بْنِ حَرْبٍ ، قَالَ أَدْرَکْت أَلْفَیْنِ مِنْ بَنِی أَسَدٍ قَدْ شَہِدُوا الْقَادِسِیَّۃَ فِی أَلْفَیْنِ ، وَکَانَتْ رَایَاتُہَا فِی یَدِ سِمَاکٍ صَاحِبِ الْمَسْجِدِ۔
(٣٣١٧٧) حضرت ولید (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت سماک بن حرب (رض) نے ارشاد فرمایا : میں نے بنی اسد کے دو ہزار آدمیوں کو پایا جو قادسیہ کی جنگ میں شریک ہوئے تھے اور ان کے جھنڈے سماک صاحب مسجد کے ہاتھ میں تھے۔

33177

(۳۳۱۷۸) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنْ عِکْرِمَۃَ ، قَالَ : جَائَ عَلِیٌّ بِسَیْفِہِ ، فَقَالَ : خُذِیہِ حَمِیدًا ، فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إِنْ کُنْتَ أَحْسَنْت الْقِتَالَ الْیَوْمَ فَقَدْ أَحْسَنَہُ سَہْلُ بْنُ حُنَیْفٍ وَعَاصِمُ بْنُ ثَابِتٍ وَالْحَارِثُ بْنُ صِمَّۃَ ، وَأَبُو دُجَانَۃَ ، وعن عکرمۃ قَالَ قال رسول اللہ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یوم أحد : مَنْ یَأْخُذُ ہَذَا السَّیْفَ بِحَقِّہِ ، فَقَالَ أَبُو دُجَانَۃَ أَنَا وَأَخَذَ السَّیْفَ فَضَرَبَ بِہِ حَتَّی جَائَ بِہِ قَدْ حَنَاہُ ، فَقَالَ : یَا رَسُولَ اللہِ ، أَعْطَیْتُہُ حَقَّہُ ، قَالَ نَعَمْ۔ (طبرانی ۶۵۰۷۔ حاکم ۲۴)
(٣٣١٧٨) حضرت عکرمہ (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت علی (رض) اپنی تلوار لائے اور حضرت فاطمہ (رض) سے فرمایا : اس تعریف شدہ کو پکڑو۔ اس پر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : آج کے دن تم نے شاندار قتال نہیں کیا تحقیق شاندار لڑائی تو سھل بن حنیف، عاصم بن ثابت، حارث بن الصمبہ اور ابو دجانہ (رض) نے لڑی۔
اور حضرت عکرمہ (رض) فرماتے ہیں : کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غزوہ احد کے دن ارشاد فرمایا : کون شخص اس تلوار کو اس کے حق کے ساتھ پکڑے گا ؟ حضرت ابو دجانہ (رض) نے عرض کیا : میں پکڑوں گا۔ اور تلوار پکڑی پھر اس کے ساتھ لڑے یہاں تک کہ تلوار کو واپس لائے اس حال میں کہ وہ ٹیڑھی ہوچکی تھی۔ اور فرمایا : اے اللہ کے رسول 5! کیا میں نے اس کا حق ادا کردیا ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ہاں !۔

33178

(۳۳۱۷۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ بْنُ أَبِی خَالِدٍ ، عَنْ قَیْسٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِبِلاَلٍ : مَا صَنَعْت فِی رَکْبِ الْبَجَلِیِّینَ ابْدَأْ بِالأَحْمَسِیِّینَ قَبْلَ الْقَسْرِیِّینَ۔ (احمد ۱۶۶۸)
(٣٣١٧٩) حضرت قیس (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت بلال (رض) سے ارشاد فرمایا : تم نے بجلیوں کی سواریوں کا کیا کیا ؟ تم قسریوں سے پہلے احمسیوں سے شروع کرو۔

33179

(۳۳۱۸۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ مُخَارِقٍ ، عَنْ طَارِقٍ ، قَالَ : جَائَتْ وُفُودُ قَسْرٍ إِلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔ (احمد ۳۱۵۔ ۸۲۱۱)
(٣٣١٨٠) حضرت مخارق (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت طارق (رض) نے ارشاد فرمایا : کہ قسر کے وفد نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آئے۔
(٧٢) ما جاء فِی العجمِ

33180

(۳۳۱۸۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، عَنْ إسْرَائِیلَ، عَنْ جَابِرٍ، عَنْ عَامِرٍ، قَالَ: شَہِدَ بَدْرًا سِتَّۃٌ مِنَ الأَعَاجِمِ مِنْہُمْ بِلاَلٌ وَتَمِیمٌ۔
(٣٣١٨١) حضرت جابر (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عامر (رض) نے ارشاد فرمایا : غزوہ بدر میں چھ عجمیوں نے بھی شرکت کی۔ ان میں سے حضرت بلال (رض) اور حضرت تمیم بھی تھے۔

33181

(۳۳۱۸۲) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنِ ابْنِ أَبِی نَجِیحٍ ، عن أبیہ ، عَنْ قَیْسِ بْنِ سَعْدٍ رِوَایَۃٌ ، قَالَ : لَوْ کَانَ الدِّینُ مُعَلَّقًا بِالثُّرَیَّا لَتَنَاوَلَہُ نَاسٌ مِنْ أَبْنَائِ فَارِسَ۔ (ابویعلی ۱۴۳۴۔ طبرانی ۹۰۱)
(٣٣١٨٢) حضرت ابو نجیح (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت قیس بن سعد (رض) سے مروی ہے آپ (رض) نے ارشاد فرمایا : اگر دین ثریا ستارے پر بھی معلق ہوتا تو اہل فارس میں سے کچھ لوگ ضرور وہاں سے اس کو حاصل کرتے۔

33182

(۳۳۱۸۳) حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ عَوْفٍ ، عَنْ شَہْرٍ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لَوْ کَانَ الدِّینُ مُعَلَّقًا بِالثُّرَیَّا لَتَنَاوَلَہُ نَاسٌ مِنْ أَبْنَائِ فَارِسَ۔ (بخاری ۴۸۹۷۔ مسلم ۲۳۱)
(٣٣١٨٣) حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اگر دین ثریا ستارے پر بھی معلق ہوتا تو اہل فارس کے کچھ لوگ ضرور وہاں سے اس کو حاصل کرتے۔

33183

(۳۳۱۸۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ بْنُ أَبِی خَالِدٍ ، عَنْ قَیْسٍ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ فَرَضَ لأَہْلِ بَدْرٍ لعربیہم وَمَوْلاَہُمْ فِی خَمْسَۃِ آلاَفٍ خَمْسَۃَ آلاَفٍ ، وَقَالَ : لأُفَضِّلَنَّہُمْ عَلَی مَنْ سِوَاہُمْ۔
(٣٣١٨٤) حضرت قیس (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے بدر میں شریک عربی اور اس کے غلام کے لیے پانچ پانچ ہزار کا حصہ مقرر فرمایا اور فرمایا : میں ضرور بالضرور اہل عرب کو ان کے سوا پر فضیلت دوں گا۔

33184

(۳۳۱۸۵) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْمُفَضَّلِ ، قَالَ : حدَّثَنَا أَسْبَاطُ بْنُ نَصْرٍ ، عَنِ السُّدِّیِّ ، عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الأَزْدِیِّ ، عَنْ أَبِی الْکَنُودِ ، عَنْ خَبَّابِ بْنِ الأَرَتِّ : (وَلاَ تَطْرُدَ الَّذِینَ یَدْعُونَ رَبَّہُمْ بِالْغَدَاۃِ وَالْعَشِیِّ یُرِیدُونَ وَجْہَہُ) قَالَ : جَائَ الأَقْرَعُ بْنُ حَابِسٍ التَّمِیمِیُّ وَعُیَیْنَۃُ بْنُ حِصْنٍ الْفَزَارِیّ فَوَجَدُوا النبی صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَاعِدًا مَعَ بِلاَلٍ وَعَمَّارٍ وَصُہَیْبٍ وَخَبَّابِ بْنِ الأَرَتِّ فِی نَاسٍ مِنَ الضُّعَفَائِ مِنَ الْمُؤْمِنِینَ ، فَلَمَّا رَأَوْہُمْ حَقَّرُوہُمْ فَأَتَوْہُ فَخَلَوْا بِہِ فَقَالُوا : إنا نُحِبُّ أَنْ تَجْعَلَ لَنَا مِنْک مَجْلِسًا تَعْرِفُ لَنَا بِہِ الْعَرَبُ فَضْلَنَا ، فَإِنَّ وُفُودَ الْعَرَبِ تَأْتِیک فَنَسْتَحِی أَنْ تَرَانَا مَعَ ہَذِہِ الأَعْبُد ، فَإِذَا نَحْنُ جِئْنَاک فَأَقِمْہُمْ عَنَّا ، وَإِذَا نَحْنُ فَرَغْنَا فَاقْعُدْ مَعَہُمْ إِنْ شِئْتَ ، قَالَ : نَعَمْ ، قَالُوا : فَاکْتُبْ لَنَا کِتَابًا ، فَدَعَا بِالصَّحِیفَۃِ لِتُکْتَبَ وَدَعَا عَلِیًّا لِیَکْتُبَ ، فَلَمَّا أَرَادَ ذَلِکَ وَنَحْنُ قُعُودٌ فِی نَاحِیَۃٍ إذْ نَزَلَ عَلَیْہِ جِبْرِیلُ ، فَقَالَ : {وَلاَ تَطْرُدَ الَّذِینَ یَدْعُونَ رَبَّہُمْ بِالْغَدَاۃِ وَالْعَشِیِّ یُرِیدُونَ وَجْہَہُ} إلَی قَوْلِہِ {فَتَطْرُدَہُمْ فَتَکُونَ مِنَ الظَّالِمِینَ}۔ (ابن ماجہ ۴۱۲۷۔ طبرانی ۳۶۹۳)
(٣٣١٨٥) حضرت ابو الکنود (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت خباب بن الارت (رض) نے اس آیت کے شان نزول کے بارے میں فرمایا : آیت { وَلاَ تَطْرُدِ الَّذِینَ یَدْعُونَ رَبَّہُمْ بِالْغَدَاۃِ وَالْعَشِیِّ یُرِیدُونَ وَجْہَہُ } کہ اقرع بن حابس تمیمی اور عیینہ بن حصن فزاری آئے اور ان لوگوں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حضرت بلال (رض) ، حضرت عمار (رض) ، حضرت صہیب (رض) اور حضرت خباب بن الأرت (رض) جو مسلمانوں میں سب سے کمزور لوگ تھے ان کے پاس بیٹھا ہوا پایا۔ ان لوگوں نے ہمیں حقیر نظروں سے دیکھا۔ پھر یہ لوگ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خلوت میں لے گئے اور کہنے لگے : کہ ہم یہ بات پسند کرتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے لیے ایک الگ مجلس مقرر کریں تاکہ اہل عرب اس وجہ سے ہماری فضیلت کو جان لیں ۔ بیشک اہل عرب کے وفود آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آتے ہیں اور ہم شرم کھاتے ہیں کہ وہ ہمیں ان غلاموں کے ساتھ بیٹھا ہوا دیکھیں۔ لہٰذا جب ہم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا کریں تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان لوگوں کو ہمارے پاس سے اٹھا دیا کریں ، اور جب ہم فارغ ہوجائیں تو پھر اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چاہیں تو ان کے ساتھ بیٹھ جایا کریں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جی ہاں ! ٹھیک ہے یہ لوگ کہنے لگے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمیں ایک تحریر لکھ دیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دستہ منگوایا تاکہ یہ بات لکھ دی جائے۔ اور حضرت علی (رض) کو بلایا تاکہ وہ یہ لکھیں۔ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ لکھنے کا ارادہ کیا تو ہم لوگ ایک کونے میں بیٹھے ہوئے تھے کہ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) یہ آیات لے کر نازل ہوئے : { وَلاَ تَطْرُدِ الَّذِینَ یَدْعُونَ رَبَّہُمْ بِالْغَدَاۃِ وَالْعَشِیِّ یُرِیدُونَ وَجْہَہُ } سے لے کر { فَتَطْرُدَہُمْ فَتَکُونَ مِنَ الظَّالِمِینَ } تک۔

33185

(۳۳۱۸۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ أَبِی الْمِقْدَامِ ، عَنْ حَبَّۃَ ، قَالَ : جَائَ رَجُلٌ إلَی عَلِیِّ بْنِ أَبِی طَالِبٍ ، فَقَالَ : إنِّی اشْتَرَیْت بَعِیرًا وَتَجَہَّزْت وَأُرِیدُ الْمَقْدِسَ ، فَقَالَ : بِعْ بَعِیرَک وَصَلِّ فِی ہَذَا الْمَسْجِدِ ، قَالَ أَبُو بَکْرٍ : یَعْنِی مَسْجِدَ الْکُوفَۃِ فَمَا مِنْ مَسْجِدٍ بَعْدَ مَسْجِدِ الْحَرَامِ أَحَبُّ إلَیَّ مِنْہُ ، لَقَدْ نَقَصَ مِمَّا أُسِّسَ خَمْسُ مِئَۃِ ذِرَاعٍ۔
(٣٣١٨٦) حضرت حبہ (رض) فرماتے ہیں کہ ایک آدمی حضرت علی (رض) بن ابی طالب کی خدمت میں آیا اور عرض کیا : بیشک میں نے ایک اونٹ خریدا ہے اور میں نے سامان سفر تیار کرلیا ہے اور میرا بیت المقدس جانے کا ارادہ ہے۔ اس پر آپ (رض) نے فرمایا : اپنے اونٹ کو بیچ دو اور اس مسجد میں نماز پڑھا کرو۔ امام ابوبکر (رض) فرماتے ہیں : یعنی کوفہ کی مسجد میں ۔۔۔اس لیے کہ مسجد حرام کے بعد کوئی بھی مسجد مجھے اس سے زیادہ محبوب نہیں ہے۔

33186

(۳۳۱۸۷) حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا إسْرَائِیلُ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ بْنِ مُہَاجِرٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، عَنِ الأَسْوَدِ، قَالَ : لَقِیَنِی کَعْبٌ بِبَیْتِ الْمَقْدِسِ ، فَقَالَ : مِنْ أَیْنَ جِئْتَ ؟ قُلْتُ : مِنْ مَسْجِدِ الْکُوفَۃِ ، فَقَالَ : لأَنْ أَکُونَ جِئْتُ مِنْ حَیْثُ جِئْتَ أَحَبُّ إلَیَّ مِنْ أَنْ أَتَصَدَّقَ بِأَلْفَیْ دِینَارٍ ، أَضَعُ کُلَّ دِینَارٍ مِنْہَا فِی یَدِ کُلِّ مِسْکِینٍ ، ثُمَّ حَلَفَ : إِنَّہُ لَوَسَطُ الأَرْضِ کَقَعْرِ الطَّسْتِ۔
(٣٣١٨٧) حضرت اسود (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت کعب (رض) مجھے بیت المقدس میں ملے اور پوچھا : تم کہاں سے آئے ہو ؟ میں نے کہا : کوفہ کی جامع مسجد سے۔ آپ (رض) نے فرمایا : میں بھی وہاں سے آیا ہوں۔ جہاں سے تم آئے ہو۔ اور وہ جگہ مجھے اس بات سے زیادہ پسندید ہ ہے کہ میں دو ہزار دینار صدقہ کروں اور ان میں سے ہر ایک دینار کو ہر مسکین کے ہاتھ میں دوں۔ پھر قسم اٹھا کر ارشاد فرمایا : بیشک وہ مسجد زمین کے بالکل درمیان میں ہے جیسا کہ تھال کا پیندا ہوتا ہے۔

33187

(۳۳۱۸۸) حَدَّثَنَا حَاتِمٌ ، عَنْ حُمَیْدِ بْنِ صَخْرٍ ، عَنِ الْمَقْبُرِیِّ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : مَنْ جَائَ مَسْجِدِی ہَذَا ، قَالَ أَبُو بَکْرٍ : یَعْنِی مَسْجِدَ الْمَدِینَۃِ ، لَمْ یَأْتِہِ إلاَّ لِخَیْرٍ یُعَلِّمُہُ ، أَوْ یَتَعَلَّمُہُ فَہُوَ بِمَنْزِلَۃِ الْمُجَاہِدِ فِی سَبِیلِ اللہِ ، وَمَنْ جَائَ لِغَیْرِ ذَلِکَ فَہُوَ بِمَنْزِلَۃِ الرَّجُلِ یَنْظُرُ إلَی مَتَاعِ غَیْرِہِ۔
(٣٣١٨٨) حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جو شخص میری اس مسجد میں آیا ۔۔۔امام ابوبکر (رض) فرماتے ہیں یعنی مدینہ منورہ کی مسجد میں ۔۔۔ اور وہ نہیں آیا مگر کوئی خیر کی بات سکھانے کے لیے یا سیکھنے کے لیے ۔ تو وہ شخص اللہ کے راستہ میں جہاد کرنے والے کے درجہ میں ہے۔ اور جو شخص اس کے علاوہ کسی اور مقصد کے لیے آیا تو وہ اس شخص کے درجہ میں ہوگا جو کسی دوسرے کا سامان دیکھتا ہے۔

33188

(۳۳۱۸۹) حَدَّثَنَا شَبَابَۃُ ، قَالَ : حدَّثَنَا لَیْثُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ بْنِ عَبْدِ اللہِ ، عن بْنِ مَعْبَدٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، عَنْ مَیْمُونَۃَ قَالَتْ : سَمِعْت رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : صَلاَۃٌ فِیہِ ، یَعْنِی مَسْجِدَ الْمَدِینَۃِ أَفْضَلُ مِنْ أَلْفِ صَلاَۃٍ فِیمَا سِوَاہُ إلاَّ مَسْجِدَ مَکَّۃَ۔ قَالَ أَبُو بَکْرٍ : وَرُوَاۃُ أَہْلِ مِصْرَ لاَ یُدْخِلُونَ فِیہِ ابْنَ عَبَّاسٍ۔
(٣٣١٨٩) حضرت میمونہ (رض) ام المؤمنین فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا : میری اس مسجد میں ۔۔۔یعنی مسجد نبوی میں ۔۔۔ایک نماز کا پڑھنا اس کے علاوہ کسی اور مسجد میں ہزار نمازوں سے افضل ہے۔ سوائے مکہ کی مسجد کے۔
امام ابوبکر (رض) فرماتے ہیں : کہ اہل مصر والوں نے بھی اس حدیث کو روایت کیا ہے مگر ان لوگوں کی سند میں ابن عباس (رض) کا ذکر نہیں کیا۔

33189

(۳۳۱۹۰) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَامِرٍ ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ أَبِی أَنَسٍ ، عَنْ سَہْلِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ أُبَیِّ بْنِ کَعْبٍ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : الْمَسْجِدُ الَّذِی أُسِّسَ عَلَی التَّقْوَی ہُوَ مَسْجِدِی۔
(٣٣١٩٠) حضرت اُبیّ بن کعب (رض) فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : وہ مسجد جس کی بنیاد تقوی پر رکھی گئی ہے وہ میری مسجد ہے۔

33190

(۳۳۱۹۱) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ عَبْدِ الْحَمِیدِ بْنِ جَعْفَرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا أَبُو الأَبْرَدِ مَوْلَی بَنِی خَطْمَۃَ أَنَّہُ سَمِعَ أُسَیْدَ بْنَ ظَہِیرٍ الأَنْصَارِیَّ وَکَانَ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُحَدِّثُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : صَلاَۃٌ فِی مَسْجِدِ قُبَائَ کَعُمْرَۃٍ۔
(٣٣١٩١) حضرت اسید بن ظہیر انصاری (رض) جو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب میں سے ہیں فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : مسجد قباء میں نماز پڑھنا عمرہ کے ثواب کے برابر ہے۔

33191

(۳۳۱۹۲) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ مُوسَی بْنِ عُبَیْدَۃَ ، قَالَ : أَخْبَرَنِی یُوسُفُ بْنُ طَہْمَانَ ، عَنْ أَبِی أُمَامَۃَ بْنِ سَہْلِ بْنِ حُنَیْفٍ ، عَنْ أَبِیہِ سَہْلِ بْنِ حُنَیْفٍ ، فَقَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَنْ تَوَضَّأَ فَأَحْسَنَ وُضُوئَہُ ، ثُمَّ جَائَ مَسْجِدَ قُبَائَ فَرَکَعَ فِیہِ أَرْبَعَ رَکَعَاتٍ کَانَ ذَلِکَ کَعَدْلِ عُمْرَۃٍ۔
(٣٣١٩٢) حضرت سھل بن حنیف (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جو شخص وضو کرے اور اچھی طرح وضو کرے ۔ پھر مسجد قباء میں آئے اور اس میں چار رکعات نماز ادا کرے تو اس کا ثواب عمرہ کے برابر ہوگا۔

33192

(۳۳۱۹۳) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، قَالَ : حدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ بْنُ عُمَرَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَأْتِی قُبَائَ رَاکِبًا وَمَاشِیًا۔
(٣٣١٩٣) حضرت ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مسجد قباء پیدل بھی آتے تھے اور سوار ہو کر بھی۔

33193

(۳۳۱۹۴) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا حُصَیْنُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ طَلْحَۃَ بْنِ رُکَانَۃَ الْمُطَّلِبِیَّ ، عَنْ جُبَیْرِ بْنِ مُطْعِمٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إنَّ صَلاَۃً فِی مَسْجِدِی ہَذَا أَفْضَلُ مِنْ أَلْفِ صَلاَۃٍ فِیمَا سِوَاہُ إلاَّ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ۔
(٣٣١٩٤) حضرت جبیر بن مطعم (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : بیشک میری اس مسجد میں ایک نماز پڑھنا اس کے علاوہ دیگر مسجد میں ہزار نمازیں پڑھنے سے افضل ہے سوائے مسجد حرام کے۔

33194

(۳۳۱۹۵) حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا مُوسَی بْنُ عُبَیْدَۃَ ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ مُدْرِکٍ ، عَنْ عُرْوَۃَ بْنِ الزُّبَیْرِ ، عَنْ عَائِشَۃَ ، قَالَتْ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : صَلاَۃٌ فِی مَسْجِدِی ہَذَا أَفْضَلُ مِنْ أَلْفِ صَلاَۃٍ فِیمَا سِوَاہُ مِنَ الْمَسَاجِدِ إلاَّ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ۔
(٣٣١٩٥) حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : میری اس مسجد میں ایک نماز کا پڑھنا اس کے علاوہ دوسری مساجد میں ہزار نمازیں پڑھنے سے افضل ہے سوائے مسجد حرام کے۔
والحمد للہ رب العالمین۔

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔