hadith book logo

HADITH.One

HADITH.One

Urdu

Support

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Ibn Abi Shaybah

13. جہاد کا بیان

ابن أبي شيبة

19648

(۱۹۶۴۹) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرِِ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنِ الْحَکَمِ ، عَنْ مِقْسَمٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنْ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَعَثَ إلَی مُؤْتَۃَ فَاسْتَعْمَلَ زَیْدًا ، فَإِنْ قُتِلَ زَیْدٌ فَجَعْفَرٌ ، فَإِنْ قُتِلَ جَعْفَرٌ فَابْنُ رَوَاحَۃَ ، قَالَ : فَتَخَلَّفَ ابْنُ رَوَاحَۃَ یُجَمِّعُ مَعَ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَرَآہُ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : مَا خَلَّفَک ، فَقَالَ : أُجَمِّعُ مَعَکَ ، فَقَالَ : لَغَدْوَۃٌ ، أَوْ رَوْحَۃٌ فِی سَبِیلِ اللہِ ، خَیْرٌ مِنَ الدُّنْیَا وَمَا فِیہَا۔ (ترمذی ۱۶۳۹۔ احمد ۱/۲۵۶)
(١٩٦٤٩) حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ نبی پاک (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مؤتہ کی طرف ایک لشکر روانہ فرمایا اور ان پر حضرت زید (رض) کو سپہ سالار مقرر کیا، آپ نے حکم دیا کہ اگر زید (رض) شہید ہوجائیں تو جعفر (رض) کو امیر بنا لیا جائے اگر جعفر بھی شہید ہوجائیں تو عبداللہ بن رواحہ کو امیر بنا لیا جائے۔ لشکر کی روانگی کے باوجود حضرت عبداللہ بن رواحہ (رض) حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ جمعہ پڑھنے کی غرض سے پیچھے رہ گئے، جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انھیں دیکھا تو پوچھا کہ آپ پیچھے کیوں رہے ؟ انھوں نے عرض کیا کہ آپ کے ساتھ جمعہ پڑھنے کی غرض سے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ کے راستے میں ایک صبح اور ایک شام لگانا دنیا اور جو کچھ دنیا میں ہے سب سے بہتر ہے۔

19649

(۱۹۶۵۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، حَدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ أَبِی حَازِمٍ ، عَنْ سَہْلِ بْنِ سَعْدٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لَغَدْوَۃٌ ، أَوْ رَوْحَۃٌ فِی سَبِیلِ اللہِ خَیْرٌ مِنَ الدُّنْیَا وَمَا فِیہَا۔ (بخاری ۲۷۹۴۔ مسلم ۱۱۴)
(١٩٦٥٠) حضرت سہل بن سعد (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ اللہ کے راستے میں ایک صبح اور ایک شام کا لگا دینا، دنیا اور جو کچھ دنیا میں ہے سب سے بہتر ہے۔

19650

(۱۹۶۵۱) حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمُقْرِیء ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ أَبِی أَیُّوبَ ، قَالَ : حدَّثَنَا شُرَحْبِیلَ بن شَرِیکُ الْمَعَافِرِیُّ ، عَنْ أَبِی عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحُبُلِیِّ ، قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا أَیُّوبَ یَقُولُ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: لَغَدْوَۃٌ فِی سَبِیلِ اللہِ ، أَوْ رَوْحَۃٌ خَیْرٌ مِمَّا طَلَعَتْ عَلَیْہِ الشَّمْسُ وَغَرَبَتْ۔(مسلم ۱۱۱۵۔ احمد ۵/۴۲۲)
(١٩٦٥١) حضرت ابو ایوب انصاری (رض) سے رویت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ اللہ کے راستے میں ایک صبح اور ایک شام کا لگا دینا ہر اس چیز سے بہتر ہے جس پر سورج طلوع اور غروب ہو۔

19651

(۱۹۶۵۲) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَجْلاَنَ ، عَنْ أَبِی حَازِمٍ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : غَدْوَۃٌ ، أَوْ رَوْحَۃٌ فِی سَبِیلِ اللہِ خَیْرٌ مِنَ الدُّنْیَا۔ (بخاری ۲۷۹۳۔ ۱۵۰۰)
(١٩٦٥٢) حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ کے راستے میں ایک صبح یا ایک شام ساری دنیا سے بہتر ہے۔

19652

(۱۹۶۵۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا ہِشَامُ بْنُ عُرْوَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ أَبِی مُرَاوِحٍ ، عَنْ أَبِی ذَرٍّ ، قَالَ : قُلْتُ : یَا رَسُولَ اللہِ أَیُّ الْعَمَلِ أَفْضَلُ ؟ قَالَ : إیمَانٌ بِاللَّہِ وَجِہَادٌ فِی سَبِیلِہِ۔ (بخاری ۲۵۱۸۔ مسلم ۱۳۶)
(١٩٦٥٣) حضرت ابو ذر (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول 5! کون سا عمل افضل ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ اللہ پر ایمان لانا اور اللہ کے راستے میں جہاد کرنا۔

19653

(۱۹۶۵۴) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَنِ الشَّیْبَانِیِّ ، عَنِ الْوَلِیدِ بْنِ الْعَیْزَارِ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إیَاسٍ أَبِی عَمْرِو الشَّیْبَانِیِّ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : سَأَلْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : أَیُّ الْعَمَلِ أَفْضَلُ ؟ قَالَ : الصَّلاَۃُ لِوَقْتِہَا ، قَالَ : قُلْتُ : ثُمَّ أَیُّ ؟ قَالَ : بِرُّ الْوَالِدَیْنِ قَالَ : قُلْتُ : ثُمَّ أَیُّ ؟ قَالَ : الْجِہَادُ فِی سَبِیلِ اللہِ۔
(١٩٦٥٤) حضرت عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول 5! کون سا عمل افضل ہے ؟ آپ نے فرمایا : نماز کو اس کے وقت پر ادا کرنا۔ میں نے پوچھا : پھر کون سا عمل افضل ہے ؟ آپ نے فرمایا : والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرنا۔ میں نے کہا پھر کون سا عمل افضل ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ اللہ کے راستے میں جہاد کرنا۔

19654

(۱۹۶۵۵) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَص ، عَنْ سِمَاکٍ ، عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِیرٍ ، قَالَ : مَثَلُ الْغَازِی فِی سَبِیلِ اللہِ مَثَلُ الَّذِی یَصُومُ النَّہَارَ وَیَقُومُ اللَّیْلَ حَتَّی یَرْجِعَ الْغَازِی متَی مَا رَجَعَ۔ (احمد ۴/۲۷۲۔ بزار ۳۲۲۲)
(١٩٦٥٥) حضرت نعمان بن بشیر (رض) فرماتے ہیں کہ اللہ کے راستہ میں جہاد کرنے والا واپس آنے تک اس شخص کی طرح ہے جو دن کو روزہ رکھے اور رات کو قیام کرے۔

19655

(۱۹۶۵۶) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَنْ ثَابِتٍ ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : غَدْوَۃٌ ، أَوْ رَوْحَۃٌ فِی سَبِیلِ اللہِ خَیْرٌ مِنَ الدُّنْیَا وَمَا فِیہَا۔ (بخاری ۲۷۹۲۔ مسلم ۱۴۹۹)
(١٩٦٥٦) حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ اللہ کے راستہ میں ایک صبح ایک شام کا لگا دینا دنیا اور جو کچھ دنیا میں ہے سب سے بہتر ہے۔

19656

(۱۹۶۵۷) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ أَبِی وَائِلٍ ، عَنْ سَلَمَۃَ بْنِ سَبْرَۃَ ، عَنْ سَلْمَانَ ، قَالَ : إذَا کَانَ الرَّجُلُ فِی سَبِیلِ اللہِ ، فَأُرْعِدْ قَلْبُہُ مِنَ الْخَوْفِ ، تَحَاتَّتْ خَطَایَاہُ کَمَا یَتَحَاتُّ عِذْقُ النَّخْلَۃِ۔ (طبرانی ۶۰۸۶۔ ابن المبارک ۳۵)
(١٩٦٥٧) حضرت سلمان (رض) فرماتے ہیں کہ جب کوئی شخص اللہ کے راستے میں ہو اور خوف کی وجہ سے اس کا دل کانپے تو اس کے گناہ ایسے گرتے ہیں جیسے کھجور کے خوشے سے کھجوریں گرتی ہیں۔

19657

(۱۹۶۵۸) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنِ الْحَکَمِ ، قَالَ : سَمِعْتُ عُرْوَۃَ بْنَ النَّزَّالِ یُحَدِّثُ عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ ، قَالَ: أَقْبَلْنَا مَعَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ غَزْوَۃِ تَبُوکَ فَقُلْت : یَا رَسُولَ اللہِ ، أَخْبِرْنِی عَنْ ذُرْوَتِہِ ، فَقَالَ : أَمَّا ذُرْوَتُہُ فَالْجِہَادُ فِی سَبِیلِ اللہِ یَعْنِی ذُرْوَۃَ الإِسْلاَمِ۔ (احمد ۵/۲۳۷۔ طبرانی ۳۰۵)
(١٩٦٥٨) حضرت معاذ بن جبل (رض) فرماتے ہیں کہ جب ہم غزوہ تبوک سے واپس آئے تو میں نے کہا اے اللہ کے رسول 5! مجھے اسلام کے کوہان کی چوٹی کے بارے میں بتا دیجئے۔ آپ نے فرمایا کہ اسلام کے کوہان کی چوٹی اللہ کے راستے میں جہاد کرنا ہے۔

19658

(۱۹۶۵۹) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ سُہَیْلِ بْنِ أَبِی صَالِحٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : تَضَمَّنَ اللَّہُ لِمَنْ خَرَجَ فِی سَبِیلِہِ إیمَانًا بہ وَتَصْدِیقًا لِرُسُلِہِ أَنْ یُدْخِلَہُ الْجَنَّۃَ ، أَوْ یُرْجِعَہُ إلَی مَنْزِلِہِ ، نَائِلاً مَا نَالَ مِنْ أَجْرٍ ، أَوْ غَنِیمَۃٍ۔ (بخاری ۳۶۔ مسلم ۱۰۷)
(١٩٦٥٩) حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اس بات کی ضمانت دی ہے کہ جو شخص اللہ کے راستے میں اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہوئے اور اللہ کے رسول کی تصدیق کرتے ہوئے نکلا وہ یا تو اسے جنت میں داخل کرے گا یا اجر و غنیمت لے کر واپس لائے گا۔

19659

(۱۹۶۶۰) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ سُہَیْلِ بْنِ أَبِی صَالِحٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : قالُوا : یَا رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَخْبِرْنَا بِعَمَلٍ یَعْدِلُ الْجِہَادَ فِی سَبِیلِ اللہِ ، قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لاَ تُطِیقُونَہُ ، قَالُوا: یَا رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَخْبِرْنَا فَلَعَلَّنَا أَنْ نُطِیقَہُ ، قَالَ : مَثَلُ الْمُجَاہِدِ فِی سَبِیلِ اللہِ کَمَثَلِ الصَّائِمِ الْقَائِمِ الْقَانِتِ بِآیَاتِ اللہِ، لاَ یَفْتُرُ مِنْ صِیَام، وَلاَ صَدَقَۃٍ، حَتَّی یَرْجِعَ الْمُجَاہِدُ إلَی أَہْلِہِ۔ (بخاری ۲۷۸۷۔ مسلم ۱۱۰)
(١٩٦٦٠) حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ لوگوں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول 5! ہمیں ایسا عمل بتا دیجئے جو اللہ کے راستے میں جہاد کے برابر ہو ؟ آپ نے فرمایا کہ تم اس کی طاقت نہیں رکھتے۔ لوگوں نے کہا اے اللہ کے رسول 5! آپ بتا دیجئے، شاید ہم اس کی طاقت رکھتے ہوں ! حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والے کی مثال اس شخص کی سی ہے جو مجاہد کے واپس آنے تک روزہ رکھے اور اللہ کی آیات کی تلاوت کرتے ہوئے راتوں کو قیام کرے وہ اس قیام و صیام میں کسی قسم کی کوتاہی نہ کرے۔

19660

(۱۹۶۶۱) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ، عَنْ أَبِی صَالِحٍ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لَقَدْ ہَمَمْت أَنْ لاَ أَتَخَلَّفَ عَنْ سَرِیَّۃٍ تَخْرُجُ فِی سَبِیلِ اللہِ ، وَلَکِنْ لَیْسَ عِنْدِی مَا أَحْمِلُہُمْ ، وَلَوَدِدْت أن أُقْتَلُ فِی سَبِیلِ اللہِ ، ثُمَّ أُحْیَا ، ثُمَّ أُقْتَلُ ، ثُمَّ أُحْیَا ، ثُمَّ أُقْتَلُ۔ (بخاری ۲۹۷۲۔ مسلم ۱۴۹۷)
(١٩٦٦١) حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میں چاہتا ہوں کہ میں اللہ کے راستے میں نکلنے والے کسی لشکر سے پیچھے نہ رہوں، لیکن لوگوں کو بھیجنے کے سوا میرے پاس کوئی چارہ کار نہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ مجھے اللہ کے راستے میں شہید کیا جائے، پھر زندہ کیا جائے، پھر شہید کیا جائے، پھر زندہ کیا جائے، پھر شہید کیا جائے۔

19661

(۱۹۶۶۲) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ عُمَارَۃَ ، عَنْ أَبِی زُرْعَۃَ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : أَعَدَّ اللَّہُ لِمَنْ خَرَجَ فِی سَبِیلِہِ لاَ یَخْرُجُ إِلاَّ لِجِہَادٍ فِی سَبِیلِی ، وَإِیمَانٍ بِی وَتَصْدِیقٍ بِرُسُلِی ، فَہُوَ عَلَیَّ ضَامِنٌ أَنْ أُدْخِلَہُ الْجَنَّۃَ ، وَأَنْ أُرْجِعَہُ إلَی مَسْکَنِہِ الَّذِی خَرَجَ مِنْہُ نَائِلاً مَا نَالَ مِنْ أَجْرٍ ، أَوْ غَنِیمَۃٍ ، قَالَ : وَالَّذِی نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہِ ، لَوْلاَ أَنْ أَشُقَّ عَلَی الْمُسْلِمِینَ مَا قَعَدْتُ خِلاَفَ سَرِیَّۃٍ تَغْزُو فِی سَبِیلِ اللہِ أَبَدًا ، وَلَکِنْ لاَ أَجِدُ سَعَۃً فَأَحْمِلَہُمْ ، وَلاَ یَجِدُونَ سَعَۃً فَیَتْبَعُونِی ، وَلاَ تَطِیبُ أَنْفُسُہُمْ فَیَتَخَلَّفُوا بَعْدِی ، وَالَّذِی نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہِ لَوَدِدْت أَنْ أَغْزُوَ فِی سَبِیلِ اللہِ فَأُقْتَلَ ، ثُمَّ أَغْزُوَ فَأُقْتَلَ ، ثُمَّ أَغْزُوَ فَأُقْتَلَ۔ (مسلم ۱۴۹۶۔ احمد ۲/۲۳۱)
(١٩٦٦٢) حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ اللہ نے اس شخص سے وعدہ کیا ہے جو میرے راستہ میں مجھ پر ایمان رکھتے ہوئے اور میرے رسول کی تصدیق کرتے ہوئے جہاد کے لیے نکلے کہ میں اسے اپنی ذمہ داری پر جنت میں داخل کروں گا یا اسے اس کے گھر اجر و غنیمت کے ساتھ واپس لوٹاؤں گا۔ یہ فرما کر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں محمد کی جان ہے ! کہ اگر مجھے مسلمانوں پر مشقت کا خوف نہ ہوتا تو میں اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والے کسی لشکر سے پیچھے نہ رہتا۔ لیکن چونکہ میرا یہاں رہنا ضروری ہوتا ہے اس لیے میں لوگوں کو روانہ کردیتا ہوں اور چونکہ ان کا جانا ضروری ہوتا ہے اس لیے وہ میری بات مان لیتے ہیں۔ ان کے دل اس بات پر خوش نہیں ہوتے کہ وہ مجھے پیچھے چھوڑ دیں۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں محمد کی جان ہے ! میری خواہش یہ ہے کہ میں اللہ کے راستے میں جہاد کروں پھر مجھے شہید کیا جائے، پھر جہاد کروں پھر مجھے شہید کیا جائے، پھر جہاد کروں اور پھر مجھے شہید کردیا جائے۔

19662

(۱۹۶۶۳) حَدَّثَنَا ہُشَیْمُ بْنُ بَشِیرٍ ، أَخْبَرَنَا مُجَالِدُ بْنُ سَعِیدٍ ، عَنْ أَبِی الْوَدَّاکِ ، عَنْ أَبِی سَعِیدٍ یَرْفَعُ الْحَدِیثَ ، قَالَ : ثَلاَثَۃٌ یَضْحَکُ اللَّہُ إلَیْہِمْ : الرَّجُلُ إذَا قَامَ مِنَ اللَّیْلِ یُصَلِّی ، وَالْقَوْمُ إذَا صَفُّوا فِی الصَّلاَۃِ ، وَالْقَوْمُ إذَا صَفُّوا فِی قِتَالِ الْعَدُوِّ۔ (احمد ۳/۸۵۔ عبد بن حمید ۹۱۱)
(١٩٦٦٣) حضرت ابو سعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : کہ تین آدمی ایسے ہیں جنہیں دیکھ کر اللہ تعالیٰ مسکراتا ہے ایک وہ آدمی جو رات کو اٹھ کر نماز پڑھے۔ دوسرے وہ لوگ جو نماز کے لیے صف بنائیں اور تیسرے وہ لوگ جو دشمن سے مقابلے کے لیے صف بنائیں۔

19663

(۱۹۶۶۴) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، قَالَ : سَمِعَتْ رِبْعِیًّا یُحَدِّثُ عَنْ زَیْدِ بْنِ ظَبْیَانَ یَرْفَعُہُ إلَی أَبِی ذَرٍّ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : ثَلاَثَۃٌ یُحِبُّہُمُ اللَّہُ فَذَکَرَ : أَحَدُہُمَ رَجُلٌ کَانَ فِی سَرِیَّۃٍ فَلَقُوا الْعَدُوَّ فَہُزِمُوا فَأَقْبَلَ بِصَدْرِہِ حَتَّی یُقْتَلَ ، أَوْ یُفْتَحَ لہم بِصَدْرِہِ۔ (احمد ۵/۱۵۳۔ ابن حبان ۳۳۵۰)
(١٩٦٦٤) حضرت ابو ذر (رض) سے روایت ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ تین آدمی ایسے ہیں جنہیں دیکھ کر اللہ تعالیٰ مسکراتا ہے۔ ان میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک ایسے آدمی کا ذکر کیا جو کسی لشکر میں ہو، وہ دشمن سے برسر پیکار ہوں اور انھیں شکست ہوجائے لیکن یہ آدمی سینہ تان کر کھڑا ہوجائے اور شہید ہوجائے یا اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ فتح عطا فرما دیں۔

19664

(۱۹۶۶۵) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأُحْمَرِِ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ قَتَادَۃَ وَحُمَیْدٍ ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَا مِنْ نَفْسٍ تَمُوتُ لَہَا عِنْدَ اللہِ خَیْرٌ یَسُرُّہَا أَنْ تَرْجِعَ إلَی الدُّنْیَا ، وَلاَ أَنَّ لَہَا الدُّنْیَا وَمَا فِیہَا ، إِلاَّ الشَّہِیدَ فَیَتَمَنَّی أَنْ یَرْجِعَ فَیُقْتَلَ فِی سَبِیلِ اللہِ ، لِمَا یَرَی مِنْ فَضْلِ الشَّہَادَۃِ۔ (بخاری ۲۸۱۷۔ مسلم ۱۰۸)
(١٩٦٦٥) حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ جب بھی کوئی انسان مرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے اتنا کچھ ضرور عطا فرما دیتے ہیں کہ دنیا میں واپس جانا یا دنیا اور جو کچھ دنیا میں ہے سب کا حصول اس کے نزدیک کوئی خوشگوار چیز نہیں ہوتی۔ سوائے شہید کے، کیونکہ وہ جب شہادت کا اجر دیکھے گا تو خواہش کرے گا کہ دنیا میں واپس چلا جائے اور اللہ کے راستہ میں شہید کردیا جائے۔

19665

(۱۹۶۶۶) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ ، عَنْ حُمَیْدٍ ، عَنْ أَنَسٍ یَرْفَعُہُ ، قَالَ : أَتَتْہُ امْرَأَۃٌ قُتِلَ ابْنُہَا ، وَلَمْ یَکُنْ لَہَا غَیْرُہُ وَکَانَ اسْمُہُ حَارِثَۃَ ، فَقَالَتْ : یَا رَسُولَ اللہِ إِنْ یَکُنْ فِی الْجَنَّۃِ أَصْبِرُ ، وَإِنْ یَکُنْ فِی غَیْرِ ذَلِکَ فَسَتَعْلَمُ مَا أَصْنَعُ ؟ فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إِنَّہَا جِنَانٌ کَثِیرَۃٌ وَإِنَّہُ فِی الْفِرْدَوْسِ الأَعْلَی۔ (بخاری ۳۹۸۲)
(١٩٦٦٦) حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ ایک جنگ میں ایک عورت کا بیٹا شہید ہوگیا جس کا نام حارثہ (رض) تھا۔ اس عورت کا اپنے بیٹے کے علاوہ کوئی نہ تھا۔ وہ عورت حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئی اور اس نے عرض کیا یا رسول اللہ ! اگر میرا بیٹا جنت میں ہے تو میں صبر کروں گی۔ اگر وہ جنت کے علاوہ کہیں اور ہے تو میں ایسا ماتم کروں گی کہ سب کو پتہ چل جائے گا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جنتیں تو بہت سی ہیں اور وہ تو جنت الفردوس میں ہے۔

19666

(۱۹۶۶۷) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ قَالَ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ ، عَنِ الْحَارِثِ بْنِ فُضَیْلٍ ، عَنْ مَحْمُودِ بْنِ لَبِیْدً ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : الشُّہَدَائُ عَلَی بَارِقٍ: نَہْرٍ بِبَابِ الْجَنَّۃِ فِی قُبَّۃٍ خَضْرَائَ یَخْرُجُ عَلَیْہِمْ رِزْقُہُمْ مِنَ الْجَنَّۃِ غُدْوَۃً وَعَشِیَّۃً۔ (احمد ۱/۲۶۶۔ ابن حبان ۴۶۵۸)
(١٩٦٦٧) حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ شہداء بارق میں ہیں، بارق جنت کے دروازے پر ایک نہر ہے جو کہ ایک سبز گنبد میں ہے۔ شہداء کو صبح و شام ان کا رزق دیا جاتا ہے۔

19667

(۱۹۶۶۸) حَدَّثَنَا ابْنُ عَدِیٍّ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، عَنْ ہِلاَلِ بْنِ أَبِی زَیْنَبَ ، عَنْ شَہْرِ بْنِ حَوْشَبٍ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : ذُکِرَ الشُّہَدَائُ عِنْدَ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : لاَ تَجِفُّ الأَرْضُ مِنْ دَمِ الشَّہِیدِ حَتَّی تَبْتَدِرَہُ زَوْجَتَاہُ کَأَنَّہُمَا ظِئْرَانِ أَضَلَّتَا فَصِیلَیْہِمَا فِی بَرَاحٍ مِنَ الأَرْضِ وَفِی یَدِ کُلِّ وَاحِدَۃٍ مِنْہُمَا حُلَّۃٌ خَیْرٌ مِنَ الدُّنْیَا وَمَا فِیہَا۔ (احمد ۲/۴۲۷)
(١٩٦٦٨) حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے کچھ شہداء کا ذکر کیا گیا تو آپ نے فرمایا ابھی شہید کا لہو زمین پر خشک نہیں ہوتا کہ جنت میں اس کی دو بیویاں اس طرح سے بےتاب ہو کر اس کا انتظا کرتی ہیں جیسے کسی دودھ پلانے والی ماں کا دوھ پیتا بچہ زمین پر گم ہوجائے اور وہ اس کو تلاش کرے۔ ان دونوں کے ہاتھوں میں (شہید کے استعمال کے لیے) ایسا قیمتی جوڑا ہوتا ہے جو ساری دنیا اور جو کچھ دنیا میں ہے اس سے زیادہ قیمتی ہے۔

19668

(۱۹۶۶۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِی سُفْیَانَ ، عَنْ جَابِرٍ ، قَالُوا : یَا رَسُولَ اللہِ ، أَیُّ الْجِہَادِ أَفْضَلُ ؟ قَالَ : مَنْ عُقِرَ جَوَادُہُ وَأُہْرِیقَ دَمُہُ۔ (دارمی ۲۳۹۲۔ ابن حبان ۴۶۳۹)
(١٩٦٦٩) حضرت جابر (رض) کہتے ہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا گیا کہ افضل جہاد کس شخص کا ہے ؟ آپ نے فرمایا : کہ جس کا گھوڑا ہلاک ہوجائے اور اس کا اپنا خون بہہ چکا ہو۔

19669

(۱۹۶۷۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، حدَّثَنَا الْمَسْعُودِیُّ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ الْحَارِثِ ، عَن أَبِی کَثِیرٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ : قَالَ رَجُلٌ : یَا رَسُولَ اللہِ ، أَیُّ الْجِہَادِ أَفْضَلُ ؟ قَالَ : مَنْ عُقِرَ جَوَادُہُ وَأُہْرِیقَ دَمُہُ۔ (طیالسی ۲۲۷۲)
(١٩٦٧٠) حضرت عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا گیا کہ افضل جہاد کس شخص کا ہے ؟ آپ نے فرمایا : کہ جس کا گھوڑا ہلاک ہوجائے اور اس کا اپنا خون بہہ چکا ہو۔

19670

(۱۹۶۷۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، حَدَّثَنَا أُسَامَۃُ بْنُ زَیْدٍ ، عَنْ بَعْجَۃَ بْنِ عَبْدِ اللہِ الْجُہَنِیِّ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : یَأْتِی عَلَی النَّاسِ زَمَانٌ یَکُونُ خَیْرُ النَّاسِ فِیہِ مَنْزِلَۃً مَنْ أَخَذَ بِعَنَانِ فَرَسِہِ فِی سَبِیلِ اللہِ کُلَّمَا سَمِعَ بِہَیْعَۃٍ اسْتَوَی عَلَی مَتْنِہِ ، ثُمَّ یَطْلُبُ الْمَوْتَ فِی مَظَانِّہِ ، وَرَجُلٌ فِی شِعْبٍ مِنْ ہَذِہِ الشِّعَابِ ، یُقِیمُ الصَّلاَۃَ وَیُؤْتِی الزَّکَاۃَ ، وَیَدَعُ النَّاسَ إِلاَّ مِنْ خَیْرٍ۔ (مسلم ۱۲۷۔ ابن حبان ۴۶۰۰)
(١٩٦٧١) حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ اللہ کے نزدیک درجے کے اعتبار سے سب سے بہترین شخص وہ ہوگا جو اللہ کے راستے میں اپنے گھوڑے کی لگام پکڑ کر چل کھڑا ہو، جب بھی وہ کوئی خطرہ محسوس کرے تو لپک کر گھوڑے پر سوار ہوجائے۔ پھر موت کو موت کی جگہوں پر تلاش کرے۔ دوسرا وہ آدمی جو کسی گھاٹی میں چلا جائے وہاں نماز قائم کرے، زکوۃ ادا کرے اور لوگوں کو خیر کی خاطر چھوڑ دے۔

19671

(۱۹۶۷۲) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ زَکَرِیَّا بْنِ أَبِی زَائِدَۃَ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنِ الْبَرَائِ ، قَالَ : جَائَ رَجُلٌ مِنْ بَنِی النَّبِیتِ إلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : أَشْہَدُ أَنْ لاَ إلَہَ إِلاَّ اللَّہُ ، وَأَشْہَدُ أَنَّک عَبْدُہُ وَرَسُولُہُ ، ثُمَّ تَقَدَّمَ فَقَاتَلَ حَتَّی قُتِلَ ، فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : عَمِلَ ہَذَا یَسِیرًا وَأُجِرَ کَثِیرًا۔ (بخاری ۲۸۰۸۔ مسلم ۱۴۴)
(١٩٦٧٢) حضرت برائ (رض) فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ ایک آدمی نبی پاک (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے عرض کیا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور آپ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ اس کے بعد وہ آگے بڑھا، اس نے قتال کیا اور شہید ہوگیا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اس نے عمل تو تھوڑا کیا لیکن اجر بہت سا کما لیا۔

19672

(۱۹۶۷۳) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ حُبَابٍ ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ سُلَیْمَانَ الضُّبَعِیِّ ، حَدَّثَنَا أَبُو عِمْرَانَ الْجَوْنِیُّ ، عَنْ أَبِی بَکْرٍ بْنِ أَبِی مُوسَی الأَشْعَرِیِّ ، قَالَ : سَمِعْتُ أَبِی تُجَاہَ الْعَدُوِّ یَقُولُ سَمِعْت رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : إِنَّ السُّیُوفَ مَفَاتِیحُ الْجَنَّۃِ ، فَقَالَ لَہُ رَجُلٌ رَثُّ الْہَیْئَۃِ : یا أبا موسی آنْتَ سَمِعْت ہَذَا مِنْ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ؟ قَالَ : نَعَمْ ، فَسَلَّ سَیْفَہُ وَکَسَرَ غِمْدَہُ وَالْتَفَتَ إلَی أَصْحَابِہِ ، وَقَالَ : أَقْرَأُ عَلَیْکُمَ السَّلاَمَ ، ثُمَّ تَقَدَّمَ إلَی الْعَدُوِّ فَقَاتَلَ حَتَّی قُتِلَ۔ (مسلم ۱۴۶۔ ترمذی ۱۶۵۹)
(١٩٦٧٣) حضرت ابوبکر بن ا بی موسیٰ اشعری (رض) فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میرے والد نے دشمن کا آمنا سامنا ہونے پر فرمایا کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے ہوئے سنا تھا کہ تلواریں جنت کی چابیاں ہیں۔ یہ حدیث سن کر ایک پراگندہ حالت کے حامل شخص نے کہا کہ اے ابو موسیٰ (رض) ! کیا یہ بات آپ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنی ہے ؟ حضرت ابو موسیٰ (رض) نے فرمایا : ہاں، میں نے سنی ہے۔ اس پر اس آدمی نے اپنی تلوار نکالی اور نیام کو توڑ کر اپنے ساتھیوں کو سلام کیا پھر دشمن کی طرف بڑھا اور ان سے لڑتا رہا ، یہاں تک کہ شہید ہوگیا۔

19673

(۱۹۶۷۴) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ یَزِیدَ بْنِ أَبِی زِیَادٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، قَالَ : قامَ یَزِیدُ بْنُ شَجَرَۃَ فِی أَصْحَابِہِ ، فَقَالَ : إِنَّہَا قَدْ أَصْبَحَتْ عَلَیْکُمْ مِنْ بَیْنِ أَخْضَرَ وَأَحْمَرَ وَأَصْفَرَ ، وَفِی الْبُیُوتِ مَا فِیہَا ، فَإِذَا لَقِیتُمُ الْعَدُوَّ غَدًا فَقُدُمًا قُدُمًا فَإِنِّی سَمِعْت رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : مَا تَقَدَّمَ رَجُلٌ مِنْ خُطْوَۃٍ ، إِلاَّ تَقَدَّمَ إلَیْہِ الْحُورُ الْعِینِ ، فَإِنْ تَأَخَّرَ اسْتَتَرْنَ مِنْہُ ، وَإِنِ اسْتُشْہِدَ کَانَتْ أَوَّلُ نَضْحَۃٍ کَفَّارَۃَ خَطَایَاہُ ، وَتَنْزِلُ إلَیْہِ ثِنْتَانِ مِنَ الْحُورِ الْعِینِ، تَنْفُضَانِ عَنْہُ التُّرَابَ، وَتَقُولاَنِ لَہُ: مَرْحَبًا، قَدْ آنَ لَکَ ، وَیَقُولُ: مَرْحَبًا قَدْ آنَ لَکُمَا۔ (طبرانی ۶۴۲۔ مسندہ ۵۲۷)
(١٩٦٧٤) حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ حضرت یزید بن شجرہ (رض) ایک مرتبہ اپنے ساتھیوں میں کھڑے ہوئے تھے اور ان سے فرمایا کہ تم پر تمہارے گھروں میں سبز، سرخ، اور زرد نعمتیں برس رہی ہیں، کل جب تم دشمن کی طرف بڑھو تو ایک ایک قدم رکھ کر آگے بڑھنا، کیونکہ میں نے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جب آدمی دشمن کے مقابلہ میں ایک قدم آگے بڑھتا ہے تو موٹی آنکھوں والی حوریں اس کی طرف بڑھتی ہیں اور جب وہ پیچھے ہٹتا ہے تو حوریں بھی اس سے پردہ کرلیتی ہیں۔ جب وہ شہید ہوجاتا ہے تو اس کے خون کا پہلا قطرہ اس کے گناہوں کا کفارہ بن جاتا ہے۔ اس کے شہید ہونے کے بعد دو حوریں اس کے پاس آتی ہیں اور اس سے مٹی صاف کرتی ہیں اور اسے کہتی ہیں کہ تجھے خوش آمدید ! ہم تیرے لیے ہیں، وہ کہتا ہے تمہیں مبارک ہو میں تمہارے لیے ہوں۔

19674

(۱۹۶۷۵) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ مُوسَی أَبِی جَعْفَرٍ الثَّقَفِیِّ ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِی الْجَعْدِ ، عَنْ سَبْرَۃَ بْنِ أَبِی فَاکِہٍ وَکَانَ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : إنَّ الشَّیْطَانَ قَعَدَ لابْنِ آدَمَ بِأَطْرُقِہِ فَقَعَدَ لَہُ بِطَرِیقِ الإِسْلاَمِ ، فَقَالَ : تُسْلِمُ وَتَدَعُ دِینَک وَدِینَ آبَائِکَ؟ ثُمَّ قَعَدَ لَہُ بِطَرِیقِ الْہِجْرَۃِ ، فَقَالَ : تُہَاجِرُ ، وَتَدَعُ مَوْلِدَک فَتَکُونُ کَالْفَرَسِ فِی طِوَلِہِ ، ثُمَّ قَعَدَ لَہُ بِطَرِیقِ الْجِہَادِ ، فَقَالَ : تُجَاہِدُ ، فَتُقْتَلُ ، فَتَتَزَوَّجُ امْرَأَتُکَ ، وَیُقْسَمُ میراثک ؟ قَالَ : فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : فَمَنْ فَعَلَ ذَلِکَ ضَمِنَ اللَّہُ لَہُ الْجَنَّۃَ إِنْ قُتِلَ ، أَوْ مَاتَ غَرَقًا ، أَوْ حَرْقًا ، أَوْ أَکَلَہُ السَّبُعُ۔ (بخاری ۲۴۳۱۔ طبرانی ۶۵۵۸)
(١٩٦٧٥) حضرت سبرہ بن ابی فاکہہ (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے نبی پاک (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے ہوئے سنا کہ شیطان ابن آدم کے راستوں میں بیٹھ جاتا ہے۔ کبھی وہ اسلام کے راستے میں بیٹھتا ہے اور کہتا ہے کہ اگر تو اسلام قبول کرلے گا اور اپنے اور ا پنے آباء و اجداد کے دین کو چھوڑ دے گا تو یہ بڑے گھاٹے کا سودا ہوگا۔ پھر ہجرت کے راستے میں بیٹھتا ہے اور کہتا ہے کہ اگر تو ہجرت کرے گا تو اپنے جائے پیدائش کو چھوڑ دے گا اور اس گھوڑے کی طرح ہوجائے گا جو بیڑیوں میں بندھا ہو۔ پھر جہاد کے راستے میں بیٹھ جاتا ہے اور کہتا ہے کہ اگر تو جہاد کرے گا تو مرجائے گا۔ پھر تیری بیوی کی کہیں شادی ہوجائے گی اور تیری میراث تقسیم ہوجائے گی۔ اس کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ان شیطانی وساوس کے باوجود جس شخص نے یہ اعمال جاری رکھے اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت کی ضمانت دیتا ہے خواہ وہ شہید ہوجائے یا ڈوب کر مرجائے یا جل کر مرجائے یا اسے درندے کھا لیں۔

19675

(۱۹۶۷۶) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاہِیمَ ، عَن مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَتِیکٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : مَنْ خَرَجَ مُجَاہِدًا فِی سَبِیلِ اللہِ ، ثُمَّ جَمَعَ أَصَابِعَہُ الثَّلاَثَۃَ ، ثُمَّ قَالَ : وَأَیْنَ الْمُجَاہِدُونَ ، فَخَرَّ عَنْ دَابَّتِہِ وَمَاتَ ، فَقَدْ وَقَعَ أَجْرُہُ عَلَی اللہِ ، أَوْ لَسَعَتْہُ دَابَّۃٌ فَقَدْ وَقَعَ أَجْرُہُ عَلَی اللہِ ، وَمَنْ مَاتَ حَتْفَ أَنْفِہِ ، فَقَدْ وَقَعَ أَجْرُہُ عَلَی اللہِ ، وَمَنْ قُتِلَ قَعْصًا فَقَدَ اسْتَوْجَبَ الْمَآبَ۔ (احمد ۴/۳۶۔ حاکم ۸۸)
(١٩٦٧٦) حضرت عبداللہ بن عتیک (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے ہوئے سنا کہ جو شخص اللہ کے راستے میں جہاد کے لیے نکلا۔ یہ فرما کر آپ نے اپنی تین انگلیوں کو جمع فرمایا اور پھر ارشاد فرمایا کہ جہاد کرنے والے کہاں ہیں ؟ اور وہ اپنی سواری سے گر کر مرگیا تو اللہ تعالیٰ کے ذمہ اس کا اجر ثابت ہوگیا، یا اسے کسی چیز نے ڈس لیا تو اس کا اجر اللہ تعالیٰ پر ثابت ہوگیا، یا وہ طبعی موت مرگیا تو اس کا اجر بھی ثابت ہوگیا اور اگر کوئی دشمن کا وار سہہ کر مرا تو اس نے اچھے ٹھکانے کو پالیا۔

19676

(۱۹۶۷۷) حَدَّثَنَا شَبَابَۃُ ، عَنِ ابْنِ أَبِی ذِئْبٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ خَالِدٍ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِی ذُؤَیْبٍ ، عَنْ عَطَائِ بْنِ یَسَارٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خَرَجَ عَلَیْہِمْ وَہُمْ جُلُوسٌ ، فَقَالَ : أَلاَ أُخْبِرُکُمْ بِخَیْرِ النَّاسِ مَنْزِلاً ؟ قُلْنَا : بَلَی ، یَا رَسُولَ اللہِ ، قَالَ : رَجُلٌ مُمْسِکٌ بِرَأْسِ فَرَسِہِ فِی سَبِیلِ اللہِ حَتَّی یُقْتَلَ ، أَوْ یَمُوتَ ، أَلاَ أُخْبِرُکُمْ بِالَّذِی یَلِیہ ؟ قَالُوا : بَلَی یَا رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : رَجُلٌ مُعْتَزِلٌ فِی شِعْبٍ یُقِیمُ الصَّلاَۃَ وَیُؤْتِی الزَّکَاۃَ یَعْتَزِلُ شَرَّ النَّاسِ۔ (نسائی ۲۳۵۰۔ دارمی ۲۳۹۵)
(١٩٦٧٧) حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک مرتبہ لوگوں کے پاس تشریف لائے، سب لوگ بیٹھے تھے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میں تمہیں بتاؤں کہ اللہ کے نزدیک سب سے بہترین مرتبہ کس شخص کا ہے ؟ ہم نے کہا کیوں نہیں، یا رسول اللہ 5! ضرور ارشاد فرمائیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ کے نزدیک سب سے بہترین درجہ اس شخص کا ہے جو اللہ کے راستے میں اپنے گھوڑے کو پکڑے جا رہا ہو اور وہ شہید کردیا جائے یا مرجائے۔ میں تمہیں بتاؤں اس کے بعد کس شخص کا مرتبہ ہے ؟ لوگوں نے عرض کیا ضرور بتائیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جو شخص لوگوں سے کنارہ کش ہو کر کسی گھاٹی میں رہتا ہو، نماز قائم کرتا ہو او زکوۃ ادا کرتا ہو اور لوگوں کے شر سے محفوظ رہتا ہو۔

19677

(۱۹۶۷۸) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ بْنِ أُمَیَّۃَ ، عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ زَادَ فِیہِ ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لَمَّا أُصِیبَ إخْوَانُکُمْ ، جَعَلَ اللَّہُ أَرْوَاحَہُمْ فِی أَجْوَافِ طَیْرٍ خُضْرٍ ، تَرِدُ أَنْہَارَ الجنۃ ، وَتَأْکُلُ ثِمَارِہَا ، وَتَسْرَحُ فِی الْجَنَّۃِ حَیْثُ شَائَتْ ، فَلَمَّا رَأَوْا حُسْنَ مَقِیلِہِمْ ، وَمَطْعَمِہِمْ وَمَشْرَبِہِمْ ، قَالُوا : یَا لَیْتَ قَوْمَنَا یَعْلَمُونَ مَا صَنَعَ اللَّہُ لَنَا ، کَیْ یَرْغَبُوا فِی الْجِہَادِ ، وَلاَ یَنْکُلُوا عَنْہُ ، فَقَالَ اللَّہُ تَعَالَی : فَإِنِّی مُخْبِرٌ عَنْکُمْ وَمُبَلِّغٌ إخْوَانَکُمْ ، فَفَرِحُوا وَاسْتَبْشَرُوا بِذَلِکَ ، فَذَلِکَ قولہ تعالی : {وَلاَ تَحْسَبَنَّ الَّذِینَ قُتِلُوا فِی سَبِیلِ اللہِ أَمْوَاتًا بَلْ أَحْیَائٌ عِنْدَ رَبِّہِمْ یُرْزَقُونَ} إلَی قولہ تعالی وَأَنَّ اللَّہَ لاَ یُضِیعُ أَجْرَ الْمُؤْمِنِینَ؟ (ابوداؤد ۲۵۱۲۔ احمد ۱/۲۶۵)
(١٩٦٧٨) حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ جب تمہارے بھائی شہید ہوجاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کی روحیں سبز پرندوں میں ڈال دیتا ہے۔ وہ جنت کی نہروں پر جاتے ہیں جنت کا پھل کھاتے ہیں اور جنت میں جہاں چاہتے ہیں سیر کرتے ہیں جہاں اپنے عمدہ ٹھکانے اور بہترین کھانے پینے کو دیکھتے ہیں تو کہتے ہیں کہ کاش ہماری قوم ان چیزوں کو جان لے جو اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے پیدا کی ہیں۔ تاکہ وہ بھی جہاد کا شوق رکھیں اور اس سے پیچھے نہ ہٹیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میں تمہارے بھائیوں کو ان باتوں سے مطلع کردیتا ہوں۔ اور پھر وہ خوش ہوجاتے ہیں اور مسرت کا اظہار کرتے ہیں۔ اس سے مرا قرآن مجید کی یہ آیات ہیں۔ ترجمہ : جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے ان کو مرے ہوئے نہ سمجھنا، وہ مرے ہوئے نہیں ہیں بلکہ اللہ کے نزدیک زندہ ہیں اور ان کو رزق مل رہا ہے۔ جو کچھ اللہ نے ان کو اپنے فضل سے بخش رکھا ہے اس میں خوش ہیں اور جو لوگ ان کے پیچھے رہ گئے اور شہید ہو کر ان میں شامل نہیں ہو سکے ان کی نسبت خوشیاں منا رہے ہیں کہ قیامت کے دن ان کو بھی نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے اور اللہ کے انعامات اور فضل سے خوش ہوا ہے اور اس سے کہ اللہ تعالیٰ مومنوں کا اجر ضائع نہیں کرتا۔ (آل عمران : ١٦٩۔ ١٧١)

19678

(۱۹۶۷۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، حَدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ زَیْدٍ الْعَمِّیِّ ، عَنْ أَبِی إیَاسٍ مُعَاوِیَۃَ بْنِ قُرَّۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لِکُلِّ أُمَّۃٍ رَہْبَانِیَّۃٌ وَرَہْبَانِیَّۃُ ، ہَذِہِ الأُمَّۃِ الْجِہَادُ فِی سَبِیلِ اللہِ۔ (سعید بن منصور ۲۳۰۹)
(١٩٦٧٩) حضرت ابو ایاس معاویہ بن قرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ ہر امت کی ایک رہبانیت ہوتی ہے اور میری امت کی رہبانیت اللہ کے راستے میں جہاد کرنا ہے۔

19679

(۱۹۶۸۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، حَدَّثَنَا ثَوْرٌ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِی عَوْفٍ ، عَنْ مُجَاہِدِ بْنِ رِیَاحٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ: أَلاَ أُنَبِّئُکُمْ بِلَیْلَۃٍ ہِیَ أَفْضَلُ مِنْ لَیْلَۃِ الْقَدْرِ ؟ حَارِسٌ حَرَسَ فِی سَبِیلِ اللہِ عَزَّ وَجَلَّ ، فِی أَرْضِ خَوْفٍ ، لَعَلَّہُ أَلاَ یَؤُوبَ إلَی أَہْلِہِ۔ (نسائی ۸۸۶۸)
(١٩٦٨٠) حضرت ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ میں تمہیں ایسی رات بتاتا ہوں جو شب قدر سے بھی زیادہ افضل ہے ؟ اس پہرے دار کی رات ہے جو اللہ کے راستے میں ایسی جگہ پہرہ دے جہاں سے اسے اپنے گھر والوں کے پاس واپس نہ جانے کا خوف ہو۔

19680

(۱۹۶۸۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُبَارَکٍ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ أَبِی کَثِیرٍ ، عَنْ عَامِرٍ الْعُقَیْلِیِّ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : أَوَّلُ ثَلاَثَۃٍ یَدْخُلُونَ الْجَنَّۃَ ، الشَّہِیدُ ، وَرَجُلٌ عفیف مُتَعَفِّفٌ ذُو عِیَالٍ ، وَعَبْدٌ أَحْسَنَ عِبَادَۃَ رَبِّہِ ، وَأَدَّی حَقَّ مَوَلِیہ ، وَأَوَّلُ ثَلاَثَۃٍ یَدْخُلُونَ النَّارَ أَمِیرٌ مُسَلَّطٌ ، وَذُو ثَرْوَۃٍ من مال لاَ یُؤَدِّی حَقَّہُ ، وَفَقِیرٌ فَخُورٌ۔ (ترمذی ۱۶۴۲۔ احمد ۲/۴۷۹)
(١٩٦٨١) حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ جنت میں سب سے پہلے تین شخص داخل ہوں گے۔ ایک شہید، دوسرا پاک دامن اور اہل و عیال کے باوجود سوال سے بچنے والا اور تیسرا وہ غلام جس نے اپنے رب کی بہترین عبادت کی اور اپنے آقاؤں کا حق بھی ادا کیا۔ اسی طرح تین شخص سب سے پہلے جہنم میں جائیں گے ایک ظالم امیر اور دوسرا وہ مالدار جو مال کا حق ادا نہ کرے اور تیسرا غریب متکبر۔

19681

(۱۹۶۸۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ أَبِی الزِّنَادِ ، عَنِ الأَعْرَجِ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : إنَّ اللَّہَ لَیَضْحَکُ إلَی رَجُلَیْنِ یَقْتُلُ أَحَدُہُمَا الآخَرَ ، کِلاَہُمَا یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ ، یُقَاتِلُ ہَذَا فِی سَبِیلِ اللہِ فَیُسْتَشْہَدُ ، ثُمَّ یَتُوبُ اللَّہُ عَلَی قَاتِلِہِ فَیُسْلِمُ ، فَیُقَاتِلُ فِی سَبِیلِ اللہِ فَیُسْتَشْہَدُ۔ (مسلم ۱۵۰۵۔ احمد ۲/۲۴۴)
(١٩٦٨٢) حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ان دو آدمیوں پر ہنستا ہے جن میں سے ایک دوسرے کو قتل کرے اور وہ دونوں جنت میں جائیں گے۔ وہ اس طرح کہ ایک اللہ کے راستے قتال کرتا ہوا شہید ہوجاتا ہے، پھر اللہ تعالیٰ دوسرے کو ہدایت دیتا ہے اور وہ اسلام قبول کر کے اللہ کے راستے میں لڑتا ہوا شہید ہوجاتا ہے۔

19682

(۱۹۶۸۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، حَدَّثَنَا مُغِیرَۃُ بْنُ زِیَادٍ ، عَنْ مَکْحُولٍ ، قَالَ : جَائَ رَجُلٌ إلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، إنَّ النَّاسَ قَدْ غَزَوْا ، وَحَبَسَنِی شَیْئٌ ، فَدُلَّنِی عَلَی عَمَلٍ یُلْحِقُنِی بِہِمْ ، قَالَ : ہَلْ تَسْتَطِیعُ قِیَامَ اللَّیْلِ ؟ قَالَ : أَتَکَلَّفُ ذَلِکَ ، قَالَ : ہَلْ تَسْتَطِیعُ صِیَامَ النَّہَارِ ؟ قَالَ : نَعَمْ ، قَالَ : فَإِنَّ إحْیَائَک لَیْلک وَصِیَامَک نَہَارَک کَنَوْمَۃِ أَحَدِہِمْ۔
(١٩٦٨٣) حضرت مکحول (رض) فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نبی پاک (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے عرض کیا کہ لوگوں نے اللہ کے راستے میں جہاد کیا اور میں کسی مجبوری کی وجہ سے رہ گیا، مجھے کوئی ایسا عمل بتا دیجئے کہ میں ان کے برابر ہو جاؤں، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے پوچھا کہ کیا تم رات کو قیام کرنے کی طاقت رکھتے ہو ؟ اس نے کہا : میں ایسا کرلوں گا۔ آپ نے دریافت فرمایا کہ کیا تم ہر دن کو روزہ رکھنے کی طاقت رکھتے ہو ؟ اس شخص نے کہا کہ جی ہاں ! میں ایسا کرلوں گا، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ تمہارا رات کو قیام کرنا اور دن کو روزہ رکھنا ان کی نیند کے برابر نہیں ہوسکتا۔

19683

(۱۹۶۸۴) حَدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنْ ثُمَامَۃَ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ أَنَسٍ ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ : أَتَیْتُ عَلَی ثَابِتِ بْنِ قَیْسٍ یَوْمَ الْیَمَامَۃِ وَہُوَ مُتَحَنِّطٌ فَقُلْت : أَیْ عَمُّ ، أَلاَ تَرَی مَا لَقِیَ النَّاسُ ؟ فَقَالَ : الآنَ یَا ابْنَ أَخِی ، الآنَ یَا ابْنَ أَخِی۔
(١٩٦٨٤) حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ میں جنگ یمامہ کے دن حضرت ثابت بن قیس (رض) کے پاس گیا۔ میں نے ان سے کہا کہ کیا آپ جانتے ہیں کہ لوگوں کے ساتھ کیا معاملہ ہوا ؟ انھوں نے فرمایا : اے بھتیجے ! اب پتہ چلا ہے، اب پتہ چلا ہے۔

19684

(۱۹۶۸۵) حَدَّثَنَا عِیسَی بْنُ یُونُسَ ، عَنِ الأَوْزَاعِیِّ ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ أَبِی سَوْدَۃَ وَتَلاَ ہَذِہِ الآیَۃَ : {وَالسَّابِقُونَ السَّابِقُونَ أُولَئِکَ الْمُقَرَّبُونَ} قَالَ: ہُمْ أَوَّلُہُمْ رَوَاحًا إلَی الْمَسْجِدِ، وَأَوَّلُہُمْ خُرُوجًا فِی سَبِیلِ اللہِ عَزَّوَجَلَّ۔
(١٩٦٨٥) حضرت اوزاعی (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عثمان بن ابی سودہ (رض) نے ایک مرتبہ اس آیت کی تلاوت کی { وَالسَّابِقُونَ السَّابِقُونَ أُولَئِکَ الْمُقَرَّبُونَ } پھر فرمایا کہ اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو مسجد کی طرف سب سے پہلے جاتے ہیں اور اللہ کے راستے میں سب سے پہلے نکلتے ہیں۔

19685

(۱۹۶۸۶) حَدَّثَنَا عِیسَی بْنُ یُونُسَ ، عَنِ الأَوْزَاعِیِّ ، عَنْ حَسَّانَ بْنِ عَطِیَّۃَ ، عَنْ فَرْوَۃَ اللَّخْمِیِّ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : أَیُّمَا سَرِیَّۃٍ خَرَجَتْ فَرَجَعَتْ وَقَدْ أخفقت فَلَہَا أَجْرُہَا مَرَّتَیْنِ۔
(١٩٦٨٦) حضرت فررہ لخمی (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ جب کوئی جماعت اللہ کے راستے میں جائے اور بغیر مال غنیمت کے واپس آئے تو اس کے لیے دوہرا اجر ہے۔

19686

(۱۹۶۸۷) حَدَّثَنَا عِیسَی ، عَنِ الأَوْزَاعِیِّ ، عَنْ حَسَّانِ بْنِ عَطِیَّۃَ ، قَالَ : مَنْ بَاتَ حَارِسًا حَرَسَ لَیْلَۃً أَصْبَحَ وَقَدْ تَحَاتَّتْ خَطَایَاہُ ، قَالَ الأَوْزَاعِیُّ ، قَالَ مَکْحُولٌ : بَاتَ حَتَّی یُصْبِحَ تَحَاتَّتْ عَنْہُ خَطَایَاہُ۔
(١٩٦٨٧) حضرت حسان بن عطیہ (رض) فرماتے ہیں کہ جس شخص نے اللہ کے راستے میں پہرہ دیتے ہوئے رات گزاری، صبح کو اس کے سارے گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔ حضرت مکحول (رض) فرماتے ہیں کہ جو شخص ساری رات پہرہ دے اس کے گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔

19687

(۱۹۶۸۸) حَدَّثَنَا عِیسَی بْنُ یُونُسَ ، عَنِ الأَوْزَاعِیِّ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ أَبِی عَمْرٍو السَّیْبَانِیِّ ، عَنِ ابْنِ مُحَیْرِیزٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : فَارِسُ نَطْحَۃٌ ، أَوْ نَطْحَتَانِ ، ثُمَّ لاَ فَارِسَ بَعْدَہَا أَبَدًا وَالرُّومُ ذَاتُ الْقُرُونِ أَصْحَابُ بَحْرٍ وَصَخْرٍ کُلَّمَا ذَہَبَ قَرْنٌ خَلَفَہ قَرْنٌ مَکَانَہُ ، ہَیْہَاتَ إلَی آخَرِ الدَّہْرِ ، ہُمْ أَصْحَابُکُمْ مَا کَانَ فِی الْعَیْشِ خَیْرٌ۔ (حارث ۷۰۲)
(١٩٦٨٨) حضرت ابن محیریز (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ فارس مسلمانوں سے ایک یا دو مرتبہ جنگ کرے گا پھر اس کے بعد مملکت فارس کا وجود نہ رہے گا۔ روم سینگوں والا ہے وہ سمندر اور چٹانوں کے مالک لوگ ہیں۔ جب ان کا ایک سینگ ختم ہوجاتا ہے تو دوسرا اس کی جگہ لے لیتا ہے۔ آخری زمانے میں یہ ختم ہوجائیں گے۔

19688

(۱۹۶۸۹) حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ مُفَضَّلٍ ، عَنْ عُمَارَۃَ بْنِ أَبِی حَفْصَۃَ ، عَنْ حُجْرٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ : {فَصَعِقَ مَنْ فِی السَّمَاوَاتِ وَمَنْ فِی الأَرْضِ إِلاَّ مَنْ شَائَ اللَّہُ} قَالَ: ہُمُ الشُّہَدَائُ ثَنِیَّۃُ اللَّہِ حَوْلَ الْعَرْشِ، مُتَقَلِّدِینَ السُّیُوفَ۔
(١٩٦٨٩) حضرت سعید بن جبیر (رض) نے یہ آیت تلاوت کی { فَصَعِقَ مَنْ فِی السَّمَاوَاتِ وَمَنْ فِی الأَرْضِ إِلاَّ مَنْ شَائَ اللَّہُ } پھر فرمایا اس آیت میں مستثنیٰ لوگوں سے مراد شہداء ہیں، وہ اللہ کے عرش کے گرد رزق پانے والے لوگ ہیں اور وہ لوگ ہیں جنہوں نے تلواریں گردن میں لٹکا رکھی ہیں۔

19689

(۱۹۶۹۰) حَدَّثَنَا عِیسَی ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ عَمْرِو السَّکْسَکِیِّ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ جُبَیْرِ بْنِ نُفَیْرٍ ، قَالَ : لَمَّا اشْتَدَّ حزن أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَی مَنْ أُصِیبَ مَعَ زَیْدٍ یَوْمَ مُؤْتَۃَ ، قَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لَیُدْرِکَنَّ الْمَسِیحُ مِنْ ہَذِہِ الأُمَّۃِ أَقْوَامًا إنَّہُمْ لَمِثْلُکُمْ ، أَوْ خَیْرٌ ، ثَلاَثَ مَرَّاتٍ ، وَلَنْ یُخْزِیَ اللَّہُ أُمَّۃً أَنَا أَوَّلُہَا ، وَالْمَسِیحُ آخِرُہَا۔ (حاکم ۴۱)
(١٩٦٩٠) حضرت عبد الرحمن بن جبیر بن نفیر (رض) فرماتے ہیں کہ غزوہ مؤتہ میں حضرت زید (رض) کی شہادت پر جب صحابہ کرام (رض) کا دکھ حد سے بڑھ گیا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کہ حضرت مسیح (علیہ السلام) کو اس امت کی کچھ ایسی قومیں پائیں گی جو تمہاری طرح ہیں یا تم سے بہترین (یہ بات آپ نے تین مرتبہ فرمائی) اللہ تعالیٰ اس امت کو ہر گزر بےیارومددگار نہیں چھوڑے گا جس کے شروع میں میں ہوں اور اس کے آخر میں حضرت مسیح (علیہ السلام) ہیں۔

19690

(۱۹۶۹۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، حَدَّثَنَا مِسْعَرٌ ، عَنْ أَبِی بَکْرٍ بْنِ حَفْصٍ ، أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَرَأَ یَوْمَ بَدْرٍ : {سابقوا إلَی مَغْفِرَۃٍ مِنْ رَبِّکُمْ وَجَنَّۃٍ عَرْضُہَا السَّمَاوَاتُ وَالأَرْضُ} قَالَ مسعر : إمَّا الَّتِی فِی آلِ عِمْرَانَ ، وَإِمَّا الَّتِی فِی الْحَدِیدِ ؟ فَقَالَ ابن قُسْحُم : إِنْ فَتَحْتُمْ یَا رَسُولَ اللہِ ، فَمَا لِمَنْ لَقِیَ ہَؤُلاَئِ فَقَاتَلَ حَتَّی قُتِلَ ؟ فَقَالَ : الْجَنَّۃُ ، قَالَ : حَسْبِی مِنَ الدُّنْیَا ، وَفِی یَدِہِ تَمَرَاتٍ فَأَلْقَاہَا ، ثُمَّ تَقَدَّمَ فَقُتِلَ۔ (مسلم ۱۴۵۔ ابن المبارک ۷۷)
(١٩٦٩١) حضرت ابوبکر بن حفص فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غزوہ بدر میں { سابقوا إلَی مَغْفِرَۃٍ مِنْ رَبِّکُمْ وَجَنَّۃٍ عَرْضُہَا السَّمَاوَاتُ وَالأَرْضُ } ” یعنی اپنے رب کی مغفرت اور اس جنت کی طرف لپکو جس کی چوڑائی زمین و آسمان کے برابر ہے۔ “ (حضرت مسعر فرماتے ہیں کہ یا تو یہ سورة آل عمران کی آیت تھی یا سورة الحدید کی) ۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ فرمان سن کر ابن قسحم (رض) نے کہا اے اللہ کے رسول ! اس شخص کا کیا بدلہ ہے جو ان کافروں سے لڑے اور شہید ہوجائے، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اس کا بدلہ جنت ہے۔ ابن قسحم (رض) نے کہا کہ دنیا کے بدلے میں جنت میرے لیے کافی ہے۔ ان کے ہاتھ میں کچھ کھجوریں تھیں، انھوں نے کھجوریں پھینکیں، آگے بڑھے اور دشمن سے لڑتے ہوئے شہید ہوگئے۔

19691

(۱۹۶۹۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ مِسعَرٍ ، عَنْ حَبِیبِ بْنِ أَبِی ثَابِتٍ ، عَنْ نُعَیْمِ بْنِ أَبِی ہِنْدٍ ، قَالَ قَالَ رَجُلٌ : یَوْمَ الْقَادِسِیَّۃِ : اللَّہُمَّ إِنَّ حُدَیۃ سَوْدَائُ بذیۃ ، فَزَوِّجْنِی الْیَوْمَ مِنَ الْحُورِ الْعِینِ ، ثُمَّ تَقَدَّمَ فَقُتِلَ ، قَالَ : فَمَرُّوا عَلَیْہِ وَہُوَ مُعَانِقُ رَجُلٍ عَظِیمٍ۔
(١٩٦٩٢) حضرت نعیم بن ابی ہند (رض) فرماتے ہیں کہ جنگ قادسیہ میں ایک آدمی نے اپنی بیوی کا نام لے کر دعا کی کہ اے اللہ میری بیوی (رض) کالی اور پستہ قد ہے، آج جنت کی کسی حور سے میری شادی کرا دے۔ پھر وہ آگے بڑھے اور شہید ہوگئے۔ بعد میں جب ساتھیوں کا ان کی نعش سے گذر ہوا تو دیکھا کہ وہ ایک بڑے پہلوان سے مقابلہ کرتے ہوئے شہید ہوئے ہیں۔

19692

(۱۹۶۹۳) حَدَّثَنَا وَکِیع ، حَدَّثَنَا مِسْعَرٌ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : مَرُّوا عَلَی رَجُلٍ یَوْمَ الْقَادِسِیَّۃِ وَقَدْ قُطِعَتْ یَدَاہُ وَرِجْلاَہُ ، وَہُوَ یَفْحَصُ وَہُوَ یَقُولُ : {مَعَ الَّذِینَ أَنْعَمَ اللَّہُ عَلَیْہِمْ مِنَ النَّبِیِّینَ وَالصِّدِّیقِینَ وَالشُّہَدَائِ وَالصَّالِحِینَ وَحَسُنَ أُولَئِکَ رَفِیقًا} فَقَالَ الرَّجُلُ : مَنْ أَنْتَ یَا عَبْدَ اللہِ ؟ قَالَ : أَنَا امْرُؤٌ مِنَ الأَنْصَارِ۔
(١٩٦٩٣) حضرت سعد بن ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ جنگ قادسیہ میں لوگوں نے ایک ایسے شخص کو دیکھا جس کے ہاتھ اور پاؤں کٹے ہوئے تھے، وہ تڑپ رہا تھا اور یہ آیت پڑھ رہا تھا : (ترجمہ) ” وہ انبیائ، صدیقین، شہداء اور صالحین میں سے ان لوگوں کے ساتھ ہوگا جن پر اللہ نے انعام کیا۔ یہ بہترین ساتھی ہیں۔ “ ایک آدمی نے اس سے پوچھا تم کون ہو ؟ اے اللہ کے بندے ! اس نے کہا کہ میں ایک انصاری ہوں۔

19693

(۱۹۶۹۴) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، حَدَّثَنَا مِسْعَرٌ ، عَنْ عَلْقَمَۃَ بْنِ مَرْثَدَ ، قَالَ : حدَّثَنِی مَنْ سَمِعَ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِیزِ ، قَالَ : مَرَّتِ امْرَأَۃٌ بِابْنِہَا وَزَوْجِہَا قَتِیلَیْنِ ، فَأَتَتِ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَتْ : أَنْتَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَقَدْ أَنْزَلَ اللَّہُ عَلَیْک الْوَحْیَ ، فَإِنْ کَانَ ہَذَانِ مُنَافِقَیْنِ لم نَبْکِہِمَا ، وَلَمْ نُنْعِمْہُمَا عَیْنًا ، وَإِنْ کَانَا غَیْرَ مُنَافِقَیْنِ ، قُلْنَا فِیہِمَا مَا نَعْلَمُ ، قَالَ : أَجَلْ ، لَمْ یَکُونَا مُنَافِقَیْنِ ، لقَدْ تُلُقِّیَا بِثِمَارِ الْجَنَّۃِ ، وَلَقَدْ تَبَاشَرَتْ بِہِمَا الْمَلاَئِکَۃُ ، قَالَ : تَقُولُ الْمَرْأَۃُ : الآنَ حَقٌّ أَلاَ أَبْکِیْہِمَا قَالَ : أَلاَ إنَّکِ مَعَہُمَا۔ (عبدالرزاق ۶۶۹۲)
(١٩٦٩٤) حضرت عمر بن عبد العزیز (رض) فرماتے ہیں کہ ایک غزوہ میں ایک عورت کا بیٹا اور اس کا خاوند فوت ہوگیا۔ وہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئی اور اس نے کہا کہ آپ اللہ کے رسول ہیں اور اللہ تعالیٰ نے آپ پر وحی نازل کی۔ اگر یہ دونوں منافق تھے تو نہ ہم ان پر روئیں گے اور نہ ان کے بارے میں آنکھیں ٹھنڈی کریں گے۔ اگر یہ دونوں منافق نہیں تھے تو ہمیں ان کے بارے میں کچھ بتا دیجئے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ وہ دونوں منافق نہیں تھے۔ انھیں جنت کے پھل پیش کیے گئے اور فرشتوں نے ان کا استقبال کیا۔ اس عورت نے کہا کہ پھر تو ضروری ہے کہ میں نہ روؤں۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کہ اور سنو ! تم بھی ان کے ساتھ ہوگی۔

19694

(۱۹۶۹۵) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، حَدَّثَنَا مِسْعَرٌ ، عَنْ عَوْنِ بْنِ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : مُرَّ رَجُلٌ یَوْمَ الْقَادِسِیَّۃِ قَدَ انْتَثَرَ قَصَبُہُ ، أَوْ بَطْنُہُ ، فَقَالَ : لِبَعْضِ مَنْ مَرَّ عَلَیْہِ : ضُمَّ إلَیَّ مِنْہُ ، أَدْنُو قَیْدَ رُمْحٍ ، أَوْ رُمْحَیْنِ فِی سَبِیلِ اللہِ ، قَالَ : فَمَرَّ عَلَیْہِ وَقَدْ فَعَلَ۔
(١٩٦٩٥) حضرت عون بن عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ جنگ قادسیہ میں لوگوں کا گذر ایک ایسے شخص پر ہوا جس کا پیٹ پھٹا ہوا تھا اس کی آنتیں باہر نکلی ہوئی تھیں۔ اس نے ایک آدمی سے کہا کہ میری آنتیں اندر کردو تاکہ میں اللہ کے راستے میں مزید ایک یا دو نیزوں کی مقدار آگے بڑھ سکوں۔ چنانچہ اس نے ایسا کردیا۔

19695

(۱۹۶۹۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، حَدَّثَنَا یَزِیدُ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ بْنِ الْعَلاَئِ أَبِی ہَارُونَ الْغَنَوِیِّ ، عَنْ رَجُلٍ ، یُقَالُ لَہُ مُسْلِمُ بْنُ شَدَّادٍ ، عَنْ عُبَیْدِ بْنِ عُمَیْرٍ ، عَنْ أُبَیِّ بْنِ کَعْبٍ ، قَالَ : الشُّہَدَائُ فِی قِبَابٍ فِی رِیَاضٍ بِفِنَائِ الْجَنَّۃِ ، یُبْعَث لَہُمْ حُوتٌ وَثَوْرٌ یَعْتَرِکَانِ ، یَلْہُونَ بِہِمَا ، إذَا احْتَاجُوا إلَی شَیْئٍ عَقَرَ أَحَدُہُمَا صَاحِبَہُ ، فَأَکَلُوا مِنْہُ فَوَجَدُوا طَعْمَ کُلِّ شَیْئٍ مِنَ الْجَنَّۃِ۔
(١٩٦٩٦) حضرت ابن ابی کعب (رض) فرماتے ہیں کہ شہداء جنت کے باغیچوں میں گنبدوں میں ہوں گے۔ ان کے سامنے ایک مچھلی اور ایک اونٹ کا تماشا ہوگا جس سے وہ لطف اندوز ہوں گے۔ جب انھیں کسی کھانے کی چیز کی ضرورت ہوگی تو ان میں سے ایک دوسرے کو مار ڈالے گا۔ وہ اسے کھائیں گے اور جنت میں موجود ہر چیز کا ذائقہ محسوس کریں گے۔

19696

(۱۹۶۹۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، حَدَّثَنَا الأَعْمَش ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، عَنْ یَزِیدَ بْنِ شَجَرَۃَ ، قَالَ : السُّیُوفُ مَفَاتِیحُ الْجَنَّۃِ ، فَإِذَا تَقَدَّمَ الرَّجُلُ إلَی الْعَدُوِّ قَالَتِ الْمَلاَئِکَۃُ : اللَّہُمَّ انْصُرْہُ ، وَإِنْ تَأَخَّرَ ، قَالَتْ : اللَّہُمَّ اغْفِرْ لَہُ ، فَأَوَّلُ قَطْرَۃٍ تَقْطُرُ مِنْ دَمِ السَّیْفِ یُغْفَرُ لَہُ بِہَا من کُلُّ ذَنْبٍ ، وَیَنْزِلُ عَلَیْہِ حَوْرَاوَانِ تَمْسَحَانِ الْغُبَارَ عَنْ وَجْہِہِ وَتَقُولاَنِ : قَدْ آنَ لَکَ وَیَقُولُ لَہُمَا : وأنتما قَدْ آنَ لَکُمَا۔
(١٩٦٩٧) حضرت یزید بن شجرہ (رض) فرماتے ہیں کہ تلواریں جنت کی چابیاں ہیں، جب کوئی شخص دشمن کی طرف بڑھتا ہے تو فرشتے کہتے ہیں کہ یا اللہ ! اس کی مدد فرما۔ اگر وہ پیچھے ہٹتا ہے تو فرشتے کہتے ہیں کہ اے اللہ ! اسے معاف فرما۔ تلوار کا وار لگنے سے ہونے والے زخم سے خون کا پہلا قطرہ گرتے ہی اس کے سارے گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔ اس کے لیے جنت سے دو حوریں اترتی ہیں اور کہتی ہیں کہ ہم تیرے لیے ہیں۔ وہ ان دونوں سے کہتا ہے کہ میں تمہارے لیے ہوں۔

19697

(۱۹۶۹۸) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو ، عَنْ أَبِی سَلَمَۃَ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، أن النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سُئِلَ : أَیُّ الأَعْمَالِ خَیْرٌ ، أَوْ أَفْضَلُ ؟ قَالَ : إیمَانٌ بِاللَّہِ وَرَسُولِہِ ، قِیلَ : ثُمَّ أَیُّ ؟ قَالَ : الْجِہَادُ فِی سَبِیلِ اللہِ ، قِیلَ : ثُمَّ أَیُّ ؟ قَالَ : حَجٌّ مَبْرُورٌ۔ (بخاری ۲۶۔ مسلم ۱۳۵)
(١٩٦٩٨) حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا گیا کہ کون سا عمل بہتر یا افضل ہے ؟ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانا۔ پوچھا گیا کہ پھر کون سا عمل افضل ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ اللہ کے راستے میں جہاد کرنا، پھر پوچھا گیا کہ کون سا عمل افضل ہے ؟ فرمایا : مقبول حج۔

19698

(۱۹۶۹۹) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ مُبَارَکٍ ، عَنِ الأَوْزَاعِیِّ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ أَبِی کَثِیرٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : أفضل الشہداء الَّذِینَ یُلْقَوْنَ فِی الصَّفِّ فَلاَ یَلْفِتُونَ وُجُوہَہُمْ حَتَّی یُقْتَلُوا ، أُولَئِکَ یَتَلَبَّطُونَ فِی الْغُرَفِ الْعُلَی مِنَ الْجَنَّۃِ ، یَضْحَکُ إلَیْہِمْ رَبُّک ، إنَّ رَبَّک إذَا ضَحِکَ إلَی قَوْمٍ فَلاَ حِسَابَ عَلَیْہِمْ۔ (طبرانی ۴۱۴۳۔ حارث ۶۳۳)
(١٩٦٩٩) حضرت یحییٰ بن ابی کثیر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ افضل شہداء وہ ہیں جو کسی صف میں دشمن کے خلاف برسر پیکار ہوتے ہیں۔ وہ اپنے چہرے نہیں پھیرتے اور شہید ہوجاتے ہیں۔ یہ لوگ جنت کے بالا خانوں میں عیش کریں گے۔ ان کا رب انھیں دیکھ کر مسکرائے گا۔ تمہارا رب جس قوم کو دیکھ کر مسکراتا ہے اس سے حساب نہیں لیتا۔

19699

(۱۹۷۰۰) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، حَدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ بْنُ أَبِی خَالِدٍ ، عَنْ قَیْسِ بْنِ أَبِی حَازِمٍ ، قَالَ : رَأَیْتُ رَجُلاً یُرِیدُ أَنْ یَشْرِیَ نَفْسَہُ یَوْمَ الْیَرْمُوکِ ، وَامْرَأَتُہُ تُنَاشِدُہُ ، قَالَ : رُدُّوا ہَذِہِ عَنِّی ، فَلَوْ أَعْلَمُ أَنَّہُ یُصِیبَہَا الَّذِی أرید مَا نَفِسْت عَلَیْہَا ، إنِّی وَاللَّہِ لَئِنِ اسْتَطَعْت لاَ یَمْضِی یَوْمَ یَزُولُ ہَذَا مِنْ مَکَانِہِ ، وَأَشَارَ بِیَدِہِ إلَی جَبَلٍ ، فَإِنْ غَلَبْتُمْ عَلَی جَسَدِی فَخُذُوہُ ، قَالَ قَیْسٌ : فَمَرَرْنَا عَلَیْہِ ، فَرَأَیْناہ بَعْدَ ذَلِکَ قَتِیلاً فِی تِلْکَ الْمَعْرَکَۃِ۔
(١٩٧٠٠) حضرت قیس بن ابی حازم (رض) فرماتے ہیں کہ جنگ یرموک میں ایک آدمی خود کو موت کے لیے پیش کررہا تھا اور اس کی بیوی اسے روک رہی تھی۔ اس شخص نے کہا اسے مجھ سے دور کردو۔ جو مقصد اس وقت میرے پیش نظر ہے اس میں اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ پھر اس نے ایک پہاڑ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر میرا بس چلتا تو میں اسے ایک دن میں اس کی جگہ سے ہٹا دیتا۔ اگر تم میرا جسم حاصل کرسکو تو اسے دفنا دینا۔ حضرت قیس (رض) فرماتے ہیں کہ بعد میں ہم نے دیکھا کہ وہ جو شخص اس جنگ کے شہداء میں پڑا ہے۔

19700

(۱۹۷۰۱) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، حَدَّثَنَا کَہْمَس ، عَنْ أَبِی الْعَلاَئِ عن ابن الأحمس ، قَالَ : قُلْتُ لأَبِی ذَرٍّ : حدِیثٌ بَلَغَنِی عَنْک ، عَنْ نَبِیِّ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : ہَاتِ ، إنِّی لاَ إخَالُنِی أَنْ أَکْذِبَ عَلَی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَعْدَ إذْ سَمِعْتہ مِنْہُ ، قَالَ : قُلْتُ : ذَکَرْت ثَلاَثَۃٌ یُحِبُّہُمُ اللَّہُ ، قَالَ : سَمِعْتُہُ وَقُلْتہ ، أَمَّا الَّذِی یُحِبُّ اللَّہُ ، فَرَجُلٌ لَقِیَ فِئَۃً فَانْکَشَفَتْ فِئَۃٌ ، فَقَاتَلَ مِنْ وَرَائِہِمْ حَتَّی یُقْتَلَ ، أَوْ یَفْتَحَ اللَّہُ لَہُ وَرَجُلٌ أَسْرَی مَعَ قَوْمٍ حَتَّی یحبوا أن یمسوا الأَرْضَ ، فَنَزَلُوا ، فَقَامَ یُصَلِّی حَتَّی أَیْقَظَہُمْ بِرَحِیلِہِمْ ، وَرَجُلٌ کَانَ لَہُ جَارُ سُوئٍ فَصَبَرَ عَلَی أَذَاہُ۔ (احمد ۵/۱۵۱)
(١٩٧٠١) حضرت ابن احمس (رض) کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابو ذر (رض) سے کہا کہ مجھے آپ کا بیان کردہ ایک ارشاد نبوی پہنچا ہے۔ انھوں نے فرمایا : بیان کرو، میرے خیال میں، میں نے کبھی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف کسی جھوٹی بات کو منسوب نہیں کیا۔ میں نے کہا کہ آپ نے بیان کیا ہے کہ تین آدمی ایسے ہیں جن سے اللہ تعالیٰ محبت کرتا ہے۔ انھوں نے فرمایا کہ میں نے اس بات کو سنا ہے اور بیان کیا ہے کہ جن تین آدمیوں سے اللہ تعالیٰ محبت کرتا ہے ان میں ایک تو وہ آدمی جو کسی جماعت سے قتال کرے، وہ جماعت غالب آنے لگے تو یہ پھر بھی ان سے لڑتا ہوا شہید ہوجائے یا اللہ تعالیٰ اس کی وجہ سے فتح عطا فرما دیں۔ دوسرا وہ آدمی جو رات کو لوگوں کے ساتھ سفر کرے، جب وہ سب تھک کر لیٹ جائیں تو یہ کھڑا ہو کر نماز پڑھے اور پھر لوگوں کو آگے بڑھنے کے لیے جگائے۔ تیسرا وہ آدمی جس کا پڑوسی کوئی برا شخص ہو اور وہ اس کی تکالیف پر صبر کرے۔

19701

(۱۹۷۰۲) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، حَدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ ، عَنْ قَیْسٍ ، عَنْ مُدْرِکِ بْنِ عَوْفٍ الأَحْمَسِیِّ ، قَالَ : کُنْتُ عِنْدَ عُمَرَ إذْ جَائَہُ رَسُولُ النُّعْمَانِ بْنِ مُقَرِّنٍ فَسَأَلَہُ عُمَرُ عَنِ النَّاسِ ، فَقَالَ : أُصِیبَ فُلاَنٌ وَفُلاَنٌ وَآخَرُونَ لاَ أَعْرِفُہُمْ ، فَقَالَ عُمَرُ : لَکِنَّ اللَّہَ یَعْرِفُہُمْ ، فَقَالَ : یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ وَرَجُلٌ شَرَی نَفْسَہُ ، فَقَالَ مُدْرِکُ بْنُ عَوْفٍ : ذَلِکَ وَاللَّہِ خَالِی یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ ، زَعَمَ النَّاسُ أَنَّہُ أَلْقَی بِیَدِہِ إلَی التَّہْلُکَۃِ ، فَقَالَ عُمَرُ : کَذَبَ أُولَئِکَ وَلَکِنَّہُ مِمَّنَ اشْتَرَی الآخِرَۃَ بِالدُّنْیَا۔
(١٩٧٠٢) حضرت مدرک بن عوف احمسی (رض) کہتے ہیں کہ میں حضرت عمر (رض) کے پاس تھا کہ نعمان بن مقرن (رض) کا قاصد آیا۔ حضرت عمر (رض) نے اس سے مجاہدین کی صورت حال پوچھی تو اس نے بتایا کہ فلاں فلاں شخص شہید ہوگئے اور کچھ ایسے لوگ بھی شہید ہوئے جنہیں میں نہیں جانتا۔ اس شخص نے کہا کہ اے امیر المؤمنین ! ایک آدمی ایسا بھی تھا جو خود کو موت کے لیے پیش کررہا تھا۔ اس پر حضرت مدرک بن عوف (رض) نے کہا کہ اے امیر المؤمنین ! خدا کی قسم وہ میرے ماموں تھے۔ لوگوں کا خیال ہے کہ انھوں نے خود کو اپنے ہاتھوں ہلاکت میں ڈالا۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا کہ یہ لوگ جھوٹ کہتے ہیں یہ ان لوگوں میں سے ہے جنہوں نے دنیا کے بدلے آخرت کو خرید لیا۔

19702

(۱۹۷۰۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، حَدَّثَنَا الأَعْمَش ، عَنْ أَبِی وَائِلٍ ، عَنْ سَلَمَۃَ بْنِ سَبْرَۃَ ، عَنْ سَلْمَانَ ، قَالَ : إذَا زَحَفَ الْعَبْدُ فِی سَبِیلِ اللہِ ، وُضِعَتْ خَطَایَاہُ عَلَی رَأْسِہِ ، فَتَحَاتُّ کَمَا یَتَحَاتُّ عِذْقُ النَّخْلَۃِ۔
(١٩٧٠٣) حضرت سلیمان (رض) فرماتے ہیں کہ جب کوئی شخص اللہ کے راستے میں چلتا ہے تو اس کے گناہ اس کے سر پر رکھے جاتے ہیں اور پھر اس طرح جھڑ جاتے ہیں جس طرح کھجوروں کا خوشہ جھڑتا ہے۔

19703

(۱۹۷۰۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، حَدَّثَنَا شُعْبَۃُ ، عَنْ أَبِی سُلَیْمَانَ ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ : سَمِعْتہ یَقُولُ : غَدْوَۃٌ فِی سَبِیلِ اللہِ أَفْضَلُ مِنْ عَشْرِ حِجَجٍ لِمَنْ قَدْ حَجَّ۔
(١٩٧٠٤) حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ اللہ کے راستہ میں ایک صبح دس حج کرنے سے افضل ہے۔

19704

(۱۹۷۰۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، حَدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ آدَمَ بْنِ عَلِیٍّ ، قَالَ : سَمِعْتُ عَبْدَ اللہِ بْنَ عُمَرَ یَقُولُ : سَفْرَۃٌ یَعْنِی غَزْوَۃً فِی سَبِیلِ اللہِ أَفْضَلُ مِنْ خَمْسِینَ حَجَّۃٍ۔
(١٩٧٠٥) حضرت عبداللہ بن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ اللہ کے راستہ میں ایک لڑائی پچاس مرتبہ حج کرنے سے افضل ہے۔

19705

(۱۹۷۰۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللہِ الشُّعْیثِیُّ ، عَنْ مَکْحُولٍ ، قَالَ : إنَّ فِی الْجَنَّۃِ لَمِئَۃُ دَرَجَۃٍ ، مَا بَیْنَ الدَّرَجَۃِ إلَی الدَّرَجَۃِ ، کَمَا بَیْنَ السَّمَائِ إلی الأَرْضِ ، أَعَدَّہَا اللَّہُ لِلْمُجَاہِدَیْنِ فِی سَبِیلِ اللہِ۔ (بخاری ۲۷۹۰۔ نسائی ۴۳۴۰)
(١٩٧٠٦) حضرت مکحول (رض) فرماتے ہیں کہ جنگ میں سو درجے ہیں۔ دو درجوں کا درمیانی فاصلہ اتنا ہے جتنا آسمان و زمین کے درمیان خلاء ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان درجوں کو اپنے راستے میں جہاد کرنے والوں کے لیے بنایا ہے۔

19706

(۱۹۷۰۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، حَدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ أَبِی الضُّحَی ، قَالَ : أَوَّلُ آیَۃٍ نَزَلَتْ مِنْ بَرَائَۃَ : {انْفِرُوا خِفَافًا وَثِقَالاً وَجَاہِدُوا بِأَمْوَالِکُمْ وَأَنْفُسِکُمْ فِی سَبِیلِ اللہِ}۔
(١٩٧٠٧) حضرت ابوضحی (رض) فرماتے ہیں کہ سورة البراء ۃ کی پہلی آیت یہ نازل ہوئی : (ترجمہ) ” نکلو ! ہلکے ہو یا بوجھل، اور اللہ کے راستے میں اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ساتھ جہاد کرو۔ “

19707

(۱۹۷۰۸) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ الْحُبَابِ حدَّثَنِی عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ شُرَیْحٍ ، حَدَّثَنَا قَیْسُ بْنُ الْحَجَّاجِ ، عَنْ حَنَش بْنِ عَلِیٍّ الصَّنعانِیِّ ، قَالَ : سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ یَقُولُ فِی قولہ تعالی : {الَّذِینَ یُنْفِقُونَ أَمْوَالَہُمْ بِاللَّیْلِ وَالنَّہَارِ سِرًّا وَعَلاَنِیَۃً} قَالَ : عَلَی الْخَیْلِ فِی سَبِیلِ اللہِ۔
(١٩٧٠٨) حضرت ابن عباس (رض) قرآن مجید کی آیت { الَّذِینَ یُنْفِقُونَ أَمْوَالَہُمْ بِاللَّیْلِ وَالنَّہَارِ سِرًّا وَعَلاَنِیَۃً } کے بارے میں فرماتے ہیں کہ اس سے مراد اللہ کے راستہ میں گھوڑوں پر خرچ کرنا ہے۔

19708

(۱۹۷۰۹) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ الْحُبَابِ ، حَدَّثَنَا رَجَائُ بْنُ أَبِی سَلَمَۃَ ، حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ مُوسَی الدِّمَشْقِیُّ ، أَنَّہُ سَمِعَ سَہْلَ بْنَ عَجْلاَنَ الْبَاہِلِیَّ یَقُولُ فِی قولہ تعالی : {الَّذِینَ یُنْفِقُونَ أَمْوَالَہُمْ بِاللَّیْلِ وَالنَّہَارِ سِرًّا وَعَلاَنِیَۃً} قَالَ: عَلَی الْخَیْلِ فِی سَبِیلِ اللہِ ، قَالَ : ثُمَّ ذَکَرَ مَنْ رَبَطَ فَرَسًا فِی سَبِیلِ اللہِ لَمْ یَرْبِطْہ رِیَائً ، وَلاَ سُمْعَۃً کَانَ مِنَ الَّذِینَ یُنْفِقُونَ أَمْوَالَہُمْ بِاللَّیْلِ وَالنَّہَارِ۔
(١٩٧٠٩) حضرت سھل بن عجلان باہلی (رض) قرآن مجید کی آیت : { الَّذِینَ یُنْفِقُونَ أَمْوَالَہُمْ بِاللَّیْلِ وَالنَّہَارِ سِرًّا وَعَلاَنِیَۃً } کے بارے میں فرماتے ہیں کہ اس سے مراد اللہ کے راستے میں گھوڑوں پر خرچ کرنا ہے۔ پھر آپ نے فرمایا کہ جو شخص اللہ کے راستے میں گھوڑا باندھے اور اس میں کسی قسم کی ریا یا شہرت پسندی کی آمیزش نہ ہو تو یہ ان لوگوں میں سے ہوگا جو اپنا مال دن رات اللہ کے راستے میں خرچ کرتے ہیں۔

19709

(۱۹۷۱۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ مِسْعَرٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ مَوْلَی آلِ طَلْحَۃَ ، عَنْ عِیسَی بْنِ طَلْحَۃَ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : لاَ یَجْتَمِعُ غُبَارٌ فِی سَبِیلِ اللہِ ، وَدُخَانُ جَہَنَّمَ فِی مَنْخَرِ عَبْدٍ أبَدًا ، وَلَنْ یَلِجَ النَّارَ رَجُلٌ بَکَی مِنْ خَشْیَۃِ اللہِ حَتَّی یَلِجَ اللَّبَنُ فِی الضَّرْعِ۔ (ترمذی ۱۶۳۳۔ احمد ۲/۵۰۵)
(١٩٧١٠) حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ اللہ کے راستے کا غبار اور جہنم کا دھواں ایک ناک میں جمع نہیں ہوسکتے۔ اللہ کے خوف سے رونے والے کا جہنم میں داخل ہونا اسی طرح ناممکن ہے جس طرح تھنوں میں دودھ کا واپس جانا۔

19710

(۱۹۷۱۱) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ آدَمَ ، عَنْ قُطْبَۃَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِیزِ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ عَدِیِّ بْنِ ثَابِتٍ ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِی الْجَعْدِ ، قَالَ : أُرِیہِمُ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی النَّوْمِ ، فَرَأَی جَعْفَرًا مَلَکًا ذَا جَنَاحَیْنِ ، مُضَرَّجًا بِالدِّمَائِ ، وَزَیْدًا مُقَابِلُہُ عَلَی السَّرِیرِ ، وَابْنَ رَوَاحَۃَ جَالِسٌ مَعَہُمْ ، کَأَنَّہُمَا مُعْرِضَانِ عَنْہُ۔ (طبرانی ۱۴۶۸۔ ابن حبان ۷۰۴۷)
(١٩٧١١) حضرت سالم بن ابی جعد (رض) فرماتے ہیں کہ کچھ صحابہ کرام خواب میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دکھائے گئے۔ آپ نے دیکھا کہ حضرت جعفر (رض) ایک فرشتے کی صورت میں ہیں اور ان کے پیروں پر خون لگا ہوا ہے۔ حضرت زید (رض) ان کے سامنے ایک تخت پر بیٹھے ہیں۔ حضرت عبداللہ بن رواحہ (رض) بھی ان کے ساتھ بیٹھے ہیں لیکن ان دونوں حضرات کا رخ حضرت ابن رواحہ (رض) سے دوسری طرف ہے۔

19711

(۱۹۷۱۲) حَدَّثَنَا مَالِکُ بْنُ إسْمَاعِیلَ ، حَدَّثَنَا زُہَیْرٌ ، حَدَّثَنَا دَاوُد بْنُ عَبْدِ اللہِ الأَوْدِیُّ ، أَنَّ وَبَرَۃَ أَبَا کُرْزٍ الْحَارِثِیَّ حَدَّثَہُ أَنَّہُ سَمِعَ الرَّبِیعَ بْنَ زَیْدٍ یَقُولُ : بَیْنَمَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَسِیرُ ، إذْ ہُوَ بِغُلاَمٍ مِنْ قُرَیْشٍ شَابٍّ مُعْتَزِلٍ عَنِ الطَّرِیقِ یَسِیرُ ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : أَلَیْسَ ذَلِکَ فُلاَنٌ ؟ قَالُوا : بَلَی ، قَالَ: فَادْعُوہُ ، قَالَ : مَا لَکَ اعْتَزَلْتَ من الطَّرِیقِ ؟ قَالَ : یَا رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، کَرِہْتہ لِلْغُبَارِ، قَالَ : فَلاَ تَعْتَزِلُہُ ، فَوَالَّذِی نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہِ إِنَّہُ لَذَرِیرَۃُ الْجَنَّۃِ۔ (ابوداؤد ۳۰۵۔ نسائی ۸۸۱۹)
(١٩٧١٢) حضرت ربیع بن زید (رض) کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چلتے جا رہے تھے کہ قریش کا ایک لڑکا رستے سے ذرا ہٹ کر چل رہا تھا۔ آپ نے اسے دیکھ کر اس کے بارے میں پوچھا کہ کیا یہ فلاں لڑکا نہیں ہے ؟ لوگوں نے کہا کہ جی ہاں وہی ہے۔ آپ نے اسے بلا کر اس سے پوچھا کہ تم راستے سے ہٹ کر کیوں چل رہے ہو ؟ اس نے کہا : کہ میں غبار سے بچنا چاہتا ہوں۔ آپ نے فرمایا کہ راستے سے ہٹ کر نہ چلو کیونکہ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جان ہے ! یہ غبار جنت کی خوشبو ہے۔

19712

(۱۹۷۱۳) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ مُوسَی بْنِ أَبِی عُثْمَانَ ، عَنْ أَبِی الْعَوَامّ ، عَنْ أَبِی أَیُّوبَ أَنَّہُ أَقَامَ عَنِ الْجِہَادِ عَامًا وَاحِدًا ، فَقَرَأَ ہَذِہِ الآیَۃَ : { انْفِرُوا خِفَافًا وَثِقَالاَ } فَغَزَا مِنْ عَامِہِ ، وَقَالَ : مَا رَأَیْت فِی ہَذِہِ الآیَۃِ مِنْ رُخْصَۃٍ۔
(١٩٧١٣) حضرت ابو عوام (رض) فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت ابو ایوب (رض) کسی وجہ سے ایک سال جہاد پر نہ جاسکے۔ پھر انھوں نے قرآن مجید کی یہ آیت پڑھی : { انْفِرُوا خِفَافًا وَثِقَالاَ } ” نکلو ! ہلکے ہو یا بوجھل۔ “ پھر آپ ایک سال تک حج کرتے رہے اور فرماتے تھے اس آیت کے بعد کسی قسم کی رخصت باقی نہیں رہتی۔

19713

(۱۹۷۱۴) حَدَّثَنَا سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ حُصَیْنٍ ، عَنْ أَبِی مَالِکٍ ، قَالَ : أَوَّلُ شَیْئٍ نَزَلَ مِنْ بَرَائَۃٍ : { انْفِرُوا خِفَافًا وَثِقَالاَ } ۔
(١٩٧١٤) حضرت ابو مالک (رض) فرماتے ہیں کہ سورة البرائۃ کی سب سے پہلے یہ آیت نازل ہوئی : { انْفِرُوا خِفَافًا وَثِقَالاَ }

19714

(۱۹۷۱۵) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ بْنِ أَبِی خَالِدٍ ، عَنْ أَبِی صَالِحٍ : { انْفِرُوا خِفَافًا وَثِقَالاَ } قَالَ : الشَّیْخُ وَالشَّابُ۔
(١٩٧١٥) حضرت ابو صالح (رض) فرماتے ہیں کہ { انْفِرُوا خِفَافًا وَثِقَالاَ } سے مراد ہے جوان اور بوڑھے سب نکلیں۔

19715

(۱۹۷۱۶) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : شُیُوخًا وَشَبَابًا ، قَالَ قَتَادَۃُ : نِشَاطًا وَغَیْرَ نِشَاطٍ۔
(١٩٧١٦) حضرت حسن (رض) نے اس کی تشریح جوان اور بوڑھوں سے اور حضرت قتادہ (رض) نے اس کی تشریح ہوشیار اور نادان سے کی ہے۔

19716

(۱۹۷۱۷) حَدَّثَنَا ابْنُ مَہْدِیِّ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنِ الْحَکَمِ : { انْفِرُوا خِفَافًا وَثِقَالاَ } قَالَ : مَشَاغِیلُ وَغَیْرُ مَشَاغِیلَ۔
(١٩٧١٧) حضرت حکم (رض) نے آیت قرآنی { انْفِرُوا خِفَافًا وَثِقَالاَ } کی تفسیر مصروف اور فارغ سے کی ہے۔

19717

(۱۹۷۱۸) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ مَالِکِ بْنِ مِغْوَلٍ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ ، قَالَ : الشَّیْخُ وَالشَّبَابُ۔
(١٩٧١٨) حضرت عکرمہ (رض) نے اس کی تفسیر جوان اور بوڑھوں سے کی ہے۔

19718

(۱۹۷۱۹) حَدَّثَنَا شَبَابَۃُ ، عَنْ وَرْقَائَ ، عَنِ ابْن أَبِی نَجِیحٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ: { انْفِرُوا خِفَافًا وَثِقَالاَ } قَالَ: فِینَا الثَّقِیلُ وَذُو الْحَاجَۃِ ، والضعفۃ وَالْمُشْتَغِلُ۔
(١٩٧١٩) حضرت مجاہد (رض) { انْفِرُوا خِفَافًا وَثِقَالاَ } کے بارے میں فرماتے ہیں کہ ہم میں مریض، ضرورت مند، کمزور اور مصروف لوگ ہیں۔

19719

(۱۹۷۲۰) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : شُیُوخًا وَشَبَابًا۔
(١٩٧٢٠) حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ اس سے مراد جوان اور بوڑھے ہیں۔

19720

(۱۹۷۲۱) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ یَزِیدَ بْنِ جَابِرٍ ، عَنْ مَکْحُولٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَنْ صَامَ یَوْمًا فِی سَبِیلِ اللہِ بُوعِدَ مِنَ النَّارِ مِئَۃ خَرِیفٍ۔ (نسائی ۲۵۶۲)
(١٩٧٢١) حضرت مکحول (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ جس شخص نے اللہ کے راستے میں ایک روزہ رکھا وہ جنت سے سو خریف دور کردیا جاتا ہے۔

19721

(۱۹۷۲۲) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنِ سُمَیٍّ ، عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ أَبِی عَیَّاشٍ ، عَنْ أَبِی سعِیدٍ الْخُدْرِیِّ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لاَ یَصُومُ عَبْدٌ یَوْمًا فِی سَبِیلِ اللہِ ، إِلاَّ بَاعَدَ اللَّہُ بِذَلِکَ الْیَوْمِ عَنْ وَجْہِہِ النَّارَ سَبْعِینَ خَرِیفًا۔ (بخاری ۲۸۴۰۔ نسائی ۲۵۶۱)
(١٩٧٢٢) حضرت ابو سعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ جب کوئی شخص اللہ کے راستے میں روزہ رکھتا ہے تو اس کی وجہ سے ستر خریف جہنم سے دور کردیا جاتا ہے۔

19722

(۱۹۷۲۳) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنِ النُّعْمَانِ ، عَنْ أَبِی سَعِیدٍ نَحْوَہُ ، وَلَمْ یَرْفَعْہُ۔
(١٩٧٢٣) حضرت ابو سعید (رض) کا اپنا قول بھی یہی منقول ہے۔

19723

(۱۹۷۲۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، حَدَّثَنَا الرَّبِیعُ بْنُ صَبِیحٍ ، عَنْ یَزِیدَ بْنِ أَبَانَ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَنْ صَامَ یَوْمًا فِی سَبِیلِ اللہِ بَاعَدَہُ اللَّہُ مِنْ جَہَنَّمَ سَبْعِینَ عَامًا۔ (ابن عدی ۷۱۷)
(١٩٧٢٤) حضرت انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ جس شخص نے اللہ کے راستے میں ایک روزہ رکھا۔ اللہ تعالیٰ اسے جہنم سے ستر خریف دور فرما دیتے ہیں۔

19724

(۱۹۷۲۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، حَدَّثَنَا قَیْسٌ ، عَنْ شَمِرِ بْنِ عَطِیَّۃَ ، عَنْ شَہْرِ بْنِ حَوْشَبَ ، عَنْ أَبِی الدَّرْدَائِ ، قَالَ : مَنْ صَامَ یَوْمًا فِی سَبِیلِ اللہِ کَانَ بَیْنَہُ وَبَیْنَ جَہَنَّمَ خَنْدَقٌ أَبْعَدُ مِمَّا بَیْنَ السَّمَائِ وَالأَرْضِ۔
(١٩٧٢٥) حضرت ابو دردائ (رض) فرماتے ہیں کہ جس شخص نے اللہ کے راستے میں ایک روزہ رکھا اللہ تعالیٰ اس کو جہنم سے ایک خندق دور فرما دیں گے اور اس خندق کا فاصلہ زمین و آسمان کے درمیانی خلاء کے برابر ہے۔

19725

(۱۹۷۲۶) حَدَّثَنَا غُنْدَرَ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ یَعْلَی بْنِ عَطَائٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ یَعْقُوبَ بْنِ عَاصِمِ بْنِ عُرْوَۃَ بْنِ مَسْعُودٍ یُحَدِّثُ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ فِی الْجَنَّۃِ قَصْرٌ ، یُقَالُ لَہُ عَدَنٌ ، فِیہِ خَمْسَۃُ آلاَفِ بَابٍ عَلَی کُلِّ بَابٍ خَمْسَۃُ آلاَفِ بَابٍ ، عَلَی کُلِّ بَابٍ خَمْسَۃُ آلاَفِ حِبَرۃ قَالَ یَعْلَی أَحْسَبُہُ ، قَالَ : لاَ یَدْخُلُہُ إِلاَّ نَبِیٌّ ، أَوْ صِدِّیقٌ ، أَوْ شَہِیدٌ۔
(١٩٧٢٦) حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) فرماتے ہیں کہ جنت میں ایک محل ہے جس کا نام عدن ہے۔ اس میں پانچ ہزار دروازے ہیں۔ ہر دروازے پر پانچ ہزار پردے ہیں۔ اس میں صرف نبی، صدیق یا شہید داخل ہوں گے۔

19726

(۱۹۷۲۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، حَدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ أَبِی الضُّحَی ، عَنْ مَسْرُوقٍ : {أُولَئِکَ ہُمَ الصِّدِّیقُونَ وَالشُّہَدَائُ} قَالَ : ہَذِہِ لِلشُّہَدَائِ خَاصَّۃً۔
(١٩٧٢٧) حضرت مسروق (رض) قرآن مجید کی آیت { أُولَئِکَ ہُمَ الصِّدِّیقُونَ وَالشُّہَدَائُ } کے بارے میں فرماتے ہیں کہ یہ شہداء کے ساتھ خاص ہے۔

19727

(۱۹۷۲۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، حَدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ بُرْدٍ ، عَنْ مَکْحُولٍ ، قَالَ : لِلشُّہَدَائِ خَاصَّۃً۔
(١٩٧٢٨) حضرت مکحول (رض) فرماتے ہیں کہ شہداء کے ساتھ خاص ہے۔

19728

(۱۹۷۲۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، حَدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ بُرْدٍ ، عَنْ مَکْحُولٍ ، قَالَ : لِلشَّہِیدِ سِتُّ خِصَالٍ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ : یُؤَمَّنُ مِنْ عَذَابِ اللہِ ، وَمِنَ الْفَزَعِ الأَکْبَرِ ، وَیَشْفَعُ فِی کَذَا وَکَذَا مِنْ أَہْلِ بَیْتِہِ ، وَیُحَلَّی حِلْیَۃَ الإِیمَانِ ، وَیُرَی مَقْعَدَہُ مِنَ الْجَنَّۃِ ، وَیُغْفَرُ لَہُ کُلُّ ذَنْبٍ۔ (بخاری ۶۴۲۔ احمد ۴/۲۰۰)
(١٩٧٢٩) حضرت مکحول (رض) فرماتے ہیں کہ شہید کو قیامت کے دن چھ انعام ملیں گے 1 وہ اللہ کے عذاب سے مامون رہے گا۔ 2 وہ بڑے خوف (فزع اکبر) سے محفوظ رہے گا۔ 3 وہ اپنے گھر والوں میں سے اتنے اتنے لوگوں کی شفاعت کرے گا۔ 4 اسے ایمان کا زیور پہنایا جائے گا۔ 5 ۔ وہ جنت میں اپنے ٹھکانے کو دیکھ لے گا۔ 6 اس کے ہر گناہ کو معاف کردیا جائے گا۔

19729

(۱۹۷۳۰) حَدَّثَنَا أَبُوبَکْرِ بْنُ عَیَّاشٍ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ، عَنْ عَلْقَمَۃَ، قَالَ: غَزْوَۃٌ لِمَنْ قَدْ حَجَّ، خَیْرٌ مِنْ عَشْرِ حَجَّاتٍ۔q
(١٩٧٣٠) حضرت علقمہ (رض) فرماتے ہیں کہ جو شخص حج کرچکا ہو اس کا ایک غزوہ دس حج کرنے سے بہتر ہے۔

19730

(۱۹۷۳۱) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مُرَّۃَ ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، قَالَ : سَأَلْتُ ابْنَ مَسْعُودٍ ، عَنْ ہَذِہِ الآیَۃِ : {وَلاَ تَحْسَبَنَّ الَّذِینَ قُتِلُوا فِی سَبِیلِ اللہِ أَمْوَاتًا بَلْ أَحْیَائٌ عِنْدَ رَبِّہِمْ یُرْزَقُونَ} فَقَالَ : أَمَا إنَّا قَدْ سَأَلْنَا عَنْ ذَلِکَ ، فَقَالَ : أَرْوَاحُہُمْ کَطَیْرٍ خُضْرٍ ، تَسْرَحُ فِی الْجَنَّۃِ ، فِی أَیُّہَا شَائَتْ ، ثُمَّ تَأْوِی إلَی قَنَادِیلَ مُعَلَّقَۃٍ بِالْعَرْشِ ، فَبَیْنَمَا ہُمْ کَذَلِکَ ، إذَا طَلَعَ عَلَیْہِمْ رَبُّک ، فَقَالَ : سَلُونِی مَا شِئْتُمْ ، فَقَالُوا : یَا رَبَّنَا وَمَاذَا نَسْأَلُک ، وَنَحْنُ نَسْرَحُ فِی الْجَنَّۃِ فِی أَیُّہَا شِئْنَا ، قَالَ : فَبَیْنَمَا ہُمْ کَذَلِکَ إذْ اطَّلَعَ عَلَیْہِمْ رَبُّہُمَ اطِّلاَعَۃً ، فَقَالَ : سَلُونِی مَا شِئْتُمْ ، فَقَالُوا : یَا رَبَّنَا وَمَاذَا نَسْأَلُک وَنَحْنُ نَسْرَحُ فِی الْجَنَّۃِ فِی أَیُّہَا شِئْنَا ، قَالَ : فَبَیْنَمَا ہُمْ کَذَلِکَ إذِ اطَّلَعَ عَلَیْہِمْ رَبُّہُمَ اطِّلاَعَۃً ، فَقَالَ : سَلُونِی مَا شِئْتُمْ ، فَقَالُوا : یَا رَبَّنَا وَمَاذَا نَسْأَلُک ، وَنَحْنُ نَسْرَحُ فِی الْجَنَّۃِ فِی أَیُّہَا شِئْنَا ، قَالَ : فَلَمَّا رَأَوْا أنَّہُمْ لن یُتْرَکُوا ، قَالُوا : نَسْأَلُک أَنْ تَرُدَّ أَرْوَاحَنَا فِی أَجْسَادِنَا إلَی الدُّنْیَا حَتَّی نُقْتَلَ فِی سَبِیلِکَ ، قَالَ : فَلَمَّا رَأَی أَنَّہُمْ لاَ یَسْأَلُونَ إِلاَّ ہَذَا تَرَکَہُمْ۔ (مسلم ۱۵۰۲۔ ابن ماجہ ۲۸۰۱)
(١٩٧٣١) حضرت مسروق (رض) کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) سے قرآن مجید کی اس آیت کے بارے میں سوال کیا : { وَلاَ تَحْسَبَنَّ الَّذِینَ قُتِلُوا فِی سَبِیلِ اللہِ أَمْوَاتًا بَلْ أَحْیَائٌ عِنْدَ رَبِّہِمْ یُرْزَقُونَ } انھوں نے فرمایا کہ ہم نے اس بارے میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ شہداء کی روحیں سبز پرندوں کی صورت میں ہوتی ہیں اور جنت میں جہاں چاہتی ہیں سیر کرتی پھرتی ہیں۔ پھر وہ عرش سے لٹکے ہوئے قنادیل پر بیٹھی ہیں تو اللہ تعالیٰ ان سے مخاطب ہو کر فرماتا ہے جو تم چاہتے ہو وہ مانگو، وہ کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب ! ہم آپ سے اور کیا مانگیں ہم جنت میں سیر کر رہے ہیں اس کے علاوہ ہمیں اور کیا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے تم مجھ سے جو چاہتے ہو مانگو۔ وہ کہیں گے اے ہمارے رب ! ہم تجھ سے کیا مانگیں، ہم جنت میں سیر و تفریح کر رہے ہیں، اس کے علاوہ ہمیں کس چیز کی خواہش ہوسکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ پھر ان کی طرف متوجہ ہو کر فرمائے گا کہ تم جو چاہتے ہو مجھ سے مانگو۔ وہ کہیں گے کہ اے ہمارے رب ! ہم آپ سے کیا مانگیں، ہم جنت میں جہاں چاہتے ہیں سیر کرتے ہیں ہمیں اور کیا چاہیے، پھر جب وہ دیکھیں گے کہ اللہ تعالیٰ انھیں ضرور کچھ دینا چاہتے ہیں تو وہ کہیں گے اے ہمارے رب ! ہم تجھ سے سوال کرتے ہیں کہ تو ہماری روحوں کو ہمارے جسموں میں واپس لوٹا دے تاکہ ہم جا کر تیرے راستے میں جہاد کریں۔ جب اللہ تعالیٰ دیکھیں گے کہ وہ جنت کی کوئی چیز مانگ ہی نہیں رہے تو اللہ تعالیٰ انھیں ان کے حال میں چھوڑ دیں گے۔

19731

(۱۹۷۳۲) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِی الْجَعْدِ ، عَنْ شُرَحْبِیلَ بْنِ السِّمْطِ ، قَالَ : قلْنَا لِکَعْبِ بْنِ مُرَّۃَ : حَدِّثْنَا یَا کَعْبُ ، عَنْ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَاحْذَرْ ، فَقَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : ارْمُوا مَنْ بَلَغَ الْعَدُوَّ بِسَہْمٍ رَفَعَہُ اللَّہُ بِہِ دَرَجَۃً ، فَقَالَ لَہُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أبی النَّحَّام : یَا رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَمَا الدَّرَجَۃُ ؟ قَالَ : أَمَّا إِنَّہَا لَیْسَتْ بِعَتَبَۃِ أُمِّکَ وَلَکِنْ مَا بَیْنَ الدَّرَجَتَیْنِ مِئَۃ عَامٍ ، یَا کَعْبُ حَدِّثْنَا عَنْ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَاحْذَرْ، قَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یقول : مَنْ شَابَ فِی سَبِیلِ اللہِ شَیْبَۃً کَانَتْ لَہُ نُورًا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَمَنْ رَمَی بِسَہْمٍ فِی سَبِیلِ اللہِ کَانَ کَمَنْ أَعْتَقَ رَقَبَۃً۔ (ترمذی ۱۶۳۴۔ احمد ۴/۲۳۵)
(١٩٧٣٢) حضرت شرحبیل بن سمط (رض) کہتے ہیں کہ ہم نے حضرت کعب بن مرہ (رض) سے کہا کہ اے کعب (رض) ! ہمیں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیان کردہ کوئی حدیث سنائیں اور اللہ سے ڈریں ! حضرت کعب بن مرہ (رض) نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے ہوئے سنا کہ دشمن پر تیر چلاؤ۔ جس کا تیر دشمن کو لگ گیا اللہ تعالیٰ جنت میں اس کا ایک درجہ بلند فرما دیتے ہیں۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد سن کر حضرت عبد الرحمن بن ابی نحام (رض) نے کہا کہ یا رسول اللہ ! وہ درجہ کتنا ہے ! حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ وہ درجہ تمہارے باپ کی زمین جتنا نہیں بلکہ دو درجوں کے درمیان سو سال کی مسافت کا فاصلہ ہے۔ ہم نے پھر کہا اے کعب (رض) ! حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیان کردہ کوئی حدیث سنائیں اور اس سے ڈریں۔ انھوں نے فرمایا کہ میں نے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جس شخص کے بال اللہ کے راستے میں سفید ہوئے اس کے لیے قیامت کے دن نور ہوگا اور جس شخص نے اللہ کے راستہ میں تیر چلایا یہ اس شخص کی طرح ہے جس نے ایک غلام آزاد کیا۔

19732

(۱۹۷۳۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللہِ ، عَنْ لَیْثِ بْنِ الْمُتَوَکِّلِ ، عَنْ مَالِکِ بْنِ عَبْدِ اللہِ الْخَثْعَمِیِّ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَنِ اغْبَرَّتْ قَدَمَاہُ فِی سَبِیلِ اللہِ حَرَّمَہُ اللَّہُ عَلَی النَّارِ۔ (بخاری ۹۰۷۔ احمد ۵/۲۲۶۔ طبرانی ۶۶۱)
(١٩٧٣٣) حضرت مالک بن عبداللہ خثعمی (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ جس شخص کے قدم اللہ کے راستے میں گرد آلود ہوئے اللہ تعالیٰ اس پر جہنم کو حرام کردیتے ہیں۔

19733

(۱۹۷۳۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، حَدَّثَنَا سُفْیَانُ ، حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ عَمْرِو بْنِ سَلِمَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللہِ : لأَنْ أُمَتَّعُ بِسَوْطٍ فِی سَبِیلِ اللہِ ، أَحَبُّ إلَیَّ مِنْ حَجَّۃٍ فِی إثْرِ حَجَّۃٍ۔
(١٩٧٣٤) حضرت عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ میں اللہ کے راستے میں اپنا کوڑا استعمال کروں یہ مجھے حج کے بعد حج کرنے سے زیادہ محبوب ہے۔

19734

(۱۹۷۳۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، حَدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ ، عَنْ قَیْسٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ سَعْدًا یَقُولُ : إنِّی أَوَّلُ الْعَرَبِ رَمَی بِسَہْمٍ فِی سَبِیلِ اللہِ۔
(١٩٧٣٥) حضرت سعد (رض) فرماتے ہیں کہ میں پہلا عرب ہوں جس نے اللہ کے راستے میں تیر چلایا۔

19735

(۱۹۷۳۶) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ أَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ أَبِی قَتَادَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : جَائَ رَجُلٌ إلَی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : یَا رَسُولَ اللہِ ، لأن قُتِلْت فِی سَبِیلِ اللہِ کَفَّرَ اللَّہُ بِہِ خَطَایَایَ ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إِنْ قُتِلْت فِی سَبِیلِ اللہِ صَابِرًا مُحْتَسِبًا مُقْبِلاً غَیْرَ مُدْبِرٍ کَفَّرَ اللَّہُ بِہِ خَطَایَاک إِلاَّ الدَّیْنَ ، کَذَا قَالَ لِی جِبْرِیلُ۔
(١٩٧٣٦) حضرت ابو قتادہ (رض) فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نبی پاک (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے عرض کیا کہ اگر میں اللہ کے راستے میں شہید ہو جاؤں تو کیا میرے سارے گناہ معاف ہوجائیں گے ؟ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کہ اگر تم صبر کرتے ہوئے، ثواب کی نیت کرتے ہوئے، آگے بڑھتے ہوئے اور پیچھے نہ دیکھتے ہوئے شہید ہوئے، تو قرض کے علاوہ تمہارے سارے اعمال معاف ہوجائیں گے۔ مجھے جبرائیل نے یونہی بتایا ہے۔

19736

(۱۹۷۳۷) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ حُبَابٍ ، عَنْ مُوسَی بْنِ عُبَیْدَۃَ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ أَبِی قَتَادَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : لَمَّا أَقْبَلْنَا مِنْ غَزْوَۃِ تَبُوکَ ، قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَنْ لَقِیَ مِنْکُمْ أَحَدًا مِنَ الْمُتَخَلِّفِینَ فَلاَ یُکَلِّمَنَّہُ ، وَلاَ یُجَالِسَنَّہُ۔
(١٩٧٣٧) حضرت ابو قتادہ (رض) فرماتے ہیں کہ جب ہم غزوہ تبوک سے واپس آئے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اگر تم میں سے کوئی پیچھے رہ جانے والوں سے ملے تو نہ ان سے بات کرے اور نہ ان کی ہم نشینی اختیار کرے۔

19737

(۱۹۷۳۸) حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ خَالِدٍ ، عَنْ مُعَاوِیَۃَ بْنِ صَالِحٍ ، عَنْ یُونُسَ بْنِ سَیْفٍ ، عَنْ عُمَیْرِ بْنِ الأَسْوَدِ ، قَالَ : قَالَ عُمَرُ : عَلَیْکُمْ بِالْحَجِّ ، فَإِنَّہُ عَمَلٌ صَالِحٌ أَمَرَ اللَّہُ بِہِ ، وَالْجِہَادُ أَفْضَلُ مِنْہُ۔
(١٩٧٣٨) حضرت عمر (رض) فرماتے ہیں کہ تم پر حج لازم ہے، یہ ایک نیک عمل ہے، جس کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے، اور جہاد حج سے افضل ہے۔

19738

(۱۹۷۳۹) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عن عبد اللہ بن مسلم ، عَنِ ابْنِ سَابِطٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ فِی الْجَنَّۃِ قَصْرٌ یُدْعَی عَدْنٌ حَوْلَہُ المروْح وَالبروْج، لَہُ خَمْسَۃُ آلاَفِ بَابٍ ، لاَ یَسْکُنُہُ ، أَوْ لاَ یَدْخُلُہُ إِلاَّ نَبِیٌّ ، أَوْ صِدِّیقٌ ، أَوْ شَہِیدٌ ، أَوْ إمَامٌ عَادِلٌ۔
(١٩٧٣٩) حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) فرماتے ہیں کہ جنت میں ایک محل ہے جس کا نام عدن ہے۔ اس کے اردگرد چراگاہیں ہیں۔ اس کے پانچ ہزار دروازے ہیں۔ ہر دروازے سے صرف نبی، صدیق، شہید یا عادل امام ہی داخل ہوسکتا ہے۔

19739

(۱۹۷۴۰) حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ عَیَّاشٍ ، عَنْ عَامِرٍ ، عَنْ زِرٍّ ، قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللہِ : النُّعَاسُ عَند الْقَتْلِ أَمَنَۃٌ مِنَ اللہِ ، وَعِنْدَ الصَّلاَۃِ مِنَ الشَّیْطَانِ ، وَتَلاَ ہَذِہِ الآیَۃَ : {إذْ یُغَشَاکُم النُّعَاسَ أَمَنَۃً مِنْہُ}؟
(١٩٧٤٠) حضرت عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ جنگ کے وقت نیند آنا اللہ کی طرف سے نازل ہونے والی طمانیت ہے اور نماز کے وقت نیند آنا شیطان کی طرف سے ہے۔ پھر انھوں نے اس آیت کی تلاوت کی : {إذْ یُغَشَاکُم النُّعَاسَ أَمَنَۃً مِنْہُ }

19740

(۱۹۷۴۱) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ بَکْرٍ السَّہْمِیُّ ، عَنْ حُمَیْدٍ ، عَنْ أَنَسٍ ، أَنَّ أَبَا طَلْحَۃَ کَانَ یَرْمِی بَیْنَ یَدَیْ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَالنَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خَلْفَہُ یَرْفَعُ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَأْسَہُ وَرَفَعَ أَبُو طَلْحَۃَ رَأْسَہُ یَقُولُ : نَحْرِی دُونَ نَحْرِکَ یَا رَسُولَ اللہِ۔ (بخاری ۳۸۱۱۔ مسلم ۱۳۶)
(١٩٧٤١) حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت ابو طلحہ (رض) حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ کھڑے تیر چلا رہے تھے اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے پیچھے تھے، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سر مبارک بلند کر رکھا تھا، اور حضرت ابو طلحہ (رض) بھی اپنا سر بلند کر کے کہہ رہے تھے کہ اے اللہ کے رسول ! میں آپ سے پہلے نشانہ بنوں گا۔

19741

(۱۹۷۴۲) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ بَکْرٍ ، عَنْ حُمَیْدٍ ، عَنْ أَنَسٍ ، عَنْ أَبِی طَلْحَۃَ ، قَالَ : کُنْتُ فِیمَنْ أُنْزِلَ عَلَیْہِ النُّعَاسُ یَوْمَ أُحُدٍ۔ (بخاری ۳۸۱۱۔ ترمذی ۳۰۰۷)
(١٩٧٤٢) حضرت ابو طلحہ (رض) فرماتے ہیں کہ میں غزوہ احد کے دن ان لوگوں میں سے تھا جن پر اللہ تعالیٰ نے سکون کی نیند طاری کی۔

19742

(۱۹۷۴۳) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنِ الزُّبَیْرِ بِنَحْوِ حَدِیثِ أَبِی طَلْحَۃَ۔ (ترمذی ۳۰۰۷)
(١٩٧٤٣) حضرت ابو طلحہ (رض) کی روایت حضرت زبیر (رض) سے بھی منقول ہے۔

19743

(۱۹۷۴۴) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، حَدَّثَنَا مُصْعَبُ بْنُ سُلَیْمٍ الزُّہْرِیُّ ، قَالَ : حدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِکٍ ، قَالَ : لَمَّا بُعِثَ أَبُو مُوسَی عَلَی الْبَصْرَۃِ کَانَ مِمَّنْ بُعِثَ مَعَہُ الْبَرَائُ ، وَکَانَ مِنْ وَزرَائِہِ وَکَانَ یَقُولُ لَہُ : اختر من عملی ، فَقَالَ : الْبَرَائُ : وَمُعْطِیَّ أَنْتَ مَا سَأَلْتُک ؟ قَالَ : نَعَمْ ، قَالَ : أَمَا إنِّی لاَ أَسْأَلُک إمَارَۃَ مِصْرَ ، وَلاَ جِبَایَتَہُ ، وَلَکِنْ أَعْطِنِی قَوْسِی وَرُمْحِی ، وَفَرَسِی وَسَیْفِی ، وَدِرْعِی ، وَالْجِہَادَ فِی سَبِیلِ اللہِ ، فَبَعَثَہُ عَلَی جَیْشٍ ، فَکَانَ أَوَّلَ مَنْ قُتِلَ۔
(١٩٧٤٤) حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ جب حضرت ابو موسیٰ (رض) کو بصرہ بھیجا گیا تو ان کے ساتھ جانے والوں میں حضرت برائ (رض) بھی تھے۔ وہ ان کے نائبین اور وزراء میں سے تھے ۔ حضرت ابو موسیٰ (رض) ان سے فرمایا کرتے تھے کہ آپ اپنے لیے کوئی عہدہ منتخب کرلیجئے۔ حضرت برائ (رض) نے ان سے فرمایا کہ میں جو آپ سے طلب کروں گا آپ مجھے دیں گیْ حضرت ابو موسیٰ (رض) نے فرمایا کہ جی ہاں ! حضرت برائ (رض) نے فرمایا کہ میں آپ سے مصر اور اس کی نواحی بستیوں کی امارت نہیں مانگتا، بلکہ میں آپ سے سوال کرتا ہوں کہ آپ مجھے میری کمان، میرا گھوڑا، میرا نیزہ اور میری تلوار دے دیں اور مجھے اللہ کے راستے میں جہاد کے لیے جانے دیں۔ حضرت ابو موسیٰ (رض) نے حضرت برائ (رض) کو ایک لشکر کے ساتھ بھیج دیا۔ وہ اس لشکر کے سب سے پہلے شہید تھے۔

19744

(۱۹۷۴۵) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، حَدَّثَنَا مُصْعَبُ بْنُ سُلَیْمٍ ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ : تَمَثَّلَ الْبَرَائُ بِبَیْتٍ مِنْ شِعْرٍ فَقُلْت لَہُ : أَیْ أَخِی تَمَثَّلْتَ بِبَیْتٍ مِنْ شِعْرٍ ، لاَ تَدْرِی لَعَلَّہُ آخِرُ شَیْئٍ تَکَلَّمْت بِہِ ؟ قَالَ : لاَ أَمُوتُ عَلَی فِرَاشِی ، لَقَدْ قَتَلْت مِنَ الْمُشْرِکِینَ وَالْمُنَافِقِینَ مِئَۃ رَجُلٍ إِلاَّ رَجُلاً۔
(١٩٧٤٥) حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت برائ (رض) نے ایک شعر گنگنایا۔ میں نے ان سے کہا اے بھائی ! آپ شعر گنگنا رہے ہیں، اگر یہ آپ کا آخری کلام ہو اتو کیا بنے گا ؟ انھوں نے فرمایا : کہ میں اپنے بستر پر نہیں مروں گا، میں نے ننانوے مشرکوں اور کافروں کو قتل کیا ہے۔

19745

(۱۹۷۴۶) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، حَدَّثَنَا حُمَیْدٌ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ ، أَنَّ عَمَّہُ غَابَ عَنْ قِتَالِ بَدْرٍ ، فَقَالَ : غِبْت عَنْ أَوَّلِ قِتَالٍ قَاتَلَہُ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَاللَّہِ لأَنْ أَرَانِیَ اللَّہُ قِتَالَ الْمُشْرِکِینَ لَیَرَیَنَّ اللَّہُ مَا أَصْنَعُ ؟ فَلَمَّا کَانَ یَوْمَ أُحُدٍ انْکَشَفَ الْمُسْلِمُونَ ، فَقَالَ : اللَّہُمَّ إنِّی أَعْتَذِرُ إلَیْک مِمَّا صَنَعَ ہَؤُلاَئِ ، یَعْنِی الْمُسْلِمِینَ ، وَأَبْرَأُ إلَیْک مِمَّا جَائَ بِہِ ہَؤُلاَئِ ، یَعْنِی الْمُشْرِکِینَ ، ثُمَّ تَقَدَّمَ فَلَقِیَہُ سَعْدٌ بأخراہا دون أحد ، فَقَالَ لَہُ سَعْدٌ : أَنَا مَعَک ، قَالَ سَعْدٌ : فَلَمْ أَسْتَطِعْ أَنْ أَصْنَعَ کَمَا صَنَعَ ، وَوُجِدَ فِیہِ بِضْعٌ وَعِشْرُونَ ضَرْبَۃً بِسَیْفٍ وَطَعْنَۃً بِرُمْحٍ وَرَمْیَۃً بِسَہْمٍ فَکُنَّا نَقُولُ : فِیہِ وَفِی أَصْحَابِہِ نَزَلَتْ : {فَمِنْہُمْ مَنْ قَضَی نَحْبَہُ وَمِنْہُمْ مَنْ یَنْتَظِرُ}؟ (بخاری ۲۸۰۵۔ مسلم ۱۵۱۲)
(١٩٧٤٦) حضرت انس بن مالک (رض) فرماتے ہیں کہ ان کے چچا کسی وجہ سے غزوہ بدر میں شریک نہ ہو سکے۔ انھوں نے کہا کہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی معیت میں پہلی لڑائی میں تو شریک نہ ہوسکا، لیکن اگر اللہ نے مجھے دوبارہ کافروں سے لڑنے کا موقع دیا تو اللہ تعالیٰ دیکھ لے گا کہ میں کیا کرتا ہوں ! پھر غزوہ أحد میں جب مسلمان بکھر گئے تو میرے چچا نے کہا کہ اے اللہ ! میں مسلمانوں کے قتل پر تجھ سے معافی مانگتا ہوں اور کافروں کے قتل پر برأت کا اظہار کرتا ہوں۔ پھر وہ آگے بڑھے تو انھیں احد کے پاس حضرت سعد (رض) ملے۔ حضرت سعد (رض) نے ان سے کہا کہ میں آپ کے ساتھ ہوں۔ حضرت سعد (رض) فرماتے ہیں کہ جیسی لڑائی انھوں نے کی میں ایسی لڑائی کی طاقت نہ رکھتا تھا۔ ان کے جسم میں بیس سے زیادہ تلواروں، نیزوں اور تیروں کے نشان تھے۔ ہم ان کے اور ان کے ساتھیوں کے بارے میں کہا کرتے تھے کہ یہ آیت ان کے بارے میں نازل ہوئی ہے : (ترجمہ)” ان میں سے بعض نے تو اپنی منت کو پورا کردیا اور بعض انتظار کر رہے ہیں۔ “ (الاحزاب : ٢٣)

19746

(۱۹۷۴۷) حَدَّثَنَا ہَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بن ثَوْبَانَ ، حَدَّثَنَا حَسَّانُ بْنُ عَطِیَّۃَ ، عَنْ أَبِی مُنِیبٍ الْجُرَشِیِّ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : بُعِثْت بَیْنَ یَدَیِ السَّاعَۃِ بِالسَّیْفِ حَتَّی یُعْبَدَ اللَّہُ وَحْدَہُ لاَ یُشْرَکَ بِہِ شَیْئٌ وَجُعِلَ رِزْقِی تَحْتَ ظِلِّ رُمْحِی ، وَجُعِلَ الذِّلَّۃُ وَالصَّغَارُ عَلَی مَنْ خَالَفَ أَمْرِی ، وَمَنْ تَشَبَّہَ بِقَوْمٍ فَہُوَ مِنْہُمْ۔ (ابوداؤد ۴۰۲۷۔ احمد ۲/۵۰)
(١٩٧٤٧) حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ مجھے قیامت سے پہلے تلوار کے ساتھ بھیجا گیا ہے۔ یہاں تک کہ صرف ایک اللہ کی عبادت کی جائے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرایا جائے، میرا رزق میرے نیزے کے نیچے ہے۔ میری مخالفت کرنے والے کا مقدر ذلت اور رسوائی ہے۔ جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی وہ انہی میں سے ہے۔

19747

(۱۹۷۴۸) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ ، عَنْ مُرَّۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : عَجِبَ رَبُّنَا مِنْ رَجُلَیْنِ : رَجُلٌ قَامَ مِنْ فِرَاشِہِ وَلِحَافِہِ مِنْ بَیْنِ حِبِّہِ ، وَأَہْلِہِ قَامَ إلَی صَلاَتِہِ ، رَغْبَۃً فِیمَا عِنْدِی ، وَشَفَقَۃً مِمَّا عِنْدِی ، ورَجُلٌ غَزَا فِی سَبِیلِ اللہِ تَعَالَی فَفَرَّ أَصْحَابُہُ ، فَعَلِمَ مَا عَلَیْہِ فِی الْفِرَارِ وَمَا لَہُ فِی الرُّجُوعِ فَرَجَعَ حَتَّی أُہْرِیقَ دَمُہُ فَیَقُولُ اللَّہُ تَعَالَی لِمَلاَئِکَتِہِ : یَا مَلاَئِکَتِی انْظُرُوا إلَی عَبْدِی رَجَعَ حَتَّی أُہْرِیقَ دَمُہُ ، رَغْبَۃً فِیمَا عِنْدِی وَشَفَقَۃً مِمَّا عِنْدِی۔ (ابوداؤد ۲۵۲۸۔ حاکم ۱۱۲)
(١٩٧٤٨) حضرت عبداللہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ دو آدمیوں کو دیکھ کر بہت خوش ہوتا ہے۔ ایک وہ آدمی جو اپنی محبوب بیوی، بستر اور لحاف کو چھوڑ کر میری چاہت اور میرے انعامات کی خواہش میں نماز کے لیے کھڑا ہوجائے۔ دوسرا وہ آدمی جو اللہ کے راستے میں جہاد کرے، اس کے ساتھ بھاگ جائے، اسے میدان جنگ سے بھاگنے کا وبال یاد آئے اور وہ واپس جانے کے بجائے دشمن پر لپکے اور شہید ہوجائے۔ اس پر اللہ تعالیٰ فرشتوں سے فرماتے ہیں کہ اے فرشتو ! میرے اس بندے کو دیکھو، یہ دشمن کی طرف میری چاہت اور میرے انعامات کی خواہش میں واپس گیا اور شہید ہوگیا۔

19748

(۱۹۷۴۹) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَنْ زَائِدَۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ : اتَّکَأَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عِنْدَ ابْنَۃِ مِلْحَانَ ، قَالَ : فَأَغْفَی فَاسْتَیْقَظَ وَہُوَ یَتَبَسَّمُ ، قَالَ : فَقَالَتْ : یَا رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْک ، مِمَّ ضَحِکُک ؟ قَالَ : مِنْ أُنَاسٍ مِنْ أُمَّتِی یَغْزُونَ ہَذَا الْبَحْرَ الأَخْضَرَ ، مَثَلُہُمْ مَثَلُ الْمُلُوکِ عَلَی الأَسِرَّۃِ ، قَالَ : فَقَالَتْ : یَا رَسُولَ اللہِ ، ادْعُ اللَّہَ أَنْ یَجْعَلَنِی مِنْہُمْ ، فَقَالَ : اللَّہُمَّ اجْعَلْہَا مِنْہُمْ ، قَالَ : فَنَکَحْت عُبَادَۃَ بْنَ الصَّامِتِ فَرَکِبْت مَعَ ابْنِہِ قَرَظَۃَ ، فَلَمَّا قَفَلَتْ وَقَصَتْ بِہَا دَابَّتُہَا فَقَتَلَتْہَا فَدُفِنَتْ ثَمَّ۔ (بخاری ۲۷۸۸۔ مسلم ۱۶۰)
(١٩٧٤٩) حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت ام حرام بنت ملحان (رض) کے گھر ٹیک لگائے تشریف فرما تھے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نیند طاری ہوگئی، کچھ دیر بعد آپ مسکراتے ہوئے بیدار ہوئے۔ حضرت بنت ملحان (رض) نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مسکرانے کی وجہ پوچھی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میری امت کے کچھ لوگ سبز سمندر میں جہاد کریں گے، قیامت کے دن وہ بادشاہوں کی طرح تختوں پر بیٹھے ہوں گے۔ حضرت ام حرام بنت ملحان (رض) نے کہا کہ اے اللہ کے رسول ! دعا فرما دیجئے کہ اللہ تعالیٰ مجھے بھی ان لوگوں میں شامل فرما دے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دعا فرمائی کہ اے اللہ ! اسے بھی ان میں شامل فرما دے۔ اس کے بعد ان کا نکاح حضرت عبادہ بن صامت (رض) سے ہوگیا۔ بعد ازیں وہ اپنے بیٹے حضرت قرظہ (رض) کے ساتھ سوار ہو کر سمندری سفر پر روانہ ہوئیں، واپس آتے ہوئے اپنی سواری سے گر کر شہید ہوگئیں اور وہیں دفن ہوئیں۔

19749

(۱۹۷۵۰) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ یَعْلَی بْنِ عَطَائٍ ، عَنْ خَالِدِ بْنِ أَبِی مُسْلِمٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ : لأَنْ أَغْزُوَ فِی الْبَحْرِ غَزْوَۃً أَحَبُّ إلَیَّ مِنْ أَنْ أُنْفِقَ قِنْطَارًا مُتَقَبَّلاً فِی سَبِیلِ اللہِ عَزَّ وَجَلَّ۔
(١٩٧٥٠) حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) فرماتے ہیں کہ اللہ کے راستے میں ایک لڑائی لڑنا میرے نزدیک اللہ کے راستے میں بہت سا مال خرچ کرنے سے بہتر ہے جو قبول ہوجائے۔

19750

(۱۹۷۵۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ عَبْدِ الْعَزِیزِ ، عَنْ عَلْقَمَۃَ بْنِ شِہَابٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَنْ لَمْ یُدْرِکِ الْغَزْوَ مَعِی فَلْیَغْزُ فِی الْبَحْرِ ، فَإِنَّ غَزْوَ الْبَحْرِ أَفْضَلُ مِنْ غَزْوَتَیْنِ فِی الْبَرِّ وَإِنَّ شَہِیدَ الْبَحْرِ لَہُ أَجْرُ شَہِیدَیِ الْبَرِّ ، إنَّ أَفْضَلَ الشُّہَدَائِ عِنْدَ اللہِ أَصْحَابُ الْوُکُوف قَالُوا : یَا رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَمَا أَصْحَابُ الْوُکُوفِ ؟ قَالَ : قَوْمٌ تَکْفَؤُہُمْ مَرَاکِبُہُمْ فِی سَبِیلِ اللہِ۔ (عبدالرزاق ۹۶۳۱)
(١٩٧٥١) حضرت علقمہ بن شہاب (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ جسے میرے ساتھ جنگ کا موقع نہ مل سکا اسے چاہیے کہ سمندری جہاد میں حصہ لے ، کیونکہ ایک سمندری جنگ خشکی پر لڑی جانے والی دو جنگوں سے افضل ہے۔ سمندر میں شہید ہونے والے کے لیے خشکی کے دو شہیدوں کے برابر اجر ہے۔ اللہ کے نزدیک افضل شہدائ، ” اصحاب الو کو ف “ ہیں۔ لوگوں نے پوچھا کہ اے اللہ کے رسول ! ” اصحاب الو کو ف “ کون ہیں ؟ آپ نے فرمایا : کہ جن کی سواریاں الٹ جائیں اور اس سے وہ شہید ہوجائیں۔

19751

(۱۹۷۵۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ عَمَّنْ سَمِعَ عَطَائَ بْنَ یَسَارٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ : الْمَائِدُ فِی الْبَحْرِ غَازِیًا کَالْمُتَشَحِّطِ فِی دَمِہِ شَہِیدًا فِی الْبَرِّ۔
(١٩٧٥٢) حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) فرماتے ہیں کہ سمندری جہاد سے زندہ سلامت واپس آنے والا اس عابد کی طرح ہے جو خشکی پر لڑتے ہوئے خون میں لوٹ پوٹ ہو کر شہید ہوچکا ہے۔

19752

(۱۹۷۵۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ أَخْبَرَنِی مُخْبِرٌ ، عَنْ عَطَائِ بْنِ یَسَارِ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ : غَزْوَۃٌ فِی الْبَحْرِ أَفْضَلُ مِنْ عَشْرِ غَزَوَاتٍ فِی الْبَرِّ ، مَنْ جَازَ الْبَحْرَ غَازِیًا فَکَأَنَّمَا جَازَ الأَوْدِیَۃَ کُلَّہَا۔
(١٩٧٥٣) حضرت عبداللہ بن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ سمندر کا ایک غزوہ خشکی کے دس غزوات سے افضل ہے۔ جس نے جنگ فرماتے ہوئے سندر کو عبور کیا گویا اس نے زمین کی تمام وادیوں کو عبور کرلیا۔

19753

(۱۹۷۵۴) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، حَدَّثَنَا جَرِیرُ بْنُ حَازِمٍ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ ، قَالَ : خَرَجَ ابْنُ عَبَّاسٍ غَازِیًا فِی الْبَحْرِ وَأَنَا مَعَہُ۔
(١٩٧٥٤) حضرت عکرمہ (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عباس (رض) سمندری جہاد پر روانہ ہوئے میں ان کے ساتھ تھا۔

19754

(۱۹۷۵۵) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، قَالَ : لاَ یَرْکَبُ الْبَحْرَ إِلاَّ حَاجٌّ ، أَوْ غَازٍ ، أَوْ مُعْتَمِرٌ۔
(١٩٧٥٥) حضرت مجاہد (رض) فرماتے ہیں کہ حاجی، مجاہد اور عمرے کا ارادہ کرنے والے کے علاوہ کوئی سمندر کا سفر نہ کرے۔

19755

(۱۹۷۵۶) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ ، قَالَ : عَجِبْت لِرَاکِبِ الْبَحْرِ وَعَجِبْت لِتَاجِرِ ہَجَرٍ۔
(١٩٧٥٦) حضرت عمر بن خطاب (رض) فرماتے ہیں کہ مجھے سمندری سفر کرنے والے اور تجارت کی خاطر ہجرت کرنے والے پر بہت تعجب ہے۔

19756

(۱۹۷۵۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، حَدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : لاَ یَسْأَلُنِی اللَّہُ عَنْ جَیْشٍ رَکِبُوا الْبَحْرَ أَبَدًا۔ یعنی التغریر۔
(١٩٧٥٧) حضرت ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ مجھ سے سمندر کا سفر کرنے والے لشکر کے بارے میں سوال نہیں کرے گا۔

19757

(۱۹۷۵۸) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ أَبِی بکیر ، حَدَّثَنَا حَرِیزُ بْنُ عُثْمَانَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مَیْسَرَۃَ ، عَنْ أَبِی رَاشِدٍ الْحُبْرَانِیِّ ، أَنَّہُ وَافَی الْمِقْدَادَ جَالِسًا عَلَی تَابُوتٍ مِنْ تَوَابِیتِ الصَّیَارِفَۃِ وَقَدْ فَضَلَ عَنْہُ عِظَمًا فَقُلْت لَہُ : لقد أَعْذَرَ اللَّہُ إلَیْک یَا أَبَا الأَسْوَدِ، قَالَ: أَبَتْ عَلَیْنَا سُورَۃُ البَحُوث یَعْنِی سُورَۃَ التَّوْبَۃِ: {انْفِرُوا خِفَافًا وَثِقَالاَ}۔
(١٩٧٥٨) ابو راشد حبرانی (رض) کہتے ہیں کہ میں حضرت مقداد (رض) کے ساتھ ایک جہادی سفر میں ایک تابوت پر سوار تھا۔ ان کا جسم اتنا وزنی اور زیادہ تھا کہ تابوت سے لٹک رہا تھا۔ میں نے ان سے کہا کہ اے ابو اسود (رض) : اللہ تعالیٰ نے آپ جیسے لوگوں کو معذور قرار دیا ہے۔ انھوں نے فرمایا کہ سورة البراء ۃ یعنی سورۃ التوبہ کی آیت { انْفِرُوا خِفَافًا وَثِقَالاَ } نے ہمارے معذور ہونے کا انکار کیا ہے۔

19758

(۱۹۷۵۹) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ عَبَّادِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ الزُّبَیْرِ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ جَدِّہِ ، قَالَ : أَخْبَرَنِی أَبِی الَّذِی أَرْضَعَنِی مَنْ بَنِی مُرَّۃَ ، قَالَ : کَأَنِّی أَنْظُرُ إلَی جَعْفَرٍ یَوْمَ مُؤْتَۃَ نَزَلَ عَنْ فَرَسٍ لَہُ شَقْرَائَ فَعَرْقَبَہَا ، ثُمَّ مَضَی فَقَاتَلَ حَتَّی قُتِلَ۔ (ابوداؤد ۲۵۶۶۔ حاکم ۲۰۹)
(١٩٧٥٩) حضرت عبداللہ بن زبیر (رض) فرماتے ہیں کہ میرے بنو مرہ کے رضاعی والد نے مجھے بتایا کہ انھوں نے جنگ مؤتہ میں حضرت جعفر (رض) کو دیکھا کہ وہ اپنے شقراء گھوڑے سے اترے، اس کی کونچیں کاٹیں اور لہراتے ہوئے شہید ہوگئے۔

19759

(۱۹۷۶۰) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ الْوَلِیدِ ، عَنْ أَبِی بَکْرِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عُتْبَۃَ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : أَتَیْتُ عَلَی عَبْدِ بْنِ مَخْرَمَۃَ صَرِیعًا عَامَ الْیَمَامَۃِ ، فَوَقَفَتْ عَلَیْہِ ، فَقَالَ : یَا عَبْدَ اللہِ بْنَ عُمَر ، ہَلْ أَفْطَرَ الصَّائِمُ ؟ قُلْتُ : نَعَمْ ، قَالَ : فاجْعَلْ لِی فِی ہَذَا الْمِحَنِ ماء لَعَلِّی أُفْطِرُ ، فَأَتَیْت الْحَوْضَ وَہُوَ مَمْلُوئٌ دَمًا فَضَرَبْتہ بِحجْفَۃٍ مَعِی ، ثُمَّ اغْتَرَفْت فِیہِ فَأَتَیْتہ فَوَجَدْتہ قَدْ قَضَی۔
(١٩٧٦٠) حضرت ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ جنگ یمامہ میں، میں حضرت عبداللہ بن مخرمہ (رض) کے پاس آیا، وہ زخموں سے چور زمین پر پڑے تھے۔ میں ان کے پاس کھڑا ہوا تو انھوں نے پوچھا : اے عبداللہ بن عمر (رض) ! کیا روزے دار نے افطار کرلیا ہے ؟ میں نے کہا : جی ہاں ! انھوں نے فرمایا کہ پھر مجھے اس ڈھال میں پانی دے دو تاکہ میں افطار کرلوں۔ میں پانی لینے حوض پر گیا تو وہ خون سے بھرا ہوا تھا۔ میں نے خون کو الگ کر کے پانی لیا، جب میں ان کے پاس آیا تو ان کی روح پرواز کرچکی تھی۔

19760

(۱۹۷۶۱) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ ہَاشِمِ بْنِ ہَاشِمٍ سَمِعْت سَعِیدَ بْنِ الْمُسَیَّبِ یَقُولُ : کَانَ سَعْدُ بْنُ أَبِی وَقَّاصٍ أَشَدَّ الْمُسْلِمِینَ بَأْسًا یَوْمَ أُحُدٍ۔
(١٩٧٦١) حضرت سعید بن مسیب (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) نے غزوہ احد میں تمام مسلمانوں سے بڑھ کر لڑائی کی۔

19761

(۱۹۷۶۲) حَدَّثَنَا مُعَاوِیَۃُ بْنُ عَمْرٍو ، عَنْ زَائِدَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِی خَالِدٍ الْوَالِبِی ، عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَۃَ ، قَالَ: أَوَّلُ النَّاسِ رَمَی بِسَہْمٍ فِی سَبِیلِ اللہِ سَعْدٌ۔
(١٩٧٦٢) حضرت معاویہ بن عمرو (رض) فرماتے ہیں کہ اللہ کے راستے میں سب سے پہلے حضرت جابر بن سمرہ (رض) نے تیر چلایا۔

19762

(۱۹۷۶۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِی حَبِیبَۃَ ، عَنْ أَبِی الدَّرْدَائِ ، أَنَّ رَجُلاً أَوْصَی بِشَیْئٍ فِی سَبِیلِ اللہِ ، فَقَالَ : یُعْطَی الْمُجَاہِدِینَ۔
(١٩٧٦٣) حضرت ابو الدرداء (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کسی آدمی نے اللہ کے راستے میں کوئی چیز خرچ کرنے کی وصیت کی تو وہ چیز مجاہدین کو دی جائے گی۔

19763

(۱۹۷۶۴) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَنْ زَائِدَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عن شمر ، عَنْ شَہْرٍ ، عَنْ أَبِی الدَّرْدَائِ ، قَالَ : مَنْ صَامَ یَوْمًا فِی سَبِیلِ اللہِ کَانَ بَیْنَہُ وَبَیْنَ النَّارِ خَنْدَقٌ کَمَا بَیْنَ السَّمَائِ وَالأَرْضِ۔
(١٩٧٦٤) حضرت ابو الدردائ (رض) فرماتے ہیں کہ جس شخص نے اللہ کے راستے میں ایک روزہ رکھا، اللہ تعالیٰ اس کے اور جہنم کے درمیان ایک ایسی خندق بنا دیتے ہیں جس کا فاصلہ زمین و آسمان کے خلاء کے برابر ہے۔

19764

(۱۹۷۶۵) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، حَدَّثَنَا مِسْعَرٌ ، عَنْ حَبِیبِ بْنِ أَبِی ثَابِتٍ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ جَعْدَۃَ ، قَالَ : قَالَ عُمَرُ : لَوْلاَ أَنْ أَسِیرَ فِی سَبِیلِ اللہِ ، أَوْ أَضَعَ جَنْبِی لِلَّہِ فِی التُّرَابِ ، أَوْ أُجَالِسَ قَوْمًا یَلْتَقِطُونَ طَیِّبَ الْکَلاَمِ کَمَا یُلْتَقَطُ طَیِّبُ التَّمْرِ لأحْبَبْت أَنْ أَکُونَ قَدْ لَحِقْت بِاللَّہِ۔
(١٩٧٦٥) حضرت عمر (رض) فرماتے ہیں کہ اگر میں اللہ کے راستے میں نہ چلوں، میں اللہ کے راستے میں اپنی پیشانی کو مٹی پر نہ رکھوں اور ان لوگوں کی ہم نشینی اختیار نہ کروں جو اچھے کلام کو اس طرح چنتے ہیں جیسے عمدہ کھجوروں کو چنا جاتا ہے تو میری خواہش ہوگی کہ میرا انتقال ہوجائے۔

19765

(۱۹۷۶۶) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، حَدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ ، عَنْ قَیْسٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ خَالِدَ بْنَ الْوَلِیدِ یَقُولُ : قَدْ مَنَعَنِی کَثِیرًا مِنَ الْقِرَائَۃِ ، الْجِہَادُ فِی سَبِیلِ اللہِ۔
(١٩٧٦٦) حضرت خالد بن ولید (رض) فرماتے ہیں کہ اللہ کے راستے میں زیادہ جہاد کرنے کی وجہ سے میں بہت سا قرآن نہیں سیکھ سکا۔

19766

(۱۹۷۶۷) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَیْدٍ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ بْنِ أَبِی خَالِدٍ ، عَنْ زِیَادٍ ، عَنْ خَالِدِ بْنِ الْوَلِیدِ ، قَالَ : مَا کَانَ فِی الأَرْضِ لَیْلَۃً ، أُبَشَّرُ فِیہَا بِغُلاَمٍ ، وَیُہْدَی إلَیَّ عَرُوسٌ أَنَا لَہَا مُحِبٌّ أَحَبَّ إلَیَّ مِنْ لَیْلَۃٍ شَدِیدَۃِ الْجَلِیدِ فِی سَرِیَّۃٍ مِنَ الْمُہَاجِرِینَ أُصَبِّحُ بِہِمُ الْعَدُوَّ ، فَعَلَیْکُمْ بِالْجِہَادِ۔
(١٩٧٦٧) حضرت خالد بن ولید (رض) فرماتے ہیں کہ روئے زمین پر ایسی رات جس میں مجھے ایک بیٹے کی خوشخبری دی جائے اور میری طرف ایک ایسی دلہن بھیجی جائے جس سے میں محبت رکھتا ہوں، اس رات سے زیادہ پسند نہیں، جو سخت مشقت والی ہو، میں مجاہدین کے ایک لشکر کے ساتھ اسے بسر کروں اور صبح کو انھیں لے کر دشمن پر حملہ کر دوں۔ پس تم پر جہاد لازم ہے۔

19767

(۱۹۷۶۸) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، عَنْ یُونُسَ بْنِ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنِ الْعَیْزَارِ بْنِ حُرَیْثٍ ، قَالَ : قَالَ خَالِدُ بْنُ الْوَلِیدِ ، وَاللَّہِ مَا أَدْرِی مِنْ أَیِّ یَوْمٍ أنا أفر ؟ یَوْمٍ أَرَادَ اللَّہُ أَنْ یُہْدِیَ لِی فِیہِ الشَّہَادَۃَ ، أَوْ مِنْ یَوْمٍ أَرَادَ اللَّہُ أَنْ یُہْدِی لِی فِیہِ کَرَامَۃً۔
(١٩٧٦٨) حضرت خالد بن ولید (رض) فرماتے ہیں کہ خدا کی قسم ! میں نہیں جانتا کہ میں کس دن سے زیادہ محبت کرتا ہوں۔ اس دن سے جس میں اللہ تعالیٰ مجھے شہادت عطا فرمائیں یا اس دن سے جس میں مجھے کوئی بڑا اعزاز دیا جائے۔

19768

(۱۹۷۶۹) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ الثَّقَفِیِّ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عن مُحَمَّدٍ ، قَالَ : نُبِّئْت أَنَّ عَبْدَ اللہِ بْنَ سَلاَمٍ ، قَالَ : إِنْ أَدْرَکَتْنِی وَلَیْسَ لِی قُوَّۃٌ فَاحْمِلُونِی عَلَی سَرِیرٍ یَعْنِی الْقِتَالَ ، حَتَّی تَضَعُونِی بَیْنَ الصَّفَّیْنِ۔
(١٩٧٦٩) حضرت عبداللہ بن سلام (رض) فرماتے ہیں کہ اگر لڑائی کا وقت آجائے اور مجھ میں اٹھنے کی طاقت نہ ہو تو مجھے اٹھا کر صفوں کے درمیان رکھ دینا۔

19769

(۱۹۷۷۰) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَنْ زَائِدَۃَ ، عَنِ الرُّکَیْنِ بْنِ الرَّبِیعِ الْفَزَارِیِّ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ یُسَیْرِ بْنِ عُمَیْلَۃَ ، عَنْ خَرِیمِ بْنِ فَاتِکٍ الأَسَدِیِّ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : مَنْ أَنْفَقَ نَفَقَۃً فِی سَبِیلِ اللہِ کُتِبَت لَہُ سَبْعُ مِئَۃ ضِعْفٍ۔ (ترمذی ۱۶۲۵۔ احمد ۴/۳۴۵)
(١٩٧٧٠) حضرت خریم بن فاتک اسدی (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ جس شخص نے اللہ کے راستے میں ایک درہم خرچ کیا اسے سات سو گنا اجر عطا کردیا جائے گا۔

19770

(۱۹۷۷۱) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَنْ زَائِدَۃَ ، قَالَ : حدَّثَنَا مَیْسَرَۃُ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : سَأَلْتُ کَعْبًا عَنْ جَنَّۃِ الْمَأْوَی ، فَقَالَ : أَمَّا جَنَّۃُ الْمَأْوَی فَجَنَّۃٌ فِیہَا طَیْرٌ خُضْرٌ تَرْتَقِی فِیہَا أَرْوَاحَ الشُّہَدَائِ۔
(١٩٧٧١) حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت کعب (رض) سے جنت الماویٰ کے بارے میں سوال کیا تو انھوں نے فرمایا : کہ یہ وہ جنت ہے جس میں سبز پرندے ہیں کہ ان میں شہداء کی روحیں ہوں گی۔

19771

(۱۹۷۷۲) حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ بْنُ مُوسَی ، أَخْبَرَنَا شَیْبَانُ ، عَنْ فِرَاسٍ ، عَنْ عَطِیَّۃَ ، عَنْ أَبِی سَعِیدٍ ، عَنْ نَبِیِّ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : الْمُجَاہِدُ فِی سَبِیلِ اللہِ مَضْمُونٌ عَلَی اللہِ إمَّا أَنْ یکفتہ إلَی مَغْفِرَتِہِ وَرَحْمَتِہِ وَإِمَّا أَنْ یُرْجِعَہُ بِأَجْرٍ وَغَنِیمَۃٍ وَمَثَلُ الْمُجَاہِدِ فِی سَبِیلِ اللہِ کَمَثَلِ الصَّائِمِ الْقَائِمِ لاَ یَفْتُرُ حَتَّی یَرْجِعَ۔ (ابن ماجہ ۲۷۵۴۔ ابو یعلی ۱۳۳۱)
(١٩٧٧٢) حضرت ابو سعید (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : کہ اللہ کے رستے میں جہاد کرنے والے کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے ذمہ لیا ہے کہ یا تو اللہ تعالیٰ اسے اپنی مغفرت اور رحمت عطا فرمائیں گے یا وہ اجر اور مال غنیمت کے ساتھ واپس لوٹ آئے گا۔ اللہ کے رستے میں جہاد کرنے والے کی مثال اس شخص کی سی ہے جو دن کو روزہ رکھے اور رات کو قیام کرے اور اپنے ان اعمال میں کوئی سستی نہ برتے۔

19772

(۱۹۷۷۳) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، حَدَّثَنَا حَرِیزُ بْنُ عُثْمَانَ ، حَدَّثَنَا أَبُو مُنِیبٍ الْجُرَشِیِّ ، أَنَّ رَجُلاً نَزَلَ عَلَی تَمِیمٍ وَسَافَرَ مَعَہُ فَرَآہُ قَصَرَ فِی السَّفَرِ عَمَّا کَانَ عَلَیْہِ فِی أَہْلِہِ ، فَقَالَ : رَحِمَک اللَّہُ ، أَرَاک قَدْ قَصّرْت عَمَّا کُنْت عَلَیْہِ فِی أَہْلِکَ ؟ فَقَالَ : أَوْ لاَ یَکْفِینِی ، أَنَّ یکون لِی أَجْرَ صَائِمٍ وَقَائِمٍ۔
(١٩٧٧٣) حضرت ابو منیب جرشی (رض) فرماتے ہیں کہ ایک آدمی حضرت تمیم داری (رض) کا مہمان بنا اور ان کے ساتھ اللہ کے راستے میں سفر پر نکلا۔ سفر میں نکل کر اس نے اپنے معمول کی عبادت سے کم عبادت کی۔ حضرت تمیم داری (رض) نے اس سے فرمایا کہ اللہ تم پر رحم فرمائے ! تم نے اپنے معمول سے کم عبادت کیوں کی ؟ اس نے کہا : اس لیے کہ اللہ کے راستے میں نکلنے کی وجہ سے مجھے دن کو روزہ رکھنے والوں اور رات کو قیام کرنے والوں کے برابر ثواب مل رہا ہے وہ میرے لیے کافی ہے۔

19773

(۱۹۷۷۴) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، حَدَّثَنَا أَبُو ہِلاَلٍ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سِیرِینَ ، قَالَ : غَارَتْ خَیْلٌ لِلْمُشْرِکَیْنِ عَلَی سَرْحِ الْمَدِینَۃِ فَخَرَجَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَجَائَ أَبُو قَتَادَۃَ وَقَدْ رَجَّلَ شَعْرَہُ ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إنِّی لأَرَی شَعْرَک حَبَسَک ؟ فَقَالَ : لآتِیَنَّکَ بِرَجُلٍ سَلَمٍ ، قَالَ : وَکَانُوا یَسْتَحِبُّونَ أَنْ یُوَفِّرُوا شُعُورَہُمْ۔
(١٩٧٧٤) حضرت محمد بن سیرین (رض) فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ مشرکین کے گھڑ سواروں نے مدینہ کی چراگاہ پر حملہ کردیا۔ حضور (رض) ان کو بھگانے کے لیے روانہ ہوئے۔ حضرت ابو قتادہ (رض) تھوڑی دیر بعد آئے انھوں نے بالوں پر کنگھی کی ہوئی تھی۔ حضور (رض) نے ان سے فرمایا کہ شاید تمہارے بالوں نے تمہیں روکے رکھا۔ انھوں نے عرض کیا کہ میں آٔپ کے پاس ایک آدمی قیدی بنا کر لاؤں گا۔ راوی کہتے ہیں کہ وہ لوگ بالوں کو درست رکھنا پسند کرتے تھے۔

19774

(۱۹۷۷۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ مَالِکِ بْنِ مِغْوَلٍ ، عَنْ أَبِی حَصِینٍ ، عَنْ أَبِی عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِیِّ ، قَالَ : لأَنْ یَکُونَ لِی ابْنٌ مُجَاہِدٌ فِی سَبِیلِ اللہِ ، أَحَبُّ إلَیَّ مِنْ مِئَۃ أَلْفٍ۔
(١٩٧٧٥) حضرت ابو عبد الرحمن سلمی (رض) فرماتے ہیں کہ اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والا ایک بیٹا میرے نزدیک ایک لاکھ بیٹوں سے بہتر ہے۔

19775

(۱۹۷۷۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، حَدَّثَنَا أَبُو الأَشْہَبِ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : قَالَ رَبُّکُمْ : مَنْ خَرَجَ مُجَاہِدًا فِی سَبِیلِی ابْتِغَائَ وَجْہِی فَأَنَا لَہُ ضَامِنٌ ، إِنْ أَنَا قَبَضْتہ فِی وَجْہِہِ أَدْخَلْتہ الْجَنَّۃَ ، وَإِنْ أَنَا أَرْجَعْتہ أَرْجَعْتہ بِمَا أَصَابَ مِنْ أَجْرٍ وَغَنِیمَۃٍ۔ (بخاری ۳۶۔ مسلم ۱۴۹۵)
(١٩٧٧٦) حضرت حسن (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (رض) نے ارشاد فرمایا کہ تمہارا رب فرماتا ہے جو شخص میرے راستے میں مجھے راضی کرنے کے لیے نکلے میں اس کا ضامن ہوں کہ اگر میں نے اس کی جان لے لی تو میں اسے جنت میں داخل کروں گا اور اگر میں اسے واپس لے آیا تو میں اسے اجر اور مال غنیمت کے ساتھ واپس لاؤں گا۔

19776

(۱۹۷۷۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ حَدَّثَنَا مَالِکُ بْنُ مِغْوَلٍ وَسُفْیَانُ ، عَنْ سَلَمَۃَ بْنِ کُہَیْلٍ ، عَنْ أَبِی الزَّعْرَائِ ، قَالَ : قَالَ عَبْدُاللہِ : لَیَأْتِیَنَّ عَلَی النَّاسِ زَمَانٌ یُغْبَطُ الرَّجُلُ فِیہِ بِقِلَّۃِ حَاذِہِ کَمَا یُغْبَطُ بِکَثْرَۃِ مَالِہِ وَوَلَدِہِ ، فَقَالُوا : یَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ، فَمَا خَیْرُ مَالِ الرَّجُلِ یَوْمئِذٍ ؟ قَالَ : فَرَسٌ صَالِحٌ وَسِلاَحٌ صَالِحٌ یَزُولاَنِ مَعَ الْعَبْدِ حَیْثُ زَالَ۔
(١٩٧٧٧) حضرت عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ عنقریب لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ اس میں اہل و عیال کی کمی پر اسی طرح فخر کیا جائے گا جیسے اہل و عیال کی زیادتی پر فخر کیا جاتا ہے۔ لوگوں نے پوچھا : اے ابوعبدالرحمن (رض) ! اس دن آدمی کا بہترین مال کیا چیز ہوگی ؟ انھوں نے فرمایا : عمدہ گھوڑا اور عمدہ ہتھیار جو ہر جگہ اس کے ساتھ رہیں۔

19777

(۱۹۷۷۸) حَدَّثَنَا عِیسَی بْنُ یُونُسَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِی ظَبْیَانَ ، قَالَ : غَزَا أَبُو أَیُّوبَ أَرْضَ الرُّومِ فَمَرِضَ ، فَقَالَ : إذْ أَنَا مِتّ ، فَإِنْ صَافَفْتُمُ الْعَدُوَّ فَادْفِنُونِی تَحْتَ أَقْدَامِکُمْ۔(نسائی ۴۴۲۰۔ سعید بن منصور ۲۴۵۰)
(١٩٧٧٨) حضرت ابو ظبیان (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت ابو ایوب (رض) سرزمین روم میں جہاد کے لیے گئے اور وہیں بیمار ہوگئے۔ انھوں نے فرمایا کہ جب میں مرجاؤں اور تمہارا دشمن سے سامنا ہو تو مجھے اپنے پاؤں کے نیچے دفن کردینا۔

19778

(۱۹۷۷۹) حَدَّثَنَا عِیسَی بْنُ یُونُسَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ یَزِیدَ بْنِ جَابِرٍ ، قَالَ : حدَّثَنِی أَبُو سَلاَّمٍ الدِّمَشْقِیُّ ، عَنْ خَالِدِ بْنِ زَیْدٍ ، قَالَ : کُنْتُ رَجُلاً رَامِیًا ، فَکَانَ یَمُرُّ بِی عُقْبَۃُ بْنُ عَامِرٍ فَیَقُولُ : یَا خَالِدُ اخْرُجْ بِنَا نَرْمِی ، فَلَمَّا کَانَ ذَاتَ یَوْمٍ أَبْطَأَتْ عَنْہُ ، فَقَالَ : یَا خَالِدُ تَعَالَ أُخْبِرُک مَا قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إنَّ اللَّہَ یُدْخِلُ بِالسَّہْمِ الْوَاحِدِ ثَلاَثَۃَ نَفَرِ الْجَنَّۃَ : صَانِعُہُ یَحْتَسِبُ فِی صَنْعَتِہِ الْخَیْرَ وَالرَّامِی بِہِ وَمُنْبِلُہُ وَلَیْسَ اللَّہْوُ إِلاَّ فِی ثَلاَثٍ : تَأْدِیبُ الرَّجُلِ فَرَسَہُ وَمُلاَعَبَتُہُ أَہْلَہُ وَرَمْیُہُ بِقَوْسِہِ وَنَبْلِہِ وَمَنْ تَرَکَ الرَّمْیَ بَعْدَ مَا عَلِمَہُ فَہِیَ نِعْمَۃٌ تَرَکَہَا ، أَوْ کَفَرَہَا۔
(١٩٧٧٩) حضرت خالد بن زید (رض) فرماتے ہیں کہ میں ایک ماہر تیر انداز تھا۔ حضرت عقبہ بن عامر (رض) جب کبھی میرے پاس سے گزرتے تو فرماتے کہ اے خالد ! چلو آؤ تیر اندازی کرتے ہیں۔ ایک دن میں نے کچھ سستی کی تو انھوں نے فرمایا : کہ اے خالد (رض) ! آؤ میں تمہیں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ایک حدیث سناتا ہوں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کہ اللہ تعالیٰ ایک تیر کی وجہ سے تین آدمیوں کو جنت میں داخل فرمائے گا۔ اس کے بنانے والے کو اگر اس نے اس کے بنانے میں خیر کا ارادہ کیا۔ اس کے چلانے والے کو اور اس کے سیدھا کرنے والے کو۔ دل لگی کے تین کام ایسے ہیں جن میں ثواب ملتا ہے۔ ایک آدمی کا اپنے گھوڑے کو سدھانا، دوسرا آدمی کا اپنی بیوی سے صحبت کرنا اور تیسرا کمان سے تیر پھینکنا اور اس کو سیدھا کرنا۔ جس شخص نے تیر اندازی سیکھنے کے بعد اسے چھوڑ دیا۔ اس نے اس نعمت کی ناشکری کی۔

19779

(۱۹۷۸۰) حَدَّثَنَا عِیسَی بْنُ یُونُسَ بْنِ أَبِی إِسْحَاقَ أَخْبَرَنِی أَبِی ، عَنْ رِجَالٍ مِنْ بَنِی سَلِمَۃَ ، قَالُوا : لَمَّا صَرَفَ مُعَاوِیَۃُ عَیْنَہُ الَّتِی تَمُرُّ عَلَی قُبُورِ الشُّہَدَائِ فأجریت عَلَیْہِمَا یَعْنِی عَلَی قَبْرِ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَرَامٍ ، وَعَلَی قَبْرِ عَمْرِو بْنِ الْجَمُوحِ ، فبرز قَبْرَاہُمَا ، فَاسْتُصْرِخَ عَلَیْہِمَا ، فَأَخْرَجْنَاہُمَا یَتَثَنَّیَانِ تَثَنِّیًا کَأَنَّہُمَا مَاتَا بِالأَمْسِ ، عَلَیْہِمَا بُرْدَتَانِ قَدْ غُطِّیَ بِہِمَا عَلَی وَجْہِہِمَا ، وَعَلَی أَرْجُلِہِمَا شَیْئٌ مِنْ نَبَاتِ الإذخر۔
(١٩٧٨٠) حضرت اسحاق بنو سلمہ (رض) کے کچھ آدمیوں سے نقل کرتے ہیں کہ حضرت معاویہ (رض) کے زمانے میں چشمے کا پانی احد کے شہداء کی قبروں کی طرف آگیا۔ اس کی وجہ سے حضرت عبداللہ بن عمرو بن حرام (رض) اور حضرت عمرو بن جموح (رض) کی قبر ظاہر ہوگئی۔ فیصلہ یہ ہوا کہ ان حضرات کی قبروں کو کسی دوسری جگہ منتقل کردیا جائے۔ جب ہم نے ان حضرات کے مبارک جسموں کو قبروں سے نکالا تو وہ اس طرح تازہ تھے جیسے کل ہی ان کا انتقال ہوا ہو۔ ان کے چہرے والے حصوں کو چادر سے اور پاؤں کو اذخر نامی گھاس سے ڈھانپا گیا تھا۔

19780

(۱۹۷۸۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنِ الأَسْوَدِ بْنِ قَیْسٍ ، عَنْ نُبَیْحٍ ، عَنْ جَابِرٍ ، قَالَ : قَالَ لِی أَبِی عَبْدُ اللہِ : أَیْ بُنَیَّ لَوْلاَ نُسَیَّاتٌ أَخْلُفُہُنَّ مِنْ بَعْدِی مِنْ بَنَاتٍ وَأَخَوَاتٍ ، لأحْبَبْت أَنْ أُقَدِّمَک أَمَامِی وَلَکِنْ کُنَّ فِی نَظَّارِی الْمَدِینَۃِ ، قَالَ : فَلَمْ أَلْبَثْ أَنْ جَائَتْ بِہِمَا عَمَّتِی قَتِیلَیْنِ یَعْنِی أَبَاہُ وَعَمَّہُ قَدْ عَرَضَتْہُمَا عَلَی بَعِیرٍ۔ (بخاری ۴۰۵۲)
(١٩٧٨١) حضرت جابر (رض) فرماتے ہیں کہ مجھ سے میرے والد حضرت عبداللہ (رض) نے فرمایا : کہ اے میرے بیٹے ! اگر مجھے ان بچیوں کی فکر نہ ہوتی تو میں میدان جنگ میں تمہیں اپنے سے پہلے بھیجتا، لیکن ان کی دیکھ بھال کے لیے تم یہاں مدینہ میں رہ جاؤ۔ حضرت جابر (رض) فرماتے ہیں کہ کچھ دنوں بعد میری پھوپھی میرے والد اور میرے چچا کی نعشوں کو ایک اونٹ پر لاد کرلے آئیں۔

19781

(۱۹۷۸۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، حَدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ : {وَلاَ تَحْسَبَنَّ الَّذِینَ قُتِلُوا فِی سَبِیلِ اللہِ أَمْوَاتًا بَلْ أَحْیَائٌ عِنْدَ رَبِّہِمْ یُرْزَقُونَ} قَالَ : لَمَّا أُصِیبَ حَمْزَۃُ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ وَمُصْعَبُ بْنُ عُمَیْرٍ یَوْمَ أُحُدٍ ، قَالُوا : لَیْتَ إخْوَانَنَا یَعْلَمُونَ مَا أَصَبْنَا مِنَ الْخَیْرِ کَیْ یَزْدَادُوا رَغْبَۃً ، فَقَالَ اللَّہُ : أَنَا أُبَلِّغُ عَنْکُمْ فَنَزَلَتْ: {وَلاَ تَحْسَبَنَّ الَّذِینَ قُتِلُوا فِی سَبِیلِ اللہِ أَمْوَاتًا بَلْ أَحْیَائٌ عِنْدَ رَبِّہِمْ یُرْزَقُونَ فَرِحِینَ} إلَی قَوْلِہِ {المؤمنین}۔
(١٩٧٨٢) حضرت سعید بن جبیر (رض) قرآن مجید کی آیت (ترجمہ): ” جو لوگ اللہ کے راستے میں قتل کر دئیے جائیں انھیں مردہ شمار نہ کرو، وہ زندہ ہیں اور انھیں اللہ کے یہاں رزق دیا جاتا ہے۔ “ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ جب غزوہ احد میں حضرت حمزہ بن عبدالمطلب (رض) اور حضرت مصعب بن عمیر (رض) شہید ہوگئے تو انھوں نے شہادت کے بعد کہا کہ کاش ہمارے بھائیوں کو اس خیر کا علم ہوجائے جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں عطا کی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں ان تک تمہارا یہ پیغام پہنچاتا ہوں۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے { وَلاَ تَحْسَبَنَّ الَّذِینَ قُتِلُوا فِی سَبِیلِ اللہِ أَمْوَاتًا بَلْ أَحْیَائٌ عِنْدَ رَبِّہِمْ یُرْزَقُونَ فَرِحِینَ } سے لے کر { المؤمنین } (آل عمران : ١٦٩) تک آیت نازل فرمائی۔

19782

(۱۹۷۸۳) حَدَّثَنَا عِیسَی بْنُ یُونُسَ ، عَنِ الأَوْزَاعِیِّ ، عَنْ سَعِیدٍ بن جبلۃ ، عَنْ طَاوُوسٍ ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : إنَّ اللَّہَ بَعَثَنِی بِالسَّیْفِ بَیْنَ یَدَیِ السَّاعَۃِ ، وَجُعِلَ رِزْقِی تَحْتَ ظِلِّ رُمْحِی وَجُعِلَ الذُّلُّ وَالصَّغَارُ عَلَی مَنْ خَالَفَنِی وَمَنْ تَشَبَّہَ بِقَوْمٍ فَہُوَ مِنْہُمْ۔ (ابن المبارک ۱۰۵)
(١٩٧٨٣) حضرت طاوس سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے قیامت سے پہلے مجھے تلوار دے کر بھیجا ہے، اللہ نے میرے رزق کو میرے نیزے کے نیچے رکھا ہے، میرے مخالفت کرنے والے کا مقدر ذلت اور رسوائی ہے، جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کرلی وہ ان میں سے ہے۔

19783

(۱۹۷۸۴) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ سِمَاکٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ شَدَّادٍ ، أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ لِسَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ وَہُوَ یَکِیدُ بِنَفْسِہِ : جَزَاک اللَّہُ خَیْرًا مِنْ سَیِّدِ قَوْمٍ ، فَقَدْ صَدَقْت اللَّہَ مَا وَعَدْتہ ، وَاللَّہُ صَادِقُک مَا وَعَدَک۔ (ابن سعد ۴۲۹)
(١٩٧٨٤) حضرت عبداللہ بن شداد فرماتے ہیں کہ جب حضرت سعد بن معاذ (رض) حالت نزع میں تھے تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انھیں فرمایا : اے قوم کے سردار ! اللہ تجھے بہترین بدلہ عطا فرمائے، تو نے اللہ سے جو وعدہ کیا تھا اسے سچا کر دکھایا اور اللہ نے تجھ سے جو وعدہ کیا ہے اللہ اسے بھی سچا کر دکھائے گا۔

19784

(۱۹۷۸۵) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِی عَدِیٍّ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، عَنْ مُحَمَّدٍ ، قَالَ : جَائَتْ کَتِیبَۃٌ مِنْ قِبَلِ الْمَشْرِقِ مِنْ کَتَائِبِ الْکُفَّارِ فَلَقِیَہُمْ رَجُلٌ مِنَ الأَنْصَارِ فَحَمَلَ عَلَیْہِمْ فَخَرَقَ الصَّفَّ حَتَّی خَرَجَ ، ثُمَّ کَبَّرَ رَاجِعًا فَصَنَعَ مِثْلَ ذَلِکَ مَرَّتَیْنِ ، أَوْ ثَلاَثًا فَإِذَا سَعْدُ بْنُ ہِشَامٍ ، فَذُکِرَ ذَلِکَ لأَبِی ہُرَیْرَۃَ فَتَلاَ ہَذِہِ الآیَۃَ : {وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَشْرِی نَفْسَہُ ابْتِغَائَ مَرْضَاتِ اللہِ}۔
(١٩٧٨٥) حضرت محمد فرماتے ہیں کہ کفار کا ایک لشکر مشرق کی طرف سے آیا تو انصار کے ایک آدمی نے ان پر حملہ کیا اور ان کی صفوں کو چیرتا ہوا دوسری طرف سے نکل گیا، پھر پیچھے سے ان پر حملہ آور ہوا اور ان کی صفوں کو چیرتا ہوا باہر نکل آیا۔ اس نے دو یا تین مرتبہ ایسا کیا، جب دور سے دیکھا گیا تو وہ حضرت سعد بن ہشام تھے۔ اس بات کا ذکر حضرت ابوہریرہ (رض) سے کیا گیا تو انھوں نے یہ آیت پڑھی : (ترجمہ) کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو اللہ کی رضا کی خاطر اپنے نفس کو فروخت کردیتے ہیں۔ (البقرۃ : ٢٠٧)

19785

(۱۹۷۸۶) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاہِیمَ ، عَن أَبِیہِ ، عَنْ جَدِّہِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ أَنَّہُ أُتِیَ بِطَعَامٍ ، قَالَ شُعْبَۃُ : أَحْسَبُہُ کَانَ صَائِمًا ، فَقَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ : قُتِلَ حَمْزَۃُ ، فَلَمْ نَجِدْ مَا نُکَفِّنُہُ ، وَہُوَ خَیْرٌ مِنِّی ، وَقُتِلَ مُصْعَبُ بْنُ عُمَیْرٍ وَہُوَ خَیْرٌ مِنِّی ، وَلَمْ نَجِدْ مَا نُکَفِّنُہُ ، قَدْ أُصِبْنَا مَا أُصِبْنَا ، قَالَ شعبۃ أَوَ قَالَ : أُعْطِینَا مِنْہَا مَا أُعْطِینَا ، ثُمَّ قَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ : إنِّی لأخْشَی أَنْ تَکُونَ قَدْ عُجِّلَتْ لَنَا طَیِّبَاتُنَا فِی الدُّنْیَا ، قَالَ شُعْبَۃُ : وَأَظُنُّہُ قَامَ ، وَلَمْ یَأْکُلْ۔
(١٩٧٨٦) حضرت عبد الرحمن بن عوف (رض) ایک مرتبہ روزے سے تھے، ان کے پاس کھانا لایا گیا تو انھوں نے فرمایا : کہ حضرت حمزہ (رض) کو شہید کیا گیا تو ان کو کفنانے کے لیے ہمارے پاس کپڑا نہیں تھا ، حالانکہ وہ مجھ سے بہتر تھے۔ حضرت مصعب بن عمیر (رض) کو شہید کیا گیا تو ان کو کفنانے کے لیے بھی ہمارے پاس کپڑا نہیں تھا حالانکہ وہ بھی مجھ سے بہتر تھے۔ اب دنیا کا بہت سا مال و متاع ہمارے قبضہ میں آگیا ہے۔ اس کے بعد حضرت عبد الرحمن (رض) نے فرمایا : مجھے ڈر ہے کہ ہمیں ہمارا اجر دنیا ہی میں نہ دے دیا گیا ہو۔ حضرت شعبہ (رض) فرماتے ہیں کہ میرے خیال میں وہ اٹھ گئے اور انھوں نے کھانا نہیں کھایا۔

19786

(۱۹۷۸۷) حَدَّثَنَا وَکِیعُ بْنُ الْجَرَّاحِ ، حَدَّثَنَا کَہْمَسٌ ، عَنْ سَیَّارِ بْنِ مَنْظُورٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : حدَّثَنِی ابْنُ عَبْدِ اللہِ بْنِ سَلاَمٍ ، قَالَ : تَجَہَّزْت غَازِیًا ، فَلَمَّا وَضَعْت رِجْلِی فِی الْغَرْزِ ، قَالَ لِی أَبِی ، یَا بُنَیَّ اجْلِسْ ، قُلْتُ : أَلاَ کَانَ ہَذَا قَبْلَ أَنْ أَتَجَہَّزَ وَأُنْفِقَ ؟ قَالَ : أَرَدْت أَنْ یُکْتَبَ لِی أَجْرُ غَازٍ وَأَنَّہَا کُرْبَۃٌ تَجِیئُ مِنْ ہَاہُنَا وَأَشَارَ بِیَدِہِ نَحْوَ الشَّامِ ، فَإِنْ أَدْرَکَتْہَا فَسَوْفَ تَرَانِی کَیْفَ أَفْعَلُ ، وَإِنْ لَمْ أَدْرَکَہَا فَعَجِّلْ علیہا۔
(١٩٧٨٧) حضرت عبداللہ بن سلام (رض) کے ایک صاحبزادے فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں جہاد کی تیاری کر کے نکلنے لگا تو میرے والد نے مجھ سے فرمایا : ٹھہر جاؤ اے میرے بیٹے ! میں نے کہا آپ مجھے پہلے نہیں روک سکتے تھے جب میں نے تیاری نہیں کی تھی اور اس پر روپے خرچ نہیں کیے تھے ؟ انھوں نے فرمایا کہ میں چاہتا تھا کہ تمہارے لیے مجاہد کا اجر لکھ دیا جائے۔ انھوں نے شام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اس طرف سے ایک مصیبت آنے والی ہے اگر میں نے اسے پا لیا تو تم دیکھو گے میں اس میں کیا کرتا ہوں اور اگر میں اسے نہ پاسکا تو تم جھپٹ کر اس کی طرف لپکنا۔

19787

(۱۹۷۸۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ مِسْعَرٍ ، عَنْ عُبَیْدِ بْنِ الْحَسَنِ ، عَنِ ابْنِ مَعْقِلٍ ، قَالَ : أَرَادَ ابْنٌ لِعَبْدِ اللہِ بْنِ سَلاَمٍ الْغَزْوَ فَأَشْرَفَ إلَیْہِ أَبُوہُ ، فَقَالَ : یَا بُنَیَّ لاَ تَفْعَلْ ، فَإِنَّ صَرِیخَ الشَّامِ إذَا جاء بَلَغَ کُلَّ مُسْلِمٍ۔
(١٩٧٨٨) حضرت ابن معقل (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن سلام (رض) کے بیٹے نے جہاد کے لیے جانے کا ارادہ کیا تو حضرت عبداللہ بن سلام (رض) نے فرمایا کہ بیٹا ابھی نہ جاؤ، شام سے ایک جنگ آنے والی ہے جو ہر مسلمان کو اپنی زد میں لے گی۔

19788

(۱۹۷۸۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ ، عَنْ قَیْسٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ خَالِدَ بْنَ الْوَلِیدِ ، قَالَ : انْدَقَّتْ فِی یَدِی یَوْمَ مُؤْتَۃَ تِسْعَۃُ أَسْیَافٍ ، فَمَا صَبَرَتْ فِی یَدِی إِلاَّ صَفِیحَۃً یَمَانِیَّۃً۔
(١٩٧٨٩) حضرت خالد بن ولید (رض) فرماتے ہیں کہ غزوہ موتہ میں جو تلواریں میرے ہاتھ سے ٹوٹیں۔ صرف ایک یمنی مضبوط تلوار باقی رہی جس نے میرا ساتھ دیا۔

19789

(۱۹۷۹۰) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، حَدَّثَنَا الْمَسْعُودِیُّ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، قَالَ : جَائَ رَجُلٌ إلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَسْأَلُہُ أَنْ یُعْطِیَہُ سَیْفًا ، فَقَالَ : لَعَلِّی إِنْ أَعْطَیْتُک سَیْفًا تَقُومُ بِہِ فِی الْکَیّولِ ، قَالَ : فَأَعْطَاہُ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سَیْفًا فَجَعَلَ یَضْرِبُ بِہِ الْمُشْرِکِینَ وَہُوَ یَقُولُ : إنِّی امْرُؤٌ بَایَعَنِی خَلِیلِی وَنَحْنُ عِنْدَ أَسْفَلِ النَّخِیلِ۔ أَلاَ أَقُومُ الدَّہْرَ فِی الْکَیّولِ أَضْرِبُ بِسَیْفِ اللہِ وَالرَّسُولِ۔
(١٩٧٩٠) حضرت ابو اسحاق فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ ایک آدمی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے عرض کیا کہ مجھے ایک تلوار دیجئے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ایسا نہ ہو کہ میں تمہیں تلوار دوں لیکن تم پچھلی صف میں کھڑے ہو جاؤ۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو تلوار دی وہ مشرکین سے لڑائی کرتا جاتا تھا، ساتھ ساتھ یہ شعر پڑھتا تھا۔ (ترجمہ) میں وہ شخص ہوں کہ مجھ سے میرے خلیل نے کھجور کے درختوں کے نیچے کھڑے ہو کر یہ وعدہ لیا ہے کہ میں پچھلی صف میں نہ کھڑا رہوں بلکہ اللہ اور اس کے رسول کی تلوار کو لے کر دشمنوں سے جنگ کروں۔

19790

(۱۹۷۹۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ خَیْثَمَۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو ، قَالَ : یَأْتِی عَلَی النَّاسِ زَمَانٌ لاَ یَبْقَی مُؤْمِنٌ إِلاَّ لَحِقَ بِالشَّامِ۔
(١٩٧٩١) حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) فرماتے ہیں کہ لوگوں پر ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ ہر مومن شام چلا جائے گا۔

19791

(۱۹۷۹۲) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، حَدَّثَنَا جَرِیرُ بْنُ حَازِمٍ ، عَنِ الزُّبَیْرِ بْنِ الْخِرِّیتِ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ : کَانَ فُرِضَ عَلَی الْمُسْلِمِینَ أَنْ یُقَاتِلَ الرَّجُلُ مِنْہُمَ الْعَشَرَۃَ مِنَ الْمُشْرِکِینَ ، قَوْلُہُ تعلی {إنْ یَکُنْ مِنْکُمْ عِشْرُونَ صَابِرُونَ یَغْلِبُوا مِئَتَیْنِ وَإِنْ یَکُنْ مِنْکُمْ مِئَۃ یَغْلِبُوا أَلْفًا} فَشَقَّ ذَلِکَ عَلَیْہِمْ فَأَنْزَلَ اللَّہُ التَّخْفِیفَ فَجَعَلَ عَلَی رَجُلٍ یُقَاتِلُ الرَّجُلَیْنِ قولہ تعالی : {فَإِنْ یَکُنْ مِنْکُمْ مِئَۃ صَابِرَۃٌ یَغْلِبُوا مِئَتَیْنِ} فَخَفَّفَ عَنْہُمْ ذَلِکَ وَنُقِصُوا مِنَ النَّصْرِ بِقَدْرِ ذَلِکَ۔ (بخاری ۴۶۵۲۔ ابوداؤد ۲۶۳۹)
(١٩٧٩٢) حضرت عبداللہ بن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ پہلے مسلمانوں پر اس بات کو فرض قرار دیا گیا تھا کہ ایک آدمی دس مشرکوں سے قتال کرے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں (ترجمہ) اگر تم میں بیس صبر کرنے والے ہیں تو وہ دو سو پر غالب آئیں گے اور اگر سو ہیں تو وہ ہزار پر غالب آئیں گے۔ یہ بات مسلمانوں پر دشوار گذری تو اللہ تعالیٰ نے تخفیف فرما دی کہ ایک آدمی دو مشرکوں سے قتال کرے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ (ترجمہ) اگر تم میں سو صبر کرنے والے ہیں تو وہ دو سو پر غالب آئیں گے۔ بعد میں ان پر اس میں بھی تخفیف کردی گئی اور مدد میں اسی کے بقدر کمی کردی گئی۔

19792

(۱۹۷۹۳) حَدَّثَنَا عِیسَی بْنُ یُونُسَ ، عَنْ أَبِی بَکْرٍ الْغَسَّانِیِّ ، عَنْ حَبِیبِ بْنِ عَمْرٍو ، قَالَ : قَالَ کَعْبٌ : أَحَبُّ الْبِلاَدِ إِلَی اللہِ الشَّام ، وَأَحَبُّ الشَّام إِلَیْہِ الْقُدْس ، وَأَحَبُّ الْقُدس إِلَیْہِ جَبَل نابلس ، لَیَأْتِیَنَّ عَلَی النَّاسِ زَمَانٌ یَتَمَاسَحُونَہُ بَیْنَہُمْ بِالْحِبَالِ۔
(١٩٧٩٣) حضرت کعب (رض) فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کو سب ملکوں سے پسندیدہ ملک شام ہے، شام میں سب سے محبوب جگہ القدس ہے۔ قدس میں سب سے محبوب جگہ جبل نابلس ہے۔ لوگوں پر ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ وہ رسیوں کے ذریعے لین دین کریں گے۔

19793

(۱۹۷۹۴) حَدَّثَنَا عِیسَی بْنُ یُونُسَ، عَنْ أَبِی بَکْرٍ، عَنْ أَبِی الزَّاہِرِیَّۃِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: مَعْقِلُ الْمُسْلِمِینَ مِنَ الْمَلاَحِمِ دِمَشْقُ ، وَمَعْقِلُہُمْ مِنَ الدَّجَّالِ بَیْتُ الْمَقْدِسِ ، وَمَعْقِلُہُمْ مِنْ یَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ بَیْتُ الطُّورِ۔ (حاکم ۴۶۲۔ ابن عساکر ۲۳۲)
(١٩٧٩٤) حضرت ابو زاھریہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ جنگوں کے زمانے میں مسلمانوں کا ٹھکانا دمشق، دجال کے مقابلے میں ان کا ٹھکانا بیت المقدس اور یاجوج ماجوج کے مقابلے میں ان کا ٹھکانا بیت الطور ہے۔

19794

(۱۹۷۹۵) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ إِسْحَاقَ ، حَدَّثَنِی یَحْیَی بْنُ أَیُّوبَ ، عَنْ یَزِیدَ بْنِ أَبِی حَبِیبٍ ، أَنَّ عَبْدَ الرَّحْمَن بْنَ شِِمَاسَۃَ الْمَہْرَیْ أَخْبَرَہُ ، عَنْ زَیْد بْن ثَابِت ، قَالَ : بَیْنَمَا نَحْنُ حَوْلَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نُؤَلِّفُ الْقُرْآنَ مِنَ الرِّقَاعِ إذْ ، قَالَ : طُوبَی لِلشَّامِ طُوبَی لِلشَّامِ ، قِیلَ : یَا رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَلِمَاذَا ؟ قَالَ : لأَنَّ مَلاَئِکَۃَ الرَّحْمَن بَاسِطَۃٌ أَجْنِحَتَہَا عَلَیْہَا۔ (ترمذی ۳۹۵۴۔ ابن حبان ۱۱۴)
(١٩٧٩٥) حضرت زید بن ثابت (رض) فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گرد بیٹھے قرآن مجید کی تلاوت کر رہے تھے کہ آپ نے فرمایا : شام کے لیے خوشخبری، شام کے لیے خوشخبری۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کسی نے پوچھا کہ اے اللہ کے رسول 5! شام کے لیے خوشخبری کیوں ہے ؟ آپ نے فرمایا : کہ شام پر فرشتوں نے اپنے پر پھیلا رکھے ہیں۔

19795

(۱۹۷۹۶) حَدَّثَنَا عِیسَی بْنُ یُونُسَ ، عَنِ الأَوْزَاعِیِّ ، عَنْ حَسَّانَ بْنِ عَطِیَّۃَ ، قَالَ : مَالَ مَکْحُولٌ ، وَابْنُ زَکَرِیَّا إلَی خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ وَمِلْت مَعَہُمَا فَحَدَّثَنَا عَنْ جُبَیْرِ بْنِ نُفَیْرٍ ، قَالَ : قَالَ لِی جُبَیْرٌ : انْطَلِقْ بِنَا إلَی ذِی مِخْمَرٍ وَکَانَ رَجُلاً مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَانْطَلَقْت مَعَہُ فَسَأَلَہُ جُبَیْرٌ عَنِ الْہُدْنَۃِ ، فَقَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : سَتُصَالِحُکُمَ الرُّومُ صُلْحًا آمِنًا ثم تَغْزُونَ أَنْتُمْ وَہُمْ عَدُوًّا فَتُنْصَرُونَ وَتَغْنَمُونَ وَتَسْلَمُونَ ، ثُمَّ تَنْصَرِفُونَ حَتَّی تَنْزِلُوا بِمَرْجٍ ذِی تُلُولٍ مُرْتَفِعٍ فَیَرْفَعُ رَجُلٌ مِنْ أَہْلِ النَّصْرَانِیَّۃِ الصَّلِیبَ فَیَقُولُ : غَلَبَ الصَّلِیبُ ، فَیَغْضَبُ رَجُلٌ مِنَ الْمُسْلِمِینَ فَیَقُومُ إلَیْہِ فَیَدُقُّہُ فَعِنْدَ ذَلِکَ تَغْدِرُ الرُّومُ وَیُجْمِعُونَ لِلْمَلْحَمَۃِ۔ (ابوداؤد ۲۷۶۱۔ ابن حبان ۶۷۰۸)
(١٩٧٩٦) حضرت حسان بن عطیہ (رض) فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں، حضرت مکحول (رض) اور حضرت ابن ابی زکریا (رض) ، حضرت خالد بن معدان (رض) کی طرف گئے۔ انھوں نے ہمیں حضرت جبیر بن نفیر (رض) کے حوالے سے ایک حدیث سنائی کہ حضرت جبیر (رض) نے مجھ سے فرمایا کہ چلو ایک صحابی حضرت ذوخمر کے پاس جائیں۔ میں جبیربن قصیر کے ساتھ ان کے پاس حاضر ہوا۔ حضرت جبیر نے ان سے ” ہدنہ “ کے بارے میں سوال کیا تو انھوں نے فرمایا : کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے سنا ہے کہ اہل روم عنقریب تم سے امن والی صلح کریں گے، پھر تم اور وہ دشمنوں کے ساتھ جنگیں کرو گے، ا ن جنگوں میں تم کامیاب ہو جاؤ گے اور تمہیں مال غنیمت اور سلامتی حاصل ہوگی، پھر تم ٹیلوں والی ایک سر زمین پر ٹھہرو گے تو وہاں ایک عیسائی صلیب کو بلند کر کے کہے گا کہ صلیب غالب آگئی۔ اس پر مسلمانوں کے ایک آدمی کو غصہ آئے گا اور وہ اس صلیب کو توڑ دے گا۔ اس موقع پر اہل روم صلح ختم کردیں گے اور لڑائی کے لیے جمع ہوں گے۔

19796

(۱۹۷۹۷) حَدَّثَنَا عِیسَی بْنُ یُونُسَ ، عَنْ أَبِی بَکْرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ ، عَنْ أَشْیَاخِہِ ، قَالَ : قَالَ عُمَرُ : وَفِّرُوا الأَظْفَارَ فِی أَرْضِ الْعَدُو فَإِنَّہَا سِلاَحٌ۔
(١٩٧٩٧) حضرت عمر (رض) فرماتے ہیں کہ جنگ میں ناخن لمبے رکھو کیونکہ یہ بھی ایک ہتھیار ہے۔

19797

(۱۹۷۹۸) حَدَّثَنَا عِیسَی بْنُ یُونُسَ ، عَنِ الأَوْزَاعِیِّ ، عَنْ حَسَّانِ بْنِ عَطِیَّۃَ ، عَنْ أَبِی الدَّرْدَائِ ، قَالَ : إذَا عُرِضَ عَلَیْکُمَ الْغَزْوُ فَلاَ تَخْتَارُوا أَرْمِینِیَۃَ ، فَإِنَّ بِہَا عَذَابًا مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ۔
(١٩٧٩٨) حضرت ابو الدردائ (رض) فرماتے ہیں کہ جب تمہیں جہاد کی پیش کش کی جائے تو ارمینیہ کا انتخاب مت کرنا کیونکہ وہاں اللہ کی طرف سے سخت سردی کا عذاب نازل ہوا ہے۔

19798

(۱۹۷۹۹) حَدَّثَنَا عِیسَی بْنُ یُونُسَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، عَن عَلْقَمَۃَ ، قَالَ : غَزَوْنَا أَرْضَ الرُّومِ وَمَعَنَا حُذَیْفَۃُ، وَعَلَیْنَا رَجُلٌ مِنْ قُرَیْشٍ ، فَشَرِبَ الْخَمْرَ ، فَأَرَدْنَا أَنْ نَحُدَّہُ ، فَقَالَ حُذَیْفَۃُ: تَحُدُّونَ أَمِیرَکُمْ ، وَقَدْ دَنَوْتُمْ مِنْ عَدُوِّکُمْ فَیَطْمَعُونَ فِیکُمْ ، فَقَالَ : لأَشْرَبَنَّہَا ، وَإِنْ کَانَتْ مُحَرَّمَۃً ، وَلأَشْرَبَنَّ عَلَی رَغْمِ مَنْ رَغِمَ۔
(١٩٧٩٩) حضرت علقمہ (رض) فرماتے ہیں کہ ہم نے حضرت حذیفہ (رض) کے ساتھ سرزمین روم میں جہاد کیا، اس وقت ہمارا امیر ایک قریشی تھا، اس نے شراب پی تو ہم نے اس پر حد جاری کرنا چاہی۔ حضرت حذیفہ (رض) نے فرمایا کہ کیا تم اپنے امیر پر حد جاری کرو گے حالانکہ تم دشمن کے قریب ہو، اس طرح تو دشمن تم پر چڑھ دوڑے گا ؟ اس امیر نے کہا کہ میں ضرور شراب پیوں گا اگرچہ یہ حرام ہے اور میں ضرور شراب پیوں گا خواہ کسی کو برا لگے۔

19799

(۱۹۸۰۰) حَدَّثَنَا عِیسَی بْنُ یُونُسَ ، عَنِ الأَوْزَاعِیِّ ، عَنِ الْمُطْعِمِ بْنِ الْمِقْدَامِ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : إذَا رَابَطْت ثَلاَثًا فَلْیَتَعَبَّدَ الْمُتَعَبِّدُونَ مَا شَاؤُوا۔
(١٩٨٠٠) حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ اگر یہی تین دن جہاد کی تیاری میں گذار لوں تو مجھے کوئی پروا نہیں کہ عبادت کرنے والے کتنی عبادت کرتے ہیں۔

19800

(۱۹۸۰۱) حَدَّثَنَا عِیسَی بْنُ یُونُسَ ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ الْغَازِ ، عَنْ مَکْحُولٍ ، عَنْ سَلْمَانَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : رِبَاطُ یَوْمٍ فِی سَبِیلِ اللہِ خَیْرٌ مِنْ صِیَامِ شَہْرٍ وَقِیَامِہِ ، وَمَنْ مَاتَ مُرَابِطًا أُجِیرَ مِنْ فِتْنَۃِ الْقَبْرِ وَجَرَی عَلَیْہِ صَالِحُ عَمَلِہِ إلَی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ۔ (مسلم ۱۵۲۰۔ احمد ۵/۴۴۰)
(١٩٨٠١) حضرت سلمان (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ اللہ کے راستے میں ایک دن جہاد کی تیاری میں گذارنا ایک مہینے کے روزے اور ایک مہینے کی عبادت سے بہتر ہے۔ جس شخص کا انتقال جہاد کی تیاری میں ہوا اسے قبر کے عذاب سے بچایا جائے گا اور اس کے لیے نیک اعمال کا ثواب قیامت تک جاری رہے گا۔

19801

(۱۹۸۰۲) حَدَّثَنَا عِیسَی بْنُ یُونُسَ ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ الْغَازِ ، قَالَ : حدَّثَنِی عَطَائٌ الْخُرَاسَانِیُّ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ بِمِثْلِہِ ، إِلاَّ أَنَّہُ قَالَ : سَاحِلُ الْبَحْرِ۔ (ابن ماجہ ۲۷۶۷۔ احمد ۲/۴۰۴)
(١٩٨٠٢) یہ حدیث حضرت ابوہریرہ (رض) سے مختلف الفاظ کے ساتھ منقول ہے۔

19802

(۱۹۸۰۳) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ إِسْحَاقَ ، عَنْ لَیْثِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ أَبِی عَقِیلٍ ، عَنْ أَبِی صَالِحٍ مَوْلَی عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ ، عَنْ عُثْمَانَ ، أَنَّہُ قَالَ عَلَی الْمِنْبَرِ : أَیُّہَا الْمُسْلِمُونَ ، سَمِعْت مِنْ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حَدِیثًا کَتَمْتُکُمُوہُ کَرَاہِیَۃَ تَفَرُّقکُمْ عَنِّی ، سَمِعْت مِنْ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : رِبَاطُ یَوْمٍ فِی سَبِیلِ اللہِ خَیْرٌ مِنْ رِبَاطِ أَلْفِ یَوْمٍ فِیمَا سِوَاہُ مِنَ الْمَنَازِلِ ، فَلْیَخْتَرْ کُلُّ امْرِئٍ لِنَفْسِہِ مَا شَائَ۔ (ترمذی ۱۶۶۷۔ طیالسی ۸۷)
(١٩٨٠٣) ایک مرتبہ حضرت عثمان (رض) نے منبر پر فرمایا کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ایک حدیث سنی تھی جو میں نے تم سے اس لیے چھپائی تاکہ تم مجھ سے دور نہ چلے جاؤ۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ کے راستے میں سرحدوں کی ایک دن کی نگرانی دوسری جگہوں پر ایک ہزار دن کی نگرانی سے بہتر ہے، پس ہر شخص اپنے لیے جو چاہے منتخب کرلے۔

19803

(۱۹۸۰۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا دَاوُد بْنُ قَیْسٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْعَسْقَلاَنِیِّ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : تَمَامُ الرِّبَاطِ أَرْبَعُونَ یَوْمًا۔ (سعید بن منصور ۲۴۱۰)
(١٩٨٠٤) حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رباط چالیس دن کا ہوتا ہے۔

19804

(۱۹۸۰۵) حَدَّثَنَا عِیسَی بْنُ یُونُسَ ، عَنْ مُعَاوِیَۃَ بْنِ یَحْیَی الصَّدَفِیِّ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ الْحَارِثِ الذمارِیِّ ، عَنْ مَکْحُولٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : الرِّبَاطِ أَرْبَعُونَ یَوْمًا۔ (طبرانی ۷۶۰۶)
(١٩٨٠٥) حضرت مکحول سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ رباط (سرحدوں کی حفاظت کی ذمہ داری) چالیس دن کا ہوتا ہے۔

19805

(۱۹۸۰۶) حَدَّثَنَا عِیسَی بْنُ یُونُسَ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ اللہِ مَوْلَی غُفْرَۃَ ، قَالَ : حدَّثَنَا رَجُلٌ مِنْ وَلَدِ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ ، أَنَّ ابْنًا لاِبْنِ عُمَرَ رَابَطَ ثَلاَثِینَ لَیْلَۃً ، ثُمَّ رَجَعَ ، فَقَالَ لَہُ : ابْنُ عُمَرَ : أَعْزِمُ عَلَیْک لَتَرْجِعَنَّ فَلْتُرَابِطَنَّ عَشْرًا حَتَّی تُتِمَّ الأَرْبَعِینَ۔
(١٩٨٠٦) حضرت عمر بن عبداللہ مولیٰ غفرہ (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمر (رض) کے ایک بیٹے نے تیس دن جہاد کے لیے گذارے۔ جب واپس آئے تو حضرت ابن عمر (رض) نے ان سے فرمایا کہ میں تمہیں قسم دیتا ہوں کہ تم واپس جاؤ اور دس دن مزید جہاد کے لیے گذارو تاکہ چالیس دن پورے ہوجائیں۔

19806

(۱۹۸۰۷) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ یَزِیدَ بْنِ جَابِرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ مَعْدَانَ ، قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا أُمَامَۃَ وَجُبَیْرَ بْنَ نُفَیْرٍ یَقُولاَنِ : یَأْتِی عَلَی النَّاسِ زَمَانٌ أَفْضَلُ الْجِہَادِ الرِّبَاطُ ، فَقُلْت : وَمَا ذَلِکَ ؟ قَالَ : إذَا انْطَاطَ الْغَزْوُ وَکَثُرَتِ الْغَرَائِمُ وَاسْتُحِلَّتِ الْغَنَائِمُ فَأَفْضَلُ الْجِہَادُ یَوْمئِذٍ الرِّبَاطُ۔ (ابن حبان ۴۸۵۶۔ طبرانی ۳۳۴)
(١٩٨٠٧) حضرت ابو امامہ اور حضرت جبیر بن نفیر (رض) فرماتے ہیں کہ لوگوں پر ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ اس میں افضل جہاد رباط ہوگا۔ راوی کہتے ہیں : میں نے پوچھا کہ ایسا کب ہوگا ؟ انھوں نے فرمایا کہ غزوے کم ہوجائیں گے، تاوان زیادہ ہوجائیں، مال غنیمت کو حلال سمجھا جانے لگے گا تو اس موقع پر افضل جہاد رباط ہے۔

19807

(۱۹۸۰۸) حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إسْمَاعِیلَ ، عَنْ حُمَیْدِ بْنِ صَخْرٍ ، عَنْ یَزِیدَ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ قُسَیْطٍ وَصَفْوَانَ بْنِ سُلَیْمٍ ، قَالاَ : مَنْ مَاتَ مُرَابِطًا مَاتَ شَہِیدًا۔
(١٩٨٠٨) حضرت یزید بن عبداللہ (رض) اور صفوان بن سلیم (رض) فرماتے ہیں کہ جو شخص جہاد کے لیے سفر کرتا ہوا انتقال کر گیا تو اس نے شہادت کا درجہ پا لیا۔

19808

(۱۹۸۰۹) حَدَّثَنَا عِیسَی بْنُ یُونُسَ ، عَنِ الأَوْزَاعِیِّ ، عَنِ ابْنِ حَبِیبٍ الْمُحَارِبِیِّ ، عَنْ أَبِی أُمَامَۃَ الْبَاہِلِیِّ ، قَالَ : لَقَدِ افْتَتَحَ الْفُتُوحَ أَقْوَامٌ مَا کَانَتْ حِلْیَۃُ سُیُوفِہِمَ الذَّہَبَ ، وَلاَ الْفِضَّۃَ ، إنَّمَا کَانَتْ حِلْیَتُہَا الْعَلاَبِیَّ وَالآنُکَ وَالْحَدِیدَ۔
(١٩٨٠٩) حضرت ابو امامہ باہلی (رض) فرماتے ہیں کہ کچھ قوموں کو بہت سی فتوحات حاصل ہوں گی۔ ان قوموں کی تلواروں کا زیور سونے یا چاندی کا نہیں بلکہ سرخ تانبے، سفید تانبے اور لوہے کا ہوگا۔

19809

(۱۹۸۱۰) حَدَّثَنَا الْمُحَارِبِیُّ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ زِیَادِ بْنِ أَنْعُمٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ یَزِیدَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: مَنْ صُدِعَ رَأْسُہُ فِی سَبِیلِ اللہِ غَفَرَ اللَّہُ لَہُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہِ۔ (سعید بن منصور ۲۴۲۵۔ بزار ۷۶۷)
(١٩٨١٠) حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشا فرمایا کہ جس شخص کا اللہ کے راستے میں سر درد ہوا اللہ تعالیٰ اس کے گزشتہ سارے گناہوں کو معاف فرما دیتے ہیں۔

19810

(۱۹۸۱۱) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ إِسْحَاقَ ، حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ أَیُّوبَ ، عَنْ أَبِی قَبِیلٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ عَبْدَ اللہِ بْن عَمْرو وَسُئِلَ : أَیُّ الْمَدِینَتَیْنِ تُفْتَحُ أَوَّلاً قُسْطَنْطِینِیَّۃُ ، أَوْ رُومِیَّۃُ ؟ قَالَ : فَدَعَا عَبْدُ اللہِ بْنُ عَمْرٍو بِصُنْدُوقٍ لَہُ حِلَقٌ فَأَخْرَجَ مِنْہُ کِتَابًا فَجَعَلَ یَقْرَأہُ ، قَالَ : فَقَالَ : بَیْنَمَا نَحْنُ حَوْلَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَکْتُبُ إذْ سُئِلَ : أَیُّ الْمَدِینَتَیْنِ یُفْتَحُ أَوَّلاً قُسْطَنْطِینِیَّۃُ ، أَوْ رُومِیَّۃُ ؟ فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : بَلْ مَدِینَۃُ ہِرَقْلَ تُفْتَحُ أَوَّلاً ۔ (احمد ۲/۱۷۶۔ حاکم ۴۲۲)
(١٩٨١١) حضرت ابو قبیل (رض) کہتے ہیں کہ کسی نے حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) سے سوال کیا کہ پہلے قسطنطنیہ فتح ہوگا یا رومیہ ؟ حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) نے اپنا ایک حلقوں والا صندوق منگوایا اور اس میں سے ایک کتاب نکال کر پڑھنا شروع کردی۔ پھر فرمایا کہ ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گرد بیٹھ کر لکھا کرتے تھے ایک مرتبہ آپ سے سوال کیا گیا کہ پہلے قسطنطنیہ فتح ہوگا یا رومیہ ؟ نبی پاک (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تھا کہ پہلے ہرقل کا شہر فتح ہوگا۔

19811

(۱۹۸۱۲) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ أَبِیہِ وَعَمِّہِ سَمِعَہُمَا یَذْکُرَانِ ، قَالاَ : قَالَ سَلْمَانُ بْنِ رَبِیعَۃَ : قَتَلْت بِسَیْفِی ہَذَا مِئَۃ مُسْتَلْئِم کلہم یَعْبُدُ غَیْرَ اللہِ ، مَا قَتَلْتُ مِنْہُمْ رَجُلاً صَبْرًا۔
(١٩٨١٢) حضرت سلمان بن ربیعہ (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے اپنی اس تلوار سے سو ایسے آدمیوں کو قتل کیا ہے جو غیر اللہ کی عبادت کرتے تھے میں نے ان میں سے کسی صاحب دین آدمی کو قتل نہیں کیا۔

19812

(۱۹۸۱۳) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ مُوسَی بْنِ سَعِیدٍ ، عَنْ أَشْیَاخِہِ ، قَالَ : قَالَ أَبُو مُوسَی : لَقَدْ رَأَیْتُنِی خَامِسَ خَمْسَۃٍ ، أَوْ سَادِسَ سِتَّۃٍ مَا فِی یَدِی ، وَلاَ رِجْلِی ظُفْرٌ إِلاَّ وَقَدْ نَصَلَ ، ثُمَّ قَالَ : مَا خَالَفَ إلَی ذِکْرِ ہَذَا ، اللَّہُ یُجْزِیْنِی بِذَلِکَ۔
(١٩٨١٣) حضرت ابو موسیٰ (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے خود دیکھا، میں ان پانچ یا چھ آدمیوں میں سے ایک تھا جن کے ہاتھوں اور پاؤں کا ہر ناخن نکل چکا تھا۔ پھر فرمایا کہ نہ جانے میں نے کیوں اس بات کو بیان کردیا میں تو اس کا اجر صرف اللہ سے چاہتا تھا۔

19813

(۱۹۸۱۴) حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ وَرْدَانَ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: مَا مِنْ أَحَدٍ یَمُوتُ، لَہُ عِنْدَ اللہِ خَیْرٌ یَسُرُّہُ یَتَمَنَّی أَنْ یَرْجِعَ إلَی الدُّنْیَا ، وَلاَ أَنَّ لَہُ مِثْلَ نَعِیمِہَا إِلاَّ الشَّہِیدَ ، فَإِنَّہُ مِمَّا یَرَی مِنَ الثَّوَابِ یَوَدُّ أَنَّہُ رَجَعَ فَقُتِلَ۔ (سعید بن منصور ۲۵۵۴)
(١٩٨١٤) حضرت حسن (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ سوائے شہید کے کسی کو یہ خصوصیت حاصل نہیں کہ جب اس کی روح نکلتی ہے تو وہ واپس دنیا کی طرف اور دنیا کی نعمتوں کی طرف جانے کی خواہش کرتا ہے اور وہ یہ خواہش اس لیے کرتا ہے کہ وہ جب شہادت کے اجر کو دیکھتا ہے تو خواہش کرتا ہے کہ واپس دنیا میں جائے اور دوبارہ اللہ کے راستے میں شہید ہو۔

19814

(۱۹۸۱۵) حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ وَرْدَانَ ، عَنْ بُرْدٍ ، عَنْ مَکْحُولٍ ، قَالَ : لِلشَّہِیدِ عِنْدَ اللہِ سِتُّ خِصَالٍ : یَغْفِرُ اللَّہُ ذَنْبَہُ عِنْدَ أَوَّلِ قَطْرَۃٍ تُصِیبُ الأَرْضَ مِنْ دَمِہِ ، وَیُحَلَّی حُلَّۃَ الإِیمَانِ ، وَیُزَوَّجُ الْحُورَ الْعِینِ ، وَیُفْتَحُ لَہُ بَابٌ مِنَ الْجَنَّۃِ ، وَیُجَارُ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ ، وَیُؤَمَّنُ مِنَ الْفَزَعِ الأَکْبَرِ أوْ فَزَعِ یَوْمِ الْقِیَامَۃِ۔
(١٩٨١٥) حضرت مکحول (رض) فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے شہید کو چھ طرح کا اجر ملتا ہے 1 ۔ اس کے خون کا پہلا قطرہ گرتے ہی اللہ تعالیٰ اس کے گناہوں کو معاف فرما دیتے ہیں۔ 2 ۔ اسے ایمان کا زیور پہنایا جاتا ہے۔ 3 ۔ حورعین سے اس کی شادی کی جاتی ہے۔ 4 ۔ اس کے لیے جنت کا دروازہ کھول دیا جاتا ہے۔ 5 ۔ قبر کا عذاب اس سے ہٹا لیا جاتا ہے۔ 6 ۔ قیامت کے دن کی سختی سے وہ محفوظ ہوجاتا ہے۔

19815

(۱۹۸۱۶) حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ مُفَضَّلٍ ، عَنْ مُغِیرَۃَ بْنِ حَبِیبٍ ، قَالَ : سَأَلَتْ سَالِمًا عَنِ الْمُبَارَزَۃِ فَأَکَبَّ ہُنَیْہَۃً ، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَہُ ، فَقَالَ : {إنَّ اللَّہَ یُحِبُّ الَّذِینَ یُقَاتِلُونَ فِی سَبِیلِہِ صَفًّا کَأَنَّہُمْ بُنْیَانٌ مَرْصُوصٌ}۔
(١٩٨١٦) حضرت مغیرہ بن حبیب (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت سالم (رض) سے مبارزت کے بارے میں سوال کیا تو تھوڑی دیر انھوں نے سر کو جھکایا پھر اس آیت کی تلاوت کی (ترجمہ) بیشک اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو پسند کرتا ہے جو اس کے رستے میں صف بنا کر اس طرح قتال کرتے ہیں جیسے کہ کوئی مضبوط عمارت ہو۔

19816

(۱۹۸۱۷) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَص ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ أَبِی صَالِحٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ : {وَلاَ تُلْقُوا بِأَیْدِیکُمْ إلَی التَّہْلُکَۃِ} قَالَ : أَنْفِقْ فِی سَبِیلِ اللہِ وَلَوْ بِمِشْقَصٍ۔
(١٩٨١٧) حضرت ابن عباس (رض) قرآن مجید کی آیت { وَلاَ تُلْقُوا بِأَیْدِیکُمْ إلَی التَّہْلُکَۃِ } کے بارے میں فرماتے ہیں کہ اللہ کے رستے میں خرچ کرو خواہ تیر کا ایک ٹکڑا ہی کیوں نہ ہو۔

19817

(۱۹۸۱۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، حَدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ الأَسْوَدِ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، قَالَ : إذَا لَقِیْتَ فَانْہَدْ قَائِمًا فَإِنَّمَا نَزَلَتْ ہَذِہِ الآیَۃُ فِی النَّفَقَۃِ۔
(١٩٨١٨) حضرت مجاہد (رض) فرماتے ہیں کہ جب تمہارا دشمن سے سامنا ہو تو خوب توانا ہو کر دلیری سے اس پر حملہ کرو کیونکہ یہ آیت تو خرچ کے بارے میں نازل ہوئی۔

19818

(۱۹۸۱۹) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَرْوَانَ الْبَصْرِیُّ ، عَنْ عُمَارَۃَ ، قَالَ : شُجَّ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَکُسِرَتْ رَبَاعِیَتُہُ ، وَذَلِقَ مِنَ الْعَطَشِ حَتَّی جَعَلَ یَقَعُ عَلَی رُکْبَتَیْہِ ، وَتَرَکَہُ أَصْحَابُہُ ، فَجَائَ أُبَیّ بْنُ خَلَفٍ یَطْلُبُ بِدَمِ أَخِیہِ أُمَیَّۃَ بْنِ خَلَفٍ ، فَقَالَ : أَیْنَ ہَذَا الَّذِی یَزْعُمُ أَنَّہُ نَبِیٌّ فَلْیَبْرُزْ لِی ، فَإِنْ کَانَ نَبِیًّا قَتَلَنِی ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : أَعْطُوْنِی الْحَرْبَۃَ فَقَالُوا : یَا رَسُولَ اللہِ ، وَبِکَ حِرَاکٌ ؟ قَالَ : إنِّی قَدِ اسْتَسْقَیْت اللَّہَ دَمَہُ ، فَأَخَذَ الْحَرْبَۃَ ، ثُمَّ مَشَی إلَیْہِ فَطَعَنَہ فَصَرَعَہُ عَنْ دَابَّتِہِ وَحَمَلَہُ أَصْحَابُہُ فَاسْتَنقََذُوہُ فَقَالُوا : مَا نَرَی بِکَ بَأْسًا ، فَقَالَ : إِنَّہُ قَدِ اسْتَسْقَی اللَّہَ دَمِی إنِّی لأجِدُ لَہَا مَا لَوْ کَانَ عَلَی مُضَرَ وَرَبِیعَۃَ لَوَسِعَتْہُمْ۔ (بخاری ۲۹۱۱۔ مسلم ۱۴۱۶)
(١٩٨١٩) حضرت عمارہ فرماتے ہیں کہ غزوہ أحد میں نبی پاک (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا چہرہ مبارک زخمی ہوگیا تھا اور آپ کے سامنے والے دانت بھی ٹوٹ گئے تھے۔ آپ پیاس کی شدت سے بےچین ہو کر گھٹنوں کے بل بیٹھ گئے تھے اور آپ کے بہت سے ساتھی بھی ادھر ادھر منتشر ہوگئے تھے۔ اس جنگ میں ابی بن خلف اپنے بھائی امیہ بن خلف کا بدلہ لینے کے لیے موجود تھا۔ اس نے للکار کر کہا کہ وہ شخص جو اپنے آپ کو نبی سمجھتا ہے، وہ میرے سامنے آئے، اگر وہ واقعی نبی ہے تو وہ مجھے مار ڈالے گا۔ اس پر اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ مجھے نیزہ دو ۔ لوگوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! آپ تو شدید پیاس اور گرمی کا شکار ہیں۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ مجھے اس کا خون پلائے گا۔ آپ نے نیزہ پکڑا، اس کی طرف تشریف لے گئے اور اسے نیزہ مار کر سواری سے نیچے گرا دیا۔ اس کے ساتھی اسے بچا کرلے گئے اور اسے تسلی دی کہ تمہیں زیادہ چوٹ نہیں آئی۔ اس نے کہا کہ انھوں نے اللہ سے میرا خون مانگا ہے، مجھے اس زخم کی اتنی تکلیف ہو رہی ہے کہ اگر قبیلہ مضر اور قبیلہ ربیعہ میں تقسیم کردی جائے تو سب بےچین ہوجائیں۔

19819

(۱۹۸۲۰) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ حُبَابٍ ، عَنِ الضَّحَّاکِ بْنِ عُثْمَانَ ، حَدَّثَنَا الْحَکَمُ بْنُ مِینَائَ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ أَنَّہُ سَمِعَہُ یَقُولُ ، قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : غَدْوَۃٌ فِی سَبِیلِ اللہِ ، أَوْ رَوْحَۃٌ خَیْرٌ مِنَ الدُّنْیَا وَمَا فِیہَا۔ (احمد ۲/۵۳۲)
(١٩٨٢٠) حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ اللہ کے راستے میں ایک صبح اور ایک شام کا لگا دینا، جو کچھ دنیا میں ہے سب سے بہتر ہے۔

19820

(۱۹۸۲۱) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِی مَالِکِ بْنِ ثَعْلَبَۃَ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْحَکَمِ بْنِ ثَوْبَانَ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : مَا تَعُدُّونَ الشَّہِیدَ ؟ قَالَ فَقَالُوا : الْمَقْتُولُ فِی سَبِیلِ اللہِ ، قَالَ : إنَّ شُہَدَائَ أُمَّتِی إذْن لَقَلِیلٌ ، الْقَتِیلُ فِی سَبِیلِ اللہِ شَہِیدٌ وَالْخَارُّ عَنْ دَابَّتِہِ فِی سَبِیلِ اللہِ شَہِیدٌ ، وَالْغَرِقُ فِی سَبِیلِ اللہِ شَہِیدٌ ، وَالطَّعِینُ فِی سَبِیلِ اللہِ شَہِیدٌ ، وَالْمَبْطُونُ فِی سَبِیلِ اللہِ شَہِیدٌ ، وَالْمَجْنُوبُ فِی سَبِیلِ اللہِ شَہِیدٌ ، یَعْنِی قُرْحَۃَ ذَاتِ الْجَنْبِ۔ (مسلم ۱۶۴۔ احمد ۲/۴۴۱)
(١٩٨٢١) حضرت ابوہریرہ (رض) روایت کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دریافت فرمایا کہ تم شہید کسے سمجھتے ہو ؟ لوگوں نے کہا : کہ جو اللہ کے راستے میں مارا جائے۔ آپ نے فرمایا : کہ اس طرح تو میری امت کے شہید بہت کم ہوں گے۔ اللہ کے راستے میں جان دینے والا بھی شہید ہے، اللہ کے راستے میں سواری سے گر کر ہلاک ہونے والا بھی شہید ہے، اللہ کے راستے میں ڈوبنے والا بھی شہید ہے، اللہ کے راستے میں طاعون کا شکار ہونے والا بھی شہید ہے، اللہ کے راستے میں پیٹ کی بیماری سے مرنے والا بھی شہید ہے، اور اللہ کے راستے میں پھوڑے کا شکار ہو کر مرنے والا بھی شہید ہے۔

19821

(۱۹۸۲۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ الْغَازِ ، عَنْ عُبَادَۃَ بْنِ نُسَیٍّ ، عَنْ عُبَادَۃَ بْنِ الصَّامِتِ ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : مَا تَعُدُّونَ الشَّہِیدَ فِیکُمْ ؟ قَالُوا : الَّذِی یُقَاتِلُ فِی سَبِیلِ اللہِ فَیُقْتَلُ ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إنَّ شُہَدَائَ أُمَّتِی اِذَنْ لَقَلِیلٌ ، الْقَتِیلُ فِی سَبِیلِ اللہِ شَہِیدٌ ، وَالْمَطْعُونُ شَہِیدٌ ، وَالْمَبْطُونُ شَہِیدٌ ، وَالْمَرْأَۃُ تَمُوتُ بِجُمْعٍ یَعْنِی حَامِلاً شَہِیدٌ۔ (احمد ۵/۳۱۵۔ دارمی ۲۴۱۴)
(١٩٨٢٢) حضرت عبادہ بن صامت (رض) فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ سے پوچھا کہ تم شہید کسے سمجھتے ہو ؟ انھوں نے کہا جو اللہ کے راستے میں قتال کرے اور جان دے دے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اس طرح تو میری امت کے شہید بہت کم ہوں گے۔ اللہ کے راستے میں مرنے والا شہید ہے، طاعون سے مرنے والا شہید ہے، پیٹ کی بیماری سے مرنے والا شہید ہے، بچے کو جنم دیتے ہوئے مرنے والی عورت بھی شہید ہے۔

19822

(۱۹۸۲۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، حدَّثَنَا أَبُو الْعُمَیْسِ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ جَبْرِ بْنِ عَتِیکٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ جَدِّہِ ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَادَہُ فِی مَرَضِہِ ، فَقَالَ قَائِلٌ مِنْ أَہْلِہِ : إنَّا کُنَّا لَنَرْجُو أَنْ تَکُونَ وَفَاتُہُ قَتْلَ شَہَادَۃٍ فِی سَبِیلِ اللہِ ، فَقَالَ : إنَّ شُہَدَائَ أُمَّتِی اِذَنْ لَقَلِیلٌ ، الْقَتِیلُ فِی سَبِیلِ اللہِ شَہِیدٌ وَالْمَبْطُونُ شَہِیدٌ وَالْمَطْعُونُ شَہِیدٌ وَالْمَرْأَۃُ تَمُوتُ بِجُمْعٍ شَہِیدٌ وَالْحَرْقُ وَالْغَرَقُ والمجنوب شَہِیدٌ یَعْنِی قُرْحَۃَ ذَاتِ الْجَنْبِ۔ (ابن ماجہ ۲۸۰۳۔ طبرانی ۱۷۸۰)
(١٩٨٢٣) حضرت ابو عمیس (رض) فرماتے ہیں کہ نبی پاک (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جبر بن عتیک (رض) کے مرض الوفات میں ان کی عیادت کے لیے تشریف لائے تو ان کے گھر والوں نے عرض کیا کہ ہم تو سمجھتے تھے کہ ان کا انتقال اللہ کے راستے میں شہادت سے ہوگا۔ یہ سن کر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اس طرح تو میری امت کے شہید بہت کم ہوں گے۔ اللہ کے راستے میں جان دینے والا بھی شہید ہے، پیٹ کی بیماری سے مرنے والا شہید ہے، طاعون سے مرنے والا شہید ہے، بچے کو جنم دیتے ہوئے مرنے والی عوت شہید ہے، جل کر، ڈوب کر اور پھوڑے سے مرنے والا بھی شہید ہے۔

19823

(۱۹۸۲۴) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنِ التَّیْمِیِّ ، عَنْ أَبِی عُثْمَانَ عَنْ عَامِرِ بْنِ مَالِکٍ ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ أُمَیَّۃَ ، قَالَ : الطَّاعُونُ شَہَادَۃٌ وَالْغَرَقُ شَہَادَۃٌ وَالْبَطْنُ وَالنُّفَسَائُ۔
(١٩٨٢٤) حضرت صفوان بن امیہ فرماتے ہیں کہ طاعون شہادت ہے، ڈوبنا شہادت ہے، پیٹ کی بیماری سے اور عورت کا بچے کو جنم دیتے ہوئے مرنا شہادت ہے۔

19824

(۱۹۸۲۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ بْنِ مُہَاجِرٍ ، عَنْ طَارِقِ بْنِ شِہَابٍ ، قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللہِ : إنَّ مِمنْ یَغْرَقُ فِی الْبُحُورِ وَیَتَرَدَّی مِنَ الْجِبَالِ وَتَأْکُلُہُ السِّبَاعُ لَشُہَدَائُ عِنْدَ اللہِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ۔
(١٩٨٢٥) حضرت عبداللہ (رض) فرماتے ہیں جو لوگ سمندر میں غرق ہوجاتے ہیں، یا پہاڑوں سے گرجاتے ہیں، یا جانور انھیں کھا جاتے ہیں، یہ سب لوگ قیامت کے دن اللہ کے نزدیک شہداء شمار کیے جائیں گے۔

19825

(۱۹۸۲۶) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ الثَّقَفِیِّ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنْ مُحَمَّدٍ ، عَنِ امْرَأَۃِ مَسْرُوقٍ ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، قَالَ : الطَّاعُونُ وَالْبَطْنُ وَالنُّفَسَائُ وَالْغَرَقُ ، وَمَا أُصِیبَ بِہِ مُسْلِمٌ ، فَہُوَ لَہُ شَہَادَۃٌ۔
(١٩٨٢٦) حضرت مسروق (رض) فرماتے ہیں کہ طاعون ، پیٹ کی بیماری، حمل، غرق اور ان کو پہنچنے والی ہر تکلیف شہادت کا سبب ہے۔

19826

(۱۹۸۲۷) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا ہَمَّامُ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جُحَادَۃَ ، أَنَّ أَبَا حُصَیْنٍ حَدَّثَہُ ، أَنَّ أَبَا صَالِحٍ حَدَّثَہُ ، أَنَّ أَبَا ہُرَیْرَۃَ حَدَّثَہُ ، قَالَ : جَائَ رَجُلٌ إلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : یَا رَسُولَ اللہِ ، عَلِّمْنِی عَمَلاً یَعْدِلُ الْجِہَادَ ، قَالَ : لاَ أَجِدُہُ ، قَالَ : ہَلْ تَسْتَطِیعُ إذَا خَرَجَ الْمُجَاہِدُ أَنْ تَدْخُلَ مَسْجِدَک فَتَقُومَ لاَ تَفْتُرَ وَتَصُومَ ، لاَ تُفْطِرَ ؟ قَالَ : لاَ أَسْتَطِیعُ ذَلِکَ ، فَقَالَ أَبُو ہُرَیْرَۃَ : إنَّ فَرَسَ الْمُجَاہِدِ لَیَستَنُّ فِی طِوَلِہِ فَتُکْتَبُ بِہِ حَسَنَاتُہُ۔ (بخاری ۲۷۸۵۔ احمد ۲/۳۴۴)
(١٩٨٢٧) حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ ایک آدمی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس حاضر ہوا اور اس نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول ! مجھے کوئی ایسا عمل بتا دیجئے جو جہاد کے برابر ہو۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میں تو کسی ایسے عمل کو نہیں جانتا ۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ کیا تم اس بات کی طاقت رکھتے ہو کہ جب مجاہد نکل جائے تو مسجد میں جاؤ اور بغیر سستی کے نماز پڑھو اور بغیر افطار کیے مسلسل روزے رکھو ؟ اس نے کہا : میں تو اس کی طاقت نہیں رکھتا۔ حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ جب مجاہد کا گھوڑا اپنی رسی میں چکر لگاتا ہے پھر بھی مجاہد کے لیے ثواب لکھا جاتا ہے۔

19827

(۱۹۸۲۸) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو ، عَنْ أَبِی سَلَمَۃَ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَا مِنْ رَجُلٍ ، أَوْ مَا مِنْ أَحَدٍ یُنْفِقُ زَوْجَیْنِ فِی سَبِیلِ اللہِ إِلاَّ خَزَنَۃُ الْجَنَّۃِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ یَدْعُونَہُ : تَعَالَ یَا فُلاَنُ ، تَعَالَ ہَذِہِ خَیْرٌ ، فَقَالَ أَبُو بَکْرٍ : أَیْ رَسُولَ اللہِ ، ہَذَا الَّذِی لاَ تَوَی عَلَیْہِ ، فَقَالَ : إنِّی أَرْجُو أَنْ تَکُونَ مِنْہُمْ۔ (بخاری ۱۸۹۷۔ مسلم ۸۵)
(١٩٨٢٨) حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ جب بھی کوئی شخص دو چیزیں اللہ کے راستے میں خرچ کرے گا تو قیامت کے دن بہت سے نگہبان فرشتے اسے بلائیں گے کہ اے فلاں ! ادھر آ جا ، ادھر خیر ہے یہ سن کر حضرت ابوبکر (رض) نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول 5! ایسے شخص کے لیے تو کوئی ہلاکت نہیں۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میں امید کرتا ہوں کہ تم انہی لوگوں میں سے ہو۔

19828

(۱۹۸۲۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، حَدَّثَنَا الرَّبِیعُ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : قَالَ رَجُلٌ لِعُمَرَ : یَا خَیْرَ النَّاسِ ، قَالَ : لَسْت بِخَیْرِ النَّاسِ ، أَلاَ أُخْبِرُکم بِخَیْرِ النَّاسِ ؟ قَالَ : بَلَی یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ ، قَالَ : رَجُلٌ مِنْ أَہْلِ الْبَادِیَۃِ لَہُ صِرْمَۃٌ مِنْ إبِلٍ أوْ غَنَمٍ أَتَی بِہَا مِصْرًا مِنَ الأَمْصَارِ فَبَاعَہَا ، ثُمَّ أَنْفَقَہَا فِی سَبِیلِ اللہِ ، وَکَانَ بَیْنَ الْمُسْلِمِینَ ، وَبَیْنَ عَدُوِّہِمْ ، فَذَلِکَ خَیْرُ النَّاسِ۔
(١٩٨٢٩) حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ ایک آدمی نے حضرت عمر (رض) کو لوگوں میں بہترین شخص کہہ کر مخاطب کیا۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا کہ میں لوگوں میں سے بہترین شخص نہیں۔ بلکہ لوگوں میں بہترین گاؤں میں رہنے والا وہ شخص ہے جس کے پاس اونٹوں یا بکریوں کا ریوڑ ہو، وہ اسے لے کر شہر کی طرف آئے اور پھر انھیں بیچ کر ان کی قیمت اللہ کے راستے میں خرچ کرے، اور مسلمانوں اور مسلمانوں کے دشمنوں کے درمیان برسر پیکار ہوجائے یہ شخص لوگوں میں سب سے بہتر شخص ہے۔

19829

(۱۹۸۳۰) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ صَفْوَانَ بْنِ سُلَیْمٍ ، عَنْ حُصَیْنِ بْنِ اللَّجْلاَجِ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لاَ یَجْتَمِعُ الشُّحُّ وَالإِیمَانُ فِی جَوْفِ رَجُلٍ مُسْلِمٍ ، وَلاَ غُبَارٌ فِی سَبِیلِ اللہِ وَدُخَانُ جَہَنَّمَ فِی جَوْفِ رَجُلٍ۔ (احمد ۲/۳۴۲۔ حاکم ۷۲)
(١٩٨٣٠) حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : کہ ایمان اور بخل ایک مسلمان کے دل میں جمع نہیں ہوسکتے اور اللہ کے رستے کا غبار اور جہنم کا دھواں ایک مسلمان میں جمع نہیں ہوسکتے۔

19830

(۱۹۸۳۱) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَنْ زَائِدَۃَ ، عَنْ حُصَیْنٍ ، عَنْ سَالِمٍ یَرْفَعُہُ إلَی مُعَاذٍ ، قَالَ : مَنْ شَابَ شَیْبَۃً فِی سَبِیلِ اللہِ کَانَتْ لَہُ نُورًا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ، وَمَنْ رَمَی بِسَہْمٍ فِی سَبِیلِ اللہِ رَفَعَہُ اللَّہُ بِہِ درجۃ۔ (ترمذی ۱۶۳۸۔ احمد ۴/۱۱۳)
(١٩٨٣١) حضرت معاذ (رض) فرماتے ہیں کہ جس شخص کے بال اللہ کے راستے میں سفید ہوئے یہ اس کے لیے قیامت کے دن نور ہوں گے اور جس نے اللہ کے راستے میں ایک تیر چلایا اللہ تعالیٰ اس کے بدلے اس کا ایک درجہ بلند فرمائیں گے۔

19831

(۱۹۸۳۲) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَنْ زَائِدَۃَ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ شَقِیقٍ ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، قَالَ : مَا مِنْ حَالٍ أَحْرَی أَنْ یُسْتَجَابَ لِلْعَبْدِ فِیہِ إِلاَّ أَنْ یَکُونَ فِی سَبِیلِ اللہِ مِنْ أَنْ یَکُونَ عَافِرًا وَجْہَہُ سَاجِدًا۔
(١٩٨٣٢) حضرت مسروق (رض) فرماتے ہیں کہ کسی مسلمان کے لیے دعا کی قبولیت کا سب سے زیادہ اہم مقام وہ ہوتا ہے جب وہ اللہ کے راستے میں ہو یا جب اس نے اپنے چہرے کو سجدے کی حالت میں مٹی پر رکھا ہوا ہو۔

19832

(۱۹۸۳۳) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ ، قَالَ : أَسْلَمَ الزُّبَیْرُ وَہُوَ ابْنُ سِتَّۃَ عَشْرَ سَنَۃً ، وَلَمْ یَتَخَلَّفْ عَنْ غَزْوَۃٍ غَزَاہَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وقتل وَہُوَ ابْنُ بِضْعٍ وَسِتِّینَ سَنَۃً۔
(١٩٨٣٣) حضرت ہشام بن عروہ (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت زبیر (رض) نے جب اسلام قبول کیا تو اس وقت ان کی عمر سولہ برس تھی۔ وہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ہر غزوہ میں شریک رہے اور ساٹھ سال سے کچھ زائد ان کی عمر تھی جب انھیں شہید کیا گیا۔

19833

(۱۹۸۳۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، حَدَّثَنَا ہِشَامُ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ زَیْدِ بْنِ أَسْلَمَ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : لَمَّا أَتَی أَبُو عُبَیْدَۃَ الشَّامَ حُصر ہُوَ وَأَصْحَابُہُ وَأَصَابَہُمْ جَہْدٌ شَدِیدٌ ، قَالَ : فَکَتَبَ إلَی عُمَرَ ، فَکَتَبَ إلَیْہِ عُمَرُ : سَلاَمٌ عَلْیک، أَمَّا بَعْدُ ، فَإِنَّہُ لَمْ تَکُنْ شِدَّۃٌ إِلاَّ جَعَلَ اللَّہُ بَعْدَہَا مَخْرَجًا ، وَلَنْ یَغْلِبَ عُسْرٌ یُسْرَیْنِ ، وَکَتَبَ إلَیْہِ : {یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا اصْبِرُوا وَصَابِرُوا وَرَابِطُوا وَاتَّقُوا اللَّہَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُونَ} قَالَ : فَکَتَبَ إلَیْہِ أَبُو عُبَیْدَۃَ : سَلاَمٌ ، أَمَّا بَعْدُ ، فَإِنَّ اللَّہَ تَبَارَکَ وَتَعَالَی ، قَالَ : {اعلموا أَنَّمَا الْحَیَاۃُ الدُّنْیَا لَعِبٌ وَلَہْوٌ وَزِینَۃٌ وَتَفَاخُرٌ بَیْنَکُمْ وَتَکَاثُرٌ فِی الأَمْوَالِ وَالأَوْلاَدِ} إلَی آخَرِ الآیَۃِ ، قَالَ : فَخَرَجَ عُمَرُ بِکِتَابِ أَبِی عُبَیْدَۃَ فَقَرَأَہُ عَلَی النَّاسِ ، فَقَالَ : یَا أَہْلَ الْمَدِینَۃِ ، إنَّمَا کَتَبَ أَبُو عُبَیْدَۃَ یُعَرِّضُ بِکُمْ وَیَحُثُّکُمْ عَلَی الْجِہَادِ ، قَالَ زَیْدٌ : فَقَالَ أَبِی : فَإِنِّی لَقَائِمٌ فِی السُّوقِ إذْ أَقْبَلَ قَوْمٌ مُبْیَضِّینَ قَدَ اطَّلَعُوا مِنَ الثَّنْیَۃِ فِیہِمْ حُذَیْفَۃُ بْنُ الْیَمَانِ یُبَشِّرُونَ النَّاسَ ، قَالَ: فَخَرَجْت أَشْتَدُّ حَتَّی دَخَلَتْ عَلَی عُمَرَ فَقُلْت : یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ ، أَبْشِرْ بِنَصْرِ اللہِ وَالْفَتْحِ ، فَقَالَ عُمَرُ : اللَّہُ أَکْبَرُ رُبَّ قَائِلٍ لَوْ کَانَ خَالِدُ بْنُ الْوَلِیدِ۔
(١٩٨٣٤) حضرت اسلم (رض) فرماتے ہیں کہ جب حضرت ابو عبیدہ (رض) شام آئے تو ان کا اور ان کے ساتھیوں کا محاصرہ کرلیا گیا۔ اس وقت وہ شدید تکلیف کا شکار ہوئے۔ انھوں نے مشکل کی اس گھڑی میں مدد کے لیے حضرت عمر (رض) کو خط لکھا۔ حضرت عمر (رض) نے خط کا جواب ان الفاظ کے ساتھ دیا : ” اما بعد ! اللہ تعالیٰ نے ہر مشکل کے بعد آسانی رکھی ہے، ایک مشکل دو آسانیوں پر ہرگز غالب نہیں آسکتی۔ حضرت عمر (رض) نے حضرت ابو عبیدہ (رض) کو یہ آیت بھی لکھ بھیجی (ترجمہ) اے ایمان والو ! صبر کرو اور صبر کی تلقین کرو۔ (آل عمران : آخری آیت)
حضرت ابوعبیدہ (رض) نے پھر دوبارہ حضرت عمر (رض) کو خط لکھا جس میں یہ آیت لکھ بھیجی : (ترجمہ) جان لو کہ دنیا کی زندگی کھیل ، تماشا، زینت، باہمی تفاخر اور مال و اولاد میں ایک دوسرے سے بڑھنے کی حرص ہی تو ہے۔ (الحدید : ٢٠)
حضرت عمر (رض) نے حضرت ابو عبیدہ (رض) کا یہ خط لوگوں کو پڑھ کر سنایا پھر فرمایا کہ اے مدینہ کے لوگو ! ابو عبیدہ (رض) تمہیں جہاد کی دعوت دے رہے ہیں۔ حضرت اسلم (رض) فرماتے ہیں کہ میں بازار میں کھڑا تھا کہ سفید لباس والے کچھ لوگ گھاٹی سے نیچے اترے ہوئے نظر آئے، ان میں حضرت حذیفہ بن یمان (رض) بھی تھے۔ وہ لوگوں کو فتح کی خوشخبری دے رہے تھے۔ میں خوشی سے سرشار حضرت عمر (رض) کے پاس پہنچا اور میں نے کہا اے امیر المؤمنین ! فتح کی خوشخبری ہو ! حضرت عمر (رض) نے اللہ اکبر کا نعرہ لگایا اور فرمایا کہ کاش خالد بن ولید (رض) کی فتح کی خوشخبری دینے والا بھی آجائے۔

19834

(۱۹۸۳۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، حَدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ بُرْدٍ ، عَنْ مَکْحُولٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إنَّ اللَّہ جَعَلَ رِزْقَ ہَذِہِ الأُمَّۃِ فِی سَنَابِکِ خَیْلِہَا وَأَزِجَّۃِ رِمَاحِہَا مَا لَمْ یَزْرَعُوا فَإِذَا زَرَعُوا صَارُوا مِنَ النَّاسِ۔
(١٩٨٣٥) حضرت مکحول (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اس امت کا رزق گھوڑے کے کھروں اور نیزوں کے نیچے رکھ دیا ہے جب تک یہ زراعت نہیں کرتے۔ جب یہ زراعت کریں گے تو عام لوگوں کی طرح ہوجائیں گے۔

19835

(۱۹۸۳۶) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ کَثِیرٍ حَدَّثَنِی ابْنُ شِہَابٍ ، عَنْ عَطَائِ بْنِ یَزِیدَ ، عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ، قَالَ قِیلَ : یَا رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، أَیُّ الْمُؤْمِنِینَ أَفْضَلُ ؟ قَالَ : مُؤْمِنٌ مُجَاہِدٌ فِی سَبِیلِ اللہِ بِنَفْسِہِ وَمَالِہِ ، وَمُؤْمِنٌ اعْتَزَلَ فِی شِعْبٍ مِنَ الْجِبَالِ ، أَوَ قَالَ شِعْبَۃٍ : کَفَی النَّاسَ شَرَّہُ۔ (بخاری ۲۷۸۶۔ مسلم ۱۲۲)
(١٩٨٣٦) حضرت ابو سعید خدری (رض) فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ کسی نے سوال کیا یا رسول اللہ 5! سب سے افضل مومن کون سا ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : وہ مومن جو اپنے مال اور اپنی جان کے ساتھ اللہ کے راستے میں جہاد کررہا ہو، اور وہ مومن جو لوگوں سے کنارہ کش ہو کے پہاڑ کی ایک گھاٹی میں جا کر بیٹھ گیا ہو۔

19836

(۱۹۸۳۷) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ بْنُ إیَادٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ أَبِی کَبْشَۃَ الْبَرَائِ بْنِ قَیْسٍ السَّکُونی ، قَالَ : کُنْتُ جَالِسًا مَعَ سَعْدٍ وَہُوَ یُحَدِّثُ أَصْحَابَہُ ، فَقَالَ : فِی آخَرِ حَدِیثِہِ : أَیُّہَا النَّاسُ ، إنَّ اللَّہَ أَرَادَ بِکُمُ الْیُسْرَ، وَلَمْ یُرِدْ بِکُمُ الْعُسْرَ وَاللَّہِ وَاللَّہِ لَغَزْوَۃٌ فِی سَبِیلِ اللہِ أَحَبُّ إلَیَّ مِنْ حَجَّتَیْنِ ، وَلَحَجَّۃٌ أَحُجُّہَا إلی بَیْتِ اللہِ أَحَبُّ إلَیَّ مِنْ عُمْرَتَیْنِ وَلَعُمْرَۃٌ أَعْتَمِرُہَا أَحَبُّ إلَیَّ مِنْ ثَلاَثَۃٍ آتیہنَّ بَیْتَ الْمَقْدِسِ۔
(١٩٨٣٧) حضرت ابو کبشہ براء بن قیس سکونی (رض) فرماتے ہیں کہ میں حضرت سعد (رض) کے ساتھ بیٹھا تھا وہ اپنے ساتھیوں سے بیان فرما رہے تھے۔ اپنے بیان کے آخر میں انھوں نے فرمایا کہ اللہ تم سے آسانی کا ارادہ فرماتا ہے اللہ تعالیٰ تم سے مشکل کا ارادہ نہیں فرماتا۔ خدا کی قسم ! خدا کی قسم ! اللہ کے راستے میں ایک غزوہ دو حج کرنے سے زیادہ افضل ہے، ایک حج میرے نزدیک دو مرتبہ عمرے کرنے سے بہتر ہے اور ایک عمرہ میرے نزدیک تین مرتبہ بیت المقدس جانے سے بہتر ہے۔

19837

(۱۹۸۳۸) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ حُبَابٍ ، حَدَّثَنِی عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ شُرَیْحٍ ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ بْنِ الْمُغِیرَۃِ ، عَنْ أَبِی فِرَاسٍ یَزِیدَ بْنِ رَبَاحٍ مَوْلَی عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ أَنَّہُ سَمِعَ عَبْدَ اللہِ بْنَ عَمْرٍو یَقُولُ : إنَّ اللَّہَ یَضْحَکُ إلَی أَصْحَابِ الْبَحْرِ مِرَارًا حِینَ یَسْتَوِی فِی مَرْکَبِہِ وَیُخَلِّی أَہْلَہُ وَمَالَہُ وَحِینَ یَأْخُذُہُ الْمَیْدُ فِی مَرْکَبِہِ وَحِینَ یُوَجَّہُ الْبَرُّ فَیُشْرِفُ إلَیْہِ۔ (ابن خزیمۃ ۳۴۳)
(١٩٨٣٨) حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ سمندر والوں پر کئی مرتبہ مسکراتا ہے، ایک جب وہ اپنے اہل و عیال اور مال کو چھوڑ کر اپنی کشتی پر بیٹھتا ہے، دوسرا جب اس کی کشتی سمندر میں ہچکولے کھاتی ہے اور تیسرا جب اسے خشکی نظر آتی ہے اور وہ اس کی طرف جھانکتا ہے۔

19838

(۱۹۸۳۹) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ أَبِی الأَشْہَبِ الْعُطَارِدِیِّ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إذَا کَانَ فِی الصَّفِّ فِی الْقِتَالِ لَمْ یَلْتَفِتْ۔
(١٩٨٣٩) حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دورانِ قتال جب کسی صف میں کھڑے ہوتے تھے تو دوسری طرف متوجہ نہیں ہوتے تھے۔

19839

(۱۹۸۴۰) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ غِیَاثٍ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ ، قَالَ : سَمِعْتُہُ یَقُولُ فِی ہَذِہِ الآیَۃِ : {وَلاَ تَقُولُوا لِمَنْ یُقْتَلُ فِی سَبِیلِ اللہِ أَمْوَاتٌ بَلْ أَحْیَائٌ وَلَکِنْ لاَ تَشْعُرُونَ} قَالَ : أَرْوَاحُ الشُّہَدَائِ فِی طَیْرٍ بِیضٍ فَقَاقِیعَ فِی الْجَنَّۃِ۔
(١٩٨٤٠) حضرت عکرمہ (رض) قرآن مجید کی آیت { وَلاَ تَقُولُوا لِمَنْ یُقْتَلُ فِی سَبِیلِ اللہِ أَمْوَاتٌ بَلْ أَحْیَائٌ وَلَکِنْ لاَ تَشْعُرُونَ } کے بارے میں فرماتے ہیں کہ شہداء کی روحیں پانی کے بلبلوں کی طرح جنت میں سفید پرندوں میں ہوتی ہیں۔

19840

(۱۹۸۴۱) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنِ الْمُبَارَکِ ، عَنِ الأَوْزَاعِیِّ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ أَبِی کَثِیرٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إبْرَاہِیمَ ، عَنِ ابْنِ عَتِیکٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : أَمَّا مَا یُحِبُّ مِنَ الْخُیَلاَئِ فَالرَّجُلُ یَخْتَالُ بِسَیْفِہِ عِنْدَ الْقِتَالِ ، وَعِنْدَ الصَّدَقَۃِ ، وَلاَ یُحِبُّ الْمَرَحَ۔ (ابوداؤد ۲۶۵۲۔ احمد ۵/۴۴۵)
(١٩٨٤١) حضرت ابن عتیک (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ دو موقع پر فخر کو پسند کیا جاسکتا ہے ایک اس آدمی کا فخر جو قتال کے وقت تلوار اٹھا کر اکڑ کر چلے اور دوسرا اللہ کے راستے میں صدقہ پر فخر، البتہ تکبر اور غرور کو پسند نہیں کیا جاسکتا۔

19841

(۱۹۸۴۲) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ حُبَابٍ أَخْبَرَنِی مُوسَی بْنُ عُبَیْدَۃَ ، قَالَ : أَخْبَرَنِی مُحَمَّدُ بْنُ أَبِی مَنْصُورٍ ، عَنِ السِّمْطِ بْنِ عَبْدِ اللہِ ، عَنْ سَلْمَانَ ، أَنَّہُ کَانَ فِی جُنْدٍ مِنَ الْمُسْلِمِینَ فَأَصَابَہُمْ حَصْرٌ وَضُرٌّ ، فَقَالَ سَلْمَانُ لأَمِیرِ الْجُنْدِ : أَلاَ أُخْبِرُک بِمَا سَمِعْت مِنْ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَکُونُ عَوْنًا لَکَ عَلَی ہَذَا الْجُنْدِ ؟ سَمِعْت رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : مَنْ رَابَطَ یَوْمًا ، أَوْ لَیْلَۃً فِی سَبِیلِ اللہِ کَانَ عَدْلِ صِیَامِ شَہْرٍ وَصَلاَتِہِ الَّذِی لاَ یُفْطِرُ ، وَلاَ یَنْصَرِفُ إِلاَّ لِحَاجَۃٍ وَمَنْ مَاتَ مُرَابِطًا فِی سَبِیلِ اللہِ أُجْرِیَ لَہُ أَجْرُہُ حَتَّی یَقْضِیَ اللَّہُ بَیْنَ أَہْلِ الْجَنَّۃِ وَالنَّارِ۔ (مسندہ ۴۵۵)
(١٩٨٤٢) حضرت سمط بن عبداللہ فرماتے ہیں کہ حضرت سلمان (رض) مسلمانوں کے ایک لشکر میں تھے، مسلمانوں کو حصار اور تکلیف کا سامنا ہوا تو حضرت سلمان (رض) نے امیر لشکر سے کہا میں آپ کو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ایک فرمان سناتا ہوں جو اس لشکر کے معاملے میں آپ کے لیے مدد کا سبب ہوگا۔ میں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جس شخص نے ایک دن یا ایک رات اللہ کے راستے میں جہاد کی غرض سے گذاری یہ اس کے لیے اس مہینہ کے برابر ہیں جس میں وہ مسلسل روزے رکھے اور مسلسل نماز پڑھے، جو شخص اللہ کے راستے میں جہاد کرتا ہواشہید ہوگیا اسے اس وقت تک اس شہادت کا اجر ملتا رہے گا جب تک اللہ تعالیٰ اہل جنت اور اہل جہنم کو ان کا بدلہ دینے سے فارغ نہ ہوجائیں۔

19842

(۱۹۸۴۳) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ حُبَابٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو سِنَانٍ سَعِیدُ بْنُ سِنَانٍ ، قَالَ: أَخْبَرَنِی مُوسَی بْنُ أَبِی کَثِیرٍ الأَنْصَارِیُّ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، قَالَ فِی قولہ تعالی: {مَنْ ذَا الَّذِی یُقْرِضُ اللَّہَ قَرْضًا حَسَنًا} قَالَ: النَّفَقَۃُ فِی سَبِیلِ اللہِ۔
(١٩٨٤٣) حضرت عمر بن خطاب (رض) قرآن مجید کی آیت { مَنْ ذَا الَّذِی یُقْرِضُ اللَّہَ قَرْضًا حَسَنًا } کے بارے میں فرماتے ہیں کہ اس سے مراد اللہ کے راستے میں خرچ کرنا ہے۔

19843

(۱۹۸۴۴) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ الحُبَابٍ ، أَخْبَرَنَا مُوسَی بْنُ عُبَیْدَۃَ ، أَخْبَرَنَا أَیُّوبُ بْنُ خَالِدٍ الأَنْصَارِیِّ فِی قَوْلِہِ : {مَنْ ذَا الَّذِی یُقْرِضُ اللَّہَ قَرْضًا حَسَنًا} قَالَ : مَنْ رَبَطَ فَرَسًا فِی سَبِیلِ اللہِ فَہُوَ یُقْرِضُ اللَّہَ قَرْضًا حَسَنًا۔
(١٩٨٤٤) ایوب بن خالد انصاری (رض) اللہ تعالیٰ کے قول { مَنْ ذَا الَّذِی یُقْرِضُ اللَّہَ قَرْضًا حَسَنًا } کے بارے میں فرماتے ہیں کہ جس نے اللہ کے راستے میں استعمال کرنے کے لیے گھوڑا پالا وہ قرض حسن دینے والا ہے۔

19844

(۱۹۸۴۵) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ حُبَابٍ ، أَخْبَرَنَا مُوسَی بْنُ عُبَیْدَۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ حَکِیمِ بْنِ حِزَامٍ ، قَالَ : مَنْ أَنْفَقَ زَوْجَیْنِ فِی سَبِیلِ اللہِ لَمْ یَأْتِ بَابًا مِنْ أَبْوَابِ الْجَنَّۃِ إِلاَّ فُتِحَ لَہُ ، فَقَالَ مُوسَی : سَمِعْت أَشْیَاخَنَا یَقُولُونَ : زوجین دینار ودرہم ، أَوْ دِرْہَمٌ وَدِینَارٌ۔
(١٩٨٤٥) حضرت عبداللہ بن عبداللہ بن حکیم بن حزام (رض) فرماتے ہیں کہ جس نے اللہ کے راستے میں زوجین کو خرچ کیا وہ جنت کے جس دروازے سے بھی جائے گا وہ اس کے لیے کھول دیا جائے گا۔ راوی موسیٰ (رض) فرماتے ہیں کہ ہم نے اپنے شیوخ سے سنا ہے کہ زوجین سے مراد دینار اور درہم ہیں۔

19845

(۱۹۸۴۶) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ حُبَابٍ أَخْبَرَنِی مُوسَی بْنُ عُبَیْدَۃَ ، قَالَ : أَخْبَرَنِی عَبْدُ اللہِ أَخِی ، عَنْ أبی شَیْبَۃَ الْمَہْرِیِّ وَمُدْرِکٍ ، قَالاَ : لاَ یَجْتَمِعُ غُبَارٌ فِی سَبِیلِ اللہِ ، وَدُخَانُ جَہَنَّمَ فِی صَدْرِ مُؤْمِنٍ۔
(١٩٨٤٦) حضرت ابو شیبہ مہری اور حضرت مدرک (رض) فرماتے ہیں کہ اللہ کے راستے کا غبار اور جہنم کا دھواں ایک مومن کے پیٹ میں جمع نہیں ہوسکتے۔

19846

(۱۹۸۴۷) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، حَدَّثَنَا الْعَوَّامُ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ التَّیْمِیِّ ، قَالَ : أَرْوَاحُ الشُّہَدَائِ فِی طَیْرٍ خُضْرٍ تَسْرَحُ فِی الْجَنَّۃِ وَتَأْوِی إلَی قَنَادِیلَ مُعَلَّقَۃٍ فِی الْعَرْشِ فَیَطَّلِعُ إلَیْہِمْ رَبُّک فَیَقُولُ : سَلُونِی ثَلاَثًا یَقُولُہَا فَیَقُولُونَ : رَبَّنَا نَسْأَلُک أَنْ تَرُدَّنَا إلَی الدُّنْیَا فَنُقْتَلُ فِی سَبِیلِکَ قَتَلَۃً أُخْرَی۔
(١٩٨٤٧) حضرت ابراہیم تیمی (رض) فرماتے ہیں کہ شہداء کی روحیں سبز رنگ کے پرندوں کی شکل میں جہنم کی سیر کرتی ہیں۔ وہ عرش سے لٹکی ہوئی قندیلوں کی طرف جاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان سے تین مرتبہ فرماتا ہے کہ تم مجھ سے جو چاہتے ہو مانگو۔ وہ کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب ! ہم تجھ سے سوال کرتے ہیں کہ تو ہمیں دنیا میں واپس بھیج دے تاکہ ہم تیرے راستے میں ایک مرتبہ اور لڑائی کریں۔

19847

(۱۹۸۴۸) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُمَرَ بْنِ قَتَادَۃَ ، قَالَ : قَالَ مُعَاذُ ابْنُ عَفْرَائَ : یَا رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، مَا یَضْحَکُ الرَّبُّ مِنْ عَبْدِہِ ؟ قَالَ : غَمْسُہُ یَدَہُ فِی الْعَدُوِّ حَاسِرًا ، قَالَ : فَأَلْقَی دِرْعًا کَانَتْ عَلَیْہِ فَقَاتَلَ حَتَّی قُتِلَ۔ (بیہقی ۹۹)
(١٩٨٤٨) حضرت عاصم بن قتادہ (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت معاذ بن عفرائ (رض) نے سوال کیا یا رسول اللہ ! اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی کس بات پر مسکراتا ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب کوئی مجاید بغیر مسلح حالت میں دشمن پر چڑھائی کرتا ہے۔ اس پر حضرت معاذ (رض) نے اپنی زرہ پھینک دی اور دشمن سے لڑتے ہوئے شہید ہوگئے۔

19848

(۱۹۸۴۹) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، أَخْبَرَنَا حَرِیزُ بْنُ عُثْمَانَ ، عَنْ نِمْرَانَ بْنِ مِخْمَرٍ الرَّحَبِیِّ ، قَالَ : کَانَ أَبُو عُبَیْدَۃَ بْنُ الْجَرَّاحِ یَسِیرُ بِالْجَیْشِ وَہُوَ یَقُولُ : أَلاَ رُبَّ مُبَیِّضٍ لِثِیَابِہِ مُدَنِّسٍ لدینہ۔
(١٩٨٤٩) نمران بن مخمر رحبی (رض) کہتے ہیں کہ حضرت ابو عبیدہ بن جراح (رض) ایک لشکر کے ساتھ جا رہے تھے اور ساتھ ساتھ یہ فرما رہے تھے۔ بہت سے کپڑوں کو صاف رکھنے والے ایسے ہیں جو دین کو میلا کر رہے ہیں۔

19849

(۱۹۸۵۰) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، حَدَّثَنَا جَرِیرُ بْنُ حَازِمٍ ، عَنْ بَشَّارِ بْنِ أَبِی سَیْفٍ ، عَنِ الْوَلِیدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ عِیَاضِ بْنِ غُطَیْفٍ ، عَنْ أَبِی عُبَیْدَۃَ ، قَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : مَنْ أَنْفَقَ نَفَقَۃً فَاضِلَۃً فِی سَبِیلِ اللہِ فَسَبْعُ مِئَۃِ ضِعْفٍ۔
(١٩٨٥٠) حضرت ابو عبیدہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ جس شخص نے اللہ کے راستے میں اپنے زائد مال میں سے ایک روپیہ خرچ کیا اسے سات سو گنا اجر دیا جائے گا۔

19850

(۱۹۸۵۱) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، حَدَّثَنَا ثَابِتُ بْنُ یَزِیدَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَیْمُونٍ ، قَالَ عُمَرُ : حجَّۃٌ ہَاہُنَا ، ثُمَّ یُشِیرُ بِیَدِہِ إلَی مَکَّۃَ ، ثُمَّ أَخْرُجُ فِی سَبِیلِ اللہِ تَعَالَی۔
(١٩٨٥١) حضرت عمر (رض) نے ایک مرتبہ مکہ مکرمہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ میں یہاں حج کروں گا پھر اللہ کے راستے میں نکل جاؤں گا۔

19851

(۱۹۸۵۲) حَدَّثَنَا ہَوْذَۃُ بْنُ خَلِیفَۃَ ، حَدَّثَنَا عَوْفٌ ، عَنْ خَسْنَائَ بِنْتِ مُعَاوِیَۃَ ، قَالَتْ : حدَّثَنِی عَمِّی ، قَالَ : قُلْتُ : یَا رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، مَنْ فِی الْجَنَّۃِ ؟ قَالَ : النَّبِیُّ فِی الْجَنَّۃِ ، وَالشَّہِیدُ فِی الْجَنَّۃِ ، وَالْمَوْؤُودَۃُ فِی الْجَنَّۃِ۔ (ابوداؤد ۲۵۱۳۔ احمد ۵۸)
(١٩٨٥٢) حضرت خنساء بنت معاویہ (رض) فرماتی ہیں کہ مجھ سے میرے چچا (اسلم بن سلیم (رض) ) نے بیان کیا میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا کہ اے اللہ کے رسول 5! جنت میں کون جائے گا ؟ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا نبی جنت میں جائیں گے، شہید جنت میں جائے گا اور زندہ درگور کی ہوئی لڑکی جنت میں جائے گی۔

19852

(۱۹۸۵۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ مُوسَی ، قَالَ : سَمِعْتُ مُوسَی بْنَ طَلْحَۃَ یَقُولُ : جُرِحَ طَلْحَۃُ مَعَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِضْعًا وَعِشْرِینَ جُرْحًا۔ (سعید بن منصور ۲۸۴۹)
(١٩٨٥٣) حضرت موسیٰ بن طلحہ (رض) فرماتے ہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ حضرت طلحہ (رض) کو بیس سے زیادہ زخم آئے تھے۔

19853

(۱۹۸۵۴) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَنْ زَائِدَۃَ ، عَنْ أَبِی الزِّنَادِ ، عَنِ الأَعْرَجِ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : مَنْ خَرَجَ فِی سَبِیلِ اللہِ ابْتِغَائَ وَجْہِ اللہِ ، وَتَنْجِیزًا لِمَوْعُودِ اللہِ فَہُوَ مِثْلُ الصَّائِمِ الْقَائِمِ حَتَّی یَرْجِعَ إلَی أَہْلِہِ ، أَوْ مِنْ حَیْثُ خَرَجَ۔ (احمد ۲/۴۶۵۔ ابن حبان ۴۶۲۱)
(١٩٨٥٤) حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جو شخص اللہ کی رضا کو چاہتے ہوئے اللہ کے وعدے کے حصول کے لیے اللہ کے راستے میں نکلے، وہ اس روزہ دار، شب زندہ دار کی طرح ہے جو مجاہد کے نکلنے سے واپس آنے تک روزے میں مصروف رہے۔

19854

(۱۹۸۵۵) حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ الْعَزِیزِ ، حَدَّثَنَا الزُّہْرِیُّ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ کَعْبِ بْنِ مَالِکٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لَیْسَ جَرِیحٌ یجرح فِی سبیل اللہِ إِلاَّ جَائَ جُرْحُہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ یَدْمِی ، لَوْنُہُ لَوْنُ الدَّمِ ، وَرِیحُہُ رِیحُ الْمِسْکِ ، قَدِّمُوا أَکْثَرَ الْقَوْمِ قُرْآنًا فَاجْعَلُوہُ فِی اللَّحْدِ۔ (بیہقی ۱۱)
(١٩٨٥٥) حضرت کعب بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ جس شخص کو اللہ کے راستے میں زخم لگا، وہ جب قیامت کے دن آئے گا تو اس کے زخم سے خون بہہ رہا ہوگا۔ خون کا رنگ تو سرخ ہوگا لیکن اس کی خوشبو مشک جیسی ہوگی۔ جو قرآن زیادہ جانتا ہو اسے آگے کرو اور اسے لحد میں اتارو۔

19855

(۱۹۸۵۶) حَدَّثَنَا یَعْلَی بْنُ عُبَیْدِ ، حَدَّثَنَا أَبُو حَیَّانَ ، عَنْ شَیْخٍ مِنْ أَہْلِ الْمَدِینَۃِ ، قَالَ : کَانَ بَیْنِی وَبَیْنَ کَاتِبِ عُبَیْدِ اللہِ بْنِ مَعْمَرٍ صَدَاقَۃٌ مَعْرُوفَۃٌ فَطَلَبْت إلَیْہِ أَنْ یَنْسَخَ لِی رِسَالَۃَ عَبْدِ اللہِ بْنِ أَبِی أَوْفَی إلَی عُبَیْدِ اللہِ قَالَ : فَنَسَخَہَا لِی ، فَکَانَ فِیہَا ، أَنَّ عَبْدَ اللہِ بْنَ أَبِی أَوْفَی رَوَی عَنْ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، أَنَّہُ قَالَ : لاَ تَسْأَلُوا لِقَائَ الْعَدُوِّ فَإِذَا لَقِیتُمُوہُمْ فَاصْبِرُوا وَاعْلَمُوا ، أَنَّ الْجَنَّۃَ تَحْتَ ظِلاَلِ السُّیُوفِ وَکَانَ یَنْتَظِرُ فَإِذَا زَالَتِ الشَّمْسُ نہد إلَی عَدُوِّہِ وَہُوَ یَقُولُ : اللَّہُمَّ مُنْزِلَ الْکِتَابِ وَمُجْرِیَ السَّحَابِ ، وَہَازِمَ الأَحْزَابِ، اللَّہُمَّ اہْزِمْہُمْ وَانْصُرْنَا عَلَیْہِمْ۔ (بخاری ۲۹۶۶۔ مسلم ۲۰)
(١٩٨٥٦) مدینہ منورہ کے ایک شیخ (رض) فرماتے ہیں کہ میرے اور عبید اللہ بن زیاد (رض) کے ایک کاتب کے درمیان گہری دوستی تھی۔ میں نے اس سے کہا مجھے حضرت عبداللہ بن ابی اوفی (رض) کے عبید اللہ بن زیاد کی طرف لکھے گئے ایک خط کا نسخہ بنا دے۔ اس نے مجھے اس کا نسخہ بنا کردیا تو اس میں تھا : حضرت عبداللہ ابی اوفیٰ (رض) سے روایت ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ دشمن سے نبرد آزما ہونے کی دعا نہ مانگو، جب دشمن سے سامنا ہوجائے تو ثابت قدم رہو۔ یاد رکھو جنت تلواروں کے سائے کے نیچے ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا معمول یہ تھا کہ زوال کے وقت تک انتظار فرماتے جب سورج زائل ہوجاتا تو دشمن پر حملہ کرتے اور فرماتے : (ترجمہ) اے اللہ ! تو کتاب کو نازل کرنے والا ہے۔ تو بادلوں کو برسانے والا ہے، تو لشکروں کو شکست دینے والا ہے، انھیں شکست دے دے اور ہماری مدد فرما۔

19856

(۱۹۸۵۷) حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ ، حَدَّثَنَا ہَزِیمٌ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ عَبَّادٍ ، قَالَ : فَضْلُ الْغَازِی فِی الْبَحْرِ عَلَی الْغَازِی فِی الْبَرِّ کَفَضْلِ الْغَازِی فِی الْبَرِّ عَلَی الجالس فِی بَیْتِہِ۔
(١٩٨٥٧) حضرت یحییٰ بن عباد (رض) فرماتے ہیں کہ سمندر میں جہاد کرنے والے کی خشکی میں جہاد کرنے والے پر اتنی فضیلت ہے جتنی خشکی میں جہاد کرنے والے کی گھر میں بیٹھنے والے پر ہے۔

19857

(۱۹۸۵۸) حَدَّثَنَا شَبَابَۃُ ، حَدَّثَنَا لَیْثُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنْ یَزِیدَ بْن أَبِی حَبِیبٍ ، عَنْ أَبِی الْخَیْرِ ، عَنْ أَبِی الْخَطَّابِ ، عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ ، أَنَّہُ قَالَ إنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خَطَبَ النَّاسَ عَامَ تَبُوکَ وَہُوَ مُسْنِدٌ ظَہْرَہُ إلَی نَخْلَۃٍ ، فَقَالَ : أَلاَ أُخْبِرُکُمْ بِخَیْرِ النَّاسِ وَشَرِّ النَّاسِ ؟ إنَّ مِنْ خَیْرِ النَّاسِ رَجُلاً یَحْمِلُ فِی سَبِیلِ اللہِ عَلَی ظَہْرِ فَرَسِہِ ، أَوْ ظَہْرِ بَعِیرِہِ ، أَوْ عَلَی قَدَمَیْہِ حَتَّی یَأْتِیَہُ الْمَوْتُ وَإِنَّ مِنْ شَرِّ النَّاسِ رَجُلاً فَاجِرًا یَقْرَأُ کِتَابَ اللہِ لاَ یَرْعَوِی إلَی شَیْئِ مِنْہُ۔ (احمد ۳/۳۷۔ حاکم ۶۷)
(١٩٨٥٨) حضرت ابو سعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ فتح مکہ والے سال حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کھجور کے تنے سے ٹیک لگا کر خطبہ ارشاد فرمایا کہ میں تمہیں بہترین اور بدترین آدمی کے بارے میں بتاتا ہوں۔ بہترین آدمی وہ ہے جو اللہ کے راستے میں اپنے گھوڑے یا اونٹ پر سوار ہو یا پیدل ہو اور اسے موت آجائے۔ بدترین آدمی وہ، جو فاجر اور بےحیا آدمی ہے جو اللہ کی کتاب پڑھتا تو ہے لیکن اس کے مضامین پر کان نہیں دھرتا۔

19858

(۱۹۸۵۹) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَنِ ابْنِ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ زَیْدِ بْنِ جُدْعَانَ ، قَالَ : قَالَ أَبُو طَلْحَۃَ : (انْفِرُوا خِفَافًا وَثِقَالاً) قَالَ : کُہُولاً وَشَبَابًا ، قَالَ : مَا أَرَی اللَّہَ عَذَرَ أَحَدًا ، فَخَرَجَ إلَی الشَّامِ فَجَاہَدَ۔
(١٩٨٥٩) حضرت ابو طلحہ (رض) قرآن مجید کی آیت (انْفِرُوا خِفَافًا وَثِقَالاً ) کے بارے میں فرماتے ہیں کہ اس میں جوانوں اور بوڑھوں ہر دو کو حکم ہے۔ پھر فرمایا کہ میرے خیال میں اس آیت نے کسی کے لیے کسی عذر کو نہیں چھوڑا، پھر وہ شام چلے گئے اور جہاد کیا۔

19859

(۱۹۸۶۰) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ عَوْنٍ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ ، عَنْ أَبِی الْعَجْفَائِ السُّلَمِیِّ ، قَالَ : قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ : قَالَ مُحَمَّدٌ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَنْ قُتِلَ فِی سَبِیلِ اللہِ ، أَوْ مَاتَ فَہُوَ فِی الْجَنَّۃِ۔ (احمد ۱/۴۰۔ حاکم ۱۷۵)
(١٩٨٦٠) حضرت عمر بن خطاب (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص اللہ کے راستے میں قتل کردیا گیا یا مرگیا تو وہ جنت میں جائے گا۔

19860

(۱۹۸۶۱) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِیزِ بْنُ عُمَرَ ، حَدَّثَنِی یَزِیدُ بْنُ یَزِیدَ بْنِ جَابِرٍ ، عَنْ مَکْحُولٍ ، عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، أَنَّ الدُّعَائَ کَانَ یُسْتَحَبُّ عِنْدَ نُزُولِ الْقَطْرِ ، وَإِقَامَۃِ الصَّلاَۃِ ، وَالْتِقَائِ الصَّفَّیْنِ۔
(١٩٨٦١) ایک صحابی (رض) فرماتے ہیں کہ تین مواقع ہیں جب دعا ضرور قبول ہوتی ہے۔ 1 ۔ بارش کے وقت 2 ۔ نماز کی اقامت کے وقت 3 ۔ جنگ میں صفوں میں کھڑا ہونے کے وقت۔

19861

(۱۹۸۶۲) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، عَنْ صَدَقَۃَ بْنِ الْمُثَنَّی ، قَالَ : سَمِعْتُ جَدِّی رِیَاحَ بْنُ الْحَارِثِ یَذْکُرُ عَنْ سَعِیدِ بْنِ زَیْدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ نُفَیْلٍ یَقُولُ : وَاللَّہِ لَمَشْہَدٌ یَشْہَدُہُ الرَّجُلُ مِنْہُمْ یَوْمًا وَاحِدًا فِی سَبِیلِ اللہِ مَعَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اغْبَرَّ فِیہِ وَجْہُہُ أَفْضَلُ مِنْ عَمَلِ أَحَدِکُمْ ، وَلَوْ عُمِّرَ عُمُرَ نُوحٍ۔ (ابن ابی عاصم ۱۴۳۵)
(١٩٨٦٢) حضرت سعید بن زید (رض) فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی معیت میں اللہ کے راستے میں جہاد کی غرض سے ایک ایسا دن گذارنا جس میں چہرہ غبار آلود ہوجائے یہ عمر نوح ملنے پر ساری عمر عبادت کرنے سے افضل ہے۔

19862

(۱۹۸۶۳) حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ ، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ أَبِی کَثِیرٍ ، حَدَّثَنِی الْعَلاَئُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ یَعْقُوبَ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لاَ یَجْتَمِعُ کَافِرٌ وَقَاتِلُہُ مِنَ الْمُسْلِمِینَ فِی النَّارِ۔ (مسلم ۱۵۰۵۔ ابوداؤد ۲۴۸۷)
(١٩٨٦٣) حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ جہنم میں کافر اور اس کا مسلمان قاتل جمع نہیں ہوسکتے۔

19863

(۱۹۸۶۴) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ وَاصِلِ بْنِ السَّائِبِ الرَّقَاشِیِّ ، قَالَ : سَأَلَنِی عَطَائُ بْنُ أَبِی رَبَاحٍ : أَیُّ دَابَّۃٍ عَلَیْک مَکْتُوبَۃٌ ؟ قَالَ : فَقُلْت : فَرَسٌ ، قَالَ : تِلْکَ الْغَایَۃُ الْقُصْوَی مِنَ الأَجْرِ ، ثُمَّ ذَکَرَ أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : أَلاَ أَدُلُّکُمْ عَلَی أَحَبِّ عِبَادِ اللہِ إلَی اللہِ بَعْدَ النَّبِیِّینَ وَالصِّدِّیقِینَ وَالشُّہَدَائِ ؟ قَالَ : عَبْدٌ مُؤْمِنٌ مُعْتَقِلٌ رُمْحَہُ عَلَی فَرَسِہِ یَمِیلُ بِہِ النُّعَاسُ یَمِینًا وَشِمَالاً فِی سَبِیلِ اللہِ یَسْتَغْفِرُ الرَّحْمَن وَیَلَعَنُ الشَّیْطَانَ ، قَالَ : وَتُفْتَحُ أَبْوَابُ السَّمَائِ فَیَقُولُ اللَّہُ لِمَلاَئِکَتِہِ انْظُرُوا إلَی عَبْدِی ، قَالَ : فَیَسْتَغْفِرُونَ لَہُ ، قَالَ : ثُمَّ قَرَأَ : {إنَّ اللَّہَ اشْتَرَی مِنَ الْمُؤْمِنِینَ أَنْفُسَہُمْ وَأَمْوَالَہُمُ بِأَنَّ لَہُمَ الْجَنَّۃَ یُقَاتِلُونَ فِی سَبِیلِ اللہِ} إلَی آخِرِ الآیَۃِ۔
(١٩٨٦٤) حضرت واصل بن سائب رقاشی (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عطاء بن رباح (رض) نے مجھ سے سوال کیا کہ کون سی سواری ایسی ہے جس کو رکھنا فرض ہے ؟ میں نے عرض کیا : گھوڑا۔ انھوں نے فرمایا کہ یہ تو انتہائی اجر کی چیز ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میں تمہیں بتاؤں کہ اللہ کے بندوں میں اللہ کے نزدیک انبیائ، صدیقین اور شہداء کے بعد سب سے زیادہ اجر کس کا ہے ؟ وہ مومن بندہ جو اللہ کے راستے میں گھوڑے پر سوار اپنے نیزے سے ٹیک لگائے بیٹھا ہے اور نیند کی وجہ سے کبھی دائیں ڈولتا ہے کبھی بائیں۔ وہ رحمن سے مغفرت طلب کرتا ہے اور شیطان پر لعنت کرتا ہے۔ اس کے لیے آسمان کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ فرشتوں سے فرماتے ہیں کہ میرے بندے کو دیکھو، فرشتے بھی اس کے لیے استغفار کرتے ہیں۔ پھر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ آیت پڑھی : (ترجمہ) اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان سے ان کی جانوں اور ان کے مالوں کو اس بات پر خرید لیا ہے کہ ان کے لیے جنت ہے وہ اللہ کے راستے میں قتال کرتے ہیں۔ (التوبہ : ١١١)

19864

(۱۹۸۶۵) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ أَشْعَثَ بْنِ سَوَّارٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِیرِینَ ، عَنْ أَبِی عُبَیْدَۃَ بْنِ حُذَیْفَۃَ ، قَالَ : کَانَ حُذَیْفَۃُ بْنُ الْیَمَانِ ، وَعَبْدُ اللہِ بْنُ مَسْعُودٍ ، وَأَبُو مَسْعُودٍ الأَنْصَارِیُّ ، وَأَبُو مُوسَی الأَشْعَرِیُّ فِی الْمَسْجِدِ فَجَائَ رَجُلٌ ، فَقَالَ : یَا عَبْدَ اللہِ بْنَ قَیْسٍ ، فَسَمَّاہُ بِاسْمِہِ ، فَقَالَ : أَرَأَیْت إِنْ أَنَا أَخَذْت سَیْفِی فَجَاہَدْت بِہِ أُرِیدُ وَجْہَ اللہِ فَقُتِلْت وَأَنَا عَلَی ذَلِکَ ، أَیْنَ أَنَا ؟ قَالَ فِی الْجَنَّۃِ ، قَالَ حُذَیْفَۃُ عِنْدَ ذَلِکَ اسْتَفْہَمَ الرَّجُلُ وَأَفْہِمْہُ فَلَیَدْخُلَنَّ النَّارَ کَذَا وَکَذَا یَصْنَعُ ، مَا قَالَ ہَذَا ؟ فَقَالَ حُذَیْفَۃُ : إِنْ أَخَذْت سَیْفَک فَجَاہَدْت بِہِ فَأَصَبْت الْحَقَّ فُقَتِلْتَ وَأَنْتَ عَلَی ذَلِکَ فَأَنْتَ فِی الْجَنَّۃِ ، وَمَنْ أَخْطَأَ الْحَقَّ فَقُتِلَ وَہُوَ عَلَی ذَلِکَ ، فَلَمْ یُوَفِّقْہُ اللَّہُ ، وَلَمْ یُسَدِّدْہُ دَخَلَ النَّارَ ، قَالَ الْقَوْمُ : صَدَقْت۔ (عبدالرزاق ۹۵۶۵)
(١٩٨٦٥) حضرت ابو عبیدہ بن حذیفہ (رض) فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت حذیفہ بن یمان (رض) ، حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) ، حضرت ابو مسعود انصاری (رض) اور حضرت ابو موسیٰ اشعری (رض) مسجد میں تھے کہ ایک آدمی آیا اور اس نے کہا : اے عبداللہ بن قیس (رض) ! اگر میں اپنی تلوار پکڑ کر اللہ کی رضا کے جذبے پر قائم رہتے ہوئے جہاد کروں اور اسی جذبہ پر قتل کردیا جاؤں تو میں کہاں جاؤں گا ؟ انھوں نے فرمایا : جنت میں، حضرت حذیفہ (رض) نے اس موقع پر فرمایا کہ اس شخص کی بات کو سمجھو اور اسے ٹھیک بات سمجھاؤ، کیونکہ بات کو غلط سمجھنے کی وجہ سے یہ جہنم میں بھی جاسکتا ہے۔ پھر حضرت حذیفہ (رض) نے فرمایا کہ اگر تم نے حق کو درست طریقے سے سمجھا پھر اپنی تلوار لے کر اللہ کے راستے میں شہید ہوگئے تو جنت میں جاؤ گے لیکن اگر کوئی شخص حق کو سمجھنے میں غلطی کرے اور اس کو راہ حق کی ہدایت نہ ملے، اس پر وہ قتل ہوجائے تو وہ جہنم میں جائے گا۔ اس پر سب لوگوں نے کہا کہ آپ ٹھیک کہتے ہیں۔

19865

(۱۹۸۶۶) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ ، قَالَ : کَانُوا یَقُولُونَ : الْقِتَالُ فِی سَبِیلِ اللہِ خَیْرٌ مِنَ الْجُلُوسِ ، وَالْجُلُوسُ خَیْرٌ مِنَ الْقِتَالِ عَلَی الضَّلاَلِ وَمَنْ رَابَہُ شَیْئٌ فَلْیَتَعَدَّہُ إلَی مَا لاَ یَرِیبُہُ۔
(١٩٨٦٦) حضرت ابن سیرین (رض) فرماتے ہیں کہ اسلاف کہا کرتے تھے کہ اللہ کے راستے میں قتال کرنا گھر بیٹھنے سے بہتر ہے اور گھر بیٹھنا گمراہی کے راستے میں قتال کرنے سے بہتر ہے۔ جس آدمی کو کسی چیز میں شک ہو تو وہ شک سے بالا تر ہو کر معاملہ کو اختیار کرے۔

19866

(۱۹۸۶۷) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ زَکَرِیَّا ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنِ الْبَرَائِ بْنِ عَازِبٍ ، قَالَ : لَمَّا نَزَلَتْ ہَذِہِ الآیَۃُ : {لاَ یَسْتَوِی الْقَاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِینَ غَیْرُ أُولِی الضَّرَرِ وَالْمُجَاہِدُونَ فِی سَبِیلِ اللہِ} قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : ادْعُ لِی زَیْدًا وَلْیَجِیء بِاللَّوْحِ وَالدَّوَاۃِ ، أَوَ قَالَ : بِالْکَتِفِ ، فَقَالَ : اکْتُبْ {لاَ یَسْتَوِی الْقَاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِینَ} فَقَالَ : ابْنُ أُمِّ مَکْتُومَ وَکَانَ ضَرِیرَ الْبَصَرِ : یَا رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، بِمَا تَأْمُرُنِی فَإِنِّی لاَ أَسْتَطِیعُ الْجِہَادَ ؟ فَأَنْزَلَ اللَّہُ مکانہ : {غَیْرُ أُولِی الضَّرَرِ}۔ (بخاری ۲۸۳۱۔ مسلم ۱۵۰۸)
(١٩٨٦٧) حضرت براء بن عازب (رض) فرماتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی { لاَ یَسْتَوِی الْقَاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِینَ }، { وَالْمُجَاہِدُونَ فِی سَبِیلِ اللہِ } حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کہ زید (رض) کو بلاؤ اور اسے کہو کہ تختی اور دوات بھی لے آئے۔ “ پھر فرمایا لکھو { لاَ یَسْتَوِی الْقَاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِینَ } یہ آیت سن کر ایک نابینا صحابی حضرت عمرو ابن ام مکتوم (رض) نے عرض کیا یارسول اللہ ! میں جہاد کی طاقت نہیں رکھتا، آپ مجھے کس بات کا حکم دیتے ہیں ؟ اس پر اللہ تعالیٰ نے { غَیْرُ أُولِی الضَّرَرِ } کو نازل فرمایا۔

19867

(۱۹۸۶۸) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ مُجَالَدٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، قَالَ : إنَّ الشُّہَدَائَ ذُکِرُوا عِنْدَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ ، قَالَ : فَقَالَ عُمَرُ لِلْقَوْمِ : مَا تَرَوْنَ الشُّہَدَائَ ؟ قَالَ الْقَوْمُ : یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ ، ہُمْ مِمَّنْ یُقْتَلُ فِی ہَذِہِ الْمَغَازِی ، قَالَ : فَقَالَ عِنْدَ ذَلِکَ : إنَّ شُہَدَائَکُمْ إذًا لَکَثِیرٌ ، إِنِّی أُخْبِرُکُمْ عَنْ ذَلِکَ : إنَّ الشُّجَاعَۃَ وَالْجُبْنَ غَرَائِزُ فِی النَّاسِ یَضَعُہَا اللَّہُ حَیْثُ یَشَائُ فَالشُّجَاعُ یُقَاتِلُ مِنْ وَرَائِ مَنْ لاَ یُبَالِی أَنْ لاَ یَؤُوبَ إلَی أَہْلِہِ ، وَالْجَبَانُ فَارٌّ عَنْ خَلِیلَتِہِ ، وَلَکِنَّ الشَّہِیدَ مَنِ احْتَسَبَ بِنَفْسِہِ ، وَالْمُہَاجِرَ مَنْ ہَجَرَ مَا نَہَی اللَّہُ عَنْہُ وَالْمُسْلِمَ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِہِ وَیَدِہِ۔
(١٩٨٦٨) حضرت مسروق (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) کے سامنے ایک مرتبہ شہداء کا ذکر کیا گیا تو آپ نے فرمایا : کہ تم شہداء کن لوگوں کو سمجھتے ہو ؟ حاضرین نے کہا اے امیر المؤمنین ! جو جنگوں میں مارے جائیں۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا کہ اس طرح تو تمہارے شہید اور بہت زیادہ ہوجائیں گے۔ میں تمہیں شہداء کے بارے میں بتاتا ہوں۔ بہادری اور بزدلی یہ لوگوں میں موجود خصلتیں ہیں جو اللہ تعالیٰ جس میں چاہتا ہے رکھتا ہے۔ بہادر آدمی اس بات کی پروا کیے بغیر قتال کرتا ہے کہ اس کے پیچھے والوں کا کیا ہوگا۔ بزدل اپنی موت سے بھاگتا ہے، شہید اپنی جان کو داؤ پر لگا دیتا ہے۔ مہاجر وہ ہے جو اللہ کے منع کردہ امور کو چھوڑ دے اور مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔

19868

(۱۹۸۶۹) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، أَنَّ أَوَّلَ رَجُلٍ سَلَّ سَیْفًا فِی سَبِیلِ اللہِ الزُّبَیْرُ ، نُفِحَ نَفْحَۃٌ ، أُخِذَ رَسُولُ اللہِ ، فَخَرَجَ الزُّبَیْرُ یَشُقُّ النَّاسَ بِسَیْفِہِ وَرَسُولُ اللہِ بِأَعْلَی مَکَّۃَ ، قَالَ فَلَقِیَ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : مَا لَکَ یَا زُبَیْرُ ؟ قَالَ : أُخْبِرْت أَنَّک أُخِذْت ؟ قَالَ : فَصَلَّی عَلَیْہِ وَدَعَا لَہُ وَلِسَیْفِہِ۔ (عبدالرزاق ۲۰۴۲۹۔ احمد فی فضائل الصحابۃ ۱۲۶۶)
(١٩٨٦٩) حضرت عروہ (رض) فرماتے ہیں کہ اللہ کے راستے میں سب سے پہلا تلوار چلانے والے حضرت زبیر (رض) ہیں، ایک مرتبہ یہ افواہ پھیلی کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کافروں نے گرفتار کرلیا ہے، اس پر حضرت زبیر (رض) تلوار پکڑ کر لوگوں میں سے گذرتے ہوئے گئے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ کے بالائی حصہ میں تھے، ملاقات ہوئی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تو پوچھا کہ اے زبیر ! کیا ہوا ؟ حضرت زبیر (رض) نے عرض کیا کہ مجھے خبر ملی تھی کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کافروں نے پکڑ لیا ہے۔ اس پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انھیں دعا دی اور ان کی تلوار کے لیے بھی دعا فرمائی۔

19869

(۱۹۸۷۰) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ أَبِی بُکَیْرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَۃُ ، عَنْ أَبِی الْفَیْضِ ، قَالَ : سَمِعْتُ سَعِیدَ بْنَ جَابِرٍ الرُّعَیْنِیَّ ، عَنْ أَبِیہِ ، أَنَّ أَبَا بَکْرٍ شَیَّعَ جَیْشًا فَمَشَی مَعَہُمْ ، فَقَالَ : الْحَمْدُ لِلَّہِ اغْبَرَّتْ أَقْدَامُنَا فِی سَبِیلِہِ ، قَالَ : فَقَالَ رَجُلٌ : إنَّمَا شَیَّعْنَاہُمْ ، فَقَالَ : إنَّمَا جَہَّزْنَاہُمْ وَشَیَّعْنَاہُمْ وَدَعَوْنَا لَہُمْ۔
(١٩٨٧٠) حضرت جابر رعینی (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت ابوبکر (رض) ایک لشکر کو رخصت کرتے ہوئے ان کے ساتھ چلے تو فرمایا کہ تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں، ہمارے قدم اس کے راستے میں گرد آلود ہوگئے، ایک آدمی نے کہا کہ ہم تو محض ان کے پیچھے چلے ہیں۔ حضرت ابوبکر (رض) نے فرمایا کہ ہم نے انھیں تیار کیا، ہم ان کے پیچھے چلے اور ہم نے ان کے لیے دعا کی ہے۔

19870

(۱۹۸۷۱) حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِی عُیَیْنَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ بْنِ أَبِی خَالِدٍ ، عَنْ قَیْسٍ ، أَوْ غَیْرِہِ یَحْسَبُ الشَّکُّ مِنْہُ، قَالَ : بَعَثَ أَبُو بَکْرٍ جَیْشًا إلَی الشَّامِ فَخَرَجَ یُشَیِّعُہُمْ عَلَی رِجْلَیْہِ فَقَالُوا : یَا خَلِیفَۃَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، لَوْ رَکِبْتَ ، قَالَ : إنی أَحْتَسِبُ خُطَایَ فِی سَبِیلِ اللہِ۔
(١٩٨٧١) حضرت قیس فرماتے ہیں کہ حضرت ابوبکر (رض) نے لشکر روانہ فرمایا اور آپ پیدل ان کے ساتھ چلے۔ لوگوں نے کہا اے اللہ کے رسول کے خلیفہ ! آپ سوار ہوجائیں۔ حضرت ابوبکر (رض) نے فرمایا کہ میں اللہ کے راستے میں اپنے قدم چلانا چاہتا ہوں۔

19871

(۱۹۸۷۲) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، قَالَ : لَمَّا أَسْلَمَ عِکْرِمَۃُ بْنُ أَبِی جَہْلٍ أَتَی النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : یَا رَسُولَ اللہِ وَاللَّہِ لاَ أَتْرُکُ مَقَامًا قُمْتہ لِیُصَدَّ بِہِ عَنْ سَبِیلِ اللہِ إِلاَّ قُمْت مِثْلَیْہِ فِی سَبِیلِ اللہِ ، وَلاَ أَتْرُکُ نَفَقَۃً أَنْفَقْتہَا أصُدُّ بِہَا عَنْ سَبِیلِ اللہِ إلاَّ أَنْفَقْتُ مِثْلَیْہَا فِی سَبِیلِ اللہِ ، فَلَمَّا کَانَ یَوْمَ الْیَرْمُوکِ نَزَلَ فَتَرَجَّلَ فَقَاتَلَ قِتَالاً شَدِیدًا فَقُتِلَ ، فَوُجِدَ بِہِ بِضْعٌ وَسَبْعُونَ مِنْ بَیْنِ طَعْنَۃٍ وَرَمْیَۃٍ وَضَرْبَۃٍ۔ (طبرانی ۱۰۲۲۔ حاکم ۶۴۲)
(١٩٨٧٢) حضرت ابو اسحاق (رض) فرماتے ہیں کہ جب عکرمہ بن ابی جہل (رض) نے اسلام قبول کرلیا تو وہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ میں نے اللہ کے راستے سے روکنے میں جتنی طاقت خرچ کی ہے میں اللہ کے راستے کی طرف لانے میں اس سے دوہری طاقت خرچ کروں گا اور میں نے اللہ کے راستے سے روکنے میں جتنا مال خرچ کیا ہے میں اللہ کے راستے میں اس سے دوگنا مال خرچ کروں گا۔ جنگ یرموک میں حضرت عکرمہ (رض) اپنی سواری سے اترے اور پیدل لڑتے ہوئے زبردست لڑائی کی اور شہید ہوگئے۔ ا ن کے جسم پر نیزوں، تیروں اور تلواروں کے ستر سے زیادہ زخم تھے۔

19872

(۱۹۸۷۳) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، حَدَّثَنَا ہِشَامُ بْنُ سَعْدٍ ، قَالَ : حدَّثَنِی قَیْسُ بْن بِشْرٍ التَّغْلِبِیُّ ، قَالَ : کَانَ أَبِی جَلِیسًا لأَبِی الدَّرْدَائِ بِدِمَشْقَ ، وَکَانَ بِدِمَشْقَ رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، یُقَالُ لَہُ ابْنُ الْحَنْظَلِیَّۃِ مِنَ الأَنْصَارِ ، وَکَانَ الرَّجُلُ مُتَوَحِّدًا ، قَلَّمَا یُجَالِسُ النَّاسَ ، إنَّمَا ہُوَ یُصَلِّی فَإِذَا انْصَرَفَ ، فَإِنَّمَا ہُوَ تَسْبِیحٌ وَتَہْلِیلٌ ، حَتَّی یَأْتِیَ أَہْلَہُ ، فَمَرَّ بِنَا ذَاتَ یَوْمٍ وَنَحْنُ عِنْدَ أَبِی الدَّرْدَائِ فَسَلَّمَ ، فَقَالَ لَہُ أَبُو الدَّرْدَائِ کَلِمَۃً تَنْفَعُنَا ، وَلاَ تَضُرُّک ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : الْمُنْفِقُ عَلَی الْخَیْلِ فِی سَبِیلِ اللہِ ، کَبَاسِطِ یَدَیْہِ بِالصَّدَقَۃِ لاَ یَقْبِضُہَا ، ثُمَّ مَرَّ بِنَا یَوْمًا آخَرَ فَسَلَّمَ ، فَقَالَ أَبُو الدَّرْدَائِ : کَلِمَۃٌ تَنْفَعُنَا وَلاَ تَضُرُّکَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إنَّکُمْ قَادِمُونَ عَلَی إخْوَانِکُمْ فَأَصْلِحُوا رِحَالَکُمْ وَأَصْلِحُوا لِبَاسَکُمْ حَتَّی تَکُونُوا کَأَنَّکُمْ شَامَۃً فِی النَّاسِ ، فَإِنَّ اللَّہَ لاَ یُحِبُّ الْفُحْشَ وَالتَّفَحُّشَ۔ (ابوداؤد ۴۰۸۶۔ احمد ۴/۱۷۹)
(١٩٨٧٣) حضرت قیس بن بشر تغلبی (رض) کہتے ہیں کہ میرے والد دمشق میں حضرت ابو الدردائ (رض) کی مجلس میں بیٹھے تھے۔ دمشق میں ابن حنظلیہ (رض) نام کے ایک گوشہ نشین انصاری صحابی بھی موجود تھے۔ وہ لوگوں سے بہت کم میل جول رکھتے تھے۔ وہ نماز سے فارغ ہوتے تو تسبیح و تہلیل کرتے اپنے گھر چلے جاتے۔ ایک مرتبہ وہ ہمارے پاس سے گذرے ، ہم حضرت ابو الدردائ (رض) کے ساتھ بیٹھے تھے۔ انھوں نے سلام کیا تو حضرت ابو الدردائ (رض) نے فرمایا کہ ہمیں کوئی ایسی بات بتا دیجئے جو ہمیں فائدہ دے اور آپ کو اس کے بتانے سے کوئی نقصان نہ ہو۔ انھوں نے فرمایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ اللہ کے راستے میں اپنے گھوڑے پر خرچ کرنے والا ایسا ہے جیسے صدقہ کو مسلسل بلا روکے جاری رکھنے والا۔ پھر وہ ایک دن ہمارے پاس سے گذرے اور سلام کیا تو حضرت ابوالدرداء (رض) نے فرمایا کہ کوئی ایسی بات بتا دیجئے جو ہمیں فائدہ دے اور آپ کو اس سے کوئی نقصان نہ ہو۔ انھوں نے فرمایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ تم نے اپنے بھائیوں سے ملاقات کرنی ہو تو اپنی سواریاں اور اپنا لباس درست کرلیا کرو تاکہ لوگوں میں بیٹھے ہوئے برے نہ لگو۔ اللہ تعالیٰ برے کام کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا۔

19873

(۱۹۸۷۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : قَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ یَزِیدَ : اغدوا بِنَا حَتَّی نَجْتَعِلَ ، قَالَ : فَغَدَوْت إلَیْہِ ، فَقَالَ لِی : إنِّی قَرَأْت الْبَارِحَۃَ سُورَۃَ بَرَائَۃَ فَوَجَدْتہَا تَحُثُّ عَلَی الْجِہَادِ ، قَالَ : فَخَرَجَ۔
(١٩٨٧٤) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ حضرت عبد الرحمن بن یزید (رض) نے ایک مرتبہ فرمایا کہ ہمارے پاس آؤ تاکہ ہم مال غنیمت کے حصے بنائیں۔ میں صبح ان کے پاس گیا تو انھوں نے فرمایا کہ میں نے رات کو سورة التوبہ کی تلاوت کی یہ سورت جہاد کی ترغیب دے رہی ہے۔ یہ فرما کر وہ جہاد کے لیے روانہ ہوگئے۔

19874

(۱۹۸۷۵) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ ، قَالَ : ابن عُمَرَ فِی الْجَعَالَۃِ : لاَ أَبِیعُ نَصِیبِی مِنَ الْجِہَادِ ، وَلاَ أَغْزُو عَلَی أَجْرٍ۔
(١٩٨٧٥) حضرت ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ میں جہاد میں حاصل ہونے والا حصہ فروخت نہیں کرتا اور میں مال کے لیے جہاد نہیں کرتا۔

19875

(۱۹۸۷۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنِ الزُّبَیْرِ بْنِ عَدِیٍّ ، عَنِ الشَّقِیقِ بْنِ الْعَیْزَارِ ، قَالَ : سَأَلْتُ ابْنَ الزُّبَیْرِ ، عَنِ الْجَعَائِلِ ، فقَالَ : إِنْ أَخَذْتہَا فَأَنْفِقْہَا فِی سَبِیلِ اللہِ ، وَتَرْکُہَا أَفْضَلُ وَسَأَلْت ابْنَ عُمَرَ ، فَقَالَ : لَمْ أَکُنْ لأَرْتَشِیَ إِلاَّ مَا رَشَانِی اللَّہُ۔
(١٩٨٧٦) حضرت شقیق (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن زبیر (رض) سے مال غنیمت کے بارے میں سوال کیا تو انھوں نے فرمایا کہ اگر تمہیں مل جائے تو اللہ کے راستے میں خرچ کرو اور نہ لو تو بہتر ہے۔ حضرت ابن عمر (رض) سے سوال کیا تو فرمایا کہ میں تو بغیر محنت کے وہی چیز لیتا ہوں جو اللہ مجھے دیتا ہے۔

19876

(۱۹۸۷۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ عُبَیْدِ اللہ بْنِ الأَعْجَمِ ، قَالَ : سَأَلْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ عَنِ الْجَعَائِلِ ، قَالَ : إِنْ جَعَلْتہَا فِی سِلاَحٍ ، أَوْ کُرَاعٍ فِی سَبِیلِ اللہِ فَلاَ بَأْسَ ، قَالَ : وَإِنْ جَعَلْتہَا فِی عَبْدٍ ، أَوْ أَمَۃٍ فَہُوَ غَیْرُ طَائِلٍ۔
(١٩٨٧٧) حضرت عبید اللہ بن اعجم (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عباس (رض) سے مال غنیمت کے بارے میں سوال کیا تو انھوں نے فرمایا کہ اگر تم اس مال کو کسی ہتھیار یا گھوڑے پر خرچ کرو تو اس میں کوئی حرج نہیں اور اگر کسی غلام یا باندی میں خرچ کردو تو مناسب بات نہیں۔

19877

(۱۹۸۷۸) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ زَکَرِیَّا ، عَنْ أَبِی بَکْرٍ بْنِ عَمْرِو بْنِ عُتْبَۃَ ، قَالَ : خَرَجَ عَلَی النَّاسِ بَعْثٌ فِی زَمَنِ مُعَاوِیَۃَ فَکَتَبَ مُعَاوِیَۃُ إلَی جَرِیرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ : إنَّا قَدْ وَضَعْنَا عَنْک الْبَعْثَ وَعَنْ وَلَدِکَ ، فَکَتَبَ إلَیْہِ جَرِیرٌ : إنِّی بَایَعْتُ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَی السَّمْع وَالطَّاعَۃِ وَالنُّصْحِ لِلْمُسْلِمِینَ ، فَإِنْ ننشط نَخْرُجُ فِیہِ ، وَإِلاَّ قَوَّیْنَا مَنْ یَخْرُجُ۔ (بخاری ۵۷۔ مسلم ۹۷)
(١٩٨٧٨) حضرت ابوبکر بن عمرو بن عتبہ (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت معاویہ (رض) کے زمانے میں لوگوں کو ایک مرتبہ زبردستی جہاد کے لیے بھیجا گیا۔ حضرت معاویہ (رض) نے حضرت جریر بن عبداللہ (رض) کو خط میں لکھا کہ ہم نے آپ کو اور آپ کے بیٹے کو زبردستی نہیں بھیج رہے۔ حضرت جریر بن عبداللہ (رض) نے جواب میں لکھا کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دست اقدس پر امیر کی اطاعت و فرمان برداری اور مسلمانوں کی خیر خواہی کی بیعت کی ہے۔ اگر ہمیں بھیجا جائے گا تو ہم جائیں گے وگرنہ جانے والوں کو قوت فراہم نہیں کریں گے۔

19878

(۱۹۸۷۹) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، حَدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : سُئِلَ الأَسْوَدُ عَنِ الرَّجُلِ یُجْعَلُ لَہُ ویجعل ہُوَ أَقَلَّ مِمَّا جُعِلَ لَہُ وَیُسْتَفْضَلُ ؟ قَالَ : لاَ بَأْسَ ، وَسُئِلَ شُرَیْحٌ عَنْ ذَلِکَ ، فَقَالَ : دَعْ مَا یَرِیبُک إلَی مَا لاَ یَرِیبُک۔
(١٩٨٧٩) حضرت اسود (رض) سے سوال کیا گیا کہ اگر کسی مجاہد کو مال غنیمت میں غیر مجاہد سے زیادہ حصہ ملے لیکن وہ اس زیادہ حصے کو کم سمجھے اور زیادہ کا مطالبہ کرے تو یہ کیا ہے ؟ تو انھوں نے فرمایا کہ اس میں کوئی حرج نہیں، حضرت شریح (رض) سے اس بارے میں سوال کیا گیا تو انھوں نے فرمایا کہ جو چیز تمہیں شک میں ڈالے اسے چھوڑ دو اور جو تمہیں شک میں نہ ڈالے اسے اپنا لو۔

19879

(۱۹۸۸۰) حَدَّثَنَا عِیسَی بْنُ یُونُسَ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ عَبْدِالْعَزِیزِ، عَنْ مَکْحُولٍ، أَنَّہُ کَانَ لاَ یَرَی بِالْجُعْلِ فِی القبیلۃ بَأْسًا۔
(١٩٨٨٠) حضرت مکحول (رض) مال غنیمت میں سے کوئی زیادہ حصہ کسی خاص قبیلے کو دینے میں کوئی حرج نہ سمجھتے تھے۔

19880

(۱۹۸۸۱) حَدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ بْنُ عَیَّاشٍ ، عَنْ مَعْدَانَ بْنِ حُدَیْرٍ الْحَضْرَمِیِّ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ جُبَیْرِ بْنِ نُفَیْرٍ الْحَضْرَمِیِّ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَثَلُ الَّذِینَ یَغْزُونَ مِنْ أُمَّتِی وَیَأْخُذُونَ الْجُعْلَ یَتَقَوُّونَ بِہِ عَلَی عَدُوِّہِمْ کَمَثَلِ أُمِّ مُوسَی تُرْضِعُ وَلَدَہَا وَتَأْخُذُ أَجْرَہَا۔ (ابوداؤد ۳۳۲۔ بیہقی ۲۷)
(١٩٨٨١) حضرت جبیر بن نفیر حضرمی (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ میری امت کے وہ لوگ جو جہاد کرتے ہیں اور جہاد کر کے مال غنیمت میں دوسرے مجاہدین سے زیادہ حصہ لیتے ہیں اور دشمن کے خلاف اسے بطور طاقت کے استعمال کرتے ہیں۔ ان لوگوں کی مثال حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ کی سی ہے جو اپنے بیٹے کو دودھ پلاتی تھیں اور (فرعون سے) اس کا عوض لیتی تھیں۔

19881

(۱۹۸۸۲) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، قَالَ : سَأَلْتُ ابْنَ سِیرِینَ قُلْتُ : الرَّجُلُ یُرِیدُ الْغَزْوَ فَیُعَانُ ؟ قَالَ : مَا زَالَ الْمُسْلِمُونَ یُمَتِّعُ بَعْضُہُمْ بَعْضًا۔
(١٩٨٨٢) حضرت ابن عون (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن سیرین (رض) سے سوال کیا کہ اگر کوئی شخص جہاد کرنا چاہے تو کیا اس کی مدد کی جائے گی ؟ انھوں نے فرمایا کہ مسلمان ہمیشہ ایک دوسرے کو فائدہ پہنچاتے ہیں۔

19882

(۱۹۸۸۳) حَدَّثَنَا ابْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ نسیر ، أَنَّ الرَّبِیعَ کَانَ یَأْخُذُ الْجَعَالَۃَ فَیَجْعَلُہَا فِی الْمَسَاکِینِ۔
(١٩٨٨٣) حضرت نسیر فرماتے ہیں کہ حضرت ربیع (رض) مال غنیمت میں سے مجاہد کو ملنے والے والا زیادہ حصہ لیتے تھے اور اسے مساکین میں تقسیم کردیتے تھے۔

19883

(۱۹۸۸۴) حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ بْنُ مُوسَی ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ الأَسْوَدِ ، عَنْ مُجَاہِدٍ أَنَّہُ أُعْطِیَ یَوْمَ غَزَا شیئا فَقَبِلَہُ۔
(١٩٨٨٤) حضرت عثمان بن اسود (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت مجاہد (رض) کو جہاد کے ایک دن کے عوض کوئی چیز پیش کی گئی جو انھوں نے قبول فرما لی ۔

19884

(۱۹۸۸۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إسْرَائِیلَ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ عَامِرٍ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ وَالأَسْوَدِ وَمَسْرُوقٍ أَنَّہُمْ کَرِہُوا الْجَعَائِلَ وَذَلِکَ فِی الْبَعْثِ۔
(١٩٨٨٥) حضرت عکرمہ (رض) ، حضرت اسود (رض) اور حضرت مسروق (رض) نے مال غنیمت میں سے مجاہد کو ملنے والے زائد حصہ کو مکروہ قرار دیا ہے۔

19885

(۱۹۸۸۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ عَامِرٍ ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، أَنَّہُ کَرِہَ الْجَعَائِلَ۔
(١٩٨٨٦) حضرت مسروق (رض) نے جعائل کو مکروہ قرار دیا ہے۔

19886

(۱۹۸۸۷) حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ بْنُ مُوسَی ، عَنْ مُوسَی بْنِ عُبَیْدَۃَ ، قَالَ : کَانَ النُّعْمَانُ بْنُ أَبِی عَیَّاشٍ ، وَابْنُ قُسَیْطٍ ، وَعَمْرُو بْنُ عَلْقَمَۃَ یَأْخُذُونَ الْجَعَائِلَ وَیَخْرُجُونَ۔
(١٩٨٨٧) حضرت نعمان بن ابی عیاش (رض) ، ابن لقیط (رض) اور حضرت عمرو بن علقمہ (رض) مالِ غنیمت کے زائد حصے کو لیتے تھے اور جہاد کے لیے نکلتے تھے۔

19887

(۱۹۸۸۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ شَرِیکٍ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : کَانَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ یَزِیدَ یُؤَالِفُ الرَّجُلَ ، ثُمَّ یَغْزُو عَنْہُ۔
(١٩٨٨٨) حضرت عبد الرحمن بن یزید (رض) کسی آدمی سے دوستی لگاتے تھے اور پھر اس کے حصے کا جہاد کرتے تھے۔

19888

(۱۹۸۸۹) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ مُسْلِمٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَا مِنْ أَیَّامٍ الْعَمَلُ الصَّالِحُ فِیہَا أَحَبُّ إلَی اللہِ مِنْ ہَذِہِ الأَیَّامِ ، یَعْنِی أَیَّامَ الْعَشْرِ ، قَالُوا : یَا رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَلاَ الْجِہَادُ فِی سَبِیلِ اللہِ ؟ قَالَ : وَلاَ الْجِہَادُ فِی سَبِیلِ اللہِ إِلاَّ رَجُلٌ خَرَجَ بِنَفْسِہِ وَمَالِہِ فَلَمْ یَرْجِعْ مِنْ ذَلِکَ بِشَیْئٍ۔ (بخاری ۹۶۹۔ ابوداؤد ۲۴۳۰)
(١٩٨٨٩) حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ عمل صالح کے لیے اللہ تعالیٰ کو ذوالحجہ کے دس دن سے زیادہ محبوب دن اور کوئی نہیں۔ لوگوں نے پوچھا اے اللہ کے رسول ! کیا یہ دن اللہ کے راستے میں جہاد کرنے سے بھی زیادہ افضل ہیں ؟ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ یہ دن اللہ کے راستے میں جہاد کرنے سے بھی زیادہ افضل ہیں۔ البتہ اگر کوئی آدمی اللہ کے راستے میں اپنی جان اور اپنا مال لے کر جائے اور کچھ بھی واپس نہ لائے۔

19889

(۱۹۸۹۰) حَدَّثَنِی غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِی یَعْقُوبَ ، قَالَ : أَخْبَرَنِی مَنْ سَمِعَ بُرَیْدَۃَ الأَسْلَمِیَّ مِنْ وَرَائِ نَہْرِ بَلْخَ وَہُوَ یَقُولُ : لاَ عَیْشَ إِلاَّ لَمَعَانُ الْخَیْلِ۔
(١٩٨٩٠) حضرت بریدہ اسلمی (رض) نے دریائے بلخ کے کنارے کھڑے ہو کر فرمایا کہ زندگی تو بس گھوڑوں کی چمک کے ساتھ ہے۔

19890

(۱۹۸۹۱) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ زَائِدَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِی عَمْرِو الشَّیْبَانِیِّ ، عَنْ أَبِی مَسْعُودٍ عُقْبَۃَ بْنِ عَمْرٍو قَالَ : جَائَ رَجُلٌ إلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِنَاقَۃٍ مَخْطُومَۃٍ ، فَقَالَ : یَا رَسُولَ اللہِ ، ہَذِہِ فِی سَبِیلِ اللہِ ، فَقَالَ لَہُ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لَکَ بِہَا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ سَبْعُ مِئَۃ کُلُّہَا مَخْطُومَۃٌ۔ (مسلم ۱۵۰۶۔ احمد ۱۲۱)
(١٩٨٩١) حضرت عقبہ بن عامر (رض) سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ ایک آدمی ایک لگام والی اونٹنی لے کر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے عرض کیا کہ یہ اونٹنی میں اللہ کے راستے میں وقف کرتا ہوں۔ اس پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ قیامت کے دن تجھے اس کے بدلے سات سو اونٹنیاں ملیں گی، وہ سب کی سب بالگام اونٹنیاں ہوں گی۔

19891

(۱۹۸۹۲) حَدَّثَنَا عَفَّانُ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ، عَنْ أَبِی طَلْحَۃَ، قَالَ: رَفَعْت رَأْسِی یَوْمَ أُحُدٍ فَجَعَلْتُ أَنْظُرُ فَمَا أَرَی أَحَدًا مِنَ الْقَوْمِ إِلاَّ یَمِیدُ تَحْتَ حجفتہ مِنَ النُّعَاسِ۔ (بخاری ۴۰۶۸۔ ترمذی ۳۰۰۷)
(١٩٨٩٢) حضرت ابو طلحہ (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے غزوہ احد میں اپنا سر اٹھایا تو میں نے دیکھا کہ ہر شخص نیند کا شکار ہے۔

19892

(۱۹۸۹۳) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ ، عن ثابت ، عن أنس ، وعَنْ ہِشَامٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنِ الزُّبَیْرِ مِثْلَہُ۔
(١٩٨٩٣) حضرت انس (رض) اور حضرت زبیر (رض) سے بھی یونہی منقول ہے۔

19893

(۱۹۸۹۴) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ أَنَا ہِشَامٌ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : حدَّثَنِی صَعْصَعَۃُ بْنُ مُعَاوِیَۃَ ، قَالَ : لَقِیت أَبَا ذَرٍّ فَقُلْت : حَدِّثْنِی حَدِیثًا سَمِعْتہ مِنْ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : مَا مِنْ مُسْلِمٍ أَنْفَقَ مِنْ مَالِہِ زَوْجَیْنِ فِی سَبِیلِ اللہِ إِلاَّ ابْتَدَرَتْہُ حَجَبَۃُ الْجَنَّۃِ ، وَکَانَ الْحَسَنُ یَقُولُ : زَوْجَیْنِ مِنْ مَالِہِ : دِینَارَیْنِ وَدِرْہَمَیْنِ وَعَبْدَیْنِ ، وَاثْنَتَیْنِ مِنْ کُلِّ شَیْئٍ۔ (ابن حبان ۴۶۴۳۔ احمد ۵/۱۵۱)
(١٩٨٩٤) حضرت صعصعہ بن معاویہ (رض) فرماتے ہیں کہ میں حضرت ابو ذر غفاری (رض) سے ملا اور میں نے عرض کیا کہ مجھے کوئی ایسی حدیث سنائیے جو آپ نے حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنی ہو۔ انھوں نے فرمایا کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے کہ جب کوئی مسلمان اللہ کے راستے میں اپنے مال کے دو حصے خرچ کرتا ہے تو جنت کے فرشتے اسے اپنی طرف بلاتے ہیں۔ حضرت حسن بصری (رض) زوجین کا معنی بیان فرماتے کہ اس سے مراد یا تو دو دینار یا دو درہم یا دو غلام یا کوئی سی دو چیزیں ہیں۔

19894

(۱۹۸۹۵) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ بُرْقَانَ ، عَنْ مَیْمُونِ بْنِ مِہْرَانَ ، قَالَ : کَانَ أَبُو بَکْرٍ إذَا أَرَادَ أَنْ یَبْعَثَ بَعْثًا ندب النَّاسَ ، فَإِذَا کَمُلَ لَہُ مِنَ الْعِدَّۃِ مَا یُرِیدُ ، جَہَّزَہُمْ بِمَا کَانَ عِنْدَہُ ، وَلَمْ تَکُنِ الأَعْطِیَۃُ فُرِضَتْ عَلَی عَہْدِ أَبِی بَکْرٍ۔
(١٩٨٩٥) حضرت میمون بن مہران (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت ابوبکر (رض) جب کوئی لشکر بھیجنے کا ارادہ کرتے تو لوگوں کو اس کے لیے جمع فرماتے ، جب مطلوبہ مقدار پوری ہوجاتی تو اپنے پاس موجود چیزوں سے انھیں سامان جہاد فراہم کرتے۔ حضرت ابوبکر (رض) کے دور میں ” اعطیہ “ فرض نہ تھا۔

19895

(۱۹۸۹۶) حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ ، حَدَّثَنَا إسْرَائِیلُ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ عِیَاضٍ ، قَالَ : کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَلِیلَ الْکَلاَمِ قَلِیلَ الْحَدِیثِ ، فَلَمَّا أُمِرَ بِالْقِتَالِ شَمَّرَ ، فَکَانَ مِنْ أَشَدِّ النَّاسِ بَأْسًا۔
(١٩٨٩٦) حضرت سعد بن عیاض (رض) فرماتے ہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) زیادہ تر خاموش رہتے اور بہت کم بات فرماتے تھے۔ جب قتال کا حکم ہوتا تو اس کے لیے مستعد ہوجاتے اور سب لوگوں سے زیادہ بہادری کا مظاہرہ فرماتے ۔

19896

(۱۹۸۹۷) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ بْنِ رَافِعٍ ، عَنْ زَیْدِ بْنِ أَسْلَمَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: اغْزُوا تَصِحُّوا وَتَغْنَمُوا۔
(١٩٨٩٧) حضرت زید بن اسلم (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ جہاد کرو تندرست رہو گے اور مال غنیمت حاصل کرو گے۔

19897

(۱۹۸۹۸) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ أَخْبَرَنَا ہِشَامٌ الدَّسْتَوَائِیُّ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ أَبِی کَثِیرٍ ، عَنْ أَبِی سلاَّمٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ الأَزْرَقِ ، عَنْ عُقْبَۃَ بْنِ عَامِرٍ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : إنَّ اللَّہَ لَیُدْخِلُ بِالسَّہْمِ الْوَاحِدِ ثَلاَثَۃً الْجَنَّۃَ : صَانِعَہُ یَحْتَسِبُ فِی صَنْعَتِہِ الْخَیْرَ وَالرَّامِیَ بِہِ وَالْمُمِدَّ بِہِ ، وَقَالَ : ارْمُوا وَارْکَبُوا ، وَأَنْ تَرْمُوا أَحَبُّ إلَیَّ مِنْ أَنْ تَرْکَبُوا ، وَکُلُّ مَا یَلْہُو بِہِ الْمَرْئُ الْمُسْلِمُ بَاطِلٌ إِلاَّ رَمْیَہُ بِقَوْسِہِ وَتَأْدِیبَہُ فَرَسَہُ وَمُلاَعَبَتَہُ أَہْلَہُ ، فَإِنَّہُنَّ مِنَ الْحَقِّ۔ (ترمذی ۱۶۳۷۔ احمد ۴/۱۴۸)
(١٩٨٩٨) حضرت عقبہ بن عامر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ایک تیر کی وجہ سے تین آدمیوں کو جنت میں داخل فرمائے گا ، اس کے بنانے والے کو جو اس کی بناوٹ میں خیر کی نیت رکھے، اس کے چلانے والے کو اور اس کے سیدھا کرنے والے کو۔ تیر چلاؤ اور جانور کی سواری کرو۔ میرے نزدیک تمہارا تیر اندازی کرنا سواری کرنے سے بہتر ہے۔ ہر کھیل مسلمان کے لیے مناسب ہے، البتہ کمان سے تیر چلانا، گھوڑے کو سدھانا اور بیوی سے دل لگی کرنا حق کے کھیل ہیں۔

19898

(۱۹۸۹۹) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ الْحُبَابِ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ شُرَیْحٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سُمَیْرٍ الرُّعَیْنِیِّ ، أَنَّہُ سَمِعَ أَبَا عَلِیَّ التجیبی ، أَنَّہُ سَمِعَ أَبَا رَیْحَانَۃَ یَقُولُ : غَزَوْنَا مَعَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَأَصَبْنَا بَرْدَ لَیْلَۃٍ ، فَلَقَدْ رَأَیْت الرَّجُلَ یَحْفِرُ الْحُفْرَۃَ ، ثُمَّ یَدْخُلُ فِیہَا ، وَیَضَعُ تُرْسَہُ عَلَیْہِ ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَنْ یَحْرُسُنَا اللَّیْلَۃَ ، فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الأَنْصَارِ : أَنَا ، فَقَالَ : مِمَّنْ أَنْتَ ؟ فَانْتَسَبَ لَہُ فَدَعَا لَہُ بِخَیْرٍ ، ثُمَّ قَالَ : مَنْ یَحْرُسُنَا اللَّیْلَۃَ ؟ فَقُلْت : أَنَا ، فَقَالَ : مِمَّنْ أَنْتَ ؟ فَقُلْت : أَبُو رَیْحَانَۃَ ، فَدَعَا لِی بِدُونِ دُعَائٍ لِلأَنْصَارِیِّ ، ثُمَّ قَالَ : حُرِّمَتِ النَّارُ عَلَی ثَلاَثَۃِ أَعْیُنٍ : عَیْنٌ سَہِرَتْ فِی سَبِیلِ اللہِ ، وَعَیْنٌ بَکَتْ ، أَوْ دَمَعَتْ مِنْ خَشْیَۃِ اللہِ۔ وَسَکَتَ مُحَمَّدُ بْنُ سُمَیْرٍ ، عَنِ الثَّالِثَۃِ ، لَمْ یَذْکُرْہَا۔ (بخاری ۲۷۴۸۔ احمد ۴/۱۳۴)
(١٩٨٩٩) حضرت ابو ریحانہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ایک جہاد پر نکلے۔ ایک رات بہت شدید سردی تھی سردی کی وجہ سے لوگوں کا یہ حال تھا کہ گڑھا کھود کر اس میں داخل ہوتے اور اس پر اپنی زین ڈال دیتے۔ اس موقع پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ آج رات ہمارا پہرہ کون دے گا ؟ ایک انصاری آدمی نے کہا کہ میں پہرہ دوں گا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ تم کون ہو ؟ اس پر اس نے اپنا نسب نامہ بیان کیا تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے خیر کی دعا دی۔ پھر آپ نے فرمایا کہ آج رات ہمارا پہرہ کون دے گا ؟ میں نے کہا میں پہرہ دوں گا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا تم کون ہو ؟ میں نے کہا : میں ابو ریحانہ ہوں۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے میرے لیے ان انصاری صحابی کے علاوہ کوئی دعا فرمائی پھر فرمایا کہ تین آنکھیں ایسی ہیں جن پر جہنم کی آگ حرام ہے، ایک وہ آنکھ جو اللہ کے راستے میں بیدار رہی اور دوسری وہ آنکھ جس نے اللہ کے خوف سے آنسو بہایا۔ راوی محمد بن سمیر نے تیسری آنکھ کا ذکر نہیں کیا۔ (شواہد سے معلوم ہوتا ہے کہ تیسری آنکھ وہ ہے جو غیر محرم کو دیکھنے سے جھک گئی) ۔

19899

(۱۹۹۰۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، حَدَّثَنَا الأَعْمَش ، عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ مَیْسَرَۃَ ، وَالْمُغِیرَۃِ بْنِ شَبْلِ ، عن طَارِقِ بْنِ شِہَابٍ ، قَالَ : کَانَ سَلْمَانُ إذَا قَدِمَ مِنَ الْغَزْوِ نَزَلَ الْقَادِسِیَّۃَ ، وَإِذَا قَدِمَ مِنَ الْحَجِّ نَزَلَ الْمَدَائِنَ غَازِیًا۔
(١٩٩٠٠) حضرت طارق بن شہاب فرماتے ہیں کہ حضرت سلمان (رض) جب جہاد سے واپس آتے تو قادسیہ ٹھہرتے اور جب حج سے واپس ہوتے تو جہاد کے لیے مدائن میں قیام فرماتے ۔

19900

(۱۹۹۰۱) حَدَّثَنَا مُعَاوِیَۃُ بْنُ عَمْرٍو ، حَدَّثَنَا زَائِدَۃُ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِی صَالِحٍ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : مَنْ کُلِمَ فِی سَبِیلِ اللہِ ، وَاللَّہُ أَعْلَمُ بِمَنْ کُلِمَ فِی سَبِیلِہِ ، یَجِیئُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَجُرْحُہُ کَہَیْئَتِہِ یَوْمَ جُرِحَ۔ (بخاری ۲۳۷۔ مسلم ۱۴۹۶)
(١٩٩٠١) حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ جس شخص کو اللہ کے راستے میں زخم لگا (اللہ ہر اس شخص کو جانتا ہے جسے اللہ کے راستے میں زخم لگا) قیامت کے دن اس کا زخم اسی حالت میں ہوگا جس دن سے زخم لگا۔

19901

(۱۹۹۰۲) حَدَّثَنَا یُونُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا لَیْثُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنْ یَزِیدَ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ أُسَامَۃَ ، عَنِ الْوَلِیدِ بْنِ أَبِی الْوَلِیدِ ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ سُرَاقَۃَ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ ، قَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : مَنْ أَظَلَّ رَأْسَ غَازٍ أَظَلَّہُ اللَّہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ، وَمَنْ جَہَّزَ غَازِیًا حَتَّی یَسْتَقِلَّ کَانَ لَہُ مِثْلُ أَجْرِہِ حَتَّی یَمُوتَ ، أَوْ یَرْجِعَ ، وَمَنْ بَنَی مَسْجِدًا یُذْکَرُ فِیہِ اسْمُ اللہِ ، بَنَی اللَّہُ لَہُ بَیْتًا فِی الْجَنَّۃِ۔ (احمد ۲۰۔ ابن حبان ۴۶۲۸)
(١٩٩٠٢) حضرت عمر بن خطاب (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جس شخص نے مجاہد کے سر پر سایہ کیا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اسے سایہ نصیب فرمائیں گے جس شخص نے مجاہد کو جہاد کی تیاری کرائی اس کے لیے مجاہد کی شہادت یا واپس آنے تک اس کے برابر اجر ہے، جس شخص نے کوئی ایسی مسجد بنائی جس میں اللہ کا نام لیا جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت میں گھر بنائیں گے۔

19902

(۱۹۹۰۳) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ أَبِی بُکَیْرٍ ، حَدَّثَنَا زُہَیْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مُحَمَّدِ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ سَہْلِ بْنِ حُنَیْفٍ ، أَنَّ سَہْلاً حَدَّثَہُ ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : مَنْ أَعَانَ مُجَاہِدًا فِی سَبِیلِ اللہِ ، أَوْ غَارِمًا فِی عُسْرَتِہِ ، أَوْ مُکَاتِبًا فِی رَقَبَتِہِ ، أَظَلَّہُ اللَّہُ یَوْمَ لاَ ظِلَّ إِلاَّ ظِلُّہُ۔ (احمد ۳/۴۸۷۔ حاکم ۸۹)
(١٩٩٠٣) حضرت سھل بن حنیف سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ جس شخص نے اللہ کے راستے میں مجاہد کی مدد کی، یا مشکل کے وقت میں کسی مقروض کی مدد کی یا مکاتب غلام کی اس کی آزاری کے لیے مدد کی تو اللہ تعالیٰ اسے اس دن سایہ عطا فرمائیں گے جس دن اس کے سوا کوئی سایہ نہ ہوگا۔

19903

(۱۹۹۰۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِی لَیْلَی ، عَنْ عَطَائٍ ، عَنْ زَیْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُہَنِیِّ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَنْ فَطَّرَ صَائِمًا ، أَوْ جَہَّزَ غَازِیًا ، أَوْ حَاجًّا ، أَوْ خَلَفَہُ فِی أَہْلِہِ کَانَ لَہُ مِثْلُ أُجُورِہِمْ مِنْ غَیْرِ أَنْ یَنْتَقِصَ مِنْ أُجُورِہِمْ شَیْئًا۔ (ترمذی ۸۰۷۔ احمد ۴/۱۱۴)
(١٩٩٠٤) حضرت خالد جہنی (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ جس آدمی نے کسی روزہ دار کو افطار کرایا یا کسی مجاہد کو تیار کرایا یا کسی حاجی کا انتظام کیا یا ان کے جانے کے بعد ان کے گھر والوں کا خیال رکھا تو اس کے لیے ان کے اجر کے برابر اجر ہوگا اور ان کے اجر میں کوئی کمی نہ کی جائے گی۔

19904

(۱۹۹۰۵) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، أَخْبَرَنَا ہِشَامُ الدَّسْتَوَائِیُّ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ أَبِی کَثِیرٍ ، عَنْ عَامِرٍ الْعُقَیْلِیِّ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : عُرِضَ عَلَیَّ أَوَّلُ ثَلاَثَۃٍ یَدْخُلُونَ الْجَنَّۃَ مِنْ أُمَّتِی : الشَّہِیدُ وَعَبْدٌ مَمْلُوکٌ لَمْ یَشْغَلْہُ رِقُّ الدُّنْیَا عَنْ طَاعَۃِ رَبِّہِ وَفَقِیرٌ مُتَعَفِّفٌ ذُو عِیَالٍ۔ (ترمذی ۱۶۵۲۔ احمد ۲/۴۲۵)
(١٩٩٠٥) حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ مجھے ان تین لوگوں کے بارے میں بتایا گیا جو سب سے پہلے جنت میں داخل ہوں گے، ایک شہید، دوسرا وہ غلام جو اپنے آقا کی خدمت کے باوجود اپنی رب کی اطاعت میں کوتاہی نہ کرے اور تیسرا وہ نادار جو اہل و عیال والا ہو لیکن کسی سے سوال نہ کرے۔

19905

(۱۹۹۰۶) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، قَالَ : قَالَ مَعْمَرٌ : کَانَ مَکْحُولٌ یَسْتَقْبِلُ الْقِبْلَۃَ ، ثُمَّ یَحْلِفُ عَشَرَۃَ أَیْمَانٍ : إنَّ الْغَزْوَ لَوَاجِبٌ عَلَیْکُمْ ، ثُمَّ یَقُولُ : إِنْ شِئْتُمْ زِدْتُکُمْ۔
(١٩٩٠٦) حضرت معمر فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ مکحول نے قبلہ کی طرف رخ کر کے دس مرتبہ قسم کھائی ، پھر فرمایا کہ جہاد تم پر واجب ہے۔ اس کے بعد فرمایا کہ اگر تم چاہو تو میں اس سے زیادہ بھی قسم کھا سکتا ہوں۔

19906

(۱۹۹۰۷) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِی بَکْرٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، قَالَ لِی دَاوُد : قلْت لِسَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ : قَدْ أَعْلَمُ أَنَّ الْغَزْوَ لَوَاجِبٌ عَلَی النَّاسِ أَجْمَعِینَ ، قَالَ : فَسَکَتَ ، قَالَ : فَقَالَ : قَدْ عَلِمْت لَوْ أَنْکَرَ مَا قُلْتُ لَبَیَّنَ لِی ، فَقُلْت لِسَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ : تَجَہَّزْت ؟ لاَ یَنْہَزُنِی إِلاَّ ذَلِکَ حَتَّی رَابَطْت ، قَالَ : قَدْ أَجْزَأَتْ عَنْکَ۔
(١٩٩٠٧) حضرت داؤد (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت سعید بن مسیب (رض) سے کہا کہ میں جانتا ہوں کہ جہاد تمام لوگوں پر واجب ہے۔ یہ سن کر وہ خاموش رہے۔ میں جانتا تھا کہ اگر انھیں میری بات سے اختلاف ہوگا تو وہ اسے ضرور ظاہرکریں گے۔ میں نے پھر حضرت سعید بن مسیب (رض) سے کہا کہ میں نے جہاد کے لیے تیاری کرلی ہے اور میں جہاد کے لیے روانہ ہونے لگا ہوں، انھوں نے فرمایا کہ میں تمہاری ذمہ اریاں انجام دوں گا۔

19907

(۱۹۹۰۸) حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُبَارَکِ ، قَالَ : قُلْتُ لِعَطَائٍ : الْغَزْوُ وَاجِبٌ ؟ فَقَالَ : ہُوَ وَعَمْرُو بْنُ دِینَارٍ : مَا عَلِمْنَا۔
(١٩٩٠٨) حضرت عبداللہ بن مبارک (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عطاء سے پوچھا کہ کیا جہاد واجب ہے۔ انھوں نے اور حضرت عمرو بن دینار نے فرمایا کہ ہم نہیں جانتے۔

19908

(۱۹۹۰۹) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ عُمَارَۃَ بْنِ الْقَعْقَاعِ ، عَنْ أَبِی زُرْعَۃَ ، قَالَ : قَالَ عُمَرُ : عُرَی الإِیمَانِ أَرْبَعَۃٌ : الصَّلاَۃُ وَالزَّکَاۃُ وَالْجِہَادُ وَالأَمَانَۃُ۔
(١٩٩٠٩) حضرت عمر (رض) فرماتے ہیں کہ ایمان کی بنیاد چار چیزیں ہیں۔ 1 ۔ نماز 2 ۔ زکوۃ 3 ۔ جہاد 4 ۔ امانت۔

19909

(۱۹۹۱۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ صِلَۃَ ، قَالَ حُذَیْفَۃُ : الإِسْلاَمُ ثَمَانیَۃُ أَسْہُمٍ : الصَّلاَۃُ سَہْمٌ ، وَالزَّکَاۃُ سَہْمٌ ، وَالْجِہَادُ سَہْمٌ ، وَالْحَجُّ سَہْمٌ ، وَصَوْمُ رَمَضَانَ سَہْمٌ ، وَالأَمْرُ بِالْمَعْرُوفِ سَہْمٌ ، وَالنَّہْیُ عَنِ الْمُنْکَرِ سَہْمٌ ، وَقَدْ خَابَ مَنْ لاَ سَہْمَ لَہُ۔ (بزار ۲۹۲۸۔ دارقطنی ۶۲۸)
(١٩٩١٠) حضرت حذیفہ (رض) فرماتے ہیں کہ اسلام کے آٹھ حصے ہیں، نماز ایک حصہ ہے، زکوۃ ایک حصہ ہے، جہاد ایک حصہ ہے، حج ایک حصہ ہے، رمضان کا روزہ ایک حصہ ہے، اچھے کام کا حکم دینا ایک حصہ ہے، برے کام سے روکنا ایک حصہ ہے۔ وہ شخص نامراد ہے جس کے پاس کوئی نہیں حصہ ہے۔

19910

(۱۹۹۱۱) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَبْدِ الْکَرِیمِ ، عَنْ عَائِشَۃَ ، قَالَتْ : إذَا أَحَسَّ أَحَدُکُمْ مِنْ نَفْسِہِ جُبْنًا فَلاَ یَغْزُوَنَّ۔
(١٩٩١١) حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ اگر تم میں سے کسی کو بزدلی لاحق ہو تو وہ ہرگز جہاد نہ کرے۔

19911

(۱۹۹۱۲) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِی الْجَعْدِ ، عَنْ عَطِیَّۃَ مَوْلَی بَنِی عَامِرٍ ، عَنْ یَزِیدَ بْنِ بِشْرٍ السَّکْسَکِیِّ ، قَالَ : قدِمْت الْمَدِینَۃَ فَدَخَلْت عَلَی عَبْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ فَأَتَاہُ رَجُلٌ مِنْ أَہْلِ الْعِرَاقِ ، فَقَالَ : یَا عَبْدَ اللہِ بْنَ عُمَرَ ، مَالَک تَحُجُّ وَتَعْتَمِرُ وَقَدْ تَرَکْت الْغَزْوَ فِی سَبِیلِ اللہِ ؟ قَالَ : وَیْلک إنَّ الإِیمَانَ بُنِیَ عَلَی خَمْسٍ : تَعْبُدُ اللَّہَ ، وَتُقِیمُ الصَّلاَۃَ ، وَتُؤْتِی الزَّکَاۃَ ، وَتَحُجُّ ، وَتَصُومُ رَمَضَانَ ، قَالَ : فَرَدَّہَا عَلَیَّ ۔ فَقَالَ : یَا عَبْدَ اللہِ تَعْبُدُ اللَّہَ ، وَتُقِیمُ الصَّلاَۃَ ، وَتُؤْتِی الزَّکَاۃَ ، وَتَحُجُّ ، وَتَصُومُ رَمَضَانَ ، کَذَلِکَ قَالَ لَنَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، ثُمَّ الْجِہَادُ حَسَنٌ۔ (بخاری۸۔ مسلم ۲۲)
(١٩٩١٢) حضرت یزید بن بشر سکسکی (رض) فرماتے ہیں کہ میں مدینہ آیا تو حضرت عبداللہ بن عمر (رض) کی خدمت میں حاضر ہوا، اس وقت ان کے پاس ایک عراقی شخص آیا اور اس نے کہا کہ اے عبداللہ بن عمر ! کیا بات ہے آپ حج اور عمرہ تو کرتے ہیں لیکن آپ نے اللہ کے راستے میں جہاد کرنا چھوڑ دیا ہے، حضرت ابن عمر (رض) نے فرمایا تیرا ناس ہو ! ایمان کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے۔ یہ کہ تو اللہ کی عبادت کرے، نماز قائم کرے، زکوۃ ادا کرے، حج کرے اور رمضان کے روزے رکھے۔ اس آدمی نے کہا کہ یہ باتیں مجھے دوبارہ بتائیں ؟ حضرت عبداللہ (رض) نے فرمایا کہ اے اللہ کے بندے ! تو اللہ کی عبادت کر، نماز قائم کر، زکوۃ ادا کر، حج کر اور رمضان کے روزے رکھ۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہم سے یونہی فرمایا ہے، ان کے بعد پھر جہاد اچھا عمل ہے۔

19912

(۱۹۹۱۳) حَدَّثَنَا مُعَاذٌ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، عَنْ نَافِعٍ ، قَالَ : کَانَ ابْنُ عُمَرَ یَغْزُو بِنَفْسِہِ وَیَحْمِلُ عَلَی الظَّہْرِ وَیَرَی أَنَّ الْجِہَادَ فِی سَبِیلِ اللہِ أَفْضَلُ الأَعْمَالِ بَعْدَ الصَّلاَۃِ۔
(١٩٩١٣) حضرت نافع فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عمر (رض) اپنے بیٹوں کو جہاد کے لیے بھیجتے تھے اور انھیں سواری پر سوار کرتے تھے۔ حضرت ابن عمر (رض) کی رائے تھی کہ نماز کے بعد افضل عمل اللہ کے راستے میں جہاد کرنا ہے۔

19913

(۱۹۹۱۴) حَدَّثَنَا ابْنُ مُبَارَکٍ، عَنْ أُمَیَّۃَ الشَّامِیِّ، قَالَ: کَانَ مَکْحُولٌ وَرَجَائُ بْنُ حَیْوَۃَ یَخْتَارَانِ السَّاقَۃَ لاَ یُفَارِقَانِہَا۔
(١٩٩١٤) حضرت امیہ شامی فرماتے ہیں کہ حضرت مکحول اور حضرت رجاء بن حیوہ لشکر کے پچھلے حصے میں رہتے تھے اور اس سے جدا نہیں ہوتے تھے۔

33195

حدثنا أبو عبد الرحمن قَالَ حدثنا أبو بکر بن أبی شیبۃ قال: (۳۳۱۹۶) حَدَّثَنَا وَکِیعُ بْنُ الْجَرَّاحِ ، قَالَ : حدَّثَنَا الأَعْمَشُ ، عَنْ أَبِی صَالِحٍ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَنْ أَطَاعَنِی فَقَدْ أَطَاعَ اللَّہَ وَمَنْ أَطَاعَ الإِمَامَ فَقَدْ أَطَاعَنِی ، وَمَنْ عَصَانِی فَقَدْ عَصَی اللَّہَ وَمَنْ عَصَی الإِمَامَ فَقَدْ عَصَانِی۔ (ابن ماجہ ۲۸۵۹۔ احمد ۲۵۲)
(٣٣١٩٦) حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جس نے میری اطاعت کی تحقیق اس نے اللہ کی اطاعت کی۔ اور جس نے امیر کی اطاعت کی تحقیق اس نے میری اطاعت کی ، اور جس نے میری نافرمانی کی تحقیق اس نے اللہ کی نافرمانی کی۔ اور جس نے امیر کی نافرمانی کی تحقیق اس نے میری نافرمانی کی۔

33196

(۳۳۱۹۷) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ أَبِی الزِّنَادِ ، عَنِ الأَعْرَجِ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَنْ أَطَاعَنِی فَقَدْ أَطَاعَ اللَّہَ ، وَمَنْ أَطَاعَ أَمِیرِی فَقَدْ أَطَاعَنِی۔ (بخاری ۲۹۵۷۔مسلم ۳۲)
(٣٣١٩٧) حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جس نے میری اطاعت کی تحقیق اس نے اللہ کی اطاعت کی ۔ اور جس نے میرے امیر کی اطاعت کی تحقیق اس نے میری اطاعت کی۔

33197

(۳۳۱۹۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا الأَعْمَشُ ، عَنْ أَبِی صَالِحٍ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : {أَطِیعُوا اللَّہَ وَأَطِیعُوا الرَّسُولَ وَأُولِی الأَمْرِ مِنْکُمْ} قَالَ : الأُمَرَائُ۔
(٣٣١٩٨) حضرت ابو صالح (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت ابوہریرہ (رض) نے اس آیت کی تفسیر یوں بیان فرمائی : آیت :
ترجمہ : اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول کی ، اور صاحبان اقتدار و اختیار کی۔ فرمایا : اس سے مراد امراء ہیں۔

33198

(۳۳۱۹۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ بْنُ أَبِی خَالِدٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ مُصْعَبَ بْنَ سَعْدٍ یَقُولُ : قَالَ عَلِیُّ بْنُ أَبِی طَالِبٍ : کَلِمَاتٌ أَصَابَ فِیہِنَّ : حَقٌّ عَلَی الإِمَامِ أَنْ یَحْکُمَ بِمَا أَنْزَلَ اللَّہُ وَأَنْ یُؤَدِّیَ الأَمَانَۃَ ، فَإِذَا فَعَلَ ذَلِکَ کَانَ حَقًّا عَلَی الْمُسْلِمِینَ أَنْ یَسْمَعُوا وَیُطِیعُوا وَیُجِیبُوا إذَا دُعُوا۔
(٣٣١٩٩) حضرت مصعب بن سعد (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت علی (رض) بن ابی طالب نے چند کلمات ارشاد فرمائے اور بالکل درست فرمایا : وہ یہ کہ امام پر لازم ہے کہ وہ اللہ کے نازل کردہ قرآن کے مطابق فیصلہ کرے۔ اور امانت کو ادا کرے ۔ اور اس نے ایسا کردیا تو پھر مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ اس کی بات سنیں اور اطاعت کریں ۔ اور جب ان کو پکارا جائے تو وہ پکار کا جواب دیں۔

33199

(۳۳۲۰۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ صَالِحٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِیلٍ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ : {وَأُولِی الأَمْرِ مِنْکُمْ} قَالَ : أُولُوا الْفِقْہِ أُولُو الْخَیْرِ۔
(٣٣٢٠٠) حضرت عبداللہ بن محمد بن عقیل (رض) فرماتے ہیں کہ آیت میں : { وَأُولِی الأَمْرِ مِنْکُمْ } سے مراد فقہاء اور اصحاب خیر مراد ہیں۔

33200

(۳۳۲۰۱) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنِ ابْنِ أَبِی نَجِیحٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ فِی قَوْلِہِ : {أَطِیعُوا اللَّہَ وَأَطِیعُوا الرَّسُولَ وَأُولِی الأَمْرِ مِنْکُمْ} قَالَ : کَانَ مُجَاہِدٌ یَقُولُ : أَصْحَابُ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَرُبَّمَا قَالَ : أُولُو الْعَقْلِ وَالْفِقْہِ فِی دِینِ اللہِ۔
(٣٣٢٠١) حضرت ابن ابی نجیح (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت مجاہد (رض) نے اس آیت کی تفسیر یوں بیان فرمائی : آیت { أَطِیعُوا اللَّہَ وَأَطِیعُوا الرَّسُولَ وَأُولِی الأَمْرِ مِنْکُمْ } حضرت مجاہد (رض) فرماتے تھے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ (رض) اکثر فرماتے تھے کہ ار باب عقل و دانش اور اللہ کے دین میں سمجھ بوجھ رکھنے والے لوگ مراد ہیں۔

33201

(۳۳۲۰۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا أَبُو جَعْفَرٍ ، عَنِ الرَّبِیعِ بْنِ أَنَسٍ ، عَنْ أَبِی الْعَالِیَۃِ ، قَالَ : الْعُلَمَائُ۔
(٣٣٢٠٢) حضرت الربیع بن انس (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت ابو العالیہ (رض) نے ارشاد فرمایا : اولوا الامر سے مراد علماء کرام ہیں۔

33202

(۳۳۲۰۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، وَأَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ زَیْدِ بْنِ وَہْبٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ رَبِّ الْکَعْبَۃِ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَنْ بَایَعَ إمَامًا فَأَعْطَاہُ صَفْقَۃَ یَدِہِ وَثَمَرَۃَ قَلْبِہِ فَلْیُطِعْہُ مَا اسْتَطَاعَ۔ (مسلم ۱۴۷۳۔ احمد۱۶۱)
(٣٣٢٠٣) حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جس شخص نے امام سے بیعت کی تو اس نے اپنے ہاتھ کا قبضہ اور دل کی محبت اس کو عطا کردی۔ پس اس کو چاہیے کہ وہ اپنی طاقت کے بقدر اس کی اطاعت کرے۔

33203

(۳۳۲۰۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا شُعْبَۃُ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ الْحُصَیْنِ ، عَنْ جَدَّتِہِ أُمِّ الْحُصَیْنِ ، قَالَتْ : سَمِعْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَہُوَ یَخْطُبُ بِعَرَفَۃَ وَہُوَ یَقُولُ : إِنْ أُمِّرَ عَلَیْکُمْ عَبْدٌ حَبَشِیٌّ فَاسْمَعُوا لَہُ وَأَطِیعُوا مَا قَادَکُمْ بِکِتَابِ اللہِ۔ (مسلم ۱۴۶۸۔ احمد ۷۰)
(٣٣٢٠٤) حضرت ام حصین (رض) فرماتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے میدان عرفات میں خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا : اگر تم پر کسی حبشی غلام کو بھی امیر بنادیا جائے تو اس کی بات سنو اور اس کی اطاعت کروجب تک وہ کتاب اللہ شریف کی روشنی میں تمہاری قیادت کرے۔

33204

(۳۳۲۰۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا یُونُسُ بْنُ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنِ الْعَیْزَارِ بْنِ حُرَیْثٍ الْعَبْدِیِّ ، عَنْ أُمِّ الْحُصَیْنِ الأَحْمَسِیَّۃِ ، قَالَتْ : سَمِعْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَہُوَ یَخْطُبُ بِعَرَفَۃَ وَعَلَیہ بُرْدٍ مُتَلَفِّعًا بِہِ وَہُوَ یَقُولُ : إِنْ أُمِّرَ عَلَیْکُمْ عَبْدٌ حَبَشِیٌّ مُجَدَّعٌ فَاسْمَعُوا لَہُ وَأَطِیعُوا مَا قَادَکُمْ بِکِتَابِ اللہِ۔ (احمد ۴۰۳)
(٣٣٢٠٥) حضرت ام حصین احمیہ (رض) فرماتی ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے میدان عرفات میں خطبہ دیا اس حال میں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے چادر کو لپیٹا ہوا تھا اور ارشاد فرمایا : اگر تم پر ناک کٹے حبشی غلام کو بھی امیر بنادیا جائے تو اس کی بات کو سنو اور اس کی اطاعت کرو جب تک کہ وہ قرآن مجید کی روشنی میں تمہاری قیادت کرے۔

33205

(۳۳۲۰۶) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِی صَالِحٍ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ {أَطِیعُوا اللَّہَ وَأَطِیعُوا الرَّسُولَ وَأُولِی الأَمْرِ مِنْکُمْ} ، قَالَ : أُمَرَائُ السَّرَایَا۔
(٣٣٢٠٦) حضرت ابو صالح (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت ابوہریرہ (رض) نے اس آیت کی تفسیر یوں بیان فرمائی : آیت { أَطِیعُوا اللَّہَ وَأَطِیعُوا الرَّسُولَ وَأُولِی الأَمْرِ مِنْکُمْ } کہ اس سے لشکروں کے امیر مراد ہیں۔

33206

(۳۳۲۰۷) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ أَنَّ الْحَارِثَ بْنَ یَزِیدَ الْحَضْرَمِیَّ أَخْبَرَہُ أَنَّ أَبَا ذَرٍّ سَأَلَ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الإِمَارَۃَ ، وَأَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : إنَّک ضَعِیفٌ وَإِنَّہَا أَمَانَۃٌ ، وَإِنَّہَا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ خِزْیٌ وَنَدَامَۃٌ ، إِلاَّ مَنْ أَخَذَہَا بِحَقِّہَا وَأَدَّی الَّذِی عَلَیْہِ فِیہَا۔ (مسلم ۱۴۵۷۔ طیالسی ۴۸۵)
(٣٣٢٠٧) حضرت حارث بن یزید الخضرمی (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت ابو ذر (رض) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے منصب حکومت کا سوال کیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : یقیناً تو کمزور ہے۔ اور بیشک یہ بہت بڑی امانت ہے۔ اور بیشک یہ قیامت کے دن ذلت اور شرمندگی کا سبب ہوگی۔ سوائے اس شخص کے لیے جس نے اس کو حق کے ساتھ پکڑا اور اس بارے میں جو اس پر لازم تھا وہ حق ادا کیا۔

33207

(۳۳۲۰۸) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، قَالَ : حدَّثَنَا بُرَیْدُ بْنُ عَبْدِ اللہِ ، عَنْ أَبِی بُرْدَۃَ ، عَنْ أَبِی مُوسَی ، قَالَ : دَخَلْتُ عَلَی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَا وَرَجُلاَنِ مِنْ بَنِی عَمِّی ، فَقَالَ أَحَدُ الرَّجُلَیْنِ : یَا رَسُولَ اللہِ ، أَمِّرْنَا عَلَی بَعْضِ مَا وَلاَک اللَّہُ ، وَقَالَ الآخَرُ مِثْلَ ذَلِکَ ، قَالَ : فَقَالَ : إنَّا وَاللہِ لاَ نُوَلِّی ہَذَا الْعَمَلَ أَحَدًا سَأَلَہُ وَلاَ أَحَدًا حَرَصَ عَلَیْہِ۔ (بخاری ۷۱۴۹۔ ابوداؤد ۲۹۲۳)
(٣٣٢٠٨) حضرت ابو موسیٰ (رض) فرماتے ہیں کہ میں اور میرے دو چچا زاد بھائی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے ، ان دونوں آدمیوں میں سے ایک نے کہا : اے اللہ کے رسول 5! اللہ نے جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سلطنت عطا فرمائی ہے اس میں سے کسی حصہ پر ہمیں بھی امیر بنادیں۔ اور دوسرے شخص نے بھی یہی بات کہی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : یقیناً اللہ کی قسم ! ہم یہ عہدہ اس شخص کو سپرد نہیں کرتے جو اس کا سوال کرے اور نہ اس شخص کو جو اس پر لالچی ہو۔

33208

(۳۳۲۰۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا ابْنُ أَبِی ذِئْبٍ ، عَنْ سَعِیدٍ الْمَقْبُرِیِّ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إنَّکُمْ سَتَحْرِصُونَ عَلَی الإِمَارَۃِ ، وَسَتَصِیرُ حَسْرَۃً وَنَدَامَۃً ، فَنِعْمَت الْمُرْضِعَۃُ وَبِئْسَتِ الْفَاطِمَۃُ۔ (بخاری ۷۱۲۸۔ احمد ۴۴۸)
(٣٣٢٠٩) حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : عنقریب تم لوگ امارت پر حرص کرنے لگو گے۔

33209

(۳۳۲۱۰) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ الْعَبْدِیُّ ، قَالَ : حدَّثَنَا مِسْعَرٌ ، قَالَ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ زَیْدِ بْنِ جُدْعَانَ ، قَالَ : حَدَّثَنَا الْحَسَنُ ، قَالَ : حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَن بْنُ سَمُرَۃَ ، قَالَ : قَالَ لِی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لاَ تَسْأَلَ الإِمَارَۃَ فَإِنَّک إِنْ أُوتِیتَہَا عَنْ مَسْأَلَۃٍ وُکِلْتَ إلَیْہَا ، وَإِنْ أُوتِیتَہَا عَنْ غَیْرِ مَسْأَلَۃٍ أُعِنْتَ عَلَیْہَا۔ (بخاری ۶۶۲۲۔ ابوداؤد ۲۹۲۲)
(٣٣٢١٠) حضرت عبد الرحمن بن سمرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھ سے ارشاد فرمایا : تم کبھی بھی منصب حکومت کا سوال مت کرنا۔ بیشک اگر تمہیں یہ مانگنے سے دی گئی تو تمہیں اس کی طرف سپرد کردیا جائے گا۔ اور اگر تمہیں بغیر مانگے دے دی گئی تو پھر اس پر تمہاری مدد کی جائے گی۔

33210

(۳۳۲۱۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْکَدِرِ ، قَالَ : قَالَ الْعَبَّاسُ یَا رَسُولَ اللہِ ، أَلاَ تَسْتَعْمِلُنِی ، فَقَالَ : یَا عَبَّاسُ یَا عَمَّ رَسُولِ اللہِ نَفْسٌ تُنَجِّیہَا خَیْرٌ مِنْ إمَارَۃٍ لاَ تُحْصِیہَا۔ (ابن سعد ۲۷۔ بیہقی ۹۶)
(٣٣٢١١) حضرت محمد بن منکدر (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عباس (رض) نے فرمایا : اے اللہ کے رسول 5! آپ مجھے امیر کیوں نہیں بناتے ؟ اس پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے عباس ! اے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چچا ! جس نفس کو امارت سے نجات دی جائے وہ امارت سے بہت بہتر ہے آپ (رض) اس کی طاقت نہیں رکھتے۔

33211

(۳۳۲۱۲) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ مُجَالِدٍ ، عَنْ عامر ، عن مَسْرُوقٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مَسْعُودٍ ، قَالَ: مَا مِنْ حَکَمٍ یَحْکُمُ بَیْنَ النَّاسِ إِلاَّ حُشِرَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَمَلَکٌ آخِذٌ بِقَفَاہُ حَتَّی یَقِفَ بِہِ عَلَی جَہَنَّمَ ، ثُمَّ یَرْفَعُ رَأْسَہُ إلَی الرَّحْمَان ، فَإِنْ قَالَ لَہُ : اطْرَحْہُ ، طَرَحَہُ فِی مَہْوَی أَرْبَعِینَ خَرِیفًا ، قَالَ : وَقَالَ مَسْرُوقٌ : لأَنْ أَقْضِیَ یَوْمًا وَاحِدًا بِعَدْلٍ وَحَقٍّ أَحَبُّ إلَیَّ مِنْ سَنَۃٍ أَغْزُوہَا فِی سَبِیلِ اللہِ۔
(٣٣٢١٢) حضرت مسروق (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) نے ارشاد فرمایا : کوئی فیصلہ کرنے والا لوگوں کے درمیان فیصلہ نہیں کرتا مگر یہ کہ قیامت کے دن اس کا ایسا حشر کیا جائے گا کہ ایک فرشتہ اس کو گردن سے پکڑے گا یہاں تک کہ اس کو جہنم کے کنارے لا کر کھڑا کر دے گا۔ پھر اپنا سر رحمن کی طرف اٹھائے گا۔ اگر رحمن اس کو کہہ دے اس کو جہنم میں ڈال دو ۔ تو وہ اس کو چالیس سال کی مسافت کے برابر جہنم کی گہرائی میں ڈال دے گا۔ راوی کہتے ہیں کہ حضرت مسروق (رض) نے ارشاد فرمایا : میرے نزدیک ایک دن عدل و انصاف کے ساتھ فیصلہ کرنا اس بات سے زیادہ پسندیدہ ہے کہ میں اللہ کے راستہ میں ایک سال جہاد کروں۔

33212

(۳۳۲۱۳) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا فُضَیْلُ بْنُ غَزْوَانَ ، عَنْ مُحَمَّدٍ الرَّاسِبِیِّ ، عَنْ بِشْرِ بْنِ عَاصِمٍ ، قَالَ : کَتَبَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ عَہْدَہُ ، فَقَالَ : لاَ حَاجَۃَ لِی فِیہِ ، إنِّی سَمِعْت رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : إنَّ الْوُلاَۃَ یُجَائُ بِہِمْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ فَیَقِفُونَ عَلَی شَفِیرِ جَہَنَّمَ ، فَمَنْ کَانَ مِطْوَاعًا لِلَّہِ تَنَاوَلَہُ اللَّہُ بِیَمِینِہِ حَتَّی یُنَجِّیَہُ ، وَمَنْ عَصَی اللَّہَ انْخَرَقَ بِہِ الْجِسْرُ إلَی وَادٍ مِنْ نَارٍ یَلْتَہِبُ الْتِہَابًا قَالَ : فَأَرْسَلَ عُمَرُ إلَی أَبِی ذَرٍّ وَإِلَی سَلْمَانَ ، فَقَالَ لأَبِی ذَرٍّ : أَنْتَ سَمِعْت ہَذَا الْحَدِیثَ مِنْ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ؟ قَالَ : نَعَمْ وَاللہِ ، وَبَعْدَ الْوَادِی وَادٍ آخَرُ مِنْ نَارٍ ، قَالَ : وَسَأَلَ سَلْمَانَ فَکَرِہَ أَنْ یُخْبِرَ بِشَیْئٍ ، فَقَالَ عُمَرُ : مَنْ یَأْخُذُہَا بِمَا فِیہَا ، فَقَالَ أَبُو ذَرٍّ : مَنْ سَلَتَ اللَّہُ أَنْفَہُ وَعَیْنَیْہِ ، وَأَضْرَعَ خَدَّہُ إلَی الأَرْضِ۔ (مسند ۵۸۷)
(٣٣٢١٣) حضرت بشر بن عاصم (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) نے ان کی طرف ایک عہدہ سپرد کرنا چاہا۔ تو انھوں نے فرمایا : مجھے اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ بیشک میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یوں فرماتے ہوئے سنا کہ عہدیداران سلطنت کو قیامت کے دن لایا جائے گا اور ان کو جہنم کے کنارے پر کھڑا کردیا جائے گا۔ پس ان میں سے جو اللہ کا فرمان بردار ہوگا تو اللہ اس کو اپنے داہنے ہاتھ سے پکڑ لیں گے یہاں تک کہ اس کہ جہنم سے نجات دیں گے ، اور جس نے اللہ کی نافرمانی کی ہوگی تو جہنم کا پُل اس کو وادی میں پھینکے گا جہاں آگ اس کو لپیٹ لے گی۔ راوی کہتے ہیں حضرت عمر (رض) نے حضرت ابو ذر (رض) اور حضرت سلمان (رض) کی طرف قاصد بھیجا۔ اور حضرت ابو ذر (رض) سے پوچھا : کیا آپ (رض) نے یہ حدیث رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنی ہے ؟ انھوں نے فرمایا : جی ہاں۔ اللہ کی قسم ! اور فرمایا : اس وادی کے بعد جہنم کی ایک اور وادی ہوگی۔ اور حضرت سلمان (رض) سے پوچھا : تو انھوں نے اس بارے میں کچھ بھی بتانا ناپسند کیا۔ اس پر حضرت عمر (رض) نے فرمایا : جب اس بارے میں ایسی بات ہے تو اس کو کون شخص لے گا ؟ تو حضرت ابوذر (رض) نے فرمایا : جس شخص کے اللہ ناک اور آنکھ کاٹے اور جس کو ذلیل کرنا چاہے۔

33213

(۳۳۲۱۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ ، عَنْ مَالِکِ بْنِ الْحَارِثِ ، عَنْ خَیْثَمَۃ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : الإِمَارَۃُ بَابُ ، عَتٍ إِلاَّ مَنْ رَحِمَ اللَّہُ۔ (طبرانی ۳۶۰۳)
(٣٣٢١٤) حضرت خیثمہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : امارت مشقت کا دروازہ ہے مگر جس پر اللہ رحم فرما دیں۔

33214

(۳۳۲۱۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا ہِشَامُ بْنُ عُرْوَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : قَالَ عُمَرُ : مَا حَرَصَ رَجُلٌ کُلَّ الْحِرْصِ عَلَی الإِمَارَۃِ فَعَدَلَ فِیہَا۔
(٣٣٢١٥) حضرت عروہ بن زبیر (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے ارشاد فرمایا : کسی آدمی نے امارت پر بالکل بھی حرص نہیں کی تو اس نے اس معاملہ میں انصاف کیا۔

33215

(۳۳۲۱۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ ہَارُونَ الْحَضْرَمِیِّ ، عَنْ أَبِی بَکْرِ بْنِ حَفْصٍ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ اسْتَعْمَلَ رَجُلاً ، فَقَالَ : یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ ، أَشر عَلَیَّ ، قَالَ : اجْلِسْ وَاکْتُمْ عَلَیَّ۔
(٣٣٢١٦) حضرت ابوبکر بن حفص (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) نے ایک آدمی کو حاکم بنایا، تو وہ کہنے لگا : اے امیر المؤمنین ! مجھے مشورہ دیجئے ۔ آپ (رض) نے فرمایا : بیٹھ جاؤ۔ اور مجھ پر یہ بات چھپاؤ۔

33216

(۳۳۲۱۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا أَبُو الأَشْہَبِ جَعْفَرُ بْنُ حَیَّانٍ ، عَنِ الأَعْمَشِ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اسْتَعْمَلَ رَجُلاً ، فَقَالَ : یَا رَسُولَ اللہِ ، خِرْ لِی ، قَالَ : اجْلِسْ۔ (طبرانی ۴۹۳)
(٣٣٢١٧) حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک آدمی کو امیر بنایا تو وہ کہنے لگا : اے اللہ کے رسول 5! مجھے کوئی بھلائی والا مشورہ دیجئے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : بیٹھ جاؤ۔

33217

(۳۳۲۱۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حَدَّثَنَا مَالِکُ بْنُ مِغْوَلٍ ، عَنْ طَلْحَۃَ بْنِ مُصَرِّفٍ الْیَامِیِّ ، قَالَ : قَالَ خَالِدُ بْنُ الْوَلِیدِ : لاَ تَرْزَأَنَّ مُعَاہِدًا إبرۃ ، وَلاَ تَمْشِ ثَلاَثَ خُطًی تَتَأَمَّرُ عَلَی رَجُلَیْنِ ، وَلاَ تَبْغِ لإِمَامِ الْمُسْلِمِینَ غَائِلَۃً۔
(٣٣٢١٨) حضرت طلحہ بن مصرف الیامی (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت خالد بن ولید (رض) نے ارشاد فرمایا : تم کبھی بھی کیے ہوئے معاہدے میں سے ایک سوئی بھی کم مت کرو۔ اور تم تین قدم بھی نہ چلو کہ تم دو آدمیوں پر امیر ہو، اور مسلمانوں کے امیر کو دھوکا مت دو ۔

33218

(۳۳۲۱۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ بُرْقَانَ ، عَنْ حَبِیبِ بْنِ أَبِی مَرْزوق ، عَنْ مَیْمُونٍ ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ عَبْدِ الْقَیْسِ ، قَالَ : رَأَیْتُ سَلْمَانَ عَلَی حِمَارٍ فِی سَرِیَّۃٍ ہُوَ أَمِیرُہَا وَخَدَمَتَاہُ تُذَبْذِبَانِ وَالْجُنْدُ یَقُولُونَ : جَائَ الأَمِیرُ جَائَ الأَمِیرُ ، قَالَ : فَقَالَ سَلْمَانُ : إنَّمَا الْخَیْرُ وَالشَّرُّ فِیمَا بَعْدَ الْیَوْمِ ، فَإِنَ اسْتَطَعْت أَنْ تَأْکُلَ مِنَ التُّرَابِ ، وَلاَ تُؤَمَّرَ عَلَی رَجُلَیْنِ فَافْعَلْ ، وَاتَّقِ دَعْوَۃَ الْمَظْلُومِ فَإِنَّہَا لاَ تُحْجَبُ۔
(٣٣٢١٩) ایک آدمی جن کا تعلق قبیلہ عبد القیس سے ہے فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت سلمان (رض) کو گدھے پر دیکھا ایک لشکر میں جس کے وہ امیر تھے ۔ اور ان کی دونوں پنڈلیاں کانپ رہی تھیں اور لشکر والے کہہ رہے تھے۔ امیرآ گئے ! امیر آگئے ! اس پر حضرت سلمان (رض) نے فرمایا : بیشک اس بارے میں برائی اور بھلائی کا فیصلہ تو آج کے دن کے بعد ہوگا۔ اور فرمایا : اگر تم طاقت رکھتے ہو کہ مٹی کھالو اور دو آدمیوں پر امیر نہ بنو تو ایسا کرلو۔ اور مظلوم کی بد دعا سے بچو کیونکہ اس کے لیے کوئی چیز رکاوٹ نہیں ہوتی۔

33219

(۳۳۲۲۰) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ یَزِیدَ بْنِ أَبِی زِیَادٍ ، عَنْ عِیسَی بْنِ فَائِدٍ ، قَالَ : حدَّثَنِی فُلاَنٌ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَادَۃَ ، قَالَ : حَدَّثَنَا عَنْ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : مَا مِنْ أَمِیرِ عَشَرَۃٍ إِلاَّ یُؤْتَی بِہِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ مَغْلُولاً لاَ یَفُکُّہُ مِنْ غُلِّہِ ذَلِکَ إِلاَّ الْعَدْلُ۔ (احمد ۲۸۴۔ طبرانی ۵۳۸۸)
(٣٣٢٢٠) حضرت سعد بن عبادہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : نہیں ہے کوئی دس لوگوں کا امیر مگر یہ کہ قیامت کے دن اس شخص کو لایا جائے گا اس حال میں کہ اس کے گلے میں طوق ہوگا۔ اس کو نجات نہیں مل سکتی اس طوق سے سوائے عدل کرنے کی صورت میں۔

33220

(۳۳۲۲۱) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَجْلاَنَ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَا مِنْ أَمِیرِ ثَلاَثَۃٍ إِلاَّ یُؤْتَی بِہِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ مَغْلُولَۃٌ یَدَاہُ إلَی عُنُقِہِ أَطْلَقَہُ الْحَقُّ ، أَوْ أَوْثَقَہُ۔ (احمد ۴۳۱۔ دارمی ۲۵۱۵)
(٣٣٢٢١) حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : نہیں ہے کوئی تین آدمیوں کا امیر مگر یہ کہ اس کو قیامت کے دن لایا جائے گا اس حال میں کہ اس کے ہاتھ اس کی گردن سے بندھے ہوئے ہوں گے۔ انصاف کرنا اس سے آزاد کرا دے گا۔ یا انصاف نہ کرنا اس کو مضبوط باندھے گا۔

33221

(۳۳۲۲۲) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا ابْنُ أَبِی خَالِدٍ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ الأَوْدِیِّ ، قَالَ أَخْبَرَتْنِی بِنْتُ مَعْقِلِ بْنِ یَسَارٍ أَنَّ أَبَاہَا ، قَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : لَیْسَ مِنْ وَالٍ یَلِی أُمَّۃً قَلَّتْ ، أَوْ کَثُرَتْ لاَ یَعْدِلُ فِیہَا إِلاَّ کَبَّہُ اللَّہُ عَلَی وَجْہِہِ فِی النَّارِ۔ (بخاری ۱۰۷۲۔ احمد ۲۵)
(٣٣٢٢٢) حضرت معقل بن یسار (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : نہیں ہے کسی بھی رعایا کا حاکم چاہے رعایا تھوڑی ہو یا زیادہ اور وہ ان میں عدل و انصاف نہ کرتا ہو مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ اس کو اوندھے منہ جہنم میں ڈال دیتے ہیں۔

33222

(۳۳۲۲۳) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ یَسَارٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : مَا مِنْ أَمِیرِ عَشْرَۃٍ إِلاَّ یُؤْتَی بِہِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ أَطْلَقَہُ الْحَقُّ ، أَوْ أَوْثَقَہُ۔
(٣٣٢٢٣) حضرت ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت ابوہریرہ (رض) نے ارشاد فرمایا : نہیں ہے کوئی بھی تین آدمیوں کا امیر مگر یہ کہ اس کو قیامت کے دن لایا جائے گا۔ انصاف کرنا اس کو آزاد کرا دے گا یا انصاف نہ کرنا اس کو باندھ دے گا۔

33223

(۳۳۲۲۴) حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ حَازِمٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا عُثْمَان بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الأَخْنَسِ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ سَعْدٍ ، قَالَ : قَالَ سَعْدٌ : کفیتم إنَّ الإِمْرَۃَ لاَ تَزِیدُ الإِنْسَاْن فِی دِینِہِ خَیْرًا۔
(٣٣٢٢٤) حضرت اسماعیل بن محمد بن سعد (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت سعد (رض) نے ارشاد فرمایا : تمہیں یہ بات کافی ہے کہ منصب حکومت انسان کے دین میں کسی بھلائی کا اضافہ نہیں کرتی۔

33224

(۳۳۲۲۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سَعْدَانُ الْجُہَنِیُّ ، عَنْ سَعْدٍ أَبِی مُجَاہِدٍ الطَّائِیِّ ، عَنْ أَبِی مُدِلَّۃَ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : الإِمَامُ الْعَادِلُ لاَ تُرَدُّ دَعْوَتُہُ۔
(٣٣٢٢٥) حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : منصف حکمران کی دعا رد نہیں کی جاتی۔

33225

(۳۳۲۲۶) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، عَنْ قَیْسِ بْنِ عُبَادٍ قَالَ : لَعَمَلُ إمَامٍ عَادِلٍ یَوْمًا خَیْرٌ مِنْ عَمَلِ أَحَدِکُمْ سِتِّینَ سَنَۃً۔
(٣٣٢٢٦) حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت قیس بن عباد (رض) نے ارشاد فرمایا : منصف حکمران کا ایک دن کا عمل تم میں سے کسی ایک کے ساٹھ سال کے عمل سے بہتر ہے۔

33226

(۳۳۲۲۷) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مُسْلِمٍ ، عَنِ ابْنِ سَابِطٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عمرو ، قَالَ فِی الْجَنَّۃِ قَصْرٌ یُدْعَی عَدَنًا حَوْلَہُ الْمُرُوجُ الْبُرُوجُ لَہُ خَمْسَۃُ آلاَفِ بَابٍ لاَ یَسْکُنُہُ ، أَوْ لاَ یَدْخُلُہُ إِلاَّ نَبِیٌّ ، أَوْ صِدِّیقٌ ، أَوْ شَہِیدٌ ، أَوْ إمَامٌ عَادِلٌ۔
(٣٣٢٢٧) حضرت ابن سابط (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) نے ارشاد فرمایا : جنت میں ایک محل ہے جس کا نام عدن ہے۔ اس کے ارد گرد اس کے پانچ ہزار دروازے ہیں۔ اس میں سکونت اختیار نہیں کرے گا یا اس میں داخل نہیں ہو سکے گا سوائے نبی کے یا صدیق کے یا شہید کے یا منصف حکمران کے۔

33227

(۳۳۲۲۸) حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ مُعَاذٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا عَوْفٌ ، عَنْ زِیَادِ بْنِ مِخْرَاقٍ ، عَنْ أَبِی کِنَانَۃَ ، عَنْ أَبِی مُوسَی ، قَالَ: إنَّ مِنْ إجْلاَلِ اللہِ إکْرَامَ ذِی الشَّیْبَۃِ الْمُسْلِمِ وَحَامِلِ الْقُرْآنِ غَیْرِ الْغَالِی فِیہِ ، وَلاَ الْجَافِی عَنْہُ وَإِکْرَامَ ذِی السُّلْطَانِ الْمُقْسِطِ۔
(٣٣٢٢٨) حضرت ابو کنانہ (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت ابو موسیٰ (رض) نے ارشاد فرمایا : بیشک اللہ کے احترام میں سے ہے کسی بوڑھے مسلمان کا اکرام کرنا اور حامل قرآن جو نہ اس میں غلو کرتا ہو اور نہ اس سے غفلت برتتا ہو اس کا اکرام کرنا ، عدل و انصاف کرنے والے بادشاہ کا اکرام کرنا۔

33228

(۳۳۲۲۹) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، قَالَ : قَالَ عَمَّارٌ : ثَلاَثٌ لاَ یَسْتَخِفُّ بِحَقِّہِنَّ إِلاَّ مُنَافِقٌ بَیِّنٌ نِفَاقُہُ : الإِمَامُ الْمُقْسِطُ وَمُعَلِّمُ الْخَیْرِ وَذُو الشَّیْبَۃِ فِی الإِسْلاَمِ۔
(٣٣٢٢٩) حضرت مجاہد (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عمار (رض) نے ارشاد فرمایا : تین شخص ایسے ہیں کہ کوئی ان کے حق سے استخفاف نہیں برت سکتا سوائے اس منافق کے جس کا نفاق بالکل ظاہر ہو۔ پہلا منصف حکمران، دوسرا بھلائی کی بات سکھلانے والا، اور اسلام میں بڑھاپے کو پہنچنے والا۔

33229

(۳۳۲۳۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا أَبُو مَکِینٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ زَیْدَ بْنَ أَسْلَمَ یَقُولُ {إنَّ اللَّہَ یَأْمُرُکُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الأَمَانَاتِ إلَی أَہْلِہَا وَإِذَا حَکَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْکُمُوا بِالْعَدْلِ} ، قَالَ : أُنْزِلَتْ فِی وُلاَۃِ الأَمْرِ۔
(٣٣٢٣٠) حضرت ابو مکین (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت زید بن اسلم (رض) نے اس آیت کا شان نزول یوں فرمایا : آیت : {إنَّ اللَّہَ یَأْمُرُکُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الأَمَانَاتِ إلَی أَہْلِہَا وَإِذَا حَکَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْکُمُوا بِالْعَدْلِ } آپ (رض) نے فرمایا : یہ آیت امیروں کے معاملات کے بارے میں نازل ہوئی ۔

33230

(۳۳۲۳۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنِ ابْنِ أَبِی لَیْلَی ، عَنْ رَجُلٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ {إنَّ اللَّہَ یَأْمُرُکُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الأَمَانَاتِ إلَی أَہْلِہَا} ، قَالَ : ہَذِہِ مُبْہَمَۃٌ لِلْبَرِّ وَالْفَاجِرِ۔
(٣٣٢٣١) حضرت ابن ابی لیلیٰ (رض) ایک آدمی سے نقل کرتے ہیں کہ حضرت ابن عباس (رض) نے قرآن کی اس آیت کے بارے میں ارشاد فرمایا : آیت {إنَّ اللَّہَ یَأْمُرُکُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الأَمَانَاتِ إلَی أَہْلِہَا } یہ آیت مبہم ہے۔ نیکوکار اور بدکار دونوں کے لیے ہے۔

33231

(۳۳۲۳۲) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ ، عَنْ یَزِیدَ بْنِ أَبِی حَبِیبٍ ، عَنْ أَبِی مَرْزُوقٍ مَوْلَی تُجِیب ، قَالَ : غَزَوْنَا مَعَ رُوَیْفِعِ بْنِ ثَابِتٍ الأَنْصَارِیِّ نَحْوَ الْمَغْرِبِ فَفَتَحْنَا قَرْیَۃً ، یُقَالَ لَہَا جَرْبَۃُ ، قَالَ : فَقَامَ فِینَا خَطِیبًا ، فَقَالَ : إنِّی لاَ أَقُولُ فِیکُمْ إِلاَّ مَا سَمِعْت رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ فِینَا یَوْمَ خَیْبَرَ : مَنْ کَانَ یُؤْمِنُ بِاللہِ وَالْیَوْمِ الآخِرِ فَلاَ یَرْکَبَنَّ دَابَّۃً مِنْ فَیْئِ الْمُسْلِمِینَ حَتَّی إذَا أَعْجَفَہَا رَدَّہَا فِیہِ، وَلاَ یَلْبَسْ ثَوْبًا مِنْ فَیْئِ الْمُسْلِمِینَ حَتَّی إذَا أَخْلَقَہُ رَدَّہُ فِیہِ۔
(٣٣٢٣٢) حضرت ابو مرزوق (رض) فرماتے ہیں جو حضرت نجیب (رض) کے آزاد کردہ غلام ہیں۔ کہ ہم لوگ حضرت رویفع بن ثابت انصاری (رض) کے ساتھ مغرب کی جانب جہاد کے لیے گئے۔ پس ہم نے ایک بستی فتح کی جس کا نام جربہ تھا تو آپ (رض) ہمارے درمیان خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے اور فرمایا : بیشک میں نہیں کہوں گا تمہارے حق میں کوئی بات مگر جو میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کہتے سنی جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غزوہ خیبر کے دن ہمارے بارے میں فرمائی۔ فرمایا : جو شخص ایمان رکھتا ہو اللہ پر اور آخرت کے دن پر تو اس کو چاہیے کہ وہ مسلمانوں کے مال غنیمت میں سے کسی جانور پر سوار مت ہو یہاں تک کہ جب اسے لاغر کردیا تو پھر مال غنیمت میں لوٹا دیا۔ اور نہ ہی مسلمانوں کے مال غنیمت میں سے کوئی کپڑا پہنے ۔ یہاں تک کہ جب اس کو پرانا کردیا تو اس کو مال غنیمت میں لوٹا دیا۔

33232

(۳۳۲۳۳) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ قَابُوسَ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : کَانَ سَلْمَانُ عَلَی قَبْضٍ مِنْ قَبْضِ الْمُہَاجِرِینَ ، فَجَائَ إلَیْہِ رَجُلٌ بِقَبْضٍ کَانَ مَعَہُ فَدَفَعَہُ إلَیْہِ ، ثُمَّ أَدْبَرَ فَرَجَعَ إلَیْہِ فَقَالَ : یَا سَلْمَانُ ، إِنَّہُ کَانَ فِی ثَوْبِی خَرْقٌ فَأَخَذْت خَیْطًا مِنْ ہَذَا الْقَبْضِ فَخِطْت بِہِ ، قَالَ : کُلُّ شَیْئٍ وَقَدْرُہُ ، قَالَ : فَجَائَ الرَّجُلُ فَنَشَرَ الْخَیْطَ مِنْ ثَوْبِہِ ، ثُمَّ قَالَ : إنِّی غَنِیٌّ عَنْ ہَذَا۔
(٣٣٢٣٣) حضرت قابوس (رض) کے والد فرماتے ہیں کہ حضرت سلمان (رض) مہاجرین کے مال مقبوض میں سے جو کہ غنیمت سے حاصل ہوا تھا اس کے کچھ حصہ پر نگران تھے۔ تو ان کے پاس ایک آدمی آیا جس کے پاس کچھ مال غنیمت کا مال تھا اس نے وہ مال آپ (رض) کو دیا پھر واپس چلا گیا۔ تھوڑی دیر بعد پھر واپس لوٹا اور کہنے لگا : اے سلمان ! یقیناً میرے کپڑے میں تھوڑی سی پھٹن تھی تو میں نے اس غنیمت کے مال میں سے سوئی لے کر اس سے اس کپڑے کو سی لیا۔ انھوں نے کہا : ہر چیز کی کچھ قدروقیمت ہے پس وہ آدمی آیا اور اس نے اپنے کپڑوں سے ایک سوئی نکالی پھر کہا : میں اس سے بھی بےنیاز ہوں۔

33233

(۳۳۲۳۴) حَدَّثَنَا عِیسَی بْنُ یُونُسَ ، عَنِ الأَوْزَاعِیِّ ، عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِہِ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : إیَّایَ وَرِبَا الْغُلُولِ أَنْ یَرْکَبَ الرَّجُلُ الدَّابَّۃَ حَتَّی تُحْسَرَ قَبْلَ أَنْ تُؤَدَّی إلَی الْمَغْنَمِ ، أَوْ یَلْبَسَ الثَّوْبَ حَتَّی یَخْلَق قَبْلَ أَنْ یُؤَدَّی إلَی الْمَغْنَمِ۔
(٣٣٢٣٤) امام اوزاعی (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کسی صحابی (رض) سے نقل کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : مال غنیمت میں خیانت سے بچو، وہ یہ کہ کوئی آدمی سواری پر سوار ہو اور پھر مال غنیمت میں دینے سے پہلے ہی اس کو کمزور اور لاغر کر دے۔ یا کوئی کپڑا پہن لے یہاں تک کہ اسے مال غنیمت میں دینے سے پہلے ہی پرانا کر دے۔

33234

(۳۳۲۳۵) حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ عَیَّاشٍ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ أَبِی وَائِلٍ ، قَالَ : غَزَوْنَا مَعَ سَلْمَانَ بْنِ رَبِیعَۃَ بَلَنْجَرَ فَحَرَّجَ عَلَیْنَا أَنْ نَحْمِلَ عَلَی دَوَابِّ الْغَنِیمَۃِ ، وَرَخَّصَ لَنَا فِی الْغِرْبَالِ وَالْمُنْخُلِ وَالْحَبْلِ۔
(٣٣٢٣٥) حضرت ابو وائل (رض) فرماتے ہیں کہ ہم لوگ حضرت سلمان بن ربیعہ (رض) کے ساتھ لنجر مقام پر جہاد کرنے گئے تو آپ (رض) نے ہم پر حرام و ممنوع قرار دیا کہ ہم مال غنیمت کے جانوروں پر سوار ہوں۔ اور ہمیں رخصت دی چھلنی، چھانن اور رسی استعمال کرنے کی۔

33235

(۳۳۲۳۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ سَلْمِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ النَّخَعِیِّ ، عَنْ أَبِی زُرْعَۃَ بْنِ عَمْرِو بن جَرِیرٍ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَکْرَہُ الشِّکَالَ مِنَ الْخَیْلِ۔ (مسلم ۱۴۹۴۔ ابوداؤد ۲۵۴۰)
(٣٣٢٣٦) حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس گھوڑے کو ناپسند کرتے تھے جس کے تین پاؤں تو سفید ہوں اور ایک پاؤں نہ ہو یا اس کے برعکس ہو۔

33236

(۳۳۲۳۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا أَبُو الضُّرَیْسِ عُقْبَۃُ بْنُ عَمَّارٍ الْعَبْسِیُّ ، عَنْ مَسْعُودِ بْنِ حِرَاشٍ أَخِی رِبْعِیٍّ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ سَأَلَ الْعَبْسِیِّینَ : أَیُّ الْخَیْلِ وَجَدْتُمُوہُ أَصْبَرَ فِی حَرْبِکُمْ ، قَالُوا : الْکُمَیْتُ۔
(٣٣٢٣٧) حضرت مسعود بن حراش (رض) جو کہ حضرت ربعی بن حراش (رض) کے بھائی ہیں فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے قبیلہ عبس کے لوگوں سے پوچھا : تم اپنی جنگوں میں کون سے گھوڑے کو زیادہ باہمت پاتے ہو ؟ ان لوگوں نے جواب دیا : جو گھوڑا سرخ اور کالے رنگ کا ہو یا کتھئی رنگ کا گھوڑا۔

33237

(۳۳۲۳۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا طَلْحَۃُ ، عَنْ عَطَائٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : خَیْرُ الْخَیْلِ الْحُوُّ۔
(٣٣٢٣٨) حضرت عطاء فرماتے ہیں کہ حضرت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : بہترین گھوڑا کتھئی رنگ کا ہے جس میں سرخ رنگ حاوی ہو۔

33238

(۳۳۲۳۹) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا مُوسَی بْنُ عُلَیٍّ ، قَالَ سَمِعْت أَبِی یُحَدِّثُ أَنَّ رَجُلاً أَتَی رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : إنِّی أُرِیدُ أَنْ أُقَیِّدَ فَرَسًا ، أَوْ أَبْتَاعَ فَرَسًا ، قَالَ : فَقَالَ : فَعَلَیْک بِہِ أَقْرَحَ أَرْثَمَ کُمَیْتًا ، أَوْ أَدْہَمَ مُحَجَّلاً طَلْقَ الْیُمْنَی۔ (ترمذی ۱۶۹۷۔ ابن حبان ۴۶۷۶)
(٣٣٢٣٩) حضرت موسیٰ بن علی (رض) کے والد فرماتے ہیں کہ ایک آدمی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آیا اور کہنے لگا : میں چاہتا ہوں کہ میں گھوڑے کے پاؤں میں بیڑی ڈالوں یا کہا کہ میں گھوڑا خریدنا چاہتا ہوں ۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اس بارے میں تم پر لازم ہے وہ گھوڑا جس کے چہرے میں سفیدی ہو اور اس کی ناک اور اوپر والا ہونٹ بھی سفید ہو اور کتھئی رنگ کا ہو یا ایسا گھوڑا جو سیاہ وسفید رنگ کا ہو اور اس کا دایاں بالکل صاف ہو۔

33239

(۳۳۲۴۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا ثَوْرٌ الشَّامِیُّ ، عَنِ الْوَضِینِ بْنِ عَطَائٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لاَ تَحْذِفُوا أَذْنَابَ الْخَیْلِ فَإِنَّہَا مَذَابُّہَا ، وَلاَ تَقُصُّوا أَعْرَافَہَا فَإِنَّہَا دِفَاؤُہَا۔
(٣٣٢٤٠) حضرت وضین بن عطائ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : تم لوگ گھوڑوں کی دمیں نہ تراشا کرو ۔ پس بیشک یہ مکھیاں اڑانے کا آلہ ہیں اور نہ ہی ان کے گردن کے بال کاٹا کرو یہ ان کے لیے گرمائش کا سبب بنتے ہیں۔

33240

(۳۳۲۴۱) حَدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ بْنِ مُہَاجِرٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ أَنَّ عُمَرَ نَہَی عَنْ خِصَائِ الْخَیْلِ ، قَالَ : وَأُرَاہُ قَالَ: وَعَنْ حَذْفِ أَذْنَابِہَا۔
(٣٣٢٤١) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے گھوڑے کو خصی کرنے سے منع فرمایا : آپ (رض) نے فرمایا : میری رائے ہے کہ ان کی دم کو تراشنے سے بھی منع فرمایا۔

33241

(۳۳۲۴۲) حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ وَرْدَانَ ، عَنْ بُرْدٍ ، عَنْ مَکْحُولٍ ، أَنَّہُ کَانَ یَکْرَہُ أَنْ تُہْلَبَ الْخَیْلُ۔
(٣٣٢٤٢) حضرت بُرد (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت مکحول (رض) مکروہ قرار دیتے تھے گھوڑے کے بالوں کو اکھیڑے جانے کو۔

33242

(۳۳۲۴۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ بْنِ الْمُہَاجِرِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، أَوْ غَیْرِہِ ، عَنْ عُمَرَ أَنَّہُ قَالَ : لاَ تَحْذِفُوا أَذْنَابَ الْخَیْلِ۔
(٣٣٢٤٣) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) نے ارشاد فرمایا : تم لوگ گھوڑے کی دم کو مت تراشو۔

33243

(۳۳۲۴۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نَافِعٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : نَہَی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، عَنْ خِصَائِ الْخَیْلِ وَالْبَہَائِمِ ، وَقَالَ ابْنُ عُمَرَ فِیہِ نَمَائُ الْخَلْقِ۔ (احمد ۲۴)
(٣٣٢٤٤) حضرت ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے گھوڑے اور دوسرے جانوروں کو خصی کرنے سے منع فرمایا۔ اور حضرت ابن عمر (رض) نے فرمایا : ان میں مخلوق کی بڑھوتری ہے۔

33244

(۳۳۲۴۵) حَدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ بْنِ مُہَاجِرٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ أَنَّ عُمَرَ کَتَبَ یَنْہَی عَنْ خِصَائِ الْخَیْلِ۔
(٣٣٢٤٥) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے خط لکھ کر گھوڑے کو خصی کرنے سے منع کیا۔

33245

(۳۳۲۴۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ بْنِ مُہَاجِرٍ الْبَجَلِیِّ ، قَالَ : کَتَبَ عُمَرُ أَنْ لاَ یُخْصَی فَرَسٌ ، وَلاَ یَجْرِی من أَکْثَرَ مِنْ مِئَتَیْنِ۔
(٣٣٢٤٦) حضرت ابراہیم بن مہاجر البجلی (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے خط لکھا : کہ گھوڑوں کو خصی مت کیا جائے اور ان کو دو سو سے زیادہ نہ دوڑایا جائے۔

33246

(۳۳۲۴۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا أُسَامَۃُ بْنُ زَیْدٍ ، عَنْ یَزِیدَ بْنِ أَبِی حَبِیبٍ ، قَالَ : کَتَبَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیزِ إلَی أَہْلِ مِصْرَ یَنْہَاہُمْ عَنْ خِصَائِ الْخَیْلِ ، وَأَنْ یُجْرِی الصِّبْیَانُ الْخَیْلَ۔
(٣٣٢٤٧) حضرت یزید بن ابی حبیب (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن عبد العزیز (رض) نے خط لکھ کر مصر والوں کو منع کیا کہ وہ گھوڑے کو خصی نہ کریں۔ اور بچوں کو گھوڑوں پر نہ دوڑائیں۔

33247

(۳۳۲۴۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا أَبُو جَعْفَرٍ الرَّازِیّ ، عَنِ الرَّبِیعِ بْنِ أَنَسٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ أَنَسًا یَقُولُ : {وَلآمُرَنَّہُمْ فَلَیُغَیِّرُنَّ خَلْقَ اللہِ} قَالَ : الْخِصَائُ۔
(٣٣٢٤٨) حضرت ربیع بن انس (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت انس (رض) کو فرماتے ہوئے سنا کہ اس آیت : { وَلآمُرَنَّہُمْ فَلَیُغَیِّرُنَّ خَلْقَ اللہِ } میں خصی کرنا مراد ہے۔

33248

(۳۳۲۴۹) حَدَّثَنَا ابْنُ یَمَانٍ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ ، عَنْ أَبِی صَالِحٍ ، قَالَ : الْخِصَائُ۔
(٣٣٢٤٩) حضرت اسماعیل (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت ابو صالح (رض) نے بھی یہی ارشاد فرمایا : کہ خصی کرنا مراد ہے۔

33249

(۳۳۲۵۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا أَبُو مَکِین ، عَنْ عِکْرِمَۃَ أَنَّہُ کَرِہَ خِصَائَ الدَّوَابِّ۔
(٣٣٢٥٠) حضرت ابو مکین (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عکرمہ (رض) جانوروں کے خصی کرنے کو مکروہ سمجھتے تھے۔

33250

(۳۳۲۵۱) حَدَّثَنَا حَفْصُ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ عَطَائٍ وَطَاوُسٍ ، وَمُجَاہِدٍ ، وَالْحَسَنِ ، وَشَہْرٍ أَنَّہُمْ کَرِہُوا الْخِصَائَ۔
(٣٣٢٥١) حضرت لیث (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عطائ، حضرت طاؤس ، حضرت مجاہد (رض) ، حضرت حسن اور حضرت شہر (رض) یہ سب حضرات خصی کرنے کو مکروہ سمجھتے تھے۔

33251

(۳۳۲۵۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ عُمَرَ نَہَی عَنِ الْخِصَائِ ، وَقَالَ : النَّمَائُ مَعَ الذَّکَرِ۔
(٣٣٢٥٢) حضرت ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے جانوروں کو خصی کرنے سے منع فرمایا : اور ارشاد فرمایا : کہ نسل میں اضافہ تو آلہ تناسل کے ساتھ ہوتا ہے۔

33252

(۳۳۲۵۳) حَدَّثَنَا أَسْبَاطُ بْنُ مُحَمَّدٍ وَابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ مُطَرِّفٍ ، عَنْ رَجُلٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : خِصَائُ الْبَہَائِمِ مُثْلَۃٌ ، ثُمَّ تَلاَ : {وَلآمُرَنَّہُمْ فَلَیُغَیِّرُنَّ خَلْقَ اللہِ}۔
(٣٣٢٥٣) حضرت مطرف (رض) ایک آدمی سے نقل کرتے ہیں کہ حضرت ابن عباس (رض) نے ارشاد فرمایا : جانوروں کو خصی کرنا تو مثلہ ہے۔ اور پھر آپ (رض) نے یہ آیت تلاوت فرمائی : { وَلآمُرَنَّہُمْ فَلَیُغَیِّرُنَّ خَلْقَ اللہِ }

33253

(۳۳۲۵۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حَدَّثَنَا ہِشَامٌ أَنَّ أَبَاہُ خَصَی بَغْلاً لَہُ۔
(٣٣٢٥٤) حضرت ہشام (رض) فرماتے ہیں کہ ان کے والد حضرت عروہ (رض) نے اپنے ایک خچر کو خصی کروایا۔

33254

(۳۳۲۵۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ حَدَّثَنَا مَالِکُ بْنُ مِغْوَلٍ ، قَالَ : سَأَلْتُ عَطَائً ، عَنْ خِصَائِ الْخَیْلِ ، قَالَ : مَا خِیفَ عَضَاضُہُ وَسُوئُ خُلُقِہِ فَلاَ بَأْسَ بِہِ۔
(٣٣٢٥٥) حضرت مالک بن مغول (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عطائ (رض) سے گھوڑے کو خصی کرنے کے متعلق پوچھا : آپ (رض) نے فرمایا : اس کے کاٹنے اور مارنے کا خوف نہ ہو تو کوئی حرج کی بات نہیں۔

33255

(۳۳۲۵۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ أَبِی بَشِیرٍ الْمَدَائِنِیِّ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : لاَ بَأْسَ بِخِصَائِ الدَّوَابِّ۔
(٣٣٢٥٦) حضرت عبد الملک بن ابی بشیر المدینی (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت حسن (رض) نے ارشاد فرمایا : جانوروں کو خصی کرنے میں کوئی حرج کی بات نہیں۔

33256

(۳۳۲۵۷) حدَّثَنَا بَعْضُ الْبَصْرِیِّینَ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ ، قَالَ : لاَ بَأْسَ بِخِصَائِ الْخَیْلِ ، لَوْ تَرَکْت الْفُحُولَ لأَکَلَ بَعْضُہَا بَعْضًا۔
(٣٣٢٥٧) حضرت ایوب (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت ابن سیرین (رض) نے ارشاد فرمایا : گھوڑے کو خصی کرنے میں کوئی حرج نہیں اگر طاقتور نر کو چھوڑ دیا جائے تو ان میں سے بعض بعض کو کھا جائیں۔

33257

(۳۳۲۵۸) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ بْنُ عُمَرَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنْ أَبِی الْجَرَّاحِ ، عَنْ أُمِّ حَبِیبَۃَ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : لاَ تَصْحَبُ الْمَلاَئِکَۃُ رُفْقَۃً فِیہَا جَرَسٌ۔ (احمد ۳۲۶۔ دارمی ۲۶۷۵)
(٣٣٢٥٨) حضرت ام حبیبہ (رض) فرماتی ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ملائکہ اس جماعت کی صحبت اختیار نہیں کرتے جن کے پاس گھنٹی ہو۔

33258

(۳۳۲۵۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ سُہَیْلِ بْنِ أَبِی صَالِحٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لاَ تَصْحَبُ الْمَلاَئِکَۃُ رُفْقَۃً فِیہَا جَرَسٌ ، وَلاَ کَلْبٌ۔ (احمد ۲۶۲۔ مسلم ۱۶۷۲)
(٣٣٢٥٩) حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ملائکہ اس شخص کی صحبت اختیار نہیں کرتے جس کے پاس گھنٹی ہو اور نہ اس شخص کی جس کے پاس کتا ہو۔

33259

(۳۳۲۶۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا مُوسَی بْنُ عُبَیْدَۃَ ، عَنْ ثَابِتٍ مَوْلَی أُمِّ سَلَمَۃَ ، عَنْ أُمِّ سَلَمَۃَ ، قَالَتْ : الْمَلاَئِکَۃُ لاَ تَصْحَبُ رُفْقَۃً فِیہَا جُلْجُلٌ۔ (طبرانی ۲۳)
(٣٣٢٦٠) حضرت ثابت حضرت ام سلمہ (رض) کے آزاد کردہ غلام فرماتے ہیں کہ ام المؤمنین حضرت ام سلمہ (رض) نے ارشاد فرمایا : ملائکہ اس کی صحبت اختیار نہیں کرتے جس کے پاس گھنگرو ہوں۔

33260

(۳۳۲۶۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ بُرْقَانَ ، عَنْ یَزِیدَ بْنِ الأَصَمِّ ، قَالَ : کَانَتْ عَائِشَۃُ تَکْرَہُ صَوْتَ الْجَرَسِ۔
(٣٣٢٦١) حضرت یزید بن الاصم (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عائشہ (رض) گھنٹی کی آواز کو ناپسند کرتی تھیں۔

33261

(۳۳۲۶۲) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنِ ابْنِ أَبِی نَجِیحٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، قَالَ : أَتَیْتُ عَبْدَ الرَّحْمَن بْنَ أَبِی لَیْلَی بِتِبْرٍ ، فَقَالَ: ہَلْ عَسَیْت أَنْ تَجْعَلَہَا أَجْرَاسًا فَإِنَّہَا تُکْرَہُ۔
(٣٣٢٦٢) حضرت مجاہد (رض) فرماتے ہیں کہ میں حضرت عبد الرحمن بن ابی لیلیٰ (رض) کے پاس سونے کا بغیر ڈھلا ہوا ڈلا لے کر آیا تو آپ (رض) نے فرمایا : شاید کہ تو اس کی گھنٹیاں بنائے گا بیشک یہ تو مکروہ ہے۔

33262

(۳۳۲۶۳) حَدَّثَنَا یَعْلَی بْنُ عُبَیْدٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا الأَعْمَشُ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ أَبِی النَّجُودِ ، عَنِ ابْنِ أَبِی لَیْلَی ، قَالَ : لِکُلِّ جَرَسٍ تَبَعٌ مِنَ الْجِنِّ۔
(٣٣٢٦٣) حضرت عاصم بن ابی النجود (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عبد الرحمن بن ابی لیلیٰ (رض) نے ارشاد فرمایا : ہر گھنٹی شیطان کے چیلوں میں سے ہے۔

33263

(۳۳۲۶۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا ہِشَامٌ الدَّسْتَوَائِیُّ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ زُرَارَۃَ بْنِ أَوْفَی ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : الْمَلاَئِکَۃُ لاَ تَصْحَبُ رُفْقَۃً فِیہَا جَرَسٌ۔
(٣٣٢٦٤) حضرت زرارۃ بن اوفی (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت ابوہریرہ (رض) نے ارشاد فرمایا : ملائکہ اس شخص کی صحبت اختیار نہیں کرتے جس کے پاس گھنٹی ہو۔

33264

(۳۳۲۶۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ عَامِرٍ الأَسْلَمِیُّ ، قَالَ : سَمِعْتُ مَکْحُولاً یَقُولُ : إنَّ الْمَلاَئِکَۃَ تَمْسَحُ دَوَابَّ الْغُزَاۃِ إِلاَّ دَابَّۃً عَلَیْہَا جَرَسٌ۔
(٣٣٢٦٥) حضرت عبداللہ بن عامر الاسلمی (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت مکحول (رض) نے ارشاد فرمایا : بیشک ملائکہ مجاہدین کے جانوروں کو صاف کرتے ہیں سوائے اس کے گھوڑے کو جس پر گھنٹی ہو۔

33265

(۳۳۲۶۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا ثَوْرٌ ، عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ ، قَالَ : مَرُّوا عَلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِنَاقَۃٍ فِی عُنُقِہَا جَرَسٌ ، قَالَ : ہَذِہِ مَطِیَّۃُ شَیْطَانٍ۔
(٣٣٢٦٦) حضرت خالد بن معدان (رض) فرماتے ہیں کہ کچھ لوگ ایک اونٹنی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس سے لے کر گزرے جس کی گردن میں گھنٹی تھی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : یہ شیطان کی سواری ہے۔

33266

(۳۳۲۶۷) حَدَّثَنَا رَیْحَانُ بْنُ سَعِیدٍ ، عَنْ مَرْزُوقِ بْنِ عَمْرٍو ، قَالَ : قَالَ أَبُو فَرْقَدٍ : رَأَیْت عَلَی تَجَافِیفِ أَبِی مُوسَی الدیباج والْحَرِیرَ۔
(٣٣٢٦٧) حضرت مرزوق بن عمرو (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت ابو فرقد (رض) نے ارشاد فرمایا : میں نے حضرت ابو موسیٰ کی زرہوں پر دیباج اور ریشم دیکھا۔

33267

(۳۳۲۶۸) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ ، عَنْ ہِشَامٍ ، قَالَ : کَانَ أَبِی لَہُ یَلْمَقُ مِنْ دِیبَاجٍ یَلْبَسُہُ فِی الْحَرْبِ۔
(٣٣٢٦٨) حضرت ہشام (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت میرے والد حضرت عروہ بن زبیر (رض) کے پاس ریشم کا ایک بھراؤ دار چوغہ تھا جسے وہ جنگ میں پہنتے تھے۔

33268

(۳۳۲۶۹) حَدَّثَنَا حَفْصُ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ عَطَائٍ ، قَالَ : لاَ بَأْسَ بِہِ إذَا کَانَ جُبَّۃً ، أَوْ سِلاَحًا۔
(٣٣٢٦٩) حضرت لیث (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عطائ (رض) نے ارشاد فرمایا : کوئی حرج کی بات نہیں جبکہ وہ جبہ یا ہتھیار ہو۔

33269

(۳۳۲۷۰) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ عَطَائٍ ، قَالَ : لاَ بَأْسَ بِلُبْسِ الْحَرِیرِ فِی الْحَرْبِ۔
(٣٣٢٧٠) حضرت حجاج (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عطائ (رض) نے فرمایا : جنگ میں ریشم پہننے میں کوئی حرج نہیں۔

33270

(۳۳۲۷۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا الْمُنْذِرُ بْنُ ثَعْلَبَۃَ الْعَبْدِیُّ ، عَنْ عِلْبَائَ بْنِ أَحْمَرَ الْیَشْکرِیِّ ، أَوِ ابْنِ بُرَیْدَۃَ شَکَّ الْمُنْذِرُ ، قَالَ : قَالَ نَاسٌ مِنَ الْمُہَاجِرِینَ لِعُمَرَ : إذَا رَأَیْنَا الْعَدُوَّ وَرَأَیْنَاہُمْ قَدْ کَفَّرُوا سِلاَحَہُمْ بِالْحَرِیرِ فَرَأَیْنَا لِذَلِکَ ہَیْبَۃً ، فَقَالَ عُمَرُ : أَنْتُمْ إِنْ شِئْتُمْ فَکَفِّرُوا عَلَی سِلاَحِکُمْ بِالْحَرِیرِ وَالدِّیبَاجِ۔
(٣٣٢٧١) حضرت منذر (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت علیاء بن احمر الیشکری یا حضرت ابن بریدہ (رض) ان دونوں میں سے کسی ایک نے ارشاد فرمایا : کہ مہاجرین میں سے چند لوگوں نے حضرت عمر (رض) سے کہا : جب ہم نے دشمن کو دیکھا تو ہم نے ان کو اس حال میں دیکھا کہ انھوں نے اپنے ہتھیار ریشم میں چھپائے ہوئے تھے۔ تو ہم یہ دیکھ کر گھبرا گئے ؟ اس پر حضرت عمر (رض) نے ارشاد فرمایا : اگر تم لوگ چاہو تو تم بھی اپنے ہتھیاروں کو ریشم اور دیباج سے چھپالو۔

33271

(۳۳۲۷۲) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِی عَدِیٍّ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، قَالَ : سَأَلْتُ مُحَمَّدًا ، عَنْ لُبْسِ الدِّیبَاجِ فِی الْحَرْبِ ، فَقَالَ : مِنْ أَیْنَ کَانُوا یَجِدُونَ الدِّیبَاجَ۔
(٣٣٢٧٢) حضرت ابن عون (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جنگ میں ریشم پہننے کے بارے میں سوال کیا ؟ تو آپ (رض) نے فرمایا : وہ لوگ کہاں ریشم پاتے تھے ؟

33272

(۳۳۲۷۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا أَبُو مَکِینِ بْنِ أَبَانَ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ ؛ أَنَّہُ کَرِہَ لُبْسَ الْحَرِیرِ وَالدِّیبَاجِ فِی الْحَرْبِ ، وَقَالَ : أَرْجَی مَا یَکُونُ لِلشَّہَادَۃِ یَلْبَسُہُ۔
(٣٣٢٧٣) حضرت ابو مکین بن ابان (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عکرمہ (رض) جنگ میں ریشم اور دیباج پہننے کو مکروہ سمجھتے تھے۔ اور فرماتے تھے : جو شخص شہادت کی امید رکھتا ہو کیا وہ یہ پہنے گا ؟ !۔

33273

(۳۳۲۷۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، قَالَ: حدَّثَنَا سُفْیَانُ، عَنْ یُونُسَ بْنِ عُبَیْدٍ، عَنِ الْحَسَنِ أَنَّہُ کَرِہَ لُبْسَ الْحَرِیرِ فِی الْحَرْبِ۔
(٣٣٢٧٤) حضرت یونس بن عبید (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت حسن (رض) جنگ میں ریشم پہننے کو مکروہ سمجھتے تھے۔

33274

(۳۳۲۷۵) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُصْعَبٍ ، عَنِ الأَوْزَاعِیِّ ، عَنِ الْوَلِیدِ بْنِ ہِشَامٍ ، قَالَ : کَتَبْتُ إلَی ابْنِ مُحَیْرِیزٍ أَسْأَلُہُ عَنْ لُبْسِ الْحَرِیرِ وَالْیَلاَمِقِ فِی دَارِ الْحَرْبِ ؟ قَالَ : فَکَتَبَ : أَنْ کُنْ أَشَدَّ مَا کُنْتَ کَرَاہَۃً لِمَا یُکْرَہُ عِنْدَ الْقِتَالِ حِینَ تَعْرِضُ نَفْسُک لِلشَّہَادَۃِ۔
(٣٣٢٧٥) حضرت ولید بن ہشام (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن محیریز (رض) کو خط لکھ کر پوچھا : کیا دارالحرب میں ریشم اور لمبے کوٹ پہن سکتے ہیں ؟ آپ (رض) نے اس خط کا جواب لکھا : جب تم نے خود کو شہادت کے لیے پیش کردیا تو تم اس چیز کو زیادہ ناپسند کرو جو قتال کے وقت بھی مکروہ ہے۔

33275

(۳۳۲۷۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَمْرٍو الأَوْزَاعِیِّ ، عَنِ الْوَلِیدِ بْنِ ہِشَامٍ ، عَنِ ابْنِ مُحَیْرِیزٍ أَنَّہُ کَرِہَ لُبْسَہُ فِی الْحَرْبِ۔
(٣٣٢٧٦) حضرت ولید بن ہشام (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت ابن محیریز (رض) جنگ میں بھی ریشم پہننے کو مکروہ سمجھتے تھے۔

33276

(۳۳۲۷۷) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ حُصَیْنٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنْ سُوَیْد بْنِ غَفَلَۃَ ، قَالَ : شَہِدْنَا الْیَرْمُوکَ ، قَالَ : فَاسْتَقْبَلَنَا عُمَرُ وَعَلَیْنَا الدِّیبَاجُ والحریر ، فَأَمَرَ فَرُمِینَا بِالْحِجَارَۃِ۔
(٣٣٢٧٧) حضرت سوید بن غفلہ (رض) فرماتے ہیں کہ ہم لوگ جنگ یرموک میں حاضر ہوئے تو حضرت عمر (رض) نے ہمارا استقبال کیا اس حال میں کہ ہم نے دیباج اور یشم پہنا ہوا تھا۔ تو آپ (رض) کے حکم سے ہمیں پتھر مارے گئے۔

33277

(۳۳۲۷۸) حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّیَالِسِیُّ ، عَنِ أبی الأَشْہَبِ ، قَالَ : قلْت لِلْحَسَنِ : یَا أَبَا سَعِیدٍ : الرَّجُلُ یَکُونُ عَارِیًّا یَلْبَسُ الثَّوْبَ ، أَوْ یَکُونُ أَعْزَلَ یَلْبَسُ مِنَ السِّلاَحِ ، قَالَ : یَفْعَلُ ، فَإِذَا حَضَرَ الْقَسْمُ فَلْیُحْضِرْہُ۔
(٣٣٢٧٨) حضرت ابو الاشھب (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت حسن (رض) سے پوچھا : اے ابو سعید ! جو آدمی کپڑوں سے ننگا ہو کیا وہ غنیمت کے کپڑے پہن سکتا ہے ؟ یا وہ نہتا ہو تو اسلحہ لے سکتا ہے ؟ آپ (رض) نے فرمایا : وہ ایسا کرلے اور پھر جب مال غنیمت تقسیم ہونے لگے ۔ تو وہ چیز حاضر کر دے۔

33278

(۳۳۲۷۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ سَمِعْت سُفْیَانَ یَقُولُ : إذَا أَصَابَ الْمُسْلِمُونَ السِّلاَحَ وَالدَّوَابَّ فَأَرَادُوا أَنْ یَسْتَعِینُوا بِہِ وَاحْتَاجُوا فَلاَ بَأْسَ بِہِ وَلو لَمْ یَسْتَأْذِنُوا الإِمَامَ۔
(٣٣٢٧٩) حضرت وکیع (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت سفیان (رض) کو یوں فرماتے ہوئے سنا : جب مسلمان اسلحہ اور جانور پالیں غنیمت کے مال سے۔ اور وہ ان سے مدد حاصل کرنا چاہیں اور وہ اس کے محتاج بھی ہوں تو اس میں کوئی حرج نہیں اگرچہ انھوں نے امیر سے اجازت نہ لی ہو۔

33279

(۳۳۲۸۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا أُبَیٌّ وَإِسْرَائِیلُ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِی عُبَیْدَۃَ ، قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللہِ : انْتَہَیْت إلَی أَبِی جَہْلٍ یَوْمَ بَدْرٍ وَقَدْ ضُرِبَتْ رِجْلُہُ وَہُوَ صَرِیعٌ وَہُوَ یَذُبُّ النَّاسَ عَنْہُ بِسَیْفِہِ ، فَقُلْتُ : الْحَمْدُ لِلَّہِ الَّذِی أَخْزَاک یَا عَدُوَّ اللہِ ، فَقَالَ : ہَلْ ہُوَ إِلاَّ رَجُلٌ قَتَلَہُ قَوْمُہُ ، فَجَعَلْتُ أَتَنَاوَلُہُ بِسَیْفٍ لِی غَیْرِ طَائِلٍ ، فَأصبت یَدہُ فَنَدَرَ سَیْفُہُ فَأَخَذْتہ فَضَرَبْتہ بِہِ حَتَّی بَرَدَ۔
(٣٣٢٨٠) حضرت ابو عبیدہ (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) نے ارشاد فرمایا : میں غزوہ بدر کے دن ابو جہل ملعون کے پاس پہنچا اس حال میں کہ اس کی ٹانگ کٹی ہوئی تھی اور وہ نیم مردہ تھا۔ اور وہ خود کو لوگوں سے بچا رہا تھا اپنی تلوار کے ذریعے۔ پس میں نے کہا : سب تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے تجھے ذلیل و رسوا کیا اے اللہ کے دشمن۔ وہ کہنے لگا : کوئی آدمی نہیں ہے مگر یہ کہ اس کی قوم نے اس کو مار ڈالا۔ آپ (رض) فرماتے ہیں : میں نے اپنی چھوٹی سی تلوار کے ذریعہ اس کو ٹٹولنا شروع کیا تو میں نے اس کے ہاتھ کو ہلایا اور اس کی تلوار گرگئی۔ میں نے اس کی تلوار کو پکڑ لیا۔ اور اس کو مار دیا۔ یہاں تک کہ وہ ٹھنڈا ہوگیا۔

33280

(۳۳۲۸۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا إسْرَائِیلُ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ حَارِثَۃَ بْنِ مُضَرِّبٍ ، عَنْ عَلِیٍّ ، قَالَ : لَقَدْ رَأَیْتُنَا یَوْمَ بَدْرٍ وَنَحْنُ نَلُوذُ بِرَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَہُوَ أَقْرَبُنَا إلَی الْعَدُوِّ ، وَکَانَ مِنْ أَشَدِّ النَّاسِ یَوْمَئِذٍ بَأْسًا۔ (احمد ۱۲۶۔ ابویعلی ۲۹۷)
(٣٣٢٨١) حضرت حارثہ بن مضرب (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت علی (رض) نے ارشاد فرمایا : کہ جنگ بدر کے دن میں نے اپنے آپ کو دیکھا کہ ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات سے حفاظت حاصل کر رہے ہیں۔ اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم لوگوں میں سب سے زیادہ دشمن کے قریب ہیں۔ اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس دن سب سے زیادہ سخت جنگجو تھے۔

33281

(۳۳۲۸۲) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ زَکَرِیَّا ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنِ الْبَرَائِ ، قَالَ : کُنَّا إذَا احْمَرَّ الْبَأْسُ نَتَّقِی بِہِ ، وَإِنَّ الشُّجَاعَ لَلَّذِی یُحَاذِی بِہِ۔ (مسلم ۱۴۰۱)
(٣٣٢٨٢) حضرت ابو اسحاق (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت براء بن عازب (رض) نے ارشاد فرمایا : جب جنگ بہت زیادہ سخت ہوجاتی تو ہم لوگ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات سے حفاظت حاصل کرتے تھے۔ اور یقیناً بہادر تو وہی شخص ہوتا ہے جو مد مقابل ہوتا ہے۔

33282

(۳۳۲۸۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ حَسَّانِ بْنِ فَائِدٍ الْعَبْسِیِّ ، قَالَ : قَالَ عُمَرُ : الشَّجَاعَۃُ وَالْجُبْنُ غَرَائِزُ فِی الرِّجَالِ ، فَیُقَاتِلُ الشُّجَاعُ عَمَّنْ یَعْرِفُ وَمَنْ لاَ یَعْرِفُ ، وَیَفِرُّ الْجَبَانُ ، عَنْ أَبِیہِ وَأُمِّہِ۔
(٣٣٢٨٣) حضرت حسان بن فائد العبسی (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے ارشاد فرمایا : بہادری اور بزدلی مردوں میں پائی جانے والی خصلتیں ہیں۔ بہادر شخص تو اس شخص سے لڑتا ہے چاہے وہ اس کو جانتا ہو یا نہ جانتا ہو۔ اور بزدل تو اپنے ماں، باپ سے بھاگتا ہے۔

33283

(۳۳۲۸۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ وَمِسْعَرٌ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ عُمَیْرٍ ، عَنْ قَبِیصَۃَ بْنِ جَابِرٍ ، قَالَ : قَالَ عُمَرُ : الشَّجَاعَۃُ وَالْجُبْنُ شِیمَۃٌ ، أَوْ خُلُقٌ فِی الرِّجَالِ فَیُقَاتِلُ الشُّجَاعُ عَمَّنْ لاَ یُبَالِی أَنْ لاَ یَؤوبَ إلَی أَہْلِہِ وَیَفِرُّ الْجَبَانُ ، عَنِ ابن أَبِیہِ وَأُمِّہِ۔
(٣٣٢٨٤) حضرت قبیصہ بن جابر (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے ارشاد فرمایا : بہادری اور بزدلی مردوں میں پائی جانے والی عادت یا خصلت ہے۔ بہادر تو اس بات سے بے پروا ہو کر لڑتا ہے کہ وہ اپنے گھر والوں کی طرف لوٹے گا، اور بزدل شخص تو اپنے ماں، باپ کے بیٹے سے بھاگتا ہے۔

33284

(۳۳۲۸۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا أَشْعَثُ ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِیزِ بْنِ صُہَیْبٍ ، قَالَ : کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَشْجَعَ النَّاسِ وَأَسْخَی النَّاسِ۔ (بخاری ۲۸۲۰۔ مسلم ۴۸)
(٣٣٢٨٥) حضرت عبد العزیز بن صھیب (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمام لوگوں میں سب سے زیادہ بہادر اور سب سے زیادہ سخی تھے۔

33285

(۳۳۲۸۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا إسْرَائِیلُ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ أَبِی جَعْفَرٍ ، قَالَ : کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ شَدِیدَ الْبَطْشِ۔ (ابن سعد ۴۱۹)
(٣٣٢٨٦) حضرت ابو جعفر (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بہت زیادہ طاقتور شخص تھے۔

33286

(۳۳۲۸۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ ، عَنْ قَیْسٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ خَالِدَ بْنَ الْوَلِیدِ یَقُولُ : لَقَدِ انْقَطَعَ فِی یَدِی یَوْمَ مُؤْتَۃَ تِسْعَۃُ أَسْیَافٍ وَصَبَرَتْ صَفِیحَۃٌ یَمَانِیَّۃٌ۔
(٣٣٢٨٧) حضرت قیس (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت خالد بن ولید (رض) کو یوں فرماتے ہوئے سنا کہ غزوہ مؤتہ کے دن میرے ہاتھ سے نو تلواریں ٹوٹیں آخر کار میں نے ایک یمنی چوڑی تلوار پر صبر کیا۔

33287

(۳۳۲۸۸) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ ہَاشِمِ بن ہَاشِمِ ، قَالَ : سَمِعْتُ سَعِیدَ بْنَ الْمُسَیَّبِ یَقُولُ : کَانَ سَعْدُ بْنُ مَالِکٍ أَشَدَّ الْمُسْلِمِینَ بَأْسًا یَوْمَ أُحُدٍ۔
(٣٣٢٨٨) حضرت ہاشم بن ہاشم (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت سعید بن المسیب (رض) کو یوں فرماتے ہوئے سنا کہ : حضرت سعد بن مالک (رض) غزوہ احد کے دن مسلمانوں میں سب سے زیادہ سخت جنگجو تھے۔

33288

(۳۳۲۸۹) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَنْ حُمَیْدٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَیْنٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لاَ جَلَبَ ، وَلاَ جَنَبَ۔
(٣٣٢٨٩) حضرت عمران بن حصین (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : گھوڑے کو دوڑانے کے لیے شور مچانا درست نہیں اور گھوڑ دوڑ کے دوران اپنے پہلو میں گھوڑا رکھنا کہ جب یہ سست پڑجائے تو دوسرے پر سوار ہوجائے یہ بھی درست نہیں ہے۔

33289

(۳۳۲۹۰) حَدَّثَنَا سَہْلُ بْنُ یُوسُفَ ، عَنْ حُمَیْدٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَیْنٍ بِمِثْلِہِ وَلَمْ یَرْفَعْہُ۔
(٣٣٢٩٠) حضرت عمران بن حصین (رض) سے ما قبل حدیث موقوفاً اس سند سے بھی منقول ہے۔

33290

(۳۳۲۹۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا مَعْقِلُ بْنُ عُبَیْدِ اللہِ الْعَبْسِیُّ ، عَنْ عَطَائٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لاَ جَلَبَ ، وَلاَ جَنَبَ فِی الإِسْلاَمِ۔
(٣٣٢٩١) حضرت عطائ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اسلام میں نہ تو گھوڑے کو دوڑانے کے لے شور مچانا درست ہے۔ اور گھوڑ دوڑ کے دوران اپنے پہلو میں دوسرا گھوڑا رکھنا تاکہ پہلے گھوڑے کے سست ہونے کی صورت میں دوسرے پر سوار ہوجائے یہ بھی درست نہیں ہے۔

33291

(۳۳۲۹۲) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ جَدِّہِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لاَ جَلَبَ ، وَلاَ جَنَبَ۔ (ابوداؤد ۱۵۸۷۔ احمد ۱۸۰)
(٣٣٢٩٢) حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : گھوڑے کو دوڑانے کے لیے شور مچانا درست نہیں ہے اور گھوڑ دوڑ کے دوران اپنے پہلو میں دوسرا گھوڑا رکھنا تاکہ پہلے گھوڑے کے سست ہونے کی صورت میں دوسرے پر سوار ہوجائے یہ بھی درست نہیں ہے۔

33292

(۳۳۲۹۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا ہمام ، عَنْ أَبِی عِمْرَانَ الْجَوْنِیِّ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لِلْجَبَانِ أَجْرَانِ۔
(٣٣٢٩٣) حضرت ابو عمران الجونی (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : بزدل کے لیے دو اجر ہیں۔

33293

(۳۳۲۹۴) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ عَنْ عَبْدِ الْکَرِیمِ قَالَ : قَالَتْ عَائِشَۃَ : إذَا أَحَسَّ أَحَدُکُمْ مِنْ نَفْسِہِ جُبْنًا ؛ فَلاَ یَغْزُوَنَّ۔
(٣٣٢٩٤) حضرت عبد الکریم (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عائشہ (رض) نے ارشاد فرمایا : جب تم میں سے کوئی ایک اپنے دل میں بزدلی محسوس کرے تو اس کو چاہیے کہ وہ جہاد میں شریک مت ہو۔

33294

(۳۳۲۹۵) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُصْعَبٍ ، عَنْ أَبِی بَکْرٍ ، عَنِ الْفُضَیْلِ بْنِ فَضَالَۃَ ، قَالَ : قَالَ أَبُو الدَّرْدَائِ : لاَ نَامَتْ عُیُونُ الْجُبَنَائِ۔
(٣٣٢٩٥) حضرت فضیل بن فضالہ (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت ابو الدردائ (رض) نے ارشاد فرمایا : بزدلوں کی آنکھیں نہیں سوتیں۔

33295

(۳۳۲۹۶) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ زَکَرِیَّا بْنِ أَبِی زَائِدَۃَ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ عَامِرٍ ، قَالَ : قضَی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی سَبْیِ الْجَاہِلِیَّۃِ فِی الْغُلاَمِ ثَمَانِیًا مِنَ الإِبِلِ ، وَفِی الْمَرْأَۃِ عَشْرًا مِنَ الإِبِلِ ، أَوْ غُرَّۃَ عَبْدٍ ، أَوْ أَمَۃٍ۔
(٣٣٢٩٦) حضرت عامر (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے زمانہ جاہلیت کے قیدیوں کے بارے میں فیصلہ فرمایا : بچہ کے بارے میں آٹھ اونٹوں کا اور عورت کے بارے میں دس اونٹوں کا یا ایک غرہ کا، غرہ سے مراد غلام یا باندی ہے۔

33296

(۳۳۲۹۷) حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ عَیَّاشٍ ، عَنْ أَبِی حَصِینٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : قَالَ عُمَرُ : لَیْسَ عَلَی عَرَبِیٍّ مِلْک ، وَلَسْنَا بِنَازِعِی مِنْ أَحَدٍ شیئا أَسْلَمَ عَلَیْہِ ، وَلَکِنَّا نُقَوِّمُہُمْ للملۃ : خَمْسٌ مِنَ الإِبِلِ خَمْسٌ مِنَ الإِبِلِ۔
(٣٣٢٩٧) امام شعبی (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے ارشاد فرمایا : عربی پر کسی کو بھی ملکیت حاصل نہیں ۔ اور ہم اس کو مجبور نہیں کریں گے ذرا سا بھی کہ وہ اسلام قبول کرے۔ لیکن ہم اس کو مسلمان کے حق میں حصہ مقرر کردیں گے ۔ کہ پانچ پانچ اونٹ دیے جائیں۔

33297

(۳۳۲۹۸) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ صَدَقَۃَ ، عَنْ رَبَاحِ بْنِ الْحَارِثِ ، قَالَ : کَانَ عُمَرُ یَقْضِی فِیمَا سَبَتِ الْعَرَبُ بَعْضُہَا علی بَعْضٍ قَبْلَ الإِسْلاَمِ وَقَبْلَ أَنْ یُبْعَثَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّ مَنْ عَرَفَ أَحَدًا مِنْ أَہْلِ بَیْتِہِ مَمْلُوکًا مِنْ حَیٍّ مِنْ أَحْیَائِ الْعَرَبِ فَفِدَاہُ الْعَبْدِ بِالْعَبْدَیْنِ وَالأَمَۃِ بِالأَمَتَیْنِ۔
(٣٣٢٩٨) حضرت رباح بن حارث (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے عرب کے ان قیدیوں کے بارے میں فیصلہ فرمایا جنہوں نے اسلام سے پہلے یا نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت سے پہلے ایک دوسرے کو قیدی بنا لیا تھا۔ کہ جو شخص بھی اپنے اہل خانہ میں سے کسی کو جانتا ہو کہ وہ عرب کے قبیلوں میں سے فلاں قبیلہ میں غلام ہے۔ تو اس کا فدیہ ایک غلام کے بدلے دو غلام ہوگا۔ اور ایک باندی کے بدلے دو باندیاں ہوں گی۔

33298

(۳۳۲۹۹) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ ، عَنْ أَبِی الْبَخْتَرِیِّ ، قَالَ : لَمَّا غَزَا سَلْمَانُ الْمُشْرِکِینَ مِنْ أَہْلِ فَارِسَ ، قَالَ : کُفُّوا حَتَّی أَدْعُوَہُمْ کَمَا کُنْتُ أَسْمَعُ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَدْعُوہُمْ ، فَأَتَاہُمْ ، فَقَالَ : إنِّی رَجُلٌ مِنْکُمْ وقَدْ تَدْرُونَ مَنْزِلِی مِنْ ہَؤُلاَئِ الْقَوْمِ ، وَإِنَّا نَدْعُوکُمْ إلَی الإِسْلاَمِ، فَإِنْ أَسْلَمْتُمْ فَلَکُمْ مِثْلُ مَا لَنَا ، وَعَلَیْکُمْ مِثْلُ الَّذِی عَلَیْنَا ، وَإِنْ أَبَیْتُمْ فَأَعْطُوا الْجِزْیَۃَ عَنْ یَدٍ وَأَنْتُمْ صَاغِرُونَ ، وَإِنْ أَبَیْتُمْ قَاتَلْنَاکُمْ فَأَبَوْا عَلَیْہِ ، فَقَالَ لِلنَّاسِ : انْہَدُوا إلَیْہِمْ۔ (احمد ۴۴۰)
(٣٣٢٩٩) حضرت ابو البختری (رض) فرماتے ہیں کہ جب حضرت سلمان (رض) اہل فارس سے جنگ میں شریک ہوئے تو فرمایا : رکو یہاں تک کہ میں ان کو دعوت دوں جیسا کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سنا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کفار کو دعوت دی ۔ پس آپ (رض) ان کے پاس آئے اور فرمایا : یقیناً میں تمہارے میں سے ہی ایک آدمی ہوں۔ اور تحقیق تم نے ان لوگوں میں میرے مرتبہ کو جان لیا ہے۔ اور میں تمہیں اسلام کی دعوت دیتا ہوں۔ اگر تم نے اسلام قبول کرلیا تو تمہیں بھی وہی ملے گا جو ہمارے لیے ہیں۔ اور تم پر بھی وہی کام لازم ہوں گے جو ہم پر لازم ہیں۔ اور اگر تم انکار کرتے ہو تو تم جزیہ ادا کروہاتھ سے اور چھوٹے بن کر رہو اور اگر تم اس کا بھی انکار کرو گے تو ہم تم سے قتال کریں گے۔ پس ان لوگوں نے سب باتوں کا انکار کردیا۔ تو آپ (رض) نے لوگوں سے کہا : دشمن کے سامنے ڈٹ جاؤ اور لڑائی شروع کردو۔

33299

(۳۳۳۰۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ عَلْقَمَۃَ بْنِ مَرْثَدٍ ، عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ بُرَیْدَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إذَا بَعَثَ أَمِیرًا عَلَی سَرِیَّۃٍ ، أَوْ جَیْشٍ أَوْصَاہُ فَقَالَ : إذَا لَقِیتَ عَدُوَّک مِنَ الْمُشْرِکِینَ فَادْعُہُمْ إلَی إحْدَی ثَلاَثِ خِصَالٍ ، أَوْ خِلاَلٍ ، فَأَیَّتُہُنَّ مَا أَجَابُوک إلَیْہَا فَاقْبَلْ مِنْہُمْ وَکُفَّ عَنْہُمْ: ادْعُہُمْ إلَی الإِسْلاَمِ فَإِنْ أَجَابُوک فَکُفَّ عَنْہُمْ وَاقْبَلْ مِنْہُمْ ، ثُمَّ ادْعُہُمْ إلَی التَّحَوُّلِ مِنْ دَارِہِمْ إلَی دَارِ الْمُہَاجِرِینَ ، وَأَعْلِمْہُمْ أَنَّہُمْ إِنْ فَعَلُوا ذَلِکَ أَنَّ لَہُمْ مَا لِلْمُہَاجِرِینَ ، وَأَنَّ عَلَیْہِمْ مَا عَلَی الْمُہَاجِرِینَ ، وَإِنْ أَبَوْا وَاخْتَارُوا دَارَہُمْ فَأَعْلِمْہُمْ أَنَّہُمْ یَکُونُونَ کَأَعْرَابِ الْمُسْلِمِینَ یَجْرِی عَلَیْہِمْ حُکْمُ اللہِ الَّذِی یَجْرِی عَلَی الْمُؤْمِنِینَ ، وَلاَ یَکُونُ لَہُمْ فِی الْفَیْئِ وَالْغَنِیمَۃِ نَصِیبٌ إِلاَّ أَنْ یُجَاہِدُوا مَعَ الْمُسْلِمِینَ ، فَإِنْ أَبَوْا فَادْعُہُمْ إلَی إعْطَائِ الْجِزْیَۃِ ، فَإِنْ أَجَابُوا فَاقْبَلْ مِنْہُمْ وَکُفَّ عَنْہُمْ ، وَإِنْ أَبَوْا فَاسْتَعِنْ بِاللہِ وَقَاتِلْہُمْ۔
(٣٣٣٠٠) حضرت بریدہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب کسی شخص کو کسی سریہ یا لشکر پر امیر بنا کر بھیجتے تھے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کو وصیت فرماتے کہ جب تم اپنے دشمن مشرکین سے ملو۔ تو تم ان کو تین باتوں یا عادتوں میں سے ایک کی طرف دعوت دو ۔ پس وہ لوگ ان میں سے جس بات کو بھی مان لیں تم اس کو قبول کرو اور ان سے لڑائی کرنے سے رک جاؤ ۔ سب سے پہلے ان کو اسلام کی طرف بلاؤ۔ اگر وہ قبول کرلیں تو ان سے لڑائی کرنے سے رک جاؤ اور ان کا اسلام قبول کرو۔ پھر ان کو اس بات کی طرف دعوت دو کہ وہ اپنے علاقہ کو چھوڑ کر مہاجرین کے علاقہ میں آجائیں اور ان کو بتلا دو بیشک اگر وہ ایسا کریں گے تو ان کے لیے وہی اجر وثواب ہوگا جو مہاجرین کے لیے ہے اور ان پر وہی اعمال لازم ہوں گے جو مہاجرین پر لازم ہیں اگر وہ اس بات سے انکار کردیں ۔ اور اپنے شہر ہی کا انتخاب کریں تو پھر بھی ان کو بتلا دو کہ وہ لوگ مسلمان دیہاتیوں کی طرح ہوں گے۔ ان پر اللہ کا وہی حکم جاری ہوگا جو مومنین پر جاری ہوتا ہے۔ اور ان کا مال فئی اور مال غنیمت میں کوئی حصہ نہیں ہوگا مگر یہ کہ وہ لوگ مسلمانوں کے ساتھ مل کر جہاد کریں۔ پس اگر وہ اس بات کا بھی انکار کردیں تو ان کو جزیہ دینے کی طرف بلاؤ۔ اگر وہ مان جائیں تو ان کی طرف سے یہ قبول کرو اور ان سے لڑائی کرنے سے رک جاؤ۔ اور اگر وہ انکار کردیں تو اللہ سے مدد مانگو اور ان سے قتال کرو۔

33300

(۳۳۳۰۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا أَبُو الأَشْہَبِ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : قَاتَلَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَہْلَ ہَذِہِ الْجَزِیرَۃِ مِنَ الْعَرَبِ عَلَی الإِسْلاَمِ وَلَمْ یَقْبَلْ مِنْہُمْ غَیْرَہُ ، وَکَانَ أَفْضَلَ الْجِہَاد ، وَکَانَ بَعْدَہُ جِہَادٌ آخَرُ عَلَی ہَذِہِ الطُّغْمَۃِ فِی أَہْلِ الْکِتَابِ : {قَاتِلُوا الَّذِینَ لاَ یُؤْمِنُونَ بِاللہِ وَلاَ بِالْیَوْمِ الآخِرِ} إلَی آخِرِ الآیَۃِ ، قَالَ الْحَسَنُ : مَا سِوَاہُمَا بِدْعَۃٌ وَضَلاَلَۃٌ۔
(٣٣٣٠١) حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جزیرہ عرب کے لوگوں سے اسلام پر جہاد کیا اور اسلام کے علاوہ ان سے کوئی دوسری بات قبول نہیں کی۔ اور یہ افضل ترین جہاد تھا اور اس کے بعد دوسرا جہاد اہل کتاب کے ذلیل ترین لوگوں سے کیا جس کا آیت میں ذکر ہے : { قَاتِلُوا الَّذِینَ لاَ یُؤْمِنُونَ بِاللہِ وَلاَ بِالْیَوْمِ الآخِرِ } سے آیت کے آخر تک۔ ترجمہ : جنگ کرو ان لوگوں سے جو ایمان نہیں رکھتے اللہ پر اور آخرت کے دن پر، حضرت حسن (رض) نے فرمایا : ان دونوں کے سوا جو بھی صورت ہوگی وہ بدعت اور گمراہی ہوگی۔

33301

(۳۳۳۰۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ إبْرَاہِیمَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : کَتَبَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إلَی أَہْلِ الْیَمَنِ : مَنْ صَلَّی صَلاَتَنَا وَاسْتَقْبَلَ قِبْلَتَنَا وَأَکَلَ ذَبِیحَتَنَا فَذَلِکُمَ الْمُسْلِمُ ، لَہُ ذِمَّۃُ اللہِ وَذِمَّۃُ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَمَنْ أَبَی فَعَلَیْہِ الْجِزْیَۃُ۔ (بخاری ۳۹۱)
(٣٣٣٠٢) حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یمن والوں کی طرف خط لکھا : کہ جو شخص ہماری نماز پڑھے اور ہمارے قبلہ کی طرف استقبال کرے، اور ہمارا ذبیحہ کھائے، پس وہ مسلمان ہے۔ اس کے لیے اللہ کا ذمہ ہے اور اس کے لیے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ذمہ ہے۔ اور جو ان باتوں کا انکار کرے تو اس پر جزیہ لازم ہے۔

33302

(۳۳۳۰۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا الأَعْمَشُ ، عَنْ أَبِی وَائِلٍ وَإِبْرَاہِیمَ ، قَالاَ : بَعَثَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مُعَاذًا إلَی الْیَمَنِ وَأَمَرَہُ أَنْ یَأْخُذَ الْجِزْیَۃَ مِنْ کُلِّ حَالِمٍ دِینَارًا ، أَوْ عِدْلَہُ مَعَافِرَ۔
(٣٣٣٠٣) حضرت ابو وائل (رض) اور حضرت ابراہیم (رض) دونوں حضرات فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت معاذ (رض) کو یمن کا حاکم بنا کر بھیجا اور ان کو حکم دیا کہ وہ ہر بالغ سے ایک دینار یا اس کے برابر معافر لیں۔

33303

(۳۳۳۰۴) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ أَسْلَمَ مَوْلَی عُمَرَ ، قَالَ : کَتَبَ عُمَرُ إلَی أُمَرَائِ الْجِزْیَۃِ : لاَ تَضَعُوا الْجِزْیَۃَ إِلاَّ عَلَی مَنْ جَرَتْ عَلَیْہِ الْمُوسَی ، وَلاَ تَضَعُوا الْجِزْیَۃَ عَلَی النِّسَائِ ، وَلاَ عَلَی الصِّبْیَانِ ، قَالَ : وَکَانَ عُمَرُ یَخْتِمُ أَہْلَ الْجِزْیَۃِ فِی أَعْنَاقِہِمْ۔
(٣٣٣٠٤) حضرت اسلم (رض) جو کہ حضرت عمر (رض) کے آزاد کردہ غلام ہیں فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے جزیہ وصول کرنے والے امیروں کی طرف خط لکھا : تم جزیہ مقرر نہ کرو مگر اس شخص پر جو بالغ ہو اور تم بچوں اور عورتوں پر بھی جزیہ مقرر مت کرو۔ راوی فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) جزیہ دینے والوں کی گردنوں میں مہر لگاتے تھے۔

33304

(۳۳۳۰۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا فُضَیْلُ بْنُ عِیَاضٍ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، قَالَ : یُقَاتَلُ أَہْلُ الأَدْیَانِ عَلَی الإِسْلاَمِ وَیُقَاتَلُ أَہْلُ الْکِتَابِ عَلَی الْجِزْیَۃِ۔
(٣٣٣٠٥) حضرت لیث (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت مجاہد (رض) نے ارشاد فرمایا : بتوں کے پجاریوں سے اسلام کی بنیاد پر قتال کیا جاتا تھا، اور اہل کتاب سے جزیہ کی بنیاد پر قتال کیا جاتا تھا۔

33305

(۳۳۳۰۶) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، عَن مَسْرُوقٍ ، قَالَ : لَمَّا بَعَثَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مُعَاذًا إلَی الْیَمَنِ أَمَرَہُ أَنْ یَأْخُذَ مِنْ کُلِّ حَالِمٍ دِینَارًا ، أَوْ عَدْلَہُ مَعَافِرَ۔ (ابوداؤد۳۰۳۳)
(٣٣٣٠٦) حضرت مسروق (رض) فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت معاذ (رض) کو یمن کا حاکم بنا کر بھیجا تو ان کو حکم دیا کہ وہ ہر بالغ سے ایک دینار یا اس کے برابر معافر لیں۔

33306

(۳۳۳۰۷) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ أَبِی مِجْلَزٍ أَنَّ عُمَرَ جَعَلَ عَلَی کُلِّ رَأْسٍ فِی السَّنَۃِ أَرْبَعًا وَعِشْرِینَ ، وَعَطَّلَ النِّسَائَ وَالصِّبْیَانَ۔
(٣٣٣٠٧) حضرت ابو مجلز (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے ہر شخص پر سال میں چوبیس درہم مقرر فرمائے۔ اور عورتوں اور بچوں سے ہٹا دیا۔

33307

(۳۳۳۰۸) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ أَسْلَمَ مَوْلَی عُمَرَ أَنَّ عُمَرَ کَتَبَ إلَی عُمَّالِہِ : لاَ تَضْرِبُوا الْجِزْیَۃَ عَلَی النِّسَائِ وَالصِّبْیَانِ ، وَلاَ تَضْرِبُوہَا إِلاَّ عَلَی مَنْ جَرَتْ عَلَیْہِ الْمُوسَی ، وَیَخْتِمُ فِی أَعْنَاقِہِمْ ، وَجَعَلَ جِزْیَتَہُمْ عَلَی رُؤُوسِہِمْ : عَلَی أَہْلِ الْوَرِقِ أَرْبَعِینَ دِرْہَمًا ، وَمَعَ ذَلِکَ أَرْزَاقُ الْمُسْلِمِینَ ، وَعَلَی أَہْلِ الذَّہَبِ أَرْبَعَۃُ دَنَانِیرَ ، وَعَلَی أَہْلِ الشَّامِ مِنْہُمْ مُدَّیْ حِنْطَۃٍ وَثَلاَثَۃُ أَقْسَاطِ زَیْتٍ وَعَلَی أَہْلِ مِصْرَ إرْدَبُّ حِنْطَۃٍ وَکِسْوَۃٌ وَعَسَلٌ لاَ یَحْفَظُ نَافِعٌ کَمْ ذَلِکَ وَعَلَی أَہْلِ الْعِرَاقِ خَمْسَۃَ عَشَرَ صَاعًا حِنْطَۃً ، قَالَ : قَالَ عُبَیْدُ اللہِ : وَذَکَرَ کِسْوَۃً لاَ أَحْفَظُہَا۔ (بیہقی ۱۹۵)
(٣٣٣٠٨) حضرت اسلم (رض) جو کہ حضرت عمر (رض) کے آزاد کردہ غلام ہیں فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے اپنے تمام گورنروں کو خط لکھا : کہ عورتوں اور بچوں سے جزیہ وصول نہ کرو، اور نہ وصول کرو مگر بالغ شخص سے، اور ان کی گردنوں پر مہر لگا دو ۔ اور جزیہ ان لوگوں کے پیشہ کے اعتبار سے مقرر کرو۔ چاندی والوں پر چالیس درہم لازم ہیں۔ اور اس کے ساتھ مسلمانوں کی تنخواہیں بھی۔ اور سونے والوں پر چار دینار لازم ہیں۔ اور شام والوں پر دو مد گندم ، اور تین قسط دو من زیتون، اور مصر والوں پر چوبیس صاع گندم، کپڑوں کے جوڑے ، اور شہد۔۔۔ حضرت نافع (رض) ان کی مقدار محفوظ نہ رکھ سکے کہ مقدار کتنی مقرر فرمائی۔ اور عراق والوں پر پندرہ صاع گندم : راوی کہتے ہیں : حضرت عبید اللہ نے جوڑے بھی ذکر فرمائے اور میں اس کو یاد نہ رکھ سکا۔

33308

(۳۳۳۰۹) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ ابْنِ طَاوُوسٍ ، عَنْ أَبِیہِ أَنَّ إبْرَاہِیمَ بْنِ سَعْدٍ سَأَلَ ابْنَ عَبَّاسٍ : مَا یُؤْخَذُ مِنْ أَمْوَالِ أَہْلِ الذِّمَّۃِ ، قَالَ : الْعَفْوُ۔
(٣٣٣٠٩) حضرت طاؤس (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم بن سعد (رض) نے حضرت ابن عباس (رض) سے ذمیوں سے لیے جانے والے اموال کے متعلق پوچھا ؟ آپ (رض) نے فرمایا : ضرورت سے زائد۔

33309

(۳۳۳۱۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ بْنُ سِنَانٍ أَبُو سِنَانٍ ، عَنْ عَنْتَرَۃَ أَبِی وَکِیعٍ أَنَّ عَلِیًّا کَانَ یَأْخُذُ الْعُرُوضَ فِی الْجِزْیَۃِ ، مِنْ أَہْلِ الإِبَرِ الإِبَرَ ، وَمِنْ أَہْلِ الْمَسَالِّ الْمَسَالَّ وَمِنْ أَہْلِ الْحِبَالِ الْحِبَالَ۔
(٣٣٣١٠) حضرت عنترہ ابو وکیع (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت علی (رض) جزیہ میں سامان وصول کرتے تھے، کھیتی والوں سے کھیتی ، کھجور والوں سے کھجور، اور رسی ساز سے رسی وصول کرتے تھے۔

33310

(۳۳۳۱۱) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَنِ الشَّیْبَانِیِّ ، عَنْ أَبِی عَوْنٍ مُحَمَّدِ بْنِ عُبَیْدِ اللہِ الثَّقَفِیِّ ، قَالَ : وَضَعَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ یعنی فِی الْجِزْیَۃِ عَلَی رُؤُوسِ الرِّجَالِ : عَلَی الْغَنِیِّ ثَمَانِیَۃً وَأَرْبَعِینَ ، دِرْہَمًا وَعَلَی الْوَسَطِ أَرْبَعَۃً وَعِشْرِینَ ، وَعَلَی الْفَقِیرِ اثْنَیْ عَشَرَ دِرْہَمًا۔
(٣٣٣١١) حضرت ابو عون محمد بن عبید اللہ الثقفی (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عمر نے آدمیوں کی حالت کے اعتبار سے ان پر جزیہ مقرر فرمایا : مالدار پر اڑتالیس درہم، متوسط آدمی پر چوبیس درہم اور فقیر پر بارہ درہم۔

33311

(۳۳۳۱۲) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللہِ الأَسَدِیُّ ، عَنْ مَعْقِلٍ ، قَالَ : کَتَبَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیزِ : لاَ یُؤْخَذُ مِنْ أَہْلِ الْکِتَابِ إِلاَّ صلب الْجِزْیَۃِ ، وَلاَ یُؤْخَذُ مِنْ فَارٍّ ، وَلاَ مِنْ مَیِّتٍ ، وَلاَ یُؤْخَذُ أَہْلُ الأَرْضِ بِالْفَارِّ۔
(٣٣٣١٢) حضرت معقل (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن عبد العزیز (رض) نے اپنے عمال کی طرف خط لکھا۔ اہل کتاب سے صرف اصل جزیہ وصول کیا جائے گا۔ اور راہ فرار اختیار کرنے والے کی طرف سے اور مردے کی طرف سے کچھ وصول نہیں کیا جائے گا ۔ اور زمین والوں کے بھاگنے کی صورت میں کچھ وصول نہیں کیا جائے گا۔

33312

(۳۳۳۱۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ قَیْسِ بْنِ مُسْلِمٍ ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِیٍّ ، قَالَ : کَتَبَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إلَی مَجُوسِ ہَجَرَ یَعْرِضُ عَلَیْہِمَ الإِسْلاَمَ فَمَنْ أَسْلَمَ قَبِلَ مِنْہُ وَمَنْ أَبَی ضُرِبَتْ عَلَیْہِ الْجِزْیَۃُ عَلَی أَنْ لاَ تُؤْکَلَ لَہُمْ ذَبِیحَۃٌ ، وَلاَ تُنْکَحَ لَہُمُ امْرَأَۃٌ۔
(٣٣٣١٣) حضرت حسن بن محمد بن علی (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ھجر کے مجوسیوں کو خط لکھا اور ان پر اسلام پیش کیا جو تو اسلام لے آیا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے اسلام کو قبول کرلیا۔ اور جس نے انکار کردیا ۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس پر جزیہ مقرر فرما دیا ان شرائط کے ساتھ کہ ان کا ذبیحہ نہیں کھایا جائے گا اور نہ ہی ان کی عورتوں سے نکاح کیا جائے گا۔

33313

(۳۳۳۱۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ خُصَیْفٍ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ ؛ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَخَذَ الْجِزْیَۃَ مِنْ مَجُوسِ الْبَحْرَیْنِ۔ (ابن زنجویہ ۱۲۵)
(٣٣٣١٤) حضرت عکرمہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بحرین کے مجوسیوں سے جزیہ لیا۔

33314

(۳۳۳۱۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حَدَّثَنَا مَالِکُ بْنُ أَنَسٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ؛ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَخَذَ الْجِزْیَۃَ مِنْ مَجُوسِ الْبَحْرَیْنِ ، وَأَخَذَہَا عُمَرُ مِنْ مَجُوسِ أَہْلِ فَارِسَ ، وَأَخَذَہَا عُثْمَان مِنْ مَجُوسِ بَرْبَرَ۔ (مالک ۲۷۸۔ بیہقی ۱۹۵)
(٣٣٣١٥) امام زہری (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بحرین کے مجوسیوں سے جزیہ لیا۔ اور حضرت عمر (رض) نے ایران کے مجوسیوں سے جزیہ لیا۔ اور حضرت عثمان نے بربر کے مجوسیوں سے جزیہ لیا۔

33315

(۳۳۳۱۶) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنْ بَجَالَۃَ ، قَالَ : لَمْ یَکُنْ عُمَرُ یَأْخُذُ الْجِزْیَۃَ مِنَ الْمَجُوسِ حَتَّی شَہِدَ عَبْدُ الرَّحْمَن بْنُ عَوْفٍ أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَخَذَہَا مِنْ مَجُوسِ ہَجَرَ۔ (بخاری ۳۱۵۷۔ ابوداؤد ۳۰۳۸)
(٣٣٣١٦) حضرت بجالہ (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) مجوسیوں سے جزیہ نہیں لیتے تھے یہاں تک کہ حضرت عبد الرحمن بن عوف (رض) نے اس بات کی گواہی دی کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ھجر کے مجوسیوں سے جزیہ لیا۔

33316

(۳۳۳۱۷) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ أَشْعَثَ بْنِ سَوَّارٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، قَالَ : أَخَذَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْجِزْیَۃَ مِنْ مَجُوسِ أَہْلِ ہَجَرَ وَمِنْ یَہُودِ الْیَمَنِ وَنَصَارَاہُمْ مِنْ کُلِّ حَالِمٍ دِینَارًا ، وَأَخَذَ عُمَرُ الْجِزْیَۃَ مِنْ مَجُوسِ السَّوَادِ ، وَأَخَذَ عُثْمَان مِنْ مَجُوسِ مِصْرَ الْبَرْبَرِ الْجِزْیَۃَ۔
(٣٣٣١٧) امام زہری (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اہل ھجر کے مجوسیوں سے جزیہ لیا۔ اور یمن کے یہودیوں اور عیسائیوں میں سے ہر بالغ سے ایک دینار جزیہ لیا۔ اور حضرت عمر (رض) نے سواد کے مجوسیوں سے جزیہ لیا۔ اور حضرت عثمان نے مصر میں بربری مجوسیوں سے جزیہ لیا۔

33317

(۳۳۳۱۸) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ جَعْفَرٍ ، عَنْ أَبِیہِ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ سَأَلَ عَنْ جِزْیَۃِ الْمَجُوسِ ، فَقَالَ عَبْدُ الرَّحْمَن بْنُ عَوْفٍ : سَمِعْت رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : سُنُّوا بِہِمْ سُنَّۃَ أَہْلِ الْکِتَابِ۔
(٣٣٣١٨) حضرت جعفر کے والد (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) نے مجوسیوں سے جزیہ لینے کے متعلق سوال کیا : تو حضرت عبد الرحمن بن عوف (رض) نے ارشاد فرمایا : کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے ہوئے سنا کہ ان کے ساتھ اہل کتاب والا طریقہ جاری کرو۔

33318

(۳۳۳۱۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حَدَّثَنَا سُفْیَانُ وَمَالِکُ بْنُ أَنَسٍ ، عَنْ جَعْفَرٍ ، عَنْ أَبِیہِ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ اسْتَشَارَ النَّاسَ فِی الْمَجُوسِ فِی الْجِزْیَۃِ ، فَقَالَ عَبْدُ الرَّحْمَن بْنُ عَوْفٍ : سَمِعْت رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : سُنُّوا بِہِمْ سُنَّۃَ أَہْلِ الْکِتَابِ۔
(٣٣٣١٩) حضرت جعفر (رض) کے والد فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) نے مجوسیوں سے جزیہ لینے کے بارے میں لوگوں سے مشورہ طلب کیا۔ تو حضرت عبد الرحمن بن عوف (رض) نے ارشاد فرمایا : کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یوں فرماتے ہوئے سنا کہ ان کے ساتھ اہل کتاب والا طریقہ جاری کرو۔

33319

(۳۳۳۲۰) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِینَارٍ أَنَّہُ سَمِعَ بَجَالَۃَ یُحَدِّثُ عَمْرَو بْنَ أَوْسٍ وَأَبَا الشَّعْثَائِ ، قَالَ : کُنْتُ کَاتِبًا لِجَزْئِ بْنِ مُعَاوِیَۃَ : فَأَتَانَا کِتَابُ عُمَرَ أَنِ اقْتُلُوا کُلَّ سَاحِرٍ وَسَاحِرَۃٍ ، وَفَرِّقُوا بَیْنَ کُلِّ ذِی مَحْرَمٍ مِنَ الْمَجُوسِ ، وَانْہَوْہُمْ ، عَنِ الزَّمْزَمَۃِ فَقَتَلْنَا ثَلاَثَ سَوَاحِرَ ، وَجَعَلْنَا نُفَرِّقُ بَیْنَ الْمَرْئِ وَبَیْنَ حَرِیمِہِ فِی کِتَابِ اللہِ۔
(٣٣٣٢٠) حضرت عمرو بن دینار فرماتے ہیں کہ حضرت بجالہ (رض) عمرو بن اوس اور ابو الشعشاء کو بیان فرما رہے تھے کہ میں حضرت جزء بن معاویہ (رض) کا کاتب تھا ۔ تو ہمارے پاس حضرت عمر بن خطاب (رض) کا خط آیا کہ تم ہر جادو گر اور جادو گرنی کو قتل کردو۔ اور مجوسیوں میں ہر ذی محرم کے درمیان تفریق کردو، اور ان کو کھانے کے دوران بات کرنے سے روک دو ۔ حضرت بجالہ (رض) فرماتے ہیں کہ ہم نے تین جادو گروں کو قتل کیا، اور ہم نے ایک شخص اور اس کی بیوی کے درمیان کتاب اللہ کے مطابق تفریق کردی۔

33320

(۳۳۳۲۱) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِی ہِنْدٍ ، عَنْ قُشَیْرِ بْنِ عَمْرٍو ، عَنْ بَجَالَۃَ بْنِ عَبْدَۃَ الْعَنْبَرِی ، وَکَانَ کَاتِبًا لجَزْئِ بْنِ مُعَاوِیَۃَ وَکَانَ عَلَی طَائِفَۃِ الأَہْوَازِ فَحَدَّثَ أَنَّ أَبَا مُوسَی وَہُوَ أَمِیرُ الْبَصْرَۃِ کَتَبَ إلَیْنَا أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ کَتَبَ إلَیْہِ یَأْمُرُہُ بِقَتْلِ الزَّمَازِمَۃِ حَتَّی یَتَکَلَّمُوا ، وَأَنْ تُنْزَعَ کُلُّ امْرَأَۃٍ مِنْ حَرِیمِہَا ، وَأَنْ یُقْتَلَ کُلُّ سَاحِرٍ ، فَکَتَبَ بِہَذَا أَبُو مُوسَی إلَی جَزْئِ بْنِ مُعَاوِیَۃَ ، فَدَعَا الزَّمَازِمَۃَ فَتَکَلَّمُوا ، قَالَ : وَکُنَّا إذَا کَانَتِ الْمَرْأَۃُ شَابَّۃً نَزَعَنَاہَا مِنْ حَرِیمِہَا وَأَنْکَحْنَاہَا آخَرَ ، وَإِذَا کَانَتْ عَجُوزًا نَہَیْنَا عنہا وَزَجَرْنَا عنہا۔
(٣٣٣٢١) حضرت بجالہ بن عبدۃ العنبری (رض) فرماتے ہیں کہ میں حضرت جزء بن معاویہ (رض) کا کاتب تھا اور آپ (رض) اھواز کے لوگوں پر امیر مقرر تھے۔ اس دوران حضرت ابو موسیٰ (رض) جو کہ بصرہ کے امیر تھے انھوں نے ہماری طرف خط لکھا کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) نے انھیں خط لکھ کر حکم دیا ہے کہ وہ کھانے کے درمیان منہ بند کر کے آواز نکالنے والے مجوسیوں کو قتل کردیں یہاں تک کہ وہ کلام کریں۔ اور ہر عورت کو اس کے محرم سے چھین لیا جائے اور ہر جادو گر کو قتل کردیا جائے۔ تو حضرت ابو موسیٰ (رض) نے یہ خط حضرت جزء بن معاویہ کو بھی لکھ بھیجا۔ تو آپ (رض) نے زمازمہ کو بلایا ، پس انھوں نے اس بارے میں بات چیت کی۔ اور راوی کہتے ہیں جب کوئی عورت جوان ہوجاتی تو ہم اس کے محرم سے اس کو چھین لیتے اور کسی دوسرے سے اس کا نکاح کروا دیتے۔ اور اگر عورت بوڑھی ہوتی تو ہم اس کو روک دیتے اور اس پر ڈانٹ ڈپٹ کرتے۔

33321

(۳۳۳۲۲) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ عَوْفَ قَالَ : حدَّثَنِی عَبَّادٌ ، عَنْ بَجَالَۃَ بْنِ عَبْدَۃَ ، قَالَ : کَتَبَ عُمَرُ إلَی أَبِی مُوسَی أَنَ اعْرِضُوا عَلَی مَنْ قِبَلَکُمْ مِنَ الْمَجُوسِ أَنْ یَدَعُوا نِکَاحَ أُمَّہَاتِہِمْ وَبَنَاتِہِمْ وَأَخَوَاتِہِمْ وَیَأْکُلُوا جَمِیعًا کیما یَلْحَقُوا بِأَہْلِ الْکِتَابِ وَاقْتُلُوا کُلَّ سَاحِرٍ وَکَاہِنٍ۔
(٣٣٣٢٢) حضرت بجالہ ابن عبدہ (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے حضرت ابو موسیٰ (رض) کو خط لکھا : جو تمہاری طرف مجوسی ہیں ان پر یہ بات پیش کرو کہ وہ اپنی ماؤں، بیٹیوں اور بہنوں سے نکاح چھوڑ دیں۔ اور وہ سب خاموش ہو کر کھائیں اور یہ کہ انھیں اہل کتاب سے ملا دیا جائے۔ اور ہر جادو گر اور جادو گرنی کو قتل کردو۔

33322

(۳۳۳۲۳) حَدَّثَنَا جَرِیرُ بْنُ عَبْدِ الْحَمِیدِ ، عَنْ مُوسَی بْنِ أَبِی عَائِشَۃَ ، قَالَ : سَأَلْتُ مُرَّۃَ عَنِ الرَّجُلِ یَشْتَرِی ، أَوْ یَسْبِی الْمَجُوسِیَّۃَ ، ثُمَّ یَقَعُ عَلَیْہَا قَبْلَ أَنْ تُعَلَّمَ الإِسْلاَمَ ؟ قَالَ : لاَ یَصْلُحُ ، قَالَ : وَسَأَلْت سَعِیدَ بْنَ جُبَیْرٍ ، فَقَالَ : مَا ہُوَ بِخَیْرٍ مِنْہَا إذَا فَعَلَ ذَلِکَ۔
(٣٣٣٢٣) حضرت موسیٰ بن ابی عائشہ (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت مرہ (رض) سے ایسے آدمی کے متعلق سوال کیا جس نے کسی مجوسی عورت کو خریدا یا قیدی بنایا ہو پھر وہ اس سے وطی کرلے اسلام کی تعلیم دینے سے پہلے تو اس کا کیا حکم ہے ؟ آپ (رض) نے فرمایا : یہ درست کام نہیں ہے۔ اور راوی کہتے ہیں : میں نے حضرت سعید بن جبیر (رض) سے پوچھا : تو آپ (رض) نے فرمایا : جب اس نے ایساکام کیا تو اس نے اس کے ساتھ بھلائی نہیں کی۔

33323

(۳۳۳۲۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ مُوسَی بْنِ أَبِی عَائِشَۃَ ، قَالَ : سَأَلْتُ مُرَّۃَ بْنِ شَرَاحِیلَ الْہَمْدَانِیَّ وَسَعِیدَ بْنَ جُبَیْرٍ ، عَنِ الأَمَۃِ الْمَجُوسِیَّۃِ یُصِیبُہَا الرَّجُلُ ، أَیَطَؤُہَا ؟ قَالَ : لاَ یُجَامِعُہَا حَتَّی تُسْلِمَ ، وَقَالَ سَعِیدُ بْنُ جُبَیْرٍ ، إِنْ عَادَ إلَیْہَا فَہُوَ شَرٌّ مِنْہَا۔
(٣٣٣٢٤) حضرت موسیٰ بن ابی عائشہ (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت مرہ بن شراحیل الھمدانی اور حضرت سعید بن جبیر (رض) سے مجوسی باندی کے متعلق سوال کیا کہ آدمی جب اسے پالے تو کیا اس سے وطی کرسکتا ہے ؟ حضرت مرہ نے فرمایا : وہ اس سے جماع نہ کرے یہاں تک کہ وہ اسلام لے آئے۔ اور حضرت سعید بن جبیر (رض) نے فرمایا : اگر وہ اس کی طرف دوبارہ لوٹے گا تو یہ اس کے حق میں برائی کی بات ہے۔

33324

(۳۳۳۲۵) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی، عَنْ بُرْدٍ، عَنْ مَکْحُولٍ، قَالَ: إذَا کَانَتْ وَلِیدَۃً مَجُوسِیَّۃً فَإِنَّہُ لاَ یَنْکِحُہَا حَتَّی تُسْلِمَ۔
(٣٣٣٢٥) حضرت مکحول (رض) فرماتے ہیں کہ جب لڑکی مجوسیہ ہو تو وہ اس سے نکاح نہ کرے یہاں تک کہ وہ اسلام قبول کرلے۔

33325

(۳۳۳۲۶) حَدَّثَنَا عِیسَی بْنُ یُونُسَ ، عن الأوزاعی عَنِ الزُّہْرِیِّ سَمِعَہُ یَقُولُ : لاَ تَقْرَبُ الْمَجُوسِیَّۃَ حَتَّی تَقُولَ : لاَ إلَہَ إِلاَّ اللَّہُ ، فَإذَا قَالَتْ ذَلِکَ فَہُوَ مِنْہَا إسْلاَمٌ۔
(٣٣٣٢٦) امام اوزاعی (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت زہری (رض) نے ارشاد فرمایا : تم مجوسی کے قریب مت جاؤ یہاں تک کہ وہ لا الہ الا اللہ کہہ لے۔ پس جب وہ یہ پڑھے تو اس کی جانب سے اسلام سمجھا جائے گا۔

33326

(۳۳۳۲۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ سِمَاکٍ ، عَنْ أَبِی سَلَمَۃَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، قَالَ : لاَ یَطَؤُہَا حَتَّی تُسْلِمَ۔
(٣٣٣٢٧) حضرت سماک (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت ابو سلمہ بن عبد الرحمن (رض) نے ارشاد فرمایا : اس سے وطی مت کرو یہاں تک کہ وہ اسلام قبول کرلے۔

33327

(۳۳۳۲۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ قَیْسِ بْنِ مُسْلِمٍ ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ مُحَمَّدٍ ، قَالَ : کَتَبَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إلَی مَجُوسِ ہَجَرَ یَعْرِضُ عَلَیْہِمَ الإِسْلاَمَ فَمَنْ أَسْلَمَ منہم قَبِلَ مِنْہُ ، وَمَنْ أَبَی ضُرِبَتْ عَلَیْہِ الْجِزْیَۃُ غَیْرَ أَنْ لاَ یُؤْکَلَ لَہُمْ ذَبِیحَۃٌ ، وَلاَ تُنْکَحَ لہم امْرَأَۃٌ۔
(٣٣٣٢٨) حضرت حسن بن محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ھجر کے مجوسیوں کی طرف خط لکھ کر ان پر اسلام پیش کیا۔ پس ان لوگوں میں سے جو اسلام لے آیا تو اس کے اسلام کو قبول کرلیا گیا۔ اور جس نے انکار کردیا تو اس پر جزیہ مقرر کردیا گیا۔ سوائے یہ کہ ان کا ذبیحہ نہیں کھایا جائے گا اور ان کی عورتوں سے نکاح نہیں کیا جائے گا۔

33328

(۳۳۳۲۹) حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ وَرْدَانَ ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ ؛ فِی الْمَجُوسِیَّۃِ تَکُونُ عِنْدَ الرَّجُلِ ؟ قَالَ : لاَ یَتَطِیہَا۔
(٣٣٣٢٩) حضرت یونس (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت حسن (رض) نے اس آدمی کے بارے میں یوں فرمایا : جس کے پاس مجوسیہ باندی ہو ۔ اس کو چاہیے کہ وہ اس سے وطی مت کرے۔

33329

(۳۳۳۳۰) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ حَمَّادٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : إذَا سُبِیَتِ الْمَجُوسِیَّاتُ وَعَبَدَۃُ الأَوْثَانِ عُرِضَ عَلَیْہِنَّ الإِسْلاَمُ وَجُبِرْنَ عَلَیْہِ ، فَإِنْ أَسْلَمْنَ وُطِئْنَ وَاسْتُخْدِمْنَ ، وَإِنْ أَبَیْنَ أَنْ یُسْلِمْنَ اسْتُخْدِمْنَ وَلَمْ یُوطَأْنَ۔
(٣٣٣٣٠) حضرت حماد (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم (رض) نے ارشاد فرمایا : جب مجوسیہ عورتوں یا بت پرست عورتوں کو قید کرلیا جائے تو ان پر اسلام پیش کیا جائے گا اور ان کو اسلام قبول کرنے پر مجبور کیا جائے گا پس اگر وہ اسلام لے آئیں تو ان سے وطی کی جائے گی اور ان سے خدمت کروائی جائے گی۔ اور اگر وہ اسلام لانے سے انکار کردیں تو ان سے خدمت تو لی جائے گی لیکن ان سے وطی نہیں کی جائے گی۔

33330

(۳۳۳۳۱) حَدَّثَنَا الثَّقَفِیُّ ، عَنْ مُثَنًّی ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ، قَالَ : لاَ بَأْسَ أَنْ یَشْتَرِیَ الرَّجُلُ الْجَارِیَۃَ الْمَجُوسِیَّۃَ فَیَتَسَرَّاہَا۔
(٣٣٣٣١) حضرت عمرو بن شعیب (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت سعید بن المسیب (رض) نے ارشاد فرمایا : اس میں کوئی حرج نہیں ہے کہ آدمی مجوسیہ باندی خریدے اور اس سے جماع کرے۔

33331

(۳۳۳۳۲) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ حَمَّادٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : إذَا سُبِیَتِ الْیَہُودِیَّاتُ وَالنَّصْرَانِیَّات عُرِضَ عَلَیْہِنَّ الإِسْلاَمُ وَأُجْبِرْنَ عَلَیْہِ ، فَإِنْ أَسْلَمْنَ ، أَوْ لَمْ یُسْلِمْنَ وُطِئْنَ وَاسْتُخْدِمْنَ۔
(٣٣٣٣٢) حضرت حماد (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم (رض) نے ارشاد فرمایا : جب یہودی اور نصرانی عورتوں کو قیدی بنا لیا جائے تو ان پر اسلام کو پیش کیا جائے گا ۔ پھر اگر وہ اسلام قبول کریں یا نہ کریں ۔ ان سے وطی بھی کی جاسکتی ہے اور خدمت بھی لی جاسکتی ہے۔

33332

(۳۳۳۳۳) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، قَالَ : إذَا أَصَابَ الرَّجُلُ الْجَارِیَۃَ الْمُشْرِکَۃَ فَلْیُقْرِرْہَا بِشَہَادَۃِ أَنْ لاَ إلَہَ إِلاَّ اللَّہُ ، فَإِنْ أَبَتْ أَنْ تُقِرَّ لَمْ یَمْنَعْہُ ذَلِکَ أَنْ یَقَعَ عَلَیْہَا۔
(٣٣٣٣٣) حضرت لیث (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت مجاہد (رض) نے ارشاد فرمایا : جو شخص مشرکہ باندی پالے۔ اس کو چاہیے کہ وہ اس سے لا الہ الا اللہ کا اقرار کروائے۔ پس اگر وہ اقرار کرنے سے انکار کر دے، تو یہ بات اس کے لیے وطی کرنے سے مانع نہیں ہے۔

33333

(۳۳۳۳۴) حَدَّثَنَا عَبْدُالأَعْلَی، عَنْ بُرْدٍ، عَنْ مَکْحُولٍ؛ فِی الرَّجُلِ إذَا کَانَتْ لَہُ أَمَۃٌ یَہُودِیَّۃٌ، أَوْ نَصْرَانِیَّۃٌ فَإِنَّہُ یَتطِیہَا۔
(٣٣٣٣٤) حضرت برد (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت مکحول (رض) نے اس آدمی کے بارے میں ارشاد فرمایا : کہ جب اس کے پاس یہودی یا نصرانی باندی ہو تو وہ اس سے وطی کرسکتا ہے۔

33334

(۳۳۳۳۵) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، قَالَ : إذَا کَانَتْ لَہُ أَمَۃٌ مِنْ أَہْلِ الْکِتَابِ فَلَہُ أَنْ یَغْشَاہَا إِنْ شَائَ وَیُکْرِہَہَا عَلَی الْغُسْلِ۔
(٣٣٣٣٥) حضرت معمر (رض) فرماتے ہیں کہ امام زہری (رض) نے ارشاد فرمایا : جب کسی شخص کی باندی کتابیہ ہو تو اسے اختیار ہے کہ وہ اس سے جماع کرے اور وہ اس کو نہانے پر مجبور کرسکتا ہے۔

33335

(۳۳۳۳۶) حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ وَرْدَانَ ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : الْیَہُودِیَّۃُ وَالنَّصْرَانِیَّۃ یَتطِیہُمَا۔
(٣٣٣٣٦) حضرت یونس (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت حسن (رض) نے ارشاد فرمایا : یہودی اور نصرانی باندی سے وطی کی جاسکتی ہے۔

33336

(۳۳۳۳۷) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ، عَنْ سَعِیدٍ، عَنْ قَتَادَۃَ، عَنْ مُعَاوِیَۃَ بْنِ قُرَّۃَ، قَالَ: کَانَ عَبْدُاللہِ یَکْرَہُ أَمَتہ مُشْرِکَۃً۔
(٣٣٣٣٧) حضرت قتادہ (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت معاویہ بن قرہ (رض) نے ارشاد فرمایا : کہ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) اپنی مشرکہ باندی کو ناپسند کرتے تھے۔

33337

(۳۳۳۳۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا أَبُو ہِلاَلٍ ، عَنْ مُعَاوِیَۃَ بْنِ قُرَّۃَ ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ ، قَالَ : أَکْرَہُ أَنْ أَطَأَ أمۃ مُشْرِکَۃً حَتَّی تُسْلِمَ۔
(٣٣٣٣٨) حضرت معاویہ بن قرہ (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت ابن مسعود (رض) نے ارشاد فرمایا : میں ناپسند کرتا ہوں کہ میں مشرکہ باندی سے وطی کروں یہاں تک کہ وہ اسلام قبول کرلے۔

33338

(۳۳۳۳۹) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ حَبِیبٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ ہَرِمٍ ، قَالَ : سُئِلَ جَابِرُ بْنُ زَیْدٍ ، عَنِ الرَّجُلِ یَشْتَرِی الجَارِیَۃ مِنَ السَّبْیِ فَیَقَعُ عَلَیْہَا ؟ قَالَ : لاَ ، حَتَّی یُعَلِّمَہَا الصَّلاَۃَ وَالْغُسْلَ مِنَ الْجَنَابَۃِ وَحَلْقَ الْعَانَۃِ۔
(٣٣٣٣٩) حضرت عمرو بن ھرم (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت جابر بن زید (رض) سے ایسے آدمی کے متعلق پوچھا گیا : جو قیدیوں میں پہلے کوئی باندی خریدے کیا وہ اس سے وطی کرسکتا ہے ؟ آپ (رض) نے فرمایا : نہیں ! یہاں تک کہ اس کو نماز سکھائے، اور ناپاکی کا غسل اور زیر ناف بال کاٹنا سکھائے۔

33339

(۳۳۳۴۰) حَدَّثَنَا شَاذَانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ بَکْرِ بْنِ مَاعِزٍ ، عَنْ رَبِیعِ بْنِ خُثَیْمٍ قَالَ : إذَا أَصَبْت الأَمَۃَ الْمُشْرِکَۃَ فَلاَ تَأْتِہَا حَتَّی تُسْلِمَ وَتَغْتَسِلَ۔
(٣٣٣٤٠) حضرت بکر بن ماعز (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت ربیع بن خثیم (رض) نے ارشاد فرمایا : جب تم کسی مشرکہ باندی کو حاصل کرو۔ تو تم اس کے قریب مت جاؤ یہاں تک کہ وہ اسلام قبول کرلے اور غسل کرلے۔

33340

(۳۳۳۴۱) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ قَابُوسَ ، عَنْ أَبِیہِ أَنَّ امْرَأَۃً سَأَلَتْ عَائِشَۃَ ، فَقَالَتْ : إنَّ لَنَا أظارًا مِنَ الْمَجُوسِ وَإِنَّہُمْ یَکُونُ لَہُمَ الْعِیدُ فَیُہْدُونَ لَنَا ، فَقَالَتْ : أَمَّا مَا ذُبِحَ لِذَلِکَ الْیَوْمِ فَلاَ تَأْکُلُوا ، وَلَکِنْ کُلُوا مِنْ أَشْجَارِہِمْ۔
(٣٣٣٤١) حضرت قابوس کے والد (رض) فرماتے ہیں کہ ایک عورت نے حضرت عائشہ (رض) سے سوال کیا : کہ ہمارے پاس مجوسیوں کی عورتیں ہیں ان کی عید ہوتی ہے تو وہ ہمیں کھانے کی اشیاء ہدیہ کرتی ہیں۔ آپ (رض) نے فرمایا : بہرحال وہ اشیاء جو اس دن ذبح کی جاتی ہیں تم ان کو نہ کھاؤ لیکن تم ان کے درختوں سے کھالیا کرو۔

33341

(۳۳۳۴۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ حَکِیمٍ ، عَنْ أُمِّہِ ، عَنْ أَبِی بَرْزَۃَ الأَسْلَمِیِّ ، أَنَّہُ کَانَ لَہُ سُکَّانٌ مَجُوسٌ فَکَانُوا یُہْدُونَ لَہُ فِی النَّیْرُوزِ وَالْمِہْرَجَانِ ، فَیَقُولُ لأَہْلِہِ : مَا کَانَ مِنْ فَاکِہَۃٍ فَاقْبَلُوہُ ، وَمَا کَانَ سِوَی ذَلِکَ فَرُدُّوہُ۔
(٣٣٣٤٢) حضرت ابو برزہ اسلمی (رض) فرماتے ہیں کہ ان کے پاس کچھ مجوسی آباد تھے۔ تو یہ لوگ نیروز اور مہرجان والے دن ہمیں ہدیہ بھیجا کرتے تھے۔ تو آپ (رض) اپنے گھر والوں سے فرماتے : جو پھل وغیرہ میں سے ہو اس کو تو قبول کرلیا کرو اور جو چیز اس کے علاوہ ہو اس کو لوٹا دیا کرو۔

33342

(۳۳۳۴۳) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، عَنْ أَبِی بَرْزَۃَ ، قَالَ : کُنَّا فِی غَزَاۃٍ لَنَا فَلَقِینَا أُنَاسًا مِنَ الْمُشْرِکِینَ فَأَجْہَضْنَاہُمْ عَنْ مَلَّۃٍ لَہُمْ ، فَوَقَعْنَا فِیہَا فَجَعَلْنَا نَأْکُلُ مِنْہَا وَکُنَّا نَسْمَعُ فِی الْجَاہِلِیَّۃِ أنَّہُ مَنْ أَکَلَ الْخُبْزَ سَمِنَ ، قَالَ : فَلَمَّا أَکَلْنَا تِلْکَ الْخُبْزَۃَ جَعَلَ أَحَدُنَا یَنْظُرُ فِی عِطْفَیْہِ ہَلْ سَمِنَ۔
(٣٣٣٤٣) حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت ابو برزہ (رض) نے ارشاد فرمایا : ہم لوگ کسی غزوہ میں شریک تھے۔ ہماری ملاقات مشرکین کے چند لوگوں سے ہوئی۔ تو ہم نے ان کو گرم راکھ پر بنی ہوئی روٹی کھانے سے روک دیا پھر ہم بھی اس میں پڑگئے اور ہم نے بھی اس کو کھانا شروع کردیا۔ اور ہم زمانہ جاہلیت میں سنتے تھے۔ جو شخص روٹی کھاتا ہے وہ فربہ ہوجاتا ہے۔ پس جب ہم نے یہ روٹی کھائی تو ہم میں سے ہر ایک اپنے کو یوں دیکھتا تھا کہ کیا وہ فربہ ہوگیا ؟

33343

(۳۳۳۴۴) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ أَبِی وَائِلٍ وَإِبْرَاہِیمَ ، قَالاَ : لَمَّا قَدِمَ الْمُسْلِمُونَ أَصَابُوا مِنْ أَطْعِمَۃِ الْمَجُوسِ مِنْ جُبْنِہِمْ وَخُبْزِہِمْ فَأَکَلُوا وَلَمْ یَسْأَلُوا عَنْ شَیْئٍ مِنْ ذَلِکَ۔
(٣٣٣٤٤) حضرت مغیرہ (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت ابو وائل (رض) اور حضرت ابراہیم (رض) دونوں حضرات نے ارشاد فرمایا : جب مسلمان آئے اور انھوں نے مجوسیوں کا کھانا پایا ، ان کا پنیر اور ان کی روٹیاں وغیرہ پس انھوں نے یہ چیزیں کھا لیں اور انھوں نے ان کے بارے میں سوال نہیں کیا۔

33344

(۳۳۳۴۵) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ، عَنْ ہِشَامٍ، عَنِ الْحَسَنِ، قَالَ: کَانَ یَکْرَہُ أَنْ یَأْکُلَ مِمَّا طَبَخَ الْمَجُوسُ فِی قُدُورِہِمْ، وَلَمْ یَکُنْ یَرَی بَأْسًا أَنْ یُؤْکَلَ مِنْ طَعَامِہِمْ مِمَّا سِوَی ذَلِکَ سَمْنٌ ، أَوْ جبن ، أَوْ کَامَخٌ ، أَوْ شیراز، أَوْ لَبَنٌ۔
(٣٣٣٤٥) حضرت ہشام (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت حسن (رض) اس کھانے کو ناپسند کرتے تھے جو مجوسیوں کے برتن میں پکایا گیا ہو۔ اور وہ ان کے کھانوں کو تناول فرمانے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے سوائے ان چیزوں کے ۔ گھی، پنیر، یا شوربہ یا مکھن یا دودھ وغیرہ کو۔

33345

(۳۳۳۴۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، قَالَ: حدَّثَنَا سُفْیَانُ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ الْحَسَنِ، قَالَ: لاَ بَأْسَ بِخَلِّہِمْ وَکَامَخِہِمْ وَأَلْبَانِہِمْ۔
(٣٣٣٤٦) حضرت ہشام (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت حسن (رض) نے ارشاد فرمایا : کوئی حرج نہیں مجوسیوں کے سرکہ میں اور ان کے شوربے میں اور ان کے دودھ وغیرہ میں۔

33346

(۳۳۳۴۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، قَالَ: حدَّثَنَا شَرِیکٌ، عَنْ لَیْثٍ، عَنْ مُجَاہِدٍ، قَالَ: لاَ تَأْکُلْ مِنْ طَعَامِ الْمَجُوسِیِّ إِلاَّ الْفَاکِہَۃَ۔
(٣٣٣٤٧) حضرت لیث (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت مجاہد (رض) نے ارشاد فرمایا : تم مجوسی کے کھانوں میں سے پھل کے سوا کچھ بھی مت کھاؤ۔

33347

(۳۳۳۴۸) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا ہِشَامٌ ، عَنِ الْحَسَنِ وَمُحَمَّدٍ ، قَالاَ : کَانَ الْمُشْرِکُونَ یَجِیئُونَ بِالسَّمْنِ فِی ظُرُوفِہِمْ فَیَشْتَرِیہ أَصْحَابُ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَالْمُسْلِمُونَ فَیَأْکُلُونَہُ وَنَحْنُ نَأْکُلُہُ۔
(٣٣٣٤٨) حضرت ہشام (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت حسن (رض) اور حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان دونوں حضرات نے ارشاد فرمایا : مشرکین اپنے برتنوں میں گھی لایا کرتے تھے ۔ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ اور مسلمان ان کو خرید لیتے تھے۔ پھر وہ بھی کھاتے تھے اور ہم بھی اس کو کھالیتے۔

33348

(۳۳۳۴۹) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ أَبِی عُثْمَانَ ، قَالَ : کُنَّا نَأْکُلُ السَّمْنَ ، وَلاَ نَأْکُلُ الْوَدَکَ ، وَلاَ نَسْأَلُ عَنِ الظُّرُوفِ۔
(٣٣٣٤٩) حضرت عاصم (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت ابو عثمان (رض) نے ارشاد فرمایا : ہم لوگ گھی کھاتے تھے اور چربی و چکناہٹ نہیں کھاتے تھے۔ اور نہ ہی ہم برتنوں سے متعلق پوچھتے تھے۔

33349

(۳۳۳۵۰) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، قَالَ : سَأَلْتُ إبْرَاہِیمَ عَنِ السَّمْنِ الْجَبَلِیِّ ، فَقَالَ : الْعَرَبِیُّ أَحَبُّ إلَیَّ مِنْہُ ، وَإِنِّی لآکُلُ مِنَ الْجَبَلِیِّ۔
(٣٣٣٥٠) حضرت منصور (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابراہیم (رض) سے پہاڑی گھی کے متعلق سوال کیا ؟ تو آپ (رض) نے فرمایا : عربی مجھے زیادہ پسند ہے البتہ میں کھاتا پہاڑی گھی ہوں۔

33350

(۳۳۳۵۱) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ مَکْحُولٍ ، عَنْ أَبِی إدْرِیسَ ، عَنْ أَبِی ثَعْلَبَۃَ الْخُشَنِیِّ ، قَالَ : قلْت : یَا رَسُولَ اللہِ ، إنَّا نَغْزُو أَرْضَ الْعَدُوِّ فَنَحْتَاجُ إلَی آنِیَتِہِمْ ، فَقَالَ : اسْتَغْنُوا عنہا مَا اسْتَطَعْتُمْ ، فَإِنْ لَمْ تَجِدُوا غَیْرَہَا فَاغْسِلُوہَا وَکُلُوا فِیہَا وَاشْرَبُوا۔
(٣٣٣٥١) حضرت ابو ثعلبہ الخشنی (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول 5! ہم لوگ دشمن کی سرزمین میں جہاد کرتے ہیں۔ پس ہمیں ان کے برتنوں کی ضرورت پڑتی ہے تو ہم کیا کریں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم اپنی طاقت کے بقدر ان سے بچو۔ اور اگر ان کے علاوہ کوئی اور چیز نہ پاؤ تو ان کو دھو لو۔ پھر ان میں کھا پی لیا کرو۔

33351

(۳۳۳۵۲) حَدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ بْنُ عَیَّاشٍ ، عَنْ بُرْدٍ ، عَنْ عَطَائٍ ، عَنْ جَابِرٍ ، قَالَ : کُنَّا نَغْزُو مَعَ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَرْضَ الْمُشْرِکِینَ ، فَلاَ نَمْتَنِعُ أَنْ نَأْکُلَ فِی آنِیَتِہِمْ وَنَشْرَبَ فِی أَسْقِیَتِہِمْ۔
(٣٣٣٥٢) حضرت جابر (رض) فرماتے ہیں کہ ہم لوگ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ مشرکوں کی زمین میں جہاد کرتے تھے اور ہم نہیں رکے ان کے برتنوں میں کھانے سے اور نہ ہی ان کے برتنوں میں پینے سے۔

33352

(۳۳۳۵۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ نُجَیٍّ الْحَضْرَمِیِّ أَنَّ حُذَیْفَۃَ اسْتَسْقَی فَأَتَاہُ دِہْقَانُ بِبَاطِیَۃٍ فِیہَا خَمْرٌ فَغَسَلَہَا حُذَیْفَۃُ ، ثُمَّ شَرِبَ فِیہَا۔
(٣٣٣٥٣) حضرت عبداللہ بن نجی الحضرمی (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت حذیفہ (رض) نے پانی مانگا۔ تو جاگیر دار ایک بڑا شیشہ کا برتن جس میں شراب تھی لے آیا۔ پس حضرت حذیفہ (رض) نے اس کو دھو لیا پھر اس میں پانی پیا۔

33353

(۳۳۳۵۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ عُرْوَۃَ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ قُشَیْرٍ أَبِی الْمُہَلِّ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ ، قَالَ: کَانَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَظْہَرُونَ عَلَی الْمُشْرِکِینَ فَیَأْکُلُونَ مِنْ أَوْعِیَتِہِمْ وَیَشْرَبُونَ فِی أَسْقِیَتِہِمْ۔
(٣٣٣٥٤) حضرت ابن سیرین (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ (رض) مشرکین پر غالب آجاتے تھے۔ پھر ان کے برتنوں میں کھاتے تھے۔ اور ان کے برتنوں میں ہی پیتے تھے۔

33354

(۳۳۳۵۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ بُرْدٍ ، عَنْ عَطَائٍ ، عَنْ جَابِرٍ ، قَالَ : کُنَّا نَأْکُلُ مِنْ أَوْعِیَتِہِمْ وَنَشْرَبُ فِی أَسْقِیَتِہِمْ۔
(٣٣٣٥٥) حضرت عطائ (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت جابر (رض) نے ارشاد فرمایا : ہم لوگ ان کے برتنوں میں کھاتے تھے اور ان کے پینے کے برتنوں سے ہی پیتے تھے۔

33355

(۳۳۳۵۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا ابْنُ عَوْنٍ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ ، قَالَ : کَانُوا یَکْرَہُونَ آنِیَۃَ الْکُفَّارِ ، فَإِنْ لَمْ یَجِدُوا مِنْہَا بُدًّا غَسَلُوہَا وَطَبَخُوا فِیہَا۔
(٣٣٣٥٦) حضرت ابن عون (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت ابن سیرین (رض) نے ارشاد فرمایا : صحابہ (رض) کفار کے برتنوں کو استعمال کرنا مکروہ سمجھتے تھے۔ پس اگر وہ ان کے بغیر کوئی چارہ ٔ کار نہیں پاتے تو وہ ان کو دھوتے اور پھر ان میں پکاتے تھے۔

33356

(۳۳۳۵۷) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : إذَا احْتَجْتُمْ إلَی قُدُورِ الْمُشْرِکِینَ وَآنِیَتِہِمْ فَاغْسِلُوہَا وَاطْبُخُوا فِیہَا۔
(٣٣٣٥٧) حضرت ہشام (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت حسن (رض) نے ارشاد فرمایا : جب تم لوگ مشرکین کی ہانڈیوں اور ان کے برتنوں کے محتاج ہو تو ان کو دھو لیا کرو پھر ان میں پکایا کرو۔

33357

(۳۳۳۵۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ الْوَلِیدِ الشَّنِّیُّ ، قَالَ : سَأَلْتُ سَعِیدَ بْنَ جُبَیْرٍ ، عَنْ قُدُورِ الْمَجُوسِ، فَقَالَ : اغْسِلْہَا وَاطْبُخْ فِیہَا۔
(٣٣٣٥٨) حضرت عمر بن ولید الشنی (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت سعید بن جبیر (رض) سے مجوسی کے برتن کے متعلق پوچھا ؟ آپ (رض) نے فرمایا : تم ان کو دھو لو اور ان میں پکا لو۔

33358

(۳۳۳۵۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا الرَّبِیعُ ، عَنِ الْحَسَنِ أَنَّہُ قَالَ فِی بُرَمہم وصحافہم : اغْسِلْہَا ، وَاطْبُخْ فِیہَا، وَائْتَدِمْ۔
(٣٣٣٥٩) حضرت ربیع (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت حسن (رض) نے ان کی پتھر کی ہانڈیوں اور پلیٹوں کے بارے میں فرمایا : ان کو دھو لو۔ اور ان میں پکا لیا کرو اور شوربہ بنا لیا کرو۔

33359

(۳۳۳۶۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ سِمَاکِ بْنِ حَرْبٍ ، عَنْ قَبِیصَۃَ بْنِ ہُلْبٍ ، عَنْ أبِیہِ ، قَالَ : سَأَلْتُ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، عَنْ طَعَامِ النَّصَارَی ، فَقَالَ : لاَ یَخْتَلِجَنَّ فِی صَدْرِکَ طَعَامٌ ضَارَعَتْ فِیہِ نَصْرَانِیَّۃٌ۔ (ابن ماجہ ۲۸۳۰۔ مسند ۸۵۹)
(٣٣٣٦٠) حضرت ھلب (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نصاریٰ کے کھانوں کے متعلق سوال کیا ؟ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ہرگز شک مت ڈالے تیرے دل میں وہ کھانا جس کو تم عیسائیوں کے مشابہ پاؤ۔

33360

(۳۳۳۶۱) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّہُ لَمْ یَرَ بِطَعَامِہِمْ بَأْسًا۔
(٣٣٣٦١) حضرت نافع (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عمر (رض) یہود و نصاریٰ کے کھانے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے۔

33361

(۳۳۳۶۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ قَیْسِ بْنِ سَکَنٍ الأَسَدِیِّ ، قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللہِ : إنَّکُمْ نَزَلْتُمْ بَیْنَ فَارِسَ وَالنَّبَطِ ، فَإِذَا اشْتَرَیْتُمْ لَحْمًا ، فَإِنْ کَانَ ذَبِیحَۃَ یَہُودِیٍّ ، أَوْ نَصْرَانِیٍّ فَکُلُوہُ ، وَإِنْ ذَبَحَہُ مَجُوسِیٌّ فَلاَ تَأْکُلُوہُ۔
(٣٣٣٦٢) حضرت قیس بن سکن الاسدی (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) نے ارشاد فرمایا : بیشک تم لوگ ایرانی اور نبطی لوگوں کے درمیان اترتے ہو۔ پس جب تم ان سے گوشت خریدو تو اگر وہ یہودی یا نصرانی کا ذبح شدہ ہو تو اس کو کھالیا کرو ۔ اور اگر اس کو کسی مجوسی نے ذبح کیا ہو تو اس کو مت کھایا کرو۔

33362

(۳۳۳۶۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، وَعَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ : {وَطَعَامُ الَّذِینَ أُوتُوا الْکِتَابَ حِلٌّ لَکُمْ} قَالاَ : الذَّبَائِحُ۔
(٣٣٣٦٣) حضرت مجاہد (رض) اور حضرت ابراہیم (رض) ان دونوں حضرات نے ارشاد فرمایا : قرآن کی آیت : ترجمہ : اور اہل کتاب کا کھانا تمہارے لیے حلال ہے۔ اس میں اہل کتاب کے ذبح شدہ جانور مراد ہیں۔

33363

(۳۳۳۶۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ الضُّرَیْسِ الأَسَدِیُّ ، قَالَ : سَأَلْتُ الشَّعْبِیَّ ، قُلْتُ : إنَّا نَغْزُو أَرْضَ أَرْمِینِیَۃَ أَرْضَ نَصْرَانِیَّۃَ ، فَمَا تَرَی فِی ذَبَائِحِہِمْ وَطَعَامِہِمْ ؟ قَالَ : کُنَّا إذَا غَزَوْنَا أَرْضًا سَأَلْنَا عَنْ أَہْلِہَا ، فَإذَا قَالُوا : یَہُودٌ ، أَوْ نَصَارَی ، أَکَلْنَا مِنْ ذَبَائِحِہِمْ وطعامہم وَطَبَخْنَا فِی آنِیَتِہِمْ۔
(٣٣٣٦٤) حضرت عمرو بن ضریس اسدی (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت شعبی (رض) سے پوچھا : کہ ہم لوگ آرمینیہ میں جہاد کرنے جا رہے ہیں جو کہ عیسائیوں کا علاقہ ہے۔ آپ (رض) کی ان کے ذبیحوں اور کھانے کے بارے میں کیا رائے ہے ؟ آپ (رض) نے فرمایا : جب ہم کسی جگہ میں جہاد کرتے تھے تو ہم وہاں کے لوگوں کے متعلق پوچھ لیا کرتے تھے۔ اگر وہ کہتے : ہم یہود ہیں یا عیسائی ہیں۔ تو ہم ان کا ذبیحہ اور کھانا کھالیتے تھے، اور ہم ان کے برتنوں میں پکا لیتے تھے۔

33364

(۳۳۳۶۵) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : إذَا وُجِدَ الْکَنْزُ فِی أَرْضِ الْعَدُوِّ فَفِیہِ الْخُمُسُ ، وَإِذَا وُجِدَ فِی أَرْضِ الْعَرَبِ فَفِیہِ الزَّکَاۃُ۔
(٣٣٣٦٥) حضرت عاصم (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت حسن (رض) نے ارشاد فرمایا : جو خزانہ دشمن کی زمین میں پایا گیا ہو تو اس میں خمس واجب ہوگا۔ اور جو خرانہ ارض عرب میں پایا گیا ہو تو اس میں زکوۃ واجب ہوگی۔

33365

(۳۳۳۶۶) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ حُصَیْنٍ عَمَّنْ شَہِدَ الْقَادِسِیَّۃَ ، قَالَ : بَیْنَا رَجُلٌ یَغْتَسِلُ إذَا فَحَصَ لَہُ الْمَائُ التُّرَابَ عَنْ لَبِنَۃٍ مِنْ ذَہَبٍ ، فَأَتَی سَعْدَ بْنَ أَبِی وَقَّاصٍ فَأَخْبَرَہُ ، فَقَالَ : اجْعَلْہَا فِی غَنَائِمِ الْمُسْلِمِینَ۔
(٣٣٣٦٦) حضرت حصین (رض) فرماتے ہیں کہ ایک شخص جو جنگ قادسیہ میں شریک تھے وہ بیان فرماتے ہیں کہ ہمارے درمیان ایک آدمی تھا اس نے غسل کیا تو اچانک مٹی پر پانی پڑنے کی وجہ سے اسے سونے کی اینٹ ملی تو وہ حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) کے پاس آیا اور انھیں اس بارے میں بتلایا ۔ آپ (رض) نے ارشاد فرمایا : اس کو مسلمانوں کے مال غنیمت میں ڈال دو ۔

33366

(۳۳۳۶۷) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ أَبِی قَیْسٍ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ ثَرْوَانَ ، عَنْ ہُزَیْلٍ ، قَالَ : جَائَ رَجُلٌ إلَی عَبْدِ اللہِ ، فَقَالَ : إنِّی وَجَدْت مِئَتَیْ دِرْہَمٍ ، فَقَالَ عَبْدُ اللہِ : إنِّی لاَ أَرَی الْمُسْلِمِینَ بلغت أَمْوَالُہُمْ ہَذَا ، أُرَاہُ زَکَاۃَ مَالٍ عادیٍّ ، فَأَدِّ خُمُسَہ فِی بَیْتِ الْمَالِ وَلَک مَا بَقِیَ۔
(٣٣٣٦٧) حضرت ھزیل (رض) فرماتے ہیں کہ ایک آدمی حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) کی خدمت میں آیا اور عرض کیا : بیشک مجھے دو سو درہم ملے ہیں۔ آپ (رض) نے فرمایا : میرا خیال نہیں ہے کہ مسلمانوں کا مال اس مقدار تک پہنچا ہے۔ میرے خیال میں عام مدفون مال ہے۔ پس تم اس میں سے خمس بیت المال کو ادا کرو۔ اور جو باقی بچے گا وہ تمہارا ہوگا۔

33367

(۳۳۳۶۸) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا ہِشَامُ بْنُ سَعْدٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِی عَمْرُو بْنُ شُعَیْبٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ جَدِّہِ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ فِی الرِّکَازِ الْخُمُسُ۔
(٣٣٣٦٨) حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : مدفون خزانہ میں خمس واجب ہے۔

33368

(۳۳۳۶۹) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ بْنِ أَبِی خَالِدٍ وَزَکَرِیَّا ، عَنِ الشَّعْبِیِّ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ فِی الرِّکَازِ الْخُمُسُ۔
(٣٣٣٦٩) امام شعبی (رض) فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : مدفون خزانہ میں خمس واجب ہے۔

33369

(۳۳۳۷۰) حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحِیمِ، عَنْ أَشْعَثَ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہُ۔
(٣٣٣٧٠) حضرت ابوہریرہ (رض) سے بھی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مذکورہ ارشاد منقول ہے۔

33370

(۳۳۳۷۱) حَدَّثَنَا الثَّقَفِیُّ، عَنْ أَیُّوبَ وَوَکِیعٍ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ کِلاَہُمَا، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ، عَنْ أبِی ہُرَیْرَۃَ بِمِثْلِہِ وَلَمْ یَرْفَعْہُ۔
(٣٣٣٧١) حضرت ابوہریرہ (رض) سے موقوفاً مذکورہ ارشاد اس سند کے ساتھ بھی منقول ہے۔

33371

(۳۳۳۷۲) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ مُجَالِدٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ أَنَّ غُلاَمًا مِنَ الْعَرَبِ وَجَدَ سَتُّوقَۃً فِیہَا عَشْرَۃُ آلاَفِ دِرْہَمٍ، فَأَتَی بِہَا عُمَرَ فَأَخَذَ مِنْہَا خُمُسَہَا أَلْفَیْنِ وَأَعْطَاہُ ثَمَانیَۃَ آلاَفٍ۔
(٣٣٣٧٢) امام شعبی (رض) فرماتے ہیں کہ عرب کے ایک غلام کو پوستین کا ایک تھیلا ملا جس میں دس ہزار درہم تھے۔ تو وہ اس کو حضرت عمر (رض) کے پاس لے آیا۔ آپ (رض) نے اس میں سے خمس یعنی دو ہزار لے لیے اور آٹھ ہزار اس کو عطا کردیے۔

33372

(۳۳۳۷۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، عَنْ إسْمَاعِیلَ، عَنِ الشَّعْبِیِّ أَنَّ رَجُلاً وَجَدَ فِی خَرِبَۃٍ أَلْفًا وَخَمْسَمِئَۃِ دِرْہَمٍ ، فَأَتَی عَلِیًّا، فَقَالَ : أَدِّ خُمُسَہَا وَلَک ثَلاَثَۃُ أَخْمَاسِہَا وَسَنُطَیِّبُ لَکَ الْخُمُسَ الْبَاقِیَ۔
(٣٣٣٧٣) امام شعبی (رض) فرماتے ہیں کہ ایک آدمی کو ویران جگہ میں پندرہ سو درہم ملے۔ وہ حضرت علی (رض) کی خدمت میں آیا۔ تو آپ (رض) نے فرمایا : تم اس کا خمس ادا کرو۔ اور اس کے خمس کا تیسرا حصہ تیرے لیے ہوگا۔ اور باقی خمس کو عنقریب ہم تیرے لیے پاکیزہ کردیں گے۔

33373

(۳۳۳۷۴) حَدَّثَنَا عَبَّادٌ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : الرِّکَازُ الْکَنْزُ الْعَادِی ، وفِیہِ الْخُمُسُ۔
(٣٣٣٧٤) حضرت ہشام (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت حسن (رض) نے ارشاد فرمایا : رکاز یعنی مدفون خزانے میں خمس واجب ہے۔

33374

(۳۳۳۷۵) حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ بن سُلَیْمَانَ ، عَنْ عُمَرَ الضَّبِّیِّ ، قَالَ : بَیْنَمَا رِجَالٌ بسابور یلینون ، أَوْ یُثِیرُونَ الأَرْضَ إذْ أَصَابُوا کَنْزًا وَعَلَیْہَا مُحَمَّدُ بْنُ جَابِرٍ الرَّاسِبِی ، فَکَتَبَ فِیہِ إلَی عَدِیٍّ فَکَتَبَ عَدِیٌّ إلَی عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِیزِ ، فَکَتَبَ عُمَرُ أَنْ خُذُوا مِنْہُ الْخُمُسَ۔
(٣٣٣٧٥) حضرت عمر الضبی (رض) فرماتے ہیں کہ اس درمیان کہ سابور کے آدمی زمین کو نرم کر رہے تھے یا یوں فرمایا : کہ زمین میں ہل چلا رہے تھے ۔ کہ ان کو خزانہ مل گیا۔ اور ان پر حضرت محمد بن جابر الراسبی امیر تھے۔ تو انھوں نے اس بارے میں حضرت عدی (رض) کو خط لکھا۔ اور حضرت عدی (رض) نے حضرت عمر بن عبد العزیز (رض) کو خط لکھ کر اس بارے میں دریافت کیا۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز (رض) نے جواب میں لکھا : کہ ان سے خمس لے لو۔

33375

(۳۳۳۷۶) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ فِی الرِّکَازِ الْخُمُسُ۔
(٣٣٣٧٦) حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : مدفون خزانہ میں خمس واجب ہے۔

33376

(۳۳۳۷۷) حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ ، عَنْ کَثِیرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ جَدِّہِ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ فِی الرِّکَازِ الْخُمُسُ۔
(٣٣٣٧٧) حضرت عبداللہ اپنے والد سے نقل فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : مدفون خزانہ میں خمس واجب ہے۔

33377

(۳۳۳۷۸) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، عَنْ إسْرَائِیلَ ، عَنْ سِمَاکٍ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : قضَی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی الرِّکَازِ الْخُمُسَ۔
(٣٣٣٧٨) حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مدفون خزانہ کے بارے میں خمس کا فیصلہ فرمایا۔

33378

(۳۳۳۷۹) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو ، عَنْ أَبِی سَلَمَۃَ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی الرِّکَازِ الْخُمُسُ۔ (بخاری ۱۴۹۹۔مسلم ۱۳۳۲)
(٣٣٣٧٩) حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : مدفون خزانہ میں خمس واجب ہے۔

33379

(۳۳۳۸۰) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنِ الْحَکَمِ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَیْمُونٍ أَنَّ عُمَرَ جَعَلَ عَلَی أَہْلِ السَّوَادِ عَلَی کُلِّ جَرِیبٍ قَفِیزًا وَدِرْہَمًا۔
(٣٣٣٨٠) حضرت عمرو بن میمون (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے کھیتی والوں پر ہر کھیتی میں ایک قفیز اور ایک درہم مقرر فرمایا۔

33380

(۳۳۳۸۱) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الشَّیْبَانِیِّ ، عَنْ أَبِی عَوْنٍ مُحَمَّدِ بْنِ عُبَیْدِ اللہِ الثَّقَفِیِّ ، قَالَ : وَضَعَ عُمَرُ عَلَی أَہْلِ السَّوَادِ عَلَی کُلِّ جَرِیبٍ عَامِرٍ ، أَوْ غَامِرٍ قَفِیزًا وَدِرْہَمًا ، وَعَلَی جَرِیبِ الرُّطَبَۃِ خَمْسَۃَ دَرَاہِمَ وَخَمْسَۃَ أَقْفِزَۃٍ ، وَعَلَی جَرِیبِ الشَّجَرِ عَشَرَۃَ دَرَاہِمَ وَعَشْرَۃَ أَقْفِزَۃٍ ، وَعَلَی جَرِیبِ الْکَرْمِ عَشَرَۃَ دَرَاہِمَ وَعَشْرَۃَ أَقْفِزَۃٍ ، وَلَمْ یَذْکُرِ النَّخْلَ۔
(٣٣٣٨١) حضرت ابو عون محمد بن عبید اللہ الثقفی (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے اہل سواد پر ہر آباد یا غیر آباد زمین میں ایک قفیز اور ایک درہم مقرر فرمایا : اور سبزی کی کھیتی پر پانچ درہم اور پانچ قفیز مقرر فرمائے۔ اور درختوں کی کھیتی پر دس درہم اور دس قفیز مقرر فرمائے اور انگور کی کھیتی پر بھی دس درہم اور دس قفیز مقرر فرمائے۔ اور کھجور کا ذکر نہیں فرمایا۔

33381

(۳۳۳۸۲) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَنِ الشَّیْبَانِیِّ ، عَنْ أَبِی عَوْنٍ مُحَمَّدِ بْنِ عُبَیْدِ اللہِ الثَّقَفِیِّ ، قَالَ : وَضَعَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ عَلَی السَّوَادِ عَلَی کُلِّ جَرِیبِ أَرْضٍ یَبْلُغُہُ الْمَائُ عَامِرٍ ، أَوْ غَامِرٍ دِرْہَمًا وَقَفِیزًا مِنْ طَعَامٍ وعَلَی الْبَسَاتِینِ عَلَی کُلِّ جَرِیبٍ عَشَرَۃَ دَرَاہِمَ وَعَشْرَۃَ أَقْفِزَۃٍ مِنْ طَعَامٍ ، وَعَلَی الرِّطَابِ عَلَی کُلِّ جَرِیبِ أَرْضٍ خَمْسَۃَ دَرَاہِمَ وَخَمْسَۃَ أَقْفِزَۃٍ مِنْ طَعَامٍ وَعَلَی الْکُرُومِ عَلَی کُلِّ جَرِیبِ أَرْضٍ عَشَرَۃَ دَرَاہِمَ وَعَشْرَۃَ أَقْفِزَۃٍ، وَلَمْ یَضَعْ عَلَی النَّخْلِ شَیْئًا جَعَلَہُ تَبَعًا لِلأَرْضِ۔
(٣٣٣٨٢) حضرت ابو عون محمد بن عبداللہ الثقفی (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب سواد والوں پر ہر کھیتی میں جس کی زمین پانی سے سیراب ہوتی ہو چاہے آباد ہو یا غیر آباد ایک درہم اور کھانے کا ایک قفیز مقرر فرمایا : اور باغات کی تمام کھیتیوں پر دس درہم اور کھانے کے دس قفیز مقرر فرمائے۔ اور سبزیوں کی تمام کھیتیوں پر پانچ درہم اور کھانے کے پانچ قفیز مقرر فرمائے۔ اور انگور کی مکمل کھیتی پر دس درہم اور کھانے کے دس قفیز مقرر فرمائے اور کھجور کی کھیتی پر کچھ مقرر نہیں فرمایا۔ اسے زمین کے تابع قرار دیا۔

33382

(۳۳۳۸۳) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ أَبِی مِجْلَزٍ ، قَالَ : بَعَثَ عُمَرُ عُثْمَانَ بْنَ حُنَیْفٍ عَلَی مِسَاحَۃِ الأَرْضِ ، قَالَ : فَوَضَعَ عُثْمَان عَلَی الْجَرِیبِ مِنَ الْکَرْمِ عَشَرَۃَ دَرَاہِمَ ، وَعَلَی جَرِیبِ النَّخْلِ ، ثَمَانیَۃَ دَرَاہِمَ ، وَعَلَی جَرِیبِ الْقَصَبِ سِتَّۃَ دَرَاہِمَ ، یَعْنِی الرَّطْبَۃَ ، وَعَلَی جَرِیبِ الْبُرِّ أَرْبَعَۃَ دَرَاہِمَ ، وَعَلَی جَرِیبِ الشَّعِیرِ دِرْہَمَیْنِ۔
(٣٣٣٨٣) حضرت ابو مجلز (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) نے عثمان بن حُنیف کو زمین کی پیمائش ناپنے کے لیے بھیجا۔ تو حضرت عثمان بن حنیف (رض) نے انگور کی کھیتی پر دس درہم مقرر فرمائے اور کھجور کی کھیتی پر آٹھ درہم مقرر فرمائے۔ اور سبزی کی کھیتی پر چھ درہم مقرر فرمائے اور گیہوں کی کھیتی پر چار درہم مقرر فرمائے اور جو کی کھیتی پر دو درہم مقرر فرمائے۔

33383

(۳۳۳۸۴) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنِ ابْنِ أَبِی عَرُوبَۃَ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ أَبِی مِجْلَزٍ أَنَّ عُمَرَ جَعَلَ عَلَی جَرِیبِ النَّخْلِ ثَمَانیَۃَ دَرَاہِمَ۔
(٣٣٣٨٤) حضرت ابو مجلز (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے کھجور کی کھیتی پر آٹھ درہم مقرر فرمائے۔

33384

(۳۳۳۸۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا ابْنُ أَبِی لَیْلَی ، عَنِ الْحَکَمِ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ بَعَثَ عُثْمَانَ بْنَ حُنَیْفٍ عَلَی السَّوَاد ، فَوَضَعَ عَلَی کُلِّ جَرِیبٍ عَامِرٍ ، أَوْ غَامِرٍ یَنَالُہُ الْمَائُ دِرْہَمًا وَقَفِیزًا ، یَعْنِی الْحِنْطَۃَ وَالشَّعِیرَ ، وَعَلَی کل جَرِیبِ الْکَرْمِ عَشْرَۃً وَعَلَی جَرِیبِ الرِّطَابِ خَمْسَۃً۔
(٣٣٣٨٥) حضرت حکم (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) نے عثمان بن حنیف (رض) کو مالدار لوگوں کے پاس بھیجا۔ تو انھوں نے ہر آباد اور غیر آباد زمین کی کھیتی پر جو پانی سے سیراب ہوتی ہو ایک درہم اور گندم یا جو کا ایک قفیز مقرر فرمایا۔ اور ہر انگور کی کھیتی پر دس دس مقرر فرمائے ۔ اور سبزی کی کھیتی پر پانچ مقرر فرمائے۔

33385

(۳۳۳۸۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ صَالِحٍ ، عَنْ أَبَانَ بْنِ تَغْلِبَ ، عَنْ رَجُلٍ ، عَنْ عُمَرَ أَنَّہُ وَضَعَ عَلَی النَّخْلِ عَلَی الرِّقلَّتَیْنِ دِرْہَمًا ، وَعَلَی الْفَارِسِیَّۃِ دِرْہَمًا۔
(٣٣٣٨٦) حضرت ابان بن تغلب (رض) ایک آدمی سے نقل کرتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے کھجور کے دو لمبے درختوں پر ایک درہم مقرر فرمایا : اور ہر فارسی پر بھی ایک درہم مقرر فرمایا۔

33386

(۳۳۳۸۷) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ حُصَیْنٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَیْمُونٍ ، قَالَ : جِئْت وَإِذَا عُمَرُ وَاقِفٌ عَلَی حُذَیْفَۃَ وَعُثْمَانَ بْنِ حُنَیْفٍ ، فَقَالَ : تَخَافَانِ أَنْ تَکُونَا حَمَّلْتُمَا الأَرْضَ مَا لاَ تُطِیقُ ، فَقَالَ حُذَیْفَۃُ : لَوْ شِئْت لأَضْعَفْت أَرْضِی ، قَالَ : وَقَالَ عُثْمَان بْنُ حُنَیْفٍ : لَقَدْ حَمَّلْت أَرْضِی أَمْرًا ہِیَ لَہُ مُطِیقَۃٌ ، وَمَا فِیہَا کَثِیرُ فَضْلٍ ، فَقَالَ : انْظُرا مَا لَدَیْکُمَا أَنْ تَکُونَا حَمَّلْتُمَا الأَرْضَ مَا لاَ تُطِیقُ۔ (بخاری ۳۷۰۰)
(٣٣٣٨٧) حضرت عمرو بن میمون فرماتے ہیں کہ میں حاضر ہوا تو حضرت عمر (رض) حضرت حذیفہ اور حضرت عثمان بن حنیف کے پاس کھڑے تھے۔ حضرت عمر (رض) فرما رہے تھے کہ تم دونوں کو اس بات کا خوف ہے کہ تم زمین والوں کو اس چیز کا مکلف بناؤ گے جس کی وہ طاقت نہیں رکھتے۔ حضرت حذیفہ (رض) نے کہا کہ اگر میں چاہوں تو اپنی زمین پر دگنا کر دوں۔ حضرت عثمان بن حنیف نے فرمایا کہ میں نے اپنی زمین کو ایسی چیز کا مکلف بنایا ہے جس کی وہ طاقت رکھتی ہے اور اس میں بہت فضل ہے۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا کہ تم دونوں سوچ لو کہیں ایسا نہ ہو کہ زمین کو اس چیز کا مکلف بناؤ جس کی اس میں طاقت نہیں ہے۔

33387

(۳۳۳۸۸) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنِ الْحَکَمِ ، قَالَ سَمِعْت عَمْرَو بْنَ مَیْمُونٍ ، قَالَ : دَخَلَ عُثْمَان بْنُ حُنَیْفٍ عَلَی عُمَرَ فَسَمِعْتہ یَقُولُ : لأَنْ زِدْت عَلَی کُلِّ رَأْسٍ دِرْہَمَیْنِ وَعَلَی کُلِّ جَرِیبِ أَرْضٍ دِرْہَمًا وَقَفِیزًا مِنْ طَعَامٍ لاَ یَضُرُّہُمْ ذَلِکَ ، وَلاَ یُجْہِدُہُمْ ، أَوْ کَلِمَۃً نَحْوَہَا ، قَالَ : نَعَمْ ، قَالَ : فَکَانَ عَلَی کُلِّ رَأْسٍ ثَمَانِیَۃٌ وَأَرْبَعُونَ ، فَجَعَلَہَا خَمْسِینَ۔
(٣٣٣٨٨) حضرت عمرو بن میمون فرماتے ہیں کہ حضرت عثمان بن حنیف حضرت عمر (رض) کی خدمت میں حاضر ہوئے، حضرت عمر نے ان سے فرمایا کہ اگر تم ہر ایک پر دو درہم کا اضافہ کردو اور ہر جریب زمین پر ایک درہم اور ایک قفیز غلے کا اضافہ کردو تو انھیں کوئی نقصان نہیں ہوگا۔ حضرت عثمان بن حنیف نے اس کی تائید کی۔ پہلے ایک شخص کے ذمے اڑتالیس تھا اب پچاس کردیا گیا۔

33388

(۳۳۳۸۹) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ طَلْحَۃَ ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ سُلَیْمَانَ ، قَالَ : کَتَبَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیزِ إلَی عَبْدِ الْحَمِیدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ : آمُرُک أَنْ تُطَرِّزَ أَرْضَہُمْ ، یَعْنِی أَہْلَ الْکُوفَۃِ ، وَلاَ تَحْمِلْ خَرَابًا عَلَی عَامِرٍ ، وَلاَ عَامِرًا عَلَی خَرَابٍ ، وَانْظُرَ الْخَرَابَ فَخُذْ مِنْہُ مَا أَطَاقَ وَأَصْلِحْہُ حَتَّی یَعْمَُرَ ، وَلاَ تَأْخُذْ مِنَ الْعَامِرِ إِلاَّ وَظِیفَۃَ الْخَرَاجِ فِی رِفْقٍ وَتَسْکِینٍ لأَہْلِ الأَرْضِ ، وَآمُرُک أَنْ لاَ تَأْخُذَ فِی الْخَرَاجِ إِلاَّ وَزْنَ سَبْعَۃٍ لَیْسَ لَہَا آس ، وَلاَ أُجُورَ الضَّرَّابِینَ ، وَلاَ إذابۃ الْفِضَّۃَ ، وَلاَ ہَدِیَّۃَ النَّیْرُوزِ وَالْمِہْرَجَانِ ، وَلا ثَمَنَ الْصُحُفِ ، وَلاَ أُجُورَ الْفُسُوحِ ، وَلاَ أُجُورَ الْبُیُوتِ ، وَلاَ دِرْہَمَ النِّکَاحِ ، وَلاَ خَرَاجَ عَلَی مَنْ أَسْلَمَ مِنْ أَہْلِ الأَرْضِ۔
(٣٣٣٨٩) حضرت داؤد بن سلیمان فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز نے عبدالحمید بن عبدالرحمن کو خط لکھا کہ میں تمہیں حکم دیتا ہوں کہ اہل کوفہ کی زمین پر غور کر۔ کسی بنجر زمین پر آباد زمین کا حکم نہ لگاؤ اور کسی آباد زمین پر بنجر زمین کا حکم نہ لگاؤ۔ بنجر زمین کو آباد کرنے کی پوری کوشش کرو۔ زمین کو آباد کرنے والے سے صرف خراج لو تاکہ ان کے ساتھ نرمی ہو اور انھیں سہولت ملے۔ میں تمہیں حکم دیتا ہوں کہ خراج میں صرف سات کا وزن لو، ضرابین کی اجرت نہ لو۔ چاندی پگھلی ہوئی نہ لو۔ نیروز اور مرجان کا ہدیہ نہ لو۔ صحف کی قیمت نہ لو۔ فسوح کی اجرت نہ لو، کمروں کا کرایہ نہ لو، نکاح کا درہم نہ لو اور جو مسلمان ہوجائے اس سے خراج نہ لو۔

33389

(۳۳۳۹۰) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ شِبْلٍ ، عَنِ ابْنِ أَبِی نَجِیحٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ قَوْلَہُ {مُسَوِّمِینَ} مُعَلَّمِینَ مجزوزۃ أَذْنَابُ خُیُولِہِمْ عَلَیْہَا الْعِہْنُ وَالصُّوفُ۔
(٣٣٣٩٠) حضرت ابن ابی نجیح (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت مجاہد (رض) نے اللہ رب العزت کے اس قول { مُسَوِّمِینَ } کے بارے میں فرمایا : کہ نشان لگے ہوئے تھے۔ یعنی ان کے گھوڑوں کی دمیں کٹی ہوئی تھیں اور ان پر اون تھی۔

33390

(۳۳۳۹۱) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِی عَدِیٍّ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، عَنْ عُمَیْرِ بْنِ إِسْحَاقَ ، قَالَ : قیلَ لَہُمْ یَوْمَ بَدْرٍ تَسَوَّمُوا فَإِنَّ الْمَلاَئِکَۃَ قَدْ تَسَوَّمَتْ ، قَالُوا : فَأَوَّلُ مَا جُعِلَ الصُّوفُ لَیَوْمَئِذٍ۔
(٣٣٣٩١) حضرت ابن عون (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عمیر بن اسحاق (رض) نے ارشاد فرمایا : غزوہ بدر کے دن صحابہ (رض) سے کہا گیا : تم کوئی نشانی اور علامت بنا لو۔ پس بیشک ملائکہ نے بھی نشانی لگائی ہوئی ہے۔ انھوں نے فرمایا : سب سے پہلے اسی دن اون کو نشانی بنایا گیا۔

33391

(۳۳۳۹۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا إسْرَائِیلُ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ حَارِثَۃَ بْنِ مُضَرِّبٍ الْعَبْدِیِّ ، عَنْ عَلِیٍّ ، قَالَ : کَانَ سِیمَا أَصْحَابِ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَوْمَ بَدْرٍ الصُّوفُ الأَبْیَضُ۔
(٣٣٣٩٢) حضرت حارثہ بن مضرب العبدی (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت علی (رض) نے ارشاد فرمایا : غزوہ بدر کے دن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب کی نشانی سفید اون تھی۔

33392

(۳۳۳۹۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا ہِشَامُ بْنُ عُرْوَۃَ ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ وَلَدِ الزُّبَیْرِ ، یُقَالَ لَہُ : یَحْیَی بْنُ عَبَّادٍ ، قَالَ : کَانَ عَلَی الزُّبَیْرِ یَوْمَ بَدْرٍ عِمَامَۃٌ صَفْرَائُ مُعْتَجِرًا بِہَا فَنَزَلَتِ الْمَلاَئِکَۃُ عَلَیْہِمْ عَمَائِمُ صُفْرٌ۔
(٣٣٣٩٣) حضرت ہشام بن عروہ (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت یحییٰ بن عباد (رض) نے ارشاد فرمایا : غزوہ بدر کے دن حضرت زبیر (رض) کے سر پر زرد رنگ کا عمامہ تھا جس کے پلہ کو آپ (رض) نے اپنے منہ سے لپیٹا ہوا تھا۔ پس ملائکہ اترے اس حال میں کہ ان کے سروں پر بھی زرد عمامے تھے۔

33393

(۳۳۳۹۴) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ ، عَنْ عَبَّادِ بْنِ حَمْزَۃَ ، عَنِ الزُّبَیْرِ بِنَحْوٍ مِنْہُ۔
(٣٣٣٩٤) حضرت زبیر (رض) کے بارے میں مذکورہ ارشاد اس سند سے بھی منقول ہے۔

33394

(۳۳۳۹۵) حَدَّثَنَا ہُشَیم ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِیزِ بْنِ صُہَیْبٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِکٍ ، قَالَ قَدِمَ نَاسٌ مِنْ عُرَیْنَۃَ الْمَدِینَۃَ فَاجْتَوَوْہَا ، فَقَالَ لَہُمْ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إِنْ شِئْتُمْ أَنْ تَخْرُجُوا إلَی إبِلِ الصَّدَقَۃِ فَتَشْرَبُوا مِنْ أَبْوَالِہَا وَأَلْبَانِہَا فَفَعَلُوا وَاسْتَصَحُّوا ، قَالَ : فَمَالُوا عَلَی الرُِّاعَاء فَقَتَلُوہُمْ وَاسْتَاقُوا ذَوْدَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَکَفَرُوا بَعْدَ إسْلاَمِہِمْ ، فَبَعَثَ فِی آثَارِہِمْ فَأُتِیَ بِہِمْ فَقَطَّعَ أَیْدِیَہُمْ وَأَرْجُلَہُمْ وَسَمَلَ أَعْیُنَہُمْ وَتُرِکُوا بِالْحَرَّۃِ حَتَّی مَاتُوا۔ (مسلم ۱۲۹۶۔ ابویعلی ۳۹۸۲)
(٣٣٣٩٥) حضرت انس بن مالک (رض) فرماتے ہیں کہ قبیلہ عرینہ کے کچھ لوگ مدینہ منورہ آئے تو ان کو مدینہ کی آب و ہوا موافق نہ آئی۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے فرمایا : اگر تم چاہو تو صدقے کے اونٹوں کی طرف نکل جاؤ۔ اور ان کے دودھ اور پیشاب میں سے کچھ پیو پس انھوں نے ایسا کیا تو وہ صحت یاب ہوگئے۔ راوی کہتے ہیں : پھر وہ لوگ چرواہوں کی طرف مائل ہوئے اور انھوں نے ان کو قتل کردیا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چند مویشی ہانک کرلے گئے اور اسلام لانے کے بعد انھوں نے کفر کیا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے پیچھے ایک جماعت کو بھیجا پس ان کو پکڑ کر لایا گیا اور ان کے ہاتھ اور پاؤں کاٹ دیے گئے اور ان کی آنکھوں کو داغا گیا اور انھیں حرہ کے مقام پر چھوڑ دیا گیا یہاں تک کہ یہ لوگ مرگئے۔

33395

(۳۳۳۹۶) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ حُمَیْدٍ ، عَنْ أَنَسٍ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَ ذَلِکَ۔ (مسلم ۱۲۹۶۔ ترمذی ۷۲)
(٣٣٣٩٦) حضرت انس (رض) سے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مذکورہ ارشاد اس سند سے بھی منقول ہے۔

33396

(۳۳۳۹۷) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، عَنْ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ بَدَّلَ دِینَہُ فَاقْتُلُوہُ۔
(٣٣٣٩٧) حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جو اپنے دین کو تبدیل کرے تو تم اس کو قتل کردو۔

33397

(۳۳۳۹۸) حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ حُمَیْدِ بْنِ ہِلاَلٍ أَنَّ مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ أَتَی أَبَا مُوسَی ، وَعِنْدَہُ رَجُلٌ یَہُودِیٌّ ، فَقَالَ : مَا ہَذَا ، قَالَ : ہَذَا یَہُودِیٌّ أَسْلَمَ ، ثُمَّ ارْتَدَ ، وَقَدِ اسْتَتَابَہُ أَبُو مُوسَی شَہْرَیْنِ ، فَقَالَ مُعَاذٌ : لاَ أَجْلِسُ حَتَّی أَضْرِبَ عُنُقَہُ قَضَاء اللَّہُ وَقَضَاء رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔
(٣٣٣٩٨) حضرت حمید بن ھلال (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت معاذ بن جبل (رض) حضرت ابو موسیٰ (رض) کے پاس تشریف لائے اس حال میں کہ آپ (رض) کے پاس ایک یہودی آدمی تھا۔ تو آپ (رض) نے پوچھا : اس کا کیا معاملہ ہے ؟ انھوں نے فرمایا : یہ یہودی اسلام لایا تھا پھر مرتد ہوگیا اور تحقیق حضرت ابو موسیٰ (رض) نے دو مہینہ اس کو توبہ کے لیے مہلت دی۔ اس پر حضرت معاذ (رض) نے فرمایا : میں ہرگز نہیں بیٹھوں گا یہاں تک کہ میں اس کی گردن نہ اڑا دوں۔ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ فیصلہ ہے۔

33398

(۳۳۳۹۹) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ زَکَرِیَّا ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ ضَمْرَۃَ ، قَالَ : ارْتَدَّ عَلْقَمَۃُ بْنُ عُلاَثَۃَ ، عَنْ دِینِہِ بَعْدَ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَاتَلَہُ الْمُسْلِمُونَ ، قَالَ : فَأَبَی أَنْ یَجْنَحَ لِلسَّلْمِ ، فَقَالَ أَبُو بَکْرٍ : لاَ یُقْبَلُ مِنْک إِلاَّ سَلْمٌ مُخْزِیَۃٌ ، أَوْ حَرْبٌ مُجْلِیَۃٌ ، قَالَ ، فَقَالَ : وَمَا سَلْمٌ مُخْزِیَۃٌ ، قَالَ : تَشْہَدُونَ عَلَی قَتْلاَنَا أَنَّہُمْ فِی الْجَنَّۃِ ، وَأَنَّ قَتْلاَکُمْ فِی النَّارِ ، وَتَدُونَ قَتْلاَنَا ، وَلاَ نَدِی قَتْلاَکُمْ ، فَاخْتَارُوا سِلْمًا مُخْزِیَۃً۔
(٣٣٣٩٩) حضرت عاصم بن قرہ (رض) فرماتے ہیں کہ علقمہ بن علاثہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد ، اپنے دین سے مرتد ہوگیا ۔ تو مسلمانوں نے اس سے قتال کیا۔ راوی کہتے ہیں : اس نے صلح کے لیے جھکنے سے انکار کردیا۔ تو حضرت ابوبکر (رض) نے اس سے فرمایا : تم سے کچھ قبول نہیں کیا جائے گا سوائے رسوا کردینے والی صلح کے یا سخت جنگ کے۔ اس نے پوچھا : رسوا کردینے والی صلح سے کیا مراد ہے ؟ آپ (رض) نے فرمایا : یہ کہ تم ہمارے مردوں کے بارے میں اس بات کی گواہی دو کہ بیشک وہ جنت میں ہیں۔ اور یقیناً تمہارے مردے جہنم میں ہیں۔ اور تم ہمارے مقتولین کی دیت ادا کرو گے اور ہم تمہارے مقتولین کی دیت ادا نہیں کریں گے۔ تو ان لوگوں نے رسوائی والی صلح کا انتخاب کرلیا۔

33399

(۳۳۴۰۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ قَیْسِ بْنِ مُسْلِمٍ ، عْن طَارِقِ بْنِ شِہَابٍ ، قَالَ : جَائَ وَفْدُ بُزَاخَۃَ أَسَدٍ وَغَطَفَانَ إلَی أَبِی بَکْرٍ یَسْأَلُونَہُ الصُّلْحَ ، فَخَیَّرَہُمْ أَبُو بَکْرٍ بَیْنَ الْحَرْبِ الْمُجْلِیَۃِ ، وَالسَّلْمِ الْمُخْزِیَۃِ ، قَالَ : فَقَالُوا : ہَذَا الْحَرْبُ الْمُجْلِیَۃُ قَدْ عَرَفْنَاہَا ، فَمَا السَّلْمُ الْمُخْزِیَۃُ ، قَالَ : قَالَ أَبُو بَکْرٍ : تُؤَدُّونَ الْحَلْقَۃَ وَالْکُرَاعَ ، وَتَتْرُکُونَ أَقْوَامًا یَتْبِعُونَ أَذْنَابَ الإِبِلِ حَتَّی یُرِی اللَّہُ خَلِیفَۃَ نَبِیِّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَالْمُسْلِمِینَ أَمْرًا یَعْذِرُونَکُمْ بِہِ ، وَتَدُونَ قَتْلاَنَا ، وَلاَ نَدِی قَتْلاَکُمْ ، وَقَتْلاَنَا فِی الْجَنَّۃِ وَقَتْلاَکُمْ فِی النَّارِ ، وَتَرُدُّونَ مَا أَصَبْتُمْ مِنَّا وَنَغْنَمُ مَا أَصَبْنَا مِنْکُمْ ، فَقَالَ عُمَرُ ، فَقَالَ : قَدْ رَأَیْت رَأْیًا ، وَسَنُشِیرُ عَلَیْک ، أَمَّا أَنْ یُؤَدُّوا الْحَلْقَۃَ وَالْکُرَاعَ فَنِعْمَ مَا رَأَیْت ، وَأَمَّا أَنْ یَتْرُکُوا أَقْوَامًا یَتَّبِعُونَ أَذْنَابَ الإِبِلِ حَتَّی یَرَی اللَّہُ خَلِیفَۃَ نَبِیِّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَالْمُسْلِمِینَ أَمْرًا یَعْذِرُونَہُمْ بِہِ فَنِعْمَ مَا رَأَیْت وَأَمَّا أَنْ نَغْنَمَ مَا أَصَبْنَا مِنْہُمْ وَیَرُدُّونَ مَا أَصَابُوا مِنَّا فَنِعْمَ مَا رَأَیْت ، وَأَمَّا أَنَّ قَتْلاَہُمْ فِی النَّارِ وَقَتْلاَنَا فِی الْجَنَّۃِ فَنِعْمَ مَا رَأَیْت ، وَأَمَّا أَنْ لاَ نَدِیَ قَتْلاَہُمْ فَنِعْمَ مَا رَأَیْت ، وَأَمَّا أَنْ یَدُوا قَتْلاَنَا فَلا ، قَتْلاَنَا قُتِلُوا عَنْ أَمْرِ اللہِ فَلاَ دِیَاتٍ لَہُمْ ، فَتَتَابَعَ النَّاسُ عَلَی ذَلِکَ۔
(٣٣٤٠٠) حضرت طارق بن شھاب (رض) فرماتے ہیں کہ قبیلہ اسد اور غطفان کے بڑے لوگوں کا وفد حضرت ابوبکر (رض) کے پاس آیا اور ان لوگوں نے آپ (رض) سے صلح کا سوال کیا۔ تو حضرت ابوبکر (رض) نے ان سے رسوا کردینے والی صلح یا سخت جنگ کے درمیان اختیار دیا۔ تو وہ لوگ کہنے لگے۔ اس سخت اور صفایا کردینے والی جنگ کو تو ہم نے پہچان لیا ۔ یہ رسوا کردینے والی صلح کیا ہے ؟ حضرت ابوبکر (رض) نے فرمایا : تم تمام اسلحہ اور گھوڑے دو گے ، اور تم لوگوں کو چھوڑ دو گے کہ وہ اونٹ کی دم کی پیروی کریں۔ یعنی جس کی مرضی پیروی کریں۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلیفہ اور مسلمانوں کو ایسی بات دکھا دیں جس کی وجہ سے وہ تم لوگوں کو معذور سمجھیں اور تم ہمارے مقتولین کی دیت ادا کرو گے۔ اور ہم تمہارے مقتولین کی دیت ادا نہیں کریں گے اور ہمارے مقتولین جنت میں ہیں اور تمہارے مقتولین جہنم میں ہیں۔ اور جو چیز تم نے ہماری لی ہے وہ تم واپس لوٹاؤ گے اور ہم نے جو تمہارا مال لیا ہے وہ مال غنیمت ہوگا۔
اس پر حضرت عمر (رض) کھڑے ہوئے اور فرمایا : تحقیق یہ آپ کی رائے ہے۔ اور عنقریب ہم آپ کو ایک مشورہ دیں گے۔ بہرحال وہ اسلحہ اور گھوڑے دیں گے تو یہ بہت اچھی رائے ہے۔ اور یہ کہ وہ لوگوں کو چھوڑ دیں گے کہ وہ اونٹ کی دم کی پیروی کریں یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلیفہ اور مسلمانوں کو کوئی ایسی بات دکھلا دے جس کی وجہ سے وہ ان کو معذور سمجھیں یہ بھی بہت اچھی رائے ہے۔ اور ہم نے جو ان کا مال لیا ہے وہ مال غنیمت ہوگا۔ اور انھوں نے جو ہمارا مال لیا وہ ہمیں واپس لوٹائیں گے ۔ تو یہ بھی بہت اچھی رائے ہے۔ اور یہ کہ ان کے مقتولین جہنم میں ہیں اور ہمارے مقتولین جنت میں ہیں تو یہ بھی بہت اچھی رائے ہے۔ اور یہ کہ ہم ان کے مقتولین کی دیت ادا نہیں کریں گے تو یہ بھی بہت اچھی رائے ہے۔ اور یہ کہ وہ ہمارے مقتولین کی دیت ادا کریں گے تو یہ درست نہیں۔ کیونکہ ہمارے مقتولین اللہ تعالیٰ کے معاملہ میں قتل کیے گئے تو ان کے لیے کوئی دیتیں نہیں ہوں گی۔ تو لوگوں نے اس بات پر ان کی موافقت کی۔

33400

(۳۳۴۰۱) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ ، قَالَ : ارْتَدَّ عَلْقَمَۃُ بْنُ عُلاَثَۃَ فَبَعَثَ أَبُو بَکْرٍ إلَی امْرَأَتِہِ وَوَلَدِہِ ، فَقَالَتْ : إِنْ کَانَ عَلْقَمَۃُ کَفَرَ فَإِنِّی لَمْ أَکْفُرْ أَنَا ، وَلاَ وَلَدِی ، فَذَکَرَ ذَلِکَ لِلشَّعْبِیِّ ، فَقَالَ: ہَکَذَا فَعَلَ بِہِمْ ، یَعْنِی بِأَہْلِ الرِّدَّۃِ۔
(٣٣٤٠١) حضرت ابن سیرین (رض) فرماتے ہیں کہ علقمہ بن علاثہ مرتد ہوگیا۔ تو حضرت ابوبکر (رض) نے اس کی بیوی اور بیٹے کی طرف قاصد بھیجا ۔ اس کی بیوی نے کہا : اگرچہ علقمہ نے کفر کیا ہے لیکن میں نے کفر نہیں کیا اور نہ ہی میرے بیٹے نے ۔ آپ (رض) نے یہ بات امام شعبی (رض) کے سامنے ذکر فرمائی۔ تو آپ (رض) نے فرمایا : اسی طرح مرتدین کے ساتھ معاملہ ہوگا۔

33401

(۳۳۴۰۲) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ نَحْوَہُ وَزَادَ فِیہِ : ثُمَّ إِنَّہُ جَنَحَ لِلسَّلْمِ فِی زَمَانِ عُمَرَ فَأَسْلَمَ فَرَجَعَ إلَی امْرَأَتِہِ کَمَا کَانَ۔
(٣٣٤٠٢) حضرت ابن سیرین (رض) سے مذکورہ ارشاد اس سند سے بھی منقول ہے۔ اس میں اتنا اضافہ ہے۔ پھر علقمہ بن علاثہ حضرت عمر (رض) کے زمانے میں صلح کے لیے جھک گیا اور اسلام لے آیا۔ پھر اس نے اپنی بیوی کی طرف رجوع کرلیا جیسا کہ وہ تھا۔

33402

(۳۳۴۰۳) حَدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ بْنِ مُہَاجِرٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ أَنَّ أَبَا بَکْرٍ ، قَالَ : لَوْ مَنَعُونِی عَقَاْلاً مِمَّا أَعْطَوْا رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَجَاہَدْتُہُمْ ، ثُمَّ تَلاَ : (وَمَا مُحَمَّدٌ إِلاَّ رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُ) إلَی آخِرِ الآیَۃِ۔
(٣٣٤٠٣) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ ابوبکر (رض) نے فرمایا اگر یہ لوگ مجھے اونٹ کی رسی دینے سے بھی رکیں گے جو وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیا کرتے تھے تو میں ضرور ان سے جہاد کروں گا ۔ پھر آپ (رض) نے یہ آیت تلاوت فرمائی۔ ترجمہ : اور نہیں ہیں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سوائے رسول کے۔ اور تحقیق ان سے پہلے بہت سے رسول گزر چکے۔ آیت کے آخرتک آپ (رض) نے تلاوت فرمائی۔

33403

(۳۳۴۰۴) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنِ ابْنِ أَبِی مُلَیْکَۃَ ، قَالَ : قَالَ عُمَرُ : وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ لَوْ أَطَاعَنَا أَبُو بَکْرٍ لَکَفَرْنَا فِی صَبِیحَۃٍ وَاحِدَۃٍ إذْ سَأَلُوا التَّخْفِیفَ من الزَّکَاۃِ ، فَأَبَی عَلَیْہِمْ ، وقَالَ : لَوْ مَنَعُونِی عَقَاْلاً لَجَاہَدْتُہُمْ۔
(٣٣٤٠٤) حضرت ابن ابی ملیکہ (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے ارشاد فرمایا : اگر ابوبکر (رض) ہماری اطاعت کرتے تو ہم ایک صبح میں کفر کرلیتے۔ کیونکہ جب لوگوں نے ان سے زکوۃ میں کمی کرنے کا سوال کیا تو انھوں نے ان کی بات ماننے سے انکار کردیا اور فرمایا : اگر وہ مجھے ایک اونٹ کی رسی دینے سے بھی رکے تو میں ضرور ان سے جہاد کروں گا۔

33404

(۳۳۴۰۵) حَدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ طَاوُوسٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : لاَ یُسَاکِنُکُمَ الْیَہُودُ وَالنَّصَارَی فِی أَمْصَارِکُمْ ، فَمَنْ أَسْلَمَ مِنْہُمْ ، ثُمَّ ارْتَدَّ فَلاَ تَضْرِبُوا إِلاَّ عُنُقَہُ۔
(٣٣٤٠٥) حضرت طاؤس (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عباس (رض) نے ارشاد فرمایا : یہود و نصاریٰ تم لوگوں کو اپنے شہروں میں نہیں بسائیں گے۔ پس ان میں سے جو اسلام لایا پھر وہ مرتد ہوگیا تو تم اس کی گردن مار دو ۔

33405

(۳۳۴۰۶) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِی ہِنْدٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا عَامِرٌ أَنَّ أَنَسَ بْنَ مَالِکٍ حَدَّثَہُ أَنَّ نَفَرًا مِنْ بَکْرِ بْنِ وَائِلٍ ارْتَدُّوا عَنِ الإِسْلاَمِ وَلَحِقُوا بِالْمُشْرِکِینَ فَقُتِلُوا فِی الْقِتَالِ ، فَلَمَّا أَتَیْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ بِفَتْحِ تُسْتَرَ ، قَالَ : مَا فَعَلَ النَّفَرُ مِنْ بَکْرِ بْنِ وَائِلٍ ، قَالَ : قُلْتُ عَرَضْت فِی حَدِیثٍ آخَرَ لأَشْغَلَہُ عَنْ ذِکْرِہِمْ ، قَالَ : مَا فَعَلَ النَّفَرُ مِنْ بَکْرِ بْنِ وَائِلٍ، قَالَ: قُلْتُ: قُتِلُوا یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ، قَالَ: لَوْ کُنْتُ أَخَذْتہم سِلْمًا کَانَ أَحَبُّ إلَیَّ مِمَّا طَلَعَتْ عَلَیْہِ الشَّمْسُ مِنْ صَفْرَائَ وَبَیْضَائَ، قَالَ: قُلْتُ: یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ، وَمَا کَانَ سَبِیلُہُمْ لَوْ أَخَذْتہمْ إِلاَّ الْقَتْلَ، قَوْمٌ ارْتَدُّوا عَنِ الإِسْلاَمِ وَلَحِقُوا بِالشِّرْکِ، قَالَ: کُنْتُ أَعْرِضُ أَنْ یَدْخُلُوا فِی الْبَابِ الَّذِی خَرَجُوا مِنْہُ، فَإِنْ فَعَلُوا قبِلْت ذَلِکَ مِنْہُمْ، وَإِنْ أَبَوْا اسْتَوْدَعْتہمَ السِّجْنَ۔
(٣٣٤٠٦) حضرت عامر (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت انس بن مالک (رض) نے ارشاد فرمایا : قبیلہ بکر بن وائل کے کچھ افراد اسلام سے مرتد ہوگئے اور مشرکین سے جا ملے۔ پھر ان کو جنگ میں قتل کردیا گیا۔ پھر جب میں حضرت عمر بن خطاب (رض) کے پاس تستر کی فتح کی خبر لے کر آیا۔ تو آپ (رض) نے فرمایا : قبیلہ بکر بن وائل کے لوگوں کا کیا معاملہ ہوا ؟ راوی کہتے ہیں کہ میں نے آپ (رض) کے سامنے دوسری بات شروع کردی تاکہ میں آپ (رض) کو ان کے ذکر سے ہٹا دوں، لیکن آپ (رض) نے پھر پوچھا : قبیلہ بکر بن وائل کے گروہ کا کیا معاملہ ہوا ؟ میں نے عرض کیا۔ اے امیر المؤمنین ! ان کو قتل کردیا گیا ۔ آپ (رض) نے فرمایا : اگر میں ان سے صلح کا معاملہ کرتا تو یہ بات میرے نزدیک اس سونا، چاندی سے زیادہ محبوب ہوتی جس پر سورج طلوع ہوتا ہے۔ راوی کہتے ہیں : میں نے کہا : اے امیرالمؤمنین ! اگر آپ (رض) ان لوگوں کو پکڑ لیتے جو اسلام سے مرتد ہوئے اور مشرکین سے جا ملے تو ان کے قتل کے سوا کیا راستہ ہوسکتا تھا ؟ آپ (رض) نے فرمایا : میں ان کے سامنے یہ بات پیش کرتا کہ وہ اسی دروازے میں داخل ہوجائیں جس سے وہ نکلے ہیں پس اگر وہ ایسا کرتے تو میں ان کی طرف سے یہ چیزیں قبول کرلیتا اور اگر وہ ایسا کرنے سے انکار کردیتے تو میں ان کو جیلوں میں قید کردیتا۔

33406

(۳۳۴۰۷) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ سَعِیدِ بْنِ حَیَّانَ ، عَنْ عَمَّارٍ الدُّہْنِیِّ ، قَالَ : حدَّثَنِی أَبُو الطُّفَیْلِ ، قَالَ : کُنْتُ فِی الْجَیْشِ الَّذِینَ بَعَثَہُمْ عَلِیُّ بْنُ أَبِی طَالِبٍ إلَی بَنِی نَاجِیَۃَ ، فَانْتَہَیْنَا إلَیْہِمْ فَوَجَدْنَاہُمْ عَلَی ثَلاَثِ فِرَقٍ ، قَالَ : فَقَالَ : أَمِیرُنَا لِفِرْقَۃٍ مِنْہُمْ : مَا أَنْتُمْ ؟ قَالُوا : نَحْنُ قَوْمٌ نَصَارَی وَأَسْلَمْنَا ، فثبتنا علی إسلامنا ، قَالَ اعتزلوا ، ثم قَالَ للثانیۃ : ما أنتم ؟ قالوا نحن قوم من النصاری لم نر دینا أَفْضَلَ مِنْ دِینِنَا فثبتنا علیہ فقال اعتزلو ، ثم قَالَ لفرقۃ أخری : ما أنتم ؟ قالوا نحن قوم من النصاری فَأَبَوْا ، فَقَالَ لأَصْحَابِہِ : إذَا مَسَحْت رَأْسِی ثَلاَثَ مَرَّاتٍ فَشُدُّوا عَلَیْہِمْ فَفَعَلُوا فَقَتَلُوا الْمُقَاتِلَۃَ وَسَبَوْا الذَّرَارِی ، فَجِئْت بِالذَّرَارِیِّ إلَی عَلِیٍّ وَجَائَ مِصْقَلَۃُ بْنُ ہُبَیْرَۃَ فَاشْتَرَاہُمْ بِمِائَتَیْ أَلْفٍ فَجَائَ بِمِئَۃِ أَلْفٍ إلَی عَلِی ، فَأَبَی أَنْ یَقْبَلَ ، فَانْطَلَقَ مِصْقَلَۃُ بِدَرَاہِمِہِ وَعَمَدَ إلَیْہِمْ مِصْقَلَۃُ فَأَعْتَقَہُمْ وَلَحِقَ بِمُعَاوِیَۃَ فَقِیلَ لِعَلِیٍّ : إِلاَّ تَأْخُذُ الذُّرِّیَّۃَ ، فَقَالَ : لاَ ، فَلَمْ یَعْرِضْ لَہُمْ۔
(٣٣٤٠٧) حضرت عمار الدھنی (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت ابو الطفیل (رض) نے ارشاد فرمایا : میں اس لشکر میں موجود تھا جس کو حضرت علی (رض) نے بنو ناجیہ کی طرف بھیجا تھا۔ جب ہم ان کے پاس پہنچے تو ہم نے ان لوگوں کو تین گروہوں میں تقسیم پایا۔ پس ہمارے امیر نے ان کے ایک گروہ سے پوچھا : تمہارا معاملہ کیا ہے ؟ انھوں نے کہا : ہم عیسائی تھے اور ہم نے اسلام قبول کیا اور خود کو اسلام پر ثابت قدم رکھا۔ امیر نے کہا : تم الگ ہو جاؤ۔ پھر امیر نے دوسرے گروہ سے پوچھا : تمہارا کیا معاملہ ہے ؟ ان لوگوں نے کہا : ہم عیسائی لوگ تھے۔ ہم نے اپنے دین سے افضل کسی دین کو نہیں سمجھا لہٰذا ہم نے خود کو اپنے دین پر ثابت قدم رکھا تو امیر نے کہا : تم بھی الگ ہو جاؤ۔
پھر امیر نے آخری گروہ سے پوچھا : تمہارا کیا معاملہ ہے ؟ انھوں نے کہا : ہم لوگ عیسائی تھی پس ہم نے اسلام قبول کیا پھر ہم اسلام سے پھرگئے کیونکہ ہم نے اپنے دین سے افضل کوئی دین نہیں سمجھا اور ہم عیسائی ہوگئے ۔ امیر نے ان سے کہا : تم اسلام لے آؤ۔ انھوں نے انکار کردیا۔ تو امیر نے اپنے ساتھیوں سے کہا : جب میں تین مرتبہ اپنے سر پر ہاتھ پھیروں تو تم ان پر حملہ کردینا پس لوگوں نے ایسا ہی کیا اور ان کے لڑنے والوں کو قتل کردیا اور ان کی اولاد کو قیدی بنا لیا۔ پھر میں قیدی لے کر حضرت علی (رض) کی خدمت میں آگیا۔ اور معقلہ بن ھبیرہ آیا اور اس نے ان قیدیوں کو دو لاکھ میں خرید لیا پھر وہ ایک لاکھ لے کر حضرت علی (رض) کے پاس آیا تو آپ (رض) نے اس کو قبول کرنے سے انکار کردیا۔ معقلہ اپنے دراہم لے کر واپس چلا گیا اور ان غلاموں کے پاس آیا اور ان سب کو آزاد کردیا اور حضرت معاویہ (رض) سے جا ملا۔ پھر حضرت علی (رض) سے پوچھا گیا ؟ آپ (رض) نے وہ اولاد کیوں نہ لے لی ؟ آپ (رض) نے فرمایا : نہیں۔ پھر آپ (رض) نے ان سے کوئی تعرض نہیں فرمایا۔

33407

(۳۳۴۰۸) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ عَبْدِ الْحَمِیدِ بْنِ جَعْفَرٍ ، عَنْ یَزِیدَ بْنِ أَبِی حَبِیبٍ ، عَنْ أَبِی عُلاَقَۃَ ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ بَعَثَ سَرِیَّۃً فَوَجَدُوا رَجُلاً مِنَ الْمُسْلِمِینَ تَنَصَّرَ بَعْدَ إسْلاَمِہِ فَقَتَلُوہُ ، فَأُخْبِرَ عُمَرُ بِذَلِکَ ، فَقَالَ : ہَلْ دَعَوْتُمُوہُ إلَی الإِسْلاَمِ ، قَالُوا : لاَ قَالَ : فَإِنِّی أَبْرَأُ إلَی اللہِ مِنْ دَمِہِ۔
(٣٣٤٠٨) حضرت ابو علاقہ (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) نے ایک لشکر بھیجا پس ان لوگوں نے مسلمانوں میں سے ایک آدمی پایا جو اسلام لانے کے بعد عیسائی ہوگیا ۔ تو انھوں نے اس شخص کو قتل کردیا۔ پھر حضرت عمر (رض) کو اس کی خبر دی گئی آپ (رض) نے پوچھا : کیا تم لوگوں نے اس کو اسلام کی دعوت دی تھی ؟ انھوں نے کہا : نہیں ! آپ (رض) نے فرمایا : یقیناً پھر تو میں اللہ کی طرف اس کے خون سے بری ہوں۔

33408

(۳۳۴۰۹) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ سِمَاکٍ ، عَنْ ابن عَبِیدِ بْنِ الأَبْرَصِ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ أَبِی طَالِبٍ أَنَّہُ أَتَی بِرَجُلٍ کَانَ نَصْرَانِیًّا فَأَسْلَمَ ، ثُمَّ تَنَصَّرَ ، فَسَأَلَہُ عُمَرُ عَنْ کَلِمَۃٍ ، فَقَالَ لَہُ ، فَقَامَ إلَیْہِ عَلِیٌّ فَرَفَسَہُ بِرِجْلِہِ ، قَالَ : فَقَامَ النَّاسُ إلَیْہِ فَضَرَبُوہُ حَتَّی قَتَلُوہُ۔
(٣٣٤٠٩) حضرت ابن عبید بن ابرص (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت علی (رض) بن ابی طالب نے ارشاد فرمایا : بیشک ایک آدمی کو لایا گیا جو نصرانی تھا پس اس نے اسلام قبول کرلیا پھر وہ دوبارہ نصرانی ہوگیا۔ حضرت عمر (رض) نے اس سے اس بات کے متعلق پوچھا : تو اس نے آپ (رض) کو بتادیا۔ پھر حضرت علی (رض) اس کی طرف کھڑے ہوئے اور اس کے سینہ پر اپنی لات ماری۔ پھر لوگ بھی کھڑے ہوگئے اور اس کو مارنے لگے یہاں تک کہ اس کو قتل کردیا۔

33409

(۳۳۴۱۰) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِِ ، عَنْ سِمَاکٍ ، عَنْ قَابُوسَ بْنِ الْمُخَارِقِ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : بَعَثَ عَلِیٌّ مُحَمَّدَ بْنَ أَبِی بَکْرٍ أَمِیرًا عَلَی مِصْرَ فَکَتَبَ إلَی عَلِیٍّ یَسْأَلُہُ عَنْ زَنَادِقَۃٍ ، مِنْہُمْ مَنْ یَعْبُدُ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ ، وَمِنْہُمْ مَنْ یَعْبُدُ غَیْرَ ذَلِکَ وَمِنْہُمْ مَنْ یَدَّعِی الإِسْلاَمَ فَکَتَبَ إلَیْہِ وَأَمَرَہُ فِی الزَّنَادِقَۃِ أَنْ یَقْتُلَ مَنْ کَانَ یَدَّعِی الإِسْلاَمَ ، وَیَتْرُکَ سَائِرَہُمْ یَعْبُدُونَ مَا شَاؤُوا۔
(٣٣٤١٠) حضرت مخارق (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت علی (رض) بن ابی طالب نے محمد بن ابی بکر کو مصر والوں پر امیر بنا کر بھیجا۔ تو انھوں نے حضرت علی (رض) سے خط لکھ کر زنادقہ کے بارے میں سوال کیا۔ جن میں سے کچھ سورج اور چاند کی پرستش کرتے تھے۔ اور ان میں سے کچھ اس کے علاوہ چیزوں کی پرستش کرتے تھے اور کچھ اسلام کا دعویٰ کرتے تھے ؟ حضرت علی (رض) نے ان کو خط لکھا ار زنادقہ کے بارے میں ان کو حکم دیا کہ جو تو اسلام کا دعویٰ کرے اس کو قتل کردو، اور باقی سب کو چھوڑ دو وہ جس کی چاہیں عبادت کریں۔

33410

(۳۳۴۱۱) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ حَارِثَۃَ بْنِ مُضَرِّبٍ ، قَالَ : خَرَجَ رَجُلٌ یَطْرُقُ فَرَسًا لَہُ فَمَرَّ بِمَسْجِدِ بَنِی حَنِیفَۃَ فَصَلَّی فِیہِ فَقَرَأَ لَہُمْ إمَامُہُمْ بِکَلاَمِ مُسَیْلِمَۃَ الْکَذَّابِ ، فَأَتَی ابْنُ مَسْعُودٍ فَأَخْبَرَہُ فَبَعَثَ إلَیْہِمْ فَجَائَ بِہِمْ ، فَاسْتَتَابَہُمْ فَتَابُوا إِلاَّ عَبْدَ اللہِ ابْنَ النَّوَّاحَۃِ فَأَنَّہُ قَالَ لَہُ : یَا عَبْدَ اللہِ لولا أَنِّی سَمِعْت رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : لَوْلاَ أَنَّکَ رَسُولٌ لَضَرَبْت عُنُقَک ، فَأَمَّا الْیَوْمَ فَلَسْت بِرَسُولٍ ، یَا خَرَشَۃُ قُمْ فَاضْرِبْ عُنُقَہُ فَقَامَ فَضَرَبَ عُنُقَہُ۔ (ابوداؤد ۲۷۵۶۔ احمد ۳۸۴)
(٣٣٤١١) حضرت حارثہ بن مضرب (رض) فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نکلا اور اپنے گھوڑے پر سوار ہوا پھر وہ بنو حنیف قبیلہ کی مسجد کے پاس سے گزرا۔ اور اس میں نماز ادا کی۔ تو ان لوگوں کے امام نے مسیلمہ کذاب کے کلام کی تلاوت کی ! یہ شخص حضرت ابن مسعود (رض) کی خدمت میں آیا اور آپ (رض) کو اس بات کی خبر دی۔ آپ (رض) نے قاصد بھیج کر ان لوگوں کو بلایا۔ ان سب لوگوں کو لایا گیا ۔ پھر آپ (رض) نے ان سب سے توبہ کروائی۔ ان سب نے توبہ کرلی سوائے عبداللہ بن نوَّاحہ کے۔ آپ (رض) نے اس سے فرمایا : اے عبداللہ ! اگر میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یوں فرماتے ہوئے نہ سنا ہوتا کہ ” اگر تو قاصد نہ ہوتا تو میں تیری گردن مار دیتا۔ “ لیکن آج تو قاصد نہیں ہے۔ اے خَرَشہ ! اٹھو اور اس کی گردن مار دو ۔ پس خرشہ اٹھے اور انھوں نے اس کی گردن مار دی۔

33411

(۳۳۴۱۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ بْنُ أَبِی خَالِدٍ ، عَنْ قَیْسٍ ، قَالَ : جَائَ رَجُلٌ إلَی ابْنِ مَسْعُودٍ ، فَقَالَ: إنِّی مَرَرْت بِمَسْجِدِ بَنِی حَنِیفَۃَ فَسَمِعْت إمَامَہُمْ یَقْرَأُ بِقِرَائَۃٍ مَا أَنْزَلَہَا اللَّہُ عَلَی مُحَمَّدٍ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَسَمِعْتہ یَقُولُ : الطَّاحِنَاتُ طَحْنًا فَالْعَاجِنَاتُ عَجْنًا فَالْخَابِزَاتُ خَبْزًا فَالثَّارِدَاتُ ثَرْدًا فَاللاَقِمَاتُ لَقْمًا قَالَ : فَأَرْسَلَ عَبْدُ اللہِ فَأَتَی بِہِمْ سَبْعِینَ وَمِئَۃَ رَجُلٍ عَلَی دِینِ مُسَیْلِمَۃَ إمَامُہُمْ عبْدُ اللہِ ابْنِ النَّوَّاحَۃِ ، فَأَمَرَ بِہِ فَقُتِلَ ، ثُمَّ نَظَرَ إلَی بَقِیَّتِہِمْ ، فَقَالَ : مَا نَحْنُ بِمُجْزِرِی الشَّیْطَانِ ہَؤُلاَئِ ، سَائِرُ الْقَوْمِ رَحِّلُوہُمْ إلَی الشَّامِ لَعَلَّ اللَّہَ أَنْ یفنیہم بِالطَّاعُونِ۔ (عبدالرزاق ۱۸۷۰۸)
(٣٣٤١٢) حضرت قیس (رض) فرماتے ہیں کہ ایک آدمی حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ بیشک میں بنو حنیفہ قبیلہ والوں کی مسجد کے قریب سے گزرا۔ تو میں نے ان کے امام کو سنا کہ اس نے اس قرآن میں تلاوت کی جو اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل کیا۔ پھر میں نے اس کو سنا کہ وہ یہ کلمات پڑھ رہا ہے : الطَّاحِنَاتُ طَحْنًا فَالْعَاجِنَاتُ عَجْنًا فَالْخَابِزَاتُ خَبْزًا فَالثَّارِدَاتُ ثَرْدًا فَاللاَقِمَاتُ لَقْمًا ! ! ! راوی کہتے ہیں : حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) نے ان کی طرف قاصد بھیجا۔ پھر ان لوگوں کو لایا گیا۔ ایک سو ستر آدمی مسیلمہ کے دین پر تھے۔ اور ان کا امام عبداللہ بن النواحہ تھا۔ آپ (رض) نے اس کے متعلق حکم دیا اور اسے قتل کردیا گیا۔ پھر آپ (رض) نے باقی لوگوں کی طرف دیکھا اور فرمایا : ہم ان کو قتل کر کے شیطان کو خوش نہیں کریں گے۔ ان سب لوگوں کو شام کی طرف لے جاؤ۔ شاید اللہ تعالیٰ ان کو طاعون کے ذریعے ختم فرما دیں۔

33412

(۳۳۴۱۳) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ جَدِّہِ ، قَالَ : کَتَبَ عَمْرُو بْنُ الْعَاصِ إلَی عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ أَنَّ رَجُلاً تَبَدَّلَ بِالْکُفْرِ بَعْدَ الإِیمَانِ ، فَکَتَبَ إلَیْہِ عُمَرُ : اسْتَتِبْہُ ، فَإِنْ تَابَ فَاقْبَلْ مِنْہُ ، وَإِلاَّ فَاضْرِبْ عُنُقَہُ۔
(٣٣٤١٣) حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عمرو بن العاص (رض) نے حضرت عمر بن خطاب (رض) کو خط لکھا کہ یقیناً ایک آدمی نے ایمان لانے کے بعد کفر کو اختیار کرلیا۔ تو حضرت عمر (رض) نے اس کے جواب میں خط لکھ کر فرمایا : اس سے توبہ طلب کرو پس اگر وہ اس سے توبہ کرلے تو اس کی طرف سے توبہ قبول کرلو، ورنہ اس کی گردن مار دو ۔

33413

(۳۳۴۱۴) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عُبَیْدٍ الْعَامِرِیِّ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : کَانَ أُنَاسٌ یَأْخُذُونَ الْعَطَائَ وَالرِّزْقَ وَیُصَلُّونَ مَعَ النَّاسِ ، وَکَانُوا یَعْبُدُونَ الأَصْنَامَ فِی السِّرِ ، فَأَتَی بِہِمْ عَلِیُّ بْنُ أَبِی طَالِبٍ فَوَضَعَہُمْ فِی الْمَسْجِدِ ، أَوَ قَالَ فِی السِّجْنِ ، ثُمَّ قَالَ : یَا أَیُّہَا النَّاسُ ، مَا تَرَوْنَ فِی قَوْمٍ کَانُوا یَأْخُذُونَ مَعَکُمَ الْعَطَائَ وَالرِّزْقَ وَیَعْبُدُونَ ہَذِہِ الأَصْنَامَ ؟ قَالَ النَّاسُ : اقْتُلْہُمْ ، قَالَ : لاَ ، وَلَکِنْ أَصْنَعُ بِہِمْ کَمَا صَنَعُوا بِأَبِینَا إبْرَاہِیمَ ، فَحَرَّقَہُمْ بِالنَّارِ۔
(٣٣٤١٤) حضرت عبید العامری (رض) فرماتے ہیں کہ کچھ لوگ تھے جو روزینہ اور عطیات لیتے تھے۔ اور لوگوں کے ساتھ تو نماز پڑھتے اور پوشیدگی میں بتوں کی پوجا کرتے تھے۔ ان لوگوں کو حضرت علی (رض) کے پاس لایا گیا۔ تو آپ (رض) نے ان کے مسجد میں یا قید خانہ میں ڈال دیا۔ پھر فرمایا : اے لوگو ! تمہاری کیا رائے ہے اس قوم کے بارے میں جو تمہارے ساتھ روزینہ اور عطیات لیتے ہیں اور ان بتوں کی پوجا کرتے ہیں ؟ لوگوں نے کہا : ان کو قتل کردیا جائے۔ آپ (رض) نے فرمایا : نہیں ! لیکن میں ان کے ساتھ وہ معاملہ کروں گا جو انھوں نے ہمارے جد امجد حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے ساتھ کیا تھا۔ پھر آپ (رض) نے ان کو آگ میں جلا ڈالا۔

33414

(۳۳۴۱۵) حَدَّثَنَا الْبَکْرَاوِیُّ ، عَنْ عُبیدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ ، قَالَ : کَتَبَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیزِ فِی قَوْمٍ نَصَارَی ارْتَدُّوا فَکَتَبَ أَنَ اسْتَتِیبُوہُمْ ، فَإِنْ تَابُوا وَإِلاَّ فَاقْتُلُوہُمْ۔
(٣٣٤١٥) حضرت عبید اللہ بن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن عبد العزیز (رض) نے ان لوگوں کے بارے میں خط لکھا جو عیسائی تھے پھر وہ مرتد ہوگئے تو آپ (رض) نے لکھا : ان سے توبہ طلب کرو۔ پس اگر توبہ کریں تو ٹھیک ورنہ ان کو قتل کردو۔

33415

(۳۳۴۱۶) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ فِی الْمُرْتَدِّ یُسْتَتَابُ ، فَإِنْ تَابَ تُرِکَ وَإِنْ أَبِی قُتِلَ۔
(٣٣٤١٦) حضرت مغیرہ (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم (رض) نے مرتد کے بارے میں ارشاد فرمایا : اس سے توبہ طلب کی جائے گی۔ پس اگر وہ توبہ کرلے تو اسے چھوڑ دیا جائے گا ۔ اور اگر وہ انکار کر دے تو اس کو قتل کردیا جائے گا۔

33416

(۳۳۴۱۷) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنِی عَمْرُو بْنُ دِینَارٍ ؛ فِی الرَّجُلِ یَکْفُرَ بَعْدَ إیمَانِہِ ، قَالَ : سَمِعْتُ عُبَیْدَ بْنَ عُمَیْرٍ یَقُولُ : یُقْتَلُ۔
(٣٣٤١٧) حضرت ابن جریج (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عمرو بن دینار نے میرے سامنے اس شخص کے بارے میں جو ایمان کے بعد کفر اختیار کرلے حضرت عبید بن عمیر (رض) کا قول نقل فرمایا : کہ اس شخص کو قتل کردیا جائے گا۔

33417

(۳۳۴۱۸) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، قَالَ : قَالَ عَطَائٌ فِی الإِنْسَاْن یَکْفُرُ بَعْدَ إیمَانِہِ : یُدْعَی إلَی الإِسْلاَمِ ، فَإِنْ أَبَی قُتِلَ۔
(٣٣٤١٨) حضرت ابن جریج (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عطائ (رض) نے اس شخص کے بارے میں جو ایمان کے بعد کفر اختیار کرے یوں ارشاد فرمایا : اسے اسلام کی دعوت دی جائے گی پس اگر وہ انکار کر دے تو اس شخص کو قتل کردیا جائے گا۔

33418

(۳۳۴۱۹) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ أَبِی بُرْدَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ أَبِی مُوسَی قَالَ : بَعَثَنِی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَا وَمُعَاذٌ إلَی الْیَمَنِ ، قَالَ : فَأَتَانِی ذات یَوْمٍ ، وَعِنْدِی یَہُودِیٌّ قَدْ کَانَ مُسْلِمًا فَرَجَعَ عَنِ الإِسْلاَمِ إلَی الْیَہُودِیَّۃِ ، فَقَالَ : لاَ أَنْزِلُ حَتَّی تَضْرِبَ عُنُقَہُ قَالَ حَجَّاجٌ : وَحَدَّثَنِی قَتَادَۃُ أَنَّ أَبَا مُوسَی قَدْ کَانَ دَعَاہُ أَرْبَعِینَ یَوْمًا۔
(٣٣٤١٩) حضرت ابو بردہ (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت ابو موسیٰ (رض) نے ارشاد فرمایا : کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے اور معاذ بن جبل (رض) کو یمن کی طرف بھیجا۔ آپ (رض) فرماتے ہیں کہ ایک دن حضرت معاذ (رض) میرے پاس آئے اس حال میں کہ میرے پاس ایک یہودی تھا جو مسلمان ہوا تھا پھر اسلام سے یہودیت کی طرف واپس لوٹ گیا۔ اس پر آپ (رض) نے فرمایا : میں ہرگز تمہارے ہاں نہیں اتروں گا یہاں تک کہ تم اس کی گردن مارو۔
حجاج فرماتے ہیں کہ حضرت قتادہ (رض) نے مجھے بیان کیا کہ حضرت ابو موسیٰ نے اس یہودی کو چالیس دن تک دعوت دی تھی۔

33419

(۳۳۴۲۰) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ شَیْبَانَ النَّحْوِیِّ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ أَبِی کَثِیرٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ ثَوْبَانَ أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ فِی آخِرِ خُطْبَۃٍ خَطَبَہَا : إنَّ ہَذِہِ الْقَرْیَۃَ ، یَعْنِی الْمَدِینَۃَ لاَ یَصْلُحُ فِیہَا مِلَّتَانِ ، فَأَیُّمَا نَصْرَانِیٌّ أَسْلَمَ ، ثُمَّ تَنَصَّرَ فَاضْرِبُوا عُنُقَہُ۔
(٣٣٤٢٠) حضرت محمد بن عبد الرحمن بن ثوبان (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جو آخری خطبہ دیا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس میں ارشاد فرمایا : بیشک اس بستی میں یعنی مدینہ منورہ میں دو ملتیں نہیں رہ سکتیں۔ پس جو کوئی نصرانی اسلام قبول کرلے پھر وہ دوبارہ نصرانی بن جائے تو تم اس کی گردن مار دو ۔

33420

(۳۳۴۲۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ قَیْسٍ عَمَّنْ سَمِعَ إبْرَاہِیمَ یَقُولُ : یُسْتَتَابُ الْمُرْتَدُّ کُلَّمَا ارْتَدَّ۔
(٣٣٤٢١) حضرت عمرو بن قیس (رض) اس شخص سے نقل فرماتے ہیں جس نے حضرت ابراہیم (رض) کو یوں فرماتے ہوئے سنا : مرتد سے توبہ طلب کی جائے گی جب بھی وہ ارتداد کرے۔

33421

(۳۳۴۲۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، قَالَ: حدَّثَنَا بَعْضِ أَصْحَابِنَا، عَنْ مُطَرِّفٍ، عَنِ الحکم قَالَ: یُسْتَتَابُ الْمُرْتَدُّ کُلَّمَا ارْتَدَّ۔
(٣٣٤٢٢) حضرت مطرف (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت حکم (رض) نے ارشاد فرمایا : مرتد سے توبہ طلب کی جائے گی جب بھی وہ ارتداد کرے۔

33422

(۳۳۴۲۳) حَدَّثَنَا شَبَابَۃُ ، قَالَ : حدَّثَنَا ابْنُ أَبِی ذِئْبٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ ابْنِ عُتْبَۃَ ، قَالَ : کَانَ نَاسٌ مِنْ بَنِی حَنِیفَۃَ مِمَّنْ کَانَ مَعَ مُسَیْلِمَۃَ الْکَذَّابِ یُفْشُونَ أَحَادِیثَہُ وَیَتْلُونَہُ فَأَخَذَہُمَ ابْنُ مَسْعُودٍ فکتب ابن مسعود إلَی عُثْمَانَ فَکَتَبَ إلَیْہِ عُثْمَان أَنَ ادْعُہُمْ إلَی الإِسْلاَمِ فَمَنْ شَہِدَ مِنْہُمْ أَنْ لاَ إلَہَ إِلاَّ اللَّہُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَاخْتَارَ الإِیمَانَ عَلَی الْکُفْرِ فَاقْبَلْ ذَلِکَ مِنْہُمْ وَخَلِّ سَبِیلَہُمْ ، فَإِنْ أَبَوْا فَاضْرِبْ أَعْنَاقَہُمْ، فَاسْتَتَابَہُمْ، فَتَابَ بَعْضُہُمْ وَأَبَی بَعْضُہُمْ، فَضَرَبَ أَعْنَاقَ الَّذِینَ أَبَوْا۔ (عبدالرزاق ۱۸۷۰۷)
(٣٣٤٢٣) حضرت عبید اللہ ابن عتبہ (رض) فرماتے ہیں کہ بنو حنیفہ قبیلہ کے کچھ لوگ جو مسیلمہ کذاب کے ساتھ تھے وہ اس کی باتوں کو ظاہر کرتے تھے اور ان کی تلاوت کرتے تھے۔ حضرت ابن مسعود (رض) نے ان کو پکڑ لیا پھر ان کے بارے میں حضرت عثمان (رض) کو خط لکھ کر اطلاع دی۔ حضرت عثمان (رض) نے خط لکھ کر جواب دیا کہ ان لوگوں کو اسلام کی طرف دعوت دو ، پس ان میں سے جو تو اس بات کی گواہی دے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور یقیناً محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں۔ اور کفر کو چھوڑ کر ایمان کو اختیار کرلے تو تم ان سے ایمان کو قبول کرلو اور ان کا راستہ چھوڑ دو ۔ اور اگر وہ انکار کردیں تو تم ان کی گردنیں مار دو ، پس حضرت ابن مسعود (رض) نے ان سے توبہ طلب کی۔ ان میں سے بعض نے توبہ کرلی اور بعض نے انکار کردیا ۔ تو آپ (رض) نے انکار کرنے والوں کی گردنیں اڑا دیں۔

33423

(۳۳۴۲۴) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ :لَمَّا قَدِمَ عَلَی عُمَرَ فَتْحُ تُسْتَرَ وَتُسْتَرُ مِنْ أَرْضِ الْبَصْرَۃِ سَأَلَہُمْ : ہَلْ مِنْ مُغَرِّبَۃٍ ، قَالُوا : رَجُلٌ مِنَ الْمُسْلِمِینَ لَحِقَ بِالْمُشْرِکِینَ فَأَخَذْنَاہُ ، قَالَ : مَا صَنَعْتُمْ بِہِ ، قَالُوا : قَتَلْنَاہُ ، قَالَ : أَفَلاَ أَدْخَلْتُمُوہُ بَیْتًا وَأَغْلَقْتُمْ عَلَیْہِ بَابًا وَأَطْعَمْتُمُوہُ کُلَّ یَوْمٍ رَغِیفًا ، ثُمَّ اسْتَتَبْتُمُوہُ ثَلاَثًا فَإِنْ تَابَ وَإِلاَّ قَتَلْتُمُوہُ ، ثُمَّ قَالَ : اللَّہُمَّ لَمْ أَشْہَدْ وَلَمْ آمُرْ وَلَمْ أَرْضَ إذَا بَلَغَنِی ، أَوَ قَالَ : حِینَ بَلَغَنِی۔
(٣٣٤٢٤) حضرت عبد الرحمن (رض) فرماتے ہیں کہ جب حضرت عمر (رض) کے پاس تستر کی فتح کی خبر لائی گئی ۔۔۔ تستر یہ بصرہ کا ایک علاقہ ہے ۔۔۔ آپ (رض) نے ان لوگوں سے پوچھا : دور دراز کی کیا خبر ہے ؟ لوگوں نے عرض کیا : مسلمانوں کا ایک آدمی تھا۔ جو مشرکین سے جا ملا۔ ہم نے اس کو پکڑ لیا۔ آپ (رض) نے پوچھا : کہ تم نے اس کے ساتھ کیا معاملہ کیا ؟ ان لوگوں نے کہا : ہم نے اس کو قتل کردیا۔ آپ (رض) نے فرمایا : تم نے اسے کسی گھر میں داخل کیوں نہ کیا اور پھر تم اس پر دروازہ بند کردیتے یعنی اس کو قید کردیتے اور تم اسے روزانہ تھوڑا سا کھانا دیتے پھر تین مرتبہ اس سے توبہ طلب کرتے پھر اگر وہ توبہ کرلیتا تو ٹھیک ورنہ تم اسے قتل کردیتے ؟ ! پھر آپ (رض) نے فرمایا : اے اللہ ! میں نہ ان پر گواہ ہوں اور نہ میں نے ان کو حکم دیا اور جب مجھے اس بات کی خبر ملی تو میں اس پر خوش نہ ہوا۔

33424

(۳۳۴۲۵) حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ مُعَاذٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا ابْنُ جُرَیْجٍ ، عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ مُوسَی ، عَنْ عُثْمَانَ ، قَالَ : یُسْتَتَابُ الْمُرْتَدُّ ثَلاَثًا۔
(٣٣٤٢٥) حضرت سلیمان بن موسیٰ (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عثمان (رض) نے ارشاد فرمایا : مرتد سے تین مرتبہ توبہ طلب کی جائے گی۔

33425

(۳۳۴۲۶) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ حَیَّانَ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، قَالَ : یُدْعَی إلَی الإِسْلاَمِ ثَلاَثَ مِرَارٍ ، فَإِنْ أَبَی ضُرِبَتْ ، عنُقُہُ۔
(٣٣٤٢٦) حضرت حیان (رض) فرماتے ہیں کہ امام زہری (رض) نے ارشاد فرمایا : مرتد کو تین بار اسلام کی طرف بلایا جائے گا پس اگر وہ انکار کر دے تو اس کی گردن مار دی جائے گی۔

33426

(۳۳۴۲۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ عَامِرٍ ، عَنْ عَلِیٍّ ، قَالَ : یُسْتَتَابُ الْمُرْتَدُّ ثَلاَثًا۔
(٣٣٤٢٧) حضرت عامر (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت علی (رض) نے ارشاد فرمایا : مرتد سے تین مرتبہ توبہ طلب کی جائے گی۔

33427

(۳۳۴۲۸) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : قَالَ عَلِیٌّ : یُسْتَتَابُ الْمُرْتَدُّ ثَلاَثًا ، فَإِنْ عَادَ قُتِلَ۔
(٣٣٤٢٨) امام شعبی (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت علی (رض) نے ارشاد فرمایا : مرتد سے تین مرتبہ توبہ طلب کی جائے گی ۔ پس اگر وہ دوبارہ ایسا کرے گا تو اس کو قتل کردیا جائے گا۔

33428

(۳۳۴۲۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عن سُفْیَانُ ، عَنْ عَبْدِ الْکَرِیمِ عَمَّنْ سَمِعَ ابْنَ عُمَرَ یَقُولُ : یُسْتَتَابُ الْمُرْتَدُّ ثَلاَثًا۔
(٣٣٤٢٩) حضرت عبد الکریم (رض) اس شخص سے نقل فرماتے ہیں جس نے حضرت ابن عمر (رض) کو یوں فرماتے ہوئے سنا کہ مرتد سے تین مرتبہ توبہ طلب کی جائے گی۔

33429

(۳۳۴۳۰) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ ، عَنِ الْوَلِیدِ بْنِ جُمَیْعٍ ، قَالَ : کَتَبَ عَامِلٌ لِعُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِیزِ مِنَ الْیَمَنِ أَنَّ رَجُلاً کَانَ یَہُودِیًّا فَأَسْلَمَ ، ثُمَّ تَہَوَّدَ ، وَرَجَعَ عَنِ الإِسْلاَمِ ، فَکَتَبَ إلَیْہِ عُمَرُ أَنَ ادْعُہُ إلَی الإِسْلاَمِ ، فَإِنْ أَسْلَمَ فَخَلِّ سَبِیلَہُ ، وَإِنْ أَبِی فَادْعُ بالخشبۃ ، ثُمَّ ادْعُہُ فَإِنْ أَبَی فَأَضْجِعْہُ عَلَیْہَا ، ثُمَّ ادْعُہُ فَإِنْ أَبَی فَأَوْثِقْہُ ، ثُمَّ ضَعَ الحربۃ عَلَی قَلْبِہِ ، ثُمَّ ادْعُہُ ، فَإِنْ رَجَعَ فَخَلِّ سَبِیلَہُ ، وَإِنْ أَبَی فَاقْتُلْہُ ، فَلَمَّا جَائَ الْکِتَابُ فَعَلَ بِہِ ذَلِکَ حَتَّی وَضَعَ الْحَرْبَۃَ عَلَی قَلْبِہِ ، ثُمَّ دَعَاہُ فَأَسْلَمَ فَخَلَّی سَبِیلَہُ۔
(٣٣٤٣٠) حضرت ولید ابن جُمیع (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن عبد العزیز کے ایک گورنر نے یمن سے آپ (رض) کو خط لکھا کہ ایک آدمی یہودی تھا اس نے اسلام قبول کرلیا پھر اس نے دوبارہ یہودیت کو اختیار کرلیا، اور اسلام سے پھر گیا۔ حضرت عمر (رض) نے اس کا جواب لکھا کہ اس کو اسلام کی دعوت دو ۔ اگر وہ اسلام لے آئے۔ تو اس کو چھوڑ دو اگر وہ انکار کر دے تو اس کو لکڑی کے ذریعہ مارو اگر وہ انکار کر دے تو اس کو لکڑی پر لٹا دو پھر اس کو اسلام کی طرف دعوت دو ، اگر پھر بھی انکار کر دے تو تم اس کو باندھو اور اس کے دل میں نیزہ کی نوک رکھ دو پھر دوبارہ اس کو اسلام کی طرف دعوت دو ۔ پس اگر وہ لوٹ آئے تو اس کو چھوڑ دو ، اور اگر انکار کر دے تو اس کو قتل کردو۔ جب خط آیا تو اس کے ساتھ ایسا ہی معاملہ کیا گیا یہاں تک کہ اس کے دل پر نیزہ کی نوک رکھ دی گئی پھر اس کو اسلام کی طرف دعوت دی وہ اسلام لے آیا تو انھوں نے اس کو چھوڑ دیا۔

33430

(۳۳۴۳۱) حَدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ بْنُ عَیَّاشٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ أَنَّ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِیزِ ، قَالَ : یُسْتَتَابُ الْمُرْتَدُّ ثَلاَثًا فَإِنْ رَجَعَ وَإِلاَّ قُتِلَ۔
(٣٣٤٣١) حضرت ابن جریج (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن عبد العزیز (رض) نے ارشاد فرمایا : مرتد سے تین مرتبہ توبہ طلب کی جائے گی۔ پس اگر وہ لوٹ آئے تو ٹھیک ورنہ اس کو قتل کردیا جائے گا۔

33431

(۳۳۴۳۲) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنْ عَامِرٍ وَالْحَکَمِ ، قَالاَ ؛ فِی الرَّجُلِ الْمُسْلِمِ یَرْتَدُّ عَنِ الإِسْلاَمِ وَیَلْحَقُ بِأَرْضِ الْعَدُوِّ قالا : تَعْتَدُّ امْرَأَتُہُ ثَلاَثَۃَ قُرُوئٍ إِنْ کَانَتْ تَحِیضُ ، وَإِنْ کَانَتْ لاَ تَحِیضُ فَثَلاَثَۃُ أَشْہُرٍ ، وَإِنْ کَانَتْ حَامِلاً أَنْ تَضَعَ حَمْلَہَا ، وَیُقَسَّمُ مِیرَاثُہُ بَیْنَ امْرَأَتِہِ وَوَرَثَتِہِ مِنَ الْمُسْلِمِینَ ، ثُمَّ تُزَوَّجُ إِنْ شَائَتْ ، وَإِنْ ہُوَ رَجَعَ فَتَابَ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَنْقَضِیَ عِدَّتُہَا ثَبَتَا عَلَی نِکَاحِہِمَا۔
(٣٣٤٣٢) حضرت اشعث (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عامر (رض) اور حضرت حکم (رض) ان دونوں حضرات نے ارشاد فرمایا : جو مسلمان اسلام سے مرتد ہوجائے اور دشمن کے ملک میں چلا جائے۔ ان دونوں نے فرمایا : اگر اس کی بیوی کو حیض آتا ہوگا تو وہ تین حیض عدت گزارے گی۔ اور اگر اس کو حیض نہیں آتا ہوگا تو وہ تین مہینے عدت گزارے گی ، اور اگر وہ حاملہ ہوگی تو وضع حمل اس کی عدت ہوگی۔ اور پھر اس مرتد کی وراثت اس کی بیوی اور مسلمان ورثاء کے درمیان تقسیم کردی جائے گی۔ پھر اگر وہ عورت چاہے تو نکاح کرسکتی ہے۔ اور اگر مرتد لوٹ آئے اور اپنی بیوی کی عدت مکمل ہونے سے پہلے توبہ کرلے تو ان دونوں کو سابقہ نکاح پر برقرار رکھا جائے گا۔

33432

(۳۳۴۳۳) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنِ الْحَکَمِ ؛ فِی رَجُلٍ أَشْرَکَ وَلَحِقَ بِأَرْضِ الشرک ، قَالَ : لاَ تُزَوَّجُ امْرَأَتُہُ وَقَالَ حَمَّادٌ : تُزَوَّجُ امْرَأَتُہُ۔
(٣٣٤٣٣) حضرت شعبہ (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت حکم (رض) نے اس آدمی کے بارے میں ارشاد فرمایا : جو مشرک ہوجائے اور دشمن کے ملک میں چلا جائے تو اس کی بیوی دوسرا نکاح نہیں کرسکتی۔ اور حضرت حماد (رض) نے فرمایا : اس کی بیوی نکاح کرسکتی ہے۔

33433

(۳۳۴۳۴) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِی عَمْرٍو الشَّیْبَانِیِّ ، عَنْ عَلِیٍّ أَنَّہُ أَتَی بِمُسْتَوْرِدٍ الْعِجْلِیّ وَقَدِ ارْتَدَّ فَعَرَضَ عَلَیْہِ الإِسْلاَمَ فَأَبَی ، قَالَ : فَقَتَلَہُ وَجَعَلَ مِیرَاثَہُ بَیْنَ وَرَثَتِہِ الْمُسْلِمِینَ۔
(٣٣٤٣٤) حضرت ابو عمرو الشیبانی (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت علی (رض) کے پاس مستورد العجلی کو لایا گیا جو مرتد ہوچکا تھا۔ آپ (رض) نے اس پر اسلام پیش کیا۔ اس نے انکار کردیا۔ تو آپ (رض) نے اس کو قتل کردیا۔ اور اس کی وراثت کو اس کے مسلمان ورثاء کے درمیان تقسیم کردیا۔

33434

(۳۳۴۳۵) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ، عَنْ حَجَّاجٍ، عَنِ الْحَکَمِ أَنَّ عَلِیًّا قَسَمَ مِیرَاثَ الْمُرْتَدِّ بَیْنَ وَرَثَتِہِ مِنَ الْمُسْلِمِینَ۔
(٣٣٤٣٥) حضرت حکم (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت علی (رض) نے مرتد کی میراث کو اس کے مسلمان ورثہ کے درمیان تقسیم فرمایا۔

33435

(۳۳۴۳۶) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ ، عَنِ الْوَلِیدِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ جُمَیْعٍ ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : إذَا ارتد الْمُرْتَدُّ وَرِثَہُ وَلَدُہُ۔
(٣٣٤٣٦) حضرت قاسم بن عبد الرحمن (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) نے ارشاد فرمایا : جب کوئی شخص مرتد ہوجائے تو اس کا بیٹا اس کا وارث بنے گا۔

33436

(۳۳۴۳۷) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَن بْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنْ جَرِیرِ بْنِ حَازِمٍ ، قَالَ : کَتَبَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیزِ فِی مِیرَاثِ الْمُرْتَدِّ لِوَرَثَتِہِ مِنَ الْمُسْلِمِینَ وَلَیْسَ لأَہْلِ دِینِہِ شَیْئٌ۔
(٣٣٤٣٧) حضرت جریر بن حازم (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن عبد العزیز (رض) نے مرتد کی وراثت کے بارے میں یوں خط لکھا۔ میں ضرور مسلمانوں کو اس کا وارث بناؤں گا۔ اور اس کے دین والوں کو کچھ بھی نہیں ملے گا۔

33437

(۳۳۴۳۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ مِسْعَرٍ وَسُفْیَانَ ، عَنْ أَبِی الصَّبَّاحِ ، قَالَ : سَمِعْتُ سَعِیدَ بْنَ الْمُسَیَّبِ یَقُولُ : الْمُرْتَدُّ نَرِثُہُمْ ، وَلاَ یَرِثُونَا۔
(٣٣٤٣٨) حضرت ابو الصباح (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت سعید بن المسیب (رض) کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا : کہ مرتد کے ہم وارث بنیں گے وہ ہمارے وارث نہیں بنیں گے۔

33438

(۳۳۴۳۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ مُوسَی بْنِ أَبِی کَثِیرٍ ، قَالَ : سَأَلْتُ سَعِیدَ بْنَ الْمُسَیَّبِ ، عَنْ مِیرَاثِ الْمُرْتَدِّ ہَلْ یُوَصَّلُ إذَا قُتِلَ ، قَالَ : وَمَا یُوَصَّلُ ، قَالَ : یَرِثُہُ وَرَثَتُہُ ، قَالَ : نَرِثُہُمْ ، وَلاَ یَرِثُونَا۔
(٣٣٤٣٩) حضرت موسیٰ بن ابی کثیر (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت سعید بن المسیب (رض) سے مرتد کی وراثت کے بارے میں سوال کیا کہ کیا وہ پہنچائی جائے گی ؟ آپ (رض) نے فرمایا : پہنچائے جانے کا کیا مطلب ؟ راوی کہتے ہیں : میں نے عرض کیا کہ اس کے ورثہ وارث بنیں گے ؟ آپ (رض) نے فرمایا : ہم مسلمان تو اس کے وارث بنیں گے وہ ہم مسلمانوں کے وارث نہیں بن سکتے ۔

33439

(۳۳۴۴۰) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَنِ ابْنِ أَبِی عَرُوبَۃَ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : یُقْتَلُ وَمِیرَاثُہُ بَیْنَ وَرَثَتِہِ مِنَ الْمُسْلِمِینَ۔
(٣٣٤٤٠) حضرت قتادہ (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت حسن (رض) نے ارشاد فرمایا : مرتد کو قتل کردیا جائے گا۔ اور اس کی میراث مسلمان ورثہ کے درمیان تقسیم ہوگی۔

33440

(۳۳۴۴۱) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ وَالْحَکَمِ ، قَالاَ : یُقَسَّمُ مِیرَاثُہُ بَیْنَ امْرَأَتِہِ وَوَرَثَتِہِ مِنَ الْمُسْلِمِینَ۔
(٣٣٤٤١) حضرت اشعث (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت امام شعبی (رض) اور حضرت حکم (رض) ان دونوں حضرات نے ارشاد فرمایا : مرتد کی میراث اس کی بیوی اور اس کے مسلمان ورثاء کے درمیان تقسیم کی جائے گی۔

33441

(۳۳۴۴۲) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَن بْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَۃَ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ خِلاَسٍ ، عَنْ عَلِیٍّ فِی الْمُرْتَدَّۃِ : تستأمی ، وَقَالَ حَمَّادٌ : تُقْتَلُ۔
(٣٣٤٤٢) حضرت خلاس (رض) فرماتے ہیں حضرت علی (رض) نے مرتدہ عورت کے بارے میں ارشاد فرمایا : اس کی قیمت لگائی جائے گی۔ اور حضرت حماد (رض) نے فرمایا : اس کو قتل کردیا جائے گا۔

33442

(۳۳۴۴۳) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ وَوَکِیعٌ ، عَنْ أَبِی حَنِیفَۃَ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ أَبِی رَزِینٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : لاَ تُقْتَلُ النِّسَائُ إذَا ارْتَدَدْنَ عَنِ الإِسْلاَمِ ، وَلَکِنْ یُحْبَسْنَ وَیُدْعَیْنَ إلَی الإِسْلاَمِ وَیُجْبَرْنَ عَلَیْہِ۔
(٣٣٤٤٣) حضرت ابو رزین (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عباس (رض) نے ارشاد فرمایا : جب عورتیں اسلام سے مرتد ہوجائیں تو ان کو قتل نہیں کیا جائے گا بلکہ ان کو قید کردیا جائے گا اور اسلام کی طرف بلایا جائے گا اور اسلام پر ان کو مجبور کیا جائے گا۔

33443

(۳۳۴۴۴) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ عَطَائٍ فِی الْمُرْتَدَّۃِ ، قَالَ : لاَ تُقْتَلُ۔
(٣٣٤٤٤) حضرت لیث (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عطائ (رض) نے مرتدہ عورت کے بارے میں ارشاد فرمایا : کہ اسے قتل نہیں کیا جائے گا۔

33444

(۳۳۴۴۵) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : لاَ تُقْتَلُ۔
(٣٣٤٤٥) حضرت عمرو (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت حسن (رض) نے ارشاد فرمایا : مرتدہ عورت کو قتل نہیں کیا جائے گا۔

33445

(۳۳۴۴۶) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : لاَ تُقْتَلُ النِّسَائُ إذَا ہُنَّ ارْتَدَدْنَ عَنِ الإِسْلاَمِ ، وَلَکِنْ یُدْعَیْنَ إلَی الإِسْلاَمِ ، فَإِنْ ہُنَّ أَبَیْنَ سُبِینَ وَجُعِلْنَ إمَائً لِلْمُسْلِمِینَ ، وَلاَ یُقْتَلْنَ۔
(٣٣٤٤٦) حضرت اشعث (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت حسن (رض) نے ارشاد فرمایا : عورتیں جب اسلام سے مرتد ہوجائیں تو ان کو قتل نہیں کیا جائے گا۔ بلکہ ان کو اسلام کی دعوت دی جائے گی۔ اگر وہ انکار کردیں تو ان کو قید کردیا جائے گا۔ اور مسلمانوں کی باندیاں بنادیا جائے گا اور ان کو قتل نہیں کیا جائے گا۔

33446

(۳۳۴۴۷) حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ ، عَنْ أَبِی حَرَّۃَ ، عَنِ الْحَسَنِ ؛ فِی الْمَرْأَۃِ تَرْتَدُّ عَنِ الإِسْلاَمِ ؟ قَالَ : لاَ تُقْتَلُ ، تُحْبَسُ۔
(٣٣٤٤٧) حضرت ابو حُرّہ (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت حسن (رض) نے اس عورت کے بارے میں جو اسلام سے مرتد ہوجائے یوں ارشاد فرمایا : اس کو قتل نہیں کیا جائے گا اس کو قید کردیا جائے گا۔

33447

(۳۳۴۴۸) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ عُبَیْدَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : لاَ تُقْتَلُ۔
(٣٣٤٤٨) حضرت عبیدہ (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم (رض) نے ارشاد فرمایا : مرتدہ عورت کو بھی قتل کیا جائے گا۔

33448

(۳۳۴۴۹) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ؛ فِی الْمُرْتَدَّۃِ : تُسْتَتَابُ ، فَإِنْ تَابَتْ وَإِلاَّ قُتِلَتْ۔
(٣٣٤٤٩) حضرت ہشام (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت حسن (رض) نے مرتدہ عورت کے بارے میں ارشاد فرمایا : کہ اس سے توبہ طلب کی جائے گی۔ اگر وہ توبہ کرلے تو ٹھیک ورنہ اس کو قتل کردیا جائے گا۔

33449

(۳۳۴۵۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِیزِ أَنَّ أُمَّ وَلَدِ رَجُلٍ مِنَ الْمُسْلِمِینَ ارْتَدَّتْ ، فَبَاعَہَا بِدَوْمَۃِ الْجَنْدَلِ مِنْ غَیْرِ أَہْلِ دِینِہَا۔
(٣٣٤٥٠) حضرت یحییٰ بن سعید (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن عبد العزیز (رض) نے ارشاد فرمایا : مسلمانوں میں سے ایک شخص کی ام ولد مرتد ہوگئی ۔ تو اس شخص نے اس کو دومۃ الجندل کے مقام پر اس کے دین کے مخالف شخص کو فروخت کردیا۔

33450

(۳۳۴۵۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ أَبِی مَعْشَرٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ فِی الْمَرْأَۃِ تَرْتَدُّ عَنِ الإِسْلاَمِ ، قَالَ : تُسْتَتَابُ ، فَإِنْ تَابَتْ وَإِلاَّ قُتِلَتْ۔
(٣٣٤٥١) حضرت ابو معشر (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم (رض) نے اس عورت کے بارے میں جو اسلام سے مرتد ہوجائے یوں ارشاد فرمایا : کہ اس سے توبہ طلب کی جائے گی۔ پس اگر وہ توبہ قبول کرلے تو ٹھیک ورنہ اس کو قتل کردیا جائے گا۔

33451

(۳۳۴۵۲) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا سَعِیدٌ ، عَنْ أَبِی مَعْشَرٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ بِنَحْوٍ مِنْہُ۔
(٣٣٤٥٢) حضرت ابو معشر (رض) سے حضرت ابراہیم (رض) کا مذکورہ ارشاد اس سند سے بھی مروی ہے۔

33452

(۳۳۴۵۳) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنِ الْحَکَمِ ، قَالَ : کَانَ أَہْلُ الْعِلْمِ یَقُولُونَ : إذَا أُمِّنَ الْمُحَارِبُ لَمْ یُؤْخَذْ بِشَیْئٍ کَانَ أَصَابَہُ فِی حَالِ حَرْبِہِ إِلاَّ أَنْ یَکُونَ شَیْئًا أَصَابَہُ قَبْلَ ذَلِکَ۔
(٣٣٤٥٣) حضرت حکم (رض) فرماتے ہیں کہ علماء فرمایا کرتے تھے : کہ جب لڑنے والے کو امان دے دی جائے تو اس سے وہ مال نہیں لیا جائے گا جو اس کو حالت جنگ میں ملا ہو۔ مگر اس سے وہ مال لے لیا جائے گا جو اس کو جنگ سے قبل ملا ہو۔

33453

(۳۳۴۵۴) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنْ أَبِیہِ ؛ فِی الرَّجُلِ یُصِیبُ الْحُدُودَ ، ثُمَّ یَجِیئُ تَائِبًا ، قَالَ : تُقَامُ عَلَیْہِ الْحُدُودُ۔
(٣٣٤٥٤) حضرت ہشام (رض) فرماتے ہیں کہ ان کے والد حضرت عروہ (رض) نے اس شخص کے بارے میں ارشاد فرمایا؛ جو حدود کو پہنچ جائے پھر وہ توبہ کر کے آجائے۔ آپ (رض) نے فرمایا : اس شخص پر حدود قائم کی جائیں گی۔

33454

(۳۳۴۵۵) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ عُبَیْدَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ؛ فِی الرَّجُلِ یَجْنِی الْجِنَایَۃَ فَیَلْحَقُ بِالْعَدُوِّ فَیُصِیبُہُمْ أَمَانٌ ، قَالَ : یُؤَمَّنُونَ إِلاَّ أَنْ یُعْرَفَ شَیْئٌ بِعَیْنِہِ فَیُؤْخَذُ مِنْہُمْ ، فَیُرَدُّ عَلَی أَصْحَابِہِ ، وَأَمَّا ہُوَ فَیُؤْخَذُ بِمَا کَانَ جَنَی قَبْلَ أَنْ یَلْحَقَ بِہِمْ۔
(٣٣٤٥٥) حضرت عبیدہ (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم (رض) نے ارشاد فرمایا : کوئی شخص جرم کرے اور دشمنوں سے جا ملے پھر ان لوگوں کو امان ملی۔ آپ (رض) نے فرمایا : ان کو امان دے دی جائے گی مگر یہ کہ ان کے پاس موجود کسی چیز کو پہچان لیا گیا تو وہ ان سے لے لی جائے گی اور مالکوں پر لوٹا دی جائے گی۔ اور وہ چیز لی جائے گی جو اس نے دشمنوں سے ملنے سے پہلے جنایت کے ذریعہ حاصل کی تھی۔

33455

(۳۳۴۵۶) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ حَمَّادٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ فِی رَجُلٍ أَصَابَ حَدًّا ، ثُمَّ خَرَجَ مُحَارِبًا ، ثُمَّ طَلَبَ أَمَانًا فَأُمِّنَ ، قَالَ : یُقَامُ عَلَیْہِ الْحَدُّ الَّذِی کَانَ أَصَابَہُ۔
(٣٣٤٥٦) حضرت حماد (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم (رض) سے اس شخص کے بارے میں پوچھا گیا : جس کو حد پہنچے پھر وہ لڑائی کر کے بھاگ جائے اور پھر امان طلب کرے اور اس کو امان بھی دے دی جائے ؟ آپ (رض) نے فرمایا : اس نے جو کام کیا تھا اس کی وجہ سے اس پر حد قائم کی جائے گی۔

33456

(۳۳۴۵۷) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ حَمَّادٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ؛ فِی الرَّجُلِ إذَا قَطَعَ الطَّرِیقَ وَأَغَارَ ، ثُمَّ رَجَعَ تَائِبًا أُقِیمَ عَلَیْہِ الْحَدُ ، وَتَوْبَتُہُ فِیمَا بَیْنَہُ وَبَیْنَ رَبِّہِ۔
(٣٣٤٥٧) حضرت حماد (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم (رض) نے اس شخص کے بارے میں جو ڈاکہ مارے اور غارت گری کرے پھر توبہ کر کے لوٹ آئے ، یوں ارشاد فرمایا : اس پر حد قائم کی جائے گی اور اس کی توبہ اس کے اور رب کے درمیان ہوگی۔

33457

(۳۳۴۵۸) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، قَالَ : حدَّثَنَا جَرِیرُ بْنُ حَازِمٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِی قَیْسُ بْنُ سَعْدٍ أَنَّ عَطَائً کَانَ یَقُولُ : لَوْ أَنَّ رَجُلاً مِنَ الْمُسْلِمِینَ قَتَلَ رَجُلاً ، ثُمَّ کَفَرَ فَلَحِقَ بِالْمُشْرِکِینَ ، فَکَانَ فِیہِمْ ، ثُمَّ رَجَعَ تَائِبًا قُبِلَتْ تَوْبَتُہُ مِنْ شِرْکِہِ ، وَأُقِیمَ عَلَیْہِ الْقِصَاصُ ، وَلَوْ أَنَّہُ لَحِقَ بِالْمُشْرِکِینَ وَلَمْ یُقْتَلْ فَکَفَرَ ، ثُمَّ قَاتَلَ الْمُسْلِمِینَ فَقَتَلَ مِنْہُمْ ، ثُمَّ جَائَ تَائِبًا قُبِلَ مِنْہُ وَلَمْ یَکُنْ عَلَیْہِ شَیْئٌ۔
(٣٣٤٥٨) حضرت قیس بن سعد (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عطائ (رض) یوں فرمایا کرتے تھے : اگر مسلمانوں میں سے کوئی آدمی کسی آدمی کو قتل کر دے پھر کفر اختیار کرلے اور مشرکین سے جا ملے اور ان میں رہے ۔ پھر وہ توبہ کر کے واپس لوٹ آئے۔ شرک سے تو اس کی توبہ قبول کی جائے گی۔ اور اس پر حدِّ قصاص قائم کی جائے گی۔ اور اگر کوئی مشرکین سے جا ملے اس حال میں کہ اس نے قتل تو نہیں کیا صرف کفر اختیار کیا پھر مسلمانوں سے قتال کیا اور کچھ مسلمانوں کو شہید بھی کیا پھر وہ توبہ کر کے واپس لوٹ آیا تو اس کی توبہ قبول کی جائے گی اور اس پر کوئی چیز واجب نہیں ہوگی۔

33458

(۳۳۴۵۹) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ مُجَالِدٍ ، عَنْ عَامِرٍ ، قَالَ : کَانَ حَارِثَۃُ بْنُ بَدْرٍ التَّمِیمِیُّ مِنْ أَہْلِ الْبَصْرَۃِ قَدْ أَفْسَدَ فِی الأَرْضِ وَحَارَبَ ، فَکَلَّمَ الْحَسَنَ بْنَ عَلِیٍّ ، وَابْنَ جَعْفَرٍ ، وَابْنَ عَبَّاسٍ وَغَیْرَہُمْ مِنْ قُرَیْشٍ ، فَکَلَّمُوا عَلِیًّا فَلَمْ یُؤَمِّنْہُ ، فَأَتَی سَعِیدَ بْنَ قَیْسٍ الْہَمْدَانِیَّ فَکَلَّمَہُ ، فَانْطَلَقَ سَعِیدٌ إلَی عَلِیٍّ وَخَلَفَہُ فِی مَنْزِلِہِ ، فَقَالَ : یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ ، کَیْفَ تَقُولُ فِیمَنْ حَارَبَ اللَّہَ وَرَسُولَہُ وَسَعَی فِی الأَرْضِ فَسَادًا فَقَرَأَ (إنَّمَا جَزَائُ الَّذِینَ یُحَارِبُونَ اللَّہَ وَرَسُولَہُ) حَتَّی قَرَأَ الآیَۃَ کُلَّہَا ، فَقَالَ سَعِید ، أَفَرَأَیْت مَنْ تَابَ قَبْلَ أَنْ نَقْدِرَ عَلَیْہِ ، فَقَالَ عَلِیٌّ : أَقُولُ کَمَا قَالَ وَیُقْبَلُ مِنْہُ ، قَالَ : فَإِنَّ حَارِثَۃَ بْنَ بَدْرٍ قَدْ تَابَ قَبْلَ أَنْ یُقْدِرَ عَلَیْہِ ، فَبَعَثَ إلَیْہِ فَأَدْخَلَہُ عَلَیْہِ فَأَمَّنَہُ وَکَتَبَ لَہُ کِتَابًا ، فَقَالَ حَارِثَۃُ : أَلاَ أُبَلِّغَنْ ہَمْدَانَ إمَّا لَقِیتہَا لَعَمْرُ أَبِیک إنَّ ہَمْدَانَ تَتَّقِی شیب رَأْسِی وَاسْتَخَفَّ حُلُومَنَا سَلاَمًا فَلاَ یَسْلَمْ عَدُوٌّ یَعِیبُہَا الإِلَہَ وَیَقْضِی بِالْکِتَابِ خَطِیبُہَا رُعُودُ الْمَنَایَا حَوْلَنَا وَبُرُوقُہَا وَإِنَّا لَتَسْتَحْلِی الْمَنَایَا نُفُوسُنَا وَنَتْرُکُ أُخْرَی مُرَّۃً مَا نَذُوقُہَا قالَ ابْنُ عَامِرٍ : فَحَدَّثْت بِہَذَا الْحَدِیثِ ابْنُ جَعْفَرٍ ، فَقَالَ : نَحْنُ کُنَّا أَحَقَّ بِہَذِہِ الأَبْیَاتِ مِنْ ہَمْدَانَ۔
(٣٣٤٥٩) حضرت عامر (رض) فرماتے ہیں کہ حارثہ بن بدر التمیمی اہل بصرہ میں سے تھا اس نے زمین میں فساد پھیلایا اور جنگ کی ۔ پھر اس نے حضرت حسن بن علی (رض) ، حضرت ابن جعفر (رض) ، حضرت ابن عباس (رض) اور قریش کے چند افراد سے امان کے بارے میں بات چیت کی ۔ ان لوگوں نے حضرت علی (رض) سے بات کی تو آپ (رض) نے اس کو امان نہیں دی۔ پس حارثہ بن بدر حضرت سعید بن قیس الھمدانی (رض) کے پاس آیا اور ان سے اس بارے میں بات کی۔ تو حضرت سعید (رض) حضرت علی (رض) کے پاس گئے اور اس کو پیچھے اپنے گھر میں چھوڑ دیا۔ اور فرمایا : اے امیر المؤمنین ! آپ (رض) کیا فرماتے ہیں اس شخص کے بارے میں جو اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جنگ کرے اور زمین میں فساد پھیلانے کے لیے بھاگ دوڑ کرے ؟ آپ (رض) نے جواب میں یہ آیت تلاوت فرمائی۔ ترجمہ : صرف یہی سزا ہے ان لوگوں کی جو اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جنگ کرتے ہیں اور زمین میں فساد مچانے میں بھاگ دوڑ کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ آپ (رض) نے مکمل آیت تلاوت فرمائی۔ اس پر حضرت سعید نے فرمایا : آپ (رض) کی کیا رائے ہے اس شخص کے بارے میں جو خود پر قابو دینے سے پہلے ہی توبہ کرلے ؟ حضرت علی (رض) نے فرمایا : میں وہی کہوں گا جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اس سے توبہ قبول کی جائے گی۔ آپ (رض) نے فرمایا : بیشک حارثہ بن بدر نے خود پر قابو دینے سے پہلے توبہ کی۔ پھر آپ (رض) نے اس کو بلانے کے لیے قاصد بھیجا ۔ پس اس کو حضرت علی (رض) کے سامنے لایا گیا ۔ آپ (رض) نے اس کو امان دی اور اس کے لیے ایک تحریر لکھ دی۔ اس پر حارثہ نے یہ اشعار کہے : میری طرف سے ہمدان کو سلام پہنچاؤ جب تم وہاں پہنچو، اس کا دشمن سالم نہ رہے۔ یقینی طور پر ہمدان کے لوگ اللہ سے ڈرتے ہیں اور ان کا خطیب کتاب اللہ سے فیصلہ کرتا ہے۔ میرا سر سفید ہوگیا اور ہماری عقلیں ماند پڑگئیں۔ ہمارے اردگرد کی کڑک اور چمک سے۔ ہمارے نفوس موت کو شیریں سمجھتے ہیں۔ جبکہ زندگی کو ہم کڑوا سمجھتے ہیں۔
حضرت عامر (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے یہ بات حضرت ابن جعفر (رض) کے سامنے ذکر کی تو آپ (رض) نے فرمایا : ہم ھمدان والوں سے ان اشعار کے زیادہ حقدار تھے۔

33459

(۳۳۴۶۰) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ، عَنْ أَشْعَثَ، عَنِ الشَّعْبِیِّ، عَنْ عَلَیَّ: بنحوہ منہ، ولم یذکر فیہ الشعر۔
(٣٣٤٦٠) امام شعبی (رض) سے بھی حضرت علی (رض) کا مذکورہ ارشاد اس سند سے مروی ہے۔ لیکن انھوں نے اس میں شعر کا ذکر نہیں فرمایا :

33460

(۳۳۴۶۱) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ زَعَمَ أَنَّ رَجُلاً مِنْ مُرَادٍ صلَّی ، فَلَمَّا سَلَّمَ أَبُو مُوسَی قَامَ ، فَقَالَ : ہَذَا مَقَامُ التَّائِبِ الْعَائِذِ ، فَقَالَ : وَیْلَک مَا لَکَ ، قَالَ : أَنَا فُلاَنُ بْنُ فُلاَنٍ الْمُرَادِی ، وَإِنِّی کُنْتُ حَارَبْت اللَّہَ وَرَسُولَہُ وَسَعَیْت فِی الأَرْضِ فَسَادًا ، فَہَذَا حِینَ جِئْت وَقَدْ تُبْت مِنْ قَبْلِ أَنْ یُقْدَرَ عَلَیَّ ، قَالَ : فَقَامَ أَبُو مُوسَی الْمَقَامَ الَّذِی قَامَ فِیہِ ، ثُمَّ قَالَ : إنَّ ہَذَا فُلاَنُ بْنُ فُلاَنٍ الْمُرَادِیُّ : وَإِنَّہُ کَانَ حَارَبَ اللَّہَ وَرَسُولَہُ وَسَعَی فِی الأَرْضِ فَسَادًا ، وَإِنَّہُ قَدْ تَابَ مِنْ قَبْلِ أَنْ یُقْدَرَ عَلَیْہِ ، فَإِنْ یَکُ صَادِقًا فَسَبِیلُ مَنْ صَدَقَ ، وَإِنْ کَانَ کَاذِبًا یَأْخُذُہُ اللَّہُ بِذَنْبِہِ ، قَالَ : فَخَرَجَ فِی النَّاسِ فَذَہَبَ ونجا ، ثُمَّ عَادَ فَقُتِلَ۔
(٣٣٤٦١) امام شعبی (رض) فرماتے ہیں کہ قبیلہ مراد کے ایک آدمی نے نماز پڑھی۔ راوی کہتے ہیں : جب حضرت ابو موسیٰ (رض) نے سلام پھیرا تو وہ شخص کھڑا ہو کر کہنے لگا : یہ توبہ کرنے والے اور پناہ مانگنے والے کی جگہ ہے۔ آپ (رض) نے فرمایا : ہلاکت ہو تجھے کیا ہوا ؟ اس نے کہا : میں فلاں بن فلاں مرادی ہوں۔ اور تحقیق میں نے اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جنگ کی اور میں نے زمین میں فساد پھیلانے کی بھاگ دوڑ کی۔ اور تحقیق میں اب آیا ہوں اس حال میں کہ میں نے خود پر قدرت ہوجانے سے پہلے توبہ کی۔ راوی کہتے ہیں : حضرت ابو موسیٰ (رض) اس جگہ میں کھڑے ہوئے جہاں وہ کھڑا تھا پھر آپ (رض) نے ارشاد فرمایا : بیشک یہ فلاں بن فلاں مرادی ہے اور اس نے اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جنگ کی اور زمین میں فساد مچانے کی بھاگ دوڑ کی اور بیشک اس نے خود پر قدرت ہوجانے سے پہلے ہی توبہ کرلی۔ پس اگر یہ شخص سچا ہے تو اس کے ساتھ سچوں والا معاملہ ہے۔ اور اگر یہ جھوٹا ہے تو اللہ رب العزت اس کے گناہ کی وجہ سے اس کو پکڑے گا۔ راوی کہتے ہیں : پس وہ شخص لوگوں میں نکلا اور چلا گیا اور نجات پا لی۔ پھر اس نے دوبارہ وہی کام کیا تو اس کو قتل کردیا گیا۔

33461

(۳۳۴۶۲) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ عَطِیَّۃَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ فِی قَوْلِہِ : {إنَّمَا جَزَائُ الَّذِینَ یُحَارِبُونَ اللَّہَ وَرَسُولَہُ وَیَسْعَوْنَ فِی الأَرْضِ فَسَادًا أَنْ یُقَتَّلُوا أَوْ یُصَلَّبُوا أَوْ تُقَطَّعَ أَیْدِیہِمْ وَأَرْجُلُہُمْ مِنْ خِلاَفٍ} حَتَّی خَتَمَ الآیَۃَ ، فَقَالَ : إذَا حَارَبَ الرَّجُلُ وَقَتَلَ وَأَخَذَ الْمَالَ قُطِعَتْ یَدُہُ وَرِجْلُہُ مِنْ خِلاَفٍ وَصُلِبَ وَإِذَا قَتَلَ وَلَمْ یَأْخُذَ الْمَالَ قُتِلَ ، وَإِذَا أَخَذَ الْمَالَ وَلَمْ یَقْتُلْ قُطِعَتْ یَدُہُ وَرِجْلُہُ مِنْ خِلاَفٍ وَإِذَا لَمْ یَقْتُلْ وَلَمْ یَأْخُذَ الْمَالَ نُفِیَ۔
(٣٣٤٦٢) حضرت عطیہ (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عباس (رض) نے اللہ رب العزت کے اس قول کی تلاوت فرمائی : آیت : ترجمہ : صرف یہی سزا ہے ان لوگوں کی جو اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جنگ کرتے ہیں اور زمین میں فساد مچانے کی بھاگ دوڑ کرتے ہیں کہ قتل کیے جائیں یا سولی پر چڑھائے جائیں یا کاٹے جائیں ان کے ہاتھ اور ان کے پاؤں مخالف سمتوں سے۔ یہاں تک کہ آپ (رض) نے مکمل آیت پڑھی ۔ اور ارشاد فرمایا : جب آدمی لڑائی کرے اور قتل کر دے اور مال بھی لے لے تو اس کا ایک ہاتھ اور اس کا ایک پاؤں مخالف سمت سے کاٹ دیا جائے گا اور سولی دی جائے گی۔ اور جب کوئی قتل کر دے اور مال نہ لے تو اس کو قتل کیا جائے گا اور جب مال لے لے اور قتل نہ کرے تو اس کا ایک ہاتھ اور ایک پاؤں مخالف سمت سے کاٹ دیا جائے گا۔ اور جب نہ قتل کرے اور نہ ہی مال لے تو اس کو ملک سے نکال دیا جائے گا۔

33462

(۳۳۴۶۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُدَیْرٍ ، عَنْ أَبِی مِجْلَزٍ فِی ہَذِہِ الآیَۃِ : {إنَّمَا جَزَائُ الَّذِینَ یُحَارِبُونَ اللَّہَ وَرَسُولَہُ} قَالَ : إذَا قَتَلَ وَأَخَذَ الْمَالَ قُتِلَ ، وَإِذَا أَخَذَ الْمَالَ وَأَخَافَ السَّبِیلَ صُلِبَ ، وَإِذَا قَتَلَ وَلَمْ یُعِدْ ذَلِکَ قُتِلَ ، وَإِذَا أَخَذَ الْمَالَ لَمْ یُعِدْ ذَلِکَ قُطِعَ وَإِذَا أَفْسَدَ نُفِیَ۔
(٣٣٤٦٣) حضرت عمران بن حدیر (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت ابو مجلز (رض) نے اس آیت کے بارے میں : ترجمہ : صرف یہی جزاء ہے ان لوگوں کی جو اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جنگ کرتے ہیں۔۔۔ آپ (رض) نے یوں ارشاد فرمایا : جب یہ آدمی قتل کرے اور مال بھی لے لے ۔ تو اس کو قتل کردیا جائے گا اور جب مال چھین لے اور راستہ کو پرخطر بنا دے تو اس کو سولی دی جائے گی۔ اور جب قتل کرے اور اس کام کو دوبارہ نہ لوٹائے تو اس کو قتل کردیا جائے گا ۔ اور جب مال چھین لے اور یہ قتل نہ کرے تو اس کے ہاتھ پاؤں کاٹے جائیں گے۔ اور جب فساد پھیلائے تو اس کو ملک سے نکال دیا جائے گا۔

33463

(۳۳۴۶۴) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ حَمَّادٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ : {إنَّمَا جَزَائُ الَّذِینَ یُحَارِبُونَ اللَّہَ وَرَسُولَہُ} قَالَ : إذَا خَرَجَ وَأَخَافَ السَّبِیلَ وَأَخَذَ الْمَالَ قُطِعَتْ یَدُہُ وَرِجْلُہُ مِنْ خِلاَفٍ ، وَإِذَا أَخَافَ السَّبِیلَ وَلَمْ یَأْخُذَ الْمَالَ نُفِی ، وَإِذَا قَتَلَ قُتِلَ ، وَإِذَا أَخَافَ السَّبِیلَ وَأَخَذَ الْمَالَ وَقَتَلَ صُلِبَ۔
(٣٣٤٦٤) حضرت حماد (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم (رض) نے اس آیت : {إنَّمَا جَزَائُ الَّذِینَ یُحَارِبُونَ اللَّہَ وَرَسُولَہُ } کے بارے میں یوں ارشاد فرمایا : جب وہ نکل جائے اور راستہ کو پُر خطر بنا دے اور مال چھین لے ۔ تو اس کا ایک ہاتھ اور ایک ٹانگ مخالف سمت سے کاٹ دی جائے گی۔ اور جب وہ راستہ کو پُر خطر بنا دے اور مال نہ چھینے تو اس کو ملک سے نکال دیا جائے گا۔ اور جب وہ قتل بھی کر دے تو اس کو بھی قتل کیا جائے گا اور جب وہ راستہ کو پُر خطر بنا دے اور مال چھین لے ، اور قتل کر دے تو اس کو سولی دی جائے گی۔

33464

(۳۳۴۶۵) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، قَالَ حُدِّثْت ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ، قَالَ : مَنْ حَارَبَ فَہُوَ مُحَارِبٌ ، فقَالَ سَعِیدٌ : وَإِنْ أَصَابَ دَمًا قُتِلَ ، وَإِنْ أَصَابَ دَمًا وَمَالاً صُلِبَ ، فَإِنَّ الصَّلْبَ ہُوَ أَشَدُ ، وَإِذَا أَصَابَ مَالاً وَلَمْ یُصِبْ دَمًا قُطِعَتْ یَدُہُ وَرِجْلُہُ لِقَوْلِہِ {أَوْ تُقَطَّعَ أَیْدِیہِمْ وَأَرْجُلُہُمْ مِنْ خِلاَفٍ} فَإِنْ تاب فَتَوْبَتُہُ فِیمَا بَیْنَہُ وَبَیْنَ اللہِ ، وَیُقَامُ عَلَیْہِ الْحَدُّ۔
(٣٣٤٦٥) حضرت ابن جریج (رض) فرماتے ہیں کہ مجھے حضرت سعیدبن جبیر (رض) کے حوالے سے نقل کیا گیا ہے کہ آپ (رض) نے ارشاد فرمایا : جو لڑائی کرے وہ محارب ہے۔ پھر آپ (رض) نے فرمایا : اگر وہ خون کر دے تو اس کو قتل کیا جائے گا اور اگر وہ خون کر دے اور مال بھی چھین لے تو اس کو صولی دی جائے گی پس بیشک صولی دینا زیادہ سخت ہے ، اور جب وہ مال چھین لے اور خون نہ کرے تو اس کا ایک ہاتھ اور ایک ٹانگ کاٹ دی جائے گی اللہ رب العزت کے اس قول کی وجہ سے : ترجمہ : یا ان کے ہاتھ اور ان کی ٹانگیں مخالف سمت سے کاٹ دی جائیں گی۔ پس اگر وہ توبہ کرلے تو اس کی توبہ اس کے اور اللہ کے درمیان ہوگی اور اس پر حد قائم کی جائے گی۔

33465

(۳۳۴۶۶) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ حُبَابٍ ، عَنْ أَبِی ہِلاَلٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ مُوَرِّقٍ الْعِجْلِیّ ، قَالَ : إذَا أَخَذَ الْمُحَارِبُ فَرُفِعَ إلَی الإِمَامِ ، فَإِنْ کَانَ أَخَذَ الْمَالَ وَلَمْ یَقْتُلْ قُطِعَ وَلَمْ یُقْتَلْ ، وَإِنْ کان أَخَذَ الْمَالَ وَقَتَلَ قُتِلَ وَصُلِبَ ، وَإِنْ کَانَ لَمْ یَأْخُذَ الْمَالَ وَلَمْ یَقْتُلْ لَمْ یُقْطَعْ ، وَإِنْ کَانَ لَمْ یَأْخُذَ الْمَالَ وَلَمْ یَقْتُلْ وَشَاقَّ الْمُسْلِمِینَ نُفِیَ۔
(٣٣٤٦٦) حضرت قتادہ (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت مورّق عجلی (رض) نے ارشاد فرمایا : جب لڑائی کرنے والے کو پکڑ لیا جائے تو اس کو امیر کے پاس لے جایا جائے گا، پس اگر اس نے مال چھینا ہو اور قتل نہ کیا ہو تو اس کے ہاتھ اور پاؤں کاٹ دیے جائیں گے اور اس کو قتل نہیں کیا جائے گا اور اگر اس نے مال چھینا تھا اور قتل بھی کردیا تھا تو اس کو قتل کیا جائے گا اور سولی دی جائے گی ، اور اگر اس نے مال نہیں چھینا اور قتل نہیں کیا تو اس کے ہاتھ اور پاؤں بھی نہیں کاٹے جائیں گے اور اگر اس نے مال نہیں چھینا اور نہ قتل کیا صرف مسلمانوں کو تنگ کیا ہو تو اس کو ملک سے نکال دیا جائے گا۔

33466

(۳۳۴۶۷) حَدَّثَنَا الضَّحَّاکُ بْنُ مَخْلَدٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَطَائٍ ، قَالَ : الْمُحَارَبَۃُ الشِّرْکُ۔
(٣٣٤٦٧) حضرت ابن جریج (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عطائ (رض) نے ارشاد فریایا : محاربہ یعنی اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جنگ، شرک کرنا ہے۔

33467

(۳۳۴۶۸) حَدَّثَنَا ہُشَیْمُ بْنُ بَشِیرٍ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ عَطَائٍ وَعَنِ الْقَاسِمِ بْنِ أَبِی بَزَّۃَ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، وَعَنْ لَیْثٍ ، عَنْ عَطَائٍ، عَنْ مُجَاہِدٍ، وَعَنْ أَبِی حُرَّۃَ، عَنِ الْحَسَنِ، وَجُوَیْبِرٍ، عَنِ الضَّحَّاکِ ، قَالُوا: الإِمَامُ مُخَیَّرٌ فِی الْمُحَارِبِ۔
(٣٣٤٦٨) حضرت مجاہد (رض) ، حضرت عطائ (رض) ، حضرت حسن (رض) اور حضرت ضحاک (رض) یہ سب حضرات فرماتے ہیں کہ امام کو محارب کے بارے میں اختیار دیا گیا ہے۔

33468

(۳۳۴۶۹) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : تَلاَ ہَذِہِ الآیَۃَ {إنَّمَا جَزَائُ الَّذِینَ یُحَارِبُونَ اللَّہَ وَرَسُولَہُ} ، قَالَ : ذَلِکَ إلَی الإِمَامِ۔
(٣٣٤٦٩) حضرت عاصم (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت حسن (رض) نے یہ آیت تلاوت فرمائی۔ صرف یہی سزا ہے ان لوگوں کی جو اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے لڑائی کرتے ہیں۔ اور فرمایا : یہ اختیار امام کو ہے۔

33469

(۳۳۴۷۰) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو ، عَنْ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِیزِ ، قَالَ : السُّلْطَانُ وَلِیُّ قَتْلِ مَنْ حَارَبَ الدِّینَ وَإِنْ قَتَلَ أَخَا امْرِئٍ وَأَبَاہُ ، فَلَیْسَ إلَی مَنْ یُحَارِبُ الدِّینَ وَیَسْعَی فِی الأَرْضِ فَسَادًا سَبِیلٌ ، یَعْنِی دُونَ السُّلْطَانِ ، وَلاَ یُقَصَّرْ عَنِ الْحُدُودِ بَعْدَ أَنْ تَبْلُغَ إلَی الإِمَامِ ، فَإِنَّ إقَامَتَہَا مِنَ السُّنَّۃِ۔
(٣٣٤٧٠) حضرت عمر بن عبدالعزیز فرماتے ہیں کہ سلطان اس شخص کے قتل کا نگران ہے جو دین میں بگاڑ کا سبب بنے۔ سلطان کے علاوہ کسی کو اس کا اختیار نہیں۔ جب حدود امام کے پاس پہنچ جائیں تو ان کی معافی کی کوئی صورت نہیں اور ان کا قائم کرنا سنت ہے۔

33470

(۳۳۴۷۱) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ الْحُبَابِ ، عَنْ أَبِی ہِلاَلٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ فِی الْمُحَارِبِ : إذَا رُفِعَ إلَی الإِمَامِ یَصْنَعُ بِہِ مَا شَائَ۔
(٣٣٤٧١) حضرت قتادہ (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت سعید بن المسیب (رض) نے محارب کے بارے میں ارشاد فرمایا : کہ جب اس کو امام کے پاس لے گئے تو اس کو اختیار ہے کہ جو چاہے اس کے ساتھ معاملہ کرے۔

33471

حدثنا أبو عبد الرحمن بقی بن مخلد قَالَ حدثنا أبو بکر عبد اللہ بن محمد بن أبی شیبۃ قَالَ : (۳۳۴۷۲) حَدَّثَنَا سَعِیدُ بْنُ عَامِرٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ أَبِی عَرُوبَۃَ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ أَبِی حَرَّۃَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : لأَنْ یَذْہَبَ وَیَرْجِعَ أَحَبُّ إلَیْہِ ، وَسَالَہُ وأراد أَخٌ لَہُ یَغْزُو۔
(٣٣٤٧٢) حضرت نافع (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عمر (رض) سے سوال کیا گیا کہ ان کا ایک بھائی جہاد کے لیے جانا چاہتا ہے تو انھوں نے فرمایا کہ وہ جائے اور واپس آجائے یہ مجھے زیادہ پسند ہے۔

33472

(۳۳۴۷۳) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، قَالَ : لاَ یُدْفَنُ مَعَ الْقَتِیلِ خُفٌّ ، وَلاَ نَعْلٌ۔
(٣٣٤٧٣) حضرت لیث (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت مجاہد (رض) نے ارشاد فرمایا : مقتول کے ساتھ موزے اور چپل دفن نہیں کیے جائیں گے۔

33473

(۳۳۴۷۴) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِِ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : یُنْزَعُ ، عَنِ الْقَتِیلِ الْفَرْوُ وَالْجَوْرَبَانِ وَالْمَوْزَجَانُ والأفراہیجان إِلاَّ أَنْ یَکُونَ الْجَوْرَبَانِ یُکَمِّلاَنِ فَیُتْرَکَانِ عَلَیْہِ۔
(٣٣٤٧٤) حضرت مغیرہ (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم (رض) نے ارشاد فرمایا : مقتول سے پوستین لگا کپڑا، جرابیں، اور بڑے موزے اور چھوٹے موزے سب چیزیں اتار لی جائیں گی مگر یہ کہ دونوں جرابیں کفن کو پورا کریں تو ان دونوں کو چھوڑ دیا جائے گا۔

33474

(۳۳۴۷۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ مُخَوَّلٍ ، عَنِ الْعَیْزَارِ بْنِ حُرَیْثٍ العبدی ، قَالَ : قَالَ زَیْدُ بْنُ صُوحَانَ : لاَ تَنْزِعُوا عَنِّی ثَوْبًا إِلاَّ الْخُفَّیْنِ۔
(٣٣٤٧٥) حضرت عیزار بن حریث العبدی (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت زید بن صوحان (رض) نے ارشاد فرمایا : کہ میرے کپڑے مت اتارنا مگر موزے اتار لینا۔

33475

(۳۳۴۷۶) حَدَّثَنَا عِیسَی بْنُ یُونُسَ ، عَنِ الأَوْزَاعِیِّ ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ حَسَّانَ ، قَالَ : کَانَ مُحَمَّدٌ إِذَا سُئِلَ عَنِ الشَّہِیدِ یُغَسَّلُ حَدَّثَ عَنْ حُجْرِ بْنِ عَدِیٍّ إذْ قَتَلَہُ مُعَاوِیَۃُ ، قَالَ : قَالَ حُجْرٌ : لاَ تَطْلِقُوا عَنِّی حَدِیدًا وَلاَ تَغْسِلُوا عَنِّی دَمًا ، ادْفِنُونِی فِی وِثَاقِی وَدَمِی ، فَإنِّی أَلْقَی مُعَاوِیَۃَ علی الْجَادَّۃِ غَدًا۔
(٣٣٤٧٦) حضرت ہشام بن حسان (رض) فرماتے ہیں کہ امام محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جب شہید کو غسل دینے کے بارے میں پوچھا جاتا ؟ تو آپ (رض) حضرت حجر بن عدی (رض) کے حوالہ سے نقل فرماتے کہ جب معاویہ نے ان کو قتل کیا تو حضرت حجر (رض) نے فرمایا : تم لوگ میرا اسلحہ مت اتارنا۔ اور نہ ہی میرے خون کو دھونا اور مجھے میرے کپڑوں اور میرے خون لگے رہنے کی حالت میں ہی دفن کرنا۔ پس میں کل اسی جھگڑے پر معاویہ سے ملوں گا۔

33476

(۳۳۴۷۷) حَدَّثَنَا عِیسَی بْنُ یُونُسَ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ بْنِ أَبِی خَالِدٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ یَحْیَی بْنَ عَابِسٍ یُخْبِرُ قَیْسَ بْنَ أَبِی حَازِمٍ ، عَنْ عَمَّارِ بْنِ یَاسِرٍ أَنَّہُ قَالَ : ادْفِنُونِی فِی ثِیَابِی فَإِنِّی مُخَاصِمٌ۔
(٣٣٤٧٧) حضرت قیس بن ابی حازم (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عمار بن یاسر (رض) نے ارشاد فرمایا : تم لوگ مجھے میرے کپڑوں ہی میں دفن کرنا پس میں جھگڑالوں ہوں گا۔

33477

(۳۳۴۷۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ بْنُ أَبِی خَالِدٍ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ عَابِسٍ ، عَنْ عَمَّارِ بْنِ یَاسِرٍ نَحْوَہُ۔
(٣٣٤٧٨) حضرت یحییٰ بن عابس (رض) سے بھی حضرت عمار بن یاسر (رض) کا مذکورہ ارشاد اس سند سے منقول ہے۔

33478

(۳۳۴۷۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ مُخَوَّلِ بْنِ رَاشِدٍ النَّہْدِیِّ ، عَنِ الْعَیْزَارِ بْنِ حُرَیْثٍ الْعَبْدِیِّ ، قَالَ : قَالَ زَیْدُ بْنُ صُوحَانَ یَوْمَ الْجَمَلِ : أَرْمِسُونِی فِی الأَرْضِ رَمْسًا ، وَلاَ تَغْسِلُوا عَنِّی دَمًا ، وَلاَ تَنْزِعُوا عَنِّی ثَوْبًا إِلاَّ الْخُفَّیْنِ ، فَإِنِّی مُحَاجٌّ أُحَاجُّ۔
(٣٣٤٧٩) حضرت عیزار بن حریث العبدی (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت زید بن صوحان (رض) نے جنگ جمل والے دن ارشاد فرمایا : تم لوگ مجھے قبر میں دفنا کر قبر کو برابر کردینا اور میرے خون کو دھونا مت اور نہ ہی میرے کپڑے اتارنا مگر موزوں کو ۔ پس بیشک میں جھگڑالو ہوں گا جھگڑا کروں گا۔

33479

(۳۳۴۸۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا مِسْعَرٌ وَسُفْیَانُ ، عَنْ مُصْعَبِ بْنِ الْمُثَنَّی الْعَبْدِیِّ ، قَالَ سُفْیَانُ : عَنْ رَجُلٍ ، عَنْ زَیْدِ بْنِ صُوحَانَ ، وَقَالَ مِسْعَرٌ ، عَنْ مُصْعَبٍ ، عَنْ زَیْدِ بْنِ صُوحَانَ أَنَّہُ قَالَ یَوْمَ الْجَمَلِ : ادْفِنُونَا ، وَمَا أَصَابَ الثَّرَی مِنْ دِمَائِنَا۔
(٣٣٤٨٠) حضرت مسعر (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت زید بن صوحان نے جنگ جمل والے دن ارشاد فرمایا : ہمیں اور جو ہمیں خون لگا ہوا ہو اس کو دفنا دینا۔

33480

(۳۳۴۸۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ قَیْسِ بْنِ مُسْلِمٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِی لَیْلَی ، قَالَ : قَالَ سَعْدُ بْنُ عُبَیْدٍ الْقَارِئُ یَوْمَ الْقَادِسِیَّۃِ : إنَّا لاَقُوا الْعَدُوِّ غَدًا إِنْ شَائَ اللَّہُ وَإِنَّا مُسْتَشْہِدُونَ فَلاَ تَغْسِلُوا عَنَّا دَمًا ، وَلاَ نُکَفَّنُ إِلاَّ فِی ثَوْبٍ کَانَ عَلَیْنَا۔
(٣٣٤٨١) حضرت عبد الرحمن بن ابی لیلیٰ (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت سعد بن عبید القاری (رض) نے جنگ قادسیہ کے دن ارشاد فرمایا : بیشک ہم کل دشمن سے ملاقات کریں گے ۔ ان شاء اللہ۔ اور ہم شہید ہوں گے تو تم ہمارے خون کو مت دھونا۔ اور ہمیں کفن مت دینا۔ مگر ان ہی کپڑوں میں جو ہم نے پہنے ہوئے ہوں۔

33481

(۳۳۴۸۲) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، قَالَ : حدَّثَنَا ثَابِتُ بْنُ عُمَارَۃَ ، قَالَ سَمِعْت غُنَیْمَ بْنَ قَیْسٍ یَقُولُ : یقال : الشَّہِیدُ یُدْفَنُ فِی ثِیَابِہِ وَلاَ یُغَسَّلُ۔
(٣٣٤٨٢) حضرت ثابت بن عمارہ (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عنیم بن قیس (رض) نے ارشاد فرمایا : شہید کو اس کے کپڑوں میں دفن کیا جائے گا اور اسے غسل نہیں دیا جائے گا۔

33482

(۳۳۴۸۳) حَدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ أَنَّ رَجُلاً مِنْ أَصْحَابِ عَبْدِ اللہِ قَتَلَہُ الْعَدُوُّ فَدَفَنَّاہُ فِی ثِیَابِہِ۔
(٣٣٤٨٣) حضرت ابو اسحاق (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) کے اصحاب میں سے ایک آدمی کو اس کے دشمن نے قتل کردیا تو ہم لوگوں نے اسے اس کے کپڑوں میں دفن کردیا۔

33483

(۳۳۴۸۴) حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ عَیَّاشٍ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : إذَا رُفِعَ الْقَتِیلُ دُفِنَ فِی ثِیَابِہِ ، وَإِذَا رُفِعَ وَبِہِ رَمَقٌ صُنِعَ بِہِ مَا یُصْنَعُ بِغَیْرِہِ۔
(٣٣٤٨٤) حضرت مغیرہ (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم (رض) نے ارشاد فرمایا : جب مقتول کو اٹھا لیا جائے تو اسے اس کے کپڑوں میں ہی دفن کردیا جائے گا اور جب اسے اٹھایا گیا اس حال میں کہ اس کی سانس باقی ہو تو اس کے ساتھ وہی معاملہ کیا جائے گا جو اس کے علاوہ دیگر م میت سے کیا جاتا ہے۔

33484

(۳۳۴۸۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ عِیسَی بْنِ أَبِی عَزَّۃَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ فِی رَجُلٍ قَتَلَتْہُ اللُّصُوصُ ، قَالَ : یُدْفَنُ فِی ثِیَابِہِ ، وَلاَ یُغَسَّلُ۔
(٣٣٤٨٥) حضرت عیسیٰ بن ابی عزہ (رض) فرماتے ہیں کہ امام شعبی (رض) نے اس شخص کے بارے میں ارشاد فرمایا : جس کو چوروں نے قتل کردیا تھا کہ اس کے کپڑوں میں ہی اس کو دفن کیا جائے گا اور اس کو غسل نہیں دیا جائے گا۔

33485

(۳۳۴۸۶) حَدَّثَنَا شَبَابَۃُ ، قَالَ : أَخْبَرَنا لَیْثُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنِ ابْنِ شِہَابٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ کَعْبِ بْنِ مَالِکٍ أَنَّ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللہِ أَخْبَرَہُ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَمْ یُصَلِّ عَلَی قَتْلَی أُحُدٍ وَلَمْ یُغَسَّلُوا۔
(٣٣٤٨٦) حضرت جابر بن عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غزوہ احد کے شہیدوں پر نماز جنازہ نہیں پڑھائی اور نہ ہی ان کو غسل دیا گیا۔

33486

(۳۳۴۸۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنِ ابْنِ أَبِی عَرُوبَۃَ ، عَنْ أَبِی مَعْشَرٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : الشَّہِیدُ إذَا کَانَ فِی الْمَعْرَکَۃِ دُفِنَ فِی ثِیَابِہِ وَلَمْ یُغَسَّلْ۔
(٣٣٤٨٧) حضرت ابو معشر (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم (رض) نے ارشاد فرمایا : جب کوئی معرکہ میں شہید ہوجائے تو اسے اس کے کپڑوں میں ہی دفن کردیا جائے گا اور اسے غسل نہیں دیا جائے گا۔

33487

(۳۳۴۸۸) حَدَّثَنَا عِیسَی بْنُ یُونُسَ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنِ الْحَسَنِ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَمَرَ بِحَمْزَۃَ حِینَ اسْتُشْہِدَ فَغُسِّلَ۔
(٣٣٤٨٨) حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت حمزہ (رض) کے بارے میں حکم دیا تھا جب انھیں شہید کردیا گیا تھا پس ان کو غسل دیا گیا۔

33488

(۳۳۴۸۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا زَکَرِیَّا ، عَنْ عَامِرٍ أَنَّ حَنْظَلَۃَ بْنَ الرَّاہِبِ طَہَّرَتْہُ الْمَلاَئِکَۃُ۔
(٣٣٤٨٩) حضرت زکریا (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عامر (رض) نے ارشاد فرمایا : کہ حضرت حنظلہ بن الراھب (رض) کو فرشتوں نے پاک کیا تھا۔

33489

(۳۳۴۹۰) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ ؛ فِی القَتِیل إذَا کَانَ عَلَیْہِ مَہْلٌ غُسِّلَ۔
(٣٣٤٩٠) حضرت یونس (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت حسن (رض) نے اس مقتول کے بارے میں کہ جس پر تھوڑا وقت گزر گیا ہو یوں ارشاد فرمایا : کہ اس کو غسل دیا جائے گا۔

33490

(۳۳۴۹۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا شُعْبَۃُ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ، وَالْحَسَنِ ، قَالاَ : الشَّہِیدُ یُغَسَّلُ ، مَا مَاتَ مَیِّتٌ إِلاَّ أَجْنَبَ۔
(٣٣٤٩١) حضرت قتادہ (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت سعید بن المسیب (رض) اور حضرت حسن (رض) ان دونوں حضرات نے ارشاد فرمایا : شہید کو غسل دیا جائے گا۔ اس لیے کہ کوئی بھی مرتا نہیں ہے مگر یہ کہ وہ ناپاک ہوجاتا ہے۔

33491

(۳۳۴۹۲) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : غُسِّلَ عُمَرُ وَکُفِّنَ وَحُنِّطَ۔
(٣٣٤٩٢) حضرت نافع (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عمر (رض) نے ارشاد فرمایا : کہ حضرت عمر (رض) کو غسل دیا گیا، کفن پہنایا گیا اور خوشبو بھی لگائی گئی۔

33492

(۳۳۴۹۳) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ إدْرِیسَ ، عن حصین ، عَنْ أَبِی مَالِکٍ ، قَالَ : صَلَّی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَی حَمْزَۃَ۔ (ابوداؤد ۴۲۷۔ دارقطنی ۷۸)
(٣٣٤٩٣) حضرت ابو مالک (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت حمزہ (رض) پر نماز جنازہ پڑھائی ۔

33493

(۳۳۴۹۴) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ یَزِیدَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ الْحَارِثِ ، قَالَ : صَلَّی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَی حَمْزَۃَ وَکَبَّرَ عَلَیْہِ تِسْعًا۔ (بزار ۱۷۹۶۔ حاکم ۱۹۷)
(٣٣٤٩٤) حضرت عبداللہ بن الحارث (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت حمزہ (رض) پر نماز جنازہ پڑھائی اور نو تکبیریں پڑھیں۔

33494

(۳۳۴۹۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنِ الزُّبَیْرِ بْنِ عَدِیٍّ ، عَنْ عَطَائٍ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صَلَّی عَلَی قَتْلَی بَدْرٍ۔
(٣٣٤٩٥) حضرت عطائ (رض) فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غزوہ بدر کے شہیدوں پر نماز جنازہ پڑھی۔

33495

(۳۳۴۹۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ جَابِرٍ ، قَالَ : سُئِلَ عَامِرٌ : أَیُصَلَّی عَلَی الشَّہِیدِ ؟ قَالَ : أَحَقُّ مَنْ صُلِّیَ عَلَیْہِ الشَّہِیدُ۔
(٣٣٤٩٦) حضرت جابر (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عامر (رض) سے پوچھا گیا : کیا شہید پر نماز جنازہ پڑھی جائے گی ؟ آپ (رض) نے فرمایا : شہید زیادہ حق دار ہے کہ اس پر نماز جنازہ پڑھی جائے۔

33496

(۳۳۴۹۷) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، قَالَ : حدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ سُلَیْمَانَ الشَّیْبَانِیِّ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : حَدَّثَنِی عَمْرُو بْنُ أَبِی قُرَّۃَ ، قَالَ : جَائَنَا کِتَابُ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ أَنَّ أُنَاسًا یَأْخُذُونَ مِنْ ہَذَا الْمَالِ یُجَاہِدُونَ فِی سَبِیلِ اللہِ ، ثُمَّ یُخَالِفُونَ ، وَلاَ یُجَاہِدُونَ ، فَمَنْ فَعَلَ ذَلِکَ مِنْہُمْ فَنَحْنُ أَحَقُّ بِمَالِہِ حَتَّی نَأْخُذَ مِنْہُ مَا أَخَذَ ، قَالَ أبو إِسْحَاقُ: فَقُمْت إلَی یسیر بْنِ عَمْرٍو ، فَقُلْتُ : أَلاَ تَرَی إلَی مَا حَدَّثَنِی بِہِ عَمْرُو بْنُ أَبِی قُرَّۃَ وَحَدَّثْت بِہِ ، فَقَالَ : صَدَقَ ، جَائَ بِہِ کِتَابُ عُمَرَ۔
(٣٣٤٩٧) حضرت عمرو بن ابی قرہ (رض) فرماتے ہیں کہ ہمارے پاس حضرت عمر بن خطاب (رض) کا خط آیا : آپ (رض) نے لکھا تھا : بیشک کچھ لوگ ایسے ہیں جو اس مال میں سے حصہ لیتے ہیں کہ وہ اللہ کے راستہ میں جہاد کریں گے پھر وہ اس کے خلاف کرتے ہیں اور جہاد نہیں کرتے ۔ پس ان میں جو شخص بھی ایسا کرے تو ہم اس مال کے زیادہ حقدار ہیں یہاں تک کہ ہم اس سے وہ مال وصول کرلیں گے جو اس نے لیا تھا۔ ابو اسحاق (رض) فرماتے ہیں کہ میں حضرت یسیربن عمرو کے پاس اٹھ کر گیا اور میں نے عرض کیا : آپ (رض) کی کیا رائے ہے اس حدیث کے بارے میں جو عمرو بن ابی قرہ نے مجھے بیان کی ہے ؟ اور میں نے وہ حدیث حضرت یسیر سے بیان کی۔ آپ (رض) نے فرمایا : اس نے سچ کہا وہ حضرت عمر (رض) کا خط لایا تھا۔

33497

(۳۳۴۹۸) حَدَّثَنَا مَعْنُ بْنُ عِیسَی ، عَنِ ابْنِ أَبِی ذِئْبٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، قَالَ : یُوقَفُ مَالُ الأَسِیرِ وَامْرَأَتُہُ حَتَّی یُسْلِمَا ، أَوْ یَمُوتَا۔
(٣٣٤٩٨) حضرت ابن ابی ذئب (رض) فرماتے ہیں کہ امام زہری (رض) نے ارشاد فرمایا : قیدی کے مال کو اور اس کی بیوی کو روک لیا جائے گا یہاں تک کہ ان دونوں کو سپرد کردیا جائے گا یا وہ دونوں مرجائیں۔

33498

(۳۳۴۹۹) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُصْعَبٍ ، قَالَ : حدَّثَنِی الأَوْزَاعِیُّ ، قَالَ : سَأَلْتُ الزُّہْرِیَّ ، عَنِ الأَسِیرِ فِی أَرْضِ الْعَدُوِّ مَتَی تُزَوَّجُ امْرَأَتُہُ ، فَقَالَ : لاَ تُزَوَّجُ مَا عَلِمَتْ أَنَّہُ حَیٌّ۔
(٣٣٤٩٩) امام اوزاعی (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت زہری (رض) سے اس شخص کے بارے میں سوال کیا جس کو دشمن کی زمین میں قیدی بنا لیا گیا ہو کہ اس کی بیوی کب نکاح کرے گی ؟ آپ (رض) نے فرمایا : وہ نکاح نہیں کرسکتی جب تک اسے اس کا زندہ ہونا معلوم ہو۔

33499

(۳۳۵۰۰) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ؛ فِی الأَسِیرِ فِی أَیْدِی الْعَدُوِّ إِنْ أَعْطَی عَطِیَّۃً ، أَوْ نَحَلَ نُحْلاً وَأَوْصَی بِثُلُثِہِ فَہُوَ جَائِزٌ۔
(٣٣٥٠٠) حضرت ہشام (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت حسن (رض) نے دشمن کے قبضہ میں موجود قیدی کے بارے میں ارشاد فرمایا : اگر وہ کسی کو کوئی عطیہ دے یا کسی کو اپنی مرضی سے کوئی چیز دے اور اپنے ثلث مال کی وصیت کر دے تو جائز ہے۔

33500

(۳۳۵۰۱) حَدَّثَنَا مَعْنُ بْنُ عِیسَی ، عَنِ ابْنِ أَبِی ذِئْبٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، قَالَ : لاَ یَجُوزُ لِلأَسِیرِ فِی مَالِہِ إِلاَّ الثُّلُثُ۔
(٣٣٥٠١) حضرت ابن ابی ذئب (رض) فرماتے ہیں کہ امام شعبی (رض) نے ارشاد فرمایا : کہ قیدی کے لیے اپنے مال میں صرف ثلث کی وصیت کرنا جائز ہے۔

33501

(۳۳۵۰۲) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ، عَنْ دَاوُدَ، عَنِ الشَّعْبِیِّ، عَنْ شُرَیْحٍ، قَالَ: أَحْوَجُ مَا یَکُونُ إلَی مِیرَاثِہِ وَہُوَ أَسِیرٌ۔
(٣٣٥٠٢) حضرت شعبی (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت شریح (رض) نے ارشاد فرمایا : اس کی میراث کا سب سے زیادہ محتاج تو وہ قیدی ہے۔

33502

(۳۳۵۰۳) حَدَّثَنَا ابْنُ مَہْدِیٍّ، عَنْ ہَمَّامٍ، عَنْ قَتَادَۃَ، عَنِ الْحَسَنِ؛ فِی مِیرَاثِ الأَسِیرِ، قَالَ: إِنَّہُ مُحْتَاجٌ إلَی مِیرَاثِہِ۔
(٣٣٥٠٣) حضرت قتادہ (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت حسن (رض) نے قیدی کے وارث بننے کے بارے میں ارشاد فرمایا : بیشک وہ اس وراثت کا محتاج ہے۔

33503

(۳۳۵۰۴) حَدَّثَنَا ابْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنِ ابْنِ أَبِی ذِئْبٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، قَالَ : یَرِثُ الأَسِیرُ۔
(٣٣٥٠٤) حضرت ابن بی ذئب (رض) فرماتے ہیں کہ امام زہری (رض) نے ارشاد فرمایا : قیدی وارث بنے گا۔

33504

(۳۳۵۰۵) حَدَّثَنَا ابْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ، قَالَ : یَرِثُ۔
(٣٣٥٠٥) حضرت قتادہ (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت سعید بن المسیب (رض) نے ارشاد فرمایا : قیدی وارث بنے گا۔

33505

(۳۳۵۰۶) حَدَّثَنَا ابْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنْ سُفْیَانَ عَمَّنْ سَمِعَ إبْرَاہِیمَ یَقُولُ : لاَ یَرِثُ الأَسِیرُ۔
(٣٣٥٠٦) حضرت سفیان (رض) اس شخص سے نقل کرتے ہیں جس نے حضرت ابراہیم (رض) کو یوں فرماتے ہوئے سنا کہ قیدی وارث نہیں بنے گا۔

33506

(۳۳۵۰۷) حَدَّثَنَا ابْنُ الْحَارِثِ ، عَنِ ابْنِ أَبِی عَرُوبَۃَ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ، قَالَ : لاَ یَرِثُ الأَسِیرُ فِی أَیْدِی الْعَدُوِّ۔
(٣٣٥٠٧) حضرت قتادہ (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت سعید بن المسیب (رض) نے ارشاد فرمایا : جو قیدی دشمن کے قبضہ میں ہو وہ وارث نہیں بنے گا۔

33507

(۳۳۵۰۸) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا وُہَیْبٌ ، عَنْ دَاوُدَ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ، أَنَّہُ کَانَ لاَ یُوَرَّثُ الأَسِیرُ۔
(٣٣٥٠٨) حضرت داؤد (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت سعید بن المسیب (رض) قیدی کو وارث نہیں بناتے تھے۔

33508

(۳۳۵۰۹) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ الْمُبَارَکِ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَطَائٍ ، قَالَ : لاَ یُؤْخَذُ بِمَا أحْدَثَ ہُنَاکَ ، یَعْنِی الأَسِیرَ یُؤْسَرُ فَیُحْدِثُ۔
(٣٣٥٠٩) حضرت ابن جریج (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عطائ (رض) نے ارشاد فرمایا : اس کی پکڑ نہیں کی جائے گی وہاں راز بیان کرنے کی وجہ سے یعنی کسی کو قیدی بنا لیا تو اس نے دشمن کے سامنے راز بیان کردیا۔

33509

(۳۳۵۱۰) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ، عَنْ مُوسَی بْنِ عُبَیْدَۃَ، عَنْ زَیْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عْن أَبِیہِ، قَالَ: بُشِّرَ عُمَرُ بِفَتْحٍ فَسَجَدَ۔
(٣٣٥١٠) حضرت زید بن اسلم (رض) فرماتے ہیں کہ ان کے والد حضرت اسلم (رض) نے ارشاد فرمایا : کہ حضرت عمر (رض) کو فتح کی خوشخبری سنائی گئی تو آپ (رض) نے سجدہ شکر ادا کیا۔

33510

(۳۳۵۱۱) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ ، عَنْ مِسْعَرٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عُبَیْدِ اللہِ أَنَّ أَبَا بَکْرٍ أَتَاہُ فَتْحٌ فَسَجَدَ۔
(٣٣٥١١) حضرت مسعر (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت محمد بن عبید اللہ نے ارشاد فرمایا : کہ حضرت ابوبکر (رض) کے پاس فتح کی خبر آئی تو آپ (رض) نے سجدہ شکر ادا کیا۔

33511

(۳۳۵۱۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا مِسْعَرٌ ، عَنْ أَبِی عَوْنٍ الثَّقَفِیِّ مُحَمَّدِ بْنِ عُبَیْدِ اللہِ ، عَنْ رَجُلٍ لَمْ یُسَمِّہِ : أَنَّ أَبَا بَکْرٍ لَمَّا أَتَاہُ فَتْحُ الْیَمَامَۃِ سَجَدَ۔
(٣٣٥١٢) حضرت ابو عون محمد بن عبید اللہ الثقفی (رض) فرماتے ہیں کہ ایک شخص ۔۔۔ جس کا انھوں نے نام نہیں بیان کیا ۔۔۔ نے فرمایا : جب حضرت ابوبکر (رض) کے پا سی یمامہ کی فتح کی خبر آئی تو آپ (رض) نے سجدہ شکر ادا کیا۔

33512

(۳۳۵۱۳) حَدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ قَیْسٍ ، عَنْ أَبِی مُوسَی ، قَالَ : رَأَیْتُ عَلِیًّا حِینَ أُتِیَ بِالْمُخَدَّجِ سَجَدَ سَجْدَۃَ شُکْرٍ۔
(٣٣٥١٣) حضرت ابو موسیٰ (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت علی (رض) کو دیکھا کہ جب ان کے پاس مخدّج کی خبر لائی گئی تو آپ (رض) نے سجدہ ٔ شکر ادا کیا۔

33513

(۳۳۵۱۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ قَیْسٍ الْہَمْدَانِیِّ ، عَنْ شَیْخٍ لَہُمْ یُکْنَی أَبَا مُوسَی ، قَالَ : شَہِدْت عَلِیًّا لَمَّا أُتِیَ بِالْمُخَدَّجِ سَجَدَ۔
(٣٣٥١٤) حضرت ابو موسیٰ (رض) فرماتے ہیں کہ میں حضرت علی (رض) کے پاس حاضر تھا جب ان کے پاس مخدّج کی خبر لائی گئی تھی تو آپ (رض) نے سجدہ شکر ادا کیا۔

33514

(۳۳۵۱۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا ابْنُ عُبَیْدٍ الْعِجْلِیّ ، عَنْ أَبِی مؤمن الواثلی، قَالَ : شَہِدْت عَلِیًّا أُتِیَ بِالْمُخَدَّجِ فَسَجَدَ۔
(٣٣٥١٥) حضرت ابو مومن الواثلی (رض) فرماتے ہیں کہ میں حضرت علی (رض) کے پاس حاضر تھا جب مخدّج کی خبر لائی گئی تو آپ (رض) نے سجدہ شکر ادا کیا ۔

33515

(۳۳۵۱۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ قَالَ : حَدَّثَنَا مِسْعَرٌ ، عَنْ أَبِی عَوْنٍ الثَّقَفِیِّ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ الْجَزَّارِ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَرَّ بِہِ رَجُلٌ وَبِہِ زَمَانَۃٌ فَسَجَدَ ، وَأَبُو بَکْرٍ ، وَعُمَرُ۔
(٣٣٥١٦) حضرت یحییٰ بن جزار (رض) فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک آدمی کے پاس سے گزرے جس کو دائمی بیماری لاحق تھی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سجدہ شکر ادا کیا اور حضرت ابوبکر (رض) اور حضرت عمر (رض) نے بھی سجدہ شکر ادا کیا۔

33516

(۳۳۵۱۷) حَدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ أَبِی جَعْفَرٍ ، قَالَ : مَرَّ عَلَی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَجُلٌ قَصِیرٌ ، قَالَ : فَسَجَدَ سَجْدَۃَ الشُّکْرِ ، وَقَالَ : الْحَمْدُ لِلَّہِ الَّذِی لَمْ یَجْعَلْنِی مَثَل زُنَیم۔
(٣٣٥١٧) حضرت ابو جعفر (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس سے ایک چھوٹا سا آدمی گزرا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سجدہ شکر ادا کیا اور فرمایا : سب تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے مجھے چھوٹے سے کان کی طرح نہیں بنایا۔

33517

(۳۳۵۱۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ أَبِی جَعْفَرٍ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَرَّ بِنُغَاشٍ فَسَجَدَ ، وَقَالَ : سَلُوا اللَّہَ الْعَافِیَۃَ۔
(٣٣٥١٨) حضرت ابو جعفر (رض) فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک پست قد آدمی کے پاس سے گزرے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ سے عافیت طلب کرو۔

33518

(۳۳۵۱۹) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، قَالَ : حَدَّثْت أَنَّ أَبَا بَکْرٍ سَجَدَ سَجْدَۃَ الشُّکْرِ ، وَکَانَ إبْرَاہِیمُ یَکْرَہُہَا۔
(٣٣٥١٩) حضرت منصور (رض) فرماتے ہیں کہ مجھے بیان کیا گیا ہے کہ حضرت ابوبکر (رض) نے سجدہ شکر ادا کیا اور حضرت ابراہیم (رض) اس کو مکروہ سمجھتے تھے۔

33519

(۳۳۵۲۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمِ ، قَالَ : سَجْدَۃُ الشُّکْرِ بِدْعَۃٌ۔
(٣٣٥٢٠) حضرت مغیرہ (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم (رض) نے ارشاد فرمایا : سجدہ شکر ادا کرنا بدعت ہے۔

33520

(۳۳۵۲۱) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا الْکَلْبِیُّ ، عَنْ أَبِی صَالِحٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : لَمَّا نَزَلَ نِکَاحُ زَیْنَبَ انْطَلَقَ زَیْدُ بْنُ حَارِثَۃَ حَتَّی اسْتَأْذَنَ عَلَی زَیْنَبَ ، قَالَ : فَقَالَتْ زَیْنَبُ : مَا لِی وَلِزَیْدٍ ، قَالَ : فَأَرْسَلَ إلَیْہَا إِنِّی رَسُولُ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : فَأَذِنَتْ لَہُ فَبَشَّرَہَا أَنَّ اللَّہَ زَوَّجَہَا مِنْ نَبِیِّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : فَخَرَّتْ سَاجِدَۃً شُکْرًا لِلَّہِ۔
(٣٣٥٢١) حضرت ابو صالح (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عباس (رض) نے ارشاد فرمایا : جب حضرت زینب (رض) کا نکاح ختم ہوگیا اور حضرت زید بن ثابت (رض) چلے گئے یہاں تک کہ انھوں نے حضرت زینب (رض) سے اجازت طلب کی تو حضرت زینب (رض) نے فرمایا : اب زید کو مجھ سے کیا کام ؟ راوی فرماتے ہیں : کہ حضرت زید (رض) نے ان کے پاس پیغام بھیجا کہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا قاصد بن کر آیا ہوں تو حضرت زینب (رض) نے ان کو اجازت مرحمت فرما دی۔ پھر آپ (رض) نے ان کو خوشخبری سنائی کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارا نکاح اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کردیا یہ سن کر حضرت زینب (رض) شکر ادا کرنے کے لیے سجدہ میں گرپڑیں۔

33521

(۳۳۵۲۲) حَدَّثَنَا ہُشَیمٌ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا مُغِیرَۃُ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : کَانَ یَکْرَہُ سَجْدَۃَ الْفَرَحِ وَیَقُولُ : لَیْسَ فِیہَا رُکُوعٌ ، وَلاَ سُجُودٌ۔
(٣٣٥٢٢) حضرت مغیرہ (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم (رض) فرحت و خوشی کے سجدے کو مکروہ سمجھتے تھے اور فرماتے تھے نہ تو اس میں رکوع ہے اور نہ سجدہ۔

33522

(۳۳۵۲۳) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، قَالَ : حدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ بْنُ زَرْبِیٍّ ، قَالَ : حَدَّثَنا الرَّیَّانُ بْنُ صَبِرَۃَ الْحَنَفِیُّ أَنَّہُ شَہِدَ یَوْمَ النَّہْرَوَانِ ، قَالَ : وَکُنْت فِیمَنَ اسْتَخْرَجَ ذَا الثُّدَیَّۃِ فَبُشِّرَ بِہِ عَلِیٌّ قَبْلَ أَنْ یَنْتَہِیَ إلَیْہِ ، قَالَ : فَانْتَہَینا إلَیْہِ وَہُوَ سَاجِدٌ فَرَحًا بہ۔
(٣٣٥٢٣) حضرت اسماعیل بن زر بی (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت ریان بن صبرہ حنفی (رض) جنگ نہروان میں موجود تھے۔ آپ (رض) فرماتے ہیں کہ میں ان لوگوں میں تھا جنہوں نے ذوثدیہ کو نکالا تھا۔ اس کے حضرت علی (رض) کے پاس پہنچنے سے پہلے حضرت علی (رض) کو اس کے آنے کی خبر ہوگئی تھی۔ جب ہم ان کے پاس پہنچے تو وہ خوشی کی وجہ سے سجدہ میں تھے۔ تو حضرت علی (رض) کو ان کے جانے سے پہلے اس بات کی خوشخبری سنائی تھی۔ آپ (رض) فرماتے ہیں کہ جب ہم حضرت علی (رض) کے پاس آئے تو آپ (رض) فرط خوشی میں سجدہ ادا کر رہے تھے۔

33523

(۳۳۵۲۴) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ الْحُبَابِ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا مُوسَی بْنُ عُبَیْدَۃَ ، عَنْ قَیْسِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أبی صَعْصَعَۃَ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاہِیمَ ، عَن عَلِیٍّ ، عَنْ جَدِّہِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ ، قَالَ : انْتَہَیْت إِلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَہُوَ سَاجِدٌ ، فَلَمَّا انْصَرَفَ قُلْتُ : یَا رَسُولَ اللہِ : أَطَلْتَ السُّجُودَ ، قَالَ : إنِّی سَجَدْتُ شُکْرًا لِلَّہِ فِیمَا أَبْلاَنِی فی أُمَّتِی۔
(٣٣٥٢٤) حضرت عبد الرحمن بن عوف (رض) فرماتے ہیں کہ میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا اس حال میں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سجدہ کر رہے تھے۔ پس جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فارغ ہوئے تو میں نے کہا : اے اللہ کے رسول 5! آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لمبا سجدہ کیا : آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میں نے اللہ کا شکر ادا کرنے کے لیے سجدہ کیا کہ اس نے میری امت کے بارے میں عذر قبول فرمایا۔

33524

(۳۳۵۲۵) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سُوقَۃَ ، قَالَ : سَأَلَ رَجُلٌ عَطَائً ، عَنْ رَجُلٍ أَسَرَتْہُ الدَّیْلَمُ فَأَخَذُوا مِنْہُ عَہْدَ اللہِ وَمِیثَاقَہُ عَلَی أَنْ یُرْسِلُوہُ ، فَإِنْ بُعِثَ إلَیْہِمْ بفداء قد سموہ فَہُوَ بَرِیئٌ ، وَإِنْ لَمْ یُبْعَثْ إلَیْہِمْ کَانَ عَلَیْہِ الْعَہْدُ وَالْمِیثَاقُ أَنْ یَرْجِعَ إلَیْہِمْ فَلَمْ یَجِد ، وَکَانَ مُعْسِرًا ، قَالَ یفی بِالْعَہْدِ ، فَقَالَ : إنَّہُمْ أَہْلُ شِرْک ، فَأَبَی عَطَائٌ إِلاَّ أَنْ یَفِیَ بِالْعَہْدِ۔
(٣٣٥٢٥) حضرت محمد بن سوقہ (رض) فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے حضرت عطائ (رض) سے اس آدمی کے متعلق سوال کیا جس کو دیلمی لوگوں نے قیدی بنا لیا تھا۔ اور اس سے اللہ کا عہد و پیمان لے کر چھوڑ دیا کہ اگر وہ ان کی طرف فدیہ بھیج دے گا تو وہ بری ہوگا۔ اور ان لوگوں نے فدیہ مقرر کردیا تھا۔ اور اگر اس نے فدیہ نہ بھیجا تو وہ عہد و پیمان کے مطابق ان کی طرف واپس لوٹ جائے گا۔ پس اس شخص کو فدیہ کی رقم نہ مل سکی اس لیے کہ وہ تنگدست تھا۔ اب وہ کیا کرے ؟ آپ (رض) نے فرمایا : وہ وعدہ پورا کرے گا۔ اس آدمی نے کہا : حضرت وہ مشرکین ہیں ! حضرت عطائ (رض) نے انکار کیا اور فرمایا : کہ ہر صورت میں وعدہ کی وفاء ضروری ہوگی۔

33525

(۳۳۵۲۶) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ جَامِعِ بْنِ أَبِی رَاشِدٍ ، عَنْ مَیْمُونِ بْنِ مِہْرَانَ ، قَالَ : ثَلاَثٌ یُؤَدَّیْنَ إلَی الْبَرِّ وَالْفَاجِرِ : الرَّحِمُ یُوصَلُ بَرَّۃً کَانَتْ ، أَوْ فَاجِرَۃً ، وَالأَمَانَۃُ تُؤَدِّیہَا إلَی الْبَرِّ وَالْفَاجِرِ ، وَالْعَہْدُ یُوَفَّی بِہِ لِلْبَرِّ وَالْفَاجِرِ۔
(٣٣٥٢٦) حضرت جامع بن ابی راشد (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت میمون بن مہران (رض) نے ارشاد فرمایا : تین چیزیں نیکو کاروں اور بدکار دونوں کو ادا کی جائیں گی۔ صلہ رحمی کی جائے گی چاہے نیکو کار ہو یا بدکار۔ اور امانت نیکو کار اور بدکار دونوں کو ادا کی جائے گی۔ اور نیکو کار اور بدکار دونوں سے وعدہ کی وفاء کی جائے گی۔

33526

(۳۳۵۲۷) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنِ الْوَلِیدِ بْنِ جُمَیْعٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا أَبُو الطُّفَیْلِ ، قَالَ : حَدَّثَنَا حُذَیْفَۃُ بْنُ الْیَمَانِ ، قَالَ : مَا مَنَعَنِی أَنْ أَشْہَدَ بَدْرًا إِلاَّ أَنِّی خَرَجْت أَنَا ، وَأَبِی حُسَیْلٍ ، قَالَ : فَأَخَذَنَا کُفَّارُ قُرَیْشٍ فَقَالُوا : إنَّکُمْ تُرِیدُونَ مُحَمَّدًا فَقُلْنَا : مَا نُرِیدُہُ ، مَا نُرِیدُ إِلاَّ الْمَدِینَۃَ ، فَأَخَذُوا مِنَّا عَہْدَ اللہِ وَمِیثَاقَہُ لَنَنْصَرِفَنَّ إلَی الْمَدِینَۃِ، وَلاَ نُقَاتِلُ مَعَہُ ، فَأَتَیْنَا رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرْنَاہُ الْخَبَرَ ، فَقَالَ : انْصَرِفَا ، نَفِی لَہُمْ وَنَسْتَعِینُ اللَّہَ عَلَیْہِمْ۔ (مسلم ۱۴۱۴۔ احمد ۳۹۵)
(٣٣٥٢٧) حضرت ابوالطفیل (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت حذیفہ بن الیمان (رض) نے ارشاد فرمایا : مجھے غزوہ بدر میں شرکت سے نہیں روکا تھا مگر اس بات نے کہ میں اور میرے والد حسیل (رض) نکلے ہوئے تھے کہ ہمیں کفار قریش نے پکڑ لیا اور کہنے لگے۔ تم لوگ محمد کے پاس جا رہے ہو۔ تو ہم نے کہا : ہم ان کے پاس نہیں جا رہے ، ہمارا تو صرف مدینہ جانے کا ارادہ ہے۔ تو انھوں نے ہم سے عہد و پیمان لیا کہ ہم مدینہ لوٹ جائیں گے اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی معیت میں قتال نہیں کریں گے ۔ تو ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے اور ہم نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس واقعہ کی خبر دی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم دونوں واپس لوٹ جاؤ ہم ان سے بھی عہد کی وفا کریں گے۔ اور ان کے خلاف اللہ سے مدد مانگیں گے۔

33527

(۳۳۵۲۸) حَدَّثَنَا عِیسَی بْنُ یُونُسَ ، عَنِ الأَوْزَاعِیِّ ، عَنْ عَبْدَۃُ بْنِ أَبِی لُبَابَۃَ أَنَّہُ قَالَ فِی الْعَبْدِ إذَا أَبَقَ إلَی أَرْضِ الْعَدُوِّ : لاَ یقبل حَتَّی یَأْوِیَ إلَی حِرْزٍ ، وَیُرَدُّ إلَی مَوْلاَہُ۔
(٣٣٥٢٨) امام اوزاعی (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عبدہ بن ابی لبابہ (رض) نے اس غلام کے بارے میں جو دشمن کے ملک کی طرف بھاگ جائے یوں ارشاد فرمایا : کہ اس کا کوئی عمل قبول نہیں ہوگا یہاں تک کہ وہ کسی محفوظ مقام پر پناہ لے اور اپنے آقا کی طرف لوٹ آئے۔

33528

(۳۳۵۲۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ حَبِیبِ بْنِ أَبِی ثَابِتٍ ، عَنِ الْمُغِیرَۃِ بْنِ شِبْلٍ ، عَنْ جَرِیرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إذَا أَبَقَ الْعَبْدُ إلَی أرض الْعَدُوِّ بَرِئَتْ مِنْہُ الذِّمَّۃُ۔ (احمد ۳۵۷۔ حمیدی ۸۰۶)
(٣٣٥٢٩) حضرت جریر بن عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جب کوئی غلام دشمن کے ملک کی طرف بھاگ جائے تو اس کا ذمہ بری ہوجائے گا۔

33529

(۳۳۵۳۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، عَنْ سُفْیَانَ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عُبَیْدِاللہِ، عَنِ الشَّعْبِیِّ، عَنْ جَرِیرٍ، قَالَ: مَعَ کُلِّ أَبْقَۃٍ کَفْرَۃٌ۔
(٣٣٥٣٠) امام شعبی (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت جریر بن عبداللہ (رض) نے ارشاد فرمایا : ہر بھاگنے والا کافر ہے۔

33530

(۳۳۵۳۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا یُونُسُ بْنُ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ عَامِرٍ ، عَنْ جَرِیرٍ ، قَالَ : إذَا أَبَقَ إلَی الْعَدُوِّ فَقَدْ حَلَّ دَمُہُ ، یَعْنِی إلَی دَارِ الْحَرْبِ۔
(٣٣٥٣١) حضرت عامر (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت جریر بن عبداللہ (رض) نے ارشاد فرمایا : جب کوئی شخص دشمن کی طرف بھاگ جائے یعنی دار الحرب کی طرف بھاگ جائے تو تحقیق اس کا خون حلال ہوگیا۔

33531

(۳۳۵۳۲) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ مُجَالِدٍ ، عَنْ عَامِرٍ ، عَنْ جَرِیرٍ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : أَیُّمَا عَبْدٍ أَبَقَ إلَی أَرْضِ الْعَدُوِّ فَقَدْ بَرِئَتْ مِنْہُ الذِّمَّۃُ۔ (طبرانی ۲۳۶۰۔ احمد ۳۶۵)
(٣٣٥٣٢) حضرت جریر (رض) فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جو کوئی غلام دشمن کی زمین کی طرف بھاگ جائے تو تحقیق اس کا ذمہ بری ہوگیا۔

33532

(۳۳۵۳۳) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنِ ابْنِ أَبِی عَرُوبَۃَ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، قَالَ : سُئِلَ عَلِیٌّ ، عَنْ مُکَاتَبٍ سَبَاہُ الْعَدُوُّ ، ثُمَّ اشْتَرَاہُ رَجُلٌ مِنَ الْمُسْلِمِینَ ، قَالَ : فَقَالَ : إِنْ أَحَبَّ مَوْلاَہُ أَنْ یَفتکَّہُ فَیَکُونَ عِنْدَہُ عَلَی مَا بَقِیَ مِنْ مُکَاتَبَتِہِ وَیَکُونُ لَہُ الْوَلاَئُ ، وَإِنْ کَرِہَ ذَلِکَ کَانَ عِنْدَ الَّذِی اشْتَرَاہُ عَلَی ہَذِہ الْحَالِ۔
(٣٣٥٣٣) حضرت قتادہ (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت علی (رض) سے اس مکاتب غلام کے متعلق پوچھا گیا : جس کو دشمن نے قید کرلیا تھا پھر مسلمانوں میں سے ایک آدمی نے اس کو خرید لیا اب اس کا کیا حکم ہے ؟ آپ (رض) نے فرمایا : اگر اس کا آقا چاہتا ہے تو وہ اس کو رہن دے کر چھڑا لے پھر یہ غلام اپنے آقا کے پاس اس طور پر رہے گا کہ یہ اپنی باقی بچی ہوئی بدل کتابت ادا کرے گا۔ اور آقا کو اس غلام کی ولاء ملے گی۔ اور اگر وہ اس بات کو پسند نہیں کرتا تو یہ غلام خریدنے والے کے پاس اسی حالت میں رہے گا۔

33533

(۳۳۵۳۴) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا عَبَّادٌ ، قَالَ : أَخْبَرَنِی مَکْحُولٌ ، قَالَ فِی مُکَاتَبٍ أَسَرَہُ الْعَدُوُّ فَاشْتَرَاہُ رَجُلٌ مِنَ التُّجَّارِ فکَاتَبَہُ ، قَالَ : یُؤَدِّی مُکَاتَبَۃَ الأَوَّلِ ، ثُمَّ یُؤَدِّی مُکَاتَبَۃَ الآخَرِ۔
(٣٣٥٣٤) حضرت عباد (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت مکحول (رض) نے ارشاد فرمایا : اس مکاتب غلام کے بارے میں جس کو دشمن نے قید کرلیا ، کسی تاجر نے اس کو خرید کر پھر مکاتب بنادیا تو اس کا کیا حکم ہوگا ؟ آپ (رض) نے فرمایا : وہ غلام سب سے پہلے والے آقا کا مال کتابت ادا کرے گا اور پھر دوسرے تاجر کا مال کتابت ادا کرے گا۔

33534

(۳۳۵۳۵) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو ، عَنْ أَبِی سَلَمَۃَ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ أَنَّہُ قَدِمَ عَلَی عُمَرَ مِنَ الْبَحْرَیْنِ ، قَالَ : فَقَدِمْت عَلَیْہِ فَصَلَّیْت مَعَہُ الْعِشَائَ ، فَلَمَّا رَآنِی سَلَّمْت عَلَیْہِ ، فَقَالَ : مَا قَدِمْت بِہِ قُلْتُ : قَدِمْت بِخَمْسِمِئَۃِ أَلْفٍ ، قَالَ : تَدْرِی مَا تَقُولُ ، قَالَ : قَدِمْت بِخَمْسِمِئَۃِ أَلْفٍ ، قَالَ : قُلْتُ : مِئَۃَ أَلْفٍ ومِئَۃَ أَلْفٍ ومِئَۃَ أَلْفٍ ومِئَۃَ أَلْفٍ ومِئَۃَ أَلْفٍ حَتَّی عَدَّ خَمْسًا ، قَالَ : إنَّک نَاعِسٌ ، ارْجِعْ إلَی بَیْتِکَ فَنَمْ ، ثُمَّ اغْدُ عَلَیَّ ، قَالَ : فَغَدَوْت عَلَیْہِ ، فَقَالَ : مَا جِئْت بِہِ قُلْتُ : بِخَمْسِمِئَۃِ أَلْفٍ ، قَالَ : طَیِّبٌ ، قُلْتُ : طَیِّبٌ ، لاَ أَعْلَمُ إِلاَّ ذَاکَ ، قَالَ : فَقَالَ لِلنَّاسِ : إِنَّہُ قَدِمَ عَلَیَّ مَالٌ کَثِیرٌ فَإِنْ شِئْتُمْ أَنْ نَعُدَّہُ لَکُمْ عَدًّا ، وَإِنْ شِئْتُمْ أَنْ نَکِیلَہُ لَکُمْ کَیْلاً ، فَقَالَ رَجُلٌ : یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ إنِّی رَأَیْت ہَؤُلاَئِ الأَعَاجِمَ یُدَوِّنُونَ دِیوَانًا وَیُعْطُونَ النَّاسَ عَلَیْہِ ، قَالَ : فَدَوَّنَ الدِّیوان وَفَرَضَ لِلْمُہَاجِرِینَ فِی خَمْسَۃِ آلاَفٍ خَمْسَۃَ آلاَفٍ وَلِلأَنْصَارِ فِی أَرْبَعَۃِ آلاَفٍ أَرْبَعَۃَ آلاَفٍ ، وَفَرَضَ لأَزْوَاجِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی اثْنَیْ عَشَرَ أَلْفًا اثْنَیْ عَشَرَ أَلْفًا۔
(٣٣٥٣٥) حضرت ابو سلمہ (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت ابوہریرہ (رض) نے ارشاد فرمایا : کہ وہ بحرین سے حضرت عمر (رض) کے پاس آئے۔ آپ (رض) فرماتے ہیں کہ میں آیا اور میں نے حضرت عمر (رض) کے ساتھ عشاء کی نماز پڑھی جب انھوں نے مجھے دیکھا تو میں نے ان کو سلام کیا انھوں نے فرمایا : تم کیا چیز ساتھ لائے ہو ؟ میں نے کہا : میں پانچ لاکھ ساتھ لایا ہوں۔ انھوں نے فرمایا : تم جانتے ہو کہ تم کیا کہہ رہے ہو ؟ میں نے کہا : میں پانچ لاکھ ساتھ لایا ہوں۔ انھوں نے فرمایا : تم کہہ رہے ہو کہ ایک لاکھ اور ایک لاکھ اور ایک لاکھ اور ایک لاکھ اور ایک لاکھ۔ یہاں تک کہ انھوں نے پانچ مرتبہ شمار کیا۔ اور فرمایا : بیشک تمہیں اونگھ آرہی ہے۔ تم اپنے گھر جاؤ اور سو جاؤ۔ پھر کل میرے پاس آنا۔ حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ میں اگلے دن ان کے پاس آیا ۔ انھوں نے پوچھا : تم کیا لائے ہو ؟ میں نے کہا : پانچ لاکھ۔ انھوں نے پوچھا : واقعی ؟ میں نے کہا : واقعی : اور میں تو صرف یہی جانتا ہوں۔ آپ (رض) نے لوگوں سے کہا : میرے پاس بہت زیادہ مال آیا۔ اگر تم چاہو تو میں مال تمہارے لیے شمار کروں اور اگر چاہو تو میں اس مال کو تمہارے لیے کیل کروں۔ اس پر ایک آدمی نے کہا : اے امیر المؤمنین ! بیشک میں نے ان عجمیوں کو دیکھا ہے کہ وہ دیوان عدل مدون کرتے ہیں اور اس کی بنیاد پر لوگوں کو عطا کرتے ہیں۔ پھر حضرت عمر (رض) نے دیوان عدل مدون کروایا اور مہاجرین کے لیے پانچ پانچ ہزار مقرر فرمائے۔ اور انصار صحابہ (رض) کے لیے چار چار ہزار مقرر فرمائے۔ اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ازواج مطہرات (رض) کے لیے بارہ بارہ ہزار مقرر فرمائے۔

33535

(۳۳۵۳۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ بْنُ أَبِی خَالِدٍ ، عَنْ قَیْسِ بْنِ أَبِی حَازِمٍ ، قَالَ : فَرَضَ عُمَرُ لأَہْلِ بَدْرٍ عَرِبیہِمْ وَمَوْلاَہُمْ فِی خَمْسَۃِ آلاَفٍ خَمْسَۃَ آلاَفٍ ، وَقَالَ : لأُفَضِّلَنَّہُمْ عَلَی مَنْ سِوَاہُمْ۔
(٣٣٥٣٦) حضرت قیس بن ابی حازم فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے بدری صحابہ (رض) اور ان کے غلاموں میں جو عربی النسل تھے ان کے لیے پانچ پانچ ہزار مقرر کیے اور فرمایا : کہ میں ضرور بالضرور ان کو غیروں پر فضیلت دوں گا۔

33536

(۳۳۵۳۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ فَرَضَ لأہل بدر فِی سِتَّۃِ آلاَفٍ سِتَّۃَ آلاَفٍ ، وَفَرَضَ لأُمَّہَاتِ الْمُؤْمِنِینَ فِی عَشْرَۃِ آلاَفٍ عَشْرَۃَ آلاَفٍ ، فَفَضَّلَ عَائِشَۃَ بِأَلْفَیْنِ لِحُبِّ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إیَّاہَا إِلاَّ السَّبِیَّتَیْنِ صَفِیَّۃَ بِنْتَ حُیَیٍّ وَجُوَیْرِیَۃَ بِنْتَ الْحَارِثِ فَرَضَ لَہما سِتَّۃَ آلاَفٍ ، وَفَرَضَ لِنِسَائٍ مِنْ نِسَائِ الْمُؤْمِنِینَ فِی أَلْفٍ أَلْفٍ مِنْہُمْ أُمُّ عَبْدٍ۔
(٣٣٥٣٧) حضرت مصعب بن سعد (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) نے بدری صحابہ (رض) کے لیے چھ چھ ہزار مقرر فرمائے۔ اور امہات المومنین کے لیے دس دس ہزار ہزار مقرر فرمائے اور حضرت عائشہ (رض) سے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خاص محبت ہونے کی وجہ سے ان کے لیے دو ہزار کا اضافہ فرما دیا۔ سوائے دو بیویوں حضرت صفیہ بنت حیی (رض) اور حضرت جویریہ بنت حارث (رض) کے کہ ان دونوں کے لیے چھ چھ ہزار مقرر فرمائے۔ اور مسلمانوں کی عورتوں میں سے چند عورتوں کے لیے ہزار ہزار مقرر فرمائے۔ ان عورتوں میں حضرت ام عبد بھی شامل تھیں۔

33537

(۳۳۵۳۸) حَدَّثَنَا حُمَیْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ قَیْسٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : أَتَیْتُ عَلِیًّا بِابْنِ عَمٍّ لِی ، فَقُلْتُ: یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ ، افْرِضْ لِہَذَا ، قَالَ : أَرْبَعٌ ، یَعْنِی أَرْبَعَمِئَۃٍ ، قَالَ : قُلْتُ : إنَّ أَرْبَعَمِئَۃٍ لاَ تُغْنِی شَیْئًا ، زِدْہُ الْمِائَتَیْنِ الَّتِی زِدْت النَّاسَ ، قَالَ : فَذَاکَ لَہُ ، قَالَ : وَقَدْ کَانَ زَادَ النَّاسَ مِئَتَیْنِ۔
(٣٣٥٣٨) حضرت قیس (رض) فرماتے ہیں کہ میں اپنے چچا کے بیٹے کو لے کر حضرت علی (رض) کی خدمت میں آیا اور میں نے عرض کیا : اے امیر المؤمنین : اس کے لیے بھی عطیہ مقرر فرما دیں۔ آپ (رض) نے فرمایا : چار سو درہم۔ میں نے عرض کیا : بیشک چار سو درہم اس کو کچھ فائدہ نہیں دیں گے۔ آپ (رض) اس کے لیے دو سو درہم مزید بڑھا دیں۔ جیسا کہ آپ (رض) نے لوگوں کے بڑھائے ہیں۔ آپ (رض) نے فرمایا : اس کے لیے بھی بڑھا دیے۔ راوی کہتے ہیں : کہ آپ (رض) نے لوگوں کے لیے دو سو درہم بڑھا دیے تھے۔

33538

(۳۳۵۳۹) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ الْحُبَابِ ، قَالَ : حدَّثَنِی أَبُو مَعْشَرٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِی عُمَرُ مَوْلَی غُفْرَۃَ وَغَیْرُہُ ، قَالَ : لَمَّا تُوُفِّیَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ جَائَہُ مَالٌ مِنَ الْبَحْرَیْنِ ، فَقَالَ أَبُو بَکْرٍ : مَنْ کَانَ لَہُ عَلَی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ شَیْئٌ ، أَوْ عِدَّۃٌ فَلْیَقُمْ فَلْیَأْخُذْ ، فَقَامَ جَابِرٌ ، فَقَالَ : إنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : إِنْ جَائَنِی مَالٌ مِنَ الْبَحْرَیْنِ لأعْطَیْتُک ہَکَذَا وَہَکَذَا ثَلاَثَ مِرَارٍ وَحَثَی بِیَدِہِ ، فَقَالَ لَہُ أَبُو بَکْرٍ : قُمْ فَخُذْ بِیَدِکَ فَأَخَذَ فَإِذَا ہِیَ خَمْسُمِئَۃِ دِرْہَمٍ فَقَالَ : عُدُّوا لَہُ أَلْفًا ، وَقَسَمَ بَیْنَ النَّاسِ عَشَرَۃَ دَرَاہِمَ عَشَرَۃَ دَرَاہِمَ ، وَقَالَ : إنَّمَا ہَذِہِ مَوَاعِیدُ وَعَدَہَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ النَّاسَ ۲۔ حَتَّی إذَا کَانَ عَامٌ مُقْبِلٌ ، جَائَہُ مَالٌ أَکْثَرُ مِنْ ذَلِکَ الْمَالِ ، فَقَسَمَ بَیْنَ النَّاسِ عِشْرِینَ دِرْہَمًا عِشْرِینَ دِرْہَمًا، وَفَضَلَتْ مِنْہُ فَضْلَۃٌ، فَقَسَمَ لِلْخَدَمِ خَمْسَۃَ دَرَاہِمَ خَمْسَۃَ دَرَاہِمَ، وَقَالَ: إنَّ لَکُمْ خُدَّامًا یَخْدُمُونَکُمْ وَیُعَالِجُونَ لَکُمْ، فَرَضَخْنَا لَہُمْ، فَقَالُوا: لَوْ فَضَّلْت الْمُہَاجِرِینَ وَالأَنْصَارَ لِسَابِقَتِہِمْ، وَلِمَکَانِہِمْ مِنْ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: أَجْرُ أُولَئِکَ عَلَی اللہِ ، إنَّ ہَذَا الْمَعَاشَ للأُسْوَۃُ فِیہِ خَیْرٌ مِنَ الأَثَرَۃِ ، قَالَ: فَعَمِلَ بِہَذَا وِلاَیَتَہُ حَتَّی إذَا کَانَتْ سَنَۃُ ثَلاَثَ عَشْرَۃَ فِی جُمَادَی الآخِرَۃِ فی لَیَالٍ بَقِینَ مِنْہُ مَاتَ رضی اللَّہُ عَنْہُ۔ ۳۔ فَعَمِلَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ فَفَتَحَ الْفُتُوحَ وَجَائَتْہُ الأَمْوَالُ ، فَقَالَ : إنَّ أَبَا بَکْرٍ رَأَی فِی ہَذَا الأَمْرِ رَأْیًا ، وَلِی فِیہِ رَأْیٌ آخَرُ لاَ أَجْعَلُ مَنْ قَاتَلَ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَمَنْ قَاتَلَ مَعَہُ ، فَفَرَضَ لِلْمُہَاجِرِینَ وَالأَنْصَارِ مِمَّنْ شَہِدَ بَدْرًا خَمْسَۃَ آلاَفٍ خَمْسَۃَ آلاَفٍ ، وَفَرَضَ لِمَنْ کَانَ لَہُ الإِسْلاَمُ کَإِسْلاَمِ أَہْلِ بَدْرٍ وَلَمْ یَشْہَدْ بَدْرًا أَرْبَعَۃَ آلاَفٍ أَرْبَعَۃَ آلاَفٍ۔ ۴۔ وَفَرَضَ لأَزْوَاجِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اثْنَیْ عَشَرَ أَلْفًا اثْنَیْ عَشَرَ أَلْفًا إِلاَّ صَفِیَّۃَ وَجُوَیْرِیَۃَ ، فَرَضَ لَہُمَا سِتَّۃَ آلاَفٍ سِتَّۃَ آلاَفٍ ، فَأَبَتَا أَنْ تَقْبَلا فَقَالَ لَہُمَا : إنَّمَا فَرَضْت لَہُنَّ لِلْہِجْرَۃِ ، فَقَالَتَا : إنَّمَا فَرَضْت لَہُنَّ لِمَکَانِہِنَّ مِنْ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَکَانَ لَنَا مِثْلُہُ ، فَعَرَفَ ذَلِکَ عُمَرُ فَفَرَضَ لَہُمَا اثْنَیْ عَشَرَ أَلْفًا اثْنَیْ عَشَرَ أَلْفًا۔ ۵۔ وَفَرَضَ لِلْعَبَّاسِ اثْنَیْ عَشَرَ أَلْفًا ، وَفَرَضَ لأسَامَۃَ بْنَ زَیْدٍ أَرْبَعَۃَ آلاَفٍ ، وَفَرَضَ لِعَبْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ ثَلاَثَۃَ آلاَفٍ ، فَقَالَ : یَا أَبَتِ ، لِمَ زِدْتہ عَلَیَّ أَلْفًا مَا کَانَ لأَبِیہِ مِنَ الْفَضْلِ مَا لَمْ یَکُنْ لأَبِی ، وَمَا کَانَ لَہُ لَمْ یَکُنْ لِی، فَقَالَ : إنَّ أَبَا أُسَامَۃَ کَانَ أَحَبَّ إلَی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ أَبِیک وَکَانَ أُسَامَۃُ أَحَبَّ إلَی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْک وَفَرَضَ لِحَسَنٍ وَحُسَیْنٍ خَمْسَۃَ آلاَفٍ خَمْسَۃَ آلاَفٍ ، أَلْحَقَہُمَا بِأَبِیہِمَا لِمَکَانِہِمَا مِنْ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔ ۶۔ وَفَرَضَ لأَبْنَائِ الْمُہَاجِرِینَ وَالأَنْصَارِ أَلْفَیْنِ أَلْفَیْنِ ، فَمَرَّ بِہِ عُمَرُ بْنُ أَبِی سَلَمَۃَ ، فَقَالَ : زِیدُوہُ أَلْفًا ، فَقَالَ لَہُ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللہِ بْنِ جَحْشٍ : مَا کَانَ لأَبِیہِ مَا لَمْ یَکُنْ لأبِینا ، وَمَا کَانَ لَہُ مَا لَمْ یَکُنْ لَنَا ، فَقَالَ : إنِّی فَرَضْت لَہُ بِأَبِیہِ أَبِی سَلَمَۃَ أَلْفَیْنِ ، وَزِدْتہ بِأُمِّہِ أُمِّ سَلَمَۃَ أَلْفًا ، فَإِنْ کَانَتْ لَکَ أُمٌّ مِثْلُ أُمِّہِ زِدْتُک الْفًا ۔ ۷۔ وَفَرَضَ لأَہْلِ مَکَّۃَ وَلِلنَّاسِ ثَمَانِمِئَۃٍ ثَمَانِمِئَۃٍ ، فَجَائَہُ طَلْحَۃُ بْنُ عُبَیْدِ اللہِ بِأَخِیہِ عُثْمَانَ ، فَفَرَضَ لَہُ ثَمَانِمِئَۃٍ ، فَمَرَّ بِہِ النَّضْرُ بْنُ أَنَسٍ ، فَقَالَ عُمَرُ : افْرِضُوا لَہُ فِی أَلْفَیْنِ ، فَقَالَ طَلْحَۃُ : جِئْتُک بِمِثْلِہِ فَفَرَضْت لَہُ ، ثَمَانِمِئَۃِ دِرْہَمٍ وَفَرَضْت لِہَذَا أَلْفَیْنِ ، فَقَالَ : إنَّ أَبَا ہَذَا لَقِیَنِی یَوْمَ أُحُدٍ فَقَالَ لِی : مَا فَعَلَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقُلْتُ : مَا أُرَاہُ إِلاَّ قَدْ قُتِلَ ، فَسَلَّ سَیْفَہُ فَکَسَرَ غِمْدَہُ وَقَالَ : إِنْ کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَدْ قُتِلَ فَإِنَّ اللَّہَ حَیٌّ لاَ یَمُوتُ ، فَقَاتَلَ حَتَّی قُتِلَ ، وَہَذَا یَرْعَی الشَّائَ فِی مَکَانِ کَذَا وَکَذَا۔ ۸۔ فَعَمِلَ عُمَرُ بَدَء خِلاَفَتِہِ حَتَّی کَانَتْ سَنَۃُ ثَلاَثٍ وَعِشْرِینَ حَجَّ تِلْکَ السَّنَۃَ فَبَلَغَہُ أَنَّ النَّاسَ یَقُولُونَ : لَوْ مَاتَ أَمِیرُ الْمُؤْمِنِینَ قُمْنَا إلَی فُلاَنٍ فَبَایَعْنَاہُ ، وَإِنْ کَانَتْ بَیْعَۃُ أَبِی بَکْرٍ فَلْتَۃً ، فَأَرَادَ أَنْ یَتَکَلَّمَ فِی أَوْسَطِ أَیَّامِ التَّشْرِیقِ ، فَقَالَ لَہُ عَبْدُ الرَّحْمَن بْنُ عَوْفٍ : یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ ، إنَّ ہَذَا مَکَانٌ یَغْلِبُ عَلَیْہِ غَوْغَائُ النَّاسِ وَدَہْمُہُمْ وَمَنْ لاَ یَحْمِلُ کَلاَمُک مَحْمَلَہُ ، فَارْجِعْ إلَی دَارِ الْہِجْرَۃِ وَالإِیمَانِ ، فَتَکَلَّمْ فَیُسْتَمَعُ کَلاَمُک ، فَأَسْرَعَ فَقَدِمَ الْمَدِینَۃَ فَخَطَبَ النَّاسَ ، وَقَالَ : ۹۔ أَیُّہَا النَّاسُ ، أَمَّا بَعْدُ فَقَدْ بَلَغَنِی قَالَۃُ قَائِلُکُمْ : لَوْ مَاتَ أَمِیرُ الْمُؤْمِنِینَ قُمْنَا إلَی فُلاَنٍ فَبَایَعْنَاہُ وَإِنْ کَانَتْ بَیْعَۃُ أَبِی بَکْرٍ فَلْتَۃً ، وَایْمُ اللہِ إِنْ کَانَتْ لَفَلْتَۃً وَقَانَا اللَّہُ شَرَّہَا فَمِنْ أَیْنَ لَنَا مِثْلُ أَبِی بَکْرٍ نَمُدُّ أَعْنَاقَنَا إلَیْہِ کَمَدِّنَا إلَی أَبِی بَکْرٍ ، إنَّمَا ذَاکَ تَغِرَّۃٌ لِیُقْتَلَ ، مَنْ انتزع أُمُورِ الْمُسْلِمِینَ مِنْ غَیْرِ مَشُورَۃٍ فَلاَ بَیْعَۃَ لَہُ۔ ۱۰۔ أَلاَ وَإِنِّی رَأَیْت رُؤْیَا ، وَلاَ أَظُنُّ ذَاکَ إِلاَّ عِنْدَ اقْتِرَابِ أَجَلِی ، رَأَیْت دِیکًا تراء ی لِی فَنَقَرَنِی ثَلاَثَ نَقَرَاتٍ ، فَتَأَوَّلَتْ لِی أَسْمَائُ بِنْتُ عُمَیْسٍ ، قَالَتْ : یَقْتُلُک رَجُلٌ مِنْ أَہْلِ ہَذِہِ الْحَمْرَائِ ، فَإِنْ أَمُتْ فَأَمْرُکُمْ إلَی ہَؤُلاَئِ السِّتَّۃِ الَّذِینَ تُوُفِّیَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَہُوَ عَنْہُمْ رَاضٍ : إلَی عُثْمَانَ وَعَلِیٍّ وَطَلْحَۃَ وَالزُّبَیْرِ ، وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ وَسَعْدِ بْنِ أَبِی وَقَّاصٍ ، فَإِنَ اخْتَلَفُوا فَأَمْرُہُمْ إلَی عَلِی ، وَإِنْ أَعِشْ فَسَأُوصِی۔ ۱۱۔ وَنَظَرْت فِی الْعَمَّۃِ وَبِنْتِ الأَخِ مَا لَہُمَا ، تُورِثَانِ ، وَلاَ تَرِثَانِ ، وَإِنْ أَعِشْ فَسَأَفْتَحُ لَکُمْ أَمْرًا تَأْخُذُونَ بِہِ ، وَإِنْ أَمُتْ فَسَتَرَوْنَ رَأْیَکُمْ ، وَاللَّہُ خَلِیفَتِی فِیکُمْ ، وَقَدْ دَوَّنْت لَکُمْ الدَّوَاوِینَ ، وَمَصَّرْت لَکُمُ الأَمْصَارَ ، وَأَجْرَیْت لَکُمُ الطَّعَامَ إِلَی الْخَان وَتَرَکْتُکُمْ عَلَی وَاضِحَۃٍ ، وَإِنَّمَا أَتَخَوَّفُ عَلَیْکُمْ رَجُلَیْنِ رَجُلاً قَاتَلَ عَلَی تَأْوِیلِ ہَذَا الْقُرْآنِ یُقْتَلُ ، وَرَجُلاً رَأَی أَنَّہُ أَحَقُّ بِہَذَا الْمَالِ مِنْ أَخِیہِ فَقَاتَلَ عَلَیْہِ حَتَّی قُتِلَ۔ ۱۲۔ فَخَطَبَ نَہَارَ الْجُمُعَۃِ وَطُعِنَ یَوْمَ الأَرْبِعَائِ۔ (بیہقی ۳۵۰۔ بزار ۱۷۳۶)
(٣٣٥٣٩) حضرت عمر جو کہ حضرت غفرہ (رض) کے آزاد کردہ غلام ہیں فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات ہوگئی تو بحرین سے بہت سا مال آیا ۔ حضرت ابوبکر (رض) نے فرمایا : جس شخص کا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر کچھ قرض ہو یا مال ہو تو اس کو چاہیے کہ وہ کھڑا ہو اور اس مال میں سے لے لے۔ حضرت جابر (رض) کھڑے ہوئے اور فرمایا : بیشک رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تھا : اگر میرے پاس بحرین سے مال آیا تو میں ضرور تمہیں اتنا اور اتنا مال عطا کروں گا ۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تین بار فرمایا : اور ہاتھ سے چلو بھرا تھا۔ لہٰذا حضرت ابوبکر (رض) نے ان سے فرمایا : کھڑے ہو جاؤ اور اپنے ہاتھ سے لے لو۔ پس آپ (رض) نے لے لیا تو وہ پانچ سو درہم تھے۔ آپ (رض) نے فرمایا : اس کو ہزار گن کر دے دو ۔ اور آپ (رض) نے لوگوں کے درمیان دس دس دراہم تقسیم فرما دیے۔ اور فرمایا : یہ وہ وعدے ہیں جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں سے کیے تھے۔
٢۔ یہاں تک کہ جب اگلا سال ہوا تو اس سے کہیں زیادہ مال آیا۔ تو آپ (رض) نے لوگوں کے درمیان بیس بیس دراہم تقسیم فرما دیے اور پھر بھی مال باقی بچ گیا۔ لہٰذا آپ (رض) نے غلاموں میں بھی پانچ پانچ دراہم تقسیم فرمائے اور فرمایا : بیشک تمہارے خادمین تمہاری خدمت کرتے ہیں اور تمہارے معاملات نمٹاتے ہیں اس لیے ہم نے ان کو بھی کچھ مال عطا کردیا لوگوں نے کہا : اگر آپ (رض) مہاجرین اور انصار کو سبقت لے جانے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نزدیک بہتر مرتبہ کی وجہ سے فضیلت دیتے تو اچھا ہوتا ! آپ (رض) نے فرمایا : ان لوگوں کا اجر تو اللہ کے ذمہ ہے۔ بیشک اس مال میں برابری بہتر ہے کسی کو ترجیح دینے سے۔ راوی کہتے ہیں : آپ (رض) نے اپنے دورخلافت میں اسی طرح عمل کیا یہاں تک کہ ہجرت کے تیرہویں سال جمادی الاخری کی آخری راتوں میں آپ (رض) کی وفات ہوگئی۔
٣۔ حضرت عمر بن خطاب (رض) نے خلافت سنبھالی اور بہت سی فتوحات ہوئیں۔ اور بہت سارا مال آیا۔ آپ (رض) نے فرمایا : بیشک حضرت ابوبکر (رض) نے اس معاملہ میں ایک رائے اختیار کی اور میری اس معاملہ میں دوسری رائے ہے۔ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے قتال کرنے والے کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ قتال کرنے والے کے برابر نہیں کروں گا۔ اور آپ (رض) نے مہاجرین اور انصار میں سے جن صحابہ (رض) نے غزوہ بدر میں شرکت کی تھی ان کے لیے پانچ پانچ ہزار مقرر فرمائے۔ اور وہ مسلمان جو اسلام لانے میں بدریین ہی کی طرح تھے مگر غزوہ بدر میں نہ حاضر ہو سکے ان کے لیے آپ (رض) نے چار چار ہزار مقرر فرمائے۔
٤۔ اور آپ (رض) نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ازواج مطہرات (رض) کے لیے بارہ بارہ ہزار مقرر فرمائے سوائے حضرت صفیہ اور حضرت جویریہ (رض) کے۔ ان دونوں کے لیے چھ چھ ہزار مقرر فرمائے۔ ا ن دونوں نے یہ قبول کرنے سے انکار کردیا۔ تو حضرت عمر (رض) نے ان دونوں سے فرمایا : بیشک میں نے ان سب کے لیے ہجرت کی وجہ سے اتنا مال مقرر فرمایا : اس پر ان دونوں نے فرمایا : کہ تم نے ان سب کے لیے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نزدیک ہونے کی وجہ سے مقرر فرمایا ہے اور ہمارے لیے بھی ان ہی کی طرح ہوگا۔ حضرت عمر (رض) نے یہ سمجھ لیا اور پھر ان دونوں کے لیے بھی بارہ بارہ ہزار مقرر فرما دیے۔
٥۔ اور حضرت عباس (رض) کے لیے بھی بارہ ہزار مقرر فرمائے۔ اور حضرت اسامہ بن زید (رض) کے لیے چار ہزار مقرر فرمائے اور حضرت عبداللہ بن عمر (رض) کے لیے تین ہزار مقرر فرمائے۔ اس پر حضرت ابن عمر (رض) نے ارشاد فرمایا : اے ابا جان ! آپ نے اس کے لیے مجھ سے زیادہ ایک ہزار کیوں بڑھائے ؟ حالانکہ اس کے والد کو وہ فضیلت نہیں ہے جو میرے والد کو ہے اور اس کو وہ فضیلت حاصل نہیں ہے جو مجھے ہے۔ اس پر حضرت عمر (رض) نے فرمایا : بیشک اسامہ کا باپ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نزدیک تیرے باپ سے زیادہ محبوب تھا ، اور خود اسامہ بھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نزدیک تیرے سے زیادہ محبوب تھا۔ اور آپ (رض) نے حضرت حسن اور حضرت حسین (رض) کے لیے پانچ پانچ ہزار مقرر فرمائے۔ اور ان دونوں سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی محبت کی وجہ سے ان کو ان کے والد سے ملا دیا۔
٦۔ اور آپ (رض) نے مہاجرین اور انصار صحابہ (رض) کے بیٹوں کے لیے دو دو ہزار مقرر فرمائے، پس حضرت عمر بن ابی سلمہ (رض) آپ (رض) کے پاس سے گزرے تو آپ (رض) نے فرمایا : اس کے لیے ایک ہزار بڑھا دو ۔ اس پر حضرت محمد بن عبداللہ بن جحش (رض) نے ان سے فرمایا : جو اس کے باپ کو مرتبہ حاصل ہے وہ ہمارے باپ کو نہیں اور جو اس کو مرتبہ حاصل ہے وہ ہمارے لیے نہیں ؟ آپ (رض) نے فرمایا : بیشک میں نے اس کے والد حضرت ابو سلمہ (رض) کی وجہ سے اس کے لیے دو ہزار مقرر فرمائے۔ اور اس کی والدہ حضرت ام سلمہ (رض) کی وجہ سے اس کے لیے اضافہ کردیا پس اگر تیری والدہ بھی اس کی والدہ کی طرح ہوتی تو میں تیرے لیے بھی ایک ہزار کا اضافہ کردیتا۔
٧۔ اور آپ (رض) نے مکہ والوں کے لیے اور دیگر لوگوں کے لیے آٹھ آٹھ سو مقرر فرمائے ۔ پس حضرت طلحہ بن عبید اللہ (رض) اپنے بھائی عثمان کو لے کر آئے تو آپ (رض) نے اس کے لیے آٹھ سو مقرر کیے۔ اور حضرت نضر بن انس (رض) آپ (رض) کے پاس سے گزرے تو حضرت عمر (رض) نے فرمایا : اس کے لیے دو ہزار مقرر کردو۔ اس پر حضرت طلحہ (رض) نے فرمایا : میں آپ (رض) کے پاس اس جیسا شخص لایا تو آپ (رض) نے اس کے لیے آٹھ سو مقرر فرمائے اور اس کے لیے آپ (رض) نے دو ہزار مقرر فرما دیے۔ آپ (رض) نے فرمایا : بیشک اس کے والد مجھے غزوہ احد کے دن ملے اور مجھ سے پوچھا : کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کیا ہوا ؟ میں نے کہا : میرے خیال میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو شہید کردیا گیا ہے تو انھوں نے اپنی تلوار سونت لی اور تلوار کی میان توڑ ڈالی اور فرمایا : اگر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو شہید کردیا گیا تو بیشک اللہ زندہ ہے وہ نہیں مرے گا۔ پھر انھوں نے قتال کیا یہاں تک کہ ان کو قتل کردیا گیا اور یہ اس وقت فلاں فلاں جگہ میں بکریاں چراتا تھا۔
٨۔ حضرت عمر (رض) نے اپنی خلافت کی ابتداء میں یہ کام کیا یہاں تک کہ ہجرت کا تیئسواں سال (23 ) آیا تو آپ (رض) نے اس سال حج کیا۔ آپ (رض) کو وہاں یہ بات پہنچی کہ لوگ یوں کہہ رہے ہیں : اگر امیر المؤمنین فوت ہوگئے تو ہم فلاں آدمی کے پاس جا کر اس کی بیعت کرلیں گے ۔ اس لیے کہ حضرت ابوبکر (رض) کی بیعت تو ہم نے بغیر سوچے سمجھے عجلت میں کی تھی ! پس حضرت عمر (رض) نے ایام تشریق کے درمیان میں ہی بات کرنے کا ارادہ فرمایا۔ تو حضرت عبد الرحمن بن عوف (رض) نے ان سے فرمایا : اے امیر المؤمنین ! بیشک یہ ایسی جگہ ہے کہ یہاں عام لوگوں کی تعداد بہت زیادہ ہے یہ لوگ آپ (رض) کی بات کو صحیح معنی پر محمول نہیں کریں گے۔ پس آپ (رض) دارالھجرت اور دارالایمان کی طرف لوٹ جائیں اور وہاں بات کریں پس آپ (رض) کی بات سنی جائے گی۔ آپ (رض) نے جلدی کی اور مدینہ آئے اور لوگوں کو خطاب کیا اور فرمایا :
٩۔ اے لوگو ! حمدو صلوۃ کے بعد، تحقیق مجھے تمہارے میں سے کہنے والوں کی بات پہنچی ہے کہ اگر امیر المؤمنین فوت ہوگئے تو ہم فلاں آدمی کے پاس جا کر اس کی بیعت کرلیں گے۔ اس لیے کہ حضرت ابوبکر (رض) کی بیعت تو بےسوچے سمجھے عجلت میں ہوئی تھی۔ اللہ کی قسم ! اگر یہ بےسوچے سمجھے عجلت میں ہوئی تھی تو اللہ نے ہمیں اس کے شر سے محفوظ رکھا۔ پس کون شخص ہوسکتا ہے ہمارے میں سے حضرت ابوبکر (رض) کی طرح کہ ہم اس کی طرف اپنی گردنوں کو بڑھا دیں گے جیسا کہ ہم حضرت ابوبکر (رض) کی طرف بڑھاتے تھے ۔ بیشک یہ تو دھوکا دہی ہے تاکہ قتل و قتال کیا جائے۔ جو شخص مسلمانوں کے معاملات بغیر مشورے کے چھین لے تو اس کے لیے بیعت درست نہیں۔
١٠۔ خبردار ! بیشک میں نے ایک خواب دیکھا ہے اور میں اس کی تعبیر گمان نہیں کرتا مگر یہ کہ میری موت کا وقت قریب ہے۔ میں نے ایک مرغے کو دیکھا کہ اس نے مجھ پر نظر ڈالی اور مجھے تین مرتبہ ٹھونگ ماری۔ حضرت اسماء بنت عمیس (رض) نے مجھے یہ تاویل بیان کی ہے : کہ آپ (رض) کو اہل حمراء میں سے ایک آدمی قتل کرے گا ۔ پس اگر میں مر جاؤں تو تمہارا معاملہ ان چھ لوگوں کے سپرد ہوگا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات اس حال میں ہوئی کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے راضی تھے۔ اور وہ یہ ہیں : حضرت عثمان (رض) ، حضرت علی (رض) ، حضرت طلحہ (رض) ، حضرت زبیر (رض) ، حضرت عبدالرحمن بن عوف (رض) اور حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) ۔ اگر یہ آپس میں اختلاف کریں تو ان کا معاملہ حضرت علی (رض) کے سپرد ہوگا ۔ اور اگر میں زندہ رہا تو عنقریب وصیت کروں گا۔
١١۔ اور میں نے پھوپھی اور بھتیجی میں غور کیا نہ ان دونوں کو وارث بنایا جائے گا اور نہ یہ دونوں وارث بنیں گی۔ اور اگر میں زندہ رہا تو میں عنقریب تمہارے لیے ایک معاملہ کھولوں گا کہ تم اس کو پکڑو گے ۔ اور اگر میں مرگیا ، تو تم لوگ اپنی رائے اختیار کرلینا۔ اللہ کی قسم ! تم پر میری خلافت کے دوران تحقیق میں نے دیوان مدوّن کروائے۔ اور میں نے تمہارے لیے شہروں کو بسایا۔ اور میں نے تمہارے لیے مسافر خانوں میں کھانا جاری کیا۔ اور میں نے تمہیں بالکل واضح صورت حال میں چھوڑا ، اور بیشک میں تم پر دو آدمیوں سے خوف کھاتا ہوں۔ ایک وہ شخص جو اس قرآن کے معنی پر قتال کرے اس کو قتل کردیا جائے۔ اور دوسرا وہ شخص جس کی یہ رائے ہو کہ وہ اپنے بھائی سے زیادہ اس مال کا حقدار ہے۔ پس وہ اس مال پر قتال کرے یہاں تک کہ اسے قتل کردیا جائے۔
١٢۔ آپ (رض) نے جمعہ کے دن یہ خطبہ ارشاد فرمایا : اور بدھ کے دن آپ (رض) کو نیزے سے مارا گیا۔

33539

(۳۳۵۴۰) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ، عَنِ الْمَسْعُودِیِّ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ، قَالَ: کَانَ عَطَائُ عَبْدِاللہِ سِتَّۃَ آلاَفٍ۔
(٣٣٥٤٠) حضرت قاسم بن عبد الرحمن (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) کی سالانہ تنخواہ چھ ہزار تھی۔

33540

(۳۳۵۴۱) حَدَّثَنَا حُمَیْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنِ الْحَسَنِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ بْنِ الْمُہَاجِرِ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، قَالَ : فَرَضَ عُمَرُ لأَہْلِ بَدْرٍ فِی سِتَّۃِ آلاَفٍ سِتَّۃَ آلاَفٍ ، وَفَرَضَ لأَزْوَاجِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَ ذَلِکَ۔
(٣٣٥٤١) حضرت مجاہد (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے بدری صحابہ (رض) کے لیے چھ چھ ہزار مقرر فرمائے۔ اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ازواج مطہرات کے لیے بھی اتنا اتنا حصہ مقرر فرمایا۔

33541

(۳۳۵۴۲) حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ بْنُ مُوسَی ، قَالَ : أَخْبَرَنَا إسْرَائِیلُ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ بْنِ سُمَیْعٍ ، عَنْ عَمَّارٍ الدُّہْنِیِّ ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِی الْجَعْدِ أَنَّ عُمَرَ جَعَلَ عَطَائَ سَلْمَانَ سِتَّۃَ آلاَفٍ۔
(٣٣٥٤٢) حضرت سالم بن ابی الجعد (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے حضرت سلمان (رض) کا سالانہ عطیہ چھ ہزار مقرر فرمایا۔

33542

(۳۳۵۴۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ عَمْرِو بْنِ سَلِمَۃَ الْہَمْدَانِیِّ ، عَنْ أَبِیہِ ، عنْ عَبِیْدَۃَ السَّلْمَانِیِّ ، قَالَ : قَالَ لِی عُمَرُ : کَمْ تَرَی الرَّجُلَ یَکْفِیہِ مِنْ عَطَائِہِ ، قَالَ : قُلْتُ : کَذَا وَکَذَا ، قَالَ : لأَنْ بَقِیتُ لأَجْعَلَنَّ عَطَائَ الرَّجُلِ أَرْبَعَۃَ آلاَفٍ : أَلْفًا لِسِلاَحِہِ ، وَأَلْفًا لِنَفَقَتِہِ ، وَأَلْفًا یَجْعَلُہَا فِی بَیْتِہِ وَأَلْفًا لِکَذَا وَکَذَا أَحْسِبُہُ قَالَ لِفَرَسِہِ۔
(٣٣٥٤٣) حضرت عبیدہ سلمانی (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے مجھ سے پوچھا : تمہاری کیا رائے ہے کہ ایک آدمی کے لیے کتنی تنخواہ کافی ہوگی ؟ میں نے کہا : اتنی اور اتنی۔ آپ (رض) نے فرمایا : اگر میں باقی رہا تو میں ضرور بالضرور ایک آدمی کی چار ہزار تنخواہ مقرر کروں گا۔ ایک ہزار اس کے ہتھیار کے لیے۔ ایک ہزار اس کے خرچہ کے لیے ۔ اور ایک ہزار کو وہ گھر میں استعمال کرے ۔ اور ایک ہزار اس اس چیز کے لیے۔ راوی کہتے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ آپ (رض) نے گھوڑے کا ذکر فرمایا۔

33543

(۳۳۵۴۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنِ الأَسْوَدِ بْنِ قَیْسٍ ، عَنْ شَیْخٍ لَہُمْ ، قَالَ : سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ یَقُولُ : لَئِنْ بَقِیت إلَی قَابِلٍ لألْحِقَنَّ سِفْلَۃ الْمُہَاجِرِینَ فِی أَلْفَیْنِ أَلْفَیْنِ۔
(٣٣٥٤٤) حضرت اسود بن قیس (رض) اپنے ایک شیخ سے نقل کرتے ہیں کہ انھوں نے فرمایا : کہ میں نے حضرت عمر بن خطاب (رض) کو یوں فرماتے ہوئے سنا : اگر میں آئندہ سال تک زندہ رہا تو میں مہاجرین کے کم درجہ کے لوگوں کے لیے ضرور بالضرور دو ہزار دوں گا۔

33544

(۳۳۵۴۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا ہِشَامُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنْ زَیْدِ بْنِ أَسْلَمَ ، عْن أَبِیہِ ، قَالَ سَمِعْت عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ یَقُولُ : لَئِنْ بَقِیت إلَی قَابِلٍ لأُلْحِقَنَّ أُخْرَی النَّاسِ بِأُولاَہُمْ وَلأَجْعَلَنہُمْ بَیَانًا وَاحِدًا۔
(٣٣٥٤٥) حضرت اسلم (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر بن خطاب (رض) کو یوں فرماتے ہوئے سنا : کہ اگر میں آئندہ سال تک زندہ رہا تو میں آخر والے لوگوں کو ضرور بالضرور پہلے والے لوگوں کے تابع کروں گا، اور میں ان سب کو برابر کر دوں گا۔

33545

(۳۳۵۴۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ قَیْسٍ ، قَالَ حَدَّثَتْنِی وَالِدَتِی أُمُّ الْحَکَمِ أَنَّ عَلِیًّا أَلْحَقَہَا فِی مِئَۃ مِنَ الْعَطَائِ۔
(٣٣٥٤٦) حضرت محمد بن قیس (رض) فرماتے ہیں کہ میری والدہ حضرت ام حکم (رض) فرماتی ہیں کہ حضرت علی (رض) نے ان کے عطیہ میں سو درہم ملا دیے۔

33546

(۳۳۵۴۷) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ أَبِی الْحُوَیْرِثِ أَنَّ عُمَرَ فَرَضَ لِلْعَبَّاسِ سَبْعَۃَ آلاَفٍ ، وَلِعَائِشَۃَ وَحَفْصَۃَ عَشْرَۃَ آلاَفٍ ، وَلأمِّ سَلَمَۃَ وَأُمِّ حَبِیبَۃَ وَمَیْمُونَۃَ وَسَوْدَۃَ ، ثَمَانیَۃَ آلاَفٍ ، ثَمَانیَۃَ آلاَفٍ ، وَفَرَضَ لِجُوَیْرِیَۃَ وَصَفِیَّۃَ سِتَّۃَ آلاَفٍ سِتَّۃَ آلاَفٍ ، وَفَرَضَ لِصَفِیَّۃَ بِنْتِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ نِصْفَ مَا فَرَضَ لَہُنَ ، فَأَرْسَلَتْ أُمُّ سَلَمَۃَ وَصَوَاحِبُہَا إلَی عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ فَقُلْنَ لَہُ : کَلِّمْ عُمَرَ فِینَا فَإِنَّہُ قَدْ فَضَّلَ عَلَیْنَا عَائِشَۃَ وَحَفْصَۃَ فَجَائَ عُثْمَان إلَی عُمَرَ ، فَقَالَ : إنَّ أُمَّہَاتِکَ یَقُلْنَ لَکَ : سَوِّ بَیْنَنَا ، لاَ تُفَضِّلْ بَعْضَنَا عَلَی بَعْضٍ ، فَقَالَ : إِنْ عِشْت إلَی الْعَامِ الْقَابِلِ زِدْتہنَّ لِقَابِلٍ أَلْفَیْنِ أَلْفَیْنِ فَلَمَّا کَانَ الْعَامُ الْقَابِلُ جَعَلَ عَائِشَۃَ وَحَفْصَۃَ فِی اثْنَیْ عَشَرَ أَلْفًا اثْنَیْ عَشَرَ أَلْفًا ، وَجَعَلَ أُمَّ سَلَمَۃَ وَأُمَّ حَبِیبَۃَ فِی عَشْرَۃِ آلاَفٍ ، عَشْرَۃِ آلاَفٍ ، وَجَعَلَ صَفِیَّۃَ وَجُوَیْرِیَۃَ فِی ثَمَانِیَۃِ آلاَفٍ ، ثَمَانِیَۃِ آلاَفٍ ، فَلَمَّا رَأَیْنَ ذَلِکَ سَکَتْنَ عَنْہُ۔
(٣٣٥٤٧) حضرت ابو الحویرث (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے حضرت عباس (رض) کے لیے سات ہزار مقرر فرمائے۔ اور حضرت عائشہ (رض) اور حضرت حفصہ (رض) کے لیے دس دس ہزار مقرر فرمائے۔ اور حضرت ام سلمہ (رض) ، حضرت ام حبیبہ (رض) ، حضرت میمونہ (رض) اور حضرت سودہ (رض) کے لیے آٹھ آٹھ ہزار مقرر فرمائے۔ اور حضرت جویریہ (رض) اور حضرت صفیہ (رض) کے لیے چھ چھ ہزار مقرر فرمائے۔ اور حضرت صفیہ بنت عبد الملک (رض) کے لیے ان کے مقرر کردہ حصوں کا آدھا مقرر فرمایا۔ اس پر حضرت ام سلمہ (رض) اور ان کی ساتھیوں نے حضرت عثمان بن عفان (رض) کے پاس قاصد بھیجا اور ان سے کہا کہ آپ (رض) حضرت عمر (رض) سے ہمارے بارے میں بات کریں۔ انھوں نے عائشہ (رض) اور حفصہ (رض) کو ہم پر فضیلت دی ہے۔ تو حضرت عثمان (رض) حضرت عمر (رض) کے پاس آئے اور فرمایا : یقیناً تیری مائیں تجھ سے کہہ رہی ہیں کہ ہمارے درمیان برابری کرو، اور ہم میں سے بعض کو بعض پر فضیلت مت دو ۔ آپ (رض) نے فرمایا : اگر میں آئندہ سال زندہ رہا تو آئندہ ان کے لیے مزید دو دو ہزار کا اضافہ کروں گا۔ پس جب اگلا سال آیا تو آپ (رض) نے حضرت عائشہ (رض) اور حضرت حفصہ (رض) کے بارہ بارہ ہزار مقرر فرما دیے اور حضرت ام سلمہ (رض) اور حضرت ام حبیبہ (رض) کے دس دس ہزار مقرر فرما دیے۔ اور حضرت صفیہ (رض) اور حضرت جویریہ (رض) کے آٹھ آٹھ ہزار مقرر فرما دیے۔ جب انھوں نے یہ معاملہ دیکھا تو سب خاموش ہوگئیں۔

33547

(۳۳۵۴۸) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنِی أَبِی أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ فَرَضَ لِجُبَیْرِ بْنِ مُطْعِمٍ وَضُرَبَائِہِ أَرْبَعَۃَ آلاَفٍ أَرْبَعَۃَ آلاَفٍ۔
(٣٣٥٤٨) حضرت ابن جریج (رض) فرماتے ہیں کہ میرے والد نے فرمایا : کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) نے حضرت جبیربن مطعم (رض) اور ان کے ہم عمروں کے لیے چا رچار ہزار مقرر فرمائے۔

33548

(۳۳۵۴۹) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ عن ابْنَ جُرَیْجٍ ، قَالَ : قَالَ أَبُوبَکْرٍ: أُرَاہُ قَدْ ذَکَرَ لَہُ إسْنَادًا: أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ فَرَضَ لأسَامَۃَ بْنِ زَیْدٍ ثَلاَثَۃَ آلاَفٍ وَخَمْسَمِئَۃٍ وَلِعَبْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ ثَلاَثَۃَ آلاَفٍ ، فَقَالَ عَبْدُ اللہِ لِعُمَرَ : فَرَضْت لأسَامَۃَ ثَلاَثَۃَ آلاَفٍ وَخَمْسَمِئَۃٍ ، وَمَا ہُوَ بِأَقْدَمَ مِنِّی إسْلاَمًا ، وَلاَ شَہِدَ مَا لَمْ أَشْہَدْ ، قَالَ : فَقَالَ : عُمَرُ : لأَنَّ زَیْدَ بْنَ حَارِثَۃَ کَانَ أَحَبَّ إلَی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ أَبِیک وَکَانَ أُسَامَۃُ بْنُ زَیْدٍ أَحَبَّ إلَی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْک فَلِذَلِکَ زِدْتہ عَلَیْک خَمْسَمِئَۃٍ۔ (بزار ۱۵۰۔ ابویعلی ۱۵۷)
(٣٣٥٤٩) حضرت ابوبکر (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) نے حضرت اسامہ بن زید (رض) کے لیے ساڑھے تین ہزار مقرر فرمائے۔ اور حضرت عبداللہ بن عمر (رض) کے لیے تین ہزارمقرر فرمائے۔ اس پر حضرت عبداللہ نے حضرت عمر (رض) سے فرمایا : آپ (رض) نے اسامہ بن زید کے لیے ساڑھے تین ہزار مقرر فرما دیے حالانکہ وہ اسلام میں مجھ سے مقدم نہیں اور نہ وہ حاضر ہوئے ان غزوات میں جن میں میں حاضر ہوا ؟ ! حضرت عمر (رض) نے فرمایا : اس لیے کہ زید بن حارثہ (رض) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تمہارے باپ سے زیادہ محبوب تھے۔ اور اسامہ بن زید رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تمہارے سے زیادہ محبوب تھے۔ اس وجہ سے میں نے ان کے لیے تمہارے سے پانچ سو زیادہ مقرر کیے۔

33549

(۳۳۵۵۰) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ سُلَیْمَانَ ، عَنْ أَبِی الزِّنَادِ ، قَالَ : أَعْطَانَا عُمَرُ دِرْہَمًا دِرْہَمًا ، ثُمَّ أَعْطَانَا دِرْہَمَیْنِ دِرْہَمَیْنِ ، یَعْنِی قَسَمَ بَیْنَہُمْ۔
(٣٣٥٥٠) حضرت ابو الزناد (رض) فرماتے ہیں کہ کہ حضرت عمر (رض) نے ہمیں ایک ایک درہم عطا کیا۔ پھر آپ (رض) نے ہمیں دو دو درہم عطا کیے۔ یعنی آپ (رض) نے ان کے درمیان تقسیم فرمائے۔

33550

(۳۳۵۵۱) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ: حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ زَیْدٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ، وَسَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ کَتَبَ الْمُہَاجِرِینَ عَلَی خَمْسَۃِ آلاَفٍ وَالأَنْصَارَ عَلَی أَرْبَعَۃِ آلاَفٍ ، وَمَنْ لَمْ یَشْہَدْ بَدْرًا مِنْ أَوْلاَدِ الْمُہَاجِرِینَ عَلَی أَرْبَعَۃِ آلاَفٍ ، وَکَانَ مِنْہُمْ أُسَامَۃُ بْنُ زَیْدٍ وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللہِ بْنِ جَحْشٍ ، وَعُمَرُ بْنُ أَبِی سَلَمَۃَ ، وَعَبْدُ اللہِ بْنُ عُمَرَ ، قَالَ عَبْدُ الرَّحْمَن بْنُ عَوْفٍ : إنَّ عَبْدَ اللہِ لَیْسَ مِثْلَ ہَؤُلاَئِ ، إنَّ عَبْدَ اللہِ مَنْ أَمْرِہ مَنْ أَمْرِہ ، فَقَالَ عَبْدُ اللہِ بْنُ عُمَرَ لِعُمَرَ : إِنْ کَانَ حَقًّا لِی فَأَعْطِنِیہِ ، وَإِلاَّ فَلاَ تُعْطِنِیہِ فَقَالَ عُمَرُ لِعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ : فَاکْتُبْنِی عَلَی أَرْبَعَۃِ آلاَفٍ ، وَعَبْدَ اللہِ عَلَی خَمْسَۃِ آلاَفٍ ، وَاللہِ لاَ یَجْتَمِعُ أَنَا وَأَنْتَ عَلَی خَمْسَۃِ آلاَفٍ ، فَقَالَ عَبْدُ اللہِ بْنُ عُمَرَ : إِنْ کَانَ حَقًّا فَأَعْطِنِیہِ وَإِلاَّ فَلاَ تُعْطِنِیہِ۔
(٣٣٥٥١) حضرت انس بن مالک (رض) اور حضرت سعید بن المسیب (رض) دونوں فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) نے مہاجرین کے لیے پانچ ہزار مقرر فرمائے اور انصار کے لیے چار ہزار مقرر فرمائے ۔ اور مہاجرین کی اولاد میں سے جو غزوہ بدر میں شریک ہوئے تھے ان کے لیے چار ہزار مقرر فرمائے۔ ان میں اسامہ بن زید، محمد بن عبداللہ بن جحش ، عمر بن ابی سلمہ اور عبداللہ بن عمر شامل تھے۔ حضرت عبد الرحمن بن عوف (رض) نے فرمایا : یقیناً عبداللہ بن عمر (رض) ان کی طرح نہیں ہیں۔ بیشک عبداللہ تو ان کے امیر ہیں۔ اس پر حضرت عبداللہ بن عمر (رض) نے حضرت عمر (رض) سے فرمایا : اگر یہ میرا حق ہے تو آپ (رض) مجھے ضرور دیں ورنہ آپ (رض) مجھے ہرگز مت دیں۔ تو حضرت عمر (رض) نے حضرت عبد الرحمن بن عوف (رض) سے فرمایا : تم میرے چار ہزار مقرر کردو۔ اور عبداللہ کے پانچ ہزار مقرر کردو۔ اللہ کی قسم میں اور تو پانچ ہزار پر جمع نہیں ہوسکتے۔ حضرت عبداللہ بن عمر (رض) نے فرمایا : اگر میرا حق ہے تو مجھے دے دیجئے ورنہ آپ (رض) مجھے ہرگز مت دیجئے۔

33551

(۳۳۵۵۲) حَدَّثَنَا غَسَّانُ بْنُ مُضَرَ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ یَزِیدَ ، عَنْ أَبِی نَضْرَۃَ ، عَنْ جَابِرٍ ، قَالَ : لَمَّا وَلِیَ عُمَرُ الْخِلاَفَۃَ فَرَضَ الْفَرَائِضَ وَدَوَّنَ الدَّوَاوِینَ وَعَرَّفَ الْعُرَفَائَ ، قَالَ جَابِرٌ : فَعَرَّفَنِی عَلَی أَصْحَابِی۔
(٣٣٥٥٢) حضرت جابر (رض) فرماتے ہیں کہ جب حضرت عمر (رض) کو خلافت ملی تو آپ (رض) نے حصے مقرر فرمائے۔ اور دیوان مدوّن کروائے۔ اور نگران مقرر کیے ۔ حضرت جابر (رض) فرماتے ہیں۔ آپ (رض) نے مجھے میرے ساتھیوں پر نگران بنایا۔

33552

(۳۳۵۵۳) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ مُحَمَّدٍ ، عَنْ مَخْلَدٍ الْغِفَارِی أَنَّ ثَلاَثَۃً مَمْلُوکِینَ شَہِدُوا بَدْرًا ، فَکَانَ عُمَرُ یُعْطِی کُلَّ رَجُلٍ مِنْہُمْ کُلَّ سَنَۃٍ ثَلاَثَۃَ آلاَفٍ ثَلاَثَۃَ آلاَفٍ۔
(٣٣٥٥٣) حضرت مخلد الغفاری (رض) فرماتے ہیں کہ تین غلام غزوہ بدر میں شریک ہوئے پس حضرت عمر (رض) ان میں سے ہر ایک کو ہر سال تین تین ہزار عطا کرتے تھے۔

33553

(۳۳۵۵۴) حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ، عَنْ ہَارُونَ بْنِ عَنْتَرَۃَ، عَنْ أَبِیہِ، قَالَ: شَہِدْتُ عُثْمَانَ وَعَلِیًّا یَرْزُقَانِ أَرِقَّائَ النَّاسِ۔
(٣٣٥٥٤) حضرت عنترہ (رض) فرماتے ہیں کہ میں حضرت عثمان (رض) اور حضرت علی (رض) کے پاس حاضر ہوا اس حال میں کہ یہ دونوں حضرات لوگوں کے غلاموں کو ماہانہ تنخواہ دے رہے تھے۔

33554

(۳۳۵۵۵) حَدَّثَنَا مُعْتَمِرُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ دَاوُدَ ، عَنْ یُوسُفَ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ وُہَیْبٍ أَنَّ زَیْدَ بْنَ ثَابِتٍ کَانَ فِی إمَارَۃِ عُثْمَانَ عَلَی بَیْتِ الْمَالِ ، قَالَ : فَدَخَلَ عُثْمَان وَأَبْصَرَ وُہَیْبًا یُعِینُہُمْ ، قَالَ : مَنْ ہَذَا ؟ فَقَالَ : مَمْلُوکٌ لِی ، فَقَالَ : أَرَاہُ یُعِینُہُمْ ، افْرِضْ لَہُ أَلْفَیْنِ ، قَالَ : فَفَرَضَ لَہُ أَلْفًا۔
(٣٣٥٥٥) حضرت وھیب (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت زید بن ثابت (رض) ، حضرت عثمان (رض) کے زمانہ خلافت میں بیت المال کے نگران مقرر تھے۔ ایک دن حضرت عثمان (رض) آئے ، انھوں نے دیکھا کہ وھیب ان کی مدد کر رہے ہیں۔ آپ (رض) نے پوچھا : یہ کون ہے ؟ حضرت زید (رض) نے فرمایا : میرا غلام ہے۔ آپ (رض) نے فرمایا : میرا خیال ہے کہ یہ ان لوگوں کی مدد کررہا تھا تم اس کے لیے دو ہزار مقرر کردو۔ تو آپ (رض) نے ان کے لیے ایک ہزار مقرر کردیا۔

33555

(۳۳۵۵۶) حَدَّثَنَا حُمَیْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ حَسَنٍ ، عَنْ سِمَاکٍ ، عَنْ عِیَاضٍ الأَشْعَرِیِّ أَنَّ عُمَرَ کَانَ یَرْزُقُ الْعَبِیدَ وَالإِمَائَ وَالْخَیْلَ۔
(٣٣٥٥٦) حضرت عیاض اشعری (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) غلاموں ، باندیوں اور گھوڑوں کی ماہانہ تنخواہ دیا کرتے تھے۔

33556

(۳۳۵۵۷) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : کَانَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیزِ لاَ یَفْرِضُ إِلاَّ لِمَنْ قَرَأَ الْقُرْآنَ ، قَالَ : فَکَانَ أَبِی مِمَّنْ قَرَأَ الْقُرْآنَ فَفَرَضَ لَہُ۔
(٣٣٥٥٧) حضرت فضیل (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز (رض) عطیہ مقرر نہیں فرماتے تھے مگر قرآن پڑھنے والے شخص کے لیے۔ راوی کہتے ہیں : کہ میرے والد بھی ان لوگوں میں سے تھے جو قرآن پڑھتے تھے۔ تو آپ (رض) نے ان کے لیے عطیہ مقرر فرمایا۔

33557

(۳۳۵۵۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنِ الشَّیْبَانِیِّ ، عَنْ یُسَیْرِ بْنِ عَمْرٍو أَنَّ سَعْدَ بْنَ مَالِکٍ فَرَضَ لِمَنْ قَرَأَ الْقُرْآنَ فِی أَلْفَیْنِ أَلْفَیْنِ ، فَبَلَغَ ذَلِکَ عُمَرَ فَکَتَبَ إلَیْہِ أَنْ لاَ یُعْطِیَ عَلَی الْقُرْآنِ أَجْرًا۔
(٣٣٥٥٨) حضرت یسیر بن عمرو (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت سعد بن مالک (رض) نے قرآن پڑھنے والوں کے لیے دو دو ہزار کا عطیہ مقرر فرمایا۔ یہ خبر حضرت عمر (رض) کو پہنچی تو آپ (رض) نے ان کی طرف خط لکھا : کہ وہ قرآن پڑھنے پر اجرت مت عطا کریں۔

33558

(۳۳۵۵۹) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ أَنَّ عُمَرَ کَانَ یَفْرِضُ لِلصَّبِیِّ إذَا اسْتَہَلَّ۔
(٣٣٥٥٩) حضرت سعید بن المسیب (رض) فرماتے ہیں کہ جب بچہ رونے لگتا تو حضرت عمر (رض) اس کا عطیہ مقرر فرما دیتے۔

33559

(۳۳۵۶۰) حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ ، عَنْ ہَارُونَ بْنِ عَنْتَرَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : شَہِدْت عُثْمَانَ یَتَأَنَّی بِأَعْطِیَاتِ النَّاسِ ، إِنْ قِیلَ لَہُ : إنَّ فُلاَنَۃَ تَلِدُ اللَّیْلَۃَ فَیَقُولُ : کَمْ أَنْتُمَ انْظُرُوا فَإِنْ وَلَدَتْ غُلاَمًا ، أَوْ جَارِیَۃً أَخْرِجْہَا مَعَ النَّاسِ۔
(٣٣٥٦٠) حضرت عنترہ (رض) فرماتے ہیں کہ میں حضرت عثمان کے پاس حاضر تھا آپ (رض) لوگوں کے عطیات میں توقف کرتے تھے۔ اگر آپ (رض) سے کہا جاتا : کہ فلاں عورت نے رات کو بچہ پیدا کیا تو آپ (رض) فرماتے : ذرا ٹھہرو، اس نے بچے کو جنم دیا ہے یا بچی کو، اس کا پتہ جلد چل جائے گا اور خبر معروف ہوجائے گی۔

33560

(۳۳۵۶۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ زَیْدٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ جَدِّہِ أَنَّہُ لَمَّا وُلِدَ أَلْحَقَہُ عُمَرُ فِی مِئَۃٍ مِنَ الْعَطَائِ۔
(٣٣٥٦١) حضرت محمد بن زید (رض) فرماتے ہیں کہ ان کے والد حضرت زید (رض) نے ارشاد فرمایا : کہ جب کسی کے بچہ پیدا ہوتا تو حضرت عمر (رض) اس کے عطیہ میں سو درہم کا اضافہ فرما دیتے۔

33561

(۳۳۵۶۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ أَبِی الْجَحَّافِ دَاوُد بْنِ أَبِی عَوْفٍ ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ خَثْعَمَ ، قَالَ: وُلِدَ لِی مِنَ اللَّیْلِ مَوْلُود ، فَأَتَیْت عَلِیًّا حِینَ أَصْبَحَ فَأَلْحَقَہُ فِی مِئَۃٍ۔
(٣٣٥٦٢) حضرت ابو الجحاف داؤد بن ابی عوف (رض) فرماتے ہیں کہ قبیلہ خثعم کے ایک آدمی نے بیان کیا : کہ رات کو میرے گھر بچہ پیدا ہوا۔ پس جب صبح ہوئی تو میں حضرت علی (رض) کے پاس آیا ، آپ (رض) نے اس کے لیے سو درہم کا اضافہ فرما دیا۔

33562

(۳۳۵۶۳) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ شَرِیکٍ ، عَنْ بِشْرِ بْنِ غَالِبٍ ، قَالَ : سَأَلَ ابْنُ الزُّبَیْرِ الْحَسَنَ بْنَ عَلِیٍّ ، عَنِ الْمَوْلُودِ ، فَقَالَ : إذَا اسْتَہَلَّ وَجَبَ عَطَاؤُہُ وَرَزْقُہُ۔
(٣٣٥٦٣) حضرت بشر بن غالب (رض) فرماتے ہیں : حضرت ابن زبیر (رض) نے حضرت حسن بن علی (رض) سے بچہ کے متعلق سوال کیا ؟ تو آپ (رض) نے فرمایا : جب بچہ رونے یا چلانے لگے تو اس کا ماہانہ عطیہ واجب ہوجائے گا۔

33563

(۳۳۵۶۴) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ، قَالَ: حدَّثَنَا فِطْرٌ، قَالَ: کُنْتُ جَالِسًا مَعَ زَیْدِ بْنِ عَلِی، قُلْتُ: کَیْفَ صَنِیعُ ہَذَا الرَّجُلُ إلَیْکُمْ ، عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِیزِ ، فَمَرَّ ابْنٌ لَہُ صَغِیرٌ ، فَقَالَ : جَزَاہُ اللَّہُ خَیْرًا ، فَقَدْ أَلْحَقَ ہَذَا فِی أَلْفَیْنِ۔
(٣٣٥٦٤) حضرت فطر (رض) فرماتے ہیں کہ میں حضرت زید بن علی (رض) کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا میں نے پوچھا : اس بندے عمر بن عبدالعزیز کا تمہارے ساتھ برتاؤ کیسا ہے ؟ تو ان کا ایک چھوٹا بیٹا گزرا۔ انھوں نے فرمایا : اللہ ان کو جزائے خیر عطا فرمائے۔ تحقیق انھوں نے اس کے لیے میرے عطیہ میں دو ہزار کا اضافہ فرما دیا۔

33564

(۳۳۵۶۵) حَدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ بْنُ شُعَیْبٍ السَّمَّانُ ، عَنْ أُمِّ الْعَلاَئِ أَنَّ أَبَاہَا انْطَلَقَ بِہَا إلَی عَلِیٍّ فَفَرَضَ لَہَا فِی الْعَطَائِ وَہِیَ صَغِیرَۃٌ ، قَالَ : وَقَالَ عَلِیٌّ : مَا الصَّبِیُّ الَّذِی أَکَلَ الطَّعَامَ وَعَضَّ عَلَی الْکِسْرَۃِ بِأَحَقِّ بِہَذَا الْعَطَائِ مِنَ الْمَوْلُودِ الَّذِی یَمُصُّ الثَّدْیَ۔
(٣٣٥٦٥) حضرت اسماعیل بن شعیب سمان (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت ام العلاء (رض) نے ارشاد فرمایا : کہ میرے والد مجھے حضرت علی (رض) کے پاس لے کر گئے ، تو آپ (رض) نے میرے لیے عطیہ میں حصہ مقرر فرما دیا حالانکہ میں چھوٹی بچی تھی۔ اور آپ (رض) نے فرمایا : وہ بچہ جو کھانا کھاتا ہو اور روٹی کے ٹکڑے کو چباتا ہو وہ اس عطیہ کا زیادہ حقدار ہے اس نومولود سے جو پستان چوستا ہے۔

33565

(۳۳۵۶۶) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ الْحُبَابِ ، قَالَ : حدَّثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ مَعْنٍ ، عَنْ جَعْفَرٍ ، عَنْ أَبِیہِ أَنَّ عُمَرَ أَرَادَ أَنْ یَفْرِضَ لِلنَّاسِ ، وَکَانَ رَأْیُہُ خَیْرًا مِنْ رَأْیِہِمْ ، فَقَالُوا : ابْدَأْ بِنَفْسِکَ ، فَقَالَ : لاَ ، فَبَدَأَ بِالأَقْرَبِ فَالأَقْرَبِ مِنْ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَفَرَضَ لِلْعَبَّاسِ ، ثُمَّ عَلِیٍّ حَتَّی وَالَی بَیْنَ خَمْسِ قَبَائِلَ حَتَّی انْتَہَی إلَی بَنِی عَدِیِّ بْنِ کَعْبٍ۔
(٣٣٥٦٦) حضرت جعفر کے والد (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے لوگوں کے لیے عطیہ مقرر کرنے کا ارادہ فرمایا : اور آپ (رض) کی رائے ان سب لوگوں کی رائے سے بہتر تھی۔ لوگوں نے کہا : آپ (رض) اپنے آپ سے ابتدا کریں۔ آپ (رض) نے فرمایا : نہیں ! پھر آپ (رض) نے ابتدا کی ان لوگوں سے جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے رشتہ میں قریب تھے اور پھر جو ان کے بعد قریب تھے۔ آپ (رض) نے حضرت عباس (رض) کا حصہ مقرر فرمایا۔ پھر حضرت علی (رض) کا یہاں تک کہ آپ (رض) نے پانچ قبیلوں کے درمیان لگا تار حصہ مقرر فرمایا۔ یہاں تک کہ آپ (رض) قبیلہ بنو عدی تک پہنچے۔

33566

(۳۳۵۶۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا مُوسَی بْنُ عُلَیِّ بْنِ رَبَاحٍ ، عَنْ أَبِیہِ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ خَطَبَ النَّاسَ فِی الْجَابِیَۃِ فَحَمِدَ اللَّہَ وَأَثْنَی عَلَیْہِ ، ثُمَّ قَالَ : مَنْ أَحَبَّ أَنْ یَسْأَلَ عَنِ الْقُرْآنِ فَلْیَأْتِ أُبَیَّ بْنَ کَعْبٍ ، وَمَنْ أَحَبَّ أَنْ یَسْأَلَ ، عَنِ الْفَرَائِضِ فَلْیَأْتِ زَیْدَ بْنَ ثَابِتٍ ، وَمَنْ أَحَبَّ أَنْ یَسْأَلَ ، عَنِ الْفِقْہِ فَلْیَأْتِ مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ ، وَمَنْ أَحَبَّ أَنْ یَسْأَلَ ، عَنِ الْمَالِ فَلْیَأْتِنِی فَإِنَّ اللَّہَ جَعَلَنِی خَازِنًا وَقَاسِمًا أَلاَ وَإِنِّی بَادِئٌ بِالْمُہَاجِرِینَ الأَوَّلِینَ أَنَا وَأَصْحَابِی فَنُعْطِیہِمْ ، ثُمَّ بَادِئٌ بِالأَنْصَارِ الَّذِینَ تَبُوؤُوا الدَّارَ وَالإِیمَانَ فَنُعْطِیہِمْ ، ثُمَّ بَادِئٌ بِأَزْوَاجِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَنُعْطِیہِنَ ، فَمَنْ أَسْرَعَتْ بِہِ الْہِجْرَۃُ أَسْرَعَ بِہِ الْعَطَائُ ، وَمِنْ أَبْطَأَ عَنِ الْہِجْرَۃِ أَبْطَأَ بِہِ الْعَطَائُ ، فَلاَ یَلُومَن أَحَدُکُمْ إِلاَّ مُنَاخَ رَاحِلَتِہِ۔
(٣٣٥٦٧) حضرت عُلَی بن رباح (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) نے جابیہ کے مقام پر لوگوں سے خطاب فرمایا : پس آپ (رض) نے اللہ کی حمدو ثنا بیان کی پھر ارشاد فرمایا : جو شخص چاہتا ہے کہ وہ قرآن کے متعلق پوچھے تو اس کو چاہیے کہ وہ حضرت ابیّ بن کعب (رض) کی خدمت میں آئے ۔ اور جو چاہتا ہے کہ وہ وراثت کے حصوں کے متعلق پوچھے تو اس کو چاہیے کہ وہ حضرت زید بن ثابت (رض) کی خدمت میں آئے۔ اور جو شخص چاہتا ہے کہ وہ فقہ سے متعلق پوچھے تو اس کو چاہیے کہ وہ حضرت معاذ بن جبل (رض) کی خدمت میں آئے اور جو شخص چاہتا ہے وہ مال سے متعلق پوچھے تو اس کو چاہیے کہ وہ میرے پاس آئے۔ بیشک اللہ تعالیٰ نے مجھے خزانچی اور تقسیم کرنے والا بنایا ہے۔ خبردار میں سب سے پہلے مہاجرین اولین سے ابتدا کروں گا۔ میں اور میرے اصحاب ان کو عطایا دیں گے۔ پھر میں انصار سے ابتدا کروں گا جنہوں نے ایمان کو جگہ فراہم کی اور ایمان پر قائم رہے۔ پس میں اور میرے اصحاب ان کو عطایا دیں گے۔ پھر میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ازواج مطہرات سے ابتدا کروں گا اور ان کو عطایا دوں گا۔ اور جس نے ہجرت میں جلدی کی تو عطیہ بھی اس کی طرف جلدی کرے گا ۔ اور جو ہجرت میں سست ہوا تو عطیہ میں بھی سستی ہوگی۔ تم میں کوئی ہرگز ملامت نہیں کرے گا مگر اپنی سواری کے بیٹھنے کی جگہ پر۔

33567

(۳۳۵۶۸) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ الْحُبَابِ ، قَالَ : حدَّثَنِی مُوسَی بْنُ عُبَیْدَۃَ ، قَالَ : حَدَّثَنِی مُحَمَّدُ بْنُ إبْرَاہِیمَ بْنِ الْحَارِثِ التَّیْمِی ، وَکَانَ جَدُّہُ مِنَ الْمُہَاجِرِینَ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ أَنَّہُ وَفَدَ إلَی صَاحِبِ الْبَحْرَیْنِ ، قَالَ : فَبَعَثَ مَعِی بِثَمَانِمِئَۃِ أَلْفِ دِرْہَمٍ إلَی عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فَقَدِمْت عَلَیْہِ ، فَقَالَ : مَا جِئْتنَا بِہِ یَا أَبَا ہُرَیْرَۃَ ، فَقُلْتُ : بِثَمَانِمِئَۃِ أَلْفِ دِرْہَمٍ ، فَقَالَ : أَتَدْرِی مَا تَقُولُ إنَّک أَعْرَابِیٌّ ، قَالَ : فَعَدَدْتہَا عَلَیْہِ بِیَدِی حَتَّی وَفَیْتُ قَالَ : فَدَعَا الْمُہَاجِرِینَ فَاسْتَشَارَہُمْ فِی الْمَالِ فَاخْتَلَفُوا عَلَیْہِ ، فَقَالَ : ارْتَفِعُوا عَنِّی حَتَّی إذَا کَانَ عِنْدَ الظَّہِیرَۃِ أَرْسَلَ إلَیْہِمْ ، فَقَالَ : إنِّی لَقِیَتْ رَجُلاً مِنْ أَصْحَابِی فَاسْتَشَرْتہ ، فَلَمْ یَنْتَشِرْ عَلَیْہِ رَأْیُہُ ، فَقَالَ : (مَا أَفَائَ اللَّہُ عَلَی رَسُولِہِ مِنْ أَہْلِ الْقُرَی فَلِلَّہِ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِی الْقُرْبَی وَالْیَتَامَی وَالْمَسَاکِینِ وَابْنِ السَّبِیلِ) فَقَسَمَہُ عُمَرُ عَلَی کِتَابِ اللہِ۔
(٣٣٥٦٨) حضرت محمد بن ابراہیم بن حارث تیمی (رض) جن کے دادا مہاجرین میں سے تھے یہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابوہریرہ (رض) نے ارشاد فرمایا : کہ میں بحرین کے حاکم کی خدمت میں وفد لے کر گیا تو اس نے میرے ساتھ آٹھ لاکھ درہم حضرت عمر (رض) بن خطاب (رض) کی خدمت میں بھیجے۔ میں ان کو لے کر حضرت عمر (رض) کے پاس آیا۔ آپ (رض) نے پوچھا : اے ابوہریرہ : تم کیا چیز لائے ہو ؟ میں نے عرض کیا : آٹھ لاکھ درہم لایا ہوں ۔ آپ (رض) نے فرمایا : تم جانتے ہو کہ تم کیا کہہ رہے ہو ؟ یقیناً تم تو دیہاتی ہو۔ حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے ہاتھ سے اس مال کو شمار کیا، یہاں تک کہ میں نے اس کو پورا کیا۔ پھر حضرت عمر (رض) نے مہاجرین کو بلایا اور ان سے مال کے بارے میں مشورہ طلب کیا ۔ ان سب نے مختلف آراء دیں۔ آپ (رض) نے فرمایا : تم لوگ میرے پاس سے اٹھ جاؤ۔ یہاں تک کہ جب ظہر کا وقت آیا تو آپ (رض) نے ان لوگوں کو قاصد بھیج کر بلایا۔ اور فرمایا : کہ میں اپنے ساتھیوں میں سے ایک آدمی سے ملا تو اس کی رائے میں کوئی انتشار نہیں تھا۔ اس نے یہ آیت پڑھی : ترجمہ : جو کچھ پلٹا دے اللہ اپنے رسول کی طرف بستیوں کے لوگوں سے وہ مال اللہ اور اس کے رسول کا ہے۔ اور رسول کے رشتہ داروں کا اور یتیموں کا اور مسکینوں اور مسافروں کا ہے۔ لہٰذا حضرت عمر (رض) نے قرآن مجید کے مطابق اس مال کو تقسیم فرما دیا۔

33568

(۳۳۵۶۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ: حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ جَعْفَرٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ: لَمَّا وَضَعَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ الدَّوَاوِینَ، اسْتَشَارَ النَّاسَ ، فَقَالَ : بِمِنْ أَبْدَأُ ؟ قَالَ: ابْدَأْ بِنَفْسِکَ ، قَالَ: لاَ ، وَلَکِنِّی أَبْدَأُ بِالأَقْرَبِ فَالأَقْرَبِ مِنْ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَبَدَأَ بِہِمْ۔
(٣٣٥٦٩) حضرت جعفر (رض) کے والد فرماتے ہیں کہ جب حضرت عمر بن خطاب (رض) نے دیوان بنانے کا فیصلہ فرمایا : تو آپ (رض) نے لوگوں سے مشورہ طلب کیا اور پوچھا : کہ میں کس سے ابتدا کروں ؟ کسی نے کہا : آپ خود سے ابتدا کریں۔ آپ (رض) نے فرمایا : نہیں ! لیکن میں ابتدا کروں گا ان لوگوں سے جو رشتہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے زیادہ قریب تھے اور پھر جو ان کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قریب تھے۔ پس آپ (رض) نے ان سے ابتدا فرمائی۔

33569

(۳۳۵۷۰) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللہِ الأَسَدِیُّ ، قَالَ : حدَّثَنَا حَیَّانُ ، عَنْ مُجَالِدٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ أَنَّ عُمَرَ أُتِیَ مِنْ جَلُولاَئَ بِسِتَّۃِ آلاَفِ أَلْفٍ فَفَرَضَ الْعَطَائَ فَاسْتَشَارَ فِی ذَلِکَ ، فَقَالَ عَبْدُ الرَّحْمَن بْنُ عَوْفٍ : ابْدَأْ بِنَفْسِکَ ، فَأَنْتَ أَحَقُّ بِذَلِکَ قَالَ : لاَ ، بَلْ أَبْدَأُ بِالأَقْرَبِ مِنْ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِمَّنْ شَہِدَ بَدْرًا حَتَّی یَنْتَہِیَ ذَلِکَ إلَیَّ ، قَالَ : فَبَدَأَ فَفَرَضَ لِعَلِیٍّ فِی خَمْسَۃِ آلاَفٍ ، ثُمَّ لِبَنِی ہَاشِمٍ مِمَّنْ شَہِدَ بَدْرًا ، ثُمَّ لِمَوَالِیہِمْ، ثُمَّ لِحُلَفَائِہِمْ ، ثُمَّ الأَقْرَبِ فَالأَقْرَبِ حَتَّی یَنْتَہِی ذَلِکَ إلَیْہِ۔
(٣٣٥٧٠) امام شعبی (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) کے پاس حلولاء مقام سے چھ لاکھ آئے ۔ تو آپ (رض) نے عطیات مقرر کرنا چاہے۔ تو اس بارے میں مشورہ مانگا۔ حضرت عبد الرحمن بن عوف (رض) نے فرمایا : آپ (رض) خود سے ابتدا کریں۔ آپ (رض) اس کے زیادہ حقدار ہیں۔ آپ (رض) نے فرمایا : نہیں ! بلکہ میں ابتدا کروں گا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ان قریبی رشتہ داروں سے جو غزوہ بدر میں شریک ہوئے تھے۔ یہاں تک کہ یہ سلسلہ مجھ تک پہنچ جائے۔ راوی کہتے ہیں : آپ (رض) نے حضرت علی (رض) سے ابتدا فرمائی اور ان کے لیے پانچ ہزار مقرر فرمائے۔ پھر بنو ہاشم میں سے جو غزوہ بدر میں حاضر ہوئے تھے ان کے لیے حصہ مقرر فرمایا۔ پھر ان کے غلاموں کے لیے پھر ان کے حلیفوں کے لیے۔ پھر اقرب فالاقرب کے اعتبار سے۔ یہاں تک کہ یہ معاملہ آپ (رض) تک پہنچ گیا۔

33570

(۳۳۵۷۱) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ ہَارُونَ بْنِ عَنْتَرَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : کَانَ أَبِی صِدِّیقًا لِقَنْبَرٍ ، قَالَ : انْطَلَقْت مَعَ قَنْبَرٍ إلَی عَلِیٍّ ، فَقَالَ : یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ ، قُمْ مَعِی ، قَدْ خَبَّأْت لَکَ خَبِیئَۃً ، فَانْطَلَقَ مَعَہُ إلَی بَیْتِہِ، فَإِذَا أَنَا بِسِلَّۃٍ مَمْلُوئَۃٍ جَامَاتٍ مِنْ ذَہَبٍ وَفِضَّۃٍ ، فَقَالَ : یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ ، إنَّک لاَ تَتْرُکُ شَیْئًا إِلاَّ قَسَمْتہ ، أَوْ أَنْفَقْتہ ، فَسَلَّ سَیْفَہُ ، فَقَالَ : وَیْلَک ، لَقَدْ أَحْبَبْت أَنْ تُدْخِلَ بَیْتِی نَارًا کَبِیرَۃً ، ثُمَّ اسْتَعْرَضَہَا بِسَیْفِہِ فَضَرَبَہَا فَانْتَثَرَتْ بَیْنَ إنَائٍ مَقْطُوعٍ نِصْفُہُ وَثُلُثُہُ ، قَالَ : عَلَیَّ بِالْعُرَفَائِ فَجَاؤُوا ، فَقَالَ : اقْسِمُوا ہَذِہِ بِالْحِصَصِ ، قَالَ فَفَعَلُوا وَہُوَ یَقُولُ : یَا صَفْرَائُ یَا بَیْضَائُ غُرِّی غَیْرِی ، قَالَ : وَجَعَلَ یَقُولُ : ہَذَا جَنَایَ وَخِیَارُہُ فِیہِ إذْ کُلُّ جَانٍ یَدُہُ إِلَی فِیہِ۔ قالَ : فِی بَیْتِ الْمَالِ مَسَال وَإِبَرٌ ، وَکَانَ یَأْخُذُ مِنْ کُلِّ قَوْمٍ خَرَاجَہُمْ مِنْ عَمَلِ أَیْدِیہِمْ ، قَالَ : وَقَالَ لِلْعُرَفَائِ: اقْسِمُوا ہَذَا ، قَالُوا : لاَ حَاجَۃَ لَنَا فِیہِ ، قَالَ : وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ ، لنَقْسِمُنَّہُ خَیْرَہُ مَعَ شَرِّہِ۔
(٣٣٥٧١) حضرت عنترہ (رض) فرماتے ہیں کہ میرے والد قنبر کے دوست تھے۔ وہ فرماتے ہیں میں قنبر کے ساتھ حضرت علی (رض) کے پاس گیا۔ اس نے عرض کیا : اے امیر المؤمنین ! اُٹھیئے ! میرے ساتھ چلیے۔ تحقیق میں نے آپ (رض) کے لیے کچھ مال پوشیدہ رکھا ہوا ہے۔ آپ (رض) اس کے ساتھ اس کے گھر چلے گئے۔ تو وہاں ایک ٹوکری سونے اور چاندی سے بھری ہوئی تھی۔ اس نے کہا : اے امیر المؤمنین ! بیشک آپ (رض) کوئی چیز نہیں چھوڑتے مگر یہ کہ اس کو تقسیم کردیتے ہیں یا اس کو خرچ کردیتے ہیں۔ اس پر آپ (رض) نے اپنی تلوار سونت لی۔ اور فرمایا : ہلاکت ہو۔ تو چاہتا ہے کہ تو میرے گھر میں اتنی بڑی آگ داخل کر دے ! پھر آپ (رض) نے بےدھیانی میں اپنی تلوار سیدھی کی اور اس ٹوکری پر ماری تو اس کا آدھا اور ایک تہائی کٹے ہوئے برتن کے درمیان بکھر گیا۔ آپ (رض) نے فرمایا : نگرانوں کو میرے پاس بلاؤ۔ پس وہ لوگ آگئے۔ آپ (رض) نے فرمایا : اس مال کو حصوں میں تقسیم کرو۔ انھوں نے ایسا کردیا اور آپ (رض) یوں کہہ رہے تھے : اے سونا چاندی ! میرے علاوہ کسی اور کو دھوکا میں ڈالنا۔ اور آپ (رض) یہ شعر بھی پڑھ رہے تھے۔
ہَذَا جَنَایَ وَخِیَارُہُ فِیہِ إذْ کُلُّ جَانٍ یَدُہُ إِلَی فِیہِ ۔
راوی کہتے ہیں : بیت المال میں چھوٹی اور بڑی سوئیاں تھیں۔ جو آپ (رض) لوگوں سے بطور خراج کے وصول کرتے تھے ان کے ہاتھوں کی محنت کے بقدر، آپ (رض) نے نگرانوں سے کہا : ان کو تقسیم کرلو۔ انھوں نے کہا : ہمیں اس کو تقسیم کرنے کی ضرورت نہیں۔ آپ (رض) نے فرمایا : قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے۔ ہم ضرور تقسیم کریں گے اس مال کو اس کی برائی کے ساتھ ہی۔

33571

(۳۳۵۷۲) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ الْحَکَمِ النَّخَعِیِّ ، قَالَ : حدَّثَتْنِی أُمِّی ، عَنْ أُمِّ عَفَّانَ أُمِّ وَلَدٍ لِعَلِیٍّ ، قَالَتْ : جِئْت عَلِیًّا وَبَیْنَ یَدَیْہِ قُرُنْفُلٌ مَکْبُوبٌ فِی الرَّحْبَۃِ ، فَقُلْتُ : یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ ، ہَبْ لاِبْنَتِی مِنْ ہَذَا الْقُرُنْفُلِ قِلاَدَۃً ، فَقَالَ ہَکَذَا ، وَنَقَرَ بِیَدِہِ ارْمِی دِرْہَمًا ، فَإِنَّمَا ہَذَا مَالُ الْمُسْلِمِینَ ، وَإِلاَّ فَاصْبِرِی حَتَّی یَأْتِیَ حَظُّنَا مِنْہُ لِنَہَبَ لابْنَتِکَ قِلاَدَۃً۔
(٣٣٥٧٢) حضرت ام عفان (رض) فرماتی ہیں جو حضرت علی (رض) کی ام ولد ہیں۔ کہ میں حضرت علی (رض) کے پاس آئی اس حال میں کہ ان کے سامنے صحن میں لونگ کے رنگ کا ہار پڑا ہوا تھا۔ میں نے کہا : اے امیر المؤمنین ! یہ لونگ کے رنگ کا ہار میری بیٹی کو ہبہ کردیں۔ آپ (رض) نے اپنے ہاتھ سے اشارہ فرمایا : یہ والا۔ میں درہم کے قریب ہوگئی۔ آپ (رض) نے فرمایا : یہ مسلمانوں کا مال ہے مگر تو صبر کر یہاں تک کہ اس میں سے ہمارا حصہ بھی آجائے تو ہم یہ ہار تیری بیٹی کو ہبہ کردیں گے۔

33572

(۳۳۵۷۳) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، قَالَ : حدَّثَنَا الأَعْمَشُ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ ، عَنْ أَبِی صَالِحٍ الَّذِی کَانَ یَخْدُمُ أُمَّ کُلْثُومٍ بِنْتَ عَلِیٍّ ، قَالَ : قَالَتْ : یَا أَبَا صَالِحٍ ، کَیْفَ لَوْ رَأَیْت أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ وَأُتِیَ بِأُتْرُجٍّ ، فَذَہَبَ حَسَنُ أَوْ حُسَیْنُ یَتَنَاوَلُ مِنْہُ أُتْرُجَّۃً ، فَانْتَزَعَہَا مِنْ یَدِہِ ، وَأَمَرَ بِہِ فَقَسَمَ بَیْنَ النَّاسِ۔
(٣٣٥٧٣) حضرت ابو صالح (رض) جو حضرت ام کلثوم بنت علی (رض) کی خدمت کیا کرتے تھے فرماتے ہیں کہ حضرت ام کلثوم (رض) نے ارشاد فرمایا : اے ابو صالح ! تیرا کیا حال ہوتا اگر تو امیر المؤمنین کو دیکھ لیتا اس حال میں کہ ان کے پاس مالٹے لائے گئے اتنے میں حضرت حسن (رض) یا حضرت حسین (رض) گئے اور ان میں سے ایک مالٹا لے لیا۔ تو آپ (رض) نے ان کے ہاتھ سے وہ مالٹا چھین لیا۔ اور آپ (رض) نے حکم دیا اور ان مالٹوں کو فوراً لوگوں میں تقسیم کردیا گیا ؟ !

33573

(۳۳۵۷۴) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِیزِ بْنُ عَبْدِ الصَّمَدِ العمی ، عَنْ مَالِکِ بْنِ دِینَارٍ ، عَنِ الْحَسَنِ أَنَّ رَجُلاً سَأَلَ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ زِمَامَ شَعْرٍ مِنَ الْفَیْئِ ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : یَسْأَلُنِی زِمَامًا مِنَ النَّارِ ، مَا کَانَ یَنْبَغِی لَکَ أَنْ تَسْأَلَنِیہِ ، وَمَا یَنْبَغِی لِی أَنْ أُعْطِیَکَہُ۔ (ابو اسحاق ۴۷۶)
(٣٣٥٧٤) حضرت حسن بصری (رض) فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مال غنیمت میں موجود بالوں سے بنی ہوئی لگام مانگی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : یہ مجھ سے آگ کی لگام مانگ رہا ہے۔ اور تیرے لیے مناسب نہیں ہے کہ تو اس کا مجھ سے سوال کرے۔ اور نہ میرے لیے مناسب ہے کہ یہ میں تجھے عطا کردوں۔

33574

(۳۳۵۷۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا شَرِیکٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ بْنِ الْمُہَاجِرِ ، عَنْ قَیْسِ بْنِ أَبِی حَازِمٍ الأَحْمَسِیِّ ، قَالَ : أَتَی رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَجُلٌ بِکُبَّۃٍ مِنْ شَعْرٍ مِنَ الْغَنِیمَۃِ ، فَقَالَ : یَا رَسُولَ اللہِ ، ہَبْہَا لِی فَإِنَّا أَہْلُ بَیْتٍ یُعَالِجُ الشَّعَرَ ، قَالَ نَصِیبِی مِنْہَا لَک۔ (سعید بن منصور ۲۷۲۶)
(٣٣٥٧٥) حضرت قیس بن ابی حازم احمس (رض) فرماتے ہیں کہ ایک آدمی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس مال غنیمت میں سے ایک بالوں کا بنا ہو اکپڑا لایا اور کہنے لگا : اے اللہ کے رسول 5! آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مجھے یہ ہدیہ کردیں پس میں گھر بار والا ہوں اس کے ذریعہ بالوں کا علاج کروں گا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اس میں سے جو میرا حصہ ہوگا وہ تیرا ہوگا۔

33575

(۳۳۵۷۶) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا ابْنُ أَبِی ذِئْبٍ ، عَنِ الْعَبَّاسِ بْنِ فُضَیْلٍ ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ بْنِ أَبِی رَافِعٍ ، عَنْ جَدِّہِ أَبِی رَافِعٍ ، قَالَ : کُنْتُ خَازِنًا لِعَلِیٍّ ، قَالَ : زَیَّنْتُ ابْنَتَہُ بِلُؤْلُؤَۃٍ مِنَ الْمَالِ قَدْ عَرَفَہَا ، فَرَآہَا عَلَیْہَا ، فَقَالَ : مِنْ أَیْنَ لَہَا ہَذِہِ ؟ إنَّ لِلَّہِ عَلَیَّ أَنْ أَقْطَعَ یَدَہَا ، قَالَ : فَلَمَّا رَأَیْت ذَلِکَ قُلْتُ : یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ ، زَیَّنْت بِہَا بِنْتَ أَخِی ، وَمِنْ أَیْنَ کَانَتْ تَقْدِرُ عَلَیْہَا ، فَلَمَّا رَأَی ذَلِکَ سَکَتَ۔
(٣٣٥٧٦) حضرت عبید اللہ بن ابی رافع (رض) فرماتے ہیں کہ ان کے دادا حضرت رافع (رض) نے ارشاد فرمایا : کہ میں حضرت علی (رض) کا خزانچی تھا۔ میں نے مال میں سے ایک موتی کا ہار آپ (رض) کی بیٹی کو پہنا دیا جسے آپ (رض) نے پہچان لیا۔ جب آپ (رض) نے یہ ہار اس پر دیکھا تو فرمایا : اس کے پاس یہ کہاں سے آیا ؟ یقیناً اللہ رب العزت نے مجھ پر یہ بات لازم کردی ہے کہ میں اس کا ہاتھ کاٹ دوں۔ راوی فرماتے ہیں : کہ میں نے جب یہ معاملہ دیکھا تو میں نے عرض کیا : اے امیر المؤمنین ! یہ ہار میں نے اپنی بھتیجی کو پہنایا تھا ورنہ یہ کہاں اس پر قدرت رکھ سکتی ہے ؟ جب آپ (رض) نے یہ معاملہ دیکھا تو آپ (رض) خاموش ہوگئے۔

33576

(۳۳۵۷۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَن بْنُ عَجْلاَنَ الْبُرْجُمِیُّ ، عَنْ جَدَّتِہِ ، قَالَتْ : کَانَ عَلِیٌّ یَقْسِمُ فِینَا الإِبزار بِصُرَرِہ : صُرَر الْکَمُّونِ والحُرف وَکَذَا وَکَذَا۔
(٣٣٥٧٧) حضرت عبد الرحمن بن عجلان البرجمی (رض) فرماتے ہیں کہ ان کی دادی نے فرمایا : کہ حضرت علی (رض) ہمارے درمیان مصالحہ خوشوں سمیت تقسیم فرماتے تھے۔ زیرہ کے خوشے اور رائی کے دانوں کے خوشے اتنی اور اتنی مقدار میں۔

33577

(۳۳۵۷۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ: حدَّثَنَا رَبِیعُ بْنُ حَسَّانَ ، عَنْ أُمِّہِ ، قَالَتْ : کَانَ عَلِیٌّ یَقْسِمُ فِینَا الْوَرْسَ وَالزَّعْفَرَانَ، قَالَ : فَدَخَلَ عَلِیَّ الْحُجْرَۃَ مَرَّۃً فَرَأَی حَبًّا مَنْثُورًا ، فَجَعَلَ یَلْتَقِطُ وَیَقُولُ : شَبِعْتُمْ یَا آلَ عَلِیٍّ۔
(٣٣٥٧٨) حضرت ربیع بن حسان (رض) فرماتے ہیں کہ میری والدہ نے فرمایا : کہ حضرت علی (رض) ہمارے درمیان ہلدی اور زعفران تقسیم فرماتے تھے۔ اور ایک مرتبہ حضرت علی (رض) حجرہ میں داخل ہوئے تو انھوں نے بکھرے ہوئے دانوں کو دیکھا تو آپ (رض) نے ان کو جمع کرنا شروع کردیا اور یوں فرما رہے تھے۔ اے آل علی ! تم سیر ہوگئے !

33578

(۳۳۵۷۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ بن سَعِیدِ بْنِ عُبَیْدٍ ، عَنْ شَیْخٍ لَہُمْ أَنَّ عَلِیًّا أُتِیَ بِرُمَّانٍ فَقَسَمَہُ بَیْنَ النَّاسِ ، فَأَصَابَ مَسْجِدَنَا سَبْعُ رُمَّانَاتٍ ، أَوْ ثَمَانُ رُمَّانَاتٍ۔
(٣٣٥٧٩) حضرت سفیان بن سعید بن عبید (رض) اپنے ایک شیخ سے نقل کرتے ہیں کہ حضرت علی (رض) کے پاس انار لائے گئے ۔ تو آپ (رض) نے ان کو لوگوں کے درمیان تقسیم فرما دیا تو ہماری مسجد والوں کو سات یا آٹھ انار ملے۔

33579

(۳۳۵۸۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ بْنُ أَبِی خَالِدٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : أُتِیَ عَلِیٌّ بِدِنَانِ طِلاَئٍ مِنْ غَابَاتٍ فَقَسَمَہَا بَیْنَ الْمُسْلِمِینَ۔
(٣٣٥٨٠) حضرت اسماعیل بن ابی خالد (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت علی (رض) کے پاس دو مشکیزے جنگل میں سے دودھ کے بھر کر لائے گئے تو آپ (رض) نے ان کو لوگوں کے درمیان تقسیم فرما دیا۔

33580

(۳۳۵۸۱) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا عُیَیْنَۃُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ جَوْشَنٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِی بَکْرَۃَ ، قَالَ : مَا رَزَأَ عَلِیٌّ مِنْ بَیْتِ مَالِنَا حَتَّی فَارَقَنَا إِلاَّ جُبَّۃً مَحْشُوَّۃً وَخَمِیصَۃَ دَرَابِْجِرْدِیَّۃٍ ۔
(٣٣٥٨١) حضرت عبد الرحمن بن ابی بکرہ (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت علی (رض) نے ہمارے بیت المال میں کسی چیز کی کمی نہیں کی سوائے اونی جبہ اور دل اور دی کرتے کے یہاں تک کہ آپ (رض) ہم سے جدا ہوگئے۔

33581

(۳۳۵۸۲) حَدَّثَنَا وکیع قَالَ : حَدَّثَنَا الأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِی وَائِلٍ ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، عَنْ عَائِشَۃَ ، قَالَتْ : لَمَّا مَرِضَ أَبُو بَکْرٍ مَرَضَہُ الَّذِی مَاتَ فِیہِ ، قَالَ : انْظُرُوا مَا زَادَ فِی مَالِی مُنْذُ دَخَلْت الإِمَارَۃَ فَابْعَثُوا بِہِ إلَی الْخَلِیفَۃِ مِنْ بَعْدِی ، فَإِنِّی قَدْ کُنْتُ أَسْتَحِلُّہُ ، وَقَدْ کُنْتُ أُصِیبُ مِنَ الْوَدَکِ نَحْوًا مِمَّا کُنْتُ أُصِیبُ فِی التِّجَارَۃِ ، قَالَتْ : فَلَمَّا مَاتَ نَظَرْنَا فَإِذَا عَبْدٌ نُوبِیٌّ کَانَ یَحْمِلُ الصِّبْیَانَ ، وَإِذَا نَاضِحٌ کَانَ یستقی عَلَیْہِ ، فَبُعِثَ بِہِمَا إلَی عُمَرَ، قَالَتْ : فَأَخْبَرَنِی جَرِیّی تَعْنِی : وَکِیلِی أَنَّ عُمَرَ بَکَی ، وَقَالَ : رَحْمَۃُ اللہِ عَلَی أَبِی بَکْرٍ ، لَقَدْ أَتْعَبَ مَنْ بَعْدَہُ تَعَبًا شَدِیدًا۔
(٣٣٥٨٢) حضرت مسروق (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عائشہ (رض) نے ارشاد فرمایا : جب حضرت ابوبکر (رض) بیمار ہوئے جس بیماری میں آپ (رض) کی وفات ہوگئی تو آپ (رض) نے فرمایا : تم لوگ دیکھنا کہ میرے خلیفہ بننے کے بعد جو میرے مال میں اضافہ ہوا ہے تم اس مال کو میرے بعد بننے والے خلیفہ کے پاس بھیج دینا۔ تحقیق میں نے اس مال کو اپنے لیے جائز اور حلال سمجھا تھا۔ اور تحقیق مال ودک سے مجھے اتنا ہی نفع ہوا تھا جتنا مجھے تجارت میں ہوتا تھا۔ حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں : ہم نے دیکھا تو آپ (رض) کے مال میں ایک مصری غلام کا اضافہ تھا جو بچوں کو سنبھالتا تھا اور ایک پانی لانے والا جو کنویں سے آپ (رض) کے لیے پانی لاتا تھا۔ ان دونوں کو حضرت عمر (رض) کے پاس بھیج دیا گیا۔ آپ (رض) فرماتی ہیں کہ مجھے میرے وکیل نے خبر دی کہ حضرت عمر (رض) رو پڑے اور فرمایا : ابوبکر (رض) پر اللہ کی رحمت ہو۔ تحقیق انھوں نے اپنے بعد والوں کو بہت زیادہ مشقت میں ڈال دیا۔

33582

(۳۳۵۸۳) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا ہِشَامٌ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ ، عَنِ الأَحْنَفِ بْنِ قَیْسٍ ، قَالَ : کُنَّا جُلُوسًا بِبَابِ عُمَرَ فَخَرَجَتْ جَارِیَۃٌ فَقُلْنَا : سُرِّیَّۃُ عُمَرَ ، فَقَالَتْ : إِنَّہَا لَیْسَتْ سُرِّیَّۃً لِعُمَرَ ، إنِّی لاَ أَحِلُّ لِعُمَرَ، إنِّی مِنْ مَالِ اللہِ فَتَذَاکَرْنَا بَیْنَنَا مَا یَحِلُّ لَہُ مِنْ مَالِ اللہِ ، قَالَ : فَرَقَی ذَلِکَ إلَیْہِ ، فَأَرْسَلَ إلَیْنَا ، فَقَالَ : مَا کُنْتُمْ تُذَاکِرُونَ فَقُلْنَا : خَرَجَتْ عَلَیْنَا جَارِیَۃٌ ، فَقُلْنَا : سُرِّیَّۃُ عُمَرَ ، فَقَالَتْ : إِنَّہَا لَیسْت سُرِّیَّۃِ عُمَرَ ، إِنَّہَا لاَ تَحِلُّ لِعُمَرَ ، إِنَّہَا مِنْ مَالِ اللہِ ، فَتَذَاکَرْنَا مَا بَیْنَنَا مَا یَحِلُّ لَکَ مِنْ مَالِ اللہِ ؟ فَقَالَ : أَنَا أُخْبِرُکُمْ بِمَا أَسْتَحِلُّ مِنْ مَالِ اللہِ : حُلَّۃُ الشِّتَائِ وَالْقَیْظِ ، وَمَا أَحُجُّ عَلَیْہِ ، وَمَا أَعْتَمِرُ مِنَ الظَّہْرِ ، وَقُوتُ أَہْلِی کَرَجُلٍ مِنْ قُرَیْشٍ ، لَیْسَ بِأَغْنَاہُمْ ، وَلاَ بِأَفْقَرِہِمْ ، أَنَا رَجُلٌ مِنَ الْمُسْلِمِینَ یُصِیبُنِی مَا أَصَابَہُمْ۔
(٣٣٥٨٣) حضرت ابن سیرین (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت احنف بن قیس (رض) نے ارشاد فرمایا : کہ ہم لوگ حضرت عمر (رض) کے دروازے پر بیٹھے ہوئے تھے کہ اتنے میں ایک باندی نکلی ہم نے اسے کہا : عمر کی باندی، تو وہ کہنے لگی کہ میں عمر کی باندی نہیں ہوں اور نہ میں عمر کے لیے حلال ہوں۔ میں تو اللہ کا مال ہوں۔ راوی فرماتے ہیں : پھر ہم لوگ آپس میں اس بات کا تذکرہ کرنے لگے کہ اللہ کے مال میں سے حضرت عمر (رض) کے لیے کیا حلال ہیْ اس کی آواز حضرت عمر (رض) تک پہنچ گئی تو آپ (رض) نے ہمیں قاصد بھیج کر بلایا اور پوچھا : تم لوگ کیا باتیں کر رہے ہو ؟ ہم نے عرض کیا : ہمارے پاس ایک باندی آئی تو ہم نے اسے کہا : عمر کی باندی ، اس پر وہ کہنے لگی کہ وہ عمر کی باندی نہیں ہے، نہ ہی وہ عمر (رض) کے لیے حلال ہے، بیشک وہ تو اللہ کا مال ہے۔ ادھر ہم نے اس بات کا تذکرہ شروع کردیا کہ اللہ کے مال میں سے کتنی مقدار آپ (رض) کے لیے حلال ہے۔ آپ (رض) نے فرمایا : میں تمہیں بتلاتا ہوں کہ میں نے اللہ کے مال میں کتنی مقدار کو حلال سمجھا ہے۔ گرمی اور سردی کا ایک جوڑا اور جس سواری پر میں حج کرتا ہوں اور جس پر میں عمرہ کرتا ہوں۔ اور میرے گھرو الوں کا راشن جو قریش کے عام آدمی کے برابر ہے۔ نہ قریش کے مالداروں کی طرح ہے نہ ان کے فقراء کی طرح۔ اور میں بھی مسلمانوں میں سے ایک آدمی ہوں جو ضروریات ان کی ہیں وہی ضروریات مجھے بھی لاحق ہیں۔

33583

(۳۳۵۸۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا الْمَسْعُودِیُّ ، عَنْ مُحَارِبِ بْنِ دِثَارٍ ، عَنِ الأَحْنَفِ بْنِ قَیْسٍ أَنَّہُمْ کَانُوا جُلُوسًا بِبَابِ عُمَرَ ، فَخَرَجَتْ عَلَیْہِمْ جَارِیَۃٌ ، فَقَالَ لَہَا بَعْضُ الْقَوْمِ : أیطأکِ أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ ، قَالَتْ : إنِّی لاَ أَحِلُّ لَہُ ، یَعْنِی أَنَّہَا مِنَ الْخُمُسِ ، فَخَرَجَ عُمَرُ ، فَقَالَ : تَدْرُونَ مَا أَسْتَحِلُّ مِنْ ہَذَا الْفَیْئِ ظَہْرًا أَحُجُّ عَلَیْہِ وَأَعْتَمِرُ ، وَحُلَّتَیْنِ : حُلَّۃُ الشِّتَائِ وَالصَّیْفِ ، وَقُوتُ آلِ عُمَرَ قُوتُ أَہْلِ بَیْتِ رَجُلٍ مِنْ قُرَیْشٍ لَیْسُوا بِأَرْفَعِہِمْ ، وَلاَ بِأَخَسِّہِمْ۔
(٣٣٥٨٤) حضرت محارب بن دثار (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت احنف بن قیس (رض) نے ارشاد فرمایا : کہ ہم لوگ حضرت عمر (رض) کے دروازے پر بیٹھے ہوئے تھے کہ اتنے میں ہمارے پاس ایک باندی نکل کر آئی۔ لوگوں میں سے ایک آدمی نے اس سے پوچھا : کیا امیر المؤمنین نے تجھ سے وطی کی ہے ؟ وہ کہنے لگی : بلاشبہ میں ان کے لیے حلال نہیں ہوں۔ اس باندی کا مطلب یہ تھا کہ وہ مال خمس میں سے ہے اتنے میں حضرت عمر (رض) بھی نکل آئے اور فرمانے لگے۔ کیا تم جانتے ہو کہ میں نے اس مال فئی میں سے اپنے لیے کتنی مقدار حلال سمجھی ہے ؟ ایک سواری جس پر میں حج کرتا ہوں اور عمرہ کرتا ہوں۔ اور دو کپڑوں کے جوڑے، سردیوں کا جوڑا اور گرمیوں کا جوڑا اور عمر کے اہل خانہ کا راشن جو قریش میں سے ایک آدمی کے اہل خانہ کے راشن کے برابر ہے جو نہ زیادہ مالدار ہو اور نہ ہی زیادہ غریب ہو۔

33584

(۳۳۵۸۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، قَالَ: حدَّثَنَا سُفْیَانُ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ، عَنْ حَارِثَۃَ بْنِ مُضَرِّبٍ الْعَبْدِیِّ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ: إنِّی أَنْزَلَتْ نَفْسِی مِنْ مَالِ اللہِ مَنْزِلَۃَ مَالِ الْیَتِیمِ، إنِ اسْتَغْنَیْت عنہ اسْتَعْفَفْت، وَإِنِ افْتَقَرْت أَکَلْتُ بِالْمَعْرُوفِ۔
(٣٣٥٨٥) حضرت حارثہ بن مضرب العبدی (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے ارشاد فرمایا : یقیناً میں نے اپنے نفس کو اللہ کے مال میں ایک یتیم کے مال کے درجہ میں اتارا ہے۔ اگر میں اس سے بےنیاز ہوتا ہوں تو میں برائی سے بچتا ہوں۔ اور اگر میں اس کا محتاج ہوا تو میں نے عطیہ کو کھایا۔

33585

(۳۳۵۸۶) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ الْمُبَارَکِ ، قَالَ : حدَّثَنَا أَبَانُ بْنُ عَبْدِ اللہِ الْبَجَلِیُّ ، قَالَ : حدَّثنِی عَمْرو بْنُ أَخِی عِلْبَائُ عن عِلْبَائَ ، قَالَ : قَالَ عَلِیٌّ : مَرَرْت عَلَی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِإِبِلٍ مِنْ إبِلِ الصَّدَقَۃِ ، فَأَخَذَ وَبَرَۃً مِنْ ظَہْرِ بَعِیرٍ ، فَقَالَ : مَا یَحِلُّ لِی مِنْ غَنَائِمِکُمْ مَا یَزِنُ ہَذِہِ ، إِلاَّ الْخُمُسُ ، وَہُوَ مَرْدُودٌ عَلَیْکُمْ۔ (احمد ۸۸)
(٣٣٥٨٦) حضرت علی (رض) فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس سے صدقہ کے اونٹوں میں سے چند اونٹ لے کر گزرا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک اونٹ کی پشت سے تھوڑی سی اون لی اور فرمایا : میرے لیے تمہارے مال غنیمت سے اتنے وزن کے برابر بھی حلال نہیں ہے سوائے خمس کے۔ اور وہ بھی تم پر لوٹا دیا جاتا ہے۔

33586

(۳۳۵۸۷) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنِ الأَسْوَدِ بْنِ قَیْسٍ ، عَنْ نُبَیْحٍ ، قَالَ : اشْتَرَی ابْنُ عُمَرَ بَعِیرَیْنِ فَأَلْقَاہُمَا فِی إبِلِ الصَّدَقَۃِ فَسَمِنَا وَعَظُمَا ، وَحَسُنَتْ ہَیْئَتُہُمَا قَالَ : فَرَآہُمَا عُمَرُ فَأَنْکَرَ ہَیْئَتَہُمَا ، فَقَالَ : لِمَنْ ہَذَانِ ، قَالُوا : لِعَبْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ ، فَقَالَ : بِعْہُمَا وَخُذْ رَأْسَ مَالِکَ ، وَرُدَّ الْفَضْلَ فِی بَیْتِ الْمَالِ۔
(٣٣٥٨٧) حضرت نبی ح (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمر (رض) نے دو اونٹ خریدے اور ان کو صدقہ کے اونٹوں میں چھوڑ دیا پس وہ دونوں خوب صحت مند اور بڑے ہوگئے۔ اور ان دونوں کی حالت بہت اچھی ہوگئی۔ راوی کہتے ہیں : حضرت عمر (رض) نے ان اونٹوں کو دیکھا تو ان کی حالت کو عجیب سمجھا اور پوچھا : یہ دونوں کس کے اونٹ ہیں ؟ لوگوں نے جواب دیا : حضرت عبداللہ بن عمر (رض) کے۔ آپ (رض) نے فرمایا : ان دونوں کو فروخت کرو اور تم اپنی اصل رقم لے لو۔ اور جو زائد رقم ہے وہ بیت المال میں لوٹا دو ۔

33587

(۳۳۵۸۸) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ أَبِی عُثْمَانَ، قَالَ: لَمَّا قَدِمَ عُتْبَۃُ أَذْرَبِیجَانَ بِالْخَبِیصِ فَذَاقَہُ فَوَجَدَہُ حُلْوًا ، فَقَالَ : لَوْ صَنَعْتُمْ لأَمِیرِ الْمُؤْمِنِینَ مِنْ ہَذَا ، قَالَ : فَجَعَلَ لَہُ سَفَطَیْنِ عَظِیمَیْنِ ، ثُمَّ حَمَلَہُمَا عَلَی بَعِیرٍ مَعَ رَجُلَیْنِ فَبَعَثَ بِہِمَا إلَیْہِ ، فَلَمَّا قَدِمَا عَلَی عُمَرَ ، قَالَ : أَیَّ شَیْئٍ ہَذَا ، قَالَ : ہَذَا خَبِیصٌ ، فَذَاقَہُ فَإِذَا ہُوَ حُلْوٌ ، فَقَالَ : أَکُلَّ الْمُسْلِمِینَ یُشْبِعُ مَنْ ہَذَا فِی رَحْلِہِ ؟ قَالُوا : لاَ قَالَ : فَرُدَّہُمَا ، ثُمَّ کَتَبَ إلَیْہِ : أَمَّا بَعْدُ ، فَإِنَّہُ لَیْسَ مِنْ کَدِّکَ ، وَلاَ مِنْ کَدِّ أَبِیک ، وَلاَ مِنْ کَدِّ أُمِّکَ أَشْبِعِ الْمُسْلِمِینَ مِمَّا تَشْبَعُ مِنْہُ فِی رَحْلِک۔
(٣٣٥٨٨) حضرت ابو عثمان (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عتبہ (رض) جب آذر بائیجان آئے تو ان کے پاس حلوہ لایا گیا انھوں نے اس کو چکھا تو اس کو میٹھا پایا۔ آپ (رض) نے فرمایا : اگر تم لوگ اس میں سے کچھ امیر المؤمنین کے لیے بناؤ تو بہت اچھا ہوگا پس انھوں نے دو بڑی ٹوکریاں آپ (رض) کے لیے تیار کردیں پھر ان دونوں کو ایک اونٹ پر لاد کردو آدمیوں کے ساتھ ان کو حضرت عمر (رض) کے پاس بھیج دیا پس جب وہ دونوں حضرت عمر (رض) کے پاس آئے۔ تو آپ (رض) نے پوچھا : یہ کیا چیز ہے ؟ انھوں نے کہا : یہ حلوہ ہے۔ آپ (رض) نے اس کو چکھا : تو آپ (رض) نے بھی اس کو میٹھا اور مزیدارپایا۔ آپ (رض) نے پوچھا : کیا ان کے قافلہ میں تمام مسلمان اس سے سیر ہوئے ؟ انھوں نے جواب دیا : نہیں ! آپ (رض) نے یہ دونوں ٹوکریاں واپس لوٹا دیں پھر ان کی طرف خط لکھا : حمدو صلوۃ کے بعد، بلاشبہ نہ یہ تمہارے باپ کی کوشش سے ہے اور نہ تمہاری ماں کی کوشش سے ہے۔ جس چیز سے تم سیر ہوتے ہو اسی چیز سے اپنے قافلے میں موجود مسلمانوں کو سیر کرو۔

33588

(۳۳۵۸۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، قَالَ: حدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ بْنُ أَبِی خَالِدٍ، عَنْ قَیْسِ بْنِ أَبِی حَازِمٍ ، قَالَ: حَدَّثَنِی عُتْبَۃُ بْنُ فَرْقَدٍ السُّلَمِیُّ ، قَالَ : قَدِمْت عَلَی عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ بِسِلاَلِ خَبِیصٍ عِظَامٍ مَمْلُوئَۃٍ ، لَمْ أَرَ أَحْسَن مِنْہُ وَأَجیَد ، فَقَالَ : مَا ہَذِہِ فَقُلْت : طَعَامٌ أَتَیْتُک بِہِ ، إنَّک تَقْضِی مِنْ حَاجَاتِ النَّاسِ أَوَّلَ النَّہَارِ ، فَإِذَا رَجَعْت أَصَبْت مِنْہُ قَالَ : اکْشِفْ عَنْ سَلَّۃٍ مِنْہَا ، قَالَ : فَکَشَفْت ، قَالَ : عَزَمْت عَلَیْک إذَا رَجَعْت إِلاَّ رَزَقْت کُلَّ رَجُلٍ مِنَ الْمُسْلِمِینَ مِنْہَا سَلَّۃً ، قَالَ : قُلْتُ : وَالَّذِی یَصْلُحُک یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ ، لَوْ أَنْفَقْت مَالَ قَیْسٍ کُلَّہُ مَا بَلَغَ ذَلِکَ ، قَالَ : فَلاَ حَاجَۃَ لِی فِیہِ ، ثُمَّ دَعَا بِقَصْعَۃٍ فِیہَا ثَرِیدٌ مِنْ خُبْزٍ خَشِنٍ وَلَحْمٍ غَلِیظٍ وَہُوَ یَأْکُلُ مَعِی أَکْلاً شَہِیًّا ، فَجَعَلْتُ أَہْوِی إلَی الْبِضْعَۃِ الْبَیْضَائِ أَحْسِبُہَا سَنَامًا فَأَلُوکُہَا فَإِذَا ہِیَ عَصَبَۃٌ ، وَآخُذُ الْبِضْعَۃَ مِنَ اللَّحْمِ فَأَمْضُغُہَا فَلاَ أَکَادُ أَسِیغُہَا ، فَإِذَا غَفَلَ عَنِّی جَعَلْتہَا بَیْنَ الْخِوَانِ وَالْقَصْعَۃِ ، ثُمَّ قَالَ : یَا عُتْبَۃُ ، إنَّا نَنْحَرُ کُلَّ یَوْمٍ جَزُورًا ، فَأَمَّا وَدَکُہَا وَأَطْیابُہَا فَلِمَنْ حَضَرَ مِنْ آفَاقِ الْمُسْلِمِینَ ، وَأَمَّا عُنُقُہَا فَإِلَیَ عُمَرَ۔
(٣٣٥٨٩) حضرت قیس بن ابی حازم (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عتبہ بن فرقد السلمی (رض) نے ارشاد فرمایا : کہ میں حضرت عمر بن خطاب (رض) کے پاس بڑی ٹوکریاں حلوے سے بھری ہوئی لایا۔ میں نے اس سے زیادہ اور مزیدار حلوہ نہیں دیکھا تھا۔ آپ (رض) نے پوچھا : یہ کیا ہے ؟ میں نے عرض کیا : یہ کھانا میں آپ (رض) کے لیے لایا ہوں۔ اس لیے کہ آپ (رض) ایسے آدمی ہیں جو دن کا ابتدائی حصہ لوگوں کی ضروریات پوری کرنے میں گزارتے ہیں اور جب آپ (رض) لوٹتے ہیں تو آپ اس وجہ سے تھک جاتے ہیں۔ آپ (رض) نے فرمایا : ٹوکری سے کپڑا ہٹاؤ ۔ راوی کہتے ہیں : میں نے ہٹا دیا۔ آپ (رض) نے فرمایا : میں تمہیں قسم دیتا ہوں کہ تم جب واپس جاؤ تو مسلمانوں کے تمام آدمیوں کو اس ٹوکری میں سے حصہ دینا۔ میں نے عرض کیا : قسم ہے اس ذات کی جس نے اے امیرالمؤمنین آپ (رض) کو درست رکھا ! اگر میں بنو قیس کا سارا مال بھی خرچ کر دوں تو وہ اتنی مقدار کو نہیں پہنچے گا ۔ آپ (رض) نے فرمایا : مجھے اس کی کوئی حاجت نہیں ہے۔
پھر آپ (رض) نے ایک پیالہ منگوایا جس میں بن چھنے آٹے اور سخت گوشت کی ثرید تھی۔ آپ (رض) میرے ساتھ اسے بہت پسند سے کھا رہے تھے۔ میں نے ایک سفید ٹکڑے کی طرف ہاتھ بڑھایا میں اس کو کوہان کا حصہ سمجھ رہا تھا۔ میں نے اس کو چبایا تو وہ پیٹھے کا حلوہ نکلا۔ میں نے ایک گوشت کا ٹکڑا لیا میں نے اس کو چبایا پس وہ میرے حلق سے نیچے نہیں اتر رہا تھا۔ جب آپ (رض) مجھ سے تھوڑے سے غافل ہوئے تو میں نے اس ٹکڑے کو پیالہ اور دسترخوان کے درمیان رکھ دیا ۔ پھر آپ (رض) نے فرمایا : اے عتبہ ! یقیناً ہم ہر روز ایک اونٹ نحر کرتے ہیں۔ اس کی چربی اور اچھا حصہ ان لوگوں کے لیے ہوتا ہے جو مسلمان دور دراز سے آئے ہوئے ہوتے ہیں اور اس کی گردن عمر کے لیے ہوتی ہے ! ! !

33589

(۳۳۵۹۰) حَدَّثَنَا حُسَین بْنُ عَلِیٍّ ، عَنْ زَائِدَۃَ ، عَنْ سُلَیْمَانَ ، عَنْ زَیْدِ بْنِ وَہْبٍ ، عَنْ حُذَیْفَۃَ ، قَالَ : مَرَرْت وَالنَّاسُ یَأْکُلُونَ ثَرِیدًا وَلَحْمًا ، فَدَعَانِی عُمَرُ إلَی طَعَامِہِ ، فَإِذَا ہُوَ یَأْکُلُ خُبْزًا غَلِیظًا وَزَیْتًا ، فَقُلْتُ : مَنَعْتنِی أَنْ آکُلَ مَعَ النَّاسِ الثَّرِیدَ ، وَدَعَوْتنِی إلَی ہَذَا قَالَ : إنَّمَا دَعَوْتُک لِطَعَامِی ، وَذَاکَ لِلْمُسْلِمِینَ۔
(٣٣٥٩٠) حضرت زید بن وھب (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت حذیفہ (رض) نے ارشاد فرمایا : میں گزرا اس حال میں کہ لوگ ثرید اور گوشت کھا رہے تھے ۔ پس حضرت عمر (رض) نے مجھے اپنے کھانے کی دعوت دی۔ آپ (رض) موٹی روٹی اور تیل کھا رہے تھے۔ میں نے کہا : آپ (رض) ہی نے مجھے لوگوں کے ساتھ ثرید کھانے سے منع کیا تھا اور آپ (رض) ہی مجھے اس کی دعوت دے رہے ہیں ؟ انھوں نے فرمایا : میں نے تو تمہیں اپنے کھانے کی دعوت دی ہے۔ اور مسلمانوں کا کھانا تو وہ ہے۔

33590

(۳۳۵۹۱) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ الْوَلِیدِ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ أَبِی النَّجُودِ ، عَنِ ابْنِ خُزَیْمَۃَ بْنِ ثَابِتٍ ، قَالَ: کَانَ عُمَرُ إذَا اسْتَعْمَلَ رَجُلاً أَشْہَدَ عَلَیْہِ رَہْطًا مِنَ الأَنْصَارِ وَغَیْرِہِمْ ، قَالَ : یَقُولُ : إنِّی لَمْ أَسْتَعْمِلْک عَلَی دِمَائِ الْمُسْلِمِینَ، وَلاَ عَلَی أَعْرَاضِہِمْ، وَلَکِنِّی اسْتَعْمَلْتُک عَلَیْہِمْ لِتَقْسِمَ بَیْنَہُمْ بِالْعَدْلِ وَتُقِیمَ فِیہِمَ الصَّلاَۃَ، وَاشْتَرَطَ عَلَیْہِ أَنْ لاَ یَأْکُلَ نَقِیًّا ، وَلاَ یَلْبَسَ رَقِیقًا ، وَلاَ یَرْکَبَ بِرْذَوْنًا ، وَلاَ یَغْلِقَ بَابَہُ دُونَ حَوَائِجِ النَّاسِ۔
(٣٣٥٩١) حضرت خزیمہ بن ثابت (رض) کے بیٹے فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) جب کسی کو گورنر بناتے تو انصار اور دوسرے مسلمانوں کی ایک جماعت کو اس پر گواہ بناتے اور فرماتے : میں نے تجھے مسلمانوں کی جانوں اور عزتوں پر امیر نہیں بنایا لیکن میں نے تجھے ان پر امیر بنایا ہے تاکہ تو ان کے درمیان انصاف سے تقسیم کرے، اور ان میں نماز کو قائم کروائے۔ اور آپ (رض) اس پر شرط لگاتے کہ وہ چھنے ہوئے آٹے کی روٹی نہیں کھائے گا اور نہ ہی باریک کپڑا پہنے گا اور نہ ہی اچھی نسل کے گھوڑے پر سوار ہوگا۔ اور لوگوں کی ضروریات کے وقت اپنے دروازے کو بند نہیں کرے گا۔

33591

(۳۳۵۹۲) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ، عَنِ الْجُرَیْرِیِّ، عَنْ أَبِی نَضْرَۃَ، عَنْ أَبِی فِرَاسٍ، قَالَ: خَطَبَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، فَقَالَ: أَلاَ إنِّی وَاللہِ مَا أَبْعَثُ إلَیْکُمْ عُمَّالاً لِیَضْرِبُوا أَبْشَارَکُمْ، وَلاَ لِیَأْخُذُوا أَمْوَالَکُمْ، وَلَکِنْ أَبْعَثُہُمْ إلَیْکُمْ لِیُعَلِّمُوکُمْ دِینَکُمْ وَسُنَّتَکُمْ ، فَمَنْ فُعِلَ بِہِ سِوَی ذَلِکَ فَلْیَرْفَعْہُ إِلَیَّ ، فَوَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ لاَقِصَّنَّہُ مِنْہُ ، فَوَثَبَ عَمْرُو بْنُ الْعَاصِ فَقَالَ : یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ ، أَرَأَیْتُک إِنْ کَانَ رَجُلٌ مِنَ الْمُسْلِمِینَ عَلَی رَعِیَّۃٍ فَأَدَّبَ بَعْضَ رَعِیَّتِہِ إنَّک لَمُقِصُّہُ مِنْہُ ؟ قَالَ : إِیْ وَالَّذِی نَفْسُ عُمَرَ بِیَدِہِ لأَقِصَّنَّہُ مِنْہُ ، أَنَّی لاَ أُقِصُّہُ مِنْہُ وَقَدْ رَأَیْت رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُقِصُّ مِنْ نَفْسِہِ أَلاَ لاَ تَضْرِبُوا الْمُسْلِمِینَ فَتُذِلُّوہُمْ ، وَلاَ تَمْنَعُوہُمْ مِنْ حُقُوقِہِمْ فَتُکَفِّرُوہُمْ ، وَلاَ تَجْمُرُوہُمْ فَتَفْتِنُوہُمْ ، وَلاَ تُنْزِلُوہُمَ الْغِیَاضَ فَتُضَیِّعُوہُمْ۔ (ابوداؤد ۴۵۲۵۔ طیالسی ۵۴)
(٣٣٥٩٢) حضرت ابو فراس (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) نے خطبہ دیا اور ارشاد فرمایا : خبردار ! اللہ کی قسم ! میں نے تمہاری طرف گورنروں کو اس لیے نہیں بھیجا کہ وہ تمہیں مارنے لگیں اور تمہارے مال چھین لیں۔ بلکہ میں نے ان کو تمہاری طرف اس لیے بھیجا ہے۔ کہ وہ تمہیں تمہارا دین اور تمہارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت سکھلائیں جس شخص کے ساتھ اس کے علاوہ کوئی دوسرا معاملہ کیا جائے تو وہ اس مسئلہ کو میرے سامنے پیش کرے ۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ ٔ قدرت میں میری جان ہے میں ضرور بالضرور اس کی طرف سے بدلہ لوں گا ۔ اس پر حضرت عمرو بن العاص (رض) اٹھ کھڑے ہوئے اور فرمایا : اے امیر المؤمنین ! آپ (رض) کی کیا رائے ہے کہ اگر مسلمانوں میں سے کوئی آدمی کسی جماعت پر امیر ہو اور وہ اپنی رعایا کے کسی شخص کو ادب سکھلائے تو کیا آپ (رض) اس کی طرف سے بھی بدلہ لیں گے ؟ آپ (رض) نے فرمایا : ہاں ! قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ ٔ قدرت میں عمر کی جان ہے۔ ضرور بالضرور اس کی طرف سے بھی بدلہ لیا جائے گا۔ اور میں نے کہا اس کی طرف سے بدلہ لے سکتا ہوں حالانکہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیکھا کہ وہ اپنی طرف سے بدلہ لیتے تھے ؟ خبردار ! تم مسلمانوں کو مت مارو اس طرح کہ تم ان کو ذلیل کرنے لگو۔ اور تم ان کو ان کے حقوق سے مت روکو کہ تم ان کو اپنے سامنے جھکانے لگو۔ اور تم ان کو سرحدوں پر بھیج کر گھر واپسی سے مت روکو کہ کہیں تم ان کو فتنہ میں ڈال دو ۔ اور تم ان کو گھنے باغات والی جگہ میں مت اتارو کہ وہ منتشر ہوجائیں اور اس طرح تم ان کو ضائع کردو۔

33592

(۳۳۵۹۳) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنِ الْجُرَیْرِیِّ، عَنْ أَبِی عُثْمَانَ، قَالَ: کَتَبَ عُمَرُ إلَی أَبِی مُوسَی الأَشْعَرِیِّ أَنَ اقْطَعُوا الرُّکُب، وَانْزُوا عَلَی الْخَیْلِ نَزْوًا وَأَلْقَوُا الْخِفَافَ، واحتزوا النِّعَالَ، وَأَلْقَوُا السَّرَاوِیلاَتِ، وَاتَّزَرُوا وَارْمُوا الأَغْرَاضَ، وَعَلَیْکُمْ بِلِبْسِ الْمُعَدِّیَۃِ ، وَإِیَّاکُمْ وَہَدْیِ الْعَجَمِ ، فَإِنَّ شَرَّ الْہَدْیِ ہَدْیُ الْعَجَمِ۔
(٣٣٥٩٣) حضرت ابو عثمان (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے حضرت ابو موسیٰ اشعری (رض) کو خط لکھا اور فرمایا : تم لوگ اونٹوں سے خود کو جدا کرلو اور گھوڑوں پر سوار ہو ۔ اور تم موزے اتار دو اور چپل پہنو۔ شلوار چھوڑ دو اور ازار باندھو۔ اور سلوٹوں کو چھوڑ دو ، تم قبیلہ معد کا لباس لازم پکڑ لو۔ اور خود کو عجمیوں کے طور طریقوں سے بچاؤ اس لیے کہ بدترین طور طریقے عجمیوں کے ہیں۔

33593

(۳۳۵۹۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ عَلْقَمَۃَ بْنِ مَرْثَدٍ ، عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ بُرَیْدَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إذَا بَعَثَ أَمِیرًا عَلَی سَرِیَّۃٍ ، أَوْ جَیْشٍ أَوْصَاہُ فِی خَاصَّۃِ نَفْسِہِ بِتَقْوَی اللہِ وَبِمَنْ مَعَہُ مِنَ الْمُسْلِمِینَ خَیْرًا ، قَالَ : اغْزُوا فِی سَبِیلِ اللہِ ، قَاتِلُوا مَنْ کَفَرَ بِاللہِ ، اغْزُوا ، وَلاَ تَغُلُّوا ، وَلاَ تَغْدِرُوا ، وَلاَ تُمَثِّلُوا ، وَلاَ تَقْتُلُوا وَلِیْدًا۔
(٣٣٥٩٤) حضرت بریدہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب کسی شخص کو کسی جماعت یا لشکر پر امیر بنا کر بھیجتے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کو خاص طور پر اللہ کے تقوی کی وصیت فرماتے۔ اور اس کے ساتھ جو مسلمان ہیں ان سے بھلائی کرنے کی وصیت فرماتے۔ اور فرماتے : اللہ کے راستہ میں جہاد کرنا، ان لوگوں کے ساتھ قتال کرنا جنہوں نے اللہ کے ساتھ کفر کیا، جاؤ اور خیانت مت کرنا نہ ہی غداری کرنا۔ اور لوگوں کے ہاتھ، پاؤں کاٹ کر مثلہ مت بنانا۔ اور نہ ہی بچوں کو قتل کرنا۔

33594

(۳۳۵۹۵) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا ہِشَامُ بْنُ سَعْدٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ زَیْدَ بْنَ أَسْلَمَ یَذْکُرُ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : رَأَیْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ اسْتَعْمَلَ مَوْلاَہُ ہُنَیَّا عَلَی الْحِمَی ، قَالَ : فَرَأَیْتہ یَقُولُ ہَکَذَا : وَیْحُک یَا ہُنَی، ضُمَّ جَنَاحَک عَنِ النَّاسِ ، وَاتَّقِ دَعْوَۃَ الْمَظْلُومِ ، فَإِنَّ دَعْوَۃَ الْمَظْلُومِ مُجَابَۃٌ أَدْخِلْ رَبَّ الصَّرِیمَۃِ وَالْغَنِیمَۃِ، وَدَعْنِی مِنْ نَعَمِ ابْنِ عَفَّانَ ، وَابْنِ عَوْفٍ ، فَإِنَّ ابْنَ عَوْفٍ ، وَابْنَ عَفَّانَ إِنْ ہَلَکَتْ مَاشِیَتُہُمَا رَجَعَا إلَی الْمَدِینَۃِ إلَی نَخْلٍ وَزَرْعٍ ، وَإِنَّ ہَذَا الْمِسْکِینَ إِنْ ہَلَکَتْ مَاشِیَتُہُ جَائَنِی یَصِیحُ ، یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ ، فَالْمَائُ وَالْکَلأُ أَہْوَنُ عَلَیَّ مِنْ أَنْ أَغْرَمَ ذَہَبًا وَوَرِقًا ، وَاللہِ وَاللہِ وَاللہِ إِنَّہَا لَبِلاَدِہُمْ فِی سَبِیلِ اللہِ قَاتَلُوا عَلَیْہَا فِی الْجَاہِلِیَّۃِ وَأَسْلَمُوا عَلَیْہَا فِی الإِسْلاَمِ ، وَلَوْلاَ ہَذَا النَّعَمُ الَّذِی یُحْمَلُ عَلَیْہِ فِی سَبِیلِ اللہِ مَا حَمَیْت عَلَی النَّاسِ مِنْ بِلاَدِہِمْ شَیْئًا۔
(٣٣٥٩٥) حضرت اسلم (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر بن خطاب (رض) کو دیکھا کہ انھوں نے اپنے آزاد کردہ غلام ھُنیّ کو چراگاہ پر امیر بنایا۔ راوی کہتے ہیں : کہ میں نے آپ (رض) کو اسے یوں فرماتے ہوئے سنا : ہلاکت ہو اے ھنیی ! لوگوں کے ساتھ نرمی برتو ، اور مظلوم کی بددعا سے بچو۔ اس لیے کہ مظلوم کی بددعا قبول کی جاتی ہے۔ تم درختوں اور مال غنیمت کے منتظم بن کر داخل ہو۔ اور تم مجھے چھوڑ دو ابن عفان اور ابن عوف کے جانوروں کے بارے میں کہ اگر ابن عوف اور ابن عفان ان دونوں کے مویشی ہلاک بھی ہوگئے تو یہ دونوں مدینہ میں اپنے کھجور کے درختوں اور کھیتی کی طرف لوٹ جائیں گے ۔ اور اگر ان مسکینوں کے مویشی ہلاک ہوگئے تو یہ میرے پاس آئیں گے چیختے ہوئے۔ اے امیر المؤمنین ! اے امیر المؤمنین ! اور پانی اور چارہ مجھ پر آسان ہے اس بات سے کہ میں ان کو سونا اور چاندی بدلہ میں دوں ، اللہ کی قسم ! اللہ کی قسم ! اللہ کی قسم !۔

33595

(۳۳۵۹۶) حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ عَیَّاشٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا مُعَاوِیَۃُ بْنُ ہِشَامٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ إیَادِ بْنِ لَقِیطٍ ، عَنِ الْبَرَائِ بْنِ قَیْسٍ ، قَالَ : أَرْسَلَنِی عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ إلَی سَلْمَانَ بْنِ رَبِیعَۃَ آمُرُہُ أَنْ یُفْطِرَ وَہُوَ مُحَاصَرٌ۔
(٣٣٥٩٦) حضرت براء بن قیس (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) نے مجھے حضرت سلمان بن ربیعہ (رض) کے پاس بھیجا کہ میں ان کو حکم دوں کہ وہ افطار کریں اس حال میں کہ انھوں نے محاصرہ کیا ہوا تھا۔

33596

(۳۳۵۹۷) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ الْحُبَابِ ، قَالَ : حدَّثَنَا مُعَاوِیَۃُ بْنُ صَالِحٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِی رَبِیعَۃُ بْنُ یَزِیدَ الدِّمَشْقِیِّ ، عَنْ قَزَعَۃَ ، قَالَ : سَأَلْتُ أَبَا سَعِیدٍ ، عَنِ الصَّوْمِ فِی السَّفَرِ ، فَقَالَ : سَافَرْنَا مَعَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَیَصُومُ وَنَصُومُ حَتَّی نَزَلْنَا مَنْزِلاً ، فَقَالَ : إنَّکُمْ قَدْ دَنَوْتُمْ مِنْ عَدُوِّکُمْ وَالْفِطْرُ أَقْوَی لَکُمْ۔ (مسلم ۱۰۲۔ ابوداؤد ۲۳۹۸)
(٣٣٥٩٧) حضرت قزعہ (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابو سعید (رض) سے سفر میں روزہ رکھنے کے متعلق پوچھا ؟ تو آپ (رض) نے ارشاد فرمایا : ہم نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ سفر کیا پس ہم نے بھی روزہ رکھا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی روزہ رکھا یہاں تک کہ ہم ایک جگہ اترے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : بلاشبہ تم اب اپنے دشمن کے قریب آگئے ہو تو تمہارے لیے روزہ کشائی زیادہ فائدہ مند ہے۔

33597

(۳۳۵۹۸) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا إسْمَاعِیلُ بْنُ أَبِی خَالِدٍ ، عَنْ قَیْسِ بْنِ أَبِی حَازِمٍ ، قَالَ : دَخَلَ الزُّبَیْرُ عَلَی عَمَّارٍ ، أَوْ عُثْمَانَ بَعْدَ وَفَاۃِ عَبْدِ اللہِ ، فَقَالَ : أَعْطِنِی عَطَائَ عَبْدِ اللہِ فَعِیَالُ عَبْدِ اللہِ أَحَقُّ بِہِ مِنْ بَیْتِ الْمَالِ ، قَالَ : فَأَعْطَاہُ خَمْسَۃَ عَشَرَ أَلْفًا۔
(٣٣٥٩٨) حضرت قیس بن ابی حازم (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) کی وفات کے بعد حضرت زبیر (رض) حضرت عمار (رض) یا حضرت عثمان (رض) کے پاس آئے اور فرمایا : حضرت عبداللہ کی سالانہ تنخواہ مجھے دو ۔ اس لیے کہ حضرت عبداللہ کے اہل خانہ بیت المال سے زیادہ اس کے حقدار ہیں۔ راوی کہتے ہیں۔ پس انھوں نے ان کو پندرہ ہزار درہم عطا کردیے۔

33598

(۳۳۵۹۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ صَالِحٍ ، عَنْ سِمَاکِ بْنِ حَرْبٍ ، عَنْ أَشْیَاخِ الْحَیِّ ، قَالُوا : مَاتَ رَجُلٌ وَقَدْ مَضَی لَہُ ثُلُثَا السَّنَۃِ فَأَمَرَ لَہُ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ بِثُلُثِی عَطَائِہِ۔
(٣٣٥٩٩) حضرت سماک بن حرب حضرت الحی (رض) کے شیوخ سے نقل کرتے ہیں انھوں نے فرمایا : ایک آدمی مرگیا اس حال میں کہ سال کا تہائی حصہ گزر چکا تھا تو حضرت عمر بن خطاب (رض) نے اس کے لیے سالانہ تنخواہ کے دو تہائی حصہ کی ادائیگی کا حکم دیا۔

33599

(۳۳۶۰۰) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنِی عَبَّاسٌ أَنَّ الْمُطَّلِبَ بْنَ عَبْدِ اللہِ بْنِ قَیْسِ بْنِ مَخْرَمَۃَ أَخْبَرَہُ أَنَّ امْرَأَۃً شکت إلی عَائِشَۃَ الْحَاجَۃَ ، قَالَتْ : وَمَا لَکَ ؟ قَالَتْ : کُنَّا نَأْخُذُ عَطَائَ إنْسَانٍ مَیِّتٍ فَرَفَعْنَاہُ ، فَقَالَتْ عَائِشَۃُ : لِمَ فَعَلْتُمْ ، أَخَرَجتم سَہمًا مِنْ فَیْئِ اللہِ کَانَ یَدْخُلُ عَلَیْکُمْ أَخْرَجْتُمُوہُ مِنْ بَیْنِکُمْ، وذَلِکَ فِی زَمَانِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ۔
(٣٣٦٠٠) حضرت مطلب بن عبداللہ بن قیس بن مخرمہ (رض) فرماتے ہیں کہ ایک عورت نے حضرت عائشہ (رض) سے اپنی ضرورت کی شکایت کی تو آپ (رض) نے فرمایا : تجھے کیا ہوا ؟ وہ کہنے لگی : ہم لوگ ایک مردہ انسان کی سالانہ تنخواہ لیتے تھے پس اب ہم نے اس کو ختم کردیا۔ اس پر حضرت عائشہ (رض) نے فرمایا : تم نے ایسا کیوں کیا ؟ تم نے اللہ کے مال سے وہ حصہ نکال دیا جو تم پر داخل ہوتا تھا اور تم نے اس کو اپنے گھر سے نکال دیا ! اور یہ واقعہ حضرت عمر بن خطاب (رض) کے زمانہ خلافت کا ہے۔

33600

(۳۳۶۰۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، قَالَ: حدَّثَنَا أَبُو الْمِقْدَامِ ہِشَامُ بْنُ زِیَادٍ مَوْلَی لِعُثْمَانَ، عَنْ أَبِیہِ أَنَّ عُثْمَانَ کَانَ یُوَرِّثُ الْعَطَائَ۔
(٣٣٦٠١) حضرت ابو المقدام ہشام بن زیاد جو حضرت عثمان کے آزاد کردہ غلام ہیں وہ اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ حضرت عثمان (رض) سالانہ تنخواہ کا وارث بناتے تھے۔

33601

(۳۳۶۰۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، عَنْ سُفْیَانَ، عَنْ أَبِیہِ، عَنْ أَبِی حَیَّانَ ، عَنْ عَامِرٍ ، قَالَ: لاَ بَأْسَ أَنْ یُؤْخَذَ لِلْمَیِّتِ عَطَاؤُہُ۔
(٣٣٦٠٢) حضرت ابو حیان (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عامر (رض) نے ارشاد فرمایا : کہ میت کے سالانہ عطیہ کے لینے میں کوئی حرج نہیں۔

33602

(۳۳۶۰۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا قَیْسٌ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ مَوْلَی لِعَلِیِّ بْنِ حُسَیْنٍ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ حُسَیْنٍ ، قَالَ : لاَ بَأْسَ أَنْ یُؤْخَذَ لِلْمَیِّتِ عَطَاؤُہُ۔
(٣٣٦٠٣) حضرت علی بن حسین (رض) کے آزاد کردہ غلام سے مروی ہے کہ حضرت علی بن حسین (رض) نے ارشاد فرمایا : میت کے سالانہ عطیہ لینے میں کوئی حرج نہیں۔

33603

(۳۳۶۰۴) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللہِ الأَسَدِیُّ ، عَنْ مَعْقِلٍ ، قَالَ : کَانَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیزِ إذَا مَاتَ الرَّجُلُ وَقَدِ اسْتَکْمَلَ السَّنَۃَ أَعْطَی وَرَثَتَہُ عَطَائَہُ کُلَّہُ۔
(٣٣٦٠٤) حضرت معقل (رض) فرماتے ہیں کہ جب کوئی آدمی مرجاتا اس حال میں کہ سال مکمل ہوچکا ہوتا تو حضرت عمر بن عبدالعزیز (رض) اس کے ورثہ کو اس کا سالانہ عطیہ عطا فرما دیتے تھے۔

33604

(۳۳۶۰۵) حَدَّثَنَا عِیسَی بْنُ یُونُسَ ، عَنِ الأَوْزَاعِیِّ أَنَّ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِیزِ أَوْصَی عَامِلَہُ فِی الْغَزْوِ أَنْ لاَ یَرْکَبَ دَابَّۃً إِلاَّ دَابَّۃً یکون سَیْرَہَا أَضْعَفَ دَابَّۃٍ فِی الْجَیْشِ۔
(٣٣٦٠٥) امام اوزاعی (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن عبد العزیز (رض) نے لشکر پر مقرر امیر کو وصیت فرمائی کہ وہ کسی جانور پر سوار نہیں ہوگا۔ مگر ایسے جانور پر کہ جس کی چال لشکر میں موجود تمام جانوروں سے سست ہو۔

33605

(۳۳۶۰۶) حَدَّثَنَا ابْنُ مُبَارَکٍ، عَنْ أُمَیَّۃَ الشَّامِیَّ، قَالَ: کَانَ مَکْحُولٌ وَرَجَائُ بْنُ حَیْوَۃَ یَخْتَارَانِ السَّاقَۃَ لاَ یُفَارِقَانِہَا۔
(٣٣٦٠٦) حضرت امیۃ الشامی (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت مکحول اور حضرت رجاء بن حیوہ (رض) لشکر کے پچھلے حصہ کو پسند کرتے تھے اور یہ دونوں اس حصہ سے جدا نہیں ہوتے تھے۔

33606

(۳۳۶۰۷) حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُبَارَکِ ، عَنْ جُمَیْعِ بْنِ عَبْدِ اللہِ الْمُقْرِی أَنَّ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِیزِ نَہَی الْبَرِیدَ أَنْ یَجْعَلَ فِی طَرَفِ السَّوْطِ حَدِیدَۃً أَنْ یَنْخُسَ بِہَا الدَّابَّۃَ ، قَالَ : وَنَہَی عَنِ اللُّجُمِ۔
(٣٣٦٠٧) حضرت جُمیع بن عبداللہ المقری (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن عبد العزیز (رض) نے اس بات سے منع فرمایا : کہ قاصد کوڑے کے آخر میں لوہا لگائے تاکہ اس کے ذریعہ سے وہ جانور کو تیز دوڑائے۔ اور آپ (رض) نے لگاموں سے بھی منع فرمایا۔

33607

(۳۳۶۰۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ زُہَیْرِ بْنِ أَبِی ثَابِتٍ ، عَنْ ذُہْلِ بْنِ أَوْسٍ ، عَنْ تَمِیمِ بْنِ مُسَیْحٍ ، قَالَ : خَرَجْت مِنَ الدَّارِ وَلَیْسَ لِی وَلَدٌ فَأَصَبْت لَقِیطًا فَأَخْبَرْت بِہِ عُمَرَ ، فَأَلْحَقَہُ فِی مِئَۃٍ۔
(٣٣٦٠٨) حضرت ذھل بن اوس (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت تمیم بن مسیح (رض) نے ارشاد فرمایا : کہ میں گھر سے نکلا اس حال میں کہ میرا کوئی بچہ نہیں تھا پس مجھے راستہ میں ایک نومولود بچہ ملا جس کا باپ معلوم نہیں تھا۔ میں نے حضرت عمر (رض) کو اس کی خبر دی تو آپ (رض) نے اس کے لیے میرے عطیہ میں سو درہم کا اضافہ فرما دیا۔

33608

(۳۳۶۰۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا الأَعْمَشُ ، عَنْ زُہَیْرٍ الَعَنَسِیّ أَنَّ رَجُلاً الْتَقَطَ لَقِیطًا فَأَتَی بِہِ عَلِیًّا ، فَأَعْتَقَہُ وَأَلْحَقَہُ فِی مِئَۃٍ۔
(٣٣٦٠٩) حضرت اعمش (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت زھیر عبسی (رض) نے ارشاد فرمایا : کہ ایک آدمی کو نومولود بچہ پڑا ہوا ملا جس کا باپ معلوم نہیں تھا پس وہ اس بچہ کو حضرت علی (رض) کے پاس لے آیا۔ آپ (رض) نے اس کو آزاد قرار دیا۔ اور اس کے لیے سور درہم مقرر کردیے۔

33609

(۳۳۶۱۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ مُوسَی الْجُہَنِیِّ ، قَالَ : رَأَیْتُ وَلَدَ زِنًا أَلْحَقَہُ عَلِیٌّ فِی مِئَۃٍ۔
(٣٣٦١٠) حضرت موسیٰ جھنی (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے ایک ولد الزنا کو دیکھا کہ حضرت علی (رض) نے اس کے لیے سو درہم مقرر کردیے ۔

33610

(۳۳۶۱۱) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ حُصَیْنٍ أَنَّ رَجُلَیْنِ مِنْ أَہْلِ أُلَّیْسِ أَسْلَمَا فِی عَہْدِ عُمَرَ ، قَالَ : فَأَتَیَا عُمَرَ فَأَخْبَرَاہُ بِإِسْلاَمِہِمَا فَکَتَبَ لَہُمَا إلَی عُثْمَانَ بْنِ حُنَیْفٍ أَنْ یَرْفَعَ الْجِزْیَۃَ عَنْ رُؤُوسِہِمَا، وَیَأْخُذَ الطُّسْقَ مِنْ أَرْضَیْہِمَا۔
(٣٣٦١١) حضرت حصین (رض) فرماتے ہیں کہ اہل الیس میں سے دو آدمیوں نے حضرت عمر (رض) کے زمانہ میں اسلام قبول کیا۔ پس وہ دونوں حضرت عمر (رض) کے پاس آئے اور انھوں نے آپ (رض) کو اپنے اسلام کے بارے میں بتلایا۔ آپ (رض) نے ان دونوں کے بارے میں حضرت عثمان بن حنیف (رض) کو خط لکھا کہ وہ ان سے جزیہ ختم کردیں۔ اور اس کی زمین کا خراج لیں۔

33611

(۳۳۶۱۲) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ سَیَّارٍ ، عَنِ الزُّبَیْرِ بْنِ عَدِیٍّ الْیَامِیِّ أَنْ دِہْقَانًا أَسْلَمَ عَلَی عَہْدِ عَلِیٍّ ، فَقَالَ لَہُ عَلِیٌّ : إِنْ أَقَمْت فِی أَرْضِکَ رَفَعْنَا الْجِزْیَۃَ عَنْ رَأْسِکَ وَأَخَذْنَاہَا مِنْ أَرْضِکَ ، وَإِنْ تَحَوَّلْتَ عنہا فَنَحْنُ أَحَقُّ بِہَا۔
(٣٣٦١٢) حضرت زبیر بن عدی الیامی (رض) فرماتے ہیں کہ ایک جاگیر دار حضرت علی (رض) کے زمانہ میں اسلام لایا۔ حضرت علی (رض) نے اس سے فرمایا : اگر تم اپنی زمین میں ہی قائم رہو گے تو ہم تمہارے سر سے جزیہ ختم کردیں گے۔ اور تمہاری زمین سے عشر لیں گے۔ اور اگر تم وہاں سے منتقل ہو جاؤ گے تو ہم اس زمین کے زیادہ حقدار ہیں۔

33612

(۳۳۶۱۳) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ قَیْسٍ ، عَنْ أَبِی عَوْنٍ مُحَمَّدِ بْنِ عُبَیْدِ اللہِ الثَّقَفِیِّ ، عَنْ عُمَرَ وَعَلِیٍّ ، قَالاَ : إذَا أَسْلَمَ وَلَہُ أَرْضٌ وَضَعْنَا عَنْہُ الْجِزْیَۃَ وَأَخَذْنَا خَرَاجَہَا۔
(٣٣٦١٣) حضرت ابو عون محمد بن عبید اللہ ثقفی (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) اور حضرت علی (رض) ان دونوں حضرات نے ارشاد فرمایا : جب کوئی ذمی اسلام لے آئے اور اس کی کوئی زمین بھی ہو تو ہم اس سے جزیہ ختم کردیں گے اور اس کی زمین کا خراج وصول کریں گے۔

33613

(۳۳۶۱۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ قَیْسِ بْنِ مُسْلِمٍ ، عَنْ طَارِقِ بْنِ شِہَابٍ أَنَّ دِہْقَانَۃً مِنْ أَہْلِ نَہْرِ الْمَلِکِ أَسْلَمَتْ ، فَقَالَ عُمَرُ : ادْفَعُوا إلَیْہَا أَرْضَہَا تُؤَدِّی عنہا الْخَرَاجَ۔
(٣٣٦١٤) حضرت طارق بن شھاب (رض) فرماتے ہیں کہ نھر الملک والوں میں سے ایک جاگیر دار عورت اسلام لے آئی، حضرت عمر (رض) نے فرمایا : اس کی زمین اس کو لوٹا دو ، وہ اس کا خراج ادا کرے گی۔

33614

(۳۳۶۱۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ حَدَّثَنَا حَسَنُ بْنُ صَالِحٍ ، عَنْ قَیْسِ بْنِ مُسْلِمٍ ، عَنْ طَارِقِ بْنِ شِہَابٍ أَنَّ دِہْقَانَۃً أَسْلَمَتْ فَکَتَبَ عُمَرُ أَنْ خَیِّرُوہَا۔
(٣٣٦١٥) حضرت قیس بن مسلم (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت طارق بن شھاب (رض) نے ارشاد فرمایا : کہ ایک جاگیر دار عورت اسلام لے آئی تو حضرت عمر (رض) نے خط لکھا : کہ اس عورت کو انتخاب کرنے کا موقع دو ۔

33615

(۳۳۶۱۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، حَدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ عَامِرٍ أَنَّ الرَّفِیلَ دِہْقَانُ النَّہْرَیْنِ أَسْلَمَ ، فَعَرَضَ لَہُ عُمَرُ فِی أَلْفَیْنِ ، وَرَفَعَ عَنْ رَأْسِہِ الْجِزْیَۃَ ، وَدَفَعَ إلَیْہِ أَرْضَہُ یُؤَدِّی عنہا الْخَرَاجَ۔
(٣٣٦١٦) حضرت عامر (رض) فرماتے ہیں کہ رفیل جو نھرین کا جاگیردار تھا وہ اسلام لے آیا، حضرت عمر (رض) نے اس کے لیے دو ہزار عطیہ مقرر کردیا۔ اور س کے سر سے جزیہ ہٹا دیا ، ور اس کی زمین اس کو واپس کردی کہ وہ اس کا خراج ادا کرے گا۔

33616

(۳۳۶۱۷) حَدَّثَنَا حُمَیْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ حَسَنٍ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : إذَا أَسْلَمَ الرَّجُلُ مِنْ أَہْلِ السَّوَادِ ، ثُمَّ أَقَامَ بِأَرْضِہِ أُخِذَ مِنْہُ الْخَرَاجُ ، فَإِنْ خَرَجَ مِنْہَا لَمْ یُؤْخَذْ مِنْہُ الْخَرَاجُ۔
(٣٣٦١٧) حضرت منصور (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم (رض) نے ارشاد فرمایا : جب شہر والوں میں سے کوئی آدمی اسلام لے آتا پھر وہ اپنی زمین میں ہی مقیم رہتا تو اس سے خراج وصول کیا جاتا تھا۔ اگر وہ اس جگہ سے نکل جاتا تو اس سے خراج وصول نہیں کیا جاتا تھا۔

33617

(۳۳۶۱۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ قَیْسٍ ، عَنْ عَامِرٍ ، قَالَ : لَمْ یَکُنْ لأَہْلِ السَّوَادِ عَہْدٌ ، فَلَمَّا رَضُوا مِنْہُمْ بِالْجِزْیَۃِ صَارَ لَہُمْ عَہْدٌ۔
(٣٣٦١٨) حضرت محمد بن قیس (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عامر (رض) نے ارشاد فرمایا : شہر والوں کے لیے کوئی عہد نہیں تھا، پس وہ لوگ ان کی جانب سے جزیہ پر راضی ہوجاتے تو یہ ہی ان کا معاہدہ ہوتا تھا۔

33618

(۳۳۶۱۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا إسْرَائِیلُ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ عَامِرٍ ، قَالَ : لَیْسَ لأَہْلِ السَّوَادِ عَہْد ، إنَّمَا نَزَلُوا عَلَی الْحُکْمِ۔
(٣٣٦١٩) حضرت جابر (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عامر (رض) نے ارشاد فرمایا : شہر والوں کے لیے کوئی عہد نہیں ہے۔ یہ تو وہ لوگ ہی فیصلہ کریں گے ۔

33619

(۳۳۶۲۰) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ ، قَالَ : السَّوَادُ بَعْضُہُ صُلْحٌ وَبَعْضُہُ عُنْوَۃٌ۔
(٣٣٦٢٠) حضرت اشعث (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت ابن سیرین (رض) نے ارشاد فرمایا : شہر میں بعضوں سے صلح ہوتی ہے اور بعض کو قیدی بناتے ہیں۔

33620

(۳۳۶۲۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُدَیْرٍ ، عَنْ أَبِی مِجْلَزٍ ، قَالَ : لَمَّا أَسْلَمَ الْہُرْمُزَانُ والفیرزان ، قَالَ لَہُمَا عُمَرُ : إنَّمَا بِکُمَا الْجِزْیَۃُ ، إنَّ الإِسْلاَمَ لَحَقِیقٌ أَنْ یُعِیذَ مِنَ الْجِزْیَۃِ۔
(٣٣٦٢١) حضرت ابو مجلز (رض) فرماتے ہیں کہ جب ہرمزان اور فیرزان اسلام لے آئے تو حضرت عمر (رض) نے ان دونوں سے فرمایا : بیشک تم دونوں پر جزیہ ہوگا۔ اگرچہ اسلام کا حق تو یہ ہے کہ وہ جزیہ سے بچا لے۔

33621

(۳۳۶۲۲) حَدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنِ الْمِقْدَامِ بْنِ شُرَیْحٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ عَائِشَۃَ ، قَالَتْ : کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَبْدُو إلَی ہَذِہِ التِّلاَعِ۔
(٣٣٦٢٢) حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان ٹیلوں کی طرف جایا کرتے تھے۔

33622

(۳۳۶۲۳) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : خَرَجَ عَلْقَمَۃُ ، وَعَبْدُ الرَّحْمَن بْنُ أَبِی لَیْلَی إلَی بَدْوٍ لَہُمْ۔
(٣٣٦٢٣) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت علقمہ (رض) اور حضرت عبد الرحمن بن ابی لیلیٰ (رض) اپنے خانہ بدوش قبیلہ کی طرف نکلے۔

33623

(۳۳۶۲۴) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : کَانَ عَلْقَمَۃُ یَتَبَدَّی إلَی النَّجَفِ۔
(٣٣٦٢٤) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت علقمہ (رض) جنگل کے ٹیلہ میں میقم ہوتے تھے۔

33624

(۳۳۶۲۵) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ أَبِی الْعُمَیْسِ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ الأَقْمَرِ ، قَالَ : خَرَجَ مَسْرُوقٌ وَعُرْوَۃُ بْنُ الْمُغِیرَۃِ إلَی بَدْوٍ لَہُمْ۔
(٣٣٦٢٥) حضرت علی بن اقمر (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت مسروق (رض) اور حضرت عروہ بن مغیرہ (رض) اپنے خانہ بدوش قبیلے کی طرف نکلے۔

33625

(۳۳۶۲۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سَعِیدُ بْنُ السَّائِبِ الطَّائِفِیُّ ، عَنْ صَالِحِ بْنِ سَعْدٍ ، قَالَ : خَرَجْت مَعَ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِیزِ إلَی السُّوَیْدَائِ مُتَبَدِّیًا۔
(٣٣٦٢٦) حضرت صالح بن سعد (رض) فرماتے ہیں کہ میں حضرت عمر بن عبد العزیز کے ساتھ سویدا مقام کی طرف میں خانہ بدوش بن کر نکلا۔

33626

(۳۳۶۲۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ خَالِدٍ ، عَنْ مُعَاوِیَۃَ بْنِ قُرَّۃَ ، قَالَ : کَانَ یُقَالُ: الْبَدَاوَۃُ شَہْرَانِ ، فَمَنْ زَادَ فَہُوَ تعَرُّبٌ۔
(٣٣٦٢٧) حضرت خالد فرماتے ہیں کہ حضرت معاویہ بن قرہ (رض) نے ارشاد فرمایا : یوں کہا جاتا تھا کہ خانہ بدوشی تو دو مہینہ تک ہوتی ہے اور جو اس سے زیادہ دیر تک رہے وہ دیہاتی بن جاتا ہے۔

33627

(۳۳۶۲۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ أَبِی مُوسَی ، عَنِ ابْنِ مُنَبَّہٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَنْ بَدَا جَفَا ، وَمَنَ تَبِعَ الصَّیْدَ غَفَلَ۔ (ابوداؤد ۲۸۵۳۔ ترمذی ۲۲۵۶)
(٣٣٦٢٨) حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جو جنگل میں مقیم ہوتا ہے۔ وہ جفاکش بن جاتا ہے۔ اور جو شکار کا پیچھا کرتا ہے۔ وہ غافل ہوجاتا ہے۔

33628

(۳۳۶۲۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا الأَعْمَشُ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : بَدَوْنَا مَعَ عَلْقَمَۃَ وَکَانَ عَبْدُ الرَّحْمَن بْنُ أَبِی لَیْلَی قَرِیبًا مِنَّا۔
(٣٣٦٢٩) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ ہم لوگ حضرت علقمہ کے ساتھ صحرا میں مقیم ہوئے اور حضرت عبد الرحمن بن ابی لیلیٰ (رض) بھی ان کے قریب ہی تھے۔

33629

(۳۳۶۳۰) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ حُصَیْنٍ أَنَّ رَجُلاً اشْتَرَی أَمَۃً یَوْمَ الْقَادِسِیَّۃِ مِنَ الْفَیْئِ ، فَأَتَتْہُ بِحَلْیٍّ کَانَ مَعَہَا ، فَأَتَی سَعْدَ بْنَ أَبِی وَقَّاصٍ فَأَخْبَرَہُ ، فَقَالَ : اجْعَلْہُ فِی غَنَائِمِ الْمُسْلِمِینَ۔
(٣٣٦٣٠) حضرت حصین (رض) فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے جنگ قادسیہ کے دن مال غنیمت میں سے باندی خریدی جو اپنے ساتھ زیورات بھی لائی جو اس کے پاس تھے۔ پس وہ شخص حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) کے پاس آئے اور آپ (رض) کو اس بارے میں بتلایا۔ آپ (رض) نے ارشاد فرمایا : ان زیورات کو مسلمانوں کے مال غنیمت میں ڈال دو ۔

33630

(۳۳۶۳۱) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِِ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ زَیْدٍ ، قَالَ : اشْتَرَیْت جَارِیَۃً فِی خُمْسٍ فَوَجَدْت مَعَہَا خَمْسَۃَ عَشَرَ دِینَارًا ، فَأَتَیْت بِہَا عَبْدَ الرَّحْمَن بْنِ خَالِدِ بْنِ الْوَلِیدِ ، فَقَالَ : ہِیَ لَک۔
(٣٣٦٣١) حضرت ابو اسحاق (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت محمد بن زید (رض) نے ارشاد فرمایا : کہ میں نے مال خمس میں سے ایک باندی خریدی تو میں نے اس کے ساتھ پندرہ دینار بھی پائے۔ میں حضرت عبد الرحمن بن خالد بن ولید (رض) کی خدمت میں وہ دینار لایا ۔ تو آپ (رض) نے فرمایا : یہ دینار تمہارے ہیں۔

33631

(۳۳۶۳۲) حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ عَیَّاشٍ ، عَنِ الشَّیْبَانِیِّ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ؛ فِی الرَّجُلِ اشْتَرَی سَبِیَّۃً مِنَ الْمَغْنَمِ ، فَوَجَدَ مَعَہَا فِضَّۃً ، قَالَ : یَرُدُّہ۔
(٣٣٦٣٢) حضرت شیبانی (رض) فرماتے ہیں کہ امام شعبی (رض) نے اس شخص کے بارے میں جو مال غنیمت میں کسی قیدی باندی کو خریدے اور اس کے ساتھ چاندی بھی پائے یوں ارشاد فرمایا : کہ وہ اس چاندی کو واپس لوٹا دے گا۔

33632

(۳۳۶۳۳) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنِ ابْنِ أَبِی نَجِیحٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، قَالَ : لاَ بَأْسَ بِبَیْعِ مِنْ یَزِیدُ کَذَلِکَ کَانَتْ تُبَاعُ الأَخْمَاسُ۔
(٣٣٦٣٣) حضرت ابن ابی نجیح (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت مجاہد (رض) نے ارشاد فرمایا : کہ زیادتی کی بیع میں کوئی حرج نہیں۔ اسی طرح خمس کے اموال فروخت کیے جاتے تھے۔

33633

(۳۳۶۳۴) حَدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ بْنُ عَیَّاشٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُہَاجِرٍ أَنَّ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِیزِ بَعَثَ عَمِیرَۃَ بْنَ زَیْدِ الْفِلَسْطِینِیِّ یَبِیعُ السَّبْیَ فِیمَنْ یَزِیدُ۔
(٣٣٦٣٤) حضرت عمرو بن مہاجر (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن عبد العزیز (رض) نے عمیرہ بن یزید فلسطینی کو بھیجا کہ وہ قیدی فروخت کریں اس شخص کو جو زیادہ قیمت ادا کرے۔

33634

(۳۳۶۳۵) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، وَابْنِ سِیرِینَ أَنَّہُمَا کَرِہَا بَیْعَ مَنْ یَزِیدُ إِلاَّ بَیْعَ الْمَوَارِیثِ وَالْغَنَائِمِ۔
(٣٣٦٣٥) حضرت اشعث (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت حسن بصری (رض) اور حضرت ابن سیرین (رض) یہ دونوں حضرات زیادتی کرنے والی بیع کو مکروہ سمجھتے تھے ۔ سوائے وراثت اور مال غنیمت کی بیع کے۔

33635

(۳۳۶۳۶) حَدَّثَنَا عِیسی بْنُ یُونُسَ وَمُعْتَمِرُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنِ الأَخْضَرِ بْنِ عَجْلاَنَ ، عَنْ أَبِی بَکْرٍ الْحَنَفِیِّ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَاعَ حِلْسًا وَقَدَحًا فِیمَنْ یَزِیدُ ، إِلاَّ أَنَّ مُعْتَمِرًا ، قَالَ : عَنْ أَنَسٍ ، عَنْ رَجُلٍ مِنَ الأَنْصَارِ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔
(٣٣٦٣٦) حضرت انس بن مالک (رض) فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک دری اور پیالہ فروخت فرمایا اس شخص کو جس نے زیادہ قیمت لگائی۔ حضرت معتمر فرماتے ہیں کہ یہ روایت حضرت انس (رض) نے کسی انصاری صحابی کے واسطہ سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل فرمائی ہے۔

33636

(۳۳۶۳۷) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَۃَ ، عَنْ أَبِی جَعْفَرٍ الْخِطْمِیِّ أَنَّ الْمُغِیرَۃَ بْنَ شُعْبَۃَ بَاعَ الْمَغَانِمَ فِیمَنْ یَزِیدُ۔
(٣٣٦٣٧) حضرت ابو جعفر خطمی (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت مغیرہ بن شعبہ (رض) نے غنیمت کا مال بیع من یزید کی صورت میں فروخت کیا۔

33637

(۳۳۶۳۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا حِزَامُ بْنُ ہِشَامٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : شَہِدْت عُمَرَ بَاعَ إبِلاً مِنْ إبِلِ الصَّدَقَۃِ فِیمَنْ یَزِیدُ۔
(٣٣٦٣٨) حضرت ہشام (رض) فرماتے ہیں کہ میں حضرت عمر (رض) کے پاس حاضر تھا۔ آپ (رض) نے صدقہ کے اونٹوں میں سے ایک اونٹ زیادتی کی بیع کے ساتھ فروخت کیا۔

33638

(۳۳۶۳۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ ، قَالَ : لاَ بَأْسَ بِبَیْعِ الْمُزَایَدَۃِ۔
(٣٣٦٣٩) حضرت یونس (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت ابن سیرین (رض) نے ارشاد فرمایا : زیادتی کی بیع میں کوئی حرج نہیں ۔

33639

(۳۳۶۴۰) حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ وَرْدَانَ ، عَنْ بُرْدٍ ، عَنْ مَکْحُولٍ ، أَنَّہُ کَانَ یَکْرَہُ بَیْعَ مَنْ یَزِیدُ إِلاَّ الشُّرَکَائَ بَیْنَہُمْ۔
(٣٣٦٤٠) حضرت برد (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت مکحول (رض) زیادتی کرنے والے کی بیع کو مکروہ سمجھتے تھے مگر یہ کہ بیع شرکاء کی آپس میں رضا مندی کے ساتھ ہو۔

33640

(۳۳۶۴۱) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ، عَنْ مُغِیرَۃَ، عَنْ حَمَّادٍ، قَالَ: لاَ بَأْسَ بِبَیْعِ مَنْ یَزِیدُ: أَنْ تَزِیدَ فِی السَّوْمِ إذَا أَرَدْت أَنْ تَشْتَرِیَ۔
(٣٣٦٤١) حضرت مغیرہ (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت حماد (رض) نے ارشاد فرمایا : زیادتی والی بیع میں کوئی حرج نہیں۔ اور وہ یہ ہے کہ جب تمہارا خریدنے کا ارادہ ہو تو تم بھاؤ میں اضافہ کرتے ہو۔

33641

(۳۳۶۴۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ عَمَّنْ سَمِعَ مُجَاہِدًا وَعَطَائً یَقُولاَنِ : لاَ بَأْسَ بِبَیْعِ مَنْ یَزِیدُ۔
(٣٣٦٤٢) حضرت سفیان (رض) اس شخص سے نقل کرتے ہیں جس نے حضرت مجاہد (رض) اور حضرت عطائ (رض) ان دونوں حضرات کو یوں فرماتے ہوئے سنا کہ زیادتی کرنے والی بیع میں کوئی حرج نہیں ۔

33642

(۳۳۶۴۳) حَدَّثَنَا عَثام بْنُ عَلِیٍّ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنِ ابْنِ مُضَرِّبٍ ، قَالَ : قسَمَ عُمَرُ السَّوَادَ بَیْنَ أَہْلِ الْکُوفَۃِ فَأَصَابَ کُلُّ رَجُلٍ مِنْہُمْ ثَلاَثَۃَ فَلاَّحِینَ ، فَقَالَ لَہُ عُمَرُ : فَمَنْ یَکُونُ لَہُمْ بَعْدَہُمْ ، فَتَرَکَہُمْ۔
(٣٣٦٤٣) حضرت ابن مضرب (رض) فرماتے ہیں حضرت عمر (رض) نے زرعی زمین اہل کوفہ کے درمیان تقسیم فرما دی اس طرح ہر شخص کے حصہ میں تین کسان آئے۔ اس پر حضرت عمر (رض) نے ان سے فرمایا : اس تقسیم کے بعد ان لوگوں کو کیا ملے گا ؟ پھر آپ (رض) نے ان سب کو چھوڑ دیا۔

33643

(۳۳۶۴۴) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ بَیَانٍ ، عَنْ قَیْسٍ ، قَالَ : کَانَ لِبُجَیْلَۃَ رُبْعُ السَّوَادِ ، فَقَالَ عُمَرُ : لَوْلاَ أَنِّی قَاسِمٌ مَسْئُولٌ مَا زِلْتُمْ عَلَی الَّذِی قُسِمَ لَکُمْ۔
(٣٣٦٤٤) حضرت قیس (رض) فرماتے ہیں کہ بجیلہ کے پاس بہت سی زمین تھی۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا کہ اگر میں تقسیم کرنے والا اور نگران ہوتا تو تمہارے پاس وہی ہوتا جو تم میں تقسیم ہوا تھا۔

33644

(۳۳۶۴۵) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ، عَنْ بُشَیْرِ بْنِ یَسَارٍ ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حِینَ ظَہَرَ عَلَی خَیْبَرَ ، وَصَارَتْ خَیْبَرُ لِرَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَالْمُسْلِمِینَ ، ضَعُفُوا عن عَمَلِہَا فَدَفَعُوہَا إلَی الْیَہُودِ یَعْمَلُونَہا وَینفقون عَلَیْہَا عَلَی أَنَّ لَہُمْ نِصْفَ مَا خَرَجَ مِنْہَا فَقَسَمَہَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَی سِتَّۃٍ وَثَلاَثِینَ سَہْمًا ، لِکُلِّ سَہْمٍ مِئَۃُ سَہْمٍ ، فَجَعَلَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نِصْفَ ذَلِکَ کُلِّہِ للمسلمین ، فَکَانَ فِی ذَلِکَ النِّصْفِ سِہَامُ الْمُسْلِمِینَ وَسَہْمُ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَعَہُمْ وَجَعَلَ النِّصْفَ الآخَرَ لِمَنْ یَنْزِلُ بِہِ الْوُفُودُ وَالأُمُورُ وَنَوَائِبُ النَّاسِ۔ (ابوداؤد ۳۰۰۴)
(٣٣٦٤٥) حضرت بشیر بن یسار (رض) کسی صحابی (رض) سے نقل کرتے ہیں کہ جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خیبر پر فتح پائی اور خیبرسارے کا سارا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں کا ہوگیا تو یہ لوگ اس میں کام کرنے سے تھک گئے تو انھوں نے یہ زمینیں یہود کو دے دیں کہ وہ ان میں کام کریں اور اس پر خرچ کریں اس شرط پر کہ پیدا ہونے والی کھیتی کا آدھا حصہ ان کو ملے گا۔ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو چھتیس حصوں میں تقیسم کردیا اس طرح کہ ہر حصہ میں سو حصے تھے۔ پس رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس تمام کا نصف حصہ مسلمانوں کے لیے خاص کردیا اس طرح کہ اس آدھے میں مسلمانوں کے بھی حصہ تھے اور ان کے ساتھ ہی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا بھی حصہ تھا۔ اور دوسرے نصف کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آنے والے وفود کے لیے دوسرے معاملات اور لوگوں کے مصائب کے لیے خاص کردیا۔

33645

(۳۳۶۴۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ حَبِیبِ بْنِ أَبِی ثَابِتٍ ، عَنْ أَبِی وَائِلٍ ، قَالَ : قَالَ عُمَرُ : لَئِنْ بَقِیْتُ لآخُذَنَّ فَضْلَ مَالِ الأَغْنِیَائِ ، وَلأَقْسِمَنَّہُ فِی فُقَرَائِ الْمُہَاجِرِینَ۔
(٣٣٦٤٦) حضرت ابو وائل فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے ارشاد فرمایا : اگر میں زندہ رہا تو میں ضرور بالضرور مالداروں کا زائد مال لے لوں گا اور میں اسے فقراء مہاجرین کے درمیان تقسیم کر دوں گا۔

33646

(۳۳۶۴۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حَدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ وَاصِلٍ الأَحْدَبِ ، عَنْ أَبِی وَائِلٍ ، قَالَ : جَلَسْت إلَی شَیْبَۃَ بْنِ عُثْمَانَ ، فَقَالَ لِی ، جَلَسَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ مَجْلِسَک ہَذَا ، فَقَالَ : لِی : لَقَدْ ہَمَمْت أَنْ لاَ أَدَعَ فِی الْکَعْبَۃِ صَفْرَائَ ، وَلاَ بَیْضَائَ إِلاَّ قَسَمْتہَا بَیْنَ النَّاسِ ، قَالَ : قُلْتُ لَہُ : لَیْسَ ذَلِکَ إلَیْک ، قَدْ سَبَقَک صَاحِبَاک فَلَمْ یَفْعَلاَ ذَلِکَ ، قَالَ : ہُمَا الْمَرْآنِ یُقْتَدَی بِہِمَا۔ (بخاری ۱۵۹۴۔ احمد ۴۱۰)
(٣٣٦٤٧) حضرت ابو وائل (رض) فرماتے ہیں کہ میں حضرت شیبہ بن عثمان (رض) کے پاس بیٹھا تو انھوں نے مجھ سے فرمایا : کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) تمہاری اس جگہ پر بیٹھے تھے اور مجھ سے فرمایا : کہ تحقیق میرا ارادہ ہے کہ میں کعبہ میں کوئی سونا چاندی نہیں چھوڑوں گا مگر میں اس کو لوگوں کے درمیان تقسیم کر دوں گا۔ میں نے ان سے کہا : اس کا آپ (رض) کو اختیار نہیں ہے۔ تحقیق آپ (رض) کے دو ساتھی گزر چکے اور ان دونوں نے یہ کام نہیں کیا۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : ہاں وہ دونوں ایسی شخصیات ہیں کہ ان کی اقتداء کی جانی چاہیے ۔

33647

(۳۳۶۴۸) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ مَالِکِ بْنِ أَنَسٍ ، عَنْ زَیْدِ بْنِ أَسْلَمَ ، عْن أَسْلَمَ ، قَالَ : سَمِعْتُ عُمَرَ یَقُولُ : وَالَّذِی نَفْسُ عُمَرَ بِیَدِہِ ، لَوْلاَ أَنْ یُتْرَکَ آخِرُ النَّاسِ لاَ شَیْئَ لَہُمْ مَا افْتُتِحَ عَلَی الْمُسْلِمِینَ قَرْیَۃٌ مِنْ قُرَی الْکُفَّارِ إِلاَّ قَسَمْتُہَا سُہْمَانًا کَمَا قَسَمَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خَیْبَرَ سُہْمَانًا ، وَلَکِنْ أَرَدْت أَنْ یَکُونَ جِرْیَۃً تَجْرِی عَلَیْہِمْ وَکَرِہْتُ أَنْ یُتْرَکَ آخِرُ النَّاسِ لاَ شَیْئَ لَہُمْ۔ (بخاری ۲۳۳۴۔ احمد ۴۰)
(٣٣٦٤٨) حضرت اسلم (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر (رض) کو یوں فرماتے ہوئے سنا کہ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں عمر کی جان ہے ! اگر یہ خوف نہ ہوتا کہ بعد والے لوگ رہ جائیں گے اور ان کو کچھ حصہ نہیں ملے گا۔ تو میں جتنی بھی کافروں کی بستیاں مسلمانوں نے فتح کی ہیں ان سب کو ایسے ہی حصوں میں تقسیم کردیتا جیسے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خیبر کو حصوں میں تقسیم فرمایا تھا۔ لیکن میں نے ارادہ کیا ہے کہ ان کے لیے وظیفہ جاری کردیا جائے۔ اس لیے کہ میں ناپسند کرتا ہوں کہ بعد والے لوگ ایسے رہ جائیں کہ ان کے لیے کچھ بھی نہ ہو۔

33648

(۳۳۶۴۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللہِ الشُّعَیْثِیُّ ، عَنْ لَیْثٍ أَبِی الْمُتَوَکِّلِ ، عَنْ مَالِکِ بْنِ أَوْسِ بْنِ الْحَدَثَانِ ، قَالَ : سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ یَقُولُ : مَا مِنْ أَحَدٍ مِنَ الْمُسْلِمِینَ إِلاَّ لَہُ فِی ہَذَا الْفَیْئِ نَصِیبٌ إِلاَّ عَبْدٌ مَمْلُوک ، وَلَئِنْ بَقِیت لَیَبْلُغَنَّ الرَّاعِیَ نَصِیبُہُ مِنْ ہَذَا الْفَیْئِ فِی جِبَالِ صَنْعَائَ۔
(٣٣٦٤٩) حضرت مالک بن أوس الحدثان (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر بن خطاب (رض) کو یوں فرماتے ہوئے سنا : کہ مسلمانوں میں سے ہر شخص کا اس مال غنیمت میں حصہ ہے سوائے غلام کے ، اور اگر میں زندہ رہا تو صنعاء کی پہاڑیوں میں رہنے والے چرواہے کو بھی اس مال غنیمت سے ضرور حصہ پہنچے گا۔

33649

(۳۳۶۵۰) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِینَارٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ مَالِکِ بْنِ أَوْسِ بْنِ الْحَدَثَانِ ، عَنْ عُمَرَ ، قَالَ : کَانَتْ أَمْوَالُ بَنِی النَّضِیرِ مِمَّا أَفَائَ اللَّہُ عَلَی رَسُولِہِ مِمَّا لَمْ یُوجِفْ عَلَیْہِ الْمُسْلِمُونَ بِخَیْلٍ ، وَلاَ رِکَابٍ ، فَکَانَتْ لِلنَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خَاصَّۃً ، فَکَانَ یَحْبِسُ مِنْہَا نَفَقَۃَ سَنَۃٍ ، وَمَا بَقِیَ جَعَلَہُ فِی الْکُرَاعِ وَالسِّلاَحِ عُدَّۃً فِی سَبِیلِ اللہِ۔ (بخاری ۲۹۰۴۔ مسلم ۱۳۷۶)
(٣٣٦٥٠) حضرت مالک بن اوس الحدثان (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے ارشاد فرمایا : بنو نضیر کا مال جو اللہ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عطا فرمایا تھا۔ وہ مسلمانوں کو بغیر قتال کے حاصل ہوا اس میں قتال کی ضرورت نہیں پڑی۔ اور یہ مال نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ خاص تھا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس میں اپنے سال کا خرچہ روک لیتے تھے۔ اور جو باقی بچتا تھا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کو گھوڑے اور اسلحہ کے لیے خاص فرما دیتے ان کو اللہ کے راستہ میں استعمال کرنے کی تیاری کے سلسلہ میں۔

33650

(۳۳۶۵۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا ہِشَامُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنْ زَیْدِ بْنِ أَسْلَمَ ، عْن أَبِیہِ ، قَالَ : أُتِیَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ بِغَنَائِمَ مِنْ غَنَائِمِ جَلُولاَئَ فِیہَا ذَہَبٌ وَفِضَّۃٌ ، فَجَعَلَ یَقْسِمُہُمَا بَیْنَ النَّاسِ ، فَجَائَ ابْنٌ لَہُ ، یُقَالَ لَہُ : عَبْدُ الرَّحْمَن ، فَقَالَ : یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ ، اکْسُنِی خَاتَمًا ، قَالَ : اذْہَبْ إلَی أُمِّکَ تَسْقِیک شَرْبَۃً مِنْ سَوِیقٍ ، قَالَ : فَوَاللہِ مَا أَعْطَاہُ شَیْئًا۔
(٣٣٦٥١) حضرت اسلم (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) کے پاس مقام جلولاء کے غنائم میں سے مال غنیمت لایا گیا جس میں سونا چاندی بھی موجود تھا۔ پس آپ (رض) اس کو لوگوں کے درمیان تقسیم فرما رہے تھے کہ آپ (رض) کا ایک بیٹا آیا جس کا نام عبد الرحمن تھا۔ اس نے کہا : اے امیر المؤمنین ! مجھے بھی ایک انگوٹھی پہنا دیں۔ آپ (رض) نے فرمایا : تو اپنی ماں کے پاس جا وہ تجھے ستّو کا شربت پلائے گی ! اور فرمایا : اللہ کی قسم ! میں اس کو کچھ بھی نہیں دوں گا۔

33651

(۳۳۶۵۲) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ ، قَالَ : حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا أَبُو حَنْظَلَۃَ بْنُ نُعَیم أَنَّ سَعْدًا کَتَبَ إلَی عُمَرَ أَنَّا أَخَذْنَا أَرْضًا لَمْ یُقَاتِلْنَا أَہْلُہَا ، قَالَ : فَکَتَبَ إلَیْہِ عُمَرُ : إِنْ شِئْتُمْ أَنْ تَقْسِمُوہَا بَیْنَکُمْ فَاقْسِمُوہَا ، وَإِنْ شِئْتُمْ أَنْ تَدَعُوہَا فَیَعْمُرُہَا أَہْلُہَا وَمَنْ دَخَلَ فِیکُمْ بَعْدُ کَانَ لَہُ فِیہَا نَصِیبٌ ، فَإِنِّی أَخَافُ أَنْ تَشَاحُّوا فیہا وَفِی شُرْبِہَا فَیَقْتُلُ بَعْضُکُمْ بَعْضًا ، فَکَتَبَ إلَیْہِ سَعْدٌ : إِنَّ الْمُسْلِمِینَ قَدْ أَجْمَعُوا عَلَی أَنَّ رَأْیَہُمْ لِرَأْیِکَ تَبَعٌ ، فَکَتَبَ إلَیْہِ أَنْ یَرُدُّوا الرَّقِیقَ إلَی امْرَأَۃٍ حَمَلَتْ مِنْ رَجُلٍ مِنَ الْمُسْلِمِینَ۔
(٣٣٦٥٢) حضرت ابو حنظلہ بن نعیم (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت سعد (رض) نے حضرت عمر (رض) کی طرف خط لکھا کہ ہم نے ایک علاقہ پر بغیر قتال کے قبضہ کرلیا ہے۔ اب ہم کیا کریں ؟ حضرت عمر (رض) نے ان کو خط کا جواب لکھا : اگر تم لوگ اس علاقہ کو اپنے درمیان تقسیم کرنا چاہو تو اس کو تقسیم کرلو اور اگر تم چاہو تو اس علاقہ کو چھوڑ دو اس کے مکین ہی اس کو آباد کرلیں گے۔ اور جو شخص تمہارے میں داخل ہوگا اس علاقہ میں اس کو حصہ مل جانے کے بعد تو مجھے خوف ہے کہ تم لوگ اس معاملہ میں اور پانی کی باری میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کرو گے۔ پھر تم میں سے بعض بعض کو قتل کردیں گے۔ حضرت سعد (رض) نے آپ (رض) کو خط لکھا اور فرمایا : بلاشبہ تمام مسلمانوں نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ ان کی رائے آپ (رض) کی رائے کے تابع ہے۔ حضرت عمر (رض) نے ان کو پھر خط لکھا اور فرمایا : کہ یہ لوگ غلاموں کو ان کی عورتوں کی طرف واپس لوٹا دیں چاہے وہ مسلمانوں میں کسی آدمی سے حاملہ ہوچکی ہو۔

33652

(۳۳۶۵۳) حَدَّثَنَا مُعْتَمِرُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ حَنَشٍ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ ، قَالَ : قیلَ لاِبْنِ عَبَّاسٍ : أَلِلْعَجَمِ أَنْ یُحْدِثُوا فِی أَمْصَارِ الْمُسْلِمِینَ بِنَائً ، أَوْ بِیعَۃً ، فَقَالَ : أَمَّا مِصْرٍ مَصَّرَتْہُ الْعَرَبُ فَلَیْسَ لِلْعَجَمِ أَنْ یَبْنُوا فِیہِ بِنَائً ، أَوَ قَالَ : بِیعَۃً ، وَلاَ یَضْرِبُوا فِیہِ نَاقُوسًا ، وَلاَ یَشْرَبُوا فِیہِ خَمْرًا ، وَلاَ یَتَّخِذُوا فِیہِ خِنْزِیرًا ، أَوْ یُدْخِلُوا فِیہِ ، وَأَمَّا مِصْرٍ مَصَّرَتْہُ الْعَجَمُ یَفْتَحُہُ اللَّہُ عَلَی الْعَرَبِ وَنَزَلُوا ، یَعْنِی عَلَی حُکْمِہِمْ فَلِلْعَجَمِ مَا فِی عَہْدِہِمْ، وَلِلْعَجَمِ عَلَی الْعَرَبِ أَنْ یُوَفُّوا بِعَہْدِہِمْ ، وَلاَ یُکَلِّفُوہُمْ فَوْقَ طَاقَتِہِمْ۔
(٣٣٦٥٣) حضرت عکرمہ (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عباس (رض) سے پوچھا : کیا عجمیوں کو اختیار ہے کہ وہ مسلمانوں کے لیے شہروں میں کوئی عمارت یاکلیسا بنالیں ؟ آپ (رض) نے فرمایا : رہے وہ شہر جن کو عربوں نے آباد کیا تو عجمیوں کو اختیار نہیں کہ وہ اس شہر میں کوئی عمارت بنائیں یا یوں فرمایا : کہ ان میں کلیسا بنائیں۔ اور نہ ہی وہ اس میں ناقوس بجا سکتے ہیں۔ اور وہ اس میں شراب پییں گے اور نہ ہی وہ اس میں خنزیر رکھ سکتے ہیں یا یوں فرمایا کہ نہ ہی وہ اس میں خنزیر داخل کرسکتے ہیں۔ اور رہا وہ شہر جس کو عجمیوں نے آباد کیا پس اللہ نے اہل عرب کو اس پر غلبہ دے دیا اور وہ شہر میں اترے تو عجمی کو اختیار ہوگا جو ان سے معاہدہ ہوا ہے اس کے مطابق کریں۔ اور عجمیوں کا اہل عرب پر حق ہے کہ وہ ان سے اپنے وعدوں کو پورا کریں۔ اور ان کی طاقت سے زیادہ کا ان کو مکلف مت بنائیں۔

33653

(۳۳۶۵۴) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ ، عَنْ أُبَیِّ بْنِ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : جَائَنَا کِتَابُ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِیزِ لاَ تَہْدِمْ بِیعَۃً ، وَلاَ کَنِیسَۃً ، وَلاَ بَیْتَ نَارٍ صُولِحُوا عَلَیْہِ۔
(٣٣٦٥٤) حضرت اُبیّ بن عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ ہمارے پاس حضرت عمر بن عبد العزیز (رض) کا خط آیا کہ کلیساؤں یہودی گرجا گھروں اور آتش کدوں کو منہدم نہیں کیا جائے گا اور ان پر مصالحت کی جائے گی۔

33654

(۳۳۶۵۵) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ ، عَنْ عَطَائٍ ؛ أَنَّہُ سُئِلَ عَنِ الْکَنَائِسِ ، تُہْدَمُ ، قَالَ : لاَ إِلاَّ مَا کَانَ مِنْہَا فِی الحَرَم۔
(٣٣٦٥٥) حضرت عبد الملک (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عطائ (رض) سے یہودی گرجا گھروں سے متعلق سوال کیا گیا کہ کیا ان کو گرا دیا جائے گا ؟ آپ (رض) نے فرمایا : نہیں سوائے ان کو جو حرم میں واقع ہیں ان کو گرا دیا جائے گا۔

33655

(۳۳۶۵۶) حَدَّثَنَا سَہْلُ بْنُ یُوسُفَ، عَنْ عَمْرٍو، عَنِ الْحَسَنِ، أَنَّہُ کَانَ یَکْرَہُ أَنْ تُتْرَکَ الْبِیَعُ فِی أَمْصَارِ الْمُسْلِمِینَ۔
(٣٣٦٥٦) حضرت عمرو (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت حسن بصری (رض) مسلمانوں کے شہروں میں کلیساؤں کے باقی رکھنے کو مکروہ سمجھتے تھے۔

33656

(۳۳۶۵۷) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ عَوْفٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : قدْ صُولِحُوا عَلَی أَنْ یُخْلَی بَیْنَہُمْ وَبَیْنَ النِّیرَانِ وَالأَوْثَانِ فِی غَیْرِ الأَمْصَارِ۔
(٣٣٦٥٧) حضرت عوف (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت حسن بصری (رض) نے ارشاد فرمایا : غیر مسلموں سے اس بات پر صلح کی جائے گی کہ شہروں کے علاوہ دیگر مقامات میں ان کے درمیان اور ان کی آتش اور بتوں کے درمیان راستہ خالی چھوڑ دیا جائے گا۔

33657

(۳۳۶۵۸) حَدَّثَنَا عِیسَی بْنُ یُونُسَ ، عَنِ الأَوْزَاعِیِّ ، قَالَ : حدَّثَنِی ابْنُ سُرَاقَۃَ أَنَّ أَبَا عُبَیْدَۃَ بْنَ الْجَرَّاحِ کَتَبَ لأَہْلِ دَیْرِ طَیَایَا إنِّی أَمَّنْتُکُمْ عَلَی دِمَائِکُمْ وَأَمْوَالِکُمْ وَکَنَائِسِکُمْ أَنْ تُہْدَمَ۔
(٣٣٦٥٨) حضرت ابن سراقہ (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت ابو عبیدہ بن جراح (رض) نے اہل دیر کے پادریوں کو خط لکھا کہ بلاشبہ میں نے تمہیں امن دیا تمہاری جانوں کا، تمہارے مالوں کا اور تمہارے گرجا گھروں کو گرائے جانے سے۔

33658

(۳۳۶۵۹) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَنْ حَبِیبِ بْنِ شَہِیدٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِیرِینَ ، أَنَّہُ کَانَ لاَ یَتْرُکُ لأَہْلِ فَارِسَ صَنَمًا إِلاَّ کُسِرَ ، وَلاَ نَارًا إِلاَّ أُطْفِئَتْ۔
(٣٣٦٥٩) حضرت حبیب بن شہید (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت محمد بن سیرین (رض) نے ارشاد فرمایا : اہل فارس کے کسی بھی بت کو نہیں چھوڑا جائے گا مگر یہ کہ اس کو توڑ دیا جائے گا۔ اور نہ ہی کسی آگ کو چھوڑا جائے گا مگر یہ کہ اس کو بجھا دیا جائے گا۔

33659

(۳۳۶۶۰) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ عَوْفَ قَالَ : شَہِدْت عَبْدَ اللہِ بْنَ عُبَیْدِ بْنِ مَعْمَرٍ أُتِیَ بِمَجُوسِیٍّ بَنَی بَیْتَ نَارٍ بِالْبَصْرَۃِ فَضَرَبَ عُنُقَہُ۔
(٣٣٦٦٠) حضرت عوف (رض) فرماتے ہیں کہ میں حضرت عبداللہ بن عبید بن معمر (رض) کے پاس حاضر تھا کہ ایک آتش پرست کو لایا گیا جس نے بصرہ میں آتش کدہ بنایا تھا۔ آپ (رض) نے اس کی گردن اڑا دی۔

33660

(۳۳۶۶۱) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ سُلَیْمَانَ الأَحْوَلِ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَفَعَہُ ، قَالَ : أَخْرِجُوا الْمُشْرِکِینَ مِنْ جَزِیرَۃِ الْعَرَبِ۔ (بخاری ۳۰۵۳۔ مسلم ۱۲۵۷)
(٣٣٦٦١) حضرت سعید بن جبیر (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عباس (رض) نے مرفوعاً حدیث بیان فرمائی کہ مشرکین کو جزیرہ عرب سے نکال دو ۔

33661

(۳۳۶۶۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ بْنِ مَیْمُونَ ، عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ سَعدِ بْنِ سَمُرَۃَ بْنِ جُنْدُبٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ أَبِی عُبَیْدَۃَ بْنِ الْجَرَّاحِ قَالَ : إنَّ آخِرَ کَلاَمُ تَکَلَّمَ بِہِ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ ، قَالَ : أَخْرِجُوا الْیَہُودَ مِنْ أَرْضِ الْحِجَازِ وَأَہْلَ نَجْرَانَ مِنْ جَزِیرَۃِ الْعَرَبِ۔ (احمد ۱۹۵۔ دارمی ۲۴۹۸)
(٣٣٦٦٢) حضرت ابو عیبدہ بن جراح (رض) فرماتے ہیں کہ سب سے آخری کلام جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : وہ یہ تھا کہ یہودیوں کو حجا ز کے علاقہ سے اور نجران کے عیسائیوں کو جزیرہ عرب سے نکال دو ۔

33662

(۳۳۶۶۳) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : قَالَ عُمَرُ : لاَ تَتْرُکُوا الْیَہُودَ وَالنَّصَارَی بِالْمَدِینَۃِ فَوْقَ ثَلاَثٍ قَدْرَ مَا یَبِیعُون سِلْعَتَہُمْ ، وَقَالَ : لاَ یَجْتَمِعُ دِینَانِ فِی جَزِیرَۃِ الْعَرَبِ۔
(٣٣٦٦٣) حضرت ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے ارشاد فرمایا : یہود و نصاریٰ کو مدینہ میں تین دن سے زیادہ مت چھوڑو پس اتنی دیر کہ وہ اپنا سامان فروخت کردیں اور فرمایا : کہ جزیرہ عرب میں دو دین اکٹھے نہیں ہوسکتے۔

33663

(۳۳۶۶۴) حَدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ طَاوُوسٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : لاَ تُسَاکِنُوا الْیَہُودَ وَلا النَّصَارَی إِلاَّ أَنْ یُسْلِمُوا۔
(٣٣٦٦٤) حضرت طاؤس (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عباس (رض) نے ارشاد فرمایا : تم لوگ یہود و نصاریٰ کے ساتھ اکٹھے مت رہو مگر یہ کہ وہ اسلام لے آئیں۔

33664

(۳۳۶۶۵) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنِ ابْنِ أَبِی ذِئْبٍ أَنَّہُ شَہِدَ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِیزِ فِی خِلاَفَتِہِ أَخْرَجَ أَہْلَ الذِّمَّۃِ مِنَ الْمَدِینَۃِ ، وَبَاعَ أَرِقَّائَہُمْ مِنَ الْمُسْلِمِینَ۔
(٣٣٦٦٥) حضرت ابن ابی ذئب (رض) فرماتے ہیں کہ وہ حضرت عمر بن عبد العزیز (رض) کے زمانہ خلافت میں ان کے پاس حاضر تھے تو آپ (رض) نے ذمیوں کو مدینہ منورہ سے نکال دیا۔ اور ان کے غلاموں کو مسلمانوں کے ہاتھ فروخت کردیا۔

33665

(۳۳۶۶۶) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، قَالَ : حدَّثَنَا حَجَّاجٌ ، عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ ، عَنْ جَابِرٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لَئِنْ بَقِیت لأُخْرِجَنَّ الْمُشْرِکِینَ مِنْ جَزِیرَۃِ الْعَرَبِ ، فَلَمَّا وَلِیَ عُمَرُ أَخْرَجَہُمْ۔ (مسلم ۱۳۸۸۔ ابوداؤد ۳۰۲۴)
(٣٣٦٦٦) حضرت جابر (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اگر میں زندہ رہا تو میں ضرور مشرکین کو جزیرہ عرب سے نکال دوں گا۔ جب حضرت عمر (رض) کو خلافت ملی تو آپ (رض) نے ان کو جزیرہ عرب سے نکال دیا۔

33666

(۳۳۶۶۷) حَدَّثَنَا عِیسَی بْنُ یُونُسَ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ ، قَالَ : قلْنَا لِجَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ : أَیَدْخُلُ الْمَجُوسُ الْحَرَمَ ، قَالَ : أَمَّا أَہْلُ ذِمَّتِنَا فَنَعَمْ۔
(٣٣٦٦٧) حضرت ابو الزبیر (رض) فرماتے ہیں کہ ہم نے جابر بن عبداللہ (رض) سے پوچھا : کیا آتش پرست حرم کی حدود میں داخل ہوسکتا ہے ؟ آپ (رض) نے فرمایا : ہاں جو ہمارے اہل ذمہ ہیں وہ ہوسکتے ہیں۔

33667

(۳۳۶۶۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ ، عَنْ قَیْسٍ ، قَالَ : بَعَثَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ جَیْشًا ، ثُمَّ قَالَ : أَلاَ إنِّی بَرِیئٌ مِنْ کُلِّ مُسْلِمٍ مُقِیمٍ مَعَ مُشْرِکَ ، لاَ تَتَرَاء ی نَارَاہُمَا۔ (ابوداؤد ۲۶۳۸۔ترمذی ۱۶۰۴)
(٣٣٦٦٨) حضرت قیس (رض) فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک لشکر بھیجا پھر ارشاد فرمایا : خبردار میں ہر اس مسلمان سے بری ہوں جو مشرک کے ساتھ ہے۔ یہ دونوں اکٹھے نہیں رہ سکتے۔

33668

(۳۳۶۶۹) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ أَسْلَمَ مَوْلَی عُمَرَ أَنَّ عُمَرَ کَانَ یَخْتِمُ فِی أَعْنَاقِہِمْ ، یَعْنِی أَہْلَ الذِّمَّۃِ۔
(٣٣٦٦٩) حضرت اسلم (رض) جو کہ حضرت عمر (رض) کے آزاد کردہ غلام ہیں فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) ذمیوں کی گردن میں مہر لگاتے تھے۔

33669

(۳۳۶۷۰) حَدَّثَنَا کَثِیرُ بْنُ ہِشَامٍ ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ بُرْقَانَ ، قَالَ : حدَّثَنَا مَیْمُونُ بْنُ مِہْرَانَ ، قَالَ : بَعَثَ عُمَرُ حُذَیْفَۃَ بْنَ الْیَمَانِ ، وَابْنَ حُنَیْفٍ فَفَلَجَا الْجِزْیَۃَ عَلَی أَہْلِ السَّوَادِ فَقَالاَ : مَنْ لَمْ یَجِئْ مِنْ أَہْلِ السَّوَادِ فَیُخْتِمُ فِی عُنُقِہِ بَرِئَتْ مِنْہُ الذِّمَّۃُ۔
(٣٣٦٧٠) حضرت میمون بن مہران (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے حضرت حذیفہ بن یمان (رض) اور حضرت ابن حُنیف ان دونوں کو لشکر دے کر بھیجا۔ پس ان دونوں نے بستی والوں کو جزیہ پر رضامند کرلیا۔ اور دونوں نے فرمایا : بستی والوں میں سے جس شخص نے آکر اپنی گردن میں مہر نہ لگوائی تو اس سے اللہ کا ذمہ بری ہے۔

33670

(۳۳۶۷۱) حَدَّثَنَا مُعْتَمِرُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ أَبِی الْمَنِیَّۃِ ، قَالَ : أَوْصَی رَجُلٌ مِنْ أَہْلِ الْیَمَامَۃِ بِفَرَسٍ فِی سَبِیلِ اللہِ ، فَقَدِمَ ابْنُ عَمٍّ لِی ، فَقُلْتُ : أَحْمِلُ عَلَیْہِ أَخِی ، فَإِنَّ أَخِی رَجُلٌ صَالِحٌ ، قَالَ : حَتَّی أَسْأَلَ الْحَسَنَ ، فَسَأَلَ الْحَسَنَ ، فَقَالَ : احْمِلْ عَلَیْہِ رَجُلاً ، وَلاَ تَحَابی فِیہِ أَحَدًا ، قَالَ : قُلْتُ لِلْحَسَنِ : فَإِنْ أَحْتَاجُ إلَیْہِ ، قَالَ : فَلْیَبِعْہُ مِنَ الْجُنْدِ ، وَلاَ تُعْطِہِ ہَذِہِ الْمَوَالِیَ فَیَتْرُکُہُ أَحَدُہُمْ نَفَقَۃً لأَہْلِہِ۔
(٣٣٦٧١) حضرت ابو المنیہ (رض) فرماتے ہیں کہ اہل یمامہ میں سے ایک آدمی نے اللہ کے راستہ میں گھوڑے کی وصیت کی۔ پس میرا چچا زاد آگیا تو میں نے اس شخص سے کہا اس پر میرے بھائی کو سوار کردو۔ اس لیے کہ میرا بھائی نیک آدمی ہے۔ اس نے کہا : میں حضرت حسن بصری (رض) سے پوچھ لوں۔ اس نے حضرت حسن بصری (رض) سے پوچھا ؟ انھوں نے فرمایا : اس پر اس آدمی کو سوار کردو اور اس بارے میں تم بالکل پچھتاوا مت کرنا۔ راوی کہتے ہیں : میں نے حضرت حسن بصری (رض) سے پوچھا : اگر وہ اس کا ضرورت مند ہو ؟ آپ (رض) نے فرمایا : کہ اس کو لشکر میں سے کسی کے ہاتھ فروخت کردو۔ اور اس کو ان غلاموں میں سے کسی کو مت دو ۔ ان میں سے کوئی اسے اپنے گھر والوں کے خرچ کے لیے چھوڑ دے گا۔

33671

(۳۳۶۷۲) حَدَّثَنَا الضَّحَّاکُ بْنُ مَخْلَدٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَطَائٍ ؛ فِی الرَّجُلِ یَأْتِی مِنْ أَہْلِ الْحَرْبِ ، قَالَ : إمَّا أَنْ یُقِرَّہُ ، وَإِمَّا أَنْ یُبْلِغَہُ مَأْمَنَہُ۔
(٣٣٦٧٢) حضرت ابن جریج (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عطائ (رض) نے اس شخص کے بارے میں جو دارالحرب سے آیا ہو یوں ارشاد فرمایا : یا تو اسے برقرار رکھا جائے یا پھر اسے محفوظ جگہ پہنچا دیا جائے۔

33672

(۳۳۶۷۳) حَدَّثَنَا الضَّحَّاکُ بْنُ مَخْلَدٍ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، أَنَّہُ کَانَ یَکْرَہُ أَنْ یَتَزَوَّجَ الرَّجُلُ فِی أَرْضِ الْحَرْبِ وَیَدْعُ وَلَدَہُ فِیہِمْ۔
(٣٣٦٧٣) حضرت اشعث (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت حسن بصری (رض) مکروہ سمجھتے تھے اس بات کو کہ کوئی آدمی دارالحرب میں شادی کرلے اور پنے بچہ کو ان میں چھوڑ دے۔

33673

(۳۳۶۷۴) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، قَالَ : سُئِلَ عَطَائٌ ، عَنِ الرَّجُلِ مِنْ أَہْلِ الذِّمَّۃِ یُؤْخَذُ فِی أَہْلِ الشِّرْک ، فَیَقُولُ : لَمْ أُرِدْ عَوْنَہُمْ عَلَیْکُمْ وَقَدِ اشْتَرَطُوا عَلَیْہِ أَنْ لاَ یَأْتِیَہُمْ فَکَرِہَ قَتْلَہُ إِلاَّ بِبَیِّنَۃٍ ، قَالَ : وَقَالَ حِینَئِذٍ لِعَطَائٍ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ : إذَا نَقَضَ شَیْئًا وَاحِدًا مِمَّا عَلَیْہِ فَقَدْ نَقَضَ الصُّلْحَ۔
(٣٣٦٧٤) حضرت ابن جریج (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عطاء سے پوچھا گیا اس ذمی شخص کے بارے میں جس کو مشرکین کی زمین میں پکڑ لیا گیا اس نے کہا : کہ میرا تمہارے خلاف ان کی مدد کرنے کا ارادہ نہیں تھا۔۔۔ اور تحقیق ان لوگوں نے اس پر یہ شرط لگا دی کہ وہ مسلمانوں کے پاس نہیں آئے گا ؟ تو آپ (رض) نے اس کے قتل کو مکروہ سمجھا مگر گواہی کے ساتھ۔ راوی کہتے ہیں : کہ اس وقت بعض اہل علم نے حضرت عطائ (رض) سے فرمایا : جو چیز اس پر لازم تھی جب اس میں سے ایک چیز ختم کردی تو تحقیق صلح ختم ہوجائے گی۔

33674

(۳۳۶۷۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ؛ فِی أَہْلِ الذِّمَّۃِ إذَا نَقَضُوا الْعَہْدَ فَلَیْسَ عَلَی الذُّرِّیَّۃِ شَیْئٌ۔
(٣٣٦٧٥) حضرت ہشام (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت حسن بصری (رض) نے ذمیوں کے بارے میں ارشاد فرمایا : جب وہ معاہدہ توڑ دیں تو ان کی اولاد پر کوئی بوجھ نہیں ہوگا۔

33675

(۳۳۶۷۶) حَدَّثَنَا یَعْمَرُ بْنُ بِشْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا ابْنُ مُبَارَکٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا صَفْوَانُ بْنُ عَمْرٍو ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ جُبَیْرِ بْنِ نُفَیْرٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِکٍ ، قَالَ : کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إذَا جَائَ الْفَیْئُ قَسَمَہُ مِنْ یَوْمِہِ فَأَعْطَی الآہِلَ حَظَّیْنِ وَأَعْطَی الأَعْزَبَ حَظًّا۔ (ابوداؤد ۲۹۴۶۔ احمد ۲۹)
(٣٣٦٧٦) حضرت عوف بن مالک فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس جب مال فئی آتا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسی دن ہی اس کو تقسیم فرما دیتے۔ پس آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کنبہ دار کو دو حصہ عطا فرماتے اور کنوارے کو ایک حصہ عطا فرماتے۔

33676

(۳۳۶۷۷) حَدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ ابْنُ عُلَیَّۃَ، عَنْ صَدَقَۃِ بْنِ یَسَارٍ، عَنِ الْقَاسِمِ، قَالَ: کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُبْرِدُ۔
(٣٣٦٧٧) حضرت قاسم (رض) فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قاصد کے ذریعے پیغام بھیجا کرتے تھے۔

33677

(۳۳۶۷۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ طَلْحَۃَ بْنِ یَحْیَی أَنَّ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِیزِ کَانَ یُبْرِدُ قَالَ : فَحَمَلَ مَوْلًی لَہُ رَجُلاً عَلَی الْبَرِیدِ بِغَیْرِ إذْنِہِ ، قَالَ : فَدَعَاہُ ، فَقَالَ : لاَ تبرح حَتَّی نُقَوِّمَہُ ، ثُمَّ تَجْعَلَہُ فِی بَیْتِ الْمَالِ۔
(٣٣٦٧٨) حضرت طلحہ بن یحییٰ (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن عبد العزیز (رض) قاصد کے ذریعہ پیغام بھیجا کرتے تھے ۔ آپ (رض) کے ایک غلام نے ڈاک کی سواری پر ایک شخص کو آپ کی اجازت کے بغیر سوار کردیا۔ آپ (رض) نے اس کو بلایا اور فرمایا : تو اس سے جدا مت ہو یہاں تک کہ اس کی قیمت ادا کر، پھر اس کی قیمت بیت المال میں ڈال دے۔

33678

(۳۳۶۷۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ أَبِی کَثِیرٍ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ لأُمَرَائِہِ : إذَا أَبَرَدْتُمْ إلَیَّ بَرِیدًا فَأَبْرِدُوہُ حَسَنَ الْوَجْہِ حَسَنَ الاِسْمِ۔ (بزار ۱۹۸۵)
(٣٣٦٧٩) حضرت یحییٰ بن ابی کثیر (رض) فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے مقرر کردہ امیروں سے ارشاد فرمایا : جب تم میری طرف کسی قاصد کے ذریعہ ڈاک بھیجو تو تم لوگ خوبصورت چہرے والے اور خوبصورت نام والے کو بھیجو۔

33679

(۳۳۶۸۰) حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ ، عَنْ إسْرَائِیلَ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِیہِ أَنَّ مُعَاوِیَۃَ کَتَبَ إلَی عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ خَالِدٍ أَنِ احْمِلْ إلَیَّ جَرِیرًا عَلَی الْبَرِیدِ فَحَمَلَہُ۔
(٣٣٦٨٠) حضرت ابو اسحاق (رض) کے والد فرماتے ہیں کہ حضرت معاویہ (رض) نے حضرت عبد الرحمن بن خالد (رض) کو خط لکھا کہ تم جریر کو پیغام دے کر میری طرف بھیجو۔ تو آپ (رض) نے ان کو بھیج دیا۔

33680

(۳۳۶۸۱) حَدَّثَنَا عِیسَی بْنُ یُونُسَ ، عَنِ الأَوْزَاعِیِّ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جَبَلَۃَ ، عَنْ طَاوُوسٍ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : إنَّ اللَّہَ بَعَثَنِی بِالسَّیْفِ بَیْنَ یَدَیِ السَّاعَۃِ ، وَجَعَلَ رِزْقِی تَحْتَ ظِلِّ رُمْحِی ، وَجَعَلَ الذُّلَّ وَالصَّغَارَ عَلَی مَنْ خَالَفَنِی ، وَمَنْ تَشَبَّہَ بِقَوْمٍ فَہُوَ مِنْہُمْ۔
(٣٣٦٨١) حضرت طاؤس (رض) فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : یقیناً اللہ تعالیٰ نے مجھے تلوار دے کر بھیجا ہے قیامت سے پہلے اور اللہ تعالیٰ نے میرا رزق میرے نیزے کے سائے کے نیچے مقرر کیا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے ذلت اور رسوائی مقدر کی ہے اس شخص کے نصیب میں جو میری مخالفت کرے گا۔ اور جو کسی قوم کی مشابہت اختیار کرتا ہے تو وہ ان ہی میں سے ہوگا۔

33681

(۳۳۶۸۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، حَدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنِ الأَوْزَاعِیِّ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جَبَلَۃَ ، عَنْ طَاوُوسٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، ثُمَّ ذَکَرَ مِثْلَہُ۔
(٣٣٦٨٢) حضرت طاؤس (رض) سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مذکورہ ارشاد اس سند سے بھی منقول ہے۔

33682

(۳۳۶۸۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِی الْخَلِیلِ ، عَنْ عَلِیٍّ ، قَالَ : کَانَ الْمُغِیرَۃُ بْنُ شُعْبَۃَ إذَا غَزَا مَعَ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حَمَلَ مَعَہُ رُمْحًا ، فَإِذَا رَجَعَ طَرَحَہُ کَیْ یُحْمَلَ لَہُ ، فَقَالَ عَلِیٌّ : لأَذْکُرَنَّ ہَذَا لِلنَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : لاَ تَفْعَلْ فَإِنَّک إِنْ فَعَلْت لَمْ تُرْفَعْ ضَالَّۃً۔ (ابن ماجہ ۲۸۰۹۔ نسائی ۵۸۰۷)
(٣٣٦٨٣) حضرت علی (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت مغیرہ بن شعبہ (رض) جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ غزوہ میں جاتے تو اپنے ساتھ ایک نیزہ رکھتے۔ جب واپس لوٹتے تو اس کو پھینک دیتے تاکہ کوئی اسے ان کا سمجھ کر اٹھا لے۔ حضرت علی (رض) نے فرمایا : میں ضرور بالضرور یہ بات نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے ذکر کروں گا اس پر انھوں نے فرمایا : تم ایسا مت کرنا۔ اس لیے کہ اگر تم ایسا کرو گے تو گمشدہ چیز نہیں اٹھائی جائے گی۔

33683

(۳۳۶۸۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا مُصْعَبُ بْنُ سُلَیْمٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِکٍ یَقُولُ : إنَّ أَبَا مُوسَی أَرَادَ أَنْ یَسْتَعْمِلَ الْبَرَائَ بْنَ مَالِکٍ فَأَبَی ، فَقَالَ لَہُ الْبَرَائُ بْنُ مَالِکٍ : أَعْطِنِی سَیْفِی وَتِرْسِی وَرُمْحِی۔
(٣٣٦٨٤) حضرت انس بن مالک (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت ابو موسیٰ اشعری (رض) نے حضرت براء بن مالک (رض) کو امیر بنانے کا ارادہ کیا تو آپ (رض) نے انکار کردیا اور حضرت براء بن مالک (رض) نے ان سے فرمایا : مجھے میری تلوار ، میری ڈھال اور میر انیزہ دے دو ۔

33684

(۳۳۶۸۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ بْنِ أُمَیَّۃَ ، عَنْ مَکْحُولٍ ، قَالَ : إنَّمَا کَانَتِ الْحَرْبَۃُ تُحْمَلُ مَعَ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِیُصَلِّیَ إلَیْہَا۔
(٣٣٦٨٥) حضرت اسماعیل بن امیہ (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت مکحول (رض) نے ارشاد فرمایا : کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ نیزہ بھی لے جایا جاتا تھا تاکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کو سامنے رکھ کر نماز پڑھیں۔

33685

(۳۳۶۸۶) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، قَالَ : حدَّثَنَا مُصْعَبُ بْنُ سُلَیْمٍ الزُّہْرِیُّ ، قَالَ : حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِکٍ ، قَالَ : لَمَّا بُعِثَ أَبُو مُوسَی عَلَی الْبَصْرَۃِ کَانَ مِمَّنْ بُعِثَ الْبَرَائُ بْنُ مَالِکٍ وَکَانَ مِنْ وَزرَائِہِ ، فَکَانَ یَقُولُ لَہُ : اخْتَرْ عَمَلاً ، فَقَالَ : الْبَرَائُ وَمُعْطِیَّ أَنْتَ مَا سَأَلْتُک ، قَالَ : نَعَمْ ، قَالَ : أَمَا إنِّی لاَ أَسْأَلُک إمَارَۃَ مِصْرٍ ، وَلاَ جِبَایَۃَ خَرَاجٍ ، وَلَکِنْ أَعْطِنِی قَوْسِی وَفَرَسِی وَرُمْحِی وَسَیْفِی وَذَرْنِی إلَی الْجِہَادِ فِی سَبِیلِ اللہِ ، فَبَعَثَہُ عَلَی جَیْشٍ ، فَکَانَ أَوَّلَ مَنْ قُتِلَ۔
(٣٣٦٨٦) حضرت انس بن مالک (رض) فرماتے ہیں کہ جب حضرت ابو موسیٰ اشعری (رض) کو بصرہ کا امیر بنا کر بھیجا گیا تو ان کے ساتھ حضرت براء بن مالک (رض) کو بھی بھیجا گیا۔ اور یہ ان کے وزیروں میں سے تھے۔ حضرت ابو موسیٰ (رض) ان سے فرمایا کرتے تھے ۔ تم بھی کوئی کام اختیار کرلو۔ اس پر حضرت برائ (رض) نے فرمایا : کیا جو عہدہ میں تم سے مانگوں گا وہ تم مجھے دو گے ؟ آپ (رض) نے فرمایا : جی ہاں ! انھوں نے فرمایا : بلاشبہ میں تم سے شہر کی نگرانی اور خراج کی وصول یابی کا عہدہ نہیں مانگتا لیکن تم مجھے میری کمان، میرا گھوڑا، میرا نیزہ اور میری تلوار دے دو ، اور مجھے اللہ کے راستہ میں جہاد کرنے کے لیے چھوڑ دو پس آپ (رض) نے ان کو لشکر پر امیر بنا کر بھیج دیا تو یہ شہید ہونے والے سب سے پہلے شخص تھے۔

33686

(۳۳۶۸۷) حَدَّثَنَا ہَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ ، قَالَ : حدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَن بْنُ ثَابِتٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا حَسَّانُ بْنُ عَطِیَّۃَ ، عَنْ أَبِی مُنِیبٍ الْجُرَشِیِّ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إنَّ اللَّہَ جَعَلَ رِزْقِی تَحْتَ ظل رُمْحِی وَجَعَلَ الذِّلَّۃَ وَالصَّغَارَ عَلَی مَنْ خَالَفَ أَمْرِی ، مَنْ تَشَبَّہَ بِقَوْمٍ فَہُوَ مِنْہُمْ۔
(٣٣٦٨٧) حضرت ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : یقیناً اللہ رب العزت نے میرا رزق نیزے کے سائے کے نیچے مقرر کیا ہے۔ اور اللہ رب العزت نے ذلت اور رسوائی اس شخص کے مقدر کی ہے۔ جو میرے حکم کی مخالفت کرے گا، اور جو شخص کسی قوم کی مشابہت اختیار کرتا ہے تو وہ ان میں سے ہوگا۔

33687

(۳۳۶۸۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا ہِشَامُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنْ زَیْدِ بْنِ أَسْلَمَ ، عْن أَبِیہِ ، قَالَ : قَالَ عُمَرُ : اجْتَمِعُوا لِہَذَا الْفَیْئِ حَتَّی نَنْظُرَ فِیہِ ، فَإِنِّی قَرَأْت آیَاتٍ مِنْ کِتَابِ اللہِ اسْتَغْنَیْت بِہَا ، قَالَ اللَّہُ : {مَا أَفَائَ اللَّہُ عَلَی رَسُولِہِ مِنْ أَہْلِ الْقُرَی فَلِلَّہِ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِی الْقُرْبَی وَالْیَتَامَی وَالْمَسَاکِینِ وَابْنِ السَّبِیلِ} إلَی قَوْلِہِ : {إنَّ اللَّہَ شَدِیدُ الْعِقَابِ} وَاللہِ مَا ہُوَ لِہَؤُلاَئِ وَحْدَہُمْ ، ثُمَّ قَرَأَ : {لِلْفُقَرَائِ الْمُہَاجِرِینَ الَّذِینَ أُخْرِجُوا مِنْ دِیَارِہِمْ وَأَمْوَالِہِمْ} إلَی قَوْلِہِ {ہُمُ الصَّادِقُونَ} وَاللہِ مَا ہُوَ لِہَؤُلاَئِ وَحْدَہُمْ ، ثُمَّ قَرَأَ : {وَالَّذِینَ جَاؤُوا مِنْ بَعْدِہِمْ} إلَی آخِرِ الآیَۃِ۔
(٣٣٦٨٨) حضرت اسلم (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے ارشاد فرمایا : اس مال فئی کے لیے لوگوں کو جمع کرو یہاں تک کہ میں اس بارے میں غور و فکر کروں بیشک میں نے کتاب اللہ کی چند آیات پڑھی ہیں جنہوں نے مجھے اس معاملہ میں مستغنی کردیا ہے۔ اللہ رب العزت کا ارشاد ہے کہ : ترجمہ : جو کچھ پلٹا دے اللہ اپنے رسول کی طرف بستیوں کے لوگوں سے سو وہ ہے اللہ کا اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے رشتہ داروں کا اور یتیموں کا اور مسکینوں اور مسافروں کے لیے۔ یہاں تک کہ آپ (رض) نے آیت کے آخر تک تلاوت فرمائی۔ بلاشبہ اللہ بہت سخت ہے سزا دینے میں۔ آپ (رض) نے فرمایا : اللہ کی قسم ! یہ مال صرف ان اکیلوں کا نہیں ہے پھر آپ (رض) نے یہ آیت تلاوت فرمائی : ترجمہ : ( نیز وہ مال) ان مفلس مہاجروں کے لیے ہے جو نکال باہر کیے گئے ہیں اپنے گھروں سے اور اپنی جائیدادوں سے جو فضل تلاش کرتے ہیں اللہ کا اور اس کی خوشنودی ۔۔۔ اور مدد کرتے ہیں اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی۔ یہی لوگ سچے ہیں۔ حضرت عمر (رض) نے ارشاد فرمایا : اللہ کی قسم ! یہ مال صرف ان لوگوں کے لیے بھی نہیں پھر آپ (رض) نے اس آیت کی بھی تلاوت فرمائی : ترجمہ : اور یہ ( مال) ان کے لیے بھی ہے جو آئیں گے ان کے بعد۔ آخر آیت تک آپ (رض) نے تلاوت فرمائی۔

33688

(۳۳۶۸۹) حَدَّثَنَا حُمَیْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنِ الْحَسَنِ ، عَنِ السُّدِّیِّ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِیزِ ، قَالَ : وَجَدْت الْمَالَ قُسِمَ بَیْنَ ہَذِہِ الثَّلاَثَۃِ الأَصْنَافِ الْمُہَاجِرِینَ وَالأَنْصَارِ وَالَّذِینَ جَاؤُوا مِنْ بَعْدِہِمْ۔
(٣٣٦٨٩) حضرت سدی (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن عبد العزیز (رض) نے ارشاد فرمایا : میں نے مال پایا تو ان تین قسم کے لوگوں کے درمیان وہ تقسیم کردیا جائے گا، مہاجرین ، انصار، اور جو لوگ ان کے بعد آئیں گے۔

33689

(۳۳۶۹۰) حَدَّثَنَا حُمَیْدٌ ، عَنْ حَسَنٍ ، عَنِ السُّدِّیِّ ، عَنِ الْحَسَنِ مِثْلَ ذَلِکَ۔
(٣٣٦٩٠) حضرت حسن بصری (رض) سے بھی مذکورہ ارشاد اس سند سے منقول ہے۔

33690

(۳۳۶۹۱) حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ مُعَاذٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا سَعِیدُ بْنُ أَبِی عَرُوبَۃَ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ أَنَسٍ ، عَنْ أَبِی طَلْحَۃَ أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ إذَا غَلَبَ قَوْمًا أَحَبَّ أَنْ یُقِیمَ بِعَرْصَتِہِمْ ثَلاَثًا۔(احمد ۲۹۔ دارمی ۲۴۵۹)
(٣٣٦٩١) حضرت ابو طلحہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب کسی قوم پر فتح حاصل کرلیتے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کی کشادہ جگہ میں تین دن ٹھہرنے کو پسند کرتے تھے۔

33691

(۳۳۶۹۲) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ أَنَسٍ ، عَنْ أَبِی طَلْحَۃَ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِمِثْلِہِ۔ (مسلم ۲۲۰۴۔ ابن ابی عاصم ۱۸۹۱)
(٣٣٦٩٢) حضرت ابو طلحہ (رض) سے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مذکورہ ارشاد اس سند سے بھی منقول ہے۔

33692

(۳۳۶۹۳) حَدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ بْنُ عَیَّاشٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ زِیَادِ بْنِ أَنْعُمٍ ، عَنْ خَالِدِ بْنِ أَبِی عِمْرَانَ ، قَالَ : قلْت لِلْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ وَسَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللہِ : إنَّ لَنَا غُلاَمًا یَعْمَلُ الْفَخَّارَ بِأَرْضِ الْعَدُوِّ ، ثُمَّ یَبِیعُ فَتَجْتَمِعُ لہ النَّفَقَۃُ وَیُنْفِقُ عَلَیْنَا ، قَالَ : لاَ بَأْسَ بِذَلِکَ۔
(٣٣٦٩٣) حضرت خالد بن أبی عمران (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت قاسم بن محمد (رض) اور حضرت سالم بن عبداللہ ان دونوں حضرات سے پوچھا : کہ ہمارا ایک غلام ہے جو دشمن کے علاقہ میں کمہار کا کام کرتا ہے۔ پھر ان برتنوں کو فروخت کرتا ہے اور اس کے پاس کافی مال جمع ہوجاتا ہے تو وہ ہم پر بھی اس میں سے خرچ کرتا ہے ؟ انھوں نے فرمایا : اس میں کوئی حرج نہیں ۔

33693

(۳۳۶۹۴) حَدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ بْنُ عَیَّاشٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ زِیَادٍ ، عَنْ خَالِدِ بْنِ أَبِی عِمْرَانَ ، قَالَ : قلْت لِلْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ وَسَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللہِ : الرَّجُلُ یَکُونُ مِنَّا فِی أَرْضِ الْعَدُوِّ فَیَصِیدُ الْحِیتَانَ وَیَبِیعُ فَتَجْتَمِعُ لَہُ الدَّرَاہِمُ ، قَالَ : لاَ بَأْسَ بِذَلِکَ۔
(٣٣٦٩٤) حضرت خالد بن ابی عمران (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت قاسم بن محمد (رض) اور حضرت سالم بن عبداللہ (رض) ان دونوں حضرات سے پوچھا : ہم میں سے ایک آدمی جو دشمن کے علاقہ میں ہوتا ہے پس وہ مچھلیاں شکار کرتا ہے اور ان کو فروخت کرتا ہے۔ پھر اس کے پاس بہت درہم جمع ہوجاتے ہیں۔ ان کا کیا حکم ہے ؟ آپ (رض) نے فرمایا : اس میں کوئی حرج کی بات نہیں۔

33694

(۳۳۶۹۵) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : أَقْطَعَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَرْضًا مِنْ أَرْضِ بَنِی النَّضِیرِ فِیہَا نَخْلٌ وَشُجَیْرٌ ، وَأَقْطَعَ أَبُو بَکْرٍ ، وَعُمَرُ۔
(٣٣٦٩٥) حضرت عروہ بن زبیر (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بنو نضیر سے حاصل ہونے والی زمینوں میں سے ایک ٹکڑا جس میں کھجور کے درخت اور دوسرے درخت تھے بانٹ دی اور حضرت ابوبکر (رض) اور حضرت عمر (رض) نے بھی بانٹ دی۔

33695

(۳۳۶۹۶) حَدَّثَنَا عَبْدُاللہِ بْنُ نُمَیْرٍ، قَالَ: حدَّثَنَا ہِشَامُ بْنُ عُرْوَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَقْطَعَ الزُّبَیْرَ أَرْضًا مِنْ أَرْضِ بَنِی النَّضِیرِ فِیہَا نَخْلٌ ، وَأَنَّ أَبَا بَکْرٍ أَقْطَعَ الزُّبَیْرَ الْجَرْفَ ، وَأَنَّ عُمَرَ أَقْطَعَہُ الْعَقِیقَ أَجْمَعَ۔
(٣٣٦٩٦) حضرت عروہ بن زبیر (رض) فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بنو نضیر کی زمینوں میں سے ایک زمین کا حضرت زبیر (رض) کو مالک بنادیا ۔ اس زمین میں کھجور کے درخت بھی تھے ۔ اور حضرت ابوبکر (رض) نے حضرت زبیر (رض) کو دریا کے کنارے زمین کا مالک بنایا۔ اور حضرت عمر (رض) نے ان کو ایک پوری وادی کا مالک بنایا۔

33696

(۳۳۶۹۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنْ أَبِیہِ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَقْطَعَ الزُّبَیْرَ أَرْضًا فِیہَا نَخْلٌ۔
(٣٣٦٩٧) حضرت عروہ (رض) فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت زبیر (رض) کو کھجور کے درختوں والی زمین کا مالک بنایا۔

33697

(۳۳۶۹۸) حَدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ بْنِ الْمُہَاجِرِ ، قَالَ : سَأَلْتُ مُوسَی بْنَ طَلْحَۃَ فَحَدَّثَنِی أَنَّ عُثْمَانَ أَقْطَعَ خَبَّابًا أَرْضًا وَعَبد اللہ أَرْضًا وَسَعْدًا أَرْضًا وَصُہَیْبًا أَرْضًا۔
(٣٣٦٩٨) حضرت ابراہیم بن مہاجر (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے اس بارے میں حضرت موسیٰ بن طلحہ (رض) سے پوچھا تو آپ (رض) نے مجھے بیان فرمایا کہ حضرت عثمان (رض) نے حضرت خباب (رض) کو حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) کو حضرت سعد (رض) کو اور حضرت صہیب (رض) کو الگ الگ زمینوں کا مالک بنایا۔

33698

(۳۳۶۹۹) حَدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ بْنِ مُہَاجِرٍ ، عَنْ مُوسَی بْنِ طَلْحَۃَ أَنَّ عُثْمَانَ أَقْطَعَ خَمْسَۃً مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : ابْنَ مَسْعُودٍ وَسَعْدًا وَالزُّبَیْرَ وَخَبَّابًا وَأُسَامَۃَ بْنَ زَیْدٍ۔
(٣٣٦٩٩) حضرت موسیٰ بن طلحہ (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عثمان (رض) نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ (رض) میں سے پانچ اشخاص کو زمین دی ان میں حضرت ابن مسعود (رض) ، حضرت سعد (رض) ، حضرت زبیر (رض) ، حضرت خباب (رض) اور حضرت اسامہ بن زید (رض) شامل ہیں۔

33699

(۳۳۷۰۰) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ ، عَنْ جَعْفَرٍ ، عَنْ أَبِیہِ أَنَّ عُمَرَ أَقْطَعَ عَلِیًّا یَنْبُعَ وَأَضَافَ إلَیْہَا غَیْرَہَا۔
(٣٣٧٠٠) حضرت جعفر (رض) کے والد فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے حضرت علی (رض) کو ایک چشمہ کا مالک بنایا اور اس کے علاوہ مزید اضافہ بھی فرما دیا۔

33700

(۳۳۷۰۱) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ، عَنِ الشَّیْبَانِیِّ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عُبَیْدِ اللہِ الثَّقَفِیِّ، قَالَ: أَتَی عُمَرَ رَجُلٌ مِنْ ثَقِیفٍ، یُقَالَ لَہُ : نَافِعٌ أَبُو عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : فَکَانَ أَوَّلَ مِنَ افْتَلَی الْفَلاَ بِالْبَصْرَۃِ ، قَالَ ، فَقَالَ : یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ ، إِنْ قِبَلَنَا أَرْضًا بِالْبَصْرَۃِ لَیْسَتْ مِنْ أَرْضِ الْخَرَاجِ ، وَلاَ تَضُرُّ بِأَحَدٍ مِنَ الْمُسْلِمِینَ فَإِنْ رَأَیْت أَنْ تُقْطِعَنِیہَا أَتَّخِذُہَا قَضْبًا لِخَیْلِی فَافْعَلْ ، قَالَ : فَکَتَبَ عُمَرُ إلَی أَبِی مُوسَی : إِنْ کَانَ کَمَا قَالَ فَأَقْطِعْہَا إیَّاہُ۔ (ابوعبید ۶۸۷)
(٣٣٧٠١) حضرت محمد بن عبید اللہ الثقفی (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) کے پاس قبیلہ ثقیف کا ایک شخص آیا جس کا نام نافع ابو عبداللہ تھا ۔ یہ پہلا شخص تھا جس نے بصرہ کی بےآب وگیاہ وادی کو چراگاہ بنایا۔ اس نے عرض کیا : اے امیر المؤمنین ! ہماری طرف بصرہ میں ایک زمین ہے جو خراج کی زمین نہیں ہے اور نہ وہ مسلمانوں میں کسی کو نقصان پہنچائے گی اگر آپ مناسب سمجھیں تو وہ میرے نام کردیں میں اس میں اپنے گھوڑوں کے لیے گھاس اُگاؤں گا۔ آپ (رض) ایسا کردیں۔ راوی کہتے ہیں : حضرت عمر (رض) نے حضرت ابو موسیٰ (رض) کو خط لکھا۔ اگر بات ایسے ہی ہے جیسا کہ اس نے کہا ہے۔ تو تم وہ زمین اس کے نام کردو۔

33701

(۳۳۷۰۲) حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ مُعَاذٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا ابْنُ عَوْنٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا رَجُلٌ مِنْ بَنِی زُرَیْقٍ ، قَالَ : أَقْطَعَ أَبُو بَکْرٍ طَلْحَۃَ أَرْضًا وَکَتَبَ لَہُ بِہَا کِتَابًا وَأَشْہَدَ بِہِ شُہُودًا فیہم عُمَرُ ، فَأَتَی طَلْحَۃَ عُمَرُ بِالْکِتَابِ ، فَقَالَ : اخْتِمْ عَلَی ہَذَا ، قَالَ : لاَ أَخْتِمُ عَلَیْہِ ، ہَذَا لَکَ دُونَ النَّاسِ قَالَ : فَانْطَلَقَ طَلْحَۃُ وَہُوَ مُغْضَبٌ ، فَأَتَی أَبَا بَکْرٍ ، فَقَالَ : وَاللہِ مَا أَدْرِی أَنْتَ الْخَلِیفَۃُ ، أَوْ عُمَرُ ، قَالَ : لاَ بَلْ عُمَرُ لَکِنَّہُ أَبَی۔
(٣٣٧٠٢) حضرت ابن عون (رض) فرماتے ہیں کہ قبیلہ بنو زریق کے ایک شخص نے بیان کیا کہ حضرت ابوبکر (رض) نے حضرت طلحہ (رض) کے نام ایک زمین کردی اور ان کے لیے اس بارے میں ایک تحریر بھی لکھ دی اور اس پر گواہ بھی بنا دیے جن میں حضرت عمر بھی شامل تھے۔ حضرت طلحہ (رض) تحریر لے کر حضرت عمر (رض) کے پاس آئے اور کہا : اس پر مہر لگا دو ۔ آپ (رض) نے فرمایا : میں اس پر مہر نہیں لگاؤں گا ۔ کیا یہ لوگوں کو چھوڑ کر صرف تیرے لیے ہے ؟ راوی کہتے ہیں : حضرت طلحہ (رض) چلے گئے اس حال میں کہ وہ بہت غصہ میں تھے ۔ پس وہ حضرت ابوبکر (رض) کے پاس آئے اور فرمایا : اللہ کی قسم ! میں نہیں جانتا کہ تم خلیفہ ہو یا عمر ؟ آپ (رض) نے فرمایا : نہیں ! بلکہ عمر (رض) نے تو صرف انکار کیا ہے !

33702

(۳۳۷۰۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا حَسَنُ بْنُ صَالِحٍ ، عَنْ جَعْفَرٍ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَقْطَعَ عَلِیًّا الفقیرین ، وبئر قَیْسٌ ، وَالشَّجَرَۃُ۔
(٣٣٧٠٣) حضرت جعفر (رض) فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت علی (رض) کو فقیرین مقام پر زمین اور قیس کا کنواں اور درخت کا مالک بنایا۔

33703

(۳۳۷۰۴) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ الْمُبَارَکِ ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ قَیْسٍ الْمَأْرِبِیِّ ، عَنْ رَجُلٍ ، عَنْ أَبْیَضَ بْنِ حَمَّالٍ أَنَّہُ اسْتَقْطَعَ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْمِلْحَ الَّذِی بِمَأْرِبَ ، فَأَرَادَ أَنْ یُقْطِعَہُ ، فَقَالَ رَجُلٌ لِرَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِنَّہُ کَالْمَائِ الْعِدِّ فَأَبَی أَنْ یُقْطِعَہُ۔ (بخاری ۱۶۸۲۔ ابوداؤد ۳۰۵۹)
(٣٣٧٠٤) حضرت یحییٰ بن قیس (رض) ایک آدمی سے نقل کرتے ہیں کہ ابیض بن حمّال نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مارب کے مقام میں ایک کھارا کنواں مانگا، تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وہ کنواں ان کو دینے کا ارادہ فرما لیا۔ اتنے میں ایک صحابی نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا۔ وہ تو جاری پانی کی طرح ہے جو مسلسل چلتا ہے۔ تو آپ (رض) نے وہ جگہ دینے سے انکار فرما دیا۔

33704

(۳۳۷۰۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ عَامِرٍ ، قَالَ : لَمْ یُقْطِعْ أَبُو بَکْرٍ ، وَلاَ عُمَرُ ، وَلاَ عَلِی ، وَأَوَّلُ مَنْ أَقْطَعَ الْقَطَائِعَ عُثْمَان ، وَبِیعَتْ أَرَضُونَ فِی إمَارَۃِ عُثْمَانَ۔
(٣٣٧٠٥) حضرت جابر (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عامر (رض) نے ارشاد فرمایا : نہ ابوبکر (رض) نے زمینیں دیں نہ حضرت عمر (رض) نے اور نہ ہی حضرت علی (رض) نے، سب سے پہلے جس نے زمینوں کا مالک بنایا وہ حضرت عثمان تھے۔ حضرت عثمان (رض) کے زمانہ خلافت میں زمینیں فروخت کی گئیں۔

33705

(۳۳۷۰۶) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَن بْنُ مُحَمَّدٍ الْمُحَارِبِیُّ ، عَنْ حَجَّاجِ بْنِ دِینَارٍ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ ، عَنْ عَبِیْدَۃَ ، أَنَّ أَبَا بَکْرٍ أَقْطَعَ الأَقْرَعَ بْنَ حَابِسٍ وَعُیَیْنَۃَ بْنَ حِصْنٍ أرضا ، وَکَتَبَ لہما عَلَیْہَا کِتَابًا۔
(٣٣٧٠٦) حضرت عبیدہ (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت ابوبکر (رض) نے حضرت اقرع بن حابس اور عیینہ بن حصن ان دونوں کو زمین دی۔ اور ان دونوں کے لیے ایک تحریر بھی لکھ دی۔

33706

(۳۳۷۰۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ الْوَلِیدِ الْمُزَنِیّ ، قَالَ : أَخْبَرَنِی رَجُلٌ کَانَ أَبُوہُ أَخْبَرَ النَّاسَ بِہَذَا السَّوَادِ ، یُقَالَ لَہُ : عَبْدُ الْمَلِکِ بْنُ أَبِی حَرَّۃَ ، عَنْ أَبِیہِ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ اصْطَفَی عَشْرَ أَرَضِینَ مِنْ أَرْضِ السَّوَادِ ، قَالَ : أَحْصَیْت سَبْعًا وَنَسِیت ثَلاَثًا : الآجَامُ ، ومَغِیضُ الْمَائِ ، وَأَرْضُ آل کِسْرَی ، وَدَیْرُ الْبَرِید ، وَأَرْضُ مَنْ قُتِلَ فِی الْمَعْرَکَۃِ ، وَأَرْضُ مَنْ ہَرَبَ ، قَالَ : فَلَمْ تَزَلْ فِی الدِّیوَانِ کَذَلِکَ صافیۃ حَتَّی أَحْرَقَ الدِّیوَانَ الْحَجَّاجُ ، فَأَخَذَ کُلُّ قَوْمٍ مَا یَلِیہِمْ۔
(٣٣٧٠٧) حضرت ابو حرہ (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) نے سواد کی زمینوں میں سے دس زمینیں چن لیں اور فرمایا : میں نے سات کو تو شمار کرلیا اور تین کو میں بھول گیا : قلعیں، وہ زمینیں جہاں پانی کی کمی ہے۔ کسریٰ کی زمین، آلِ کسریٰ کی زمین ، ڈاک کی عمارت ، ان لوگوں کی زمین ، جو معرکہ میں شہید ہوگئے، اور جنگ میں بھاگنے والوں کی زمین۔۔۔
راوی کہتے ہیں : اسی طرح مرنے کے بعد یہ دیوان مسلسل چلتا رہا یہاں تک کہ حجاج نے دیوان کو جلا دیا۔ اور ہر شخص نے اپنے قریب کی جگہ لے لی۔

33707

(۳۳۷۰۸) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ أَنَّ عُیُونًا لِمُسَیْلِمَۃَ أَخَذُوا رَجُلَیْنِ مِنَ الْمُسْلِمِینَ فَأَتَوْہُ بِہِمَا ، فَقَالَ لأَحَدِہِمَا : أَتَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللہِ ؟ قَالَ : نَعَمْ ، فَقَالَ : أَتَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللہِ ؟ قَالَ : نَعَمْ ، قَالَ : أَتَشْہَدُ أَنِّی رَسُولُ اللہِ ؟ قَالَ : فَأَہْوَی إلَی أُذُنَیْہِ ، فَقَالَ : إنِّی أَصَمُّ ، قَالَ : مَا لَکَ إذَا قُلْتُ لَکَ : تَشْہَدُ أَنِّی رَسُولُ اللہِ ، قُلْتُ إنِّی أَصَمُ ، فَأَمَرَ بِہِ فَقُتِلَ ، وَقَالَ لِلآخَرِ : أَتَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللہِ ، قَالَ : نَعَمْ ، فَقَالَ : أَتَشْہَدُ أَنِّی رَسُولُ اللہِ ، قَالَ : نَعَمْ ، فَأَرْسَلَہُ ، فَأَتَی النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : یَا رَسُولَ اللہِ : ہَلَکْت ، قَالَ : وَمَا شَأْنُک فَأَخْبَرُوہُ بِقِصَّتِہِ وَقِصَّۃِ صَاحِبِہِ ، فَقَالَ : أَمَّا صَاحِبُک فَمَضَی عَلَی إیمَانِہِ ، وَأَمَّا أَنْتَ فَأَخَذْتَ بِالرُّخْصَۃِ۔
(٣٣٧٠٨) حضرت حسن بصری (رض) فرماتے ہیں کہ مسیلمہ کذاب کے جاسوسوں نے مسلمانوں کے دو آدمیوں کو پکڑ لیا اور وہ ان دونوں کو مسیلمہ کذاب کے پاس لے گئے۔ اس نے ان دونوں میں سے ایک کو کہا : کیا تو گواہی دیتا ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں ؟ اس نے کہا : جی ہاں ! اس نے پھر پوچھا : کیا تو گواہی دیتا ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں ؟ اس نے کہا : جی ہاں ! اس نے پوچھا : کیا تو گواہی دیتا ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں ؟ ان صحابی نے اپنے کانوں کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا کہ میں تو بہرا ہوں۔ مسیلمہ کذاب نے کہا : تجھے کیا مصیبت ہے جب میں تجھ سے پوچھتا ہوں کہ تو گواہی دیتا ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں تو تو کہتا ہے کہ میں بہرا ہوں ؟ پس اس نے حکم دیا اور ان صحابی کو قتل کردیا گیا۔ مسیلمہ کذاب نے دوسرے شخص سے کہا : کیا تو گواہی دیتا ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں ؟ اس نے کہا : جی ہاں ! اس نے پھر پوچھا : کہ کیا تو گواہی دیتا ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں ؟ اس نے کہا : جی ہاں ! پس اس نے اس ان کو چھوڑ دیا : یہ شخص نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آیا اور فرمایا : اے اللہ کے رسول 5! میں ہلاک ہوگیا ! آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا : کیا ہوا ؟ انھوں نے اپنا اور اپنے ساتھی کا واقعہ بیان کیا، تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : بہرحال تیرا ساتھی تو ایمان کی حالت میں مرا ، اور رہے تم تو تم نے رخصت پر عمل کیا۔

33708

(۳۳۷۰۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ مُخَارِقِ بْنِ خَلِیفَۃَ ، عَنْ طَارِقِ بْنِ شِہَابٍ ، عَنْ سَلْمَانَ ، قَالَ : دَخَلَ رَجُلٌ الْجَنَّۃَ فِی ذُبَابٍ وَدَخَلَ رَجُلٌ النَّارَ فِی ذُبَابٍ ، مَرَّ رَجُلاَنِ عَلَی قَوْمٍ قَدْ عَکَفُوا عَلَی صَنَمٍ لَہُمْ وَقَالُوا : لاَ یَمُرُّ عَلَیْنَا الْیَوْمَ أَحَدٌ إِلاَّ قَدَّمَ شَیْئًا ، فَقَالُوا لأَحَدِہِمَا : قَدِّمْ شَیْئًا ، فَأَبَی فَقُتِلَ ، وَقَالُوا : لِلآخَرِ : قَدِّمْ شَیْئًا ، فَقَالُوا : قَدِّمْ وَلَوْ ذُبَابًا ، فَقَالَ : وَأَیْشٍ ذُبَابٌ ، فَقَدَّمَ ذُبَابًا فَدَخَلَ النَّارَ ، فَقَالَ سَلْمَانُ : فَہَذَا دَخَلَ الْجَنَّۃَ فِی ذُبَابٍ ، وَدَخَلَ ہَذَا النَّارَ فِی ذُبَابٍ۔ (بیہقی ۷۳۴۳۔ ابو نعیم ۲۰۳)
(٣٣٧٠٩) حضرت طارق بن شھاب (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت سلمان (رض) نے ارشاد فرمایا : ایک آدمی مکھی کی وجہ سے جنت میں داخل ہوگیا اور ایک آدمی مکھی ہی کی وجہ سے جہنم میں داخل ہوگیا۔ اس طرح کہ دو آدمی ایک قوم کے پاس سے گزرے جو اپنے بتوں کی عبادت میں مشغول تھی انھوں نے کہا آج ہم پر کوئی نہیں گزرے گا مگر یہ کہ وہ کچھ نہ کچھ پیش کرے گا ، تو انھوں نے ان دونوں میں سے ایک سے کہا : کوئی چیز پیش کرو۔ اس نے انکار کردیا تو اسے قتل کردیا گیا۔ انھوں نے دوسرے سے کہا : کوئی چیز پیش کرو، وہ کہنے لگا، میرے پاس تو کوئی بھی چیز نہیں ہے۔ انھوں نے کہا پیش کرو اگرچہ مکھی ہی ہو۔ اس آدمی نے دل میں کہا : کہ صرف مکھی پیش کروں ؟ اور اس نے مکھی پیش کردی پس یہ شخص جہنم میں داخل ہوگیا۔ اس پر حضرت سلمان (رض) نے فرمایا : یہ شخص مکھی کی وجہ سے جنت میں داخل ہوگیا اور یہ شخص مکھی کی وجہ سے جہنم میں داخل ہوگیا۔

33709

(۳۳۷۱۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا جَرِیرُ بْنُ حَازِمٍ ، عَنْ قَیْسِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ عَطَائٍ فِی رَجُلٍ أَخَذَہُ الْعَدُوُّ فَأَکْرَہُوہُ عَلَی شُرْبِ الْخَمْرِ وَأَکْلِ الْخِنْزِیرِ ، قَالَ : إِنْ أَکَلَ وَشَرِبَ فَرُخْصَۃٌ ، وَإِنْ قُتِلَ أَصَابَ خَیْرًا۔
(٣٣٧١٠) حضرت قیس بن سعد (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عطاء (رض) نے ارشاد فرمایا اس شخص کے بارے میں جس کو دشمن نے پکڑ لیا اور اس کو شراب پینے اور خنزیر کھانے پر مجبور کیا۔ آپ (رض) نے فرمایا : اگر وہ خنزیر کھاتا ہے اور شراب پی لیتا ہے۔ تو یہ رخصت ہے۔ اور اگر اسے قتل کردیا جاتا ہے تو اس نے بھلائی کو پا لیا۔

33710

(۳۳۷۱۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، قَالَ: حدَّثَنَا سُفْیَانُ، عَنْ بُرْدٍ، عَنْ مَکْحُولٍ، قَالَ: لَیْسَ فِی الْخَمْرِ رُخْصَۃٌ لأَنَّہَا لاَ تَرْوِی۔
(٣٣٧١١) حضرت برد (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت مکحول (رض) نے ارشاد فرمایا : شراب پینے میں رخصت نہیں ہے اس لیے کہ یہ کبھی سیراب نہیں کرتی۔

33711

(۳۳۷۱۲) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَن بْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ عَطِیَّۃَ ، قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا جَعْفَرٍ یَقُولُ : التَّقِیَّۃُ لاَ تَحِلُّ إِلاَّ کَمَا تَحِلُّ الْمَیْتَۃُ لِلْمُضْطَرِّ۔
(٣٣٧١٢) حضرت عمر بن عطیہ (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابو جعفر (رض) کو یوں فرماتے ہوئے سنا کہ تقیہ حلال نہیں ہے مگر اس طرح جیسا کہ مردار مجبور کے لیے حلال ہے۔

33712

(۳۳۷۱۳) حَدَّثَنَا مَرْوَانُ ، عَنْ عَوْفٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : التَّقِیَّۃُ جَائِزَۃٌ لِلْمُؤْمِنِ إِلَی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ إِلاَّ أَنَّہُ کَانَ لاَ یَجْعَلُ فِی الْقَتْلِ تَقِیَّۃً۔
(٣٣٧١٣) حضرت عوف (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت حسن بصری (رض) نے ارشاد فرمایا : تقیہ کرنا مومن کے لیے قیامت کے دن تک جائز ہے مگر یہ کہ وہ کسی کو قتل کرنے میں تقیہ نہیں کرسکتا۔

33713

(۳۳۷۱۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ رَجُلٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : التَّقِیَّۃُ إنَّمَا ہِیَ بِاللِّسَانِ لَیْسَتْ بِالْیَدِ۔
(٣٣٧١٤) حضرت ابن جریج (رض) ایک آدمی سے نقل کرتے ہیں کہ حضرت ابن عباس (رض) نے ارشاد فرمایا : تقیہ کرنا زبان سے ہوتا ہے ہاتھ سے نہیں۔

33714

(۳۳۷۱۵) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ أَبِی جَعْفَرٍ ، عَنِ الرَّبِیعِ ، عَنْ أَبِی الْعَالِیَۃِ (إِلاَّ أَنْ تَتَّقُوا مِنْہُمْ تُقَاۃً) ، قَالَ : التَّقِیَّۃُ بِاللِّسَانِ وَلَیْسَ بِالْعَمَلِ۔
(٣٣٧١٥) حضرت ربیع (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت ابو العالیہ (رض) نے اس آیت کی تفسیر میں ارشاد فرمایا : ترجمہ : مگر یہ کہ تم بچنا چاہو ان کے شر سے کسی قسم کا بچنا۔ کہ تقیہ کرنا زبان سے ہوتا ہے عمل سے نہیں۔

33715

(۳۳۷۱۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إسْرَائِیلَ ، عَنْ عَبْدِ الأَعْلَی ، عَنِ ابْنِ الْحَنَفِیَّۃِ ، قَالَ : سَمِعْتہ یَقُولُ : لاَ إیمَانَ لِمَنْ لاَ تَقِیَّۃَ لَہُ۔
(٣٣٧١٦) حضرت عبد الاعلیٰ (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت ابن حنفیہ (رض) نے ارشاد فرمایا : جو تقیہ نہیں کرتا اس کا ایمان کامل نہیں۔

33716

(۳۳۷۱۷) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَنْ أَبِی حَیَّانَ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنِ الْحَارِثِ بْنِ سُوَیْد ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : مَا مِنْ کَلاَمٍ أَتَکَلَّمُ بِہِ بَیْنَ یَدَیْ سُلْطَانٍ یَدْرَأُ عَنِّی بِہِ مَا بَیْنَ سَوْطٍ إلَی سَوْطَیْنِ إِلاَّ کُنْتُ مُتَکَلِّمًا بِہِ۔
(٣٣٧١٧) حضرت حارث بن سوید (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ (رض) نے ارشاد فرمایا : کوئی کلام ایسا نہیں ے جو میں کسی بادشاہ کے سامنے کروں اور وہ مجھے اس کے ایک دو کوڑوں سے بچا سکتا تو میں ضرور وہ کلام کروں گا۔

33717

(۳۳۷۱۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ شَرِیکٌ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ أَبِی جَعْفَرٍ ، قَالَ : التَّقِیَّۃُ أَوْسَعُ مَا بَیْنَ السَّمَائِ إلَی الأَرْضِ۔
(٣٣٧١٨) حضرت جابر (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت ابو جعفر (رض) نے ارشاد فرمایا : تقیہ تو آسمان اور زمین کے مابین خلاجتنی وسعت رکھتا ہے۔

33718

(۳۳۷۱۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ فُضَیْلِ بْنِ مَرْزُوقٍ ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ أَبِی الْحَسَنِ ، قَالَ : إنَّمَا التَّقِیَّۃُ رُخْصَۃٌ ، وَالْفَضْلُ الْقِیَامُ بِأَمْرِ اللہِ۔
(٣٣٧١٩) حضرت فضیل بن مرزوق (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت الحسن بن الحسن (رض) نے ارشاد فرمایا : یقیناً تقیہ کرنا تو رخصت ہے۔ افضل تو اللہ کے حکم پر قائم رہنا ہے۔

33719

(۳۳۷۲۰) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ خَالِدٍ ، عَنْ أَبِی قِلاَبَۃَ ، قَالَ : قَالَ حُذَیْفَۃُ : إنِّی أَشْتَرِی دِینِی بَعْضَہُ بِبَعْضٍ مَخَافَۃَ أَنْ یَذْہَبَ کُلُّہُ۔
(٣٣٧٢٠) حضرت ابو قلابہ (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت حذیفہ (رض) نے ارشاد فرمایا : کہ یقیناً میں نے اپنے دین کے بعض حصہ کو بعض حصہ کے عوض خرید لیا اس خوف سے کہ دین سارا ہی نہ چلا جائے۔

33720

(۳۳۷۲۱) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ مَیْسَرَۃَ ، عَنِ النَّزَّالِ بْنِ سَبْرَۃَ ، قَالَ : دَخَلَ ابْنُ مَسْعُودٍ وَحُذَیْفَۃُ عَلَی عُثْمَانَ ، فَقَالَ عُثْمَان لِحُذَیْفَۃَ : بَلَغَنِی أَنَّک قُلْتَ کَذَا وَکَذَا ، قَالَ : لاَ وَاللہِ مَا قُلْتہ ، فَلَمَّا خَرَجَ ، قَالَ لَہُ عَبْدُ اللہِ : سألک فَلَمْ تقر لہ ما سَمِعَتُکَ تَقُولُ ، فقَالَ : إنِّی أَشْتَرِی دِینِی بَعْضَہُ بِبَعْضٍ مَخَافَۃَ أَنْ یَذْہَبَ کُلُّہُ۔
(٣٣٧٢١) حضرت نزال بن سبرہ (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت ابن مسعود (رض) اور حضرت حذیفہ (رض) ددونوں حضرات حضرت عثمان (رض) کے پاس داخل ہوئے۔ حضرت عثمان (رض) نے حضرت حذیفہ (رض) سے پوچھا : مجھے یہ خبر پہنچی ہے کہ تم نے اس طرح اور اس طرح کہا ہے ؟ آپ (رض) نے فرمایا : نہیں اللہ کی قسم ! میں نے ایسا نہیں کہا : جب حضرت عثمان (رض) چلے گئے تو حضرت عبداللہ نے ان سے کہا : انھوں نے آپ (رض) سے سوال کیا اور میں نے جو آپ کو بات کرتے ہوئے سنا تھا آپ (رض) نے اس کا اقرار ہی نہیں کیا ؟ انھوں نے فرمایا : یقیناً میں نے اپنے دین کے بعض حصہ کو بعض حصے کے ساتھ خرید لیا اس خوف سے کہ دین سارا ہی نہ چلا جائے۔

33721

(۳۳۷۲۲) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ أَبِی مِجْلَزٍ ، قَالَ : کَانَ عُمَرُ یُغْزِی الْعَزَبَ وَیَأْخُذُ فَرَسَ الْمُقِیمِ فَیُعْطِیہ الْمُسَافِرَ۔
(٣٣٧٢٢) حضرت ابو مجلز (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) کنوارے کو جہاد پر بھیجتے تھے اور مقیم سے گھوڑا لے کر مسافر کو دے دیا کرتے تھے۔

33722

(۳۳۷۲۳) حَدَّثَنَا حُمَیْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ حَسَنٍ ، عَنْ أَبِی سَعد ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عُبَیْدِ اللہِ الثَّقَفِیِّ ، قَالَ : کَانَ لِعُمَرَ أَرْبَعَۃُ آلاَفِ فَرَسٍ عَلَی آرِیّ بِالْکُوفَۃِ مَوْسُومَۃً عَلَی أَفْخَاذِہَا فِی سَبِیلِ اللہِ فَإِنْ کَانَ فِی عَطَائِ الرَّجُلِ حَقُّہُ ، أَوْ کَانَ مُحْتَاجًا أَعْطَاہُ الْفَرَسَ ، ثُمَّ قَالَ : إِنْ أَجْرَیْتہ فَأَعْیَیْتہ ، أَوْ ضَیَّعْتہ مِنْ عَلَفٍ فَأَنْتَ ضَامِنٌ ، وَإِنْ قَاتَلْت عَلَیْہِ فَأُصِیبَ ، أَوْ أُصِبْت فَلَیْسَ عَلَیْک شَیْئٌ۔
(٣٣٧٢٣) حضرت محمد بن عبید اللہ ثقفی (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) کے پاس کوفہ میں مویشی باندھنے کی جگہ میں چار ہزار گھوڑے تھے۔ سب کی رانوں پر اللہ کے راستہ میں وقف ہونے کا نشان لگا ہوا تھا۔ اگر کسی آدمی کی سالانہ تنخواہ کا کوئی حق ہوتا یا کوئی ضرورت مند ہوتا تو آپ (رض) اس کو گھوڑا دے دیتے۔ پھر فرماتے : اگر تو نے اس کو بھگا بھگا کر عاجز کردیا یا تو نے اس کے چارہ کی وجہ سے ضائع کردیا تو تم اس کے ضامن ہو گے۔ اور اگر تم نے اس پر قتال کیا پس یہ مرگیا یا تم مرگئے۔ تو تم پر کوئی چیز لازم نہیں ہوگی۔

33723

حدثنا أبو عبد الرحمن بقی بن مخلد قَالَ حدثنا عبد اللہ بن محمد بن أبی شیبۃ قَالَ : (۳۳۷۲۴) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ ، عَنْ أَبِی الْبَخْتَرِیِّ ، قَالَ : لَمَّا غَزَا سَلْمَانُ الْمُشْرِکِینَ مِنْ أَہْلِ فَارِسَ ، قَالَ : کُفُّوا حَتَّی أَدْعُوَہُمْ کَمَا کُنْتُ أَسْمَعُ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَدْعُوہُمْ فَأَتَاہُمْ ، فَقَالَ : إنِّی رَجُلٌ مِنْکُمْ وَقَدْ تَرَوْنَ مَنْزِلَتِی مِنْ ہَؤُلاَئِ الْقَوْمِ وَإِنَّا نَدْعُوکُمْ إلَی الإِسْلاَمِ ، فَإِنْ أَسْلَمْتُمْ فَلَکُمْ مِثْلُ مَا لَنَا وَعَلَیْکُمْ مِثْلُ مَا عَلَیْنَا ، وَإِنْ أَبَیْتُمْ فَأَعْطُوا الْجِزْیَۃَ ، عَنْ یَدٍ وَأَنْتُمْ صَاغِرُونَ ، وَإِنْ أَبَیْتُمْ قَاتَلْنَاکُمْ ، قَالُوا : أَمَّا الإِسْلاَمُ فَلاَ نُسْلِمُ ، وَأَمَّا الْجِزْیَۃُ فَلاَ نُعْطِیہَا ، وَأَمَّا الْقِتَالُ فَإِنَّا نُقَاتِلُکُمْ ، قَالَ: فَدَعَاہُمْ کذَلِکَ ثَلاَثَۃَ أَیَّامٍ فَأَبَوْا عَلَیْہِ ، فَقَالَ لِلنَّاسِ : انْہَدُوا إلَیْہِمْ۔
(٣٣٧٢٤) حضرت ابو البختری (رض) فرماتے ہیں کہ جب حضرت سلمان (رض) فارسی اہل فارس کے مشرکین سے جنگ کرنے کے لیے نکلے تو آپ (رض) نے فرمایا : تم رک جاؤ یہاں تک کہ میں ان کو دعوت دوں جیسا کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دعوت دیتے ہوئے سنا ہے۔ آپ (رض) ان کے پاس آئے اور فرمایا : بلاشبہ میں تم ہی میں سے ایک آدمی ہوں اور تحقیق تم لوگوں نے اس قوم میں میرے رتبہ کو دیکھ لیا ہے۔ یقیناً ہم تمہیں اسلام کی طرف بلاتے ہیں اگر تم نے اسلام قبول کرلیا تو تمہارے لیے بھی وہی حقوق ہوں گے جو ہمیں حاصل ہیں اور تم پر وہی کچھ لازم ہوگا جو ہم پر لازم ہے۔ اور اگر تم اسلام قبول کرنے سے انکار کرتے ہو تو پھر تم ذلیل اور سرنگوں ہو کر جزیہ ادا کرو۔ اور اگر تم نے جزیہ ادا کرنے سے بھی انکار کردیا تو ہم تم سے قتال کریں گے۔ ان لوگوں نے جواب دیا۔ بہرحال اسلام تو ہم قبول نہیں کریں گے۔ اور جزیہ بھی ہم ادا نہیں کریں گے ۔ رہا قتال تو ہم یقیناً تمہارے ساتھ قتال و لڑائی کریں گے۔ راوی کہتے ہیں : آپ (رض) نے اسی طرح تین دن تک انھیں دعوت دی۔ اور انھوں نے قبول کرنے سے انکار کیا۔ تو آپ (رض) نے لوگوں سے کہا : ان پر حملہ کردو۔

33724

(۳۳۷۲۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ عَلْقَمَۃَ بْنِ مَرْثَدٍ ، عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ بُرَیْدَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : کَان رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إذَا بَعَثَ أَمِیرًا عَلَی سَرِیَّۃٍ ، أَوْ جَیْشٍ أَوْصَاہُ فِی خَاصَّۃِ نَفْسِہِ بِتَقْوَی اللہِ وَمَنْ مَعَہُ مِنَ الْمُسْلِمِینَ خَیْرًا ، وَقَالَ : اغْزُوا بِاسْمِ اللہِ فِی سَبِیلِ اللہِ تُقَاتِلُونَ مَنْ کَفَرَ بِاللہِ ، اغْزُوا فَلاَ تَغُلُّوا ، وَلاَ تَغْدِرُوا ، وَلاَ تُمَثِّلُوا ، وَلاَ تَقْتُلُوا وَلِیَدًا ، وَإِذَا لَقِیتَ عَدُوَّک مِنَ الْمُشْرِکِینَ فَادْعُہُمْ إلَی إحْدَی ثَلاَثِ خِصَالٍ ، أَوْ خِلاَلٍ ، فَأَیَّتُہُنَّ مَا أَجَابُوک فَاقْبَلْ مِنْہُمْ وَکُفَّ عَنْہُمْ ، ثُمَّ ادْعُہُمْ إلَی الإِسْلاَمِ فَإِنْ أَجَابُوک فَاقْبَلْ وَکُفَّ عَنْہُمْ ، ثُمَّ ادْعُہُمْ إلَی التَّحَوُّلِ مِنْ دَارِہِمْ إلَی دَارِ الْمُہَاجِرِینَ وَأَعْلِمْہُمْ أَنَّہُمْ إذَا فَعَلُوا ذَلِکَ أَنَّ لَہُمْ مَا لِلْمُہَاجِرِینَ ، وَأَنَّ عَلَیْہِمْ مَا عَلَی الْمُہَاجِرِینَ ، فَإِنْ أَبَوْا وَاخْتَارُوا دِیَارَہُمْ فَأَعْلِمْہُمْ أَنَّہُمْ یَکُونُونَ کَأَعْرَابِ الْمُسْلِمِینَ ، یَجْرِی عَلَیْہِمْ حُکْمُ اللہِ الَّذِی یَجْرِی عَلَی الْمُؤْمِنِینَ ، وَلاَ یَکُونُ لَہُمْ فِی الْفَیْئِ وَالْغَنِیمَۃِ نَصِیبٌ إِلاَّ أَنْ یَغْزُوا مَعَ الْمُسْلِمِینَ ، فَإِنْ أَبَوْا فَادْعُہُمْ إلَی إعْطَائِ الْجِزْیَۃِ فَإِنْ أَجَابُوا فَاقْبَلْ مِنْہُمْ وَکُفَّ عَنْہُمْ ، وَإِنْ أَبَوْا فَاسْتَعِنْ بِاللہِ ، ثُمَّ قَاتِلْہُمْ۔
(٣٣٧٢٥) حضرت بریدہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب کسی شخص کو جماعت یا لشکر پر امیر مقرر فرماتے تو اس شخص کو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خاص طور پر اللہ کے تقویٰ کی وصیت فرماتے۔ اور اس کے ساتھ جو مسلمان ہوتے ان سے بھلائی کا معاملہ کرنے کی وصیت کرتے۔ اور فرماتے : اللہ کے راستہ میں اللہ کا نام لے کر جہاد کرنا۔ جن لوگوں نے اللہ کے ساتھ کفر کیا تم ان کے ساتھ قتال کرنا۔ تم جہاد کرنا پس نہ تو خیانت کرنا اور نہ غداری کا معاملہ کرنا۔ نہ ہی ہاتھ پاؤں کاٹ کر مثلہ بنانا اور نہ ہی بچوں کو قتل کرنا۔ اور جب تم اپنے دشمن مشرکین سے ملو تو ان کو تین باتوں میں سے کسی ایک کی طرف یا یوں فرمایا کہ ان کو تین باتوں کی طرف دعوت دینا ۔ ان میں سے جو بھی وہ مان لیں اس کو ان کی جانب سے قبول کرلینا ، اور ان سے قتال کرنے سے رک جانا۔ پھر ان کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دینا۔ اگر وہ تمہاری بات مان لیں تو اس کو ان کی طرف سے قبول کرلینا اور ان سے قتال کرنے سے رک جانا۔ پھر ان کو اپنا علاقہ چھوڑ کر مہاجرین کے علاقہ میں منتقل ہونے کی دعوت دینا اور ان کو بتلا دینا کہ بیشک جب وہ ایسا کرلیں گے تو ان کو بھی وہی حقوق ملیں گے جو مہاجرین کو حاصل ہیں ، اور ان پر وہی چیزیں لازم ہیں جو مہاجرین پر لازم ہیں۔ پس اگر وہ انکار کریں اور اپنے ہی شہر کا انتخاب کریں تو ان کو بتلا دینا کہ وہ لوگ مسلمان دیہاتیوں کی طرح ہوں گے ۔ ان پر اللہ کے وہی احکام جاری ہوں گے جو مومنین پر جاری ہوتے ہیں اور ان کا مال فئی اور مال غنیمت میں کوئی حصہ نہیں ہوگا۔ مگر یہ کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ جہاد کریں اگر وہ اس بات کو قبول کرنے سے انکار کردیں تو ان کو جزیہ ادا کرنے کی طرف بلانا۔ اگر وہ اس بات کو مان لیں تو تم اس کو ان کی طرف سے قبول کرلینا اور ان کے ساتھ قتال کرنے سے رک جانا۔ اور اگر وہ اس کا بھی انکار کردیں تو تم اللہ رب العزت سے مدد طلب کرنا پھر ان سے قتال کرنا۔

33725

(۳۳۷۲۶) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، قَالَ : حدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ الْحَکَمِ النَّخَعِیِّ ، قَالَ : حَدَّثَنَا أَبُو سَبْرَۃَ النَّخَعِیُّ ، عَنْ فَرْوَۃَ بْنِ مُسَیْکٍ الْمُرَادِیِّ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إذَا أَتَیْتَ الْقَوْمَ فَادْعُہُمْ ، فَمَنْ أَجَابَک فَاقْبَلْ ، وَمَنْ أَبَی فَلاَ تعجل حَتَّی تحدث إِلَیَّ بِہِ۔ (ابوداؤد ۳۹۸۴۔ طبرانی ۸۳۶)
(٣٣٧٢٦) حضرت فروہ بن مُسَیک المرادی (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جب تم کسی قوم کے پاس آؤ تو ان کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دو ۔ جو تمہاری بات مان لے تو قبول کرلو۔ اور جو قبول کرنے سے انکار کر دے تو تم جلدی مت کرو۔ یہاں تک کہ اس کے بارے میں مجھ اطلاع کردو۔

33726

(۳۳۷۲۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، قَالَ: حدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ ذَرٍّ، عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِاللہِ بْنِ أَبِی طَلْحَۃَ، عَنْ عَلِیٍّ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَعَثَہُ فِی سَرِیَّۃٍ، فَقَالَ لِرَجُلٍ عِنْدَہُ: الْحَقْہُ وَلاَ تَدْعُہُ مِنْ خَلْفِہِ فَقُلْ: إنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَأْمُرُک أَنْ تَنْتَظِرَہُ، قَالَ: فَانْتَظَرَہُ حَتَّی جَائَ، فَقَالَ: لاَ تُقَاتِلِ الْقَوْمَ حَتَّی تَدْعُوَہُمْ۔ (طبرانی ۸۲۶۱)
(٣٣٧٢٧) حضرت علی (رض) فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انھیں ایک لشکر میں بھیجا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے پاس موجود ایک آدمی سے کہا : اس سے مل جاؤ اور تم اس کو پیچھے م سے مت پکارنا۔ اور یوں کہنا۔ بلاشبہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تمہیں انتظار کرنے کا حکم دیا ہے۔ آپ (رض) نے انتظار کیا یہاں تک کہ وہ شخص آگیا اور کہا : تم اس قوم سے قتال مت کرنا یہاں تک کہ تم ان کو دعوت دو ۔

33727

(۳۳۷۲۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ حَدَّثَنَا شُعْبَۃُ ، عَنْ غَالِبٍ الْعَبْدِیِّ ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ بَنِی نُمَیْرٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ جَدِّہِ ، أَوْ جَدِّ أَبِیہِ أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ لہ : لاَ تُقَاتِلَ الْقَوْمَ حَتَّی تَدْعُوَہُمْ۔
(٣٣٧٢٨) قبیلہ بنو نمیر کے ایک شخص اپنے والد کے دادا سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے ارشاد فرمایا : تم کسی بھی قوم سے قتال مت کرنا یہاں تک کہ ان کو دعوت دینا۔

33728

(۳۳۷۲۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا أَبُو ہِلاَلٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : إذَا لَقِیتُمَ الْعَدُوَّ فَادْعُوہُمْ۔
(٣٣٧٢٩) حضرت قتادہ (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عباس (رض) نے ارشاد فرمایا : جب تم دشمن سے ملو تو ان کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دو ۔

33729

(۳۳۷۳۰) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ، عَنِ ابْنِ أَبِی عَرُوبَۃَ، عَنْ قَتَادَۃَ، عَنْ عُمَرَ بْنِ عَبْدِالْعَزِیزِ، أَنَّہُ کَانَ یُحِبُّ أَنْ یَدْعُوَہُمْ۔
(٣٣٧٣٠) حضرت قتادہ (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن عبد العزیز (رض) مشرکین کو دعوت دینا پسند کرتے تھے۔

33730

(۳۳۷۳۱) حَدَّثَنَا حُمَیْدُ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِی صَخْرٍ، قَالَ: کَتَبَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیزِ إلَی أَہْلِ دَیْلَمٍ یَدْعُوہُمْ۔
(٣٣٧٣١) حضرت ابو صخر (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن عبد العزیز (رض) نے دیلم والوں کو خط لکھ کر انھیں اسلام کی دعوت دی۔

33731

(۳۳۷۳۲) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : إذَا قَاتَلْتُمَ الْمُشْرِکِینَ فَادْعُوہُمْ۔
(٣٣٧٣٢) حضرت اشعث (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت حسن بصری (رض) نے ارشاد فرمایا : جب تم مشرکین سے قتال کرنے لگو تو پہلے ان کو اسلام کی دعوت دو ۔

33732

(۳۳۷۳۳) حَدَّثَنَا یَعْلَی بْنُ عُبَیْدٍ ، عَنِ الأَجْلَحِ ، عَنْ عَمَّارٍ الدُّہْنِیِّ ، عَنْ أَبِی الطُّفَیْلِ ، قَالَ : بَعَثَ عَلِیٌّ مَعْقِلاً التَّیْمِیَّ إلَی بَنِی نَاجِیَۃَ ، فَقَالَ : إذَا أَتَیْتَ الْقَوْمَ فَادْعُوہُمْ ثَلاَثًا۔
(٣٣٧٣٣) حضرت ابو الطفیل (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت علی (رض) نے حضرت معقل تیمی (رض) کو لشکر دے کر بنو ناجیہ قبیلہ کی طرف بھیجا اور فرمایا : جب تم لوگ اس قوم کے پاس پہنچ جاؤ تو تم ان کو تین بار اسلام کی دعوت دینا۔

33733

(۳۳۷۳۴) حَدَّثَنَا حُمَیْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنِ الْحَسَنِ ، عَنْ مُطَرِّفٍ ، عَنْ أَبِی الْجَہْمِ أَنَّ عَلِیًّا بَعَثَ الْبَرَائَ بْنَ عَازِبٍ إلَی الْحَرُورِیَّۃِ فَدَعَاہُمْ ثَلاَثًا۔
(٣٣٧٣٤) حضرت ابو الجھم (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت علی (رض) نے حضرت براء بن عازب (رض) کو خارجیوں کی طرف لشکر دے کر بھیجا تو آپ (رض) نے ان کو تین بار دعوت دی۔

33734

(۳۳۷۳۵) حَدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنِ التَّیْمِیِّ ، عَنْ أَبِی عُثْمَانَ النَّہْدِیِّ أَنَّہُ قَالَ فِی دُعَائِ الْمُشْرِکِینَ قَبْلَ الْقِتَالِ : کُنَّا نَدْعُوا وَنَدَعُ۔
(٣٣٧٣٥) حضرت سلیمان تیمی (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت ابو عثمان نھدی (رض) نے قتال سے قبل مشرکین کو دعوت دینے کے بارے میں ارشاد فرمایا : کہ ہم ان کو دعوت دیتے تھے اور ہم چھوڑ دیتے تھے۔

33735

(۳۳۷۳۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُلَیْمَانَ التَّیْمِیِّ ، عَنْ أَبِی عُثْمَانَ ، قَالَ : کُنَّا نَدْعُوا وَنَدَعُ۔
(٣٣٧٣٦) حضرت سلیمان تیمی (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت ابو عثمان (رض) نے ارشاد فرمایا : ہم دعوت دیتے تھے اور چھوڑ دیتے تھے۔

33736

(۳۳۷۳۷) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، قَالَ : أَحَبُّ إلَیَّ أَنْ یَدْعُوَہُمْ۔
(٣٣٧٣٧) حضرت سعید (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت قتادہ (رض) نے ارشاد فرمایا : میرے نزدیک پسندیدہ یہی ہے کہ ان کو اسلام کی طرف دعوت دوں۔

33737

(۳۳۷۳۸) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنِ ابْنِ أَبِی نَجِیحٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : مَا قَاتَلَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَوْمًا قط حَتَّی یَدْعُوَہُمْ۔ (احمد ۲۳۱۔ دارمی ۲۴۴۴)
(٣٣٧٣٨) حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کبھی کسی قوم سے قتال نہیں کیا یہاں تک کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کو اسلام کی دعوت دیتے تھے۔

33738

(۳۳۷۳۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفیَان ، عَنْ مَنْصُورُ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ،َقَالَ : سَأَلْتُہ عَنِ الدَّیْلَمِ فَقَالَ : قَدْ عَلِمُوا مَا یَدْعُونَ إلَیْہِ۔
(٣٣٧٣٩) حضرت منصور (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابراہیم (رض) سے دیلم والوں کو دعوت دینے سے متعلق پوچھا : ؟ تو آپ (رض) نے ارشاد فرمایا : تحقیق وہ جان چکے ہیں جس بات کی ان کو دعوت دی گئی ہے۔

33739

(۳۳۷۴۰) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنِ الْحَسَنِ ؛ أَنَّہُ کَانَ لاَ یَرَی بَأْسًا أَنْ لاَ یَدْعُوَ الْمُشْرِکِینَ إذَا لَقِیَہُمْ ، وَقَالَ : إنَّہُمْ قَدْ عَرَفُوا دِینَکُمْ ، وَمَا تَدْعُونَہُمْ إلَیْہِ۔
(٣٣٧٤٠) حضرت قتادہ (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت حسن بصری (رض) نے ارشاد فرمایا : اس میں کوئی حرج نہیں کہ جب مسلمان مشرکین سے ملیں اور ان کو اسلام قبول کرنے کی دعوت نہ دیں۔ اس لیے کہ وہ تمہارے دین کو اور جن باتوں کی طرف تم نے ان کو دعوت دینی ہے وہ اس کو جان چکے ہیں۔

33740

(۳۳۷۴۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا أَبُو ہِلاَلٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ؛ أَنَّہُ سُئِلَ عَنِ الْعَدُوِّ : ہَلْ یُدْعَوْنَ قَبْلَ الْقِتَالِ ، قَالَ: قَدْ بَلَغَہُمُ الإِسْلاَمُ مُنْذُ بَعَثَ اللَّہُ مُحَمَّدًا صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔
(٣٣٧٤١) حضرت ابو ھلال (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت حسن بصری (رض) سے دشمن کے متعلق پوچھا گیا : کہ کیا ان کو قتال سے قبل دعوت دی جائے گی ؟ آپ (رض) نے فرمایا : جب سے اللہ رب العزت نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مبعوث فرمایا ہے تحقیق ان تک اسلام کی دعوت پہنچ چکی ہے۔

33741

(۳۳۷۴۲) حَدَّثَنَا عِیسَی بْنُ یُونُسَ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، قَالَ : کَتَبْت إلَی نَافِعٍ أَسْأَلُہُ عَنْ دُعَائِ الْمُشْرِکِینَ ، قَالَ : فَکَتَبَ إلَیَّ : أَخْبَرَنِی ابْنُ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَغَارَ عَلَی بَنِی الْمُصْطَلِقِ وَہُمْ غَارُّونَ وَنَعَمُہُمْ تُسْقَی عَلَی الْمَائِ ، وَکَانَتْ جُوَیْرِیَۃُ بِنْتُ الْحَارِثِ مِمَّا أَصَابَ ، قَالَ : وَکُنْت فِی الْخَیْلِ۔ (بخاری ۲۵۴۱۔ مسلم ۱۳۵۶)
(٣٣٧٤٢) حضرت ابن عون (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت نافع (رض) کو خط لکھ کر مشرکین کو دعوت دینے سے متعلق پوچھا : تو آپ (رض) نے میری طرف جواب لکھا کہ حضرت ابن عمر (رض) نے مجھے خبر دی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بنو مصطلق پر حملہ کیا اس حال میں کہ وہ لوگ غافل تھے، اور ان کے مویشی پانی سے سیراب ہورہے تھے ۔ اور حضرت جویریہ بنت حارث (رض) وہاں سے ملنے والے مال غنیمت میں سے تھیں۔ اور حضرت ابن عمر (رض) نے فرمایا : اور میں گھوڑوں میں تھا۔

33742

(۳۳۷۴۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ بْنِ عَمَّارٍ الْیَمَامِیِّ ، عَنْ إیَاسِ بْنِ سَلَمَۃَ بْنِ الأَکْوَعِ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : غَزَوْنَا مَعَ أَبِی بَکْرٍ ہَوَازِنَ عَلَی عَہْدِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَأَتَیْنَا مَائً لِبَنِی فَزَارَۃَ فَعَرَّسْنَا حَتَّی إذَا کان عِنْدَ الصَّبَاحِ شَنَنَّاہا عَلَیْہِمْ غَارَۃً۔ (مسلم ۱۳۷۵۔ ابوداؤد ۲۵۸۹)
(٣٣٧٤٣) حضرت سلمہ بن اکوع (رض) فرماتے ہیں کہ ہم نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں حضرت ابوبکر (رض) کے ساتھ قبیلہ ہوازن پر لشکر کشی کی ہم لوگ بنو فزارہ کی پانی کی جگہ پر آئے اور ہم نے وہاں رات گزاری۔ یہاں تک کہ جب صبح کا وقت آگیا تو ہم نے اچانک ان پر حملہ کردیا۔

33743

(۳۳۷۴۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ أَبِی الأَخْضَرِ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ عُرْوَۃَ ، عَنْ أُسَامَۃَ بْنِ زَیْدٍ ، قَالَ : بَعَثَنِی النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إلَی قَرْیَۃٍ ، یُقَالَ لَہَا یُبْنَی ، فَقَالَ : ائْتِہَا صَبَاحًا ، ثُمَّ حَرِّقْ۔ (ابوداؤد ۲۶۰۹۔ احمد ۲۰۵)
(٣٣٧٤٤) حضرت اسامہ بن زید (رض) فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے ایک بستی کی طرف بھیجا جس کا نام یبنی تھا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم صبح کے وقت وہاں پہنچنا پھر اس کو جلا دینا۔

33744

(۳۳۷۴۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا عِکْرِمَۃُ بْنُ عَمَّارٍ ، عَنْ إیَاسِ بْنِ سَلَمَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : غَزَوْنَا مَعَ أَبِی بَکْرٍ ہَوَازِنَ فَأَتَیْنَا أَہْلَ مَائٍ فَبَیَّتْنَاہُمْ فَقَتَلْنَا مِنْہُمْ تِسْعَۃً ، أَوْ سَبْعَۃً أَہْلَ أَبْیَاتٍ۔
(٣٣٧٤٥) حضرت ایاس بن سلمہ (رض) فرماتے ہیں کہ ان کے والد حضرت سلمہ (رض) نے ارشاد فرمایا : ہم نے حضرت ابوبکر (رض) کے ساتھ قبیلہ ہوازن پر لشکر کشی کی، ہم لوگ ان کی پانی کی جگہوں پر آئے ہم نے وہاں رات گزاری ہم نے وہاں مقیم نو یا سات افراد کو قتل کردیا۔

33745

(۳۳۷۴۶) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ حَفْصٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ طَلْحَۃَ ، عَنْ حُمَیْدٍ ، عَنْ أَنَسٍ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سَارَ إلَی خَیْبَرَ فَانْتَہَی إلَیْہَا لَیْلا ، وَکَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إذَا طَرَقَ قَوْمًا لَمْ یُغِرْ عَلَیْہِمْ حَتَّی یُصْبِحَ۔ (بخاری ۳۷۱۔ مسلم ۱۰۴۴)
(٣٣٧٤٦) حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خیبر کی طرف چلے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وہاں رات کے وقت پہنچے۔ اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب کسی قوم کے پاس رات کے وقت پہنچتے تھے۔ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان پر حملہ نہیں فرماتے تھے یہاں تک کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صبح کرلیتے۔

33746

(۳۳۷۴۷) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا شُعْبَۃُ ، عَنْ أَبِی عِمْرَانَ الْجَوْنِیِّ ، عَنْ رَجُلٍ ، قَالَ : کُنَّا نُغِیرُ عَلَیْہِمْ فَنُصِیبُ مِنْہُمْ ، وَأَبُو مُوسَی یَسْمَعُ أَصْوَاتَنَا۔
(٣٣٧٤٧) حضرت ابو عمران (رض) فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے فرمایا : کہ ہم لوگ مشرکین پر حملہ کرتے تھے اور ہم ان سے مال حاصل کرلیتے تھے۔ اس حال میں کہ حضرت ابو موسیٰ (رض) ہماری آواز سن رہے ہوتے تھے۔

33747

(۳۳۷۴۸) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنِ النَّضْرِ بْنِ عَرَبیٍّ ، قَالَ : کَانَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیزِ یَکْتُبُ إلَی أُمَرَائِ الأَجْنَادِ یَنْہَاہُمْ عَنْ إغَارَۃِ الشِّتَائِ۔
(٣٣٧٤٨) حضرت نضر بن عربی (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن عبد العزیز (رض) اجناد کے امراء کو خط لکھ کر ان کو سردیوں میں حملہ کرنے سے روکتے تھے۔

33748

(۳۳۷۴۹) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ نَوْفَلِ بْنِ مُسَاحِقٍ ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ مُزَیْنَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إذَا بَعَثَ سَرِیَّۃً ، قَالَ لَہُمْ : إذَا رَأَیْتُمْ مَسْجِدًا ، أَوْ سَمِعْتُمْ مُؤَذِّنًا فَلاَ تَقْتُلُوا أَحَدًا۔ (ابوداؤد ۲۶۲۸۔ ترمذی ۱۵۴۹)
(٣٣٧٤٩) قبیلہ مزینہ کے ایک شخص اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب کسی لشکر کو بھیجتے تھے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے فرماتے تھے : جب تم مسجد دیکھو یا تم مؤذن کی آواز سنو تو تم کسی کو قتل مت کرو۔

33749

(۳۳۷۵۰) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ حَفْصٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ طَلْحَۃَ ، عَنْ حُمَیْدٍ ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ : کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إذَا طَرَقَ قَوْمًا فإنْ سَمِعَ أَذَانًا أَمْسَکَ۔ (بخاری ۶۱۰۔ احمد ۲۳۶)
(٣٣٧٥٠) حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب رات کے وقت کسی قوم کے پاس آتے اور اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اذان سنتے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قتال سے رک جاتے۔

33750

(۳۳۷۵۱) حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ سُلَیْمَانَ الرَّازِیّ، عَنْ أَبِی جَعْفَرٍ، عَنِ الرَّبِیعِ، عَنْ أَبِی الْعَالِیَۃِ أَنَّ أَبَا بَکْرٍ کَانَ إذَا بَعَثَ جَیْشًا إلَی أَہْلِ الرِّدَّۃِ ، قَالَ : اجْلِسُوا قَرِیبًا ، فَإِنْ سَمِعْتُمَ النِّدَائَ إلَی أَنْ تَطْلُعَ الشَّمْسُ وَإِلاَّ فَأَغِیرُوا عَلَیْہِمْ۔
(٣٣٧٥١) حضرت ابوالعالیہ (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت ابوبکر (رض) جب کوئی لشکرمرتدین کی طرف بھیجتے تو فرماتے : تم لوگ بستی کے قریب ہو کر بیٹھ جانا، پس اگر سورج طلوع ہونے تک اذان کی آواز سن لو تو ٹھیک ورنہ تم ان پر حملہ کردینا۔

33751

(۳۳۷۵۲) حَدَّثَنَا یَعْلَی بْنُ عُبَیْدٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا أَبُو حَیَّانَ ، عَنْ شَیْخٍ مِنْ أَہْلِ الْمَدِینَۃِ ، قَالَ : کَانَ بَیْنِی وَبَیْنَ کَاتِبِ عُبَیْدِ اللہِ صَدَاقَۃٌ وَمَعْرِفَۃٌ ، فَکَتَبْتُ إلَیْہِ أَنْ یَنْسَخَ لِی رِسَالَۃَ عَبْدِ اللہِ بْنِ أَبِی أَوْفَی ، فَقَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لاَ تَسْأَلُوا لِقَائَ الْعَدُوِّ ، وَإِذَا لَقِیتُمُوہُمْ فَاصْبِرُوا وَاعْلَمُوا أَنَّ الْجَنَّۃَ تَحْتَ ظِلاَلِ السُّیُوفِ ، وَکَانَ یَنْتَظِرُ ، فَإِذَا زَالَتِ الشَّمْسُ نَہَدَ إلَی عَدُوِّہِ۔
(٣٣٧٥٢) حضرت ابو حیان (رض) فرماتے ہیں کہ مدینہ منورہ کے ایک شیخ نے فرمایا : کہ میرے اور حضرت عبید اللہ کے کاتب کے درمیان دوستی اور جان پہچان تھی۔ میں نے اس کی طرف خط لکھا کہ وہ مجھے حضرت عبداللہ بن ابی اوفی (رض) کا وہ خط لکھ دے جس میں انھوں نے فرمایا : کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے کہ تم دشمن سے ملاقات کا سوال مت کرو ۔ اور جب تمہاری دشمن سے ملاقات ہوجائے تو صبر کرو، اور جان لو کہ بیشک جنت تلواروں کے سائے کے نیچے ہے۔ اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انتظار فرماتے تھے ۔ جب سورج ڈھل جاتا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دشمن پر حملہ فرما دیتے ۔

33752

(۳۳۷۵۳) حَدَّثَنَا عَفَّانُ وَزَیْدُ بْنُ الْحُبَابِ ، قَالاَ : حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَنْ أَبِی عِمْرَانَ الْجَوْنِیِّ ، عَنْ عَلْقَمَۃَ بْنِ عَبْدِ اللہِ الْمُزَنِیّ ، عَنْ مَعْقِلِ بْنِ یَسَارٍ ، عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ مُقَرِّنٍ ، قَالَ : شہدت رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إذَا کَانَ عِنْدَ الْقِتَالِ لَمْ یُقَاتِلْ أَوَّلَ النَّہَارِ وَآخِرَہُ إلَی أَنْ تَزُولَ الشَّمْسُ وَتَہُبَّ الرِّیَاحُ وَیَتَنَزَّلَ النَّصْرُ۔ (ابوداؤد ۲۶۴۸۔ ترمذی ۱۶۱۳)
(٣٣٧٥٣) حضرت نعمان بن مقرن (رض) فرماتے ہیں کہ میں لڑائی میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ حاضر تھا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دن کے ابتدائی حصہ میں قتال نہیں فرمایا۔ اور قتال کو سورج کے ڈھل جانے ، ہوا کے چلنے اور مدد کے نازل ہونے تک مؤخر فرمایا۔

33753

(۳۳۷۵۴) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ أَبِی مَالِکٍ الأَشْجَعِیِّ ، عَنْ نُعَیْمِ بْنِ أَبِی ہِنْدٍ ، عَنِ ابْنِ سَمُرَۃَ بْنِ جُنْدُبٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَنْ قَتَلَ فَلَہُ السَّلَبُ۔ (ابن ماجہ ۲۸۳۸۔ احمد ۱۲)
(٣٣٧٥٤) حضرت سمرہ بن جندب (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جو شخص قتل کرے تو مقتول کا مال قتل کرنے والے کے لیے ہی ہوگا۔

33754

(۳۳۷۵۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ أَبِی الْعُمَیْسِ ، عَنْ إیَاسِ بْنِ سَلَمَۃَ بْنِ الأَکْوَعِ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَنْ قَتَلَ فَلَہُ السَّلَبُ۔ (بخاری ۳۰۵۱۔ ابوداؤد ۲۶۴۶)
(٣٣٧٥٥) حضرت سلمہ بن اکوع (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جو شخص قتل کرے تو مقتول کا مال قاتل کا ہی ہوگا۔

33755

(۳۳۷۵۶) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ أَبِی طَلْحَۃَ ، عَنْ أَنَسٍ أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ یَوْمَ حُنَیْنٍ : مَنْ قَتَلَ قَتِیلاً فَلَہُ سَلَبُہُ ، فَقَتَلَ أَبُو طَلْحَۃَ یَوْمَئِذٍ عِشْرِینَ رَجُلاً فَأَخَذَ أَسْلاَبَہُمْ۔ (ابوداؤد ۲۷۱۲۔ احمد ۱۱۴)
(٣٣٧٥٦) حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جنگ حنین والے دن ارشاد فرمایا : جو شخص کسی آدمی کو قتل کرے گا تو مقتول کا مال اسی کو ملے گا، پس حضرت ابو طلحہ (رض) نے اس دن بیس آدمیوں کو قتل کیا اور ان کا مال لے لیا۔

33756

(۳۳۷۵۷) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الشَّیْبَانِیِّ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عُبَیْدِ اللہِ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِی وَقَّاصٍ ، قَالَ : لَمَّا کَانَ یَوْمُ بَدْرٍ قَتَلْتُ سَعِیدَ بْنَ الْعَاصِ وَأَخَذْت سَیْفَہُ ، وَکَانَ سَیْفَہُ یُسَمَّی ذَا الْکَتِیفَۃِ ، قَالَ : وَقُتِلَ أَخِی عُمَیْرٌ ، فَجِئْت بِالسَّیْفِ إِلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : اذْہَبْ فَاطْرَحْہُ فِی الْقَبَضِ : فَرَجَعْت وَبِی مَا لاَ یَعْلَمُہُ إِلاَّ اللَّہُ مِنْ قَتْلِ أَخِی وَأَخْذِ سَلَبِی ، فَمَا لَبِثْت إِلاَّ قَلِیلاً حَتَّی نَزَلَتْ سُورَۃُ الأَنْفَالِ ، فَدَعَانِی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : فَقَالَ : اذْہَبْ فَخُذْ سَیْفَک۔ (احمد ۱۸۰)
(٣٣٧٥٧) حضرت محمد بن عبید اللہ (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت سعید بن ابی وقاص (رض) نے ارشاد فرمایا : جب غزوہ بدر کا دن تھا تو میں نے حضرت سعید بن عاصی کو قتل کیا اور میں نے اس کی تلوار لے لی اور اس کی تلوار کا نام ذوالکتیفہ تھا۔ اور آپ (رض) نے فرمایا : کہ میرے بھائی عمیر کو بھی قتل کردیا گیا تھا۔ پس میں تلوار لے کر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آیا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جاؤ اور اس تلوار کو مقبوضہ مال غنیمت میں ڈال دو ۔ پس میں لوٹا اس حال میں کہ میرے دل میں میرے بھائی کے قتل اور مقتول کا مال لینے سے متعلق جو بات تھی وہ اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا تھا ۔ میں تھوڑی دیر ہی ٹھہرا تھا کہ اتنے میں سورة الانفال نازل ہوگئی ۔ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے بلایا اور فرمایا : جاؤ اپنی تلوار لے لو۔

33757

(۳۳۷۵۸) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : غَزَا ابْنُ عُمَرَ الْعِرَاقَ ، فَقَالَ لَہُ عُمَرُ : بَلَغَنِی أَنَّک بَارَزْت دِہْقَانًا ، قَالَ : نَعَمْ ، فَأَعْجَبَہُ ذَلِکَ فَنَفَّلَہُ سَلَبَہُ۔
(٣٣٧٥٨) حضرت نافع (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عمر (رض) عراق میں جنگ کے لیے تشریف لے گئے۔ اس پر حضرت عمر (رض) نے انھیں فرمایا : مجھے خبر ملی ہے کہ تم نے ایک جاگیر دار سے مقابلہ کیا۔ انھوں نے فرمایا : جی ہاں ! حضرت عمر (رض) کو اس پر تعجب ہوا اور آپ (رض) نے ان کو اس مقتول کا مال بطور زائد دیا۔

33758

(۳۳۷۵۹) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِِ ، عَنِ الأَسْوَدِ بْنِ قَیْسٍ ، عَنْ شَبْرِ بْنِ عَلْقَمَۃَ ، قَالَ : بَارَزْت رَجُلاً یَوْمَ الْقَادِسِیَّۃِ مِنَ الأَعَاجِمِ فَقَتَلْتہ وَأَخَذْت سَلَبَہُ ، فَأَتَیْت سَعْدًا ، فَخَطَبَ سَعْدٌ أَصْحَابَہُ ، ثُمَّ قَالَ : ہَذَا سَلَبُ شَبْرٍ ، لَہُوَ خَیْرٌ مِنَ اثْنَیْ عَشَرَ أَلْفَ دِرْہَمٍ ، وَإِنَّا قَدْ نَفَّلْنَاہُ إیَّاہُ۔
(٣٣٧٥٩) حضرت اسود بن قیس (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت شبر بن علقمہ (رض) نے ارشاد فرمایا : کہ میں نے جنگ قادسیہ کے دن اہل عجم میں سے ایک آدمی کے ساتھ مقابلہ کیا اور میں نے اس کو قتل کردیا اور اس کا مال لے لیا پھر میں حضرت سعد (رض) کے پاس آیا تو حضرت سعد (رض) نے اپنے اصحاب سے خطاب کیا اور فرمایا : یہ شبر کا مال ہے۔ اور یہ بارہ ہزار درہم سے بہتر ہے۔ اور یقیناً ہم نے یہ مال ان کو بطور زائد دے دیا۔

33759

(۳۳۷۶۰) حَدَّثَنَا عیِسیَ بْنُ یُونُسَ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ وَہِشَامٌ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ ، قَالَ ابْنُ عَوْنٍ : بَارَزَ الْبَرَائُ بْنُ مَالِکٍ ، وَقَالَ ہِشَامٌ : حَمَلَ الْبَرَائُ بْنُ مَالِکٍ عَلَی مَرْزُبَانِ الزَّارَۃِ یَوْمَ الزَّارَۃِ ، وَطَعَنَہُ طَعْنَۃً ، دَقَّ قَرْبُوسَ سَرْجِہِ فَقَتَلَہُ وَسَلَبَہُ سِوَارَیْہِ وَمِنْطَقَتَہُ ، فَلَمَّا قَدِمْنَا صَلَّی عُمَرُ الصُّبْحَ ، ثُمَّ أَتَانَا ، فَقَالَ : أَثَمَّ أَبُو طَلْحَۃَ ؟ فَخَرَجَ إلَیْہِ ، فَقَالَ : إنَّا کُنَّا لاَ نُخَمِّسُ السَّلَبَ ، وَإِنَّ سَلَبَ الْبَرَائِ مَالٌ فَخُمُسُہُ فَبَلَغَ سِتَّۃَ آلاَفٍ ، بَلَغَ ثَلاَثِینَ أَلْفًا ، قَالَ مُحَمَّدُ : فَحَدَّثَنِی أَنَسُ بْنُ مَالِکٍ أَنَّہُ أَوَّلُ سَلَبٍ خُمِّسَ فِی الإِسْلاَمِ۔
(٣٣٧٦٠) حضرت عیسیٰ بن یونس (رض) حضرت ابن عون اور حضرت ہشام ان دونوں سے اور حضرت ابن سیرین (رض) حضرت انس بن مالک (رض) سے نقل کرتے ہیں۔ حضرت ابن عون نے یوں فرمایا کہ حضرت براء بن مالک (رض) نے مقابلہ کیا اور حضرت ہشام (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت براء بن مالک (رض) نے جنگ زارہ کے دن مرزبان زارہ پر حملہ کردیا اور آپ (رض) نے اس کو نیزہ مارا جو اس کی زین کے ابھرے ہوئے کنارے میں گھس گیا اور وہ مرگیا اور آپ (رض) نے اس کے کنگن اور کمر بند لے لیے۔ آپ (رض) فرماتے ہیں کہ جب ہم واپس لوٹے تو حضرت عمر (رض) نے صبح کی نماز پڑھائی پھر آپ (رض) ہمارے پاس تشریف لائے۔ اور پوچھا کہ کیا ابو طلحہ یہاں ہیں ؟ اتنے میں حضرت ابو طلحہ آپ (رض) کے پاس نکل آئے تو آپ (رض) نے فرمایا : یقیناً ہم مقتول کے مال میں سے خمس نہیں لیتے۔ لیکن براء کے مقتول کا سامان بہت زیادہ مال ہے پس آپ (رض) نے اس میں سے خمس وصول کیا جو چھ ہزار بنا اس لیے کہ اس کی کل قیمت تیس ہزار تھی۔ امام محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں کہ حضرت انس بن مالک (رض) نے مجھ سے بیان کیا : کہ اسلام میں یہ پہلا مقتول سے چھینا ہوا سامان تھا جس میں سے خمس وصول کیا گیا۔

33760

(۳۳۷۶۱) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ حَسَّانَ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ ، قَالَ : کَانَ السَّلَبُ لاَ یُخَمَّسُ ، فَکَانَ أَوَّلُ سَلَبٍ خُمِّسَ فِی الإِسْلاَمِ سَلَبُ الْبَرَائِ بْنِ مَالِکَ ، وَکَانَ حَمَلَ عَلَی مَرْزُبَانِ الزَّارَۃِ فَطَعَنَہُ بِالرُّمْحِ حَتَّی دَقَّ قَرْبُوسَ السَّرْجِ ، ثُمَّ نَزَلَ إلَیْہِ فَقَطَعَ مِنْطَقَتَہُ وَسِوَارَیْہِ ، قَالَ : فَلَمَّا قَدِمْنَا الْمَدِینَۃَ صَلَّی عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ صَلاَۃَ الْغَدَاۃِ ، ثُمَّ أَتَانَا ، فَقَالَ : السَّلاَمُ عَلَیْکُمْ أَثَمَّ أَبُو طَلْحَۃَ ، فَقَالَ : نَعَمْ ، فَخَرَجَ إلَیْہِ ، فَقَالَ عُمَرُ : إنَّا کُنَّا لاَ نُخَمِّسُ السَّلَبَ ، وَإِنَّ سَلَبَ الْبَرَائِ بْنِ مَالِکٍ مَالٌ وَإِنِّی خَامِسُہُ ، فَدَعَا الْمُقَوِّمِینَ فَقُومُوا ثَلاَثِینَ أَلْفًا فَأَخَذَ مِنْہَا سِتَّۃَ آلاَفٍ۔
(٣٣٧٦١) حضرت ابن سیرین (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت انس بن مالک (رض) نے ارشاد فرمایا : کہ مقتول سے چھینے ہوئے مال میں سے خمس وصول نہیں کیا جاتا تھا۔ اسلام میں سب سے پہلا خمس جو مقتول کے مال سے لیا گیا وہ حضرت براء بن مالک (رض) کے مقتول کے سامان سے لیا گیا ۔ اس طرح کہ آپ (رض) نے مرزبان زارہ پر حملہ کیا اور آپ (رض) نے اس کو نیزہ مارا جو اس کی زین کے ایک سرے میں گھس گیا۔ پھر آپ (رض) اس کے پاس آئے اور اس کی کمر بند اور اس کے کنگنوں کو کاٹ کر اتار لیا ۔ آپ (رض) فرماتے ہیں کہ جب ہم لوگ مدینہ منورہ واپس آئے تو حضرت عمر بن خطاب (رض) نے صبح کی نماز پڑھائی۔ پھر آپ (رض) ہمارے پاس تشریف لائے اور سلام کرنے کے بعد پوچھا : کہ کیا ابو طلحہ یہاں ہیں ؟ انھوں نے کہا : جی ہاں ! میں ہوں۔ اور وہ حضرت عمر (رض) کے پاس نکل آئے ۔ اس پر حضرت عمر (رض) نے فرمایا : ہم مقتول سے چھینے ہوئے مال میں سے خمس نہیں لیتے۔ اور یقیناً براء کے مقتول کا سامان بہت بڑا مال ہے۔ یقیناً میں اس کا خمس لوں گا۔ پس آپ (رض) نے قیمت لگانے والوں کو بلایا تو انھوں نے اس کی تیس ہزار قیمت لگائی۔ آپ (رض) نے اس میں سے چھ ہزار وصول کرلیے۔

33761

(۳۳۷۶۲) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ أَبِی بَکْرٍ ، قَالَ : حدِّثْتُ ، عَنْ أَبِی قَتَادَۃَ الأَنْصَارِیِّ أَنَّہُ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَنْ قَتَلَ قَتِیلاً فَلَہُ سَلَبُہُ قَالَ ، فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللہِ، قَدْ قَتَلْت قَتِیلاً ذا سلب، ثُمَّ أَجْہَضَتْنِی عَنْہُ الْقِتَالُ فَمَا أَدْرِی مَنْ سَلَبَہُ، قَالَ رَجُلٌ مِنْ أَہْلِ مَکَّۃَ: صَدَقَ یَا رَسُولَ اللہِ ، قَدْ قَتَلَ قَتِیلاً فَسَلَبْتُہُ فَأرْضِہِ عَنِّی ، قَالَ أَبُو بَکْرٍ: لاَ وَاللہِ لاَ تَفْعَلْ ، تَنْطَلِقُ إلَی أَسَدٍ مِنْ أُسْدِ اللہِ یُقَاتِلُ عَنْہُ تُقَاسِمُہُ ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : صَدَقَ ادْفَعْ إلَیْہِ سَلَبَہُ۔ (بخاری ۲۱۰۰۔ ملم ۱۳۷۰)
(٣٣٧٦٢) حضرت ابو قتادہ انصاری (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جو شخص کسی کو قتل کرے گا تو اس مقتول کا مال قاتل کا ہوگا۔ آپ (رض) فرماتے ہیں : میں نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول 5! میں نے ایک بہت سامان والے شخص کو قتل کیا تھا پھر لڑائی نے مجھے اس سے مشغول کردیا ۔ میں نہیں جانتا کہ کس نے اس کا سامان اتار لیا ؟ مکہ کا ایک شخص کہنے لگا۔ اے اللہ کے رسول 5! اس نے سچ کہا : تحقیق اس نے ایک شخص کو قتل کیا تھا پس میں نے اس کا سامان اتار لیا اب آپ (رض) اس کو میری طرف سے خوش کردیں۔ حضرت ابوبکر (رض) نے فرمایا : نہیں اللہ کی قسم ! آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایسا نہیں کریں گے۔ کیا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے شیروں میں سے ایک شیر کا مال دوسروں میں تقسیم فرما دیں گے ؟ اس پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ابوبکر نے سچ کہا : تم اس کا سامان اسے دے دو ۔

33762

(۳۳۷۶۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا عِکْرِمَۃُ بْنُ عَمَّارٍ ، عَنْ إیَاسِ بْنِ سَلَمَۃَ بْنِ الأَکْوَعِ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : بَارَزْت رَجُلاً فَقَتَلْتہ ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَنْ قَتَلَ ہَذَا ؟ قَالُوا ابْنُ الأَکْوَعِ ، قَالَ : لَہُ سَلَبُہُ۔ (مسلم ۱۳۷۴۔ ابوداؤد ۲۶۴۷)
(٣٣٧٦٣) حضرت ایاس بن سلمہ (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت سلمہ بن اکوع (رض) نے ارشاد فرمایا : کہ میں نے ایک آدمی سے مقابلہ کیا اور میں نے اسے قتل کردیا ۔ پس رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا : اس شخص کو کس نے قتل کیا ؟ لوگوں نے کہا : ابن اکوع نے ۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اس مقتول کا مال ابن اکوع کے لیے ہوگا۔

33763

(۳۳۷۶۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ عَبْدِ الْکَرِیمِ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ ؛ أَنَّ الزُّبَیْرَ بَارَزَ رَجُلاً فَقَتَلَہُ ، قَالَ : فَنَفَلَہُ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سَلَبَہُ۔ (عبدالرزاق ۹۴۷۷۔ طحاوی ۲۲۶)
(٣٣٧٦٤) حضرت عکرمہ (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت زبیر (رض) نے ایک آدمی سے مقابلہ کیا اور آپ (رض) نے اس کو قتل کردیا تو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس مقتول کا مال انھیں بطور زائد کے دیا۔

33764

(۳۳۷۶۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ أبیہ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِی عُبَیْدَۃَ ، قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللہِ : نَفَّلَنَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سَیْفَہُ ، یَعْنِی أَبَا جَہْلٍ۔ (ابوداؤد ۲۷۱۶۔ ابویعلی ۵۲۰۹)
(٣٣٧٦٥) حضرت ابو عبیدہ (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) نے ارشاد فرمایا : کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں ابو جہل کی تلوار زائد مال کے طور پردے دی۔

33765

(۳۳۷۶۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنِ الأَسْوَدِ بْنِ قَیْسٍ الْعَبْدِیِّ ، عَنْ شَبْرِ بْنِ عَلْقَمَۃَ ، قَالَ : لَمَّا کَانَ یَوْمُ الْقَادِسِیَّۃِ قَامَ رَجُلٌ مِنْ أَہْلِ فَارِسَ فَدَعَا إلی المبارزۃ فذکر من عظمہ فقام إلیہ رجل قصیر یقال لہ شبر بن علقمۃ قَالَ : فقال بہ الفارسی ہَکَذَا ، یَعْنِی احْتَمَلَہُ ، ثُمَّ ضَرَبَ بِہِ الأَرْضَ فَصَرَعَہُ ، قَالَ : فَأَخَذَ شَبْرٌ خِنْجَرًا کَانَ مَعَ الْفَارِسِیِّ ، فَقَالَ بہ فِی بَطْنِہِ ہکذا ، یَعْنِی فَخَضخَضَہُ ، ثُمَّ انْقَلَبَ عَلَیْہِ فَقَتَلَہُ ، ثُمَّ جَائَ بِسَلَبِہِ إلَی سَعْدٍ فَقُوِّمَ اثْنَیْ عَشَرَ أَلْفًا فَنَفَّلَہُ إیَّاہُ۔
(٣٣٧٦٦) حضرت اسود بن قیس العبدی (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت شبر بن علقمہ (رض) نے ارشاد فرمایا : کہ جب جنگ قادسیہ کا دن تھا تو اہل فارس میں سے ایک آدمی کھڑا ہوا اور اس نے مقابلہ کے لیے للکارا اور اپنی بڑائی بیان کی۔ تو ایک چھوٹا سا آدمی جس کو شبر بن علقمہ کہتے ہیں۔ وہ کھڑا ہوا۔ اس پر اس ایرانی نے کہا : یہ آدمی یعنی اس نے غصہ کا اظہار کیا پھر اس نے اس شخص کو زمین پر گرا یا اور پچھاڑ دیا۔ اتنے میں شبر نے خنجر پکڑا جو اس ایرانی کے پاس تھا۔ اور اس کے پیٹ میں اس کو گاڑ دیا اس طرح کر کے اس دوران حضرت شبر (رض) نے اپنے ہاتھ کو حرکت دے کر دکھلایا۔ پھر آپ (رض) اس کے اوپر آگئے اور اس کو قتل کردیا ۔ پھر آپ اس سے چھینا ہوا مال لے کر حضرت سعد (رض) کے پاس آئے انھوں نے اس کی بارہ ہزار قیمت لگائی اور یہ مال آپ (رض) کو بطور زائد کے عطا کردیا۔

33766

(۳۳۷۶۷) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، قَالَ : سَمِعَتْ نَافِعًا یَقُولُ : لَمْ نَزَلْ نَسْمَعُ مُنْذُ قَطُّ إذَا الْتَقَی الْمُسْلِمُونَ وَالْکُفَّارُ فَقَتَلَ رَجُلٌ مِنَ الْمُسْلِمِینَ رَجُلاً مِنَ الْکُفَّارِ فَإِنَّ سَلَبَہُ لَہُ إِلاَّ أَنْ یَکُونَ فِی مَعْمَعَۃِ الْقِتَالِ فَإِنَّہُ لاَ یُدْرَی مَنْ قَتَلَ قَتِیلاً۔
(٣٣٧٦٧) حضرت ابن جریج (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے نافع (رض) کو یوں فرماتے ہوئے سنا کہ ہم لوگ بچپن سے ہمیشہ یوں ہی سنتے آئے ہیں کہ جب مسلمان اور کفار کا آمنا سامنا ہو پھر مسلمانوں کا ایک آدمی کفار کے ایک آدمی کو قتل کر دے تو اس مقتول کا سامان قتل کرنے والے کا ہوگا ۔ مگر یہ کہ وہ جنگ کی شدت میں ہو اور وہ نہ جانتا ہو کہ اس نے کس کو قتل کیا ہے۔

33767

(۳۳۷۶۸) حَدَّثَنَا الضَّحَّاکُ بْنُ مَخْلَدٍ ، عَنِ الأَوْزَاعِیِّ ، عَنِ ابْنِ شِہَابٍ ، عَنِ الْقَاسِمِ ، قَالَ : سُئِلَ ابْنُ عَبَّاسٍ ، عَنِ السَّلَبِ ، قَالَ : لاَ سَلَبَ إِلاَّ مِنَ النَّفْلِ ، وَفِی النَّفْلِ الْخُمُسُ۔
(٣٣٧٦٨) حضرت قاسم (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عباس (رض) سے مال سلب کے بارے میں سوال کیا گیا ؟ تو آپ (رض) نے جواب دیا : سلب کا مال تو زائد عطیہ ہے ، اور زائد عطیہ میں خمس ہوتا ہے۔

33768

(۳۳۷۶۹) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِی سُفْیَانَ ، عَنْ جَابِرٍ ، وَعَنْ أَبِی صَالِحٍ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : أُمِرْت أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّی یَقُولُوا : لاَ إلَہَ إِلاَّ اللَّہُ ، فَإذَا قَالَوہا : عَصَمُوا بِہَا أَمْوَالَہُمْ وَدِمَائَہُمْ ، وَحِسَابُہُمْ عَلَی اللہِ۔
(٣٣٧٦٩) حضرت جابر (رض) اور حضرت ابوہریرہ (رض) یہ دونوں حضرات فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے قتال کروں یہاں تک کہ وہ لا الہ الا اللہ پڑھ لیں۔ پس جب ان لوگوں نے یہ کلمہ پڑھ لیا ۔ تو انھوں نے ایسا کرنے سے اپنے مال اور اپنی جانوں کو محفوظ کرلیا اور ان کا حساب اللہ کے ذمہ ہوگا۔

33769

(۳۳۷۷۰) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنْ أَبِی مَالِکٍ الأَشْجَعِیِّ سَعْدِ بْنِ طَارِقٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ أَبِی یَقُولُ : سَمِعْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : مَنْ وَحَّدَ اللَّہَ وَکَفَرَ بِمَا یُعْبَدُ مِنْ دُونِہِ حَرُمَ مَالُہُ وَدَمُہُ ، وَحِسَابُہُ عَلَی اللہِ۔
(٣٣٧٧٠) حضرت طارق (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یوں فرماتے ہوئے سنا کہ جس شخص نے اللہ کی وحدانیت بیان کی اور اللہ کے سوا جن کی عبادت کی جاتی ہے ان کو نہ مانا تو اس کا مال اور اس کی جان حرام ہوگئی اور اس کا حساب اللہ کے ذمہ ہوگا۔

33770

(۳۳۷۷۱) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِی ظَبْیَانَ ، عَنْ أُسَامَۃَ بْنِ زَیْدٍ ، قَالَ : بَعَثَنَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إلَی الْحُرَقَاتِ مِنْ جُہَیْنَۃَ ، قَالَ : فَصَبَّحْنَا الْقَوْمَ وَقَدْ نَُذروا بِنَا ، قَالَ : فَخَرَجْنَا فِی آثَارِہِمْ فَأَدْرَکْت رَجُلاً مِنْہُمْ فَجَعَلْتُ إذَا لَحِقْتہ قَالَ : لاَ إلَہَ إِلاَّ اللَّہُ ، قَالَ : فَظَنَنْت أنہ إنَّمَا یَقُولُہَا فَرَقًا ، قَالَ : فَحَمَلْت عَلَیْہِ فَقَتَلْتہ فَعَرَضَ فِی نَفْسِی مِنْ أَمْرِہِ ، فَذَکَرْت ذَلِکَ لِلنَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : لِی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : قَالَ : لاَ إلَہَ إِلاَّ اللَّہُ ، ثُمَّ قَتَلْتَہُ قُلْتُ : یَا رَسُولَ اللہِ ، لَمْ یَقُلْہَا مِنْ قِبَلِ نَفْسِہِ ، إنَّمَا قَالَہَا فَرَقًا مِنَ السِّلاَحِ ، قَالَ : فَقَالَ : قَالَ : لاَ إلَہَ إِلاَّ اللَّہُ ، ثُمَّ قَتَلْتَہُ فَہَلاَّ شَقَقْتَ عَنْ قَلْبِہِ حَتَّی تَعْلَمَ أَنَّہُ إنَّمَا قَالَہَا فَرَقًا مِنَ السِّلاَحِ ، قَالَ أُسَامَۃُ : فَمَا زَالَ یُکَرِّرُہَا عَلَیَّ : قَالَ : لاَ إلَہ إِلاَّ اللَّہُ ، ثُمَّ قَتَلْتہ حَتَّی وَدِدْت أَنِّی لَمْ أَکُنْ أَسْلَمْت إِلاَّ یَوْمَئِذٍ۔
(٣٣٧٧١) حضرت اسامہ بن زید (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں قبیلہ جھینہ کی طرف بھیجا۔ پس ہم نے اس قوم کے پاس صبح کی ، اور وہ لوگ ہم سے چوکنا ہوگئے۔ راوی کہتے ہیں : ہم نے ان لوگوں کا پیچھا کیا تو ان میں سے ایک آدمی کو میں نے پکڑ لیا جیسے ہی میں اس سے ملا اس نے کلمہ لا الہ الا اللہ پڑھا میں نے گمان کیا کہ اس نے یہ کلمہ خوف سے پڑھا ہے۔ پس میں نے اس پر حملہ کیا اور اس کو قتل کردیا۔ پھر میرے دل میں اس کا خیال آیا تو میں نے یہ بات نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے ذکر کی ۔ اس پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھ سے فرمایا : اس نے لا الہ الا اللہ پڑھا پھر بھی تم نے اس کو قتل کردیا ؟ ! میں نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول 5! اس نے یہ کلمہ دل سے نہیں پڑھا تھا بلکہ اس نے یہ کلمہ اسلحہ کے خوف سے پڑھا تھا ! آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اس نے کلمہ لا الہ الا اللہ پڑھا۔ پھر تم نے اس کو قتل کردیا۔ تم نے اس کا دل کیوں نہیں پھاڑ ڈالا۔ یہاں تک کہ تمہیں معلوم ہوجاتا کہ اس نے یہ کلمہ اسلحہ کے خوف سے پڑھا ہے ؟ ! حضرت اسامہ (رض) فرماتے ہیں ! آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مسلسل مجھے یہ کہتے رہے کہ اس نے کلمہ لا الہ الا اللہ پڑھا پھر بھی تم نے اس کو قتل کردیا ! یہاں تک کہ میری خواہش ہوئی کہ میں اسلام نہ لایا ہوتا مگر آج ہی کے دن !۔

33771

(۳۳۷۷۲) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِی ظَبْیَانِ ، عَنْ أُسَامَۃَ ، قَالَ : بَعَثْنَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، ثُمَّ ذَکَر نَحْوَ حَدِیثِ أَبِی مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ۔
(٣٣٧٧٢) حضرت اسامہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں لشکر کے ساتھ بھیجا ۔ پھر راوی نے مذکورہ حدیث نقل فرمائی۔

33772

(۳۳۷۷۳) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ بَکْرٍ السَّہْمِیُّ ، قَالَ : حدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ أَبِی صَغِیرَۃَ ، عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ سَالِمٍ أَنَّ عَمْرَو بْنَ أَوْسٍ أَخْبَرَہُ ، أن أباہ أوسًا أَخْبَرَہُ قَالَ : إنَّا لَقُعُودٌ عِنْدَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَہُوَ یَقُصُّ عَلَیْنَا وَیُذَکِّرُنَا إذْ أَتَاہُ رَجُلٌ فَسَأَلَہُ ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : اذْہَبُوا فَاقْتُلُوہُ ، فَلَمَّا وَلَّی الرَّجُلُ دَعَاہُ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : فَقَالَ : ہَلْ تَشْہَدُ أَنْ لاَ إلَہَ إِلاَّ اللَّہُ ، قَالَ : نَعَمْ ، قَالَ : اذْہَبُوا فَخَلُّوا سَبِیلَہُ ، وَإِنَّمَا أُمِرْت أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّی یَقُولُوا : لاَ إلَہَ إِلاَّ اللَّہُ ، فَإِذَا فَعَلُوا ذَلِکَ حَرُمَ عَلَیَّ دِمَائَہُمْ وَأَمْوَالَہُمْ۔
(٣٣٧٧٣) حضرت اویس (رض) فرماتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس بیٹھے ہوئے تھے اس حال میں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمیں وعظ و نصیحت فرما رہے تھے۔ کہ اچانک آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ایک آدمی آیا اور اس نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کچھ پوچھا : اس پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جاؤ اور اس کو قتل کردو۔ جب وہ آدمی واپس جانے کے لیے پلٹا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے بلایا اور پوچھا : کیا تم گواہی دیتے ہو اس بات کی کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ؟ اس نے کہا : جی ہاں ! آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جاؤ اس کا راستہ خالی چھوڑ دو اس لیے کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے قتال کروں یہاں تک کہ وہ کلمہ لا الہ الا اللہ پڑھ لیں۔ اور جب انھوں نے ایسا کرلیا تو مجھ پر ان کی جانیں اور ان کا مال حرام ہوگیا۔

33773

(۳۳۷۷۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ ، عَنْ جَابِرٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : أُمِرْت أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّی یَقُولُوا : لاَ إلَہَ إِلاَّ اللَّہُ ، فَإذَا قَالُوا : لاَ إلَہَ إِلاَّ اللَّہُ ، عَصَمُوا مِنِّی دِمَائَہُمْ وَأَمْوَالَہُمْ إِلاَّ بِحَقِّہَا ، وَحِسَابُہُمْ عَلَی اللہِ ، ثُمَّ قَرَأَ : (إنَّمَا أَنْتَ مُذَکِّرٌ لَسْتَ عَلَیْہِمْ بِمُسَیْطِرٍ)۔
(٣٣٧٧٤) حضرت جابر (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے قتال کروں یہاں تک کہ وہ کلمہ لا الہ الا اللہ پڑھ لیں : جب انھوں نے کلمہ لا الہ الا اللہ پڑھ لیا تو انھوں نے مجھ سے اپنی جانوں اور اپنے مالوں کو محفوظ کرلیا مگر اللہ کے حق کی وجہ سے۔ اور ان کا حساب اللہ کے ذمہ ہوگا۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ آیت تلاوت فرمائی۔ بس آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نصیحت کرنے والے ہیں، اور آپ نہیں ہیں ان پر جبر کرنے والے۔

33774

(۳۳۷۷۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ صَالِحٍ مَوْلَی التَّوْأَمَۃِ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : أُمِرْت أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّی یَقُولُوا : لاَ إلَہَ إِلاَّ اللَّہُ ، فَإذَا قَالُوا : لاَ إلَہَ إِلاَّ اللَّہُ ، حَرُمَتْ عَلَیَّ دِمَائَہُمْ وَأَمْوَالَہُمْ إِلاَّ بِحَقِّہَا ، وَحِسَابُہُمْ عَلَی اللہِ۔
(٣٣٧٧٥) حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے قتال کروں یہاں تک کہ وہ کلمہ لا الہ الا اللہ پڑھ لیں۔ جب انھوں نے کلمہ لا الہ الا اللہ پڑھ لیا تو مجھ پر ان کی جانیں اور ان کا مال حرام ہوگیا مگر اللہ کے کسی حق کی وجہ سے، اور ان کا حساب اللہ کے ذمہ ہوگا۔

33775

(۳۳۷۷۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حَدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ حَبِیبِ بْنِ أَبِی عَمْرَۃَ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ، قَالَ : خَرَجَ الْمِقْدَادُ بْنُ الأَسْوَدِ فِی سَرِیَّۃٍ ، قَالَ : فَمَرُّوا بِرَجُلٍ فِی غَنِیمَۃٍ لَہُ فَأَرَادُوا قَتْلَہُ ، فَقَالَ : لاَ إلَہَ إِلاَّ اللَّہُ ، فَقَتَلَہُ مِقْدَادٌ ، فَقِیلَ لَہُ : قَتَلْتَہُ وَہُوَ یَقُولُ : لاَ إلَہَ إِلاَّ اللَّہُ ، فَقَالَ : الْمِقْدَادُ : وَدَّ لَوْ فَرَّ بِأَہْلِہِ وَمَالِہِ ، قَالَ : فَلَمَّا قَدِمُوا ذَکَرُوا ذَلِکَ لِلنَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَنَزَلَتْ : {یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا إذَا ضَرَبْتُمْ فِی سَبِیلِ اللہِ فَتَبَیَّنُوا وَلاَ تَقُولُوا لِمَنْ أَلْقَی إلَیْکُمَ السَّلاَمَ لَسْتَ مُؤْمِنًا تَبْتَغُونَ عَرَضَ الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا} قَالَ : الْغَنِیمَۃُ {فَعِنْدَ اللہِ مَغَانِمُ کَثِیرَۃٌ کَذَلِکَ کُنْتُمْ مِنْ قَبْلُ} ، قَالَ : تَکْتُمُونَ إیمَانَکُمْ مِنَ الْمُشْرِکِینَ {فَمَنَّ اللَّہُ عَلَیْکُمْ} فَأَظْہَرُوا الإِسْلاَمَ {فَتَبَیَّنُوا} وَعِیدَ اللہِ {إنَّ اللَّہَ کَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِیرًا}۔
(٣٣٧٧٦) حضرت سعید بن جبیر (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت مقداد بن اسود (رض) کسی لشکر میں نکلے۔ یہ لوگ کسی آدمی کے پاس سے گزرے جو اپنی چند بھیڑ بکریوں کے پاس تھا ان لوگوں نے اس کو قتل کرنا چاہا تو اس شخص نے کلمہ لا الہ الا اللہ پڑھ لیا۔ پھر بھی حضرت مقداد (رض) نے اسے قتل کردیا۔ آپ (رض) سے پوچھا گیا : کہ آپ (رض) نے اس کو قتل کردیا حالانکہ وہ کلمہ لا الہ الا اللہ پڑھ رہا تھا ؟ حضرت مقداد (رض) نے جواب دیا کہ وہ چاہتا تھا کہ اپنے گھر والوں اور مال کو لے کر بھاگ جائے۔ جب یہ لوگ واپس آئے تو انھوں نے یہ بات نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے ذکر کی اس پر یہ آیت نازل ہوئی، ترجمہ : اے ایمان والو ! جب تم نکلو اللہ کی راہ میں جہاد کے لیے تو خوب تحقیق کرلیا کرو اور نہ کہو اس شخص کو جو تمہیں سلام کرے کہ تو مومن نہیں ہو۔ کیا تم حاصل کرنا چاہتے ہو سازو سامان دنیاوی زندگی کا ؟ ( حیاۃ دنیا سے مراد بھیڑ بکریوں کا ریوڑ ہے ) تو اللہ کے ہاں بہت غنیمتیں ہیں۔ ایسے تو تم اسلام سے پہلے تھے ( یعنی تم مشرکین سے اپنا ایمان چھپاتے تھے) پھر اللہ نے تم پر احسان کیا ( یعنی اسلام کو ظاہر کیا ) لہٰذا خوب تحقیق کرلیا کرو۔ (اللہ کی وعید کی ) بیشک اللہ ہر اس بات سے پوری طرح باخبر ہے جو تم کرتے ہو۔

33776

(۳۳۷۷۷) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ إسْرَائِیلَ ، عَنْ سِمَاکٍ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : مَرَّ رَجُلٌ مِنْ بَنِی سُلَیْمٍ عَلَی نَفَرٍ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَمَعَہُ غَنَمٌ لَہُ فَسَلَّمَ عَلَیْہِمْ فَقَالُوا : مَا سَلَّمَ عَلَیْکُمْ إِلاَّ لِیَتَعَوَّذَ مِنْکُمْ فَعَمَدُوا إلَیْہِ فَقَتَلُوہُ وَأَخَذُوا غَنَمَہُ فَأَتَوْا بِہَا رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَأَنْزَلَ اللَّہُ تَعَالَی : {یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا إذَا ضَرَبْتُمْ فِی سَبِیلِ اللہِ فَتَبَیَّنُوا وَلاَ تَقُولُوا لِمَنْ أَلْقَی إلَیْکُمَ السَّلاَمَ لَسْتَ مُؤْمِنًا تَبْتَغُونَ عَرَضَ الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا فَعِنْدَ اللہِ مَغَانِمُ کَثِیرَۃٌ} إلَی آخِرِ الآیَۃِ۔
(٣٣٧٧٧) حضرت عکرمہ (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عباس (رض) نے ارشاد فرمایا : کہ قبیلہ بنو سلیم کا ایک آدمی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ کے ایک گروہ کے پاس سے گزرا اس حال میں کہ اس کے پاس بکریوں کا ریوڑ تھا۔ اس نے ان لوگوں پر سلام کہا : تو کچھ لوگوں نے کہا : کہ اس شخص نے تمہیں سلام نہیں کیا مگر اس وجہ سے کہ وہ خود کو تم سے محفوظ رکھے۔ پس یہ لوگ اس کے پیچھے گئے اور اس شخص کو قتل کردیا اور اس کی بکریاں لے لیں پھر وہ اس مال کو لے کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آئے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی ۔ ترجمہ : اے ایمان والو ! جب تم نکلو اللہ کے راستہ میں جہاد کے لیے تو خوب تحقیق کرلیا کرو اور نہ کہو اس شخص کو جو تمہیں سلام کرے کہ تم مومن نہیں ہے۔ کیا تم حاصل کرنا چاہتا ہو سازوسامان دنیاوی زندگی کا ؟ تو اللہ کے ہاں بہت غنیمتیں ہیں۔ آیت کے آخر تک۔

33777

(۳۳۷۷۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا إسْرَائِیلُ ، عَنْ سِمَاکٍ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ بِمِثْلِہِ وَلَمْ یَذْکُرْ فَأَتَوْا بِہَا النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔
(٣٣٧٧٨) حضرت عکرمہ (رض) سے حضرت ابن عباس (رض) کا مذکورہ ارشاد اس سند سے بھی منقول ہے۔ مگر راوی نے یہ الفاظ ذکر نہیں کیے۔ فأتوا بھا النبی 5 ۔

33778

(۳۳۷۷۹) حَدَّثَنَا شَبَابَۃُ بْنُ سَوَّارٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا لَیْثُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنِ ابْنِ شِہَابَ ، عَنْ عَطَائِ بْنِ یَزِیدَ اللَّیْثِیِّ ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ بْنِ عَدِیِّ بْنِ الْخِیَارِ ، عَنِ الْمِقْدَادِ أَنَّہُ أَخْبَرَہُ أَنَّہُ قَالَ : یَا رَسُولَ اللہِ أَرَأَیْت إِنْ لَقِیت رَجُلاً مِنَ الْکُفَّارِ فَقَاتَلَنِی فَضَرَبَ إحْدَی یَدَیَّ بِالسَّیْفِ فَقَطَعَہَا ، ثُمَّ لاَذَ مِنِّی بِشَجَرَۃٍ ، فَقَالَ : أَسْلَمْت لِلَّہِ ، أَقْتُلُہُ یَا رَسُولَ اللہِ بَعْدَ أَنْ قَالَہَا ، فَقَالَ : صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لاَ تَقْتُلْہُ ، فَقُلْتُ : یَا رَسُولَ اللہِ قَطَعَ یَدِی ، ثُمَّ قَالَ ذَلِکَ بَعْدَ أَنْ قَطَعَہَا أَفَأَقْتُلُہُ ، قَالَ : لاَ تَقْتُلْہُ فَإِنْ قَتَلْتہ فَإِنَّہُ بِمَنْزِلَتِکَ قَبْلَ أَنْ تَقْتُلَہُ وَأَنْتَ بِمَنْزِلَتِہِ قَبْلَ أَنْ یَقُولَ الْکَلِمَۃَ الَّتِی قَالَ۔
(٣٣٧٧٩) حضرت مقدادد بن اسود (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے پوچھا : اے اللہ کے رسول 5! آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی کیا رائے ہے اس بارے میں کہ اگر میں کفار کے ایک آدمی سے ملا پھر اس نے مجھ سے لڑائی کی ۔ اور میرے ایک ہاتھ پر تلوار سے وار کیا اور اس کو کاٹ دیا پھر وہ درخت کی آڑ میں مجھ سے پناہ مانگتا ہے اور کہتا ہے۔ میں اللہ کے لیے اسلام لایا۔ اے اللہ کے رسول 5! کیا میں ایسا کہنے کے بعد اس کو قتل کر دوں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم اس کو قتل مت کرو۔ میں نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول 5! اس نے میر اہاتھ کاٹ دیا پھر وہ کاٹنے کے بعد کلمہ پڑھتا ہے کیا میں اس کو قتل نہ کر دوں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم اس کو قتل مت کرنا۔ اگر تم نے اس کو قتل کردیا تو وہ شخص تمہارے مرتبہ پر ہوگا۔ جس مرتبہ پر تم اس کو قتل کرنے سے پہلے تھے۔ اور تم اس کے مرتبہ پر ہو گے جس مرتبہ پر وہ یہ کلمہ جو اس نے پڑھا ہے اس کے پڑھنے سے پہلے تھا۔

33779

(۳۳۷۸۰) حَدَّثَنَا شَبَابَۃُ بْنُ سَوَّارٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ الْمُغِیرَۃَ ، عَنْ حُمَیْدِ بْنِ ہِلاَلٍ قَالَ : جَائَ أَبُو الْعَالِیَۃِ إلَیَّ وَإِلَی صَاحِبٍ لِی ، فَقَالَ: ہَلُمَّا فَإِنَّکُمَا أَشَبُّ مِنِّی وَأَوْعَی لِلْحَدِیثِ مِنِّی ، قَالَ: فَانْطَلَقْنَا حَتَّی أَتَیْنَا بِشْرَ بْنَ عَاصِمٍ اللَّیْثِیَّ ، فَقَالَ أَبُو الْعَالِیَۃِ : حَدَّثَ ہَذَیْنِ حَدِیثَک ، فقَالَ: حَدَّثَنِی عُقْبَۃُ بْنُ مَالِکٍ اللَّیْثِیُّ قَالَ: بَعَثَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سَرِیَّۃً فَأَغَارَتْ عَلَی الْقَوْمِ فَشَذَّ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ وَاتَّبَعَہُ رَجُلٌ مِنَ السَّرِیَّۃِ مَعَہُ سَیْفٌ شَاہِرہ، فَقَالَ: الشَّاذُّ مِنَ الْقَوْمِ، إنِّی مُسْلِمٌ فَلَمْ یَنْظُرْ فِیمَا قَالَ، قَالَ: فَضَرَبَہُ فَقَتَلَہُ، فَنُمِیَ الْحَدِیثُ إِلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَوْلاً شَدِیدًا فَبَلَغَ الْقَاتِلَ فَبَیْنَمَا النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَخْطُبُ إذْ ، قَالَ الْقَاتِلُ : وَاللہِ یَا نَبِیَّ اللہِ مَا قَالَ الَّذِی ، قَالَ إِلاَّ تَعَوُّذًا مِنَ الْقَتْلِ فَأَعْرَضَ عَنْہُ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَعَمَّنْ یَلِیہِ مِنَ النَّاسِ ، فَعَلَ ذَلِکَ مَرَّتَیْنِ کُلُّ ذَلِکَ یُعْرِضُ عَنْہُ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَلَمْ یَصْبِرْ أَنْ قَالَ الثَّالِثَۃَ مِثْلَ ذَلِکَ فَأَقْبَلَ عَلَیْہِ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِوَجْہِہِ تُعْرَفُ الْمَسَائَۃُ فِی وَجْہِہِ ، فَقَالَ : إنَّ اللَّہَ أَبَی عَلَیَّ فِیمَنْ قَتَلَ مُؤْمِنًا ثَلاَثَ مَرَّاتٍ یَقُولُ ذَلِکَ۔
(٣٣٧٨٠) حضرت حمید بن ھلال (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت ابو العالیہ (رض) میرے پاس اور میرے ایک ساتھی کے پاس تشریف لائے ، اور فرمایا : تم دونوں آؤ اس لیے کہ تم دونوں مجھ سے زیادہ جوان ہو اور مجھ سے زیادہ حدیث کو محفوظ کرنے والے ہو راوی کہتے ہیں : ہم دونوں چلے یہاں تک کہ ہم لوگ حضرت بشر بن عاصم لیثی (رض) کے پاس آئے۔ حضرت ابو العالیہ (رض) نے فرمایا : اپنی بات ان دونوں کو بیان کرو۔ انھوں نے فرمایا؛ کہ حضرت عقبہ بن مالک لیثی (رض) نے ارشاد فرمایا : کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک لشکر بھیجا تو اس لشکر نے ایک قوم پر حملہ کردیا پس ایک آدمی قوم سے الگ ہوگیا اور لشکر والوں میں سے ایک آدمی نے اس کا پیچھا کیا اس حال میں کہ اس کے پاس سونتی ہوئی تلوار تھی۔ پس قوم سے الگ ہونے والا شخص کہنے لگا : بلاشبہ میں مسلمان ہوں۔ پس اس نے اس کی بات پر غور نہیں کیا اور اس پر حملہ کردیا اور قتل کردیا پھر یہ بات نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بتلائی گئی ۔ تو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس بارے میں سخت بات کہی۔ جب قاتل کو یہ خبر پہنچی تو اس درمیان کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خطبہ ارشاد فرما رہے تھے تو قاتل نے کہا : اے اللہ کے نبی 5! خد ا کی قسم اس نے ایسا نہیں کہا تھا مگر صرف قتل سے بچنے کے لیے ۔ پس نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے اور اس کے ساتھ جو لوگ ملے ہوئے تھے ان سے اعراض کیا۔ اس شخص نے دو مرتبہ ایسا کہا : ہر مرتبہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس شخص سے اعراض کیا۔ اس نے بھی صبر نہیں کیا تیسری مرتبہ یہ بات کہنے سے پھر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے چہرے کے ساتھ اس شخص کی طرف متوجہ ہوئے اس حال میں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چہرے پر غصہ کے آثار نمایاں تھے۔ اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : یقیناً اللہ تعالیٰ نے مجھ پر انکار فرمایا مومن کو قتل کرنے والے کے بارے میں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ بات تین بار دہرائی۔

33780

(۳۳۷۸۱) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا أَبَانُ بْنُ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : حَدَّثَنِی إبْرَاہِیمُ بْنُ جَرِیرٍ ، عَنْ جَرِیرٍ ، قَالَ : إِنَّ نَبِیَّ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَعَثَنِی إلَی الْیَمَنِ أُقَاتِلُہُمْ وَأَدْعُوہُمْ ، فَإذَا قَالُوا : لاَ إلَہَ إِلاَّ اللَّہُ حَرُمَتْ عَلَیْکُمْ أَمْوَالُہُمْ وَدِمَاؤُہُمْ۔
(٣٣٧٨١) حضرت جریر (رض) فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھ یمن کی طرف بھیجا تاکہ میں ان سے قتال کروں اور میں ان کو اسلام کی طرف بلاؤں۔ اور جب انھوں نے کلمہ لا الہ الا اللہ پڑھ لیا۔ تو تم پر ان کے اموال اور ان کی جانیں حرام ہوگئیں۔

33781

(۳۳۷۸۲) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا سُفْیَانُ بْنُ حُسَیْنٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُتْبَۃَ ، قَالَ : لَمَّا ارْتَدَّ مَنِ ارْتَدَّ عَلَی عَہْدِ أَبِی بَکْرٍ أَرَادَ أَبُو بَکْرٍ أَنْ یُجَاہِدَہُمْ ، فَقَالَ عُمَرُ : أَتُقَاتِلُہُمْ وَقَدْ سَمِعْتَ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : مَنْ شَہِدَ أَنْ لاَ إلَہَ إِلاَّ اللَّہُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللہِ حَرُمَ مَالُہُ إِلاَّ بِحَقِّہِ وَحِسَابُہُ عَلَی اللہِ ، فَقَالَ أَبُو بَکْرٍ : لأُقَاتِلَ مَنْ فَرَّقَ بَیْنَ الصَّلاَۃِ وَالزَّکَاۃِ ، وَاللہِ لأَقَاتِلَنَّ مَنْ فَرَّقَ بَیْنَہُمَا حَتَّی أَجْمَعَہُمَا قَالَ عُمَرُ : فَقَاتَلْنَا مَعَہُ ، فَکَانَ رُشْدًا ، فَلَمَّا ظَفِرَ بِمَنْ ظَفِرَ بِہِ مِنْہُمْ ، قَالَ : اخْتَارُوا مِنِّی خَصْلَتَیْنِ : إمَّا حَرْبًا مُجَلِّیَۃً وَإِمَّا الْخِطَّۃَ الْمُخْزِیَۃَ ، فَقَالُوا : ہَذِہِ الْحَرْبُ الْمُجَلِّیَۃُ قَدْ عَرَفْنَاہَا فَمَا الْحِطَّۃُ الْمُخْزِیَۃُ ؟ قَالَ : تَشْہَدُونَ عَلَی قَتْلاَنَا أَنَّہُمْ فِی الْجَنَّۃِ وَعَلَی قَتَلاَکُمْ أَنَّہُمْ فِی النَّارِ فَفَعَلُوا۔
(٣٣٧٨٢) حضرت عبید اللہ بن عبداللہ بن عتبہ (رض) فرماتے ہیں کہ جب مرتد ہوئے وہ لوگ جو حضرت ابوبکر (رض) صدیق کے زمانے میں مرتد ہوئے تھے تو حضرت ابوبکر (رض) نے ان سے جہاد کرنے کا ارادہ کیا۔ اس پر حضرت عمر (رض) نے فرمایا : کیا آپ (رض) ان لوگوں سے قتال کریں گے حالانکہ تحقیق آپ (رض) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یوں فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص اس بات کی گواہی دے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور یقیناً محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں تو اس کا مال حرام ہوگیا مگر اللہ رب العزت کے ذمہ اس کا حساب ہوگا ؟ ! حضرت ابوبکر (رض) نے فرمایا : کیا میں قتال نہ کروں اس شخص سے جو نماز اور زکوۃ میں فرق کرے ؟ اللہ کی قسم ! میں ضرور اس شخص سے قتال کروں گا جو ان دونوں کے درمیان فرق کرے گا۔ یہاں تک کہ میں ان دونوں کو جمع کر دوں۔ حضرت عمر (رض) فرماتے ہیں : پس ہم نے ان کے ساتھ قتال کیا اس حال میں کہ وہ واقعی ہدایت پر تھے۔ پھر جب آپ (رض) ان میں سے جتنے بھی لوگوں پر فتح یاب ہوئے تو آپ (رض) نے فرمایا : تم لوگ میری طرف سے دو باتیں اختیار کرو لو۔ یا تو جلا وطن کرنے والی جنگ یا پھر رسوا کردینے والی زمین ۔ ان لوگوں نے کہا : کہ جلا وطن کردینے والی جنگ تو ہم سمجھ گئے۔ یہ رسوا کردینے والی زمین سے کیا مراد ہے ؟ آپ (رض) نے فرمایا : کہ تم ہمارے مقتولین کے بارے میں گواہی دو کہ وہ یقیناً جنت میں ہیں اپنے مقتولین کے بارے میں گواہی دو کہ وہ یقیناً جہنم میں ہیں پس ان لوگوں نے ایسا کیا۔

33782

(۳۳۷۸۳) حَدَّثَنَا یَعْمَرٌ ، عَنِ ابْنِ مُبَارَکٍ ، عَنْ حُمَیْدٍ ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : أُمِرْت أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّی یَقُولُوا : لاَ إلَہَ إِلاَّ اللَّہُ۔ (بخاری ۳۹۲۔ ابوداؤد ۲۶۳۴)
(٣٣٧٨٣) حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے قتال کروں یہاں تک کہ وہ کلمہ لا الہ الا اللہ پڑھ لیں۔

33783

(۳۳۷۸۴) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، وَأَبُو أُسَامَۃَ ، قَالاَ : حدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ بْنُ عُمَرَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : وُجِدَتِ امْرَأَۃٌ مَقْتُولَۃً فِی بَعْضِ مَغَازِی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَنَہَی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ قَتْلِ النِّسَائِ وَالصِّبْیَانِ۔ (بخاری ۳۰۱۴۔ مسلم ۳)
(٣٣٧٨٤) حضرت نافع (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عمر (رض) نے ارشاد فرمایا : کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعض غزوات میں ایک عورت مردہ حالت میں پائی گئی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عورتوں اور بچوں کو قتل کرنے سے منع فرما دیا۔

33784

(۳۳۷۸۵) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، وَعَبْدِ الرَّحیم بْنِ سُلَیْمَانَ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنِ الْحَکَمِ ، عَنْ مِقْسَمٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَہَی عَنْ قَتْلِ النِّسَائِ۔ (احمد ۲۵۶۔ طبرانی ۱۲۰۸۲)
(٣٣٧٨٥) حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عورتوں کو قتل کرنے سے منع فرمایا۔

33785

(۳۳۷۸۶) حَدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ أَیُّوبَ ، قَالَ سَمِعْت رَجُلاً یُحَدِّثُ بِمنًی ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : بَعَثَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سَرِیَّۃً کُنْتُ فِیہَا ، قَالَ : فَنَہَانَا أَنْ نَقْتُلَ الْعُسَفَائَ وَالْوُصَفَائَ۔ (احمد ۱۳۔ سعید ۲۶۲۸)
(٣٣٧٨٦) حضرت ایوب (رض) فرماتے ہیں کہ وادی منی میں ایک شخص اپنے والد کے حوالہ سے نقل کررہا تھا کہ اس کے والد نے فرمایا : کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک لشکر روانہ فرمایا : میں بھی اس لشکر میں موجود تھا۔ پس آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں خدمت گاروں اور غلاموں کے قتل کرنے سے منع فرمایا۔

33786

(۳۳۷۸۷) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ کَعْبٍ ، عَنْ عَمِّہِ أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَمَّا بَعَثَ إِلَی ابْنِ أَبِی الْحُقَیْقِ نَہَاہُ عَنْ قَتْلِ النِّسَائِ وَالْوِلْدَانِ۔ (عبدالرزاق ۹۳۸۵۔ مالک ۴۴۷)
(٣٣٧٨٧) حضرت عبد الرحمن بن کعب اپنے چچا سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب ابن ابی الحقیق کی طرف لشکر روانہ کیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو عورتوں اور بچوں کو قتل کرنے سے منع فرمایا۔

33787

(۳۳۷۸۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ عَلْقَمَۃَ بْنِ مَرْثَدٍ ، عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ بُرَیْدَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إذَا بَعَثَ سَرِیَّۃً ، أَوْ جَیْشًا ، قَالَ : لاَ تَقْتُلُوا وَلِیَدًا۔
(٣٣٧٨٨) حضرت بریدہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب کوئی سریہ یا لشکر روانہ کرتے تو ارشاد فرماتے : بچوں کو قتل مت کرنا۔

33788

(۳۳۷۸۹)حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، قَالَ: حدَّثَنَا سُفْیَانُ، عَنْ أَبِی الزِّنَادِ، عَنِ الْمُرَقِّعِ بْنِ عَبْدِاللہِ بْنِ صَیْفِیٍّ، عَنْ حَنْظَلَۃَ الْکَاتِبِ، قَالَ: غَزَوْنَا مَعَ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَمَرَرْنَا بِامْرَأَۃٍ مَقْتُولَۃٍ ، وَقَدِ اجْتَمَعَ عَلَیْہَا النَّاسُ، قَالَ فَأَفْرَجُوا لَہُ ، فَقَالَ : مَا کَانَتْ ہَذِہِ تُقَاتِلُ فِیمَنْ یُقَاتِلُ ، ثُمَّ قَالَ لِرَجُلٍ : انْطَلِقْ إلَی خَالِدِ بْنِ الْوَلِیدِ فَقُلْ لَہُ : إنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَأْمُرُک یَقُولُ : لاَ تَقْتُلَنَّ ذُرِّیَّۃً ، وَلاَ عَسِیفًا۔ (ابوداؤد ۲۶۶۲۔ احمد ۴۸۸)
(٣٣٧٨٩) حضرت حنظلہ کاتب (رض) فرماتے ہیں کہ ہم لوگ غزوہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ تھے۔ ہمارا گزر ایک مقتولہ عورت پر ہوا اس حال میں کہ لوگ اس کے گرد جمع تھے۔ لوگوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے جگہ کشادہ کی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : یہ تو لڑائی کرنے والوں میں لڑائی نہیں کر رہی تھی ! پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک آدمی کو کہا : کہ خالد بن ولید کے پاس جاؤ اور ان سے کہو : کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہیں حکم دیتے ہیں کہ تم بچوں اور خدمت گاروں کو ہرگز قتل مت کرو۔

33789

(۳۳۷۹۰) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ آدَمَ ، قَالَ : حدَّثَنَا حَسَنُ بْنُ صَالِحٍ ، عَنْ خَالِدِ بْنِ الْفَِرْزِ ، قَالَ : حَدَّثَنِی أَنَسُ بْنُ مَالِکٍ ، قَالَ : کُنْتُ أَحْمِلُ سَفْرَۃَ أَصْحَابِی ، وَکُنَّا إذَا اسْتُنفِرْنَا نَزَلْنَا بِظَہْرِ الْمَدِینَۃِ ، حَتَّی یَخْرُجَ إلَیْنَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَیَقُولَ : انْطَلِقُوا بِسْمِ اللہِ ، وَفِی سَبِیلِ اللہِ تُقَاتِلُونَ أَعْدَائَ اللہِ فِی سَبِیلِ اللہِ ، لاَ تَقْتُلُوا شَیْخًا فَانِیًا ، وَلاَ طِفْلاً صَغِیرًا ، وَلاَ امْرَأَۃً ، وَلاَ تَغُلُّوا۔ (ابوداؤد ۲۶۰۷)
(٣٣٧٩٠) حضرت انس بن مالک (رض) فرماتے ہیں کہ میں اپنے ساتھیوں کا توشہ دان اٹھاتا تھا اور جب ہمیں اللہ کے راستہ میں بھیجا جاتا تھا تو ہم لوگ مدینہ کے قریب قیام کرتے تھے۔ یہاں تک کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے پاس تشریف لاتے۔ اور فرماتے : اللہ کے نام کے ساتھ، اللہ کے راستہ میں چلو۔۔۔ اللہ کے راستہ میں اللہ کے دشمنوں سے قتال کرنا۔ بہت زیادہ بوڑھے کو قتل مت کرنا۔ نہ ہی چھوٹے بچوں کو ، اور نہ ہی عورت کو، اور نہ ہی خیانت کرنا۔

33790

(۳۳۷۹۱) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : کَتَبَ عُمَرُ إلَی أُمَرَائِ الأَجْنَادِ أَنْ لاَ تَقْتُلُوا امْرَأَۃً ، وَلاَ صَبِیًّا ، وَأَنْ تَقْتُلُوا مَنْ جَرَتْ عَلَیْہِ الْمَواسِی۔
(٣٣٧٩١) حضرت ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے اجناد کے امیروں کی طرف خط لکھا کہ وہ عورت اور بچہ کو قتل مت کریں۔ اور جس پر استرا چلتا ہو یعنی بالغ کو قتل کردیں۔

33791

(۳۳۷۹۲) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ یَزِیدَ بْنِ أَبِی زِیَادٍ ، عَنْ زَیْدِ بْنِ وَہْبٍ ، قَالَ : أَتَانَا کِتَابُ عُمَرَ : لاَ تَغُلُّوا، وَلاَ تَغْدِرُوا ، وَلاَ تَقْتُلُوا وَلَیَدًا وَاتَّقُوا اللَّہَ فِی الْفَلاَّحِینَ۔
(٣٣٧٩٢) حضرت زید بن وھب (رض) فرماتے ہیں کہ ہمارے پاس حضرت عمر (رض) کا خط آیا : کہ تم خیانت مت کرنا، اور نہ ہی غداری کرنا، اور بچوں کو قتل مت کرنا، اور کسانوں کے بارے میں اللہ سے ڈرنا۔

33792

(۳۳۷۹۳) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ، قَالَ : حدِّثْتُ أَنَّ أَبَا بَکْرٍ بَعَثَ جُیُوشًا إلَی الشَّامِ فَخَرَجَ یَتْبَعُ یَزِیدَ بْنَ أَبِی سُفْیَانَ ، فَقَالَ : إنِّی أُوصِیک بِعَشْرٍ : لاَ تَقْتُلَنَّ صَبِیًّا ، وَلاَ امْرَأَۃً ، وَلاَ کَبِیرًا ہَرِمًا ، وَلاَ تَقْطَعَنَّ شَجَرًا مُثْمِرًا ، وَلاَ تُخَرِّبَنَّ عَامِرًا ، وَلاَ تَعْقِرَنَّ شَاۃً ، وَلاَ بقرۃ إِلاَّ لِمَأْکَلَۃٍ ، وَلاَ تُغْرِقَنَّ نَخْلاً ، وَلاَ تَحْرِقَنَّہُ وَلاَ تَغُلّ ، وَلاَ تَجْبُنْ۔
(٣٣٧٩٣) حضرت یحییٰ بن سعید (رض) فرماتے ہیں کہ مجھے بیان کیا گیا کہ حضرت ابوبکر (رض) نے شام کی طرف لشکر بھیجے۔ آپ (رض) نکلے اور یزید بن ابو سفیان کے پیچھے چل رہے تھے۔ آپ (رض) نے فرمایا : یقیناً میں تمہیں دس باتوں کی وصیت کرتا ہوں : تم بچوں کو ہرگز قتل مت کرنا، بچوں کو نہ ہی عورتوں کو اور نہ بہت ہی بوڑھیوں کو، اور تم پھلدار درخت مت کاٹنا۔ اور ہرگز آباد زمین کو برباد مت کرنا۔ اور ہرگز بکری اور گائے کو ذبح مت کرنا مگر صرف کھانے کے لیے۔ اور ہرگز کھجور کے درخت کو اوپر سری سے مت کاٹنا اور نہ ہی اس کو جلانا، اور نہ ہی خیانت کرنا، اور نہ ہی بزدلی دکھانا۔

33793

(۳۳۷۹۴) حَدَّثَنَا جَرِیرُ بْنُ عَبْدِ الْحَمِیدِ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، قَالَ : لاَ یُقْتَلُ فِی الْحَرْبِ الصَّبِیُّ ، وَلاَ الْمَرْأَۃٌ، وَلاَ الشَّیْخُ الْفَانِی ، وَلاَ یُحْرَقُ الطَّعَامُ ، وَلاَ النَّخْلُ ، وَلاَ تُخَرَّبُ الْبُیُوتُ ، وَلاَ یُقْطَعُ الشَّجَرُ الْمُثْمِرُ۔
(٣٣٧٩٤) حضرت لیث (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت مجاہد (رض) نے ارشاد فرمایا : کہ نہیں قتل کیا جائے گا جنگ میں بچوں کو نہ ہی عورتوں کو اور نہ ہی بہت بوڑھے کو ۔ نہ ہی کھانا جلایا جائے گا اور نہ ہی کھجور کے درخت کو، اور گھروں کو برباد بھی نہیں کیا جائے گا اور نہ ہی پھلدار درخت کو کاٹا جائے گا۔

33794

(۳۳۷۹۵) حَدَّثَنَا مُعَاذٌ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : کَانَ یَکْرَہُ أَنْ یُقْتَلَ فِی دَارِ الْحَرْبِ الشَّیْخُ الْکَبِیرُ وَالصَّغِیرُ وَالْمَرْأَۃُ وَکَانَ یَکْرَہُ لِلرَّجُلِ إِنْ حَمَلَ مِنْ ہَؤُلاَئِ شَیْئًا مَعَہُ فَثَقُلَ عَلَیْہِ أَنْ یُلْقِیَہُ فِی الطَّرِیقِ۔
(٣٣٧٩٥) حضرت اشعث (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت حسن بصری (رض) دارالحرب میں بہت بوڑھے کو، اور بچوں کو اور عورت کے قتل کیے جانے کو مکروہ سمجھتے تھے۔ اور آپ (رض) اس بات کو بھی مکروہ سمجھتے تھے کہ کوئی آدمی اپنے ساتھ ان میں سے کسی کو اٹھائے پس پھر ان کا اٹھانا اس پر بھاری ہوجائے تو ان کو راستہ میں پھینک دے۔

33795

(۳۳۷۹۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ عُمَیْرٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ عَطِیَّۃَ الْقُرَظِیَّ یَقُولُ : عُرِضْنَا عَلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَوْمَ قُرَیْظَۃَ ، فَکَانَ مَنْ أَنْبَتَ قُتِلَ ، وَمَنْ لَمْ یُنْبِتْ خَلِّیَ سَبِیلَہُ۔ (ابن ماجہ ۲۵۴۱)
(٣٣٧٩٦) حضرت عبد الملک بن عمیر (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عطیہ قرظی (رض) نے فرمایا کہ غزوہ بنو قریظہ کے دن ہم لوگوں کو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر پیش کیا گیا پس جس کے زیر ناف بال اگے ہوئے تھے اس کو قتل کردیا گیا اور جس کے زیر ناف بال نہیں اگے تھے اس کا راستہ خالی چھوڑ دیا گیا۔

33796

(۳۳۷۹۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ أَبِی فَزَارَۃَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِی عَمْرَۃَ الأَنْصَارِیِّ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَرَّ عَلَی امْرَأَۃٍ مَقْتُولَۃٍ ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَنْ قَتَلَ ہَذِہِ ، فَقَالَ رَجُلٌ : أَنَا یَا رَسُولَ اللہِ ، أَرْدَفْتہَا خَلْفِی فَأَرَادَتْ قَتْلِی فَقَتَلْتہَا ، فَأَمَرَ بِہَا فَدُفِنَتْ۔ (ابوداؤد ۳۳۳)
(٣٣٧٩٧) حضرت عبد الرحمن بن ابو عمرہ انصاری (رض) فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ایک مقتولہ عورت پر گزر ہوا پس رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اس کو کس نے قتل کیا ؟ ایک آدمی نے کہا : اے اللہ کے رسول 5! میں نے۔ اس کو میں نے اپنی سواری پر پیچھے بٹھایا تو اس نے مجھے مارنا چاہا پس میں نے اس کو مار دیا۔ پس آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس عورت کو دفنانے کا حکم دیا۔

33797

(۳۳۷۹۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا صَدَقَۃُ الدِّمَشْقِیُّ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ یَحْیَی الْغَسَّانِیِّ ، قَالَ : کَتَبْت إلَی عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِیزِ أَسْأَلُہُ عَنْ ہَذِہِ الآیَۃِ : {وَقَاتِلُوا فِی سَبِیلِ اللہِ الَّذِینَ یُقَاتِلُونَکُمْ وَلاَ تَعْتَدُّوا إنَّ اللَّہَ لاَ یُحِبُّ الْمُعْتَدِینَ} قَالَ : فَکَتَبَ إلَیَّ إِنَّ ذَلِکَ فِی النِّسَائِ وَالذُّرِّیَّۃِ وَمَنْ لَمْ یَنْصِبِ الْحَرْبَ مِنْہُمْ۔
(٣٣٧٩٨) حضرت یحییٰ بن یحییٰ غسانی (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر بن عبد العزیز (رض) کو خط لکھ کر اس آیت کے بارے میں سوال کیا : ترجمہ : اور لڑو اللہ کی راہ میں ان لوگوں سے جو تم سے لڑتے ہیں ، اور تم زیادتی نہ کرو ، بیشک اللہ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا ؟ آپ (رض) نے میری طرف خط لکھ کر جواب دیا اور فرمایا : بیشک یہ آیت عورتوں اور بچوں اور ا ن لوگوں کے بارے میں ہے جو ان میں سے جنگ نہیں چھیڑتے۔

33798

(۳۳۷۹۹) حَدَّثَنَا کَثِیرُ بْنُ ہِشَامٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ بُرْقَانَ ، قَالَ : حَدَّثَنَا ثَابِتُ بْنُ الْحَجَّاجِ الْکِلاَبِیُّ ، قَالَ : قَامَ أَبُو بَکْرٍ فِی النَّاسِ فَحَمِدَ اللَّہَ وَأَثْنَی عَلَیْہِ ، ثُمَّ قَالَ : أَلاَ لاَ یُقْتَلُ الرَّاہِبُ فِی الصَّوْمَعَۃِ۔
(٣٣٧٩٩) حضرت ثابت بن حجاج کلابی (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت ابوبکر (رض) لوگوں میں کھڑے ہوئے آپ (رض) نے اللہ کی حمد و ثنا بیان کی پھر ارشاد فرمایا : خبردار ! وہ راہب جو اپنے عبادت خانے میں ہو اس کو قتل نہیں کیا جائے گا۔

33799

(۳۳۸۰۰) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ وَمُحَمَّدُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَنْ یَزِیدَ بْنِ ہُرْمُزَ ، قَالَ : کَتَبَ نَجْدَۃُ إلَی ابْنِ عَبَّاسٍ یَسْأَلُہُ عَنْ قَتْلِ الْوِلْدَانِ وَیَقُولُ فِی کِتَابِہِ : إِنَّ الْعَالِمَ صَاحِبَ مُوسَی قَدْ قَتَلَ الْوَلِیدَ ، قَالَ : فَقَالَ یَزِیدُ : أَنَا کَتَبْت کِتَابَ ابْنِ عَبَّاسٍ بِیَدِی إلَی نَجْدَۃَ : إنَّک کَتَبْت تَسْأَلُ عَنْ قَتْلِ الْوِلْدَانِ وَتَقُولُ فِی کِتَابِکَ : إنَّ الْعَالِمَ صَاحِبَ مُوسَی قَدْ قَتَلَ الْوَلِیدَ ، وَلَوْ کُنْتَ تَعْلَمُ مِنَ الْوِلْدَانِ مَا عَلِمَ ذَلِکَ الْعَالِمُ مِنْ ذَلِکَ الْوَلِیدِ قَتَلْتَہُ ، وَلَکِنَّک لاَ تَعْلَمُ ، قَدْ نَہَی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ قَتْلِہِمْ فَاعْتَزَلَہُمْ۔ (ترمذی ۱۵۵۶۔ مسلم ۱۴۴۴)
(٣٣٨٠٠) حضرت یزید بن ھرمز (رض) فرماتے ہیں کہ نجدہ نے حضرت ابن عباس (رض) کو خط لکھ کر بچوں کو قتل کرنے کے متعلق سوال کیا اور اس نے اپنے خط میں لکھا کہ بلاشبہ ایک جاننے والے نے جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھی تھے۔ انھوں نے بچہ کو قتل کیا تھا ؟ ! یزید کہتے ہیں کہ میں نے اپنے ہاتھ سے حضرت ابن عباس (رض) کا خط نجدہ کی طرف لکھا : کہ تو نے خط لکھ کر بچوں کو قتل کرنے کے متعلق پوچھا اور اپنے خط میں تو نے کہا کہ بلاشبہ ایک جاننے والے نے جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھی تھے تحقیق انھوں نے بچہ کو قتل کیا تھا ؟ ! اگر تم بھی بچوں کے بارے میں وہ بات جانتے ہوتے تو تم بھی اس کو قتل کردیتے۔ لیکن تم نہیں جانتے۔ تحقیق رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بچوں کو قتل کرنے سے منع فرمایا ہے۔ پس تم ان سے الگ تھلگ رہو۔

33800

(۳۳۸۰۱) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ أَسْلَمَ مَوْلَی عُمَرَ أَنَّ عُمَرَ کَتَبَ إلَی عُمَّالِہِ یَنْہَاہُمْ عَنْ قَتْلِ النِّسَائِ وَالصِّبْیَانِ وَأَمَرَہُمْ بِقَتْلِ مَنْ جَرَتْ عَلَیْہِ الْمَوَاسِی۔
(٣٣٨٠١) حضرت اسلم (رض) جو حضرت عمر (رض) کے آزاد کردہ غلام ہیں فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے اپنے گورنروں کو خط لکھ کر انھیں عورتوں اور بچوں کے قتل کرنے سے منع کیا۔ اور ان کو حکم دیا کہ وہ بالغوں کو قتل کردیں۔

33801

(۳۳۸۰۲) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : کَانُوا لاَ یَقْتُلُونَ تُجَّارَ الْمُشْرِکِینَ۔
(٣٣٨٠٢) حضرت زبیر (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت جابر بن عبداللہ (رض) نے ارشاد فرمایا : کہ صحابہ (رض) مشرکین کے تاجروں کو قتل نہیں کرتے تھے۔

33802

(۳۳۸۰۳) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، عَنِ الأَسْوَدِ بْنِ سَرِیعٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَا بَالُ أَقْوَامٍ بَلَغُوا فِی الْقَتْلِ ، حَتَّی قَتَلُوا الْوِلْدَانَ ؟ ! قَالَ : فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ : إنَّمَا ہُمْ أَوْلاَدُ الْمُشْرِکِینَ ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : أَوَلَیْسَ أَخْیَارُکُمْ إنَّمَا ہُمْ أَوْلاَدُ الْمُشْرِکِینَ ؟! إِنَّہُ لَیْسَ مَوْلُودٌ یُولَدُ ، إِلاَّ عَلَی الْفِطْرَۃِ ، حَتَّی یَبْلُغَ فَیُعَبِّرَ عَنْ نَفْسِہِ ، أَوْ یُہَوِّدَہُ أَبَوَاہُ ، أَوْ یُنَصِّرَانِہِ۔ (احمد ۴۳۵۔ دارمی ۲۴۶۳)
(٣٣٨٠٣) حضرت اسود بن سریع (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : لوگوں کو کیا ہوا کہ انھوں نے قتل میں مبالغہ کیا یہاں تک کہ انھوں نے بچوں کو بھی قتل کردیا ؟ ! اس پر قوم میں سے ایک شخص بولا : وہ تو مشرکین کے بچے تھے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کیا تمہارے میں جو بہترین لوگ ہیں کیا وہ مشرکین کی اولاد میں سے نہیں ہیں ؟ ! بیشک کوئی بھی بچہ پیدا نہیں ہوتا مگر فطرت اسلام پر یہاں تک کہ جب وہ بالغ ہوتا ہے تو اظہار ما فی الضمیر کرتا ہے، یا اس کے والدین اس کو یہودی یا نصرانی بنا دیتے ہیں۔

33803

(۳۳۸۰۴) حَدَّثَنَا حُمَیْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ شَیْخٍ مِنْ أَہْلِ الْمَدِینَۃِ مَوْلَی لِبَنِی عَبْدِ الأَشْہَلِ ، عَنْ دَاوُدَ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ إذَا بَعَثَ جُیُوشَہُ ، قَالَ : لاَ تَقْتُلُوا أَصْحَابَ الصَّوَامِعِ۔ (احمد ۳۰۰۔ بزار ۱۶۷۷)
(٣٣٨٠٤) حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب لشکروں کو بھیجتے تو فرماتے کہ عبادت گاہوں میں موجود لوگوں کو قتل مت کرنا۔

33804

(۳۳۸۰۵) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ جُوَیْبِرٍ ، عَنِ الضَّحَّاکِ ، قَالَ : کَانَ یُنْہَی عَنْ قَتْلِ الْمَرْأَۃِ وَالشَّیْخِ الْکَبِیرِ۔
(٣٣٨٠٥) حضرت جویبر (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت ضحاک (رض) نے ارشاد فرمایا : کہ عورت اور بہت بوڑھے کو قتل کرنے سے روکا جاتا تھا۔

33805

(۳۳۸۰۶) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ حَجَّاجِ بْنِ أَرْطَاۃَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ زَیْدِ بْنِ جُدْعَانَ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ أَبِی مُطِیعٍ أَنَّ أَبَا بَکْرٍ الصِّدِّیقَ بَعَثَ جَیْشًا ، فَقَالَ : اغْزُوا بِسْمِ اللہِ اللَّہُمَّ اجْعَلْ وَفَاتَہُمْ شَہَادَۃً فِی سَبِیلِکَ ، ثُمَّ قَالَ : إنَّکُمْ تَأْتُونَ قَوْمًا فِی صَوَامِعَ لَہُمْ فَدَعَوْہُمْ ، وَمَا أَعْمَلُوا أَنْفُسَہُمْ لَہُ ، وَتَأْتُونَ إلَی قَوْمٍ قَدْ فَحَصُوا عَنْ أَوْسَاطِ رُؤُوسِہِمْ أَمْثَالَ الْعَصْبِ فَاضْرِبُوا مَا فَحَصُوا عَنْہُ مِنْ أَوْسَاطِ رُؤُوسِہِمْ۔
(٣٣٨٠٦) حضرت ابوبکر (رض) نے ایک لشکر روانہ کیا اور اسے فرمایا کہ اللہ کے نام کے ساتھ جہاد کرو۔ اے اللہ ! ان کی موت کو اپنے راستے کی شہادت بنا دے پھر فرمایا تم جن لوگوں کو عبادت گاہوں میں عبادت کرتا پاؤ، انھیں کچھ نہ کہو اور جو لوگ تمہارے خلاف جنگ کریں ان کے سر کے درمیان میں مارو۔

33806

(۳۳۸۰۷) حَدَّثَنَا عِیسَی بْنُ یُونُسَ ، عَنِ الأَحْوَصِ ، عَنْ رَاشِدِ بْنِ سَعْدٍ ، قَالَ : نَہَی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، عَنْ قَتْلِ النِّسَائِ وَالذُّرِّیَّۃِ وَالشَّیْخِ الْکَبِیرِ الَّذِی لاَ حَرَاکَ بِہِ۔
(٣٣٨٠٧) حضرت راشدبن سعد (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عورتوں ، بچوں اور اس بڑے بوڑھے کو جس میں بالکل دم نہ ہو قتل کرنے سے منع فرمایا۔

33807

(۳۳۸۰۸) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِیَادٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا أَبُو رَوْقٍ عَطِیَّۃُ بْنُ الْحَارِثِ ، قَالَ : حَدَّثَنَا أَبُو الغَرِیفِ عُبَیْدُ اللہِ بْنُ خَلِیفَۃَ ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ عَسَّالٍ ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ إذَا بَعَثَ سَرِیَّۃً ، قَالَ : لاَ تَقْتُلُوا وَلِیَدًا۔ (ابن ماجہ ۲۸۵۷۔ احمد ۲۴۰)
(٣٣٨٠٨) حضرت صفوان بن عسال (رض) فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب لشکر روانہ کرتے تو فرماتے کسی بچہ کو قتل مت کرنا۔

33808

(۳۳۸۰۹) حَدَّثَنَا سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنِی الصَّعْبُ بْنُ جَثَّامَۃَ أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سُئِلَ عَنِ الدَّارِ مِنْ دُورِ الْمُشْرِکِینَ یُبَیَّتُونَ وَفِیہِمُ النِّسَائُ وَالْوِلْدَانُ ، فَقَالَ : ہُمْ مِنْہُمْ۔ (بخاری ۳۰۱۲۔ مسلم ۱۳۶۴)
(٣٣٨٠٩) حضرت صعب بن جثّامہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا گیا : مشرکین کے گھروں سے اس گھر کے بارے میں جن میں سازشیں کی جاتی ہیں اس حال میں کہ ان میں عورتیں اور بچے بھی ہوتے ہیں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : وہ ان ہی میں سے ہیں۔

33809

(۳۳۸۱۰) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، عَنْ سَمُرَۃَ بْنِ جُنْدُبٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : اقْتُلُوا الشُّیُوخَ الْمُشْرِکِینَ وَاسْتَحْیُوا شَرْخَہُمْ۔ (ابوداؤد ۲۶۶۳۔ احمد ۱۲)
(٣٣٨١٠) حضرت سمرہ بن جندب (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : مشرکین کے بوڑھوں کو قتل کرو۔ اور جو بچے آغاز جوانی کو پہنچ چکے ہیں ان کو زندہ چھوڑ دو ۔

33810

(۳۳۸۱۱) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ ہَاشِمٍ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : کَانَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقْتُلُونَ مِنَ النِّسَائِ وَالصِّبْیَانُ مَا أَعَانَ عَلَیْہِمْ۔
(٣٣٨١١) حضرت حسن بصری (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ (رض) ان عورتوں اور بچوں کو بھی قتل کرتے تھے جو ان کے خلاف مدد فراہم کرتے تھے۔

33811

(۳۳۸۱۲) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُصْعَبٍ ، عَنِ الأَوْزَاعِیِّ ، قَالَ : سَأَلْتُ الزُّہْرِیَّ ، عَنِ الْعَدُوِّ إذَا ظُہِرَ عَلَیْہِمْ أَیَقْتُلُ عُلُوجَہُمْ ، قَالَ : کَانَ عُمَرُ یَقْتُلُ الْعُلُوجَ إذَا ظُہِرَ عَلَیْہِمْ وَیُسْبَوْنَ مَعَ ذَلِکَ۔
(٣٣٨١٢) حضرت اوزاعی (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے امام زہری (رض) سے دشمن کے بارے میں سوال کیا کہ جب ان پر غلبہ ہوجائے تو کیا ان کے پیامبر کو بھی قتل کردیا جائے گا ؟ آپ (رض) نے فرمایا : کہ حضرت عمر (رض) پیامبر کو قتل کردیتے تھے جب ان پر فتح حاصل ہوجاتی ۔ اور ان کو قیدی بنا لیتے تھے اس کے ساتھ۔

33812

(۳۳۸۱۳) حَدَّثَنَا یَزِیدُ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : إذَا خَرَجَتِ الْمَرْأَۃُ مِنَ الْمُشْرِکِینَ تُقَاتِلُ فَلْتُقْتَلْ۔
(٣٣٨١٣) حضرت ہشام (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت حسن بصری (رض) نے ارشاد فرمایا : جب مشرکین میں سے کوئی عورت نکل کر قتال کرے تو تم اس کو قتل کردو۔

33813

(۳۳۸۱۴) حدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ ، عَنْ یَزِیدَ بْنِ أَبِی حَبِیبٍ ، عَنْ بُکَیْرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ الأَشَجِّ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ إبْرَاہِیمَ الدَّوْسِیِّ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ الدَّوْسِیِّ ، قَالَ : بَعَثَنَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی سَرِیَّۃٍ ، وَقَالَ : إِنْ ظَفِرْتُمْ بِفُلاَنٍ وَفُلاَنٍ فَأَحْرِقُوہُمَا بِالنَّارِ ، حَتَّی إذَا کَانَ الْغَدُ بَعَثَ إلَیْنَا ، إنِّی کُنْتُ أَمَرْتُکُمْ بِتَحْرِیقِ ہَذَیْنِ الرَّجُلَیْنِ وَرَأَیْت أَنَّہُ لاَ یَنْبَغِی أَنْ یُعَذِّبَ بِالنَّارِ إِلاَّ اللَّہُ فَإِنْ ظَفِرْتُمْ بِہِمَا فَاقْتُلُوہُمَا۔ (بخاری ۳۰۱۶۔ دارمی ۲۴۶۱)
(٣٣٨١٤) حضرت ابوہریرہ دوسی (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں ایک لشکر میں بھیجا اور فرمایا : اگر تمہیں فلاں اور فلاں شخص پر فتحیابی ملے تو ان دونوں آدمیوں کو جلا دینا۔ یہاں تک کہ جب اگلا دن آیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہماری طرف قاصد بھیجا کہ میں نے تمہیں ان دو آدمیوں کے جلانے کا حکم دیا تھا۔ اور میری رائے یہ ہوئی کہ آگ کا عذاب دینا اللہ کے سوا کسی کے لیے مناسب نہیں۔ پس اگر تمہیں ان دونوں پر فتحیابی نصیب ہو تو تم ان دونوں کو قتل کردینا۔

33814

(۳۳۸۱۵) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّہُ ذَکَرَ نَاسًا أَحْرَقَہُمْ عَلِیٌّ ، فَقَالَ : لَوْ کُنْتُ أَنَا لَمْ أَحْرِقْہُمْ بِالنَّارِ لِقَوْلِ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لاَ تُعَذِّبُوا بِعَذَابِ اللہِ ، وَلَوْ کُنْتُ أَنَا لَقَتَلْتُہُمْ لِقَوْلِ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَنْ بَدَّلَ دِینَہُ فَاقْتُلُوہُ۔
(٣٣٨١٥) حضرت عکرمہ (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عباس (رض) نے ان لوگوں کا ذکر فرمایا جنہیں حضرت علی (رض) نے جلا دیا تھا پھر فرمایا : اگر میں ہوتا تو میں کبھی ان لوگوں کو آگ میں نہ جلاتا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس ارشاد کی وجہ سے کہ تم اللہ کے عذاب کے طریقہ پر عذاب مت دو ۔ اور اگر میں ہوتا تو میں ان کو قتل کردیتا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس ارشاد گرامی کی وجہ سے کہ جو شخص اپنا دین تبدیل کرلے تو تم اس کو قتل کردو۔

33815

(۳۳۸۱۶) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، قَالَ : حَدَّثَنَا عَنِ الشَّیْبَانِیِّ ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ مَسْعُودٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لاَ تُعَذِّبُوا بِالنَّارِ فَإِنَّہُ لاَ یُعَذِّبُ بِالنَّارِ إِلاَّ رَبُّہَا۔ (ابوداؤد ۲۶۶۸۔ حاکم ۲۳۹)
(٣٣٨١٦) حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : تم لوگ آگ کا عذاب مت دو ۔ اس لیے کہ بندے کے پروردگار کے سوا کوئی آگ کا عذاب نہیں دے سکتا۔

33816

(۳۳۸۱۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا الْمَسْعُودِیُّ ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، قَالَ : بَعَثَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سَرِیَّۃً فَطَلَبُوا رَجُلاً فَصَعِدَ شَجَرَۃً فَأَحْرَقُوہَا بِالنَّارِ ، فَلَمَّا قَدِمُوا عَلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَخْبَرُوہُ بِذَلِکَ ، فَتَغَیَّرَ وَجْہُ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَقَالَ : إنِّی لَمْ أُبْعَثْ لأُعَذِّبَ بِعَذَابِ اللہِ ، إنَّمَا بُعِثْت بِضَرْبِ الرِّقَابِ وَشَدِّ الْوَثَاقِ۔
(٣٣٨١٧) حضرت قاسم بن عبد الرحمن (رض) فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک لشکر روانہ فرمایا : پس انھوں نے کسی آدمی کو تلاش کیا تو وہ درخت پر چڑھ گیا پس انھوں نے اس درخت کو آگ سے جلا ڈالا جب یہ لوگ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس واپس آئے، اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس بات کی خبر دی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا چہرہ متغیر ہوگیا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : بیشک مجھے اس لیے نہیں بھیجا گیا کہ میں اللہ کے عذاب کے طریقے پر عذاب دوں۔ بیشک مجھے بھیجا گیا ہے گردنیں مارنے کے لیے اور مضبوطی سے باندھنے کے لیے۔

33817

(۳۳۸۱۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، قَالَ: حدَّثَنَا ہِشَامٌ الدَّسْتَوَائِیُّ، عَنْ سَعِیدٍ البزَّازِ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ حِیَّانَ، عنْ أُمّ الدَّرْدَائِ أَنَّہَا أَبْصَرَتْ إنْسَانًا أَخَذَ قملۃ، أَوْ بُرْغُوثًا فَأَلْقَاہُ فِی النَّارِ، فَقَالَتْ: إِنَّہُ لاَ یَنْبَغِی لأَحَدٍ أَنْ یُعَذِّبَ بِعَذَابِ اللہِ۔
(٣٣٨١٨) حضرت عثمان بن حیان (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت ام الدردائ (رض) نے کسی شخص کو دیکھا کہ اس نے جوں یا پسّو کو پکڑا اور اس کو آگ میں ڈال دیا۔ آپ (رض) نے ارشاد فرمایا : بیشک کسی کے لیے بھی مناسب نہیں ہے کہ وہ اللہ کے عذاب کے ساتھ کسی کو عذاب دے۔

33818

(۳۳۸۱۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : کَانُوا یَکْرَہُونَ أَنْ تُحْرَقَ الْعَقْرَبُ بِالنَّارِ ، وَیَقُولُونَ : مُثْلَۃٌ۔
(٣٣٨١٩) حضرت منصور (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم (رض) نے ارشاد فرمایا : کہ صحابہ (رض) بچھو کے آگ میں جلانے کو مکروہ سمجھتے تھے اور فرماتے تھے کہ عبرتناک سزا ہے۔

33819

(۳۳۸۲۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا حُرَیث ، عَنْ یَحْیَی بْنِ عَبَّادٍ أَبِی ہُبَیْرَۃَ أَنَّہُ کَرِہَ أَنْ تُحْرَقَ الْعَقْرَبُ بِالنَّارِ۔
(٣٣٨٢٠) حضرت حریث (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت یحییٰ بن عباد ابو ھبیرہ نے بچھو کے آگ میں جلا ڈالنے کو مکروہ سمجھا۔

33820

(۳۳۸۲۱) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللہِ الأَسَدِیُّ وَعُبَیْدُ اللہِ بْنُ مُوسَی ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ مُوسَی بْنِ عُقْبَۃَ ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَطَعَ نَخْلَ بَنِی النَّضِیرِ وَحَرَّقَ۔ (احمد ۸۔ بخاری ۳۰۲۱)
(٣٣٨٢١) حضرت ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بنو نضیر کے کھجوروں کے درختوں کو کاٹا اور جلا ڈالا۔

33821

(۳۳۸۲۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ أَبِی الأَخْضَرِ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ عُرْوَۃَ ، عَنْ أُسَامَۃَ ، قَالَ : بَعَثَنِی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إلَی أَرْضٍ یُقَالَ لَہَا أُبْنَی ، فَقَالَ : ائْتِہَا صَبَاحًا ، ثُمَّ حَرِّقْ۔
(٣٣٨٢٢) حضرت اسامہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے کسی علاقہ میں بھیجا جس کا نام ابنی تھا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم وہاں صبح پہنچنا پھر اس کو جلا دینا۔

33822

(۳۳۸۲۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانَ قَالَ : بَلَغَنِی عَنْ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِیزِ أَنَّہُ أَمَرَ بِالتَّحْرِیقِ ، أَوْ حَرَّقَ۔
(٣٣٨٢٣) حضرت سفیان فرماتے ہیں کہ مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ حضرت عمر بن عبد العزیز نے جلانے کا حکم دیا یا یوں فرمایا : کہ انھیں جلا دیا۔

33823

(۳۳۸۲۴) حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ عَیَّاشٍ ، عَنْ أَبِی حَصِینٍ ، عَنْ سُوَیْد بْنِ غَفَلَۃَ أَنَّ عَلِیًّا حَرَّقَ زَنَادِقَۃً بِالسُّوقِ ، فَلَمَّا رَمَی عَلَیْہِمْ بِالنَّارِ ، قَالَ : صَدَقَ اللَّہُ وَرَسُولُہُ ، ثُمَّ انْصَرَفَ فَاتَّبَعْتہ ، فَالْتَفَتَ إلَیَّ ، قَالَ سُوَیْد قُلْتُ : نَعَمْ ، فَقُلْتُ : یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ سَمِعْتُک تَقُولُ شَیْئًا ، فَقَالَ : یَا سُوَیْد ، إنِّی مع قَوْمٍ جُہَّالٍ ، فَإِذَا سَمِعْتَنِی أَقُولُ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَہُوَ حَقٌّ۔
(٣٣٨٢٤) حضرت سوید بن غفلہ (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت علی (رض) نے زنادقہ کو بازار میں جلا ڈالا جب ان پر آگ پھینکی گئی تو آپ (رض) نے فرمایا : کہ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سچ فرمایا۔ پھر آپ (رض) واپس لوٹ گئے میں بھی آپ (رض) کے پیچھے ہو لیا۔ آپ (رض) میری طرف متوجہ ہوئے۔ اور پوچھا : کہ سوید ہو ؟ میں نے کہا : جی ہاں ! میں نے عرض کیا : اے امیر المؤمنین ! میں نے سنا کہ آپ (رض) کچھ فرما رہے تھے ؟ آپ (رض) نے فرمایا : اے سوید ! بیشک میں جاہل لوگوں کے ساتھ ہوں۔ جب تم سنو کہ میں کچھ کہہ رہا ہوں تو وہ بات رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمائی ہے اور وہ بالکل حق ہے۔

33824

(۳۳۸۲۵) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عُبَیْدٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : کَانَ أُنَاسٌ یَأْخُذُونَ الْعَطَائَ وَالرِّزْقَ وَیُصَلُّونَ مَعَ النَّاسِ ، وَکَانُوا یَعْبُدُونَ الأَصْنَامَ فِی السِّرِ ، فَأَتَی بِہِمْ عَلِیُّ بْنُ أَبِی طَالِبٍ فَوَضَعَہُمْ فِی الْمَسْجِدِ ، أَوَ قَالَ فِی السِّجْنِ ، ثُمَّ قَالَ : یَا أَیُّہَا النَّاسُ ، مَا تَرَوْنَ فِی قَوْمٍ کَانُوا یَأْخُذُونَ مَعَکُمَ الْعَطَائَ وَالرِّزْقَ وَیَعْبُدُونَ ہَذِہِ الأَصْنَامَ ، قَالَ النَّاسُ : اقْتُلْہُمْ ، قَالَ : لاَ ، وَلَکِنْ أَصْنَعُ بِہِمْ کَمَا صَنَعُوا بِأَبِینَا إبْرَاہِیمَ ، فَحَرَّقَہُمْ بِالنَّارِ۔
(٣٣٨٢٥) حضرت عبد الرحمن بن عبید (رض) فرماتے ہیں کہ ان کے والد حضرت عبید (رض) نے ارشاد فرمایا : کہ کچھ لوگ تھے جو عطیات اور تنخواہیں لیتے تھے اور لوگوں کے ساتھ نماز پڑھتے تھے اور پوشیدگی میں بتوں کی پوجا کرتے تھے۔ ان لوگوں کو حضرت علی (رض) بن ابی طالب کے پاس لایا گیا تو آپ (رض) نے ان کو مسجد میں یا جیل خانہ میں قید کردیا۔ پھر فرمایا : اے لوگو ! تمہاری کیا رائے ہے۔ ان لوگوں کے بارے میں جو تمہارے ساتھ عطیات اور تنخواہیں لیتے ہیں اور ان بتوں کی پوجا کرتے ہیں ؟ لوگوں نے کہا : آپ (رض) ان کو قتل کردیں۔ آپ (رض) نے فرمایا : نہیں ! بلکہ میں ان کے ساتھ وہی معاملہ کروں گا جو انھوں نے ہمارے جدامجد حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے ساتھ کیا تھا۔ پس آپ (رض) نے ان کو آگ میں جلا دیا۔

33825

(۳۳۸۲۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ بْنُ أَبِی خَالِدٍ ، عَنْ قَیْسِ بْنِ أَبِی حَازِمٍ ، عَنْ جَرِیرٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : أَلاَ تُرِیحُنِی مِنْ ذِی الْخَلَصَۃِ بَیْتٍ کَانَ لِخَثْعَمَ کَانَتْ تَعْبُدُہُ فِی الْجَاہِلِیَّۃِ ، یُسَمَّی الْکَعْبَۃَ الْیَمَانِیَّۃَ ، قَالَ : فَخَرَجْت فِی خَمْسِینَ وَمِئَۃِ رَاکِبٍ ، قَالَ : فَحَرَقْنَاہَا حَتَّی جَعَلْنَاہَا مِثْلَ الْجَمَلِ الأَجْرَبِ ، قَالَ : بَعَثَ جَرِیرٌ رَجُلاً إِلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُبَشِّرہ ، فَلَمَّا قَدِمَ عَلَیْہِ ، قَالَ : وَالَّذِی بَعَثَک بِالْحَقِ ، مَا أَتَیْتُک حَتَّی تَرَکْنَاہَا مِثْلَ الْجَمَلِ الأَجْرَبِ ، قَالَ : فَبَرَّکَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَی أَحْمَسَ خَیْلِہَا وَرِجَالِہَا خَمْسَ مَرَّاتٍ۔
(٣٣٨٢٦) حضرت جریر (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : کیا تم مجھے ذی الخلصہ سے راحت نہیں پہنچاؤ گے ؟ یہ خثعم کا گھر تھا جس کی زمانہ جاہلیت میں عبادت کی جاتی تھی اور اس کا نام کعبہ یمانیہ تھا۔ آپ (رض) فرماتے ہیں کہ میں ڈیڑھ سو سواروں کو لے کر نکلا اور ہم نے اس کو جلا دیا یہاں تک کہ ہم نے اسے خارش زدہ اونٹ کی مانند بنادیا پھر حضرت جریر (رض) نے ایک آدمی کو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس بھیجا اس بات کی خوشخبری سنانے کے لیے ، جب وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا تو اس نے عرض کیا کہ قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حق دے کر بھیجا ، میں نے آیا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس یہاں تک کہ ہم نے اس جگہ کو خارش زدہ اونٹ کی مانند چھوڑا۔ پس رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پانچ مرتبہ احمس کو ، اس کے گھوڑے کو اور اس کے آدمیوں کو برکت کی دعا دی۔

33826

(۳۳۸۲۷) حَدَّثَنَا عِیسَی بْنُ یُونُسَ ، عَنِ الأَوْزَاعِیِّ ، عَنِ ابن عَبْدِ اللہِ بن الحسن ، عَنْ أَبِیہِ ، أَنَّہُ کَانَ لاَ یَرَی بِالتَّحْرِیقِ وَقَطْعِ الشَّجَرِ فِی أَرْضِ الْعَدُوِّ بَأْسًا۔
(٣٣٨٢٧) حضرت ابن عبداللہ بن حسن (رض) فرماتے ہیں کہ ان کے والد حضرت عبداللہ بن حسن (رض) جلا دینے اور دشمن کی زمین میں درخت کاٹ دینے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے۔

33827

(۳۳۸۲۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حَدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ دَاوُدَ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ {مَا قَطَعْتُمْ مِنْ لِینَۃٍ} قَالَ : ہِیَ النَّخْلَۃُ دُونَ الْعَجْوَۃِ۔
(٣٣٨٢٨) حضرت داؤد (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عکرمہ (رض) نے اس آیت مبارکہ { مَا قَطَعْتُمْ مِنْ لِینَۃٍ } ترجمہ : کاٹ ڈالا تم نے جو درخت۔ اس کے بارے میں آپ (رض) نے ارشاد فرمایا : کہ کھجور کا درخت مراد ہے۔

33828

(۳۳۸۲۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ أبیہ ، عَنْ حَبِیبِ بْنِ أَبِی عَمْرَۃَ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ {مَا قَطَعْتُمْ مِنْ لِینَۃٍ} ، قَالَ : ہِیَ النَّخْلَۃُ۔
(٣٣٨٢٩) حضرت حبیب بن ابو عمرہ (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت سعید بن جبیر (رض) نے فرمایا : کہ اس آیت { مَا قَطَعْتُمْ مِنْ لِینَۃٍ } میں لینۃ سے مراد کھجور کا درخت ہے۔

33829

(۳۳۸۳۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إسْرَائِیلَ ، عَنْ سِمَاکٍ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ {مَا قَطَعْتُمْ مِنْ لِینَۃٍ} ، قَالَ : ہِیَ النَّخْلَۃُ۔
(٣٣٨٣٠) حضرت عکرمہ (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا : آیت { مَا قَطَعْتُمْ مِنْ لِینَۃٍ } میں لینۃ سے مراد کھجور کا درخت ہے۔

33830

(۳۳۸۳۱) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا مُسْتَلِمُ بْنُ سَعِیدٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا خُبَیْبُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ خُبَیْبٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ جَدِّہِ ، قَالَ : خَرَجَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُرِیدُ وَجْہًا فَأَتَیْتہ أَنَا وَرَجُلٌ مِنْ قَوْمِی فَقُلْنَا : إنَّا نستحی أن یَشْہَدَ قَوْمُنَا مَشْہَدًا لاَ نَشْہَدُہُ مَعَہُمْ ، قَالَ : أَسْلَمْتُمَا ؟ قُلْنَا : لاَ قَالَ : فَإِنَّا لاَ نَسْتَعِینُ بِالْمُشْرِکِینَ عَلَی الْمُشْرِکِینَ ، قَالَ : فَأَسْلَمْنَا وَشَہِدْنَا مَعَہُ۔ (احمد ۴۵۴۔ حاکم ۱۲۱)
(٣٣٨٣١) حضرت خبیب (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نکلے جنگ کے ارادے سے، تو میں اور میری قوم کا ایک آدمی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آئے۔ ہم نے عرض کیا : ہمیں شرم آتی ہے کہ ہماری قوم تو میدان جنگ میں حاضر ہو اور ہم ان کے ساتھ شریک نہ ہوں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا : کیا تم دونوں نے اسلام قبول کرلیا ہے ؟ ہم نے کہا : نہیں ! آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : بیشک ہم مشرکین کے خلاف مشرکین سے مدد طلب نہیں کرتے۔ راوی فرماتے ہیں : کہ ہم دونوں اسلام لے آئے اور ہم نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ شرکت کی۔

33831

(۳۳۸۳۲) حَدَّثَنَا یَعْلَی بْنُ عُبَیْدٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُنْذِرِ ، قَالَ : خَرَجَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إلَی أُحُدٍ ، فَلَمَّا خَلَّفَ ثَنِیَّۃَ الْوَدَاعِ نَظَرَ خَلْفَہُ ، فَإِذَا کَتِیبَۃٌ خَشْنَائُ ، فَقَالَ : مَنْ ہَؤُلاَئِ ، قَالُوا : عَبْدُ اللہِ بْنُ أُبَیِّ ابْنُ سَلُولَ وَمَوَالِیہِ مِنَ الْیَہُودِ ، فَقَالَ : وَقَدْ أَسْلَمُوا ، قَالُوا : لاَ قَالَ : فَإِنَّا لاَ نَسْتَعِینُ بِالْکُفَّارِ عَلَی الْمُشْرِکِینَ۔
(٣٣٨٣٢) حضرت سعد بن منذر (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) احد پہاڑ کی طرف نکلے جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وداع کی گھاٹیوں کو پیچھے چھوڑا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے نیچے دیکھا تو وہاں بہت اسلحہ والی جماعت تھی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا : یہ کون لوگ ہیں ؟ صحابہ (رض) نے عرض کیا : عبداللہ بن ابی بن سلول اور اس کے یہودی دوست۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا : کیا انھوں نے اسلام قبول کرلیا ؟ صحابہ (رض) نے عرض کیا : نہیں ! آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : بیشک ہم مشرکین کے خلاف کفار سے مدد طلب نہیں کرتے۔

33832

(۳۳۸۳۳) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، قَالَ : حدَّثَنِی مَنْ سَمِعَ الْقَاسِمَ یَذْکُرُ عَنْ سَلْمَانَ بْنِ رَبِیعَۃَ الْبَاہِلِیِّ أَنَّہُ غَزَا بَلَنْجَرَ وَکَانَ غَزَا فَاسْتَعَانَ بِنَاسٍ مِنَ الْمُشْرِکِینَ عَلَی الْمُشْرِکِینَ ، وَقَالَ : لِیَحْمِلْ أَعْدَائُ اللہِ عَلَی أَعْدَائِ اللہِ۔
(٣٣٨٣٣) حضرت قاسم (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت سلمان بن ربیعہ باھلی (رض) بلنجر مقام پر جہاد کے لیے تشریف لے گئے اس حال میں کہ آپ (رض) بہت زیادہ جہاد میں شریک ہوتے تھے۔ آپ (رض) نے مشرکین کے کچھ لوگوں سے مشرکین کے خلاف مدد طلب کی اور فرمایا : چاہیے کہ اللہ کے دشمنوں ہی کو اللہ کے دشمنوں کے خلاف اکسایا جائے۔

33833

(۳۳۸۳۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ مَالِکِ بْنِ أَنَسٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ یَزِیدَ ، عَنِ ابن نِیَارٍ ، عَنْ عُرْوَۃَ ، عَنْ عَائِشَۃَ ، قَالَتْ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إنَّا لاَ نَسْتَعِینُ بِمُشْرِکٍ۔ (مسلم ۱۴۴۹۔ ابوداؤد ۲۷۲۶)
(٣٣٨٣٤) حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : بیشک ہم کسی مشرک سے مدد نہیں لیتے۔

33834

(۳۳۸۳۵) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ؛ أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ غَزَا بِنَاسٍ مِنَ الْیَہُودِ فَأَسْہَمَ لَہُمْ۔ (بیہقی ۵۳)
(٣٣٨٣٥) امام زہری (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہود کے چند لوگوں کو جہاد میں شرکت کے لیے لے گئے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو ایک حصہ بھی عطا فرمایا۔

33835

(۳۳۸۳۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ؛ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یَغْزُو بِالْیَہُودِ فَیُسْہِمُ لَہُمْ کَسِہَامِ الْمُسْلِمِینَ۔ (ابوداؤد ۲۸۲)
(٣٣٨٣٦) امام زہری (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہودیوں کو جہاد کے لیے لے جایا کرتے تھے اور ان کے لیے مسلمانوں کے حصوں کی طرح حصہ مقرر فرماتے تھے۔

33836

(۳۳۸۳۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ یَزِیدَ بْنِ یَزِیدَ بْنِ جَابِرٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، قَالَ : کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَغْزُو بِالْیَہُودِ فَیُسْہِمُ لَہُمْ۔ (ابوداؤد ۲۸۱۔ ترمذی ۱۵۵۸)
(٣٣٨٣٧) امام زہری (رض) فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہودیوں کو جہاد کے لیے لے جایا کرتے تھے پھر ان کو مال غنیمت میں سے حصہ بھی عطا فرماتے۔

33837

(۳۳۸۳۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ صَالِحٍ ، عَنِ الشَّیْبَانِیِّ أَنَّ سَعْدَ بْنَ مَالِکٍ غَزَا بِقَوْمٍ مِنَ الْیَہُودِ فَرَضَخَ لَہُمْ۔
(٣٣٨٣٨) حضرت شیبانی (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت سعد بن مالک (رض) یہود کے چند لوگوں کو جہاد کے لیے لے گئے پھر آپ نے ان کو تھوڑا سامال بھی عطا کیا۔

33838

(۳۳۸۳۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، قَالَ: حدَّثَنَا سُفْیَانُ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: سَأَلْتُ عَامِرًا، عَنِ الْمُسْلِمِینَ یَغْزُونَ بِأَہْلِ الکتاب؟ فقال عامر: أدرکت الأئمۃ الفقیہ منہم وغیر الفقیہ یغزون بأہل الذِّمَّۃِ فَیَقْسِمُونَ لَہُمْ وَیَضَعُونَ عَنْہُمْ من جِزْیَتِہِمْ ، فَذَلِکَ لَہُمْ نَفْلٌ حَسَنٌ۔
(٣٣٨٣٩) حضرت جابر (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عامر (رض) سے سوال کیا ان مسلمانوں کے بارے میں جو اہل کتاب کو جہاد پر لے جاتے ہیں ؟ حضرت عامر (رض) نے فرمایا : میں نے فقیہ اور غیر فقیہ ائمہ حضرات کو پایا کہ وہ لوگ بھی ذمیوں کو جہاد پر لے جاتے تھے۔ پھر ان میں بھی مال غنیمت تقسیم فرماتے ۔ اور ان سے جزیہ کو ختم فرما دیتے اور یہ ان کے لیے بطور زائد احسان کے تھا۔

33839

(۳۳۸۴۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ: حدَّثَنَا إسْرَائِیلُ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ عَامِرٍ ، قَالَ : أَدْرَکْت الأَئِمَّۃَ ۔۔۔۔ ثُمَّ ذَکَرَ نَحْوَہُ۔
(٣٣٨٤٠) حضرت جابر (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عامر (رض) نے ارشاد فرمایا : کہ میں نے ائمہ کو پایا۔ پھر آپ (رض) نے مذکورہ حدیث ذکر فرمائی۔

33840

(۳۳۸۴۱) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، وَعَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، قَالاَ : حدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ بْنُ عُمَرَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ جَعَلَ لِلْفَرَسِ سَہْمَیْنِ وَلِلرَّجُلِ سَہْمًا۔ (بخاری ۲۸۶۳۔ مسلم ۱۳۸۳)
(٣٣٨٤١) حضرت ابن عمر (رض) سے مروی ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے گھوڑ سوار کے لیے دو اور پیادہ کے لیے ایک حصہ مقرر فرمایا۔

33841

(۳۳۸۴۲) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ ، وَوَکِیعٌ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ أَبِی صَالِحٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ؛ أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ جَعَلَ لِلْفَارِسِ ثَلاَثَۃَ أَسْہُمٍ ؛ سَہْمًا لَہُ ، وَاثْنَیْن لِفَرَسِہِ۔ (ابویعلی ۲۵۲۲)
(٣٣٨٤٢) حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے گھوڑ سوار کو تین حصے عطا فرمائے، ایک حصہ اس کے لیے اور دو اس کے گھوڑے کے لیے۔

33842

(۳۳۸۴۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا الْعُمَرِیِّ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ؛ أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حِینَ قَسَمَ لِلْفَرَسِ سَہْمَیْنِ ، وَلِلرَّجُلِ سَہْمًا ، فَکَانَ لِلرَّجُلِ وَلِفَرَسِہِ ثَلاَثَۃُ أَسْہُمٍ۔ (دارقطنی ۱۰۶)
(٣٣٨٤٣) حضرت ابن عمر (رض) سے مروی ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب گھوڑے کے لیے دو اور اس کے سوار کے لیے ایک حصہ مقرر فرماتے تو گھوڑ سوار کے لیے تین حصے ہوجاتے تھے۔

33843

(۳۳۸۴۴) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ، عَنْ صَالِحِ بْنِ کَیْسَانَ ؛ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَسْہَمَ یَوْمَ خَیْبَرَ لِمِئَتَیْ فَرَسٍ ، لِکُلِّ فَرَسٍ سَہْمَیْنِ۔ (سعید بن منصور ۲۷۶۴۔ عبدالرزاق ۹۳۲۳)
(٣٣٨٤٤) حضرت صالح بن کیسان (رض) سے مروی ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جنگ خیبر کے دن دو سو گھوڑوں کے لیے حصہ مقرر فرمایا ، اور ہر گھوڑے کو دو حصے دیتے۔

33844

(۳۳۸۴۵) حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ سَلَمَۃَ بْنِ کُہَیْلٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا أَصْحَابُنَا ، عَنْ أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ؛ أَنَّہُمْ قَالُوا : لِلْفَرَسِ سَہْمَانِ ، وَلِلرَّجُلِ سَہْمٌ۔
(٣٣٨٤٥) حضرت سلمہ اصحاب محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کرتے ہیں کہ گھوڑے کو دو اور پیادہ کو ایک حصہ ملے گا۔

33845

(۳۳۸۴۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا أُسَامَۃُ بْنُ زَیْدٍ ، عَنْ مَکْحُولٍ ، قَالَ : أَسْہَمَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِلْفَرَسِ سَہْمَیْنِ ، وَلِلرَّجُلِ سَہْمًا۔ (سعید بن منصور ۲۷۶۹۔ عبدالرزاق ۹۳۱۹)
(٣٣٨٤٦) حضرت مکحول (رض) سے مروی ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے گھوڑ سوار کے لیے دو اور پیادہ کے لیے ایک حصہ مقرر فرمایا۔

33846

(۳۳۸۴۷) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، قَالَ : جَعَلَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِلْفَرَسِ سَہْمَیْنِ ، وَلِلْفَارِسِ سَہْمًا۔
(٣٣٨٤٧) حضرت مجاہد (رض) سے مروی ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے گھوڑے کیلئے دو حصے اور گھوڑ سوار کیلئے ایک حصہ مقرر فرمایا۔

33847

(۳۳۸۴۸) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنِ الْحَکَمِ ، قَالَ : أَوَّلُ مَنْ جَعَلَ لِلْفَرَسِ سَہْمَیْنِ عُمَرُ ، أَشَارَ عَلَیْہِ رَجُلٌ مِنْ بَنِی تَمِیمٍ۔ (سعید بن منصور ۲۷۷۰)
(٣٣٨٤٨) حضرت حکم فرماتے ہیں کہ سب سے پہلے گھوڑے کے لیے دو حصے حضرت عمر (رض) نے مقرر فرمائے، بنو تمیم کے ایک شخص نے اس کی طرف اشارہ فرمایا۔

33848

(۳۳۸۴۹) حَدَّثَنَا عِیسَی بْنُ یُونُسَ ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ عَبَّادٍ ، قَالَ : أَسْہَمَ لِلزُّبَیْرِ أَرْبَعَۃَ أَسْہُمٍ ؛ سَہْمَیْنِ لِفَرَسِہِ وَسَہْمًا لَہُ ، وَسَہْمًا لأُمِّہِ وَلِذِی الْقُرْبَی۔ (نسائی ۴۴۳۴۔ طحاوی ۲۸۳)
(٣٣٨٤٩) حضرت یحییٰ بن عباد سے مروی ہے کہ حضرت زبیر (رض) کو چار حصے ملے، دو حصے اس کے گھوڑے کے لیے، ایک حصہ ان کے لیے اور ایک حصہ ان کی والدہ اور رشتہ داروں کے لیے۔

33849

(۳۳۸۵۰) حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ، عَنْ جُوَیْبِرٍ، قَالَ: کَتَبَ إِلَیْنَا عُمَرُ بْنُ عَبْدِالْعَزِیزِ وَنَحْنُ بِخُرَاسَانَ: بَلَّغَنَا الثِّقَۃُ عَنْ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ؛ أَنَّہُ أَسْہَمَ لِلْفَارِسِ ثَلاَثَۃَ أَسْہُمٍ ؛ سَہْمَیْنِ لِفَرَسِہِ ، وَسَہْمًا لَہُ ، وَأَسْہَمَ لِلرَّاجِلِ سَہْمًا ، وَقَالَ فِی الْخَیْلِ : الْعِرَابُ وَالْمُقَارِفُ وَالْبَرَاذِینُ سَوَائٌ۔ (سعید بن منصور ۲۷۷۳)
(٣٣٨٥٠) حضرت جویبر (رض) فرماتے ہیں کہ ہم خراسان کے علاقہ میں تھے حضرت عمر بن عبدالعزیزنے ہمیں لکھا کہ ثقہ راویوں کے ذریعہ ہم تک یہ بات پہنچی ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے گھوڑ سوار کو تین حصے عطاء فرمائے، دو حصے اس کے گھوڑے کے اور ایک حصہ اس کیلئے، اور پیادہ کو ایک حصہ عطا فرمایا، اور گھوڑوں کے متعلق فرمایا : عراب، مقارف اور براذین (مختلف نسل کے گھوڑے) اس حکم میں برابر ہیں۔

33850

(۳۳۸۵۱) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ أَشْعَثَ بْنِ سَوَّارٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، وَابْنِ سِیرِینَ ، قالاَ : کَانُوا إذَا غَزَوْا فَأَصَابُوا الْغَنَائِمَ ، قَسَمُوا لِلْفَارِسِ مِنَ الْغَنِیمَۃِ حِینَ تُقْسَمُ ثَلاَثَۃَ أَسْہُمٍ ؛ سَہْمَیْنِ لِفَرَسِہِ ، وَسَہْمًا لَہُ ، وَلِلرَّاجِلِ سَہْمًا۔
(٣٣٨٥١) حضرت حسن اور حضرت ابن سیرین (رض) سے مروی ہے کہ صحابہ کرام (رض) جب جہاد میں فتح یاب ہوتے اور مال غنیمت ہاتھ آتا تو تقسیم غنیمت کے وقت گھوڑ سوار کو تین حصے ملتے، دو اس کے گھوڑے کے اور ایک حصہ اس کا، اور پیادہ کو ایک حصہ ملتا۔

33851

(۳۳۸۵۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، حدَّثَنَا ابْنُ أَبِی لَیْلَی ، عَنِ الْحَکَمِ ، قَالَ : أَسْہَمَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِلْفَارِسِ سَہْمَیْنِ ، وَلِلرَّاجِلِ سَہْمًا۔
(٣٣٨٥٢) حضرت حکم سے مروی ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے گھوڑ سوار دو اور پیادہ کیلئے ایک حصہ مقرر فرمایا۔

33852

(۳۳۸۵۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللہِ الشَّعَیْثیُّ ، عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ ، قَالَ : أَسْہَمَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِلْفَرَسِ سَہْمَیْنِ ، وَلِلرَّاجِلِ سَہْمًا۔ (بیہقی ۵۳)
(٣٣٨٥٣) حضرت خالد بن معدان (رض) سے بھی اسی طرح مردی ہے۔

33853

(۳۳۸۵۴) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ مَیْمُونٍ ، قَالَ : کَتَبَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیزِ إلَی أَہْلِ الْجَزِیرَۃِ : أَمَّا بَعْدُ ، فَإِنَّ السِّہَامَ کَانَتْ عَلَی عَہْدِ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سَہْمَیْنِ لِلْفَرَسِ وَسَہْمًا لِلرَّجُلِ ، فَلَمْ أَظُنَّ أَنَّ أَحَدًا ہَمَّ بِانْتِقَاصِ فَرِیضَۃٍ مِنْہَا ، حَتَّی فَعَلَ ذَلِکَ رِجَالٌ مِمَّنْ یُقَاتِلُ ہَذِہِ الْحُصُونَ ، فَأَعِیدُوا سُہْمَانَہَا عَلَی مَا کَانَتْ عَلَیْہِ عَلَی عَہْدِ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ؛ سَہْمَیْنِ لِلْفَرَسِ وَسَہْمًا لِلرَّجُلِ ، وَکَیْفَ تُوضَعُ سُہْمَانُ الْخَیْلِ وَہِیَ بِإِذْنِ اللہِ لِمَسْرَحِہِمْ بِاللَّیْلِ ، وَلِمَسَالِحِہِمْ بِالنَّہَارِ وَلِطَلَبِ مَا یَطْلُبُونَ۔ (سعید بن منصور ۲۷۶۱)
(٣٣٨٥٤) حضرت عمرو بن میمون (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز نے جزیرہ والوں کو لکھا : اما بعد ! آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دور مبارکہ میں گھوڑے کیلئے دو اور سوار کیلئے ایک حصہ مقرر تھا، پھر کیوں کوئی شخص ان کے حصہ کو کم کرنے کے ارادہ سے شک اور تردد میں ڈالتا ہے، یہاں تک کہ لوگوں نے اس کو بنادیا ان میں سے جو لوگ ان قلعوں میں قتال کرتے ہیں جو حصے ان کے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دور میں تھے وہ ان کو لوٹا دو ، وہ حصے یہ تھے کہ گھوڑے کیلئے دو اور اس کے سوار کیلئے ایک حصہ مقرر تھا، گھوڑے کے حصہ کو کیسے کم کرتے ہو حالانکہ وہ اللہ کے حکم سے رات میں چرا گاہ میں پھرتے ہیں، اور دن میں سرحدوں کی حفاظت پر مامور ہوتے ہیں، اور اس وجہ سے بھی کہ گھوڑے وہی طلب کرتے ہیں جو مجاہدین طلب کرتے ہیں۔

33854

(۳۳۸۵۵) حَدَّثَنَا عِیسَی بْنُ یُونُسَ ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ عَبَّادٍ ؛ أَسْہَمَ لِلزُّبَیْرِ أَرْبَعَۃَ أَسْہُمٍ : سَہْمَیْنِ لِفَرَسِہِ ، وَسَہْمًا لأُمِّہِ ، وَسَہْمًا لِذِی الْقُرْبَی۔
(٣٣٨٥٥) حضرت یحییٰ بن عباد (رض) سے مروی ہے کہ حضرت زبیر (رض) کے چار حصے تھے، دو حصے گھوڑے کے، ایک حصہ ان کی والدہ کا اور ایک حصہ داروں کا۔

33855

(۳۳۸۵۶) حَدَّثَنَا مُحَاضِرٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا مُجَالِدٌ ، عَنْ عَامِرٍ ، قَالَ : لَمَّا فَتَحَ سَعْدُ بْنُ أَبِی وَقَّاصٍ جَلُولاَئَ أَصَابَ الْمُسْلِمُونَ ثَلاَثِینَ أَلْفَ أَلْفٍ ، فَقَسَمَ لِلْفَارِسِ ثَلاَثَۃَ آلاَفِ مِثْقَالَ ، وَلِلرَّجلِ أَلْفَ مِثْقَالٍ۔
(٣٣٨٥٦) حضرت عامر (رض) سے مروی ہے کہ جب حضرت معد بن ابی وقاص (رض) نے مقام جلو لاء کو فتح فرمایا تو غنیمت میں مسلمانوں کو تیس ہزار ہاتھ آئے، انھوں نے گھوڑ سوار کیلئے تین ہزار مثقال اور پیادہ کیلئے ایک ہزار مثقال تقسیم فرمایا۔

33856

(۳۳۸۵۷) حَدَّثَنَا مُعَاذٌ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا حَبِیبُ بْنُ شِہَابٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ أَبِی مُوسَی ؛ أَنَّہُ أَسْہَمَ لِلْفَارِسِ سَہْمَیْنِ ، وَأَسْہَمَ لِلرَّاجِلِ سَہْمًا۔
(٣٣٨٥٧) حضرت ابو موسیٰ (رض) نے گھوڑ سوار کیلئے دو اور پیادہ کیلئے ایک حصہ مقرر فرمایا۔

33857

(۳۳۸۵۸) حَدَّثَنَا یُونُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا مُجَمِّعُ بْنُ یَعْقُوبَ ، قَالَ : أَخْبَرَنِی أَبِی ، عَنْ عَمِّہِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ یَزِیدَ ، عَنْ مُجَمِّعِ بْنِ جَارِیَۃَ ، قَالَ : شَہِدْنَا الْحُدَیْبِیَۃَ مَعَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقُسِمَتْ عَلَی ثَمَانیَۃَ عَشَرَ سَہْمًا ، وَکَانَ الْجَیْشُ أَلْفًا وَخَمْس مِئَۃٍ : ثَلاَثُ مِئَۃَ فَارِسٍ ، فَکَانَ لِلْفَارِسِ سَہْمَانِ۔ (ابوداؤد ۲۷۳۰۔ احمد ۴۲۰)
(٣٣٨٥٨) حضرت مجمع بن جاریہ فرماتے ہیں کہ ہم آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ صلح حدیبیہ میں شریک تھے، اٹھارہ حصے تقسیم کیے گئے، اسلامی شکر کی تعداد پندرہ سو تھی، تین سو گھوڑ سواروں کو ملے، ہر گھوڑ سوار کیلئے دو حصے تھے۔

33858

(۳۳۸۵۹) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ ہَانِئِ بْنِ ہَانِئٍ ، عَنْ عَلِیٍّ ، قَالَ : لِلْفَارِسِ سَہْمَانِ۔ قَالَ شُعْبَۃُ : وَجَدْتُہُ مَکْتُوبًا عِنْدَ۔
(٣٣٨٥٩) حضرت علی (رض) فرماتے ہیں کہ گھوڑ سوار کو دو حصے ملیں گے، حضرت شعبہ فرماتے ہیں کہ میں نے اس کو لکھا ہوا پایا۔

33859

(۳۳۸۶۰) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ مَیْمُونٍ ، قَالَ : کَتَبَ جَعْوَنَۃُ بْنُ الْحَارِثِ ، وَکَانَ یَلِی ثَغْرَ مَلَطْیَۃَ ، إلَی عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِیزِ : إِنَّ رِجَالاً یَغْزُونَ بِخَیْلٍ ضِعَافٍ جَذَعٍ ، أَوْ ثَنِی ، لَیْسَ فِیہَا رَدٌّ عَنِ الْمُسْلِمِینَ ، وَیَغْزُو الرَّجُلُ بِالْبِرْذَوْنِ الْقَوِیِّ الَّذِی لَیْسَ دُونَ الْفَرَسِ ، إِلاَّ أَنَّہُ یُقَالَ : بِرْذَوْنٌ ، فَمَا یَرَی أَمِیرُ الْمُؤْمِنِینَ فِیہَا ؟ فَکَتَبَ إلَیْہِ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیزِ : أَنَ انْظُرْ مَا کَانَ مِنْ تِلْکَ الْخَیْلِ الضِّعَافِ الَّتِی لَیْسَ فِیہَا رَدٌّ عَنِ الْمُسْلِمِینَ ، فَأَعْلِمْ أَصْحَابَہَا أَنَّک غَیْرُ مُسْہِمَہَا ، انْطَلَقُوا بِہَا أمْ تَرَکُوا ، وَمَا کَانَ مِنْ تِلْکَ الْبَرَاذِینِ رَائِعَ الْجَرْیِ وَالْمَنْظَرِ ، فَأَسْہِمْہُ إسْہَامَک لِلْخَیْلِ الْعِرَابِ۔
(٣٣٨٦٠) حضرت عمرو بن میمون سے مروی ہے کہ حضرت جعونہ بن حارث (رض) جب ملطیہ کے سر حد کے پاس تھے تو انھوں نے حضرت عمر بن عبدالعزیز (رض) کو خط لکھا کہ لوگ مختلف گھوڑوں پر جہاد کرتے ہیں، کوئی جذع پر کوئی ثنی پر ہوتا ہے، اس میں مسلمانوں سے رد کرنا نہیں ہے، اور کوئی برذون گھوڑے پر جہاد کرتا ہے جو دوسرے گھوڑوں سے کم نہیں ہے یہاں تک کہ اس کو برذون کہا جاتا ہے، اے امیر المومنین آپ کی اس میں کیا رائے ہے ؟ حضرت عمر بن عبدالعزیز (رض) نے جواب تحریر فرمایا : مختلف النسل جو گھوڑے ہیں جن کو مسلمانوں سے رد نہیں کیا جاتا ان کے سواروں کو بتادو کہ ان کے لیے (الگ کوئی) حصہ نہیں ہے۔ ان کو لے کر جاؤ چھوڑ دو ، اور ترکی النسل جو گھوڑے ہیں جو دیکھنے میں خوشنما ہیں ان کو وہی حصہ دو جو عربی النسل گھوڑوں کے لیے ہے۔

33860

(۳۳۸۶۱) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : الْبِرْذَوْنُ بِمَنْزِلَۃِ الْفَرَسِ۔
(٣٣٨٦٢) حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ ترکی النسل گھوڑا بھی حکم میں عام گھوڑوں کی طرح ہے۔

33861

(۳۳۸۶۲) حَدَّثَنَا عَبَّادٌ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : لِصَاحِبِ الْبِرْذَوْنِ فِی الْغَنِیمَۃِ سَہْمٌ۔
(٣٣٨٦٢) حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ ترکی النسل گھوڑے کے مالک کے لیے بھی غنیمت میں حصہ ہے۔

33862

(۳۳۸۶۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللہِ الشُّعَیْثِیُّ ، عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ ، قَالَ : أَسْہَمَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِلْعِرَابِ سَہْمَیْنِ ، وَلِلْہَجِینِ سَہْمًا۔ (ابوداؤد ۲۸۶)
(٣٣٨٦٣) حضرت خالد بن معدان سے مروی ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عربی النسل گھوڑے کے لیے دو حصے اور غیر عربی گھوڑے کو ایک حصہ دیا۔

33863

(۳۳۸۶۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَاشِدٍ ، عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ مُوسَی ، قَالَ : کَتَبَ أَبُو مُوسَی إلَی عُمَرَ: إنَّا لَمَّا فَتَحْنَا تُسْتَرَ أَصَبْنَا خَیْلاً عِرَاضًا ، فَکَتَبَ إلَیْہِ : أَنَّ تِلْکَ الْبَرَاذِینُ ، مَا قرَف مِنْہَا الْعِتَاقَ فَأْسِہِمْ، وَأَلْغِ مَا سِوَی ذَلِکَ۔
(٣٣٨٦٤) حضرت ابو موسیٰ (رض) نے حضرت عمر (رض) کو خط لکھا کہ جب ہم نے مقام تستر فتح کیا تو ہمیں غنیمت میں کچھ براذین گھوڑے ملے ہیں حضرت عمر (رض) نے تحریر فرمایا براذین گھوڑوں میں جو عمدہ ہیں تو ان کو حصہ دو ، اور جو ان کے علاوہ ہیں وہ بےکار ہیں، ان کے لیے حصہ نہیں

33864

(۳۳۸۶۵) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنِ الأَسْوَدِ بْنِ قَیْسٍ ، وَإِبْرَاہِیمَ بْنِ الْمُنْتَشِرِ ، عَنِ ابْنِ الأَقْمَرِ ، قَالَ : أَغَارَتِ الْخَیْلُ بِالشَّامِ ، فَأَدْرَکَتِ الْعِرَابُ مِنْ یَوْمِہَا ، وَأَدْرَکْتِ الْکَوَادِنُ ضُحَی الْغَدِ ، فَقَالَ ابْنُ أَبِی خَمِیصَۃٍ : لاَ أَجْعَلُ مَنْ أَدْرَکَ کَمَنْ لَمْ یُدْرِکَ ، فَکَتَبَ إلَی عُمَرَ ، فَقَالَ عُمَرُ : ہَبِلَتِ الْوَادِعِیَّ أُمُّہُ ، لَقَدْ أَذْکَرَتْ بِہِ ، أَمْضُوہَا عَلَی مَا قَالَ۔ (فزاری ۲۴۴)
(٣٣٨٦٥) حضرت ابن الاقمر سے مروی ہے کہ گھڑ سواروں نے شام پر دھاوا بولا، اس دن عربی گھوڑے پائے گئے، اگلے دن دوپہر کو ترکی النسل گھوڑے پائے گئے، حضرت ابن ابی خمیصہ نے فرمایا : جس نے پایا ہے میں اس کو اس کے برابر نہ بتاؤں گا جس نے نہیں پایا، حضرت عمر (رض) کو خط لکھا گیا، حضرت عمر (رض) نے ارشاد فرمایا وادعی کی ماں اس کو گم پائے، اس کے متعلق ذکر کیا گیا ہے، جو کچھ کہا گیا ہے اس پر چلو۔

33865

(۳۳۸۶۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا الصَّبَّاحُ بْنُ ثَابِتٍ الْبَجَلِیُّ ، قَالَ : سَمِعْتُ الشَّعْبِیَّ ، یَقُولُ : إِنَّ الْمُنْذِرَ بْنَ الدَّہْرِ بْنَ حَمِیصَۃَ خَرَجَ فِی طَلَبِ الْعَدُوِّ ، فَلَحِقَتِ الْخَیْلُ الْعِتَاقُ ، وَتَقَطَّعَتِ الْبَرَاذِینُ ، فَأَسْہَمَ لِلْعِراب سَہْمَیْنِ ، وَلِلْبَرَاذِینِ سَہْمًا ، ثُمَّ کَتَبَ بِذَلِکَ إِلَی عُمَرَ ، فَأَعْجَبَہُ ذَلِکَ ، فَجَرَتْ سُنَّۃً لِلْخَیْلِ بَعْدُ۔
(٣٣٨٦٦) حضرت شعبی (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت منذر بن دھر بن حمیصہ دشمن کے مقابلہ پر نکلے، عمدہ عربی النسل گھوڑے پائے گئے، اور ترکی النسل گھوڑے علیحدہ کردیئے گئے، پس عربی گھوڑوں کے لیے دو حصے اور ترکی النسل کے لیے ایک حصہ مقرر کیا، پھر حضرت عمر (رض) کو اس کے متعلق لکھا، آپ نے یہ پسند کیا اور اس کے بعد گھوڑوں کے لیے یہ طریقہ جاری ہوگیا۔

33866

(۳۳۸۶۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنِ الزُّبَیْرِ بْنِ عَدِیٍّ (ح) وَشَرِیکٌ ، عَنِ الأََسْوَدِ بْنِ قَیْسٍ ، عَنْ کُلْثُومِ بْنِ الأََقْمَرِ ؛ أَنَّ الْمُنْذِرَ بْنَ الدَّہْرُ بْن حَمِیصَۃَ خَرَجَ فِی طَلَبِ الْعَدُوِّ ، فَلَحِقَتِ الْخَیْلُ الْعِتَاقُ ، وَتَقَطَّعَتِ الْبَرَاذِینُ ، فَأَسْہَمَ لِلْخَیْلِ ، وَلَمْ یُسْہِمْ لَلْبَرَاذِینِ ، فَکَتَبَ بِذَلِکَ إِلَی عُمَرَ ، فَأَعْجَبَ عُمَرَ ذَلِکَ ، فَقَالَ عُمَرُ فِی حَدِیثِ أَحَدِہِمَا : ثَکِلَتِ الْوَدَاعِیَّ أُمُّہُ ، لَقَدْ أَذکَرَتْ بِہِ۔
(٣٣٨٦٧) حضرت کلثوم بن الاقمر سے بھی اسی طرح مروی ہے صرف اس میں اتنا اضافہ ہے کہ ترکی النسل گھوڑوں کے لیے حصہ مقرر نہ فرمایا۔

33867

(۳۳۸۶۸) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : لِلْمُقْرَفِ سَہْمٌ ، وَہُوَ الْہَجِینُ ، وَلِصَاحِبِہِ سَہْمٌ۔
(٣٣٨٦٨) حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ مقرف گھوڑے کے لیے ایک حصہ ہے (ایسا گھوڑا جو دو نسلی ہو) اور اس کے سوار کے لیے ایک حصہ ہے۔

33868

(۳۳۸۶۹) حَدَّثَنَا ابْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنِ الزُّبَیْرِ بْنِ عَدِیٍّ ، عَنْ أَشْیَاخِ ہَمْدَانَ ، عَنْ عُمَرَ ؛ بِنَحْوِ حَدِیثِ وَکِیعٍ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنِ الزُّبَیْرِ بْنِ عَدِیٍّ۔
(٣٣٨٦٩) حضرت زیبر بن عدی سے بھی اسی طرح مروی ہے۔

33869

(۳۳۸۷۰) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ إِدْرِیسَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ ، عَنْ یَزِیدَ بْنِ یَزِیدَ بْنِ جَابِرٍ ، عَنْ مَکْحُولٍ ، قَالَ : لِلْہَجِینِ سَہْمٌ۔
(٣٣٨٧٠) حضرت مکحول فرماتے ہیں کہ ھجین گھوڑے کے لیے بھی غنیمت میں ایک حصہ ہے۔

33870

(۳۳۸۷۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، قَالَ : الْفَرَسُ وَالْبِرْذَوْنُ سَوَائٌ۔
(٣٣٨٧١) حضرت سفیان فرماتے ہیں کہ عربی اور غیر عربی (ترکی النسل) گھوڑے برابر ہیں۔

33871

(۳۳۸۷۲) حَدَّثَنَا عِیسَی بْنُ یُونُسَ ، عَنِ الأَوْزَاعِیِّ ، قَالَ : لَمْ یَکُنْ أَحَدٌ مِنْ عُلَمَائِنَا یُسْہِمُ لِلْبِرْذَوْنِ۔
(٣٣٨٧٢) حضرت اوزاعی (رض) فرماتے ہیں کہ ہمارے علماء میں سے کوئی بھی نہیں ہے جو ترکی النسل کو حصہ دینے کا قائل ہو۔

33872

(۳۳۸۷۳) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، قَالَ : جَعَلَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِلْبَغْلِ سَہْمًا ، وَلِلرَّاجِلِ سَہْمًا۔
(٣٣٨٧٣) حضرت مجاہد (رض) سے مروی ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خچر کے لیے ایک حصہ اور اس کے سوار کے لیے ایک حصہ مقرر فرمایا۔

33873

(۳۳۸۷۴) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : الْبِغَالُ رَاجِلُ۔
(٣٣٨٧٤) حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں خچر سوار پیادہ کے مثل ہے۔

33874

(۳۳۸۷۵) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ ، عَنْ یَزِیدَ بْنِ یَزِیدَ بْنِ جَابِرٍ ، عَنْ مَکْحُولٍ ، قَالَ : کَانُوا لاَ یُسْہِمُونَ لِبَغْلٍ ، وَلاَ لِبِرْذَوْنٍ ، وَلاَ لِحِمَارٍ۔
(٣٣٨٧٥) حضرت مکحول (رض) فرماتے ہیں کہ فقہاء کرام خچر اور ترکی النسل اور گدھے کیلئے حصہ مقرر نہ فرماتے تھے۔

33875

(۳۳۸۷۶) حَدَّثَنَا جَرِیرُ بْنُ عَبْدِ الْحَمِیدِ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ؛ فِی الرَّجُلِ یَکُونُ فِی الْغَزْوِ ، فَیَکُونُ مَعَہُ الأَفْرَاسُ : لاَ یُقْسَمُ لَہُ عِنْدَ الْمَغْنَمِ ، إِلاَّ لِفَرَسَیْنِ۔
(٣٣٨٧٦) حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص کئی گھوڑوں کے ساتھ جہاد میں حاضر ہو تو تقسیم غنیمت کے وقت صرف دو گھوڑوں کو حصہ دیا جائے گا۔

33876

(۳۳۸۷۷) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ إِدْرِیسَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ ، عَنْ یَزِیدَ بْنِ یَزِیدَ بن جَابِرٍ ، عَنْ مَکْحُولٍ ، قَالَ: لاَ یُسْہَمُ لأَکْثَرِ مِنْ فَرَسَیْنِ إِذَا کَانَا لِرَجُلٍ وَاحِدٍ ، وَمَا کَانَ سِوَی ذَلِکَ فَہُوَ جَنَائِبُ۔
(٣٣٨٧٧) حضرت مکحول (رض) فرماتے ہیں کہ اگر ایک شخص کے پاس کئی گھوڑے ہوں تو دو گھوڑوں سے زیادہ کو حصہ نہیں دیا جائے گا، ان دو کے علاوہ جو ہیں وہ تو صرف تھکاوٹ کے بعد اس پر سوار ہونے کے لیے احتیاطا رکھے گئے ہیں۔

33877

(۳۳۸۷۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، وَإِسْرَائِیلُ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، قَالَ : شَہِدْنَا غَزَاۃً مَعَ سَعِیدِ بْنِ عُثْمَانَ ، وَمَعِی ہَانِئُ بْنُ ہَانِئٍ ، وَمَعِی فَرَسَانِ ، وَمَعَ ہَانِئٍ فَرَسَانِ ، فَأَسْہَمَ لِی وَلِلْفَرَسَیْنِ خَمْسَۃَ أَسْہُمٍ ، وَأَسْہَمَ لِہَانِئٍ وَلِفَرَسَیْہِ خَمْسَۃَ أَسْہُمٍ۔
(٣٣٨٧٨) حضرت ابو اسحاق (رض) فرماتے ہیں کہ ہم لوگ حضرت سعید بن عثمان کے ساتھ جہاد میں شریک ہوئے، ہمارے ساتھ ھانی بن ھانی تھے، میرے پاس دو گھوڑے اور حضرت ھانی کے پاس بھی دو گھوڑے تھے، میرے اور میرے گھوڑوں کے لیے پانچ حصے دیئے گئے ، اور حضرت ھانی کو گھوڑے اور ان کے لیے پانچ حصے دیئے گئے۔

33878

(۳۳۸۷۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : لاَ سَہْمَ لأَکْثَرَ مِنْ فَرَسَیْنِ ، فَإِنْ کَانَ مَعَ الرَّجُلِ فَرَسَانِ أُسْہِمَ لَہُ خَمْسَۃُ أَسْہُمٍ ؛ أَرْبَعَۃٌ لِفَرَسَیْہِ ، وَسَہْمًا لَہُ۔
(٣٣٨٧٩) حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ دو گھوڑوں سے زیادہ کے لیے حصہ نہیں ہے، اگر کسی کے پاس دو سے زائد گھوڑے ہوں تو اس کو پانچ حصے دیئے جائیں گئے، چار حصے اس کے گھوڑوں کے لیے اور ایک حصہ اس کے لیے۔

33879

(۳۳۸۸۰) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ مُوسَی ، قَالَ : إِنْ أَدْرَبَ رَجُلٌ بِأَفْرَاسٍ ، کَانَ لِکُلِّ فَرَسٍ سَہْمٌ۔
(٣٣٨٨٠) حضرت سلیمان بن موسیٰ (رض) سے مروی ہے کہ اگر کوئی شخص کئی گھوڑے لے کر میدان جنگ میں اترے تو اس کے ہر ہر گھوڑے کے لیے حصہ ہے۔

33880

(۳۳۸۸۱) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ زَیْدٍ ، عَنْ عُمَیْرٍ مَوْلَی آبِی اللَّحْمِ ، قَالَ : شَہِدْتُ خَیْبَرَ وَأَنَا عَبْدٌ مَمْلُوکٌ ، فَلَمَّا فَتَحُوہَا ، أَعْطَانِی النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سَیْفًا ، فَقَالَ : تَقَلَّدْ ہَذَا ، وَأَعْطَانِی مِنْ خُرْثِیِّ الْمَتَاعِ ، وَلَمْ یَضْرِبْ لِی بِسَہْمٍ۔ (ابوداؤد ۲۷۲۴۔ احمد ۲۲۳)
(٣٣٨٨١) حضرت عمر فرماتے ہیں کہ جب میں جنگ خیبر میں شریک ہوا تو میں غلام تھا، جب خیبر فتح ہوا تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے ایک تلوار عطا فرمائی اور فرمایا اس کو لٹکا لو، اور مجھے کچھ گھر کے لیے سامان مرحمت فرمایا اور میرے لیے غنیمت میں حصہ مقرر نہ فرمایا۔

33881

(۳۳۸۸۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا ہِشَامُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ زَیْدِ بْنِ مُہَاجِرِ بْنِ قُنْفُذٍ ، عَنْ عُمَیْرٍ مَوْلَی آبِی اللَّحْمِ ، قَالَ : شَہِدْتُ مَعَ مَوْلاَیَ خَیْبَرَ وَأَنَا مَمْلُوک ، فَلَمْ یَقْسِمْ لِی مِنَ الْغَنِیمَۃِ شَیْئًا ، وَأَعْطَانِی مِنْ خُرْثِیِّ الْمَتَاعِ سَیْفًا کُنْت أَجُرَّہُ إذَا تَقَلَّدْتہ۔ (ابن ماجہ ۲۸۵۵)
(٣٣٨٨٢) حضرت عمیر فرماتے ہیں کہ میں اور میرے آقا جنگ خیبر میں شریک ہوئے میرے لیے غنیمت میں حصہ مقرر نہ کیا گیا، اور گھر کے سامان سے ایک تلوار دی گئی، میں اس کو گلے میں لٹکا لیتا۔

33882

(۳۳۸۸۳) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ عَطَائٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ (ح) وَعَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ، عَنْ عُمَرَ ، قَالَ : لَیْسَ لِلْعَبْدِ مِنَ الْغَنِیمَۃِ شَیْئٌ۔
(٣٣٨٨٣) حضرت عمر (رض) فرماتے ہیں غلام کے لیے غنیمت میں حصہ نہیں ہے۔

33883

(۳۳۸۸۴) حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ، عَنْ حَجَّاجٍ، عَنْ عَطَائٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: لَیْسَ لَہُ فِی الْمَغْنَمِ نَصِیبٌ۔
(٣٣٨٨٤) حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں غنیمت میں غلام کیلئے حصہ نہیں ہے۔

33884

(۳۳۸۸۵) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الْحَکَمِ ، وَالْحَسَنِ ، وَابْنِ سِیرِینَ ، قَالُوا : مَنْ شَہِدَ الْبَأْسَ مِنْ حُرٍّ ، أَوْ عَبْدٍ ، أَوْ أَجِیرٍ فَلَہُ سَہْمٌ۔
(٣٣٨٨٥) حضرت حسن (رض) اور حضرت ابن سیرین فرماتے ہیں کہ جو بھی جہاد میں شریک ہو، آزاد، غلام یا مزدور میں سے اس کیلئے غنیمت میں سے حصہ ہے۔

33885

(۳۳۸۸۶) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، وَابْنِ سِیرِینَ ، وَالْحَکَمِ ، قَالُوا : الْعَبْدُ وَالأَجِیرُ إِذَا شَہِدُوا الْقِتَالَ أُعْطُوا مِنَ الْغَنِیمَۃِ۔
(٣٣٨٨٦) حضرت حسن اور حضرت ابن سیرین اور حضرت حکم فرماتے ہیں غلام اور مزدور اگر جہاد میں شریک ہوں تو ان کو غنیمت میں سے حصہ دیا جائے گا۔

33886

(۳۳۸۸۷) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ حَمَّادٍ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، قَالَ : إِذَا شَہِدَ التَّاجِرُ وَالْعَبْدُ ، قُسِمَ لَہُ ، وَقُسِمَ لِلْعَبْدِ۔
(٣٣٨٨٧) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ اگر تاجر اور غلام جہاد میں شریک ہو تو ان کیلئے غنیمت میں حصہ نکالا جائے گا۔

33887

(۳۳۸۸۸) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ ، قَالَ : یُسْہَمُ لِلْعَبْدِ۔
(٣٣٨٨٨) حضرت عمرو بن شعیب فرماتے ہیں کہ غلام کو حصہ دیا جائے گا۔

33888

(۳۳۸۸۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا ابْنُ أَبِی ذِئْبٍ ، عَنْ خَالِہِ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ أَبِی قُرَّۃَ ، قَالَ : قَسَمَ لِی أَبُو بَکْرٍ الصِّدِّیقُ کَمَا قَسَمَ لِسَیِّدِی۔
(٣٣٨٨٩) حضرت ابو قرہ فرماتے ہیں کہ جس طرح میرے آقا کیلئے حصہ مقرر کیا اسی طرح حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے میرے لیے حصہ مقرر فرمایا۔

33889

(۳۳۸۹۰) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ حَمَّادٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ؛ فِی الْغَنَائِمِ یُصِیبُہَا الْجَیْشُ ، قَالَ : إِنْ أَعَانَہُمَ التَّاجِرُ وَالْعَبْدُ ، ضُرِبَ لَہُمَا بِسِہَامِہِمَا مَعَ الْجَیْشِ۔
(٣٣٨٩٠) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ اگر لشکر اسلام کو غنیمت ملے اور ان کی مدد کیلئے تاجر اور غلام بھی ہوں تو غنیمت میں لشکر کے ساتھ ان کو بھی حصہ دیا جائے گا۔

33890

(۳۳۸۹۱) حَدَّثَنَا وَکِیعُ بْنُ الْجَرَّاحِ ، قَالَ : حدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَاشِدٍ ، عَنْ مَکْحُولٍ ، قَالَ : أَسْہَمَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِلنِّسَائِ وَالصِّبْیَانِ وَالْخَیْلِ۔ (ابوداؤد ۲۸۹۔ بیہقی ۵۳)
(٣٣٨٩١) حضرت مکحول (رض) سے مروی ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خواتین بچوں اور گھوڑوں کو غنیمت میں سے حصہ دیا۔

33891

(۳۳۸۹۲) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَنْ یَزِیدَ بْنِ ہُرْمُزَ ، قَالَ : کَتَبَ نَجْدَۃُ إِلَی ابْنِ عَبَّاسٍ یَسْأَلُہُ عَنِ النِّسَائِ ، ہَلْ کُنَّ یَحْضُرْنَ الْحَرْبَ مَعَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ؟ وَہَلْ یَضْرِبُ لَہُنَّ بِسَہْمٍ ؟ قَالَ : فَقَالَ یَزِیدُ : أَنَا کَتَبْتُ کِتَابَ ابْنِ عَبَّاسٍ بِیَدِی إلَی نَجْدَۃَ ، کَتَبْتَ تَسْأَلُنِی عَنِ النِّسَائِ ، ہَلْ کُنَّ یَحْضُرْنَ مَعَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْحَرْبَ ؟ وَہَلْ کَانَ یَضْرِبُ لَہُنَّ بِسَہْمٍ ؟ وَقَدْ کُنَّ یَحْضُرْنَ مَعَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَأَمَّا أَنْ یَضْرِبَ لَہُنَّ بِسَہْمٍ فَلاَ ، وَقَدْ کَانَ یَرْضَخُ لَہُنَّ۔
(٣٣٨٩٢) حضرت یزید بن ہرمز سے مروی ہے کہ نجدہ نے حضرت ابن عباس (رض) کو خط لکھا اور عورتوں کے متعلق دریافت کیا کہ کیا خواتین حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ جہاد میں شریک ہوتی تھیں، کیا ان کو غنیمت میں سے حصہ ملتا تھا ؟ حضرت یزید فرماتے ہیں کہ میں نے نجدہ کی طرف حضرت ابن عباس (رض) کی طرف سے خط لکھا کہ آپ نے مجھ سے یہ دریافت کیا ہے کہ : کیا خواتین حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ جہاد میں شریک ہوتی تھیں ؟ اور کیا ان کیلئے غنیمت میں حصہ تھا ؟ بہرحال وہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ جہاد میں شریک ہوتی تھیں، اور ان کو الگ حصہ نہ دیا جاتا، اور ان کو کچھ اسی میں سے دیا جاتا تھا۔

33892

(۳۳۸۹۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنِ الْعَوَّامِ بْنِ مُزَاحِمٍ ، عَنْ خَالِدِ بْنِ سَیْحَانَ ، قَالَ : شُہِدَتْ مَعَ أَبِی مُوسَی أَرْبَعُ نِسْوَۃٍ ، أَوْ خَمْسٌ ، مِنْہُنَّ أُمُّ مَجْزَأَۃَ بْنِ ثَوْرٍ، فَکُنَّ یَسْقِینَ الْمَائَ ، وَیُدَاوِینَ الْجَرْحَی ، فَأَسْہَمَ لَہُنَّ۔
(٣٣٨٩٣) حضرت خالد بن سیحان سے مروی ہے کہ حضرت ابو موسیٰ (رض) کے ساتھ چار یا پانچ خواتین جہاد میں شریک ہوئیں جن میں ام مجزاۃ بن ثور بھی تھیں، وہ پیاسوں کو پانی اور زخمیوں کو پٹی کرتی تھیں، ان کو غنیمت میں سے حصہ دیا جاتا۔

33893

(۳۳۸۹۴) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنْ عَبْدِ الْحَمِیدِ بْنِ جَعْفَرٍ ، عَنْ یَزِیدَ بْنِ أَبِی حَبِیبٍ ، عَنْ سُفْیَانَ بْنِ وَہْبٍ الْخَوْلاَنِیِّ ، قَالَ : قسَمَ عُمَرُ بَیْنَ النَّاسِ غَنَائِمَہُمْ ، فَأَعْطَی کُلَّ إنْسَانٍ دِینَارًا ، وَجَعَلَ سَہْمَ الْمَرْأَۃِ وَالرَّجُلِ سَوَائً ، فَإِذَا کَانَ الرَّجُلُ مَعَ امْرَأَتِہِ أَعْطَاہُ دِینَارًا ، وَإِذَا کَانَ وَحْدَہُ أَعْطَاہُ نِصْفَ دِینَارٍ۔
(٣٣٨٩٤) حضرت سفیان بن وھب سے مروی ہے کہ حضرت عمر (رض) نے لوگوں میں مال غنیمت تقسیم فرمایا، آپ نے ہر ایک کو ایک دینار عطا فرمایا، اور خاتون اور مرد کا حصہ برابر مقرر فرمایا، اگر مرد کے ساتھ خاتون بھی ہو تو ایک دینار عطاء فرماتے ، اور اگر اکیلا ہوتا تو نصف عطا فرماتے۔

33894

(۳۳۸۹۵) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ حُبَابٍ ، قَالَ : حدَّثَنِی ابْنُ أَبِی ذِئْبٍ ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ عَبَّاسٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ نِیَارٍ ، عَنْ عُرْوَۃَ ، عَنْ عَائِشَۃَ ؛ أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أُتِیَ بِظَبْیَۃِ خَرَزٍ ، فَقَسَمَہَا لِلْحُرَّۃِ وَالأَمَۃِ ، وَقَالَتْ عَائِشَۃُ : کَانَ أَبِی یَقْسِمُ لِلْحُرِّ وَالْعَبْدِ۔ (ابوداؤد ۲۹۴۵۔ احمد ۱۵۶)
(٣٣٨٩٥) حضرت عائشہ (رض) سے مروی ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ایک تھیلی لائی گئی، آپ نے ان کو آزاد خواتین اور باندیوں میں تقسیم فرمایا، حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ : میرے والد محترم بھی آزاد اور غلام پر تقسیم فرماتے تھے۔

33895

(۳۳۸۹۶) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ ، عَنْ بُرَیْدِ بْنِ عَبْدِ اللہِ ، عَنْ أَبِی بُرْدَۃَ ، عَنْ أَبِی مُوسَی ، قَالَ : قدِمْنَا عَلَی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَعْدَ فَتْحِ خَیْبَرَ بِثَلاَثٍ ، فَقَسَمَ لَنَا ، وَلَمْ یَقْسِمْ لأَحَدٍ لَمْ یَشْہَدَ الْفَتْحَ غَیْرَنَا۔ (بخاری ۳۱۳۶۔ مسلم ۱۹۴۶)
(٣٣٨٩٦) حضرت ابو موسیٰ (رض) ارشاد فرماتے ہیں کہ ہم لوگ فتح خیبر کے بعد حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لشکر میں حاضر ہوئے تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غنیمت میں سے ہمیں بھی حصہ عطا فرمایا، اور ہمارے علاوہ کسی ایسے شخص کو حصہ عطا نہ فرمایا جو جنگ میں شریک نہ ہو۔

33896

(۳۳۸۹۷) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ زَکَرِیَّا بْنُ أَبِی زَائِدَۃَ، عَنْ مُجَالِدٍ، عَنْ عَامِرٍ، قَالَ: کَتَبَ عُمَرُ إلَی سَعْدٍ یَوْمَ الْقَادِسِیَّۃِ: إِنِّی قَدْ بَعَثْتُ إِلَیْک أَہْلَ الْحِجَازِ ، وَأَہْلَ الشَّامِ ، فَمَنْ أَدْرَکَ مِنْہُمَ الْقِتَالَ قَبْلَ أَنْ یَتَفَقَؤُوا فَأَسْہِمْ لَہُمْ۔
(٣٣٨٩٧) حضرت عامر (رض) سے مروی ہے کہ حضرت عمیر (رض) نے قادسیہ کے دن حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) کو تحریر فرمایا : میں تمہارے پاس حجاز اور شام والوں کو بھیج رہا ہوں، ان میں سے جو بھی لاشوں کے خراب ہونے سے قبل جنگ میں شریک ہوجائے اس کو غنیمت میں حصہ دینا۔

33897

(۳۳۸۹۸) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ ، عَنْ یَزِیدَ ، یَعْنِی ابْنَ أَبِی حَبِیبٍ ؛ أَنَّ أَبَا بَکْرٍ بَعَثَ عِکْرِمَۃَ بْنَ أَبِی جَہْلٍ مُمِدًّا لِلْمُہَاجِرِ بْنِ أَبِی أُمَیَّۃِ ، وَزِیَادِ بْنِ لَبِیَدٍ البَیَاضِیِّ ، فَانْتَہَوْا إلَی الْقَوْمِ وَقَدْ فُتِحَ عَلَیْہِمْ ، وَالْقَوْمُ فِی دِمَائِہِمْ ، قَالَ : فَأُشْرَکُوہُم فِی غَنِیمَتِہِمْ۔
(٣٣٨٩٨) حضرت ابن ابی حبیب (رض) سے مروی ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے حضرت عکرمہ بن ابی جھل کو مہاجر بن ابی امیہ اور زیاد بن لبید کی مدد کیلئے بھیجا، جب یہ ان کے پاس پہنچے تو وہ اس وقت فتح حاصل کرچکے تھے، اور ان کی لاشیں خون آلود موجود تھیں ان کو بھی غنیمت میں شریک کیا۔

33898

(۳۳۸۹۹) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : حدَّثَنَا الْمَسْعُودِیُّ ، عَنِ الْحَکَمِ ؛ أَنَّ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَسَمَ لِجَعْفَرٍ وَأَصْحَابِہِ یَوْمَ خَیْبَرَ ، وَلَمْ یَشْہَدُوا الْوَقْعَۃَ۔ (ابوداؤد ۲۷۷)
(٣٣٨٩٩) حضرت حکم (رض) سے مروی ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جعفر اور ان کے ساتھیوں کو خیبر کے دن غنیمت میں سے حصہ دیا باوجودیکہ وہ جنگ خیبر میں شریک نہ تھے۔

33899

(۳۳۹۰۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا شُعْبَۃُ ، عَنْ قَیْسِ بْنِ مُسْلِمٍ ، عَنْ طَارِقِ بْنِ شِہَابٍ الأَحْمَسِیِّ ، قَالَ : غَزَتْ بَنُو عُطَارِدٍ مِئَۃً مِنْ أَہْلِ الْبَصْرَۃِ ، وَأَمَدُّوا عَمَّارًا مِنَ الْکُوفَۃِ ، فَخَرَجَ عَمَّارٌ قَبْلَ الْوَقْعَۃِ ، فَقَالَ : نَحْنُ شُرَکَاؤُکُمْ فِی الْغَنِیمَۃِ ، فَقَامَ رَجُلٌ مِنْ بَنِی عُطَارِدٍ ، فَقَالَ : أَیُّہَا الْعَبْدُ الْمَجْدُوعُ ، وَکَانَتْ أُذُنُہُ قَدْ أُصِیبَتْ فِی سَبِیلِ اللہِ ، أَتُرِیدُ أَنْ نَقْسِمَ لَکَ غَنِیمَتَنَا ؟ فَقَالَ عَمَّارٌ : عَیَّرْتُمُونِی بِأَحَبِّ ، أَوْ بِخَیْرِ أُذُنَی ، قَالَ : وَکَتَبَ فِی ذَلِکَ إِلَی عُمَرَ ، فَکَتَبَ عُمَرُ : إِنَّ الْغَنِیمَۃَ لِمَنْ شَہِدَ الْوَقْعَۃَ۔
(٣٣٩٠٠) حضرت طارق بن شھاب الاحمسی (رض) سے مروی ہے کہ اھل بصرہ میں سے بنو عطارد نے جنگ میں شرکت کی، اور انھوں نے کوفہ سے حضرت عمامہ کی مدد کی، حضرت عمار لڑائی سے پہلے ہی نکل گئے، پھر بعد میں فرمایا کہ ہم لوگ بھی غنیمت میں تمہارے ساتھ شریک ہیں، بنو عطارد میں سے ایک شخص کھڑا ہوا اور بولا ! اے وہ شخص جس کا کان کٹا ہوا ہے، حضرت عمار کا کان جہاد میں شہید ہوا تھا، کیا تو یہ چاہتا ہے کہ ہم اپنی غنیمت میں سے تمہیں حصہ دیں ؟ حضرت عمار نے فرمایا، تو نے مجھے میرے بہترین اور پسندیدہ کان سے عار دیا ہے، پھر حضرت عمر (رض) کو اس کے متعلق لکھا، حضرت عمر (رض) نے جوابا تحریر کیا غنیمت میں اس کو حصہ ملے گا جو لڑائی اور فتح میں شریک ہو۔

33900

(۳۳۹۰۱) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ قَیْسِ بْنِ مُسْلِمٍ ، عَنْ طَارِقِ بْنِ شِہَابٍ ، قَالَ : قَالَ عُمَرُ : إنَّمَا الْغَنِیمَۃُ لِمَنْ شَہِدَ الْوَقْعَۃَ۔ (بیہقی ۵۰۔ عبدالرزاق ۹۶۸۹)
(٣٣٩٠١) حضرت طارق بن شھاب سے مروی ہے کہ حضرت عمر (رض) نے فرمایا، غنیمت میں اس کا حصہ ہے جو لڑائی میں شرکت کرے۔

33901

(۳۳۹۰۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا شُعْبَۃُ ، عَنِ الْحَکَمِ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ؛ أَنَّ قَوْمًا قَدِمُوا عَلَی عَلِیٍّ یَوْمَ الْجَمَلِ بَعْدَ الْوَقْعَۃِ ، فَقَالَ : ہَؤُلاَئِ الْمَحْرُومُونَ فَاقْسِمْ لَہُمْ۔
(٣٣٩٠٢) حضرت ابراہیم سے مروی ہے کہ جنگ جمل کے دن کچھ لوگ حضرت علی (رض) کے پاس لڑائی کے بعد حاضر ہوئے، حضرت علی نے فرمایا یہ محرومین ہیں، (آپ نے قرآن پاک کی آیت للسائل والمحروم کی طرف اشارہ فرمایا) پھر ان کو غنیمت میں سے حصہ عطا فرمایا۔

33902

(۳۳۹۰۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ قَیْس بْنِ مُسْلِمٍ ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ مُحَمَّدٍ ، قَالَ : بَعَثَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سَرِیَّۃً ، فَأَصَابُوا غَنِیمَۃً فَجَائَ بَعْدَہُمْ قَوْمٌ ، فَنَزَلَتْ : {فِی أَمْوَالِہِمْ حَقٌّ مَعْلُومٌ لِلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ}۔ (طبری ۸۲)
(٣٣٩٠٣) حضرت حسن بن محمد (رض) سے مروی ہے کہ حضور اقدس نے ایک سریہ بھیجا، ان کو مال غنیمت ہاتھ آیا، پھر ان کے بعد کچھ لوگ اور آگئے، تو یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی { فِی أَمْوَالِہِمْ حَقٌّ مَعْلُومٌ لِلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ }۔

33903

(۳۳۹۰۴) حَدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ قَیْسِ بْنِ کُرْکُمٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ؛ {لِلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ} ، قَالَ : الْمُحَارَفُ۔ (طبری ۲۹)
(٣٣٩٠٤) حضرت ابن عباس (رض) قرآن پاک کی آیت { لِلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اس سے محروم مراد ہے۔

33904

(۳۳۹۰۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ: حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ قَیْسِ بْنِ کُرْکُمٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ؛ {لِلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ} ، قَالَ : الْمَحْرُومُ الْمُحَارَفُ الَّذِی لَیْسَ لَہُ فِی الإِسْلاَمِ سَہْمٌ۔
(٣٣٩٠٥) حضرت ابن عباس (رض) قرآن کی آیت { لِلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ } میں محروم کی تفسیر کے متعلق فرماتے ہیں کہ محروم وہ شخص ہے جس کے لیے اسلام میں غنیمت کا کوئی حصہ مقرر نہیں ہے۔

33905

(۳۳۹۰۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حَدَّثَنَا سَلَمَۃُ بْنُ نُبَیْطٍ ، عَنِ الضَّحَّاکِ ، قَالَ : بَعَثَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ طَلاَئِعَ ، فَغَنِمَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ غَنِیمَۃً ، فَقَسَمَ بَیْنَ النَّاسِ ، وَلَمْ یَقْسِمْ لِلطَّلاَئِعِ شَیْئًا ، فَلَمَّا قَدِمَتِ الطَّلاَئِعُ ، قَالُوا : قَسَمَ الْفَیْئَ وَلَمْ یَقْسِمْ لَنَا ، فَنَزَلَتْ : {وَمَا کَانَ لِنَبِیٍّ أَنْ یَغُلَّ}۔ (طبری ۱۵۶)
(٣٣٩٠٦) حضرت ضحاک (رض) سے مروی ہے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کچھ ابتدائی دستے روانہ فرمائے، پھر ان کے جانے کے بعد حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کچھ مال غنیمت ہاتھ آیا، آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں کے درمیان غنیمت کا مال تقسیم فرمایا اور ان کو کچھ نہ دیا، جب وہ دستے واپس آئے تو کہنے لگے کہ اللہ کے نبی نے غنیمت کو تقسیم فرما دیا ہے مگر ہمیں حصہ نہ دیا، تو ان کے متعلق یہ آیت نازل ہوئی { وَمَا کَانَ لِنَبِیٍّ أَنْ یَغُلَّ }

33906

(۳۳۹۰۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : الْمَحْرُومُ الَّذِی لَیْسَ لَہُ فِی الْغَنِیمَۃِ شَیْئٌ۔
(٣٣٩٠٧) حضرت ابراہیم (رض) المحروم کے متعلق فرماتے ہیں کہ وہ شخص ہے جس کیلئے غنیمت میں حصہ نہیں ہے۔

33907

(۳۳۹۰۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنِ ابْنِ أَبِی نَجِیحٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، قَالَ : الْمَحْرُومُ الَّذِی لَیْسَ لَہُ فِی الْغَنِیمَۃِ شَیْئٌ۔
(٣٣٩٠٨) حضرت مجاہد (رض) سے بھی یہی مروی ہے۔

33908

(۳۳۹۰۹) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، قَالَ : کَتَبْتُ إِلَی نَافِعٍ أَسْأَلُہُ عَنِ الرَّجُلِ یَکُونُ فِی السَّرِیَّۃٍ ، یَحْمِلُ بِغَیْرِ إِذْنِ أَمِیرِہِ ؟ فَکَتَبَ : إِنَّہُ لاَ یُغَیِّرُہُ إُذْنُ أَمِیرِہِ۔
(٣٣٩٠٩) حضرت ابن عون فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت نافع کو لکھ کر ان سے دریافت کیا کہ : کوئی شخص امیر کی اجازت کے بغیر سر یہ سے نکل جائے ؟ آپ نے جواب تحریر فرمایا : اس کو امیر کے حکم نے تبدیل نہیں کیا۔

33909

(۳۳۹۱۰) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ حَسَّانَ ، قَالَ : إِذَا الْتَقَی الزَّحْفَانِ ، فَلَیْسَ لِلرَّجُلِ أَنْ یَحْمِلَ بِغَیْرِ إِذْنِ إِمَامِہِ۔
(٣٣٩١٠) حضرت ہشام بن حسان (رض) فرماتے ہیں کہ جب دو لشکر آمنے سامنے (پیش قدمی کریں) ہوجائیں تو کسی شخص کو اس بات کی اجازات نہیں ہے کہ وہ امیر کے اذن کے بغیر سوار ہوجائے (سوار ہو کر نکل جائے) ۔

33910

(۳۳۹۱۱) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ ، عَنِ الأَشْعَثِ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : لاَ یُسْرَی فِی سَرِیَّۃٍ ، إِلاَّ بِإِذْنِ أَمِیرِہَا ، وَلَہُمْ مَا نَفَّلَہُمْ مِنْ شَیْئٍ۔
(٣٣٨٩١١) حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ امیر کی اجازت کے بغیر سریہ سے نہیں نکلا جائے گا، اور جو غنیمت حاصل ہو اس میں ان کے لیے حصہ ہے۔

33911

(۳۳۹۱۲) حَدَّثَنَا جَرِیرُ بْنُ عَبْدِ الْحَمِیدِ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، قَالَ : إِذَا تَسَرَّت السَّرِیَّۃِ مَا أَصَابُوا ، أَوْ غَنِمُوا ، إِنْ شَائَ الإِمَامُ نَفَّلَہُمْ ، وَإِنْ شَائَ خَمَّسَہُ۔
(٣٣٩١٢) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ سریہ اگر جہاد کیلئے نکلے اور اس کے ہاتھ جو بھی (غنیمت) آئے، امام اگر چاہے تو ان کو زائد حصہ دے دے اور اگر چاہے تو پانچواں حصہ۔

33912

(۳۳۹۱۳) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : إِذَا خَرَجَتْ سَرِیَّۃٌ بِإِذْنِ الإِمَامِ فَغَنِمُوا ، أَخَذَ الإِمَامُ الْخُمُسَ ، وَسَائِرُہُ لَہُمْ۔
(٣٣٩١٣) حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ سریہ اگر امام کی اجازت کے بغیر ہی جہاد کیلئے نکل پڑے اور ان کے ہاتھ غنیمت آئے تو امام اس میں سے پانچواں حصہ وصول کرے اور باقی سب ان کے لیے ہوگا۔

33913

(۳۳۹۱۴) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ، قَالَ : ذَکَرْتُ لِسَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ، قَالَ : غَزَوْتُ الدَّرْبَ ، فَلَمَّا وَجَّہْنَا قَافِلِینَ بِہِ ، بَعَثُوا السَّرَایَا بَعْدَ أَنْ وَجَّہْنَا قَافِلِینَ ، فَقِیلَ : لَکُمْ مَا غَنِمْتُمْ إِلاَّ الْخُمُسَ ، فَقَالَ سَعِیدُ بْنُ الْمُسَیَّبِ : مَا کَانَ النَّاسُ یُنَفَّلُونَ إِلاَّ مِنَ الْخُمُسِ۔
(٣٣٩١٤) حضرت یحییٰ بن سعید (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت سعید بن المسیب (رض) سے دریافت کیا کہ : میں نے درب کے علاقے میں جہاد کیا۔ جب ہم وہاں روانہ ہوگئے تو ہمارے بعد کچھ سرایا بھیجے گئے۔ ان سے کہا گیا کہ تمہیں خمس کے علاوہ مال غنیمت ملے گا۔ اس بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں۔ حضرت سعید بن مسیب نے فرمایا کہ لوگ خمس سے ہی نفل دیا کرتے تھے۔

33914

(۳۳۹۱۵) حَدَّثَنَا عِیسَی بْنُ یُونُسَ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : أَیُّمَا سَرِیَّۃٍ أَغَارَتْ بِغَیْرِ إِذْنِ أَمِیرِہَا فَہُوَ غَلُولٌ۔
(٣٣٩١٥) حضرت حسن (رض) سے مروی ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جو لشکر بھی امیر کی اجازت کے بغیر حملہ کرے تو وہ خیانت اور دھوکا دینے والے ہیں۔

33915

(۳۳۹۱۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، قَالَ : سَأَلْتُ إِبْرَاہِیمَ عَنِ الإِمَامِ یَبْعَثُ السَّرِیَّۃَ فَتَغْنَمُ؟ قَالَ : إِنْ شَائَ نَفَّلَہُمْ إِیَّاہُ کُلَّہُ ، وَإِنْ شَائَ خَمَّسَہُ۔
(٣٣٩١٦) حضرت منصور (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابراہیم (رض) سے دریافت کیا کہ امام سریہ روانہ کرے اور اس کو غنیمت حاصل ہو ؟ فرمایا اگر امام چاہے تو پھر زائد حصہ ان کو دے دے اور اگر چاہے خمس نکالے۔

33916

(۳۳۹۱۷) حَدَّثَنَا ابْنُ إِدْرِیسَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : إِذَا رَحَلُوا بِإِذْنِ الإِمَامِ أَخَذَ الْخُمُسَ ، وَکَانَ لَہُمْ مَا بَقِیَ ، وَإِذَا رَحَلُوا بِغَیْرِ إِذْنِ الإِمَامِ فَہُوَ أُسْوَۃُ الْجَیْشِ۔
(٣٣٩١٧) حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ اگر لشکر امام کی اجازت کے ساتھ کوچ کرے تو ان کے غنیمت میں سے خمس نکالا جائے گا اور باقی ان کو ملے گا، اور اگر امام کی اجازت کے بغیر کوچ کریں تو وہ جیش کے مثل ہیں۔

33917

(۳۳۹۱۸) حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّیَالِسِیُّ ، عَنْ عِمْرَانَ الْقَطَّانِ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ ثَابِتٍ ، قَالَ : سَأَلْتُ مَکْحُولاً ، وَعَطَائً عَنِ الإِمَامِ یُنَفِّلُ الْقَوْمَ مَا أَصَابُوا ؟ قَالَ : ذَلِکَ لَہُمْ۔
(٣٣٩١٨) حضرت علی بن ثابت (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت مکحول اور حضرت عطا سے دریافت کیا کہ امام اگر وہ سارا مال تقسیم کر دے جو ان کو غنیمت میں ملا ہے تو کیا حکم ہے ؟ فرمایا (کوئی نہیں) وہ انہی کے لیے ہے۔

33918

(۳۳۹۱۹) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ؛ أَنَّہُ سُئِلَ عَنِ الْنَّہبَۃِ فِی الْغَنِیمَۃِ إِذَا أَذِنَ لَہُمْ أَمِیرُہُمْ ؟ فَکَرِہَ ذَلِکَ۔
(٣٣٩١٩) حضرت زھری (رض) سے دریافت کیا گیا کہ امیر اگر لشکر کو اجازت دے دے اور وہ اپنی مرضی کی چیزیں اٹھالیں تو کیا حکم ہے ؟ آپ نے اس کو ناپسند فرمایا۔

33919

(۳۳۹۲۰) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنْ أَبِی قِلاَبَۃَ ، عَنْ أَبِی الْمُہَلَّبِ ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَیْنٍ ؛ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَدَی رَجُلَیْنِ مِنَ الْمُسْلِمِینَ بِرَجُلٍ مِنَ الْمُشْرِکِینَ مِنْ بَنِی عُقَیْلٍ۔ (ترمذی ۱۵۶۸۔ مسلم ۱۲۶۲)
(٣٣٩٢٠) حضرت عمران بن حصین (رض) سے مروی ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بنو عقیل کے ایک مشرک کے بدلے دو مسلمانوں کا فدیہ قرار دیا۔

33920

(۳۳۹۲۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا عِکْرِمَۃُ بْنُ عَمَّارٍ ، عَنْ إِیَاسِ بْنِ سَلَمَۃَ بْنِ الأَکْوَعِ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : غَزَوْنَا مَعَ أَبِی بَکْرٍ ہَوَازِنَ عَلَی عَہْدِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَنَفَّلَنِی جَارِیَۃً مِنْ بَنِی فَزَارَۃَ ، مِنْ أَجْمَلِ الْعَرَبِ ، عَلَیْہَا قَِشْعٌ لَہَا ، فَمَا کَشَفْتُ لَہَا عَنْ ثَوْبٍ حَتَّی قَدِمْتُ الْمَدِینَۃَ ، فَلَقِیَنَا النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَہُوَ بِالسُّوقِ ، فَقَالَ : لِلَّہِ أَبُوکَ ، ہَبْہَا لِی ، فَوَہَبْتُہَا لَہُ ، قَالَ : فَبَعَثَ بِہَا ، فَفَادَی بِہَا أُسَارَی مِنَ الْمُسْلِمِینَ کَانُوا بِمَکَّۃَ۔
(٣٣٩٢١) حضرت سلمہ بن اکوع (رض) فرماتے ہیں کہ ہم حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دور میں حضرت صدیق اکبر (رض) کے ساتھ ھوازن کے علاقہ میں جہاد کیلئے گئے، مجھے بنی فزارہ کی لونڈی حصہ میں ملی، جو کہ حسین عرب خاتون تھیں، اس پر موٹا زائد لباس تھا، جب اس کے زائد کپڑے کھلے تو میں اس کو لے کر مدینہ آیا، بازار میں حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ہم سے ملاقات ہوئی، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : تمہارے والد کی خوبی اللہ کیلئے ہی ہے، اس کو مجھے ھبہ کہ دو ، حضرت سلمہ فرماتے ہیں کہ میں نے آپ کو ھبہ کردی، راوی (رض) فرماتے ہیں کہ : آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وہ باندی مکہ میں جو مسلمان تھے ان کے فدیہ کے واسطے بھیج دی۔

33921

(۳۳۹۲۲) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، وَعَطَائٍ ، قَالاَ فِی الأَسِیرِ مِنَ الْمُشْرِکِینَ : یُمَنَّ عَلَیْہِ ، أَوْ یُفَادَی۔
(٣٣٩٢٢) حضرت حسن (رض) اور حضرت عطائ (رض) فرماتے ہیں کہ مشرکین کے قیدیوں پر احسان کر کے آزاد کردیا جائے یا پھر فدیہ وصول لیا جائے۔

33922

(۳۳۹۲۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ أَبِی الْجُوَیْرِیَۃِ ، وَعَاصِمِ بْنِ کُلَیْبٍ الْجَرْمِیُّ ؛ أَنَّ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِیزِ فَدَی رَجُلاً مِنَ الْمُسْلِمِینَ مِنْ جَرْمٍ مِنْ أَہْلِ الْحَرْبِ بِمِئَۃِ أَلْفٍ۔
(٣٣٩٢٣) حضرت عاصم بن کلیب (رض) سے مروی ہے کہ : حضرت عمر بن عبدالعزیز نے مسلمانوں میں سے ایک شخص کا فدیہ دیا، اھل حرب میں سے (شدۃ اور قوت والے) ایک لاکھ دراھم کے ساتھ۔

33923

(۳۳۹۲۴) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ حَمَّادٍ : إِذَا سُبِیَتِ الْجَارِیَۃُ ، أَوِ الْغُلاَمُ مِنَ الْعَدُوِّ ، فَلاَ بَأْسَ أَنْ یُفَادُوہُمْ۔
(٣٣٩٢٤) حضرت حماد فرماتے ہیں کہ اگر باندی یا غلام دشمن کی قید میں چلے جائیں تو کوئی حرج نہیں کہ ان کو فدیہ دے کر آزاد کروایا جائے۔

33924

(۳۳۹۲۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ؛ فِی الأَسِیرِ : یُمَنَّ عَلَیْہِ ، أَوْ یُفَادَی بِہِ۔
(٣٣٩٢٥) حضرت شعبی (رض) قیدیوں کے متعلق فرماتے ہیں کہ ان پر احسان کر کے یا فدیہ لے کر آزاد کردیا جائے۔

33925

(۳۳۹۲۶) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ ، عَنْ أَبِی عُبَیْدَۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : لَمَّا کَانَ یَوْمُ بَدْرٍ ، قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَا تَقُولُونَ فِی ہَؤُلاَئِ الأُسَارَی ؟ قَالَ : ثُمَّ قَالَ : لاَ یُفْلِتَنَّ أَحَدٌ مِنْہُمْ إِلاَّ بِفِدَائٍ ، أَوْ ضَرْبَۃِ عُنُقٍ۔ (ترمذی ۱۷۱۴۔ احمد ۳۸۳)
(٣٣٩٢٦) حضرت عبداللہ (رض) سے مروی ہے کہ بدر والے دن حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا ان قیدیوں کے بارے میں تمہاری کیا رائے ہے ؟ پھر فرمایا : ان میں سے کسی کو بھی آزاد نہ کیا جائے گا مگر فدیہ لے کر یا پھر اس کو قتل کردیا جائے۔

33926

(۳۳۹۲۷) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنِ الْحَکَمِ ، عَنْ مِقْسَمٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : کَتَبَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کِتَابًا بَیْنَ الْمُہَاجِرِینَ وَالأَنْصَارِ : أَنْ یَعْقِلُوا مُعَاقِلَہُمْ ، وَأَنْ یُفْدُوا عَانِیَہُمْ بِالْمَعْرُوفِ وَالإِصْلاَحِ بَیْنَ الْمُسْلِمِینَ۔
(٣٣٩٢٧) حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مہاجرین اور انصار کو لکھا کہ ان کے قتل کے معاملہ میں دیت دیں، اور ان کے قیدیوں کے لیے اچھے طریقہ سے فدیہ وصول کیا جائے گا اور مسلمانوں کے درمیان (معاملات کی) اصلاح کی جائے گی۔

33927

(۳۳۹۲۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا أُسَامَۃُ بْنُ زَیْدٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ حُمَیْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، قَالَ : قَالَ عُمَرُ: لأَنْ أَسْتَنْقِذَ رَجُلاً مِنَ الْمُسْلِمِینَ مِنْ أَیْدِی الْکُفَّارِ أَحَبَّ إلَیَّ مِنْ جِزیَۃِ الْعَرَبِ۔
(٣٣٩٢٨) حضرت عمر (رض) نے ارشاد فرمایا : کفار کے ہاتھوں سے ایک مسلمان قیدی کو چھڑاؤ یہ مجھے پورے عرب کے جزیہ یا جزیرۃ العرب سے زیادہ پسندیدہ ہے۔

33928

(۳۳۹۲۹) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنِ الْحَکَمِ ، وَمُجَاہِدٍ ، قَالاَ : قَالَ أَبُو بَکْرٍ : إِنْ أَخَذْتُمْ أَحَدًا مِنَ الْمُشْرِکِینَ، فَأُعْطِیتُمْ بِہِ مُدَّیْ دَنَانِیرَ ، فَلاَ تُفَادُوہُ۔
(٣٣٩٢٩) حضرت حکم (رض) اور حضرت مجاہد (رض) سے مروی ہے کہ حضرت ابوبکر (رض) نے ارشاد فرمایا اگر مشرکین میں سے تم کسی کا فدیہ لو، اور تمہیں دو مد دینار دیئے جائیں تو فدیہ کو مت وصول کرو۔

33929

(۳۳۹۳۰) حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ حُمَیْدٍ ، عَنْ حَبِیبٍ بْن أَبِی یَحْیَی ؛ أَنَّ خَالِدَ بْنَ زَیْدٍ ،وَکَانَتْ عَیْنَہُ أُصِیبَتْ بِالسَّوسِ ، قَالَ : حاصَرْنَا مَدِینَتَہَا ، فَلَقِینَا جَہْدًا ، وَأَمِیرُ الْمُسْلِمِینَ أَبُو مُوسَی ، وَأَخَذَ الدِّہْقَانُ عَہْدَہُ وَعَہْدَ مَنْ مَعَہُ ، فَقَالَ أَبُو مُوسَی : اعْزِلْہُمْ ، فَجَعَلَ یَعْزِلُہُمْ ، وَجَعَلَ أَبُو مُوسَی یَقُولُ لأَصْحَابِہِ : إِنِّی أَرْجُو أَنْ یَخْدَعَہُ اللَّہُ عَنْ نَفْسِہِ ، فَعَزَلَہُمْ وَبَقِیَ عَدُوُّ اللہِ ، فَأَمَرَ بِہِ أَبُو مُوسَی ، فَفَادَی وَبَذَلَ مَالاً کَثِیرًا ، فَأَبَی وَضَرَبَ عُنُقَہُ۔
(٣٣٩٣٠) حضرت خالد بن زید (رض) سے مروی ہے جن کی آنکھ سوس کے علاقہ میں جہاد میں شھید ہوچکی تھی، فرماتے ہیں کہ ہم نے کفار کے علاقہ کا محاصرہ کیا، ہمیں بڑی مشقت پیش آئی، اس وقت ہمارے امیر حضرت ابو موسیٰ (رض) تھے، ایک دھقان نے اپنی اور اپنے ساتھیوں کی امان طلب کی اور چھٹکارا چاہا۔ حضرت ابو موسیٰ نے ارشاد فرمایا، ان کو علیحدہ کرو، دھقان نے ان کو علیحدہ کرنا، شروع کردیا، حضرت ابو موسیٰ (رض) نے اپنے ساتھیوں سے کہا : مجھے لگتا ہے کہ یہ دھوکا دے گا۔ پھر جب اس دھقان نے اپنے خاندان والوں کو نکال لیا تو پھر جنگ کے لیے تیار ہوگیا۔ پھر جب وہ گرفتار کر کے لایا گیا تو اس نے بہت سے فدیے کی پیش کش کی۔ لیکن حضرت ابو موسیٰ (رض) نے اس کے قتل کا حکم دیا۔

33930

(۳۳۹۳۱) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنِ الْحَکَمِ ، عَنْ مِقْسَمٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : قُتِلَ قَتِیلٌ یَوْمَ الْخَنْدَقِ ، فَغَلَبَ الْمُسْلِمُونَ الْمُشْرِکِینَ عَلَی جِیفَتِہِ ، فَقَالُوا : ادْفَعُوا إِلَیْنَا جِیفَتَہُ وَنُعْطِیکُمْ عَشَرَۃَ آلاَف دِرْہَم ، فَذُکِرَ ذَلِکَ لِلنَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : لاَ حَاجَۃَ لَنَا فِی جِیفَتِہِ ، وَلاَ دِیَتِہِ ، إِنَّہُ خَبِیثُ الدِّیَۃِ خَبِیثُ الْجِیفَۃِ۔ (احمد ۲۴۸۔ بیہقی ۱۳۳)
(٣٣٩٣١) حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ : خندق والے دن کچھ کفار مارے گئے، مسلمان کفار کے لاشوں پر غالب آگئے، مشرکین نے مسلمانوں سے کہا کہ ہماری لاشیں ہمارے حوالے کردو، ہم اس کے بدلہ دس ہزار دراہم دیں گے، حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کا ذکر کیا گیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ہمیں تمہاری لاشوں (مردار لاشوں) اور دیت کی کوئی ضرورت نہیں ہے، یہ خبیث دیت اور خبیث لاشیں ہیں۔

33931

(۳۳۹۳۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ ابْنِ أَبِی لَیْلَی ، عَنِ الْحَکَمِ ؛ أَنَّ رَجُلاً مِنَ الْمُشْرِکِینَ أُصِیبَ یَوْمَ الْخَنْدَقِ ، فَأَعْطَوُا النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِجِیفَتِہِ حَتَّی بَلَغُوا الدِّیَۃَ ، فَأَبَی۔ (احمد ۲۴۸)
(٣٣٩٣٢) حضرت حکم (رض) سے مروی ہے کہ کچھ مشرکین غزوہ خندق میں مارے گئے، آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان مردہ لاشوں کے بدلے مال دینے کو کہا گیا یہاں تک کہ وہ دیت کی رقم تک پہنچ گئے لیکن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لینے سے انکار کردیا۔

33932

(۳۳۹۳۳) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَنِ ابْنِ أَبِی لَیْلَی ، عَنِ الْحَکَمِ ، عَنْ مِقْسَمٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ؛ بِنَحْوِہِ۔ (ترمذی ۱۷۱۵۔ احمد ۳۲۶)
(٣٣٩٣٣) حضرت ابن عباس (رض) سے بھی یہی مردی ہے۔

33933

(۳۳۹۳۴) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، قَالَ : نَسَخَتْ : {وَاقْتُلُوہُمْ حَیْثُ وَجَدْتُمُوہُمْ} مَا کَانَ قَبْلَ ذَلِکَ مِنْ فِدَائٍ ، أَوْ مَنٍّ۔
(٣٣٩٣٤) حضرت مجاہد (رض) سے مروی ہے کہ { وَاقْتُلُوہُمْ حَیْثُ وَجَدْتُمُوہُمْ } منسوخ ہوگئی جو ان سے پہلے فدیہ اور احسان کر کے چھوڑنے کا حکم تھا۔

33934

(۳۳۹۳۵) حَدَّثَنَا ابْنُ إِدْرِیسَ، عَنْ لَیْثٍ، عَنْ مُجَاہِدٍ؛ فِی قَوْلِہِ: {فَإِمَّا مَنًّا بَعْدُ وَإِمَّا فِدَائً} قَالَ: لاَ مَنٍّ، وَلاَ فِدَائٍ۔
(٣٣٩٣٥) حضرت مجاہد فرماتے ہیں قرآن کی آیت { فَإِمَّا مَنًّا بَعْدُ وَإِمَّا فِدَائً } کے متعلق فرماتے ہیں کہ اب کوئی احسان اور فدیہ نہیں ہے۔

33935

(۳۳۹۳۶) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ حَبِیبِ بْنِ أَبِی عَمْرَۃَ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، قَالَ : اسْتَشَارَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی الأُسَارَی یَوْمَ بَدْرٍ ، فَقَالَ أَبُو بَکْرٍ : یَا رَسُولَ اللہِ ، قَوْمُک وَعَشِیرَتُک بَنُو عَمِّکَ ، فَخُذْ مِنْہُمَ الْفِدْیَۃَ ، وَقَالَ عُمَرُ : اُقْتُلْہُمْ ، فَنَزَلَتْ : {مَا کَانَ لِنَبِیٍّ أَنْ یَکُونَ لَہُ أَسْرَی حَتَّی یُثْخِنَ فِی الأَرْضِ} قَالَ مُجَاہِدٌ : وَالإِثْخَانُ : ہُوَ الْقَتْلُ۔ (ابن جریر ۴۳)
(٣٣٩٣٦) حضرت مجاہد (رض) سے مروی ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غزوہ بدر کے قیدیوں کے بارے میں مشورہ طلب کیا، حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے ارشاد فرمایا : اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ آپ کی قوم اور آپ کے رشتہ دار ہیں، ان سے فدیہ لے کر آزاد کردیں، حضرت عمر (رض) نے ارشاد فرمایا، ان سب کو قتل کردیں، پھر اس کے بارے میں قرآن کریم کی آیت { مَا کَانَ لِنَبِیٍّ أَنْ یَکُونَ لَہُ أَسْرَی حَتَّی یُثْخِنَ فِی الأَرْضِ } حضرت مجاہد فرماتے ہیں الا ثخان سے مراد قتل ہے۔

33936

(۳۳۹۳۷) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ ، عَنْ أَبِی سَلَمَۃَ بْن أَبِی حَفْصَۃَ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ زَیْدٍ ، عَنْ یُوسُفَ بْنِ مِہْرَانَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : قَالَ عُمَرُ : کُلَّ أَسِیرٍ کَانَ فِی أَیْدِی الْمُشْرِکِینَ مِنَ الْمُسْلِمِینَ ، فَفِکَاکُہُ مِنْ بَیْتِ مَالِ الْمُسْلِمِینَ۔
(٣٣٩٣٧) حضرت عمر (رض) ارشاد فرماتے ہیں کہ مسلمانوں کا جو بھی قیدی کافروں کے قبضہ میں ہو پھر اس کا فدیہ مسلمانوں کا بیت المال ادا کرے گا۔

33937

(۳۳۹۳۸) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ شَرِیکٍ ، عَنْ بِشْرِ بْنِ غَالِبٍ ، قَالَ : سَأَلَ ابْنُ الزُّبَیْرِ الْحَسَنَ بْنَ عَلِیٍّ عَنِ الرَّجُلِ یُقَاتِلُ عَنْ أَہْلِ الذِّمَّۃِ ، فَیُؤْسَرُ ؟ قَالَ : فَفِکَاکُہُ مِنْ خَرَاجِ أُولَئِکَ الْقَوْمِ الَّذِینَ قَاتَلَ عَنْہُمْ۔
(٣٣٩٣٨) حضرت بشر بن غالب سے مروی ہے کہ حضرت ابن زبیر (رض) نے حضرت حسن بن علی (رض) سے دریافت کیا کہ ایک مجاہد ذمی جہاد کے دوران اگر گرفتار ہوجائے ؟ فرمایا جن سے وہ لڑا ہے انہی کے خراج میں سے اس کا فدیہ ادا کیا جائے گا۔

33938

(۳۳۹۳۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ؛ فِی أَہْلِ الْعَہْدِ إِذَا سَبَاہُمَ الْمُشْرِکُونَ ، ثُمَّ ظَہَرَ عَلَیْہِمَ الْمُسْلِمُونَ ، قَالَ : لاَ یُسْتَرَقُّونَ۔
(٣٣٩٣٩) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ اھل العہد (ذمی) کو مشرکین قید کرلیں پھر مسلمان ان پر غالب آجائیں تو وہ غلام نہیں بنائے جائیں گے۔

33939

(۳۳۹۴۰) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُبَارَکٍ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ أَبِی کَثِیرٍ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ ، قَالَ : لاَ یُفَادَی الْعَبْدُ ، وَلاَ الْمُعَاہَدُ۔
(٣٣٩٤٠) حضرت عکرمہ (رض) فرماتے ہیں غلام اور معاھد کا فدیہ نہ دیا جائے گا۔

33940

(۳۳۹۴۱) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِی عَدِیٍّ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَطَائٍ ؛ أَنَّہُ کَرِہَ قَتْلَ الأَسْرَی۔
(٣٣٩٤١) حضرت عطاء قیدیوں کے قتل کرنے کو ناپسند فرماتے تھے۔

33941

(۳۳۹۴۲) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَطَائٍ ؛ أَنَّہُ کَانَ یَقُولُ : لاَ یُقْتَلُ الأَسِیرُ۔
(٣٣٩٤٢) حضرت عطاء فرماتے تھے کہ قیدی کو قتل مت کرو۔

33942

(۳۳۹۴۳) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِی عَدِیٍّ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : کَانَ یَکْرَہُ قَتْلَ الأَسِیرِ۔
(٣٣٩٤٣) حضرت حسن (رض) قیدی کے قتل کرنے کو ناپسند فرماتے تھے۔

33943

(۳۳۹۴۴) حَدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِی جَعْفَرٍ ، قَالَ : کَانَ عَلِیٌّ إِذَا أُتِیَ بِأَسِیرٍ یَوْمَ صِفِّینَ ، أَخَذَ دَابَّتَہُ ، وَأَخَذَ سِلاَحَہُ ، وَأَخَذَ عَلَیْہِ أَنْ لاَ یَعُودَ ، وَخَلَّی سَبِیلَہُ۔
(٣٣٩٤٤) حضرت ابو جعفر (رض) سے مروی ہے کہ جنگ صفین کے دن جب حضرت علی (رض) کی خدمت میں قیدی لایا جاتا تو آپ اس کا سامان اور سواری ضبط فرما لیتے اور اس سے دوبارہ نہ لڑنے کا عہد لے کر اس کو رہا فرما دیتے۔

33944

(۳۳۹۴۵) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنْ أَبِی فَاخِتَۃَ ، قَالَ : أَخْبَرَنِی جَارٌ لِی ، قَالَ : أَتَیْتُ علِیًّا بِأَسِیرٍ یَوْمَ صِفِّینَ ، فَقَالَ : لَنْ أَقْتُلَک صَبْرًا ، إِنِّی أَخَافُ اللَّہَ رَبَّ الْعَالَمِینَ۔
(٣٣٩٤٥) حضرت ابی فاختہ سے مروی ہے کہ مجھے میرے پڑوسی نے بتایا کہ جنگ صفین کے دن میں قید ہو کر حضرت علی (رض) کی خدمت میں پیش ہوا۔ حضرت علی (رض) نے فرمایا : میں تجھے قتل نہ کروں گا میں اللہ رب العالمین سے ڈرتا ہوں۔

33945

(۳۳۹۴۶) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ خُلَیْدِ بْنِ جَعْفَرٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ؛ أَنَّ الْحَجَّاجَ أُتِیَ بِأَسِیرٍ ، فَقَالَ لِعَبْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ : قُمْ فَاقْتُلْہُ ، فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ : مَا بِہَذَا أُمِرْنَا ، یَقُولُ اللَّہُ : {حَتَّی إِذَا أَثْخَنْتُمُوہُمْ فَشُدُّوا الْوَثَاقَ فَإِمَّا مَنًّا بَعْدُ وَإِمَّا فِدَائً}۔
(٣٣٩٤٦) حضرت حسن سے مروی ہے کہ حجاج کے پاس قیدی لایا گیا حجاج نے حضرت عبداللہ بن عمر (رض) سے کہا کھڑے ہوجاؤ اور اس کو قتل کردو، حضرت ابن عمر (رض) نے ارشاد فرمایا : ہمیں کس چیز کا حکم دیا گیا ؟ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ : { حَتَّی إِذَا أَثْخَنْتُمُوہُمْ فَشُدُّوا الْوَثَاقَ فَإِمَّا مَنًّا بَعْدُ وَإِمَّا فِدَائً }۔

33946

(۳۳۹۴۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا جَرِیرُ بْنُ حَازِمٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : بَعَثَ ابْنُ عَامِرٍ إلَی ابْنِ عُمَرَ بِأَسِیرٍ وَہُوَ بِفَارِسَ ، أَوْ بِإِصْطَخْرَ لِیَقْتُلَہُ ، فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ : أَمَّا وَہُوَ مَصْرُورٌ فَلاَ۔ قَالَ وَکِیعٌ : یَعْنِی مَوْثُوقًا۔
(٣٣٩٤٧) حضرت حسن سے مروی ہے کہ ابن عامر نے فارس کے قیدی کو حضرت ابن عمر (رض) کے پاس بھیجا تاکہ وہ اس کو قتل کردیں، حضرت ابن عمر (رض) نے ارشاد فرمایا : بہرحال وہ بندھا ہوا قیدی ہے تو پھر قتل نہیں ہوگا۔

33947

(۳۳۹۴۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ رَجُلٍ لَمْ یُسَمِّہِ ؛ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ أُتِیَ بِسَبِی فَأَعْتَقَہُمْ۔
(٣٣٩٤٨) حضرت سفیان سے مروی ہے کہ حضرت عمر (رض) بن خطاب کی خدمت میں قیدی لائے گئے تو آپ نے ان سب کو آزاد کردیا۔

33948

(۳۳۹۴۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا أَصْحَابُنَا ، عَنْ حَمَّادٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : الإِمَامُ فِی الأُسَارَی بِالْخِیَارِ ، إِنْ شَائَ فَادَی ، وَإِنْ شَائَ مَنَّ ، وَإِنْ شَائَ قَتَلَ۔
(٣٣٩٤٩) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ امام کو قیدیوں کے متعلق مکمل اختیار ہے، اگر چاہے تو فدیہ لے کر آزاد کر دے، یا احسان کرتے ہوئے آزاد کر دے یا پھر قتل کر دے۔

33949

(۳۳۹۵۰) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ، عَنْ جَعْفَرٍ، عَنْ أَبِیہِ، قَالَ: أَمَرَ عَلِیٌّ مُنَادِیَہُ، فَنَادَی یَوْمَ الْبَصْرَۃِ: لاَ یُقْتَلُ أَسِیرٌ۔
(٣٣٩٥٠) حضرت جعفر (رض) اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی (رض) نے بصرہ کے دن منادی کو اعلان کرنے کا حکم فرمایا کہ : قیدی قتل نہیں کیا جائے گا۔

33950

(۳۳۹۵۱) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ حُصَیْنٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَوْمَ فَتْحِ مَکَّۃَ : أَلاَ لاَ یُقْتَلُ مُدْبِرٌ ، وَلاَ یُجْہَزُ عَلَی جَرِیحٍ ، وَمَنْ أَغْلَقَ بَابَہُ فَہُوَ آمِنٌ۔ (ابوعبید ۱۵۹)
(٣٣٩٥١) حضرت حصین سے مروی ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فتح مکہ کے دن اعلان فرمایا : خبردار پیٹھ پھیر کر بھاگنے والے کو قتل نہیں کیا جائے گا، اور زخمی کو قتل نہیں کیا جائے گا، اور جس نے اپنے گھر کا دروازہ بند کردیا وہ مامون ہے۔

33951

(۳۳۹۵۲) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ ، عَنْ جَعْفَرٍ ، عَنْ أَبِیہِ ؛ أَنَّ عَلِیًّا أَمَرَ مُنَادِیَہُ فَنَادَی یَوْمَ الْبَصْرَۃِ : أَلاَ لاَ یُتْبَعُ مُدْبِرٌ ، وَلاَ یُذْفَفُ عَلَی جَرِیحٍ ، وَلاَ یُقْتَلُ أَسِیرٌ ، وَمَنْ أَغْلَقَ بَابَہُ فَہُوَ آمِنٌ ، وَمَنْ أَلْقَی السِّلاَحَ فَہُوَ آمِنٌ ، وَلاَ یَؤْخُذُ مِنْ مَتَاعِہِمْ شَیئٌ۔
(٣٣٩٥٢) حضرت جعفر اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی (رض) نے بصرہ کے دن منادی کو یہ اعلان کرنے کو فرمایا کہ خبردار ! بھاگنے والے کا پیچھا نہ کیا جائے، زخمی کو قتل نہ کیا جائے گا، قیدی کو قتل نہیں کیا جائے گا، اور جس نے اپنے گھر کا دروازہ بند کردیا وہ مامون ہے اور جس نے اپنا ہتھیار ڈال دیا وہ بھی مامون ہے اور ان کے سامان کو نہیں لوٹا جائے گا۔

33952

(۳۳۹۵۳) حَدَّثَنَا کَثِیرُ بْنُ ہِشَامٍ ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ بُرْقَانَ ، قَالَ : حدَّثَنَا مَیْمُونٌ ، عَنْ أَبِی أُمَامَۃَ ، قَالَ : شَہِدْتُ صِفِّینَ ، فَکَانُوا لاَ یُجْہِزُونَ عَلَی جَرِیحٍ ، وَلاَ یَطْلُبُونَ مُوَلِّیًا ، وَلاَ یَسْلُبُونَ قَتِیلاً۔
(٣٣٩٥٣) حضرت ابو امامہ (رض) فرماتے ہیں کہ میں جنگ صفین میں حاضر تھا، زخمیوں قتل نہیں کیا جا رہا تھا، اور بھاگنے والوں کا پیچھا بھی نہیں کیا جا رہا تھا اور مقتولوں کا سامان بھی نہیں چھینا جا رہا تھا۔

33953

(۳۳۹۵۴) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا ہِشَامٌ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ ، قَالَ : کَانَ الزُّبَیْرُ یَتَتَبَّعُ الْقَتْلَی یَوْمَ الْیَمَامَۃِ ، فَإِذَا رَأَی رَجُلاً بِہِ رَمَقٌ أَجْہَزَ عَلَیْہِ۔
(٣٣٩٥٤) حضرت ابن سیرین سے مروی ہے کہ یمامہ والے دن حضرت زبیر (رض) زخمیوں کو تلاش کر رہے تھے، جب کسی شخص کو دیکھتے کہ اس کا خون بہہ رہا ہے تو زبیر حملہ آور ہوجاتے۔

33954

(۳۳۹۵۵) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : کُنَّ النِّسَائُ یُجْہِزْنَ عَلَی الْجَرْحَی یَوْمَ أُحُدٍ۔
(٣٣٩٥٥) حضرت عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ جنگ احد کے دن عورتیں زخمیوں پر حملہ آور ہو رہی تھیں۔

33955

(۳۳۹۵۶) حَدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنِ الْقَاسِمِ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللہِ : النَّفَلُ مَا لَمْ یَلْتَقِ الصَّفَّانِ ، أَوِ الزَّحْفَانِ ، فَإِذَا الْتَقَی الزَّحْفَانِ ، أَوِ الصَّفَّانِ ، فَالْمَغْنَمُ۔
(٣٣٩٥٦) حضرت عبداللہ فرماتے ہیں کہ عطیہ اور بخشش اس وقت تک ہے جب تک کہ لشکر آمنے سامنے نہ آئے ہوں۔ اگر آمنے سامنے آجائیں تو پھر مال غنیمت ہے۔

33956

(۳۳۹۵۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا أَبُو الْعُمَیْسِ ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، قَالَ : إِذَا الْتَقَی الزَّحْفَانِ ، أَوِ الصَّفَّانِ فَلاَ نَفْلُ ، إِنَّمَا ہِیَ الْغَنِیمَۃُ ، إِنَّمَا النَّفَلُ قَبْلُ وَبَعْدُ۔
(٣٣٩٥٧) حضرت مسروق (رض) فرماتے ہیں کہ جب دونوں لشکر آمنے سامنے آجائیں تو پھر بخشش اور عطیہ نہیں ہے، وہ تو غنیمت ہے، بخشش اور عطیہ تو اسے پہلے یا اس کے بعد ہے۔

33957

(۳۳۹۵۸) حَدَّثَنَا عِیسَی بْنُ یُونُسَ ، عَنْ ثَوْرٍ ، عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ مُوسَی ، قَالَ : قَالَ عُمَرُ : لاَ نَفْلَ فِی أَوَّلِ غَنِیمَۃٍ ، وَلاَ نَفْلَ بَعْدَ الْغَنِیمَۃِ۔
(٣٣٩٥٨) حضرت عمر (رض) ارشاد فرماتے ہیں کہ غنیمت سے پہلے اور غنیمت کے بعد بخشش اور عطیہ نہیں ہے۔

33958

(۳۳۹۵۹) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ آدَمَ ، عَنْ زُہَیْرٍ ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ الْحُرِّ ، عَنِ الْحَکَمِ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ ، عَنْ أَبِیہِ، عَنْ جَدِّہِ ؛ أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یُنَفِّلُ قَبْلَ أَنْ تَنْزِلَ فَرِیضَۃُ الْخُمُسِ فِی الْمَغْنَمِ ، فَلَمَّا نَزَلَتْ : {مَا غَنِمْتُمْ مِنْ شَیْئٍ فَأَنَّ لِلَّہِ خُمُسَہُ} تَرَکَ النَّفَلَ الَّذِی کَانَ یُنْفَلُ ، وَصَارَ فِی ذَلِکَ خُمُسُ الْخُمُسِ ، وَہُوَ سَہْمُ اللہِ ، وَسَہْمُ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔ (بیہقی ۳۱۴۔ ابن زنجویہ ۱۱۳۵)
(٣٣٩٥٩) حضرت عمرو بن شعیب اپنے والد اور وہ ان کے والد سے روایت کرتے ہیں کہ غنیمت میں خمس کا حکم نازل ہونے سے قبل حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عطیہ (کچھ حصہ) الگ فرما لیتے پھر جب قرآن کریم کی آیت { مَا غَنِمْتُمْ مِنْ شَیْئٍ فَأَنَّ لِلَّہِ خُمُسَہُ } نازل ہوئی زائد دیا جانے والا حصہ ختم کردیا گیا اور وہ خمس کے خمس میں ہوگیا۔ وہ اللہ اور اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حصہ ہے۔

33959

(۳۳۹۶۰) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ أَبِی سُلَیْمَانَ ، عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنْ عَبْدَۃَ ؛ الآیَۃَ : {یَسْأَلُونَک عَنِ الأَنْفَالِ} قَالَ : مَا شَذَّ مِنَ الْمُشْرِکِینَ مِنَ الْعَدُوِّ إِلَی الْمُسْلِمِینَ مِنْ عَبْدٍ ، أَوْ مَتَاعٍ ، أَوْ دَابَّۃٍ فَہِیَ الأَنْفَالُ الَّتِی یَقْضِی فِیہَا مَا أَحَبَّ۔
(٣٣٩٦٠) حضرت عبدہ قرآن کریم کی آیت { یَسْأَلُونَک عَنِ الأَنْفَالِ } کے متعلق فرماتے ہیں کہ مشرکین میں سے مسلمانوں کے دشمن میدان جنگ میں جو غلام، سامان اور سواری چھوڑ کر بھاگ جائیں وہ انفال میں سے ہے اس کے متعلق امیر جو پسند کرے فیصلہ کرے گا۔

33960

(۳۳۹۶۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حَدَّثَنَا إِسْرَائِیلُ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ مَکْحُولٍ ، وَعِکْرِمَۃَ ؛ {یَسْأَلُونَک عَنِ الأَنْفَالِ قُلَ الأَنْفَالُ لِلَّہِ وَالرَّسُولِ} قَالاَ : کَانَتِ الأَنْفَالُ لِلَّہِ وَرَسُولِہِ حَتَّی نَسَخَتْہَا : {وَاعْلَمُوا أَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِنْ شَیْئٍ فَأَنَّ لِلَّہِ خُمُسَہُ}۔ (طبری ۱۷۵۔ ابن جریر ۱۷۶)
(٣٣٩٦١) حضرت مکحول اور حضرت عکرمہ (رض) فرماتے ہیں کہ قرآن کریم کی آیت { یَسْأَلُونَک عَنِ الأَنْفَالِ قُلَ الأَنْفَالُ لِلَّہِ وَالرَّسُولِ } نازل ہوئی تو مال غنیمت اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے ہوتا تھا یہاں تک قرآن کریم کی دوسری آیت { وَاعْلَمُوا أَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِنْ شَیْئٍ فَأَنَّ لِلَّہِ خُمُسَہُ } نے اس کو منسوخ کردیا۔

33961

(۳۳۹۶۲) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ ؛ أَنَّ رَجُلاً سَأَلَ ابْنَ عَبَّاسٍ عَنْ قَوْلِہِ : {یَسْأَلُونَک عَنِ الأَنْفَالِ} ؟ قَالَ : السَّلَبُ وَالْفَرَسُ۔
(٣٣٩٦٢) حضرت قاسم بن محمد سے مروی ہے کہ ایک شخص نے حضرت ابن عباس (رض) سے قرآن کریم کی آیت { یَسْأَلُونَک عَنِ الأَنْفَالِ } کے متعلق دریافت کیا ؟ حضرت ابن عباس (رض) نے ارشاد فرمایا : الانفال سے مراد گھوڑے اور وہ سامان ہے جس کو کفار سے چھین لیں۔

33962

(۳۳۹۶۳) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، عَنْ حَسَنٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ؛ {یَسْأَلُونَک عَنِ الأَنْفَالِ} قَالَ : مَا أَصَابَتِ السَّرَایَا۔
(٣٣٩٦٣) حضرت شعبی (رض) قرآن کریم کی آیت { یَسْأَلُونَک عَنِ الأَنْفَالِ } کے متعلق فرماتے ہیں کہ جو کچھ سرایا کو ملے وہ سب اس میں داخل ہے۔

33963

(۳۳۹۶۴) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ الْقَطَّانُ ، عَنْ حَبِیبِ بْنِ شِہَابٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : کُنْتُ أَوَّلَ مَنْ أَوقَدَ فِی بَابِ تُسْتَرَ ، قَالَ : وَصُرِعَ الأَشْعَرِیُّ عَنْ فَرَسِہِ ، فَلَمَّا فَتَحْنَاہَا أَمَّرَنِی عَلَی عَشَرَۃٍ مِنْ قَوْمِی ، وَنَفَّلَنِی سَہْمًا سِوَی سَہْمِی ، وَسَہْمِ فَرَسِی قَبْلَ الْغَنِیمَۃِ۔
(٣٣٩٦٤) حضرت شہاب فرماتے ہیں کہ تستر کے دروازہ پر میں پہلا شخص تھا جس نے آگ جلائی تھی، حضرت اشعری اپنے گھوڑے سے گرپڑے، پھر جب ہم نے اس کو فتح کیا تو میرے قوم کے دس آدمیوں پر مجھے حکم بنایا، اور تقسیم غنیمت سے قبل میرے اور میرے گھوڑے کے حصہ کے علاوہ مجھے ایک حصہ بطور عطیہ دیا۔

33964

(۳۳۹۶۵) حَدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنِ ابْنِ أَخِی خَالِدِ بنِ الْوَلِیدِ ؛ أَنَّ الْحَارِثَ ، قَالَ لَہُ : أَعْطِنِی ، فَأَعْطَاہُ مِنَ الْخُمُسِ قَبْلَ أَنْ یَقْسِمَ ، فَکَرِہَ ذَلِکَ ، وَقَالَ : إِذَا خَمَّسْت فَأَعْطِنِی۔
(٣٣٩٦٥) حضرت خالد بن ولید کے بھتیجے سے مروی ہے کہ حضرت حارث نے ان سے فرمایا کہ مجھے کچھ دو ، انھوں نے غنیمت تقسیم ہونے سے قبل ان کو خمس دے دیا انھوں نے اس کو ناپسند کیا۔ اور فرمایا جب خمس نکال لو تو پھر مجھے دینا۔

33965

(۳۳۹۶۶) حَدَّثَنَا عِیسَی بْنُ یُونُسَ ، عَنْ ثَوْرٍ ، عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ مُوسَی ، قَالَ : قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ : لاَ یُعْطَی مِنَ الْمَغْنَمِ شَیْئٌ حَتَّی یُقْسَمَ ، إِلاَّ لِرَاعٍ ، أَوْ حَارِسٍ ، أَوْ سَائِقٍ غَیْرِ مُوَلَّہ۔
(٣٣٩٦٦) حضرت عمر بن خطاب (رض) ارشاد فرماتے ہیں کہ غنیمت تقسیم ہونے سے قبل کسی کو کچھ نہیں دیا جائے گا، سوائے چرواہے، چوکیدار اور جانوروں کے ہانکے والے کے۔

33966

(۳۳۹۶۷) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، عَنْ مُحَمَّدٍ ، قَالَ : بُعِثَ إِلَی أَنَسٍ بِشَیْئٍ قَبْلَ أَنْ تُقْسَمَ الْغَنَائِمُ ، فَقَالَ : لاَ ، وَأَبَی حَتَّی تُقْسَمَ۔
(٣٣٩٦٧) حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے کہ غنیمت تقسیم ہونے سے پہلے حضرت انس (رض) کے لیے کچھ بھیجا گیا تو انھوں نے انکار کردیا فرمایا کہ جب تک غنیمت تقسیم نہ ہوجائے میں نہ لوں گا۔

33967

(۳۳۹۶۸) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : لاَ یُنَفَّلُ حَتَّی یُخَمَّسَ۔
(٣٣٩٦٨) حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ خمس نکال نے سے پہلے کسی کو عطیہ نہ دیا جائے گا۔

33968

(۳۳۹۶۹) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : النَّفَلُ بَعْدَ الْخُمُسِ۔
(٣٣٩٦٩) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ عطیہ خمس کے بعد دیا جائے گا۔

33969

(۳۳۹۷۰) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ، قَالَ : مَا کَانُوا یُنَفِّلُونَ إِلاَّ مِنَ الْخُمُسِ۔
(٣٣٩٧٠) حضرت سعید بن المسیب (رض) فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام (رض) خمس کے بعد عطیہ وغیرہ نکالا کرتے تھے۔

33970

(۳۳۹۷۱) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ إِدْرِیسَ ، عَنْ کَہْمَسٍ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ ، قَالَ : غَزَا أَنَسُ بْنُ مَالِکٍ مَعَ عبیدِ اللہِ بْنِ زِیَادٍ ، قَالَ : فَأَعْطَاہُ ثَلاَثِینَ رَأْسًا مِنْ سَبْیِ الْجَاہِلِیَّۃِ ، قَالَ : فَسَأَلَہُ أَنَسٌ أَنْ یَجْعَلَہَا مِنَ الْخُمُسِ ، فَأَبَی أَنَسٌ أَنْ یَقْبَلَہَا۔
(٣٣٩٧١) حضرت ابن سیرین (رض) سے مروی ہے کہ حضرت انس بن مالک (رض) حضرت عبید اللہ بن زیاد کے ساتھ جہاد میں شریک ہوئے، راوی فرماتے ہیں کہ حضرت انس (رض) کو تیس قیدی عطا کیے گئے حضرت انس (رض) نے دریافت کیا کہ ان کو خمس میں سے بناؤ۔ حضرت انس (رض) نے اس کو قبول کرنے سے انکار فرما دیا۔

33971

(۳۳۹۷۲) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ؛ أَنَّہُ سُئِلَ عَنِ النُّہْبَۃِ فِی الْغَنِیمَۃِ ، إِذَا أَذِنَ لَہُمْ أَمِیرُہُمْ ؟ فَکَرِہَ ذَلِکَ۔
(٣٣٩٧٢) حضرت زھری (رض) سے دریافت کیا گیا کہ غنیمت میں لوٹی ہوئی چیز کے متعلق جب کہ ان کا امیر ان کو اجازت دے دے ؟ حضرت زھری نے اس کو ناپسند فرمایا۔

33972

(۳۳۹۷۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا أَبُو جَعْفَرٍ ، عَنِ الرَّبِیعِ ، عَنْ أَبِی الْعَالِیَۃِ ، قَالَ : کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُؤْتَی بِالْغَنِیمَۃِ فَیَقْسِمُہَا عَلَی خَمْسَۃٍ ، فَیَکُونُ أَرْبَعَۃٌ لِمَنْ شَہِدَہَا ، وَیَأْخُذُ الْخُمُسَ ، فَیَضْرِبُ بِیَدِہِ فِیہِ ، فَمَا أَخَذَ مِنْ شَیْئٍ جَعَلَہُ لِلْکَعْبَۃِ ، وَہُوَ سَہْمُ اللہِ الَّذِی سَمَّی ، ثُمَّ یَقْسِمُ مَا بَقِیَ عَلَی خَمْسَۃٍ ، فَیَکُونُ سَہْمٌ لِرَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَسَہْمٌ لِذَوِی الْقُرْبَی ، وَسَہْمٌ لِلْیَتَامَی ، وَسَہْمٌ لِلْمَسَاکِینِ ، وَسَہْمٌ لاِبْنِ السَّبِیلِ۔ (ابوداؤد ۳۷۲۔ طبری ۱۰)
(٣٣٩٧٣) حضرت ابو العالیہ (رض) سے مروی ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس جب مال غنیمت آتا تو اس کے پانچ حصے فرماتے، چار حصے ان میں تقسیم فرماتے جو جہاد میں شریک تھے، اور خمس نکالتے، اور پھر اپنا ہاتھ اس پر رکھتے، اس میں جو بھی آجاتا اس کو کعبہ کے لیے وقف کردیتے جو کہ اللہ تعالیٰ کا حق ہوتا۔ پھر باقی کے پانچ حصے فرماتے، ایک حصہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا، ایک حصہ قریبی رشتہ داروں کا، ایک حصہ یتیموں کا، ایک حصہ مسکینوں کا اور ایک حصہ مسافروں کا۔

33973

(۳۳۹۷۴) حَدَّثَنَا عِیسَی بْنُ یُونُسَ ، عَنْ صَالِحِ بْنِ أَبِی الأَخْضَرِ ، عَنِ الْوَلِیدِ بْنِ ہِشَامٍ ، عَنْ مَالِکِ بْنِ عَبْدِ اللہِ الْخَثْعَمِیِّ ، قَالَ : کُنَّا جُلُوسًا عِنْدَ عُثْمَانَ ، فَقَالَ : مَنْ ہَاہُنَا مِنْ أَہْلِ الشَّامِ ؟ فَقُمْتُ ، فَقَالَ : أَبْلِغْ مُعَاوِیَۃَ ، إِذَا غَنِمَ غَنِیمَۃً أَنْ یَأْخُذَ خَمْسَۃَ أَسْہُمٍ، فَیَکْتُبُ عَلَی سَہْمٍ مِنْہَا: لِلَّہِ، ثُمَّ لِیُقْرعْ، فَحَیْثُمَا خَرَجَ مِنْہَا فَلْیَأْخُذْ۔
(٣٣٩٧٤) حضرت مالک بن عبداللہ فرماتے ہیں کہ میں حضرت عثمان (رض) کے پاس بیٹھا ہوا تھا۔ حضرت عثمان نے فرمایا : اھل شام میں سے یہاں کون ہے ؟ پس میں کھڑا ہوگیا، حضرت عثمان (رض) نے فرمایا : حضرت معاویہ (رض) کو بتادو کہ : جب مال غنیمت حاصل ہو تو اس کے پانچ حصے کرو، ان میں ایک حصہ پر یوں لکھو اللہ کے لیے ہے، پھر قرعہ ڈالو، جو نکلتا رہے وہ وصول کرتے رہو۔

33974

(۳۳۹۷۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ مُوسَی بْنِ أَبِی عَائِشَۃَ ، قَالَ : سَأَلْتُ یَحْیَی بْنَ الْجَزَّارِ عَنْ سَہْمِ الرَّسُولِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ؟ فَقَالَ : خُمُسُ الْخُمُسِ۔ (نسائی ۴۴۴۶۔ عبدالرزاق ۹۴۸۶)
(٣٣٩٧٥) حضرت یحییٰ بن جزار سے حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حصہ کے متعلق دریافت کیا گیا، آپ نے فرمایا وہ خمس کا خمس ہے۔

33975

(۳۳۹۷۶) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مُوسَی بْنِ أَبِی عَائِشَۃَ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ الْجَزَّارِ ؛ بِنَحْوٍ مِنْہُ۔ (ابوعبید ۳۴)
(٣٣٩٧٦) حضرت یحییٰ بن جزار سے بھی اسی طرح مروی ہے۔

33976

(۳۳۹۷۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حَدَّثَنَا کَہْمَسٌ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ شَقِیقٍ الْعُقَیْلِیِّ ، قَالَ : قَامَ رَجُلٌ إِلَی النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : یَا رَسُولَ اللہِ ، أَخْبِرْنِی عَنِ الْغَنِیمَۃِ ؟ فَقَالَ : لِلَّہِ سَہْمٌ ، وَلِہَؤُلاَئِ أَرْبَعَۃٌ ، قَالَ : قُلْتُ: فَہَلْ أَحَدٌ أَحَقُّ بِہَا مِنْ أَحَدٍ ؟ قَالَ : فَقَالَ : إِنْ رُمِیتَ بِسَہْمٍ فِی جَنْبِکَ فَلَسْت بِأَحَقَّ بِہِ مِنْ أَخِیک۔ (طحاوی ۳۰۱۔ بیہقی ۳۳۶)
(٣٣٩٧٧) حضرت عبداللہ بن شقیق العقیلی سے مروی ہے کہ ایک شخص حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں کھڑا ہوا اور عرض کیا اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مجھے غنیمت کے متعلق بتائیے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ایک حصہ اللہ کے لیے اور چار حصے ان کیلئے۔ میں نے عرض کیا : کیا کوئی شخص کسی سے زیادہ حقدار بھی ہے ؟ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اگر تیرے پہلو میں تیر بھی مارا گیا پھر بھی تو اپنے بھائی سے زیادہ حقدار نہیں ہے۔

33977

(۳۳۹۷۸) حَدَّثَنَا جَرِیرُ بْنُ عَبْدِ الْحَمِیدِ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ؛ فِی قَوْلِہِ : {فَأَنَّ لِلَّہِ خُمُسَہُ} ، قَالَ: لِلَّہِ کُلُّ شَیْئٍ۔
(٣٣٩٧٨) حضرت ابراہیم (رض) قرآن کریم کی آیت { فَأَنَّ لِلَّہِ خُمُسَہُ } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ ہر چیز اللہ کے لیے ہی ہے۔

33978

(۳۳۹۷۹) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ ، عَنْ عَطَائٍ ، قَالَ : خُمُسُ اللہِ ،وَخُمُسُ الرَّسُولِ وَاحِدٌ ، کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَضَعُ ذَلِکَ الْخُمُسَ حَیْثُ أَحَبَّ ، وَیَصْنَعُ فِیہِ مَا شَائَ ، وَیَحْمِلُ فِیہِ مَنْ شَائَ۔ (ابوعبید ۸۳۷)
(٣٣٩٧٩) حضرت عطاء سے مروی ہے کہ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حصہ خمس میں ایک ہی ہے، اللہ کے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس خمس کو جہاں پسند فرماتے رکھتے، جو چاہتے اس میں سے رکھ دیتے اور جو چاہتے اٹھا لیتے۔

33979

(۳۳۹۸۰) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ؛ {وَاعْلَمُوا أَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِنْ شَیْئٍ فَأَنَّ لِلَّہِ خُمُسَہُ} ، قَالَ : سَہْمُ اللہِ ، وَسَہْمُ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَاحِدٌ۔
(٣٣٩٨٠) حضرت شعبی قرآن کریم کی آیت { وَاعْلَمُوا أَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِنْ شَیْئٍ فَأَنَّ لِلَّہِ خُمُسَہُ } کے متعلق فرماتے ہیں کہ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حصہ خمس میں ایک ہی ہے۔

33980

(۳۳۹۸۱) حَدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ قَیْسِ بْنِ مُسْلِمٍ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِیٍّ، قَالَ: سَأَلْتُہُ عَنْ قَوْلِہِ: {وَاعْلَمُوا أَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِنْ شَیْئٍ فَأَنَّ لِلَّہِ خُمُسَہُ} ، قَالَ : ہَذَا مِفْتَاحُ کَلاَمُ ، لَیْسَ لِلَّہِ نَصِیبٌ ، لِلَّہِ الدُّنْیَا وَالآخِرَۃُ۔
(٣٣٩٨١) حضرت حسن بن محمد بن علی (رض) قرآن کریم کی آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ یہ کلام کا آغاز ہے، اللہ کے لیے غنیمت میں کوئی حصہ نہیں ہے، دنیا اور آخرت ساری ہی اللہ کی ملکیت ہے۔

33981

(۳۳۹۸۲) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنْ مُحَمَّدٍ ، قَالَ : فِی الْمَغْنَمِ ؛ خُمُسٌ لِلَّہِ ،وَسَہْمٌ لِلنَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَالصَّفِیِّ۔ وَقَالَ ابْنُ سِیرِینَ : یُؤْخَذُ لِلنَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خَیْرُ رَأْسٍ فِی السَّبْیِ ، ثُمَّ یُخْرَجُ الْخُمُسُ ، ثُمَّ یُضْرَبُ لَہُ بِسَہْمِہِ مَعَ النَّاسِ غَابَ ، أَوْ شَہِدَ۔ وَقَالَ ابْنُ سِیرِینَ : کَانَ الصَّفِیُّ یَوْمَ خَیْبَرَ صَفِیَّۃُ بِنْتُ حُیَیِّ۔ وَقَالَ الشَّعْبِیُّ : کَانَ الصَّفِیُّ یَوْمَ خَیْبَرَ صَفِیَّۃُ بِنْتُ حُیَیِّ ، اسْتَنْکَحَہَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔ (ابوداؤد ۲۹۸۵۔ سعید بن منصور ۲۶۷۹)
(٣٣٩٨٢) حضرت محمد غنیمت کے بارے میں فرماتے ہیں کہ غنیمت میں خمس اللہ کے لیے ہے، اور اللہ کے نبی کا حصہ ہے اور غنیمت میں اللہ کے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے صفی ہے۔ (صفی وہ خاص حصہ جس کو اللہ کے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تقسیم غنیمت سے قبل ہی اپنے لیے الگ فرما لیں) حضرت ابن سیرین (رض) فرماتے ہیں کہ اللہ کے نبی کے لیے غنیمت میں بہترین قیدی کو الگ کیا گیا، پھر خمس نکالا گیا، پھر لوگوں کے حصہ میں سے خواہ وہ حاضر ہو یا غائب حصہ نکالا گیا۔
حضرت ابن سیرین فرماتے ہیں کہ خیبر کے دن اللہ کے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت صفیہ بنت حیی کو بطور صفی الگ فرما لیا تھا۔
اور حضرت شعبی فرماتے ہیں کہ خیبر والے دن آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت صفیہ بنت حیی کو الگ فرما لیا تھا پھر ان سے نکاح فرما لیا۔

33982

(۳۳۹۸۳) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنْ مُحَمَّدٍ ، قَالَ : خُمُسُ اللہِ ، وَسَہْمُ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَالصَّفِیُّ ، کَانَ یُصْطَفَی لَہُ مِنَ الْمَغْنَمِ خَیْرُ رَأْسٍ مِنَ السَّبْیِ ، إِنْ کَانَ سَبْیٌ ، وَإِلاَّ غَیْرُہُ بَعْدَ الْخُمُسِ ، ثُمَّ یُضْرَبُ لَہُ بِسَہْمِہِ شَہِدَ ، أَوْ غَابَ مَعَ الْمُسْلِمِینَ بَعْدَ الصَّفِیِّ ، قَالَ : وَاصْطَفَی صَفِیَّۃَ بِنْتَ حُیَیِّ یَوْمَ خَیْبَرَ۔ قَالَ أَشْعَثُ : وَقَالَ أَبُو الزِّنَادِ، وَعَمْرُو بْنُ دِینَارٍ ، وَالزُّہْرِیُّ : اصْطَفَی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سَیْفَہُ ذَا الْفِقَارِ یَوْمَ بَدْرٍ۔ (ترمذی ۱۵۶۱۔ حاکم ۱۲۸)
(٣٣٩٨٣) حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے تقریبا اسی طرح مروی ہے اس میں حضرت اشعث کی روایت میں اتنا اضافہ ہے کہ حضور اقدس نے غزوہ بدر کے دن بطور صفی ذوالفقار تلوار کو الگ فرمایا۔

33983

(۳۳۹۸۴) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنْ أَبِی الزِّنَادِ ، قَالَ : کَانَ الصَّفِیُّ یَوْمَ بَدْرٍ سَیْفَ العَاصِ بْنِ مُنَبِّہِ بْنِ الْحَجَّاجِ۔
(٣٣٩٨٤) حضرت ابو الزناد سے مروی ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غزوہ بدر کے دن بطور صفی کے عاص بن منبہ بن الحجاج کی تلوار کو چنا۔

33984

(۳۳۹۸۵) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَجَّاجٍ ، عَنْ مُطَرِّفٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ؛ أَنَّہُ سُئِلَ عَنِ سَہْمِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَالصَّفِیِّ ؟ فَقَالَ : إِنَّمَا سَہْمُ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلُ سَہْمِ رَجُلٍ مِنَ الْمُسْلِمِینَ ، وَأَمَّا الصَّفِیُّ فَکَانَتْ لَہُ غُرَّۃٌ یَخْتَارُہَا مِنْ غَنِیمَۃِ الْمُسْلِمِینَ ، إِنْ شَائَ جَارِیَۃً ، وَإِنْ شَائَ فَرَسًا ، أَیَّ ذَلِکَ شَائَ۔ (ابوداؤد ۲۹۸۴۔ نسائی ۴۴۴۷)
(٣٣٩٨٥) حضرت شعبی سے حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حصہ غنیمت اور صفی کے متعلق دریافت کیا گیا ؟ حضرت شعبی (رض) نے فرمایا : جس طرح ایک عام مسلمان کا غنیمت میں حصہ تھا اسی طرح حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حصہ تھا اور بہرحال صفی سے مراد وہ حصہ ہے جس کو اللہ کے نبی مسلمانوں کے غنیمت میں سے الگ فرما لیتے خواہ وہ باندی ہو، گھوڑا ہو یا اس کے علاوہ کوئی اور چیز ہو۔

33985

(۳۳۹۸۶) حَدَّثَنَا حُمَیْدٌ ، عَنْ حَسَنِ بْنِ صَالِحٍ ، قَالَ : سَأَلْتُ عَطَائَ بْنَ السَّائِبِ عَنْ قَوْلِ اللہِ: {وَاعْلَمُوا أَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِنْ شَیْئٍ فَأَنَّ لِلَّہِ خُمُسَہُ} ، وَعَنْ ہَذِہِ الآیَۃِ : {مَا أَفَائَ اللَّہُ عَلَی رَسُولِہِ} ؟ قَالَ : قُلْتُ : مَا الْفَیْئُ ؟ وَمَا الْغَنِیمَۃُ ؟ قَالَ : إِذَا ظَہَرَ الْمُسْلِمُونَ عَلَی الْمُشْرِکِینَ وَعَلَی أَرْضِہِمْ ، فَأَخَذُوہُمْ عَنْوَۃً ، فَمَا أُخِذَ مِنْ مَالٍ ظَہَرُوا عَلَیْہِ فَہُوَ غَنِیمَۃٌ ، وَأَمَّا الأَرْضُ فَہِیَ فَیْئٌ ، وَسَوَادُنَا ہَذَا فَیْئٌ۔
(٣٣٩٨٦) حضرت حسن بن صالح فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عطاء بن السائب سے اللہ کے ارشاد { وَاعْلَمُوا أَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِنْ شَیْئٍ فَأَنَّ لِلَّہِ خُمُسَہُ } اور دوسری آیت { مَا أَفَائَ اللَّہُ عَلَی رَسُولِہِ } کے متعلق دریافت کیا کہ فیٔ اور غنیمت سے کیا مراد ہے ؟ حضرت عطاء نے فرمایا : جب مسلمان مشرکین اور ان کی زمینوں پر بزور جنگ غالب ہوجائیں اور اس وقت جو مال ہاتھ آئے وہ غنیمت ہے، اور ان کی زمین فیٔ ہے اور یہ ہمارا مال و دولت فیٔ ہے۔

33986

(۳۳۹۸۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : سَمِعْتُ سُفْیَانَ یَقُولُ : الْغَنِیمَۃُ مَا أَصَابَ الْمُسْلِمُونَ عَنْوَۃً ، فَہُوَ لِمَنْ سَمَّی اللَّہُ ، وَأَرْبَعَۃُ أَخْمَاسٍ لِمَنْ شَہِدَہَا۔
(٣٣٩٨٧) حضرت سفیان غنیمت کے متعلق فرماتے ہیں کہ جو مال مسلمان بزور جہاد لیں وہ ان کے لیے ہے جس کو اللہ نے نام لے کر متعین کیا ہے، اور چار خمس مجاہدین کے لیے ہیں۔

33987

(۳۳۹۸۸) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِیلُ بْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، قَالَ : قرَأْتُ کِتَابَ ذِکْرِ الصَّفِیِّ ، فَقُلْتُ لِمُحَمَّدٍ : مَا الصَّفِیُّ ؟ قَالَ : رَأْسٌ کَانَ یُصْطَفَی لِلنَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَبْلَ کُلِّ شَیْئٍ ، ثُمَّ یُضْرَبْ لَہُ بَعْدُ بِسَہْمِہِ مَعَ النَّاس۔ (ابوداؤد ۲۹۸۵)
(٣٣٩٨٨) حضرت ابن عون فرماتے ہیں کہ میں نے الصفی سے متعلق ایک کتاب میں پڑھا پھر میں نے حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے الصفی کے متعلق دریافت کیا ؟ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ہر چیز سے قبل جو مال حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے الگ کیا جاتا وہ مراد ہے، پھر بعد میں لوگوں کے ساتھ بھی ایک حصہ نکالا جاتا۔

33988

(۳۳۹۸۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ؛ {وَاعْلَمُوا أَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِنْ شَیْئٍ} ، قَالَ: الْمِخْیَطُ مِنَ الشَّیْئِ۔
(٣٣٩٨٩) حضرت مجاہد قرآن کریم کی آیت { وَاعْلَمُوا أَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِنْ شَیْئٍ } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ ایک معمولی سی سوئی بھی من شئی میں داخل ہے۔

33989

(۳۳۹۹۰) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَن بْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ رَاشِدٍ ، عَنْ مَکْحُولٍ ، قَالَ : الْخُمُسُ بِمَنْزِلَۃِ الْفَیْئِ ، یُعْطِی مِنْہُ الإِمَامُ الْغَنِیَّ وَالْفَقِیرَ۔ قَالَ : وَأَخْبَرَنِی لَیْثُ بْنُ أَبِی رُقَیَّۃَ : أَنَّ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِیزِ کَتَبَ : إِنَّ سَبِیلَ الْخُمُسِ سَبِیلُ عَامَّۃِ الْفَیْئِ۔
(٣٣٩٩٠) حضرت مکحول (رض) فرماتے ہیں کہ خمس بھی فئی کی طرح ہے، اس میں سے امام مالدار اور فقیر دونوں کو دے گا۔
حضرت عمر بن عبدالعزیز نے تحریر فرمایا : جو عام فئی کا راستہ ہے وہ خمس کا بھی راستہ ہے۔

33990

(۳۳۹۹۱) حَدَّثَنَا کَثِیرُ بْنُ ہِشَامٍ ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ بُرْقَانَ ، قَالَ : حدَّثَنَا ثَابِتُ بْنُ الْحَجَّاجِ ، قَالَ : بَلَغَنِی أَنَّ رَجُلَیْنِ مِنْ بَنِی عَبْدِ الْمُطَّلِبِ أَتَیَا النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَسْأَلاَنَہُ مِنَ الصَّدَقَۃِ ، فَقَالَ : لاَ ، وَلَکِنْ إِذَا رَأَیْتُمَا عِنْدِی شَیْئًا مِنَ الْخُمُسِ فَأْتِیَانِی۔
(٣٣٩٩١) حضرت حجاج بن ثابت فرماتے ہیں کہ مجھے خبر پہنچی ہے کہ بنو عبدالمطلب کے دو شخص حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور صدقہ کا مال مانگا۔ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ابھی نہیں لیکن جب تم دیکھو میرے پاس خمس کا مال موجود ہے تو پھر تم میرے پاس آنا (میں عطا کر دوں گا) ۔

33991

(۳۳۹۹۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ خُصَیْفٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، قَالَ : کَانَ آلُ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لاَ تَحِلَّ لَہُمَ الصَّدَقَۃُ ، فَجُعِلَ لَہُمْ خُمُسَ الْخُمُسِ۔ (نسائی ۴۴۴۹۔ طبری ۱۰)
(٣٣٩٩٢) حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ آل محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے صدقہ حلال نہیں ہے۔ ان کو خمس کا خمس ملے گا۔

33992

(۳۳۹۹۳) حَدَّثَنَا سَہْلُ بْنُ یُوسُفَ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنِ الْحَسَنِ ؛ أَنَّ عُمَرَ أَعْطَی الرَّجُلَ مِنَ الْفَیْئِ عَشْرَۃَ آلاَفٍ ، وَتِسْعَۃً ، وَثَمَانِیَۃً ، وَسَبْعَۃً۔
(٣٣٩٩٣) حضرت حسن سے مروی ہے کہ حضرت عمر (رض) نے مال فیٔ میں سے ایک شخص کو دس ہزار، نو ہزار، آٹھ ہزار اور سات ہزار عطا فرمائے۔

33993

(۳۳۹۹۴) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِیَادٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ أَرْطَاۃَ ، قَالَ : حَدَّثَنَا أَبُو الزُّبَیْرِ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : سُئِلَ کَیْفَ کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَصْنَعُ بِالْخُمُسِ ؟ قَالَ : کَانَ یَحْمِلُ مِنْہُ فِی سَبِیلِ اللہِ الرَّجُلَ ، ثُمَّ الرَّجُلَ ، ثُمَّ الرَّجُلَ۔ (احمد ۳۶۵)
(٣٣٩٩٤) حضرت جابر بن عبداللہ (رض) سے دریافت کیا گیا کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خمس کو کس طرح تقسیم فرماتے تھے ؟ حضرت جابر (رض) نے ارشاد فرمایا : اللہ کے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس میں سے ایک مجاہد کو دیتے پھر دوسرے کو پھر تیسرے کو عطا فرماتے۔

33994

(۳۳۹۹۵) حَدَّثَنَا ہُشَیْمُ بْنُ بَشِیرٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا سَیَّارٌ ، قَالَ : حَدَّثَنَا یَزِیدُ الْفَقِیرُ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللہِ؛ أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : أُحِلَّتْ لِی الْغَنَائِم ، وَلَمْ تَحِلَّ لأَحَدٍ قَبْلِی۔
(٣٣٩٩٥) حضرت جابر بن عبداللہ سے مروی ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : میرے لیے غنیمت کا مال حلال کردیا گیا جب کہ مجھ سے قبل کسی نبی کے لیے حلال نہیں کیا گیا تھا۔

33995

(۳۳۹۹۶) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِی صَالِحٍ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لَمْ تَحِلَّ الْمَغَانِمُ لِقَوْمٍ سُودِ الرُّؤُوسِ قَبْلَکُمْ ، کَانَتْ تَنْزِلُ نَارٌ مِنَ السَّمَائِ فَتَأْکُلُہَا ، فَلَمَّا کَانَ یَوْمُ بَدْرٍ ، أَسْرَعَ النَّاسُ فِی الْمَغَانِمُ ، فَأَنْزَلَ اللَّہُ : {لَوْلاَ کِتَابٌ مِنَ اللہِ سَبَقَ لَمَسَّکُمْ فِیمَا أَخَذْتُمْ عَذَابٌ عَظِیمٌ فَکُلُوا مِمَّا غَنِمْتُمْ حَلاَلاً طَیِّبًا}۔ (ترمذی ۳۰۸۵۔ احمد ۲۵۲)
(٣٣٩٩٦) حضرت ابوہریرہ (رض) سے مروی ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : تم سے پہلے کسی قوم کیلئے غنیمت کا مال حلال نہ تھا۔ آسمان سے آگ آ کر اسے جلا کر راکھ کردیتی تھی۔ پھر غزوہ بدر کے دن لوگوں نے مال غنیمت میں جلد بازی کی تو قرآن کریم کی آیت { لَوْلاَ کِتَابٌ مِنَ اللہِ سَبَقَ لَمَسَّکُمْ فِیمَا أَخَذْتُمْ عَذَابٌ عَظِیمٌ فَکُلُوا مِمَّا غَنِمْتُمْ حَلاَلاً طَیِّبًا } نازل ہوئی۔

33996

(۳۳۹۹۷) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ یَزِیدَ بْنِ أَبِی زِیَادٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، وَمِقْسَمٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : أُحِلَّ لِی الْمَغْنَمُ ، وَلَمْ یَحِلَّ لأَحَدٍ قَبْلِی۔
(٣٣٩٩٧) حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : میرے لیے غنیمت کو حلال کیا گیا جب کہ مجھ سے قبل کسی کے لیے حلال نہ تھی۔

33997

(۳۳۹۹۸) حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ بْنُ مُوسَی ، قَالَ : أَخْبَرَنَا إِسْرَائِیلُ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِی بُرْدَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : أُحِلَّتْ لِیَ الْغَنَائِمُ ، وَلَمْ تَحِلَّ لِنَبِیٍّ کَانَ قَبْلِی۔
(٣٣٩٩٨) حضرت ابو بردہ (رض) کے والد سے بھی اسی طرح مروی ہے۔

33998

(۳۳۹۹۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا الأَعْمَشُ ، عَنْ مُجَاہِدٍ - زَادَ فِیہِ غَیْرُ وَکِیعٍ - عَنْ عُبَیْدِ بْنِ عُمَیْرٍ ، عَنْ أَبِی ذَرٍّ ، قَالَ : قَالَ رَسُولَ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمََ: أُحِلَّتْ لِیَ الْغَنَائِمُ ، وَلَمْ تَحِلَّ لِنَبِیٍّ کَانَ قَبْلِی۔
(٣٣٩٩٩) حضرت ابو ذر (رض) سے بھی اسی طرح مروی ہے۔

33999

(۳۴۰۰۰) حَدَّثَنَا مُحَمد بِنِ أَبِی عُبَیْدَۃ ، قَالَ : حَدَّثَنَا أَبِی ، عَنِ الأَعْمَش ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، عَنْ عُبَیْدِ بْنِ عُمَیْرٍ ، عَنْ أَبِی ذَرٍّ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : أُحِلَّتْ لِیَ الْغَنَائِمُ ، وَلَمْ تَحِلَّ لِنَبِیٍّ کَانَ قَبْلِی۔
(٣٤٠٠٠) حضرت ابو ذر (رض) سے اسی طرح ہی مروی ہے۔

34000

(۳۴۰۰۱) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ یَزِیدَ بْنِ جَابِرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا الْقَاسِمُ ، وَمَکْحُولٌ ، عَنْ أَبِی أُمَامَۃَ؛ أَنَّ رَسُولَ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَہَی یَوْمَ خَیْبَرَ أَنْ تُبَاعَ السِّہَامُ حَتَّی تُقْسَمَ۔ (طبرانی ۷۷۷۴)
(٣٤٠٠١) حضرت ابو امامہ سے مروی ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غزوہ خیبر کے دن تقسیم غنیمت سے قبل بیع کرنے سے منع فرمایا۔

34001

(۳۴۰۰۲) حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ ، عَنْ شَرِیکٍ ، عَنْ یَعْلَی بْنِ عَطَائٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : لاَ بَأْسَ أَنْ یَبِیعَ الرَّجُلُ نَصِیبَہُ مِنَ الْمَغْنَمِ قَبْلَ أَنْ یُقْسَمَ۔
(٣٤٠٠٢) حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص تقسیم غنیمت سے قبل اپنے حصہ کی بیع کرے تو کوئی حرج نہیں ہے۔

34002

(۳۴۰۰۳) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ ، عَنْ یَزِیدَ بْنِ أَبِی حَبِیبٍ ، عَنْ أَبِی مَرْزُوقٍ مَوْلَی تُجِیبٍ ، قَالَ : غَزَوْنَا مَعَ رُوَیْفِعِ بْنِ ثَابِتٍ الأَنْصَارِیِّ نَحْوَ الْمَغْرِبِ ، فَفَتَحْنَا قَرْیَۃً یُقَالَ لَہَا : جَرْبَۃُ ، فَقَامَ فِینَا خَطِیبًا ، فَقَالَ : إِنِّی لاَ أَقُولُ لَکُمْ إِلاَّ مَا سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ فِینَا یَوْمَ خَیْبَرَ : مَنْ کَانَ یُؤْمِنُ بِاللہِ وَالْیَوْمِ الآخِرِ ، فَلاَ یَبِیعَنَّ مَغْنَمًا حَتَّی یُقْسَمَ۔
(٣٤٠٠٣) حضرت ابو مرزوق (رض) فرماتے ہیں کہ ہم حضرت رو یفع بن ثابت انصاری (رض) کے ساتھ مغرب کی طرف جہاد میں شریک ہوئے، پھر ہم نے ایک جگہ فتح کی جس کا نام جربہ تھا۔ حضرت رو یفع (رض) خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے اور فرمایا : میں تمہارے سامنے وہی بات کروں گا جو میں نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنی جو حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خیبر کے دن ہم سے فرمایا تھا کہ : جو اللہ پر اور آخرت پر یقین رکھتا ہو، اس کو چاہیے کہ تقسیم غنیمت سے قبل اس کو فروخت نہ کرے۔

34003

(۳۴۰۰۴) حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِیلَ ، عَنْ جَہْضَمِ بْنِ عَبْدِ اللہِ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاہِیمَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ زَیْدٍ ، عَنْ شَہْرِ بْنِ حَوْشَبٍ ، عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ ، قَالَ : نَہَی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ شِرَائِ الْمَغَانِمِ حَتَّی تُقْسَمَ۔ (ابویعلی ۱۰۸۸)
(٣٤٠٠٤) حضرت ابو سعید الخدری (رض) سے مروی ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تقسیم غنیمت سے قبل اس کی بیع کرنے سے منع فرمایا ہے۔

34004

(۳۴۰۰۵) حَدَّثَنَا عَبْدُ السَّلاَمِ بْنُ حَرْبٍ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنْ أَبِی قِلاَبَۃَ ؛ أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَہَی عَنْ بَیْعِ الْمَغَانِمِ حَتَّی تُقْسَمَ۔ (عبدالرزاق ۹۴۸۹)
(٣٤٠٠٥) حضرت ابو قلابہ سے بھی اسی طرح مروی ہے۔

34005

(۳۴۰۰۶) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنِ ابْنِ أَبِی عروبۃ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ؛ أَنَّہُ کَانَ یَکْرَہُ أَنْ یَشْتَرِیَ مِنَ الْمَغْنَمِ شَیْئًا ، وَیَقُولُ : فِیہِ ذَہَبٌ وَفِضَّۃٌ ، یَعْنِی قَبْلَ أَنْ یُقْسَمَ۔
(٣٤٠٠٦) حضرت سعید بن المسیب (رض) تقسیم غنیمت سے قبل اس کی بیع کو ناپسند فرماتے ہیں تھے اور فرماتے کہ اس میں سونا اور چاندی ہوتا ہے۔

34006

(۳۴۰۰۷) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ إِدْرِیسَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، وَمُحَمَّدِ بْنِ سِیرِینَ ؛ أَنَّہُمَا کَرِہَا بَیْعَ الْمَغَانِمِ حَتَّی تُقْسَمَ۔
(٣٤٠٠٧) حضرت حسن اور حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی غنیمت کو تقسیم کرنے سے قبل اس کی بیع کو ناپسند کرتے تھے۔

34007

(۳۴۰۰۸) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ إِدْرِیسَ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنْ عَطَائٍ ، قَالَ : نَہَی یَوْمَ خَیْبَرَ عَنْ ۔۔۔
(٣٤٠٠٨) حضرت عطاء فرماتے ہیں کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خیبر والے دن اس سے منع فرمایا۔

34008

(۳۴۰۰۹) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ آدَمَ ، حَدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ،رَفَعَہُ إِلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ؛ أَنَّہُ نَہَی عَنْ بَیْعِ الْمَغْنَمِ حَتَّی یُقْسَمَ۔ (نسائی ۶۲۴۱۔ ابویعلی ۲۴۱۰)
(٣٤٠٠٩) حضرت ابن عباس (رض) سے بھی یہی مروی ہے۔

34009

(۳۴۰۱۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا شُعْبَۃُ ، عَنْ یَزِیدَ بْنِ خُمَیْرٍ ، عَنْ مَوْلَی لِقُرَیْشٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا ہُرَیْرَۃَ یُحَدِّثُ مُعَاوِیَۃَ ، قَالَ : نَہَی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ بَیْعِ الْمَغَانِمِ حَتَّی تُقْسَمَ ۔ قَالَ شُعْبَۃُ مَرَّۃً أُخْرَی : وَتُعْلَمَ مَا ہِیَ۔ (ابوداؤد ۳۳۶۲۔ احمد ۳۸۷)
(٣٤٠١٠) حضرت ابوہریرہ (رض) سے بھی یہ مروی ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے منع فرمایا ہے۔

34010

(۳۴۰۱۱) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِیلُ بْنُ عَیَّاشٍ ، عَنْ أُسَید بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْخَثْعَمِیِّ ، عَنْ مُقْبِلِ بْنِ عبْدِ اللہِ ، عَنْ ہَانِئِ بْنِ کُلْثُومٍ الْکِنَانِیِّ ، قَالَ : کُنْتُ صَاحِبَ الْجَیْشِ الَّذِی فَتَحَ الشَّامَ ، فَکَتَبْتُ إِلَی عُمَرَ : إِنَّا فَتَحْنَا أَرْضًا کَثِیرَۃَ الطَّعَامِ وَالْعَلَفِ ، فَکَرِہْتُ أَنْ أَتَقَدَّمَ إِلَی شَیْئٍ مِنْ ذَلِکَ إِلاَّ بِأَمْرِکَ وَإِذْنِکَ ، فَاکْتُبْ إِلَیَّ بِأَمْرِکَ فِی ذَلِکَ ، فَکَتَبَ إِلَیَّ عُمَرُ : أَنْ دَعَ النَّاسَ یَأْکُلُونَ وَیَعْلِفُونَ ، فَمَنْ بَاعَ شَیْئًا بِذَہَبٍ ، أَوْ فِضَّۃٍ فَقَدْ وَجَبَ فِیہِ خُمُسُ اللہِ وَسِہَامُ الْمُسْلِمِینَ۔
(٣٤٠١١) حضرت ھانی بن کلثوم الکنانی فرماتے ہیں کہ جس لشکر نے ملک شام فتح کیا میں اس لشکر کا امیر تھا، میں نے حضرت عمر (رض) کو لکھ کر بھیجا کہ ہم نے ایک ملک فتح کیا ہے اس میں کھانے پینے اور چارہ کی کثرت ہے، میں اس بات کو ناپسند کرتا ہوں کہ آپ کی اجازت اور حکم کے بغیر کسی چیز کی طرف پہل کروں، تو آپ اپنی رائے لکھ کر ہمیں آگاہ کردیں، حضرت عمر (رض) نے مجھے لکھ کر ارسال کیا کہ لوگوں کو اجازت دے دو کہ وہ کھائیں اور جانوروں کو چارہ کھلائیں، اور جو شخص سونے یا چاندی کے بدلے کچھ فروخت کرے تو اس پر خمس اور مسلمانوں کا حصہ بھی ہے۔

34011

(۳۴۰۱۲) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِیلُ بْنُ عَیَّاشٍ ، عَنْ أُسَیْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ خَالِدِ بْنِ دُرَیْکِ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مُحَیْرِیزٍ ، قَالَ : سُئِلَ فَضَالَۃُ بْنُ عُبَیْدٍ صَاحِبُ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ بَیْعِ الطَّعَامِ وَالْعَلَفِ فِی أَرْضِ الرُّومِ ؟ فَقَالَ فَضَالَۃَ : إِنَّ أَقْوَامًا یُرِیدُونَ أَنْ یَسْتَزِلُّونِی عَنْ دِینِی ، وَاللہِ إِنِّی لأَرْجُوَ أَنْ لاَ یَکُونَ ذَلِکَ حَتَّی أَلْقَی مُحَمَّدًا صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَنْ بَاعَ طَعَامًا بِذَہَبٍ ، أَوْ فِضَّۃٍ فَقَدْ وَجَبَ فِیہِ خُمُسُ اللہِ وَسِہَامُ الْمُسْلِمِینَ۔
(٣٤٠١٢) حضرت فضالہ بن عبید (رض) جو کہ صحابی رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں ان سے روم کی زمین پر موجود دشمن کے کھانے اور چارہ کے متعلق دریافت کیا گیا ؟ حضرت فضالہ نے فرمایا : بیشک یہ لوگ ہمیں ہمارے دین سے ہٹانا چاہتے تھے، اور خدا کی قسم میں امید کرتا ہوں اس طرح نہیں ہوگا یہاں تک کہ ہم شہید ہو کر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ملاقات کرلیں، جو شخص کھانے کو سونے یا چاندی کے بدلے فروخت کرے تو اس میں خمس واجب ہے اور مسلمانوں کا حصہ بھی ضروری ہے۔

34012

(۳۴۰۱۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا ابْنُ عَوْنٍ ، عَنْ خَالِدِ بْنِ الدَّرَیْکِ ، عَنِ ابْنِ مُحَیْرِیزٍ ، عَنْ فَضَالَۃَ بْنِ عُبَیْدٍ الأَنْصَارِیِّ ، قَالَ : إِنَّ قَوْمًا یُرِیدُونَ أَنْ یَسْتَنْزِلُونِی عَنْ دِینِی ، أَمَا وَاللہِ إِنِّی لأَرْجُو أَنْ أَمُوتَ وَأَنَا عَلَیْہِ ، مَا کَانَ مِنْ شَیْئٍ بِیْعَ بِذَہَبٍ ، أَوْ فِضَّۃٍ فَفِیہِ خُمُسُ اللہِ وَسِہَامُ الْمُسْلِمِینَ۔
(٣٤٠١٣) حضرت فضالہ بن عبید انصاری (رض) فرماتے ہیں کہ بیشک یہ قوم ہمیں ہمارے دین سے ہٹانا چاہتی ہے خدا کی قسم میری خواہش ہے کہ میری موت اس حال میں آئے کہ میں اسی دین پر قائم رہوں جو بھی اس میں سے سونے یا چاندی کے بدلے فروخت کرے اس پر خمس اور مسلمانوں کا حصہ لازم ہے۔

34013

(۳۴۰۱۴) حَدَّثَنَا فُضَیْلُ بْنُ عِیَاضٍ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : کَانَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَأْکُلُونَ مِنَ الْغَنَائِمِ إِذَا أَصَابُوہَا مِنَ الْجَزَائِرِ وَالْبَقَرِ ، وَیَعْلِفُونَ دَوَابَّہُمْ ، وَلاَ یَبِیعُونَ ، فَإِنْ بِیْعَ رَدَّوہُ إِلَی الْمَقَاسِمِ۔
(٣٤٠١٤) حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ اصحاب محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب مال غنیمت میں اونٹ اور گائیں پاتے تو اس میں سے کھاتے، اور ان کے جانور چارہ کھاتے، اور اس کی بیع نہ کرتے، اگر بیع کرچکے ہوتے تو اس کو تقسیم کی جگہ کی طرف لوٹا دیتے۔

34014

(۳۴۰۱۵) حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّیَالِسِیُّ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ حُمَیْدِ بْنِ ہِلاَلٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مُغَفَّلٍ ، قَالَ : سَمِعْتُہُ یَقُولُ : دُلِّیَ لِی جِرَابٌ مِنْ شَحْمٍ یَوْمَ خَیْبَرَ ، قَالَ : فَالْتَزَمْتُہُ ، وَقُلْتُ : ہَذَا لِی ، لاَ أُعْطِی أَحَدًا مِنْہُ شَیْئًا ، فَالْتَفَتُّ فَإِذَا النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَتَبَسَّمُ ، فَاسْتَحْیَیْتُ۔ (بخاری ۳۱۵۳۔ مسلم ۱۳۹۳)
(٣٤٠١٥) حضرت عبداللہ بن مغفل (رض) فرماتے ہیں کہ خیبر کے دن مجھے ایک تھیلہ دیا گیا جس میں چربی تھی، میں نے یہ کہتے ہوئے اس کو پکڑ لیا کہ میں اس میں سے کسی کو کچھ نہ دوں گا، میں جب پیچھے کی طرف مڑا تو حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کھڑے میری بات سن کر مسکرا رہے تھے، مجھے یہ منظر دیکھ کر بہت حیا آئی۔

34015

(۳۴۰۱۶) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، قَالَ : کُنَّا نَغْزُو فَنُصِیبُ الطَّعَامَ ، وَالثِّمَارَ ،وَالْعَسَلَ ، وَالْعَلَفَ ، فَنُصِیبُ مِنْہُ مِنْ غَیْرِ قِسْمَۃٍ۔
(٣٤٠١٦) حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ ہم لوگ جہاد میں شریک ہوئے، کھانے، پھلوں، چارے اور شہد میں بغیر تقسیم کے ہی حصہ تھا۔

34016

(۳۴۰۱۷) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ حَمَّادٍ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، قَالَ : کَانُوا یَأْکُلُونَ مِنَ الطَّعَامِ فِی أَرْضِ الْحَرْبِ، وَیَعْتَلِفُونَ قَبْلَ أَنْ یُخَمِّسُوا۔
(٣٤٠١٧) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام (رض) جنگی زمین سے کھانا وغیرہ کھاتے اور خمس نکالنے سے قبل ہی جانوروں کو چارہ کھلاتے۔

34017

(۳۴۰۱۸) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : کَانَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِذَا افْتَتَحُوا الْمَدِینَۃَ ، أَوِ الْقَصْرَ أَکَلُوا مِنَ السَّوِیقِ ، وَالدَّقِیقِ ، وَالسَّمْنِ ، وَالْعَسَلِ۔
(٣٤٠١٨) حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ اصحاب محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب کوئی شہر یا قلعہ فتح فرماتے تو وہاں سے آٹا، ستّو، گھی اور شہد تناول فرماتے۔

34018

(۳۴۰۱۹) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ أَبِی سُلَیْمَانَ، عَنْ عَطَائٍ ؛ فِی الْقَوْمِ یَکُونُونَ غُزَاۃً، فَیَکُونُونَ فِی السَّرِیَّۃِ، فَیُصِیبُونَ أَنْحَائَ السَّمْنِ، وَالْعَسَلِ، وَالطَّعَامِ؟ قَالَ: یَأْکُلُونَ، وَمَا بَقِیَ رَدَّوہُ إِلَی إِمَامِہِمْ۔
(٣٤٠١٩) حضرت عطائ (رض) سے دریافت کیا گیا کہ ایک قوم جنگ میں شریک ہوئی، اور وہ ایک سریہ میں شریک ہوئی ہے اور وہاں گھی، شہد اور کھانے کے برتن (تھیلے) ان کو ملتے ہیں تو کیا حکم ہے ؟ فرمایا : وہ اس میں سے کھائیں گے اور جو باقی بچ جائے وہ اپنے امام کے سپرد کردیں گے۔

34019

(۳۴۰۲۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، قَالَ : کَانُوا یُرَخِّصُونَ فِی الطَّعَامِ وَالْعَلَفِ ، مَا لَمْ یَعْتَقِدُوا مَالاً۔
(٣٤٠٢٠) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام (رض) مال غنیمت کو جمع کرنے سے قبل کھانے اور چارے کو استعمال کرنے کی اجازت دیتے تھے۔ جب تک کہ لوگ مال کے طور پر جمع نہ کرتے۔

34020

(۳۴۰۲۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا أَبُو جَعْفَرٍ الرَّازِیّ ، عَنِ الرَّبِیعِ بْنِ أَنَسٍ ، عَنْ أَبِی الْعَالِیَۃِ ، عَنْ غُلاَمٍ لِسَلْمَانَ ، یُقَالَ لَہُ : سُوَیْد ، وَأَثْنَی عَلَیْہِ خَیْرًا ، قَالَ : لَمَّا افْتَتَحَ النَّاسُ الْمَدَائِنَ ، وَخَرَجُوا فِی طَلَبِ الْعَدُوِّ ، أَصَبْتُ سَلَّۃً ، فَقَالَ لِی سَلْمَانُ : ہَلْ عِنْدَکَ مِنْ طَعَامٌ ؟ قَالَ : قُلْتُ : سَلَّۃً أَصَبْتہَا ، قَالَ : ہَاتِہَا ، فَإِنْ کَانَ مَالاً دَفَعْنَاہُ إِلَی ہَؤُلاَئِ ، وَإِنْ کَانَ طَعَامًا أَکَلْنَاہُ۔
(٣٤٠٢١) حضرت ابو العالیہ حضرت سوید سے روایت کرتے ہیں جو کہ حضرت سلمان کے غلام ہیں اور ان کا اچھے الفاظ میں ذکر کیا گیا ہے، فرماتے ہیں کہ جب مجاہدین نے مدائن کو فتح کیا، اور دشمن کی تلاش میں نکلے تو مجھے ایک ٹوکری ملی، مجھ سے حضرت سلمان نے کہا : کیا آپ کے پاس کھانے کو کچھ ہے ؟ میں نے عرض کیا کہ مجھے ایک ٹوکری ملی ہے، فرمایا لے آؤ، اگر اس میں مال ہوا تو واپس کردیں گے اور اگر کھانے کی چیز ہوئی تو کھا لیں گے۔

34021

(۳۴۰۲۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا عُقْبَۃُ ، قَالَ : سَمِعْتُ عَبْدَ اللہِ بْنَ بُرَیْدَۃَ ؛ سُئِلَ عَنِ الطَّعَامِ یُصَابُ فِی أَرْضِ الْعَدُوِّ ؟ فَقَالَ : إِنْ کَانَ بَاعَ مِنْہُ بِدِرْہَمٍ رَدَّہُ ، وَإِلاَّ کَانَ غُلُولاً۔
(٣٤٠٢٢) حضرت عبداللہ بن بریدہ (رض) سے دریافت کیا گیا کہ دشمن کی سر زمین سے جو کھانا وغیرہ ملے اس کا کیا حکم ہے ؟ آپ نے فرمایا : اگر اسے درہم کے بدلے فروخت کیا ہے تو واپس کردیا جائے وگرنہ وہ خیانت شمار ہوگا۔

34022

(۳۴۰۲۳) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِیلُ بْنُ عَیَّاشٍ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ أَبِی عَمْرٍو الشَّیْبَانِیِّ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مُحَیْرِیزٍ ، وَخَالِدِ بْنِ الدَّرَیْکِ ، وَغَیْرِہِمْ ؛ أَنَّہُمْ کَانُوا یَقُولُونَ فِی الرَّجُلِ یُصِیبُ الطَّعَامَ وَالْعَلَفَ فِی أَرْضِ الرُّومِ ، فَقَالُوا : یَأْکُلُ وَیُطْعَمُ وَیَعْلِفُ ، فَإِنْ بَاعَ شَیْئًا مِنْ ذَلِکَ بِذَہَبٍ وَفِضَّۃٍ رَدَّہُ إِلَی غَنَائِمِ الْمُسْلِمِینَ۔
(٣٤٠٢٣) حضرت عبداللہ بن محیریز (رض) اور حضرت خالد (رض) وغیرہ نے اس شخص کے متعلق فرمایا جس کو روم کی زمین سے کھانا اور چارہ ملا۔ فرمایا : وہ کھانا کھائے اور چارہ استعمال کرے، اور اگر اس میں سے کچھ سونا یا چاندی کے بدلے فروخت کیا تو اس کو مسلمانوں کی غنیمت میں شامل کر دے۔

34023

(۳۴۰۲۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا إِسْرَائِیلُ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ عَامِرٍ ، قَالَ : لاَ بَأْسَ بِالطَّعَامِ وَالْعَلَفِ یُوجَدُ فِی أَرْضِ الْعَدُوِّ ، أَنْ یَأْکُلُوا مِنْہُ ، وَأَنْ یَعْلِفُوا دَوَابَّہُمْ ، فَمَا بِیعَ مِنْہُ فَہُوَ بَیْنَ الْمُسْلِمِینَ۔
(٣٤٠٢٤) حضرت عامر (رض) فرماتے ہیں کہ دشمن کی زمین سے جو کھانا اور چارہ ملے اس کو کھانے اور چارہ جانوروں کو کھلانے میں کوئی حرج نہیں ہے، اور جو اس میں سے فروخت کیا وہ مسلمانوں کے درمیان مشترک ہوگا۔

34024

(۳۴۰۲۵) حَدَّثَنَا عَائِذُ بْنُ حَبَیْبٍ ، عَنْ جُوَیْبِرٍ ، عَنِ الضَّحَّاکِ ، قَالَ : إِذَا خَرَجَتِ السَّرِیَّۃُ ،فَأَصَابُوا غَنِیمَۃً مِنْ بَقَرٍ، أَوْ غَنَمٍ فَلَہُمْ أَنْ یَأْکُلُوا بِقَدْرٍ ، وَلاَ یُسْرِفُوا ، فَإِذَا انْتُہِیَ بِہِ إِلَی الْعَسْکَرِ کَانَ بَیْنَہُمْ۔
(٣٤٠٢٥) حضرت ضحاک (رض) فرماتے ہیں کہ جب سریہ جہاد کیلئے نکلے، اور ان کو گائے یا بکری وغیرہ غنیمت میں ملے، تو وہ ضرورت کی بقدر کھا لیں لیکن ضائع مت کریں اور اگر وہ لشکر کی طرف بھیج دیئے جائیں تو پھر وہ سب کے درمیان مشترک ہوگا۔

34025

(۳۴۰۲۶) حَدَّثَنَا یُونُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَیْدٍ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : کُنَّا نُصِیبُ فِی مَغَازِینَا الْفَاکِہَۃَ وَالْعَسَلَ ، فَنَأْکُلُہُ وَلاَ نَرْفَعُہُ۔ (بخاری ۳۱۵۴۔ بیہقی ۵۹)
(٣٤٠٢٦) حضرت ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ ہمیں جہاد کے دوران پھل اور شہد ملتے تو ہم اس کو کھالیا کرتے اس کو تقسیم غنیمت کی جگہ پر لے کر نہ جاتے۔

34026

(۳۴۰۲۷) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ، عَنْ مُجَالِدٍ، عَنْ عَامِرٍ، قَالَ: لَیْسَ فِی الطَّعَامِ خُمُسٌ، إِنَّمَا الْخُمُسُ فِی الذَّہَبِ وَالْفِضَّۃِ۔
(٣٤٠٢٧) حضرت عامر (رض) فرماتے ہیں کہ طعام میں خمس نہیں ہے، خمس تو صرف سونے اور چاندی پر ہے۔

34027

(۳۴۰۲۸) حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ مُعَاذٍ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، قَالَ : قُلْتُ لِلْحَسَنِ : إِنَّا نُصِیبُ فِی بِلاَدِ الْعَدُوِّ الْعَسَلَ وَالسَّمْنَ وَالْجُبْنَ ، أَفَنُخَمِّسُ ؟ قَالَ : قَدْ کُنَّا نُصِیبُہُ فَنَأْکُلُہُ۔
(٣٤٠٢٨) حضرت ابن عون (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت حسن (رض) سے عرض کیا کہ ہمیں دشمن کی زمین سے شہد، گھی اور پنیر وغیرہ ملتا ہے تو کیا ہم اس میں بھی خمس نکالیں ؟ حضرت حسن (رض) نے فرمایا : ہمیں بھی یہ سب ملتا تھا ہم تو اس کو کھالیتے تھے۔

34028

(۳۴۰۲۹) حَدَّثَنَا مُعْتَمِرُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ زِیَادِ بْنِ سَعْدٍ ، شَیْخٍ مِنْ أَہْلِ وَاسِطَ ؛ أَنَّ عَبْدَ اللہِ بْنَ عَبَّاسٍ لَمْ یَرَ بَأْسًا أَنْ یَأْکُل الرَّجُلِ الطَّعَامَ فِی أَرْضِ الشِّرْکِ ، حَتَّی یَدْخُلَ أَہْلُہُ۔
(٣٤٠٢٩) حضرت عبداللہ بن عباس (رض) اس میں کوئی حرج نہ سمجھتے تھے کہ کوئی شخص مشرکین کی سر زمین میں موجود کھانے میں سے کھالے، یہاں تک کہ وہ اپنے گھر والوں کے پاس چلا جائے۔

34029

(۳۴۰۳۰) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ أَبِی الْحَسَنِ ، وَأَبِی إِسْحَاقَ ؛أَنَّہُمَا قَالاَ فِی الْقَوْمِ یُصِیبُونَ الْغَنِیمَۃَ : یَأْکُلُونَ ، وَلاَ یَحْمِلُونَ۔
(٣٤٠٣٠) حضرت حسن (رض) بن ابی الحسن اور حضرت ابو اسحاق (رض) ان لوگوں کے متعلق فرماتے ہیں جن کو مال غنیمت حاصل ہو وہ اسے کھا لیں اور اٹھائیں مت۔

34030

(۳۴۰۳۱) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنِ الإِفْرِیقِیِّ ، عَنْ خَالِدِ بْنِ أَبِی عِمْرَانَ ، قَالَ : سَأَلْتُ الْقَاسِمَ ، وَسَالِمًا عَنِ الرَّجُلِ یُصِیبُ الطَّعَامَ فِی أَرْضِ الْعَدُوِّ ، فَیُصِیبُ مِنْہُ ، وَیَکْسِبُ مِنْہُ الدَّرَاہِمَ ؟ فَقَالاَ : یَجْعَلُہُ فِی طَعَامٍ یَأْکُلُہُ ، وَلاَ یَکْسِبُ مِنْہُ عُقْدَۃَ مَالٍ۔
(٣٤٠٣١) حضرت خالد بن ابو عمران فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت قاسم (رض) اور حضرت سالم (رض) سے دریافت کیا کہ ایک شخص کو دشمن کی زمین سے کھانا ملے وہ اس کو استعمال کرسکتا ہے اور اس کو دراہم کے بدلے فروخت کرسکتا ہے ؟ فرمایا : کھانا تو کھالے، لیکن اس کو مال کے بدلے فروخت نہ کرے۔

34031

(۳۴۰۳۲) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ، عَنْ رَجَائِ بْنِ حَیْوَۃَ؛ أَنَّ أَبَا عُبَیْدَۃَ کَتَبَ إِلَی عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فِی عَبْدٍ أَسَرَہُ الْمُشْرِکُونَ، ثُمَّ ظَہَرَ عَلَیْہِ الْمُسْلِمُونَ بَعْدَ ذَلِکَ؟ قَالَ: صَاحِبُہُ أَحَقُّ بِہِ مَا لَمْ یُقْسَمْ ، فَإِذَا قُسِمَ حَقَّہ مَضَی۔
(٣٤٠٣٢) حضرت ابو عبیدہ (رض) نے حضرت عمر (رض) کو لکھ کر بھیجا کہ، غلام کو مشرکین نے قیدی بنا لیا ہو پھر دوبارہ مسلمان اس پر غلبہ حاصل کرلیں تو کیا حکم ہے ؟ حضرت عمر (رض) نے ارشاد فرمایا : تقسیم غنیمت سے پہلے اس کا مالک زیادہ حقدار ہے، اور اگر تقسیم ہوجائے تو پھر اس کا حق ختم ہوگیا۔

34032

(۳۴۰۳۳) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ رَجَائِ بْنِ حَیْوَۃَ ، عَنْ قَبِیصَۃَ بْنِ ذُؤَیْبٍ ، قَالَ : قَالَ عُمَرُ : مَا أَحْرَزَ الْمُشْرِکُونَ مِنْ أَمْوَالِ الْمُسْلِمِینَ فَغَزَوْہُمْ بَعْدُ وَظَہَرُوا عَلَیْہِمْ ، فَوَجَدَ رَجُلٌ مَالَہُ بِعَیْنِہِ قَبْلَ أَنْ تُقْسَمَ السِّہَامُ فَہُوَ أَحَقُّ بِہِ ، وَإِنْ کَانَ قُسِمَ فَلاَ شَیْئَ لَہُ۔
(٣٤٠٣٣) حضرت عمر (رض) نے ارشاد فرمایا مشرکین مسلمان کے مال پر قبضہ کرلیں پھر مسلمان جہاد کر کے ان پر غلبہ حاصل کرلیں اور وہ شخص اپنا مال جوں کا توں تقسیم سے پہلے پالے تو وہ اس مال کا زیادہ حق دار ہے، اور اگر غنیمت تقسیم ہوگئی تو پھر اس کے لیے کچھ نہیں ہے۔

34033

(۳۴۰۳۴) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ، عَنْ سَعِیدٍ، عَنْ قَتَادَۃَ، قَالَ: قَالَ عَلِیٌّ: ہُوَ لِلْمُسْلِمِینَ عَامَّۃً، لأَنَّہُ کَانَ لَہُمْ مَالاً۔
(٣٤٠٣٤) حضرت علی (رض) نے ارشاد فرمایا : وہ تمام مسلمانوں کیلئے ہے، کیونکہ وہ ان ہی کا مال تھا۔

34034

(۳۴۰۳۵) حَدَّثَنَا مُعْتَمِرُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ أَبِیہِ ؛ أَنَّ عَلِیًّا کَانَ یَقُولُ فِیمَا أَحْرَزَ الْعَدُوُّ مِنْ أَمْوَالِ الْمُسْلِمِینَ ، إِنَّہُ بِمَنْزِلَۃِ أَمْوَالِہِمْ ، قَالَ : وَکَانَ الْحَسَنُ یَقْضِی بِذَلِکَ۔
(٣٤٠٣٥) حضرت سلمان (رض) سے مروی ہے کہ حضرت علی (رض) فرماتے تھے کہ جو مسلمان کا مال کفار کے قبضہ میں چلا جائے، تو وہ ان کے مال کے مرتبہ میں ہے۔ اور حضرت حسن (رض) بھی یہی فیصلہ کرتے تھے۔

34035

(۳۴۰۳۶) حَدَّثَنَا عِیسَی بْنُ یُونُسَ ، عَنْ ثَوْرٍ ، عَنْ أَبِی عَوْنٍ ، عَنْ زُہْرَۃَ بْنِ یَزِیدَ الْمُرَادِیِّ ؛ أَنَّ أَمَۃً لِرَجُلٍ مِنَ الْمُسْلِمِینَ أَبْقَتْ ، وَلَحِقَتْ بِالْعَدُوِّ ، فَغَنِمَہَا الْمُسْلِمُونَ ، فَعَرَفَہَا أَہْلُہَا ، فَکَتَبَ فِیہَا أَبُو عُبَیْدَۃَ إِلَی عُمَرَ ، فَکَتَبَ عُمَرُ : إِنْ کَانَتِ الأَمَۃَ لَمْ تُخَمَّسْ وَلَمْ تُقْسَمْ فَہِیَ رَدٌّ عَلَی أَہْلِہَا ، وَإِنْ کَانَتْ قَدْ خُمِّسَتْ وَقُسِمَتْ فَأَمْضِہَا لِسَبِیلِہَا۔
(٣٤٠٣٦) حضرت زھرہ ابن یزید المرادی سے مروی ہے کہ مسلمانوں میں سے ایک شخص کی لونڈی تھی، وہ بھاگ کر دشمن کے ساتھ مل گئی (پھر کچھ عرصہ بعد) مسلمانوں کے ہاتھ مال غنیمت آیا تو باندی کے مالک نے اس کو پہچان لیا۔ حضرت ابو عبیدہ (رض) نے حضرت عمر (رض) کو خط لکھ کر دریافت فرمایا۔ حضرت عمر (رض) نے تحریر فرمایا : اگر باندی کا خمس نہیں نکالا گیا اور اس کو تقسیم نہیں کیا گیا، تو پھر وہ مالک کو واپس کردی جائے گی، اور اگر خمس نکال لیا گیا ہے اور غنیمت تقسیم ہوچکی ہے تو پھر اس کو اسی راستہ پر برقرار رکھو۔ (جس کو مل گئی ہے اس کے پاس رہے گی) ۔

34036

(۳۴۰۳۷) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ؛ أَنَّ عَبْدًا لَہُ أَبَقَ ، وَذَہَبَ لَہُ بِفَرَسٍ ، فَدَخَلَ أَرْضَ الْعَدُوِّ ، فَظَہَرَ عَلَیْہِ خَالِدُ بْنُ الْوَلِیدِ فَرُدَّ أَحَدُہُمَا عَلَیْہِ فِی حَیَاۃِ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَرُدَّ الآخَرُ بَعْدَ وَفَاۃِ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔ (بخاری ۳۰۶۹)
(٣٤٠٣٧) حضرت نافع (رض) سے مروی ہے کہ حضرت ابن عمر (رض) کا ایک غلام ان سے بھاگ گیا اور گھوڑا لے کر فرار ہوگیا، اور دشمن کی سر زمین میں چلا گیا، حضرت خالد بن ولید (رض) نے ان پر فتح حاصل کرلی۔ ان میں سے ایک چیز حضرت ابن عمر (رض) کو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حیات مبارکہ میں ہی واپس کردی گئی اور دوسری چیز آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے بعد واپس کردی گئی۔

34037

(۳۴۰۳۸) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ سَلْمَانَ بْنِ رَبِیعَۃَ ؛ فِیمَا أَحْرَزَ الْعَدُوُّ ، قَالَ : صَاحِبُہُ أَحَقُّ بِہِ مَا لَمْ یُقْسَمْ ، فَإِذَا قُسِمَ فَلاَ شَیْئَ۔
(٣٤٠٣٨) حضرت سلمان بن ربیعہ (رض) اس چیز کے متعلق فرماتے ہیں جس کو دشمن اٹھا لے، فرمایا غنیمت کی تقسیم سے قبل اس کا مالک ہی زیادہ حقدار ہے، اور اگر غنیمت میں تقسیم ہوجائے تو پھر اس کے مالک کیلئے کچھ نہیں ہے۔

34038

(۳۴۰۳۹) حَدَّثَنَا شَرِیک ، عَنِ الرُّکَیْنِ ، عَنْ أَبِیہِ ، أَوْ عَنْ عَمِّہِ ، قَالَ : حَسَرَ لِی فَرَسٌ فَأَخَذَہُ الْعَدُوُّ ، قَالَ : فَظَہَرَ عَلَیْہِ الْمُسْلِمُونَ ، قَالَ : فَوَجَدْتُہُ فِی مَرْبِطِ سَعْدٍ ، قَالَ : فَقُلْتُ : فَرَسِی ، قَالَ : فَقَالَ : بَیِّنَتُک ، قُلْتُ : أَنَا أَدْعُوہُ فَیُحَمْحِمُ ، قَالَ : إِنْ أَجَابَک فَلاَ أُرِیدُ مِنْک بَیِّنَۃً۔
(٣٤٠٣٩) حضرت رکین اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ میرا گھوڑا کہیں چلا گیا۔ پس دشمنوں نے اسے پکڑ لیا۔ پھر مسلمان ان پر غالب آگئے۔ آپ (رض) نے فرمایا کہ میں نے اس گھوڑے کو حضرت سعد (رض) کے باڑے میں پایا۔ میں نے کہا : یہ تو میرا گھوڑا ہے۔ انھوں نے فرمایا : تمہارے گواہ کہاں ہیں ؟ میں نے کہا : میں اس کو پکاروں گا تو یہ ہنہنائے گا حضرت سعد (رض) نے فرمایا : اگر وہ تمہاری پکار کا جواب دے دے میں تم سے گواہ کا مطالبہ نہیں کروں گا۔

34039

(۳۴۰۴۰) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِیلُ بْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ ؛ أَنَّ أَمَۃً أَحْرَزَہَا الْعَدُوُّ ،فَاشْتَرَاہَا رَجُلٌ ، فَخَاصَمَہُ سَیِّدُہَا إِلَی شُرَیْحٍ ، فَقَالَ: الْمُسْلِمُ أَحَقُّ مَنْ رَدَّ عَلَی أَخِیہِ بِالثَّمَنِ ، فَقَالَ : إِنَّہَا وَلَدَتْ مِنْ سَیِّدِہَا، قَالَ : أَعْتَقَہَا ، قَضَائُ الأَمِیرِ ، فَإِنْ کَانَتْ کَذَا وَکَذَا ، وَإِنْ کَانَتْ کَذَا وَکَذَا ، قَالَ : یَقُولُ رَجُلٌ : لَہُو أَعْلَمَ بِالْقَضَائِ مِنْ زَیْدِ بْنِ خَلْدَۃَ۔
(٣٤٠٤٠) حضرت ابن سیرین سے مروی ہے کہ ایک شخص کی باندی کو دشمن پکڑ کرلے گئے، اس کو ایک شخص نے خرید لیا۔ اس کا آقا جھگڑا لے کر حضرت شریح کے پاس آگیا، حضرت شریح نے فرمایا : مسلمان اس کا زیادہ حقدار ہے جو اس کے بھائی کو ثمن کے ساتھ واپس کیا جائے، کہا گیا کہ اس نے اپنے آقا سے بچہ جنا ہے۔ حضرت شریح نے فرمایا : اس کو آزاد کردو یہ امیر کا فیصلہ ہے، اگر وہ تھی اتنے اتنے کی، اگر وہ تھی اتنے اتنے کی اس شخص نے کیا یہ زید بن خلدہ سے زیادہ قضاء کو جانتے ہیں۔

34040

(۳۴۰۴۱) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ (ح) وَعَنْ یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالاَ : مَا أَحْرَزَ الْعَدُوُّ مِنْ مَالِ الْمُسْلِمِینَ فَعَرَفَہُ صَاحِبُہُ فَہُوَ أَحَقُّ بِہِ ، وَإِنْ قُسِمَ فَقَدْ مَضَی۔
(٣٤٠٤١) حضرت ابراہیم اور حضرت حسن فرماتے ہیں کہ دشمن مسلمانوں کے مال پر قبضہ کرے پھر مسلمان اس کو غنیمت میں حاصل کرلیں اور اس مال کا مالک مال کو پہچان لے تو وہ اس کا زیادہ حقدار ہے، اور اگر غنیمت تقسیم کردی گئی تو پھر فیصلہ گزر چکا ہے۔ (اب اس کو نہیں ملے گا) ۔

34041

(۳۴۰۴۲) حَدَّثَنَا ابْنُ إِدْرِیسَ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، قَالَ : مَا أَصَابَ الْمُسْلِمُونَ مِمَّا أَصَابَہُ الْعَدُوُّ قَبْلَ ذَلِکَ ، فَإِنْ أَصَابَہُ صَاحِبُہُ قَبْلَ أَنْ یُقْسَمَ فَہُوَ أَحَقُّ بِہِ ، وَإِنْ قُسِمَ فَہُوَ أَحَقُّ بِہِ بِالثَّمَنِ۔
(٣٤٠٤٢) حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ جس کو کفار نے قبضہ میں لے لیا تھا اگر اس پر دوبارہ مسلمان قبضہ کرلیں اور واپس حاصل کرلیں تو تقسیم غنیمت سے قبل اس چیز کا مالک اس کا زیادہ حقدار ہے، اور اگر تقسیم ہوگئی تو ثمن کے ساتھ زیادہ حقدار ہے۔

34042

(۳۴۰۴۳) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَۃَ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ خِلاَسٍ ، عَنْ عَلِیٍّ ، قَالَ : مَا أَحْرَزَ الْعَدُوُّ فَہُوَ جَائِزٌ۔
(٣٤٠٤٣) حضرت علی (رض) ارشاد فرماتے ہیں کہ جس پر دشمن قبضہ کرلیں (اور اس کو مسلمان واپس چھڑا لیں تو) وہ مالک کے لیے جائز ہے۔

34043

(۳۴۰۴۴) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنِ الْحَکَمِ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، قَالَ : مَا ظَہَرَ عَلَیْہِ الْمُشْرِکُونَ مِنْ مَتَاعِ الْمُسْلِمِینَ ، ثُمَّ ظَہَرَ عَلَیْہِ الْمُسْلِمُونَ ، إِنْ قُسِمَ فَہُوَ أَحَقُّ بِہِ بِالثَّمَنِ ، وَإِنْ کَانَ لَمْ یُقْسَمْ رُدَّ عَلَیْہِ۔
(٣٤٠٤٤) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ مسلمانوں کے مال پر اگر کفار غلبہ کر کے قبضہ کرلیں پھر مسلمان دوبارہ ان پر غالب آجائیں۔ تو اگر غنیمت تقسیم ہوگئی تو اس چیز کا مالک ثمن دے کرلینے کا زیادہ حقدار ہوگا اور اگر تقسیم نہ ہوا ہو تو پھر اس کو واپس مالک کی طرف لٹا دیا جائے گا۔

34044

(۳۴۰۴۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ سِمَاکٍ ، عَنْ تَمِیمِ بْنِ طَرَفَۃَ ، قَالَ : أَصَابَ الْمُسْلِمُونَ نَاقَۃً لِرَجُلٍ مِنَ الْمُسْلِمِینَ ، فَاشْتَرَاہَا رَجُلٌ مِنَ الْعَدُوِّ ، فَخَاصَمَہُ صَاحِبُہَا إِلَی النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَأَقَامَ الْبَیِّنَۃَ ، فَقَضَی النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : أَنْ یَدْفَعَ إِلَیْہِ الثَّمَنَ الَّذِی اشْتَرَی بِہِ مِنَ الْعَدُوِّ ، وَإِلاَّ خُلِّیَ بَیْنَہُ وَبَیْنَہَا۔ (ابوداؤد ۳۳۹۔ بیہقی ۱۱۱)
(٣٤٠٤٥) حضرت تمیم بن طرفہ سے مروی ہے کہ : مسلمانوں میں سے ایک شخص کی اونٹنی کو کفار لے گئے ایک شخص نے وہ اونٹنی کفار سے خرید لی اس اونٹنی کا مالک جھگڑا لے کر حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس بات پر گواہ پیش کر دئیے کہ اونٹنی اس کی ہے، حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ فیصلہ فرمایا کہ : جتنے کی اس نے دشمن سے خریدی ہے اتنے پیسے دے کرلے لو وگرنہ ان کے راستہ سے ہٹ جاؤ۔

34045

(۳۴۰۴۶) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : لاَ یَحِلُّ لِمُسْلِمٍ أَنْ یَحْمِلَ إِلَی عَدُوِّ الْمُسْلِمِینَ طَعَامًا ، وَلاَ سِلاَحًا یُقَوِّیہِمْ بِہِ عَلَی الْمُسْلِمِینَ ، فَمَنْ فَعَلَ ذَلِکَ فَہُوَ فَاسِقٌ۔
(٣٤٠٤٦) حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ : مسلمان کیلئے جائز نہیں کہ وہ دشمنوں کو کھانا یا اسلحہ بھیجے (فروخت کرے) جس کی وجہ سے وہ مسلمانوں کے خلاف قوت حاصل کریں : جو ایسا کرے وہ فاسق ہے۔

34046

(۳۴۰۴۷) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ ، عَنْ ابْنُ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَطَائٍ ؛ أَنَّہُ کَرِہَ حَمْلَ السِّلاَحِ إِلَی الْعَدُوِّ ، قَالَ : قُلْتُ لَہُ : تُحْمَلُ الْخَیْلُ إِلَیْہِمْ ؟ قَالَ : فَأَبَی ذَلِکَ ، وَقَالَ : أَمَّا مَا یُقَوِّیہِمْ لِلْقِتَالِ فَلاَ ، وَأَمَّا غَیْرُہُ فَلاَ بَأْسَ۔ وَقَالَہُ عَمْرُو بْنُ دِینَارٍ۔
(٣٤٠٤٧) حضرت عطاء (رض) دشمن کو اسلحہ فروخت کرنے کو ناپسند کرتے تھے راوی کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : گھوڑے فروخت کرنا کیسا ہے ؟ انھوں نے اس کا بھی انکار کیا، اور فرمایا : جس چیز سے وہ جنگ میں قوت حاصل کریں وہ نہ فروخت کرے، اس کے علاوہ چیزوں میں کوئی حرج نہیں ہے۔

34047

(۳۴۰۴۸) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ، قَالَ: نَہَی عُمَرُ بْنُ عَبْدِالْعَزِیزِ أَنْ تُحْمَلَ الْخَیْلُ إِلَی أَرْضِ الْہِنْدِ۔
(٣٤٠٤٨) حضرت عمر بن عبدالعزیز (رض) نے ارض ھند کی طرف گھوڑوں کی فروخت سے منع فرمایا۔

34048

(۳۴۰۴۹) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ؛ أَنَّہُ کَرِہَ أَنْ یُحْمَلَ السِّلاَحُ ، أَوْ الْکُرَاعُ إِلَی أَرْضِ الْعَدُوِّ لِلتِّجَارَۃِ۔
(٣٤٠٤٩) حضرت حسن (رض) اسلحہ یا گھوڑا دشمن کی سر زمین میں تجارت کیلئے لے جانے کو ناپسند کرتے تھے۔

34049

(۳۴۰۵۰) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ ، عَنْ عُبَیْدَۃَ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ؛ أَنَّہُ کَانَ یُکْرَہُ أَنْ یُحْمَلَ إِلَی عَدُوِّ الْمُسْلِمِینَ سِلاَحٌ ، أَوْ مَنْفَعَۃٌ۔
(٣٤٠٥٠) حضرت ابراہیم بھی اسلحہ اور کوئی منافع بخش چیز لے جانے کو ناپسند کرتے تھے۔

34050

(۳۴۰۵۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، وَابْنِ سِیرِینَ ؛ أَنَّہُمَا کَرِہَا بَیْعَ السِّلاَحِ فِی الْفِتْنَۃِ۔
(٣٤٠٥١) حضرت حسن (رض) اور حضرت ابن سیرین (رض) جنگ کے دنوں میں اسلحہ کی بیع کو ناپسند کرتے تھے۔

34051

(۳۴۰۵۲) حَدَّثَنَا یَعْلَی بْنُ عُبَیْدٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا أَبُو حَیَّانَ ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، وَابْنِ سِیرِینَ ؛ أَنَّہُمَا کَرِہَا بَیْعَ السِّلاَحِ فِی الْفِتْنَۃِ۔
(٣٤٠٥٢) حضرت حسن (رض) اور حضرت ابن سیرین (رض) سے اسی طرح مروی ہے۔

34052

(۳۴۰۵۳) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا ہِشَامٌ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : لاَ یُبْعَثُ إِلَی أَہْلِ الْحَرْبِ شَیْئٌ مِنَ السِّلاَحِ وَالْکُرَاعِ ، وَلاَ مَا یُسْتَعَانُ بِہِ عَلَی السِّلاَحِ وَالْکُرَاعِ۔
(٣٤٠٥٣) حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ اہل حرب کی طرف اسلحہ یا گھوڑا نہیں بھیجیں گے، اور نہ ہی اسلحہ اور گھوڑے پر مدد حاصل کریں گے۔

34053

(۳۴۰۵۴) حَدَّثَنَا شَاذَانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا أَبَانُ الْعَطَّارُ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، قَالَ : کَانَ یُکْرَہُ بَیْعُ السِّلاَحِ فِی الْقِتَالِ۔
(٣٤٠٥) حضرت قتادہ (رض) جنگ کے ایام میں اسلحہ کی بیع کو ناپسند کرتے تھے۔

34054

(۳۴۰۵۵) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، قَالَ : کَانَ أَصْحَابُ عَبْدِ اللہِ یَغْزُونَ زَمَانَ الْحَجَّاجِ : عَبْدُ الرَّحْمَن بْنُ یَزِیدَ ، وَأَبُو سِنَانٍ ، وَأَبُو جُحَیْفَۃَ۔
(٣٤٠٥٥) حضرت اعمش (رض) سے مروی ہے کہ حضرت عبداللہ کے اصحاب نے حجاج بن یوسف کے دور میں اس کے ساتھ ملکر جہاد کیا جن میں عبدالرحمن بن یزید، ابو سنان اور ابو ححیفہ کا نام قابل ذکر ہے۔

34055

(۳۴۰۵۶) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، قَالَ : سَمِعْتُہُمْ یَذْکُرُونَ : أَنَّ عَبْدَ الرَّحْمَن بْنَ یَزِیدَ کَانَ یَغْزُو الْخَوَارِجَ فِی زَمَانِ الْحَجَّاجِ ، یُقَاتِلُہُمْ۔
(٣٤٠٥٦) حضرت اعمش (رض) سے مروی ہے کہ حضرت عبدالرحمن بن یزید (رض) نے حجاج کے دور میں خوارج کے ساتھ قتال کیا۔

34056

(۳۴۰۵۷) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ؛ أَنَّہُ غَزَا الرَّیَّ فِی زَمَانِ الْحَجَّاجِ۔
(٣٤٠٥٧) حضرت اعمش (رض) سے مروی ہے کہ حضرت ابراہیم نے حجاج کے زمانے میں جہاد کیا۔

34057

(۳۴۰۵۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا مُثَنَّی بْنُ سَعِیدٍ ، عَنْ أَبِی جَمْرَۃَ ، قَالَ : سَأَلْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ عَنِ الْغَزْوِ مَعَ الأُمَرَائِ وَقَدْ أَحْدَثُوا ؟ فَقَالَ : تُقَاتِلُ عَلَی نَصِیبِکَ مِنَ الآخِرَۃِ ، وَیُقَاتِلُونَ عَلَی نَصِیبِہِمْ مِنَ الدُّنْیَا۔
(٣٤٠٥٨) حضرت ابو جمرہ (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عباس (رض) سے دریافت کیا ان امراء کے ساتھ مل کر لڑنا کیسا ہے جنہوں نے دین میں نئے کام ایجاد کیے اور ظلم کیا ؟ فرمایا آپ اپنے آخرت کے حصہ (ثواب) کیلئے لڑو، وہ اپنے دنیا کے حصہ کیلئے لڑتے ہیں۔

34058

(۳۴۰۵۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ: حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَیْدٍ ، عَنِ الْجَعْدِ أَبِی عُثْمَانَ ، عَنْ سُلَیْمَانَ الْیَشْکُرِیِّ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: قُلْتُ لَہُ: أَغْزُو أَہْلَ الضَّلاَلَۃِ مَعَ السُّلْطَانِ؟ قَالَ: اُغْزُوا ، فَإِنَّمَا عَلَیْک مَا حُمِّلْتَ، وَعَلَیْہِمْ مَا حُمِّلُوا۔
(٣٤٠٥٩) حضرت سلیمان الیشکری (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت جابر (رض) سے دریافت کیا کہ ظالم اور گمراہ کے ساتھ مل کر لڑنا کیسا ہے ؟ حضرت جابر (رض) نے فرمایا : تجھے اس کا ثواب ملے گا جو تیری نیت ہوگی اور ان کو وہی ملے گا جو ان کی نیت ہوگی۔

34059

(۳۴۰۶۰) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنِ الْفَزَارِیِّ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، وَابْنِ سِیرِینَ ؛ سُئِلاَ عَنِ الْغَزْوِ مَعَ أَئِمَّۃِ السُّوئِ؟ فَقَالاَ : لَکَ شَرَفُہُ ، وَأَجْرُہُ ، وَفَضْلُہُ ، وَعَلَیْہِمْ إِثْمَہُمْ۔
(٣٤٠٦٠) حضرت حسن (رض) اور ابن سیرین (رض) سے دریافت کیا گیا کہ ظالم حکمرانوں کے ساتھ مل کر لڑنا کیسا ہے ؟ آپ دونوں نے فرمایا : آپ کیلئے اس جہاد کا اجر اور شرف ہے اور ان پر ان کا گناہ ہے۔

34060

(۳۴۰۶۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : مَالِکُ بْنُ مِغْوَلٍ ، عَنْ طَلْحَۃَ بْنِ مُصَرِّفٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْن یَزِیدَ النَّخَعِیِّ ، قَالَ : قُلْتُ لأَبِی : یَا أَبَۃِ ، فِی إِمَارَۃِ الْحَجَّاجِ ، أَتَغْزُو ؟ قَالَ : یَا بُنَی ، لَقَدْ أَدْرَکْتُ أَقْوَامًا أَشَدَّ بُغْضًا مِنْکُمْ لِلْحَجَّاجِ ، وَکَانُوا لاَ یَدَعُونَ الْجِہَادَ عَلَی حَالٍ ، وَلَوْ کَانَ رَأْیُ النَّاسِ فِی الْجِہَادِ مِثْلَ رَأْیِکَ مَا أُدِّی الإِتَاوَۃَ ، یَعْنِی الْخَرَاجَ۔
(٣٤٠٦١) حضرت محمد بن عبدالرحمن بن یزید النخعی (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے والد سے عرض کیا کہ اے ابا ! حجاج کے دور امارت میں آپ جہاد میں شریک ہوئے تھے ؟ انھوں نے فرمایا اے بیٹے ! میں نے تو ان لوگوں کو بھی پایا ہے جو حجاج کے معاملہ میں تم سے زیادہ سخت تھے، لیکن انھوں نے پھر بھی جہاد کو نہ چھوڑا۔ اور اگر لوگوں کی بھی وہی رائے بن جاتی جو آپ کی رائے ہے تو پھر خراج نہ ادا کیا جاتا۔

34061

(۳۴۰۶۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنِ الْمُغِیرَۃِ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، قَالَ : ذُکِرَ لَہُ أَنَّ قَوْمًا یَقُولُونَ : لاَ جِہَادَ ، فَقَالَ : ہَذَا شَیْئٌ عَرَضَ بِہِ الشَّیْطَانُ۔
(٣٤٠٦٢) حضرت ابراہیم (رض) سے ذکر کیا گیا کہ کچھ لوگ یوں کہتے ہیں کہ جہاد نہیں ہے حضرت ابراہیم نے فرمایا یہ چیز شیطان ان کے پاس لے کر آیا ہے۔

34062

(۳۴۰۶۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا الرَّبِیعُ بْنُ صَبِیْحٍ ، عَنْ قَیْسِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، قَالَ : سَأَلْتُ ابْنَ عُمَرَ عَنِ الْغَزْوِ مَعَ أَئِمَّۃِ الْجَوْرِ ، وَقَدْ أَحْدَثُوا ؟ فَقَالَ : اُغْزُوا۔
(٣٤٠٦٣) حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عمر (رض) سے دریافت کیا کہ ظالم و جابر حکمرانوں کے ساتھ مل کر جہاد کرنا کیسا ہے ؟ آپ نے فرمایا : جہاد کرو۔

34063

(۳۴۰۶۴) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللہِ ، عَنْ زَائِدَۃَ ، عَنْ لَیْثٍ ، قَالَ : کَانَ مُجَاہِدٌ یَغْزُو مَعَ بَنِی مَرْوَانَ ، وَکَانَ عَطَائٌ لاَ یَرَی بِہِ بَأْسًا۔
(٣٤٠٦٤) حضرت لیث فرماتے ہیں کہ حضرت مجاہد (رض) نے بنو مروان کے ساتھ مل کر جہاد کیا اور حضرت عطاء نے اس میں کوئی حرج نہ سمجھا۔

34064

(۳۴۰۶۵) حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، قَالَ : خَرَجَ عَلَی النَّاسِ بَعْثٌ زَمَنَ الْحَجَّاجِ ، فَخَرَجَ فِیہِ عَبْدُ الرَّحْمَن بْنُ یَزِیدَ۔
(٣٤٠٦٥) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ حجاج کے دور میں لوگ جب جہاد کیلئے نکلے تو حضرت عبدالرحمن بن یزید بھی اس میں نکلے۔

34065

(۳۴۰۶۶) حَدَّثَنَا حُمَیْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ حَسَن ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ طَاوُوسٍ ، قَالَ : کَانَ یُکْرَہُ الْجِہَادُ مَعَ ہَؤُلاَئِ ، یَعْنِی السُّلْطَانَ الْجَائِرَ۔
(٣٤٠٦٦) حضرت طاؤس (رض) ظالم و جابر حکمرانوں کے ساتھ مل کر جہاد کرنے کو ناپسند کرتے تھے۔

34066

(۳۴۰۶۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنِ الشَّیْبَانِیِّ ، قَالَ : خَرَجَ عَلَی النَّاسِ بَعْثٌ زَمَنَ الْحَجَّاجِ ، فَخَرَجَ فِیہِ إِبْرَاہِیمُ التَّیْمِیُّ ، وَإِبْرَاہِیمُ النَّخَعِیُّ ، فَقَالَ إِبْرَاہِیمُ النَّخَعِیُّ : إِلَی مَنْ تَدْعُوہُمْ ؟ إِلَی الْحَجَّاجِ ؟۔
(٣٤٠٦٧) حضرت الشیبانی (رض) سے مروی ہے کہ حجاج بن یوسف کے دور حکومت میں لوگ لڑائی کیلئے نکلے تو اس میں حضرت ابراہیم تیمی اور حضرت ابراہیم نخعی بھی نکلے، حضرت ابراہیم نخعی نے فرمایا : کس کی طرف تم ان کو بلاتے ہو ؟ حجاج کی طرف بلاتے ہو ؟ !

34067

(۳۴۰۶۸) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنِ حَجَّاجٍ ، عَنِ الْوَلِیدِ بْنِ أَبِی مَالِکٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مَسْلَمَۃَ؛ أَنَّ رَجُلاً أَمَّنَ قَوْمًا وَہُوَ مَعَ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ ، وَخَالِدِ بْنِ الْوَلِیدِ ، وَأَبِی عُبَیْدَۃَ بْنِ الْجَرَّاحِ ، فَقَالَ عَمْرٌو ، وَخَالِدٌ : لاَ نُجِیرُ مَنْ أَجَارَ ، فَقَالَ أَبُو عُبَیْدَۃَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : یُجِیرُ عَلَی الْمُسْلِمِینَ بَعْضُہُمْ۔
(٣٤٠٦٨) حضرت عبدالرحمن بن مسلمہ (رض) سے مروی ہے کہ ایک شخص نے کچھ لوگوں کو امن (پناہ) دیا، اور وہ حضرت عمرو بن عاص، حضرت خالد بن ولید اور حضرت ابو عبیدہ بن الجراح (رض) کے ساتھ تھا، حضرت عمرو اور حضرت خالد بن ولید (رض) نے ارشاد فرمایا : ہم تو اس کو پناہ نہیں دیں گے جس کو وہ پنا دے، حضرت ابو عبیدہ بن جراح (رض) نے ارشاد فرمایا : میں نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : مسلمانوں میں سے جو شخص کسی کو پناہ دے دے اس کو پناہ دی جائے گی۔

34068

(۳۴۰۶۹) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنِ الْوَلِیدِ بْنِ أَبِی مَالِکٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مَسْلَمَۃَ ، عَنْ أَبِی عُبَیْدَۃَ، قَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : یُجِیرُ عَلَی النَّاسِ بَعْضُہُمْ۔ (ابویعلی ۸۷۳۔ بزار ۱۲۸۸)
(٣٤٠٦٩) حضرت ابو عبیدہ (رض) ارشاد فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا آپ نے فرمایا : مسلمانوں میں سے جو کسی کو پناہ دے اس کو پناہ حاصل ہوگی۔

34069

(۳۴۰۷۰) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنِ الْوَلِیدِ بْنِ أَبِی مَالِکٍ ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ أَبِی أُمَامَۃَ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : یُجِیرُ عَلَی الْمُسْلِمِینَ الرَّجُلُ مِنْہُمْ۔ (احمد ۱۹۵۔ طبرانی ۷۹۰۸)
(٣٤٠٧٠) حضرت ابو امامہ سے بھی اسی طرح مروی ہے۔

34070

(۳۴۰۷۱) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ أَبِی ہِنْدَ ، عَنْ أَبِی مُرَّۃَ مَوْلَی عَقِیلِ بْنِ أَبِی طَالِبٍ ، عَنْ أُمِّ ہَانِئِ ابْنَۃِ أَبِی طَالِبٍ ، قَالَتْ : لَمَّا فَتَحَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَکَّۃَ ، فَرَّ إِلَیَّ رَجُلاَنِ مِنْ أَحْمَائِی فَأَجَرْتُہُمَا ، أَوْ کَلِمَۃً تُشْبِہُہَا ، فَدَخَلَ عَلَیَّ أَخِی عَلِیُّ بْنُ أَبِی طَالِبٍ ، فَقَالَ : لأَقْتُلَنَّہُمَا ، قَالَتْ : فَأَغْلَقْتُ الْبَابَ عَلَیْہِمَا ، ثُمَّ جِئْتُ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِأَعْلَی مَکَّۃَ ، فَقَالَ : مَرْحَبًا ، وَأَہْلاً بِأُمِّ ہَانِئٍ ، مَا جَائَ بِکِ ؟ قَالَتْ : قُلْتُ : یَا نَبِیَّ اللہِ ، فَرَّ إِلَیَّ رَجُلاَنِ مِنْ أَحْمَائِی ، فَدَخَلَ عَلَیَّ أَخِی عَلِیُّ بْنُ أَبِی طَالِبٍ فَزَعَمَ أَنَّہُ قَاتِلُہُمَا ، فَقَالَ : لاَ ، قَدْ أَجْرَنَا مَنْ أَجَرْتِ ، وَأَمَّنَّا مَنْ أَمَّنْتِ۔
(٣٤٠٧١) حضرت ابو مرہ (رض) سے مروی ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب مکہ فتح فرمایا : تو حضرت ام ہانی (رض) فرماتی ہیں کہ میرے خاوند کے دو رشتہ دار بھاگ کر میرے پاس آئے تو میں نے ان کو پنادہ دے دی، میرے بھائی حضرت علی (رض) میرے پاس آئے اور فرمایا : میں ان کو ضرور قتل کروں گا، حضرت ام ھانی (رض) فرماتی ہیں کہ میں نے ان دونوں کو کمرے میں بند کردیا اور میں رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے دیکھ کر فرمایا : خوش آمدید ام ھانی (رض) ! خیریت سے تشریف لائی ہو ؟ میں نے عرض کیا کہ : اے اللہ کے نبی 5! میرے خاوند کے خاندان کے دو شخص بھاگ کر میرے پاس آئے تو میں نے ان کو پناہ دے دی، میرے بھائی حضرت علی (رض) میرے پاس آئے اور ان کو قتل کرنے کا ارادہ کیا۔ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ارشاد فرمایا : نہیں (ان کو قتل نہیں کیا جائے گا) جس کو تو نے پناہ دی اس کو ہم نے بھی پناہ دی اور جس کو تو نے امن دیا اس کو ہم نے بھی امن دیا۔

34071

(۳۴۰۷۲) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنِ ابن إِسْحَاقَ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ أَبِی ہِنْدَ ، عَنْ أَبِی مُرَّۃَ ، عَنْ أُمِّ ہَانِئٍ ، قَالَ : حَدَّثَتْنِی ، قَالَتْ : فَرَّ إِلَیَّ رَجُلاَنِ مِنْ أَحْمَائِی یَوْمَ الْفَتْحِ ، فَأَجَرْتُہُمَا ، فَدَخَلَ عَلَیَّ أَخِی ، فَقَالَ : لأَقْتُلَنَّہُمَا ، فَأَغْلَقْتُ عَلَیْہِمَا ، ثُمَّ أَتَیْتُ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : مَرْحَبًا ، وَأَہْلاً بِأُمِّ ہَانِئٍ ، مَا جَائَ بِکِ ؟ فَأَخْبَرَتْہُ ، فَقَالَ : قَدْ أَجْرَنَا مَنْ أَجَرْتِ ، وَأَمَّنَّا مَنْ أَمَّنْتِ ، قَالَتْ : فَجِئْتُ فَمَنَعْتُہُمَا۔
(٣٤٠٧٢) حضرت ام ھانی (رض) سے اسی طرح مروی ہے اس کے آخر میں اضافہ ہے کہ پھر میں حضرت علی (رض) کے پاس آئی اور ان کو قتل کرنے سے منع کردیا۔

34072

(۳۴۰۷۳) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، عَنِ الأَسْوَدِ ، عَنْ عَائِشَۃَ ، قَالَتْ : إِنْ کَانَتِ الْمَرْأَۃُ لَتَأْخُذُ عَلَی الْقَوْمِ۔
(٣٤٠٧٣) حضرت عائشہ (رض) ارشاد فرماتی ہیں ، کہ اگر خاتون کسی قوم کو پناہ دے تو ان کو پناہ حاصل ہوگی۔

34073

(۳۴۰۷۴) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، عَنِ الأَسْوَدِ ، عَنْ عَائِشَۃَ ، قَالَتْ : إِنْ کَانَتِ الْمَرْأَۃُ لَتَأْخُذُ عَلَی الْمُسْلِمِینَ۔
(٣٤٠٧٤) حضرت عائشہ (رض) سے اسی طرح مروی ہے۔

34074

(۳۴۰۷۵) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ عَاصِمِ بْنُ سُلَیْمَان ، عَنْ فُضَیْلِ بْنِ زَیْدٍ الرَّقَاشِیِّ ، وَقَدْ کَانَ غَزَا عَلَی عَہْدِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ سَبْعَ غَزَوَاتٍ ، قَالَ : بَعَثَ عُمَرُ جَیْشًا فَکُنْتُ فِی ذَلِکَ الْجَیْشِ ، فَحَاصَرْنَا أَہْلَ سِہْرِیَاجٍ ، فَلَمَّا رَأَیْنَا أَنَّا سَنَفْتَحُہَا مِنْ یَوْمِنَا ذَلِکَ ، قُلْنَا : نَرْجِعُ فَنُقِیلُ ، ثُمَّ نَرُوحُ فَنَفْتَحُہَا ، فَلَمَّا رَجَعْنَا تَخَلَّفَ عَبْدٌ مِنْ عَبِیدِ الْمُسْلِمِینَ ، فَرَاطَنَہُمْ فَرَاطَنُوہُ ، فَکَتَبَ لَہُمْ أَمَانًا فِی صَحِیفَۃٍ ، ثُمَّ شَدَّہُ فِی سَہْمٍ فَرَمَی بِہِ إِلَیْہِمْ فَخَرَجُوا۔ فَلَمَّا رَجَعْنَا مِنَ الْعَشِیِّ وَجَدْنَاہُمْ قَدْ خَرَجُوا ، قُلْنَا لَہُمْ : مَا لَکُمْ ؟ قَالُوا : أَمَّنْتُمُونَا ، قُلْنَا : مَا فَعَلْنَا ، إِنَّمَا الَّذِی أَمَّنَکُمْ عَبْدٌ لاَ یَقْدِرُ عَلَی شَیْئٍ ، فَارْجِعُوا حَتَّی نَکْتُبَ إِلَی عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ ، فَقَالُوا : مَا نَعْرِفُ عَبْدَکُمْ مِنْ حُرِّکُمْ ، مَا نَحْنُ بِرَاجِعِینَ ، إِنْ شِئْتُمْ فَاقْتُلُونَا ، وَإِنْ شِئْتُمْ ففُوا لَنَا ، قَالَ : فَکَتَبْنَا إِلَی عُمَرَ ، فَکَتَبَ عُمَرُ : إِنَّ عَبْدَ الْمُسْلِمِینَ مِنَ الْمُسْلِمِینَ ، ذِمَّتُہُ ذِمَّتُہُمْ ، قَالَ : فَأَجَازَ عُمَرُ أَمَانَہُ۔
(٣٤٠٧٥) حضرت فضیل بن زید الرقاشی (رض) جو حضرت عمر (رض) کے دور خلافت میں سات غزوات میں شریک ہوئے، فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے ایک لشکر بھیجا تو میں بھی اس لشکر میں شریک تھا ہم نے اھل سھر یاج کا محاصرہ کرلیا، جب ہم نے دیکھا کہ آج ان کو فتح کرلیں گے، ہم نے کہا : واپس لوٹتے ہیں اور کچھ آرام کر کے تازہ دم ہو کر آ کر اس کو فتح کرلیں گے، جب ہم لوگ وہاں سے واپس لوٹے تو مسلمانوں میں ایک غلام ان کے پیچھے آیا اور اس نے ان کے ساتھ عجمی میں گفتگو کی، اور ان کو ایک صحیفہ میں امان (پناہ) لکھ کر اس کو تیر کے ساتھ باندھ کر ان کی طرف پھینک دیا۔ ہم لوگ جب واپس آئے تو ہم نے دیکھا کہ وہ لوگ قلعہ سے باہر نکلے ہوئے ہیں، ہم نے ان سے پوچھا آپ لوگوں کو کیا ہوگیا ہے ؟ انھوں نے کہا : آپ لوگوں نے ہمیں امن دے دیا ہے، ہم نے کہا کہ ہم نے تو ہرگز ایسا نہیں کیا ہے، بیشک تم لوگوں کو ایک غلام نے امن دیا ہے جو خود کسی چیز پر قادر نہیں ہے، تم لوگ واپس ہوجاؤ یہاں تک کہ ہم حضرت عمر (رض) کو لکھ کر ان کی رائے دریافت کرلیں، انھوں نے کیا کہ ہم تمہارے آزاد میں تمہارے غلاموں کو نہیں جانتے ہم واپس جانے والے نہیں ہیں، اب اگر تم چاہو تو ہمیں قتل کرو اور اگر چاہو تو در گزر کردو، فرماتے ہیں کہ ہم نے حضرت عمر (رض) کو صورت حال لکھی، حضرت عمر (رض) نے تحریر فرمایا : مسلمانوں کا غلام بھی مسلمانوں ہی میں سے ہے، اس کا ذمہ ان کا ذمہ ہے، فرماتے ہیں حضرت عمر (رض) نے اس کے امان کو نافذ فرما دیا۔

34075

(۳۴۰۷۶) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : أَمَانُ الْمَرْأَۃِ وَالْمَمْلُوکِ جَائِزٌ۔
(٣٤٠٧٦) حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ عورت اور غلام کا امان دینا ٹھیک اور جائز ہے۔

34076

(۳۴۰۷۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ أَبِی النَّجُودِ ، عَنْ زِرِّ بْنِ حُبَیْشٍ ، عَنْ عُمَرَ ، قَالَ : إِنْ کَانَتِ الْمَرْأَۃُ لَتَأْخُذُ عَلَی الْمُسْلِمِینَ ، فَیَجُوزُ أَمَانُہَا۔
(٣٤٠٧٧) حضرت عمر (رض) فرماتے ہیں : اگر مسلمانوں میں سے کوئی خاتون امان دے دے تو اس کا امان دینا درست ہے۔

34077

(۳۴۰۷۸) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ التَّیْمِیِّ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ عَلِیٍّ ، قَالَ : ذِمَّۃُ الْمُسْلِمِینَ وَاحِدَۃٌ ، یَسْعَی بِہَا أَدْنَاہُمْ۔ (بخاری ۳۱۷۲۔ ۹۹۹)
(٣٤٠٧٨) حضرت علی (رض) ارشاد فرماتے ہیں مسلمانوں کا ذمہ ایک ہی ہے، ان کا ادنیٰ شخص بھی پناہ دے سکتا ہے۔

34078

(۳۴۰۷۹) حَدَّثَنَا شَبَابَۃُ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِینَارٍ ، عَنْ رَجُلٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : یُجِیرُ عَلَی الْمُسْلِمِینَ بَعْضُہُمْ ، أَوَ قَالَ : رَجُلٌ مِنْہُمْ۔ (طیالسی ۱۰۶۳۔ احمد ۱۹۷)
(٣٤٠٧٩) حضرت عمرو بن عاص (رض) سے مروی ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : مسلمانوں سے جو کسی کو پناہ دے اس کو پناہ دی جائے گی۔

34079

(۳۴۰۸۰) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَنْ زَائِدَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِی صَالِحٍ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : ذِمَّۃُ الْمُسْلِمِینَ وَاحِدَۃٌ ، یَسْعَی بِہَا أَدْنَاہُمْ۔ (ابوداؤد ۵۰۷۳۔ احمد ۳۹۸)
(٣٤٠٨٠) حضرت ابوہریرہ (رض) سے مروی ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : مسلمانوں کا ذمہ ایک ہی ہے، ان کا ادنیٰ شخص بھی پناہ دے سکتا ہے۔

34080

(۳۴۰۸۱) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ جَدِّہِ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : یُجِیرُ عَلَی الْمُسْلِمِینَ أَدْنَاہُمْ۔ (ابوداؤد ۲۷۴۵۔ احمد ۲۱۶)
(٣٤٠٨١) حضرت عمرو بن شعیب (رض) سے مروی ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : مسلمانوں میں سے ادنیٰ بھی پناہ دے تو پناہ اس کو حاصل ہوگی۔

34081

(۳۴۰۸۲) حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ ، عَنْ حصین ، عن أَبِی عَطِیَّۃَ ، قَالَ : کَتَبَ عُمَرُ إِلَی أَہْلِ الْکُوفَۃِ : إِنَّہُ ذُکِرَ لِی أَنَّ (مطرس) بِلِسَانِ الْفَارِسِیَّۃِ : الأَمَنَۃُ ، فَإِنْ قُلْتُمُوہَا لِمَنْ لاَ یَفْقَہُ لِسَانَکُمْ فَہُوَ آمِنٌ۔
(٣٤٠٨٢) حضرت ابو عطیہ (رض) سے مروی ہے کہ حضرت عمر (رض) نے کوفہ والوں کو لکھا : بیشک مجھے بتایا گیا ہے کہ لفظ مطرس فارسی میں امان کو کہتے ہیں، اگر تم ایسے شخص کو جو تمہاری زبان نہیں سمجھتا مطرس کہہ دو تو امن شمار ہوگا۔

34082

(۳۴۰۸۳) حَدَّثَنَا رَیْحَانُ بْنُ سَعِیدٍ ، قَالَ : حدَّثَنِی مَرْزُوقُ بْنُ عَمْرٍو ، قَالَ : حَدَّثَنِی أَبُو فَرْقَدٍ ، قَالَ : کُنَّا مَعَ أَبِی مُوسَی الأَشْعَرِیِّ یَوْمَ فَتَحْنَا سُوقَ الأَہْوَازِ ، فَسَعَی رَجُلٌ مِنَ الْمُشْرِکِینَ ، وَسَعَی رَجُلاَنِ مِنَ الْمُسْلِمِینَ خَلْفَہُ ، فَبَیْنَمَا ہُوَ یَسْعَی وَیَسْعَیَانِ إِذْ قَالَ لَہُ أَحَدُہُمَا : مَتَّرَس ، فَقَامَ الرَّجُل : فَأَخَذَاہُ فَجَائَا بِہِ ، وَأَبُو مُوسَی یَضْرِبُ أَعْنَاقَ الأُسَارَی ، حَتَّی انْتَہَی الأَمْرُ إِلَی الرَّجُلِ ، فَقَالَ أَحَدُہُمَا : إِنَّ ہَذَا قَدْ جُعِلَ لَہُ الأَمَانُ ، فَقَالَ أَبُو مُوسَی : وَکَیْفَ جُعِلَ لَہُ الأَمَانُ ؟ قَالَ : إِنَّہُ کَانَ یَسْعَی ذَاہِبًا فِی الأَرْضِ ، فَقُلْتُ لَہُ : مَتَّرَس ، فَقَامَ ، فَقَالَ أَبُو مُوسَی : وَمَا مَتَّرَس ؟ قَالَ : لاَ تَخَفْ ، قَالَ : ہَذَا أَمَانٌ ، خَلَّیَا سَبِیلَہُ ، فَخَلَّینَا سَبِیلَ الرَّجُلِ۔
(٣٤٠٨٣) حضرت ابو فرقد (رض) فرماتے ہیں کہ جب ہم نے سوق الاھواز کو فتح کیا تو میں حضرت ابو موسیٰ اشعری (رض) کے ساتھ تھا، مشرکین میں سے ایک شخص بھاگا، مسلمانوں میں سے بھی دو اس کے پیچھے بھاگے، اس دوران کہ جب وہ بھاگ رہے تھے، ان میں سے ایک نے اس مشرک کو کہہ دیا، مترس (امان) وہ شخص یہ سن کر کھڑا ہوگیا، انھوں نے اس کو پکڑا حضرت ابو موسیٰ اشعری (رض) کے پاس اس حالت میں لے کر حاضر ہوئے کہ آپ قیدیوں کو قتل فرما رہے تھے، جب اس شخص کی باری آئی ان دو میں سے ایک نے کہا اس کیلئے امان ہے حضرت ابو موسیٰ اشعری (رض) نے دریافت فرمایا : اس کو امان کیسے ملی ؟ اس نے کہا کہ یہ بھاگ رہا تھا میں نے اس کو مترس کہا تو یہ کھڑا ہوگیا، حضرت ابو موسیٰ (رض) نے دریافت کیا کہ مترس کا کیا مطلب ہے ؟ اس نے کہا : اس کا مطلب ہے مت ڈرو آپ نے فرمایا یہ امان ہے، اس کا راستہ چھوڑ دو ، پھر ہم نے اس کو چھوڑ دیا۔

34083

(۳۴۰۸۴) حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ حُمَیْدٍ ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ : حاصَرْنَا تُسْتَرَ ، فَنَزَلَ الْہُرْمُزَانُ عَلَی حُکْمِ عُمَرَ ، فَبَعَثَ بِہِ أَبُو مُوسَی مَعِیَ ، فَلَمَّا قَدِمْنَا عَلَی عُمَرَ سَکَتَ الْہُرْمُزَانُ فَلَمْ یَتَکَلَّمْ ، فَقَالَ عُمَرُ : تَکَلَّمْ ، فَقَالَ : کَلاَمُ حَیٍّ ، أَوْ کَلاَمُ مَیِّتٍ ؟ قَالَ : فَتَکَلَّمْ فَلاَ بَأْسَ ، فَقَالَ : إِنَّا وَإِیَّاکُمْ مَعْشَرَ الْعَرَبِ مَا خَلَّی اللَّہُ بَیْنَنَا وَبَیْنَکُمْ ، کُنَّا نَقْتُلُکُمْ وَنُقْصِیکُمْ ، فَأَمَا إِذْ کَانَ اللَّہُ مَعَکُمْ لَمْ یَکُنْ لَنَا بِکُمْ یَدَانِ۔ قَالَ : فَقَالَ عُمَرُ : مَا تَقُولُ یَا أَنَسُ ؟ قَالَ : قُلْتُ : یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ ، تَرَکْتُ خَلْفِی شَوْکَۃً شَدِیدَۃً ، وَعَدَدًا کَثِیرًا ، إِنْ قَتَلْتُہُ أَیِسَ الْقَوْمُ مِنَ الْحَیَاۃِ ، وَکَانَ أَشَدَّ لِشَوْکَتِہِمْ ، وَإِنِ اسْتَحْیَیْتہ طَمِعَ الْقَوْمُ۔ فَقَالَ : یَا أَنَسُ ، أَسْتَحْیِی قَاتِلَ الْبَرَائِ بْنِ مَالِکٍ ، وَمَجْزَأَۃ بْنِ ثَوْرٍ ؟ فَلَمَّا خَشِیتُ أَنْ یَبْسُطَ عَلَیْہِ ،قُلْتُ لَہُ : لَیْسَ لَکَ إِلَی قَتْلِہِ سَبِیلٌ ، فَقَالَ عُمَرُ : لِمَ ؟ أَعْطَاک ؟ أَصَبْتَ مِنْہُ ؟ قُلْتُ : مَا فَعَلْتُ، وَلَکِنَّک قُلْتَ لَہُ : تَکَلَّمْ فَلاَ بَأْسَ ، فَقَالَ : لَتَجِیئَنَّ بِمَنْ یَشْہَدُ مَعَکَ ، أَوْ لأَبْدَأَن بِعُقُوبَتِکَ ، قَالَ : فَخَرَجْتُ مِنْ عِنْدِہِ ، فَإِذَا بِالزُّبَیْرِ بْنِ الْعَوَّامِ قَدْ حَفِظَ مَا حَفِظْتُ ، فَشَہِدَ عِنْدَہُ فَتَرَکَہُ ، وَأَسْلَمَ الْہُرْمُزَانُ ، وَفُرِضَ لَہُ۔
(٣٤٠٨٤) حضرت انس (رض) سے مروی ہے کہ جب ہم نے تستر کا محاصرہ کیا تو حضرت عمر (رض) کے حکم پر ہرمزان اتر کر آیا اور گرفتاری دے دی حضرت ابو موسیٰ اشعری (رض) نے اس کو میرے ساتھ بھیجا، جب ہم حضرت عمر (رض) کے پاس آئے تو ہرمزان خاموش ہوگیا اور کچھ نہ بولا حضرت عمر (رض) نے فرمایا بولو، اس نے کہا زندوں والا یا مردوں والا کلام ؟ حضرت عمر (رض) نے فرمایا بولو کوئی حرج نہیں ہے ھرمزان نے کہا : اے قوم عرب ، ہمارے اور تمہارے درمیان اللہ نے کچھ نہیں چھوڑا جیسا کہ ہم تم سے لڑتے ہیں اور تم کو قتل کرتے ہیں، بہرحال اگر اللہ پاک تمہارے ساتھ ہوتے تو ہمیں تم سے لڑنے پر قدرت نہ ہوتی۔
حضرت عمر (رض) نے فرمایا اے انس (رض) آپ کی کیا رائے ہے ؟ حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : اے امیرالمومنین (رض) میں نے اپنے پیچھے بہت شوکت اور کثیر تعداد چھوڑی ہے، اگر آپ نے اس کو قتل کردیا تو قوم زندگی سے مایوس ہوجائے گی اور وہ ان کی شوکت کیلئے زیادہ سخت تھا، اور اگر اس کو زندہ رکھا تو قوم کو لالچ ہوگی۔
حضرت عمر (رض) نے فرمایا اے انس (رض) ! تجھے حضرت براء بن مالک (رض) اور حضرت مجزاۃ بن ثور کے قاتل کو مارنے سے حیاء آرہی ہے ؟ حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ جب مجھے اندیشہ ہوا کہ حضرت عمر (رض) اس کو قتل کردیں گے، میں نے ان سے عرض کیا : آپ کیلئے اس کے قتل پر شرعی راستہ نہیں ہے، حضرت عمر (رض) نے فرمایا کیوں ؟ کیا آپ نے اس کو امان دی ہے ؟ کیا آپ نے اس سے کچھ لیا ہے ؟ میں نے عرض کیا کہ میں نے کچھ نہیں لیا، لیکن آپ نے خود اس سے فرمایا تھا بول تجھ پر کوئی حرج نہیں ہے، حضرت عمر (رض) نے ارشاد فرمایا، تم ضرور کسی شخص کو لے کر آؤ جو تمہارے ساتھ گواہی دے، وگرنہ تمہیں سزا ملے گی، حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ جب میں ان کے پاس سے نکلا تو اچانک حضرت زبیر (رض) بن العوام ملے انھوں نے بھی وہی یاد کرلیا تھا جو میں نے یاد کیا تھا انھوں نے حضرت عمر (رض) کے سامنے گواہی دی، تو آپ (رض) نے اس کو چھوڑ دیا، ہرمزان مسلمان ہوگیا، اور اس کیلئے حصہ مقرر کردیا گیا۔

34084

(۳۴۰۸۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، حدَّثَنَا الأَعْمَشُ ، عَنْ أَبِی وَائِلٍ ، قَالَ : أَتَانَا کِتَابُ عُمَرَ وَنَحْنُ بِخَانَقِینَ : إِذَا قَالَ الرَّجُلُ لِلرَّجُلِ : لاَ تَدْہل ، فَقَدْ أَمَّنَہُ ، وَإِذَا قَالَ : لاَ تَخَفْ فَقَدْ أَمَّنَہُ ، وَإِذَا قَالَ : مَطَّرَس فَقَدْ أَمَّنَہُ ، فَإِنَّ اللَّہُ یَعْلَمُ الأَلْسِنَۃَ۔
(٣٤٠٨٥) حضرت ابو وائل فرماتے ہیں جب ہم خانقین میں تھے، حضرت عمر (رض) کا خط ہمارے پاس آیا، اس میں تھا جب کوئی شخص کسی سے کہے لا تدھل (مت ڈر) تو اس نے اس کو امان دے دی، اور اگر کہا لا تخف تو بھی اس کو امان دے دی، اور اگر کہا مطرس تو اس کو امان دے دی، بیشک اللہ تعالیٰ سب زبانوں کو جانتا ہے۔

34085

(۳۴۰۸۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ: حدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ زَیْدٍ ، عَنْ أَبَانَ بْنِ صَالِحٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ: أَیُّمَا رَجُلٍ مِنَ الْمُسْلِمِینَ أَشَارَ إِلَی رَجُلٍ مِنَ الْعَدُوِّ ، لَئِنْ نَزَلْتَ لأَقْتُلَنَّکَ ، فَنَزَلَ وَہُوَ یَرَی أَنَّہُ أَمَانٌ فَقَدْ أَمَّنَہُ۔
(٣٤٠٨٦) حضرت عمر (رض) نے ارشاد فرمایا : مسلمانوں میں سے جو شخص دشمن کی طرف اشارہ کرے، اگر تو نے گرفتاری دی تو میں تجھے قتل کر دوں گا، اس نے اتر کر گرفتاری دے دی یہ سمجھتے ہوئے کہ یہ امان ہے تو اس کو امان حاصل ہوگی۔

34086

(۳۴۰۸۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا مُوسَی بْنُ عُبَیْدَۃَ ، عَنْ طَلْحَۃَ بْنِ عُبَیْدِ اللہِ بْنِ کَریْزٍ ، قَالَ : کَتَبَ عُمَرُ إِلَی أُمَرَائِ الأَجْنَادِ : أَیُّمَا رَجُلٍ مِنَ الْمُسْلِمِینَ أَشَارَ إِلَی رَجُلٍ مِنَ الْعَدُوِّ : لَئِنْ نَزَلْتَ لأَقْتُلَنَّکَ ، فَنَزَلَ وَہُوَ یَرَی أَنَّہُ أَمَانٌ ، فَقَدْ أَمَّنَّہُ۔ حَدَّثَنَا بَقِیُّ بْنُ مَخْلَدٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنِ أَبِی شَیْبَۃَ ، قَالَ :
(٣٤٠٨٧) حضرت عمر (رض) نے اجناد کے امراء کی طرف لکھا : مسلمانوں میں سے جو شخص دشمن کے کسی آدمی کی طرف اشارہ کرے، کہ اگر تو نے گرفتاری دی تو میں تجھے قتل کر دوں گا، اس نے اتر کر گرفتاری دے دی یہ سمجھتے ہوئے کہ یہ امان ہے تو اس کو امان حاصل ہوگی۔

34087

(۳۴۰۸۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ عَلْقَمَۃَ بْنِ مَرْثَدٍ ، عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ بُرَیْدَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ؛ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ إِذَا بَعَثَ أَمِیرًا عَلَی جَیْشٍ ، أَوْ سَرِیَّۃٍ أَوْصَاہُ ، فَقَالَ : إِذَا حَاصَرْتُمْ أَہْلَ حِصْنٍ ، فَأَرَادُوکُمْ عَلَی أَنْ تَجْعَلُوا لَہُمْ ذِمَّۃَ اللہِ وَذِمَّۃَ رَسُولِہِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَلاَ تَجْعَلُوا لَہُمْ ذِمَّۃَ اللہِ، وَلاَ ذِمَّۃَ رَسُولِہِ ، وَلَکِنِ اجْعَلُوا لَہُمْ ذِمَّتَکُمْ وَذِمَّۃَ آبَائِکُمْ ، فَإِنَّکُمْ أَنْ تُخْفِرُوا ذِمَمَکُمْ وَذِمَمَ آبَائِکُمْ ، أَہْوَنُ مِنْ أَنْ تُخْفِرُوا ذِمَّۃَ اللہِ وَذِمَّۃَ رَسُولِہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔ قَالَ سُفْیَانُ : قَالَ عَلْقَمَۃُ : فَحَدَّثْتُ بِحَدِیثِ سُلَیْمَانَ بْنِ بُرَیْدَۃَ مُقَاتِلَ بْنَ حَیَّانٍ ، فَقَالَ مُقَاتِلُ بْنُ حَیَّانٍ : حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ ہَیصَم الْعَبْدِیُّ ، عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ مُقَرِّنِ الْمُزَنِیِّ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، بِمِثْلِہِ۔ (مسلم ۴)
(٣٤٠٨٨) حضرت سلیمان بن بریدہ (رض) سے مروی ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب کوئی لشکر روانہ فرماتے تو اس کے امیر کو یہ وصیت فرماتے کہ : جب تم کسی قلعہ کا محاصرہ کرو، پھر تم ان کو اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذمہ دینے کا ارادہ کرو تو ان کے لیے اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ذمہ مت بناؤ، بلکہ اس لیے کہ تم اپنے اور اپنے آباؤ اجداد کے ذمہ توڑ دو یہ زیادہ آسان ہے اس بات سے کہ تم اللہ اور اس کے رسول کے ذمہ کو توڑو۔
حضرت سفیان (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت نعمان بن مقرن المزنی بھی حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت کرتے ہیں۔

34088

(۳۴۰۸۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا الأَعْمَشُ ، عَنْ أَبِی وَائِلٍ ، قَالَ : أَتَانَا کِتَابُ عُمَرَ وَنَحْنُ بِخَانِقِینَ : إِذَا حَاصَرْتُمْ قَصْرًا ، فَأَرَادُوکُمْ عَلَی أَنْ یَنْزِلُوا عَلَی حُکْمِ اللہِ ، فَلاَ تُنْزِلُوہُمْ ، فَإِنَّکُمْ لاَ تَدْرُونَ تُصِیبُونَ فِیہِمْ حُکْمِ اللہِ ، أَمْ لاَ ، وَلَکِنْ أَنْزَلُوہُمْ عَلَی حُکْمِکُمْ ، ثُمَّ اقْضُوا فِیہِمْ بَعْدُ مَا شِئْتُمْ۔
(٣٤٠٨٩) حضرت ابو وائل (رض) فرماتے ہیں کہ ہم لوگ خانقین میں تھے ہمارے پاس حضرت عمر (رض) کا مکتوب گرامی آیا، جس میں تحریر تھا کہ : جب تم لوگ کسی قلعہ کا محاصرہ کرو اور پھر ان کو اللہ کے حکم پر (امان دے کر) اتارنا چاہو تو ایسا مت کرو، کیونکہ تم لوگ نہیں جانتے کہ تم اس میں اللہ کا حکم پاتے بھی ہو کہ نہیں، بلکہ ان کو اپنے حکم اور امان میں اتا رو، پھر اس کے بعد جو چاہو ان کے ساتھ معاملہ کرو۔

34089

(۳۴۰۹۰) حَدَّثَنَا وَکِیعُ بْنُ الْجَرَّاحِ ، قَالَ : حدَّثَنَا شُعْبَۃُ ، عَنْ أَبِی الْفَیْضِ ، عَنْ سُلَیْمِ بْنِ عَامِرٍ ، قَالَ : کَانَ بَیْنَ مُعَاوِیَۃَ وَبَیْنَ قَوْمٍ مِنَ الرُّومِ عَہْدٌ ، فَخَرَجَ مُعَاوِیَۃُ یَسِیرُ فِی أَرْضِہِمْ کَیْ یَنْقَضُّوا فَیُغِیرَ عَلَیْہِمْ ، فَإِذَا رَجُلٌ یُنَادِی فِی نَاحِیَۃِ الْعَسْکَرِ : وَفَائٌ لاَ غَدْرٌ ، وَفَائٌ لاَ غَدْرٌ ، فَإِذَا ہُوَ عَمْرُو بْنُ عَبسَۃَ ، قَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، یَقُولُ : مَنْ کَانَ بَیْنَہُ وَبَیْنَ قَوْمٍ عَہْدٌ فَلاَ یَشدَّ عَقْدَۃ وَلاَ یَحُلَّہَا ، حَتَّی یَمْضِیَ أَمَدُہَا ، أَوْ یَنْبِذَ إِلَیْہِمْ عَلَی سَوَائٍ۔ (ابوداؤد ۲۷۵۳۔ ترمذی ۱۵۸۰)
(٣٤٠٩٠) حضرت سلیم سے مروی ہے کہ حضرت معاویہ اور رومیوں کے درمیان جنگ بندی کا معاہدہ تھا، حضرت معاویہ (رض) نے ان کے علاقہ کی طرف پیش قدمی کی تاکہ جب معاہدہ کی مدت ختم ہو تو ان پر اچانک حملہ کردیں، اچانک لشکر کے ایک طرف سے ایک شخص یہ کہتا ہوا آیا کہ وفاء لا غدر، عہد کو پورا کرو دھوکا مت دو ، وہ حضرت عمرو بن عبسہ تھے، انھوں نے فرمایا میں نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے ہوئے سنا کہ : جس کا کسی قوم کے ساتھ معاہدہ ہو تو وہ اس کی گرہ کو نہ باندھے اور نہ ہی کھولے، یہاں تک کہ مدت مقررہ پوری ہو کر گزر جائے یا ان کا عہد برابری کے طور پر ان کی طرف پھینک کر ختم کردو۔

34090

(۳۴۰۹۱) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، وَأَبُو أُسَامَۃَ ، قَالاَ : حدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ بْنُ عُمَرَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إِذَا جَمَعَ اللَّہُ الأَوَّلِینَ وَالآخِرِینَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ، رُفِعَ لِکُلِّ غَادِرٍ لِوَائٌ ، فَقِیلَ : ہَذِہِ غَدْرَۃُ فُلاَنِ بْنِ فُلاَنٍ۔ (بخاری ۶۱۷۷۔ مسلم ۱۳۵۹)
(٣٤٠٩١) حضرت ابن عمر (رض) سے مروی ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اللہ تعالیٰ جب قیامت کے دن اولین وآخرین کو جمع فرمائے گا، تو ہر دھوکا دینے والے کیلئے ایک جھنڈا بلند کیا جائے گا، اور کہا جائے گا یہ فلاں بن فلاں کا دھوکا ہے۔

34091

(۳۴۰۹۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ دِینَارٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لِکُلِّ غَادِرٍ لِوَائٌ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ یُعْرَفُ بِہِ۔ (بخاری ۶۱۷۸۔ مسلم ۱۳۶۰)
(٣٤٠٩٢) حضرت ابن عمر (رض) سے مروی ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ہر دھوکا دینے والے کیلئے قیامت کے دن ایک جھنڈا ہوگا جس کے ذریعہ پہچانا جائے گا۔

34092

(۳۴۰۹۳) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ آدَمَ ، قَالَ : حدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیزِ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ شَقِیقٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لِکُلِّ غَادِرٍ لِوَائٌ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ یُعْرَفُ بِہِ ، یُقَالَ : ہَذِہِ غَدْرَۃُ فُلاَنِ۔ (مسلم ۱۳۶۱)
(٣٤٠٩٣) حضرت عبداللہ سے مروی ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ہر دھوکا دینے والے کیلئے قیامت کے دن ایک جھنڈا ہوگا جس سے وہ پہچانا جائے گا، اور کہا جائے گا یہ فلاں بن فلاں کا دھوکا ہے۔

34093

(۳۴۰۹۴) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا شُعْبَۃُ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ شَقِیقٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ؛ بِمِثْلِہِ۔ (بخاری ۳۱۸۶۔ مسلم ۱۳۶۰)
(٣٤٠٩٤) حضرت عبداللہ (رض) سے اسی طرح مروی ہے۔

34094

(۳۴۰۹۵) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَنْ زَائِدَۃَ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ زَیْدٍ ، عَنْ أَبِی نَضْرَۃَ ، عَنْ أَبِی سَعِیدٍ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ؛ أَنَّہُ قَالَ : لِکُلِّ غَادِرٍ لِوَائٌ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ، وَغَدْرَتُہُ عِنْدَ اسْتِہِ۔ (ابن ماجہ ۲۸۷۳)
(٣٤٠٩٥) حضرت ابو سعید (رض) سے مروی ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ہر دھوکے باز (معاہدہ توڑنے والے) کے لیے قیامت کے دن ایک جھنڈا ہوگا، اور اس کا دھوکا اس کی سرین کے تحت ہوگا۔

34095

(۳۴۰۹۶) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا شُعْبَۃُ ، عَنْ خُلَیْدِ بْنِ جَعْفَرَ ، عَنْ أَبِی نَضْرَۃَ ، عَنْ أَبِی سَعِیدٍ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : لِکُلِّ غَادِرٍ لِوَائٌ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ۔ (مسلم ۱۳۶۱۔ احمد ۳۵)
(٣٤٠٩٦) حضرت ابو سعید (رض) سے مروی ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ہر دھوکا دینے والے کیلئے قیامت کے دن ایک جھنڈا ہوگا۔

34096

(۳۴۰۹۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانَ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ ہُبَیْرَۃَ ، عَنْ عَلِیٍّ ، قَالَ : لِکُلِّ غَادِرٍ لِوَائٌ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ۔
(٣٤٠٩٧) حضرت علی (رض) سے بھی اسی طرح مروی ہے۔

34097

(۳۴۰۹۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، حَدَّثَنَا مِسْعَرٌ ، قَالَ : سَمِعْتُ قَتَادَۃَ یَقُولُ فِی قَوْلِہِ : {إِلاَّ کُلَّ خَتَّارٍ کَفُورٍ} ، قَالَ : الَّذِی یَغْدِرُ بِعَہْدِہِ۔
(٣٤٠٩٨) حضرت قتادہ (رض) قرآن کریم کی آیت {إِلاَّ کُلَّ خَتَّارٍ کَفُورٍ } کے متعلق فرماتے ہیں کہ اس سے مراد وہ ہے جو عہد کو توڑے۔

34098

(۳۴۰۹۹) حَدَّثَنَا عَفَان ، قَالَ : حَدَّثَنَا شُعْبَۃُ ، عَنْ ثَابِتٍ ، عَنْ أَنَسٍ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : لِکُلِّ غَادِرٍ لِوَائٌ یُعْرَفُ بِہِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ۔ (احمد ۲۵۰۔ ابویعلی ۳۳۶۹)
(٣٤٠٩٩) حضرت انس (رض) سے مروی ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ہر دھوکا دینے والے کیلئے قیامت کے دن ایک جھنڈا ہوگا جس سے وہ پہچانا جائے گا۔

34099

(۳۴۱۰۰) حَدَّثَنَا ابْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ بْنِ الْمُہَاجِرِ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ؛ أنَّ أَبَا سُفْیَانَ رَاوَدَ الْحَسَنَ وَالْحُسَیْنَ عَلَی الأَمَانِ وَہُمَا صَغِیرَانِ۔ قَالَ : وَقَالَ سُفْیَانُ : وَأَمَانُ الصَّغِیرِ لاَ یَجُوزُ۔ (دارمی ۲۴۴۰)
(٣٤١٠٠) حضرت مجاہد (رض) سے مروی ہے کہ حضرت ابو سفیان (رض) نے امان پر حضرات حسنین (رض) کو دھوکا دیا وہ دونوں چھوٹے تھے، حضرت سفیان نے فرمایا : بچوں کا امان دینا جائز نہیں۔

34100

(۳۴۱۰۱) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنِ الإِفْرِیقِیِّ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ یَزِیدَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لاَ تَمَنَّوْا لِقَائَ الْعَدُوِّ ، وَسَلُوا اللَّہَ الْعَافِیَۃَ ، فَإِنْ لَقِیتُمُوہُمْ فَاثْبُتُوا وَاذْکُرُوا اللَّہَ ، فَإِنْ أَجَلَبُوا ، أَوْ صَیَّحُوا فَعَلَیْکُمْ بِالصَّمْتِ۔
(٣٤١٠١) حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) سے مروی ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : دشمن سے ملاقات کی تمنا مت کرو، اللہ سے عافیت مانگو، اور اگر دشمن سے مقابلہ ہوجائے تو ثابت قدم رہو اور اللہ کو یاد کرو، اور اگر بھیڑ ہوجائے یا وہ چیخیں تو تم پر خاموشی لازم ہے۔

34101

(۳۴۱۰۲) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ الْمُبَارَکِ ، عَنْ ہَمَّامٍ، عَنْ قَتَادَۃَ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ قَیْسِ بْنِ عُبَادٍ، قَالَ: کَانَ أَصْحَابُ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَسْتَحِبُّونَ خَفْضُ الصَّوْتِ عِنْدَ ثَلاَثٍ ؛ عِنْدَ الْقِتَالِ ، وَعِنْدَ الْقُرْآنِ، وَعِنْدَ الْجَنَائِزِ۔
(٣٤١٠٢) حضرت قیس بن عباد (رض) سے مروی ہے کہ اصحاب محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تین مقامات میں آواز کے پست کرنے کو پسند کرتے تھے، جنگ کے وقت، قرآن کی تلاوت کے وقت اور جنازے کے وقت۔

34102

(۳۴۱۰۳) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ مُبَارَکٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَطَائٍ ، قَالَ : وَجَبَ الإِنْصَاتُ وَالذِّکْرُ عِنْدَ الزَّحْفِ ، قَالَ : ثُمَّ تَلاَ : {فَاثْبُتُوا وَاذْکُرُوا اللَّہَ کَثِیرًا} ، قَالَ : قُلْتُ : وَیُجْہَرُ بِالذِّکْرِ ؟ قَالَ : نَعَمْ۔
(٣٤١٠٣) حضرت عطاء فرماتے ہیں جنگ کے وقت خاموشی لازم ہے اور اللہ کا ذکر لازم ہے، پھر قرآن کریم کی آیت { فَاثْبُتُوا وَاذْکُرُوا اللَّہَ کَثِیرًا } تلاوت فرمائی، حضرت ابن جریج فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا ذکر بلند آواز سے کرے ؟ فرمایا ہاں۔

34103

(۳۴۱۰۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا ہِشَامٌ الدَّسْتَوَائِیُّ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، عَنْ قَیْسِ بْنِ عُبَادٍ ، قَالَ : کَانَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَکْرَہُونَ رَفْعَ الصَّوْتِ عِنْدَ ثَلاَثٍ: عِنْدَ الْقِتَالِ، وَعِنْدَ الْجَنَائِزِ، وَعِنْدَ الذِّکْرِ۔
(٣٤١٠٤) حضرت قیس (رض) فرماتے ہیں کہ اصحاب محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تین اوقات میں آواز کے پست کرنے کو پسند کرتے تھے، جنگ کے وقت، جنازے کے وقت اور ذکر کے وقت۔

34104

(۳۴۱۰۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا شُعْبَۃُ ، عَنْ أَبِی الْمعَلَّی ،َعَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ؛ أَنَّہُ کَرِہَ رَفْعَ الصَّوْتِ عِنْدَ الْقِتَالِ ، وَعِنْدَ قِرَائَۃِ الْقُرْآنِ ، وَعِنْدَ الْجَنَائِزِ۔
(٣٤١٠٥) حضرت سعید بن جبیر (رض) فرماتے ہیں جنگ کے وقت، قرآن کریم کی تلاوت کے وقت اور جنازے کے وقت آواز بلند کرنے کو ناپسند کیا گیا ہے۔

34105

(۳۴۱۰۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ أَبِی حَیَّانَ ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَہْلِ الْمَدِینَۃِ ، عَنْ کَاتِبِ عُبَیْدِ اللہِ ، قَالَ : کَتَبَ عَبْدُ اللہِ بْنُ أَبِی أَوْفَی ، أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : لاَ تَمَنَّوْا لِقَائَ الْعَدُوِّ ، وَسَلُوا اللَّہَ الْعَافِیَۃَ ، وَإِذَا لَقِیتُمُوہُمْ ، فَإِنْ أَجْلَبُوا وَصَیَّحُوا فَعَلَیْکُمْ بِالصَّمْتِ۔ (احمد ۳۵۳۔ عبدالرزاق ۹۵۱۵)
(٣٤١٠٦) حضرت عبداللہ بن ابی اوفیٰ (رض) نے تحریر فرمایا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : دشمن سے ملاقات کی تمنا مت کرو، اللہ سے عافیت مانگو، اور اگر دشمن سے مقابلہ ہوجائے تو ثابت قدم رہو اور اللہ کو یاد کرو، اور اگر بھیڑ ہوجائے یا وہ چیخیں تو تم پر خاموشی لازم ہے۔

34106

(۳۴۱۰۷) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَۃَ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ زَیْدٍ ، عَنْ أَنَسٍ ؛ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : لَصَوْتُ أَبِی طَلْحَۃَ فِی الْجَیْشِ خَیْرٌ مِنْ فِئَۃٍ۔ (احمد ۲۴۹۔ حاکم ۳۵۲)
(٣٤١٠٧) حضرت انس (رض) سے مروی ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرمایا : لشکر میں ابو طلحہ کی آواز ایک جماعت سے بہتر ہے۔

34107

(۳۴۱۰۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا عِمْرَانُ بْنُ حُدَیْرٍ ، عَنْ أَبِی مِجْلَزٍ ؛ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ إِذَا لَقِیَ الْعَدُوَّ ، قَالَ : اللَّہُمَّ أَنْتَ عَضُدِی وَنَصِیرِی ، بِکَ أَحُولُ ، وَبِکَ أُصُولُ ، وَبِکَ أُقَاتِلُ۔
(٣٤١٠٨) حضرت ابومجلز (رض) سے مروی ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب دشمن سے مقابلہ کیلئے آمنے سامنے ہوتے تو یہ دعا پر ھتے : اللَّہُمَّ أَنْتَ عَضُدِی وَنَصِیرِی، بِکَ أَحُولُ ، وَبِکَ أُصُولُ ، وَبِکَ أُقَاتِلُ ۔ اے اللہ ! تو ہی میری قوت اور تو ہی میرا مددگار ہے۔ میں تیری قوت سے حملہ کرتا ہوں اور جھپٹتا ہوں اور تیری قوت سے ہی قتال کرتا ہوں۔

34108

(۳۴۱۰۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا إِسْمَاعِیلُ بْنُ أَبِی خَالِدٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ ابْنَ أَبِی أَوْفَی ، یَقُولُ : دَعَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَی الأَحْزَابِ ، فَقَالَ : اللَّہُمَّ مُنْزِلَ الْکِتَابِ، سَرِیعَ الْحِسَابِ، ہَازِمَ الأَحْزَابِ، اِہْزِمْہُمْ وَزَلْزِلْہُمْ۔
(٣٤١٠٩) حضرت ابن ابی اوفیٰ (رض) فرماتے ہیں کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جنگ میں یہ دعا پڑھتے : اللَّہُمَّ مُنْزِلَ الْکِتَابِ ، سَرِیعَ الْحِسَابِ ، ہَازِمَ الأَحْزَابِ ، اِہْزِمْہُمْ وَزَلْزِلْہُمْ ۔ اے اللہ ! کتاب کو نازل کرنے والے، جلدی حساب لینے والے، گروہوں کو شکست دینے والے، انھیں شکست دے اور انھیں جھنجوڑ کر رکھ دے۔

34109

(۳۴۱۱۰) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ مُبَارَکٍ ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنْ زِیَادِ بْنِ مُسْلِمٍ ؛ أَنَّ رَجُلاً مِنْ أَہْلِ الْہِنْدِ قَدِمَ بِأَمَانِ عَدَنَ ، فَقَتَلَہُ رَجُلٌ مِنَ الْمُسْلِمِینَ بِأَخِیہِ ، فَکُتِبَ فِی ذَلِکَ إِلَی عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِیزِ ، فَکَتَبَ : أَنْ لاَ تَقْتُلَہُ ، وَخُذْ مِنْہُ الدِّیَۃَ ، فَابْعَثْ بِہَا إلَی وَرَثَتِہِ ، وَأَمَرَ بِہِ فَسُجِنَ۔
(٣٤١١٠) حضرت زیاد بن مسلم سے مروی ہے کہ اہل ہند میں سے ایک شخص امان لے کر عدن میں آیا، اس کو ایک مسلمان نے قتل کردیا، اس کے متعلق حضرت عمر بن عبدالعزیز کو لکھا گیا، آپ نے تحریر فرمایا : اس کو قتل مت کرو، اس سے دیت وصول کرو اور وہ دیت مقتول کے ورثاء کو بھیج دو ، اور اس قاتل کو قید کرنے کا حکم فرمایا۔

34110

(۳۴۱۱۱) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ الثَّقَفِیُّ ، عَنْ حَبِیبٍ الْمُعَلِّمِ ، عَنِ الْحَسَنِ ؛ أَنَّ رَجُلاً مِنَ الْمُشْرِکِینَ حَجَّ ، فَلَمَّا رَجَعَ صَادِرًا ، لَقِیَہُ رَجُلٌ مِنَ الْمُسْلِمِینَ فَقَتَلَہُ ، فَأَمَرَہُ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ یُؤَدِّیَ دِیَتَہُ إِلَی أَہْلِہِ۔
(٣٤١١١) حضرت حسن (رض) سے مروی ہے کہ مشرکین میں سے ایک شخص حج پر گیا، جب وہ واپس لوٹا تو اس کو ایک مسلمان نے قتل کردیا، آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو (قاتل کو) حکم فرمایا کہ اس کے گھر والوں کو دیت ادا کرو۔

34111

(۳۴۱۱۲) حَدَّثَنَا ابْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ یُوسُفَ بْنِ یَعْقُوبَ ؛ أَنَّ رَجُلاً مِنَ الْمُشْرِکِینَ قَتَلَ رَجُلاً مِنَ الْمُسْلِمِینَ ، ثُمَّ دَخَلَ بِأَمَانٍ فَقَتَلَہُ أَخُوہُ ، فَقَضَی عَلَیْہِ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیزِ بِالدِّیَۃِ ،وَجَعَلَہَا عَلَیْہِ فِی مَالِہِ ، وَحَبَسَہُ فِی السِّجْنِ ، وَبَعَثَ بِدِیَتِہِ إِلَی وَرَثَتِہِ مِنْ أَہْلِ الْحَرْبِ۔
(٣٤١١٢) حضرت یوسف بن یعقوب سے مروی ہے کہ ایک مشرک نے مسلمان کو قتل کردیا، پھر وہ امان لے کر آیا تو اس کو اس مقتول کے بھائی نے قتل کردیا، حضرت عمر بن عبدالعزیز نے اس پر دیت کا فیصلہ فرمایا، اس کے مال پر دیت کو واجب کیا اور اس کو جیل میں قید کروا دیا اور دیت کا مال دارالحرب مقتول کے ورثاء کو بھیج دیا۔

34112

(۳۴۱۱۳) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ الْقَطَّانُ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ سِمَاکٍ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ (ح) وَعَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ؛ {وَإِنْ کَانَ مِنْ قَوْمٍ بَیْنَکُمْ وَبَیْنَہُمْ مِیثَاقٌ} ، قَالاَ : الرَّجُلُ یُسْلِمُ فِی دَارِ الْحَرْبِ فَیَقْتُلُہُ الرَّجُلُ ، لَیْسَ عَلَیْہِ الدِّیَۃُ ، وَعَلَیْہِ الْکَفَّارَۃُ۔
(٣٤١١٣) حضرت ابراہیم قرآن کریم کی آیت { وَإِنْ کَانَ مِنْ قَوْمٍ بَیْنَکُمْ وَبَیْنَہُمْ مِیثَاقٌ} کے متعلق فرماتے ہیں کہ : کوئی شخص دارالحرب میں مسلمان ہو اس کو کوئی قتل کر دے تو اس پر دیت نہیں ہے صرف کفارہ ہے۔

34113

(۳۴۱۱۴) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ إِدْرِیسَ ، عَنْ عِیسَی ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ؛ {وَإِنْ کَانَ مِنْ قَوْمٍ بَیْنَکُمْ وَبَیْنَہُمْ مِیثَاقٌ} ، قَالَ : مِنْ أَہْلِ الْعَہْدِ ، وَلَیْسَ بِمُؤَمَّنٍ۔
(٣٤١١٤) حضرت شعبی قرآن کریم کی آیت { وَإِنْ کَانَ مِنْ قَوْمٍ بَیْنَکُمْ وَبَیْنَہُمْ مِیثَاقٌ} کے متعلق فرماتے ہیں کہ اھل ذمہ میں سے ہو۔ امان لے کر آنے والا نہ ہو۔

34114

(۳۴۱۱۵) حَدَّثَنَا مُعَاوِیَۃُ بْنُ ہِشَامٍ ، عَنْ عَمَّارِ بْنِ رُزَیْقٍ ، عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ ، عَنْ أَبِی یَحْیَی ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ؛ {وَإِنْ کَانَ مِنْ قَوْمٍ بَیْنَکُمْ وَبَیْنَہُمْ مِیثَاقٌ} ، ہُوَ الرَّجُلُ یَکُونُ مُعَاہَِدًا ، وَیَکُونُ قَوْمُہُ أَہْلَ عَہْدٍ ، فَیُسْلِمُ إِلَیْہِمْ دِیَتَہُ ، وَیَعْتِقُ الَّذِی أَصَابَہُ رَقَبَۃً۔
(٣٤١١٥) حضرت ابن عباس (رض) قرآن کریم کی آیت { وَإِنْ کَانَ مِنْ قَوْمٍ بَیْنَکُمْ وَبَیْنَہُمْ مِیثَاقٌ} کے متعلق فرماتے ہیں کہ اس سے وہ شخص مراد ہے جو عہد میں داخل ہو اور اس کی قوم بھی عہد میں شامل ہو، اس کی دیت اس کے ورثاء کو دے دیں گے، اور اس کے غلام آزاد ہوجائیں گے۔

34115

(۳۴۱۱۶) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، قَالَ : {فَإِنْ کَانَ مِنْ قَوْمٍ عَدُوٍّ لَکُمْ وَہُوَ مُؤْمِنٌ} ، الرَّجُلُ یُقْتَلُ وَقَوْمُہُ مُشْرِکُونَ ، لَیْسَ بَیْنَہُمْ وَبَیْنَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَہْدٌ {فَتَحْرِیرُ رَقَبَۃٍ مُؤْمِنَۃٍ} ، فَإِنْ قَتَلَ مُسْلِمٌ مِنْ قَوْمٍ مُشْرِکِینَ ، وَبَیْنَہُمْ وَبَیْنَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَہْدٌ فَعَلَیْہِ رَقَبَۃٌ مُؤْمِنَۃٌ ، وَیُؤَدِّی دِیَتَہُ إِلَی قَوْمِہِ الَّذِینَ بَیْنَہُمْ وَبَیْنَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَہْدٌ ، فَیَکُونُ مِیرَاثُہُ لِلْمُسْلِمِینَ، وَیَکُونُ عَقْلُہُ عَلَیْہِمْ لِقَوْمِہِ الْمُشْرِکِینَ ، الَّذِینَ بَیْنَہُمْ وَبَیْنَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَہْدٌ ، فَیَرِثُ الْمُسْلِمُونَ مِیرَاثَہُ ، وَیَکُونُ عَقْلُہُ لِقَوْمِہِ لأَنَّہُمْ یَعْقِلُونَ عَنْہُ۔
(٣٤١١٦) حضرت ابراہیم قرآن کریم کی آیت { فَإِنْ کَانَ مِنْ قَوْمٍ عَدُوٍّ لَکُمْ وَہُوَ مُؤْمِنٌ} کے متعلق فرماتے ہیں کہ آدمی مارا جائے اور اس کی قوم مشرک ہو، اس کے اور اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے درمیان کوئی معاہدہ بھی نہ ہو، تو مومن غلام کو آزاد کریں گے اور اگر مسلمان کسی ایسے مشرک کو قتل کر دے جس کے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے درمیان معاہدہ ہو، اس پر مومن غلام آزاد کرنا ہے، اور دیت اس کی قوم کو دے دی جائے گی جس کے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے درمیان معاہدہ تھا، اس کی وراثت مسلمانوں کی ہوگی، ان کی دیت مسلمانوں پر ہوگی اس کی مشرک قوم کیلئے جن کے اور اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے درمیان معاہدہ ہے، مسلمان اس کی وراثت کے وارث ہوں گے۔ اس کی دیت اس کی قوم پر ہوگی کیونکہ وہ اس کی طرف سے دیت ادا کرتے ہیں۔

34116

(۳۴۱۱۷) حَدَّثَنَا صَفْوَانُ بْنُ عِیسَی ، عَنِ الْحَارِثِ بْنِ أَبِی ذُبَابٍ ، عَنْ مُنِیرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِی ذُبَابٍ ، قَالَ : قدِمْتُ عَلَی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَأَسْلَمْتُ ، وَقُلْتُ : یَا رَسُولَ اللہِ ، اجْعَلْ لِقَوْمِی مَا أَسْلَمُوا عَلَیْہِ ، قَالَ : فَفَعَلَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔ (ابوعبید ۱۴۸۷)
(٣٤١١٧) حضرت سعد بن ابی ذباب (رض) فرماتے ہیں کہ میں حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور مسلمان ہوگیا اور میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول 5! میری قوم کیلئے کچھ مقرر فرما دیں جس پر وہ اسلام لانے کے لیے تیار ہوجائیں، آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کیلئے مقرر کردیا۔

34117

(۳۴۱۱۸) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا أَبَانُ بْنُ عَبْدِ اللہِ الْبَجَلِیُّ ، قَالَ : حَدَّثَنَا عُثْمَان بْنُ أَبِی حَازِمٍ ، عَنْ صَخْرِ بْنِ الْعَیْلَۃِ ، قَالَ : أَخَذْتُ عَمَّۃَ الْمُغِیرَۃِ فَقَدِمْتُ بِہَا إِلَی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَجَائَ الْمُغِیرَۃُ بْنُ شُعْبَۃَ فَسَأَلَ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَمَّتَہُ وَأَخْبَرَہُ أَنَّہَا عِنْدِی ، فَدَعَانِی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : فَقَالَ : یَا صَخْرُ ، إِنَّ الْقَوْمَ إِذَا أَسْلَمُوا أَحْرَزُوا أَمْوَالَہُمْ ، قَالَ : فَدَفَعْنَاہَا إِلَیْہِ ، وَقَدْ کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَعْطَانِی مَاء ً لِبَنِی سُلَیْمٍ فَأَسْلَمُوا ، فَأَتَوْا نَبِیَّ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَسَأَلُوہُ الْمَائَ ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : یَا صَخْرُ ، إِنَّ الْقَوْمَ إِذَا أَسْلَمُوا أَحْرَزُوا أَمْوَالَہُمْ وَدِمَائَہُمْ ، فَادْفَعْہُ إِلَیْہِمْ ، فَدَفَعْتُہُ۔ (ابن سعد ۳۱۔ دارمی ۱۶۷۳)
(٣٤١١٨) حضرت صخر بن عیلہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت مغیرہ کے چچا کو پکڑ لیا اور اس کو لے کر حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا، اتنے میں حضرت مغیرہ بن شعبہ (رض) تشریف لے آئے اور اپنے چچا کا پوچھا، ان کو خبر دی کہ وہ میرے پاس ہے، مجھے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بلایا اور فرمایا : اے صخر ! جب قوم مسلمان ہوجائے، تو وہ اپنے اموال کو محفوظ کرلیتے ہیں ، فرماتے ہیں کہ ہم نے اس کو دے دیا، آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے بنو سلیم کیلئے پانی عطا فرمایا، پس وہ مسلمان ہوگئے اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور پانی کا سوال کیا آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اے صخر ! جب قوم مسلمان ہوجائے تو وہ اپنی جان اور مال کو بچا لیتے ہیں، پس اس کو واپس کر دے، پس پھر میں نے اس کو واپس کردیا۔

34118

(۳۴۱۱۹) حَدَّثَنَا حُمَیْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ حَسَنِ بْنِ صَالِحٍ ، قَالَ : سَأَلْتُ عُبَیْدَ اللہِ بْنَ عُمَرَ عَمَّنْ أَسْلَمَ مِنْ أَہْلِ السَّوَادِ ؟ فَقَالَ : مَنْ أَسْلَمَ مِنْ أَہْل السَّوَادِ مِمَّنْ لَہُ ذِمَّۃٌ ، فَلَہُ أَرْضُہُ وَمَالُہُ ، وَمَنْ أَسْلَمَ مِمَّنْ لاَ ذِمَّۃَ لَہُ ، وَإِنَّمَا أُخِذَ عَنْوَۃً ، فَأَرْضُہُ لِلْمُسْلِمِینَ۔ قَالَ عُبَیْدُ اللہِ : ہَذَا فِی کِتَابِ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِیزِ۔
(٣٤١١٩) حضرت حسن بن صالح (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عبید اللہ بن عمر (رض) سے جنگل، دیہات والوں کے اسلام کے متعلق دریافت کیا ؟ آپ نے فرمایا : اھل السواد میں سے جو مسلمان ہوا اگر وہ ذمی تھا (جس کا عہد تھا) زمین اور مال اسی کا ہے اور جو اسلام لایا جس کا کوئی ذمہ نہ تھا، (عہد و معاہدہ نہ تھا) اور وہ بزور بازو فتح ہوا تو اس کی زمین مسلمانوں کیلئے ہے، حضرت عبید اللہ فرماتے ہیں کہ یہ حضرت عمر بن عبدالعزیز کے مکتوب میں لکھا ہوا تھا۔

34119

(۳۴۱۲۰) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنِ ابْنِ أَبِی نَجِیحٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، قَالَ : أَیُّمَا مَدِینَۃٌ فُتِحَتْ عَنْوَۃً ، فَأَسْلَمَ أَہْلُہَا فَہُمْ أَحْرَارٌ ، وَأَمْوَالُہُمْ لِلْمُسْلِمِینَ۔
(٣٤١٢٠) حضرت مجاہد (رض) فرماتے ہیں کہ جو بھی شہر بزور بازو فتح ہوا۔ پھر اس کے باشندے اسلام نے آئے تو وہ لوگ آزاد ہوں گے اور ان کا مال مسلمانوں کو ملے گا۔

34120

(۳۴۱۲۱) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ الْمِقْدَامِ بْنِ شُرَیْحٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ جَدِّہِ ہَانِئِ بْنِ یَزِیدَ ؛ ذَکَرَ أَنَّہُ وَفَدَ إِلَی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی قَوْمِہِ ، وَأَنَّہُ لَمَّا حَضَرَ خُرُوجُ الْقَوْمِ إِلَی بِلاَدِہِمْ ، أَعْطَی کُلَّ رَجُلٍ مِنْہُمْ أَرْضًا فِی بِلاَدِہِ حَیْثُ أَحَبَّ۔
(٣٤١٢١) حضرت ہانیٔ بن یزید ذکر کرتے ہیں کہ میں اپنی قوم کے وفد کے ساتھ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا۔ جب وفد نے اپنے علاقہ کی طرف روانگی کا ارادہ کیا تو آپ (رض) نے ان میں سے ہر ایک شخص کو اس کے علاقہ میں اس کی پسندیدہ زمین بطور جاگیر کے عطا فرمائی۔

34121

(۳۴۱۲۲) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا ابْنُ أَبِی ذِئْبٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، قَالَ : مَنْ أَسْلَمَ أَحْرَزَ لَہُ إِسْلاَمُہُ نَفْسَہُ وَمَالَہُ ، إِلاَّ الأَرْضَ ، لأَنَّہُ أَسْلَمَ وَہُوَ فِی غَیْرِ مَنَعَۃٍ۔
(٣٤١٢٢) حضرت زہری فرماتے ہیں کہ جو شخص مسلمان ہوگا وہ اپنے نفس اور مال کو محفوط کرے گا سوائے زمین کے، سوائے اس کے اس لیے کہ وہ بغیر کارروائی اور لڑائی کے مسلمان ہوا۔

34122

(۳۴۱۲۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ غَالِبٍ الْعَبْدِیِّ ، قَالَ : حدَّثَنِی رَجُلٌ مِنْ بَنِی نُمَیْرٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ جَدِّہِ ، أَوْ جَدِّ أَبِیہِ ؛ أَنَّہُ أَتَی النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : یَا رَسُولَ اللہِ ، إِنَّ قَوْمِی أَسْلَمُوا عَلَی أَنْ جَعَلْتُ لَہُمْ کَذَا وَکَذَا ، قَالَ : إِنْ شِئْتَ رَجَعْتَ فِیہِ ، وَتَرْکُہُ أَفْضَلُ۔
(٣٤١٢٣) حضرت غالب العبدی بنو نمیر کے ایک شخص سے روایت کرتے ہیں کہ وہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! میری قوم اس بات پر ایمان لائی ہے کہ میں ان کو یہ یہ دوں گا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اگر آپ چاہو تو رجوع کرلو اس میں اور اس کا چھوڑنا افضل ہے۔

34123

(۳۴۱۲۴) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِیلُ بْنُ عَیَّاشٍ، عَنْ عَبْدِاللہِ بْنِ دِینَارٍ الْبَہْرَانِیِّ؛ أَنَّ عُمَرَ بْنَ عَبْدِالْعَزِیزِ، قَالَ: أَمَّا مَنْ أَسْلَمَ مِنْ أَہْلِ الأَرْضِ فَلَہُ مَا أَسْلَمَ عَلَیْہِ مِنْ أَہْلٍ ، أَوْ مَالٍ ، وَأَمَّا أَرْضُہُ فَہِیَ کَائِنَۃٌ فِیمَا أَفَائَ اللَّہُ عَلَی الْمُسْلِمِینَ۔
(٣٤١٢٤) حضرت عمر بن عبدالعزیز (رض) نے ارشاد فرمایا : زمین والوں میں سے جو مسلمان ہو تو اس کا مال اور اھل و عیال اس کیلئے ہوگا، اور جو اس کی زمین ہے وہ اللہ کی طرف سے غنیمت ہے مسلمانوں کیلئے۔

34124

(۳۴۱۲۵) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ عَطَائٍ ، وَالزُّہْرِیِّ ، قَالاَ : مِنَ السُّنَّۃِ أَنْ یَکُونَ لِلرَّجُلِ مَا أَسْلَمَ عَلَیْہِ۔
(٣٤١٢٥) حضرت عطا اور حضرت زھری (رض) فرماتے ہیں کہ یہ بات سنت میں سے ہے کہ آدمی جس پر مسلمان ہو وہ اس کو ملے۔

34125

(۳۴۱۲۶) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا سُفْیَانُ بْنُ حُسَیْنٍ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ زَیْدٍ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ ، قَالَ : أَہْدَی الأُکَیْدِرُ لِرَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ جَرَّۃً مِنْ مَنٍّ ، فَجَعَلَ یَقْسِمُہَا بَیْنَنَا۔ (احمد ۱۲۲)
(٣٤١٢٦) حضرت انس (رض) سے مروی ہے کہ اکیدر نے حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیلئے ایک حلوے سے بھرا ہوا مٹکا ہدیہ بھیجا، آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وہ ہمارے درمیان تقسیم کردیا۔

34126

(۳۴۱۲۷) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ؛ أَنَّ أُکَیْدِرَ دُومَۃَ أَہْدَی إِلَی النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ہَدِیَّۃ وہو مُشْرِکَ ، فَقَبِلَہَا مِنْہُ۔
(٣٤١٢٧) حضرت عروہ (رض) سے مروی ہے کہ أُکَیْدِرَ نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیلئے ہدیہ ارسال کیا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کا ہدیہ قبول فرمایا حالانکہ وہ مشرک تھا۔

34127

(۳۴۱۲۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا مِسْعَرٌ ، عَنِ أَبِی عَوْنٍ ، عَنْ أَبِی صَالِحٍ الْحَنَفِیِّ ، عَنْ عَلِیٍّ ؛ أَنَّ أُکَیْدِرَ دَوْمَۃَ أَہْدَی إِلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ثَوْبَ حَرِیرٍ ، فَأَعْطَاہُ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلِیًّا ، فَقَالَ: شَقِّقہُ خُمُرًا بَیْنَ النِّسْوَۃِ۔
(٣٤١٢٨) حضرت علی (رض) سے مروی ہے کہ اکیدر نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیلئے ریشمی کپڑا ہدیہ بھیجا، آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وہ کپڑا حضرت علی (رض) کو دے کر فرمایا : عورتوں کیلئے اوڑھنی بنا لو۔

34128

(۳۴۱۲۹) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُصْعَبٍ ، عَنِ الأَوْزَاعِیِّ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ؛ أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَدَّ ہَدِیَّۃ مِنْ رَجُلٍ مِن الْمُشْرِکِینَ ، قَالَ الزُّہْرِی : ثُمَّ إِنَّ الأُمَرَائَ بَعْدُ قَبِلُوا ہَدَایَاہُمْ۔
(٣٤١٢٩) حضرت زھری (رض) سے مروی ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مشرکین میں سے ایک شخص کا ہدیہ قبول نہیں فرمایا، حضرت زہری فرماتے ہیں کہ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد امراء ان کے ہدایا قبول فرما لیتے تھے۔

34129

(۳۴۱۳۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا ابْنُ عَوْنٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ؛ أَنَّ عِیَاضَ بْنَ حِمَارٍ أَہْدَی إِلَی النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ہَدِیَّۃً ، فَقَالَ لَہُ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : یَا عِیَاضُ ، ہَلْ کُنْتَ أَسْلَمْتَ ؟ فَقَالَ : لاَ ، فَرَدَّہَا عَلَیْہِ ، وَقَالَ : إِنَّا لاَ نَقْبَلُ زَبْدَ الْمُشْرِکِینَ۔ قَالَ ابْنُ عَوْنٍ : قُلْتُ لِلْحَسَنِ : مَا الزَّبَدُ ؟ قَالَ : الرِّفْدُ۔ (ابوداؤد ۳۰۵۲۔ ترمذی ۱۵۷۷)
(٣٤١٣٠) حضرت حسن سے مروی ہے کہ عیاض بن حمار نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیلئے ہدیہ بھیجا آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے فرمایا : اے عیاض ! کیا تو مسلمان ہوچکا ہے ؟ اس نے عرض کیا کہ نہیں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کا ہدیہ اس کو واپس کردیا اور فرمایا ہم مشرکین کا عطیہ (ہدیہ) قبول نہیں کرتے۔

34130

(۳۴۱۳۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا إِسْرَائِیلُ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ عَامِرٍ ؛ أَنَّ دِحْیَۃَ الْکَلْبِیَّ أَہْدَی إِلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ جُبَّۃً وَخُفَّیْنِ ، فَقَبِلَہُمَا ، وَلَبِسَہُمَا حَتَّی خَرَقَہُمَا ، وَیُقْسِمُ الشَّعْبِیُّ : مَا یَدْرِی ذَکِیّ ہُمَا ، أَمْ لاَ؟۔ (طبرانی ۴۲۰۰)
(٣٤١٣١) حضرت عامر (رض) سے مروی ہے کہ دحیہ الکلبی نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایک جبہ اور دو موزے ہدیہ بھیجا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو قبول فرمایا اور ان کو پہنتے رہے یہاں تک کہ وہ پھٹ گئے۔ حضرت شعبی فرماتے ہیں کہ مجھے نہیں معلوم کہ وہ اس کھال کے بنے ہوئے تھے جس سے موزے بنتے ہیں یا نہیں۔

34131

(۳۴۱۳۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا مُوسَی بْنُ عُبَیْدَۃَ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاہِیمَ ؛ أَنَّ الْمُقَوْقِسَ أَہْدَی إِلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ہَدِیَّۃً فَقِبَلہَا۔
(٣٤١٣٢) حضرت سعد بن ابراہیم سے مروی ہے کہ مقوقس نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہدیہ ارسال کیا تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو قبول فرمایا۔

34132

(۳۴۱۳۳) حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنِ الزُّہْرِیِّ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ، عَنْ جُبَیْرِ بْنِ مُطْعِمٍ، قَالَ: قسَمَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سَہْمَ ذَوِی الْقُرْبَی عَلَی بَنِی ہَاشِمٍ، وَبَنِی الْمُطَّلِبِ۔ (ابوداؤد ۲۹۷۳۔ احمد ۱۸)
(٣٤١٣٣) حضرت جبیر بن مطعم سے مروی ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ذوی القربیٰ کا حصہ بنو ہاشم اور بنو مطلب میں تقسیم فرمایا۔

34133

(۳۴۱۳۴) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا ہَاشِمُ بْنُ بَرِیدٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِی حُسَیْنُ بْنُ مَیْمُونٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَبْدِ اللہِ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِی لَیْلَی ، قَالَ : سَمِعْتُ عَلِیًّا ، یَقُولُ : قُلْتُ : یَا رَسُولَ اللہِ ، إِنْ رَأَیْتَ أَنْ تُوَلِیَنِی حَقَّنَا مِنَ الْخُمُسِ فِی کِتَابِ اللہِ فَاقْسِمْہُ حَیَاتَکَ ، کَیْ لاَ یُنَازِعْنِیہِ أَحَدٌ بَعْدَکَ ، قَالَ : فَفَعَلَ ذَلِکَ ، قَالَ : فَوَلاَّنِیہِ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَسَمْتُہُ حَیَاۃَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، ثُمَّ وَلاَّنِیہِ أَبُو بَکْرٍ فَقَسَمْتُہُ حَیَاۃَ أَبِی بَکْرٍ ، ثُمَّ وَلاَّنِیہِ عُمَرُ فَقَسَمْتُہُ حَیَاۃَ عُمَرَ۔ حَتَّی کَانَتْ آخِرُ سَنَۃٍ مِنْ سِنِی عُمَرَ ، فَإِنَّہُ أَتَاہُ مَالٌ کَثِیرٌ فَعَزَلَ حَقَّنَا ، ثُمَّ أَرْسَلَ إِلَیَّ ، فَقَالَ : ہَذَا حَقُّکُمْ فَخُذْہُ فَاقْسِمْہُ حَیْثُ کُنْتَ تَقْسِمُہُ ، فَقُلْتُ : یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ ، بِنَا عَنْہُ الْعَامَ غِنًی ، وَبِالْمُسْلِمِینَ إِلَیْہِ حَاجَۃٌ ، فَرُدَّہُ عَلَیْہِ تِلْکَ السَّنَۃَ ، ثُمَّ لَمْ یَدْعُنَا إِلَیْہِ أَحَدٌ بَعْدَ عُمَرَ ، حَتَّی قُمْتُ مَقَامِی ہَذَا ، فَلَقِیتُ الْعَبَّاسَ بَعْدَ مَا خَرَجْت مِنْ عِنْدِ عُمَرَ ، فَقَالَ : یَا عَلِیّ ، لَقَدْ حَرَمْتنَا الْغَدَاۃَ شَیْئًا لاَ یُرَدَّ عَلَیْنَا أَبَدًا إِلَی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ ، وَکَانَ رَجُلاً دَاہِیًا۔ (ابوداؤد ۲۹۷۶۔ ابویعلی ۳۵۹)
(٣٤١٣٤) حضرت علی (رض) ارشاد فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! اگر آپ مناسب سمجھیں تو کتاب اللہ کے خمس میں سے جو ہمارا حصہ ہے اس کا مجھے ولی بنادیں تاکہ میں آپ کی زندگی میں ہی اس کو تقسیم کر دوں، تاکہ آپ کے بعد کوئی مجھ سے جھگڑا نہ کرے، فرماتے ہیں کہ انھوں نے اس طرح کیا آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے اس کا ولی بنادیا۔ میں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی میں ہی اس کو تقسیم کردیا، پھر حضرت ابوبکر صدیق نے مجھے ولی بنایا تو میں نے حضرت ابوبکر صدیق (رض) کی زندگی میں ہی اس کو تقسیم کردیا۔ پھر حضرت عمر (رض) نے مجھے ولی بنایا تو میں نے حضرت عمر (رض) کی زندگی میں اس کو تقسیم کردیا۔ یہاں تک کہ حضرت عمر (رض) کے دور خلافت کا آخری سال آگیا، ان کے پاس بہت زیادہ مال آیا انھوں نے ہمارا حق الگ کر کے میری طرف ارسال کردیا اور فرمایا یہ تمہارا حق ہے یہ لے لو اور جہاں تقسیم کرنا چاہو تقسیم کرلو میں نے عرض کیا اے امیرالمومنین (رض) ہم اس سے مستغنی ہیں جب کہ مسلمانوں کو اس کی زیادہ ضرورت ہے، پس اس سال ان کو وہ واپس کردیا پھر حضرت عمر (رض) کے بعد کسی نے ہمیں اس کی طرف نہیں بلایا یہاں تک کہ میں اس مقام پر کھڑا ہوں، حضرت عمر (رض) کے پاس سے نکلنے کے بعد میری حضرت عباس (رض) سے ملاقات ہوئی انھوں نے فرمایا : اے علی (رض) آپ نے صبح ہمیں ایک چیز سے (حق سے) محروم کردیا اب قیامت تک ہمیں نہیں دیا جائے گا۔ اور حضرت عباس (رض) عمدہ رائے والے شخص تھے۔

34134

(۳۴۱۳۵) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنِ الزُّہْرِیِّ، وَمُحَمَّدِ بْنِ عَلِیٍّ، عَنْ یَزِیدَ بْنِ ہُرْمُزَ ؛ أَنَّ نَجْدَۃَ کَتَبَ إِلَی ابْنِ عَبَّاسٍ یَسْأَلُہُ عَنْ سَہْمِ ذَوِی الْقُرْبَی ، لِمَنْ ہُوَ ؟ فَکَتَبَ : کَتَبْتَ تَسْأَلُنِی عَنْ سَہْمِ ذَوِی الْقُرْبَی ، لِمَنْ ہُوَ ؟ فَہُوَ لَنَا ، قَالَ : إِنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ دَعَانَا إِلَی أَنْ نُنْکِحَ مِنْہُ أَیِّمَنَا ، وَنَخْدُمَ مِنْہُ عَائِلَنَا ، وَنَقْضِیَ مِنْہُ عَنْ غَارِمِنَا ، فَأَبَیْنَا ذَلِکَ إِلاَّ أَنْ یُسَلِّمَہُ لَنَا جَمِیعًا ، فَأَبَی أَنْ یَفْعَلَ ، فَتَرَکْنَاہُ عَلَیْہِ۔
(٣٤١٣٥) حضرت یزید بن ہرمز سے مروی ہے کہ نجدہ نے حضرت ابن عباس (رض) کو لکھا اور ان سے دریافت کیا کہ ذوی القربیٰ کا حصہ کس کیلئے ہے ؟ حضرت ابن عباس (رض) نے تحریر فرمایا آپ نے مجھے لکھ کر دریافت کیا کہ ذوی القربیٰ کا حصہ کس کیلئے ہے ؟ وہ حصہ ہمارے لیے ہے، پھر فرمایا حضرت عمر بن خطاب (رض) نے ہمیں اس بات کی دعوت دی کہ ہم اس کے ساتھ اپنی بےنکاحی عورتوں کا نکاح کریں اور اس سے ہمارے خاندان کی خدمت کی جائے اور ہمارے قرض خواہوں کو ادائیگی کی جائے ہم نے اس سے انکار کردیا مگر یہ کہ وہ سب کا سب ہمیں ہی دیا جائے انھوں نے اس طرح کرنے سے انکار کردیا پس ہم نے ان کیلئے اس کو چھوڑ دیا۔

34135

(۳۴۱۳۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ قَیْسِ بْنِ مُسْلِمٍ ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَنَفِیَّۃِ ، قَالَ : اخْتَلَفَ النَّاسُ بَعْدَ وَفَاۃِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی ہَذَیْنِ السَّہْمَیْنِ ؛ سَہْمِ الرَّسُولِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَسَہْمِ ذَوِی الْقُرْبَی ، فَقَالَتْ طَائِفَۃٌ : سَہْمُ الرَّسُولِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِلْخَلِیفَۃِ مِنْ بَعْدِہِ ، وَقَالَتْ طَائِفَۃٌ : سَہْمُ ذَوِی الْقُرْبَی لِقَرَابَۃِ الْخَلِیفَۃِ ، فَأَجْمَعُوا عَلَی أَنْ یَجْعَلُوا ہَذَیْنِ السَّہْمَیْنِ فِی الْکُرَاعِ ، وَفِی الْعُدَّۃِ فِی سَبِیلِ اللہِ۔
(٣٤١٣٦) حضرت حسن بن محمد ابن الحنفیہ (رض) سے مروی ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے بعد دو حصوں سے متعلق لوگوں میں اختلاف ہوگیا، ایک اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حصہ اور ایک ذوی القربیٰ کے حصہ کے بارے میں ایک جماعت نے کہا : اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حصہ آپ کے بعد آپ کے خلیفہ کیلئے ہے اور دوسری جماعت نے کہا کہ ذوی القربیٰ کا حصہ خلیفہ کے رشتہ داروں کیلئے ہے، پھر سب حضرات نے اس پر اتفاق کرلیا کہ وہ ان دونوں حصوں کو گھوڑوں میں اور جہاد کی تیاری کیلئے خرچ کریں گے۔

34136

(۳۴۱۳۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ حَسَنِ بْنِ صَالِحٍ ، عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ ؛ أَنَّ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِیزِ لَمَّا قَامَ بَعَثَ بِہَذَیْنِ السَّہْمَیْنِ : سَہْمِ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَسَہْمِ ذَوِی الْقُرْبَی ، یَعْنِی لِبَنِی ہَاشِمٍ۔
(٣٤١٣٧) حضرت عطاء فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز جب خلیفہ بنے تو ان دونوں حصوں کو ( اللہ کے رسول کا حصہ اور ذوی القربیٰ کا حصہ) بنو ہاشم کیلئے بھیج دیا۔

34137

(۳۴۱۳۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ الْحَسَنِ ، عَنِ السُّدِّیِّ ؛ {وَلِذِی الْقُرْبَی} ، قَالَ : ہُمْ بَنُو عَبْدِ الْمُطَّلِبِ۔
(٣٤١٣٨) حضرت السدی فرماتے ہیں کہ ارشاد خداوندی { وَلِذِی الْقُرْبَی } سے مراد بنو عبدالمطلب ہیں۔

34138

(۳۴۱۳۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ أَبِی مَعْشَرٍ ، عَنْ سَعِیدٍ الْمَقْبُرِیِّ ، قَالَ : کَتَبَ نَجْدَۃُ إِلَی ابْنِ عَبَّاسٍ یَسْأَلُہُ عَنْ سَہْمِ ذَوِی الْقُرْبَی ؟ فَکَتَبَ إِلَیْہِ ابْنُ عَبَّاسٍ : إِنَّا کُنَّا نَزْعُمُ أَنَّا نَحْنُ ہُمْ ، فَأَبَی ذَلِکَ عَلَیْنَا قَوْمُنَا۔
(٣٤١٣٩) حضرت سعید المقبری (رض) سے مروی ہے کہ نجدہ نے حضرت ابن عباس (رض) کو لکھ کر ذوی القربیٰ کے حصہ کے متعلق دریافت کیا ؟ حضرت ابن عباس (رض) نے جواب تحریر فرمایا : ہم لوگوں کا خیال ہے کہ ہم ہی وہ ہیں لیکن ہماری قوم نے ہم پر انکار کیا۔

34139

(۳۴۱۴۰) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الْحَسَنِ ؛ فِی ہَذِہِ الآیَۃِ : {لِلَّہِ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِی الْقُرْبَی وَالْیَتَامَی وَالْمَسَاکِینِ وَابْنِ السَّبِیلِ} ، قَالَ : لَمْ یُعْطِ أَہْلَ الْبَیْتِ بَعْدَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْخُمُسَ أَبُو بَکْر ، وَلاَ عُمَرُ ، وَلاَ غَیْرُہُمَا ، وَکَانُوا یَرَوْنَ أَنَّ ذَلِکَ إِلَی الإِمَامِ ، یَضَعُہُ فِی سَبِیلِ اللہِ، وَفِی الْفُقَرَائِ حَیْثُ أَرَاہُ اللَّہُ۔
(٣٤١٤٠) حضرت حسن (رض) قرآن کریم کی آیت { لِلَّہِ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِی الْقُرْبَی وَالْیَتَامَی وَالْمَسَاکِینِ وَابْنِ السَّبِیلِ } کے متعلق فرماتے ہیں کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے بعد حضرت ابوبکر (رض) اور حضرت عمر (رض) نے اہل بیت کو حصہ نہیں دیا ان حضرات کا خیال تھا کہ یہ حصہ امام کے لیے ہے جس کو وہ اللہ کے راستہ میں خرچ کرے گا، اور فقراء میں خرچ کرے گا جہاں اللہ ان کی رہنمائی کرے۔

34140

(۳۴۱۴۱) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو ، قَالَ : جَائَ رَجُلٌ إِلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : یَا رَسُولَ اللہِ ، أُبَایِعُک عَلَی الْجِہَادِ ، فَقَالَ لَہُ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : ہَلْ لَکَ وَالِدٌ ؟ قَالَ : نَعَمْ ، قَالَ : انْطَلِقْ فَجَاہِدْہُ ، فَإِنَّ فِیہِ مُجَاہَدًا حَسَنًا۔ (ابن حبان ۴۱۹)
(٣٤١٤١) حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) سے مروی ہے ایک شخص نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا اے اللہ کے رسول ! میں جہاد پر آپ کی بیعت کرتا ہوں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے فرمایا : کیا آپ کے والد حیات ہیں ؟ اس نے عرض کیا جی ہاں، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : واپس چلے جاؤ اور ان کی خدمت کر کے جہاد کرو بیشک ان میں آپ کیلئے خدمت کر کے نیکی کمانے کا موقع ہے۔

34141

(۳۴۱۴۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا مِسْعَرٌ ، وَسُفْیَانُ ، عَنْ حَبِیبِ بْنِ أَبِی ثَابِتٍ ، عَنْ أَبِی الْعَبَّاسِ الْمَکِّیِّ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو ، قَالَ : جَائَ رَجُلٌ یَسْتَأْذِنُ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی الْجِہَادِ ، فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : أَحَیٌّ وَالِدَاک ، قَالَ : نَعَمْ ، قَالَ : فَفِیہِمَا فَجَاہِدْ۔ (بخاری ۳۰۰۴۔ مسلم ۱۹۷۵)
(٣٤١٤٢) حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) سے مروی ہے کہ ایک شخص اللہ کے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں جہاد کی اجازت لینے کیلئے حاضر ہوا، آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : کیا آپ کے والدین حیات ہیں ؟ اس نے عرض کیا کہ جی ہاں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا ان کی خدمت کر کے جہاد کرو۔

34142

(۳۴۱۴۳) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنْ کُرَیْبٍ ، قَالَ : جَائَتِ امْرَأَۃٌ إِلَی ابْنِ عَبَّاسٍ ، وَابْنُہَا یُرِیدُ الْغَزْوَ وَأُمُّہُ تَکْرَہُ لَہُ ، فَقَالَ لَہُ ابْنُ عَبَّاسٍ : أَطِعْ وَالِدَتَکَ ، وَاجْلِسْ عِنْدَہَا۔
(٣٤١٤٣) حضرت کریب سے مروی ہے کہ ایک خاتون اپنے بیٹے کو لے کر حضرت ابن عباس (رض) کی خدمت میں حاضر ہوئی اس کا بیٹا جہاد پر جانا چاہتا تھا اور اس کی والدہ ناپسند کر رہی تھی، حضرت ابن عباس (رض) نے اس سے فرمایا : اپنی والدہ کی اطاعت کر اور ان کے پاس رہ۔

34143

(۳۴۱۴۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، قَالَ: حدَّثَنَا ہَمَّامٌ، عَنْ قَتَادَۃَ، عَنْ زُرَارَۃَ بْنِ أَوْفَی، قَالَ: جَائَ رَجُلٌ إِلَی ابْنِ عَبَّاسٍ، فَقَالَ: إِنِّی أَرَدْتُ أَنْ أَغْزُوَ، وَإِنَّ أَبَوِیَّ یَمْنَعَانِی؟ قَالَ: أَطِعْ أَبَوَیْک وَاجْلِسْ، فَإِنَّ الرُّومَ سَتَجِدُ مَنْ یَغْزُوہَا غَیْرُک۔
(٣٤١٤٤) حضرت زراہ بن اوفیٰ سے مروی ہے کہ ایک شخص حضرت ابن عباس (رض) کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا میں جہاد پر جانا چاہتا ہوں جب کہ میرے والدین مجھے منع کر رہے ہیں ؟ حضرت ابن عباس (رض) نے ارشاد فرمایا، اپنے والدین کی اطاعت کر اور ان کے پاس رہ بیشک تو روم میں اپنے علاوہ بھی بہت سوں کو لڑتے ہوئے عنقریب پائے گا۔

34144

(۳۴۱۴۵) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ طَلْحَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ طَلْحَۃَ بْنِ مُعَاوِیَۃَ السُّلَمِیِّ ، قَالَ : جِئْتُ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقُلْتُ ، یَا رَسُولَ اللہِ ، إِنِّی أُرِیدُ الْجِہَادَ مَعَک فِی سَبِیلِ اللہِ ، أَبْتَغِی بِذَلِکَ وَجْہَ اللہِ ، قَالَ : حَیَّۃٌ أُمُّک ؟ قُلْتُ : نَعَمْ ، قَالَ : الْزَمْہَا ، قُلْتُ : مَا أَرَی فَہِمَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنِّی ، فَأَعَدْتُ عَلَیْہِ مِرَارًا ، فَقَالَ : اِلْزَمْ رِجْلَیْہَا فَثَمَّ الْجَنَّۃُ۔
(٣٤١٤٥) حضرت طلحہ بن معاویہ (رض) فرماتے ہیں کہ میں رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا اے اللہ کے رسول 5! میں آپ کے ساتھ اللہ کی راہ میں جہاد پر جانا چاہتا ہوں اور اس کے ذریعہ اللہ کی خوشنودی کا طالب ہوں۔ آپ نے ارشاد فرمایا : کیا تمہاری والدہ زندہ ہیں ؟ میں نے عرض کیا جی ہاں : فرمایا ان کی خدمت کو لازم پکڑو میں نے عرض کیا میرا نہیں خیال نہ اللہ کے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میری بات سمجھے ہوں، میں نے بار بار اپنی بات دھرائی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اپنی والدہ کے پاؤں پکڑ لو (خدمت کرو) جنت وہاں ہی ہے۔

34145

(۳۴۱۴۶) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ؛ أَنَّ رَجُلَیْنِ تَرَکَا أَبَاہُمَا شَیْخًا کَبِیرًا وَغَزَوَا ، فَبَلَغَ ذَلِکَ عُمَرَ فَرَدَّہُمَا إِلَی أَبِیہِمَا ، وَقَالَ : لاَ تُفَارِقَاہُ حَتَّی یَمُوتَ۔
(٣٤١٤٦) حضرت عروہ (رض) سے مروی ہے کہ دو آدمیوں نے اپنے ضعیف والد کو تنہا چھوڑا اور جہاد پر چلے گئے، حضرت عمر (رض) کو جب اس کی خبر ملی تو آپ (رض) نے ان دونوں کو واپس کردیا اور فرمایا ان کی وفات تک ان سے جدا مت ہونا، (ان کے ساتھ رہنا) ۔

34146

(۳۴۱۴۷) حَدَّثَنَا سُفْیانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ بْنِ أَبِی یَزِیدَ ؛ سَأَلَ رَجُلٌ عُبَیْدَ بْنَ عُمَیْرٍ : أَیَغْزُو الرَّجُلُ وَأَبَوَاہُ کَارِہَانِ ، أَوْ أَحَدُہُمَا ؟ قَالَ : لاَ۔
(٣٤١٤٧) حضرت عبداللہ (رض) سے مروی ہے کہ ایک شخص نے حضرت عبید اللہ بن عمیر سے دریافت کیا کہ کیا کوئی شخص اس حالت میں جہاد پر جاسکتا ہے جب کہ اس کے والدین یا ان میں سے کوئی ایک اس کے جانے کو ناپسند کررہا ہو ؟ آپ نے فرمایا کہ نہیں۔

34147

(۳۴۱۴۸) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ مُوسَی بْنِ عُقْبَۃَ ، عَنْ سَالِمٍ ، أَوْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُتْبَۃَ ؛ أَرَادَ مُحَمَّدُ بْنُ طَلْحَۃَ الْغَزْوَ، فَأَتَتْ أُمُّہُ عُمَرَ ، فَأَمَرَہُ أَنْ یُقِیمَ ، فَلَمَّا وُلِّیَ عُثْمَانُ أَرَادَ الْغَزْوَ ، فَأَتَتْ أُمُّہُ عُثْمَانَ ، فَأَمَرَہُ أَنْ یُقِیمَ ، فَقَالَ : إِنَّ عُمَرَ لَمْ یُجْبِرْنِی ، أَوَ یَعْزِم عَلَیَّ ، فَقَالَ : لَکِنِّی أُجْبِرُک۔
(٣٤١٤٨) حضرت عبداللہ بن عتبہ (رض) سے مروی ہے کہ حضرت محمد بن طلحہ نے جہاد پر جانے کا ارادہ فرمایا تو ان کی والدہ حضرت عمر (رض) کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور شکایت کی تو انھوں نے ان کو رکنے کا حکم فرما دیا پھر جب حضرت عثمان (رض) خلیفہ بنے تو انھوں نے پھر جہاد پر جانے کا ارادہ فرمایا تو ان کی والدہ حضرت عثمان (رض) کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور شکایت کی تو انھوں نے ان کو رکنے کا حکم فرما دیا اور فرمایا حضرت عمر (رض) نے مجھ پر جبر نہیں فرمایا تھا لیکن میں آپ پر جبر کروں گا۔

34148

(۳۴۱۴۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا مِسْعَرٌ ، عَنْ مَعَنْ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، قَالَ : غَزَا رَجُلٌ نَحْوَ الشَّامِ ، یُقَالَ لَہُ : شَیْبَانُ ، وَلَہُ أَبٌ شَیْخٌ کَبِیرٌ ، فَقَالَ أَبُوہُ فِی ذَلِکَ شَعْرًا : أَشَیْبَانُ مَا یُدْرِیک أَنَّ رُبَّ لَیْلَۃٍ غَبْقْتُک فِیہَا ، وَالَغَبوقُ حَبِیبُ أَأَمْہَلْتنِی حَتَّی إِذَا مَا تَرَکَتْنِی أَرَی الشَّخْصَ کَالشَّخْصَیْنِ وَہُوَ قَرِیبُ أَشَیْبَانُ إِنْ بَاتَ الْجُیُوشُ تَجِدُہُمْ یُقَاسُونَ أَیَّامًا بِہِنَّ خُطُوبُ قالَ : فَبَلَغَ ذَلِکَ عُمَرَ فَرَدَّہُ
(٣٤١٤٩) حضرت معن بن عبدالرحمن سے مروی ہے کہ ایک شخص جس کو شیبان کہا جاتا تھا ملک شام کی طرف جہاد میں چلا گیا، اس کا والد بوڑھا تھا، اس کے والد نے اس کی یاد میں اشعار پڑھے !
” اے شیبان ! تجھے نہیں معلوم کہ تیرے بعد مجھ پر کتنی راتیں ایسی گزری ہیں جن میں میں نے تجھے یاد کیا اور تیری یاد میرے لیے محبوب ہے۔ جب سے تو مجھے چھوڑ کر گیا ہے مجھے قریب کھڑا ایک شخص دو شخصوں کی طرح لگتا ہے۔ اے شیبان تو ان لشکروں کے ساتھ ہے جو رات اور دن اس حال میں کرتے ہیں کہ وہ مشقت کا شکار ہوتے ہیں۔ “
جب اس کے یہ اشعار حضرت عمر (رض) کو پہنچے تو انھوں نے اس کے یٹے کو واپس بلا لیا۔

34149

(۳۴۱۵۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : إِذَا أَذِنَتْ لَکَ أُمُّک فِی الْجِہَادِ ، وَأَنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ ہَوَاہَا عِنْدَکَ فِی الْجُلُوسِ ، فَاجْلِسْ۔
(٣٤١٥٠) حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ جب تمہاری والدہ تمہیں جہاد پر جانے کی اجازت دے دیں اور آپ کو یہ بات معلوم ہو کہ ان کی خواہش ہے کہ آپ نہ جاؤ تو آپ مت جاؤ اس کے پاس ٹھہر جاؤ۔

34150

(۳۴۱۵۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا مِسْعَرٌ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جُحَادَۃَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : جَائَ رَجُلٌ إِلَی النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَسْتَأْذِنُہُ فِی الْجِہَادِ ، فَقَالَ : لَکَ حَوْبَۃٌ ؟ قَالَ : نَعَمْ ، قَالَ : اجْلِسْ عِنْدَہَا۔ (عبدالرزاق ۹۲۸۶)
(٣٤١٥١) حضرت حسن (رض) سے مروی ہے کہ ایک شخص حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں جہاد کی اجازت لینے کے لیے حاضر ہوا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس دریافت فرمایا کیا تمہاری والدہ حیات ہے ؟ اس نے عرض کیا کہ جی ہاں، آپ نے ارشاد فرمایا ان کے پاس رہ کر ان کی خدمت کرو۔

34151

(۳۴۱۵۲) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ یَزِیدَ ، عَنْ حَمَّادٍ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، قَالَ : إِذَا قَاتَلَ الْعَبْدُ عَلَی فَرَسٍ مَوْلاَہُ ، فَقُسِمَ لِلْمُسْلِمِینَ ، قُسِمَ لِفَرَسِ مَوْلاَہُ کَمَا یُقْسَمُ لِخَیْلِ الْمُسْلِمِینَ ، فَکَانَ لِمَوْلاَہُ ، وَیُقْسَمُ لِلْعَبْدِ کَمَا یُقْسَمُ لِرَجُلٍ مِنَ الْمُسْلِمِینَ۔
(٣٤١٥٢) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ اگر غلام آقا کے گھوڑے پر سوار ہو کر قتال کرے تو جب مسلمانوں کیلئے مالِ غنیمت تقسیم کیا جائے گا، تو اس کے آقا کے گھوڑے کیلئے بھی تقسیم کیا جائے گا جیسے مسلمانوں کے گھوڑوں کیلئے کیا جاتا ہے، اور غلام کو بھی حصہ دیا جائے گا، جیسے مسلمانوں میں سے کسی ایک کو ملتا ہے۔

34152

(۳۴۱۵۳) حَدَّثَنَا حَفْصٌ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ أَبِی عُثْمَانَ؛ أَنَّ عُمَرَ جَعَلَ عَلَی أَہْلِ السَّوَادِ ضِیَافَۃً ثَلاَثَۃَ أَیَّامٍ لاِبْنِ السَّبِیلِ۔
(٣٤١٥٣) حضرت عمر (رض) نے عراق والوں پر لازم کیا کہ مسافر کی تین دن مہمان نوازی کریں۔

34153

(۳۴۱۵۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا شُعْبَۃُ ، عَنْ قَیْسِ بْنِ مُسْلِمٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِی لَیْلَی ؛ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ اشْتَرَطَ عَلَی أَہْلِ السَّوَادِ ضِیَافَۃَ یَوْمٍ وَلَیْلَۃٍ ، فَکَانَ أَحَدُہُمْ یَقُولُ : شَبَاہُ شَبَاہُ ، یَعْنِی لَیْلَۃً۔
(٣٤١٥٤) حضرت عمر (رض) نے عراق والوں پر ایک دن اور رات کی مہمان نوازی کی شرط لگائی ان میں سے ایک کہتا تھا، رات، رات۔

34154

(۳۴۱۵۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، قَالَ: حدَّثَنَا ہِشَامٌ الدَّسْتَوَائِیُّ، عَنْ قَتَادَۃَ، عَنِ الْحَسَن، عَنِ الأَحْنَفِ بْنِ قَیْسٍ؛ أَنَّ عُمَرَ اشْتَرَطَ ضِیَافَۃَ یَوْمِ وَلَیْلَۃٍ ، وَأَنْ یُصْلِحُوا الْقَنَاطِرَ ، وَإِنْ قُتِلَ رَجُلٌ مِنَ الْمُسْلِمِینَ بِأَرْضِہِمْ فَعَلَیْہِمْ دِیَتُہُ۔
(٣٤١٥٥) حضرت عمر (رض) نے ایک دن اور ایک رات کی مہمان نوازی کی شرط لگائی، اگرچہ وہ عمارتوں پر صلح کریں، اور اگر ان کی زمین پر مسلمانوں میں سے کسی کو قتل کیا گیا تو ان پر دیت ہے۔

34155

(۳۴۱۵۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا إِسْرَائِیلُ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ حَارِثَۃَ بْنِ مُضَرِّبٍ الْعَبْدِیِّ ، عَنْ عُمَرَ ؛ أَنَّہُ اشْتَرَطَ عَلَی أَہْلِ الذِّمَّۃِ ضِیَافَۃَ یَوْمٍ وَلَیْلَۃٍ ، فَإِنْ حَبَسَہُمْ مَطَرٌ ، أَوْ مَرَضٌ فَیَوْمَیْنِ ، فَإِنْ أَقَامُوا أَکْثَرَ مِنْ ذَلِکَ أَنْفَقُوا مِنْ أَمْوَالِہِمْ ، وَلَمْ یُکَلَّفوا إِلاَّ مَا یُطِیقُونَہُ۔
(٣٤١٥٦) حضرت عمر (رض) نے ذمیوں پر ایک دن اور رات کی مہمان نوازی کی شرط لگائی، اور اگر ان کو بارش روک دے یا مرض لاحق ہوجائے تو پھر دو دن اور اگر اس سے زیادہ قیام کریں تو ان کے اپنے اموال میں سے ان پر خرچ کیا جائے، اور ان کو مکلف نہیں بنائیں گے مگر جس کی وہ طاقت رکھیں۔

34156

(۳۴۱۵۷) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو ، عَنْ أَبِی سَلَمَۃَ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : الضِّیَافَۃُ ثَلاَثَۃُ أَیَّامٍ ، فَمَا بَعْدَہَا فَہُوَ صَدَقَۃٌ۔ (ابوداؤد ۳۷۴۳۔ احمد ۲۸۸)
(٣٤١٥٧) حضرت ابوہریرہ (رض) سے مروی ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : مہمان نوازی تین دن ہے پھر اس کے بعد صدقہ ہے۔

34157

(۳۴۱۵۸) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَجْلاَنَ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ أَبِی سَعِیدٍ ، عَنْ أَبِی شُرَیْحٍ الْخُزَاعِیِّ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : مَنْ کَانَ یُؤْمِنُ بِاللہِ وَالْیَوْمِ الآخِرِ فَلْیُکْرِمْ ضَیْفَہُ ، جَائِزَتُہُ یَوْمًا وَلَیْلَۃً ، وَلاَ یَحِلُّ لِضَیْفٍ أَنْ یَثْوِیَ عِنْدَ صَاحِبِہِ حَتَّی یُحْرِجَہُ ، الضِّیَافَۃُ ثَلاَثٌ ، وَمَا أَنْفَقَ عَلَیْہِ بَعْدَ ثَلاَثٍ فَہُوَ صَدَقَۃٌ۔ (بخاری ۶۰۱۹۔ مسلم ۱۳۵۲)
(٣٤١٥٨) حضرت ابو شریح الخزاعی (رض) سے مروی ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو تو اس کو چاہیے ایک دن اور ایک رات اپنے مہمان کا اکرام کرے، اور مہمان کیلئے جائز نہیں کہ وہ میزبان کے پاس اتنا قیام کرے کہ اس کو حرج میں ڈال دے، مہمان نوازی تین دن ہے تین دن کے بعد جو خرچ کیا جائے گا وہ صدقہ ہے۔

34158

(۳۴۱۵۹) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، عَن سَعِیدِ بْنِ وَہْبٍ ، عَنْ رَجُلٍ مِنَ الأَنْصَارِ ؛ أَنَّ مِمَّا أَخَذَ عُمَرُ عَلَی أَہْلِ الذِّمَّۃِ ضِیَافَۃَ یَوْمٍ وَلَیْلَۃٍ۔
(٣٤١٥٩) حضرت سعید بن وھب ایک انصاری سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) ذمیوں سے ایک دن اور رات کی مہمان نوازی وصول فرماتے۔

34159

(۳۴۱۶۰) حَدَّثَنَا عِیسَی بْنُ یُونُسَ ، عَنِ الأَوْزَاعِیِّ ، قَالَ : حدَّثَنِی ابْنُ سُرَاقَۃَ ؛ أَنَّ أَبَا عُبَیْدَۃَ بْنَ الْجَرَّاحِ کَتَبَ لأَہْلِ دَیْرِ طَیَایَا : عَلَیْکُمْ إِنْزَالُ الضَّیْفِ ثَلاَثَۃَ أَیَّامٍ ، وَإِنَّ ذِمَّتَنَا بَرِیئَۃٌ مِنْ مَعَرَّۃِ الْجَیْشِ۔
(٣٤١٦٠) حضرت ابو عبیدۃ بن الجراح (رض) نے دیر والوں کو تحریر فرمایا : تم پر تین دن تک مہمان کا اکرام لازم ہے اور بیشک ہمارا ذمہ لشکر کے ظلم سے بری ہے، لشکر کے ظلم سے مراد ذمیوں کی فصلوں کو بلااجازت استعمال کرنا۔

34160

(۳۴۱۶۱) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنِ الْجُرَیرِیِّ ، عَنْ أَبِی نَضْرَۃَ ، عَنْ أَبِی سَعِیدٍ ، قَالَ : الضِّیَافَۃُ ثَلاَثَۃُ أَیَّامٍ ، وَمَا وَرَائَ ذَلِکَ فَہُوَ صَدَقَۃٌ۔ (احمد ۷۔ عبدالرزاق ۲۰۵۲۸)
(٣٤١٦١) حضرت ابو سعید (رض) فرماتے ہیں مہمان نوازی تین دن ہے اس کے بعد وہ صدقہ ہے۔

34161

(۳۴۱۶۲) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ نَافِعٍ ، قَالَ: نَزَلَ ابْنُ عُمَرَ بِقَوْمٍ ، فَلَمَّا مَضَی ثَلاَثَۃُ أَیَّامٍ ، قَالَ: یَا نَافِعُ، أَنْفِقْ عَلَیْنَا ، فَإِنَّہُ لاَ حَاجَۃَ لَنَا أَنْ یُتَصَدَّقَ عَلَیْنَا۔
(٣٤١٦٢) حضرت نافع (رض) سے مروی ہے کہ حضرت ابن عمر (رض) کی ایک قوم نے مہمان نوازی کی جب تین دن گزر گئے تو فرمایا اے نافع ! ہم پر خرچ کر، ہمیں کوئی ضرورت نہیں ہے کہ ہم پر صدقہ کیا جائے۔

34162

(۳۴۱۶۳) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ عَبْدِ الْوَاحِدِ بْنِ أَیْمَنَ ، قَالَ : کَانَ الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِیٍّ یَنْزِلُ عَلَیْنَا ، فَإِذَا أَنْفَقْنَا عَلَیْہِ ثَلاَثَۃَ أَیَّامٍ أَبَی أَنْ یَقْبَل مِنَّا۔
(٣٤١٦٣) حضرت عبدالواحد بن ایمن فرماتے ہیں کہ حضرت حسن بن محمد بن علی ہمارے پاس تشریف لاتے، جب ہم تین دن تک ان کی خوب مہمان نوازی کرتے تو اس کے بعد ہم سے کچھ قبول کرنے سے انکار کرتے۔

34163

(۳۴۱۶۴) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِِ ، عَنْ مُسْلِمٍ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، عَن عَلْقَمَۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : لِلْمُسَافِرِ ثَلاَثَۃُ أَیَّامٍ عَلَی مَنْ مَرَّ بِہِ ، فَمَا جَازَ فَہُوَ صَدَقَۃٌ، وَکُلُّ مَعْرُوفٍ صَدَقَۃٌ۔
(٣٤١٦٤) حضرت عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ مسافر کیلئے تین کی اجازت ہے جس پر وہ گزرے، جب تین دن سے تجاوز کرے تو وہ صدقہ ہے، اور ہر نیکی صدقہ ہے۔

34164

(۳۴۱۶۵) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُدَیْرٍ ، عَنْ أَبِی مِجْلَزٍ ، قَالَ : حقُّ الضَّیْفِ ثَلاَثَۃُ أَیَّامٍ ، فَمَا جَازَ ذَلِکَ فَہُوَ صَدَقَۃٌ۔
(٣٤١٦٥) حضرت ابو مجلز (رض) فرماتے ہیں کہ مہمان کا حق تین دن ہے، جو اس سے تجاوز کرے وہ صدقہ ہے۔

34165

(۳۴۱۶۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا شُعْبَۃُ ، عَنْ أَبِی عِمْرَانَ الْجَوْنِیِّ ، قَالَ : سَمِعْتُ جُنْدُبًا الْبَجَلِیَّ ، یَقُولُ : کُنَّا نُصِیبُ مِنْ طَعَامِہِمْ مِنْ غَیْرِ أَنْ نُشَارِکَہُمْ فِی بُیُوتِہِمْ ، وَنَأْخُذُ الْعِلْجَ فَیَدُلَّنَا مِنَ الْقَرْیَۃِ إِلَی الْقَرْیَۃِ۔
(٣٤١٦٦) حضرت جندب البجلی (رض) فرماتے ہیں کہ ان کے کھانے میں ہمارا حصہ ہے ان کے گھروں میں شریک ہوئے بغیر ہم عجمی کافر کو پکڑیں گے پھر وہ ہمیں پھرائے گا ایک بستی سے دوسری بستی کی طرف۔

34166

(۳۴۱۶۷) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ وَقَائَ الأَسَدِیِّ ، عَنْ أَبِی ظَبْیَانِ ، قَالَ : کُنَّا مَعَ سَلْمَانَ الْفَارِسِیِّ فِی غَزَاۃٍ ، إمَّا فِی جَلُولاَئَ ، وَإِمَّا فِی نُہَاوَنْدَ ، قَالَ : فَمَرَّ رَجُلٌ وَقَدْ جَنَی فَاکِہَۃً ، قَالَ : فَجَعَلَ یَقْسِمُہَا بَیْنَ أَصْحَابِہِ ، فَمَرَّ سَلْمَانُ فَسَبَّہُ ، فَرَدَّ عَلَی سَلْمَانَ وَہُوَ لاَ یَعْرِفُہُ ، قَالَ : فَقِیلَ لَہُ : ہَذَا سَلْمَانُ ، فَرَجَعَ إِلَی سَلْمَانَ یَعْتَذِرُ إِلَیْہِ، فَقَالَ لَہُ الرَّجُلُ : مَا یَحِلَّ لأَہْلِ الذِّمَّۃِ ، یَا أَبَا عَبْدِ اللہِ ؟ فَقَالَ : ثَلاَثٌ : مِنْ عَمَاک إِلَی ہُدَاک ، وَمِنْ فَقْرِکَ إِلَی غِنَاک ، وَإِذَا صَحِبْتِ الصَّاحِبَ مِنْہُمْ تَأْکُلُ مِنْ طَعَامِہِ ، وَیَأْکُلُ مِنْ طَعَامِکَ ، وَتَرْکَبُ دَابَّتَہُ ، وَلاَ تَصْرِفُہُ عَنْ وَجْہٍ یُرِیدُہُ۔
(٣٤١٦٧) حضرت ابو ظبیان (رض) فرماتے ہیں کہ ہم ایک غزوہ میں حضرت سلمان فارسی (رض) کے ساتھ تھے یا تو جنگ جلولاء تھی یا پھر جنگ نھاوند۔
فرماتے ہیں کہ ہمارے پاس سے ایک شخص گزرا جس نے پھل توڑے ہوئے تھے، اس نے ساتھیوں کے درمیان ان کو تقسیم کرنا شروع کردیا، حضرت سلمان وہاں سے گزرے تو آپ نے اس کو برا بھلا کہا، اس نے بھی حضرت سلمان کو برا کہا نہ پہچاننے کی وجہ سے، اس کو بتایا گیا کہ یہ حضرت سلمان ہیں تو وہ حضرت سلمان کے پاس معذرت کے لیے گیا، پھر ان سے ایک شخص نے پوچھا کہ ! اے ابو عبداللہ ! ذمیوں کیلئے کیا چیز حلال ہے ؟ حضرت سلمان نے فرمایا تین چیزیں۔
تمہاری گمراہی سے ہدایت یافتہ ہونے تک تمہارے فقر سے مالداری تک، جب ان میں سے کوئی تمہارے ساتھ ہو تو تم اس کے کھانے میں سے استعمال کرلو اور وہ تمہارے کھانے میں سے، اور تم اس کی سواری پر سوار ہوجاؤ، (اور وہ تمہاری سواری پر) اور وہ چاہتا ہو تو اس سے چہرہ کو مت پھیرو۔

34167

(۳۴۱۶۸) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : الْخَیْلُ مَعْقُودٌ فِی نَوَاصِیہَا الْخَیْرُ إِلَی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ۔ (مسلم ۱۴۹۳۔ احمد ۱۱۲)
(٣٤١٦٨) حضرت ابن عمر (رض) سے مروی ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : گھوڑے کی پیشانی پر قیامت تک خیر باندھ دی گئی، (رکھ دی گئی ہے)

34168

(۳۴۱۶۹) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ إِدْرِیسَ، وَمُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ، عَنْ حُصَیْنٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنْ عُرْوَۃَ الْبَارِقِیِّ ، رَفَعَہُ، قَالَ : الْخَیْرُ مَعْقُودٌ فِی نَوَاصِی الْخَیْلِ إِلَی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ : الأَجْرُ وَالْمَغْنَمُ ۔ وَزَادَ ابْنُ إِدْرِیسَ فِی حَدِیثِہِ: وَالإِبِلُ عِزُّ أَہْلِہَا ، وَالْغَنَمُ بَرَکَۃٌ۔ (مسلم ۱۴۹۳۔ طبرانی ۳۹۹)
(٣٤١٦٩) حضرت عروہ البارقی (رض) سے مروی ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : گھوڑے کی پیشانی پر قیامت تک خیر رکھ دی گئی ہے اجر اور غنیمت بھی اور حضرت ابن ادریس اس حدیث میں اضافہ فرماتے ہیں کہ : اور اونٹ میں اس کے مالک کیلئے عزت ہے، اور بکری بھی باعث برکت ہے۔

34169

(۳۴۱۷۰) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنِ ابْنِ أَبِی السَّفَرِ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنْ عُرْوَۃَ الْبَارِقِیِّ ، قَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، یَقُولُ : الْخَیْلُ مَعْقُودٌ فِی نَوَاصِیہَا الْخَیْرُ إِلَی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ ، الأَجْرُ وَالْمَغْنَمُ۔ (نسائی ۴۴۱۸۔ احمد ۳۷۶)
(٣٤١٧٠) حضرت عروہ البارقی سے اسی طرح مروی ہے۔

34170

(۳۴۱۷۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ یُونُسَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ سَعِیدٍ ، عَنْ أَبِی زُرْعَۃَ بْنِ عمْرِو بْنِ جَرِیرٍ ، عَنْ جَرِیرٍ ، قَالَ : رَأَیْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَلْوِی نَاصِیَۃَ فَرَسِہِ بِإِصْبَعِہِ ، وَیَقُولُ : الْخَیْرُ مَعْقُودٌ فِی نَوَاصِی الْخَیْلِ إِلَی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ ، الأَجْرُ وَالْمَغْنَمُ۔ (مسلم ۱۴۹۳۔ احمد ۳۶۱)
(٣٤١٧١) حضرت جریر (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیکھا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی انگلی مبارک سے گھوڑے کی پیشانی کی طرف اشارہ کر کے فرمایا : گھوڑے کی پیشانی میں اجر اور غنیمت کی صورت میں قیامت تک خیر رکھ دی گئی ہے۔

34171

(۳۴۱۷۲) حَدَّثَنَا شَبَابَۃُ ، عَنْ عَبْدِ الْحَمِیدِ بْنِ بَہْرَامَ ، عْن شَہْرِ بْنِ حَوْشَبٍ ، عَنْ أَسْمَائَ بِنْتِ یَزِیدَ ، قَالَتْ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إِنَّ الْخَیْلُ مَعْقُودٌ فِی نَوَاصِیہَا الْخَیْرُ إِلَی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ۔ (احمد ۴۵۵)
(٣٤١٧٢) حضرت اسماء بنت یزید (رض) سے مروی ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : گھوڑے کی پیشانی میں قیامت تک خیر رکھ دی گئی ہے۔

34172

(۳۴۱۷۳) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ أَبِی التَّیَّاحِ ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : الْبَرَکَۃُ فِی نَوَاصِی الْخَیْلِ۔ (بخاری ۲۸۵۱۔ مسلم ۱۴۹۴)
(٣٤١٧٣) حضرت انس (رض) سے مروی ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : برکت گھوڑے کی پیشانی میں ہے۔

34173

(۳۴۱۷۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا ابْنُ عَوْنٍ ، عَنْ سَعِیدٍ الْبَزَّارِ ، عَنْ مَکْحُولٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : الْخَیْلُ مَعْقُودٌ فِی نَوَاصِیہَا الْخَیْرُ إِلَی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ ، وَأَہْلُہَا مُعَانُونَ عَلَیْہَا۔ (سعید بن منصور ۲۴۲۹)
(٣٤١٧٤) حضرت مکحول (رض) سے مروی ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : گھوڑے کی پیشانی میں قیامت تک خیر رکھ دی گئی ہے۔ اور ان کے مالک ان پر نگہبان و محافظ ہیں۔

34174

(۳۴۱۷۵) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِِ ، عَنْ شَبِیبِ بْنِ غَرْقَدَۃَ ، عَنْ عُرْوَۃَ الْبَارِقِیِّ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : الْخَیْرُ مَعْقُودٌ بِنَوَاصِی الْخَیْلِ إِلَی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ۔ (بخاری ۳۶۴۳۔ مسلم ۱۴۹۴)
(٣٤١٧٥) حضرت عروہ (رض) سے مروی ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : گھوڑے کی پیشانی میں قیامت تک خیر رکھ دی گئی ہے۔

34175

(۳۴۱۷۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا إِسْرَائِیلُ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنِ الْحَارِثِ ، عَنْ عَلِیٍّ ، قَالَ : مَنِ ارْتَبَطَ فَرَسًا فِی سَبِیلِ اللہِ کَانَ رَوْثُہُ ، وَبَوْلُہُ ، وَعَلَفُہُ ، وَکَذَا ، وَکَذَا فِی مِیزَانِہِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ۔ (ابو عوانۃ ۷۳۸۶)
(٣٤١٧٦) حضرت علی (رض) نے ارشاد فرمایا جو شخص جہاد کیلئے گھوڑا پالے تو اس کا پیشاب وگوبر اور اس کا چارہ بھی قیامت کے دن نامہ اعمال میں تولا جائے گا۔

34176

(۳۴۱۷۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حَدَّثَنَا عَبْدُ الْحَمِیدِ بْنُ بَہْرَامَ ، عْن شَہْرِ بْن حَوْشَبٍ ، عَنْ أَسْمَائَ بِنْتِ یَزِیدَ ، قَالَتْ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَنِ ارْتَبَطَ فَرَسًا فِی سَبِیلِ اللہِ ، فَأَنْفَقَ عَلَیْہِ احْتِسَابًا کَانَ شِبَعُہُ وَجُوعُہُ ، وَظَمَؤُہُ ، وَرِیُّہُ ، وَرَوْثُہُ ، وَبَوْلُہُ فِی مِیزَانِہِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ، وَمَنَ ارْتَبَطَ فَرَسًا رِیَاء ً وَسُمْعَۃً کَانَ ذَلِکَ خُسْرَانًا فِی مِیزَانِہِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ۔
(٣٤١٧٧) حضرت اسماء بنت یزید (رض) سے مروی ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جو شخص جہاد کیلئے گھوڑا پالے پھر ثواب کی نیت سے اس پر خرچ کرے تو اس کا پیٹ بھرنا، اس کا بھوکا پیاسا رہنا، اس کا گوبر اور پیشاب قیامت کے دن نامہ اعمال میں تولا جائے گا، (نیکیوں کے نامہ اعمال میں) اور جو شخص ریاء اور نمائش کیلئے گھوڑا پالے تو قیامت کے دن اس کے نامہ اعمال میں ناکامی کا سبب ہوگا۔

34177

(۳۴۱۷۸) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَنْ زَائِدَۃَ ، عَنِ الرُّکَیْنِ ، عَنْ أَبِی عَمْرٍو الشَّیْبَانِیِّ ، عَنْ رَجُلٍ مِنَ الأَنْصَارِ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : الْخَیْلُ ثَلاَثَۃٌ : فَرَسٌ یَرْتَبِطُہُ الرَّجُلُ فِی سَبِیلِ اللہِ ، فَثَمَنُہُ أَجْرٌ ، وَرُکُوبُہُ أَجْرٌ ، وَعَارِیَّتُہُ أَجْرٌ ، وَعَلَفُہُ أَجْرٌ ، وَفَرَسٌ یُغَالِقُ عَلَیْہِ الرَّجُلُ وَیُرَاہِنُ عَلَیْہِ ، فَثَمَنُہُ وِزْرٌ ، وَعَلَفُہُ وِزْرٌ ، وَرُکُوبُہُ وِزْرٌ ، وَفَرَسٌ لِلْبِطْنَۃِ فَعَسَی أَنْ یَکُونَ سَدَادًا مِنَ الْفَقْرِ إِنْ شَائَ اللَّہُ۔ (احمد ۳۹۵)
(٣٤١٧٨) حضرت ابو عمر الشیبانی (رض) ایک انصاری سے روایت کرتے ہیں کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : گھوڑا تین قسم کا ہے، ایک وہ گھوڑا جس کو جہاد کیلئے پالا ہے اس کی قیمت اجر ہے، اس پر سواری کرنا ثواب ہے، اس کا کرایہ ثواب ہے، اس کا چارہ ثواب ہے، دوسرا وہ گھوڑا جو بازی لگانے کیلئے ہے اس کی قیمت بھی بوجھ ہے، اس کا چارہ بھی بوجھ ہے اور اس پر سواری بھی بوجھ ہے، اور تیسرا وہ گھوڑا جو شکم سیری کیلئے ہے، پس قریب ہے کہ وہ اس کو فقر سے محفوظ رکھے گا، اگر اللہ نے چاہا تو۔

34178

(۳۴۱۷۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْمَسْعُودِیُّ، عَنْ مُزَاحِمِ بْنِ زُفَرَ التَّیْمِیِّ، عَنْ رَجُلٍ، عَنْ خَبَّابٍ، قَالَ: الْخَیْلُ ثَلاَثَۃٌ : فَرَسٌ لِلَّہِ ، وَفَرَسٌ لَکَ ، وَفَرَسٌ لِلشَّیْطَانِ ؛ فَأَمَّا الْفَرَسُ الَّذِی لِلَّہِ : فَالْفَرَسُ الَّذِی یُغْزَی عَلَیْہِ، وَأَمَّا الْفَرَسُ الَّذِی لَکَ : فَالْفَرَسُ الَّذِی یَسْتَبْطِنُہُ الرَّجُلُ ، وَأَمَّا الْفَرَسُ الَّذِی لِلشَّیْطَانِ : فَمَا قُومِرَ عَلَیْہِ وَرُوہِنَ۔ (طبرانی ۳۷۰۷)
(٣٤١٧٩) حضرت خباب (رض) سے مروی ہے کہ گھوڑا تین طرح کا ہے، ایک وہ جو اللہ کیلئے ہے، دوسرا وہ جو آپ کیلئے (مالک) ہے اور تیسرا وہ جو شیطان کیلئے ہے۔ بہرحال اللہ کیلیے وہ گھوڑا ہے جس پر سوار ہو کر جہاد کیا جائے، اور وہ گھوڑا جو آپ کے لیے ہے وہ گھوڑا ہے جسے آدمی اپنا پیٹ بھرنے کیلئے پالے، اور شیطان کیلئے وہ گھوڑا ہے جس پر جوا اور شرط لگائی جائے۔

34179

(۳۴۱۸۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ شُعْبَۃَ بْنِ دِینَارٍ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ ؛ {وَأَعِدُّوا لَہُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ} قَالَ : الْحُصُونُ ، قَالَ : {وَمِنْ رِبَاطِ الْخَیْلِ} قَالَ : الإِنَاثُ۔
(٣٤١٨٠) حضرت عکرمہ (رض) قرآن کریم کی آیت { وَأَعِدُّوا لَہُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ } کی تفسیر میں فرماتے ہیں اس سے مراد قلعوں کی تعمیر کرنا ہے، اور { مِنْ رِبَاطِ الْخَیْلِ } سے مراد مونث گھوڑے ہیں۔

34180

(۳۴۱۸۱) حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ بِلاَلٍ ، عَنْ سُہَیْلٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : الْخَیْلُ مَعْقُودٌ فِی نَوَاصِیہَا الْخَیْرُ إِلَی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ۔ (بخاری ۲۳۷۱۔ مسلم ۲۸۲)
(٣٤١٨١) حضرت ابوہریرہ (رض) سے مروی ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : گھوڑے کی پیشانی میں قیامت تک خیر رکھ دی گئی ہے۔

34181

(۳۴۱۸۲) حَدَّثَنَا مُعَاوِیَۃُ بْنُ ہِشَامٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا مَالِکُ بْنُ أَنَسٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ أَبِی بَکْرٍ ، عَنْ عَبَّادِ بْنِ تَمِیمٍ ، عَنْ أَبِی بَشِیرٍ الأَنْصَارِیِّ ، قَالَ : کُنَّا مَعَ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی بَعْضِ أَسْفَارِہِ ، فَأَرْسَلَ رَسُولاً : لاَ تَبْقَی فِی عُنُقِ بَعِیرٍ قِلاَدَۃٌ مِنْ وَتَرٍ إِلاَّ قُطِعَتْ۔ (بخاری ۳۵۰۵۔ مسلم ۱۶۷۲)
(٣٤١٨٢) حضرت ابو انصاری (رض) فرماتے ہیں کہ ہم نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ایک سفر میں تھے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک قاصد بھیج کر اعلان کروایا کہ : اونٹ کی گردن میں کمان کی تانت کو کاٹے بغیر قلادہ مت باندھو۔

34182

(۳۴۱۸۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا ابْنُ عَوْنٍ ، عَنْ سَعِیدٍ الْبَزَّارِ ، عَنْ مَکْحُولٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : قَلِّدُوہَا ، وَلاَ تُقَلِّدُوہَا الأَوْتَارَ ، یَعْنِی الْخَیْلَ۔ (سعید بن منصور ۲۴۲۹)
(٣٤١٨٣) حضرت مکحول (رض) سے مروی ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : گھوڑوں کو قلادہ باندھو، لیکن گھوڑوں کو کمان کی تانت کے ساتھ مت باندھو۔

34183

(۳۴۱۸۴) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، قَالَ : حدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَن بْنُ یَزِیدَ بْنِ جَابِرٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِی الْقَاسِمُ ، عَنْ أَبِی أُمَامَۃَ، قَالَ : قَلِّدُوہَا ، وَلاَ تُقَلِّدُوہَا الأَوْتَارَ ، یَعْنِی الْخَیْلَ۔
(٣٤١٨٤) حضرت ابو اسامہ سے اسی طرح مروی ہے۔

34184

(۳۴۱۸۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ بُرْدٍ ، عَنْ مَکْحُولٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : قَلِّدُوا الْخَیْلَ ، وَلا تُقَلِّدُوہَا الأَوْتَارَ۔
(٣٤١٨٥) حضرت مکحول (رض) سے مروی ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : گھوڑوں کو قلادہ باندھو، لیکن کمان کی تانت سے مت باندھو۔

34185

(۳۴۱۸۶) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْکَدِرِ، عَنْ رَبِیعَۃَ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ الْہُدَیرِ، قَالَ : کَانَ عُمَرُ إِذَا حَمَلَ عَلَی فَرَسٍ ، أَوْ بَعِیرٍ فِی سَبِیلِ اللہِ ، قَالَ : إِذَا جَاوَزْتَ وَادِیَ الْقُرَی ، أَوْ مِثْلَہَا مِنْ طَرِیقِ مِصْرَ ، فَاصْنَعْ بِہَا مَا بَدَا لَک۔
(٣٤١٨٦) حضرت ربیعہ بن عبداللہ (رض) سے مروی ہے کہ حضرت عمر (رض) جب کسی کو گھوڑے یا اونٹ پر سوار کرتے جہاد کیلئے تو اس کو فرماتے کہ جب تم وادی قریٰ یا اس کے مثل سے گزر جاؤ شہر کے راستوں سے تو پھر اس کے ساتھ جو چاہو کرو۔

34186

(۳۴۱۸۷) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، قَالَ : حدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ ، عَنْ نَافِعٍ ، قَالَ : کَانَ ابْنُ عُمَرَ إِذَا حَمَلَ عَلَی بَعِیرٍ فِی سَبِیلِ اللہِ ، اشْتَرَطَ عَلَی صَاحِبِہِ أَنْ لاَ یُہْلِکَہُ حَتَّی یَبْلُغَ وَادِیَ الْقُرَی ، أَوْ حَذَائَہُ مِنْ طَرِیقِ مِصْرَ ، فَإِذَا خَلَّفَ ذَلِکَ فَہُوَ کَہَیْئَۃِ مَالِہِ یَصْنَعُ مَا شَائَ۔
(٣٤١٨٧) حضرت نافع (رض) سے مروی ہے کہ حضرت عمر (رض) جب کسی کو جہاد کیلئے گھوڑے پر سوار کرتے تو اس پر یہ شرط لگاتے کہ وادی قریٰ یا شہر کے راستے میں اس کے برابر پہنچنے سے قبل اس کو ہلاک نہ کرے، جب اس جگہ کو پیچھے چھوڑ دے تو وہ اس کے اپنے مال کی طرح ہے جو چاہے اس کے ساتھ کرے۔

34187

(۳۴۱۸۸) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ؛ وَسُئِلَ عَنِ الرَّجُلِ یُعْطَی الشَّیْئَ فِی سَبِیلِ اللہِ ، کَیْفَ یَصْنَعُ بِمَا بَقِیَ عِنْدَہُ ؟ قَالَ : إِذَا بَلَغَ رَأْسَ مَغْزَاہ فَہُوَ کَہَیْئَۃِ مَالِہِ ، یَصْنَعُ فِیہِ مَا کَانَ یَصْنَعُ بِمَالِہِ۔
(٣٤١٨٨) حضرت سعید بن المسیب سے دریافت کیا گیا کہ کسی شخص کو جہاد کیلئے کچھ دیا جائے تو جو اس کے پاس باقی بچ جائے اس کے ساتھ کیا کرے ؟ فرمایا جب وہ جہاد کی جگہ پر پہنچ جائے تو وہ اس کے مال کی طرح ہے اس کے ساتھ وہی کرے جو اپنے مال کے ساتھ کرتا ہے۔

34188

(۳۴۱۸۹) حَدَّثَنَا عِیسَی بْنُ یُونُسَ ، عَنْ عُمَر مَوْلَی غُفْرَۃَ ، قَالَ : أَرَدْتُ الْغَزْوَ فَتَجَہَزْتُ بِمَا فِی یَدِی ، وَبَعَثَ إِلَیَّ رَجُلٌ مَعُونَۃً بِسِتِّینَ دِینَارًا فِی سَبِیلِ اللہِ ، قَالَ : فَأَتَیْتُ سَعِیدَ بْنَ الْمُسَیَّبِ فَذَکَرْت ذَلِکَ لَہُ ، وَقُلْتُ : أَدَعُ لأَہْلِی بِقَدْرِ مَا أَنْفَقْتُ ؟ قَالَ : لاَ ، وَلَکِنْ إِذَا بَلَغْتَ رَأْسَ الْمَغْزَی فَہُوَ کَہَیْئَۃِ مَالِکِ ، ثُمَّ أَتَیْتُ الْقَاسِمَ بْنَ مُحَمَّدٍ فَذَکَرْت ذَلِکَ لَہُ ، فَقَالَ لِی مِثْلَ قَوْلِ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ۔
(٣٤١٨٩) حضرت عمر جو غفرہ کے آزاد کردہ غلام ہیں وہ کہتے ہیں کہ میں جہاد پر جانے لگا تو جو کچھ میرے پاس تھا اس کے ساتھ سامان تیار کرلیا، ایک شخص نے جہاد کیلئے مجھے ساٹھ دینار ارسال کئے، فرماتے ہیں کہ میں حضرت سعید بن المسیب کے پاس آیا اور ان سے عرض کیا کہ جتنا میں گھر والوں پر خرچہ کرتا تھا اس کی بقدر اس میں سے گھر والوں کیلئے چھوڑ جاؤں ؟ آپ نے فرمایا نہیں لیکن جب میدان جہاد پر پہنچ جاؤ تو پھر یہ تمہارے اپنے مال کی طرح ہے، پھر میں قاسم بن محمد کے پاس آیا اور ان سے یہ معاملہ ذکر کیا اور اس کے متعلق دریافت کیا، انھوں نے بھی حضرت سعید بن المسیب کی طرح ہی مجھ سے فرمایا۔

34189

(۳۴۱۹۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا ہِشَامٌ الدَّسْتَوَائِیُّ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ؛ فِی الرَّجُلِ یُعْطَی الشَّیْئَ فِی سَبِیلِ اللہِ فَیَفْضُلُ مَعَہُ الشَّیْئُ ، قَالَ : مَا فَضَلَ مِنْ شَیْئٍ فَہُوَ لَہُ۔
(٣٤١٩٠) حضرت سعید بن المسیب فرماتے ہیں کہ کسی شخص کو جہاد کیلئے کچھ دیا جائے پھر اس میں سے کچھ اس کے پاس بچ جائے، تو فرمایا جو بھی بچ جائے وہ اسی کیلئے ہوگا۔

34190

(۳۴۱۹۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، وَعَطَائٍ ؛ فِی الرَّجُلِ یُعْطَی الشَّیْئَ فِی سَبِیلِ اللہِ فَیَفْضُلُ مِنْہُ الشَّیْئُ ، فَقَالاَ : ہُوَ لَہُ۔
(٣٤١٩١) حضرت مجاہد (رض) اور حضرت عطائ (رض) فرماتے ہیں کہ کسی شخص کو جہاد کیلئے کچھ دیا جائے پھر اس میں سے کچھ زائد ہوجائے تو وہ اسی کیلئے ہوگا۔

34191

(۳۴۱۹۲) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنْ جَابِرِ بْنِ زَیدٍ ، قَالَ : یَجْعَلُہُ فِی مِثْلِہِ۔
(٣٤١٩٢) حضرت جابر بن زید (رض) سے مروی ہے کہ اس کو اسی کے مثل میں لگائے گا۔

34192

(۳۴۱۹۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ ابْنِ أَبِی ذِئْبٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ شَیْخًا بِالْمُصَلَّی ، یَقُولُ : قَالَ أَبُو ہُرَیْرَۃَ : إِذَا أَرَدْتَ الْجِہَادَ فَلاَ تَسْأَلَ النَّاسَ ، فَإِنْ أُعْطِیتَ شَیْئًا فَاجْعَلْہُ فِی مِثْلِہِ۔
(٣٤١٩٣) حضرت ابوہریرہ (رض) ارشاد فرماتے ہیں کہ جب جہاد پر جانے لگو تو پھر لوگوں سے سوال مت کرو، اگر آپ کو کچھ دے دیں تو اس کو اسی کے مثل میں لگاؤ

34193

(۳۴۱۹۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَطَائٍ ؛ فِی الرَّجُلِ یُعْطَی الشَّیْئَ فِی سَبِیلِ اللہِ فَیَفْضُلُ مِنْہُ الشَّیْئُ ، قَالَ : یَجْعَلُہُ فِی مِثْلِہِ۔
(٣٤١٩٤) حضرت عطائ (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کسی کو جہاد کے لیے کچھ دیا جائے اس میں سے کچھ زائد ہوجائے تو اس کو اسی کام میں لگائے۔

34194

(۳۴۱۹۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ أَبِی حَمْزَۃَ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ؛ فِی الرَّجُلِ یُعْطَی الشَّیْئَ فِی سَبِیلِ اللہِ فَیَفْضُلُ مَعَہُ الشَّیْئُ ، قَالَ : یَجْعَلُہُ فِی مِثْلِہِ۔
(٣٤١٩٥) حضرت ابراہیم سے بھی اسی طرح مروی ہے۔

34195

(۳۴۱۹۶) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَطَائٍ ، قَالَ : یُمْضِیہِ فِی تِلْکَ السُبُل۔
(٣٤١٩٦) حضرت عطائ (رض) فرماتے ہیں کہ جہاد کے راستوں پر ہی لگایا جائے گا۔

34196

(۳۴۱۹۷) حَدَّثَنَا عِیسَی بْنُ یُونُسَ ، عَنِ الأَوْزَاعِیِّ ، عَنْ وَاصِلِ بْنِ أَبِی جُمَیْلٍ أَبِی بَکْرٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، قَالَ : فِی الدَّابَّۃِ الْحَبِیسِ تَکُونُ عِنْدَ الرَّجُلِ فَتعْتَل ، فَیبِیعُہَا وَتَزِیدُ عَلَی ثَمَنِہَا ؟ فَقَالَ : مَا زَادَ فَہُوَ حَبِیسٌ مَعَہَا۔
(٣٤١٩٧) حضرت مجاہد (رض) سے دریافت کیا گیا کہ جانور جو جہاد کیلئے وقف ہے کسی شخص کے پاس ہے اور وہ شخص اس کو فروخت کر دے اور اس کی قیمت پر اضافہ کرے ؟ فرمایا : جو اضافہ کرے (زائد ہو) وہ بھی اس کے ساتھ جہاد کیلئے وقف ہوگا۔

34197

(۳۴۱۹۸) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَطَائٍ ، قَالَ : إِنْ حبَّسَتْ نَاقَۃٌ فِی سَبِیلِ اللہِ فَوَلَدُہَا بِمَنْزِلتہَا۔
(٣٤١٩٨) حضرت عطائ (رض) فرماتے ہیں کہ اگر وہ اونٹنی جو وقف ہے بچہ جن دے تو اس کا بچہ بھی اس کے مقام میں ہے (بچہ بھی وقف شمار ہوگا) ۔

34198

(۳۴۱۹۹) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ الْحُبَابِ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ مُوسَی ؛ فِی الإِمَامِ إِذَا أَدْرَبَ ؟ قَالَ : یَکْتُبُ الْفَارِسَ فَارِسًا ، وَالرَّاجِلَ رَاجِلاً۔
(٣٤١٩٩) حضرت سلیمان بن موسیٰ (رض) فرماتے ہیں کہ جب امام دشمن کے علاقہ میں داخل ہوجائے تو گھوڑ سوار کو گھوڑ سوار اور پیدل کو پیادہ لکھا جائے گا۔

34199

(۳۴۲۰۰) حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّیَالِسِیُّ ، عَنْ أَبِی حُرَّۃَ ، قَالَ : سُئِلَ الْحَسَنُ عَنِ الْقَوْمِ یَکُونُونَ فِی الْغَزْوِ ، فَیَأْخُذُونَ الْعِلْجَ فَیُسَخِّرُونَہُ یَدُلَّہُمْ عَلَی عَوْرَۃِ الْعَدُوِّ ؟ فَقَالَ الْحَسَنُ : قَدْ کَانَ یُفْعَلُ ذَلِکَ۔
(٣٤٢٠٠) حضرت حسن (رض) سے دریافت کیا گیا کہ کچھ لوگ جو جنگ میں ہیں، وہ گدھا پکڑ کر اس کو تابع کرلیتے ہیں جو ان کو دشمن کے مقابل لے جاتا ہے ؟ فرمایا کہ تحقیق اس طرح کرلیا جاتا تھا۔

34200

(۳۴۲۰۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا شُعْبَۃُ ، عَنْ أَبِی عِمْرَانَ الْجَوْنِیِّ ، قَالَ : سَمِعْتُ جُنْدُبًا الْبَجَلِیَّ ، یَقُولُ : کُنَّا نَأْخُذُ الْعِلْجَ فَیَدُلُّنَا مِنَ الْقَرْیَۃِ إِلَی الْقَرْیَۃِ۔
(٣٤٢٠١) حضرت جندب البجلی (رض) فرماتے ہیں کہ ہم گدھے کو پکڑ لیتے پھر وہ ہمیں ایک بستی سے دوسری بستی لے جاتا۔

34201

(۳۴۲۰۲) حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّیَالِسِیُّ ، عَنْ أَبِی حُرَّۃَ ، عَنِ الْحَسَنِ ؛ فِی رَجُلٍ سُبِیَتِ امْرَأَتُہُ ، فَافْتَدَاہَا زَوْجُہَا مِنَ الْعَدُوِّ ، تَکُونُ أَمَتَہُ ؟ قَالَ : لاَ۔
(٣٤٢٠٢) حضرت حسن (رض) سے دریافت کیا گیا کہ ایک آدمی کی بیوی کو قید کرلیا گیا تو اس کے خاوند نے فدیہ دے کر دشمن سے آزاد کر والیا تو کیا وہ اس کی باندی شمار ہوگی ؟ فرمایا کہ نہیں۔

34202

(۳۴۲۰۳) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، قَالَ : قُلْتُ لِعَطَائٍ : نِسَائٌ حَرَائِرُ أَصَابَہُنَّ الْعَدُوُّ ، فَابْتَاعَہُنَّ رَجُلٌ ، أَیُصِیبُہُنَّ ؟ قَالَ : لاَ ، وَلاَ یَسْتَرِقُّہُنَّ ، وَلَکِنْ یُعْطِیہِنَّ أَنْفُسَہُنَّ بِاَلَّذِی أَخَذَہُنَّ بِہِ ، وَلاَ یَزِدْ عَلَیْہِنَّ۔
(٣٤٢٠٣) حضرت ابن جریج (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عطائ (رض) سے دریافت کیا کہ کچھ آزاد عورتوں کو اگر دشمن قید کرے پھر ان کو کوئی شخص ان سے خرید لے، تو کیا وہ ان کے ساتھ جماع کرسکتا ہے ؟ فرمایا کہ نہیں اور وہ باندی بھی نہیں بنیں گی بلکہ جتنا مال دے کر ان کو خریدا گیا ہے وہ وصول کرے گا ان سے اور اس رقم پر زیادتی نہیں کرے گا۔

34203

(۳۴۲۰۴) حَدَّثَنَا عِیسَی بْنُ یُونُسَ ، عَنْ مُسَاوِرٍ الْوَرَّاقِ ، قَالَ : سَأَلْتُ الشَّعْبِیَّ عَنِ امْرَأَۃٍ مِنْ أَہْلِ الذِّمَّۃِ سَبَاہَا الْعَدُوُّ ، ثُمَّ ظَہَرَ عَلَیْہَا الْمُسْلِمُونَ ، فَوَقَعَتْ فِی سَہْمِ رَجُلٍ مِنْہُمْ ؟ قَالَ : تُرَدَّ إِلَی أَہْلِ عَہْدَہَا۔
(٣٤٢٠٤) حضرت مساور الوراق (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت شعبی (رض) سے دریافت کیا کہ ذمیوں کی ایک خاتون کو دشمنوں نے قید کرلیا پھر ان پر مسلمان غالب آگئے اور وہ ایک خاتون مسلمان کے حصہ میں آئی تو اس کا کیا حکم ہے ؟ حضرت شعبی نے فرمایا : جن سے عہد ہے ان کو واپس کردی جائے گی۔

34204

(۳۴۲۰۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ؛ فِی أَہْلِ الذِّمَّۃِ یَسْبِیہِمَ الْعَدُوُّ ، ثُمَّ یَظْہَرُ عَلَیْہِمَ الْمُسْلِمُونَ ، قَالَ : لاَ یُسْتَرَقَّوا۔
(٣٤٢٠٥) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ ذمیوں کو اگر دشمن قید کرلیں پھر مسلمان ان پر غالب آجائیں تو وہ قیدی غلام شمار نہ ہوں گے۔

34205

(۳۴۲۰۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا إِسْرائیل ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ عَامِرٍ ، قَالَ : أَہْلُ الذِّمَّۃِ لاَ یُبَاعُونَ۔
(٣٤٢٠٦) حضرت عامر (رض) فرماتے ہیں کہ ذمیوں کو نہیں فروخت کیا جائے گا۔

34206

(۳۴۲۰۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ عَامِرٍ ، قَالَ : الأَحْرَارُ لاَ یُبَاعُونَ۔
(٣٤٢٠٧) حضرت عامر (رض) فرماتے ہیں کہ آزاد اشخاص جو قید ہوگئے ہوں ان کو فروخت نہیں کیا جائے گا۔

34207

(۳۴۲۰۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا ابْنُ عَوْنٍ ، عَنْ غَاضِرَۃَ الْعَنْبَرِیِّ ، قَالَ : أَتَیْنَا عُمَرَ ، وَقَالَ ابْنُ عَوْنٍ : إِمَا قَالَ فِی نِسَائٍ ، وَإِمَا قَالَ : فِی إمَائٍ کُنَّ یُسَاعِین فِی الْجَاہِلِیَّۃِ ، فَأَمَرَ بِأَوْلاَدِہِمْ أَنْ یُقَوَّمُوا عَلَی آبَائِہِمْ ، وَأَنْ لاَ یُسْتَرَقَّوا۔
(٣٤٢٠٨) حضرت غاضرۃ العنبری (رض) فرماتے ہیں کہ ہم لوگ حضرت عمر (رض) کے پاس تشریف لائے، حضرت ابن عون (رض) نے ارشاد فرمایا : بہرحال خواتین کے متعلق فرمایا، یا لونڈیوں کے متعلق جن کے ساتھ زمانہ جاہلیت میں زنا کیا جاتا، حضرت عمر (رض) نے ان کی اولاد سے فرمایا کہ وہ اپنے والدین پر قیمت لگائیں گے، اور ان کو (باندی) نہ بنایا جائے گا۔

34208

(۳۴۲۰۹) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، قَالَ : إِذَا أَسَرَ الْعَدُوُّ رَجُلاً مِنَ الْمُسْلِمِینَ ، فَاشْتَرَاہُ تَاجِرٌ ، سَعَی لِلتَّاجِرِ حَتَّی یُؤَدِّیَ إِلَیْہِ مَا اشْتَرَاہُ بِہِ ، وَإِذَا أَسَرُوا مَمْلُوکًا لِلْمُسْلِمِینَ فَاشْتَرَاہُ تَاجِرٌ ، ثُمَّ وَجَدَہُ مَوْلاَہُ فَہُوَ أَحَقّ بِہِ بِثَمَنِہِ ، وَإِذَا اشْتَرَوْا رَجُلاً مِنْ أَہْلِ الذِّمَّۃِ سَعَی لِلتَّاجِرِ حَتَّی یُؤَدِّیَ إِلَیْہِ ثَمَنَہُ۔
(٣٤٢٠٩) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ مسلمانوں میں سے کسی شخص کو اگر دشمن قید کرلے پھر اس کو کوئی تاجر خرید لے تو وہ شخص تاجر کو وہ قیمت ادا کرنے کی کوشش کرے گا جو ادا کر کے اس نے اس کو خریدا ہے، اور اگر وہ مسلمانوں کے غلاموں کو قید کرلیں پھر ان کو کوئی تاجر خرید لے، پھر ان کو ان کا آقا پالے تو وہ قیمت دے کرلینے میں زیادہ حقدار ہے، اور اگر وہ کسی ذمی سے خرید لیں پھر وہ تاجر کو قیمت دے کر آزاد ہونے کی کوشش کرے گا۔

34209

(۳۴۲۱۰) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، قَالَ : قَالَ عَطَائٌ : فِی الْحُرِّ یَسْبِیہِ الْعَدُوُّ ، ثُمَّ یَشْتَرِیہِ الْمُسْلِمُ مِثْلَ قَوْلِہِ فِی النِّسَائِ ، وَقَالَ عَمْرُو بْنُ دِینَارٍ مِثْلَ ذَلِکَ ، یَعْنِی یُعْطِیہِمْ أَنْفُسَہُمْ بِالثَّمَنِ الَّذِی أَخَذَہُمْ بِہِ۔
(٣٤٢١٠) حضرت عطاء (رض) اس آزاد شخص کے متعلق جس کو دشمن قید کرلے پھر اس کو کوئی مسلمان خرید لے تو جو عورتوں کے متعلق ارشاد فرمایا تھا اسی کے مثل فرماتے ہیں اور حضرت عمرو بن دینار بھی اسی طرح فرماتے ہیں یعنی کہ جو قیمت دے کر خریدا گیا ہے وہ قیمت ان کو ادا کرے گا۔

34210

(۳۴۲۱۱) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ أَبِی مُعَاذٍ ، عَنْ أَبِی حَرِیزٍ ؛ أَنَّہُ سَمِعَ الشَّعْبِیَّ ، یَقُولُ : مَا کَانَ مِنْ أُسَارَی فِی أَیْدِی التُّجَّارِ ، فَإِنَّ الْحُرَّ لاَ یُبَاعُ ، فَارْدُدْ إِلَی التَّاجِرِ رَأْسَ مَالِہ۔
(٣٤٢١١) حضرت شعبی (رض) ارشاد فرماتے ہیں کہ قیدیوں میں جو تاجروں کے پاس ہیں جن کو وہ خرید کر لائیں ہیں تو جو آزاد ہیں ان کو فروخت نہیں کیا جائے گا، تاجر کو اصل قیمت لوٹا دی جائے گی۔

34211

(۳۴۲۱۲) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِینَارٍ ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِی الْجَعْدِ ، عَنِ ابْنِ عُمَر ، قَالَ : کَانَ عَلَی ثَقَلِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَجُلٌ ، یُقَالَ لَہُ : کَِرْکرَۃُ فَمَاتَ ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : ہُوَ فِی النَّارِ ، فَذَہَبُوا یَنْظُرُونَ فَوَجَدُوا عَلَیْہِ عَبَائَۃً قَدْ غَلَّہَا۔ (بخاری ۳۰۷۴۔ ابن ماجہ ۲۸۲۹)
(٣٤٢١٢) حضرت ابن عمر (رض) سے مروی ہے کہ ایک شخص تھا جس کا نام کر کرہ تھا وہ فوت ہوگیا تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا یہ جہنمی ہے لوگ اس کا سامان دیکھنے گئے تو انھوں نے ایک عبا پائی جس کو اس نے بطور خیانت لیا تھا۔

34212

(۳۴۲۱۳) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ یَحْیَی بْنِ حِبَّانَ ، عَنْ أَبِی عَمْرَۃَ ؛ أَنَّہُ سَمِعَ زَیْدَ بْنَ خَالِدٍ الْجُہَنِیَّ یُحَدِّثُ : أَنَّ رَجُلاً مِنَ الْمُسْلِمِینَ تُوُفِّیَ بِخَیْبَرَ ، وَأَنَّہُ ذُکِرَ لِرَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَمْرُہُ ، فَقَالَ : صَلُّوا عَلَی صَاحِبِکُمْ ، فَتَغَیَّرَتْ وُجُوہُ الْقَوْمِ لِذَلِکَ ، فَلَمَّا رَأَی ذَلِکَ ، قَالَ : إِنَّہُ غَلَّ فِی سَبِیلِ اللہِ ، فَفَتَّشْنَا مَتَاعَہُ ، فَوَجَدْنَا خَرَزًا مِنْ خَرَزِ الْیَہُودِ مَا یُسَاوِی دِرْہَمَیْنِ۔ (ابو داؤد ۲۷۰۳۔ ملاک ۴۵۸)
(٣٤٢١٣) حضرت زید بن خالد الجہنی (رض) سے مروی ہے کہ مسلمانوں میں سے ایک شخص خیبر میں فوت ہوا تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس کی وفات کی اطلاع دی گئی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اپنے ساتھی کا نماز جنازہ خود پڑھ لو، آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی یہ بات سن کر لوگوں کے چہروں کا رنگ بدل گیا۔ جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں کے چہروں کو دیکھا تو فرمایا : اس نے اللہ کے راستہ میں خیانت کی تھی، جب ہم نے اس کے سامان کی تلاشی لی تو یہودیوں کے موتیوں میں سے ایک موتی پایا جس کی دو درھم قیمت تھی۔

34213

(۳۴۲۱۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ یَحْیَی بْنِ حِبَّانَ ، عَنْ أَبِی عَمْرَۃَ ، عَنْ زَیْدِ بْنِ خَالِدٍ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ؛ مِثْلَہُ۔
(٣٤٢١٤) حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح مروی ہے۔

34214

(۳۴۲۱۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا الْحَکَمُ بْنُ عَطِیَّۃَ ، عَنْ أَبِی الْمُخَیَّسِ الْیَشْکُرِیِّ ، قَالَ : سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِکٍ ، یَقُولُ : قِیلَ : یَا رَسُولَ اللہِ ، اُسْتُشْہِدَ فُلاَنٌ مَوْلاَک ، قَالَ : کَلاَّ ، إِنِّی رَأَیْتُ عَلَیْہِ عَبَائَۃً قَدْ غَلَّہَا۔ (احمد ۱۸۰)
(٣٤٢١٥) حضرت انس (رض) سے مروی ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا گیا کہ فلاں آپ کا غلام شہید ہوگیا ہے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ہرگز نہیں میں نے اس پر ایک چادر دیکھی تھی جو اس نے بطور خیانت لی تھی۔

34215

(۳۴۲۱۶) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ أَبِی حَیَّانَ ، عَنْ أَبِی زُرْعَۃَ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : قَامَ فِینَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خَطِیبًا ، فَذَکَرَ الْغُلُولَ ، فَعَظَّمَہُ وَعَظَّمَ أَمْرَہُ ، ثُمَّ قَالَ : أَیُّہَا النَّاسُ ، لاَ أُلْفِیَنَّ أَحَدَکُمْ یَجِیئُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ عَلَی رَقَبَتِہِ بَعِیرٌ لَہُ رُغَائٌ ، یَقُولُ : یَا رَسُولَ اللہِ ، أَغِثْنِی ، فَأَقُولُ : لاَ أَمْلِکُ لَکَ شَیْئًا ، قَدْ بَلَّغْتُک ، وَلاَ أُلْفِیَنَّ أَحَدَکُمْ یَجِیئُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ عَلَی رَقَبَتِہِ بَقَرَۃً لَہَا خُوَار ، یَقُولُ : یَا رَسُولَ اللہِ ، أَغِثْنِی ، فَأَقُولُ : لاَ أَمْلِکُ لَکَ شَیْئًا ، قَدْ بَلَّغْتُک ، وَلاَ أُلْفِیَنَّ أَحَدَکُمْ یَجِیئُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ عَلَی رَقَبَتِہِ فَرَسٌ لَہُ حَمْحَمَۃٌ ، یَقُولُ : یَا رَسُولَ اللہِ ، أَغِثْنِی ، فَأَقُولُ : لاَ أَمْلِکُ لَکَ شَیْئًا ، قَدْ بَلَّغْتُک ، وَلاَ أُلْفِیَنَّ أَحَدَکُمْ یَجِیئُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَعَلَی رَقَبَتِہِ صَامِتٌ ، یَقُولُ : یَا رَسُولَ اللہِ ، أَغِثْنِی ، فَأَقُولُ : لاَ أَمْلِکُ لَکَ شَیْئًا ، قَدْ بَلَّغْتُک ، وَلاَ أُلْفِیَنَّ أَحَدَکُمْ یَجِیئُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ عَلَی رَقَبَتِہِ نَفْسٌ لَہَا صِیَاحٌ ، فَیَقُولُ : یَا رَسُولَ اللہِ ، أَغِثْنِی ، فَأَقُولُ : لاَ أَمْلِکُ لَکَ شَیْئًا ، قَدْ بَلَّغْتُک۔ (بخاری ۳۰۷۳۔ مسلم ۱۴۶۲)
(٣٤٢١٦) حضرت ابوہریرہ (رض) سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمیں خطبہ دینے کیلئے کھڑے ہوئے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خیانت کا ذکر فرمایا اور اس گناہ کی بڑائی بیان کرتے ہوئے فرمایا : اے لوگو ! تم میں سے کوئی شخص قیامت کے دن میرے پاس اس حال میں نہ آئے کہ اس کی گردن پر ایک اونٹ ہو اور وہ اونٹ آواز نکال رہا ہو اور وہ کہے کہ اے اللہ کے رسول ! میری مدد کیجئے تو میں اس کو کہوں میں تیرے بارے میں کسی چیز کا مالک نہیں ہوں میں نے تجھے اپنا پیغام پہنچا دیا تھا، اور تم میں سے کوئی شخص قیامت کے دن میرے پاس اس حال میں نہ آئے کہ اس کی گردن میں گائے ہو اور اس کیلئے گائے کی آواز ہو اور وہ کہے اللہ کے رسول ! میری مدد کیجئے، میں اس کو کہوں میں تیرے بارے میں کسی چیز کا مالک نہیں ہوں میں تجھے پیغام پہنچا چکا تھا، اور تم میں سے کوئی شخص قیامت کے دن میرے پاس اس حال میں نہ آئے کہ اس کی گردن پر گھوڑے کی خیانت کا بوجھ ہو اور اس کی آواز اور وہ مجھ سے کہے کہ اے اللہ کے رسول ! میری مدد کیجئے میں کہوں کہ میں تیرے متعلق کسی چیز کا مالک نہیں ہوں میں تجھے اپنا پیغام پہنچا چکا تھا اور تم میں سے کوئی شخص میرے پاس قیامت کے دن اس حال میں نہ آئے کہ اس کی گردن پر سونے یا چاندی کی خیانت کا بوجھ ہو اور وہ کہے اے اللہ کے رسول ! میری مدد کیجئے میں کہوں گا میں تیرے بارے میں کسی چیز کا مالک نہیں ہوں، میں تجھے پپغام پہنچا چکا ہوں، اور تم میں سے کوئی شخص قیامت کے دن میرے پاس اس حال میں نہ آئے کہ اس کی گردن پر کسی انسان کی خیانت کا بوجھ ہو اور اس کیلئے اس کی آواز ہو وہ مجھ سے کہے اے اللہ کے رسول ! میری مدد کیجئے میں کہوں گا میں تیرے بارے میں کسی چیز کا مالک نہیں ہوں میں اپنا پیغام پہنچا چکا ہوں۔

34216

(۳۴۲۱۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ عَلْقَمَۃَ بْنِ مَرْثَدٍ ، عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ بُرَیْدَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِذَا بَعَثَ أَمِیرًا عَلَی سَرِیَّۃٍ ، أَوْ جَیْشٍ ، قَالَ : لاَ تَغُلُّوا۔
(٣٤٢١٧) حضرت بریدہ (رض) سے مروی ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب کسی سریہ یا لشکر کا امیر بنا کر بھیجتے تو اس سے فرماتے خیانت مت کرنا۔

34217

(۳۴۲۱۸) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ؛ أَنَّ أَبَا حُمَیْدٍ السَّاعِدِیَّ صَاحِبَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَخَا بَنِی سَاعِدَۃَ حَدَّثَہُ : أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اسْتَعْمَلَ ابْنَ اللُّتْبِیَّۃِ ، فَقَالَ : وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ ، لاَ یَأْخُذُ أَحَدُکُمْ مِنْہَا شَیْئًا بِغَیْرِ حَقِّہِ ، إِلاَّ جَائَ اللَّہَ یَحْمِلُہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ، فَلاَ أَعْرِفَنَّ أَحَدًا جَائَ اللَّہَ یَحْمِلُ بَعِیرًا لَہُ رُغَائٌ ، أَوْ بَقَرَۃً لَہَا خُوَارٌ ، أَوْ شَاۃً تَیْعَرُ ، ثُمَّ رَفَعَ یَدَیْہِ حَتَّی إِنِّی أَنْظُرُ إِلَی بَیَاضِ إِبْطَیْہِ ، ثُمَّ قَالَ : اللَّہُمَّ ہَلْ بَلَّغْتُ ، قَالَ أَبُو حُمَیْدٍ : بَصُرَ عَیْنِی ، وَسَمِعَ أُذُنِی۔ (مسلم ۱۴۶۴)
(٣٤٢١٨) حضرت ابو حمید الساعدی (رض) سے مروی ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابن اللتبیہ کو امیر بنایا تو ان سے فرمایا : قسم اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے تم میں سے کوئی شخص کوئی چیز ناحق وصول نہیں کرے گا مگر قیامت کے دن اس کے دربار میں لے کر حاضر ہوگا میں اس شخص کو ضرور جانتا ہوں جو اللہ کے دربار میں حاضر ہوگا، اور اونٹ کا بوجھ اٹھایا ہوگا اس کیلئے اونٹ کی آواز ہوگی یا گائے کو اٹھایا ہوگا اور اس کیلئے گائے کی آواز ہوگی یا بکری کا بوجھ لا دے ہوگا اور اس کی آواز ہوگی، پھر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے ہاتھ مبارک مہمان کی طرف اٹھائے آپ نے اپنے ہاتھوں کو اتنا بلند کیا کہ میں آپ کے بغلوں کی سفیدی دیکھنے لگا پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا اے اللہ ! کیا میں نے پیغام پہنچا دیا ہے حضرت ابو حمید فرماتے ہیں کہ میری آنکھوں نے یہ منظر دیکھا اور میری کانوں نے یہ پیغام سنا۔

34218

(۳۴۲۱۹) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ عُرْوَۃَ ، عَنْ أَبِی حُمَیْدٍ السَّاعِدِیِّ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ؛ بِنَحْوٍ مِنْہُ ، إِلاَّ أَنَّہُ قَالَ : عُفْرَۃ إِبْطَیْہِ۔ (بخاری ۲۵۹۷۔ مسلم ۱۴۶۳)
(٣٤٢١٩) حضرت ابو حمید الساعدی (رض) سے اسی طرح مروی ہے۔

34219

(۳۴۲۲۰) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ إِسْمَاعِیلَ بْنِ أَبِی خَالِدٍ ، عَنْ قَیْسِ بْنِ أَبِی حَازِمٍ ، عَنْ عَدِیِّ بْنِ عَمِیرَۃَ الْکِنْدِیِّ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : أَیُّہَا النَّاسُ ، مَنْ عَمِلَ لَنَا مِنْکُمْ عَلَی عَمَلٍ ، فَکَتَمَنَا مِخْیَطًا فَمَا فَوْقَہُ فَہُوَ غُلٌّ یَأْتِی بِہِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ، قَالَ : فَقَامَ إِلَیْہِ رَجُلٌ مِنَ الأَنْصَارِ أَسْوَدُ کَأَنِّی أَرَاہُ ، فَقَالَ : اِقْبَلْ عَنِّی عَمَلَک یَا رَسُولَ اللہِ ، قَالَ : مَا ذَاکَ ؟ ، قَالَ : سَمِعْتُک تَقُولُ الَّذِی قُلْتَ : قَالَ : وَأَنَا أَقُولُہُ الآنَ : مَنِ اسْتَعْمَلْنَاہُ عَلَی عَمَلٍ فَلْیَجِئْنَا بِقَلِیلِہِ وَکَثِیرِہِ ، فَمَا أُوتِیَ مِنْہُ أَخَذَ ، وَمَا نُہِیَ عَنْہُ انْتَہَی۔
(٣٤٢٢٠) حضرت عدی بن عمیرہ الکندی (رض) سے مروی ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اے لوگو ! جو تم میں سے ہمارے لیے کسی معاملہ میں حاکم یا عامل بنے، پھر وہ ہم سے کوئی سوئی یا اس سے بڑی چیز چھپالے تو یہ خیانت ہے وہ قیامت کے دن اس کو لے کر حاضر ہوگا ایک سیاہ انصاری شخص کھڑا ہوا گویا کہ میں اس کو دیکھ رہا ہوں اور کہا اے اللہ کے رسول ! مجھے اپنا عامل بنانا واپس لے لیجئے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دریافت فرمایا کس وجہ سے ؟ اس نے عرض کیا میں نے آپ سے وہ سنا ہے جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابھی فرمایا ہے اس وجہ سے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : میں تو اب بھی کہتا ہوں کہ جو تم میں سے کسی معاملہ پر عامل بنایا گیا تو اس کو چاہیے کہ جو تھوڑا یا زیادہ ہے وہ ہمارے پاس لے آئے، جو اس کو دیا جائے وہ وصول کرے جس سے روکا جائے اس سے منع ہوجائے۔

34220

(۳۴۲۲۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا إِسْمَاعِیلُ بْنُ أَبِی خَالِدٍ ، عَنْ قَیْسٍ ، عَنْ عَدِیِّ بْنِ عَمِیرَۃَ الْکِنْدِیِّ ، قَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَذَکَرَ مِثْلَہُ ، إِلاَّ أَنَّہُ قَالَ : فَإِنَّہُ غُلُولٌ یَأْتِی بِہِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ۔
(٣٤٢٢١) حضرت عدی بن عمیرہ الکندی (رض) سے مروی ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : یہ خیانت اور دھوکا ہے قیامت کے دن اس کے ساتھ حاضر ہوگا۔

34221

(۳۴۲۲۲) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ عَوْفٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ؛ فِی قَوْلِہِ {وَمَا آتَاکُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوہُ ، وَمَا نَہَاکُمْ عَنْہُ فَانْتَہُوا} ، قَالَ : کَانَ یُؤْتِیہِمُ الْغَنَائِمَ ، وَیَنْہَاہُمْ عَنِ الْغُلُولِ۔ (طبری ۲۸)
(٣٤٢٢٢) حضرت حسن (رض) قرآن کریم کی آیت { وَمَا آتَاکُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوہُ ، وَمَا نَہَاکُمْ عَنْہُ فَانْتَہُوا } کے متعلق فرماتے ہیں کہ ان کو غنیمت عطا کرتے تھے اور خیانت سے روکتے تھے۔

34222

(۳۴۲۲۳) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ ، عَنْ یَزِیدَ بْنِ خُصَیْفَۃَ ، عَنْ سَالِمٍ مَوْلَی مُطِیعٍ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : أَہْدَی رِفَاعَۃُ إِلَی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ غُلاَمًا ، فَخَرَجَ بِہِ مَعَہ إِلَی خَیْبَرَ ، فَنَزَلَ بَیْنَ الْعَصْرِ وَالْمَغْرِبِ ، فَأَتَی الْغُلاَمَ سَہْمٌ عَائِرٌ فَقَتَلَہُ ، فَقُلْنَا : ہَنِیئًا لَکَ الْجَنَّۃُ ، فَقَالَ : وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ ، إِنَّ شَمْلَتَہُ لَتَحْترقُ عَلَیْہِ الآنَ فِی النَّارِ ، غَلَّہَا مِنَ الْمُسْلِمِینَ ، فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الأَنْصَارِ : یَا رَسُولَ اللہِ ، أَصَبْتُ یَوْمَئِذٍ شِرَاکَیْنِ ، قَالَ : یُقَدَّ مِنْک مِثْلُہُمَا مِنْ نَارِ جَہَنَّمَ۔ (ابن حبان ۴۸۵۲۔ حاکم ۴۰)
(٣٤٢٢٣) حضرت ابوہریرہ (رض) سے مروی ہے کہ حضرت رفاعہ نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایک غلام ہدیہ دیا، وہ غلام جنگ خیبر میں ساتھ گیا وہ عصر اور مغرب کے درمیان جنگ میں اترا، غلام کو ایک تیر لگا جس کے مارنے والے کا پتہ نہیں تھا، لیکن وہ شہید ہوگیا ہم نے کہا تمہارے لیے جنت کی خوشخبری ہے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے، اس کی چادر اس کو آگ میں جلا رہی ہوگی جو اس نے مسلمانوں کے مال میں سے خیانت کی تھی، ایک انصاری شخص کھڑا ہوا اور عرض کیا اے اللہ کے رسول ! میں نے اس دن دو تسمے پائے تھے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ان دونوں کی مثل تجھے جہنم کی آگ سے کاٹا جائے گا۔

34223

(۳۴۲۲۴) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ الْمُبَارَکِ ، عَنِ الأَوْزَاعِیِّ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ أَبِی کَثِیرٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ؛ فِی الرَّجُلِ یَغُلُّ وَیَتَفَرَّقُ الْجَیْشَ ، قَالَ : یَتَصَدَّقُ بِہِ عَنْ ذَلِکَ الْجَیْشِ۔
(٣٤٢٢٤) حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص خیانت کرے اور لشکر سے الگ ہوجائے، اس کے ساتھ لشکر پر صدقہ کردیا جائے گا۔

34224

(۳۴۲۲۵) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ الثَّقَفِیُّ ، عَنِ الْمُثَنَّی ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ ، قَالَ : إِذَا وُجِدَ الْغُلُولُ عِنْدَ الرَّجُلِ أُخِذَ ، وَجُلِدَ مِئَۃ ، وَحُلِقَ رَأْسُہُ وَلِحْیَتُہُ ، وَأُخِذَ مَا کَانَ فِی رَحْلِہِ مِنْ شَیْئٍ إِلاَّ الْحَیَوَانَ ، وَأُحْرِقَ رَحْلُہُ ، وَلَمْ یَأْخُذْ سَہْمًا فِی الْمُسْلِمِینَ أَبَدًا ، قَالَ : وَبَلَغَنِی أَنَّ أَبَا بَکْرٍ وَعُمَرَ کَانَ یَفْعَلاَنِہِ۔
(٣٤٢٢٥) حضرت عمرو بن شعیب (رض) سے مروی ہے کہ اگر کسی شخص کے پاس خیانت کا مال ملتا تو اس سے لے لیا جاتا اور اس کو سوکوڑے مارے جاتے اور اس کا سر اور داڑھی مونڈھ دی جاتی اور اس کی سواری کے علاوہ سارا سامان ضبط کرلیا جاتا اور اس کے سامان کو آگ لگا دی جاتی اور وہ ہمیشہ کیلئے مسلمانوں کی غنیمت میں سے حصہ وصول نہیں کرے گا، فرماتے ہیں کہ مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ حضرات شیخین (رض) اسی طرح کرتے تھے۔

34225

(۳۴۲۲۶) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ ؛ فِی الْغُلُولِ یُوجَدُ عِنْدَ الرَّجُلِ ، قَالَ : یُحْرَقُ رَحْلُہُ۔
(٣٤٢٢٦) حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کسی شخص کے پاس خیانت کا مال وصول ہو تو اس کے سامان کو آگ لگا دی جائے گی۔

34226

(۳۴۲۲۷) حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا ہُرَیْمٌ ، عَنْ مُطَرِّفٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ سَالِمٍ ، قَالَ : کَانَ أَصْحَابُنَا یَقُولُونَ : عُقُوبَۃُ صَاحِبِ الْغُلُولِ أَنْ یُحْرَقَ فُسْطَاطُہُ وَمَتَاعُہُ۔
(٣٤٢٢٧) حضرت عمرو بن سالم (رض) فرماتے ہیں کہ ہمارے اصحاب فرماتے تھے کہ خیانت کرنے والے کی سزا یہ ہے کہ اس کے خیمہ اور سامان کو جلا دیا جائے گا۔

34227

(۳۴۲۲۸) حَدَّثَنَا دَاوُد بْنُ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : حدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِیزِ بْنُ مُحَمَّدٍ ، عَنْ صَالِحِ بْنِ مُحَمَّدٍ بن زَائِدَۃَ ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللہِ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ ؛ أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : مَنْ وَجَدْتُمُوہُ قَدْ غَلَّ فَحَرِّقُوا مَتَاعَہُ۔
(٣٤٢٢٨) حضرت عمر (رض) سے مروی ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : تم جس کو خیانت کرتے ہوئے پاؤ تو اس کے سامان کو آگ لگا دو ۔

34228

(۳۴۲۲۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ عَمَّارٍ الدُّہْنِیِّ ، عَنْ رَجُلٍ ، عَنْ کُرَیْبٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ؛ أَنَّہُ کَتَبَ إِلَی رَجُلٍ مِنْ أَہْلِ الْکِتَابِ : السَّلاَمُ عَلَیْک۔
(٣٤٢٢٩) حضرت ابن عباس (رض) نے اھل کتاب میں سے ایک شخص کو خط لکھا تو السلام علیک لکھا۔

34229

(۳۴۲۳۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، قَالَ : سَأَلْتُ إِبْرَاہِیمَ ، وَمُجَاہِدًا کَیْفَ یُکْتَبُ إِلَی أَہْلِ الذِّمَّۃِ؟ قَالَ مُجَاہِدٌ : یُکْتَبُ : السَّلاَمُ عَلَی مَنِ اتَّبَعَ الْہُدَی ، وَقَالَ : قَالَ إِبْرَاہِیمُ : سَلاَمٌ عَلَیْک۔
(٣٤٢٣٠) حضرت منصور (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابراہیم (رض) اور حضرت مجاہد (رض) سے دریافت کیا کہ ذمیوں کو خط کیسے لکھا جائے گا ؟ حضرت مجاہد نے فرمایا : ان کو السَّلاَمُ عَلَی مَنِ اتَّبَعَ الْہُدَی لکھا جائے گا (سلامتی ہو اس پر جو ہدایت کی پیروی کرے) اور حضرت ابراہیم نے فرمایا سلام علیک لکھے۔

34230

(۳۴۲۳۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ عُثْمَانَ ، عَنْ أَبِی بُرْدَۃَ ، قَالَ سَمِعْتُہُ یَقُولُ : کَتَبَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِلَی رَجُلٍ مِنْ أَہْلِ الْکِتَابِ ؛ أَسْلِم أَنْتَ ، فَلَمْ یَفْرُغِ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ کِتَابِہِ ، حَتَّی أَتَاہُ کِتَابٌ مِنْ ذَلِکَ الرَّجُلِ یَقْرَأُ عَلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ السَّلاَمُ فِیہِ ، فَرَدَّ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ السَّلاَمَ فِی أَسْفَلِ کِتَابِہِ۔
(٣٤٢٣١) حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اھل کتاب میں سے ایک شخص کو خط لکھا تو أَسْلِم أَنْتَ لکھا ابھی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خط لکھ کر فارغ نہ ہوئے تھے کہ اسی شخص کا خط آگیا وہ پڑھ کر سنایا گیا تو اس میں سلام لکھا ہوا تھا تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی اس کے خط کے آخر میں سلام کا جواب دے دیا۔

34231

(۳۴۲۳۲) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ زَکَرِیَّا ، عَنْ خَالِدِ بْنِ سَلَمَۃَ ، عَنْ عَامِرٍ ، قَالَ : کَتَبَ خَالِدُ بْنُ الْوَلِیدِ مِنَ الْحِیرَۃِ إِلَی مَرَازِبَۃِ فَارِسَ : بِسْمِ اللہِ الرَّحْمَن الرَّحِیمِ ، مِنْ خَالِدِ بْنِ الْوَلِیدِ إِلَی مَرَازِبَۃِ فَارِسَ ، سَلاَمٌ عَلَی مَنِ اتَّبَعَ الْہُدَی۔
(٣٤٢٣٢) حضرت عامر (رض) سے مروی ہے کہ حضرت خالد بن ولید (رض) نے مقام حیرہ سے فارس کے مرازبۃ کو خط یوں لکھا : بسم اللہ الر حمن الرحیم خالد بن ولید کی طرف سے مرازبہ فارس کی طرف سلامتی ہو اس پر جو ہدایت کی پیروی کرے۔

34232

(۳۴۲۳۳) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ سِمَاکٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ عِیَاضًا الأَشْعَرِیَّ ، قَالَ : شَہِدْتُ الْیَرْمُوکَ ، قَالَ : فَقَالَ أَبُو عُبَیْدَۃَ بْنُ الْجَرَّاحِ : مَنْ یُرَاہِنُنِی ؟ قَالَ : فَقَالَ شَابٌّ : أَنَا ، إِنْ لَمْ تَغْضَبْ ، قَالَ : فَسَبَقَہُ ، قَالَ : فَرَأَیْتُ عَقِیصَتَیْ أَبِی عُبَیْدَۃَ تَنْقُزَانِ ، وَہُوَ خَلْفَہُ عَلَی فَرَسٍ عَرَبِی۔ (بیہقی ۲۱)
(٣٤٢٣٣) حضرت عیاض ، اشعری (رض) فرماتے ہیں کہ میں جنگ یرموک میں حاضر تھا، حضرت ابو عبیدہ بن جراح (رض) نے فرمایا کون مجھ سے گھوڑے کی ریس لگائے گا ؟ ایک نوجوان نے کہا کہ میں لگانے کو تیار ہوں اگر آپ غصہ نہ کریں تو، راوی فرماتے ہیں کہ پس وہ ان سے آگے نکل گیا، میں حضرت ابو عبیدہ (رض) کی زلفوں کو دیکھ رہا تھا کہ وہ بکھری ہوئی تھیں اور وہ ان کو ہٹا رہے تھے اور وہ اس نوجوان کے پیچھے عربی گھوڑے پر سوار تھے۔

34233

(۳۴۲۳۴) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، قَالَ : کَانُوا یَتَرَاہَنُونَ عَلَی عَہْدِ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ الزُّہْرِیُّ : وَأَوَّلُ مَنْ أَعْطَی فِیہِ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ۔ (عبدالرزاق ۹۶۹۳)
(٣٤٢٣٤) حضرت زھری فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں صحابہ ریس لگایا کرتے تھے۔ حضرت زھری (رض) فرماتے ہیں کہ سب سے پہلے حضرت عمر بن خطاب (رض) نے اس پر انعام عطا فرمایا۔

34234

(۳۴۲۳۵) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، قَالَ : کَانَ لِعَلْقَمَۃَ بِرْذَوْنٌ یُرَاہِنُ عَلَیْہِ۔
(٣٤٢٣٥) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت علقمہ (رض) کے پاس ایک غیر عربی گھوڑا تھا جس پر وہ ریس لگایا کرتے تھے۔

34235

(۳۴۲۳۶) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ؛ أَنَّ عَلْقَمَۃَ سَابَقَ رَجُلاً فَسَبَقَہُ ، فَامْتَلَخَ لِجَامہُ۔
(٣٤٢٣٦) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت علقمہ نے ایک آدمی سے ریس لگائی تو وہ شخص ان سے آگے نکل گیا تو انھوں نے اس کی لگام پکڑ کر اس کو گھوڑے سے نیچے گرا دیا۔

34236

(۳۴۲۳۷) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ، قَالَ : لاَ بَأْسَ بِرِہَانِ الْخَیْلِ إِذَا کَانَ فِیہَا فَرَسٌ مُحَلَّلٌ ، ِإنْ سَبَقَ کَانَ لَہُ السَّبْقُ ، وَإِنْ لَمْ یَسْبِقْ لَمْ یَکُنْ عَلَیْہِ شَیْئٌ۔ (مالک ۴۶۸)
(٣٤٢٣٧) حضرت سعید بن المسیب (رض) فرماتے ہیں کہ دو گھوڑوں سے ریس لگانے میں کوئی حرج نہیں ہے اگر ان میں ایک تیسرا گھوڑا بھی شامل کردیا جائے اگر وہ سبقت لے جائے تو اس کیلئے جیتنے کا انعام ہوگا اور اگر وہ سبقت نہ لے کر گیا تو اس پر کچھ نہ ہوگا۔

34237

(۳۴۲۳۸) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا سُفْیَانُ بْنُ حُسَیْنٍ، عَنِ الزُّہْرِیِّ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَنْ أَدْخَلَ فَرَسًا بَیْنَ فَرَسَیْنِ وَقَدْ أَمِنَ أَنْ یَسْبِقَ فَہُوَ قِمَارٌ، وَمَنْ أَدْخَلَ فَرَسًا بَیْنَ فَرَسَیْنِ وَہُوَ لاَ یَأْمَنُ أَنْ یُسْبَقَ فَلَیْسَ بِقِمَارٍ۔ (ابوداؤد ۲۵۷۲۔ ابن ماجہ ۲۸۷۶)
(٣٤٢٣٨) حضرت ابوہریرہ (رض) سے مروی ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ارشاد فرمایا : جو شخص دو گھوڑوں کے درمیان اپنا گھوڑا داخل کرے اور اس کو یقین ہے کہ وہ جیتے گا تو یہ جوا ہے، اور جو دو گھوڑوں کے درمیان اپنا گھوڑا داخل کرے اور اس کو جیتنے کا یقین نہ ہو تو پھر یہ جوا نہیں ہے۔

34238

(۳۴۲۳۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا إِسْرَائِیلُ ، عَنْ سِمَاکٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ حُصَیْنٍ الْعِجْلِیِّ ؛أَنَّ حُذَیْفَۃَ سَبَقَ النَّاسَ عَلَی فَرَسٍ لَہُ أَشْہَبَ ، قَالَ : فَدَخَلْتُ عَلَیْہِ وَہُوَ جَالِسٌ عَلَی قَدَمَیْہِ ، مَا تَمَسُّ أَلِیَتَاہُ الأَرْضَ فَرَحًا بِہِ، یَقْطُرُ عَرَقًا ، وَفَرَسُہُ عَلَی مَعْلَفِہِ ، وَہُوَ جَالِسٌ یَنْظُرُ إِلَیْہِ ، وَالنَّاسُ یَدْخُلُونَ عَلَیْہِ یُہَنِّؤُونَہُ۔
(٣٤٢٣٩) حضرت عبداللہ بن حصین (رض) سے مروی ہے کہ حضرت حذیفہ (رض) کا اشھب نامی گھوڑا تھا جس پر سوار ہو کر وہ لوگوں سے گھوڑ دوڑ میں سبقت لے گئے تھے، راوی کہتے ہیں کہ میں ان کے پاس حاضر ہوا تو وہ اپنے قدموں پر بیٹھے تھے ان کی پشت زمین پر نہیں لگ رہی تھی خوشی کی وجہ سے پسینے میں شرابور تھے اور پسینہ ٹپک رہا تھا اور ان کا گھوڑا چراگاہ میں بندھا ہوا تھا اور وہ اس کی طرف دیکھ رہے تھے اور لوگ ان کے پاس آ کر ان کو مبارک باد دے رہے تھے۔

34239

(۳۴۲۴۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، قَالَ: حدَّثَنَا شَرِیکٌ، عَنْ سِمَاکٍ، عَنْ أَبِی سَلاَمَۃَ؛ أَنَّ حُذَیْفَۃَ سَبَقَ النَّاسَ عَلَی بِرْذَوْنٍ لَہُ۔
(٣٤٢٤٠) حضرت حذیفہ (رض) غیر عربی گھوڑے پر سوار ہو کر لوگوں سے گھڑ دوڑ میں سبقت لے جاتے۔

34240

(۳۴۲۴۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ عَامِرٍ ؛ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ أَجْرَی الْخَیْلَ وَسَبَقَ۔
(٣٤٢٤١) حضرت عامر (رض) سے مروی ہے کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) نے گھوڑے کو دوڑایا اور ریس میں سبقت لے گئے۔

34241

(۳۴۲۴۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ بُرْدٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، قَالَ : کَانُوا یَسْتَبْقُونَ عَلَی الْخَیْلِ وَالرِّکَابِ ، وَعَلَی أَقْدَامِہِمْ۔
(٣٤٢٤٢) حضرت زھری (رض) سے مروی ہے کہ صحابہ کرام (رض) گھوڑ سواری اور پیدل چلنے میں مسابقہ کیا کرتے تھے۔

34242

(۳۴۲۴۳) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ بْنُ عُمَرَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : ضَمَّرَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْخَیْلَ ، فَکَانَ یُرْسِلُ الَّتِی أُضْمِرَتْ مِنَ الْحَفْیَائِ إِلَی ثَنِیَّۃِ الْوَدَاعِ ، وَالَّتِی لَمْ تُضْمَرْ ، مِنْ ثَنِیَّۃِ الْوَدَاعِ إِلَی مَسْجِدِ بَنِی زُرَیْقٍ۔ (مسلم ۱۴۹۲۔ ابوداؤد ۲۵۶۸)
(٣٤٢٤٣) حضرت ابن عمر (رض) سے مروی ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے گھوڑے کو مسابقہ کیلئے بھوکا رکھا، پھر جن گھوڑوں کو بھوکا رکھا تھا ان کو مقام حفیاء سے ثنیۃ الوداع تک مسابقہ کروایا اور جن گھوڑوں کو بھوکا نہیں رکھا ان کو ثنیۃ الوداع سے مسجد بنو زریق تک مسابقہ کروایا۔

34243

(۳۴۲۴۴) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا سَعِیدُ بْنُ زَیْدٍ ، عَنِ الزُّبَیْرِ بْنِ خِرِّیتٍ ، عَنْ أَبِی لَبِیدٍ ، قَالَ : أُرْسِلَتِ الْخَیْلَُ ، وَالْحَکَمُ بْنُ أَیُّوبَ عَلَی الْبَصْرَۃِ ، قَالَ : فَخَرَجْنَا نَنْظُرُ إِلَیْہَا ، فَقُلْنَا : لَوْ مِلْنَا إِلَی أَنَسِ بْنِ مَالِکَ ، فَمِلْنَا إِلَیْہِ وَہُوَ فِی قَصْرِہِ بِالزَّاوِیَۃِ ، فَقُلْنَا لَہُ : یَا أَبَا حَمْزَۃَ ، أَکَانُوا یَتَرَاہَنُونَ عَلَی عَہْدِ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ؟ قَالَ : نَعَمْ ، وَاللہِ لَرَاہَنَ ، یَعْنِی رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَی فَرَسٍ لَہُ ، یُقَالَ لَہُ : سَبْحَۃُ ، فَجَائَتْ سَابِقَۃً ، فَہَشَّ لِذَلِکَ۔ (احمد ۱۶۰۔ دارمی ۲۴۳۰)
(٣٤٢٤٤) حضرت ابو لبید (رض) فرماتے ہیں کہ میرے پاس گھوڑا بھیجا گیا درآنحالیکہ حضرت حکم بن ایوب بصرہ پر حاکم تھے، ہم باہر نکلے تاکہ اس کو دیکھ سکیں، ہم نے کہا کہ اگر ہم حضرت انس (رض) بن مالک کے پاس جاتے تو اچھا ہوتا پھر آپ کی طرف گئے وہ محل کے کونے میں تھے، ہم نے ان سے عرض کیا کہ اے ابو حمزہ (رض) ! کیا صحابہ کرام (رض) عہد نبوی میں گھوڑوں کی دوڑ میں مسابقہ کیا کرتے تھے ؟ انھوں نے کہا جی ہاں خدا کی قسم نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے گھوڑے پر ریس لگایا کرتے تھے جس کا نام سبحہ تھا پس ایک مرتبہ وہ سبقت لے گیا پھر اس کیلئے پتے توڑے گئے۔

34244

(۳۴۲۴۵) حَدَّثَنَا سَہْلُ بْنُ یُوسُفَ ، عَنْ حُمَیْدٍ ، عَنْ بَکْرٍ ، قَالَ : رَأَی رَجُلاَنِ ظَبْیًا وَہُمَا مُحْرِمَانِ ، فَتَوَاجَبَا فِیہِ وَتَرَاہَنَا ، فَرَمَاہُ بِعَصًا فَکَسَرَہُ ، فَأَتَیَا عُمَرَ وَإِلَی جَنْبِہِ ابْنُ عَوْفٍ ، فَقَالَ لِعَبْدِ الرَّحْمَنِ : مَا تَقُولُ ؟ قَالَ : ہَذَا قِمَارٌ ، وَلَوْ کَانَ سَبَقًا۔
(٣٤٢٤٥) حضرت بکر (رض) سے مروی ہے کہ دو شخصوں نے ہرن دیکھا اس حال میں کہ وہ دونوں محرم تھے، ان دونوں نے اس میں مقابلہ کیا دونوں نے عصا کے ساتھ مارا اور اس کو توڑ دیا، پھر وہ دونوں حضرت عمر (رض) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ (رض) کے ساتھ حضرت عبدالرحمن بن عوف (رض) تشریف فرما تھے، حضرت عمر (رض) نے حضرت ابن عوف (رض) سے پوچھا آپ کی کیا رائے ہے ؟ حضرت ابن عوف (رض) نے فرمایا یہ جوا ہے اگرچہ یہ مسابقہ تھا۔

34245

(۳۴۲۴۶) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ جَعْفَرٍ ، عَنْ أَبِیہِ ؛ أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَجْرَی الْخَیْلَ ، وَجَعَلَ بَیْنَہَا سَبَقًا : أَوَاقِیَّ مِنْ وَرِقٍ ، وَأَجْرَی الإِبِلَ ، وَلَمْ یَذْکُرِ السَّبَقَ۔
(٣٤٢٤٦) حضرت جعفر (رض) اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے گھوڑ دوڑ میں مسابقہ جاری فرمایا اور اس میں چند اوقیہ چاندی کا انعام مقرر فرمایا، اور اونٹ کی ریس جاری فرمائی اور اس میں انعام مقرر نہ فرمایا۔

34246

(۳۴۲۴۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا الأَعْمَشُ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ التَّیْمِیِّ ، عَن أَبِیہِ ، قَالَ : رَأَیْتُ حُذَیْفَۃَ بْنَ الْیَمَانِ بِالْمَدَائِنِ یَشْتَدَّ بَیْنَ الْہَدَفَیْنِ فِی قَمِیصٍ۔
(٣٤٢٤٧) حضرت ابراہیم التیمی (رض) اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ وہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت حذیفہ (رض) کو دیکھا مدائن میں دو نشانوں کے درمیان باندھ رہے ہیں، ایک قمیص میں۔

34247

(۳۴۲۴۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا ابْنُ أَبِی ذِئْبٍ ، عَنْ نَافِعِ بْنِ أَبِی نَافِعٍ مَوْلَی أَبِی أَحْمَدَ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: لاَ سَبَقَ إِلاَّ فِی خُفٍّ، أَوْ حَافِرٍ، أَوْ نَصْلٍ۔(ترمذی ۱۷۰۰۔ احمد ۴۷۴)
(٣٤٢٤٨) حضرت ابو ہریرہ (رض) سے مروی ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : مسابقہ نہیں ہے مگر موزے (جوتے) پہن کر یا ننگے پاؤں چلنے میں یا تلوار و تیر اندازی میں۔

34248

(۳۴۲۴۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ زَیْدِ بْنِ أَسْلَمَ ، عْن أَبِی الْفَوَارِسِ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : لاَ سَبَقَ إِلاَّ فِی خُفٍّ ، أَوْ حَافِرٍ۔
(٣٤٢٤٩) حضرت ابوہریرہ (رض) سے اسی طرح مروی ہے۔

34249

(۳۴۲۵۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا الأَعْمَشُ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، قَالَ : رَأَیْتُ ابْنَ عُمَرَ یَشْتَدُّ بَیْنَ الْہَدَفَیْنِ فِی قَمِیصٍ ، وَیَقُولُ : أَنَا بِہَا ، أَنَا بِہَا ، یَعْنِی إِذَا أَصَابَ ، ثُمَّ یَرْجِعُ مُتنکِبًا قَوْسَہُ حَتَّی یَمُرَّ فِی السُّوقِ۔
(٣٤٢٥٠) حضرت مجاہد (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عمر (رض) کو دیکھا کہ وہ قمیض دو نشانوں کے درمیان باندھ رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ میں اس کے بدلے میں ہوں، میں اس کے بدلے میں ہوں۔ اگر یہ نشانے پر لگے پھر کمان کندھے پر لٹکا کر بازار سے گزرے۔

34250

(۳۴۲۵۱) حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِی عَدِیٍّ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، عَنْ مُحَمَّدٍ ، قَالَ : سَأَلْتُہُ عَنِ السَّبَقِ فِی النِّصَالِ ؟ فَلَمْ یَرَ بِہِ بَأْسًا۔
(٣٤٢٥١) حضرت ابن عون (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت محمد سے تلوار بازی وتیز اندزی میں مسابقہ کے متعلق دریافت کیا ؟ انھوں نے اس میں کوئی حرج نہ سمجھا۔

34251

(۳۴۲۵۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، قَالَ: حدَّثَنَا نَافِعُ بْنُ عُمَرَ، قَالَ: سَأَلْتُ عَمْرَو بْنَ دِینَارٍ عَنِ السَّبَقِ؟ فَقَالَ: کُلْ وَأَطْعِمْنِی۔
(٣٤٢٥٢) حضرت نافع بن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عمرو بن دینار (رض) سے مسابقہ کے انعام کے متعلق دریافت کیا ؟ آپ نے فرمایا (کوئی حرج نہیں) خود بھی کھاؤ مجھے بھی کھلاؤ۔

34252

(۳۴۲۵۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لاَ تَحْضُرُ الْمَلاَئِکَۃُ شَیْئًا مِنْ لَہْوِکُمْ ، إِِلاَّ الرِّہَانَ وَالنِّصَالَ۔ (سعید بن منصور ۲۴۵۳)
(٣٤٢٥٣) حضرت مجاہد (رض) سے مروی ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : فرشتے تمہارے کسی بھی کھیل میں حاضر نہیں ہوئے سوائے گھڑ سواری اور تلواری بازی اور تیز اندازی کے۔

34253

(۳۴۲۵۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ مُزَیْنَۃَ ، أَوْ جُہَیْنَۃَ ، قَالَ : سَمِعَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَوْمًا یَقُولُونَ فِی شِعَارِہِمْ : یَا حَرَامُ ، فَقَالَ : یَا حَلاَلُ۔ (احمد ۴۷۱۔ حاکم ۱۰۸)
(٣٤٢٥٤) حضرت ابو اسحاق (رض) سے مروی ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک قوم کا نعرہ (یا حرام) سنا تھا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یاحلال۔

34254

(۳۴۲۵۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا عِکْرِمَۃُ بن عَمَّارٍ ، عَنْ إِیَاسِ بْنِ سَلَمَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : غَزَوْنَا مَعَ أَبِی بَکْرٍ ہَوَازِنَ ، فَکَانَ شِعَارُنَا : أَمِتْ ، أَمِتْ۔
(٣٤٢٥٥) حضرت سلمہ (رض) فرماتے ہیں کہ ہم حضرت صدیق اکبر (رض) کے ساتھ ھوازن کی جنگ میں شریک ہوئے اور ہمارا نعرہ امت امت تھا۔

34255

(۳۴۲۵۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا أَبُو الْعُمَیْسِ ، عَنْ إِیَاسِ بْنِ سَلَمَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : کَانَ شِعَارُنَا مَعَ خَالِدِ بْنِ الْوَلِیدِ : أَمِتْ ، أَمِتْ۔ (ابو عوانۃ ۷۵۴۶)
(٣٤٢٥٦) حضرت سلمہ (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت خالد بن ولید (رض) کے ساتھ ہمارا نعرہ امت امت تھا۔

34256

(۳۴۲۵۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا ہِشَامُ بْنُ عُرْوَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : کَانَ شِعَارُ الْمُسْلِمِینَ یَوْمَ مُسَیْلِمَۃَ : یَا أَصْحَابَ سُورَۃِ الْبَقَرَۃِ۔
(٣٤٢٥٧) حضرت عروہ (رض) فرماتے ہیں کہ مسیلمہ کے خلاف جنگ میں مسلمانوں کا نعرہ تھا، اے سورة البقرہ والو۔

34257

(۳۴۲۵۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حَدَّثَنَا مَالِکٌ ، عَنْ طَلْحَۃَ بْنِ مُصَرِّف الْیَامِیِّ ، قَالَ : لَمَّا انْہَزَمَ الْمُسْلِمُونَ یَوْمَ حُنَیْنٍ نُودُوا : یَا أَصْحَابَ سُورَۃِ الْبَقَرَۃِ ، فَرَجَعُوا وَلَہُمْ حَنِینٌ ، یَعْنِی بُکَاء ً۔ (مسلم ۷۶۔ عبدالرزاق ۹۴۶۵)
(٣٤٢٥٨) حضرت طلحہ (رض) فرماتے ہیں کہ جنگ حنین میں جب مسلمان پسپا ہوئے تو انھیں اے سورة البقرہ والو کہہ کر پکارا گیا جب وہ واپس پلٹے تو وہ رو رہے تھے۔

34258

(۳۴۲۵۹) حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ حَرْبٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا غَالِبُ بْنُ سُلَیْمَانَ أَبُو صَالِح ، قَالَ : حَدَّثَنَا الزُّبَیْرُ بْنُ صُرَاخٍ ، قَالَ : قَالَ لَنَا مُصْعَبُ بْنُ الزُّبَیْرِ وَنَحْنُ مُصَافُو الْمُخْتَارِ : لِیَکُنْ شِعَارُکُمْ : حم لاَ یُنْصَرُونَ ، فَإِنَّہُ کَانَ شِعَارَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔
(٣٤٢٥٩) حضرت زبیر بن صراخ (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت مصعب بن زبیر (رض) نے ہم سے فرمایا تمہارا نعرہ حم لا ینصرون ہونا چاہیے کیونکہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا بھی یہی شعار تھا۔

34259

(۳۴۲۶۰) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو ، قَالَ : کَانَ شِعَارُ الأَنْصَارِ : عَبْدَ اللہِ ، وَشِعَارُ الْمُہَاجِرِینَ : عَبْدَ الرَّحْمَن۔
(٣٤٢٦٠) حضرت عبداللہ (رض) بن عمرو فرماتے ہیں انصار کا نعرہ عبداللہ اور مہاجرین کا نعرہ عبدالرحمن تھا۔

34260

(۳۴۲۶۱) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنِ الأَجْلَحِ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنِ الْبَرَائِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إِنَّکُمْ تَلْقَوْنَ الْعَدُوَّ غَدًا ، وَإِنَّ شِعَارَکُمْ : حم لاَ یُنْصَرُونَ۔ (نسائی ۱۰۴۵۱۔ احمد ۶۵)
(٣٤٢٦١) حضرت البرائ (رض) سے مروی ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : کل تمہاری دشمن سے ملاقات ہوگی اور تمہارا نعرہ حم لا ینصرون ہوگا۔

34261

(۳۴۲۶۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ؛ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَعَثَ طَلْحَۃَ سَرِیَّۃ ہِیَ عَشْرَۃٌ ، فَقَالَ : شِعَارُکُمْ : یَا عَشْرُ۔ (ابن سعد ۲۱۹)
(٣٤٢٦٢) حضرت ابو اسحاق (رض) سے مروی ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت طلحہ (رض) کو ایک سریہ میں بھیجا جس میں دس افراد تھے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تمہارا نعرہ یا عشر ہے۔

34262

(۳۴۲۶۳) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ إِسْحَاقَ ، عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ سَعْدٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ الْمُغِیرَۃَ بْنَ شُعْبَۃَ ، یَقُولُ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : شِعَارُ الْمُسْلِمِینَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ عَلَی الصِّرَاطِ : اللَّہُمَّ سَلِّمْ سَلِّمْ۔ (ترمذی ۲۴۳۲۔ ابن عدن ۱۶۳۱)
(٣٤٢٦٣) حضرت مغیرہ بن شعبہ (رض) سے مروی ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : قیامت کے دن پل صراط پر مسلمانوں کا نعرہ اللھم سلم، سلم ہوگا۔

34263

(۳۴۲۶۴) حَدَّثَنَا یَزِیدُ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا حَجَّاجٌ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، عَنْ سَمُرَۃََ بْنِ جُنْدُبٍ ، قَالَ : کَانَ شِعَارُ الْمُہَاجِرِینَ : عَبْدَ اللہِ ، وَشِعَارُ الأَنْصَارِ : عَبْدَ الرَّحْمَن۔ (ابوداؤد ۲۵۸۸)
(٣٤٢٦٤) حضرت سمرہ بن جندب (رض) فرماتے ہیں کہ مہاجرین کا نعرہ عبداللہ اور حضرات انصار کا نعرہ عبدالرحمن تھا۔

34264

(۳۴۲۶۵) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا جَرِیرُ بْنُ حَازِمٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ الْحُصَیْنِ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِی عُقْبَۃَ ، عَنْ أَبِی عُقْبَۃَ ، وَکَانَ مَوْلًی مِنْ أَہْلِ فَارِسَ ، قَالَ : شَہِدْتُ مَعَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَوْمَ أُحُدٍ ، فَضَرَبْتُ رَجُلاً مِنَ الْمُشْرِکِینَ ، فَقُلْتُ : خُذْہَا مِنِّی وَأَنَا الْغُلاَمُ الْفَارِسِی ، فَبَلَغَتِ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : ہَلاَّ قُلْتَ : خُذْہَا مِنِّی وَأَنَا الْغُلاَمُ الأَنْصَارِیُّ۔ (ابوداؤد ۵۰۸۲۔ احمد ۲۹۵)
(٣٤٢٦٥) حضرت ابو عقبہ (رض) فرماتے ہیں کہ میں رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ غزوہ احد میں شریک تھا میں نے ایک مشرک کو یہ کہہ کر تلوار ماری کہ یہ لو میں فارسی غلام ہوں، آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس کی خبر ہوئی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا آپ نے یوں کیوں نہ کہا کہ میری طرف سے یہ وار سہو میں انصاری غلام ہوں۔

34265

(۳۴۲۶۶) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا ہِشَامُ بْنُ سَعْدٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِی قَیْسُ بْنُ بَشِیرٍ التَّغْلِبِیُّ ، قَالَ : کَانَ أَبِی جَلِیسَ أَبِی الدَّرْدَائِ بِدِمَشْقَ ، وَکَانَ بِدِمَشْقَ رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، یُقَالَ لَہُ : ابْنُ الْحَنْظَلِیَّۃَ ، مِنَ الأَنْصَارِ ، فَمَرَّ بِنَا ذَاتَ یَوْمٍ وَنَحْنُ عِنْدَ أَبِی الدَّرْدَائِ ، فَقَالَ أَبُو الدَّرْدَائِ : کَلِمَۃً تَنْفَعُنَا وَلاَ تَضُرُّک ، قَالَ : بَعَثَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سَرِیَّۃً فَقَدِمَتْ ، فَأَتَی رَجُلٌ مِنْہُمْ فَجَلَسَ فِی الْمَجْلِسِ الَّذِی فِیہِ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ لِرَجُلٍ إِلَی جَنْبِہِ : لَوْ رَأَیْتنَا حِینَ لَقِینَا الْعَدُوَّ ، حَمَلَ فُلاَنٌ فَطَعَنَ ، فَقَالَ : خُذْہَا وَأَنَا الْغُلاَمُ الْغِفَارِیُّ ، فَقَالَ : مَا أُرَاہُ إِلاَّ قَدْ أَبْطَلَ أَجْرَہُ ، فَقَالَ: مَا أَرَی بِذَلِکَ بَأْسًا ، قَالَ: فَتَنَازَعُوا فِی ذَلِکَ وَاخْتَلَفُوا حَتَّی سَمِعَ ذَلِکَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : سُبْحَانَ اللہِ ، لاَ بَأْسَ أَنْ یُؤْجَرَ وَیُحْمَدَ ، فَرَأَیْتُ أَبَا الدَّرْدَائِ سُرَّ بِذَلِکَ حَتَّی یَرْتَفِعَ ، حَتَّی أَرَی أَنَّہُ سَیَبْرُکُ عَلَی رُکْبَتَیْہِ ، وَیَقُولُ : أَنْتَ سَمِعْتُہُ مِنْ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ؟ فَیَقُولُ : نَعَمْ۔ (ابوداؤد ۴۰۸۶۔ احمد ۱۷۹)
(٣٤٢٦٦) حضرت قیس بن بشیر (رض) فرماتے ہیں کہ میرے والد دمشق میں حضرت ابو الدردائ (رض) کی مجلس میں بیٹھا کرتے تھے، دمشق میں ایک ابن الحنظلیہ نامی انصاری صحابی تھے، ایک دن جب میں حضرت ابو الدردائ (رض) کے پاس تھا تو وہ ہمارے پاس سے گزرے حضرت ابو الدردائ (رض) نے فرمایا : کوئی بات سنائیے جو ہمیں تو فائدہ دے لیکن آپ کو نقصان نہ دے انھوں نے فرمایا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک سریہ جہاد کیلئے بھیجا جب وہ واپس آیا تو ان میں سے ایک شخص رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مجلس میں آ کر بیٹھ گیا اور کچھ دیر بعد اپنے ساتھ والے شخص سے کہا : اگر آپ وہ منظر دیکھ لیتے جب ہماری دشمن سے ملاقات ہوئی فلاں شخص نے یہ کہہ کر دشمن کو نیزہ مارا کہ یہ لو میں غفاری غلام ہوں، دوسرے شخص نے کہا کہ میرا خیال ہے کہ اس نے اپنا اجر ضائع کردیا ہے، اور پہلے والے شخص نے کہا کہ میرے خیال میں تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، ان کا اس معاملہ میں تنازعہ ہوگیا اور اختلاف ہوگیا تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک بھی بات پہنچ گئی، آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : سبحان اللہ (بطور تعجب) کوئی حرج نہیں ہے کہ ان کو اجر دیا جائے گا اور اس کی تعریف کی جائے گی راوی کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابو الدردائ (رض) کو دیکھا کہ آپ اس کو سن کر بہت خوش ہوئے یہاں تک کہ آپ اوپر اٹھے اور قریب تھا کہ اپنے گھٹنوں کے بل بیٹھ جاتے اور دریافت کیا کہ کیا آپ (رض) نے خود رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ سنا ہے ؟ انھوں نے فرمایا ہاں میں نے خود سنا ہے۔

34266

(۳۴۲۶۷) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ مَالِکِ بْنِ الْحَارِثِ ، أَوْ غَیْرِہِ ، قَالَ : کُنْتَ لاَ تَشَائُ أَنْ تَسْمَعَ یَوْمَ الْقَادِسِیَّۃِ : أَنَا الْغُلاَمُ النَّخَعِیُّ ، إِلاَّ سَمِعْتَہُ۔
(٣٤٢٦٧) حضرت مالک بن حارث (رض) فرماتے ہیں کہ تم قادسیہ کے دن سننا نہیں چاہتے تھے کہ میں نخعی غلام (جوان ) ہوں مگر تم نے یہ سن لیا۔

34267

(۳۴۲۶۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا إِسْمَاعِیلُ بْنُ أَبِی خَالِدٍ ، عَنْ قَیْسِ بْنِ أَبِی حَازِمٍ ، قَالَ : کَانَ عَمْرُو بْنُ مَعْدِی کَرِبَ یَمُرَّ عَلَیْنَا یَوْمَ الْقَادِسِیَّۃِ وَنَحْنُ صُفُوفٌ ، فَیَقُولُ : یَا مَعْشَرَ الْعَرَبِ ، کُونُوا أُسْدًا أَشِدَّائَ ، فَإِنَّمَا الأَسَدُ مَنْ أَغْنَی شَأْنَہُ ، إِنَّمَا الْفَارِسِیُّ تَیْسٌ بَعْدَ أَنْ یُلْقِی نَیْزَکُہُ۔
(٣٤٢٦٨) حضرت قیس بن ابو حازم (رض) فرماتے ہیں کہ جنگ قادسیہ کے دن ہم لوگ صفوں میں تھے ہمارے پاس سے حضرت عمرو بن معدی کرب (رض) گزرے اور فرمایا : اے عرب کے جوانو ! سخت جان شیر بن جاؤ، بیشک شیر تو وہ ہوتا ہے جو غنی کر دے، اور فارسی لوگ بکری کی طرح ہیں بعد اس کے کہ ان کو چھوٹا نیزہ مارا جائے۔

34268

(۳۴۲۶۹) حَدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنِ الْبَرَائِ ؛ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ یَوْمَ حُنَیْنٍ : أَنَا النَّبِیُّ لاَ کَذِبْ أَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبْ۔
(٣٤٢٦٩) حضرت برائ (رض) سے مروی ہے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غزوہ حنین کے دن فرمایا : میں نبی ہوں اس میں کوئی جھوٹ نہیں اور میں عبدالمطلب کا بیٹا ہوں۔

34269

(۳۴۲۷۰) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ الثَّقَفِیُّ ، عَنْ حُمَیْدٍ ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ : کَانَتْ نَاقَۃٌ لِرَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ تُسَمَّی الْعَضْبَائَ ، فَکَانَتْ لاَ تُسْبَقُ ، فَجَائَ أَعْرَابِیٌّ عَلَی قَعُودٍ لَہُ فَسَبَقَہَا ، فَشَقَّ ذَلِکَ عَلَی الْمُسْلِمِینَ ، فَلَمَّا رَأَی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا فِی وُجُوہِہِمْ ، قَالُوا : یَا رَسُولَ اللہِ ، سُبِقَتِ الْعَضْبَائُ ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : حُقَّ عَلَی اللہِ أَنْ لاَ یَرْتفعَ فِی الدُّنْیَا شَیْئًا إِلاَّ وَضَعَہُ۔ (بخاری ۲۸۷۱۔ ابوداؤد ۴۷۶۹)
(٣٤٢٧٠) حضرت انس (رض) سے مروی ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عضباء نامی ایک اونٹنی تھی، جو کبھی ریس نہیں ہاری تھی ایک اعرابی آیا اور اس سے سبقت لے گیا، مسلمانوں پر یہ بہت گراں گزرا جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مسلمانوں کے چہروں پر ناگواری کے اثرات دیکھے تو لوگوں نے کہا اے اللہ کے رسول 5! عضباء ہار گئی، آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اللہ کیلئے یہ بات ثابت ہے کہ دنیا میں کسی چیز کو بلند نہیں کرتے مگر پھر اس کو پست فرما دیتے ہیں۔

34270

(۳۴۲۷۱) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنْ حُمَیْدٍ ، عَنْ أَنَسٍ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ؛بِنَحْوٍ مِنْہُ۔ (بخاری ۶۵۰۱۔ ابن حبان ۷۰۳)
(٣٤٢٧١) حضرت انس (رض) سے بھی اسی طرح مروی ہے۔

34271

(۳۴۲۷۲) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ جَعْفَرٍ ، عَنْ أَبِیہِ ؛ أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَجْرَی الإِبِلَ ، وَلَمْ یَذْکُرِ السَّبَقَ۔
(٣٤٢٧٢) حضرت جعفر (رض) سے یہی روایت مختلف الفاظ کے ساتھ مروی ہے۔

34272

(۳۴۲۷۳) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ، عَنْ سَعْدِ بْنِ سَعِیدٍ، قَالَ: سَمِعْتُ عَلِیَّ بْنَ الْحُسَیْنِ، یَقُولُ: بَیْنَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی غَزْوَۃِ تَبُوکَ، فَقَالَتِ الأَنْصَارُ: السِّبَاقُ، فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: السِّبَاقَ إِنْ شِئْتُمْ۔
(٣٤٢٧٣) حضرت علی بن حسین (رض) سے مروی ہے کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غزوہ تبوک میں تھے، انصار نے کہا مقابلہ ومسابقہ ہوجائے، آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا اگر تم چاہو تو مقابلہ کرلو۔

34273

(۳۴۲۷۴) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، قَالَ : حدَّثَنِی رَجُلٌ ، عَنْ أَبِی سَلَمَۃَ ، عَنْ عَائِشَۃَ ، قَالَتْ : خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی سَفَرٍ فَنَزَلْنَا مَنْزِلاً ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : تَعَالی حَتَّی أُسَابِقَکِ ، قَالَتْ : فَسَابَقْتُہُ فَسَبَقْتُہُ ، وَخَرَجْتُ مَعَہُ بَعْدَ ذَلِکَ فِی سَفَرٍ آخَرَ ، فَنَزَلْنَا مَنْزِلاً ، فَقَالَ : تَعَالی حَتَّی أُسَابِقَکِ، قَالَتْ: فَسَبَقَنِی ، فَضَرَبَ بَیْنَ کَتِفَیِّ ، وَقَالَ : ہَذِہِ بِتِلْکَ۔ (نسائی ۸۹۴۳۔ طبرانی ۱۲۴)
(٣٤٢٧٤) حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ ہم لوگ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ایک سفر میں تھے ہم نے ایک جگہ پڑاؤ ڈالا حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھ سے فرمایا آؤ دوڑ لگاتے ہیں، ہم نے مسابقہ کیا اور میں سبقت لے گئی، پھر آپ کے ساتھ ایک اور سفر میں تھے اور ہم نے ایک جگہ پڑاؤ ڈالا تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھ سے فرمایا : آؤ دوڑ لگاتے ہیں، حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مجھ سے سبقت لے گئے اور پھر میرے کندھے کے درمیان ہاتھ مار کر فرمایا یہ اس مقابلہ کا بدلہ ہے۔

34274

(۳۴۲۷۵) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، قَالَ : خَرَجْتُ مَعَ أَبِی إِلَی الْجَبَّانِ ، فَقَالَ لِی : تَعَالَ یَا بُنَیَّ حَتَّی أُسَابِقَک ، قَالَ : فَسَابَقْتُہُ فَسَبَقَنِی۔
(٣٤٢٧٥) حضرت عبدالرحمن (رض) فرماتے ہیں کہ میں اپنے والد کے ساتھ مقام جبان کی طرف گیا تو والد صاحب نے مجھ سے فرمایا اے بیٹے آؤ دوڑنے کا مقابلہ کرتے ہیں فرماتے ہیں کہ پھر ہم نے مقابلہ کیا اور وہ مجھ سے سبقت لے گئے۔

34275

(۳۴۲۷۶) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ زَیْدٍ ، عَنْ أَبِی سَلَمَۃَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ عَائِشَۃَ ، قَالَتْ : سَابَقَنِی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَسَبَقْتُہُ۔ قَالَ حَمَّادٌ : الْحِضَار۔
(٣٤٢٧٦) حضرت عائشہ (رض) ارشاد فرماتی ہیں کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھ سے دوڑنے کا مقابلہ کیا تو میں آپ سے آگے بڑھ گئی۔

34276

(۳۴۲۷۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ بُرْدٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، قَالَ : کَانُوا یَسْتبقُونَ عَلَی أَقْدَامِہِمْ۔
(٣٤٢٧٧) حضرت زھری (رض) فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام (رض) پیدل چلنے اور دوڑنے کا مقابلہ کیا کرتے تھے۔

34277

(۳۴۲۷۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا ابْنُ أَبِی ذِئْبٍ ، عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ یَزِیدَ الْہُذَلِیِّ ، قَالَ : قُلْتُ لِسَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ : مَا تَقُولُ فِی السَّبْقِ بِالدَّحْوِ بِالْحِجَارَۃِ ؟ قَالَ : لاَ بَأْسَ بِہِ۔
(٣٤٢٧٨) حضرت اسحاق بن یزید (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت سعید المسیب (رض) سے دریافت کیا کہ پتھر بازی کا مقابلہ کرنا کیسا ہے ؟ آپ نے فرمایا اس میں کوئی حرج نہیں۔

34278

(۳۴۲۷۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا نَافِعُ بْنُ عُمَرَ ، عَنْ رَجُلٍ ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللہِ ؛ فِی الرَّجُلِ یَقُولُ : أُسَابِقُک عَلَی أَنْ تردَّ عَلَیَّ : فَکَرِہَہُ۔
(٣٤٢٧٩) حضرت سالم بن عبداللہ (رض) اس بات کو ناپسند کرتے تھے کہ کوئی شخص کسی کو یوں کہے کہ : میں اس شرط پر مقابلہ کروں گا کہ آپ میری طرف لٹائیں گے۔ (انعام وغیرہ)

34279

(۳۴۲۸۰) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنِ الْحَسَنِ ؛ أَنَّہُ کَرِہَ أَنْ یَقُولَ : أُسَابِقُک عَلَی أَنْ تَسْبِقَنِی۔
(٣٤٢٨٠) حضرت حسن (رض) اس بات کو ناپسند کرتے تھے کہ یوں کہا جائے کہ میں اس شرط پر مسابقہ کروں گا کہ آپ مجھے آگے بڑھائیں۔

34280

(۳۴۲۸۱) حَدَّثَنَا عَبْدُ السَّلاَمِ بْنُ حَرْبٍ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : کَانُوا یَکْرَہُونَ أَنْ یَقُولَ أَحَدُہُمْ لِصَاحِبِہِ : أَسْبِقُک عَلَی أَنْ تَسْبِقَنِی ، فَإِنْ سَبَقْتُک فَہُوَ لِی ، وَإِلاَّ کَانَ عَلَیْک ، وَہُوَ الْقِمَارُ۔
(٣٤٢٨١) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام (رض) اس بات کو ناپسند کرتے تھے کہ کوئی شخص دوسرے سے یوں کہے کہ : میں اس شرط پر مسابقہ کروں گا کہ آپ مجھے آگے بڑھائیں گے، پھر اگر میں آپ سے آگے نکل گیا تو وہ انعام میرے لیے ہوگا وگر نہ آپ پر ہوگا فرماتے ہیں یہ جوا ہے۔

34281

(۳۴۲۸۲) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الأَعْسَمِ ؛ أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَضَی فِی الْعَبْدِ إِذَا خَرَجَ مِنْ دَارِ الْحَرْبِ قَبْلَ سَیِّدِہِ فَہُوَ حُرٌّ ، فَإِنْ خَرَجَ سَیِّدُہُ بَعْدَہُ لَمْ یَرَدَّہُ عَلَیْہِ ، وَإِنْ خَرَجَ السَّیِّدُ قَبْلَ الْعَبْدِ مِنْ دَارِ الْحَرْبِ ، ثُمَّ خَرَجَ الْعَبْدُ بَعْدَہُ رَدَّہُ عَلَی سَیِّدِہِ۔
(٣٤٢٨٢) حضرت ابو سعید الاعسم (رض) سے مروی ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غلام کے متعلق فیصلہ فرمایا تھا کہ اگر وہ اپنے آقا سے قبل دارالحرب سے نکل آئے تو وہ آزاد ہے اور پھر بعد میں اس کا مالک آجائے تو واپس نہیں لوٹایا جائے گا اور اگر مالک غلام سے پہلے دارالحرب سے آجائے پھر غلام اس کے بعد آئے تو وہ غلام آقا کو دے دیا جائے گا۔

34282

(۳۴۲۸۳) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنِ الْحَجَّاجِ ، عَنِ الْحَکَمِ ، عَنْ مِقْسَمٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ؛ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یُعْتِقُ مَنْ أَتَاہُ مِنَ الْعَبْدِ قَبْلَ مَوَالِیہِمْ إِذَا أَسْلَمُوا ، وَقَدْ أَعْتَقَ یَوْمَ الطَّائِفِ رَجُلَیْنِ۔ (احمد ۲۲۳۔ دارمی ۲۵۰۸)
(٣٤٢٨٣) حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس غلام کو آزاد فرما دیتے تھے جو مسلمان ہو کر اپنے مالک سے پہلے دارالحرب سے آجائے، آپ نے طائف والے دن دو غلاموں کو آزاد فرمایا۔

34283

(۳۴۲۸۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ سِمَاکٍ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ ، قَالَ : کَانَ الرَّجُلُ إِذَا جَائَ مِنَ الْعَدُوِّ مُسْلِمًا قَبْلَ مَالِہِ ، ثُمَّ جَائَ مَالُہُ بَعْدَہُ کَانَ أَحَقَّ بِہِ ، وَإِنْ جَائَ مَالُہُ قَبْلَہُ کَانَ حُرًّا۔
(٣٤٢٨٤) حضرت عکرمہ (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص دشمن کے ملک سے مسلمان ہو کر اپنے مال (غلام) سے قبل مسلمانوں کے پاس آجائے پھر بعد میں اس کا مال آئے تو وہ اپنے مال کا زیادہ حقدار ہے اور اگر اس کا غلام پہلے آجائے تو وہ آزاد شمار ہوگا۔

34284

(۳۴۲۸۵) حَدَّثَنَا عِیسَی بْنُ یُونُسَ ، عَنِ الأَوْزَاعِیِّ ، عَنْ مَکْحُولٍ ، قَالَ : کَانَ الْمُسْلِمُونَ لاَ یَرَوْنَ بَأْسًا بِمَا خُرِجَ بِہِ مِنْ أَرْضِ الْعَدُوِّ مِمَّا لاَ ثَمَنَ لَہُ ہُنَاکَ۔
(٣٤٢٨٥) حضرت مکحول (رض) فرماتے ہیں کہ مسلمان اس میں کوئی حرج نہ سمجھتے تھے کہ ایسی چیز دشمن کی زمین سے اٹھا لائیں جس کی وہاں کوئی قیمت نہ ہو۔

34285

(۳۴۲۸۶) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِیلُ بْنُ عَیَّاشٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ زِیَادِ بْنِ أَنْعُمٍ ، عَنْ خَالِدِ بْنِ أَبِی عِمْرَانَ ، قَالَ : سَمِعْتُ الْقَاسِمَ وَسَالِمًا ، یَقُولاَنِ : مَا قَطَعْتَ مِنْ شَجَرِ أَرْضِ الْعَدُوِّ فَعَمِلْتَ وَتَدًا ، أَوْ ہِرَاوَۃً ، أَوْ مِرْزَبَّۃً ، أَوْ لَوْحًا ، أَوْ قَدَحًا ، أَوْ بَابًا فَلاَ بَأْسَ بِہِ ، وَمَا وُجَد لَہُ مِنْ ذَلِکَ مَعْمُولاً فَأَدِّہِ إِلَی الْمَغْنَمِ۔
(٣٤٢٨٦) حضرت قاسم اور حضرت سالم (رض) فرماتے ہیں کہ دشمن کی زمین کے درخت کاٹ کر اگر اس سے آپ نے کھونٹی، لاٹھی، ہتھوڑا، تختی، پیالہ یا دروازہ بنا لیا تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے اور جس چیز کی وہاں قیمت ہو (استعمال ہوتی ہو) اس کو مال غنیمت میں دے دو ۔

34286

(۳۴۲۸۷) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِیلُ بْنُ عَیَّاشٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ یَزِیدَ ، وَمُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللہِ الشُّعَیْثِیِّ، عَنْ مَکْحُولٍ، قَالَ: مَا قَطَعْتَ مِنْ أَرْضِ الْعَدُوِّ فَعَمِلْتَ مِنْہُ قَدَحًا، أَوْ وَتَدًا، أَوْ ہِرَاوَۃً ، أَوْ مِرْزَبَّۃً فَلاَ بَأْسَ بِہِ، وَمَا وَجَدْتَہُ مِنْ ذَلِکَ مَعْمُولاً فَأَدَّہِ إِلَی الْمَغَانِمِ۔
(٣٤٢٨٧) حضرت مکحول (رض) سے بھی اسی طرح مروی ہے۔

34287

(۳۴۲۸۸) حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ عَیَّاشٍ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنِ الْحَارِثِ بْنِ حَسَّانَ ، قَالَ : قدِمْتُ الْمَدِینَۃَ ، فَإِذَا النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَی الْمِنْبَرِ ، وَبِلاَلٌ قَائِمٌ بَیْنَ یَدَیْہِ ، مُتَقَلِّدًا سَیْفًا ، وَإِذَا رَایَاتٌ سُودٌ ، فَقُلْتُ : مَنْ ہَذَا ؟ قَالُوا : عَمْرُو بْنُ الْعَاصِ قَدِمَ مِنْ غَزَاۃٍ۔ (ترمذی ۳۲۷۴۔ ابن ماجہ ۲۸۱۶)
(٣٤٢٨٨) حضرت حارث (رض) بن حسان فرماتے ہیں کہ میں مدینہ منورہ حاضر ہوا تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) منبر پر تشریف فرما تھے اور حضرت بلال (رض) تلوار لٹکائے آپ کے سامنے کھڑے ہوئے تھے اچانک کا لے جھنڈے آئے میں نے دریافت کیا کہ یہ کون ہیں ؟ لوگوں نے بتایا حضرت عمرو بن عاص (رض) غزوہ سے واپس آئے ہیں۔

34288

(۳۴۲۸۹) حَدَّثَنَا عَبْدُاللہِ بْنُ إِدْرِیسَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ عَبْدِاللہِ بْنِ أَبِی بَکْرٍ، عَنْ عَمْرَۃَ، قَالَتْ: کَانَتْ رَایَۃُ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سَوْدَائَ مِنْ مِرْطٍ لِعَائِشَۃَ مُرَحَّلٍ۔(ترمذی ۱۶۸۱۔ ابن ماجہ ۲۸۱۸)
(٣٤٢٨٩) حضرت عمرہ (رض) فرماتی ہیں کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا جھنڈا سیاہ تھا جو حضرت عائشہ (رض) کی اونی چادر کا تھا جس پر کجاوے کے نقش تھے۔

34289

(۳۴۲۹۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ أَبِی الْفَضْلِ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : کَانَتْ رَایَۃُ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سَوْدَائَ تُسَمَّی الْعُقَابَ۔ (ابن سعد ۴۵۵)
(٣٤٢٩٠) حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا علم سیاہ تھا جس کا نام عقاب تھا۔

34290

(۳۴۲۹۱) حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِی عَدِیٍّ ، عَنْ سُلَیْمَانَ التَّیْمِیِّ ، عَنْ حُرَیْثِ بْنِ مُخْشِّیِّ ، قَالَ : کَانَتْ رَایَۃُ عَلِیٍّ سَوْدَائَ ، وَرَایَۃُ أُولَئِکَ الْجَمَلُ۔
(٣٤٢٩١) حضرت حریث فرماتے ہیں کہ جنگ جمل میں حضرت علی (رض) کا جھنڈا سیاہ تھا، اور ان لوگوں کا جھنڈا اونٹ تھا۔

34291

(۳۴۲۹۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ سُلَیْمَانَ التَّیْمِیِّ ، عَنْ حُرَیْثِ بْنِ مُخْشِّیِّ ؛ أَنَّ رَایَۃَ عَلِیٍّ کَانَتْ یَوْمَ الْجَمَلِ سَوْدَائَ ، وَکَانَتْ رَایَۃُ الزُّبَیْرِ وَطَلْحَۃَ الْجَملُ۔
(٣٤٢٩٢) حضرت حریث فرماتے ہیں کہ جنگ جمل میں حضرت علی (رض) کا جھنڈا سیاہ تھا، اور حضرت زبیر اور طلحہ کا جھنڈا اونٹ تھا۔

34292

(۳۴۲۹۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا أُسَامَۃُ بْنُ زَیْدٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا أَشْیَاخُنَا ؛ أَنَّ رَایَۃَ خَالِدِ بْنِ الْوَلِیدِ کَانَتْ یَوْمَ دِمَشْقَ سَوْدَائَ۔
(٣٤٢٩٣) حضرت اسامہ بن زید (رض) سے مروی ہے کہ حضرت خالد بن ولید کا جھنڈا دمشق والے دن سیاہ تھا۔

34293

(۳۴۲۹۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حَدَّثَنَا حَسَنُ بْنُ صَالِحٍ ، عَنِ السُّدِّیِّ ، عَنْ عَدِیِّ بْنِ ثَابِتٍ ، عَنِ الْبَرَائِ بْنِ عَازِبٍ، قَالَ : لَقِیتُ خَالِی وَمَعَہُ الرَّایَۃُ ، فَقُلْتُ لَہُ : أَیْنَ تُرِیدُ ؟ قَالَ : بَعَثَنِی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إلَی رَجُلٍ تَزَوَّجَ امْرَأَۃَ أَبِیہِ مِنْ بَعْدِہِ ، أَنْ أَقْتُلَہُ ، أَوْ أَضْرِبَ عُنُقَہُ۔
(٣٤٢٩٤) حضرت براء بن عازب (رض) فرماتے ہیں کہ میری ملاقات میرے ماموں سے ہوئی ان کے پاس جھنڈا تھا، میں نے عرض کیا کدھر کا ارادہ ہے ؟ فرمایا : مجھے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس شخص کو قتل کرنے کیلئے بھیجا ہے جس نے اپنے والد کی وفات کے بعد اس کی بیوی سے نکاح کرلیا ہے۔

34294

(۳۴۲۹۵) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَن بْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ بْنِ الْمُہَاجِرِ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ؛ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَقَدَ لِعَمْرِو بْنِ الْعَاصِ۔ (عبدالرزاق ۹۶۴۱)
(٣٤٢٩٥) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عمرو بن عاص (رض) کیلئے جھنڈا باندھا۔

34295

(۳۴۲۹۶) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ ، عَنِ الْوَلِیدِ بْنِ جُمَیْعٍ ، عَنْ حَبِیبِ بْنِ أَبِی ثَابِتٍ ؛ أَنَّ أَبَا بَکْرٍ قَالَ لِخَالِدِ بْنِ الْوَلِیدِ : ائْتِنِی بِرُمْحِکَ ، فَعَقَدَ لَہُ لِوَاء ً ، ثُمَّ قَالَ لَہُ : سِرْ ، فَإِنَّ اللَّہَ مَعَک۔
(٣٤٢٩٦) حضرت حبیب بن ابی ثابت (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت صدیق اکبر (رض) نے حضرت خالد بن ولید سے فرمایا اپنا نیزہ مجھے دو ، پھر ان کے لیے اس پر جھنڈا باندھ دیا اور پھر ان سے فرمایا جاؤ اللہ تمہارے ساتھ ہے۔

34296

(۳۴۲۹۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ بْنِ الْمُہَاجِرِ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ؛ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَقَدَ لِعَمْرِو بْنِ الْعَاصِ لِوَاء ً فِی غَزْوَۃِ ذَاتِ السَّلاَسِلِ۔ (بخاری ۳۶۶۲۔ مسلم ۱۸۵۶)
(٣٤٢٩٧) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ غزوہ ذات السلاسل میں حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عمرو بن عاص (رض) کو جھنڈا باندھ کردیا۔

34297

(۳۴۲۹۸) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ إِدْرِیسَ ، عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ أَبِی بَکْرٍ ، عَنْ عَمْرَۃَ ، قَالَتْ : کَانَ لِوَائُ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَبْیَضَ۔
(٣٤٢٩٨) حضرت عمرہ (رض) فرماتی ہیں کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا جھنڈا سفید تھا۔

34298

(۳۴۲۹۹) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَن أَبِی عُقَیْلٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا أَبُو نَضْرَۃَ ، قَالَ : لَقِیَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْعَدُوَّ ذَاتَ یَوْمٍ ، فَقَالَ لأَصْحَابِہِ : مَنْ جَائَ مِنْکُمْ بِرَأْسٍ فَلَہُ عَلَی اللہِ مَا تَمَنَّی۔ (ابوداؤد ۲۹۶۔ بیہقی ۱۳۳)
(٣٤٢٩٩) حضرت ابو نضرہ (رض) فرماتے ہیں کہ ایک دن حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا دشمن سے آمنا سامنا ہوا آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے صحابہ (رض) سے فرمایا : جو تم میں سے دشمن کا سر کاٹ کر لائے اس کو اللہ وہ چیز عطا کرے گا جس کی وہ تمنا کرے۔

34299

(۳۴۳۰۰) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنْ عَدِیِّ بْنِ ثَابِتٍ ، عَنِ الْبَرَائِ بْنِ عَازِبٍ ، قَالَ : بَعَثَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إلَی رَجُلٍ تَزَوَّجَ امْرَأَۃَ أَبِیہِ ، فَأَمَرَہُ أَنْ یَأْتِیَہُ بِرَأْسِہِ۔
(٣٤٣٠٠) حضرت براء بن عازب (رض) فرماتے ہیں کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک شخص کی طرف سپاہی بھیجے جس نے اپنے والد کی بیوی کے ساتھ نکاح کرلیا تھا اور حکم دیا اس کا سرکاٹ کر لاؤ۔

34300

(۳۴۳۰۱) حَدَّثَنَا عِیسَی بْنُ یُونُسَ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِی عُبَیْدَۃَ ، قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللہِ : اشْتَرَکْنَا یَوْمَ بَدْرٍ أَنَا وَسَعْدٌ وَعَمَّارٌ ، فَجَائَ سَعْدٌ بِرَأْسَیْنِ۔
(٣٤٣٠١) حضرت عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ غزوہ بدر میں میں، حضرت سعد اور حضرت عمار شریک تھے، حضرت سعد دو دشمنوں کا سرکاٹ کر لائے۔

34301

(۳۴۳۰۲) حَدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ ہُنَیْدَۃَ بْنِ خَالِدٍ الْخُزَاعِیِّ ، قَالَ : إِنَّ أَوَّلَ رَأْسٍ أُہْدِیَ فِی الإِسْلاَمِ رَأْسُ ابْنِ الْحَمَقِ ، أُہْدِیَ إلَی مُعَاوِیَۃَ۔
(٣٤٣٠٢) حضرت ھنیدہ بن خالد الخزاعی (رض) فرماتے ہیں کہ اسلام میں پہلا سر جو کاٹ کر کسی طرف بھیجا گیا وہ ابن الحمیق کا سر تھا جو حضرت معاویہ کی طرف بھیجا گیا۔

34302

(۳۴۳۰۳) حَدَّثَنَا عِیسَی بْنُ یُونُسَ، عَنِ الأَوْزَاعِیِّ، عَنْ قُرَّۃَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ یَزِیدَ بْنِ أَبِی حَبِیبٍ الْمِصْرِیِّ، قَالَ : بَعَثَ أَبُو بَکْرٍ ، أَوْ عُمَرُ ، شَکَّ الأَوْزَاعِیُّ ، عُقْبَۃَ بْنَ عَامِرٍ الْجُہَنِیَّ ، وَمَسْلَمَۃَ بْنَ مَخْلَدٍ الأَنْصَارِیَّ إِلَی مِصْرَ ، قَالَ : فَفُتِحَ لَہُمْ ، قَالَ : فَبَعَثُوا بِرَأْسِ یَنَّاقَ الْبِطْرِیقِ ، فَلَمَّا رَآہُ أَنْکَرَ ذَلِکَ ، فَقَالَ : إِنَّہُمْ یَصْنَعُونَ بِنَا مِثْلَ ہَذَا ، فَقَالَ : اسْتِنَانٌ بِفَارِسَ وَالرُّومِ ؟ لاَ یُحْمَلُ إِلَیْنَا رَأْسٌ ، إنَّمَا یَکْفِینَا مِنْ ذَلِکَ الْکِتَابُ وَالْخَبَرُ۔
(٣٤٣٠٣) حضرت ابوبکر صدیق (رض) یا حضرت عمر (رض) نے عقبہ بن عامر اور مسلمہ بن مخلد (رض) کو مصر کی طرف جہاد کیلئے بھیجا، انھوں نے مصر فتح کرلیا اور یناق البطریق کا سر ان کو بھیج دیا، جب انھوں نے سر کو دیکھا تو ناپسند کیا، ان حضرات نے فرمایا یہ لوگ بھی ہمارے ساتھ اسی طرح کرتے ہیں، حضرت ابوبکر یا حضرت عمر (رض) نے فرمایا : کٹے ہوئے سر ہماری طرف نہ بھیجے جائیں۔ ہمارے لیے یہی کافی ہے کہ جیتنے کی خبر یا خط بھیج دیا کریں۔

34303

(۳۴۳۰۴) حَدَّثَنَا ابْنُ مُبَارَکٍ ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ کَعْبٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : قلَّ مَا کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُسَافِرُ إِلاَّ یَوْمَ خَمِیسٍ۔ (بخاری ۲۹۴۹۔ ابوداؤد ۲۵۹۸)
(٣٤٣٠٤) حضرت کعب (رض) سے مروی ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جمعرات کے علاوہ بہت کم ہی سفر فرمایا کرتے تھے۔

34304

(۳۴۳۰۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ مَہْدِیِّ بْنِ مَیْمُونٍ ، عَنْ وَاصِلٍ مَوْلَی أَبِی عُیَیْنَۃَ ؛ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یُسَافِرُ یَوْمَ الْخَمِیسِ۔
(٣٤٣٠٥) حضرت واصل (رض) سے مروی ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جمعرات کے دن سفر فرمایا کرتے تھے۔

34305

(۳۴۳۰۶) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ یَعْلَی بْنِ عَطَائٍ ، عَنْ عُمَارَۃَ بْنِ حَدِیدٍ ، عَنْ صَخْرٍ الْغَامِدِیِّ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : اللَّہُمَّ بَارِکْ لأُمَّتِی فِی بُکُورِہَا ، قَالَ : وَکَانَ إِذَا بَعَثَ سَرِیَّۃً ، أَوْ جَیْشًا بَعَثَہُمْ فِی أَوَّلِ النَّہَارِ ، قَالَ : وَکَانَ صَخْرٌ رَجُلاً تَاجِرًا ، فَکَانَ یَبْعَثُ بِتِجَارَتِہِ أَوَّلَ النَّہَارِ فَکَثُرَ مَالُہُ۔ (ابوداؤد ۲۵۹۹۔ ترمذی ۱۲۱۲)
(٣٤٣٠٦) حضرت صخر الغامدی (رض) سے مروی ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دعا فرمائی کہ : اے اللہ ! میری امت کے صبح کے اوقات میں برکت عطا فرما، آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب کوئی لشکر یا سریہ بھیجتے تو صبح کے وقت بھتیجے صخر نامی ایک تاجر تھا جو تجارت کیلئے صبح کے وقت قافلہ (مال) بھیجا کرتا تھا اس کے مال میں (منافع) میں بہت اضافہ ہوگیا تھا۔

34306

(۳۴۳۰۷) حَدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ زَیْدٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : اللَّہُمَّ بَارِکْ لأُمَّتِی فِی بُکُورِہَا۔
(٣٤٣٠٧) حضرت سعید بن المسیب (رض) سے مروی ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان الفاط میں دعا فرمائی کہ اے اللہ ! میری امت کے صبح کے اوقات میں برکت عطا فرما۔

34307

(۳۴۳۰۸) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ إِسْحَاقَ ، عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ عَلِیٍّ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : اللَّہُمَّ بَارِکْ لأُمَّتِی فِی بُکُورِہَا۔ (ترمذی ۴۷۸۔ ابویعلی ۴۲۱)
(٣٤٣٠٨) حضرت علی (رض) سے بھی اسی طرح مروی ہے۔

34308

(۳۴۳۰۹) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِِ ، عَنْ سِمَاکٍ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إذَا أَرَادَ أَنْ یَخْرُجَ فِی سَفَرٍ ، قَالَ : اللَّہُمَّ أَنْتَ الصَّاحِبُ فِی السَّفَرِ وَالْخَلِیفَۃُ فِی الأَہْلِ ، اللَّہُمَّ إنِّی أَعُوذُ بِکَ مِنَ الضُبنۃِ فِی السَّفَرِ ، وَالْکَآبَۃِ فِی الْمُنْقَلَبِ ، اللَّہُمَّ اقْبِضْ لَنَا الأَرْضَ ، وَہَوِّنْ عَلَیْنَا السَّفَرَ۔
(٣٤٣٠٩) حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب سفر پر روانہ ہونے لگتے تو یہ دعا پڑھتے۔ ” اے اللہ ! تو ہی سفر کا ساتھی ہے اور اہل و عیال کا محافظ ہے۔ اے اللہ ! میں سفر کی مشقت سے اور واپسی کے برے منظر سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔ اے اللہ ! زمین کو ہمارے لیے سکیڑ دے اور سفر کو ہمارے لیے آسان فرما دے۔ “

34309

(۳۴۳۱۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ أُسَامَۃَ بْنِ زَیْدٍ ، عَنْ سَعِیدٍ الْمَقْبُرِیِّ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : أَرَادَ رَجُلٌ سَفَرًا فَأَتَی النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : یَا رَسُولَ اللہِ ، أَوْصِنِی ، قَالَ : أُوصِیک بِتَقْوَی اللہِ ، وَالتَّکْبِیرِ عَلَی کُلِّ شَرَفٍ۔
(٣٤٣١٠) حضرت ابوہریرہ (رض) سے مروی ہے کہ ایک صاحب سفر پر روانہ ہونے لگے تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ اے اللہ کے رسول 5! مجھے کچھ وصیت (نصیحت) فرما دیجئے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : آپ کو اللہ سے ڈرنے کی (تقویٰ اختیار کرنے کی) وصیت کرتا ہوں، اور ہر بلندی پر چڑھتے وقت تکبیر پڑھنے کی۔

34310

(۳۴۳۱۱) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ سَرْجِسَ ، قَالَ : کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِذَا خَرَجَ مُسَافِرًا یَتَعَوَّذُ مِنْ وَعْثَائِ السَّفَرِ ، وَکَآبَۃِ الْمُنْقَلَبِ وَالْحَوْرِ بَعْدَ الْکَوْرِ ، وَمِنْ دَعْوَۃِ الْمَظْلُومِ ، وَمِنْ سُوئِ الْمَنْظَرِ فِی الأَہْلِ وَالْمَالِ۔
(٣٤٣١١) حضرت عبداللہ بن سرجس (رض) سے مروی ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب سفر پر روانہ ہونے کا ارادہ فرماتے تو پناہ مانگتے سفر کی تھکان سے، پلٹنے والے کے حزن وملال سے، رزق کی زیادتی کے بعد اس کی کمی سے، مظلوم کی بددعا سے اور اہل ومال میں برے منظر سے۔

34311

(۳۴۳۱۲) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ الْقَطَّانُ ، عَنِ ابْنِ عَجْلاَنَ ، قَالَ : حدَّثَنِی عَوْنُ بْنُ عَبْدِ اللہِ ؛ أَنَّ رَجُلاً أَتَی ابْنَ مَسْعُودٍ ، فَقَالَ : إِنِّی أُرِیدُ سَفَرًا فَأَوْصِنِی ، قَالَ : إِذَا تَوَجَّہْتَ فَقُلْ : بِسْمِ اللہِ ، حَسْبِی اللَّہُ ، تَوَکَّلْتُ عَلَی اللہِ ، فَإِنَّک إِذَا قُلْتَ : بِسْمِ اللہِ ، قَالَ الْمَلَکُ : ہُدِیتَ ، وَإِذَا قُلْتَ حَسْبِی اللَّہُ ، قَالَ الْمَلَکُ : حُفِظْتَ ، وَإِذَا قُلْتَ : تَوَکَّلْتُ عَلَی اللہِ ، قَالَ الْمَلَکُ : کُفِیتَ۔
(٣٤٣١٢) حضرت عون بن عبداللہ (رض) سے مروی ہے کہ ایک شخص حضرت ابن مسعود (رض) کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا میں سفر پر جانا چاہ رہا ہوں مجھے کچھ وصیت فرما دیجئے، حضرت ابن مسعود (رض) نے ارشاد فرمایا : جب نکلنے لگو تو یوں کہہ لو، بِسْمِ اللہِ ، حَسْبِی اللَّہُ ، تَوَکَّلْتُ عَلَی اللہِ جب آپ نے بسم اللہ کہا تو فرشتہ کہتا ہے تجھے ہدایت دی گئی، اور جب آپ نے حَسْبِی اللَّہُ کہا تو فرشتہ نے ندا دی تیری حفاظت کی گئی اور جب آپ نے توکلت علی اللہ کہا تو فرشتہ نے ندا دی تیرے لیے وہ کافی ہوگیا ہے۔

34312

(۳۴۳۱۳) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، قَالَ : کَانُوا یَقُولُونَ فِی السَّفَرِ : اللَّہُمَّ بَلاَغًا یُبْلَغُ خَیْرُ ، مَغْفِرَۃٍ مِنْک وَرِضْوَانًا ، بِیَدِکَ الْخَیْرُ ، إِنَّک عَلَی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیرٌ ، اللَّہُمَّ أَنْتَ الصَّاحِبُ فِی السَّفَرِ ، وَالْخَلِیفَۃُ عَلَی الأَہْلِ ، اللَّہُمَّ اطْوِ لَنَا الأَرْضَ ، وَہَوِّنْ عَلَیْنَا السَّفَرَ ، اللَّہُمَّ إِنَّا نَعُوذُ بِکَ مِنْ وَعْثَائِ السَّفَرِ ، وَکَآبَۃِ الْمُنْقَلَبِ ، وَسُوئِ الْمَنْظَرِ فِی الأَہْلِ وَالْمَالِ۔
(٣٤٣١٣) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ حضرات صحابہ کرام (رض) سفر پر جاتے وقت یہ دعا پر ھتے، اللَّہُمَّ بَلاَغًا یُبْلَغُ خَیْرُ ، مَغْفِرَۃٍ مِنْک وَرِضْوَانًا ، بِیَدِکَ الْخَیْرُ ، إِنَّک عَلَی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیرٌ ، اللَّہُمَّ أَنْتَ الصَّاحِبُ فِی السَّفَرِ ، وَالْخَلِیفَۃُ عَلَی الأَہْلِ ، اللَّہُمَّ اطْوِ لَنَا الأَرْضَ ، وَہَوِّنْ عَلَیْنَا السَّفَرَ ، اللَّہُمَّ إِنَّا نَعُوذُ بِکَ مِنْ وَعْثَائِ السَّفَرِ ، وَکَآبَۃِ الْمُنْقَلَبِ ، وَسُوئِ الْمَنْظَرِ فِی الأَہْلِ وَالْمَالِ ۔ اے اللہ ! بہترین مغفرت اور رضامندی تیری طرف سے حاصل ہوتی ہے۔ ساری خیریں تیرے ہاتھ میں ہیں۔ تو ہر چیز پر قادر ہے۔ تو سفر کا ساتھی اور اہل و عیال کا محافظ ہے۔ اے اللہ ! زمین کو ہمارے لیے سکیڑ دے اور سفر کو ہمارے لیے آسان فرما۔ اے اللہ ! ہم سفر کی مشقت، برے منظر اور اہل و عیال کی بری حالت سے تیری پناہ چاہتے ہیں۔

34313

(۳۴۳۱۴) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِِ ، عَنْ سِمَاکٍ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ؛ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ إِذَا أَرَادَ الرُّجُوعَ ، قَالَ : آیِبُونَ تَائِبُونَ عَابِدُونَ ، لِرَبِّنَا حَامِدُونَ ، فَإِذَا دَخَلَ عَلَی أَہْلِہِ ، قَالَ : تَوْبًا تَوْبًا ، لِرَبِّنَا أَوْبًا ، لاَ یُغَادِرُ عَلَیْنَا حُوْبًا۔
(٣٤٣١٤) حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب سفر سے واپسی کا ارادہ فرماتے تو یوں فرماتے آیِبُونَ تَائِبُونَ عَابِدُونَ ، لِرَبِّنَا حَامِدُونَ ” ہم واپس آنے والے، توبہ کرنے والے، عبادت کرنے والے اور اپنے رب کی تعریف کرنے والے ہیں “ پھر جب اپنے گھر والوں کے پاس داخل ہوتے تو فرماتے : تَوْبًا تَوْبًا ، لِرَبِّنَا أَوْبًا ، لاَ یُغَادِرُ عَلَیْنَا حُوْبًا۔ ” ہم توبہ کرتے ہیں ہم توبہ کرتے ہیں، اپنے رب کی طرف رجوع کرتے ہیں، وہ ہمارے لیے کوئی گناہ نہیں چھوڑتا۔ “

34314

(۳۴۳۱۵) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ زَکَرِیَّا ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنِ الْبَرَائِ ، قَالَ : کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِذَا قَفَلَ مِنْ سَفَرٍ ، قَالَ : آیِبُونَ تَائِبُونَ عَابِدُونَ ، لِرَبِّنَا حَامِدُونَ۔
(٣٤٣١٥) حضرت برائ (رض) سے مروی ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب سفر سے واپس آتے تو یہ دعا پڑھتے : آیِبُونَ تَائِبُونَ عَابِدُونَ ، لِرَبِّنَا حَامِدُونَ ۔” ہم واپس آنے والے، توبہ کرنے والے، عبادت کرنے والے اور اپنے رب کی تعریف کرنے والے ہیں “

34315

(۳۴۳۱۶) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ بْنُ عُمَرَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ؛ کَانَ یَقُولُ إذَا رَجَعَ مِنَ الْجَیْشِ ، أَوِ السَّرَایَا ، أَوِ الْحَجِّ ، أَوِ الْعُمْرَۃِ کُلَّمَا أَوْفَی عَلَی ثَنِیَّۃٍ ، أَوْ فَدْفَدٍ کَبَّرَ ثَلاَثًا ، ثُمَّ قَالَ : لاَ إِلَہَ إِلاَّ اللَّہُ وَحْدَہُ ، صَدَقَ اللَّہُ وَعْدَہُ ، آیِبُونَ تَائِبُونَ عَابِدُونَ ، لِرَبِّنَا حَامِدُونَ۔
(٣٤٣١٦) حضرت ابن عمر (رض) سے مروی ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لشکر، سریہ، حج یا عمرہ سے واپسی کے وقت جب کسی گھاٹی یا ہموار زمین پر آتے تو تین بار تکبیر پڑھ کر یہ دعا پڑھتے۔ لاَ إِلَہَ إِلاَّ اللَّہُ وَحْدَہُ ، صَدَقَ اللَّہُ وَعْدَہُ ، آیِبُونَ تَائِبُونَ عَابِدُونَ ، لِرَبِّنَا حَامِدُونَ ۔ ” اللہ وحدہ کے سوا کوئی معبود نہیں، اللہ نے اپنا وعدہ پورا کیا، ہم واپس آنے والے، توبہ کرنے والے، عبادت کرنے والے اور اپنے رب کی تعریف کرنے والے ہیں۔ “

34316

(۳۴۳۱۷) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، قَالَ : حدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِذَا قَفَلَ مِنَ الْجُیُوشِ ، أَوِ السَّرَایَا ، أَوِ الْحَجِّ ، أَوِ الْعُمْرَۃِ ، ثُمَّ ذَکَرَ نَحْوَہُ۔
(٣٤٣١٧) حضرت ابن عمر (رض) سے اسی طرح مروی ہے۔

34317

(۳۴۳۱۸) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا سَعِیدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ ؛ أَنَّہُ کَانَ مَعَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَلَمَّا أَنْ کَانَ بِظْہَرِ الْمَدِینَۃِ ، أَوِ بِالْحَرَّۃِ ، قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : آیِبُونَ تَائِبُونَ عَابِدُونَ ، إِنْ شَائَ اللَّہُ لِرَبِّنَا حَامِدُونَ۔
(٣٤٣١٨) حضرت انس بن مالک (رض) فرماتے ہیں کہ وہ ایک سفر میں رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ تھے، جب مدینہ واپس پہنچے تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ دعا پڑھی آیِبُونَ تَائِبُونَ عَابِدُونَ ، لِرَبِّنَا إِنْ شَائَ اللّٰہُ لِرَبِّنَا حَامِدُونَ ۔” ہم واپس آنے والے، توبہ کرنے والے، عبادت کرنے والے اور اپنے رب کی تعریف کرنے والے ہیں “

34318

(۳۴۳۱۹) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا الْعَوَّامُ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ التَّیْمِیِّ ، قَالَ : کَانُوا إِذَا قَفَلُوا ، قَالُوا : آیِبُونَ تَائِبُونَ ، لِرَبِّنَا حَامِدُونَ۔
(٣٤٣١٩) حضرت ابراہیم تیمی (رض) فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام (رض) جب سفر سے لوٹتے تو یہ دعا پر ھتے آیِبُونَ تَائِبُونَ عَابِدُونَ ، لِرَبِّنَا حَامِدُونَ ۔” ہم واپس آنے والے، توبہ کرنے والے، عبادت کرنے والے اور اپنے رب کی تعریف کرنے والے ہیں “

34319

(۳۴۳۲۰) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا شُعْبَۃُ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنِ الرَّبِیعِ بْنِ الْبَرَائِ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ؛ أَنَّہُ کَانَ إِذَا رَجَعَ مِنْ سَفَرٍ ، قَالَ : آیِبُونَ تَائِبُونَ ، لِرَبِّنَا حَامِدُونَ۔
(٣٤٣٢٠) حضرت البرائ (رض) سے مروی ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب سفر سے واپس آتے تو یہ دعا پڑھتے آیِبُونَ تَائِبُونَ ، لِرَبِّنَا حَامِدُونَ ۔ ” ہم واپس آنے والے، توبہ کرنے والے، عبادت کرنے والے اور اپنے رب کی تعریف کرنے والے ہیں “

34320

(۳۴۳۲۱) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَطَائٍ ، قَالَ : نَہَی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ أَنْ یُسَافِرَ الرَّجُلُ وَحْدَہُ۔
(٣٤٣٢١) حضرت عطائ (رض) سے مروی ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تنہا سفر کرنے سے منع فرمایا ہے۔

34321

(۳۴۳۲۲) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ عَطَائٍ ؛ أَنَّ عُمَرَ نَہَی أَنْ یُسَافِرَ الرَّجُلاَنِ۔
(٣٤٣٢٢) حضرت عطائ (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے دو آدمیوں کے سفر پر جانے سے منع فرمایا۔

34322

(۳۴۳۲۳) حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ الأَزْرَقُ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ؛ أَنَّہُ کَانَ یَکْرَہُ أَنْ یُسَافِرَ الرَّجُلُ وَالرَّجُلاَنِ ، إِلاَّ الثَّلاَثَۃَ فَمَا زَادَ۔
(٣٤٣٢٣) حضرت حسن (رض) اکیلے آدمی اور دو آدمیوں کے سفر کرنے کو ناپسند کرتے تھے۔ ہاں مگر جب تین یا زائد ہوں تو پھر اجازت ہے۔

34323

(۳۴۳۲۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ حَجَّاجِ بْنِ أَبِی یَزِیدَ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، قَالَ : سُئِلَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنِ الرَّجُلِ یُسَافِرُ وَحْدَہُ ؟ قَالَ : شَیْطَانٌ ، قِیلَ : فَالاِثْنَانِ ؟ قَالَ : شَیْطَانَانِ ، قِیلَ : فَالثَّلاَثَۃُ ؟ قَالَ : صَحَابَۃٌ۔ (ابوداؤد ۲۶۰۰۔ ترمذی ۱۶۷۴)
(٣٤٣٢٤) حضرت مجاہد (رض) سے مروی ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا گیا تنہا آدمی کا سفر کرنا کیسا ہے ؟ آپ نے فرمایا شیطان ہے، یعنی گناہ گار ہے، پوچھا گیا کہ اگر دو ہوں ؟ فرمایا گناہ گار ہیں، پوچھا گیا اگر تین ہوں ؟ فرمایا بہترین ساتھی ہیں۔

34324

(۳۴۳۲۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا الأَعْمَشِ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، قَالَ : الرَّاکِبُ شَیْطَانٌ ، وَالرَّاکِبَانِ شَیْطَانَانِ ، وَالثَّلاَثَۃُ صَحَابَۃٌ۔
(٣٤٣٢٥) حضرت مجاہد (رض) فرماتے ہیں کہ تنہا سوار ہو کر سفر کرنے والا شیطان ہے اور دو سوار دو شیطان ہیں اور تین بہترین ساتھی ہیں۔

34325

(۳۴۳۲۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ عَبْدِ الْکَرِیمِ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ ، قَالَ : نَہَی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ یَسْلُکَ الرَّجُلُ الْقَفْرَ وَحْدَہُ۔
(٣٤٣٢٦) حضرت عکرمہ (رض) فرماتے ہیں کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ویران جگہ میں تنہا سفر کرنے سے منع فرمایا ہے۔

34326

(۳۴۳۲۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا عَاصِمُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لَوْ یَعْلَمُ النَّاسُ مَا فِی الْوَحْدَۃِ ، مَا سَارَ رَاکِبٌ وَحْدَہُ بِلَیْلٍ أَبَدًا۔
(٣٤٣٢٧) حضرت ابن عمر (رض) ارشاد فرماتے ہیں کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اگر لوگوں کو معلوم ہوجائے کہ تنہا سفر کرنے میں کتنا نقصان ہے تو کوئی سوار کبھی بھی رات کو تنہا سفر نہ کرتا۔

34327

(۳۴۳۲۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَطَائٍ ، قَالَ : نَہَی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ یُسَافِرَ الرَّجُلُ وَحْدَہُ ، وَأَنْ یَبِیتَ فِی بَیْتٍ وَحْدَہُ۔
(٣٤٣٢٨) حضرت عطائ (رض) فرماتے ہیں کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تنہا آدمی کو سفر کرنے سے اور تنہا گھر میں رات گزارنے سے منع فرمایا ہے۔

34328

(۳۴۳۲۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ أَبِی جَعْفَرٍ ، قَالَ : لاَ تَبِیتَنَّ وَحْدَک ، فَإِنَّ الشَّیْطَانَ أَشَدَّ مَا یَکُونُ بِکَ وَلُوعًا۔
(٣٤٣٢٩) حضرت ابو جعفر (رض) فرماتے ہیں کہ تنہا رات مت گزارو، بیشک شیطان زیادہ شوقین ہے جو کچھ تیرے پاس ہے۔

34329

(۳۴۳۳۰) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنْ عِکْرِمَۃَ ؛ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَعَثَ خَوَّاتَ بْنَ جُبَیْرٍ إِلَی بَنِی قُرَیْظَۃَ ، عَلَی فَرَسٍ لَہُ ، یُقَالَ لَہُ : جَنَاحٌ۔ (حاکم ۴۱۳)
(٣٤٣٣٠) حضرت عکرمہ (رض) سے مروی ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خوات بن جبیر (رض) کو بنو قریظہ کی طرف جناح نامی گھوڑے پر سوار کر کے بھیجا۔

34330

(۳۴۳۳۱) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنِ ابْنِ أَبِی نَجِیحٍ ، قَالَ : قَالَ رَجُلٌ عِنْدَ مُجَاہِدٍ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : الْوَاحِدُ شَیْطَانٌ ، وَالاِثْنَانِ شَیْطَانَانِ ، فَقَالَ : مُجَاہِدٌ : قَدْ بَعَثَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ دِحْیَۃَ وَحْدَہُ ، وَبَعَثَ عَبْدَ اللہِ وَخَبَّابًا سَرِیَّۃً ، وَلَکِنْ ، قَالَ عُمَرُ : کُونُوا فِی أَسْفَارِکُمْ ثَلاَثَۃً ، فَإِنْ مَاتَ وَاحِدٌ وَلِیَہُ اثْنَانِ ، الْوَاحِدُ شَیْطَانٌ ، وَالاِثْنَانِ شَیْطَانَانِ۔
(٣٤٣٣١) حضرت ابو نجیح (رض) سے مروی ہے کہ ایک شخص نے حضرت مجاہد (رض) کے پاس کہا کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا ہے اکیلا سفر کرنے والا ایک شیطان اور دو مل کر سفر کرنے والے دو شیطان ہیں، حضرت مجاہد (رض) نے فرمایا آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت دحیہ کو اکیلے سفر پر روانہ فرمایا تھا، اور حضرت عبداللہ اور حضرت خباب (دو بندوں کو بھی) لیکن حضرت عمر (رض) نے ارشاد فرمایا کہ تم سفر میں تین آدمی جایا کرو تاکہ اگر کوئی ایک فوت بھی ہوجائے تو دو بندے اس کے پیچھے ولی ہوں، اکیلا سفر کرنے والا ایک شیطان اور دو سفر کرنے والے دو شیطانوں کی طرح ہیں۔

34331

(۳۴۳۳۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ مُحَارِبِ بْنِ دِثَارٍ ، عَنْ جَابِرٍ ، قَالَ : نَہَی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ یَطْرُقَ الرَّجُلُ أَہْلَہُ لَیْلاً ، یَتَخَوَّنَہُمْ ، أَوْ یَطْلُبَ عَثَرَاتِہِمْ۔ (مسلم ۱۵۲۸۔ دارمی ۲۶۳۱)
(٣٤٣٣٢) حضرت جابر (رض) سے مروی ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس بات سے منع فرمایا ہے کہ آدمی سفر سے رات کو گھر لوٹے، وہ ان کے ساتھ خیانت کرے گا یا وہ ٹھوکر اور غلطی طلب کرے گا۔

34332

(۳۴۳۳۳) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ ہَمَّامِ بْنِ یَحْیَی ، عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ أَبِی طَلْحَۃَ ، عَنْ أَنَسٍ ؛ أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ لاَ یَطْرُقُ أَہْلَہُ لَیْلاً ، وَکَانَ یَأْتِیہِمْ غَدْوَۃً ، أَوْ عَشِیَّۃً۔ (بخاری ۱۸۰۰۔ مسلم ۱۵۲۷)
(٣٤٣٣٣) حضرت انس (رض) سے مروی ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رات میں سفر سے واپس گھر والوں کے پاس نہ لوٹا کرتے تھے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صبح کے وقت یا شام کے وقت آتے تھے۔

34333

(۳۴۳۳۴) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنِ الأَسْوَدِ بْنِ قَیْسٍ ؛ أَنَّہُ سَمِعَ نُبَیْحًا الَعَنَزِیِّ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إِذَا دَخَلْتُمْ لَیْلاً ، فَلاَ یَأْتِ أَحَدٌ أَہْلَہُ طُرُوقًا ، قَالَ جَابِرٌ : فَوَاللہِ لَقَدْ طَرَقْنَاہُنَّ بَعْدُ۔ (احمد ۲۹۹۔ ابن حبان ۲۷۱۳)
(٣٤٣٣٤) حضرت جابربن عبداللہ (رض) سے مروی ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ تم میں سے کوئی شخص جب سفر سے واپس لوتے تو وہ رات کو گھر والوں کے پاس نہ آئے، حضرت جابر (رض) فرماتے ہیں کہ خدا کی قسم ہم ان کے پاس رات گزرنے کے بعد آتے تھے۔

34334

(۳۴۳۳۵) حَدَّثَنَا مُعَاوِیَۃُ بْنُ ہِشَامٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ حُمَیْدٍ الأَعْرَجِ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاہِیمَ التَّیْمِیِّ ، عَنْ أَبِی سَلَمَۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ رَوَاحَۃَ ، قَالَ : کُنْتُ فِی غَزَاۃٍ ، فَاسْتَأْذَنْتُ فَتَعَجَّلْت ، فَانْتَہَیْتُ إلَی الْبَابِ، فَإِذَا الْمِصْبَاحُ یَتَأَجَّجُ ، وَإِذَا أَنَا بِشَیْئٍ أَبْیَضَ نَائِمٍ ، فَاخْتَرَطْتُ سَیْفِی ، ثُمَّ حَرَّکْتہَا ، فَقَالَتْ : إِلَیْک إِلَیْک ، فُلاَنَۃُ کَانَتْ عِنْدِی مَشَّطَتْنِی، فَأَتَیْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرْتُہُ، فَنَہَی أَنْ یَطْرُقَ الرَّجُلُ أَہْلَہُ لَیْلاً۔ (احمد ۴۵۱۔ حاکم ۲۹۳)
(٣٤٣٣٥) حضرت عبداللہ بن رواحہ (رض) فرماتے ہیں کہ میں ایک غزوہ میں شریک تھا میں نے واپسی کی اجازت طلب کی اور جلدی کی اور جلدی واپس آ کر گھر کے دروازے پر پہنچ گیا، گھر میں چراغ جل رہا تھا اور میں نے ایک سفید چیز سوئی ہوئی دیکھی میں نے تلوار نکال لی پھر اس کو حرکت دی تو میری اہلیہ نے کہا : تو دور ہوجا تو دور ہوجا فلاں میرے پاس ہے اور میرے بالوں میں کنگھی کر رہی ہے، حضرت عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ کو اس واقعہ کی اطلاع دی، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے منع فرما دیا کہ آدمی رات کو سفر سے واپس گھر آئے۔

34335

(۳۴۳۳۶) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ بْنُ عُمَرَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : أَقْبَلَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ مِنْ غَزْوَۃِ سَرْغٍ ، حَتَّی إذَا بَلَغَ الْجُرُفَ ، قَالَ : أَیُّہَا النَّاسُ ، لاَ تَطْرُقُوا النِّسَائَ ، وَلاَ تَغْترُوہُنَّ ، ثُمَّ بَعَثَ رَاکِبًا إلَی الْمَدِینَۃِ بِأَنَّ النَّاسَ دَاخِلُونَ بِالْغَدَاۃِ۔
(٣٤٣٣٦) حضرت ابن عمر (رض) سے مروی ہے کہ حضرت عمر (رض) غزوہ سرغ سے واپس آ رہے تھے، جب آپ مقام جرف پر پہنچے تو آپ نے اعلان فرمایا اے لوگو ! رات کے وقت اور ان کی بے خبری میں ان کے پاس مت داخل ہوجاؤ پھر آپ نے ایک سوار مدینہ کی طرف بھیجا کہ بتادو لوگ صبح داخل ہوں گے۔

34336

(۳۴۳۳۷) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ عَاصِمٍ الأَحْوَلِ ، عَنْ عَامِرٍ ، قَالَ : قَالَ جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللہِ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إِذَا طَالَتْ غَیْبَۃُ أَحَدِکُمْ عَنْ أَہْلِہِ ، فَلاَ یَطْرُقَنَّ أَہْلَہُ لَیْلاً۔ (بخاری ۵۲۴۴۔ مسلم ۱۸۲)
(٣٤٣٣٧) حضرت جابر (رض) بن عبداللہ سے مروی ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا جب تم میں کوئی شخص سفر کی وجہ سے زیادہ دن گھر والوں سے دور رہے تو وہ رات کے وقت گھر والوں کے پاس واپس مت آئے۔

34337

(۳۴۳۳۸) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ حَسَّانَ ، عَنْ حَفْصَۃَ بِنْتِ سِیرِینَ ، عَنْ أُمِّ عَطِیَّۃَ الأَنْصَارِیَّۃِ ، قَالَتْ : غَزَوْتُ مَعَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سَبْعَ غَزَوَاتٍ ، أَخْلُفُہُمْ فِی رِحَالِہِمْ ، فَأَصْنَعُ لَہُمَ الطَّعَامَ ، وَأُدَاوِی لَہُمَ الْجَرْحَی ، وَأَقُومُ عَلَی الْمَرْضَی۔ (مسلم ۱۴۴۷۔ احمد ۸۴)
(٣٤٣٣٨) حضرت ام عطیۃ الانصاریۃ (رض) فرماتی ہیں کہ میں حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ سات غزوات میں شریک ہوئی میں ان کے کجاو وں کے پیچھے ہوتی اور ان کے لیے کھانا تیار کرتی اور زخمیوں کو مرہم پٹی کرتی اور مریضوں کا خیال رکھتی۔

34338

(۳۴۳۳۹) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ الْحُبَابِ ، قَالَ : حدَّثَنَا رَافِعُ بْنُ سَلَمَۃَ الأَشْجَعِیِّ ، قَالَ : حَدَّثَنِی حَشْرَجُ بْنُ زِیَادٍ الأَشْجَعِیُّ ، عَنْ جَدَّتِہِ أُمِّ أَبِیہِ ؛ أَنَّہَا غَزَتْ مَعَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خَیْبَرَ سَادِسَۃَ سِتِّ نِسْوَۃٍ ، فَبَلَغَ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَبَعَثَ إِلَیْنَا ، فَقَالَ : بِأَمْرِ مَنْ خَرَجْتُنَ ؟ وَرَأَیْنَا فِیہِ الْغَضَبَ ، فَقُلْنَا : یَا رَسُولَ اللہِ ، خَرَجْنَا وَمَعَنَا دَوَائٌ نُدَاوِی بِہِ ، وَنُنَاوِلُ السِّہَامَ ، وَنَسْقِی السَّوِیقَ ، وَنَغْزِلُ الشَّعْرَ ، نُعِینُ بِہِ فِی سَبِیلِ اللہِ ، فَقَالَ لَنَا : أَقِمْنَ ، فَلَمَّا فَتَحَ اللَّہُ عَلَیْہِ خَیْبَرَ ، قَسَمَ لَنَا کَمَا قَسَمَ لِلرِّجَالِ۔ (ابوداؤد ۲۷۲۳۔ احمد ۲۷۱)
(٣٤٣٣٩) حضرت حشرج بن زیاد (رض) اپنی دادی سے روایت کرتے ہیں کہ وہ چھ خواتین حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ غزوہ خیبر میں شریک ہوئیں، رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خبر ملی تو آپ ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا : کس کام کی وجہ سے تم جنگ میں نکلی ہو ؟ ہم نے آپ کے چہرہ پر غصہ کے آثار دیکھے ہم نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! ہم جنگ میں شریک ہوئیں ہیں ہمارے پاس دوائی ہے جس سے زخمیوں کو دواء دیں گے اور تیر پکڑائیں گے اور ستو ملا پانی پلائیں گے اور بالو کی رسی بنائیں گے جس سے اللہ کے راستہ میں مدد حاصل کی جائے گی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہم سے فرمایا : ٹھہری رہو پھر جب خیبر فتح ہوا تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں بھی اسی طرح حصہ دیا جس طرح مردوں کو دیا۔

34339

(۳۴۳۴۰) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنِ الزُّہْرِیِّ، وَمُحَمَّدِ بْنِ عَلِیٍّ، عَنْ یَزِیدَ بْنِ ہُرْمُزَ، قَالَ: کَتَبَ نَجْدَۃُ إِلَی ابْنِ عَبَّاسٍ یَسْأَلُہُ عَنِ النِّسَائِ : ہَلْ کُنَّ یَحْضُرْنَ مَعَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْحَرْبَ؟ وَہَلْ کَانَ یَضْرِبُ لَہُنَّ بِسَہْمٍ ؟ قَالَ یَزِیدُ : کَتَبْتُ کِتَابَ ابْنِ عَبَّاسٍ إلَی نَجْدَۃَ : قَدْ کُنَّ یَحْضُرْنَ مَعَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَأَمَّا أَنْ یَضْرِبَ لَہُنَّ بِسَہْمٍ فَلا ، وَقَدْ کَانَ یَرْضَخُ لَہُنَّ۔
(٣٤٣٤٠) حضرت یزید بن ہرمز (رض) سے مروی ہے کہ نجدہ نے حضرت ابن عباس (رض) کو خط لکھ کر دریافت کیا کہ کیا خواتین حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ جہاد میں شریک ہوتی تھیں اور غنیمت میں ان کو حصہ ملتا تھا ؟ حضرت یزید (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عباس (رض) کی طرف سے نجدہ کو لکھا کر خواتین رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ جہاد میں شریک ہوتی تھیں، باقی ان کو الگ حصہ نہ ملتا تھا، ان کو تھوڑا سا عطیہ دیا جاتا تھا۔

34340

(۳۴۳۴۱) حَدَّثَنَا حُمَیْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ حَسَنٍ ، عَنِ الأَسْوَدِ بْنِ قَیْسٍ ، قَالَ : حدَّثَنِی سَعِیدُ بْنُ عَمْرٍو الْقُرَشِیُّ ؛ أَنَّ أُمَّ کَبْشَۃَ امْرَأَۃً مِنْ بَنِی عُذْرَۃَ ، عُذْرَۃَ قُضَاعَۃَ ، قَالَتْ : یَا رَسُولَ اللہِ ، ائْذَنْ لِی أَنْ أَخْرَجَ فِی جَیْشِ کَذَا وَکَذَا ، قَالَ : لاَ ، قَالْتُ : یَا رَسُولَ اللہِ ، إِنِّی لَسْتُ أُرِیدُ أَنْ أُقَاتِلَ ، إِنَّمَا أُرِیدُ أَنْ أُدَاوِیَ الْجَرِیحَ وَالْمَرِیضَ ، وأَسْقِیَ الْمَرِیضَ ، فَقَالَ : لَوْلاَ أَنْ یَکُونَ سُنَّۃً ، وَیُقَالُ : فُلاَنَۃُ خَرَجَتْ ، لأََذِنْتُ لَکِ ، وَلَکِنِ اجْلِسِی۔ (طبرانی ۴۳۱)
(٣٤٣٤١) حضرت سعید بن عمرو (رض) سے مروی ہے کہ بنو عذرہ کی خاتون ام کبشہ نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول ! مجھے اجازت دے دیں کہ میں فلاں فلاں لشکر میں ساتھ جاؤں، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ نہیں، انھوں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں لڑنے کے ارادے سے نہیں جا رہی میں مریضوں اور زخمیوں کی مرہم پٹی اور مریض کو پانی پلانے کے ارادہ سے جانا چاہتی ہوں، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اگر یہ عادت نہ بن جاتی اور کہا جاتا کہ فلاں خاتون جہاد میں گئی تھی تو میں تجھے اجازت دے دیتالیکن بیٹھی رہ، (ساتھ مت جا) ۔

34341

(۳۴۳۴۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ عَبْدِ الْکَرِیمِ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ ؛ أَنَّ صَفِیَّۃَ کَانَتْ مَعَ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَوْمَ الْخَنْدَقِ۔
(٣٤٣٤٢) حضرت عکرمہ (رض) فرماتے ہیں کہ غزوہ خندق والے دن حضرت صفیہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ تھیں۔

34342

(۳۴۳۴۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا شُعْبَۃُ ، عَنِ الْعَوَّامِ بْنِ مُزَاحِمٍ ، عَنْ خَالِدِ بْنِ سَیْحَانَ ، قَالَ : شَہِدَتْ تُسْتَرَ مَعَ أَبِی مُوسَی أَرْبَعُ نِسْوَۃٍ ، أَوْ خَمْسٌ ، مِنْہُنَّ أُمُّ مَجْزَأَۃَ بْنِ ثَوْرٍ۔
(٣٤٣٤٣) حضرت خالد بن سیحان (رض) سے مروی ہے کہ چار یا پانچ خواتین تستر میں حضرت ابو موسیٰ (رض) کے ساتھ شریک ہوئیں جن میں ام مجزاۃ بن ثور (رض) بھی تھیں۔

34343

(۳۴۳۴۴) حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ حَرْمَلَۃَ الْعَبْدِیُّ ، عَنِ الْمُؤْثَرَۃِ بِنْتِ زَیْدٍ ، أُخْتِ أَبِی نَضْرَۃَ ؛ أَنَّ أَبَا نَضْرَۃَ غَزَا بِامْرَأَتِہِ زَیْنَبَ إِلَی خُرَاسَانَ۔ (ابن سعد ۲۰۸)
(٣٤٣٤٤) حضرت موثرہ بنت زید (رض) سے مروی ہے کہ حضرت ابو نضرہ اپنی اہلیہ زینب کے ساتھ خراسان کی طرف جہاد میں شریک ہوئے۔

34344

(۳۴۳۴۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا الْوَلِیدُ بْنُ عَبْدِ اللہِ بْنِ جُمَیْعٍ ، قَالَ حَدَّثَتْنِی جَدَّتِی ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ خَلاَدٍ الأَنْصَارِیُّ ، عَنْ أُمِّ وَرَقَۃَ بِنْتِ نَوْفَلٍ ؛ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَمَّا غَزَا بَدْرًا ، قَالَتْ : قُلْتُ : یَا رَسُولَ اللہِ ، ائْذَنْ لِی فِی أَنْ أَغْزُوَ مَعَک ، أُدَاوِی جَرْحَاکُمْ ، وَأُمَرِّضُ مَرْضَاکُمْ ، لَعَلَّ اللَّہَ یَرْزُقُنِی شَہَادَۃً، قَالَ: قَرِّی فِی بَیْتِکَ ، فَإِنَّ اللَّہَ یَرْزُقُک الشَّہَادَۃَ ، قَالَ: فَکَانَتْ تُسَمَّی الشَّہِیدَۃَ۔ (ابوداؤد ۵۹۲۔ دارقطنی ۱۱۱)
(٣٤٣٤٥) حضرت ام ورقۃ بنت نوفل (رض) فرماتی ہیں کہ جب حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غزوہ بدر کیلئے روانہ ہونے لگے تو میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! مجھے بھی اپنے ساتھ جہاد پر جانے کی اجازت عنایت فرما دیں، میں آپ کے زخمیوں کی مرہم پٹی اور مریضوں کی تیمار داری کروں گی شاید کہ اللہ مجھے بھی شہادت کی موت نصیب فرما دے۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھ سے فرمایا : اپنے گھر میں رہ بیشک اللہ تعالیٰ نے تجھے شہادت (کا ثواب) دے دیا ہے، فرماتی ہیں کہ اس کے بعد میرا نام شہیدہ پڑگیا۔

34345

(۳۴۳۴۶) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ؛ أَنَّہُ کَانَ یَکْرَہُ أَنْ تَخْرُجَ النِّسَائُ إِلَی شَیْئٍ مِنْ ہَذِہِ الْفُرُوجِ ، یَعْنِی الثُّغُورَ۔
(٣٤٣٤٦) حضرت حسن (رض) ناپسند فرماتے تھے کہ خواتین سر حدات وغیرہ کی طرف بڑھنے کیلئے جائیں۔

34346

(۳۴۳۴۷) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ حُبَابٍ ، قَالَ : حدَّثَنِی رَجَائُ بْنُ أَبِی سَلَمَۃَ ، قَالَ : حَدَّثَنِی مُغِیرَۃُ بْنُ حَبِیبٍ ، خَتَنُ مَالِکِ بْنِ دِینَارٍ ، قَالَ : سَأَلْتُ ابْنَ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : نَدْخُلُ أَرْضَ الشِّرْکِ ، فَنُحَاصِرُ الْحِصْنَ ، فَیُقَاتِلُونَنَا قِتَالاً شَدِیدًا ، فَیَسْأَلُونَنَا الأَمَانَ ، وَیَأْبَی ذَلِکَ الأَمِیرُ ، فَمَا تَرَی فِی قِتَالِہِمْ ؟ فَقَالَ : لَیْسَ إِلَیْکُمْ ، ذَاکَ إِلَی الأَمِیرِ۔
(٣٤٣٤٧) حضرت ابن عبداللہ (رض) سے دریافت کیا گیا کہ ہم لوگ کافروں کے ملک میں جا کر ان کے قلعہ کا محاصرہ کریں پھر وہ لوگ ہمارے ساتھ سخت مزاحمت کریں اور بعد میں ہم سے امن طلب کریں اور ان کا امیر انکار کر دے تو ان کے ساتھ لڑنے کے متعلق آپ کی کیا رائے ہے ؟ فرمایا یہ تم پر نہیں ہے یہ ان کے امیر کا معاملہ ہے۔

34347

(۳۴۳۴۸) حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ عَمْرَو بْنَ أَبِی قَیْسٍ ، یَذْکُرُ عَنْ مُطَرِّفٍ ، قَالَ : سَأَلْتُ الْحَکَمَ ، قُلْتُ : الْمَلِکُ مِنْ مُلُوکِ خُرَاسَانَ یُصَالِحُ مِنَ السَّبْیِ عَلَی رُؤُوسٍ مَعْلُومَۃٍ ؟ قَالَ : مَا کَانَ مِنْ صُلْحٍ فَلاَ بَأْسَ۔
(٣٤٣٤٨) حضرت مطرف (رض) کہتے ہیں کہ میں نے حضرت حکم سے دریافت کیا کہ خراسان کے بادشاہوں میں ایک بادشاہ قیدی سے معلومات کی بنیاد پر صلح کرتا ہے ؟ فرمایا : صلح کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

34348

(۳۴۳۴۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ ذِی حُدَّانِ ، عَمَّنْ سَمِعَ عَلِیًّا ، یَقُولُ : إِنَّ اللَّہَ سَمَّی الْحَرْبَ عَلَی لِسَانِ نَبِیِّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خَدْعَۃً۔ (بخاری ۳۰۲۹۔ مسلم ۱۳۶۲)
(٣٤٣٤٩) حضرت علی (رض) ارشاد فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زبان مبارک پر جنگ کا نام دھوکا رکھا۔ (ایک چال چلنے کا نام ہے) ۔

34349

(۳۴۳۵۰) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ زَکَرِیَّا ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ ذِی حُدَّانِ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ أَبِی طَالِبٍ ، قَالَ : إِنَّ اللَّہَ قَضَی عَلَی لِسَانِ نَبِیِّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ؛ أَنَّ الْحَرْبَ خَدْعَۃٌ ، وَإِنِّی مُحَارِبٌ أَتَکَلَّمُ فِی الْحَرْبِ ، قَالَ : وَلَکِنْ إِذَا قُلْتُ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَوَاللہِ لأَنْ أَخِرَّ مِنَ السَّمَائِ أَحَبَّ إِلَیَّ مِنْ أَنْ أَقُولَ عَلَی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا لَمْ یَقُلْ۔ (احمد ۹۰۔ ابن سعد ۲۴۴)
(٣٤٣٥٠) حضرت علی (رض) فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان مبارکہ پر فیصلہ فرمایا کہ جنگ ۔۔۔چال چلنے کا نام ہے، بیشک میں تو جنگ جو ہوں، جنگ کے متعلق بات کرتا ہوں، فرمایا کہ لیکن جب کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے، تو خدا کی قسم مجھے یہ بات زیادہ پسندیدہ تھی کہ میں آسمان سے الٹے منہ گر جاتا اس بات سے کہ میں رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں وہ بات کہوں جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نہ فرمائی ہو۔

34350

(۳۴۳۵۱) حَدَّثَنَا ابْنُ مُبَارَکٍ ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ کَعْبِ بْنِ مَالِکٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِذَا أَرَادَ غَزْوَۃً ، وَرَّی بِغَیْرِہَا۔ (بخاری ۲۹۴۷۔ ابوداؤد ۲۶۳۰)
(٣٤٣٥١) حضرت کعب بن مالک (رض) سے مروی ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب جہاد کے سفر پر روانہ ہونے کا ارادہ فرماتے تو کسی دوسرے سفر کے ساتھ تو ریہ فرما دیتے، (یعنی جہاد کے سفر کو مخفی رکھتے) ۔

34351

(۳۴۳۵۲) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ عَمْرٍو ، سَمِعَ جَابِرًا ، یَقُولُ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إنَّ اللَّہَ یُخْرِجُ نَاسًا مِنَ النَّارِ بَعْدَ أَنْ صَارُوا حُمَمًا ، قَالَ : وَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْحَرْبُ خَدْعَۃٌ۔ (بخاری ۳۰۳۰۔ مسلم ۱۳۶۱)
(٣٤٣٥٢) حضرت جابر (رض) سے مروی ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اللہ تعالیٰ قیامت کے دن جہنم سے لوگوں کو کوئلہ ہونے کے بعد نکالیں گے، پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جنگ تو خفیہ چال چلنے کا نام ہے۔

34352

(۳۴۳۵۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا الأَعْمَشُ ، عَنْ خَیْثَمَۃ ، عَنْ سُوَیْد بْنِ غَفَلَۃَ ، قَالَ : قَالَ عَلِیٌّ : إِذَا حَدَّثْتُکُمْ فِیمَا بَیْنِی وَبَیْنَکُمْ ، فَإِنَّ الْحَرْبَ خَدْعَۃٌ ، وَإِذَا حَدَّثْتُکُمْ عَنْ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَلأَنْ أَخِرَّ مِنَ السَّمَائِ أَحَبَّ إِلَیَّ مِنْ أَنْ أَکْذِبَ۔ (بخاری ۳۶۱۱۔ مسلم ۱۵۴)
(٣٤٣٥٣) حضرت علی (رض) ارشاد فرماتے ہیں کہ میں تم سے بیان کرتا ہو جو میرے اور تمہارے درمیان ہے کہ جنگ خفیہ چال چلنے کا نام ہے، اور اگر میں تم سے بیان کروں کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تو پھر آسمان سے میں الٹے منہ گر جاؤں یہ مجھے زیادہ محبوب ہے اس بات سے کہ میں جھوٹ بولوں۔

34353

(۳۴۳۵۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا ہِشَامُ بْنُ عُرْوَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : الْحَرْبُ خَدْعَۃٌ۔ (ابن ماجہ ۲۸۳۳)
(٣٤٣٥٤) حضرت عروہ (رض) سے مروی ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا جنگ تو خفیہ چال چلنے کا نام ہے۔

34354

(۳۴۳۵۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا إِسْمَاعِیلُ بْنُ أَبِی خَالِدٍ ، عَنْ قَیْسٍ ، قَالَ : بَعَثَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَمْرَو بْنَ الْعَاصِ فِی غَزْوَۃِ ذَاتِ السَّلاَسِلِ ، فَأَصَابَہُمْ بَرْدٌ شَدِیدٌ ، فَقَالَ : لاَ یُوقِدَنَّ رَجُلٌ نَارًا ، ثُمَّ قَاتَلَ الْقَوْمَ ، فَلَمَّا قَدِمُوا عَلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ شَکَوْا ذَلِکَ إِلَیْہِ ، فَقَالَ : یَا رَسُولَ اللہِ ، کَانَ فِی أَصْحَابِی قِلَّۃٌ ، وَخَشِیتُ أَنْ یَرَی الْقَوْمُ قِلَّتَہُمْ ، وَنَہَیْتُہُمْ أَنْ یَتَّبِعُوا الْعَدُوَّ مَخَافَۃَ أَنْ یَکُونَ لَہُمْ کَمِینٌ مِنْ وَرَائِ الْجَبَلِ ، قَالَ : فَأَعْجَبَ ذَلِکَ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔ (حاکم ۴۳)
(٣٤٣٥٥) حضرت قیس (رض) سے مروی ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عمرو بن عاص (رض) کو غزوہ ذات السلاسل میں امیر بنا کر روانہ فرمایا، ان کے لشکر کو سخت سردی لگی، حضرت عمرو بن عاص (رض) نے حکم فرمایا کہ کوئی شخص آگ مت جلائے پھر ان کی دشمن سے لڑائی ہوئی، پھر جب لشکر واپس آیا تو انھوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس بارے میں شکایت کی، حضرت عمرو بن عاص (رض) نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! میرا لشکر تھوڑا تھا مجھے ڈر تھا کہ اگر آگ روشن کی تو دشمن ہماری قلت کو دیکھ لے گا اور میں نے ان کو دشمن کا پیچھا بھی اسی وجہ سے کرنے سے منع کردیا تھا کہ کوئی دشمن پہاڑ پر کمین نہ لگائے بیٹھا ہو، راوی فرماتے ہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ طریقہ اور چال بہت پسند آئی۔

34355

(۳۴۳۵۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا الْمُنْذِرُ بْنُ ثَعْلَبَۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ بُرَیْدَۃَ ، قَالَ : قَالَ عُمَرُ لأَبِی بَکْرٍ ، لَمَّا لَمْ یَدَعْ عَمْرٌو النَّاسَ أَنْ یُوقِدُوا نَارًا ، أَلاَ تَرَی إِلَی ہَذَا الَّذِی مَنَعَ النَّاسَ مَنَافِعَہُمْ ، قَالَ : فَقَالَ أَبُو بَکْرٍ : دَعْہُ ، فَإِنَّمَا وَلاَہُ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَیْنَا لِعِلْمِہِ بِالْحَرْبِ۔
(٣٤٣٥٦) حضرت عبداللہ بن بریدہ (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے حضرت ابوبکر (رض) سے فرمایا جب حضرت عمرو بن عاص (رض) نے لوگوں کو آگ جلانے سے منع فرمایا کہ کیا آپ اس شخص کو دیکھتے ہیں جس نے لوگوں کو ان کے فائدے سے روکا حضرت ابوبکر (رض) نے فرمایا چھوڑ دو ، ان کی جنگی چالوں میں مہارت کی وجہ سے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انھیں ہمارا امیر بنایا۔

34356

(۳۴۳۵۷) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : مَکَرَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَوْمَ أُحُدٍ بِالْمُشْرِکِینَ ، وَکَانَ أَوَّلَ یَوْمٍ مَکَرَ بِہِمْ فِیہِ۔
(٣٤٣٥٧) حضرت شعبی (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جنگ احد کے دن مشرکین کے ساتھ خفیہ چال چلی، یہ پہلا موقع اور دن تھا جس میں ان کے ساتھ چال چلی گئی تھی۔

34357

(۳۴۳۵۸) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَنْ زَائِدَۃَ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ أَبْجَرَ ، قَالَ : قَالَ رَجُلٌ ، یُقَالَ لَہُ : صُبَیْحٌ : کُنَّا مَعَاشِرَ الْفَطْحِ مَعَ عَلِیٍّ ، قَالَ : وَکَانَ عَلِیٌّ رَجُلاً مُجَرِّبًا ، قَالَ : وَکَانَ یَقُولُ : الْحَرْبُ خَدْعَۃٌ ، قَالَ : فَیَنْتَہِی إِلَی الصَّخْرَۃِ ، قَالَ : فَیَقُولُ : اللَّہُ أَکْبَرُ ، صَدَقَ اللَّہُ وَرَسُولُہُ ، صَخْرَۃً ، قَالَ : فَنَرَی نَحْنُ أَنَّہُ شَیْئٌ قِیلَ لَہُ ، قَالَ : فَیَنْتَہِی إِلَی دِجْلَۃَ ، فَیَقُولُ : دِجْلَۃَ ، اللَّہُ أَکْبَرُ ، صَدَقَ اللَّہُ وَرَسُولُہُ ، فَنَرَی نَحْنُ أَنَّہُ شَیْئٌ قِیلَ لَہُ۔
(٣٤٣٥٩) حضرت عبدالملک (رض) سے مروی ہے کہ صبیح نامی ایک شخص نے کہا : حضرت علی (رض) تجربہ کار انسان تھے، فرماتے تھے کہ جنگ خفیہ چال چلنے کا نام ہے، فرماتے ہیں کہ وہ چٹان کی طرف پہنچے اور فرمایا اللہ اکبر اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سچ فرمایا چٹان ہے۔ راوی فرماتے ہیں کہ ہم نے دیکھا کہ وہاں میرے جیسے کو کہا گیا ہے، پھر دجلہ کی طرف پہنچے اور فرمایا، دجلہ اللہ اکبر اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سچ فرمایا، ہم نے دیکھا کہ وہاں چیز ہے جس کو کہا گیا ہے۔

34358

(۳۴۳۵۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا إِسْرَائِیلُ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ عَامِرٍ ، قَالَ : الْحَرْبُ خَدْعَۃٌ۔
(٣٤٣٥٩) حضرت عامر (رض) فرماتے ہیں کہ جنگ خفیہ چال چلنے کا نام ہے۔

34359

(۳۴۳۶۰) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ إِدْرِیسَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ عَبَّادِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ الزُّبَیْرِ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ جَدِّہِ ، قَالَ : أَخْبَرَنِی أَبِی الَّذِی أَرْضَعَنی مِنْ بَنِی مُرَّۃَ ، قَالَ : کَأَنِّی أَنْظُرُ إِلَی جَعْفَرٍ یَوْمَ مُؤْتَۃَ ، نَزَلَ عَنْ فَرَسٍ لَہُ شَقْرَائَ فَعَرْقَبَہَا ، ثُمَّ مَضَی فَقَاتَلَ حَتَّی قُتِلَ۔
(٣٤٣٦٠) حضرت یحییٰ بن عباد بن عبداللہ بن زیبر (رض) اپنے والد اور دادا سے روایت کرتے ہیں کہ مجھے میرے والد نے بتایا جنہوں نے مجھے بنو مرہ میں دودھ پلایا فرمایا گویا کہ میں جنگ موتہ کے دن حضرت جعفر (رض) کو دیکھ رہا ہوں اپنے گھوڑے سے اترے جو سرخی مائل تھا، پھر اس کے پاؤں پر ضرب کا نشان لگایا اور جنگ میں شریک ہوگئے اور لڑتے رہے یہاں تک کہ آپ شہید ہوگئے۔

34360

(۳۴۳۶۱) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ أَبِی غُنْیَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ إِسْمَاعِیلَ بْنِ أَبِی خَالِدٍ ، عَنْ قَیْسٍ ، أَوْ غَیْرِہِ ، قَالَ : بَعَثَ أَبُو بَکْرٍ إِلَی الشَّامِ ، فَقَالَ : لاَ تَعْقِرُوا دَابَّۃً حَسَرْتُمُوہَا۔
(٣٤٣٦١) حضرت ابوبکر (رض) نے حضرت قیس (رض) کو ملک شام کی طرف بھیجا اور فرمایا : گھوڑے کے پاؤں پر ضرب کا نشان مت لگاؤ، تم اس کو تھکا دیتے ہو۔

34361

(۳۴۳۶۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، قَالَ: حدَّثَنَا مَعْقِلُ بْنُ عُبَیْدِ اللہِ الْعَبْسِیُّ، عَنْ عُمَرَ بْنِ عَبْدِالْعَزِیزِ، قَالَ: الْحَسِیرُ لاَ یُعْقَرُ۔
(٣٤٣٦٢) حضرت عمر بن عبدالعزیز (رض) فرماتے ہیں کہ وہ گھوڑے جو تھک جائیں ان کے پاؤں پر ضرب کا نشان نہیں لگایا جائے گا۔

34362

(۳۴۳۶۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا الْہُذَلِیُّ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، قَالَ : کَانَتِ السَّرَایَا إِذَا بُعِثَتْ قِیلَ لَہَا : لاَ تَعْقِرُوا حَسِیرًا۔
(٣٤٣٦٣) حضرت زھری (رض) فرماتے ہیں کہ جب سرایا بھیجے جاتے تو ان کو کہا جاتا کہ تھک جانے والے جانور کے پاؤں پر ضرب کا نشان مت لگانا۔

34363

(۳۴۳۶۴) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ قَیْسٍ، عَنْ مُغِیرَۃَ بْنِ زِیَادٍ، عَنْ مَکْحُولٍ، عَنْ عُبَادَۃَ بْنِ نُسَیٍّ، قَالَ : قَالَ أَبُو بَکْرٍ : لاَ تَعْقِرُوا دَابَّۃً ، وَإِنْ حُسِرَتْ۔
(٣٤٣٦٤) حضرت ابوبکر (رض) فرماتے ہیں کہ گھوڑے کے پاؤں پر ضرب کا نشان مت لگاؤ اگرچہ وہ تھک جائے۔

34364

(۳۴۳۶۵) حَدَّثَنَا وَکِیعُ بْنُ الْجَرَّاحِ ، قَالَ : حدَّثَنَا ہِشَامٌ الدَّسْتَوَائِیُّ ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ بْنِ حُمَیْدٍ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحِمْیَرِیِّ، عَنِ الشَّعْبِیِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: مَنْ وَجَدَ دَابَّۃً بِمَہْلَکٍ فَہِیَ لِمَنْ أَحْیَاہَا۔
(٣٤٣٦٥) حضرت شعبی (رض) سے مروی ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جو شخص اپنے جانور کو ہلاکت والی جگہ پر چھوڑ دے تو جو اس کو پکڑ کر زندہ کر دے (اس کو پال لے) وہ اسی کا ہے۔

34365

(۳۴۳۶۶) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ غِیَاثٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ؛ فِی الرَّجُلِ یَتْرُکُ الدَّابَّۃَ فِی أَرْضِ الْقَفْرِ ، قَالَ : ہِیَ لِمَنْ أَحْیَاہَا۔
(٣٤٣٦٦) حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ کوئی شخص اپنا جانور بےآب وگاہ زمین میں چھوڑ دے تو جو اس کو پال لے اور چارہ وغیرہ کھلائے وہ اس کا ہے۔

34366

(۳۴۳۶۷) حَدَّثَنَا أَسْبَاطُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، عَنْ مُطَرِّفٍ ، عَنْ عَامِرٍ ؛ فِی رَجُلٍ سَیَّبَ دَابَّتَہُ ، فَأَخَذَہَا رَجُلٌ ، قَالَ : فَجَائَ صَاحِبُہَا فَخَاصَمَہُ إِلَی عَامِرٍ ، فَقَالَ : ہَذَا أَمْرٌ قَدْ قُضِیَ فِیہِ قَبْلَ الْیَوْمِ ، إِنْ کَانَ سَیَّبَہَا فِی خَوْفٍ ومَفَازَۃٍ فَہُوَ أَحَقُّ بِدَابَّتِہِ ، وَإِنْ کَانَ سَیَّبَہَا فِی کَلأ وَأَمْنٍ فَلاَ حَقَّ لَہُ فِیہَا۔
(٣٤٣٦٧) حضرت عامر (رض) سے مروی ہے کہ ایک شخص نے اپنا جانور آزاد چھوڑ دیا تو اس کو دوسرے آدمی نے پکڑ لیا، پھر اس کا مالک آیا اور حضرت عامر کے پاس جھگڑا لے کر حاضر ہوا۔ حضرت عامر نے فرمایا یہ ایسا معاملہ ہے جس کے متعلق آج کے دن سے قبل فیصلہ ہوچکا ہے اگر تو اس نے خوف وغیرہ کی وجہ سے اپنا جانور چھوڑا تھا تو پھر یہ اپنے جانور کا زیاد ہ حقدار ہے، اور اگر چارے کی وجہ سے چھوڑا ہے تو پھر اس میں اس کا کوئی حق نہیں ہے۔

34367

(۳۴۳۶۸) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ أَبِی بُکَیْر ، قَالَ : حَدَّثَنَا شُعْبَۃُ ، عَنْ أَبِی الْفَیْضِ ، قَالَ : سَمِعْتُ سَعِیدَ بْنَ جُبَیْرٍ الرُّعَیْنِیَّ ، عَنْ أَبِیہِ ، أَحْسِبُ ؛ أَنَّ أَبَا بَکْرٍ شَیَّعَ جَیْشًا فَمَشَی مَعَہُمْ ، فَقَالَ : الْحَمْدُ لِلَّہِ الَّذِی اغْبَرَّتْ أَقْدَامُنَا فِی سَبِیلِ اللہِ ، قَالَ ، فَقَالَ رَجُلٌ : إِنَّمَا شَیَّعْنَاہُمْ ، فَقَالَ : جَہَّزْنَاہُمْ وَشَیَّعْنَاہُمْ وَدَعَوْنَا لَہُمْ۔
(٣٤٣٦٨) حضرت سعید بن جبیر (رض) سے مروی ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے لشکر روانہ فرمایا پھر ان کے ساتھ چلتے رہے ان کو رخصت کرنے کیلئے اور فرمایا : تمام تعریفیں اس اللہ کیلئے ہیں جس نے اپنے راستہ میں ہمارے قدموں کو غبار آلود کیا، ایک شخص نے کہا : ہم نے ان کو روانہ کیا ہے، حضرت ابوبکر (رض) نے فرمایا ہم نے ان کو تیار کیا اور ان کو روانہ کیا اور ان کیلئے دعا کی۔

34368

(۳۴۳۶۹) حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِی غُنْیَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ إِسْمَاعِیلَ ، عَنْ قَیْسٍ ، أَوْ غَیْرِہِ ، قَالَ : بَعَثَ أَبُو بَکْرٍ جَیْشًا إِلَی الشَّامِ فَخَرَجَ یُشَیِّعُہُمْ عَلَی رَاحِلَتِہِ۔
(٣٤٣٦٩) حضرت قیس (رض) سے مروی ہے کہ حضرت ابوبکر (رض) نے ملک شام کی طرف لشکر روانہ فرمایا پھر ان کو روانہ کرنے کیلئے سواری پر سوار ہو کر ان کے ساتھ نکلے۔

34369

(۳۴۳۷۰) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَنِ الأَجْلَحِ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : أَتَی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقِیلَ لَہُ : قَدْ قَدِمَ جَعْفَرٌ ، فَقَالَ : مَا أَدْرِی بِأَیِّہِمَا أَنَا أَفْرَحُ ؛ بِقُدُومِ جَعْفَرٍ ، أَوْ بِفَتْحِ خَیْبَرَ ؟ ثُمَّ تَلَقَّاہُ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَالْتَزَمَہُ ، وَقَبَّلَ مَا بَیْنَ عَیْنَیْہِ۔
(٣٤٣٧٠) حضرت شعبی (رض) سے مروی ہے کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آ کر آپ کو خبر دی کہ حضرت جعفر (رض) تشریف لائے ہیں، آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : معلوم نہیں کس بات سے مجھے زیادہ خوشی حاصل ہوئی ہے : حضرت جعفر کے آنے پر یا پھر خیبر فتح ہونے پر ؟ ! پھر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کا استقبال کیا اور بغل گیر ہو کر ان کی دونوں آنکھوں کے درمیان بوسہ دیا۔

34370

(۳۴۳۷۱) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ، قَالَ: حدَّثَنَا حَنَشُ بْنُ الْحَارِثِ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : لَمَّا وَجَّہَنَا عُمَرُ إِلَی الْکُوفَۃِ، مَشَی مَعَنَا سَاعَۃً مِنَ النَّہَارِ ، فَوَدَّعَنَا وَدَعَا لَنَا ، ثُمَّ قَعَدَ یَنْفُضُ رِجْلَیْہِ مِنَ الْغُبَارِ ، ثُمَّ رَجَعَ۔
(٣٤٣٧١) حضرت حنش بن حارث (رض) اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے جب ہمیں کوفہ کی طرف بھیجا تو دن کا کچھ حصہ ہمارے ساتھ چلے پھر ہمیں الوداع فرمایا اور ہمارے لیے دعا فرمائی پھر بیٹھ کر اپنے قدموں سے مٹی اور غبار جھاڑا اور واپس لوٹ گئے۔

34371

(۳۴۳۷۲) حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرٍ ، قَالَ حُدِّثْتُ ، عَنِ ابْنِ عُیَیْنَۃَ ، عَنِ ابْنِ أَبِی نَجِیحٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، قَالَ : شَیَّعَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلِیًّا وَلَمْ یَتَلَقَّہُ۔
(٣٤٣٧٢) حضرت مجاہد (رض) سے مروی ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت علی (رض) کو روانہ فرمایا اور ان کا استقبال نہ کیا۔

34372

(۳۴۳۷۳) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ بَیَانٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنْ قَرَظَۃَ ، قَالَ : شَیَّعْنَا عُمَرُ إِلَی صِرَارٍ۔
(٣٤٣٧٣) حضرت قرظہ (رض) سے مروی ہے کہ حضرت عمر (رض) نے ہمیں مقام صرار کی طرف روانہ فرمایا۔

34373

(۳۴۳۷۴) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ یَزِیدَ بْنِ أَبِی زِیَادٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِی لَیْلَی ، قَالَ : حدَّثَنِی عَبْدُ اللہِ بْنُ عُمَرَ ؛ أَنَّہُ کَانَ فِی سَرِیَّۃٍ مِنْ سَرَایَا رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَحَاصَ النَّاسُ حَیْصَۃً ، فَکُنْت فِیمَنْ حَاصَ ، قَالَ : فَقُلْنَا حِینَ فَرَرْنَا : کَیْفَ نَصْنَعُ وَقَدْ فَرَرْنَا مِنَ الزَّحْفِ ، وَبُوِّئنَا بِالْغَضَبِ ؟ فَقُلْنَا: نَدْخُلُ الْمَدِینَۃَ فَنَبِیتُ بِہَا ، فَلاَ یَرَانَا أَحَدٌ۔ قَالَ : فَلَمَّا دَخَلْنَا قُلْنَا : لَوْ عَرَضْنَا أَنْفُسَنَا عَلَی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَإِنْ کَانَتْ لَنَا تَوْبَۃٌ أَقَمْنَا، وَإِنْ کَانَ غَیْرَ ذَلِکَ ذَہَبْنَا ، قَالَ : فَجَلَسْنَا إِلَی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَبْلَ صَلاَۃِ الْغَدَاۃِ ، فَلَمَّا خَرَجَ قُمْنَا إِلَیْہِ ، فَقُلْنَا : یَا رَسُولَ اللہِ ، نَحْنُ الْفَرَّارُونَ ، قَالَ : فَأَقْبَلَ عَلَیْنَا ، فَقَالَ : بَلْ أَنْتُمَ الْعَکَّارُونَ ، قَالَ: فَدَنَوْنَا فَقَبَّلْنَا یَدَہُ ، وَقُلْنَا : یَا رَسُولَ اللہِ ، أَرَدْنَا أَنْ نَفْعَلَ ، وَأَنْ نَفْعَلَ ، قَالَ : أَنَا فِئَۃُ الْمُسْلِمِینَ۔ (ابوداؤد ۲۶۴۰۔ ترمذی ۱۷۱۶)
(٣٤٣٧٤) حضرت عبداللہ بن عمر (رض) سے مروی ہے کہ وہ ایک سریہ میں شریک تھے، لوگوں نے بھاگنے کیلئے چکر لگانا شروع کردیئے فرماتے ہیں کہ میں بھی بھاگنے والوں میں سے تھا، جنگ سے فرار ہوتے وقت ہم نے کہا ہم کیا کریں کہ ہم جنگ سے فرار ہو رہے ہیں اور اللہ کے غضب کے مستحق ہو کر لوٹ رہے ہیں ؟ ہم نے کہا کہ مدینہ چلتے ہیں اور وہاں رات گزارتے ہیں کہ کوئی ہمیں نہ دیکھے، راوی کہتے ہیں کہ پھر جب ہم مدینہ آئے تو ہم نے کہا کہ اگر ہم اپنے آپ کو اللہ کے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے پیش کردیں تو بہتر ہے اگر تو ہمارے لیے توبہ کی گنجائش ہے تو ہم اسی پر رہیں اور اگر اس کے علاوہ کوئی اور معاملہ ہے تو ہم واپس چلتے ہیں، ہم رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس صبح کی نماز سے قبل بیٹھے جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) باہر نکلے تو ہم نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! ہم جنگ سے فرار ہونے والوں میں سے ہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا : بلکہ تم بھاگ کر دوبارہ لوٹنے والے ہو، راوی فرماتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے قریب ہوئے تو ہم نے آپ کے ہاتھ کو بوسہ دیا اور عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول ! ہم بھی اسی طرح کرنے کا ارادہ کر رہے تھے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میں مسلمانوں کا مدد گار ہوں۔

34374

(۳۴۳۷۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا ابْنُ عَوْنٍ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ ، قَالَ : لَمَّا بَلَغَ عُمَرَ قَتْلُ أَبِی عُبَیْدَۃَ الثَّقَفِیِّ ، قَالَ : إِنْ کُنْتُ لَہُ لَفِئَۃً ، لَوِ انْحَازَ إِلَیَّ۔
(٣٤٣٧٥) حضرت ابن سیرین فرماتے ہیں کہ جب حضرت عمر (رض) کو ابو عبید الثفقی (رض) کے شہید ہونے کی اطلاع ملی تو آپ (رض) نے فرمایا اگر وہ ہماری طرف لوٹ آتا تو میں اس کا مدد گار ہوتا۔

34375

(۳۴۳۷۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، قَالَ: حدَّثَنَا سُفْیَانُ، عَنِ ابْنِ أَبِی نَجِیحٍ، عَنْ مُجَاہِدٍ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ: أنَا فِئَۃُ کُلِّ مُسْلِمٍ۔
(٣٤٣٧٦) حضرت عمر (رض) نے ارشاد فرمایا : میں ہر مسلمان کا مدد گار ہوں۔

34376

(۳۴۳۷۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ حَمَّادٍ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، قَالَ : بَلَغَ عُمَرَ أَنَّ قَوْمًا صَبَرُوا بِأَذْرَبِیجَانَ حَتَّی قُتِلُوا ، فَقَالَ عُمَرُ : لَوِ انْحَازُوا إِلَیَّ لَکُنْتُ لَہُمْ فِئَۃً۔
(٣٤٣٧٧) حضرت ابراہیم (رض) سے مروی ہے کہ حضرت عمر (رض) کو اطلاع ملی کہ ایک لشکر آذربائیجان میں پھنس گیا اور اس نے صبر سے کام لیا اور سب شہید ہوگئے تو آپ (رض) نے فرمایا : اگر وہ میری طرف واپس لوٹ آتے تو میں ان کا مدد گار ہوتا۔

34377

(۳۴۳۷۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا حَسَنُ بْنُ صَالِحٍ ، عَنِ ابْنِ أَبِی نَجِیحٍ ، عَنْ عَطَائٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : مَنْ فَرَّ مِنْ ثَلاَثَۃٍ فَلَمْ یَفِرَّ ، وَمَنْ فَرَّ مِنِ اثْنَیْنِ فَقَدْ فَرَّ ، یَعْنِی مِنَ الزَّحْفِ۔
(٣٤٣٧٨) حضرت ابن عباس (رض) ارشاد فرماتے ہیں کہ جنگ میں جو تین سے فرار ہوا وہ گویا کہ نہیں فرار ہوا جو دو میں سے فرار ہوگیا وہ فرار شمار ہوگا۔

34378

(۳۴۳۷۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ صَالِحٍ ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ الْمُغِیرَۃِ الثَّقَفِیِّ ، عَنْ مَالِکِ بْنِ جَرِیرٍ ، عَنِ الْحَضْرَمِیِّ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ أَبِی طَالِبٍ ، قَالَ : الْفِرَارُ مِنَ الزَّحْفِ مِنَ الْکَبَائِرِ۔
(٣٤٣٧٩) حضرت علی (رض) ارشاد فرماتے ہیں کہ جنگ سے فرار ہونا کبیرہ گناہوں میں سے ہے۔

34379

(۳۴۳۸۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا عِکْرِمَۃُ بْنُ عَمَّارٍ ، عَنْ طَیْسَلَۃَ بْنِ عَلِیٍّ الْبَہْدَلِیِّ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : الْفِرَارُ مِنَ الزَّحْفِ مِنَ الْکَبَائِرِ۔
(٣٤٣٨٠) حضرت ابن عمر (رض) سے بھی اسی طرح مروی ہے۔

34380

(۳۴۳۸۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانُ ، عَنْ یَزِیدَ بْنِ أَبِی زِیَادٍ ، عَنْ أَبِی الْبَخْتَرِیِّ ؛ أَنَّہُ رَأَی رَجُلاً قَدْ وَلَّی ، فَقَالَ لَہُ: حرُّ النَّارِ أَشَدُّ مِنْ حَرِّ السَّیْفِ۔
(٣٤٣٨١) حضرت ابو البختری نے ایک شخص کو جنگ سے بھاگتے ہوئے دیکھا تو فرمایا جہنم کی گرمی تلوار کی گرمی سے زیادہ سخت ہے۔

34381

(۳۴۳۸۲) حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ مُعَاذٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا التَّیْمِیُّ ، عَنْ أَبِی عُثْمَانَ ، قَالَ : لَمَّا قُتِلَ أَبُو عُبَیْدَ وَہُزِمَ أَصْحَابُہُ ، قَالَ : قَالَ عُمَرُ : أَنَا فِئَتُکُمْ۔
(٣٤٣٨٢) حضرت ابو عثمان (رض) سے مروی ہے کہ جب حضرت ابو عبید شہید ہوئے اور ان کے ساتھیوں کو شکست ہوئی تو حضرت عمر (رض) نے فرمایا : میں تمہارا مدد گار ہوں۔

34382

(۳۴۳۸۳) حَدَّثَنَا ہَوْذَۃُ، قَالَ: حدَّثَنَا عَوْفٌ، عَنِ الْحَسَنِ؛ {وَمَنْ یُوَلِّہِمْ یَوْمَئِذٍ دُبُرَہُ}، قَالَ: نَزَلَتْ فِی أَہْلِ بَدْرٍ۔
(٣٤٣٨٣) حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ قرآن کریم کی آیت { وَمَنْ یُوَلِّہِمْ یَوْمَئِذٍ دُبُرَہُ } بدر والوں کے حق میں نازل ہوئی۔

34383

(۳۴۳۸۴) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا عَطَائُ بْنُ السَّائِبِ ، قَالَ : حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَن بْنُ أَبِی لَیْلَی ؛ أَنَّ رَجُلَیْنِ فَرَّا یَوْمَ مَسْکَنٍ مِنْ مَغْزَی الْکُوفَۃِ ، فَأَتَیَا عُمَرَ ، فَعَیَّرَہُمَا وَأَخَذَہُمَا بِلِسَانِہِ أَخْذًا شَدِیدًا ، وَقَالَ : فَرَرْتُمَا ؟ وَأَرَادَ أَنْ یَصْرِفَہُمَا إِلَی مَغْزَی الْبَصْرَۃِ ، فَقَالاَ : یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ ، لاَ، بَلْ رُدَّنَا إِلَی الْمَغْزَی الَّذِی فَرَرْنَا مِنْہُ ، حَتَّی تَکُونَ تَوْبَتُنَا مِنْ قِبَلِہِ۔
(٣٤٣٨٤) حضرت ابو عبدالرحمن بن ابی لیلی (رض) سے مروی ہے کہ جو آدمی کوفہ کے میدان سے مسکن کے دن فرار ہوگئے، وہ دونوں حضرت عمر (رض) کے پاس آئے تو حضرت عمر (رض) نے ان کو برا بھلا کہا اور سخت باز پرس فرمائی اور فرمایا : دونوں بھاگ کر آگئے ؟ اور پھر ان کو بصرہ کے میدان جنگ کی طرف روانہ فرمانے کا ارادہ کیا تو ان دونوں نے عرض کیا اے امیر المومنین (رض) ! نہیں بلکہ آپ ہمیں دوبارہ اسی میدان کی طرف روانہ فرما دیں جہاں سے ہم بھاگے تھے تاکہ ہماری توبہ بھی وہیں سے ہوجائے۔

34384

(۳۴۳۸۵) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : رُدِدْتُ أَنَا وَأَبُو بَکْرِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ عَنْ یَوْمِ الْجَمَلِ ، اسْتَصْغَرُونَا۔
(٣٤٣٨٥) حضرت ہشام اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ جنگ جمل والے دن مجھے اور حضرت ابوبکر بن عبدالرحمن کو واپس لوٹا دیا گیا ہمیں چھوٹا قرار دیا گیا۔

34385

(۳۴۳۸۶) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : عَرَضَنِی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی الْقِتَالِ یوم أُحُدَ وَأَنَا ابْنُ أَرْبَعَ عَشْرَۃَ سَنَۃً ، فَاسْتَصْغَرَنِی فَرَدَّنِی ، ثُمَّ عَرَضَنِی یَوْمَ الْخَنْدَقِ وَأَنَا ابْنُ خَمْسَ عَشْرَۃَ فَأَجَازَنِی ، قَالَ نَافِعٌ : حَدَّثْتُ ذَلِکَ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِیزِ وَہُوَ خَلِیفَۃٌ ، فَقَالَ : إِنَّ ہَذَا لَحَدٌّ بَیْنَ الصَّغِیرِ وَالْکَبِیرِ ، فَکَتَبَ إِلَی عُمَّالِہِ : أَنَّ مَنْ بَلَغَ خَمْسَ عَشْرَۃَ فَافْرِضُوا لَہُ فِی الْمُقَاتَلَۃِ ، وَمَنْ کَانَ دُونَ ذَلِکَ فَافْرِضُوا لَہُ فِی الْعِیَالِ۔ (بخاری ۲۶۶۴۔ مسلم ۱۴۹۰)
(٣٤٣٨٦) حضرت ابن عمر (رض) ارشاد فرماتے ہیں کہ جنگ احد کے دن مجھے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں جہاد میں شریک ہونے کیلئے پیش کیا گیا اس وقت میری چودہ سال عمر تھی مجھے چھوٹا سمجھا گیا اور واپس کردیا گیا پھر غزوہ خندق والے دن مجھے پیش کیا گیا اس وقت میری عمر پندرہ سال تھی تو مجھے اجازت دے دی گئی۔ حضرت نافع (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز جب خلیفہ تھے تو میں نے یہ روایت ان سے بیان کی، انھوں نے فرمایا : یہ چھوٹے اور بڑے کے درمیان بیشک ایک حد ہے، پھر انھوں نے اپنے گورنروں کو لکھا کہ : جس کی عمر پندرہ سال ہو اس کو جہاد کیلئے اور جس کی عمر اس سے کم ہو اس کو اھل و عیال کیلئے مقرر کردو۔

34386

(۳۴۳۸۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ عُمَیْرٍ ، قَالَ سَمِعْتُ عَطِیَّۃَ الْقُرَظِیَّ یَقُولُ : عُرِضْنَا عَلَی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَوْمَ قُرَیْظَۃَ ، فَکَانَ مَنْ أَنْبَتَ قُتِلَ ، وَمَنْ لَمْ یُنْبِتْ لَمْ یُقْتَلْ ، فَکُنْتُ مِمَّنْ لَمْ یُنْبِتْ ، فَلَمْ یَقْتُلْنِی۔
(٣٤٣٨٧) حضرت عطیہ (رض) فرماتے ہیں کہ جنگ قریظہ کے دن ہمیں رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے پیش کیا گیا، جس کے بال آچکے تھے اس کو قتل کردیا گیا اور جس کے بال نہ آئے اس کو قتل نہ کیا گیا، میرے بھی چونکہ بال نہ آئے تھے اس لیے مجھے بھی قتل نہ کیا گیا۔

34387

(۳۴۳۸۸) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ إِدْرِیسَ ، عَنْ مُطَرِّفٍ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنِ الْبَرَائِ ، قَالَ : عُرِضْت أَنَا وَابْنُ عُمَرَ عَلَی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَوْمَ بَدْرٍ فَاسْتَصْغَرَنَا ، وَشَہِدْنَا أُحُدًا۔ (بخاری ۳۹۵۵۔ طحاوی ۲۱۹)
(٣٤٣٨٨) حضرت برائ (رض) ارشاد فرماتے ہیں کہ مجھے اور حضرت ابن عمر (رض) کو غزوہ بدر کے دن رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے پیش کیا گیا، ہمیں چھوٹا سمجھا گیا، پھر ہم غزوہ احد میں شریک ہوئے۔

34388

(۳۴۳۸۹) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ ، عَنْ یَزِیدَ بْنِ أَبِی حَبِیبٍ ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِیزِ بْنِ أَبِی الصَّعْبَۃِ ، عَنْ أَبِی أَفْلَحَ الْہَمْدَانِیِّ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ زُرَیْرٍ الْغَافِقِیِّ ، عَنْ عَلِیٍّ ، قَالَ : أُہْدِیَتْ لِرَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَغْلَۃٌ بَیْضَائُ ، فَقُلْتُ : یَا رَسُولَ اللہِ ، لَوْ شِئْنَا أَنْ نَتَّخِذَ مِنْ ہَذِہِ فَعَلْنَا ، قَالَ : وَکَیْفَ ؟ قُلْنَا : نَحْمِلُ الْحُمُرَ عَلَی الْخَیْلِ الْعِرَابِ فَتَأْتِی بِہَا ، قَالَ : إِنَّمَا یَفْعَلُ ذَلِکَ الَّذِینَ لاَ یَعْلَمُونَ۔ (بیہقی ۲۳)
(٣٤٣٨٩) حضرت علی (رض) سے مروی ہے کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سفید رنگ کا خچر ہدیہ کیا گیا میں نے عرض کیا کہ اگر ہم چاہتے تو اس طرح کرسکتے تھے، (یعنی سفید خچر پیدا کروانا) آپ (رض) نے فرمایا کیسے ؟ ہم نے عرض کیا گدھے کو عربی گھوڑے پر چڑھا (جفتی) کر اس سے ایسی اولاد ہوتی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا ایسا کام وہ کرتا ہے جو جاہل ہوتا ہے۔

34389

(۳۴۳۹۰) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ حُسَیْلٍ ، عَنْ عَامِرٍ ، قَالَ : أُہْدِیتْ لِرَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَغْلَۃٌ بَیْضَائُ ، فَقَالَ دِحْیَۃُ الْکَلْبِیُّ : لَوْ شِئْنَا یَا رَسُولَ اللہِ أَنْ نَتَّخِذَ مِثْلَہَا ، قَالَ : وَکَیْفَ ؟ قَالَ : نَحْمِلُ الْحُمُرَ عَلَی الْخَیْلِ الْعِرَابِ فَتَأْتِی بِہَا ، قَالَ : إِنَّمَا یَفْعَلُ ذَلِکَ الَّذِینَ لاَ یَعْلَمُونَ۔ (طبرانی ۴۹۹۳۔ احمد ۳۱۱)
(٣٤٣٩٠) حضرت عامر (رض) سے بھی اسی طرح مروی ہے۔

34390

(۳۴۳۹۱) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ ، عَنْ یَزِیدَ بْنِ أَبِی حَبِیبٍ ، قَالَ : کَتَبَ إِلَیْنَا عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیزِ ، فَقُرِئَ عَلَیْنَا کِتَابُہُ : أَیُّمَا رَجُلٍ حَمَلَ حِمَارًا عَلَی عَرَبیۃٍ مِنَ الْخَیْلِ ، فَامْحُوا مِنْ عَطَائِہِ عَشْرَۃَ دَنَانِیرَ۔
(٣٤٣٩١) حضرت یزید (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز نے ہماری طرف لکھا، ان کا خط ہمیں پڑھ کر سنایا گیا اس میں مکتوب تھا کہ جو شخص گدھے کو عربی گھوڑے کے ساتھ جفتی کروائے اس کی بخشش (عطیہ اور وظیفہ) میں سے دس دینار کم کردو۔

34391

(۳۴۳۹۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ أَبِی جَہْضَمٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُبَیْدِ اللہِ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : نَہَی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ یُنْزَی حِمَارٌ عَلَی فَرَسٍ۔ (ترمذی ۱۷۰۱۔ احمد ۲۲۵)
(٣٤٣٩٢) حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے گدھے کو گھوڑے پر جفتی کروانے سے منع فرمایا۔

34392

(۳۴۳۹۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانَ ، عَنْ عُثْمَانَ الثَّقَفِیِّ ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِی الْجَعْدِ ، عَنِ عَلِیٍّ ، قَالَ : نَہَی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ یُنْزَی حِمَارٌ عَلَی فَرَسٍ۔ (احمد ۹۵)
(٣٤٣٩٣) حضرت علی (رض) سے بھی اسی طرح مروی ہے۔

34393

(۳۴۳۹۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حُسَیْلٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ الشَّعْبِیَّ ، یَقُولُ : قَالَ دِحْیَۃُ الْکَلْبِیُّ : یَا رَسُولَ اللہِ ، أَلاَ نُنْزِی حِمَارًا عَلَی فَرَسٍ ، فَتُنْتِجُ مُہْرَۃً نَرْکَبُہَا ؟ قَالَ : إِنَّمَا یَفْعَلُ ذَلِکَ الَّذِینَ لاَ یَعْلَمُونَ۔
(٣٤٣٩٤) حضرت دحیہ الکلبی (رض) نے عرض کیا اے اللہ کے رسول 5! کیا ہم گدھے کی گھوڑے کے ساتھ جفتی نہ کروائیں جس سے بچھڑا پیدا ہوتا ہے جس پر ہم سوار ہوں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : یہ کام وہ کرتا ہے جو جاہل ہوتا ہے۔

34394

(۳۴۳۹۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا الأَعْمَشُ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَیْدَۃَ ، عَنْ أَبِی عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِیِّ ، عَنْ عَلِیٍّ، قَالَ : بَعَثَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سَرِیَّۃً ، وَاسْتَعْمَلَ عَلَیْہِمْ رَجُلاً مِنَ الأَنْصَارِ ، فَأَمَرَہُمْ أَنْ یَسْمَعُوا لَہُ وَیُطِیعُوا ، قَالَ : فَأَغْضَبُوہُ فِی شَیْئٍ ، فَقَالَ : اجْمَعُوا لِی حَطَبًا ، فَجَمَعُوا لَہُ حَطَبًا ، قَالَ : أَوْقِدُوا نَارًا ، فَأَوْقَدُوا نَارًا ، قَالَ : أَلَمْ یَأْمُرْکُمْ أَنْ تَسْمَعُوا لِی وَتُطِیعُوا ؟ قَالُوا : بَلَی ، قَالَ : فَادْخُلُوہَا ، قَالَ : فَنَظَرَ بَعْضُہُمْ إلَی بَعْضٍ ، وَقَالُوا : إِنَّمَا فَرَرْنَا إِلَی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنَ النَّارِ۔ قَالَ: فَبَیْنَمَا ہُمْ کَذَلِکَ إِذْ سَکَنَ غَضَبُہُ ، وَطُفِئَتِ النَّارُ ، قَالَ : فَلَمَّا قَدِمُوا عَلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ذَکَرُوا ذَلِکَ لَہُ، فَقَالَ: لَوْ دَخَلُوہَا مَا خَرَجُوا مِنْہَا، إِنَّمَا الطَّاعَۃُ فِی الْمَعْرُوفِ۔ (بخاری ۴۳۴۰۔ مسلم ۱۴۷۰)
(٣٤٣٩٥) حضرت علی (رض) سے مروی ہے کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک سریہ روانہ فرمایا اور ایک انصاری کو ان کا امیر مقرر فرمایا، اور لوگوں کو حکم دیا کہ اس کی بات مانیں اور اس کی اطاعت کریں امیر کو کسی معاملہ میں لشکر والوں پر غصہ آیا، اس نے حکم دیا کہ لکڑیاں اکٹھی کرو، انھوں نے اس کیلئے لکڑیاں جمع کیں اس نے حکم دیا کہ آگ جلا دو انھوں نے آگ لگا دی، اس نے ان سے پوچھا کہ کیا تمہیں حکم نہ دیا گیا تھا کہ تم میری بات سنو گے اور اطاعت کرو گے ؟ انھوں نے عرض کیا کیوں نہیں ؟ امیر نے حکم دیا کہ پھر آگ میں داخل ہوجاؤ، راوی کہتے ہیں کہ ان میں سے بعض نے بعض کی طرف دیکھا اور کہا : بیشک ہمیں آگ سے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف بھاگنا چاہیے راوی کہتے ہیں کہ اس حالت میں تھے کہ اس کا غصہ ٹھنڈا ہوا اور آگ بجھ گئی فرماتے ہیں کہ پھر جب ہم رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں واپس آئے تو اس واقعہ کا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ذکر فرمایا : آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اگر تم اس آگ میں داخل ہوجاتے تو اس میں سے نکل نہ پاتے، امیر کی اطاعت صرف نیکی میں ہے۔

34395

(۳۴۳۹۶) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ ، عَنْ نَافِعٍ ، أَنَّ عَبْدَ اللہِ حَدَّثَہُ ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : السَّمْعُ وَالطَّاعَۃُ عَلَی الْمَرْئِ الْمُسْلِمِ ، فِیمَا أَحَبَّ وَکَرِہَ ، مَا لَمْ یُؤْمَرْ بِمَعْصِیَۃٍ ، فَمَنْ أَمَرَ بِمَعْصِیَۃٍ فَلاَ سَمْعَ لَہُ وَلاَ طَاعَۃَ۔ (بخاری ۲۹۵۵۔ مسلم ۱۴۶۹)
(٣٤٣٩٦) حضرت عبداللہ (رض) سے مروی ہے کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : مسلمان کی اطاعت اس میں ہے جس کو وہ پسند کرے، اور ناپسند کرے جب تک گناہ کا حکم نہ کرے، اور جو گناہ کا حکم کرے اس کی اطاعت نہیں ہے۔

34396

(۳۴۳۹۷) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْحَکَمِ بْنِ ثَوْبَانَ ، عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ ؛ أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَعَثَ عَلْقَمَۃَ بْنَ مُجززٍ عَلَی بَعْثٍ أَنَا فِیہِمْ ، فَلَمَّا انْتَہَی إِلَی رَأْسِ غَزَاتِہِ ، أَوْ کَانَ بِبَعْضِ الطَّرِیقِ اسْتَأْذَنَتْہُ طَائِفَۃٌ مِنَ الْجَیْشِ ، فَأَذِنَ لَہُمْ وَأَمَّرَ عَلَیْہِمْ عَبْدَ اللہِ بْنَ حُذَافَۃَ بْنِ قَیْسٍ السَّہْمِی ، فَکُنْت فِیمَنْ غَزَا مَعَہُ۔ فَلَمَّا کَانَ بِبَعْضِ الطَّرِیقِ أَوْقَدَ الْقَوْمُ نَارًا لِیَصْطَلُوا ، أَوْ لِیَصْنَعُوا عَلَیْہَا صَنِیعًا ، فَقَالَ عَبْدُ اللہِ ، وَکَانَتْ فِیہِ دُعَابَۃٌ : أَلَیْسَ لِی عَلَیْکُمَ السَّمْعُ وَالطَّاعَۃُ ؟ قَالُوا : بَلَی ، قَالَ : فَمَا أَنَا بِآمُرُکُمْ بِشَیْئٍ إِلاَّ صَنَعْتُمُوہُ ؟ قَالُوا : نَعَمْ ، قَالَ : فَإِنِّی أَعْزِمُ عَلَیْکُمْ إِلاَّ تَوَاثَبْتُمْ فِی ہَذِہِ النَّارِ ، فَقَامَ نَاسٌ فَتَحَجَّزُوا ، فَلَمَّا ظَنَّ أَنَّہُمْ وَاثِبُونَ ، قَالَ : أَمْسِکُوا عَلَی أَنْفُسِکُمْ ، فَإِنَّمَا أَمْزَحُ مَعَکُمْ ، فَلَمَّا قَدِمْنَا ذَکَرُوا ذَلِکَ لِرَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : مَنْ أَمَرَکُمْ مِنْہُمْ بِمَعْصِیَۃٍ فَلاَ تُطِیعُوہُ۔ (ابن ماجہ ۲۸۶۳۔ حاکم ۶۳۰)
(٣٤٣٩٧) حضرت ابو سعید الخدری (رض) ارشاد فرماتے ہیں کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت علقمہ (رض) کو ایک سریہ کا امیر بنا کر بھیجا اس لشکر میں میں بھی شریک تھا جب راستہ میں پہنچے تو لشکر میں سے ایک جماعت نے ان سے اجازت لی، انھوں نے اجازت دے دی اور ان پر حضرت عبداللہ بن حذافہ السھمی (رض) کو امیر مقرر فرما دیا میں بھی اسی میں ان کے ساتھ لڑنے والوں میں شامل تھا۔ جب راستہ میں تھے تو لوگوں نے کھچ بنانے کیلئے آگ جلائی حضرت عبداللہ (رض) میں مزاح کرنے کی عادت تھی آپ نے فرمایا : کیا تم پر لازم نہیں ہے کہ تم میری اطاعت کرو ؟ لوگوں نے کہا کیوں نہیں ! آپ (رض) نے فرمایا کہ میں تمہیں کسی کام کا حکم کروں گا تو تم اس کو بجا لاؤ گے ؟ لوگوں نے عرض کیا جی ہاں، انھوں نے فرمایا کہ میں نے تمہارے متعلق ارادہ کیا ہے کہ تم اس آگ میں کود جاؤ سارے لوگ کھڑے ہوگئے اور کود نے کیلئے تیار ہوگئے، جب ان کو یقین ہوگیا کہ وہ اس میں کود پڑیں گے تو فرمایا : اپنے آپ کو روک لو، میں تمہارے ساتھ مزاح کررہا تھا، پھر جب ہم لوگ واپس آئے اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے اس کا ذکر کیا گیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جو تمہیں گناہ کے کام کا حکم کریں اس کی اطاعت مت کرو۔

34397

(۳۴۳۹۸) حَدَّثَنَا ابْنُ مَہْدِیٍّ، عَنْ سُفْیَانَ، عَنْ زُبَیْدٍ، عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَیْدَۃَ، عَنْ أَبِی عَبْدِالرَّحْمَنِ السُّلَمِیِّ، عَنْ عَلِیٍّ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لاَ طَاعَۃَ لِبَشَرٍ فِی مَعْصِیَۃِ اللہِ۔ (بخاری ۷۲۵۷۔ مسلم ۱۴۶۹)
(٣٤٣٩٨) حضرت علی (رض) سے مروی ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اللہ کی نافرمانی میں مخلوق کی (انسان) اطاعت جائز نہیں۔

34398

(۳۴۳۹۹) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا الأَعْمَشُ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، عَن عَلْقَمَۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : لاَ طَاعَۃَ لِبَشَرٍ فِی مَعْصِیَۃِ اللہِ۔
(٣٤٣٩٩) حضرت عبداللہ (رض) سے بھی اسی طرح مروی ہے۔

34399

(۳۴۴۰۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ بْنِ عَبْدِ الأَعْلَی ، عَنْ سُوَیْد بْنِ غَفَلَۃَ ، قَالَ : قَالَ لِی عُمَرُ : یَا أَبَا أُمَیَّۃَ ، إِنِّی لاَ أَدْرِی لَعَلِّی لاَ أَلْقَاک بَعْدَ عَامِی ہَذَا ، فَاسْمَعْ وَأَطِعْ وَإِنْ أُمِّرَ عَلَیْک عَبْدٌ حَبَشِیٌّ مُجْدَعٌ ، إِنْ ضَرَبَک فَاصْبِرْ ، وَإِنْ حَرَمَک فَاصْبِرْ ، وَإِنْ أَرَادَ أَمْرًا یَنْتَقِصُ دِینَک فَقُلْ : سَمْعٌ وَطَاعَۃٌ ، دَمِی دُونَ دِینِی ، فَلاَ تُفَارِقِ الْجَمَاعَۃَ۔
(٣٤٤٠٠) حضرت سوید بن غفلہ (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے مجھ سے فرمایا : اے ابو امیہ (رض) مجھے نہیں معلوم کہ اس سال کے بعد تمہارے ساتھ ملاقات بھی ہو کہ نہ ہو، اپنے امیر کی اطاعت کرو اگرچہ ایک کان کٹا حبشی غلام تمہارا امیر ہو، اگر وہ تمہیں مارے تو صبر کرو، اور تمہیں کسی چیز سے محروم کرے تو صبر کرو، اور اگر وہ کسی ایسے کام کا ارادہ کرے جس سے تمہارے دین میں نقص آرہا ہو تو اس کو کہہ دو ، سننا اور اطاعت کرنا ہے، میرا خون قربان ہے میرے دین پر اور جماعت سے علیحدہ مت ہونا۔

34400

(۳۴۴۰۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا مِسْعَرٌ ، عَنْ عُثْمَانَ الثَّقَفِیِّ ، عَنْ أَبِی صَادِقٍ الأَزْدِیِّ ، عَنْ رَبِیعَۃَ بْنِ نَاجِدٍ ، عَنْ عَلِیٍّ ، قَالَ : إِنَّ قُرَیْشًا ہُمْ أَئِمَّۃُ الْعَرَبِ ، أَبْرَارُہَا أَئِمَّۃُ أَبْرَارِہَا ، وَفُجَّارُہَا أَئِمَّۃُ فُجَّارِہَا ، وَلِکُلٍّ حَقٌّ ، فَأَعْطُوا کُلَّ ذِی حَقٍّ حَقَّہُ ، مَا لَمْ یُخَیَّرْ أَحَدُکُمْ بَیْنَ إِسْلاَمِہِ وَضَرْبِ عُنُقِہِ ، فَإِذَا خُیِّرَ أَحَدُکُمْ بَیْنَ إِسْلاَمِہِ وَضَرْبِ عُنُقِہِ ، فَلْیَمُدَّ عُنُقَہُ ، ثَکِلَتْہُ أُمُّہُ فَإِنَّہُ لاَ دُنْیَا لَہُ وَلاَ آخِرَۃَ بَعْدَ إِسْلاَمِہِ۔
(٣٤٤٠١) حضرت علی (رض) نے ارشاد فرمایا : قریش عرب کے سردار ہیں، ہر شخص کا ایک حق ہے، پس ہر شخص کو اس وقت تک اس کا حق ادا کرتے رہو جب تک کہ تم میں سے کسی کو اسلام اور مرنے کے درمیان اختیار نہ دے دیا جائے، اور اگر تم میں سے کسی کو اسلام اور گردن اڑانے کے درمیان اختیار دیا جائے تو اپنی گردن آگے کردو، اس کی ماں اس کو گم کرے، کیونکہ اسلام کے بعد اس کی دنیا اور آخرت نہیں ہے۔

34401

(۳۴۴۰۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا الأَعْمَشُ ، عَنْ عُمَارَۃَ ، قَالَ : قَالَ عِتْرِیسُ بْنُ عُرْقُوبٍ ، أَوْ مِعْضَدٌ ، شَکَّ الأَعْمَشُ ، قَالَ : مَا أُبَالِی أَطَعْتُ رَجُلاً فِی مَعْصِیَۃِ اللہِ ، أَوْ سَجَدْتُ لِہَذِہِ الشَّجَرَۃِ۔
(٣٤٤٠٢) حضرت عتریس بن عرقوب (رض) فرماتے ہیں کہ مجھے نہیں پروا کہ میں اللہ کی نافرمانی میں کسی شخص کی اطاعت کروں یا اس درخت کو سجدہ کروں۔

34402

(۳۴۴۰۳) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا الأَعْمَشُ ، عَنْ عُمَارَۃَ ، قَالَ : نَزَلَ مِعْضَدٌ إِلَی جَنْبِ شَجَرَۃٍ ، فَقَالَ: مَا أُبَالِی أَطَعْتُ رَجُلاً فِی مَعْصِیَۃِ اللہِ ، أَوْ سَجَدْتُ لِہَذِہِ الشَّجَرَۃِ مِنْ دُونِ اللہِ۔
(٣٤٤٠٣) حضرت عمارہ (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت معضد ایک درخت کے قریب اترے اور فرمایا : مجھے نہیں پروا کہ میں اللہ کی معصیت میں کسی شخص کی اطاعت کروں یا اس درخت کو اللہ کے علاوہ سجدہ کروں۔

34403

(۳۴۴۰۴) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا شُعْبَۃُ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ أَبِی مُرَایَۃَ ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَیْنٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، یَقُولُ : لاَ طَاعَۃَ فِی مَعْصِیَۃِ اللہِ۔ (احمد ۶۶۔ طیالسی ۸۵۶)
(٣٤٤٠٤) حضرت عمران بن حصین (رض) سے مروی ہے کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اللہ کی نافرمانی میں مخلوق کی اطاعت جائز نہیں۔

34404

(۳۴۴۰۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سَلاَّمُ بْنُ مِسْکِینٍ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ ، قَالَ : کَانَ عُمَرُ إِذَا اسْتَعْمَلَ رَجُلاً کَتَبَ فِی عَہْدِہِ: اسْمَعُوا لَہُ وَأَطِیعُوا مَا عَدَلَ فِیکُمْ، قَالَ، فَلَمَّا اسْتَعْمَلَ حُذَیْفَۃَ کَتَبَ فِی عَہْدِہِ: أَنَ اسْمَعُوا لَہُ وَأَطِیعُوا ، وَأَعْطَوْہُ مَا سَأَلَکُمْ ۔ قَالَ : فَقَدِمَ حُذَیْفَۃُ الْمَدَائِنَ عَلَی حِمَارٍ عَلَی إِکَافٍ بِیَدِہِ رَغِیفُ وَعَرْقَۃ۔ قَالَ وَکِیعٌ : قَالَ مَالِکٌ ، عَنْ طَلْحَۃَ : سَادِلٌ رِجْلَیْہِ مِنْ جَانِبٍ۔ قَالَ سَلاَّمٌ : فَلَمَّا قَرَأَ عَلَیْہِمْ عَہْدَہُ ، قَالُوا : سَلْنَا ، قَالَ : أَسْأَلُکُمْ طَعَامًا آکُلُہُ ، وَعَلَفًا لِحِمَارِی ہَذَا ، قَالَ : فَأَقَامَ فِیہِمْ مَا شَائَ اللَّہُ، ثُمَّ کَتَبَ إِلَیْہِ عُمَرُ أَنْ اقْدُمْ، فَخَرَجَ، فَلَمَّا بَلَغَ عُمَرَ قُدُومُہُ کَمَنَ لَہُ فِی مَکَانٍ حَیْثُ یَرَاہُ ، فَلَمَّا رَآہُ عَلَی الْحَالَِ الَّتِی خَرَجَ مِنْ عِنْدِہِ عَلَیْہَا ، أَتَاہُ عُمَرُ فَالْتَزَمَہُ وَقَالَ : أَنْتَ أَخِی وَأَنَا أَخُوک۔
(٣٤٤٠٥) حضرت ابن سیرین فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) جس کسی کو عامل مقرر فرماتے تو اس کے متعلق لکھتے کہ جب تک تمہارے درمیان انصاف سے کام لے ان کی اطاعت کرو، جب حضرت حذیفہ (رض) کو عامل مقرر فرمایا تو ان کے متعلق لکھا کہ ان کی اطاعت کرو جس کا تم سے سوال کریں ان کو دے دو حضرت حذیفہ گدھے پر تشریف فرما ہو کر کر مدائن اس حال میں تشریف لائے کہ آپ کے ہاتھ میں روٹی کا ٹکڑا او گوشت تھا۔
ان کو سلام کیا اور ان کے سامنے عہد نامہ پڑھ کر سنایا لوگوں نے عرض کی سوال کیجئے انھوں نے فرمایا کہ میں تم سے اپنے کھانے کیلئے کھانا اور اس گدھے کیلئے چارہ مانگتا ہوں، پھر وہ انھیں میں رہے جتنا اللہ نے چاہا پھر حضرت عمر (رض) نے ان کو تحریر فرمایا آگے بڑھیں پس حضرت حذیفہ نکل پڑے حضرت عمر (رض) کو جب ان کے آنے کی خبر ملی تو اس جگہ پہنچے جہاں سے انھیں آتا ہوا دیکھ سکیں پھر جب ان کو اسی حال میں دیکھا جس حال میں وہ ان کے پاس سے نکلے تھے ایسے ہی واپس لوٹے ہیں تو حضرت عمر (رض) نے ان کو گلے لگایا اور فرمایا آپ میرے بھائی ہیں اور میں آپ کا بھائی ہوں۔

34405

(۳۴۴۰۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا مُبَارَکٌ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لاَ طَاعَۃَ لِمَخْلُوقٍ فِی مَعْصِیَۃِ الْخَالِقِ۔
(٣٤٤٠٦) حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : خالق کی نافرمانی میں مخلوق کی اطاعت جائز نہیں۔

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔