hadith book logo

HADITH.One

HADITH.One

Urdu

Support

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Ibn Abi Shaybah

36. زہد و تقوی کا بیان

ابن أبي شيبة

35366

حَدَّثَنا أبو بَکْر بن أبی شَیْبۃ : عبد اللہ بن مُحَمَّد بن إبراہیم العَبْسی الْکُوفِی رحمہ اللہ۔ (۳۵۳۶۷) حدَّثَنَا جَرِیرُ بْنِ عَبْدِ الْحَمِیدِ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، عَنْ عُبَیْدِ بْنِ عُمَیْرٍ ، قَالَ : کَانَ عِیسَی ابْنُ مَرْیَمَ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لاَ یَرْفَعُ غَدَائً لِعَشَائٍ ، وَلاَ عَشَائً لِغَدَائٍ ، وَکَانَ یَقُولُ : إنَّ مَعَ کُلِّ یَوْمٍ رِزْقَہُ ، وَکَانَ یَلْبَسُ الشَّعْرَ وَیَأْکُلُ الشَّجَرَ وَیَنَامُ حَیْثُ أَمْسَی۔
(٣٥٣٦٧) حضرت عبید بن عمیر فرماتے ہیں : حضرت عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) صبح کے کھانے سے رات کے لیے اور رات کے کھانے سے صبح کے لیے نہیں بچایا کرتے تھے۔ اور فرمایا کرتے تھے : ہر دن کا رزق اس کے ساتھ ہوتا ہے۔ آپ بالوں سے بنایا ہوا لباس پہنتے، درختوں پر لگے ہوئے پھل وغیرہ کھالیتے اور جہاں رات ہوجاتی وہیں سو لیتے۔

35367

(۳۵۳۶۸) حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ ، عَنِ الْعَلاَئِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ، عَنْ شِمْرِ بْنِ عَطِیَّۃَ ، قَالَ : قَالَ : عِیسَی ابْنُ مَرْیَمَ عَلَیْہِ السَّلاَمُ : کُلُوا مِنَ بَقْلِ الْبَرِّیَّۃِ ، وَاشْرَبُوا مِنَ الْمَائِ الْقَرَاحِ ، وَانْجُوَا مِنَ الدُّنْیَا سَالِمِینَ۔
(٣٥٣٦٨) حضرت شمر بن عطیہ کہتے ہیں : حضرت عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) نے فرمایا : جنگلی سبزی کھاؤ، سادہ پانی پیو، اور سلامتی کے ساتھ دنیا سے رہائی پا جاؤ۔

35368

(۳۵۳۶۹) حَدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ أَبِی صَالِحٍ یَرْفَعُہُ إِلَی عِیسَی ابْنِ مَرْیَمَ عَلَیْہِ السَّلاَمُ قَالَ : قَالَ لأَصْحَابِہِ : اتَّخَذُوا الْمَسَاجِدَ مَسَاکِنَ ، وَاِتَّخَذُوا الْبُیُوتَ مَنَازِلَ ، وَانْجُوا مِنَ الدُّنْیَا بِسَلاَمٍ ، وَکُلُوا مِنْ بَقْلِ الْبَرِّیَّۃِ ، قَالَ : زَادَ فِیہِ الأَعْمَشُ : وَاشْرَبُوا مِنَ الْمَائِ الْقَرَاحِ۔
(٣٥٣٦٩) حضرت ابو صالح کہتے ہیں : عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) نے اپنے اصحاب سے فرمایا : مسجدوں کو اپنا گھر بنا لو اور گھروں کو آرام گاہ، اور سلامتی کے ساتھ دنیا سے نجات پا جاؤاور جنگلی ترکاری کھاؤ۔ ابو صالح کہتے ہیں : اعمش نے یہ روایت ” سادہ پانی پیو “ کے اضافے کے ساتھ ذکر کی ہے۔

35369

(۳۵۳۷۰) حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ ، عَنِ الْعَلاَئِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ، عَنْ رَجُلٍ حَدَّثَہُ ، قَالَ : قَالَ الْحَوَارِیُّونَ لِعِیسَی ابْنِ مَرْیَمَ: مَا تَأْکُلُ؟ قَالَ: خُبْزَ الشَّعِیرِ، قَالُوا: وَمَا تَلْبَسُ؟ قَالَ: الصُّوفَ ، قَالُوا: وَمَا تَفْتَرِشُ؟ قَالَ: الأَرْضَ، قَالُوا: کُلُّ ہَذَا شَدِیدٌ ، قَالَ : لَنْ تَنَالُوا مَلَکُوتَ السَّمَاوَاتِ حَتَّی تُصِیبُوا ہَذَا عَلَی لَذَّۃٍ ، أَوَ قَالَ : عَلَی شَہْوَۃٍ۔
(٣٥٣٧٠) حضرت علاء بن مسیب کو کسی آدمی نے یہ روایت سنائی۔ اس نے کہا : حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے انصار نے ان سے عرض کیا : آپ کیا کھاتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا : جو کی روٹی۔ انھوں نے عرض کیا : آپ پہنتے کیا ہیں ؟ آپ نے فرمایا : اون۔ انھوں نے عرض کیا آپ بچھاتے کیا ہیں ؟ آپ نے فرمایا : زمین۔ انھوں نے کہا : ان سب کو اختیار کرنا تو بہت مشکل ہے۔ آپ نے فرمایا : تم اس وقت تک آسمانوں میں عزت نہیں پاسکتے جب تک تم ان چیزوں کو لذت پر ترجیح نہ دو ۔ یا پھر فرمایا : شہوتوں پر (ترجیح نہ دو ) ۔

35370

(۳۵۳۷۱) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَجْلاَنَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ یَعْقُوبَ ، قَالَ : قَالَ عِیسَی ابْنُ مَرْیَمَ: لاَ تُکْثِرُوا الْکَلاَمَ بِغَیْرِ ذِکْرِ اللہِ فَتَقْسُوْا قُلُوبُکُمْ ، فَإِنَّ الْقَلْبَ الْقَاسِی بَعِیدٌ مِنَ اللہِ ، وَلَکِنْ لاَ تَعْلَمُونَ ، لاَ تَنْظُرُوا فِی ذُنُوبِ الْعِبَادِ کَأَنَّکُمْ أَرْبَابٌ ، وَانْظُرُوا فِی ذُنُوبِکُمْ کَأَنَّکُمْ عَبِیدٌ ، فَإِنَّمَا النَّاسُ رَجُلاَنِ : مُبْتَلًی وَمُعَافًی ، فَارْحَمُوا أَہْلَ الْبَلاَئِ ، وَاحْمَدُوا اللَّہَ عَلَی الْعَافِیَۃِ۔
(٣٥٣٧١) حضرت محمد بن یعقوب کہتے ہیں عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) نے فرمایا : خدا کے ذکر کے سوا اور کوئی کلام کثرت سے مت کیا کرو ، ورنہ تمہارے دل سخت ہوجائیں گے۔ اور سخت دل اللہ تعالیٰ سے دور ہوتے ہیں لیکن تمہیں معلوم نہیں ہوتا۔ لوگوں کے گناہوں کو یوں مت دیکھا کرو جیسے کہ تم ہی رب ہو۔ بلکہ اپنے گناہوں کو یوں دیکھا کرو جیسے تم کوئی غلام ہو۔ کیونکہ لوگوں کی دو ہی حالتیں ہیں۔ ایک وہ جو کسی آزمائش میں مبتلا ہیں اور دوسرے وہ جو عافیت میں ہیں۔ چنانچہ مبتلا لوگوں پر رحم کیا کرو اور عافیت پر اللہ تعالیٰ کا شکر کیا کرو۔

35371

(۳۵۳۷۲) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ خَیْثَمَۃ ، قَالَ : مَرَّتْ بِعِیسَی امْرَأَۃٌ ، فَقَالَتْ : طُوبَی لِبَطْنٍ حَمَلَک ، وَلِثَدْیٍ أَرْضَعَک ، فَقَالَ : عِیسَی : بَلْ طُوبَی لِمَنْ قَرَأَ الْقُرْآنَ وَاتَّبَعَ مَا فِیہِ۔
(٣٥٣٧٢) حضرت خیثمہ کہتے ہیں : حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے پاس سے ایک عورت گزری تو اس نے کہا : خوش بختی ہو اس بطن کے لیے جس نے تجھے اپنے اندر رکھا، اور ان چھاتیوں کے لیے جنہوں نے تجھے دودھ پلایا۔ تو عیسیٰ (علیہ السلام) نے جواب میں فرمایا : بلکہ خوش بختی ہو اس شخص کے لیے جس نے قرآن پڑھا اور اس میں موجود احکامات کی پیروی کی۔

35372

(۳۵۳۷۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ سَالِمٍ ، قَالَ : قَالَ عِیسَی ابْنُ مَرْیَمَ عَلَیْہِ السَّلاَمُ : اتَّقُوا اللَّہَ وَاعْمَلُوا لِلَّہِ ، وَلاَ تَعْمَلُوا لِبُطُونِکُمْ ، وَانْظُرُوا إِلَی ہَذِہِ الطَّیْرِ لاَ تَحْصُدُ ، وَلاَ تَزْرَعُ یَرْزُقُہَا اللَّہُ ، فَإِنْ زَعَمْتُمْ ، أَنَّ بُطُونَکُمْ أَعْظَمُ مِنْ بُطُونِ الطَّیْرِ فَہَذِہِ الْبَقَرُ وَالْحَمِیرُ لاَ تَحْرُثُ ، وَلاَ تَزْرَعُ یَرْزُقُہَا اللَّہُ ، وَإِیَّاکُمْ وَفَضْلُ الدُّنْیَا فَإِنَّہَا عِنْدَ اللہِ رِجْسٌ۔
(٣٥٣٧٣) حضرت سالم کہتے ہیں : عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) نے فرمایا : اللہ تعالیٰ سے ڈرو، اور اللہ تعالیٰ کے لیے عمل کرو، اور اپنے پیٹوں کے لیے عمل مت کرو۔ ان پرندوں کو دیکھو، یہ کھیتی باڑی نہیں کرتے مگر اللہ تعالیٰ انھیں رزق دیتا ہے۔ اگر تمہیں یہ شبہ ہو کہ تمہارے پیٹ تو ان پرندوں سے بڑے ہیں (اس لیے تمہیں تو کھیتی باڑی کرنی پڑے گی) ، تو ان گائے بھینسوں اور گدھوں کو دیکھو یہ بھی زراعت نہیں کرتے مگر اللہ تعالیٰ انھیں رزق دیتا ہے۔ دنیا کو بڑی چیز مت سمجھو، بیشک یہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک ایک گندگی ہے۔

35373

(۳۵۳۷۴) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ ، عَنِ الْعَلاَئِ ، عَنْ خَیْثَمَۃ ، قَالَ : قَالَ عِیسَی ابْنُ مَرْیَمَ عَلَیْہِ السَّلاَمُ : طُوبَی لِوَلَدِ الْمُؤْمِنِ ، طُوبَی لَہُ یُحْفَظُونَ مِنْ بَعْدِہِ ، وَقَرَأَ خَیْثَمَۃُ : {وَکَانَ أَبُوہُمَا صَالِحًا}۔
(٣٥٣٧٤) حضرت خیثمہ کہتے ہیں : عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) نے فرمایا : خوش بختی ہے مومن کی اولاد کے لیے ، خوش بختی ہے ان کے لئے، کہ اس (مومن کے انتقال کر جانے) کے بعد بھی (اس کی وجہ سے) ان کی حفاظت کی جاتی ہے۔ یہ کہہ کر خیثمہ نے یہ آیت پڑھی : { وَکَانَ أَبُوہُمَا صَالِحًا } اور ان دونوں کا باپ نیک آدمی تھا (اس لیے ان کے خزانے کی حفاظت کی گئی) ۔

35374

(۳۵۳۷۵) حَدَّثَنَا جَرِیرُ بْنُ عَبْدِ الْحَمِیدِ ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِیزِ بْنِ رُفَیْعٍ ، عَنْ أَبِی ثُمَامَۃَ ، قَالَ : قَالَ الْحَوَارِیُّونَ : یَا عِیسَی ، مَا الإِخْلاَصُ لِلَّہِ ؟ قَالَ : أَنْ یَعْمَلَ الرَّجُلُ الْعَمَلَ لاَ یُحِبُّ أَنْ یَحْمَدَہُ عَلَیْہِ أَحَدٌ مِنَ النَّاسِ ، وَالْمُنَاصِحُ لِلَّہِ الَّذِی یَبْدَأُ بِحَقِّ اللہِ قَبْلَ حَقِّ النَّاسِ ، یُؤْثِرُ حَقَّ اللہِ عَلَی حَقِّ النَّاسِ ، وَإِذَا عُرِضَ أَمْرَانِ : أَحَدُہُمَا لِلدُّنْیَا ، وَالآخَرُ لِلآخِرَۃِ ، بَدَأَ بِأَمْرِ الآخِرَۃِ قَبْلَ أَمْرِ الدُّنْیَا۔
(٣٥٣٧٥) حضرت ابو ثمامہ کہتے ہیں : (عیسیٰ (علیہ السلام) کے) انصار نے عرض کیا : اے عیسیٰ (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کے لیے کسی چیز کو خالص کردینے کا کیا مطلب ہے ؟ آپ نے فرمایا : آدمی کا اس حالت میں عمل کرنا کہ وہ یہ بات پسند نہ کرتا ہو کہ اس کے اس عمل پر لوگوں میں سے کوئی اس کی تعریف کرے۔ اور اللہ تعالیٰ کے لیے خالص ہوجانے والا شخص وہ ہے جو لوگوں کے حقوق کی ادائیگی میں لگنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کا حق ادا کرے، اور اللہ تعالیٰ کے حق کو لوگوں کے حق پر ترجیح دے۔ اور جب اس کے پیش نظر دو کام آجائیں ، ان میں سے ایک دنیا (کے فائدے) کے لیے ہو اور دوسرا آخرت (کے فائدے) کے لیے ہو تو وہ آخرت (کے فائدے) کے کام کو دنیا (کے فائدے) کے کام سے پہلے سر انجام دے۔

35375

(۳۵۳۷۶) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ الْمُغِیرَۃِ ، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِیِّ ، قَالَ : قَالَ رَجُلٌ لِعِیسَی ابْنِ مَرْیَمَ عَلَیْہِ السَّلاَمُ : لَوِ اتَّخَذْت حِمَارًا تَرْکَبُہُ لِحَاجَتِکَ ، قَالَ : أَنَا أَکْرَمُ عَلَی اللہِ مِنْ أَنْ یَجْعَلَ لِی شَیْئًا یَشْغَلُنِی بِہِ۔
(٣٥٣٧٦) حضرت ثابت بنانی کہتے ہیں : ایک آدمی نے حضرت عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) سے عرض کیا : کیا یہ بہتر نہیں ہوگا کہ آپ ایک گدھا لے لیں اور اپنی حاجات پوری کرنے کے لیے اس پر سفر کیا کریں۔ آپ نے فرمایا : میں اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں آتا ہوں اس بات سے کہ وہ مجھے کوئی ایسی چیز عطا فرماے جو مجھے اس سے غافل کر دے۔

35376

(۳۵۳۷۷) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ الْعَبْدِیِّ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ بْنِ أَبِی خَالِدٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِی رَجُلٌ قَبْلَ الْجَمَاجِمِ مِنْ أَہْلِ الْمَسَاجِدِ، قَالَ: أُخْبِرْت أَنَّ عِیسَی عَلَیْہِ السَّلاَمُ کَانَ یَقُولُ: اللَّہُمَّ أَصْبَحْت لاَ أَمْلِکُ لِنَفْسِی مَا أَرْجُو، وَلاَ أَسْتَطِیعُ عنہا دَفْعَ مَا أَکْرَہُ ، وَأَصْبَحَ الْخَیْرُ بِیَدِ غَیْرِی ، وَأَصْبَحْتُ مُرْتَہِنًا بِمَا کَسَبْتُ ، فَلاَ فَقِیرَ أَفْقَرُ مِنِّی ، فَلاَ تَجْعَلْ مُصِیبَتِی فِی دِینِی ، وَلاَ تَجْعَلَ الدُّنْیَا أَکْبَرَ ہَمِّی ، وَلاَ تُسَلِّطْ عَلَیَّ مَنْ لاَ یَرْحَمُنِی۔
(٣٥٣٧٧) حضرت اسماعیل بن ابی خالد کہتے ہیں : اہلِ مساجد کے سرداروں سے پہلے مجھے ایک شخص نے یہ بات سنائی۔ اس نے کہا : مجھے خبر ملی ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) فرمایا کرتے تھے : اے اللہ ! میرا یہ حال ہے کہ میں اپنے لیے جو چیز چاہتا ہوں اسے حاصل کرنے پر قادر نہیں ہوں، اور نہ ہی جو چیز مجھے بری لگتی ہے اسے خود سے دور کرنے کی استطاعت رکھتا ہوں۔ تمام مال و متاع میرے غیروں کے پاس چلا گیا ہے، اور جو کچھ میں نے کمایا ہے وہ بھی میرے پاس بطور امانت ہے۔ خلاصہ یہ کہ کوئی فقیر مجھ سے زیادہ حاجت مند نہیں ہے۔ بس تو مجھے میرے دین کے معاملے میں مت آزما، اور دنیا کو میرا مقصد اصلی مت بنا، اور مجھ پر کوئی ایسا شخص مسلط مت فرما جو مجھ پر رحم نہ کرے۔

35377

(۳۵۳۷۸) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ خَیْثَمَۃ ، قَالَ : قَالَ عِیسَی ابْنُ مَرْیَمَ عَلَیْہِ السَّلاَمُ لِرَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِہِ وَکَانَ غَنِیًّا : تَصَدَّقْ بِمَالِکَ ، فَکَرِہَ ذَلِکَ ، فَقَالَ عِیسَی بْنُ مَرْیَم عَلَیْہِ السَّلاَمُ : لشدۃ مَا یَدْخُلُ الْغَنِیُّ الْجَنَّۃَ۔
(٣٥٣٧٨) حضرت خیثمہ کہتے ہیں : حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے ساتھیوں میں سے ایک امیر آدمی سے فرمایا : اپنا مال صدقہ کردے۔ اس آدمی نے اس بات کو ناپسند کیا۔ تو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا : غنی لوگوں کا جنت میں داخلہ بہت مشکل سے ہوگا۔

35378

(۳۵۳۷۹) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ أَبِی بُکَیْرٍ ، قَالَ: حدَّثَنَا شِبْلُ بْنُ عَبَّادٍ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ أَبِی سُلَیْمَانَ ، عَنِ ابْنِ أَبِی نَجِیحٍ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، قَالَ : قَالَتْ مَرْیَمُ عَلَیْہَا السَّلاَمُ : کُنْت إذَا خَلَوْت أَنَا وَعِیسَی حَدَّثَنِی وَحَدَّثْتُہُ ، فَإِذَا شَغَلَنِی عَنْہُ إنْسَانٌ سَبَّحَ فِی بَطْنِی وَأَنَا أَسْمَعُ۔
(٣٥٣٧٩) حضرت مجاھد کہتے ہیں : حضرت مریم (رض) نے فرمایا : جب عیسیٰ اور میں تنہا ہوتے تو ہم باتیں کرتے۔ اور جب کوئی انسان میری توجہ ان کی طرف سے ہٹا دیتا تو وہ میرے پیٹ میں تسبیح فرمانے لگتے اور میں اسے سن رہی ہوتی تھی۔

35379

(۳۵۳۸۰) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ أَبِی بُکَیْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا شِبْلُ بْنُ عَبَّادٍ ، عَنِ ابْنِ أَبِی نَجِیحٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : مَا تَکَلَّمَ عِیسَی عَلَیْہِ السَّلاَمُ إِلاَّ بِالآیَاتِ الَّتِی تَکَلَّمَ بِہَا حَتَّی بَلَغَ مَبْلَغَ الصِّبْیَانِ۔
(٣٥٣٨٠) حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں : حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا جو کلام آیات میں مذکور ہے اس کے سوا انھوں نے کوئی اور کلام نہیں کیا، حتی کہ وہ (بولنے والے) بچوں کی عمر کے ہوگئے۔

35380

(۳۵۳۸۱) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِی عُبَیْدَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ ، عَنْ سَالِمٍ ، قَالَ : قَالَ عِیسَی ابْنُ مَرْیَمَ عَلَیْہِ السَّلاَمُ : إنَّ مُوسَی نَہَاکُمْ عَنِ الزِّنَا ، وَأَنَا أَنْہَاکُمْ عَنْہُ ، وَأَنْہَاکُمْ أَنْ تُحَدِّثُوا أَنْفُسَکُمْ بِالْمَعْصِیَۃِ ، فَإِنَّمَا مِثْلُ ذَلِکَ کَالْقَادِحِ فِی الْجِذْعِ إنْ لاَ یَکُونُ یَکْسِرُہُ فَإِنَّہُ یَنْخُرُہُ وَیُضْعِفُہُ ، أَوْ کَالدُّخَانِ فِی الْبَیْتِ إنْ لاَ یَکُونُ یُحْرِقُہُ ، فَإِنَّہُ یُغَیِّرُ لَوْنَہُ وَیُنْتِنُہُ۔
(٣٥٣٨١) حضرت سالم کہتے ہیں : حضرت عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) نے فرمایا : بیشک موسیٰ نے تمہیں زنا سے روکا تھا اور میں بھی تمہیں اس سے روکتا ہوں۔ اور میں تمہیں اس سے بھی روکتا ہوں کہ تم آپس میں برائی کی باتیں کرو۔ کیونکہ برائی کی باتیں کرنے والا ایسا ہے جیسے شہتیر میں نیزے مارنے والا، جو اس کو توڑتا تو نہیں ہے لیکن کمزور اور بوسیدہ کردیتا ہے۔ یا پھر وہ کمرے میں بھر جانے والے دھوئیں کی طرح ہے جو اسے جلاتا تو نہیں ہے لیکن اسے بدرنگ اور بدبو دار بنا دیتا ہے۔

35381

(۳۵۳۸۲) حَدَّثَنَا عَبْدُ السَّلاَمِ بْنُ حَرْبٍ ، عَنْ خَلَفِ بْنِ حَوْشَبٍ ، قَالَ : قَالَ عِیسَی ابْنُ مَرْیَمَ عَلَیْہِ السَّلاَمُ لِلْحَوَارِیِّینَ : یَا مِلْحَ الأَرْضِ ، لاَ تُفْسِدُوہ ، فَإِنَّ الشَّیْئَ إذَا فَسَدَ لم یُصْلِحُہُ إِلاَّ الْمِلْحُ ، وَاعْلَمُوا أَنَّ فِیکُمْ خَصْلَتَیْنِ : الضَّحِکُ مِنْ غَیْرِ عَجَبٍ ، وَالتَّصَبُّحُ مِنْ غَیْرِ سَہَرٍ۔
(٣٥٣٨٢) حضرت خلف بن حوشب کہتے ہیں : حضرت عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) نے اپنے انصار سے فرمایا : اے زمین کے بہترین لوگو ! اس (زمین) کو فاسد مت کرو۔ کیونکہ جب بھی کوئی چیز فاسد ہوجاتی ہے تو اس کی اصلاح بہترین چیز کے ذریعے کی جاتی ہے۔ اور جان لو کہ تمہارے اندر دو (نازیبا) خصلتیں ہیں : (ایک تو) بےوجہ ہنسنا، اور (دوسری) شب بیداری نہ کرنے کے باوجود صبح کے وقت سوئے رہنا۔

35382

(۳۵۳۸۳) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا أَبُو الأَشْہَبِ ، عَنْ مَیْمُونِ بْنِ أُسْتَاذ ، قَالَ : قَالَ عیسَی ابْنُ مَرْیَمَ عَلَیْہِ السَّلاَمُ : یَا مَعْشَرَ الْحَوَارِیِّینَ : اتَّخِذُوا الْمَسَاجِدَ مَسَاکِنَ ، وَاِتَّخِذُوا بُیُوتَکُمْ کَمَنَازِلِ الأَضْیَافِ ، مَا لَکُمْ فِی الْعَالَمِ مِنْ مَنْزِلٍ ، إنْ أَنْتُمْ إِلاَّ عَابِرُو سَبِیلٍ۔
(٣٥٣٨٣) حضرت میمون بن استاذ کہتے ہیں : حضرت عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) نے فرمایا : اے گروہ انصار : مسجدوں کو اپنا گھر بنا لو، اور گھروں کو محض مہمان خانوں کی طرح (استعمال کرو) ۔ اس دنیا میں تمہارے لیے کوئی ٹھکانا (مستقل) نہیں ہے، تم تو بس راہگیر ہو۔

35383

(۳۵۳۸۴) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ خَیْثَمَۃ ، قَالَ : کَانَ عِیسَی ابْنُ مَرْیَمَ عَلَیْہِ السَّلاَمُ یَصْنَعُ الطَّعَامَ لأَصْحَابِہِ ، قَالَ : ثُمَّ یَقُومُ عَلَیْہِمْ ثُمَّ یَقُولُ : ہَکَذَا فَاصْنَعُوا بِالْقُرَّائِ۔
(٣٥٣٨٤) حضرت خیثمہ کہتے ہیں : حضرت عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) اپنے ساتھیوں کے لیے کھانا تیار فرماتے، پھر (کھانے کے دوران اہتمام کی غرض سے) ان کی نگہبانی فرماتے، (ان کے کھانا کھا لینے کے) بعد میں فرماتے : عبادت گزار لوگوں سے اس طرح کا سلوک کیا کرو۔

35384

(۳۵۳۸۵) حَدَّثَنَا عَفَّانُ بْنُ مُسْلِمٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَۃَ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، أَنَّ عِیسَی ابْنَ مَرْیَمَ عَلَیْہِ السَّلاَمُ کَانَ إذَا ذُکِرَتْ عِنْدَہُ السَّاعَۃُ صَاحَ ، وَقَالَ : مَا یَنْبَغِی لاِبْنِ مَرْیَمَ أَنْ تُذْکَرَ عِنْدَہُ السَّاعَۃُ إِلاَّ صَاحَ ، أَوَ قَالَ: سَکَتَ۔
(٣٥٣٨٥) حضرت شعبی سے مروی ہے : حضرت عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) کے پاس جب قیامت کا ذکر کیا جاتاتو آپ (بےاختیار) چیخ اٹھتے۔ اور فرماتے : ابنِ مریم کے لیے یہی مناسب ہے کہ جب اس کے پاس قیامت کا ذکر کیا جائے تو وہ (اس گھڑی کی شدت کے خیال سے) چیخ اٹھے۔ یا انھوں نے یہ فرمایا : ابنِ مریم کے لیے یہی مناسب ہے کہ جب اس کے پاس قیامت کا ذکر کیا جائے تو وہ (اس گھڑی کی شدت کے خیال سے) خاموش ہو کر رہ جائے۔

35385

(۳۵۳۸۶) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا خَالِدٌ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا ضِرَارُ بْنُ مُرَّۃَ أَبُو سِنَانٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ أَبِی الْہُذَیْلِ ، قَالَ : لَمَّا رَأَی یَحْیَی عِیسَی عَلَیْہِ السَّلاَمُ ، قَالَ لَہُ : أَوْصِنِی ، قَالَ : لاَ تَغْضَبْ ، قَالَ : لاَ أَسْتَطِیع ، قَالَ : لاَ تَقْتَنِ مَالاً ، قَالَ : عَسَی۔
(٣٥٣٨٦) حضرت عبداللہ بن ابی الھذیل کہتے ہیں : جب یحییٰ (علیہ السلام) کو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی زیارت کا موقع ملا تو انھوں نے ان سے عرض کیا : مجھے نصیحت فرما دیجئے۔ آپ نے (نصیحتا) فرمایا : غصہ مت کیا کر۔ انھوں نے کہا : میں غصہ نہ کرنے پر قدرت نہیں رکھتا۔ آپ نے فرمایا : مال جمع مت کر۔ انھوں نے کہا : یہ کرلوں گا۔

35386

(۳۵۳۸۷) حَدَّثَنَا مروان بْنُ مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ عَوْفٍ ، عَنْ عَبَّاسٍ الْعَمِّیِّ ، قَالَ : بَلَغَنِی أَنَّ دَاوُد النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یَقُولُ فِی دُعَائِہِ : سُبْحَانَک اللَّہُمَّ أَنْتَ رَبِّی ، تَعَالَیْت فَوْقَ عَرْشِکَ ، وَجَعَلْت خَشْیَتَکَ عَلَی مَنْ فِی السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ ، فَأَقْرَبُ خَلْقِکَ مِنْک مَنْزِلَۃً أَشَدُّہُمْ لَک خَشْیَۃً ، وَمَا عِلْمُ مَنْ لَمْ یَخْشَک ، أَوْ مَا حِکْمَۃُ مَنْ لَمْ یُطِعْ أَمْرَک۔
(٣٥٣٨٧) حضرت عباس العمّی کہتے ہیں : مجھ تک یہ بات پہنچی ہے کہ حضرت داؤد (علیہ السلام) دعا میں یوں فرمایا کرتے تھے : پاک ہے تو اے اللہ ! تو میرا پروردگار ہے، تو اپنے عرش پر (اپنی شان کے مناسب) جلوہ نما ہے، آسمان و زمین میں بسنے والوں پر تو نے اپنا رعب طاری کر رکھا ہے، مخلوق میں جو تجھ سے سب سے زیادہ ڈرنے والا ہے وہی سب سے زیادہ تجھ سے قریب ہے۔ جو تجھ سے نہ ڈرتا ہو اس کا علم بےکار ہے ! یا (پھر فرمایا) جو تیری اطاعت نہ کرتا ہو وہ بےعقل ہے۔

35387

(۳۵۳۸۸) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ ، عَنْ أَبِی عَبْدِ اللہِ الْجَدَلِیِّ ، قَالَ : مَا رَفَعَ دَاوُد رَأْسَہُ إِلَی السَّمَائِ حَتَّی مَاتَ۔
(٣٥٣٨٨) حضرت ابو عبداللہ جدلی کہتے ہیں : حضرت داؤد (علیہ السلام) نے تا حیات اپنا سر آسمان کی طرف نہ اٹھایا۔

35388

(۳۵۳۸۹) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، قَالَ : لَمَّا أَصَابَ دَاوُد الْخَطِیئَۃَ ، وَإِنَّمَا کَانَتْ خَطِیئَتُہُ ، أَنَّہُ لَمَّا أَبْصَرَ أَمْرَ بہَا فَعَزَلَہَا فَلَمْ یَقْرَبْہَا ، فَأَتَاہُ الْخَصْمَانِ فَتَسَوَّرا الْمِحْرَاب ، فَلَمَّا أَبْصَرَہُمَا قَامَ إلَیْہِمَا ، فَقَالَ : اخْرُجَا عَنِّی ، مَا جَائَ بِکُمَا إلَیَّ ، قَالَ : فقَالاَ : إنَّمَا نُکَلِّمُک بِکَلاَمُ یَسِیرٍ ، إنَّ ہَذَا أَخِی لَہُ تِسْعٌ وَتِسْعُونَ نَعْجَۃً وَلِیَ نَعْجَۃٌ وَاحِدَۃٌ وَہُوَ یُرِیدُ أَنْ یَأْخُذَہَا مِنِّی ، فَقَالَ دَاوُد : وَاللہِ ، إِنَّہُ أَحَقُّ أَنْ یُکْسَرَ مِنْہُ مِنْ لَدُنْ ہَذَا إِلَی ہَذَا، یَعْنِی مِنْ أَنْفِہِ إِلَی صَدْرِہِ ، قَالَ: فَقَالَ الرَّجُلُ : فَہَذَا دَاوُد قَدْ فَعَلَہُ ، فَعَرَفَ دَاوُد، أَنَّہُ إنَّمَا یُعْنَی بِذَلِکَ ، وَعَرَفَ ذَنْبَہُ فَخَرَّ سَاجِدًا أَرْبَعِینَ یَوْمًا وَأَرْبَعِینَ لَیْلَۃً ، ، وَکَانَتْ خَطِیئَتُہُ مَکْتُوبَۃً فِی یَدِہِ ، یَنْظُرُ إلَیْہَا لِکَیْ لاَ یَغْفُلَ حَتَّی نَبَتَ الْبَقْلُ حَوْلَہُ مِنْ دُمُوعِہِ مَا غَطَّی رَأْسَہُ ، فَنَادَی بَعْدَ أَرْبَعِینَ یَوْمًا : قَرِحَ الْجَبِینُ وَجَمَدَتِ الْعَیْنُ ، وَدَاوُد لَمْ یَرْجِعْ إلَیْہِ فِی خَطِیئَتِہِ بشَیْئٍ ، فَنُودِیَ : أَجَائِعٌ فَتُطْعَمُ ، أَوْ عُرْیَانُ فَتُکْسَی ، أَوْ مَظْلُومٌ فَتُنْصَرُ ، قَالَ : فَنَحَبَ نَحْبَۃً ہَاجَ مَا ثَمَّ مِنَ الْبَقْلِ حِینَ لَمْ یَذْکُرْ ذَنْبَہُ ، فَعِنْدَ ذَلِکَ غُفِرَ لَہُ، فَإِذَا کَانَ یَوْمُ الْقِیَامَۃِ ، قَالَ لَہُ رَبُّہُ: کُنْ أَمَامِی ، فَیَقُولُ: أَیْ رَبِّ ذَنْبِی ذَنْبِی ، فَیَقُولُ اللَّہُ: کُنْ مِنْ خَلْفِی، فَیَقُولُ: أَیْ رَبِّ ذَنْبِی ذَنْبِی ، قَالَ : فَیَقُولُ لَہُ : خُذْ بِقَدَمِی ، فَیَأْخُذُ بِقَدَمِہِ۔
(٣٥٣٨٩) حضرت مجاہد کہتے ہیں : جب داؤد (علیہ السلام) سے لغزش ہوئی ، اور ان کی لغزش کا بھی یہ عالم تھا کہ جونہی آپ کو اس کا احساس ہوا ، آپ نے اسے ناپسند فرمایا اور ترک کردیا، اور دوبارہ کبھی اس کے قریب بھی نہ گئے ، تو ان کے پاس دو جھگڑنے والے (اپنا جھگڑا لے کر) آئے، اور دیوار پھلانگ کر عبادت گاہ میں جا گھسے۔ جب آپ نے انھیں دیکھا تو ان کی طرف بڑھے اور فرمایا : چلے جاؤمیرے پاس سے ، کس لیے یوں اندر چلے آئے ؟ راوی کہتے ہیں : انھوں نے جواب دیا : ہم آپ سے چھوٹی سی بات کریں گے، یہ میرا بھائی ہے، اس کے پاس ننانوے بھیڑیں ہیں اور میرے پاس (صرف) ایک بھیڑ ہے اور یہ چاہتا ہے کہ وہ (ایک بھیڑ) بھی مجھ سے ہتھیا لے۔ اس پر داؤد (علیہ السلام) نے فرمایا : بخدا یہ اس لائق ہے کہ اسے یہاں سے یہاں تک۔ یعنی ناک سے سینے تک۔ چیر دیا جائے۔ راوی کہتے ہیں : اس آدمی نے کہا : یہ ہیں داؤد جنہوں نے (اتنی آسانی سے فیصلہ) کر بھی دیا۔
داؤد (علیہ السلام) سمجھ گئے کہ انھیں تنبیہ کی گئی ہے، اور اپنی خطا کو بھی پہچان گئے۔ چنانچہ آپ چالیس دن اور چالیس راتیں سجدے میں پڑے رہے، اور وہ لغزش آپ کے دست مبارک پر یوں تحریر تھی کہ آپ اسے دیکھتے رہتے، تاکہ غافل نہ ہوجائیں۔ (آہ وزاری کا یہ سلسلہ چلتا رہا) یہاں تک کہ آپ کے ارد گرد اتنا بلند سبزہ اگ آیا جس نے آپ کے سر کو بھی ڈھانپ لیا۔ چالیس دن کے بعد آپ پکار اٹھے : پیشانی زخم زدہ ہوگئی، آنکھیں خشک ہو کر رہ گئیں، لیکن داؤد کے قضیے کی شنوائی نہیں ہوئی۔ اس پر ندا سنائی دی : کیا بھوکا ہے کہ تجھے کھانا کھلایا جائے، کیا بےلباس ہے کہ تجھے لباس پہنایا جائے ، کیا مظلوم ہے کہ تیری مدد کی جائے۔ راوی کہتے ہیں : جب آپ نے دیکھا کہ (اس ندا میں) آپ کی خطا کا ذکر بھی نہیں کیا گیا تو آپ ایسی شدت سے روئے کہ آس پاس اگا ہوا سبزہ بھی خشک ہوگیا۔ (جب داؤد (علیہ السلام) کی یہ حالت ہوگئی) تو اس وقت آپ کی لغزش معاف فرما دی گئی۔ بس جب قیامت کا دن آئے گا تو ان کے ربِ ذوالجلال ان سے فرمائیں گے : میرے سامنے کھڑے ہوجائیے۔ تو آپ عرض کریں گے : اے میرے پروردگار میرا گناہ (اس سے مانع ہے) میرا گناہ۔ اللہ جلّ شانہ فرمائیں گے : میرے پیچھے کھڑے ہوجائیے۔ تو آپ (پھر) عرض کریں گے : اے میرے پالنہار میرا گناہ (مجھے حیا دلاتا ہے) میرا گناہ۔ اس پر اللہ سبحانہ وتعالیٰ فرمائیں گے : میرے قدموں میں آجائیے۔ تو آپ (علیہ السلام) قدموں میں آجائیں گے۔

35389

(۳۵۳۹۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ مِسْعَرٍ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ الأَقْمَرِ ، عَنْ أَبِی الأَحْوَصِ ، قَالَ : دَخَلَ الْخَصْمَانِ عَلَی دَاوُد أَحَدُہُمَا آخِذٌ بِرَأْسِ صَاحِبِہِ۔
(٣٥٣٩٠) حضرت ابو الاحوص کہتے ہیں : حضرت داؤد (علیہ السلام) کے پاس دو حریف اس حالت میں آئے تھے کہ ایک نے دوسرے کو بالوں سے پکڑا ہوا تھا۔

35390

(۳۵۳۹۱) حَدَّثَنَا خَلَفُ بْنُ خَلِیفَۃَ ، عَنْ أَبِی ہَاشِمٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ، قَالَ : إنَّمَا کَانَتْ فِتْنَۃُ دَاوُد النَّظَرَ۔
(٣٥٣٩١) حضرت سعید بن جبیر کہتے ہیں : حضرت داؤد (علیہ السلام) کی آزمائش دانائی کے ذریعے کی گئی تھی۔

35391

(۳۵۳۹۲) حَدَّثَنَا عَفَّان ، قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَنْ سَعِیدِ الْجُرَیْرِیِّ ، أَنَّ دَاوُد ، قَالَ : یَا جَبْرَئِیلُ ، أَیُّ اللَّیْلِ أَفْضَلُ ؟ قَالَ : مَا أَدْرِی غَیْرَ أَنِّی أَعْلَمُ ، أَنَّ الْعَرْشَ یَہْتَزُّ مِنَ السَّحَرِ۔
(٣٥٣٩٢) حضرت سعید جریری سے مروی ہے کہ داؤد (علیہ السلام) نے فرمایا : اے جبرائیل ! رات کا کون سا حصہ سب سے بہتر ہے۔ جبرائیل نے جواب دیا : یہ تو میں نہیں جانتا ، البتہ مجھے یہ معلوم ہے کہ صبح سے کچھ پہلے کا وقت ایسا ہے کہ (اللہ تعالیٰ کی رحمت کے جوش سے) عرش بھی جھوم اٹھتا ہے۔

35392

(۳۵۳۹۳) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ عَوْفٍ ، عَنْ خَالِدٍ الرَّبَعِیِّ ، قَالَ : أُخْبِرْت أَنَّ فَاتِحَۃَ الزَّبُورِ الَّذِی ، یُقَالَ لَہُ : زَبُورُ دَاوُد : رَأْسُ الْحِکْمَۃِ خَشْیَۃُ الرَّبِّ۔
(٣٥٣٩٣) حضرت خالد ربعی کہتے ہیں : مجھے بتایا گیا ہے کہ اس زبور کی ابتدا جسے زبور داؤد کہتے ہیں اس جملہ سے ہوتی ہے : ” دانائی کی بنیادربِ ذو الجلال کا ڈر ہے۔

35393

(۳۵۳۹۴) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنِ الْفَزَارِیِّ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنِ الْمِنْہَالِ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ الْحَارِثِ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : أَوْحَی اللَّہُ إِلَی دَاوُد عَلَیْہِ السَّلاَمُ : قُلْ لِلظَّلَمَۃِ لاَ تَذْکُرُونِی ، فَإِنَّہُ حَقٌّ عَلَیَّ أَنْ أَذْکُرَ مَنْ ذَکَرَنِی ، وَأَنَّ ذِکْرِی إیَّاہُمْ أَنْ أَلَعَنَہُمْ۔
(٣٥٣٩٤) حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں : اللہ جلّ شانہ نے حضرت داؤد (علیہ السلام) پر وحی نازل فرمائی : ظالموں سے کہہ دیجئے : میرا ذکر مت کیا کریں، کیونکہ میرا ذکر کرنے والوں کا مجھ پر یہ حق ہے کہ میں بھی ان کا ذکر کروں، اور ان (ظالموں) کے لیے میرا ذکر یہی ہے کہ میں ان پر لعنت کروں۔

35394

(۳۵۳۹۵) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنِ الْمِنْہَالِ، عَنْ عَبْدِاللہِ بْنِ الْحَارِثِ، قَالَ: أَوْحَی اللَّہُ إِلَی دَاوُد عَلَیْہِ السَّلاَمُ أَنْ أَحِبَّنِی وَأَحِبَّ أَحِبَّائِی ، وَحَبِّبْنِی إِلَی عِبَادِی ، قَالَ : یَا رَبِ ، أُحِبُّک وَأُحِبُّ أَحِبَّائَک فَکَیْفَ أُحْبِبْک إِلَی عِبَادِکَ ؟ قَالَ : اذْکُرُونِی لَہُمْ فَإِنَّہُمْ لَنْ یَذْکُرُوا مِنِّی إِلاَّ خَیْرًا۔
(٣٥٣٩٥) حضرت عبداللہ بن حارث کہتے ہیں : اللہ جل شانہ نے حضرت داؤد (علیہ السلام) پر وحی نازل فرمائی کہ مجھ سے محبت کرو اور میرے چاہنے والوں سے بھی محبت کرو اور مجھے میرے بندوں کا محبوب بنادو۔ داؤد (علیہ السلام) نے عرض کیا : اے میرے رب ! میں آپ سے محبت کرتا ہوں اور آپ کے چاہنے والوں سے بھی محبت کرتا ہوں، لیکن میں آپ کو آپ کے بندوں کا محبوب کیسے بناؤں ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ان کے سامنے میرا ذکر کیجئے، کیونکہ وہ یقیناً میرا ذکر بھلائی کی باتوں سے ہی کریں گے (توخود بخود ان کے دل میں میری محبت پیدا ہوجائے گی) ۔

35395

(۳۵۳۹۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إسْرَائِیلَ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنِ ابْنِ أَبْزَی ، قَالَ : قَالَ دَاوُد نَبِیُّ اللہِ عَلَیْہِ السَّلاَمُ : کَانَ أَیُّوبُ أَحْلَمَ النَّاسِ وَأَصْبَرَ النَّاسِ وَأَکْظَمَہُ لِغَیْظ۔
(٣٥٣٩٦) حضرت ابن ابزٰی کہتے ہیں : اللہ تعالیٰ کے نبی حضرت داؤد (علیہ السلام) نے فرمایا : ایوب (علیہ السلام) لوگوں میں سب سے زیادہ بردبار تھے، اور سب سے زیادہ صبر کرنے والے تھے، اور سب سے زیادہ اپنے غصہ کو دبانے والے تھے۔

35396

(۳۵۳۹۷) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا مُبَارَکٌ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : کَانَ دَاوُد النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : اللَّہُمَّ لاَ مَرَضَ یُضْنِینِی ، وَلاَ صِحَّۃَ تُنْسِینِی ، وَلَکِنْ بَیْنَ ذَلِکَ۔
(٣٥٣٩٧) حضرت حسن کہتے ہیں : حضرت داؤد نبی (علیہ السلام) فرمایا کرتے تھے : اے اللہ ! نہ تو مجھے ایسا مرض لاحق کیجئے جو مجھے بالکل بےکار کر دے، اور نہ ہی ایسی صحت عطا کیجئے جو مجھے (حق سے) غافل کر دے، بلکہ اعتدال والی کیفیت عطافرمائیے۔

35397

(۳۵۳۹۸) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سُلَیْمٍ ، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِیِّ ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ مُحْرِزٍ ، قَالَ : کَانَ لِدَاوُدَ نَبِیِّ اللہِ عَلَیْہِ السَّلاَمُ یَوْمَ یَتَأَوَّہُ فِیہِ فَیَقُولُ : أَوَّہ مِنْ عَذَابِ اللہِ ، أَوَّہ مِنْ عَذَابِ اللہِ أَوَّہ مِنْ عَذَابِ اللہِ ، أَوَّہ مِنْ عَذَابِ اللہِ ، ولاَ أَوَّہ ، قَالَ : فَذَکَرَہَا ذَاتَ یَوْمٍ فِی مَجْلِسٍ فَغَلَبَہُ الْبُکَائُ حَتَّی قَامَ۔
(٣٥٣٩٨) حضرت صفوان بن محرز کہتے ہیں : اللہ تعالیٰ کے نبی داؤد (علیہ السلام) کبھی بہت درد مند ہوجاتے تو فرمایا کرتے : میں عذاب اِلٰہی (کے خیال) سے غم گین ہوا جاتا ہوں، میں عذاب اِلٰہی (کے خیال) سے غم گین ہوا جاتا ہوں، میں عذاب اِلٰہی (کے خیال) سے غم گین ہوا جاتا ہوں، میں عذاب اِلٰہی (کے خیال) سے غم گین ہوا جاتا ہوں، اس کے سوا مجھے اور کوئی غم نہیں ہے۔ راوی کہتے ہیں : ایک دن کسی مجلس میں آپ (علیہ السلام) کو عذاب اِلٰہی کا خیال آگیا تو آپ پر اس طرح آہ وزاری کا غلبہ ہوا کہ آپ کو وہاں سے اٹھنا پڑا۔

35398

(۳۵۳۹۹) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سُلَیْمٍ ، عَنْ ثَابِتٍ ، قَالَ : کَانَ دَاوُد نَبِیُّ اللہِ عَلَیْہِ السَّلاَمُ إذَا ذَکَرَ عِقَابَ اللہِ تَخَلَّعَتْ أَوْصَالُہُ لاَ یَشُدُّہَا إِلاَّ الأَسر ، فَإِذَا ذَکَرَ رَحْمَۃَ اللہِ تَرَاجَعَتْ۔
(٣٥٣٩٩) حضرت ثابت کہتے ہیں : اللہ تعالیٰ کے نبی داؤد (علیہ السلام) کو جب اللہ تعالیٰ کی پکڑ کا خیال آجاتا تو آپ کا جوڑ جوڑ اپنی جگہ سے اس طرح کھسک جاتا کہ اسے باقاعدہ (ـفنِ جراحت کے زریعے) واپس بٹھانا پڑتا۔

35399

(۳۵۴۰۰) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا مِسْعَرٌ ، قَالَ : حَدَّثَنِی عَلْقَمَۃُ بْنُ مَرْثَدٍ ، عَنْ بُرَیْدَۃَ ، قَالَ : لَوْ عُدِلَ بُکَائُ أَہْلِ الأَرْضِ بِبُکَائِ دَاوُد مَا عَدَلَہُ۔
(٣٥٤٠٠) حضرت بریدہ کہتے ہیں : اگر روئے زمین پر بسنے والے تمام لوگوں کی آہ وزاری کا مقابلہ اکیلے حضرت داؤد (علیہ السلام) کی آہ وزاری سے کیا جائے، تو (ان لوگوں کی آہ وزاری حضرت داؤد (علیہ السلام) کی آہ وزاری کے) برابر نہ ہوگی۔

35400

(۳۵۴۰۱) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ مَالِکِ بْنِ مِغْوَلٍ ، قَالَ : کَانَ فِی زَبُورِ دَاوُد إِنِّی أَنَا اللَّہُ لاَ إلَہَ إِلاَّ أَنَا ، مَلِکُ الْمُلُوک ، قُلُوبُ الْمُلُوکِ بِیَدِی ، فَأَیُّمَا قَوْمٍ کَانُوا عَلَی طَاعَۃٍ جَعَلْت الْمُلُوکَ عَلَیْہِمْ رَحْمَۃً ، وَأَیُّمَا قَوْمٍ کَانُوا عَلَی مَعْصِیَۃٍ جَعَلْت الْمُلُوکَ عَلَیْہِمْ نِقْمَۃً ، لاَ تَشْغَلُوا أَنْفُسَکُمْ بِسَبِ الْمُلُوکِ ، وَلاَ تَتُوبُوا إلَیْہِمْ ، تُوبُوا إلَیَّ أُعَطِّفْ قُلُوبَ الْمُلُوکِ عَلَیْکُمْ۔
(٣٥٤٠١) حضرت مالک بن مغول کہتے ہیں : حضرت داؤد (علیہ السلام) (پر نازل) کی (گئی کتاب) زبور میں تھا : بیشک میں ہی سب کا معبود ہوں، میرے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔ (میں) بادشاہوں کا بادشاہ ہوں۔ بادشاہوں کے دل میرے قبضہ میں ہیں۔ بس جو قوم بھی (میری) طاعت گزاری پر (مداومت کرتی) ہوگی، میں بادشاہوں کو ان پر رحم کرنے والا بنا دوں گا۔ اور جو قوم بھی (میری) نافرمانی پر (ڈھٹائی کرتی) ہوگی، میں بادشاہوں کو ان سے انتقام لینے والا بنا دوں گا۔ (تو) بادشاہوں کو برا بھلا کہنے میں مت لگے رہو، نہ ہی (اپنی حاجتوں میں) ان کی طرف رجوع کرو، بلکہ میری طرف لوٹ آؤ، میں بادشاہوں کے دلوں کو بھی تمہارے لیے نرم کر دوں گا۔

35401

(۳۵۴۰۲) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبْزَی ، قَالَ : قَالَ دَاوُدُ النَّبِیُّ عَلَیْہِ السَّلاَمُ : خُطْبَۃُ الأَحْمَقِ فِی نَادِی الْقَوْمِ کَمَثَلِ الَّذِی یَتَغَنَّی عِنْدَ رَأْسِ الْمَیِّتِ۔
(٣٥٤٠٢) حضرت عبدالرحمٰن ابنِ ابزی فرماتے ہیں : نبی داؤد (علیہ السلام) نے فرمایا : لوگوں کی مجلس میں بیوقوف شخص کا تقریر کرنا ایسا ہے جیسے کوئی شخص میت کے سرہانے کھڑا ہو کر گیت گانے لگے۔

35402

(۳۵۴۰۳) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ زَیْدٍ ، عن الحسن ، عَنِ الأَحْنَفِ بْنِ قَیْسٍ ، عَنْ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : إن داود عَلَیْہِ السَّلاَمُ قَالَ : یَا رَبِ ، إنَّ بَنِی إسْرَائِیلَ یَسْأَلُونَک بِإِبْرَاہِیمَ ، وَإِسْحَاقَ وَیَعْقُوبَ ، فَاجْعَلْنِی یَا رَبِّ لَہُمْ رَابِعًا ، قَالَ : فَأَوْحَی اللَّہُ إلَیْہِ : یَا دَاوُد ، إنَّ إبْرَاہِیمَ أُلْقِیَ فِی النَّارِ فِی سببی فَصَبَرَ فِیَّ وَتِلْکَ بَلِیَّۃٌ لَمْ تَنَلْک ، وَإِنَّ إِسْحَاقَ بَذَلَ مہجۃ دمہ فی سببی فَصَبَرَ ، وََتِلْکَ بَلِیَّۃٌ لَمْ تَنَلْک ، وَإِنَّ یَعْقُوبَ أَخَذَتُ حَبِیبُہُ حَتَّی ابْیَضَّتْ عَیْنَاہُ فَصَبَرَ ، وَتِلْکَ بَلِیَّۃٌ لَمْ تَنَلْک۔
(٣٥٤٠٣) حضرت احنف بن قیس نبی اکرم (علیہ السلام) سے روایت کرتے ہیں، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : بیشک داؤد (علیہ السلام) نے فرمایا : اے میرے رب ! بیشک بنی اسرائیل آپ سے ابراہیم اور اسحٰق اور یعقوب ۔ (تین نبیوں) کے وسیلہ سے سوال کرتے ہیں ، تو آپ مجھے بھی ان کے ساتھ چوتھا بنا دیجئے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اس پر اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف (یہ) وحی نازل فرمائی : اے داؤد ! ابراہیم کو میری (توحید بیان کرنے کی) وجہ سے آگ میں ڈالا گیا تو انھوں نے (اس پر) صبر کیا، اور آپ اس امتحان سے نہیں گزرے۔ اسحق 1 کو میری (رضا کی) خاطرنذرانہ جان پیش کرنا پڑا، تو انھوں نے (بھی اس پر) صبر کیا، اور آپ پر یہ آزمائش نہیں آئی۔ اور یعقوب ان کے تو محبوب کو میں نے ان سے جدا کئے رکھا ، یہاں تک کہ (رو رو کر) ان کی آنکھوں میں سفیدی اتر آئی، تو انھوں نے (بھی اس پر) صبر کیا، اور آپ سے یہ ابتلا (بھی) دور رہی۔

35403

(۳۵۴۰۴) حَدَّثَنَا مُعَاوِیَۃُ بْنُ ہِشَامٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ أَبِی الْمُصْعَبِ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ کَعْبٍ ، قَالَ : کَانَ إذَا أَفْطَرَ الصَّائِمُ اسْتَقْبَلَ الْقِبْلَۃَ ، فَقَالَ : اللَّہُمَّ خَلِّصْنِی مِنْ کُلِّ مُصِیبَۃٍ نَزَلَتِ اللیلۃ مِنَ السَّمَائِ إِلَی الأَرْضِ ثَلاَثًا ، وَإِذَا طَلَعَ حَاجِبُ الشَّمْسِ ، قَالَ : اللَّہُمَّ اجْعَلْ لِی سَہْمًا فِی کُلِّ حَسَنَۃٍ نَزَلَتْ مِنَ السَّمَائِ ثَلاَثًا ، قَالَ : فَقِیلَ لَہُ ، فَقَالَ : دَعْوَۃُ دَاوُد فَلَیِّنُوا بِہَا أَلْسِنَتَکُمْ وَأَشْعِرُوہَا قُلُوبَکُمْ۔
(٣٥٤٠٤) حضرت کعب کہتے ہیں : جب افطار کا وقت آتا تو ایک روزہ دار قبلہ رو ہو کر کہتا : اے اللہ ! مجھے ہر اس مصیبت سے خلاصی عطا فرما دیجئے جو آج کی رات میں آسمان سے زمین پر نازل ہونے والی ہے۔ (وہ ایسا) تین مرتبہ (کہتا) ۔ اور جب سورج کی روشنی پھیلنے لگتی تو کہتا : اے اللہ ! ہر اس بھلائی میں میرا حصہ بھی رکھئے جو آسمان سے نازل ہونے والی ہے۔ (وہ ایسا بھی) تین مرتبہ (کہتا) راوی کہتے ہیں : اس شخص سے (ان کلمات کے بارے میں) پوچھا گیا تو اس نے جواب دیا : یہ داؤد (علیہ السلام) کی دعا ہے، اس سے اپنی زبانوں کو آسودگی بخشو، اور اپنے دلوں پر اسے چسپاں کرلو۔

35404

(۳۵۴۰۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ یُونُسَ بْنِ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنِ ابْنِ أَبْزَی ، قَالَ : قَالَ دَاوُد : نِعْمَ الْعَوْنُ الْیَسَارُ عَلَی الدِّینِ ، أَوِ الْغِنَی۔
(٣٥٤٠٥) حضرت ابن ابزی کہتے ہیں : حضرت داؤد (علیہ السلام) نے فرمایا : بہترین امداد دین پر (چلنے میں) سہولت (ہو جانا) ہے۔ یا (پھر آپ (علیہ السلام) نے فرمایا): (بہترین امداد) مالداری ہے۔

35405

(۳۵۴۰۶) حَدَّثَنَا قَبِیصَۃُ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنِ الْعَلاَئِ بْنِ الْمُسَیَّبِ، عَنْ رَجُلٍ، عَنْ مُجَاہِدٍ، قَالَ: قَالَ دَاوُد: یَا رَبِ، طَالَ عُمْرِی وَکَبِرَتْ سِنِّی وَضَعُفَ رُکْنِی، فَأَوْحَی اللَّہُ إلَیْہِ: یَا دَاوُد، طُوبَی لِمَنْ طَالَ عُمْرُہُ وَحَسُنَ عَمَلُہُ۔
(٣٥٤٠٦) حضرت مجاہد کہتے ہیں : حضرت داؤد (علیہ السلام) نے فرمایا : اے میرے پروردگار ! میری حیات طویل ہوگئی ہے، اور میں عمر رسیدہ ہوگیا ہوں، اور میری قوّت ماند پڑگئی ہے۔ تو اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف وحی نازل فرمائی : اے داؤد ! خوش بخت ہے وہ شخص جس کی عمر طویل ہوجائے اور اس کے اعمال اچھے ہوں۔

35406

(۳۵۴۰۷) حدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ خَیْثَمَۃ ، قَالَ : قَالَ سُلَیْمَانُ بْنُ دَاوُد : کُلُّ الْعَیْشِ جَرَّبْنَاہُ لَیِّنُہُ وَشَدِیدُہُ فَوَجَدْنَاہُ یَکْفِی مِنْہُ أَدْنَاہُ۔
(٣٥٤٠٧) حضرت خیثمہ کہتے ہیں : حضرت سلیمان بن داؤد (علیہ السلام) نے فرمایا : ہم نے ہر طرح کی زندگی آزما دیکھی ہے، راحت و آرام والی بھی ، مصائب و آلام والی بھی، اور ہم نے یہی محسوس کیا کہ (ہم جس حالت میں بھی ہیں) اس سے پتلی حالت میں بھی گزر بسر ہوجاتی ہے۔

35407

(۳۵۴۰۸) حَدَّثَنَا عَبْدُاللہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ خَیْثَمَۃ ، قَالَ: أَتَی مَلَکُ الْمَوْتِ سُلَیْمَانَ بْنَ دَاوُد ، وَکَانَ لَہُ صَدِیقًا ، فَقَالَ لَہُ سُلَیْمَانُ : مَا لَک تَأْتِی أَہْلَ الْبَیْتِ فَتَقْبِضُہُمْ جَمِیعًا وَتَدَعُ أَہْلَ الْبَیْتِ إِلَی جَنْبِہِمْ لاَ تَقْبِضُ مِنْہُمْ أَحَدًا ، قَالَ : مَا أَعْلَمُ بِمَا أَقْبِضُ مِنْہَا ، إنَّمَا أَکُونُ تَحْتَ الْعَرْشِ فَتُلْقَی إلَیَّ صِکَاکٌ فِیہَا أَسْمَائٌ۔
(٣٥٤٠٨) حضرت خیثمہ کہتے ہیں : حضرت سلیمان بن داؤد (علیہ السلام) کے پاس موت کا فرشتہ حاضر ہوا ، اور آپ (علیہ السلام) کا اس سے دوستی کا تعلق تھا۔ تو آپ نے اس سے فرمایا : تم عجیب ہو ! ایک گھر میں آتے ہو اور تمام اہل خانہ کی ارواح قبض کرلیتے ہو، جبکہ ان کے پہلو (میں موجود گھر) کے اہل خانہ کو (زندہ سلامت) چھوڑ دیتے ہو، ان میں سے ایک کی بھی روح قبض نہیں کرتے (یہ کیا ماجرا ہے) ؟ موت کے فرشتہ نے (جواب میں) عرض کیا : مجھے کچھ پتہ نہیں ہوتا کہ مجھے کس کی روح قبض کرنی ہے۔ میں تو عرش کے نیچے (دست بستہ) ہوتا ہوں، تو ایک پرچی میری جانب گرادی جاتی ہے ، اس میں (ان لوگوں کے) نام درج ہوتے ہیں (جن کی مجھے روح قبض کرنا ہوتی ہے) ۔

35408

(۳۵۴۰۹) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ خَیْثَمَۃ ، قَالَ : دَخَلَ مَلَکُ الْمَوْتِ إِلَی سُلَیْمَانَ فَجَعَلَ یَنْظُرُ إِلَی رَجُلٍ مِنْ جُلَسَائِہِ یُدِیمُ النَّظَرَ إلَیْہِ ، فَلَمَّا خَرَجَ ، قَالَ الرَّجُلُ : مَنْ ہَذَا ، قَالَ : ہَذَا مَلَکُ الْمَوْتِ ، قَالَ : رَأَیْتہ یَنْظُرُ إلَیَّ کَأَنَّہُ یُرِیدُنِی ، قَالَ : فَمَا تُرِیدُ ، قَالَ : أُرِیدُ أَنْ تَحْمِلَنِی عَلَی الرِّیحِ حَتَّی تُلْقِیَنِی بِالْہِنْدِ ، قَالَ : فَدَعَا بِالرِّیحِ فَحَمَلَہُ عَلَیْہَا فَأَلْقَتْہُ فِی الْہِنْدِ ، ثُمَّ أَتَی مَلَکُ الْمَوْتِ سُلَیْمَانَ ، فَقَالَ : إنَّک کُنْت تُدِیمُ النَّظَرَ إِلَی رَجُلٍ مِنْ جُلَسَائِی قَالَ : کُنْتُ أَعْجَبُ مِنْہُ ، أُمِرْت أَنْ أقْبِضَہُ بِالْہِنْدِ وَہُوَ عِنْدَکَ۔
(٣٥٤٠٩) حضرت خیثمہ کہتے ہیں : موت کا فرشتہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے پاس حاضر ہوا اور آپ (علیہ السلام) کے ہم نشینوں میں سے ایک کی جانب ٹکٹکی باندھ کر دیکھنے لگا۔ جب وہ (وہاں سے) چلا گیا تو اس آدمی نے عرض کیا : یہ کون تھا ؟ آپ (علیہ السلام) نے فرمایا : یہ موت کا فرشتہ تھا۔ اس نے کہا : مجھے تو وہ یوں میری جانب گھورتا دکھائی دیا کہ بس مجھے ہی لے جانے کا ارادہ ہو۔ آپ (علیہ السلام) نے دریافت فرمایا : تو تم کیا چاہتے ہو ؟ اس نے عرض کیا : میں چاہتا ہوں کہ آپ مجھے دوش ہوا پر ملک ہندو ستان پہنچا دیں۔ راوی کہتے ہیں : آپ (علیہ السلام) نے ہوا کو حکم کیا تو ہوا نے اس شخص کو اٹھا کر ملک ہندوستان میں لے جا ڈالا۔ پھر موت کا فرشتہ (دوبارہ) حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے پاس حاضر ہوا تو آپ (علیہ السلام) نے دریافت فرمایا : تم (کیوں) میرے ہمنشینوں میں سے ایک آدمی کو گھورے جا رہے تھے۔ موت کے فرشتے نے کہا : مجھے اس پر تعجب ہو رہا تھا، (کیونکہ) مجھے تو حکم ہوا تھا کہ اس کی روح ہندوستان میں قبض کرنی ہے اور وہ آپ کے پاس (بیٹھا) تھا۔

35409

(۳۵۴۱۰) حَدَّثَنَا عِیسَی بْنُ یُونُسَ ، عَنِ الأَوْزَاعِیِّ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ أَبِی کَثِیرٍ ، قَالَ : قَالَ سُلَیْمَانُ بْنُ دَاوُد عَلَیْہِ السَّلاَمُ لاِبْنِہِ : یَا بُنَی ، کَمَا یَدْخُلُ الْوَتِدُ بَیْنَ الْحَجَرَیْنِ کَذَلِکَ تَدْخُلُ الْخَطِیئَۃُ بَیْنَ الْبَائِعِ وَالْمُشْتَرِی۔
(٣٥٤١٠) حضرت یحییٰ بن ابی کثیر کہتے ہیں : حضرت سلیمان بن داؤد (علیہ السلام) نے اپنے بیٹے سے (معاملات میں احتیاط کرنے کی نصیحت کرتے ہوئے) فرمایا : اے میرے پیارے بیٹے ! جیسے کیل (بڑے غیر محسوس انداز میں) دو پتھروں میں گھس جاتا ہے، ایسے ہی خریدو فروخت کرنے والوں کے درمیان بھی (معاملات کی) خرابی (بڑے غیر محسوس انداز میں) داخل ہوجاتی ہے۔

35410

(۳۵۴۱۱) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنِ الإِفْرِیقِیِّ ، عَنْ سَلاَمَانَ بْنِ عَامِرٍ الشَّعْبَانِیِّ ، قَالَ : أَرَأَیْتُمْ سُلَیْمَانَ ، وَمَا أُوتِیَ فِی مُلْکِہِ فَإِنَّہُ لَمْ یَرْفَعْ رَأْسَہُ إِلَی السَّمَائِ حَتَّی قَبَضَہُ اللَّہُ تَخَشُّعًا لِلَّہِ۔
(٣٥٤١١) حضرت سلامان بن عامر شیبانی کہتے ہیں : حضرت سلیمان (علیہ السلام) اور ان کی سلطنت (کی شان و شوکت) کو دیکھئے ! اور ان کی (ایمانی) حالت یہ تھی کہ انھوں نے تاحیات اللہ تعالیٰ کے ڈر سے آسمان کی جانب سر نہ اٹھایا تھا۔

35411

(۳۵۴۱۲) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ مَالِکِ بْنِ الْحَارِثِ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : کَانَ سُلَیْمَانُ بْنُ دَاوُد النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لاَ یُکَلَّمُ إعْظَامًا لَہُ ، قَالَ : فَلَقَدْ فَاتَتْہُ الْعَصْرُ فَمَا أَطَاقَ أَحَدٌ یُکَلِّمُہُ۔
(٣٥٤١٢) حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا : نبی حضرت سلیمان بن داؤد (علیہ السلام) کے رعب و دبدبہ کی بنا پر (کسی سے) ان کے ساتھ بات تک نہ کی جاتی تھی۔ راوی کہتے ہیں : حتیٰ کہ (ایک شام) ان سے (بےخبری میں) نمازِ عصر بھی جاتی رہی، مگر کسی کی ہمت نہ ہوئی کہ ان سے کلام (کر کے انھیں مطلع) کرسکتا۔

35412

(۳۵۴۱۳) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِی لَیْلَی ، عَنْ أَبِی الدَّرْدَائِ ، قَالَ : مَاتَ ابْنُ سُلَیْمَانَ بْنِ دَاوُد ، فَوَجَدَ عَلَیْہِ وَجْدًا شَدِیدًا حَتَّی عُرِفَ ذَلِکَ فِیہِ وَفِی قَضَائِہِ ، فجاء فَبَرَزَ ذَاتَ یَوْمٍ مَلَکَانِ بَیْنَ یَدَیْہِ لِلْخُصُومِ ، فَقَالَ أَحَدُہُمَا : إنِّی بَذَرْت بَذْرًاحَتَّی إذَا اشْتَدَّ وَاسْتَحْصَدَ مَرَّ ہَذَا بِہِ فَأَفْسَدَہُ ، فَقَالَ لِلآخَرِ : مَا تَقُولُ ، فَقَالَ : صَدَقَ ، أَخَذْت الطَّرِیقَ فَأَتَیْت عَلَی ذَرْعٍ فَنَظَرْت یَمِینًا وَشِمَالا ، فَإِذَا الطَّرِیقُ عَلَیْہِ فَأَخَذْت عَلَیْہِ ، فَقَالَ سُلَیْمَانُ لِلآخَرِ : لِمَ بَذَرْت عَلَی الطَّرِیقِ أَمَا عَلِمْت أَنَّ مَأْخَذَ النَّاسِ عَلَی الطَّرِیقِ ؟ فَقَالَ : یَا سُلَیْمَانَ ، فَلِمَ تَحْزَنُ عَلَی ابْنِکَ وَأَنْتَ تَعْلَمُ أَنَّک مَیِّتٌ ، وَأَنَّ سَبِیلَ النَّاسِ إِلَی الآخِرَۃِ۔
(٣٥٤١٣) حضرت ابودرداء (رض) فرماتے ہیں : حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے ایک بیٹے فوت ہوگئے تو آپ (علیہ السلام) نے اس پر شدید رنج و غم محسوس کیا۔ حتی کہ ان کی شخصیت اور فیصلوں میں بھی اس کا اثر محسوس کیا گیا۔ چنانچہ ایک دن جب آپ (مجلسِ قضا میں) تشریف لائے تو دو فرشتے (انسانوں کی شکل میں) آپ کی خدمت میں ایک جھگڑے کے تصفیہ کے لیے حاضر ہوئے۔ ان میں سے ایک بولا : میں نے بیج بویا، جب وہ پک کر کاٹنے کے قابل ہوگیا تو یہ (دوسرا شخص) وہاں سے گزرا اور اس کو برباد کر گیا۔ آپ (علیہ السلام) نے دوسرے سے دریافت فرمایا : تم کیا کہتے ہو ؟ تو اس نے جواب دیا : یہ سچ کہتا ہے۔ میں راستے پر جا رہا تھا کہ اس کے کھیت پر جا پہنچا، میں نے دائیں بائیں دیکھا مگر راستہ وہی تھا (جس پر اس نے کھیت اگا رکھا تھا) ، چنانچہ میں اس (کے کھیت) میں ہی چل پڑا (تو وہ خراب ہوگیا) ۔ (یہ سنا) تو سلیمان (علیہ السلام) نے پہلے شخص سے دریافت فرمایا : تم نے راستے میں کیوں بیج بو دیا تھا ؟ کیا تمہیں نہیں معلوم تھا کہ لوگوں نے تو راستے پر سے ہی گزرنا ہوتا ہے ؟ اس پر اس شخص نے جواب دیا : اے سلیمان (علیہ السلام) ! (اگر ایسا ہے) تو تم کیوں اپنے بیٹے پر (اتنا زیادہ) غم گین ہوتے ہو، حالانکہ تم جانتے ہو کہ ایک دن تم بھی مرنے والے ہو، اور یہ (بھی جانتے ہو) کہ تمام لوگ آخرت کی جانب ہی رواں دواں ہیں۔

35413

(۳۵۴۱۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا مِسْعَرٌ ، عَنْ زَیْدٍ الْعَمِّیِّ ، عَنْ أَبِی الصِّدِّیقِ النَّاجِی ، أَنَّ سُلَیْمَانَ بْنَ دَاوُد خَرَجَ بِالنَّاسِ یَسْتَسْقِی ، فَمَرَّ عَلَی نَمْلَۃٍ مُسْتَلْقِیَۃٍ عَلَی قَفَاہَا رَافِعَۃٍ قَوَائِمَہَا إِلَی السَّمَائِ وَہِیَ تَقُولُ : اللَّہُمَّ إنَّا خَلْقٌ مِنْ خَلْقِکَ لَیْسَ بِنَا غِنًی ، عَنْ رِزْقِکَ ، فَإِمَّا أَنْ تَسْقِیَنَا وَإِمَّا أَنْ تُہْلِکَنَا ، فَقَالَ سُلَیْمَانُ لِلنَّاسِ : ارْجِعُوا فَقَدْ سُقِیتُمْ بِدَعْوَۃِ غَیْرِکُمْ۔
(٣٥٤١٤) حضرت ابو صدیق ناجی سے مروی ہے کہ حضرت سلیمان بن داؤد (علیہ السلام) لوگوں کو لے کر (اللہ تعالیٰ سے) بارش کی دعا کرنے نکلے تو آپ کا گزر ایک ایسی چیونٹی پر ہوا جو اپنی ٹانگیں آسمان کی طرف اٹھائے چت لیٹی کہہ رہی تھی : اے اللہ ! میں بھی تیری مخلوقات میں سے (ایک ادنی سی) مخلوق ہوں، میں تیرے رزق سے بےنیاز نہیں ہوں ، یا تو مجھے پانی پلا دے، یا پھر مجھے موت دیدے۔ سلیمان (علیہ السلام) نے لوگوں سے فوراً کہا : لوٹ چلو، تمہیں کسی اور کی دعا نے ہی سیراب کر وا دیا ہے۔

35414

(۳۵۴۱۵) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ بْنُ أَبِی خَالِدٍ ، قَالَ : ذُکِرَ عَنْ بَعْضِ الأَنْبِیَائِ أَنْ ، قَالَ : اللَّہُمَّ لاَ تُکَلِّفَنِّی طَلَبَ مَا لَمْ تُقَدِّرْہُ لِی ، وَمَا قَدَّرْت لِی مِنْ رِزْقٍ فَائتنی بِہِ فِی یُسْرٍ مِنْک وَعَافِیَۃٍ ، وَأَصْلِحْنِی بِمَا أَصْلَحْت بِہِ الصَّالِحِینَ ، فَإِنَّمَا أَصْلَحُ الصَّالِحِینَ أَنْتَ۔
(٣٥٤١٥) حضرت اسماعیل بن ابی خالد کہتے ہیں : کسی نبی کے بارے میں کہا گیا ہے کہ انھوں نے فرمایا : اے اللہ ! مجھے اسی چیز کی تلاش کی تکلیف مت دیجئے جو آپ نے میرے مقدر میں لکھی ہی نہیں، اور جو رزق آپ نے میرے مقدر میں لکھ دیا ہے اسے بسہولت و عافیت مجھ تک پہنچا دیجئے۔ اور جس طرح سے آپ نے صالح لوگوں کی اصلاح فرمائی میری بھی اسی طرح سے اصلاح فرما دیجئے۔ کیونکہ (میں جانتا ہوں کہ) صالحین کی اصلاح بھی آپ ہی نے فرمائی ہے۔

35415

(۳۵۴۱۶) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَجْلاَنَ ، عَنْ زَیْدِ بْنِ أَسْلَمَ ، أَنَّ نَبِیًّا مِنْ أَنْبِیَائِ اللہِ ، قَالَ : مَنْ أَہْلُکَ الَّذِینَ ہُمْ أَہْلُکُ الَّذِینَ فِی ظِلِّ عَرْشِکَ ، قَالَ : ہُمَ الْبَرِیئَۃُ أَیْدِیہِمْ ، الطَّاہِرَۃُ قُلُوبُہُمْ ، الَّذِینَ یَتَحَابُّونَ بِجَلاَلِی ، الَّذِینَ إذَا ذُکِرُوا ذُکِرْت بِہِمْ وَإِذَا ذُکِرْت ذُکِرُوا بِی ، اللذین یَسْبُغُونَ الْوُضُوئَ عَلَی الْمَکَارِہِ ، وَالَّذِینَ یَکْلِفُونَ بِحُبِّی کَمَا یَکْلَفُ الصَّبِیُّ بِالنَّاسِ ، وَالَّذِینَ یَأْوُونَ إِلَی ذِکْرِی کَمَا تَأْوِی الطَّیْرُ إِلَی وَکْرِہَا ، وَالَّذِینَ یَغْضَبُونَ لِمَحَارِمِی إذَا اسْتُحِلَّتْ کَمَا یَغْضَبُ النَّمِرُ إذَا حَرِمَ ، أَوَ قَالَ : حَرِبَ۔
(٣٥٤١٦) حضرت زید بن اسلم سے مروی ہے : اللہ تعالیٰ کے نبیوں میں سے کسی نبی نے فرمایا : تیرے کون سے برگزیدہ بندے ایسے برگزیدہ ہیں جو (روز قیامت) تیرے عرش کے سائے تلے ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : یہ وہ لوگ ہوں گے جن کے ہاتھ (ظلم و ستم) سے بری ہیں، جن کے دل پاکیزہ ہیں، جو میری بزرگی کی وجہ سے آپس میں محبت کرتے ہیں، یہ وہ لوگ ہوں گے کہ جب ان کا ذکر کیا جاتا ہے تو ان (کے میرے ساتھ انتہائی تعلق) کی وجہ سے میرا ذکر بھی کیا جاتا ہے، اور جب میرا ذکر کیا جاتا ہے تو میری (ان پر انتہائی شفقت و مہربانی کی) وجہ سے اُ ن کا ذکر بھی کیا جاتا ہے، یہ وہ لوگ ہوں گے جو باوجود (سردی کی) تکلیف کے اپنا وضو مکمل طور پر کرتے ہیں، اور یہ وہ لوگ ہوں گے جو میری محبت کے یوں دیوانے ہیں جیسا بچہ (اپنے شناسا) لوگوں کا دیوانہ ہوتا ہے، اور یہ وہ لوگ ہوں گے جو (تپش معاصی سے ڈر کر) میرے ذکر (کی ٹھنڈی چھاؤں) میں یوں پناہ لیتے ہیں جیسے پرندہ اپنے گھونسلے میں پناہ لیتا ہے، اور یہ وہ لوگ ہوں گے جو میری حرام کردہ چیزوں کو حلال سمجھے جانے (یا ان کا ارتکاب کئے جانے) پر یوں غضبناک ہوتے ہیں جیسے چیتا (شکار سے) محروم کئے جانے پر (غضبناک ہوتا ہے) ، یا پھر فرمایا : (جیسے چیتا) لڑائی کے وقت (غضبناک ہوتا ہے) ۔

35416

(۳۵۴۱۷) حَدَّثَنَا عَفَّانُ، قَالَ: حدَّثَنَا الْمُبَارَکُ ، عَنِ الْحَسَنِ، أن دَاوُدَ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، قَالَ: اللَّہُمَّ إنِّی أَسْأَلُک مِنَ الإِخْوَانَ وَالأَصْحَابَ وَالْجِیرَانَ وَالْجُلَسَائَ مَنْ إنْ نَسِیت ذَکَّرُونِی، وَإِنْ ذَکَرْت أَعَانُونِی، وَأَعُوذُ بِکَ مِنَ الأَصْحَابِ وَالإِخْوَانِ وَالْجِیرَانِ وَالْجُلَسَائِ مَنْ إنْ نَسِیت لَمْ یُذَکِّرُونِی، وَإِنْ ذَکَرْت لَمْ یُعِینُونِی۔
(٣٥٤١٧) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ داؤد نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے اللہ تعالیٰ ! آپ مجھے ایسے بھائی ، دوست، پڑوسی اور ہم نشین عطا فرما دیجئے کہ اگر مجھ سے (تقاضہِ بشری کے تحت معمولی سی) غفلت (بھی) سر زد ہوجائے تو وہ مجھے اس پر متنبہ کردیں، اور تنبہ کے عالم میں (نیکی کے کاموں میں) میری معاونت کریں۔ اور مجھے ایسے بھائیوں، دوستوں، پڑوسیوں اور ہم نشینوں سے اپنی پناہ میں لے لیجئے جو نہ تو غفلت پر تنبیہ کریں، اور نہ ہی تنبہ کے وقت اعانت کریں۔

35417

(۳۵۴۱۸) حَدَّثَنَا عَفَّانُ بْنُ مُسْلِمٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا مُبَارَکٌ ، عَنِ الْحَسَنِ ، أَنَّ دَاوُد النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ: اللَّہُمَّ لاَ مَرَضَ یُضْنِینِی ، وَلاَ صِحَّۃَ تُنْسِینِی ، وَلَکِنْ بَیْنَ ذَلِکَ۔
(٣٥٤١٨) حضرت حسن کہتے ہیں : حضرت داؤد نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرمایا کرتے تھے : اے اللہ ! نہ تو مجھے ایسا مرض لاحق کیجئے جو مجھے بالکل بےکار کر دے، اور نہ ہی ایسی صحت عطا کیجئے جو مجھے (حق سے) غافل کر دے، بلکہ اعتدال والی کیفیت عطافرمائیے۔

35418

(۳۵۴۱۹) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا مُبَارَکٌ ، قَالَ سَمِعْت الْحَسَنَ یَقُولُ : إنَّ أَیُّوبَ عَلَیْہِ السَّلاَمُ کَانَ کُلَّمَا أَصَابَتْہُ مُصِیبَۃٌ ، قَالَ : اللَّہُمَّ أَنْتَ أَخَذْت وَأَنْتَ أَعْطَیْت مَہْمَا تُبْقِی نَفْسِی أَحْمَدْک عَلَی حُسْنِ بَلاَئِک۔
(٣٥٤١٩) حضرت حسن کہتے ہیں : بیشک ایوب (علیہ السلام) کو جب کوئی آزمائش پیش آتی تو آپ (علیہ السلام) فرماتے : آپ ہی (اپنی نعمتیں روک لیتے ہیں یا واپس) لے لیتے ہیں، اور آپ ہی (نعمتیں) عطا فرماتے ہیں، آپ جب تک میری سانسوں کی ڈور باندھے رکھیں گے میں آپ کے عمدہ (اندازِ ) امتحان پر آپ کا شکر گزار رہوں گا۔

35419

(۳۵۴۲۰) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَیْمَانَ الضُّبَعِیُّ ، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِیِّ ، قَالَ : بَلَغَنَا ، أَنَّ دَاوُد النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ جَزَّأَ الصَّلاَۃَ عَلَی بُیُوتِہِ : عَلَی نِسَائِہِ وَوَلَدِہِ ، فَلَمْ تَکُنْ تَأْتِی سَاعَۃٌ مِنَ اللَّیْلِ وَالنَّہَارِ إِلاَّ وَإِنْسَانٌ مِنْ آلِ دَاوُد قَائِمٌ یُصَلِّی ، فَعَمَّتْہُنَّ ہَذِہِ الآیَۃُ : {اعْمَلُوا آلَ دَاوُد شُکْرًا وَقَلِیلٌ مِنْ عِبَادِی الشَّکُورُ}۔
(٣٥٤٢٠) حضرت ثابت بنانی کہتے ہیں : ہم تک یہ بات پہنچی ہے کہ نبی حضرت داؤد (علیہ السلام) نے اپنے گھروں میں اپنی بیویوں اور بچوں کے لیے بطورِ مصلیٰ جگہیں مقرر کر رکھی تھیں۔ دن کی کوئی گھڑی ہوتی یا رات کا کوئی پہر، ہر وقت آپ کے اہل خانہ میں سے کوئی نہ کوئی شخص (ان مصلوں پر) نماز میں مشغول رہتا۔ چنانچہ یہ آیت (آپ (علیہ السلام) کے) ان تمام (اہلِ و عیال) کے بارے میں عام ہے (جو اس کار خیر میں شریک رہتے تھے : اے آلِ داؤد (اپنے رب کا) شکر بجا لاؤ، اور میرے بندوں میں سے بہت کم لوگ (صحیح معنوں میں) شکر گزار ہیں۔

35420

(۳۵۴۲۱) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ: حدَّثَنَا مُعَاوِیَۃُ بْنُ عَبْدِ الْکَرِیمِ ، عَنِ الْحَسَنِ ، أَنَّ دَاوُد النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، قَالَ: إلَہِی ، لَوْ أَنَّ لِکُلِّ شَعَرَۃٍ مِنِّی لِسَانَیْنِ یُسَبِّحَانِکَ اللَّیْلَ وَالنَّہَارَ مَا قَضَیْنَا نِعْمَۃً مِنْ نِعَمِکَ عَلَیَّ۔
(٣٥٤٢١) حضرت حسن سے مروی ہے کہ نبی حضرت داؤد (علیہ السلام) نے فرمایا : میرے معبود برحق ! اگر میرے ہر ہر بال کی دو دو زبانیں ہوتیں اور دن رات آپ کی تسبیح میں مشغول ہوتیں، تو بھی آپ کی کسی ادنیٰ سی نعمت کا (شکر بجا لانے کا) حق ادا نہ کر پاتیں۔

35421

(۳۵۴۲۲) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، قَالَ : حَدَّثَنَا الْجَعْدُ أَبُو عُثْمَانَ ، قَالَ : بَلَغَنَا أَنَّ دَاوُد ، قَالَ : إلَہِی ، مَا جَزَائُ مِنْ فَاضَتْ عَیْنَاہُ مِنْ خَشْیَتِکَ ؟ قَالَ : جَزَاؤُہُ أَنْ أُؤَمِّنُہُ یَوْمَ الْفَزَعِ الأَکْبَرِ۔
(٣٥٤٢٢) حضرت ابو عثمان کہتے ہیں : ہم تک یہ بات پہنچی ہے کہ حضرت داؤد (علیہ السلام) نے فرمایا : میرے معبودِ برحق ! اس شخص کے لیے کیا انعام ہے جس کی آنکھیں آپ کے ڈر سے آنسو بہا دیں ؟ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے فرمایا : اس کا انعام یہ ہے کہ میں اسے بہت بڑی گھبراہٹ (یعنی قیامت) کے دن امن میں رکھوں گا۔

35422

(۳۵۴۲۳) حدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، قَالَ : مَالِکُ بْنُ مِغْوَلٍ ، عَنِ الْحَسَنِ أَبِی یُونُسَ ، عَنْ ہَارُونَ بْنِ رِئَابٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِی ابْنُ عَمِّ حَنْظَلَۃَ کَاتِبِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، أَنَّ اللَّہَ أَوْحَی إِلَی مُوسَی : أَنَّ قَوْمَک زَیَّنُوا مَسَاجِدَہُمْ وَأَخْرَبُوا قُلُوبَہُمْ ، وَتَسَمَّنُوا کَمَا تُسَمَّنُ الْخَنَازِیرُ لِیَوْمِ ذَبْحِہَا ، وَإِنِّی نَظَرْت إلَیْہِمْ فَلَعَنْتُہُمْ ، فَلاَ أَسْتَجِیبُ دُعَائَہُمْ ، وَلاَ أُعْطِیہِمْ مَسَائِلَہُمْ۔
(٣٥٤٢٣) حضرت حنظلہ (رض) جو کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کاتب ہیں ان کے چچا زاد بھائی نے بیان فرمایا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی طرف وحی فرمائی : بیشک آپ کی قوم نے مساجد کو (تو) سجا سنوار رکھا ہے ، مگر اپنے دلوں کا حال خراب کر رکھا ہے۔ اور (کثرت اکل کی وجہ) سے یوں پھول چکے ہیں جیسے خنزیروں کو ذبح کرنے کے لیے موٹا کیا جاتا ہے۔ میں ان (کی اس بری حالت) کو دیکھ کر ان پر لعنت کرتا ہوں ، نہ تو میں ان کی دعا قبول کرتا ہوں اور نہ ان کی مطلوبہ چیز انھیں عطا کرتا ہوں۔

35423

(۳۵۴۲۴) حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ حَرْبٍ ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَۃَ ، عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ ، عَنْ عُبَیْدِ بْنِ عُمَیْرٍ ، أَنَّ دَاوُد صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سَجَدَ حَتَّی نَبَتَ مَا حَوْلَہُ خَضْرَائُ مِنْ دُمُوعِہِ ، فَأَوْحَی اللَّہُ إلَیْہِ : یَا دَاوُد مَا تُرِیدُ ، تُرِیدُ أَنْ أَزِیدَک فِی مَالِکِ وَوَلَدِکَ وَعُمْرِکَ ، قَالَ : یَا رَبِ ، ہَذَا ترد عَلَیَّ فَغُفِرَ لَہُ۔
(٣٥٤٢٤) حضرت عبید بن عمیر سے مروی ہے کہ حضرت داؤد (علیہ السلام) نے (گریہ وزاری کے ساتھ) اتنا طویل سجدہ فرمایا کہ ان کے آنسوؤں (کی نمی سے) ان کے ارد گرد سبزہ اگ آیا۔ چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان کی طرف وحی فرمائی : اے داؤد (علیہ السلام) تم کیا چاہتے ہو ؟ کیا تم چاہتے ہو کہ میں تمہارے مال و اولاد اور عمر میں اضافہ کر دوں۔ تو حضرت داؤد (علیہ السلام) نے (عجزو انکسار کے ساتھ شکوہ کرتے ہوئے) عرض کیا : اے میرے پروردگار ! کیا (آپ کے نزدیک میں دنیا سے محبت کرنے والا اور دنیا کو چاہنے والا ہوں کہ میری طویل آہ وزاری کے نتیجہ میں) آپ نے مجھے یہ جواب دیا ؟ بس اسی وقت اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان کی مغفرت فرما دی۔

35424

(۳۵۴۲۵) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، قَالَ : حدَّثَنَا ہِشَامُ بْنُ عُرْوَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، أَنَّ مُوسَی عَلَیْہِ السَّلاَمُ ، قَالَ : یَا رَبِّ أَخْبِرْنِی بِأَکْرَمِ خَلْقِکَ عَلَیْک ؟ قَالَ : الَّذِی یُسْرِعُ إِلَی ہَوَایَ إسْرَاعَ النِّسْرِ إِلَی ہَوَاہُ ، وَالَّذِی یَکْلَفُ بِعِبَادِی الصَّالِحِینَ کَمَا یَکْلَفُ الصَّبِیُّ بِالنَّاسِ ، وَالَّذِی یَغْضَبُ إذَا انْتُہِکَتْ مَحَارِمِی غَضَبَ النَّمِرِ لِنَفْسِہِ، فَإِنَّ النَّمِرَ إذَا غَضَبَ لَمْ یُبَالِ أَکَثُرَ النَّاسُ أَمْ قَلُّوا۔
(٣٥٤٢٥) حضرت ہشام بن عروہ نے اپنے والد ماجد سے روایت کیا ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ تبارک وتعالیٰ سے عرض کیا : اے میرے رب مجھے بتا دیجئے کہ آپ کی مخلوق میں سے کون آپ کے نزدیک سب سے زیادہ قابل عزت ہے ؟ اللہ جل جلالہ نے فرمایا : (میرے نزدیک) وہ شخص (سب سے زیادہ قابل احترام ہے) جو میرے احکامات (کو پورا کرنے کے لیے ، ذوق و شوق سے ان) کی طرف یوں پیش قدمی کرے جیسے گدھ اپنی خوراک کی طرف (بڑی رغبت اور ذوق و شوق سے) لپکتا ہے۔ اور وہ شخص (بھی میرے نزدیک سب سے زیادہ قابل عزت ہے) جو میرے نیک بندوں پر یوں فریفتہ ہو جیسے چھوٹا بچہ لوگوں کا دلدادہ ہوتا ہے۔ اور وہ شخص بھی (بھی میرے نزدیک سب سے زیادہ قابل عزت ہے) جو میرے احکامات کی خلاف ورزی کئے جانے پر یوں غضب ناک ہو جیسا چیتا اپنے دفاع کے لیے غضبناک ہوتا ہے۔ اور چیتا جب غضبناک ہوتا ہے تو اس بات کی پروا نہیں کرتا کہ مدمقابل زیادہ تعداد میں ہیں یا کم۔

35425

(۳۵۴۲۶) حَدَّثَنَا مُعَاوِیَۃُ بْنُ ہِشَامٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ زَیْدِ بْنِ أَسْلَمَ ، عْن عَبْدِ اللہِ بْنِ عُبَیْدٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : قَالَ مُوسَی عَلَیْہِ السَّلاَمُ : أَیْ رَبِ ، ذَکَرْت إبْرَاہِیمَ وَإِسْحَاقَ وَیَعْقُوبَ ، بِمَ أَعْطَیْتہمْ ذَاکَ ، قَالَ : إنَّ إبْرَاہِیمَ لَمْ یَعْدِلْ بِی شَیْئًا إِلاَّ اخْتَارَنِی ، وَإِنَّ إِسْحَاقَ جَادَ بِنَفْسِہِ وَہُوَ بِمَا سِوَاہَا أَجْوَدُ ، وَإِنَّ یَعْقُوبَ لَمَ ابْتَلِہِ بِبَلاَئٍ إِلاَّ ازْدَادَ بِی حُسْنَ ظَنٍّ۔
(٣٥٤٢٦) حضرت عبداللہ بن عبید کے والد ماجد کہتے ہیں : حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے (اللہ تبارک و تعالیٰ کی خدمت میں) عرض کیا : اے میرے رب ! آپ نے حضرت ابراہیم ، حضرت اسحاق اور حضرت یعقوب ۔ کا ذکر (اپنے محبوب بندوں میں) فرمایا ہے، یہ (مقام و مرتبہ) آپ نے انھیں (ان کے) کس (عمل کی برکت کی) وجہ سے عطا فرمایا ؟ اللہ تبارک وتعالیٰ نے (جواب میں) ارشاد فرمایا : بیشک ابراہیم (علیہ السلام) نے جب بھی (کسی معبودِ باطل یا ناجائز کام کو میرے یا میرے حکم کے مقابلے میں آتے دیکھا اور مجبورا انھوں نے اس سے) میرا موازنہ کیا تو (اس معبودِ باطل اور غیر شرعی کام کو چھوڑ کر میرے حکم کو اور) مجھے ہی اختیار کیا۔ اور اسحاق (علیہ السلام) نے میری رضا کی خاطر اپنی جان کا نذرانہ 1 پیش کردیا تھا، اور جان کے علاوہ دیگر اشیاء (کو میری رضا کی خاطر صدقہ و خیرات کی مد میں خرچ کرنے کے سلسلے) میں تو ان کی فیاضی (اس سے بھی) بہت زیادہ تھی۔ اور یعقوب (u کے مجھ پر بھروسہ کا یہ عالم تھا کہ ان) کو میں نے جب بھی آزمایا ، میرے ساتھ ان کا حسن ظن ہی بڑھا (بد گمانی پیدا نہیں ہوئی) ۔

35426

(۳۵۴۲۷) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ قَابُوسَ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : قَالَ مُوسَی : أَیْ رَبِ ، أَیُّ عِبَادِکَ أَحَبُّ إلَیْک ، قَالَ : أَکْثَرُہُمْ لِی ذِکْرًا ، قَالَ : أی رب أَیُّ عِبَادِکَ أَغْنَی ؟ قَالَ : الرَّاضِی بِمَا أَعْطَیْتہ ، قَالَ : أی رب أَیُّ رَبِّ عِبَادِکَ أَحْکَمُ ؟ قَالَ : الَّذِی یَحْکُمُ عَلَی نَفْسِہِ بِمَا یَحْکُمُ عَلَی النَّاسِ۔
(٣٥٤٢٧) حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں : حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے (اللہ رب العزت کی بارگاہ میں عرض کیا): اے میرے پروردگار ! آپ کے بندوں میں سے کون آپ کو سب سے زیادہ محبوب ہے ؟ اللہ تبارک وتعالی نے فرمایا : سب سے زیادہ میرا ذکر کرنے والا۔ انھوں نے پھر عرض کیا : اے میرے پالنہار ! آپ کے بندوں میں سے کون سب سے زیادہ امیر ہے ؟ اللہ جل شانہ نے فرمایا : میری عطا (کردہ نعمتوں) پر راضی ہوجانے والا۔ آپ نے پھر عرض کیا : اے میرے رب ! آپ کے بندوں میں سے کون سب سے زیادہ عمدہ فیصلہ کرنے والا ہے ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : جو لوگوں کے لیے ویسا ہی (درست اور برحق) فیصلہ کرے جیسا (درست و برحق) فیصلہ وہ اپنے لیے کرتا ہے۔

35427

(۳۵۴۲۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ عَطَائِ بْنِ أَبِی مَرْوَانَ الأَسْلَمِیِّ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ کَعْبٍ ، قَالَ : قَالَ مُوسَی : أَیْ رَبِّ أَقَرِیبٌ أَنْتَ فَأُنَاجِیَک أَمْ بَعِیدٌ فَأُنَادِیَک ؟ قَالَ : یَا مُوسَی ، أَنَا جَلِیسُ مَنْ ذَکَرَنِی ، قَالَ، یَا رَبِ ، فَإِنَّا نَکُونُ مِنَ الْحَالِ عَلَی حَالٍ نُعَظِّمُک ، أَوْ نُجِلُّک أَنْ نَذْکُرَک عَلَیْہَا ، قَالَ : وَمَا ہِیَ ، قَالَ : الْجَنَابَۃُ وَالْغَائِطُ ، قَالَ : یَا مُوسَی ، اذْکُرْنِی عَلَی کُلِّ حَالٍ۔
(٣٥٤٢٨) حضرت کعب کہتے ہیں : حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے (بارگاہِ الٰہی میں) عرض کیا : اے میرے رب ! (مجھے بتا دیجئے ، ) کیا آپ (مجھ سے اتنا) قریب ہیں کہ (میں جب آپ کی جناب میں کچھ عرض کرنا چاہوں تو) آپ سے سرگوشی میں بات کروں، یا آپ (مجھ سے اتنا) دور ہیں کہ میں (عرضِ حاجات کے وقت) آپ کو (ذرا بلند آواز میں) پکار کے کلام کیا کروں ؟ اللہ سبحانہ وتعالی نے فرمایا : اے موسیٰ ! میں اپنے ہر یاد کرنے والے کے قریب (ہی) ہوتا ہوں۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے پھر عرض کیا : اے میرے پروردگار ! ہم کبھی ایسی حالت میں بھی ہوتے ہیں جس میں ہم آپ کا ذکر کرنا آپ کے شایانِ شان نہیں سمجھتے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا : وہ کون سی حالت ہے (جس میں تم میرا ذکر کرنا میرے شایانِ شان نہیں سمجھتے) ؟ انھوں نے (جواب میں) عرض کیا : ناپاکی (کی حالت میں) اور قضاء حاجت (کے وقت) ۔ اللہ جل جلالہ نے فرمایا : اے موسیٰ ہر حال میں میرا ذکر کیا کرو (البتہ قضاء حاجت اور دیگر ایسے مواقع پر جہاں زبان سے ذکر کرنا مناسب نہ ہو دل ہی دل میں ذکر کرلیا جائے) ۔

35428

(۳۵۴۲۹) حَدَّثَنَا مُعَاوِیَۃُ بْنُ ہِشَامٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا ابْنُ أَبِی ذِئْبٍ ، عَنْ سَعِیدِ الْمَقْبُرِیِّ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ سَلاَمٍ ، قَالَ : قَالَ مُوسَی لِرَبِّہِ : یَا رَبِ ، مَا الشُّکْرُ الَّذِی یَنْبَغِی لَک ، قَالَ : لاَ یَزَالُ لِسَانُک رَطْبًا مِنْ ذِکْرِی ، قَالَ : یَا رَبِ ، إنِّی أَکُونُ عَلَی حَالٍ أُجِلُّک أَنْ أَذْکُرَک مِنَ الْجَنَابَۃِ وَالْغَائِطِ وَإِرَاقَۃِ الْمَائِ وَعَلَی غَیْرِ وُضُوئٍ ، قَالَ : بَلَی ، قَالَ : کَیْفُ أَقُولُ ، قَالَ : قُلْ سُبْحَانَک وَبِحَمْدِکَ لاَ إلَہَ إِلاَّ أَنْتَ فَاجْنُبْنِی الأَذَی سُبْحَانَک وَبِحَمْدِکَ لاَ إلَہَ إِلاَّ أَنْتَ فَقِنِی الأَذَی۔
(٣٥٤٢٩) حضرت عبداللہ بن سلام (رض) فرماتے ہیں : حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ جل شانہ سے عرض کیا : اے میرے پروردگار ! وہ کون سا شکر (ادا کرنے کا طریقہ) ہے جو (قدرے) آپ کے شایانِ شان ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا : (وہ طریقہ یہ ہے کہ) آپ کی زبان ہمیشہ میرے ذکر سے تر رہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے عرض کیا : اے میرے رب میں کبھی ایسی حالت میں ہوتا ہوں جس میں آپ کا ذکر کرنا آپ کے شایانِ شان نہیں سمجھتا، جیسے حالت جنابت، قضاء حاجت، غسل کا وقت اور بےوضو ہونے کی حالت میں (تو کیا ایسے حالتوں میں بھی میں آپ کا ذکر کیا کروں) ۔ اللہ تبارک تعالیٰ نے فرمایا : کیوں نہیں 1 (ایسی حالت میں بھی دل ہی دل میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کیا جاسکتا ہے) ۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے عرض کیا : (ایسے مواقع میں دل ہی دل میں حمد وثنا کے کلمات میں سے) کیسے (کلمات) کہا کروں ؟ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے فرمایا : (یوں) کہو : پاک ہیں آپ (اے اللہ تعالیٰ ) اور تعریف آپ (ہی) کے لیے ہے۔ آپ کے سوا کوئی معبودحقیقی نہیں ہے تو آپ ہی مجھے گندگی سے دور رکھئے۔ پاک ہیں آپ (اے اللہ تعالیٰ ) اور تعریف آپ (ہی) کے لیے ہے۔ آپ کے سوا کوئی معبود حقیقی نہیں ہے تو آپ ہی مجھے گندگی سے بچائیے۔

35429

(۳۵۴۳۰) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا مِسْعَرٌ ، عَنْ خَلَفِ بْنِ حَوْشَبٍ ، قَالَ : دَخَلَ جَبْرَائِیلُ عَلَیْہِ السَّلاَمُ ، أَوَ قَالَ : الْمَلَکُ عَلَی یُوسُفَ عَلَیْہِ السَّلاَمُ وَہُوَ فِی السِّجْنِ ، فَقَالَ : أَیُّہَا الْمَلَکُ الطَّیِّبُ الرِّیحِ ، الطَّاہِرُ الثِّیَابِ ، أَخْبِرْنِی عَنْ یَعْقُوبَ ، أَوْ مَا فَعَلَ یَعْقُوبُ ؟ قَالَ: ذَہَبَ بَصَرُہُ ، قَالَ: مَا بَلَغَ مِنْ حُزْنِہِ ؟ قَالَ: حُزْنُ سَبْعِینَ ثَکْلَی ، قَالَ : مَا أَجْرُہُ ؟ قَالَ : أَجْرُ مِئَۃِ شَہِیدٍ۔
(٣٥٤٣٠) حضرت خلف بن حوشب کہتے ہیں : جبرائیل -u یا وہ کہتے ہیں : کوئی فرشتہ۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) کے پاس قید خانہ میں حاضر ہوئے تو حضرت یوسف (علیہ السلام) نے فرمایا : اے خوش مہک و پاکیزہ فرشتے ! مجھے یعقوب (علیہ السلام) کے بارے میں بتلائیے۔ یا انھوں نے فرمایا : یعقوب (علیہ السلام) کا کیا عمل تھا ؟ فرشتے نے جواب دیا : ان کی بینائی چلی گئی تھی۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے پھر دریافت فرمایا : انھیں کس قدر غم ہوا تھا ؟ فرشتے نے جواب دیا : ستر ایسی ماؤں کے غم کے بقدر جن کے بچے گم ہوگئے ہوں۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے پھر دریافت فرمایا : ان کے لیے (اس پر) کیا اجر ہے ؟ فرشتے نے جواب دیا : (ان کے لیے اس پر) سو شہیدوں کے برابر اجر ہے۔

35430

(۳۵۴۳۱) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، قَالَ : أَخْبَرَنِی الأَحْوَصُ بْنُ حَکِیمٍ ، عَنْ زُہَیْرِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ یَزِیدَ بْنِ مَیْسَرَۃَ وَکَانَ قَدْ قَرَأَ الْکُتُبَ ، قَالَ : إنَّ اللَّہَ أَوْحَی فِیمَا أَوْحَی إِلَی مُوسَی عَلَیْہِ السَّلاَمُ ، إِنَّ أَحَبَّ عِبَادِی إلَیَّ الَّذِینَ یَمْشُونَ فِی الأَرْضِ بِالنَّصِیحَۃِ ، وَالَّذِینَ یَمْشُونَ عَلَی أَقْدَامِہِمْ إِلَی الْجُمُعَاتِ ، وَالْمُسْتَغْفِرینَ بِالأَسْحَارِ ، أُولَئِکَ الَّذِینَ إذَا أَرَدْت أَنْ أُصِیبَ أَہْلَ الأَرْضِ بِعَذَابٍ ، ثُمَّ رَأَیْتُہُمْ کَفَفْت عَذَابِی ، وَإِنَّ أَبْغَضَ عِبَادِی إلَیَّ الَّذِی یَقْتَدِی بِسَیِّئَۃِ الْمُؤْمِنِ ، وَلاَ یَقْتَدِی بِحَسَنَتِہِ۔
(٣٥٤٣١) حضرت یزید بن میسرہ (جو کہ کتاب اللہ کا علم رکھتے تھے) فرماتے ہیں : اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر جو وحی فرمایا اس میں یہ بھی تھا : بیشک میرے بندوں میں سے وہ لوگ مجھے زیادہ پسندیدہ ہیں جو دنیا میں خیر خواہی کرنے والے ہیں، اور وہ لوگ جو جمعہ کی نمازوں کے لیے چل کر جاتے ہیں، اور سحر کے وقت میں مغفرت طلب کرنے والے۔ جب میرا ارادہ ہوتا ہے کہ میں اہل زمین کو عذاب دوں تو میں ان لوگوں کی وجہ سے ان پر سے عذاب کو ٹال دیتا ہوں۔ اور لوگوں میں سب سے زیادہ وہ لوگ مجھے ناپسند ہیں جو مومن کی برائی کی تلاش میں رہتے ہیں اور اس کی نیکی کو نہیں دیکھتے۔

35431

(۳۵۴۳۲) حدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ عِیسَی ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، قَالَ : کَانَ لُقْمَانُ عَلَیْہِ السَّلاَمُ عَبْدًا أَسْوَدَ ، عَظِیمَ الشَّفَتَیْنِ ، مُشَقَّقَ الْقَدَمَیْنِ۔
(٣٥٤٣٢) حضرت مجاھد فرماتے ہیں : حضرت لقمان (علیہ السلام) سیاہ رنگت والے غلام تھے ، ان کے ہونٹ موٹے تھے اور پاؤں میں پھٹن (رہا کرتی) تھی۔

35432

(۳۵۴۳۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ شَرِیکٍ ، عَنِ ابْنِ أَبِی مُلَیْکَۃَ ، عَنْ عُبَیْدِ بْنِ عُمَیْرٍ ، قَالَ : قَالَ لُقْمَانُ لاِبْنِہِ : یَا بُنَی ، لاَ یُعْجِبُک رَجُلٌ رَحْبُ الذِّرَاعَیْنِ بِالدَّمِ ، فَإِنَّ لَہُ عِنْدَ اللہِ قَاتِلاً لاَ یَمُوتُ۔
(٣٥٤٣٣) حضرت عبید بن عمیر کہتے ہیں : حضرت لقمان (رض) نے اپنے بیٹے سے فرمایا : اے میرے بیٹے ! کوئی خون سے بھرا ہوا طاقتور آدمی تمہیں تعجب میں مبتلا نہ کرے ، کیونکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے لیے ایک ایسا قاتل متعین ہے جو کبھی نہیں مرتا۔

35433

(۳۵۴۳۴) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ أَبِی الأَشْہَبِ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ وَاسِعٍ ، أَنَّ لُقْمَانَ کَانَ یَقُولُ لاِبْنِہِ : یَا بُنَیَّ اتَّقِ اللَّہَ ، لاَ تَری النَّاسَ أَنَّک تَخْشَی وَقَلْبُک فَاجِرٌ۔
(٣٥٤٣٤) حضرت محمد بن واسع فرماتے ہیں : حضرت لقمان (رض) اپنے بیٹے سے فرمایا کرتے تھے : اے میرے بیٹے تو اللہ تعالیٰ سے ڈر (تاکہ) لوگ تجھے اس حالت میں نہ دیکھیں کہ تو (بظاہرتو اللہ تعالیٰ سے) ڈرتا ہو اور تیرا دل گناہوں سے بھرا ہوا ہو۔

35434

(۳۵۴۳۵) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ أَبِی الأَشْہَبِ ، قَالَ : حدَّثَنِی خَالِدُ بْنُ ثَابِتٍ الرَّبَعِیُّ ، قَالَ جَعْفَرٌ : وَکَانَ یَقْرَأُ الْکُتُبَ ، إِنَّ لُقْمَانَ کَانَ عَبْدًا حَبَشِیًّا نَجَّارًا ، وَإِنَّ سَیِّدَہُ ، قَالَ لَہُ : اذْبَحْ لِی شَاۃً ، قَالَ : فَذَبَحَ لَہُ شَاۃً ، فَقَالَ: ائْتِنِی بِأَطْیَبِہَا مُضْغَتَیْنِ ، فَأَتَاہُ بِاللِّسَانِ وَالْقَلْبِ ، قَالَ : فَقَالَ : مَا کَانَ فِیہَا شَیْئٌ أَطْیَبَ مِنْ ہَذَیْنِ ؟ قَالَ : لاَ، فَسَکَتَ عَنْہُ مَا سَکَتَ ، ثُمَّ قَالَ : اذْبَحْ لِی شَاۃً ، فَذَبَحَ لَہُ شَاۃً ، قَالَ : أَلْقِ أَخْبَثَہَا مُضْغَتَیْنِ ، فَأَلْقَی اللِّسَانَ وَالْقَلْبَ ، فَقَالَ لَہُ : قُلْتُ لَک ائْتِنِی بِأَطْیَبِہَا ، فَأَتَیْتنِی بِاللِّسَانِ وَالْقَلْبِ ، ثُمَّ قُلْتُ لَک : أَلْقِ أَخْبَثَہَا مُضْغَتَیْنِ ، فَأَلْقَیْت اللِّسَانَ وَالْقَلْبَ ، فقَالَ : لَیْسَ شَیْئٌ أَطْیَبَ مِنْہُمَا إذَا طَابَا ، وَلاَ أَخْبَثَ مِنْہُمَا إذَا خَبُثَا۔
(٣٥٤٣٥) حضرت جعفر جو کہ کتابوں کا مطالعہ کرنے والے تھے فرماتے ہیں : بیشک لقمان (رض) حبشہ کے رہنے والے بڑھئی غلام تھے : (ایک مرتبہ) ان کے آقا نے ان سے کہا : میرے لیے بکری ذبح کرو۔ جعفر کہتے ہیں : انھوں نے ان کے لیے بکری ذبح کردی۔ ان کے آقا نے کہا : اس کے دو بہترین اعضاء میرے لیے لے آؤ۔ تو وہ اس کے پاس دل اور زبان لے آئے۔ جعفر کہتے ہیں : ان کے آقا نے کہا : کیا اس کے اندر اس سے بہتر کوئی چیز نہ تھی ؟ حضرت لقمان (رض) نے فرمایا : نہیں۔ تو ان کا آقا خاموش ہوگیا اور کچھ عرصہ ایسے ہی گزر گیا۔
پھر (ایک دن) ان کے آقا نے کہا : میرے لیے بکری ذبح کرو۔ تو انھوں نے بکری ذبح کردی۔ ان کے آقا نے کہا : اس کے دو بد ترین اعضاء نکال دو ۔ تو انھوں نے اس کا دل اور زبان نکال دی۔ ان کے آقا نے کہا : میں نے تم سے کہا دو بہترین اعضاء لے آؤ تو تم دل اور زبان لے آئے پھر میں نے تم سے کہا کہ اس کے دو بدترین اعضاء لے آؤ تو تم پھر دل اور زبان لے آئے (اس کی کیا وجہ ہے ؟ ) ۔ حضرت لقمان (رض) نے فرمایا : جب دل اور زبان پاکیزہ ہوں تو ان سے بہتر کوئی چیز (جسم میں) نہیں ہے۔ اور جب دل اور زبان برے ہوں تو ان سے بدتر کوئی چیز (جسم) میں نہیں ہے۔

35435

(۳۵۴۳۶) حَدَّثَنَا شَبَابَۃُ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ سَیَّارٍ ، قَالَ : قیلَ لِلُقْمَانَ : مَا حِکْمَتُک ؟ قَالَ : لاَ أَسْأَلُ عَمَّا کُفِیت ، وَلاَ أَتَکَلَّفُ مَا لاَ یَعْنینِی۔
(٣٥٤٣٦) حضرت سیارکہتے ہیں : حضرت لقمان (رض) سے عرض کیا گیا : آپ کی حکمت (و دانائی کا حاصل) کیا ہے ؟ انھوں نے فرمایا : میں اس چیز کا سوال نہیں کرتا جس کی مجھے حاجت نہ ہو۔ اور ایسا کام نہیں کرتا جس کا کوئی فائدہ نہ ہو۔

35436

(۳۵۴۳۷) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا إسْمَاعِیلُ الْمَکِّیُّ وَمُبَارَکٌ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : قَالَ لُقْمَانُ لاِبْنِہِ : یَا بُنَیَّ حَمَلْت الْجَنْدَلَ وَالْحَدِیدَ فَلَمْ أَرَ شَیْئًا أَثْقَلَ مِنْ جَارِ سُوئٍ ، وَذُقْت الْمِرَارَ کُلَّہُ فَلَمْ أَرَ شَیْئًا أَمَرَّ مِنَ التَجَبُرِ۔
(٣٥٤٣٧) حضرت حسن کہتے ہیں : حضرت لقمان (رض) نے اپنے بیٹے سے فرمایا : اے میرے بیٹے ! میں نے پتھر اور لوہا اٹھایا ہے ، مگر برے پڑوسی سے زیادہ وزنی (یعنی تکلیف دہ) چیز کوئی نہیں دیکھی۔ اور میں نے ہر کڑوی چیز کا ذائقہ دیکھا ہے ، مگر تکبر سے زیادہ کڑوی چیز کوئی نہیں دیکھی۔

35437

(۳۵۴۳۸) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ وَرْدَانَ ، قَالَ : حَدَّثَنَا یُونُسُ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : سَأَلَ مُوسَی جِمَاعًا مِنَ الْعَمَلِ فَقِیلَ لَہُ : انْظُرْ مَا تُرِیدُ أن یُصَاحِبک بِہِ النَّاسُ فَصَاحِب النَّاسَ بِہِ۔
(٣٥٤٣٨) حضرت حسن کہتے ہیں : حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ایسی بات کے بارے میں سوال کیا جو تمام اعمال کی جامع ہو (کہ اس کے مفہوم میں تمام بھلائیاں شامل ہوجائیں) ۔ تو انھیں جواب ملا : غور کیجئے کہ آپ اپنے ساتھ لوگوں کا کیسا معاملہ پسند فرماتے ہیں ، پھر لوگوں کے ساتھ بھی ویساہی معاملہ کیجئے۔

35438

(۳۵۴۳۹) حَدَّثَنَا مُعَاوِیَۃُ بْنُ ہِشَامٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ بْنُ أَسْلَمَ الْمُنْقِرِیُّ ، عَنْ حَبِیبِ بْنِ أَبِی ثَابِتٍ ، قَالَ : کَانَ حَاجِبَا یَعْقُوبَ قَدْ وَقَعَا عَلَی عَیْنَیْہِ ، فَکَانَ یَرْفَعُہُمَا بِخِرْقَۃٍ ، فَقِیلَ لَہُ : مَا بَلَغَ بِکَ ہَذَا ، قَالَ : طُولُ الزَّمَانِ وَکَثْرَۃُ الأَحْزَانِ ، فَأَوْحَی اللَّہُ إلَیْہِ : یَا یَعْقُوبُ شَکَوْتَنِی ، قَالَ : یَا رَبِّ خَطِیئَۃٌ أَخْطَأْتُہَا فَاغْفِرْہَا۔
(٣٥٤٣٩) حضرت حبیب بن ابی ثابت کہتے ہیں : حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے ابرو آپ کی آنکھوں پر جھک گئے تھے۔ آپ کپڑے کی ایک دھجی سے انھیں اٹھایا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ ان سے عرض کیا گیا : آپ کی یہ حالت کیسے ہوئی ؟ انھوں نے فرمایا : لمبی عمر اور غموں کی کثرت (کی وجہ سے) ۔ اس پر اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان کی طرف وحی فرمائی : اے یعقوب (علیہ السلام) آپ نے میری شکایت کی ہے۔ حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے عرض کیا : اے میرے پروردگار ! یہ بہت بڑی خطا ہے جو مجھ سے سرزد ہوگئی۔ بس آپ میری مغفرت فرما دیجئے۔

35439

(۳۵۴۴۰) حَدَّثَنَا سَعِیدُ بْنُ شُرَحْبِیلَ ، عَنْ لَیْثِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ عَقِیلٍ ، عَنِ ابْنِ شِہَابٍ ، قَالَ : جَلَسْت یَوْمًا إِلَی أَبِی إدْرِیسَ الْخَوْلاَنِیِّ وَہُوَ یَقُصُّ ، فَقَالَ : أَلاَ أُخْبِرُکُمْ مَنْ کَانَ أَطْیَبَ النَّاسِ طَعَامًا ؟ فَلَمَّا رَأَی النَّاسَ قَدْ نَظَرُوا إلَیْہِ ، قَالَ : إنَّ یَحْیَی بْنَ زَکَرِیَّا کَانَ أَطْیَبَ النَّاسِ طَعَامًا ، إنَّمَا کَانَ یَأْکُلُ مَعَ الْوَحْشِ کَرَاہَۃَ أَنْ یُخَالِطَ النَّاسَ فِی مَعَایِشِہِمْ۔
(٣٥٤٤٠) حضرت ابن شھاب کہتے ہیں : ایک دن میں ابو ادریس خولانی کے پاس بیٹھا تھا اور وہ گفتگو کر رہے تھے۔ چنانچہ فرمانے لگے : کیا میں تمہیں یہ نہ بتاؤں کہ لوگوں میں سے سب سے زیادہ عمدہ غذا استعمال کرنے والی ہستی کون سی تھی ؟ اس پر انھوں نے لوگوں کو اپنی جانب متوجہ پایا تو فرمایا : یحییٰ بن زکریا (علیہ السلام) سب سے بہتر غذا استعمال فرماتے تھے، ان کا طرز عمل یہ تھا کہ وہ جانوروں کی معیت میں کھاپی لیا کرتے تھے، کیونکہ وہ یہ بات ناپسند فرماتے تھے لوگوں کی (ناجائز) کمائیوں میں شریک ہوں۔

35440

(۳۵۴۴۱) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا أَبُو عَوَانَۃَ ، قَالَ : حَدَّثَنَا حَبِیبُ بْنُ أَبِی عَمْرَۃَ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : لَقَدْ قَالَ مُوسَی عَلَیْہِ السَّلاَمُ : (رَبِّ إنِّی لِمَا أَنْزَلْتَ إلَیَّ مِنْ خَیْرٍ فَقِیرٌ) وَہُوَ أَکْرَمُ خَلْقِہِ عَلَیْہِ ، وَلَقَدْ کَانَ افْتَقَرَ إِلَی شِقِّ تَمْرَۃٍ ، وَلَقَدْ أَصَابَہُ الْجُوعُ حَتَّی لَزِقَ بَطْنُہُ بِظَہْرِہِ۔
(٣٥٤٤١) حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں : تحقیق حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا : ” اے میرے رب بیشک میں اس اچھی چیز کا محتاج ہوں جو آپ میری طرف اتاریں “ حالانکہ آپ اللہ تعالیٰ کے نزدیک ان کی مخلوق میں سے سب سے زیادہ معزز تھے۔ اور یقینی بات ہے کہ آپ کے پاس کھجورکا ایک چھوٹا سا ٹکڑا بھی نہ تھا۔ اور بھوک کی وجہ سے آپ (علیہ السلام) کی یہ حالت ہوگئی تھی کہ آپ کا پیٹ کمر سے جا لگا تھا۔

35441

(۳۵۴۴۲) حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ مُسْلِمٍ ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ أَوْسٍ ، قَالَ : کَانَ نَبِیٌّ مِنَ الأَنْبِیَائِ یَدْعُو : اللَّہُمَّ احْفَظْنِی بِمَا تَحْفَظُ بِہِ الصَّبِیَّ۔ (ابن المبارک ۱۵۱۵)
(٣٥٤٤٢) حضرت عبداللہ بن اوس فرماتے ہیں : اللہ تعالیٰ کے ایک نبی یوں دعا فرمایا کرتے تھے : اے اللہ پاک آپ میری یوں حفاظت فرمائیے جیسے آپ بچے کی حفاظت فرماتے ہیں۔

35442

(۳۵۴۴۳) حدَّثَنَا مُعَاوِیَۃُ بْنُ ہِشَامٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْیَانُ، عَنْ بَعْضِ الْمَدَنِیِّینَ، عَنْ عَطَائِ بْنِ یَسَارٍ، قَالَ: تَعَرَّضَتِ الدُّنْیَا لِلنَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: إنِّی لَسْت أُرِیدُکِ، قَالَتْ: إنْ لَمْ تُرِدْنِی فَسَیُرِیدُنِی غَیْرُک۔
(٣٥٤٤٣) حضرت عطاء بن یسار کہتے ہیں : نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں دنیا (کی غیرضروری مادی نعمتیں) پیش ہوئیں تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : یقیناً مجھے تمہاری کوئی خواہش نہیں ہے۔ تو اس نے کہا : اگر آپ کو میری خواہش نہیں ہے تو عنقریب آپ کے سوا دیگر لوگ میری خواہش کریں گے۔

35443

(۳۵۴۴۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ الْمَسْعُودِیِّ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، عَن عَلْقَمَۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إنَّمَا مَثَلِی وَمَثَلُ الدُّنْیَا کَمَثَلِ رَاکِبِ ، قَالَ فِی ظِلِّ شَجَرَۃٍ فِی یَوْمٍ صَائِفٍ ، ثُمَّ رَاحَ وَتَرَکَہَا۔ (احمد ۴۴۱۔ ابویعلی ۵۲۰۷)
(٣٥٤٤٤) حضرت عبداللہ کہتے ہیں : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میری اور دنیا کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی سوار سخت گرم دن میں کسی درخت کے نیچے رکے، پھر اسے چھوڑ کر (اپنی اصل منزل کی جانب) چل دے۔

35444

(۳۵۴۴۵) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : أَخَذَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِیَدِی ، أَوْ بِبَعْضِ جَسَدِی ، فَقَالَ لِی : یَا عَبْدَ اللہِ بْنَ عُمَرَ ، کُنْ غَرِیبًا ، أَوْ عَابِرَ سَبِیلٍ ، وَعُدَّ نَفْسَک فِی أَہْلِ الْقُبُورِ ، قَالَ مُجَاہِدٌ : وَقَالَ لِی عَبْدُ اللہِ بْنُ عُمَرَ : إذَا أَصْبَحْت فَلاَ تُحَدِّثْ نَفْسَک بِالْمَسَائِ ، وَإِذَا أَمْسَیْت فَلاَ تُحَدِّثْ نَفْسَک بِالصَّبَاحِ ، وَخُذْ مِنْ حَیَاتِکَ قَبْلَ مَوْتِکَ ، وَمِنْ صِحَّتِکَ قَبْلَ سَقَمِکَ ، فَإِنَّک لاَ تَدْرِی مَا اسْمُک غَدًا۔ (احمد ۴۱۔ ابن المبارک ۱۳)
(٣٥٤٤٥) حضرت مجاھد سے مروی ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں : حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے میرا ہاتھ۔ یا مجھے۔ پکڑا اور مجھ سے فرمایا : اے عبداللہ بن عمر کسی پردیسی یا راہ رو کی مانند زندگی گزار، اور خود کو اہل قبور میں شمار کر۔
حضرت مجاہد فرماتے ہیں : (یہ روایت بیان کرنے کے بعد) حضرت عبداللہ بن عمر (رض) نے فرمایا : جب صبح ہوجائے تو تم آئندہ شام کے بارے میں مت سوچو اور جب شام ہوجائے تو تم آئندہ صبح کے بارے میں مت سوچو۔ اور اپنی موت (کے آنے) سے پہلے اپنی زندگی سے فائدہ اٹھا لو، اور اپنی بیماری (کے آنے) سے پہلے اپنی صحت سے نفع اٹھا لو، کیونکہ یقیناً تم نہیں جانتے کہ کل تمہارا کیا نام ہوگا (زندہ یا مردہ) ۔

35445

(۳۵۴۴۶) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِی السَّفَرِ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرُو ، قَالَ : مَرَّ عَلَیَّ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ نُصْلِحُ خُصًّا لَنَا ، فَقَالَ : مَا ہَذَا ؟ قُلْتُ : خُصٌّ لَنَا وَہی نُصْلِحُہُ ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَا أَرَی الأَمْرَ إِلاَّ أَعْجَلَ مِنْ ذَلِکَ۔ (ابوداؤد ۵۱۹۴۔ ترمذی ۲۳۳۵)
(٣٥٤٤٦) حضرت عبداللہ بن عمرو کہتے ہیں : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ہمارے پاس سے گزر ہوا تو ہم اپنے جھونپڑے کو درست کر رہے تھے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دریافت فرمایا : یہ کیا ہے ؟ میں نے عرض کیا : ہمارا جھونپڑا ہے جسے ہم ٹھیک کر رہے ہیں۔ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : امر (قیامت یا موت) تو اس (کے صحیح ہونے) سے بھی پہلے آجانے والا ہے (لہذا اس کی تیاری کے لیے اپنے اعمال کی اصلاح اور درستی کی بھی فکر کرنی چاہیے) ۔

35446

(۳۵۴۴۷) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ بْنِ أَبِی خَالِدٍ ، عَنْ قَیْسٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ مُسْتَوْرِدًا أَخَا بَنِی فِہْرٍ یَقُولُ : سَمِعْت رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : وَاللہِ مَا الدُّنْیَا فِی الآخِرَۃِ إِلاَّ کَمَا یَضَعُ أَحَدُکُمْ إصْبَعَہُ فِی الْیَمِّ ، ثُمَّ یَرْفَعُہَا فَلْیَنْظُرْ بِمَ یَرْجِعُ۔ (مسلم ۲۱۹۳۔ ترمذی ۲۳۲۳)
(٣٥٤٤٧) حضرت مستورد جو کہ بنی فہر سے تعلق رکھتے ہیں کہتے ہیں : میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے ہوئے سنا : اللہ تعالیٰ کی قسم آخرت (کے مقابلے) میں (دنیا کی مثال) ایسی ہے جیسے تم میں سے کوئی اپنی انگلی کو دریا میں ڈبو کر نکال لے ، پھر دیکھے کہ (اس دریا کے پانی میں سے اس کی انگلی کے ساتھ لگ کر) کتنا نکلا ہے (بس جو حیثیت دریا کے پانی کے مقابلے میں انگلی پر لگے ہوئے پانی کی ہے وہی حیثیت آخرت کے مقابلے میں دنیا کی ہے) ۔

35447

(۳۵۴۴۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ ، عَنْ قَیْسٍ ، عَنِ الْمُسْتَوْرِدِ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مِثْلُہُ إِلاَّ أَنَّہُ لَمْ یَقُلْ ، ثُمَّ یَرْفَعُہَا۔ (احمد ۲۲۸)
(٣٥٤٤٨) حضرت مستور د سے ایک اور روایت بھی اسی طرح کی منقول ہے لیکن اس میں ” نکال لے “ کے الفاظ نہیں ہیں۔

35448

(۳۵۴۴۹) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ عَائِشَۃَ ، قَالَتْ : کَانَ وُسَاد رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الَّذِی یَتَّکِئُ عَلَیْہِ مِنْ أَدَمٍ حَشْوُہُ لِیفٌ۔ (مسلم ۱۶۵۰۔ ابوداؤد ۴۱۴۳)
(٣٥٤٤٩) حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں : جس تکیہ پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ٹیک لگایا کرتے تھے وہ چمڑے کا تھا جس میں کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی۔

35449

(۳۵۴۵۰) حَدَّثَنَا سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ عَمْرِو عن یَحْیَی بْنِ جَعْدَۃَ ، قَالَ : عَادَ نَاسٌ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خَبَّابًا ، فَقَالُوا : أَبْشِرْ أَبَا عَبْدِ اللہِ تَرِدُ عَلَی مُحَمَّدٍ علیہ الصلاۃ والسلام الْحَوْضَ ، فَقَالَ : کَیْفَ بِہَذَا وَہَذِا أَسْفَلُ الْبَیْتِ وَأَعْلاَہُ ، وَقَدْ قَالَ لَنَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إنَّمَا یَکْفِی أَحَدَکُمْ مِنَ الدُّنْیَا کَقَدْرِ زَادِ الرَّاکِبِ۔ (طبرانی ۳۶۹۵۔ ابو نعیم ۳۶۰)
(٣٥٤٥٠) حضرت یحییٰ بن جعدہ کہتے ہیں : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چند صحابہ کرام حضرت خباب (رض) کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے تو ان سے کہا : اے ابو عبداللہ خوشخبری لیجئے کہ آپ (روز قیامت) حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس حوض کوثر پر تشریف لے جائیں گے۔ (یہ سن کر) حضرت خباب (رض) نے فرمایا : یہ کیسے ہوسکتا ہے ، جب کہ میرے گھر کی یہ شان و شوکت ہے، حالانکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں (آگاہ کرتے ہوئے) فرمایا تھا : تمہارے لیے دنیا میں سے اتنا حصہ کافی ہے جتنا ایک مسافر کا توشہ ہوتا ہے۔

35450

(۳۵۴۵۱) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ شَقِیقٍ ، قَالَ : دَخَلَ مُعَاوِیَۃُ عَلَی خَالِہِ أَبِی ہَاشِمِ بْنِ عُتْبَۃَ یَعُودُہُ فَبَکَی ، فَقَالَ لَہُ مُعَاوِیَۃُ : مَا یُبْکِیک یَا خَالِی ، أَوَجَعٌ یُشْئِزُکَ أَمْ حِرْصٌ عَلَی الدُّنْیَا ، فَقَالَ : فکُلٌّ لاَ ، وَلَکِنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَہِدَ إلَیْنَا ، قَالَ : یَا أَبَا ہَاشِمٍ ، إِنَّہَا لَعَلَّہَا تُدْرِکُکُمْ أَمْوَالٌ یُؤْتَاہَا أَقْوَامٌ ، فَإِنَّمَا یَکْفِیک مِنْ جَمْعِ الْمَالِ خَادِمٌ وَمَرْکَبٌ فِی سَبِیلِ اللہِ فَأُرَانِی قَدْ جَمَعْت۔ (ترمذی ۲۳۲۷۔ احمد ۴۴۳)
(٣٥٤٥١) حضرت شقیق کہتے ہیں : حضرت معاویہ (رض) اپنے ماموں ابو ہاشم بن عتبہ کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے تو ان کے ماموں رونے لگے۔ حضرت معاویہ (رض) نے دریافت فرمایا : اے میرے ماموں آپ کیوں رو رہے ہیں، کیا (مرض کی) تکلیف نے آپ کو رنجیدہ کر رکھا ہے یا دنیا سے (طبعی) لگاؤ نے۔ انھوں نے جواب دیا : ایسی کوئی بات نہیں ہے ، بلکہ (مجھے تو اس بات نے رنجیدہ کر رکھا ہے کہ) نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں وصیت کرتے ہوئے فرمایا تھا : اے ابو ہاشم ! تمہیں بھی یقیناً وہ مال و دولت میسر آئے گا جو دیگر (فاتح) اقوام کو میسر آتا ہے ، مگر تمہارے لیے تو صرف ایک خادم اور راہ خدا میں (جہاد کے لئے) ایک سواری ہی کافی ہوگی۔ لیکن میں دیکھتا ہوں کہ میں (اس سے کہیں زیادہ) مال جمع کرچکا ہوں۔

35451

(۳۵۴۵۲) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ الْجُعْفِیُّ ، عَنْ زَائِدَۃَ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ أَبِی وَائِلٍ عَنْ سَمُرَۃََ بْنِ سَہْمٍ ، قَالَ : دَخَلَ مُعَاوِیَۃُ عَلَی خَالِہِ فَذَکَرَ مِثْلَ حَدِیثِ أَبِی مُعَاوِیَۃَ ، قَالَ : وَزَادَ فِیہِ سُفْیَانُ الثَّوْرِیُّ بِإِسْنَادِہِ : یَا لَیْتَہُ کَانَ بَعْرًا حَوْلَنَا۔ (ابن ماجہ ۴۱۰۳۔ احمد ۲۹۰)
(٣٥٤٥٢) حضرت سمرہ بن سہم کہتے ہیں : حضرت معاویہ (رض) اپنے ماموں کے ہاں تشریف لے گئے، اس کے بعد راوی نے گزشتہ واقعہ نقل فرمایا اور کہا کہ سفیان ثوری (رض) نے اس روایت میں (حضرت معاویہ (رض) کے ماموں کا یہ قول بھی نقل فرمایا ہے : اے کاش ہمارے چاروں طرف کامل دائمی فقر ہوتا۔

35452

(۳۵۴۵۳) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِی سُفْیَانَ ، عَنْ أَشْیَاخِہِ ، قَالَ : دَخَلَ سَعْدُ بْنُ أَبِی وَقَّاصٍ عَلَی سَلْمَانَ یَعُودُہُ فَبَکَی ، قَالَ : فَقَالَ لَہُ سَعْدٌ : مَا یُبْکِیک أَبَا عَبْدِ اللہِ تُوُفِّیَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَہُوَ عَنْک رَاضٍ ، وَتَلْقَاہُ وَتَرِدُ عَلَیْہِ الْحَوْضَ ، فَقَالَ سَلْمَانُ : أَمَّا إنِّی لاَ أَبْکِی جَزَعًا مِنَ الْمَوْتِ ، وَلاَ حِرْصًا عَلَی الدُّنْیَا ، وَلَکِنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَہِدَ إلَیْنَا ، فَقَالَ : لِیَکُنْ بُلْغَۃُ أَحَدِکُمْ مِثْلَ زَادِ الرَّاکِبِ ، قَالَ : وَحَوْلِی ہَذِہِ الأَسَاوِدَ ، قَالَ : وَإِنَّمَا حَوْلَہُ وِسَادَۃٌ وَجَفْنَۃٌ وَمَطْہَرَۃٌ ، فَقَالَ سَعْدٌ : یَا أَبَا عَبْدِ اللہِ ، اعْہَدْ إلَیْنَا عَہْدًا نَأْخُذُ بِہِ مِنْ بَعْدِکَ ، فَقَالَ : یَا سَعْد ، اذْکُرَ اللَّہَ عِنْدَ ہَمِّکَ إذَا ہَمَمْت ، وَعِنْدَ حُکْمِکَ إذَا حَکَمْت ، وَعِنْدَ یَدِکَ إذَا أَقْسَمْتَ۔ (ابن سعد ۹۰)
(٣٥٤٥٣) حضرت ابو سفیان اپنے مشایخ سے نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں : حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) حضرت سلمان (رض) کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے وہ رونے لگے۔ راوی کہتے ہیں : تو حضرت سعد (رض) نے ان سے دریافت فرمایا : آپ کو کس بات نے رلا دیا ؟ حالانکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس حال میں رحلت فرمائی کہ وہ آپ سے راضی تھے، آپ (روز قیامت) ان سے ملاقات کا شرف بھی حاصل کریں گے اور حوض کوثر پر بھی ان کے پاس تشریف لے جائیں گے۔ حضرت سلمان (رض) نے جواب میں فرمایا : میں موت سے وحشت یا دنیا سے لگاؤ کی وجہ سے نہیں رو رہا بلکہ (مجھے تو یہ بات غم گین کئے ہوئے ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں (یہ) وصیت فرمائی تھی : تمہارے گزر بسر کا انحصار صرف اتنی مقدار پر ہونا چاہیے جتنا ایک سوار (مسافر) کا توشہ ہوتا ہے۔ جب کہ میرے اردگرد یہ تکئے رکھے ہوئے ہیں (جو کہ مسافر کے توشہ سے زائد چیز ہے) ۔ راوی کہتے ہیں : حالانکہ ان کے پاس صرف ایک تکیہ ، ایک بڑا پیالہ اور ایک لوٹا رکھا تھا۔ پھر سعد (رض) نے فرمایا : اے ابو عبداللہ ! آپ بھی ہمیں کوئی وصیت فرمائیں جسے ہم آپ کے بعد اپنائے رکھیں ؟ تو انھوں نے فرمایا : اے سعد ! (تین موقعوں پر) اللہ تعالیٰ کو (خصوصیت سے) یاد رکھو، (اول) اس وقت جب تمہیں کوئی غم لاحق ہو، (دوسرا) اس وقت جب تم کوئی فیصلہ کرنے لگو، اور (تیسر ١) اس وقت جب تم (شرکاء کے درمیان کوئی ایسی) تقسیم کرنے لگو (جس میں شرعا برابری لازم ہو) ۔

35453

(۳۵۴۵۴) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا مُعَاوِیَۃُ النَّضْرِیُّ ، عَنْ نَہْشَلٍ ، عَنِ الضَّحَّاکِ بْنِ مُزَاحِمٍ ، عَنِ الأَسْوَدِ ، قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللہِ : لَوْ أَنَّ أَہْلَ الْعِلْمِ صَانُوا عِلْمَہُمْ وَوَضَعُوہُ عِنْدَ أَہْلِہِ لَسَادُوا بِہِ أَہْلَ زَمَانِہِمْ ، وَلَکِنَّہُمْ بَذَلُوہُ لأَہْلِ الدُّنْیَا لِیَنَالُوا بِہِ مِنْ دُنْیَاہُمْ فَہَانُوا عَلَی أَہْلِہَا ، سَمِعْت نَبِیَّکُمْ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : مَنْ جَعَلَ الْہُمُومَ ہَمًّا وَاحِدًا کَفَاہُ اللَّہُ ہَمَّ آخِرَتِہِ ، وَمَنْ تَشَعَّبَتْ بِہِ الْہُمُومُ وَأَحْوَالُ الدُّنْیَا لَمْ یُبَالِ اللَّہُ فِی أَیِّ أَوْدِیَتِہَا وَقَعَ۔ (مسند ۳۴۵)
(٣٥٤٥٤) حضرت اسود کہتے ہیں : عبداللہ نے فرمایا : اگر اہل علم اپنے علم کی حفاظت کریں، اور اس (علم) کو ان ہی لوگوں میں پھیلائیں جو اس کے اہل ہیں، تو وہ اس کے باعث اہل زمانہ پر حکومت کریں۔ لیکن انھوں نے وہ علم اہل دنیا میں لٹا ڈالا تاکہ اس کے ذریعہ ان سے ان کی دنیا (کا مال و دولت اور فوائد) حاصل کریں۔ تو وہ اہل دنیا میں رسوا ہو (کر رہ) گئے۔ میں نے تمہارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو (یہ) فرماتے سنا ہے : جس نے اپنی تمام فکروں میں سے ایک (دین کی فکر) کو اختیار کرلیا، اللہ تعالیٰ اس کی آخرت کے معاملہ میں اس کے لیے کافی ہوجائیں گے۔ اور جس شخص کو (دنیاوی) فکروں اور دنیا کے حالات نے (الجھا کر) متفرق (خواہشات اور آرزوؤں میں مبتلا) کر ڈالاتو اللہ تعالیٰ کو اس بات کی کوئی پروا نہ ہوگی کہ وہ (مصائب و گمراہی کی) کس وادی میں جا پڑے۔

35454

(۳۵۴۵۵) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ ، عَنْ أَبِی جَعْفَرٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إنَّ الإِیمَانَ إذَا دَخَلَ الْقَلْبَ انْفَسَحَ لَہُ الْقَلْبُ وَانْشَرَحَ ، وَذَکَرَ ہَذِہِ الآیَۃَ {فَمَنْ یُرِدِ اللَّہُ أَنْ یَہْدِیَہُ یَشْرَحْ صَدْرَہُ لِلإِسْلاَمِ} قَالُوا : یَا رَسُولَ اللہِ ، وَہَلْ لِذَلِکَ مِنْ آیَۃٍ یُعْرَفُ بِہَا؟ قَالَ: نَعَمْ ، الإِنَابَۃُ إِلَی دَارِ الْخُلُود ، وَالتَّجَافِی عَنْ دَارِ الْغُرُورِ ، وَالاِسْتِعْدَادُ لِلْمَوْتِ قَبْلَ الْمَوْتِ۔ (ابن المبارک ۳۱۵)
(٣٥٤٥٥) حضرت ابوجعفر سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ جب ایمان دل میں داخل ہوتا ہے تو دل کھل جاتا ہے اور اس میں انشراح پیدا ہوجاتا ہے۔ پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی { فَمَنْ یُرِدِ اللَّہُ أَنْ یَہْدِیَہُ یَشْرَحْ صَدْرَہُ لِلإِسْلاَمِ } لوگوں نے سوال کیا کہ اے اللہ کے رسول ! اس کی کوئی علامت ہے جس کے ذریعے اسے پہچانا جائے ؟ آپ نے فرمایا اس کی علامت آخرت کی طرف رجوع، دھوکے کے گھر سے بیزاری اور موت کے آنے سے پہلے موت کی تیاری ہے۔ “

35455

(۳۵۴۵۶) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ قَیْسٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مِسْوَرٍ ، قَالَ : تَلاَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: {فمَنْ یُرِدِ اللَّہُ أَنْ یَہْدِیَہُ یَشْرَحْ صَدْرَہُ لِلإِسْلاَمِ} فَقَالُوا: یَا رَسُولَ اللہِ، وَمَا ہَذَا الشَّرْحُ ، قَالَ : نُورٌ یُقْذَفُ بِہِ فِی الْقَلْبِ فَیَنْفَسِحُ لَہُ الْقَلْبُ ، قَالَ : فقیل : فَہَلْ لِذَلِکَ مِنْ أَمَارَۃٍ یُعْرَفُ بِہَا، قَالَ: نَعَمْ ، قِیلَ: وَمَا ہِیَ ، قَالَ: الإِنَابَۃُ إِلَی دَارِ الْخُلُود، وَالتَّجَافِی عَنْ دَارِ الْغُرُورِ، وَالاِسْتِعْدَادُ لِلْمَوْتِ قَبْلَ لِقَائِ الْمَوْتِ۔ (ابن جریر ۲۷)
(٣٥٤٥٦) حضرت عبداللہ بن مسور فرماتے ہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ آیت مبارکہ تلاوت فرمائی { فمَنْ یُرِدِ اللَّہُ أَنْ یَہْدِیَہُ یَشْرَحْ صَدْرَہُ لِلإِسْلاَمِ } لوگوں نے کہا اے اللہ کے رسول ! یہ شرح کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ یہ ایک نور ہے جب یہ دل میں آتا ہے تو دل کھل جاتا ہے۔ آپ سے پوچھا گیا کہ کیا اس کی کوئی علامت ہے جس کے ذریعے اسے پہچانا جائے ؟ آپ نے فرمایا اس کی علامت آخرت کی طرف توجہ، دھوکے کے گھر سے بیزاری اور مرنے سے پہلے مرنے کی تیاری ہے۔

35456

(۳۵۴۵۷) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ وَیَعْلَی ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ زَیْدِ بْنِ وَہْبٍ ، عَنْ أَبِی ذَرٍّ ، قَالَ : قَالَ لِی النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : انْظُرْ یَا أَبَا ذَرٍّ أَرْفَعَ رَجُلٍ تَرَاہُ فِی الْمَسْجِدِ ، قَالَ : فَنَظَرْت فَإِذَا بِرَجُلٍ عَلَیْہِ حُلَّۃٌ ، فَقُلْتُ: ہَذَا ، قَالَ: فَقَالَ: انْظُرْ أَوْضَعَ رَجُلٍ تَرَاہُ فِی الْمَسْجِدِ ، قَالَ : فَنَظَرْت فَإِذَا رَجُلٌ عَلَیْہِ أَخْلاَقٌ ، فَقُلْتُ: ہَذَا، فَقَالَ : ہَذَا خَیْرٌ مِنْ مِلْئِ الأَرْضِ مِنْ ہَذَا۔ (احمد ۱۵۷)
(٣٥٤٥٧) حضرت ابوذر (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھ سے ایک مرتبہ فرمایا کہ دیکھ تمہیں مسجد میں سب سے زیادہ عالی شان شخص کون نظر آرہا ہے ؟ میں نے غور کیا تو مسجد میں ایک آدمی ایسا تھا جس کے بدن پر عمدہ لباس تھا۔ میں نے کہا یہ ہے۔ پھر آپ نے فرمایا کہ مسجد میں سب سے زیادہ کم تر شخص کون سا ہے ؟ میں نے غور کیا تو دیکھا کہ ایک آدمی ہے جس کے جسم پر بوسیدہ لباس ہے میں نے عرض کیا کہ یہ ہے۔ آپ نے فرمایا کہ اگر پہلے جیسوں سے ساری زمین بھی بھر جائے تو یہ دوسرا ان سب سے بہتر ہے۔

35457

(۳۵۴۵۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا الأَعْمَشُ ، عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ مُسْہِرٍ ، عَنْ خَرَشَۃَ ، عَنْ أَبِی ذَرٍّ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِمِثْلِہِ۔ (احمد ۱۵۷۔ ابن حبان ۶۸۱)
(٣٥٤٥٨) ایک اور راوی سے یونہی منقول ہے۔

35458

(۳۵۴۵۹) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ فَرُّوخَ ، عَنِ الضَّحَّاکِ بْنِ مُزَاحِمٍ ، قَالَ : أَتَی النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَجُلٌ، فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللہِ، مَنْ أَزْہَدُ النَّاسِ فِی الدُّنْیَا، فَقَالَ: مَنْ لَمْ یَنْسَ الْمَقَابِرَ وَالْبِلَی، وَتَرَکَ أَفْضَلَ زِینَۃِ الدُّنْیَا ، وَآثَرَ مَا یَبْقَی عَلَی مَا یَفْنَی ، وَلَمْ یَعُدَّ غَدًا مِنْ أَیَّامِہِ ، وَعَدَّ نَفْسَہُ مِنَ الْمَوْتَی۔ (بیہقی ۱۰۵۱۵)
(٣٥٤٥٩) حضرت ضحاک بن مزاحم سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں ایک شخص حاضر ہوا۔ اس نے کہا یا رسول اللہ 5! دنیا کے معاملہ میں لوگوں میں سب سے بڑا زاہد کون ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ” جو شخص قبروں اور بوسیدہ ہونے کو نہ بھولے۔ اور دنیا کی زینت میں سے افضل کو چھوڑ دے، اور باقی رہنے والی کو فنا ہونے والی پر ترجیح دے اور کل کے دن کو اپنے ایام (حیوۃ) میں سے شمار نہ کرے اور اپنے کو مردوں میں شمار کرے۔

35459

(۳۵۴۶۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ بُرْقَانَ ، عَنْ زِیَادِ بْنِ جَرَّاحٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَیْمُونٍ ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ لِرَجُلٍ : اغْتَنِمْ خَمْسًا قَبْلَ خَمْسٍ : حَیَاتَکَ قَبْلَ مَوْتِکَ ، وَفَرَاغَک قَبْلَ شَغْلِکَ ، وَغِنَاک قَبْلَ فَقْرِکَ ، وَشَبَابَک قَبْلَ ہَرَمِکَ ، وَصِحَّتَکَ قَبْلَ سَقَمِک۔ (ابو نعیم ۱۴۸۔ ابن المبارک ۲)
(٣٥٤٦٠) حضرت عمرو بن میمون سے روایت ہے کہ جناب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک آدمی سے فرمایا : ” تم پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے قبل غنیمت سمجھو : اپنی زندگی کو موت سے پہلے، اور اپنی فراغت کو اپنی مشغولیت سے پہلے، اپنی تونگری کو اپنے فقر سے پہلے، اپنی جوانی کو اپنے بڑھاپے سے پہلے اور اپنی صحت کو اپنی بیماری سے پہلے۔ (غنیمت جانو)

35460

(۳۵۴۶۱) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ، عَنْ أبان بْنِ إِسْحَاقَ، عَنِ الصَّبَّاحِ بْنِ مُحَمَّدٍ الأَحْمَسِیِّ، عَنْ مُرَّۃَ الْہَمْدَانِیِّ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مَسْعُودٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : اسْتَحْیُوا مِنَ اللہِ حَقَّ الْحَیَائِ ، قَالَ : قُلْنَا : إنَّا لَنَسْتَحْیِی یَا رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : لَیْسَ ذَاکَ ، وَلَکِنَّ مَنِ اسْتَحْیَا مِنَ اللہِ حَقَّ الْحَیَائِ فَلْیَحْفَظِ الرَّأْسَ ، وَمَا حَوَی ، وَلْیَحْفَظِ الْبَطْنَ ، وَمَا وَعَی ، وَلْیَذْکُرِ الْمَوْتَ وَالْبِلَی ، وَمَنْ أَرَادَ الآخِرَۃَ تَرَکَ زِینَۃَ الدُّنْیَا ، فَمَنْ فَعَلَ ذَلِکَ فَقَدِ اسْتَحْیَا مِنَ اللہِ حَقَّ الْحَیَائِ۔ (ترمذی ۲۴۵۸۔ احمد ۳۸۷)
(٣٥٤٦١) حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ” تم لوگ اللہ تعالیٰ سے ایسی حیا کرو جیسا کہ حیا کا حق ہے۔ ابن مسعود (رض) کہتے ہیں ہم نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! ہم تو حیا کرتے ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ” یہ حیا نہیں بلکہ جو شخص اللہ تعالیٰ سے اس طرح حیا کرے جیسا کہ حیا کا حق ہے تو اس کو چاہیے کہ وہ سر اور اس میں موجود اعضاء کی حفاظت کرے، اور اس کو چاہیے کہ پیٹ اور اس میں موجود اعضاء کی حفاظت کرے، اور اس کو چاہیے کہ وہ موت اور بوسیدہ ہونے کو یاد کرے اور جو شخص آخرت کا ارادہ کرتا ہے تو وہ دنیا کی زینت چھوڑ دیتا ہے۔ پس جو شخص یہ کام کرلے تو پس تحقیق اس نے اللہ تعالیٰ سے حیا کرنے میں حق ادا کردیا۔

35461

(۳۵۴۶۲) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنْ حُمَیْدٍ ، عَنْ أَنَسٍ ، أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَتْ لَہُ نَاقَۃٌ ، یُقَالَ لَہَا الْعَضْبَائُ لاَ تُسْبَقُ فَجَائَ أَعْرَابِیٌّ عَلَی قَعُودٍ فَسَبَقَہَا فَشَقَّ عَلَی الْمُسْلِمِینَ فَقَالُوا : یَا رَسُولَ اللہِ ، سُبِقَتِ الْعَضْبَائُ ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إِنَّہُ حَقٌّ عَلَی اللہِ أَنْ لاَ یَرْتَفِعَ مِنْہَا شَیْئٌ إِلاَّ وَضَعَہُ ، یَعْنِی الدُّنْیَا۔
(٣٥٤٦٢) حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ایک اونٹنی تھی جس کو عضباء کہا جاتا تھا۔ اس اونٹنی سے آگے نہیں گزرا جاسکتا تھا۔ پس ایک اعرابی ایک جوان اونٹ پر بیٹھ کر آیا اور اس اونٹنی سے آگے نکل گیا۔ تو یہ بات مسلمانوں کو بہت شاق گزری۔ انھوں نے عرض کیا یا رسول اللہ 5! عضباء پر سبقت کردی گئی ہے۔ جناب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ” بیشک یہ بات اللہ تعالیٰ پر واجب ہے کہ اس دنیا سے جو چیز بھی بلندی حاصل کرے تو اللہ تعالیٰ اس کو نیچا (بھی) کریں۔

35462

(۳۵۴۶۳) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِِ ، عَنْ سِمَاکٍ ، عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِیرٍ ، قَالَ : سَمِعْتُہُ یَقُولُ : أَلَسْتُمْ فِی طَعَامٍ وَشَرَابٍ مَا شِئْتُمْ ، لَقَدْ رَأَیْت نَبِیَّکُمْ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ومَا یَجِدُ مِنَ الدَّقَلِ مَا یَمْلأَ بِہِ بَطْنَہُ۔ (مسلم ۳۵۔ احمد ۲۴)
(٣٥٤٦٣) حضرت سماک، حضرت نعمان بن بشیر (رض) کے بارے میں روایت کرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ میں نے ان کو یہ کہتے سنا : کیا تم اپنی چاہت والے کھانے اور مشروبات میں نہیں ہو ؟ جبکہ میں نے تمہارے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس حالت میں دیکھا ہے کہ ان کے پاس گھٹیا اور خشک کھجوریں بھی اتنی مقدار میں موجود نہیں تھیں کہ جس کے ذریعہ سے وہ اپنا پیٹ بھر لیتے۔

35463

(۳۵۴۶۴) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ الْمُغِیرَۃِ ، عَنْ حُمَیْدِ بْنِ ہِلاَلٍ ، عَنْ أَبِی بَرْزَۃَ ، قَالَ دَخَلْتُ عَلَی عَائِشَۃَ فَأَخْرَجَتْ لِی إزَارًا غَلِیظًا مِنَ الَّذِی یُصْنَعُ بِالْیَمَنِ وَکِسَائً مِنْ ہَذِہِ الأَکْسِیَۃِ الَّتِی تَدْعُونَہَا الْمُلَبَّدَۃَ فَأَقْسَمَتْ لِی : لَقُبِضَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیہِمَا۔ (بخاری ۵۸۱۸۔ مسلم ۱۶۴۹)
(٣٥٤٦٤) حضرت ابوبردہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں حضرت عائشہ (رض) کی خدمت میں حاضر ہوا تو انھوں نے مجھے ایک موٹا ازار نکال کر دکھایا۔ یہ ازار ان کپڑوں سے بنا ہوا تھا جو یمن میں بنائے جاتے ہیں۔ اُن چادروں میں سے ایک چادر نکالی جس کو تم پیوند لگی چادر کہتے ہو۔ پھر مجھے قسم کھا کر کہا۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی روح مبارک انہی دو کپڑوں میں قبض ہوئی۔

35464

(۳۵۴۶۵) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عُمَارَۃ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مَعْمَرٍ ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ بَنِی سَالِمٍ ، أَوْ فَہْمٍ ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أُتِیَ بِہَدِیَّۃٍ ، فَنَظَرَ فَلَمْ یَجِدْ شَیْئًا یَجْعَلُہَا فِیہِ، فَقَالَ : ضَعْہُ بِالْحَضِیضِ ، فَإِنَّمَا ہُوَ عَبْدٌ یَأْکُلُ کَمَا یَأْکُلُ الْعَبْدُ ، وَیَشْرَبُ کَمَا یَشْرَبُ الْعَبْدُ ، وَلَوْ کَانَتِ الدُّنْیَا تَزِنُ عِنْدَ اللہِ جَنَاحَ بَعُوضَۃٍ مَا سَقَی مِنْہَا کَافِرًا شَرْبَۃَ مَائٍ۔ (ابن ابی الدنیا ۳۶۵)
(٣٥٤٦٥) قبیلہ بنو سالم ۔۔۔ یا فہم ۔۔۔ کے ایک آدمی سے روایت ہے کہ جناب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ایک ہدیہ لایا گیا۔ پس آپ نے (اردگرد) دیکھا تو آپ کو کوئی ایسی چیز نہیں ملی جس میں آپ اس کو رکھتے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” تم اس کو زمین پر (ہی) رکھ دو ۔ سو یہ بھی ایک بندہ ہے جو اور بندوں کی طرح کھاتا ہے۔ اور اسی طرح پیتا ہے جس طرح اور بندے پیتے ہیں۔ اور اگر دنیا کا وزن اللہ تعالیٰ کے ہاں مچھر کے پر کے بقدر بھی ہوتا تو کوئی کافر دنیا سے ایک گھونٹ پانی بھی نہ پی سکتا۔

35465

(۳۵۴۶۶) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو قَالَ : حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَۃَ ، قَالَ : قَالَ مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ : أَیْ رَسُولَ اللہِ ، أَوْصِنِی ، قَالَ : اعْبُدَ اللَّہَ کَأَنَّک تَرَاہُ وَاعْدُدْ نَفْسَک مِنَ الْمَوْتَی ، وَاذْکُرَ اللَّہَ عِنْدَ کُلِّ حَجَرٍ وَشَجَرٍ ، وَإِذَا عَمِلْت السَّیِّئَۃَ فَاعْمَلْ بِجَنْبِہَا حَسَنَۃً : السِّرُّ بِالسِّرِّ وَالْعَلاَنِیَۃُ بِالْعَلاَنِیَۃِ۔ (ھناد ۱۰۹۲)
(٣٥٤٦٦) حضرت ابوسلمہ بیان کرتے ہیں کہتے ہیں کہ حضرت معاذ بن جبل (رض) نے عرض کیا۔ اے اللہ کے رسول 5! آپ مجھے کوئی وصیت فرما دیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” تم اللہ کی عبادت یوں کرو کہ گویا وہ تمہیں دیکھ رہا ہے۔ اور تم اپنے نفس کو مردوں میں شمار کرو۔ اور اللہ کا ذکر ہر درخت اور پتھر کے پاس کرو، اور جب تم کوئی گناہ کر بیٹھو تو اس کے پیچھے ہی کوئی نیکی کرلو۔ پوشیدہ کے بدلہ پوشیدہ اور اعلانیہ کے بدلہ اعلانیہ۔

35466

(۳۵۴۶۷) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو قَالَ : حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَۃَ ، قَالَ : کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : أَکْثِرُوا ذِکْرَ ہَاذِمِ اللَّذَّاتِ ، یَعْنِی الْمَوْتَ۔
(٣٥٤٦٧) حضرت ابوسلمہ بیان کرتے ہیں کہتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرمایا کرتے تھے : ” تم لذتوں کو توڑنے والی چیز ۔۔۔ یعنی موت ۔۔۔ کا کثرت سے ذکر کیا کرو۔

35467

(۳۵۴۶۸) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو ، عَنْ أَبِی سَلَمَۃَ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : أَکْثِرُوا ذِکْرَ ہَاذِمِ اللَّذَّاتِ ، یَعْنِی الْمَوْتَ۔ (احمد ۲۹۲۔ حاکم ۳۲۱)
(٣٥٤٦٨) حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ” تم لذتوں کو توڑنے والی چیز ۔۔۔ یعنی موت ۔۔۔ کا کثرت سے ذکر کیا کرو۔

35468

(۳۵۴۶۹) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا مِسْعَرٌ ، عَنْ عَلْقَمَۃَ بْنِ مَرْثَدٍ ، عَنِ ابْنِ سَابِطٍ ، قَالَ : ذُکِرَ رَجُلٌ عِنْدَ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَأُحْسِنَ عَلَیْہِ الثَّنَائُ ، فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : کَیْفَ ذِکْرُہُ لِلْمَوْتِ فَلَمْ یُذْکَرْ ذَلِکَ منہ ، فَقَالَ : مَا ہُوَ کَمَا تَذْکُرُونَ۔ (ابو نعیم ۲۹۹)
(٣٥٤٦٩) حضرت ابن سابط سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ جناب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے ایک آدمی کا ذکر ہوا اور اس کی اچھی تعریف کی گئی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا : ” اس کا موت کو یاد کرنے کا رویہ کیسا ہے ؟ “ تو یہ بات ان کے حوالہ سے ذکر نہیں کی گئی۔ اس پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” وہ شخص ایسا نہیں ہے جیسا تم نے ذکر کیا ہے۔

35469

(۳۵۴۷۰) حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ سُلَیْمَانَ الرَّازِیّ ، عَنْ أَبِی جَعْفَرٍ الرَّازِیّ ، عَنِ الرَّبِیعِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : کَفَی بِالْمَوْتِ مُزَہِّدًا فِی الدُّنْیَا وَمُرَغِّبًا فِی الآخِرَۃِ۔
(٣٥٤٧٠) حضرت ربیع سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : دنیا سے بےرغبتی دلانے اور آخرت کا شوق دلانے کے لیے موت ہی کافی ہے۔

35470

(۳۵۴۷۱) حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ وَرْدَانَ ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : لَوْ شَائَ اللَّہُ لَجَعَلَکُمْ أَغْنِیائَ کُلَّکُمْ ، لاَ فقیر فیکم ، ولَوْ شَائَ اللَّہُ لَجَعَلَکُمْ فُقَرَائَ کُلَّکُمْ لاَ غَنِیَّ فِیکُمْ وَلَکِنِ ابْتَلَی بَعْضُکُمْ بِبَعْضٍ۔ (بیہقی ۱۰۰۷۲)
(٣٥٤٧١) حضرت حسن، جناب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کرتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ” اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو تم سب لوگوں کو غنی بنا دیتا کہ تم میں کوئی فقیر نہ ہوتا۔ اور اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو تم سب لوگوں کو فقیر بنا دیتا کہ تم میں کوئی غنی نہ ہوتا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے تم میں سے بعض کو بعض کے ذریعہ آزمائش میں ڈال دیا ہے۔

35471

(۳۵۴۷۲) حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ، قَالَ: حدَّثَنَا أَبُو رَجَائٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ مَالِکٍ، عَنِ الْبَرَائِ، قَالَ: کُنَّا مَعَ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی جِنَازَۃٍ ، فَلَمَّا انْتَہَی إِلَی الْقَبْرِ جَثَا النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَی الْقَبْرِ ، قَالَ: فَاسْتَدَرْت فَاسْتَقْبَلْتُہُ ، قَالَ : فَبَکَی حَتَّی بَلَّ الثَّرَی ، ثُمَّ قَالَ: إخْوَانِی، لِمِثْلِ ہَذَا فَلْیَعْمَلِ الْعَامِلُونَ فَأَعِدُّوا۔ (ابن ماجہ ۴۱۹۵۔ احمد ۲۹۴)
(٣٥٤٧٢) حضرت براء (رض) سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ ہم جناب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہمراہ ایک جنازہ میں تھے۔ پس جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قبر کے پاس پہنچے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قبر پر دو زانو بیٹھ گئے۔۔۔ راوی کہتے ہیں ۔۔۔ میں بھی مڑ گیا اور میں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف رخ کرلیا۔ راوی کہتے ہیں پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رونے لگے یہاں تک کہ زمین تر ہوگئی۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ” میرے بھائیو ! اس کے مثل عمل کرنے والوں کو عمل کرنا چاہیے۔ پس تم تیاری کرو۔

35472

(۳۵۴۷۳) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ بْنُ أَبِی خَالِدٍ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ عُمَیْرٍ ، قَالَ : أُخْبِرْت ، أَنَّ ابْنَ مَسْعُودٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : أَیُّہَا النَّاسُ ، إِنَّہُ لَیْسَ مِنْ شَیْئٍ یُقَرِّبُکُمْ مِنَ الْجَنَّۃِ وَیُبْعِدُکُمْ مِنَ النَّارِ إِلاَّ قَدْ أَمَرْتُکُمْ بِہِ ، وَلَیْسَ شَیْئٌ یُقَرِّبُکُمْ مِنَ النَّارِ وَیُبْعِدُکُمْ مِنَ الْجَنَّۃِ إِلاَّ قَدْ نَہَیْتُکُمْ عَنْہُ وَإِنَّ الرُّوحَ الأَمِینَ نَفَثَ فِی رُوْعِی ، أَنَّہُ لَیْسَ مِنْ نَفْسٍ تَمُوتُ حَتَّی تَسْتَوْفِیَ رِزْقَہَا ، فَاتَّقُوا اللَّہَ وَأَجْمِلُوا فِی الطَّلَبِ ، وَلاَ یَحْمِلْکُمَ اسْتِبْطَائُ الرِّزْقِ عَلَی أَنْ تَطْلُبُوہُ بِمَعَاصِی اللہِ فَإِنَّہُ لاَ یُنَالُ مَا عِنْدَ اللہ إِلاَّ بِطَاعَتِہِ۔ (ابن ماجہ ۲۱۴۴)
(٣٥٤٧٣) حضرت عبدالملک بن عمیر سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ مجھے بتایا گیا کہ حضرت ابن مسعود نے فرمایا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے : ” اے لوگو ! کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو تمہیں جنت سے قریب کرے اور جہنم سے تمہیں دور کرے مگر یہ کہ میں نے تمہیں اس چیز کا حکم دے دیا ہے۔ اور کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو تمہیں جہنم سے قریب کرے اور جنت سے دور کرے مگر یہ کہ میں نے تمہیں اس چیز سے منع کردیا ہے۔ اور روح الامین نے میرے دل میں یہ بات ڈالی ہے کہ کوئی جان ایسی نہیں ہے جو اپنا رزق پورا کرنے سے پہلے موت کا شکار ہوجائے۔ پس تم اللہ سے ڈرو اور طلب رزق میں اچھا طریقہ اختیار کرو۔ اور رزق کا سست رو ہو کر آنا تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم اس کو اللہ کی نافرمانیوں سے تلاش کرو۔ کیونکہ جو کچھ اللہ تعالیٰ کے پاس ہے اس کو اللہ کی اطاعت کے ذریعہ ہی حاصل کیا جاسکتا ہے۔

35473

(۳۵۴۷۴) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ عَوْفٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إذَا ذَکَرَ أَصْحَابَ الأُخْدُودِ تَعَوَّذَ بِاللہِ مِنْ جَہْدِ الْبَلاَئِ۔
(٣٥٤٧٤) حضرت حسن سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ جب اصحاب الاخدود کا ذکر ہوتا تو جناب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سخت ابتلاء سے خدا کی پناہ مانگتے تھے۔

35474

(۳۵۴۷۵) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ بْنُ أَبِی خَالِدٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِی أَخِی نُعْمَانُ ، عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ حَفْصَۃَ بِنْتِ عُمَرَ ، قَالَ : قَالَتْ لأَبِیہَا : یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ ، مَا عَلَیْک لَوْ لَبِسْت أَلْیَنَ مِنْ ثَوْبِکَ ہَذَا وَأَکَلْت أَطْیَبَ مِنْ طَعَامِکَ ہَذَا ، قَدْ فَتَحَ اللَّہُ عَلَیْک الأَرْضَ ، وَأَوْسَعَ عَلَیْک الرِّزْقَ ؟ قَالَ : سَأُخَاصِمُک إِلَی نَفْسِکَ ، أَمَا تَعْلَمِینَ مَا کَانَ یَلْقَی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ شِدَّۃِ الْعَیْشِ ، وَجَعَلَ یُذَکِّرُہَا شَیْئًا مِمَّا کَانَ یَلْقَی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حَتَّی أَبْکَاہَا ، قَالَ : قَدْ قُلْتُ لَک إِنَّہُ کَانَ لِی صَاحِبَانِ سَلَکَا طَرِیقًا فَإِنِّی إنْ سَلَکْت غَیْرَ طَرِیقِہِمَا سُلِکَ بِی غَیْرَ طَرِیقِہِمَا ، فَإِنِّی وَاللہِ لأُشَارِکَنَّہُمَ فِی مِثْلِ عَیْشِہِمَا الشَّدِیدِ ، لَعَلِّی أُدْرِکُ مَعَہُمَا عَیْشَہُمَا الرَّخِیَّ ، یَعْنِی بِصَاحِبَیْہِ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَأَبَا بَکْرٍ رضی اللَّہُ عَنْہُ۔ (عبد بن حمید ۲۵۔ ابن المبارک ۵۷۴)
(٣٥٤٧٥) حضرت مصعب بن سعد، حضرت حفصہ بنت عمر کے بارے میں روایت کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ حضرت حفصہ (رض) نے اپنے والد سے کہا اے امیر المومنین ! اگر آپ اپنے ان کپڑوں سے نرم کپڑے پہنیں اور اپنے اس کھانے سے اچھا کھانا کھائیں تو آپ کے لیے کوئی حرج نہیں ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ پر زمین کی فتوحات کو کھول دیا ہے اور آپ پر رزق کو وسعت دے دی ہے ؟ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : میں تمہارے ساتھ جھگڑے میں تمہیں ہی فیصل بناتا ہوں۔ کیا تم اس بات کو نہیں جانتی کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو زندگی کی کتنی سختی کا سامنا کرنا پڑا تھا ؟ حضرت عمر (رض) نے حضرت حفصہ (رض) کو جناب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پیش آنے والے واقعات یاد دلانے شروع کیے۔ یہاں تک کہ آپ نے حضرت حفصہ کو رلا دیا۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : تحقیق میں نے تمہیں کہا تھا کہ میرے جو دو ساتھی تھے وہ ایک راستہ چل گئے ہیں پس اگر میں ان کے راستے کے علاوہ راستہ پر چلوں گا تو میری وجہ سے ان کے راستہ کے علاوہ راستہ چلا جائے گا۔ پس میں ۔۔۔ خدا کی قسم ۔۔۔ البتہ ضرور بالضرور ان کی سخت زندگی کی طرح ان کے ساتھ شریک ہوں گا۔ شاید کہ میں ان کے ساتھ ان کی آسودہ زندگی میں بھی پایا جاؤں۔ حضرت عمر (رض) کی اپنے دو ساتھیوں سے مراد، جناب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور حضرت ابوبکر (رض) تھے۔

35475

(۳۵۴۷۶) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ الْحُبَابِ ، قَالَ : حدَّثَنِی عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ شُرَیْحٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِی شُرَحْبِیلُ بْنُ یَزِیدَ الْمَعَافِرِیُّ ، قَالَ : سَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ ہَدِیَّۃَ الصَّدَفِیَّ یَقُولُ : سَمِعْت عَبْدَ اللہِ بْنَ عَمْرٍو یَقُولُ : سَمِعْت رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : أَکْثَرُ مُنَافِقِی أُمَّتِی قُرَّاؤُہَا۔ (احمد ۱۷۵۔ ابن المبارک ۴۵۱)
(٣٥٤٧٦) حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ میں نے جناب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کہتے سنا : میری امت کے منافقین میں سے اکثر امت کے قراء ہوں گے۔

35476

(۳۵۴۷۷) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ یَمَانٍ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنْ جَعْفَرٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ رَفَعَہُ : {ألا إنَّ أَوْلِیَائَ اللہِ لاَ خَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَلاَ ہُمْ یَحْزَنُونَ} یُذکَرُ اللَّہُ لِرُؤْیَتِہِمْ۔ (طبرانی ۱۲۳۲۵۔ ابن المبارک ۲۱۷)
(٣٥٤٧٧) حضرت سعید بن جبیر (رض) سے { ألا إنَّ أَوْلِیَائَ اللہِ لاَ خَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَلاَ ہُمْ یَحْزَنُونَ } کی تفسیر میں یہ بات مرفوعاً روایت ہے کہ ان کو دیکھ کر خدا کی یاد آتی ہو۔

35477

(۳۵۴۷۸) حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ ، قَالَ : حدَّثَنِی سَعِیدُ بْنُ مُسْلِمٍ بْنِ بَانَکَ ، قَالَ : سَمِعْتُ عَامِرَ بْنَ عَبْدِ اللہِ بْنِ الزُّبَیْرِ ، قَالَ : حَدَّثَنِی عَوْفُ بْنُ الْحَارِثِ ، عَنْ عَائِشَۃَ ، قَالَتْ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : یَا عَائِشَۃُ إیَّاکِ وَمُحَقَّرَاتِ الأَعْمَالِ فَإِنَّ لَہَا مِنَ اللہِ طَالِبًا۔ (ابن ماجہ ۴۲۴۳۔ احمد ۷۰)
(٣٥٤٧٨) حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے وہ کہتی ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ” اے عائشہ (رض) ! تم چھوٹے چھوٹے اعمال ۔۔۔ گناہوں سے بھی اپنے آپ کو بچاؤ۔ کیونکہ ان کے لیے بھی اللہ کی طرف سے طلب کرنے والا ہوتا ہے۔

35478

(۳۵۴۷۹) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ زَادَ جَرِیرٌ : عَنْ مُعَاوِیَۃَ بْنِ سُوَیْد ، عَنِ الْبَرَائِ بْنِ عَازِبٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : أَوْثَقُ عُرَی الإِیمَانِ الْحُبُّ فِی اللہِ وَالْبُغْضُ فِی اللہِ۔
(٣٥٤٧٩) حضرت براء بن عازب سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ” ایمان کے کڑوں میں سے مضبوط ترین کڑا اللہ کے لیے محبت ہے اور اللہ کے لیے بغض ہے۔

35479

(۳۵۴۸۰) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عن حمید ، عَنْ مُوَرَّقٍ الْعِجْلِیّ ، قَالَ : قرَأَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: {أَلْہَاکُمُ التَّکَاثُرُ حَتَّی زُرْتُمُ الْمَقَابِرَ} قَالَ : فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لَیْسَ لَک مِنْ مَالِکِ إِلاَّ مَا أَکَلْتَ فَأَفْنَیْتَ ، أَوْ لَبِسْتَ فَأَبْلَیْتَ ، أَوْ تَصَدَّقْتَ فَأَمْضَیْتَ۔ (مسلم ۲۲۷۳۔ ترمذی ۲۳۴۲)
(٣٥٤٨٠) حضرت مؤرق عجلی سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے { أَلْہَاکُمُ التَّکَاثُرُ حَتَّی زُرْتُمُ الْمَقَابِرَ } کی تلاوت کی۔ راوی کہتے ہیں پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تمہارے لیے تمہارے مال میں سے صرف وہی کچھ مال ہے جو تم نے کھالیا اور ختم کردیا۔ یا تم نے پہن لیا اور پرانا کردیا یا تم نے صدقہ کردیا اور (آگے) چھوڑ دیا۔

35480

(۳۵۴۸۱) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ أَبِی جَعْفَرٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : أَشَدُّ الأَعْمَالِ ثَلاَثَۃٌ : ذِکْرُ اللہِ عَلَی کُلِّ حَالٍ ، وَالإِنْصَافُ مِنْ نَفْسِکَ ، وَالْمُوَاسَاۃُ فِی الْمَالِ۔ (ابن المبارک ۷۴۴)
(٣٥٤٨١) حضرت ابوجعفر سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اعمال میں سے شدید اعمال تین ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ہر حال میں ذکر کرنا۔ اور اپنے نفس سے انصاف کرنا اور مال میں مؤاسات کرنا۔

35481

(۳۵۴۸۲) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إنَّ اللَّہَ لاَ یَقْبَلُ عَمَلَ عَبْدٍ حَتَّی یَرْضَی عَنْہُ۔ (ھناد ۱۱۲۴)
(٣٥٤٨٢) حضرت حسن سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : بیشک اللہ تعالیٰ کسی بندے کا عمل قبول نہیں کرتے یہاں تک کہ اس سے راضی ہوجائیں۔

35482

(۳۵۴۸۳) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنِ ابْنِ أَبِی عَرُوبَۃَ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، قَالَ : کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إذَا قَرَأَ : {وَإِذْ أَخَذْنَا مِنَ النَّبِیِّینَ مِیثَاقَہُمْ وَمِنْک وَمِنْ نُوحٍ} قَالَ : بُدِئَ بِی فِی الْخَیْرِ ، وَکُنْت آخِرَہُمْ فِی الْبَعْثِ۔
(٣٥٤٨٣) حضرت قتادہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ جناب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب { وَإِذْ أَخَذْنَا مِنَ النَّبِیِّینَ مِیثَاقَہُمْ وَمِنْک وَمِنْ نُوحٍ } کی تلاوت کرتے تو فرماتے تھے : میرے ذریعہ سے خیر کا آغاز کیا گیا اور بعثت میں میں ان میں سے آخری ہوں۔

35483

(۳۵۴۸۴) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ یَمَانٍ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : اکْلَفُوا مِنَ الأَعْمَالِ مَا تُطِیقُونَ ، فَإِنَّ أَحَدَکُمْ لاَ یَدْرِی مَا مِقْدَارُ أَجَلِہِ۔
(٣٥٤٨٤) حضرت حسن سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : تم اعمال میں اتنی مشقت برداشت کرو جتنی طاقت تم میں ہو، اس لیے کہ تم میں سے کوئی یہ بات نہیں جانتا کہ اس کی اجل کا وقت کیا ہے۔

35484

(۳۵۴۸۵) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ مَکْحُولٍ ، قَالَ : بَلَغَنِی ، أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : مَا أَخْلَصَ عَبْدٌ أَرْبَعِینَ صَبَاحًا إِلاَّ ظَہَرَتْ یَنَابِیعُ الْحِکْمَۃِ مِنْ قَلْبِہِ عَلَی لِسَانِہِ۔
(٣٥٤٨٥) حضرت مکحول سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : کوئی بندہ ایسا نہیں ہے جو چالیس صبح خالص کردے مگر یہ کہ حکمت کے چشمے اس کے دل سے اس کی زبان پر ظاہر ہوجاتے ہیں۔

35485

(۳۵۴۸۶) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ : حدَّثَنَا صَفْوَانُ بْنُ سُلَیْمٍ ، عَنْ مَحْمُودِ بْنِ لَبِیدٍ ، قَالَ : لَمَّا نَزَلَتْ ہَذِہِ السُّورَۃُ عَلَی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : {أَلْہَاکُمُ التَّکَاثُرُ حَتَّی زُرْتُمُ الْمَقَابِرَ} حَتَّی بَلَغَ {ثم لَتُسْأَلُنَّ یَوْمَئِذٍ عَنِ النَّعِیمِ} قَالُوا : أَیْ رَسُولَ اللہِ عَنْ أَیِّ نَعِیمٍ نُسْأَلُ ، إنَّمَا ہُمَا الأَسْوَدَانِ: الْمَائُ وَالتَّمْرُ، وَسُیُوفُنَا عَلَی رِقَابِنَا وَالْعَدُوُّ حَاضِرٌ، فَعَنْ أَیِّ نَعِیمٍ نُسْأَلُ، قَالَ: إنَّ ذَلِکَ سَیَکُونُ۔ (احمد ۴۲۹۔ ھناد ۷۶۸)
(٣٥٤٨٦) حضرت محمود بن لبید سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ جب جناب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر یہ سورة { أَلْہَاکُمُ التَّکَاثُرُ حَتَّی زُرْتُمُ الْمَقَابِرَ ۔ تا۔ ثم لَتُسْأَلُنَّ یَوْمَئِذٍ عَنِ النَّعِیمِ } نازل ہوئی تو لوگوں نے پوچھا : اے اللہ کے رسول 5! ہم سے کون سی نعمتوں کے بارے میں سوال ہوگا ؟ یہ صرف دو ہی ۔۔۔ نعمتیں ۔۔۔ ہیں۔ پانی اور کھجور۔ جبکہ ہماری تلواریں ہماری گردنوں پر ہیں اور دشمن حاضر ہے۔ تو پھر کون سی نعمتوں کے بارے میں ہم سے سوال کیا جائے گا ؟ جناب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : یہ حالات عنقریب آجائیں گے۔

35486

(۳۵۴۸۷) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنِ الإِفْرِیقِیِّ ، عَنْ مُسْلِمٍ الْقُرَشِیِّ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ، قَالَ : سَمِعْتُہُ یَقُولُ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إذَا أَحْسَنَ الْعَبْدُ فَأَلْزَقَ اللَّہُ بِہِ الْبَلاَئَ فَإِنَّ اللَّہَ یُرِیدُ أَنْ یُصَافِیَہُ۔ (بیہقی ۹۷۹۰۔ ھناد ۴۰۱)
(٣٥٤٨٧) حضرت مسلم قرشی، حضرت سعید بن مسیب کے بارے میں روایت کرتے ہیں کہ میں نے ان کو کہتے سنا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جب بندہ اچھا بن جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ آزمائشوں کو لگا دیتے ہیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ چاہتے ہیں کہ وہ اس کو خوب صاف کردیں۔

35487

(۳۵۴۸۸) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ ، عَنِ الإِفْرِیقِیِّ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ مَسْعُودٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لَلْفَقْرُ أَزْیَن لِلْمُؤْمِنِ مِنْ عِذَارٍ حَسَنٍ عَلَی خَدِّ الْفَرَسِ۔ (ابن المبارک ۵۶۸)
(٣٥٤٨٨) حضرت سعد بن مسعود سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : البتہ فقر مومن کو اس سے بڑھ کر زینت دیتا ہے جتنا کہ گھوڑے کی رخسار پر خوبصورت لگام۔

35488

(۳۵۴۸۹) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا ہِشَامٌ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ تَأْخُذُہُ الْعِبَادَۃُ حَتَّی یَخْرُجَ عَلَی النَّاسِ کَأَنَّہُ الشَّنُّ الْبَالِی ، وَکَانَ أَصْبَحَ النَّاسِ ، فَقِیلَ : یَا رَسُولَ اللہِ ، أَلَیْسَ قَدْ غَفَرَ اللَّہُ لَک ، قَالَ : أَفَلاَ أَکُونُ عَبْدًا شَکُورًا۔ (بخاری ۴۸۳۷۔ مسلم ۲۱۷۲)
(٣٥٤٨٩) حضرت حسن سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ جناب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو (اللہ کی) عبادت اس طرح سے مصروف کرتی کہ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگوں کے پاس تشریف لاتے تو گویا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بہت پرانے مشکیزہ کی طرح ہوتے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمام لوگوں میں سب سے زیادہ خوبصورت تھے۔ چنانچہ عرض کیا گیا یا رسول اللہ 5! کیا یہ بات نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو معاف کردیا ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تو کیا میں شکر کرنے والا بندہ نہ بنوں۔

35489

(۳۵۴۹۰) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنِ ابْنِ عَجْلاَنَ ، عَنْ زَیْدِ بْنِ أَسْلَمَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إنَّمَا یُدْخِلُ اللَّہُ الْجَنَّۃَ مَنْ یَرْجُوہَا ، وَإِنَّمَا یُجَنِّبُ النَّارَ مَنْ یَخْشَاہَا ، وَإِنَّمَا یَرْحَمُ اللَّہُ مَنْ یَرْحَمُ۔ (احمد ۱۵۹)
(٣٥٤٩٠) حضرت زید بن اسلم سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اللہ تعالیٰ جنت میں صرف اس کو داخل کریں گے جو جنت کی امید رکھتا ہو اور اللہ تعالیٰ جہنم سے صرف اس کو بچائیں گے جو اس سے خوف کھاتا ہو اور اللہ تعالیٰ صرف اسی پر رحم کریں گے جو رحم کرتا ہو۔

35490

(۳۵۴۹۱) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ ، عَنْ عَامِرٍ ، قَالَ : وَرُبَّمَا قَالَ : قَالَ أَصْحَابُنَا ، عَنْ أَبِی ذَرٍّ ، قَالَ : أَوْصَانِی خَلِیلِی بِسَبْعٍ : حُبِّ الْمَسَاکِینِ ، وَأَنْ أَدْنُوَ مِنْہُمْ ، وَأَنْ أَنْظُرَ إِلَی مَنْ أَسْفَلَ مِنِّی ، وَلاَ أَنْظُرَ إِلَی مَنْ فَوْقِی ، وَأَنْ أَصِلَ رَحِمِی وَإِنْ جَفَانِی ، وَأَنْ أُکْثِرَ مِنْ لاَ حَوْلَ وَلاَ قُوَّۃَ إِلاَّ بِاللہِ ، وَأَنْ أَتَکَلَّمَ بِمُرِّ الْحَقِّ وأن لاَ تَأْخُذُنِی فِی اللہِ لَوْمَۃُ لاَئِمٍ ، وَأَن لاَ أَسْأَلَ النَّاسَ شَیْئًا۔ (مسلم ۱۶۰۹۔ ابن ماجہ ۳۱۸۰)
(٣٥٤٩١) حضرت ابوذر (رض) سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میرے دوست نے مجھے سات باتوں کی وصیت کی۔ مساکین سے محبت کرنے اور مجھے ان کے قریب ہونے کی وصیت کی۔ اور یہ بات کہ میں اپنے سے نیچے والے کو دیکھوں اور اپنے سے اوپر والے کو نہ دیکھوں اور یہ کہ میں رشتہ داروں سے صلہ رحمی کروں اگرچہ وہ میرے ساتھ جفا کریں اور یہ کہ میں لا حول ولا قوۃ الا باللہ کثرت سے پڑھوں اور یہ کہ میں کڑوا سچ بھی کہہ دوں اور یہ کہ اللہ کے معاملہ میں مجھے کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پروا نہ ہو اور یہ کہ میں لوگوں سے کسی چیز کا سوال نہ کروں۔

35491

(۳۵۴۹۲) حَدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ بْنُ إبْرَاہِیمَ ، عَنِ الْجُرَیْرِیِّ ، عَنْ أَبِی نَضْرَۃَ ، قَالَ : أَکَلَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَنَاسٌ مِنْ أَصْحَابِہِ أَکْلَۃً مِنْ خُبْزِ شَعِیرٍ لَمْ یُنْخَلْ بِلَحْمٍ ، وَشَرِبُوا مِنْ جَدْوَلٍ ، وَقَالَ : ہَذِہِ أَکْلَۃٌ مِنَ النَّعِیمِ ، تُسْأَلُونَ عنہا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ۔
(٣٥٤٩٢) حضرت ابونضرہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے صحابہ میں سے کچھ لوگوں نے ان چھنے جو کی روٹی گوشت کے ساتھ کھائی اور نہر کا پانی پیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : یہ کھانا بھی نعمتوں میں سے ہے۔ قیامت کے دن تم سے اس کے بارے میں بھی سوال ہوگا۔

35492

(۳۵۴۹۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ عَلِیِّ بْنِ رِفَاعَۃَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی مَسِیرٍ لَہُ فَنَزَلَ مَنْزِلاً جرزا مُجْدِبًا ، وَأَمَرَ أَصْحَابَہُ فَنَزَلُوا ، قَالَ : ثُمَّ أَمَرَہُمْ أَنْ یَجْمَعُوا ، فَجَعَلَ الرَّجُلُ یَجِیئُ بِالصَّغِیرِ إِلَی الصَّغِیرِ وَالْکَبِیرِ إِلَی الْکَبِیرِ وَالشَّیْئِ إِلَی الشَّیْئِ حَتَّی جَمَعُوا سَوَادًا عَظِیمًا ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : ہَذِہِ مِثْلُ أَعْمَالِکُمْ یَا بَنِی آدَمَ فِی الْخَیْرِ وَالشَّرِّ۔
(٣٥٤٩٣) حضرت حسن سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے ایک سفر میں تھے۔ پس آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پڑاؤ ڈالا ایک ایسی جگہ پر جو قحط زدہ اور بےآب وگیاہ تھی۔ اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے صحابہ (رض) کو بھی اترنے کا حکم دیا۔ پس وہ بھی اتر گئے۔ راوی کہتے ہیں پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو جمع ہونے کا حکم فرمایا۔ راوی کہتے ہیں پس آدمی نے چھوٹے کو چھوٹے کی طرف اور بڑے کو بڑے کی طرف اور ایک چیز کو دوسری چیز کی طرف لانا شروع کیا۔ یہاں تک کہ ایک بہت بڑا جم غفیر جمع ہوگیا۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اے بنی آدم ! یہ شر اور خیر میں تمہارے اعمال کی مثال ہے۔

35493

(۳۵۴۹۴) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ وَعِیسَی بْنُ یُونُسَ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : ذَکَرَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : {یَوْمَ یَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعَالَمِینَ} قَالَ : یُحْبَسُونَ حَتَّی یَبْلُغَ الرَّشْحُ آذَانَہُمْ۔ (بخاری ۳۱۔ مسلم ۲۱۹۶)
(٣٥٤٩٤) حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ جناب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس دن کا ذکر فرمایا جب سب لوگ رب العالمین کے پاس کھڑے ہوں گے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ان سے حساب لیا جائے گا یہاں تک کہ ان کے کانوں تک پسینہ پہنچ جائے گا۔

35494

(۳۵۴۹۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ ذَرٍّ ، قَالَ : قَالَ أَبِی : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إنَّ اللَّہَ عِنْدَ لِسَانِ کُلِّ قَائِلٍ ، فَلْیَنْظُرْ عَبْدٌ مَاذَا یَقُولُ۔ (ابو نعیم ۱۶۰)
(٣٥٤٩٥) حضرت عمر بن ذر سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میرے والد نے کہا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے : ہر بولنے والے کی زبان کے پاس اللہ تعالیٰ ہے۔ پس بندہ کو دیکھنا چاہیے کہ وہ کیا کہتا ہے۔

35495

(۳۵۴۹۶) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ بْنِ أَبِی خَالِدٍ ، عَنْ سَعْدٍ الطَّائِیِّ ، أَنَّہُ بَلَغَہُ أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : مَا مِنْ مُؤْمِنٍ یُطْعِمُ مُؤْمِنًا جَائِعًا إِلاَّ أَطْعَمَہُ اللَّہُ مِنْ ثِمَارِ الْجَنَّۃِ ، وَمَا مِنْ مُؤْمِنٍ یَسْقِی مُؤْمِنًا عَلَی ظَمَأٍ إِلاَّ سَقَاہُ اللَّہُ مِنْ رَحِیقٍ مَخْتُومٍ ، وَمَا مِنْ مُؤْمِنٍ یَکْسُو مُؤْمِنًا عَارِیًّا إِلاَّ کَسَاہُ اللَّہُ مِنْ خُضْرِ الْجَنَّۃِ۔ (ترمذی ۲۴۴۹۔ احمد ۱۳)
(٣٥٤٩٦) حضرت سعد طائی سے روایت ہے کہ انھیں یہ بات پہنچی کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : کوئی بھی بندہ مومن کسی مومن کو کھانا نہیں کھلاتا مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ اس کو جنت کے پھلوں میں سے کھلائے گا اور کوئی بھی بندہ مومن کسی مومن کو پیاس کی وجہ سے پانی نہیں پلاتا مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ اس کو خالص شراب پلائیں گے اور کوئی بھی مومن کسی مومن کو جو ننگا ہو کپڑا نہیں پہناتا مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ اس کو جنت کا سبز لباس پہنائیں گے۔

35496

(۳۵۴۹۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ زِیَادِ بْنِ أَبِی مُسْلِمٍ ، عَنْ صَالِحٍ أَبِی الْخَلِیلِ ، قَالَ : مَا رُئِیَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ضَاحِکًا ، أَوْ مُتَبَسِّمًا مُنْذُ نَزَلَتْ : {أَفَمِنْ ہَذَا الْحَدِیثِ تَعْجَبُونَ وَتَضْحَکُونَ}۔ (وکیع ۳۶)
(٣٥٤٩٧) حضرت ابوالخلیل صالح سے روایت ہے وہ کہتے ہیں جب سے یہ آیت نازل ہوئی (ترجمہ) ” تو کیا تم اسی بات پر حیرت کرتے ہو اور (اس کا مذاق بنا کر) ہنستے ہو “ اس کے بعد جناب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہنستے ہوئے یا مسکراتے ہوئے نہیں دیکھا گیا۔

35497

(۳۵۴۹۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، عَنْ عَبْدِاللہِ بْنِ سَعِیدِ بْنِ أَبِی ہِنْدٍ، عَنْ أَبِیہِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : نِعْمَتَانِ مَغْبُونٌ فِیہِمَا کَثِیرٌ مِنَ النَّاسِ : الْفَرَاغُ وَالصِّحَّۃُ۔ (بخاری ۶۴۱۲۔ ترمذی ۲۳۰۴)
(٣٥٤٩٨) حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : دو نعمتیں ایسی ہیں جن کے بارے میں بہت سے لوگ دھوکے میں مبتلا ہیں : صحت اور فراغت۔

35498

(۳۵۴۹۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ أُسَامَۃَ بْنِ زَیْدٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْکَدِرِ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : سَلُوا اللَّہَ عِلْمًا نَافِعًا ، وَتَعَوَّذُوا بِاللہِ مِنْ عِلْمٍ لاَ یَنْفَعُ۔
(٣٥٤٩٩) حضرت جابر بن عبداللہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : تم اللہ تعالیٰ سے علم نافع کا سوال کرو اور اللہ تعالیٰ سے اس علم سے پناہ مانگو جو نفع نہ دے۔

35499

(۳۵۵۰۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ زِیَادِ بْنِ فَیَّاضٍ ، عَنْ أَبِی عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لاَ آمُرُکُمْ أَنْ تَکُونُوا قِسِّیسِینَ وَرُہْبَانًا۔
(٣٥٥٠٠) حضرت ابوعبد الرحمن سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : میں تمہیں یہ حکم نہیں دیتا کہ تم علم دوست عالم (محض) اور تارک دنیا درویش بن جاؤ۔

35500

(۳۵۵۰۱) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إنَّ اللَّہَ لاَ یَقْبَلُ عَمَلَ عَبْدٍ حَتَّی یَرْضَی عَنْہُ۔
(٣٥٥٠١) حضرت حسن سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : یقیناً اللہ تعالیٰ بندہ کا عمل قبول نہیں کرتے یہاں تک کہ اس سے راضی ہوجائیں۔

35501

(۳۵۵۰۲) حَدَّثَنَا ابْن نُمَیْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا ہِشَامٌ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : الْعِلْمُ عِلْمَانِ : عِلْمٌ فِی الْقَلْبِ فَذَاکَ الْعِلْمُ النَّافِعُ ، وَعِلْمٌ عَلَی اللِّسَانِ فَتِلْکَ حُجَّۃُ اللہِ عَلَی عِبَادِہِ۔
(٣٥٥٠٢) حضرت حسن سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : علم، دو طرح کے علم ہیں : ایک علم دل میں ہوتا ہے، یہی علم نافع ہے۔ اور ایک علم زبان پر ہوتا ہے، سو یہ خدا کی اپنے بندوں پر حجت ہے۔

35502

(۳۵۵۰۳) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ مُوسَی بْنِ مُسْلِمٍ الطَّحَّانِ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ ، عَنْ أَبِی جَعْفَرٍ الْمَدَائِنِیِّ رَفَعَہُ ، قَالَ : یَا عَجَبًا کُلَّ الْعَجَبِ لِمُصَدِّقٍ بِدَارِ الْخُلُودِ وَہُوَ یَسْعَی لِدَارِ الْغُرُورِ ، یَا عَجَبًا کُلَّ الْعَجَبِ لِلْمُخْتَالِ الْفَخُورِ وَإِنَّمَا خُلِقَ مِنْ نُطْفَۃٍ ، ثُمَّ یَعُودُ جِیفَۃً وَہُوَ بَیْنَ ذَلِکَ لاَ یَدْرِی مَا یُفْعَلُ بِہِ۔
(٣٥٥٠٣) حضرت ابوجعفر مدائنی سے روایت ہے وہ اس کو مرفوعاً بیان کرتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ” ہائے تعجب ! پورا تعجب ہے اس آدمی پر جو دارالخلود ۔۔۔ جنت ۔۔۔ کی تصدیق کرتا ہے لیکن محنت وہ دارالغرور ۔۔۔ دنیا ۔۔۔ کے لیے کرتا ہے۔ ہائے تعجب ! پورا تعجب ہے اس شخص پر جو فخر وتکبر کرتا ہے جبکہ وہ محض نطفہ کی پیداوار ہے پھر وہ مردار ہوجائے گا۔ اور اس دوران بھی وہ نہیں جانتا کہ اس کے ساتھ کیا کیا جائے گا۔

35503

(۳۵۵۰۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ أَبِی سِنَانٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ الْحَارِثِ ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حَجَّ عَلَی رَحْلٍ فَاجْتَنَحَ بِہِ ، فَقَالَ : لَبَّیْکَ إنَّ الْعَیْشَ عَیْشُ الآخِرَۃِ۔
(٣٥٥٠٤) حضرت عبداللہ بن حارث سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حج کیا سواری پر تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس پر دونوں ہاتھوں پر اوندھا ہو کر تکیہ کی طرح سہارا کیا اور ارشاد فرمایا : میں حاضر ہوں یقیناً زندگی تو آخرت کی زندگی ہے۔

35504

(۳۵۵۰۵) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِِ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ جُہَیْنَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : خَیْرُ مَا أُعْطِیَ الْمُؤْمِنُ خُلُقٌ حَسَنٌ ، وَشَرُّ مَا أُعْطِیَ الرَّجُلُ قَلْبُ سُوئٍ فِی صُورَۃٍ حَسَنَۃٍ۔
(٣٥٥٠٥) قبیلہ جہینہ کے ایک آدمی سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : مومن کو عطا ہونے والی چیزوں میں سے بہترین چیز اچھا اخلاق ہے۔ اور آدمی کو ملنے والی چیزوں میں سے بدترین چیز خوبصورت شکل میں برا دل ہے۔

35505

(۳۵۵۰۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ بْنِ أَبِی خَالِدٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : لَمَّا قَدِمَ مُعَاذٌ إِلَی الْیَمَنِ خَطَبَ النَّاسَ فَحَمِدَ اللَّہَ وَأَثْنَی عَلَیْہِ ، وَقَالَ : أَنَا رَسُولُ رَسُولِ اللہِ إلَیْکُمْ ، أَنْ تَعْبُدُوا اللَّہَ لاَ تُشْرِکُوا بِہِ شَیْئًا ، وَتُقِیمُوا الصَّلاَۃَ وَتُؤْتُوا الزَّکَاۃَ ، وَإِنَّمَا ہُوَ اللَّہُ وَحْدَہُ وَالْجَنَّۃُ وَالنَّارُ ، إقَامَۃٌ فَلاَ ظَعَنْ ، وَخُلُودٌ فَلاَ مَوْتَ۔ (ابن المبارک ۱۵۶۶۔ حاکم ۸۳)
(٣٥٥٠٦) حضرت شعبی سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ جب حضرت معاذ یمن کی طرف تشریف لائے انھوں نے لوگوں کو خطبہ دیا پس اللہ کی تعریف کی اور ثنا بیان کی اور آپ نے فرمایا : میں تمہاری طرف اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا قاصد ہوں یہ کہ تم اللہ کی عبادت کرو، اس کے ساتھ کسی بھی چیز کو شریک نہ کرو اور تم نماز کو قائم کرو اور تم زکوۃ کو ادا کرو۔ اس لیے کہ وہ اللہ اکیلا ہی ہے اور جنت وجہنم ٹھہرنے کی جگہ ہیں پس (وہاں سے) کوچ نہیں کرنا اور ہمیشہ کی جگہ ہے۔ پس (وہاں) موت نہیں ہے۔

35506

(۳۵۵۰۷) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِی الأَحْوَصِ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إنَّ الإِسْلاَمَ بَدَأَ غَرِیبًا وَسَیَعُودُ کَمَا بَدَأَ ، فَطُوبَی لِلْغُرَبَائِ ، قِیلَ : وَمَنَ الْغُرَبَائُ ، قَالَ : النُّزَّاعُ مِنَ الْقَبَائِلِ۔ (ترمذی ۲۶۲۹۔ احمد ۳۹۸)
(٣٥٥٠٧) حضرت عبداللہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ” بیشک اسلام نے غربت کی حالت میں ظہور و آغاز کیا تھا اور عنقریب یہ اپنے ظہور و آغاز کی حالت کی طرف عود کرے گا۔ پس غرباء کو خوشخبری ہو۔ عرض کیا گیا غرباء کون ہوں گے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : مختلف قبائل سے نکالے ہوئے لوگ۔

35507

(۳۵۵۰۸) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : حَدَّثَنَا الْعَلاَئُ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إنَّ الدِّینَ بَدَأَ غَرِیبًا وَسَیَعُودُ کَمَا کَانَ ، فَطُوبَی لِلْغُرَبَائِ۔ (مسلم ۱۳۰۔ ابن ماجہ ۳۹۸۶)
(٣٥٥٠٨) حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : بیشک دین کا آغاز غربت کی حالت میں ہوا ہے اور عنقریب یہ پہلی حالت میں عود کر جائے گا۔ پس غرباء کے لیے خوشخبری ہے۔

35508

(۳۵۵۰۹) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ بْنِ الْمُغِیرَۃِ ، أَوِ ابْنَ أَبِی الْمُغِیرَۃِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : طُوبَی لِلْغُرَبَائِ ، قِیلَ : وَمَنَ الْغُرَبَائُ ، قَالَ : قَوْمٌ یُصْلِحُونَ حِینَ یُفْسِدُ النَّاسَ۔
(٣٥٥٠٩) حضرت ابراہیم بن مغیرہ ۔۔۔ یا ابن ابی مغیرہ ۔۔۔ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ” خوشخبری ہو غرباء کے لیے “ پوچھا گیا غرباء کون ہیں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : یہ وہ لوگ ہیں جو لوگوں کے فساد کے وقت اصلاح کرتے ہیں۔

35509

(۳۵۵۱۰) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إنَّ الإِسْلاَمَ بَدَأَ غَرِیبًا وَسَیَعُودُ کَمَا بَدَأَ فَطُوبَی لِلْغُرَبَائِ۔
(٣٥٥١٠) حضرت مجاہد سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : بیشک اسلام کا آغاز غربت کی حالت میں ہوا تھا اور یہ عنقریب اپنے آغاز والی حالت کی طرف عود کرے گا۔ پس غرباء کے لیے خوش خبری ہے۔

35510

(۳۵۵۱۱) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ بْنُ عُمَرَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : إذَا مَاتَ أَحَدُکُمْ عُرِضَ عَلَیْہِ مَقْعَدُہُ بِالْغَدَاۃِ وَالْعَشِی ، إنْ کَانَ مِنْ أَہْلِ الْجَنَّۃِ فَمِنْ أَہْلِ الْجَنَّۃِ ، وَإِنْ کَانَ مِنْ أَہْلِ النَّارِ فَمِنْ أَہْلِ النَّارِ وَیُقَالُ لَہُ : ہَذَا مَقْعَدُک حَتَّی یَبْعَثَک اللَّہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ۔ (بخاری ۶۵۱۵۔ مسلم ۲۱۹۹)
(٣٥٥١١) حضرت ابن عمر (رض) جناب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کرتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جب تم میں سے کوئی مرجاتا ہے تو اس پر اس کا ٹھکانا صبح وشام پیش کیا جاتا ہے۔ اگر یہ شخص اہل جنت میں سے ہے تو جنت سے ٹھکانا پیش کیا جاتا ہے اور اگر وہ اہل جہنم میں سے ہے تو جہنم سے ٹھکانا پیش کیا جاتا ہے اور اس کو کہا جاتا ہے یہ تیرا ٹھکانا ہے۔ یہاں تک کہ قیامت کے دن تجھے اللہ تعالیٰ اٹھائے۔

35511

(۳۵۵۱۲) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو ، عَنْ أَبِی سَلَمَۃَ ، عَنْ عَائِشَۃَ ، قَالَتْ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی مَرَضِہِ الَّذِی مَاتَ فِیہِ : مَا فَعَلْت الذَّہَب ، فَقُلْتُ : عِنْدِی یَا رَسُولَ اللہِ ، قَالَ : ائْتِنِی بِہَا ، فَأَتَیْتُہُ بِہَا ، وَہِیَ مَا بَیْنَ الْخَمْسَۃِ إِلَی التِّسْعَۃِ فَجَعَلَہَا فِی کَفِّہِ ، فَقَالَ بِہَا ، ثُمَّ قَالَ : مَا ظَنُّ مُحَمَّدٍ بِہَا أَنْ لَوْ لَقِیَ اللَّہَ وَہَذِہِ عِنْدَہُ ، أَنْفِقِیہَا یَا عَائِشَۃُ۔ (احمد ۸۶۔ ابن حبان ۷۱۵)
(٣٥٥١٢) حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے وہ کہتی ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے اس مرض میں جس میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وفات پائی، یہ ارشاد فرمایا : ” سونے کا کیا ہوا ؟ “ میں نے کہا : یا رسول اللہ 5! وہ میرے پاس ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” تم اس کو میرے پاس لے آؤ۔ پس میں اس کو لے کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئی اور یہ پانچ سے نو کے درمیان تھا۔ چنانچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو اپنی ہتھیلی میں رکھا اور اس کو پلٹا پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” اگر یہ سونا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ہوتا اور وہ اللہ سے جا ملتا تو ان کے بارے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا خیال کیا ہوتا ؟ اے عائشہ ! تم ان کو خرچ کردو۔

35512

(۳۵۵۱۳) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، وَأَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ زَائِدَۃَ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ عُمَیْرٍ ، عَنْ رِبْعِیٍّ ، عَنْ أُمِّ سَلَمَۃَ، قَالَتْ : دَخَلَ عَلَیَّ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَہُوَ سَاہِمُ الْوَجْہِ ، فَظَنَنْتُ أَنَّ ذَاکَ مِنْ تَغَیُّرٍ ، فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللہِ ، أَرَاک سَاہِمَ الْوَجْہِ ، أَمِنْ عِلَّۃٍ ؟ قَالَ : لاَ ، وَلَکِنِ السَّبْعَۃُ الدَّنَانِیرُ الَّتِی أُتِینَا بِہَا أَمْسِ نَسِیتُہَا فِی خُصْمِ الْفِرَاشِ فَبِتُّ وَلَمْ أَقْسِمْہَا۔ (احمد ۲۹۳۔ ابن حبان ۵۱۶۰)
(٣٥٥١٣) حضرت ام سلمہ (رض) سے روایت ہے وہ کہتی ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرے پاس تشریف لائے جبکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا چہرہ مبارک متغیر تھا۔ میں نے خیال کیا کہ یہ (شاید) کسی تبدیلی کی وجہ سے ہے تو میں نے عرض کیا۔ یا رسول اللہ 5! میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا متغیر چہرہ دیکھ رہی ہوں۔ کیا یہ کسی بیماری کی وجہ سے ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” نہیں۔ لیکن اس کی وجہ وہ سات دنانیر ہیں جو کل ہمارے پاس لائے گئے تھے۔ میں ان کو بستر کے کنارے میں (رکھ کر) بھول گیا تھا۔ پس میں نے ان کو تقسیم کیے بغیر رات گزار دی ہے۔

35513

(۳۵۵۱۴) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللہِ بْنِ الزُّبَیْرِ ، عَنْ عُمَر بْنِ سَعِیدِ بْنِ أَبِی حُسَیْنٍ الْمَکِّیِّ ، قَالَ : حدَّثَنِی عَبْدُ اللہِ بْنُ أَبِی مُلَیْکَۃَ ، عَنْ عُقْبَۃَ بْنِ الْحَارِثِ ، قَالَ : انْصَرَفَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ صَلاَۃِ الْعَصْرِ سَرِیعًا ، فَتَعَجَّبَ النَّاسُ مِنْ سُرْعَتِہِ ، فَخَرَجَ إلَیْہِمْ فَعَرَفَ الَّذِی فِی وُجُوہِہِمْ ، فَقَالَ : ذَکَرْت تِبْرًا فِی الْبَیْتِ عِنْدَنَا فَخِفْت أَنْ یَبِیتَ عِنْدَنَا فَأَمَرْت بِقَسْمِہِ۔ (بخاری ۷۵۱۔ احمد ۸)
(٣٥٥١٤) حضرت عقبہ بن حارث سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (ایک مرتبہ) عصر کی نماز سے جلدی فارغ ہو کر مڑے تو لوگ آپ کی جلدی کی وجہ سے بہت متعجب ہوئے پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگوں کے پاس تشریف لائے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے چہروں میں تعجب محسوس کیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” مجھے اپنے ہاں گھر میں رکھا ہوا ٹکڑا (سونے وغیرہ کا) یاد آگیا تھا۔ تو مجھے اس بات کا خوف ہوا کہ وہ رات ہمارے ہاں نہ رہ جائے۔ چنانچہ میں نے اس کو بانٹنے کا حکم دے دیا۔

35514

(۳۵۵۱۵) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ فُضَیْلِ بْنِ غَزْوَانَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَتَی فَاطِمَۃَ فَوَجَدَ عَلَی بَابِہَا سِتْرًا ، فَلَمْ یَدْخُلْ ، قَالَ : وَقَلَّمَا کَانَ یَدْخُلُ إِلاَّ بَدَأَ بِہَا ، فَجَائَ عَلِیٌّ فَرَآہَا مُہتَمَّۃً ، فَقَالَ : مَا لَک ، قَالَتْ : جَائَ إلَیَّ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَلَمْ یَدْخُلْ عَلَیَّ ، فَأَتَاہُ عَلِیٌّ ، فَقَالَ : یَا رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إنَّ فَاطِمَۃَ اشْتَدَّ عَلَیْہَا أَنَّک جِئْتَہَا فَلَمْ تَدْخُلْ عَلَیْہَا ، فَقَالَ : وَمَا أَنَا وَالدُّنْیَا ، أَوْ مَا أَنَا وَالرَّقْمُ ، قَالَ : فَذَہَبَ إِلَی فَاطِمَۃَ فَأَخْبَرَہَا بِقَوْلِ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَتْ : قُلْ لِرَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَا تَأْمُرُنِی ؟ قَالَ : قل لَہَا : فَلْتُرْسِلْ بِہِ إِلَی بَنِی فُلاَنٍ۔ (بخاری ۲۶۱۳۔ ابوداؤد ۴۱۴۷)
(٣٥٥١٥) حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ 5، حضرت فاطمہ (رض) کے ہاں تشریف لائے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے دروازہ پر پردہ ڈلا ہوا دیکھا۔ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اندر تشریف نہیں لائے۔ راوی کہتے ہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لاتے تو بہت کم ایسا ہوا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت فاطمہ کے ہاں پہلے نہ آتے۔ چنانچہ حضرت علی (جب گھر) تشریف لائے تو انھوں نے حضرت فاطمہ کو فکر مند اور مغموم دیکھا تو پوچھا تمہیں کیا ہوا ہے ؟ انھوں نے جواب دیا۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میری طرف تشریف لائے لیکن میرے پاس اندر تشریف نہیں لائے۔ اس پر حضرت علی (رض) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا۔ یا رسول اللہ 5! حضرت فاطمہ پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ عمل بہت بھاری گزرا ہے کہ آپ ان کی طرف تشریف لائے اور آپ ان کے پاس اندر داخل نہیں ہوئے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” میں اور دنیا کیسے ؟ “ یا فرمایا ” میں اور نقش ونگار کیسے ؟ “ راوی کہتے ہیں پس حضرت علی (رض) حضرت فاطمہ (رض) کے پاس چلے گئے اور انھیں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بات بتادی۔ حضرت فاطمہ (رض) نے فرمایا : آپ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھیں کہ آپ مجھے کیا حکم دیتے ہیں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم فاطمہ (رض) سے کہو اس کو چاہیے کہ وہ اس کو بنو فلاں کے پاس بھیج دے۔

35515

(۳۵۵۱۶) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : جَائَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِلَی بَیْتِ ابْنَتِہِ فَاطِمَۃَ فَرَأَی سِتْرًا مَنْشُورًا فَرَجَعَ ، قَالَ : فَأَتَاہُ عَلِیٌّ ، فَقَالَ : أَلَمْ أُخْبِرْک أَنَّک أَتَیْتَ ابْنَتَکَ فَلَمْ تَدْخُلْ ، قَالَ : فَقَالَ : أَفَلَمْ أَرَہَا سَتَرَتْ بَیْتَہَا بِنَفَقَۃٍ فِی سَبِیلِ اللہِ ، فَقِیلَ لِلْحَسَنِ : وَمَا کَانَ ذَلِکَ السِّتْرُ ، قَالَ : قِرَامٌ أَعْرَابِیٌّ ، ثَمَنُہُ أَرْبَعَۃُ الدَّرَاہِمَ ، کَانَتْ تَنْشُرُہُ فِی مُؤَخَّرِ الْبَیْتِ۔
(٣٥٥١٦) حضرت حسن سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ جناب رسول اللہ 5، اپنی بیٹی حضرت فاطمہ (رض) کے گھر کی طرف تشریف لائے تو آپ نے پھیلا ہوا ایک پردہ دیکھا۔ پس آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) واپس ہوگئے۔ راوی کہتے ہیں پھر حضرت علی (رض) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس حاضر ہوئے اور عرض کیا۔ مجھے یہ کیا خبر ملی ہے کہ آپ اپنی بیٹی کے ہاں تشریف لائے لیکن اندر نہیں آئے ؟ راوی کہتے ہیں اس پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” کیا میں نے ان کو نہیں دیکھا کہ انھوں نے راہ خدا کے خرچہ سے اپنے گھر پر پردہ لٹکایا ہوا تھا ؟ “ حضرت حسن سے پوچھا گیا یہ پردہ کون سا تھا ؟ انھوں نے فرمایا : دیہاتی پردہ تھا جس کی قیمت چار دراہم کی تھی۔ حضرت فاطمہ (رض) اس کو گھر کے پچھلے حصہ میں پھیلا دیتی تھیں۔

35516

(۳۵۵۱۷) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : کَانَ ثَمَنُ مُرُوطِ نِسَائِ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سِتَّۃً وَنَحْوَ ذَلِکَ۔
(٣٥٥١٧) حضرت حسن سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ جناب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیویوں کے پردوں کی قیمت چھ (درہم) یا اس کے قریب تھی۔

35517

(۳۵۵۱۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ أُسَامَۃَ بْنِ زَیْدٍ ، عَنِ ابْنِ أَبِی لَبِیبَۃَ ، عَنْ سَعْدٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : خَیْرُ الرِّزْقِ مَا یَکْفِی وَخَیْرُ الذِّکْرِ الْخَفِیُّ۔
(٣٥٥١٨) حضرت سعد سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : بہترین رزق وہ ہے جو کفایت کرجائے اور بہترین ذکر، ذکر خفی ہے۔

35518

(۳۵۵۱۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا الأَعْمَشُ ، عَنْ عُمَارَۃَ بْنِ قَعْقَاعٍ ، عَنْ أَبِی زُرْعَۃَ بن عَمْرِو بْنِ جَرِیرٍ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : اللَّہُمَّ اجْعَلْ رِزْقَ آلِ مُحَمَّدٍ قُوتًا۔ (مسلم ۷۳۰۔ بخاری ۶۴۶۰)
(٣٥٥١٩) حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اے اللہ ! تو آل محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے رزق کو قوت ۔۔۔ بقدر ضرورت ۔۔۔ بنا دے۔

35519

(۳۵۵۲۰) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ شمر ، عَنْ مُغِیرَۃَ بْنِ سَعْدِ الأَخْرَمِ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لاَ تَتَّخِذُوا الضَّیْعَۃَ لتَرْغَبُوا فِی الدُّنْیَا ، قَالَ عَبْدُ اللہِ : بِرَاذَانَ مَا بِرَاذَانُ وَبِالْمَدِینَۃِ مَا بِالْمَدِینَۃِ ؟۔ (ترمذی ۲۳۲۸۔ احمد ۳۷۷)
(٣٥٥٢٠) حضرت عبداللہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ” زمینیں نہ بناؤ، کہ تم دنیا میں رغبت کرنے لگو۔ حضرت عبداللہ کہتے ہیں راذان، کیا ہے راذان، اور مدینہ، کیا ہے مدینہ۔

35520

(۳۵۵۲۱) حَدَّثَنَا عَبْدِ اللہِ بْنِ نُمَیْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا زَکَرِیَّا بْنُ أَبِی زَائِدَۃَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَسْعَد بْنِ زُرَارَۃَ ، أَنَّ ابْنَ کَعْبِ بْنِ مَالِکٍ حَدَّثَہُ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : مَا ذِئْبَانِ جَائِعَانِ أُرْسِلاَ فِی غَنَمٍ بِأَفْسَدَ لَہَا مِنْ حِرْصِ الْمَرْئِ عَلَی الْمَالِ وَالشَّرَفِ لِدِینِہِ۔ (ترمذی ۲۳۷۶۔ احمد ۴۵۶)
(٣٥٥٢١) حضرت کعب بن مالک کے بیٹے، اپنے والد کے واسطہ سے جناب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کرتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : دو بھوکے بھیڑیے جن کو بکریوں میں چھوڑ اگیا وہ بکریوں میں اس قدر فساد نہیں کرتے جس قدر آدمی کا مال وجاہ پر حریص ہونا اس کے دین کو خراب کرتا ہے۔

35521

(۳۵۵۲۲) حَدَّثَنَا سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَجْلاَنَ ، عَنْ عِیَاضِ بْنِ عَبْدِ اللہِ ، عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَہُوَ عَلَیالْمِنْبَرِ : إنَّ أَخْوَفَ مَا أَخَافُ عَلَیْکُمْ مَا یُخْرِجُ اللَّہُ مِنْ نَبَاتِ الأَرْضِ، أَوْ زَہْرَۃِ الدُّنْیَا فَقَامَ رَجُلٌ، فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللہِ ، وَہَلْ یَأْتِی الْخَیْرُ بِالشَّرِ ، فَسَکَتَ حَتَّی ظَنَنَّا أَنَّہُ یَنْزِلُ عَلَیْہِ وَغَشِیَہُ بُہْرٌ وَعَرَقٌ ، ثُمَّ قَالَ: أَیْنَ السَّائِلُ وَلَمْ یُرِدْ إِلاَّ خَیْرًا ، فَقَالَ : إنَّ الْخَیْرَ لاَ یَأْتِی إِلاَّ بِالْخَیْرِ ، وَلَکِنَّ الدُّنْیَا خَضِرَۃٌ حُلْوَۃٌ ، کُلَّمَا یُنْبِتُ الرَّبِیعُ یَقْتُلُ حَبَطًا ، أَوْ یُلِمُّ إِلاَّ آکِلَۃُ الْخَضِرِ، تَأْکُلُ حَتَّی إذَا امْتَلاَتْ خَاصِرَتَاہَا اسْتَقْبَلَتِ الشَّمْسَ فَثَلَطَتْ، ثُمَّ بَالَتْ، ثُمَّ أَفَاضَتْ فَاجْتَرَّتْ، مَنْ أَخَذَ مَالاً بِحَقِّہِ بُورِکَ لَہُ فِیہِ، وَمَنْ أَخَذَ مَالاً بِغَیْرِ حَقِّہِ کَانَ کَالَّذِی یَأْکُلُ، وَلاَ یَشْبَعُ۔ (بخاری ۱۴۶۵۔ مسلم ۷۲۷)
(٣٥٥٢٢) حضرت ابوسعید خدری (رض) سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا ۔۔۔ جبکہ آپ منبر پر تھے ۔۔۔ ” مجھے تم پر سب سے زیادہ جس چیز کا خوف ہے وہ یہ ہے جس کو اللہ تعالیٰ زمین کے نباتات میں یا زندگی کی رنگینی میں نکالیں گے۔ اس پر ایک آدمی کھڑا ہوا اور اس نے کہا : یا رسول اللہ 5! کیا خیر بھی شر لاتا ہے ؟ پس آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خاموش ہوگئے۔ یہاں تک کہ ہمیں یہ گمان ہوا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر وحی نازل ہو رہی ہے۔ اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر پسینہ اور کپکپی ظاہر ہوگئی۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ” سوال کرنے والا کہاں ہے ؟ اس نے خیر کا ہی ارادہ کیا تھا۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” یقیناً خیر تو خیر ہی لاتی ہے لیکن یہ دنیا سرسبز اور میٹھی ہے۔ وہ پودے جو بہار میں اگتے ہیں وہ پیٹ کو خوب بھر لینے والے جانوروں کو یا تو مار ڈالتے ہیں یا مارنے کے قریب کردیتے ہیں، سوائے سبزہ کھانے والے ان جانوروں کے جو پیٹ کے معمولی بھر جانے کے بعد دھوپ میں چلے جاتے ہیں، جگالی کرتے ہیں، غذا کو نرم و ہضم کرتے ہیں، پاخانہ کرتے ہیں اور پھر کھانے کے لیے دوبارہ آجاتے ہیں۔
جو شخص مال کو اس کے حق کے ساتھ لیتا ہے تو اس کے لیے اس مال میں برکت دی جاتی ہے اور جو شخص مال کو اس کے حق کے بغیر لیتا ہے تو اس کی مثال اس شخص کی طرح ہے جو کھاتا ہے لیکن سیر نہیں ہوتا۔

35522

(۳۵۵۲۳) حَدَّثَنَا سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ کَثِیرٍ ، عَنْ عُبَیْدٍ سَنُوطَا ، عَنْ خَوْلَۃَ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : إنَّ الدُّنْیَا خَضِرَۃٌ حُلْوَۃٌ ، فَمَنْ أَخَذَہَا بِحَقِّہَا بُورِکَ لَہُ فِیہَا ، وَرُبَّ مُتَخَوِّضٍ فِی مَالِ اللہِ وَمَالِ رَسُولِہِ لَہُ النَّارُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ۔ (بخاری ۳۱۱۸۔ ترمذی ۲۳۷۴)
(٣٥٥٢٣) حضرت خولہ، جناب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کرتی ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ” بیشک دنیا سرسبز اور میٹھی ہے۔ پس جو شخص اس کو اس کے حق کے ساتھ لیتا ہے تو اس کے لیے اس میں برکت دی جاتی ہے، اور اللہ اور اس کے رسول کے مال میں بہت سے غور و خوض کرنے والوں کے لیے بروز قیامت جہنم کی آگ ہے۔

35523

(۳۵۵۲۴) حَدَّثَنَا سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ عُرْوَۃَ وَسَعِیدٍ ، عَنْ حَکِیمِ بْنِ حِزَامٍ ، قَالَ : سَأَلْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَأَعْطَانِی ، ثُمَّ سَأَلْتُہُ فَأَعْطَانِی ، ثُمَّ سَأَلْتُہُ فَأَعْطَانِی ، ثُمَّ قَالَ : إنَّ ہَذَا الْمَالَ خَضِرَۃٌ حُلْوَۃٌ ، فَمَنْ أَخَذَہُ بِطِیبِ نَفْسٍ بُورِکَ لَہُ فِیہِ ، وَمَنْ أَخَذَہُ بِإِشْرَافِ نَفْسٍ لَمْ یُبَارَکْ لَہُ فِیہِ ، وَکَانَ کَالَّذِی یَأْکُلُ ، وَلاَ یَشْبَعُ ، وَالْیَدُ الْعُلْیَا خَیْرٌ مِنَ الْیَدِ السُّفْلَی۔ (بخاری ۶۴۴۱۔ مسلم ۷۱۷)
(٣٥٥٢٤) حضرت حکیم بن حزام سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے جناب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا۔ آپ نے مجھے عطا کیا۔ میں نے پھر آپ سے سوال کیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے پھر عطا کیا۔ میں نے پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے پھر عطا کیا۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : یقیناً یہ مال سرسبز اور میٹھا ہے۔ پس جو شخص اس کو طیب نفس کے ساتھ لیتا ہے اس کے لیے اس میں برکت دی جاتی ہے۔ اور جو شخص اس مال کو اشرافِ نفس کی وجہ سے لیتا ہے تو اس کے لیے اس میں برکت نہیں دی جاتی۔ اور اس شخص کی مثال اس آدمی کی طرح ہوتی ہے جو کھانا کھاتا ہے لیکن شکم سیر نہیں ہوتا۔ اور اوپر والا ہاتھ، نچلے ہاتھ سے بہتر ہے۔

35524

(۳۵۵۲۵) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاہِیمَ ، عَن مَعْبَدٍ الْجُہَنِیِّ ، عَنْ مُعَاوِیَۃَ ، قَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : إنَّ ہَذَا الْمَالَ حُلْوٌ خَضِرٌ ، فَمَنْ أَخَذَہُ بِحَقِّہِ یُبَارَکْ لَہُ فِیہِ۔
(٣٥٥٢٥) حضرت معاویہ (رض) سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کہتے سنا : ” بیشک یہ مال میٹھا اور سرسبز ہے۔ پس جو شخص اس کو اس کے حق کے ساتھ لیتا ہے تو اس کے لیے اس میں برکت دی جاتی ہے۔

35525

(۳۵۵۲۶) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ یَزِیدِ بْنِ وَہْبٍ ، عَنْ أَبِی ذَرٍّ ، قَالَ : قامَ رَجُلٌ وَرَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَخْطُبُ ، فَقَالَ : یَا رَسُولَ اللہِ ، أَکَلَتْنَا الضَّبُعُ ، قَالَ : فَدَفَعَہُ النَّاسُ حَتَّی وَقَعَ ، ثُمَّ قَامَ أَیْضًا فَنَادَی بِصَوْتِہِ ، ثُمَّ الْتَفَتَ إلَیْہِ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : أَخْوَفُ عَلَیْکُمْ عِنْدِی مِنْ ذَلِکَ أَنْ تُصَبَّ عَلَیْکُمَ الدُّنْیَا صَبًّا ، فَلَیْتَ أُمَّتِی لاَ تَلْبَسُ الذَّہَبَ ، فَقُلْتُ لِزَیْدٍ : مَا الضَّبُعُ ، قَالَ : السَّنَۃُ۔ (احمد ۱۵۲۔ بزار ۳۹۸۴)
(٣٥٥٢٦) حضرت ابوذر (رض) سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خطبہ ارشاد فرما رہے تھے کہ ایک شخص کھڑا ہوا اور اس نے کہا یا رسول اللہ 5! قحط سالی نے ہمیں کھالیا ہے۔ راوی کہتے ہیں پس لوگوں نے اس کو بٹھایا اور وہ بیٹھ گیا۔ وہ پھر دوبارہ کھڑا ہوا اور اس نے اپنی آواز سے ندا لگائی پھر اس کی طرف آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے التفات فرمایا اور ارشاد فرمایا : مجھے تم پر اس سے بھی زیادہ اس بات کا خوف ہے کہ تم پر دنیا خوب بہا دی جائے، کاش کہ میری امت سونا نہ پہنے۔

35526

(۳۵۵۲۷) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، وَابْنُ نُمَیْرٍ وَوَکِیعٌ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنِ الْمَعْرُورِ بْنِ سُوَیْد ، عَنْ أَبِی ذَرٍّ ، قَالَ : انْتَہَیْت إِلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَہُوَ جَالِسٌ فِی ظِلِّ الْکَعْبَۃِ ، فَلَمَّا رَآنِی ، قَالَ : ہُمَ الأَخْسَرُونَ وَرَبِّ الْکَعْبَۃِ ، فَجِئْت فَجَلَسْت فَلَمْ أَتَقَارَّ أَنْ قُمْت ، فَقُلْتُ : یَا رَسُولَ اللہِ ، فِدَاک أَبِی وَأُمِّی ، مَنْ ہُمْ ، قَالَ : ہُمَ الأَکْثَرُونَ أَمْوَالاً إِلاَّ مَنْ قَالَ بِالْمَالِ ہَکَذَا وَہَکَذَا مِنْ بَیْنِ یَدَیْہِ وَمِنْ خَلْفِہِ ، وَعَنْ یَمِینِہِ ، وَعَنْ شِمَالِہِ۔ (مسلم ۲۸۶۔ بزار ۳۹۹۳)
(٣٥٥٢٧) حضرت ابوذر (رض) سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں جناب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیت اللہ کے سایہ میں تشریف فرما تھے۔ پس جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے دیکھا تو ارشاد فرمایا : ” رب کعبہ کی قسم ! یہ لوگ بہت گھاٹے والے ہیں۔ پس میں آیا اور میں بیٹھ گیا۔ پس ابھی میں جمنے بھی نہ پایا تھا کہ میں کھڑا ہوگیا۔ اور میں نے عرض کیا۔ میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں۔ یا رسول اللہ 5! یہ کون لوگ ہیں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” یہ لوگ مال کے اعتبار سے کثرت والے ہیں۔ ہاں مگر جو اپنے مال کو اس طرح اس طرح دے۔ اپنے آگے، اپنے پیچھے، اپنے دائیں اور اپنے بائیں۔

35527

(۳۵۵۲۸) حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ بْنُ مُوسَی ، عَنْ مُوسَی بْنِ عُبَیْدَۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ دِینَارٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : أَلاَ أُبَشِّرُکُمْ یَا مَعْشَرَ الْفُقَرَائِ إنَّ فُقَرَائَ الْمُؤْمِنِینَ یَدْخُلُونَ الْجَنَّۃَ قَبْلَ أَغْنِیَائِہِمْ بِنِصْفِ یَوْمٍ ، خَمْسِمِئَۃِ عَامٍ۔ (ابن ماجہ ۴۱۲۴)
(٣٥٥٢٨) حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ” اے فقیروں کی جماعت ! کیا میں تمہیں خوشخبری نہ سناؤں ؟ “ بیشک مومن فقرائ، مالدار مومنین سے نصف یوم یعنی پانچ سو سال قبل جنت میں داخل ہوں گے۔

35528

(۳۵۵۲۹) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَنِ الْجُرَیْرِیِّ ، عَنْ أَبِی نَضْرَۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مَوَلَۃَ ، عَنْ بُرَیْدَۃَ الأَسْلَمِیِّ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : یَکْفِی أَحَدَکُمْ مِنَ الدُّنْیَا خَادِمٌ وَمَرْکَبٌ۔ (احمد ۲۳۶۰۔ دارمی ۲۷۱۸)
(٣٥٥٢٩) حضرت بریدہ اسلمی، جناب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کرتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ” تم میں سے کسی ایک کو دنیا میں سے ایک خادم اور ایک سواری کافی ہے۔

35529

(۳۵۵۳۰) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُصْعَبٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا الأَوْزَاعِیُّ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَرَّ بِشَاۃٍ مَیِّتَۃٍ قَدْ أَلْقَاہَا أَہْلُہَا ، فَقَالَ : لَزَوَالُ الدُّنْیَا أَہْوَنُ عَلَی اللہِ مِنْ ہَذِہِ عَلَی أَہْلِہَا۔ (احمد ۳۲۹۔ ابویعلی ۲۵۸۶)
(٣٥٥٣٠) حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ جناب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک مردار بکری کے پاس سے گزرے جس کو اس کے گھر والوں نے پھینک دیا تھا۔ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ تعالیٰ کے ہاں دنیا کا زوال، اس سے بھی ہلکا ہے جس قدر کہ یہ بکری اپنے گھر والوں پر۔

35530

(۳۵۵۳۱) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنِ الْحَکَمِ ، قَالَ سَمِعْت ابْنَ أَبِی لَیْلَی یُحَدِّثُ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ رُبِّیعَۃَ ، قَالَ : کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی سَفَرٍ فَإِذَا ہُوَ بِشَاۃٍ مَنْبُوذَۃٍ ، فَقَالَ : أَتَرَوْنَ ہَذِہِ ہَیِّنَۃٌ عَلَی أَہْلِہَا ، قَالُوا : نَعَمْ ، قَالَ : الدُّنْیَا أَہْوَنُ عَلَی اللہِ مِنْ ہَذِہِ عَلَی أَہْلِہَا۔ (نسائی ۱۶۲۹۔ احمد ۳۳۶)
(٣٥٥٣١) حضرت عبداللہ بن ربیعہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ جناب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک سفر میں تھے کہ اچانک آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک پھینکی ہوئی بکری کے پاس سے گزرے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” کیا تم اس بکری کو اس کے گھر والوں پر ہلکا دیکھ رہے ہو ؟ “ لوگوں نے عرض کیا۔ جی ہاں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : یہ بکری اپنے گھر والوں کے ہاں جتنی ہلکی ہے، اس سے بھی زیادہ دنیا اللہ تعالیٰ کے ہاں بےوقعت (اور ہلکی) ہے۔

35531

(۳۵۵۳۲) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ أَبِی جَعْفَرٍ ، عَنْ جَابِرٍ ، قَالَ : مَرَّ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَی شَاۃٍ مَیِّتَۃٍ ، فَقَالَ : لِمَ تَرَوْنَ أَلْقَی ہَذِہِ أَہْلُہَا فَقَالُوا : یَا رَسُولَ اللہِ وَہَلْ یَنْتَفِعُونَ بِہَا وَقَدْ مَاتَتْ ، فَقَالَ : لَزَوَالُ الدُّنْیَا أَہْوَنُ عَلَی اللہِ مِنْ ہَذِہِ عَلَی أَہْلِہَا۔ (بخاری ۹۶۲۔ مسلم ۲۲۷۳)
(٣٥٥٣٢) حضرت جابر (رض) سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا گزر ایک مردار بکری پر سے ہوا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا : ” اس بکری کو اس کے گھر والوں نے کیوں پھینک دیا ہے ؟ “ صحابہ (رض) نے عرض کیا : یا رسول اللہ 5! کیا وہ لوگ اس سے منتفع ہوتے جبکہ یہ مرچکی ہے ؟ اس پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ” جس قدر یہ بکری، اپنے گھر والوں پر ہلکی (بےقیمت) ہے، دنیا اس سے بھی زیادہ اللہ تعالیٰ کے ہاں ہلکی (اور بےقیمت) ہے۔

35532

(۳۵۵۳۳) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو ، عَنْ أَبِی سَلَمَۃَ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : یَدْخُلُ فُقَرَائُ الْمُؤْمِنِینَ الْجَنَّۃَ قَبْلَ الأَغْنِیَائِ بِنِصْفِ یَوْمٍ خَمْسِمِئَۃِ عَامٍ۔ (ترمذی ۲۳۵۳۔ احمد ۲۹۶)
(٣٥٥٣٣) حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ” اہل ایمان فقرائ، اغنیاء سے نصف یوم ۔۔۔ یعنی پانچ سو سال ۔۔۔ قبل جنت میں داخل ہوں گے۔

35533

(۳۵۵۳۴) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا شُعْبَۃُ، قَالَ : حَدَّثَنِی مُوسَی بْنُ أَنَسٍ ، قَالَ سَمِعْت أَنَسًا یَقُولُ : إنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : لَوْ تَعْلَمُونَ مَا أَعْلَمُ لَضَحِکْتُمْ قَلِیلاً وَلَبَکَیْتُمْ کَثِیرًا۔ (مسلم ۱۸۳۲۔ ابن ماجہ ۴۱۹۱)
(٣٥٥٣٤) حضرت موسیٰ بن انس بیان کرتے ہیں کہتے ہیں کہ میں نے حضرت انس (رض) کو کہتے سنا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اگر تم وہ کچھ جان لو جو کچھ میں جانتا ہوں تو تم کم ہنسو اور زیادہ روؤ۔

35534

(۳۵۵۳۵) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنْ حَاتِمِ بْنِ أَبِی صَغِیرَۃَ ، عَنِ ابْنِ أَبِی مُلَیْکَۃَ ، عَنِ الْقَاسِمِ ، قَالَ : قالَتْ عَائِشَۃُ : قُلْتُ : یَا رَسُولَ اللہِ ، کَیْفَ یُحْشَرُ النَّاسُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ؟ قَالَ : عُرَاۃً حُفَاۃً ، قُلْتُ : وَالنِّسَائُ ، قَالَ : وَالنِّسَائُ ، قُلْتُ : یَا رَسُولَ اللہِ ، فَمَا نَسْتَحْی ، قَالَ : الأَمْرُ أَشَدُّ مِنْ أَنْ یَنْظُرَ بَعْضُہُمْ إِلَی بَعْضٍ۔ (بخاری ۶۵۲۷۔ مسلم ۲۱۹۴)
(٣٥٥٣٥) حضرت قاسم سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت عائشہ (رض) نے ارشاد فرمایا میں نے پوچھا یا رسول اللہ 5! قیامت کے روز لوگوں کو کس طرح اکٹھا کیا جائے گا ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” ننگے جسم اور ننگے پاؤں۔ میں نے عرض کیا : اور عورتیں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : عورتیں بھی۔ (حضرت عائشہ (رض) کہتی ہیں) میں نے کہا یا رسول اللہ 5! ہمیں (ایک دوسرے سے) حیا نہیں آئے گی ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ” وہ معاملہ اس سے سخت ہوگا کہ بعض، بعض کی طرف دیکھے۔

35535

(۳۵۵۳۶) حَدَّثَنَا سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ سَمِعَ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَخْطُبُ وَہُوَ یَقُولُ : إنَّکُمْ مُلاَقُوا اللہِ مُشَاۃً حُفَاۃً عُرَاۃً غُرْلاً۔ (بخاری ۲۵۲۴۔ مسلم ۲۱۹۴)
(٣٥٥٣٦) حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ انھوں نے جناب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطبہ دیتے ہوئے سنا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرما رہے تھے : ” یقیناً تم لوگ، اپنے پروردگار سے اس حالت میں ملو گے کہ ننگے جسم، ننگے پاؤں اور غیر مختون ہوگے۔

35536

(۳۵۵۳۷) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا الْوَلِیدُ بْنُ جُمَیْعٍ ، عَنْ أَبِی الطُّفَیْلِ ، عَنْ حُذَیْفَۃَ بْنِ أَسِیدٍ ، قَالَ : قَالَ أَبُو ذَرٍّ : أَیُّہَا النَّاسُ ، قُولُوا ، وَلاَ تَحْلِفُوا فَإِنَّ الصَّادِقَ الْمَصْدُوقَ حَدَّثَنِی ، أَنَّ النَّاسَ یُحْشَرُونَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ عَلَی ثَلاَثَۃِ أَفْوَاجٍ : فَوْجٌ طَاعِمُونِ کَاسُونَ رَاکِبُونَ ، وَفَوْجٌ یَمْشُونَ وَیَسْعَوْنَ ، وَفَوْجٌ تَسْحَبُہُمَ الْمَلاَئِکَۃُ عَلَی وُجُوہِہِمْ ، قَالَ : قُلْنَا : أَمَّا ہَذَانِ فَقَدْ عَرَفْنَاہُمَا ، فَمَا الَّذِینَ یَمْشُونَ وَیَسْعَوْنَ ، قَالَ : یُلْقِی اللَّہُ الآفَۃَ عَلَی الظَّہْرِ حَتَّی لاَ یَبْقَی ظَہْرٌ حَتَّی إنَّ الرَّجُلَ لَیُعْطَی الْحَدِیقَۃَ الْمُعْجِبَۃَ بِالشَّارِفِ ذَاتَ الْقَتَبِ فَمَا یَجِدُہَا۔ (احمد ۱۶۴۔ بزار ۳۸۹۱)
(٣٥٥٣٧) حضرت حذیفہ بن اسید سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت ابوذر (رض) نے فرمایا : اے لوگو ! بات کہو اور پھر اس کے خلاف نہ کرو۔ کیونکہ مجھے الصادق المصدوق نے بیان کیا ہے کہ ” یقیناً لوگوں کو قیامت کے دن تین گروہوں میں میدانِ محشر میں لایا جائے گا۔ ایک گروہ آسودہ حال کپڑوں میں ملبوس، سواری پر سوار ہوگا اور ایک گروہ پیدل چلتا اور دوڑتا ہوگا اور ایک گروہ کو فرشتے ان کے منہ کے بل گھسیٹ کر لائیں گے۔ راوی کہتے ہیں ہم نے کہا : ان دو گروہوں کو تو ہم پہچانتے ہیں لیکن چلنے اور دوڑنے والے کون لوگ ہوں گے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ تعالیٰ سواریوں پر موت کی آفت کو نازل کر دے گا۔ یہاں تک کہ ایک گھنے باغ والا شخص اگر اس کو عبور کرنے کے لیے کسی زین والی اونٹنی پر سوار ہوگا تو وہ اونٹنی اسے پار نہ کرسکے گی۔ (محدثین کے بیان کے مطابق اس جملے کا تعلق آخرت کے احوال سے نہیں ہے)

35537

(۳۵۵۳۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنِ الْمُغِیرَۃِ بْنِ النُّعْمَانِ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : قَامَ فِینَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِمَوْعِظَۃٍ ، فَقَالَ : إنَّکُمْ مَحْشُورُونَ إِلَی اللہِ حُفَاۃً عراۃ غُرْلاً {کَمَا بَدَأْنَا أَوَّلَ خَلْقٍ نُعِیدُہُ وَعْدًا عَلَیْنَا إنَّا کُنَّا فَاعِلِینَ} فَأَوَّلُ الْخَلاَئِقِ یُلْقَی بِثَوْبٍ إبْرَاہِیمُ خَلِیلُ الرَّحْمَن ، قَالَ : ثُمَّ یُؤْخَذُ بقَوْمٍ مِنْکُمْ ذَاتَ الشِّمَالِ فَأَقُولُ : یَا رَبِّ أَصْحَابِی ، فَیُقَالَ : إنَّک لاَ تَدْرِی مَا أَحْدَثُوا بَعْدَکَ، إنَّہُمْ لَمْ یَزَالُوا مُرْتَدِّینَ عَلَی أَعْقَابِہِمْ ، فَأَقُولُ کَمَا قَالَ الْعَبْدُ الصَّالِحُ : {وَکُنْت عَلَیْہِمْ شَہِیدًا} إِلَی قَوْلِہِ : {الْعَزِیزُ الْحَکِیمُ}۔ (مسلم ۲۱۹۴۔ ترمذی ۳۱۶۷)
(٣٥٥٣٨) حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے درمیان وعظ کہنے کھڑے ہوئے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ” یقیناً تم لوگ اللہ کی طرف ننگے سر، ننگے پاؤں اور غیر مختون حالت میں جمع کیے جاؤ گے۔ { کَمَا بَدَأْنَا أَوَّلَ خَلْقٍ نُعِیدُہُ وَعْدًا عَلَیْنَا إنَّا کُنَّا فَاعِلِینَ } مخلوق میں سے سب سے پہلے جس کو کپڑے پہنائے جائیں گے۔ وہ ابراہیم خلیل اللہ (علیہ السلام) ہوں گے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : پھر تم میں سے بائیں ہاتھ والے لوگوں کو پکڑا جائے گا تو میں کہوں گا۔ اے پروردگار ! یہ میرے ساتھی ہیں۔ کہا جائے گا آپ نہیں جانتے کہ انھوں نے آپ کے بعد کیا ایجاد کیا۔ یہ لوگ مسلسل اپنی ایڑیوں پر واپس پلٹتے رہے۔ اس پر میں وہی بات کہوں گا جو عبد صالح ۔۔۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ۔۔۔ نے کہی تھی۔

35538

(۳۵۵۳۹) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ إِسْحَاقَ ، عَنْ وُہَیْبٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ طَاوُوسٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : یُحْشَرُ النَّاسُ عَلَی ثَلاَثِ طَرَائِقَ رَاغِبِینَ رَاہِبِینَ ، وَاثْنَانِ عَلَی بَعِیرٍ وَثَلاَثَۃٌ عَلَی بَعِیرٍ۔ (بخاری ۶۵۲۲۔ مسلم ۲۱۹۵)
(٣٥٥٣٩) حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : لوگوں کو تین طریقوں سے جمع کیا جائے گا۔ رغبت کرنے والے، خوف کرنے والے اور ایک اونٹ پر دو ، اور ایک اونٹ پر تین۔

35539

(۳۵۵۴۰) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنِ ابْنِ أَبِی مُلَیْکَۃَ ، عَنْ عَائِشَۃَ ، قَالَتْ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَنْ حُوسِبَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ عُذِّبَ ، قُلْتُ : أَلَیْسَ قَالَ اللَّہُ : {فَسَوْفَ یُحَاسَبُ حِسَابًا یَسِیرًا} قَالَ: لَیْسَ ذَاکَ بِالْحِسَابِ ، إنَّمَا ذَاکَ الْعَرْضُ ، مَنْ نُوقِشَ الْحِسَابَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ عُذِّبَ۔ (مسلم ۲۲۰۴۔ احمد ۲۷)
(٣٥٥٤٠) حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے وہ کہتی ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” جس آدمی سے حساب لیا گیا قیامت کے دن، اس کو عذاب دیا جائے گا۔ میں نے پوچھا کیا یہ ارشاد خداوندی نہیں ہے : { فَسَوْفَ یُحَاسَبُ حِسَابًا یَسِیرًا } آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” یہ حساب نہیں ہے یہ تو صرف پیشی ہے جس آدمی سے حساب میں مناقشہ ہوا قیامت کے دن تو اس کو عذاب ہوگا۔

35540

(۳۵۵۴۱) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا ثَابِتٌ ، عَنْ أَنَسٍ ، أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : قَالَ : یُؤْتَی بِأَشَدِّ النَّاسِ کَانَ بَلاَئً فِی الدُّنْیَا مِنْ أَہْلِ الْجَنَّۃِ ، فَیَقُولُ اللَّہُ : اصْبُغُوہُ صِبْغَۃً فِی الْجَنَّۃِ ، فَیُصْبَغُ فِیہَا صِبْغَۃً فَیَقُولُ اللَّہُ : یَا ابْنَ آدَمَ ، ہَلْ رَأَیْت بُؤْسًا قَطُّ ، أَوْ شَیْئًا تَکْرَہُہُ فَیَقُولُ : لاَ وَعِزَّتِکَ ، مَا رَأَیْت شَیْئًا أَکْرَہُہُ قَطُّ ، ثُمَّ یُؤْتَی بِأَنْعَمِ النَّاسِ فِی الدُّنْیَا مِنْ أَہْلِ النَّارِ فَیَقُولُ : اصْبُغُوہُ صِبْغَۃً فِی النَّارِ ، فَیُصْبَغُ فِیہَا فَیَقُولُ : یَا ابْنَ آدَمَ ہَلْ رَأَیْت قَطُّ قُرَّۃَ عَیْنٍ فَیَقُولُ : لاَ وَعِزَّتِکَ مَا رَأَیْت خَیْرًا قَطُّ۔ (مسلم ۲۱۶۲۔ ابن ماجہ ۴۳۲۱)
(٣٥٥٤١) حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ” اہل جنت میں سے ایک ایسے آدمی کو لایا جائے گا جو دنیا میں بہت زیادہ مصیبتوں کا شکار ہوگا۔ تو ارشاد خداوندی ہوگا۔ اس آدمی کو جنت میں ایک غوطہ دو ۔ چنانچہ اس آدمی کو جنت میں غوطہ دیا جائے گا۔ پھر اللہ تعالیٰ فرمائیں گے اے آدم کے بیٹے ؟ کیا تو نے کبھی کوئی تکلیف یا ناپسندیدہ چیز دیکھی ہے ؟ وہ جواب دے گا۔ نہیں، آپ کی عزت کی قسم ! میں نے کبھی کوئی ناپسندیدہ چیز نہیں دیکھی۔ پھر اس کے بعد اہل جہنم میں سے اس آدمی کو لایا جائے گا جو دنیا میں سب سے زیادہ نعمتوں میں رہا ہوگا۔ ارشاد خداوندی ہوگا۔ اس کو جہنم میں ایک غوطہ دو ۔ چنانچہ اس کو جہنم میں غوطہ دیا جائے گا۔ پھر اللہ تعالیٰ پوچھیں گے : اے آدم کے بیٹے ! تم نے کبھی آنکھوں کی ٹھنڈک دیکھی ہے ؟ وہ جواب دے گا۔ آپ کی عزت کی قسم ! نہیں، میں نے تو کبھی کوئی خیر نہیں دیکھی۔

35541

(۳۵۵۴۲) حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ زِیَادٍ ، عَنْ مُوسَی الْجُہَنِیِّ ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ ثَقِیفٍ ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ : کُنْتُ أَخْدُمُ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ لِی یَوْمًا : ہَلْ عِنْدَکَ شَیْئٌ تُطْعِمُنَا قُلْتُ : نَعَمْ یَا رَسُولَ اللہِ ، فَضْلٌ مِنَ الطَّعَامِ الَّذِی کَانَ أَمْسِ ، قَالَ : أَلَمْ أَنْہَک أَنْ تَدَعَ طَعَامَ یَوْمٍ لِغَدٍ۔ (احمد ۱۹۸)
(٣٥٥٤٢) حضرت انس (رض) سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں جناب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت کیا کرتا تھا۔ ایک دن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے کہا : ” کیا تمہارے پاس کوئی چیز ہے جو تم ہمیں کھلاؤ ؟ “ میں نے عرض کیا جی ہاں۔ یا رسول اللہ 5! گزشتہ کل کے کھانے میں سے بچا ہوا موجود ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کیا میں نے تمہیں اس بات سے منع نہیں کیا کہ آنے والے کل کے لیے آج کا کھانا بچا کر رکھو ؟ “

35542

(۳۵۵۴۳) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، عَنِ الأَسْوَدِ ، عَنْ عَائِشَۃَ ، قَالَتْ : مَا شَبِعَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ثَلاَثَۃَ أَیَّامٍ تِبَاعًا مِنْ خُبْزِ بُرٍّ حَتَّی مَضَی لِسَبِیلِہِ۔ (بخاری ۵۴۱۶۔ مسلم ۲۲۸۱)
(٣٥٥٤٣) حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے وہ کہتی ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی وفات تک کبھی تین دن مسلسل پیٹ بھر کر گندم کے آٹے کی روٹی نہیں کھائی۔

35543

(۳۵۵۴۴) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنِ ابْنِ عَجْلاَنَ ، عَنِ الْقَعْقَاعِ ، عَنِ الْقَاسِمِ ، قَالَ : قالَتْ عَائِشَۃُ : إنْ کُنَّا لَنَمْکُثُ الشَّہْرَ ، أَوْ نِصْفَ الشَّہْرِ مَا یَدْخُلُ بَیْتَنَا نَارٌ لِمِصْبَاحٍ ، وَلاَ لِغَیْرِہِ ، فَقُلْتُ : بِأَیِّ شَیْئٍ کُنْتُمْ تَعِیشُونَ ، قَالَتْ : بِالأَسْوَدَیْنِ : الْمَائِ وَالتَّمْرِ ، وَکَانَ لَنَا جِیرَانٌ مِنَ الأَنْصَارِ جَزَاہُمُ اللَّہُ خَیْرًا لَہُمْ مَنَائِحُ فَرُبَّمَا بَعَثُوا إلَیْنَا مِنْ أَلْبَانِہَا۔
(٣٥٥٤٤) حضرت قاسم سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت عائشہ (رض) نے ارشاد فرمایا : ہم لوگ پورا پورا مہینہ یا آدھا مہینہ اس حال میں ٹھہرے رہتے کہ ہمارے گھر میں کوئی آگ ۔۔۔ چراغ کی ہو یا غیر چراغ کی ۔۔۔ داخل نہ ہوتی۔ میں نے (قاسم سے) کہا۔ پھر تم لوگ کس چیز کے ذریعہ زندگی گزارتے تھے ؟ انھوں نے فرمایا دو چیزوں کے ذریعہ۔ یعنی پانی اور کھجور۔ اور کچھ انصار ہمارے پڑوس میں تھے۔ اللہ تعالیٰ ان کو جزائے خیر دے۔ ان کے پاس اونٹنیاں تھیں تو بسا اوقات وہ ان اونٹنیوں کا دودھ ہماری طرف بھیج دیتے تھے۔

35544

(۳۵۵۴۵) حَدَّثَنَا مُعَاوِیَۃُ بْنُ ہِشَامٍ ، قَالَ: حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ بَعْضِ الْمَدَنِیِّینَ، عَنْ عَطَائِ بْنِ یَسَارٍ، قَالَ: تَعَرَّضَتِ الدُّنْیَا لِلنَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : إنِّی لَسْت أُرِیدُک ، قَالَتْ : إنْ لَمْ تُرِدْنِی فَسَیُرِیدُنِی غَیْرُک۔
(٣٥٥٤٥) حضرت عطاء بن یسار سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ جناب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے دنیا پیش ہوئی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ” میں تجھے نہیں چاہتا۔ دنیا نے کہا اگر آپ مجھے نہیں چاہتے تو عنقریب مجھے آپ کے علاوہ لوگ چاہیں گے۔

35545

(۳۵۵۴۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ قَیْسٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : فَضْلُ الْعِلْمِ خَیْرٌ مِنْ فَضْلِ الْعِبَادَۃِ ، وَمَلاَکُ دِینِکُمَ الْوَرَعُ۔
(٣٥٥٤٦) حضرت عمرو بن قیس سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : علم کی فضیلت، عبادت کی فضیلت سے بہتر ہے اور تمہارے دین کا خلاصہ پرہیزگاری ہے۔

35546

(۳۵۵۴۷) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنْ أَبِی الْفَضْلِ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنْ عَائِشَۃَ ، قَالَتْ : قُلْتُ : یَا رَسُولَ اللہِ ، أَتَذْکُرُونَ أَہَالِیَکُمْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ، فَقَالَ : أَمَّا عِنْدَ ثَلاَثٍ فَلاَ : عِنْدَ الْکِتَابِ ، وَعِنْدَ الْمِیزَانِ ، وَعِنْدَ الصِّرَاطِ۔ (ابوداؤد ۴۷۲۲۔ احمد ۱۰۱)
(٣٥٥٤٧) حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے وہ کہتی ہیں کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ 5! کیا آپ قیامت کے دن اپنے گھر والوں کو یاد کریں گے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” تین مقامات پر تو نہیں یاد کروں گا۔ نامہ اعمال کے وقت، میزان کے وقت اور پل صراط پر۔

35547

(۳۵۵۴۸) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنْ بَہْزِ بْنِ حَکِیمٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ جَدِّہِ ، قَالَ : قُلْتُ : یَا رَسُولَ اللہِ ، أَیْنَ تَأْمُرُنِی ، قَالَ : ہَاہُنَا ، وَقَالَ بِیَدِہِ نَحْوَ الشَّامِ إنَّکُمْ محْشُرُونَ رِجَالاً وَرُکْبَانًا وَتُحْشَرُونَ عَلَی وُجُوہِکُمْ۔ (ابن ماجہ ۲۵۳۶۔ طبرانی ۹۶۹)
(٣٥٥٤٨) حضرت بہز بن حکیم اپنے والد سے اور اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ 5! آپ مجھے کہاں کا حکم دیتے ہیں ؟ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے دست مبارک سے شام کی طرف اشارہ فرمایا : ” یقیناً تم لوگ سوار اور پاپیادہ جمع کیے جاؤ گے اور تم اپنے منہ کے بل جمع کیے جاؤ گے۔

35548

(۳۵۵۴۹) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ ہَارُونَ بْنِ أَبِی وَکِیعٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : لَمَّا نَزَلَتْ ہَذِہِ الآیَۃُ {الْیَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِینَکُمْ} قَالَ : یَوْمَ الْحَجِّ الأَکْبَرِ ، قَالَ : فَبَکَی عُمَرُ ، فَقَالَ لَہُ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: مَا یُبْکِیک ، قَالَ : یَا رَسُولَ اللہِ ، أَبْکَانِی أَنَّا کُنَّا فِی زِیَادَۃٍ مِنْ دِینِنَا ، فَأَمَّا إذ کَمُلَ فَإِنَّہُ لَمْ یَکْمُلْ قَطُّ شَیْئٌ إِلاَّ نَقَصَ ، قَالَ : صَدَقْتَ۔ (طبری ۸۰)
(٣٥٥٤٩) حضرت ہارون بن ابی وکیع، اپنے والد سے روایت کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ جب یہ آیت { الْیَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِینَکُمْ } نازل ہوئی راوی کہتے ہیں یہ حج اکبر کا دن تھا۔ کہتے ہیں حضرت عمر (رض) رو پڑے۔ تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عمر (رض) سے پوچھا : ” تمہیں کس بات پر رونا آرہا ہے ؟ “ حضرت عمر (رض) نے عرض کیا یا رسول اللہ 5! مجھے اس بات نے رلا دیا ہے کہ ہم پہلے اپنے دین میں زیادتی میں (امیدوار) ہوتے تھے۔ پس جب یہ دین کامل ہوگیا تو بات یہ ہے کہ جب بھی کوئی چیز کامل ہوتی ہے تو پھر اس میں نقص آنے لگتا ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” تم سچ کہہ رہے ہو۔

35549

(۳۵۵۵۰) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنِ الْعَلاَئِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَا مِنْ قَطْرَتَیْنِ أَحَبُّ إِلَی اللہِ مِنْ قَطْرَۃٍ فِی سَبِیلِہِ ، أَوْ مِنْ قَطْرَۃِ دُمُوعٍ قَطَرَتْ مِنْ عَیْنِ رَجُلٍ قَائِمٍ فِی جَوْفِ اللَّیْلِ مِنْ خَشْیَۃِ اللہِ ، وَمَا مِنْ جُرْعَتَیْنِ أَحَبُّ إِلَی اللہِ مِنْ جُرْعَۃٍ مُحْزِنَۃٍ مُوجِعَۃٍ رَدَّہَا صَاحِبُہَا بِحُسْنِ صَبْرٍ وَعَزَائٍ ، أَوْ جُرْعَۃِ غَیْظٍ کَظَمَ عَلَیْہَا۔ (ابن المبارک ۶۷۲۔ عبدالرزاق ۲۰۲۸۹)
(٣٥٥٥٠) حضرت حسن سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ” ان دو قطروں سے بڑھ کر کوئی قطرہ اللہ تعالیٰ کو محبوب نہیں ہے۔ ایک خون کا وہ قطرہ جو راہ خدا میں گرے اور ایک وہ قطرہ جو اس آدمی کی آنکھ سے خوف خدا کی وجہ سے ٹپک پڑے جو درمیان شب میں خدا کے حضور کھڑا ہو اور ان دو گھونٹوں سے بڑھ کر کوئی گھونٹ اللہ کو محبوب نہیں ہے۔ ایک تکلیف دہ اور غمناک گھونٹ جس کو آدمی اچھے صبر اور برداشت کے ذریعہ قبول کرے اور دوسرا غصہ کا گھونٹ جس کو آدمی ضبط کرلے۔

35550

(۳۵۵۵۱) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ یَمَانٍ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : کَانَتِ الْعِبَادَۃُ تَأْخُذُ علی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَیَخْرُجُ عَلَی أَصْحَابِہِ کَأَنَّہُ شِنٌّ بَالٍ۔
(٣٥٥٥١) حضرت حسن سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ جناب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر عبادت کا اس قدر غلبہ ہوتا تھا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے صحابہ (رض) کے پاس تشریف لاتے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مثل پرانے مشکیزہ کے محسوس ہوتے۔

35551

(۳۵۵۵۲) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَثَلُ الْمُؤْمِنِ مَثَلُ الزَّرْعِ لاَ تَزَالُ الرِّیحُ تُمِیلُہُ ، وَلاَ یَزَالُ الْمُؤْمِنُ یُصِیبُہُ بَلاَئٌ ، وَمَثَلُ الْکَافِرِ مَثَلُ شَجَرَۃِ الأَرْزِ لاَ تَہْتَزُّ حَتَّی تَسْتَحْصِدَ۔
(٣٥٥٥٢) حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : مومن کی مثال، کھیتی کی طرح ہے۔ ہوا اس کو مسلسل ہلاتی رہتی ہے۔ مومن کو بھی مسلسل آزمائشیں پہنچتی رہتی ہیں۔ اور کافر کی مثال، صنوبر کے درخت کی طرح ہے کہ وہ حرکت ہی نہیں کرتا یہاں تک کہ بالکل کاٹ دیا جاتا ہے۔

35552

(۳۵۵۵۳) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ وَمُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، قَالاَ : حدَّثَنَا زَکَرِیَّا بْنُ أَبِی زَائِدَۃَ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : حَدَّثَنِی ابن کَعْبُ بْنُ مَالِکٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَثَلُ الْمُؤْمِنِ کَمَثَلِ الْخَامَۃِ مِنَ الزَّرْعِ تَفِیئُہَا الرِّیحُ تَصْرَعُہَا مَرَّۃً وَتَعْدِلُہَا أُخْرَی حَتَّی تَہِیجَ وَمَثَلُ الْکَافِرِ کَمَثَلِ الأَرْزَۃِ الْمُجَذَّبَۃِ عَلَی أَصْلِہَا ، لاَ یَفِیئُہَا شَیْئٌ حَتَّی یَکُونَ انْجِعَافُہَا مَرَّۃً وَاحِدَۃً۔
(٣٥٥٥٣) حضرت کعب سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : مومن کی مثال، کچی کھیتی کی سی ہے کہ ہوائیں اس کو حرکت دیتی ہیں، کبھی اس کو ٹیڑھا کرتی ہیں اور کبھی اس کو سیدھا کرتی ہیں یہاں تک کہ وہ زرد ہوجاتی ہے اور کافر کی مثال، اس صنوبر کی سی ہے جو زمین میں موجود اپنی جڑ پر سیدھا کھڑا ہوتا ہے۔ کوئی شے اس کو حرکت نہیں دے سکتی یہاں تک کہ وہ ایک ہی مرتبہ جڑ سے اکھڑ جاتا ہے۔

35553

(۳۵۵۵۴) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ بُرَیْدِ بْنِ عَبْدِ اللہِ ، عَنْ أَبِی بُرْدَۃَ ، عَنْ أَبِی مُوسَی ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : الْمُؤْمِنُ لِلْمُؤْمِنِ کَالْبُنْیَانِ یَشُدُّ بَعْضُہُ بَعْضًا۔
(٣٥٥٥٤) حضرت ابوموسیٰ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ” مومن، مومن کے لیے عمارت کی طرح ہے کہ اس کا بعض، بعض کو مضبوط کرتا ہے۔

35554

(۳۵۵۵۵) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ یَعْلَی بْنِ عَطَائٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو ، قَالَ : مَثَلُ الْمُؤْمِنِ کَمَثَلِ النَّحْلَۃِ تَأْکُلُ طَیِّبًا وَتَضَعُ طَیِّبًا۔
(٣٥٥٥٥) حضرت عبداللہ بن عمرو سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ مومن کی مثال شہد کی مکھی کی سی ہے جو کھاتی بھی طیب ہے اور نکالتی بھی طیب ہے۔

35555

(۳۵۵۵۶) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ وَوَکِیعٌ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِیرٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : الْمُؤْمِنُونَ کَرَجُلٍ وَاحِدٍ إنِ اشْتَکَی رَأْسُہُ تَدَاعَی لَہُ سَائِرُ جَسَدِہِ بِالْحُمَّی وَالسَّہَرِ۔ (بخاری ۶۰۱۱۔ مسلم ۲۰۰۰)
(٣٥٥٥٦) حضرت نعمان بن بشیر سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ” تمام اہل ایمان کی مثال ایک آدمی کی سی ہے۔ اگر آدمی کا سر شکایت کرتا ہے تو آدمی کا سارا بدن بخار اور شب بیداری میں اس کا ساتھ دیتا ہے۔

35556

(۳۵۵۵۷) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ إِسْحَاقَ ، عَنِ ابْنِ مُبَارَکٍ ، عَنْ مُصْعَبِ بْنِ ثَابِتٍ، قَالَ: حدَّثَنِی أَبُو حَازِمٍ، قَالَ: سَمِعْتُ سَہْلَ بْنَ سَعْدٍ یُحَدِّثُ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : الْمُؤْمِنُ مِنْ أَہْلِ الإِیمَانِ بِمَنْزِلَۃِ الرَّأْسِ مِنَ الْجَسَد، یَأْلَمُ الْمُؤْمِنُ لأَہْلِ الإِیمَانِ کَمَا یَأْلَمُ الْجَسَدُ لِمَا فِی الرَّأْسِ۔(احمد ۳۴۰۔ طبرانی ۴۶۹۳)
(٣٥٥٥٧) حضرت سہل بن سعد، جناب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ” مومن (دیگر) اہل ایمان کے لیے جسم میں بمنزلہ سر کے ہے۔ مومن، اہل ایمان کا دکھ اسی طرح محسوس کرتا ہے جس طرح سر کا دکھ درد بقیہ جسم محسوس کرتا ہے۔

35557

(۳۵۵۵۸) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَنْ سِمَاکٍ ، عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِیرٍ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : مَثَلُ الْمُؤْمِنِ کَمَثَلِ الْجَسَدِ إذَا أَلِمَ بَعْضُہُ تَدَاعَی لِذَلِکَ کُلُّہُ۔ (احمد ۲۷۴۔ طیالسی ۷۹۳)
(٣٥٥٥٨) حضرت نعمان بن بشیر جناب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کرتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : مومن کی مثال، جسم کی طرح ہے کہ جب اس کا بعض حصہ تکلیف میں ہوتا ہے تو بقیہ جسم بھی اس تکلیف میں اس کے ساتھ ہوتا ہے۔

35558

(۳۵۵۵۹) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ طَلْحَۃَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جُحَادَۃَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لاَ یَرْفَعُ عَبْدٌ نَفْسَہُ إِلاَّ وَضَعَہُ اللَّہُ وَلاَ یَضَعُ عَبْدٌ نَفْسَہُ إِلاَّ رَفَعَہُ اللَّہُ۔ (مسلم ۲۰۰۱)
(٣٥٥٥٩) حضرت حسن سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : کوئی آدمی اپنے آپ کو اوپر نہیں اٹھاتا مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ اس کو نیچا کردیتے ہیں اور کوئی آدمی اپنے آپ کو نیچا نہیں کرتا مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ اس کو بلند کردیتا ہے۔

35559

(۳۵۵۶۰) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، عَن عَبِیْدَۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : قَالَ لِی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : اقْرَأْ عَلَیَّ الْقُرْآنَ ، قَالَ : قُلْتُ : یَا رَسُولَ اللہِ ، أَقْرَأُ عَلَیْک وَعَلَیْک أُنْزِلَ ، قَالَ : إنِّی أَشْتَہِی أَنْ أَسْمَعَہُ مِنْ غَیْرِی ، قَالَ : فَقَرَأْت النِّسَائَ حَتَّی إذَا بَلَغْت : {فَکَیْفَ إذَا جِئْنَا مِنْ کُلِّ أُمَّۃٍ بِشَہِیدٍ وَجِئْنَا بِکَ عَلَی ہَؤُلاَئِ شَہِیدًا} رَفَعْت رَأْسِی ، أَوْ غَمَزَنِی رَجُلٌ إِلَی جَنْبِی فَرَأَیْتُ دُمُوعَہُ تَسِیلُ۔
(٣٥٥٦٠) حضرت عبداللہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھ سے کہا : ” تم مجھے قرآن سناؤ۔ حضرت عبداللہ کہتے ہیں میں نے عرض کیا یا رسول اللہ 5! کیا میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پڑھ کر سناؤں ؟ حالانکہ آپ پر تو قرآن نازل ہوا ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” میں چاہتا ہوں کہ میں اپنے علاوہ کسی سے قرآن سنوں۔ راوی کہتے ہیں پس میں نے سورة نساء پڑھنی شروع کی۔ یہاں تک کہ جب میں { فَکَیْفَ إذَا جِئْنَا مِنْ کُلِّ أُمَّۃٍ بِشَہِیدٍ وَجِئْنَا بِکَ عَلَی ہَؤُلاَئِ شَہِیدًا } پر پہنچا میں نے اپنا سر اٹھایا ۔۔۔ یا مجھے پہلو میں بیٹھے آدمی نے متوجہ کیا ۔۔۔ تو میں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیکھا کہ آپ کے آنسو بہہ رہے تھے۔

35560

(۳۵۵۶۱) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ حُبَابٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنِی مُعَاوِیَۃُ بْنُ صَالِحٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِی عَمْرُو بْنُ قَیْسٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ بُسْرٍ ، أَنَّ أَعْرَابِیًّا ، قَالَ لِرَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : أَیُّ النَّاسِ خَیْرٌ ، قَالَ : مَنْ طَالَ عُمُرُہُ وَحَسُنَ عَمَلُہُ۔
(٣٥٥٦١) حضرت عبداللہ بن بسر سے روایت ہے کہ ایک دیہاتی نے جناب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا لوگوں میں کون سب سے بہتر ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” جس کی عمر لمبی ہو اور عمل اچھا ہو۔

35561

(۳۵۵۶۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ کَثِیرِ بْنِ زَیْدٍ ، عَنْ سلمۃ بْنِ أَبِی یَزِیدَ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إنَّ مِنْ سَعَادَۃِ الْمَرْئِ أَنْ یَطُولَ عُمُرُہُ وَیَرْزُقَہُ اللَّہُ الإِنَابَۃَ إلَیْہِ۔ (احمد ۳۳۳۔ بزار ۳۲۴۰)
(٣٥٥٦٢) حضرت جابر بن عبداللہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ” یقیناً یہ بات آدمی کی خوش بختی کی علامت ہے کہ اس کی عمر لمبی ہو اور اللہ تعالیٰ اس کو اپنی طرف رجوع کی توفیق دے دیں۔

35562

(۳۵۵۶۳) حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاہِیمَ عَن أَبِی سَلَمَۃَ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: خَیْرُکُمْ أَطْوَلُکُمْ أَعْمَارًا وَأَحْسَنُکُمْ أَعْمَالاً۔(بزار ۱۹۷۱)
(٣٥٥٦٣) حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : تم میں سے بہترین لوگ وہ ہیں جن کی عمریں لمبی ہوں اور ان کے اعمال اچھے ہوں۔

35563

(۳۵۵۶۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ طَلْحَۃَ بْنِ یَحْیَی ، قَالَ : حدَّثَنِی إبْرَاہِیمُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ طَلْحَۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ شَدَّادٍ ، قَالَ : جَائَ ثَلاَثَۃُ رَہْطٍ مِنْ بَنِی عُذْرَۃٍ إِلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَأَسْلَمُوا ، قَالَ : فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَنْ یَکْفِینِی ہَؤُلاَئِ ، قَالَ : فَقَالَ : طَلْحَۃُ : أَنَا ، قَالَ : فَکَانُوا عِنْدِی ، قَالَ : فَضُرِبَ عَلَی النَّاسِ بَعْثٌ ، قَالَ : فَخَرَجَ أَحَدُہُمْ فَاسْتُشْہِدَ ، ثُمَّ ضُرِبَ بَعْثٌ فَخَرَجَ الثَّانِی فِیہِ فَاسْتُشْہِدَ ، قَالَ : وَبَقِیَ الثَّالِثُ حَتَّی مَاتَ مَرِیضًا عَلَی فِرَاشِہِ ، قَالَ طَلْحَۃُ : فَرَأَیْتُ فِی النَّوْمِ کَأَنِّی أُدْخِلْت الْجَنَّۃَ فَرَأَیْتہمْ أَعْرِفُہُمْ بِأَسْمَائِہِمْ وَسِیمَاہُمْ ، قَالَ : فَإِذَا الَّذِی مَاتَ عَلَی فِرَاشِہِ دَخَلَ أَوَّلَہُمْ ، وَإِذَا الثَّانِی مِنَ الْمُسْتَشْہِدِینَ عَلَی أَثَرِہِ ، وَإِذَا أَوَّلُہُمْ آخِرُہُمْ ، قَالَ فَدَخَلَنِی مِنْ ذَلِکَ ، قَالَ : فَأَتَیْت النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَذَکَرْت ذَلِکَ لَہُ ، فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لَیْسَ أَحَدٌ عِنْدَ اللہِ أَفْضَلَ مِنْ مُعَمِّرٍ یُعَمَّرُ فِی الإِسْلاَمِ لِتَہْلِیلِہِ وَتَکْبِیرِہِ وَتَسْبِیحِہِ وَتَحْمِیدِہِ۔ (نسائی ۱۰۶۷۴۔ احمد ۱۶۳)
(٣٥٥٦٤) حضرت عبداللہ بن شداد سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ قبیلہ بنو عذرہ کے تین لوگ جناب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اسلام لے آئے۔ راوی کہتے ہیں آپ نے پوچھا : ” ان لوگوں کو میری طرف سے کون کفایت کرے گا ؟ “ راوی کہتے ہیں حضرت طلحہ نے کہا میں۔ طلحہ کہتے ہیں پس وہ میرے پاس ہی تھے۔ کہتے ہیں کہ لوگوں کو ایک سفر میں جانا پڑا۔ راوی کہتے ہیں پس ان میں سے ایک باہر سفر میں گیا اور شہید ہوگیا۔ پھر ایک اور سفر درپیش ہوا تو دوسرا آدمی اس میں شامل ہوا اور وہ بھی شہید ہوگیا۔ راوی کہتے ہیں تیسرا آدمی رہ گیا یہاں تک کہ وہ اپنے بستر پر ہی بیمار ہو کر مرگیا۔ حضرت طلحہ (رض) کہتے ہیں پس میں نے خواب میں دیکھا کہ میں جنت میں داخل ہوگیا ہوں۔ میں ان لوگوں کو ان کے ناموں اور نشانوں سے پہچانتا تھا۔ کہتے ہیں کہ پس جو آدمی ان میں سے اپنے بستر پر مرا تھا وہ ان دونوں سے پہلے جنت میں داخل ہوا۔ اور دوسرا شہید ہونے والا اس کے بعد آیا۔ اور ان میں سے پہلا شہید ہونے والا، سب سے آخر میں آیا۔ راوی کہتے ہیں یہ دیکھ کر میرے دل میں کچھ خیال سا آیا۔ کہتے ہیں میں جناب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور میں نے آپ کے سامنے یہ بات ذکر کی۔ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ” اللہ تعالیٰ کے ہاں اس معمر آدمی سے زیادہ کسی کو فضیلت نہیں ہے جو اسلام میں عمر گزار کر گیا ہو۔ کیونکہ اس نے لا الہ الا اللہ، اللہ اکبر، سبحان اللہ اور الحمد للہ پڑھا ہے۔

35564

(۳۵۵۶۵) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، عَنْ زُہَیْرٍ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ زَیْدٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِی بَکْرَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : جَائَ رَجُلٌ إِلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : أَیُّ النَّاسِ أَفْضَلُ ، قَالَ : مَنْ طَالَ عُمُرُہُ وَحَسُنَ عَمَلُہُ ، قَالَ : أَیُّ النَّاسِ شَرٌّ ، قَالَ : مَنْ طَالَ عُمُرُہُ وَسَائَ عَمَلُہُ۔ (ترمذی ۲۳۳۰۔ احمد ۴۸)
(٣٥٥٦٥) حضرت عبدالرحمن بن ابی بکرہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ وہ کہتے ہیں کہ جناب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں ایک آدمی آیا اور اس نے کہا : لوگوں میں سے کون سب سے افضل ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جواب میں فرمایا : ” جس کی عمر لمبی ہو اور اس کا عمل اچھا ہو۔ سائل نے پوچھا : لوگوں میں سے سب سے برا کون ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” جس کی عمر لمبی ہو اور اس کے عمل برے ہوں۔

35565

(۳۵۵۶۶) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَیْمُونٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ رُبیعَۃَ ، عَنْ عُبَیْدِ بْنِ خَالِدٍ السُّلَمِیِّ ، قَالَ : آخَی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَیْنَ رَجُلَیْنِ ، فَقُتِلَ أَحَدُہُمَا وَالآخَرُ بَعْدَہُ ، فَصَلَّیْنَا عَلَیْہِ ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَا قُلْتُمْ ، قَالُوا : دَعَوْنَا اللَّہَ لَہُ اللَّہُمَّ أَلْحِقْہُ بِصَاحِبِہِ ، قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : فَأَیْنَ صَلاَتُہُ بَعْدَ صَلاَتِہِ وَصِیَامُہُ بَعْدَ صِیَامِہِ وَأَیْنَ عَمَلُہُ بَعْدَ عَمَلِہِ شَکَّ فِی الصَّوْمِ وَالْعَمَلُ الَّذِی بَیْنَہُمَا کَمَا بَیْنَ السَّمَائِ وَالأَرْضِ۔ (احمد ۲۱۹۔ ابوداؤد ۲۵۱۶)
(٣٥٥٦٦) حضرت عبید بن خالد سلمی سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دو آدمیوں کے درمیان مواخات قائم فرمائی۔ پھر ان میں سے ایک (راہ خدا میں) قتل ہوا اور دوسرا اس کے بعد مرا۔ پھر ہم نے اس کا جنازہ پڑھا۔ تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا : ” تم نے کیا کہا ہے ؟ “ صحابہ (رض) نے کہا : ہم نے اس کے لیے دعا کی ہے کہ اے اللہ ! اس کو اس کے ساتھی کے ساتھ ملا دے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” تو پھر اس کے (پہلے کے) بعد اس کی نمازیں کہاں جائیں گی ؟ اور اس کے روزوں کے بعد اس کے روزے کہاں جائیں گے۔ اور اس کے عمل کے بعد اس کا عمل کہاں جائے گا ؟ “ راوی کو روزے کے بارے میں شک ہے۔ ” ان دونوں کے درمیان جو عمل ہے وہ زمین و آسمان کے درمیان کی طرح ہے۔

35566

(۳۵۵۶۷) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ ، قَالَ : قَالَ الْعَبَّاسُ لأَعْلَمَنَّ مَا بَقَاء رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِینَا ، فَقُلْتُ : یَا رَسُولَ اللہِ لَوَ اتَّخَذْت عَرِیشًا فَکَلَّمْت النَّاسَ ، فَإِنَّہُمْ قَدْ آذَوْک ، قَالَ : لاَ أَزَالُ بَیْنَ أَظْہُرِہِمْ یَطَؤُونَ عَقِبِی وَیُنَازِعُونِی رِدَائِی وَیُصِیبُنِی غُبَارُہُمْ حَتَّی یَکُونَ اللَّہُ یُرِیحُنِی مِنْہُمْ۔ (بزار ۲۴۶۶۔ دارمی ۷۵)
(٣٥٥٦٧) حضرت عکرمہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت عباس (رض) نے فرمایا میں ضرور بالضرور بتاؤں گا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ہمارے درمیان رہنا کیسا تھا ؟ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! اگر آپ شامیانہ بنالیں پھر لوگوں سے باتیں کریں۔ کیونکہ لوگ آپ کو تکلیف دیتے ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” میں مسلسل ان کے درمیان ہی رہوں گا۔ یہ لوگ میری ایڑیاں روندتے رہیں گے اور میری چادر کے اندر میرے ساتھ جھگڑتے رہیں گے۔ اور مجھے ان کی گرد لگتی رہے گی یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ مجھے ان سے آرام دے دے۔

35567

(۳۵۵۶۸) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْن بُکَیْر ، قَالَ : أَخْبَرَنَا مُسْلِمُ بْنُ سَعِیدٍ الْوَاسِطِیُّ ، عَنْ مَنْصُورِ بْنِ زَاذَانَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُؤَاسِی النَّاسَ بِنَفْسِہِ حَتَّی جَعَلَ یُرَقِّعُ إزَارَہُ بِالأَدَمِ ، وَمَا جَمَعَ بَیْنَ عَشَائٍ وَغَدَائٍ ثَلاَثَۃَ أَیَّامٍ وِلاَئً حَتَّی قَبَضَہُ اللَّہُ۔
(٣٥٥٦٨) حضرت حسن سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ جناب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگوں کو اپنی ذات کے ذریعہ تسلی دیتے تھے۔ یہاں تک کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے ازار کو چمڑے کے ذریعہ پیوند لگاتے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وفات تک کبھی تین دن مسلسل صبح وشام کا کھانا اکٹھا نہیں فرمایا۔

35568

(۳۵۵۶۹) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنْ بَہْزِ بْنِ حَکِیمٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ جَدِّہِ ، قَالَ : قُلْتُ یَا رَسُولَ اللہِ ، ہَذَا دِینُنَا ، قَالَ : ہَذَا دِینُکُمْ ، وَأَیْنَمَا تُحْسِنْ یَکْفِیکَ۔
(٣٥٥٦٩) حضرت بہز بن حکیم، اپنے والد، اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا۔ یا رسول اللہ 5! یہ ہمارا دین ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” یہ تمہارا دین ہے۔ جس طرح بھی اس کو خوب صورت کرو تمہیں کفایت کرے گا۔

35569

(۳۵۵۷۰) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ بُکَیْر ، قَالَ : حدَّثَنَا زُہَیْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، عَنْ خَالِدِ بْنِ سَعِیدٍ ، عَنِ الْمُطَّلِبِ بْنِ حَنْطَبٍ ، أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : مَنْ قَالَ ، قَبَّحَ اللَّہُ الدُّنْیَا ، قَالَتِ الدُّنْیَا : قَبَّحَ اللَّہُ أَعْصَانَا لَہُ۔ (حاکم ۳۱۳)
(٣٥٥٧٠) حضرت مطلب بن حنطب سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ” جو آدمی یہ کہے اللہ تعالیٰ دنیا کو برا کرے، تو دنیا کہتی ہے۔ اللہ تعالیٰ اس شخص کو برا کرے جو اللہ کا نافرمان ہے۔

35570

(۳۵۵۷۱) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ یَمَانٍ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ نِسْطَاسٍ ، عَنْ سَعِیدٍ الْمَقْبُرِیِّ ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : خَیْرُ النَّاسِ مَنْ یُرْجَی خَیْرُہُ وَیُؤْمَنُ شَرُّہُ ، وَشَرُّ النَّاسِ مَنْ لاَ یُرْجَی خَیْرُہُ وَلاَ یُؤْمَنُ شَرُّہُ۔ (ترمذی ۲۲۶۳۔ حاکم ۲۶۹)
(٣٥٥٧١) حضرت سعید المقبری سے روایت ہے کہ جناب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ” لوگوں میں سے بہترین آدمی وہ ہے جس کے خیر کی امید کی جائے اور اس کے شر سے امن ہو اور لوگوں میں سے بدترین آدمی وہ ہے جس کے خیر کی امید نہ ہو اور شر سے امن نہ ہو۔

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔