hadith book logo

HADITH.One

HADITH.One

Urdu

Support

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Ibn Abi Shaybah

11. نکاح سے متعلقہ احادیث

ابن أبي شيبة

16151

حدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ بَقِیُّ بْنُ مَخْلَدٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا أَبُو بَکْرٍ عَبْدُ اللہِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِی شَیْبَۃَ ، قَالَ : (۱۶۱۵۲) حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ مُعَاذٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ مَیْمُونٍ أَبِی المُغَلِّسِ ، عَنْ أَبِی نَجِیحٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَنْ کَانَ مُوسِرًا لأَنْ یَنْکِحَ فَلَمْ یَنْکِحْ فَلَیْسَ مِنَّا۔ (ابوداؤد ۲۰۲۔ عبدالرزاق ۱۰۳۷۶)
(١٦١٥٢) حضرت ابو نجیح سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ جو نکاح کی وسعت رکھنے کے باوجود نکاح نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں۔

16152

(۱۶۱۵۳) حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُبَارَکِ ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ : عَنْ سَعْدٍ ، أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَدَّ عَلَی عُثْمَانَ بْنِ مَظْعُونٍ التَّبَتُّلَ ، وَلَوْ أَذِنَ لَہُ لاَخْتَصَیْنَا۔ (مسلم ۱۰۲۰۔ احمد ۱/۱۷۶)
(١٦١٥٣) حضرت سعد (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عثمان بن مظعون (رض) کو بغیر شادی کے رہنے سے منع فرمایا۔ اگر آپ انھیں اجازت دے دیتے تو ہم اپنے آپ کو خصی کرلیتے۔

16153

(۱۶۱۵۴) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، عَنْ عَلْقَمَۃَ قَالَ : کُنْتُ أَمْشِی مَعَ عَبْدِ اللہِ بِمِنًی ، فَلَقِیَہُ عُثْمَانُ فَقَامَ مَعَہُ یُحَدِّثُہُ ، فَقَالَ لہ عُثْمَانُ : یَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، أَلاَ أُزَوِّجُک جَارِیَۃً شَابَّۃً لَعَلَّہَا تُذَکِّرُک بَعْضَ مَا مَضَی مِنْ زَمَانِکَ ؟ فَقَالَ عَبْدُ اللہِ أَمَا لَئِنْ قُلْتُ ذَلِکَ لَقَدْ قَالَ لَنَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: یَا مَعْشَرَ الشَّبَابِ ، مَنِ اسْتَطَاعَ مِنْکُمُ الْبَائَۃَ فَلْیَتَزَوَّجْ ، فَإِنَّہُ أَغَضُّ لِلْبَصَرِ ، وَمَنْ لَمْ یَسْتَطِعْ فَعَلَیْہِ بِالصَّوْمِ ، فَإِنَّہُ لَہُ وِجَائٌ۔ (بخاری ۵۰۶۵۔ مسلم ۱۰۱۸)
(١٦١٥٤) حضرت علقمہ فرماتے ہیں کہ میں منیٰ میں حضرت عبداللہ (رض) کے ساتھ چل رہا تھا۔ اس دوران امیر المؤمنین حضرت عثمان (رض) سے ان کی ملاقات ہوئی تو وہ ان کے ساتھ کھڑے ہو کر باتیں کرنے لگے۔ حضرت عثمان (رض) نے ان سے کہا اے ابو عبد الرحمن ! میں ایک جوان لڑکی سے آپ کی شادی نہ کروادوں ؟ شاید وہ آپ کے ماضی کو تازہ کرسکے۔ حضرت عبداللہ (رض) نے فرمایا کہ آپ بھی یہ بات کی ہے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ اے نوجوانوں ! تم میں جو شادی اور اس کے متعلقات پر دسترس رکھتا ہو اسے چاہیے کہ شادی کرلے، کیونکہ شادی نگاہ کو جھکانے والی اور شرمگاہ کو پاکیزہ بنانے والی ہے۔ جو شخص شادی کی طاقت نہ رکھتا ہو وہ مستقل روزہ رکھے کیونکہ یہ روزہ گناہوں کے مقابلے میں ڈھال بن جائے گا۔

16154

(۱۶۱۵۵) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِِ ، عَنْ عُمَارَۃَ بْنِ عُمَیْرٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ یَزِیدَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ قَالَ: قَالَ لَنَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : یَا مَعْشَرَ الشَّبَابِ ، مَنِ اسْتَطَاعَ مِنْکُمُ الْبَائَۃَ فَلْیَتَزَوَّجْ ، فَإِنَّہُ أَغَضُّ لِلْبَصَرِ وَأَحْصَنُ لِلْفَرْجِ ، وَمَنْ لَمْ یَسْتَطِعْ فَعَلَیْہِ بِالصَّوْمِ ، فَإِنَّہُ لَہُ وِجَائٌ۔ (بخاری ۵۰۶۶۔ مسلم ۱۰۱۹)
(١٦١٥٥) حضرت عبداللہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ اے نوجوانوں ! تم میں جو شادی اور اس کے متعلقات پر دسترس رکھتاہو اسے چاہیے کہ شادی کرلے، کیونکہ شادی نگاہ کو جھکانے والی اور شرمگاہ کو پاکیزہ بنانے والی ہے۔ جو شخص شادی کی طاقت نہ رکھتا ہو وہ مستقل روزہ رکھے کیونکہ یہ روزہ گناہوں کے مقابلے میں ڈھال بن جائے گا۔

16155

(۱۶۱۵۶) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، عَنْ أَبِی رَجَائٍ ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ خَالِدٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ : عَنْ شَدَّادِ بْنِ أَوْسٍ ، وَکَانَ قَدْ ذَہَبَ بَصَرُہُ قَالَ : زَوِّجُونِی فَإِنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَوْصَانِی أَنْ لاَ أَلْقَی اللَّہَ أَعْزَبًا۔
(١٦١٥٦) حضرت زہری فرماتے ہیں کہ جب حضرت شداد بن اوس کی بینائی ختم ہوگئی تھی تو انھوں نے فرمایا کہ میری شادی کرادو۔ کیونکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے نصیحت فرمائی تھی کہ میں اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملاقات نہ کرو کہ میں شادی شدہ نہ ہوں۔

16156

(۱۶۱۵۷) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، عَنْ أَبِی رَجَائٍ ، عَنِ الْحَکَمِ بْنِ زَیْدٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : قَالَ مُعَاذُ فِی مَرَضِہِ الَّذِی مَاتَ فِیہِ : زَوِّجُونِی إنِّی أَکْرَہُ أَنْ أَلْقَی اللَّہَ أَعْزَبًا۔
(١٦١٥٧) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ حضرت معاذ (رض) نے اپنی مرض الوفات میں فرمایا کہ میری شادی کرا دو کیونکہ میں اللہ تعالیٰ سے بغیر نکاح کی حالت کے ملنا پسند نہیں کرتا۔

16157

(۱۶۱۵۸) حَدَّثَنَا سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنِ إبْرَاہِیمَ بْنِ مَیْسَرَۃَ ، قَالَ : قَالَ لِی طَاوُوسٌ : لَتَنْکِحَنَّ ، أَوْ لأَقُولَنَّ لَکَ مَا قَالَ عُمَرُ لأَبِی الزَّوَائِد : مَا یَمْنَعُک مِنَ النِّکَاحِ إلاَّ عَجْزٌ ، أَوْ فُجُورٌ۔
(١٦١٥٨) حضرت ابراہیم بن میسرہ فرماتے ہیں کہ حضرت طاؤس نے مجھ سے فرمایا کہ یا تو نکاح کرلو ورنہ میں تمہیں وہی بات کہوں گا جو حضرت عمر (رض) نے ابو الزوائد سے کہی تھی کہ تمہیں نکاح سے یا تو کمزوری نے روکا ہے یا بدکاری نے۔

16158

(۱۶۱۵۹) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ حُجَیرٍ ، عَنْ طَاوُوسٍ قَالَ : لاَ یَتِمُّ نُسُکُ الشَّابِّ حَتَّی یَتَزَوَّجَ۔
(١٦١٥٩) حضرت طاوس فرماتے ہیں کہ جوان کی عبادتیں اور قربانیاں بغیر نکاح کے کامل نہیں ہوسکتیں۔

16159

(۱۶۱۶۰) حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ عَوَّامٍ ، عَنْ سُفْیَانَ بْنِ حُسَیْنٍ ، عَنْ أَبِی الْحَکَمِ سَیَّارٍ ، عَنْ أَبِی وَائِلٍ ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ قَالَ : لَوْ لَمْ أَعِشْ أَوَ لو لَمْ أَکُنْ فِی الدُّنْیَا إلاَّ عَشْرًا لأَحْبَبْت أَنْ یَکُونَ عِنْدِی فِیہِنَّ امْرَأَۃً۔
(١٦١٦٠) حضرت ابن مسعود (رض) فرماتے ہیں کہ اگر مجھے دنیا میں صرف دس دن زندہ رہناہو تو میری خواہش ہوگی کہ میری کوئی بیوی ہو۔

16160

(۱۶۱۶۱) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : تَزَوَّجُوا النِّسَائَ فَإِنَّہُنَّ یَأْتِینَکُمْ بِالْمَالِ۔
(١٦١٦١) حضرت عروہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ عورتوں سے نکاح کرو کیونکہ ان کی وجہ سے تمہیں مال ملے گا۔

16161

(۱۶۱۶۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ مِسْعَرٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْتَشِرِ ، قَالَ : قَالَ عُمَرُ ابْتَغُوا الْغِنَی فِی الْبَائَۃ۔
(١٦١٦٢) حضرت عمر (رض) فرماتے ہیں کہ شادی کرکے مال کی امید رکھو۔

16162

(۱۶۱۶۳) حَدَّثَنَا مُعَاذٌ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ بْنِ مَیْسَرَۃَ ، عَنْ طَاوُوسٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لَمْ یُرَ لِلْمُتَحَابَّیْنِ مِثْلَ النِّکَاحِ۔ (بیہقی ۷۸)
(١٦١٦٣) حضرت طاؤس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ محبت کرنے والوں کے لیے نکاح جیسی کوئی چیز نہیں۔

16163

(۱۶۱۶۴) حَدَّثَنَا عَبْد اللہِ قَالَ : حدَّثَنَا إسْرَائِیلُ عن أبی إسحاق ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ یَزِیدَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ قَالَ : لَوْ لَمْ یَبْقَ مِنَ الدَّہْرِ إلاَّ لَیْلَۃً لأَحْبَبْت أَنْ یَکُونَ لِی فِی تِلْکَ اللَّیْلَۃِ امْرَأَۃً۔
(١٦١٦٤) حضرت ابن مسعود (رض) فرماتے ہیں کہ اگر مجھے دنیا میں صرف ایک رات زندہ رہناہو تو میری خواہش ہوگی کہ میری کوئی بیوی ہو۔

16164

(۱۶۱۶۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ بْنِ أَبِی خَالِدٍ ، عَنْ قَیْسٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ قَالَ : کُنَّا مَعَ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ شَبَابٌ ، فَقُلْنَا یَا رَسُولَ اللہِ أَلاَ نَسْتَخْصِی ؟ قَالَ : لاَ ، ثُمَّ رَخَّصَ لَنَا أَنْ نَنْکِحَ الْمَرْأَۃَ بِالثَّوْبِ إلَی الأَجَلِ ، ثُمَّ قَرَأَ عَبْدُ اللہِ {یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا لاَ تُحَرِّمُوا طَیِّبَاتِ مَا أَحَلَّ اللَّہُ لَکُمْ}۔ (بخاری ۴۶۱۵۔ مسلم ۱۱)
(١٦١٦٥) حضرت عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ ہم نوجوان حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس تھے، ہم نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! ہم اپنی مردانہ خواہشات کو ختم نہ کرلیں ؟ آپ نے فرمایا نہیں۔ پھر آپ نے اس بات کی رخصت دی کہ ہم کسی کپڑے کے بدلے عورت سے ہمیشہ کا نکاح کرلیں۔ پھر آپ نے یہ آیت پڑھی (ترجمہ) اے ایمان والو ! اپنے اوپر اللہ تعالیٰ کی حلال کردہ پاکیزہ چیزوں کو حرام نہ کرو۔

16165

(۱۶۱۶۶) حَدَّثَنَا صَاحِبٌ لَنَا یُکَنَّی بِأَبِی بَکْرٍ قَالَ : حدَّثَنَا ابْنُ ہِشَامٍ الدَّسْتَوَائِیُّ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، عَنْ سَمُرَۃَ : أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَہَی ، عَنِ التَّبَتُّلِ۔ (ترمذی ۱۰۸۲۔ احمد ۵/۱۷)
(١٦١٦٦) حضرت سمرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بغیر شادی کے رہنے سے منع فرمایا ہے۔

16166

(۱۶۱۶۷) حدَّثَنَا مُعَاذٌ قَالَ : أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَیْجٍ ، عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ مُوسَی ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ عُرْوَۃَ ، عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : أَیُّمَا امْرَأَۃٍ لَمْ یُنْکِحْہَا الْوَلِیُّ ، أَوِ الْوُلاَۃُ فَنِکَاحُہَا بَاطِلٌ فَنِکَاحُہَا بَاطِلٌ ، قَالَہَا ثَلاَثًا ، فَإِنْ أَصَابَہَا فَلَہَا مَہْرُہَا بِمَا أصاب مِنْہَا ، فَإِنَ اشْتَجَرُوا فَالسُّلْطَانُ وَلِیُّ مَنْ لاَ وَلِیَّ لَہُ۔ (ابوداؤد ۲۰۷۶۔ احمد ۶/۱۶۵)
(١٦١٦٧) حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ جس عورت نے ولی یا سرپرستوں کی اجازت کے بغیر نکاح کیا اس کا نکاح باطل ہے، اس کا نکاح باطل ہے، اس کا نکاح باطل ہے۔ اگر اس کے خاوند نے اس سے نفع اٹھایا تو عورت کو اتنا مہر مل جائے گا جس قدر اس نے نفع اٹھایا۔ اگر ولیوں کا اختلاف ہوجائے تو سلطان اس کا ولی ہے جس کا کوئی ولی نہیں۔

16167

(۱۶۱۶۸) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنِ ابْنِ أَخٍ لِعُبَیْدِ بْنِ عُمَیْرٍ ، عنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مَعْبَد أَنَّ عُمَر رَدَّ نِکَاحَ امْرَأَۃٍ نُکِحَتْ بِغَیْرِ إذْنِ وَلِیِّہَا۔
(١٦١٦٨) حضرت عبد الرحمن بن معبد فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے عورت کے ولی کی اجازت کے بغیر کئے گئے نکاح کو رد کردیا تھا۔

16168

(۱۶۱۶۹) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ طَاوُوسٍ ، عَنْ عُمَرَ ، قَالَ : لاَ نِکَاحَ إلاَّ بِوَلِیٍّ۔
(١٦١٦٩) حضرت عمر (رض) فرماتے ہیں کہ ولی کے بغیر نکاح نہیں ہوتا۔

16169

(۱۶۱۷۰) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنْ مُجَالِدٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ قَالَ : مَا کَانَ أَحَدٌ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَشَدَّ فِی النِّکَاحِ بِغَیْرِ وَلِیٍّ مِنْ عَلِیٍّ حَتَّی کَانَ یَضْرِبُ فِیہِ۔
(١٦١٧٠) حضرت شعبی فرماتے ہیں کہ بغیر ولی کے نکاح کے معاملے میں تمام صحابہ میں سب سے زیادہ سخت حضرت علی (رض) تھے۔ وہ ایسا کرنے پر مارا کرتے تھے۔

16170

(۱۶۱۷۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنِ ابْنِ خُثَیْمٍ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : لاَ نِکَاحَ إلاَّ بِوَلِیٍّ ، أَوْ سُلْطَانٍ مُرْشِدٍ۔
(١٦١٧١) حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ ولی یا سمجھدار سلطان کے بغیر نکاح نہیں ہوتا۔

16171

(۱۶۱۷۲) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، عَنْ شُعْبَۃَ، قَالَ: سَمِعْتُ الْوَضَّاحَ، قَالَ: سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ زَیْدٍ یَقُولُ: لاَ نِکَاحَ إلاَّ بِوَلِیٍّ وَشَاہِدَیْنِ۔
(١٦١٧٢) حضرت جابر بن زید فرماتے ہیں کہ ولی اور دو گواہوں کے بغیر نکاح نہیں ہوتا۔

16172

(۱۶۱۷۳) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالَ : لاَ نِکَاحَ إلاَّ بِوَلِیٍّ۔
(١٦١٧٣) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ ولی کے بغیر نکاح نہیں ہوتا۔

16173

(۱۶۱۷۴) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ أَنَّہُ کَانَ یَقُولُ : لاَ نِکَاحَ إلاَّ بِوَلِیٍّ ، أَوْ سُلْطَانٍ۔
(١٦١٧٤) حضرت حسن فرمایا کرتے تھے کہ ولی یاسلطان کے بغیر نکاح نہیں ہوتا۔

16174

(۱۶۱۷۵) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ قَالَ : لاَ تُنْکَحُ الْمَرْأَۃُ إلاَّ بِإِذْنِ وَلِیِّہَا ، فَإِنْ لَمْ یَکُنْ لَہَا وَلِیٌّ فَالسُّلْطَانُ۔
(١٦١٧٥) حضرت شعبی فرماتے ہیں کہ عورت کا نکاح اس کے ولی کی اجازت سے ہی منعقد ہوگا اگر کوئی ولی نہ ہو تو سلطان اس کا ولی ہے۔

16175

(۱۶۱۷۶) حَدَّثَنَا یَزِیدُ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنْ أَصْحَابِہِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ مِثْلَہُ۔
(١٦١٧٦) حضرت ابراہیم سے بھی یونہی منقول ہے۔

16176

(۱۶۱۷۷) حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہ بْنُ مُوسَی ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ الأَسْوَدِ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ أَبِی سُفْیَانَ ، قَالَ : قَالَ عُمَرُ : لاَ تُنْکَحُ الْمَرْأَۃُ إلاَّ بِإِذْنِ وَلِیِّہَا ، وَإِنْ نَکَحَتْ عَشَرَۃً ، أَوْ بِإِذْنِ سُلْطَانٍ۔
(١٦١٧٧) حضرت عمر (رض) فرماتے ہیں کہ عورت خواہ دس مرتبہ نکاح کرے اس کا نکاح ولی کی اجازت سے یا سلطان کی اجازت سے ہی ہوگا۔

16177

(۱۶۱۷۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، وَابْنِ سِیرِینَ فِی الْمَرْأَۃِ مِنْ أَہْلِ السَّوَادِ لَیْسَ لَہَا وَلِیٌّ ، قَالَ : الْحَسَنُ السُّلْطَانُ ، وَقَالَ ابْنُ سِیرِینَ : رَجُلٌ مِنَ الْمُسْلِمِینَ۔
(١٦١٧٨) حضرت حسن (رض) اور حضرت ابن سیرین (رض) سے سوال کیا گیا کہ اگر کسی عورت کا کوئی ولی نہ ہو تو اس کا ولی کون ہوگا ؟ حضرت حسن نے فرمایا کہ سلطان اور حضرت ابن سیرین (رض) نے فرمایا کہ کوئی بھی مسلمان۔

16178

(۱۶۱۷۹) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ عُبَیْدَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ وَالشُّعَبِیِّ قَالاَ : لاَ تُنْکَحُ الْمَرْأَۃُ إلاَّ بِإِذْنٍ وَلِیہَا ، وَلاَ یُنْکِحُہَا وَلِیُّہَا إلاَّ بِإِذْنِہَا۔
(١٦١٧٩) حضرت ابراہیم اور حضرت شعبی فرماتے ہیں کہ عورت کا نکاح اس کے ولی کی اجازت کے بغیر نہیں ہوسکتا اور اس کا ولی اس کی مرضی کے بغیر نکاح نہیں کرے گا۔

16179

(۱۶۱۸۰) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ طَاوُوسٍ قَالَ : أُتِیَ عُمَرُ بِامْرَأَۃٍ قَدْ حَمَلَتْ ، فَقَالَتْ : تَزَوَّجَنِی بِشَہَادَۃٍ مِنْ أُمِّی وَأُخْتِی ، فَفَرَّقَ بَیْنَہُمَا وَدَرَأَ عَنْہُمَا الْحَدَّ ، وَقَالَ : لاَ نِکَاحَ إلاَّ بِوَلِیٍّ۔
(١٦١٨٠) حضرت طاوس فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) کے پاس ایک حاملہ عورت لائی گئی۔ اس نے کہا کہ میرے خاوند نے مجھ سے شادی کی ہے۔ خاوند نے کہا کہ میں نے اپنی ماں اور اپنی بہن کو گواہ بنا کر اس سے شادی کی تھی۔ حضرت عمر (رض) نے دونوں میں فرقت کروائی اور ان سے حد کو ساقط کردیا اور فرمایا کہ ولی کی اجازت کے بغیر نکاح نہیں ہوتا۔

16180

(۱۶۱۸۱) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ حُصَیْنٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنِ الْحَارِثِ ، عَنْ عَلِیٍّ قَالَ : لاَ نِکَاحَ إلاَّ بِوَلِیٍّ وَلاَ نِکَاحَ إلاَّ بِشُہُودٍ۔
(١٦١٨١) حضرت علی (رض) فرماتے ہیں کہ ولی کی اجازت کے بغیر نکاح نہیں ہوتا اور گواہوں کے بغیر بھی نکاح نہیں ہوتا۔

16181

(۱۶۱۸۲) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ عُرْوَۃَ ، عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لاَ نِکَاحَ إلاَّ بِوَلِیٍّ وَالسُّلْطَانُ وَلِیُّ مَنْ لاَ وَلِیَّ لَہُ۔ (احمد ۱/۲۵۰۔ ابن ماجہ ۱۸۸۰)
(١٦١٨٢) حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ ولی کی اجازت کے بغیر نکاح نہیں ہوتا اور جس کا کوئی ولی نہ ہو اس کا ولی سلطان ہے۔

16182

(۱۶۱۸۳) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ یَزِیدَ ، قَالَ : سَمِعْتُ الْحَسَنَ یَقُولُ : لاَ نِکَاحَ إلاَّ بِوَلِیٍّ وَشَاہِدَی عَدْلٍ وَبِصَدُقَۃٍ مَعْلُومَۃٍ وَشُہُودٍ وعَلاَنِیَۃٍ۔
(١٦١٨٣) حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ ولی کی اجازت کے بغیر، دو عادل گواہوں کے بغیر، معلوم صدقہ یعنی مہر کے بغیر اور علانیہ گواہوں کے بغیر نکاح نہیں ہوتا۔

16183

(۱۶۱۸۴) حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ ، عَنْ أَبِیہِ قَالَ : قُلْتُ لِلْحَسَنِ جَارِیَۃٌ مِنْ أَہْلِ الأَرْضِ یَعْنِی لَیْسَ لَہَا مَوْلًی ، خَطَبَہَا رَجُلٌ، أَیُزَوِّجُہَا رَجُلٌ مِنْ جِیرَانِہَا ، قَالَ : تَأْتِی الأَمِیرَ قَالَ : فَإِنَّہَا أَضْعَفُ مِنْ ذَلِکَ ، قَالَ : فَتُکَلِّمُ رَجُلاً یُکَلِّمُ لَہَا الأَمِیرُ ، قَالَ : فَإِنَّہَا أَضْعَفُ مِنْ ذَلِکَ ؟ قَالَ : لاَ أَعْلَمُ إلاَّ ذَلِکَ ، قَالَ : قُلْتُ لَہُ : فَالْقَاضِی ؟ قَالَ : فَالْقَاضِی إذًا، إلاَّ أَنَّہُ یَجْعَلُ الْقَاضِی رُخْصَۃً۔
(١٦١٨٤) حضرت معتمر کے والد کہتے ہیں کہ میں نے حضرت حسن سے سوال کیا کہ اگر کسی لڑکی کا کوئی ولی نہ ہو اور کوئی شخص اسے نکاح کا پیغام بھیجے تو کیا اس لڑکی ہمسایہ اس کا نکاح کرواسکتا ہے ؟ حضرت حسن نے فرمایا کہ وہ امیر وقت سے کہے گی۔ میں نے کہا کہ اگر وہ اس کی دسترس نہ رکھتی ہو تو ؟ انھوں نے فرمایا کہ وہ کسی آدمی کے ذمے لگائے کہ وہ امیر سے بات کرے۔ میں نے کہا کہ اگر وہ اس کی بھی دسترس نہ رکھتی ہو تو ؟ انھوں نے فرمایا کہ میں اس سے زیادہ نہیں جانتا۔ میں نے کہا کہ کیا قاضی اس کا نکاح کراسکتا ہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ ہاں اس صورت میں قاضی کراسکتا ہے۔ البتہ حضرت حسن نے قاضی کے لیے رخصت رکھی۔

16184

(۱۶۱۸۵) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَۃَ ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، عَنْ زِیَادٍ قَالَ : إذَا اتَّفَقَ الْوَلِیُّ وَالأُمُّ تَزَوَّجَا ، وَإِنِ اخْتَلَفَا فَالْوَلِیُّ۔
(١٦١٨٥) حضرت زیاد فرماتے ہیں کہ جب ولی اور لڑکی کی ماں کا اتفاق ہوجائے تو دونوں اس کی شادی کرادیں اور اگر اختلاف ہو تو ولی کا قول معتبر ہوگا۔

16185

(۱۶۱۸۶) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ إسْرَائِیلَ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِی بُرْدَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : قَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لاَ نِکَاحَ إلاَّ بِوَلِیٍّ۔ (ابوداؤد ۲۰۷۸۔ احمد ۳۹۴)
(١٦١٨٦) حضرت ابو بردہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ ولی کی اجازت کے بغیر نکاح نہیں ہوتا۔

16186

(۱۶۱۸۷) حَدَّثَنَا مُعَاوِیَۃُ بْنُ ہِشَامٍ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ أَبِی یَحْیَی ، عَنْ رَجُلٍ یُقَالُ لَہُ الْحَکَمُ بْنُ مِینَائَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ : أَدْنَی مَا یَکُونُ فِی النِّکَاحِ أَرْبَعَۃٌ : الَّذِی یُزَوِّجُ وَالَّذِی یَتَزَوَّجُ وَشَاہِدَانِ۔
(١٦١٨٧) حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ نکاح میں کم از کم چار افراد ہونے چاہئیں : شادی کرانے والا، شادی کرنے والا اور دو گواہ۔

16187

(۱۶۱۸۸) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِِ ، عَنْ إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِی بُرْدَۃ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لاَ نِکَاحَ إلاَّ بِوَلِیٍّ۔
(١٦١٨٨) حضرت ابو بردہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ولی کی اجازت کے بغیر نکاح نہیں ہوتا۔

16188

(۱۶۱۸۹) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمُحَارِبِیُّ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّہُ أَرَادَ أَنْ یَتَزَوَّجَ فَذَہَبَ ہُوَ وَرَجُلٌ وَجَائَ الْوَلِیُّ وَرَجُلٌ۔
(١٦١٨٩) حضرت نافع فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عمر (رض) نے نکاح کا ارادہ کیا تو آپ ایک آدمی کو لے کر گئے اور ولی ایک آدمی کو لے کرآیا۔

16189

(۱۶۱۹۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، أَوْ غَیْرُہُ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالَ : أَدْنَی مَا یَکُونُ فِی النِّکَاحِ أَرْبَعَۃٌ : الَّذِی یَتَزَوَّجُ وَالَّذِی یُزَوِّجُ وَشَاہِدَانِ۔
(١٦١٩٠) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ نکاح میں کم ازکم چار آدمی ضرور ہوں : شادی کرنے والا، شادی کرانے والا، دو گواہ۔

16190

(۱۶۱۹۱) حدَّثَنَا إسماعیل ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ بْنِ خَالِدٍ قَالَ : جَمَعَتِ الطَّرِیقُ رَکْبًا ، فَجَعَلَتِ امْرَأَۃٌ مِنْہُمْ ثَیِّبٌ أَمْرَہَا إلَی رَجُلٍ مِنَ الْقَوم غَیْرِ وَلِیِّہَا ، فَأَنْکَحَہَا رَجُلاً ، قَالَ : فَجَلَدَ عُمَرُ النَّاکِحَ وَالْمُنْکِحَ وَفَرَّقَ بَیْنَہُمَا۔
(١٦١٩١) حضرت عکرمہ بن خالد (رض) فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ ایک راستے میں مختلف قافلے جمع ہوئے۔ ان میں ایک ثیبہ عورت نے اپنا معاملہ اپنے ولی کے علاوہ کسی دوسرے شخص کے حوالے کیا کہ وہ کسی سے اس کی شادی کرادے۔ اس نے کسی آدمی سے اس کی شادی کرادی۔ جب حضرت عمر (رض) کو خبر ہوئی تو انھوں نے نکاح کرنے والے اور نکاح کروانے والے کو کوڑا مارا اور ان کے درمیان جدائی کرادی۔

16191

(۱۶۱۹۲) حَدَّثَنَا أَبُودَاوُدَ الطَّیَالِسِیُّ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَۃَ، عَنْ قَتَادَۃَ، عَنِ سعید بْنِ الْمُسَیَّبِ، وَالْحَسَنِ فِی امْرَأَۃٍ تَزَوَّجَتْ بِغَیْرِ إذْنِ وَلِیِّہَا ، قَالَ : یُفَرَّقُ بَیْنَہُمَا ، وَقَالَ الْقَاسِمُ بْنُ مُحَمَّدٍ : إِنْ أَجَازَہُ الأَوْلِیَائُ فَہُوَ جَائِزٌ۔
(١٦١٩٢) حضرت سعید بن مسیب (رض) اور حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کسی عورت نے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرلیا تو ان کے درمیان جدائی کروادی جائے گی۔ حضرت قاسم بن محمد فرماتے ہیں کہ اگر اولیاء اجازت دے دیں تو پھر جائز ہے۔

16192

(۱۶۱۹۳) حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ مُصْعَبٍ قَالَ : سَأَلْتُ إبْرَاہِیمَ ، عَنِ امْرَأَۃٍ تَزَوَّجَتْ بِغَیْرِ وَلِیٍّ فَسَکَتَ، وَسَأَلْت سَالِمَ بْنَ أَبِی الْجَعْدِ ، فَقَالَ : لاَ یَجُوزُ۔
(١٦١٩٣) حضرت مصعب (رض) کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابراہیم (رض) سے سوال کیا کہ کیا عورت ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرسکتی ہے ؟ وہ خاموش رہے۔ میں نے حضرت سالم بن ابی الجعد (رض) سے سوال کیا تو انھوں نے فرمایا کہ جائز نہیں۔

16193

(۱۶۱۹۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سفیان عن ہِشَامٍ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ قَالَ : إذَا نُکِحَتِ الْمَرْأَۃُ بِغَیْرِ وَلِیٍّ ، ثُمَّ أَجَازَ الْوَلِیُّ جَازَ۔
(١٦١٩٤) حضرت ابن سیرین (رض) فرماتے ہیں کہ جب ولی کی اجازت کے بغیر کسی عورت کا نکاح کرایا گیا، پھر ولی نے اجازت دے دی تو اس کا نکاح ہوگیا۔

16194

(۱۶۱۹۵) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ حُصَیْنٍ ، عَنْ بَکْرٍ قَالَ : تَزَوَّجَتِ امْرَأَۃٌ بِغَیْرِ وَلِیٍّ وَلاَ بَیِّنَۃٍ فَکَتَبَ إِلی عُمَرَ فَکَتَبَ أَنْ تُجْلَدَ مِئَۃً ، وَکَتَبَ إلَی الأَمْصَارِ ، أَیُّمَا امْرَأَۃٍ تَزَوَّجَتْ بِغَیْرِ وَلِیٍّ فَہِیَ بِمَنْزِلَۃِ الزَّانِیَۃِ۔
(١٦١٩٥) حضرت بکر فرماتے ہیں کہ ایک عورت نے ولی کی اجازت اور گواہی کے بغیر نکاح کیا تو حضرت عمر (رض) کی طرف اس بارے میں خط لکھا گیا تو حضرت عمر (رض) نے جواب میں لکھا کہ اسے سو کوڑے مارے جائیں گے۔ پھر آپ نے سب شہروں میں خط لکھا کہ جس عورت نے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کیا تو وہ زانیہ کی طرح ہے۔

16195

(۱۶۱۹۶) حَدَّثَنَا مُعَاوِیَۃُ بْنُ ہِشَامٍ قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَہْلِ الْجَزِیرَۃِ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِیزِ أَنَّ رَجُلاً زَوَّجَ امْرَأَۃً وَلَہَا وَلِیٌّ ہُوَ أَوْلَی مِنْہُ بِدُرُوبِ الرُّومِ ، فَرَدَّ عُمَرُ النِّکَاحَ وَقَالَ : الْوَلِیُّ وَإِلاَّ فَالسُّلْطَانُ۔
(١٦١٩٦) اہل جزیرہ کے ایک آدمی کہتے ہیں کہ حضرت عمر بن عبد العزیز (رض) سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے کسی عورت کی شادی کرائی جبکہ اس مرد کے علاوہ اس کا کوئی اور قریب کا ولی بھی تھا۔ حضرت عمر بن عبدا لعزیز (رض) نے اس نکاح کو مسترد کردیا اور فرمایا کہ پہلا حق ولی کا ہے پھر سلطان کا۔

16196

(۱۶۱۹۷) حدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنِ الشَّیْبَانِیِّ ، عَنْ أُمِّہِ ، عَنْ بَحَرِیَّۃَ بِنْتِ ہَانِیئٍ قَالَتْ : تَزَوَّجْت الْقَعْقَاعَ بْنَ شَوْرٍ فَسَأَلَنِی وَجَعَلَ لِی مُذْہَبًا مِنْ جَوْہَرٍ عَلَی أَنْ یَبِیتَ عِنْدِی لَیْلَۃً فَبَاتَ ، فَوَضَعْت لَہُ تَوْرًا فِیہِ خَلُوقٌ فَأَصْبَحَ وَہُوَ مُتَضَمِّخٌ بِالْخَلُوقِ ، فَقَالَ لِی : فَضَحْتِنِی ، فَقُلْتُ لَہُ : مِثْلِی یَکُونُ سِرًّا ؟ فَجَائَ أَبِی مِنَ الأَعْرَابِ ، فَاسْتَعْدَی عَلَیْہِ عَلِیًّا ، فَقَالَ عَلِیٌّ لِلْقَعْقَاعِ : أَدَخَلْتَ ؟ فَقَالَ : نَعَمْ ، فَأَجَازَ النِّکَاحَ۔
(١٦١٩٧) حضرت بحریہ بنت ہانیء فرماتی ہیں کہ میں نے قعقاع بن شور سے شادی کی۔ انھوں نے مجھے سونے کا زیور دیا کہ وہ میرے پاس ایک رات گذاریں۔ چنانچہ انھوں نے میرے گھر رات گذاری۔ میں نے خلوق کا ایک برتن ان کے پاس رکھا۔ صبح ان کے کپڑوں پرخلوق خوشبو لگی ہوئی تھی۔ انھوں نے مجھے کہا کہ تم نے اس خوشبو کی وجہ سے میری رسوائی کا سامان کردیا کہ اب اس شادی کا سب کو پتہ چل جائے گا۔ میں نے کہا کہ کیا مجھ جیسی سے کوئی راز رہ سکتا ہے ؟ پھر میرے دیہاتی والد آئے اور قعقاع بن شور کو حضرت علی (رض) کے پاس لے گئے۔ حضرت علی (رض) نے قعقاع سے کہا کہ کیا تم نے اپنی بیوی سے دخول کیا تھا ؟ انھوں نے کہا کہ ہاں۔ اس پر حضرت علی (رض) نے نکاح کو جائز قرار دیا۔

16197

(۱۶۱۹۸) حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ مُصْعَبٍ قَالَ : سَأَلْتُ مُوسی بْنَ عَبْدِ اللہِ بْنِ یَزِیدَ ، فَقَالَ : یَجُوزُ فِی الْمَرْأَۃِ تَزْوِیجٌ بِغَیْرِ وَلِیٍّ۔
(١٦١٩٨) حضرت مصعب فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت موسیٰ بن عبداللہ بن یزید سے اس بارے میں سوال کیا تو انھوں نے فرمایا کہ بغیر ولی کے عورت کی شادی کرانا جائز ہے۔

16198

(۱۶۱۹۹) حَدَّثَنَا عَبْدُالأَعْلَی، عَنْ مَعْمَرٍ قَالَ: سَأَلْتُ الزُّہْرِیَّ، عَنِ امْرَأَۃٍ تُزَوَّجُ بِغَیْرِ وَلِیٍّ، فَقَالَ: إِنْ کَانَ کُفُؤًا جَازَ۔
(١٦١٩٩) حضرت معمر فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت زہری سے سوال کیا کہ کیا عورت بغیر ولی کی اجازت کے نکاح کرسکتی ہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ اگر خاوند بیوی کا کفوء ہو تو جائز ہے۔

16199

(۱۶۲۰۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ بْنِ سَالِمٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ قَالَ : إذَا کَانَ کُفُؤًا جَازَ۔
(١٦٢٠٠) حضرت شعبی فرماتے ہیں کہ اگر کفوء ہوں تو جائز ہیں۔

16200

(۱۶۲۰۱) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الشَّیْبَانِیِّ ، عَنْ أَبِی قَیْسٍ الأَوْدِیِّ ، عَمَّنْ حَدَّثَہُ عَنْ عَلِیٍّ أَنَّہُ أَجَازَ نِکَاحَ امْرَأَۃٍ بِغَیْرِ وَلِیٍّ أَنْکَحَتْہَا أُمُّہَا بِرِضَاہَا۔
(١٦٢٠١) حضرت علی (رض) نے بغیر ولی کے نکاح کرنے کو جائز قرار دیا اور فرمایا کہ اس کی ماں اس کی اجازت سے اس کا نکاح کر اسکتی ہے۔

16201

(۱۶۲۰۲) حَدَّثَنَا سَلاَّمٌ وَجَرِیرٌ ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِیزِ بْنِ رُفَیْعٍ ، عَنْ أَبِی سَلَمَۃَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ قَالَ : جَائَتِ امْرَأَۃٌ إلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَتْ : یَا رَسُولَ اللہِ ، إنَّ عَمَّ وَلَدِی خَطَبَنِی فَرَدَّہُ أَبِی وَزَوَّجَنِی وَأَنَا کَارِہَۃٌ، قَالَ : فَدَعَا أَبَاہَا ، فَسَأَلَہُ ، عَنْ ذَلِکَ ، فَقَالَ : إنِّی أَنْکَحْتُہَا وَلَمْ آلُوہَا خَیْرًا ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لاَ نِکَاحَ لَکِ ، اذْہَبِی فَانْکِحِی مَنْ شِئْتِ۔ (عبدالرزاق ۱۰۳۰۳)
(١٦٢٠٢) حضرت ابوسلمہ بن عبد الرحمن فرماتے ہیں کہ ایک عورت نبی پاک (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئی اور اس نے کہا کہ اے اللہ کے رسول ! میرے چچا زاد بھائی نے مجھے نکاح کا پیغام بھیجا لیکن میرے والد نے اس رشتے کو رد کردیا اور میری شادی ایسی جگہ کرادی جہاں مجھے پسند نہیں۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے والد کو بلایا اور اس سے اس بارے میں سوال کیا۔ اس نے کہا کہ میں نے اس کا نکاح کرایا ہے اور اس کے لیے خیر کا ارادہ نہیں کیا۔ نبی پاک (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھ سے فرمایا کہ تیرا نکاح نہیں ہوا، جاؤ اور جس سے چاہو نکاح کرلو۔

16202

(۱۶۲۰۳) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ أَنَّ الْقَاسِمَ بْنَ مُحَمَّدٍ أَخْبَرَہُ أَنَّ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ یَزِیدَ وَمُجَمِّع بْنَ یَزِیدَ الأَنْصَارِیَّیْنِ أَخْبَرَاہُ أَنَّ رَجُلاً مِنْہُمْ یُدْعَی خِذَامًا أَنْکَحَ ابْنَۃً لَہُ ، فَکَرِہَتْ نِکَاحَ أَبِیہَا فَأَتَتْ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَذَکَرَتْ ذَلِکَ لَہُ فَرَدَّ عَنْہَا نِکَاحَ أَبِیہَا ، فَخُطِبَتْ فَنَکَحَتْ أَبَا لُبَابَۃَ بْنَ عَبْدِ الْمُنْذِرِ ، وَذَکَرَ یَحْیَی أَنَّہُ بَلَغَہُ أَنَّہَا کَانَتْ ثَیِّبًا۔ (بخاری ۵۱۳۹۔ ابوداؤد ۲۰۹۴)
(١٦٢٠٣) حضرت عبدالرحمن بن یزید انصاری اور مجمع بن یزید انصاری فرماتے ہیں کہ خذام نامی ایک آدمی نے اپنی بیٹی کی شادی کرائی۔ اس لڑکی نے اپنے والد کے کرائے ہوئے نکاح کو ناپسند کیا۔ وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس حاضر ہوئی اور ساری بات کا ذکر کیا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے والد کے نکاح کو مسترد کردیا۔ پھر اس کے نکاح کے پیغام آئے اور انھوں نے ابو لبابہ بن عبدالمنذر سے نکاح کرلیا۔ راوی یحییٰ بن سعید فرماتے ہیں کہ وہ ثیبہ تھیں۔

16203

(۱۶۲۰۴) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ قَالَ : حدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ أَنَّ عَائِشَۃَ أَنْکَحَتْ حَفْصَۃَ ابْنَۃَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِی بَکْرٍ الْمُنْذِرَ بْنَ الزُّبَیْرِ وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ غَائِبٌ فَلَمَّا قَدِمَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ غَضِبَ وَقَالَ : أَی عِبَادَ اللہِ ، أَمِثْلِی یُفْتَاتُ عَلَیْہِ فِی بَنَاتِہِ ؟ فَغَضِبَتْ عَائِشَۃُ وَقَالَتْ : أَیُرْغَبُ ، عَنِ الْمُنْذِرِ۔
(١٦٢٠٤) حضرت قاسم بن محمد فرماتے ہیں کہ حضرت عائشہ (رض) نے حفصہ بنت عبدالرحمن بن ابی بکر کی شادی منذر بن زبیر سے کرادی۔ اس وقت ان کے والد عبدالرحمن غائب تھے۔ جب حضرت عبد الرحمن واپس آئے تو بہت غصے ہوئے اور فرمایا کہ اے اللہ کے بندو ! کیا میرے جیسے شخص اس قابل ہیں کہ ان کی بیٹیوں کے بارے میں اس کی مرضی کے بغیر فیصلہ کیا جائے ؟ اس پر حضرت عائشہ (رض) غصہ میں آئیں اور فرمایا کہ کیا منذر جیسے لوگوں سے اعراض کیا جاسکتا ہے ؟

16204

(۱۶۲۰۵) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ آدَمَ قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ أَبِی قَیْسٍ ، عَنْ ہُزَیْلٍ قَالَ : رُفِعَتْ إلَی عَلِیٍّ امْرَأَۃٌ زَوَّجَہَا خَالُہَا وأمہا ، قَالَ : فَأَجَازَ عَلِیٌّ النِّکَاحَ ، قَالَ : وَقَالَ سُفْیَانُ : لاَ یَجُوزُ لأَنَّہُ غَیْرُ وَلِیٍّ ، وَقَالَ عَلِیُّ بْنُ صَالِحٍ : ہُوَ جَائِزٌ لأَنَّ عَلِیًّا حِینَ أَجَازَہُ کَانَ بِمَنْزِلَۃِ الْوَلِیِّ۔
(١٦٢٠٥) حضرت ہزیل فرماتے ہیں کہ حضرت علی (رض) کے پاس ایک ایسی عورت کا مقدمہ آیا جس کے ماموں اور اس کی ماں نے اس کی شادی کرادی تھی۔ حضرت علی (رض) نے اس کے نکاح کو جائزقرار دیا۔ حضرت سفیان فرماتے ہیں کہ یہ جائز نہیں کیونکہ یہ ولی نہیں ہیں۔ حضرت علی بن صالح فرماتے ہیں کہ جائز ہے کیونکہ جب حضرت علی (رض) نے اس نکاح کو جائز قرار دیا تو وہ ولی کے درجہ میں تھے۔

16205

(۱۶۲۰۶) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنِ الْحَکَمِ قَالَ : کَانَ عَلِیٌّ إذَا رُفِعَ إلَیْہِ رَجُلٌ تَزَوَّجَ امْرَأَۃً بِغَیْرِ وَلِیٍّ فَدَخَلَ بِہَا أَمْضَاہُ۔
(١٦٢٠٦) حضرت حکم فرماتے ہیں کہ حضرت علی (رض) کے پاس ایک ایسے شخص کا مقدمہ آیا جس نے ولی کی اجازت کے بغیر کسی سے شادی کی اور اس سے دخول بھی کیا۔ حضرت علی (رض) نے اس نکاح کو جائز قرار دیا۔

16206

(۱۶۲۰۷) حدَّثَنَا محمد بْنُ فُضَیْلٍ، عَنْ مُغِیرَۃَ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالَ: لَیْسَ الْعَقْدُ بِیَدِ النِّسَائِ، إِنَّمَا الْعَقْدُ بِیَدِ الرِّجَالِ۔
(١٦٢٠٧) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ نکاح کرانے کا اختیار عورت کو نہیں بلکہ یہ اختیار مرد کو ہے۔

16207

(۱۶۲۰۸) حَدَّثَنَا ابن إدْرِیس ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ قَالَ : لاَ أَعْلَمُہُ إلاَّ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ عَائِشَۃَ ، قَالَتْ : کَانَ الْفَتَی مِنْ بَنِی أَخِیہَا إذَا ہَوَی الْفَتَاۃَ مِنْ بنات أَخِیہَا ضَرَبَتْ بَیْنَہُمَا سِتْرًا وَتَکَلَّمَتْ ، فَإِذَا لَمْ یَبْقَ إلاَّ النِّکَاحَ قَالَتْ : یَا فُلاَنُ ، أَنْکِحْ ، فَإِنَّ النِّسَائَ لاَ یَنْکِحْنَ۔
(١٦٢٠٨) حضرت قاسم فرماتے ہیں کہ حضرت عائشہ (رض) جب دیکھتیں کہ ان کے بھائی کے بچوں میں سے کوئی نوجوان کسی لڑکی سے شادی کرنا چاہتا ہے تو ان کے درمیان پردہ کردیتیں اور بات کرتیں۔ اور جب نکاح کے علاوہ کوئی صورت نہ بچتی تو فرماتیں اے فلاں ! ان کا نکاح کرادو کیونکہ عورتیں نکاح نہیں کراسکتیں۔

16208

(۱۶۲۰۹) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنْ مُحَمَّدٍ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ : لاَ تُزَوِّجُ الْمَرْأَۃُ الْمَرْأَۃَ۔
(١٦٢٠٩) حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ عورت عورت کی شادی نہیں کراسکتی۔

16209

(۱۶۲۱۰) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنْ مُحَمَّدٍ قَالَ : لاَ تُنْکِحُ الْمَرْأَۃُ الْمَرْأَۃَ۔
(١٦٢١٠) حضرت محمد فرماتے ہیں کہ عورت عورت کی شادی نہیں کراسکتی۔

16210

(۱۶۲۱۱) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الْحَسَنِ قَالَ : تُزَوِّجُ الْمَرْأَۃُ أَمَتَہَا ، فَإِذَا أَعْتَقَتْہَا لَمْ تُزَوِّجْہَا۔
(١٦٢١١) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ عورت اپنی باندی کی شادی کر اسکتی ہے، جب وہ اسے آزاد کردے تو اس کی شادی نہیں کراسکتی۔

16211

(۱۶۲۱۲) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ قَالَ : أَخْبَرَنِی ابْنُ أَبِی ذِئْبٍ ، عَنْ مَوْلَی بَنِی ہَاشِمٍ ، عَنْ عَلِیٍّ قَالَ : لاَ تَشْہَدُ الْمَرْأَۃُ ، یَعْنِی الْخِطْبَۃَ وَلاَ تُنْکِحُ۔
(١٦٢١٢) حضرت علی (رض) فرماتے ہیں کہ عورت پیغام نکاح کے وقت حاضر نہ ہوگی اور نہ نکاح کر اسکتی ہے۔

16212

(۱۶۲۱۳) حدَّثَنَا غَسَّانُ بْنُ مُضَرَ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ یَزِیدَ قَالَ : جَائَتِ امْرَأَۃٌ إلَی جَابِرِ بْنِ زَیْدٍ ، فَقَالَتْ : إنِّی زَوَّجْت نَفْسِی ، فَقَالَ : إنَّک لِتُحَدِّثِینِی أَنَّک زَنَیْت ؟ فَسَفَعَتْ برنَّۃ ثُمَّ انْطَلَقَتْ۔
(١٦٢١٣) حضرت سعید بن یزید فرماتے ہیں کہ ایک عورت حضرت جابر بن زید کے پاس آئی اور اس نے کہا کہ میں نے اپنی شادی کرادی۔ حضرت جابر بن زید نے فرمایا کہ تو مجھ سے یہ گفتگوکررہی ہے کہ تو نے زنا کیا ہے ! یہ سن کر اس عورت نے چیخ ماری اور اس کا رنگ بدل گیا پھر وہ چلی گئی۔

16213

(۱۶۲۱۴) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنْ مُحَمَّدٍ قَالَ : لاَ تُنْکِحُ الْمَرْأَۃُ نَفْسَہَا ، وَکَانُوا یَقُولُونَ : إنَّ الزَّانِیَۃَ ہِیَ الَّتِی تُنْکِحُ نَفْسَہَا۔
(١٦٢١٤) حضرت محمد فرماتے ہیں کہ عورت اپنا نکاح نہیں کراسکتی، اسلاف کہا کرتے تھے کہ زانیہ وہ ہے جو اپنا نکاح خودکرادے۔

16214

(۱۶۲۱۵) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِیرِینَ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ بِمِثْلِہِ۔
(١٦٢١٥) حضرت ابوہریرہ (رض) سے بھی یونہی منقول ہے۔

16215

(۱۶۲۱۶) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ قَالَ : أَخْبَرَنَا سَعِیدٌ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ زَیْدٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : إنَّ الْبَغَایَا اللاَّئی یُنْکِحْنَ أَنْفُسَہُنَّ بِغَیْرِ بَیِّنَۃٍ۔
(١٦٢١٦) حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ فاحشہ عورتیں وہ ہوتی ہیں جو بغیر گواہی کے اپنا نکاح کرلیتی ہیں۔

16216

(۱۶۲۱۷) حدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ إدْرِیسَ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنِ ابْنِ أَبِی مُلَیْکَۃَ ، عَنْ أَبِی عَمْرٍو مَوْلَی عَائِشَۃَ ، عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : تُسْتَأْمَرُ النِّسَائُ فِی أَبْضُعِہِنَّ ، قَالَتْ قُلْتُ : یَا رَسُولَ اللہِ ، إنَّہُنَّ یَسْتَحْیِینَ ، قَالَ : الأَیِّمُ أَحَقُّ بِنَفْسِہَا ، وَالْبِکْرُ تُسْتَأْمَرُ فَسُکاتُہَا إقْرَارُہَا۔(بخاری ۶۹۴۶۔ مسلم ۶۵)
(١٦٢١٧) حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ شادی کرانے سے پہلے عورتوں سے اجازت طلب کی جائے گی۔ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! وہ اس بات سے حیاء کریں گی ! حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ بیوہ اپنے نفس کی زیادہ حق دار ہے، باکرہ سے اجازت طلب کی جائے گی اور اس کی خاموشی ہی اس کا اقرار ہے۔

16217

(۱۶۲۱۸) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ وَمَالِکِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ الْفَضْلِ، عَنْ نَافِعِ بْنِ جُبَیْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الأَیِّمُ أَحَقُّ بِنَفْسِہَا مِنْ وَلِیِّہَا ، وَالْبِکْرُ تُسْتَأْمَرُ وَصَمْتُہَا إقْرَارُہَا۔ (ترمذی ۱۱۰۸۔ ابوداؤد ۲۰۹۱)
(١٦٢١٨) حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ بیوہ اپنے نفس کی ولی سے زیادہ حق دار ہے، باکرہ سے اجازت طلب کی جائے گی اور اس کی خاموشی ہی اس کا اقرار ہے۔

16218

(۱۶۲۱۹) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَطَائٍ قَالَ : کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إذَا خُطِبَ أَحَدٌ مِنْ بَنَاتِہِ جَلَسَ إلَی جَنْبِ خِدْرِہَا ، فَقَالَ : إنَّ فُلاَنًا یَخْطُبُ فُلاَنَۃً فَإِنْ سَکَتَتْ بِہِ زَوَّجَہَا ، وَإِنْ طَعَنَتْ بِیَدِہَا وَأَشَارَ حَفْصٌ بِیَدِہِ السَّبَّابَۃِ أَی یَطْعَنُ فِی فَخِذِہ لَمْ یُزَوِّجْہَا۔ (عبدالرزاق ۱۰۲۷۹۔ بزار ۱۴۲۱)
(١٦٢١٩) حضرت عطاء فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی کسی صاحبزادی کاپیغامِ نکاح آتا تو آپ اس کے پردہ والے کمرے کے پاس بیٹھ کر فرماتے کہ فلاں نے فلانی کے لیے پیغامِ نکاح بھیجا ہے۔ اگر وہ خاموش رہتیں تو وہ نکاح کرادیتے اور اگر وہ اپنے ہاتھ چبھوتیں تو آپ ان کی شادی نہ کراتے۔ یہ کہتے ہوئے راوی حضرت حفص نے اپنی انگشتِ شہادت کو ران میں چبھویا۔

16219

(۱۶۲۲۰) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنِ الْحَکَمِ ، قَالَ : قَالَ عَلِیٌّ لاَ یُزَوِّجُ الرَّجُلُ ابنتہ حَتَّی یَسْتَأْمِرَہَا۔
(١٦٢٢٠) حضرت علی (رض) فرماتے ہیں کہ آدمی اپنی بیٹی کی اس وقت تک شادی نہیں کراسکتا جب تک اس سے اجازت طلب نہ کرلے۔

16220

(۱۶۲۲۱) حَدَّثَنَا فُضَیْلُ بْنُ عِیَاضٍ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالَ: إذَا کَانَتِ الْمَرْأَۃُ فِی عِیَالِ أَبِیہَا لَمْ یَسْتَأْمِرْہَا، وَإِنْ کَانَتْ فِی غَیْرِ عِیَالِہِ اسْتَأْمَرَہَا إذَا أَرَادَ أَنْ یُنْکِحَہَا۔
(١٦٢٢١) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ جب عورت اپنے باپ کی سرپرستی میں ہو تو وہ اس سے اجازت طلب نہیں کرے گا اور اگر وہ کسی اور کی سرپرستی میں ہو تو اس کا نکاح کرنے سے پہلے اس سے اجازت طلب کرے گا۔

16221

(۱۶۲۲۲) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ، عَنْ عاصم، عَنِ الشَّعْبِیِّ قَالَ: یَسْتَأْمِرُ الرَّجُلُ ابْنَتَہُ فِی النِّکَاحِ الْبِکْرَ وَالثَّیِّبَ۔
(١٦٢٢٢) حضرت شعبی فرماتے ہیں کہ آدمی اپنی باکرہ اور ثیبہ بیٹی کا نکاح کرانے سے پہلے اس سے اجازت طلب کرے گا۔

16222

(۱۶۲۲۳) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ أَنَّہُ کَانَ یَقُولُ : نِکَاحُ الأَبِ جَائِزٌ عَلَی ابْنَتِہِ ، بِکْرًا کَانَ ، أَوْ ثَیِّبًا ، کَرِہَتْ ، أَوْ لَمْ تَکْرَہْ۔
(١٦٢٢٣) حضرت حسن فرمایا کرتے تھے کہ باپ کے لیے بیٹی کا نکاح ہر صورت میں کرانا جائز ہے، خواہ وہ باکرہ ہو یا ثیبہ اور خواہ اسے پسند ہو یا ناپسند۔

16223

(۱۶۲۲۴) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنِ ابْنِ طَاوُوسٍ ، عَنْ أَبِیہِ قَالَ : لاَ یُکْرِہُ الرَّجُلُ ابْنَتَہُ الثَّیِّبَ عَلَی نِکَاحٍ ہِیَ تَکْرَہُہُ۔
(١٦٢٢٤) حضرت طاوس فرماتے ہیں کہ آدمی کے لیے اپنی ثیبہ بیٹی کا نکاح ایسی جگہ کرانا مکروہ نہیں جہاں نکاح کو وہ ناپسند سمجھتی ہو۔

16224

(۱۶۲۲۵) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ ، عَنْ مَالِکِ بْنِ أَنَسٍ قَالَ : کَانَ الْقَاسِمُ وَسَالِمٌ یَقُولاَنِ : إذَا زَوَّجَ أَبُو الْبِکْرِ الْبِکْرَ فَہُوَ لاَزِمٌ لَہَا ، وَإِنْ کَرِہَتْ۔
(١٦٢٢٥) حضرت قاسم اور حضرت سالم فرمایا کرتے تھے کہ جب باکرہ کے باپ نے اس کا نکاح کرادیا تو وہ طے ہوگیا خواہ اس کو ناپسندہو۔

16225

(۱۶۲۲۶) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَطَائٍ قَالَ : إِنَّ أَبُو الْبِکْرِ دَعَاہَا إلَی رَجُلٍ وَدَعَتْ ہِیَ إلَی آخَرَ ، قَالَ : یَتْبَعُ ہَوَاہَا إذَا لَمْ یَکُنْ بِہِ بَأْسٌ ، وَإِنْ کَانَ الَّذِی دَعَاہَا إلَیْہِ أَبُوہَا أَسْنی فِی الصَّدَاقِ أَخْشَی أَنْ یَقَعَ فِی نَفْسِہَا ، وَإِنْ أَکْرَہَہَا أَبُوہَا فَہُوَ أَحَقُّ۔
(١٦٢٢٦) حضرت عطاء فرماتے ہیں کہ اگر باکرہ لڑکی کا باپ کسی سے اس کا نکاح کرانا چاہے اور وہ کسی اور سے نکاح کی خواہش مند ہو تو باپ کو چاہیے کہ وہ اپنی بیٹی کی خواہش کا احترام کرے اگر اس میں کوئی حرج نہ ہو۔ اگرچہ باپ کی پسند کے رشتے میں مہر زیادہ ہی کیوں نہ ہو۔ اور اگر لڑکی کا باپ اسے مجبور کرے تو وہ ایسا کرسکتا ہے۔

16226

(۱۶۲۲۷) حَدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ عَامِرٍ قَالَ : لاَ یُجْبِرُ عَلَی النِّکَاحِ إلاَّ الأَبُ۔
(١٦٢٢٧) حضرت عامر فرماتے ہیں کہ باپ کے سوا کوئی عورت کو نکاح پر مجبور نہیں کرسکتا۔

16227

(۱۶۲۲۸) حَدَّثَنَا عَفَّانُ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ ؛ أَنَّ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ کَانَ إذَا أَرَادَ أَنْ یُزَوِّجَ أَحَدًا مِنْ بَنَاتِہِ قَعَدَ إلَی خِدْرِہَا ، فَقَالَ إنَّ فُلاَنًا یَذْکُرُک۔
(١٦٢٢٨) حضرت عثمان بن عفان (رض) جب اپنی کسی بیٹی کا نکاح کرانا چاہتے تو اس کے پردے کے پاس بیٹھ جاتے اور فرماتے کہ فلاں تمہارا ذکر کررہا تھا۔

16228

(۱۶۲۲۹) حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ مُحَمَّدٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ بْنِ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ طَاوُوسٍ ، عَنْ أَبِیہِ قَالَ : تُسْتَأْمَرُ الْبِکْرُ ، وَإِنْ کَانَتْ بَیْنَ أَبَوَیْہَا۔
(١٦٢٢٩) حضرت طاوس فرماتے ہیں کہ باکرہ عورت سے اجازت طلب کی جائے گی خواہ وہ اپنے والدین کے درمیان ہو۔

16229

(۱۶۲۳۰) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ إِدْرِیسَ ، عَنْ کَہْمَسٍ ، عَنِ ابْنِ بُرَیْدَۃَ قَالَ : جَائَتْ فَتَاۃٌ إلَی عَائِشَۃَ ، فَقَالَتْ : إنَّ أَبِی زَوَّجَنِی من ابْنِ أَخِیہِ لِیَرْفَعَ بی خَسِیسَتَہُ وَإِنِّی کَرِہْت ذَلِکَ ، فَقَالَتْ لَہَا عَائِشَۃُ : انْتَظِرِی حَتَّی یَأْتِیَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَلَمَّا جَائَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَرْسَلَ إلَی أَبِیہَا ، فَجَعَلَ الأَمْرَ إلَیْہَا ، فَقَالَتْ : أَمَّا إذَا کَانَ الأَمْرُ إلَیَّ فَقَدْ أَجَزْت مَا صَنَعَ أَبِی ، إنَّمَا أَرَدْت أَنْ أَعْلَمَ ہَلْ لِلنِّسَائِ مِنَ الأَمْرِ شَیْئ؟۔ (احمد ۶/۱۳۶۔ دارقطنی ۴۵)
(١٦٢٣٠) حضرت ابن بریدہ فرماتے ہیں کہ ایک جوان عورت حضرت عائشہ (رض) کے پاس آئی اور اس نے کہا کہ میرے باپ نے میری شادی اپنے بھتیجے سے کرادی ہے تاکہ وہ اس کے ذریعے اپنی غربت کو دور کرسکے۔ مجھے یہ نکاح ناپسند ہے۔ حضرت عائشہ (رض) نے فرمایا کہ ٹھہر جاؤ، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائیں تو فیصلہ فرمائیں گے۔ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے، آپ سے ساری بات کا ذکر کیا گیا تو آپ نے اس کے والد کو بلا بھیجا۔ آپ نے فیصلے کا اختیار اس عورت کو دے دیا۔ اس پر اس عورت نے کہا کہ اگر فیصلے کا اختیار مجھے ہے تو میں اپنے والد کے کئے گئے نکاح کو جائز قرار دیتی ہوں۔ میں صرف یہ جاننا چاہتی تھی کہ کیا عورتوں کو کوئی حق ہوتا ہے یا نہیں ؟

16230

(۱۶۲۳۱) حدَّثَنَا سُفیَان بْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ : عَنْ سَعِیدٍ یَبْلُغُ بِہِ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : تُسْتَأْمَرُ الْیَتِیمَۃُ فِی نَفْسِہَا وَصَمْتُہَا إقْرَارُہَا۔ (عبدالرزاق ۱۰۲۹۵)
(١٦٢٣١) حضرت سعید سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ یتیم لڑکی سے نکاح کی اجازت طلب کی جائے گی اور اس کا اقرار اس کی خاموشی ہے۔

16231

(۱۶۲۳۲) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو ، عَنْ أَبِی سَلَمَۃَ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : الْیَتِیمَۃُ تُسْتَأْمَرُ فِی نَفْسِہَا ، فَإِنْ قَبِلَتْ فَہُوَ إذْنُہَا ، وَإِنْ أَبَتْ فَلاَ جَوَازَ عَلَیْہَا۔ (ابوداؤد ۲۰۸۶۔ احمد ۲/۲۵۹)
(١٦٢٣٢) حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ یتیم لڑکی سے نکاح کی اجازت طلب کی جائے گی، اگر وہ قبول کرلے تو یہ اس کی اجازت ہے اور اگر وہ انکار کردے تو اس پر کوئی زبردستی نہیں۔

16232

(۱۶۲۳۳) حَدَّثَنَا سَلاَّمٌ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِی بُرْدَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : أَیُّمَا یَتِیمَۃٍ خُطِبَتْ فَلاَ تُنْکَحُ حَتَّی تُسْتَأْمَرَ ، فَإِنْ ہِیَ أَقَرَّتْ فَلْتَنْکِحْ وَإِقْرَارُہَا سُکُوتُہَا ، وَإِنْ أَنْکَرَتْ فَلاَ تُنْکَحُ۔ (احمد ۴/۴۰۸۔ دارقطنی ۷۷)
(١٦٢٣٣) حضرت ابوبردہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ اگر کسی یتیم لڑکی کو نکاح کا پیغام بھجوایا گیا تو اس کا نکاح اس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک اس سے اجازت نہ طلب کی جائے۔ اگر وہ ہاں کردے تو اس کا نکاح کرادیا جائے اور اس کا سکوت اس کا اقرار ہے۔ اگر وہ انکار کردے تو اس کا نکاح نہیں کرایا جائے گا۔

16233

(۱۶۲۳۴) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إبْرَاہِیمَ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ: تُسْتَأْمَرُ الْیَتِیمَۃُ فِی نَفْسِہَا، فَرِضَاہَا أَنْ تَسْکُتَ۔
(١٦٢٣٤) حضرت عمر (رض) فرماتے ہیں کہ یتیم لڑکی سے اس کی رضا طلب کی جائے گی اور اس کی رضا اس کی خاموشی ہے۔

16234

(۱۶۲۳۵) حَدَّثَنَا فُضَیْلُ بْنُ عِیَاضٍ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، عَنْ عُمَرَ مِثْلَہُ۔
(١٦٢٣٥) حضرت عمر (رض) سے بھی یونہی منقول ہے۔

16235

(۱۶۲۳۶) حدَّثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ مُجَالِدٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنْ عَلِیٍّ وَعُمَرَ وَشُرَیْحٍ قَالُوا : تُسْتَأْمَرُ الْیَتِیمَۃُ فِی نَفْسِہَا ، وَرِضَاہَا أَنْ تَسْکُتَ۔
(١٦٢٣٦) حضرت علی (رض) ، حضرت عمر (رض) اور حضرت شریح (رض) فرماتے ہیں کہ یتیم لڑکی سے اس کے دل کی اجازت طلب کی جائے گی اور اس کی رضا اس کی خاموشی ہے۔

16236

(۱۶۲۳۷) حدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ مُجَالِدٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنْ عَلِیٍّ أَنَّہُ کَانَ یَقُولُ إذَا زُوّجَت الْیَتِیمَۃُ فَإِنْ سَکَتَتْ فَہُوَ رِضَاہَا ، وَإِنْ کَرِہَتْ لَمْ تُزَوَّجْ۔
(١٦٢٣٧) حضرت علی (رض) فرمایا کرتے تھے کہ جب یتیم لڑکی کی شادی کرائی جائے، اگر وہ خاموش رہے تو یہ اس کی رضا ہے اور اگر اس نے ناپسند کیا تو اس کی شادی نہیں کرائی جائے گی۔

16237

(۱۶۲۳۸) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ عن شریح قَالَ : إِنْ سَکَتَتْ وَرَضِیَتْ فَقَدْ سَلَّمَتْ ، وَإِنْ کَرِہَتْ ومعضت لَمْ تُنْکَحْ۔
(١٦٢٣٨) حضرت شریح فرماتے ہیں کہ اگر وہ خاموش رہے اور راضی رہے تو گویا اس نے مان لیا اور اگر وہ ناپسند کرے اور اظہارِ ناگواری کرے تو اس کا نکاح نہیں کرایا جائے گا۔

16238

(۱۶۲۳۹) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ وَجَرِیرٌ کِلاَہُمَا ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ فِی الْیَتِیمَۃِ إذَا زُوِّجَتْ قَالَ : فَإِنْ سَکَتَتْ ، أَوْ بَکَتْ فَہُوَ رِضَاہَا ، وَإِنْ کَرِہَتْ لَمْ تَزَوَّجْ ، وَلَمْ یَذْکُرْ جَرِیرٌ کَرِہَتْ۔ (احمد ۴/۳۹۴۔ ابن حبان ۴۰۸۵)
(١٦٢٣٩) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ اگر یتیم لڑکی کی شادی کرائی گئی ، اگر وہ خاموش رہی یا رو پڑی تو یہ اس کی رضا ہے، اگر اس نے ناپسندیدگی کا اظہار کیا تو اس کی شادی نہ کرائی جائے گی۔

16239

(۱۶۲۴۰) حَدَّثَنَا ابْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ خَالِدِ بْنِ دِینَارٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : سَمِعْتُہُ یَقُولُ فِی الْیَتِیمَۃِ : إذَا زُوِّجَتْ فَضَحِکَتْ ، أَوْ بَکَتْ ، أَوْ سَکَتَتْ فَہُوَ رِضَاہَا۔
(١٦٢٤٠) حضرت شعبی فرماتے ہیں کہ یتیم لڑکی کی اگر شادی کرائی جائے اور وہ ہنس پڑے یا رو پڑے یا خاموش رہے تو یہ اس کی رضا مندی ہے۔

16240

(۱۶۲۴۱) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ آدَمَ قَالَ : حدَّثَنَا یُونُسُ بْنُ أَبِی إِسْحَاقَ قَالَ : حدَّثَنَا أَبُو بُرْدَۃَ ، قَالَ : قَالَ أَبُو مُوسَی : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : تُسْتَأْمَرُ الْیَتِیمَۃُ فِی نَفْسِہَا ، فَإِنْ سَکَتَتْ فَقَدْ أَذِنَتْ ، وَإِنْ أَنْکَرَتْ لَمْ تُنْکَحْ۔
(١٦٢٤١) حضرت ابو موسیٰ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ یتیم لڑکی سے اس کے دل کی اجازت طلب کی جائے گی، اگر وہ خاموش رہے تو یہ اس کی اجازت ہے اور اگر وہ انکار کردے تو اس کا نکاح نہیں کرایا جائے گا۔

16241

(۱۶۲۴۲) حَدَّثَنَا حدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنِ ابْنِ أَبِی عَرُوبَۃَ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، عَنْ عُقْبَۃَ بْنِ عَامِرٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إذَا أَنْکَحَ الْوَلِیَّانِ فَہِیَ لِلأَوَّلِ۔ (مسلم ۷۔ ابن ماجہ ۲۱۹۰)
(١٦٢٤٢) حضرت عقبہ بن عامر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ جب دو ولی نکاح کرائیں تو پہلے کا نکاح معتبر ہے۔

16242

(۱۶۲۴۳) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَنِ ابْنِ أَبِی عَرُوبَۃَ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، عَنْ سَمُرَۃَ : ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : إذَا أَنْکَحَ الْوَلِیَّانِ فَہِیَ لِلأَوَّلِ۔ (ابوداؤد ۲۰۸۱۔ ابن ماجہ ۲۱۹۱)
(١٦٢٤٣) حضرت سمرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ جب دو ولی نکاح کرائیں تو پہلے کا نکاح معتبر ہے۔

16243

(۱۶۲۴۴) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ أَنَّ امْرَأَۃً زَوَّجَہَا وَلِیٌّ لَہَا بِالْکُوفَۃِ عُبَیْدُ اللہِ ، وَتَزَوَّجَہَا بِالشَّامِ رَجُلٌ آخَرُ قَبْلَ عُبَیْدِ اللہِ ، قَالَ : فَقَدِمَ الرَّجُلُ ، فَخَاصَمَ عُبَیْدَ اللہِ إلَی عَلِیٍّ فَقَضَی بِہَا علی لِلأَوَّلِ بَعْدَ مَا ولدت للآخَرِ۔
(١٦٢٤٤) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ اگر ایک عورت کا نکاح کوفہ میں موجود ایک ولی ” عبید اللہ “ نے کیا، جبکہ شام میں موجود ایک شخص نے عبید اللہ سے پہلے اس سے نکاح کرلیا تو کس کا نکاح معتبر ہوگا ؟ جب شام میں موجود آدمی کوفہ آیا تو وہ یہ مقدمہ لے کر حضرت علی (رض) کی عدالت میں حاضر ہوا۔ حضرت علی (رض) نے پہلے کے حق میں فیصلہ کردیا حالانکہ دوسرے سے اس کا بچہ پیدا ہوچکا تھا۔

16244

(۱۶۲۴۵) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالَ : اِلأَوَّلِ عُبَیْدِ اللہِ۔
(١٦٢٤٥) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ گزشتہ روایت میں پہلے سے مراد ” عبید اللہ “ ہے۔

16245

(۱۶۲۴۶) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ ہِشَامٍ وَأَشْعَثَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ ، عَنْ شُرَیْحٍ قَالَ : إذَا أَنْکَحَ الْوَلِیَّانِ فَالنِّکَاحُ لِلأَوَّلِ۔
(١٦٢٤٦) حضرت شریح فرماتے ہیں کہ جب دو ولی نکاح کرائیں تو پہلے کا نکاح معتبر ہے۔

16246

(۱۶۲۴۷) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ حُبَابٍ ، عَنْ ہَارُونَ بْنِ إبْرَاہِیمَ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ ، عَنْ شُرَیْحٍ فِی الْوَلِیَّیْنِ یُزَوِّجَانِ ، قَالَ: تُخَیَّرُ۔
(١٦٢٤٧) حضرت شریح فرماتے ہیں کہ اگر دو ولیوں نے کسی عورت کی شادی کرادی تو عورت کو اختیار دیا جائے گا۔

16247

(۱۶۲۴۸) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنْ مُحَمَّدٍ قَالَ : إذَا أَنْکَحَ مُجِیزَانِ فَہِیَ لِلأَوَّلِ۔
(١٦٢٤٨) حضرت محمد فرماتے ہیں کہ جب دو ولی نکاح کرائیں تو پہلے کا نکاح معتبر ہے۔

16248

(۱۶۲۴۹) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ حُبَابٍ ، عَنْ ثَابِتِ بْنِ قَیْسٍ الْغِفَارِیِّ قَالَ : کَتَبْت إلَی عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِیزِ فِی جَارِیَۃٍ مِنْ جُہَیْنَۃَ زَوَّجَہَا وَلِیُّہَا رَجُلاً مِنْ قَیْسٍ ، وَزَوَّجَہَا أخوہا رَجُلاً مِنْ جُہَیْنَۃَ ، فَکَتَبَ عُمَرُ بْنُ عَبْدَ الْعَزِیزِ أَنْ أَدْخِلْ عَلَیْہَا شُہُودًا عُدُولاً ثم خَیِّرْہَا ، فَأَیَّہُمَا اخْتَارَتْ فَہُوَ زَوْجُہَا۔
(١٦٢٤٩) حضرت ثابت بن قیس غفاری فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر بن عبد العزیز کے نام خط لکھا کہ جہینہ قبیلے کی ایک لڑکی کا نکاح اس کے ولی نے قبیلہ قیس کے ایک آدمی سے کرادیا، جبکہ اس کے بھائی نے اس کا نکاح جہینہ قبیلے کے ایک آدمی سے کرایا ہے، اب وہ کس کی بیوی ہوگی ؟ حضرت عمر بن عبد العزیز نے فرمایا کہ اس کے سامنے عادل گواہ لاؤ پھر اسے اختیار دو ، وہ جس کو اختیار کرے وہی اس کا شوہر ہے۔

16249

(۱۶۲۵۰) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ حُبَابٍ ، عن سفیان ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ عَامِرٍ فِی أَخَوَیْنِ زَوَّجَا أُخْتًا لَہُمَا قَالَ تُخَیَّرَ۔
(١٦٢٥٠) حضرت عامر فرماتے ہیں کہ اگر دو بھائیوں نے مختلف جگہ اپنی ایک بہن کی شادی کرادی تو اس کو دونوں کے بارے میں اختیار ہوگا۔

16250

(۱۶۲۵۱) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ حُبَابٍ ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَۃَ ، عَنْ حَمَّادٍ فِی الْوَلِیَّیْنِ إِذَا زَوَّجَا قَالَ أَیّہُمَا رَضِیَتْ فَہُوَ زَوْجُہَا۔
(١٦٢٥١) حضرت حماد فرماتے ہیں کہ اگر دو ولیوں نے کسی عورت کی شادی کرادی تو جس سے وہ راضی ہو وہی اس کا خاوند ہے۔

16251

(۱۶۲۵۲) حدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ عن سلیمان ، عَنْ سَلْمِ بْنِ أَبِی الذَّیَّالِ قَالَ : کَتَبَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیزِ فِی الْیَتِیمَیْنِ : إذَا زُوِّجَا وَہُمَا صَغِیرَانِ أَنَّہُمَا بِالْخِیَارِ۔
(١٦٢٥٢) حضرت سلم بن ابی ذیال فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن عبدا لعزیز نے خط میں ایک حکم نامہ لکھا کہ اگر ایک یتیم لڑکے اور ایک یتیم لڑکی کے نابالغ ہونے کی حالت میں ان کی شادی کرادی گئی تو بالغ ہونے پر انھیں اختیا رہے۔

16252

(۱۶۲۵۳) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ الْحَسَنِ قَالَ : لَہَا الْخِیَارُ۔
(١٦٢٥٣) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ اسے اختیار ہے۔

16253

(۱۶۲۵۴) حَدَّثَنَا الضَّحَّاکُ بْنُ مَخْلَدٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَطَائٍ قَالَ : ہِیَ بِالْخِیَارِ۔
(١٦٢٥٤) حضرت عطاء فرماتے ہیں کہ اسے اختیار ہے۔

16254

(۱۶۲۵۵) حَدَّثَنَا ابْنُ مَہْدِیٍّ، عَنْ زَمْعَۃَ، عَنِ ابْنِ طَاوُوسٍ، عَنْ أَبِیہِ قَالَ: فِی الصَّغِیرَتَیْنِ، قَالَ: ہُمَا بِالْخِیَارِ إذَا شَبَّا۔
(١٦٢٥٥) حضرت طاؤس (رض) فرماتے ہیں کہ جب یتیم بچوں کا نابالغ ہونے کی حالت میں نکاح کرایا گیا تو بالغ ہونے پر انھیں اختیار ہے۔

16255

(۱۶۲۵۶) حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ عَوَّامٍ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ فِی وَلِیِّ الْیَتِیمَۃِ إذَا زَوَّجَہَا وَہِیَ صَغِیرَۃٌ قَالَ : النِّکَاحُ جَائِزٌ ، وَلَہَا الْخِیَارُ۔
(١٦٢٥٦) حضرت قتادہ فرماتے ہیں کہ جب یتیم لڑکی کے ولی نے نابالغ ہونے کی حالت میں اس کا نکاح کرادیا تو نکاح جائز ہے اور اسے اختیار ہوگا۔

16256

(۱۶۲۵۷) حَدَّثَنَا عَبَّادٌ ، عَنْ أَبِی حَنِیفَۃَ ، عَنْ حَمَّادٍ قَالَ : النِّکَاحُ جَائِزٌ وَلاَ خِیَارَ لَہَا۔
(١٦٢٥٧) حضرت حماد فرماتے ہیں کہ اس کا نکاح جائز ہے اور اسے اختیار بھی نہیں۔

16257

(۱۶۲۵۸) حدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ زِیَادِ بْنِ عِلاَقَۃَ قَالَ : خَطَبَ رَجُلٌ سَیِّدَۃً مِنْ بَنِی لَیْثٍ ثَیِّبًا ، فَأَبَی أَبُوہَا أَنْ یُزَوِّجَہَا ، فَکَتَبْت إلَی عُثْمَانَ ، فَکَتَبَ عُثْمَانُ : إِنْ کُفُؤًا فَقُولُوا لأَبِیہَا أَنْ یُزَوِّجَہَا ، فَإِنْ أَبَی أَبُوہَا فَزَوِّجُوہَا۔
(١٦٢٥٨) حضرت زیاد بن علاقہ فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے بنو لیث کی ایک ثیبہ عورت کو نکاح کا پیغام بھجوایا۔ اس کے باپ نے اس کی شادی کرانے سے انکار کردیا۔ اس عورت نے حضرت عثمان (رض) کو خط لکھا تو حضرت عثمان (رض) نے خط لکھ کر حکم دیا کہ اگر وہ آدمی اس عورت کا کفو ہے تو اس کے باپ سے کہو کہ اس کی شادی کرادے۔ اگر وہ شادی نہ کرائے تو پھر بھی اس کی شادی کرادو۔

16258

(۱۶۲۵۹) حَدَّثَنَا سَہْلُ بْنُ یُوسُفَ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنِ الْحَسَنِ قَالَ : إذَا اخْتَلَفَ الْوَلِیُّ وَالْمَرْأَۃُ نَظَرَ السُّلْطَانُ ، فَإِنْ کَانَ الْوَلِیُّ مُضَارًّا زَوَّجَہَا وَإِلاَّ رُدَّ أَمْرُہَا إلَی وَلِیِّہَا۔
(١٦٢٥٩) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ اگر ولی اور سلطان کا اختلاف ہوگیا تو سلطان دیکھے گا اگر ولی عورت کو نقصان پہنچا رہا ہے تو اس عورت کی بات معتبر ہوگی اور اگر ایسا نہ ہو تو معاملہ ولی کے سپرد ہوگا۔

16259

(۱۶۲۶۰) حَدَّثَنَا عِیسَی بْنُ یُونُسَ ، عَنْ سُلَیْمَانَ التَّیْمِیِّ ، عَنْ أَبِی جَعْفَرٍ الأَشْجَعِیِّ أَنَّ امْرَأَۃً أَتَتْ شُرَیْحًا مَعَہَا أُمُّہَا وَعَمُّہَا ، فَأَرَادَتِ الأُمُّ رَجُلاً وَأَرَادَ الْعَمُّ رَجُلاً ، فَخَیَّرَہَا شُرَیْحٌ ، فَاخْتَارَتِ الَّذِی اخْتَارَتْ أُمُّہَا ، فَقَالَ شُرَیْحٌ لِلْعَمِّ : تَأْذَنْ ؟ قَالَ : لاَ وَاللَّہِ لاَ آذَنُ قَالَ : أَتَأْذَنُ قَبْلَ أَنْ لاَ یَکُونَ لَکَ إذْنٌ ؟ قَالَ : لاَ وَاللَّہِ لاَ آذَنُ ، قَالَ شُرَیْحٌ : اذْہَبِی فأَنْکِحِی ابْنَتَکَ مَنْ شِئْت۔
(١٦٢٦٠) حضرت ابو جعفر اشجعی کہتے ہیں کہ ایک عورت اپنی ماں اور اپنے چچا کے ساتھ حضرت شریح کے پاس آئی۔ اس کی ماں ایک آدمی سے اور اس کا چچا دوسرے آدمی سے اس کا نکاح کرانا چاہتا تھا۔ حضرت شریح نے اس عورت کو اختیار دیا تو اس عورت نے اپنی ماں کی پسند کو اختیار کیا۔ حضرت شریح نے اس کے چچا سے پوچھا کہ کیا تم اجازت دیتے ہو ؟ اس نے کہا کہ میں خدا کی قسم ! ہرگز اجازت نہیں دیتا۔ حضرت شریح نے فرمایا کہ کیا تم اجازت دیتے ہو قبل اس کے کہ تمہاری اجازت نہ رہے۔ اس کے چچا نے کہا کہ میں خدا کی قسم ! ہرگز اجازت نہیں دوں گا۔ حضرت شریح نے اس عورت کی ماں سے فرمایا تم اپنی بیٹی کو لے جاؤ اور جہاں چاہو اس کا نکاح کرادو۔

16260

(۱۶۲۶۱) حدَّثَنَا ابْنُ عَیَّاشٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ دِینَارٍ ، عَمَّنْ حَدَّثَہُ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إذَا أَنْکَحَ الرَّجُلُ ابْنَہُ وَہُوَ کَارِہٌ فَلَیْسَ بِنِکَاحٍ ، وَإِذَا زَوَّجَہُ وَہُوَ صَغِیرٌ جَازَ نِکَاحُہُ۔
(١٦٢٦١) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ اگر آدمی نے اپنے بالغ بیٹے کا نکاح کرایا اور وہ اس پر راضی نہیں تھا تو یہ نکاح جائز نہیں ہے۔ اگر اس کے نابالغ ہونے کی حالت میں اس کا نکاح کرایا تو جائز ہے۔

16261

(۱۶۲۶۲) حدَّثَنَا مُطَرِّفٌ ، عَنِ الْحَکَمِ ، عَنْ شُرَیْحٍ قَالَ : إذَا زَوَّجَ الرَّجُلُ ابْنَہُ ، أَوِ ابْنَتَہُ فَالْخِیَارُ لَہُمَا إذَا شَبَّا۔
(١٦٢٦٢) حضرت شریح فرماتے ہیں کہ اگر کسی آدمی نے اپنے نابالغ بیٹے یا بیٹی کا نکاح کرایا تو بالغ ہونے کے بعد انھیں اختیار ہوگا۔

16262

(۱۶۲۶۳) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ مُبَارَکٍ ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، وَالْحَسَنِ وَقَتَادَۃَ قَالُوا : إذَا أَنْکَحَ الصِّغَارَ آبَاؤُہُمْ جَازَ نِکَاحُہُمْ۔
(١٦٢٦٣) حضرت زہری، حضرت حسن اور حضرت قتادہ فرماتے ہیں کہ اگر باپ دادا نابالغ بچوں کا نکاح کرادیں تو نکاح جائز ہے۔

16263

(۱۶۲۶۴) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ قَالَ : إذَا زَوَّجَ الرَّجُلُ ابْنَہُ وَہُوَ صَغِیرٌ فَتَزْوِیجُہُ جَائِزٌ عَلَیْہِ ، وَالصَّدَاقُ عَلَی الابْنِ۔
(١٦٢٦٤) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ اگر آدمی نے اپنے نابالغ بیٹے کا نکاح کرادیا تو نکاح جائز ہے البتہ مہر بیٹے پر واجب ہوگا۔

16264

(۱۶۲۶۵) حَدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ عَامِرٍ قَالَ : لاَ یُجْبِرُ عَلَی النِّکَاحِ إلاَّ الأَبُ۔
(١٦٢٦٥) حضرت عامر فرماتے ہیں کہ نکاح پر باپ کے سوا کوئی مجبور نہیں کرسکتا۔

16265

(۱۶۲۶۶) حَدَّثَنَا عُبَیْدِ اللہِ بْنُ مُوسَی ، عَنِ الْحَسَنِ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ عَطَائٍ قَالَ : إذَا أَنْکَحَ الرَّجُلُ ابْنَہُ وَہُوَ صَغِیرٌ فَنِکَاحُہُ جَائِزٌ وَلاَ طَلاَقَ لَہُ۔
(١٦٢٦٦) حضرت عطاء فرماتے ہیں کہ اگر کسی نے اپنے نابالغ بیٹے کا نکاح کرادیا تو نکاح جائز ہے اور اس بچے کے پاس طلاق کا حق نہیں ہوگا۔

16266

(۱۶۲۶۷) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ مُطَرِّفٍ ، عَنِ الْحَکَمِ ، قَالَ : قَالَ شُرَیْحٌ : إذَا أَنْکَحَ الرَّجُلُ ابْنَہُ وَہُوَ صَغِیرٌ جَازَ عَلَیْہِ فَإِذَا بَلَغَ فَإِنْ طَلَّقَ فَنِصْفُ الْمَہْرِ عَلَی الَّذِی کَفَلَ بِہِ۔
(١٦٢٦٧) حضرت شریح فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص اپنے نابالغ بچے کی شادی کرائے تو یہ جائز ہے۔ البتہ جب وہ بالغ ہو اور طلاق دے دے تو نصف مہر اس پر واجب ہوگا جو بچے کا کفیل ہے۔

16267

(۱۶۲۶۸) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ قَالَ : الصَّدَاقُ عَلَی الابْنِ۔
(١٦٢٦٨) حضرت حسن فرماتے ہیں مہربچے پر واجب ہوگا۔

16268

(۱۶۲۶۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ قَالَ : سَأَلْتُ الْحَکَمَ وَحَمَّادًا ، عَنِ الرَّجُلِ یُزَوِّجُ ابْنَہُ وَہُوَ صَغِیرٌ ، قَالَ الْحَکَمُ: ہو عَلَی اِلابْنِ، وَقَالَ حَمَّادٌ: ہُوَ عَلَی الأَبِ ، وَقَالَ قَتَادَۃُ : قَالَ ابْنُ عُمَرَ ہُوَ عَلَی الَّذِی أَنْکَحْتُمُوہُ، یَعْنِی : الصَّدَاقَ عَلَی اِلابْنِ۔
(١٦٢٦٩) حضرت شعبہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت حکم اور حضرت حماد سے اس شخص کے بارے میں سوال کیا جو اپنے نابالغ بچے کی شادی کرادے تو مہر کس پر واجب ہوگا ؟ حضرت حکم نے فرمایا کہ مہر لڑکے پر واجب ہے۔ حضرت حماد نے فرمایا کہ باپ پر لازم ہے۔ حضرت قتادہ سے روایت ہے کہ حضرت ابن عمر (رض) نے فرمایا کہ مہر اس پر واجب ہے جس کا تم نے نکاح کرایا یعنی لڑکے پر۔

16269

(۱۶۲۷۰) حَدَّثَنَا حُمَیْدٌ ، عَنِ الْحَسَنِ ، عَنْ مُجَالِدٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ قَالَ : ہُوَ عَلَی الأَبِ۔
(١٦٢٧٠) حضرت شعبی فرماتے ہیں کہ اس صورت میں مہر باپ پر لازم ہے۔

16270

(۱۶۲۷۱) حدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ عَوْفٍ ، عَنْ أَنَسٍ قَالَ : کَانَ إذَا زَوَّجَ امْرَأَۃً مِنْ بَنَاتِہِ ، أَوِ امْرَأَۃً مِنْ بَعْضِ أَہْلِہِ قَالَ لِزَوْجِہَا : أُزَوِّجُک تُمْسِکُ بِمَعْرُوفٍ ، أَوْ تُسَرِّحُ بِإِحْسَانٍ۔
(١٦٢٧١) حضرت عوف فرماتے ہیں کہ حضرت انس (رض) اپنی کسی بیٹی یا اپنے عزیزوں میں سے کسی بچی کی شادی کراتے تو اس کے خاوند سے کہتے کہ میں اس کی شادی اس بات پر کرتا ہوں کہ تم امساک بمعروف (اچھے طریقے سے نبھا کرنا) یا تسریح باحسان (بھلائی کے ساتھ رخصت کرنا) کروگے۔

16271

(۱۶۲۷۲) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ حَبِیبِ بْنِ أَبِی ثَابِتٍ أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ کَانَ إذَا زَوَّجَ اشْتَرَطَ : {إمْسَاکٌ بِمَعْرُوفٍ ، أَوْ تَسْرِیحٌ بإحسان}۔
(١٦٢٧٢) حضرت ابن عباس (رض) جب کسی بچی کی شادی کراتے تو خاوند سے امساک بمعروف (اچھے طریقے سے نبھا کرنا) یا تسریح باحسان (بھلائی کے ساتھ رخصت کرنا) کی شرط لگاتے۔

16272

(۱۶۲۷۳) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنِ ابْنِ أَبِی مُلَیْکَۃَ أَنَّ ابْنَ عُمَرَ کَانَ إذَا أَنْکَحَ قَالَ : أُنْکِحُک عَلَی مَا قَالَ اللَّہُ : {إمْسَاکٌ بِمَعْرُوفٍ ، أَوْ تَسْرِیحٌ بِإِحْسَانٍ}۔
(١٦٢٧٣) حضرت ابن عمر (رض) جب کسی کا نکاح کراتے تو فرماتے کہ میں تم سے اس بات پر نکاح کراتا ہوں جو اللہ تعالیٰ نے فرمائی ہے {إمْسَاکٌ بِمَعْرُوفٍ ، أَوْ تَسْرِیحٌ بِإِحْسَانٍ } یعنی یا اچھے طریقے سے نبھاؤ یا عمدہ طریقے سے چھوڑ دو ۔

16273

(۱۶۲۷۴) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَجْلاَنَ قَالَ : أَخْبَرَنِی سُلَیْمَانُ أَنَّہُ خَطَبَ إلَی ابْنِ عُمَرَ مَوْلاَۃً لَہُ ، فَقَالَ لَہُ مِثْلَ ذَلِکَ۔
(١٦٢٧٤) حضرت سلیمان نے حضرت ابن عمر کی ایک مولاۃ خاتون کے لیے نکاح کا پیغام بھجوایا تو حضرت ابن عمر (رض) نے ان سے یہی فرمایا۔

16274

(۱۶۲۷۵) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالَ : سَأَلْتُہ ، فَقُلْتُ : أَکَانُوا یَشْتَرِطُونَ عِنْدَ عُقْدَۃِ النِّکَاحِ : {إمْسَاکٌ بِمَعْرُوفٍ ، أَوْ تَسْرِیحٌ بِإِحْسَانٍ} ؟ قَالَ ، فَقَالَ : ذَلِکَ لَہُمْ ، وَإِنْ لَمْ یَشْتَرِطُوا مَا کَانَ أَصْحَابُنَا یَشْتَرِطُونَ۔
(١٦٢٧٥) حضرت مغیرہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابراہیم سے پوچھا کہ کیا اسلاف نکاح کرتے وقت امساک بمعروف (اچھے طریقے سے نبھا کرنا) یا تسریح باحسان (بھلائی کے ساتھ رخصت کرنا) کی شرط لگایا کرتے تھے ؟ انھوں نے فرمایا کہ وہ یہ شرط تو نہ لگاتے تھے بلکہ شرط لگائے بغیر اس بات کا لحاظ ہوتا تھا۔

16275

(۱۶۲۷۶) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ جُوَیْبر ، عَنِ الضَّحَّاکِ {وَأَخَذْنَ مِنْکُمْ مِیثَاقًا غَلِیظًا} قَالَ : {إمْسَاکٌ بِمَعْرُوفٍ، أَوْ تَسْرِیحٌ بِإِحْسَانٍ}۔
(١٦٢٧٦) حضرت ضحاک قرآن مجید کی آیت { وَأَخَذْنَ مِنْکُمْ مِیثَاقًا غَلِیظًا } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اس سے مراد امساک بمعروف (اچھے طریقے سے نبھا کرنا) یا تسریح باحسان (بھلائی کے ساتھ رخصت کرنا) ہے۔

16276

(۱۶۲۷۷) حدَّثَنَا عِیسَی بْنُ یُونُسَ ، عَنِ الأَوْزَاعِیِّ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ أَبِی کَثِیرٍ {وَأَخَذْنَ مِنْکُمْ مِیثَاقًا غَلِیظًا} قَالَ: {إمْسَاکٌ بِمَعْرُوفٍ ، أَوْ تَسْرِیحٌ بِإِحْسَانٍ}۔
(١٦٢٧٧) حضرت یحییٰ بن ابی کثیر قرآن مجید کی آیت { وَأَخَذْنَ مِنْکُمْ مِیثَاقًا غَلِیظًا } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اس سے مراد امساک بمعروف (اچھے طریقے سے نبھا کرنا) یا تسریح باحسان (بھلائی کے ساتھ رخصت کرنا) ہے۔

16277

(۱۶۲۷۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ {وَأَخَذْنَ مِنْکُمْ مِیثَاقًا غَلِیظًا} قَالَ: عُقْدَۃُ النِّکَاحِ، قَالَ : قَوْلُہُ : قَدْ نکحت۔
(١٦٢٧٨) حضرت مجاہد قرآن مجید کی آیت { وَأَخَذْنَ مِنْکُمْ مِیثَاقًا غَلِیظًا } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اس سے مراد عقد نکاح ہے۔

16278

(۱۶۲۷۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إسْرَائِیلَ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ ، وَمُجَاہِدٍ {وَأَخَذْنَ مِنْکُمْ مِیثَاقًا غَلِیظًا} قَالَ : أَخَذْتُمُوہُنَّ بِأَمَانَۃِ اللہِ وَاسْتَحْلَلْتُمْ فُرُوجَہُنَّ بِکَلِمَۃِ اللہِ۔
(١٦٢٧٩) حضرت عکرمہ اور حضرت مجاہد قرآن مجید کی آیت { وَأَخَذْنَ مِنْکُمْ مِیثَاقًا غَلِیظًا } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اس سے مراد یہ ہے کہ تم نے ان سے اللہ کی امانت کو لیا ہے اور ان کی شرم گاہوں کو اپنے لیے اللہ کے کلمے سے حلال کیا ہے۔

16279

(۱۶۲۸۰) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ یَمَانٍ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ حَبِیبٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ {وَأَخَذْنَ مِنْکُمْ مِیثَاقًا غَلِیظًا} قَالَ : {إمْسَاکٌ بِمَعْرُوفٍ ، أَوْ تَسْرِیحٌ بِإِحْسَانٍ}۔
(١٦٢٨٠) حضرت ابن عباس (رض) قرآن مجید کی آیت { وَأَخَذْنَ مِنْکُمْ مِیثَاقًا غَلِیظًا } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اس سے مراد امساک بمعروف (اچھے طریقے سے نبھا کرنا) یا تسریح باحسان (بھلائی کے ساتھ رخصت کرنا) ہے۔

16280

(۱۶۲۸۱) حدَّثَنَا ہُشَیْمٌ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنِ الْحَسَنِ قَالَ: کَانَ لاَ یَرَی بَأْسًا أنْ یُزَوِّجَ الرَّجُلُ عَبْدَہُ أَمَتَہُ بِغَیْرِ مَہْرٍ وَلاَ بَیِّنَۃٍ۔
(١٦٢٨١) حضرت حسن اس بات کو جائز قرار دیتے تھے کہ کوئی آدمی اپنے غلام کی شادی اپنی باندی سے بغیر مہر اور بغیر گواہوں کے کرادے۔

16281

(۱۶۲۸۲) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمُحَارِبِیُّ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ عَطَائٍ فِی الرَّجُلِ یُزَوِّجُ عَبْدَہُ أَمَتَہُ بِغَیْرِ شُہُودٍ قَالَ : یُشْہِد أَحَبُّ إلَیَّ ، وَإِنْ لَمْ یَفْعَلْ فَہُوَ جَائِزٌ۔
(١٦٢٨٢) حضرت عطاء فرماتے ہیں کہ آدمی اپنے غلام کی شادی اپنی باندی سے بغیر گواہوں کے کراسکتا ہے البتہ اگر کسی کو گواہ بنالے تو بہتر ہے۔

16282

(۱۶۲۸۳) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالَ : کَانُوا یُکْرِہُونَ الْمَمْلُوکَیْنِ عَلَی النِّکَاحِ وَیُغْلِقُونَ عَلَیْہِمَا الْبَابَ۔
(١٦٢٨٣) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ اسلاف غلام اور باندی کو نکاح پر مجبور کرتے تھے اور ان کے لیے دروازہ بند کرتے تھے۔

16283

(۱۶۲۸۴) حَدَّثَنَا عِیسَی بْنُ یُونُسَ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَطَائٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : لاَ بَأْسَ أَنْ یُزَوِّجَ الرَّجُلُ أَمَتَہُ عَبْدَہُ بِغَیْرِ مَہْرٍ۔
(١٦٢٨٤) حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ آدمی اپنے غلام کی شادی اپنی باندی سے بغیر مہر کے کراسکتا ہے۔

16284

(۱۶۲۸۵) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، عَنْ أَبِی فَاطِمَۃَ قَالَ : سَأَلْتُ ابْنَ سِیرِینَ قَالَ : قُلْتُ : رَجُلٌ قَالَ لِمَمْلُوکِہِ : دُونَک جَارِیَتِی ہَذِہِ فُلاَنَۃُ ، فَإِنْ أَحْبَبْت أَنْ تَتَّخِذَہَا لِنَفْسِکَ وَإِلاَّ فَبِعْہَا وَرُدَّ عَلَیَّ ثَمَنَہَا ، قَالَ : اکْسُہَا ثَوْبًا۔
(١٦٢٨٥) حضرت ابو فاطمہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن سیرین سے سوال کیا کہ اگر ایک آدمی اپنے غلام سے یہ کہے کہ میری فلاں باندی لے لو، اگر چاہو تو اس سے نکاح کرلو اور اگر چاہو اسے بیچ کر اس کی قیمت مجھے دے دو ۔ تو اس کا کیا حکم ہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ اس کو جوڑا پہنا دے۔

16285

(۱۶۲۸۶) حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إسْمَاعِیلَ ، عَنْ جَعْفَرٍ ، عَنْ أَبِیہِ أَنَّ عَلِیًّا کَانَ یَقُولُ : لاَ یَنْکِحُ الْعَبْدُ فَوْقَ اثْنَتَیْنِ۔
(١٦٢٨٦) حضرت علی (رض) فرمایا کرتے تھے کہ غلام صرف دو شادیاں کرسکتا ہے۔

16286

(۱۶۲۸۷) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنِ ابْنِ أَبِی نَجِیحٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ فِی الْعَبْدِ قَالَ : یَتَزَوَّجُ أَرْبَعًا ، وَقَالَ عَطَائٌ : اثْنَتَیْنِ۔
(١٦٢٨٧) حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ غلام چار شادیاں کرسکتا ہے۔ حضرت عطاء فرماتے ہیں کہ غلام صرف دو شادیاں کرسکتا ہے۔

16287

(۱۶۲۸۸) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنِ الشَّیْبَانِیِّ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ قَالَ : لاَ یَتَزَوَّجُ الْمَمْلُوکُ إلاَّ امْرَأَتَیْنِ۔
(١٦٢٨٨) حضرت شعبی فرماتے ہیں کہ غلام صرف دو شادیاں کرسکتا ہے۔

16288

(۱۶۲۸۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَطَائٍ قَالَ : یَتَزَوَّجُ اثْنَتَیْنِ۔
(١٦٢٨٩) حضرت عطاء فرماتے ہیں کہ غلام صرف دو شادیاں کرسکتا ہے۔

16289

(۱۶۲۹۰) حَدَّثَنَا الثَّقَفِیُّ ، عَنْ یُونُسَ ، عَنْ مُحَمَّدٍ فِی الرَّجُلِ الْمَمْلُوکِ : یُکْرَہُ لَہُ أَنْ یَجْمَعَ أَکْثَرَ مِنَ اثْنَتَیْنِ ، وَلاَ یُذْکَرُ إمَائً کُنَّ ، أَوْ حَرَائِرَ ، إِنَّمَا مَالُہُ مَالُ مَوْلاَہُ۔
(١٦٢٩٠) حضرت محمد فرماتے ہیں کہ غلام کے لیے دو سے زیادہ شادیاں کرنا مکروہ ہے، خواہ آزاد عورتیں ہوں یاباندیاں۔ غلام کا مال آقا کا مال ہے۔

16290

(۱۶۲۹۱) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ قَالَ : یَتَزَوَّجُ اثْنَتَیْنِ۔
(١٦٢٩١) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ غلام صرف دو شادیاں کرسکتا ہے۔

16291

(۱۶۲۹۲) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ أَبِی غَنِیَّۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنِ الْحَکَمِ قَالَ : إذَا أَذِنَ الرَّجُلُ لِعَبْدِہِ فِی الْجَارِیَۃِ یَشْتَرِیہَا أَنْ یَطَأَہَا فَہُوَ نِکَاحٌ مِنَ السَّیِّدِ ، وَلاَ یَطَأُ فَوْقَ اثْنَتَیْنِ۔
Missing

16292

(۱۶۲۹۳) حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِی زَائِدَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، عَنْ مُحَمَّدٍ ، قَالَ : قَالَ عُمَرُ : مَنْ یَعْلَمُ مَا یَحِلُّ لِلْمَمْلُوکِ مِنَ النِّسَائِ ؟ قَالَ رَجُلٌ : أَنَا ، قَالَ : کَمْ ؟ قَالَ : امْرَأَتَیْنِ ، فَسَکَتَ۔
(١٦٢٩٣) حضرت عمر (رض) نے ایک مرتبہ سوال کیا کہ کون جانتا ہے کہ غلام کتنی شادیاں کرسکتا ہے ؟ ایک آدمی نے کہا میں جانتا ہوں۔ حضرت عمر نے پوچھا کتنی شادیاں کرسکتا ہے ؟ اس نے کہا دو ۔ یہ سن کر حضرت عمر (رض) اس کی تصدیق کرتے ہوئے خاموش ہوگئے۔

16293

(۱۶۲۹۴) حَدَّثَنَا زیدُ بْنُ حُبَابٍ ، عَنِ ابْنِ لَہِیعَۃَ ، عَنْ خَالِدِ بْنِ أَبِی عِمْرَانَ قَالَ : سَأَلْتُ سالِمًا وَالْقَاسِمَ ، عَنِ الْعَبْدِ ، کَمْ یَتَزَوَّجُ ؟ فَقَالاَ : أَرْبَعًا۔
(١٦٢٩٤) حضرت خالد بن ابی عمران کہتے ہیں کہ میں نے حضرت سالم اور حضرت قاسم سے پوچھا کہ غلام کتنی شادیاں کرسکتا ہے ؟ انھوں نے فرمایا چار۔

16294

(۱۶۲۹۵) حَدَّثَنَا الْمُحَارِبِیُّ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنِ الْحَکَمِ قَالَ : أَجْمَعَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَی أَنَّ الْمَمْلُوکَ لاَ یَجْمَعُ مِنَ النِّسَائَ فَوْقَ اثْنَتَیْنِ۔
(١٦٢٩٥) حضرت حکم فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام (رض) کا اس بات پر اجماع تھا کہ غلام دو سے زیادہ شادیاں نہیں کرسکتا۔

16295

(۱۶۲۹۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ أَبِی مَعْشَرٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالَ : یَتَزَوَّجُ الْمَمْلُوکُ فَوْقَ اثْنَتَیْنِ۔
(١٦٢٩٦) حضرت براہیم فرماتے ہیں کہ غلام دو سے زیادہ شادیاں کرسکتا ہے۔

16296

(۱۶۲۹۷) حدَّثَنَا وَکِیعُ بن الجرَّاح ، عَنْ سُفیَان ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ الْحَسَنِ وَعَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالاَ : إذَا تَزَوَّجَ الْعَبْدُ بِغَیْرِ إذْنِ مَوْلاَہُ ثُمَّ أَذِنَ الْمَوْلَی فَہُوَ جَائِزٌ۔
(١٦٢٩٧) حضرت حسن اور حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ اگر غلام نے اپنے آقا کی اجازت کے بغیر شادی کی، پھر آقا نے اسے اجازت دے دی تو جائز ہے۔

16297

(۱۶۲۹۸) حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنِ الْحَسَنِ قَالَ : إذَا أَجَازَہُ الْمَوْلَی فَہُوَ جَائِزٌ۔
(١٦٢٩٨) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ اگر غلام نے اپنے آقا کی اجازت کے بغیر شادی کی، پھر آقا نے اسے اجازت دے دی تو جائز ہے۔

16298

(۱۶۲۹۹) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ، وَالْحَسَنِ فِی الْعَبْدِ یَتَزَوَّجُ بِغَیْرِ إذْنِ سَیِّدِہِ ، قَالاَ : إِنْ شَائَ أَجَازَ النِّکَاحَ سَیِّدُہُ ، وَإِنْ شَائَ رَدَّہُ۔
(١٦٢٩٩) حضرت سعید بن مسیب اور حضرت حسن فرماتے ہیں کہ اگر غلام نے اپنے آقا کی اجازت کے بغیر شادی کی تو آقا اگر چاہے تو اجازت دے دے اور چاہے تو منع کردے۔

16299

(۱۶۳۰۰) حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنِ الْحَکَمِ قَالَ : قَالَ : إِنْ أَجَازَہُ المولی جَازَ ، وَقَالَ حَمَّادُ : یَسْتَأْنِفُ النِّکَاحَ۔
(١٦٣٠٠) حضرت حکم فرماتے ہیں کہ اگر آقا نے غلام کے نکاح کو باقی رکھا تو باقی رہے گا۔ حضرت حماد فرماتے ہیں کہ اجازت ملنے پر دوبارہ نکاح کرے گا۔

16300

(۱۶۳۰۱) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنِ الْحَسَنِ قَالَ : إذَا طَلَّقَ الرَّجُلُ امْرَأَتَہُ ثُمَّ تَزَوَّجَہَا عَبْدٌ بِغَیْرِ إذْنِ مَوَالِیہِ فَدَخَلَ بِہَا ، قَالَ الْحَسَنُ : لَیْسَ بِزَوْجٍ۔
(١٦٣٠١) حضرت حسن سے سوال کیا گیا کہ اگر ایک آدمی اپنی بیوی کو طلاق دے اور کوئی غلام اپنے آقا کی اجازت کے بغیر اس سے شادی کرلے اور شرعی ملاقات بھی کرلے تو کیا وہ پہلے خاوند کے لیے حلال ہوجائے گی ؟ حضرت حسن نے فرمایا کہ یہ اس کا خاوند نہیں ہے۔ یعنی وہ پہلے خاوند کے لیے حلال نہیں ہوگی۔

16301

(۱۶۳۰۲) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سَالِمٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ مِثْلَ قَوْلِ الْحَسَنِ ، وَقَالَ الْحَکَمُ : ہُوَ زَوْجٌ وَلَہُ أَنْ یُرَاجِعَہَا۔
(١٦٣٠٢) حضرت شعبی سے بھی یہی منقول ہے۔ البتہ حضرت حکم فرماتے ہیں کہ یہ غلام اس کا خاوندبن گیا۔ اب وہ پہلے خاوند سے نکاح کرسکتی ہے۔

16302

(۱۶۳۰۳) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَطَائٍ فِی الْمَرْأَۃِ تُطْلَقُ ثَلاَثًا فَیَتَزَوَّجُہَا عَبْدٌ بِغَیْرِ إذْنِ مَوَالِیہِ ، قَالَ : قَالَ عَطَائٌ : کُلُّ نِکَاحٍ عَلَی غَیْرِ وَجْہِ نِکَاحٍ فَإِنَّہَا لاَ تَرْجِعُ إلَی زَوْجِہَا الأَوَّلِ۔
(١٦٣٠٣) حضرت عطاء سے سوال کیا گیا کہ اگر ایک آدمی اپنی بیوی کو تین طلاق دے اور کوئی غلام اپنے آقا کی اجازت کے بغیر اس سے شادی کرلے تو کیا وہ پہلے خاوند کے لیے حلال ہوجائے گی ؟ انھوں نے فرمایا کہ یہ نکاح درست نہیں، لہٰذا وہ پہلے خاوند سے نکاح نہیں کرسکتی۔

16303

(۱۶۳۰۴) حَدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ بْنُ عَیَّاشٍ ، عَنِ عَبْدِ الْعَزِیزِ بْنِ عُبَیْدِ اللہِ ، عَنِ الْحَارِثِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : لاَ تَرْجِعُ إلَیْہِ ، لأَنَّہُ نِکَاحٌ لَیْسَ رِشْدَۃً۔
(١٦٣٠٤) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ وہ پہلے خاوند سے نکاح نہیں کرسکتی، کیونکہ نکاح درست نہیں۔

16304

(۱۶۳۰۵) حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَبْدِ الْوَارِثِ ، عَنْ جَریر ، عَنْ حَمَّادٍ قَالَ : لاَ یَحِلُّ لَہَا أنْ تَرْجِعَ بِہِ إلَی زَوْجِہَا الأَوَّلِ حَتَّی تُنْکَحَ نِکَاحَ الْمُسْلِمِینَ الَّذِی یَجُوزُ۔
(١٦٣٠٥) حضرت حماد فرماتے ہیں کہ وہ اس وقت تک پہلے خاوند سے نکاح نہیں کرسکتی جب تک مسلمانوں والا جائز نکاح نہ کرلے۔

16305

(۱۶۳۰۶) حَدَّثَنَا عَفَّانَ قَالَ : حدَّثَنَا سَعِیدُ بْنُ زَیْدٍ قَالَ : حدَّثَنَا لَیْثٌ ، عَنْ طَاوُوسٍ قَالَ : کُلُّ نِکَاحٍ کَانَ بِغَیْرِ سُنَّۃٍ فَإِنَّ الْمَرْأَۃَ لاَ تَحِلُّ لِزَوْجِہَا الأَوَّلِ۔
(١٦٣٠٦) حضرت طاوس فرماتے ہیں کہ غیر شرعی نکاح سے عورت پہلے خاوند کے لیے حلال نہیں ہوتی۔

16306

(۱۶۳۰۷) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ عَامِرٍ فِی الْعَبْدِ وَالْخَصِیِّ قَالَ : ہُوَ زَوْجٌ۔
(١٦٣٠٧) حضرت عامر فرماتے ہیں کہ غلام اور خصی بہرحال زوج ہیں۔

16307

(۱۶۳۰۸) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ أَبِی بِشْرٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ فِی الْحُرِّ یَتَزَوَّجُ الأَمَۃَ قَالَ : مَا ازْلَحَفَّ ، عَنِ الزِّنَا إلاَّ قَلِیلاً لِقَوْلِہِ : {وَأَنْ تَصْبِرُوا خَیْرٌ لَکُمْ} قَالَ : یَقُول ، عَنْ نِکَاحِ الأَمَۃِ۔
(١٦٣٠٨) حضرت سعید بن جبیر فرماتے ہیں کہ کسی آزاد شخص نے باندی سے نکاح کیا تو وہ زنا سے تھوڑا سا پیچھے ہٹا، کیونکہ اللہ تعالیٰ قرآن مجید کی آیت { وَأَنْ تَصْبِرُوا خَیْرٌ لَکُمْ } میں فرماتے ہیں کہ اگر تم باندی کے نکاح سے رک جاؤ تو یہ تمہارے لیے بہتر ہے۔

16308

(۱۶۳۰۹) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنِ الْعَوَّامِ ، عَمَّنْ حَدَّثَہُ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : مَا تَزَحَّفَ ، عَنِ الزِّنَا إلاَّ قَلِیلاً۔
(١٦٣٠٩) حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ کسی آزاد شخص نے باندی سے نکاح کیا تو وہ زنا سے تھوڑا سا پیچھے ہٹا۔

16309

(۱۶۳۱۰) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِیلُ ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ أَنَّہُ کَانَ یَکْرَہُ تَزْوِیج الأَمَۃِ مَا قَدَرَ عَلَی الْحُرَّۃِ إلاَّ أَنْ یَخْشَی الْعَنَتَ۔
(١٦٣١٠) حضرت حسن اس شخص کے لیے باندی سے نکاح کرنے کو مکروہ قرار دیتے تھے جو آزاد سے نکاح پر قادر ہو۔ البتہ اگر زنا کا خوف ہو تو جائز ہے۔

16310

(۱۶۳۱۱) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ عَمْرٍو قَالَ : سَأَلَ عَطَائٌ جَابِرًا ، عَنِ نِکَاحِ الأَمَۃِ ، فَقَالَ : لاَ یَصْلُحُ الْیَوْمَ۔
(١٦٣١١) حضرت عطاء نے حضرت جابر سے باندی سے نکاح کے بارے میں سوال کیا تو انھوں نے فرمایا کہ اب یہ جائز نہیں۔

16311

(۱۶۳۱۲) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ بُرْدٍ ، عَنْ مَکْحُولٍ قَالَ : لاَ یَصْلُحُ لِلْحُرِّ أَنْ یَتَزَوَّجَ الأَمَۃَ إلاَّ أَنْ لاَ یَجِدَ طَوْلاً۔
(١٦٣١٢) مکحول فرماتے ہیں کہ آزاد آدمی باندی سے اسی صورت میں شادی کرسکتا ہے جب کہ وہ آزاد عورت کا خرچہ نہ برداشت کرسکے۔

16312

(۱۶۳۱۳) حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ ، عَنْ أَبِی عُبَیْدَۃَ ، عَنْ عُمَارَۃَ بْنَ حَیَّانَ أَنَّ امْرَأَۃً أَتَتْ جَابِرَ بْنَ زَیْدٍ ، فَقَالَتْ : إنَّ رَجُلاً یَخْطُبُ عَلَیَّ أَمَتِی ، قَالَ : لاَ تُزَوِّجِیہِ قَالَتْ : فَإِنَّہُ یَخْشَی عَلَی نَفْسِہِ ، قَالَ : لاَ تُزَوِّجِیہِ ، قَالَتْ : فَإِنَّہُ یَخْشَی أَنْ یَزْنِیَ بِہَا ، قَالَ : فَزَوِّجِیہِ۔
(١٦٣١٣) حضرت عمارہ بن حیان کہتے ہیں کہ ایک عورت حضرت جابر بن زید کے پاس آئی اور اس نے کہا کہ ایک آدمی نے میرے پاس میری باندی کے لیے نکاح کا پیغام بھیجا ہے۔ انھوں نے فرمایا کہ وہاں اس کی شادی نہ کراؤ۔ اس عورت نے کہا کہ پیغام بھیجنے والے کو گناہ کا اندیشہ ہے۔ انھوں نے پھر فرمایا کہ وہاں اس کی شادی نہ کراؤ۔ اس عورت نے کہا کہ پیغام بھیجنے والے کو اندیشہ ہے کہ وہ اس باندی سے زنا کر بیٹھے گا۔ انھوں نے فرمایا کہ پھر وہاں اس کی شادی کرادو۔

16313

(۱۶۳۱۴) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنِ الْحَکَمَ وَحَمَّادٍ سُئِلاَ ، عَنْ نِکَاحِ الأَمَۃِ فَقَالاَ : {لِمَنْ خَشِیَ الْعَنَتَ مِنْکُمْ}۔
(١٦٣١٤) حضرت حکم اور حضرت حماد سے باندی سے نکاح کرنے کے بارے میں سوال کیا گیا تو انھوں نے قرآن کی آیت پڑھی { لِمَنْ خَشِیَ الْعَنَتَ مِنْکُمْ } یہ اس کے لیے جائز ہے جسے زنا کا خوف ہو۔

16314

(۱۶۳۱۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ قَالَ : إنَّہُ مِمَّا وُسِّعَ بِہِ عَلَی ہَذِہِ الأُمَّۃِ ، نِکَاحُ الأَمَۃِ وَالنَّصْرَانِیَّۃ۔
(١٦٣١٥) حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ اس امت کو باندی اور عیسائی عورت سے نکاح کرنے کی گنجائش دی گئی ہے۔

16315

(۱۶۳۱۶) حَدَّثَنَا عبد اللہ بْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ یحیی بْنِ سَعِیدٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ، قَالَ : قَالَ عُمَرُ : أَیُّمَا عَبْدٍ نَکَحَ حُرَّۃً فَقَدْ أُعْتِقَ نِصْفُہُ ، وَأَیُّمَا حُرٍّ نَکَحَ أَمَۃً فَقَدْ أَرِقَ نِصْفَہُ۔
(١٦٣١٦) حضرت عمر (رض) فرماتے ہیں کہ جس غلام نے کسی آزاد عورت سے نکاح کیا اس غلام کا آدھا حصہ آزاد ہوگیا اور جس آزاد نے باندی سے نکاح کیا اس کا آدھا حصہ غلام ہوگیا۔

16316

(۱۶۳۱۷) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ ، عَنْ شَرِیکٍ ، عَنْ خُصَیفِ ، عَنْ عَامِرٍ قَالَ : نِکَاحُ الأَمَۃِ کَالْمَیْتَۃِ وَالدَّمِ وَلَحْمِ الْخِنْزِیرِ، لاَ یَحِلُّ إلاَّ لِلْمُضْطَرِّ۔
(١٦٣١٧) حضرت عامر فرماتے ہیں کہ باندی کا نکاح مردار، خون اور خنزیر کے گوشت کی طرح ہے جو صرف سخت مجبور کیلئے جائز ہے۔

16317

(۱۶۳۱۸) حدَّثَنَا عَبْدُ السَّلاَمِ بْنُ حَرْبٍ ، عَنْ عَطَائٍ وَخُصَیْفٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : لاَ یَتَزَوَّجُ الْحُرُّ مِنَ الإِمَائِ إلاَّ وَاحِدَۃً۔
(١٦٣١٨) حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ آزاد آدمی صرف ایک باندی سے نکاح کرسکتا ہے۔

16318

(۱۶۳۱۹) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ أَبِی ہَاشِمٍ ، عَنِ الْحَارِثِ قَالَ : قَالَ : یَتَزَوَّجُ الْحُرُّ مِنَ الإِمَائِ أَرْبَعَۃً ، وَقَالَ حَمَّادٌ : ثِنْتَیْنِ۔
(١٦٣١٩) حضرت حارث فرماتے ہیں کہ آزاد آدمی چارباندیوں سے نکاح کرسکتا ہے۔ حضرت حماد فرماتے ہیں کہ صرف دو باندیوں سے نکاح کرسکتا ہے۔

16319

(۱۶۳۲۰) حَدَّثَنَا رُوحُ بْنُ عُبَادَۃَ ، عَنِ ابْنِ أَبِی ذِئْبٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ قَالَ: یَتَزَوَّجُ الْحُرُّ أَرْبَعَ إمَائٍ وَأَرْبَعَ نَصْرَانِیَّاتٍ، وَالْعَبْدُ کَذَلِکَ۔
(١٦٣٢٠) حضرت زہری فرماتے ہیں کہ آزاد آدمی چار باندیوں سے نکاح کرسکتا ہے، چار عیسائی عورتوں سے نکاح کرسکتا ہے۔ غلام کا بھی یہی حکم ہے۔

16320

(۱۶۳۲۱) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ قَالَ : إنَّمَا أَحَلَّ اللَّہُ وَاحِدَۃً لِمَنْ خَشِیَ الْعَنَتَ عَلَی نَفْسِہِ وَلَمْ یَجِدُ طَوْلاً۔
(١٦٣٢١) حضرت قتادہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ایک باندی کو اس شخص کے لیے حلال کیا ہے جسے گناہ کا خوف ہو اور وہ آزاد کا خرچہ برداشت نہ کرسکتا ہو۔

16321

(۱۶۳۲۲) حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّیَالِسِیُّ ، عَنْ ہِشَامِ الدَّسْتَوَائِیِّ ، عَنْ رَجُلٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَہَی أَنْ تُنْکَحَ الأَمَۃ عَلَی الْحُرَّۃِ۔ (عبدالرزاق ۱۳۰۹۹۔ طبرانی ۱۷)
(١٦٣٢٢) حضرت حسن سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آزاد عورت کے ہوتے ہوئے باندی سے نکاح کرنے سے منع فرمایا ہے۔

16322

(۱۶۳۲۳) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ قَالَ : لاَ یَنْکِحُ الأَمَۃَ عَلَی الْحُرَّۃِ فَإِنْ فَعَلَ ذَلِکَ لَمْ یُتْرَکْ۔
(١٦٣٢٣) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ آزاد کے ہوتے ہوئے باندی سے شادی نہیں کی جائے گی۔ اگر ایسا کیا گیا تو اسے اسی حال پر نہیں چھوڑا جائے گا۔

16323

(۱۶۳۲۴) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ بُرْدٍ ، عَنْ مَکْحُولٍ قَالَ : لاَ یَتَزَوَّجُ الرَّجُلُ الأَمَۃَ عَلَی الْحُرَّۃِ ، وَیَتَزَوَّجُ الْحُرَّۃَ عَلَی الأَمَۃِ۔
(١٦٣٢٤) حضرت مکحول فرماتے ہیں کہ آدمی آزاد کے ہوتے ہوئے باندی سے شادی نہیں کرسکتا اور باندی کے ہوتے ہوئے آزاد سے نکاح کرسکتا ہے۔

16324

(۱۶۳۲۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ ابْنِ أَبِی لَیْلَی ، عَنِ الْمِنْہَالِ ، عَنْ زِرٍّ أَو عَبَّادِ بْنِ عَبْدِ اللہِ ، عَنْ عَلِیٍّ قَالَ : لاَ تُنْکَحُ الأَمَۃُ عَلَی الْحُرَّۃِ ، وَتُنْکَحُ الْحُرَّۃُ عَلَی الأَمَۃِ۔
(١٦٣٢٥) حضرت علی (رض) فرماتے ہیں کہ آدمی آزاد کے ہوتے ہوئے باندی سے شادی نہیں کرسکتا اور باندی کے ہوتے ہوئے آزاد سے نکاح کرسکتا ہے۔

16325

(۱۶۳۲۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، عَنْ إسْمَاعِیلَ، عَنِ الشَّعْبِیِّ، عَنْ مَسْرُوقٍ قَالَ: لاَ یَنْکِحُ الأَمَۃَ عَلَی الْحُرَّۃِ إلاَّ الْمَمْلُوکُ۔
(١٦٣٢٦) حضرت مسروق فرماتے ہیں کہ آزاد کے ہوتے ہوئے باندی سے نکاح صرف غلام ہی کرسکتا ہے۔

16326

(۱۶۳۲۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إسْرَائِیلَ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ عَامِرٍ ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ قَالَ : إلاَّ الْمَمْلُوکَ۔
(١٦٣٢٧) حضرت عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ آزاد کے ہوتے ہوئے باندی سے نکاح صرف غلام ہی کرسکتا ہے۔

16327

(۱۶۳۲۸) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ، عَنِ ابْنِ الْمُسَیَّبِ قَالَ : یَتَزَوَّجُ الْحُرَّۃَ عَلَی الأَمَۃِ ، وَلاَ یَتَزَوَّجُ الأَمَۃَ عَلَی الْحُرَّۃِ۔
(١٦٣٢٨) حضرت سعید بن مسیب فرماتے ہیں کہ آدمی آزاد کے ہوتے ہوئے باندی سے شادی نہیں کرسکتا اور باندی کے ہوتے ہوئے آزاد سے نکاح کرسکتا ہے۔

16328

(۱۶۳۲۹) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ عَبْدِ الملک ، عَنْ عَطَائٍ فِی الرَّجُلِ یَنْکِحُ الْحُرَّۃَ عَلَی الأَمَۃِ قَالَ : حسَنٌ۔
(١٦٣٢٩) حضرت عطاء فرماتے ہیں کہ اگر کوئی آدمی باندی کے ہوتے ہوئے آزادعورت سے شادی کرے تو یہ اچھا ہے۔

16329

(۱۶۳۳۰) حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّیَالِسِیُّ ، عَنْ زَمْعَۃَ ، عَنِ ابْنِ طَاوُوسٍ قَالَ : قُلْتُ لأَبِی : رَجُلٌ نَکَحَ أَمَۃً عَلَی حُرَّۃٍ وَإِنَّہُ یُزْعَمُ إِنَّہُ قَدْ حَرُمَتْ عَلَیْہِ ؟ قَالَ : صَدَقُوا۔
(١٦٣٣٠) حضرت ابن طاوس کہتے ہیں کہ میں نے اپنے والد سے کہا کہ کیا آدمی آزاد کے ہوتے ہوئے باندی سے نکاح کرسکتا ہے۔ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ایساکرن احرام ہے ؟ حضرت طاوس نے فرمایا کہ لوگ ٹھیک کہتے ہیں۔

16330

(۱۶۳۳۱) حَدَّثَنَا عَبدَۃ بن سلیمان ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنِ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ، وَالْحَسَنِ فِی الرَّجُلِ یَتَزَوَّجُ الأَمَۃَ عَلَی الْحُرَّۃِ قَالاَ : یُفَرَّقُ بَیْنَہُ وَبَیْنَ الأَمَۃِ۔
(١٦٣٣١) حضرت سعید بن مسیب اور حضرت حسن سے سوال کیا گیا کہ اگر کوئی شخص آزاد عورت کے ہوتے ہوئے باندی سے نکاح کرلے تو کیسا ہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ اس شخص اور باندی کے درمیان جدائی کرادی جائے گی۔

16331

(۱۶۳۳۲) حَدَّثَنَا حَکَّامٌ الرَّازِیّ ، عَنْ مُثَنَّی ، عَنِ الزُّہْرِیِّ فِی رَجُلٍ تَزَوَّجَ أَمَۃً عَلَی حُرَّۃٍ قَالَ : یُوجَعُ ظَہْرُہُ وَتُنْزَعُ مِنْہُ۔
(١٦٣٣٢) حضرت زہری سے سوال کیا گیا کہ اگر کوئی شخص آزاد عورت کے ہوتے ہوئے باندی سے نکاح کرلے تو کیسا ہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ اس شخص کی کمر کو تکلیف دی جائے گی اور ان دونوں کے درمیان جدائی کرادی جائے گی۔

16332

(۱۶۳۳۳) حدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ عَیَّاشٍ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالَ : إذَا تَزَوَّجَ الرَّجُلُ الْحُرَّۃَ عَلَی الأَمَۃِ فُرِّقَ بَیْنَہُ وَبَیْنَہَا إلاَّ أَنْ یَکُونَ لَہَا مِنْہُ وَلَدٌ۔
(١٦٣٣٣) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ جس نے باندی کے ہوتے ہوئے آزاد عورت سے شادی کرلی تو اس کے اور باندی کے درمیان جدائی کرادی جائے گی۔ البتہ اگر اس کا کوئی بچہ ہو تو ایسا نہ کریں گے۔

16333

(۱۶۳۳۴) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : نِکَاحُ الْحُرَّۃِ عَلَی الأَمَۃِ طَلاَقُ الأَمَۃِ۔
(١٦٣٣٤) حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ باندی کے ہوتے ہوئے آزادعورت سے شادی کرنا باندی کو طلاق ہے۔

16334

(۱۶۳۳۵) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنْ مَسْرُوقٍ مِثْلَہُ إلاَّ أَنَّہُ قَالَ : ہِیَ کَالْمَیْتَۃِ یُضْطَرُّ إلَیْہَا ، فَإِذَا أَغْنَاک اللَّہُ فَاسْتَغْنِ۔
(١٦٣٣٥) حضرت مسروق بھی یہی فرماتے ہیں البتہ وہ یہ بھی فرماتے ہیں کہ یہ اس مردار کی طرح ہے جس کی طرف انسان مجبور ہوجائے۔ جب اللہ نے اسے باندی سے بےنیاز کردیا ہے تو اسے بھی بےنیاز ہوجانا چاہیے۔

16335

(۱۶۳۳۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنْ مَسْرُوقٍ قَالَ : نِکَاحُ الْحُرَّۃِ عَلَی الأَمَۃِ طَلاَقُ الأَمَۃِ۔
(١٦٣٣٦) حضرت مسروق فرماتے ہیں کہ باندی کے ہوتے ہوئے آزادعورت سے شادی کرنا باندی کو طلاق ہے۔

16336

(۱۶۳۳۷) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ زَیْدٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : إذَا تَزَوَّجَ الْحُرَّۃَ عَلَی الأَمَۃِ فَہُوَ لِلْمَمْلُوکَۃِ طَلاَقٌ۔
(١٦٣٣٧) حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ باندی کے ہوتے ہوئے آزادعورت سے شادی کرنا باندی کو طلاق دینے کے مترادف ہے۔

16337

(۱۶۳۳۸) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنِ ابْنِ الْمُسَیَّبِ ، وَالْحَسَنِ فِی الرَّجُلِ یَتَزَوَّجُ الْمَمْلُوکَۃَ عَلَی الْیَہُودِیَّۃِ وَالنَّصْرَانِیَّۃ قَالاَ : یُفَرَّقُ بَیْنَہُ وَبَیْنَ الْمَمْلُوکَۃِ۔
(١٦٣٣٨) حضرت ابن مسیب اور حضرت حسن فرماتے ہیں کہ اگر کسی آدمی نے باندی کے ہوتے ہوئے کسی عیسائی یا یہودی عورت سے شادی کی تو اس کے اور باندی کے درمیان جدائی کرادی جائے گی۔

16338

(۱۶۳۳۹) حَدَّثَنَا مَعْنُ بْنُ عِیسَی ، عَنِ ابْنِ أَبِی ذِئْبٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ فِی الرَّجُلِ تَکُونُ تَحْتَہُ الْمَرْأَۃُ النَّصْرَانِیَّۃُ : لاَ یَتَزَوَّجُ عَلَیْہَا أَمَۃً مُسْلِمَۃً۔
(١٦٣٣٩) حضرت زہری فرماتے ہیں کہ اگر کوئی عیسائی عورت کسی آدمی کے نکاح میں ہو تو وہ کسی مسلمان باندی سے نکاح نہیں کرسکتا۔

16339

(۱۶۳۴۰) حدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ آدَمَ قَالَ : حدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : لاَ یَتَزَوَّجُ الْیَہُودِیَّۃَ وَالنَّصْرَانِیَّۃ عَلَی الْمُسْلِمَۃِ یَعْنِی الْمُسْلِمَ۔
(١٦٣٤٠) حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ مسلمان کسی مسلمان عورت کے ہوتے ہوئے یہودی یا عیسائی عورت سے شادی نہیں کرسکتا۔

16340

(۱۶۳۴۱) حدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنِ الْمِنْہَالِ ، عَنْ زِرٍّ ، عَنْ عَلِیٍّ قَالَ : إذَا تَزَوَّجَ الْحُرَّۃَ عَلَی الأَمَۃِ قَسَمَ لِذِہِ یَوْمًا وَلِذِہِ یَوْمَیْنِ۔
(١٦٣٤١) حضرت علی (رض) فرماتے ہیں کہ اگر ایک آدمی باندی کے ہوتے ہوئے آزاد سے نکاح کرے تو باندی کو ایک دن اور آزاد کو دو دن دے گا۔

16341

(۱۶۳۴۲) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ ہَاشِمٍ ، عَنِ ابْنِ أَبِی لَیْلَی ، عَنِ الْمِنْہَالِ ، عَنْ زِرٍّ ، عَنْ عَلِیٍّ قَالَ : إذَا تَزَوَّجَ الْحُرَّۃَ عَلَی الأَمَۃِ قَسَمَ لِلأَمَۃِ یَوْمًا وَلِلْحُرَّۃِ یَوْمَیْنِ۔
(١٦٣٤٢) حضرت علی (رض) فرماتے ہیں کہ اگر ایک آدمی باندی کے ہوتے ہوئے آزاد سے نکاح کرے تو باندی کو ایک دن اور آزاد کو دو دن دے گا۔

16342

(۱۶۳۴۳) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنِ الْحَکَمِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ مِثْلَہُ۔
(١٦٣٤٣) حضرت ابراہیم سے بھی یونہی منقول ہے۔

16343

(۱۶۳۴۴) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ قَالَ : لِلْحُرَّۃِ یَوْمَانِ وَلَیْلَتَانِ ، وَلِلأَمَۃِ یَوْمٌ وَلَیْلَۃٌ۔
(١٦٣٤٤) حضرت سعید بن مسیب فرماتے ہیں کہ آزادکودودن اور دو راتیں جبکہ باندی کو ایک دن اور ایک رات دے گا۔

16344

(۱۶۳۴۵) حَدَّثَنَا أَسْبَاطُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، عَنْ مُطَرِّفٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنْ مَسْرُوقٍ قَالَ : إذَا اجْتَمَعَتَا قَسَمَ لِلْحُرَّۃِ الثُّلُثَیْنِ مِنْ نَفْسِہِ وَمَالِہِ۔
(١٦٣٤٥) حضرت مسروق فرماتے ہیں کہ جب آزاد اور باندی جمع ہوجائیں تو آزاد کو اپنے نفس اور مال کے دو ثلث دے گا۔

16345

(۱۶۳۴۶) حَدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ أَبِی جَعْفَرٍ وَعَنْ فِرَاسٍ ، عَنْ عَامِرٍ قَالاَ : یَتَزَوَّجُ الْحُرَّۃَ عَلَی الأَمَۃِ وَیُقَسِّمُ یَوْمًا ویومین۔
(١٦٣٤٦) حضرت ابو جعفر اور حضرت عامر فرماتے ہیں کہ باندی کے ہوتے ہوئے آزادعورت سے شادی کرسکتا ہے اور باندی کو ایک جبکہ آزادکودودن دے گا۔

16346

(۱۶۳۴۷) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ قَالَ : إذَا نُکِحَتِ الْحُرَّۃُ عَلَی الأَمَۃِ فُضِّلَتِ الْحُرَّۃُ ، فی الْقَسَمِ ، لِلْحُرَّۃِ لَیْلَتَانِ وَلِلأَمَۃِ لَیْلَۃٌ۔
(١٦٣٤٧) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ جب باندی کے ہوتے ہوئے آزاد عورت سے نکاح کیا گیا تو تقسیم میں آزاد کو برتری حاصل ہوگی۔ آزاد کے لیے دو راتیں اور باندی کے لیے ایک رات ہوگی۔

16347

(۱۶۳۴۸) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ حَمَّادٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالَ : إذَا نَکَحَ الأَمَۃَ ثُمَّ وَجَدَ مَا یَنْکِحُ الْحُرَّۃَ إِنْ شَائَ أَمْسَکَہَا وَیَقْسِمُ لَیْلَتَیْنِ وَلَیْلَۃً۔
(١٦٣٤٨) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ اگر کسی آدمی نے باندی سے نکاح کیا پھر اس نے آزاد عورت سے بھی نکاح کرلیا ۔ وہ اگر چاہے تو باندی کو روکے رکھے ۔ لیکن باندی کو ایک رات اور آزاد کو دو راتیں دے گا۔

16348

(۱۶۳۴۹) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ ، عَنْ عَطَائٍ قَالَ : یَقْسِمُ لِلْحُرَّۃِ یَوْمَیْنِ وَلِلأَمَۃِ یَوْمًا۔
(١٦٣٤٩) حضرت عطاء فرماتے ہیں کہ آزادکودودن اور باندی کو ایک دن دے گا۔

16349

(۱۶۳۵۰) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ یَعْلَی التَّیْمِیُّ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالَ : لِلْحُرَّۃِ یَوْمَانِ وَلِلأَمَۃِ یَوْمٌ۔
(١٦٣٥٠) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ آزادکودودن اور باندی کو ایک دن دے گا۔

16350

(۱۶۳۵۱) حَدَّثَنَا یُونُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالَ : حدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ عَطَائٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ قَالَ : لِلْحُرَّۃِ یَوْمَانِ وَلِلأَمَۃِ یَوْمٌ۔
(١٦٣٥١) حضرت سعید بن جبیر فرماتے ہیں کہ آزادکودودن اور باندی کو ایک دن دے گا۔

16351

(۱۶۳۵۲) حَدَّثَنَا عَبدَۃ بن سلیمان ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنِ ابْنِ الْمُسَیَّبِ ، وَالْحَسَنِ فِیمَنْ یَتَزَوَّجُ الْیَہُودِیَّۃَ وَالنَّصْرَانِیَّۃ عَلَی الْمُسْلِمَۃِ قَالاَ : یَقْسِمُ بَیْنَہُمَا سَوَائً۔
(١٦٣٥٢) حضرت ابن مسیب اور حضرت حسن فرماتے ہیں کہ اگر کسی شخص نے مسلمان بیوی کے ہوتے ہوئے عیسائی یا یہودی عورت سے شادی کی تو وہ ان دونوں کے درمیان برابری کرے گا۔

16352

(۱۶۳۵۳) حَدَّثَنَا مَعْنُ ، عَنِ ابْنِ أَبِی ذِئْبٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ قَالَ : قسْمَتُہُمَا سَوَائٌ۔
(١٦٣٥٣) حضرت زہری فرماتے ہیں کہ وہ ان دونوں کے درمیان برابری کرے گا۔

16353

(۱۶۳۵۴) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ عُبَیْدَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالَ یَقْسِمُ لَہَا کَمَا یَقْسِمُ لِلْحُرَّۃِ۔
(١٦٣٥٤) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ وہ ان دونوں کے درمیان برابری کرے گا جیسے آزاد عورتوں کے درمیان برابری کی جاتی ہے۔

16354

(۱۶۳۵۵) حَدَّثَنَا أَسْبَاطُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، عَنْ مُطَرِّفٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ فِی الرَّجُلِ یَتَزَوَّجُ الْمُسْلِمَۃَ وَالْیَہُودِیَّۃَ ، أَوِ النَّصْرَانِیَّۃَ قَالَ : یُسَوِّی بَیْنَہُمَا فِی الْقِسْمَۃِ مِنْ مَالِہِ وَنَفْسِہِ۔
(١٦٣٥٥) حضرت شعبی فرماتے ہیں کہ اگر کسی آدمی نے مسلمان اور یہودی یا عیسائی عورت سے شادی کی تو وہ ان دونوں کے درمیان مال وجان کی تقسیم میں برابری کرے گا۔

16355

(۱۶۳۵۶) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ وَلَیْسَ بِالأَحْمَرِ، عَنْ سَعِیدٍ قَالَ: سَأَلْتُ الْحَکَمَ وَحَمَّادًا عَنہُ فَقَالاَ: ہُمَا فِی الْقِسْمَۃِ سَوَائٌ۔
(١٦٣٥٦) حضرت شعبہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت حکم اور حضرت حماد سے اس بارے میں سوال کیا تو انھوں نے فرمایا کہ تقسیم میں وہ دونوں برابر ہیں۔

16356

(۱۶۳۵۷) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ قَالَ : حدَّثَنَا یُونُسُ ، عَنِ الْحَسَنِ أَنَّہُ قَالَ : فِی صَدَاقِ السِّرِّ : إذَا أَعْلَنَ أَکْثَرَ مِنْہُ یُؤْخَذُ بِالسِّرِّ وَتَبْطُلُ الْعَلاَنِیَۃُ۔
(١٦٣٥٧) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ اگر کسی آدمی نے عورت کا مہر مقرر کرتے ہوئے خفیہ طور پر کچھ کہا اور علانیہ طور پر کچھ اور کہا تو خفیہ طور پر کہے گئے کا اعتبار ہوگا اور علانیہ باطل ہوجائے گا۔

16357

(۱۶۳۵۸) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ خَالِدٍ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ ، عَنْ شُرَیْحٍ قَالَ : یُؤْخَذُ بِالسِّرِّ وَتَبْطُلُ الْعَلاَنِیَۃُ۔
(١٦٣٥٨) حضرت شریح فرماتے ہیں کہ خفیہ طور پر کہے گئے کا اعتبار ہوگا اور علانیہ باطل ہوجائے گا۔

16358

(۱۶۳۵۹) حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ قَالَ : الأَمْرُ عَلَی السِّرِّ۔
(١٦٣٥٩) حضرت زہری فرماتے ہیں کہ خفیہ طورپرک ہے گئے کا اعتبار ہوگا۔

16359

(۱۶۳۶۰) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ مَنْصُورٍ قَالَ : سَأَلْتُ الْحَکَمَ بْنَ عُتَیبَۃَ ، عَنِ الرَّجُلِ أَصْدَقَ أَلْفًا فِی السِّرِّ وَأَعْلَنَ أَلْفَیْنِ قَالَ : یُؤْخَذُ بِالسِّرِّ لأَنَّہُ الْحَقُّ ، وَتُبْطَلُ الْعَلاَنِیَۃُ۔
(١٦٣٦٠) حضرت منصور فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت حکم بن عتیبہ سے سوال کیا کہ اگر کوئی آدمی خفیہ طور پر ایک ہزار اور علانیہ طور پر دو ہزارمہر مقرر کرے تو کس کا اعتبار ہوگا۔ انھوں نے فرمایا کہ خفیہ طور پر کہے گئے کا اعتبار ہوگا کیونکہ وہی حق ہے اور علانیہ باطل ہوجائے گا۔

16360

(۱۶۳۶۱) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ أَبِی عَوْنٍ ، عَنْ شُرَیْحٍ قَالَ : یُؤْخَذُ بِالأَوَّلِ مِنہُمَا۔
(١٦٣٦١) حضرت شریح فرماتے ہیں کہ ان دونوں میں سے پہلے کا اعتبار ہوگا۔

16361

(۱۶۳۶۲) حدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ حُصَیْنٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ قَالَ : یُؤْخَذُ بِالْعَلاَنِیَۃِ۔
(١٦٣٦٢) حضرت شعبی فرماتے ہیں کہ علانیہ کا اعتبار ہوگا۔

16362

(۱۶۳۶۳) حَدَّثَنَا ابْنُ مُسْہِرٍ ، وَأَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الشَّیْبَانِیِّ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ قَالَ : یُؤْخَذُ بِالْعَلاَنِیَۃِ۔
(١٦٣٦٣) حضرت شعبی فرماتے ہیں کہ علانیہ کا اعتبار ہوگا۔

16363

(۱۶۳۶۴) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ مَنْصُورِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ قَالَ : لَقِیتُ الشَّعْبِیَّ فَسَأَلْتُہُ ، عَنْ ذَلِکَ ، فَقَالَ قَالَ : شُرَیْحٌ ، ہَدَمَ الْعَلاَنِیَۃُ السِّرَّ۔
(١٦٣٦٤) حضرت منصور بن عبدالرحمن فرماتے ہیں کہ میں حضرت شعبی سے ملا اور میں نے ان سے اس بارے میں سوال کیا تو انھوں نے فرمایا کہ علانیہ خفیہ کو باطل کردے گا۔

16364

(۱۶۳۶۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ زَیْدٍ ، عَنْ شُعَیب ، عَنْ أَبِی قِلاَبَۃَ قَالَ : یُؤْخَذُ بِالْعَلاَنِیَۃِ۔
(١٦٣٦٥) حضرت ابوقلابہ فرماتے ہیں کہ علانیہ کا اعتبار ہوگا۔

16365

(۱۶۳۶۶) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ والشَّعْبِیِّ قَالاَ : إذَا کَانَتِ الأَمَۃُ تَحْتَ الْحُرِّ فَاشْتَرَاہَا قَالاَ : النِّکَاحُ مُنْہَدِم ، وَتَکُونُ جَارِیَۃً لَہُ یَطَؤُہَا إِنْ شَائَ۔
(١٦٣٦٦) حضرت ابراہیم اور حضرت شعبی فرماتے ہیں کہ اگر ایک آدمی کے نکاح میں باندی تھی، پھر اس نے باندی کو خرید لیا تو نکاح ختم ہوجائے گا اور وہ اس کی باندی ہوگی اگر چاہے تو اس سے وطی کرلے۔

16366

(۱۶۳۶۷) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ ؛ فِی الرَّجُلِ تکون تحتہ الأَمَۃَ ثُمَّ یَشْتَرِیہَا قَالَ : أَذْہَبَ الرِّقُّ عُقْدَتَہَا۔
(١٦٣٦٧) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ اگر کسی آدمی نے اپنی باندی کو خرید لیا تو رقیت نکاح کو ختم کردے گی۔

16367

(۱۶۳۶۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ بن الجراح ، عَنِ عَلِی بْنِ مُبَارَکٍ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ أَبِی کَثِیرٍ ، عَنْ مَکْحُولٍ فِی الرَّجُلِ یَتَزَوَّجُ الأَمَۃَ ثُمَّ یَشْتَرِیہَا قَالَ : یَطَؤُہَا بِالْمِلْکِ۔
(١٦٣٦٨) حضرت مکحول فرماتے ہیں کہ اگر کسی آدمی نے باندی سے شادی کی پھر اسے خرید لیا تو چاہے تو ملک کی وجہ سے اس سے وطی کرسکتا ہے۔

16368

(۱۶۳۶۹) حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ طَاوُوسٍ قَالَ : یَطَؤُہَا بِالْمِلْکِ۔
(١٦٣٦٩) حضرت طاوس فرماتے ہیں کہ ملک کی وجہ سے اس سے وطی کرسکتا ہے۔

16369

(۱۶۳۷۰) حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ خَالِدٍ ، عَنِ ابْنِ أَبِی ذِئْبٍ قَالَ : سَأَلْتُ عَطَائً ، عَنِ الرَّجُلِ تَکُونُ تَحْتَہُ الأَمَۃُ فَیَشْتَرِیہَا قَالَ : ہِیَ أَمَتُہُ یَصْنَعُ بِہَا مَا شَائَ ، قَالَ : وَسَأَلْت الزُّہْرِیَّ ، فَقَالَ مِثْلِ ذَلِکَ۔
(١٦٣٧٠) حضرت ابن ابی ذئب فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عطاء سے سوال کیا کہ اگر ایک آدمی کے نکاح میں باندی ہو اور وہ اسے خرید لے تو کیا حکم ہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ وہ اس کی باندی ہے وہ اس کے ساتھ جو چاہے کرے۔ میں نے یہی سوال حضرت زہری سے کیا تو انھوں نے بھی یہی فرمایا۔

16370

(۱۶۳۷۱) حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ حَیَّانَ ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ بُرْقَانَ قَالَ : سَأَلْتُ الزُّہْرِیَّ ، عَنْ رَجُلٍ کَانَتْ تَحْتَہُ أَمَۃٌ فَاشْتَرَاہَا، قَالَ : ہَدَمَ الشِّرَائُ النِّکَاحَ ، قَالَ جَعْفَرٌ : وَسَأَلْت مَیْمُونَ بْنَ مِہْرَانَ ، عَنْ ذَلِکَ قَالَ : تَحِلُّ لَہُ مِنْ قِبَلِ بابین ، مِنْ قِبَلِ التَّزْوِیجِ وَمِنْ قِبَلِ الشِّرَائِ۔
(١٦٣٧١) حضرت جعفر بن برقان فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت زہری سے اس شخص کے بارے میں سوال کیا جس کے نکاح میں باندی تھی پھر اس نے اسے خرید لیا۔ انھوں نے فرمایا کہ خریدنا نکاح کو ختم کردے گا۔ حضرت جعفر کہتے ہیں کہ میں نے اس بارے میں میمون بن مہران سے سوال کیا تو انھوں نے فرمایا کہ وہ اس کے لیے دونوں دروازوں سے جائز ہے، نکاح کے دروازے سے بھی اور ملکیت کے دروازے سے بھی۔

16371

(۱۶۳۷۲) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ حَبِیبٍ ، عَنْ عَمْرٍو قَالَ : سُئِلَ جَابِرُ بْنُ زَیْدٍ ، عَنْ رَجُلٍ کَانَتْ تَحْتَہُ أَمَۃٌ فَطَلَّقَہَا تَطْلِیقَۃً ثُمَّ أَعْتَقَ الْعَبْدَ فَاشْتَرَی امْرَأَتَہُ ، مَا مَنْزِلتُہَا ؟ قَالَ : إذَا اشْتَرَاہَا فَہِیَ بِمَنْزِلَۃِ السُّرِّیۃِ ، وَقَدْ أَفْتَی بِذَلِکَ عِکْرِمَۃُ وَالْحَسَنُ بن أبی الحسن۔
(١٦٣٧٢) حضرت عمرو سے سوال کیا گیا کہ اگر کسی آدمی کے نکاح میں کوئی باندی ہو، وہ اس کو ایک طلاق دے دے۔ پھر غلام کو آزاد کردیا گیا اور اس نے اپنی بیوی کو خرید لیا تو اس کی بیوی کا کیا درجہ ہوگا ؟ انھوں نے فرمایا کہ جب اس کو خریدلیا تو وہ باندی کے مرتبے میں ہوگی۔ حضرت عکرمہ اور حضرت حسن بن ابی الحسن نے بھی یہی فتویٰ دیا۔

16372

(۱۶۳۷۳) حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ، عَمَّنْ حَدَّثَہُ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ وَزَیْدِ بْنِ ثَابِتٍ أَنَّہُمَا قَالاَ : لاَ تَحِلُّ لَہُ حَتَّی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَہُ۔
(١٦٣٧٣) حضرت عثمان بن عفان اور حضرت زید بن ثابت (رض) فرماتے ہیں کہ وہ اس کے لیے اس وقت تک حلال نہیں جب تک دوسرے خاوند سے نکاح نہ کرلے۔

16373

(۱۶۳۷۴) حَدَّثَنَا عَبَّاد بْنُ الْعَوَّامِ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ قَالَ : قرَأْت کِتَابَ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِیزِ : إنَّہَا لاَ تَحِلُّ لَہُ حَتَّی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَہُ۔
(١٦٣٧٤) حضرت محمد بن اسحاق فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر بن عبد العزیز (رض) کے خط میں لکھا ہوا پڑھا کہ وہ اس کے لیے اس وقت تک حلال نہیں جب تک دوسرے خاوند سے نکاح نہ کرلے۔

16374

(۱۶۳۷۵) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنِ الأَعْمَشِِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، عَنْ عَلْقَمَۃَ قَالَ : لاَ تَحِلُّ لَہُ حَتَّی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَہُ۔
(١٦٣٧٥) حضرت علقمہ فرماتے ہیں کہ وہ اس کے لیے اس وقت تک حلال نہیں جب تک دوسرے خاوند سے نکاح نہ کرلے۔

16375

(۱۶۳۷۶) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، وَابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنِ الأَعْمَشِِ ، عَنْ أَبِی الضُّحَی ، عَنْ مَسْرُوقٍ قَالَ : لاَ تَحِلُّ لَہُ حَتَّی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَہُ۔
(١٦٣٧٦) حضرت مسروق فرماتے ہیں کہ کہ وہ اس کے لیے اس وقت تک حلال نہیں جب تک دوسرے خاوند سے نکاح نہ کرلے۔

16376

(۱۶۳۷۷) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ أَبِی عَوْنٍ ، عَنْ أَبِی صَالِحٍ الْحَنَفِیِّ ، عَنْ عَلِیٍّ قَالَ لاَ یَطَؤُہَا۔
(١٦٣٧٧) حضرت علی (رض) فرماتے ہیں کہ وہ اس سے وطی نہیں کرے گا۔

16377

(۱۶۳۷۸) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالَ لاَ تَحِلُّ لَہُ حَتَّی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَہُ۔
(١٦٣٧٨) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ وہ اس کے لیے اس وقت تک حلال نہیں جب تک دوسرے خاوند سے نکاح نہ کرلے۔

16378

(۱۶۳۷۹) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنِ الشَّیْبَانِیِّ ، عَنْ أَبِی الضُّحَی وَالشَّعْبِیِّ قَالاَ : لاَ تَحِلُّ لَہُ إلاَّ مِنْ حَیْثُ حُرِّمَتْ عَلَیْہِ ، حَتَّی تزوج زَوْجًا غَیْرَہُ وَیَدْخُلَ بِہَا۔
(١٦٣٧٩) حضرت ابو الضحٰی اور حضرت شعبی فرماتے ہیں کہ وہ اس کے لیے اس وقت تک حلال نہیں جب تک دوسرے خاوند سے نکاح نہ کرلے اور دوسرا خاوند اس سے وطی نہ کرلے۔

16379

(۱۶۳۸۰) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ حَمَّادٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالَ : لاَ تَحِلُّ لَہُ إلاَّ مِنْ حَیْثُ حُرِّمَتْ عَلَیْہِ۔
(١٦٣٨٠) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ وہ اس کے لیے اس وقت تک حلال نہیں جب تک دوسرے خاوند سے نکاح نہ کرلے۔

16380

(۱۶۳۸۱) حَدَّثَنَا عَبَّادُ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ أَبِی مَعْشَرٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالَ : لاَ تَحِلُّ لَہُ حَتَّی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَہُ۔
(١٦٣٨١) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ وہ اس کے لیے اس وقت تک حلال نہیں جب تک دوسرے خاوند سے نکاح نہ کرلے۔

16381

(۱۶۳۸۲) حدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ قَالَ : لاَ تَحِلُّ لَہُ حَتَّی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَہُ۔
(١٦٣٨٢) حضرت زہری فرماتے ہیں کہ وہ اس کے لیے اس وقت تک حلال نہیں جب تک دوسرے خاوند سے نکاح نہ کرلے۔

16382

(۱۶۳۸۳) حَدَّثَنَا عبد اللہ بْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ مَالِکٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ؛ أَنَّ أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ سَأَلَ زَیْدَ بْنَ ثَابِتٍ عن مَمْلُوکَۃٍ کَانَتْ تَحْتَ رَجُلٍ فَطَلَّقَہَا فَبَتَّہَا ثُمَّ اشْتَرَاہَا ؟ قَالَ : لاَ تَحِلُّ لَہُ إلاَّ مِنْ حَیْثُ حُرِّمَتْ عَلَیْہِ۔
(١٦٣٨٣) حضرت ابو عبدالرحمن نے حضرت زید بن ثابت (رض) سے پوچھا کہ اگر کوئی باندی کسی شخص کے نکاح میں تھی، اس نے اسے ایک طلاق دی، پھر وہ بائنہ ہوگئی اور آدمی نے اسے خرید لیا، اب اس کا کیا حکم ہے ؟ حضرت زید بن ثابت (رض) نے فرمایا کہ وہ اس کے لیے اس وقت تک حلال نہیں جب تک دوسرے خاوند سے نکاح نہ کرلے۔

16383

(۱۶۳۸۴) حدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسُ ، عَنْ دَاوُدَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ قَالَ : لاَ تَحِلُّ لَہُ إلاَّ مِنْ حَیْثُ حُرِّمَتْ عَلَیْہِ۔
(١٦٣٨٤) حضرت شعبی فرماتے ہیں کہ وہ اس کے لیے اس وقت تک حلال نہیں جب تک دوسرے خاوند سے نکاح نہ کرلے۔

16384

(۱۶۳۸۵) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ، عَنْ حَبِیبٍ، عَنْ عَمْرٍو، عَنْ جَابِرِ بْنِ زَیْدٍ قَالَ: لاَ تَحِلُّ لَہُ حَتَّی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَہُ۔
(١٦٣٨٥) حضرت جابر بن زید فرماتے ہیں کہ وہ اس کے لیے اس وقت تک حلال نہیں جب تک دوسرے خاوند سے نکاح نہ کرلے۔

16385

(۱۶۳۸۶) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنِ الْحَکَمَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالَ : سَأَلْتُ عَنْہُ عَبِیْدَۃَ ، فَأَبَی ذَلِکَ عَلَیَّ۔
(١٦٣٨٦) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ میں نے اس بارے میں حضرت عبیدہ سے سوال کیا تو انھوں نے اس سے منع فرمایا۔

16386

(۱۶۳۸۷) حدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ طَاوُوسٍ قَالَ : ہِیَ مَا مَلَکَتْ یَمِینُہُ۔
(١٦٣٨٧) حضرت طاوس فرماتے ہیں کہ اب یہ اس کی باندی ہے۔

16387

(۱۶۳۸۸) حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ عَوَّامٍ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنِ الْحَسَنِ قَالَ : یَطَؤُہَا بِمِلْکِ الْیَمِینِ۔
(١٦٣٨٨) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ اب ملکیت کی بنا پر اس سے مباشرت کرسکتا ہے۔

16388

(۱۶۳۸۹) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنْ مُحَمَّدٍ ، عَنْ حُمَیْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ قَالَ : أَحَلَّتْہَا آیَۃٌ وَحَرَّمَتْہَا آیَۃٌ أُخْرَی ، وَلاَ آمُرُک وَلاَ أَنْہَاک۔
(١٦٣٨٩) حضرت حمید بن عبدالرحمن فرماتے ہیں کہ پہلی آیت { وأحل لکم ماوراء ذالکم } نے اسے حلال کیا۔ دوسری آیت { حتی تنکح زوجا غیرہ } نے اسے حرام کردیا۔ میں نہ تو تمہیں حکم دیتا ہوں اور نہ منع کرتا ہوں۔

16389

(۱۶۳۹۰) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ قَالَ : لَیسَ لَہُ أَنْ یَغْشَاہَا بِمِلْکِ الْیَمِینِ ، وَإِنْ شَائَ أَعْتَقَہَا وَزَوَّجَہَا ، وَکَانَتْ عِنْدَہُ عَلَی وَاحِدَۃٍ ، وَکَانَ قَتَادَۃُ یَأْخُذُ بِہِ۔
(١٦٣٩٠) حضرت سعید بن مسیب فرماتے ہیں کہ ملکیت کی وجہ سے وہ اس سے مباشرت نہیں کرسکتا، اگر چاہے تو اسے آزاد کرکے اس سے نکاح کرلے۔ پھر اس کے پاس صرف ایک طلاق کا حق رہ جائے گا۔ حضرت قتادہ کا بھی یہی قول تھا۔

16390

(۱۶۳۹۱) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ جَابِرٍ وَأَبِی سَلَمَۃَ مِثْلَہُ۔
(١٦٣٩١) حضرت جابر اور حضرت ابو سلمہ سے بھی یونہی منقول ہے۔

16391

(۱۶۳۹۲) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِیزِ بْنُ عَبْدِ الصَّمَدِ الْعَمِّیُّ ، عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ أَنَّ ابْنَ مَسْعُودٍ قَالَ : فِی رَجُلٍ یَعْنِی عَبْدٍ طَلَّقَ امْرَأَتَہُ تَطْلِیقَتَیْنِ وَہِیَ مَمْلُوکَۃٌ فَأُعْتِقَا ، فَقَالَ ابْنُ مَسْعُودٍ : لاَ یَتَزَوَّجُہَا حَتَّی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَہُ۔
(١٦٣٩٢) حضرت ابن مسعود (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کوئی غلام اپنی باندی بیوی کو دو طلاقیں دے دے، پھر وہ دونوں آزاد ہوجائیں تو وہ اس کے لیے اس وقت تک حلال نہیں جب تک دوسرے خاوند سے نکاح نہ کرلے۔

16392

(۱۶۳۹۳) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنِ الْحَسَنِ وَعَنْ أَبِی مَعْشَرٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ فِی الأَمَۃِ تَکُونُ تَحْتَ الْعَبْدِ فَیُطَلِّقُہَا تَطْلِیقَتَیْنِ فَیُعْتَقَانِ جَمِیعًا قَالاَ : لاَ تَحِلُّ لَہُ حَتَّی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَہُ۔
(١٦٣٩٣) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ باندی اگر کسی غلام کے نکاح میں ہو ، پھر وہ اسے طلاق دے، پھر دونوں اکٹھے آزاد ہوجائیں تو وہ اس کے لیے اس وقت تک حلال نہیں جب تک دوسرے خاوند سے نکاح نہ کرلے۔

16393

(۱۶۳۹۴) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ دَاوُدَ ، عَنْ عَامِرٍ فِی الْعَبْدِ یُطَلِّقُ الأَمَۃَ تَطْلِیقَتَیْنِ فَیُعْتَقَانِ جَمِیعًا قَالَ : لاَ تَحِلُّ لَہُ حَتَّی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَہُ۔
(١٦٣٩٤) حضرت عامر فرماتے ہیں کہ باندی اگر کسی غلام کے نکاح میں ہو ، پھر وہ اسے طلاق دے، پھر دونوں اکٹھے آزاد ہوجائیں تو وہ اس کے لیے اس وقت تک حلال نہیں جب تک دوسرے خاوند سے نکاح نہ کرلے۔

16394

(۱۶۳۹۵) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ بن سلیمان ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ أَبِی عَرُوبَۃَ ، عَمَّنْ حَدَّثَہُ عَنْ یَحْیَی بْنِ أَبِی کَثِیرٍ ، عَنْ أَبِی الْحَسَنِ مَوْلًی لِبَنِی نَوْفَلٍ قَالَ : کُنْتُ أَنَا وَامْرَأَتِی مَمْلُوکَیْنِ فَطَلَّقْتُہَا تَطْلِیقَتَیْنِ ثُمَّ أُعْتِقْنَا بَعْدَ ذَلِکَ فَأَرَدْت مُرَاجَعَتَہَا فَسَأَلْت ابْنَ عَبَّاسٍ ، فَقَالَ : إِنْ رَاجَعْتہَا فَہِیَ عِنْدَکَ عَلَی وَاحِدَۃٍ وَمَضَتِ اثْنَتَانِ ، قَضَی بِذَلِکَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔
(١٦٣٩٥) حضرت ابو الحسن (مولی بنی نوفل) فرماتے ہیں کہ میں اور میری بیوی دونوں مملوک تھے۔ میں نے اسے دو طلاقیں دے دیں۔ پھر ہم دونوں آزاد ہوگئے۔ میں اس سے رجوع کرنا چاہتا تھا۔ میں نے اس بارے میں حضرت ابن عباس (رض) سے سوال کیا تو انھوں نے فرمایا کہ اگر تم اس سے رجوع کرو تو ایک طلاق کا حق لے کر رجوع کرو گے۔ دو طلاقیں گذر گئیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی یہی فیصلہ فرمایا تھا۔

16395

(۱۶۳۹۶) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ قَالَ : حدَّثَنَا شَیْبَانَ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ أَبِی کَثِیرٍ ، عَنْ عُمَر بْنِ مُعَتِّبٍ ، عَنْ أَبِی الْحَسَنِ مَوْلًی لِبَنِی نَوْفَلٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِمِثْلِہِ۔ (ابوداؤد ۲۱۸۱۔ احمد ۱/۲۲۹)
(١٦٣٩٦) ایک اور سند سے یونہی منقول ہے۔

16396

(۱۶۳۹۷) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ بْنُ عَطَائٍ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ أَبِی سَلَمَۃَ وَجَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ قَالاَ : إذَا أُعْتِقَتْ فِی عِدَّتِہَا ، فَإِنَّہُ یَتَزَوَّجُہَا إِنْ شَائَ وَتَکُونُ عِنْدَہُ عَلَی وَاحِدَۃٍ۔
(١٦٣٩٧) حضرت ابو سلمہ اور حضرت جابر بن عبداللہ فرماتے ہیں کہ اگر اسے عدت میں آزاد کردیا گیا تو اب خاوند اگر چاہے تو اس سے شادی کرلے اور اس کے پاس ایک طلاق کا حق رہ جائے گا۔

16397

(۱۶۳۹۸) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ ؛ فِی الرَّجُلِ تَزَوَّجَ أَمَۃً بَیْنَ رَجُلَیْنِ فَاشْتَرَی نَصِیبَ أَحَدِہِمَا قَالَ : یَکُفُّ عَنْہَا حَتَّی یَشْتَرِیَ نَصِیبَ الآخَرِ۔
(١٦٣٩٨) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ اگر کسی شخص نے ایسی باندی سے نکاح کیا جو دو آدمیوں کے درمیان مشترک تھی، پھر اس نے ان میں سے ایک کا حصہ خرید لیا تو وہ اس وقت تک اس سے رکا رہے جب تک دوسراحصہ بھی نہ خرید لے۔

16398

(۱۶۳۹۹) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ صَاحِبٍ لَہُ ، عَنْ حَمَّادٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ مِثْلَہُ۔
(١٦٣٩٩) حضرت ابراہیم بھی یہی فرماتے ہیں۔

16399

(۱۶۴۰۰) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ قَالَ : لَمْ یَزِدْہُ مِلْکُہُ مِنہَا إلاَّ قُرْبًا۔
(١٦٤٠٠) حضرت قتادہ فرماتے ہیں کہ ملکیت کی وجہ سے تعلق میں اضافہ ہی ہوگا۔

16400

(۱۶۴۰۱) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ أَنَّہُ کَانَ یَقُولُ : إذَا اشْتَرَی الرَّجُل مِنَ امْرَأَتہِ نَصِیبًا فَلاَ یَقْرَبُہَا حَتَّی یَسْتَخْلِصَہَا۔
(١٦٤٠١) حضرت زہری فرمایا کرتے تھے کہ جب آدمی نے اپنی بیوی کا کچھ حصہ خرید لیا تو اس وقت تک اس کے قریب نہ جائے جب تک اسے چھڑا نہ لے۔

16401

(۱۶۴۰۲) حَدَّثَنَا ہُشَیْمُ بْنُ بَشِیرٍ ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِیزِ بْنِ صُہَیْبٍ ، عَنْ أَنَسٍ : أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ جَعَلَ عِتْقَ صَفِیَّۃَ صَدَاقَہَا۔ (بخاری ۳۷۱۔ ابوداؤد ۲۹۹۱)
(١٦٤٠٢) حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ نبی پاک (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت صفیہ کی آزاد ی کو ان کا مہر بنادیا۔

16402

(۱۶۴۰۳) حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إسْمَاعِیلَ ، عَنْ جَعْفَرٍ ، عَنْ أَبِیہِ قَالَ : قَالَ عَلِیٌّ : إِن شَاء الرَّجُل أَعْتَقَ أُمَّ وَلَدِہِ وَجَعَلَ عِتْقَہَا مَہْرَہَا۔
(١٦٤٠٣) حضرت علی (رض) فرماتے ہیں کہ آدمی اپنی ام ولد کو آزاد کرکے اس کی آزادی کو اس کا مہر بنا سکتا ہے۔

16403

(۱۶۴۰۴) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ، قَالَ : قَالَ سَعِیدُ بْنُ الْمُسَیَّبِ : مَنْ أَعْتَقَ وَلِیدَتَہُ ، أَوْ أُمَّ وَلَدِہِ وَجَعَلَ عِتْقَہَا صَدَاقَہَا رَأَیْت ذَلِکَ جَائِزًا لَہُ۔
(١٦٤٠٤) حضرت سعید بن مسیب فرماتے ہیں کہ جس شخص نے اپنی باندی یا ام ولد کو آزاد کیا اور اس کی آزادی کو اس کا مہر بنادیا تو میں اسے جائز سمجھتا ہوں۔

16404

(۱۶۴۰۵) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ أَنَّہُ کَانَ یَقُولُ : إذَا أَعْتَقَ الرَّجُلُ أَمَتَہُ وَجَعَلَ عِتْقَہَا صَدَاقَہَا ، إنَّ ذَلِکَ جَائِزٌ لَہُ۔
(١٦٤٠٥) حضرت زہری فرمایا کرتے تھے کہ اگر کسی آدمی نے اپنی باندی کو آزاد کیا اور اس کی آزادی کو اس کا مہر بنایا تو یہ جائز ہے۔

16405

(۱۶۴۰۶) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ فِی الرَّجُلِ یَعْتِقُ الأَمَۃَ وَیَجْعَلُ عِتْقَہَا صَدَاقَہَا قَالَ : ہُوَ کَالرَّاکِبِ بَدَنَتَہُ۔
(١٦٤٠٦) حضرت ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ باندی کی آزادی کو مہر بنانے والا قربانی کے جانور پر سواری کرنے والے کی طرح ہے۔

16406

(۱۶۴۰۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِی الْکَنُودِ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ قَالَ : مَثَلُ الَّذِی یَعْتِقُ أَمَتَہُ وَیَتَزَوَّجُہَا مَثَلُ الرَّجُلِ یَرْکَبُ بَدَنَتَہُ۔
(١٦٤٠٧) حضرت عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ باندی کی آزادی کو مہر بنانے والا قربانی کے جانور پر سواری کرنے والے کی طرح ہے۔

16407

(۱۶۴۰۸) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ أَنَّہُ کَانَ یَقُولُ إذَا جَعَلَ عِتْقَ أَمَتِہِ صَدَاقَہَا کَانَ یُحِبُّ أَنْ یَجْعَلَ لَہَا شَیْئًا مَعَ ذَلِکَ۔
(١٦٤٠٨) حضرت ابن سیرین فرمایا کرتے تھے کہ باندی کو آزاد کرکے اس کی آزادی کو نکاح کا مہر بنانے والے کو چاہیے کہ اس کے ساتھ کوئی اور چیز بھی مقرر کرے۔

16408

(۱۶۴۰۹) حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ عَوَّامٍ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ ، عَنْ عَطَائٍ فِی رَجُلٍ قَالَ لأَمَتِہِ : قَدْ أَعْتَقْتُکِ وَتَزَوَّجْتُکِ ، قَالَ : ہِیَ حُرَّۃٌ إِنْ شَائَتْ تَزَوَّجْتہ ، وَإِنْ شَائَتْ لَمْ تَزَوَّجْہُ۔
(١٦٤٠٩) حضرت عطاء فرماتے کہ اگر ایک آدمی نے اپنی بیوی سے کہا کہ میں نے تجھے آزاد کیا اور تجھ سے شادی کی تو وہ آزاد ہوجائے گی۔ البتہ عورت اگر چاہے تو اس سے شادی کرلے اور اگر چاہے تو نہ کرے۔

16409

(۱۶۴۱۰) حدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ ، وَسَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ أَنَّہُمَا قَالاَ : إذَا أَعْتَقَہَا لِلَّہِ تَعَالَی فَلاَ یَعُودُ فِیہَا ، وَلاَ یَرَیَانِ بَأْسًا أَنْ یَعْتِقَہَا لِیَتَزَوَّجَہَا۔
(١٦٤١٠) حضرت انس بن مالک اور حضرت سعید بن مسیب فرماتے ہیں کہ اگر کسی شخص نے اپنی باندی کو اللہ کے لیے آزاد کیا تو وہ اس میں اب رجوع نہ کرے۔ البتہ اگر شادی کرنے کے لیے آزاد کیا تو پھر کوئی حرج نہیں۔

16410

(۱۶۴۱۱) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنِ النَّخَعِیِّ ، أَنَّہُ کَرِہَ إذَا أَعْتَقَہَا لِلَّہِ۔
(١٦٤١١) حضرت نخعی فرماتے ہیں کہ اگر اللہ کے لیے آزاد کیا تو نکاح کرنا مکروہ ہے۔

16411

(۱۶۴۱۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، أَنَّہُ کَرِہَ أَنْ یَعْتِقَہَا ثُمَّ یَتَزَوَّجَہَا۔
(١٦٤١٢) حضرت ابراہیم اس بات کو مکروہ قرار دیتے ہیں کہ آدمی آزاد کرکے اس سے نکاح کرلے۔

16412

(۱۶۴۱۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ أَنَّہُ کَرِہَ أَنْ یَعْتِقَہَا لِوَجْہِ اللہِ تَعَالَی ثُمَّ یَتَزَوَّجَہَا۔
(١٦٤١٣) حضرت سعید بن مسیب اس بات کو مکروہ قرار دیتے ہیں کہ آدمی اللہ کے لیے آزاد کرکے اس سے نکاح کرلے۔

16413

(۱۶۴۱۴) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ أَنَّ بُشَیْرَ بْنَ کَعْبٍ قَرَأَ ہَذِہِ الآیَۃَ : {فَامْشُوا فِی مَنَاکِبِہَا} ، فَقَالَ لِجَارِیَتِہِ: إِنْ دَرَیْت مَا مَنَاکِبُہَا فَأَنْتِ حُرَّۃٌ لِوَجْہِ اللہِ، قَالَتْ: فَإِنَّ مَنَاکِبَہَا جِبَالُہَا ، فَکأَنَّمَا سُفِعَ وَجْہَہُ، وَرَغِبَ فِی جَارِیَتِہِ فَجَعَلَ یَسْأَلُ ، عَنْ ذَلِکَ فَمِنْہُمْ مَنْ یَأْمُرُہُ وَمِنْہُمْ مَنْ یَنْہَاہُ حَتَّی لَقِیَ أَبَا الدَّرْدَائِ فَذَکَرَ ذَلِکَ لَہُ ، فَقَالَ : دَعْ مَا یَرِیبُک إلَی مَا لاَ یَرِیبُک فَإِنَّ الْخَیْرَ فِی طُمَأْنِینَۃٍ وَإِنَّ الشَّرَّ فِی رِیبَۃٍ ، فترَکَ ذَلِکَ۔
(١٦٤١٤) حضرت قتادہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ بشیر بن کعب نے یہ آیت پڑھی { فَامْشُوا فِی مَنَاکِبِہَا } پھر اپنی باندی سے کہا کہ اگر تم ” مناکبھا “ کا معنی بتادو تو تم آزاد ہو۔ اس نے کہا کہ اس سے مراد ” پہاڑ “ ہیں۔ یہ سنتے ہی بشیر بن کعب کا رنگ بدل گیا ! وہ اپنی اس باندی سے محبت کرتے تھے۔ اب انھوں نے اس بارے میں لوگوں سے پوچھنا شروع کردیا کہ اسے آزاد کروں یا نہیں۔ بعض نے آزاد کرنے کو کہا اور بعض نے اس سے منع کیا۔ انھوں نے حضرت ابوا لدردائ (رض) سے سوال کیا تو انھوں نے فرمایا کہ جو چیز تمہیں شک میں ڈالے اسے چھوڑ دو اور اسے اختیار کرلو جو تمہیں شک میں نہ ڈالے۔ خیر طمانیت کا نام ہے اور شک میں شر ہے۔ لہٰذا بشیر بن کعب نے اس باندی کو چھوڑ دیا۔

16414

(۱۶۴۱۵) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ أَنَّ الْحَسَنَ ، وَعَطَائً کَانَا لاَ یَرَیَانِ بِذَلِکَ بَأْسًا ، وَإِنْ أَعْتَقَہَا لِلَّہِ وَیَقُولاَنِ : ہُوَ أَعْظَمُ لِلأَجْرِ۔
(١٦٤١٥) حضرت حسن اور حضرت عطاء اللہ کے لیے آزاد کی جانے والی باندی سے نکاح کرنے میں کوئی حرج نہ سمجھتے تھے اور فرماتے تھے کہ یہ زیادہ ثواب کا کام ہے۔

16415

(۱۶۴۱۶) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ أَنَّہُ کَانَ إذَا سُئِلَ عَنِ الرَّجُلِ یَعْتِقُ جَارِیَتَہُ وَیَتَزَوَّجُہَا أنہ کَانَ لاَ یَرَی بِذَلِکَ بَأْسًا ، وَإِنْ أَعْتَقَہَا لِلَّہِ۔
(١٦٤١٦) حضرت حسن سے جب اللہ کے لیے آزاد کی جانے والی باندی سے نکاح کے بارے میں سوال کیا جاتا تو وہ اس کو جائز قرار دیتے تھے۔

16416

(۱۶۴۱۷) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ إدْرِیسَ ، عَنِ الصَّلْتِ بْنِ بَہْرَامَ ، عَنْ شَقِیقٍ قَالَ : تَزَوَّجَ حُذَیْفَۃُ یَہُودِیَّۃً فَکَتَبَ إلَیْہِ عُمَرُ أَنْ خَلِّ سَبِیلَہَا ، فَکَتَبَ إلَیْہِ : إِنْ کَانَتْ حَرَامًا خَلَّیْت سَبِیلَہَا ، فَکَتَبَ إلَیْہِ : إنِّی لاَ أَزْعُمُ أَنَّہَا حَرَامٌ وَلَکِنِّی أَخَافُ أَنْ تَعَاطَوا الْمُومِسَاتِ مِنْہُنَّ۔
(١٦٤١٧) حضرت شقیق فرماتے ہیں کہ حضرت حذیفہ (رض) نے ایک یہودیہ سے شادی کی تو حضرت عمر (رض) نے انھیں ایک خط لکھا جس میں حکم دیا کہ اس کا راستہ چھوڑ دو ۔ حضرت حذیفہ (رض) نے انھیں جواب میں لکھا کہ اگر یہ حرام ہے تو میں اس کا راستہ چھوڑ دیتا ہوں۔ حضرت عمر (رض) نے لکھا کہ حرام تو نہیں کہتا البتہ مجھے ڈر ہے کہ اس سے لوگ فاحشہ اور شریر یہودی عورتوں کی طرف جانے لگیں گے۔

16417

(۱۶۴۱۸) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ قَالَ : سَأَلْتُ عَطَائً ، عَنْ نِکَاحِ الْیَہُودِیَّاتِ وَالنَّصْرَانِیَّات فَکَرِہَہُ وَقَالَ : کَانَ ذَلِکَ وَالْمُسْلِمَاتُ قَلِیلٌ۔
(١٦٤١٨) حضرت عبدا لملک فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عطاء سے یہودی اور عیسائی عورتوں سے نکاح کے بارے میں سوال کیا تو انھوں نے فرمایا ایسا کرنا مکروہ ہے۔ راوی فرماتے ہیں کہ اس زمانے میں مسلمان عورتیں کم تھیں۔

16418

(۱۶۴۱۹) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّہُ کَانَ یَکْرَہُ نِکَاحَ نِسَائِ أَہْلِ الْکِتَابِ ، وَلاَ یَرَی بِطَعَامِہِنَّ بَأْسًا۔
(١٦٤١٩) حضرت ابن عمر (رض) اہل کتاب عورتوں سے نکاح کو مکروہ قرار دیتے تھے، وہ ان کے ہاتھ کا پکا ہوا کھانا کھانے میں کوئی حرج نہ سمجھتے تھے۔

16419

(۱۶۴۲۰) حَدَّثَنَا وَکِیعُ بْنُ الْجَرَّاحِ ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ بُرْقَانَ ، عَنْ مَیْمُونِ بْنِ مِہْرَانَ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّہُ کَرِہَ نِکَاحَ نِسَائِ أَہْلِ الْکِتَابِ وَقَرَأَ : {وَلاَ تَنْکِحُوا الْمُشْرِکَاتِ حَتَّی یُؤْمِنَّ}۔
(١٦٤٢٠) حضرت ابن عمر (رض) اہل کتاب عورتوں سے نکاح کو مکروہ قرار دیتے تھے اور یہ آیت پڑھتے تھے { وَلاَ تَنْکِحُوا الْمُشْرِکَاتِ حَتَّی یُؤْمِنَّ }۔

16420

(۱۶۴۲۱) حدَّثَنَا وَکِیعُ بْنُ الْجَرَّاحِ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ ہُبَیْرَۃَ ، عَنْ عَلِیٍّ قَالَ : تَزَوَّجَ رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَہُودِیَّۃً۔
(١٦٤٢١) حضرت علی (رض) فرماتے ہیں کہ ایک صحابی رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک یہودی عورت سے شادی کی تھی۔

16421

(۱۶۴۲۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ ہُبَیْرَۃَ أَنَّ طَلْحَۃَ تَزَوَّجَ نَصْرَانِیَّۃً۔
(١٦٤٢٢) حضرت ہبیرہ فرماتے ہیں کہ حضرت طلحہ (رض) نے ایک عیسائی عورت سے شادی کی تھی۔

16422

(۱۶۴۲۳) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ، عَنْ أَشْعَثَ، عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ، عَنْ جَابِرٍ قَالَ: شَہِدْنَا الْقَادِسِیَّۃَ مَعَ سَعْدٍ وَنَحْنُ یَوْمَئِذٍ لاَ نَجِدُ سَبِیلاً إلَی الْمُسْلِمَاتِ فَتَزَوَّجْنَا الْیَہُودِیَّاتِ وَالنَّصْرَانِیَّات فَمِنَّا مَنْ طَلَّقَ وَمِنَّا مَنْ أَمْسَکَ۔
(١٦٤٢٣) حضرت جابر فرماتے ہیں کہ ہم جنگ قادسیہ میں حضرت سعد (رض) کے ساتھ موجود تھے۔ ان دنوں مسلمان خواتین سے نکاح تک ہمیں رسائی نہیں تھی، لہٰذا ہم نے یہودی اور عیسائی عورتوں سے شادی کی۔ پھر بعض لوگوں نے انھیں طلاق دے دی اور بعض نے انھیں روکے رکھا۔

16423

(۱۶۴۲۴) حَدَّثَنَا عبد اللہ بْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنِ الْحَکَمِ ، عَنْ جَارٍ لِحُذَیْفَۃَ ، عَنْ حُذَیْفَۃَ أَنَّہُ نَکَحَ یَہُودِیَّۃً وَعِنْدَہُ عَرَبِیَّتَانِ۔
(١٦٤٢٤) حضرت حذیفہ (رض) کے ایک پڑوسی فرماتے ہیں کہ حضرت حذیفہ (رض) نے ایک یہودیہ سے شادی کی حالانکہ ان کے نکاح میں دو عربی عورتیں تھیں۔

16424

(۱۶۴۲۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ حَمَّادٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ قَالَ : لاَ بَأْسَ بِنِکَاحِ النَّصْرَانِیَّۃِ۔
(١٦٤٢٥) حضرت سعید بن جبیر فرماتے ہیں کہ اہل کتاب عورت سے نکاح کرنے میں کوئی حرج نہیں۔

16425

(۱۶۴۲۶) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ مُطَرِّفٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، أَنَّہُ کَانَ لاَ یَرَی بَأْسًا بِالنِّکَاحِ فِی أَہْلِ الْکِتَابِ۔
(١٦٤٢٦) حضرت شعبی اہل کتاب عورتوں سے نکاح کرنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے۔

16426

(۱۶۴۲۷) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنِ الْحَکَمِ ، عَنْ أَبِی عِیَاضٍ قَالَ : لاَ بَأْسَ بِنِکَاحِ الْیَہُودِیَّاتِ وَالنَّصْرَانِیَّات إلاَّ أَہْلَ الْحَرْبِ۔
(١٦٤٢٧) حضرت ابو عیاض فرماتے ہیں کہ یہودی اور عیسائی عورتوں سے نکاح کرنے میں کوئی حرج نہیں البتہ اہل حرب عورتوں سے نکاح نہیں کیا جاسکتا۔

16427

(۱۶۴۲۸) حدَّثَنَا عَبدَۃ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنِ ابْنِ الْمُسَیَّبِ ، وَالْحَسَنِ قَالاَ : لاَ بَأْسَ أَنْ یَتَزَوَّجَ الرَّجُلُ أَرْبَعًا مِنْ أَہْلِ الْکِتَابِ۔
(١٦٤٢٨) حضرت ابن مسیب اور حضرت حسن فرماتے ہیں کہ ایک مسلمان چار اہل کتاب عورتوں سے شادی کرسکتا ہے۔

16428

(۱۶۴۲۹) حدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ أَبِی الرَّبِیعِ ، عَنِ ابْنِ أَبِی نَجِیحٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ قَالَ : لاَ بَأْسَ أَنْ یَجْمَعَ الرَّجُلُ أَرْبَعًا مِنْ أَہْلِ الْکِتَابِ۔
(١٦٤٢٩) حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ ایک مسلمان چار اہل کتاب عورتوں سے شادی کرسکتا ہے۔

16429

(۱۶۴۳۰) حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَۃَ ، عَنِ ابْنِ أَبِی ذِئْبٍ ، عَنِ الزہری قَالَ : یَتَزَوَّجُ الْحُرُّ أرْبَعَ إمَائٍ وَأَرْبَعَ نَصْرَانِیَّاتٍ وَالْعَبْدُ کَذَلِکَ۔
(١٦٤٣٠) حضرت زہری فرماتے ہیں کہ آزاد آدمی چار باندیوں یا چار عیسائی عورتوں کو نکاح میں جمع کرسکتا ہے۔ غلام کا بھی یہی حکم ہے۔

16430

(۱۶۴۳۱) حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ عَوَّامٍ ، عَنْ سُفْیَانَ بْنِ حُسَیْنٍ ، عَنِ الْحَکَمِ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : لاَ یَحِلُّ نِکَاحُ نِسَائِ أَہْلِ الْکِتَابِ إذَا کَانُوا حَرْبًا ، قَالَ الْحَکَمُ : فَحَدَّثْت بِہِ إبْرَاہِیمَ فَأَعْجَبَہُ ذَلِکَ۔
(١٦٤٣١) حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ مسلمانوں کے ساتھ جنگ میں مصروف اہل کتاب کی خواتین سے نکاح جائز نہیں۔ حضرت حکم فرماتے ہیں کہ میں نے یہ بات حضرت ابراہیم کو بتائی تو وہ بہت خوش ہوئے۔

16431

(۱۶۴۳۲) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بن مُحَمَّد الْمُحَارِبِیُّ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنِ الْحَکَمِ ، عَنْ أَبِی عِیَاضٍ قَالَ : نِسَائُ أَہْلُ الْکِتَابِ لَنَا حَلاَلٌ إلاَّ أَہْلَ الْحَرْبِ فَإِنَّ نِسَائَہُمْ وَذَبَائِحَہُمْ عَلَیْکُمْ حَرَامٌ۔
(١٦٤٣٢) حضرت ابو عیاض فرماتے ہیں کہ اہل کتاب کی عورتوں سے نکاح کرنا ہمارے لیے حلال ہے البتہ اگر وہ جنگ کررہے ہوں تو ان کی عورتیں اور ذبیحہ حرام ہوجاتا ہے۔

16432

(۱۶۴۳۳) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، عَنِ ابْنِ أَبِی غَنِیَۃَ ، عَنِ الْحَکَمِ قَالَ : إنَّ مِنْ أَہْلِ الْکِتَابِ مَنْ لاَ یَحِلُّ لَنَا مُنَاکَحَتُہُ وَلاَ ذَبِیحَتُہُ ، أَہْلُ الْحَرْبِ۔
(١٦٤٣٣) حضرت حکم فرماتے ہیں کہ کچھ اہل کتاب ایسے ہیں جن کی عورتیں اور ذبیحہ ہمارے لیے حلال نہیں۔ وہ اہل کتاب مسلمانوں سے جنگ کرنے والے ہیں۔

16433

(۱۶۴۳۴) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بُکر ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ قَالَ : أَخْبَرَنِی أَبُو بَکْرٍ بْنُ عَبْدِ اللہِ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو الْعتوَارِیِّ ، وَیَحْیَی بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ حَاطِبٍ ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُتْبَۃَ وَعَنْ عَمْرِو بْنِ سُلَیْمٍ الزُّرَقِیِّ ، عَنِ ابْنِ الْمُسَیَّبِ وَعَنْ أَبِی النَّضْرِ ، عَنْ عُرْوَۃَ بْنِ الزُّبَیْرِ أَنَّہُمْ قَالُوا فِی الْمَرْأَۃِ مِنْ أَہْلِ الْکِتَابِ ، إذَا دَخَلَتْ مِنْ أَرْضِ الْحَرْبِ تَدْخُلُ أَرْضَ الْعَرَبِ بِأَمَانٍ ، إِنْ أَظْہَرَتِ السُّکُونَ فِی أَرْضِ الْعَرَبِ فَلاَ بَأْسَ أَنْ یَنْکِحَہَا الْمُسْلِمُ ، وَإِنْ لَمْ تُظْہِرْ ذَلِکَ إلاَّ عِنْدَ الْخِطْبَۃِ لَمْ تُنْکَحْ۔
(١٦٤٣٤) حضرت عروہ بن زبیر فرماتے ہیں کہ اسلاف نے اہل کتاب کی عورت کے بارے میں فرمایا ہے کہ اگر وہ ارض حرب سے نکلے تو ارض عرب میں امان کے ساتھ داخل ہوگی۔ اگر وہ ارض عرب میں سکون ظاہر کرے تو مسلمان کے لیے اس سے نکاح کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ اگر وہ صرف پیغام نکاح کی صورت میں سکون ظاہر کرے تو اس سے نکاح نہیں کیا جائے گا۔

16434

(۱۶۴۳۵) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ أَبِی مَیْسَرَۃَ قَالَ : إمَائُ أَہْلِ الْکِتَابِ بِمَنْزِلَۃِ حَرَائِرِہِمْ۔
(١٦٤٣٥) حضرت ابو میسرہ فرماتے ہیں کہ اہل کتاب کی باندیاں ان کی آزاد عورتوں کی طرح ہیں۔

16435

(۱۶۴۳۶) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الْحَسَنِ أَنَّہُ قَالَ : إنَّمَا رُخِّصَ لِہَذِہِ الأَمَۃِ فِی نِسَائِ أَہْلِ الْکِتَابِ وَلَمْ یُرَخَّصْ فِی الإِمَائِ۔
(١٦٤٣٦) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ اس امت کے لیے اہل کتاب کی آزاد عورتوں سے نکاح کرنے کی اجازت ہے ان کی باندیوں سے نکاح کرنے کی اجازت نہیں۔

16436

(۱۶۴۳۷) حَدَّثَنَا عُثْمَانُ ، عَنْ ثَوْرٍ ، عَنْ مَکْحُولٍ أَنَّہُ کَرِہَ نِکَاحَ أَہْلِ الْکِتَابِ۔
(١٦٤٣٧) حضرت مکحول نے اہل کتاب کی باندیوں سے نکاح کو مکروہ قرار دیا ہے۔

16437

(۱۶۴۳۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنِ ابْنِ أَبِی نَجِیحٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ : {مِنْ فَتَیَاتِکُمَ الْمُؤْمِنَاتِ} ، قَالَ : لاَ یَنْبَغِی لِلْحُرِّ الْمُسْلِمِ أَنْ یَنْکِحَ أَمَۃً مِنْ أَہْلِ الْکِتَابِ۔
(١٦٤٣٨) حضرت مجاہد قرآن مجید کی آیت { مِنْ فَتَیَاتِکُمَ الْمُؤْمِنَاتِ } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ آزاد مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ کسی اہل کتاب باندی سے نکاح کرے۔

16438

(۱۶۴۳۹) حَدَّثَنَا مُعْتَمِرُ بْنُ سُلَیْمَانَ عَن مسور أَنَّ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِیزِ کَتَبَ : إذَا دَخَلَ الرَّجُلُ بِالْمَرْأَۃِ فَقَدْ وَجَبَ الْعَاجِلُ وَالآجِلُ إلاَّ أَنْ تَشْتَرِطَ فِی الآجِلِ۔
(١٦٤٣٩) حضرت عمر بن عبدا لعزیز نے اپنے ماتحتوں کے نام خط لکھا کہ جب آدمی اپنی بیوی سے ازدواجی تعلق قائم کرلے تو معجل اور مؤجل مہر واجب ہوجاتا ہے۔ البتہ اگر مؤجل کی شرط لگائی ہو تو پھر واجب نہیں ہوتا۔

16439

(۱۶۴۴۰) حَدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ فِی الرَّجُلِ یَتَزّوَّجُ الْمَرْأَۃَ إلَی مَیْسَرَۃٍ ، قَالَ : کَانَ یَقُولُ : إلَی مَوْتٍ ، أَوْ فِرَاقٍ۔
(١٦٤٤٠) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ اگر کسی آدمی نے عورت سے آسانی سے مہر ادا کرنے کی شرط لگائی تو مہر کی ادائیگی موت یا جدائی پر فرض ہوگی۔

16440

(۱۶۴۴۱) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ أَنَّہُ کَانَ یَقُولُ فِی الآجِلِ مِنَ الْمَہْرِ : ہُوَ حَالٌّ إلاَّ أَنْ تَکُونَ لَہُ مُدَّۃٌ مَعْلُومَۃٌ۔
(١٦٤٤١) حضرت حسن فرمایا کرتے تھے کہ اگر مہر مؤجل کی مدت معلومہ مقرر نہ ہو تو وہ فوری طور پر واجب ہوجاتا ہے۔

16441

(۱۶۴۴۲) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ ، عَنْ شُرَیْحٍ قَالَ : تَزَوَّجَ رَجُلٌ امْرَأَۃً بِآجِلٍ وَعَاجِلٍ إلَی مَیْسَرَۃَ فَقَدَّمَتْہُ إلَی شُرَیْحٍ ، فَقَالَ ، دُلّیْنَا عَلَی مَیْسَرَۃٍ نَأْخُذُہُ لَکِ۔
(١٦٤٤٢) حضرت ابن سیرین فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ ایک آدمی نے کسی عورت سے آسانی سے ادائیگی کی شرط پر مہر معجل اور مؤجل کے ساتھ نکاح کیا۔ عورت یہ مقدمہ لے کر حضرت شریح کی عدالت میں آئی تو انھوں نے اس عورت سے فرمایا کہ تم ہمیں آسانی کی تفصیل بتادو ہم تمہیں مہر دلوا دیتے ہیں۔

16442

(۱۶۴۴۳) حَدَّثَنَا أَزْہَرُ السَّمَّانُ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ، عَنْ إیَاسِ بْنِ مُعَاوِیَۃَ قَالَ: إذَا دَخَلَ بِہَا فَلاَ دَعْوَی لَہَا فِی الآجِلِ۔
(١٦٤٤٣) حضرت ایاس بن معاویہ فرماتے ہیں کہ جب آدمی نے عورت سے ازدواجی ملاقات کرلی تو اب عورت کے لیے مؤجل کا دعویٰ نہیں ہوگا۔

16443

(۱۶۴۴۴) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ قَالَ : الْعَاجِلُ آجِلٌ إلَی مَوْتٍ ، أَوْ فُرْقَۃٍ۔
(١٦٤٤٤) حضرت شعبی فرماتے ہیں کہ مہر عاجل بھی آجل ہے اور اجل موت یا فرقت تک ہے۔

16444

(۱۶۴۴۵) حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَۃَ ، قَالَ : سَمِعْتُ حَمَّادًا یَقُولُ : ہُوَ حَالٌّ تَأْخُذْہُ إذَا شِئْتِ۔
(١٦٤٤٥) حضرت حماد فرماتے ہیں کہ اگر وہ چاہے تو وہ اسی وقت وصول کرسکتی ہے۔

16445

(۱۶۴۴۶) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ بُرْدٍ ، عَنْ مَکْحُولٍ وَالزُّہْرِیِّ قَالاَ : فِی رَجُلٍ تَزَوَّجَ امْرَأَۃً فَدَخَلَ بِہَا فَرَأَی بِہَا جُنُونًا ، أَوْ جُذَامًا ، أَوْ بَرَصًا ، أَوْ عَفَلاً إنَّہَا تُرَدُّ مِنْ ہَذَا وَلَہَا الصَّدَاقُ الَّذِی اسْتَحَلَّ بِہِ فَرْجَہَا الْعَاجِلُ وَالآجِلُ وَصَدَاقُہُ عَلَی مَنْ غَرَّہُ۔
(١٦٤٤٦) حضرت مکحول اور حضرت زہری فرماتے ہیں کہ اگر ایک آدمی نے کسی عورت سے شادی کی، پھر اس عورت میں جنون، کوڑھ، برص یا شرم گاہ میں بال اگنے کی بیماری دیکھی تو ان بیماریوں کی وجہ سے اسے واپس بھیج سکتا ہے۔ البتہ عورت کو مہر ملے گا خواہ مؤجل ہو یا معجل۔ یہ مہر اس شخص پر واجب ہوگا جس نے آدمی کو اس عورت سے نکاح کرنے پر ابھارا ہوگا۔

16446

(۱۶۴۴۷) حَدَّثَنَا عَبدَۃ بن سلیمان ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ أَبِی مَعْشَرٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، عَنْ عَلِیٍّ أَنَّہُ کَانَ یَکْرَہُ ذَبَائِحَ نَصَارَی بَنِی تَغْلِبَ وَنِسَائَہُمْ وَیَقُولُ : ہُمْ مِنَ الْعَرَبِ۔
(١٦٤٤٧) حضرت علی (رض) بنو تغلب کا ذبیحہ اور ان کی عورتوں سے نکاح کو مکروہ قرار دیتے تھے اور فرماتے تھے کہ یہ عرب لوگ ہیں۔

16447

(۱۶۴۴۸) حَدَّثَنَا عَبدَۃ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنِ الْحَسَنِ أَنَّہُ کَانَ لاَ یَرَی بِذَلِکَ بَأْسًا وَیَقُولُ : انْتَحَلُوا دِینًا فَذَلِکَ دِینُہُمْ۔
(١٦٤٤٨) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ بنو تغلب کے ذبیحہ اور ان کی عورتوں سے نکاح کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ انھوں نے ایک دین اختیار کیا ، اب یہی ان کا دین ہے۔

16448

(۱۶۴۴۹) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ حَبِیبٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ ہَرِمٍ قَالَ : سُئِلَ جَابِرُ بْنُ زَیْدٍ ، عَنْ نَصَارَی الْعَرَبِ ہَلْ تَحِلُّ نِسَاؤُہُمْ لِلْمُسْلِمِینَ قَالَ : لَیْسُوا مِنْ أَہْلِ الْکِتَابِ وَلاَ تَحِلُّ نِسَاؤُہُمْ وَلاَ طَعَامُہُمْ لِلْمُسْلِمِینَ۔
(١٦٤٤٩) حضرت عمرو بن ہرم فرماتے ہیں کہ حضرت جابر بن زید سے عرب عیسائیوں کے بارے میں سوال کیا گیا کہ کیا ان کی عورتوں سے نکاح کرنا حلال ہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ وہ اہل کتاب نہیں، ان کی عورتیں اور ان کا کھانا مسلمانوں کے لیے حلال نہیں ہے۔

16449

(۱۶۴۵۰) حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُدَیر ، قَالَ : قَالَ عِکْرِمَۃُ : {وَمَنْ یَتَوَلَّہُمْ مِنْکُمْ فَإِنَّہُ مِنْہُمْ} قَالَ : نصاری الْعَرَب فِی ذَبَائِحِہِمْ وَفِی نِسَائِہِمْ۔
(١٦٤٥٠) حضرت عکرمہ قرآن مجید کی آیت { وَمَنْ یَتَوَلَّہُمْ مِنْکُمْ فَإِنَّہُ مِنْہُمْ } کے بارے میں فرماتے ہیں کہ یہ آیت عرب عیسائیوں کے ذبیحہ اور ان کی عورتوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔

16450

(۱۶۴۵۱) حَدَّثَنَا عَفَّانَ قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ ، عَنِ ابْنِ عبَّاسٍ قَالَ : کُلُوا ذَبَائِحَ بَنِی ثَعْلَبَۃَ وَتَزَوَّجُوا نِسَائَہُمْ فَإِنَّ اللَّہَ تَعَالَی یَقُولُ : {یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا لاَ تَتَّخِذُوا الْیَہُودَ وَالنَّصَارَی أَوْلِیَائَ بَعْضُہُمْ أَوْلِیَائُ بَعْضٍ} فَلَوْ لَمْ یَکُونُوا مِنْہُمْ إلاَّ بِالْوِلاَیَۃِ لَکَانُوا مِنْہُمْ۔
(١٦٤٥١) حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ بنوتغلب کا ذبیحہ کھاؤ اور ان کی عورتوں سے شادی کرو۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں (ترجمہ) اے ایمان والو ! یہود و نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ، وہ ایک دوسرے کے دوست ہیں۔

16451

(۱۶۴۵۲) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ أَبِی مِعْشَرٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، عَنْ عَلِیٍّ أَنَّہُ کَرِہَ ذَبَائِحَ نَصَارَی الْعَرَبِ وَنِسَائَہُمْ۔
(١٦٤٥٢) حضرت علی (رض) نے عیسائی عربوں کے ذبیحہ اور ان کی عورتوں سے نکاح کو مکروہ قرار دیا ہے۔

16452

(۱۶۴۵۳) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ أَبِی مِعْشَرٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، أَنَّہُ کَرِہَ۔
(١٦٤٥٣) حضرت ابراہیم نے عیسائی عربوں کے ذبیحہ اور ان کی عورتوں سے نکاح کو مکروہ قرار دیا ہے۔

16453

(۱۶۴۵۴) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنِ الْحَسَنِ قَالَ : لاَ بَأْسَ بِہِ۔
(١٦٤٥٤) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ اس میں کوئی حرج نہیں۔

16454

(۱۶۴۵۵) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ، عَنْ عَبْدِ الحمید ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ سِمَاکِ بْنِ سَلَمَۃَ أَنَّ شُرَیْحًا أَجَازَ نِکَاحَ وَصِیِّ وَصِیٍّ۔
(١٦٤٥٥) حضرت سماک بن حرب فرماتے ہیں کہ حضرت شریح نے وصی کے کرائے ہوئے نکاح کو درست قرار دیا۔

16455

(۱۶۴۵۶) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ، عَنْ مُغِیرَۃَ، عَنِ الْحَارِثِ قَالَ: یُشَاوِر الْوَلِیُّ الْوَصِیَّ فِی النِّکَاحِ وَیلِیَ عُقْدَۃُ النِّکَاحِ الْوَلِیُّ۔
(١٦٤٥٦) حضرت حارث فرماتے ہیں کہ ولی نکاح کرانے کے لیے وصی سے مشورہ کرے گا اور عقدنکاح کا نگران ولی ہی ہوگا۔

16456

(۱۶۴۵۷) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ حَمَّادٍ فِی وَصِیٍّ زَوَّجَ یَتِیمَۃً صَغِیرَۃً فِی حِجْرِہِ قَالَ : جَائِزٌ۔
(١٦٤٥٧) حضرت حماد فرماتے ہیں کہ اگر کسی وصی نے اپنی پرورش میں موجود کسی یتیم بچی کا نکاح کرادیا تو یہ جائز ہے۔

16457

(۱۶۴۵۸) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الْحَسَنِ ؛ فِی الْوَصِیِّ یُزَوِّجُ قَالَ : ہُوَ جَائِزٌ۔
(١٦٤٥٨) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ اگر کوئی وصی نکاح کرادے تو جائز ہے۔

16458

(۱۶۴۵۹) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ حَارِثٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ وَعَنِ الْحَکَمِ وَحَمَّادٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالاَ : مَا صَنَعَ الْوَصِیُّ فَہُوَ جَائِزٌ إلاَّ النِّکَاحَ۔
(١٦٤٥٩) حضرت شعبی اور حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ نکاح کے علاوہ وصی کا ہر تصرف جائز ہے۔

16459

(۱۶۴۶۰) حَدَّثَنَا سَہْلُ بْنُ یُوسُفَ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنِ الْحَسَنِ أَنَّہُ کَانَ لاَ یَجْعَلُ لِلْوَصِیِّ من أَمْرِ النِّکَاحِ شَیْئًا إلاَّ أَنْ یَکُونَ قَالَ : أَنْتَ وَصِیِّی فِی نِکَاحِ أخواتی وبناتی فَإِنْ فَعَلَ فَالْوَصِیُّ أَحَقُّ مِنَ الْوَلِیِّ وَإِلاَّ فَالْوَلِیُّ أَحَقُّ مِنَ الْوَصِیِّ۔
(١٦٤٦٠) حضرت حسن وصی کو نکاح کی اجازت نہ دیتے تھے البتہ اگر اسے وصی بنانے والا یہ کہے کہ تو میری بہنوں اور میری بیٹیوں کے نکاح کا وصی ہے۔ اگر وہ ایسا کرے تو وصی نکاح کے معاملے میں ولی سے زیادہ حق دار ہے۔ اگر یہ نہ کہا تو ولی وصی سے زیادہ حق دار ہوگا۔

16460

(۱۶۴۶۱) حدَّثَنَا وَکِیعٌ، عَنْ إسْمَاعِیلَ، عَنِ الشَّعْبِیِّ فِی امْرْأَۃٍ تَزَوَّجَتْ رَجُلاً عَلَی أَنَّہُ حُرٌّ فَوُجِدَ عَبْدًا قَالَ: تُخَیَّرُ۔
(١٦٤٦١) حضرت شعبی فرماتے ہیں کہ اگر کسی آدمی نے خود کو آزاد بتاتے ہوئے نکاح کیا لیکن بعد میں وہ غلام نکلا تو عورت کو اختیار ہوگا۔

16461

(۱۶۴۶۲) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الْحَسَنِ أَنَّہُ سُئِلَ عَنْ رَجُلٍ دَلَّسَ نَفْسَہُ لأَمْرَأَۃٍ فَزَعَمَ أَنَّہُ حُرٌّ وَہوَ عَبْدٌ قَالَ : تُخَیَّرُ۔
(١٦٤٦٢) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ اگر کسی آدمی نے خود کو آزاد بتاتے ہوئے نکاح کیا لیکن بعد میں وہ غلام نکلا تو عورت کو اختیار ہوگا۔

16462

(۱۶۴۶۳) حَدَّثَنَا مَعْنُ بْنُ عِیسَی ، عَنِ ابْنِ أَبِی ذِئْبٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ فِی امْرَأَۃٍ غُرَّتْ بِعَبْدٍ وَکَانَتْ تَحْسَبُہُ حُرًّا قَالَ ابْنُ شِہَابٍ : تُخَیَّرُ۔
(١٦٤٦٣) حضرت زہری سے سوال کیا گیا کہ اگر کسی عورت کو غلام کے بارے میں دھوکا دیا گیا وہ اسے آزاد سمجھتی رہی جبکہ وہ غلام تھا تو کیا حکم ہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ عورت کو اختیار ہوگا۔

16463

(۱۶۴۶۴) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ حَبِیبٍ ، عَنْ عَمْرٍو قَالَ : سُئِلَ جَابِرُ بْنُ زَیْدٍ ، عَنْ عَبْدٍ أَتَی قَوْمًا فَأَخْبَرَہُمْ أَنَّہُ حُرٌّ فَأَنْکَحُوہُ امْرَأَۃً حُرَّۃً ثُمَّ عَلِمُوا بَعْدَ ذَلِکَ أَنَّہُ عَبْدٌ غُرَّتْ بِہِ قَالَ : إذَا عَلِمَتْ بِہِ فَإِنْ شَائَتْ مَکَثَتْ بِہِ، وَإِنْ شَائَتْ فَارَقَتْہُ وَلاَ حَقَّ لَہُ عَلَیْہَا۔
(١٦٤٦٤) حضرت عمرو فرماتے ہیں کہ حضرت جابر بن زید سے سوال کیا گیا کہ اگر کوئی غلام کسی قوم کے پاس آیا اور اس نے ان سے کہا کہ وہ آزاد ہے۔ لوگوں نے ایک آزاد عورت کی اس سے شادی کرادی۔ پھر بعد میں انھیں علم ہوا کہ یہ غلام تھا اور اس عورت کو دھوکا دیا گیا ہے ؟ حضرت جابر نے فرمایا کہ جب اسے علم ہو تو اسے اختیار ہوگا کہ چاہے اس کے پاس رہے اور اگر چاہے تو اس سے جدائی اختیار کرلے۔ مرد کو عورت پر کوئی حق حاصل نہ ہوگا۔

16464

(۱۶۴۶۵) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ بْنِ أَبِی خَالِدٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ قَالَ : أَیُّمَا عَبْدٍ جَائَ إلَی حُرَّۃٍ فَزَوَّجَتْہُ فَعَلِمَتْ بَعْدَ ذَلِکَ أَنَّہُ مَمْلُوکٌ فَإِنْ شَائَتِ اسْتَقَرَّتْ عِنْدَہُ ، وَإِنْ شَائَتْ فَارَقَتْہُ۔
(١٦٤٦٥) حضرت شعبی فرماتے ہیں کہ اگر کسی آدمی نے خود کو آزاد بتاتے ہوئے نکاح کیا لیکن بعد میں وہ غلام نکلا تو عورت کو اختیار ہوگا کہ اس کے پاس رہے یا اس سے جدا ہوجائے۔

16465

(۱۶۴۶۶) حَدَّثَنَا وَکِیعُ بْنُ الجَرَّاحِ عن سفیان ، عَنِ ابْنِ طَاوُوسٍ ، عَنْ أَبِیہِ قَالَ : إذَا تَزَوَّجَ الابْنُ لَمْ تَحِلَّ لِلأَبِ دَخَلَ بِہَا ، أَوْ لَمْ یَدْخُلْ بہا وَإِذَا تزوج الأَبُ لَمْ تَحِلَّ لِلابْنِ دَخَلَ بِہَا ، أَوْ لَمْ یَدْخُلْ بِہَا۔
(١٦٤٦٦) حضرت طاوس فرماتے ہیں کہ اگر کسی شخص نے کسی عورت سے نکاح کیا تو وہ عورت اس کے باپ کے لیے حلال نہیں خواہ اس نے ازدواجی ملاقات کی ہو یا نہ کی ہو۔ اور اسی طرح اس کے بیٹے کے لیے بھی حلال نہیں خواہ اس نے ازدواجی ملاقات کی ہو یا نہ کی ہو۔

16466

(۱۶۴۶۷) حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ وَرْدَانَ ، عَنْ بُرْدٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ قَالَ : مَنْ مَلَکَ عُقْدَۃَ امْرَأَۃٍ فَقَدْ حُرِّمَتْ عَلَی ابْنِہِ وعلی أَبِیہِ وَأَیُّہُمَا جَرَّدَ فَنَظَرَ إلَی الْعَوْرَۃِ کَذَلِکَ۔
(١٦٤٦٧) حضرت زہری فرماتے ہیں کہ اگر کسی شخص نے کسی عورت سے نکاح کیا تو وہ عورت اس کے بیٹے اور باپ پر حرام ہوجائے گی۔ اسی طرح ان دونوں میں سے کسی نے کسی عورت کی شرم گاہ دیکھی تو وہ بھی دوسرے کے لیے حرام ہوجائے گی۔

16467

(۱۶۴۶۸) حَدَّثَنَا عِیسَی بْنُ یُونُسَ عن أبی بکر ، عَنْ مَکْحُولٍ قَالَ : أَیُّہُمَا مَلَکَ عُقْدَۃَ امْرَأَۃٍ حُرِّمَتْ عَلَی الآخَرِ۔
(١٦٤٦٨) حضرت مکحول فرماتے ہیں کہ باپ اور بیٹے میں سے کسی نے بھی کسی عورت سے نکاح کیا تو وہ عورت دوسرے کے لیے حرام ہوجائے گی۔

16468

(۱۶۴۶۹) حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ ، عَنْ أَبِی حُرَّۃَ ، عَنِ الْحَسَنِ ؛ فِی رَجُلٍ تَزَوَّجَ امْرَأَۃً فَطَلَّقَہَا قَبْلَ أَنْ یَدْخُلَ بِہَا أَیَتَزَوَّجُہَا أَبُوہُ فَکَرِہَ وَقَالَ اللَّہُ تَعَالَی : {وَحَلاَئِلُ أَبْنَائِکُمْ}۔
(١٦٤٦٩) حضرت حسن سے سوال کیا گیا کہ اگر کسی آدمی نے کسی عورت سے شادی کی اور اس سے ازدواجی ملاقات سے پہلے اسے طلاق دے دی تو کیا اس آدمی کا باپ اس عورت سے نکاح کرسکتا ہے ؟ انھوں نے اسے مکروہ قرار دیا اور قرآن مجید کی یہ آیت پڑھی { وَحَلاَئِلُ أَبْنَائِکُمْ }

16469

(۱۶۴۷۰) حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ مُعَاذٍ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الْحَسَنِ وَمُحَمَّدٍ قَالاَ : ثَلاَثُ آیَاتٍ مُبْہَمَاتٌ : {وَحَلاَئِلُ أَبْنَائِکُمْ} وَ{مَا نَکَحَ آبَاؤُکُمْ} وَ{وَأُمَّہَاتُ نِسَائِکُمْ} قَالَ : أَشْعَثُ : وَہَذِہِ الرَّابِعَۃُ لَیْسَتْ بِمُبْہَمَۃٍ {وَرَبَائِبُکُمَ اللاَّتِی فِی حُجُورِکُمْ مِنْ نِسَائِکُمْ} فَقَرَأَہَا مُعَاذٌ إلَی آخِرِہَا۔
(١٦٤٧٠) حضرت حسن اور حضرت محمد فرماتے ہیں کہ تین آیات مبہم ہیں 1 ۔ { وَحَلاَئِلُ أَبْنَائِکُمْ } 2 ۔ { مَا نَکَحَ آبَاؤُکُمْ } 3 ۔ { وَأُمَّہَاتُ نِسَائِکُمْ } حضرت اشعث فرماتے ہیں اور یہ چوتھی آیت مبہم نہیں ہے { وَرَبَائِبُکُمَ اللاَّتِی فِی حُجُورِکُمْ مِنْ نِسَائِکُمْ } راوی حضرت معاذ نے اس آیت کو آخر تک پڑھا۔

16470

(۱۶۴۷۱) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ، عَنْ عُبَیْدَۃَ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالَ: إذَا تَزَوَّجَ الرَّجُلُ الْمَرْأَۃَ فَلَمْ یَدْخُلْ بِہَا لَمْ تَحِلَّ لأَبِیہِ۔
(١٦٤٧١) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ اگر آدمی نے کسی عورت سے شادی کی اور اس سے ازدواجی ملاقات نہ کی تو پھر بھی وہ اس کے باپ کے لیے حلال نہیں۔

16471

(۱۶۴۷۲) حَدَّثَنَا عِیسَی بْنُ یُونُسَ ، عَنِ الأَوْزَاعِیِّ ، عَنْ مَکْحُولٍ أَنَّ عُمَرَ جَرَّدَ جَارِیَتَہُ فَسَأَلَہُ إیَّاہَا بَعْضُ بَنِیہِ ، فَقَالَ : إنَّہَا لاَ تَحِلُّ لَک۔
(١٦٤٧٢) حضرت مکحول فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے اپنی ایک باندی کے کپڑے اتارے، بعدا زاں آپ کے ایک بیٹے نے آپ سے وہ باندی مانگی تو آپ نے فرمایا کہ وہ تمہارے لیے حلال نہیں ہے۔

16472

(۱۶۴۷۳) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ مُبَارَکٍ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ مَکْحُولٍ أَنَّ عُمَرَ جَرَّدَ جَارِیَۃً لَہُ فَطَلَبَہَا إلَیْہِ بَعْضُ بَنِیہِ ، فَقَالَ : إنَّہَا لاَ تَحِلُّ لَک۔
(١٦٤٧٣) حضرت مکحول فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے اپنی ایک باندی کے کپڑے اتارے، بعدا زاں آپ کے ایک بیٹے نے آپ سے وہ باندی مانگی تو آپ نے فرمایا کہ وہ تمہارے لیے حلال نہیں ہے۔

16473

(۱۶۴۷۴) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ جَدِّہِ أَنَّہُ جَرَّدَ جَارِیَۃً لَہُ ثُمَّ سَأَلَہُ إیَّاہَا بَعْضُ وَلَدِہِ ، فَقَالَ إنَّہَا لاَ تَحِلُّ لَک۔
(١٦٤٧٤) حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص (رض) نے اپنی ایک باندی کے کپڑے اتارے، بعدا زاں آپ کے ایک بیٹے نے آپ سے وہ باندی مانگی تو آپ نے فرمایا کہ وہ تمہارے لیے حلال نہیں ہے۔

16474

(۱۶۴۷۵) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، سُلَیْمَانَ بْنِ حَیَّانَ ، عَنِ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَامِرٍ أَنَّ أَبَاہُ حِینَ حَضَرَتْہُ الْوَفَاۃُ نَہَی بَنِیہِ ، عَنْ جَارِیَۃٍ لَہُ أَنْ یَطَأَہَا أَحَدٌ مِنْہُمْ قَالَ : وَمَا نَعْلَمُہُ وَطِئَہَا إلاَّ أَنْ یَکُونَ اطَّلَعَ مِنْہَا عَلَی أَمْرٍ کَرِہَ أَنْ یَطَّلِعَ وَلَدُہُ مُطَّلَعَہُ۔
(١٦٤٧٥) حضرت عبداللہ بن عامر فرماتے ہیں کہ جب میرے والد کی وفات کا وقت آیا تو انھوں نے اپنے بیٹوں سے کہا کہ میری فلاں باندی سے تم میں سے کوئی جماع نہ کرے۔ عبداللہ بن عامر فرماتے ہیں کہ ہمارے علم کے مطابق میرے والد نے اس باندی سے جماع تو نہیں کیا تھا البتہ ہوسکتا ہے کہ انھوں نے اسے برہنہ دیکھا ہو۔

16475

(۱۶۴۷۶) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ مَکْحُولٍ أَنَّ عُمَرَ جَرَّدَ جَارِیَۃً لَہُ وَنَظَرَ إلَیْہَا فَسَأَلَہُ إیَّاہَا بَعْضُ وَلَدِہِ ، فَقَالَ : إنَّہَا لاَ تَحِلُّ لَک۔
(١٦٤٧٦) حضرت مکحول فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے اپنی ایک باندی کو برہنہ دیکھا، پھر ایک مرتبہ آپ کے ایک بیٹے نے آپ سے اس باندی کا سوال کیا تو آپ نے فرمایا کہ وہ تمہارے لیے حلال نہیں۔

16476

(۱۶۴۷۷) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ جَدِّہِ بِمِثْلِ ہَذَا۔
(١٦٤٧٧) ایک اور سند سے یہی منقول ہے۔

16477

(۱۶۴۷۸) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الْحَکَمِ ، قَالَ : قَالَ مَسْرُوقٌ حِینَ حَضَرَتْہُ الْوَفَاۃُ : إنِّی لَمْ أُصِبْ مِنْ جَارِیَتِی ہَذِہِ إلاَّ مَا یُحَرِّمُہَا عَلَی وَلَدِی الْمَسَّ وَالنَّظَرَ۔
(١٦٤٧٨) حضرت حکم فرماتے ہیں کہ جب حضرت مسروق کی وفات کا وقت آیا تو انھوں نے فرمایا کہ میں نے اپنی اس باندی سے صرف اتنا تعلق رکھا ہے جس سے یہ میرے بیٹوں پر حرام ہوگئی ہے یعنی چھونا اور دیکھنا۔

16478

(۱۶۴۷۹) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنِ ابْنِ أَبِی نَجِیحٍ قَالَ مُجَاہِدٌ : إذَا مَسَّ الرَّجُلُ فَرْجَ الأَمَۃِ ، أَوْ مَسَّ فَرْجُہُ فَرْجَہَا ، أَوْ بَاشَرَہَا فَإِنَّ ذَلِکَ یُحَرِّمُہَا عَلَی أَبِیہِ وَعَلَی ابْنِہِ۔
(١٦٤٧٩) حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ اگر کسی آدمی نے اپنی باندی کی شرمگاہ کو چھوا، یا اپنی شرمگاہ کو اس کی شرمگاہ سے لگایا، یا اس سے جماع کیا تو یہ باندی اس کے باپ اور بیٹوں پر حرام ہوجائے گی۔

16479

(۱۶۴۸۰) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ أَنَّہُ سَأَلَ عَنْ رَجُلٍ جَرَّدَ جَارِیَتَہُ ہَلْ تَحِلُّ لابْنِہِ ، أَوْ لأَبِیہِ أَنَّہُ کَانَ یَکْرَہُ ذَلِکَ إذَا قَبَّلَہَا ، أَوْ جَرَّدَہَا لِشَہْوَۃٍ۔
(١٦٤٨٠) حضرت حسن سے سوال کیا گیا کہ اگر کوئی شخص اپنی باندی کو برہنہ دیکھ لے تو کیا وہ باندی اس کے باپ یا بیٹوں کے لیے حلال ہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ اگر اس نے اپنی باندی کا بوسہ لیا یاشہوت کیوجہ سے اس کے کپڑے اتارے تو اس کا باپ اور اس کے بیٹے اس باندی کو استعمال نہیں کرسکتے۔

16480

(۱۶۴۸۱) حَدَّثَنَا الثَّقَفِیُّ ، عَنْ مُثَنًّی ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ : أَیُّمَا رَجُلٍ جَرَّدَ جَارِیَۃً فَنَظَرَ مِنْہَا إلَی ذَلِکَ الأَمْرِ فَإِنَّہَا لاَ تَحِلُّ لابْنِہِ۔
(١٦٤٨١) حضرت ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کسی آدمی نے اپنی باندی کے کپڑے اتار کر اسے دیکھا تو یہ اس کے بیٹے کے لیے حلال نہیں۔

16481

(۱۶۴۸۲) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، أَنَّہُ سَأَلَ عَنْہُ الشَّعْبِیَّ ، فَقَالَ : قدْ زَعَمُوا أَنَّ رَجُلاً اشْتَرَی جَارِیَۃً فَخَشِیَتِ امْرَأَتُہُ أَنْ یَتَّخِذَہَا فَأَمَرَتِ ابْنًا لَہَا غُلاَمًا أَنْ یَضْطَجِعَ عَلَیْہَا لِیُحَرِّمَہَا عَلَی زَوْجِہَا۔
(١٦٤٨٢) حضرت ابراہیم نے ایک مسئلہ کے بارے میں فرمایا کہ اہل علم کی رائے تھی کہ اگر کوئی آدمی کوئی باندی خریدے اور اس کی بیوی کو خوف ہو کہ یہ اس باندی سے جماع کرے گا ، وہ عورت اپنے بیٹے سے کہے کہ وہ اس باندی کے ساتھ لیٹ جائے تو یہ باندی اس کے خاوند پر حرام ہوجائے گی۔

16482

(۱۶۴۸۳) حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ خَالِدٍ ، عَنِ ابْنِ أَبِی ذِئْبٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ کَرِہَ أَنْ یَطَأَ الرَّجُلُ امْرَأَۃً قَبَّلَہَا أَبُوہُ ، أَوْ نَظَرَ إلَی مَحَاسِرِہَا۔
(١٦٤٨٣) حضرت زہری فرماتے ہیں کہ اگر کسی آدمی نے کسی باندی کا بوسہ لیا یا اس کی شرمگاہ کو دیکھا تو وہ باندی اس کے بیٹے کے لیے حرام ہے۔

16483

(۱۶۴۸۴) حَدَّثَنَا عِیسَی بْنُ یُونُسَ ، عَنْ أَبِی بَکْرٍ ، عَنْ مَکْحُولٍ قَالَ : أَیُّمَا رَجُلٍ جَرَّدَ جَارِیَۃً حُرِّمَتْ عَلَی ابْنِہِ وَعَلَی أَبِیہِ۔
(١٦٤٨٤) حضرت مکحول فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص اپنی باندی کو برہنہ دیکھ لے تو وہ باندی اس کے باپ یا بیٹوں کے لیے حلال نہ ہوگی۔

16484

(۱۶۴۸۵) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ حَبِیبٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ ہَرِمٍ قَالَ : سُئِلَ جَابِرُ بْنُ زَیْدٍ ، عَنْ جَارِیَۃٍ کَانَتْ لِرَجُلٍ فَمَسَّ قُبُلَہَا بِیَدِہِ ، أَوْ أَبْصَرَ عَوْرَتَہَا ثُمَّ وَہَبَہَا لاِبْنٍ لَہُ أَیُصْلِحُّ لہ أَنْ یَتَّطِئَہَا قَالَ : لاَ۔
(١٦٤٨٥) حضرت جابر بن زید سے سوال کیا گیا کہ ایک آدمی کی باندی ہے، اس نے اس کی شرمگاہ کو چھوا یا اس اس کی شرمگاہ کو دیکھا پھر اپنے بیٹے کو تحفہ میں دے دی تو کیا بیٹا اس سے وطی کرسکتا ہے ؟ انھوں نے فرمایا نہیں۔

16485

(۱۶۴۸۶) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَمْرٍو ، عَنِ الشَّعْبِیِّ قَالَ : کَتَبَ مَسْرُوقٌ إلَی أَہْلِہِ : اُنْظُرُوا جَارِیَتِی فَلاَ تَبِیعُوہَا فَإِنِّی لَمْ أُصِبْ مِنْہَا إلاَّ مَا یُحَرِّمُہَا عَلَی وَلَدِی اللَّمْسَ وَالنَّظَرَ۔
(١٦٤٨٦) حضرت شعبی فرماتے ہیں کہ حضرت مسروق نے اپنے گھر والوں کو خط میں لکھا کہ میری باندی کو مت بیچنا، میں نے اس سے صرف اتنا تعلق رکھا ہے جو اسے میرے بیٹوں پر حرام کردیتا ہے۔ یعنی چھونا اور دیکھنا۔

16486

(۱۶۴۸۷) حدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ الْحُصَیْنِ فِی الرَّجُلِ یَقَعُ عَلَی أُمِّ امْرَأَتِہِ قَالَ : تَحْرُمُ عَلَیْہِ امْرَأَتُہُ۔
(١٦٤٨٧) حضرت عمران بن حصین (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کسی آدمی نے اپنی ساس سے صحبت کی تو اس کی بیوی اس پر حرام ہوجائے گی۔

16487

(۱۶۴۸۸) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ یَعْمَُرَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : حرْمَتَانِ أَنْ تَخْطّاہُمَا وَلاَ یُحَرِّمْہَا ذَلِکَ عَلَیْہِ۔
(١٦٤٨٨) حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ بیٹی سے مجامعت کی وجہ سے ماں اور ماں سے مجامعت کی وجہ سے بیٹی حرام ہوجاتی ہے۔

16488

(۱۶۴۸۹) حَدَّثَنَا حَفْص بن غِیَاثٍ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ حَمَّادٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، عَنْ عَلْقَمَۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ قَالَ : لاَ یَنْظُرُ اللَّہُ إلَی رَجُلٍ نَظَرَ إلَی فَرْجِ امْرَأَۃٍ وَابْنَتَہَا۔ (دارقطنی ۹۲)
(١٦٤٨٩) حضرت عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس شخص کو رحمت کی نگاہ سے نہیں دیکھیں گے جس نے کسی عورت اور اس کی بیٹی کی شرمگاہ کودیکھا۔

16489

(۱۶۴۹۰) حَدَّثَنَا جَرِیرُ بْنُ عَبْدِ الْحَمِیدِ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ أَبِی ہَانِیئٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَنْ نَظَرَ إلَی فَرْجِ امْرَأَۃٍ لَمْ تَحِلَّ لَہُ أُمُّہَا وَلاَ ابْنَتُہَا۔ (بیہقی ۱۷۰)
(١٦٤٩٠) حضرت ابو ہانی سے روایت ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ اگر کسی شخص نے کسی عورت کی شرمگاہ کو دیکھا تو اس کے لیے اس کی ماں اور بیٹی حلال نہیں رہیں۔

16490

(۱۶۴۹۱) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ وَعَامِرٍ فِی رَجُلٍ وَقَعَ عَلَی ابْنَۃِ امْرَأَتِہِ قَالاَ : حرِّمَتَا عَلَیْہِ کِلاَہُمَا، وَقَالَ إبْرَاہِیمُ ، وَکَانُوا یَقُولُونَ إذَا اطَّلَعَ الرَّجُلُ عَلَی الْمَرْأَۃِ عَلَی مَا لاَ یَحِلُّ لَہُ ، أَوْ لَمَسَہَا لِشَہْوَۃٍ فَقَدْ حُرِّمَتَا عَلَیْہِ جَمِیعًا۔
(١٦٤٩١) حضرت ابراہیم اور حضرت عامر فرماتے ہیں کہ اگر کسی آدمی نے اپنی بیوی کی بیٹی سے جماع کیا تو وہ دونوں اس پر حرام ہوجائیں گی۔ حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ علماء کہا کرتے تھے کہ جب آدمی نے کسی عورت کے ایسے حصے کو دیکھا جسے دیکھنا حلال نہیں تھا یا اسے شہوت کے ساتھ چھوا تو وہ عورت اور اس کی ماں اور بیٹی اس پر حرام ہوجائیں گی۔

16491

(۱۶۴۹۲) حَدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ عَبْدِ الْکَرِیمِ ، عَنْ عَطَائٍ قَالَ : إذَا أَتَی الرَّجُلُ الْمَرْأَۃَ حَرَامًا حُرِّمَتْ عَلَیْہِ ابْنَتُہَا ، وَإِنْ أَتَی ابْنَتَہَا حُرِّمَتْ عَلَیْہِ أُمُّہَا۔
(١٦٤٩٢) حضرت عطاء فرماتے ہیں کہ اگر کسی آدمی نے کسی عورت سے زنا کیا تو اس کی بیٹی اور ماں اس پر حرام ہوجائیں گی۔

16492

(۱۶۴۹۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مسبحٍ قَالَ : سَأَلْتُ إبْرَاہِیمَ ، عَنْ رَجُلٍ فَجَرَ بِأَمَۃٍ ثم أَرَادَ أَنْ یَتَزَوَّجَ أُمَّہَا قَالَ : لاَ یَتَزَوَّجُہَا۔
(١٦٤٩٣) حضرت عبداللہ بن مسبح فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابراہیم سے اس مرد کے بارے میں سوال کیا کہ جس نے کسی عورت سے زنا کیا تو کیا وہ اس کی ماں سے شادی کرسکتا ہے ؟ انھوں نے فرمایا نہیں۔

16493

(۱۶۴۹۴) حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ ، عَنْ شُعْبَۃَ قَالَ : سَأَلْتُ الْحَکَمَ وَحَمَّادًا ، عَنْ رَجُلٍ زَنَی بِأُمِّ امْرَأَتِہِ ، قَالاَ : أَحَبُّ إِلَیْنَا أَنْ یُفَارِقَہَا۔
(١٦٤٩٤) حضرت شعبہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت حکم اور حضرت حماد سے اس آدمی کے بارے میں سوال کیا کہ جس نے اپنی بیوی کی ماں سے زنا کیا تو اب اس کے لیے کیا حکم ہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ ہمارے نزدیک ان کا جدا ہوجانا بہتر ہے۔

16494

(۱۶۴۹۵) حَدَّثَنَا حَفْص بن غِیَاثٍ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ أَبِی مَعْشَرٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالَ : إذَا غَمَزَ الرَّجُلُ الْجَارِیَۃَ بِشَہْوَۃٍ لَمْ یَتَزَوَّجْ أُمَّہَا وَلاَ ابْنَتَہَا۔
(١٦٤٩٥) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ اگر کسی شخص نے اپنی باندی کو شہوت سے چھوا تو وہ اس کی ماں اور بہن سے شادی نہیں کرسکتا۔

16495

(۱۶۴۹۶) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ الأَسْوَدِ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، وَعَطَائٍ قَالاَ : إذَا فَجَرَ الرَّجُلُ بِالْمَرْأَۃِ فَإِنَّہَا تَحِلُّ لَہُ وَلاَ یَحِلُّ لَہُ شَیْئٌ مِنْ بَنَاتِہَا۔
(١٦٤٩٦) حضرت مجاہد اور حضرت عطاء فرماتے ہیں کہ اگر کسی آدمی نے کسی عورت سے زنا کیا تو اس عورت سے شادی کرنا تو اس کے لیے جائز ہے لیکن وہ اس کی کسی بیٹی سے نکاح نہیں کرسکتا۔

16496

(۱۶۴۹۷) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ قَالَ : کَانَ جَابِرُ بْنُ زَیْدٍ وَالْحَسَنُ یَکْرَہَانِ أَنْ یَمَسَّ الرَّجُلُ امْرَأَتَہُ یَعْنِی فِی الرَّجُلِ یَقَعُ عَلَی أُمِّ امْرَأَتِہِ۔
(١٦٤٩٧) حضرت جابر بن زید اور حضرت حسن اس بات کو مکروہ قرار دیتے تھے کہ آدمی اس عورت کو چھوئے جس کی ماں سے اس نے صحبت کی ہو۔

16497

(۱۶۴۹۸) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِیلُ ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ یَزِیدَ الرِّشْکِ قَالَ : سَأَلْتُ سَعِیدَ بْنَ الْمُسَیَّبِ ، عَنْ رَجُلٍ یَفْجُرُ بِأُمِّ امْرَأَتِہِ ، فَقَالَ : أَمَّا الأُمُّ فَحَرَامٌ ، وَأَمَّا الْبِنْتُ فَحَلاَلٌ۔
(١٦٤٩٨) حضرت یزید رشک فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت سعید بن مسیب سے سوال کیا کہ اگر ایک آدمی نے اپنی ساس سے زنا کیا تو اس کا کیا حکم ہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ ماں حرام ہوجائے گی اور بیٹی حلال رہے گی۔

16498

(۱۶۴۹۹) حدَّثَنَا سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ ، عَنْ أَبِیہِ قَالَ : سُئِلَ عُمَرُ ، عَنْ جَمْعِ الأُمِّ وَابْنَتِہَا مِنْ مِلْکِ الْیَمِینِ ، فَقَالَ : لاَ أُحِبُّ أَنْ یخبرہما جَمِیعًا۔
(١٦٤٩٩) حضرت عمر (رض) سے سوال کیا گیا کہ اگر کسی شخص کی ملکیت میں ایک باندی اور اس کی بیٹی دونوں ہوں تو اس کے لیے کیا حکم ہے ؟ حضرت عمر (رض) نے فرمایا کہ میں اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ وہ ان دونوں سے جماع کرے۔

16499

(۱۶۵۰۰) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِِ ، عَنْ طَارِقٍ ، عَنْ قَیْسٍ بن أبی حازم قَالَ : قُلْتُ لاِبْنِ عَبَّاسٍ الرَّجُلُ یَقَعُ عَلَی الْجَارِیَۃِ وَابْنَتِہَا تَکُونَانِ عِنْدَہُ مَمْلُوکَتَیْنِ ، فَقَالَ : حَرَّمَتْہُمَا آیَۃٌ وَأَحَلَّتْہُمَا آیَۃٌ أُخْرَی وَلَمْ أَکُنْ لأَفْعَلَہُ۔
(١٦٥٠٠) حضرت قیس بن ابی حازم کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عباس (رض) سے سوال کیا کہ اگر کوئی شخص اپنی ملکیت میں موجود باندی اور اس کی بیٹی سے جماع کرے تو کیسا ہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ ان دونوں کو ایک آیت نے حرام اور دوسری نے حلال کیا ہے۔ البتہ میں ایسا ہرگز نہ کرتا۔

16500

(۱۶۵۰۱) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی بْنُ عَبْدِ الأَعْلَی ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِی الزِّنَادِ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ نِیَار الأَسْلَمِیِّ قَالَ : کَانَتْ عِنْدِی جَارِیَۃٌ کُنْت أتَّطِئُہَا وَکَانَتْ مَعَہَا ابْنَۃٌ لَہَا فَأَدْرَکَتِ ابْنَتُہَا فَأَرَدْت أَنْ أمسک عَنْہَا وأتطی ابْنَتَہَا فَقَلتُ : لاَ أَفْعَلُ ذَلِکَ حَتَّی أَسْأَلَ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ ، فَسَأَلَتْہُ عَنْ ذَلِکَ ، فَقَالَ : أَمَّا أَنَا فَلَمْ أَکُنْ لنطلع مِنْہُما مُطَّلَعًا وَاحِدًا۔
(١٦٥٠١) حضرت عبداللہ بن نیار اسلمی کہتے ہیں کہ میرے پاس ایک باندی تھی، اس کے ساتھ اس کی ایک بیٹی بھی تھی۔ جب اس کی بیٹی جوان ہوگئی تو میں نے سوچا کہ اس باندی کو چھوڑ کر اس کی بیٹی سے جماع کروں۔ میں نے دل میں سوچا کہ حضرت عثمان بن عفان (رض) سے پوچھے بغیر ایسا ہرگز نہ کروں گا۔ چنانچہ میں نے ان سے سوال کیا تو انھوں نے فرمایا کہ میں تو دونوں کے ساتھ ہرگز صحبت کا معاملہ نہ کروں۔

16501

(۱۶۵۰۲) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنِ ابْنِ أَبِی مُلَیْکَۃَ أَنَّ مُعَاذَ بْنَ عُبَیْدِ اللہِ بْنِ مَعْمَرٍ سَأَلَ عَائِشَۃَ ، فَقَالَ : إنَّ عِنْدِی جَارِیَۃً أَصِیب مِنْہَا وَلَہَا ابْنَۃٌ قَدْ أَدْرَکَتْ فأصیب مِنْہَا ؟ فَنَہَتْہُ ، فَقَالَ : لاَ حَتَّی تَقُولِی ہِیَ حَرَامٌ ، فَقَالَتْ : لاَ یَفْعَلُہُ أَحَدٌ مِنْ أَہْلِی وَلاَ مِمَّنْ أَطَاعَنِی وَسَأَلْت ابْنَ عُمَرَ فَنَہَانِی عَنْہُ۔
(١٦٥٠٢) حضرت معاذ بن عبید اللہ بن معمر نے حضرت عائشہ (رض) سے سوال کیا کہ میرے پاس ایک باندی ہے میں نے اس سے صحبت کررکھی ہے۔ اس کی ایک بیٹی ہے جو جوان ہوگئی ہے کیا میں اس سے بھی جماع کرسکتا ہوں ؟ حضرت عائشہ نے اس سے منع فرمایا۔ میں نے ان سے کہا کہ کیا وہ مجھ پر حرام ہے۔ اگر آپ حرام ہونے کا کہیں تو میں ایسا نہیں کروں گا۔ حضرت عائشہ (رض) نے فرمایا کہ میرے اہل اور میرے اطاعت کرنے والوں میں سے کسی نے ایسا نہیں کیا۔ اور میں نے حضرت ابن عمر (رض) سے سوال کیا تو انھوں نے بھی اس سے منع فرمایا۔

16502

(۱۶۵۰۳) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ مُجَالِدٍ ، عَنْ عَامِرٍ قَالَ : کَانَتْ لِرَجُلٍ مِنْ ہَمْدَانَ وَلِیدَۃٌ وَابْنَتُہَا ، فَکَانَ یَقَعُ عَلَیْہِمَا فَأُخْبِرَ بِذَلِکَ عَلِیٌّ فَسَأَلَہُ ، فَقَالَ : نَعَمْ ، فَقَالَ لَہُ عَلِیٌّ : إذَا أَحَلَّتْ لک آیَۃٌ وَحَرَّمَتْ عَلَیْک أُخْرَی فَإِنَّ أَمْلَکَہُمَا آیَۃُ الْحَرَامِ۔
(١٦٥٠٣) حضرت عامر فرماتے ہیں کہ ہمدان کے ایک آدمی کے پاس ایک باندی اور اس کی بیٹی تھیں۔ وہ ان دونوں سے جماع کرتا تھا، حضرت علی (رض) کو اس کی اطلاع دی گئی۔ انھوں نے اس آدمی سے اس بارے میں سوال کیا تو اس نے ایسا کرنے کا اقرار کیا۔ حضرت علی (رض) نے اس سے فرمایا کہ ایک آیت نے تجھ پر حلال کیا ہے تو دوسری نے حرام کیا ہے۔ ان میں سے زیادہ غالب حرام کرنے والی آیت ہے۔

16503

(۱۶۵۰۴) حَدَّثَنَا جَرِیرُ بْنُ عَبْدِ الْحَمِیدِ ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِیزِ بْنِ رُفَیْعٍ ، عَنِ ابْنِ مُنَبِّہٍ قَالَ : فِی التَّوْرَاۃِ الَّتِی أَنْزَلَ اللَّہُ عَلَی مُوسَی إِنَّہُ لاَ یَکْشِفُ رَجُلٌ فَرْجَ امْرَأَۃٍ وَابْنَتِہَا إلاَّ مَلْعُونٌ ، مَا فَصَّلَ لَنَا حُرَّۃً وَلاَ مَمْلُوکَۃً۔
(١٦٥٠٤) حضرت ابن منبہ فرماتے ہیں کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر نازل کردہ توراۃ میں تھا : ” کسی عورت اور اس کی بیٹی کی شرمگاہ کو ظاہر کرنے والا ملعون ہے “۔ اس میں یہ تفصیل نہ تھی کہ آزادعورت ہو یا باندی۔

16504

(۱۶۵۰۵) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنِ الْجُرَیْرِیِّ ، عَنْ أَبِی نَضْرَۃَ قَالَ : جَاء َ رَجُلٌ إلَی عُمَرَ قَالَ : إنَّ لِی وَلِیدَۃً وَابْنَتَہَا وَإِنَّہُمَا قَدْ أَعْجَبَتانِی أَفَأَطَؤُہُمَا ؟ قَالَ : آیَۃٌ أَحَلَّتْ وَآیَۃٌ حَرَّمَتْ ، أَمَّا أَنَا فَلَمْ أَکُنْ أَقْرَبُ ہَذَا۔
(١٦٥٠٥) حضرت ابو نضرہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ ایک آدمی حضرت عمر (رض) کے پاس آیا اور اس نے عرض کیا کہ میرے پاس ایک باندی اور اس کی بیٹی ہے اور میں چاہتا ہوں کہ ان دونوں سے جماع کروں، کیا ایسا کرنا درست ہے ؟ حضرت عمر (رض) نے فرمایا کہ ایک آیت نے اسے حلال کیا اور ایک نے حرام۔ البتہ میں تو اس عمل کے قریب بھی نہ جاتا۔

16505

(۱۶۵۰۶) حَدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنْ سَعِیدٍ قَالَ : لاَ یَجْمَعُ الرَّجُلُ بَیْنَ الْمَرْأَۃِ وَابْنَتِہَا وَلاَ بَیْنَ الْمَرْأَۃِ وَأُخْتِہَا۔
(١٦٥٠٦) حضرت سعید فرماتے ہیں کہ کسی آدمی کے لیے عورت اور اس کی بیٹی یا اس کی بہن کو جمع کرنا جائز نہیں۔

16506

(۱۶۵۰۷) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ مُبَارَکٍ ، عَنْ مُوسَی بْنِ أَیُّوبَ ، عَنْ عَمِّہِ ، عَنْ عَلِیٍّ قَالَ : سَأَلْتُہ ، عَنْ رَجُلٍ لَہُ أَمَتَانِ أُخْتَانِ وَطِئَ إحْدَاہُمَا ثُمَّ أَرَادَ أَنْ یَطَأَ الأُخْرَی قَالَ : لاَ حَتَّی یُخْرِجَہَا مِنْ مِلْکِہِ ، قَالَ : قُلْتُ : فَإِنَّہ زَوَّجَہَا عَبْدَہُ ؟ قَالَ : لاَ حَتَّی یُخْرِجَہَا من مِلْکِہِ۔
(١٦٥٠٧) حضرت موسیٰ بن ایوب کے چچا کہتے ہیں کہ میں نے حضرت علی (رض) سے سوال کیا کہ اگر کسی آدمی کے پاس دو مملوک بہنیں ہوں تو کیا وہ ان دونوں سے جماع کرسکتا ہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ نہیں ایسا کرنا درست نہیں۔ ا لبتہ ایک کو اپنی ملکیت سے نکال کر ایسا کرسکتا ہے۔ میں نے سوال کیا کہ اگر ان میں سے ایک کی اپنے غلام سے شادی کرا دے تو پھر کرسکتا ہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ نہیں جب تک ایک کو اپنی ملکیت سے نکال نہ دے۔

16507

(۱۶۵۰۸) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنِ إدْرِیسَ ، وَکِیعٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ أَبِی عَوْنٍ ، عَنْ أَبِی صَالِحٍ الْحَنَفِیِّ أَنَّ ابْنَ الْکَوَّائِ سَأَلَ عَلِیًّا ، عَنِ الْجَمْعِ بَیْنَ الأُخْتَیْنِ ، فَقَالَ : حرَّمَتْہُمَا آیَۃٌ وَأَحَلَّتْہُمَا أُخْرَی وَلَسْت أَفْعَلُ أَنَا وَلاَ أَہْلِی۔
(١٦٥٠٨) حضرت ابن کو اء نے حضرت علی (رض) سے سوال کیا کہ کیا آدمی دو بہنوں کو جمع کرسکتا ہے۔ ؟ انھوں نے فرمایا کہ ایک آیت نے اسے حلال اور دوسری نے حرام کیا ہے۔ البتہ میں اور میرے اہل ایسا نہ کریں گے۔

16508

(۱۶۵۰۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ قَالَ : أَغْضَبُوا ابْنَ مَسْعُودٍ فِی الأُخْتَیْنِ الْمَمْلُوکَتَیْنِ ، فَغَضِبَ وَقَالَ : جَمَلَ أَحَدُکُمْ مِمَّا مَلَکَتْ یَمِینُہُ۔
(١٦٥٠٩) حضرت ابن سیرین فرماتے ہیں کہ حضرت ابن مسعود (رض) کو اس بات پر بہت غصہ آتا کہ کوئی شخص دو بہنوں کو جمع کرے۔ آپ فرماتے کہ تم لوگوں کو اپنے مملوکوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا چاہیے۔

16509

(۱۶۵۱۰) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ بُرْدٍ ، عَنْ مَکْحُولٍ فِی رَجُلٍ تَکُونُ لَہُ الأَمَتَانِ الأُخْتَانِ فَیَطَأُ إحْدَاہُمَا قَالَ : لاَ یَطَأُ الأُخْرَی حَتَّی یُخْرِجَہَا من مِلْکِہِ۔
(١٦٥١٠) حضرت مکحول سے سوال کیا گیا کہ اگر کسی شخص کی ملکیت میں دو بہنیں ہوں، ایک سے جماع کیا ہو تو کیا دوسری سے جماع کرسکتا ہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ نہیں جب تک صحبت شدہ کو اپنی ملکیت سے نہ نکال دے اس وقت تک جائز نہیں۔

16510

(۱۶۵۱۱) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ مُطَرِّفٍ ، عَنْ أَبِی الْجَہْمِ ، عَنْ أَبِی الأَخْضَرِ ، عَنْ عَمَّارٍ قَالَ : مَا حَرَّمَ اللَّہُ مِنَ الْحَرَائِرِ شَیْئًا إلاَّ وَقَدْ حَرَّمَہُ مِنَ الإِمَائِ إلاَّ أَنَّ الرَّجُلَ قَدْ یَجْمَعُ مَا شَاء َ مِنَ الإِمَائِ۔
(١٦٥١١) حضرت عمارفرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جو کچھ آزاد عورتوں میں حرام کیا ہے وہ باندیوں میں بھی حرام کیا ہے۔ البتہ آدمی باندیوں کو جتنا چاہے رکھ سکتا ہے۔ (ان کی تعداد مقرر نہیں)

16511

(۱۶۵۱۲) حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ ، عَنْ مَالِکِ بْنِ أَنَسَ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ قَبِیصَۃَ بْنِ ذُؤَیْبٍ قَالَ : سُئِلَ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ ، عَنِ الأُخْتَیْنِ من مِلْکِ الْیَمِینِ یَجْمَعُ بَیْنَہُمَا ، فَقَالَ : أَحَلَّتْہُمَا آیَۃٌ مِنْ کِتَابِ اللہِ وَحَرَّمَتْہَا آیَۃٌ ، وَأَمَّا أَنَا فَمَا أُحِبُّ أَنْ أَفْعَلَ ذَلِکَ۔
(١٦٥١٢) حضرت عثمان بن عفان (رض) سے سوال کیا گیا کہ کیا دو مملوک بہنوں سے جماع کیا جاسکتا ہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ کتاب اللہ کی ایک آیت نے اسے حلال اور دوسری نے حرام کیا ہے۔ البتہ میں تو ایسا ہرگز نہیں کروں گا۔

16512

(۱۶۵۱۳) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ مَیْمُونٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّہُ سُئِلَ عَنْ رَجُلٍ لَہُ أَمَتَانِ أُخْتَانِ وَقَعَ عَلَی إحْدَاہُمَا أَیَقَعُ عَلَی الأُخْرَی؟ قَالَ: فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ: لاَ یَقَعُ عَلَی الأُخْرَی مَا دَامَتِ الَّتِی وَقَعَ عَلَیْہَا فِی مِلْکِہِ۔
(١٦٥١٣) حضرت ابن عمر (رض) سے سوال کیا گیا کہ کیا دو مملوک بہنوں سے جماع کیا جاسکتا ہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ جب تک جماع شدہ باندی اس کی ملک میں ہے اس کی بہن سے جماع نہیں کرسکتا۔

16513

(۱۶۵۱۴) حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرٍ بْنُ عَیَّاشٍ ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِیزِ بْنِ رُفَیْعٍ قَالَ : سَأَلْتُ ابْنَ الْحَنَفِیَّۃِ ، عَنْ رَجُلٍ عِنْدَہُ أَمَتَانِ أختان أَیَطَؤُہُمَا ؟ فَقَالَ : أَحَلَّتْہُمَا آیَۃٌ وَحَرَّمَتْہُمَا آیَۃٌ ، ثُمَّ أَتَیْتُ ابْنَ الْمُسَیَّبِ ، فَقَالَ مِثْلَ قَوْلِ مُحَمَّدٍ ، ثُمَّ سَأَلْت ابْنَ مُنَبِّہٍ ، فَقَالَ : أَشْہَدُ أَنَّہُ فِیمَا أَنْزَلَ اللَّہُ عَلَی مُوسَی أَنَّہُ مَلْعُونٌ مَنْ جَمَعَ بَیْنَ الأُخْتَیْنِ قَالَ : فَمَا فَصَّلَ لَنَا حُرَّتَیْنِ وَلاَ مَمْلُوکَتَیْنِ قَالَ : فَرَجَعْت إلَی ابْنِ الْمُسَیَّبِ فَأَخْبَرْتہ ، فَقَالَ : اللَّہُ أَکْبَرُ۔
(١٦٥١٤) حضرت عبد العزیز بن رفیع کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن حنفیہ سے سوال کیا کہ اگر کسی آدمی کی ملکیت میں دو بہنیں ہوں تو کیا وہ ان دونوں سے جماع کرسکتا ہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ ایک آیت نے انھیں حلال اور دوسری نے حرام قرار دیا ہے۔ پھر میں حضرت سعید بن مسیب کے پاس آیا تو انھوں نے بھی محمد بن حنفیہ والی بات کہی۔ پھر میں نے حضرت ابن منبہ سے سوال کیا تو انھوں نے فرمایا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر نازل کردہ شریعت کے مطابق دو بہنوں کو نکاح میں جمع کرنے والا ملعون ہے۔ اس میں تفصیل نہیں تھی کہ دونوں آزادہوں یاباندیاں۔ عبد العزیز کہتے ہیں کہ میں نے جاکر ابن منبہ کی بات سعید بن مسیب کو بتائی تو انھوں نے اللہ کی تکبیر بیان کی۔

16514

(۱۶۵۱۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ ابْنِ مُبَارَکٍ ، عَنِ ابْنِ ثَوْبَانَ ، عَنْ عَائِشَۃَ أَنَّہَا کَرِہَتْہُ۔
(١٦٥١٥) حضرت عائشہ (رض) نے اس عمل کو مکروہ قراردیا ہے۔

16515

(۱۶۵۱۶) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی، عَنْ یُونُسَ، عَنِ الْحَسَنِ؛ فِی رَجُلٍ لَہُ أَمَتَانِ أُخْتَانِ فَغَشِیَ إحْدَاہُمَا ثُمَّ أَمْسَکَ عَنْہَا ہَلْ لَہُ أَنْ یَغْشَی الأُخْرَی ، قَالَ : کَانَ یُعْجِبُہُ أَنْ لاَ یَغْشَاہَا حَتَّی یُخْرِجَ عَنْہُ ہَذِہِ الَّتِی غَشِیَ مِنْ مِلْکِہِ۔
(١٦٥١٦) حضرت حسن سے سوال کیا گیا کہ اگر کسی شخص کی ملکیت میں دو بہنیں ہوں، ایک سے جماع کیا ہو تو کیا دوسری سے جماع کرسکتا ہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ نہیں جب تک صحبت شدہ کو اپنی ملکیت سے نہ نکال دے اس وقت تک جائز نہیں۔

16516

(۱۶۵۱۷) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، عَنْ شُعْبَۃَ، عَنِ الْحَکَمِ وَحَمَّادٍ قَالاَ: إذَا کَانَتْ عِنْدَ الرَّجُلِ أُخْتَانِ فَلاَ یَقْرَبَنَّ وَاحِدَۃً مِنْہُمَا۔
(١٦٥١٧) حضرت حکم اور حضرت حماد فرماتے ہیں کہ اگر کسی آدمی کی ملکیت میں دو بہنیں ہوں تو دونوں میں سے ایک کے قریب نہ جائے۔

16517

(۱۶۵۱۸) حَدَّثَنَا أَسْبَاطُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، وَابْنِ سِیرِینَ قَالاَ : یَحْرُمُ مِنْ جَمْعِ الإِمَائِ مَا یَحْرُمُ مِنْ جَمْعِ الْحَرَائِرِ إلاَّ الْعَدَدَ۔
(١٦٥١٨) حضرت شعبی اور حضرت ابن سیرین فرماتے ہیں کہ سوائے تعداد کے باندیوں اور آزاد عورتوں سے صحبت کے احکامات ایک جیسے ہیں۔

16518

(۱۶۵۱۹) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُتْبَۃَ قَالَ : سَأَلَ رَجُلٌ عُثْمَانَ ، عَنِ الأُخْتَیْنِ یَجْمَعُ بَیْنَہُمَا ، فَقَالَ : أَحَلَّتْہُمَا آیَۃٌ وَحَرَّمَتْہُمَا آیَۃٌ وَلاَ آمُرُک وَلاَ أَنْہَاک فَلَقِیَ عَلِیًّا بِالْبَابِ ، فَقَالَ : عَمَّ سَأَلْتَہُ ؟فَأَخْبَرَہُ ، فَقَالَ : لَکِنِّی أَنْہَاک وَلَوْ کَانَ لِی عَلَیْک سَبِیلٌ ثُمَّ فَعَلْت ذَلِکَ لأَوْجَعْتُک۔
(١٦٥١٩) حضرت عثمان (رض) سے سوال کیا گیا کہ اگر کسی شخص کی ملکیت میں دو بہنیں ہوں، ایک سے جماع کیا ہو تو کیا دوسری سے جماع کرسکتا ہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ ایک آیت نے انھیں حلال اور دوسری نے حرام قرار دیا ہے۔ البتہ میں نہ اس کا حکم دیتا ہوں اور نہ اس سے منع کرتا ہوں۔ پھر وہ سوال کرنے والا دروازہ پر حضرت علی (رض) سے ملا اور ان سے اسی بارے میں سوال کیا تو انھوں نے فرمایا کہ میں تمہیں اس سے منع کرتا ہوں اور اگر مجھے تم پر قدرت ہوئی اور تم نے ایسا کیا تو میں تمہیں سزا دوں گا۔

16519

(۱۶۵۲۰) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُمَرَ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ أَنَّ حَیًّا مِنْ أَحْیَائِ الْعَرَبِ سَأَلُوا مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ الأُخْتَیْنِ مِمَّا مَلَکَتِ الْیَمِینُ ، یَکُونَانِ عِنْدَ الرَّجُلِ فَیَطَؤُہُمَا قَالَ : لَیْسَ بِذَلِکَ بَأْسٌ ، فَسَمِعَ بِذَلِکَ النُّعْمَانُ بْنُ بَشِیرٍ ، فَقَالَ أَفْتَیْت بِکَذَا وَکَذَا قَالَ : نَعَمْ ، قَالَ : أَرَأَیْت لَوْ کَانَتْ عِنْدَ رَجُلٍ أُخْتُہُ مَمْلُوکَۃً کَانَ یَجُوزُ لَہُ أَنْ یَطَأَہَُا ؟ فَقَالَ : أَمَا وَاللَّہِ إنَّمَا رَدَدْتنِی أَدْرِکْ فَقُلْ لَہُمَ اجْتَنِبُوا ذَلِکَ ، فَإِنَّہُ لاَ یَنْبَغِی لَہُمْ ، قَالَ : قُلْتُ : إنَّمَا ہِیَ الرَّحِمُ مِنَ الْعَتَاقَۃِ وَغَیْرِہَا۔
(١٦٥٢٠) حضرت قاسم بن محمد فرماتے ہیں کہ عرب کے ایک قبیلے نے حضرت معاویہ (رض) سے سوال کیا کہ کیا آدمی دومملوک بہنوں سے جماع کرسکتا ہے ؟ انھوں نے اس کے جواز کا فتوی دیا۔ یہ بات حضرت نعمان بن بشیر کو پہنچی، انھوں نے حضرت معاویہ (رض) سے اس بارے میں پوچھاتو انھوں نے اس فتویٰ کا اقرار کیا۔ اس پر حضرت نعمان بن بشیرنے فرمایا کہ آپ یہ بتائیں کہ اگر وہ باندی کسی ایسے شخص کے پاس ہوتی جس کی بہن باندی ہو تو کیا اس کے لیے اس سے وطی کرنا جائز ہے ؟ یہ سن کر حضرت معاویہ (رض) نے فرمایا کہ تم نے میری آنکھیں کھول دیں۔ تم ان لوگوں کے پاس جاؤ اور انھیں ایسا کرنے سے منع کرو۔ ان کے لیے ایسا کرنا مناسب نہیں ہے۔ حضرت قاسم بن محمد کہتے ہیں کہ میں نے کہا کہ یہ آزادی وغیرہ کا رحمی رشتہ ہے۔

16520

(۱۶۵۲۱) حدَّثَنَا إِسْمَاعِیلُ ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنِ ابْنِ أَبِی عَرُوبَۃَ ، عَنْ قَتَادَۃَ فِی الرَّجُلِ یَتَزَوَّجُ الْمَرْأَۃَ ثُمَّ یُطَلِّقُہَا قَبْلَ أَنْ یَدْخُلَ بِہَا ، أَیَتَزَوَّجُ أُمَّہَا ؟ قَالَ : قَالَ عَلِیٌّ : ہِیَ بِمَنْزِلَۃِ الرَّبِیبَۃِ۔
(١٦٥٢١) حضرت قتادہ سے سوال کیا گیا کہ اگر آدمی نے منکوحہ کو دخول سے پہلے طلاق دے دی تو کیا اس کی ماں سے نکاح کرسکتا ہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ حضرت علی (رض) فرماتے تھے کہ یہ ربیبہ کے درجہ میں ہے۔

16521

(۱۶۵۲۲) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ خِلاَسٍ ، عَنْ عَلِیٍّ مِثْلَہُ۔
(١٦٥٢٢) ایک اور سند سے یونہی منقول ہے۔

16522

(۱۶۵۲۳) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنِ ابْنِ أَبِی عَرُوبَۃَ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ، عَنْ زَیْدِ بْنِ ثَابِتٍ أَنَّہُ کَانَ لاَ یَرَی بِہِ بَأْسًا إذَا طَلَّقَہَا وَیَکْرَہُہَا إذَا مَاتَتْ عِنْدَہُ۔
(١٦٥٢٣) حضرت زید بن ثابت عورت کو قبل ازدخول طلاق دینے کی صورت میں عورت کی ماں سے نکاح کو بالکل جائز سمجھتے تھے۔ اور قبل از دخول عورت کے انتقال کی صورت میں اسے مکروہ بتاتے تھے۔

16523

(۱۶۵۲۴) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنِ أَبِی بَکْرٍ بْنِ حَفْصِ بْنِ عُمَرَ بْنِ سَعْدٍ أَنَّ مُسْلِمَ بْنَ عُوَیْمِرِ بْنِ الأَجْدَعِ مِنْ بَنِی بَکْرِ بْنِ کِنَانَۃَ أَخْبَرَہُ أَنَّ أَبَاہُ أَنْکَحَہُ امْرَأَۃً بِالطَّائِفِ ، قَالَ : فَلَمْ أُجَامِعْہَا حَتَّی تُوُفِّیَ عَمِی ، عَنْ أُمِّہَا ، وَأُمُّہَا ذَاتُ مَالٍ کَثِیرٍ ، فَقَالَ لِی أبی ہَلْ لَکَ فِی أُمِّہَا ؟ فَقُلْتُ : وَدِدْت وَکَیْفَ وَقَدْ نَکَحَتِ ابْنَتَہَا، قَالَ : فَسَأَلْت ابْنَ عَبَّاسٍ ، فَقَالَ انْکِحْہَا ، وَسَأَلْت ابْنَ عُمَرَ ، فَقَالَ : لاَ تَنْکِحْہَا : قَالَ : فَکَتَبَ أَبِی عُوَیْمِرٍ فِی ذَلِکَ إلَی مُعَاوِیَۃَ وَأَخْبَرَہُ فِی کِتَابِہِ بِمَا قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ وَبِمَا قَالَ ابْنُ عُمَرَ فَکَتَبَ إلَیْہِ مُعَاوِیَۃُ : لاَ أُحِلُّ مَا حَرَّمَ اللَّہُ وَلاَ أُحَرِّمُ مَا أَحَلَّ اللَّہُ وَأَنْتَ وَذَاکَ وَالنِّسَائُ کَثِیرٌ قَالَ : فَلَمْ یَنْہَنِی وَلَمْ یَأْذَنْ وَانْصَرَفَ أَبِی عَنْہَا فَلَمْ نُنْکِحْہَا۔
(١٦٥٢٤) بنو بکر بن کنانہ کے حضرت مسلم بن عویمر فرماتے ہیں کہ میرے والد نے طائف میں ایک عورت سے میری شادی کی۔ ابھی میں نے اس سے جماع نہ کیا تھا کہ اس کی ماں کے خاوند کا انتقال ہوگیا۔ اس کی ماں ایک مالدار عورت تھیں۔ میرے والد نے مجھ سے کہا کہ اگر تم اس کی ماں سے شادی کرلو تو بہت رہے۔ میں نے کہا کہ وہ تو ٹھیک ہے لیکن میں نے اس کی بیٹی سے نکاح کرلیا ہے۔ پھر اس بارے میں نے حضرت ابن عباس (رض) سے سوال کیا تو انھوں نے فرمایا کہ تم اس سے نکاح کرلو۔ پھر حضرت ابن عمر (رض) سے سوال کیا تو انھوں نے فرمایا کہ نکاح نہ کرو۔ پھر ابو عویمر نے حضرت معاویہ (رض) کے نام ایک خط لکھا جس میں حضرت ابن عباس اور حضرت ابن عمر کی رائے درج کی اور اس بارے میں حضرت معاویہ کی رائے معلوم کی۔ حضرت معاویہ نے انھیں خط میں لکھا کہ جو چیز اللہ نے حلال کی ہے میں اسے حرام نہیں کرتا اور جو حرام کی ہے میں اسے حلال نہیں کرتا۔ آپ کے پاس اور بھی بہت سی عورتیں ہیں۔ پھر انھوں نے نہ مجھے اس سے منع کیا اور نہ اجازت دی۔ پھر میرے والد نے اس خیال کو چھوڑ دیا اور ہم نے اس سے نکاح نہ کیا۔

16524

(۱۶۵۲۵) حَدَّثَنَا وَکِیع بن الجراح ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ أَبِی فَرْوَۃَ ، عَنْ أَبِی عَمْرٍو الشَّیْبَانِیِّ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مَسْعُودٍ أَنَّہُ أَفْتَی فِی رَجُلٍ تَزَوَّجَ امْرَأَۃً فَطَلَّقَہَا قَبْلَ أَنْ یَدْخُلَ بِہَا ، أَوْ مَاتَتْ عِنْدَہُ ، فَقَالَ : لاَ بَأْسَ أَنْ یَتَزَوَّجَ أُمَّہَا ثُمَّ أَتَی الْمَدِینَۃَ فَرَجَعَ فَأَتَاہُمْ فَنَہَاہُمْ وَقَدْ وَلَدَتْ أَوْلاَدًا۔
(١٦٥٢٥) حضرت ابو عمرو شیبانی فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) نے فتویٰ دیا کہ اگر کسی آدمی نے دخول سے پہلے اپنی بیوی کو طلاق دی یامر گیا تو وہ اس عورت کی ماں سے شادی کرسکتا ہے۔ پھر جب وہ مدینہ آئے تو انھوں نے اپنے فتویٰ سے رجوع کرلیا اور لوگوں کو ایسا کرنے سے منع کیا۔ حالانکہ عورتوں کی شادی کے بعد بچے بھی ہوچکے تھے۔

16525

(۱۶۵۲۶) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ ابن جریج قَالَ : أخبرنی دَاوُدَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنْ مَسْرُوقٍ فِی {أُمَّہَاتِ نِسَائِکُمْ} قَالَ : مَا أَرْسَلَ اللَّہُ فَأَرْسِلُوا ، وَمَا بَیَّنَ فَاتَّبِعُوا۔
(١٦٥٢٦) حضرت مسروق قرآن مجید کی آیت { أُمَّہَاتِ نِسَائِکُمْ } کے بارے میں فرماتے ہیں کہ جس چیز کو اللہ نے مبہم رکھا ہے اسے مبہم رہنے دو اور جسے وضاحت سے بیان کیا ہے اس کی اتباع کرو۔

16526

(۱۶۵۲۷) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ قَالَ : أَخْبَرَنِی عِکْرِمَۃُ ، عَنْ مُجَاہِدٍ أَنَّہُ قَالَ فِی {وَأُمَّہَاتُ نِسَائِکُمْ وَرَبَائِبُکُمَ اللاَّتِی فِی حُجُورِکُمْ} : أُرِیدَ بِہِمَا جَمْعُہُمَا۔
(١٦٥٢٧) حضرت مجاہد قرآن مجید کی آیت { وَأُمَّہَاتُ نِسَائِکُمْ وَرَبَائِبُکُمَ اللاَّتِی فِی حُجُورِکُمْ } کے بارے میں فرماتے ہیں کہ یہاں دخول مراد ہے۔

16527

(۱۶۵۲۸) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ قَالَ : قُلْتُ لِعَطَائٍ : الرَّجُلُ یَتَزَوَّجُ الْمَرْأَۃَ ثُمَّ لاَ یَرَاہَا وَلاَ یُجَامِعُہَا حَتَّی یُطَلِّقَہَا أَیَتَزَوَّجُ أُمَّہَا ؟ قَالَ : لاَ ہِیَ مُرْسَلَۃٌ۔
(١٦٥٢٨) حضرت ابن جریج فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عطاء سے سوال کیا کہ اگر کسی آدمی نے عورت سے شادی کی، پھر اسے دیکھے اور جماع کئے بغیر اسے طلاق دے دی تو کیا وہ اس کی ماں سے شادی کرسکتا ہے ؟ انھوں نے فرمایا نہیں۔

16528

(۱۶۵۲۹) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ بُرْدٍ ، عَنْ مَکْحُولٍ أَنَّہُ کَانَ یَکْرَہُ إذَا مَلَکَ الرَّجُلُ عُقْدَۃَ امْرَأَۃٍ أَنْ یَتَزَوَّجَہَا۔
(١٦٥٢٩) حضرت مکحول اس بات کو مکروہ خیال فرماتے تھے کہ آدمی کسی عورت سے نکاح کرنے کے بعد اس کی ماں سے شادی کرے۔

16529

(۱۶۵۳۰) حَدَّثَنَا عَفَّانَ قَالَ : حدَّثَنَا ہَمَّامٌ ، عَنْ قَتَادَۃَ قَالَ : أَخْبَرَنِی عَاصِمُ بْنُ سَعِیدٍ الْہُذَلِیُّ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ أَنَّ زَیْدَ بْنَ ثَابِتٍ کَانَ یَکْرَہُ أَنْ یَتَزَوَّجَ بِنْتَ امْرَأَۃٍ مَاتَتْ أُمُّہَا عِنْدَہُ قَبْلَ أَنْ یَدْخُلَ بِہَا۔
(١٦٥٣٠) حضرت سعید بن مسیب فرماتے ہیں کہ حضرت زید بن ثابت (رض) اس بات کو ناپسند خیال فرماتے تھے کہ آدمی کسی ایسی عورت کی ماں سے شادی کرے جس کا دخول سے پہلے انتقال ہوجائے۔

16530

(۱۶۵۳۱) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ قَالَ : قُلْتُ لاِبْنِ أَبِی نَجِیحٍ : الرَّجُلُ یَتَزَوَّجُ الْمَرْأَۃَ ثُمَّ یُطَلِّقُہَا قَبْلَ أَنْ یَدْخُلَ بِہَا أَیَتَزَوَّجُ أُمَّہَا ؟ فَقَالَ : سَمِعْتُ عِکْرِمَۃَ یَنْہَی عَنْہَا وَعَطَائً۔
(١٦٥٣١) حضرت ابن علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابو نجیح سے سوال کیا کہ اگر آدمی کسی عورت سے دخول کئے بغیر اسے طلاق دے دے تو کیا اس کی ماں سے شادی کرسکتا ہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ میں نے حضرت عکرمہ اور حضرت عطاء کو اس سے منع کرتے ہوئے سنا ہے۔

16531

(۱۶۵۳۲) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ الْحُصَیْنِ فِی {أُمَّہَاتِ نِسَائِکُمْ} قَالَ : ہِیَ مُبْہَمَۃٌ۔
(١٦٥٣٢) حضرت عمران بن حصین (رض) قرآن مجید کی آیت { أُمَّہَاتِ نِسَائِکُمْ } کے بارے میں فرماتے ہیں کہ یہ مبہم ہے۔

16532

(۱۶۵۳۳) حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ ، عَنْ زمعۃ عن ابْنِ طَاوُوسٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، أَنَّہُ کَرِہَہَا ، وَقَالَ ہِیَ مُبْہَمَۃٌ۔
(١٦٥٣٣) حضرت طاوس نے بھی اس آیت کو مبہم قراردیا ہے۔

16533

(۱۶۵۳۴) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : ہِیَ مُبْہَمَۃٌ۔
(١٦٥٣٤) حضرت ابن عباس (رض) نے بھی اس آیت کو مبہم قراردیا ہے۔

16534

(۱۶۵۳۵) حدَّثَنَا إِسْمَاعِیلُ ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنْ نَافِعٍ قَالَ : کَانَ ابْنُ عُمَرَ یَرَی عَبْدَہُ یَتَسَرَّی فِی مَالِہِ فَلاَ یَعِیبُ ذَلِکَ عَلَیْہِ۔
(١٦٥٣٥) حضرت ابن عمر (رض) اپنے غلام کو اس کے مال میں تصرف کرنے دیتے تھے اور اسے برا نہیں سمجھتے تھے۔

16535

(۱۶۵۳۶) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ أَیُّوبَ قَالَ : کَتَبَ إلَیَّ نَافِعٌ إِنَّ الْعَبْدَ یَتَسَرَّی فِی مَالِہِ وَلاَ یَتَسَرَّی فِی مَالِ سَیِّدِہِ۔
(١٦٥٣٦) حضرت ایوب فرماتے ہیں کہ غلام اپنے مال میں تصرف کرسکتا ہے لیکن اپنے مالک کے مال میں نہیں۔

16536

(۱۶۵۳۷) حدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ قَالَ : کَانَ لاَ یَرَی بَأْسًا أَنْ یَتَسَرَّی الْعَبْدُ بِإِذْنِ سَیِّدِہِ۔
(١٦٥٣٧) حضرت حسن اس بات میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے کہ غلام اپنے مال میں اپنے آقا کی اجازت سے تصرف کرے۔

16537

(۱۶۵۳۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، عَنْ سُفْیَانَ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إبْرَاہِیمَ، عَنْ عُمَرَ بْنِ عَبْدِالْعَزِیزِ قَالَ: لاَ بَأْسَ أَنْ یَتَسَرَّی الْعَبْدُ۔
(١٦٥٣٨) حضرت عمر بن عبد العزیز فرماتے ہیں کہ اس بات میں کوئی حرج نہیں کہ غلام اپنے مال میں تصرف کرے۔

16538

(۱۶۵۳۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ حَسَنٍ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، أَنَّہُ قَالَ : لاَ بَأْسَ بِہِ۔
(١٦٥٣٩) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ اس بات میں کوئی حرج نہیں کہ غلام اپنے مال میں تصرف کرے۔

16539

(۱۶۵۴۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ قَیْسِ بْنِ مُسْلِمٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ قَالَ : لاَ بَأْسَ بِہِ۔
(١٦٥٤٠) حضرت شعبی فرماتے ہیں کہ اس بات میں کوئی حرج نہیں کہ غلام اپنے مال میں تصرف کرے۔

16540

(۱۶۵۴۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ زَکَرِیَّا، عَنِ الشَّعْبِیِّ قَالَ: إذَا أَذِنَ الْمَوْلَی لِعَبْدِہِ فِی التَّسَرِّی ، فَلْیَتَّخِذْ مِنْہُنَّ مَا شَائَ۔
(١٦٥٤١) حضرت شعبی فرماتے ہیں کہ جب آقا نے غلام کو تصرف کی اجازت دے دی تو وہ کرسکتا ہے۔

16541

(۱۶۵۴۲) حَدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ بْنُ عَیَّاشٍ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ، عَنْ عَطَائٍ قَالَ: لَمْ نَکُنْ نَرَی بِتَسَرِّی الْعَبْدِ فِی مَالِ سَیِّدِہِ بَأْسًا۔
(١٦٥٤٢) حضرت عطاء فرماتے ہیں کہ اس بات میں کوئی حرج نہیں کہ غلام اپنے مالک کے مال میں تصرف کرے۔

16542

(۱۶۵۴۳) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ بن سلیمان ، عَنْ إسْمَاعِیلَ ، عَنْ عَطَائٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : لاَ بَأْسَ بِہِ۔
(١٦٥٤٣) حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ اس بات میں کوئی حرج نہیں کہ غلام اپنے مال میں تصرف کرے۔

16543

(۱۶۵۴۴) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنِ الْعَبَّاسِ بْنِ عبد اللہِ بْنِ مَعْبَدٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ؛ أَنَّہُ کَانَ لَہُ غُلاَمٌ تَاجِرٌ ، وَکَانَ یَأْذَنُ لَہُ فَیَتَسَرَّی السِّتَّ وَالسَّبْعَ۔
(١٦٥٤٤) حضرت ابن عباس (رض) کا ایک غلام تھا جو تجارت کرتا تھا، حضرت ابن عباس نے اسے اجازت دے رکھی تھی اور وہ مال میں تصرف کرتا تھا۔

16544

(۱۶۵۴۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ سَلَمَۃَ بْنَ کُہَیْلٍ ، عَنِ الْحَکَمِ قَالَ : یَتَزَوَّجُ وَلاَ یَتَسَرَّی۔
(١٦٥٤٥) حضرت حکم فرماتے ہیں کہ غلام شادی کرسکتا ہے مالی تصرفات نہیں کرسکتا۔

16545

(۱۶۵۴۶) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ أَنَّہُ کَانَ یُحِبُّ أَنْ یُزَوِّجَہُ۔
(١٦٥٤٦) حضرت ابن سیرین اس بات کو پسند فرماتے تھے کہ غلام کی شادی کرائی جائے۔

16546

(۱۶۵۴۷) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ قَالَ : سَأَلْتُ حَمَّادًا ، عَنْ ذَلِکَ ، فَقَالَ : أَلَمْ تَسْمَعِ وَلَکِنَّ اللَّہَ یَقُولُ : {إلاَّ عَلَی أَزْوَاجِہِمْ أَوْ مَا مَلَکَتْ أَیْمَانُہُمْ}۔
(١٦٥٤٧) حضرت شعبہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت حماد سے اس بارے میں سوال کیا تو انھوں نے فرمایا کہ کیا تم نے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان نہیں سنا {إلاَّ عَلَی أَزْوَاجِہِمْ أَوْ مَا مَلَکَتْ أَیْمَانُہُمْ }

16547

(۱۶۵۴۸) حَدَّثَنَا حَفْص بن غیاث، عَنْ أَشْعَثَ، عَنِ الْحَکَمِ، وَابْنِ سِیرِینَ أَنَّہُمَا کَرِہَا أَنْ یَتَسَرَّی، وَإِنْ أَذِنَ لَہُ مَوْلاَہُ۔
(١٦٥٤٨) حضرت حکم اور حضرت ابن سیرین نے اس بات کو ناپسند قرار دیا کہ غلام مالی معاملات کرے خواہ آقا نے اجازت دے دی ہو پھر بھی نہیں۔

16548

(۱۶۵۴۹) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ بن سلیمان ، عَنْ إسْمَاعِیلَ ، عَنْ حَمَّادٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، أَنَّہُ کَانَ یَکْرَہُ أَنْ یَتَسَرَّی الْعَبْدُ۔
(١٦٥٤٩) حضرت ابراہیم اس بات کو ناپسند خیال فرماتے تھے کہ غلام مالی تصرفات کرے۔

16549

(۱۶۵۵۰) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ إدْرِیسَ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ، عَنْ عُمَرَ، قَالَ: مَنْ تَزَوَّجَ امْرَأَۃً وَبِہَا بَرَصٌ ، أَوْ جُذَامٌ ، أَوْ جُنُونٌ فَدَخَلَ بِہَا فَلَہَا الصَّدَاقُ بِمَا اسْتَحَلَّ مِنْ فَرْجِہَا وَذَلِکَ غُرْمٌ عَلَی وَلِیِّہَا۔
(١٦٥٥٠) حضرت عمر (رض) فرماتے ہیں کہ اگر آدمی کسی عورت سے شادی کرے، پھر اسے پتہ چلے کہ عورت کو کوڑھ، پھلبہری یا جنون ہے ، لیکن وہ اس عورت سے دخول کرے تو فرج کے استحلال کی وجہ سے مرد پر مہر واجب ہوگا۔ جس کا تاوان عورت کے ولی سے لیا جائے گا۔

16550

(۱۶۵۵۱) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنِ الْحَکَمِ قَالَ : کَانَ عَلِیٌّ یَقُولُ فِی الْمَجْنُونَۃِ وَالْبَرْصَائِ : إِنْ دَخَلَ فَہِیَ امْرَأَتُہُ ، وَإِنْ لَمْ یَدْخُلْ فُرِّقَ بَیْنَہُمَا۔
(١٦٥٥١) حضرت علی (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کسی نے پاگل یا پھلبہری کی شکار عورت سے شادی کی پھر اس سے دخول کیا تو وہ اس کی بیوی ہے اور اگر دخول نہ کیا تو دونوں کے درمیان جدائی کرائی جائے گی۔

16551

(۱۶۵۵۲) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِینَارٍ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ زَیْدٍ قَالَ : أَرْبَعٌ لاَ یَجُوزُنَ فِی بَیْعٍ وَلاَ نِکَاحٍ : الْبَرْصَائُ وَالْمَجْنُونَۃُ وَالْمَجْذُومَۃُ وَذَاتُ الْقَرَنِ۔
(١٦٥٥٢) حضرت جابر بن زید فرماتے ہیں کہ چار عورتوں سے نہ نکاح جائز ہے نہ باندی ہونے کی صورت میں انھیں خریدنا درست ہے : پھلبہری کا شکار، پاگل، کوڑھی ، رحم یا شرمگاہ کی بیماری کا شکار عورت۔

16552

(۱۶۵۵۳) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ خَالِدٍ أَنَّ رَجُلاً تَزَوَّجَ امْرَأَۃً فَدَخَلَ بِہَا ثُمَّ وَجَدَ بِہَا عَیْبًا فَکَتَبَ إلَی عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِیزِ فِی ذَلِکَ ، فَکَتَبَ أَنَّہُ قَدْ اتَّمَنَہُمْ عَلَی مَا ہُوَ أَعْظَمُ مِنْ ذَلِکَ فَأَجَازَہَا عَلَیْہِ۔
(١٦٥٥٣) حضرت خالد فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے کسی عورت سے شادی کی، پھر اس میں کوئی عیب معلوم ہوا۔ تو اس بارے میں اس نے حضرت عمر بن عبدالعزیز کو خط لکھا۔ انھوں نے جواب میں فرمایا کہ اس عورت کو اپنے پاس ہی رکھو۔

16553

(۱۶۵۵۴) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ سُئِلَ عَنِ الرَّجُلِ یَتَزَوَّجُ الْمَرْأَۃَ فَیَدْخُلُ بِہَا فَیَظْہَرُ عَلَیْہَا دَائٌ أَنَّہُ کَانَ یُوجِبُہَا عَلَیْہِ۔
(١٦٥٥٤) حضرت یونس فرماتے ہیں کہ حضرت حسن سے سوال کیا گیا کہ اگر آدمی کسی عورت سے شادی کرے اور اس سے دخول بھی کرلے، پھر بعد میں کوئی بیماری ظاہر ہو تو کیا حکم ہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ اس کی ذمہ داری مرد پر ہوگی۔

16554

(۱۶۵۵۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، عَنْ سُفْیَانَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَیْمُونٍ، عَنْ عُمَرَ بْنِ عَبْدِالْعَزِیزِ قَالَ: لَیْسَ لَہُ إلاَّ أَمَانَۃُ أَصْہَارِہِ۔
(١٦٥٥٥) حضرت عمر بن عبد العزیز فرماتے ہیں کہ مرد کے لیے صرف رشتے داری کی امانت ہے۔

16555

(۱۶۵۵۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ حَمَّادٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالَ : الْحُرَّۃُ لاَ تُرَدُّ مِنْ عَیْبٍ۔
(١٦٥٥٦) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ کسی عیب کی وجہ سے آزادعورت کو واپس نہیں کیا جاسکتا۔

16556

(۱۶۵۵۷) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنْ شُرَیْحٍ أَنَّہُ کَانَ یُعَوِّضُ الْبَرْصَاء َ۔
(١٦٥٥٧) حضرت شعبی فرماتے ہیں کہ حضرت شریح پھلبہری کا شکار عورت کا عوض مرد کو دلایا کرتے تھے۔

16557

(۱۶۵۵۸) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ بُرْدٍ ، عَنْ مَکْحُولٍ وَالزُّہْرِیِّ قَالاَ : فِی رَجُلٍ تَزَوَّجَ امْرَأَۃً فَدَخَلَ فَرَأَی بِہَا جُنُونًا ، أَوْ جُذَامًا ، أَوْ بَرَصًا ، أَوْ عَفَلاً : إنَّہَا تُرَدُّ مِنْ ہَذَا وَلَہَا الصَّدَاقُ الَّذِی اسْتَحَلَّ بِہِ فَرْجَہَا الْعَاجِلُ وَالآجِلُ وَصَدَاقُہَ عَلَی مَنْ غَرَّہُ۔
(١٦٥٥٨) حضرت مکحول اور حضرت زہری فرماتے ہیں کہ اگر آدمی نے کسی عورت سے شادی کی، پھر اس میں پاگل پن، کوڑھ، پھلبہری یا رحم کی بیماری ظاہر ہوئی تو اس عورت کو واپس کیا جائے گا اور اسے عاجل یا آجل مہر ملے گا جس سے آدمی نے اس کی شرمگاہ کو حلال کیا۔ اس مہر کی ذمہ داری اس شخص پر ہوگی جس نے مرد کو رشتہ کرنے پر ابھارا۔

16558

(۱۶۵۵۹) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ جَمِیلٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ کَعْبٍ ، أَوْ کَعْبِ بْنِ عَبْدِ اللہِ قَالَ : تَزَوَّجَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ امْرَأَۃً مِنْ غِفَارٍ فَقَعَدَ مِنْہَا مَقْعَدَ الرَّجُلِ مِنَ الْمَرْأَۃِ فَأَبْصَرَ بِکَشْحِہَا بَرَصًا فَقَامَ عَنْہَا ، فَقَالَ : سَوِّی عَلَیْک ثِیَابَک وَارْجِعِی إلَی بَیْتِک۔
(١٦٥٥٩) حضرت کعب بن عبداللہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک غفاریہ عورت سے شادی کی، جب آپ ان سے ہم بستری فرمانے لگے تو اس کے جسم پر پھلبہری کے نشان دیکھے، آپ نے ان سے فرمایا کہ اپنے کپڑے سیدھے کرلو اور اپنے گھرواپس چلی جاؤ۔

16559

(۱۶۵۶۰) حَدَّثَنَا حُمَیْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ زُہَیْرٍ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، عَن عَبْدِ اللہِ قَالَ : لاَ تُرَدُّ الْحُرَّۃُ مِنْ عَیْبٍ۔
(١٦٥٦٠) حضرت عبداللہ فرماتے ہیں کہ آزادعورت کو عیب کی وجہ سے واپس نہیں کیا جائے گا۔

16560

(۱۶۵۶۱) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ أَنَّہُ قَالَ : إذَا تَزَوَّجَ الرَّجُلُ الْمَرْأَۃَ وَبِالرَّجُلِ عَیْبٌ لَمْ تَعْلَمْ بِہِ ، جُنُونٌ ، أَوْ جُذَامٌ ، أَوْ بَرَصٌ خُیِّرَتْ۔
(١٦٥٦١) حضرت زہری فرماتے ہیں کہ اگر شادی کے بعد اگر مرد میں کوڑھ، پھلبہری یا کوئی جسمانی عیب معلوم ہو تو عورت کے لیے اختیار ہے کہ چاہے تو اس کے ساتھ رہے اور چاہے تو علیحدگی اختیار کرلے۔

16561

(۱۶۵۶۲) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الْحَکَمِ أَنَّہُ قَالَ فِی الرَّجُلِ یَتَزَوَّجُ الْمَرْأَۃَ وَبِہِ الْبَرَصُ قَالَ : کَانَ لاَ یَرَاہُ مِنَ الرَّجُلِ شَیْئًا ، وَأَمَّا الْجُذَامُ فَإِنْ شَاء َتْ أَقَرَّتْ مَعَہُ ، وَإِنْ شَاء َتْ فَارَقَتْہُ۔
(١٦٥٦٢) حضرت حکم فرماتے ہیں کہ اگر شادی کے بعد مرد میں پھلبہری کا مرض معلوم ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں اور اگر کوڑھ نکلے تو عورت کے لیے اختیار ہے کہ چاہے تو اس کے ساتھ رہے اور چاہے تو علیحدگی اختیار کرلے۔

16562

(۱۶۵۶۳) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ یَزِیدَ ، عَنْ أَبِی الْعَلاَئِ وَہُوَ أَیُّوبُ ، عَنْ قَتَادَۃَ فِی رَجُلٍ تَزَوَّجَ امْرَأَۃً وَبِہِ جُنُونٌ ، أَوْ دَائٌ عُضَالٌ لاَ تعْلَمُ بِہِ قَالَ : ہِیَ بِالْخِیَارِ إذَا عَلِمَتْ وَقَالَ أَبُو ہَاشِمٍ : ہِیَ امْرَأَتُہُ إِنْ شَاء َ أَمْسَکَ ، وَإِنْ شَاء َ طَلَّقَ۔
(١٦٥٦٣) حضرت قتادہ فرماتے ہیں کہ اگر شادی کے بعد مرد میں جنون یا کوئی اور بیماری ظاہر ہو تو عورت کے لیے اختیار ہے کہ چاہے تو اسی مرد کے ساتھ رہے اور چاہے تو علیحدگی اختیار کرلے۔ حضرت ابو ہاشم فرماتے ہیں کہ یہ عورت اس مرد کی بیوی ہے وہ چاہے تو اسے رکھے اور چاہے تو طلاق دے دے۔

16563

(۱۶۵۶۴) حَدَّثَنَا جَرِیرُ بْنُ عَبْدِ الْحَمِیدِ ، عَنْ مُوسَی بْنِ أَبِی عَائِشَۃَ قَالَ : سَأَلْتُ مُرَّۃَ ، عَنِ الرَّجُلِ یَشْتَرِی ، أَوْ یَسْبِی الْجَارِیَۃَ الْمَجُوسِیَّۃَ ثُمَّ یَقَعُ عَلَیْہَا قَبْلَ أَنْ تَعْلَمَ الإِسْلاَمَ قَالَ لاَ یَصْلُحُ ، وَسَأَلْت سَعِیدَ بْنَ جُبَیْرٍ ، فَقَالَ : مَا ہُوَ بِأَخْیَرَ مِنْہَا إذَا فَعَلَ ذَلِکَ۔
(١٦٥٦٤) حضرت موسیٰ بن ابی عائشہ فرماتے ہیں کہ میں نے مرہ سے سوال کیا کہ اگر کوئی شخص مجوسیہ باندی کو خریدے یا قیدی بنا کر لائے تو اس کے اسلام قبول کرنے سے پہلے اس سے وطی کرسکتا ہے۔ انھوں نے فرمایا کہ ایسا کرنا درست نہیں۔ میں نے سعید بن جبیر سے سوال کیا تو انھوں نے فرمایا کہ اگر وہ ایسا کرتا ہے تو یہ اس مجوسیہ سے بہتر نہیں ہے۔

16564

(۱۶۵۶۵) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی، عَنْ بُرْدٍ، عَنْ مَکْحُولٍ قَالَ: إذَا کَانَتْ وَلِیدَۃً مَجُوسِیَّۃً، فَإِنَّہُ لاَ یَنْکِحُہَا حَتَّی تُسْلِمَ۔
(١٦٥٦٥) حضرت مکحول فرماتے ہیں کہ مجوسیہ لڑکی کے مسلمان ہونے سے پہلے اس سے نکاح نہیں ہوسکتا۔

16565

(۱۶۵۶۶) حَدَّثَنَا عِیسَی بْنُ یُونُسَ ، عَنِ الأَوْزَاعِیِّ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ قَالَ سَمِعْتُہُ یَقُولُ : لاَ تَقْرَبِ الْمَجُوسِیَّۃَ حَتَّی تَقُولَ لاَ إلَہَ إلاَّ اللَّہُ ، فَإِذَا قَالَتْ ذَلِکَ فَہُوَ مِنْہَا إسْلاَمٌ۔
(١٦٥٦٦) حضرت زہری فرماتے ہیں کہ جب تک مجوسیہ لا الہ الا اللہ کا اقرار نہ کرے مسلمان مرد اس کے قریب نہیں جاسکتا۔ جب وہ اقرار کرلے تو مسلمان ہے۔

16566

(۱۶۵۶۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ شَرِیکٍ ، عَنْ سِمَاکٍ ، عَنْ أَبِی سَلَمَۃَ فِی الْمَجُوسِیَّۃِ قَالَ : لاَ تَقْرَبْہَا مَتَی تُسْلِمُ۔
(١٦٥٦٧) حضرت ابو سلمہ فرماتے ہیں کہ مجوسیہ کے اسلام قبول کرنے سے پہلے مسلمان اس کے قریب نہیں جاسکتا۔

16567

(۱۶۵۶۸) حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ وَرْدَانَ ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ ؛ فِی الْمَجُوسِیَّۃِ تَکُونُ عِنْدَ الرَّجُلِ قَالَ : لاَ یَطَؤُہَا۔
(١٦٥٦٨) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ مجوسیہ سے وطی کرنا درست نہیں۔

16568

(۱۶۵۶۹) حَدَّثَنَا جَرِیر بن عبد لحمید ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ حَمَّادٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالَ : إذَا سُبِیَتِ الْمَجُوسِیَّاتُ وَعَبَدَۃُ الأَوْثَانِ عُرِضَ عَلَیْہِنَّ الإِسْلاَمُ وجبرن فَإِنْ أَسْلَمْنَ وُطِئْنَ وَاسْتُخْدِمْنَ ، وَإِنْ أَبَیْنَ أَنْ یُسْلِمْنَ اسْتُخْدِمْنَ وَلَمْ یُوطَئْنَ۔
(١٦٥٦٩) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ جب مجوسی اور بت پرست عورتیں قیدی بنائی جائیں تو انھیں اسلام کی دعوت دی جائے گی اور اسلام قبول کرنے پر اصرار کیا جائے گا۔ اگر وہ اسلام قبول کرلیں تو ان سے وطی کرنا بھی درست اور خدمت لینا بھی درست۔ اگر اسلام قبول نہ کریں تو ان سے وطی تو نہیں کی جائے گی البتہ خدمت لی جاسکتی ہے۔

16569

(۱۶۵۷۰) حَدَّثَنَا الثَّقَفِیُّ ، عَنْ مُثَنَّی ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ قَالَ : لاَ بَأْسَ أَنْ یَشْتَرِیَ الرَّجُلُ الْجَارِیَۃَ الْمَجُوسِیَّۃَ فَیَتَسَرَّاہَا۔
(١٦٥٧٠) حضرت سعید بن مسیب فرماتے ہیں کہ مجوسیہ باندی خرید کر اس میں تصرف کرنے میں کوئی حرج نہیں۔

16570

(۱۶۵۷۱) حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ ، عَنْ مُثَنَّی قَالَ : کَانَ عَطَائٌ وَطَاوُسٌ وَعَمْرُو بْنُ دِینَارٍ لاَ یَرَوْنَ بَأْسًا أَنْ یَتَسَرَّی الرَّجُلُ الْمَجُوسِیَّۃَ وَکَرِہَہُ سَعِیدُ بْنُ الْمُسَیِّبِ۔
(١٦٥٧١) حضرت مثنیٰ فرماتے ہیں کہ حضرت عطائ، حضرت طاوس اور حضرت عمرو بن دینار کے نزدیک مجوسیہ باندی میں تصرف کرنا جائز ہے جبکہ حضرت سعید بن مسیب اسے مکروہ خیال فرماتے ہیں۔

16571

(۱۶۵۷۲) حَدَّثَنَا شَاذَانُ قَالَ : حدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ بَکْرِ بْنِ مَاعِزٍ ، عَنْ رَبِیعِ بْنِ خُثَیْمٍ قَالَ : إذَا أَصَبْت الأَمَۃَ الْمُشْرِکَۃَ فَلاَ تَأْتِیہَا حَتَّی تُسْلِمَ وَتَغْتَسِلَ۔
(١٦٥٧٢) حضرت ربیع بن خثیم فرماتے ہیں کہ جب تمہیں کوئی مشرکہ باندی ملے تو اس سے تب تک جماع نہ کرو جب تک وہ اسلام قبول کرکے غسل نہ کرلے۔

16572

(۱۶۵۷۳) حَدَّثَنَا جَرِیر بن عبد لحمید ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ حَمَّادٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالَ : إذَا سُبِیَتِ الْیَہُودِیَّاتُ وَالنَّصْرَانِیَّات عُرِضَ عَلَیْہِنَّ الإِسْلاَمُ وَجُبِرْنَ عَلَیْہِ فَإِنْ أَسْلَمْنَ ، أَوْ لَمْ یُسْلِمْنَ وطِئْنَ وَاسْتُخْدِمْنَ۔
(١٦٥٧٣) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ جب یہودی یا نصرانی عورتوں کو قیدی بنایا جائے تو انھیں اسلام کی دعوت دی جائے گی اور اسلام قبول کرنے پر اصرار کیا جائے گا۔ پھر وہ اسلام قبول کریں یا نہ کریں ان سے جماع کیا جاسکتا ہے اور ان سے خدمت بھی لی جاسکتی ہے۔

16573

(۱۶۵۷۴) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ بُرْدٍ ، عَنْ مَکْحُولٍ فِی الرَّجُلِ إذَا کَانَتْ لَہُ وَلِیدَۃٌ یَہُودِیَّۃٌ ، أَوْ نَصْرَانِیَّۃٌ ، فَإِنَّہُ یَتَّطِؤُہَا۔
(١٦٥٧٤) حضرت مکحول فرماتے ہیں کہ آدمی یہودی یاعیسائی باندی سے وطی کرسکتا ہے۔

16574

(۱۶۵۷۵) حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ وَرْدَانَ ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ قَالَ الْیَہُودِیَّۃُ وَالنَّصْرَانِیَّۃُ یَتَّطئہما۔
(١٦٥٧٥) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ آدمی یہودی یاعیسائی باندی سے وطی کرسکتا ہے۔

16575

(۱۶۵۷۶) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ قَالَ : إذَا أَصَابَ الرَّجُلُ الْجَارِیَۃَ الْمُشْرِکَۃَ فَلْیُقْرِرْہَا بِشَہَادَۃِ لاَ إلَہَ إلاَّ اللَّہُ فَإِنْ أَبَتْ أن تُقِرَّ لَمْ یَمْنَعْہُ ذَلِکَ أَنْ یَقَعَ عَلَیْہَا۔
(١٦٥٧٦) حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ جب آدمی کو کوئی مشرکہ باندی حاصل ہوتولا الہ الا اللہ کی گواہی دینے کی دعوت دے۔ اگر وہ انکار بھی کردے تب بھی وہ اس سے جماع کرسکتا ہے۔

16576

(۱۶۵۷۷) حَدَّثَنَا عَبدَۃ بن سلیمان، عَنْ سَعِیدٍ، عَنْ قَتَادَۃَ، عَنْ مُعَاوِیَۃَ بْنِ قُرَّۃَ قَالَ، کَانَ عَبْدُاللہِ یَکْرَہُ أَمَتَہُ مُشْرِکَۃ۔
(١٦٥٧٧) حضرت عبداللہ مشرکہ باندی سے صحبت کو مکروہ قرار دیتے تھے۔

16577

(۱۶۵۷۸) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ قَالَ : إذَا کَانَتْ لَہُ أَمَۃٌ مِنْ أَہْلِ الْکِتَابِ فَلَہُ أَنْ یَغْشَاہَا إِنْ شَاء َ وَیُکْرِہَہَا عَلَی الْغُسْلِ۔
(١٦٥٧٨) حضرت زہری فرماتے ہیں کہ اگر کسی آدمی کے پاس مشرکہ باندی ہو تو آدمی اس سے جماع کرسکتا ہے۔ اور اسے غسل پر مجبور کرسکتا ہے۔

16578

(۱۶۵۷۹) حَدَّثَنَا مُعْتَمِر بن سلیمان ، عَنْ نَاجِیَۃَ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ فِی الْمَسْبِیَّۃِ : لاَ یَطَؤُہَا حَتَّی تُہَلِّلَ وَتُسْلِمَ۔
(١٦٥٧٩) حضرت ابن مسعود (رض) فرماتے ہیں کہ قیدی عورت سے آدمی اس وقت تک جماع نہ کرے جب تک وہ لا الہ الا اللہ کا اقرارکرکے اسلام قبول نہ کرلے۔

16579

(۱۶۵۸۰) حَدَّثَنَا یَزِیدُ ، عَنْ حَبِیبٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ ہَرِمٍ قَالَ : سُئِلَ جَابِرُ بْنُ زَیْدٍ ، عَنِ الرَّجُلِ یَشْتَرِی الْجَارِیَۃَ مِنَ السَّبْیِ فَیَقَعُ عَلَیْہَا قَالَ : لاَ حَتَّی یُعَلِّمَہَا الصَّلاَۃَ وَالْغُسْلَ مِنَ الْجَنَابَۃِ وَحَلْقَ الْعَانَۃِ۔
(١٦٥٨٠) حضرت عمرو بن ہرم فرماتے ہیں کہ حضرت جابر بن زید سے سوال کیا گیا کہ اگر کوئی آدمی کسی قیدی باندی کو خرید لے تو کیا اس سے جماع کرسکتا ہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ اس وقت تک جماع نہیں کرسکتا جب تک اسے نماز، غسلِ جنابت اور زیرناف بال صاف کرنا نہ سکھا دے۔

16580

(۱۶۵۸۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ قَیْسِ بْنِ مُسْلِمٍ ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ مُحَمَّدٍ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَتَبَ إلَی مَجُوسِ أَہْلِ ہَجَرَ یَعْرِضُ عَلَیْہِمَ الإِسْلاَمَ فَمَنْ أَسْلَمَ قَبِلَ مِنْہُ وَمَنْ لَمْ یُسْلِمْ ضَرَبَ عَلَیْہِ الْجِزْیَۃَ غَیْرَ نَاکِحِی نِسَائِہِمْ وَلاَ آکِلِی ذَبَائِحِہِمْ۔ (عبدالرزاق ۱۰۰۲۸۔ بیہقی ۲۸۵)
(١٦٥٨١) حضرت حسن بن محمد فرماتے ہیں کہ نبی پاک (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہجر کے مجوسیوں کے بارے میں حکم دیتے ہوئے خط لکھا کہ انھیں اسلام کی دعوت دی جائے اور جو اسلام لے آئے اس کا اسلام قبول کرلیا جائے اور جو اسلام قبول نہ کرے اس پر جزیہ مقرر کردیا جائے۔ البتہ ان کی عورتوں سے نکاح نہیں کیا جائے گا اور ان کا ذبیحہ نہیں کھایا جائے گا۔

16581

(۱۶۵۸۲) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنِ الْعَوَّامِ قَالَ ، أَخْبَرَنِی مَنْ سَمِعَ سَعِیدَ بْنَ الْمُسَیَّبِ یُکْرَہُ أَنْ یَطْلُبَ الرَّجُلُ الْوَلَدَ مِنَ الأَمَۃِ إذَا کَانَتْ وَلَدَ الزِّنَا۔
(١٦٥٨٢) حضرت سعید بن مسیب نے حرامیہ باندی سے طلب اولاد کو مکروہ قرار دیا ہے۔

16582

(۱۶۵۸۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنْ أَبِی جَعْفَرٍ قَالَ : یَتَسَرَّی وَلَدَ الزِّنَا وَلاَ یَطْلُبُ وَلَدَہَا۔
(١٦٥٨٣) حضرت ابو جعفر فرماتے ہیں کہ آدمی حرامیہ باندی سے جماع تو کرسکتا ہے لیکن اولاد حاصل کرنا درست نہیں۔

16583

(۱۶۵۸۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ الْحَارِثِ ، عَنْ أَبِی الرُّوَاعِ ، قَالَ : سَأَلْتُ ابْنَ عُمَرَ ، عَنْ وَلَدِ الزِّنَا ، فَقَالَ : النِّسَائُ کَثِیرٌ۔
(١٦٥٨٤) حضرت ابو رواع فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عمر (رض) سے حرامیہ باندی کے بارے میں سوال کیا تو انھوں نے فرمایا کہ عورتیں بہت ہیں۔

16584

(۱۶۵۸۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ بْنِ الْمُہَاجِرِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالَ لاَ بَأْسَ أَنْ یَتَسَرَّاہَا۔
(١٦٥٨٥) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ حرامیہ باندی میں تصرف کرنا جائز ہے۔

16585

(۱۶۵۸۶) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ؛ فِی الرَّجُلِ یَکُونُ تَحْتَہُ الأَمَۃُ لِزِنْیَۃ قَالَ : ہِیَ کَعَرَضِ مَالِہِ یَتَّطِؤُہَا۔
(١٦٥٨٦) حضرت حسن حرامیہ باندی کے بارے میں فرماتے ہیں کہ وہ اس کا مال ہے اس سے جماع کرسکتا ہے۔

16586

(۱۶۵۸۷) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ الْحَسَنِ قَالَ : لاَ بَأْسَ أَنْ یَشْتَرِیَ الرَّجُلُ وَلَدَ الزِّنْیَۃِ یَتَسَرَّاہَا۔
(١٦٥٨٧) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ حرامیہ باندی کو خریدنے اور اس سے جماع کرنے میں کوئی حرج نہیں۔

16587

(۱۶۵۸۸) حَدَّثَنَا مُعْتَمِر بن سلیمان ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ سَیّار مَوْلًی لِمُعَاوِیَۃَ قَالَ : أَرَادَ رَجُل أَنْ یَتَزَوَّجَ بِنْتَ زِنْیَۃٍ فَسَأَلَ عَنْ ذَلِکَ رَجُلاً مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : لاَ ، إذا أَتَزَوَّجَ أُمَّہَا أَحَبُّ إلَیَّ مِنْ أَنْ أَتَزَوَّجَہَا۔
(١٦٥٨٨) حضرت سیار مولی معاویہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ ایک آدمی نے کسی حرامیہ عورت سے شادی کا ارادہ کیا اور اس بارے میں ایک صحابی سے پوچھا۔ انھوں نے فرمایا کہ تم ایسا نہ کرو، اس سے شادی کرنے سے بہتر ہے کہ تم اس کی ماں سے شادی کرلو۔

16588

(۱۶۵۸۹) حَدَّثَنَا حُمَیْدٌ ، عَنْ حَسَنٍ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِیرِینَ فِی الرَّجُلِ یَتَسَرَّی وَلَدَ الزِّنَا قَالَ : وَمَا ذَنْبُہُ فِیمَا عَمِلَ أَبَوَاہُ۔
(١٦٥٨٩) حضرت محمد بن سیرین حرامیہ عورت سے شادی کے بارے میں فرماتے ہیں کہ اس کے والدین کے گناہ کا وبال اس پر کیوں ہو۔

16589

(۱۶۵۹۰) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ حَبِیبٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ الْحَکَمَ یَقُولُ : لَوْ کَانَتْ لِی جَارِیَۃُ وَلَدِ الزِّنَا لَمْ أُبَالِی أَنْ أَطَأَہَا۔
(١٦٥٩٠) حضرت حکم فرماتے ہیں کہ اگر میرے پاس کوئی حرامیہ باندی ہو تو مجھے اس سے جماع کرنے میں کوئی عار نہیں۔

16590

(۱۶۵۹۱) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ عَمرو ، عَنْ أَبِی مَعْبَدٍ ؛ أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ وَطِیئَ جَارِیَۃً بَعْدَ مَا أَنْکَرَ وَلَدَہَا۔
(١٦٥٩١) حضرت ابومعبد فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عباس (رض) نے ایک ایسی باندی سے جماع کیا جس کے بچے کا انکار کیا تھا۔

16591

(۱۶۵۹۲) حَدَّثَنَا حَفْص بن غیاث ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ أَبِی لبابۃ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ؛ أَنَّہُ کَانَ لاَ یَرَی بَأْسًا أَنْ یَطَأَ الرَّجُلُ أَمَتہ إذَا فَجَرَتْ ، وَیَرَی أَنَّ ذَلِکَ تَحْصِینٌ لَہَا۔
(١٦٥٩٢) حضرت ابن عباس (رض) زانیہ باندی سے نکاح کرنے میں کوئی حرج نہ سمجھتے تھے اور فرماتے کہ یہ اس کے لیے پاکیزگی کا سبب ہوگا۔

16592

(۱۶۵۹۳) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ، عَنْ أَبِیہِ أَنَّہُ وَطِیئَ جَارِیَۃً لَہُ بَعْدَ مَا فَجَرَتْ۔
(١٦٥٩٣) حضرت سعید بن مسیب نے ایک زانیہ باندی سے جماع کیا۔

16593

(۱۶۵۹۴) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ ہَاشِمٍ ، عَنِ ابْنِ أَبِی لَیْلَی ، عَنِ الشَّعْبِیِّ فِی الرَّجُلِ یَطَأُ أَمَتَہُ وَقَدْ زَنَتْ قَالَ : ہُوَ بِالْخِیَارِ إِنْ شَاء َ وَطِئَہَا ، وَإِنْ شَاء َ أَمْسَکَ۔
(١٦٥٩٤) حضرت شعبی سے سوال کیا گیا کہ کیا آدمی زانیہ باندی سے جماع کرسکتا ہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ اسے اختیا رہے اگر چاہے تو اس سے جماع کرلے اور اگر چاہے تو اسے روکے رکھے۔

16594

(۱۶۵۹۵) حَدَّثَنَا عَبدَۃ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ مُعَاوِیَۃَ بْنِ قُرَّۃَ قَالَ : کَانَ عَبْدُ اللہِ یَکْرَہُ أَمَتہ قَدْ زَنَتْ۔
(١٦٥٩٥) حضرت عبداللہ (رض) ایسی باندی سے جماع کرنے کو مکروہ خیال کرتے تھے جس نے زنا کیا ہو۔

16595

(۱۶۵۹۶) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ ، عَنْ مُبَارَکٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : سَمِعْتُہُ وَسُئِلَ عَنِ الرَّجُلِ یَرَی أَمَتَہُ تَفْجُرُ أَیَطَؤُہَا ؟ قَالَ : لاَ وَلاَ کَرَامَۃَ۔
(١٦٥٩٦) حضرت حسن سے سوال کیا گیا کہ کیا آدمی اپنی زانیہ باندی سے جماع کرسکتا ہے ؟ انھوں نے فرمایا نہیں۔

16596

(۱۶۵۹۷) حَدَّثَنَا حَفْص بن غیاث ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ وَعَنْ حَمَّادٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالاَ : إذَا رَأَی الرَّجُلُ امْرَأَتَہُ تَفْجُرُ لَمْ یُحَرِّمْہَا ذَلِکَ عَلَیْہِ۔
(١٦٥٩٧) حضرت حماد اور حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو بدکاری کرتے دیکھے تو اس سے بیوی اس پر حرام نہیں ہوگی۔

16597

(۱۶۵۹۸) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ قَالَ : حدَّثَنَا جَرِیرُ بْنُ حَازِمٍ ، عَنْ قَیْسِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ عَطَائٍ فِی الرَّجُلِ یری تَزْنِی امْرَأَتُہُ قَالَ : لاَ یُحَرِّمُہَا ذَلِکَ عَلَیْہِ۔
(١٦٥٩٨) حضرت عطاء فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو بدکاری کرتے دیکھے تو اس سے بیوی اس پر حرام نہیں ہوگی۔

16598

(۱۶۵۹۹) حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ مَسْلَمَۃَ ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ عَبْدِ اللہِ ، عَنْ سَالِمٍ قَالَ لَہُ رَجُلٌ : إنِّی رَأَیْت مَعَ امْرَأَتِی رَجُلاً ، قَالَ : تَطِیبُ نَفْسُک ، أَوْ کَیْفَ تَطِیبُ نَفْسُک أَنْ تُمْسِکَہَا وَقَدْ رَأَیْت مَا رَأَیْت وَلَمْ تَحْرُمْ عَلَیْک۔
(١٦٥٩٩) حضرت سالم کے پاس ایک آدمی آیا اور اس نے کہا کہ میں نے اپنی بیوی کے ساتھ ایک آدمی کو دیکھا ہے۔ انھوں نے فرمایا کہ یہ دیکھنے کے بعد اب اس کے ساتھ تمہارا معاملہ درست کیسے رہ سکتا ہے ؟ حضرت سالم نے اس عورت کو مرد پر حرام قرار نہیں دیا۔

16599

(۱۶۶۰۰) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ ؛ فِی الرَّجُلِ یَرَی مِنِ امْرَأَتِہِ فَاحِشَۃً أَنَّہُ یَکْرَہُ أَنْ یُمْسِکَہَا۔
(١٦٦٠٠) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو زنا کرتے دیکھے تو اس سے جماع کرنا مکروہ ہے۔

16600

(۱۶۶۰۱) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ یَزِیْدِ بْنِ جَابِرٍ ، عَنْ مَکْحُولٍ قَالَ : إذَا أطَّلَعَ الرَّجُلُ عَلَی امْرَأَتِہِ أَنَّہَا تَفْجُرُ لَمْ یَحِلَّ لَہُ أَنْ یُمْسِکَہَا ، وَإِذَا فَجَرَ ہُوَ ، لَمْ یَحِلَّ لَہَا أَنْ تُقِیمَ مَعَہُ۔
(١٦٦٠١) حضرت مکحول فرماتے ہیں کہ جب کوئی شخص اپنی بیوی کو زنا میں مبتلا دیکھے تو اس کے لیے اسے اپنے پاس رکھنا حلال نہیں اور جب کوئی عورت اپنے خاوند کو زنا میں مبتلا دیکھے تو اس کے لیے اس کے پاس رہنا حلال نہیں۔

16601

(۱۶۶۰۲) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ، عَنِ الشَّیْبَانِیِّ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ شَدَّادٍ قَالَ: کُنْتُ جَالِسًا مَعَ ابْنِ عَبَّاسٍ فِی زَمْزَمَ فَأَتَاہُ رَجُلٌ فَذَکَر لہ أَنَّہُ تَسَقَّط امْرَأَتَہُ فَزَعَمَتْ أَنَّہَا فَجَرَتْ ، فَقَالَ لَہُ ابْنُ عَبَّاسٍ : فَبِئْسَ مَا صَنَعْت إِنْ کُنْت فَعَلْت مِثْلَ الَّذِی أَقَرَّتْ بِہِ عَلَی نَفْسِہَا ، فَأَمْسِکَ علیک امْرَأَتَکَ، وَإِنْ کَانَتْ لَمْ تَفْعَلْ فَخَلِّ سَبِیلَہَا۔
(١٦٦٠٢) حضرت عبداللہ بن شداد فرماتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کے ساتھ بئر زمزم کے پاس بیٹھا تھا۔ ان کے پاس ایک آدمی آیا اور اس نے کہا کہ اس نے اپنی بیوی کو بچہ ضائع کرنے پر مجبور کیا کیونکہ اس عورت کا کہنا تھا کہ اس نے بدکاری کی ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) نے اس سے فرمایا کہ تم نے بہت برا کیا۔ کیونکہ اگر تم نے بھی اس جیسا کام کیا ہے جس کا وہ اپنے لیے اقرار کررہی ہے تو اسے اپنی بیوی بنا کر رکھو اور اگر تم نے ایسا کام نہیں کیا تو اس کا راستہ چھوڑ دو ۔

16602

(۱۶۶۰۳) حَدَّثَنَا عَبدَۃ بن سلیمان ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ عَدِیِّ بْنِ ثَابِتٍ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ ، إذَا رَأَی أَحَدُکُمَ امْرَأَتَہُ ، أَوْ أُمَّ وَلَدِہِ عَلَی فَاحِشَۃٍ فَلاَ یَقْرَبْہَا۔
(١٦٦٠٣) حضرت ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ جب تم میں سے کوئی شخص اپنی بیوی یا ام ولد باندی کو مبتلائے زنا دیکھے تو اس کے قریب نہ جائے۔

16603

(۱۶۶۰۴) حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ ، عَنْ زَمْعَۃَ ، عَنْ سَلَمَۃَ بْنِ وَہْرَام قَالَ: کُنْتُ جَالِسًا عِنْدَ طَاوُوسٍ ، فَقَالَ لَہُ رَجُلٌ: إنِّی وَجَدْت فِی مَجْلِسِی رَجُلاً ، فَقَالَ طَاوُوسٌ: إِنْ طَابَتْ نَفْسُک أَنْ تُمْسِکَہَا وَقَدْ رَأَیْت مَا رَأَیْت فَأَنْتَ أَعْلَمُ۔
(١٦٦٠٤) حضرت سلمہ بن وہرام کہتے ہیں کہ میں حضرت طاوس کے پاس بیٹھا تھا، ایک آدمی نے ان سے کہا کہ میں نے ایک آدمی کو اپنی بیوی سے زنا کرتے دیکھا ہے۔ انھوں نے فرمایا کہ اگر تمہارا دل مانے تو اس عورت کو اپنے پاس رکھ لو حالانکہ تم سب دیکھ چکے ہیں اور تم زیادہ بہتر جانتے ہو۔

16604

(۱۶۶۰۵) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ قَالَ : أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَنْ عَبْدِ الْکَرِیمِ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُبَیْدِ بْنِ عُمَیْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : جَاء َ رَجُلٌ إلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : إنَّ عِنْدِی امْرَأَۃً أَحَبُّ النَّاسِ إلَیَّ ، وَإِنَّہَا لاَ تَمْنَعُ یَدَ لاَمِسٍ ، قَالَ : طَلِّقْہَا قَالَ : لاَ أَصْبِرُ عَنْہَا ، قَالَ : فَاسْتَمْتِعْ بِہَا۔ (ابوداؤد ۲۰۴۲۔ بیہقی ۱۵۵)
(١٦٦٠٥) حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ ایک آدمی نبی پاک (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے عرض کیا کہ میری ایک بیوی ہے جو مجھے سب لوگوں سے زیادہ محبوب ہے، وہ درست کردار کی حامل نہیں۔ اس کے بارے میں میرے لیے کیا حکم ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اس کو طلاق دے دو ۔ اس نے کہا میں اس کے بغیر رہ بھی نہیں سکتا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ پھر اس سے فائدہ اٹھاتے رہو۔

16605

(۱۶۶۰۶) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنْ قَیْسِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ عَطَائٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : جَاوَزَ حُرْمَتَیْنِ إلَی حُرْمَۃٍ وإن لَمْ تَحْرُمْ عَلَیْہِ امْرَأَتُہُ۔
(١٦٦٠٦) حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ سالی سے زنا کرنے والا بڑے گناہ کا مرتکب ہے لیکن اس کی بیوی حرام نہیں ہوگی۔

16606

(۱۶۶۰۷) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ قَالَ إذَا زَنَی الرَّجُلُ بِأُخْتِ امْرَأَتِہِ فَإِنَّہَا لاَ تَحْرُمُ عَلَیْہِ ، لاَ یُحَرِّمُ حَرَامٌ حَلاَلاً۔
(١٦٦٠٧) حضرت زہری فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کی بہن (سالی) سے زناکرے تو اس کی بیوی حرام نہیں ہوگی کیونکہ حرام کسی حلال چیز کو حرام نہیں کرسکتا۔

16607

(۱۶۶۰۸) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ الثقفی ، عَنْ عُثْمَانَ الْبَتِّیِّ ، عَنِ ابْنِ أَشْوَعَ أَنَّہُ سُئِلَ عَنْہَا ، فَقَالَ لاَ یُحَرِّمُ الْحَرَامُ الْحَلاَلَ ، جَسَرْتُ عَلَیْہَا ، وَہَابَہَا إبْرَاہِیمُ وَالشَّعْبِیُّ۔
(١٦٦٠٨) حضرت ابن أشوع سے اس بارے میں سوال کیا گیا تو انھوں نے فرمایا کہ کوئی حرام چیز حلال کو حرام نہیں کرسکتی۔ میں نے تو یہ بات کہنے کی ہمت کی ہے حضرت ابراہیم اور حضرت شعبی یہ کہنے سے ڈرتے تھے۔۔

16608

(۱۶۶۰۹) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ الْحَسَنِ قَالَ حَرُمَتْ عَلَیْہِ امْرَأَتُہُ۔
(١٦٦٠٩) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ اس صورت میں اس کی بیوی اس پر حرام ہوجائے گی۔

16609

(۱۶۶۱۰) وَحَدَّثَنَا سَعِیدٌ قَالَ قَتَادَۃُ: لاَ یُحَرِّمُہَا ذَلِکَ عَلَیْہِ غَیْرَ أَنَّہُ لاَ یَغْشَی امْرَأَتَہُ حَتَّی تَنْقَضِیَ عِدَّۃُ الَّتِی بَنَی بِہَا۔
(١٦٦١٠) حضرت قتادہ فرماتے ہیں کہ سالی کے ساتھ زنا کرنے کی صورت میں بیوی حرام تو نہیں ہوگی البتہ وہ اپنی بیوی سے اس وقت جماع نہیں کرسکتا جب تک وہ عورت عدت نہ گزار لے جس سے اس نے جماع کیا ہے۔

16610

(۱۶۶۱۱) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی، عَنْ سَعِیدٍ، عَنْ قَتَادَۃَ، عَنْ جَابِرِ بْنِ زَیْدٍ، وَالْحَسَنِ أَنَّہُمَا قَالاَ: حرُمَتْ عَلَیْہِ امْرَأَتُہُ۔
(١٦٦١١) حضرت جابر بن زید اور حضرت حسن فرماتے ہیں کہ سالی سے زنا کرنے کی صورت میں بیوی حرام ہوجائے گی۔

16611

(۱۶۶۱۲) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِہِ ، عَنِ النَّخَعِیِّ : مِثْلَ قَوْلِ قَتادۃ ، وَإِنْ کَانَتْ حَامِلاً فَحَتی تَضَعَ حَمْلَہَا۔
(١٦٦١٢) حضرت نخعی بھی حضرت قتادہ کی طرح اس بات کے قائل ہے کہ مزنیہ سالی عدت گزارے گی اور وہ عدت وضع حمل تک ہوسکتی ہے۔

16612

(۱۶۶۱۳) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ صَاحِبٍ لَہُ ، عَنْ عَطَائٍ قَالَ : لاَ یُحَرِّمُہَا ذَلِکَ عَلَیْہِ۔
(١٦٦١٣) حضرت عطاء فرماتے ہیں کہ سالی کے ساتھ زنا کرنے سے بیوی حرام نہیں ہوتی۔

16613

(۱۶۶۱۴) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ سَعِیدٍ أَنَّہُ بَلَغَہُ عَنِ الشَّعْبِیِّ قَالَ : لاَ یُحَرِّمُہَا ذَلِکَ عَلَیْہِ۔
(١٦٦١٤) حضرت شعبی فرماتے ہیں کہ سالی کے ساتھ زنا کرنے سے بیوی حرام نہیں ہوتی۔

16614

(۱۶۶۱۵) حَدَّثَنَا أبو عَبْد الصَّمَدِ الْعَمِّیُّ، عَنْ سَعِیدٍ، عَنْ قَتَادَۃَ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَیْنٍ قَالَ: حرُمَتْ عَلَیْہِ امْرَأَتُہُ۔
(١٦٦١٥) حضرت عمران بن حصین فرماتے ہیں کہ سالی کے ساتھ زنا کرنے سے بیوی حرام ہوجائے گی۔

16615

(۱۶۶۱۶) حَدَّثَنَا أبو عَبْد الصَّمَدِ الْعَمِّیُّ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ یَعْمَُرَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : لَمْ تَحْرُمَ امْرَأَتُہُ عَلَیْہِ۔
(١٦٦١٦) حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ سالی کے ساتھ زنا کرنے سے بیوی حرام نہیں ہوتی۔

16616

(۱۶۶۱۷) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِیزِ بْنُ عَبْدِ الصَّمَدِ الْعَمِّیُّ ، عَنْ بُدَیْلِ بْنِ مَیْسَرَۃَ الْعُقَیْلِیِّ ، عَنِ أَبِی الْوَضِینِ أَنَّ رَجُلاً تَزَوَّجَ إلَی رَجُلٍ مِنْ أَہْلِ الشَّامِ بنتا لَہُ ابْنَۃَ مَہِیرَۃٍ فَزَوَّجَہُ وَزَفَّ إلَیْہِ ابْنَۃً لَہُ أُخْرَی بنت فَتَاۃ فَسَأَلَہَا الرَّجُلُ بَعْدَ مَا دَخَلَ بِہَا : ابْنَۃُ مَنْ أَنْتِ ؟ قَالَتْ : ابْنَۃُ الفَتَاۃِ تَعْنِی فُلاَنَۃً ، فَقَالَ : إنَّمَا تَزَوَّجْت إلَی أبیک ابنتہ ابْنَۃِ الْمَہِیرَۃِ فَارْتَفَعُوا إلَی مُعَاوِیَۃَ بْنِ أَبِی سُفْیَانَ ، فَقَالَ : امْرَأَۃٌ بِامْرَأَۃٍ وَسَأَلَ مَنْ حَوْلَہُ مِنْ أَہْلِ الشَّامِ ، فَقَالَ : امْرَأَۃٌ بِامْرَأَۃٍ ، فَقَالَ الرَّجُلُ : لمُعَاوِیَۃُ ، ارْفَعْنَا إلَی عَلِیِّ بْنِ أَبِی طَالِبٍ ، فَقَالَ : اذْہَبُوا إلَیْہِ فَأَتَوْا عَلِیًّا فَرَفَعَ عَلِیٌّ مِنَ الأَرْضِ شَیْئًا ، فَقَالَ : الْقَضَائُ فِی ہَذَا أَیْسَرُ مِنْ ہَذَا ، لِہَذِہِ مَا سُقْتَ إلَیْہَا بِمَا اسْتَحْلَلْتَ مِنْ فَرْجِہَا وَعَلَی أَبِیہَا أَنْ یجہز الأُخْرَی بِمَا سُقْتَ إلَی ہَذِہِ وَلاَ تَقْرَبْہَا حَتَّی تَنْقَضِیَ عِدَّۃُ ہَذِہِ الأُخْرَی ، قَالَ: وَأَحْسَبُ أَنَّہُ جَلَدَ أَبَاہَا ، أَوْ أَرَادَ أَنْ یَجْلِدَہُ۔
(١٦٦١٧) حضرت ابو الوضین فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ ایک آدمی نے شام کے ایک شخص کی بیٹی جس کی کنیت ” ابنۃ مہیرۃ “ (مہیرہ کہنے کی وجہ اس کے مہر کا زیادہ ہونا تھا) تھی، نکاح کیا۔ لیکن شبِ زفاف میں اسے ایک دوسری بیٹی پیش کردی گئی جس کی کنیت ” ابنۃ فتاۃ “ (اس کا مہر کم تھا) تھی۔ جب اس رات آدمی نے اس لڑکی سے جماع کرلیا تو پوچھا ” تو کون ہے ؟ “ اس نے کہا کہ میں ” ابنۃ فتاۃ “ ہوں۔ اس آدمی نے کہا تمہارے باپ نے تو میری شادی ” ابنۃ مہیرہ “ سے کی تھی۔ پس یہ لوگ اپنا مقدمہ لے کر حضرت معاویہ بن ابی سفیان (رض) کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ حضرت معاویہ (رض) نے فرمایا کہ عورت کے بدلے عورت ہوگئی لہٰذا کوئی جھگڑا نہیں۔ حضرت معاویہ (رض) نے اپنے پاس موجود شامی علماء سے اس بارے میں مشورہ کیا تو انھوں نے بھی یہی فتوی دیا۔ پھر اس آدمی نے کہا کہ میں یہ قضیہ حضرت علی (رض) کے پاس لے جانا چاہتا ہوں۔ حضرت معاویہ (رض) نے اس کی اجازت دے دی۔ مقدمہ حضرت علی (رض) کی خدمت میں پیش کیا گیا تو آپ نے زمین سے کوئی معمولی سی چیز اٹھائی اور فرمایا کہ میرے لیے اس کا فیصلہ کرنا اس چیز سے بھی زیادہ معمولی ہے۔ اس عورت کو تو اتنا مہر ملے گا جو تو نے اس کی شرمگاہ کو حلال کرنے کے لیے اسے ادا کیا ہے۔ اور اس کے باپ پر لازم ہے کہ دوسری بیٹی کو وہ مال دے جو تو نے اسے ادا کیا ہے اور تو اس کے قریب اس وقت تک نہ جانا جب تک پہلی لڑکی عدت نہ گزار لے۔ راوی کہتے ہیں کہ میرے خیال میں حضرت علی (رض) نے لڑکی کے والد کو کوڑے لگوائے یاکوڑے لگوانے کا ارادہ فرمایا۔

16617

(۱۶۶۱۸) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، وَأَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ المُغِیرَۃَ الطَّائِفِیِّ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ابن البیلمَانِی مَوْلَی عُمَرَ قَالَ : خَطَبَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : أَنْکِحُوا الأَیَامَی مِنْکُمْ فَقَامَ إلَیْہِ رَجُلٌ ، فَقَالَ : یَا رَسُولَ اللہِ ، مَا الْعَلاَئِقُ بَیْنَہُمْ ؟ قَالَ : مَا تَرَاضَی عَلَیْہِ أَہْلُوہُمْ۔ (بیہقی ۲۳۹۔ ابن عدی ۲۱۸۸)
(١٦٦١٨) حضرت عمر (رض) فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خطبہ میں ارشاد فرمایا کہ کنوارے لوگوں کی شادیاں کراؤ۔ ایک آدمی نے کھڑے ہو کر سوال کیا کہ اے اللہ کے رسول ! ان کے مہر کیا ہوں گے ؟ آپ نے فرمایا کہ جس پر ان کے گھر والے راضی ہوجائیں۔

16618

(۱۶۶۱۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ ابْنِ أَبِی لَبِیبۃَ ، عَنْ جَدِّہِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَنِ اسْتَحَلَّ بِدِرْہَمٍ فَقَدِ اسْتَحَلَّ قَالَ : وَسَمِعْت وَکِیعًا یُفْتِی بِہِ یَقُولُ : یَتَزَوَّجُہَا بِدِرْہَمٍ۔ (ابویعلی ۹۳۹)
(١٦٦١٩) حضرت ابن ابی لبیبہ کے دادا فرماتے ہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ جس شخص نے ایک درہم کے ذریعہ بھی عورت کو حلال کیا اس کے لیے حلال ہوگئی۔ حضرت وکیع کا فتوی بھی یہی تھا کہ مہر میں ایک درہم دینا بھی جائز ہے۔

16619

(۱۶۶۲۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُبَیْدِ اللہِ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَامِرِ بْنِ رَبِیعَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ أَنَّ رَجُلاً تَزَوَّجَ عَلَی عَہْدِ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَی نَعْلَیْنِ فَأَجَازَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نِکَاحَہُ۔ (ترمذی ۱۱۱۳۔ احمد ۳/۴۴۵)
(١٦٦٢٠) حضرت عامر بن ربیعہ فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے عہد نبوی میں دو جوتے مہر کے عوض ایک عورت سے نکاح کیا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے نکاح کو جائز قرار دیا۔

16620

(۱۶۶۲۱) حَدَّثَنَا حُسَیْنِ بْنِ عَلِیٍّ ، عَنْ زَائِدَۃَ ، عَنْ أَبِی حَازِمٍ ، عَنْ سَہْلِ بْنُ سعْدٍ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ زَوَّجَ رَجُلاً امْرَأَۃً عَلَی أَنْ یُعَلِّمَہَا سُورَۃً مِنَ الْقُرْآنِ۔ (بخاری ۲۳۱۰۔ مسلم ۷۷)
(١٦٦٢١) حضرت سہل بن سعد (رض) فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک آدمی کی ایک عورت سے اس مہر پر شادی کرائی کہ وہ عورت کو قرآن مجید کی ایک سورت سکھائے گا۔

16621

(۱۶۶۲۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ بْنِ أُمَیَّۃَ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ قَالَ : لَوْ رَضِیَتْ بِسَوْطٍ کَانَ مَہْرَہَا۔
(١٦٦٢٢) حضرت سعید بن مسیب فرماتے ہیں کہ عورت اگر ایک درّہ (کوڑا) مہر لینے پر راضی ہوجائے تو وہی اس کا مہر بن جائے گا۔

16622

(۱۶۶۲۳) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ أَنَسٍ قَالَ : تَزَوَّجَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ عَلَی وَزْنِ نَوَاۃٍ مِنْ ذَہَبٍ قُوِّمَتْ ثَلاَثَۃَ دَرَاہِمَ وَثُلُثًا۔
(١٦٦٢٣) حضرت انس بن مالک (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عبد الرحمن بن عوف (رض) نے سونے کی ایک گٹھلی کے عوض نکاح کیا، وہ گٹھلی تین درہم اور ایک تہائی درہم کے برابر تھی۔

16623

(۱۶۶۲۴) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ، عَنْ عَمْرٍو، عَنِ الْحَسَنِ قَالَ: مَا تَرَاضَی عَلَیْہِ الزَّوْجُ وَالْمَرْأَۃُ مِنْ شَیْئٍ فَہُوَ مَہْرٌ۔
(١٦٦٢٤) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ جتنے مہر پر میاں بیوی راضی ہوجائیں وہی مہر کافی ہے۔

16624

(۱۶۶۲۵) حَدَّثَنَا عبد اللہ بْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ ، عَنْ عَطَائٍ ، فِی الرَّجُلِ یَتَزَوَّجُ عَلَی عَشَرَۃِ دَرَاہِمَ قَالَ : قدْ کَانَ الْمُسْلِمُونَ یَتَزَوَّجُونَ عَلَی أَقَلَّ مِنْ ذَلِکَ وَأَکْثَرَ۔
(١٦٦٢٥) حضرت عطاء اس شخص کے بارے میں جو دس دراہم کے عوض نکاح کرے فرماتے تھے کہ مسلمان اس سے کم اور اس سے زیادہ پر بھی نکاح کیا کرتے تھے۔

16625

(۱۶۶۲۶) حَدَّثَنَا إسماعیل ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ صَالِحِ بْنِ مُسْلِمٍ قَالَ : قُلْتُ لِلشَّعْبِیِّ : رَجُلٌ تَزَوَّجَ امْرَأَۃً بِدِرْہَمٍ قَالَ : لاَ یَصْلُحُ إلاَّ بِثَوْبٍ ، أَوْ بِشَیْئٍ۔
(١٦٦٢٦) حضرت صالح بن مسلم فرماتے ہیں کہ میں نے شعبی سے سوال کیا کہ اگر کوئی شخص ایک درہم کے عوض کسی عورت سے نکاح کرے تو کیسا ہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ کپڑا یا اس جیسی کوئی چیز بہتر ہے۔

16626

(۱۶۶۲۷) حَدَّثَنَا مُعْتَمِرُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ قَالَ : سَأَلْتُ الْحَسَنَ مَا أَدْنَی مَا یَتَزَوَّجُ الرَّجُلُ عَلَیْہِ ؟ قَالَ : نَوَاۃٌ مِنْ ذَہَبٍ ، أَوْ وَزْنُ نَوَاۃٍ مِنْ ذَہَبٍ۔
(١٦٦٢٧) حضرت ابن عون فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت حسن سے مہر کی کم از کم مقدار کے بارے میں سوال کیا تو انھوں نے فرمایا کہ سونے کی ایک گٹھلی یا اس کے برابر کوئی چیز۔

16627

(۱۶۶۲۸) حَدَّثَنَا حَفْص بن غیاث ، عَنْ أَشْعَثَ وَہِشَامٍ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ ، عَنْ أَبِی الْعَجْفَائِ السُّلَمِیِّ ، عَنْ عُمَرَ ، قَالَ : لاَ تُغَالُوا فِی مُہُورِ النِّسَائِ فَإِنَّہَا لَوْ کَانَتْ مَکْرُمَۃً فِی الدُّنْیَا ، أَوْ تَقْوَی عِنْدَ اللہِ لَکَانَ أَحَقَّکُمْ بِہَا مُحَمَّدًا صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَأَوْلاَکُمْ ، مَا زَوَّجَ بِنْتًا مِنْ بَنَاتِہِ وَلاَ تَزَوَّجَ شَیْئًا مِنْ نِسَائِہِ إلاَّ عَلَی اثْنَتَی عَشْرَۃَ أُوقِیَّۃً۔ (ابوداؤد ۲۰۹۹۔ احمد ۱/۴۰)
(١٦٦٢٨) حضرت عمر (رض) فرماتے ہیں کہ عورتوں کو بہت زیادہ مہر نہ دو ، کیونکہ اگر یہ دنیا میں کوئی عزت کی چیز ہوتی یا تقویٰ کا سبب ہوتی تو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کی اولاد اس کے زیادہ حقدار ہوتے۔ حالانکہ آپ نے اپنی تمام صاحبزادیوں کا نکاح اور اپنی تمام ازواج سے نکاح بارہ اوقیہ چاندی پر کیا ہے۔

16628

(۱۶۶۲۹) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ قَالَ : أَخْبَرَنَا ابْنُ عَوْنٍ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ ، عَنْ أَبِی الْعَجْفَائِ السُّلَمِی قَالَ قَالَ عُمَرُ : لاَ تُغَالُوا صُدُقَ النِّسَائِ ثُمَّ ذَکَرَ مِثْلَ حَدِیثِ حَفْصٍ۔ (ابن ماجہ ۱۸۸۷)
(١٦٦٢٩) ایک اور سند سے یونہی منقول ہے۔

16629

(۱۶۶۳۰) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِی مُحَمَّدُ بْنُ إبْرَاہِیمَ قَالَ : کَانَ صَدَاقُ بَنَاتِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَصَدَاقُ نِسَائِہِ خَمْسَ مِئَۃِ دِرْہَمٍ۔ (ابوداؤد ۲۰۹۸۔ عبدالرزاق ۱۰۴۰۷)
(١٦٦٣٠) حضرت محمد بن ابراہیم فرماتے ہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صاحبزادیوں اور آپ کی ازواج کا مہر پانچ سو درہم تھا۔

16630

(۱۶۶۳۱) حَدَّثَنَا شَرِیک عَبْدِاللہِ، عَنْ دَاوُدَ الزعَافِری، عَنِ الشَّعْبِیِّ قَالَ: قَالَ عَلِیٌّ: لاَ مَہْرَ بِأَقَلَّ مِنْ عَشَرَۃِ دَرَاہِمَ۔
(١٦٦٣١) حضرت علی (رض) فرماتے ہیں کہ دس درہم سے کم مہر نہیں ہوتا۔

16631

(۱۶۶۳۲) حَدَّثَنَا وَکِیع بن الجراح ، عَنِ ابن أَبِی رَوَّادٍ ، عَنْ نَافِعٍ ، أَنَّ عُمَرَ نَہَی أَنْ یُزَادَ النِّسَاء عَلَی أَرْبَعِ مِئَۃٍ۔
(١٦٦٣٢) حضرت نافع فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے عورتوں کا مہر چار سو سے زائد کرنے سے منع کیا ہے۔

16632

(۱۶۶۳۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنِ الْحَکَمِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، أَنَّہُ کَرِہَ أَنْ یُتَزَوَّجَ عَلَی أَقَلَّ مِنْ أرْبَعِینَ ، وَکَانَ الْحَکَمُ لاَ یَرَی بِہِ بَأْسًا۔
(١٦٦٣٣) حضرت ابراہیم نے اس بات کو مکروہ قرار دیا ہے کہ چالیس درہم سے کم مہر کے عوض نکاح کیا جائے اور حضرت حکم اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے۔

16633

(۱۶۶۳۴) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ ، عَنْ نَافِعٍ قَالَ : تَزَوَّجَ ابْنُ عُمَرَ صَفِیَّۃَ عَلَی أَرْبَعِ مِئَۃِ دِرْہَمٍ فَأَرْسَلَتْ إلَیْہِ إِنَّ ہَذَا لاَ یَکْفِینَا فَزَادَہَا مِئَتَیْنِ سِرًّا مِنْ عُمَرَ۔
(١٦٦٣٤) حضرت نافع فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عمر (رض) نے چار سو درہم کے عوض صفیہ سے نکاح فرمایا، صفیہ نے انھیں پیغام بھیجا کہ اتنا مہر کافی نہیں ہے۔ پھر حضرت ابن عمر (رض) نے حضرت عمر (رض) سے چھپ کردو سو درہم کا اضافہ کیا۔

16634

(۱۶۶۳۵) حَدَّثَنَا جَرِیرُ بْنُ عَبْدِ الْحَمِیدِ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ قَالَ : السُّنَّۃُ فِی النِّکَاحِ اثْنَا عَشَرَ أُوقِیَّۃً وَنِصْفَ فَذَلِکَ خَمْسُ مِئَۃِ دِرْہَمٍ۔
(١٦٦٣٥) حضرت سعید بن مسیب فرماتے ہیں کہ نکاح میں سنت بارہ اوقیہ پورے اور نصف اوقیہ چاندی ہے اور یہ پانچ سو درہم بنتے ہیں۔

16635

(۱۶۶۳۶) حَدَّثَنَا حُمَیْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ حَسَنٍ ، عَنْ أَبِی ہَارُونَ ، عَنْ أَبِی سَعِیدٍ قَالَ : لَیْسَ عَلَی الرَّجُلِ جُنَاحٌ أَنْ یَتَزَوَّجَ بِقَلِیلٍ مِنْ مَالِہِ ، أَوْ کَثِیرٍ إذَا تَرَاضَوْا وَأَشْہَدُوا۔
(١٦٦٣٦) حضرت ابو سعید فرماتے ہیں کہ مرد کے لیے کسی قلیل وکثیر مال پر نکاح کرنا لازم نہیں، بس باہمی رضامندی کافی ہے۔

16636

(۱۶۶۳۷) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ أَیُّوبَ بن مُوسَی ، عَنِ ابْنِ قُسَیْطٍ أَنَّ سَعِیدَ بْنَ الْمُسَیَّبِ قَالَ : لَوْ أَصْدَقَہَا سَوْطًا لَحَلَّتْ لَہُ۔
(١٦٦٣٧) حضرت سعید بن مسیب فرماتے ہیں کہ اگر آدمی عورت کو ایک درہ مہر میں دے تو کافی ہے۔

16637

(۱۶۶۳۸) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ قَالَ : حدَّثَنِی مُوسَی بْنُ عَبْدِ اللہِ قَالَ : حدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ عَبْدِ اللہِ بْنِ أَبِی طَلْحَۃَ الأَنْصَارِیُّ ، أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ تَزَوَّجَ سَوْدَۃَ بِنْتَ زَمْعَۃَ عَلَی بَیْتٍ وَرِثَہُ مِنْ بَعْضِ نِسَائِہِ۔
(١٦٦٣٨) حضرت اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ انصاری فرماتے ہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت سودہ بنت زمعہ سے ایک کمرے کے عوض نکاح کیا جو آپ کو ایک اہلیہ کی طرف سے وراثت میں ملا تھا۔

16638

(۱۶۶۳۹) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِد الأحمر ، عَنِ الأَعْمَشِِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالَ : کَانُوا یَکْرَہُونَ أَنْ یَتَزَوَّجَ الرَّجُلُ عَلَی الدِّرْہَمِ وَالدِّرْہَمَین مِثْلِ مَہْرِ الْبَغِیِّ۔
(١٦٦٣٩) حضرت ابراہیم اس بات کو ناپسندیدہ قرار دیتے تھے کہ عورتوں کا مہر فاحشہ کی اجرت کی طرح ایک یا دو درہم رکھا جائے۔

16639

(۱۶۶۴۰) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شعبۃ عن أَبِی سَلَمَۃَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ قَالَ : سَمِعَہُ یَقُولُ : کَانُوا یَکْرَہُونَ أَنْ یُتَزَوَّجَ عَلَی أَقَلَّ مِنْ ثَلاَثِ أَوَاقٍ۔
(١٦٦٤٠) حضرت شعبی فرماتے ہیں کہ اسلاف علماء اس بات کو ناپسند قرار دیتے تھے کہ عورت کا مہر تین اوقیہ سے کم ہو۔

16640

(۱۶۶۴۱) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَۃَ ، عَنِ ابْنِ سَخْبَرَۃَ ، عَنِ الْقَاسِمِ ، عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : أَعْظَمُ النِّسَائِ بَرَکَۃً أَیْسَرُہُنَّ مُؤْنَۃً۔ (احمد ۶/۱۴۵۔ حاکم ۱۷۸)
(١٦٦٤١) حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ سب سے زیادہ برکت اس نکاح میں ہوتی ہے جس میں خرچہ سب سے کم ہوتا ہے۔

16641

(۱۶۶۴۲) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ قَالَ : حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إبْرَاہِیمَ التَّیْمِیِّ أَنَّ أَبَا حَدْرَدٍ الأَسْلَمِیَّ اسْتَعَانَ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی مَہْرِ امْرَأَۃٍ نَکَحَہَا فَسَأَلَہُ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : کَمْ أَصْدَقْتہَا ؟ فَقَالَ : مِئَتَی دِرْہَمٍ ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لَوْ کُنْتُمْ تَغْرِفُونَ مِنْ بَطْحَانَ مَا زِدْتُمْ۔ (احمد ۳/۴۴۸۔ طبرانی ۸۸۴)
(١٦٦٤٢) حضرت محمد بن ابراہیم تیمی فرماتے ہیں کہ ابو حدرد اسلمی نے اپنی بیوی کے مہر میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مدد چاہی آپ نے فرمایا کہ تم نے اس کے لیے کتنا مہر طے کیا ہے ؟ انھوں نے کہا کہ دو سو درہم، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اگر تم دراہم کو بطحان نامی وادی سے ہاتھوں میں بھر کر لاتے تو اتنا زیادہ مہر نہ رکھتے۔

16642

(۱۶۶۴۳) حَدَّثَنَا عَبْدَۃ بن سلیمان ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِی جَعْفَرٍ أَنَّ النَّجَاشِیَّ زَوَّجَ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أُمَّ حَبِیبَۃَ عَلَی أَرْبَعِ مِئَۃِ دِینَارٍ۔ (ابوداؤد ۲۱۰۰۔ ابن سعد ۹۸)
(١٦٦٤٣) حضرت ابو جعفر فرماتے ہیں کہ نجاشی نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے حضرت ام حبیبہ (رض) کا نکاح چار سو دینار کے عوض کرایا۔

16643

(۱۶۶۴۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ عَطَائٍ الْخُرَاسَانِیِّ أَنَّ عُمَرَ تَزَوَّجَ أُمَّ کُلْثُومٍ عَلَی أَرْبَعِینَ أَلْفِ دِرْہَمٍ۔
(١٦٦٤٤) حضرت عطاء خراسانی فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے حضرت ام کلثوم (رض) سے چالیس ہزار درہم کے عوض نکاح فرمایا۔

16644

(۱۶۶۴۵) حَدَّثَنَا جَرِیرُ بْنُ عَبْدِ الْحَمِیدِ ، عَنْ یَزِیدَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِی لَیْلَی أَنَّ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ عَوْفٍ تَزَوَّجَ امْرَأَۃً عَلَی ثَلاَثِینَ أَلْفًا۔
(١٦٦٤٥) حضرت عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ فرماتے ہیں کہ حضرت عبد الرحمن بن عوف نے ایک عورت سے تیس ہزار درہم کے عوض نکاح فرمایا۔

16645

(۱۶۶۴۶) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ أَبِی الْعُمَیْسِ ، عَنِ الْمُغِیرَۃِ بْنِ حَکِیمٍ قَالَ : أَوَّلُ مَنْ سَنَّ الصَّدَاقَ أَرْبَعَ مِئَۃِ دِینَارٍ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیزِ۔
(١٦٦٤٦) حضرت مغیرہ بن حکیم فرماتے ہیں کہ سب سے پہلے چار سو دینار مہر دینے والے حضرت عمر بن عبد العزیز ہیں۔

16646

(۱۶۶۴۷) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ؛ أَنَّہُ تَزَوَّجَ شُمیلۃ السُّلمیۃ عَلَی عَشَرَۃِ آلاَفٍ۔
(١٦٦٤٧) حضرت ابن سیرین فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عباس (رض) نے شمیلہ سلمیہ سے دس ہزار درہم کے عوض نکاح فرمایا۔

16647

(۱۶۶۴۸) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنْ نَافِعٍ أَنَّ ابْنَ عُمَرَ کَانَ یُزَوِّجُ الْمَرْأَۃَ مِنْ بَنَاتِہِ عَلَی عَشَرَۃِ آلاَفٍ۔ (ابویوسف ۱۰۲۱)
(١٦٦٤٨) حضرت ابن عمر (رض) نے اپنی ہر بیٹی کا نکاح دس ہزار درہم کے عوض کرایا۔

16648

(۱۶۶۴۹) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ مَہْدِیٍّ ، عَنْ غَیْلاَنَ ، عَنْ مُطَرِّفٍ أَنَّہُ أَصْدَقَ امْرَأَۃً تَزَوَّجَہَا مِنْ بَنِی عُقَیْلٍ عِشْرِینَ أَلْفًا۔
(١٦٦٤٩) حضرت مطرف نے بنو عقیل کی ایک خاتون سے بیس ہزار درہم کے عوض نکاح فرمایا۔

16649

(۱۶۶۵۰) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ أَنَّ عُمَرَ رَخَّصَ أَنْ تُصْدَق الْمَرْأَۃَ أَلْفَیْنِ وَرَخَّصَ عُثْمَانُ فِی أَرْبَعَۃِ آلاَفٍ۔
(١٦٦٥٠) حضرت ابن سیرین فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے دو ہزار اور حضرت عثمان (رض) نے چار ہزار مہر دینے کی اجازت دی ہے۔

16650

(۱۶۶۵۱) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ کُرَیْبِ بْنِ ہِشَامٍ ، وَکَانَ مِنْ أَصْحَابِ عَبْدِ اللہِ أَنَّہُ تَزَوَّجَ امْرَأَۃً عَلَی أَرْبَعَۃِ آلاَفٍ۔
(١٦٦٥١) حضرت کریب بن ہشام جو کہ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) کے ایک شاگرد ہیں، انھوں نے ایک عورت سے چار ہزار درہم کے عوض نکاح فرمایا۔

16651

(۱۶۶۵۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ أَبِی ہِلاَلٍ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ قَالَ : خَطَبَ عَمْرُو بْنُ حُرَیْثٍ إلَی عَدِیِّ بْنِ حَاتِمٍ ابْنَتَہُ فَأَبَی إلاَّ عَلَی حُکْمِہِ فَحَکَّمَ عَدِیٌّ سُنَّۃَ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ثَمَانِینَ وَأَرْبَعَ مِئَۃٍ فَبَعَثَ إلَیْہِ عَمْرٌو بِعَشَرَۃِ آلاَفٍ ، فَقَالَ : جَہِّزْہَا۔
(١٦٦٥٢) حضرت ابن سیرین فرماتے ہیں کہ عمرو بن حریث نے حضرت عدی بن حاتم کی بیٹی کے لیے پیام نکاح بھیجا۔ عدی نے مہر کے لیے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت کا مطالبہ کیا جو کہ چار سو اسی بنتے تھے۔ عمرو بن حریث نے اس مالیت کے عوض حضرت عدی کی بیٹی سے نکاح کرلیا۔

16652

(۱۶۶۵۳) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنْ مُحَمَّدٍ أَنَّ الْحَسَنَ بْنَ عَلِیٍّ تَزَوَّجَ امْرَأَۃً فَأَرْسَلَ إلَیْہَا مِئَۃَ جَارِیَۃٍ مَعَ کُلِّ جَارِیَۃٍ أَلْفُ دِرْہَمٍ۔
(١٦٦٥٣) حضرت حسن بن علی (رض) نے ایک عورت سے نکاح فرمایا، اور اس کے پاس سو باندیاں بھیجیں ہر باندی کے پاس ایک ہزار درہم تھے !

16653

(۱۶۶۵۴) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ أَنَّ رَجُلاً تَزَوَّجَ امْرَأَۃً فَأَسَرَّ ذَلِکَ ، فَکَانَ یَخْتَلِفُ إلَیْہَا فِی مَنْزِلِہَا فَرَآہُ جَارٌ لَہَا یَدْخُلُ عَلَیْہَا فَقَذَفَہُ بِہَا فَخَاصَمَہُ إلَی عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ ، فَقَالَ : یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ ، ہَذَا کَانَ یَدْخُلُ عَلَی جَارِیَۃٍ وَلاَ أَعْلَمُہُ تَزَوَّجَہَا ، فَقَالَ لَہُ : مَا تَقُولُ ؟ فَقَالَ : تَزَوَّجْت امْرَأَۃً عَلَی شَیْئٍ دُونٍ فَأَخْفَیْتُ ذَلِکَ ، قَالَ : فَمَنْ شَہِدَکُمْ ؟ قَالَ : أَشْہَدْت بَعْضَ أَہْلِہَا ، قَالَ : فَدَرَأَ الْحَدَّ ، عَنْ قَاذِفِہِ وَقَالَ: أَعْلِنُوا ہَذَا النِّکَاحَ وَحَصِّنُوا ہَذِہِ الْفُرُوجَ۔
(١٦٦٥٤) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ ایک آدمی نے کسی عورت سے خفیہ طور پر شادی کی، وہ اس کے گھرآیا کرتا تھا۔ ایک مرتبہ عورت کے ایک پڑوسی نے آدمی کو اس کے گھر آتے دیکھ لیا تو اس پر تہمت لگا دی۔ یہ جھگڑا لے کر وہ حضرت عمر بن خطاب (رض) کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ تہمت لگانے والے پڑوسی نے کہا کہ اے امیر المؤمنین ! یہ شخص میری پڑوسن کے پاس آتا ہے اور مجھے ان کے نکاح کا کوئی علم نہیں ہے۔ حضرت عمر (رض) نے اس شخص کا بیان معلوم کیا تو اس نے کہا میں نے اس عورت سے خفیہ طور پر شادی کی ہے۔ حضرت عمر (رض) نے گواہوں کی بابت سوال کیا تو اس نے کہا عورت کے کچھ رشتہ دار اس نکاح کے گواہ ہیں۔ حضرت عمر (رض) نے تہمت لگانے والے پر حد تو جاری نہ کی البتہ ان سے فرمایا کہ نکاح کو اعلانیہ کیا کرو اور شرمگاہوں کو پاکدامن رکھو۔

16654

(۱۶۶۵۵) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ زَیْدٍ ، عَنْ ہِشَامٍ قَالَ کَانَ أَبِی یَقُولُ : لاَ یَصْلُحُ نِکَاحُ السِّرِّ۔
(١٦٦٥٥) حضرت ہشام فرماتے ہیں کہ میرے والد فرمایا کرتے تھے کہ خفیہ نکاح اچھا نہیں ہے۔

16655

(۱۶۶۵۶) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ حُبَابٍ ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ قیس ، قَالَ : سَمِعْتُ نَافِعًا مَوْلَی ابْنِ عُمَرَ یَقُولُ : لَیْسَ فِی الإِسْلاَمِ نِکَاحُ السِّرِّ۔
(١٦٦٥٦) حضرت نافع فرماتے ہیں کہ اسلام میں خفیہ نکاح نہیں ہے۔

16656

(۱۶۶۵۷) حَدَّثَنَا أَبُو نُعَیْمٍ، عَنْ سُفْیَانَ، عَنْ زِیَادِ بْنِ فَیَّاضٍ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُتْبَۃَ قَالَ، أَشَرُّ النِّکَاحِ نکاح السِّرُّ۔
(١٦٦٥٧) حضرت عبداللہ بن عتبہ فرماتے ہیں کہ بدترین نکاح خفیہ نکاح ہے۔

16657

(۱۶۶۵۸) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ عَطَائٍ قَالَ : مُرَّ عَلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِعَرُوسٍ ، فَقَالَ : لَوْ کَانَ مَعَ ہَذَا لَہْوٌ۔ (بخاری ۵۱۶۲۔ حاکم ۱۸۴)
(١٦٦٥٨) حضرت عطاء فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا گزر ایک شادی کے پاس سے ہوا تو آپ نے فرمایا کہ اگر یہاں کچھ لہو (گانا وغیرہ) ہوتا تو اچھا تھا۔

16658

(۱۶۶۵۹) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ قَالَ : نُبِّئْت أَنَّ عُمَرَ کَانَ إذَا اسْتَمَعَ صَوْتًا أَنْکَرَہُ وَسَأَلَ عَنْہُ ، فَإِنْ قِیلَ عُرْسٌ ، أَوْ خِتَانٌ أَقَرَّہُ۔
(١٦٦٥٩) حضرت ابن سیرین فرماتے ہیں کہ ہمیں معلوم ہوا ہے کہ حضرت عمر (رض) جب کوئی گانے بجانے کی آواز سنتے تو اسے برا قرار دیتے اور اس کے بارے میں سوال کرتے ، اگر ان سے کہا جاتا کہ یہ شادی یا بچے کے ختنہ کی تقریب ہے تو آپ کچھ نہ کہتے۔

16659

(۱۶۶۶۰) حَدَّثَنَا وَکِیع بن الجراح ، عَنْ أُسَامَۃَ بْنِ زَیْدٍ ، عَنْ شَیْخٍ مِنْ بَنِی سَلِمَۃَ ، عَنْ أبی قَتَادَۃَ أَنَّہُ قَالَ لِجَارِیَۃٍ فِی عُرْسٍ تَضْرِبُ بِالدُّفِّ : ارْعَفِی ارْعَفِی۔
(١٦٦٦٠) بنو سلمہ کے ایک شیخ فرماتے ہیں کہ حضرت ابو قتادہ نے شادی کے موقع پر دف بجانے والی ایک لڑکی سے کہا کہ آگے بڑھ کر بجاؤ، آگے بڑھ کربجاؤ۔

16660

(۱۶۶۶۱) حَدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ بْنُ عَیَّاشٍ ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِیزِ بْنِ عُبَیْدِ اللہِ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَطَائٍ ، عَنْ أَبِی سَلَمَۃَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ قَالَ : لَقَدْ ضُرِبَ لَیْلَۃَ الملک بِالدُّفِّ وَغُنِّیَ عَلَی رَأْسِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ۔
(١٦٦٦١) حضرت ابو سلمہ بن عبدالرحمن فرماتے ہیں کہ شادی کی رات میں ڈھول بجایا گیا اور حضرت عبد الرحمن بن عوف کے پاس گانا گایا گیا۔

16661

(۱۶۶۶۲) حَدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ قَالَ : دَخَلْتُ عَلَی أَبِی مَسْعُود وَقَرَظَۃَ بْنِ کَعْبٍ وَعِنْدَہُمَا جَوَارٍ یُغَنِّینَ ، فَقُلْتُ : أَتَفْعَلُونَ ہَذَا وَأَنْتُمْ أَصْحَابُ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ؟ قَالَ ، فَقَالَ : إنَّہُ رُخِّصَ لَنَا فِی اللَّہْوِ عِنْدَ الْعُرْسِ۔ (بیہقی ۲۸۹۔ طبرانی ۶۹۰)
(١٦٦٦٢) حضرت عامر بن سعد فرماتے ہیں کہ میں حضرت ابو مسعود اور حضرت قرظہ بن کعب کی خدمت میں حاضر ہوا، ان کے پاس کچھ لڑکیاں بیٹھی گانا گا رہی تھیں۔ میں نے کہا کہ تم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب ہو کر ایسا کرتے ہو ؟ انھوں نے فرمایا کہ شادی کے موقع پر گانے وغیرہ کی اجازت دی گئی ہے۔

16662

(۱۶۶۶۳) حَدَّثَنَا شَبَابَۃُ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ أَبِی بَلْجٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ حَاطِبٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَصْلُ مَا بَیْنَ الْحَلاَلِ وَالْحَرَامِ الصَّوْتُ یَعْنِی الضَّرْبَ بِالدُّفِّ۔ (ترمذی ۱۰۸۸۔ احمد ۳/۴۱۸)
(١٦٦٦٣) حضرت محمد بن حاطب فرماتے ہیں کہ حلال و حرام کے درمیان آواز یعنی دف بجانے کا فرق ہے۔

16663

(۱۶۶۶۴) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا إِسْحَاقَ یُحَدِّثُ ، عَنْ عامر بن سعد أَنَّہُ قَالَ : کُنْتُ مَعَ ثَابِتِ بْنِ وَدِیعَۃَ وَقَرَظَۃَ بْنِ کَعْبٍ فِی عُرْسٍ فَسَمِعْت صَوْتَ غِنَائٍ ، فَقُلْتُ : أَلاَ تَسْمَعَانِ ؟ فَقَالاَ : إنَّہُ قَدْ رُخِّصَ لَنَا فِی الْغِنَائِ عِنْدَ الْعُرْسِ وَالْبُکَائِ عَلَی الْمَیِّتِ مِنْ غَیْرِ نِیَاحَۃٍ۔ (حاکم ۱۸۴۔ طیالسی ۱۲۲۱)
(١٦٦٦٤) حضرت عامر بن سعد کہتے ہیں کہ میں حضرت ثابت بن ودیعہ اور حضرت قرظہ بن کعب کے ساتھ ایک شادی میں شریک تھا۔ میں نے گانے کی آواز سنی تو کہا کہ کیا آپ دونوں یہ آواز نہیں سن رہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ ہمیں شادی میں گانے کی اور میت پر بغیر آواز کے رونے کی اجازت دی گئی ہے۔

16664

(۱۶۶۶۵) حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ مُعَاذٍ قَالَ : حدَّثَنَا ابْنُ عَوْنٍ قَالَ : کَانَ فِی آلِ مُحَمَّدٍ مِلاَکٌ فَلَمَّا أَنْ فَرَغُوا وَرَجَعَ مُحَمَّدٌ إلَی مَنْزِلِہِ قَالَ لَہُنَّ : فَأَیْنَ صفاقتکن قَالَ ابْنُ عَوْنٍ : یَعْنِیَ الدُّفَّ۔
(١٦٦٦٥) حضرت ابن عون فرماتے ہیں کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ایک گھر میں شادی تھی۔ جب لوگ شادی کی تقریب سے فارغ ہوگئے اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے گھر واپس آئے تو عورتوں سے پوچھا کہ تمہارے دف کہاں ہیں۔

16665

(۱۶۶۶۶) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِِ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ رَجُلٍ قَالَ : دَخَلَ ابْنُ مَسْعُودٍ عُرْسًا فِیہِ مَزَامِیرُ وَلَہْوٌ فَقَعَدَ وَلَمْ یَنْہَ عَنْہُ۔
(١٦٦٦٦) ایک صاحب نقل کرتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) ایک شادی میں شریک ہوئے جس میں بانسریاں اور گانے کے آلات تھے، آپ بیٹھ گئے اور اس سے منع نہیں فرمایا۔

16666

(۱۶۶۶۷) حَدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ؛ أَنَّہُ حین خَتَنَ بَنِیہِ فَدَعَا اللاَّعِبِینَ فَأَعْطَاہُمْ أَرْبَعَۃَ دَرَاہِمَ ، أَوْ قَالَ : ثَلاَثَۃً۔
(١٦٦٦٧) حضرت عکرمہ فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عباس (رض) نے جب اپنے بیٹے کے ختنے کئے تو کھیل تماشا کرنے والوں کو بلایا اور انھیں تین یا چار دراہم عطا کئے۔

16667

(۱۶۶۶۸) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عُبَیْدِ اللہِ ، عَنْ مَغْرَاء َ العمی ، عَنْ شُرَیْحٍ أَنَّہُ سَمِعَ صَوْتَ دُفٍّ ، فَقَالَ : الْمَلاَئِکَۃُ لاَ یَدْخُلُونَ بَیْتًا فِیہِ دُفٌّ۔
(١٦٦٦٨) حضرت مغراء عمی فرماتے ہیں کہ حضرت شریح نے ایک مرتبہ دف کی آواز سنی تو فرمایا کہ فرشتے اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں دف ہو۔

16668

(۱۶۶۶۹) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ ، وَابْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ مُسلِم ، قَالَ : قَالَ لِی خَیْثَمَۃُ : أما سَمِعْت سُوَیْدًا یَقُولُ : لاَ تَدْخُلُ الْمَلاَئِکَۃُ بَیْتًا فِیہِ دُفٌّ۔
(١٦٦٦٩) حضرت سوید فرماتے ہیں کہ فرشتے اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں دف ہو۔

16669

(۱۶۶۷۰) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالَ : کَانَ أَصْحَابُ عَبْدِ اللہِ یَسْتَقْبِلُونَ الْجَوَارِیَ فِی الأَزِفَّۃِ مَعَہُنَّ الدُّفُّ فَیَشُقُّونَہَا۔
(١٦٦٧٠) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ (رض) لڑکیوں سے دف لے کر پھاڑ دیا کرتے تھے۔

16670

حدثنا أبو عبد الرحمن بقی بن مخلد ، قَالَ : حدثنا أبو بکر قَالَ : (۱۶۶۷۱) حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ عَیَّاشٍ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنِ القاسم ، أَنَّ عَبْدَ اللہِ بْنَ جَعْفَرٍ جَمَعَ بَیْنَ ابْنَۃِ عَلِیٍّ وَامْرَأَتِہِ یَعْنِی مِنْ غَیْرِہَا۔
(١٦٦٧١) حضرت قاسم فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن جعفر نے حضرت علی کی سابقہ بیوی اور ان کی اس بیٹی سے نکاح کیا جو اس بیوی کے علاوہ کسی اور بیوی سے تھی۔

16671

(۱۶۶۷۲) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ بْنِ خَالِدٍ أَنَّ عَبْدَ اللہِ بْنَ صَفْوَانَ تَزَوَّجَ امْرَأَۃَ رَجُلٍ مِنْ ثَقِیفٍ وَابْنَتَہُ یَعْنِی مِنْ غَیْرِہَا۔
(١٦٦٧٢) حضرت عکرمہ بن خالد فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن صفوان نے بنوثقیف کے ایک آدمی کی سابقہ بیوی اور اس کی اس بیٹی سے نکاح کیا جو اس کے علاوہ کسی اور بیوی سے تھی۔

16672

(۱۶۶۷۳) حَدَّثَنَا ابْنِ عُلَیَّۃَ ، عَنْ أَیُّوبَ : سُئِلَ عَنْ ذَلِکَ مُحَمَّدُ بْنُ سِیرِینَ فَلَمْ یَرَ بِہِ بَأْسًا وَقَالَ : نُبِّئْت أَنْ جبَلَۃ رَجُلٌ کَانَ یَکُونُ بِمِصْرٍ تَزَوَّجَ أُمَّ وَلَدِ رَجُلٍ وَابْنَتَہُ یَعْنِی مِنْ غَیْرِہَا۔
(١٦٦٧٣) حضرت ایوب فرماتے ہیں کہ اس بارے میں حضرت محمد بن سیرین سے سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ اس میں کوئی حرج نہیں۔ اور فرمایا کہ مجھے معلوم ہوا کہ مصر میں جبلہ نامی ایک آدمی تھا۔ اس نے ایک آدمی کی ام ولد باندی اور اس کی ایسی بیٹی سے نکاح کیا جو اس کے علاوہ کسی اور عورت سے تھی۔

16673

(۱۶۶۷۴) حَدَّثَنَا الثَّقَفِیُّ ، عَنْ أَیُّوبَ قَالَ : نُبِّئْت ، عَنْ سَعْدِ بْنِ قَرْحَاء رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ جَمَعَ بَیْنَ امْرَأَۃِ رَجُلٍ وَابْنَتِہِ مِنْ غَیْرِہَا۔
(١٦٦٧٤) حضرت ایوب فرماتے ہیں کہ ایک صحابی سعد بن قرحاء نے ایک آدمی کی سابقہ بیوی اور اس کی ایسی بیٹی سے نکاح کیا جو اس کے علاوہ کسی اور بیوی سے تھی۔

16674

(۱۶۶۷۵) حَدَّثَنَا عَبْدُ السَّلاَمِ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ قَالَ : لاَ بَأْسَ أَنْ یَجْمَعَ الرَّجُلُ بَیْنَ أُمِّ وَلَدِ رَجُلٍ وَابْنَتِہِ یَعْنِی مِنْ غَیْرِہَا۔
(١٦٦٧٥) حضرت شعبی فرماتے ہیں کہ آدمی کسی عورت کی ام ولد باندی اور اس کی ایسی بیٹی سے شادی کرسکتا ہے جو کسی اور بیوی سے ہو۔

16675

(۱۶۶۷۶) حَدَّثَنَا عَبْدُ السَّلاَمِ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ قَالَ : لاَ بَأْسَ أَنْ یَجْمَعَ الرَّجُلُ بَیْنَ امْرَأَۃِ الرَّجُلِ وَابْنَتِہِ یَعْنِی مِنْ غَیْرِہَا۔
(١٦٦٧٦) حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ اس بات میں کوئی حرج نہیں کہ آدمی کسی شخص کی سابقہ بیوی اور اس کی ایسی بیٹی سے نکاح کرے جو اس کے علاوہ کسی اور بیوی سے ہو۔

16676

(۱۶۶۷۷) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ قَالَ : لاَ بَأْسَ أَنْ یَجْمَعَ الرَّجُلُ بَیْنَ ابْنَۃِ الرَّجُلِ وَامْرَأَۃِ أَبِیہَا ، وَإِنَّ الْحَسَنَ کَرِہَہُ۔
(١٦٦٧٧) حضرت ابن سیرین فرماتے ہیں کہ اس بات میں کوئی حرج نہیں کہ آدمی کسی شخص کی سابقہ بیوی اور اس کی ایسی بیٹی سے نکاح کرے جو اس کے علاوہ کسی اور بیوی سے ہو۔ جبکہ حضرت حسن کے نزدیک ایسا کرنا مکروہ ہے۔

16677

(۱۶۶۷۸) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ سَلَمَۃَ بْنِ عَلْقَمَۃَ قَالَ : سُئِلَ الْحَسَنُ ، عَنْ ذَلِکَ فَکَرِہَہُ ، فَقَالَ لَہُ بَعْضُہم : یَا أَبَا سَعِیدٍ ، ہَلْ تَرَی بَیْنَہُمَا شَیْئًا ؟ فنظر ، فَقَالَ : لاَ أَرَی بَیْنَہُمَا شَیْئًا۔
(١٦٦٧٨) حضرت حسن سے اس بارے میں سوال کیا گیا تو انھوں نے اسے ناجائز قرار دیا۔ ایک شخص نے سوال کیا کہ کیا ان دونوں کے درمیان کوئی تعلق ہے ؟ انھوں نے غور وفکر کیا پھر فرمایا کہ مجھے ان دونوں کے درمیان کچھ نظر نہیں آتا۔

16678

(۱۶۶۷۹) حَدَّثَنَا شَبَابَۃُ ، عَنْ لَیْثٍ بن سَعْدٍ ، عَنْ یَزِیدَ بْنِ أَبِی حَبِیبٍ ، عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ یَسَارٍ أَنَّہُ کَانَ یَقُولُ : لاَ بَأْسَ أَنْ یَجْمَعَ الرَّجُلُ بَیْنَ الْمَرْأَۃِ وَبَیْنِ امْرَأَۃِ أَبِیہَا۔
(١٦٦٧٩) حضرت سلیمان بن یسار فرماتے ہیں کہ اس بات میں کوئی حرج نہیں کہ آدمی کسی شخص کی سابقہ بیوی اور اس کی ایسی بیٹی سے نکاح کرے جو اس کے علاوہ کسی اور بیوی سے ہو۔

16679

(۱۶۶۸۰) حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ مُعَاذٍ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ قَالَ : سَأَلْتُ مُحَمَّدًا ، فَقَالَ لاَ أَعْلَمُ بِہِ بَأْسًا۔
(١٦٦٨٠) حضرت ابن عون نے اس بارے میں حضرت محمد سے سوال کیا تو انھوں نے لاعلمی کا اظہار فرمایا۔

16680

(۱۶۶۸۱) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ أَیُّوبَ قَالَ : سُئِلَ الْحَسَنُ ، عَنِ الرَّجُلِ یَتَزَوَّجُ امْرَأَۃَ الرَّجُلِ وَابْنَتَہُ فَکَرِہَ ذَلِکَ یَعْنِی مِنْ غَیْرِہَا۔
(١٦٦٨١) حضرت ایوب فرماتے ہیں کہ حضرت حسن سے سوال کیا گیا کہ آدمی اگر کسی شخص کی سابقہ بیوی اور اس کی ایسی بیٹی جو کسی اور بیوی سے ہو دونوں کو نکاح میں جمع کرے تو کیسا ہے ؟ انھوں نے اسے ناجائز قرار دیا۔

16681

(۱۶۶۸۲) حَدَّثَنَا شَبَابَۃُ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ فُضَیْلٍ ، عَنِ أَبِی حَرِیز ، عَنْ عِکْرِمَۃَ أَنَّہُ کَانَ یَکْرَہُ أَنْ یَجْمَعَ الرَّجُلُ بَیْنَ الْمَرْأَۃِ وَامْرَأَۃِ أَبِیہَا۔
(١٦٦٨٢) حضرت عکرمہ اس بات کو مکروہ قرار دیتے تھے کہ کوئی آدمی کسی شخص کی سابقہ بیوی اور اس کی ایسی بیٹی سے نکاح کرے جو اس کے علاوہ کسی اور بیوی سے ہو۔

16682

(۱۶۶۸۳) حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عُثَِیم ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ البیلَمَانِیِّ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ : سُئِلَ نَبِیُّ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا یَجُوزُ فِی الرَّضَاعِ مِنَ الشُّہُودِ ؟ قَالَ رَجُلٌ وَامْرَأَۃٌ۔ (احمد ۲/۱۰۹۔ بیہقی ۴۶۴)
(١٦٦٨٣) حضرت ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے رضاعت کے گواہوں کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ ایک آدمی اور ایک عورت کافی ہیں۔

16683

(۱۶۶۸۴) حَدَّثَنَا عِیسَی بْنُ یُونُسَ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ سَعِیدِ بْنِ أَبِی حُسَیْنٍ قَالَ : حدَّثَنِی عَبْدُ اللہِ بْنُ أَبِی مُلَیْکَۃَ ، قَالَ: حَدَّثَنِی عُقْبَۃُ بْنُ الْحَارِثِ قَالَ : تَزَوَّجْت ابْنَۃَ أَبِی إہَابٍ التّمَِیْمِیِّ فَلَمَّا کَانَتْ صَبِیحَۃُ مِلْکِہَا جَائَتْ مَوْلاَۃٌ لأَہْلِ مَکَّۃَ ، فَقَالَتْ : إنِّی أَرْضَعْتُکُمَا فَرَکِبَ عُقْبَۃُ إلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَہُوَ بِالْمَدِینَۃِ فَذَکَرَ ذَلِکَ لَہُ وَقَدْ سَأَلْت أَہْلَ الْجَارِیَۃِ فَأَنْکَرُوا ، فَقَالَ : کَیْفَ وَقَدْ قِیلَ فَفَارَقَہَا وَنَکَحَتْ غَیْرَہُ۔ (بخاری ۸۸۔ ابوداؤد ۳۵۹۸)
(١٦٦٨٤) حضرت عقبہ بن حارث فرماتے ہیں کہ میں نے ابو اہاب تمیمی کی بیٹی سے شادی کی، شادی کی صبح مکہ کی ایک عورت آئی اور کہنے لگی کہ میں نے تم دونوں کو دودھ پلایا ہے۔ عقبہ سوار ہو کر مدینہ منورہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سارا قصہ عرض کیا، ساتھ یہ بتایا کہ میں نے لڑکی کے گھر والوں سے سوال کیا لیکن انھوں نے لاعلمی کا اظہار کیا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اب تو کہا جاچکا ہے ! پس عقبہ بن حارث نے اس عورت کو چھوڑ کر کسی اور سے شادی کرلی۔

16684

(۱۶۶۸۵) حَدَّثَنَا عَبدَۃ بن سلیمان ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ زَیْدٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ إذَا کَانَتِ الْمَرْأَۃُ مَرْضِیَّۃً جَازَتْ شَہَادَتُہَا فِی الرَّضَاعَۃِ وَیُؤْخَذُ بِیَمِینِہَا۔
(١٦٦٨٥) حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ جب دودھ پلانے کا اقرار کرنے والی عورت راضی لوگوں میں سے ہو تو رضاعت میں اس کی گواہی جائز ہے اور اس کی قسم کا اعتبار کیا جائے گا۔

16685

(۱۶۶۸۶) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنِ ابْنِ أَبِی لَیْلَی ، عَنْ عِکْرِمَۃَ بْنِ خَالِدٍ أَنَّ عُمَرَ رَدَّ شَہَادَۃَ امْرَأَۃٍ فِی رِضَاعٍ۔
(١٦٦٨٦) حضرت عکرمہ بن خالدکہتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے رضاعت کے معاملے میں ایک عورت کی گواہی کو رد کردیا تھا۔

16686

(۱۶۶۸۷) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ حلام بْنِ صَالِحٍ ، عَنْ بُکَیرِ بْنِ فَائِدٍ أَنَّ امْرَأَۃً جَاء َتْ إلَی رَجُلٍ تَزَوَّجَ امْرَأَۃً فَزَعَمَتْ أَنَّہَا قَدْ أَرْضَعَتْہُمَا ، فَأَتَی عَلِیًّا فَسَأَلَہُ ، فَقَالَ : ہِیَ امْرَأَتُک لَیْسَ أَحَدٌ یُحَرِّمُہَا عَلَیْک ، وَإِنْ تَنَزَّہْتَ فَہُوَ أَفْضَلُ ، وَسَأَلَ ابْنَ عَبَّاسٍ ، فَقَالَ مِثْلَ ذَلِکَ۔
(١٦٦٨٧) حضرت بکیر بن فائد فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ ایک آدمی نے شادی کی تو ایک عورت نے آکر دعویٰ کیا کہ اس نے دونوں کو دودھ پلایا ہے۔ وہ آدمی مسئلہ لے کر حضرت علی (رض) کی خدمت میں حاضر ہوا۔ انھوں نے فرمایا کہ وہ تیری بیوی ہے اسے کوئی تجھ پر حرام نہیں کرسکتا۔ البتہ اگر تو اس سے علیحدہ ہوجائے تو بہتر ہے۔ اس نے حضرت ابن عباس (رض) سے اس بارے میں سوال کیا تو انھوں نے بھی یہی فرمایا۔

16687

(۱۶۶۸۸) ، عَنْ مَعْنِ بْنِ عِیسَی ، عَنِ ابْنِ أَبِی ذِئْبٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ قَالَ : نُبِّئْت أَنَّ امْرَأَۃً فِی زَمَانِ عُثْمَانَ جَاء َتْ إلَی أَہْلِ بَیْتٍ ، فَقَالَتْ : قَدْ أَرْضَعْتُکُمْ فَفَرَّقَ بَیْنَہُمَا۔
(١٦٦٨٨) حضرت زہری فرماتے ہیں کہ حضرت عثمان (رض) کے زمانے میں ایک عورت ایک میاں بیوی کے پاس آئی اور دعویٰ کیا کہ اس نے ان دونوں کو دودھ پلایا ہے۔ اس پر حضرت عثمان (رض) نے دونوں کے درمیان جدائی کرادی۔

16688

(۱۶۶۸۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ عَامِرٍ قَالَ : کَانَتِ الْقُضَاۃُ یُفَرِّقُونَ بَیْنَ الرَّجُلِ وَامْرَأَتِہِ بِشَہَادَۃِ الْمَرْأَۃِ فِی الرَّضَاعِ۔
(١٦٦٨٩) حضرت عامر فرماتے ہیں کہ قاضی حضرات رضاعت میں ایک عورت کی گواہی پر میاں بیوی کے درمیان تفریق کرا دیا کرتے تھے۔

16689

(۱۶۶۹۰) حَدَّثَنَا مَعْنُ بْنُ عِیسَی، عَنِ ابْنِ أَبِی ذِئْبٍ، عَنِ الزُّہْرِیِّ قَالَ: شَہَادَۃُ الْمَرْأَۃِ الْعَاقِلَۃِ تَجُوزُ فِی الرَّضَاعَۃِ۔
(١٦٦٩٠) حضرت زہری فرماتے ہیں کہ ایک عاقلہ عورت کی گواہی رضاعت کے معاملے میں کافی ہے۔

16690

(۱۶۶۹۱) حَدَّثَنَا جَرِیرُ بْنُ عَبْدِ الْحَمِیدِ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ طَلْحَۃَ ، عَنْ خَیْثَمَۃَ قَالَ : زَوَّجَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَجُلاً مِنَ الْمُسْلِمِینَ لَمْ یَکُنْ لَہُ شَیْئٌ فَأَمَرَ بِامْرَأَتِہِ أَنْ تَدْخُلَ عَلَیْہِ فَصَارَ ذَلِکَ الرَّجُلُ بَعْدُ مِنْ أَشْرَافِ الْمُسْلِمِینَ۔ (ابوداؤد ۲۱۲۱۔ ابن ماجہ ۱۹۹۲)
(١٦٦٩١) حضرت خیثمہ فرماتے ہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک مسلمان مرد کی شادی کرائی جس کے پاس کچھ نہ تھا۔ آپ نے اسے اجازت دی کہ وہ اپنی بیوی سے شرعی ملاقات کرسکتا ہے۔ یہ آدمی بعد میں مسلمانوں کے سرکردہ لوگوں میں سے ہوا۔

16691

(۱۶۶۹۲) حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرٍ ، عَنْ أَبِی مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنِ الرُّکَیْنِ ، عَنْ أَبِیہِ قَالَ : تَزَوَّجَ فُلاَنُ بْنُ ہَرِمٍ لَیْلَی بِنْتَ الْعَجْمَائِ فِی زَمَنِ عُمَرَ فَدَخَلَ بِہَا وَلَمْ یُعْطِہَا شَیْئًا مِنْ صَدَاقِہَا۔
(١٦٦٩٢) حضرت رکین کے والد فرماتے ہیں کہ ہرم کے ایک بیٹے نے حضرت عمر (رض) کے زمانے میں لیلیٰ بنت عجماء سے شادی کی اور مہر کا کچھ حصہ دیئے بغیر اس سے شرعی ملاقات کی۔

16692

(۱۶۶۹۳) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ کُرَیْبِ بْنِ ہِشَامٍ ، وَکَانَ مِنْ أَصْحَابِ عَبْدِ اللہِ أَنَّہُ زَوَّجَ امْرَأَۃً عَلَی أَرْبَعَۃِ آلاَفٍ ثُمَّ دَخَلَ بِہَا قَبْلَ أَنْ یُعْطِیَہَا شَیْئًا مِنْ صَدَاقِہَا۔
(١٦٦٩٣) حضرت کریب بن ہشام جو کہ حضرت عبداللہ (رض) کے شاگردوں میں سے ہیں۔ انھوں نے ایک عورت سے چار ہزار درہم کے عوض نکاح کیا اور اسے مہر کا کچھ حصہ دیئے بغیر اس سے شرعی ملاقات فرمائی۔

16693

(۱۶۶۹۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ قَالَ : اخْتَلَفَ فِیہِ أَہْلُ الْمَدِینَۃِ فَمِنْہُمْ مَنْ کَرِہَہُ وَمِنْہُمْ مَنْ رَخَّصَ فِیہِ وَأَیُّ ذَلِکَ فُعِلَ فَلاَ بَأْسَ۔
(١٦٦٩٤) حضرت سعید بن مسیب فرماتے ہیں کہ اس بارے میں مدینہ کے علماء کا اختلاف ہے بعض کے نزدیک ایسا کرنا جائز اور بعض کے نزدیک ناجائز ہے۔ البتہ آدمی جو بھی کرلے اس میں کوئی حرج نہیں۔

16694

(۱۶۶۹۵) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ ، عَنِ ابْنِ أَبِی عَرُوبَۃَ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ قَالَ : إذَا کَانَتْ بِہِ رَاضِیَۃٌ لَمْ نَرَ بِذَلِکَ بَأْسًا۔
(١٦٦٩٥) حضرت سعید بن مسیب فرماتے ہیں کہ جب عورت اس پر راضی ہو تو کوئی حرج نہیں۔

16695

(۱۶۶۹۶) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ الْحَسَنِ قَالَ : لاَ بَأْسَ بِہِ۔
(١٦٦٩٦) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ اس میں کوئی حرج نہیں۔

16696

(۱۶۶۹۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ الْمُبَارَکِ ، عَنْ یَحْیَی ، عَنْ عِکْرِمَۃَ ؛ أَنَّ عَلِیًّا لَمَّا أَرَادَ أَنْ یَبْنِیَ بِفَاطِمَۃَ قَالَ لَہُ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : قدِّمْ شَیْئًا۔
(١٦٦٩٧) حضرت عکرمہ فرماتے ہیں کہ جب حضرت علی (رض) نے حضرت فاطمہ (رض) سے شرعی ملاقات کا ارادہ کیا تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ انھیں مہر کا کچھ حصہ ادا کردو۔

16697

(۱۶۶۹۸) حَدَّثَنَا ہُشَیْمُ ، عَنْ أَبِی حَمْزَۃَ قَالَ : شَہِدْت ابْنَ عَبَّاسٍ وَسَأَلَہُ رَجُلٌ أَنَّہُ تَزَوَّجَ امْرَأَۃً فَعَسِرَ ، عَنْ صَدَاقِہَا ، فَقَالَ لَہُ ابْنُ عَبَّاسٍ : إن لَمْ تَجِدْ إلاَّ نَعْلَک فَأَعْطِہَا إیَّاہَا ثُمَّ ادْخُلْ بِہَا۔
(١٦٦٩٨) حضرت ابو حمزہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کے پاس موجود تھا، ان سے ایک آدمی نے سوال کیا کہ ایک آدمی نے شادی کی ہے لیکن وہ اس کا مہر ادا کرنے سے عاجز آگیا ہے۔ اس کے لیے کیا حکم ہے ؟ حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا کہ اگر اور کچھ نہ ہو تو اسے اپنی جوتی ہی دے دو پھر اس کے ساتھ شرعی ملاقات کرو۔

16698

(۱۶۶۹۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ خُصَیْفٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ قَالَ : یُعْطِیہَا وَلَوْ خِمَارًا۔
(١٦٦٩٩) حضرت سعید بن جبیر فرماتے ہیں کہ اسے شرعی ملاقات سے پہلے کچھ نہ کچھ ضرور دے خواہ ایک دوپٹہ ہی دے دے۔

16699

(۱۶۷۰۰) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ قَالَ : کَانَ یَقُولُ : یُلْقِی عَلَیْہَا وَلَوْ ثَوْبًا ثُمَّ یَدْخُلُ بِہَا۔
(١٦٧٠٠) حضرت ابن سیرین فرمایا کرتے تھے کہ اسے خواہ ایک کپڑا ہی دے پھر اس کے ساتھ شرعی ملاقات کرے۔

16700

(۱۶۷۰۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ وَعَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ أَنَّہُمَا کَرِہَا أَنْ یَدْخُلَ بِہَا وَلَمْ یُعْطِہَا مِنْ صَدَاقِہَا شَیْئًا۔
(١٦٧٠١) حضرت حسن اور حضرت ابراہیم نے اس بات کو مکروہ قرار دیا ہے کہ آدمی بیوی کو مہر کا کچھ حصہ دیئے بغیر اس سے شرعی ملاقات کرے۔

16701

(۱۶۷۰۲) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ حُبَابٍ ، عَنِ الضَّحَّاکِ بْنِ عُثْمَانَ قَالَ : سُئِلَ الزُّہْرِیُّ ، عَنْ رَجُلٍ تَزَوَّجَ امْرَأَۃً وَہُوَ مَلِیئٌ بِصَدَاقِہَا أَیَدْخُلُ بِہَا وَلَمْ یُعْطِہَا شَیْئًا ؟ قَالَ : مَضَتِ السُّنَّۃُ أَنْ لاَ یَدْخُلَ بِہَا حَتَّی یُعْطِیَہَا ولو شَیْئًا۔
(١٦٧٠٢) حضرت ضحاک بن عثمان فرماتے ہیں کہ حضرت زہری سے اس شخص کے بارے میں سوال کیا گیا جو شادی کے بعد عورت کا مہر دینے پر قدرت نہ رکھتا ہو کیا وہ بیوی سے جماع کرسکتا ہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ سنت یہی رہی ہے کہ جب تک کوئی نہ کوئی چیز ادا نہ کردے شرعی ملاقات نہ کرے۔

16702

(۱۶۷۰۳) حَدَّثَنَا عَبدَۃ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ قَالَ : یُہْدِی شَیْئًا۔
(١٦٧٠٣) حضرت قتادہ فرماتے ہیں کہ شرعی ملاقات سے پہلے کوئی چیز اسے ہدیہ میں دے دے۔

16703

(۱۶۷۰۴) حَدَّثَنَا شبابۃ قَالَ : حدَّثَنَا ہِشَام بْنِ الغَاز ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ : لاَ یَحِلُّ لِمُسْلِمٍ أَنْ یَدْخُلَ عَلَی امْرَأَۃٍ حَتَّی یَقْدُمَ إلیہا ما قَلَّ ، أَوْ کَثُرَ۔
(١٦٧٠٤) حضرت ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ مسلمان کے لیے حلال نہیں کہ وہ اپنی بیوی کو کوئی تھوڑی یا زیادہ چیز دیئے بغیر اس سے شرعی ملاقات کرے۔

16704

(۱۶۷۰۵) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ ؛ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ لِعَلِیٍّ : أَعْطِہَا دِرْعَک الْحُطَمِیَّۃَ۔ (عبدالرزاق ۱۰۴۲۹۔ احمد ۱/۸۰)
(١٦٧٠٥) حضرت عکرمہ فرماتے ہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت علی (رض) سے فرمایا کہ اپنی زوجہ کو اپنی حطمی چادر ہی دے دو ۔

16705

(۱۶۷۰۶) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ یَزِیدَ بْنِ یَزِیدَ بْنِ جَابِرٍ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ بْنِ عُبَیْدِ اللہِ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ غَنْمٍ ، عَنْ عُمَرَ ، قَالَ : لَہَا شَرْطُہَا ، قَالَ رَجُلٌ : إذًا یُطَلِّقْنَنَا ، فَقَالَ عُمَرُ : إنَّ مَقَاطِعَ الْحُقُوقِ عِنْدَ الشَّرْطِ۔
(١٦٧٠٦) حضرت عبدالرحمن بن غنم فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) سے اس بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ یہ شرط اب عورت کا حق ہے۔ ایک آدمی نے کہا کہ پھر تو وہ ہمیں چھوڑ دیں گی۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا کہ حقوق کا معاملہ شرط لگانے کے وقت ہوتا ہے۔

16706

(۱۶۷۰۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ عَبْدِ الْعَزِیزِ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ بْنِ عُبَیْدِ اللہِ ، عَنِ ابْنِ غَنْمٍ عن عمر ، قَالَ : لَہَا شَرْطُہَا۔
(١٦٧٠٧) حضرت عمر (رض) فرماتے ہیں کہ شرط کا پورا ہونا عورت کا حق ہے۔

16707

(۱۶۷۰۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ عَبْدِ الْحَمِیدِ بْنِ جَعْفَرٍ ، عَنْ یَزِیدَ بْنِ أَبِی حَبِیبٍ ، عَنْ أَبِی الْخَیْرِ ، عَنْ عُقْبَۃَ بْنِ عَامِرٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إنَّ أَحَقَّ الشَّرْط أَنْ یُوَفَّی بِہِ مَا اسْتَحْلَلْتُمْ بِہِ الْفُرُوجَ۔ (بخاری ۵۱۵۱۔ ابوداؤد ۲۱۳۲)
(١٦٧٠٨) حضرت عقبہ بن عامر (رض) فرماتے ہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ ہر وہ شرط جس کے ذریعہ شرم گاہ کو حلال کیا جائے اس کا حق یہ ہے کہ اسے پورا کیا جائے۔

16708

(۱۶۷۰۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ عَبْدِ الْکَرِیمِ ، عَنْ أَبِی عُبَیْدَۃَ أَنَّ مُعَاوِیَۃَ سَأَلَ عَنْہَا عَمْرَو بْنَ الْعَاصِ ، فَقَالَ : لَہَا شَرْطُہَا۔
(١٦٧٠٩) حضرت ابو عبیدہ فرماتے ہیں کہ حضرت معاویہ نے اس بارے میں حضرت عمرو بن عاص (رض) سے سوال کیا تو انھوں نے فرمایا کہ شرط کا پورا کرنا عورت کا حق ہے۔

16709

(۱۶۷۱۰) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ، عَنْ عَمْرِو ، عَنْ أَبِی الشَّعْثَائِ ، قَالَ: إذَا شَرَطَ لَہَا دَارَہَا فَہُوَ بِمَا یَسْتَحِلُّ مِنْ فَرْجِہَا۔
(١٦٧١٠) حضرت ابو شعثاء فرماتے ہیں کہ جب آدمی نے عورت کے لیے اس کے گھر کی شرط لگائی تو یہ ایک ایسی شرط ہے جس کے ذریعے اس کی شرمگاہ کو حلال کیا ہے۔

16710

(۱۶۷۱۱) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ أَبِی حَیَّانَ قَالَ : حدَّثَنَا أَبُو الزِّنَادِ أَنَّ امْرَأَۃً خَاصَمَتْ زَوْجَہَا إلَی عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِیزِ قَدْ شَرَطَ لَہَا دَارَہَا حِینَ تَزَوَّجَہَا فَأَرَادَ أَنْ یُخْرِجَہَا مِنْہَا فَقَضَی عُمَرُ أَنَّ لَہَا دَارَہَا ، لاَ یُخْرِجُہَا مِنْہَا وَقَالَ : وَالَّذِی نَفْسُ عُمَرَ بِیَدِہِ لَوِ اسْتَحْلَلْت فَرْجَہَا بِزِنَۃِ أُحُدٍ ذَہَبًا لأَخَذَتُ مَا بِہِ لَہَا۔
(١٦٧١١) حضرت ابو زناد فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ ایک عورت حضرت عمر بن عبد العزیز کے پاس ایک مقدمہ لے کر آئی کہ اس کے خاوند نے نکاح کے وقت اس کو اسی کے گھر میں ٹھہرانے کی شرط لگائی تھی۔ اب وہ اس کو اس گھر سے نکالنا چاہتا ہے۔ حضرت عمر بن عبد العزیز نے فرمایا کہ عورت کا حق ہے کہ وہ اپنے گھر میں رہے خاوند اسے اس سے نکال نہیں سکتا۔ اور قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے کہ اگر تو نے احد پہاڑ کے برابر سونے کے عوض بھی عورت کی شرمگاہ کو حلال کیا ہوتا تو وہ بھی میں تجھ سے لے کر اسے دیتا۔

16711

(۱۶۷۱۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ شَرِیکٍ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ عِیسَی بْنِ حِطَّانَ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، وَسَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ قَالاَ : یُخْرِجُہَا ، فَقَالَ یَحْیَی بْنُ الْجَزَّارِ : فَبِأَیِّ شَیْئٍ یَسْتَحِلُّ الْفَرْجَ فَبِأَیِّ کَذَا وَکَذَا فَرَجَعَا ؟۔
(١٦٧١٢) حضرت مجاہد اور حضرت سعید بن جبیر نے پہلے فتوی دیا کہ وہ اسے گھر سے نکال سکتا ہے۔ یہ سن کر حضرت یحییٰ بن جزار نے فرمایا کہ پھر اس نے کس چیز کے عوض عورت کی شرمگاہ کو حلال کیا ہے ؟ اس پر دونوں حضرات نے اپنے فتویٰ سے رجوع کرلیا۔

16712

(۱۶۷۱۳) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنِ ابْنِ أَبِی لَیْلَی ، عَنِ الْمِنْہَالِ ، عَنْ عَبَّادِ بْنِ عَبْدِ اللہِ ، عَنْ عَلِیٍّ بن أبی طالب فِی الَّتِی شُرِطَ لَہَا دَارُہَا قَالَ : شَرْطُ اللہِ قَبْلَ شَرْطِہَا۔
(١٦٧١٣) حضرت علی بن ابی طالب (رض) اس شخص کے بارے میں فرماتے ہیں جس نے اپنی بیوی کے لیے اسی کے گھر میں رہنے کی شرط لگائی ” اللہ کی شرط اس عورت کی شرط سے پہلے ہے۔ “

16713

(۱۶۷۱۴) حَدَّثَنَا ابْنُ مُبَارَکٍ ، عَنِ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِی ذُبَابٍ ، عَنْ مُسْلِمِ بْنِ یَسَارٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ فِی الرَّجُلِ یَتَزَوَّجُ الْمَرْأَۃَ وَیَشْتَرِطُ لَہَا دَارَہَا قَالَ : یُخْرِجُہَا إِنْ شَاء َ۔
(١٦٧١٤) حضرت سعید بن مسیب اس شخص کے بارے میں فرماتے ہیں جس نے اپنی بیوی کے لیے اسی کے گھر میں رہنے کی شرط لگائی ” اگر چاہے تو اسے نکال سکتا ہے “

16714

(۱۶۷۱۵) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِیرِینَ ، عَنْ شُرَیْحٍ أَنَّ امْرَأَۃً جَاء َتْ ، فَقَالَتْ : شَرَطَ لَہَا دَارَہَا ، فَقَالَ : شَرْطُ اللہِ قَبْلَ شَرْطِہَا۔
(١٦٧١٥) حضرت محمد بن سیرین فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ ایک عورت حضرت شریح کے پاس آئی اور اس نے کہا کہ میرے خاوند نے میرے لیے میرے گھر میں رہنے کی شرط لگائی تھی۔ انھوں نے فرمایا کہ اللہ کی شرط اس کی شرط سے پہلے ہے۔

16715

(۱۶۷۱۶) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ وَعَنْ یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ قَالاَ : یُخْرِجُہَا إِنْ شَاء َ۔
(١٦٧١٦) حضرت ابراہیم اور حضرت حسن فرماتے ہیں کہ اگر چاہے تو اسے گھر سے نکال سکتا ہے۔

16716

(۱۶۷۱۷) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ ، عَنِ ابْنِ سَالِمٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ قَالَ : یَذْہَبُ بِہَا حَیْثُ شَاء َ وَالشَّرْطُ بَاطِلٌ۔
(١٦٧١٧) حضرت شعبی فرماتے ہیں کہ وہ اپنی بیوی کو جہاں چاہے لے جاسکتا ہے اور شرط باطل ہے۔

16717

(۱۶۷۱۸) حَدَّثَنَا مُعَاذٌ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنْ مُحَمَّدٍ فِی رَجُلٍ تَزَوَّجَ امْرَأَۃً وَشَرَطَ لَہَا دَارَہَا قَالَ : لاَ شَرْطَ لَہَا۔
(١٦٧١٨) حضرت محمد اس شخص کے بارے میں فرماتے ہیں جس نے اپنی بیوی کے لیے اسی کے گھر میں رہنے کی شرط لگائی کہ اس کے لیے کوئی شرط نہیں۔

16718

(۱۶۷۱۹) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ حَبِیبِ بْنِ جَُرَیٍّ ، قَالَ : سَمِعْتُ طَاوُوسًا وَسُئِلَ عَنِ الرَّجُلِ یَخْطُبُ الْمَرْأَۃَ فَتَشْرُطُ عَلَیْہِ أَشْیَاء َ ، قَالَ : لَیْسَ الشَّرْطُ بِشَیْئٍ۔
(١٦٧١٩) حضرت طاوس سے اس شخص کے بارے میں سوال کیا گیا کہ اگر ایک آدمی نے کسی عورت کو پیام نکاح بھجوایا اور اس کے لیے بہت شرطیں اپنے اوپر لازم کرلیں۔ اس کے لیے کیا حکم ہے ؟ حضرت طاوس نے فرمایا کہ شرط کوئی چیز نہیں ہے۔

16719

(۱۶۷۲۰) حَدَّثَنَا عِیسَی بْنُ یُونُسَ ، عَنِ الأَوْزَاعِیِّ أَنَّ رَجُلاً زَوَّجَ ابْنَتَہُ عَلَی أَلْفِ دِینَارٍ وَشَرَطَ لِنَفْسِہِ أَلْفَ دِینَارٍ فَقَضَی عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیزِ لِلْمَرْأَۃِ بِأَلْفَیْنِ دُونَ الأَبِ۔
(١٦٧٢٠) حضرت اوزاعی فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے اپنی بیٹی کی شادی اس شرط پر کرائی کہ ایک ہزار دینار بیٹی کو اور ایک ہزار دینار باپ کو ملیں گے۔ ان کا مقدمہ حضرت عمر بن عبدا لعزیز کے پاس آیا تو انھوں فرمایا کہ عورت کو دو ہزار دینار ملیں گے اور باپ کو کچھ نہیں ملے گا۔

16720

(۱۶۷۲۱) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ قَالَ : إِنْ کَانَ ہُوَ الَّذِی یُنْکَحُ فَہُوَ لَہُ۔
(١٦٧٢١) حضرت عکرمہ فرماتے ہیں کہ اگر وہ نکاح کرانے والا ہے تو اسے اس کی لگائی گئی شرط ملے گی۔

16721

(۱۶۷۲۲) حَدَّثَنَا الثَّقَفِیُّ ، عَنْ مُثَنَّی ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ ، عَنْ عُرْوَۃَ وَسَعِیدٍ قَالاَ : أَیُّمَا امْرَأَۃٍ أُنْکِحَتْ عَلَی صَدَاقٍ ، أَوْ عِدَۃٍِ لأَہْلِہَا کَانَ قَبْلَ عِصْمَۃِ النِّکَاحِ فَہُوَ لَہَا ، وَمَا کَانَ مِنْ حِبَائٍِ لأَہْلِہَا فَہُوَ لَہُمْ۔
(١٦٧٢٢) حضرت عروہ اور حضرت سعید فرماتے ہیں کہ جس چیز کا تعلق مہر یا نکاح کے عقد سے ہو وہ تو عورت کو ملے گی اور اگر کوئی ہبہ یا تحفہ وغیرہ ہو تو وہ اس کے گھر والوں کو مل سکتا ہے۔

16722

(۱۶۷۲۳) حَدَّثَنَا شَرِیکٌ، عَنْ أَبِی إِسحاق أَنَّ مَسْرُوقًا زَوَّجَ ابْنَتَہُ فَاشْتَرَطَ عَلَی زَوْجِہَا عَشَرَۃَ آلاَفٍ سِوَی الْمَہْرِ۔
(١٦٧٢٣) حضرت ابو اسحاق فرماتے ہیں کہ حضرت مسروق نے اپنی بیٹی کی شادی اس شرط پر کرائی کہ اس کا خاوند مہر کے علاوہ دس ہزاردینار دے گا۔

16723

(۱۶۷۲۴) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ أَیُّوبَ ، قَالَ : سَمِعْتُ الزُّہْرِیَّ یَقُولُ : لِلْمَرْأَۃِ مَا اسْتُحِلَّ بِہِ فَرْجُہَا۔
(١٦٧٢٤) حضرت زہری فرماتے ہیں کہ عورت کو وہ سب کچھ ملے گا جس کے عوض وہ خاوند کے لیے حلال ہوئی ہے۔

16724

(۱۶۷۲۵) ، عَنِ الضَّحَّاکِ بْنِ الْمَخْلَدِ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَطَائٍ قَالَ : مَا اشْتَرَطَ من حِبَائٍِ لأَخِیہَا ، أَوْ أَبِیہَا فَہِی أَحَقُّ بِہِ إِنْ تَکَلَّمَتْ فِیہِ۔
(١٦٧٢٥) حضرت عطاء فرماتے ہیں کہ عورت کے بھائی یا باپ کے لیے اگر کسی ہبہ وغیرہ کی شرط لگائی گئی ہے تو اگر عورت دعویٰ کرے تو اس کی زیادہ مستحق ہے۔

16725

(۱۶۷۲۶) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ أَنَّ رَافِعَ بْنَ خَدِیجٍ کَانَتْ تَحْتَہُ بِنْتُ مُحَمَّدِ بْنِ مَسْلَمَۃَ فَکَرِہَ مِنْ أَمْرِہَا إمَّا کِبَرًا ، أَوْ غَیْرَہُ فَأَرَادَ أَنْ یُطَلِّقَہَا ، فَقَالَتْ : لاَ تُطَلِّقْنِی وَاقْسِمْ لِی مَا شِئْت فَجَرَتِ السُّنَّۃُ بِذَلِکَ فَنَزَلَتْ : {وَإِنِ امْرَأَۃٌ خَافَتْ مِنْ بَعْلِہَا نُشُوزًا أَوْ إعْرَاضًا}۔(طبرانی ۳۰۹۔ حاکم ۳۰۸)
(١٦٧٢٦) حضرت سعید بن مسیب فرماتے ہیں کہ محمد بن مسلمہ کی بیٹی حضرت رافع بن خدیج کے نکاح میں تھیں۔ رافع بن خدیج کو ان کا ادھیڑ پن یا کوئی اور چیز بری لگی تو انھوں نے انھیں طلاق دینے کا ارادہ کرلیا۔ لیکن خاتون نے کہا کہ آپ مجھے طلاق نہ دیں بلکہ میرے لیے جو چاہیں حق میں سے تقسیم کرلیں۔ اس کے بعد سے یہ دستور بن گیا اور قرآن مجید کی آیت نازل ہوئی (ترجمہ) اگر عورت کو اپنے خاوند سے برائی یا بےنیازی کا خدشہ ہو۔ (الخ)

16726

(۱۶۷۲۷) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ ، عَنْ ہِشَامٍ عن أبیہ ، عَنْ عَائِشَۃَ {وَإِنِ امْرَأَۃٌ خَافَتْ مِنْ بَعْلِہَا نُشُوزًا أَوْ إعْرَاضًا} الآیَۃَ قَالَتْ : نَزَلَتْ فِی الْمَرْأَۃِ تَکُونُ عِنْدَ الرَّجُلِ فَتَطُولُ صُحْبَتُہَا فَیُرِیدُ أَنْ یُطَلِّقَہَا فَتَقُولُ : لاَ تُطَلِّقْنِی وَأَمْسِکْنِی وَأَنْتَ فِی حِلٍّ مِنِّی فَنَزَلَتْ ہَذِہِ الآیَۃُ فِیہِمَا۔ (بخاری ۲۴۵۰۔ مسلم ۲۳۱۶)
(١٦٧٢٧) حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ قرآن مجید کی یہ آیت : (ترجمہ) اگر عورت کو اپنے خاوند سے برائی یا بےنیازی کا خدشہ ہو۔ (الخ) اس عورت کے بارے میں نازل ہوئی جو ایک طویل عرصے سے ایک آدمی کی بیوی تھی۔ وہ آدمی اس عورت کو طلاق دینا چاہتا تھا۔ لیکن اس عورت کا کہنا تھا کہ مجھے طلاق نہ دو اپنے پاس رکھو۔ اور میں تم سے کسی حق کا مطالبہ نہ کروں گی۔ یہ آیت اس موقع پر نازل ہوئی۔

16727

(۱۶۷۲۸) حَدَّثَنَا ابْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنْ حَرْبِ بْنِ شَدَّادٍ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ أَبِی کَثِیرٍ قَالَ : حدَّثَنَا أَبُو النَّجَاشِیِّ مَوْلَی رَافِعِ بْنِ خَدِیجٍ : أَنَّ رَافِعَ بْنِ خَدِیجٍ تَزَوَّجَ امْرَأَۃً عَلَی امْرَأَتِہِ ، فَقَالَ لاِمْرَأَتِہِ الأُولَی : إِنْ شِئْتِ أَنْ أُمْسِکَکِ وَلاَ أَقْسِمُ لَکَ ، وَإِنْ شِئْتِ طَلَّقْتُکِ ، فَاخْتَارَتْ أَنْ یُمْسِکَہَا وَلاَ یُطَلِّقَہَا۔
(١٦٧٢٨) حضرت ابو نجاشی فرماتے ہیں کہ حضرت رافع بن خدیج نے ایک عورت سے شادی کی اور اپنی پہلی بیوی سے کہا کہ اگر تم چاہو میں تمہیں طلاق نہیں دیتا البتہ تمہیں تمہاری تقسیم کا حصہ نہ ملے گا۔ اور اگر تم چاہو تو میں تمہیں طلاق دے دیتا ہوں اس عورت نے اس بات کو اختیار کیا وہ اسے اپنے نکاح میں باقی رکھیں طلاق نہ دیں۔

16728

(۱۶۷۲۹) حَدَّثَنَا ابْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنْ حَرْبِ بْنِ شَدَّادٍ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ أَبِی کَثِیرٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إبْرَاہِیمَ بْنِ الْحَارِثِ أَنَّ بِنْتَ عَبْدِ اللہِ بْنِ جَعْفَرٍ کَانَتْ تَحْتَ رَجُلٍ مِنْ قُرَیْشٍ فَخَیَّرَہَا بَیْنَ أَنْ یُمْسِکَہَا وَلاَ یَقْسِمُ لَہَا وَبَیْنَ أَنْ یُطَلِّقَہَا فَاخْتَارَتْ أَنْ یُمْسِکَہَا وَلاَ یُطَلِّقَہَا۔
(١٦٧٢٩) حضرت ابراہیم بن حارث فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن جعفر کی صاحبزادی ایک قریشی شخص کے نکاح میں تھیں۔ اس آدمی نے انھیں اختیار دیا کہ اگر وہ اس کے نکاح میں رہنا چاہیں تو رہیں البتہ انھیں ان کی تقسیم کا حصہ نہ ملے گا۔ دوسری صورت یہ ہے کہ وہ طلاق لے لیں۔ انھوں نے نکاح کے باقی رکھنے کا اختیار کیا اور طلاق لینے سے انکار کیا۔

16729

(۱۶۷۳۰) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ الثقفی ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنْ مُحَمَّدٍ ، عَنْ عبیدۃ قَالَ : سَأَلْتُہ ، عَنْ ہَذِہِ الآیَۃِ : {وَإِنِ امْرَأَۃ خَافَتْ مِنْ بَعْلِہَا نُشُوزًا أَوْ إعْرَاضًا} قَالَ : ہُوَ رَجُلٌ تَکُونُ لَہُ الْمَرْأَۃُ قَدْ خَلاَ مِنْ سَہْمِہَا فَیُصَالِحُہَا مِنْ حَقِّہَا عَلَی شَیْئٍ فَہُوَ لَہُ مَا رَضِیَتْ فَإِذَا کَرِہَتْ فَلَہُ أَنْ یَعْدِلَ عَلَیْہَا ، أَوْ یُرْضِیَہَا من حَقِّہَا ، أَوْ یُطَلِّقَہَا۔
(١٦٧٣٠) حضرت محمد فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عبیدہ سے قرآن مجید کی اس آیت کے بارے میں سوال کیا (ترجمہ) اگر عورت کو اپنے خاوند سے برائی یا بےنیازی کا خدشہ ہو۔ (الخ) انھوں نے فرمایا کہ یہ آیت اس شخص کے بارے میں نازل ہوئی جس کی کوئی بیوی ہو اور وہ اسے چھوڑنا چاہتا ہو، لیکن وہ اس سے اس بات پر صلح کرلے کہ عورت اپنا حق چھوڑ دے گی۔ اور اگر عورت اپنا حق چھوڑنے پر راضی نہ ہو تو چاہے تو اپنا حق پورا پورا لے یا اس سے طلاق لے لے۔

16730

(۱۶۷۳۱) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِِ ، عَنْ سِمَاکٍ ، عَنْ خَالِدِ بْنِ عَرْعَرَۃَ ، عَنْ عَلِیٍّ قَالَ : أَتَاہُ رَجُلٌ یَسْتَفْتِیہِ فِی {امْرَأَۃ خَافَتْ مِنْ بَعْلِہَا نُشُوزًا أَوْ إعْرَاضًا} ، فَقَالَ : ہِیَ الْمَرْأَۃُ تَکُونُ عِنْدَ الرَّجُلِ فَتَنبو عَیْنَاہُ مِنْ دَمَامَتہَا ، أَوْ فَقْرِہَا ، أَوْ سُوئِ خُلُقِہَا فَتَکْرَہُ فِرَاقَہُ فَإِنْ وَضَعَتْ لَہُ مِنْ مہرہا شَیْئًا حَلَّتْ لَہُ ، وَإِنْ جَعَلَتْ مِنْ أَیَّامِہَا شَیْئًا فَلاَ حَرَجَ۔
(١٦٧٣١) حضرت خالد بن عرعرہ فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے حضرت علی (رض) سے سوال کیا کہ اگر عورت کو اپنے خاوند سے برائی یا بےنیازی کا خدشہ ہو تو وہ کیا کرے ؟ انھوں نے فرمایا کہ اس سے مراد وہ عورت ہے جس کا خاوند اس کی بداخلاقی، تنگدستی اور نامناسب رویہ سے تنگ ہو اور وہ اسے چھوڑنا چاہے لیکن بیوی اس سے الگ ہونے پر راضی نہ ہو۔ اگر عورت اپنے مہر میں سے کوئی مقدار اس کے لیے چھوڑ دے تو مرد کے لیے حلال ہے اور اگر عورت اپنے حق سے دستبردار ہوجائے تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں۔

16731

(۱۶۷۳۲) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ، عَنْ أَبِیہِ أَنَّ سَوْدَۃَ لَمَّا أَسَنَّتْ وَہَبَتْ یَوْمَہَا لِعَائِشَۃَ حَتَّی لَقِیَتِ اللَّہَ۔
(١٦٧٣٢) حضرت عروہ فرماتے ہیں کہ جب حضرت سودہ (رض) بہت عمر رسیدہ ہوگئیں تو انھوں نے اپنے حصے کا دن ہمیشہ کے لیے حضرت عائشہ (رض) کے لیے ہبہ کردیا۔

16732

(۱۶۷۳۳) حَدَّثَنَا عُقْبَۃُ بْنُ خَالِدٍ ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ عَائِشَۃَ بِمِثْلِہِ۔
(١٦٧٣٣) ایک اور سند سے یونہی منقول ہے۔

16733

(۱۶۷۳۴) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنِ أَبِی رَزِینٍ فِی قولہ تعالی : {تُرْجِی مَنْ تَشَائُ مِنْہُنَّ وَتُؤْوِی إلَیْک مَنْ تَشَائُ} فَکَانَ مِمَّنْ آوَی عَائِشَۃُ وَأُمُّ سَلَمَۃَ وَزَیْنَبُ وَحَفْصَۃُ ، فَکَانَ قسمتہن مِنْ نَفْسِہِ وَمَالِہِ فیہن سَوَائً ، وَکَانَ مِمَّنْ أَرْجَی سَوْدَۃُ وَجُوَیْرِیَۃُ وَأُمُّ حَبِیبَۃَ وَمَیْمُونَۃُ وَصْفِیَّۃُ ، فَکَانَ یَقْسِمُ لَہُنَّ مَا شَاء َ ، وَکَانَ أَرَادَ أَنْ یُفَارِقَہُنَّ فَقُلْنَ لَہُ : اقْسِمْ لَنَا مِنْ نَفْسِکَ مَا شِئْت وَدَعْنَا نَکُونُ عَلَی حَالِنَا۔ (ابن جریر ۲۵)
(١٦٧٣٤) حضرت ابو رزین قرآن مجید کی آیت (ترجمہ)” ان میں سے آپ جسے چاہیں چھوڑ دیں اور جسے چاہے ساتھ رکھ لیں “ (الاحزاب : ٥١) کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اس آیت کے بعد حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت عائشہ (رض) ، حضرت ام سلمہ (رض) ، حضرت زینب (رض) اور حضرت حفصہ (رض) کو رکھنا چاہتے۔ ان کا حصہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات اور آپ کے جسم میں برابر ہوتا۔ جنھیں آپ چھوڑنا چاہتے تھے وہ حضرت سودہ (رض) ، حضرت جویریہ (رض) ، حضرت ام حبیبہ (رض) ، حضرت میمونہ (رض) اور حضرت صفیہ (رض) تھیں۔ آپ ان کے لیے جو چاہتے تقسیم فرماتے۔ جب آپ نے انھیں چھوڑنے کا ارادہ کیا تو انھوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فرمایا کہ آپ ہمارے لیے جو چاہیں حصہ مقرر فرما دیں اور ہمیں ہمارے حال پر چھوڑدیں۔

16734

(۱۶۷۳۵) حَدَّثَنَا عَبْدُ السَّلاَمِ ، عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ أَنَّ امْرَأَۃً مَلَکَتْ مِنْ زَوْجِہَا قِیمَۃَ سَبْعَۃ دَرَاہِمِ فَسُئِلَ مَیْسَرَۃُ ، عَنْ ذَلِکَ ، فَقَالَ : حرُمَتْ عَلَیْہِ وَلاَ أَدْرِی مِنْ أَیْنَ تَحِلُّ لَہُ ؟ فَلَقِیت الشَّعْبِیَّ فَسَأَلْتُہُ ، فَقَالَ : الْقَ أَبَا بَکْرِ بْنَ أَبِی مُوسَی فَاسْأَلْہُ وَہُوَ یَوْمَئِذٍ قَاضٍ فَأَتَیْتہ فَسَأَلْتُہُ ، فَقَالَ : إذَا لَمْ تَسْتَطِعْ شَیْئًا فَدَعْہُ إلَی مَا تَسْتَطِیعُ فَأَتَیْت الشَّعْبِیَّ فَذَکَرْت ذَلِکَ لَہُ فَضَحِکَ وَقَالَ : اذْہَبْ إلَی عُبَیْدِ اللہِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُتْبَۃَ فَأَتَیْتہ فَسَأَلْتُہُ ، فَقَالَ ، حَرُمَتْ عَلَیْہِ ، فَقُلْتُ ، مِنْ أَیْنَ تَحِلُّ لَہُ ؟ فقَالَ : تَہَبُ ، أَوْ تُعْتِقُ ، أَوْ تَبِیعُ فَرَجَعْت إلَی الشَّعْبِیِّ فَسَأَلْتُہُ ، فَقَالَ : ارْجِعْ إلَیْہِ فَاسْأَلْہُ أَتَعْتَدُّ مِنْہُ ؟ فَأَتَیْتہ ، فَقَالَ : لاَ ، إنَّمَا ہُوَ مَاؤُہُ فَرَجَعْت إلَی الشَّعْبِیِّ فَأَخْبَرْتہ ، فَقَالَ : طَابَقَ الْفَتْوَی فَأَتَیْت ابْنَ مَعقِلٍ فَسَأَلْتُہُ ، فَقَالَ عَبْدُ السَّلاَمِ : فَلَمْ أَحْفَظْ مَا قَالَ فَأَخْبَرَنِی عَمَّارُ بْنُ رُزَیْقٍ ، عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ ، عَنِ ابْنِ مَعْقِلٍ قَالَ : یَسْتَقْبِلاَنِ لِلنِّکَاحِ۔
(١٦٧٣٥) حضرت عطاء بن سائب فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ ایک عورت اپنے خاوند کی سات درہم کے بقدر مالک بن گئی۔ اس بارے میں حضرت میسرہ سے سوال کیا گیا تو انھوں نے فرمایا کہ وہ عورت اپنے خاوند کے لیے حرام ہوگئی۔ اور میں نہیں جانتا کہ وہ اس کے لیے کیسے حلال ہوگی ؟ میں حضرت شعبی سے ملا اور ان سے سوال کیا تو انھوں نے فرمایا کہ ابوبکر بن ابی موسیٰ سے ملو اور ان سے سوال کرو۔ وہ ان دنوں وہاں قاضی تھے۔ میں نے ان سے سوال کیا تو انھوں نے فرمایا کہ جب تم کسی چیز کی طاقت نہیں رکھتے تو وہ کام کرلو جس کی تم طاقت رکھتے ہو۔ میں حضرت شعبی کے پاس آیا اور ان سے سارا واقعہ ذکر کیا تو وہ مسکرا دیئے۔ اور فرمایا کہ تم عبید اللہ بن عبداللہ بن عتبہ کے پاس جاؤ اور ان سے سوال کرو۔ میں ان کے پاس گیا اور ان سے سوال کیا تو انھوں نے فرمایا کہ وہ عورت اپنے خاوند کے لیے حرام ہوگئی۔ میں نے ان سے پوچھا کہ وہ کیسے حلال ہوگی ؟ انھوں نے فرمایا کہ وہ اسے ہبہ کردے، یا آزاد کردے یا بیچ دے۔ میں واپس حضرت شعبی کے پاس گیا میں نے ان سے سوال کیا تو انھوں نے فرمایا کہ ان کے پاس واپس جاؤ اور ان سے سوال کرو کہ وہ عدت گزارے گی یا نہیں ؟ میں ان کے پاس واپس آیا تو انھوں نے فرمایا کہ نہیں وہ عدت نہیں گزارے گی۔ میں حضرت شعبی کے پاس واپس آیا اور انھیں اطلاع دی تو انھوں نے فرمایا کہ فتوی کو محفوظ کرلو۔ میں ابن معقل کے پاس آیا۔ راوی عبدالسلام فرماتے ہیں کہ ان کا قول مجھے یاد نہیں رہا البتہ عمار بن رزیق نے عطاء بن سائب کی روایت سے ابن معقل کا قول نقل کیا ہے کہ وہ دونوں نکاح کا اعادہ کریں گے۔

16735

(۱۶۷۳۶) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ قَالَ سَأَلْتُ مَیْسَرَۃَ ، عَنِ امْرَأَۃٍ وَرِثَتْ مِنْ زَوْجِہَا شَیْئًا قَالَ : حَرُمَتْ عَلَیْہِ۔
(١٦٧٣٦) حضرت عطاء بن سائب فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت میسرہ سے اس عورت کے بارے میں سوال کیا جو اپنے غلام مالک کی وارث بن جائے تو انھوں نے فرمایا کہ وہ عورت اپنے خاوند کے لیے حرام ہوجائے گی۔

16736

(۱۶۷۳۷) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ فِی امْرَأَۃٍ مَلَکَتْ مِنْ زَوْجِہَا شَیْئًا فقَالَ : حرُمَتْ عَلَیْہِ إلاَّ أَنْ تُعْتِقَہُ سَاعَۃَ تَمْلِکُہُ۔
(١٦٧٣٧) حضرت ابراہیم اس عورت کے بارے میں جو اپنے غلام خاوند کے کسی حصہ کی مالک بن جائے فرماتے ہیں کہ اگر اس عورت نے مالک بنتے ہی فورا اپنے خاوند کو آزاد نہ کیا تو وہ اس پر حرام ہوجائے گی۔

16737

(۱۶۷۳۸) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ أَنَّ عُبَیْدَ اللہِ بْنَ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُتْبَۃَ قَالَہُ۔
(١٦٧٣٨) حضرت عبید اللہ بن عبداللہ بن عتبہ سے بھی یونہی منقول ہے۔

16738

(۱۶۷۳۹) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ عَطَائٍ أَنَّہُ قَالَ : حَرُمَتْ عَلَیْہِ۔
(١٦٧٣٩) حضرت عطاء فرماتے ہیں کہ وہ عورت اپنے خاوند پر حرام ہوجائے گی۔

16739

(۱۶۷۴۰) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ یونس ، عَنِ الْحَسَنِ قَالَ : قد حرُمَتْ عَلَیْہِ فَلْیَسْتَأْنِفْ نِکَاحَہَا إِنْ أَرَادَہَا۔
(١٦٧٤٠) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ وہ عورت خاوند پر حرام ہوجائے گی اور اگر چاہے تو دوبارہ نکاح کرسکتے ہیں۔

16740

(۱۶۷۴۱) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ حَجَّاجٍ قَالَ : وَقَالَ ذَلِکَ الشَّعْبِیُّ۔
(١٦٧٤١) حضرت شعبی بھی یونہی فرماتے ہیں۔

16741

(۱۶۷۴۲) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ حُبَابٍ ، عَنِ ابْنِ أَبِی ذِئْبٍ ، عَنْ عَبْدِ رَبِّہِ ، عَنْ طَاوُوسٍ أَنَّہُ سُئِلَ عَنِ امْرَأَۃٍ وَقَعَ لَہَا فِی زَوْجِہَا شِرْکٌ فَأَعْتَقَتْہُ سَاعَۃَ مَلَکَتْہُ ، فَقَالَ : لَوْ کَانَ قَدر ذُبَابٍ فَرِّقَ بَیْنَہُمَا۔
(١٦٧٤٢) حضرت طاوس سے اس عورت کے بارے میں سوال کیا گیا جسے اس کے غلام خاوند کی ملکیت میں حصہ مل جائے اور وہ اسی وقت اسے آزاد کردے تو کیا حکم ہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ اگر ایک مکھی کے برابر بھی تاخیر ہوئی تو دونوں کے درمیان جدائی کرادی جائے گی۔

16742

(۱۶۷۴۳) حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ خَالِدٍ ، عَنِ ابْنِ أَبِی ذِئْبٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ قَالَ : حرُمَتْ عَلَیْہِ۔
(١٦٧٤٣) حضرت زہری فرماتے ہیں وہ عورت اپنے خاوند پر حرام ہوجائے گی۔

16743

(۱۶۷۴۴) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، قَالَ : سَأَلْتُ الْحَکَمَ وَحَمَّادًا ، عَنِ الْمَرْأَۃِ تَرِثُ مِنْ زَوْجِہَا سَہْمًا قَالاَ : حرُمَتْ عَلَیْہِ ، وَإِنْ تَزَوَّجَہَا فَإِنَّہَا عِنْدَہُ عَلَی ثَلاَثِ تَطْلِیقَاتٍ۔
(١٦٧٤٤) حضرت شعبہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت حکم اور حضرت حماد سے اس عورت کے بارے میں سوال کیا جو اپنے غلام خاوند کے کسی حصہ کی مالک بن جائے۔ ان دونوں نے فرمایا کہ وہ اپنے خاوند پر حرام ہوجائے گی۔ اور اگر وہ اس سے شادی کرے تو مرد کے پاس تین طلاقوں کا اختیار ہوگا۔

16744

(۱۶۷۴۵) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ حَمَّادٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالَ إِنْ أُعْتِقَ بعد تَزَوَّجَہَا فَإِنَّہَا عِنْدَہُ عَلَی ثَلاَثِ تَطْلِیقَاتٍ لَمْ تَکُنْ فرقتہما طَلاَقًا۔
(١٦٧٤٥) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ اگر آزادی کے بعد شادی کرے تو اس کے پاس تین طلاقوں کا حق ہوگا۔ اور ان کے درمیان کی فرقت طلاق شمار نہیں کی جائے گی۔

16745

(۱۶۷۴۶) حَدَّثَنَا إِسْحَاقَ بْنِ مَنْصُورٍ، عَنْ شَرِیکٍ ، عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ مَیْسَرَۃَ، عَنْ عَلِیٍّ قَالَ: حرُمَتْ عَلَیْہِ۔
(١٦٧٤٦) حضرت علی (رض) فرماتے ہیں کہ وہ عورت اپنے خاوند پر حرام ہوجائے گی۔

16746

(۱۶۷۴۷) حَدَّثَنَا الثَّقَفِیُّ، عَنْ خَالِدٍ، عَنْ مُحَمَّدٍ فِی الْمَرْأَۃِ تَمْلِکُ زَوْجَہَا قَالَ: إِنْ أَعْتَقَتْہُ مَکَانَہَا فَہُمَا عَلَی نِکَاحِہِمَا۔
(١٦٧٤٧) حضرت محمد فرماتے ہیں کہ اگر کوئی عورت اپنے خاوند کی مالک بنے تو اگر وہ اسے اسی وقت آزاد کردے تو ان کا نکاح باقی رہے گا۔

16747

(۱۶۷۴۸) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ حَمَّادٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالَ : إذَا کَانَ لِلْمَمْلُوکِ امْرَأَۃٌ حرۃ فَمَاتَ مَوْلَی الْمَمْلُوکِ فَوَرِثَتِ امْرَأَتُہُ نَصِیبًا مِنْہُ فَإِنْ أَعْتَقَتْہُ مَکَانَہَا فَہُمَا عَلَی نِکَاحِہِمَا الأَوَّلِ ، وَإِنْ لَمْ تُعْتِقْہُ حَرُمَتْ عَلَیْہِ۔
(١٦٧٤٨) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ اگر کسی غلام کی کوئی آزاد بیوی ہو اور غلام کا مالک مرجائے اور وہ بیوی اپنے خاوند کے کسی حصے کی مالک بن جائے تو اگر اس نے اپنے خاوند کو آزاد کردیا تو ان کا پہلا نکاح باقی رہے گا اور اگر اس نے آزاد نہ کیا تو وہ عورت اپنے خاوند پر حرام ہوجائے گی۔

16748

(۱۶۷۴۹) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ ، عَنْ خَالِدِ بْنِ کَثِیرٍ ، عَنِ الضَّحَّاکِ ، عَنْ عَلِیٍّ قَالَ : یُؤَجَّلُ سَنَۃً فَإِنْ وَصَلَ ، وَإِلاَّ فُرِّقَ بَیْنَہُمَا فَالْتَمَسَا مِنْ فَضْلِ اللہِ یَعْنِی الْعِنِّینَ۔
(١٦٧٤٩) حضرت علی (رض) فرماتے ہیں کہ نامرد کو ایک سال کی مہلت دی جائے گی، اگر وہ کسی قابل ہوجائے تو ٹھیک ورنہ دونوں کے درمیان جدائی کرادی جائے گی۔ پھر وہ دونوں اللہ کا فضل تلاش کریں۔

16749

(۱۶۷۵۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنِ الرُّکَیْنِ ، عَنْ أَبِیہِ وَحُصَیْنُ بْنُ قَبِیصَۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ أَنَّہُ قَالَ : یُؤَجَّلُ الْعِنِّینُ سَنَۃً فَإِنْ جَامَعَ ، وَإِلاَّ فُرِّقَ بَیْنَہُمَا۔
(١٦٧٥٠) حضرت عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ نامرد کو ایک سال کی مہلت دی جائے گی، اگر وہ کسی قابل ہوجائے تو ٹھیک ورنہ دونوں کے درمیان جدائی کرادی جائے گی۔

16750

(۱۶۷۵۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنِ الرُّکَیْنِ ، عَنْ أَبِی حَنْظَلَۃَ النعمان ، عَنِ الْمُغِیرَۃِ بْنِ شُعْبَۃَ أَنَّہُ أَجَّلَ الْعِنِّینَ سَنَۃً۔
(١٦٧٥١) حضرت مغیرہ بن شعبہ نے نامرد کو ایک سال کی مہلت دلوائی۔

16751

(۱۶۷۵۲) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، عَنْ عُمَرَ ، قَالَ : یُؤَجَّلُ الْعِنِّینُ سَنَۃً ، فَإِنْ وَصَلَ إلَیْہَا ، وَإِلاَّ فُرِّقَ بَیْنَہُمَا۔
(١٦٧٥٢) حضرت عمر (رض) فرماتے ہیں کہ نامرد کو ایک سال کی مہلت دی جائے گی، اگر وہ کسی قابل ہوجائے تو ٹھیک ورنہ دونوں کے درمیان جدائی کرادی جائے گی۔

16752

(۱۶۷۵۳) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سَالِمٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ کَتَبَ إلَی شُرَیْحٍ أَنْ یُؤَجِّلَ الْعِنِّینِ سَنَۃً مِنْ یَوْمِ یُرْفَعُ إلیہ۔
(١٦٧٥٣) حضرت شعبی فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) نے حضرت شریح کو خط میں لکھا کہ نامرد کو اس دن سے ایک سال کی مہلت دی جائے گی جب سے اس کا مقدمہ قاضی کے پاس پیش ہوا۔

16753

(۱۶۷۵۴) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنِ الْمُغِیرَۃِ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ أَنَّ الْحَارِثَ بْنَ عَبْدِ اللہِ بْنِ أَبِی رَبِیعَۃَ أَجَّلَ رَجُلاً عَشَرَۃَ أَشْہُرٍ لَمْ یَصِلْ إلَی أَہْلِہِ۔
(١٦٧٥٤) حضرت شعبی فرماتے ہیں کہ حضرت حارث بن عبداللہ بن ابی ربیعہ نے اس شخص کو دس مہینے کی مہلت دی جو اپنی بیوی سے جماع کرنے کے قابل نہ تھا۔

16754

(۱۶۷۵۵) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ عَنْ مَنْصُورٍ عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالَ: إذَا لَمْ یَصِلَ الرَّجُلُ إلَی امْرَأَتِہِ أُجِّلَ سَنَۃً أَو عَشَرَۃَ أَشْہُرٍ۔
(١٦٧٥٥) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ جو شخص اپنی بیوی سے جماع کرنے کے قابل نہ ہو اسے علاج کے لیے ایک سال یا دس مہینے کی مہلت دی جائے گی۔

16755

(۱۶۷۵۶) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ وَعَنْ الْمُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالاَ : یُؤَجَّلُ الْعِنِّینُ مِنْ یَوْمِ یُرْفَعُ إلَی السُّلْطَانِ قَالَ یُونُسُ ، عَنِ الْحَسَنِ : یُؤَجَّلُ سَنَۃً وَقَالَ مُغِیرَۃُ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ : لاَ أَحْفَظُ الْوَقْتَ وَلَکِنَّہُ یُؤَجَّلُ مِنْ یَوْمِ یُرْفَعُ إلَی السُّلْطَانِ۔
(١٦٧٥٦) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ نامرد کو اس دن سے مہلت دی جائے گی جب سے اس کا فیصلہ سلطان کی مجلس میں پیش ہوا۔ حضرت حسن فرماتے ہیں کہ اسے ایک سال کی مہلت دی جائے گی۔ حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ مجھے وقت تو یاد نہیں البتہ اسے اس دن سے مہلت دی جائے گی جس دن اس کا مقدمہ قاضی کی عدالت میں پیش ہوا۔

16756

(۱۶۷۵۷) حَدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ عَامِرٍ الشعبی أَنَّہُ کَانَ یَقُولُ بِقَوْلِ أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : یُؤَجَّلُ الْعِنِّینُ سَنَۃً۔
(١٦٧٥٧) حضرت عامر شعبی فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب فرمایا کرتے تھے کہ نامرد کو ایک سال کی مہلت دی جائے گی۔

16757

(۱۶۷۵۸) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ ، عَنْ عَطَائٍ قَالَ : یُؤَجَّلُ الْعِنِّینُ سَنَۃً فَإِنْ وَصَلَ إلَیْہَا ، وَإِلاَّ فُرِّقَ بَیْنَہُمَا۔
(١٦٧٥٨) حضرت عطاء فرماتے ہیں کہ نامرد کو ایک سال کی مہلت دی جائے گی، اگر وہ کسی قابل ہوجائے تو ٹھیک ورنہ دونوں کے درمیان جدائی کرادی جائے گی۔

16758

(۱۶۷۵۹) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَطَائٍ قَالَ : یَسْتَقْبِلُ بِہَا مِنْ یَوْمِ تُخَاصِمُہُ سَنَۃً۔
(١٦٧٥٩) حضرت عطاء فرماتے ہیں کہ جس دن مقدمہ عدالت میں پیش ہوا اس دن سے ایک سال کی مہلت دی جائے گی۔

16759

(۱۶۷۶۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنِ سعید بْنِ الْمُسَیَّبِ قَالَ : یُؤَجَّلُ الْعِنِّینُ وَالَّذِی یُؤْخَذُ ، عَنِ امْرَأَتِہِ سَنَۃً۔
(١٦٧٦٠) حضرت سعید بن مسیب فرماتے ہیں کہ نامرد کو ایک سال کی مہلت دی جائے گی۔

16760

(۱۶۷۶۱) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنِ الْحَسَنِ قَالَ : یُؤَجَّلُ الْعِنِّینُ سَنَۃً فَإِنْ وَصَلَ إلَیْہَا ، وَإِلاَّ فُرِّقَ بَیْنَہُمَا۔
(١٦٧٦١) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ نامرد کو ایک سال کی مہلت دی جائے گی، اگر وہ کسی قابل ہوجائے تو ٹھیک ورنہ دونوں کے درمیان جدائی کرادی جائے گی۔

16761

(۱۶۷۶۲) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ، عَنْ بَعْضِ أَشْیَاخِہِمْ أَنَّ أَبَا حَلِیمَۃَ مُعَاذًا الْقَارِیَّ تَزَوَّجَ ابْنَۃَ حارثۃ بْنِ النُّعْمَانِ الأَنْصَارِیِّ فَلَمْ یَصِلْ إلَیْہَا فَأَجَّلَہُ عُمَرُ سَنَۃً ، قَالَ یَحْیَی : فَأَخْبَرَنِی عَبْدُ الرَّحْمَنِ الأَنْصَارِیُّ أَنَّہُ حَیْثُ حَالَ عَلَیْہِ الْحَوْلُ فُرِّقَ بَیْنَہُمَا وَقَالَ : الْحَمْدُ لِلَّہِ الَّذِی کَفَّ عَلَی حارثۃ ابْنَتِہِ۔
(١٦٧٦٢) حضرت یحییٰ بن سعید اپنے ایک شیخ سے نقل کرتے ہیں کہ ابو حلیمہ معاذ القاری نے حارثہ بن نعمان انصاری کی بیٹی سے شادی کی۔ لیکن وہ ان سے جماع کرنے پر قادر نہ ہوسکے۔ حضرت عمر (رض) نے انھیں ایک سال کی مہلت دی۔ حضرت یحییٰ فرماتے ہیں کہ مجھے عبد الرحمن انصاری نے بتایا کہ جب ایک سال گزر گیا تو دونوں کے درمیان حضرت عمر (رض) نے جدائی کرادی اور فرمایا کہ تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے حارثہ کی بیٹی کا مسئلہ حل کرادیا۔

16762

(۱۶۷۶۳) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ، عَنْ سَعِیدٍ، عَنْ قَتَادَۃَ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ، عَنْ عُمَرَ، أَنَّہُ أَجَّلَ الْعِنِّینَ سَنَۃً۔
(١٦٧٦٣) حضرت عمر (رض) نے نامرد کو ایک سال کی مہلت دی۔

16763

(۱۶۷۶۴) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنِ ابْنِ أَبِی لَیْلَی ، عَنِ الشَّعْبِیِّ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ کَانَ یَقُولُ : یُؤَجَّلُ سَنَۃً لاَ أَعْلَمُہُ إلاَّ مِنْ یَوْمِ یُرْفَعُ إلَی السُّلْطَانِ۔
(١٦٧٦٤) حضرت شعبی فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) فرمایا کرتے تھے کہ نامرد کو ایک سال کی مہلت دی جائے گی۔ اور میرے خیال میں یہ مہلت اس وقت سے ہوگی جب اس کا مقدمہ قاضی کے پاس آیا۔

16764

(۱۶۷۶۵) حَدَّثَنَا ابْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ نُسَِیرٍ قَالَ : کُنْتُ عِنْدَ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ مَرْوَانَ فَأُتِیَ بِعِنِّینٍ فَإِذَا إنْسَانٌ ضَرِیرٌ فَأَجَّلَہُ سَنَۃً۔
(١٦٧٦٥) حضرت نسیر فرماتے ہیں کہ میں عبد الملک بن مروان کے پاس تھا کہ ان کے پاس ایک نابینا نامرد لایا گیا انھوں نے اسے علاج کے لیے ایک سال کی مہلت دی۔

16765

(۱۶۷۶۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ شِمْر ، عَنِ الشَّعْبِیِّ قَالَ : یُؤَجَّلُ الْعِنِّینُ سَنَۃً۔
(١٦٧٦٦) حضرت شعبی فرماتے ہیں کہ نامرد کو ایک سال کی مہلت دی جائے گی۔

16766

(۱۶۷۶۷) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنِ ابْنِ سَالِمٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ وَعُبَیدَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالاَ : تُخَیَّرُ فِی رَأْسِ الْحَوْلِ فَإِنْ شَائَتْ أَقَامَتْ ، وَإِنْ شَائَتْ فَارَقَتْہُ۔
(١٦٧٦٧) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ سال پورا ہونے پر عورت کو اختیار دیا جائے گا چاہے تو نکاح کو باقی رکھے اور چاہے تو ختم کردے۔

16767

(۱۶۷۶۸) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سَالِمٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنْ شُرَیْحٍ قَالَ : کَتَبَ إلَیَّ عُمَرُ أَنْ أَجِّلْہُ سَنَۃً فَإِنَ اسْتَطَاعَہَا ، وَإِلاَّ خَیِّرْہَا فَإِنْ شَائَتْ أَقَامَتْ ، وَإِنْ شَائَتْ فَارَقَتْہُ۔
(١٦٧٦٨) حضرت شریح فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے مجھے خط لکھا کہ نامرد کو ایک سال کی مہلت دو ، اگر وہ جماع پر قادر ہوجائے تو ٹھیک ورنہ عورت کو اختیار دے دو ، چاہے تو نکاح کو باقی رکھے اور چاہے تو ختم کردے۔

16768

(۱۶۷۶۹) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالَ : یُؤَجَّلُ الْعِنِّینُ أَجَلاً فَإِنْ وَصَلَ ، وَإِلاَّ خُیِّرَتْ فَإِنَ اخْتَارَتْہُ فَلَیْسَ لَہَا خِیَارٌ بَعْدَ ذَلِکَ۔
(١٦٧٦٩) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ نامرد کو ایک سال کی مہلت دی جائے گی اگر وہ جماع پر قادر ہوجائے تو ٹھیک ورنہ عورت کو اختیار دیا جائے گا۔ اگر وہ نکاح کے باقی رکھنے کو اختیار کرلے تو اس کا اختیار ختم ہوجائے گا۔

16769

(۱۶۷۷۰) حَدَّثَنَا یَزِیدَ بْنِ ہَارُونَ ، عَنِ ابْنِ أَبِی عَرُوبَۃَ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ، عَنْ عُمَرَ ، أَنَّہُ أَجَّلَ الْعِنِّینَ سَنَۃً فَإِنْ أَتَاہَا ، وَإِلاَّ فُرِّقَ بَیْنَہُمَا وَلَہَا الصَّدَاقُ کَامِلاً۔
(١٦٧٧٠) حضرت سعید بن مسیب فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے نامرد کو ایک سال کی مہلت دی۔ اور فرمایا کہ اگر وہ ایک سال میں جماع کے قابل ہوجائے تو ٹھیک ورنہ دونوں کے درمیان جدائی کرادی جائے گی اور عورت کو پورا مہر ملے گا۔

16770

(۱۶۷۷۱) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنْ شُرَیْحٍ أَنَّہُ کَانَ یَقُولُ فِی الْعِنِّینِ إذَا لَمْ یَصِلْ إلَی امْرَأَتِہِ : إنَّ عَلَیْہِ نِصْفَ صَدَاقٍ۔
(١٦٧٧١) حضرت شریح اس نامرد کے بارے میں جو اپنی بیوی سے جماع پر قادر نہ ہوسکا فرماتے تھے کہ اسے آدھا مہر دینا ہوگا۔

16771

(۱۶۷۷۲) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالَ : عَلَیْہِ الصَّدَاقَ۔
(١٦٧٧٢) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ نامرد پر پورا مہر لازم ہوگا۔

16772

(۱۶۷۷۳) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَطَائٍ قَالَ : لَہَا الْمَہْرُ۔
(١٦٧٧٣) حضرت عطاء فرماتے ہیں کہ نامرد پر پورا مہر لازم ہوگا۔

16773

(۱۶۷۷۴) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ، وَالْحَسَنِ قَالاَ : أَجَّلَہُ عُمَرُ سَنَۃً فَإِنْ وَصَلَ ، وَإِلاَّ فُرِّقَ بَیْنَہُمَا وَلَہَا الصَّدَاقُ۔
(١٦٧٧٤) حضرت سعید بن مسیب اور حضرت حسن فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے نامرد کو ایک سال کی مہلت دینے کو کہا اور پھر اگر وہ جماع پر قادر ہوجائے تو ٹھیک ورنہ دونوں کے درمیان جدائی کرادی جائے گی۔ اور عورت کو پورا مہر ملے گا۔

16774

(۱۶۷۷۵) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ قَالَ : لَہَا الصَّدَاقُ۔
(١٦٧٧٥) حضرت سعید بن مسیب فرماتے ہیں کہ نامرد کی عورت کو پورا مہر ملے گا۔

16775

(۱۶۷۷۶) حَدَّثَنَا ابْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَۃَ ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ قَالَ : لَہَا الصَّدَاقُ۔
(١٦٧٧٦) حضرت عروہ فرماتے ہیں کہ عورت کو پورا مہر ملے گا۔

16776

(۱۶۷۷۷) حَدَّثَنَا ابْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنْ زَمْعَۃَ ، عَنِ ابْنِ طَاوُوسٍ ، عَنْ أَبِیہِ قَالَ : لَہَا نِصْفُ صَدَاقٍ۔
(١٦٧٧٧) حضرت طاوس فرماتے ہیں نامرد کی بیوی کو آدھا مہر ملے گا۔

16777

(۱۶۷۷۸) حَدَّثَنَا عبد اللہ بْنِ إدْرِیسَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ الْحَسَنِ قَالَ إذَا وَصَلَ إلَیْہَا مَرَّۃً لَمْ یُفَرَّقْ بَیْنَہُمَا۔
(١٦٧٧٨) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ جب آدمی نے ایک مرتبہ جماع کرلیا تو دونوں کے درمیان جدائی نہیں کرائی جائے گی۔

16778

(۱۶۷۷۹) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ قَالَ : إذَا قَدَرَ عَلَیْہَا مَرَّۃً فَہِیَ امْرَأَتُہُ أَبَدًا۔
(١٦٧٧٩) حضرت زہری فرماتے ہیں کہ جب آدمی ایک مرتبہ جماع پر قدرت پالے تو وہ ہمیشہ کے لیے اس کی بیوی ہے۔

16779

(۱۶۷۸۰) حَدَّثَنَا عُمَرُ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَطَائٍ قَالَ : إذَا أَصَابَہَا مَرَّۃً فَلاَ کَلاَمَ لَہَا وَلاَ خُصُومَۃَ۔
(١٦٧٨٠) حضرت عطاء فرماتے ہیں کہ جب وہ ایک مرتبہ جماع کرلے تو عورت کو کلام اور خصومت کا حق نہیں۔

16780

(۱۶۷۸۱) حَدَّثَنَا عُمَرُ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِینَارٍ قَالَ : مَا زِلْنَا نَسْمَعُ أَنَّہُ إذَا أَصَابَہَا مَرَّۃً فَلاَ کَلاَمَ لَہَا وَلاَ خُصُومَۃَ۔
(١٦٧٨١) حضرت عمرو بن دینار فرماتے ہیں کہ ہم ہمیشہ سے یہ سنتے آئے ہیں کہ جب وہ ایک مرتبہ جماع کرلے تو عورت کو کلام اور خصومت کا حق نہیں۔

16781

(۱۶۷۸۲) حَدَّثَنَا عُمَرُ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ، عَنِ ابْنِ طَاوُوسٍ، عَنْ أَبِیہِ قَالَ: إذَا أَصَابَہَا مَرَّۃً فَلاَ کَلاَمَ لَہَا وَلاَ خُصُومَۃَ۔
(١٦٧٨٢) حضرت طاوس فرماتے ہیں کہ جب وہ ایک مرتبہ جماع کرلے تو عورت کو کلام اور خصومت کا حق نہیں۔

16782

(۱۶۷۸۳) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ یَزِیدَ ، عَنْ أَبِی الْعَلاَئِ ، عَنْ قَتَادَۃَ وَأَبِی ہَاشِمٍ قَالاَ : إِنْ تَزَوَّجَہَا ثُمَّ وَطِئَہَا مَرَّۃً ثُمَّ لَمْ یَسْتَطِعْ أَنْ یَغْشَاہَا ، فَإِنَّہُ لاَ خِیَارَ لَہَا بَعْدَ تِلْکَ الْمَرَّۃِ۔
(١٦٧٨٣) حضرت قتادہ اور حضرت ابو ہاشم فرماتے ہیں کہ اگر شادی کے بعد خاوند ایک مرتبہ وطی کرلے اور دوبارہ اس پر قدرت نہ رکھے تو اس کے بعد عورت کے لیے اختیار نہیں ہے۔

16783

(۱۶۷۸۴) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ یَزِیدَ ، عَنْ عُبَیْدَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالَ : إذَا وَطِئَہَا مَرَّۃً فَلَیْسَ لَہَا خِیَارٌ۔
(١٦٧٨٤) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ اگر شادی کے بعد خاوند ایک مرتبہ وطی کرلے اور دوبارہ اس پر قدرت نہ رکھے تو اس کے بعد عورت کے لیے اختیار نہیں ہے۔

16784

(۱۶۷۸۵) حَدَّثَنَا حَکَّام الرَّازِیّ، عَنْ خَلِیلِ بْنِ زُرَارَۃَ، عَنْ مُطَرِّفٍ، عَنِ الشَّعْبِیِّ قَالَ: مَنْ زَوَّجَ فَاسِقًا فَقَدْ قَطَعَ رَحِمَہُ۔
(١٦٧٨٥) حضرت شعبی فرماتے ہیں کہ جس نے کسی لڑکی کی شادی فاسق سے کرائی اس نے قطع رحمی کی۔

16785

(۱۶۷۸۶) حَدَّثَنَا ابْنُ مُبَارَکٍ، عَنْ سَعِیدٍ، عَنْ قَتَادَۃَ، عَنِ ابْنِ الْمُسَیَّبِ وَسُلَیْمَان بْنِ یَسَارٍ ، وَالْحَسَنِ ، وَعِکْرِمَۃَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : لاَ خِیَارَ لَہَا عَلَی الْحُرِّ۔
(١٦٧٨٦) حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ آزاد ہونے والی عورت کے لیے خاوند کے آزاد ہونے کی صورت میں اختیار نہیں ہے۔

16786

(۱۶۷۸۷) حَدَّثَنَا ابْنُ مُبَارَکٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَطَائٍ قَالَ : قُلْتُ لَہُ : لَہَا خِیَارٌ عَلَی الْحُرِّ ؟ قَالَ : لاَ۔
(١٦٧٨٧) حضرت ابن جریج فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عطاء سے سوال کیا کہ آزاد ہونے والی عورت کے لیے خاوند کے آزاد ہونے کی صورت میں اختیا رہے یا نہیں ؟ انھوں نے فرمایا نہیں۔

16787

(۱۶۷۸۸) حَدَّثَنَا الثَّقَفِیُّ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنْ أَبِی قِلاَبَۃَ قَالَ : لَیْسَ لَہَا خِیَارٌ مِنَ الْحُرِّ وَلَہَا خِیَارٌ مِنَ الْعَبْدِ۔
(١٦٧٨٨) حضرت ابو قلابہ فرماتے ہیں کہ آزاد ہونے والی عورت کے لیے خاوند کے آزاد ہونے کی صورت میں اختیار نہیں ہے البتہ خاوند کے غلام ہونے کی صورت میں اختیار ہے۔

16788

(۱۶۷۸۹) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ أَنَّہُ کَانَ یَقُولُ : لاَ خِیَارَ لِلأَمَۃِ إذَا أُعْتِقَتْ وَزَوْجُہَا حُرٌّ۔
(١٦٧٨٩) حضرت حسن فرمایا کرتے تھے کہ آزاد ہونے والی عورت کے لیے خاوند کے آزاد ہونے کی صورت میں اختیار نہیں ہے

16789

(۱۶۷۹۰) حَدَّثَنَا عبد اللہ بْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ، عَنْ نَافِعٍ أَنَّ صَفِیَّۃَ بِنْتَ أَبِی عُبَیْدٍ کَانَ لَہَا عَبْدٌ فَزَوَّجَتْہُ جَارِیَۃً لہا بِکْرًا فَکَانَتْ تَکْرَہُ زَوْجَہَا وَکَانَتْ تُرِیدُ عِتْقَہَا فَخَافَت أَنْ تُعْتِقَ الْوَلِیدَۃَ فَتُفَارِقَ زَوْجَہَا فَأَعْتَقَتِ الْعَبْدَ حَتَّی إذَا أُثْبِتَ الْعَتِیقُ أَعْتَقَتِ الْوَلِیدَۃَ بَعْدَ ذَلِکَ۔
(١٦٧٩٠) حضرت نافع فرماتے ہیں کہ صفیہ بنت ابی عبید کا ایک غلام تھا۔ انھوں نے اس کی شادی اپنی ایک باکرہ باندی سے کرادی۔ وہ باندی اپنے خاوند کو پسند نہیں کرتی تھی اور آزاد ہونا چاہتی تھی۔ صفیہ بنت ابی عبید کو اندیشہ تھا کہ اگر انھوں نے باندی کو آزاد کیا تو وہ اپنے خاوند سے علیحدہ ہوجائے گی۔ پس انھوں نے پہلے غلام کو آزاد کردیا اور پھر بعد میں باندی کو آزاد کیا۔

16790

(۱۶۷۹۱) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنِ الأَعْمَشِِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، عَنِ الأَسْوَدِ ، عَنْ عَائِشَۃَ أَنَّہَا اشْتَرَتْ بَرِیرَۃَ فَأَعْتَقَتْہَا فَخَیَّرَہَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَکَانَ لَہَا زَوْجٌ حُرٌّ۔ (بخاری ۶۷۵۱۔ ابوداؤد ۲۲۲۸)
(١٦٧٩١) حضرت اسود فرماتے ہیں کہ حضرت عائشہ (رض) نے حضرت بریرہ (رض) کو خریدا اور پھر انھیں آزاد کردیا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت بریرہ (رض) کو نکاح کے باقی رکھنے یا ختم کرنے کا اختیار دیا حالانکہ ان کے خاوند آزاد تھے۔

16791

(۱۶۷۹۲) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنِ ابْنِ طَاوُوسٍ ، عَنْ أَبِیہِ قَالَ : تُخَیَّرُ ، وَإِنْ کَانَتْ تَحْتَ رَجُلٍ مِنْ قُرَیْشٍ۔
(١٦٧٩٢) حضرت طاوس فرماتے ہیں کہ خاوند آزاد ہو یا غلام، باندی کو آزاد ہونے کے بعد اختیار ہوگا۔ خواہ اس کا خاوند قریشی ہی کیوں نہ ہو۔

16792

(۱۶۷۹۳) حَدَّثَنَا ابْنُ مُبَارَکٍ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ قَالَ : لَہَا الْخِیَارُ حُرًّا کَانَ زَوْجُہَا ، أَوْ عَبْدًا۔
(١٦٧٩٣) حضرت ابن سیرین فرماتے ہیں کہ خاوند آزاد ہو یا غلام، باندی کو آزاد ہونے کے بعد اختیار ہوگا۔

16793

(۱۶۷۹۴) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ قَالَ : تُخَیَّرُ حُرًّا کَانَ زَوْجُہَا ، أَوْ عَبْدًا۔
(١٦٧٩٤) حضرت شعبی فرماتے ہیں کہ خاوند آزاد ہو یا غلام، باندی کو آزاد ہونے کے بعد اختیار ہوگا۔

16794

(۱۶۷۹۵) حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَبْدِ الْوَارِثِ ، عَنْ حَرْبِ بْنِ أَبِی الْعَالِیَۃِ ، عَنِ ابْنِ أَبِی نَجِیحٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ قَالَ : لَہَا الْخِیَارُ ، وَإِنْ کَانَتْ تَحْتَ أَمِیرِ الْمُؤْمِنِینَ۔
(١٦٧٩٥) حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ خاوند آزاد ہو یا غلام، باندی کو آزاد ہونے کے بعد اختیار ہوگا۔ خواہ اس کا خاوند امیر المؤمنین ہی کیوں نہ ہو۔

16795

(۱۶۷۹۶) حَدَّثَنَا ابْنُ مُبَارَکٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنِ ابْنِ طَاوُوسٍ ، عَنْ أَبِیہِ وَعَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ مُسْلِمٍ ، عَنْ طَاوُوسٍ قَالَ : لَہَا الْخِیَارُ عَلَی الْحُرِّ وَالْعَبْدِ۔
(١٦٧٩٦) حضرت طاؤس فرماتے ہیں کہ خاوند آزاد ہو یا غلام، باندی کو آزاد ہونے کے بعد اختیار ہوگا۔

16796

(۱۶۷۹۷) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ فِی الْمَمْلُوکَۃِ تَکُونُ تَحْتَ الْعَبْدِ فَتُعْتَقُ قَالَ : لَہَا الْخِیَارُ مَا لَمْ یَمَسَّہَا۔
(١٦٧٩٧) حضرت نافع فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عمر (رض) سے سوال کیا گیا کہ اگر کوئی باندی کسی غلام کی بیوی ہو اور وہ باندی آزاد ہوجائے تو اس کے لیے کیا حکم ہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ جب تک خاوند نے بیوی کو چھوا نہ ہو اس وقت تک اسے خیار ہے۔

16797

(۱۶۷۹۸) حَدَّثَنَا ابْنُ مُبَارَکٍ ، عَنْ حَنْظَلَۃَ قَالَ سَمِعْت طَاوُوسًا وَسُئِلَ عَنِ الأَمَۃِ تُعْتَقُ وَلَہَا زَوْجٌ حُرٌّ تُخَیَّرُ ؟ فَقَالَ : لاَ عِلْمَ لِی ، وَلَکِنَّہَا إذَا کَانَتْ تَحْتَ عَبْدٍ خُیِّرَتْ۔
(١٦٧٩٨) حضرت طاؤس سے سوال کیا گیا کہ اگر کسی باندی کو آزاد کیا گیا اور اس کا خاوند آزاد ہو تو کیا اسے خیار دیا جائے گا ؟ انھوں نے فرمایا کہ اس بارے میں مجھے علم نہیں البتہ اگر وہ کسی غلام کی بیوی ہو تو اسے اختیار دیا جائے گا۔

16798

(۱۶۷۹۹) حَدَّثَنَا عَبدَۃ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ أَبِی مَعْشَرٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالَ : تُخَیَّرُ حُرًّا کَانَ زَوْجُہَا ، أَوْ عَبْدًا۔
(١٦٧٩٩) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ خاوند آزاد ہو یا غلام، باندی کو آزاد ہونے کے بعد اختیار ہوگا۔

16799

(۱۶۸۰۰) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ، عَنْ خَالِدٍ، عَنْ أَبِی قِلاَبَۃَ، عَنْ عُمَرَ، قَالَ: إذَا أُعْتِقَتِ الأَمَۃُ فَلَہَا الْخِیَارُ مَا لَمْ یَطَأْہَا زَوْجُہَا۔
(١٦٨٠٠) حضرت عمر (رض) فرماتے ہیں کہ عورت کی آزادی کے بعد اگر خاوند نے اس سے جماع کرلیا تو اس کا اختیار ختم ہوجائے گا۔

16800

(۱۶۸۰۱) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ : إذَا قَرَبَہَا فَلاَ خِیَارَ لَہَا قَدْ أَقَرَّتْ۔
(١٦٨٠١) حضرت ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ عورت کی آزادی کے بعد اگر خاوند نے اس سے جماع کرلیا تو اس کا اختیار ختم ہوجائے گا۔

16801

(۱۶۸۰۲) حَدَّثَنَا عَبدَۃ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ أَنَّ حَفْصَۃَ زَوْجَ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَعْتَقَتْ جَارِیَۃً لَہَا ، فَقَالَتْ : إِنْ وَطِئَک زَوْجُک فَلاَ خِیَارَ لَک۔
(١٦٨٠٢) حضرت قتادہ فرماتے ہیں کہ ام المومنین حضرت حفصہ نے ایک باندی کو آزاد کیا اور فرمایا کہ اگر تمہارے خاوند نے تم سے جماع کرلیا تو تمہارا اختیار ختم ہوجائے گا۔

16802

(۱۶۸۰۳) حَدَّثَنَا عَبدَۃ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ یَسَارٍ قَالَ : إذَا غَشِیَہَا زَوْجُہَا فَلاَ خِیَارَ لَہَا۔
(١٦٨٠٣) حضرت سلیمان بن یسارفرماتے ہیں کہ عورت کی آزادی کے بعد اگر خاوند نے اس سے جماع کرلیا تو اس کا اختیار ختم ہوجائے گا۔

16803

(۱۶۸۰۴) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنْ أَبِی قِلاَبَۃَ ، وَنَافِعٍ قَالاَ : لَہَا الْخِیَارُ مَا لَمْ یَغْشَہَا۔
(١٦٨٠٤) حضرت ابو قلابہ اور حضرت نافع فرماتے ہیں کہ عورت کی آزادی کے بعد اگر خاوند نے اس سے جماع کرلیا تو اس کا اختیار ختم ہوجائے گا۔

16804

(۱۶۸۰۵) حَدَّثَنَا عَبْدُ السَّلاَمِ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالَ : إذَا أُعْتِقَتِ الأَمَۃُ فَلَہَا الْخِیَارُ مَا لَمْ یَطَأْہَا زَوْجُہَا۔
(١٦٨٠٥) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں عورت کی آزادی کے بعد اگر خاوند نے اس سے جماع کرلیا تو اس کا اختیار ختم ہوجائے گا۔

16805

(۱۶۸۰۶) حَدَّثَنَا ابْنُ مُبَارَکٍ ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَۃَ ، عَنْ حَمَّادٍ قَالَ : إذَا أُعْتِقَتِ الأَمَۃُ ثُمَّ وَطِئَہَا وَہِیَ لاَ تَعْلَمُ أَنَّ لَہَا الْخِیَارَ فَلَہَا الْخِیَارُ قَالَ : وَبَلَغَنِی ، عَنِ الْحَسَنِ أَنَّہُ کَانَ یَقُولُ ذَلِکَ۔
(١٦٨٠٦) حضرت حماد فرماتے ہیں کہ جب باندی کو آزاد کیا گیا اور اس کے ساتھ اس کے خاوند نے وطی کی، حالانکہ وہ خیار کے متعلق جانتی نہ تھی تو اس کا خیار باقی رہے گا۔ حضرت حسن بھی یہی فرمایا کرتے تھے۔

16806

(۱۶۸۰۷) حَدَّثَنَا ابْنُ مُبَارَکٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ قَالَ : بَلَغَنِی ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ أَنَّہُ قَالَ : لَہَا الْخِیَارُ وَقَالَ : لَوْ کَانَ لِی عَلَیْہِ سُلْطَانٌ لَضَرَبْتہ۔
(١٦٨٠٧) حضرت سعید بن مسیب فرماتے ہیں کہ جب باندی کو آزاد کیا گیا اور اس کے ساتھ اس کے خاوند نے وطی کی، حالانکہ وہ خیار کے متعلق جانتی نہ تھی تو اس کا خیار باقی رہے گا۔ اگر مجھے اختیار ہوتا تو میں ایسا کرنے والے مرد کو مارتا۔

16807

(۱۶۸۰۸) حَدَّثَنَا ابْنُ مُبَارَکٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ فِیمَا قُرِیئَ عَلَیْہِ قَالَ : وَقَالَ ابْنُ عُمَرَ : إِنْ أَصَابَہَا وَلاَ تَعْلَمُ فَلَہَا الْخِیَارُ إذَا عَلِمَتْ وَلَوْ أَصَابَہَا مِنْہَا مِئَۃَ مَرَّۃٍ۔
(١٦٨٠٨) حضرت عمر (رض) فرماتے ہیں کہ جب باندی کو آزاد کیا گیا اور اس کے ساتھ اس کے خاوند نے وطی کی، حالانکہ وہ خیار کے متعلق جانتی نہ تھی تو اس کا خیار باقی رہے گا۔ خواہ سو مرتبہ جماع کرلے۔

16808

(۱۶۸۰۹) حَدَّثَنَا ابْنِ الْمُبَارَکِ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ قَالَ : قُلْتُ لِعَطَائٍ ، إذَا أُعْتِقَتِ الأَمَۃُ فَأَصَابَہَا مُبَادِرًا قَالَ : بِئْسَ مَا صَنَعَ ، قَالَ : قُلْتُ : لَہَا خِیَارٌ عَلَی الْحُرِّ ؟ قَالَ : لاَ۔
(١٦٨٠٩) حضرت ابن جریج فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عطاء سے عرض کیا کہ جب باندی کو آزاد کیا گیا اور اس کے خاوند نے اس سے فورا جماع کرلیا تو کیا حکم ہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ اس نے بہت برا کیا۔ میں نے کہا کہ کیا اس کو آزاد خاوند کی صورت میں اختیار ہوگا ؟ انھوں نے فرمایا نہیں۔

16809

(۱۶۸۱۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، عَنْ شعبۃ، عَنِ الْحَکَمِ قَالَ: إذَا وَطِئَہَا وَہِیَ لاَ تَعْلَمُ أَنَّ لَہَا الْخِیَارَ فَلَہَا الْخِیَارُ إذَا عَلِمَتْ۔
(١٦٨١٠) حضرت حکم فرماتے ہیں کہ جب باندی کو آزاد کیا گیا اور اس کے ساتھ اس کے خاوند نے وطی کی، حالانکہ وہ خیار کے متعلق جانتی نہ تھی تو جب اسے معلوم ہو اس کا خیار باقی رہے گا۔

16810

(۱۶۸۱۱) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِ حَمَّادٍ ، عَنْ حَمَّادٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالَ : إذَا وَقَعَ عَلَیْہَا وَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ لَہَا الْخِیَارَ فَلَہَا الْخِیَارُ إذَا عَلِمَتْ۔
(١٦٨١١) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ جب باندی کو آزاد کیا گیا اور اس کے ساتھ اس کے خاوند نے وطی کی، حالانکہ وہ خیار کے متعلق جانتی نہ تھی تو جب اسے معلوم ہو اس کا خیار باقی رہے گا۔

16811

(۱۶۸۱۲) حَدَّثَنَا ابْنُ مُبَارَکٍ ، عَنْ جُوَِیبرٍ ، عَنِ الضَّحَّاکِ قَالَ إذَا وَطِئَہَا وَہِیَ تَعْلَمُ أَنَّ لَہَا الْخِیَارَ فَذَاکَ مِنْہَا رِضًا۔
(١٦٨١٢) حضرت ضحاک فرماتے ہیں کہ جب باندی کو آزاد کیا گیا اور اس کے ساتھ اس کے خاوند نے وطی کی، حالانکہ وہ خیار کے متعلق جانتی تھی تو یہ اس کی رضا کے قائم مقام ہے۔

16812

(۱۶۸۱۳) حَدَّثَنَا حَفْصٌ، عَنْ عَمْرٍو، عَنِ الْحَسَنِ قَالَ: إذَا وَقَعَ عَلَیْہَا زَوْجُہَا وَقَدْ عَلِمَتْ أَنَّ لَہَا الْخِیَارَ فَلاَ خِیَارَ لَہَا۔
(١٦٨١٣) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ جب باندی کو آزاد کیا گیا اور اس کے ساتھ اس کے خاوند نے وطی کی، حالانکہ وہ خیار کے متعلق جانتی تھی تو اس کا خیار باقی نہیں رہے گا۔

16813

(۱۶۸۱۴) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ قَالَ : إذَا غَشِیَہَا قَبْلَ أَنْ تَخْتَارَ اُسْتُحْلِفَت أَنَّہَا لَمْ تَعْلَمْ أَنَّ لَہَا الْخِیَارَ ثُمَّ خُیِّرَتْ إذَا کَانَتْ تَحْتَ عَبْدٍ۔
(١٦٨١٤) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ اگر بیوی کے خیار استعمال کرنے سے قبل خاوند نے اس سے جماع کیا تو بیوی سے قسم لی جائے گی کہ وہ خیار کے متعلق نہ جانتی تھی۔ پھر اگر وہ غلام کے نکاح میں تھی تو اسے اختیار دیا جائے گا۔

16814

(۱۶۸۱۵) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، قَالَ : سَأَلْتُ الْحَکَمَ ، عَنْ رَجُلٍ کَانَتْ عِنْدَہُ امْرَأَۃٌ فَأُعْتِقَتْ فَغَشِیَہَا بَعْدَ الْعِتْقِ ، فَقَالَتْ : لَمْ أَشْعُرْ أَنَّ لِی خِیَارًا ، قَالَ : تُسْتَحْلَفُ أَنَّہَا لَمْ تَعْلَمْ أَنَّ لَہَا الْخِیَارَ ثُمَّ تُخَیَّرُ وَسَأَلْت حَمَّادًا، فَقَالَ : ہِیَ امْرَأَتُہُ وَلاَ تُخَیَّرُ۔
(١٦٨١٥) حضرت شعبہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت حکم سے اس عورت کے بارے میں سوال کیا جس کی آزاد ی کے بعد اس کے خاوند نے اس سے جماع کیا، لیکن عورت کا کہنا یہ ہے کہ مجھے خیار کا علم نہیں تھا۔ تو انھوں نے فرمایا کہ اس عورت سے خیار کا علم نہ ہونے پر قسم لی جائے گی پھر اسے اختیار دیا جائے گا۔ میں نے یہی سوال حضرت حماد سے کیا تو انھوں نے فرمایا کہ یہ اس کی بیوی ہے اسے اختیار نہیں دیا جائے گا۔

16815

(۱۶۸۱۶) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، عَنْ شُعْبَۃَ قَالَ: أَخْبَرَنِی الْہَیْثَمُ ، عَنْ حَمَّادٍ أَنَّہُ قَالَ: تُسْتَحْلَفُ أَنَّہَا لَمْ تَعْلَمْ أَنَّ لَہَا الْخِیَارَ۔
(١٦٨١٦) حضرت حماد فرماتے ہیں کہ اس سے اس بات پر قسم لی جائے گی کہ اسے خیار کا علم نہیں تھا۔

16816

(۱۶۸۱۷) حَدَّثَنَا ابْنُ مُبَارَکٍ ، عَنْ معمر عن رَجُلٍ ، عَنْ جَابِرٍ بْنِ زَیْدٍ قَالَ فِی الْمُکَاتَبَۃِ قَالَ : تُخَیَّرُ۔
(١٦٨١٧) حضرت جابر بن زید فرماتے ہیں کہ مکاتبہ باندی کو آزاد ی کے بعد اختیار ہوگا۔
(مکاتبہ باندی سے مراد ایسی باندی جس کا مالک اس سے ایک مخصوص رقم کی وصولی کے بعد اسے آزاد کرنے کا معاہدہ کرلے۔ )

16817

(۱۶۸۱۸) حَدَّثَنَا ابْنُ مُبَارَکٍ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ فِرَاسٍ ، عَنْ عَامِرٍ قَالَ : تُخَیَّرُ الْمُکَاتَبَۃُ۔
(١٦٨١٨) حضرت عامر فرماتے ہیں کہ مکاتبہ باندی کو آزاد ی کے بعد اختیار ہوگا۔

16818

(۱۶۸۱۹) حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ عَیَّاشٍ ، عَنْ مَنْصُورٍ وَمُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالَ : إذَا کَاتَبت المْرَأَۃ أَعَانَہَا زَوْجُہَا عَلَی مُکَاتَبَتِہَا ثُمَّ أُعْتِقَتْ فَلاَ خِیَارَ لَہَا۔
(١٦٨١٩) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ اگر مکاتبہ باندی کی آزادی کے لیے اس کے خاوند نے اس کی مدد کی تو آزادی کے بعد اسے اختیار نہیں ہوگا۔

16819

(۱۶۸۲۰) حَدَّثَنَا شَرِیکٌ، عَنْ جَابِرٍ، عَنْ عَامِرٍ فِی الْمُکَاتَبَۃِ: تَسْعَی وَمَعَہَا زَوْجُہَا قَالَ: لَہَا الْخِیَارُ، وَإِنْ سَعَی مَعَہَا۔
(١٦٨٢٠) حضرت عامر فرماتے ہیں کہ مکاتبہ باندی کو آزادی کے بعد اختیار ہوگا خواہ اس کے خاوند نے اس کے ساتھ مکاتبت کی رقم ادا کرنے میں کوشش کی ہو۔

16820

(۱۶۸۲۱) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ وَمَنْصُورٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، وَعَطَائٍ أَنَّہُمَا کَانَا لاَ یَرَیَانِ بَأْسًا بِتَزْوِیجِ النَّہَارِیَّاتِ۔
(١٦٨٢١) حضرت حسن اور حضرت عطاء کے نزدیک نہاریات سے نکاح کرنے میں کوئی حرج نہیں۔
(” نہاریات “ سے مراد ایسی عورتیں ہیں جن کے بارے میں خاوند یہ شرط لگائے کہ وہ صرف دن کے وقت ان سے ملے گا اور ان کی تقسیم کا حصہ صرف دن میں ہوگا۔ )

16821

(۱۶۸۲۲) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ أَنَّہُ کَانَ یَکْرَہُ نِکَاحَ النَّہَارِیَّاتِ وَکَانَ الْحَسَنُ لاَ یَرَی بہ بَأْسًا۔
(١٦٨٢٢) حضرت حسن کے نزدیک نہاریات سے نکاح کرنے میں کوئی حرج نہیں۔

16822

(۱۶۸۲۳) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ حَمَّادٍ أَنَّہُ کَرِہَہُ۔
(١٦٨٢٣) حضرت حماد کے نزدیک نہاریات سے نکاح کرنا مکروہ ہے۔

16823

(۱۶۸۲۴) حَدَّثَنَا جَرِیرٍ ، عَنْ مُطَرِّفٍ ، عَنِ الْحَکَمِ وَحَمَّادٍ فِی رَجُلٍ تَزَوَّجَ امْرَأَۃً وَشَرَطَ لَہَا : مَا قَسَمْتُ لَکَ مِنْ لَیْلٍ ، أَوْ نَہَارٍ رَضِیتِ بِہِ ، قالا : ہَذَا شَرْطٌ فَاسِدٌ۔
(١٦٨٢٤) حضرت حکم اور حضرت حماد سے سوال کیا گیا کہ ایک آدمی نکاح میں یہ شرط لگائے کہ عورت کو دن یا رات میں کوئی حصہ نہیں ملے گا۔ اور عورت اس پر راضی ہو تو کیا حکم ہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ یہ شرط فاسد ہے۔

16824

(۱۶۸۲۵) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ قَالَ : کَانَ یُسْأَلُ ، عَنِ الرَّجُلِ یَتَزَوَّجُ الْمَرْأَۃَ فَیَشْتَرِطُ عَلَیْہَا أَنْ لاَ یَأْتِیَہَا کَذَا وَکَذَا ، وَلاَ یُنْفِقُ عَلَیْہَا إلاَّ شَیْئًا مَعْلُومًا ، قَالَ : إنَّمَا الصُّلْحُ الَّذِی أَمَرَ اللَّہُ بِہِ بَعْدَ الدُّخُولِ ، فَکَانَ یَکْرَہُہُ۔
(١٦٨٢٥) حضرت زہری اس شخص کے بارے میں جو نکاح میں یہ شرط لگائے کہ وہ اس کے پاس نہیں آئے گا اور اس پر صرف معلوم مقدار ہی خرچ کرے گا ، فرماتے ہیں کہ وہ صلح جس کا قرآن میں حکم ہے وہ تو ایک مرتبہ کے جماع کے بعد ہے۔ گویا ایسا کرنا مکروہ ہے۔

16825

(۱۶۸۲۶) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ قَالَ : سُئِلَ یُونُسُ ، عَنِ الشَّرْطِ فِی النِّکَاحِ ، فَقَالَ : کَانَ الْحَسَنُ لاَ یَرَی بِہِ بَأْسًا إذَا کَانَتْ عَلاَنِیَۃً ، وَکَانَ ابْنُ سِیرِینَ یَکْرَہُ ابْتِدَائَہُ وَلاَ یَرَی بِہِ بَأْسًا بَعْدَ ذَلِکَ۔
(١٦٨٢٦) حضرت یونس سے نکاح میں لگائی جانے والی شرط کے بارے میں سوال کیا گیا تو انھوں نے فرمایا کہ حضرت حسن تو اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے اگر وہ علانیہ ہو، جبکہ حضرت ابن سیرین ابتداء میں مکروہ خیال کرتے تھے اور اگر بعد میں لگائی جائے تو وہ بھی کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے۔

16826

(۱۶۸۲۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إسْرَائِیلَ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ عَامِرٍ قَالَ : سَأَلْتُہ عَنِ الرَّجُلِ تَکُونُ لَہُ امْرَأَۃٌ فَیَتَزَوَّجُ الْمَرْأَۃَ فَیَشْتَرِطُ لِہَذِہِ یَوْمًا وَلِہَذِہِ یَوْمَیْنِ ؟ قَالَ : لاَ بَأْسَ بِہِ۔
(١٦٨٢٧) حضرت جابر کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عامر سے اس شخص کے بارے میں سوال کیا جو اپنی بیویوں میں سے ایک کے ساتھ ایک دن اور دوسری کے ساتھ دو دن مقرر کرلے توا نہوں نے فرمایا کہ ایسا کرنا جائز ہے۔

16827

(۱۶۸۲۸) حَدَّثَنَا إسْمَاعِیلَ بْنِ عَیَّاشٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَطَائٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ فِی رَجُلٍ تَزَوَّجَ امْرَأَۃً فَاشْتَرَطُوا عَلَیْہِ : إِنْ جِئْت بِمَہْرِہَا إلَی کَذَا وَکَذَا ، وَإِلاَّ فَلاَ نِکَاحَ بَیْنَنَا ، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ : لاَ بَأْسَ بِذَلِکَ۔
(١٦٨٢٨) حضرت ابن عباس (رض) سے سوال کیا گیا کہ اگر نکاح کو اس شرط کے ساتھ مشروط کیا جائے کہ اگر فلاں دن تک خاوند نے مہر دے دیا تو ٹھیک وگرنہ نکاح نہیں ہوگا۔ آپ نے فرمایا کہ اس میں کوئی حرج نہیں۔

16828

(۱۶۸۲۹) حَدَّثَنَا ابْنُ مُبَارَکٍ ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ قَالَ : ہُوَ جَائِزٌ وَکَأَنَّہُ جَعَلَہُ حَلِفًا ، وَکَانَ الْحَسَنُ یَقُولُ : قَدْ جَازَ النِّکَاحُ وَبَطَلَ الشَّرْطُ۔
(١٦٨٢٩) حضرت زہری فرماتے ہیں کہ ایسا کرنا جائز ہے۔ یہ عمل خلع کے حکم میں ہوگا۔ حضرت حسن فرمایا کرتے تھے کہ نکاح جائز ہے اور شرط باطل ہے۔

16829

(۱۶۸۳۰) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالَ : کُلُّ شَرْطٍ فِی النِّکَاحِ فَالنِّکَاحُ یَہْدِمُہُ إلاَّ الطَّلاَقَ۔
(١٦٨٣٠) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ نکاح میں طلاق کے علاوہ لگائی جانے والی ہر شرط کو نکاح ختم کردیتا ہے۔

16830

(۱۶۸۳۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ قَیْسٍ ، عَنْ جَدَّتِہِ أَنَّ أَبَاہَا تَزَوَّجَ امْرَأَۃً بِخَادِمٍ لَہَا فَخَاصَمَتْ أَبَاہَا إلَی شُرَیْحٍ فَقَضَی لَہَا بِالْخَادِمٍ وَقَضَی لِلْمَرْأَۃِ بِقِیمَۃِ الْخَادِمِ۔
(١٦٨٣١) حضرت عمرو بن قیس کی دادی فرماتی ہیں کہ ان کے باپ نے ایک عورت سے میری خادمہ کے عوض شادی کی۔ میں یہ مقدمہ لے کر قاضی شریح کی عدالت میں گئی تو انھوں نے میرے لیے خادمہ کا اور اس عورت کے لیے خادمہ کی قیمت کا فیصلہ کیا۔

16831

(۱۶۸۳۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ فِی رَجُلٍ تَزَوَّجَ امْرَأَۃً عَلَی أَنْ یُعْتِقَ أَبَاہَا فَلَمْ یَقْدِرْ عَلَیْہِ ، قَالَ : عَلَیْہِ قِیمَۃُ الأَبِ۔
(١٦٨٣٢) حضرت شعبی فرماتے ہیں کہ اگر کسی آدمی نے عورت سے اس بات کے عوض شادی کی کہ وہ اس عورت کے باپ کو آزاد کرے گا اور وہ اس کی آزادی پر قادر نہ ہوسکا تو اس پر اس کے باپ کی قیمت لازم ہوگی۔

16832

(۱۶۸۳۳) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ حَمَّادٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ فِی الرَّجُلِ یَتَزَوَّجُ المرأۃ عَلَی أَنْ یُحِجَّہَا قَالَ ہُوَ جائز۔
(١٦٨٣٣) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ اگر کسی شخص نے عورت سے اس شرط پر شادی کی کہ وہ اسے حج کرائے گا تو یہ جائز ہے۔

16833

(۱۶۸۳۴) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ ، عَنْ أَبِی خَالِدٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ فِی الرَّجُلِ یَتَزَوَّجُ امْرَأَۃً عَلَی أَنَّ صَدَاقَہَا عِتْقُ أَبِیہَا فَلَمْ یُبَعْہُ قَالَ : لَہَا قِیمَۃُ الأَبِ۔
(١٦٨٣٤) حضرت شعبی فرماتے ہیں کہ اگر کسی آدمی نے عورت سے اس بات کے عوض شادی کی کہ وہ اس عورت کے باپ کو آزاد کرے گا اور وہ اس کی آزادی پر قادر نہ ہوسکا تو اس پر اس کے باپ کی قیمت لازم ہوگی۔

16834

(۱۶۸۳۵) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ حَمَّادٍ فِی رَجُلٍ تَزَوَّجَ امْرَأَۃً عَلَی أَنْ یُحِجَّہَا ثُمَّ طَلَّقَہَا قَبْلَ أَنْ یَدْخُلَ بِہَا قَالَ : لَہَا نِصْفُ أَدْنَی مَا یَحُجُّ بِہِ إنْسَانٌ۔
(١٦٨٣٥) حضرت حماد فرماتے ہیں کہ اگر کسی شخص نے عورت سے اس شرط پر شادی کی کہ وہ اسے حج کرائے گا لیکن اسے دخول سے پہلے طلاق دے دی تو اس پر حج کے خرچے کا نصف لازم ہوگا۔

16835

(۱۶۸۳۶) حَدَّثَنَا ، عَنْ عَبْدِ الأَعْلَی ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ قَالَ : إذَا خَطَبَ الرَّجُلُ عَلَی الرَّجُلِ فَزَوَّجَہُ فَأَنْکَرَ عَلَیْہِ الآخَرُ فَحَقُّہَا ثَابِتٌ عَلَی ہَذَا نِصْفُ الصَّدَاقِ۔
(١٦٨٣٦) حضرت زہری فرماتے ہیں کہ اگر ایک آدمی نے دوسرے کی طرف سے نکاح کا پیغام بھجوایا اور نکاح کرادیا، جبکہ بعد میں دول ہے نے انکار کردیا تو عورت کا حق نکاح کرانے والے پر ثابت ہوگا اور نصف مہر دینا پڑے گا۔

16836

(۱۶۸۳۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إسْرَائِیلَ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ عَامِرٍ فِی رَجُلٍ کَتَبَ إلَی أَبِیہِ ، أَوْ إلَی مَوْلاَہُ أَنْ یُزَوِّجَہُ فَزَوَّجَہُ فَجَائَ فَأَنْکَرَ عَلَیْہِ قَالَ الشَّعْبِیُّ : إِنْ أَجَازَ الزَّوْجُ النِّکَاحَ فَہُوَ جَائِزٌ ، وَإِنْ لَمْ یُجِزْہُ فَلَیْسَ بِشَیْئٍ وَلَیْسَ عَلَی وَاحِدٍ مِنْہُمَا صَدَاقٌ إِنْ لَمْ یَکُنْ دَخَلَ بِہَا۔
(١٦٨٣٧) حضرت عامر فرماتے ہیں کہ اگر کسی آدمی نے اپنے باپ یا مولی کو خط لکھا کہ اس کی شادی کرادے۔ انھوں نے شادی کرادی، لیکن اس نے انکار کردیا تو اس بارے میں حضرت شعبی فرماتے تھے کہ اگر خاوند نکاح کو باقی رکھے تو ٹھیک ورنہ اس نکاح کی کوئی حیثیت نہیں۔ اور شرعی ملاقات سے پہلے کسی پر مہر بھی واجب نہیں ہوگا۔

16837

(۱۶۸۳۸) حَدَّثَنَا الضَّحَّاکُ بْنُ مَخْلَدٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَطَائٍ فِی رَجُلٍ زَوَّجَ أَبَاہُ وَہُوَ غَائِبٌ فَلَمْ یَرْضَ الأَبُ قَالَ : الصَّدَاقُ عَلَی الابْنِ فَإِنْ زَوَّجَ الأَبُ الابْنَ فَلَمْ یَرْضَ الابْنُ فَالصَّدَاقُ عَلَی الأَبِ۔
(١٦٨٣٨) حضرت عطاء فرماتے ہیں کہ اگر کسی شخص نے اپنے باپ کا نکاح کرادیا حالانکہ باپ موجود نہیں تھا ، پھر اگر باپ راضی نہ ہوا تو مہر بیٹے پر لازم ہوگا اور اگر باپ نے بیٹے کا نکاح کرایا اور بیٹا راضی نہ ہوا تو مہر باپ پر لازم ہوگا۔

16838

(۱۶۸۳۹) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنْ عَطَائٍ ، عَنْ جَابِرٍ قَالَ : کُنَّا نَعْزِلُ وَالْقُرْآنُ یَنْزِلُ۔(بخاری ۵۲۰۷۔ مسلم ۱۳۷)
(١٦٨٣٩) حضرت جابر (رض) فرماتے ہیں کہ ہم عزل کیا کرتے تھے اور قرآن نازل ہورہا تھا یعنی اس کی ممانعت نہیں آئی۔
( ! عزل سے مراد جماع کے دوران انزال کے وقت آلہ تناسل کو شرمگاہ سے باہر نکال کر انزال کرنا۔ )

16839

(۱۶۸۴۰) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ أَبِی الزِّنَادِ ، عَنْ خَارِجَۃَ بْنِ زَیْدٍ أَنَّ زَیْدًا کَانَ یَعْزِلُ عَنْ جَارِیَۃٍ لَہُ۔
(١٦٨٤٠) حضرت خارجہ بن زید فرماتے ہیں کہ حضرت زید اپنی ایک باندی سے عزل کیا کرتے تھے۔

16840

(۱۶۸۴۱) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنْ عِکْرِمَۃَ ؛ أَنَّ زَیْدًا وَسَعْدًا کَانَا یَعْزِلاَنِ۔
(١٦٨٤١) حضرت عکرمہ فرماتے ہیں کہ حضرت زید اور حضرت سعد عزل کیا کرتے تھے۔

16841

(۱۶۸۴۲) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنْ إسْمَاعِیلَ الشَّیْبَانِیِّ أَنَّہُ خَلَفَ عَلَی امْرَأَۃِ رَافِعِ بْنِ خَدِیجٍ فَأَخْبَرَتْہُ أَنَّہُ کَانَ یَعْزِلُ ، أَوْ تَعْزِلُ مِنْ قُرُوحٍ بِہَا کَی لاَ تَغْتَسِلَ۔
(١٦٨٤٢) حضرت عمرو فرماتے ہیں کہ حضرت اسماعیل شیبانی کا نکاح حضرت رافع بن خدیج کی بیوی سے ہوا۔ انھوں نے اسماعیل شیبانی کو بتایا کہ رافع بن خدیج عزل کیا کرتے تھے۔

16842

(۱۶۸۴۳) حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ عَیَّاشٍ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ زَائِدَۃَ بن عُمَیْرٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ فِی قَوْلِہِ : {نِسَاؤُکُمْ حَرْثٌ لَکُمْ} قَالَ : مَنْ شَائَ أَنْ یَعْزِلَ فَلْیَعْزِلْ وَمَنْ شَائَ أَنْ لاَ یَعْزِلَ فَلاَ یَعْزِلْ۔
(١٦٨٤٣) حضرت ابن عباس (رض) قرآن مجید کی آیت { نِسَاؤُکُمْ حَرْثٌ لَکُمْ } کے بارے میں فرماتے ہیں کہ جو عزل کرنا چاہے کرلے اور جو نہ کرنا چاہے نہ کرے۔

16843

(۱۶۸۴۴) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنِ التَّیْمِیِّ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ عَبَّادٍ أَنَّ خَبَّابًا کَانَ یَعْزِلُ ، عَنْ سَرَارِیہِ۔
(١٦٨٤٤) حضرت یحییٰ بن عباد فرماتے ہیں کہ حضرت خباب اپنی باندیوں سے عزل کیا کرتے تھے۔

16844

(۱۶۸۴۵) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنِ ابْنِ سَعدٍ - یَعْنِی عَامِرًا - أَنَّ سَعْدًا کَانَ یَعْزِلُ۔
(١٦٨٤٥) حضرت عامر بن سعد فرماتے ہیں کہ حضرت سعد عزل کیا کرتے تھے۔

16845

(۱۶۸۴۶) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ ؛ فِی الْعَزْلِ : اخْتَلَفَ فِیہِ أَصْحَابُ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : فَکَانَ زَیْدٌ وَأَنَسُ بْنُ مَالِکٍ یَعْزِلاَنِ۔
(١٦٨٤٦) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ عزل کے بارے میں صحابہ کرام کا اختلاف ہے۔ حضرت زید اور حضرت انس بن مالک عزل کیا کرتے تھے۔

16846

(۱۶۸۴۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ مُبَارَکٍ ، عَنْ یَحْیَی ، عَنْ أَبِی سَلَمَۃَ أَنَّ زَیْدًا وَسَعْدًا کَانَا یَعْزِلاَنِ۔
(١٦٨٤٧) حضرت ابو سلمہ فرماتے ہیں کہ حضرت زید اور حضرت سعد عزل کیا کرتے تھے۔

16847

(۱۶۸۴۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ الضَّحَّاکِ بن عُثْمَانَ ، عَنْ سَالِمٍ أَبِی النَّضْرِ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَفْلَحَ قَالَ : نَکَحْت أُمَّ وَلَدِ أَبِی أَیُّوبَ فَأَخْبَرَتْنِی أَنَّ أَبَا أَیُّوبَ کَانَ یَعْزِلُ وَأَخْبَرَتْنِی أُمُّ وَلَدِ زَیْدِ بْنِ ثَابِتٍ أَنَّہُ کَانَ یَعْزِلُ عَنْہَا وَقَالَ سَالِمٌ ، عَنْ عَائِشَۃَ ابْنَۃِ سَعْدٍ إِنَّ سَعْدًا کَانَ یَعْزِلُ ، عَنْ أُمَّہَاتِ أَوْلاَدِہِ۔
(١٦٨٤٨) حضرت عبد الرحمن بن افلح فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابو ایوب (رض) کی ام ولد باندی سے شادی کی۔ اس نے مجھے بتایا کہ حضرت ابوایوب عزل کیا کرتے تھے۔ اور مجھے حضرت زید بن ثابت کی ام ولد باندی نے بھی بتایا کہ وہ بھی عزل کیا کرتے تھے۔ حضرت سالم عائشہ بنت سعد کے حوالے سے بیان کرتے ہیں کہ حضرت سعد اپنی ام ولد باندیوں سے عزل کیا کرتے تھے۔

16848

(۱۶۸۴۹) حَدَّثَنَا عَبْدَۃ بن سلیمان ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ قَالَ : کَانَتِ الأَنْصَارُ لاَ یَرَوْنَ بَأْسًا بِالْعَزْلِ ، وَکَانَ مِمَّنْ یَقُولُ ذَلِکَ زَیْدٌ ، وَأَبُو أَیُّوبَ وَأُبَیُّ۔
(١٦٨٤٩) حضرت سعید بن مسیب فرماتے ہیں کہ انصار صحابہ عزل کرنے میں کوئی برائی نہ سمجھتے تھے اور حضرت زید، حضرت ابو ایوب اور حضرت ابی اس کے قائل تھے۔

16849

(۱۶۸۵۰) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ حَمَّادٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ أَنَّ عَلْقَمَۃَ وَأَصْحَابَ عَبْدِ اللہِ کَانُوا یَعْزِلُونَ۔
(١٦٨٥٠) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ حضرت علقمہ اور حضرت عبداللہ (رض) کے شاگرد عزل کیا کرتے تھے۔

16850

(۱۶۸۵۱) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ جَعْفَرٍ ، عَنْ أَبِیہِ عَلِیِّ بْنِ حُسَیْنٍ أَنَّہُ کَانَ یَعْزِلُ وَیَتَأَوَّلُ ہَذِہِ الآیَۃَ : {وَإِذْ أَخَذَ رَبُّک مِنْ بَنِی آدَمَ مِنْ ظُہُورِہِمْ ذُرِّیَّاتِہِمْ}۔
(١٦٨٥١) حضرت جعفر فرماتے ہیں کہ حضرت علی بن حسین عزل کرتے تھے اور اس آیت کو دلیل کے طور پر پیش فرماتے { وَإِذْ أَخَذَ رَبُّک مِنْ بَنِی آدَمَ مِنْ ظُہُورِہِمْ ذُرِّیَّاتِہِمْ }۔

16851

(۱۶۸۵۲) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ مِسْعَرٍ ، عَنْ أَبِی عِمْرَانَ ، قَالَ : سَمِعْتُ امْرَأَۃً تَقُولُ : کَانَ الْحَسَنُ بْنُ عَلِیٍّ یَعْزِلُ عَنِّی۔
(١٦٨٥٢) حضرت ابو عمران نے ایک خاتون سے نقل کیا ہے کہ حضرت حسن بن علی عزل کیا کرتے تھے۔

16852

(۱۶۸۵۳) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ، عَنْ سَعِیدٍ سُئِلَ عَنِ الْعَزْلِ فَلَمْ یَرَ بِہِ بَأْسًا ، وَقَالَ : ہُوَ حَرْثُک إِنْ شِئْتَ أَعْطَشْتہ ، وَإِنْ شِئْتَ أَسْقَیْتہ۔
(١٦٨٥٣) حضرت سعید عزل میں کوئی حرج نہ سمجھتے تھے اور فرماتے کہ وہ تمہاری کھیتی ہے چاہو تو پیاسا رکھو اور چاہو تو سیراب کرو۔

16853

(۱۶۸۵۴) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ ، عَنْ مَسْعُودِ بْنِ عَلِیٍّ قَالَ : قُلْتُ لِعِکْرِمَۃَ : أَعْزِلُ ، عَنْ جَارِیَۃٍ لِی ؟ قَالَ : ہُوَ حَرْثُک فَإِنْ شِئْتَ فَأَعْطِشْہُ ، وَإِنْ شِئْتَ فَأَرْوِہِ۔
(١٦٨٥٤) حضرت مسعود بن علی کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عکرمہ سے سوال کیا کہ کیا میں اپنی باندی سے عزل کرسکتا ہوں ؟ انھوں نے فرمایا کہ وہ تمہاری کھیتی ہے چاہو تو پیاسا رکھو اور چاہو تو سیراب کرو۔

16854

(۱۶۸۵۵) حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الزِّبْرِقَانِ السَّرَّاجِ قَالَ : سَأَلْتُ ابْنَ مَعْقِلٍ ، عَنِ الْعَزْلِ ، فَقَالَ : قَدْ فَعَلَ ذَلِکَ مَنْ ہُوَ خَیْرٌ مِنِّی وَمِنْک سَعْدٌ۔
(١٦٨٥٥) حضرت زبرقان سراج فرماتے ہیں کہ میں نے ابن معقل سے عزل کے بارے میں سوال کیا تو انھوں نے فرمایا کہ یہ عمل تو مجھ سے اور تجھ سے بہتر یعنی حضرت سعد نے بھی کیا ہے۔

16855

(۱۶۸۵۶) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ ذَکْوَانَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، عَنْ جَابِرٍ قَالَ : کُنَّا نَعْزِلُ وَالْقُرْآنُ یَنْزِلُ فَلاَ نُنْہَی۔
(١٦٨٥٦) حضرت جابر فرماتے ہیں کہ ہم عزل کرتے اور قرآن نازل ہوتا تھا لیکن ہمیں اس سے منع نہیں کیا گیا۔

16856

(۱۶۸۵۷) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بشر ، عَنْ مِسْعَرٍ ، عَنْ عَوْنِ بْنِ عَبْدِ اللہِ ، عَنْ رَجُلٍ ، عَنْ أمہ ، عَنْ سُرِّیَّۃٍ لِعُمَرَ أَنَّہُ کَانَ یَعْزِلُ۔
(١٦٨٥٧) حضرت عمر کی ایک باندی روایت کرتی ہیں کہ وہ عزل کیا کرتے تھے۔

16857

(۱۶۸۵۸) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بشر حَدَّثَنَا مِسْعَرٌ ، عَنِ الْوَلِیدِ بْنِ أَبِی مَالِکٍ ، عَنْ قَزَعَۃَ ، عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ قَالَ : إن ابْنَتِی ہَذِہِ الَّتِی فِی الْخِدْرِ مِنَ الْعَزْلِ۔
(١٦٨٥٨) حضرت ابو سعید خدری (رض) فرماتے ہیں کہ میری یہ بیٹی جو جوان ہو کر پردے میں بیٹھی ہے، عزل کرنے کے باوجود پیدا ہوئی ہے۔

16858

(۱۶۸۵۹) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِِ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنْ جَابِرٍ قَالَ : أَتَی النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَجُلٌ ، فَقَالَ : إنَّ لِی خَادِمًا تَسْتَقِی عَلَی نَاضِحٍ لِی وَأَنَا أَعْزِلُ عَنْہَا ، فَجَائَتْ بِوَلَدٍ ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَا قَدَّرَ اللَّہُ مِنْ نَفْسٍ أَنْ یَخْلُقَہَا إلاَّ وَہِیَ کَائِنَۃٌ۔ (مسلم ۶۴۔ ابن ماجہ ۸۹)
(١٦٨٥٩) حضرت جابر (رض) فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ ایک آدمی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے عرض کیا کہ میری ایک خادمہ ہے، جو میرے لیے پانی بھرتی ہے۔ میں اس سے عزل کرتا ہوں لیکن پھر بھی اس نے بچے کو جنم دیا ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جس جان کے دنیا میں آنے کا اللہ نے فیصلہ کرلیا وہ آکر رہتی ہے۔

16859

(۱۶۸۶۰) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بشر ، عَنْ مِسْعَرٍ قَالَ : أَخْبَرَنِی الْحَسَنُ بن سَعْدٍ ، عَنِ ابْنِ أَبِی مُلَیْکَۃَ أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ سُئِلَ عَنِ الْعَزْلِ فَدَعَا جَارِیَۃً لَہُ ، فَقَالَ : عَزَلْتُ عَنْکِ أَمْسِ۔
(١٦٨٦٠) حضرت ابن عباس (رض) سے عزل کے بارے میں سوال کیا گیا تو انھوں نے اپنی ایک باندی کو بلایا اور فرمایا کہ کیا کل میں نے تجھ سے عزل کیا تھا ؟

16860

(۱۶۸۶۱) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بشر ، عَنْ مِسْعَرٍ قَالَ : حدَّثَنِی عَبْدُ الْمَلِکِ بْنُ عُمَیْرٍ ، عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ أَنَّ سَعْدًا کَانَ یَعْزِلُ ، عَنِ الأَمَۃِ إذَا خَشِیَ أَنْ تَحْمِلَ۔
(١٦٨٦١) حضرت مصعب بن سعد فرماتے ہیں کہ حضرت سعد کو جب کبھی باندی کے حاملہ ہونے کی توقع ہوتی تو عزل کیا کرتے تھے۔

16861

(۱۶۸۶۲) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ أَنَّ أَبَا بَکْرٍ وَعُمَرَ کَانَا یَکْرَہَانِ الْعَزْلَ وَیَأْمُرَانِ النَّاسَ بِالْغُسْلِ مِنْہُ۔
(١٦٨٦٢) حضرت ابو بکر اور حضرت عمر (رض) عزل کو مکروہ قرار دیتے تھے اور اس کے بعد غسل کے وجوب کے قائل تھے۔

16862

(۱۶۸۶۳) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ بن سلیمان ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ أَنَّ رِجَالاً مِنَ الْمُہَاجِرِینَ کَانُوا یَکْرَہُونَ الْعَزْلَ ، مِنْہُمْ فُلاَنٌ وَفُلاَنٌ وَعُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ۔
(١٦٨٦٣) حضرت سعید بن مسیب فرماتے ہیں کہ کچھ مہاجرین حضرات عزل کو مکروہ قرار دیتے تھے ان میں دوسروں کے ساتھ حضرت عثمان بن عفان (رض) بھی تھے۔

16863

(۱۶۸۶۴) حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ عَیَّاشٍ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ زِرٍّ ، عَنْ عَلِیٍّ قَالَ : الْعَزْلُ الْوَأْدُ الْخَفِیُّ۔
(١٦٨٦٤) حضرت علی (رض) فرماتے ہیں کہ عزل زندہ درگور کرنے کی ایک شکل ہے۔

16864

(۱۶۸۶۵) حَدَّثَنَا کَثِیرُ بْنُ ہِشَامٍ ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ بُرْقَانَ قَالَ : حدَّثَنَا مَیْمُونُ بْنُ مِہْرَانَ أَنَّ ابْنَ عُمَرَ اشْتَرَی جَارِیَۃً لِبَعْضِ بَنِیہِ ، فَقَالَ : مَا لِی لاَ أَرَاہَا تَحْمِلُ ، لَعَلَّک تَعْزِلُ عَنْہَا لَوْ أَعْلَمُ ذَلِکَ لأَوْجَعْت ظَہْرَک۔
(١٦٨٦٥) حضرت میمون بن مہران کہتے ہیں کہ حضرت ابن عمر (رض) نے اپنے بیٹے کے لیے ایک باندی خریدی۔ کچھ عرصہ بعد فرمایا کہ یہ حاملہ کیوں نہیں ہوتی ! شاید تم اس سے عزل کرتے ہو ؟ اگر مجھے پتہ چلا تو میں تمہیں ماروں گا۔

16865

(۱۶۸۶۶) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ یَزِیدَ بْنِ خُمَیْرٍ ، عَنْ سُلَیْمِ بْنِ عَامِرٍ ، عَنْ أَبِی أُمَامَۃَ فِی الْعَزْلِ قَالَ : مَا کُنْت أَرَی۷أَنَّ مُسْلِمًا یصنعہ۔
(١٦٨٦٦) حضرت ابو امامہ عزل کے بارے میں فرماتے ہیں کہ میں کسی مسلمان سے اس کی توقع نہیں رکھتا۔

16866

(۱۶۸۶۷) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، عَنْ شُعْبَۃَ، عَنْ عَبْدِ الْوَاحِدِ الْمَالِکِیِّ ، عَنْ سَالِمٍ فِی الْعَزْلِ ، قَالَ: ہِیَ الْمَوْؤُودَۃُ الْخَفِیَّۃُ۔
(١٦٨٦٧) حضرت سالم فرماتے ہیں کہ عزل زندہ درگور کرنے کی ایک شکل ہے۔

16867

(۱۶۸۶۸) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، عَنِ الأَسْوَدِ أَنَّہُ کَانَ یَکْرَہُ الْعَزْلَ۔
(١٦٨٦٨) حضرت اسود عزل کو مکروہ قرار دیتے تھے۔

16868

(۱۶۸۶۹) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، عَنْ مِنْدلِ بْنِ عَلِیِّ ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ أَبِی مُغِیرَۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ أَبِی الْہُذَیْلِ ، عَنْ جَرِیرٍ قَالَ : جَائَ رَجُلٌ إلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : یَا رَسُولَ اللہِ ، مَا خَلُصْت إلَیْک مِنَ الْمُشْرِکِینَ إلاَّ بِقَیْنَۃٍ ، وَأَنَا أَعْزِلُ عَنْہَا ، أُرِیدُ بِہَا السُّوقَ ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : جَائَہَا مَا قُدِّرَ۔ (طبرانی ۲۳۷۰۔ مسند ۱۶۱۱)
(١٦٨٦٩) حضرت جریر (رض) فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ ایک آدمی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے عرض کیا کہ میں مشرکین سے صرف ایک باندی ہی بچا کے لاسکا ہوں اور میں اس سے عزل کرتا ہوں ۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اسے تقدیر یہاں لائی ہے۔

16869

(۱۶۸۷۰) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إبْرَاہِیمَ التَّیْمِیِّ ، عَنْ أَبِی سَلَمَۃَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ وَأَبِی أُمَامَۃَ بْنِ سَہْلٍ عَنْہُمَا جَمِیعًا ، عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ قَالَ : لَمَّا أَصَبْنَا سَبْیَ بَنِی الْمُصْطَلِقِ اسْتَمْتَعْنَا من النساء وَعَزَلْنَا عَنْہُنَّ قَالَ ثم : إنی وَقفْت عَلَی جَارِیَۃٍ فِی سُوقِ بَنِی قَیْنُقَاعَ قَالَ : فَمَرَّ بِی رَجُلٌ مِنْ یَہُودَ ، فَقَالَ : مَا ہَذِہِ الْجَارِیَۃُ یَا أَبَا سَعِیدٍ ، قُلْتُ : جَارِیَۃٌ لِی أَبِیعُہَا ، قَالَ : ہَلْ کُنْت تُصِیبُہَا ؟ قَالَ ، قُلْتُ : نَعَمْ ، قَالَ : فَلَعَلَّک تَبِیعُہَا وَفِی بَطْنِہَا مِنْک سَخْلَۃٌ ؟ قَالَ : قُلْتُ : کُنْت أَعْزِلُ عَنْہَا ، قَالَ تِلْکَ الْمَوْؤُودَۃُ الصُّغْرَی ، قَالَ : فَجِئْت رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَذَکَرْت ذَلِکَ لَہُ ، فَقَالَ : کَذَبَتْ یَہُودُ کَذَبَتْ یَہُودُ۔ (نسائی ۹۰۸۴۔ طحاوی ۳۲)
(١٦٨٧٠) حضرت ابو سعید خدری (رض) فرماتے ہیں کہ بنو مصطلق کی عورتیں قیدی بن کر ہمارے ہاتھ لگیں۔ ہم ان سے جماع کرتے تھے اور عزل کرتے تھے۔ پھر ایک دن میں ایک باندی کے ساتھ بنو قینقاع کے بازار میں تھا کہ ایک یہودی میرے پاس سے گذرا اور بولا اے ابو سعید یہ باندی کیسی ! میں نے کہا میری باندی ہے اور میں اسے بیچنا چاہتا ہوں۔ اس نے پوچھا کہ کیا تم نے اس سے جماع کیا ہے ؟ میں نے کہا ہاں۔ اس نے کہا کہ تم اسے بیچنا چاہتے ہو حالانکہ ہوسکتا ہے کہ اس کے پیٹ میں تمہارا نطفہ موجود ہو۔ میں نے کہا کہ میں اس سے عز ل کیا کرتا تھا۔ اس نے کہا کہ یہ زندہ درگور کرنے کی ایک شکل ہے۔ میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور سار ا واقعہ عرض کیا تو آپ نے فرمایا کہ یہود نے جھوٹ بولا یہود نے جھوٹ بولا۔

16870

(۱۶۸۷۱) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ یَحْیَی بْنِ حَبَّانَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مُحَیْرِیزٍ قَالَ : دَخَلْت أَنَا ، وَأَبُو صرمۃ الْمَازِنِیُّ فَوَجَدْنَا أَبَا سَعِیدٍ یُحَدِّثُ کَمَا یُحَدِّثُ أَبُو سَلَمَۃَ ، وَأَبُو أُمَامَۃَ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : کَذَبَتْ یَہُودُ ، وَقَالَ فِی آخِرِ الْحَدِیثِ : وَمَا عَلَیْکُمْ أَنْ لاَ تَفْعَلُوا وَقَدْ قَدَّرَ اللَّہُ مَا ہُوَ خَالِقٌ مِنْ خَلْقِہِ إلَی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ۔ (بخاری ۴۱۳۸۔ مسلم ۱۲۷)
(١٦٨٧١) حضرت عبداللہ بن محیریز کہتے ہیں کہ میں اور حضرت ابو صرمہ مازنی حاضر ہوئے تو ہم نے حضرت ابو سعید خدری کو وہی بات بیان کرتے سنا جو ابو سلمہ اور ابو امامہ بیان کررہے تھے۔ کہ نبی پاک (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ یہود نے جھوٹ بولا اور اس حدیث کے آخر میں یہ ہے کہ تم ایسا نہ کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قیامت تک پیدا ہونے والوں کی تقدیر کا فیصلہ کردیا ہے۔

16871

(۱۶۸۷۲) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ، عَنْ إبْرَاہِیمَ التَّیْمِیِّ وَعَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ قَالاَ: یُعْزَلُ ، عَنِ الأَمَۃِ وَتُسْتَأْمَرُ الْحُرَّۃَ۔
(١٦٨٧٢) حضرت ابراہیم تیمی اور حضرت عمرو بن مرہ فرماتے ہیں کہ باندی سے عزل کیا جاسکتا ہے جبکہ آزاد عورت سے اجازت لی جائے گی۔

16872

(۱۶۸۷۳) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ مِثْلَہُ۔
(١٦٨٧٣) حضرت ابراہیم سے بھی یونہی منقول ہے۔

16873

(۱۶۸۷۴) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنْ مُحَمَّدٍ مِثْلَہُ۔
(١٦٨٧٤) حضرت محمد سے بھی یونہی منقول ہے۔

16874

(۱۶۸۷۵) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ حُمَیْدٍ الأَعْرَجِ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ قَالَ : لاَ یُعْزَلُ ، عَنِ الْحُرَّۃِ إلاَّ بِإِذْنِہَا۔
(١٦٨٧٥) حضرت سعید بن جبیر فرماتے ہیں کہ آزاد عورت کی اجازت کے بغیر اس سے عزل نہیں کیا جاسکتا۔

16875

(۱۶۸۷۶) حَدَّثَنَا عبد الرحمن بْنُ مَہْدِیٍّ وَیَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ ہِشَامٍ الدَّسْتَوَائِیِّ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ أَبِی کَثِیرٍ ، عَنْ سَوَّارٍ الْکُوفِیِّ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ قَالَ : تُسْتَأْمَرُ الْحُرَّۃَ یُعْزَلُ ، عَنِ الأَمَۃِ۔
(١٦٨٧٦) حضرت عبداللہ فرماتے ہیں کہ آزاد عورت سے اجازت لی جائے گی اور باندی سے بلااجازت عزل کیا جائے گا۔

16876

(۱۶۸۷۷) حَدَّثَنَا ابْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنْ ہَمَّامٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ زَیْدٍ قَالَ : لاَ یُعْزَلُ ، عَنِ الْحُرَّۃِ إلاَّ بِإِذْنِہَا۔
(١٦٨٧٧) حضرت جابر بن زید فرماتے ہیں کہ آزاد عورت کی اجازت کے بغیر اس سے عزل نہیں کیا جاسکتا۔

16877

(۱۶۸۷۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ طَلْحَۃَ ، عَنْ عَطَائٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ وَعَنِ الرَّبِیعِ ، عَنِ الْحَسَنِ وَعَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ أَبِی سُعَادَ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ قَالُوا : تُسْتَأْمَرُ الْحُرَّۃُ وَلاَ تُسْتَأْمَرُ الأَمَۃَ۔
(١٦٨٧٨) حضرت سعید بن جبیر فرماتے ہیں کہ آزاد عورت سے اجازت لی جائے گی جبکہ باندی سے اجازت نہیں لی جائے گی۔

16878

(۱۶۸۷۹) حَدَّثَنَا أَسْبَاطُ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ ، عَنْ عَطَائٍ قَالَ : سُئِلَ عَنِ الأَمَۃِ یُعَزَلُ عَنْہَا ، قَالَ : نَعَمْ ، وَأَمَّا الْحُرَّۃُ فَیَسْتَأْمِرُہَا۔
(١٦٨٧٩) حضرت عبدالملک فرماتے ہیں کہ حضرت عطاء سے سوال کیا گیا کہ کیا باندی سے عزل کیا جائے گا انھوں نے فرمایا کہ ہاں، البتہ آزادعورت سے اجازت طلب کی جائے گی۔

16879

(۱۶۸۸۰) حَدَّثَنَا ابْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنْ زَمْعَۃَ ، عَنِ ابْنِ طَاوُوسٍ ، عَنْ أَبِیہِ أَنَّہُ کَانَ یَعْزِلُ ، عَنِ الأَمَۃِ وَلاَ یَقُولُ فِی الْحُرَّۃِ شَیْئًا۔
(١٦٨٨٠) حضرت طاوس باندی سے عزل کی اجازت دیتے تھے جبکہ آزاد کے بارے میں کچھ نہیں فرماتے تھے۔

16880

(۱۶۸۸۱) حَدَّثَنَا عَبْدِ الْوَہَّابِ الثَّقَفِیِّ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ فِی الرَّجُلِ یَشْتَرِی الأَمَۃَ الْعَذْرَائَ قَالَ : لاَ یَقْرَبَنَّ مَا دُونَ رَحِمِہَا حَتَّی یَسْتَبْرِئَہَا۔
(١٦٨٨١) حضرت ابن سیرین فرماتے ہیں کہ جب کوئی شخص باندی خریدے تو اس کے حمل سے پاک ہونے کا یقین کرلینے تک اس کے قریب نہ جائے۔

16881

(۱۶۸۸۲) حَدَّثَنَا إبْرَاہِیمُ بْنُ صَدَقَۃَ، عَنْ یُونُسَ، عَنِ الْحَسَنِ؛ فِی رَجُلٍ اشْتَرَی جَارِیَۃً عَذْرَائَ قَالَ: یَسْتَبْرِئُ رَحِمَہَا۔
(١٦٨٨٢) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص باندی خریدے تو اس کے رحم کے خالی ہونے کا یقین کرلے۔

16882

(۱۶۸۸۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ رَبِیعٍ ، عَنِ الْحَسَنِ قَالَ : یَسْتَبْرِئُہَا ، وَإِنْ کَانَتْ بِکْرًا۔
(١٦٨٨٣) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ باندی کے حمل سے پاک ہونے کا یقین کرلے خواہ وہ باکرہ ہی کیوں نہ ہو۔

16883

(۱۶۸۸۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ مُبَارَکٍ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ أَبِی کَثِیرٍ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ مِثْلَہُ۔
(١٦٨٨٤) حضرت عکرمہ سے بھی یونہی منقول ہے۔

16884

(۱۶۸۸۵) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ ، عَنْ عَطَائٍ فِی رَجُلٍ اشْتَرَی جَارِیَۃً بَیْنَ أَبَوَیْہَا عَذْرَائَ قَالَ : یَسْتَبْرِئُہَا بِحَیْضَتَیْنِ ، وَإِنْ لاَ تَحِیضُ فَبِخَمْسَۃٍ وَأَرْبَعِینَ یَوْمًا۔
(١٦٨٨٥) حضرت عطاء فرماتے ہیں کہ جو شخص باندی خریدے تو دو حیضوں تک اس کے حمل سے پاک ہونے کا یقین کرلے اور اگر اسے حیض نہ آتے ہوں تو پینتالیس دن تک انتظار کرے۔

16885

(۱۶۸۸۶) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ، عَنْ سَعِیدٍ، عَنْ أَیُّوبَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: إنِ اشْتَرَی أَمَۃً عَذْرَائَ فَلاَ یَسْتَبْرِئُہَا۔
(١٦٨٨٦) حضرت ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ جو پردہ نشین باندی خریدے اس کے حمل سے پاک ہونے کا یقین کرنا ضروری نہیں۔

16886

(۱۶۸۸۷) حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنِ الْعَوَّامِ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ ، عَنْ مَکْحُولٍ قَالَ : قُلْتُ لِلزُّہْرِیِّ : أَمَا عَلِمْت أن عُمَرَ حتی انْقَضَاء أَجَلِہِ ، وَابْنَ مَسْعُودٍ بِالْعِرَاقِ حتی انْقَضَاء أَجَلِہِ وَعُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ کَانُوا یَسْتَبْرِئُونَ الأَمَۃ بِحَیْضَۃٍ حَتَّی کَانَ مُعَاوِیَۃُ ، فَکَانَ یَقُولُ : حَیْضَتَانِ ، فَقَالَ الزُّہْرِیُّ : وَأَنَا أَزِیدُک عُبَادَۃَ بْنَ الصَّامِتِ۔
(١٦٨٨٧) حضرت مکحول فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت زہری سے کہا کہ کیا آپ نہیں جانتے کہ حضرت عمر، حضرت ابن مسعود اور حضرت عثمان بن عفان (رض) اپنی وفات تک اس بات کے قائل تھے کہ ایک حیض سے باندی کے حاملہ نہ ہونے کا پتہ چل جاتا ہے۔ جبکہ حضرت معاویہ (رض) دو حیض تک انتظار کے قائل تھے۔ حضرت زہری نے فرمایا کہ میں تمہیں ایک اور صاحب بتاتا ہوں اور وہ حضرت عبادہ بن صامت ہیں۔

16887

(۱۶۸۸۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، عَنْ سُفْیَانَ، عَنْ فِرَاسٍ، عَنِ الشَّعْبِیِّ، عَنْ عَلْقَمَۃَ، عَنْ عَبْدِ اللہِ قَالَ: تسْتَبْرَأُ الأَمَۃَ بِحَیْضَۃٍ۔
(١٦٨٨٨) حضرت عبداللہ فرماتے ہیں کہ باندی کے حمل سے محفوظ ہونے کا ایک حیض سے پتہ چل جائے گا۔

16888

(۱۶۸۸۹) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِِ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ صِلَۃَ وَقُثَمٍ وَنَاجِیَۃَ قَالوا : أَیُّمَا رَجُلٍ اشتری جَارِیَۃً فَلاَ یَقْرَبْہَا حَتَّی تَحِیضَ۔
(١٦٨٨٩) حضرت صلہ، قثم اور ناجیہ فرماتے ہیں کہ جس شخص نے کوئی باندی خریدی تو وہ اسے حیض آنے تک اس کے قریب نہ جائے۔

16889

(۱۶۸۹۰) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ عُبَبْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ فِی الأَمَۃِ الَّتِی تُوطَأُ قَالَ : إذَا بِیعَتْ ، أَوْ أُعْتِقَتْ فَلِتُسْتَبْرأ بِحَیْضَۃٍ۔
(١٦٨٩٠) حضرت ابن عمر (رض) اس باندی کے بارے میں فرماتے ہیں جس سے اس کے مالک نے وطی کی ہو، کہ جب اسے بیچا جائے یا آزاد کیا جائے تو وہ ایک حیض کے ذریعے اپنے رحم کی پاکی کا یقین کرے گا۔

16890

(۱۶۸۹۱) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالَ : سَأَلْتُہ ، عَنْ رَجُلٍ اشْتَرَی جَارِیَۃً لَہَا زَوْجٌ ، قَالَ : یَسْتَبْرِئُ رَحِمَہَا بِحَیْضَۃٍ۔
(١٦٨٩١) حضرت مغیرہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابراہیم سے سوال کیا اگر آدمی نے کسی ایسی باندی کو خریدا جس کا کوئی خاوند ہو تو اس کا کیا حکم ہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ ایک حیض سے اس کے رحم کے خالی ہونے کا یقین کرے گا۔

16891

(۱۶۸۹۲) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ عَطِیَّۃَ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ : مَنِ اشْتَرَی جَارِیَۃً فَلاَ یَقْرَبْہَا حَتَّی یَسْتَبْرِئہَا بِحَیْضَۃٍ۔
(١٦٨٩٢) حضرت ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ جو شخص باندی خریدے وہ اس وقت تک اس کے پاس نہ جائے جب تک ایک حیض کے ذریعے اس کے رحم کے خالی ہونے کا یقین نہ کرلے۔

16892

(۱۶۸۹۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ حَسَنِ بْنِ صَالِحٍ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالَ : بِحَیْضَۃٍ۔
(١٦٨٩٣) حضرت ابراہیم بھی ایک حیض کو کافی سمجھتے تھے۔

16893

(۱۶۸۹۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ شَرِیکٍ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنِ الْحَارِثِ ، عَنْ عَلِیٍّ قَالَ : تُسْتَبْرَأ الأَمَۃَ بِحَیْضَۃٍ۔
(١٦٨٩٤) حضرت علی (رض) فرماتے ہیں کہ ایک حیض تک رحم کے خالی ہونے کا یقین کرے گا۔

16894

(۱۶۸۹۵) حَدَّثَنَا حَاتِمٌ بن وردان، عَنْ بُرد، عَنْ مَکْحُولٍ قَالَ: إذا اشْتَرَیْت الأَمَۃَ قَالَ: یَسْتَبْرِئُہَا بِحَیْضَۃٍ وَاحِدَۃٍ۔
(١٦٨٩٥) حضرت مکحول فرماتے ہیں کہ جب باندی خریدی گئی تو ایک حیض تک اس کے پاک ہونے کا یقین کیا جائے گا۔

16895

(۱۶۸۹۶) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ عَطَائٍ وَطَاوُسٍ قَالاَ : تُسْتَبْرَأ الأَمَۃَ بِحَیْضَۃٍ۔
(١٦٨٩٦) حضرت عطا اور حضرت طاؤس فرماتے ہیں کہ باندی کے حمل سے خالی ہونے کا یقین ایک حیض تک کیا جائے گا۔

16896

(۱۶۸۹۷) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ ، عَنْ عَطَائٍ ، قَالَ : قَالَ عُمَرُ : مَنِ اشْتَرَی جَارِیَۃً فَلِیَسْتَبْرِئہَا بِحَیْضَۃٍ۔
(١٦٨٩٧) حضرت عمر (رض) فرماتے ہیں کہ جو شخص باندی خریدے وہ ایک حیض تک اس کے حمل سے خالی ہونے کا انتظار کرے۔

16897

(۱۶۸۹۸) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٍ، عَنْ یُونُسَ، عَنِ الْحَسَنِ أَنَّہُ کَانَ یَقُولُ: إذَا اشْتَرَاہَا وَہِیَ حَائِضٌ فَلِیَسْتَبْرِئہَا بِحَیْضَۃٍ أُخْرَی۔
(١٦٨٩٨) حضرت حسن فرمایا کرتے تھے کہ اگر حائضہ باندی کو خریدا تو مزید ایک حیض تک اس کے حمل سے خالی ہونے کا انتظار کرے۔

16898

(۱۶۸۹۹) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالَ : إِنْ شَائَ اجْتَزَأَ بِہَذِہِ الْحَیْضَۃِ۔
(١٦٨٩٩) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ اگر چاہے تو اسی حیض کو کافی سمجھ سکتا ہے۔

16899

(۱۶۹۰۰) حَدَّثَنَا ہِشَامٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالَ : إذَا اشْتَرَاہَا مِنَ امْرَأَۃٍ فَلِیَسْتَبْرِئہَا بِحَیْضَۃٍ۔
(١٦٩٠٠) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ اگر باندی کو کسی عورت سے خریدا تب بھی اس کے حیض کے ذریعے حمل سے خالی ہونے کا یقین کیا جائے گا۔

16900

(۱۶۹۰۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَطَائٍ قَالَ : إذَا اشْتَرَاہَا مِنَ امْرَأَۃٍ اسْتَبْرَأَہَا۔
(١٦٩٠١) حضرت عطاء فرماتے ہیں کہ اگر باندی کو کسی عورت سے خریدا تب بھی حمل سے خالی ہونے کا یقین کیا جائے گا۔

16901

(۱۶۹۰۲) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ خَالِدٍ ، عَنْ أَبِی قِلاَبَۃَ ، وَابْنِ سِیرِینَ فِی الرَّجُلِ یستبرء الأَمَۃَ الَّتِی لَمْ تَحِضْ قَال : کَانَا لاَ یَرَیَانِ أَنَّ ذَلِکَ یَتَبَیَّنُ فِی أَقَلَّ مِنْ ثَلاَثَۃِ أَشْہُرٍ۔
(١٦٩٠٢) حضرت ابو قلابہ اور حضرت ابن سیرین اس باندی کے بارے میں فرماتے ہیں جو خریدی جانے کے بعد حائضہ نہ ہو کہ حمل سے خالی ہونے کے لیے کم ازکم تین مہینے تک انتظار کیا جائے گا۔

16902

(۱۶۹۰۳) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ أَنَّہُ کَانَ یَقُولُ یَستَبرئہا بِثَلاَثَۃِ أَشْہُرٍ۔
(١٦٩٠٣) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ تین مہینے تک اس کے حمل سے خالی ہونے کا انتظار کیا جائے گا۔

16903

(۱۶۹۰۴) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ، عَنْ لَیث، عَنْ عَطَائٍ وَطَاوُسٍ قَالاَ: تُسْتَبْرَأ بِحَیْضَۃٍ، وَإِنْ کَانَتْ لاَ تَحِیضُ فَثَلاَثَۃُ أَشْہُرٍ۔
(١٦٩٠٤) حضرت عطاء اور حضرت طاؤس فرماتے ہیں کہ اگر ایک حیض سے اس کا حمل سے خالی ہونا معلوم ہوجائے تو ٹھیک ورنہ تین حیض تک انتظار کیا جائے گا۔

16904

(۱۶۹۰۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنِ الْحَکَمِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالَ ثَلاَثَۃُ أَشْہُرٍ۔
(١٦٩٠٥) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ تین ماہ تک انتظار کیا جائے گا۔

16905

(۱۶۹۰۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ مِسْعَرٍ وَسُفْیَانَ ، عَنْ عَبْدِ الْکَرِیمِ ، عَنْ مُجَاہِدٍ قَالَ : بِثَلاَثَۃِ أَشْہُرٍ۔
(١٦٩٠٦) حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ تین ماہ تک انتظار کیا جائے گا۔

16906

(۱۶۹۰۷) حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ بن سلیمان ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنْ صَدَقَۃَ بْنِ یَسَارٍ، عَنْ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِیزِ قَالَ: ثَلاَثَۃُ أَشْہُرٍ۔
(١٦٩٠٧) حضرت عمر بن عبد العزیز فرماتے ہیں کہ تین ماہ تک انتظار کیا جائے گا۔

16907

(۱۶۹۰۸) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ حُمَیْدٍ ، عَنْ أَبِی قِلاَبَۃَ أَنَّہُ کَانَ یَقُولُ فِی اسْتِبْرَائِ الأَمَۃِ الَّتِی لَمْ تَحِضْ : خَمْسَۃٌ وَأَرْبَعُونَ۔
(١٦٩٠٨) حضرت ابو قلابہ فرماتے ہیں کہ جس باندی کو حیض نہ آتا ہو تو اس کا استبراء پینتالیس دن ہے۔

16908

(۱۶۹۰۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنِ الْحَکَمِ قَالَ شَہْرٌ وَنِصْفٌ۔
(١٦٩٠٩) حضرت حکم فرماتے ہیں کہ جس باندی کو حیض نہ آتا ہو تو اس کا استبراء ڈیڑھ ماہ ہے۔

16909

(۱۶۹۱۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ عَامِرٍ قَالَ شَہْرٌ وَنِصْف۔
(١٦٩١٠) حضرت عامر فرماتے ہیں کہ جس باندی کو حیض نہ آتا ہو تو اس کا استبراء ڈیڑھ ماہ ہے۔

16910

(۱۶۹۱۱) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، عَنِ النُّعْمَانِ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، وَعَطَائٍ قَالاَ : تُسْتَبْرَأ الْجَارِیَۃَ الَّتِی لَمْ تَحِضْ بِخَمْسَۃٍ وَأَرْبَعِینَ یَوْمًا۔
(١٦٩١١) حضرت قتادہ اور حضرت عطاء فرماتے ہیں کہ جس باندی کو حیض نہ آتا ہو تو اس کا استبراء پینتالیس دن ہے۔

16911

(۱۶۹۱۲) حَدَّثَنَا عبدالرحمن بن محمد الْمُحَارِبِیُّ، عَنِ الشَّیْبَانِیِّ، عَنْ حَمَّادٍ قَالَ: یَسْتَبْرِئُہَا بِخَمْسَۃٍ وَأَرْبَعِینَ یَوْمًا۔
(١٦٩١٢) حضرت حماد فرماتے ہیں کہ جس باندی کو حیض نہ آتا ہو تو اس کا استبراء پینتالیس دن ہے۔

16912

(۱۶۹۱۳) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ عَطَائٍ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ: إِنْ کَانَتْ لاَ تَحِیضُ فَأَرْبَعُونَ یَوْمًا۔
(١٦٩١٣) حضرت عمر (رض) فرماتے ہیں کہ جس باندی کو حیض نہ آتا ہو تو اس کا استبراء چالیس دن ہے۔

16913

(۱۶۹۱۴) حَدَّثَنَا عَبدَۃ بن سلیمان ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ وَعَنْ أَبِی مَعْشَرٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالاَ : شَہْرٌ وَنِصْفٌ۔
(١٦٩١٤) حضرت ابن مسیب اور حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ جس باندی کو حیض نہ آتا ہو تو اس کا استبراء ڈیڑھ ماہ ہے۔

16914

(۱۶۹۱۵) حَدَّثَنَا عَبدَۃ بن سلیمان ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ عَن سعید بْنِ الْمُسَیَّبِ وَعَنْ أَبِی مَعْشَرٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالاَ : تُسْتَبْرَأُ الأَمَۃ بِحَیْضَتَیْنِ إذَا کَانَتْ تَحِیضُ۔
(١٦٩١٥) حضرت ابن مسیب اور حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ قابل حیض باندی کا استبراء دو حیض ہے۔

16915

(۱۶۹۱۶) حَدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ ، عَنْ عَطَائٍ قَالَ : وُضِعَت عِنْدِی أَمَۃً تُسْتَبْرَأ فَحَاضَتْ حَیْضَۃً ثُمَّ ظَہَرَ لَہَا حَمْلٌ ، فَکَانَ یَسْتَبْرِئُہَا بِحَیْضَتَیْنِ۔
(١٦٩١٦) حضرت عطاء فرماتے ہیں کہ میرے پاس ایک ایسی باندی لائی گئی جس کے استبراء کو دیکھا جارہا تھا کہ ایک حیض آنے کے بعد پھر اس کا حمل ظاہر ہوگیا ، اس کے بعد سے وہ دو حیضوں کے ذریعہ استبراء کرنے لگے۔

16916

(۱۶۹۱۷) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ قَالَ سئلَ یُونُسَ، عَنِ الرَّجُلِ یَشْتَرِی الأَمَۃَ فَیَسْتَبْرِئُہَا، یُصِیبُ مِنْہَا الْقُبْلَۃَ وَالْمُبَاشَرَۃَ؟ قَالَ ابْنُ سِیرِینَ : یُکْرَہُ أَنْ یُصِیبَ مِنْہَا مَا یَحْرُمُ عَلَیْہِ مِنْ غَیْرِہَا حَتَّی یَسْتَبْرِئَہَا ، وَیَذْکُرُ ، عَنِ الْحَسَنِ أَنَّہُ کَانَ لاَ یَرَی بِالْقُبْلَۃِ بَأْسًا۔
(١٦٩١٧) حضرت یونس سے سوال کیا گیا کہ استبراء کے دوران مالک باندی کی شرمگاہ کے علاوہ کہیں سے تلذذ حاصل کرسکتا ہے یا نہیں ؟ انھوں نے فرمایا کہ حضرت ابن سیرین استبراء کے دوران ہر طرح کے تلذذ کو مکروہ خیال فرماتے تھے جبکہ حضرت حسن بوسہ لینے میں کوئی حرج نہ سمجھتے تھے۔

16917

(۱۶۹۱۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ الْمُبَارَکِ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ أَبِی کَثِیرٍ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ فِی الرَّجُلِ یَشْتَرِی الْجَارِیَۃَ الصَّغِیرَۃَ وَہِیَ أَصْغَرُ مِنْ ذَلِکَ قَالَ : لاَ بَأْسَ أَنْ یَمَسَّہَا قَبْلَ أَنْ یَسْتَبْرِئَہَا۔
(١٦٩١٨) حضرت عکرمہ فرماتے ہیں کہ اگر کسی شخص نے کوئی بہت چھوٹی باندی خریدی تو استبراء سے پہلے اسے چھونے میں کوئی حرج نہیں۔

16918

(۱۶۹۱۹) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ حُبَابٍ ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَۃَ ، عَنْ إیَاسِ بْنِ مُعَاوِیَۃَ فِی رَجُلٍ اشْتَرَی جَارِیَۃً صَغِیرَۃً لاَ یُجَامَعُ مِثْلُہَا ؟ قَالَ : لاَ بَأْسَ أَنْ یَطَأَہَا وَلاَ یَسْتَبْرِئُہَا۔
(١٦٩١٩) حضرت ایاس بن معاویہ فرماتے ہیں کہ اگر کسی شخص نے بہت چھوٹی باندی خریدی جس عمر کی باندیوں سے جماع نہیں کیا جاتا تو مالک استبراء کے بغیر اس سے جماع کرسکتا ہے۔

16919

(۱۶۹۲۰) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ أَنَّہُ کَرِہَ أَنْ یُقَبِّلَہَا حَتَّی یَسْتَبْرِئَہَا۔
(١٦٩٢٠) حضرت قتادہ نے بوسہ لینے تک استبراء کو مکروہ قرار دیا ہے۔

16920

(۱۶۹۲۱) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ حُبَابٍ ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَۃَ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ زَیْدٍ ، عَنْ أَیُّوبَ اللَّخْمِیِّ قَالَ : وَقَعَتْ لابْنِ عُمَرَ جَارِیَۃٌ یَوْمَ جَلُولاَئَ فِی سَہْمِہِ ، کَأَنَّ فِی عُنُقِہَا إبْرِیقَ فِضَّۃٍ قَالَ : فَمَا مَلَکَ نَفْسَہُ أَنْ جَعَلَ یُقَبِّلُہَا وَالنَّاسُ یَنْظُرُونَ۔
(١٦٩٢١) حضرت ایوب لخمی فرماتے ہیں کہ جلولاء کی جنگ میں ایک باندی حضرت ابن عمر (رض) کے حصہ میں آئی اس کی گردن چاندی کی صراحی جیسی تھی۔ انھوں نے اس کا بوسہ لیا۔

16921

(۱۶۹۲۲) حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ عَیَّاشٍ ، عَنْ أَسْلَمَ الْمُنْقِرِیِّ ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ بْنِ عُبَیْدِ بْنِ عُمَیْرٍ قَالَ : بَاعَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ جَارِیَۃً لَہُ کَانَ یَقَعُ عَلَیْہَا قَبْلَ أَنْ یَسْتَبْرِئَہَا فَظَہَرَ بِہَا حَمْلٌ عِنْدَ الَّذِی اشْتَرَاہَا فَخَاصَمَہُ إلَی عُمَرَ ، فَقَالَ عُمَرُ : کُنْت تَقَعُ عَلَیْہَا ؟ قَالَ : نَعَمْ ، قَالَ : فَبِعْتہَا قَبْلَ أَنْ تَسْتَبْرِئَہَا ؟ قَالَ : نَعَمْ ، قَالَ : مَا کُنْت لِذَلِکَ بِخَلِیقٍ ، فَدَعَا الْقَافَۃَ فَنَظَرُوا إلَیْہِ فَأَلْحَقُوہُ بِہِ۔
(١٦٩٢٢) حضرت عبید اللہ بن عبید بن عمیر فرماتے ہیں کہ عبد الرحمن بن عوف نے ایک ایسی باندی کو بیچا جس سے وہ جماع کیا کرتے تھے۔ اور اس کے رحم کے خالی ہونے کا یقین نہ کیا۔ جس شخص نے اسے خریدا اس کے پاس حمل ظاہر ہوگیا۔ تو وہ مقدمہ لے کر حضرت عمر (رض) کی خدمت میں حاضر ہوا۔ حضرت عمر نے حضرت عبد الرحمن سے پوچھا کہ کیا تم اس سے جماع کیا کرتے تھے ؟ انھوں نے عرض کیا جی ہاں۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا کہ تم نے اس کے رحم کے خالی ہونے کا یقین کئے بغیر اسے بیچ دیا ؟ انھوں نے عرض کیا جی ہاں۔ حضرت عمر نے فرمایا کہ ایسا کرنا آپ کے شایانِ شان نہیں تھا۔ پھر انھوں نے قیافہ شناسوں کو بلایا اور انھوں نے بچے کو دیکھ کر بچہ ان کے حوالے کردیا۔

16922

(۱۶۹۲۳) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ أَنَّہُ کَانَ یَقُولُ یَسْتَبْرِئُ الرَّجُلُ أَمَتَہُ إذَا بَاعَہَا بِحَیْضَۃٍ ، وَإِذَا اشْتَرَاہَا بِحَیْضَۃٍ۔
(١٦٩٢٣) حضرت حسن فرمایا کرتے تھے کہ جب باندی کو خریدے اور جب باندی کو بیچے استبراء کے لیے ایک مہینہ انتظار کرے۔

16923

(۱۶۹۲۴) حَدَّثَنَا مُعْتَمِر بن سلیمان ، عَنْ کَثِیرِ بْنِ نُبَاتَۃ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ قَالَ : إذَا اشْتَرَی الرَّجُلُ الْوَصِیفَۃَ فَلَمْ تَبْلُغِ الْحَیْضَ اسْتَبْرَأَہَا بِثَلاَثَۃِ أَشْہُرٍ فَإِذَا غَشِیَہَا فَأَرَادَ بَیْعَہَا فَلِیَسْتَبْرِئہَا أَیْضًا بِثَلاَثَۃِ أَشْہُرٍ۔
(١٦٩٢٤) حضرت ابن سیرین فرماتے ہیں کہ اگر کسی آدمی نے ایسی عورت خریدی جسے حیض نہیں آتا تو اس کا استبراء تین ماہ تک ہوگا پھر اس کے جماع کے بعد اگر اسے بیچنا چاہے تو پھر تین ماہ تک استبراء کا انتظار کرے۔

16924

(۱۶۹۲۵) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ آدَمَ ، عَنْ إسْرَائِیلَ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالَ : إذَا أَرَادَ أَنْ یَبِیعَہَا فَلِیَسْتَبْرِئہَا۔
(١٦٩٢٥) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ جو باندی کو بیچنا چاہے وہ استبراء کرے۔

16925

(۱۶۹۲۶) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ فِی الأَمَۃِ الَّتِی تُوطَأُ : إذَا بِیعَتْ ، أَوْ وُہِبَتْ ، أَوْ أُعْتِقَتْ فَلْتُسْتَبْرَأْ بِحَیْضَۃٍ۔
(١٦٩٢٦) حضرت ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ جس باندی سے وطی کی گئی پھر اسے بیچ دیا گیا ، یا تحفہ میں دے دیا گیا یا آزاد کردیا گیا تو ایک حیض تک حمل کے نہ ہونے کا یقین کیا جائے گا۔

16926

(۱۶۹۲۷) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنِ ابْنِ الْمُنْکَدِرِ سَمِعَ جَابِرًا یَقُولُ : کَانَتِ الْیَہُودُ تَقُولُ : إذَا أَتَی الرَّجُلُ امْرَأَتَہُ فِی قُبُلِہَا مِنْ دُبُرِہَا کَانَ الْوَلَدُ أَحْوَلَ فَنَزَلَتْ { نِسَاؤُکُمْ حَرْثٌ لَکُمْ}۔ (بخاری ۴۵۲۸۔ ۱۰۵۸)
(١٦٩٢٧) حضرت جابر فرماتے ہیں کہ یہود کہا کرتے تھے کہ جب آدمی عورت کے پیچھے کھڑا ہو کر آگے جماع کرے تو بچہ بھینگا ہوتا ہے۔ اس پر قرآن مجید کی آیت : { نِسَاؤُکُمْ حَرْثٌ لَکُمْ } ” تمہاری عورتیں تمہاری کھیتیاں ہیں “ نازل ہوئی۔

16927

(۱۶۹۲۸) حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ عَیَّاشٍ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ زَائِدَۃَ بْنِ عُمَیْرٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ فِی قَوْلِہِ : (نِسَاؤُکُمْ حَرْثٌ لَکُمْ) قَالَ : مَنْ شَائَ أَنْ یَعْزِلَ فَلْیَعْزِلْ وَمَنْ شَائَ أَنْ لاَ یَعْزِلَ فَلاَ یَعْزِلْ۔
(١٦٩٢٨) حضرت ابن عباس (رض) قرآن مجید کی آیت : { نِسَاؤُکُمْ حَرْثٌ لَکُمْ }” تمہاری عورتیں تمہاری کھیتیاں ہیں “ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ جو عزل کرنا چاہے کرلے اور جو نہ کرنا چاہے نہ کرے۔

16928

(۱۶۹۲۹) حَدَّثَنَا الثَّقَفِیُّ ، عَنْ خَالِدٍ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ قَالَ : یَأْتِیہَا کَیْفَ شَائَ قَائِمٌ وَقَاعِدٌ وَعَلَی کُلِّ حَالٍ یَأْتِیہَا مَا لَمْ یَکُنْ فِی دُبُرِہَا۔
(١٦٩٢٩) حضرت عکرمہ فرماتے ہیں کہ آدمی جس طرح چاہے کھڑے ہو کر یابیٹھ کر اپنی بیوی سے جماع کرسکتا ہے البتہ لواطت نہیں کرسکتا۔

16929

(۱۶۹۳۰) حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ ، عَنْ أَبِی صَالِحٍ {نِسَاؤُکُمْ حَرْثٌ لَکُمْ فَأْتُوا حَرْثَکُمْ أَنَّی شِئْتُمْ} قَالَ : إِنْ شِئْتَ فَأْتِہَا مُسْتَلْقِیَۃً ، وَإِنْ شِئْتَ فَمُتَحَرِّکَۃً ، وَإِنْ شِئْتَ فَبَارِکَۃً۔
(١٦٩٣٠) حضرت ابو صالح قرآن مجید کی آیت : { نِسَاؤُکُمْ حَرْثٌ لَکُمْ فَأْتُوا حَرْثَکُمْ أَنَّی شِئْتُمْ } ” تمہاری عورتیں تمہاری کھیتیاں ہیں، تم اپنی کھیتیوں میں جس طرح چاہو آؤ‘ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ اگر تو چاہے تو لیٹ کر اگر چاہے تو پہلو کے بل اور اگر چاہے تو گھٹنوں کے بل اس سے جماع کرسکتا ہے۔

16930

(۱۶۹۳۱) حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الزِّبْرِقَانِ ، عَنْ أَبِی رَزِینٍ ، قَالَ : سَمِعْتُہُ یَقُولُ : {فَأْتُوا حَرْثَکُمْ أَنَّی شِئْتُمْ} قَالَ : مِنْ قِبَلِ الطُّہْرِ وَلاَ تَأْتُوہُنَّ مِنْ قِبَلِ الْحَیْضِ۔
(١٦٩٣١) حضرت ابو رزین قرآن مجید کی آیت : { نِسَاؤُکُمْ حَرْثٌ لَکُمْ فَأْتُوا حَرْثَکُمْ أَنَّی شِئْتُمْ } ” تمہاری عورتیں تمہاری کھیتیاں ہیں، تم اپنی کھیتیوں میں جس طرح چاہو آؤ“ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ طہر کی طرف سے آؤ اور حیض کی طرف سے نہ آؤ۔

16931

(۱۶۹۳۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سَلَمَۃَ بْنِ نُبَیْطٍ ، عَنِ الضَّحَّاکِ فِی قَوْلِہِ : (نِسَاؤُکُمْ حَرْثٌ لَکُمْ فَأْتُوا حَرْثَکُمْ أَنَّی شِئْتُمْ) قَالَ : طُہْرًا غَیْرَ حُیَّضٍ۔
(١٦٩٣٢) حضرت ضحاک قرآن مجید کی آیت : { نِسَاؤُکُمْ حَرْثٌ لَکُمْ فَأْتُوا حَرْثَکُمْ أَنَّی شِئْتُمْ } ” تمہاری عورتیں تمہاری کھیتیاں ہیں، تم اپنی کھیتیوں میں جس طرح چاہو آؤ“ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ طہر کی طرف سے آؤ اور حیض کی طرف سے نہ آؤ۔

16932

(۱۶۹۳۳) حَدَّثَنَا عبد الرحمن بن محمد الْمُحَارِبِیُّ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ فِی قَوْلِہِ : (نِسَاؤُکُمْ حَرْثٌ لَکُمْ فَأْتُوا حَرْثَکُمْ أَنَّی شِئْتُمْ) قَالَ : ظَہْرٌ بِبَطْنٍ کَیْفَ شِئْت إلاَّ فِی دُبُرٍ ، أَوْ مَحِیضٍ۔
(١٦٩٣٣) حضرت مجاہد قرآن مجید کی آیت : { نِسَاؤُکُمْ حَرْثٌ لَکُمْ فَأْتُوا حَرْثَکُمْ أَنَّی شِئْتُمْ } ” تمہاری عورتیں تمہاری کھیتیاں ہیں، تم اپنی کھیتیوں میں جس طرح چاہو آؤ“ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ دبر اور حیض کے علاوہ جس طرح چاہو آؤ۔

16933

(۱۶۹۳۴) حَدَّثَنَا قَبِیصَۃُ قَالَ : أَخْبَرَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُثْمَانَ بْنِ خُثَیْمٍ ، عَنِ ابْنِ سَابِطٍ ، عَنْ حَفْصَۃَ ، عَنْ أُمِّ سَلَمَۃَ قَالَتْ : لَمَّا قَدِمَ الْمُہَاجِرُونَ الْمَدِینَۃَ تَزَوَّجُوا فِی الأَنْصَارِ فَکَانُوا یُجَبُّونَہُنَّ ، وَکَانَتِ الأَنْصَارُ لاَ تَفْعَلُ ذَلِکَ ، فَقَالَتِ امْرَأَۃٌ مِنْہُنَّ لِزَوْجِہَا : حَتَّی أَسْأَلَ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَاسْتَحْیَتْ أَنْ تَسْأَلَہُ فَسَأَلْتُہُ ؟ فَدَعَاہَا فَقَرَأَ عَلَیْہَا : {نِسَاؤُکُمْ حَرْثٌ لَکُمْ فَأْتُوا حَرْثَکُمْ أَنَّی شِئْتُمْ} صِمَامًا وَاحِدًا۔ (ترمذی ۲۹۷۹۔ احمد ۶/۳۱۰)
(١٦٩٣٤) حضرت ام سلمہ (رض) فرماتی ہیں کہ جب مہاجرین مدینہ آئے تو انھوں نے انصاری عورتوں سے شادیاں کیں۔ مہاجر لوگ عورتوں کو گھٹنوں کے بل بٹھاکر ان کے سر زمین پر رکھ کر جماع کرتے تھے۔ جبکہ انصار ایسا نہیں کرتے تھے۔ ایک انصار عورت نے اپنے خاوند سے کہا کہ اس بارے میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا جائے۔ وہ عورت تو سوال کرنے سے شرمائی میں نے سوال کیا تو آپ نے قرآن مجید کی یہ آیت پڑھی : { نِسَاؤُکُمْ حَرْثٌ لَکُمْ فَأْتُوا حَرْثَکُمْ أَنَّی شِئْتُمْ } ” تمہاری عورتیں تمہاری کھیتیاں ہیں، تم اپنی کھیتیوں میں جس طرح چاہو آؤ“ پھر فرمایا کہ آمد کا سوراخ ایک ہی ہے۔

16934

(۱۶۹۳۵) حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ ، عَنِ الْحُصَیْنِ ، عَنْ مُرَّۃَ الْہَمْدَانِیِّ أَنَّ بَعْضَ الْیَہُودِ لقی بَعْضَ الْمُسْلِمِینَ قَالَ : تَأْتُونَ النِّسَائَ وَرَائَہُنَّ ؟ قَالَ : کَأَنَّہُ کَرِہَ الإِبْرَاکَ قَالَ : فَذَکَرُوا ذَلِکَ فَنَزَلَتْ ہَذِہِ الآیَۃُ : {نِسَاؤُکُمْ حَرْثٌ لَکُمْ فَأْتُوا حَرْثَکُمْ أَنَّی شِئْتُمْ} فَرَخَّصَ اللَّہُ لِلْمُسْلِمِینَ أَنْ یَأْتُوا النِّسَائَ فِی الْفُرُوجِ کَیْفَ شَاؤُوا وأنی شَاؤُوا مِنْ بَیْنِ أَیْدِیہِنَّ ، وَإِنْ شَاؤُوا مِنْ خَلْفِہِنَّ۔
(١٦٩٣٥) حضرت مرہ ہمدانی فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ ایک یہودی ایک مسلمان سے ملا اور اس سے کہا کہ تم اپنی بیویوں کے پیچھے سے ان سے جماع کرتے ہو ؟ گویا اس نے اس انداز کو ناپسند کیا کہ آدمی پیچھے کھڑا ہو کر بیوی کی شرمگاہ میں دخول کرے۔ اس موقع پر قرآن مجید کی یہ آیت نازل ہوئی : { نِسَاؤُکُمْ حَرْثٌ لَکُمْ فَأْتُوا حَرْثَکُمْ أَنَّی شِئْتُمْ } ” تمہاری عورتیں تمہاری کھیتیاں ہیں، تم اپنی کھیتیوں میں جس طرح چاہو آؤ“ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو رخصت دی کہ اپنی بیویوں کی شرم گاہ میں جیسے چاہیں جماع کرسکتے ہیں خواہ آگے سے خواہ پیچھے سے۔

16935

(۱۶۹۳۶) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ حُصَیْنٍ ، عَنْ مُرَّۃَ : {فَأْتُوا حَرْثَکُمْ أَنَّی شِئْتُمْ} قَالَ : کَانَتِ الْیَہُودُ یَسْخَرُونَ مِنَ الْمُسْلِمِینَ فِی إتْیَانِہِمَ النِّسَائَ فَأَنْزَلَ اللَّہُ تَبَارَکَ وَتَعَالَی : {نِسَاؤُکُمْ حَرْثٌ لَکُمْ فَأْتُوا حَرْثَکُمْ أَنَّی شِئْتُمْ} فِی الْفُرُوجِ أَنَّی شِئْتُمْ۔
(١٦٩٣٦) حضرت مرہ قرآن مجید کی آیت { نِسَاؤُکُمْ حَرْثٌ لَکُمْ فَأْتُوا حَرْثَکُمْ أَنَّی شِئْتُمْ }” تمہاری عورتیں تمہاری کھیتیاں ہیں، تم اپنی کھیتیوں میں جس طرح چاہو آؤ“ کے بارے میں فرماتے ہیں یہود مسلمانوں سے یہ مذاق کیا کرتے تھے کہ وہ پیچھے کھڑے ہو کر عورتوں سے جماع کرتے ہیں اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : { نِسَاؤُکُمْ حَرْثٌ لَکُمْ فَأْتُوا حَرْثَکُمْ أَنَّی شِئْتُمْ } ” تمہاری عورتیں تمہاری کھیتیاں ہیں، تم اپنی کھیتیوں میں جس طرح چاہو آؤ“ یعنی شرمگاہوں میں جس طرح چاہو جماع کرو۔

16936

(۱۶۹۳۷) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ قَالَ : حدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ فِی قولہ تعالی : {نِسَاؤُکُمْ حَرْثٌ لَکُمْ فَأْتُوا حَرْثَکُمْ أَنَّی شِئْتُمْ} قَالَ : یَأْتِیہَا مِنْ بَیْنِ یَدَیْہَا وَمِنْ خَلْفِہَا مَا لَمْ یَکُنْ فِی الدُّبُرِ
(١٦٩٣٧) حضرت سعید بن جبیر قرآن مجید کی آیت { نِسَاؤُکُمْ حَرْثٌ لَکُمْ فَأْتُوا حَرْثَکُمْ أَنَّی شِئْتُمْ } ” تمہاری عورتیں تمہاری کھیتیاں ہیں، تم اپنی کھیتیوں میں جس طرح چاہو آؤ“ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ لواطت نہ کرے اس کے علاوہ جیسے چاہے بیوی سے مل سکتا ہے۔

16937

(۱۶۹۳۸) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ لیث عن عِیسَی بْنِ سِنَان ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ فِی قَوْلِہِ : {نِسَاؤُکُمْ حَرْثٌ لَکُمْ فَأْتُوا حَرْثَکُمْ أَنَّی شِئْتُمْ} قَالَ : إِنْ شِئْتَ فَاعْزِلْ ، وَإِنْ شِئْتَ فَلاَ تَعْزِلْ۔
(١٦٩٣٨) حضرت سعید بن مسیب قرآن مجید کی آیت { نِسَاؤُکُمْ حَرْثٌ لَکُمْ فَأْتُوا حَرْثَکُمْ أَنَّی شِئْتُمْ } ” تمہاری عورتیں تمہاری کھیتیاں ہیں، تم اپنی کھیتیوں میں جس طرح چاہو آؤ“ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ اگر چاہو تو عزل کرو اور اگر چاہو تو نہ کرو۔

16938

(۱۶۹۳۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ عَلِیٍّ قَالَ سَمِعْت الْحَسَنَ یَقُولُ : کَانَ الْمُشْرِکُونَ لاَ یَأْلُونَ مَا شَدَّدُوا عَلی الْمُسْلِمِینَ وَیَقُولُونَ : لاَ یَحِلُّ لَکُمْ أَنْ تَأْتُوا النِّسَائَ إلاَّ مِنْ وَجْہٍ وَاحِدٍ فَأَنْزَلَ اللَّہُ تَعَالَی : { فَأْتُوا حَرْثَکُمْ أَنَّی شِئْتُمْ}۔
(١٦٩٣٩) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ مشرکین مسلمانوں کا مذاق اڑاتے تھے کہ تمہارے لیے بہت سختیاں ہیں کہ تم اپنی بیوی سے صرف ایک رخ سے جماع کرسکتے ہو، اس موقع پر قرآن مجید کی یہ آیت نازل ہوئی : { نِسَاؤُکُمْ حَرْثٌ لَکُمْ فَأْتُوا حَرْثَکُمْ أَنَّی شِئْتُمْ } ” تمہاری عورتیں تمہاری کھیتیاں ہیں، تم اپنی کھیتیوں میں جس طرح چاہو آؤ“

16939

(۱۶۹۴۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ خَالِدِ بْنِ رَبَاحٍ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ قَالَ : مِنْ قِبَلِ الْفَرْجِ۔
(١٦٩٤٠) حضرت عکرمہ قرآن مجید کی آیت { نِسَاؤُکُمْ حَرْثٌ لَکُمْ فَأْتُوا حَرْثَکُمْ أَنَّی شِئْتُمْ } ” تمہاری عورتیں تمہاری کھیتیاں ہیں، تم اپنی کھیتیوں میں جس طرح چاہو آؤ“ کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ یعنی شرمگاہ کی طرف سے۔

16940

(۱۶۹۴۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ أَبِی حَنِیفَۃَ ، عَنْ کَثِیرٍ الرَّمَّاحِ ، عَنْ أَبِی ذِرَاعٍ قَالَ : سَأَلْتُ ابْنَ عُمَرَ ، عَنْ قَوْلِہِ : (فَأْتُوا حَرْثَکُمْ أَنَّی شِئْتُمْ) قَالَ : إِنْ شِئْتَ عَزْلاً ، وَإِنْ شِئْتَ غَیْرُ عَزْلٍ۔
(١٦٩٤١) حضرت ابو ذراع کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عمر (رض) سے قرآن مجید کی آیت { نِسَاؤُکُمْ حَرْثٌ لَکُمْ فَأْتُوا حَرْثَکُمْ أَنَّی شِئْتُمْ } ” تمہاری عورتیں تمہاری کھیتیاں ہیں، تم اپنی کھیتیوں میں جس طرح چاہو آؤ“ کے بارے میں سوال کیا تو انھوں نے فرمایا کہ اس سے مراد یہ ہے کہ اگر تم چاہو تو عزل کرو اور اگر چاہو تو نہ کرو۔

16941

(۱۶۹۴۲) حَدَّثَنَا شَبَابَۃُ ، عَنْ وَرْقَائَ ، عَنِ ابْنِ أَبِی نَجِیحٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ فِی قولہ تعالی : (فَأْتُوا حَرْثَکُمْ أَنَّی شِئْتُمْ) قَالَ : آتُوا النِّسَائَ فِی أَقْبَالِہِنَّ عَلَی کُلِّ نَحْوٍ۔
(١٦٩٤٢) حضرت مجاہد قرآن مجید کی آیت { نِسَاؤُکُمْ حَرْثٌ لَکُمْ فَأْتُوا حَرْثَکُمْ أَنَّی شِئْتُمْ } ” تمہاری عورتیں تمہاری کھیتیاں ہیں، تم اپنی کھیتیوں میں جس طرح چاہو آؤ“ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ اپنی بیویوں کی شرمگاہ میں جس طرح چاہو جماع کرو۔

16942

(۱۶۹۴۳) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ خَالِدٍ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ : {فَأْتُوہُنَّ مِنْ حَیْثُ أَمَرَکُمُ اللَّہُ} قَالَ : مِنْ حَیْثُ أَمَرَکُمْ أَنْ تَعْتَزِلُوا۔
(١٦٩٤٣) حضرت عکرمہ قرآن مجید کی آیت : { فَأْتُوْھُنَّ مِنْ حَیْثُ أَمَرَکُمُ اللّٰہُ } (ترجمہ)” تم بیویوں سے یوں ملو جیسے ملنے کا اللہ نے حکم دیا ہے “ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ جب تمہیں بیویوں سے دور رہنے کو کہیں تو دور رہو۔ یعنی حالت حیض میں۔

16943

(۱۶۹۴۴) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ یَزِیدَ بْنِ الْوَلِیدِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ {فَأْتُوہُنَّ مِنْ حَیْثُ أَمَرَکُمُ اللَّہُ} قَالُوا: فِی الْفُرُوجِ۔
(١٦٩٤٤) حضرت ابراہیم قرآن مجید کی آیت : { فَأْتُوْھُنَّ مِنْ حَیْثُ أَمَرَکُمُ اللّٰہُ } (ترجمہ)” تم بیویوں سے یوں ملے جیسے ملنے کو اللہ نے حکم دیا ہے “ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ شرمگاہوں میں جماع کرو۔

16944

(۱۶۹۴۵) حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ بْنُ مُوسَی ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ الأَسْوَدِ ، عَنْ مُجَاہِدٍ قَالَ : مِنْ حَیْثُ أَمَرَکُمَ اللَّہُ أَنْ تَعْتَزِلُوہُنَّ فِی الْمَحِیضِ۔
(١٦٩٤٥) حضرت مجاہد قرآن مجید کی آیت : { فَأْتُوْھُنَّ مِنْ حَیْثُ أَمَرَکُمُ اللّٰہُ } (ترجمہ)” تم بیویوں سے یوں ملے جیسے ملنے کو اللہ نے حکم دیا ہے “ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ حیض میں ان سے دور رہو۔

16945

(۱۶۹۴۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ الأَزْرَقِ ، عَنِ ابْنِ الْحَنَفِیَّۃِ : {فَأْتُوْھُنَّ مِنْ حَیْثُ أَمَرَکُمُ اللّٰہُ} قَالَ : مِنْ قِبَلِ التَّزْوِیجِ ، مِنْ قِبَلِ الْحَلاَلِ۔
(١٦٩٤٦) حضرت ابن حنفیہ قرآن مجید کی آیت : { فَأْتُوْھُنَّ مِنْ حَیْثُ أَمَرَکُمُ اللّٰہُ } (ترجمہ)” تم بیویوں سے یوں ملے جیسے ملنے کو اللہ نے حکم دیا ہے “ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ شادی کرکے اور حلال طریقے سے جماع کرو۔

16946

(۱۶۹۴۷) حَدَّثَنَا شَبَابَۃُ ، عَنْ وَرْقَائَ ، عَنِ ابْنِ أَبِی نَجِیحٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ : {فَأْتُوْھُنَّ مِنْ حَیْثُ أَمَرَکُمُ اللّٰہُ} قَالَ : أُمِرُوا بِاعْتِزَالِ النِّسَائِ فِی الْمَحِیضِ ، فَأْتُوہُنَّ مِنْ حَیْثُ أَمَرَکُمَ اللَّہُ إذَا تَطَہَّرْنَ مِنْ حَیْثُ نُہُوا عَنْہُنَّ فِی مَحِیضِہِنَّ۔
(١٦٩٤٧) حضرت مجاہد قرآن مجید کی آیت : { فَأْتُوْھُنَّ مِنْ حَیْثُ أَمَرَکُمُ اللّٰہُ } (ترجمہ)” تم بیویوں سے یوں ملے جیسے ملنے کو اللہ نے حکم دیا ہے “ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ حیض کی حالت میں ان سے دور رہو۔

16947

(۱۶۹۴۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ أَبِی رَزِینٍ : {فَأْتُوْھُنَّ مِنْ حَیْثُ أَمَرَکُمُ اللّٰہُ} قَالَ : مِنْ قِبَلِ الطُّہْرِ۔
(١٦٩٤٨) حضرت ابو رزین قرآن مجید کی آیت : { فَأْتُوْھُنَّ مِنْ حَیْثُ أَمَرَکُمُ اللّٰہُ } (ترجمہ)” تم بیویوں سے یوں ملے جیسے ملنے کو اللہ نے حکم دیا ہے “ کے بارے میں فرماتے ہیں قرآن مجید کی آیت : { فَأْتُوْھُنَّ مِنْ حَیْثُ أَمَرَکُمُ اللّٰہُ } (ترجمہ)” تم بیویوں سے یوں ملے جیسے ملنے کو اللہ نے حکم دیا ہے “ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ طہر کی حالت میں جماع کرو۔

16948

(۱۶۹۴۹) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَنْ زَائِدَۃَ ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِیزِ بْنِ رُفَیْعٍ ، عَنِ ابن أَبِی مُلَیْکَۃَ قَالَ : نَزَلَتْ ہَذِہِ الآیَۃُ : {وَلَنْ تَسْتَطِیعُوا أَنْ تَعْدِلُوا بَیْنَ النِّسَائِ وَلَوْ حَرَصْتُمْ} فِی عَائِشَۃَ۔
(١٦٩٤٩) حضرت ابن ابی ملیکہ فرماتے ہیں کہ قرآن مجید کی آیت : { وَلَنْ تَسْتَطِیعُوا أَنْ تَعْدِلُوا بَیْنَ النِّسَائِ وَلَوْ حَرَصْتُمْ } ” اگر تم چاہو بھی تو بیویوں کے درمیان عدل کی طاقت نہ رکھو گے “ حضرت عائشہ (رض) کے بارے میں نازل ہوئی۔

16949

(۱۶۹۵۰) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنْ مُحَمَّدٍ ، عَنْ عَبِیْدَۃَ قَالَ : الْحُبُّ وَالْجِمَاعُ۔
(١٦٩٥٠) حضرت عبیدہ فرماتے ہیں کہ قرآن مجید کی آیت : { وَلَنْ تَسْتَطِیعُوا أَنْ تَعْدِلُوا بَیْنَ النِّسَائِ وَلَوْ حَرَصْتُمْ } ” اگر تم چاہو بھی تو بیویوں کے درمیان عدل کی طاقت نہ رکھو گے “ سے مراد محبت اور جماع ہے۔

16950

(۱۶۹۵۱) حَدَّثَنَا سَہْلُ بْنُ یُوسُفَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الْحَسَنِ قَالَ : فِی الْحُبِّ {فَلاَ تَمِیلُوا کُلَّ الْمَیْلِ} قَالَ : فِی الْغَشَیَانِ {فَتَذَرُوہَا کَالْمُعَلَّقَۃِ} قَالَ : لاَ أَیِّمَ وَلاَ ذَاتَ زَوْجٍ۔
(١٦٩٥١) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ قرآن مجید کی آیت { فَلاَ تَمِیلُوا کُلَّ الْمَیْلِ } محبت کے بارے میں اور { فَتَذَرُوہَا کَالْمُعَلَّقَۃِ } جماع کے بارے میں نازل ہوئیں۔ کہ وہ عورت نہ تو کنواری ہو اور نہ شادی شدہ۔

16951

(۱۶۹۵۲) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ حَسَن بْنُ شَقِیقٍ قَالَ : أَخْبَرَنَا حُسَیْنُ بْنُ وَاقِدٍ قَالَ : حدَّثَنَا یَزِیدُ النَّحْوِیُّ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ فِی قَوْلِہِ : {فَتَذَرُوہَا کَالْمُعَلَّقَۃِ} قَالَ : لاَ مُطَلَّقَۃً وَلاَ ذَاتَ بَعْلٍ۔
(١٦٩٥٢) حضرت ابن عباس (رض) قرآن مجید کی آیت { فَتَذَرُوہَا کَالْمُعَلَّقَۃِ } کے بارے میں فرماتے ہیں کہ اس سے مراد یہ ہے کہ عورت نہ تو طلاق یافتہ رہے اور نہ ہی خاوند والی رہے۔

16952

(۱۶۹۵۳) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : قَالَ عُمَرُ : إذَا أَغْلَقُوا بَابًا وَأَرْخَوْا سِتْرًا ، أَوْ کَشَفُوا خِمَارًا فَقَدْ وَجَبَ الصَّدَاقُ۔
(١٦٩٥٣) حضرت عمر (رض) فرماتے ہیں کہ جب خلوت کے لیے دروازہ بند کردیا اور پردہ ڈال دیا تو مہر واجب ہوگیا۔

16953

(۱۶۹۵۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ مِسْعَرٍ ، عَنْ حَمَّادٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، عَنْ عُمَرَ بِمِثْلِہِ ، زَادَ فِیہِ : وَخَلاَ بِہَا۔
(١٦٩٥٤) ایک اور سند سے کچھ اضافے کے ساتھ یونہی منقول ہے۔

16954

(۱۶۹۵۵) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِِ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنِ الْمِنْہَالِ بْنِ عَمْرٍو ، عَنْ عَبَّادِ بْنِ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : قَالَ عَلِیٌّ : إذَا أَرْخَی سِتْرًا عَلَی امْرَأَتِہِ وَأَغْلَقَ بَابًا وَجَبَ الصَّدَاقُ۔
(١٦٩٥٥) حضرت علی (رض) فرماتے ہیں کہ جب خلوت کے لیے دروازہ بند کردیا اور پردہ ڈال دیا تو مہر واجب ہوگیا۔

16955

(۱۶۹۵۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنِ الْمِنْہَالِ بْنِ عَمْرٍو ، عَنْ حَیَّانَ بْنِ مَرْثَدٍ ، عَنْ عَلِیٍّ مِثْلَہُ۔
(١٦٩٥٦) ایک اور سند سے یونہی منقول ہے۔

16956

(۱۶۹۵۷) حَدَّثَنَا عَبدَۃ بن سلیمان ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، عَنِ الأَحْنَفِ أَنَّ عُمَرَ وَعَلِیًّا قَالاَ : إذَا أَغْلَقَ بَابًا ، أَوْ أَرْخَی سِتْرًا فَلَہَا الصَّدَاقُ وَعَلَیْہَا الْعِدَّۃُ۔
(١٦٩٥٧) حضرت عمر (رض) اور حضرت علی (رض) فرماتے ہیں کہ جب خلوت کے لیے دروازہ بند کردیا اور پردہ ڈال دیا تو مہر واجب ہوگیا۔ اور عورت پر عدت بھی واجب ہوگی۔

16957

(۱۶۹۵۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ أَبِی الزِّنَادِ ، عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ یَسَارٍ أَنَّ رَجُلاً تَزَوَّجَ امْرَأَۃً ، فَقَالَ عِنْدَہَا فَأَرْسَلَ مَرْوَانُ إلَی زَیْدٍ ، فَقَالَ : لَہَا الصَّدَاقُ کَامِلاً ، فَقَالَ مَرْوَانُ : إنَّہُ مِمَّنْ لاَ یُتَّہَمُ ، فَقَالَ لَہُ زَیْدٌ : لَوْ أَنَّہَا جَائَتْ بِحَمْلٍ ، أَوْ بِوَلَدٍ أَکُنْت تُقِیمُ عَلَیْہَا الْحَدَّ ؟۔
(١٦٩٥٨) حضرت سلیمان بن یسار فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے کسی عورت سے شادی کی اور اس کے ساتھ دوپہر کو کچھ وقت گزارا۔ مروان نے حضرت زید سے اس بارے میں سوال کیا تو انھوں نے فرمایا کہ ایسی عورت کے لیے پورا مہر ہوگا۔ مروان نے کہا کہ وہ شخص ان لوگوں میں سے نہیں جنہیں متہم کیا جائے۔ حضرت زید نے فرمایا کہ اگر وہ حاملہ ہوجائے یا بچے کو جنم دے تو کیا آپ اس پر حد قائم کریں گے ؟

16958

(۱۶۹۵۹) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ، عَنْ حَجَّاجٍ، عَنْ مَکْحُولٍ قَالَ: اجْتَمَعَ نَفَرٌ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عُمَرُ وَمُعَاذٌ : أَنَّہُ إذَا أَغْلَقَ الْبَابَ وَأَرْخَی السِّتْرَ فَقَدْ وَجَبَ الصَّدَاقُ۔
(١٦٩٥٩) حضرت عمر اور حضرت معاذ (رض) فرماتے ہیں کہ جب خلوت کے لیے دروازہ بند کردیا اور پردہ ڈال دیا تو مہر واجب ہوگیا۔

16959

(۱۶۹۶۰) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ عَوْفٍ ، عَنْ زُرَارَۃَ بْنِ أَوْفَی ، قَالَ : سَمِعْتُہُ یَقُولُ : قضَی الْخُلَفَائُ الرَّاشِدُونَ الْمَہْدِیُّونَ أَنَّہُ مَنْ أَغْلَقَ بَابًا ، أَوْ أَرْخَی سِتْرًا فَقَدْ وَجَبَ الْمَہْرُ وَوَجَبَتِ الْعِدَّۃُ۔
(١٦٩٦٠) حضرت زرارہ بن اوفی فرماتے ہیں کہ خلفاء راشدین کا فیصلہ تھا کہ جب خلوت کے لیے دروازہ بند کردیا اور پردہ ڈال دیا تو مہر واجب ہوگیا۔ اور اس پر عدت واجب ہوگی۔

16960

(۱۶۹۶۱) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ، قَالَ : قَالَ عُمَرُ : إذَا أُرْخِیَتِ السُّتُورُ فَقَدْ وَجَبَ الصَّدَاقُ۔
(١٦٩٦١) حضرت عمر (رض) فرماتے ہیں کہ جب پردے ڈال دیئے گئے تو مہر واجب ہوگیا۔

16961

(۱۶۹۶۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ مُوسَی بْنِ عُبَیْدَۃَ قَالَ : حدَّثَنِی نَافِعُ بْنُ جُبَیْرِ بْنِ مُطْعِمٍ ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : إذَا أَرْخَی سِتْرًا ، أَوْ أَغْلَقَ بَابًا فَقَدْ وَجَبَ الصَّدَاقُ۔
(١٦٩٦٢) حضرت نافع بن جبیر بن مطعم ایک صحابی سے نقل کرتے ہیں کہ جب خلوت کے لیے دروازہ بند کردیا اور پردہ ڈال دیا تو مہر واجب ہوگیا۔

16962

(۱۶۹۶۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ جَعْفَرٍ الأَحْمَرِ ، عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ ، عَنْ أَبِی الْبَخْتَرِیِّ ، عَنْ عَلِیٍّ قَالَ : إذَا أَغْلَقَ بَابًا أو أَرْخَی سِتْرًا أو خَلَی فَلَہَا الصَّدَاقُ۔
(١٦٩٦٣) حضرت علی (رض) فرماتے ہیں کہ جب خلوت کے لیے دروازہ بند کردیا اور پردہ ڈال دیا اور خلوت ہوگئی تو مہر واجب ہوگیا۔

16963

(۱۶۹۶۴) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنِ ابن سَالِمٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنْ عُمَرَ وَعَلِیٍّ قَالاَ : إذَا أَرْخَی سِتْرًا ، أَوْ خَلَی وَجَبَ الْمَہْرُ وَعَلَیْہَا الْعِدَّۃُ۔
(١٦٩٦٤) حضرت عمر اور حضرت علی (رض) فرماتے ہیں کہ جب خلوت کے لیے پردہ ڈال دیایا خلوت اختیار کرلی تو مہر واجب ہوگیا اور عدت واجب ہوگی۔

16964

(۱۶۹۶۵) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ مَطَرٍ ، عَنْ حیان ، عَنْ جَابِرٍ أنہ قَالَ : إذَا نَظَرَ إلَی فَرْجِہَا ثُمَّ طَلَّقَہَا فَلَہَا الصَّدَاقُ وَعَلَیْہَا الْعِدَّۃُ۔
(١٦٩٦٥) حضرت جابر فرماتے ہیں کہ آدمی نے جب عورت کی شرمگاہ کو دیکھا اور پھر اسے طلاق دے دی تو مرد پر مہر واجب اور عورت پر عدت واجب ہوگی۔

16965

(۱۶۹۶۶) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ : إذَا أُجِیفَت الأَبْوَابُ وَأُرْخِیَت السُّتُورُ وَجَبَ الصَّدَاقُ۔
(١٦٩٦٦) حضرت ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ جب خلوت کے لیے دروازہ بند کردیا اور پردہ ڈال دیا تو مہر واجب ہوگیا۔

16966

(۱۶۹۶۷) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالَ : إذَا اطَّلَعَ مِنْہَا عَلَی مَا لاَ یَحِلُّ لِغَیْرِہِ وَجَبَ لہا الصَّدَاقُ وَعَلَیْہَا الْعِدَّۃُ۔
(١٦٩٦٧) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ جب خاوند نے بیوی کی ان جگہوں کو دیکھ لیا جنہیں دیکھنا کسی اور کے لیے حلال نہیں تو مہر اور عدت واجب ہوگئے۔

16967

(۱۶۹۶۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ مُبَارَکٍ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ أَبِی کَثِیرٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ ثَوْبَانَ أَنَّ رَجُلاً اجْتَلَی امْرَأَتَہُ فِی طَرِیقٍ فَجَعَلَ لَہَا عُمَرُ الصَّدَاقَ کَامِلاً۔
(١٦٩٦٨) حضرت عبدالرحمن بن ثوبان فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے راستہ میں اپنی بیوی کو برہنہ کیا تو حضرت عمر (رض) نے اس کے لیے پورے مہر کا فیصلہ فرمایا۔

16968

(۱۶۹۶۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ حَسَنِ بْنِ صَالِحٍ ، عَنْ فِرَاسٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ قَالَ : لَہَا نِصْفُ الصَّدَاقِ ، وَإِنْ جَلَسَ بَیْنَ رِجْلَیْہَا۔
(١٦٩٦٩) حضرت ابن مسعود (رض) فرماتے ہیں کہ خلوت کی صورت میں عورت کے لیے نصف مہر ہوگا۔ خواہ خاوند اس کی دو ٹانگوں کے درمیان بیٹھ جائے۔

16969

(۱۶۹۷۰) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ طَاوُوسٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : إذَا طَلَّقَ قَبْلَ أَنْ یَدْخُلَ فَلَہَا نِصْفُ الصَّدَاقِ ، وَإِنْ کَانَ قَدْ خَلَی بِہَا۔
(١٦٩٧٠) حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ جب آدمی نے دخول سے پہلے عورت کو طلاق دے دی تو اسے آدھا مہر ملے گا۔ خواہ اس سے خلوت اختیار کی ہو۔

16970

(۱۶۹۷۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ طَاوُوسٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : لَہَا نِصْفُ الصَّدَاقِ۔
(١٦٩٧١) حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ خلوت کی صورت میں عورت کے لیے نصف مہر ہوگا۔

16971

(۱۶۹۷۲) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ أَنَّ رَجُلاً قَالَ لِشُرَیْحٍ : إنِّی تَزَوَّجْت امْرَأَۃً فَمَکَثَتْ عِنْدِی ثَمَانَ سِنِینَ ثُمَّ طَلَّقْتُہَا وَہِیَ عَذْرَائُ قَالَ : لَہَا نِصْفُ الصَّدَاقِ۔
(١٦٩٧٢) حضرت شعبی فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے حضرت شریح سے کہا کہ میں نے ایک عورت سے شادی کی، وہ میرے پاس آٹھ سال تک رہی پھر میں نے اس سے شرعی ملاقات کئے بغیر اسے طلاق دے دی۔ انھوں نے فرمایا کہ عورت کو نصف مہر ملے گا۔

16972

(۱۶۹۷۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ زَکَرِیَّا ، عَنِ الشَّعْبِیِّ قَالَ : لَہَا نِصْفُ الصَّدَاقِ۔
(١٦٩٧٣) حضرت شعبی فرماتے ہیں کہ خلوت کی صورت میں عورت کے لیے نصف مہر ہوگا۔

16973

(۱۶۹۷۴) حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرٍ ، عَنْ أَبِی بَکْرِ بْنِ عَیَّاشٍ ، عَنِ مَنصُور ، عَنِ الْحَکَمِ ، عَنْ عَلِیٍّ قَالَ : إذَا فَقَدَتْ زَوْجَہَا لَمْ تُزَوَّجْ حَتَّی یقبل أَو أن یَمُوتَ۔
(١٦٩٧٤) حضرت علی (رض) فرماتے ہیں کہ جس عورت کا خاوند فوت ہوجائے وہ شادی نہیں کرسکتی یہاں تک کہ وہ واپس آجائے یا مرجائے۔

16974

(۱۶۹۷۵) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی، عَنْ سَعِیدٍ، عَنْ أَیُّوبَ، عَنْ أَبِی قِلاَبَۃَ قَالَ: لَیْسَ لَہَا أَنْ تُزَوَّجَ حَتَّی تَبَیَّنَ لَہَا مَوْتُہُ۔
(١٦٩٧٥) حضرت ابو قلابہ فرماتے ہیں کہ جب تک اس کی موت کا یقین نہ ہوجائے وہ عورت شادی نہیں کرسکتی۔

16975

(۱۶۹۷۶) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ فِی امْرَأَۃٍ تَفْقِدُ زَوْجَہَا ، أَوْ یَأْخُذُہُ الْعَدُوُّ ، قَالَ : تَصْبِرُ فَإِنَّمَا ہِیَ امْرَأَتُہُ ، یُصِیبُہَا مَا أَصَابَ النِّسَائَ حَتَّی یَجِیئَ زَوْجُہَا ، أَوْ یَبْلُغَہَا إِنَّہُ مَاتَ۔
(١٦٩٧٦) حضرت ابراہیم اس عورت کے بارے میں جس کا خاوند گم ہوجائے یا اسے دشمن پکڑ لیں فرماتے ہیں کہ وہ صبر کرے، کیونکہ وہ ایک عورت ہے اور عورتوں کو ایسے حالات پیش آتے ہیں۔ وہ اس وقت اس کی بیوی رہے گی یہاں تک کہ اس کا خاوند واپس آجائے یا مرجائے۔

16976

(۱۶۹۷۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، عَنْ سُفْیَانَ، عَنْ جَابِرٍ، عَنِ الشَّعْبِیِّ قَالَ: لاَ تُزَوَّجُ امْرَأَۃُ الْمَفْقُودِ حَتَّی یَرْجِعَ، أَوْ یَمُوتَ۔
(١٦٩٧٧) حضرت شعبی فرماتے ہیں کہ جس عورت کا خاوند گم ہوجائے وہ شادی نہیں کرسکتی یہاں تک کہ وہ واپس آجائے یا مرجائے۔

16977

(۱۶۹۷۸) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ حَبِیبٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ ہَانِئٍ قَالَ : سُئِلَ جَابِرُ بْنُ زَیْدٍ ، عَنِ امْرَأَۃٍ غَابَ زَوْجُہَا عَنْہَا زَمَانًا لاَ تَعْلَمُ لَہُ بِمَوْتٍ وَلاَ حَیَاۃٍ قَالَ : تَرَبَّصُ حَتَّی تَعْلَمَ حَیٌّ ہُوَ أَمْ مَیِّتٌ۔
(١٦٩٧٨) حضرت عمرو بن ھانیء فرماتے ہیں کہ حضرت جابر بن زید سے سوال کیا گیا کہ اگر کسی عورت کا خاوند ایک لمبے عرصے سے غائب ہو اور یہ معلوم نہ ہوسکے کہ وہ زندہ ہے یا مردہ تو کیا حکم ہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ وہ عورت انتظار کرے یہاں تک کہ معلوم ہوجائے کہ وہ زندہ ہے یا مردہ۔

16978

(۱۶۹۷۹) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ، عَنْ ہِشَامٍ، عَنْ مُحَمَّدٍ قَالَ: لاَ تُزَوَّجُ امْرَأَۃُ الْمَفْقُودِ حَتَّی یَأْتِیَہَا یَقِینُ مَوْتِ زَوْجِہَا۔
(١٦٩٧٩) حضرت محمد فرماتے ہیں کہ جس عورت کا خاوند گم ہوجائے وہ شادی نہیں کرسکتی یہاں تک کہ اسے خاوند کی موت کا یقین ہوجائے۔

16979

(۱۶۹۸۰) حَدَّثَنَا سَہْلُ بْنُ یُوسُفَ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنِ الْحَکَمِ وَحَمَّادٍ فِی امْرَأَۃِ الْمَفْقُودِ قَالاَ : لاَ تُزَوِّجُ أَبَدًا حَتَّی یَأْتِیَہَا الْخَبَرُ۔
(١٦٩٨٠) حضرت حکم اور حضرت حماد فرماتے ہیں کہ جس عورت کا خاوند گم ہوجائے وہ شادی نہیں کرسکتی یہاں تک کہ اسے اس کی خبر مل جائے۔

16980

(۱۶۹۸۱) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ أَبِی مَعْشَرٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ مِثْلَہُ۔
(١٦٩٨١) حضرت ابراہیم سے بھی یونہی منقول ہے۔

16981

(۱۶۹۸۲) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ وَعُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ قَالاَ : فِی امْرَأَۃِ الْمَفْقُودِ : تَرَبَّصُ أَرْبَعَ سِنِینَ وَتَعْتَدُّ أَرْبَعَۃَ أَشْہُرٍ وَعَشْرًا۔
(١٦٩٨٢) حضرت عمر بن خطاب اور حضرت عثمان بن عفان (رض) فرماتے ہیں کہ عورت شوہر کے گم ہوجانے کی صورت میں چار سال انتظار کرے گی اور چار مہینے دس دن عدت گزارے گی۔

16982

(۱۶۹۸۳) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ مَنْصُورٍ قَالَ : حدَّثَنَا مُجَاہِدٌ فِی غرقۃ الْمِنْہَالِ بْنِ عَمْرٍو ، عَنِ ابْنِ أَبِی لَیْلَی ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ أَنَّہُ قَالَ فِی امْرَأَۃِ الْمَفْقُودِ : تَرَبَّصُ أربع سِنِینَ ثُمَّ یُدْعَی وَلِیُّہُ فَیُطَلِّقُہَا فَتَعْتَدُّ بَعْدَ ذَلِکَ أَرْبَعَۃَ أَشْہُرٍ وَعَشْرًا۔
(١٦٩٨٣) حضرت عمر (رض) عورت کا شوہر گم ہوجانے کی صورت میں فرماتے ہیں کہ عورت چار سال انتظار کرے گی پھر آدمی کے ولی کو بلایا جائے گا اور وہ عورت کو طلاق دے گا پھر وہ چار مہینے دس دن عدت گزارے گی۔

16983

(۱۶۹۸۴) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ ، عَنْ دَاوُدَ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ فِی الْفَقِیدِ بَیْنَ الصَّفَّیْنِ قَالَ : تَعْتَدُّ امْرَأَتُہُ سَنَۃً۔
(١٦٩٨٤) حضرت سعید بن مسیب گم ہوجانے والے کے بارے میں فرماتے ہیں کہ اس کی بیوی ایک سال عدت گزارے گی۔

16984

(۱۶۹۸۵) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنْ یَحْیَی بْنِ جَعْدَۃَ أَنَّ رَجُلاً انتَسَفَتْہُ الْجِنُّ عَلَی عَہْدِ عُمَرَ فَأَتَتِ امْرَأَتُہُ عُمَرَ فَأَمَرَہَا أَنْ تَرَبَّصَ أَرْبَعَ سِنِینَ ثُمَّ أَمَرَ وَلِیَّہُ بَعْدَ أَرْبَعِ سِنِینَ أَنْ یُطَلِّقَہَا ثُمَّ أَمَرَہَا أَنْ تَعْتَدَّ فَإِذَا انْقَضَتْ عِدَّتُہَا تَزَوَّجَتْ فَإِنْ جَائَ زَوْجُہَا خُیِّرَ بَیْنَ امْرَأَتِہِ وَالصَّدَاقِ۔
(١٦٩٨٥) حضرت یحییٰ بن جعدہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) کے زمانے میں ایک شخص کو جن اٹھا کرلے گئے۔ اس کی بیوی حضرت عمر (رض) کے پاس آئی اور ساری صورت حال بتائی تو حضرت عمر (رض) نے اسے حکم دیا کہ چار سال انتظار کرے۔ چار سال بعد خاوند کے ولی کو حکم دیا کہ وہ عورت کو طلاق دے دے۔ پھر عورت کو عدت گزارنے کا حکم دیا۔ جب عدت پوری ہوجائے تو وہ شادی کرسکتی ہے اور اگر اس کا خاوندواپس آجائے تو مرد کو بیوی اور مہر میں سے ایک چیز کا اختیار دیا جائے گا۔

16985

(۱۶۹۸۶) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ دَاوُدَ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ فِی الْفَقِیدِ بَیْنَ الصَّفَّیْنِ : تَرَبَّصُ امْرَأَتُہُ سَنَۃً۔
(١٦٩٨٦) حضرت سعید بن مسیب گم ہوجانے والے کے بارے میں فرماتے ہیں کہ اس کی بیوی ایک سال عدت گذارے گی۔

16986

(۱۶۹۸۷) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ الثَّقَفِیُّ ، عَنْ خَالِدٍ ، عَنْ أَبِی نَضْرَۃَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِی لَیْلَی قَالَ : شَہِدْت عُمَرَ خَیَّرَ مَفْقُودًا تَزَوَّجَتِ امْرَأَتُہُ بَیْنَہَا وَبَیْنَ الْمَہْرِ الَّذِی سَاقَہُ إلَیْہَا۔
(١٦٩٨٧) حضرت عبد الرحمن بن ابی لیلیٰ فرماتے ہیں کہ میں حضرت عمر (رض) کے پاس موجود تھا کہ انھوں ایک ایسے شخص کو جو گم ہوگیا تھا اور اس کی بیوی نے شادی کرلی تھی۔ اختیار دیا کہ چاہے تو بیوی واپس لے لے یا وہ مہر واپس لے لے جو اس نے عورت کو دیا تھا۔

16987

(۱۶۹۸۸) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ أَنَّ عُمَرَ وَعُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ قَالاَ : إِنْ جَائَ زَوْجُہَا خُیِّرَ بَیْنَ امْرَأَتِہِ وَبَیْنَ الصَّدَاقِ الأَوَّلِ۔
(١٦٩٨٨) حضرت عمر اور حضرت عثمان (رض) فرماتے ہیں کہ جب عورت کا خاوند واپس آئے تو اسے بیوی اور دیئے گئے مہر کے درمیان اختیار ہوگا۔

16988

(۱۶۹۸۹) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الشَّیْبَانِیِّ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ سُئِلَ عُمَرُ ، عَنْ رَجُلٍ غَابَ ، عَنِ امْرَأَتِہِ فَبَلَغَہَا أَنَّہُ مَاتَ فَتَزَوَّجَتْ ثُمَّ جَائَ الزَّوْجُ الأَوَّلُ ، فَقَالَ عُمَرُ : یُخَیَّرُ الزَّوْجُ الأَوَّلُ بَیْنَ الصَّدَاقِ وَامْرَأَتِہِ فَإِنَ اخْتَارَ الصَّدَاقَ تَرَکَہَا مَعَ الزَّوْجِ الآخَرِ ، وَإِنْ شَائَ اخْتَارَ امْرَأَتَہُ وَقَالَ عَلِیٌّ : لَہَا الصَّدَاقُ بِمَا اسْتَحَلَّ الآخَرُ مِنْ فَرْجِہَا وَیُفَرَّقُ بَیْنَہُ وَبَیْنَہَا ثُمَّ تَعْتَدُّ ثَلاَثَ حِیَضٍ ثُمَّ تُرَدُّ عَلَی الأَوَّلِ۔
(١٦٩٨٩) حضرت شعبی فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) سے اس شخص کے بارے میں دریافت کیا گیا جو غائب ہوگیا اور اس کی بیوی کو اس کے مرنے کی اطلاع ملی تو اس نے عدت گزار کر شادی کرلی۔ پھر پہلا خاوند آگیا تو کیا حکم ہے ؟ حضرت عمر (رض) نے فرمایا کہ پہلے خاوند کو مہر اور عورت کے درمیان اختیار دیا جائے گا۔ اگر وہ مہر اختیار کرلے تو عورت دوسرے خاوند کے پاس رہے گی اور اگر وہ چاہے تو اپنی بیوی کو اختیار کرلے۔ حضرت علی (رض) فرماتے ہیں کہ عورت کو دوسرے خاوند کی طرف سے مہر ملے گا اور دونوں کے درمیان تفریق کرادی جائے گی، پھر وہ تین حیض عدت گزارے گی اور پہلے خاوند کو واپس کردی جائے گی۔

16989

(۱۶۹۹۰) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ قَالَ : جَائَ رَجُلٌ إلَی إبْرَاہِیمَ ، فَقَالَ : إنَّہُ تَزَوَّجَ امْرَأَۃً کَانَ نُعِیَ إلَیْہَا زَوْجُہَا ، إِنَّہُ جَائَ کِتَابٌ مِنْہُ أَنَّہُ حَیٌّ ، فَقَالَ لہ إبْرَاہِیمُ : اعْتَزِلْہَا فَإِذَا قَدِمَ فَإِنْ شَائَ اخْتَارَ الَّذِی أَصْدَقَہَا وکَانَت امْرَأَتَکَ عَلَی حَالِہَا ، وَإِنِ اخْتَارَ الْمَرْأَۃَ فَإِذا انْقَضَتْ عِدَّتُہَا مِنْک فَہِیَ أمْرَأَۃُ الأَوَّلِ وَلَہَا مَا أَصْدَقَہَا بِمَا اسْتَحَلَّ مِنْ فَرْجِہَا قَالَ : فَأُواکِلُہَا ؟ قَالَ : نَعَمْ وَلاَ تَدْخُلُ عَلَیْہَا حَتَّی تُؤْذِنَہَا۔
(١٦٩٩٠) حضرت عطاء بن سائب فرماتے ہیں کہ ایک آدمی حضرت ابراہیم کے پاس آیا اور کہا کہ ایک عورت کو اس کے خاوند کے انتقال کرجانے کی خبر ملی اور اس نے شادی کرلی تو بعد میں اس کے زندہ ہونے کا خط آگیا۔ حضرت ابراہیم نے فرمایا کہ جب وہ آئے تو اپنی بیوی سے دور رہے۔ پھر اگر چاہے تو مہر واپس لے لے اور عورت اپنی حالت پر باقی رہے گی اور اگر وہ عورت کو اختیار کرلے تو عدت گزرنے کے بعد وہ اسی کی بیوی ہوگی۔ البتہ دوسرے خاوند کی طرف سے اسے مہر ضرور ملے گا۔ اس شخص نے کہا کہ کیا میں اس عورت کی مواکلت کرسکتا ہوں ؟ انھوں نے فرمایا ہاں البتہ اس کی اجازت کے بغیر اس کے پاس مت جانا۔

16990

(۱۶۹۹۱) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ قَالَ حَدَّثَنَا ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ أَبِی الْمَلِیحِ ، عَنْ سُہَیۃَ ابْنَۃِ عُمَیْرٍ الشَّیْبَانِیَّۃِ قَالَتْ : نُعِیَ إلَیَّ زَوْجِی مِنْ قَنْدَابِیلَ فَتَزَوَّجْت بَعْدَہُ الْعَبَّاسَ بْنَ طَرِیفٍ أَخَا بَنِی قَیْسٍ ، فَقَدِمَ زَوْجِی الأَوَّلُ فَانْطَلَقْنَا إلَی عُثْمَانَ وَہُوَ مَحْصُورٌ ، فَقَالَ : کَیْفَ أَقْضِی بَیْنَکُمْ وأنا عَلَی حَالِی ہَذِہِ ؟ قُلْنَا : قَدْ رَضِینَا بِقَضَائِکَ فَخَیَّرَ الزَّوْجَ بَیْنَ الصَّدَاقِ وَبَیْنَ الْمَرْأَۃِ فَلَمَّا أُصِیبَ عُثْمَانُ انْطَلَقْنَا إلَی عَلِیٍّ وَقَصَصْنَا عَلَیْہِ الْقِصَّۃَ فَخَیَّرَ الزَّوْجَ الأَوَّلَ بَیْنَ الصَّدَاقِ وَبَیْنَ الْمَرْأَۃِ فَاخْتَارَ الصَّدَاقَ فَأَخَذَ مِنِّی أَلْفَیْنِ وَمِنَ الآخَرِ أَلْفَیْنِ۔
(١٦٩٩١) حضرت سہیہ بنت عمیر شیبانیہ فرماتی ہیں کہ مجھے قندابیل میں اپنے خاوند کے انتقال کی خبر ملی۔ میں نے بعد میں عباس بن طریف جو بنو قیس کے بھائی تھے شادی کرلی۔ بعد میں میرے پہلے خاوند بھی واپس آگئے۔ ہم مسئلہ پوچھنے حضرت عثمان بن عفان کے پاس گئے، اس وقت وہ محصور تھے۔ انھوں نے فرمایا کہ میں اس حال میں تمہارے درمیان فیصلہ کیسے کرسکتا ہوں ؟ ہم نے کہا کہ ہم آپ کے فیصلے پر راضی ہیں۔ انھوں نے خاوند کو مہر اور عورت میں سے ایک چیز کا اختیار دیا۔ جب حضرت عثمان کو شہید کردیا گیا تو ہم حضرت علی (رض) کے پاس گئے اور سارا واقعہ بیان کیا تو انھوں نے پہلے خاوند کو مہر اور عورت کے درمیان اختیار دیا۔ پس انھوں نے مہر کو اختیار کرتے ہوئے مجھ سے اور دوسرے خاوند سے دو دو ہزار لئے۔

16991

(۱۶۹۹۲) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ سَیَّارٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ قَالَ : امْرَأَۃُ الْمَفْقُودِ امْرَأَۃُ الأَوَّلِ۔
(١٦٩٩٢) حضرت شعبی فرماتے ہیں کہ گم شدہ آدمی کی شادی کرنے والی بیوی خاوند کے واپس آجانے کی صورت میں پہلے کی بیوی ہے۔

16992

(۱۶۹۹۳) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ حَمْزَۃَ ، قَالَ : سَمِعْتُ الْقَاسِمَ بْنَ مُحَمَّدٍ یَقُولُ : قَضَی فِینَا ابْنُ الزُّبَیْرِ فِی مَوْلاَۃٍ لَہُمْ کَانَ زَوْجُہَا قَدْ نُعِیَ فَزُوِّجَتْ ثُمَّ جَائَ زَوْجُہَا ، فَقَضَی أَنَّ زَوْجَہَا الأَوَّلَ یُخَیَّرُ إِنْ شَائَ امْرَأَتَہُ، وَإِنْ شَائَ صَدَاقَہُ ، قَالَ عُمَرُ : وَکَانَ الْقَاسِمُ یَقُولُ ذَلِکَ۔
(١٦٩٩٣) حضرت قاسم بن محمد فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن زبیر (رض) کے پاس ایک مقدمہ لایا گیا کہ ایک عورت کو اس کے خاوند کے انتقال کی خبر ملی اور اس نے شادی کرلی۔ پھر اس کا پہلا خاوند بھی آگیا تو حضرت عبداللہ بن زبیر نے فیصلہ فرمایا کہ اس کے پہلے خاوند کو اختیاردیا جائے گا اگر چاہے تو بیوی کو لے لے اور اگر چاہے تو اپنا دیا ہوا مہر واپس لے لے۔ حضرت عمر بن حمزہ فرماتے ہیں کہ حضرت قاسم بھی یہی کہا کرتے تھے۔

16993

(۱۶۹۹۴) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ دَاوُدَ ، عَنِ الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ حُمَید بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَنَّ عُمَرَ خَیَّرَ الْمَفْقُودَ وَقَدْ تَزَوَّجَتِ امْرَأَتُہُ ، فَاخْتَارَ الْمَالَ فَجَعَلَہُ عَلَی زَوْجِہَا الأَحْدَثِ قَالَ حُمَیْدٌ : فَدَخَلْتُ عَلَی الْمَرْأَۃِ الَّتِی قَضَی فِیہَا ہَذَا ، فَقَالَتْ : فَأَعَنْتُ زَوْجِی الآخَرَ بِوَلِیدَۃٍ۔
(١٦٩٩٤) حضرت حمید بن عبد الرحمن فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے اس شخص کو مہر اور بیوی میں اختیار دیا جو گم ہوگیا تھا اور اس کی بیوی نے شادی کرلی تھی۔ اس نے مہر کو اختیار کرلیا اور وہ مال آپ نے دوسرے خاوند پر لازم کیا۔ حضرت حمیدکہتے ہیں کہ میں اس عورت کے پاس گیا جس کے بارے میں یہ فیصلہ ہوا تھا تو اس نے کہا کہ میں نے ایک بچی کے ذریعے دوسرے خاوند کی مدد کی ہے۔

16994

(۱۶۹۹۵) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ خَالِدٍ ، عَنْ أَبِی مَعْشَرٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ أَنَّ عَلِیًّا قَالَ : لَیْسَ بِزَوْجٍ یَعْنِی السَّیِّدَ۔
(١٦٩٩٥) حضرت علی (رض) فرماتے ہیں کہ آقا خاوند نہیں ہے۔

16995

(۱۶۹۹۶) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ بْنِ سَالِمٍ قَالَ سَمِعْت الشَّعْبِیَّ یَقُولُ : لَیْسَ بِزَوْجٍ۔
(١٦٩٩٦) حضرت شعبی فرماتے ہیں کہ آقا خاوند نہیں ہے۔

16996

(۱۶۹۹۷) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، أَنَّہُ کَانَ یَقُولُ یَقُولُ : لَیْسَ بِزَوْجٍ۔
(١٦٩٩٧) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ آقا خاوند نہیں ہے۔

16997

(۱۶۹۹۸) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، عَنْ زَیْدٍ قَالَ : ہُوَ زَوْجٌ إذَا لَمْ یُرِدِ الإِحْلاَلَ۔
(١٦٩٩٨) حضرت زید فرماتے ہیں کہ آقا خاوند کے حکم میں ہے اگر اس کا حلال کرنے کا ارادہ نہ ہو۔

16998

(۱۶۹۹۹) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ خَالِدٍ ، عَنْ مَرْوَانَ الأَصْفَرِ ، عَنْ أَبِی رَافِعٍ أَنَّ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ سُئِلَ عَنْ ذَلِکَ وَعِنْدَہُ عَلِیٌّ وَزَیْدُ بْنُ ثَابِتٍ ، قَالَ : فَرَخَّصَ فِی ذَلِکَ عُثْمَانُ وَزَیْدٌ ، قَالاَ : ہُوَ زَوْجٌ ، فَقَامَ عَلِیٌّ مُغْضَبًا کَارِہًا لِمَا قَالاَ۔
(١٦٩٩٩) حضرت ابو رافع فرماتے ہیں کہ حضرت عثمان (رض) سے اس بارے میں سوال کیا گیا اس وقت ان کے پاس حضرت علی (رض) اور حضرت زید بن ثابت (رض) بھی وہاں موجود تھے۔ حضرت عثمان (رض) اور حضرت زید (رض) نے اس بارے میں رخصت دی اور دونوں نے فرمایا کہ وہ زوج ہے۔ حضرت علی (رض) ان کی اس بات پر ناگواری کی وجہ سے وہاں سے اٹھ کھڑے ہوئے۔

16999

(۱۷۰۰۰) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَطَائٍ قَالَ : ہُوَ زَوْجٌ یقول السَّیِّدَ۔
(١٧٠٠٠) حضرت عطاء فرماتے ہیں کہ آقا خاوند ہے۔

17000

(۱۷۰۰۱) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ قَالَ : سَأَلْتُ حَمَّادًا ، عَنْ رَجُلٍ تَحْتَہُ أَمَۃٌ فَطَلَّقَہَا تَطْلِیقَتَیْنِ ثُمَّ یَغْشَاہَا سَیِّدُہَا ، ہَلْ تَرْجِعُ إلَی زَوْجِہَا ؟ فَکَرِہَ ذَلِکَ۔
(١٧٠٠١) حضرت شعبہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت حماد سے اس شخص کے بارے میں سوال کیا جس کے نکاح میں کوئی باندی ہو اور وہ اس کو دو طلاقیں دے دے۔ پھر اس باندی کا آقا اس سے وطی کرے تو کیا وہ واپس اپنے خاوند کے پاس جاسکتی ہے۔ انھوں نے اسے ناپسند فرمایا۔

17001

(۱۷۰۰۲) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ حَبِیبٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ ہَرِمٍ قَالَ : سُئِلَ جَابِرُ بْنُ زَیْدٍ ، عَنْ رَجُلٍ کَانَتْ لَہُ امْرَأَۃٌ مَمْلُوکَۃٌ فَطَلَّقَہَا ثُمَّ إنَّ سَیِّدَہَا تَسَرَّاہَا ثُمَّ تَرَکَہَا ، أَتَحِلُّ لِزَوْجِہَا الَّذِی طَلَّقَہَا أَن یراجعہا ؟ قَالَ : لاَ تَحِلُّ لَہُ حَتَّی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَہُ۔
(١٧٠٠٢) حضرت جابر بن زید سے سوال کیا گیا کہ اگر کسی آدمی کے نکاح میں کوئی باندی ہو اور وہ اس کو طلاق دے دے پھر اس کا آقا اس سے جماع کرے تو کیا خاوند اس سے رجوع کرسکتا ہے۔ انھوں نے فرمایا وہ عورت اب پہلے خاوند کے لیے حلال نہیں جب تک کہ وہ کسی اور سے شادی نہ کرلے۔

17002

(۱۷۰۰۳) حَدَّثَنَا عَبدَۃ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنِ الْحَسَنِ أن زَیْدِ بْنِ ثَابِتٍ وَالزُّبَیْرِ بْنِ الْعَوَّامِ ، کَانَا لاَ یَرَیَانِ بَأْسًا إذَا طَلَّقَ الرَّجُلُ امْرَأَتَہُ وَہِیَ أَمَۃٌ تَطْلِیقَتَیْنِ ثُمَّ غَشِیَہَا سَیِّدُہَا غشیانا لاَ یُرِیدُ بِذَلِکَ مُخَادَعَۃً وَلاَ إحْلاَلاً أَنْ تَرْجِعَ إلَی زَوْجِہَا بخطبۃ۔
(١٧٠٠٣) حضرت زید بن ثابت اور حضرت زبیر بن عوام فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص اپنی ایسی بیوی کو دو طلاقیں دے دے جو باندی ہو پھر اس کا آقا اس سے جماع کرلے اور اس سے مقصود کوئی دھوکا وغیرہ نہ ہو تو وہ اپنے پہلے خاوند کے پاس نکاح کے ذریعے واپس جاسکتی ہے۔

17003

(۱۷۰۰۴) حَدَّثَنَا عَبدَۃ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ أَبِی مَعْشَرٍ ، عَنْ إِبرَاہِیمَ فِی الأَمَۃِ یُطَلِّقُہَا زَوْجُہَا تَطْلِیقَتَیْنِ ثُمَّ یَغْشَاہَا سَیِّدُہَا : إنَّہَا لاَ تَحِلُّ لِزَوْجِہَا حَتَّی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَہُ۔
(١٧٠٠٤) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ جس کے نکاح میں کوئی باندی ہو اور وہ اس کو دو طلاقیں دے دے۔ پھر اس باندی کا آقا اس سے وطی کرے تو وہ پہلے خاوند کے لیے اس وقت تک حلال نہیں جب تک کہ کسی اور سے شادی نہ کرلے۔

17004

(۱۷۰۰۵) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ طَاوُوسٍ قَالَ : إذَا طَلَّقَہَا تَطْلِیقَتَیْنِ ثُمَّ وَطِئَہَا السَّیِّدُ تَزَوَّجَہَا إِنْ شَائَ۔
(١٧٠٠٥) حضرت طاؤس فرماتے ہیں کہ اگر کسی نے اپنی باندی بیوی کو دو طلاقیں دیں پھر اس کے آقا نے اس سے جماع کرلیا تو وہ اس سے شادی کرسکتا ہے۔

17005

(۱۷۰۰۶) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ أَبِی الزِّنَادِ ، عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ یَسَارٍ ، عَنْ زَیْدِ بْنِ ثَابِتٍ أَنَّ مَرْوَانَ سَأَلَہُ عَنْہَا فَکَرِہَہَا۔
(١٧٠٠٦) حضرت سلیمان بن یسار کہتے ہیں کہ مروان نے حضرت زید بن ثابت سے اس بارے میں سوال کیا تو انھوں نے اس کو مکروہ قرار دیا۔

17006

(۱۷۰۰۷) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ، عَنْ عَبْدِالْکَرِیمِ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ قَالَ: لاَ یَتَزَوَّجُ حَتَّی تَنْقَضِیَ عِدَّۃُ الَّتِی طَلَّقَ۔
(١٧٠٠٧) حضرت سعید بن مسیب فرماتے ہیں کہ پانچویں سے اس وقت تک شادی نہیں کرسکتا جب تک طلاق یافتہ کی عدت نہ گذر جائے۔

17007

(۱۷۰۰۸) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ ، عَنْ عَبِیْدَۃَ ؛ فِی رَجُلٍ طَلَّقَ امْرَأَتَہُ وَلَہُ أَرْبَعُ نِسْوَۃٍ قَالَ : لاَ یَحِلُّ لَہُ أَنْ یَتَزَوَّجَ الْخَامِسَۃَ حَتَّی تَنْقَضِیَ عِدَّۃُ الَّتِی طَلَّقَ۔
(١٧٠٠٨) حضرت عبیدہ فرماتے ہیں کہ اگر ایک آدمی کے نکاح میں چار عورتیں ہوں اور وہ ایک کو طلاق دے دے تو طلاق یافتہ کی عدت پوری ہونے تک پانچویں سے نکاح کرنا مکروہ ہے۔

17008

(۱۷۰۰۹) حَدَّثَنَا عَائِذُ بْنُ حَبِیبٍ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنْ عَلِیٍّ قَالَ : لاَ یَتَزَوَّجُ خَامِسَۃً حَتَّی تَنْقَضِیَ عِدَّۃُ الَّتِی طَلَّقَ۔
(١٧٠٠٩) حضرت علی (رض) فرماتے ہیں کہ اگر ایک آدمی کے نکاح میں چار عورتیں ہوں اور وہ ایک کو طلاق دے دے تو طلاق یافتہ کی عدت پوری ہونے تک پانچویں سے نکاح کرنا مکروہ ہے۔

17009

(۱۷۰۱۰) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنِ ابْنِ أَبِی نَجِیحٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ قَالَ : لاَ یَتَزَوَّجُ حَتَّی تَنْقَضِیَ عِدَّۃُ الَّتِی طَلَّقَ ، قَالَ عَطَائٌ : إذَا لَمْ یَکُنْ بَیْنَہُمَا مِیرَاثٌ وَلَمْ یَکُنْ عَلَیْہَا رَجْعَۃٌ فَلاَ بَأْسَ أَنْ یَتَزَوَّجَ۔
(١٧٠١٠) حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ اگر ایک آدمی کے نکاح میں چار عورتیں ہوں اور وہ ایک کو طلاق دے دے تو طلاق یافتہ کی عدت پوری ہونے تک پانچویں سے نکاح کرنا مکروہ ہے۔ حضرت عطاء فرماتے ہیں کہ اگر دونوں کے درمیان کوئی میراث یارجوع نہ ہو تو شادی کرنے میں کوئی حرج نہیں۔

17010

(۱۷۰۱۱) حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ عَوَّامٍ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ ، عَنْ عَطَائٍ أَنَّہُ سُئِلَ عَنْ رَجُلٍ کَانَ لَہُ أَرْبَعُ نِسْوَۃٍ فَطَلَّقَ إحْدَاہُنَّ ثَلاَثًا ، أَیَتَزَوَّجُ خَامِسَۃً ؟ قَالَ : لاَ حَتَّی تَنْقَضِیَ عِدَّۃُ الَّتِی طَلَّقَ۔
(١٧٠١١) حضرت عطاء سے سوال کیا گیا کہ اگر ایک آدمی کے نکاح میں چار عورتیں ہوں اور وہ ایک کو طلاق دے دے تو طلاق یافتہ کی عدت پوری ہونے تک پانچویں سے نکاح کرنا کیسا ہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ طلاق یافتہ کی عدت پوری ہونے تک نکاح نہیں کرسکتا۔

17011

(۱۷۰۱۲) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنِ ابْنِ أَبِی نَجِیحٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ قَالَ : لاَ یَتَزَوَّجُ حَتَّی تَنْقَضِیَ عِدَّۃُ الَّتِی طَلَّقَ ، وَقَالَ عَطَائٌ : إذَا لَمْ یَکُنْ بَیْنَہُمَا مِیرَاثٌ وَلَمْ یَکُنْ لَہُ عَلَیْہَا رَجْعَۃٌ فَلاَ بَأْسَ أَنْ یَتَزَوَّجَ۔
(١٧٠١٢) حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ اگر ایک آدمی کے نکاح میں چار عورتیں ہوں اور وہ ایک کو طلاق دے دے تو طلاق یافتہ کی عدت پوری ہونے تک پانچویں سے نکاح کرنا مکروہ ہے۔ حضرت عطاء فرماتے ہیں کہ اگر دونوں کے درمیان کوئی میراث یارجوع نہ ہو تو شادی کرنے میں کوئی حرج نہیں۔

17012

(۱۷۰۱۳) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ أَنَّہُ کَانَ یَکْرَہُ أَنْ یَتَزَوَّجَ حَتَّی تَنْقَضِیَ عِدَّۃُ الَّتِی طَلَّقَ۔
(١٧٠١٣) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ اگر ایک آدمی کے نکاح میں چار عورتیں ہوں اور وہ ایک کو طلاق دے دے تو طلاق یافتہ کی عدت پوری ہونے تک پانچویں سے نکاح کرنا مکروہ ہے۔

17013

(۱۷۰۱۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ مُبَارَکٍ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ أَبِی کَثِیرٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إبْرَاہِیمَ التَّیْمِیِّ أَنَّ عُتْبَۃَ بْنَ أَبِی سُفْیَانَ کَانَتْ عِنْدَہُ أَرْبَعُ نِسْوَۃٍ فَطَلَّقَ إحْدَاہُنَّ ثُمَّ تَزَوَّجَ خَامِسَۃً قَبل أَن تَنْقَضِیَ عِدَّۃُ الَّتِی طَلَّقَ فَسَأَلَ مَرْوَانُ ابْنَ عَبَّاسٍ ، فَقَالَ : لاَ حَتَّی تَنْقَضِیَ عِدَّۃُ الَّتِی طَلَّقَ۔
(١٧٠١٤) حضرت محمد بن ابراہیم تیمی کہتے ہیں کہ عتبہ بن ابی سفیان کے نکاح میں چار بیویاں تھیں۔ انھوں نے ایک کو طلاق دے کر اس کی عدت پوری ہونے سے پہلے پانچویں سے شادی کرلی۔ مروان نے اس بارے میں حضرت ابن عباس سے سوال کیا تو انھوں نے فرمایا کہ چوتھی کی عدت پوری ہونے سے پہلے پانچویں سے نکاح نہیں سکتا۔

17014

(۱۷۰۱۵) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، عَنْ أَبِی صَادِقٍ قَالَ : لاَ یَتَزَوَّجُ خَامِسَۃً حَتَّی تَنْقَضِیَ عِدَّۃُ الَّتِی طَلَّقَ۔
(١٧٠١٥) حضرت ابو صادق فرماتے ہیں کہ اگر ایک آدمی کے نکاح میں چار عورتیں ہوں اور وہ ایک کو طلاق دے دے تو طلاق یافتہ کی عدت پوری ہونے تک پانچویں سے نکاح کرنا مکروہ ہے۔

17015

(۱۷۰۱۶) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالَ : إذَا کَانَتْ تَحْتَ الرَّجُلِ أَرْبَعُ نِسْوَۃٍ فَطَلَّقَ إحْدَاہُنَّ فَلاَ یَتَزَوَّجُ خَامِسَۃً حَتَّی تَنْقَضِیَ عِدَّۃُ الَّتِی طَلَّقَ فَإِنْ مَاتَتْ فَإِنْ شَائَ فَلْیَتَزَوَّجْ مِنْ یَوْمِہِ ذَلِکَ۔
(١٧٠١٦) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ اگر ایک آدمی کے نکاح میں چار عورتیں ہوں اور وہ ایک کو طلاق دے دے تو طلاق یافتہ کی عدت پوری ہونے تک پانچویں سے نکاح کرنا مکروہ ہے۔ اگر وہ مرجائے تو اس کا شوہر چاہے تو اسی دن بھی شادی کرسکتا ہے۔

17016

(۱۷۰۱۷) حَدَّثَنَا حَمَّاد بن خالد ، عَنْ مَالِکِ بن أَنس ، عَنْ رَبِیعَۃَ ، عَنِ الْقَاسِمِ وَعُرْوَۃَ بْنِ الزُّبَیْرِ أَنَّہُمَا قَالاَ : فِی الَّذِی عِنْدَہُ أَرْبَعُ نِسْوَۃٍ فَطَلَّقَ إحْدَاہُنَّ : یَتَزَوَّجُ مَتَی ما شَائَ۔
(١٧٠١٧) حضرت قاسم اور حضرت عروہ بن زبیر فرماتے ہیں کہ اگر ایک آدمی کے نکاح میں چار عورتیں ہوں اور وہ ایک کو طلاق دے دے تو وہ جب چاہے شادی کرسکتا ہے۔

17017

(۱۷۰۱۸) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الْحَکَمِ ، عَنْ عَلِیٍّ أَنَّہُ سُئِلَ عَنْ رَجُلٍ طَلَّقَ امْرَأَتَہُ فَلَمْ تَنْقَضِ عِدَّتُہَا حَتَّی تَزَوَّجَ أُخْتَہَا ، فَفَرَّقَ عَلِیٌّ بَیْنَہُمَا وَجَعَلَ لَہَا الصَّدَاقَ بِمَا اسْتَحَلَّ مِنْ فَرْجِہَا وَقَالَ : تُکْمِلُ الأُخْرَی عِدَّتَہَا وَہُوَ خَاطِبٌ فإنْ کَانَ دَخَلَ بِہَا فَلَہَا الصَّدَاقُ کَامِلاً وَعَلَیْہَا الْعِدَّۃُ کَامِلَۃً وَتَعْتَدَّانِ مِنْہُ جَمِیعًا ، کُلُّ وَاحِدَۃٍ ثَلاَث قُرُوئٍ ، فَإِنْ کَانَتَا لاَ تَحِیضَانِ فَثَلاَثَۃَ أَشْہُرٍ۔
(١٧٠١٨) حضرت حکم فرماتے ہیں کہ حضرت علی (رض) سے سوال کیا گیا کہ ایک آدمی نے کسی عورت کو طلاق دی اور اس کی عدت میں اس کی بہن سے شادی کرلی، اس کا کیا حکم ہے ؟ حضرت علی (رض) نے دونوں کے درمیان جدائی کرادی اور مہر مرد کے ذمہ لازم رکھا۔ اور فرمایا کہ جب پہلی بیوی عدت پوری کرلے تو یہ نکاح کا پیغام بھیجے اگر اس نے دخول کیا ہے تو پورا مہر واجب ہوگا اور عورت پر پوری عدت ہوگی اور وہ دونوں عدت گزاریں گی اور ہر ایک کی عدت تین حیض ہوگی اگر انھیں حیض نہ آتا ہو تو تین مہینے تک عدت گزاریں گی۔

17018

(۱۷۰۱۹) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ قَالَ طَلَّقَ رَجُلٌ امْرَأَۃً ثُمَّ تَزَوَّجَ أُخْتَہَا قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ لِمَرْوَانَ فَرِّقْ بَیْنَہُ وَبَیْنَہَا حَتَّی تَنْقَضِیَ عِدَّۃُ الَّتِی طَلَّقَ۔
(١٧٠١٩) حضرت عمرو بن شعیب فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے اپنی بیوی کو طلاق دی پھر اس کی بہن سے شادی کی۔ حضرت ابن عباس (رض) نے مروان سے فرمایا کہ ان دونوں کے درمیان جدائی کرادو یہاں تک کہ طلاق یافتہ عورت کی عدت گزر جائے۔

17019

(۱۷۰۲۰) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ حَمَّادٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالَ : إذَا نَکَحَ الرَّجُلُ الْمَرْأَۃَ ثُمَّ طَلَّقَہَا ثُمَّ تَزَوَّجَ أُخْتَہَا فِی عِدَّتِہَا ، قَالَ : نِکَاحُہُما حَرَامٌ وَیُفَرَّقُ بَیْنَہُمَا وَلاَ صَدَاقَ لَہَا وَلاَ عِدَّۃَ عَلَیْہَا۔
(١٧٠٢٠) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ جب کوئی آدمی کسی عورت سے شادی کرے پھر اسے طلاق دے دے۔ پھر اس کی عدت میں اس کی بہن سے شادی کرلے تو اس کا نکاح حرام ہے۔ ان دونوں کے درمیان جدائی کرائی جائے گی۔ عورت کے لیے نہ مہر واجب ہوگا اور نہ ہی عدت واجب ہوگی۔

17020

(۱۷۰۲۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ زَکَرِیَّا قَالَ : سُئِلَ عَامِرٌ ، عَنْ رَجُلٍ نَکَحَ امْرَأَۃً ثُمَّ طَلَّقَہَا ثُمَّ تَزَوَّجَ أُخْتَہَا فِی عِدَّتِہَا ، قَالَ : یُفَرَّقُ بَیْنَہُمَا۔
(١٧٠٢١) حضرت زکریا فرماتے ہیں کہ حضرت عامر سے سوال کیا گیا کہ اگر کوئی شخص کسی عورت سے نکاح کرے پھر اس کو طلاق دے دے پھر اس عورت کی عدت میں اس کی بہن سے شادی کرلے تو کیا حکم ہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ دونوں کے درمیان جدائی کرائی جائے گی۔

17021

(۱۷۰۲۲) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ قَالَ : کَانَ یَکْرَہُ إذَا کَانَت لَہُ امْرَأَۃٌ فَطَلَّقَہَا ثَلاَثًا کَرِہَ أَنْ یَتَزَوَّجَ أُخْتَہَا حَتَّی تَنْقَضِیَ عِدَّۃُ الَّتِی طَلَّقَ۔
(١٧٠٢٢) حضرت حسن اس بات کو مکروہ خیال فرماتے تھے کہ ایک آدمی کسی عورت کو تین طلاق دے دے اور اس کی عدت میں اسی کی بہن سے شادی کرلے۔

17022

(۱۷۰۲۳) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالَ : لاَ یَتَزَوَّجُ الْمَرْأَۃَ فِی عِدَّۃِ أُخْتِہَا مِنْہُ۔
(١٧٠٢٣) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ کسی عورت کو طلاق دے کر اس کی عدت میں اس کی بہن سے شادی نہیں کی کرسکتی۔

17023

(۱۷۰۲۴) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ أَنَّہُ کَانَ لاَ یَرَی بَأْسًا إذَا طَلَّقَ الرَّجُلُ امْرَأَتَہُ ثَلاَثًا أَنْ یَتَزَوَّجَ أُخْتَہَا فِی عِدَّتِہَا۔
(١٧٠٢٤) حضرت زہری فرماتے ہیں کہ اس بات میں کوئی حرج نہیں کہ آدمی کسی عورت کو تین طلاقیں دے کر اس کی عدت میں اس کی بہن سے شادی کرلے۔

17024

(۱۷۰۲۵) حَدَّثَنَا ابْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَۃَ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، وَسَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ وَخِلاَسٍ فِی رَجُلٍ طَلَّقَ امْرَأَتَہُ ثَلاَثًا وَہِیَ حَامِلٌ ، قَالُوا : لاَ بَأْسَ أَنْ یَتَزَوَّجَ أُخْتَہَا فِی عِدَّتِہَا ، قَالَ : وَکَانَ عُبَیْدُ بْنُ نُضَیلَۃَ یَکْرَہُہُ حَتَّی ذُکِرَ ذلک لِلْحَسَنِ فَکَأَنَّہُ نَزَعَ عَنْہُ۔
(١٧٠٢٥) حضرت حسن، حضرت سعید بن مسیب اور حضرت خلاس فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص کسی عورت کو تین طلاقیں دے اور وہ عورت حاملہ ہو تو اس کی عدت میں اس کی بہن سے شادی کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ عبید بن نضیلہ اس بات کو مکروہ سمجھتے تھے۔ جب اس بات کا تذکرہ حضرت حسن سے کیا گیا تو گویا انھوں نے اسے ناپسند کیا۔

17025

(۱۷۰۲۶) حَدَّثَنَا ابْنُ مُبَارَکٍ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لاَ تُنْکَحُ الْمَرْأَۃُ عَلَی عَمَّتِہَا وَلاَ خَالَتِہَا۔ (بخاری ۵۱۰۸۔ احمد ۳/۳۳۸)
(١٧٠٢٦) حضرت جابر بن عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ کسی عورت کی زوجیت کی صورت میں اس کی پھوپھی اور خالہ سے نکاح نہیں کیا جاسکتا۔

17026

(۱۷۰۲۷) حَدَّثَنَا عبد اللہ بْنُ نُمَیْرٍ ، عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ ، عَنْ یَعْقُوبَ بْنِ عُتْبَۃَ ، عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ یَسَارٍ ، عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : لاَ تُنْکَحُ الْمَرْأَۃُ عَلَی خَالَتِہَا وَلاَ عَلَی عَمَّتِہَا۔
(١٧٠٢٧) حضرت ابو سعید خدری (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ کسی عورت کی زوجیت کی صورت میں اس کی خالہ اور پھوپھی سے نکاح نہیں کیا جاسکتا۔

17027

(۱۷۰۲۸) حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ عَیَّاشٍ ، عَنْ أَبِی حَصِینٍ ، عَنْ یَحْیَی ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ قَالَ : لاَ تُنْکَحُ الْمَرْأَۃُ عَلَی عَمَّتِہَا وَلاَ عَلَی خَالَتِہَا۔
(١٧٠٢٨) حضرت عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ کسی عورت کی زوجیت کی صورت میں اس کی پھوپھی اور اس کی خالہ سے نکاح نہیں کیا جاسکتا۔

17028

(۱۷۰۲۹) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ أَنَّہُ قَالَ : لاَ تُنْکَحُ الْمَرْأَۃُ عَلَی عَمَّتِہَا وَلاَ عَلَی خَالَتِہَا۔
(١٧٠٢٩) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ کسی عورت کی زوجیت کی صورت میں اس کی پھوپھی اور اس کی خالہ سے نکاح نہیں کیا جاسکتا۔

17029

(۱۷۰۳۰) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ دَاوُدَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لاَ تُنْکَحُ الْمَرْأَۃُ عَلَی عَمَّتِہَا وَلاَ عَلَی خَالَتِہَا وَلاَ تُنْکَحُ الْعَمَّۃُ عَلَی بِنْتِ أخیہا وَلاَ الْخَالَۃُ عَلَی بِنْتِ أُخْتِہَا وَلاَ تُزَوَّجُ الصُّغْرَی عَلَی الْکُبْرَی وَلاَ الْکُبْرَی عَلَی الصُّغْرَی۔ (ترمذ ی۱۱۲۶۔ ابوداؤد ۲۰۵۸)
(١٧٠٣٠) حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ کسی عورت کی زوجیت کی صورت میں اس کی پھوپھی اور اس کی خالہ سے نکاح نہیں کیا جاسکتا۔ بھتیجی کے منکوحہ ہونے کی صورت میں اس کی پھوپھی سے نکاح نہیں کیا جاسکتا، بھانجی کے منکوحہ ہونے کی صورت میں اس کی خالہ سے نکاح نہیں کیا جاسکتا، چھوٹی بہن کے منکوحہ ہونے کی صورت میں بڑی بہن سے اور بڑی بہن کے منکوحہ ہونے کی صورت میں چھوٹی بہن سے نکاح نہیں کیا جاسکتا۔

17030

(۱۷۰۳۱) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنِ الأَعْمَشِِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لاَ تُنْکَحُ الْمَرْأَۃُ عَلَی عَمَّتِہَا وَلاَ عَلَی خَالَتِہَا۔
(١٧٠٣١) حضرت ابراہیم سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ کسی عورت کے منکوحہ ہونے کی صورت میں اس کی پھوپھی اور اس کی خالہ سے نکاح نہیں کیا جاسکتا۔

17031

(۱۷۰۳۲) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ سَعِیدَ بْنَ الْمُسَیَّبِ یَقُولُ نُہی أَنْ تُنْکَحَ الْمَرْأَۃُ عَلَی عَمَّتِہَا أو عَلَی خَالَتِہَا أو یَطَأُ الرجل امْرَأَۃً فِی بَطْنِہَا جَنِینٌ لِغَیْرِہِ۔ (مالک ۲۱)
(١٧٠٣٢) حضرت سعید بن مسیب فرماتے ہیں کہ کسی عورت کے منکوحہ ہونے کی صورت میں اس کی پھوپھی اور اس کی خالہ سے نکاح کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ اس طرح آدمی کے لیے اس عورت سے وطی کرنا ناجائز ہے جس کے بطن میں کسی دوسرے کا جنین ہو۔

17032

(۱۷۰۳۳) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِِ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ : لاَ یَتَزَوَّجُ الرَّجُلُ عَمَّۃَ امْرَأَتِہِ وَلاَ خَالَتَہَا فَإِنْ طَلَّقَہَا فَلاَ یَتَزَوَّجُ وَاحِدَۃً مِنْہُنَّ حَتَّی تَنْقَضِیَ عِدَّتُہَا۔
(١٧٠٣٣) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ کسی عورت کے منکوحہ ہونے کی صورت میں اس عورت کی پھوپھی اور خالہ سے نکاح نہیں کیا جاسکتا۔ اگر اسے طلاق دے تو اس کی عدت پوری ہونے سے پہلے ان میں سے کسی سے نکاح نہیں کرسکتا۔

17033

(۱۷۰۳۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ زَکَرِیَّا ، عَنِ الشَّعْبِیِّ قَالَ : سَأَلْتُہُ ، عَنِ امْرَأَۃٍ نُکِحَتْ عَلَی خَالَتِہَا مِنَ الرَّضَاعَۃِ قَالَ: یُفَرَّقُ بَیْنَہُمَا۔
(١٧٠٣٤) حضرت زکریا فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت شعبی سے سوال کیا کہ ایک عورت کے منکوحہ ہونے کی صورت میں اس کی رضاعی خالہ سے نکاح کیا گیا تو کیا حکم ہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ دونوں کے درمیان جدائی کرائی جائے گی۔

17034

(۱۷۰۳۵) حَدَّثَنَا مَعْنُ بْنُ عِیسَی ، عَنِ ابْنِ أَبِی ذِئْبٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ قَالَ : لاَ یَنْبَغِی لِلرَّجُلِ أَنْ یَجْمَعَ بَیْنَ امْرَأَۃٍ وَعَمَّتِہَا مِنَ الرَّضَاعَۃِ مِمَّا مَلَکَتِ الْیَمِینُ۔
(١٧٠٣٥) حضرت زہری فرماتے ہیں کہ کسی آدمی کے لیے درست نہیں کہ وہ کسی عورت کو اور اس کی رضاعی پھوپھی کو غلامی میں جمع کرے۔

17035

(۱۷۰۳۶) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ حُسَیْنٍ الْمُعَلِّمِ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ جَدِّہِ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ یَوْمَ فَتَحَ مَکَّۃَ : لاَ تُنْکَحُ الْمَرْأَۃُ عَلَی عَمَّتِہَا وَلاَ عَلَی خَالَتِہَا۔ (احمد ۲/۲۰۷۔ عبدالرزاق ۱۰۷۵۱)
(١٧٠٣٦) حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص (رض) سے روایت ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فتح مکہ کے موقع پر فرمایا کہ کسی عورت کے منکوحہ ہونے کی صورت میں اس کی پھوپھی یاخالہ سے نکاح نہیں کیا جاسکتا۔

17036

(۱۷۰۳۷) حَدَّثَنَا کَثِیرُ بْنُ ہِشَامٍ حَدَّثَنَا جَعْفَرِ بْنِ بُرْقَانَ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنْ أَبِیہِ قَالَ : نَہَی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ تُزَوَّجَ الْمَرْأَۃُ عَلَی عَمَّتِہَا وَلاَ عَلَی خَالَتِہَا۔
(١٧٠٣٧) حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس بات سے منع فرمایا کہ کسی عورت کے منکوحہ ہونے کی صورت میں اس کی پھوپھی یا خالہ سے نکاح کیا جائے۔

17037

(۱۷۰۳۸) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ حُسَیْنٍ الْمُعَلِّمِ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ جَدِّہِ أَنَّ رَجُلاً تَزَوَّجَ امْرَأَۃً عَلَی خَالَتِہَا فَضَرَبَہُ عُمَرُ وَفَرَّقَ بَیْنَہُمَا۔
(١٧٠٣٨) حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے کسی عورت کے منکوحہ ہونے کی صورت میں اس کی خالہ سے نکاح کیا تو حضرت عمر (رض) نے اسے مارا اور دونوں کے درمیان جدائی کرادی۔

17038

(۱۷۰۳۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ مَعقِلٍ ، عَنْ عَطَائٍ وَیَزِیدُ بْنُ إِبراہِیم ، عَنِ الْحَسَنِ قَالَ : نَہَی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ تُنْکَحَ الْمَرْأَۃُ عَلَی عَمَّتِہَا ، أَوْ عَلَی خَالَتِہَا۔
(١٧٠٣٩) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس بات سے منع فرمایا کہ کسی عورت کے منکوحہ ہونے کی صورت میں اس کی پھوپھی یا خالہ سے نکاح کیا جائے۔

17039

(۱۷۰۴۰) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنِ ابْنِ أَبِی نَجِیحٍ ، عَنْ عَطَائٍ قَالَ : یُکْرَہُ الْجَمْعُ بَیْنَ ابْنَتَیِ الْعَمِّ لِفَسَادٍ بَیْنَہُمَا۔
(١٧٠٤٠) حضرت عطاء اس بات کو مکروہ خیال فرماتے تھے کہ دو چچا زاد بہنوں کو نکاح میں جمع کیا جائے کیونکہ اس سے دونوں کے درمیان فسا دہوگا۔

17040

(۱۷۰۴۱) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ عَمْرٍو أَنَّ الْحَسَنَ بْنَ مُحَمَّدٍ أَخْبَرَہُ أَنَّ ابْنًا لِعَلِیٍّ جَمَعَ بَیْنَ ابْنَتَی عَمٍّ لَہُ قَالَ : فَأُدْخِلَتَا عَلَیْہِ فِی لَیْلَۃٍ۔
(١٧٠٤١) حضرت حسن بن محمد فرماتے ہیں کہ حضرت علی (رض) کے ایک صاحبزادہ نے دو چچا زاد بہنوں کو نکاح میں جمع کیا اور ایک ہی رات میں وہ دونوں انھیں پیش کی گئیں۔

17041

(۱۷۰۴۲) حَدَّثَنَا سَہْلُ بْنُ یُوسُفَ، عَنْ عَمْرٍو، عَنِ الْحَسَنِ أَنَّہُ کَانَ یَکْرَہُ أَنْ یُجْمَعَ بَیْنَ الْقَرَابَۃِ مِنْ أَجْلِ الْقَطِیعَۃِ۔
(١٧٠٤٢) حضرت حسن قطعی رحمی کے اندیشے سے اس بات کو مکروہ خیال فرماتے تھے کہ دو چچا زاد بہنوں کو نکاح میں جمع کیا جائے۔

17042

(۱۷۰۴۳) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ حَبِیبٍ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنْ جَابِرِ بْنِ زَیْدٍ قَالَ : سُئِلَ : ہَلْ یَصْلُحُ لِلْمَرْأَۃِ أَنْ تُزَوَّجَ عَلَی ابْنَۃِ عَمِّہَا ؟ قَالَ : تِلْکَ الْقَطِیعَۃُ وَلاَ تَصْلُحُ الْقَطِیعَۃُ۔
(١٧٠٤٣) حضرت عمرو فرماتے ہیں کہ حضرت جابر بن زید سے سوال کیا گیا کہ ایک عورت کے لیے اس کی چچا زاد بہن کے منکوحہ ہونے کی صورت میں اس شخص سے نکاح کرنا کیسا ہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ یہ قطع رحمی ہے جو کہ درست نہیں۔

17043

(۱۷۰۴۴) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ سُفْیَانَ حَدَّثَنِی خَالِدٌ الْفَأْفَاء ، عَنْ عِیسَی بْنِ طَلْحَۃَ قَالَ : نَہَی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ تُنْکَحَ الْمَرْأَۃُ عَلَی قَرَابَتِہَا مَخَافَۃَ الْقَطِیعَۃِ۔ (ابوداؤد ۲۰۸۔ عبدالرزاق ۱۰۷۶۷)
(١٧٠٤٤) حضرت عیسیٰ بن طلحہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قطع رحمی کے اندیشے سے کسی عورت کے منکوحہ ہونے کی صورت میں اس کی قریبی رشتہ دار خاتون سے نکاح کرنے سے منع فرمایا ہے۔

17044

(۱۷۰۴۵) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ بْنِ أَبِی یَزِیدَ ، عَنْ أَبِیہِ أَنَّ سِبَاعَ بْنَ ثَابِتٍ تَزَوَّجَ ابْنَۃَ رَبَاحِ بْنِ وَہْبٍ وَلَہُ ابْنٌ مِنْ غَیْرِہَا وَلَہَا ابْنَۃٌ مِنْ غَیْرِہِ فَفَجَرَ الْغُلاَمُ بِالْجَارِیَۃِ فَظَہَرَ بِالْجَارِیَۃِ حَمْلٌ فَرُفِعَا إلَی عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فَاعْتَرَفَا فَجَلَدَہُمَا وَحَرَص أَنْ یُجْمَعَ بَیْنَہُمَا فَأَبَی الْغُلاَمُ۔
(١٧٠٤٥) حضرت ابو یزید کہتے ہیں کہ سباع بن ثابت نے رباح بن وہب کی بیٹی سے شادی کی۔ سباع کا کسی اور عورت سے ایک بیٹا تھا اور بنت رباح کی کسی اور خاوند سے ایک بیٹی تھی۔ اس لڑکے نے لڑکی سے زنا کیا اور لڑکی کو حمل ٹھہر گیا۔ یہ معاملہ حضرت عمر بن خطاب (رض) کے پاس لایا گیا تو ان دونوں نے گناہ کا اعتراف کیا۔ حضرت عمر (رض) نے انھیں کوڑے لگوائے اور اس خواہش کا اظہار کیا کہ ان دونوں کا نکاح کردیا جائے لیکن اس لڑکے نے انکار کردیا۔

17045

(۱۷۰۴۶) حَدَّثَنَا خَلَفُ بْنُ خَلِیفَۃَ ، عَنْ أَبِی ہَاشِمٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ فِی رَجُلٍ وَامْرَأَۃٍ أَصَابَ کُلُّ وَاحِدٍ مِنْہُمَا مِنَ الآخَرِ حَدًّا ثُمَّ أَرَادَ أَنْ یَتَزَوَّجَہَا ، قَالَ : لاَ بَأْسَ ، أَوَّلُہُ سِفَاحٌ وَآخِرُہُ نِکَاحٌ۔
(١٧٠٤٦) حضرت ابن عباس (رض) سے سوال کیا گیا کہ اگر کوئی مرد وعورت باہم مبتلائے برائی ہوں اور ان پر حد بھی جاری ہو اور وہ شخص اس عورت سے نکاح کرنا چاہے تو کیسا ہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ اس میں کوئی حرج نہیں ، اس معاملے کی ابتداء برائی سے ہوئی اور انتہاء نکاح پر ہوگی۔

17046

(۱۷۰۴۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ قَالَ : أَوَّلُہُ سِفَاحٌ وَآخِرُہُ نِکَاحٌ۔
(١٧٠٤٧) حضرت شعبی فرماتے ہیں کہ اس معاملے کی ابتداء برائی سے ہوئی اور انتہاء نکاح پر ہوگی۔

17047

(۱۷۰۴۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ أَبِی جُنَابٍ ، عَنْ بُکَیْرِ بْنِ الأَخْنَسِ ، عَنْ أَبِیہِ قَالَ : قرَأْت مِنَ اللَّیْلِ (حم عسق) فَمَرَرْت بِہَذِہِ الآیَۃِ : {وَہُوَ الَّذِی یَقْبَلُ التَّوْبَۃَ ، عَنْ عِبَادِہِ وَیَعْفُو ، عَنِ السَّیِّئَاتِ وَیَعْلَمُ مَا تَفْعَلُونَ} فَغَدَوْت إلَی عَبْدِ اللہِ أَسْأَلُہُ عَنْہَا فَأَتَاہُ رَجُلٌ فَسَأَلَہُ ، عَنِ الرَّجُلِ یَفْجُرُ بِالْمَرْأَۃِ ثُمَّ یَتَزَوَّجُہَا فَقَرَأَ عَبْدُ اللہِ : {وَہُوَ الَّذِی یَقْبَلُ التَّوْبَۃَ ، عَنْ عِبَادِہِ وَیَعْفُو ، عَنِ السَّیِّئَاتِ}۔
(١٧٠٤٨) حضرت اخنس فرماتے ہیں کہ ایک رات میں { حم عسق } سورت پڑھ رہا تھا، جب میں اس آیت پر پہنچا (ترجمہ) وہ اللہ اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے اور ان کی لغزشات کو معاف کرتا ہے اور جو کچھ تم کرتے ہو وہ جانتا ہے۔ اس آیت نے میرے دل پر بہت اثر کیا، میں صبح اس بارے میں سوال کرنے کے لیے حضرت عبداللہ (رض) کے پاس حاضر ہوا۔ اتنے میں ان کے پاس ایک آدمی آیا اور اس نے کہا کہ اگر کوئی شخص کسی عورت سے زنا کرے پھر اس سے شادی کرلے تو یہ کیسا ہے ؟ اس پر حضرت عبداللہ (رض) نے یہ آیت پڑھی : (ترجمہ)” وہ اللہ اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے اور ان کی لغزشات کو معاف کرتا ہے “

17048

(۱۷۰۴۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ شَرِیکٍ عن عُرْوَۃَ بن عَبْدِ اللہِ بْنِ قُشَیرٍ ، عَنْ أَبِی الأَشْعَثِ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ : أَوَّلُہُ سِفَاحٌ وَآخِرُہُ نِکَاحٌ أوَ أَوَّلُہُ حَرَامٌ وَآخِرُہُ حَلاَلٌ۔
(١٧٠٤٩) حضرت ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ اس معاملے کی ابتداء برائی اور انتہاء نکاح ہے یا یہ فرمایا کہ اس کی ابتداء حرام اور انتہاء حلال ہے۔

17049

(۱۷۰۵۰) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ؛ أَنَّ رَجُلاً فَجَرَ بِامْرَأَۃٍ وَہُمَا بِکْرَانِ فَجَلَدَہُمَا أَبُو بَکْرٍ وَنَفَاہُمَا ثُمَّ زَوَّجَہَا إیَّاہُ بَعْدَ الْحَوْلِ۔
(١٧٠٥٠) حضرت زہری فرماتے ہیں کہ دو غیر شادی شدہ مرد وعورت نے زنا کیا تو حضرت ابوبکر (رض) نے انھیں کوڑے لگوائے اور ایک سال کے لیے جلا وطن کردیا پھر ایک سال بعد ان دونوں کا نکاح کرادیا۔

17050

(۱۷۰۵۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ ہِشَام ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ قَالَ : لاَ بَأْسَ أَنْ یَتَزَوَّجَہَا۔
(١٧٠٥١) حضرت سعید بن مسیب اس نکاح میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے۔

17051

(۱۷۰۵۲) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، عَنْ عَلْقَمَۃَ قَالَ : سَأَلَہُ رَجُلٌ ، عَنْ رَجُلٍ فَجَرَ بِامْرَأَۃٍ ، أَیَتَزَوَّجُہَا ؟ قَالَ : نَعَمْ ، وَتَلاَ ہَذِہِ الآیَۃَ : {وَہُوَ الَّذِی یَقْبَلُ التَّوْبَۃَ ، عَنْ عِبَادِہِ وَیَعْفُو ، عَنِ السَّیِّئَاتِ}۔
(١٧٠٥٢) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے حضرت علقمہ سے سوال کیا کہ اگر کوئی شخص کسی عورت سے زنا کرے اور پھر اس سے شادی کرلے تو ایسا کرنا جائز ہے ؟ انھوں نے فرمایا ہاں، پھر قرآن مجید کی یہ آیت پڑھی : (ترجمہ)” وہ اللہ اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے اور ان کی لغزشات کو معاف کرتا ہے “

17052

(۱۷۰۵۳) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ شَیْبَۃَ أَبِی نَعَامَۃَ قَالَ : سُئِلَ سَعِیدُ بْنُ جُبَیْرٍ وَأَنَا أَسْمَعُ ، عَنْ رَجُلٍ فَجَرَ بِامْرَأَۃٍ ، أَیَتَزَوَّجُہَا ؟ قَالَ : أَوَّلُہُ سِفَاحٌ وَآخِرُہُ نِکَاحٌ أَحَلَّہَا لَہُ مَالُہُ۔
(١٧٠٥٣) حضرت شیبہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے حضرت سعید بن جبیر سے سوال کیا کہ اگر کوئی شخص کسی عورت سے زنا کرے اور پھر اس سے شادی کرلے تو ایسا کرنا جائز ہے ؟ انھوں نے فرمایا اس معاملے کی ابتداء برائی اور انتہاء نکاح ہے اور مال نے اس عورت کو مرد کے لیے حلال کردیا۔

17053

(۱۷۰۵۴) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنْ جَابِرِ بْنِ زَیْدٍ قَالَ : سُئِلَ عَنِ الرَّجُلِ یَفْجُرُ بِالْمَرْأَۃِ ثُمَّ یَتَزَوَّجُہَا ، قَالَ : ہُوَ أَحَقُّ بِہَا ، ہُوَ أَفْسَدَہَا۔
(١٧٠٥٤) حضرت عمرو فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے حضرت جابر بن زید سے سوال کیا کہ اگر کوئی شخص کسی عورت سے زنا کرے اور پھر اس سے شادی کرلے تو ایسا کرنا جائز ہے ؟ انھوں نے فرمایا وہ اس عورت کا زیادہ حق دار ہے کیونکہ اسی نے اسے خراب کیا ہے۔

17054

(۱۷۰۵۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْوَلِیدِ، عَنْ عِکْرِمَۃَ قَالَ: لاَ بَأْسَ ، ہُوَ بِمَنْزِلَۃِ رَجُلٍ سَرَقَ نَخْلَۃً ثُمَّ اشْتَرَاہَا۔
(١٧٠٥٥) حضرت عکرمہ اس نکاح کے بارے میں فرماتے ہیں کہ اس میں کوئی حرج نہیں۔ اس شخص کی مثال ایسے ہے جیسے کوئی شخص کھجور چوری کرے پھر اسے خرید لے۔

17055

(۱۷۰۵۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ حَسَّانَ ، قَالَ : سَمِعْتُ حَنْظَلَۃَ قَالَ : سَأَلْتُ سَالِمًا عَنْہُ ، فَقَالَ : لاَ بَأْسَ بِہِ۔
(١٧٠٥٦) حضرت سالم فرماتے ہیں کہ اس میں کوئی حرج نہیں۔

17056

(۱۷۰۵۷) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ قَالَ : إذَا تَابَا وَأَصْلَحَا فَلاَ بَأْسَ بہ۔
(١٧٠٥٧) حضرت جابر بن عبداللہ فرماتے ہیں کہ جب دونوں توبہ کرلیں اور اپنی اصلاح کرلیں تو اس میں کوئی حرج نہیں۔

17057

(۱۷۰۵۸) حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ عَوَّامٍ ، عَنْ دَاوُدَ ، عَنْ یَزِیدَ بْنِ أَبِی مَنْصُورٍ ، أَوِ ابْنِ مَنْصُورٍ ، عَنْ صِلَۃَ بْنِ أَشْیَمَ قَالَ : لاَ بَأْسَ إِنْ کَانَا تَائِبَیْنِ فَاللَّہُ أَوْلَی بِتَوْبَتِہِمَا ، وَإِنْ کَانَا زَانِیَیْنِ فَالْخَبِیثُ عَلَی الْخَبِیثِ۔
(١٧٠٥٨) حضرت صلہ بن اشیم فرماتے ہیں کہ ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں ، اگر وہ دونوں توبہ کرلیں تو اللہ ان کی توبہ کو قبول کرنے والا ہے، اگر وہ بدکار ہیں تو بدکار ہی بدکار کے لائق ہے۔

17058

(۱۷۰۵۹) حَدَّثَنَا الثَّقَفِیُّ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ قَالَ : بَلَغَنِی أَنَّ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِیزِ سُئِلَ عَنِ امْرَأَۃٍ أَصَابَتْ خَطِیئَۃً ثُمَّ رُئِیَ مِنْہَا خَیْرًا ، أَیَنْکِحُہَا الرَّجُلُ ؟ فَقَالَ لَہُ عمر کَمَا بَلَغَنِی : أتظن أنی أنہاک ؟۔
(١٧٠٥٩) حضرت یحییٰ بن سعید فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت عمر بن عبد العزیز سے سوال کیا گیا کہ اگر ایک عورت کسی مرد سے مبتلاء گناہ ہو، پھر بعد میں اس عورت کے اعمال و افعال سے خیرکا صدور ہونے لگے تو کیا وہ اس مرد سے شادی کرسکتی ہے ؟ حضرت عمر بن عبد العزیز نے فرمایا کہ کیا تم یہ گمان کرتے ہو کہ میں اس سے منع کروں گا ؟ !

17059

(۱۷۰۶۰) حَدَّثَنَا سفیان بْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ بْنِ أَبِی یَزِیدَ قَالَ : سُئِلَ ابْنُ عَبَّاسٍ ، عَنْ رَجُلٍ زَنَی بِامْرَأَۃٍ فَأَرَادَ أَنْ یَتَزَوَّجَہَا ، قَالَ : الآنَ أَصَابَ الْحَلاَلَ۔
(١٧٠٦٠) حضرت عبید اللہ بن ابی یزید فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے حضرت ابن عباس (رض) سے سوال کیا کہ اگر کوئی شخص کسی عورت سے زنا کرے اور پھر اس سے شادی کرلے تو ایسا کرنا جائز ہے ؟ انھوں نے فرمایا اب تو اسے حلال کا راستہ ملا ہے۔

17060

(۱۷۰۶۱) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ الأَسْوَدِ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، وَعَطَائٍ قَالاَ : إذَا فَجَرَ الرَّجُلُ بِالْمَرْأَۃِ فَإِنَّہَا تَحِلُّ لَہُ۔
(١٧٠٦١) حضرت مجاہد اور حضرت عطاء فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص کسی عورت سے زنا کرے تو اس عورت سے نکاح کرنا حلال ہے۔

17061

(۱۷۰۶۲) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بشر ، عَنْ سَعِیدٍ حَدَّثَنَا قَتَادَۃُ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ وَجَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ وسعید بْنِ جُبَیْرٍ فِی الرَّجُلِ یَفْجُرُ بِالْمَرْأَۃِ ثُمَّ یَتَزَوَّجُہَا قَالُوا : لاَ بَأْسَ بِذَلِکَ إذَا تَابَا وَأَصْلَحَا۔
(١٧٠٦٢) حضرت سعید بن مسیب ، حضرت جابر بن عبداللہ اور حضرت سعید بن جبیر فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص کسی عورت سے زناکرے اور پھر اس سے شادی کرلے تو اس اگر وہ دونوں توبہ کرکے زندگی بدل لیں تو اس میں کوئی حرج نہیں۔

17062

(۱۷۰۶۳) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بشر قَالَ حَدَّثَنَا : سَعِیدٌ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ فِی الرَّجُلِ یَفْجُرُ بِالْمَرْأَۃِ ثُمَّ یَتَزَوَّجُہَا ، قَالَ : کَانَ أَوَّلَہُ سِفَاحٌ وَآخِرَہُ نِکَاحٌ ، أَوَّلُہُ حَرَامٌ وَآخِرُہُ حَلاَلٌ۔
(١٧٠٦٣) حضرت عکرمہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے حضرت عبداللہ بن عباس (رض) سے سوال کیا کہ اگر کوئی شخص کسی عورت سے زنا کرے اور پھر اس سے شادی کرلے تو ایسا کرنا جائز ہے ؟ انھوں نے فرمایا اس کی ابتدا برائی اور انجام نکاح سے ہوا، اس کا اول حرام اور انتہا حلال ہے۔

17063

(۱۷۰۶۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَرْوَانَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الصُّدَائِیِّ ، عَنْ علِیٍّ قَالَ : جَائَ إلَیْہِ رَجُلٌ ، فَقَالَ : إنَّ لِی ابْنَۃَ عَمٍّ أَہْوَاہَا وَقَدْ کُنْت نِلْت مِنْہَا ، فَقَالَ : إِنْ کَانَ شَیْئًا بَاطِنًا یَعْنِی الْجِمَاعَ فَلاَ ، وَإِنْ کَانَ شَیْئًا ظَاہِرًا یَعْنِی الْقُبْلَۃَ فَلاَ بَأْسَ۔
(١٧٠٦٤) حضرت عبدالرحمن صدائی کہتے ہیں کہ ایک آدمی حضرت علی (رض) کے پاس آیا اور اس نے عرض کیا کہ میری ایک چچا زاد بہن ہے، میں اس سے محبت کرتا ہوں اور شادی کرنا چاہتا ہوں۔ البتہ میں نے اس سے تلذذ بھی حاصل کیا ہے۔ حضرت علی (رض) نے فرمایا کہ اگر شیء باطن یعنی دخول کیا ہے تو شادی نہیں کرسکتے اور اگر شیء ظاہر یعنی بوسہ وغیرہ لیا ہے تو کوئی حرج نہیں۔

17064

(۱۷۰۶۵) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ عن الحکم ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِی الْجَعْدِ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ قَالَ : لاَ یَزَالاَنِ زَانِیَیْنِ۔
(١٧٠٦٥) حضرت عبداللہ (اس شخص کے بارے میں جو کسی عورت سے زنا کرنے کے بعد شادی کرنا چاہے) فرماتے ہیں کہ وہ دونوں پھر بھی زانی ہی رہیں گے۔

17065

(۱۷۰۶۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : قالَتْ عَائِشَۃُ : لاَ یَزَالاَنِ زَانِیَیْنِ مَا اصْطَحَبَا۔
(١٧٠٦٦) حضرت عائشہ (رض) (اس شخص کے بارے میں جو کسی عورت سے زنا کرنے کے بعد شادی کرنا چاہے) فرماتی ہیں کہ وہ ساتھ رہ کر بھی زانی ہی رہیں گے۔

17066

(۱۷۰۶۷) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ زَیْدٍ أَنَّہُ قَالَ : ہُمَا زَانِیَانِ ، لِیَجْعَلَ بَیْنَہُ وَبَیْنَہَا الْبَحْرُ۔
(١٧٠٦٧) حضرت جابر بن زید (اس شخص کے بارے میں جو کسی عورت سے زنا کرنے کے بعد شادی کرنا چاہے) فرماتے ہیں کہ وہ دونوں زانی ہیں ان کے درمیان تو سمندر ہونا چاہیے۔

17067

(۱۷۰۶۸) حَدَّثَنَا أَسْبَاطٌ ، عَنْ مُطَرِّفٍ ، عَنْ أَبِی الْجَہْمِ ، عَنِ الْبَرَائِ فِی الرَّجُلِ یَفْجُرُ بِالْمَرْأَۃِ ثُمَّ یَتَزَوَّجُہَا ، قَالَ : لاَ یَزَالاَنِ زَانِیَیْنِ أَبَدًا۔
(١٧٠٦٨) حضرت براء بن عازب (رض) اس شخص کے بارے میں جو کسی عورت سے زنا کرنے کے بعد شادی کرنا چاہے فرماتے ہیں کہ وہ ہمیشہ زانی ہی رہیں گے۔

17068

(۱۷۰۶۹) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ عِیسَی بن حِطَّان ، عَنْ مُسْلِمِ بْنِ سَلاَّمٍ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ طَلْقٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : إنَّ اللَّہَ لاَ یَسْتَحْیِی مِنَ الْحَقِّ ، لاَ تَأْتُوا النِّسَائَ فِی أَعْجَازِہِنَّ ، أَوْ قَالَ : فِی أَدْبَارِہِنَّ۔ (ترمذی ۱۱۶۶۔ دارمی ۱۱۴۱)
(١٧٠٦٩) حضرت علی بن طلق (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ حق سے نہیں شرماتا، پس تم عورتوں کی سرین میں جماع نہ کرو۔ (یعنی لواطت نہ کرو۔ )

17069

(۱۷۰۷۰) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنِ الضَّحَّاکِ بْنِ عُثْمَانَ ، عَنْ مَخْرَمَۃَ بْنِ سُلَیْمَانَ ، عَنْ کُرَیْبٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لاَ یَنْظُرُ اللَّہُ إلَی رَجُلٍ أَتَی رَجُلاً ، أَوِ امْرَأَۃً فِی دُبُرِہَا۔ (ترمذی ۱۱۶۵۔ ابن حبان ۴۴۱۸)
(١٧٠٧٠) حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اس شخص کو محبت کی نظر سے نہیں دیکھیں گے جس نے کسی مرد یا کسی عورت کے ساتھ لواطت کی۔

17070

(۱۷۰۷۱) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ عَطَائٍ قَالَ : نَہَی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ تُؤْتَی النِّسَائُ فِی أَعْجَازِہِنَّ وَقَالَ : إنَّ اللَّہَ لاَ یَسْتَحْیِی مِنَ الْحَقِّ۔
(١٧٠٧١) حضرت عطاء فرماتے ہیں کہ حضور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس بات سے منع فرمایا کہ عورتوں سے لواطت کی جائے اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ حق کہنے سے نہیں شرماتا۔

17071

(۱۷۰۷۲) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ أَبِی أَیُّوبَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرو قَالَ : ہِیَ اللُّوطِیَّۃُ الصُّغْرَی۔ (نسائی ۸۹۹۷)
(١٧٠٧٢) حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) فرماتے ہیں کہ یہ ” چھوٹی لوطیت “ ہے۔

17072

(۱۷۰۷۳) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ عُقْبَۃَ بْنِ وَسَّاجٍ ، قَالَ : قَالَ أَبُو الدَّرْدَائِ : وَہَلْ یَفْعَلُ ذَلِکَ إلاَّ کَافِرٌ۔
(١٧٠٧٣) حضرت ابو الددرائ (رض) فرماتے ہیں کہ یہ کام (یعنی لواطت) تو صرف کافر ہی کرسکتا ہے۔

17073

(۱۷۰۷۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، عَنْ ہَمَّامِ، عَنْ قَتَادَۃَ، عَنْ عُقْبَۃَ بن وساج، عَنْ أَبِی الدَّرْدَائِ قَالَ: وَہَلْ یَفْعَلُ ذَلِکَ إلاَّ کَافِرٌ۔
(١٧٠٧٤) حضرت ابو الددرائ (رض) فرماتے ہیں کہ یہ کام (یعنی لواطت) تو صرف کافر ہی کرسکتا ہے۔

17074

(۱۷۰۷۵) حَدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ بْنُ إِبْرَاہِیمَ ، عَن أَبِی عَبْدِ اللہِ الشَّقَرِیِّ ، عَنْ أَبِی الْقَعْقَاعِ ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ قَالَ : مَحَاشُّ النِّسَائِ عَلَیْکُمْ حَرَامٌ۔
(١٧٠٧٥) حضرت ابن مسعود (رض) فرماتے ہیں کہ عورتیں کی سرینیں تم پر حرام ہیں۔

17075

(۱۷۰۷۶) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ : مَنْ أَتَاہُ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَائِ فَقَدْ کَفَرَ۔
(١٧٠٧٦) حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ جس شخص نے مردوں یا عورتوں سے لواطت کی اس نے کفر کیا۔

17076

(۱۷۰۷۷) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَۃَ ، عَنْ حَکِیمٍ الأَثْرَمِ ، عَنْ أَبِی تَمِیمَۃَ الْہُجَیْمِیِّ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ : مَنْ أَتَی حَائِضًا ، أَوِ امْرَأَۃً فِی دُبُرِہَا فَقَدْ کَفَرَ بِمَا أُنْزِلَ عَلَی مُحَمَّدٍ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ۔ (ابوداؤد ۳۸۹۹۔ دارمی ۱۱۳۶)
(١٧٠٧٧) حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ جس شخص نے کسی حائضہ سے جماع کیا یا کسی عورت سے لواطت کی تو اس نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل ہونی والی شریعت کا انکار کیا۔

17077

(۱۷۰۷۸) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنِ الْوَلِیدِ بْنِ کَثِیرٍ قَالَ : حدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ بْنُ عَبْدِ اللہِ بْنِ الْحُصَیْنِ الْخَطْمِیِّ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ قَیْسٍ الْخَطْمِیِّ ، عَنْ ہَرَمِی بْنِ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : سَمِعْتُ خُزَیْمَۃَ بْنَ ثَابِتٍ یَقُولُ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : إنَّ اللَّہَ لاَ یَسْتَحْیِی مِنَ الْحَقِّ ، لاَ تَأْتُوا النِّسَائَ فِی أعجازہن۔ (طبرانی ۳۷۴۰۔ بیہقی ۱۹۶)
(١٧٠٧٨) حضرت خزیمہ بن ثابت (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ حق کہنے سے نہیں شرماتا، تم عورتوں سے لواطت نہ کرو۔

17078

(۱۷۰۷۹) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ إِسْحَاقَ ، عَنْ وُہَیب ، عَنْ سُہَیْلِ بْنِ أَبِی صَالِحٍ ، عَنِ الْحَارِثِ بْنِ مُخَلَّدٍ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لاَ یَنْظُرُ اللَّہُ إلَی رَجُلٍ جَامَعَ امْرَأَۃً فِی دُبُرِہَا۔ (ابوداؤد ۲۱۵۵۔ ابن ماجہ ۱۹۲۳)
(١٧٠٧٩) حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اس شخص کو رحمت کی نظر سے نہیں دیکھیں گے جس نے عورت کی دبر میں دخول کیا۔

17079

(۱۷۰۸۰) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ قَالَ : حَدَّثَنَا الصَّلْتُ بْنِ بَہْرَامَ ، قَالَ : حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنِ مَسْعُودٍ ، عَنْ أَبِی الْمُعْتَمِرِ ، أَوْ أَبِی الْجُوَیْرِیَۃِ قَالَ : نَادَی عَلِیٌّ عَلَی الْمِنْبَرِ ، فَقَالَ : سَلُونِی سَلُونِی ، فَقَالَ رَجُلٌ : أَتُؤْتَی النِّسَائُ فِی أَدْبَارِہِنَّ ؟ فَقَالَ : سَفَلْتَ سَفَّلَ اللَّہُ بِکَ ، أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّہَ تَعَالَی یَقُولُ : {أَتَأْتُونَ الْفَاحِشَۃَ} الآیَۃَ۔
(١٧٠٨٠) حضرت ابو معتمر یا ابو جویریہ فرماتے ہیں کہ حضرت علی (رض) نے منبر پر اعلان کیا کہ مجھ سے سوال کرو، مجھ سے سوال کرو۔ ایک آدمی نے کہا کہ کیا عورتوں کی دبر میں دخول کیا جاسکتا ہے۔ انھوں نے فرمایا کہ اللہ تجھے گھٹیا کرے تو نے گھٹیا سوال کیا۔ پھر فرمایا کہ کیا تم نے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان نہیں پڑھا (ترجمہ) کیا تم بےحیائی کا کام کرتے ہو۔ (الآیۃ)

17080

(۱۷۰۸۱) حدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، عَنِ الأَسْوَدِ ، عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ : کَانَتْ إحْدَانَا إذَا کَانَتْ حَائِضًا أَمَرَہَا النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ تَتَّزِرَ بِإِزَارٍ ثُمَّ یُبَاشِرُہَا۔ (بخاری ۳۰۰۔ مسلم ۲۴۲)
(١٧٠٨١) حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ جب ہم میں سے کوئی حالت حیض میں ہوتی تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسے ازار پہننے کا حکم دیتے اور پھر ازار کے اوپر سے تعلق فرماتے۔

17081

(۱۷۰۸۲) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَنِ الشَّیْبَانِیِّ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الأَسْوَدِ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ : کَانَتْ إحْدَانَا إذَا کَانَتْ حَائِضًا أَمَرَہَا النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ تَأْتَزِرَ فِی فور حَیْضَتِہَا ثُمَّ یُبَاشِرُہَا ، وَأَیُّکُمْ یَمْلِکُ إرْبَہُ کَمَا کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَمْلِکُ إرْبَہُ۔ (بخاری ۳۰۲۔ مسلم ۲)
(١٧٠٨٢) حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ جب ہم میں سے کوئی حالت حیض میں ہوتی تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسے حیض کے بہاؤ کے دوران ازار پہننے کا حکم دیتے اور پھر ازار کے اوپر سے تعلق فرماتے۔ اور تم میں کون اس حد تک اپنی شہوت پر قابو پاسکتا ہے جتنا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنے نفس پر قابو تھا۔

17082

(۱۷۰۸۳) حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ عَوَّامٍ ، وَعَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَنِ الشَّیْبَانِیِّ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ شَدَّادٍ قَالَ : أَخْبَرَتْنِی مَیْمُونَۃُ زَوْجُ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، عَنِ النَّبِیِّ بِنَحْوٍ مِنْہُ۔ (بخاری ۳۰۳۔ احمد ۶/۳۳۶)
(١٧٠٨٣) ام المومنین حضرت میمونہ (رض) سے بھی یونہی منقول ہے۔

17083

(۱۷۰۸۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ الأَوْزَاعِیِّ ، عَنْ عَبْدَۃَ أَنَّ أُمَّ سَلَمَۃَ قَالَتْ : نُفِسْتُ وَأَنَا مَعَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ تَعْنِی حِضْتُ فِی فِرَاشِی فَذَہَبْتُ لأَتَأَخَّرَ ، فَقَالَ : مَکَانَکِ إِنَّما کَانَ یَکْفِیکِ أَنْ تَجْعَلِی عَلَیْکِ ثَوْبًا۔ (طبرانی ۱۱۶۰۲)
(١٧٠٨٤) حضرت ام سلمہ (رض) فرماتی ہیں کہ میں بستر پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ تھی کہ میں حائضہ ہوگئی، میں پیچھے ہٹنے لگی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ تم اپنی جگہ پر رہو۔ تمہارے لیے اتنا کافی ہے کہ تم اپنے اوپر کپڑا ڈال لو۔

17084

(۱۷۰۸۵) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ، عَنْ خَالِدٍ، عَنْ عِکْرِمَۃَ، عَنْ أُمِّ سَلَمَۃَ فِی مُضَاجَعَۃِ الْحَائِضِ: إذَا کَانَ عَلَی فَرْجِہَا خِرْقَۃٌ۔
(١٧٠٨٥) حضرت ام سلمہ (رض) فرماتی ہیں کہ اگر حائضہ کی شرمگاہ پر کپڑا ہو تو اس کے ساتھ لیٹنے میں کوئی حرج نہیں۔

17085

(۱۷۰۸۶) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ بُرْدٍ ، عَنْ مَکْحُولٍ ، عَنْ عَلِیٍّ قَالَ : مَا فَوْقَ الإِزَارِ۔
(١٧٠٨٦) حضرت علی (رض) فرماتے ہیں کہ حیض کی حالت میں ازار سے اوپر کا حصہ تعلق کے لیے کافی ہے۔

17086

(۱۷۰۸۷) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ یَزِیدَ بْنِ أَبِی زِیَادٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : مَا فَوْقَ الإِزَارِ۔
(١٧٠٨٧) حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ حیض کی حالت میں ازار سے اوپر کا حصہ تعلق کے لیے کافی ہے۔

17087

(۱۷۰۸۸) حَدَّثَنَا جریر، عَنْ یَزِید، قَالَ: سَمِعْتُ سَعِیدَ بْنَ جُبَیْرٍ یَقُولُ: لَکَ مَا فَوْقَ الإِزَارِ وَلاَ تَطَّلِعْ عَلَی مَا تَحْتَہُ۔
(١٧٠٨٨) حضرت سعید بن جبیر فرماتے ہیں کہ حیض کی حالت میں ازار سے اوپر کا حصہ تعلق کے لیے کافی ہے۔ اس سے نیچے کی طرف مت جھانکو۔

17088

(۱۷۰۸۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ الأَوْزَاعِیِّ ، عَنْ مَیْمُونِ بْنِ مِہْرَانَ ، عَنْ عَائِشَۃَ أَنَّہَا سُئِلَتْ : مَا لِلرَّجُلِ مِنِ امْرَأَتِہِ وَہِیَ حَائِضٌ ؟ قَالَتْ : مَا فَوْقَ الإِزَارِ۔
(١٧٠٨٩) حضرت میمون بن مہران کہتے ہیں کہ حضرت عائشہ (رض) سے سوال کیا گیا کہ حیض کی حالت میں آدمی بیوی سے کیا فائدہ اٹھا سکتا ہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ ازار سے اوپر کا حصہ اس کے لیے ہے۔

17089

(۱۷۰۹۰) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنِ الشَّیْبَانِیِّ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ قَالَ : إذَا ألقت عَلَی فَرْجِہَا خِرْقَۃً فَیُبَاشِرُہَا۔
(١٧٠٩٠) حضرت شعبی فرماتے ہیں کہ جب عورت حیض کی حالت میں شرم گاہ پر کپڑا ڈال لے تو تم اس سے تعلق کرسکتے ہو۔

17090

(۱۷۰۹۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ ، عَنِ الشَّیْبَانِیِّ قَالَ : إذَا کَفَّتِ الْحَائِضَۃُ عَنْہَا الأَذَی فَاصْنَعْ بِہَا مَا شِئْتَ۔
(١٧٠٩١) حضرت شعبی فرماتے ہیں کہ حائضہ خود سے گندگی کو دور کرلے تو تم جو چاہو کرسکتے ہو۔

17091

(۱۷۰۹۲) حَدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ عَامِرٍ قَالَ : یَأْتِیہَا مَا أخطأ الدَّمُ۔
(١٧٠٩٢) حضرت عامر (رض) فرماتے ہیں کہ حائضہ کا خون آدمی کونہ لگے تو وہ اس سے تعلق کرسکتا ہے۔

17092

(۱۷۰۹۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ مِسْعَرِ بْنِ حَبِیبٍ الْجَرْمِیِّ قَالَ : سَأَلْتُ أَبَا قِلاَبَۃَ : مَا لِلرَّجُلِ مِنِ امْرَأَتِہِ وَہِیَ حَائِضٌ؟ قَالَ : یَذْکُرُونَ مَا فَوْقَ الإِزَارِ۔
(١٧٠٩٣) حضرت حبیب جرمی کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابو قلابہ سے سوال کیا کہ آدمی حیض کی حالت میں عورت سے کیا تلذذ کرسکتا ہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ علماء فرماتے ہیں کہ ازار سے اوپر کا حصہ استعمال کرسکتا ہے۔

17093

(۱۷۰۹۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ الصَّلْتِ بْنِ بَہْرَامَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالَ : لَکَ مَا فَوْقَ الإِزَارِ۔
(١٧٠٩٤) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ جب عورت حیض کی حالت میں ہو تو تم اس کے ازار کے اوپر کا حصہ استعمال کرسکتے ہو۔

17094

(۱۷۰۹۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ أَبِی مَکِینٍ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ قَالَ : مَا فَوْقَ الإِزَارِ۔
(١٧٠٩٥) حضرت عکرمہ فرماتے ہیں کہ جب عورت حیض کی حالت میں ہو تو تم اس کے ازار کے اوپر کا حصہ استعمال کرسکتے ہو۔

17095

(۱۷۰۹۶) حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إسْمَاعِیلَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ حَرْمَلَۃَ أَنَّہُ سَمِعَ رَجُلاً یَسْأَلُ سَعِیدَ بْنَ الْمُسَیَّبِ ، فَقَالَ : أُبَاشِرُ امْرَأَتِی وَہِیَ حَائِضٌ ؟ قَالَ : اجْعَلْ بَیْنَکَ وَبَیْنَ ذَلِکَ مِنْہَا ثَوْبًا ثُمَّ بَاشِرْہَا۔
(١٧٠٩٦) حضرت عبد الرحمن بن حرملہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے حضرت سعید بن مسیب سے سوال کیا کہ جب میری بیوی حالت حیض میں ہو تو کیا میں اس سے مباشرت کرسکتا ہوں ؟ انھوں نے فرمایا کہ اپنے اور اس کے درمیان ایک کپڑا ڈال کر اس سے مباشرت کرسکتے ہو۔

17096

(۱۷۰۹۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ غَیْلاَنَ ، عَنِ الْحَکَمِ قَالَ : لاَ بَأْسَ أَنْ یَضَعَہُ عَلَی الْفَرْجِ وَلاَ یدْخِلْہُ۔
(١٧٠٩٧) حضرت حکم فرماتے ہیں کہ آلہ تناسل کو شرم گاہ پر رکھے اور دخول نہ کرے تو جائز ہے۔

17097

(۱۷۰۹۸) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، عَنْ أَبِی ہِلاَلٍ ، عَنْ شَیْبَۃَ بْنِ ہِشَامٍ الرَّاسِبِیِّ قَالَ : سَأَلْتُ سَالِمًا ، عَنِ الرَّجُلِ یُضَاجِعُ امْرَأَتَہُ وَہِیَ حَائِضٌ ، فَقَالَ : أَمَّا نَحْنُ آلَ عُمَرَ فَنَعْزِلُہُنَّ۔
(١٧٠٩٨) حضرت شیبہ بن ہشام راسبی فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت سالم سے اس آدمی کے بارے میں سوال کیا جو حالت حیض میں اپنی بیوی کے ساتھ لیٹے۔ انھوں نے فرمایا کہ ہم آل عمر (رض) تو اس حال میں ان سے الگ رہتے ہیں۔

17098

(۱۷۰۹۹) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ الْحَسَنِ قَالَ : مَا فَوْقَ الإِزَارِ۔
(١٧٠٩٩) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ جب عورت حیض کی حالت میں ہو تو تم اس کے ازار کے اوپر کا حصہ استعمال کرسکتے ہو۔

17099

(۱۷۱۰۰) حَدَّثَنَا أَسْبَاطٌ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ ، عَنْ عَبِیْدَۃَ ، فِی الْحَائِضِ : لَکَ مَا فَوْقَ الإِزَارِ۔
(١٧١٠٠) حضرت عبیدہ فرماتے ہیں کہ جب عورت حیض کی حالت میں ہو تو تم اس کے ازار کے اوپر کا حصہ استعمال کرسکتے ہو۔

17100

(۱۷۱۰۱) حَدَّثَنَا شَبَابَۃُ ، عَنْ لَیْثِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنِ ابْنِ شِہَابٍ ، عَنْ حَبِیبٍ مَوْلَی عُرْوَۃَ ، عَنْ نَدْبَۃَ مَوْلاَۃِ مَیْمُونَۃَ ، عَنْ مَیْمُونَۃَ زَوْجِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یُبَاشِرُ الْمَرْأَۃَ مِنْ نِسَائِہِ وَہِیَ حَائِضٌ إذَا کَانَ عَلَیْہَا إزَارٌ یَبْلُغُ أَنْصَافَ الْفَخِذَیْنِ ، أَوِ الرُّکْبَتَیْنِ مُحْتَجِرَۃً بِہِ۔ (ابوداؤد ۲۷۱۔ احمد ۶/۳۳۶)
(١٧١٠١) ام المومنین حضرت میمونہ (رض) فرماتی ہیں کہ حضور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حالت حیض میں اپنی ازواج سے تعلق فرماتے تھے جس کی صورت یہ ہوتی تھی کہ زوجہ پر آدھی رانوں یا گھٹنوں تک ازار ہوتا۔

17101

(۱۷۱۰۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ الرَّبِیعِ ، عَنِ الْحَسَنِ قَالَ : لاَ بَأْسَ أنْ یَلعَب عَلَی بَطْنِہَا وَبَیْنَ فَخِذَیْہَا۔
(١٧١٠٢) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ حالت حیض میں عورت کے پیٹ یارانوں کے درمیان دل لگی کرنے میں کوئی حرج نہیں۔

17102

(۱۷۱۰۳) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِِ ، عَنْ طَارِقٍ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ عَمْرٍو الْبَجَلِیِّ قَالَ : خَرَجَ نَاسٌ مِنْ أَہْلِ الْعِرَاقِ فَلَمَّا قَدِمُوا عَلَی عُمَرَ قَالَ لَہُمْ : مِمَّنْ أَنْتُمْ ؟ قَالُوا : مِنْ أَہْلِ الْعِرَاقِ ، قَالَ : فَبِإِذْنٍ جِئْتُمْ ؟ قَالُوا ، نَعَمْ ، فَسَأَلُوہ عَمَّا یَحِلُّ لِلرَّجُلِ مِنِ امْرَأَتِہِ وَہِیَ حَائِضٌ ، فَقَالَ : سَأَلْتُمُونِی ، عَنْ خِصَالٍ مَا سَأَلَنِی عنہن أَحَدٌ بَعْدَ أَنْ سَأَلْتُ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : أَمَّا مَا لِلرَّجُلِ مِنِ امْرَأَتِہِ وَہِیَ حَائِضٌ فَلَہُ مَا فَوْقَ الإِزَارِ۔
(١٧١٠٣) حضرت عاصم بن عمرو بجلی فرماتے ہیں کہ کچھ اہل عراق حضرت عمر (رض) سے ملاقات کے لیے حاضر ہوئے۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا تم کون ہو ؟ انھوں نے عرض کیا کہ ہم عراقی ہیں۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا کہ کیا تم اجازت سے آئے ہو ؟ انھوں نے فرمایا جی ہاں۔ پھر ان لوگوں نے سوال کیا کہ حیض کی حالت میں عورت سے کچھ کیا جاسکتا ہے ؟ حضرت عمر (رض) نے فرمایا کہ تم نے مجھ سے وہ سوال کیا ہے جو مجھ سے اس وقت کے بعد سے کسی نے نہیں کیا جب سے میں نے یہ بات حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے معلوم کی ہے۔ پھر حضرت عمر نے فرمایا کہ حیض کی حالت میں آدمی عورت کے ازار کے اوپر سے فائدہ حاصل کرسکتا ہے۔

17103

(۱۷۱۰۴) حَدَّثَنَا جَرِیرُ بْنُ عَبْدِ الْحَمِیدِ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : یَقُولُ : إنِّی فِیک لرَاغِبٌ وَإِنِّی أُرِیدُ امْرَأَۃً أَمْرُہَا کَذَا وَکَذَا وَیُعَرِّضُ لَہَا بِالْقَوْلِ۔
(١٧١٠٤) حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ نکاح کا پیغام دینے کے لیے آدمی عورت کو کہہ سکتا ہے کہ میں تجھ میں رغبت رکھتا ہوں اور میں ایک ایسی عورت چاہتا ہوں جس میں ایسی ایسی خوبیاں ہوں، وہ قول کے ذریعے اس سے اظہار کرسکتا ہے۔

17104

(۱۷۱۰۵) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ فِی قَوْلِہِ : {وَلاَ جُنَاحَ عَلَیْکُمْ فِیمَا عَرَّضْتُمْ بِہِ مِنْ خِطْبَۃِ النِّسَائِ} قَالَ یَقُولُ : إنَّک جَمِیلَۃٌ وَإِنَّک لَنَافِقَۃٌ إنَّک إلَی خَیْرٍ ، وَیُکْرَہُ أَنْ یَقُولَ : لاَ تَفُوتِینِی بِنَفْسِکِ وَإِنِّی عَلَیْکِ لَحَرِیصٌ۔
(١٧١٠٥) حضرت مجاہد قرآن مجید کی آیت { وَلاَ جُنَاحَ عَلَیْکُمْ فِیمَا عَرَّضْتُمْ بِہِ مِنْ خِطْبَۃِ النِّسَائِ } (ترجمہ)” اور تم پر کوئی حرج نہیں کہ تم عورتوں کو نکاح کا پیغام دو “ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ وہ کہ سکتا ہے کہ تو خوبصورت ہے، تو خرچ کرنے والی ہے، تو خیر کے راستے پر ہے۔ اور یہ کہنا مکروہ ہے کہ مجھے اپنے سے محروم نہ کرنا میں تیرے بغیر نہیں رہ سکتا ہے۔

17105

(۱۷۱۰۶) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ حَمَّادٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، أَنَّہُ کَانَ لاَ یَرَی بَأْسًا بِذَلِکَ کُلِّہِ۔
(١٧١٠٦) حضرت ابراہیم پیام نکاح کے لیے کسی بھی قسم کے الفاظ کے استعمال کو مکروہ نہیں سمجھتے تھے۔

17106

(۱۷۱۰۷) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنِ الْحَسَنِ قَالَ : کَانَ یُکْرَہُ أَنْ یَقُولَ : إذَا انْقَضَتْ عِدَّتُہَا تَزَوَّجْتُکِ وَیَقُولُ مَا شَائَ۔
(١٧١٠٧) حضرت حسن اس بات کو مکروہ سمجھتے تھے کہ عورت کی عدت گزرنے کے بعد آدمی کہے کہ میں نے تجھ سے شادی کی۔ اس کے علاوہ جو مرضی کہے۔

17107

(۱۷۱۰۸) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ الْحَسَنِ قَالَ : یَقُولُ : إنِّی بِکِ لَمُعْجَبٌ وَإِنِّی فِیک لَرَاغِبٌ فَلاَ تَفُوتِینَا بِنَفْسِک۔
(١٧١٠٨) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ وہ کہہ سکتا ہے کہ مجھے تو پسند ہے، مجھے تجھ میں رغبت ہے اور مجھے خود سے محروم نہ کر۔

17108

(۱۷۱۰۹) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ قَالَ : یَقُولُ : إنَّک لَجَمِیلَۃٌ وَإِنَّک لَنَافِقَۃٌ وَإِنَّک لإِلَی خَیْرٍ۔
(١٧١٠٩) حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ وہ کہ سکتا ہے کہ تو خوبصورت ہے، تو خرچ کرنے والی ہے، تو خیر کے راستے پر ہے۔

17109

(۱۷۱۱۰) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ ، عَنْ أَبِیہِ فِی الْمَرْأَۃِ یُتَوَفَّی عَنْہَا زَوْجُہَا فَیُرِیدُ الرَّجُلُ خِطْبَتَہَا وَکَلاَمَہَا قَالَ : یَقُولُ : إنِّی بِکِ لَمُعْجَبٌ وَإِنِّی فِیکِ لَرَاغِبٌ وَإِنِّی عَلَیْکِ لَحَرِیصٌ وَأَشْبَاہَ ذَلِکَ۔
(١٧١١٠) حضرت قاسم فرماتے ہیں کہ اگر ایک عورت کے خاوند کا انتقال ہوجائے اور کوئی آدمی اسے نکاح کا پیام بھیجنا چاہے تو یہ کہہ سکتا ہے کہ مجھے تو پسند ہے، مجھے تجھ میں رغبت ہے، میں تجھے چاہتا ہوں۔ اور ان جیسے اور الفاظ بھی کہہ سکتا ہے۔

17110

(۱۷۱۱۱) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ ، عَنْ عَبِیْدَۃَ فِی قَوْلِہِ : {وَلاَ جُنَاحَ عَلَیْکُمْ فِیمَا عَرَّضْتُمْ بِہِ مِنْ خِطْبَۃِ النِّسَائِ} قَالَ : یَذْکُرُہَا إلَی وَلِیِّہَا وَلاَ یُشْعِرنَہَا۔
(١٧١١١) حضرت عبیدہ قرآن مجید کی آیت { وَلاَ جُنَاحَ عَلَیْکُمْ فِیمَا عَرَّضْتُمْ بِہِ مِنْ خِطْبَۃِ النِّسَائِ }(ترجمہ)” اور تم پر کوئی حرج نہیں کہ تم عورتوں کو نکاح کا پیغام دو “ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ عورت کے ولی سے اس کا تذکرہ کرے گا عورت سے بات نہیں کرے گا۔

17111

(۱۷۱۱۲) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو ، عَنْ أَبِی سَلَمَۃَ ، أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ لِفَاطِمَۃَ بِنْتِ قَیْسٍ : انْتَقِلِی إلَی أُمِّ شَرِیکٍ وَلاَ تَفُوتِینَا بِنَفْسِکِ۔ (مسلم ۳۹۔ ابوداؤد ۲۲۸۱)
(١٧١١٢) حضرت ابو سلمہ فرماتے ہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فاطمہ بنت قیس (رض) سے فرمایا تھا کہ آپ ام شریک کے یہاں منتقل ہوجائیں اور ہمیں اپنی ذات سے محروم نہ رکھیں۔

17112

(۱۷۱۱۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ سَلَمَۃَ ، عَنْ مُسْلِمٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ {إلاَّ أَنْ تَقُولُوا قَوْلاً مَعْرُوفًا} قَالَ : یقول : إنِّی فِیک لَرَاغِبٌ وَإِنِّی لأَرْجُو أَنْ یَجْمَعَ اللَّہُ بَیْنَکِ وَبَیْنِی۔
(١٧١١٣) حضرت سعید بن جبیر قرآن مجید کی آیت {إلاَّ أَنْ تَقُولُوا قَوْلاً مَعْرُوفًا } کے بارے میں فرماتے ہیں کہ وہ یہ کہے کہ مجھے تجھ میں رغبت ہے اور میں امید کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ تجھے اور مجھے جمع فرمادیں گے۔

17113

(۱۷۱۱۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إسْرَائِیلَ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ عَامِرٍ قَالَ : یَقُولُ : إنَّک لَجَمِیلَۃٌ وَإِنَّک لَنَافِقَۃٌ ، وَإِنْ قَضَی اللَّہُ أَمْرًا کَانَ۔
(١٧١١٤) حضرت عامر فرماتے ہیں کہ وہ یہ کہہ سکتا ہے کہ آپ خوبصورت ہیں، آپ خرچ کرنے والی ہیں۔ اگر اللہ کا فیصلہ ہوا تو بندھن ہوجائے گا۔

17114

(۱۷۱۱۵) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ حَمَّادٍ عن إبراہیم قَالَ : لاَ بَأْسَ بالہدیۃ فِی تَعْرِیضِ النِّکَاحِ۔
(١٧١١٥) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ پیام نکاح بھیجتے ہوئے کوئی ہدیہ دینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

17115

(۱۷۱۱۶) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بشر ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو ، عَنْ أَبِی سَلَمَۃَ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ لَفَاطِمَۃَ : لاَ تَفُوتِینَا بِنَفْسِکِ۔
(١٧١١٦) حضرت ابو سلمہ فرماتے ہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فاطمہ بنت قیس (رض) سے فرمایا تھا کہ ہمیں اپنی ذات سے محروم نہ رکھنا۔

17116

(۱۷۱۱۷) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِِ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ {وَلاَ جُنَاحَ عَلَیْکُمْ فِیمَا عَرَّضْتُمْ بِہِ مِنْ خِطْبَۃِ النِّسَائِ} قَالَ : یَعْرِضُ الرَّجُلُ فَیَقُولُ : إنِّی أُرِیدُ أَنْ أَتَزَوَّجَ ، وَلاَ یَنْصِبْ فِی الْخِطْبَۃِ۔
(١٧١١٧) حضرت ابن عباس (رض) قرآن مجید کی آیت { وَلاَ جُنَاحَ عَلَیْکُمْ فِیمَا عَرَّضْتُمْ بِہِ مِنْ خِطْبَۃِ النِّسَائِ } (ترجمہ)” اور تم پر کوئی حرج نہیں کہ تم عورتوں کو نکاح کا پیغام دو “ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ آدمی نکاح کا پیغام دیتے ہوئے یوں کہے گا کہ میں شادی کرنا چاہتا ہوں اور پیام نکاح میں اسی عورت کو مقرر نہیں کرے گا۔

17117

(۱۷۱۱۸) حَدَّثَنَا مُعَاوِیَۃُ بْنُ ہِشَامٍ ، عَنْ عَمَّارِ بْنِ رُزَیْقٍ ، عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ فِی قَوْلِہِ : {وَلاَ جُنَاحَ عَلَیْکُمْ فِیمَا عَرَّضْتُمْ بِہِ مِنْ خِطْبَۃِ النِّسَائِ} قَالَ : یَقُولُ ، إنِّی فِیکِ لَرَاغِبٌ وَلَوَدِدْتُ أَنِّی تَزَوَّجْتُکِ حَتَّی یُعْلِمَہَا إِنَّہُ یُرِیدُ تَزْوِیجَہَا مِنْ غَیْرِ أَنْ یُوجِبَ عُقْدَۃً ، أَوْ یُعَاہِدَہَا عَلَی عَہْدٍ۔
(١٧١١٨) حضرت ابن عباس (رض) قرآن مجید کی آیت { وَلاَ جُنَاحَ عَلَیْکُمْ فِیمَا عَرَّضْتُمْ بِہِ مِنْ خِطْبَۃِ النِّسَائِ } (ترجمہ)” اور تم پر کوئی حرج نہیں کہ تم عورتوں کو نکاح کا پیغام دو “ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ وہ کہے گا کہ مجھے تم میں رغبت ہے اور میں چاہتا ہوں کہ تم سے شادی کروں۔ پس کوئی معاہدہ یا وعدہ کئے بغیر اسے بتادے کہ وہ اس سے شادی کرنا چاہتا ہے۔

17118

(۱۷۱۱۹) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ ، عَنْ أَبِیہِ قَالَ : تَلاَ ہَذِہِ الآیَۃَ {وَلاَ جُنَاحَ عَلَیْکُمْ فِیمَا عَرَّضْتُمْ بِہِ مِنْ خِطْبَۃِ النِّسَائِ} قَالَ : یَقُولُ فِی الْعِدَّۃِ : إنِّی عَلَیْکِ لَحَرِیصٌ وَإِنِّی فِیکِ لَرَاغِبٌ وَنَحْوَ ہَذَا۔
(١٧١١٩) حضرت قاسم قرآن مجید کی آیت { وَلاَ جُنَاحَ عَلَیْکُمْ فِیمَا عَرَّضْتُمْ بِہِ مِنْ خِطْبَۃِ النِّسَائِ } (ترجمہ)” اور تم پر کوئی حرج نہیں کہ تم عورتوں کو نکاح کا پیغام دو “ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ عدت میں عورت سے کہے گا کہ میں تجھے پسند کرتا ہوں اور تجھ میں رغبت رکھتاہوں اور اس جیسے الفاظ کہہ سکتا ہے۔

17119

(۱۷۱۲۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إسْرَائِیلَ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ عَامِرٍ : { وَلاَ جُنَاحَ عَلَیْکُمْ فِیمَا عَرَّضْتُمْ بِہِ مِنْ خِطْبَۃِ النِّسَائِ} قَالَ : یَقُولُ : إنَّکِ لَجَمِیلَۃٌ وَإِنَّکِ لَنَافِقَۃٌ ، وَإِنْ قَضَی اللَّہُ شَیْئًا کَانَ۔
(١٧١٢٠) حضرت عامر قرآن مجید کی آیت { وَلاَ جُنَاحَ عَلَیْکُمْ فِیمَا عَرَّضْتُمْ بِہِ مِنْ خِطْبَۃِ النِّسَائِ }(ترجمہ)” اور تم پر کوئی حرج نہیں کہ تم عورتوں کو نکاح کا پیغام دو “ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ وہ کہے گا تو خوبصورت ہے، خرچ کرنے والی ہے اور اگر اللہ کا فیصلہ ہوا تو یہ بندھن ہوجائے گا۔

17120

(۱۷۱۲۱) حَدَّثَنَا شَبَابَۃُ ، عَنْ وَرْقَائَ ، عَنِ ابْنِ أَبِی نَجِیحٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ : {فِیمَا عَرَّضْتُمْ بِہِ مِنْ خِطْبَۃِ النِّسَائِ} قَالَ: قَوْلُ الرَّجُلِ لِلْمَرْأَۃِ : إنَّکِ لَجَمِیلَۃٌ وَإِنَّکِ لَنَافِقَۃٌ وَإِنَّکِ لإِلَی خَیْرٍ ، وَلْیَکُنْ ذِکْرُ خِطْبَتِہَا فِی نَفْسِہِ ، لاَ یُبْدِیہِ لَہَا ، ہَذَا کُلُّہُ حِلٌّ مَعْرُوفٌ۔
(١٧١٢١) حضرت مجاہد قرآن مجید کی آیت { وَلاَ جُنَاحَ عَلَیْکُمْ فِیمَا عَرَّضْتُمْ بِہِ مِنْ خِطْبَۃِ النِّسَائِ } (ترجمہ)” اور تم پر کوئی حرج نہیں کہ تم عورتوں کو نکاح کا پیغام دو “ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ آدمی عورت سے کہے گا کہ تو خوبصورت ہے، تو خرچ کرنے والی ہے اور خیر کے راستے پر ہے۔ البتہ بہتر ہے کہ پیام نکاح کا تذکرہ اس کے دل میں ہو ۔ اسے عورت کے سامنے ظاہر نہ کرے اور یہ سب حلال اور نیکی ہے۔

17121

(۱۷۱۲۲) حَدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عُبَیْدِ اللہِ ، عَنْ أَبِی الضُّحَی فِی قَوْلِہِ : {إلاَّ أَنْ تَقُولُوا قَوْلاً مَعْرُوفًا} قَالَ : یَقُولُ : إنِّی لأَشْتَہِیکِ۔
(١٧١٢٢) حضرت ابو ضحی قرآن مجید کی آیت {إلاَّ أَنْ تَقُولُوا قَوْلاً مَعْرُوفًا } کے بارے میں فرماتے ہیں کہ وہ عورت سے کہے گا کہ میں تیری چاہت رکھتا ہوں۔

17122

(۱۷۱۲۳) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ دَاوُدَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ قَیْسٍ أَنَّ غُلاَمًا لأَبِی مُوسَی ، وَکَانَ صَاحِبَ إبِلِہِ تَزَوَّجَ أَمَۃً لِبَنِی جَعْدَۃَ وَسَاقَ إلَیْہَا خَمْسَ ذَوْدٍ فَحُدِّثَ أَبُو مُوسَی فَأَرْسَلَ إلَیْہِمْ: أَرْسِلُوا إلَیَّ غُلاَمِی وَمَالِی، فَقَالُوا : أَمَّا الْغُلاَمُ فَغُلاَمُکَ ، وَأَمَّا الْمَالُ فَقَدِ اسْتَحَلَّ بِہِ فَرْجَ صَاحِبَتِنَا فَاخْتَصَمُوا إلَی عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ فَقَضَی لَہُمْ عُثْمَانُ بِخُمُسَی مَا اسْتَحَلَّ بِہِ فَرْجَ صَاحِبَتِہِمْ وَرَدَّ عَلَی أَبِی مُوسَی ثَلاَثَۃَ أَخْمَاسِہِ۔
(١٧١٢٣) حضرت عبداللہ بن قیس فرماتے ہیں کہ حضرت ابو موسیٰ اشعری (رض) کا ایک غلام تھا، جو ان کے اونٹوں کا نگران بھی تھا۔ اس نے بنو جعدہ کی ایک باندی سے شادی کی اور اسے مہر میں پانچ اونٹ دیئے۔ جب حضرت ابو موسیٰ (رض) کو اس بات کا پتہ چلا تو انھوں نے بنو جعدہ کو پیغام بھجوایا کہ میرا غلام اور میرا مال مجھے واپس کرو۔ انھوں نے کہا کہ غلام تو آپ کا ہی ہے البتہ وہ مال اب عورت کا مہر بن گیا۔ یہ مقدمہ حضرت عثمان (رض) کے پاس پیش کیا گیا تو انھوں نے فرمایا کہ پورے مال کے دو خمس تو عورت کا مہر ہوں گے اور تین خمس ابو موسیٰ اشعری کو دے دیئے جائیں۔

17123

(۱۷۱۲۴) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ قَالَ : تَزَوَّجَ عَبْدٌ لأَبِی مُوسَی فِی إمْرَۃِ عُمَرَ عَلَی خَمْسِ قَلاَئِصَ فَرُفِعَ ذَلِکَ إلَی عُمَرَ فَجَعَلَ لِلْمَرْأَۃِ قَلُوصَیْنِ وَِلأَبِی مُوسَی ثَلاَثَ قَلاَئِصَ ، أَوْ أَعْطَاہَا ثَلاَثَ قَلاَئِصَ وَرَدَّ عَلَی أَبِی مُوسَی قَلُوصَیْنِ قَالَ : أُرَاہُ تَزَوَّجَ بِغَیْرِ إذْنِہِ۔
(١٧١٢٤) حضرت ابن سیرین فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) کے زمانہ خلافت میں حضرت ابو موسیٰ اشعری (رض) کے ایک غلام نے پانچ اونٹنیوں کے عوض شادی کی۔ پھر یہ مقدمہ حضرت عمر (رض) کے پاس پیش ہوا تو انھوں نے تین اونٹنیاں حضرت ابو موسیٰ (رض) کو دینے کا حکم دیا یا عورت کا مہر تین اونٹنیوں کو بنایا اور دو اونٹنیاں حضرت ابو موسیٰ (رض) کو واپس کیں۔ راوی کہتے ہیں کہ میرے خیال میں اس غلام نے حضرت ابو موسیٰ (رض) کی اجازت کے بغیر نکاح کیا تھا۔

17124

(۱۷۱۲۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ سَلَمَۃَ بْنِ تَمَّامٍ ، عَنْ رَجُلٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ : لاَ صَدَاقَ لَہَا ، ہِیَ أَبَاحَتْ فَرْجَہَا۔
(١٧١٢٥) حضرت ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ ایسی عورت کو بالکل مہر نہیں ملے گا، اس نے خود اپنے فرج کو حلال کیا ہے۔

17125

(۱۷۱۲۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ فِرَاسٍ ، عَنْ عَامِرٍ قَالَ : یَأْخُذُ مِنْہَا مَا اسْتَہْلَکَتْ ، وَمَا لَمْ تَسْتَہْلِکْ۔
(١٧١٢٦) حضرت عامر فرماتے ہیں کہ ایسی عورت سے وہ تمام مہر واپس لیا جائے گا جو اس نے خرچ کردیا اور جو اس نے خرچ نہیں کیا۔

17126

(۱۷۱۲۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالَ : یُؤْخَذُ مِنْہَا مَا لَمْ تَسْتَہْلِکْ ، فَأَمَّا مَا اسْتَہْلَکَتْ فَلاَ شَیْئَ۔
(١٧١٢٧) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ ایسی عورت سے وہ مال واپس لیا جائے گا جو اس نے خرچ نہ کیا ہو اور جو خرچ کردیا اس کی واپسی کا مطالبہ نہیں کیا جائے گا۔

17127

(۱۷۱۲۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ قَالَ : سَأَلْتُ الْحَکَمَ وَحَمَّادًا ، عَنِ الْعَبْدِ یَتَزَوَّجُ الْمَرْأَۃَ بِغَیْرِ إذْنِ مَوَالِیہِ ، قَالَ: یُفَرَّقُ بَیْنَہُمَا وَلاَ صَدَاقَ لَہَا ، یُؤْخَذُ مِنْہَا مَا أَخَذَتْ۔
(١٧١٢٨) حضرت شعبہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت حکم اور حضرت حماد سے سوال کیا کہ اگر کسی غلام نے کسی عورت سے اپنے آقا کی اجازت کے بغیر شادی کرلی تو اس کا کیا حکم ہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ دونوں کے درمیان جدائی کرائی جائے گی، عورت کو مہر نہیں ملے گا اور جو کچھ دیا گیا ہے واپس لیا جائے گا۔

17128

(۱۷۱۲۹) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، عَنْ أَشْعَثَ، عَنِ الْحَسَنِ؛ فِی مَمْلُوکٍ تَزَوَّجَ بِغَیْرِ إذْنِ سَیِّدِہِ فَدَخَلَ بِہَا قَالَ لَہَا مَا أَخَذَتْ۔
(١٧١٢٩) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ اگر کسی غلام نے آقا کی اجازت کے بغیر شادی کرلی اور عورت سے دخول بھی کرلیا تو جو مہر عورت کو دے چکا ہے وہ عورت کا ہوگا۔

17129

(۱۷۱۳۰) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ فِی الْعَبْدِ إذَا تَزَوَّجَ بِغَیْرِ إذْنِ سَیِّدِہِ فَلَیْسَ بِنِکَاحٍ وَلَیْسَ لَہَا بِشَیْئٍ۔
(١٧١٣٠) حضرت زہری فرماتے ہیں کہ اگر غلام نے آقا کی اجازت کے بغیر شادی کی تو شادی نہیں ہوئی اور عورت کو مہر بھی نہیں ملے گا۔

17130

(۱۷۱۳۱) حَدَّثَنَا سَہْلُ بْنُ یُوسُفَ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنِ الْحَسَنِ ؛ فِی عَبْدٍ تَزَوَّجَ بِغَیْرِ إذْنِ مَوْلاَہُ وَسَاقَ صَدَاقًا ، قَالَ: إِنْ کَانَ دَخَلَ بِہَا فَلَہَا الصَّدَاقُ ، وَإِنْ لَمْ یَدْخُلْ بِہَا أَخَذَ الْمَوْلَی الصَّدَاقَ۔
(١٧١٣١) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ اگر کسی غلام نے آقا کی اجازت کے بغیر شادی کی اور عورت کو مہر بھی دے دیا تو اگر دخول کرچکا ہے تو عورت کو پورا مہر ملے گا اور اگر دخول نہ کیا ہو تو مہر کی رقم آقا کو حاصل ہوگی۔

17131

(۱۷۱۳۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ حَسَنِ بْنِ صَالِحٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِیلٍ ، عَنْ جَابِرٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : أَیُّمَا عَبْدٍ تَزَوَّجَ بِغَیْرِ إذْنِ مَوْلاَہُ فَہُوَ عَاہِرٌ۔ (ابوداؤد ۲۰۸۰۔ احمد ۳۷۷)
(١٧١٣٢) حضرت جابر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا ” جس غلام نے اپنے آقا کی اجازت کے بغیر شادی کی وہ زانی ہے “

17132

(۱۷۱۳۳) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ قَالَ : أَخْبَرَنَا ہَمَّامٌ قَالَ حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ عَبْدِ الْوَاحِدِ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِیلٍ ، عَنْ جَابِرٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : أَیُّمَا عَبْدٍ تَزَوَّجَ أو قَالَ : نکح بِغَیْرِ إذْنِ أَہْلِہِ فَہُوَ عَاہِرٌ۔ (حاکم ۱۹۴۔ احمد ۳/۳۸۲)
(١٧١٣٣) حضرت جابر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا ” جس غلام نے اپنے آقا کی اجازت کے بغیر شادی کی وہ زانی ہے “

17133

(۱۷۱۳۴) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ : نِکَاحُ الْعَبْدِ بِغَیْرِ إذْنِ سَیِّدِہِ زِنًا ، وَیُعَاقَبُ الَّذِی زَوَّجَہُ۔
(١٧١٣٤) حضرت ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ غلام کا آقا کی اجازت کے بغیر شادی کرنا زنا ہے اور اس کی شادی کروانے والا سزا کا مستحق ہوگا۔

17134

(۱۷۱۳۵) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ قَالَ : أَخْبَرَنَا سَعِیدُ بْنُ أَبِی عَرُوبَۃَ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّہُ کَانَ إذَا تَزَوَّجَ عَبْدُہُ بِغَیْرِ إذْنٍ ضَرَبَہُ الْحَدَّ۔
(١٧١٣٥) حضرت ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ اگر غلام نے آقا کی اجازت کے بغیر شادی کی تو اس پر حد جاری ہوگی۔

17135

(۱۷۱۳۶) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنِ الْجَرِیرِیِّ قَالَ : سَأَلْتُ غُنَیْمَ بْنَ قَیْسٍ ، قُلْتُ : الْعَبْدُ یَتَزَوَّجُ بِغَیْرِ إذْنِ سَیِّدِہِ ، أَزَانٍ ہُوَ ؟ قَالَ : قَدْ عَصَی ، قُلْتُ : أَزَانٍ ہُوَ ؟ قَالَ : قَدْ عَصَی۔
(١٧١٣٦) حضرت جریری کہتے ہیں کہ میں نے غنیم بن قیس سے سوال کیا کہ اگر غلام نے آقا کی اجازت کے بغیر شادی کی تو کیا وہ زانی ہوگا ؟ انھوں نے فرمایا وہ گناہ گار ہوگا۔ میں نے پھر سوال کیا، کیا وہ زانی ہوگا ؟ انھوں نے پھر فرمایا کہ وہ گناہ گار ہوگا۔

17136

(۱۷۱۳۷) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِی عَدِیٍّ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، عَنْ مُحَمَّدٍ فِی الْعَبْدِ یَتَزَوَّجُ بِغَیْرِ إذْنِ مَوْلاَہُ ، قَالَ : قدْ کَانَ فِی شَیْئٍ فَسَلُوا عَنْہُ۔
(١٧١٣٧) حضرت محمد فرماتے ہیں کہ اگر کسی غلام نے آقا کی اجازت کے بغیر شادی کی تو اس نے گناہ کیا ہے ، اس کے بارے میں سوال کرلو۔

17137

(۱۷۱۳۸) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ غِیَاثٍ قَالَ : لاَ یَتَزَوَّجُ الْعَبْدُ إلاَّ بِإِذْنِ مَوْلاَہُ۔
(١٧١٣٨) حضرت عکرمہ فرماتے ہیں کہ غلام آقا کی اجازت کے بغیر شادی نہیں کرسکتا۔

17138

(۱۷۱۳۹) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ فِی قَوْلِہِ : {وَلَکِنْ لاَ تُوَاعِدُوہُنَّ سِرًّا} قَالَ : لاَ یَأْخُذُ عَلَیْہَا عَہْدًا وَلاَ مِیثَاقًا أَلاَّ تَزَوَّجَ غَیْرَہُ۔
(١٧١٣٩) حضرت شعبی قرآن مجید کی آیت { وَلٰکِنْ لَا تُوَاعِدُوْھُنَّ سِرًّا } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اس کا معنی ہے کہ آدمی عورت سے ایسا عہد و پیمان نہ لے کہ وہ عورت کسی اور سے شادی نہ کرے گی۔

17139

(۱۷۱۴۰) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنِ ابْنِ أَبِی نَجِیحٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ فِی قَوْلِہِ : {وَلَکِنْ لاَ تُوَاعِدُوہُنَّ سِرًّا} یَخْطُبُہَا فِی عِدَّتِہَا۔
(١٧١٤٠) حضرت مجاہد قرآن مجید کی آیت { وَلٰکِنْ لَا تُوَاعِدُوْھُنَّ سِرًّا } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اس کی عدت میں اسے نکاح کا پیغام نہ بھجوائے۔

17140

(۱۷۱۴۱) حَدَّثَنَا عبد الوہاب الثَّقَفِیُّ ، عَنْ خَالِدٍ ، عَنْ مُحَمَّدٍ قَالَ : {وَلَکِنْ لاَ تُوَاعِدُوہُنَّ سِرًّا} قَالَ : یَلْقَی الْوَلِیَّ فَیَذْکُرُ رَغْبَۃً وَحِرْصًا۔
(١٧١٤١) حضرت محمد قرآن مجید کی آیت { وَلٰکِنْ لَا تُوَاعِدُوْھُنَّ سِرًّا } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ وہ ولی سے مل کر اپنی رغبت اور خواہش کو ظاہر کرے۔

17141

(۱۷۱۴۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ سَلَمَۃَ بْنِ کُہَیْلٍ ، عَنْ مُسْلِمٍ الْبَطِینِ ، عَنْ سَعِیدٍ قَالَ : لاَ یُقَاضِیہَا فی الْعِدَّۃِ أَنْ لاَ تَزَوَّجَ غَیْرَہُ۔
(١٧١٤٢) حضرت سعید قرآن مجید کی آیت { وَلٰکِنْ لَا تُوَاعِدُوْھُنَّ سِرًّا } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ مرد عورت سے اس بات کا تقاضا نہ کرے کہ وہ کسی دوسرے سے شادی نہ کرے۔

17142

(۱۷۱۴۳) حَدَّثَنَا شَبَابَۃُ ، عَنْ وَرْقَائَ ، عَنِ ابْنِ أَبِی نَجِیحٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ : (وَلَکِنْ لاَ تُوَاعِدُوہُنَّ سِرًّا) قَوْلُ الرَّجُلِ لِلْمَرْأَۃِ : لاَ تَفُوتِینِی بِنَفْسِکِ فَإِنِّی نَاکِحُکِ ، ہَذَا لاَ یَحِلُّ۔
(١٧١٤٣) حضرت مجاہد قرآن مجید کی آیت { وَلٰکِنْ لَا تُوَاعِدُوْھُنَّ سِرًّا } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اس سے مراد آدمی کا عورت سے یہ کہنا ہے کہ مجھے خود سے محروم نہ کرنا، میں تم سے نکاح کرنا چاہتا ہوں۔ یہ کہنا حلال نہیں ہے۔

17143

(۱۷۱۴۴) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُدَیْرٍ ، عَنْ أَبِی مَخْلَدٍ ، وَالْحَسَنِ : {وَلَکِنْ لاَ تُوَاعِدُوہُنَّ سِرًّا} قَالاَ : الزِّنَا۔
(١٧١٤٤) حضرت حسن قرآن مجید کی آیت { وَلٰکِنْ لَا تُوَاعِدُوْھُنَّ سِرًّا } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اس سے مراد زنا ہے۔

17144

(۱۷۱۴۵) حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ عِمْرَانَ ، عَنِ الْحَسَنِ : {وَلَکِنْ لاَ تُوَاعِدُوہُنَّ سِرًّا} قَالَ : الزِّنَا۔
(١٧١٤٥) حضرت حسن قرآن مجید کی آیت { وَلٰکِنْ لَا تُوَاعِدُوْھُنَّ سِرًّا } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اس سے مراد زنا ہے۔

17145

(۱۷۱۴۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُدَیْرٍ ، عَنِ الْحَسَنِ قَالَ سَمِعْتُہُ یَقول {وَلَکِنْ لاَ تُوَاعِدُوہُنَّ سِرًّا} قَالَ: الزِّنَا۔
(١٧١٤٦) حضرت حسن قرآن مجید کی آیت { وَلٰکِنْ لَا تُوَاعِدُوْھُنَّ سِرًّا } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اس سے مراد زنا ہے۔

17146

(۱۷۱۴۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنِ السُّدِّی ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالَ : الزِّنَا۔
(١٧١٤٧) حضرت ابراہیم قرآن مجید کی آیت { وَلٰکِنْ لَا تُوَاعِدُوْھُنَّ سِرًّا } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اس سے مراد زنا ہے۔

17147

(۱۷۱۴۸) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنِ التَّیْمِیِّ ، عَنْ أَبِی مِجْلَزٍ قَالَ : الزِّنَا۔
(١٧١٤٨) حضرت ابو مجلز قرآن مجید کی آیت { وَلٰکِنْ لَا تُوَاعِدُوْھُنَّ سِرًّا } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اس سے مراد زنا ہے۔

17148

(۱۷۱۴۹) حدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ الْحُبَابِ ، عَنْ أَبی ہِلال عَن حَیَّانَ الأَعْرَجِ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ زَیْدٍ قَالَ : الزِّنَا۔
(١٧١٤٩) حضرت جابر بن زید قرآن مجید کی آیت { وَلٰکِنْ لَا تُوَاعِدُوْھُنَّ سِرًّا } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اس سے مراد زنا ہے۔

17149

(۱۷۱۵۰) حدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ یَمَانٍ، عَنْ سُفْیَانَ، عَنْ عَلْقَمَۃَ بْنِ مَرْثَدٍ، عَنِ الضَّحَّاکِ قَالَ: لاَ یُقَاضِیہَا أَنْ لاَ تَزَوَّجَ غَیْرَہُ۔
(١٧١٥٠) حضرت ضحاک قرآن مجید کی آیت { وَلٰکِنْ لَا تُوَاعِدُوْھُنَّ سِرًّا } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اس سے مراد یہ ہے کہ آدمی اس عورت سے اس بات کا تقاضا نہ کرے کہ وہ کسی اور سے شادی نہ کرے۔

17150

(۱۷۱۵۱) حدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِِ ، عَنْ سِمَاکٍ ، عَنْ حَنَش بْنِ الْمُعْتَمِرِ قَالَ : أُتِیَ عَلِیٌّ برَجُلٍ قَدْ أَقَرَّ عَلَی نَفْسِہِ بِالزِّنَا ، فَقَالَ لَہُ علی : أُحْصِنْتَ ؟ قَالَ : نَعَمْ قَالَ : إذًا تُرْجَمُ ، قَالَ فَرَفَعَہُ إلَی السِّجْنِ فَلَمَّا کَانَ الْعَشِیّ دَعَا بِہِ فَقَصَّ أَمْرَہُ عَلَی النَّاسِ ، فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ النَّاسِ : إنَّہُ قَدْ تَزَوَّجَ امْرَأَۃً لَمْ یَدْخُلْ بِہَا ، فَفَرِحَ بِذَلِکَ عَلِیٌّ فَضَرَبَہُ الْحَدَّ وَفَرَّقَ بَیْنَہُ وَبَیْنَ امْرَأَتِہِ وَأَعْطَاہَا نِصْفَ الصَّدَاقِ فِیمَا یُرَی سِمَاک۔
(١٧١٥١) حضرت حنش بن معتمر فرماتے ہیں کہ حضرت علی (رض) کے پاس ایک آدمی لایا گیا جس نے زنا کا اقرار کیا تھا۔ حضرت علی (رض) نے اس سے پوچھا کیا تم شادی شدہ ہو ؟ اس نے کہا جی ہاں۔ حضرت علی (رض) نے حکم دیا کہ اسے سنگسار کردیا جائے۔ اسے جیل میں بند کردیا گیا۔ شام کو حضرت علی (رض) نے اس کا واقعہ لوگوں سے بیان کیا تو ایک آدمی نے کہا کہ اس نے ایک عورت سے نکاح کیا ہے لیکن ابھی شرعی ملاقات نہیں کی۔ حضرت علی (رض) اس بات پر خوش ہوئے اور اسے سنگسار کرنے کے بجائے صرف حد جاری کرنے کا حکم دیا اور اس کے اور اس کی بیوی کے درمیان جدائی کرادی اور عورت کو نصف مہر دلوایا۔

17151

(۱۷۱۵۲) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ ، عَنْ جَابِرٍ وَعَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الْحَسَنِ أنَّ الْبِکْرَ إذَا زَنَتْ جُلِدَتْ وَفُرِّقَ بَیْنَہَا وَبَیْنَ زَوْجِہَا وَلَیْسَ لَہَا شَیْئٌ ثُمَّ تَأَوَّلَ الْحَسَنُ ہَذِہِ الآیَۃَ : {وَلاَ تَعْضُلُوہُنَّ لِتَذْہَبُوا بِبَعْضِ مَا آتَیْتُمُوہُنَّ إلاَّ أَنْ یَأْتِینَ بِفَاحِشَۃٍ مُبَیِّنَۃٍ}۔
(١٧١٥٢) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ اگر باکرہ (منکوحہ) زنا کا ارتکاب کرے تو اسے کوڑے مارے جائیں گے، اس کے خاوند سے اس کی جدائی کرادی جائے گی اور اسے مہر نہیں ملے گا۔ پھر حضرت حسن نے یہ آیت پڑھی { وَلاَ تَعْضُلُوہُنَّ لِتَذْہَبُوا بِبَعْضِ مَا آتَیْتُمُوہُنَّ إلاَّ أَنْ یَأْتِینَ بِفَاحِشَۃٍ مُبَیِّنَۃٍ }۔

17152

(۱۷۱۵۳) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالَ ، یُفَرَّقُ بَیْنَہُمَا وَلاَ صَدَاقَ لَہَا۔
(١٧١٥٣) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ ایسی صورت میں ان کے درمیان جدائی کرادی جائے گی اور عورت کو مہر نہیں ملے گا۔

17153

(۱۷۱۵۴) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ ؛ فِی الرَّجُلِ یَتَزَوَّجُ الْمَرْأَۃَ ثُمَّ تَزْنِی قَبْلَ أَنْ یَدْخُلَ بِہَا ، قَالَ: یُفَرَّقُ بَیْنَہُمَا وَلاَ صَدَاقَ لَہَا وَجَلْدُ مِئَۃٍ وَنَفْیُ سَنَۃٍ ، وَإِنْ ہُوَ زَنَی فُرِّقَ بَیْنَہُمَا۔
(١٧١٥٤) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ اگر کسی آدمی نے عورت سے نکاح کیا پھر وہ عورت دخول سے پہلے زنا کا ارتکاب کر بیٹھی تو دونوں کے درمیان جدائی کرادی جائے گی اور عورت کو مہر نہیں ملے گا۔ اسے سو کوڑے مارے جائیں گے، ایک سال کے لیے جلا وطن کیا جائے گا اور اگر مرد نے زنا کا ارتکاب کیا تو دونوں کے درمیان جدائی کرا دی جائے گی۔

17154

(۱۷۱۵۵) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنِ الشَّیْبَانِیِّ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ قَالَ : ہِیَ امْرَأَتُہُ یُقَامُ عَلَیْہِ الْحَدُّ ، إِنْ شَائَ طَلَّقَ ، وَإِنْ شَائَ أَمْسَکَ کَمَا أَنَّہُ لَوْ فَجَرَ لَمْ تُنْزَعْ عَنْہُ امْرَأَتُہُ۔
(١٧١٥٥) حضرت شعبی فرماتے ہیں کہ ایسی صورت میں وہ عورت اسی کی بیوی رہے گی اس پر حد جاری ہوگی۔ اگر وہ چاہے تو اسے طلاق دے دے اور اگر چاہے تو روک کر رکھے۔ یہ اسی طرح ہے کہ زنا کرنے والے شخص سے اس کی بیوی دور نہیں کی جاتی۔

17155

(۱۷۱۵۶) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنِ الْحَکَمِ فِی رَجُلٍ زَنَی قَبْلَ أَنْ یَدْخُلَ بِامْرَأَتِہِ ، فَکَانَ مِنْ رَأْیِہِ أَنْ لاَ یُفَرَّقَ بَیْنَہُ وَبَیْنَ امْرَأَتِہِ۔
(١٧١٥٦) حضرت حکم فرماتے ہیں کہ اگر کسی آدمی نے اپنی بیوی سے شرعی ملاقات سے قبل زنا کا ارتکاب کیا تو اس کی بیوی سے اس کی علیحدگی نہیں کرائی جائے گی۔

17156

(۱۷۱۵۷) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ فِی رَجُلٍ تَزَوَّجَ امْرَأَۃً فَأَصَابَ أَحَدُہُمَا فَاحِشَۃً قَبْلَ أَنْ یَدْخُلَ بِہَا قَالَ : یُجْلَدُ وَلاَ یُفَرَّقُ بَیْنَہُمَا۔
(١٧١٥٧) حضرت زہری فرماتے ہیں کہ اگر ایک مردو عورت کا نکاح ہوا اور شرعی ملاقات سے پہلے کسی ایک نے زنا کا ارتکاب کیا تو انھیں کوڑے لگائے جائیں گے لیکن دونوں کے درمیان جدائی نہیں کرائی جائے گی۔

17157

(۱۷۱۵۸) حدَّثَنَا ابن فُضَیل عَن ابْنِ أَبِی لَیْلَی ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ صَفِیَّۃَ بِنْتِ أَبِی عُبَیْدٍ قَالَتْ : تَزَوَّجَ رَجُلٌ امْرَأَۃً ثُمَّ فَجَرَ بِأُخْرَی قَبْلَ أَنْ یَدْخُلَ بِامْرَأَتِہِ فَجَلَدَہُ أَبُو بَکْرٍ مِئَۃً وَنَفَاہُ سَنَۃً۔
(١٧١٥٨) حضرت صفیہ بنت ابی عبید فرماتی ہیں کہ ایک آدمی نے کسی عورت سے نکاح کرنے کے بعدشرعی ملاقات سے پہلے کسی دوسری عورت سے زنا کیا تو حضرت ابوبکر نے اسے سو کوڑے لگوائے اور ایک سال کے لیے جلا وطن کیا۔

17158

(۱۷۱۵۹) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ أَبِی الْخَلِیلِ أَنَّ أَبَا عَلْقَمَۃَ الْہَاشِمِیَّ حدَّثَنَا أَنَّ أَبَا سَعِیدٍ الْخُدْرِیَّ حَدَّثَہُمْ : أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَعَثَ یَوْمَ حُنَیْنٍ سَرِیَّۃً فَأَصَابُوا حَیًّا مِنَ الْعَرَبِ یَوْمَ أَوْطَاسٍ فَہَزَمُوہُمْ وَقَتَلُوہُمْ وَأَصَابُوا نِسَائً لَہُنَّ أَزْوَاجٌ من زنی ، فَکَانَ أُنَاسٌ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ تأثموا مِنْ غِشْیَانِہِنَّ مِنْ أَجْلِ أَزْوَاجِہِنَّ فَأَنْزَلَ اللَّہُ : {وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ النِّسَائِ إلاَّ مَا مَلَکَتْ أَیْمَانُکُمْ} مِنْہُنَّ فحلال لَکُمْ۔ (مسلم ۳۳۔ ابوداؤد ۲۱۴۸)
(١٧١٥٩) حضرت ابو سعید خدری (رض) بیان فرماتے ہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حنین کی جنگ میں ایک لشکر کو عرب کے ایک قبیلے کی سرکوبی کے لیے روانہ فرمایا۔ انھوں نے اس قبیلے سے لڑائی کی اور انھیں شکست دے دی۔ پھر ان کی بعض ایسی عورتوں سے جماع کیا جن کے خاوند تھے۔ ان کے اس عمل کو بعض صحابہ کرام (رض) نے گناہ سمجھا کیونکہ ان کے خاوند تھے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کی یہ آیت نازل فرمائی { وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ النِّسَائِ إلاَّ مَا مَلَکَتْ أَیْمَانُکُمْ } یعنی تمہاری باندیاں بھی تمہارے لیے حلال ہیں۔

17159

(۱۷۱۶۰) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ حَمَّادٍ ، عن إبْرَاہِیمَ قَالَ : قَالَ عَلِیٌّ ، فِی قولہ تعالی: {وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ النِّسَائِ} قَالَ : ذَوَاتُ الأَزْوَاجِ مِنَ الْمُشْرِکِینَ۔
(١٧١٦٠) حضرت علی (رض) قرآن مجید کی آیت { وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ النِّسَائِ } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ ان عورتوں سے مراد وہ مشرک عورتیں ہیں جن کے خاوند ہوں۔

17160

(۱۷۱۶۱) حَدَّثَنَا عبد الوہاب الثَّقَفِیُّ ، عَنْ خَالِدٍ ، عَنْ أَبِی قِلاَبَۃَ ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ قَالَ : سَبَایَا کَانَ لَہُنَّ أَزْوَاجٌ قَبْلَ أَنْ یُسْبَیْنَ۔
(١٧١٦١) حضرت ابن مسعود (رض) قرآن مجید کی آیت { وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ النِّسَائِ } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ ان سے مراد وہ عورتیں ہیں جو قیدی ہوں اور قیدی بنائے جانے سے پہلے ان کے خاوند ہوں۔

17161

(۱۷۱۶) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ ، عَنِ التَّیْمِیِّ ، عَنْ أَبِی مِجْلَزٍ ، عَنْ أَنَسٍ : {وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ النِّسَائِ} قَالَ : ذَوَاتُ الأَزْوَاجِ۔
(١٧١٦٢) حضرت انس (رض) قرآن مجید کی آیت { وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ النِّسَائِ } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ ان سے مراد وہ عورتیں ہیں جن کے خاوند ہوں۔

17162

(۱۷۱۶۳) حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ ، عَنْ زمعۃ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنِ سعید بْنِ الْمُسَیَّبِ قَالَ : ذَوَاتُ الأَزْوَاجِ ، یَرْجِعُ ذَلِکَ إلَی أَنَّ اللَّہَ تَعَالَی حَرَّمَ الزِّنَا۔
(١٧١٦٢) حضرت انس (رض) قرآن مجید کی آیت { وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ النِّسَائِ } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ ان سے مراد وہ عورتیں ہیں جن کے خاوند ہوں۔

17163

(۱۷۱۶۴) حَدَّثَنَا عبد اللہ بْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ أَشْعَثَ وَہِشَامٍ ، عَنْ مُحَمَّدٍ ، عَنْ عَبِیدَۃَ : {وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ النِّسَائِ} قَالَ بِیَدِہِ ہَکَذَا وَأَشَارَ بِالأَرْبَعِ : إلاَّ مَا مَلَکَتْ أَیْمَانُکُمْ۔
(١٧١٦٥) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ ہر خاوند والی عورت تیرے لیے حرام ہے البتہ وہ عورتیں جو قیدی بنا کر لائی جائیں وہ حلال ہیں۔

17164

(۱۷۱۶۵) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ، عَنِ الصَّلْتِ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالَ: کُلُّ ذَاتِ زَوْجٍ عَلَیْک حَرَامٌ إلاَّ مَا أَصَبْتَ مِنَ السَّبَایَا۔
(١٧١٦٥) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ ہر خاوند والی عورت تیرے لیے حرام ہے البتہ وہ عورتیں جو قیدی بنا کر لائی جائیں وہ حلال ہیں۔

17165

(۱۷۱۶۶) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ زَکَرِیَّا ، عَنِ الشَّعْبِیِّ قَالَ : نَزَلَتْ یَوْمَ أَوْطَاسٍ۔
(١٧١٦٦) حضرت شعبی قرآن مجید کی آیت { وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ النِّسَائِ } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ یہ آیت یوم اوطاس کے دن نازل ہوئی۔

17166

(۱۷۱۶۷) حَدَّثَنَا ابْنُ مُسْہِرٍ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنْ حَسَنٍ قَالَ : کُلُّ ذَاتِ زَوْجٍ عَلَیْک حَرَامٌ إلاَّ مَا مَلَکَتْ یَمِینُک یَعْنِی مِنَ السَّبَایَا۔
(١٧١٦٧) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ ہر خاوند والی عورت تیرے لیے حرام ہے سوائے باندیوں کے یعنی قیدی بنا کر لائی جانے والی عورتوں کے۔

17167

(۱۷۱۶۸) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ یَمَانٍ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ قَیْسِ بْنِ مُسْلِمٍ ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ مُحَمَّدٍ مِثْلَہُ۔
(١٧١٦٨) ایک اور سند سے یونہی منقول ہے۔

17168

(۱۷۱۶۹) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَطَائٍ قَالَ : ہُوَ الزِّنَا ، وَقَالَ مُجَاہِدٌ : ہُوَ الزِّنَا ، وَقَالَ عِکْرِمَۃُ : ہُوَ الزِّنَا {إلاَّ مَا مَلَکَتْ أَیْمَانُکُمْ} وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ : {إلاَّ مَا مَلَکَتْ أَیْمَانُکُمْ} یَنْزِعُ الرَّجُلُ وَلِیدَتہ امْرَأَۃَ عَبْدِہِ وَقَالَ غَیْرُہُ : سَبَایَا الْعَدُوِّ یُوطَأْنَ إذَا مَا سُبِیَتْ أَزْوَاجُہُنَّ۔
(١٧١٦٩) حضرت عطاء فرماتے ہیں کہ وہ زنا ہے۔ حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ وہ زنا ہے۔ حضرت عکرمہ فرماتے ہیں کہ وہ زنا ہے سوائے ان عورتوں کے جو تمہاری ملکیت میں ہوں۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ سوائے ان عورتوں کے جو تمہاری ملکیت میں ہوں۔ دوسرے حضرات فرماتے ہیں کہ دشمن کی قیدی عورتوں سے اس صورت میں جماع کیا جاسکتا ہے جب ان کے خاوند بھی قید کئے گئے ہوں۔

17169

(۱۷۱۷۰) حَدَّثَنَا ابْنُ یَمَانٍ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنْ جَعْفَرٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ قَالَ : أَرْبَعٌ۔
(١٧١٧٠) حضرت سعید بن جبیر فرماتے ہیں کہ ایسی چار عورتیں رکھ سکتا ہے۔

17170

(۱۷۱۷۱) حَدَّثَنَا ابْنُ یَمَانٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ مَکْحُولٍ قَالَ : أَرْبَعٌ۔
(١٧١٧١) حضرت مکحول فرماتے ہیں کہ ایسی چار عورتیں رکھ سکتا ہے۔

17171

(۱۷۱۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، عَن عَبْدِ اللہِ : {وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ النِّسَائِ إلاَّ مَا مَلَکَتْ أَیْمَانُکُمْ} قَالَ : ذَوَاتُ الأَزْوَاجِ۔
(١٧١٧٢) حضرت ابراہیم قرآن مجید کی آیت { وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ النِّسَائِ } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ ان سے مراد وہ عورتیں ہیں جن کے خاوند ہوں۔

17172

(۱۷۱۷۳) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِِ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، عَن عَبْدِ اللہِ فِی قَوْلِہِ : {وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ النِّسَائِ} قَالَ : کُلُّ ذَاتِ زَوْجٍ عَلَیْکَ حَرَامٌ إلاَّ مَا مَلَکَتْ یَمِینُکَ ، أَوْ تَشْتَرِیہَا۔
(١٧١٧٣) حضرت عبداللہ قرآن مجید کی آیت { وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ النِّسَائِ } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ ہر خاوند والی عورت تجھ پر حرام ہے سوائے اس کے جو تیری باندی ہو یا تو نے اسے خریدا ہو۔

17173

(۱۷۱۷۴) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الْحَسَنِ قَالَ : کُلُّ ذَاتِ زَوْجٍ عَلَیْکَ حَرَامٌ إلاَّ مَا مَلَکَتْ یَمِینُکَ مِنَ السَّبَایَا یُرِیدُ {وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ النِّسَائِ}۔
(١٧١٧٤) حضرت حسن قرآن مجید کی آیت { وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ النِّسَائِ } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ ہر خاوند والی عورت تیرے لیے حرام ہے سوائے تیری قیدی باندی کے۔

17174

(۱۷۱۷۵) حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ قَالَ : أَخْبَرَنَا إسْرَائِیلُ ، عَنْ عَبْدِ الْکَرِیمِ ، عَنْ مَکْحُولٍ : {وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ النِّسَائِ} قَالَ : ذَوَاتُ الأَزْوَاجِ۔
(١٧١٧٥) حضرت مکحول قرآن مجید کی آیت { وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ النِّسَائِ } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ ان سے مراد وہ عورتیں ہیں جن کے خاوند ہوں۔

17175

(۱۷۱۷۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ مَالِکِ بْنِ مِغْوَلٍ ، عَنْ أَبِی السَّوْدَائِ قَالَ : سَأَلْتُ عِکْرِمَۃَ عَنْہَا ، فَقَالَ : لاَ أَدْرِی ، وَسَأَلْتُ الشَّعْبِیَّ ، فَقَالَ : ہِیَ کُلُّ ذَاتِ زَوْجٍ۔
(١٧١٧٦) حضرت ابو السوداء فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عکرمہ سے اس آیت کے بارے میں سوال کیا تو انھوں نے لاعلمی کا اظہار فرمایا اور حضرت شعبی سے سوال کیا تو انھوں نے فرمایا کہ اس سے مراد ہر خاوند والی عورت ہے۔

17176

(۱۷۱۷۷) حَدَّثَنَا مُعَاوِیَۃُ بْنُ ہِشَامٍ قَالَ : حدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ : {وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ النِّسَائِ} قَالَ : من النساء کُلِّہِنَّ إلاَّ ذَوَاتِ الأَزْوَاجِ مِنَ السَّبَایَا۔
(١٧١٧٧) حضرت عبداللہ بن عباس (رض) قرآن مجید کی آیت { وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ النِّسَائِ } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ ان سے مراد تمام عورتیں ہیں سوائے ان خاوند والی عورتوں کے جنہیں قیدی بنایا گیا ہو۔

17177

(۱۷۱۷۸) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَطَائٍ فِی قَوْلِہِ : {وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ النِّسَائِ إلاَّ مَا مَلَکَتْ أَیْمَانُکُمْ} قَالَ : الزِّنَا ، وَقَالَ مُجَاہِدٌ : ہُوَ الزِّنَا ، وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ : ہُوَ الزِّنَا إلاَّ مَا مَلَکَتْ أَیْمَانُکُمْ یَنْزِعُ الرَّجُلُ وَلِیدَتہ امْرَأَۃَ عَبْدِہِ فَیَطَؤُہَا إِنْ شَائَ ، وَقَالَ غَیْرُہُ : سَبَایَا الْعَدُوِّ۔
(١٧١٧٨) حضرت عطاء قرآن مجید کی آیت { وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ النِّسَائِ } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ ایسی عورتوں سے جماع زنا ہے۔ حضرت مجاہد بھی اسے زنا قرار دیتے ہیں۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ مملوکہ عورتوں کے علاوہ کسی سے جماع کرنا زنا ہے۔ دوسرے حضرات فرماتے ہیں کہ اس سے مراد دشمن کی قیدی عورتیں ہیں۔

17178

(۱۷۱۷۹) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ قَالَ : حدثنا شَرِیکٌ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنْ سَعِیدٍ فِی قَوْلِہِ : {وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ النِّسَائِ إلاَّ مَا مَلَکَتْ أَیْمَانُکُمْ} قَالَ : نَزَلَتْ فِی نِسَائِ أَہْلِ حُنَیْنٍ ، لَمَّا افْتَتَحَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حُنَیْنًا أَصَابَ الْمُسْلِمُونَ السَّبَایَا ، فَکَانَ الرَّجُلُ إذَا أَرَادَ أَنْ یَأْتِیَ الْمَرْأَۃَ مِنْہُنَّ قَالَتْ : إنَّ لِی زَوْجًا فَأَتَوُا النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَذَکَرُوا ذَلِکَ لَہُ فَأَنْزَلَ اللَّہُ تَعَالَی : {وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ النِّسَائِ إلاَّ مَا مَلَکَتْ أَیْمَانُکُمْ} قَالَ : السَّبَایَا مِنْ ذَوَاتِ الأَزْوَاجِ۔
(١٧١٧٩) حضرت سعید بن جبیر قرآن مجید کی آیت { وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ النِّسَآئِ } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ یہ آیت حنین والوں کی عورتوں کے بارے میں نازل ہوئی۔ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حنین کو فتح فرمایا تو مسلمانوں کے ہاتھ بہت سے قیدی لگے۔ جب کوئی مسلمان کسی قیدی عورت کے پاس جاتا تو وہ کہتی کہ میرا تو خاوند ہے۔ چنانچہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس بات کا تذکرہ کیا گیا تو اللہ تعالیٰ نے اس آیت کو نازل فرمایا : { وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ النِّسَائِ إلاَّ مَا مَلَکَتْ أَیْمَانُکُمْ } اس سے مراد وہ قیدی عورتیں ہیں جن کے خاوند ہوں۔

17179

(۱۷۱۸۰) حَدَّثَنَا شَبَابَۃُ، عَنْ وَرْقَائَ، عَنِ ابْنِ أَبِی نَجِیحٍ، عَنْ مُجَاہِدٍ: {وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ النِّسَائِ} نہی، عَنِ الزِّنَا۔
(١٧١٨٠) حضرت مجاہد قرآن مجید کی آیت { وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ النِّسَائِ } کی تفسیر میں فرماتے ہیں ہیں کہ اس میں زنا سے منع کیا گیا ہے۔

17180

(۱۷۱۸۱) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ یُونُسَ بْنِ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ طَارِقٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ قَالَ : لاَ تَغُرَّنَّکُمْ ہَذِہِ الآیَۃُ {إلاَّ مَا مَلَکَتْ أَیْمَانُکُمْ} إنَّمَا عَنَی بِہِ الإِمَائَ وَلَمْ یَعْنِ بِہا الْعَبِیدَ۔
(١٧١٨١) حضرت سعید بن مسیب قرآن مجید کی آیت { وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ النِّسَائِ } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اس آیت سے دھوکا کا شکار نہ ہوجانا۔ اس سے مراد باندیاں ہیں غلام نہیں ہیں۔

17181

(۱۷۱۸۲) حَدَّثَنَا جَرِیرٍ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ أَبِی رَزِینٍ فِی قَوْلِہِ : {لاَ یَحِلُّ لَکَ النِّسَائُ مِنْ بَعْدُ} قَالَ : لاَ یَحِلُّ لَکَ مِنَ الْمُشْرِکَاتِ إلاَّ مَا سَبَیْتَ ، أَوْ مَا مَلَکَتْ یَمِینُکَ۔
(١٧١٨٢) حضرت ابو رزین قرآن مجید کی آیت { لَا یَحِلُّ لَکَ النِّسَائُ مِنْ بَعْدُ } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ تمہارے لیے صرف وہ مشرکہ عورتیں حلال ہیں جو قیدی بنائی گئی ہوں یا تم ان کے مالک بن جاؤ۔

17182

(۱۷۱۸۳) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ قَالَ : مِنْ مُسْلِمَۃٍ وَلاَ نَصْرَانِیَّۃٍ وَلاَ کَافِرَۃٍ۔
(١٧١٨٣) حضرت مجاہد قرآن مجید کی آیت { لَا یَحِلُّ لَکَ النِّسَائُ مِنْ بَعْدُ } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اس سے مسلمان عورتیں مراد ہیں نہ کہ عیسائی اور کافر عورتیں۔

17183

(۱۷۱۸۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنِ ابْنِ أَبِی نَجِیحٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ قَالَ : {لاَ یَحِلُّ لَکَ النِّسَائُ مِنْ بَعْدُ} قَالَ: نِسَائُ الأُمَمِ مِنْ أَہْلِ الْکِتَابِ۔
(١٧١٨٤) حضرت مجاہد قرآن مجید کی آیت { لَا یَحِلُّ لَکَ النِّسَائُ مِنْ بَعْدُ } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اس سے مراد اہل کتاب کی عورتیں ہیں۔

17184

(۱۷۱۸۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ بَذِیْمَۃَ ، قَالَ : سَمِعْتُ مُجَاہِدًا یَقُولُ : {لاَ یَحِلُّ لَکَ النِّسَائُ مِنْ بَعْدُ} قَالَ : مِنْ بَعْدِ ہَذَا السَّبَبِ۔
(١٧١٨٥) حضرت مجاہد قرآن مجید کی آیت { لَا یَحِلُّ لَکَ النِّسَائُ مِنْ بَعْدُ } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اس سبب کے بعد کی عورتیں مراد ہیں۔

17185

(۱۷۱۸۶) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِی ہِنْدٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِی مُوسَی ، عَنْ زِیَادٍ قَالَ : قیل لأُبَیٍّ : لَوْ ہَلَکَ أَزْوَاجُ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حَلَّ لَہُ أَنْ یَتَزَوَّجَ ؟ قَالَ : وَمَنْ یَمْنَعُہُ ؟ أَحَلَّ اللَّہُ لَہُ ضَرْبًا مِنَ النِّسَائِ ، فَکَانَ یَتَزَوَّجُ مِنْہُنَّ مَنْ شَائَ ، ثُمَّ تَلاَ ہَذِہِ الآیَۃَ : {یَا أَیُّہَا النَّبِیُّ إنَّا أَحْلَلْنَا لَکَ أَزْوَاجَک اللاَّتِی} حَتَّی خَتَمَ الآیَۃَ۔ (طبری ۲۹۔ دارمی ۲۲۴۰)
(١٧١٨٦) حضرت زیاد کہتے ہیں کہ حضرت ابی سے سوال کیا گیا کہ اگر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سب ازواج انتقال کرجاتیں تو کیا آپ کے لیے نکاح حلال ہوتا ؟ حضرت ابی نے جواب دیا کہ کس چیز نے منع کیا ہے ؟ اللہ تعالیٰ نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے عورتوں کی ہر قسم کو حلال کیا ہے۔ وہ جس سے چاہتے شادی کرسکتے تھے پھر انھوں نے اس آیت مبارکہ کی تلاوت فرمائی { یَا أَیُّہَا النَّبِیُّ إنَّا أَحْلَلْنَا لَکَ أَزْوَاجَک اللاَّتِی }

17186

(۱۷۱۸۷) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنْ عَطَائٍ ، عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ : مَا مَاتَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حَتَّی أُحِلَّ لَہُ النِّسَائَ۔ (ترمذی ۳۲۱۶۔ احمد ۴۱)
(١٧١٨٧) حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ وصال تک رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے سب عورتیں حلال تھیں۔

17187

(۱۷۱۸۸) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَطَائٍ : {وَلاَ أَنْ تَبَدَّلَ بِہِنَّ مِنْ أَزْوَاجٍ وَلَوْ أَعْجَبَک حُسْنُہُنَّ} قَالَ : لاَ تَبَدَّلُ بِہِنَّ یَہُودِیَّاتٍ وَلاَ نَصْرَانِیَّاتٍ۔
(١٧١٨٨) حضرت عطاء فرماتے ہیں کہ قرآن مجید کی آیت { وَلاَ أَنْ تَبَدَّلَ بِہِنَّ مِنْ أَزْوَاجٍ وَلَوْ أَعْجَبَک حُسْنُہُنَّ } میں جن عورتوں کو اپنے نکاح میں نہ لانے کا حکم دیا جارہا ہے ان سے یہودی اور عیسائی عورتیں مراد ہیں۔

17188

(۱۷۱۸۹) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ أَبِی غَنِیۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنِ الْحَکَمِ قَالَ : مِنْ أَہْلِ الْکِتَابِ ، أَوْ أَعْرَابِیَّۃٍ۔
(١٧١٨٩) حضرت حکم قرآن مجید کی آیت { لَا یَحِلُّ لَکَ النِّسَائُ مِنْ بَعْدُ } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اس سے مراد اہل کتاب یا دیہاتی عورتیں ہیں۔

17189

(۱۷۱۹۰) حَدَّثَنَا عُبَیدُ اللہِ ، عَنْ إسْرَائِیلَ ، عَنِ السدِّی ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ شَدَّادٍ فِی قَوْلِہِ : {وَلاَ أَنْ تَبَدَّلَ بِہِنَّ مِنْ أَزْوَاجٍ} قَالَ : ذَلِکَ لَوْ طَلَّقَہُنَّ لَمْ یَحِلَّ لَہُ أَنْ یَسْتَبْدِلَ ، قَالَ : وَقَدْ کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَنْکِحُ مَا شَائَ بَعْدَ مَا نَزَلَتْ ، وَنَزَلَتْ وَتَحْتَہُ تِسْعُ نِسْوَۃٍ وَتَزَوَّجَ أُمَّ حَبِیبَۃَ وَجُوَیْرِیَۃَ۔
(١٧١٩٠) حضرت عبداللہ بن شداد قرآن مجید کی آیت { وَلاَ أَنْ تَبَدَّلَ بِہِنَّ مِنْ أَزْوَاجٍ } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اس سے مراد ہے کہ اگر نبی اپنی ازواج کو طلاق دے دیں تو ان عورتوں کو تبدیل کرنا حلال نہیں۔ جہاں تک نکاح کی بات ہے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس آیت کے نازل ہونے کے بعد بھی نکاح کیا۔ جب یہ آیت نازل ہوئی تو آپ کے نکاح میں نو عورتیں تھیں پھر آپ نے حضرت ام حبیبہ اور حضرت جویریہ (رض) سے نکاح فرمایا۔

17190

(۱۷۱۹۱) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَۃَ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ زَیْدٍ ، عَنِ الْحَسَنِ : {وَلاَ أَنْ تَبَدَّلَ بِہِنَّ مِنْ أَزْوَاجٍ} قَالَ: قَصَرَہُ اللَّہُ عَلَی نِسَائِہِ التِّسْعِ اللاَّتِی مَاتَ عَنْہُنَّ ، قَالَ : قَالَ عَلِیٌّ : فَأَخْبَرْت بِذَلِکَ عَلِیَّ بْنَ حُسَیْنٍ ، فَقَالَ : بل کَانَ لَہُ أَنْ یَتَزَوَّجَ۔
(١٧١٩١) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ قرآن مجید کی آیت { وَلاَ أَنْ تَبَدَّلَ بِہِنَّ مِنْ أَزْوَاجٍ } میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو ان نو عورتوں پر محددد فرما دیا جن کی موجودگی میں آپ کا وصال ہوا۔ حضرت علی بن زید کہتے ہیں کہ میں نے حضرت علی بن حسین کو یہ بات بتائی تو انھوں نے فرمایا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس کے بعد بھی نکاح کرنے کی اجازت تھی۔

17191

(۱۷۱۹۲) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنِ ابْنِ شُبْرُمَۃَ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ : (الزَّانِی لاَ یَنْکِحُ إلاَّ زَانِیَۃً) لاَ یَزْنِی الزَّانِی إلاَّ بِزَانِیَۃٍ۔
(١٧١٩٢) حضرت عکرمہ قرآن مجید کی آیت { اَلزَّانِیْ لَا یَنْکِحُ اِلَّا زَانِیَۃً } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ زانی زانیہ سے ہی زنا کرتا ہے۔

17192

(۱۷۱۹۳) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ : {الزَّانِی لاَ یَنْکِحُ إلاَّ زَانِیَۃً أَوْ مُشْرِکَۃً} قَالَ : کَانَ یُقَالُ نَسَخَتْہَا الَّتِی بَعْدَہَا {وَأَنْکِحُوا الأَیَامَی مِنْکُمْ} قَالَ : وَکَانَ یُقَالُ إنَّہَا مِنْ أَیَامَی الْمُسْلِمِینَ۔
(١٧١٩٣) حضرت سعید بن مسیب قرآن مجید کی آیت { اَلزَّانِیْ لَا یَنْکِحُ اِلَّا زَانِیَۃً } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ یہ آیت { وَأَنْکِحُوا الأَیَامَی مِنْکُمْ } کی وجہ سے منسوخ ہے۔ اس سے مراد مسلمانوں کی بیوہ عورتیں ہیں۔

17193

(۱۷۱۹۴) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، عَنْ شُعْبَۃَ، عَنْ یَعْلَی بْنِ مُسْلِمٍ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ قَالَ: لاَ یَزْنِی إلاَّ بِزَانِیَۃٍ ، أَوْ مُشْرِکَۃٍ۔
(١٧١٩٤) حضرت سعید بن جبیر قرآن مجید کی آیت { اَلزَّانِیْ لَا یَنْکِحُ اِلَّا زَانِیَۃً } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ وہ زانیہ یا مشرکہ سے زنا کرتا ہے۔

17194

(۱۷۱۹۵) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، عَنْ شُعْبَۃَ، عَنْ إبْرَاہِیمَ بْنِ الْمُہَاجِرِ، عَنْ مُجَاہِدٍ قَالَ سَمِعْتُہُ یَقُولُ: کُنَّ بَغَایَا فِی الْجَاہِلِیَّۃِ۔
(١٧١٩٥) حضرت مجاہد قرآن مجید کی آیت { اَلزَّانِیْ لَا یَنْکِحُ اِلَّا زَانِیَۃً } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اس سے مراد وہ عورتیں ہیں جو زمانہ جاہلیت میں فاحشہ تھیں۔

17195

(۱۷۱۹۶) حَدَّثَنَا عَبْدَۃَ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ الْمُنْذِرِ قَالَ : سَأَلْتُ عُرْوَۃَ ، عَنْ قَوْلِہِ : {الزَّانِی لاَ یَنْکِحُ إلاَّ زَانِیَۃً أَوْ مُشْرِکَۃً} قَالَ : کُنَّ نِسَائً بَغَایَا فِی الْجَاہِلِیَّۃِ لَہُنَّ رَایَاتٌ یُعْرَفْنَ بِہَا۔
(١٧١٩٦) حضرت عروہ قرآن مجید کی آیت { اَلزَّانِیْ لَا یَنْکِحُ اِلَّا زَانِیَۃً } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اس سے مراد وہ عورتیں ہیں جو زمانہ جاہلیت میں فاحشہ تھیں۔ ان کے مخصوص جھنڈے ہوتے تھے جن سے یہ پہچانی جاتی تھیں۔

17196

(۱۷۱۹۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ ، عَنِ الشعبی قَالَ : نِسَائٌ کُنَّ یَکْرِینَ أَنْفُسَہُنَّ فِی الْجَاہِلِیَّۃِ۔
(١٧١٩٧) حضرت شعبی قرآن مجید کی آیت { اَلزَّانِیْ لَا یَنْکِحُ اِلَّا زَانِیَۃً } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اس سے مراد زمانہ جاہلیت کی وہ عورتیں ہیں جو جسم فروشی کرتی تھیں۔

17197

(۱۷۱۹۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سَلَمَۃَ ، عَنِ الضَّحَّاکِ فِی قَوْلِہِ : (الزَّانِی لاَ یَنْکِحُ إلاَّ زَانِیَۃً أَوْ مُشْرِکَۃً وَالزَّانِیَۃُ لاَ یَنْکِحُہَا إلاَّ زَانٍ أَوْ مُشْرِکٌ) قَالَ : لاَ یَزْنِی حِینَ یَزْنِی إلاَّ بِزَانِیَۃٍ وَلاَ تَزْنِی حِینَ تَزْنِی إلاَّ بِزَانٍ مِثْلِہَا۔
(١٧١٩٨) حضرت ضحاک قرآن مجید کی آیت { اَلزَّانِیْ لَا یَنْکِحُ اِلَّا زَانِیَۃً } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ کہ زنا کرنے والا زانیہ سے زنا کرتا ہے اور زنا کرنے والی زانی سے زنا کراتی ہے۔

17198

(۱۷۱۹۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ یَعْلَی بْنِ مُسْلِمٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ مِثْلَہُ۔
(١٧١٩٩) حضرت سعید بن جبیر سے بھی یونہی منقول ہے۔

17199

(۱۷۲۰۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ ابْنِ أَبِی ذِئْبٍ ، عَنْ شُعْبَۃَ مَوْلَی ابْنِ عَبَّاسٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : بَغَایَا کُنَّ فِی الْجَاہِلِیَّۃِ یَجْعَلْنَ عَلَی أَبْوَابِہِنَّ رَایَاتٍ کَرَایَاتِ الْبَیَاطِرَۃِ ، یَأْتِیہِنَّ النَّاسُ ، یُعْرَفْنَ بِذَلِکَ۔
(١٧٢٠٠) حضرت ابن عباس (رض) قرآن مجید کی آیت { اَلزَّانِیْ لَا یَنْکِحُ اِلَّا زَانِیَۃً } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اس سے مراد زمانہ جاہلیت کی فاحشہ عورتیں ہیں جن کے دروازوں پر مویشی فروشوں کے مخصوص جھنڈے ہوتے تھے، اور لوگ ان کے پاس آتے تھے۔ جھنڈوں کے ذریعے لوگوں کو ان کا پتہ چلتا تھا۔

17200

(۱۷۲۰۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ الْمُنْذِرِ ، عَنْ عُرْوَۃَ نَحْوَہُ۔
(١٧٢٠١) حضرت عروہ سے بھی یونہی منقول ہے۔

17201

(۱۷۲۰۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ حَبِیبِ بْنِ أَبِی عَمْرَۃَ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : {الزَّانِی لاَ یَنْکِحُ إلاَّ زَانِیَۃً أَوْ مُشْرِکَۃً} یَعْنِی بِالنِّکَاحِ : یُجَامِعُہَا۔
(١٧٢٠٢) حضرت ابن عباس قرآن مجید کی آیت { اَلزَّانِیْ لَا یَنْکِحُ اِلَّا زَانِیَۃً } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اس آیت میں نکاح سے مراد مباشرت ہے۔

17202

(۱۷۲۰۳) حَدَّثَنَا مُعَاوِیَۃُ بْنُ ہِشَامٍ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ خَالِدِ بْنِ دِینَارٍ ، عَنِ الْحَارِثِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالَ لاَ یُجَامِعُہَا إلاَّ زَانٍ أَوْ مُشْرِکٌ۔
(١٧٢٠٣) حضرت ابراہیم قرآن مجید کی آیت { اَلزَّانِیْ لَا یَنْکِحُ اِلَّا زَانِیَۃً } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ زانیہ یا مشرکہ سے زانی اور مشرک ہی مباشرت کرتا ہے۔

17203

(۱۷۲۰۴) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ سُفْیَانَ التَّمَّارُ العُصْفُریّ ، قَالَ : سَمِعْتُ سَعِیدَ بْنَ جُبَیْرٍ یَقُولُ : کُنَّ بَغَایَا بِمَکَّۃَ قَبْلَ الإِسْلاَمِ ، فَکَانَ رِجَالٌ یَتَزَوَّجُونَہُنَّ فَیُنْفِقْنَ عَلَیْہِمْ مَا أَصَبْنَ فَلَمَّا جَائَ الإِسْلاَمُ تَزَوَّجَہُنَّ رِجَالٌ مِنْ أَہْلِ الإِسْلاَمِ فَحَرَّمَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ذَلِکَ عَلَیْہِمْ۔
(١٧٢٠٤) حضرت سعید بن جبیر قرآن مجید کی آیت { اَلزَّانِیْ لَا یَنْکِحُ اِلَّا زَانِیَۃً } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ یہ عورتیں اسلام سے پہلے مکہ میں فحاشی کا دھندہ کرتی تھیں۔ لوگ ان سے شادی کرتے تھے اور ان پر خرچ کرتے تھے۔ جب اسلام آیا تو کچھ مسلمان مردوں نے بھی ان سے شادی کرنا چاہی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان عورتوں سے نکاح کو حرام قرار دے دیا۔

17204

(۱۷۲۰۵) حَدَّثَنَا عَفَّانُ قَالَ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَنْ حُمَیْدٍ ، عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ الْحَارِثِ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ : (الزَّانِی لاَ یَنْکِحُ إلاَّ زَانِیَۃً أَوْ مُشْرِکَۃً) قَالَ : الزَّانِی لاَ یزنی إلاَّ بِزَانِیَۃٍ ، أَوْ مُشْرِکَۃٍ وَلَکِنَّ اللَّہَ کَنَّی۔
(١٧٢٠٥) حضرت ابن عباس (رض) قرآن مجید کی آیت { اَلزَّانِیْ لَا یَنْکِحُ اِلَّا زَانِیَۃً } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ زانی کسی زانیہ یا مشرکہ سے ہی زنا کرتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے اس بات کو کنایۃً بیان فرمایا ہے۔

17205

(۱۷۲۰۶) حَدَّثَنَا شَبَابَۃُ ، عَنْ وَرْقَائَ ، عَنِ ابْنِ أَبِی نَجِیحٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ فِی قَوْلِہِ : (الزَّانِی لاَ یَنْکِحُ إلاَّ زَانِیَۃً) بَغَایَا مُتَعَالِنَاتٌ کُنَّ فِی الْجَاہِلِیَّۃِ فَقِیلَ لَہُنَّ : ہَذَا حَرَامٌ فَأَرَادُوا نِکَاحَہُنَّ فَحَرَّمَ اللَّہُ عَلَیْہِمْ نِکَاحَہُنَّ۔
(١٧٢٠٦) حضرت مجاہد قرآن مجید کی آیت { اَلزَّانِیْ لَا یَنْکِحُ اِلَّا زَانِیَۃً } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اس سے مراد زمانہ جاہلیت میں جسم فروشی کا پیشہ کرنے والی عورتیں ہیں۔ ان عورتوں کو بتایا گیا کہ یہ حرام ہے تو انھوں نے نکاح کا ارادہ کیا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے لیے ان سے نکاح کو حرام قرار دیا۔

17206

(۱۷۲۰۷) حَدَّثَنَا مُعْتَمِرُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ قَالَ : أَحَلُّ النِّسَائِ للزَّانِی الزَّانِیَۃُ قَالَ : وَسَأَلْتُ الْحَسَنَ ، فَقَالَ : إنا لاَ نُفتِی فِی الْمَسْتُورِ وَلَکِنِ الْمَحْدُودُ لاَ یَتَزَوَّجُ إلاَّ مَحْدُودَۃً۔
(١٧٢٠٧) حضرت شعبی فرماتے ہیں کہ زنا کار مرد کے لیے سب سے بہتر زانیہ ہی ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت حسن سے اس بارے میں سوال کیا تو انھوں نے فرمایا کہ ہم چھپے ہوئے کے بارے میں فتویٰ نہیں دیتے۔ البتہ حد کا شکار شخص صرف اسی عورت سے شادی کرسکتا ہے جس پر حد جاری ہوئی ہو۔

17207

(۱۷۲۰۸) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنِ ابْنِ سَابِطٍ أَنَّ عَلِیًّا أُتِیَ بِمَحْدُودٍ تَزَوَّجَ امْرَأَۃً غَیْرَ مَحْدُودَۃٍ فَفَرَّقَ بَیْنَہُمَا۔
(١٧٢٠٨) حضرت ابن سابط فرماتے ہیں کہ حضرت علی (رض) کے پاس ایک ایسا شخص لایا گیا جس پر حد جاری ہوئی تھی اور اس نے ایک ایسی عورت سے شادی کی جس پر حد جاری نہیں ہوئی تھی تو حضرت علی (رض) نے دونوں میں جدائی کرادی۔

17208

(۱۷۲۰۹) حَدَّثَنَا بَکَّارُ بْنُ عَبْدِ اللہِ ، عَنْ مُوسَی بْنِ عُبَیْدَۃَ ، عَنْ أَخِیہِ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُبَیْدَۃَ أَنَّ مَوْلاَۃً لِبَنِی حَارِثَۃَ جُلِدَتْ حَدَّ الزِّنَا فَأَرَادَ رَجُلٌ أَنْ یَتَزَوَّجَہَا فَاسْتَشَارَ أَبَا ہُرَیْرَۃَ ، فَقَالَ: لاَ، إلاَّ أَنْ تَکُونَ عَمِلْتَ مِثْلَ عَمَلِہَا۔
(١٧٢٠٩) حضرت عبداللہ بن عبیدہ فرماتے ہیں کہ بنو حارثہ کی ایک باندی پر حد زنا جاری ہوئی۔ ایک آدمی نے اس عورت سے شادی کرنے کا ارادہ کیا اور حضرت ابوہریرہ (رض) سے مشورہ کیا تو انھوں نے فرمایا کہ تمہارا اس سے نکاح درست نہیں یہاں تک کہ تم بھی وہی عمل کرو جو اس نے کیا ہے۔

17209

(۱۷۲۱۰) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ قَیْسِ بْنِ مُسْلِمٍ ، عَنْ طَارِقِ بْنِ شِہَابٍ أَنَّ رَجُلاً أَرَادَ أَنْ یُزَوِّجَ ابْنَۃً ، فَقَالَتْ : إنِّی أَخْشَی أَنْ أَفْضَحَکَ ، إنِّی قَدْ بَغَیْتُ ، فَأَتَی عُمَرَ ، فَقَالَ : أَلَیْسَتْ قَدْ تَابَتْ ؟ قَالَ : نَعَمْ ، قَالَ : فَزَوِّجْہَا۔
(١٧٢١٠) حضرت طارق بن شہاب کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے اپنی بیٹی کی شادی کرنے کا ارادہ کیا تو بیٹی نے کہا کہ مجھے ڈر ہے کہ میں آپ کو رسوا کردوں گی کیونکہ میں نے بدکاری کا ارتکاب کیا ہے۔ وہ آدمی حضرت عمر (رض) کے پاس حاضر ہوا تو انھوں نے پوچھا کہ کیا اس نے توبہ کرلی ہے ؟ اس نے کہا جی ہاں تو حضرت عمر (رض) نے فرمایا کہ پھر اس کی شادی کرادے۔

17210

(۱۷۲۱۱) حدَّثَنَا سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ عُرْوَۃَ ، عَنْ عَائِشَۃَ أَنَّ امْرَأَۃَ رِفَاعَۃَ الْقُرَظِیِّ جَائَتْ إلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَتْ : إنِّی کُنْتُ عِنْدَ رِفَاعَۃَ الْقُرَظِیِّ فَطَلَّقَنِی فَبَتَّ طَلاَقِی فَتَزَوَّجْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ الزَّبِیْرِ وَإِنَّمَا مَعَہُ مِثْلُ ہُدْبَۃِ الثَّوْبِ ، فَتَبَسَّمَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَقَالَ : تُرِیدِینَ أَنْ تَرْجِعِی إلَی رِفَاعَۃَ ؟ لاَ حَتَّی تَذُوقِی عُسَیْلَتَہُ وَیَذُوقَ عُسَیْلَتَکِ۔ (بخاری ۲۶۳۹۔ مسلم ۱۱۱)
(١٧٢١١) حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ رفاعہ قرظی کی بیوی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا کہ میں رفاعہ کے نکاح میں تھی، انھوں نے مجھے تین طلاقیں دے دیں۔ پھر میں نے عبد الرحمن بن زبیر سے شادی کی، وہ محض کپڑے کی جھالر کی طرح تھے۔ اس پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مسکرائے اور فرمایا ” اگر تم رفاعہ کے نکاح میں واپس جانے کا ارادہ رکھتی ہو تو یہ اس وقت تک درست نہیں جب تک تم دوسرے خاوند کا شہد نہ چکھ لو اور وہ تمہارا شہد نہ چکھ لے “

17211

(۱۷۲۱۲) حَدَّثَنَا أبو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، عَنِ الأَسْوَدِ ، عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ : سُئِلَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْہُ ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لاَ تحل لہ حَتَّی یَذُوقَ الآخر عُسَیْلَتَہَا وَتَذُوقَ عُسَیْلَتَہُ۔ (ابوداؤد ۲۳۰۳۔ احمد ۶/۴۲)
(١٧٢١٢) حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ عورت پہلے خاوند کے لیے حلال نہیں جب تک دوسرا شوہر اس عورت کا شہد نہ چکھ لے اور عورت اس کا شہد نہ چکھ لے۔

17212

(۱۷۲۱۳) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ ، عَنِ الْقَاسِمِ ، عَنْ عَائِشَۃَ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مثل حدیث الأعمش۔ (بخاری ۵۲۶۱۔ مسلم ۱۱۵)
(١٧٢١٣) ایک اور سند سے یونہی منقول ہے۔

17213

(۱۷۲۱۴) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ عَائِشَۃَ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِنَحْوہ۔ (بخاری ۵۲۶۵۔ مسلم ۱۱۴)
(١٧٢١٤) ایک اور سند سے یونہی منقول ہے۔

17214

(۱۷۲۱۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ عَلْقَمَۃَ بْنِ مَرْثَدٍ ، عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ رَزِینٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ : سُئِلَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، عَنْ رَجُلٍ طَلَّقَ امْرَأَتَہُ ثَلاَثًا فَتَزَوَّجَتْ زَوْجًا غَیْرَہُ فَأَغْلَقَ الْبَابَ وَأَرْخَی السِّتْرَ ثُمَّ طَلَّقَہَا قَبْلَ أَنْ یَدْخُلَ بِہَا قَالَ : لاَ تَحِلُّ لَہُ حَتَّی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَہُ وَتَذُوقَ عُسَیْلَتَہُ۔ قَالَ وَکِیعٌ بأخرۃ : رَزِینِ بْنِ سُلَیْمَانَ۔ (احمد ۲/۲۵۔ بیہقی ۳۷۵)
(١٧٢١٥) حضرت ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا گیا کہ ایک آدمی نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دیں، پھر اس عورت نے کسی دوسرے شخص سے شادی کی، اس نے دروازہ بند کیا اور پردہ ڈال لیا، پھرا سے دخول سے پہلے طلاق دے دی تو کیا وہ پہلے شوہر کے لیے حلال ہوگئی ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ نہیں جب تک وہ دوسرے خاوند سے شادی کرنے کے بعد اس کا شہد نہ چکھ لے۔

17215

(۱۷۲۱۶) حَدَّثَنَا شَریک ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ عَامِرٍ ، قَالَ : قَالَ عَلِیٌّ : لاَ تَحِلُّ لَہُ حَتَّی یَہُزَّہَا بِہِ ہَزِیزَ الْبِکْرِ ، قَالَ : وَقَالَتْ عَائِشَۃُ : حَتَّی یَذُوقَ الآخَرُ عُسَیْلَتَہَا وَتَذُوقَ عُسَیْلَتَہُ۔
(١٧٢١٦) حضرت علی (رض) فرماتے ہیں کہ وہ عورت پہلے خاوند کے لیے حلال نہیں جب تک وہ باکرہ عورت کی طرح اسے ہلا نہ لے۔ حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ وہ تب تک پہلے کے لیے حلال نہیں جب تک دوسرا اس کا شہد اور عورت اس کا شہد نہ چکھ لے۔

17216

(۱۷۲۱۷) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ یَزِیدَ الْہُنَائی ، عَنْ أَنَسٍ قَالَ : لاَ تَحِلُّ لِلأَوَّلِ حَتَّی یُجَامِعَہَا الآخَرُ وَیَدْخُلَ بِہَا۔
(١٧٢١٧) حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ وہ پہلے کے لیے اس وقت تک حلال نہیں ہے جب تک دوسرا اس سے جماع نہ کرلے اور اس سے دخول نہ کرلے۔

17217

(۱۷۲۱۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ مُبَارَکٍ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ أَبِی کَثِیرٍ ، عَنْ أَبِی تِحْیَی ، قَالَ : قَالَ أَبُو ہُرَیْرَۃَ : لاَ تَحِلُّ لِلأَوَّلِ حَتَّی یُجَامِعَہَا الآخَرُ۔
(١٧٢١٨) حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ وہ پہلے کے لیے اس وقت تک حلال نہیں جب تک دوسرا اس سے جماع نہ کرلے۔

17218

(۱۷۲۱۹) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، عَنْ مِسْعَرٍ ، عَنْ حَمَّادٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، عَن عَبْدِ اللہِ : لاَ تَحِلُّ لَہُ حَتَّی یُشَفْشِفَہَا بِہِ ، وَقَالَ علی: حَتَّی تَذُوقَ عُسَیْلَتَہُ۔
(١٧٢١٩) حضرت عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ وہ پہلے کے لیے اس وقت تک حلال نہیں جب تک دوسرا اس سے جماع نہ کرلے۔ حضرت علی (رض) فرماتے ہیں کہ جب تک وہ اس کا شہد نہ چکھ لے۔

17219

(۱۷۲۲۰) حدَّثَنَا الأَشْیَبُ الْحَسَنُ بْنُ مُوسَی ، عَنْ شَیْبَانَ ، عَنْ یَحْیَی ، عَنْ أَبِی الْحَارِثِ الْغِفَارِیِّ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : حَتَّی تَذُوقَ عُسَیْلَتَہُ۔ (ابن جریر ۴۷۷)
(١٧٢٢٠) حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ عورت پہلے خاوند کے لیے اس وقت تک حلال نہیں جب تک دوسرے کا شہد نہ چکھ لے۔

17220

(۱۷۲۲۱) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ خالد عن أَبِی قِلاَبَۃَ ، عَنْ أَنَسٍ قَالَ : إذَا تَزَوَّجَ الرَّجُلُ الْبِکْرَ عَلَی امْرَأَتِہِ أَقَامَ عِنْدَہَا سَبْعًا وَإِذَا تَزَوَّجَ الثَّیِّبَ أَقَامَ عِنْدَہَا ثَلاَثًا ، قَالَ خَالِدٌ : قَالَ أَبُو قِلاَبَۃَ : أَمَا لَوْ قُلْتُ : إنَّہُ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَلَکِنَّہَا سُنَّۃٌ قَالَ خَالِدٌ : فَحَدَّثْتُ بِہِ ابْنَ سِیرِینَ ، فَقَالَ : زِدْتُمْ ہَذِہِ أَرْبَعًا وَہَذِہِ لَیْلَۃً۔ (بخاری ۵۲۱۳۔ مسلم ۱۰۸۴)
(١٧٢٢١) حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ اگر آدمی بیوی کی موجودگی میں کسی باکرہ سے شادی کرے تو اس کے پاس سات دن ٹھہرے گا اور اگر ثیبہ سے شادی کرے تو اس کے پاس تین دن ٹھہرے گا۔ ابو قلابہ فرماتے ہیں کہ اگر تم چاہو تو یہ سمجھ لو کہ یہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے ہے یا یہ سنت ہے۔ حضرت خالد فرماتے ہیں کہ میں نے یہ بات حضرت ابن سیرین کو سنائی تو انھوں نے فرمایا کہ باکرہ کے لیے تم نے چار دن اور ثیبہ کے لیے ایک دن زیادہ کردیا۔

17221

(۱۷۲۲۲) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنْ أَبِی قِلاَبَۃَ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : لِلْبِکْرِ سَبْعًا وَلِلثَّیِّبِ ثَلاَثًا۔ (دارمی ۲۲۰۹۔ مسلم ۱۰۸۴)
(١٧٢٢٢) حضرت ابو قلابہ فرماتے ہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ باکرہ کے لیے سات دن اور ثیبہ کے لیے تین دن ہیں۔

17222

(۱۷۲۲۳) حَدَّثَنَا یَعْلَی بْنُ عُبَیْدٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إسحاق ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنْ أَبِی قِلاَبَۃَ ، عَنْ أَنَسٍ ، عَنِ النبی صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بمثلہ۔ (دارمی ۲۲۰۹)
(١٧٢٢٣) ایک اور سند سے یونہی منقول ہے۔

17223

(۱۷۲۲۴) حدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ عن سفیان ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِی بَکْرٍ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ أَبِی بَکْرِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ ہِشَامٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ أُمِّ سَلَمَۃَ ، أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَمَّا تَزَوَّجَ أُمَّ سَلَمَۃَ أَقَامَ عِنْدَہَا ثَلاَثًا وَقَالَ لَہَا : إنَّہُ لَیْسَ بِکِ عَلَی أَہْلِکِ ہَوَانٌ ، إِنْ شِئْتِ سَبَّعْتُ لَکِ ، وَإِنْ سَبَّعْتُ لَکِ سَبَّعْتُ لِنِسَائِی۔ (مسلم ۱۰۸۳۔ ابوداؤد ۲۱۱۵)
(١٧٢٢٤) حضرت ام سلمہ (رض) سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے نکاح فرمایا تو ان کے پاس تین دن قیام فرمایا۔ پھر ان سے فرمایا کہ آپ کے لیے آپ کے اہل کی طرف سے کوئی بوجھ نہیں۔ اگر آپ چاہیں تو میں آپ کے پاس سات دن رہوں اور اگر میں آپ کے پاس سات دن رہوں تو اپنی دوسری ازواج کے پاس بھی سات دن رہوں گا۔

17224

(۱۷۲۲۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنِ الْحَکَمِ قَالَ : لَمَّا تَزَوَّجَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أُمَّ سَلَمَۃَ أَقَامَ عِنْدَہَا ثَلاَثًا وَقَالَ : إِنْ شِئْتِ سَبَّعْتُ لَکِ ، وَإِنْ سَبَّعْتُ لَکِ سَبَّعْتُ لِغَیْرِکِ ، قِیلَ لِلْحَکَمِ : مَنْ حَدَّثَک ہَذَا الْحَدِیثَ ؟ فَقَالَ : ہَذَا الْحَدِیثُ عِنْدَ أَہْلِ الْحِجَازِ مَعْرُوفٌ۔
(١٧٢٢٥) حضرت حکم فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت ام سلمہ (رض) سے نکاح فرمایا تو ان کے پاس تین دن قیام فرمایا اور پھر ان سے کہا کہ اگر آپ چاہیں تو میں آپ کے پاس سات دن ٹھہر جاؤں اور اگر سات دن ٹھہرا تو دوسری ازواج کے پاس بھی سات دن ٹھہروں گا۔ حضرت حکم سے سوال کیا گیا کہ آپ کو یہ حدیث کس نے بتائی تو انھوں نے فرمایا کہ یہ حدیث اہل حجاز کے یہاں مشہور ہے۔

17225

(۱۷۲۲۶) حَدَّثَنَا عَبْدَۃ بن سلیمان ، عَنْ أَبِی سَعِیدٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ وَالشَّعْبِیِّ قَالاَ : إذَا تَزَوَّجَ الْبِکْرَ عَلَی امْرَأَتِہِ أَقَامَ عِنْدَہَا سَبْعًا وَإِذَا تَزَوَّجَ الثَّیِّبَ عَلَی امْرَأَتِہِ ، أَقَامَ عِنْدَہَا ثَلاَثًا۔
(١٧٢٢٦) حضرت ابراہیم اور حضرت شعبی فرماتے ہیں کہ جب آدمی بیوی کی موجودگی میں کسی باکرہ سے شادی کرے تو اس کے پاس سات دن قیام کرے۔ اور اگر ثیبہ سے شادی کرے تو اس کے پاس تین دن قیام کرے۔

17226

(۱۷۲۲۷) حَدَّثَنَا عَبدَۃ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ مِثْلَہُ۔
(١٧٢٢٧) حضرت انس (رض) سے بھی یونہی منقول ہے۔

17227

(۱۷۲۲۸) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ قَالَ : لِلْبِکْرِ ثَلاَثًا وَلِلثَّیِّبِ لَیلَتَین۔
(١٧٢٢٨) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ آدمی باکرہ کے پاس تین دن اور ثیبہ کے پاس دو راتیں ٹھہرے گا۔

17228

(۱۷۲۲۹) حَدَّثَنَا عَبدَۃ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنِ الْحَسَنِ قَالَ یُقِیمُ عِنْدَ الْبِکْرِ ثَلاَثًا ولِلثَّیِّبِ لَیْلَتَیْنِ۔
(١٧٢٢٩) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ آدمی باکرہ کے پاس تین دن اور ثیبہ کے پاس دو راتیں ٹھہرے گا۔

17229

(۱۷۲۳۰) حَدَّثَنَا عَبدَۃ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنِ الْحَسَنِ قَالَ : یُقِیمُ عِنْدَ الْبِکْرِ ثَلاَثًا وَیَقْسِمُ وَإِذَا تَزَوَّجَ الثَّیِّبَ أَقَامَ لَیْلَتَیْنِ ثُمَّ یَقْسِمُ۔
(١٧٢٣٠) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ باکرہ کے پاس تین دن قیام کرے پھر تقسیم کرے اور ثیبہ سے شادی کے بعد اس کے پاس دو راتیں قیام کرے اور پھر تقسیم کرے۔

17230

(۱۷۲۳۱) حدَّثَنَا ابْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ بَلَغَہُ قَالَ : الْبِکْرُ ثَلاَثًا وَالثَّیِّبُ لَیْلَتَیْنِ۔
(١٧٢٣١) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ باکرہ کے لیے تین اور ثیبہ کے لیے دو راتیں ہیں۔

17231

(۱۷۲۳۲) حَدَّثَنَا ابْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنْ زَمْعَۃَ ، عَنْ سَلَمَۃَ بْنِ وَہْرَام ، عَنْ عِکْرِمَۃَ قَالَ : لِلْبِکْرِ سَبْعًا وَلِلثَّیِّبِ ثَلاَثًا۔
(١٧٢٣٢) حضرت عکرمہ فرماتے ہیں کہ باکرہ کے لیے سات اور ثیبہ کے لیے تین راتیں ہیں۔

17232

(۱۷۲۳۳) حَدَّثَنَا أَبُو قَطَنٍ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنِ الْحَکَمِ وَحَمَّادٍ قَالاَ : ہُمَا سَوَائٌ فِی الْقَسْمِ۔
(١٧٢٣٣) حضرت حکم اور حضرت حماد فرماتے ہیں کہ باکرہ اور ثیبہ تقسیم میں برابر ہیں۔

17233

(۱۷۲۳۴) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ بْنُ عَطَائٍ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، وَسَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ وَخِلاَسٍ قَالُوا : إذَا تَزَوَّجَ الْبِکْرَ عَلَی امْرَأَتِہِ أَقَامَ عنْدَہَا ثَلاَثًا ثُمَّ یَقْسِمُ ، وَإِذَا تَزَوَّجَ الثَّیِّبَ أَقَامَ لَیْلَتَیْنِ ثُمَّ یَقْسِمُ۔
(١٧٢٣٤) حضرت حسن، حضرت سعید بن مسیب اور حضرت خلاس فرماتے ہیں کہ جب بیوی کی موجودگی میں باکرہ سے شادی کی تو اس کے پاس تین دن قیام کرے، اور اگر ثیبہ سے شادی کرے تو اس کے پاس دو راتیں قیام کرے۔ پھر تقسیم کرے۔

17234

(۱۷۲۳۵) حَدَّثَنَا یَزِیدُ ، عَنْ حُمَیْدٍ ، عَنْ أَنَسٍ قَالَ : مِنَ السُّنَّۃِ لِلْبِکْرِ سَبْعًا وَلِلثَّیِّبِ ثَلاَثًا ، قَالَ حُمَیْدٌ : وَقَالَ الْحَسَنُ : سَبْعًا وَلَیْلَتَیْنِ۔
(١٧٢٣٥) حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ سنت یہ ہے کہ باکرہ کے پاس سات دن اور ثیبہ کے پاس تین دن قیام کرے۔ حضرت حسن سات اور دو راتوں کی تقسیم کے قائل تھے۔

17235

(۱۷۲۳۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ غَیْلاَنَ بْنِ جَامِعٍ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ الزرَّاد ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنْ قَمِیر ، عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ : الْمُسْتَحَاضَۃُ لاَ یَأْتِیہَا زَوْجُہَا۔
(١٧٢٣٦) حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ مستحاضہ کا خاوند اس سے جماع نہ کرے۔

17236

(۱۷۲۳۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، أَنَّہُ کَرِہَ أَنْ یُجَامِعَہَا زَوْجُہَا۔
(١٧٢٣٧) حضرت ابراہیم مستحاضہ بیوی سے وطی کو مکروہ خیال فرماتے تھے۔

17237

(۱۷۲۳۸) حَدَّثَنَا عَبْدُ الوَہَّاب الثَّقَفِیُّ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنْ مُحَمَّدٍ أَنَّہُ کَانَ یَکْرَہُ أَنْ یَأْتِیَ الرَّجُلُ امْرَأَتَہُ وَہِیَ مُسْتَحَاضَۃٌ۔
(١٧٢٣٨) حضرت محمد مستحاضہ بیوی سے وطی کو مکروہ خیال فرماتے تھے۔

17238

(۱۷۲۳۹) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنِ الْحَکَمِ قَالَ : لاَ یَغْشَاہَا وَلاَ تَصُومُ۔
(١٧٢٣٩) حضرت حکم فرماتے ہیں کہ مستحاضہ کا خاوند اس سے وطی نہ کرے گا اور وہ روزہ بھی نہ رکھے گی۔

17239

(۱۷۲۴۰) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ مَیْسَرَۃَ ، قَالَ: قَالَ الشَّعْبِیُّ: لاَ تَصُومُ وَلاَ یَغْشَاہَا زَوْجُہَا۔
(١٧٢٤٠) حضرت شعبی فرماتے ہیں کہ مستحاضہ نہ روزہ رکھے اور نہ اس کا خاوند اس سے جماع کرے۔

17240

(۱۷۲۴۱) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ، عَنْ أَیُّوبَ قَالَ: قُلْتُ لِسُلَیْمَانَ بْنِ یَسَارٍ: یَأْتِیہَا زَوْجُہَا؟ قَالَ: مَا نَقُولُ فِیہِ إلاَّ مَا سَمِعْنَا۔
(١٧٢٤١) حضرت ایوب کہتے ہیں کہ میں نے حضرت سلیمان بن یسار سے سوال کیا کہ کیا مستحاضہ کا خاوند اس سے جماع کرسکتا ہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ ہم اس کے بارے میں وہی کہتے ہیں جو ہم نے اس بارے میں سنا ہے۔

17241

(۱۷۲۴۲) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنِ الشَّیْبَانِیِّ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ قَالَ : الْمُسْتَحَاضَۃُ یَأْتِیہَا زَوْجُہَا۔
(١٧٢٤٢) حضرت عکرمہ فرماتے ہیں کہ مستحاضہ کا خاوند اس سے وطی کرسکتا ہے۔

17242

(۱۷۲۴۳) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِی عَدِیٍّ ، عَنْ حُمَیْدٍ ، عَنْ بَکْرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ قَالَ : بَلَغَنِی أَنَّ الْحَجَّاجَ قَالَ : إذَا شَکَّتْ فِی الْحَیْضِ اغْتَسَلَتْ وَصَلَّتْ وَلاَ یَقْرَبُہَا حَتَّی تَطْہُرَ ، فَقَالَ : بِئْسَ مَا قَالَ ، الصَّلاَۃُ أَعْظَمُ حُرْمَۃً۔
(١٧٢٤٣) ایک مرتبہ حجاج نے بیان کیا کہ جب عورت کو حیض کا شک ہو تو وہ غسل کرکے نماز پڑھ لے اور اس کا خاوند اس کے قریب اس وقت تک نہ جائے جب تک پاک نہ ہوجائے۔ کسی نے کہا کہ اس نے بدترین بات کی ہے کیونکہ نماز زیادہ احترام والی چیز ہے۔

17243

(۱۷۲۴۴) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سَالِمٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنْ عَلِیٍّ قَالَ : یَأْتِیہَا زَوْجُہَا۔
(١٧٢٤٤) حضرت علی (رض) فرماتے ہیں کہ مستحاضہ کا خاوند اس سے جماع کرسکتا ہے۔

17244

(۱۷۲۴۵) حَدَّثَنَا أَسْبَاطُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنْ عَطَائٍ قَالَ : یَأْتِیہَا زَوْجُہَا۔
(١٧٢٤٥) حضرت عطاء فرماتے ہیں کہ مستحاضہ کا خاوند اس سے جماع کرسکتا ہے۔

17245

(۱۷۲۴۶) حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ خَالِدٍ ، عَنِ ابْنِ أَبِی ذِئْبٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ قَالَ : یَغْشَاہَا زَوْجُہَا إِنْ شَائَ۔
(١٧٢٤٦) حضرت زہری فرماتے ہیں کہ مستحاضہ کا خاوند اگر چاہے اس سے جماع کرسکتا ہے۔

17246

(۱۷۲۴۷) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ َشُعْبَۃَ ، عَنْ حَمَّادٍ فِی الْمُسْتَحَاضَۃِ : یَأْتِیہَا زَوْجُہَا وَتَصُومُ۔
(١٧٢٤٧) حضرت حماد فرماتے ہیں کہ مستحاضہ کا خاوند اس سے جماع کرسکتا ہے اور وہ روزہ بھی رکھے گی۔

17247

(۱۷۲۴۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سفیان عن سَالِمٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ فی المستحاضۃ قَالَ : یَأْتِیہَا ، الصَّلاَۃُ أَعْظَمُ حُرْمَۃً۔
(١٧٢٤٨) حضرت سعید بن جبیر فرماتے ہیں کہ مستحاضہ کا خاوند اس سے جماع کرسکتا ہے۔ اور نماز زیادہ حرمت والی چیز ہے۔

17248

(۱۷۲۴۹) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنِ سعید بْنِ الْمُسَیَّبِ ، وَالْحَسَنِ فِی الْمُسْتَحَاضَۃِ : تَصُومُ وَتُصَلِّی وَتَقْضِی الْمَنَاسِکَ وَیَغْشَاہَا زَوْجُہَا۔
(١٧٢٤٩) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ مستحاضہ روزہ رکھے گی اور نماز پڑھے گی اور مناسک ادا کرے گی اور اس کا خاوند اس سے جماع کرسکتا ہے۔

17249

(۱۷۲۵۰) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الْحَکَمِ وَحَمَّادٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالَ : الْمُسْتَحَاضَۃُ تَصُومُ وَتُصَلِّی وَیَأْتِیہَا زَوْجُہَا۔
(١٧٢٥٠) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ مستحاضہ روزہ رکھے گی اور نماز پڑھے گی اور اس کا خاوند اس سے جماع کرسکتا ہے۔

17250

(۱۷۲۵۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ مَعْمَرِ بْنِ مُوسَی ، عَنْ أَبِی جَعْفَرٍ قَالَ : الْمُسْتَحَاضَۃُ یَأْتِیہَا زَوْجُہَا۔
(١٧٢٥١) حضرت ابو جعفر فرماتے ہیں کہ مستحاضہ کا خاوند اس سے جماع کرسکتا ہے۔

17251

(۱۷۲۵۲) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ ، قَالَ : قَالَ شُرَیْحٌ : ہُوَ الزَّوْجُ یَعنِِْی {الَّذِی بِیَدِہِ عُقْدَۃُ النِّکَاحِ}۔
(١٧٢٥٢) حضرت شریح قرآن مجید کی آیت { الَّذِیْ بِیَدِہٖ عُقْدَۃُ النِّکَاحِ } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اس سے مراد خاوند ہے۔

17252

(۱۷۲۵۳) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ أَبِی مُلَیْکَۃَ ، قَالَ : قَالَ سَعِیدُ بْنُ جُبَیْرٍ : {الَّذِی بِیَدِہِ عُقْدَۃُ النِّکَاحِ} ہُوَ الزَّوْجُ۔
(١٧٢٥٣) حضرت سعید بن جبیر قرآن مجید کی آیت { الَّذِی بِیَدِہِ عُقْدَۃُ النِّکَاحِ } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اس سے مراد خاوند ہے۔

17253

(۱۷۲۵۴) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، قَالَ : قَالَ مُجَاہِدٌ : {الَّذِی بِیَدِہِ عُقْدَۃُ النِّکَاحِ} ہُوَ الزَّوْجُ ، {إلاَّ أَنْ یَعْفُونَ} ترد الْمَرْأَۃُ شَطْرَہَا {أَوْ یَعْفُوَا الَّذِی بِیَدِہِ عُقْدَۃُ النِّکَاحِ} إتْمَامُ الزَّوْجِ الصَّدَاقَ کُلَّہُ۔
(١٧٢٥٤) حضرت مجاہد قرآن مجید کی آیت { الَّذِیْ بِیَدِہٖ عُقْدَۃُ النِّکَاحِ } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اس سے مراد خاوند ہے۔ {إلاَّ أَنْ یَعْفُونَ } سے مراد یہ ہے کہ عورت اپنا حصہ لوٹا دے۔ { أَوْ یَعْفُوَ الَّذِیْ بِیَدِہٖ عُقْدَۃُ النِّکَاحِ } سے مراد یہ ہے کہ خاوند پورا پورا مہر ادا کردے۔

17254

(۱۷۲۵۵) حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، عَنْ شُرَیْحٍ ، وَعن إِسماعیل ، عَنِ الشَّعبی ، عَنْ شُرَیْحٍ وَجُوَیْبِرٌ ، عَنِ الضَّحَّاکِ قَالُوا : ہُوَ الزَّوْجُ۔
(١٧٢٥٥) حضرت ابراہیم، حضرت شریح، حضرت شعبی ، حضرت ضحاک قرآن مجید کی آیت { أَوْ یَعْفُوَا الَّذِیْ بِیَدِہٖ عُقْدَۃُ النِّکَاحِ } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اس سے مراد خاوند ہے۔

17255

(۱۷۲۵۶) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ ، عَنِ ابْنِ أَبِی عَرُوبَۃَ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنِ ابْنِ الْمُسَیَّبِ : {إلاَّ أَنْ یَعْفُونَ أَوْ یَعْفُوَا الَّذِی بِیَدِہِ عُقْدَۃُ النِّکَاحِ} قَالَ : الَّذِی بِیَدِہِ عُقْدَۃُ النِّکَاحِ الزَّوْجُ ، إِنْ شَائَتْ أَنْ تَعْفُوَ ہِیَ فَلاَ تَأْخُذْ مِنْ صَدَاقِہَا شَیْئًا ، وَإِنْ شَائَ فَہُوَ بَیْنَہُمَا نِصْفَیْنِ۔
(١٧٢٥٦) حضرت سعید بن مسیب قرآن مجید کی آیت {إلاَّ أَنْ یَعْفُونَ أَوْ یَعْفُوَا الَّذِی بِیَدِہِ عُقْدَۃُ النِّکَاحِ } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اس سے مراد خاوند ہے۔ اگر عورت چاہے تو مہر معاف کردے اور کچھ بھی نہ لے اور اگر چاہے تو آدھا آدھا تقسیم کرلیں۔

17256

(۱۷۲۵۷) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمرو أَنَّ نَافِعَ بْنَ جُبَیْرٍ طَلَّقَ امْرَأَتَہُ قَبْلَ أَنْ یَدْخُلَ بِہَا فَأَتَمَّ لَہَا الصَّدَاقَ وَقَالَ : أَنَا أَحَقُّ بِالْعَفْوِ۔
(١٧٢٥٧) حضرت نافع بن جبیر نے عورت کو دخول سے پہلے طلاق دی اور اسے پورا مہر دیا اور فرمایا کہ میں زیادہ دینے کا زیادہ حق دار ہوں۔

17257

(۱۷۲۵۸) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ حُبَابٍ ، عَنْ أَفْلَحَ بن سَعِیدٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ کَعْبٍ یَقُولُ : {الَّذِی بِیَدِہِ عُقْدَۃُ النِّکَاحِ} ہُوَ الزَّوْجُ ، یُعْطِی مَا عِنْدَہُ عَفْوًا۔
(١٧٢٥٨) حضرت محمد بن کعب قرآن مجید کی آیت { الَّذِی بِیَدِہِ عُقْدَۃُ النِّکَاحِ } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اس سے مراد خاوند ہے۔ وہ زیادہ دے سکتا ہے۔

17258

(۱۷۲۵۹) حَدَّثَنَا الثَّقَفِیُّ ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ ، عَنْ نَافِعٍ قَالَ : {الَّذِی بِیَدِہِ عُقْدَۃُ النِّکَاحِ} الزَّوْجُ ، وَأَمَّا قَوْلُہُ : {إلاَّ أَنْ یَعْفُونَ أَوْ یَعْفُوَا الَّذِی بِیَدِہِ عُقْدَۃُ النِّکَاحِ} فَہِیَ الْمَرْأَۃُ یُطَلِّقُہَا زَوْجُہَا قَبْلَ أَنْ یَدْخُلَ بِہَا فَإِمَّا أَنْ تَعْفُوَ ، عَنِ النِّصْفِ لِزَوْجِہَا وَإِمَّا أَنْ یَعْفُوَ زَوْجُہَا فَیُکْمِلَ لَہَا الصَّدَاقَ۔
(١٧٢٥٩) حضرت نافع قرآن مجید کی آیت { الَّذِی بِیَدِہِ عُقْدَۃُ النِّکَاحِ } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اس سے مراد خاوند ہے۔ اور وہ عورت جسے اس کا خاوند دخول سے پہلے طلاق دے تو عورت چاہے تو آدھا مہر معاف کردے اور اگر آدمی چاہے تو باقی ماندہ آدھا مہر دے کر پورا مہر ہی دے۔

17259

(۱۷۲۶۰) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ ، عَنِ التَّیْمِیِّ ، عَنْ أَبِی مِجْلَزٍ ، عَنْ شُرَیْحٍ قَالَ : ہُوَ الزَّوْجُ۔
(١٧٢٦٠) حضرت شریح قرآن مجید کی آیت { الَّذِیْ بِیَدِہٖ عُقْدَۃُ النِّکَاحِ } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اس سے مراد خاوند ہے۔

17260

(۱۷۲۶۱) حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ ، عَنْ زُہَیْرٍ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ قَالَ : ہُوَ الزَّوْجُ۔
(١٧٢٦١) حضرت شعبی قرآن مجید کی آیت { الَّذِیْ بِیَدِہٖ عُقْدَۃُ النِّکَاحِ } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اس سے مراد خاوند ہے۔

17261

(۱۷۲۶۲) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ أَبِی بِشْرٍ ، عَنْ طَاوُوسٍ ، وَمُجَاہِدٍ قَالاَ: {الَّذِیْ بِیَدِہٖ عُقْدَۃُ النِّکَاحِ} ہُوَ الْوَلِیُّ وَقَالَ سَعِیدُ بْنُ جُبَیْرٍ : ہُوَ الزَّوْجُ ، فَکَلَّمَاہُ فِی ذَلِکَ فَمَا بَرِحَا حَتَّی تَابَعَا سَعِیدًا۔
(١٧٢٦٢) حضرت طاوس اور حضرت مجاہد قرآن مجید کی آیت { الَّذِیْ بِیَدِہٖ عُقْدَۃُ النِّکَاحِ } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اس سے مراد ولی ہے۔ حضرت سعید بن جبیر فرماتے ہیں کہ اس سے مراد خاوند ہے۔ ان دونوں حضرات نے اس بارے میں حضرت سعید سے بات کی اور دونوں حضرت سعید کے نکتہ نظر کے قائل ہوگئے۔

17262

(۱۷۲۶۳) حَدَّثَنَا حُمَیْدٌ ، عَنِ الْحَسَنِ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنْ سَعِیدٍ قَالَ : ہُوَ الزَّوْجُ۔
(١٧٢٦٣) حضرت سعید قرآن مجید کی آیت { الَّذِیْ بِیَدِہٖ عُقْدَۃُ النِّکَاحِ } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اس سے مراد خاوند ہے۔

17263

(۱۷۲۶۴) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ آدَمَ ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَۃَ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ زَیْدٍ، عَنْ عَمَّارِ بْنِ أَبِی عَمَّارٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ : {الَّذِیْ بِیَدِہٖ عُقْدَۃُ النِّکَاحِ} الزَّوْجُ۔
(١٧٢٦٤) حضرت ابن عباس (رض) قرآن مجید کی آیت { الَّذِیْ بِیَدِہٖ عُقْدَۃُ النِّکَاحِ } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اس سے مراد خاوند ہے۔

17264

(۱۷۲۶۵) حَدَّثَنَا ابْنُ الدَّرَاوَرْدِیِّ ، عَنْ عُمَرَ مَوْلَی غُفْرَۃَ أَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ کَعْبٍ کَانَ یَقُولُ : {الَّذِیْ بِیَدِہٖ عُقْدَۃُ النِّکَاحِ} الزَّوْجُ۔
(١٧٢٦٥) حضرت کعب قرآن مجید کی آیت { الَّذِیْ بِیَدِہٖ عُقْدَۃُ النِّکَاحِ } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اس سے مراد خاوند ہے۔

17265

(۱۷۲۶۶) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ وَوَکِیعٌ ، عَنْ جَرِیرِ بْنِ حَازِمٍ ، عَنْ عِیسَی بْنِ عاصم ، عَنْ عَلِیٍّ قَالَ : الزَّوْجُ۔ (بیہقی ۲۵۱۔ طبری ۲۳۷)
(١٧٢٦٦) حضرت علی (رض) قرآن مجید کی آیت { الَّذِیْ بِیَدِہٖ عُقْدَۃُ النِّکَاحِ } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اس سے مراد خاوند ہے۔

17266

(۱۷۲۶۷) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنِ الأَعْمَشِِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، عَنْ شُرَیْحٍ قَالَ : ہُوَ الزَّوْجُ۔
(١٧٢٦٧) حضرت شریح قرآن مجید کی آیت { الَّذِیْ بِیَدِہٖ عُقْدَۃُ النِّکَاحِ } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اس سے مراد خاوند ہے۔

17267

(۱۷۲۶۸) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنِ الْحَکَمِ ، عَنْ شُرَیْحٍ قَالَ : ہُوَ الزَّوْجُ۔
(١٧٢٦٨) حضرت شریح قرآن مجید کی آیت { الَّذِیْ بِیَدِہٖ عُقْدَۃُ النِّکَاحِ } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اس سے مراد خاوند ہے۔

17268

(۱۷۲۶۹) حَدَّثَنَا مَرْوَانُ ، عَنْ جُوَیْبِرٍ ، عَنِ الضَّحَّاکِ قَالَ : ہُوَ الزَّوْجُ۔
(١٧٢٦٩) حضرت ضحاک قرآن مجید کی آیت { الَّذِیْ بِیَدِہٖ عُقْدَۃُ النِّکَاحِ } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اس سے مراد خاوند ہے۔

17269

(۱۷۲۷۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ لَیْثٍ، عَنْ مُجَاہِدٍ: {إلاَّ أَنْ یَعْفُونَ أَوْ یَعْفُوَا الَّذِی بِیَدِہِ عُقْدَۃُ النِّکَاحِ} قَالَ : الزَّوْجُ۔
(١٧٢٧٠) حضرت مجاہد قرآن مجید کی آیت {إلاَّ أَنْ یَعْفُونَ أَوْ یَعْفُوَا الَّذِی بِیَدِہِ عُقْدَۃُ النِّکَاحِ } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اس سے مراد خاوند ہے۔

17270

(۱۷۲۷۱) حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ ، عَنْ إسْرَائِیلَ ، عَنْ خُصَیْفٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ، وَمُجَاہِدٍ قَالاَ : {الَّذِیْ بِیَدِہٖ عُقْدَۃُ النِّکَاحِ} الزَّوْجُ۔
(١٧٢٧١) حضرت جبیر اور حضرت مجاہد قرآن مجید کی آیت { الَّذِیْ بِیَدِہٖ عُقْدَۃُ النِّکَاحِ } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اس سے مراد خاوند ہے۔

17271

(۱۷۲۷۲) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَطَائٍ قَالَ : ہُوَ الْوَلِیُّ۔
(١٧٢٧٢) حضرت عطاء قرآن مجید کی آیت { أَوْ یَعْفُوَا الَّذِیْ بِیَدِہٖ عُقْدَۃُ النِّکَاحِ } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اس سے مراد ولی ہے۔

17272

(۱۷۲۷۳) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ أَبِی رَجَائٍ قَالَ: سُئِلَ الْحَسَنُ ، عَنِ {الَّذِیْ بِیَدِہٖ عُقْدَۃُ النِّکَاحِ} قَالَ: ہُوَ الْوَلِیُّ۔
(١٧٢٧٣) حضرت حسن قرآن مجید کی آیت { الَّذِیْ بِیَدِہٖ عُقْدَۃُ النِّکَاحِ } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اس سے مراد ولی ہے۔

17273

(۱۷۲۷۴) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنِ الأَعْمَشِِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، عَنْ عَلْقَمَۃَ قَالَ : ہُوَ الْوَلِیُّ۔
(١٧٢٧٤) حضرت علقمہ قرآن مجید کی آیت { الَّذِیْ بِیَدِہٖ عُقْدَۃُ النِّکَاحِ } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اس سے مراد ولی ہے۔

17274

(۱۷۲۷۵) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنْ رَجُلٍ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ قَالَ ہُوَ الْوَلِیُّ۔
(١٧٢٧٥) حضرت عکرمہ قرآن مجید کی آیت { الَّذِیْ بِیَدِہٖ عُقْدَۃُ النِّکَاحِ } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اس سے مراد ولی ہے۔

17275

(۱۷۲۷۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالَ ہُوَ الْوَلِیُّ۔
(١٧٢٧٦) حضرت ابراہیم قرآن مجید کی آیت { الَّذِیْ بِیَدِہٖ عُقْدَۃُ النِّکَاحِ } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اس سے مراد ولی ہے۔

17276

(۱۷۲۷۷) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ قَالَ : الَّذِی بِیَدِہِ عُقْدَۃُ النِّکَاحِ الأَبُ۔
(١٧٢٧٧) حضرت زہری قرآن مجید کی آیت { الَّذِیْ بِیَدِہٖ عُقْدَۃُ النِّکَاحِ } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اس سے مراد باپ ہے۔

17277

(۱۷۲۷۸) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ الْحَسَنِ قَالَ : ہُوَ الْوَلِیُّ۔
(١٧٢٧٨) حضرت حسن قرآن مجید کی آیت { الَّذِیْ بِیَدِہٖ عُقْدَۃُ النِّکَاحِ } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اس سے مراد ولی ہے۔

17278

(۱۷۲۷۹) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ {إلاَّ أَنْ یَعْفُونَ} قَالَ : الثَّیِّبَاتُ {أَوْ یَعْفُوَا الَّذِی بِیَدِہِ عُقْدَۃُ النِّکَاحِ} وَلِیُّ الْبِکْرِ۔
(١٧٢٧٩) حضرت زہری فرماتے ہیں کہ {إلاَّ أَنْ یَعْفُونَ } سے مراد ثیبہ عورتیں ہیں اور { أَوْ یَعْفُوَا الَّذِی بِیَدِہِ عُقْدَۃُ النِّکَاحِ } سے مراد باکرہ کا ولی ہے۔

17279

(۱۷۲۸۰) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِینَارٍ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : رَضِیَ اللَّہُ بِالْعَفْوِ وَأَمَرَ بِہِ فَإِنْ عَفَتْ عَفَتْ ، وَإِنْ أَبَتْ وَعَفَا وَلِیُّہَا جَازَ ، وَإِنْ أَبَتْ۔
(١٧٢٨٠) حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ زائد دینے سے خوش ہوتا ہے اور اللہ نے اسی کا حکم دیا ہے۔ اگر عورت معاف کردے تو معاف ہوگا اور اگر وہ انکار کردے تو اس کا ولی معاف کرسکتا ہے، ولی کا معاف کرنا جاری ہوگا خواہ عورت انکار ہی کرے۔

17280

(۱۷۲۸۱) حَدَّثَنَا زِیَادُ بْنُ الرَّبِیعِ ، عَنْ صَالِحٍ الدَّہَّانِ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ زَیْدٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ : {وَلاَ یُبْدِینَ زِینَتَہُنَّ} قَالَ : الْکَفُّ وَرُقْعَۃُ الْوَجْہِ۔
(١٧٢٨١) حضرت ابن عباس (رض) قرآن مجید کی آیت { وَلَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَھُنَّ } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اس سے مراد ہتھیلیاں اور چہرہ ہے۔

17281

(۱۷۲۸۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِی الأَحْوَصِ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ : {وَلاَ یُبْدِینَ زِینَتَہُنَّ إلاَّ مَا ظَہَرَ مِنْہَا} قَالَ : الثِّیَابُ۔
(١٧٢٨٢) حضرت عبداللہ (رض) قرآن مجید کی آیت { وَلَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَھُنَّ اِلَّا مَاظَھَرَ مِنْھَا } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اس سے مراد کپڑے ہیں۔

17282

(۱۷۲۸۳) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ عِمرَان بْنِ سُلَیْمَانَ ، عَنْ أَبِی صَالِحٍ ، وَعِکْرِمَۃَ : {وَلاَ یُبْدِینَ زِینَتَہُنَّ} قَالاَ : الْکُحْلُ وَالْخَاتَمُ وَالثِّیَابُ۔
(١٧٢٨٣) حضرت ابو صالح اور حضرت عکرمہ قرآن مجید کی آیت { وَلَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَھُنَّ } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اس سے مراد سرمہ، انگوٹھی اور کپڑے ہیں۔

17283

(۱۷۲۸۴) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ {وَلاَ یُبْدِینَ زِینَتَہُنَّ} قَالَ : مَا فَوْقَ الدِّرْعِ إلاَّ مَا ظَہَرَ مِنْہَا۔
(١٧٢٨٤) حضرت ابراہیم قرآن مجید کی آیت { وَلَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَھُنَّ } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اس سے مراد وہ چیز ہے جو چادر کے اوپر ہے۔ البتہ جو ظاہر ہو اس کی گنجائش ہے۔

17284

(۱۷۲۸۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ عَلْقَمَۃَ بْنِ مَرْثَدٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالَ : الثِّیَابُ۔
(١٧٢٨٥) حضرت ابراہیم قرآن مجید کی آیت { وَلَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَھُنَّ اِلَّا مَاظَھَرَ مِنْھَا } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اس سے مراد کپڑے ہیں۔

17285

(۱۷۲۸۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ قَالَ ، الْکُحْلُ وَالثِّیَابُ۔
(١٧٢٨٦) حضرت شعبی قرآن مجید کی آیت { وَلَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَھُنَّ اِلَّا مَاظَھَرَ مِنْھَا } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اس سے مراد کپڑے اور سرمہ ہیں۔

17286

(۱۷۲۸۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَۃَ ، عَنْ أُمِّ شَبِیبٍ ، عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ : الْقُلْبُ وَالْفَتْخَۃُ۔
(١٧٢٨٧) حضرت عائشہ (رض) قرآن مجید کی آیت { وَلَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَھُنَّ اِلَّا مَاظَھَرَ مِنْھَا } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اس سے مراد کنگن اور انگوٹھی ہیں۔

17287

(۱۷۲۸۸) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ بْنِ أَبِی خَالِدٍ ، عَنْ مَاہَانَ : إلاَّ مَا ظَہَرَ مِنْہَا ، قَالَ : الثِّیَابُ۔
(١٧٢٨٨) حضرت ماہان قرآن مجید کی آیت { وَلَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَھُنَّ اِلَّا مَاظَھَرَ مِنْھَا } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اس سے مراد کپڑے ہیں۔

17288

(۱۷۲۸۹) حَدَّثَنَا مُعْتَمر ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ ابْنِ شِہَابٍ ، عَنِ الْحَسَنِ قَالَ : الْوَجْہُ وَالثِّیَابُ۔
(١٧٢٨٩) حضرت حسن قرآن مجید کی آیت { وَلَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَھُنَّ اِلَّا مَاظَھَرَ مِنْھَا } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اس سے مراد کپڑے اور چہرہ ہیں۔

17289

(۱۷۲۹۰) حَدَّثَنَا شَبَابَۃُ بْنُ سَوَّارٍ قَالَ : حدَّثَنَا ہِشَامُ بْنُ الْغَازِ قَالَ : حدَّثَنَا نَافِعٌ عن ابْنِ عُمَرَ قَالَ : الزِّینَۃُ الظَّاہِرَۃُ: الْوَجْہُ وَالْکَفَّانِ۔
(١٧٢٩٠) حضرت ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ ظاہری زینت چہرہ اور ہتھیلیاں ہیں۔

17290

(۱۷۲۹۱) حَدَّثَنَا شَبَابَۃُ بْنُ سَوَّارٍ قَالَ : حدَّثَنَا ہِشَامُ بْنُ الْغَازِ ، قَالَ : سَمِعْتُ عَطَائً یَقُولُ : الزِّینَۃُ الظَّاہِرَۃُ : الْخِضَابُ وَالْکُحْلُ۔
(١٧٢٩١) حضرت عطاء فرماتے ہیں کہ ظاہری زینت خضاب اور سرمہ ہیں۔

17291

(۱۷۲۹۲) حَدَّثَنَا شَبَابَۃُ ، عَنْ ہِشَامٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ مَکْحُولاً یَقُولُ : الزِّینَۃُ الظَّاہِرَۃُ : الْوَجْہُ وَالْکَفَّانِ۔
(١٧٢٩٢) حضرت مکحول فرماتے ہیں کہ ظاہری زینت چہرہ اور ہتھیلیاں ہیں۔

17292

(۱۷۲۹۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ مِسْعَرٍ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِی الأَحْوَصِ قَالَ : الثِّیَابُ۔
(١٧٢٩٣) حضرت ابو الاحوص قرآن مجید کی آیت { وَلَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَھُنَّ اِلَّا مَاظَھَرَ مِنْھَا } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اس سے مراد کپڑے ہیں۔

17293

(۱۷۲۹۴) حَدَّثَنَا عَفَّانُ قَالَ : حدَّثَنَا سَعِیدُ بْنُ زَیْدٍ قَالَ : حدَّثَنَا عَطَائُ بْنُ السَّائِبِ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ : {وَلاَ یُبْدِینَ زِینَتَہُنَّ إلاَّ مَا ظَہَرَ مِنْہَا} الْخَاتَمُ وَالْخِضَابُ وَالْکُحْلُ۔
(١٧٢٩٤) حضرت سعید بن جبیر قرآن مجید کی آیت { وَلَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَھُنَّ اِلَّا مَاظَھَرَ مِنْھَا } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اس سے مراد انگوٹھی، خضاب اور سرمہ ہیں۔

17294

(۱۷۲۹۵) حَدَّثَنَا عَفَّانُ قَالَ : حدَّثَنَا سَعِیدُ بْنُ زَیْدٍ قَالَ : حدَّثَنَا لَیْثٌ ، عَنْ مُجَاہِدٍ قَالَ : الْخِضَابُ وَالْکُحْلُ۔
(١٧٢٩٥) حضرت مجاہد قرآن مجید کی آیت { وَلَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَھُنَّ اِلَّا مَاظَھَرَ مِنْھَا } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اس سے مراد خضاب اور سرمہ ہیں۔

17295

(۱۷۲۹۶) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِی الأَحْوَصِ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ قَالَ: الزِّینَۃُ زِینَتَانِ : زِینَۃٌ ظَاہِرَۃٌ وَزِینَۃٌ بَاطِنَۃٌ لاَ یَرَاہَا إلاَّ الزَّوْجُ ، وَأَمَّا الزِّینَۃُ الظَّاہِرَۃُ فَالثِّیَابُ ، وَأَمَّا الزِّینَۃُ الْبَاطِنَۃُ فَالْکُحْلُ وَالسِّوَارُ وَالْخَاتَمُ۔
(١٧٢٩٦) حضرت عبداللہ فرماتے ہیں کہ زینت کی دو قسمیں ہیں ایک ظاہری زینت اور دوسری باطنی زینت ہے۔ باطنی زینت تو شوہر کے سوا کوئی نہیں دیکھ سکتا۔ ظاہری زینت کپڑے ہیں۔ اور باطنی زینت سرمہ، کنگن اور انگوٹھی ہیں۔

17296

(۱۷۲۹۷) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مُسْلِمٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ : {وَلاَ یُبْدِینَ زِینَتَہُنَّ إلاَّ مَا ظَہَرَ مِنْہَا} قَالَ : وَجْہُہَا وَکَفُّہَا۔
(١٧٢٩٧) حضرت ابن عباس (رض) قرآن مجید کی آیت { وَلَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَھُنَّ اِلَّا مَاظَھَرَ مِنْھَا } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اس سے مراد چہرہ اور ہتھیلیاں ہیں۔

17297

(۱۷۲۹۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مُسْلم ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ قَالَ : کَفُّہَا وَوَجْہُہَا۔
(١٧٢٩٨) حضرت سعید بن جبیر قرآن مجید کی آیت { وَلَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَھُنَّ اِلَّا مَاظَھَرَ مِنْھَا } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اس سے مراد چہرہ اور ہتھیلیاں ہیں۔

17298

(۱۷۲۹۹) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ قَالَ : حدَّثَنَا سَلَمَۃُ بْنُ سَابُورَ ، عَنْ عَبْدِ الْوَارِثِ : {وَلاَ یُبْدِینَ زِینَتَہُنَّ إلاَّ مَا ظَہَرَ مِنْہَا} قَالَ : الْکَفُّ وَالْخَاتَمُ۔
(١٧٢٩٩) حضرت عبدا لوارث قرآن مجید کی آیت { وَلَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَھُنَّ اِلَّا مَاظَھَرَ مِنْھَا } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اس سے مراد ہتھیلی اور انگوٹھی ہیں۔

17299

(۱۷۳۰۰) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ بَشِیرٍ ، عَنِ ابْنِ شُبْرُمَۃَ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ قَالَ : {مَا ظَہَرَ مِنْہَا} قَالَ : الْوَجْہُ وَثُغْرَۃُ النَّحْرِ۔
(١٧٣٠٠) حضرت عکرمہ قرآن مجید کی آیت { مَاظَھَرَ مِنْھَا } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اس سے مراد چہرہ اور حلق کا بانسا ہیں۔

17300

(۱۷۳۰۱) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ ، عَنِ ابْنِ أَبِی عَرُوبَۃَ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ أَبِی الْخَلِیلِ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ الْحَارِثِ ، عَنْ أُمِّ الْفَضْلِ قَالَتْ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لاَ تُحَرِّمُ الرَّضْعَۃُ وَالرَّضْعَتَانِ وَالْمَصَّۃُ وَالْمَصَّتَانِ۔ (مسلم ۱۸۔ احمد ۶/۳۳۹)
(١٧٣٠١) حضرت امّ فضل (رض) فرماتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ ایک یا دو مرتبہ دودھ پینے سے یا ایک یا دو چسکیوں سے رضاعت ثابت نہیں ہوتی۔

17301

(۱۷۳۰۲) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ ، وَابْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنِ ابْنِ الزُّبَیْرِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لاَ تُحَرِّمُ الْمَصَّۃُ وَالْمَصَّتَانِ۔ (ابن حبان ۴۲۲۵۔ احمد ۴/۴)
(١٧٣٠٢) حضرت عبداللہ بن زبیر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ایک یادوچسکیوں سے رضاعت ثابت نہیں ہوتی۔

17302

(۱۷۳۰۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ أَشْعَثَ بْنِ أَبِی الشَّعْثَائِ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إنَّمَا الرَّضَاعَۃُ مِنَ الْمَجَاعَۃِ۔ (بخاری ۵۱۰۲۔ مسلم ۳۲)
(١٧٣٠٣) حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ رضاعت تب ثابت ہوتی ہے جب خوب پیٹ بھر کر بچہ دودھ پیئے۔

17303

(۱۷۳۰۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ ، عَنْ قَیْسٍ ، عَنِ الْمُغِیرَۃِ بْنِ شُعْبَۃَ قَالَ : لاَ تُحَرِّمُ الغبقۃ وَلاَ الْغَبْقَتَانِ۔ (بیہقی ۴۵۷)
(١٧٣٠٤) حضرت مغیرہ بن شعبہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ایک یا دو مرتبہ پینے سے حرمت رضاعت ثابت نہیں ہوتی۔

17304

(۱۷۳۰۵) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ قَالَ : سَأَلْتُ ابْنَ الزُّبَیْرِ ، عَنِ الرَّضَاعِ ، فَقَالَ : لاَ تُحَرِّمُ الرَّضْعَۃُ وَلاَ الرَّضْعَتَانِ وَلاَ الثَّلاَثُ۔
(١٧٣٠٥) حضرت ابو زبیر فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن زبیر (رض) سے رضاعت کے بارے سوال کیا تو انھوں نے فرمایا کہ ایک، دو یا تین چسکیوں سے رضاعت ثابت نہیں ہوتی۔

17305

(۱۷۳۰۶) حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ حَنْظَلَۃَ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنْ زَیْدٍ قَالَ : لاَ تُحَرِّمُ الرَّضْعَۃُ وَلاَ الرَّضْعَتَانِ۔
(١٧٣٠٦) حضرت زید فرماتے ہیں کہ ایک یا دو چسکیوں سے رضاعت ثابت نہیں ہوتی۔

17306

(۱۷۳۰۷) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرِ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ یَسَارٍ قَالَ : یُحَرِّمُ مِنْہُ مَا فَتَقَ الأَمْعَائَ۔
(١٧٣٠٧) حضرت سلیمان بن یسار فرماتے ہیں کہ حرمت اتنے دودھ سے ثابت ہوتی ہے جس سے آنتیں سیراب ہوجائیں۔

17307

(۱۷۳۰۸) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ ، عَنْ أَبِی عَمْرٍو الشَّیْبَانِیِّ ، قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللہِ : إنَّمَا یُحَرِّمُ مِنَ الرَّضَاعِ مَا أَنْبَتَ اللَّحْمَ وَأَنْشَزَ الْعَظْمَ۔
(١٧٣٠٨) حضرت عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ اتنا دودھ پینے سے رضاعت ثابت ہوتی ہے جس سے گوشت بنے اور ہڈی توانا ہو۔

17308

(۱۷۳۰۹) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ، عَنْ لَیْثٍ، عَنْ مُجَاہِدٍ، قَالَ: قَالَ أَبُو مُوسَی: لاَ یُحَرِّمُ الرَّضَاعُ إلاَّ مَا أَنْبَتَ اللَّحْمَ وَالدَّمَ۔
(١٧٣٠٩) حضرت ابو موسیٰ (رض) فرماتے ہیں کہ اتنے دودھ سے رضاعت ثابت ہوتی ہے جس سے گوشت اور خون بنے۔

17309

(۱۷۳۱۰) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنْ نَافِعٍ قَالَ : کَانَتْ عَائِشَۃُ إذَا أَرَادَتْ أَنْ یَدْخُلَ عَلَیْہَا أَحَدٌ أَمَرَتْ بِہِ فَأُرْضِعَ فَأَمَرَتْ أُمَّ کُلْثُومٍ أَنْ تُرْضِعَ سَالِمًا عَشْرَ رَضَعَاتٍ فَأَرْضَعَتْہُ ثَلاَثًا فَمَرِضَتْ ، فَکَانَ لاَ یَدْخُلُ عَلَیْہَا وَأَمَرَتْ فَاطِمَۃَ بِنْتَ عُمَرَ أَنْ تُرْضِعَ عَاصِمَ بْنَ سَعْدٍ مَوْلًی لَہُمْ عَشْرَ رَضَعَاتٍ ، فَأَرْضَعَتْہُ فَکَانَ یَدْخُلُ عَلَیْہَا۔ (عبدالرزاق ۱۳۹۲۹)
(١٧٣١٠) حضرت نافع فرماتے ہیں کہ حضرت عائشہ (رض) کا جب کسی بچے کے بارے میں یہ ارادہ ہوتا کہ وہ بڑا ہو کر ان سے ملاقات کے لیے آسکے تو اپنی کسی عزیزہ خاتون کو حکم دیتی کہ وہ اسے دودھ پلا دیں۔ (تاکہ حضرت عائشہ (رض) اس کی رضاعی خالہ یا پھوپھی بن جائیں) اس سلسلے میں انھوں نے (اپنی بہن) حضرت ام کلثوم کو حکم دیا کہ وہ حضرت سالم کو (جبکہ وہ بچے تھے) دس چسکیاں پلائیں، (تاکہ سالم حضرت عائشہ (رض) کے رضاعی بھانجے بن جائیں) انھوں نے انھیں تین چسکیاں پلائیں اور وہ بیمار ہوگئیں، لہٰذا وہ بڑے ہو کر ان کے پاس نہیں آتے تھے۔ اسی طرح (حضرت حفصہ بنت عمر (رض) ) نے فاطمہ بنت عمر کو حکم دیا کہ عاصم ابن سعد کو (جبکہ وہ بچے تھے) دس چسکیاں پلائیں (تاکہ عاصم بن سعد ان کے رضاعی بھانجے بن جائیں) چنانچہ انھوں نے اس طرح کیا تو وہ ان کے پاس آیا کرتے تھے۔

17310

(۱۷۳۱۱) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ قَالَ : کَتَبْتُ إلَی إبْرَاہِیمَ أَسْأَلُہُ ، عَنِ الرَّضَاعِ فَکَتَبَ إلَیَّ أَنَّ عَلِیًّا ، وَعَبْدَ اللہِ کَانَا یَقُولاَنِ : قَلِیلُہُ وَکَثِیرُہُ حَرَامٌ۔
(١٧٣١١) حضرت قتادہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابراہیم کو خط لکھا کہ وہ مجھے حرمت رضاعت کو ثابت کرنے والے دودھ کے متعلق بتادیں۔ تو انھوں نے میری طرف خط لکھا کہ حضرت علی اور حضرت عبداللہ (رض) فرمایا کرتے تھے کہ رضاعت تھوڑی ہو یا زیادہ اس سے حرمت ثابت ہوجاتی ہے۔

17311

(۱۷۳۱۲) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ قَالَ ابْنُ مَسْعُودٍ : یُحَرِّمُ قَلِیلُ الرَّضَاعِ کَمَا یُحَرِّمُ کَثِیرُہُ ، وَقَالَ مُجَاہِدٌ : قَوْلُ ابْنِ مَسْعُودٍ أَحَبُّ إلَیَّ۔
(١٧٣١٢) حضرت ابن مسعود (رض) فرماتے ہیں کہ تھوڑے یا زیادہ دودھ سے حرمت رضاعت ثابت ہوجاتی ہے۔ حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ حضرت ابن مسعود (رض) کا قول مجھے زیادہ پسند ہے۔

17312

(۱۷۳۱۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ عن سفیان ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَابِسٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ وسُئِلَ عَنِ المرأۃ تُرْضِعُ الصَّبِیَّ الرَّضْعَۃَ ، فَقَالَ : إذَا عقا الصَّبِیُّ حَرُمَتْ عَلَیْہِ ، وَمَا وَلَدَتْ۔
(١٧٣١٣) حضرت ابن عباس (رض) سے سوال کیا گیا کہ اگر عورت کسی بچے کو ایک چسکی دودھ پلائے تو کیا اس سے رضاعت ثابت ہوجاتی ہے، انھوں نے فرمایا کہ جب بچے نے منہ لگا لیا تو وہ عورت اور اس کی بیٹیاں اس کے لیے حرام ہوگئیں۔

17313

(۱۷۳۱۴) حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ حَنْظَلَۃَ ، عَنْ طَاوُوسٍ قَالَ : اشْتَرَطَ عَشْرَ رَضَعَاتٍ ثُمَّ قِیلَ : إنَّ الرَّضْعَۃَ الْوَاحِدَۃَ تُحَرِّمُ۔
(١٧٣١٤) حضرت طاؤس فرماتے ہیں کہ پہلے حرمت رضاعت کے لیے دس چسکیوں کی شرط تھی، پھر کہا گیا کہ ایک چسکی سے بھی حرمت ثابت ہوجاتی ہے۔

17314

(۱۷۳۱۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ قَالَ : الْحَکَمُ وَحَمَّادٌ قَالاَ : الْمَصَّۃُ تُحَرِّمُ۔
(١٧٣١٥) حضرت حکم اور حضرت حماد فرماتے ہیں کہ ایک چسکی سے بھی حرمت ثابت ہوجاتی ہے۔

17315

(۱۷۳۱۶) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأحمر ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ حَبِیبٍ ، عَنْ طَاوُوسٍ قَالَ : سَأَلْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ ، فَقَالَ : الْمَرَّۃُ الْوَاحِدَۃُ تُحَرِّمُ۔
(١٧٣١٦) حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ ایک چسکی سے بھی حرمت ثابت ہوجاتی ہے۔

17316

(۱۷۳۱۷) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ قَالَ : سَأَلْتُ ابن عمر ، فَقَالَ الْمَصَّۃُ الْوَاحِدَۃُ تُحَرِّمُ۔
(١٧٣١٧) حضرت ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ ایک چسکی سے بھی حرمت ثابت ہوجاتی ہے۔

17317

(۱۷۳۱۸) حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّیَالِسِیُّ ، عَنْ زَمْعَۃَ ، عَنِ ابْنِ طَاوُوسٍ ، عَنْ أَبِیہِ وَعن حُمَیْدٍ الأَعْرَجِ ، عَنْ مُجَاہِدٍ وعَمَّنْ سَمِعَ عَطَائً ، قَالَ زَمْعَۃُ : وَسَمِعْتُ عَمْرَو بْنَ دِینَارٍ یَقُولُ : قَالُوا : یُحَرِّمُ قَلِیلُ الرَّضَاعِ وَکَثِیرُہُ۔
(١٧٣١٨) بہت سے بزرگ فرماتے ہیں کہ دودھ تھوڑا پیے یا زیادہ حرمت رضاعت ثابت ہوجاتی ہے۔

17318

(۱۷۳۱۹) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ زَیْدٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أُرِیدَ عَلَی ابْنَۃِ حَمْزَۃَ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ ، فَقَالَ : إنَّہَا ابْنَۃُ أَخِی مِنَ الرَّضَاعَۃِ وَإِنَّہُ یَحْرُمُ مِنَ الرَّضَاعَۃِ مَا یَحْرُمُ مِنَ النَّسَبِ۔ (بخاری ۲۶۴۵۔ مسلم ۱۳ )
(١٧٣١٩) حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فرمائش کی گئی کہ آپ حضرت حمزہ بنت عبد المطلب (رض) کی صاحبزادی سے نکاح کرلیں۔ آپ نے فرمایا کہ وہ میری رضاعی بہن ہیں اور جو رشتے نسب سے حرام ہوتے ہیں رضاعت سے بھی حرام ہوجاتے ہیں۔

17319

(۱۷۳۲۰) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِِ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَیْدَۃَ ، عَنْ أَبِی عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ عَلِیٍّ قَالَ : قُلْتُ : یَا رَسُولَ اللہِ مَا لَکَ تَنوَّقُ فِی قُرَیْشٍ وَتَدَعُنَا قَالَ : عِنْدَکُمْ شَیْئٌ ؟ قُلْتُ : نَعَمْ ، ابنْۃ حَمْزَۃَ ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إنَّہَا لاَ تَحِلُّ لِی ، إنَّہَا بِنْتُ أَخِی مِنَ الرَّضَاعَۃِ۔ (مسلم ۱۱۔ احمد ۱/۸۲)
(١٧٣٢٠) حضرت علی (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا یارسول اللہ ! کیا وجہ ہے کہ آپ قریش میں شادی کی رغبت رکھتے ہیں اور ہمیں چھوڑ دیتے ہیں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کیا تمہارے پاس کوئی ایسی خاتون ہیں ؟ میں نے کہا جی ہاں، حضرت حمزہ (رض) کی بیٹی ہیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ وہ میرے لیے حلال نہیں، کیونکہ وہ میری رضاعی بہن ہیں۔

17320

(۱۷۳۲۱) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ عُرْوَۃَ ، عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ : أَتَانِی عَمِّی مِنَ الرَّضَاعَۃِ أَفْلَحُ بن أَبِی الْقُعَیْسِ یَسْتَأْذِنُ عَلَیَّ بَعْدَ مَا ضُرِبَ الْحِجَابُ فَأَبَیْتُ أَنْ آذَنَ لَہُ حَتَّی دَخَلَ عَلَیَّ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : إنَّہُ عَمُّک فَأْذَنِی لَہُ قالت : إنَّمَا أَرْضَعْتنِی الْمَرْأَۃُ وَلَمْ یُرْضِعْنِی الرَّجُلُ قَالَ : تَرِبَتْ یَدَاک، أَوْ یَمِینُک۔ (مسلم ۱۰۶۹۔ ابن ماجہ ۱۹۴۸)
(١٧٣٢١) حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ ایک مرتبہ میرے پاس میرے رضاعی چچا افلح بن ابی القعیس آئے۔ اس وقت پردے کے احکام نازل ہوچکے تھے انھوں نے اندر آنے کی اجازت مانگی تو میں نے انھیں منع کردیا۔ پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے اور فرمایا کہ وہ تمہارے چچا ہیں، تم انھیں ملاقات کی اجازت دے دو ۔ حضرت عائشہ (رض) نے عرض کیا کہ مجھے عورت نے دودھ پلایا ہے، مرد نے دودھ نہیں پلایا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم نے عجیب بات کہی ہے۔

17321

(۱۷۳۲۲) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ زَیْنَبَ بِنْتِ أُمِّ سَلَمَۃَ ، عَنْ أُمِّ سَلَمَۃَ أن أُمَّ حَبِیبَۃَ قَالَتْ : یَا رَسُولَ اللہِ ، ہَلْ لَکَ فِی أُخْتِی ابْنَۃِ أَبِی سُفْیَانَ ؟ قَالَ : إنَّہَا لاَ تَحِلُّ لِی قَالَتْ : فَإِنَّہُ قَدْ بَلَغَنِی أَنَّک تَخْطُبُ دُرَّۃَ بِنْتَ أَبِی سَلَمَۃَ قَالَ : بِنْتُ أَبِی سَلَمَۃَ ؟ قَالَتْ : نَعَمْ ، قَالَ : وَاللَّہِ إِنْ لَمْ تَکُنْ رَبِیبَتِی فِی حِجْرِی مَا حَلَّتْ لِی ، إنَّہَا ابْنَۃُ أَخِی مِنَ الرَّضَاعَۃِ ، أَرْضَعَتْنِی وَأَبَاہَا ثُوَیْبَۃُ فَلاَ تَعْرِضْنَ عَلَیَّ بَنَاتِکُنَّ وَلاَ أَخَوَاتِکُنَّ۔ (بخاری ۵۱۰۶۔ مسلم ۱۰۷۲)
(١٧٣٢٢) حضرت ام سلمہ (رض) کہتی ہیں کہ حضرت ام حبیبہ (رض) نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول ! کیا آپ میری بہن یعنی ابو سفیان کی بیٹی سے نکاح کرنا پسند کریں گے ؟ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ وہ میرے لیے حلال نہیں۔ حضرت ام حبیبہ نے عرض کیا کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ آپ نے درہ بنت ابی سلمہ کے لیے نکاح کا پیغام دیا ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے استفسار فرمایا کہ ابو سلمہ کی بیٹی ؟ انھوں نے کہا جی ہاں۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ خدا کی قسم ! اگر وہ میری پرورش میں نہ بھی ہوتی تو میرے لیے حلال نہیں تھی، کیونکہ وہ میری رضاعی بھتیجی ہے۔ مجھے اور اس کے والد کو ثویبہ نے دودھ پلایا ہے۔ مجھے اپنی بہنوں اور بیٹیوں سے نکاح کی دعوت نہ دو ۔

17322

(۱۷۳۲۳) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنْ أَبِیہِ قَالَ : کَانَتْ عَائِشَۃُ تُحَرِّمُ مِنَ الرَّضَاعَۃِ مَا تُحَرِّمُ مِنَ الْوِلاَدَۃِ۔
(١٧٣٢٣) حضرت عائشہ (رض) کا مذہب یہ تھا کہ جو رشتے نسب سے حرام ہوتے ہیں رضاعت سے بھی حرام ہوجاتے ہیں۔

17323

(۱۷۳۲۴) حَدَّثَنَا ابْنُ مُبَارَکٍ ، عَنْ مُوسَی بْنِ أَیُّوبَ قَالَ : حدَّثَنِی عَمِّی إیَاسُ بْنُ عَامِرٍ ، قَالَ : قَالَ عَلِیٌّ : لاَ تَنْکِحْ مَنْ أَرْضَعَتْہُ امْرَأَۃُ أَخِیک وَلاَ امْرَأَۃُ أَبِیک وَلاَ امْرَأَۃُ ابْنِک۔
(١٧٣٢٤) حضرت علی (رض) فرماتے ہیں کہ اس عورت سے شادی نہ کرو جسے تمہارے بھائی کی بیوی نے دودھ پلایا ہو، نہ اپنے باپ کی بیوی سے نکاح کرو اور نہ اپنے بیٹے کی بیوی سے نکاح کرو۔

17324

(۱۷۳۲۵) حَدَّثَنَا حُمَیْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ حَسَنٍ ، عَنْ عَبْدِ الأَعْلَی ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : یَحْرُمُ مِنَ الرَّضَاعَۃِ مَا یَحْرُمُ مِنَ النَّسَبِ۔
(١٧٣٢٥) حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ جو رشتے نسب سے حرام ہوتے ہیں رضاعت سے بھی حرام ہوجاتے ہیں۔

17325

(۱۷۳۲۶) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ، عَنْ دَاوُدَ، عَنْ أَبِی مَعْشَرٍ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالَ: یَحْرُمُ مِنَ الرَّضَاعَۃِ مَا یَحْرُمُ مِنَ النَّسَبِ۔
(١٧٣٢٦) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ جو رشتے نسب سے حرام ہوتے ہیں رضاعت سے بھی حرام ہوجاتے ہیں۔

17326

(۱۷۳۲۷) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُتْبَۃَ قَالَ : أُرَاہُ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ قَالَ : یَحْرُمُ مِنَ الرَّضَاعَۃِ مَا یَحْرُمُ مِنَ النَّسَبِ۔
(١٧٣٢٧) حضرت عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ جو رشتے نسب سے حرام ہوتے ہیں رضاعت سے بھی حرام ہوجاتے ہیں۔

17327

(۱۷۳۲۸) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنِ الْحَکَمِ ، عَنْ عِرَاکِ بْنِ مَالِکٍ ، عَنْ عُرْوَۃَ ، عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : یَحْرُمُ مِنَ الرَّضَاعَۃِ مَا یَحْرُمُ مِنَ النَّسَبِ۔ (مسلم ۹۔ ابن ماجہ ۱۹۳۷)
(١٧٣٢٨) حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جو رشتے نسب سے حرام ہوتے ہیں رضاعت سے بھی حرام ہوجاتے ہیں۔

17328

(۱۷۳۲۹) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، عَنْ إسْرَائِیلَ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ بن عَبْدِ الأَعْلَی ، قَالَ : سَمِعْتُ سُوَیْد بْنَ غَفَلَۃَ یَقُولُ : یَحْرُمُ مِنَ الرَّضَاعَۃِ مَا یَحْرُمُ مِنَ النَّسَبِ۔
(١٧٣٢٩) حضرت سوید بن غفلہ فرماتے ہیں کہ جو رشتے نسب سے حرام ہوتے ہیں رضاعت سے بھی حرام ہوجاتے ہیں۔

17329

(۱۷۳۳۰) حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ ، عَنْ إسْرَائِیلَ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنِ الْبَرَائِ أَنَّہُ قِیلَ لِلنَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : ہَلْ لَکَ فِی بِنْتِ حَمْزَۃَ ؟ فَقَالَ : إنَّہَا لاَ تَحِلُّ لِی ، إنَّہَا ابْنَۃُ أَخِی مِنَ الرَّضَاعَۃِ۔ (بخاری ۴۲۵۱)
(١٧٣٣٠) حضرت براء فرماتے ہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا گیا کہ آپ حضرت حمزہ (رض) کی بیٹی سے نکاح کرلیں۔ آپ نے فرمایا کہ وہ میرے لیے حلال نہیں۔ وہ میری رضاعی بہن ہے۔

17330

(۱۷۳۳۱) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنِ الشَّیْبَانِیِّ ، عَنْ أَبِی الضُّحَی ، عَنْ أَبِی عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ قَالَ : لاَ رَضَاعَ إلاَّ مَا کَانَ فِی الْحَوْلَیْنِ۔
(١٧٣٣١) حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) فرماتے ہیں کہ صرف اس بچے کے دودھ پینے سے رضاعت ثابت ہوتی ہے جس کی عمر دو سال سے کم ہو۔

17331

(۱۷۳۳۲) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِِ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالَ قَالَ عَبْدُ اللہِ لاَ رَضَاعَ إلاَّ مَا کَانَ فِی الْحَوْلَیْنِ۔
(١٧٣٣٢) حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) فرماتے ہیں کہ صرف اس بچے کے دودھ پینے سے رضاعت ثابت ہوتی ہے جس کی عمر دو سال سے کم ہو۔

17332

(۱۷۳۳۳) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ زُبَیْدٍ قَالَ قَالَ عَلِیٌّ : لاَ یُحَرِّمُ مِنَ الرَّضَاعِ إلاَّ مَا کَانَ فِی الْحَوْلَیْنِ۔
(١٧٣٣٣) حضرت علی (رض) فرماتے ہیں کہ صرف اس بچے کے دودھ پینے سے رضاعت ثابت ہوتی ہے جس کی عمر دو سال سے کم ہو۔

17333

(۱۷۳۳۴) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : لاَ رَضَاعَ إلاَّ مَا کَانَ فِی الْحَوْلَیْنِ۔
(١٧٣٣٤) حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ صرف اس بچے کے دودھ پینے سے رضاعت ثابت ہوتی ہے جس کی عمر دو سال سے کم ہو۔

17334

(۱۷۳۳۵) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : لاَ رَضَاعَ بَعْدَ الْفِصَالِ۔
(١٧٣٣٥) حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ جس بچے کا دودھ چھڑوا دیا گیا ہو اس کے دودھ پینے سے رضاعت ثابت نہیں ہوتی۔

17335

(۱۷۳۳۶) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ دِینَارٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنْ عُمَرَ، قَالَ لاَ رَضَاعَ إلاَّ مَا کَانَ فِی الصِّغَرِ۔
(١٧٣٣٦) حضرت عمر (رض) فرماتے ہیں کہ صرف بچے کے دودھ پینے سے رضاعت ثابت ہوتی ہے۔

17336

(۱۷۳۳۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ یَزِیدَ بْنِ إبْرَاہِیمَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : قَالَ عُمَرُ : لاَ رَضَاعَ بَعْدَ الْفِصَالِ۔
(١٧٣٣٧) حضرت عمر (رض) فرماتے ہیں کہ جس بچے کا دودھ چھڑوا دیا گیا ہو اس کے دودھ پینے سے رضاعت ثابت نہیں ہوتی۔

17337

(۱۷۳۳۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ أَبِی جَنَابٍ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ بْنِ رَجَائٍ ، عَنِ النَّزَّالِ بْنِ سَبْرَۃَ ، عَنْ عَلِیٍّ قَالَ : لاَ رَضَاعَ بَعْدَ الْفِصَالِ۔
(١٧٣٣٨) حضرت علی (رض) فرماتے ہیں کہ جس بچے کا دودھ چھڑوا دیا گیا ہو اس کے دودھ پینے سے رضاعت ثابت نہیں ہوتی۔

17338

(۱۷۳۳۹) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ حَاطِبٍ ، عَنْ جَدِّہِ أَنَّہُ سَأَلَ أُمَّ سَلَمَۃَ ، عَنِ الرَّضَاعِ ، فَقَالَتْ : لاَ رَضَاعَ إلاَّ مَا کَانَ فِی الْمَہْدِ قَبْلَ الْفِطَامِ۔
(١٧٣٣٩) حضرت ام سلمہ (رض) سے رضاعت کے بارے میں سوال کیا گیا تو انھوں نے فرمایا کہ رضاعت صرف اس وقت ثابت ہوتی ہے جب کہ بچہ گود میں ہو اور اس کا دودھ چھڑوایا نہ گیا ہو۔

17339

(۱۷۳۴۰) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنْ أَبِیہِ أَنَّ أَبَا ہُرَیْرَۃَ سُئِلَ عَنِ الرَّضَاعِ ، فَقَالَ : لاَ یُحَرِّمُ مِنَ الرَّضَاعِ إلاَّ مَا فَتَقَ الأَمْعَائَ ، وَکَانَ فِی الثَّدْیِ قَبْلَ الْفِطَامِ۔
(١٧٣٤٠) حضرت ابوہریرہ (رض) سے رضاعت کے بارے میں سوال کیا گیا تو انھوں نے فرمایا کہ رضاعت اتنا دودھ پینے سے ثابت ہوتی ہے جو انتڑیوں کو سیراب کردے۔ اور بچے کا دودھ چھڑانے سے پہلے چھاتی میں ہو۔

17340

(۱۷۳۴۱) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ حَجَّاج بْنِ حَجَّاج ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ بِمِثْلِہِ۔
(١٧٣٤١) ایک اور سند سے یونہی منقول ہے۔

17341

(۱۷۳۴۲) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ قَالَ : حدَّثَنَا ہِشَامُ بْنُ عُرْوَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ حَجَّاج بْنِ حَجَّاج ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ بِمِثْلِہِ۔
(١٧٣٤٢) ایک اور سند سے یونہی منقول ہے۔

17342

(۱۷۳۴۳) حَدَّثَنَا ابْنُ مَہْدِیٍّ ، وَأَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنِ الأَعْمَشِِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ أَنَّ عَلْقَمَۃَ مَرَّ بِامْرَأَۃٍ وَہِیَ تُرْضِعُ صَبِیًّا لَہَا بَعْدَ الْحَوْلَیْنِ ، فَقَالَ : لاَ تسقیہ داء ک۔
(١٧٣٤٣) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ حضرت علقمہ ایک عورت کے پاس سے گذرے جو اپنے بچے کو دو سال کے بعد دودھ پلا رہی تھی۔ انھوں نے اس سے فرمایا کہ اسے اپنی بیماری مت پلاؤ۔

17343

(۱۷۳۴۴) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ ، عَنْ عَطَائٍ قَالَ : إذَا فُطِمَ الصَّبِیُّ فَلاَ رَضَاعَ بَعْدَ الْفِطَامِ۔
(١٧٣٤٤) حضرت عطاء فرماتے ہیں کہ جس بچے کا دودھ چھڑوا دیا گیا ہو اس کے دودھ پینے سے رضاعت ثابت نہیں ہوتی۔

17344

(۱۷۳۴۵) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ : لاَ یُحَرِّمُ مِنَ الرَّضَاعِ إلاَّ مَا کَانَ فِی الصِّغَرِ۔
(١٧٣٤٥) حضرت ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ حرمت رضاعت صرف بچپن میں دودھ پینے سے ثابت ہوتی ہے۔

17345

(۱۷۳۴۶) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ قَالَ : لاَ رَضَاعَ إلاَّ مَا کَانَ فِی الْمَہْدِ ، وَإِلاَّ مَا أَنْبَتَ اللَّحْمَ وَالدَّمَ۔
(١٧٣٤٦) حضرت سعید بن مسیب فرماتے ہیں کہ رضاعت اس وقت ثابت ہوتی ہے جب بچے کو بچپن میں دودھ پلایا جائے اور جس کی مقدار اتنی ہو جس سے گوشت اور خون بنے۔

17346

(۱۷۳۴۷) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنِ الشَّیْبَانِیِّ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ قَالَ : مَا کَانَ مِنْ رضاع ، أَوْ سَعُوطٍ فِی السَّنَتَیْنِ فَہُوَ رَضَاعٌ ، وَمَا کَانَ بَعْدُ فَلَیْسَ بِرَضَاعٍ۔
(١٧٣٤٧) حضرت شعبی فرماتے ہیں کہ دو سال کے اندر دودھ پلایا جائے تو حرمت رضاعت ثابت ہوتی ہے۔ اس کے بعد دودھ پینے سے رضاعت ثابت نہیں ہوتی۔

17347

(۱۷۳۴۸) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنِ عَبْدِ اللہِ وَحَسَنٍ ابْنَی مُحَمَّدٍ ، عَنْ أَبِیہِمَا أَنَّ عَلِیًّا قَالَ لابْنِ عَبَّاسٍ : أَمَا عَلِمْتَ ، أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَہَی ، عَنِ الْمُتْعَۃِ وَعَنْ لُحُومِ الْحُمُرِ الأَہْلِیَّۃِ ؟۔ (بخاری ۴۲۱۶۔ مسلم ۲۹)
(١٧٣٤٨) حضرت علی (رض) نے حضرت ابن عباس (رض) سے فرمایا کہ کیا تم نہیں جانتے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے متعہ سے اور پالتو گدھوں کا گوشت کھانے سے منع فرمایا ہے ؟

17348

(۱۷۳۴۹) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنِ الرَّبِیعِ بْنِ سَبْرَۃَ الْجُہَنِیِّ ، عَنْ أَبِیہِ ، أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَہَی یَوْمَ الْفَتْحِ ، عَنْ مُتْعَۃِ النِّسَائِ۔ (مسلم ۲۶۔ ابوداؤد ۲۰۶۶)
(١٧٣٤٩) حضرت سبرہ جہنی کہتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فتح مکہ کے دن متعہ سے منع فرمادیا۔

17349

(۱۷۳۵۰) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِیزِ بْنِ عُمَرَ ، عَنِ الرَّبِیعِ بْنِ سَبْرَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ قَالَ : رَأَیْتُ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَائِمًا بَیْنَ الرُّکْنِ وَالْبَابِ وَہُوَ یَقُولُ : أَیُّہَا النَّاسُ ، إنِّی کُنْتُ قد أَذِنْتُ لَکُمْ فِی الاِسْتِمْتَاعِ، أَلاَ وَإِنَّ اللَّہَ حَرَّمَہَا إلَی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ فَمَنْ کَانَ عِنْدَہُ مِنْہُنَّ شَیْئٌ فَلْیُخَلِّ سَبِیلَہُ وَلاَ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَیْتُمُوہُنَّ شَیْئًا۔ (مسلم ۲۵۔ ابن ماجہ ۱۹۶۲)
(١٧٣٥٠) حضرت سبرہ جہنی کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیکھا کہ آپ رکن اور باب کعبہ کے درمیان کھڑے تھے اور فرما رہے تھے : ” اے لوگو ! میں نے تمہیں عورتوں سے متعہ کرنے کی اجازت دی تھی، اب اللہ تعالیٰ نے اسے قیامت تک کے لیے حرام قرار دے دیا ہے، اگر کسی کے پاس متعہ والی بیوی ہو تو اس کا راستہ چھوڑ دے اور جو مہر تم نے انھیں دیا ہے وہ واپس نہ لو۔

17350

(۱۷۳۵۱) حَدَّثَنَا یُونُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، عَنْ عَبْدِ الْوَاحِدِ بْنِ زِیَادٍ قَالَ : حدَّثَنَا أَبُو الْعُمَیْسِ ، عَنْ إیَاسِ بْنِ سَلَمَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ قَالَ : رَخَّصَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَامَ أَوْطَاسٍ فِی الْمُتْعَۃِ ثَلاَثًا ثُمَّ نَہَی عَنْہَا۔ (مسلم ۱۸۔ احمد ۴/۵۵)
(١٧٣٥١) حضرت ایاس بن سلمہ کے والد فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اوطاس والے سال میں متعہ کی اجازت دی تھی، پھر اس سے منع فرمادیا۔

17351

(۱۷۳۵۲) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : قَالَ عُمَرُ : لَوْ تَقَدَّمْتُ فِیہَا لَرَجَمْتُ یَعْنِی الْمُتْعَۃَ۔
(١٧٣٥٢) حضرت عمر (رض) فرماتے ہیں کہ میں متعہ کرنے والوں کو سنگسار کرنے کا حکم دوں گا۔

17352

(۱۷۳۵۳) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ دَاوُدَ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ قَالَ : نَہَی عُمَرَ ، عَنْ مُتْعَتَیْنِ مُتْعَۃِ النِّسَائِ وَمُتْعَۃِ الْحَجِّ۔
(١٧٣٥٣) حضرت سعید بن مسیب (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے دو متعوں : متعۃ النساء اور متعۃ الحج سے منع فرمایا ہے۔

17353

(۱۷۳۵۴) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنْ أَبِیہِ قَالَ : سُئِلَ عَنْ مُتْعَۃِ النِّسَائِ ، فَقَالَ : لاَ نَعْلَمُہَا إلاَّ السِّفَاحَ۔
(١٧٣٥٤) حضرت ابن عمر (رض) سے متعہ کے بارے میں سوال کیا گیا تو انھوں نے فرمایا کہ ہم تو اسے بےحیائی ہی سمجھتے ہیں۔

17354

(۱۷۳۵۵) حَدَّثَنَا عَبدَۃ ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ سُئِلَ عَنِ الْمُتْعَۃِ ، فَقَالَ : حرَامٌ فَقِیلَ لَہُ : إنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ یُفْتِی بِہَا ، فَقَالَ : فَہَلاَّ تَزَمْزَمَ بِہَا فِی زَمَانِ عُمَرَ۔
(١٧٣٥٥) حضرت ابن عمر (رض) سے متعہ کے بارے میں سوال کیا گیا تو انھوں نے فرمایا کہ یہ حرام ہے۔ ان سے کہا گیا کہ حضرت ابن عباس (رض) تو اس کے جواز کا فتویٰ دیتے ہیں۔ حضرت ابن عمر (رض) نے فرمایا کہ پھر وہ حضرت عمر (رض) کے زمانے میں اس کے بارے میں بلند آواز سے اعلان کیوں نہیں کرتے تھے۔

17355

(۱۷۳۵۶) حَدَّثَنَا عَبدَۃ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ أَنَّہُ قَالَ : رَحِمَ اللَّہُ عُمَرَ ، لَوْلاَ إِنَّہُ نَہَی ، عَنِ الْمُتْعَۃِ صَارَ الزِّنَا جِہَارًا۔
(١٧٣٥٦) حضرت سعید بن مسیب (رض) فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ حضرت عمر (رض) پر رحم فرمائے اگر وہ متعہ سے منع نہ کرتے تو زنا سرعام ہوا کرتا۔

17356

(۱۷۳۵۷) حَدَّثَنَا عَبدَۃ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنِ الْحَسَنِ قَالَ : وَاللَّہِ مَا کَانَتِ الْمُتْعَۃُ إلاَّ ثَلاَثَۃَ أَیَّامٍ أَذِنَ لَہُمْ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیہَا ، مَا کَانَتْ قَبْلَ ذَلِکَ وَلاَ بَعْدُ۔ (عبدالرزاق ۱۴۰۴۰)
(١٧٣٥٧) حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ خدا کی قسم ! متعہ صرف تین دن کے لیے جائز تھا، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کی اجازت دی تھی، متعہ نہ تو اس سے پہلے جائز تھا نہ اس کے بعد کبھی جائز ہوا۔

17357

(۱۷۳۵۸) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِی عَبْدُ اللہِ بْنُ الْوَلِیدِ ، قَالَ : قَالَ لِی ابْنُ ذُؤَیبٍ : سَمِعْتُ ابْنَ الزُّبَیْرِ یَخْطُبُ وَہُوَ یَقُولُ : إنَّ الذِّئْبَ یُکَنَّی أَبَا جَعْدَۃَ ، أَلاَ وَإِنَّ الْمُتْعَۃَ ہِیَ الزِّنَا۔
(١٧٣٥٨) حضرت ابن ذؤیب (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن زبیر (رض) کو فرماتے ہوئے سنا کہ بھیڑیئے کی کنیت ابو جعدہ ہے اور متعہ زنا ہے۔

17358

(۱۷۳۵۹) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِیزِ بْنِ عُمَرَ ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ مُسْلِمٍ ، عَنِ طَاوُوسٍ قَالَ : کَانَتْ سُنَّۃُ الْمُتْعَۃِ سُنَّۃَ النِّکَاحِ إلاَّ أَنَّ الأَجَلَ کَانَ فِی أَیْدِیہِنَّ۔
(١٧٣٥٩) حضرت طاؤس (رض) فرماتے ہیں کہ متعہ کا طریقہ نکاح والا تھا لیکن اس میں مدت عورتوں کے اختیار میں ہوتی تھی۔

17359

(۱۷۳۶۰) حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الْعَلاَئِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : قَالَ عُمَرُ : لَوْ أُتِیتُ بِرَجُلٍ تَمَتَّعَ بِامْرَأَۃٍ لَرَجَمْتُہُ إِنْ کَانَ أُحْصِنَ فَإِنْ کَانَ لَمْ یَکُنْ أُحْصِنَ ضَرَبْتُہُ۔
(١٧٣٦٠) حضرت عمر (رض) فرماتے ہیں کہ اگر میرے پاس کوئی ایسا آدمی لایا جائے جس نے کسی عورت سے متعہ کیا ہو، اگر وہ شادی شدہ ہو تو میں اسے سنگسار کروں گا اور اگر وہ غیر شادی شدہ ہو تو میں اسے کوڑے لگواؤں گا۔

17360

(۱۷۳۶۱) حَدَّثَنَا شَبَابَۃُ بْنُ سَوَّارٍ ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ الْغَازِ ، قَالَ : سَمِعْتُ مَکْحُولاً یَقُولُ فِی الرَّجُلِ یَتَزَوَّجُ الْمَرْأَۃَ إلَی أَجَلٍ قَالَ : ذَلِکَ الزِّنَا۔
(١٧٣٦١) حضرت مکحول (رض) فرماتے ہیں کہ عورت سے کسی مخصوص مدت تک کے لیے شادی کرنا زنا ہے۔

17361

(۱۷۳۶۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ قَالَ : حدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ ، عَنْ قَیْسٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ قَالَ : کُنَّا مَعَ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ شَبَابٌ قَالَ فَقُلْنَا : یَا رَسُولَ اللہِ ، أَلاَ نَسْتَخْصِی ؟ قَالَ : لاَ ثُمَّ رَخَّصَ لَنَا أَنْ نَنْکِحَ الْمَرْأَۃَ بِالثَّوْبِ إلَی الأَجَلِ ثُمَّ قَرَأَ عَبْدُ اللہِ : {یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا لاَ تُحَرِّمُوا طَیِّبَاتِ مَا أَحَلَّ اللَّہُ لَکُمْ}۔
(١٧٣٦٢) حضرت عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم اپنی جوانی کے دور میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ تھے۔ ہم نے (شدتِ شہوت) سے تنگ آکر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا کہ ہم خود کو خصی کرنا چاہتے ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ایسا نہ کرو، پھر آپ نے ہمیں رخصت دے دی کہ ہم عورت سے کپڑے کے بدلے ایک خاص مدت تک کے لیے نکاح کرلیں۔ پھر حضرت عبداللہ (رض) نے یہ آیت پڑھی : (ترجمہ) اے ایمان والو ! اللہ تعالیٰ نے جو پاکیزہ چیزیں تمہارے لیے حلال کی ہیں، انھیں حرام نہ کرو۔

17362

(۱۷۳۶۳) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِِ ، عَنِ الْمُسَیَّبِ بْنِ رَافِعٍ ، عَنْ قَبِیصَۃَ بْنِ جَابِرٍ ، عَنْ عُمَرَ ، قَالَ : لاَ أُوتَی بِمُحِلٍّ وَلاَ مُحَلَّلٍ لَہُ إلاَّ رَجَمْتُہُمَا۔
(١٧٣٦٣) حضرت عمر (رض) فرماتے ہیں کہ اگر میرے پاس کوئی حلالہ کرنے والا لایا گیا یا وہ شخص لایا گیا جس کے لیے حلالہ کیا گیا تھا تو میں انھیں سنگسار کروں گا۔

17363

(۱۷۳۶۴) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّائِ ، عَنْ أَبِی مَعْشَرٍ ، عَنْ رَجُلٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّہُ قَالَ : لَعَنَ اللَّہُ الْمُحِلَّ وَالْمُحَلَّلَ لَہُ وَالْمُحَلَّلَۃَ۔
(١٧٣٦٤) حضرت ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حلالہ کرنے والے، حلالہ کرانے والے اور حلالہ کی جانے والی عورت سب پر لعنت فرمائی ہے۔

17364

(۱۷۳۶۵) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ أَبِی عَرُوبَۃَ ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ الْمُغِیرَۃِ بْنِ نَوْفَلٍ أَنَّ ابْنَ عُمَرَ سُئِلَ عَنْ تَحْلِیلِ الْمَرْأَۃِ لِزَوْجِہَا قَالَ : ذَلِکَ السِّفَاحُ ، لَوْ أَدْرَکَکُمْ عُمَرُ لَنَکَّلَکُمْ۔
(١٧٣٦٥) حضرت ابن عمر (رض) سے سوال کیا گیا کہ عورت کو پہلے خاوند کے لیے حلال کرانا کیسا ہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ یہ بےحیائی ہے اور اگر حضرت عمر (رض) ہوتے تو تمہیں اس عمل پر عبرت کا نشان بنا دیتے۔

17365

(۱۷۳۶۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ أَبِی شِہَابٍ ، عَنْ جَبَلَۃَ بْنِ دَعْلَجٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ قَالَ : الْمُحَلِّلُ مَلْعُونٌ۔
(١٧٣٦٦) حضرت سعید بن جبیر فرماتے ہیں کہ حلالہ کرنے والا ملعون ہے۔

17366

(۱۷۳۶۷) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ، عَنْ مُغِیرَۃَ، عَنْ إبْرَاہِیمَ وَعَنْ یُونُسَ، عَنِ الْحَسَنِ قَالاَ: إذَا ہَمَّ أَحَدُ الثَّلاَثَۃِ فَسَدَ النِّکَاحُ۔
(١٧٣٦٧) حضرت ابراہیم (رض) اور حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ اگر تینوں میں سے ایک کا ارادہ طلاق کا ہو تو نکاح فاسد ہوجائے گا۔

17367

(۱۷۳۶۸) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ قَالَ : سَأَلْتُ الْحَکَمَ وَحَمَّادًا ، عَنْ رَجُلٍ تَزَوَّجَ امْرَأَۃً لِیُحِلَّہَا لِزَوْجِہَا ، فَقَالَ الْحَکَمُ : یُمْسِکُہَا وَقَالَ حَمَّادٌ : أَحَبُّ إلَیَّ أَنْ یُفَارِقَہَا۔
(١٧٣٦٨) حضرت شعبہ (رض) کہتے ہیں کہ اگر ایک آدمی نے عورت سے اس لیے شادی کی کہ وہ اسے پہلے خاوند کے لیے حلال کرے گا تو اس کا کیا حکم ہے ؟ حضرت حکم نے فرمایا کہ اسے اپنے پاس روکے رکھے۔ حضرت حماد (رض) نے فرمایا کہ میرے نزدیک اس سے جدا ہوجانا بہت رہے۔

17368

(۱۷۳۶۹) حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ ، عَنْ حَبِیبٍ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنْ جَابِرِ بْنِ زَیْدٍ فِی رَجُلٍ تَزَوَّجَ امْرَأَۃً لِیُحِلَّہَا لِزَوْجِہَا وَہُوَ لاَ یَعْلَمُ قَالَ : لاَ یَصْلُحُ ذَلِکَ إذَا کَانَ تَزَوَّجَہَا لَیُحِلَّہَا۔
(١٧٣٦٩) حضرت جابر بن زید (رض) اس شخص کے بارے میں جس نے کسی عورت سے اس لیے شادی کی تاکہ اسے پہلے خاوند کے لیے حلال کرے، حالانکہ وہ اس بات کو نہ جانتا تھا۔ فرماتے ہیں کہ اگر صرف حلال کرنے کے لیے شادی کی ہے تو یہ درست نہیں۔

17369

(۱۷۳۷۰) حَدَّثَنَا عَائِذُ بْنُ حَبِیبٍ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ قَالَ : لُعِنَ الْمُحِلُّ وَالْمُحَلَّلُ لَہُ۔
(١٧٣٧٠) حضرت ابن سیرین (رض) کہتے ہیں کہ حلالہ کرنے والے اور جس کے لیے حلالہ کرایا جائے دونوں پر لعنت کی گئی ہے۔

17370

(۱۷۳۷۱) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ أَبِی قَیْسٍ ، عَنْ ہُزَیْلٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ قَالَ : لَعَنَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْمُحِلَّ وَالْمُحَلَّلَ لَہُ۔ (ترمذی ۱۸۲۰۔ احمد ۱/۴۶۲)
(١٧٣٧١) حضرت عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حلالہ کرنے والے اور جس کے لیے حلالہ کیا جائے دونوں پر لعنت فرمائی ہے۔

17371

(۱۷۳۷۲) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ مُجَالِدٍ ، عَنْ عَامِرٍ ، عَنِ جابر بْنِ عَبْدِ اللہِ ، عَنْ عَلِیٍّ قَالَ لَعَنَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْمُحِلَّ وَالْمُحَلَّلَ لَہُ۔ (ابوداؤد ۲۰۷۰۔ احمد ۱/۸۳)
(١٧٣٧٢) حضرت علی (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حلالہ کرنے والے اور جس کے لیے حلالہ کیا جائے دونوں پر لعنت فرمائی ہے۔

17372

(۱۷۳۷۳) حَدَّثَنَا حُمَیْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ مُوسَی بْنِ أَبِی الْفُرَاتِ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِینَارٍ أنَّہُ سُئِلَ عَنْ رَجُلٍ طَلَّقَ امْرَأَتَہُ فَجَائَ رَجُلٌ مِنْ أَہْلِ الْقَرْیَۃِ بِغَیْرِ عِلْمِہِ وَلاَ عِلْمِہَا فَأَخْرَجَ شَیْئًا مِنْ مَالِہِ فَتَزَوَّجَہَا بہ لِیُحِلَّہَا لَہُ ، فَقَالَ : لاَ ، ثُمَّ ذَکَرَ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سُئِلَ عَنْ مِثْلِ ذَلِکَ ، فَقَالَ : لاَ حَتَّی یَنْکِحَہَا مُرْتَغِِبًا لِنَفْسِہِ ، حَتَّی یَتَزَوَّجَہَا مُرْتَغِِبًا لِنَفْسِہِ ، فَإِذَا فَعَلَ ذَلِکَ لَمْ تَحِلَّ لَہُ حَتَّی یذُوقَ الْعُسَیْلَۃَ۔
(١٧٣٧٣) حضرت عمرو بن دینار (رض) سے سوال کیا گیا کہ اگر ایک آدمی اپنی بیوی کو طلاق دے دے، پھر دیہات سے ایک آدمی آئے جو نہ مرد کو جانتا ہو اور نہ عورت کو، وہ اپنا کچھ مال نکالے اور عورت سے اس بنیاد پر شادی کرے کہ عورت کو مرد کے لیے حلال کرے تو یہ کرنا کیسا ہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ یہ درست نہیں۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہی سوال کیا گیا تھا تو آپ نے فرمایا تھا یہ درست نہیں۔ اس سے اپنے نفس کی چاہت کے بغیر نکاح نہ کرے، اس سے اپنے نفس کی چاہت کے بغیر نکاح نہ کرے۔ اگر اس نے ایسا کیا تو عورت پہلے خاوند کے لیے اس وقت تک حلال نہیں جب تک آدمی عورت کا شہد نہ چکھ لے۔

17373

(۱۷۳۷۴) حَدَّثَنَا مُعَاذٌ قَالَ : حدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ مَنْصُورٍ قَالَ : جَائَ رَجُلٌ إلَی الْحَسَنِ ، فَقَالَ : إنَّ رَجُلاً مِنْ قَوْمِی طَلَّقَ امْرَأَتَہُ ثَلاَثًا فَنَدِمَ وَنَدِمَتْ ، فَأَرَدْتُ أَنْ أَنْطَلِقَ فَأَتَزَوَّجَہَا وَأَصْدُقَہَا صَدَاقًا ثُمَّ أَدْخُلَ بِہَا کَمَا یَدْخُلُ الرَّجُلُ بِامْرَأَتِہِ ، ثُمَّ أُطَلِّقَہَا حَتَّی تَحِلَّ لِزَوْجِہَا ، قَالَ ، فَقَالَ لَہُ الْحَسَنُ : اتَّقِ اللَّہَ یَا فَتَی وَلاَ تَکُونَنَّ مِسْمَارَ نَارٍ لِحُدُودِ اللہِ۔
(١٧٣٧٤) حضرت عباد بن منصور (رض) فرماتے ہیں کہ ایک آدمی حضرت حسن (رض) کے پاس حاضر ہوا اور اس نے کہا کہ میری قوم کے ایک آدمی نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دی ہیں، پھر اسے اور اس کی بیوی کو اس پر افسوس ہوا۔ میں چاہتا ہوں کہ میں اس عورت سے شادی کروں، اسے اس کا مہر دوں، پھر اس سے شرعی ملاقات کروں اور پھر اسے طلاق دے دوں تاکہ وہ پہلے خاوند کے لیے حلال ہوجائے، یہ کرنا کیسا ہے ؟ حضرت حسن (رض) نے اس سے فرمایا کہ اے نوجوان ! اللہ سے ڈرو اور اللہ تعالیٰ کی حدود کو پامال نہ کرو۔

17374

(۱۷۳۷۵) حَدَّثَنَا الْمُعَلَّی بْنُ مَنْصُورٍ قَالَ : حدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ جَعْفَرٍ ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ مُحَمَّدٍ الأَخْنَسِیِّ ، عَنِ الْمَقْبُرِیِّ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ : لَعَنَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْمُحِلَّ وَالْمُحَلَّلَ لَہُ۔ (ترمذی ۴۳۷۔ احمد ۲/۳۲۳)
(١٧٣٧٥) حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حلالہ کرنے والے اور کروانے والے پر لعنت فرمائی ہے۔

17375

(۱۷۳۷۶) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِِ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، عَنِ الأَسْوَدِ ، عَنْ أَبِی السَّنَابِلِ قَالَ : وَضَعَتْ سُبَیْعَۃُ بِنْتُ الْحَارِثِ حَمْلَہَا بَعْدَ وَفَاۃِ زَوْجِہَا بِبِضْعٍ وَعِشْرِینَ لَیْلَۃً فَلَمَّا تَعَلَّتْ مِنْ نِفَاسِہَا تَشَوَّفَتْ فَعِیبَ ذَلِکَ عَلَیْہَا وَذُکِرَ أَمْرُہَا لِلنَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : إِنْ تَفْعَلْ فَقَدْ مَضَی أَجَلُہَا۔ (طبرانی ۸۹۶۔ دارمی ۲۲۸۱)
(١٧٣٧٦) حضرت ابو سنابل (رض) فرماتے ہیں کہ سبیعہ بنت حارث نے اپنے خاوند کی وفات کے بیس اور کچھ دن بعد بچے کو جنم دیا۔ جب وہ نفاس سے پاک ہوئیں تو انھوں نے زیب وزینت اختیار کرلی۔ انھیں اس بات پر برا بھلا کہا گیا، جب اس بات کا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو علم ہوا تو آپ نے فرمایا کہ اگر وہ ایسا کرتی ہیں تو ٹھیک ہے، کیونکہ ان کی عدت گزر چکی ہے۔

17376

(۱۷۳۷۷) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ یحیی بْنِ سَعِیدٍ ، عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ یَسَارٍ ، عَنْ أَبِی سَلَمَۃَ قَالَ : کُنْتُ أَنَا ، وَابْنُ عَبَّاسٍ ، وَأَبُو ہُرَیْرَۃَ فَتَذَاکَرْنَا : الرَّجُلُ یَمُوتُ ، عَنِ الْمَرْأَۃِ فَتَضَعُ بَعْدَ وَفَاتِہِ بِیَسِیرٍ فَقُلْتُ : إذَا وَضَعَتْ فَقَدْ حَلَّتْ وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ : أَجَلُہَا آخِرُ الأَجَلَیْنِ فَتَرَاجَعَا بِذَلِکَ ، فَقَالَ أَبُو ہُرَیْرَۃَ : أَنَا مَعَ ابْنِ أَخِی یَعْنِی أَبَا سَلَمَۃَ فَبَعَثُوا کُرَیْبًا مَوْلَی ابْنِ عَبَّاسٍ إلَی أُمِّ سَلَمَۃَ ، فَقَالَتْ : إنَّ سُبَیْعَۃَ الأَسْلَمِیَّۃَ وَضَعَتْ بَعْدَ وَفَاۃِ زَوْجِہَا بِأَرْبَعِینَ لَیْلَۃً ، وَإِنَّ رَجُلاً مِنْ بَنِی عَبْدِ الدَّارِ یُکَنَّی أَبَا السَّنَابِلِ خَطَبَہَا وَأَخْبَرَہَا أَنَّہَا قَدْ حَلَّتْ فَأَرَادَتْ أَنْ تَتَزَوَّجَ غَیْرَہُ ، فَقَالَ لَہَا أَبُو السَّنَابِلِ : إنَّک لَمْ تَحِلِّینَ فَذَکَرَتْ ذَلِکَ سُبَیْعَۃُ لِرَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَأَمَرَہَا أَنْ تَتَزَوَّجَ۔ (مسلم ۱۲۲۔ ترمذی ۱۱۲۳)
(١٧٣٧٧) حضرت ابو سلمہ (رض) فرماتے ہیں کہ میں، حضرت ابن عباس اور حضرت ابوہریرہ (رض) ایک مجلس میں تھے۔ ہمارے درمیان مذاکرہ ہوا کہ اگر ایک عورت کا خاوند مرجائے اور وہ عورت خاوند کی وفات کے تھوڑے عرصے بعد بچے کو جنم دے تو اس کی عدت کا کیا حکم ہوگا ؟ میں نے کہا کہ اس کی عدت مکمل ہوجائے گی۔ حضرت عبداللہ بن عباس (رض) نے فرمایا کہ وضع حمل اور چار مہینے دس دن میں سے جو زیادہ ہو وہ اس کی عدت ہوگی۔ حضرت ابوہریرہ (رض) نے فرمایا کہ میں تو اپنے بھائی ابو سلمہ کے ساتھ ہوں۔ پھر انھوں نے حضرت ابن عباس (رض) کے غلام کریب کو حضرت ام سلمہ (رض) کے پاس بھیجا۔ حضرت ام سلمہ (رض) نے اس مسئلے کا فیصلہ کرتے ہوئے فرمایا کہ سبیعہ اسلمی (رض) نے اپنے خاوند کی وفات کے چالیس دن بعد بچے کو جنم دیا۔ بچے کی پیدائش کے بعد بنو عبد الدار کے ایک آدمی جن کی کنیت ابو سنابل تھی انھوں نے سبیعہ اسلمی (رض) کو نکاح کا پیغام دیا اور ان سے کہا کہ آپ کی عدت مکمل ہوچکی ہے۔ سبیعہ نے کسی اور سے نکاح کا ارادہ کیا تو ابوسنابل نے کہا کہ تمہاری عدت مکمل نہیں ہوئی۔ سبیعہ نے اس بات کا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے تذکرہ کیا تو آپ نے انھیں شادی کرنے کی اجازت دے دی۔

17377

(۱۷۳۷۸) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنِ الْمِسْوَرِ أَنَّ سُبَیْعَۃَ وَضَعَتْ بَعْدَ وَفَاۃِ زَوْجِہَا بِشَہْرٍ فَأَتَتِ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَأَمَرَہَا النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ تَزَوَّجَ۔ (بخاری ۵۳۲۰۔ احمد ۴/۳۲۷)
(١٧٣٧٨) حضرت مسور (رض) فرماتے ہیں کہ سبیعہ نے اپنے خاوند کی وفات کے ایک مہینے بعد بچے کو جنم دیا تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انھیں شادی کی اجازت دے دی۔

17378

(۱۷۳۷۹) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ سَالِمٍ ، قَالَ : قَالَ : سَمِعْتُ رَجُلاً مِنَ الأَنْصَارِ یُحَدِّثُ ابْنَ عُمَرَ یَقُولُ : سَمِعْتُ أَبَاک یَقُولُ : لَوْ وَضَعَتِ الْمُتَوَفَّی عَنْہَا زَوْجُہَا ذَا بَطْنِہَا وَہُوَ عَلَی السَّرِیرِ فَقَدْ حَلَّتْ۔
(١٧٣٧٩) ایک انصاری نے حضرت ابن عمر (رض) سے بیان کیا کہ میں نے آپ کے والد کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اگر حاملہ عورت کا خاوند مرنے کے بعد جنازے کی چارپائی پر ہو اور عورت بچے کو جنم دے دے تو اس عورت کی عدت مکمل ہوگئی۔

17379

(۱۷۳۸۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مَوْہَبٍ ، عَنْ صَالِحِ بْنِ کَیْسَانَ ، عَنْ عُمَرَ وَعُثْمَانَ قَالاَ : إذَا وَضَعَتْ وَہُوَ فِی جَانِبِ الْبَیْتِ فِی أَکْفَانِہِ فَقَدْ حَلَّتْ۔
(١٧٣٨٠) حضرت عمر اور حضرت عثمان (رض) فرماتے ہیں کہ جب خاوند کفن میں ملبوس گھر میں پڑا ہو اور اس کی بیوی بچے کو جنم دے دے تو عدت مکمل ہوگئی۔

17380

(۱۷۳۸۱) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ أَنَّ عُمَرَ اسْتَشَارَ عَلِیَّ بْنَ أَبِی طَالِبٍ رضی اللہ عنہ وَزَیْدَ بْنَ ثَابِتٍ قَالَ زَیْدٌ : قدْ حَلَّتْ وَقَالَ عَلِیٌّ : أَرْبَعَۃَ أَشْہُرٍ وَعَشْرًا قَالَ زَیْدٌ: أَرَأَیْتَ إِنْ کَانَتْ یَئیسًا قَالَ عَلِیٌّ : فَآخِرُ الأَجَلَیْنِ قَالَ عُمَرُ : لَوْ وَضَعَتْ ذَا بَطْنِہَا وَزَوْجُہَا عَلَی نَعْشِہِ لَمْ یَدْخُلْ حُفْرَتَہُ لَکَانَتْ قَدْ حَلَّتْ۔
(١٧٣٨١) حضرت سعید بن مسیب (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے اس بارے میں حضرت علی بن ابی طالب (رض) اور حضرت زید بن ثابت (رض) سے مشورہ کیا تو حضرت زید (رض) نے فرمایا کہ بچے کو جنم دیتے ہی عورت کی عدت مکمل ہوگئی۔ حضرت علی (رض) نے فرمایا کہ اس کی عدت چار مہینے دس دن ہے۔ حضرت زید نے فرمایا کہ اگر عورت ایسی عمر کو پہنچ چکی ہو جس میں حمل اور ولادت کا تصور نہیں ہوتا تو اس کی عدت کیا ہوگی ؟ حضرت علی (رض) نے فرمایا کہ دونوں میں سے زیادہ طویل مدت عدت کی مدت ہوگی۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا کہ اگر حاملہ کے خاوند کی نعش کو قبر میں نہ اتارا گیا ہو اور وہ بچے کو جنم دے دے تو اس عورت کی عدت مکمل ہوگئی۔

17381

(۱۷۳۸۲) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِِ، عَنْ مُسْلِمٍ، عَنْ مَسْرُوقٍ، قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللہِ: وَاللَّہِ مَنْ شَائَ لَقَاسَمْتُہُ لَنَزَلَتْ سُورَۃُ النِّسَائِ الْقُصْرَی بَعْدَ أَرْبَعَۃِ أَشْہُرٍ وَعَشْرًا۔ (ابوداؤد ۲۳۰۱۔ ابن ماجہ ۲۰۳۰)
(١٧٣٨٢) حضرت عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص چاہے تو میں قسم کھا کر کہہ سکتا ہوں کہ چھوٹی سورة النساء (سورۃ الطلاق) (جس میں عدت کے وضع حمل ہونے کا تذکرہ ہے) قرآن مجید کی آیت { أَرْبَعَۃ أَشْھُر وَّعَشْرًا } کے بعد نازل ہوئی ہے۔

17382

(۱۷۳۸۳) حَدَّثَنَا عبد الوہاب الثَّقَفِیُّ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنْ أَبِی قِلاَبَۃَ أَنَّہُ قَالَ فِی الْمُتَوَفَّی عَنْہَا زَوْجُہَا وَہِیَ حَامِلٌ : إذَا وَضَعَتْ حَلَّتْ۔
(١٧٣٨٣) حضرت ابو قلابہ (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کسی حاملہ کا خاوند فوت ہوجائے تو بچہ جنتے ہی اس کی عدت مکمل ہوجائے گی۔

17383

(۱۷۳۸۴) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ أَنَّہُ کَانَ یَقُولُ : إذَا طَلَّقَ الرَّجُلُ امْرَأَتَہُ وَہِیَ حَامِلٌ ، أَوْ تُوُفِّیَ عَنْہَا فَإِنَّ أَجَلَہَا أَنْ تَضَعَ حَمْلَہَا۔
(١٧٣٨٤) حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص حاملہ کو طلاق دے دے یا اس کا خاوند فوت ہوجائے تو اس کی عدت وضع حمل ہے۔

17384

(۱۷۳۸۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللہِ : أَجَلُ کُلِّ حَامِلٍ أَنْ تَضَعَ حَمْلَہَا قَالَ : وَکَانَ عَلِیٌّ یَقُولُ : آخِرُ الأَجَلَیْنِ۔
(١٧٣٨٥) حضرت عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ حاملہ کی عدت وضع حمل ہے اور حضرت علی (رض) فرماتے ہیں کہ دونوں میں سے زیادہ مدت اس کی عدت ہوگی۔

17385

(۱۷۳۸۶) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِِ ، عَنْ مُسْلِمٍ وَلَمْ یُذْکَرْ فِیہِ مَسْرُوقٌ ، عَنْ عَلِیٍّ أَنَّہُ کَانَ یَقُولُ : آخِرُ الأَجَلَیْنِ۔
(١٧٣٨٦) حضرت علی (رض) فرماتے ہیں کہ دونوں میں سے زیادہ مدت اس کی عدت ہوگی۔

17386

(۱۷۳۸۷) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ مُطَرِّفٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ سَالِمٍ قَالَ : قَالَ أُبَیُّ بْنُ کَعْبٍ : یَا رَسُولَ اللہِ ، إنَّ عِدَدًا مِنْ عِدَدِ النِّسَائِ لَمْ یُذْکَرْ فِی کِتَابِ اللہِ ، الصِّغَارُ وَالْکِبَارُ وَأُولاَتُ الأَحْمَالِ فَأَنْزَلَ اللَّہُ تَعَالَی : {وَاللاَّئِی یَئِسْنَ مِنَ الْمَحِیضِ مِنْ نِسَائِکُمْ إنِ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُہُنَّ ثَلاَثَۃُ أَشْہُرٍ وَاللاَّئِی لَمْ یَحِضْنَ وَأُولاَتُ الأَحْمَالِ أَجَلُہُنَّ أَنْ یَضَعْنَ حَمْلَہُنَّ}۔ (حاکم ۴۹۲۔ ابن جریر ۱۴۱)
(١٧٣٨٧) حضرت عمرو بن سالم (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت ابی بن کعب (رض) نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا کہ کچھ عورتوں کی عدت قرآن مجید میں بیان نہیں کی گئی۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کی یہ آیت نازل فرمائی { وَاللاَّئِی یَئِسْنَ مِنَ الْمَحِیضِ مِنْ نِسَائِکُمْ إنِ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُہُنَّ ثَلاَثَۃُ أَشْہُرٍ وَاللاَّئِی لَمْ یَحِضْنَ وَأُولاَتُ الأَحْمَالِ أَجَلُہُنَّ أَنْ یَضَعْنَ حَمْلَہُنَّ }(الطلاق : ٤)

17387

(۱۷۳۸۸) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ قَالَ : کُنْتُ فِی حَلْقَۃٍ فِیہَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِی لَیْلَی قَالَ : فَقَالَ : آخِرُ الأَجَلَیْنِ قَالَ : فَذَکَرْتُ حَدِیثَ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُتْبَۃَ ، عَنْ سُبَیْعَۃَ قَالَ فَضمَزَ لِی أَصْحَابُہُ قَالَ: فَقُلْتُ : إنِّی لَجَرِیئٌ عَلَی عَبْدِ اللہِ بْنِ عُتْبَۃَ إِنْ کَذَبْتُ عَلَیْہِ وَہُوَ فِی نَاحِیَۃِ المَسْجِد۔ (بخاری ۴۵۳۲۔ نسائی ۵۷۱۵)
(١٧٣٨٨) حضرت ابن سیرین فرماتے ہیں کہ میں حضرت عبد الرحمن بن ابی لیلیٰ (رض) کے حلقے میں تھا۔ انھوں نے فرمایا کہ حاملہ کی عدت دونوں میں سے زیادہ طویل مدت ہے۔ اس پر میں نے حضرت سبیعہ (رض) کے بارے میں حضرت عبداللہ بن عتبہ (رض) کی روایت بیان کی تو ان کے شاگرد مجھے گھورنے لگے۔ میں نے کہا کہ میں حضرت عبداللہ بن عتبہ (رض) کے بارے میں جھوٹ نہیں بول سکتا۔ جب کہ انھوں نے مسجد کے ایک گوشے میں اس کو بیان کیا۔

17388

(۱۷۳۸۹) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ طَاوُوسٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ فِی الْحَامِلِ الْمُتَوَفَّی عَنْہَا زَوْجُہَا : عِدَّتُہَا آخِرُ الأَجَلَیْنِ۔
(١٧٣٨٩) حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ جس حاملہ عورت کا خاوند فوت ہوجائے اس کی عدت دونوں مدتوں میں سے زیادہ ہے۔

17389

(۱۷۳۹۰) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ، عَنِ الزُّہْرِیِّ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ، عَنْ أَبِیہِ قَالَ: وَضَعَتْ سُبَیْعَۃُ بَعْدَ وَفَاۃِ زَوْجِہَا بِعِشْرِینَ، أَوْ بِشَہْرٍ ، أَوْ نَحْوِ ذَلِکَ فَمَرَّ بِہَا أَبُو السَّنَابِلِ بْنُ بَعْکَکٍ ، فَقَالَ : قَدْ تَصَنَّعْتِ لِلأَزْوَاجِ ؟ لاَ ، حَتَّی یَأْتِیَ عَلَیْک أَرْبَعَۃَ أَشْہُرٍ وَعَشْرًا فَأَتَتِ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَذَکَرَتْ ذَلِکَ لَہُ، فَقَالَ: قَدْ حَلَلْتِ لِلأَزْوَاجِ۔ (بخاری ۵۳۱۹۔ بیہقی ۴۱۹)
(١٧٣٩٠) حضرت عبیداللہ (رض) اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ حضرت سبیعہ (رض) نے اپنے خاوند کی وفات کے بیس دن یا ایک مہینہ بعد بچے کو جنم دیا۔ ان کے یہاں ابو سنابل بن بعکک (رض) کا گزر ہوا تو انھوں نے کہا کہ کیا تم شادی کے لیے تیار ہو ؟ چار مہینے دس دن تک شادی نہ کرنا۔ وہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس حاضر ہوئی اور ساری بات بیان کی تو آپ نے فرمایا کہ تم شوہروں کے لیے حلال ہو۔

17390

(۱۷۳۹۱) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَنْ دَاوُدَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنْ مَسْرُوقٍ وَعَمْرِو بْنِ عُتْبَۃَ أَنَّہُمَا کَتَبَا إلَی سُبَیْعَۃَ بِنْتِ الْحَارِثِ یَسْأَلاَنِہَا عَنْ أَمْرِہَا فَکَتَبَتْ إلَیْہِمَا أَنَّہَا وَضَعَتْ بَعْدَ وَفَاۃِ زَوْجِہَا بِخَمْسَۃٍ وَعِشْرِینَ لَیْلَۃً فَتَہَیَّأَتْ تَطْلُبُ الْخَیْرَ فَمَرَّ بِہَا أَبُو السَّنَابِلِ بْنُ بَعْکَکٍ ، فَقَالَ : قدْ أَسْرَعْتِ ، اعْتَدِّی آخِرَ الأَجَلَیْنِ أَرْبَعَۃَ أَشْہُرٍ وَعَشْرًا فَأَتَیْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ : یَا رَسُولَ اللہِ ، اسْتَغْفِرْ لِی ، فَقَالَ : وَمَا ذَاکِ ؟ فَأَخْبَرَتْہُ الْخَبَرَ ، فَقَالَ : إِنْ وَجَدْتِ زَوْجًا صَالِحًا فَتَزَوَّجِی۔ (بخاری ۵۳۱۹۔ مسلم ۱۱۲۲)
(١٧٣٩١) حضرت مسروق (رض) اور حضرت عمرو بن عتبہ (رض) نے حضرت سبیعہ بنت حارث (رض) کو خط لکھا اور ان کے واقعے کے بارے میں پوچھا۔ انھوں نے جواب میں لکھا کہ انھوں نے اپنے خاوند کی وفات کے پچیس دن بعد بچے کو جنم دیا تھا۔ پھر وہ خیر کی تلاش میں تیار ہوگئیں۔ ابو سنابل بن بعکک (رض) کا ان کے پاس سے گزر ہوا تو انھوں نے کہا کہ تم نے بہت جلدی کی، دونوں عدتوں میں سے زیادہ طویل مدت کو گزارو یعنی چار مہینے دس دن۔ پھر وہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول ! میرے لیے دعاء مغفرت فرما دیجئے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ کیا بات پیش آئی ؟ انھوں نے سارا قصہ سنایا تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اگر تمہیں اچھا خاوند ملے تو اس سے شادی کرلو۔

17391

(۱۷۳۹۲) حَدَّثَنَا شَبَابَۃُ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ عُبَیْدِ بْنِ الْحَسَنِ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مَعْقِلٍ قَالَ : شَہِدْتُ عَلِیًّا وَسَأَلَہُ رَجُلٌ عَنِ امْرَأَۃٍ تُوُفِّیَ عَنْہَا زَوْجُہَا وَہِیَ حَامِلٌ قَالَ : تَتَرَبَّصُ أَبْعَدَ الأَجَلَیْنِ ، فَقَالَ رَجُل إِنَّ ابْنَ مَسْعُودٍ: یَقُولُ تَسْفِی نَفْسَہَا ؟ فَقَالَ عَلِیٌّ : إنَّ فَرُّوخَ لاَ یَعْلَمُ۔
(١٧٣٩٢) حضرت عبد الرحمن بن معقل (رض) فرماتے ہیں کہ میں حضرت علی (رض) کی مجلس میں حاضر تھا، ان سے ایک آدمی نے سوال کیا کہ جس حاملہ عورت کا خاوند فوت ہوجائے اس کی عدت کیا ہوگی ؟ حضرت علی (رض) نے فرمایا کہ دونوں میں سے زیادہ لمبی مدت کو عدت بنائے گی۔ ایک آدمی نے کہا کہ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) تو وضع حمل پر عدت کے مکمل ہونے کا فتوی دیتے ہیں ؟ حضرت علی (رض) نے فرمایا کہ وہ نہیں جانتے۔

17392

(۱۷۳۹۳) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ فِرَاسٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ أَنَّہُ سُئِلَ عَنْ رَجُلٍ تَزَوَّجَ امْرَأَۃً فَمَاتَ عَنْہَا وَلَمْ یَدْخُلْ بِہَا وَلَمْ یَفْرِضْ لَہَا صَدَاقًا ، فَقَالَ عَبْدُ اللہِ : لَہَا الصَّدَاقُ وَلَہَا الْمِیرَاثُ وَعَلَیْہَا الْعِدَّۃُ ، فَقَالَ مَعْقِلُ بْنُ یَسَارٍ : شَہِدْتُ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَضَی فِی بِرْوَعَ بِنْتِ وَاشِقٍ مِثْلَ ذَلِکَ۔ (ابن ماجہ ۱۸۹۱۔ احمد ۴/۲۸۰)
(١٧٣٩٣) حضرت عبداللہ (رض) سے سوال کیا گیا کہ اگر ایک آدمی عورت سے شادی کرے، نہ اسے مہر دے اور نہ اس سے دخول کرے تو کیا حکم ہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ عورت کو پورا مہر ملے گا، اسے میراث ملے گی اور اس پر پوری عدت واجب ہوگی۔ حضرت معقل بن سنان (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (رض) کی خدمت میں حاضر تھا آپ نے بروع بنت واشق کے بارے میں یہی فیصلہ فرمایا تھا۔

17393

(۱۷۳۹۴) حَدَّثَنَا ابْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، عَنْ عَلْقَمَۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ : مِثْلَہُ۔ (ابوداؤد ۲۱۰۸۔ ابن ماجہ ۱۸۹۱)
(١٧٣٩٤) ایک اور سند سے یونہی منقول ہے۔

17394

(۱۷۳۹۵) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ قَالَ : أَخْبَرَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، عَنْ عَلْقَمَۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بِنَحْوٍ مِنْ حَدِیثِ ابْنِ مَہْدِیٍّ ، عَنْ فِرَاسٍ۔ (ترمذی ۱۱۴۵۔ ابوداؤد ۲۱۰۸)
(١٧٣٩٥) ایک اور سند سے یونہی منقول ہے۔

17395

(۱۷۳۹۶) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنْ نَافِعٍ أن ابْنَ عُمَرَ زَوَّجَ ابْنًا لَہُ امْرَأَۃً مِنْ أَہْلِہِ ، فَتُوُفِّیَ قَبْلَ أَنْ یَدْخُلَ بِہَا ، وَلَمْ یُسَمِّ لَہَا صَدَاقًا ، فَطَلَبُوا إلَی ابْنِ عُمَرَ الصَّدَاقَ ، فَقَالَ : لَیْسَ لَہَا صَدَاقٌ ، فَأَبَوْا أَنْ یَرْضَوْا بِذَلِکَ، فَجَعَلُوا بَیْنَہُمْ زَیْدَ بْنَ ثَابِتٍ ، فَأَتَوْہُ فَقَالَ : لَیْسَ لَہَا صَدَاقٌ۔
(١٧٣٩٦) حضرت نافع فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عمر (رض) نے اپنے ایک بیٹے کی شادی کرائی۔ ان کا انتقال مہر کے مقرر کرنے سے پہلے اور دخول کرنے سے پہلے ہوگیا، لڑکی والوں نے حضرت ابن عمر (رض) سے مہر کا مطالبہ کیا تو انھوں نے فرمایا کہ اس کے لیے کوئی مہر نہیں ہے، انھوں نے اس بات کو ماننے سے انکار کیا اور حضرت زید بن ثابت (رض) کو ثالث بنایا تو انھوں نے فیصلہ کیا کہ اس عورت کو مہر نہیں ملے گا۔

17396

(۱۷۳۹۷) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ قَالَ قَالَ زَیْدُ بْنُ ثَابِتٍ تَرِثُ وَتَعْتَدُّ۔
(١٧٣٩٧) حضرت زید بن ثابت (رض) فرماتے ہیں کہ وہ وارث بھی ہوگی اور عدت بھی گزارے گی۔

17397

(۱۷۳۹۸) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنْ أَبِی الشَّعْثَائِ ، وَعَطَائٍ فِی الَّذِی یُفَوَّضُ إلَیْہِ فَیَمُوتُ قَبْلَ أَنْ یَفْرِضَ قَالاَ : لَہَا الْمِیرَاثُ وَلَیْسَ لَہَا صَدَاقٌ۔
(١٧٣٩٨) حضرت ابوشعثائ (رض) اور حضرت عطائ (رض) فرماتے ہیں کہ اگر نکاح کے بعد مہر کی ادائیگی سے پہلے کسی کا انتقال ہوجائے تو عورت کو میراث ملے گی مہر نہیں ملے گا۔

17398

(۱۷۳۹۹) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ عَمْرو وَعَطَائِ بْنِ السَّائِبِ ، عَنْ عَبْدِ خَیْرٍ یُرَی أَنَّہُ عَنْ عَلِیٍّ قَالَ : لَہَا الْمِیرَاثُ وَلاَ صَدَاقَ لَہَا۔
(١٧٣٩٩) حضرت علی (رض) فرماتے ہیں کہ اسے میراث ملے گی مہر نہیں ملے گا۔

17399

(۱۷۴۰۰) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنْ دَاوُدَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ أَنَّ رَجُلاً بِالْمَدِینَۃِ تَزَوَّجَ امْرَأَۃً فَلَمْ یَفْرِضْ لَہَا وَلَمْ یَدْخُلْ بِہَا قَالُوا : لَہَا الْمِیرَاثُ وَلاَ مَہْرَ لَہَا وَقَالَ مَسْرُوقٌ : لاَ یَکُونُ مِیرَاثٌ حَتَّی یَکُونَ قَبْلَہُ مَہْرٌ۔
(١٧٤٠٠) حضرت شعبی (رض) فرماتے ہیں کہ مدینہ میں ایک آدمی نے ایک عورت سے شادی کی اور اس کے لیے مہر مقرر کرنے اور دخول سے پہلے اس کا انتقال ہوگیا۔ تو لوگوں نے کہا کہ اسے میراث ملے گی مہر نہیں ملے گا۔ حضرت مسروق (رض) نے فرمایا کہ میراث اس وقت تک نہیں ملتی جب تک اس سے پہلے مہر نہ ہو۔

17400

(۱۷۴۰۱) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَطَائٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : لَہَا نِصْفُ الصَّدَاقِ ، أَوِ الصَّدَاقُ ، شَکَّ أَبُو بَکْرٍ۔
(١٧٤٠١) حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ اسے آدھا مہر ملے گا۔ یا فرمایا کہ اسے پورا مہر ملے گا۔ (راوی ابوبکر کو شک ہے)

17401

(۱۷۴۰۲) حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِی زَائِدَۃَ ، عَنْ دَاوُدَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنْ عَلْقَمَۃَ قَالَ : جَائَ رَجُلٌ إلَی ابْنِ مَسْعُودٍ ، فَقَالَ : إنَّ رَجُلاً مِنَّا تَزَوَّجَ امْرَأَۃً وَلَمْ یَفْرِضْ لَہَا وَلَمْ یُجَامِعْہَا حَتَّی مَاتَ ، فَقَالَ ابْنُ مَسْعُودٍ : مَا سُئِلْت عَنْ شَیْئٍ مُنْذُ فَارَقْت النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَشَدَّ عَلَیَّ مِنْ ہَذَا، سَلُوا غَیْرِی فَتَرَدَّدُوا فِیہَا شَہْرًا قَالَ: فَقَالَ: مَنْ أَسْأَلُ وَأَنْتُمْ أَخِیَّۃُ أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ بِہَذَا الْبَلَدِ؟ فَقَالَ: سَأَقُولُ فِیہَا بِرَأْیِی فَإِنْ یَکُنْ صَوَابًا فَمِنَ اللہِ ، وَإِنْ یَکُنْ خَطَأً فَمِنِّی وَمِنَ الشَّیْطَانِ ، أَرَی أَنَّ لَہَا مَہْرَ نِسَائِہَا لاَ وَکْسَ وَلاَ شَطَطَ وَلَہَا الْمِیرَاثُ وَعَلَیْہَا عِدَّۃُ الْمُتَوَفَّی عَنْہَا زَوْجُہَا ، فَقَالَ: نَاسٌ مِنْ أَشْجَعَ : نَشْہَدُ أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَضَی مِثْلَ الَّذِی قَضَیْت فِی امْرَأَۃٍ مِنَّا یُقَالُ لَہَا بِرْوَعُ ابْنَۃُ وَاشِقٍ قَالَ : فَمَا رَأَیْتُ ابْنَ مَسْعُودٍ فَرِحَ بِشَیْئٍ مَا فَرِحَ یَوْمَئِذٍ بِہِ۔(ابن حبان ۴۱۰۱۔ حاکم ۱۸۰)
(١٧٤٠٢) حضرت علقمہ (رض) فرماتے ہیں کہ ایک آدمی حضرت ابن مسعود (رض) کے پاس آیا اور اس نے عرض کی کہ ایک آدمی نے ایک عورت سے شادی کی اور اس کا مہر مقرر کرنے سے پہلے اور اس سے جماع کرنے سے پہلے انتقال کرگیا۔ حضرت ابن مسعود (رض) نے فرمایا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے وصال کے بعد اب تک مجھ سے اتنا مشکل سوال نہیں کیا گیا، تم کسی اور سے پوچھ لو، لوگ ایک ماہ ادھر ادھر سوال کرتے پھرتے رہے لیکن کسی نتیجہ پر نہ پہنچے۔ چنانچہ وہ آدمی پھر حاضر ہوا اور اس نے عرض کیا کہ آپ اس شہر میں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ میں ممتاز مقام رکھتے ہیں، آپ ہی بتا دیجئے۔ حضرت ابن مسعود (رض) نے فرمایا کہ میں اپنی رائے سے بات کروں گا، اگر ٹھیک ہو تو اللہ کی طرف سے ہے اور اگر غلط ہو تو میری طرف سے اور شیطان کی طرف سے ہے۔ میری رائے یہ ہے کہ اسے اس کے خاندان کی عورت کے برابر مہر ملے گا نہ کم نہ زیادہ، اور اسے میراث بھی ملے گی اور اس پر اس عورت کی عدت لازم ہوگی جس کا خاوند فوت ہوگیا ہو۔ حضرت ابن مسعود (رض) کا یہ فتویٰ سن کر بنو اشجع کے لوگ کہنے لگے کہ ہم گواہی دیتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہماری ایک عورت بروع بنت واشق کے بارے میں یہی فیصلہ فرمایا تھا۔ راوی کہتے ہیں کہ یہ سن کر میں نے حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) کو جتنا خوش دیکھا اتنا خوش میں نے انھیں کبھی نہیں دیکھا۔

17402

(۱۷۴۰۳) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ ، عَنْ نَافِعٍ قَالَ : تَزَوَّجَ ابْنٌ لِعَبْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ بِنْتًا لِعُبَیْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ کَانَتْ أُمُّہَا أَسْمَائَ بِنْتَ زَیْدِ بْنِ الْخَطَّابِ فَتُوُفِّیَ وَلَمْ یَکُنْ فَرَضَ لَہَا صَدَاقًا فَطَلَبُوا مِنْہُ الصَّدَاقَ وَالْمِیرَاثَ ، فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ : لَہَا الْمِیرَاثُ وَلاَ صَدَاقَ لَہَا فَأَبَوْا ذَلِکَ عَلَی ابْنِ عُمَرَ فَجَعَلُوا بَیْنَہُمْ زَیْدَ بْنَ ثَابِتٍ ، فَقَالَ زَیْدٌ : لَہَا الْمِیرَاثُ وَلاَ صَدَاقَ لَہَا۔
(١٧٤٠٣) حضرت نافع (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمر (رض) کے ایک بیٹے نے حضرت عبید اللہ بن عمر (رض) کی ایک بیٹی سے شادی کی۔ اس لڑکی کی والدہ کا نام اسماء بنت زید بن خطاب تھا۔ حضرت ابن عمر (رض) کے اس بیٹے کا مہر مقرر کرنے سے پہلے ہی انتقال ہوگیا۔ لڑکی والوں نے حضرت ابن عمر (رض) سے مہر اور میراث کا مطالبہ کیا۔ حضرت ابن عمر (رض) نے فرمایا کہ اسے میراث ملے گی لیکن مہر نہیں ملے گا۔ لوگوں نے حضرت ابن عمر (رض) کی اس بات کا انکار کیا تو انھوں نے حضرت زید بن ثابت (رض) کو ثالث بنایا تو حضرت زید نے فرمایا کہ اسے میراث ملے گی لیکن مہر نہیں ملے گی۔

17403

(۱۷۴۰۴) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ ، عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ ، عَنْ عَبْدِ خَیْرٍ ، عَنْ عَلِیٍّ قَالَ : لَہَا الْمِیرَاثُ وَلاَ صَدَاقَ لَہَا۔
(١٧٤٠٤) حضرت علی (رض) فرماتے ہیں کہ اس لڑکی کو میراث ملے گی لیکن مہر نہیں ملے گا۔

17404

(۱۷۴۰۵) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ ؛ فِی الَّتِی یُتَوَفَّی عَنْہَا زَوْجُہَا قَبْلَ أَنْ یَفْرِضَ لَہَا وَقَبْلَ أَنْ یَدْخُلَ بِہَا : أَنَّ لَہَا صَدَاقَ نِسَائِہَا وَیُحَدِّثُ بِذَلِکَ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَعِدَّۃَ الْمُتَوَفَّی وَلَہَا الْمِیرَاثُ۔ (سعید بن منصور ۹۳۳۔ عبدالرزاق ۱۰۹۰۰)
(١٧٤٠٥) حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ وہ عورت جس کا خاوند مہر کی تقرری اور شرعی ملاقات سے پہلے انتقال کرجائے اسے اپنے خاندان کی دوسری عورتوں کے برابر مہر ملے گا۔ وہ اس بات کو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حوالے سے بیان کیا کرتے تھے۔ وہ عورت اس عورت کی طرح عدت گزارے گی جس کا خاوند فوت ہوجائے اور اسے میراث بھی ملے گی۔

17405

(۱۷۴۰۶) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الشَّیْبَانِیِّ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ ، عَمَّنْ أَخْبَرَہُ ، عَنْ عَلِیٍّ قَالَ : لَہَا الْمِیرَاثُ وَلاَ صَدَاقَ لَہَا۔
(١٧٤٠٦) حضرت علی (رض) فرماتے ہیں کہ اسے میراث ملے گی لیکن مہر نہیں ملے گا۔

17406

حدثنا أبو عبد الرحمن بقی بن مخلد ، قَالَ : حدثنا أبو بکر عبد اللہ بن محمد بن أبی شیبۃ ، قال: (۱۷۴۰۷) حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ قَالَ : أَخْبَرَنَا رَبِیعَۃُ بن عُثْمَانَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ یَحْیَی بْنِ حَبَّانَ ، عَنْ نَہَارٍ الْعَبْدِیِّ، وَکَانَ مِنْ أَصْحَابِ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ ، عَنْ أَبِی سَعِیدٍ أَنَّ رَجُلاً أَتَی بِابْنَۃٍ لَہُ إلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : إنَّ ابْنَتِی ہَذِہِ أَبَتْ أَنْ تَتَزَوَّجَ قَالَ ، فَقَالَ لَہَا : أَطِیعِی أَبَاک قَالَ ، قَالَتْ : لاَ حَتَّی تُخْبِرَنِی مَا حَقُّ الزَّوْجِ عَلَی زَوْجَتِہِ ؟ فَرَدَّدَتْ عَلَیْہِ مَقَالَتَہَا قَالَ ، فَقَالَ : حَقُّ الزَّوْجِ عَلَی زَوْجَتِہِ أَنْ لَوْ کَانَ بِہِ قُرْحَۃٌ فَلَحَسَتْہَا ، أَوِ ابْتَدَرَ مَنْخِرَاہُ صَدِیدًا ، أَوْ دَمًا ثُمَّ لَحَسَتْہُ مَا أَدَّتْ حَقَّہُ قَالَ ، فَقَالَتْ : وَالَّذِی بَعَثَک بِالْحَقِّ لاَ أَتَزَوَّجُ أَبَدًا قَالَ ، فَقَالَ : لاَ تُنْکِحُوہُنَّ إلاَّ بِإِذْنِہِنَّ۔ (ابن حبان ۴۱۶۴۔ حاکم ۱۸۸)
(١٧٤٠٧) حضرت ابو سعید (رض) فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ ایک آدمی اپنی بیٹی کو لے کر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس حاضر ہوئے اور کہا کہ میری یہ بیٹی شادی کرنے سے انکار کررہی ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس بچی سے فرمایا کہ اپنے باپ کی بات مان لو۔ اس لڑکی نے کہا کہ میں اس وقت تک شادی نہیں کروں گی جب تک آپ مجھے یہ نہ بتادیں کہ بیوی پر خاوند کا کیا حق ہے ؟ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ بیوی پر خاوند کا حق یہ ہے کہ اگر خاوند کو پھوڑا نکل آئے اور اس کی بیوی اس پھوڑے کو چاٹے یا اس سے پیپ اور خون نکلے اس کی بیوی اس کو چاٹے تو پھر بھی اس کا حق ادا نہیں کیا۔ اس پر اس لڑکی نے کہا کہ پھر تو اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے میں کبھی شادی نہیں کروں گی۔ پھر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے باپ سے فرمایا کہ عورتوں کا نکاح ان کی اجازت کے بغیر نہ کرو۔

17407

(۱۷۴۰۸) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ أَبِی نَصْرٍ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ مُسَاوِرٍ الْحِمْیَرِیِّ ، عَنْ أُمہِ قَالَت : سَمِعْتُ أُمَّ سَلَمَۃَ تَقُولُ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : أَیُّمَا امْرَأَۃٍ مَاتَتْ وَزَوْجُہَا عَنْہَا رَاضٍ دَخَلَتِ الْجَنَّۃَ۔ (ترمذی ۱۱۶۱۔ طبرانی ۸۸۴)
(١٧٤٠٨) حضرت ام سلمہ (رض) سے روایت ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ جس عورت کا انتقال اس حال میں ہو کہ اس کا خاوند اس سے راضی ہو تو وہ جنت میں داخل ہوگی۔

17408

(۱۷۴۰۹) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ ، عَنْ عَطَائٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ : أَتَتِ امْرَأَۃٌ نَبِیَّ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَتْ : یَا رَسُولَ اللہِ ، مَا حَقُّ الزَّوْجِ عَلَی زوجتہ ؟ قَالَ : لاَ تَمْنَعُہُ نَفْسَہَا وَلَوْ کَانَتْ عَلَی ظَہْرِ قَتَبٍ قَالَتْ : یَا رَسُولَ اللہِ ، مَا حَقُّ الزَّوْجِ عَلَی زَوْجَتِہِ ؟ قَالَ : لاَ تَصَدَّقُ بِشَیْئٍ مِنْ بَیْتِہِ إلاَّ بِإِذْنِہِ فَإِنْ فَعَلَتْ کَانَ لَہُ الأَجْرُ وَعَلَیْہَا الْوِزْرُ ، قَالَتْ : یَا نَبِی اللہ مَا حَقُّ الزَّوْجِ عَلَی امرأتہ قَالَ : لاَ تَخْرُجَ مِنْ بَیْتِہِ إِلا بِإِذْنِہِ فَإِنْ فَعَلَتْ لَعَنَتْہَا مَلاَئِکَۃُ اللہِ وَمَلاَئِکَۃُ الرَّحْمَۃِ وَمَلاَئِکَۃُ الْغَضَبِ حَتَّی تَتُوبَ ، أَوْ تراجع قَالَتْ : یَا نَبِیَّ اللہِ : فَإِنْ کَانَ لَہَا ظَالِمًا ؟ قَالَ : وَإِنْ کَانَ لَہَا ظَالِمًا ، قَالَتْ : وَالَّذِی بَعَثَک بِالْحَقِّ لاَ یَمْلِکُ عَلَیَّ أَمْرِی أَحَدٌ بَعْدَ ہَذَا أَبَدًا مَا بَقِیتُ۔
(١٧٤٠٩) حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ ایک عورت حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا ” اے اللہ کے رسول ! بیوی پر خاوند کا کیا حق ہے ؟ “ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ خاوند کا حق یہ ہے کہ بیوی اسے اپنے نفس سے منع نہ کرے خواہ وہ چکی پر بیٹھی ہو۔ اس عورت نے پھر سوال کیا ” اے اللہ کے رسول ! بیوی پر خاوند کا کیا حق ہے ؟ “ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ خاوند کے گھر سے کوئی چیز اس کی اجازت کے بغیر صدقہ نہ کرے۔ اگر اس نے ایسا کیا تو خاوند کو اجر اور بیوی کو گناہ ملے گا۔ اس عورت نے پھر عرض کیا ” اے اللہ کے رسول ! بیوی پر خاوند کا کیا حق ہے ؟ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ عورت خاوند کی اجازت کے بغیر گھر سے نہ نکلے، اگر اس نے ایسا کیا تو اس پر اللہ کے فرشتے، رحمت کے فرشتے اور غضب کے فرشتے اس وقت تک لعنت کرتے ہیں جب تک وہ توبہ نہ کرلے یا واپس نہ آجائے۔ اس عورت نے سوال کیا کہ خواہ اس کا خاوند ظالم ہی ہو ؟ آپ نے فرمایا ہاں خواہ وہ ظالم ہی ہو۔ پھر اس عورت نے عرض کیا کہ اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق دے کر مبعوث فرمایا ہے آج کے بعد میں اپنے معاملے کا مالک کسی کو نہیں بناؤں گی یعنی شادی نہیں کروں گی۔

17409

(۱۷۴۱۰) حدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ، عَنْ بُشَیرِ بْنِ یَسَارٍ ، عَنْ حُصَیْنِ بْنِ مِحْصَنٍ أَنَّ عَمَّۃً لَہُ أَتَتِ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ تَطْلُبُ حَاجَۃً فَلَمَّا قَضَتْ حَاجَتَہَا قَالَ : أَلَکِ زَوْجٌ ؟ قَالَتْ : نَعَمْ ، قَالَ : فَأَیْنَ أَنْتِ مِنْہُ ؟ قَالَتْ : مَا آلُوہُ خَیْرًا إلاَّ مَا عَجَزْتُ عَنْہُ قَالَ : انْظُرِی ، فَإِنَّہُ جَنَّتُکِ وَنَارُکِ۔ (احمد ۴/۳۴۱۔ حاکم ۱۸۹)
(١٧٤١٠) حضرت حصین بن محصن (رض) فرماتے ہیں کہ میری پھوپھی کسی کام کے سلسلے میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئیں، جب حاجت پوری ہوگئی تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ کیا تمہارے خاوند ہیں ؟ انھوں نے عرض کیا جی ہاں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ تم اس کے ساتھ کیسا سلوک کرتی ہو ؟ انھوں نے کہا کہ میں ہمیشہ ان کی بھلائی کا ہی سوچتی ہوں، سوائے اس کے کہ میں عاجز آ جاؤں۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ دھیان رکھنا وہی تمہاری جنت ہے اور وہی تمہاری جہنم ہے۔

17410

(۱۷۴۱۱) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِِ ، عَنْ أَبِی ظَبْیَانَ قَالَ : لَمَّا قَدِمَ مُعَاذٌ مِنَ الْیَمَنِ قَالَ : یَا رَسُولَ اللہِ ، رَأَیْنَا قَوْمًا یَسْجُدُ بَعْضُہُمْ لِبَعْضٍ أَفَلاَ نَسْجُدُ لَکَ ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لاَ ، إنَّہُ لاَ یَسْجُدُ أَحَدٌ لأَحَدٍ دون اللہ وَلَوْ کُنْتُ آمِرًا أَحَدًا یَسْجُدُ لأَحَدٍ لأَمَرْتُ النِّسَائَ یَسْجُدْنَ لأَزْوَاجِہِنَّ۔
(١٧٤١١) حضرت معاذ بن جبل (رض) جب یمن سے واپس آئے تو انھوں نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول ! ہم نے ایک قوم کو دیکھا جو ایک دوسرے کو سجدہ کیا کرتے تھے، کیا ہم بھی آپ کو سجدہ نہ کریں ؟ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ نہیں، سوائے اللہ کے کسی کو سجدہ نہیں کیا جاسکتا، اگر میں کسی کو حکم دیتا کہ وہ کسی کو سجدہ کرے تو میں عورتوں کو حکم دیتا کہ وہ اپنے خاوندوں کو سجدہ کریں۔

17411

(۱۷۴۱۲) حَدَّثَنَا عبد اللہ بْنُ نُمَیْرٍ قَالَ : حدَّثَنَا الأَعْمَشُ ، عَنْ أَبِی ظَبْیَانَ ، عَنْ رَجُلٍ مِنَ الأَنْصَارِ ، عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِمِثْلِ حَدِیثِ أَبِی مُعَاوِیَۃَ۔ (ابن ماجہ ۱۸۵۳۔ حارث ۴۹۸)
(١٧٤١٢) ایک اور سند سے یونہی منقول ہے۔

17412

(۱۷۴۱۳) حَدَّثَنَا عبد اللہ بْنُ إدْرِیسَ ، عَنِ الأَعْمَشِِ ، عَنِ الْمِنْہَالِ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ الْحَارِثِ قَالَ : ثَلاَثَۃٌ لاَ تُجَاوِزُ صَلاَۃُ أَحَدِہِمْ رَأْسَہُ ، إمَامٌ أَمَّ قَوْمًا وَہُمْ لَہُ کَارِہُونَ ، وَامْرَأَۃٌ تَعْصِی زَوْجَہَا ، وَعَبْدٌ آبِقٌ مِنْ سَیِّدِہِ۔
(١٧٤١٣) حضرت عبداللہ بن حارث (رض) فرماتے ہیں کہ تین لوگ ایسے ہیں جن کی نماز ان کے سر سے اوپر بھی نہیں جاتی : ایک وہ امام جس سے لوگ ناراض ہوں۔ دوسری وہ عورت جو اپنے خاوند کی نافرمان ہو اور تیسرا وہ غلام جو اپنے آقا سے بھاگا ہوا ہو۔

17413

(۱۷۴۱۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ قُرَّۃَ بْنِ خَالِدٍ ، عَنِ امْرَأَۃٍ مِنْ بَنِی عُطَارِدٍ یُقَالُ لَہَا رَبِیعَۃُ قَالَتْ : قالَتْ عَائِشَۃُ : یَا مَعاشِرَ النِّسَائِ ، لَوْ تَعْلَمْنَ حَقَّ أَزْوَاجِکُنَّ عَلَیْکُنَّ لَجَعَلَتِ الْمَرْأَۃُ مِنْکُنَّ تَمْسَحُ الْغُبَارَ ، عَنْ وَجْہِ زَوْجِہَا بِحُرِّ وَجْہِہَا۔
(١٧٤١٤) حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ اے عورتو ! اگر تمہیں معلوم ہوجائے کہ تمہارے شوہروں کا تم پر کیا حق ہے تو تم ان کے چہروں کا غبار اپنے چہروں کے ذریعے صاف کرنے لگو۔

17414

(۱۷۴۱۵) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ ہِلاَلِ بْنِ یَِسَافٍ ، عَنْ زِیَادِ بْنِ أَبِی الْجَعْدِ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ بْن الْمُصْطَلِقِ قَالَ : کَانَ یُقَالُ : أَشَدُّ النَّاسِ عَذَابًا اثْنَانِ : امْرَأَۃٌ تَعْصِی زَوْجَہَا وَإِمَامُ قوْمٍ وَہُمْ لَہُ کَارِہُونَ۔
(١٧٤١٥) حضرت عمرو بن حارث بن مصطلق (رض) فرماتے ہیں کہ تمام لوگوں میں سب سے زیادہ سخت عذاب دو لوگوں کو ہوگا : ایک وہ عورت جو اپنے خاوند کی نافرمان ہو اور دوسرا وہ امام جسے لوگ ناپسند کرتے ہوں۔

17415

(۱۷۴۱۶) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ، عَنْ حُمَیْدٍ، عَنْ أُمِّہِ قَالَتْ: کُنَّ نِسَائُ أَہْلِ الْمَدِینَۃِ إذَا أَرَدْنَ أَنْ یَبْنِینَ بِامْرَأَۃٍ عَلَی زَوْجِہَا بَدَأْنَ بِعَائِشَۃَ فَأَدْخَلْنَہَا عَلَیْہَا فَتَضَعُ یَدَہَا عَلَی رَأْسِہَا تَدْعُو لَہَا وَتَأْمُرُہَا بِتَقْوَی اللہِ وَحَقِّ الزَّوْجِ۔
(١٧٤١٦) حضرت حمید (رض) کی والدہ فرماتی ہیں کہ جب مدینہ والے اپنی بیٹی کو اس کے خاوند کے پاس رخصت کرنے لگتے تو اسے حضرت عائشہ (رض) کے پاس لاتے، حضرت عائشہ (رض) اس کے سر پر ہاتھ پھیرتیں ، اس کے لیے دعا کرتیں اور اسے تقویٰ اختیار کرنے اور خاوند کا حق ادا کرنے کی نصیحت فرماتیں۔

17416

(۱۷۴۱۷) حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ بْنِ عَبْدِ الْمَلِکِ ، عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : لاَ یَنْبَغِی لِشَیْئٍ أَنْ یَسْجُدَ لِشَیْئٍ وَلَوْ کَانَ ذَلِکَ لَکَانَ النِّسَائُ لأَزْوَاجِہِنَّ۔
(١٧٤١٧) حضرت جابر (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ کسی کے لیے کسی چیز کو سجدہ کرنا جائز نہیں ، اگر اللہ کے غیر کو سجدہ کرنا جائز ہوتا تو عورتوں کو اجازت ہوتی کہ وہ اپنے خاوند کو سجدہ کریں۔

17417

(۱۷۴۱۸) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِِ ، عَنْ أَبِی حَازِمٍ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إذَا دَعَا الرَّجُلُ امْرَأَتَہُ إلَی فِرَاشِہِ فَأَبَتْ فَبَاتَ غَضْبَانَ عَلَیْہَا لَعَنَتْہَا الْمَلاَئِکَۃُ حَتَّی تُصْبِحَ۔ (بخاری ۵۱۹۳۔ مسلم ۱۲۲)
(١٧٤١٨) حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ جب آدمی اپنی بیوی کو اپنے بستر پر بلائے اور وہ انکار کرے، خاوند اس سے ناراض ہو کر رات گزارے تو صبح تک فرشتے اس عورت پر لعنت کرتے رہتے ہیں۔

17418

(۱۷۴۱۹) حَدَّثَنَا عَفَّانُ قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ قَالَ : أَخْبَرَنَا عَلِیُّ بْنُ زَیْدٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ، عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لَوْ کُنْتُ آمِرًا أَحَدًا أَنْ یَسْجُدَ لأَحَدٍ لأَمَرْتُ الْمَرْأَۃَ أَنْ تَسْجُدَ لِزَوْجِہَا وَلَوْ أَنَّ رَجُلاً أَمَرَ امْرَأَتَہُ أَنْ تَنْتَقِلَ مِنْ جَبَلٍ أَحْمَرَ إلَی جَبَلٍ أَسْوَدَ ، أَوْ مِنْ جَبَلٍ أَسْوَدَ إلَی جَبَلٍ أَحْمَرَ کَانَ نَوْلَہَا أَنْ تَفْعَلَ۔
(١٧٤١٩) حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ اگر میں کسی کو اجازت دیتا کہ وہ کسی کو سجدہ کرے تو میں عورت کو حکم دیتا کہ اپنے خاوند کو سجدہ کرے، اگر آدمی اپنی بیوی کو حکم دے کہ سرخ پہاڑ کو کالے پہاڑ کی طرف اور کالے پہاڑکو سرخ پہاڑ کی طرف منتقل کردے تو عورت پر لازم ہے کہ وہ ایسا کرے۔

17419

(۱۷۴۲۰) حَدَّثَنَا مُلاَزِمُ بْنُ عَمْرو ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ بَدْرٍ ، عَنْ قَیْسِ بْنِ طَلْقٍ ، عَنْ أَبِیہِ طَلْقِ بْنِ عَلِیٍّ قَالَ : جَلَسْنا عِنْدَ نَبِیِّ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَسَمِعْتُ نَبِیَّ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : إذَا دَعَا الرَّجُلُ زَوْجَتَہُ لِحَاجَتِہِ فَلْتَأْتِہِ ، وَإِنْ کَانَتْ عَلَی التَّنُّورِ۔ (ترمذی ۱۱۶۰۔ احمد ۴/۲۳)
(١٧٤٢٠) حضرت طلق بن علی (رض) فرماتے ہیں کہ ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر تھے، میں نے اللہ کے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے ہوئے سنا کہ جب خاوند بیوی کو اپنی حاجت کے لیے بلائے تو وہ ضرور آئے خواہ تنور پر بیٹھی ہو۔

17420

(۱۷۴۲۱) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ قَالَ : حدَّثَنَا الأَعْمَشُ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالَ : کَانُوا یَقُولُونَ : لَوْ أَنَّ امْرَأَۃً مَصَّتْ أَنْفَ زَوْجِہَا مِنَ الْجُذَامِ حَتَّی تَمُوتَ مَا أَدَّتْ حَقَّہُ۔
(١٧٤٢١) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ اسلاف فرمایا کرتے تھے کہ اگر عورت کوڑھ کی وجہ سے خاوند کی ناک چاٹے اور اس کی وجہ سے اس کا انتقال ہوجائے تو پھر بھی اس نے خاوند کا حق ادا نہیں کیا۔

17421

(۱۷۴۲۲) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ یَزِیدَ بْنِ جَابِرٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ الْقَاسِمَ بْنَ مُخَیْمِرَۃَ یَذْکُرُ أَنَّ سَلْمَانَ قَدَّمَہُ قَوْمٌ لِیُصَلِّیَ بِہِمْ فَأَبَی عَلَیْہِمْ حَتَّی دَفَعُوہُ ، فَلَمَّا صَلَّی بِہِمْ قَالَ : أَکُلُّکُمْ رَاضٍ ؟ قَالُوا : نَعَمْ ، قَالَ : الْحَمْدُ لِلَّہِ ، إنِّی سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : ثَلاَثَۃٌ لاَ تُقْبَلُ صَلاَتُہُمْ : الْمَرْأَۃُ تَخْرُجُ مِنْ بَیْتِ زَوْجِہَا بِغَیْرِ إذْنِہِ وَالْعَبْدُ الآبِقُ وَالرَّجُلُ یَؤُمُّ قَوْمًا وَہُمْ لَہُ کَارِہُونَ۔
(١٧٤٢٢) حضرت قاسم بن مخیمرہ فرماتے ہیں کہ حضرت سلمان (رض) کو ان کی قوم نے نماز پڑھانے کے لیے آگے کیا، انھوں نے انکار کیا لیکن لوگوں نے اصرار کرکے انھیں آگے کر ہی دیا، جب وہ نماز پڑھا کر فارغ ہوگئے تو فرمایا کہ کیا تم سب میرے نماز پڑھانے سے راضی ہو ؟ لوگوں نے کہا جی ہاں۔ پھر آپ نے فرمایا کہ تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں، میں نے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ تین آدمیوں کی نماز قبول نہیں ہوتی۔ ایک وہ عورت جو اپنے خاوند کی اجازت کے بغیر گھر سے نکلے، دوسرا بھاگا ہوا غلام اور تیسرا وہ شخص جو لوگوں کو نماز پڑھائے لیکن وہ اس کو ناپسند کرتے ہوں۔

17422

(۱۷۴۲۳) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ حَسَنِ بْنِ شَقِیقٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِی حُسَیْنُ بْنُ وَاقِدٍ قَالَ : حدَّثَنَا أَبُو غَالِبٍ ، عَنْ أَبِی أُمَامَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : ثَلاَثَۃٌ لاَ تُجَاوِزُ صَلاَتُہُمْ آذَانَہُمْ حَتَّی یَرْجِعُوا : الْعَبْدُ الآبِقُ وَامْرَأَۃٌ بَاتتْ وَزَوْجُہَا عَلَیْہَا سَاخِطٌ وَإِمَامُ قَوْمٍ وَہُمْ لَہُ کَارِہُونَ۔
(١٧٤٢٣) حضرت ابو امامہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ تین آدمیوں کی نماز ان کے کانوں سے اوپر بھی نہیں جاتی جب تک وہ توبہ نہ کرلیں : بھاگا ہوا غلام، وہ عورت جس کا خاوند اس سے ناراض ہو، وہ امام جس کے مقتدی اس سے ناراض ہوں۔

17423

(۱۷۴۲۴) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ یَزِیدَ ، عَنْ زَیْدِ بْنِ وَہْبٍ قَالَ : کَتَبَ إلَیْنَا عُمَرُ : إنَّ الْمَرْأَۃَ لاَ تَصُومُ تَطَوُّعًا إلاَّ بِإِذْنِہِ یَعْنِی زَوْجَہَا۔
(١٧٤٢٤) حضرت زیدبن وہب (رض) فرماتے ہیں کہ عورت اپنے خاوند کی اجازت کے بغیر نفلی روزہ نہ رکھے۔

17424

(۱۷۴۲۵) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ یَزِیدَ ، عَنْ مِقْسَمٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : لاَ تَصُومُ تَطَوُّعًا وَہُوَ شَاہِدٌ إلاَّ بِإِذْنِہِ یَعْنِی زَوْجَہَا۔
(١٧٤٢٥) حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ جب عورت کا خاوند موجود ہو تو وہ اس کی اجازت کے بغیر نفلی روزہ نہ رکھے۔

17425

(۱۷۴۲۶) حدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ عَمْرٍو عن یَحْیَی بْنِ جَعْدَۃَ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : خَیْرُ فَائِدَۃٍ اسْتَفَادَہَا الْمُسْلِمُ بَعْدَ الإِسْلاَمِ امْرَأَۃٌ جَمِیلَۃٌ ، تَسُرُّہُ إذَا نَظَرَ إلَیْہَا وَتُطِیعُہُ إذَا أَمَرَہَا وَتَحْفَظُہُ إذَا غَابَ عَنْہَا فِی مَالِہِ وَنَفْسِہَا۔ (ابوداؤد ۱۶۶۱۔ سعید بن منصور ۵۰۱)
(١٧٤٢٦) حضرت یحییٰ بن جعدہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ اسلام کے بعد مسلمان کے سب سے زیادہ فائدے والی چیز وہ خوبصورت عورت ہے جسے آدمی دیکھے تو خوش ہوجائے، جب وہ اسے حکم دے تو وہ اس کی اطاعت کرے اور وہ جب وہ سفر میں ہو تو اس کے مال اور عزت کی حفاظت کرے۔

17426

(۱۷۴۲۷) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ یُونُسَ ، عَنْ مُعَاوِیَۃَ بْنِ قُرَّۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : قَالَ عُمَرُ : مَا اسْتَفَادَ رَجُلٌ ، أَوْ قَالَ عَبْدٌ بَعْدَ إیمَانٍ بِاللَّہِ خَیْرًا مِنِ امْرَأَۃٍ حَسَنَۃِ الْخُلُقِ وَدُودٍ وَلُودٍ ، وَمَا اسْتَفَادَ رَجُلٌ بَعْدَ الْکُفْرِ بِاللَّہِ شَرًّا مِنِ امْرَأَۃٍ سَیِّئَۃِ الْخُلُقِ حَدِیدَۃِ اللِّسَانِ ثُمَّ قَالَ : إنَّ مِنْہُنَّ غُنْمًا لاَ یُحْذَی مِنْہُ وَإِنَّ مِنْہُنَّ غُلاً یُفْدَی مِنْہُ۔
(١٧٤٢٧) حضرت عمر (رض) فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے کے بعد آدمی کو اچھے اخلاق والی، زیادہ محبت کرنے والی اور بچوں کو جنم دینے والی عورت سے بڑھ کر خیر عطا نہیں ہوئی۔ اور کفر کے بعد آدمی کو برے اخلاق والی اور تیز زبان والی بیوی سے بڑھ کر کوئی مصیبت نہیں ملی۔ بعض عورتیں ایسی نعمت ہیں جن سے بےرغبتی نہیں رکھی جاسکتی اور بعض عورتیں ایسی مصیبت ہیں کہ ان سے بچا نہیں جاسکتا۔

17427

(۱۷۴۲۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ الأَعْمَشِِ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبْزَی قَالَ : مَثَلُ الْمَرْأَۃِ الصَّالِحَۃِ عِنْدَ الرَّجُلِ کَمَثَلِ التَّاجِ الْمَخُوصِ بِالذَّہَبِ عَلَی رَأْسِ الْمَلِکِ وَمَثَلُ الْمَرْأَۃِ السَّوْئِ عِنْدَ الرَّجُلِ الصَّالِحِ مَثَلُ الْحِمْلِ الثَّقِیلِ عَلَی الشَّیْخِ الْکَبِیرِ۔
(١٧٤٢٨) حضرت عبد الرحمن بن ابزی (رض) فرماتے ہیں کہ نیک بیوی کی مثال سونے سے مزین اس تاج کی ہے جو کسی بادشاہ کے سر پر ہو اور نیک مرد کی بری بیوی کی مثال اس بھاری بوجھ کی سی ہے جو کسی بوڑھے کی کمر پر ہو۔

17428

(۱۷۴۲۹) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ فِرَاسٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنْ أَبِی بُرْدَۃَ ، عَنْ أَبِی مُوسَی قَالَ : ثَلاَثَۃٌ یَدْعُونَ فَلاَ یُسْتَجَابُ لَہُمْ : رَجُلٌ آتی سَفِیہًا مَالَہُ وَقَالَ اللَّہُ تَبَارَکَ وَتَعَالَی : {وَلاَ تُؤْتُوا السُّفَہَائَ أَمْوَالَکُم} وَرَجُلٌ کَانَتْ عِنْدَہُ امْرَأَۃٌ سَیِّئَۃُ الْخُلُقِ فَلَمْ یُطَلِّقْہَا ، أَوْ لَمْ یُفَارِقْہَا وَرَجُلٌ کَانَ لَہُ عَلَی رَجُلٍ حَقٌّ فَلَمْ یُشْہِدْ عَلَیْہِ۔
(١٧٤٢٩) حضرت ابو موسیٰ (رض) فرماتے ہیں کہ تین لوگ ایسے ہیں جو بلاتے ہیں لیکن ان کی کوئی نہیں سنتا۔ ایک وہ شخص جس نے کسی بیوقوف کے پاس مال رکھوایا ہو، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں (ترجمہ) تم اپنا مال بیوقوفوں کے پاس مت رکھواؤ۔ دوسرا وہ آدمی جس کے نکاح میں کوئی بداخلاق عورت ہو اور وہ اسے طلاق نہ دے اور نہ اس سے جدائی اختیار کرے۔ تیسرا وہ آدمی جس کا حق کسی آدمی پر لازم ہو لیکن اس کے پاس کوئی گواہ نہ ہو۔

17429

(۱۷۴۳۰) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ أَبِی نَصْرٍ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ ہِلاَلِ بْنِ یَِسَافٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ : أَلاَ أُخْبِرُکُمْ بِالثَّلاَثِ الْفَوَاقِرِ ، قَالَ : وَمَا ہُنَّ ؟ قَالَ : إمَامٌ جَائِرٌ ، إِنْ أَحْسَنْتَ لَمْ یَشْکُرْ ، وَإِنْ أَسَأْتَ لَمْ یَغْفِرْ وَجَارُ سَوْئٍ إِنْ رَأَی حَسَنَۃً غَطَّاہَا ، وَإِنْ رَأَی سَیِّئَۃً أَفْشَاہَا وَامْرَأَۃُ السَّوْئِ إِنْ شَہِدْتَہَا غَاظَتکَ ، وَإِنْ غِبْتَ عَنْہَا خَانَتْکَ۔
(١٧٤٣٠) حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) فرماتے ہیں کہ میں تمہیں تین مصیبتوں کے بارے میں نہ بتاؤں : ایک وہ ظالم سلطان کہ اگر تم اچھا کام کرو تو وہ تمہارا شکریہ ادا نہ کرے اور اگر غلطی کرو تو وہ تمہیں معاف نہ کرے۔ دوسرا برا پڑوسی، اگر تمہاری اچھائی دیکھے تو چھپا دے اور اگر برائی دیکھے تو افشاء کردے۔ تیسری ایسی بری بیوی کہ اگر تم موجود ہو تو تمہیں غصہ دلائے اور اگر تم غیر موجود ہو تو تمہارے ساتھ خیانت کرے۔

17430

(۱۷۴۳۱) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ جَعْدَۃَ بْنِ ہُبَیْرَۃَ أنہ کَانَ إذَا زَوَّجَ شَیْئًا مِنْ بَنَاتِہِ خَلاَ بِہَا فَنَہَاہَا ، عَنْ سَیِّئِ الأَخْلاَقِ وَأَمَرَہَا بِأَحْسَنِہَا۔
(١٧٤٣١) حضرت مغیرہ (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت جعدہ بن ہبیرہ (رض) کا معمول تھا کہ جب وہ اپنی کسی بیٹی کی شادی کراتے تو اسے تنہائی میں نصیحت فرماتے بری عادات سے بچنے کا حکم دیتے اور اچھے اخلاق کا حکم دیتے۔

17431

(۱۷۴۳۲) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ قَالَ : أَخْبَرَنَا شَیْبَانُ قَالَ أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْمَلِکِ بْنُ عُمَیْرٍ ، عَنْ زَیْدِ بْنِ عُقْبَۃَ ، عَنْ سَمُرَۃَ بْنِ جُنْدُبٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ یَقُولُ : النِّسَائُ ثَلاَثَۃٌ : امْرَأَۃٌ ہَیِّنَۃٌ لَیِّنَۃٌ عَفِیفَۃٌ مُسْلِمَۃٌ وَدُودٌ وَلُودٌ تُعِینُ أَہْلَہَا عَلَی الدَّہْرِ ، وَلاَ تُعِینُ الدَّہْرَ عَلَی أَہْلِہَا ، وَقَلَّ مَا تَجِدُہَا ، ثَانِیَۃٌ : امْرَأَۃٌ عَفِیفَۃٌ مُسْلِمَۃٌ إنَّمَا ہِیَ وِعَائٌ لِلْوَلَدِ لَیْسَ عِنْدَہَا غَیْرُ ذَلِکَ ، ثَالِثَۃٌ : غُلٌّ قَمِلٌ یَجْعَلُہَا اللَّہُ فِی عُنُقِ مَنْ یَشَائُ وَلاَ یَنْزِعُہَا غَیْرُہُ ، الرِّجَالُ ثَلاَثَۃٌ : رَجُلٌ عَفِیفٌ مُسْلِمٌ عَاقِلٌ یَأْتَمِرُ فِی الأُمُورِ إذَا أَقْبَلَتْ وَتَشَبَّہت ، فَإِذَا وَقَعَتْ خَرَجَ مِنْہَا بِرَأْیِہِ وَرَجُلٌ عَفِیفٌ مُسْلِمٌ لَیْسَ لَہُ رَأْیٌ فَإِذَا وَقَعَ الأَمْرُ أَتَی ذَا الرَّأْیِ وَالْمَشْورَۃِ فَشَاوَرَہُ وَاسْتَأْمَرَہُ ثُمَّ نَزَلَ عِنْدَ أَمْرِہِ، وَرَجُلٌ حَائِرٌ بَائِرٌ لاَ یَأْتَمِرُ رُشْدًا وَلاَ یُطِیعُ مُرْشِدًا۔
(١٧٤٣٢) حضرت عمر بن خطاب (رض) فرماتے ہیں کہ عورتیں تین قسم کی ہیں : ایک وہ اچھے مزاج والی، نرم طبیعت والی، پاکدامن، مسلمان، محبت کرنے والی، اولاد کو جنم دینے والی بیوی جو اپنے خاوند کی ہر حال میں معاونت کرے اور مصیبتوں پر شکوہ نہ کرے۔ لیکن ایسی عورت بہت کم ملتی ہے۔ دوسری وہ پاکدامن اور مسلمان عورت، جو بچوں کی تربیت کرے اور اسے بچوں کے علاوہ کوئی کام نہ ہو۔ تیسری وہ عورت جو بدمزاج اور بدفطرت ہو۔ اللہ تعالیٰ ایسی عورت جس کے گلے میں چاہے ڈال دیتا ہے اور اسے اللہ کے سوا کوئی ٹال نہیں سکتا۔ مردوں کی بھی تین قسمیں ہیں : ایک وہ پاکدامن مسلمان سمجھد ار مردجوہر طرح کے معاملات کی فہم رکھتا ہو، اگر کسی مشکل میں مبتلاہو تو اپنی دانائی کی وجہ سے اس سے نکل جائے۔ دوسرا وہ پاکدامن مسلمان مرد جو خود تو صاحب الرائے نہ ہو لیکن جب کوئی معاملہ پیش آئے تو سمجھدار اور صاحب الرائے سے مشورہ کرے اور اس کے مشورے پر عمل کرے اور تیسرا وہ نادان اور بیوقوف شخص جو نہ خود صاحب الرائے ہو نہ کسی سمجھدار سے مشورہ کرے اور نہ کسی خیر خواہ کی اطاعت کرے۔

17432

(۱۷۴۳۳) حدَّثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ أَبِی سُلَیْمَانَ ، عَنْ عَطَائٍ ، عَنْ جَابِرِ بن عَبْدِ اللہِ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : إنَّ الْمَرْأَۃَ تُنْکَحُ عَلَی دِینِہَا وَمَالِہَا وَجَمَالِہَا فَعَلَیْکَ بِذَاتِ الدِّینِ تَرِبَتْ یَدَاک۔ (مسلم ۱۰۸۷۔ ترمذی ۱۰۸۶)
(١٧٤٣٣) حضرت جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ عورت سے اس کے دین، اس کے مال اور اس کی خوبصورتی کی وجہ سے نکاح کیا جاتا ہے۔ تمہیں چاہیے کہ لازمی طور پر دین دار عورت سے شادی کرو ورنہ نقصان اٹھاؤگے۔

17433

(۱۷۴۳۴) حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِی مُحَمَّدُ بْنُ مُوسَی الْمَدَنِیُّ قَالَ : أَخْبَرَنِی سَعْدُ بْنُ إِسْحَاقَ ، عَنْ عَمَّتِہِ، عَنْ أَبِی سَعِیدٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: تُنْکَحُ الْمَرْأَۃُ عَلَی إحْدَی خِصَالٍ ثَلاَثٍ: تُنْکَحُ الْمَرْأَۃُ عَلَی مَالِہَا ، عَلَی جَمَالِہَا ، تُنْکَحُ عَلَی دِینِہَا ، عَلَیْک بِذَاتِ الدِّینِ وَالْخُلُقِ تَرِبَتْ یَمِینُکَ۔ (حاکم ۱۶۱۔ احمد ۳/۸۰)
(١٧٤٣٤) حضرت ابو سعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ عورت سے تین خصوصیات میں سے کسی ایک کی وجہ سے نکاح کیا جاتا ہے : یا تو اس کے مال کی وجہ سے یا خوبصورتی کی وجہ سے یا دین داری کی وجہ سے۔ تمہیں چاہیے کہ شادی کی بنیاد دینداری اور اخلاق کو بناؤ ورنہ نقصان اٹھاؤ گے۔

17434

(۱۷۴۳۵) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنْ یَحْیَی بْنِ جَعْدَۃَ رَفَعَہُ قَالَ : تُنْکَحُ الْمَرْأَۃُ عَلَی دِینِہَا وَخُلُقِہَا وَمَالِہَا وَجَمَالِہَا ، أَیْنَ بِکَ ، عَنْ ذَاتِ الْخُلُقِ وَالدِّینِ ، تَرِبَتْ یَمِینُکَ۔ (سعید بن منصور ۵۰۲)
(١٧٤٣٥) حضرت یحییٰ بن جعدہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ عورت سے اس کے دین، اخلاق، مال یاجمال کی وجہ سے نکاح کیا جاتا ہے۔ تمہیں چاہیے کہ شادی کی بنیاد دینداری اور اخلاق کو بناؤ ورنہ نقصان اٹھاؤ گے۔

17435

(۱۷۴۳۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ جَعْدَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: تُنْکَحُ الْمَرْأَۃُ عَلَی مَالِہَا وَعَلَی حَسَبِہَا وَعَلَی جَمَالِہَا وَعَلَی دِینِہَا فَعَلَیْکَ بِذَاتِ الدِّینِ، تَرِبَتْ یَمِینُکَ۔
(١٧٤٣٦) حضرت یحییٰ بن جعدہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ عورت سے مال، خاندان، جمال یا دین کی وجہ سے نکاح کیا جاتا ہے۔ تمہیں چاہیے کہ دینداری کو بنیاد بنا کر نکاح کرو ورنہ نقصان اٹھاؤ گے۔

17436

(۱۷۴۳۷) حدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنْ کُرَیْبٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لَوْ أَنَّ أَحَدَکُمْ إذَا أَرَادَ أَنْ یَأْتِیَ أَہْلَہُ قَالَ : بِسْمِ اللہِ اللَّہُمَّ جَنِّبْنَا الشَّیْطَانَ وَجَنِّبِ الشَّیْطَانَ مَا رَزَقْتنَا ، فَإِنَّہُ إِنْ یُقْدَرْ بَیْنَہُمَا وَلَدٌ فِی ذَلِکَ لَمْ یَضُرَّہُ شَیْطَانٌ أَبَدًا۔ (بخاری ۳۲۷۱۔ مسلم ۱۱۶)
(١٧٤٣٧) حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ اگر تم میں سے کوئی اپنی بیوی کے پاس جانے کا ارادہ کرے تو یہ دعاپڑھے (ترجمہ) اللہ کے نام کے ساتھ، اے اللہ ! ہمیں شیطان سے محفوظ فرما، جو اولاد تو ہمیں عطا کرے اس کو بھی شیطان سے محفوظ فرما۔ یہ دعا پڑھنے کے بعد اگر اللہ نے اولاد دی تو وہ شیطانی اثرات سے محفوظ رہے گی۔

17437

(۱۷۴۳۸) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ دَاوُدَ ، عَنْ أَبِی نَضْرَۃَ ، عَنْ أَبِی سَعِیدٍ مَوْلَی أَبِی أُسَیْدٍ قَالَ : تَزَوَّجْتُ وَأَنَا مَمْلُوکٌ فَدَعَوْتُ نَفَرًا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیہِمُ ابْنُ مَسْعُودٍ ، وَأَبُو ذَرٍّ وَحُذَیْفَۃُ قَالَ : وَأُقِیمَتِ الصَّلاَۃُ قَالَ : فَذَہَبَ أَبُو ذَرٍّ لِیَتَقَدَّمَ فَقَالُوا : إلَیْکَ ، قَالَ : أَوَ کَذَلِکَ ؟ قَالُوا : نَعَمْ ، قَالَ : فَتَقَدَّمْتُ إلَیْہِمْ وَأَنَا عَبْدٌ مَمْلُوکٌ وَعَلَّمُونِی فَقَالُوا : إذَا أُدْخِلَ عَلَیْکَ أَہْلُکَ فَصَلِّ عَلَیْکَ رَکْعَتَیْنِ ثُمَّ سَلِ اللَّہَ تَعَالَی مِنْ خَیْرِ مَا دَخَلَ عَلَیْکَ وَتَعَوَّذْ بِہِ مِنْ شَرِّہِ ثُمَّ شَأْنَکَ وَشَأْنَ أَہْلِکَ۔
(١٧٤٣٨) حضرت ابو اسید کے مولیٰ حضرت ابو سعید کہتے ہیں کہ جب میں نے شادی کی تو میں غلام تھا۔ میں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ کی ایک جماعت کی دعوت کی۔ ان میں حضرت ابن مسعود، حضرت ابو ذر اور حضرت حذیفہ (رض) بھی تھے۔ جب نماز کا وقت ہوا تو حضرت ابوذر (رض) آگے ہونے لگے تو ساتھیوں نے ان سے فرمایا آپ آگے بڑھیں اور مجھے نماز پڑھانے کو کہا۔ میں غلام تھا پھر بھی میں نے نماز پڑھائی۔ پھر انھوں نے مجھ سے فرمایا جب تم اپنی بیوی کے پاس جاؤ تو دو رکعت نماز پڑھو، پھر اللہ تعالیٰ سے خیر مانگو اور شر سے پناہ چاہو۔ پھر اپنی بیوی کے ساتھ مصروف ہوجاؤ۔

17438

(۱۷۴۳۹) حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُوسَی، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَۃَ ، عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ، عَنِ ابْنِ أَخِی عَلْقَمَۃَ بن قَیس، عَنْ عَلْقَمَۃَ أَنَّ ابْنَ مَسْعُودٍ کَانَ إذا غَشِیَ أَہْلَہُ فَأَنْزَلَ قَالَ: اللَّہُمَّ لاَ تَجْعَلْ لِلشَّیْطَانِ فِیمَا رَزَقْتنَا نَصِیبًا۔
(١٧٤٣٩) حضرت علقمہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابن مسعود (رض) جب اپنی اہلیہ کے ساتھ مباشرت فرماتے تو یہ دعا پڑھتے (ترجمہ) اے اللہ ! جو اولاد تو ہمیں عطا کرے شیطان کو اس پر تسلط نہ دینا۔

17439

(۱۷۴۴۰) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ أُمِّ سَلَمَۃَ قَالَتْ : کَانَتْ لاَ تُزَفُّ بِالْمَدِینَۃِ جَارِیَۃٌ إلَی زَوْجِہَا حَتَّی یُمَرَّ بِہَا فِی الْمَسْجِدِ فَتُصَلِّیَ فِیہِ قَالَ أَبُو بَکْرٍ : قَالَ : أُرَاہُ قَالَ : رَکْعَتَیْنِ وَحَتَّی یُمَرَّ بِہَا عَلَی أَزْوَاجِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَیَدْعُونَ لَہَا۔
(١٧٤٤٠) حضرت ام موسیٰ فرماتی ہیں کہ مدینہ میں جب کسی لڑکی کو رخصت کیا جاتا تو پہلے اس کو مسجد میں لاکر دو رکعت نماز پڑھائی جاتی اور نبی پاک (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ازواج کے پاس لائی جاتی تاکہ وہ اس کے لیے دعا فرمائیں۔

17440

(۱۷۴۴۱) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ شَقِیقٍ قَالَ : جَائَ رَجُلٌ إلَی عَبْدِ اللہِ یُقَالُ لَہُ أَبُو جَرِیرٍ ، فَقَالَ : إنِّی تَزَوَّجْتُ جَارِیَۃً شَابَّۃً وَإِنِّی أَخَافُ أَنْ تَفْرَکَنِی قَالَ ، فَقَالَ عَبْدُ اللہِ : إنَّ الإِلْفَ مِنَ اللہِ وَالْفَرْکَ مِنَ الشَّیْطَانِ، یُرِیدُ أَنْ یُکَرِّہَ إلَیْکُمْ مَا أَحَلَّ اللَّہُ لَکُمْ ، فَإِذَا أَتَتْک فَمُرْہَا فَلْتُصَلِّ خلفک رَکْعَتَیْنِ۔
(١٧٤٤١) حضرت شقیق فرماتے ہیں کہ ابوجریر نامی ایک صاحب حضرت عبداللہ کے پاس آئے اور انھوں نے عرض کیا کہ میں نے ایک جوان لڑکی سے شادی کی ہے اور مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں وہ مجھ سے بیزار نہ ہوجائے۔ حضرت عبداللہ نے فرمایا کہ محبت اللہ طرف سے ہے اور نفرت شیطان کی طرف سے ہے۔ شیطان چاہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی حلال کردہ چیز کو تمہارے لیے ناپسندیدہ بنادے۔ جب وہ تمہارے پاس آئے تو اسے حکم دو کہ وہ تمہارے پیچھے دو رکعات نما زپڑھے۔

17441

(۱۷۴۴۲) حدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ آدَمَ قَالَ : حدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ خُصَیْفٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ فِی قَوْلِہِ : {وَلاَ تُمْسِکُوا بِعِصَمِ الْکَوَافِرِ} قَالَ : إذَا لَحِقَتِ امْرَأَۃُ الْمُسْلِمِ بِالْمُشْرِکِینَ لَمْ یُعْتَدَّ بِہَا مِنْ نِسَائِہِ۔
(١٧٤٤٢) حضرت مجاہد قرآن مجید کی آیت { وَلاَ تُمْسِکُوا بِعِصَمِ الْکَوَافِرِ } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اگر کسی مسلمان کی بیوی مشرکین کی سرزمین میں جاب سے تو وہ مسلمان کی بیوی نہیں شمار کی جائے گی۔

17442

(۱۷۴۴۳) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ آدَمَ قَالَ : حدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ مِثْلَہُ۔
(١٧٤٤٣) حضرت سعید بن جبیر (رض) سے بھی یونہی منقول ہے۔

17443

(۱۷۴۴۴) حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ مُعَاذٍ ، عَنْ حُمَیْدٍ ، عَنْ أَنَسٍ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ لِعَبْدِ الرَّحْمَنِ بن عوف : أَوْلِمْ وَلَوْ بِشَاۃٍ یَعْنِی ، حِینَ تَزَوَّجَ۔ (بخاری ۲۰۴۹۔ ابوداؤد ۲۱۰۲)
(١٧٤٤٤) حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ جب حضرت عبد الرحمن بن عوف (رض) نے شادی کی تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے فرمایا تھا ” ولیمہ کرو خواہ ایک ہی بکری سے کرو “

17444

(۱۷۴۴۵) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، عَنْ زُہَیْرٍ ، عَنْ بَیَانٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ أَنَسًا یَقُولُ : بَنَی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِامْرَأَۃٍ فَأَرْسَلَنِی فَدَعَوْتُ رِجَالاً إلَی الطَّعَامِ۔ (بخاری ۵۱۷۰۔ ترمذی ۳۲۱۹)
(١٧٤٤٥) حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی ازواج میں ایک سے شرعی ملاقات فرمائی تو مجھے بھیجا کہ میں کچھ لوگوں کو کھانے کے لیے بلا لاؤں۔

17445

(۱۷۴۴۶) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنِ الشَّیْبَانِیِّ ، عَنِ الْحَکَمِ قَالَ : لَمَّا تَزَوَّجَ بِلاَلٌ أَتَی النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِذَہَبٍ، قَالَ لِبِلاَلٍ : سُقْ ہَذَا ، ثُمَّ قَالَ : أَعِینُوا أَخَاکُمْ فِی وَلِیمَتِہِ۔ (ابوداؤد ۲۲۶۔ سعید بن منصور ۵۸۸)
(١٧٤٤٦) حضرت حکم (رض) فرماتے ہیں کہ جب حضرت بلال (رض) نے شادی کی تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس سونا لایا گیا۔ آپ نے حضرت بلال (رض) سے فرمایا کہ اسے اپنی ضرورت میں خرچ کرلو۔ پھر اپنے اصحاب سے فرمایا کہ ولیمہ میں اپنے بھائی کی مدد کرو۔

17446

(۱۷۴۴۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ مَنْصُورِ بن صَفِیَّۃَ ، عَنْ أُمِّہِ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَوْلَمَ عَلَی بَعْضِ نِسَائِہِ بِمُدَّیْنِ مِنْ شَعِیرٍ۔ (نسائی ۶۶۰۷۔ احمد ۶/۱۱۳)
(١٧٤٤٧) حضرت منصور بن صفیہ (رض) اپنی والدہ سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی ایک زوجہ کا ولیمہ دو مد شعیر کے ساتھ فرمایا۔

17447

(۱۷۴۴۸) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنْ حَفْصَۃَ قَالَتْ : لَمَّا تَزَوَّجَ أَبِی : سِیرِینُ دَعَا أَصْحَابَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سَبْعَۃَ أَیَّامٍ فَلَمَّا کَانَ یَوْمُ الأَنْصَارِ دَعَاہُمْ وَدَعَا أُبَیَّ بْنَ کَعْبٍ وَزَیْدَ بْنَ ثَابِتٍ قالَ ہِشَامٌ : وَأَظُنُّہُ قَالَ وَمُعَاذًا قَالَ : فَکَانَ أُبَیٌّ صَائِمًا فَلَمَّا طَعِمُوا دَعَا أُبَیّ بْنُ کَعْبٍ وَأَمَّنَ الْقَوْمُ۔
(١٧٤٤٨) حضرت حفصہ (رض) فرماتی ہیں کہ جب میرے والد سیرین نے شادی کی تو سات دن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب کی دعوت کی۔ جب انصار کی دعوت کا دن ہوا تو حضرت ابی بن کعب، حضرت زید بن ثابت اور حضرت معاذ (رض) کو بلایا۔ حضرت ابی (رض) کا اس دن روزہ تھا۔ جب سب نے کھانا کھالیا تو حضرت ابی (رض) نے دعا کی اور باقی لوگوں نے اس دعا پر آمین کہا۔

17448

(۱۷۴۴۹) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ حُمَیْدٍ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ : أَوْلَمَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِزَیْنَبَ فَأَشْبَعَ الْمُسْلِمِینَ خُبْزًا وَلَحْمًا۔ (بخاری ۴۷۹۳۔ مسلم ۱۰۴۸)
(١٧٤٤٩) حضرت انس بن مالک (رض) سے مروی ہے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت زینب (رض) کا ولیمہ فرمایا اور مسلمانوں کو خوب سیر کرکے روٹی اور گوشت کھلایا۔

17449

(۱۷۴۵۰) حَدَّثَنَا عَفَّانُ قَالَ : حدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، قَالَ : حَدَّثَنِی مَالِکُ بْنَ دِینَارٍ قَالَ حَدَّثَتْنِی عَجُوزٌ مِنَ الْحَیِّ قَالَتْ : زَوَّجَ أَبُو مُوسَی الأَشْعَرِیُّ بَعْضَ بَنِیہِ قَالَتْ : فَأَوْلَمَ عَلَیْہِ فَدَعَا نَاسًا۔
(١٧٤٥٠) حضرت ابو موسیٰ (رض) نے اپنے ایک بیٹے کی شادی کرائی پھر ولیمہ کیا اور کچھ لوگوں کو دعوت دی۔

17450

(۱۷۴۵۱) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ نَافِعٍ قَالَ : کَانَ ابْنُ عُمَرَ یُطْعِمُ عَلَی خِتَانِ الصِّبْیَانِ۔
(١٧٤٥١) حضرت نافع (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عمر (رض) بچوں کے ختنے کے موقع پر کھانا کھلاتے تھے۔

17451

(۱۷۴۵۲) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ، عَنْ أَبِی إسْرَائِیلَ، عَنِ الأَعْمَشِ أن أَبَا وَائِلٍ: أَوْلَمَ بِرَأْسِ بَقَرَۃٍ وَأَرْبَعَۃِ أَرْغِفَۃٍ۔
(١٧٤٥٢) حضرت اعمش (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت ابو وائل (رض) نے گائے کی سری اور چار بڑی روٹیوں سے ولیمہ کھلایا۔

17452

(۱۷۴۵۳) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ إِسْحَاقَ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللہِ قَالَ : عَرَّسْتُ فِی عَہْدِ أَبِی فَآذَنَ أَبِی النَّاسَ ، وَکَانَ فِیمَنْ آذَنَ لأَبِی أَیُّوبَ۔
(١٧٤٥٣) حضرت سالم بن عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے والد کی زندگی میں شادی کی، میرے والد نے لوگوں کو بلایا جن میں حضرت ابو ایوب (رض) بھی شامل تھے۔

17453

(۱۷۴۵۴) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ جَرِیرِ بْنِ حَازِمٍ ، عَنْ یُونُسَ الأَیْلِیِّ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ سَالِمٍ أَنَّ حَمْزَۃَ بْنَ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ نَحَرَ جَزُورًا۔
(١٧٤٥٤) حضرت سالم (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت حمزہ بن عبداللہ بن عمر (رض) نے ولیمہ کے لیے کئی اونٹ ذبح کئے۔

17454

(۱۷۴۵۵) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ حَمْزَۃَ قَالَ : أَخْبَرَنِی سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللہِ قَالَ : خَتَنَنِی أَبِی أَنَا وَنُعَیْمَ بْنَ عَبْدِ اللہِ فَذَبَحَ عَلَیْنَا کَبْشًا وَلَقَدْ رَأَیْتُنَا نَجْدِلُ بِہِ عَلَی الْغِلْمَانِ۔
(١٧٤٥٥) حضرت سالم بن عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ میرے والد نے میرے اور نعیم بن عبداللہ (رض) کے ختنے کرائے اور ہمارے لیے ایک مینڈھا ذبح کرایا، مجھے یاد ہے کہ ہم اس کے ٹکڑے لڑکوں کی طرف کاٹ کر پھینک رہے تھے۔

17455

(۱۷۴۵۶) حدَّثَنَا حدَّثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ قَالَ : کَانَ یقال : إِنَّ خَوْلَۃَ بِنْتَ حَکِیمٍ مِنَ اللاَّتِی وَہَبْنَ أَنْفُسَہُنَّ لِلنَّبِیِّ علیہ السلام۔ (بخاری ۵۱۱۳۔ مسلم ۵۰)
(١٧٤٥٦) حضرت زبیر (رض) فرماتے ہیں کہ خولہ بنت حکیم (رض) ان عورتوں میں سے ہیں جنہوں نے اپنا نفس نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے ہبہ کردیا۔

17456

(۱۷۴۵۷) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنِ الْحَکَمِ ، عَنْ مُجَاہِدٍ : {وَامْرَأَۃً مُؤْمِنَۃً إِنْ وَہَبَتْ نَفْسَہَا لِلنَّبِیِّ} قَالَ : لم تَہَبْ نَفْسَہَا۔
(١٧٤٥٧) حضرت مجاہد (رض) قرآن مجید کی آیت { وَامْرَأَۃً مُؤْمِنَۃً إِنْ وَہَبَتْ نَفْسَہَا لِلنَّبِیِّ } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اس عورت نے اپنا نفس ہبہ نہیں کیا۔

17457

(۱۷۴۵۸) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنِ الْحَکَمِ قَالَ : کَتَبَ عَبْدُ الْمَلِکِ إلَی أَہْلِ الْمَدِینَۃِ یَسْأَلُہُمْ قَالَ : فَکَتَبَ إلَیْہِ عَلِیٌّ قَالَ شُعْبَۃُ : وَظَنِّی أَنَّہُ ابْنُ حُسَیْنٍ قَالَ : وَأَخْبَرَنِی أَبَانُ بْنُ تَغْلِبَ ، عَنِ الْحَکَمِ أَنَّہُ عَلِیُّ بْنُ حُسَیْنٍ قَالَ : ہِیَ امْرَأَۃٌ مِنَ الأَزْدِ یُقَالُ لَہَا أَمُّ شَرِیکٍ وَہَبَتْ نَفْسَہَا لِلنَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔ (نسائی ۸۹۲۸۔ احمد ۶/۴۶۲)
(١٧٤٥٨) حضرت حکم (رض) فرماتے ہیں کہ عبد الملک نے مدینہ والوں سے اس عورت کے بارے میں پوچھنے کے لیے خط لکھا تو جواب میں حضرت علی بن حسین (رض) نے لکھا کہ وہ قبیلہ ازد کی ام شریک نامی عورت تھیں جنہوں نے اپنا نفس حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے ہبہ کردیا تھا۔

17458

(۱۷۴۵۹) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، قَالَ : حَدَّثَنِی عَبْدُ اللہِ بْنُ أَبِی السَّفَرِ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ أَنَّہَا امْرَأَۃٌ مِنَ الأَنْصَارِ وَہَبَتْ نَفْسَہَا لِلنَّبِیِّ وَہِیَ مِمَّنْ أَرْجَأَ۔
(١٧٤٥٩) حضرت شعبی (رض) فرماتے ہیں کہ وہ ایک انصاری عورت تھیں جنہوں نے اپنا نفس حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے ہبہ کردیا تھا۔

17459

(۱۷۴۶۰) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ قَالَ : وَحَدَّثَنِی أَہْلُ الْمَدِینَۃِ أَنَّہُمْ کَانُوا یَقُولُونَ لِلشَّیْئِ : لَہُوَ أَعْظَمُ نَحِیًّا مِنْ نَحِیِّ أُمِّ شَرِیکٍ۔
(١٧٤٦٠) حضرت شعبہ (رض) فرماتے ہیں کہ مدینہ والے کسی بہت زیادہ برکت والی چیز کے بارے میں کہا کرتے تھے کہ وہ ام شریک کے مشکیزے سے بھی زیادہ ہے۔

17460

(۱۷۴۶۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ مُوسَی بْنِ عُبَیْدَۃَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ کَعْبٍ وَعُمَرَ بْنِ الْحَکَمِ ، وَعَبْدِ اللہِ بْنِ عُبَیدۃَ قَالُوا : الَّتِی وَہَبَتْ نَفْسَہَا لِلنَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَیْمُونَۃُ۔ (طبری ۲۳۔ بیہقی ۵۵)
(١٧٤٦١) حضرت محمد بن کعب، حضرت عمر بن حکم اور حضرت عبداللہ بن عبیدہ (رض) فرماتے ہیں کہ جس عورت نے اپنا نفس حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہبہ کردیا تھا وہ حضرت میمونہ (رض) ہیں۔

17461

(۱۷۴۶۲) حَدَّثَنَا شَبَابَۃُ بْنُ سَوَّارٍ ، عَنْ وَرْقَائَ ، عَنِ ابْنِ أَبِی نَجِیحٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ : {وَامْرَأَۃً مُؤْمِنَۃً إِنْ وَہَبَتْ نَفْسَہَا لِلنَّبِیِّ} قَالَ : بِغَیْرِ صَدَاقٍ۔
(١٧٤٦٢) حضرت مجاہد (رض) قرآن مجید کی آیت { وَامْرَأَۃً مُؤْمِنَۃً إِنْ وَہَبَتْ نَفْسَہَا لِلنَّبِیِّ } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اس سے مراد بغیر مہر کے نکاح کرنا ہے۔

17462

(۱۷۴۶۳) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ : (وَامْرَأَۃً مُؤْمِنَۃً إِنْ وَہَبَتْ نَفْسَہَا لِلنَّبِیِّ) قَالَ : فَعَلَتْ وَلَمْ یَفْعَلْ۔
(١٧٤٦٣) حضرت مجاہد (رض) قرآن مجید کی آیت { وَامْرَأَۃً مُؤْمِنَۃً إِنْ وَہَبَتْ نَفْسَہَا لِلنَّبِیِّ } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ عورت نے تو نفس ہبہ کردیا تھا لیکن حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قبول نہیں فرمایا۔

17463

(۱۷۴۶۴) حدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ عَوْفٍ قَالَ : حدَّثَنَا أَشْیَاخُ عُمَرِیِین مِنْ جُلَسَائِ قَسَامَۃَ بْنِ زُہَیْرٍ أَنَّ ہَمَّامَ بْنَ عُمَیْرٍ رَجُلٌ مِنْ بَنِی تَیْمِ اللہِ کَانَ جَمَعَ بَیْنَ أُخْتَیْنِ فِی الْجَاہِلِیَّۃِ فَلَمْ یُفَرِّقْ بَیْنَ وَاحِدَۃٍ مِنْہُمَا حَتَّی کَانَ فِی خِلاَفَۃِ عُمَرَ وَأَنَّہُ رُفِعَ شَأْنُہُ إلَی عُمَرَ فَأَرْسَلَ إلَیْہِ ، فَقَالَ : اخْتَرْ إحْدَاہُمَا وَاللَّہِ لَئِنْ قَرَبْتِ الأُخْرَی لأَضْرِبَنَّ رَأْسَکَ۔
(١٧٤٦٤) حضرت عوف (رض) بیان کرتے ہیں کہ قبیلہ بنو تیم اللہ کے ھمام بن عمیر نامی آدمی کے پاس جاہلیت میں دوسگی بہنیں (بیوی یاباندی کے طورپر) تھیں۔ اور ان میں سے کسی سے بھی علیحدگی اختیار نہیں کی۔ حضرت عمر (رض) کی خلافت کے زمانے میں اس کا معاملہ حضرت عمر (رض) کے سامنے پیش کیا گیا تو آپ نے اس کو پیغام دیا کہ دونوں میں سے ایک کو اختیار کرلو اور خدا کی قسم اگر تم دوسری کے پاس گئے تو میں تمہارے سر پر ماروں گا۔

17464

(۱۷۴۶۵) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ قَالَ : إذَا أَسْلَمَ وَعِنْدَہُ أُخْتَانِ حَبَسَ الأُولَی مِنْہُمَا إِنْ شَائَ۔
(١٧٤٦٥) حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ جو شخص اسلام قبول کرے اور اس کے پاس (بیوی یاباندی کے طور پر) دو عورتیں ہوں تو اگر وہ چاہے تو پہلی کو روک لے۔

17465

(۱۷۴۶۶) حَدَّثَنَا عَبْدُ السَّلاَمِ ، عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ أَبِی فَرْوَۃَ ، عَنْ أَبِی وَہْبٍ الْجَیْشَانِیِّ ، عَنْ أَبِی خِرَاشٍ الرُّعَیْنِیِّ ، عَنِ الدَّیْلَمِیِّ قَالَ : قدِمْتُ عَلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَعِنْدِی أُخْتَانِ تَزَوَّجْتُہُمَا فِی الْجَاہِلِیَّۃِ ، فَقَالَ : إذَا رَجَعْت فَطَلِّقْ إحْدَاہُمَا۔ (ترمذی ۱۱۲۹۔ احمد ۴/۲۳۲)
(١٧٤٦٦) حضرت دیلمی (رض) فرماتے ہیں کہ میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا تو اس وقت میرے نکاح میں دو سگی بہنیں تھیں جن سے میں نے جاہلیت میں شادی کی تھی۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھ سے فرمایا جب تم واپس جاؤ تو ایک کو طلاق دے دینا۔

17466

(۱۷۴۶۷) حدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ وَمَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ : أَسْلَمَ غَیْلاَنُ بْنُ سَلَمَۃ الثَّقَفِیُّ وَتَحْتَہُ عَشْرُ نِسْوَۃٍ ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : خُذْ مِنْہُنَّ أَرْبَعًا۔ (دار قطنی ۲۷۱۔ بیہقی ۱۸۳)
(١٧٤٦٧) حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ غیلان بن سلمہ ثقفی (رض) نے اسلام قبول کیا تو ان کے نکاح میں دس عورتیں تھیں۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے فرمایا کہ ان میں سے چار رکھ لو۔

17467

(۱۷۴۶۸) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الْحَسَنِ ؛ فِی الرَّجُلِ یُسْلِمُ وَعِنْدَہُ عَشْرُ ، أَوْ سِتُّ نِسْوَۃٍ قَالَ : یُمْسِکُ مِنْہُنَّ أَرْبَعًا۔
(١٧٤٦٨) حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ اگر ایک آدمی اسلام قبول کرے اور اس کے نکاح میں دس یا چھ عورتیں ہوں تو وہ ان میں سے چار رکھ لے۔

17468

(۱۷۴۶۹) حَدَّثَنَا بَکْرُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ قَالَ : حدَّثَنَا عِیسَی بْنُ الْمُخْتَارِ ، عَنِ ابْنِ أَبِی لَیْلَی ، عَنْ حُمَیْضَۃَ بْنِ الشَّمَرْدَلِ ، عَنْ قَیْسِ بْنِ الْحَارِثِ الأَسَدِیِّ أَنَّہُ أَسْلَمَ وَعِنْدَہُ ثَمَانِ نِسْوَۃٍ فَأَمَرَہُ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ یَخْتَارَ مِنْہُنَّ أَرْبَعًا۔ (ابوداؤد ۲۲۳۶۔ ابن ماجہ ۱۹۵۲)
(١٧٤٦٩) حضرت حمیضہ بن شمردل (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت قیس بن حارث (رض) نے اسلام قبول کیا تو ان کے نکاح میں آٹھ عورتیں تھیں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انھیں چار کو اختیار کرنے کا حکم دیا۔

17469

(۱۷۴۷۰) حدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ فِی قَوْلِہِ : {غَیْرِ أُولِی الإِرْبَۃِ} قَالَ : الَّذِی لَمْ یَبْلُغْ أرْبُہُ أَنْ یَطَّلِعَ عَلَی عَوْرَۃِ النِّسَائِ۔
(١٧٤٧٠) حضرت شعبی قرآن مجید کی آیت { غَیْرِ أُولِی الْإِرْبَۃِ } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اس سے مراد وہ بچہ ہے جو اس سمجھ کو نہ پہنچا ہو کہ عورتوں کے معاملات پر آگاہ ہوسکے۔

17470

(۱۷۴۷۱) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ أَظُنُّہُ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ قَالَ فِی قَوْلِہِ : {غَیْرِ أُولِی الإِرْبَۃِ} قَالَ : ہو الأَبْلَہُ الَّذِی لاَ یَعْرِفُ أَمْرَ النِّسَائِ۔
(١٧٤٧١) حضرت مجاہد (رض) قرآن مجید کی آیت { غَیْرِ أُولِی الْإِرْبَۃِ } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اس سے مراد وہ بچہ ہے جو اس سمجھ کو نہ پہنچا ہو کہ عورتوں کے معاملات پر آگاہ ہوسکے۔

17471

(۱۷۴۷۲) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنِ ابْنِ أَبِی نَجِیحٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ فِی قَوْلِہِ : {غَیْرِ أُولِی الإِرْبَۃِ مِنَ الرِّجَالِ} قَالَ : الَّذِی لاَ أرب لہ بِالنِّسَائِ۔
(١٧٤٧٢) حضرت مجاہد (رض) قرآن مجید کی آیت { غَیْرِ أُولِی الْإِرْبَۃِ } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اس سے مراد وہ بچہ ہے جو اس سمجھ کو ناپہنچا ہو کہ عورتوں کے معاملات پر آگاہ ہوسکے۔

17472

(۱۷۴۷۳) حَدَّثَنَا ابْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَۃَ ، عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ قَالَ : الْمَعْتُوہُ۔
(١٧٤٧٣) حضرت سعید بن مسیب (رض) قرآن مجید کی آیت { غَیْرِ أُولِی الْإِرْبَۃِ } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اس سے مراد پاگل ہے۔

17473

(۱۷۴۷۴) حدَّثَنَا أَسْبَاطُ بْنُ مُحَمَّد ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الْحَسَنِ قَالَ : ہُوَ الَّذِی یَقُولُونَ : أَحْمَقُ
(١٧٤٧٤) حضرت حسن (رض) قرآن مجید کی آیت { غَیْرِ أُولِی الْإِرْبَۃِ } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اس سے مراد بیوقوف ہے۔

17474

(۱۷۴۷۵) حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ ، عَنْ إسْرَائِیلَ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ رَجُلٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : ہُوَ الَّذِی لاَ تَسْتَحْیِی مِنْہُ النِّسَائُ۔
(١٧٤٧٥) حضرت ابن عباس (رض) قرآن مجید کی آیت { غَیْرِ أُولِی الْإِرْبَۃِ } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اس سے مراد وہ ہے جس سے عورتیں حیا نہ کرتی ہوں۔

17475

(۱۷۴۷۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ مِسْعَرٍ ، عَنْ عَوْنٍ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ قَالَ : ہُوَ الَّذِی لاَ یَقُومُ إرْبُہُ۔
(١٧٤٧٦) حضرت عکرمہ (رض) قرآن مجید کی آیت { غَیْرِ أُولِی الْإِرْبَۃِ } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اس سے مراد وہ شخص ہے جس کی عقل قائم نہ ہو۔

17476

(۱۷۴۷۷) حدَّثَنَا مُعْتَمِرُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ بُرْدٍ ، عَنْ مَکْحُولٍ قَالَ : فَرَّقَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ بَیْنَہُمَا وَجَعَلَ صَدَاقَہَا فِی بَیْتِ الْمَالِ وَقَالَ الزُّہْرِیُّ : لَمْ یَکُنْ صَدَاقُہَا فِی بَیْتِ الْمَالِ ، ہُوَ بِمَا أَصَابَ مِنْ فَرْجِہَا۔
(١٧٤٧٧) حضرت مکحول (رض) فرماتے ہیں کہ ایک عورت سے اس کی عدت میں شادی کی گئی حضرت عمر (رض) نے دونوں کے درمیان جدائی کرادی اور عورت کا مہر بیت المال میں جمع کرادیا۔ حضرت زہری (رض) فرماتے ہیں کہ مہر کا مال بیت المال میں نہیں جائے گا یہ اس کی شرمگاہ کا عوض ہے۔

17477

(۱۷۴۷۸) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ صَالِحِ بْنِ مُسْلِمٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : قَالَ عُمَرُ : یُفَرَّقُ بَیْنَہُمَا وَیُجعَلُ صَدَاقَہَا فِی بَیْتِ الْمَالِ وَقَالَ عَلِی : یُفَرَّقُ بَیْنَہُمَا وَلَہَا الصَّدَاقُ بِمَا اسْتَحَلَّ مِنْ فَرْجِہَا۔
(١٧٤٧٨) حضرت شعبی (رض) فرماتے ہیں کہ ایک عورت سے اس کی عدت میں شادی کی گئی حضرت عمر (رض) نے دونوں کے درمیان جدائی کرادی اور عورت کا مہر بیت المال میں جمع کرادیا۔ حضرت علی (رض) فرماتے ہیں کہ دونوں کے درمیان جدائی کرائی جائے گی لیکن مہر شرمگاہ کے حلال ہونے کا عوض بنے گا۔

17478

(۱۷۴۷۹) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیِّبِ قَالَ : یُفَرَّقُ بَیْنَہُمَا وَلَہَا الصَّدَاقُ بِمَا اسْتَحَلَّ مِنْ فَرْجِہَا۔
(١٧٤٧٩) حضرت سعید بن مسیب (رض) فرماتے ہیں کہ دونوں کے درمیان جدائی کرائی جائے گی لیکن مہر شرمگاہ کے حلال ہونے کا عوض بنے گا۔

17479

(۱۷۴۸۰) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ یَسَارٍ قَالَ : یُفَرَّقُ بَیْنَہُمَا وَیُلْقَی الصَّدَاقُ فِی بَیْتِ الْمَالِ۔
(١٧٤٨٠) حضرت سلیمان بن یسار (رض) فرماتے ہیں کہ دونوں کے درمیان جدائی کرائی جائے گی اور مہر بیت المال میں جمع کرایا جائے گا۔

17480

(۱۷۴۸۱) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ ، عَنِ ابْنِ أَبِی عَرُوبَۃَ ، عَنْ أَبِی مَعْشَرٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالَ : کُلُّ نِکَاحٍ فَاسِدٍ نَحْوَ الَّذِی تُزَوَّجُ فِی عِدَّتِہَا وَأَشْبَاہِہِ ، ہَذَا مِنَ النِّکَاحِ الْفَاسِدِ إذَا کَانَ قَدْ دَخَلَ بِہَا فَلَہَا الصَّدَاقُ وَیُفَرَّقُ بَیْنَہُمَا۔
(١٧٤٨١) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ ہر نکاح فاسد جیسے عورت کا عدت میں شادی کرنا وغیرہ، ایسے نکاحوں میں اگر آدمی نے بیوی سے دخول کیا تو عورت کو مہر تو ملے گا البتہ دونوں میں جدائی کرادی جائے گی۔

17481

(۱۷۴۸۲) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ أَبِی غَنِیَّۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنِ الْحَکَمِ أَنَّہُ قَالَ : یُفَرَّقُ بَیْنَہَا وَبَیْنَ زَوْجِہَا وَیَکُونُ لَہَا الْمَہْرُ بِمَا اسْتَحَلَّ مِنْ فَرْجِہَا۔
(١٧٤٨٢) حضرت حکم (رض) فرماتے ہیں کہ دونوں کے درمیان جدائی کرادی جائے گی۔ البتہ فرج کو حلال کرنے کی وجہ سے عورت کو مہرملے گا۔

17482

(۱۷۴۸۳) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنْ مَسْرُوقٍ قَالَ : قضَی عُمَرُ فِی امْرَأَۃٍ تَزَوَّجَتْ فِی عِدَّتِہَا أَنْ یُفَرَّقَ بَیْنَہُمَا مَا عَاشَا وَیُجْعَلُ صَدَاقُہَا فِی بَیْتِ الْمَالِ وَقَالَ : کَانَ نِکَاحُہَا حَرَامًا فَصَدَاقُہَا حَرَامًا ، وَقَضَی فِیہَا عَلِیٌّ أَنْ یُفَرَّقَ بَیْنَہُمَا وَتُوَفِّیَ عِدَّۃَ مَا بَقِیَ مِنَ الزَّوْجِ الأَوَّلِ ثُمَّ تَعْتَدُّ ثَلاَثَۃَ قُرُوئٍ وَلَہَا الصَّدَاقُ بِمَا اسْتَحَلَّ مِنْ فَرْجِہَا ثُمَّ إِنْ شَائَ خَطَبَہَا بَعْدَ ذَلِکَ۔
(١٧٤٨٣) حضرت مسروق (رض) فرماتے ہیں کہ ایک عورت نے اپنی عدت میں شادی کی تو حضرت عمر (رض) نے فیصلہ فرمایا کہ جب تک یہ زندہ ہیں ان کے درمیان جدائی کرادی جائے اور ان کا مہر بیت المال میں جمع کرادیا جائے۔ اور فرمایا کہ ان کا نکاح بھی حرام تھا اور مہر بھی حرام ہے۔ حضرت علی (رض) فرماتے ہیں کہ ان دونوں کے درمیان جدائی کرادی جائے، پھر عورت پہلے خاوند کی باقی ماندہ عدت گزارے پھر تین حیض عدت گزارے اور شرمگاہ کو حلال کرنے کی وجہ سے اسے مہر ملے گا۔ پھر اگر آدمی چاہے توا سے دوبارہ نکاح کا پیغام بھجوادے۔

17483

(۱۷۴۸۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ أَبِی حَصِینٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ حَبِیبٍ قَالَ : خَرَجَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَلَقِیَ امْرَأَۃً فَأَعْجَبَتْہُ فَرَجَعَ إلَی أُمِّ سَلَمَۃَ وَعِنْدَہَا نِسْوَۃٌ یَدُفن طِیبًا قَالَ : فَعَرَفْنَ فِی وَجْہِہِ فَأَخْلَیْنَہُ فَقَضَی حَاجَتَہُ فَخَرَجَ ، فَقَالَ : مَنْ رَأَی مِنْکُمُ امْرَأَۃً فَأَعْجَبَتْہُ فَلِیَأْتِ أَہْلَہُ فَلْیُوَاقِعْہَا فَإِنَّ مَعَہَا مِثْلُ الَّذِی مَعَہَا۔ (مسلم ۹)
(١٧٤٨٤) حضرت عبداللہ بن حبیب (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک مرتبہ باہر تشریف لائے، ایک خاتون پر آپ کی نگاہ پڑی اور وہ آپ کو بھلی محسوس ہوئی۔ آپ واپس حضرت ام سلمہ (رض) کے پاس تشریف لائے، ان کے پاس کچھ عورتیں بیٹھی خوشبو بنا رہی تھیں۔ ان عورتوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیکھا تو چلی گئیں۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی حاجت کو پورا فرمایا اور باہر تشریف لے آئے۔ پھر آپ نے فرمایا کہ تم میں سے کسی شخص کی نظر اگر کسی عورت پر پڑے اور وہ اسے بھلی محسوس ہو تو اپنی بیوی سے صحبت کرلے کیونکہ جو کچھ اس عورت میں ہے وہ اس کی بیوی میں بھی ہے۔

17484

(۱۷۴۸۵) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِی عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ حَبِیبٍ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِمِثْلِ حَدِیثِ أَبِی حَصِینٍ إلاَّ إِنَّہُ لَمْ یَذْکُرْ : یَدُفْنَ طِیبًا۔
(١٧٤٨٥) ایک اور سند سے الفاظ کے فرق کے ساتھ یونہی منقول ہے۔

17485

(۱۷۴۸۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، وَابْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ حُلاَّمٍ قَالَ قَالَ عَبْدُ اللہِ : مَنْ رَأَی مِنْکُمُ امْرَأَۃً فَأَعْجَبَتْہُ فَلْیُوَاقِع أَہْلَہُ فَإِنَّ مَعَہُنَّ مِثْلَ الَّذِی مَعَہُنَّ۔ (دارمی ۲۲۱۵)
(١٧٤٨٦) حضرت عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ تم میں سے کسی شخص کی نظر اگر کسی عورت پر پڑے اور وہ اسے بھلی محسوس ہو تو اپنی بیوی سے صحبت کرلے کیونکہ جو کچھ ان عورتوں میں ہے وہ اس کی بیویوں میں بھی ہے۔

17486

(۱۷۴۸۷) حَدَّثَنَا عَبِیدَۃُ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِی الْجَعْدِ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَأَی امْرَأَۃً ، فَأَتَی أُمَّ سَلَمَۃَ فَوَاقَعَہَا وَقَالَ : إذَا رَأَی أحدکم امْرَأَۃً تُعْجِبُہُ فَلْیَأْتِ أَہْلَہُ فَإِنَّ مَعَہُنَّ مِثْلَ الَّذِی مَعَہُنَّ۔
(١٧٤٨٧) حضرت سالم بن ابی جعد (رض) فرماتے ہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نگاہ ایک عورت پر پڑی، وہ بھلی محسوس ہوئی تو آپ نے حضرت ام سلمہ (رض) سے شرعی ملاقات کی اور ارشاد فرمایا کہ تم میں سے کسی شخص کی نظر اگر کسی عورت پر پڑے اور وہ اسے بھلی محسوس ہو تو اپنی بیوی سے صحبت کرلے کیونکہ جو کچھ ان عورتوں میں ہے وہ اس کی بیویوں میں بھی ہے۔

17487

(۱۷۴۸۸) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنْ أَبِی الزُّبَیرِ ، عَنْ جَابِرٍ بِنَحْوِ حَدِیثِ عَبْدِ اللہِ۔ (مسلم۹۔ ابوداؤد ۲۱۴۴)
(١٧٤٨٨) حضرت عبداللہ (رض) کا قول ایک اور سند سے بھی منقول ہے۔

17488

(۱۷۴۸۹) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ الْحُبَابِ ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَۃَ ، عَنْ ثَابِتٍ ، عَنْ مُطَرِّفٍ فِی الرَّجُلِ یَرَی الْمَرْأَۃَ تُعْجِبُہُ قَالَ : یَذْکُرُ أَخْسَائَ الْبَقَرِ۔
(١٧٤٨٩) حضرت مطرف (رض) فرماتے ہیں کہ اگر آدمی کی نظر کسی عورت پر پڑے اور وہ اسے اچھی لگے تو گائے کے نامکمل بچے کو یاد کرلے۔

17489

(۱۷۴۹۰) حَدَّثَنَا زید بْنُ حُبَابٍ ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَۃَ ، عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ فِی الرَّجُلِ یَرَی الْمَرْأَۃَ فتعجبہ قَالَ : یَذْکُرُ مَنَاتِنہَا۔
(١٧٤٩٠) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ اگر آدمی کی نظر کسی عورت پر پڑے اور وہ اسے اچھی لگے تو عورت کی بدبوار چیزوں کا خیال لائے۔

17490

(۱۷۴۹۱) حدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ مُدْرِکٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ النَّخَعِیّ قَالَ : تَزَوَّجَ الأَشْعَثُ امْرَأَۃً عَلَی حُکْمِہَا فَرُفِعَ إلَی عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ ، فَقَالَ : أَرْضِہَا أَرْضِہَا۔
(١٧٤٩١) حضرت نخعی (رض) فرماتے ہیں کہ اشعث نے ایک عورت سے منہ مانگے مہر پر شادی کی، پھر یہ مقدمہ حضرت عمر (رض) کے پاس لایا گیا تو آپ نے فرمایا کہ اسے راضی کرو، اسے راضی کرو۔

17491

(۱۷۴۹۲) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ بْنِ سَالِمٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ قَالَ : إذا تَزَوَّجَ الرَّجُلُ الْمَرْأَۃَ عَلَی حُکْمِہَا ، أَوْ حُکْمِہِ فَجَارٍ فِی الصَّدَاقِ أو جَارُوا رُدَّ ذَاکَ إلَی صَدَاقِ مِثْلِہَا لاَ وَکْسَ وَلاَ شَطَطَ وَالنِّکَاحُ جَائِزٌ۔
(١٧٤٩٢) حضرت شعبی (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شادی اس بات پر ہوئی کہ مہر کے معاملے میں عورت یا مرد کے حکم کا اعتبار ہوگا اور بعد میں جھگڑا ہوگیا تو بغیر کمی زیادتی کے مہر مثلی ملے گا اور نکاح جائز ہے۔

17492

(۱۷۴۹۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ أَبِی ہِلاَلٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِیرِینَ قَالَ : خَطَبَ عَمْرُو بْنُ حُرَیْثٍ إلَی عَدِیِّ بْنِ حَاتِمٍ ابْنَتَہُ فَأَبَی إلاَّ عَلَی حُکْمِہِ فَرَجَعَ عَمْرٌو فَاسْتَشَارَ أَصْحَابَہُ فَقَالُوا : أَتُرِیدُ أَنْ تُحَکِّمَ رَجُلاً مِنْ طیئٍ فِی عَقْدِکَ فَأَبَتْ نَفْسُہُ فَتَزَوَّجَہَا عَلَی حُکْمِہِ ثُمَّ انْصَرَفَ فَحَکَّمَ عَدِیٌّ سُنَّۃَ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ثَمَانِینَ وَأَرْبَعِ مِئَۃٍ ، فَبَعَثَ إلَیْہِ عَمْرٌو بِعَشَرَۃِ آلاَفٍ وَقَالَ : جَہِّزْہَا۔
(١٧٤٩٣) حضرت محمد بن سیرین (رض) فرماتے ہیں کہ عمرو بن حریث (رض) نے عدی بن حاتم (رض) کی بیٹی کے لیے نکاح کا پیغام بھجوایا۔ عدی بن حاتم (رض) نے فرمایا کہ مہر میرے حکم کے مطابق طے ہوگا۔ عمرو بن حریث نے اپنے دوستوں سے مشورہ کیا تو انھوں نے کہا کہ کیا تم طی کے ایک آدمی کو اپنے نکاح کے معاملے کا حاکم بناؤ گے۔ عمرو بن حریث نے پھر بھی انھیں ہی حکم سونپ دیا تو حضرت عدی نے فیصلہ کیا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت چار سو اسی ہے۔ عمرو نے انھیں دس ہزار بھیجے اور کہا کہ اپنی بیٹی کی رخصتی فرما دیجئے۔

17493

(۱۷۴۹۴) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ أَنَّ الأَشْعَثَ تَزَوَّجَ امْرَأَۃً عَلَی حُکْمِہَا فَسَأَلَہُ عُمَرُ عَنْہَا ، فَقَالَ : بِتُّ لَیْلَۃً لاَ یَعْلَمُہَا إلاَّ اللَّہُ مَخَافَۃَ أَنْ تَحْکُمَ عَلَیَّ فِی مَالِ قَیْسٍ ، فَقَالَ : لَیْسَ ذَلِکَ لَہَا إنَّمَا لَہَا مَہْرُ نِسَائِہَا۔
(١٧٤٩٤) حضرت ابن سیرین (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت اشعث (رض) نے ایک عورت سے اس کے منہ مانگے مہر پر شادی کی اور پھر حضرت عمر (رض) سے اس بارے میں سوال کیا کہ میں نے اس کے ساتھ ایک رات گزاری ہے جس کا علم صرف اللہ کو ہے، اس خوف کے ساتھ کہ کہیں وہ مجھ پر قیس کے مال کی فرمائش نہ کردے۔ حضرت عمر نے فرمایا کہ اسے یہ نہیں ملے گا اسے مہر مثلی ملے گا۔

17494

(۱۷۴۹۵) حَدَّثَنَا یَعْلَی بْنُ عُبَیْدٍ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ ، عَنْ عَطَائٍ فِی رَجُلٍ تَزَوَّجَ امْرَأَۃً عَلَی حُکْمِہِ فَمَاتَتِ الْمَرْأَۃُ قَبْلَ أَنْ یَحْکُمَ الرَّجُلُ قَالَ : لَہَا صَدَاقُ نِسَائِہَا۔
(١٧٤٩٥) حضرت عطائ (رض) فرماتے ہیں کہ اگر ایک آدمی عورت سے اپنی مرضی کے مہر پر شادی کرے اور مہر کی تقرری سے پہلے آدمی کا انتقال ہوجائے تو عورت کو مہر مثلی ملے گا۔

17495

(۱۷۴۹۶) حَدَّثَنَا یَعْلَی ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ ، عَنْ عَطَائٍ فِی رَجُلٍ تَزَوَّجَ امْرَأَۃً عَلَی حُکْمِہِ فَحَکَمَ عَشَرَۃَ دَرَاہِمَ قَالَ : یَجُوزُ ، قَدْ کَانَ الْمُسْلِمُونَ یَتَزَوَّجُونَ عَلَی أَقَلَّ مِنْ ذَلِکَ وَأَکْثَرَ۔
(١٧٤٩٦) حضرت عبدالملک (رض) فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے کسی عورت سے اپنی مرضی کا مہر دینے پر شادی کی، پھر اس نے دس درہم مہر دیے تو حضرت عطائ (رض) نے اسے جائز قرار دیا اور فرمایا کہ مسلمان اس سے کم اور زیادہ مہر پر نکاح کیا کرتے تھے۔

17496

(۱۷۴۹۷) حَدَّثَنَا حُمَیْدُ بنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنِ السَّرِیِّ بْنِ یَحْیَی ، عَنِ الْحَسَنِ قَالَ : قَالَ رَجُلٌ لآخَرَ : بِالرِّفَائِ والبَنِیْنَ، فَقَالَ رَسُوْلَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لاَ تَقُوْلُوْا ہَکَذَا قُوْلُوْا : بَارَکَ اللَّہُ فِیْکَ وَبَارَکَ عَلَیْکَ۔
(١٧٤٩٧) حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں ایک آدمی نے دوسرے کی شادی کے موقع پر اسے دعا دی : بِالرِّفَائِ والبَنِیْنَ (خوش رہو اور اولاد پاؤ) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ سنا تو فرمایا کہ یوں نہ کہو بلکہ یہ کہو : اللہ تعالیٰ تمہیں برکت عطا فرمائے۔

17497

(۱۷۴۹۸) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ أَنَّ عَقِیلَ بْنَ أَبِی طَالِبٍ تَزَوَّجَ امْرَأَۃً مِنْ بَنِی جُشَمٍ فَدَعَاہُمْ فَقَالُوا : بِالرِّفَائِ وَالبَنِیْنَ ، فَقَالَ : لاَ تَقُوْلُوْا ذَاکَ : قَالُوا : کَیْفَ نَقُوْلُ یَا أَبَا یَزِیْدٍ ؟ قَالَ : تَقُوْلُوْنَ : بَارَکَ اللَّہُ لَکَ وَبَارَکَ عَلَیْکَ فَإنَّا کُنَّا نَقُوْلُ ، أَوْ نُؤْمَرُ بِذَلِکَ۔ (ابن ماجہ ۱۹۰۶۔ احمد ۱/۴۵۱)
(١٧٤٩٨) حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عقیل بن ابی طالب (رض) نے بنو جشم کی ایک عورت سے شادی کی پھر لوگوں کی دعوت کی تو لوگوں نے انھیں بِالرِّفَائِ والبَنِیْنَ کہہ کر دعا دی۔ انھوں نے فرمایا کہ یوں نہ کہو۔ لوگوں نے پوچھا کہ پھر ہم کیا کہیں تو انھوں نے فرمایا کہ تم کہو کہ اللہ تعالیٰ تمہیں برکت عطا فرمائے کیونکہ ہمیں یہی کہنے کا حکم دیا گیا ہے۔

17498

(۱۷۴۹۹) حدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ یُونُسَ بْنِ عُبَیْدٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ سَعِیدٍ ، عَنْ أَبِی زُرْعَۃَ بْنِ عَمْرٍو ، عَنْ جَرِیرٍ قَالَ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، عَنْ نَظْرَۃِ الْفُجَائَۃِ فَأَمَرَنِی أَنْ أَصْرِفَ بَصَرِی۔ (مسلم ۱۶۹۹۔ ابوداؤد ۲۱۴۱)
(١٧٤٩٩) حضرت جریر (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اچانک پڑجانے والی نظر کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے فرمایا کہ اپنی نگاہ کو پھیر لو۔

17499

(۱۷۵۰۰) حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ ، عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ سُوَیْد ، عَنِ الْعَلاَئِ بْنِ زِیَادٍ قَالَ : کَانَ یُقَالُ : لاَ تُتْبِعَنَّ نَظَرَکَ حُسْنَ رِدَائِ امْرَأَۃٍ فَإِنَّ النَّظَرَ یَجْعَلُ شَہْوَۃً فِی الْقَلْبِ۔
(١٧٥٠٠) حضرت علاء بن زیاد (رض) فرماتے ہیں کہ کہا جاتا تھا کہ اپنی نظر کو کسی عورت کی چادر کے حسن پر بھی مت ڈالو کیونکہ نظر دل میں خواہش کو بیدار کرتی ہے۔

17500

(۱۷۵۰۱) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ عَاصِمٍ الأَحْوَلِ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ قَالَ : (قُلْ لِلْمُؤْمِنِینَ یَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِہِمْ) قُلْتُ لِلشَّعْبِیِّ : الرَّجُلُ یَنْظُرُ الْمَرْأَۃَ لاَ یَرَی مِنْہَا مُحَرَّمًا قَالَ : مَا لَکَ أَنْ تثقبہا بِعَیْنِکَ ؟۔
(١٧٥٠١) حضرت عاصم احول (رض) فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت شعبی (رض) نے قرآن مجید کی آیت پڑھی (ترجمہ) مومنین سے کہہ دو کہ اپنی نگاہوں کو جھکائیں۔ میں نے حضرت شعبی (رض) سے کہا کہ آدمی کسی عورت کو دیکھتا ہے لیکن اس کی حرام کردہ چیزوں کو نہیں دیکھتا تو کیا حکم ہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ کیا تم اپنی آنکھوں سے اس میں سوراخ کرنا چاہتے ہو ؟

17501

(۱۷۵۰۲) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ عَطَائٍ قَالَ : نَظْرَۃٌ یَہْوَاہَا الْقَلْبُ فَلاَ خَیْرَ فِیہَا۔
(١٧٥٠٢) حضرت عطائ (رض) فرماتے ہیں کہ وہ نظر جو دل میں خواہش کو بیدار کرے اس میں کوئی خیر نہیں۔

17502

(۱۷۵۰۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ شَرِیکٍ ، عَنْ أَبِی رَبِیعَۃَ الإِیَادِیِّ ، عَنِ ابْنِ بُرَیْدَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ لِعَلِیٍّ : لاَ تُتْبِعِ النَّظْرَۃَ النَّظْرَۃَ فَإِنَّمَا لَکَ الأُولَی وَلَیْسَ لَکَ الآخِرَۃُ۔(ترمذی ۲۷۷۷۔ ابوداؤد ۲۱۴۲)
(١٧٥٠٣) حضرت بریدہ (رض) فرماتے ہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت علی (رض) کو نصیحت فرمائی کہ ایک نظر پڑجائے تو دوسری نہ ڈالو، کیونکہ پہلی نظر میں تو گنجائش ہے لیکن دوسری میں تمہارے لیے گنجائش نہیں۔

17503

(۱۷۵۰۴) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَنْ مُوسَی الْجُہَنِیِّ قَالَ : کُنْتُ مَعَ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ فِی طَرِیقٍ فَاسْتَقْبَلَتْنَا امْرَأَۃٌ أو جاریۃ قَالَ : فَنَظَرْنَا إلَیْہَا جَمِیعًا قَالَ ثُمَّ إنَّ سَعِیدًا غَضَّ بَصَرَہُ فَنَظَرْتُ أنا ، قَالَ : فَقَالَ لِی سَعِیدٌ : الأُولَی لَکَ وَالثَّانِیَۃُ عَلَیْکَ۔
(١٧٥٠٤) حضرت موسیٰ جہنی (رض) کہتے ہیں کہ میں ایک راستے میں حضرت سعید بن جبیر (رض) کے ساتھ تھا۔ ہمارے سامنے ایک عورت یا لڑکی آئی تو ہم سب کی نگاہ اس پر پڑگئی، پھر حضرت سعید نے نگاہ جھکا لی لیکن میں دیکھتا رہا، مجھ سے حضرت سعید نے فرمایا کہ پہلی نظر میں پکڑ نہیں لیکن دوسری میں پکڑ ہے۔

17504

(۱۷۵۰۵) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ ، عَنْ قَیْسٍ قَالَ : کَانَ یُقَالُ : النَّظْرَۃُ الأُولَی لاَ یَمْلِکُہَا أَحَدٌ وَلَکِنِ الَّذِی یَدُسُّ النَّظَرَ دَسًّا۔
(١٧٥٠٥) حضرت قیس (رض) فرماتے ہیں کہ پہلی نظر پر گرفت نہیں لیکن اگر کوئی دیکھتا ہی رہے تو قابل گرفت ہے۔

17505

(۱۷۵۰۶) حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ ، عَنْ دَاوُدَ أَبِی الہیثم قَالَ قَالَ رَجُلٌ لاِِبْنِ سِیرِینَ : أَسْتَقْبِلُ الْقِبْلَۃَ فِی الطَّرِیقِ أَلَیْسَ لِی النَّظْرَۃُ الأُولَی ثُمَّ أَصْرِفُ عَنْہَا بَصَرِی ؟ قَالَ : أَمَا تَقْرَأُ الْقُرْآنَ : {یَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِہِمْ} {یَعْلَمُ خَائِنَۃَ الأَعْیُنِ، وَمَا تُخْفِی الصُّدُورُ}۔
(١٧٥٠٦) حضرت ابو ہیثم (رض) فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے حضرت ابن سیرین (رض) سے سوال کیا کہ اگر میرے سامنے کوئی عورت راستے میں آجائے اور میں اس سے نگاہ پھیرلوں تو کیا مجھے گناہ ملے گا ؟ انھوں نے فرمایا کہ کیا قرآن نہیں پڑھتے ؟ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اہل ایمان سے کہو کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں، اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اللہ آنکھوں کی خیانت کو جانتا ہے۔

17506

(۱۷۵۰۷) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ خَالِدِ بْنِ مَحدُوجٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ أَنَسًا یَقُولُ : إذَا لَقِیتَ الْمَرْأَۃَ فَغُضَّ عَیْنَیکَ حَتَّی تَمْضِیَ۔
(١٧٥٠٧) حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ جب تمہارا کسی عورت سے سامنا ہو تو اس کے گذرنے تک اپنی نگاہ کو جھکا کررکھو۔

17507

(۱۷۵۰۸) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنْ أَبِی قِلاَبَۃَ قَالَ : لاَ یَضُرُّک حُسْنُ امْرَأَۃٍ مَا لَمْ تَعْرِفْہَا۔
(١٧٥٠٨) حضرت ابو قلابہ (رض) فرماتے ہیں کہ تمہیں عورت کا حسن کوئی نقصان نہ دے گا جب تک تم اسے پہچان نہ لو۔

17508

(۱۷۵۰۹) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ یُونُسَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ سَعِیدٍ ، قَالَ : قَالَ سَعْدُ بْنُ أَبِی وَقَّاصٍ : بَیْنَا أَنَا أَطُوفُ بِالْبَیْتِ إذْ رَأَیْتُ امْرَأَۃً فَأَعْجَبَنِی دَلُّہَا فَأَرَدْتُ أَنْ أَسْأَلَ عَنْہَا فَوَجَدْتُہَا مَشْغُولَۃً وَلاَ یَضُرُّکَ حُسْنُ امْرَأَۃٍ مَا لَمْ تَعْرِفْہَا۔
(١٧٥٠٩) حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) فرماتے ہیں کہ دورانِ طواف ایک عورت پر میری نگاہ پڑی، وہ مجھے بھلی محسوس ہوئی، میں نے اس کے بارے میں سوال کرنا چاہا لیکن وہ مصروف تھی۔ تمہیں عورت کا حسن اس وقت تک نقصان نہیں دیتا جب تک تم اسے جان نہ لو۔

17509

(۱۷۵۱۰) حَدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ بْنُ شُعَیْبٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ طَاوُوسٍ أَنَّہُ کَرِہَ أَنْ یَنْظُرَ الرَّجُلُ إلَی الْمَرْأَۃِ إلاَّ أَنْ یَکُونَ زَوْجًا ، أَوْ ذَا مَحْرَمٍ۔
(١٧٥١٠) حضرت طاؤس (رض) فرماتے ہیں کہ مرد کے لیے بیوی یا محرم رشتہ دار کے علاوہ کسی عورت کو دیکھنا درست نہیں۔

17510

(۱۷۵۱۱) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ قَالَ : أَخْبَرَنِی أَبُو عُمَیْرٍ ، عَنْ أَیُّوبَ قَالَ : کَانَ طَاوُوسٌ لاَ یَصْحَبُ رُفْقَۃً فِیہَا امْرَأَۃٌ۔
(١٧٥١١) حضرت ایوب (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت طاؤس (رض) کسی ایسے قافلے میں نہ جاتے جس میں عورتیں ہوتیں۔

17511

(۱۷۵۱۲) حَدَّثَنَا عَفَّانُ قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إبْرَاہِیمَ ، عَنْ سَلَمَۃَ بْنِ أَبِی طُفَیْلٍ ، عَنْ عَلِیٍّ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : یَا عَلِیُّ ، إنَّ لَکَ کَنْزًا فِی الْجَنَّۃِ وَإِنَّکَ ذُو قَرْنَیْہَا فَلاَ تُتْبِعِ النَّظْرَۃَ النَّظْرَۃَ فَإِنَّمَا لَکَ الأُولَی وَلَیْسَتْ لَکَ الآخِرَۃُ۔ (احمد ۱/۱۵۹۔ دارمی ۲۷۰۹)
(١٧٥١٢) حضرت علی (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ اے علی ! تمہارے لیے جنت میں ایک خزانہ ہے اور تم جنت کے دونوں کناروں کو پانے والے ہو، ایک نظر پڑجائے تو دوسری مت ڈالو کیونکہ پہلی نظر کی گنجائش ہے لیکن دوسری کی اجازت نہیں۔

17512

(۱۷۵۱۳) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، قَالَ : قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ : {یَعْلَمُ خَائِنَۃَ الأَعْیُنِ ، وَمَا تُخْفِی الصُّدُورُ} قَالَ : الرَّجُلُ یَکُونُ فِی الْقَوْمِ فَتَمُرُّ بِہِمُ الْمَرْأَۃُ فَیُرِیہِمْ أَنَّہُ یَغُضُّ بَصَرَہُ عَنْہَا فَإِنْ رَأَی مِنْہُمْ غَفَلَۃً نَظَرَ إلَیْہَا فَإِنْ خَافَ أَنْ یَفْطَنُوا بِہِ غَضَّ بَصَرَہُ وَقَدِ اطَّلَعَ اللَّہُ مِنْ قَلْبِہِ أَنَّہُ وَدَّ أَنَّہُ نَظَرَ إلَی عَوْرَتِہَا۔
(١٧٥١٣) حضرت ابن عباس (رض) قرآن مجید کی آیت (ترجمہ) اللہ آنکھوں کی خیانت اور دل میں چھپے خیالات کو جانتا ہے۔ کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ بعض اوقات ایک آدمی کچھ لوگوں میں بیٹھا ہوتا ہے اور وہاں سے ایک عورت گذرتی ہے، وہ لوگوں کو یہ باور کراتا ہے کہ اس نے اپنی نگاہ جھکا لی ہے، پھر اگر وہ لوگوں کو خود سے غافل پاتا ہے تو عورت کو دیکھنے لگتا ہے اور اگر اسے اندیشہ ہو کہ لوگ اسے دیکھ لیں گے تو نظر کو جھکا لیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کے دل کے خیالات سے بھی واقف ہے کہ وہ آدمی عورت کے چھپے ہوئے حصے کو بھی دیکھنا چاہتا ہے۔

17513

(۱۷۵۱۴) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ أَبِی عَمْرٍو الشَّیْبَانِیِّ ، قَالَ : قَالَ أَبُو مُوسَی : لأَنْ تَمْتَلِئَ مَنْخِرَیَّ مِنْ رِیحِ جِیفَۃٍ أَحَبُّ إلَیَّ مِنْ أَنْ تَمْتَلِئَا مِنْ رِیحِ امْرَأَۃٍ۔
(١٧٥١٤) حضرت ابوموسیٰ (رض) فرماتے ہیں کہ میرے ناک میں کسی مردار کی بو آئے یہ مجھے اس سے زیادہ پسند ہے کہ اس میں کسی عورت کی خوشبو آئے۔

17514

(۱۷۵۱۵) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللہِ : لأَنْ أُزَاحِمَ بَعِیرًا مَطْلِیًّا بِقَطِرَانٍ أَحَبُّ إلَیَّ مِنْ أَنْ أُزَاحِمَ امْرَأَۃً۔
(١٧٥١٥) حضرت عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ میں تارکول سے لیپ کئے اونٹ سے ٹکراؤں یہ مجھے اس بات سے زیادہ پسند ہے کسی عورت سے ٹکراؤں۔

17515

(۱۷۵۱۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ ثَابِتِ بْنِ عُمَارَۃَ ، عَنْ غُنَیْمِ بْنِ قَیْسٍ ، عَنْ أَبِی مُوسَی قَالَ : کُلُّ عَیْنٍ فَاعِلَۃٌ یَعْنِی زَانِیَۃً۔
(١٧٥١٦) حضرت ابو موسیٰ (رض) فرماتے ہیں کہ ہر بد نظر آنکھ زنا کرنے والی ہے۔

17516

(۱۷۵۱۷) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِی عَدِیٍّ ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ ؛ فِی الرَّجُلِ یُطَلِّقُ امْرَأَتَہُ تَطْلِیقَۃً ، أَوْ تَطْلِیقَتَیْنِ قَبْلَ أَنْ یَدْخُلَ بِہَا ثُمَّ غَشِیَہَا وَہُوَ یَرَی أَنَّ لَہُ عَلَیْہَا رَجْعَۃً قَالَ : لَہَا الصَّدَاقُ وَیُفَرَّقُ بَیْنَہُمَا۔
(١٧٥١٧) حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ اگر ایک آدمی اپنی بیوی کو دخول سے پہلے ایک یا دو طلاقیں دیدے اور یہ سمجھتے ہوئے اس سے جماع کرے کہ ابھی رجوع کا حق باقی ہے تو عورت کو مہر ملے گا اور دونوں کے درمیان جدائی کرادی جائے گی۔

17517

(۱۷۵۱۸) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَوَائٍ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ؛ فِی رَجُلٍ طَلَّقَ امْرَأَتَہُ ، ثُمَّ غَشِیَہَا وَہُوَ یَرَی أَنَّ لَہُ عَلَیْہَا رَجْعَۃً قَالَ : لَہَا الصَّدَاقُ کَامِلاً لِغِشْیَانِہِ إیَّاہَا۔
(١٧٥١٨) حضرت قتادہ (رض) فرماتے ہیں کہ اگر ایک آدمی نے اپنی بیوی کو (دخول سے پہلے) طلاق دی اور پھر اس سے یہ سمجھتے ہوئے وطی کرلی کہ اسے رجوع کا حق حاصل ہے تو اس عورت کو پورا مہر ملے گا۔ کیونکہ مرد عورت سے جماع کرچکا ہے۔

17518

(۱۷۵۱۹) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَوَائٍ ، عَنْ سَعِیدٍ عن مَطَرٍ ، عَنِ الْحَکَمِ قَالَ : لَہَا الصَّدَاقُ کَامِلاً۔
(١٧٥١٩) حضرت حکم (رض) فرماتے ہیں کہ اگر ایک آدمی نے اپنی بیوی کو (دخول سے پہلے) طلاق دی اور پھر اس سے یہ سمجھتے ہوئے وطی کرلی کہ اسے رجوع کا حق حاصل ہے تو اس عورت کو پورا مہر ملے گا۔

17519

(۱۷۵۲۰) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَوَائٍ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ قَالَ : لَہَا الصَّدَاقُ کَامِلاً۔
(١٧٥٢٠) حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ اگر ایک آدمی نے اپنی بیوی کو (دخول سے پہلے) طلاق دی اور پھر اس سے یہ سمجھتے ہوئے وطی کرلی کہ اسے رجوع کا حق حاصل ہے تو اس عورت کو پورا مہر ملے گا۔

17520

(۱۷۵۲۱) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَوَائٍ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ حَمَّادٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالَ : لَہَا صَدَاقٌ وَنِصْفُ۔
(١٧٥٢١) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ اگر ایک آدمی نے اپنی بیوی کو (دخول سے پہلے) طلاق دی اور پھر اس سے یہ سمجھتے ہوئے وطی کرلی کہ اسے رجوع کا حق حاصل ہے تو اس عورت کو پورا مہر اور نصف ملے گا۔

17521

(۱۷۵۲۲) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ فِی رَجُلٍ طَلَّقَ امْرَأَتَہُ قَبْلَ أَنْ یَدْخُلَ بِہَا وَاحِدَۃً ثُمَّ غَشِیَہَا وَہُوَ یَرَی أَنَّ لَہُ عَلَیْہَا الرَّجْعَۃَ قَالَ : یُفَرَّقُ بَیْنَہُمَا وَلَہَا الصَّدَاقُ کَامِلاً۔
(١٧٥٢٢) حضرت زہری (رض) فرماتے ہیں کہ اگر ایک آدمی نے اپنی بیوی کو (دخول سے پہلے) طلاق دی اور پھر اس سے یہ سمجھتے ہوئے وطی کرلی کہ اسے رجوع کا حق حاصل ہے تو ان دونوں کے درمیان جدائی کرادی جائے گی اور اس عورت کو پورا مہر ملے گا۔

17522

(۱۷۵۲۳) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ حَمَّادٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالَ: لَہَا صَدَاقٌ وَنِصْفٌ وَقَالَ الْحَکَمُ: لَہَا الصَّدَاقُ۔
(١٧٥٢٣) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ اگر ایک آدمی نے اپنی بیوی کو (دخول سے پہلے) طلاق دی اور پھر اس سے یہ سمجھتے ہوئے وطی کرلی کہ اسے رجوع کا حق حاصل ہے تو اس عورت کو پورا مہر اور نصف ملے گا۔ اور حضرت حکم (رض) فرماتے ہیں کہ اسے پورا مہر ملے گا۔

17523

(۱۷۵۲۴) حَدَّثَنَا الضَّحَّاکُ بْنُ مَخْلَدٍ ، عَنِ الْمُثَنَّی ، عَنْ عَطَائٍ فِی رَجُلٍ طَلَّقَ امْرَأَتَہُ ثَلاَثًا وَجَہِلَ فَأَصَابَہَا قَالَ : لَہَا الصَّدَاقُ کَامِلاً۔
(١٧٥٢٤) حضرت عطائ (رض) فرماتے ہیں کہ اگر ایک آدمی نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دیں، پھر جہالت کی وجہ سے اس سے جماع کرلیا تو اس عورت کو پورا مہر ملے گا۔

17524

(۱۷۵۲۵) حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنِ الأَوْزَاعِیِّ ، عَنْ عَطَائٍ قَالَ : لَہَا صَدَاقٌ وَنِصْفٌ۔
(١٧٥٢٥) حضرت عطائ (رض) فرماتے ہیں کہ اگر ایک آدمی نے اپنی بیوی کو (دخول سے پہلے) طلاق دی اور پھر اس سے یہ سمجھتے ہوئے وطی کرلی کہ اسے رجوع کا حق حاصل ہے تو اس عورت کو پورا مہر اور نصف ملے گا۔

17525

(۱۷۵۲۶) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ مِسْعَرٍ ، عَنْ حَمَّادٍ قَالَ : صَدَاقٌ وَنِصْفُ۔
(١٧٥٢٦) حضرت حماد (رض) فرماتے ہیں کہ اگر ایک آدمی نے اپنی بیوی کو (دخول سے پہلے) طلاق دی اور پھر اس سے یہ سمجھتے ہوئے وطی کرلی کہ اسے رجوع کا حق حاصل ہے تو اس عورت کو پورا مہر اور نصف ملے گا۔

17526

(۱۷۵۲۷) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ حَبِیبٍ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنْ جَابِرِ بْنِ زَیْدٍ قَالَ : سُئِلَ عَمَّنْ تَزَوَّجَ امْرَأَۃً فَطَلَّقَہَا قَبْلَ أَنْ یَمَسَّہَا ثُمَّ قِیلَ لَہُ : إنَّہَا لَمْ تَحْرُمْ عَلَیْکَ فَدَخَلَ بِہَا بِالنِّکَاحِ الأَوَّلِ فَمَکَثَتْ عِنْدَہُ سَنَتَیْنِ فَوَلَدَتْ لَہُ أَوْلاَدًا فَعَلِمَ بِذَلِکَ أَنَّہَا عَلَیْہِ حَرَامٌ قَالَ : یُفَرَّقُ بَیْنَہُمَا وَیُعْطِی الْمَرْأَۃَ بِنِکَاحِہَا الأَوَّلِ نِصْفَ مَہْرِہَا ومن دُخُولِہِ بِہَا وَمُجَامَعَتِہِ إیَّاہَا مَہْرًا کَامِلاً۔
(١٧٥٢٧) حضرت جابر بن زید (رض) سے سوال کیا گیا کہ اگر کوئی آدمی اپنی بیوی کو چھونے سے پہلے اسے طلاق دے دے اور اسے کہا جائے کہ وہ تجھ پر حرام نہیں ہوئی، اور وہ پہلے نکاح کی بنیاد پر اس سے جماع کرلے اور وہ عورت اس مرد کے پاس دو سال تک ٹھہری رہے اور اولاد کو جنم دے پھر انھیں علم ہو کہ یہ عورت تو اس مرد پر حرام ہوگئی ہے تو اس کا کیا حکم ہے ؟ حضرت جابر بن زید (رض) نے فرمایا کہ ان دونوں کے درمیان جدائی کرائی جائے گی، وہ عورت کو پہلے نکاح کی وجہ سے آدھا مہر دے گا اور دخول اور جماع کی وجہ سے پورا مہر دے گا۔

17527

(۱۷۵۲۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنِ ابْنِ سَالِمٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ قَالَ : لَہَا الصَّدَاقُ۔
(١٧٥٢٨) حضرت شعبی (رض) فرماتے ہیں کہ اگر ایک آدمی نے اپنی بیوی کو (دخول سے پہلے) طلاق دی اور پھر اس سے یہ سمجھتے ہوئے وطی کرلی کہ اسے رجوع کا حق حاصل ہے تو اس عورت کو پورامہر ملے گا۔

17528

(۱۷۵۲۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ حَمَّادٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالَ : لَہَا صَدَاقٌ وَنِصْفُ۔
(١٧٥٢٩) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ اگر ایک آدمی نے اپنی بیوی کو (دخول سے پہلے) طلاق دی اور پھر اس سے یہ سمجھتے ہوئے وطی کرلی کہ اسے رجوع کا حق حاصل ہے تو اس عورت کو پورا مہر اور نصف ملے گا۔

17529

(۱۷۵۳۰) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ عَبْدِ الْکَرِیمِ ، عَنْ مُجَاہِدٍ وَمِقْسَمٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ أَمَۃً أُعْتِقَتْ فَاخْتَارَتْ نَفْسَہَا قَبْلَ أَنْ یُدْخَلَ بِہَا قَالَ : لاَ شَیْئَ لَہَا ، لاَ یُجْمَعُ عَلَیْہِ أَمْرٌ یَذْہَبُ بِنَفْسِہَا وَمَالِہِ۔
(١٧٥٣٠) حضرت ابن عباس (رض) سے سوال کیا گیا کہ اگر ایک آدمی کسی باندی سے شادی کرے، پھر دخول سے پہلے اس باندی کو آزاد کردیا جائے، پھر شرعی حکم کے مطابق اس عورت کو خاوند کے قبول کرنے اور نہ کرنے کا اختیار ملے لیکن وہ خاوند سے علیحدگی کو اختیار کرلے تو کیا اسے مہر ملے گا ؟ انھوں نے فرمایا کہ اسے کچھ نہیں ملے گا، وہ اپنے نفس اور مہر دونوں چیزوں کو حاصل نہیں کرسکتی۔

17530

(۱۷۵۳۱) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ أَنَّہُ کَانَ یَقُولُ : إذَا أُعْتِقَتِ الأَمَۃُ وَہِیَ تَحْتَ الْعَبْدِ فَخُیِّرَتْ فَاخْتَارَتْ نَفْسَہَا قَبْلَ أَنْ یَدْخُلَ بِہَا فَلاَ صَدَاقَ لَہَا وَہِیَ تَطْلِیقَۃٌ بَائِنَۃٌ۔
(١٧٥٣١) حضرت حسن (رض) فرمایا کرتے تھے کہ اگر کوئی باندی کسی غلام کے نکاح میں تھی، پھر اسے آزاد کیا گیا اور آزادی کے بعد اختیار دیا گیا اور اس نے دخول سے پہلے اپنے نفس کو اختیار کرلیا تو اس عورت کو مہر نہیں ملے گا اور یہ طلاق بائنہ ہوگی۔

17531

(۱۷۵۳۲) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ فِی رَجُلٍ تزَوَّجَ أَمَتَہُ عَلَی مَہْرٍ مُسَمًّی ثُمَّ أَعْتَقَہَا قَبْلَ أَنْ یَدْخُلَ بِہَا زَوْجُہَا فَتُخَیَّرُ فَتَخْتَارُ نَفْسَہَا قَالَ : یَبْطُلُ النِّکَاحُ وَیُرَدُّ عَلَی الزَّوْجِ مَہْرُہُ۔
(١٧٥٣٢) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ اگر ایک آدمی نے مقررشدہ مہر پر اپنی باندی سے شادی کی، پھر وہ باندی دخول سے پہلے آزاد کردی گئی، پھر اسے اختیار ملا اور اس نے اپنے نفس کو اختیار کرلیا تو نکاح باطل ہوجائے گا اور مہر اس کے خاوند کو واپس کیا جائے گا۔

17532

(۱۷۵۳۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالَ : إذَا اخْتَارَتْ نَفْسَہَا وَقَدْ أُعْتِقَتْ قَبْلَ أَنْ یَدْخُلَ بِہَا فَلاَ صَدَاقَ لَہَا۔
(١٧٥٣٣) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ اگر ایک آدمی کسی باندی سے شادی کرے، پھر دخول سے پہلے اس باندی کو آزاد کردیا جائے، پھر شرعی حکم کے مطابق اس عورت کو خاوند کے قبول کرنے اور نہ کرنے کا اختیار ملے لیکن وہ خاوند سے علیحدگی کو اختیار کرلے تو اسے مہر نہیں ملے گا۔

17533

(۱۷۵۳۴) حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَبْدِ الْوَارِثِ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنْ عَبْدِ الْکَرِیمِ ، عَنْ مُجَاہِدٍ قَالَ : لاَ شَیْئَ لَہَا۔
(١٧٥٣٤) حضرت مجاہد (رض) فرماتے ہیں کہ اگر ایک آدمی کسی باندی سے شادی کرے، پھر دخول سے پہلے اس باندی کو آزاد کردیا جائے، پھر شرعی حکم کے مطابق اس عورت کو خاوند کے قبول کرنے اور نہ کرنے کا اختیار ملے لیکن وہ خاوند سے علیحدگی کو اختیار کرلے تو اسے کچھ نہیں ملے گا۔

17534

(۱۷۵۳۵) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَوَائٍ ، عَنِ ابْنِ أَبِی عَرُوبَۃَ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنِ الْحَسَنِ قَالَ : لاَ یَسَعُہَا أَنْ تَقَارَّہُ حَتَّی تُرَافِعَہُ إلَی السُّلْطَانِ فَإِمَّا حَدٌّ وَإِمَّا مُلاَعَنَۃٌ۔
(١٧٥٣٥) حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ اگر ایک آدمی اپنی بیوی پر زنا کی تہمت لگائے اور پھر اپنے قول سے رجوع کرلے تو عورت کے لیے اس مرد کے ساتھ رہنے کی گنجائش نہیں، وہ اس معاملے کو قاضی کے پاس لے جائے، پھر یا تو اس مرد پر حد لگے گی یا لعان ہوگا۔

17535

(۱۷۵۳۶) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَوَائٍ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ أَبِی مَعْشَرٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالَ : إذَا أکْذَبَ نَفْسَہُ عِنْدَ رَہْطٍ تَسَاکَنَا وَاسْتَغْفَرَ رَبَّہُ وَلاَ یَعُودُ لِذَلِکَ۔
(١٧٥٣٦) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کسی جماعت کے پاس اپنے قول سے رجوع کرلے تو دونوں ساتھ رہیں اور آدمی اللہ سے معافی مانگے اور دوبارہ ایسے نہ کرنے کا عزم کرے۔

17536

(۱۷۵۳۷) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنِ ابْنِ سَالِمٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ قَالَ : إذَا قَذَفَہَا بِالزِّنَا إِنْ شَائَ أَکْذَبَ نَفْسَہُ وَجُلِدَ وَرُدَّتْ إلَیْہِ امْرَأَتُہُ۔
(١٧٥٣٧) حضرت شعبی (رض) فرماتے ہیں کہ اگر مرد نے اپنی بیوی پر زنا کی تہمت لگائی، پھر اگر چاہے تو اپنے قول سے رجوع کرلے، اور اس پر حد قذف جاری ہوگی اور وہ عورت اسی کی بیوی رہے گی۔

17537

(۱۷۵۳۸) حَدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ بْنُ عَیَّاشٍ ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِیزِ بْنِ عُبَیْدِ اللہِ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ فِی الرَّجُلِ یَقْذِفُ امْرَأَتَہُ بِالزِّنَا ثُمَّ لاَ تُرَافِعُہُ قَالَ : یُکَذِّبُ نَفْسَہُ وَہُمَا عَلَی نِکَاحِہِمَا۔
(١٧٥٣٨) حضرت شعبی (رض) اس مرد کے بارے میں فرماتے ہیں کہ جو اپنی بیوی پر زنا کی تہمت لگائے اور پھر مسئلہ قاضی کی عدالت میں پیش نہ کرے کہ وہ اپنے قول سے رجوع کرلے تو نکاح باقی رہے گا۔

17538

(۱۷۵۳۹) حَدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ بْنُ عَیَّاشٍ ، عَنْ عَطَائٍ الْخُرَاسَانِیِّ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِیزِ قَالَ لَہَا نِصْفُ الصَّدَاقِ وَلاَ مِیرَاثَ لَہَا ، وَلاَ عِدَّۃَ عَلَیْہَا۔
(١٧٥٣٩) حضرت عمر بن عبد العزیز (رض) فرماتے ہیں کہ اگر ایک آدمی کسی عورت سے شادی کرے پھر دخول سے پہلے حالت مرض میں اسے طلاق دے دے توا سے نصف مہر ملے گا، میراث نہیں ملے گی اور اس پر عدت بھی واجب نہیں ہوگی۔

17539

(۱۷۵۴۰) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ ، عَنِ ابْنِ أَبِی عَرُوبَۃَ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِیزِ بِمِثْلِہِ۔
(١٧٥٤٠) ایک اور سند سے یونہی منقول ہے۔

17540

(۱۷۵۴۱) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ وَمُحَمَّدُ بْنُ سَوَائٍ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ أَبِی مَعْشَرٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالَ : لَہَا نِصْفُ الصَّدَاقِ وَلاَ مِیرَاثَ لَہَا وَلاَ عِدَّۃَ عَلَیْہَا۔
(١٧٥٤٠) ایک اور سند سے یونہی منقول ہے۔

17541

(۱۷۵۴۲) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ أَنَّہُ کَانَ یَقُولُ : إذَا طَلَّقَہَا قَبْلَ أَنْ یَدْخُلَ بِہَا وَہُوَ مَرِیضٌ فَإِنَّہَا لاَ تَرِثُہُ وَلاَ عِدَّۃَ عَلَیْہَا وَلَہَا نِصْفُ الصَّدَاقِ۔
(١٧٥٤٢) حضرت زہری (رض) فرماتے ہیں کہ اگر ایک آدمی کسی عورت سے شادی کرے پھر دخول سے پہلے حالت مرض میں اسے طلاق دے دے تو وہ عورت وارث نہیں ہوگی، اس پر عدت بھی نہیں ہوگی اور اسے آدھا مہر ملے گا۔

17542

(۱۷۵۴۳) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَوَائٍ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ زَیْدٍ أَنَّہُ قَالَ : لَہَا الصَّدَاقُ کَامِلاً وَلاَ مِیرَاثَ لَہَا وَلاَ عِدَّۃَ عَلَیْہَا۔
(١٧٥٤٣) حضرت جابر بن زید (رض) فرماتے ہیں کہ اگر ایک آدمی کسی عورت سے شادی کرے پھر دخول سے پہلے حالت مرض میں اسے طلاق دے دے توا سے پورا مہر ملے گا، میراث نہیں ملے گی اور عدت بھی واجب نہیں ہوگی۔

17543

(۱۷۵۴۴) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَوَائٍ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ أَنَّہُ کَانَ یَقُولُہُ۔
(١٧٥٤٤) حضرت قتادہ (رض) بھی یہی فرمایا کرتے تھے۔

17544

(۱۷۵۴۵) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَوَائٍ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنِ الْحَسَنِ قَالَ : لَہَا الصَّدَاقُ کَامِلاً وَلَہَا الْمِیرَاثُ وَعَلَیْہَا الْعِدَّۃُ۔
(١٧٥٤٥) حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ اگر ایک آدمی کسی عورت سے شادی کرے پھر دخول سے پہلے حالت مرض میں اسے طلاق دے دے توا سے پورامہر ملے گا، میراث ملے گی اور عدت بھی واجب ہوگی۔

17545

(۱۷۵۴۶) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنِ الْمُغِیرَۃِ ، عَنِ الْحَارِثِ قَالَ : إذَا طَلَّقَ امْرَأَتَہُ فِی مَرَضِہِ ثَلاَثًا ، أَوْ تَطْلِیقَۃً قَبْلَ أَنْ یَدْخُلَ بِہَا فَلاَ مِیرَاثَ بَیْنَہُمَا۔
(١٧٥٤٦) حضرت حارث (رض) فرماتے ہیں کہ اگر ایک آدمی کسی عورت سے شادی کرے پھر دخول سے پہلے حالت مرض میں اسے تین طلاقیں یا ایک طلاق دے دے تو اس عورت کو میراث نہیں ملے گی۔

17546

(۱۷۵۴۷) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ ابْنِ أَبِی لَیْلَی ، عَنِ الشَّعْبِیِّ قَالَ : إذَا طَلَّقَہَا قَبْلَ أَنْ یَدْخُلَ بِہَا فَلاَ مِیرَاثَ لَہَا۔
(١٧٥٤٧) حضرت شعبی (رض) فرماتے ہیں کہ اگر ایک آدمی کسی عورت سے شادی کرے پھر دخول سے پہلے حالت مرض میں اسے طلاق دے دے توا سے میراث نہیں ملے گی۔

17547

(۱۷۵۴۸) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ سَیْفٍ ، عَنِ ابْنِ أَبِی نُجَیْحٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ أَنَّہُ کَرِہَ أَنْ یَتَزَوَّجَ الرَّجُلُ امْرَاَۃَ زَوْجِ أُمِّہِ قَالَ : وَکَانَ طَاوُوْسٌ وَعَطَاء لاَ یَرَیَانِ بِہِ بَأْسًا۔
(١٧٥٤٨) حضرت مجاہد (رض) آدمی کے اپنی ماں کے خاوند کی بیوی سے شادی کرنے کو مکروہ قرار دیتے تھے جبکہ حضرت طاؤس (رض) اور عطائ (رض) اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے۔

17548

(۱۷۵۴۹) حَدَّثَنَا وَکِیْعٌ ، عَنْ إسْرَائِیلَ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ عَامِرٍ قَالَ : لاَ بَأسَ أَنْ یَتَزَوَّجَ الرَّجُلُ امْرَاَۃَ زَوْجِ أُمِّہِ۔
(١٧٥٤٩) حضرت عامر (رض) فرماتے ہیں کہ آدمی کے اپنی ماں کے خاوند کی بیوی سے شادی کرنے میں کوئی حرج نہیں۔

17549

(۱۷۵۵۰) حَدَّثَنَا ابْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنْ حَبِیبِ بْنُ أَبِی حَبِیبٍ ، عَنْ عَمْرِو بنِ ہَرِمٍ ، عَنْ جَابِرٍ بْنِ زَیْدٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ : لاَ تُزَاحِمْ مَنْ زَاحَمَ أَبُوکَ ، زَوْجَ أُمِّکَ۔
(١٧٥٥٠) حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ اس سے بندھن نہ باندھو جس سے تمہارے ماں باپ میں سے کسی نے بندھن باندھا جیسے تمہاری ماں کا خاوند۔

17550

(۱۷۵۵۱) حدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الْحَسَنِ ؛ فِی الْمَرْأَۃِ تَزَوَّج وَلَہَا زَوْجٌ قَالَ : إِنْ جَائَتْ بِہِ وَہُوَ یَشُکُّ فِیْہِ فَہُوَ للأَوَّلِ ، وَإِنْ جَائَتْ بِہِ وَہُوَ لاَ یَشُکُّ فِیْہِ فَہُوَ لِلآخَرِ۔
(١٧٥٥١) حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ اگر ایک عورت نے ( غلطی سے) اس حال میں شادی کی کہ اس کا خاوند تھا، پھر بچہ پیدا ہوگیا تو اگر دوسرے خاوند کو شک ہو تو بچہ پہلے کا ہوگا اور اگر اسے شک نہ ہو تو بچہ دوسرے کا ہی ہوگا۔

17551

(۱۷۵۵۲) حَدَّثَنَا الضَّحَّاکُ بْنُ مَخْلَدٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَطَائٍ فِی رَجُلٍ طَلَّقَ امْرَأَتَہُ وَتَزَوَّجَہَا آخَرٌ فی عدتہا وَقَدْ حَاضَتْ حَیْضَۃً : الوَلَدُ لِلآخَرِ۔
(١٧٥٥٢) حضرت عطائ (رض) فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی، پھر دوسرے آدمی نے اس عورت سے اس کی عدت میں شادی کرلی، اور اس عورت کو حیض آچکا تھا تو بچہ دوسرے کا ہوگا۔

17552

(۱۷۵۵۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ جَرِیرٍ ، عَنْ قَیْسِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ قَالَ : إذَا قَبَّلَہَا ، أَوْ لَمَسَہَا ، أَوْ نَظَرَ إلَی فَرْجِہَا حَرُمَتْ عَلَیْہِ ابْنَتُہَا۔
(١٧٥٥٣) حضرت مجاہد (رض) فرماتے ہیں کہ اگر آدمی کسی عورت کا بوسہ لے، اسے شہوت کے ساتھ چھوئے یا اس کی شرمگاہ کو دیکھے تو اس کی بیٹی اس مرد پر حرام ہوجائے گی۔

17553

(۱۷۵۵۴) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالَ : إذَا قَبَّلَ الأُمَّ لَمْ تَحِلَّ لَہُ ابْنَتُہَا وَإِذَا قَبَّلَ ابْنَتَہَا لَمْ تَحِلَّ لَہُ أُمُّہَا۔
(١٧٥٥٤) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ اگر آدمی کسی ماں کا بوسہ لے تو اس کی بیٹی حرام ہوجائے گی اور اگر کسی بیٹی کا بوسہ لے تو ماں حرام ہوجائے گی۔

17554

(۱۷۵۵۵) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ؛ فِی الرَّجُلِ یُقَبِّلُ الْمَرْأَۃَ ، أَوْ یَلْمِسُہَا ، أَوْ یَأْتِیہَا فِی غَیْرِ فَرْجِہَا ، إِنْ شَائَ تَزَوَّجَہَا ، وَإِنْ شَائَ تَزَوَّجَ ابْنَتَہَا ، وَإِنْ کَانَتِ الْبِنْتَ ، تَزَوَّجَ الأُمَّ إِنْ شَائَ۔
(١٧٥٥٥) حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کسی آدمی نے کسی عورت کا بوسہ لیا، یا اسے شہوت سے چھوا یا شرمگاہ کے علاوہ کسی اور جگہ اس سے صحبت کی تو چاہے تو اس سے شادی کرلے اور چاہے تو اس کی بیٹی سے شادی کرلے اور اگر کسی لڑکی سے ایسے کیا تو اس کی ماں سے شادی کرسکتا ہے۔

17555

(۱۷۵۵۶) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ یَزِیدَ ، عَنْ أَبِی الْعَلاَئِ ، عَنْ قَتَادَۃَ وَأَبِی ہَاشِمٍ قَالاَ : فِی الرَّجُلِ یُقَبِّلُ أم امْرَأتہ ، أَوِ ابْنَتَہَا ، قَالاَ : حَرُمَتْ عَلَیْہِ امرأتہ۔
(١٧٥٥٦) حضرت قتادہ اور حضرت ابو ہاشم (رض) فرماتے ہیں کہ اگر آدمی نے اپنی بیوی کی ماں یا بیٹی کا بوسہ لیا تو بیوی اس پر حرام ہوجائے گی۔

17556

(۱۷۵۵۷) حَدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنِ السُّدِّیِّ ، عَنْ أَبِی مَالِکٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : لاَ بَأْسَ أَنْ یَنْظُرَ الْمَمْلُوکُ إلَی شَعْرِ مَوْلاَتِہِ۔
(١٧٥٥٧) حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ غلام اپنی مالکن کے بال دیکھ سکتا ہے۔

17557

(۱۷۵۵۸) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِِ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، أَنَّہُ کَانَ لاَ یَرَی بَأْسًا أَنْ تَضَعَ الْمَرْأَۃُ ثَوْبَہَا عِنْدَ مَمْلُوکِہَا ، وَإِنْ کَانَ یُکْرَہُ أَنْ یَرَی شَعْرَہَا۔
(١٧٥٥٨) حضرت شعبی (رض) اس بات کو جائزسمجھتے تھے کہ عورت اپنے کپڑے اپنے غلام کے پاس رکھوائے، لیکن اس بات کو مکروہ خیال فرماتے تھے کہ غلام اپنی مالکن کے بال دیکھے۔

17558

(۱۷۵۵۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، وَعَطَائٍ أَنَّہُمَا کَرِہَا أَنْ یَرَی الْعَبْدُ شَعْرَ مَوْلاَتِہِ۔
(١٧٥٥٩) حضرت مجاہد (رض) اور حضرت عطائ (رض) اس بات کو مکروہ خیال فرماتے تھے کہ غلام اپنی مالکن کے بال دیکھے۔

17559

(۱۷۵۶۰) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ یَزِیدَ ، عَنْ عُبَیْدَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالَ : تَسْتَتِرُ الْمَرْأَۃُ مِنْ غُلاَمِہَا۔
(١٧٥٦٠) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ عورت اپنے غلام سے پردہ کرے گی۔

17560

(۱۷۵۶۱) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ یُونُسَ بْنِ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ طَارِقٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ قَالَ : لاَ تَغُرَّنَّکُمْ ہَذِہِ الآیَۃُ : {إلاَّ مَا مَلَکَتْ أَیْمَانُکُمْ} إنَّمَا عَنَی بِہَا الإِمَائَ وَلَمْ یَعْنِ بِہَا الْعَبِیدَ۔
(١٧٥٦١) حضرت سعید بن مسیب (رض) فرماتے ہیں کہ تمہیں قرآن مجید کی اس آیت سے دھوکا نہ ہو {إلاَّ مَا مَلَکَتْ أَیْمَانُکُمْ } اس سے مراد باندیاں ہیں غلام نہیں ہیں۔

17561

(۱۷۵۶۲) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ الْحَسَنِ أَنَّہُ کَرِہَ أَنْ یَدْخُلَ الْمَمْلُوکُ عَلَی مَوْلاَتِہِ بِغَیْرِ إذْنِہَا۔
(١٧٥٦٢) حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ غلام اپنی مالکن کی اجازت کے بغیر داخل نہیں ہوسکتا۔

17562

(۱۷۵۶۳) حَدَّثَنَا ابْنُ یَمَانٍ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ جُوِیبرٍ ، عَنِ الضَّحَّاکِ أَنَّہُ کَرِہَ أَنْ یَنْظُرَ الْمَمْلُوکُ إلَی شَعْرِ مَوْلاَتِہِ۔
(١٧٥٦٣) حضرت ضحاک (رض) اس بات کو درست نہیں سمجھتے کہ غلام اپنے مالکن کے بال دیکھے۔

17563

(۱۷۵۶۴) حَدَّثَنَا جَرَیْرٌ ، عَنْ مُغِیْرَۃُ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ أَنَّہُ کَرِہَ أَنْ یُسِفَّ الرَّجُلُ النَّظَرَ إِلَی أُخْتِہِ أَو ابْنَتِہِ۔
(١٧٥٦٤) حضرت شعبی (رض) فرماتے ہیں کہ آدمی کا اپنی بہن یابیٹی کے بالوں کو مستقل طور پر دیکھنا مکروہ ہے۔

17564

(۱۷۵۶۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ طَاوُوسٍ أَنَّہُ کَرِہَ أَنْ یَنْظُرَ الرَّجُلُ إلَی شَعْرِ ابْنَتِہِ ، أَوْ أُخْتِہِ۔
(١٧٥٦٥) حضرت طاؤس (رض) کے نزدیک آدمی کا اپنی بیٹی یا بہن کے بالوں کودیکھنامکروہ ہے۔

17565

(۱۷۵۶۶) حَدَّثَنَا یَعْلَی بْنُ عُبَیْدٍ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ ، عَنْ عَطَائٍ فِی الرَّجُلِ یَرَی مِنَ النِّسَائِ مَا یُحَرِّمُ عَلَیْہِ نِکَاحَہُ رُؤُوسُہُنَّ یَسْتَتِرْنَ أَحَبُّ إلَیَّ ، وَإِنْ رَأَی فَلاَ بَأْسَ۔
(١٧٥٦٦) حضرت عطائ (رض) فرماتے ہیں کہ جن عورتوں سے آدمی کا نکاح حرام ہے ان کے سروں کا پردہ کرنا میرے نزدیک اچھا ہے۔ البتہ آدمی کی نگاہ اگر پڑجائے تو کوئی حرج نہیں۔

17566

(۱۷۵۶۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ ، عَنْ أَبِی الْبَخْتَرِیِّ ، عَنْ أَبِی صَالِحٍ أَنَّ الْحَسَنَ وَالْحُسَیْنَ کَانَا یَدْخُلاَنِ عَلَی أُخْتِہِمَا أُمِّ کُلْثُومٍ وَہِیَ تمتشط۔
(١٧٥٦٧) حضرت ابو صالح (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت حسن اور حضرت حسین (رض) اپنی بہن حضرت ام کلثوم (رض) کے پاس اس وقت چلے جایا کرتے تھے جب وہ کنگھی کررہی ہوتی تھیں۔

17567

(۱۷۵۶۸) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ؛ فِی الْمَرْأَۃِ تَضَعُ خِمَارَہَا عِنْدَ أَخِیہَا قَالَ وَاللَّہِ مَا لَہَا ذَاکَ۔
(١٧٥٦٨) حضرت حسن (رض) سے سوال کیا گیا کہ کیا عورت اپنے بھائی کے سامنے اپنا دوپٹہ اتار سکتی ہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ خدا کی قسم ! وہ ایسا نہیں کرسکتی۔

17568

(۱۷۵۶۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ عَامِرٍ أَنَّہُ کَرِہَ أَنْ یَنْظُرَ إلَی شَعَرِ کُلِّ ذِی مَحْرَمٍ۔
(١٧٥٦٩) حضرت عامر (رض) فرماتے ہیں کہ ہر ذی محرم عورت کے بال دیکھنا بھی مکروہ ہے۔

17569

(۱۷۵۷۰) حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ مُوَرِّقٍ أَنَّہُ کَانَ یُفَلِّی أُمَّہُ۔
(١٧٥٧٠) حضرت مورق (رض) کے بارے میں منقول ہے کہ وہ اپنی والدہ کی چٹیاں کیا کرتے تھے۔

17570

(۱۷۵۷۱) حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ ، عَنْ أَبِیہِ أَنَّ طَلْقًا کَانَ یُذَوِّبُ أُمَّہُ۔
(١٧٥٧١) حضرت طلق (رض) اپنی والدہ کی چٹیاں کیا کرتے تھے۔

17571

(۱۷۵۷۲) حَدَّثَنَا وکیع عن شریک عن رجل عن الضحاک أنہ کان یمشط أمہ۔
(١٧٥٧٢) حضرت ضحاک (رض) اپنی والدہ کی کنگھی کیا کرتے تھے۔

17572

(۱۷۵۷۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إسْرَائِیلَ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ عَامِرٍ أَنَّہُ قَالَ : لاَ بَأْسَ أَنْ یَنْظُرَ إلَی شَعْرِ أُمِّہِ وَأَنْ تَسْتَتِرَ أَحَبُّ إلَیَّ۔
(١٧٥٧٣) حضرت عامر (رض) فرماتے ہیں کہ والدہ کے بال دیکھنے میں کوئی حرج نہیں اور اگر بالوں کو چھپایا جائے تو زیادہ بہت رہے۔

17573

(۱۷۵۷۴) حَدَّثَنَا یَعْلَی ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ مُزَاحِمِ بْنِ زُفَرَ ، عَنِ الضَّحَّاکِ قَالَ : لَوْ دَخَلْتُ عَلَی أُمِّی لَقُلْت : أَیَّتُہَا الْعَجُوزُ ، غَطِّی رَأْسَک۔
(١٧٥٧٤) حضرت ضحاک فرماتے ہیں کہ بہتر ہے کہ جب میں اپنی ماں کے پاس جاؤ ں تو کہوں اے اماں ! سر ڈھانپ لے۔

17574

(۱۷۵۷۵) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِی حَفْصَۃَ ، عَنْ مُنْذِرٍ ، عَنِ ابْنِ الْحَنَفِیَّۃِ أَنَّہُ کَانَ یُذَوِّبُ أُمَّہُ۔
(١٧٥٧٥) حضرت ابن الحنفیہ (رض) اپنی والدہ کی چٹیاں کیا کرتے تھے۔

17575

(۱۷۵۷۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ مُزَاحِمٍ ، عَنِ الضَّحَّاکِ قَالَ: لَوْ دَخَلْتُ عَلَی أُمِّی لَقُلْت : غَطِّی رَأْسَکِ۔
(١٧٥٧٦) حضرت ضحاک (رض) فرماتے ہیں کہ بہتر ہے کہ جب میں اپنی ماں کے پاس جاؤ ں تو کہوں اے اماں ! سر ڈھانپ لے۔

17576

(۱۷۵۷۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، وَابْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ أَبِی الزَّعْرَائِ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ قَالَ : مُبَاشَرَۃُ الرَّجُلِ أُخْتَہُ أو أُمَّہُ شُعْبَۃٌ مِنَ الزِّنَا۔
(١٧٥٧٧) حضرت عکرمہ (رض) فرماتے ہیں کہ آدمی کی جلد کا اپنی بہن یا ماں کی جلد کو چھونا زنا کا ایک حصہ ہے۔ (یہاں باب میں لفظ یباشر سے مراد جلد کا جلد کو چھونا ہے، مباشرت مروجہ مراد نہیں۔ نیز پاؤں اور ہتھیلیوں وغیرہ کو چھونا بھی مراد نہیں)

17577

(۱۷۵۷۸) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِیٍّ قَالَ : کَانَ الْحَسَنُ وَالْحُسَیْنُ لاَ یَرَیَانِ أُمَّہَاتِ الْمُؤْمِنِینَ ، وَکَانَ ابْنُ عَبَّاسٍ یَرَی أَنَّ رُؤْیَتَہُنَّ لَہُمَا حِلٌّ۔
(١٧٥٧٨) حضرت محمد بن علی (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت حسن اور حضرت حسین (رض) امہات المومنین (رض) کو نہیں دیکھا کرتے تھے، جبکہ حضرت عبداللہ بن عباس (رض) ان کے لیے امہات المؤمنین کودیکھناجائز سمجھتے تھے۔

17578

(۱۷۵۷۹) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ أَیُّوبَ قَالَ : قُلْتُ لِسَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ أَیَرَی الرَّجُلُ رَأْسَ خَتَِنَتِہِ قَالَ : فَتَلاَ عَلَیَّ الآیَۃَ: {وَلاَ یُبْدِینَ زِینَتَہُنَّ إلاَّ لِبُعُولَتِہِنَّ ، أَوْ آبَائِہِنَّ ، أَوْ آبَائِ بُعُولَتِہِنَّ ، أَوْ أَبْنَائِہِنَّ ، أَوْ أَبْنَائِ بُعُولَتِہِنَّ ، أَوْ إخْوَانِہِنَّ ، أَوْ بَنِی إخْوَانِہِنَّ ، أَوْ بَنِی أَخَوَاتِہِنَّ} الآیَۃَ ، فَقَالَ : أَرَاہَا فِیہِنَّ۔
(١٧٥٧٩) حضرت ایوب (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت سعید بن جبیر (رض) سے سوال کیا کہ کیا آدمی اپنی ساس کے سر کو دیکھ سکتا ہے تو انھوں نے جواب میں یہ آیت پڑھی (ترجمہ) وہ اپنی زینت ظاہر نہ کریں سوائے اپنے شوہروں کے، اپنے سسروں کے، اپنے بیٹوں کے، اپنے خاوند کے بیٹوں کے، اپنے بھائیوں کے، اپنے بھائیوں کے بیٹوں کے، یا اپنی بہنوں کے بیٹوں کے۔ پھر فرمایا کہ کیا تو اسے ان میں دیکھتا ہے۔

17579

(۱۷۵۸۰) حَدَّثَنَا عَفَّانُ قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ قَالَ : أَخْبَرَنَا دَاوُد ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، وَعِکْرِمَۃَ فِی ہَذِہِ : {وَلاَ یُبْدِینَ زِینَتَہُنَّ إلاَّ لِبُعُولَتِہِنَّ ، أَوْ آبَائِہِنَّ ، أَوْ آبَائِ بُعُولَتِہِنَّ} حَتَّی فَرَغَ مِنْہَا قَالاَ : لَمْ یُذْکَرَ الْعَمُّ وَالْخَالُ لأَنَّہُمَا ینعتان لأَبْنَائِہِمَا وَقَالاَ : لاَ تَضَعُ خِمَارَہَا عِنْدَ الْعَمِّ وَالْخَالِ۔
(١٧٥٨٠) حضرت شعبی اور حضرت عکرمہ (رض) قرآن مجید کی آیت { وَلاَ یُبْدِینَ زِینَتَہُنَّ إلاَّ لِبُعُولَتِہِنَّ ، أَوْ آبَائِہِنَّ ، أَوْ آبَائِ بُعُولَتِہِنَّ } (الی آخر الآیۃ) کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اس میں چچا اور ماموں کا تذکرہ نہیں ہے، اس لیے کہ یہ دونوں اپنے بیٹوں کے تذکرے میں آگئے، اور فرمایا کہ عورت چچا اور ماموں کے سامنے اپنا دوپٹہ نہ اتارے۔

17580

(۱۷۵۸۱) حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ العَوَّامِ ، عَنْ صَخْرِ بْنُ جُوَیْرِیَۃَ ، عَنْ نَافِعٍ أَنَّ ابْنَ عُمَرَ سُئِلَ عَنِ امْرَأَۃٍ أَحَلَّتْ جَارِیَتَہَا لِزَوْجِہَا ، فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ لاَ أَدْرِی ، لَعَلَّ ہَذَا لَوْ کَانَ عَلَی عَہْدِ عُمَرَ لَرَجَمَہُ ، إنَّہَا لاَ تَحِلُّ لَکَ جَارِیَۃٌ إلاَّ جَارِیَۃً إِنْ شِئْتَ بِعْتہَا ، وَإِنْ شِئْتَ أَعْتَقْتہَا ، وَإِنْ شِئْتَ وَہَبْتہَا ، وَإِنْ شِئْتَ أَنْکَحْتہَا مَنْ شِئْت۔
(١٧٥٨١) حضرت نافع (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عمر (رض) سے سوال کیا گیا کہ کیا کوئی عورت اپنی باندی کو اپنے خاوند کے لیے حلال قرار دے سکتی ہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ مجھے نہیں معلوم، لیکن اگر حضرت عمر (رض) کا زمانہ ہوتا تو وہ اسے سنگسار کرنے کا حکم دیتے، تیرے لیے صرف وہی باندی حلال ہے جسے تو اپنے مرضی سے بیچ سکے اور اپنی مرضی سے آزاد کرسکے، اگر چاہے تو اسے ہبہ کرسکے اور اگر چاہے تو اس سے نکاح کرسکے۔

17581

(۱۷۵۸۲) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَجْلاَنَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ : لاَ یَحِلُّ فَرْجٌ إلاَّ بِمِلْکٍ ، أَوْ نِکَاحٍ ، إِنْ طَلَّقَ جَازَ ، وَإِنْ أَعْتَقَ جَازَ ، وَإِنْ وَہَبَ جَازَ۔
(١٧٥٨٢) حضرت ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ فرج کی حلت مکمل ملکیت یا نکاح سے ثابت ہوتی ہے، کہ اگر چاہے تو طلاق دے دے، اگر چاہے تو آزاد کردے اور اگر چاہے تو ہبہ کردے۔

17582

(۱۷۵۸۳) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالَ : سَأَلْتُہ عَنِ امْرَأَۃٍ تُحِلُّ وَلِیدَتَہَا لابْنِہَا قَالَ : لاَ تَحِلُّ لَہُ إلاَّ بِنِکَاحٍ ، أَوْ بِہِبَۃٍ ، أَوْ بِشِرَائٍ۔
(١٧٥٨٣) حضرت مغیرہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابراہیم (رض) سے سوال کیا کہ کیا عورت کی باندی اس کے بیٹے کے لیے حلال ہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ حلت نکاح، ہبہ یا خریدنے سے ثابت ہوتی ہے۔

17583

(۱۷۵۸۴) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الْحَسَنِ قَالَ : لاَ یُعَارُ الْفَرْجُ ، وَإِنْ وَقَعَ عَلَیْہَا فَہِیَ لَہُ۔
(١٧٥٨٤) حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ فرج عاریۃً نہیں لیا جاتا اگر مالک کی اجازت سے کسی نے جماع کیا تو وہ اسی کی ہوگئی۔

17584

(۱۷۵۸۵) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ ، عَنْ عَطَائٍ فِی الرَّجُلِ قَالَ لآخَرَ : جَارِیَتِی لَکَ تَطَؤُہَا فَإِنْ حَمَلَتْ فَہِیَ لَکَ ، وَإِنْ لَمْ تَحْمِلْ رَدَدْتہَا عَلَیَّ ، قَالَ : إذَا وَطِئَہَا فَہِیَ لَہُ۔
(١٧٥٨٥) حضرت عطائ (رض) فرماتے ہیں کہ اگر ایک آدمی نے دوسرے سے کہا کہ تو میری باندی سے جماع کرلے، اگر وہ حاملہ ہوگئی تو تیری اور اگر حاملہ نہ ہوئی تو مجھے واپس کردینا۔ اس صورت میں اگر اس آدمی نے اس سے وطی کی تو وہ اسی کی ہوجائے گی۔

17585

(۱۷۵۸۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنِ ابْنِ أَبِی لَیْلَی ، عَنِ الْحَکَمِ وَعَنِ الشَّیْبَانِیِّ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ قَالاَ : إذَا أُحِلَّ لَہُ فَرْجُہَا فَہِیَ لَہُ۔
(١٧٥٨٦) حضرت شعبی (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کسی نے باندی کی فرج کسی کے لیے حلال کیا تو وہ اسی کی ہوگئی۔

17586

(۱۷۵۸۷) حَدَّثَنَا حُمَیْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ حَسَنٍ ، عَنْ مُطَرِّفٍ ، عَنْ رَجُلٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ فِی امْرَأَۃٍ أَحَلَّتْ لِرَجُلٍ جَارِیَتَہَا فَوَلَدَتْ مِنْہُ ، فَقَالَ إبْرَاہِیمُ : ہَذَا فَرْجٌ أَتَاہُ بِجَہَالَۃٍ فَأُلْحِقْ بِہِ الْوَلَدَ وَادْفَعْ إلَی ہَذِہِ وَلِیدَتَہَا۔
(١٧٥٨٧) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ اگر ایک عورت نے اپنی باندی اپنے خاوند کے لیے حلال کردی اور اس جماع سے باندی نے بچے کو جنم دیا تو یہ ایک ایسی شرمگاہ ہے جس پر جہالت کی وجہ سے آیا گیا ہے، بچہ آدمی کا ہوگا اور یہ باندی ام ولد کی حیثیت سے مالکن کو واپس لوٹائی جائے گی۔

17587

(۱۷۵۸۸) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ حُبَابٍ ، عَنْ یَزِیدَ بْنِ إبْرَاہِیمَ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ قَالَ : الْفَرْجُ لاَ یُعَارُ۔
(١٧٥٨٨) حضرت ابن سیرین فرماتے ہیں کہ شرمگاہ عاریۃً نہیں دی جاسکتی۔

17588

(۱۷۵۸۹) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ حُبَابٍ قَالَ : حدَّثَنِی مُوسَی بْنُ خَیْشُومٍ قَالَ سَأَلَ عِکْرِمَۃَ رَجُلٌ قَالَ : أَمَۃٌ لِصَاحِبَتِی أَحَلَّتْہَا لِی قَالَ : لاَ تَحِلُّ لَکَ إلاَّ أَنْ تَمْلِکَ رَقَبَتَہَا۔
(١٧٥٨٩) حضرت عکرمہ (رض) سے کسی آدمی نے سوال کیا کہ کیا میری بیوی کی باندی میرے لیے حلال ہے۔ انھوں نے فرمایا کہ نہیں تمہارے لیے صرف وہ حلال ہے جس کے تم مالک ہو۔

17589

(۱۷۵۹۰) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ ؛ فِی الرَّجُلِ یَقَعُ عَلَی مُکَاتَبَتِہِ قَالَ یَحسبُ لَہَا صَدَاقُ مِثْلِہَا۔
(١٧٥٩٠) حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ اگر آدمی نے اپنی مکاتبہ باندی سے جماع کیا توا سے مہرمثلی ادا کرے گا۔

17590

(۱۷۵۹۱) حَدَّثَنَا ابْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَۃَ ، عَنْ مُطَرِّفٍ ، عَنِ الْحَکَمِ قَالَ : إذَا غَشِیَ مُکَاتَبَتَہُ فَہِیَ أُمُّ وَلَدِہِ۔
(١٧٥٩١) حضرت حکم (رض) فرماتے ہیں کہ اگر مکاتبہ باندی سے جماع کیا تو وہ ام ولد بن جائے گی۔

17591

(۱۷۵۹۲) حَدَّثَنَا ابْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنِ الدَّسْتَوَائِیِّ ، عَنْ قَتَادَۃَ فِی رَجُل وَطِیئَ مُکَاتَبَتَہُ قَالَ إِنْ کَانَ اسْتَکْرَہَہَا فَعَلَیْہِ الْعُقْرُ وَالْحَدُّ ، وَإِنْ کَانَتْ طَاوَعَتْہُ فَعَلَیْہِ الْحَدُّ وَلَیْسَ عَلَیْہِ الْعُقْرُ۔
(١٧٥٩٢) حضرت قتادہ (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کسی شخص نے اپنی مکاتبہ باندی سے جماع کیا، اگر زبردستی کیا تو حد بھی لگے گی عقر (فرج مغصوب کی دیت) بھی دینا ہوگی۔ اور اگر مکاتبہ کی خوشی سے کیا تو حد تو لگے گی لیکن عقر نہیں دے گا۔

17592

(۱۷۵۹۳) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ قَالَ: کَانَ ابْنُ أَبِی لَیْلَی یَقُولُ: تَعُودُ الْمُکَاتَبَۃُ فَتَکُونُ أُمَّ وَلَدٍ یَعْنِی إذَا وَطِئَہَا فَوَلَدَتْ۔
(١٧٥٩٣) حضرت ابن ابی لیلیٰ (رض) فرماتے ہیں کہ اگر مکاتبہ باندی سے وطی کی اور اس کا بچہ ہوگیا تو وہ ام ولد بن جائے گی۔

17593

(۱۷۵۹۴) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ آدَمَ ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَۃَ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ فِی الرَّجُلِ یُکَاتِبُ امْرَأَتَہُ وَیَشْتَرِطُ عَلَیْہَا فِی الْمُکَاتَبَۃِ أَنْ یَطَأَہَا قَالَ : لاَ بَأْسَ بِہِ ، لَہُ شَرْطُہُ وَلَہُ أَنْ یَطَأَہَا۔
(١٧٥٩٤) حضرت سعید بن مسیب (رض) فرماتے ہیں کہ اگر ایک آدمی اپنی باندی کو اس شرط پر مکاتبہ بنائے کہ اس سے وطی کرتا رہے گا تو اس میں کوئی حرج نہیں، شرط برقرار رہے گی اور وہ وطی کرسکتا ہے۔

17594

(۱۷۵۹۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ بْن أَبِی خَالِدٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ فِی رَجُلٍ وَطِیئَ مُکَاتَبَتَہُ ، فَقَالَ : مَا رَقَّ مِنْہَا مہر لِمَا أُعْتِقَ مِنْہَا۔
(١٧٥٩٥) حضرت شعبی (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کسی شخص نے مکاتبہ باندی سے وطی کی تو اس کی باقی ماندہ غلامی اس کی آزادی کا مہر بن جائے گی۔

17595

(۱۷۵۹۶) حدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ قَالَ : لَیْسَ عَلَی زَانٍ عُقْرٌ۔
(١٧٥٩٦) حضرت شعبی (رض) فرماتے ہیں کہ زانی پر عقر (فرج مغصوب کی دیت) نہیں ہے۔

17596

(۱۷۵۹۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ قَالَ : سَأَلْتُ الْحَکَمَ وَحَمَّادًا ، عَنْ عَبْدِ رَجُلٍ اسْتَکْرَہَ حُرَّۃً قَالاَ: لاَ عُقْرَ عَلَیْہِ، لاَ یَضُرُّک حُرَّۃً کَانَتْ ، أَوْ أَمَۃً۔
(١٧٥٩٧) حضرت شعبہ (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت حکم اور حضرت حماد (رض) سے اس غلام کے بارے میں سوال کیا جو کسی آزاد عورت سے زبردستی زنا کرے، کہ اس پر عقر ہوگا یا نہیں ہوگا ؟ انھوں نے فرمایا کہ اس پر عقر نہیں ہے خواہ عورت آزاد ہو یا باندی۔

17597

(۱۷۵۹۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَطَائٍ وَعَنْ رَجُلٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ قَالاَ : إِنْ کَانَتْ بِکْرًا فَالْعُقْرُ وَالْحَدُّ ، وَإِنْ کَانَتْ ثَیِّبًا فَالْحَدُّ۔
(١٧٥٩٨) حضرت عطاء اور حضرت زہری (رض) فرماتے ہیں کہ اگر عورت باکرہ ہو تو عقر اور حد دونوں لازم ہوں گے اور اگر ثیبہ ہو تو صرف حد لگے گی۔

17598

(۱۷۵۹۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ أَبِی حَنِیفَۃَ ، عَنْ حَمَّادٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالَ : لاَ یَجْتَمِعُ حَدٌّ وَلاَ صَدَاقٌ عَلَی زَانٍ۔
(١٧٥٩٩) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ زانی پر حد اور تاوان جمع نہیں ہوسکتے۔

17599

(۱۷۶۰۰) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الْحَکَمِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالَ : إذَا أَوْقَعْتُ عَلَیْہِ الْحَدَّ لَمْ آخُذْ مِنْہُ الْعُقْرَ۔
(١٧٦٠٠) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ اگر حد جاری ہوجائے تو تاوان نہیں لیا جائے گا۔

17600

(۱۷۶۰۱) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنْ یَزِیْدَ بْنِ مُعْنِق قَالَ : قَالَ ابْنُ عُمَرَ : لأَنْ یجعل فِی رَأْسِی مِخْیَطٌ حَتَّی یخبو أَحَبُّ إلَیَّ مِنْ أَنْ تُقَبِّلَ رَأْسِی امْرَأَۃٌ لَیْسَتْ بِمَحْرَمٍ۔
(١٧٦٠١) حضرت ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ میں کوئی سوئی پوری کی پوری اپنے سر میں چبھو دوں مجھے اس بات سے زیادہ پسند ہے کہ کوئی غیر محرم عورت میرے سر کو چومے۔

17601

(۱۷۶۰۲) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالَ : لأَنْ یثقب القمل دِمَاغ رَجُلٍ خَیْرٌ لَہُ مِنْ أَنْ تُفَلیہ امْرَأَۃٌ یَحِلُّ لَہُ نِکَاحُہَا ، قَالَ : وَذَکَرَ أَنَّ امْرَأَۃً کَانَتْ تُفَلِّی مَرَّۃ رَجُلاً فَقَبَّلَتْہُ۔
(١٧٦٠٢) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ کسی آدمی کا دماغ جوؤں سے بھر جائے، یہ اس سے بہتر ہے کہ کوئی غیر محرم عورت اس کے بالوں کی مینڈیاں بنائے۔ انھوں نے ذکر کیا کہ ایک مرتبہ ایک عورت ایک آدمی کی مینڈیاں بنا رہی تھی تو اس نے اس کا بوسہ لے لیا تھا۔

17602

(۱۷۶۰۳) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ غِیَاثٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ الْحَسَنَ یَقُولُ : لاَ یَحِلُّ لِأَمْرَأَۃٍ تَغْسِلُ رَأْسَ رَجُلٍ لَیْسَ بَیْنَہَا وَبَیْنَہُ مَحْرَمٌ۔
(١٧٦٠٣) حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ غیر محرم عورت کے لیے آدمی کا سردھونا درست نہیں۔

17603

(۱۷۶۰۴) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ بَشِیرِ بْنِ عُقْبَۃَ قَالَ : حدَّثَنِی یَزِیدُ بْنُ عَبْدِ اللہِ بْنِ الشِّخِّیرِ ، عَنْ مَعْقِلِ بْنِ یَسَارٍ قَالَ : لأَنْ یَعْمِدَ أَحَدُکُمْ إلَی مِخْیَطٍ فَیَغْرِزُ بِہِ فِی رَأْسِی أَحَبُّ إلَیَّ مِنْ أَنْ تَغْسِلَ رَأْسِی امْرَأَۃٌ لَیْسَتْ مِنِّی ذَاتَ مَحْرَمٍ۔
(١٧٦٠٤) حضرت معقل بن یسار (رض) فرماتے ہیں کہ تم میں کوئی شخص ایک سوئی پوری میرے سر میں چبھو دے یہ مجھے اس بات سے زیادہ پسند ہے کہ کوئی غیر محرم عورت میرے سر کو دھوئے۔

17604

(۱۷۶۰۵) حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، قَالَ : سَمِعْتُ قَتَادَۃَ یَقُولُ : سَافَرْت مَعَ امْرَأَۃٍ إلَی مَکَّۃَ نَصَفَ وَإِنَّ فِیہَا لَبَقیۃً فَکَانَتْ تَغْسِلُ رَأْسِی ، أَوْ تُفَلِّی رَأْسِی۔
(١٧٦٠٥) حضرت شعبہ (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت قتادہ (رض) کو فرماتے ہوئے سنا کہ میں نے ایک عورت کے ساتھ مکہ تک کا سفر کیا، وہ میرا سر دھویا کرتی تھی یا فرمایا کہ وہ میری چٹیاں بنایا کرتی تھی۔

17605

(۱۷۶۰۶) حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ قَیْسِ بْنِ مُسْلِمٍ ، عَنْ طَارِقِ بْنِ شِہَابٍ ، عَنْ أَبِی مُوسَی قَالَ : أَتَیْتُ امْرَأَۃً مِنْ قَوْمِی فَغَسَلَتْ ثِیَابِی وَمَشَطَتْ رَأْسِی۔
(١٧٦٠٦) حضرت ابو موسیٰ (رض) فرماتے ہیں کہ میں اپنی قوم کی ایک عورت کے پاس آیا اس نے میرے کپڑے دھوئے اور میرے سر میں کنگھی کی۔

17606

(۱۷۶۰۷) حدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِی عَدِیٍّ ، عَنْ أَشْعَثَ عَنِ الْحَسَنِ فِی الرَّجُلِ یَتَزَوَّجُ الأَمَۃَ قَالَ : لَیْسَ لَہُ أَنْ یُخْرِجَہَا مِنَ المِصْرِ۔
(١٧٦٠٧) حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص کسی باندی سے شادی کرے تو اسے اس کے شہر سے نہیں نکال سکتا۔

17607

(۱۷۶۰۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ مُبَارَکٍ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ أَبِی کَثِیرٍ ، عَنْ عَطَائٍ وَمَکْحُولٍ قَالاَ : لَیْسَ لَہُمْ بُدٌّ من أَنْ یَسْتَخْدِمُوہَا۔
(١٧٦٠٨) حضرت عطائ (رض) اور حضرت مکحول (رض) فرماتے ہیں کہ مالک کو خدمت کی فراہمی ضروری ہے۔

17608

(۱۷۶۰۹) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ أَیُّوبَ بْنِ مُوسَی ، عَنِ ابْنِ قُسَیْطٍ أَنَّ سعِیدَ بْنَ الْمُسَیَّبِ سُئِلَ عَنْ رَجُلٍ بُشِّرَ بِجَارِیَۃٍ ، فَقَالَ بَعْضُ الْقَوْمِ : ہَبْہَا لِی ، فَقَالَ سَعِیدُ بْنُ الْمُسَیَّبِ ، لَمْ تَحِلَّ الْمَوْہُوبَۃُ لأَحَدٍ بَعْدَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَلَوْ أَصْدَقَہَا سَوْطًا حَلَّتْ لَہُ۔
(١٧٦٠٩) حضرت ابن قسیط (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت سعید بن مسیب (رض) سے سوال کیا گیا کہ ایک آدمی کو بیٹی کی پیدائش کی خبر دی گئی، اس سے ایک آدمی نے کہا کہ اسے میرے لیے ہبہ کرتے ہو ؟ حضرت سعید بن مسیب (رض) نے فرمایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد کسی کے لیے ہبہ شدہ عورت حلال نہیں، اگر وہ اس کو ایک کوڑا (سوط) ہی مہر دے دے تو پھر بھی اس کے لیے حلال ہوجائے گی۔

17609

(۱۷۶۱۰) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنْ زَمْعَۃَ ، عَنِ ابْنِ طَاوُوسٍ ، عَنْ أَبِیہِ قَالَ : لاَ یَحِلُّ لأَحَدٍ أَنْ یَہَبَ ابْنَتَہُ بِغَیْرِ مَہْرٍ إلاَّ لِلنَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔
(١٧٦١٠) حضرت طاؤس (رض) فرماتے ہیں کہ بغیر مہر کے لیے کسی کے لیے اپنی بیٹی کو ہبہ کرنا درست نہیں، یہ صرف نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے تھا۔

17610

(۱۷۶۱۱) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ قَالَ : سَأَلْتُ الْحَکَمَ وَحَمَّادًا ، عَنْ رَجُلٍ وَہَبَ ابْنَتَہُ لِرَجُلٍ فَقَالاَ : لاَ یَجُوزُ إلاَّ بِصَدَاقٍ۔
(١٧٦١١) حضرت شعبہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے حضرت حکم اور حضرت حماد (رض) سے سوال کیا کہ آدمی کا اپنی بیٹی کو کسی آدمی کے لیے ہبہ کرنا کیسا ہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ بغیر مہر کے درست نہیں۔

17611

(۱۷۶۱۲) حَدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ بْنُ عَیَّاشٍ ، عَنْ عُبیدِ اللہِ بْنِ عُبَیْدٍ قَالَ : سُئِلَ مَکْحُولٌ ، عَنِ الرَّجُلِ یَہَبُ أُخْتَہُ ، أَوِ ابْنَتَہُ لِلرَّجُل وَلاَ یَفْرِضُ لَہَا صَدَاقًا ، فَقَالَ مَکْحُولٌ وَالزُّہْرِیُّ : لَمْ تَحِلَّ الْمَوْہُوبَۃُ لأَحَدٍ بَعْدَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔
(١٧٦١٢) حضرت مکحول (رض) سے سوال کیا گیا کہ آدمی اپنی بیٹی یا بہن کو کسی کے لیے ہبہ کرسکتا ہے کہ مہر معاف کردے ؟ حضرت مکحول اور حضرت زہری (رض) نے فرمایا کہ موہوبہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد کسی کے لیے حلال نہیں ہے۔

17612

(۱۷۶۱۳) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سَالِمٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ قَالَ : أَیُّمَا امْرَأَۃٍ وَہَبَہَا أَبُوہَا لِرَجُلٍ ، أَوْ وَہَبَتْ نَفْسَہَا لِرَجُلٍ فَلَہَا مہر مِثْلُہَا إِنْ دَخَلَ بِہَا ، وَإِلاَّ فَإِنَّمَا عَلَیْہِ الْمُتْعَۃُ إِنْ طَلَّقَہَا قَبْلَ أَنْ یَدْخُلَ بِہَا۔
(١٧٦١٣) حضرت شعبی (رض) فرماتے ہیں کہ ہر وہ عورت جس نے خود کو کسی کے لیے ہبہ کردیا یا اس کے باپ نے اسے کسی کے لیے ہبہ کردیا تو ایسی عورت کو مہر مثلی ملے گا اگر دخول کیا اور اگر دخول نہ کیا اور دخول سے پہلے طلاق دے دی تو اسے متعہ ملے گا۔

17613

(۱۷۶۱۴) حَدَّثَنَا عَبِیْدَۃُ بْنُ حُمَیْدٍ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ قَالَ : سُئِلَ عَطَائٌ ، عَنِ امْرَأَۃٍ وَہَبَتْ نَفْسَہَا لِرَجُلٍ قَالَ : لاَ یَکُونُ إلاَّ بِصَدَاقٍ۔
(١٧٦١٤) حضرت عطائ (رض) سے سوال کیا گیا کہ عورت کا اپنے آپ کو کسی مرد کے لیے ہبہ کرنا کیسا ہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ بغیر مہر کے درست نہیں۔

17614

(۱۷۶۱۵) حَدَّثَنَا عَبدَۃ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ عَائِشَۃَ أَنَّہَا قَالَتْ : مَا تَسْتَحِی امْرَأَۃٌ أَنْ تَہَبَ نَفْسَہَا لِرَجُلٍ حَتَّی أَنْزَلَ اللَّہُ تَعَالَی : {تُرْجِی مَنْ تَشَائُ مِنْہُنَّ وَتُؤْوِی إلَیْک مَنْ تَشَائُ} قَالَتْ : فَقُلْتُ: إنَّ رَبَّک لَیُسَارِعُ لَکَ فِی ہَوَاک۔ (بخاری ۵۱۱۳۔ مسلم ۵۰)
(١٧٦١٥) حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ عورت اس بات سے نہیں شرماتی کہ اپنے آپ کو کسی مرد کے لے ہبہ کردے، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی { تُرْجِی مَنْ تَشَائُ مِنْہُنَّ وَتُؤْوِی إلَیْک مَنْ تَشَائُ } حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ اس آیت کے نزول کے بعد میں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا کہ آپ کا رب آپ کی خواہش پورا کرنے میں جلدی کرتا ہے۔

17615

(۱۷۶۱۶) حَدَّثَنَا یَعْلَی بْنُ عُبَیْدٍ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ ، عَنْ عَطَائٍ فِی امْرَأَۃٍ وَہَبَتْ نَفْسَہَا لِرجُلٍ ، فَقَالَ : لاَ یَصْلُحُ إلاَّ بِصَدَاقٍ ، لَمْ یَکُنْ ذَلِکَ إلاَّ لِلنَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔
(١٧٦١٦) حضرت عطائ (رض) فرماتے ہیں کہ عورت کا اپنے آپ کو کسی مرد کے لیے ہبہ کرنا بغیر مہر کے درست نہیں، یہ نبی پاک (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خصوصیت ہے۔

17616

(۱۷۶۱۷) حَدَّثَنَا ہُشَیْم ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ فِیْمَنْ تَزَوَّجَ ذَاتَ مَحْرَمٍ مِنْہُ فَدَخَلَ بَہَا قَالَ : لَہَا الصَّدَاقُ۔
(١٧٦١٧) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کسی آدمی نے غلطی سے کسی محرم سے شادی کرکے ہمبستری بھی کی تو عورت کو پورا مہر ملے گا۔

17617

(۱۷۶۱۸) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ أنہ قَالَ : لَہَا مَا أَخَذَتْ۔
(١٧٦١٨) حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں جو عورت نے مہر لیا وہ اسی کا ہوگا۔

17618

(۱۷۶۱۹) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ حَمَّادٍ مِثْلَہُ۔
(١٧٦١٩) حضرت حماد (رض) سے بھی یونہی منقول ہے۔

17619

(۱۷۶۲۰) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ قَالَ : لاَ صَدَاقَ لَہَا دَخَلَ بِہَا ، أَوْ لَمْ یَدْخُلْ بِہَا ، أَیَصْدُقُ الرَّجُلُ أُخْتَہُ ، أَوْ أُمَّہُ ؟۔
(١٧٦٢٠) حضرت شعبی (رض) فرماتے ہیں کہ عورت کو مہر نہیں ملے گا خواہ آدمی نے دخول کیا ہو یا نہ کیا ہو۔ کیا آدمی اپنی بہن یا ماں کو مہر دے گا ؟

17620

(۱۷۶۲۱) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِِ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ فِی رَجُلٍ تَزَوَّجَ أُخْتَہُ فِی الرَّضَاعَۃِ وَہُوَ لاَ یَعْلَمُ ثُمَّ عَلِمَ بَعْدَ ذَلِکَ قَالَ : بَطَلَ النِّکَاحُ فَإِنْ دَخَلَ بِہَا فَلَہَا الصَّدَاقُ بِمَا اسْتَحَلَّ مِنْ فَرْجِہَا ، وَإِنْ لَمْ یَکُنْ دَخَلَ بِہَا فُرِّقَ بَیْنَہُمَا وَلاَ صَدَاقَ۔
(١٧٦٢١) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کسی آدمی نے انجانے میں اپنی رضاعی بہن سے شادی کرلی پھر اسے بعد میں علم ہوا تو یہ نکاح باطل ہوگا، اگر دخول کیا تو فرج کو حلال کرنے کی بنا پر مہر لازم ہوگا اور اگر دخول نہ ہوا تو بغیر مہر کے دونوں کے درمیان جدائی کرادی جائے گی۔

17621

(۱۷۶۲۲) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ مَطَرٍ ، عَنِ الْحَکَمِ فِی رَجُلٍ تَزَوَّجَ أُخْتَہُ ، أَوْ أُخْتَ امْرَأَتِہِ مِنَ الرَّضَاعَۃِ فَدَخَلَ بِہَا وَہُوَ لاَ یَشْعُرُ قَالَ : لَہَا الصَّدَاقُ کَامِلاً۔
(١٧٦٢٢) حضرت حکم (رض) فرماتے ہیں کہ اگر ایک شخص نے انجانے میں اپنی سگی یارضاعی بہن سے شادی کی اور پھر دخول بھی کر بیٹھا تو اسے مہر ملے گا۔

17622

(۱۷۶۲۳) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ مَطَرٍ ، عَنِ الْحَسَنِ قَالَ : لَہَا الصَّدَاقُ بما أحدث۔
(١٧٦٢٣) حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ اسے پورا مہر ملے گا۔

17623

(۱۷۶۲۴) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ حَمَّادٍ قَالَ : کُلُّ جِمَاعٍ دُرِئَ فِیہِ الْحَدُّ فَفِیہِ الصَّدَاقُ کَامِلاً۔
(١٧٦٢٤) حضرت حماد (رض) فرماتے ہیں کہ ہر وہ جماع جس میں حد نہ ہو اس میں پورا مہر ہوتا ہے۔

17624

(۱۷۶۲۵) حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنِ ابْنِ طَاوُوسٍ ، عَنْ أَبِیہِ فِی رَجُلٍ تَزَوَّجَ امْرَأَۃً فَإِذَا ہِیَ أُخْتُہُ مِنَ الرَّضَاعَۃِ فَأَصَابَہَا وَلَمْ یَشْعُرْ بِہَا قَالَ : یُفَرَّقُ بَیْنَہُمَا وَلَیْسَ لَہَا الصَّدَاقُ کُلُّہُ ، لَہَا بَعْضُہُ۔
(١٧٦٢٥) حضرت طاؤس (رض) فرماتے ہیں کہ اگر ایک آدمی نے انجانے میں اپنی رضاعی بہن سے شادی کرلی اور اس سے جماع بھی کر بیٹھا تو دونوں کے درمیان جدائی کرائی جائے گی، اور عورت کو پورا مہر نہیں ملے گا بلکہ کچھ حصہ ملے گا۔

17625

(۱۷۶۲۶) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إِبْرَاہِیْمَ ، عَنِ الأَسْوَدِ ، عَنْ عَائِشَۃَ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ تَزَوَّجَہَا وَہِیَ ابْنَۃُ تِسْعٍ وَمَاتَ عَنْہَا وَہِیَ ابْنَۃُ ثَمَانَ عَشَرَۃَ۔ (مسلم ۷۲۔ احمد ۴۲)
(١٧٦٢٦) حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے نو سال کی عمر میں نکاح فرمایا اور جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا وصال ہوا تو ان کی عمر اٹھارہ سال تھی۔

17626

(۱۷۶۲۷) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنْ أَبِیہِ أَنَّ الزُّبَیْرَ زَوَّجَ ابْنَۃً لَہُ صَغِیرَۃً حِینَ نُفِسَتْ یَعْنِی حِینَ وُلِدَتْ۔
(١٧٦٢٧) حضرت عروہ (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت زبیر (رض) نے اپنی ایک بیٹی کی شادی اس وقت کرادی تھی جب وہ پیدا ہوئی تھی۔

17627

(۱۷۶۲۸) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنْ أَبِیہِ أَنَّہُ زَوَّجَ ابْنًا لَہُ ابْنَۃً لِمُصْعَبٍ صَغِیرَۃً۔
(١٧٦٢٨) حضرت ہشام (رض) فرماتے ہیں کہ ان کے والد نے اپنے ایک بیٹے کی شادی حضرت مصعب (رض) کی ایک نابالغ بیٹی سے کرائی تھی۔

17628

(۱۷۶۲۹) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، أَنَّ عُمَرَ خَطَبَ إلَی عَلِیٍّ ابْنَتَہُ أُمَّ کُلْثُومٍ ، فَقَالَ عَلِیٌّ : إنَّہَا صَغِیرَۃٌ فَانْظُرْ إلَیْہَا ، فَأَرْسَلَہَا إلَیْہِ بِرِسَالَۃٍ فَمَازَحَہَا ، فَقَالَتْ : لَوْلاَ أَنَّک شَیْخٌ ، أَوْ لَوْلاَ أَنَّک أَمِیرُ الْمُؤْمِنِینَ فَأَعْجَبَ عُمَرَ مُصَاہَرَتُہُ فَخَطَبَہَا فَأَنْکَحَہَا إیَّاہُ۔
(١٧٦٢٩) حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے حضرت علی (رض) کی صاحبزادی حضرت ام کلثوم (رض) سے نکاح کی خواہش کا اظہار کیا تو حضرت علی (رض) نے فرمایا کہ وہ تو چھوٹی ہے۔ پھر انھوں نے حضرت ام کلثوم (رض) کی طرف ایک پیغام بھیجا جن میں ان سے مزاح کیا، انھوں نے جواب میں کہا کہ اگر آپ بوڑھے نہ ہوتے یا اگر آپ امیر المؤمنین نہ ہوتے، حضرت عمر (رض) کو حضرت علی (رض) سے مصاہرت کا رشتہ پسند تھا، چنانچہ انھوں نے پھر نکاح کا پیغام بھیجا اور حضرت علی (رض) نے ان سے نکاح کرادیا۔

17629

(۱۷۶۳۰) حَدَّثَنَا الضَّحَّاکُ بْنُ مَخْلَدٍ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ، عَنِ ابْنِ طَاوُوسٍ، عَنْ أَبِیہِ أَنَّہُ کَانَ یَکْرَہُ نِکَاحَ الصَّغِیرَیْنِ۔
(١٧٦٣٠) حضرت طاوس (رض) دو نابالغ بچوں کے نکاح کو مکروہ خیال فرماتے تھے۔

17630

(۱۷۶۳۱) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ یُونُسَ قَالَ : کَانَ الحسن لاَ یُعْجِبُہُ نِکَاحُ الصِّغَارِ۔
(١٧٦٣١) حضرت حسن (رض) کو نابالغ بچوں کا نکاح پسند نہیں تھا۔

17631

(۱۷۶۳۲) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بِنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ یَزِیْدَ بِنْ أَبِی زِیَادٍ ، عَنْ زَیْدٍ بِنْ وَہْبٍ قَالَ : کَتَبَ إلَیْنَا عُمَرُ إِنَّ الأَعْرَابِیَّ لاَ یَنْکِحُ الْمُہَاجِرَۃَ ، یُخْرِجَہَا مِنْ دَارِ الْہِجْرَۃِ۔
(١٧٦٣٢) حضرت زید بن وہب (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے ہماری طرف خط لکھا کہ کوئی دیہاتی کسی مہاجرہ عورت سے نکاح نہ کرے کہ اسے دار ہجرت سے نکال دے۔

17632

(۱۷۶۳۳) حَدَّثَنَا عَبَّادُ بِنَ العَوَّامِ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ الحَسَنِ أَنَّہُ کَرِہَ أَنْ یَتَزَوَّجَ الأَعْرَابِیُّ المُہَاجِرَۃَ۔
(١٧٦٣٣) حضرت حسن (رض) اس بات کو مکروہ خیال فرماتے تھے کہ دیہاتی کسی مہاجرہ سے نکاح کرے۔

17633

(۱۷۶۳۴) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ ، عَنْ مُحَمَّدٍ بِنْ سَالِمٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ أَنَّہُ کَرِہَ أَنْ یَتَزَوَّجَ الأَعْرَابِیُّ المُہَاجِرَۃَ لِیُخْرِجَہَا مِنَ المِصْرِ۔
(١٧٦٣٤) حضرت شعبی (رض) اس بات کو مکروہ خیال فرماتے ہیں کہ کوئی دیہاتی کسی مہاجرہ سے نکاح کرے تاکہ اسے شہر سے لے جائے۔

17634

(۱۷۶۳۵) حَدَّثَنَا عَبِیْدَۃُ بِنْ حُمَیْدٍ ، عَنِ الرَّکِیْنِ ، عَنْ أَبِیہِ قَالَ : خَطَبَ مَنْظُوْرُ بِنْ زَبَّان إِلَی خَالِہِ وَکَانَا حَاجَّیْنِ ، أَوْ مُعْتَمِرَیْنِ فَقَالَ : نَعَمْ إَذَا رَجَعْتُ أَنْکَحْتُکَ ، فَخَرَجَ إِلَیْہَا أَخُوْہَاَ ابْنُ أُمِّہَا وَأَبِیْہَا فَأَنْکَحَہَا ابْنَ خَالِہَا فَقَدِمَ وَقَد أنکحت ، فَغَضِبَ أَبُوہَا غَضَبًا شَدِیْدًا وَقَالَ : إِنِّی أبرأ إِلَی اللہِ مِنْ ہَذَا النِّکَاحِ ، إِنِّی سَمِعْتُ عُمَرَ یَقُوْلُ : لاَ یُنْکَحُ المُہَاجِرَاتُ الأَعْرَابَ۔
(١٧٦٣٥) حضرت رکین (رض) کے والد فرماتے ہیں کہ منظور بن زبان نے اپنے ماموں سے رشتہ مانگا۔ (اس وقت وہ دونوں حج یاعمرے میں تھے) انھوں نے جواب میں کہا کہ ٹھیک ہے جب میں واپس لوٹوں گا تو تمہارا نکاح کرادوں گا، ادھر اس لڑکی کے سگے بھائی نے اپنے ماموں زاد سے اس لڑکی کا نکاح کرادیا جس کا رشتہ اس کے باپ نے وہاں طے کیا تھا، جب وہ واپس آئے تو لڑکی کا نکاح ہوچکا تھا، وہ اس صورت حال کو دیکھ کر بہت ناراض ہوئے اور کہا کہ میں اس نکاح سے بالکل بری ہوں۔ میں نے حضرت عمر (رض) کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ مہاجرات کا نکاح دیہاتیوں سے نہیں کرایا جاسکتا۔

17635

(۱۷۶۳۶) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیس ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عن الزہری ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الشَّرِیدِ قَالَ : سُئِلَ ابْنُ عَبَّاسٍ ، عَنْ رَجُلٍ لَہُ امْرَأَۃٌ وَسُرِّیَّۃٌ ولدت إحْدَاہُمَا غُلاَمًا وَأَرْضَعَتْ إحْدَاہُمَا جَارِیَۃً ہَلْ یَصْلُحُ لِلْغُلاَمِ أَنْ یَتَزَوَّجَ الْجَارِیَۃَ ؟ قَالَ : لاَ ، اللِّقَاحُ وَاحِدٌ۔
(١٧٦٣٦) حضرت عمرو بن شرید (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عباس (رض) سے سوال کیا گیا کہ اگر ایک آدمی کی ایک بیوی اور ایک باندی ہو، ان میں سے ایک کسی لڑکے کو جنم دے اور دوسری کسی لڑکی کو دودھ پلائے تو کیا اس لڑکے کا دودھ پینے والی لڑکی سے نکاح درست ہے ؟ انھوں نے فرمایا نہیں، کیونکہ دونوں میں دودھ کے اترنے کا سبب ایک مرد ہے۔

17636

(۱۷۶۳۷) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنِ الْحَکَمِ ، عَنْ مُجَاہِدٍ أَنَّہُ کَرِہَ لَبَنَ الْفَحْلِ وَکَرِہَ قَوْلَ إبْرَاہِیمَ فِیہِ۔
(١٧٦٣٧) حضرت مجاہد (رض) کے نزدیک کسی عورت کے دودھ اترنے کا سبب بننے والا مرد بھی شرعی حیثیت رکھتا ہے۔

17637

(۱۷۶۳۸) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، وَابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ أَنَّہُ کَرِہَہُ یَعْنِی لَبَنَ الْفَحْلِ۔
(١٧٦٣٨) حضرت حسن (رض) کے نزدیک کسی عورت کے دودھ اترنے کا سبب بننے والا مرد بھی شرعی حیثیت رکھتا ہے۔

17638

(۱۷۶۳۹) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ سَبْرَۃَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، أَنَّہُ کَرِہَہُ۔
(١٧٦٣٩) حضرت شعبی (رض) کے نزدیک کسی عورت کے دودھ اترنے کا سبب بننے والا مرد بھی شرعی حیثیت رکھتا ہے۔

17639

(۱۷۶۴۰) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَطَائٍ قَالَ : کَانَ یَرَی لَبَنَ الْفَحْلِ یُحَرِّم۔
(١٧٦٤٠) حضرت عطائ (رض) فرماتے ہیں کہ نزدیک کسی عورت کے دودھ اترنے کا سبب بننے والا مرد بھی حرمت کو ثابت کرتا ہے۔

17640

(۱۷۶۴۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سفیان ، عَنْ خُصَیْفٍ ، عَنْ سَالِمٍ أنَّہُ کَرِہَہُ۔
(١٧٦٤١) حضرت سالم (رض) کے نزدیک کسی عورت کے دودھ اترنے کا سبب بننے والا مرد بھی شرعی حیثیت رکھتا ہے۔

17641

(۱۷۶۴۲) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ عَبَّادِ بْنِ مَنْصُورٍ قَالَ : سَأَلْتُ الْقَاسِمَ بْنَ مُحَمَّدٍ : قُلْتُ امْرَأَۃ أَبِی أَرْضَعَتْ جَارِیَۃً مِنْ عَرَضِ النَّاسِ بِلِبَانِ إخْوَتِی مِنْ أَبِی ، تَحِلُّ لِی ؟ قَالَ : لاَ ، أَبُوک أَبُوہَا ، وَسَأَلْت طَاوُوسًا ، فَقَالَ مِثْلَ ذَلِکَ وَسَأَلْت الْحَسَنَ ، فَقَالَ مِثْلَ ذَلِکَ وَسَأَلْت مُجَاہِدًا ، فَقَالَ : اخْتَلَفَ فِیہِ النَّاسُ وَلاَ أَقُولُ فِیہَا شَیْئًا وَسَأَلْت ابْنَ سِیرِینَ ، فَقَالَ مِثْلَ قَوْلِ مُجَاہِدٍ۔
(١٧٦٤٢) حضرت عباد بن منصور (رض) کہتے ہیں کہ میں نے حضرت قاسم بن محمد (رض) سے سوال کیا کہ میرے والد کی بیوی نے ایک لڑکی کو میری باپ شریک بہن کے حصے کا دودھ پلایا، کیا وہ لڑکی میرے لیے حلال ہے ؟ انھوں نے فرمایا نہیں، تیرا باپ اس کا باپ ہے۔ میں نے یہی سوال حضرت طاوس (رض) کیا انھوں نے بھی یہی فرمایا۔ یہ سوال میں نے حضرت حسن (رض) سے کیا انھوں نے بھی یہی فرمایا۔ یہ سوال میں نے حضرت مجاہد (رض) سے کیا انھوں نے فرمایا کہ اس میں اہل علم کا اختلاف ہے۔ میں اس میں کوئی بات نہیں کہتا۔ میں نے ابن سیرین (رض) سے یہ سوال کیا تو انھوں نے بھی حضرت مجاہد (رض) والی بات کہی۔

17642

(۱۷۶۴۳) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ أَیُّوبَ قَالَ : ذَکَرْت ذَلِکَ لِمُحَمَّدِ بْنِ سِیرِینَ ، فَقَالَ نُبِّئْت أَنَّ أُنَاسًا مِنْ أَہْلِ الْمَدِینَۃِ اخْتَلَفُوا فِیہِ فَمِنْہُمْ مَنْ کَرِہَہُ وَمِنْہُمْ مَنْ لَمْ یَکْرَہْہُ وَمَنْ کَرِہَ أَفْضَلُ فِی أَنْفُسِنَا مِمَّنْ لَمْ یَکْرَہْہُ ، وَکَانَ الْقَاسِمُ بْنُ مُحَمَّدٍ فِیمَنْ یَکْرَہُہُ۔
(١٧٦٤٣) حضرت ایوب (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے اس کا تذکرہ حضرت محمد بن سیرین (رض) سے کیا تو انھوں نے فرمایا کہ مجھے بتایا گیا ہے کہ اہل مدینہ کا اس بارے میں اختلاف ہے۔ بعض نے اسے مکروہ بتایا ہے اور بعض کے نزدیک اس کی کوئی حیثیت نہیں۔ جن حضرات نے اسے مکروہ بتایا ہے وہ ہمارے نزدیک زیادہ بہتر ہیں۔ قاسم بن محمد بھی اسے مکروہ بتاتے تھے۔

17643

(۱۷۶۴۴) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ : قدِمَ الزُّہْرِیُّ المدینۃ فِی أَوَّلِ خِلاَفَۃِ ہِشَامٍ فَذَکَرَ أَنَّ عُرْوَۃَ کَانَ یُحَدِّثُ ، عَنْ عَائِشَۃَ أَنَّ أَبَا الْقُعَیْسِ جَائَ یَسْتَأْذِنُ عَلَی عَائِشَۃَ وَقَدْ أَرْضَعَتْہُمَا امْرَأَۃُ أَخِیہِ فَأَبَتْ أَنْ تَأْذَنَ لَہُ فَزَعَمَ عُرْوَۃُ أَنَّ عَائِشَۃَ ذَکَرَتْ ذَلِکَ لِلنَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : فَہَلاَّ أَذِنْت لَہُ ؟ فَإِنَّ الرَّضَاعَۃَ تُحَرِّمُ مَا تُحَرِّمُ الْوِلاَدَۃُ فَفَزِعَ أَہْلُ الْمَدِینَۃِ لِذَلِکَ فَطَلَّقَ عَبْدُ اللہِ بْنُ أَبِی حَبِیبَۃَ مَوْلَی الزُّبَیْرِ امْرَأَتَہُ عِنْدَ ذَلِکَ۔
(١٧٦٤٤) حضرت محمد بن عمرو (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت زہری ہشام (رض) کی خلافت کے ابتدائی دنوں میں مدینہ منورہ آئے اور انھوں نے بیان کیا کہ حضرت عروہ (رض) حضرت عائشہ (رض) کے حوالے سے بیان کرتے ہیں کہ ابو قعیس (رض) حضرت عائشہ (رض) سے ملاقات کے لیے اجازت چاہتے تھے، حضرت عائشہ (رض) اور حضرت ابو قعیس کو ابو قعیس کے بھائی کی بیوی نے دودھ پلایا تھا۔ حضرت عائشہ (رض) نے انھیں اجازت دینے سے انکار کردیا۔ حضرت عروہ (رض) کا خیال ہے کہ حضرت عائشہ (رض) نے اس بات کا تذکرہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کیا تو آپ نے فرمایا کہ تم نے انھیں اجازت کیوں نہیں دی، رضاعت بھی ان چیزوں کو حرام کردیتی ہے جنہیں نسب حرام کرتا ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد سن کر اہل مدینہ گھبرا گئے۔ عبداللہ بن ابی حبیبہ مولی زبیر نے اس موقع پر اپنی بیوی کو طلاق دے دی۔

17644

(۱۷۶۴۵) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ قَالَ : ذُکِرَ لَبَنُ الْفَحْلِ ، فَقَالَ وَقَدْ کَرِہَہُ أُنَاسٌ وَرَخَّصَ فِیہِ أُنَاسٌ ، فَکَانَ مَنْ کَرِہَہُ عِنْدَ النَّاسِ أَفْضَلُ ، وَکَانَ الْقَاسِمُ بْنُ مُحَمَّدٍ مِمَّنْ کَرِہَہُ۔
(١٧٦٤٥) حضرت ہشام (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت محمد بن سیرین (رض) نے ایک مرتبہ دودھ اترنے کا سبب بننے والے مرد کے حکم کا تذکرہ کیا تو فرمایا کہ بعض لوگوں کے نزدیک یہ مکروہ ہے، بعض نے اس کی اجازت دی ہے۔ جن لوگوں نے اسے مکروہ خیال کیا ان کا قول زیادہ بہتر ہے۔ قاسم بن محمد (رض) بھی اسے مکروہ سمجھتے تھے۔

17645

(۱۷۶۴۶) حَدَّثَنَا مَالِکٌ ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ زَیْدٍ ، عَنْ ہِشَامٍ أَنَّ أَبَاہُ کَرِہَ لَبَنَ الْفَحْلِ۔
(١٧٦٤٦) حضرت ہشام (رض) نے دودھ اترنے کا سبب بننے والے مرد کو شرعی حیثیت دی ہے۔

17646

(۱۷۶۴۷) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو ، عَنْ أَبِی عُبَیدَۃَ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ زَمْعَۃَ عَن أُمِہ زَینَب ابنَۃ أَبِی سَلَمَۃَ قَالَت : کَانَتْ أَسْمَائُ أَرْضَعَتْنِی ، وَکَانَ الزُّبَیْرُ یَدْخُلُ عَلَیَّ وَأَنَا أَمْتَشِطُ وَیَأْخُذُ الْقَرْنَ مِنْ قُرُونِی وَیَقُولُ : أَقْبِلِی عَلیَّ فحدثنی بربی أنَّہُ أَبِی وَأن مَا وَلَدَ إخْوَتِی ، فَلَمَّا کَانَ یوم الْحَرَّۃِ أَرْسَلَ عَبْدُ اللہِ بْنُ الزُّبَیْرِ یَخْطُبُ ابْنَتِی عَلَی حَمْزَۃَ بن الزُّبَیْر وَحَمْزَۃُ وَمُصْعَبٌ لِلْکَلْبِیَّۃِ فَأَرْسَلْت إلَیْہِ : ہَلْ تَصْلُحُ لَہُ ؟ فَأَرْسَلَ إلَیَّ : إنَّمَا تُرِیدِینَ مَنْعِی بِنْتَکِ وَأَنَا أَخُوک ، وَمَا وَلَدَتْ أَسْمَائُ فَہُمْ إخْوَتُک وما وَلَدُ الزُّبَیْرِ لِغَیْرِ أَسْمَائَ فَلَیْسَ لَکَ بِإِخْوَۃٍ فَأَرْسِلِی فَسَلِی فَأَرْسَلْتُ فَسَأَلْتُ وَأَصْحَابُ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مُتَوَافِرُونَ وَأُمَّہَاتُ الْمُؤْمِنِینَ فَقَالُوا : إنَّ الرَّضَاعَۃَ مِنْ قِبَلِ الرِّجَالِ لاَ تُحَرِّمُ شَیْئًا۔
(١٧٦٤٧) حضرت زینب بنت ابی سلمہ (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت اسمائ (رض) نے مجھے دودھ پلایا تھا۔ چنانچہ (ان کے خاوند) حضرت زبیر بن عوام (رض) میرے پاس اس وقت تشریف لے آتے جب میں کنگھی کررہی ہوتی اور میری چٹیا کو پکڑ لیتے، اور وہ مجھے اپنی بیٹی سمجھتے ہوئے مجھ سے باتیں کرتے اور وہ اپنے بیٹوں کو میرا بھائی سمجھتے۔ یومِ حرہ کو ان کے بیٹے حضرت عبداللہ بن زبیر (رض) نے حمزہ بن زبیر (رض) کے لیے میری بیٹی کا ہاتھ مانگا۔ حمزہ اور مصعب (حضرت زبیر کے دو بیٹے ، حضرت اسماء کے بیٹے نہ تھے بلکہ ) بنو کلب کی عورت سے تھے۔ میں نے عبداللہ بن زبیر (رض) کو پیغام دیا کہ کیا میری بیٹی کا نکاح ان سے ہوسکتا ہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ کیا تم میری طرف سے بھیجے گئے رشتے کا انکار کررہی ہو حالانکہ میں تمہارا بھائی ہو ؟ جو بچے حضرت اسمائ (رض) سے ہوئے ہیں وہ تمہارے بھائی ہیں اور جو حضرت زبیر (رض) کی کسی اور بیوی سے ہوئے ہیں وہ تمہارے بھائی نہیں ہیں، تم یہ مسئلہ کسی اور سے پوچھ سکتی ہو۔ اس وقت بہت سے صحابہ کرام (رض) اور امہات المومنین (رض) بقیدِ حیات تھے، میں نے ان سے سوال کیا تو سب نے فرمایا کہ مردوں کی طرف سے آنے والی رضاعت کسی چیز کو حرام نہیں کرتی۔

17647

(۱۷۶۴۸) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو ، عَنْ یَزِیدَ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ قُسَیْطٍ قَالَ : سَأَلْتُ أَبَا سَلَمَۃَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ وَسَعِیدَ بْنَ الْمُسَیَّبِ وَعَطَائً وَسُلَیْمَانَ ابْنَی یَسَارٍ ، عَنِ الرَّضَاعَۃِ مِنْ قِبَلِ الرِّجَالِ فَقَالُوا : لاَ تُحَرِّمُ شَیْئًا۔
(١٧٦٤٨) حضرت یزید بن عبداللہ بن قسیط (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے ابو سلمہ بن عبد الرحمن، سعید بن مسیب، عطاء اور حضرت سلیمان بن یسار (رض) سے مردوں کی طرف سے آنے والی رضاعت کے بارے میں سوال کیا تو انھوں نے فرمایا کہ یہ کسی چیز کو حرام نہیں کرتی۔

17648

(۱۷۶۴۹) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ : حدَّثَنِی آل رَافِعِ بْنِ خَدِیجٍ أَنَّ رَافِعَ بْنَ خَدِیجٍ زَوَّجَ ابْنَتَہُ ابْنَ أَخِیہِ رِفَاعَۃَ بْنِ خَدِیجٍ وَقَدْ أَرْضَعَتْہَا أُمُّ وَلَدٍ لَہُ سِوَی أُمِّ ابنہِ الَّذِی أَنْکَحَہَا إیَّاہُ۔
(١٧٦٤٩) حضرت رافع بن خدیج (رض) کی اولاد میں سے ایک شخص بیان کرتے ہیں کہ حضرت رافع بن خدیج (رض) نے اپنی بیٹی کی شادی اپنے بھائی رفاعہ بن خدیج کے بیٹے سے کرائی، حالانکہ اس لڑکی کو ایک ایسی عورت نے دودھ پلایا تھا جو اس لڑکے کی ماں تو نہ تھی لیکن حضرت رفاعہ بن خدیج (رض) کی ایسی باندی تھی جس سے ان کی اولاد بھی ہوئی تھی۔ یعنی اس باندی کے دودھ اترنے کا سبب حضرت رفاعہ (رض) تھے۔

17649

(۱۷۶۵۰) حَدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ وَعَنْ جَابِرٍ ، عَنْ عَامِرٍ أَنَّہُمَا کَانَا لاَ یَرَیَانِ لَبَنَ الْفَحْلِ شَیْئًا۔
(١٧٦٥٠) حضرت عامر (رض) فرماتے ہیں کہ دودھ اترنے کا سبب بننا مرد کو رضاعی باپ نہیں بناتا۔

17650

(۱۷۶۵۱) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ خَالِدٍ ، عَنْ أَبِی قِلاَبَۃَ أَنَّہُ لَمْ یَرَ بِلَبَنِ الْفَحْلِ بَأْسًا۔
(١٧٦٥١) حضرت ابو قلابہ (رض) فرماتے ہیں کہ دودھ اترنے کا سبب بننا مرد کو رضاعی باپ نہیں بناتا۔

17651

(۱۷۶۵۲) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ أَیُّوبَ قَالَ : أَوَّلُ مَا سَمِعْت بِلَبَنِ الْفَحْلِ وَنَحْنُ بِمَکَّۃَ فَجَعَلَ إیَاسُ بْنُ مُعَاوِیَۃَ یَقُولُ : وَمَا بَأْسُ ہَذَا وَمَنْ یَکْرَہُ ہَذَا ؟۔
(١٧٦٥٢) حضرت ایوب (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے پہلی مرتبہ مکہ میں دودھ اترنے کا سبب بننے والی مرد کی حرمت کے بارے میں سنا، تو اس موقع پرایاس بن معاویہ (رض) نے کہنا شروع کیا کہ اس میں کیا حرج ہے ؟ اور اسے کون مکروہ سمجھتا ہے۔

17652

(۱۷۶۵۳) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنِ الْحَکَمِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، أَنَّہُ کَانَ لاَ یَرَی لَبَنَ الْفَحْلِ شَیْئًا۔
(١٧٦٥٣) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ دودھ اترنے کا سبب بننا مرد کو رضاعی باپ نہیں بناتا۔

17653

(۱۷۶۵۴) حَدَّثَنَا عُبَید اللہِ بْنُ مُوسَی ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ رَاشِدٍ ، عَنْ مَکْحُولٍ أَنَّہُ کَانَ لاَ یَرَی بِلَبَنِ الْفَحْلِ بَأْسًا۔
(١٧٦٥٤) حضرت مکحول (رض) فرماتے ہیں کہ دودھ اترنے کا سبب بننا مرد کو رضاعی باپ نہیں بناتا۔

17654

(۱۷۶۵۵) حَدَّثَنَا سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ سَہْلِ بْنِ سَعْدٍ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَرَّقَ بَیْنَ الْمُتَلاَعِنَیْنِ وَقَالَ حسَابُکُمَا عَلَی اللہِ۔ (بخاری ۶۸۵۴۔ ابوداؤد ۲۲۴۵)
(١٧٦٥٥) حضرت سہل بن سعد (رض) فرماتے ہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لعان کرنے والے خاوند بیوی کے درمیان جدائی کرائی اور فرمایا کہ تم دونوں کا حساب اللہ پر ہے۔

17655

(۱۷۶۵۶) حَدَّثَنَا یَزِیدُ ، عَنْ عَبَّادِ بْنِ مَنْصُورٍ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَرَّقَ بَیْنَہُمَا وَقَضَی أَنْ لاَ قُوتَ لَہا عَلَیہ وَلاَ نَفَقَۃَ۔ (ابوداؤد ۲۲۵۰۔ طیالسی ۲۶۶۷)
(١٧٦٥٦) حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لعان کرنے والے میاں بیوی کے درمیان جدائی کرائی اور فیصلہ فرمایا کہ مرد پر عورت کے لیے نہ تو کھانے کا انتظام ہوگا اور نہ نفقہ۔

17656

(۱۷۶۵۷) حَدَّثَنَا حَفْصٌ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ إبْرَاہِیمَ، عَنْ عُمَرَ، قَالَ: الْمُتَلاَعِنَانِ یُفَرَّقُ بَیْنَہُمَا وَلاَ یَجْتَمِعَانِ أَبَدًا۔
(١٧٦٥٧) حضرت عمر (رض) فرماتے ہیں کہ لعان کرنے والے میاں بیوی کے درمیان جدائی کرادی جائے گی اور وہ دونوں کبھی جمع نہیں ہوسکتے۔

17657

(۱۷۶۵۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، عَنْ قَیْسٍ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ زِرٍّ ، عَنْ عَلِیٍّ وعَنْ أَبِی وَائِلٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ قَالاَ: لاَ یَجْتَمِعَا الْمُتَلاَعِنَانِ أَبَدًا۔
(١٧٦٥٨) حضرت علی اور حضرت عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ لعان کرنے والے مرد وعورت کبھی جمع نہیں ہوسکتے۔

17658

(۱۷۶۵۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ مُوسَی بْنِ عُبَیْدَۃَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ : الْمُتَلاَعِنَانِ لاَ یَجْتَمِعَا فِی مِصْرٍ۔
(١٧٦٥٩) حضرت ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ لعان کرنے والے مرد وعورت کبھی ایک شہر میں جمع نہیں ہوسکتے۔

17659

(۱۷۶۶۰) حَدَّثَنَا حَفْصٌ قَالَ : سَأَلْتُ عَمرًا ، فَقَالَ : کَانَ الْحَسَنُ یُفَرِّقُ بَیْنَہُمَا فَلاَ یَجْتَمِعَانِ أَبَدًا۔
(١٧٦٦٠) حضرت حسن (رض) لعان کرنے والے مرد وعورت کے درمیان جدائی کرادیتے تھے اور ان کے پھر کبھی جمع نہ ہونے کے قائل تھے۔

17660

(۱۷۶۶۱) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ عَن مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالَ : إذَا لاَعَنَ الرَّجُلُ امْرَأَتَہُ فُرِّقَ بَیْنَہُمَا فَلاَ یَجْتَمِعَانِ أَبَدًا۔
(١٧٦٦١) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ جب مرد اپنی بیوی سے لعان کرے تو ان کے درمیان جدائی کرادی جائے گی اور وہ دونوں کبھی جمع نہیں ہوں گے۔

17661

(۱۷۶۶۲) حَدَّثَنَا یَزِیدُ ، عَنْ حَبِیبٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ ہَرِمٍ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ زَیْدٍ قَالَ : لاَ یَجْتَمِعَانِ۔
(١٧٦٦٢) حضرت جابر بن زید (رض) فرماتے ہیں کہ لعان کرنے والے مرد وعورت دوبارہ کبھی جمع نہیں ہوسکتے۔

17662

(۱۷۶۶۳) حَدَّثَنَا ابْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنْ زَمْعَۃَ ، عَنِ ابْنِ طَاوُوسٍ ، عَنْ أَبِیہِ قَالَ : لاَ یَجْتَمِعَانِ۔
(١٧٦٦٣) حضرت طاوس (رض) فرماتے ہیں کہ لعان کرنے والے مرد وعورت دوبارہ کبھی جمع نہیں ہوسکتے۔

17663

(۱۷۶۶۴) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، عَنْ حَسَنٍ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ عَطَائٍ قَالَ : لاَ یَجْتَمِعَانِ۔
(١٧٦٦٤) حضرت عطائ (رض) فرماتے ہیں کہ لعان کرنے والے مرد وعورت دوبارہ کبھی جمع نہیں ہوسکتے۔

17664

(۱۷۶۶۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ قَالَ : الْمُتَلاَعِنَانِ لاَ یَجْتَمِعَانِ۔
(١٧٦٦٥) حضرت شعبی (رض) فرماتے ہیں کہ لعان کرنے والے مرد وعورت دوبارہ کبھی جمع نہیں ہوسکتے۔

17665

(۱۷۶۶۶) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ ، عَنِ ابْنِ شِہَابٍ قَالَ : مَضَتِ السُّنَّۃُ أَنَّہُمَا إذَا فُرِّقَ بَیْنَہُمَا لَمْ یَجْتَمِعَا أَبَدًا۔
(١٧٦٦٦) حضرت ابن شہاب (رض) فرماتے ہیں کہ شرعی طریقہ یہی رہا ہے کہ لعان کرنے والے مرد وعورت دوبارہ کبھی جمع نہیں ہوسکتے۔

17666

(۱۷۶۶۷) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ قَالَ : فِی رَجُلٍ لاَعَنَ ثُمَّ أَکْذَبَ نَفْسَہُ فِی الْعِدَّۃِ قَالَ : إذَا لاَعَنَ انْقَطَعَ مَا بَیْنَہُمَا۔
(١٧٦٦٧) حضرت حسن (رض) نے ایک ایسے آدمی کے بارے میں فیصلہ فرمایا جس نے اپنی بیوی کے ساتھ لعان کیا پھر عدت میں اپنی بات سے رجوع کرلیا۔ انھوں نے فرمایا کہ جب لعان کیا تو ان دونوں کے درمیان ہر طرح کا رشتہ ختم ہوگیا۔

17667

(۱۷۶۶۸) حدَّثَنَا حَفْصٌ، عَنْ دَاوُدَ، عَنِ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ فِیَ المُلاَعِنِ یُکَذِّبُ نَفْسَہُ قَالَ: یُضْرَبُ وَہُوَ خَاطِب۔
(١٧٦٦٨) حضرت سعید بن مسیب (رض) فرماتے ہیں کہ اگر لعان کرنے والا مرد اپنے قول سے رجوع کرلے تو اس پر حد جاری ہوگی اور وہ نکاح کا پیام اس عورت کو بھیج سکتا ہے۔

17668

(۱۷۶۶۹) حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ عَیَّاشٍ ، عَنْ مُطَرِّفٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : إِنْ أَکْذَبَ نَفْسَہُ جُلِدَ وَأُلْزِقَ بِہِ الْوَلَدُ وَرُدَّتْ إلَیْہِ امْرَأَتُہُ۔
(١٧٦٦٩) حضرت شعبی (رض) فرماتے ہیں کہ جب لعان کرنے والے نے اپنے آپ کو جھوٹا قرار دے دیا تو اس پر حد جاری ہوگی، بچہ اسی کی طرف منسوب کیا جائے گا اور اس کی بیوی اس کی طرف واپس لوٹا دی جائے گی۔

17669

(۱۷۶۷۰) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ حَمَّادٍ أَنہ سُئِلَ عَنِ الْمُتَلاَعِنَیْنِ ، فَقَالَ : یَتَزَوَّجُہَا إِنْ أَکْذَبَ نَفْسَہُ۔
(١٧٦٧٠) حضرت حماد (رض) سے لعان کرنے والے میاں بیوی کے بارے میں سوال کیا گیا تو انھوں نے فرمایا کہ اگر وہ اپنی تکذیب کردے تو اس سے شادی کرسکتا ہے۔

17670

(۱۷۶۷۱) حدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ، عَنْ عَمْرٍو، عَنْ سَعَیْدِ بِنْ جُبَیْرٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَرَّقَ بَیْنَ المُتَلاَعِنَیْنِ وَقَالَ : حِسَابُکُمَا عَلَی اللہِ ، أَحَدُکُمَا کَاذِبٌ لاَ سَبِیْلَ لَکَ عَلَیْہَا فَقَالَ : یَا رَسُوْلَ اللہِ! فَمَالِی؟ قَالَ: لاَ مَالَ لَکَ ، إِنْ کُنْتَ صَادِقَاً فَہُوَ بِمَا اسْتَحْلَلْتَ مِنْ فَرْجِہَا ، وَإِنْ کُنْتَ کَاذِبَاً فَذَلِکَ أَبْعَدُ لَکَ۔ (بخاری ۵۳۵۰۔ مسلم ۵)
(١٧٦٧١) حضرت ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ نبی پاک (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لعان کرنے والے میاں بیوی کے درمیان جدائی کرائی اور فرمایا کہ تمہارا حساب اللہ کے ذمے ہے، تم میں سے ایک جھوٹا ہے اور اب مرد کا عورت پر کوئی حق نہیں۔ اس پر اس آدمی نے کہا کہ اے اللہ کے رسول ! میرے لیے کیا ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اگر تو سچا ہے تو عورت سے مباشرت کی حلت کے بدلے تیرا مال خرچ ہوگیا اور اگر تو جھوٹا ہے تو پھر تو کسی قسم کا حق باقی نہیں رہا۔

17671

(۱۷۶۷۲) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ دَاوُدَ ، عَنْ سَعِیْدِ بِنِ جُبَیْرٍ أَنَّہُ فَرَّقَ بَیْنَ المُتَلاَعِنَیْنِ قَالَ : فَتَعَلَّقَ بِہَا فَقَالَ : مَالِی ، فَقُلْتُ لاَ مَالَ لَکَ ، قَالَ : فَانْطَلَقَ إِلَی أَبِی بُرْدَۃَ وَقَالَ : یَذْہَبُ مَالِی وَامْرَأَتِی جَمِیعًا ؟ قَالَ : لاَ ، قَالَ : إِنَّ الَّذِی أَمَرْتَہُ أَنْ یُلاَعِنَ بَیْنَنَا قَالَ لاَ شَیْئَ لَکَ ، قَالَ : وَفَعَلَ ذَلِکَ ؟ قَالَ : نَعَمْ! قَالَ : فَجِئْتُ قَالَ : فَقَالَ أَبُو بُرْدَۃَ : مَا یَقُوْلُ ہَذَا ؟ قَالَ : قُلْتُ : وَمَا یَقُوْلُ ؟ قَالَ : یَقُوْلُ : ذَہَبَتِ امْرَأَتُہُ وَمَالُہُ ، قَالَ : قُلْتُ : مَا یَحْمِلُ الفُسَّاقَ عَلَی أَنْ یَزْنُوا ؟ یَتَزَوَّجُ المَرْأَۃَ ثُمَّ یَقْذِفُہَا ثُمَّ یُلاَعِنُہَا ویَأْخُذُ مَالَہُ ؟ قَالَ : فَکَتَبَ بِہِ إِلَی الحَجَّاجِ قَالَ : فَقَالَ : صَدَقَ ، قَالَ : ثُمَّ إِنَّ رَجُلاً أَتَانِی ، قَالَ : فَظَنَنْتُ أَنَّ الحَجَّاجَ أَمَرَہُ ، فَقَالَ : الَّذِی قُلْتَ أَشَیْئٌ قُلْتَہُ بِرَأْیِکَ ، أَوْ شَیْئٌ بَلَغَکَ ؟ قُلْتُ : قَضَی بِہِ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی أُخْتِ بَنِی العَجْلاَن۔ (بخاری ۵۳۴۹۔ مسلم ۴)
(١٧٦٧٢) حضرت داؤد فرماتے ہیں کہ حضرت سعید بن جبیر (رض) نے لعان کرنے والے میاں بیوی کے درمیان جدائی کرادی، آدمی نے سوال کیا کہ میرے مال کا کیا ہوگا ؟ انھوں نے فرمایا کہ تجھے کوئی مال نہیں ملے گا۔ پھر وہ آدمی ابو بردہ (رض) کے پاس گیا اور عرض کیا کہ کیا میرا مال اور میری عورت دونوں گئے ؟ انھوں نے فرمایا نہیں۔ کہا کہ جس شخص نے تجھے لعان کا حکم دیا ہے اس نے کہا ہے کہ تیرے لیے کچھ نہیں ہے۔ کہا کہ کیا اس نے ایسا کیا ہے ؟ کہا ہاں۔ کہا کہ میں گیا۔ کہا کہ ابو بردہ کہتے ہیں کہ یہ کیا کہتا ہے ؟ کہا میں نے کہا کہ وہ کیا کہتا ہے ؟ کہا وہ کہتا ہے کہ اس کی بیوی اور مال دونوں گئے۔ کہا میں نے کہا کہ فاسقوں کو زنا پر کیا چیز آمادہ کرتی ہے ؟ وہ ایک عورت سے شادی کرتا ہے اور پھر اس پر تہمت لگاتا ہے پھر اس سے لعان کرتا ہے اور پھر اپنا مال لے لیتا ہے، یہ بات حجاج کی طرف لکھی گئی تو اس نے کہا اس نے سچ کہا۔ پھر ایک آدمی میرے پاس آیا اور میں یہ سمجھا کہ حجاج نے اسے حکم دیا ہوگا۔ اس نے کہا کہ آپ نے جو بات کی ہے وہ اپنی رائے سے کی ہے یا آپ تک پہنچی ہے۔ میں نے کہا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بنو عجلان کی بہن کے بارے میں اسی کا فیصلہ فرمایا تھا۔

17672

(۱۷۶۷۳) حَدَّثَنَا عِیْسَی بْنُ یُوْنُسَ ، عَنِ الأَوْزَاعِیِّ ، عَنْ یَحْیَی بِنْ أَبِی کَثِیْرٍ أَنَّ عَلِیَّاً أُتِیَ فِیَ امْرَأَۃٍ تَزَوَّجَتْ رَجُلاً عَلَی أَنَّ عَلَیْہَا الصَّدَاقَ وبِیَدِہَا الفُرْقَۃُ والجِمَاعُ ، فَقَالَ عَلِیٌّ : خَالَفْتَ السُّنَّۃَ وَوَلَّیْتَ الأَمْرَ غَیْرَ أَہْلِہِ، عَلَیْکَ الصَّدَاقُ وَبِیَدِکَ الجِمَاعُ والفُرْقَۃُ ، وَلَکَ السُّنَّۃُ۔
(١٧٦٧٣) حضرت یحییٰ بن ابی کثیر (رض) فرماتے ہیں کہ ایک مقدمہ حضرت علی (رض) کے پاس لایا گیا کہ ایک عورت نے کسی آدمی سے اس شرط پر شادی کی کہ مہر عورت کے ذمے ہوگا اور جدائی اور جماع کا اختیار بھی اسی کے پاس ہوگا۔ حضرت علی (رض) نے فرمایا کہ تو نے سنت کی مخالفت کی اور معاملے کا ذمہ دار غیر اہل کو بنایا، مہر تجھ پر ہی ہوگا، جماع اور جدائی کا اختیار بھی تیرے پاس ہوگا، اور تیرے لیے ہی سنت ہے۔

17673

(۱۷۶۷۴) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الحَسَنِ قَالَ : لَیْسَ لِلنِّسَائِ أَنْ یَصْدُقْنَ الرِّجَالَ۔
(١٧٦٧٤) حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ عورتیں مردوں کو مہر نہیں دے سکتیں۔

17674

(۱۷۶۷۵) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ أبِی الدَّرْدَائِ قَالَ : سَأَلْتُ الشَّعْبِیَّ عَنْ رَجُلٍ زَوَّجَ أُخْتَاً لَہُ بِوَاسِطَۃٍ فَکَرِہَتْ قَالَ: ہِیَ أَحَقُّ بِنَفْسِہَا قُلْتُ: إِنَّہُ أَخُوْہَا لأَبِیْہَا وَأُمِّہَا۔ قَالَ: ہِیَ أَحَقُّ بِنَفْسِہَا مِنْ أَبِیْہَا إِذَا کَرِہَتْ۔
(١٧٦٧٥) حضرت حماد بن ابی دردائ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے حضرت شعبی (رض) سے سوال کیا کہ کیا کوئی شخص اپنی بہن کی شادی کراسکتا ہے جبکہ وہ اسے ناپسند کرتی ہو ؟ انھوں نے فرمایا کہ لڑکی اپنے نفس کی اپنے بھائی سے زیادہ حقدار ہے۔ میں نے پوچھا کہ اگر وہ اس کا سگا بھائی ہو تو کیا حکم ہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ لڑکی کو اگر رشتہ ناپسندہو تو وہ اپنے باپ سے بھی زیادہ اپنے نفس کی حقدار ہے۔

17675

(۱۷۶۷۶) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الحَسَنِ فِی رَجُلٍ زَوَّجَ أُخْتَہُ وأَبُوہَا غَائِبٌ قَالَ : الأَمْرُ إِلَی أَبِیْہَا۔
(١٧٦٧٦) حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کسی شخص نے اپنے باپ کی غیر موجودگی میں اپنی بہن کی شادی کرائی تو اس کا معاملہ اس کے باپ کے سپرد ہوگا۔

17676

(۱۷۶۷۷) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ بَکْرٍ ، عَنِ الْمُغِیرَۃِ بْنِ شُعْبَۃَ قَالَ : خَطَبْت امْرَأَۃً ، فَقَالَ لِی النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : ہَلْ نَظَرْت إلَیْہَا ؟ قُلْتُ : لاَ ، قَالَ : فَانْظُرْ إلَیْہَا ، فَإِنَّہُ أَحْرَی أَنْ یُؤْدَمَ بَیْنَکُمَا۔ (ترمذی ۱۰۸۷۔ ابن ماجہ ۱۸۶۵)
(١٧٦٧٧) حضرت مغیرہ بن شعبہ (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے ایک عورت کو نکاح کا پیغام بھجوایا تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھ سے فرمایا کہ کیا تم نے اسے دیکھا ہے ؟ میں نے عرض کیا نہیں، آپ نے فرمایا کہ اسے دیکھ لو، یہ تمہارے رشتے کے دیر پا ہونے کا سبب بنے گا۔

17677

(۱۷۶۷۸) حَدَّثَنَا یُونُسُ بن مُحَمَّدٍ قَالَ : حدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنِ زِیَاد قَالَ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ الْحُصَیْنِ ، عَنْ وَاقِدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إذَا خَطَبَ أَحَدُکُمَ امْرَأَۃً فَإِنِ اسْتَطَاعَ أَنْ یَنْظُرَ مِنْہَا إلَی مَا یَدْعُوہُ إلَی نِکَاحِہَا فَلْیَفْعَلْ فَخَطَبْت جَارِیَۃً مِنْ بَنِی سَلِمَۃَ فَکُنْت أَتَخَبَّأُ تَحْتَ الْکَرَبِ حَتَّی نَظَرْت مِنْہَا إلَی مَا یَدْعُونِی إلَی نِکَاحِہَا فَتَزَوَّجْتہَا۔
(١٧٦٧٨) حضرت جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ ” جب تم میں سے کوئی کسی عورت کو نکاح کا پیام بھجوائے تو اگر اس کے اس دیکھنے کی طاقت رکھتا ہو تو اسے دیکھ لے “ پس میں نے بنو سلمہ کی ایک لڑکی کے لیے نکاح کا پیغام بھجوایا اور کھجور کی چھال کے نیچے چھپ کر میں نے اسے دیکھا اور پھر اس سے شادی کرلی۔

17678

(۱۷۶۷۹) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سُلَیْمَانَ ، عَنْ عَمِّہِ سَہْلِ بْنِ أَبِی حَثْمَۃَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ مَسْلَمَۃَ قَالَ : خَطَبْت امْرَأَۃً فَجَعَلْتُ أَتَخَبَّأُ لَہَا حَتَّی نَظَرْت إلَیْہَا فِی نَخْلٍ لَہَا فَقِیلَ لہ: أَتَفْعَلُ ہَذَا وَأَنْتَ صَاحِبُ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ؟ قَالَ : فَقُلْتُ : سَمِعْت رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : إذَا أَلْقَی اللَّہُ فِی قَلْبِ امْرِئٍ مِنْکُمْ خِطْبَۃَ امْرَأَۃٍ فَلاَ بَأْسَ أَنْ یَنْظُرَ إلَیْہَا۔ (طبرانی ۵۰۰)
(١٧٦٧٩) حضرت محمد بن مسلمہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے ایک عورت کو نکاح کا پیغام بھجوایا پھر میں اس کی کھجوروں کی چھال میں چھپ کر اسے دیکھتا تھا۔ مجھے کہا گیا کہ آپ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابی ہو کرایسا کرتے ہو ؟ انھوں نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ تم میں سے کسی کے دل میں کسی عورت کے ساتھ نکاح کا ارادہ ڈال دے تو اسے دیکھنے میں کوئی حرج نہیں۔

17679

(۱۷۶۸۰) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ ابن طَاوُوسٍ قَالَ : أَرَدْت أَنْ أَتَزَوَّجَ امْرَأَۃً ، فَقَالَ لِی أَبِی : اذْہَبْ فَانْظُرْ إلَیْہَا قَالَ : فَلَبِسْت وَتَہَیَّأْت فَلَمَّا رَآنِی قَالَ : لاَ تَذْہَبْ۔
(١٧٦٨٠) حضرت ابن طاؤس (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے ایک عورت سے شادی کا ارادہ کیا تو مجھ سے میرے والد نے کہا کہ جاؤ اور اسے دیکھ لو۔ میں نے نئے کپڑے پہنے اور تیار ہوگیا تو میرے والد نے مجھ سے فرمایا کہ مت جاؤ۔

17680

(۱۷۶۸۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ رَبِیعٍ ، عَنِ الْحَسَنِ قَالَ : لاَ بَأْسَ أَنْ یَنْظُرَ إلَیْہَا قَبْلَ أَنْ یَتَزَوَّجَہَا۔
(١٧٦٨١) حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ جس عورت سے نکاح کا ارادہ ہو شادی سے پہلے اسے دیکھنے میں کوئی حرج نہیں۔

17681

(۱۷۶۸۲) حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ ، عَنْ زَمْعَۃَ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ فِی الرَّجُلِ یَتَزَوَّجُ الْمَرْأَۃَ قَالَ : لاَ بَأْسَ أَنْ یَنْظُرَ إلَیْہَا قَبْلَ أَنْ یَتَزَوَّجَہَا لأَنَّ اللَّہَ عَزَّ وَجَلَّ یَقُولُ : {وَلَوْ أَعْجَبَک حُسْنُہُنَّ}۔
(١٧٦٨٢) حضرت زہری (رض) فرماتے ہیں کہ جس عورت سے نکاح کا ارادہ ہو شادی سے پہلے اسے دیکھنے میں کوئی حرج نہیں، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں { وَلَوْ أَعْجَبَک حُسْنُہُنَّ } [الاحزاب ٥٢]

17682

(۱۷۶۸۳) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عن سہل بن مُحَمَّدِ بْنِ أَبِی حَثْمَۃَ ، عَنْ عَمِّہِ سلیمان بْنِ أَبِی حَثْمَۃَ قَالَ : رَأَیْتُ مُحَمَّدَ بْنَ مَسْلَمَۃَ یُطَارِدُ نُبَیْتَۃَ بِنْتَ الضَّحَّاکِ وَہِیَ عَلَی إِنْجَارٍ مِنْ أَنَاجِیرِ الْمَدِینَۃِ بِبَصَرِہِ ، فَقُلْتُ : أَتَفْعَلُ ہَذَا ؟ قَالَ : نَعَمْ ، سَمِعْت رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : إذَا أَلْقَی اللَّہُ فِی قَلْبِ امْرِئٍ خِطْبَۃَ امْرَأَۃٍ فَلاَ بَأْسَ أَنْ یَنْظُرَ إلَیْہَا۔ (ابن حبان ۴۰۴۲)
(١٧٦٨٣) حضرت سلیمان بن ابی حثمہ (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے محمد بن مسلمہ (رض) کو دیکھا کہ نبی تہ بنت ضحاک کو دیکھ رہے تھے، میں نے کہا کہ آپ ایسا کررہے ہیں ؟ انھوں نے فرمایا کہ ہاں، میں نے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ تمہارے دل میں کسی عورت سے نکاح کا ارادہ ڈال دے تو اسے دیکھنے میں کوئی حرج نہیں۔

17683

(۱۷۶۸۴) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، عَنْ مُحَمَّدٍ قَالَ : سَأَلْتُ عَبِیْدَۃَ ، عَنْ قَوْلِہِ : {فِی یَتَامَی النِّسَائِ اللاَّتِی لاَ تُؤْتُونَہُنَّ مَا کُتِبَ لَہُنَّ وَتَرْغَبُونَ أَنْ تَنْکِحُوہُنَّ} قَالَ : تَرْغَبُونَ فِیہِنَّ۔
(١٧٦٨٤) حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہتے ہیں کہ میں نے ابوعبیدہ (رض) سے قرآن مجید کی آیت { فِیْ یَتَامَی النِّسَآئِ اللَّاتِیْ لَا تُؤْتُوْنَھُنَّ مَا کُتِبَ لَھُنَّ وَتَرْغَبُوْنَ أَنْ تَنْکِحُوْھُنَّ } کی تفسیر کے بارے میں سوال کیا تو انھوں نے فرمایا کہ اس سے مراد وہ عورتیں ہیں جن میں تمہیں رغبت ہو۔

17684

(۱۷۶۸۵) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : قَالَ فِی ہَذِہِ : تَرْغَبُونَ عَنْہُنَّ۔
(١٧٦٨٥) حضرت حسن (رض) قرآن مجید کی آیت { فِیْ یَتَامَی النِّسَآئِ اللَّاتِیْ لَا تُؤْتُوْنَھُنَّ مَا کُتِبَ لَھُنَّ وَتَرْغَبُوْنَ أَنْ تَنْکِحُوْھُنَّ } کے بارے میں فرماتے ہیں کہ اس سے مراد وہ عورتیں ہیں جن سے تم اعراض کرتے ہو۔

17685

(۱۷۶۸۶) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ عَائِشَۃَ فِی قَوْلِہِ : {وَمَا یُتْلَی عَلَیْکُمْ فِی الْکِتَابِ فِی یَتَامَی النِّسَائِ اللاَّتِی لاَ تُؤْتُونَہُنَّ مَا کُتِبَ لَہُنَّ وَتَرْغَبُونَ أَنْ تَنْکِحُوہُنَّ} قَالَتْ : أُنْزِلَتْ فِی الْیَتِیمَۃِ تَکُونُ عِنْدَ الرَّجُلِ فَتَشْرَکُہُ فِی مَالِہِ فَیَرْغَبُ عَنْہا أَنْ یَتَزَوَّجَہَا وَیَکْرَہَ أَنْ یَتَزَوَّجَہَا غَیْرُہُ فَیَشْرَکَہُ فِی مَالِہِ فَیَعْضُلَہَا فَلاَ یَتَزَوَّجُہَا وَلاَ یُزَوِّجُہَا غَیْرَہُ۔ (بخاری ۵۱۳۱۔ مسلم ۲۳۱۵)
(١٧٦٨٦) حضرت عائشہ (رض) قرآن مجید کی آیت { فِیْ یَتَامَی النِّسَآئِ اللَّاتِیْ لَا تُؤْتُوْنَھُنَّ مَا کُتِبَ لَھُنَّ وَتَرْغَبُوْنَ أَنْ تَنْکِحُوْھُنَّ } کی تفسیر میں فرماتی ہیں کہ یہ آیت اس یتیم لڑکی کے بارے میں نازل ہوئی جو ایک آدمی کے پاس تھی اور اس کے مال میں شریک تھی، وہ آدمی اس سے شادی کرنے کو ناپسند کرتا تھا اور اس بات کو بھی ناپسند کرتا تھا کہ کوئی اور اس سے شادی کرے اور اس کے مال میں شریک ہو، وہ اسے شادی سے محروم رکھتا تھا نہ خود اس سے شادی کرتا تھا نہ کسی اور کو کرنے دیتا تھا۔

17686

(۱۷۶۸۷) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، عَنْ عُمَرَ ، قَالَ : مَنْ کَانَتْ عِنْدَہُ فِی حِجْرِہِ تَرَکَۃٌ بِہَا عُوَارٌ فَلْیَضُمَّہَا إلَیْہِ ، وَإِنْ کَانَتْ رَغبَۃً بِہِ فَلْیُزَوِّجْہَا غَیْرَہُ۔
(١٧٦٨٧) حضرت عمر (رض) فرماتے ہیں کہ جس شخص کی پرورش میں کوئی یتیم لڑکی ہو تو اس سے شادی کرلے اور اگر وہ اس سے شادی کو ناپسند کرے تو کسی اور سے اس کی شادی کرادے۔

17687

(۱۷۶۸۸) حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ عن إسْرَائِیلَ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِی سَلَمَۃَ : {وَتَرْغَبُونَ أَنْ تَنْکِحُوہُنَّ} قَالَ : الْمَرْأَۃُ یَکُونُ بِہَا عَرَجٌ ، أَوْ عَوَرٌ فَلاَ یَنْکِحُونَہَا حَتَّی یَرِثُوہَا۔
(١٧٦٨٨) حضرت ابو سلمہ (رض) قرآن مجید کی آیت { فِیْ یَتَامَی النِّسَآئِ اللَّاتِیْ لَا تُؤْتُوْنَھُنَّ مَا کُتِبَ لَھُنَّ وَتَرْغَبُوْنَ أَنْ تَنْکِحُوْھُنَّ } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ جس عورت میں کوئی جسمانی عیب مثلا لنگڑا پن یابھینگا پن ہو تو اس عورت کو وارث بنانے سے پہلے اس کا نکاح نہ کرو۔

17688

(۱۷۶۸۹) حَدَّثَنَا مُعَاوِیَۃُ بْنُ ہِشَامٍ ، عَنْ عَمَّارٍ ، عَنْ عَطَائٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ : {وَمَا یُتْلَی عَلَیْکُمْ فِی الْکِتَابِ فِی یَتَامَی النِّسَائِ} قَالَ : مَا یُتْلَی عَلَیْکُمْ فِی أَوَّلِ السُّورَۃِ مِنَ الْمَوَارِیثِ ، وَکَانُوا لاَ یُوَرِّثُونَ امْرَأَۃً وَلاَ صَبِیًّا حَتَّی یَحْتَلِمَ۔
(١٧٦٨٩) حضرت سعید بن جبیر (رض) قرآن مجید کی آیت { فِیْ یَتَامَی النِّسَآئِ اللَّاتِیْ لَا تُؤْتُوْنَھُنَّ مَا کُتِبَ لَھُنَّ وَتَرْغَبُوْنَ أَنْ تَنْکِحُوْھُنَّ } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اس سے مراد میراث کے وہ احکام ہیں جو سورت کے شروع میں بیان کئے گئے۔ لوگ عورت کو اور نابالغ بچے کو وارث نہیں بناتے تھے۔

17689

(۱۷۶۹۰) حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ عن إسْرَائِیلَ ، عَنِ السُّدِّیِّ ، عَنْ أَبِی مَالِکٍ فِی قَوْلِ اللہِ : {وَمَا یُتْلَی عَلَیْکُمْ فِی الْکِتَابِ فِی یَتَامَی النِّسَائِ اللاَّتِی لاَ تُؤْتُونَہُنَّ مَا کُتِبَ لَہُنَّ وَتَرْغَبُونَ أَنْ تَنْکِحُوہُنَّ} ، فَقَالَ : کَانَتِ الْمَرْأَۃُ إذَا کَانَتْ عِنْدَ وَلِیٍّ رَغِبَ عَنْ حَسَبِہَا ، أَوْ حُسْنِہَا ، شَکَّ أَبُو بَکْرٍ ، ثُمَّ تَزَوَّجَہَا وَلَمْ یَتْرُکْ أَحَدًا یَتَزَوَّجُہَا : {وَالْمُسْتَضْعَفِینَ مِنَ الْوِلْدَانِ وَأَنْ تَقُومُوا لِلْیَتَامَی بِالْقِسْطِ} قَالَ : کَانُوا لاَ یُوَرِّثُونَ إلاَّ الأَکْبَرَ فَالأَکْبَرَ۔
(١٧٦٩٠) حضرت ابو مالک (رض) قرآن مجید کی آیت { فِیْ یَتَامَی النِّسَآئِ اللَّاتِیْ لَا تُؤْتُوْنَھُنَّ مَا کُتِبَ لَھُنَّ وَتَرْغَبُوْنَ أَنْ تَنْکِحُوْھُنَّ } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ عورت جب کسی ولی کے پاس ہوتی تو وہ اس کے خاندان اور حسن سے اعراض کرتے ہوئے نہ تو اس سے خود شادی کرتا اور نہ اسے کسی سے شادی کرنے دیتا۔ اور قرآن مجید کی اس آیت کے بارے میں فرماتے ہیں { وَالْمُسْتَضْعَفِینَ مِنَ الْوِلْدَانِ وَأَنْ تَقُومُوا لِلْیَتَامَی بِالْقِسْطِ } کہ لوگ پہلے بڑے کو پھر اس سے چھوٹے کو وارث بناتے تھے۔

17690

(۱۷۶۹۱) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِد الأَحْمَر، عَنْ حَجَّاجِ، عَنْ قَتَادَۃَ، عَنِ الحَسَنِ أَنَّہُ کَرِہَ ذَبَائِحَہُمْ وَنِسَائَہُمْ، یَعْنِی الصَّابِئِیْنَ۔
(١٧٦٩١) حضرت حسن (رض) نے بت پرستوں کے ذبیحہ اور ان سے نکاح کو ناجائز بتایا ہے۔

17691

(۱۷۶۹۲) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ ، عَنْ أَبِی مَالِکٍ : {فَانْکِحُوا مَا طَابَ لَکُمْ مِنَ النِّسَائِ} قَالَ : مَا حَلَّ لَکُمْ مِنَ النِّسَائِ ، ذَلِکَ أَدْنَی أَلاَّ تَعُولُوا۔
(١٧٦٩٢) حضرت ابو مالک (رض) قرآن مجید کی آیت { فَانْکِحُوْا مَا طَابَ لَکُمْ مِنَ النِّسَآئِ } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ مراد ہے کہ وہ عورت جو تمہارے لیے حلال ہیں۔

17692

(۱۷۶۹۳) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ عَائِشَۃَ { وَإِنْ خِفْتُمْ أَلاَّ تقْسِطُوا فِی الْیَتَامَی فَانْکِحُوا مَا طَابَ لَکُمْ مِنَ النِّسَائِ} یَقُولُ : مَا أَحْلَلْت لَکُمْ۔
(١٧٦٩٣) حضرت عائشہ (رض) قرآن مجید کی آیت { فَانْکِحُوْا مَا طَابَ لَکُمْ مِنَ النِّسَآئِ } کی تفسیر میں فرماتی ہیں کہ اس سے مراد حلال عورتیں ہیں۔

17693

(۱۷۶۹۴) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ سِمَاکٍ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ : { وَإِنْ خِفْتُمْ أَلاَّ تُقْسِطُوا فِی الْیَتَامَی} قَالَ : کَانَ الرَّجُلُ مِنْ قُرَیْشٍ یَکُونُ عِنْدَہُ النِّسْوَۃُ وَیَکُونُ عِنْدَہُ الأَیْتَامُ فَیَذْہَبُ مَالُہُ فَیَمِیلُ عَلَی الأَیْتَامِ فَنَزَلَتْ ہَذِہِ الآیَۃُ : {فَانْکِحُوا مَا طَابَ لَکُمْ مِنَ النِّسَائِ}۔
(١٧٦٩٤) حضرت عکرمہ (رض) فرماتے ہیں کہ قریش کے لوگوں کے پاس کچھ عورتیں اور کچھ یتیم بچے ہوتے، اس کا مال ختم ہوجاتا تو وہ یتیموں کی طرف مائل ہوجاتا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی { فَانْکِحُوْا مَا طَابَ لَکُمْ مِنَ النِّسَآئِ }

17694

(۱۷۶۹۵) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ مُطَرِّفٍ ، عَنْ عَامِرٍ قَالَ : قَوْلُہُ : {وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الَّذِینَ أُوتُوا الْکِتَابَ مِنْ قَبْلِکُمْ} قَالَ : إِحْصَانُ الیَہُوْدِیَۃِ وَالنَّصْرَانِیَۃِ أَنْ تَغْتَسِلَ مِنَ الجَنَابَۃِ وأَنْ تُحْصِنَ فَرْجَہَا۔
(١٧٦٩٥) حضرت عامر (رض) قرآن مجید کی آیت { وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الَّذِیْنَ أُوْتُوا الْکِتَابَ مِنْ قَبْلِکُمْ } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ یہودی اور عیسائی عورت کی پاکدامنی یہ ہے کہ وہ جنابت کا غسل کرے اور اپنی شرمگاہ کو پاک رکھے۔

17695

(۱۷۶۹۶) حَدَّثَنَا إدْرِیسُ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ قولہ : {وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الَّذِینَ أُوتُوا الْکِتَابَ مِنْ قَبْلِکُمْ} قَالَ: العَفَائِفُ۔
(١٧٦٩٦) حضرت مجاہد (رض) قرآن مجید کی آیت { وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الَّذِیْنَ أُوْتُوا الْکِتَابَ مِنْ قَبْلِکُمْ } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ ان سے مراد پاکدامن عورتیں ہیں۔

17696

(۱۷۶۹۷) حدَّثَنَا ابْنُ إِدْرِیْسُ، عَنْ لَیْثٍ، عَنْ مُجَاہِدٍ قَالَ: {عَلِمَ اللّہُ أَنَّکُمْ سَتَذْکُرُونَہُنَّ} قَالَ: ذِکْرُہُ إِیَّاہَا فِی نَفْسِہِ۔
(١٧٦٩٧) حضرت مجاہد (رض) قرآن مجید کی آیت { عَلِمَ اللّٰہُ أَنَّکُمْ سَتَذْْکُرُوْنَھُنَّ } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اس سے مراد مرد کا عورت کو اپنے دل میں یاد کرنا ہے۔

17697

(۱۷۶۹۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ یَزِیْدَ ، عَنِ الحَسَنِ : {عَلِمَ اللّہُ أَنَّکُمْ سَتَذْکُرُونَہُنَّ} قَالَ : فِیَ الخِطْبَۃِ۔
(١٧٦٩٨) حضرت حسن (رض) قرآن مجید کی آیت { عَلِمَ اللّٰہُ أَنَّکُمْ سَتَذْْکُرُوْنَھُنَّ } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اس سے مراد پیام نکاح میں یاد کرنا ہے۔

17698

(۱۷۶۹۹) أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرِِ ، عَنْ إِسْمَاعِیْل بِنْ رَافِعٍ ، عَنْ زَیْدِ بِنْ أَسْلَمَ ، قَالَ : سَمِعْتُہ یَقُوْلُ : قَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَنْ نَکَحَ امْرَأَۃً وَہُوَ یُرِیْدُ أَنْ یَذْہَبَ بِمَہْرِہَا فَہُوَ عِنْدَ اللہِ زَانٍ یَوْمَ القِیَامَۃِ۔
(١٧٦٩٩) حضرت زید بن اسلم (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ جس شخص نے عورت سے نکاح کیا اور اس کی نیت یہ تھی کہ عورت کا مہر اپنے پاس رکھے گا تو وہ اللہ کے نزدیک قیامت کے دن زنا کرنے والا شمار ہوگا۔

17699

(۱۷۷۰۰) حَدَّثَنَا وَکِیْعٌ ، عَنْ مَالِکِ بِنِ مِغْوَلٍ ، عَنْ أُمِّ ہَمَدَانَ ، عَنْ عَمَّتِہَا ، عَنْ عَائِشَۃَ وَأُمِّ سَلَمَۃَ قَالَتَا : لَیْسَ شَیْئٌ أَشَدُّ مِنْ مَہْرِ امْرَأَۃٍ ، أَوْ أَجْرِ أَجِیْرٍ۔
(١٧٧٠٠) حضرت عائشہ اور حضرت ام سلمہ (رض) فرماتی ہیں کہ حساب وکتاب کے اعتبار سے عورت کے مہر اور مزدور کی مزدوری سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں۔

17700

(۱۷۷۰۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الحَکَمِ قَالَ: لاَ بأْسَ أَنْ یَتَزَوَّجَہا عَلَی مَا بَقِیَ مِنْ کِتَابَتِہَا۔
(١٧٧٠١) حضرت حکم (رض) کے نزدیک مکاتبہ کے باقی ماندہ بدل کتابت کو مہر بنا کر شادی کرنا جائز ہے۔

17701

(۱۷۷۰۲) حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ ، عَنْ ہُرَیْمِ ، عَنْ بَیَانٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ : {ذَلِکَ أَدْنَی أَنْ لاَ تَعُولُوا} قَالَ : تَمِیلُوا۔
(١٧٧٠٢) حضرت ابن عباس (رض) قرآن مجید کی آیت { ذٰلِکَ اَدْنٰی أَلَّا تَعُوْلُوْا } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ ” تَعُوْلُوْا “ سے مراد میلان ہے۔

17702

(۱۷۷۰۳) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ، عَنْ مُفَضَّلِ بْنِ مُہَلْہِلٍ، عَنْ مُغِیرَۃَ، عَنْ أَبِی رَزِینٍ {ذَلِکَ أَدْنَی أَنْ لاَ تَعُولُوا} قَالَ: تَمِیلُوا۔
(١٧٧٠٣) حضرت ابو رزین (رض) قرآن مجید کی آیت { ذٰلِکَ اَدْنٰی أَلَّا تَعُوْلُوْا } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ ” تَعُوْلُوْا “ سے مراد میلان ہے۔

17703

(۱۷۷۰۴) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ یُونُسَ ، عَنْ مُجَاہِدٍ : {ذَلِکَ أَدْنَی أَنْ لاَ تَعُولُوا} قَالَ : تَمِیلُوا۔
(١٧٧٠٤) حضرت مجاہد (رض) قرآن مجید کی آیت { ذٰلِکَ اَدْنٰی أَلَّا تَعُوْلُوْا } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ ” تَعُوْلُوْا “ سے مراد میلان ہے۔

17704

(۱۷۷۰۵) حَدَّثَنَا ابْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنْ قُرَّۃَ ، عَنِ الْحَسَنِ : {ذَلِکَ أَدْنَی أَنْ لاَ تَعُولُوا} قَالَ : تَمِیلُوا۔
(١٧٧٠٥) حضرت حسن (رض) قرآن مجید کی آیت { ذٰلِکَ اَدْنٰی أَلَّا تَعُوْلُوْا } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ ” تَعُوْلُوْا “ سے مراد میلان ہے۔

17705

(۱۷۷۰۶) حَدَّثَنَا عَثَّام بْنُ عَلِیٍّ وَمُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ ، عَنْ أَبِی مَالِکٍ : {ذَلِکَ أَدْنَی أَنْ لاَ تَعُولُوا} قَالَ : تَمِیلُوا۔
(١٧٧٠٦) حضرت ابو مالک (رض) قرآن مجید کی آیت { ذٰلِکَ اَدْنٰی أَلَّا تَعُوْلُوْا } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ ” تَعُوْلُوْا “ سے مراد میلان ہے۔

17706

(۱۷۷۰۷) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ جُوَیْبِر ، عَنِ الضَّحَّاکِ : {ذَلِکَ أَدْنَی أَنْ لاَ تَعُولُوا} قَالَ : تَمِیلُوا۔
(١٧٧٠٧) حضرت ضحاک (رض) قرآن مجید کی آیت { ذٰلِکَ اَدْنٰی أَلَّا تَعُوْلُوْا } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ ” تَعُوْلُوْا “ سے مراد میلان ہے۔

17707

(۱۷۷۰۸) حَدَّثَنَا ہُشَیْمُ بْنُ بَشِیرٍ ، عَنِ الشَّیْبَانِیِّ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ وَعَنْ یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ قَالاَ : یَجُوزُ تَزْوِیجُ الْمَرِیضِ وَبَیْعُہُ وَشِرَاؤُہُ۔
(١٧٧٠٨) حضرت شعبی اور حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ مریض کا شادی کرنا اور خریدو فروخت کرنا جائز ہے۔

17708

(۱۷۷۰۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، عَنْ سُفْیَانَ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إبْرَاہِیمَ فِی الْمَرِیضِ ہُوَ یَتَزَوَّجُ؟ قَالَ: ہُوَ جَائِزٌ مِنْ غَیْرِ الثَّلاَثِ۔
(١٧٧٠٩) حضرت ابراہیم (رض) سے سوال کیا گیا کہ کیا مریض کے لیے شادی کرنا جائز ہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ ثلث کے علاوہ میں جائز ہے۔

17709

(۱۷۷۱۰) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنِ الْحَکَمِ قَالَ : أَرَادَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ ابْنُ أُمِّ الْحَکَمِ أَنْ یَشْتَرِیَ ثُمُنَہُ مِنْ بِنْتِ جَرِیرٍ وَہُوَ مَرِیضٌ فَأَبَتْ فَتَزَوَّجَ عَلَیْہَا ثَلاَثًا وَہُوَ مَرِیضٌ فَجَازَ۔
(١٧٧١٠) حضرت حکم (رض) فرماتے ہیں کہ عبد الرحمن ابن ام الحکم (رض) نے حالت مرض الموت میں جریر کی بیٹی سے ایک ثمن مال کے بدلے نکاح کا ارادہ کیا تو انھوں نے انکار کیا اور جب حالت مرض میں ایک تہائی مال پر مہر کا ارادہ کیا تو اس نکاح کو درست قرار دیا گیا۔

17710

(۱۷۷۱۱) حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّیَالِسِیُّ ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَۃَ ، عَنْ دَاوُدَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ قَالَ : إنَّ مُعَاوِیَۃَ أَجَازَہُ۔
(١٧٧١١) حضرت شعبی (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت معاویہ (رض) نے اسے جائز قرار دیا۔

17711

(۱۷۷۱۲) حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ یَزِیدَ الْبَاہِلِیِّ قَالَ : سَأَلْتُ عَطَائً عَنْ رَجُلٍ یَتَزَوَّجُ وَہُوَ مَرِیضٌ أَیَجُوزُ ذَلِکَ ؟ فَقَالَ : إنَّ النَّاسَ یَقُولُونَ إنَّہُ یَجُوزُ۔
(١٧٧١٢) حضرت عبداللہ بن یزید باہلی (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عطائ (رض) سے اس شخص کے بارے میں سوال کیا جو حالت مرض الموت میں شادی کرے۔ انھوں نے فرمایا کہ لوگ کہتے ہیں کہ یہ جائز ہے۔

17712

(۱۷۷۱۳) حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَۃَ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنِ الْحَسَنِ ؛ فِی رَجُلٍ یَتَزَوَّجُ وَہُوَ مَرِیضٌ قَالَ : إِنْ کَانَ مُضَارًّا لَمْ یَجُزْ ، وَإِنْ کَانَ إنَّمَا تَزَوَّجَہَا لِتَقُومَ عَلَیْہِ فَہُوَ جَائِزٌ۔
(١٧٧١٣) حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص مرض الموت میں ورثاء کو نقصان پہنچانے کے لیے شادی کرے تو یہ درست نہیں اور اگر خدمت کے لیے شادی کرے تو جائز ہے۔

17713

(۱۷۷۱۴) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ عَبْدِ الْخَالِقِ ، عَنْ حَمَّادٍ فِی الرَّجُلِ یَتَزَوَّجُ فِی مَرَضِہِ قَالَ : ہُوَ مِنْ ثُلُثہ۔
(١٧٧١٤) حضرت حماد (رض) فرماتے ہیں کہ مرض الموت میں ثلث مال کے عوض شادی کرنا جائز ہے۔

17714

(۱۷۷۱۵) حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ قَالَ : سَأَلْتُ عَطَائً ، عَنِ الْمَرِیضِ یَتَزَوَّجُ ؟ قَالَ : مَا أَرَاہُ إلاَّ حَدَثًا۔
(١٧٧١٥) حضرت ابن جریج (رض) کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عطائ (رض) سے مریض کے شادی کرنے کے بارے میں سوال کیا تو انھوں نے فرمایا کہ یہ میرے نزدیک تو ایک نئی چیز ہے۔

17715

(۱۷۷۱۶) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ فِی الرَّجُلِ یَتَزَوَّجُ فِی مَرَضہ قَالَ : لاَ یَجُوزُ۔
(١٧٧١٦) حضرت زہری فرماتے ہیں کہ مرض الموت میں شادی کرنا درست نہیں ہے۔

17716

(۱۷۷۱۷) حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ ، عَنْ خَلِیفَۃَ بْنِ غَالِبٍ قَالَ : سَأَلْتُ نَافِعًا عَنْہُ ، فَقَالَ : ہُوَ جَائِزٌ وَتَرِثُہُ وَتَأْخُذُ صَدَاقَہَا۔
(١٧٧١٧) حضرت خلیفہ بن غالب (رض) کہتے ہیں کہ میں نے حضرت نافع (رض) سے مرض الموت میں شادی کے بارے میں سوال کیا تو انھوں نے فرمایا کہ یہ جائز ہے۔ وہ وارث بھی ہوگی اور مہر بھی لے گی۔

17717

(۱۷۷۱۸) حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ ، عَنْ خَلِیفَۃَ بْنِ غَالِبٍ ، عَنْ نَافِعٍ أَنَّ ابْنَ أَبِی رَبِیعَۃَ تَزَوَّجَ وَہُوَ مَرِیضٌ أَرَادَ أَنْ تَرِثَہُ ، وَکَانَ بَیْنَہُ وَبَیْنَہَا قَرَابَۃٌ۔
(١٧٧١٨) حضرت نافع (رض) فرماتے ہیں کہ ابن ابی ربیعہ (رض) نے حالت مرض الموت میں ایک عورت سے شادی کی، وہ اسے اپنا وارث بنانا چاہتے تھے۔ ان کے اور اس عورت کے درمیان ایک رشتہ تھا۔

17718

(۱۷۷۱۹) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیْدٍ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ مُسْلِمٍ ، عَنْ مَسْرُوْقٍ قَالَ : کَانَتِ المَرْأَۃُ إِذَا ذَہَبَتْ إِلَی المُشْرِکِیْنَ أَعْطَوْا زَوْجَہَا مِثْلَ مَہْرِہَا وَإِذَا ذَہَبَتْ إِلَی قَوْمٍ لَیْسَ بَیْنَہَا وَبَیْنَہُمْ عَہْدٌ مِنَ المُشْرِکِیْنَ {فَعَاقَبْتُمْ} فَأَصَبْتُمْ غَنِیْمَۃً {فَآتُوا الَّذِینَ ذَہَبَتْ أَزْوَاجُہُم مِّثْلَ مَا أَنفَقُوا} یَقُوْلُ : ٰاتُوْا زَوْجَہَا مِنَ الغَنِیْمَۃِ مِثْلَ مَہْرِہَا۔
(١٧٧١٩) حضرت مسروق (رض) فرماتے ہیں کہ جب کوئی عورت مشرکین کے ہاتھ لگ جائے تو اس کے خاوند کو مہر مثلی ادا کرو اور جب کوئی عورت ایسی قوم میں چلی جائے جس قوم اور مشرکین کے درمیان عہد نہ ہو اور مال غنیمت ہاتھ لگے تو ان کے خاوندوں کو غنیمت میں سے مہر مثلی ادا کرو۔

17719

(۱۷۷۲۰) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیْدٍ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ خَصِیْفٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ مِثْلَہُ ، أَوْ نَحْوَہُ۔
(١٧٧٢٠) ایک اور سند سے یونہی منقول ہے۔

17720

(۱۷۷۲۱) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ مُخْتَارِ بْنِ منیح ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ عُرْوَۃَ بْنِ الزُّبَیْرِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : تَخَیَّرُوا لِنُطَفِکُمْ (ابن عدی ۲۱۸۷)
(١٧٧٢١) حضرت عروہ بن زبیر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ اپنی اولاد کے لیے اچھے رشتے تلاش کرو۔

17721

(۱۷۷۲۲) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إبْرَاہِیم أَنَّ عَلْقَمَۃَ کَانَ إذَا تَزَوَّجَ تَزَوَّجَ إلَی أَدْنَی بَیْتَۃٍ۔
(١٧٧٢٢) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت علقمہ (رض) جب شادی کرتے تو اچھے گھر میں شادی کرتے۔

17722

(۱۷۷۲۳) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ مُوسَی بْنِ عُبَیْدَۃَ الرَّبَذِیِّ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ خِرَاشٍ قَالَ : رَأَیْتُ أَبَا ذَرٍّ بِالرَّبَذَۃِ وَعِنْدَہُ امْرَأَۃٌ لَہُ سَحْمَائُ ، أَوْ شَحْبَائُ قَالَ : وَہُوَ فِی مِظَلَّۃٍ لَہُ سَوْدَائَ قَالَ : فَقِیلَ لَہُ : یَا أَبَا ذَرٍّ ، لَوِ اتَّخَذْت امْرَأَۃً ہی أَرْفَعَ مِنْ ہَذِہِ ، فَقَالَ : وَاللَّہِ لأَنْ أَتَّخِذَ امْرَأَۃً تَضَعُنِی أَحَبُّ إلَیَّ مِنْ أَنْ أَتَّخِذَ امْرَأَۃً تَرْفَعُنِی۔
(١٧٧٢٣) حضرت عبداللہ بن خراش (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے مقام ربذہ میں حضرت ابو ذر غفاری (رض) کو دیکھا، ان کی اہلیہ کا رنگ کالا تھا، یا فرمایا کہ وہ بھوک اور کمزوری کی وجہ سے بےحال تھیں، اپنے ایک کالے رنگ کے چھپڑ میں تھے، ان سے کہا گیا کہ اے ابوذر ! اگر آپ اس سے بہتر عورت سے شادی کرلیتے تو اچھا ہوتا ! انھوں نے فرمایا کہ میں ایسی عورت سے شادی کروں جو میرے نام وشہرت میں کمی کا سبب بنے مجھے اس بات سے زیادہ پسند ہے کہ میں ایسی عورت سے شادی کروں جو میرے نام ونمود میں زیادتی کا سبب بنے۔

17723

(۱۷۷۲۴) حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِیرِینَ ، قَالَ : قَالَ : عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ : مَا بَقِیَ فِیَّ مِنْ أَخْلاَقِ الْجَاہِلِیَّۃِ شَیْئٌ إلاَّ أَنِّی لَسْتُ أُبَالِی أَیَّ الْمُسْلِمِینَ نَکَحْتُ وَأَیَّہُمْ أَنْکَحْتُ۔
(١٧٧٢٤) حضرت عمر بن خطاب (رض) فرماتے ہیں کہ مجھ میں جاہلیت کی کوئی عادت باقی نہیں رہی سوائے اس کے کہ مجھے اس بات کی پروا نہیں ہوتی کہ میں کس مسلمان سے شادی کررہاہوں اور کس سے شادی کر ارہا ہوں۔

17724

(۱۷۷۲۵) حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِیَۃَ، عَنِ الأَعْمَشِِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالَ : کَانَ عَلْقَمَۃُ یَخْطُبُ إلَی مَنْ ہُوَ أَسْفَلُ مِنْہُ۔
(١٧٧٢٥) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت علقمہ (رض) اپنے سے کم تر لوگوں کو نکاح کا پیغام بھجواتے تھے۔

17725

(۱۷۷۲۶) حَدَّثَنَا یَزِیدُ قَالَ : حدَّثَنَا ہِشَام ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِیرِینَ ؛ أَنَّ رَجُلاً تَزَوَّجَ ابْنَۃَ عَبْدٍ خَیَّاطٍ فَوَلَدَتْ عِنْدَہُ غُلاَمًا فَانْتَفَی مِنْہُ ، فَقَالَ لَہُ شُرَیْحٌ : مَا الَّذِی دَلَّک عَلَی أَنْ تَزَوَّجَ بِنْتَ عَبْدٍ خَیَّاطٍ وَأَنْتَ رَجُلٌ مِنَ الْعَرَبِ فِی شَرَفٍ مِنَ الْعَطَائِ ہو الَّذِی دَعَاک إلَی أَنْ تَنْتَفِیَ مِنْہُ ۔
(١٧٧٢٦) حضرت محمد بن سیرین (رض) فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے ایک غلام درزی کی بیٹی سے شادی کی۔ اس کے ہاں ایک لڑکاپیدا ہوا لیکن اس آدمی نے اسے اپنا بچہ ماننے سے انکار کردیا۔ حضرت شریح (رض) نے اس سے فرمایا کہ جس چیز نے تجھے ایک غلام درزی کی بیٹی سے شادی پر مجبور کیا حالانکہ تو عرب کا ایک معزز آدمی ہے اسی چیز نے تجھے اس سے ہونے والے بچے کو اپنا بیٹا ماننے سے انکار کرنے پر ابھارا ہے۔ (یعنی شیطان نے تیرے دل میں وسوسے ڈالے ہیں)

17726

(۱۷۷۲۷) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ مُبَارَکٍ ، عَنْ إِسْمَاعِیلَ مَوْلَی بَنِی مَخْزُوْمٍ قَالَ : سَأَلْتُ عَطَائً عَنِ امْرَأَۃٍ قَالَتْ لِعَبْدِہَا: أُعْتِقَکَ عَلَی أَنْ تَزَوَّجَنِی فَقَالَ : لَوْ أَنَّہَا بَدَأَتْ یَعْتِقُہُ ! قَالَ : وَسَأَلْتُ عَبْدَ اللہِ بْنَ عُبَیْدِ بْنِ عُمَیْرٍ فَقَالَ مِثْلَ قَوْلِ عَطَائٍ ، قَالَ : فَسَأَلْتُ مُجَاہِدًا فغَضِبَ وَقَالَ : فِی ہَذِہِ عُقُوْبَۃٌ مِنَ اللہِ وَمِنَ السُّلْطَانِ۔
(١٧٧٢٧) حضرت اسماعیل (رض) کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عطائ (رض) سے سوال کیا کہ اگر کوئی مالکن اپنے غلام سے یہ کہے کہ میں تجھے اس شرط پر آزاد کرتی ہوں کہ تو مجھ سے شادی کرلے تو کیا حکم ہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ بہتر تھا کہ وہ اسے آزاد کردیتی۔ میں نے حضرت عبداللہ بن عبید بن عمیر (رض) سے بھی یہی سوال کیا تو انھوں نے حضرت عطائ (رض) کے مثل بات فرمائی۔ میں نے حضرت مجاہد (رض) سے سوال کیا تو وہ غضبناک ہوئے اور فرمایا کہ یہ اللہ اور سلطان کی طرف سے قابل سزا عمل ہے۔

17727

(۱۷۷۲۸) حَدَّثَنَا وَکِیْعٌ ، عَنْ إِسْمَاعِیْلَ بَنْ مُسْلِمٍ ، عَنْ عَطَائٍ وَعبْدِ اللہِ بْنِ عُبَیْدِ بْنِ عُمَیْرٍ قَالاَ : تَعْتِقُہُ وَلاَ تُشَاطِرُہُ وَقَالَ مُجَاہِدٌ : فِی ہَذِہِ عُقُوْبَۃٌ مِنَ اللہِ وَمِنَ السُّلْطَانِ۔
(١٧٧٢٨) حضرت عطائ (رض) اور حضرت عبداللہ بن عبید بن عمیر (رض) فرماتے ہیں کہ وہ اسے آزاد کردے لیکن شرط نہ لگائے اور حضرت مجاہد (رض) فرماتے ہیں کہ یہ اللہ اور بادشاہ کی طرف سے سزا کا سبب ہے۔

17728

(۱۷۷۲۹) حَدَّثَنَا الضَّحَّاکُ بْنُ مَخْلَدٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَطَائٍ فِی قَوْلِہِ : {وَأُحْضِرَتِ الأَنْفُسُ الشُّحَّ} قَالَ : فِی النَّفَقَۃِ۔
(١٧٧٢٩) حضرت عطائ (رض) قرآن مجید کی آیت { وَأُحْضِرَتِ الْأَنْفُسُ الشُّحَّ } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اس سے مراد نفقہ ہے۔

17729

(۱۷۷۳۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ أَبِی بِشْرٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ قَالَ : نُصِیبُہَا مِنْ نَفْسِہِ وَمِنْ مَالِہِ۔
(١٧٧٣٠) حضرت سعید بن جبیر (رض) قرآن مجید کی آیت { وَأُحْضِرَتِ الْأَنْفُسُ الشُّحَّ } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اس سے مراد مرد کے مال اور جان سے عورت کا حصہ ہے۔

17730

(۱۷۷۳۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ رَجُلٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ قَالَ : النَّفَقَۃُ وَالأَیَّامُ۔
(١٧٧٣١) حضرت سعید بن جبیر (رض) قرآن مجید کی آیت { وَأُحْضِرَتِ الْأَنْفُسُ الشُّحَّ } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اس سے مراد نفقہ اور ایام ہیں۔

17731

(۱۷۷۳۲) حدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ : {أَوْ أَکْنَنتُمْ فِی أَنفُسِکُمْ} قَالَ : ذَکَرَہُ إِیَّاہُ فِی نَفْسِہِ۔
(١٧٧٣٢) حضرت مجاہد (رض) قرآن مجید کی آیت { أَوْ أَکْنَنْتُمْ فِیْ أَنْفُسِکُمْ } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اس سے مراد مرد کا عورت کو اپنے دل میں یاد کرنا ہے۔

17732

(۱۷۷۳۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنِ الحَسَنِ : {أَوْ أَکْنَنتُمْ فِی أَنفُسِکُمْ} : الخِطْبَۃَ۔
(١٧٧٣٣) حضرت حسن (رض) قرآن مجید کی آیت { أَوْ أَکْنَنْتُمْ فِیْ أَنْفُسِکُمْ } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اس سے مراد پیام نکاح ہے۔

17733

(۱۷۷۳۴) حَدَّثَنَا عَبْدُ السَّلاَمِ بْنُ حَرْبٍ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ وَحَمَّادٍ أَنَّہُمَا کَانَا لاَ یَرَیَانِ بَأْسًا لِلنُّفَسَائِ أَنْ تُزَوَّجَ حَتَّی تَطْہُرَ۔
(١٧٧٣٤) حضرت شعبی (رض) اور حضرت حماد (رض) کے نزدیک نفاس والی عورت کے لیے پاک ہونے سے پہلے نکاح کرنا درست ہے۔

17734

(۱۷۷۳۵) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ وَالْمُسَیِّبِ بْنِ رَافِعٍ أَنَّہُمَا قَالاَ فِی النُّفَسَائِ: لاَ تُزَوَّجُ حَتَّی یَذْہَبَ الدَّمُ۔
(١٧٧٣٥) حضرت شعبی (رض) اور حضرت مسیب بن رافع (رض) فرماتے ہیں کہ نفاس والی عورت خون بند ہونے سے پہلے نکاح نہیں کرسکتی۔

17735

(۱۷۷۳۶) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنِ الْحَکَمِ وَحَمَّادٍ قَالاَ : فِی النُّفَسَائِ : تُزَوَّجُ ، وَإِنْ لَمْ یَذْہَبِ الدَّمُ۔
(١٧٧٣٦) حضرت حکم (رض) اور حضرت حماد (رض) فرماتے ہیں کہ وہ شادی کرسکتی ہے خواہ خون بند نہ ہو۔

17736

(۱۷۷۳۷) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الْحَسَنِ قَالَ : کَانَ یَکْرَہُہُ فَإِنْ تَزَوَّجَتْ فَالنِّکَاحُ جَائِزٌ۔
(١٧٧٣٧) حضرت حسن (رض) نفاس والی عورت کے نکاح کرنے کو مکروہ قرار دیتے تھے، لیکن اگر کرلے تو نکاح جائز ہے۔

17737

(۱۷۷۳۸) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنِ الجَلْد بِنْ أَیُّوْبٍ ، عَنْ مَعَاوِیَۃ بْنِ قُرّۃ ، عَنْ عَائِذِ بْنِ عَمْروٍ رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَکَانَ مِمَّنْ بَایَعَ تَحْتَ الشَّجَرَۃِ ؛ أَنَّ امْرَأَۃً مِنْ نِسَائِہِ نَفَسَتْ فَرَأَتِ الطُّہْرَ لِعِشْرِیَنَ لَیْلَۃً فَاغْتَسَلَتْ ثُمَّ جَائَتْ فَدَخَلَتْ مَعَہُ فِی لِحَافِہِ فَقَالَ : مَنْ ہَذِہِ ؟ فَقَالَتْ : فُلاَنَۃُ ، فَقَالَ : أَوَلَیْسَ قَدْ نَفِسْت ؟ قَالَتْ : إذًا قَدْ رَأَیْت الطُّہْرَ ، قَالَ : فَضَرَبَہَا بِرِجْلِہِ حَتَّی أَخْرَجَہَا مِنَ اللِّحَافِ وَقَالَ : لاَ تغُرنی عَنْ دِینِی حَتَّی یَمْضِیَ أَرْبَعُونَ یَوْمًا۔
(١٧٧٣٨) حضرت عائذ بن عمرو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ایک صحابی ہیں، یہ ان حضرات میں سے ہیں جنہوں نے بیعت رضوان میں حصہ لیا، ان کی ایک زوجہ کو نفاس لاحق ہوا، وہ بیس دن بعد پاک ہوگئیں، لہٰذا غسل کیا اور آکر اپنے خاوند کے لحاف میں ان کے ساتھ لیٹ گئیں۔ انھوں نے پوچھا کون ہے ؟ بتایا کہ فلانی ہے۔ انھوں نے کہا کہ تم حالت نفاس میں نہیں تھی ؟ زوجہ نے کہا کہ میں پاک ہوگئی ہوں، انھوں نے ٹانگ کے ذریعے انھیں اپنے لحاف سے نکال دیا اور فرمایا کہ مجھے میرے دین کے بارے میں دھوکا نہ دو ، جب تک چالیس دن نہ گذر جائیں مت آنا۔

17738

(۱۷۷۳۹) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ أَبِی الْعَاصِ أَنَّہُ قَالَ : لِنِسَائِہِ : لاَ تَشَرَّفْنَ لِی دُونَ أَرْبَعِینَ لَیْلَۃً فِی النِّفَاسِ۔
(١٧٧٣٩) حضرت عثمان بن ابی العاص (رض) نے اپنے بیویوں سے فرمایا کہ نفاس کے دوران چالیس دن سے پہلے میری طرف مت جھانکنا۔

17739

(۱۷۷۴۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إسْرَائِیلَ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ یَسَارٍ ، عَنْ عُمَرَ ، قَالَ : تَجْلِسُ النُّفَسَائُ أَرْبَعِینَ یَوْمًا۔
(١٧٧٤٠) حضرت عمر (رض) فرماتے ہیں کہ نفساء چالیس دن تک شوہر سے دور رہے گی۔

17740

(۱۷۷۴۱) حَدَّثَنَا مُعْتَمِرُ بْنُ سُلَیْمَانَ، عَنْ أَبِیہِ، عَنِ الْحَسَنِ قَالَ: تَرَبَّصُ النُّفَسَائُ أَرْبَعِینَ یَوْمًا ثُمَّ تَغْتَسِلُ وَتُصَلِّی، وَقَالَ الشَّعْبِیُّ : تَرَبَّصُ شَہْرَیْنِ ثُمَّ ہِیَ بِمَنْزِلَۃِ الْمُسْتَحَاضَۃِ۔
(١٧٧٤١) حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ نفساء چالیس دن رکے گی ، پھر غسل کرکے نماز پڑھے گی۔ حضرت شعبی (رض) فرماتے ہیں کہ دو مہینے رکے گی پھر وہ مستحاضہ کی طرح ہے۔

17741

(۱۷۷۴۲) حَدَّثَنَا أَسْبَاطُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الْحَسَنِ قَالَ : لاَ تَجْلِسُ النُّفَسَائُ أَکْثَرَ مِنْ أَرْبَعِینَ لیلۃ ، وقَالَ : عَطَائٌ : تَجْلِسُ عَادَتَہَا الَّتِی اعْتَادَتْ ، وَلاَ تَجْلِسُ أَکْثَرَ مِنْ أَرْبَعِینَ لَیْلَۃً۔
(١٧٧٤٢) حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ نفساء چالیس دن سے زیادہ نہیں رکے گی۔ حضرت عطائ (رض) فرماتے ہیں کہ وہ اپنی عادت کے بقدر رکے گی اور چالیس دن سے زیادہ نہیں رکے گی۔

17742

(۱۷۷۴۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ أَبِی عَوَانَۃَ ، عَنْ أَبِی بِشْرٍ ، عَنْ یُوسُفَ بْنِ مَاہَکٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : تَجْلِسُ النُّفَسَائُ نَحْوًا مِنْ أَرْبَعِینَ یَوْمًا۔
(١٧٧٤٣) حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ نفاس والی عورت چالیس دن تک رکے گی۔

17743

(۱۷۷۴۴) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ زُہَیْرٍ قَالَ : حدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ عَبْدِ الأَعْلَی ، عَنْ أَبِی سَہْلٍ ، عَنْ مُسَّۃَ ، عَنْ أُمِّ سَلَمَۃَ قَالَتْ : کَانَتِ النُّفَسَائُ تَقْعُدُ عَلَی عَہْدِ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَرْبَعِینَ یَوْمًا ، وَکُنَّا نُلَطِّخُ عَلَی وُجُوہِنَا الْوَرْسَ مِنَ الْکَلَفِ۔ (ترمذی ۱۳۹۔ ابوداؤد ۳۱۵)
(١٧٧٤٤) حضرت ام سلمہ (رض) فرماتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں نفساء چالیس دن تک رکا کرتی تھیں اور ہم اپنے چہروں پر مٹیالی سرخی کی وجہ سے ورس نامی زرد بوٹی لگایا کرتی تھیں۔

17744

(۱۷۷۴۵) حَدَّثَنَا سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ بْنِ أَبِی یَزِیدَ أَنَّہُ سَأَلَ ابْنَ عَبَّاسٍ عَنْ رَجُلٍ اشْتَرَی جَارِیَۃً وَہِیَ حَامِلٌ أَیَطَأُہَا ؟ قَالَ : لاَ ، وَقَرَأَ : (وَأُولاَتُ الأَحْمَالِ أَجَلُہُنَّ أَنْ یَضَعْنَ حَمْلَہُنَّ)۔
(١٧٧٤٥) حضرت عبید اللہ بن ابی زیاد (رض) نے حضرت عبداللہ بن عباس (رض) سے سوال کیا کہ اگر کوئی آدمی باندی خریدے اور وہ حاملہ ہو تو کیا اس سے جماع کرسکتا ہے ؟ انھوں نے فرمایا نہیں۔ پھر قرآن مجید کی آیت پڑھی (ترجمہ) حمل والی عورتوں کی عدت یہ ہے کہ وہ بچے کو جنم دے دیں۔

17745

(۱۷۷۴۶) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنْ دَاوُدَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ قَالَ : قُلْتُ لَہُ : إنَّ أَبَا مُوسَی نَہَی حِینَ فَتَحَ تُسْتَرَ : أَلاَ تُوطَأُ الْحَبَالَی ، وَلاَ یُشَارِکُ الْمُشْرِکِینَ فِی أَوْلاَدِہِمْ ، فَإِنَّ الْمَائَ یَزِیدُ فِی الْوَلَدِ ، أَشَیْئٌ قَالَہُ بِرَأْیِہِ ؟ أَوْ شَیْئٌ رَوَاہُ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ؟ فَقَالَ : نَہَی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَوْمَ أَوْطَاسٍ أَنْ تُوطَأَ حَامِلٌ حَتَّی تَضَعَ ، أَوْ حَائل حَتَّی تُسْتَبْرَأَ۔
(١٧٧٤٦) حضرت داؤد (رض) کہتے ہیں کہ میں نے حضرت شعبی (رض) سے کہا کہ حضرت ابو موسیٰ (رض) نے تستر کی فتح کے دن فرمایا تھا کہ کسی حاملہ عورت سے جماع نہ کیا جائے اور مشرکین کی اولاد میں شراکت نہ کی جائے، کیونکہ پانی بچے میں اضافہ کرتا ہے۔ انھوں نے یہ بات اپنی رائے سے کہی تھی یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی تھی۔ انھوں نے فرمایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اوطاس کی فتح کے دن فرمایا تھا کہ کسی حاملہ سے بچے کی پیدائش سے پہلے جماع نہ کیا جائے اور دوسری خواتین سے اس وقت تک نہ کیا جائے جب تک ان کے رحم کا خالی ہونا معلوم نہ ہوجائے۔

17746

(۱۷۷۴۷) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ أَبِی قِلاَبَۃَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لَیْسَ مِنَّا مَنْ وَطِیئَ حُبْلَی۔
(١٧٧٤٧) حضرت ابوقلابہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ جس نے کسی حاملہ سے وطی کی وہ ہم میں سے نہیں ہے۔

17747

(۱۷۷۴۸) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنِ الْحَکَمِ ، عَنْ مِقْسَمٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہُ۔ (احمد ۱/۲۵۶۔ طبرانی ۱۲۰۹۰)
(١٧٧٤٨) حضرت ابن عباس (رض) سے بھی یونہی منقول ہے۔

17748

(۱۷۷۴۹) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ ، عَنْ یَزِیدَ بْنِ أَبِی حَبِیبٍ ، عَنْ أَبِی مَرْزُوقٍ ، مَوْلَی تُجِیبَ ، قَالَ : غَزَوْنَا مَعَ رُوَیْفِعِ بْنِ ثَابِتٍ الأَنْصَارِیِّ نَحْوَ الْمَغْرِبِ فَفَتَحْنَا قَرْیَۃً یُقَالُ لَہَا جَرْبَۃُ قَالَ : فَقَامَ فِینَا خَطِیبًا ، فَقَالَ : إنِّی لاَ أَقُولُ فِیکُمْ إلاَّ مَا سَمِعْت مِنْ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ فِینَا یَوْمَ خَیْبَرَ قَالَ : مَنْ کَانَ یُؤْمِنُ بِاللَّہِ وَالْیَوْمِ الآخِرِ فَلاَ یُسْقِیَنَّ مَائَہُ زَرْعَ غَیْرِہِ۔ (احمد ۴/۱۰۸۔ طبرانی ۴۴۸۳)
(١٧٧٤٩) حضرت ابو مرزوق (رض) مولیٰ تجیب کہتے ہیں کہ ہم نے حضرت رویفع بن ثابت انصاری (رض) کے ساتھ مغرب کی طرف جنگ کی، ہم نے جربہ نامی ایک گاؤں کو فتح کیا تو حضرت رویفع (رض) نے ہم میں بیان فرمایا کہ میں تمہیں ایک ایسی بات بتاتا ہوں جو میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنی ہے۔ آپ نے فتحِ خیبر کے دن فرمایا تھا کہ جو شخص اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے پانی سے کسی دوسرے کی کھیتی سیراب نہ کرے۔

17749

(۱۷۷۵۰) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ ، عَنْ یَزِیدَ بْنِ أَبِی حَبِیبٍ ، عَنْ حَنَشٍ الصَّنْعَانِیِّ ، عَنْ أَبِی مَرْزُوقٍ ، مَوْلَی تُجِیبَ ، عَنْ رُوَیْفِعِ بْنِ ثَابِتٍ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِمِثْلِہِ۔
(١٧٧٥٠) ایک اور سند سے یونہی منقول ہے۔

17750

(۱۷۷۵۱) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ زَیْدٍ ، عَنْ عَلِیٍّ قَالَ : نَہَی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، أَنْ تُوطَأَ الْحَامِلُ حَتَّی تَضَعَ ، أَوِ الْحَائِضُ حَتَّی تُسْتَبْرَأَ بِحَیْضَۃٍ۔
(١٧٧٥١) حضرت علی (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حاملہ سے وضع حمل سے پہلے اور غیر حاملہ سے حیض کے ذریعے رحم کے صاف ہونے کا یقین ہونے سے پہلے وطی کرنے سے منع فرمایا ہے۔

17751

(۱۷۷۵۲) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِِ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ صِلَۃَ وَقُثَمٍ وَنَاجِیَۃَ بْنِ کَعْبٍ قَالُوا : أَیُّمَا رَجُلٍ اشْتَرَی جَارِیَۃً حُبْلَی فَلاَ یَطَؤُہَا حَتَّی تَضَعَ حَمْلَہَا وَأَیُّمَا رَجُلٍ اشْتَرَی جَارِیَۃً فَلاَ یَقْرَبْہَا حَتَّی تَحِیضَ۔
(١٧٧٥٢) حضرت صلہ، حضرت قثم اور حضرت ناجیہ بن کعب (رض) فرماتے ہیں کہ جب کوئی آدمی کوئی حاملہ باندی خریدے تو وضع حمل سے پہلے اس کے ساتھ جماع نہ کرے۔ اور اگر غیر حاملہ خریدے تو اس کو حیض آنے تک اس کے قریب نہ جائے۔

17752

(۱۷۷۵۳) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ قَالَ : نُہِیَ أَنْ یَطَأَ الرَّجُلُ وَلِیدَۃً ، أَوِ امْرَأَۃً وَفِی بَطْنِہَا جَنِینٌ لِغَیْرِہِ۔
(١٧٧٥٣) حضرت سعید بن مسیب (رض) فرماتے ہیں کہ اس بات سے منع کیا گیا ہے کہ آدمی کسی ایسی باندی یا عورت سے جماع کرے جس کے پیٹ میں کسی دوسرے کا بچہ ہو۔

17753

(۱۷۷۵۴) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ، عَنْ أَشْعَثَ، عَنِ الْحَسَنِ قَالَ: لَمَّا فُتِحَتْ تُسْتَرُ أَصَابَ أَبُو مُوسَی سَبَایَا فَکَتَبَ إلَیْہِ عُمَرُ أَنْ لاَ یَقَعَ أَحَدٌ عَلَی امْرَأَۃٍ حبلی حَتَّی تَضَعَ وَلاَ تُشَارِکُوا الْمُسْلِمِینَ فِی أَوْلاَدِہمْ فَإِنَّ الْمَائَ تَمَامُ الْوَلَدِ۔
(١٧٧٥٤) حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ جب تستر فتح ہوا تو حضرت ابو موسیٰ (رض) کے ہاتھ کچھ باندیاں لگیں۔ حضرت عمر (رض) نے انھیں خط میں یہ حکم لکھ بھیجا کہ وضع حمل سے پہلے کوئی شخص کسی عورت سے جماع نہ کرے، مشرکین کی اولاد میں حصہ دار نہ بنو کیونکہ پانی بچے کو پورا کرتا ہے۔

17754

(۱۷۷۵۵) حَدَّثَنَا مُعْتَمِرُ بْنُ سُلَیْمَانَ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُسْلِمٍ، عَنْ طَاوُوسٍ، أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَمَرَ مُنَادِیًا فنادی فِی غَزْوَۃٍ غَزَاہَا ؛ أَنْ لاَ یَطَأَ الرِّجَالُ حَامِلاً حَتَّی تَضَعَ ، وَلاَ حَائِلاً حَتَّی تَحِیضَ۔
(١٧٧٥٥) حضرت طاؤس (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک غزوہ میں ایک منادی سے اعلان کرایا کہ حاملہ سے وضع حمل تک اور غیرحاملہ سے حیض کے آنے تک جماع نہ کرو۔

17755

(۱۷۷۵۶) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ یَزِیدَ قَالَ : حدَّثَنَا الْقَاسِمُ وَمَکْحُولٌ ، عَنْ أَبِی أُمَامَۃَ ، أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَہَی یَوْمَ خَیْبَرَ عن أَنْ تُوطَأَ الْحَبَالَی حَتَّی یَضَعْنَ۔
(١٧٧٥٦) حضرت ابو امامہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غزوہ خیبر میں حاملہ عورت سے وضع حمل سے پہلے جماع سے منع فرمایا تھا۔

17756

(۱۷۷۵۷) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ قَالَ : أَخْبَرَنَا شُعْبَۃُ ، عَنْ یَزِیدَ بْنِ خُمَیْرٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ جُبَیْرِ بْنِ نُفَیْرٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ أَبِی الدَّرْدَائِ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَرَّ عَلَی امْرَأَۃٍ مُجِحٍّ وَہِیَ عَلَی بَابِ خِبَائٍ ، أَوْ فُسْطَاطٍ ، فَقَالَ : لِمَنْ ہَذِہِ ؟ فَقَالُوا : لِفُلاَنٍ ، قَالَ : أَیُلِمُّ بِہَا ؟ قَالُوا : نَعَمْ ، قَالَ : لَقَدْ ہَمَمْت أَنْ أَلْعَنَہُ لَعْنَۃً تَدْخُلُ مَعَہُ قَبْرَہُ ، فَکَیْفَ یَسْتَخْدِمُہُ وَہُوَ یَغْذُوہُ فِی بَصَرِہِ وَسَمْعِہِ ، کَیْفَ یَرِثُہُ وَہُوَ لاَ یَحِلُّ لَہُ۔ (مسلم ۱۰۶۶۔ ابوداؤد ۲۱۴۹)
(١٧٧٥٧) حضرت ابو دردائ (رض) سے روایت ہے کہ ایک غزوہ کے موقع پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک ایسی حاملہ عورت کے پاس سے گزرے جو قریب الولادت تھی (اور قیدی بنا کر لائی گئی تھی) ، وہ خیمے کے دروازے پر کھڑی تھی۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے استفسار فرمایا کہ یہ کس کی ہے ؟ لوگوں نے بتایا کہ فلاں کی ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کیا وہ اس سے جماع کرتا ہے ؟ لوگوں نے بتایا جی ہاں۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ مجھے خیال آتا ہے کہ میں اس پر ایسی لعنت کروں جو قبر میں اس کے ساتھ جائے۔ وہ اس (سے پیدا ہونے والے بچے ) سے کیسے خدمت لے گا حالانکہ اس کی سماعت اور بصارت کو تقویت دے رہا ہے ؟ وہ اس کا وارث کیسے ہوگا حالانکہ وہ اس کے لیے حلال نہیں ہے ؟

17757

(۱۷۷۵۸) حَدَّثَنَا ہُشَیْم ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ أَنَّ رَجُلاً کَانَتْ عِنْدَہُ یَتِیْمَۃٌ وکَانَتْ تَحْضُرُ مَعَہُ طَعَامَہُ قَالَ : فَخَافَتِ امْرَأَتہ أَنْ یَتَزَوَّجَہَا عَلَیْہَا قَالَ : وَغَابَ الرَّجُلُ غَیْبَۃً فَاسْتَعَانَتِ امْرَأَتہ نِسْوَۃً عَلَیْہَا فَضَبَطْنَہَا لَہَا وَأَفْسَدَتْ عُذْرَتَہَا بِیَدِہَا ، وَقَدِمَ الرَّجُلُ فَجَعَلَ یَفْقِدُہَا ، عَنْ مَائِدَتِہِ ، فَقَالَ لاِمْرَأَتِہِ : مَا شَأْنُ فُلاَنَۃَ لاَ تَحْضُرُ طَعَامِی کَمَا کَانَتْ تَحْضُرُ ؟ فَقَالَتْ : دَعْ عَنْک فُلاَنَۃَ ، فَقَالَ : مَا شَأْنُہَا ؟ قَالَ : فَقَذَفَتْہَا قَالَ : فَانْطَلَقَ الرجل حَتَّی دَخَلَ عَلَیْہَا ، فَقَالَ : مَا شَأْنُک ؟ مَا أَمْرُک ؟ قَالَ : فَجَعَلَتْ لاَ تَزِیدُ عَلَی الْبُکَائِ ، فَقَالَ : أَخْبِرِینِی فَأَخْبَرَتْہُ قَالَ : فَانْطَلَقَ إلَی عَلِیٍّ رضی اللہ عنہ فَذَکَرَ ذَلِکَ لَہُ فَأَرْسَلَ إلَی امْرَأَۃِ الرَّجُلِ وَإِلَی النِّسْوَۃِ فَسَأَلَہُنَّ قَالَ : فَمَا لَبِثْنَ أَنِ اعْتَرَفْنَ قَالَ : فَقَالَ لِلْحَسَنِ : اقْضِ فِیہَا ، فَقَالَ الْحَسَنُ : أَرَی الْحَدَّ عَلَی مَنْ قَذَفَہَا وَالْعُقْرَ عَلَیْہَا وَعَلَی الْمُمْسِکَاتِ قَالَ : فَقَالَ عَلِیٌّ : لَوْ کُلِّفت إبِلٌ طَحِینًا لَطَحَنَتْ قَالَ : وَمَا یَطْحَنُ یَوْمَئِذٍ بَعِیرٌ۔
(١٧٧٥٨) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ ایک آدمی کے پاس ایک یتیم بچی تھی، وہ کھانا بھی اس کے ساتھ کھاتی تھی، آدمی کی بیوی کو اندیشہ ہوا کہ کہیں آدمی اس سے شادی نہ کرلے، چنانچہ ایک مرتبہ جب وہ آدمی کہیں گیا ہوا تھا تو اس عورت نے کچھ عورتوں کی مدد سے اس لڑکی کو باندھا اور اس کے پردہ بکارت کو زائل کردیا، جب آدمی واپس آیا تو دستر خوان پر اس یتیم بچی کو نہ پایا۔ اس نے اپنی بیوی سے اس کے بارے میں پوچھا تو وہ کہنے لگی کہ اس کا تو ذکر ہی نہ کرو، آدمی نے وجہ پوچھی تو عورت نے بچی پر زنا کا الزام لگادیا۔ آدمی اس بچی کے پاس آیا اور اس سے واقعہ کی تصدیق چاہی، بچی نے رونے کے علاوہ کوئی بات نہ کی، اس نے اصرار کیا تو بچی نے ساری بات بتادی۔ وہ آدمی اس مقدمے کو لے کر حضرت علی (رض) کی خدمت میں حاضر ہوا اور ساری بات عرض کی۔ حضرت علی (رض) نے اس آدمی کی بیوی کو اور باقی عورتوں کو بلا لیا اور ان سے سوال کیا، انھوں نے فوراً ساری بات کو تسلیم کرلیا۔ حضرت علی (رض) نے حضرت حسن (رض) سے فیصلہ کرنے کو کہا تو حضرت حسن (رض) نے فرمایا کہ تہمت لگانے والی عورت پر حد جاری ہوگی اور پردہ بکارت کو زائل کرنے کا جرمانہ اس عورت پر اور پکڑنے والی عورتوں پر ہوگا۔ حضرت علی (رض) نے فرمایا کہ اگر اونٹوں سے پسوائی کا کام لیا جاتا تو آج میں ان عورتوں کو اونٹوں کے نیچے پسوا دیتا۔ راوی کہتے ہیں کہ اس زمانے میں اونٹوں سے پسوائی کا کام نہیں لیا جاتا تھا۔

17758

(۱۷۷۵۹) حَدَّثَنَا ہُشَیْمُ بْنُ بَشِیرٍ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ أَنَّ جَوَارٍ أَرْبَعًا اجْتَمَعْنَ ، فَقَالَتْ إحْدَاہُنَّ : ہِیَ رَجُلٌ ، وَقَالَتِ الأُخْرَی : ہِیَ امْرَأَۃٌ وَقَالَتِ الثَّالِثَۃُ : أَنَا أَبُو الَّتِی زَعَمَتْ أَنَّہَا امْرَأَۃٌ وَقَالَتِ الرَّابِعَۃُ : أَنَا أَبُو الذی زَعَمَتْ أَنَّہَا رَجُلٌ، فَخَطَبَتِ الَّتِی زَعَمَتْ أَنَّہَا أَبُو الرَّجُلِ إلَی الَّتِی زَعَمَتْ أَنَّہَا أَبُو الْمَرْأَۃِ ، فَزَوَّجَتْہَا، فَأَفْسَدَتِ الَّتِی زَعَمَتْ أَنَّہَا رَجُلٌ الْجَارِیَۃَ الَّتِی زَوَّجَتْہَا ، فَاخْتَصَمُوا إلَی عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ مَرْوَانَ ، فَجَعَلَ صَدَاقَہَا عَلَی أَرْبَعَتِہِنَّ ، وَرَفَعَ حِصَّۃَ الَّتِی زَعَمَتْ أَنَّہَا امْرَأَۃٌ ، لأَنَّہَا أَمْکَنَتْ مِنْ نَفْسِہَا ، قَالَ : فَذَکَرَتْ ذَلِکَ لِعَبْدِ اللہِ بْنِ مَعقِلٍ الْمُزَنِیّ ، فَقَالَ : لَوْ أَنِّی وُلِّیتُ ذَلِکَ لَمْ أَرَ الصَّدَاقَ إلاَّ عَلَی الَّتِی أَفْسَدَتْہَا۔
(١٧٧٥٩) حضرت شعبی (رض) فرماتے ہیں کہ چار نوعمر لڑکیاں کھیلنے کے لیے جمع ہوئیں، ایک نے کہا کہ وہ آدمی ہے، دوسری نے کہا کہ وہ عورت ہے، تیسری نے کہا کہ وہ عورت کا باپ ہے، چوتھی نے کہا کہ وہ آدمی کا باپ ہے۔ آدمی کے باپ کا کردار ادا کرنے والی نے عورت کے باپ کا کردار ادا کرنے سے اس کی بیٹی کا رشتہ مانگا۔ جب شادی ہوگئی تو لڑکے کا کردار ادا کرنے والی لڑکی نے عورت کا کردار ادا کرنے والی بچی کے پردہ بکارت کو نقصان پہنچا دیا۔ یہ سارا مقدمہ عبد الملک بن مروان کے پاس پیش کیا گیا۔ انھوں نے مہر کے برابر رقم چاروں لڑکیوں پر لازم کی اور عورت کا کردارادا کرنے والی لڑکی کے حصے کو اٹھا دیا۔ یہ فیصلہ عبداللہ بن معقل مزنی (رض) کے پاس پیش ہوا تو انھوں نے فرمایا کہ اگر یہ میرے پاس آتا تو میں صرف پردہ بکارت کو زائل کرنے والی لڑکی پر تاوان کو لازم کرتا۔

17759

(۱۷۷۶۰) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنِ الْحَکَمِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ أَنَّ امْرَأَۃً افْتَضَّتْ جَارِیَۃً بِأُصْبُعِہَا وَقَالَتْ : إنَّہَا زَنَتْ فَرَفَعَتْ إلَی عَلِیٍّ فَغَرَّمَہَا الْعُقْرَ وَضَرَبَہَا ثَمَانِینَ لِقَذْفِہَا إیَّاہَا۔
(١٧٧٦٠) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ ایک عورت نے اپنی انگلی سے ایک بچی کا پردہ بکارت زائل کردیا اور کہہ دیا کہ اس نے زنا کیا ہے۔ حضرت علی (رض) کے پاس یہ مقدمہ لایا گیا تو آپ نے فرمایا کہ عورت پر پردہ بکارت کو زائل کرنے کا تاوان ہوگا اور تہمت لگانے کی وجہ سے اسی کوڑے پڑیں گے۔

17760

(۱۷۷۶۱) حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّیَالِسِیُّ ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَۃَ ، عَنْ أَبِی بِشْرٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ؛ أَنَّ نِسْوَۃً کُنَّ بِالشَّامِ ، فَأَشِرْنَ وَبَطِرن وَلَعِبْنَ الْحُزُقَّۃَ ، فَرَکِبَتْ وَاحِدَۃٌ الأُخْرَی ، وَنَخَسَتِ الأُخْرَی ، فَأَذْہَبَتْ عُذْرَتَہَا ، فَرُفِعَ ذَلِکَ إلَی عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ مَرْوَانَ ، فَسَأَلَ عَنْ ذَلِکَ فَضَالَۃَ بْنَ عُبَیْدٍ وَقَبِیصَۃَ بْنَ ذُؤَیْبٍ ، فَقَالاَ : عَلَیْہِنَّ الدِّیَۃُ، وَیُرْفَعُ نَصِیبَ وَاحِدَۃٍ ، وَقَالَ ابْنُ مُعْقِلٍ : یَرَی مِنْ نَطَفِہَا إلَی نَاخِسَتِہَا ، وَقَالَ الشَّعْبِیُّ : وَأَنَا أَرَی ذَلِکَ وَلَہَا عُقْرُہَا۔
(١٧٧٦١) حضرت شعبی (رض) فرماتے ہیں کہ شام میں کچھ لڑکیاں کھیلنے کے لیے جمع ہوئیں، ایک لڑکی دوسری پر سوار ہوئی اور دوسری نیچے دب گئی جس کی وجہ سے اس کا پردہ بکارت زائل ہوگیا۔ یہ مقدمہ عبد الملک بن مروان کے پاس لایا گیا تو انھوں نے فضالہ بن عبید (رض) اور قبیصہ بن ذؤیب (رض) سے اس بارے میں سوال کیا۔ ان دونوں نے فرمایا کہ ان سب لڑکیوں پر دیت واجب ہوگی اور ایک کا حصہ اٹھالیا جائے گا۔ ابن معقل (رض) نے فرمایا کہ دیت صرف اس پر ہونی چاہیے جس نے اسے دبایا ہے۔ حضرت شعبی (رض) فرماتے ہیں کہ میرے خیال میں یہی ہونا چاہیے اور دیت کے بجائے پردہ بکارت کو زائل کرنے کا تاوان ہونا چاہیے۔

17761

(۱۷۷۶۲) حَدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ حُمَیْدٍ ، عَنْ بَکْرٍ ؛ أَنَّ جَارِیَتَیْنِ کَانَتَا بِالْحَمَّامِ ، فَدَفَعَتْ إحْدَاہُمَا الأُخْرَی فَانْتَقَضَتْ عُذْرَتُہَا ، فَقَضَی لَہَا شُرَیْحٌ : عَلَیْہَا بِمِثْلِ صَدَاقِہَا۔
(١٧٧٦٢) حضرت بکر (رض) فرماتے ہیں کہ دو لڑکیاں حمام میں تھیں، ایک نے دوسرے کو دھکا دیا تو اس کا پردہ بکارت زائل ہوگیا۔ قاضی شریح (رض) نے اس کے لیے مہرِ مثلی کا فیصلہ فرمایا۔

17762

(۱۷۷۶۳) حدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ أنَّہُ قَالَ فِی رَجُلَیْنِ تَزَوَّجَا أُخْتَیْنِ فَأُدْخِلَ عَلَی کُلِّ وَاحِدٍ مِنْہُمَا امْرَأَۃُ صَاحِبِہِ قَالَ لَہُمَا الصَّدَاقُ وَیَرْجِعُ الزَّوْجَانِ عَلَی مَنْ غَیَّرَہُمَا۔
(١٧٧٦٣) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ اگر دو آدمیوں کی دو بہنوں سے شادی ہوئی لیکن ہر ایک کے پاس منکوحہ کے علاوہ دوسری لائی گئی تو دونوں عورتوں کو مہر ملے گا اور مہر کے لیے خاوند اس سے رجوع کریں گے جس کی غلطی سے ایسا ہوا ہے۔

17763

(۱۷۷۶۴) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سَالِمٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ أَنَّ عَلِیًّا قَالَ ذَلِکَ۔
(١٧٧٦٤) حضرت شعبی (رض) کہتے ہیں کہ حضرت علی (رض) بھی یونہی فرماتے ہیں۔

17764

(۱۷۷۶۵) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ أَنَّہُ قَالَ ذَلِکَ أَیْضًا۔
(١٧٧٦٥) حضرت حسن (رض) بھی یونہی فرماتے ہیں۔

17765

(۱۷۷۶۶) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ خِلاَسٍ قَالَ : تَزَوَّجَ أَخَوَانِ أُخْتَیْنِ ، فَأُدْخِلَتِ امْرَأَۃُ ہَذَا عَلَی ہَذَا ، وَامْرَأَۃُ ہَذَا عَلَی ہَذَا ، فَرُفِعَ ذَلِکَ إلَی عَلِیٍّ ، فَرَدَّ کُلَّ وَاحِدَۃٍ مِنْہُمَا إلَی زَوْجِہَا ، وَأَمَرَ زَوْجَہَا أَنْ لاَ یَقْرَبَہَا حَتَّی تَنْقَضِیَ عِدَّتُہَا ، وَجَعَلَ لِکُلِّ وَاحِدَۃٍ مِنْہُمَا الصَّدَاقَ عَلَی الَّذِی وَطِئَہَا لِغِشْیَانِہِ إیَّاہَا ، وَجَعَلَ جَہَازَہَا وَالْغُرْمَ عَلَی الَّذِی زَوَّجَہَا۔
(١٧٧٦٦) حضرت خلاس (رض) فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ دو بھائیوں کا د و بہنوں سے نکاح ہوا، ہر ایک کے پاس منکوحہ کے علاوہ دوسری عورت لائی گئی، یہ مقدمہ حضرت علی (رض) کی عدالت میں پیش ہوا آپ نے ہر عورت کو اس کے اصل خاوند کی طرف واپس فرمایا اور حکم دیا کہ عدت گزرنے تک خاوند اپنی بیویوں کے قریب نہ جائیں۔ پھر آپ نے جماع کرنے والوں پر مہر کو لازم قرار دیا اور تاوان اس شخص پر لازم کیا جس نے شادی کرائی تھی۔

17766

(۱۷۷۶۷) حدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ أَبِی بَکْرٍ عَنَ أَبی مَسْعُوْدٍ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَہَی عَنْ مَہْرِ البَغِیِّ۔ (بخاری ۲۲۳۷۔ ترمذی ۱۲۷۶)
(١٧٧٦٧) حضرت ابو مسعود (رض) فرماتے ہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فاحشہ کی کمائی سے منع فرمایا ہے۔

17767

(۱۷۷۶۸) حَدَّثَنَا عَفَّانُ قَالَ : حدَّثَنَا أَبَانُ الْعَطَّارُ قَالَ : حَدَّثَنِی یَحْیَی بْنُ أَبِی کَثِیرٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ بْنِ قَارِظٍ ، عَنِ السَّائِبِ بْنِ یَزِیدَ ، عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِیجٍ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : کَسْبُ الْحَجَّامِ خَبِیثٌ وَمَہْرُ الْبَغِیِّ خَبِیثٌ۔ (مسلم ۱۱۹۹۔ ابوداؤد ۳۴۱۴)
(١٧٧٦٨) حضرت رافع بن خدیج (رض) فرماتے ہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ پچھنے لگانے والے کی کمائی بری ہے اور زنا کی کمائی بری ہے۔

17768

(۱۷۷۶۹) حَدَّثَنَا شَبَابَۃُ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ عَوْنِ بْنِ أَبِی جُحَیْفَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ قَالَ : نَہَی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ کَسْب مَہْرِ الْبَغِیِّ۔ (احمد ۴/۳۰۸)
(١٧٧٦٩) حضرت ابو جحیفہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فاحشہ کی کمائی سے منع فرمایا ہے۔

17769

(۱۷۷۷۰) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، عَنْ عَبْدِ الْجَبَّارِ بْنِ عَبَّاسٍ ، عَنْ عَوْنِ بْنِ أَبِی جُحَیْفَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ قَالَ : نَہَی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ مَہْرِ الْبَغِیِّ۔ (ابویعلی ۸۹۲۔ طبرانی ۲۷۳)
(١٧٧٧٠) حضرت ابو جحیفہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فاحشہ کی کمائی سے منع فرمایا ہے۔

17770

(۱۷۷۷۱) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِِ ، عَنْ أَبِی سُفْیَانَ ، عَنْ جَابِرٍ فِی قَوْلِہِ : {وَمَنْ یُکْرِہْہُّنَّ فَإِنَّ اللَّہَ مِنْ بَعْدِ إکْرَاہِہِنَّ غَفُورٌ رَحِیمٌ} قَالَ : کَانَ عَبْدُ اللہِ بْنُ أُبَیِّ ابْنُ سَلُولَ یَقُولُ لِجَارِیَتِہِ : اذْہَبِی فَابْغِینَا شَیْئًا فَأَنْزَلَ اللَّہُ تَعَالَی : {وَلاَ تُکْرِہُوا فَتَیَاتِکُمْ عَلَی الْبِغَائِ إِنْ أَرَدْنَ تَحَصُّنًا لِتَبْتَغُوا عَرَضَ الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا وَمَنْ یُکْرِہْہُّنَّ فَإِنَّ اللَّہَ مِنْ بَعْدِ إکْرَاہِہِنَّ غَفُورٌ رَحِیمٌ}۔ (مسلم ۲۶)
(١٧٧٧١) حضرت جابر (رض) قرآن مجید کی آیت { وَمَنْ یُکْرِہْہُّنَّ فَإِنَّ اللَّہَ مِنْ بَعْدِ إکْرَاہِہِنَّ غَفُورٌ رَحِیمٌ} کے بارے میں فرماتے ہیں کہ عبداللہ بن ابی ابن سلول اپنی باندی سے کہتا تھا کہ جاؤ اور ہمارے لیے جسم فروشی کی کمائی لاؤ۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے اس آیت کو نازل فرمایا { وَلاَ تُکْرِہُوا فَتَیَاتِکُمْ عَلَی الْبِغَائِ إِنْ أَرَدْنَ تَحَصُّنًا لِتَبْتَغُوا عَرَضَ الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا وَمَنْ یُکْرِہْہُّنَّ فَإِنَّ اللَّہَ مِنْ بَعْدِ إکْرَاہِہِنَّ غَفُورٌ رَحِیمٌ}

17771

(۱۷۷۷۲) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنِ الأَعْمَشِِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالَ : کَانُوا یُکْرِہُونَ أَنْ یَتَزَوَّجُوا عَلَی الدِّرْہَمِ وَالدِّرْہَمَیْنِ مِثْلَ مَہْرِ الْبَغِیِّ۔
(١٧٧٧٢) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ اسلاف اس بات کو ناپسند قرار دیتے تھے کہ فاحشہ کی کمائی کی طرح ایک یا دو درہم پر نکاح کریں۔

17772

(۱۷۷۷۳) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ ہَاشِمٍ ، عَنِ ابْنِ أَبِی لَیْلَی ، عَنْ عَطَائٍ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَہَی عَنْ مَہْرِ الْبَغِیِّ۔
(١٧٧٧٣) حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فاحشہ کی کمائی سے منع فرمایا ہے۔

17773

(۱۷۷۷۴) حَدَّثَنَا مُعَاذُ بنُ مُعَاذٍ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الحَسَنِ فِی رَجُلٍ تَزَوَّجَ أَمَۃً وَحُرَّۃً فِی عُقْدَۃٍ قَالَ : یُفَرَّقُ بَیْنَہُ وَبَیْنَ الأَمَۃِ ، أَوْ فِی رَجُلٍ تَزَوَّجَ أُخْتَیْنِ فِی عُقْدَۃٍ قَالَ : یُفَرَّقُ بَیْنَہُمَا۔
(١٧٧٧٤) حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص ایک ہی عقد میں ایک باندی اور ایک آزاد عورت سے شادی کرے تو آدمی اور باندی کے درمیان جدائی کرائی جائے گی۔ اسی طرح اگر ایک عقد میں دو بہنوں سے نکاح کیا تو اس صورت میں دونوں کے درمیان جدائی کرائی جائے گی ۔

17774

(۱۷۷۷۵) حَدَّثَنَا حَفْصُ بنُ غِیَاثٍ ، عَنْ أَبِی حَنِیْفَۃَ ، عَنْ حَمَّادٍ ، عَنْ إِبرَاہِیْمَ قَالَ : إِذَا تَزَوَّجَ حُرَّۃً وَأَمَۃً فِی عُقْدَۃٍ فَسَدَ نِکَاحُہُمَا۔
(١٧٧٧٥) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ اگر ایک عقد میں ایک آزاد اور ایک باندی سے نکاح کیا تو ان کا نکاح فاسد ہوگا۔

17775

(۱۷۷۷۶) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ بنَ سُلَیْمَان ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنِ الحَسَنِ ؛ فِی رَجُلٍ تَزَوَّجَ امْرَأَۃً ، ثُمَّ دَخَلَ بِہَا ، ثُمَّ مَاتَ ، ثُمَّ قَامَتِ البَیِّنَۃُ أَنَّہَا أُخْتُہُ مِنَ الرَّضَاعَۃِ قَالَ : لَہَا الصَّدَاقُ وَلاَ مِیْرَاثَ لَہَا۔
(١٧٧٧٦) حضرت حسن (رض) سے سوال کیا گیا کہ ایک آدمی نے کسی عورت سے شادی کی، اس سے شرعی ملاقات کی پھر وہ مرگیا، پھر اس بات پر گواہی قائم ہوگئی کہ وہ عورت اس کی رضاعی بہن ہے۔ اب کیا حکم ہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ عورت کو مہر ملے گا لیکن میراث نہیں ملے گی۔

17776

(۱۷۷۷۷) حَدَّثَنَا حَفْصُ بنُ غِیَاثٍ ، عَنِ الحَجَّاجِ ، عَنِ الرُّکَیْنِ ؛ أَنَّ المُغِیْرَۃَ ابْنَ شُعْبَۃَ خَطَبَ امْرَأَۃً، وَہُوَ وَلِیُّہَا، ومَعَہُ أَوْلِیَائُ مِثْلَہُ ، فأَمَرَ بَعْضَ أَوْلِیَائِہَا أَنْ یُزَوِّجَہَا إِیَّاہُ۔
(١٧٧٧٧) حضرت رکین (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت مغیرہ بن شعبہ (رض) ایک عورت کے ولی تھے، انھوں نے اس عورت کو پیام نکاح بھیجنا چاہا، ان کے ساتھ اس عورت کے کچھ ولی اور بھی تھے۔ انھوں نے ایک ولی کو حکم دیا کہ وہ ان کا نکاح اس عورت سے کرادیں۔

17777

(۱۷۷۷۸) حَدَّثَنَا مُعَاذُ بنُ مَعَاذٍ ، عَنْ أشْعَثَ ، عَنِ الحَسَنِ قَالَ : إِذَا أَرَادَ وَلِیُّ المَرْأَۃِ أَنْ یُزَوَّجِہَا بإِذْنِہَا مِنْ نَفْسِہِ وَلَّی أَمْرَہَا رَجُلاً ثُمَّ تَزَوَّجَہَا بِشَہَادَۃِ العُدُوْلِ۔
(١٧٧٧٨) حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کسی عورت کے ولی کا ارادہ ہو کہ وہ اس عورت سے نکاح کرے تو اسے چاہیے کہ کسی آدمی کو عورت کا ولی بنادے اور پھر عادل گواہوں کی موجودگی میں اس عورت سے نکاح کرلے۔

17778

(۱۷۷۷۹) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ ، عَنْ شُرَیْحٍ أَنَّہُ کَانَ لاَ یُجِیْزُ نِکَاحَ المُضْطَہَدِ۔
(١٧٧٧٩) حضرت شریح (رض) فرماتے ہیں کہ زبردستی کئے گئے شخص کا نکاح نہیں ہوتا۔

17779

(۱۷۷۸۰) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ یَمَانٍ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ قَالَ : لاَ نِکَاحَ لِمُضْطَہَدٍ۔
(١٧٧٨٠) حضرت مجاہد (رض) فرماتے ہیں کہ زبردستی کئے گئے شخص کا نکاح نہیں ہوتا۔

17780

(۱۷۷۸۱) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی قَالَ : سُئِلَ عَنْ رَجُلٍ تَزَوَّجَ امْرَأَۃً عَلَی عَاجِلٍ أَوْ آجِلٍ فَدَخَلَ بِہَا فَادَّعَتْ أنَّہُ لَمْ یَِبَِرأ إِلِیْہَا مِنَ العَاجِلِ فَقَالَ : حَدَّثَنَا سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ أَنَّہُ کَانَ یَقُوْلُ : المَخْرَجُ عَلَیْہَا فِیَ العَاجِلِ ، أَنَّہُ بَقِیَ عَلَیْہِ کَذَا وکَذَا وَدُخُوْلُہُ عَلَیْہَا أَبْرَأَہُ۔
(١٧٧٨١) حضرت عبدالاعلیٰ (رض) سے سوال کیا گیا کہ ایک آدمی نے عورت سے عاجل اور آجل مہر کے عوض نکاح کیا، آدمی نے عورت سے شرعی ملاقات بھی کی لیکن عورت نے یہ دعویٰ کردیا کہ اس نے ابھی عاجل مہر ادا نہیں کیا۔ تو حضرت عبدالاعلیٰ (رض) نے فرمایا کہ سعید (رض) نے قتادہ (رض) کے بارے میں بیان کیا ہے کہ وہ فرمایا کرتے تھے کہ عاجل میں عورت کے لیے مہر کے نکالے جانے کی صورت یہ ہے کہ مرد پر اتنا مہر باقی رہ گیا ہے اور مرد کا عورت سے دخول کرنا عاجل سے بری ہونا ہے۔

17781

(۱۷۷۸۲) حَدَّثَنَا عَبْدُالأَعْلَی، عَنْ سَعِیدٍ، عَنْ قَتَادَۃَ، عَنِ الحَسَنِ ومَطَرٍ، عَنِ الحَسَنِ أَنَّہُ کَانَ یَقُوْلُ: المَخْرَجُ عَلَیْہِ۔
(١٧٧٨٢) حضرت حسن (رض) فرمایا کرتے تھے کہ مرد سے عاجل مہر وصول کیا جائے گا۔

17782

(۱۷۷۸۳) حَدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ حُمَیْدٍ ، عَنْ أَنَسٍ أَنَّہُ شَکَّ فِی وَلَدٍ لَہُ فَأَمَرَ أَنْ یُدْعَی لَہُ الْقَافَۃُ۔
(١٧٧٨٣) حضرت حمید (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت انس (رض) کو اپنے بچے کے بارے میں شک ہوا تو انھوں نے قیافہ شناس کو بلوانے کا حکم دیا۔

17783

(۱۷۷۸۴) حَدَّثَنَا أَبُوبَکْرِ بْنُ عَیَّاشٍ، عَنْ أَسْلَمَ الْمُنْقِرِیِّ ، عَنْ عبد اللہِ بْنِ عُبَیْدِ بْنِ عُمَیْرٍ قَالَ : بَاعَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ جَارِیَۃً کَانَ وَقَعَ عَلَیْہَا قَبْلَ أَنْ یَسْتَبْرِئَہَا فَظَہَرَ بِہَا حَمْلٌ عِنْدَ الَّذِی اشْتَرَاہَا فَخَاصَمَہُ إلَی عُمَرَ ، فَقَالَ عُمَرُ ہَلْ کُنْت تَقَعُ عَلَیْہَا ؟ قَالَ : نَعَمْ ، قَالَ : فَبِعْتہَا قَبْلَ أَنْ تَسْتَبْرِئَہَا ؟ قَالَ : نَعَمْ ، قَالَ : مَا کُنْت لِذَلِکَ بِخَلِیقٍ ، قَالَ : فَدَعَا الْقَافَۃَ فَنَظَرُوا إلَیْہِ فَأَلْحَقُوہُ بِہِ ، قَالَ : فَوُلِدَ لَہُ مِنْہَا ولد کَثِیرٌ فَمَا عَیَّرُوہُ بِہِ۔
(١٧٧٨٤) حضرت عبداللہ بن عبید بن عمیر (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عبد الرحمن بن عوف (رض) نے اپنی ایک باندی کے رحم کے خالی ہونے کا یقین کرنے سے پہلے اسے فروخت کردیا، پھر خریدنے والے کے پاس اس کا حمل ظاہر ہوا۔ تو یہ مقدمہ حضرت عمر (رض) کے پاس پیش کیا گیا۔ حضرت عمر (رض) نے حضرت عبد الرحمن بن عوف (رض) سے فرمایا کہ کیا تم اس سے جماع کیا کرتے تھے ؟ انھوں نے اقرار کیا، پھر پوچھا کہ کیا تم نے اس کے رحم کے صاف ہونے کا یقین کئے بغیر اسے بیچ دیا۔ انھوں نے اقرار کیا۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا کہ تمہیں ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔ پھر انھوں نے قیافہ شناسوں کو بلایا، انھوں نے بچے کو دیکھا تو حضرت عبد الرحمن بن عوف (رض) کا بچہ قرار دیا، پھر اس باندی سے حضرت عبد الرحمن (رض) کی بہت اولاد ہوئی اور کسی نے اسے برا قرار نہ دیا۔

17784

(۱۷۷۸۵) حَدَّثَنَا الضَّحَّاکُ بْنُ مَخْلَدٍ ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ الأَسْوَدِ ، عَنْ عَطَائٍ فِی الرَّجُلِ یَشُکُّ فِی وَلَدِہِ قَالَ : مُرْہُ فَلْیَسْتَلْحِقْہُ فَإِنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ قَالَ : مَنْ أَقَرَّ أَنَّہُ أَصَابَ وَلِیدَۃً ، أَوْ غَشِیَ أَلْحَقْنَا بِہِ وَلَدَہَا ، وَسَأَلْت عِکْرِمَۃَ بْنِ خَالِدٍ ، فَقَالَ : مُرْہُ فَلْیَسْتَلْحِقْہُ۔
(١٧٧٨٥) حضرت عثمان بن اسود (رض) فرماتے ہیں کہ ایک آدمی کو اپنے بچے کے نسب کے بارے میں شک ہوا تو حضرت عطائ (رض) نے اس سے فرمایا کہ اسے حکم نے بچے کو اپنا بچہ قرار دے۔ کیونکہ حضرت عمر بن خطاب (رض) نے اس بارے میں فرمایا ہے کہ جس نے اس بات کا اقرار کیا کہ اس نے کسی باندی سے جماع کیا ہے تو ہم بچے کو اسی کا قرار دیں گے۔ پھر میں نے اس بارے میں حضرت عکرمہ بن خالد (رض) سے سوال کیا تو انھوں نے بھی فرمایا کہ اسے حکم دو کہ بچے کو اپنا بچہ قرار دے۔

17785

(۱۷۷۸۶) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ قَالَ : أَخْبَرَنَا سَعِیدُ بْنُ أَبِی عَرُوبَۃَ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ رَجَائِ بْنِ حَیْوَۃَ ، عَنْ قَبِیصَۃَ بْنِ ذُؤَیْبٍ ، قَالَ : قَالَ عُمَرُ : حَصِّنُوہُنَّ ، أَوْ لاَ تُحْصِنُوہُنَّ ، لاَ تَلِدُ امْرَأَۃٌ مِنْہُنَّ عَلَی فِرَاشِ أَحَدِکُمْ إلاَّ أَلْحَقْتہ بِہِ یَعْنِی السَّرَارِیَّ۔
(١٧٧٨٦) حضرت عمر بن خطاب (رض) فرماتے ہیں کہ تم ان باندیوں کو پاکدامن سمجھو یا نہ سمجھو، ان میں سے کسی عورت نے اگر تم میں سے کسی کے بستر پر بچے کو جنم دیا تو وہ بچہ اسی کا ہوگا۔

17786

(۱۷۷۸۷) حَدَّثَنَا سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ عَمَّار ، عَنْ أَبِی مُسْلِمٍ ، عَنْ أَبِی عمْرَانَ ، عَنْ أَبِی یَحْیَی قَالَ: رَأَیْتُ رَجُلاً سَأَلَ ابْنَ عَبَّاسٍ ، فَقَالَ : یَا أبا عَبَّاسٍ إنِّی رَجُلٌ أَعْبَثُ بِذَکَرِی حَتَّی أُنْزِلَ ، قَالَ : فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: أُفٍّ أُفٍّ ، ہُوَ خَیْرٌ مِنَ الزِّنَا وَنِکَاحُ الإِمَائِ خَیْرٌ مِنْہُ۔
(١٧٧٨٧) حضرت ابو یحییٰ (رض) فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے حضرت عبداللہ بن عباس (رض) سے سوال کیا کہ اے ابن عباس ! میں اپنے آلہ تناسل کو ہاتھ میں لیتا ہوں اور مجھے انزال ہوجاتا ہے اس کا کیا حکم ہے ؟ حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا ” اف، اف ! یہ زنا جیسا تو نہیں لیکن اس سے بہتر ہے کہ تم باندیوں سے نکاح کرلو۔ “

17787

(۱۷۷۸۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ عِصَام بْنِ قُدَامَۃَ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ ہُوَ الْفَاعِلُ بِنَفْسِہِ۔
(١٧٧٨٨) حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ مشت زنی کرنے والا اپنے ساتھ بدکاری کرنے والا ہے۔

17788

(۱۷۷۸۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ ابْنِ أَبِی ذِئْبٍ ، عَنْ شَیْخٍ قَالَ: سُئِلَ ابْنُ عُمَرَ عَنْہَا یَعْنِی الْخَضْخَضَۃَ ، فَقَالَ: ذَاکَ الْفَاعِلُ بِنَفْسِہِ۔
(١٧٧٨٩) حضرت ابن عمر (رض) سے مشت زنی کے بارے میں سوال کیا گیا تو انھوں نے فرمایا کہ وہ اپنے ساتھ بدکاری کرنے والا ہے۔

17789

(۱۷۷۹۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، عَنْ أَفْلَحَ، عَنِ الْقَاسِمِ قَالَ: سُئِلَ عَنِ {الَّذِینَ ہُمْ لِفُرُوجِہِمْ حَافِظُونَ إلاَّ عَلَی أَزْوَاجِہِمْ، أَوْ مَا مَلَکَتْ أَیْمَانُہُمْ فَإِنَّہُمْ غَیْرُ مَلُومِینَ فَمَنِ ابْتَغَی وَرَائَ ذَلِکَ فَأُولَئِکَ ہُمَ الْعَادُونَ}: فَمَنِ ابْتَغَی وَرَائَ ذَلِکَ فَہُوَ عَادٍ۔
(١٧٧٩٠) حضرت قاسم (رض) سے قرآن مجید کی اس آیت کے بارے میں سوال کیا گیا (ترجمہ)” جو لوگ اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے ہیں، سوائے اپنی باندیوں اور بیویوں کے کہیں شہوت پوری نہیں کرتے، اس بارے میں وہ قابل ملامت نہیں ہیں۔ جو لوگ اس حد سے تجاوز کریں تو وہ سرکشی کرنے والے ہیں “ اس پر حضرت قاسم (رض) نے فرمایا کہ جو باندیوں اور بیویوں کے علاوہ کہیں شہوت پوری کریں تو وہ سرکشی کرنے والے ہیں۔

17790

(۱۷۷۹۱) حدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ وَأَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ ، عَنْ أَبِی الزِّنَادِ ، عَنِ الأَعْرَجِ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ : نَہَی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنِ الشِّغَارِ ، وَزَادَ ابْنُ نُمَیْرٍ : الشِّغَارُ أَنْ یَقُولَ الرَّجُلُ : زَوِّجْنِی ابْنَتَکَ حَتَّی أُزَوِّجَک ابْنَتِی ، أَوْ زَوِّجْنِی أُخْتَکَ حَتَّی أُزَوِّجَک أُخْتِی۔ (مسلم ۶۱۔ ابن ماجہ ۱۸۸۴)
(١٧٧٩١) حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نکاح شغار سے منع فرمایا ہے۔ ابن نمیر (رض) فرماتے ہیں کہ نکاح شغار یہ ہے کہ ایک آدمی کہے کہ تو اپنی بیٹی سے میری شادی کرا دے میں اپنی بیٹی سے تیری شادی کرادیتا ہوں یا اپنی بہن سے میری شادی کرادے میں اپنی بہن سے تیری شادی کرادیتا ہوں۔

17791

(۱۷۷۹۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ مُوسَی بْنِ عُبَیْدَۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ دِینَارٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ وَعَبْدَۃ ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: نَہَی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، عَنِ الشِّغَارِ۔(بخاری ۶۹۶۰۔ مسلم ۵۸)
(١٧٧٩٢) حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نکاح شغار سے منع فرمایا ہے۔

17792

(۱۷۷۹۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ معقل ، عَنْ عَطَائٍ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلہ۔
(١٧٧٩٣) حضرت عطائ (رض) سے بھی یونہی منقول ہے۔

17793

(۱۷۷۹۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إسْرَائِیلَ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ بْنِ عَبْدِ الأَعْلَی ، عَنْ سُوَیْد بْنِ غَفَلَۃَ قَالَ : کَانُوا یَکْرَہُونَ الشِّغَارَ وَالشِّغَارُ : الرَّجُلُ یُزَوِّجُ الرَّجُلَ عَلَی أَنْ یُزَوِّجَہُ بِغَیْرِ مَہْرٍ۔
(١٧٧٩٤) سوید بن غفلہ (رض) فرماتے ہیں کہ اسلاف نکاح شغار کو ناپسند فرماتے تھے۔ شغار یہ ہے کہ آدمی کسی مرد کی شادی بغیر مہر کے اس شرط پر کرائے کہ وہ اس کی شادی کرائے گا۔

17794

(۱۷۷۹۵) حَدَّثَنَا عُمَرُ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَطَائٍ فِی الْمُشَاغِرَیْنِ : یُقَرَّانِ عَلَی نِکَاحِہِمَا وَیُؤْخَذُ لِکُلِّ وَاحِدٍ مِنْہُمَا صَدَاقٌ۔
(١٧٧٩٥) حضرت عطائ (رض) نکاح شغار کے بارے میں فرماتے ہیں کہ ان کا نکاح باقی رہے گا اور دونوں کو مہر ملے گا۔

17795

(۱۷۷۹۶) حَدَّثَنَا عَفَّانُ قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَنْ حُمَیْدٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَیْنٍ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : لاَ شِغَارَ فِی الإِسْلاَمِ۔ (ترمذی ۱۱۲۳۔ ابوداؤد ۲۵۷۴)
(١٧٧٩٦) حضرت عمران بن حصین (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ اسلام میں نکاح شغار نہیں ہے۔

17796

(۱۷۷۹۷) حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ ، عَنْ جَابِرٍ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَہَی عَنِ الشِّغَارِ۔ (مسلم ۶۲۔ احمد ۳/۳۳۹)
(١٧٧٩٧) حضرت جابر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے شغار سے منع فرمایا ہے۔

17797

(۱۷۷۹۸) حَدَّثَنَا حُمَیْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِِ ، عَنِ الْمَسْعُودِیِّ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِی الأَحْوَصِ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ قَالَ : عَلَّمَنَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خُطْبَۃَ الصَّلاَۃِ وَخُطْبَۃَ الْحَاجَۃِ فَأَمَّا خُطْبَۃُ الصَّلاَۃِ فَالتَّشَہُّدُ ، وَأَمَّا خُطْبَۃُ الْحَاجَۃِ ، فَـ إِنَّ : الْحَمْدَ لِلَّہِ نَسْتَعِینُہُ وَنَسْتَغْفِرُہُ وَنَعُوذُ بِاللَّہِ مِنْ شُرُورِ أَنْفُسِنَا مَنْ یَہْدِہِ اللَّہُ فَلاَ مُضِلَّ لَہُ ، وَمَنْ یُضْلِلْ فَلاَ ہَادِیَ لَہُ ، وَأَشْہَدُ أَنْ لاَ إلَہَ إلاَّ اللَّہُ وَأَشْہَدُ أنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَرَسُولُہُ ، ثُمَّ یَقْرَأُ ثَلاَثَ آیَاتٍ مِنْ کِتَابِ اللہِ : {اتَّقُوا اللَّہَ حَقَّ تُقَاتِہِ وَلاَ تَمُوتُنَّ إلاَّ وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ} {وَاتَّقُوا اللَّہَ الَّذِی تَسَائَلُونَ بِہِ وَالأَرْحَامَ إنَّ اللَّہَ کَانَ عَلَیْکُمْ رَقِیبًا} {اتَّقُوا اللَّہَ وَقُولُوا قَوْلاً سَدِیدًا یُصْلِحْ لَکُمْ أَعْمَالَکُمْ وَیَغْفِرْ لَکُمْ ذُنُوبَکُمْ} ثُمَّ تَعْمِدُ لِحَاجَتِک۔ (ابوداؤد ۲۱۱۱۔ احمد ۱/۴۳۲)
(١٧٧٩٨) حضرت عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں نماز اور حاجت کا خطبہ سکھایا۔ نماز کا خطبہ تشہد ہے اور حاجت کا خطبہ یہ ہے : (ترجمہ) تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں، ہم اس سے مدد مانگتے ہیں، ہم اس سے معافی چاہتے ہیں، ہم اپنے نفس کے شرور سے اللہ کی پناہ چاہتے ہیں، جسے اللہ ہدایت دے اسے کوئی گمراہ نہیں کرسکتا اور جسے وہ گمراہ کردے اسے کوئی ہدایت نہیں دے سکتا، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔ پھر قرآن مجید کی تین آیات پڑھتے : (ترجمہ) اللہ سے ڈرو جیسا کہ ڈرنے کا حق ہے، اور تم اسی حال میں مرنا کہ تم مسلمان ہو۔ (ترجمہ) اللہ سے ڈرو جس کے بارے میں اور صلہ رحمی کے بارے میں تم سے سوال کیا جائے گا، بیشک اللہ تم پر نگہبان ہے۔ (ترجمہ) اللہ سے ڈرو اور سیدھی بات کرو۔ اللہ تمہارے اعمال کی اصلاح فرمائے گا اور تمہارے گناہوں کو معاف فرمائے گا۔۔۔ یہ خطبہ پڑھنے کے بعد اپنی حاجت کا ارادہ کرو۔

17798

(۱۷۷۹۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ جَعْفَرٍ ، عَنْ أَبِیہِ أَنَّ الْحُسَیْنَ بْنَ عَلِیٍّ کَانَ یُزَوِّجُ بَعْضَ بَنَاتِ الْحَسَنِ وَہُوَ یتعرق العرق۔
(١٧٧٩٩) حضرت جعفر (رض) کے والد فرماتے ہیں کہ حضرت حسین بن علی (رض) حضرت حسن (رض) کی ایک لڑکی کا نکاح اس حال میں کروا رہے تھے کہ وہ ہڈی سے گوشت اتار کر کھا رہے تھے۔

17799

(۱۷۸۰۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ نَصْرٍ ، عَنْ عَطَائٍ أَنَّہُ قَرَأَ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ ثُمَّ زَوَّجَ۔
(١٧٨٠٠) حضرت نصر (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عطائ (رض) سے بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھ کر نکاح کرادیا۔

17800

(۱۷۸۰۱) حَدَّثَنَا مُعَاوِیَۃُ بْنُ ہِشَامٍ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ أَنَّ مَسْرُوقًا زَوَّجَ شُرَیْحًا وَلَمْ یَخْطُبْ ثُمَّ قَالَ : قَدْ قُضِیت تِلْکَ الْحَاجَۃَ۔
(١٧٨٠١) حضرت اسماعیل (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت مسروق (رض) نے حضرت شریح (رض) کی شادی کرائی لیکن خطبہ نہیں پڑھا اور فرمایا کہ یہ ضرورت پوری ہوگئی۔

17801

(۱۷۸۰۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ أَبِی بَکْرِ بْنِ حَفْصٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ عُرْوَۃَ بْنَ الزُّبَیْرِ یَقُولُ : خَطَبْت إلَی ابْنِ عُمَرَ ابْنَتَہُ ، فَقَالَ : إِنَّ ابْنَ أَبِی عَبْدِ اللہِ لأَہْلٌ أَنْ یُنْکَحَ ؟ نَحْمَدُ اللَّہَ وَنُصَلِّی عَلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَقَدْ زَوَّجْنَاک عَلَی مَا أَمَرَ اللَّہُ: {إمْسَاکٌ بِمَعْرُوفٍ ، أَوْ تَسْرِیحٌ بِإِحْسَانٍ} قَالَ : شُعْبَۃُ : أَحْسَبُہُ قَالَ : أَنْکَحَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَجُلاً وَہُوَ یَمْشِی ، قَالَ : شُعْبَۃُ : قَالَ أَبُو بَکْرِ بْنُ حَفْصٍ : لاَ أَدْرِی الَّذِی قَالَ: أَحْسَبُہُ عُرْوَۃُ بْنُ الزُّبَیْرِ أَوِ ابْنُ عُمَرَ۔ (بیہقی ۱۴۷)
(١٧٨٠٢) حضرت عروہ بن زبیر (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عمر (رض) کی بیٹی کے لیے نکاح کا پیغام بھجوایا تو انھوں نے فرمایا کہ ابو عبداللہ (رض) کا بیٹا نکاح کا اہل ہے۔ ہم اللہ کی تعریف کرتے ہیں، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر درود بھیجتے ہیں۔ ہم نے اللہ کے امر {إمْسَاکٌ بِمَعْرُوفٍ ، أَوْ تَسْرِیحٌ بِإِحْسَانٍ } پر عمل کرتے ہوئے تمہاری شادی کرادی۔ حضرت شعبہ (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) نے چلتے ہوئے ایک آدمی کا نکاح کرادیا۔

17802

(۱۷۸۰۳) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مُسْلِمٍ ، عَنْ حُمَیْدَۃَ مَوْلاَۃٍ لِعُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِیزِ قَالَتْ : کَانَ عُمَرُ یَقُولُ : لاَ تَدَعِینَ بَنَاتِی یَنَمْنَ مُسْتَلْقِیَاتٍ عَلَی ظُہُورِہِنَّ فَإِنَّ الشَّیْطَانَ یَظَلُّ یَطْمَعُ مَا دُمْنَ کَذَلِکَ۔
(١٧٨٠٣) حضرت عمر (رض) فرمایا کرتے تھے کہ اپنی بیٹیوں کو بالکل سیدھا لیٹ کر مت سونے دو کیونکہ جب تک وہ اس حالت میں رہتی ہیں شیطان ان میں رغبت کرتا رہتا ہے۔

17803

(۱۷۸۰۴) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ ہِشَامٍ قَالَ : کَانَ ابْنُ سِیرِینَ یَکْرَہُ أَنْ تَکُونَ الْمَرْأَۃُ مُسْتَلْقِیَۃً۔
(١٧٨٠٤) حضرت ابن سیرین (رض) کے نزدیک عورت کا بالکل سیدھا لیٹ کر سونا مکروہ ہے۔

17804

(۱۷۸۰۵) حَدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ قَالَ : إذَا أَسْلَمَتِ الْمَرْأَۃُ وَلَہَا زَوْجٌ یَہُودِیٌّ ، أَوْ نَصْرَانِیٌّ ، أَوْ مَجُوسِیٌّ ، وَلَمْ یُسْلِمْ ہُوَ فَلاَ شَیْئَ لَہَا مَا لَمْ یَدْخُلْ بِہَا۔
(١٧٨٠٥) حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کوئی عورت اسلام قبول کرے اور اس کا کوئی یہودی، عیسائی یا مجوسی خاوند ہو جس نے اسلام قبول نہ کیا ہو تو جب تک دخول نہ کرے اسے کچھ نہیں ملے گا۔

17805

(۱۷۸۰۶) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ عُبَیْدَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالَ : لاَ شَیْئَ لَہَا۔
(١٧٨٠٦) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ اسے کچھ نہیں ملے گا۔

17806

(۱۷۸۰۷) حَدَّثَنَا عَبَّادُ بن العَوام ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ الْحَسَنِ قَالَ : یُفَرَّقُ بَیْنَہُمَا وَلَہَا نِصْفُ الصَّدَاقِ۔
(١٧٨٠٧) حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ ان دونوں کے درمیان جدائی کرادی جائے گی اور عورت کو آدھا مہر ملے گا۔

17807

(۱۷۸۰۸) حَدَّثَنَا حَرَمِیُّ بْنُ عُمَارَۃَ بْنِ أَبِی حَفْصَۃَ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنِ الْہَیْثُمِ ، عَنْ حَمَّادٍ قَالَ : لَہَا نِصْفُ الصَّدَاقِ۔
(١٧٨٠٨) حضرت حماد (رض) فرماتے ہیں کہ اس عورت کو آدھا مہر ملے گا۔

17808

(۱۷۸۰۹) حَدَّثَنَا یَزِیدُ، عَنْ حَبِیبٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ ہَرِمٍ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ زَیْدٍ؛ سُئِلَ عَنْ رَجُلٍ کَانَتْ تَحْتَہُ نَصْرَانِیَّۃٌ فَأَسْلَمَتْ ، وَأَبَی زَوْجُہَا أَنْ یُسْلِمَ قَالَ : أَرَی أَنْ یُفَرَّقَ بَیْنَہُمَا ، فَإِنْ کَانَ دَخَلَ بِہَا فَلَہَا الْمَہْرُ کَامِلاً ، وَإِنْ لَمْ یَکُنْ دَخَلَ بِہَا رَدَّتْ إلَیْہِ مَا أَعْطَاہَا۔
(١٧٨٠٩) حضرت جابر بن زید (رض) سے سوال کیا گیا کہ اگر کسی کافر مرد کے نکاح میں عیسائی عورت ہو اور وہ عورت اسلام قبول کرلے جبکہ اس کا شوہر اسلام قبول کرنے سے انکار کردے تو کیا حکم ہے ؟ حضرت جابر بن زید (رض) نے فرمایا کہ میری رائے یہ ہے کہ دونوں کے درمیان جدائی کرادی جائے گی، اگر مرد نے دخول کیا ہے تو عورت کو پورا مہر ملے گا اور اگر دخول نہیں کیا تو عورت اسے حاصل شدہ مال واپس کرے گی۔

17809

(۱۷۸۱۰) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ أَنَّہُ قَالَ : لَہَا نِصْفُ الصَّدَاقِ۔
(١٧٨١٠) حضرت قتادہ (رض) فرماتے ہیں کہ اس عورت کو آدھا مہر ملے گا۔

17810

(۱۷۸۱۱) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنِ الشَّیْبَانِیِّ ، عَمَّنْ حَدَّثَہُ عَنْ مَسْرُوقٍ أَنَّہُ قَالَ : فِی رَجُلٍ أَقَرَّ لامْرَأَتِہِ بِصَدَاقِہَا فِی مَرَضِہِ قَالَ : لاَ یَجُوزُ ذَلِکَ۔
(١٧٨١١) حضرت مسروق (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص مرض الموت میں بیوی کے لیے مہر کا اقرار کرے تو یہ درست نہیں۔

17811

(۱۷۸۱۲) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنِ الْعَوَّامِ أَنَّ مَسْرُوقًا أَجَازَ إقْرَارَہُ۔
(١٧٨١٢) حضرت مسروق (رض) نے ایسے اقرار کو درست قرار دیا۔

17812

(۱۷۸۱۳) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنِ ابْنِ أَبِی لَیْلَی ، عَنِ الْحَکَمِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالَ : یَجُوزُ إقْرَارُہُ لَہَا بِصَدَاقِ مِثْلِہَا۔
(١٧٨١٣) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ مہر مثلی کا اقرار کرنا درست ہے۔

17813

(۱۷۸۱۴) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ أَنَّہُ کَانَ یُجِیزُ ذَلِکَ۔
(١٧٨١٤) حضرت حسن (رض) کے نزدیک ایسا اقرار درست ہے۔

17814

(۱۷۸۱۵) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِہِ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، أَنَّہُ کَانَ لاَ یُجِیزُ إقْرَارَہُ لَہَا لأَنَّہَا وَارِثٌ ، وَلاَ یَجُوزُ وَصِیَّۃٌ لِوَارِثٍ۔
(١٧٨١٥) حضرت شعبی (رض) فرماتے ہیں کہ خاوند کے لیے ایسا اقرار درست نہیں کیونکہ عورت اس کی وارث ہے اور وارث کے لیے وصیت نہیں ہوتی۔

17815

(۱۷۸۱۶) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ ، عَنِ الشَّیْبَانِیِّ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ قَالَ : الْقَوْلُ قَوْلُ الرَّجُلِ وَقَالَ حَمَّادُ ، وَابْنُ ذَکْوَانَ : الْقَوْلُ قَوْلُہَا مَا بَیْنَہَا وَبَیْنَ مَہْرِ مِثْلِہَا۔
(١٧٨١٦) حضرت شعبی (رض) فرماتے ہیں کہ مرد کا قول معتبر ہوگا اور حضرت حماد اور حضرت ذکوان (رض) فرماتے ہیں کہ اگر عورت کا قول مہر مثلی سے کم کا ہو تو عورت کا قول معتبر ہوگا۔

17816

(۱۷۸۱۷) حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ مُعَاذٍ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : قَالَ : ہُوَ قَوْلُہَا مَا بَیْنَہَا وَبَیْنَ صَدَاقِ نِسَائِہَا۔
(١٧٨١٧) حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ اگر عورت کا قول مہر مثلی سے کم کا ہو تو عورت کا قول معتبر ہوگا۔

17817

(۱۷۸۱۸) حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِیٍّ، عَنْ سُفْیَانَ، عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ وَعَنْ إسْمَاعِیلَ بْنِ سَالِمٍ، عَنِ الشَّعْبِیِّ قَالاَ: فِی رَجُلٍ تَزَوَّجَ امْرَأَۃً عَلَی عَاجِلٍ، أَوْ آجِلٍ فَدَخَلَ بِہَا قَالاَ: الْبَیِّنَۃُ أَنَّہُ دَفَعَہُ إلَیْہَا۔
(١٧٨١٨) حضرت سعید بن جبیر اور حضرت شعبی (رض) فرماتے ہیں کہ اگر آدمی نے عورت سے مہر آجل اور مہر عاجل کے بدلے نکاح کیا ، پھر آدمی نے دخول کرلیا تو گواہی اس بات پر قائم ہوگی کہ اس نے مہرا دا کردیا ہے۔

17818

(۱۷۸۱۹) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنِ الشَّیْبَانِیِّ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ فِی الْمَرْأَۃِ تَدَّعِی الصَّدَاقَ بَعْدَ وَفَاۃِ زَوْجِہَا قَالَ : یَسْأَلُہَا الْبَیِّنَۃَ۔
(١٧٨١٩) حضرت شعبی (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کوئی عورت خاوند کی وفات کے بعد مہر کا دعویٰ کرے تو قاضی اس سے گواہی مانگے گا۔

17819

(۱۷۸۲۰) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ خَالِدِ بْنِ دِینَارٍ ، عَنِ الْحَکَمِ قَالَ : بینتہا وَقَالَ حَمَّادٌ : صَدَاقُ نِسَائِہَا۔
(١٧٨٢٠) حضرت حکم (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کوئی عورت خاوند کی وفات کے بعد مہر کا دعویٰ کرے تو گواہی لائے گی۔ حضرت حماد (رض) فرماتے ہیں کہ اسے مہر مثلی ملے گا۔

17820

(۱۷۸۲۱) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنِ الشَّیْبَانِیِّ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ قَالَ : الْبَیِّنَۃُ عَلَی أَہْلِ الصَّدَاقِ أَوْلِیَائِ الْمَرْأَۃِ وَعَلَی أَہْلِ الرَّجُلِ الْمُخْرَجِ مِنْ ذَلِکَ۔
(١٧٨٢١) حضرت شعبی (رض) فرماتے ہیں کہ گواہی مہر والوں پر یعنی عورت کے اولیاء پر ہوگی اور مرد کے اہل پر اس سے نکالا ہوا ہوگا۔

17821

(۱۷۸۲۲) حدَّثَنَا عَبْدُ السَّلاَمِ بْنُ حَرْبٍ ، عَنِ الْعَلاَئِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ، عَنِ الْفُضَیْلِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ فِی الرَّجُلِ یَقْذِفُ امْرَأَتَہُ قَبْلَ أَنْ یَدْخُلَ بِہَا قَالَ : یُلاَعِنُہَا وَلَہَا نِصْفُ الصَّدَاقِ فَإِنْ ظَہَرَ بِہَا حَمْلٌ فَلَہَا الصَّدَاقُ کَامِلاً۔
(١٧٨٢٢) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص دخول سے پہلے اپنی بیوی پر تہمت لگادے تو مرد بیوی سے لعان کرے گا اور اسے نصف مہر ملے گا اور اگر اس کا حمل ظاہر ہوجائے تو اسے پورا مہر ملے گا۔

17822

(۱۷۸۲۳) حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ عَیَّاشٍ ، عَنْ مُطَرِّفٍ ، عَنْ عَامِرٍ قَالَ : إذَا قَذَفَ الرَّجُلُ امْرَأَتَہُ قَبْلَ أَنْ یَدْخُلَ بِہَا لاَعَنَہَا وَلَہَا نِصْفُ الصَّدَاقِ۔
(١٧٨٢٣) حضرت عامر (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص دخول سے پہلے اپنی بیوی پر تہمت لگادے تو مرد اس سے لعان کرے گا اور اسے آدھا مہر ملے گا۔

17823

(۱۷۸۲۴) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، وَابْنِ عُمَرَ قَالاَ : إذَا قَذَفَہَا قَبْلَ أَنْ یَدْخُلَ بِہَا لاَعَنَہَا وَلَہَا نِصْفُ الصَّدَاقِ۔
(١٧٨٢٤) حضرت حسن اور حضرت ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص دخول سے پہلے اپنی بیوی پر تہمت لگادے تو مرد اس سے لعان کرے گا اور اسے آدھا مہر ملے گا۔

17824

(۱۷۸۲۵) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ زُرَارَۃَ بْنِ أَوْفَی مِثْلَہُ۔
(١٧٨٢٥) حضرت زرارہ بن اوفیٰ (رض) سے یونہی منقول ہے۔

17825

(۱۷۸۲۶) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ مِثْلَہُ۔
(١٧٨٢٦) حضرت ابراہیم (رض) سے یونہی منقول ہے۔

17826

(۱۷۸۲۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنِ الشَّیْبَانِیِّ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ قَالَ : إذَا قَذَفَ الرَّجُلُ امْرَأَتَہُ قَبْلَ أَنْ یَدْخُلَ بِہَا لاَعَنَ وَلَہَا نِصْفُ الصَّدَاقِ۔
(١٧٨٢٧) حضرت شعبی (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص دخول سے پہلے اپنی بیوی پر تہمت لگادے تو مرد اس سے لعان کرے گا اور اسے آدھا مہر ملے گا۔

17827

(۱۷۸۲۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ مُطَرِّفٍ ، عَنِ الْحَکَمِ قَالَ : إذَا کَانَ بِہَا حَمْلٌ فَلَہَا الصَّدَاقُ کَامِلاً۔
(١٧٨٢٨) حضرت حکم (رض) فرماتے ہیں کہ اگر اس کا حمل ظاہر ہو تو اسے پورا مہر ملے گا۔

17828

(۱۷۸۲۹) حَدَّثَنَا أَبُو بَحْرٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَطَائٍ قَالَ : یُلاَعِنُ وَلَہَا نِصْفُ الصَّدَاقِ۔
(١٧٨٢٩) حضرت عطائ (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص دخول سے پہلے اپنی بیوی پر تہمت لگادے تو مرد اس سے لعان کرے گا اور اسے آدھا مہر ملے گا۔

17829

(۱۷۸۳۰) حَدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنْ أَبِی قِلاَبَۃَ قَالَ : کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقْسِمُ بَیْنَ نِسَائِہِ فَیَعْدِلُ ثُمَّ یَقُولُ : اللَّہُمَّ ہَذِہِ قِسْمَتِی فِیمَا أَمْلِکُ فَلاَ تَلُمْنِی فِیمَا تَمْلِکُ أَنْتَ وَلاَ أَمْلِکُ۔
(١٧٨٣٠) حضرت ابو قلابہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی ازواج کے مابین عدل سے تقسیم فرمایا کرتے تھے اور ارشاد فرماتے کہ اے اللہ ! یہ میری وہ تقسیم ہے جو میرے اختیار میں تھی اور جو میرے اختیار میں نہیں تیرے اختیار میں ہے اس کے بارے میں مجھ سے مواخذہ نہ فرما۔

17830

(۱۷۸۳۱) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ قَالَ: أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنْ أَبِی قِلاَبَۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ یَزِیدَ، عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ: کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقْسِمُ بَیْنَ نِسَائِہِ فَیَعْدِلُ ثُمَّ یَقُولُ : اللَّہُمَّ ہَذَا فِعْلِی فِیمَا أَمْلِکُ فَلاَ تَلُمْنِی فِیمَا تَمْلِکُ وَلاَ أَمْلِکُ۔ (احمد ۶/۱۴۴۔ ابن حبان ۴۲۰۵)
(١٧٨٣١) حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی ازواج کے مابین عدل سے تقسیم فرمایا کرتے تھے اور ارشاد فرماتے کہ اے اللہ ! یہ میری وہ تقسیم ہے جو میرے اختیار میں تھی اور جو میرے اختیار میں نہیں تیرے اختیار میں ہے اس کے بارے میں مجھ سے مواخذہ نہ فرما۔

17831

(۱۷۸۳۲) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ أَنَّ مُعَاذًا کَانَتْ لَہُ امْرَأَتَانِ ، وَکَانَ یَکْرَہُ أَنْ یَتَوَضَّأَ فِی یَوْمِ ہَذِہِ عِنْدَ ہَذِہِ ، أَوْ یَکُونَ فِی یَوْمِ ہَذِہِ عِنْدَ ہَذِہِ۔
(١٧٨٣٢) حضرت یحییٰ بن سعید (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت معاذ (رض) کی دو بیویاں تھیں، وہ اس بات کو ناپسند کرتے کہ ایک کی باری والے دن دوسری کے یہاں سے وضو بھی کرلیں یا دوسری کے پاس رہیں۔

17832

(۱۷۸۳۳) حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّیَالِسِیُّ ، عَنْ ہَارُونَ بْنِ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : سَمِعْتُ مُحَمَّدًا یَقُولُ فِی الذی لہ امْرَأَتَانِ : یُکْرَہُ أَنْ یَتَوَضَّأَ فِی بَیْتِ إحْدَاہُمَا دُونَ الأُخْرَی۔
(١٧٨٣٣) حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں کہ اگر کسی شخص کی دو بیویاں ہوں تو ایک کی باری والے دن دوسرے کے یہاں وضو کرنا بھی مکروہ ہے۔

17833

(۱۷۸۳۴) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بکر ، عَنْ عُبَیْدٍ أَبِی الْحَزمِ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ زَیْدٍ قَالَ : کَانَتْ لِی امْرَأَتَانِ فَکُنْت أَعْدِلُ بَیْنَہُمَا حَتَّی فِی الْقُبَلِ۔
(١٧٨٣٤) حضرت جابر بن زید (رض) فرماتے ہیں کہ میری دو بیویاں تھیں میں ان دونوں کے درمیان توجہ کرنے میں بھی عدل سے کام لیتا تھا۔

17834

(۱۷۸۳۵) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ آدَمَ ، عَنْ شَرِیکٍ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ قَالَ : کَانُوا یَسْتَحِبُّونَ أَنْ یَعْدِلُوا بَیْنَ النِّسَائِ حَتَّی فِی الطِّیبِ ، یَتَطَیَّبُ لِہَذِہِ کَمَا یَتَطَیَّبُ لِہَذِہِ۔
(١٧٨٣٥) حضرت مجاہد (رض) فرماتے ہیں کہ اسلاف اس بات کو پسند فرماتے ہیں کہ خوشبو لگانے میں بھی بیویوں کے درمیان برابری سے کام لیں۔ ایک کے لیے بھی وہی خوشبو لگائیں جو دوسری کے لیے لگاتے ہیں۔

17835

(۱۷۸۳۶) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ أَبِی مَعْشَرٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ فِی الرَّجُلِ یَجْمَعُ بَیْنَ الضَّرَائِرِ ، فَقَالَ : إِنْ کَانُوا لَیُسَوُّونَ بَیْنَہُمْ حَتَّی تَبْقَی الْفَضْلَۃُ مِمَّا لاَ یُکَالُ مِنَ السَّوِیقِ وَالطَّعَامِ ، فَیَقْسِمُونَہُ کَفًّا کَفًّا إذَا کَانَ یَبْقَی الشَّیْئُ مِمَّا لاَ یَسْتَطِعْ کَیْلَہُ۔
(١٧٨٣٦) حضرت ابراہیم (رض) ایک سے زیادہ شادیاں کرنے والے شخص سے فرمایا کرتے تھے کہ اسلاف بیویوں کے درمیان برابری کرنے میں اس قدر احتیاط سے کام لیتے تھے کہ ستو اور غلے وغیرہ میں سے وہ چیز جو بچ جاتی اور کیل میں نہ آسکتی تو اس کو ہتھیلیوں سے تقسیم کرتے۔

17836

(۱۷۸۳۷) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ أَبِی مَعْشَرٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالَ : لَمَّا مَرِضَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اسْتَحَلَّ نِسَائَہُ أَنْ یُمَرَّضَ فِی بَیْتِ عَائِشَۃَ قَالَ : فَأَحْلَلْنَ لَہُ ، فَکَانَ فِی بَیْتِ عَائِشَۃَ۔ (بخاری ۱۹۸۔ مسلم ۹۱)
(١٧٨٣٧) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مرض شدت اختیار کرگیا تو آپ نے دیکھ بھال کے لیے حضرت عائشہ (رض) کے گھر قیام کے لیے باقی ازواج سے اجازت طلب کی۔ سب نے اجازت دے دی اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت عائشہ (رض) کے یہاں قیام پذیر ہوگئے۔

17837

(۱۷۸۳۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ ہَمَّامِ بْنِ یَحْیَی ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنِ النَّضْرِ بْنِ أَنَسٍ ، عَنْ بَشِیرِ بْنِ نَہِیکٍ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَنْ کَانَت لَہُ امْرَأَتَانِ ، فَکَانَ یَمِیلُ مَعَ إحْدَاہُمَا عَلَی الأُخْرَی بُعِثَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَأَحَدُ شِقَّیْہِ سَاقِطٌ۔ (ترمذی ۱۱۴۱۔ ابوداؤد ۲۱۲۶)
(١٧٨٣٨) حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ جس شخص کی دو بیویاں ہوں اور وہ ایک کی خاطر مدارت دوسری سے بڑھ کر کرتا ہو تو قیامت کے دن اسے اس حال میں اٹھایا جائے گا کہ اس کا ایک پہلوگرا ہوگا۔

17838

(۱۷۸۳۹) حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ ، عَنْ غَالِبٍ قَالَ : سَأَلْتُ الْحَسَنَ ، أَوْ سُئِلَ عَنْ رَجُلٍ تَکُونُ لَہُ امْرَأَتَانِ فِی بَیْتٍ قَالَ : کَانُوا یَکْرَہُونَ الْوَجْسَ وَہُوَ أَنْ یَطَأَ إحْدَاہُمَا وَالأُخْرَی تری ، أَوْ تَسْمَعُ۔
(١٧٨٣٩) حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ اگر ایک آدمی کی دو بیویاں ایک کمرے میں ہوں تو ایک کے سامنے یا اس کے سنتے ہوئے دوسری سے جماع کرنا مکروہ ہے۔

17839

(۱۷۸۴۰) حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ ، عَنْ أَبِی شَیْبَۃَ ، قَالَ : سَمِعْتُ عِکْرِمَۃَ یُحَدِّثُ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : کَانَ یَنَامُ بَیْنَ جَارِیَتَیْنِ۔
(١٧٨٤٠) حضرت عکرمہ (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عباس (رض) اپنی دو باندیوں کے درمیان سویا کرتے تھے۔

17840

(۱۷۸۴۱) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ، عَنْ شَرِیکٍ، عَنْ لَیْثٍ، عَنْ عَطَائٍ أَنَّہُ کَانَ لاَ یَرَی بَأْسًا أَنْ یَنَامَ الرَّجُلُ بَیْنَ الأَمَتَیْنِ۔
(١٧٨٤١) حضرت عطائ (رض) فرماتے ہیں کہ دو باندیوں کے درمیان سونے میں کوئی حرج نہیں۔

17841

(۱۷۸۴۲) ہُشَیْمٌ ، عَنْ خَالِدٍ ، عَنْ عزرۃ عن شریح أَنّہ قَالَ فی رَجُلٍ أُہْدیَتْ إلَیْہِ امْرَأَتُہُ فَزَعَمَ أَنَّہُ لَمْ یَدْخُلْ بِہَا ، وَأَقَرَّتْ ہِیَ بِذَلِکَ ، فَقَضَی لَہَا بِنِصْفِ الصَّدَاقِ ، وَأَلْزَمَہَا الْعِدَّۃَ وَقَالَ : لاَ أُصدِّقُکَ عَلَی نَفْسِکَ وَلاَ أُصدِّقُکِ لِنَفْسِک۔
(١٧٨٤٢) حضرت شریح (رض) فرماتے ہیں کہ اگر ایک آدمی کو اس کی بیوی پیش کی گئی، لیکن اس کا دعویٰ ہے کہ اس نے بیوی سے دخول نہیں کیا، عورت بھی اس کا اقرار کرتی ہے، تو عورت کو نصف مہر ملے گا اور اس پر عدت بھی لازم ہوگی۔ نیز یہ فیصلہ کرنے کے بعد قاضی شریح (رض) نے فرمایا کہ میں تیرے نفس پر تیری تصدیق نہیں کرتا اور عورت کے نفس پر اس کی تصدیق نہیں کرتا۔

17842

(۱۷۸۴۳) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ یَزِیدَ ، عَنْ أَیُّوبَ أَبِی الْعَلاَئِ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنِ الْحَسَنِ قَالَ : عَلَیْہِ کَامِلاً إِنْ شَائَتْ أَخَذَتْہُ ، وَإِنْ شَائَتْ تَرَکَتْہُ۔
(١٧٨٤٣) حضرت حسن (رض) ایسی صورت میں فرماتے ہیں کہ مرد پر پورا مہر لازم ہوگا عورت چاہے تو لے لے اور اگر چاہے تو چھوڑ دے۔

17843

(۱۷۸۴۴) حدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ عَامِرٍ قَالَ : سَأَلَ الشَّعْبِیَّ رَجُلٌ ، فَقَالَ رَجُلٌ قَالَ لِلرَّجُلِ : إذَا مَضَی شَوَّالٌ زَوَّجْتُک ابْنَتِی ، فَقَالَ : لَیْسَ ہَذَا بِنِکَاحٍ۔
(١٧٨٤٤) حضرت شعبی (رض) فرماتے ہیں کہ اگر ایک آدمی نے کسی آدمی سے کہا کہ جب شوال کا مہینہ گذر جائے گا تو میں اپنی بیٹی سے تیری شادی کرادوں گا تو یہ نکاح نہیں ہے۔

17844

(۱۷۸۴۵) حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ عَیَّاشٍ ، عَنِ الشَّیْبَانِیِّ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ فِی الْعَبْدِ یَتَزَوَّجُ بِإِذْنِ مَوْلاَہُ قَالَ : عَلَیْہِ النَّفَقَۃُ۔
(١٧٨٤٥) حضرت شعبی (رض) فرماتے ہیں کہ اگر آقا غلام کو شادی کی اجازت دے تو نفقہ اسی پر لازم ہوگا۔

17845

(۱۷۸۴۶) حَدَّثَنَا مُعْتَمِرُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنِ الْحَسَنِ قَالَ : لاَ تَحَسَّرُ الْمَرْأَۃُ عِنْدَ وَلَدٍ وَلا وَالِدٍ وَلاَ أَخٍ إلاَّ عِنْدَ زَوْجِہَا۔
(١٧٨٤٦) حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ عورت اپنے بیٹے، والد یا بھائی کے پاس کھلے سر نہیں بیٹھ سکتی، صرف خاوند کے ساتھ بیٹھ سکتی ہے۔

17846

(۱۷۸۴۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، وَابْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ أَبِی الزَّعْرَائِ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ قَالَ : مُبَاشَرَۃُ الرَّجُلِ أُمَّہُ وَأُخْتَہُ شُعْبَۃٌ مِنَ الزِّنَا۔
(١٧٨٤٧) حضرت عکرمہ (رض) فرماتے ہیں کہ آدمی کی جلد کا اپنی ماں یا بہن کی جلد کو چھونا زنا کا ایک شعبہ ہے۔

17847

(۱۷۸۴۸) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ أَبِی عُثْمَانَ ، عَنْ سَلْمَانَ قَالَ : مَا أُبَالِی إذَا خَلَوْت بِأَہْلِی وَأَغْلَقْت بَابِی وَأَرْخَیْت سِتْرِی حَدَّثْت بِہِ النَّاسَ ، أَوْ صَنَعْت ذَلِکَ وَالنَّاسُ یَنْظُرُونَ۔
(١٧٨٤٨) حضرت سلمان (رض) فرماتے ہیں کہ میں اپنی بیوی کے ساتھ خلوت اختیار کروں، دروازہ بند کروں ، پردہ لٹکادوں اور پھر ان باتوں کو بیان کروں تو میرے لیے لوگوں سے ان باتوں کا بیان کرنا اور اس حالت میں لوگوں کا مجھے دیکھنا برابر ہے۔

17848

(۱۷۸۴۹) حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ عُمَر بْنِ حَمْزَۃَ الْعُمَرِیِّ قَالَ : حدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ سَعْدٍ مَوْلًی لأَبِی سُفْیَانَ ، قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إنَّ مِنْ شَرِّ النَّاسِ عِنْدَ اللہِ مَنْزِلَۃً یَوْمَ الْقِیَامَۃِ الرَّجُلَ یُفْضِی إلَی امْرَأَتِہِ وَتُفْضِی إلَیْہِ ثُمَّ یَنْشُرُ سِرَّہَا۔ (مسلم ۱۲۴۔ ابوداؤد ۴۸۳۷)
(١٧٨٤٩) حضرت ابو سعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک بدترین شخص قیامت کے دن وہ ہوگا جو اپنی بیوی سے ضرورت پوری کرے اور وہ اس سے ضرورت پوری کرے پھر وہ اس کے راز کو افشا کردے۔

17849

(۱۷۸۵۰) حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الْجُرَیْرِیِّ ، عَنْ أَبِی نَضْرَۃَ ، عَنِ الطُّفَاوِیِّ ، عَنْ أَبِی ہریرۃ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : عسی أَحَدُکُمْ یُخْبِرُ بِمَا صَنَعَ بِأَہْلِہِ ؟ وَعَسَی إحْدَاکُنَّ أَنْ تُخْبِرَ بِمَا یصْنَعُ بِہَا زَوْجُہَا ، فَقَامَتِ امْرَأَۃٌ سَوْدَائُ ، فَقَالَتْ : یَا رَسُولَ اللہِ ، إنَّہُمْ لَیَفْعَلُونَ وَإِنَّہُنَّ لَیَفْعَلْنَ ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: أَلاَ أُخْبِرُکُمْ بِمَثَلِ ذَلِکَ؟ إنما مَثَلُ ذَلِکَ کَمَثَلِ شَیْطَانٍ لَقِیَ شَیْطَانَۃً فَوَقَعَ عَلَیْہَا فِی الطَّرِیقِ وَالنَّاسُ یَنْظُرُونَ فَقَضَی حَاجَتَہُ مِنْہَا وَالنَّاسُ یَنْظُرُونَ۔(ابوداؤد ۴۰۱۵۔ احمد ۲/۵۴۰)
(١٧٨٥٠) حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ یہ بات کیسے درست ہے کہ تم مردوں میں سے کوئی شخص اپنی بیوی سے ملاقات کی تفصیل لوگوں کو بتائے یا تم میں سے کوئی عورت اپنے خاوند سے ملاقات کی تفصیل لوگوں کو بتائے۔ اس پر ایک سیاہ فام عورت نے کہا کہ اے اللہ کے رسول ! کہ جب مرد اور عورت یہ کرتے ہیں تو بتانے میں کیا حرج ہے ؟ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میں تمہیں یہ بات ایک مثال سے سمجھاتا ہوں، اس کی مثال ایسے ہے جیسے نر شیطان کسی مادہ شیطان سے ملتا ہے اور راستہ میں اس سے جماع کرتا ہے جبکہ لوگ دیکھ رہے ہوتے ہیں، وہ اس سے اپنی ضرورت پوری کرتا ہے جبکہ لوگ دیکھ رہے ہوتے ہیں۔

17850

(۱۷۸۵۱) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ عَوَّامٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ : {وَإِذَا مَرُّوا بِاللَّغْوِ مَرُّوا کِرَامًا} قَالَ : کانوا إذَا أَتَوْا عَلَی ذِکْرِ النِّکَاحِ کَنَوْا عَنْہُ۔
(١٧٨٥١) حضرت مجاہد (رض) قرآن مجید کی آیت { وَإِذَا مَرُّوا بِاللَّغْوِ مَرُّوا کِرَامًا } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ جب وہ نکاح کا تذکرہ کرتے ہیں تو کنایہ کے ساتھ کرتے ہیں۔

17851

(۱۷۸۵۲) حَدَّثَنَا حَفْصٌ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ قَیْسٍ، عَنْ حَبِیبٍ قَالَ: کَانَ عُمَرُ لاَ یُجِیزُ النِّکَاحَ فِی عَامِ سَنَۃٍ یَعْنِی مَجَاعَۃً۔
(١٧٨٥٢) حضرت حبیب (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) قحط سالی کے دنوں میں نکاح کی اجازت نہیں دیتے تھے۔

17852

(۱۷۸۵۳) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ عُبَیْدَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالَ : إذَا أنْکَحَ الْمَرْأَۃَ الْوَلِیُّ فَلَمْ تَرْضَ ثُمَّ رَضِیَتْ بَعْدُ لَمْ یَصْلُحْ ذَلِکَ النِّکَاحُ حَتَّی یَکُونَ نِکَاحٌ جَدِیدٌ۔
(١٧٨٥٣) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ اگر ولی کسی عورت کا نکاح کرائے لیکن وہ راضی نہ ہو البتہ بعد میں راضی ہوجائے تو پرانا نکاح درست نہیں نیا کرنا ہوگا۔

17853

(۱۷۸۵۴) حدَّثَنَا ہُشَیْمٌ، عَنْ مُجَالِدٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنْ عُمَرَ ، قَالَ: إذَا أَقَرَّ بِوَلَدِہِ مَرَّۃً وَاحِدَۃً فَلَیْسَ لَہُ أَنْ یَنْفِیَہُ۔
(١٧٨٥٤) حضرت عمر (رض) فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ بچے کا اقرار کرنے کے بعد اس کا انکار نہیں کرسکتا۔

17854

(۱۷۸۵۵) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ مُجَالِدٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنْ عَلِیٍّ قَالَ : إذَا أَقَرَّ بِہِ فَلَیْسَ لَہُ أَنْ یَنْفِیَہُ۔
(١٧٨٥٥) حضرت علی (رض) فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ بچے کا اقرار کرنے کے بعد اس کا انکار نہیں کرسکتا۔

17855

(۱۷۸۵۶) حَدَّثَنَا حَفْصٌ، عَنْ مُجَالِدٍ، عَنْ شُرَیْحٍ قَالَ: إذَا أَقَرَّ بِہِ، أَوْ ہُنِّئَ بِہِ، أَوْ أَوْلَمَ عَلَیْہِ فَلَیْسَ لَہُ أَنْ یَنْتَفِیَ مِنْہُ۔
(١٧٨٥٦) حضرت شریح (رض) فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ بچے کا اقرار کرنے کے بعد اس کا انکار نہیں کرسکتا۔

17856

(۱۷۸۵۷) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ ہَاشِمٍ ، عَنِ ابْنِ أَبِی لَیْلَی ، عَنِ الشَّعْبِیِّ وَغَیْرِہِ ، عَنْ عُمَرَ ، قَالَ : إذَا أَقَرَّ بِالْوَلَدِ طَرْفَۃَ عَیْنٍ فَلَیْسَ لَہُ أَنْ یَنْفِیَہُ۔
(١٧٨٥٧) حضرت عمر (رض) فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ پلک جھپکنے کے برابر بھی بچے کا اقرار کرنے کے بعد اس کا انکار نہیں کرسکتا۔

17857

(۱۷۸۵۸) حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِی زَائِدَۃَ، عَنْ مُجَالِدٍ، عَنِ الشَّعْبِیِّ قَالَ: جَائَ رَجُلٌ بِابْنٍ لَہُ قَدْ أَقَرَّ بِہِ ثُمَّ أَرَادَ أَنْ یَنْفِیَہُ فَشَہِدُوا أَنَّہُ وُلِدَ فِی بَیْتِہِ وَأَنَّہُمْ ہَنَّؤُوہُ بِہِ وَأَقَرَّ بِہِ ، فَقَالَ شُرَیْحٌ : الْزَمْ وَلَدَک قَالَ عَامِرٌ : کان عُمَرَ یَقْضِی بِذَلِکَ۔
(١٧٨٥٨) حضرت مجالد (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت شعبی (رض) کے پاس ایک آدمی ایک بچہ لے کر آیا جس کا پہلے اقرار کرچکا تھا اب انکار کرنا چاہتا تھا۔ لوگوں نے گواہی دی کہ یہ بچہ اس کے گھر میں پیدا ہوا ہے اور لوگوں نے اس کی مبارک باد بھی دی تھی، آدمی نے اس بات کا اقرار کیا تو حضرت شریح (رض) نے فیصلہ فرمایا کہ اپنے بچے کو اپنے پاس رکھو۔ حضرت عامر (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) بھی یہی فیصلہ فرمایا کرتے تھے۔

17858

(۱۷۸۵۹) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ الْحَسَنِ قَالَ : إذَا أَقَرَّ الرَّجُلُ بِوَلَدِہِ فَلَیْسَ لَہُ أَنْ یَنْفِیَہُ عَلَی حَالٍ۔
(١٧٨٥٩) حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ بچے کا اقرار کرنے کے بعد اس کا کسی حال میں انکار نہیں کرسکتا۔

17859

(۱۷۸۶۰) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ وَعُبَیْدَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالَ : إذَا أَقَرَّ بِالْوَلَدِ فَلَیْسَ لَہُ أَنْ یَنْتَفِیَ مِنْہُ ، وَقَالَ حَمَّادٌ : إذَا أَقَرَّ بِالْحَمْلِ فَلَیْسَ لَہُ أَنْ یُنْکِرَہُ ، إِنْ شَائَ یَقُولُ : أَخْطَأْت فِی الْعِدَّۃِ۔
(١٧٨٦٠) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ بچے کا اقرار کرنے کے بعد اس کا انکار نہیں کرسکتا۔ حضرت حماد (رض) فرماتے ہیں کہ اگر حمل کا اقرار کیا تو اس کے پاس انکار کی گنجائش نہیں ہے، وہ یہ کہہ سکتا ہے کہ مجھے عدت میں غلطی لگی تھی۔

17860

(۱۷۸۶۱) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ حَمَّادٍ قَالَ : إذَا تَبَیَّنَ حَمْلُ سُرِّیَّتِہِ فَلَہُ إنْکَارُہُ مَا لَمْ یُقِرَّ بِہِ بَعْدَ مَا تَضَعُ ، وَإِنْ کَانَ قَدْ أَقَرَّ بِالْحَمْلِ ثُمَّ أَنْکَرَہُ بَعْدَ مَا تَضَعُ فَلَہُ ذَلِکَ۔
(١٧٨٦١) حضرت حماد (رض) فرماتے ہیں کہ کسی آدمی کی بیوی یاباندی کا حمل ظاہر ہوا تو وہ وضع حمل کے بعد اقرار سے پہلے انکار کرسکتا ہے، اور اگر اس نے حمل کا اقرار کیا اور پھر وضع حمل کے بعد اس کا انکار کرنا چاہے تو کرسکتا ہے۔

17861

(۱۷۸۶۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَجْلاَنَ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِیزِ قَالَ : إذَا أَقَرَّ بِوَلَدِہِ ثُمَّ نَفَاہُ لَزِمَہُ۔
(١٧٨٦٢) حضرت عمر بن عبدالعزیز (رض) فرماتے ہیں کہ اگر اپنے بچے کا اقرار کیا پھر نفی کرے تو پھر بھی بچہ اسی کا ہوگا۔

17862

(۱۷۸۶۳) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَنِ الشَّیْبَانِیِّ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ قَالَ : إذَا انْتَفَی الرَّجُلُ مِنْ وَلَدِہِ لاَعَنَ أُمَّہُ إِنْ کَانَتْ حَیَّۃً ، وَإِنْ کَانَتْ قَدْ مَاتَتْ جُلِدَ الْحَدَّ وَأُلْزِقَ بِہِ الْوَلَدُ فَإِنْ کَانَ ابْنَ سُرِّیَّۃٍ صَارَ عَبْدًا۔
(١٧٨٦٣) حضرت شعبی (رض) فرماتے ہیں کہ اگر آدمی نے اپنے بچے کا انکار کیا تو بیوی اگر زندہ ہو تو لعان کرے گا اور اگر مرچکی ہو تو اس پر حد جاری ہوگی اور بچہ اسی کا ہوگا، اگر وہ بچہ باندی کا بچہ ہو تو غلام ہوگا۔

17863

(۱۷۸۶۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ حَمَّادٍ وَالْحَکَمِ قَالاَ : إذَا أَقَرَّ بِوَلَدِہِ ثُمَّ نَفَاہُ قَالَ الْحَکَمُ : یُضْرَبُ وَقَالَ حَمَّادٌ : یَلْزَمُ الْوَلَدُ بِالإِقْرَارِ وَیُلاَعِنُ وَذَکَرَ أَنَّ سُفْیَانَ کَانَ یَقُولُہُ۔
(١٧٨٦٤) حضرت حماد اور حضرت حکم (رض) سے سوال کیا گیا کہ اگر آدمی بچے کا اقرار کرنے کے بعد پھر انکار کردے تو کیا حکم ہے ؟ حضرت حکم (رض) نے فرمایا کہ اس پر حد جاری ہوگی۔ حضرت حماد (رض) نے فرمایا کہ اقرار سے بچہ لازم ہوگیا اور وہ لعان کرے گا، انھوں نے ذکر کیا کہ حضرت سفیان (رض) بھی یہی فرمایا کرتے تھے۔

17864

(۱۷۸۶۵) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ أَبِی مَعْشَرٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ فِی الرَّجُلِ یُقِرُّ بِوَلَدِہِ ثُمَّ یَنْتَفِی مِنْہُ قَالَ : یُلاَعِنُ بِکِتَابِ اللہِ وَیَلْزَمُ الْوَلَدُ بِقَضَائِ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔
(١٧٨٦٥) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ اگر ایک آدمی نے بچے کا اقرار کیا پھر اس کا انکار کیا تو وہ اللہ کی کتاب کے مطابق لعان کرے گا، اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فیصلے کے مطابق بچہ اسی کا ہوگا۔

17865

(۱۷۸۶۶) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ حَمَّادٍ فِی رَجُلٍ أَقَرَّ بِوَلَدٍ لہ مِنْ جَارِیَتِہِ حَتَّی صَارَ رَجُلاً وَزَوَّجَہُ ثُمَّ أَنْکَرَہُ قَالَ : لَیْسَ إنْکَارُہُ بِشَیْئٍ ، یُلْزَقُ بِہِ۔
(١٧٨٦٦) حضرت حماد (رض) فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے اپنی باندی سے اپنے کسی بچے کا اقرار کیا۔ پھر وہ مرد بن گیا اور اس نے اس کی شادی کرادی پھر اس نے انکار کردیا تو یہ انکار کوئی حیثیت نہیں رکھتا، اور وہ بچہ اسی کا ہوگا۔

17866

(۱۷۸۶۷) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ یَمَانٍ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ قَالَ لَہُ : أَنْ یَنْفِیَہُ ، وَإِنْ کَانَ رَجُلاً۔
(١٧٨٦٧) حضرت مجاہد (رض) فرماتے ہیں کہ وہ بچے کا انکار کرسکتا ہے خواہ وہ مرد بن چکاہو۔

17867

(۱۷۸۶۸) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ ، عَنْ عَاصِمٍ قَالَ : جَائَتِ امْرَأَۃٌ إلَی أَبِی مُوسَی وَأَبُوہَا وَزَوْجُہَا وَأُمُّہَا وَہِیَ حُبْلَی یَقُولُ زَوْجُہَا : ہِیَ جَارِیَۃٌ وَإِنَّمَا کُنْت أَلْعَبُ مَعَہَا فَکَلَّمَ الْجَارِیَۃَ ، فَقَالَتْ : زَوَّجَنِیہِ أَبِی وَأُمِّی ، وَکَانَ یَدْخُلُ عَلَیَّ فَیَصْنَعُ بِی مَا یَصْنَعُ الرَّجُلُ بِامْرَأَتِہِ قَالَ : فَضَرَبَ رَأْسَہُ بِالدِّرَّۃِ وَقَالَ : ہِیَ امْرَأَتُک وَالْوَلَدُ وَلَدُک۔
(١٧٨٦٨) حضرت عاصم (رض) فرماتے ہیں کہ ایک عورت اپنے خاوند، اپنے باپ اور اپنی ماں کے ساتھ حضرت ابو موسیٰ (رض) کی خدمت میں حاضر ہوئی، وہ حاملہ تھی، اس کے خاوند نے کہا کہ یہ ایک باندی تھی، میں اس کے ساتھ دل لگی کرتا تھا، جب کہ عورت کا کہنا تھا کہ میرے ماں باپ نے اس سے میری شادی کی ہے اور یہ میرے پاس آتا تھا، اور وہ سب کرتا تھا جو ایک آدمی اپنی بیوی کے ساتھ کرتا ہے۔ حضرت ابوموسیٰ (رض) نے اپنا کوڑا اس آدمی کے سر پر مارا اور فرمایا کہ یہ تیری بیوی ہے اور بچہ تیرا ہی ہے۔

17868

(۱۷۸۶۹) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنِ الْحَسَنِ وَہُوَ قَوْلُ قَتَادَۃَ : {إذَا أُحْصِنَّ} قَالَ : إذَا أَحْصَنَتْہُنَّ الْبُعُولَۃُ۔
(١٧٨٦٩) حضرت حسن (رض) قرآن مجید کی آیت { اِذَا أُحْصِنَّ } کی تفسیر میں حضرت قتادہ (رض) کا قول ذکر کرتے ہیں کہ اس سے مراد یہ ہے کہ جب وہ شادی کے ذریعہ پاک ہوجائیں۔

17869

(۱۷۸۷۰) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ حُصَیْنٍ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ؛ أَنَّہُ کَانَ یَقْرَؤُہَا : {فَإِذَا أُحْصِنَّ} یَقُولُ : إذَا تَزَوَّجْنَ۔
(١٧٨٧٠) حضرت ابن عباس (رض) قرآن مجید کی آیت { اِذَا أُحْصِنَّ } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اس سے مراد ان کا شادی کرنا ہے۔

17870

(۱۷۸۷۱) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ، عَنِ الأَعْمَشِِ، عَنْ إبْرَاہِیمَ، عَنِ الأَسْوَدِ، عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ: کَانَ زَوْجُ بَرِیرَۃَ حُرًّا۔
(١٧٨٧١) حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ حضرت بریرہ (رض) کے خاوند آزاد تھے۔

17871

(۱۷۸۷۲) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ قَالَ : کَانَ زَوْجُہَا حُرًّا۔
(١٧٨٧٢) حضرت شعبی (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت بریرہ (رض) کے خاوند آزاد تھے۔

17872

(۱۷۸۷۳) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ قَالَ : حدَّثَنَا سَعِیدٌ ، عَنْ أَبِی مَعْشَرٍ ، عَنِ النَّخَعِیِّ ، عَنِ الأَسْوَدِ أَنَّ عَائِشَۃَ حَدَّثَتْہُ : أن زَوْجَ بَرِیرَۃَ کَانَ حُرًّا حِینَ أُعْتِقَتْ۔
(١٧٨٧٣) حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ حضرت بریرہ (رض) کی آزادی کے وقت ان کے خاوند آزاد تھے۔

17873

(۱۷۸۷۴) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، وَابْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ صَفِیَّۃَ ابْنَۃِ أَبِی عُبَیْدٍ قَالَتْ : کَانَ زَوْجُ بَرِیرَۃَ عَبْدًا۔
(١٧٨٧٤) حضرت صفیہ بنت ابی عبید (رض) فرماتی ہیں کہ حضرت بریرہ (رض) کے خاوند غلام تھے۔

17874

(۱۷۸۷۵) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ أَنَّ زَوْجَ بَرِیرَۃَ کَانَ عَبْدًا۔
(١٧٨٧٥) حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت بریرہ (رض) کے خاوند غلام تھے۔

17875

(۱۷۸۷۶) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ یُونُسَ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ ، أَنَّ زَوْجَ بَرِیرَۃَ کَانَ عَبْدًا أَسْوَدَ یُقَالُ لَہُ مُغِیثٌ ، عَبْدٌ لِبَنِی الْمُغِیرَۃِ مِنْ بَنِی مَخْزُومٍ۔
(١٧٨٧٦) حضرت عکرمہ (رض) ہیں کہ حضرت بریرہ (رض) کے خاوند ایک حبشی غلام تھے۔ ان کا نام مغیث تھا اور وہ بنو مخزوم کی شاخ بنومغیرہ کے غلام تھے۔

17876

(۱۷۸۷۷) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ قَالَ : حدَّثَنَا سَعِیدُ بْنُ أَبِی عَرُوبَۃَ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : کَانَ عَبْدًا أَسْوَدَ لِبَنِی الْمُغِیرَۃِ یُقَالُ لَہُ مُغِیثٌ کَأَنِّی أَنْظُرُ إلَیْہِ فِی طُرُقِ الْمَدِینَۃِ یَتْبَعُہَا وَدُمُوعُہُ تسیل عَلَی لِحْیَتِہِ یَتَرَضَّاہَا کَی تَخْتَارَہُ فَلَمْ تَخْتَرْہُ یَعْنِی زَوْجَ بَرِیرَۃَ۔
(١٧٨٧٧) حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت بریرہ (رض) کے خاوند بنو مغیرہ کے ایک سیاہ فام غلام تھے، ان کا نام مغیث تھا، گویا کہ وہ منظر میرے سامنے ہے جب وہ مدینہ کی گلیوں میں حضرت بریرہ (رض) کے پیچھے جارہے ہوتے تھے اور ان کے آنسو ان کی داڑھی پر بہہ رہے ہوتے تھے، وہ انھیں راضی کرنا چاہتے تھے لیکن حضرت بریرہ (رض) نے انھیں اختیار نہیں کیا۔

17877

(۱۷۸۷۸) حَدَّثَنَا حَفْصٌ، عَنْ ہِشَامٍ، عَنْ عِکْرِمَۃَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: کان زَوْجُ بَرِیرَۃَ عَبْدا أَسْوَدُ یُقَالُ لَہُ مُغِیثٌ۔
(١٧٨٧٨) حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت بریرہ (رض) کے خاوند ایک سیاہ فام غلام تھے۔

17878

(۱۷۸۷۹) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنِ الأَعْمَشِِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، عَنِ الأَسْوَدِ ، عَنْ عَائِشَۃَ أَنَّہَا أَعْتَقَتْ بَرِیرَۃَ فَخَیَّرَہَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَکَانَ لَہَا زَوْجٌ حُرٌّ۔
(١٧٨٧٩) حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ جب حضرت بریرہ (رض) کو آزاد کیا گیا تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انھیں اختیار دیا (کہ اپنے نکاح کو باقی رکھیں یا ختم کردیں) ان کے خاوند آزاد تھے۔

17879

(۱۷۸۸۰) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَنْ زَائِدَۃَ ، عَنْ سِمَاکٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ : کَانَ زَوْجُ بَرِیرَۃَ عَبْدًا۔
(١٧٨٨٠) حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ حضرت بریرہ (رض) کے خاوندآزاد تھے۔

17880

(۱۷۸۸۱) حدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ زِیَادِ بْنِ خَیْثَمَۃَ ، عَنْ نُعَیْمِ بْنِ أَبِی ہِنْدٍ ، عَنْ عُمَرَ الأَعْوَرِ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ جَعْفَرٍ ، قَالَ : قَالَتْ عَائِشَۃُ : الْبَیَاضُ نِصْفُ الْحُسْنِ۔
(١٧٨٨١) حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ سفیدی آدھا حسن ہے۔

17881

(۱۷۸۸۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِی الأَحْوَصِ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ قَالَ : أعْطِیَ یُوسُفُ وَأُمُّہُ ثُلُثَ الْحُسْنِ۔
(١٧٨٨٢) حضرت عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) اور ان کی والدہ کو ایک تہائی حسن عطاء ہوا تھا۔

17882

(۱۷۸۸۳) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَۃَ ، عَنْ ثَابِتٍ ، عَنْ أَنَسٍ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : أُعْطِیَ یُوسُفُ شَطْرَ الْحُسْنِ۔ (احمد ۳/۱۴۸۔ حاکم ۵۷۰)
(١٧٨٨٣) حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کو آدھا حسن عطا ہوا تھا۔

17883

(۱۷۸۸۴) حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الْجَرِیرِیِّ ، عَنْ أَبِی نَضْرَۃَ ، عَنِ الطُّفَاوِیِّ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: لاَ یُبَاشِرُ الرَّجُلُ الرَّجُلَ وَلاَ الْمَرْأَۃُ الْمَرْأَۃَ إِلاَّ الْوَالِدُ وَلَدَہُ أَوِ الْوَلَدُ وَالِدَہُ۔ (ابوداؤد ۴۰۱۵۔ احمد ۲/۳۲۵)
(١٧٨٨٤) حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ کوئی آدمی کسی آدمی کے ساتھ اور کوئی عورت کسی عورت کے ساتھ ایک لحاف میں نہ لیٹے، البتہ باپ اپنے بیٹے کے ساتھ اور بیٹا اپنے باپ کے ساتھ لیٹ سکتا ہے۔

17884

(۱۷۸۸۵) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِِ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ أَبِی وَائِلٍ ، عَنْ عبد اللہِ قَالَ : نَہَی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ تُبَاشِرَ الْمَرْأَۃُ الْمَرْأَۃَ فِی ثَوْبٍ وَاحِدٍ أَجْلَ أَنْ تَصِفَہَا لِزَوْجِہَا۔ (بخاری ۵۲۴۰۔ ابوداؤد ۲۱۴۳)
(١٧٨٨٥) حضرت عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس بات سے منع فرمایا کہ عورت کسی دوسری عورت کے ساتھ ایک لحاف میں نہ لیٹے کہ بعد میں اپنے خاوند کے سامنے اس کی صفات کا تذکرہ کرے۔

17885

(۱۷۸۸۶) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ الْحُبَابِ ، عَنِ الضَّحَّاکِ بْنِ عُثْمَانَ قَالَ : أخبرنی زَیْدُ بْنُ أَسْلَمَ ، عْن عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ ، عَنْ أَبِیہِ ، أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : لاَ تُفْضِی الْمَرْأَۃُ إلَی الْمَرْأَۃِ فِی ثَوْبٍ وَاحِدٍ وَلاَ الرَّجُلُ إلَی الرَّجُلِ فِی ثَوْبٍ وَاحِدٍ۔ (ترمذی ۲۷۹۳۔ ابوداؤد ۴۰۱۴)
(١٧٨٨٦) حضرت ابو سعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ کوئی عورت کسی عورت کے ساتھ ایک کپڑے میں نہ لیٹے اور کوئی مرد کسی مرد کے ساتھ ایک کپڑے میں نہ لیٹے۔

17886

(۱۷۸۸۷) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ حُبَابٍ قَالَ : حَدَّثَنَی یَحْیَی بْنُ أَیُّوبَ الْمِصْرِیُّ قَالَ : أَخْبَرَنِی عَیَّاشُ بْنُ عَبَّاسٍ الْحِمْیَرِیُّ ، عَنْ أَبِی الْحُصَیْنِ الْحَجَرِیِّ الْہَیْثَمِ ، عَنْ عَامِرٍ الْحَجَرِیِّ ، قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا رَیْحَانَۃَ صَاحِبَ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَنْہَی عَنْ مُعَاکَمَۃِ ، أَوْ مُکَاعَمَۃِ الْمَرْأَۃِ الْمَرْأَۃَ لَیْسَ بَیْنَہُمَا شَیْئٌ ، ومُعَاکَمَۃِ أَوْ مُکَاعَمَۃِ الرَّجُلِ الرَّجُلَ فِی شِعَارٍ لَیْسَ بَیْنَہُمَا شَیْئٌ۔ (ابوداؤد ۴۰۴۶۔ احمد ۴/۱۳۴)
(١٧٨٨٧) حضرت ابو ریحانہ (رض) فرماتے ہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس بات سے منع فرمایا کہ کوئی عورت کسی عورت کے ساتھ یا کوئی مرد کسی مرد کے ساتھ اس طرح لیٹے کہ ان کے درمیان کوئی چیز نہ ہو۔

17887

(۱۷۸۸۸) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللہِ ، عَنِ أبی شِہَابٍ ، عَنِ ابْنِ أَبِی لَیْلَی ، عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ ، عَنْ جَابِرٍ قَالَ : نَہَی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ یُبَاشِرَ الرَّجُلُ الرَّجُلَ وَالْمَرْأَۃُ الْمَرْأَۃَ قَالَ ابْنُ أَبِی لَیْلَی : وَأَنَا أَرَی فِی ذَلِکَ تَعْزِیرًا۔ (حاکم ۲۸۷۔ احمد ۳/۳۴۸)
(١٧٨٨٨) حضرت جابر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس بات سے منع فرمایا ہے کہ کوئی مرد کسی مرد کے ساتھ یا کوئی عورت کسی عورت کے ساتھ ایک لحاف میں لیٹے۔ حضرت ابن ابی لیلیٰ (رض) فرماتے ہیں کہ میرے خیال میں اس عمل پر حد جاری ہونی چاہیے۔

17888

(۱۷۸۸۹) حَدَّثَنَا عُبَید اللہِ ، عَنْ إسْرَائِیلَ ، عَنْ سِمَاکٍ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : نَہَی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ یُبَاشِرَ الرَّجُلُ الرَّجُلَ وَالْمَرْأَۃُ الْمَرْأَۃَ۔ (احمد ۱/۳۱۴۔ ابن حبان ۵۵۸۲)
(١٧٨٨٩) حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس بات سے منع فرمایا ہے کہ کوئی مرد کسی مرد کے ساتھ یا کوئی عورت کسی عورت کے ساتھ ایک لحاف میں لیٹے۔

17889

(۱۷۸۹۰) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ زَیْدِ بْنِ أَسْلَمَ أَنَّ رَجُلاً سَأَلَ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : أَسْتَأْذِنُ عَلَی أُمِّی ؟ قَالَ : نَعَمْ ، أَتُحِبُّ أَنْ تَرَاہَا عُرْیَانَۃً۔ (بیہقی ۹۷)
(١٧٨٩٠) حضرت زید بن اسلم (رض) فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا کہ کیا میں اپنی ماں کے پاس جانے سے پہلے ان سے اجازت طلب کروں ؟ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ہاں، کیا تم انھیں عریاں دیکھنا پسندکروگے ؟

17890

(۱۷۸۹۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ مُسْلِمِ بْنِ نذیر ، عَنْ حُذَیْفَۃَ قَالَ : إِنْ لَمْ تَفْعَلْ أَوْشَکَ أَنْ تَرَی مِنْہَا مَا یَسُوئُک۔
(١٧٨٩١) حضرت حذیفہ (رض) فرماتے ہیں کہ اگر تم ایسا نہیں کرو گے تو تمہیں ایسی چیز دیکھنی پڑ سکتی ہے جو تمہیں پسند نہ ہو۔

17891

(۱۷۸۹۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ أَبِی حَصِینٍ ، عَنْ أَبِی عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، قَالَ : قَالَ رجل لِعُمَرَ : أسْتَأْذِنُ عَلَی أُمِّی ؟ قَالَ : نَعَمْ ، اسْتَأْذِنْ عَلَیْہَا۔
(١٧٨٩٢) حضرت ابو عبد الرحمن (رض) فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے حضرت عمر (رض) سے فرمایا کہ کیا میں اپنی ماں کے پاس جانے سے پہلے اجازت طلب کروں ؟ حضرت عمر (رض) نے فرمایا ہاں، اجازت طلب کرو۔

17892

(۱۷۸۹۳) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، عَنْ عَلْقَمَۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ قَالَ : جَائَ إلَیْہِ رَجُلٌ ، فَقَالَ: أَسْتَأْذِنُ عَلَی أُمِّی ؟ قَالَ : نَعَمْ ، مَا عَلَی کُلِّ أَحْیَانِہَا تُحِبُّ أَنْ تَرَاہَا۔
(١٧٨٩٣) حضرت علقمہ (رض) فرماتے ہیں کہ ایک آدمی حضرت عبداللہ (رض) کے پاس آیا اور اس نے کہا کہ کیا میں اپنی والدہ کے پاس آنے سے پہلے اجازت طلب کروں ؟ انھوں نے فرمایا کہ جی ہاں، وہ ہر وقت ایسی حالت میں نہیں ہوتیں جس میں دیکھنا تمہیں پسند ہو۔

17893

(۱۷۸۹۴) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ قَالَ : کَانَ عَطَائٌ وَأَخَوَاتٌ لَہُ بِمَکَّۃَ فِی بَیْتٍ وَأَہْلُ مَکَّۃَ یَخْتَلِفُ أَحَدُہُمْ إلَی أَہْلِہِ فِی اللَّیْلِ مِرَارًا ، فَکَانَ یَأْتِیہِنَّ بِاللَّیْلِ فَسَأَلَ ابْنَ عَبَّاسٍ : أَسْتَأْذِنُ عَلَیْہِنَّ کُلَّمَا دَخَلْت؟ فَقَالَ : نَعَمْ ، وَلَمْ یُرَخِّصْ لَہُ فِی الدُّخُولِ عَلَیْہِنَّ بِغَیْرِ إذْنٍ۔
(١٧٨٩٤) حضرت مجاہد (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عطائ (رض) اور ان کی کچھ بہنیں مکہ میں ایک گھر میں رہتے تھے۔ حضرت عطائ (رض) اپنی مصروفیات کی وجہ سے رات کو دیر سے گھر آتے تھے۔ انھوں نے حضرت ابن عباس (رض) سے سوال کیا کہ میں جب بھی ان کے پاس جاؤں تو ان سے اجازت طلب کروں ؟ حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا کہ ہاں اور آپ نے انھیں بغیر اجازت جانے کی اجازت نہ دی۔

17894

(۱۷۸۹۵) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ ، عَنْ جَابِرٍ قَالَ : اسْتَأْذِنْ عَلَی أُمِّکَ ، وَإِنْ کَانَتْ عَجُوزًا۔
(١٧٨٩٥) حضرت جابر (رض) فرماتے ہیں کہ اپنی والدہ کے پاس جانے سے پہلے اجازت طلب کرو خواہ وہ بوڑھی ہوں۔

17895

(۱۷۸۹۶) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ ہُزَیْلٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ قَالَ : عَلَیْکُمْ أَنْ تَسْتَأْذِنُوا عَلَی أُمَّہَاتِکُمْ۔
(١٧٨٩٦) حضرت عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ تم پر لازم ہے کہ اپنی ماؤں کے پاس جانے سے پہلے اجازت طلب کرو۔

17896

(۱۷۸۹۷) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنْ کُرْدُوسٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ قَالَ : یَسْتَأْذِنُ الرَّجُلُ عَلَی أَبِیہِ وَأُمِّہِ وَعَلَی ابْنِہِ وَعَلَی أخیہ وعلی أُخْتِہِ۔
(١٧٨٩٧) حضرت عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ آدمی اپنے ماں باپ، اپنی بیٹی، اپنے بھائی اور اپنی بہن کے پاس جانے سے پہلے اجازت طلب کرے۔

17897

(۱۷۸۹۸) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، وعَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ الْحَسَنِ قَالاَ یَسْتَأْذِنُ عَلَیْہَا۔
(١٧٨٩٨) حضرت زہری اور حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ آدمی اپنی ماں کے پاس جانے سے پہلے اجازت طلب کرے گا۔

17898

(۱۷۸۹۹) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنِ الْجُرَیْرِیِّ ، عَنْ أَبِی السَّلِیلِ ، عَنْ صِلَۃَ قَالَ یَسْتَأْذِنُ الرَّجُلُ عَلَی أُمِّہِ۔
(١٧٨٩٩) حضرت صلہ (رض) فرماتی ہیں کہ آدمی اپنی ماں کے پاس جانے سے پہلے اجازت طلب کرے گا۔

17899

(۱۷۹۰۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ ہَمَّامٍ ، عن قتادۃ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ أَنَّہُ قَالَ یستأذن علیہا یعنی علی أمہ۔
(١٧٩٠٠) حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ آدمی اپنی ماں کے پاس جانے سے پہلے اجازت طلب کرے گا۔

17900

(۱۷۹۰۱) حَدَّثَنَا کَثِیرُ بْنُ ہِشَامٍ ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ بُرْقَانَ قَالَ سَأَلْتُ عِکْرِمَۃَ قَالَ : قُلْتُ أَیَسْتَأْذِنُ الرَّجُلُ عَلَی أُمِّہِ وَعَلَی أُخْتِہِ ؟ قَالَ : نَعَمْ ، اسْتَأْذِنْ عَلَیْہِمَا۔
(١٧٩٠١) حضرت جعفر بن برقان (رض) کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عکرمہ (رض) سے سوال کیا کہ کیا آدمی اپنی ماں اور بہن کے پاس جانے سے پہلے اجازت طلب کرے گا ؟ انھوں نے فرمایا ہاں، اجازت طلب کرو۔

17901

(۱۷۹۰۲) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنِ الأَعْمَشِِ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ ، عَنْ أَبِی الْبَخْتَرِیِّ قَالَ : سَأَلَ رَجُلٌ عِکْرِمَۃَ أَسْتَأْذِنُ عَلَی أُمِّی ؟ قَالَ : نَعَمْ ، اسْتَأْذِنْ عَلَی أُمِّک۔
(١٧٩٠٢) حضرت ابو بختری (رض) فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے حضرت علقمہ (رض) سے سوال کیا کہ کیا میں اپنی ماں کے پاس جانے سے پہلے اجازت طلب کروں ؟ انھوں نے فرمایا ہاں اجازت طلب کرو۔

17902

(۱۷۹۰۳) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ، عَنْ مِسْعَرٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ، عَنْ أَبِی الْبَخْتَرِیِّ قَالَ: وَأَخُو الْمَرْأَۃِ یَسْتَأْذِنُ عَلَیْہَا۔
(١٧٩٠٣) حضرت ابو بختری (رض) فرماتے ہیں کہ عورت کا بھائی اجازت لے کر آئے گا۔

17903

(۱۷۹۰۴) حَدَّثَنَا سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ بْنِ أَبِی یَزِیدَ سَمِعَ ابْنَ عَبَّاسٍ یَقُولُ : إنَّہُ لَمْ یُؤْمَرْ بِہَا أَکْثَرُ النَّاسِ الإِذْنَ وَإِنِّی آمُرُ جَارِیَتِی ہذہ أَنْ تَسْتَأْذِنَ عَلَیَّ۔
(١٧٩٠٤) حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ باندی کے پاس جانے سے پہلے اجازت طلب کرنے کا حکم نہیں دیا گیا، لوگوں نے تو بہت زیادہ اجازت مانگنا شروع کردی ہے، میں اپنی باندی کو حکم دیتا ہوں کہ وہ اجازت لے کر میرے پاس آئے۔

17904

(۱۷۹۰۵) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ، عَنْ عبدالملک، عَنْ عَطَائٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: غَلَبَ الشَّیْطَانُ النَّاسِ عَلَی الاستئذان فِی السَّاعَاتِ {الَّذِینَ مَلَکَتْ أَیْمَانُکُمْ وَالَّذِینَ لَمْ یَبْلُغُوا الْحُلُمَ مِنْکُمْ}۔
(١٧٩٠٥) حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ اجازت طلب کرنے کے معاملے میں شیطان لوگوں پر غالب آگیا، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں { الَّذِینَ مَلَکَتْ أَیْمَانُکُمْ وَالَّذِینَ لَمْ یَبْلُغُوا الْحُلُمَ مِنْکُمْ }

17905

(۱۷۹۰۶) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ قَالَ : أَخْبَرَنَا ابْنُ عَوْنٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ فی قولہ {وَالَّذِینَ لَمْ یَبْلُغُوا الْحُلُمَ مِنْکُمْ} قَالَ : کَانَ أَہْلُنا یُعَلِّمُونَا أَنْ نُسَلِّمَ قَالَ : فَکَانَ أَحَدُنَا إذَا جَائَ یَقُولُ : السَّلاَمُ عَلَیْکُمْ أَیَدْخُلُ فُلاَنٌ ؟۔
(١٧٩٠٦) حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قرآن مجید کی آیت { وَالَّذِینَ لَمْ یَبْلُغُوا الْحُلُمَ مِنْکُمْ } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ ہمارے گھر والے ہمیں سلام کرنا سکھایا کرتے تھے، ہم میں سے جب کوئی آتا تو السلام علیکم کہتا اور ساتھ کہتا کہ فلاں داخل ہوجائے ؟

17906

(۱۷۹۰۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ أَبِی حَصِینٍ ، عَنْ أَبِی عَبْدِ الرَّحْمَنِ قَالَ : نَزَلَتْ فِی النِّسَائِ: {لِیَسْتَأْذِنْکُمُ الَّذِینَ مَلَکَتْ أَیْمَانُکُمْ}۔
(١٧٩٠٧) حضرت ابو عبد الرحمن فرماتے ہیں کہ قرآن مجید کی آیت { لِیَسْتَأْذِنْکُمُ الَّذِینَ مَلَکَتْ أَیْمَانُکُمْ } عورتوں کے بارے میں نازل ہوئی۔

17907

(۱۷۹۰۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ مُوسَی بْنِ أَبِی عَائِشَۃَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ : {لِیَسْتَأْذِنْکُمُ الَّذِینَ مَلَکَتْ أَیْمَانُکُمْ} قَالَ : لَیْسَتْ بِمَنْسُوخَۃٍ قُلْتُ : فَإِنَّ النَّاسَ لاَ یَعْمَلُونَ بِہَا قَالَ : اللَّہُ الْمُسْتَعَانُ۔
(١٧٩٠٨) حضرت شعبی (رض) فرماتے ہیں کہ قرآن مجید کی آیت { لِیَسْتَأْذِنْکُمُ الَّذِینَ مَلَکَتْ أَیْمَانُکُمْ } منسوخ نہیں ہے، میں کہتا ہوں کہ لوگ اسے جانتے نہیں ہیں اور اللہ ہی سے مدد طلب کی جاتی ہے۔

17908

(۱۷۹۰۹) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ حَنْظَلَۃَ ، قَالَ : سَمِعْتُ الْقَاسِمَ وَسُئِلَ عَنِ الإِذْنِ ، فَقَالَ : اسْتَأْذِنْ عِنْدَ کُلِّ عَوْرَۃٍ ثُمَّ ہُوَ طَوَافٌ بَعْدَہَا۔
(١٧٩٠٩) حضرت قاسم (رض) سے اذن کے بارے میں سوال کیا گیا تو انھوں نے فرمایا کہ ہر پردے والی چیز سے اجازت طلب کرو پھر اس کے بعد وہ چکرلگانے والا ہے۔

17909

(۱۷۹۱۰) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ : {وَلاَ تَعْزِمُوا عُقْدَۃَ النِّکَاحِ حَتَّی یَبْلُغَ الْکِتَابُ أَجَلَہُ} قَالَ: انْقِضَائُ الْعِدَّۃِ۔
(١٧٩١٠) حضرت قتادہ (رض) قرآن مجید کی آیت { وَلاَ تَعْزِمُوا عُقْدَۃَ النِّکَاحِ حَتَّی یَبْلُغَ الْکِتَابُ أَجَلَہُ } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اس سے مراد عدت کا گذر جانا ہے۔

17910

(۱۷۹۱۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ وَالْفَضْلُ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ لَیث ، عَنْ مُجَاہِدٍ : {وَلاَ تَعْزِمُوا عُقْدَۃَ النِّکَاحِ حَتَّی یَبْلُغَ الْکِتَابُ أَجَلَہُ} قَالَ : انْقِضَائُ الْعِدَّۃِ۔
(١٧٩١١) حضرت مجاہد (رض) قرآن مجید کی آیت { وَلاَ تَعْزِمُوا عُقْدَۃَ النِّکَاحِ حَتَّی یَبْلُغَ الْکِتَابُ أَجَلَہُ } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اس سے مراد عدت کا گزر جانا ہے۔

17911

(۱۷۹۱۲) حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ ، عَنْ إسْرَائِیلَ ، عَنِ السُّدِّیِّ ، عَنْ أَبِی مَالِکٍ : {وَلاَ تَعْزِمُوا عُقْدَۃَ النِّکَاحِ حَتَّی یَبْلُغَ الْکِتَابُ أَجَلَہُ} قَالَ : لاَ تُوَاعِدُوہَا فِی عِدَّتِہَا إِنِّی أَتَزَوَّجُک حین تَنْقَضِیَ عِدَّتُک۔
(١٧٩١٢) حضرت ابو مالک قرآن مجید کی آیت { وَلاَ تَعْزِمُوا عُقْدَۃَ النِّکَاحِ حَتَّی یَبْلُغَ الْکِتَابُ أَجَلَہُ } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ عورتوں کی عدت میں ان سے یہ وعدہ نہ کرو کہ میں تیری عدت گذرنے کے بعد تجھ سے شادی کروں گا۔

17912

(۱۷۹۱۳) حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ عَیَّاشٍ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ مُجَاہِدٍ : {وَاہْجُرُوہُنَّ فِی الْمَضَاجِعِ} قَالَ : لاَ تَقْرَبْہَا۔
(١٧٩١٣) حضرت مجاہد (رض) قرآن مجید کی آیت { وَاہْجُرُوہُنَّ فِی الْمَضَاجِعِ } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ ان کے قریب مت جاؤ۔

17913

(۱۷۹۱۴) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ، عَنْ مُغِیرَۃَ، عَنْ إبْرَاہِیمَ وَالشَّعْبِیِّ: قوْلُہُ {وَاہْجُرُوہُنَّ فِی الْمَضَاجِعِ} قَالاَ: لاَ یُضَاجِعُہَا۔
(١٧٩١٤) حضرت ابراہیم (رض) اور حضرت شعبی (رض) قرآن مجید کی آیت { وَاہْجُرُوہُنَّ فِی الْمَضَاجِعِ } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ ان کے ساتھ مت لیٹو۔

17914

(۱۷۹۱۵) حَدَّثَنَا حَفْصٌ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عُبَیْدِ اللہِ، عَنْ أَبِی الضُّحَی، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ: {وَاہْجُرُوہُنَّ فِی الْمَضَاجِعِ} قَالَ: إذَا أَطَاعَتْہُ فِی الْمَضْجَعِ فَلَیْسَ لَہُ أَنْ یَضْرِبَہَا۔
(١٧٩١٥) حضرت ابن عباس (رض) قرآن مجید کی آیت { وَاہْجُرُوہُنَّ فِی الْمَضَاجِعِ } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ جب عورت لیٹنے میں مرد کی اطاعت کرے تو وہ اسے مار نہیں سکتا۔

17915

(۱۷۹۱۶) حَدَّثَنَا یُونُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالَ : حدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ حُصَیْنٍ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ وَمِقْسَمٍ : قَوْلُہُ {وَاہْجُرُوہُنَّ فِی الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوہُنَّ} قَالَ : مِقْسَمٌ : وَلاَ تَقْرَبُ فِرَاشَہَا وَقَالَ عِکْرِمَۃُ : ہُوَ الْکَلاَمُ وَقَالاَ جَمِیعًا : {واضْرِبُوہُنَّ} ضَرْبٌ غَیْرُ مُبَرِّحٍ۔
(١٧٩١٦) حضرت عکرمہ (رض) اور حضرت مقسم (رض) سے قرآن مجید کی آیت { وَاہْجُرُوہُنَّ فِی الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوہُنَّ } کی تفسیر کے بارے میں سوال کیا گیا تو حضرت مقسم (رض) نے فرمایا کہ ہجر مضجع سے مراد اس کے بستر کے قریب نہ جانا اور حضرت عکرمہ (رض) نے فرمایا کہ اس سے مراد بات کرنا ہے۔ جبکہ { واضْرِبُوہُنَّ } کے بارے میں دونوں نے فرمایا کہ اس سے مراد ایسی مار ہے جو زخم نہ ڈالے۔

17916

(۱۷۹۱۷) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَۃَ ، عَنْ حُمَیْدٍ ، عَنِ الْحَسَنِ : {واضْرِبُوہُنَّ} قَالَ : ضَرْبًا غَیْرُ مُبَرِّحٍ غَیْرُ مُؤَثِّرٍ۔
(١٧٩١٧) حضرت حسن (رض) قرآن مجید کی آیت { واضْرِبُوہُنَّ } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اس سے مراد ایسی مار ہے جو زخم نہ ڈالے۔

17917

(۱۷۹۱۸) حَدَّثَنَا مَعْنُ بْنُ عِیسَی ، عَنْ أَبِی سَلاَّمٍ الْفِہْرِیِّ ، قَالَ : سَمِعْتُ عَلِیَّ بْنَ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَبَّاسٍ یَقُولُ : إذَا جَامَعْتَ فَاسْتَتِرْ۔
(١٧٩١٨) حضرت علی بن عبداللہ بن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ جب تم بیوی سے جماع کرو تو پردہ ڈال لو۔

17918

(۱۷۹۱۹) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ أَبِی قِلاَبَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إذَا جَامَعَ أَحَدُکُمْ فَلْیَسْتَتِرْ وَلاَ یَتَجَرَّدَانِ تَجَرُّدَ الْعَیْرَیْنِ۔ (طبرانی ۷۶۸۳۔ بزار ۱۴۴۸)
(١٧٩١٩) حضرت ابو قلابہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ جب تم جماع کرو تو پردہ ڈال لو اور اونٹوں کی طرح بالکل ننگے نہ ہوجاؤ۔

17919

(۱۷۹۲۰) حَدَّثَنَا مَعْنُ بْنُ عِیسَی ، عَنْ أَبِی سَلاَّمٍ الفہری ، قَالَ : سَمِعْتُ عَلِیَّ بْنَ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَبَّاسٍ یَنْہَی مُسْلِمًا أَنْ یُرَاضِعَ نَصْرَانِیًّا۔
(١٧٩٢٠) حضرت علی بن عبداللہ بن عباس (رض) نے مسلمان کو نصرانی کا رضاعی بھائی بننے سے منع کیا ہے۔

17920

(۱۷۹۲۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ صَالِحٍ ، عَنْ غَالِبٍ أَبِی الْہُذَیْلِ ، عَنْ أَبِی جَعْفَرٍ أَنَّہُ کَرِہَ أَنْ تُرْضِعَ الْیَہُودِیَّۃُ وَالنَّصْرَانِیَّۃ الصَّبِیَّ وَقَالَ : إنَّہَا تَشْرَبُ الْخَمْرَ۔
(١٧٩٢١) حضرت ابو جعفر (رض) نے اس بات کو مکروہ قرار دیا ہے کہ یہودیہ یا نصرانیہ کسی بچے کو دودھ پلائیں، فرمایا کہ یہ شراب پیتی ہیں۔

17921

(۱۷۹۲۲) حَدَّثَنَا عَبْدُ السَّلاَمِ بْنُ حَرب ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ قَالَ : کَانَ یَکْرَہُ أَنْ تُرْضِعَ امْرَأَتہ بِلَبَنِ الْفُجُورِ۔
(١٧٩٢٢) حضرت مجاہد (رض) نے اس بات کو مکروہ قرار دیا ہے کہ کوئی عورت بدکاری کے ذریعے اترنے والا دودھ کسی بچے کو پلائے۔

17922

(۱۷۹۲۳) حَدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالَ : لاَ بَأْسَ بِرَضَاعِ الزَّانِیَۃِ ، أَوْ لَبَنِ الْمَجُوسِیَّۃِ۔
(١٧٩٢٣) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں زانیہ کی رضاعت یا مجوسیہ کے دودھ میں کوئی حرج نہیں۔

17923

(۱۷۹۲۴) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ قَالَ : أَخْبَرَنَا مَنْصُورٌ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ ، عَنْ عَائِشَۃَ أَنَّہَا کَانَتْ تَقُولُ لِلنِّسَائِ : لاَ تَصِفننی لأَزْوَاجِکُنَّ۔
(١٧٩٢٤) حضرت عائشہ (رض) عورتوں سے فرمایا کرتی تھیں کہ اپنے خاوندوں کے سامنے میرا وصف بیان نہ کرو۔

17924

(۱۷۹۲۵) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ الْمَکِّیِّ ، عَنْ حَمَّادٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالَ : إذَا تَزَوَّجَ الرجل أَمَۃً وَقَعَ عَلَیْہَا وَلَمْ یَسْتَبْرِئْہَا۔
(١٧٩٢٥) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ اگر آدمی نے اپنی باندی سے جماع کیا پھر اس سے شادی کرلی تو رحم کے خالی ہونے کا یقین کئے بغیر جماع کرسکتا ہے۔

17925

(۱۷۹۲۶) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ عُبَیْدَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالَ إِذَا تَزَوَّجَہَا لَمْ یَسْتَبْرِئْہَا۔
(١٧٩٢٦) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ اگر آدمی نے اپنی باندی سے جماع کیا پھر اس سے شادی کرلی تو رحم کے خالی ہونے کا یقین کئے بغیر جماع کرسکتا ہے۔

17926

(۱۷۹۲۷) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ ، عَنِ الْحَسَنِ قَالَ : إذَا تَزَوَّجَ الأَمَۃَ تَزَوُّجًا لَمْ یَسْتَبْرِئْہَا۔
(١٧٩٢٧) حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ اگر آدمی نے اپنی باندی سے جماع کیا پھر اس سے شادی کرلی تو رحم کے خالی ہونے کا یقین کئے بغیر جماع کرسکتا ہے۔

17927

(۱۷۹۲۸) حَدَّثَنَا ابْنُ مُسْہِرٍ ، وَأَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لاَ یَخْطُبُ الرَّجُلُ عَلَی خِطْبَۃِ أَخِیہِ وَلاَ یَبِع عَلَی بَیْعِ أَخِیہِ إلاَّ أَنْ یَأْذَنَ لَہُ۔ (مسلم ۵۰۔ ابوداؤد ۲۰۷۴)
(١٧٩٢٨) حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ کوئی آدمی اپنے بھائی کے پیام نکاح پر پیام نکاح نہ بھیجے اور اپنے بھائی کی بیع پر بیع نہ کرے۔

17928

(۱۷۹۲۹) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لاَ یَخْطُب عَلَی خِطْبَۃِ أَخِیہِ۔ (مسلم ۵۲۰۔ ترمذی ۱۱۳۴)
(١٧٩٢٩) حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ کوئی آدمی اپنے بھائی کے پیام نکاح پر پیام نکاح نہ بھیجے۔

17929

(۱۷۹۳۰) حَدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ مُدْرِکٍ ، عَنِ ابْنِ أَبِی أَوْفَی ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لاَ یَزْنِی حِینَ یَزْنِی وَہُوَ مُؤْمِنٌ۔
(١٧٩٣٠) حضرت ابن ابی اوفیٰ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ زانی جب زنا کرتا ہے تو مومن نہیں ہوتا۔

17930

(۱۷۹۳۱) حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُوسَی ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ فِرَاسٍ ، عَنْ مُدْرِکٍ ، عَنِ ابْنِ أَبِی أَوْفَی ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہُ۔ (طیالسی ۸۲۳۔ احمد ۴/۳۵۲)
(١٧٩٣١) ایک اور سند سے یونہی منقول ہے۔

17931

(۱۷۹۳۲) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ أَبِی سُلَیْمَانَ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ عَبَّادٍ ، عَنْ أَبَانَ بْنِ عُثْمَانَ قَالَ : یُعْرَفُ الزُّنَاۃُ بِنَتْنِ فُرُوجِہِمْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ۔
(١٧٩٣٢) حضرت ابان بن عثمان (رض) فرماتے ہیں کہ قیامت کے دن زنا کار لوگ اپنی شرمگاہوں کی بدبو سے پہچانے جائیں گے۔

17932

(۱۷۹۳۳) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ أَبِی الضُّحَی ، عَنْ مَسْرُوقٍ قَالَ : إنَّ أَکْبَرَ مَا یُصِیبُ النَّاسَ مِنَ الذُّنُوبِ الزِّنَا ، ہُوَ شَہْوَۃٌ وَلَیْسَ لَہُ رِیحٌ فَیُؤخَذ وَلاَ یَکَادُ تُقَامُ حُدُودُہُ۔
(١٧٩٣٣) حضرت مسروق (رض) فرماتے ہیں کہ لوگ سب سے زیادہ زنا کا شکار ہوتے ہیں وہ شہوت ہے، اس کی کوئی بو نہیں کہ پکڑا جاسکے اور حدود قائم کی جاسکیں۔

17933

(۱۷۹۳۴) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ زَکَرِیَّا بْنِ صُہَیْبٍ ، عَنْ أَبِی صَالِحٍ قَالَ : بَلَغَنِی أَنَّ أَکْثَرَ ذُنُوبِ أَہْلِ الْجَنَّۃِ فِی النِّسَائِ۔
(١٧٩٣٤) حضرت ابو صالح (رض) فرماتے ہیں کہ مجھے خبر ملی ہے کہ اہل جنت کے اکثر گناہ عورتوں میں ہیں۔

17934

(۱۷۹۳۵) حَدَّثَنَا ابْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ بْنِ مُہَاجِرٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ؛ أَنَّہُ قَالَ لِغِلْمَانِہِ : مَنْ أَرَادَ مِنْکُمُ الْبَائَۃَ زَوَّجْنَاہُ ، لاَ یَزْنِی مِنْکُمُ الزَّانِی إلاَّ نَزَعَ اللَّہُ نُورَ الإِیمَانِ مِنْ قَلْبِہِ فَإِنْ شَائَ أَنْ یَرُدَّہُ رَدَّہُ ، وَإِنْ شَائَ أَنْ یَمْنَعَہُ مَنَعَہُ۔
(١٧٩٣٥) حضرت ابن عباس (رض) نے اپنے غلاموں سے فرمایا کہ جو تم میں سے پاکدامنی چاہتا ہے تو ہم اس کی شادی کرادیتے ہیں۔ جب تم میں سے کوئی زنا کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس سے ایمان کے نور کو چھین لیتا ہے اور پھر چاہتا تو لوٹا دیتا ہے اور اگر چاہتا ہے تو نہیں لوٹاتا۔

17935

(۱۷۹۳۶) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنِ الْعَوَّامِ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ مُدْرِکٍ ، عَنْ أَبِی زُرْعَۃَ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ : الإِیمَانُ نزہٌ فَمَنْ زَنَی فَارَقَہُ الإِیمَانُ فَمَنْ لاَمَ نَفْسَہُ وَرَاجَعَ رَاجَعَہُ الإِیمَانُ۔
(١٧٩٣٦) حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ ایمان گناہوں سے روکنے والا وصف ہے، جب انسان زنا کرتا ہے تو ایمان اس سے دور ہوجاتا ہے اور جو نفس کو ملامت کرتا ہے تو اس کا ایمان واپس آجاتا ہے۔

17936

(۱۷۹۳۷) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنْ سُلَیْمَانَ التَّیْمِیِّ ، عَنْ أَبِی عُثْمَانَ ، عَنْ أُسَامَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَا تَرَکْت بَعْدِی عَلَی أُمَّتِی فِتْنَۃً أَضَرَّ عَلَی الرِّجَالِ مِنَ النِّسَائِ۔ (بخاری ۵۰۹۶۔ مسلم ۲۰۹۷)
(١٧٩٣٧) حضرت اسامہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ میں نے اپنی امت کے مردوں کے لیے اپنے بعد عورتوں سے بڑا فتنہ کوئی نہیں دیکھا۔

17937

(۱۷۹۳۸) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ طَاوُوسٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : لَمْ یَکُنْ کُفْرُ مَنْ مَضَی إلاَّ مِنْ قِبَلِ النِّسَائِ وَہُوَ کَائِنٌ کُفْرُ مَنْ بَقِیَ مِنْ قِبَلِ النِّسَائِ۔
(١٧٩٣٨) حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ تم سے پہلے والے لوگوں کا کفر عورتوں کی وجہ سے تھا اور آئندہ بھی کفر عورتوں کی وجہ سے ہوگا۔

17938

(۱۷۹۳۹) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ عَبَّادِ بن عَبْدِ اللہِ بْنِ الزُّبَیْرِ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ : سَمِعْت رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : لاَ یَزْنِی الزَّانِی حِینَ یَزْنِی وَہُوَ مُؤْمِنٌ۔
(١٧٩٣٩) حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ جب آدمی زنا کرتا ہے تو اس وقت مومن نہیں ہوتا۔

17939

(۱۷۹۴۰) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ ، عَنْ یَزِیدَ بْنِ أَبِی حَبِیبٍ ، عَنْ بَعْجَۃَ الْجُہَنِیِّ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِمِثْلِہِ۔ (بخاری ۲۴۷۵۔ مسلم ۱۰۰)
(١٧٩٤٠) ایک اور سند سے یونہی منقول ہے۔

17940

(۱۷۹۴۱) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ الْحُبَابِ قَالَ : حدَّثَنِی یَحْیَی بْنُ أَیُّوبَ الْمِصْرِیُّ قَالَ : حَدَّثَنِی یَزِیدُ بْنُ أَبِی حَبِیبٍ ، عَنْ بُکَیْرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ الأَشَجِّ ، عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ یَسَارٍ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رُفِعَ إلَیْہِ خَصِیٌّ تَزَوَّجَ امْرَأَۃً وَلَمْ یُعْلِمْہَا فَفَرَّقَ بَیْنَہُمَا۔
(١٧٩٤١) حضرت سلیمان بن یسار (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) کے پاس ایک مقدمہ لایا گیا کہ خصی آدمی نے کسی عورت سے شادی کی جبکہ عورت کو اس کا علم نہیں تھا تو حضرت عمر (رض) نے دونوں کے درمیان جدائی کرادی۔

17941

(۱۷۹۴۲) حَدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ بْنُ عَیَّاشٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ یُوسُفَ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ أَبِی کَثِیرٍ أَنَّ عَلِیَّ بْنَ أَبِی طَالِبٍ کان یقُول : لاَ یَنْکِحُ الْخَصِیُّ حُرَّۃً مُسْلِمَۃً۔
(١٧٩٤٢) حضرت علی (رض) فرماتے ہیں کہ خصی کسی مسلمان آزاد عورت سے نکاح نہیں کرسکتا۔

17942

(۱۷۹۴۳) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ قَالَ : سَأَلْتُ حَمَّادًا ، عَنْ رَجُلٍ زَوَّجَ ابْنَتَہُ ثُمَّ مَاتَ الزَّوْجُ وَلَمْ تَعْلَمِ الابْنَۃُ بِذَلِکَ ، فَقَالَ : لاَ تَرِثُ وَسَأَلْت الْحَکَمَ ، فَقَالَ : تَرِثُ۔
(١٧٩٤٣) حضرت شعبہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت حماد (رض) سے سوال کیا کہ اگر کسی آدمی نے اپنی بیٹی کی شادی کرائی پھر خاوند مرگیا لیکن بیٹی کو علم نہیں تھا تو اس کا کیا حکم ہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ وہ وارث نہیں ہوگی اور میں نے حضرت حکم (رض) سے سوال کیا تو انھوں نے فرمایا کہ وارث ہوگی۔

17943

(۱۷۹۴۴) حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ خَالِدٍ ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ جُبَیْرٍ قَالَ : زَفَّ سَعِیدُ بْنُ جُبَیْرٍ ابْنَتَہُ إلَی زَوْجِہَا۔
(١٧٩٤٤) حضرت داؤد بن جبیر فرماتے ہیں کہ حضرت سعید بن جبیر (رض) خود اپنی بیٹی کو ان کے خاوند کے پاس لے کر گئے۔

17944

(۱۷۹۴۵) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ ، عَنْ رَجُلٍ حَدَّثَہُ أَنَّ امْرَأَۃً سَأَلَتِ ابْنَہَا أَنْ یُزَوِّجَہَا فَکَرِہَ ذَلِکَ ، وَذَہَبَ إلَی عُمَرَ فَذَکَر ذَلِکَ لَہُ ، فَقَالَ عمر : اذْہَبْ فَإِذَا کَانَ غَدًا أَتَیْتُکُمْ قَالَ : فَجَائَ عُمَرُ فَکَلَّمَہَا وَلَمْ یُکْثِرْ ثُمَّ أَخَذَ بِیَدِ ابْنِہَا ، فَقَالَ لَہُ : زَوِّجْہَا فَوَالَّذِی نَفْسُ عُمَرَ بِیَدِہِ لَوْ أَنَّ حَنْتَمَۃَ بِنْتَ ہِشَامٍ یَعْنِی عُمَرُ أُمَّ نَفْسِہِ سَأَلَتْنِی أَنْ أُزَوِّجَہَا لَزَوَّجْتہَا ، فَزَوَّجَ الرَّجُلُ أُمَّہُ۔
(١٧٩٤٥) حضرت ہشام بن عروہ (رض) ایک آدمی سے نقل کرتے ہیں کہ ایک عورت نے اپنے بیٹے سے کہا کہ میری شادی کرادے، بیٹے نے اس بات پر ناگواری کا اظہار کیا، وہ حضرت عمر (رض) کے پاس آیا اور ساری بات عرض کی، حضرت عمر (رض) نے فرمایا کہ تم جاؤ میں تمہارے پاس کل آؤں گا۔ اگلے دن حضرت عمر (رض) آئے اور اس عورت سے مختصر بات چیت کی پھر اس کے بیٹے کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا کہ تم اس کی شادی کرادو، اس ذات کی قسم ! جس کے قبضے میں عمر کی جان ہے ! اگر حنتمہ بنت ہشام (حضرت عمر (رض) کی والدہ) مجھ سے شادی کرانے کا کہتیں تو میں ضرور ان کی شادی کرادیتا۔ پس آدمی نے اپنی والدہ کی شادی کرا دی۔

17945

(۱۷۹۴۶) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ قَالَ : أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَنْ ثَابِتٍ وَإِسْمَاعِیلَ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ أَبِی طَلْحَۃَ أَنَّ أَبَا طَلْحَۃَ خَطَبَ أُمَّ سُلَیْمٍ ، فَقَالَتْ : یَا أَبَا طَلْحَۃَ أَلَسْتَ تَعْلَمُ أَنَّ آلَہَتِکَ الَّتِی تَعْبُدُ خَشَبَۃً تنبت مِنَ الأَرْضِ ، نَجَرَہَا حَبَشِیُّ بَنِی فُلاَنٍ قَالَ : بَلَی ، قَالَتْ : فَلاَ تَسْتَحْیِی مِنْ ذَلِکَ أسلم فَإِنَّک إِنْ أَسْلَمْتَ لَمْ أُرِدْ مِنْک صَدَاقًا غَیْرَہُ قَالَ حَتَّی أَنْظُرَ قَالَ : فَذَہَبَ ثُمَّ جَائَ ، فَقَالَ : أَشْہَدُ أَنْ لاَ إلَہَ إلاَّ اللَّہُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللہِ قَالَتْ : یَا أَنَسُ ، قُمْ فَزَوِّجْ أَبَا طَلْحَۃَ ، فَزَوَّجَہَا۔
(١٧٩٤٦) حضرت ثابت (رض) اور اسماعیل بن عبداللہ بن ابی طلحہ (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت ابو طلحہ (رض) نے حضرت ام سلیم (رض) کوپیامِ نکاح بھیجا۔ انھوں نے کہا کہ اے ابو طلحہ ! کیا تم نہیں جانتے کہ جن معبودوں کی تم پوجا کرتے ہو وہ ایک محض ایک لکڑی ہے جو زمین سے اگتی ہے اور اسے فلاں حبشی نے اگایا ہے۔ ابو طلحہ (رض) نے جواب دیا واقعی بات تو یوں ہی ہے۔ حضرت ام سلیم (رض) نے کہا کہ پھر تمہیں اس سے شرم کیوں نہیں آتی، تم اسلام قبول کرلو، تمہارا اسلام کو قبول کرنا ہی میرا مہر ہوگا۔ حضرت ابو طلحہ (رض) نے سوچنے کے لیے وقت مانگا پھر آئے اور کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں۔ حضرت ام سلیم (رض) نے اپنے بیٹے حضرت انس (رض) سے فرمایا کہ اے انس اٹھو اور ابو طلحہ سے میرا نکاح کرادو۔ چنانچہ انھوں نے نکاح کرادیا۔

17946

(۱۷۹۴۷) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ الْحُبَابِ ، قَالَ : حَدَّثَنا حُسَیْنُ بْنُ وَاقِدٍ قَالَ : حدَّثَنِی یَزِیدُ النَّحْوِیُّ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ ؛ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ إذَا قَدِمَ مِنْ مَغَازِیہِ قَبَّلَ فَاطِمَۃَ۔ (بخاری ۳۶۲۳۔ مسلم ۹۷)
(١٧٩٤٧) حضرت عکرمہ (رض) فرماتے ہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب کسی غزوہ سے واپس آتے تو حضرت فاطمہ (رض) کو پیار کیا کرتے تھے۔

17947

(۱۷۹۴۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ مَالِکِ بْنِ مِغْوَلٍ ، عَنْ أَبِی حَصِینٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ أَنَّ أَبَا بَکْرٍ قَبَّلَ رَأْسَ عَائِشَۃَ۔
(١٧٩٤٨) حضرت مجاہد (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت ابوبکر (رض) نے حضرت عائشہ (رض) کے سر پر پیار دیا۔

17948

(۱۷۹۴۹) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، عَنْ عَبْدِ الْوَاحِدِ بْنِ أیمن ، عَنْ أَبِی بَکْرِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ ہِشَامٍ أَنَّ خَالِدَ بْنَ الْوَلِیدِ اسْتَشَارَ أُخْتَہُ فِی شَیْئٍ فَأَشَارَتْ علیہ فَقَبَّلَ رَأْسَہَا۔ (ترمذی ۱۱۷۲۔ دارمی ۲۷۸۲)
(١٧٩٤٩) حضرت حارث بن ہشام (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت خالد بن ولید (رض) نے کسی چیز کے بارے میں اپنی بہن سے مشورہ طلب کیا، انھوں نے اچھا مشورہ دیا تو انھوں نے اپنی بہن کے سر پر پیار دیا۔

17949

(۱۷۹۵۰) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ ، عَنْ مُجَالِدٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنْ جَابِرٍ قَالَ : نَہَی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ یُدْخلَ عَلَی الْمُغِیبَاتِ۔
(١٧٩٥٠) حضرت جابر (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس بات سے منع کیا ہے کہ ان عورتوں سے ملاقات کے لیے جایا جائے جن کے خاوند شہر میں نہیں ہیں۔

17950

(۱۷۹۵۱) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ لَیْثٍ وَمِسْعَرٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ إبْرَاہِیمَ ، عَنْ حُمَیْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ: أَلاَ لاَ یَلِجُ رَجُلٌ عَلَی امْرَأَۃٍ إلاَّ وَہِیَ ذَاتُ مَحْرَمٍ مِنْہُ ، وَإِنْ قِیلَ : حَمْوُہَا ؟ أَلاَ إنَّ حَمْوَہَا الْمَوْتُ۔
(١٧٩٥١) حضرت عمر (رض) فرماتے ہیں کہ خبردار ! کوئی شخص غیر محرم عورت سے ملاقات نہ کرے، اور اگر دیور یا جیٹھ کے بارے میں پوچھو تو میں کہوں گا کہ وہ تو موت ہیں۔

17951

(۱۷۹۵۲) حَدَّثَنَا سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنْ أَبِی مَعْبَدٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ یَقُولُ : سَمِعْت النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : أَلاَ لاَ یَخْلُوَنَّ رَجُلٌ بِامْرَأَۃٍ إلاَّ وَمَعَہَا ذُو مَحْرَمٍ۔ (بخاری ۳۰۰۶۔ مسلم ۴۲۴)
(١٧٩٥٢) حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ خبردار ! کوئی شخص کسی اجنبی عورت کے ساتھ تنہائی اختیار نہ کرے، الا یہ کہ اس عورت کے ساتھ کوئی محرم ہو۔

17952

(۱۷۹۵۳) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ أَبِی زُبَیْرٍ ، عَنْ جَابِرٍ ، أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : أَلاَ لاَ یَبِیتَنَّ رَجُلٌ عِنْدَ امْرَأَۃٍ إلاَّ أَنْ یَکُونَ نَاکِحًا ، أَوْ ذَا مَحْرَمٍ۔ (مسلم ۱۹۔ ابن حبان ۵۵۸۷)
(١٧٩٥٣) حضرت جابر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ کوئی مرد کسی عورت کے گھر میں رات نہ رہے الا یہ کہ وہ اس کا خاوند ہو یا محرم رشتہ دار۔

17953

(۱۷۹۵۴) حَدَّثَنَا شَبَابَۃُ بْنُ سَوَّارٍ قَالَ : حدَّثَنَا لَیْثُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنْ یَزِیدَ بْنِ أَبِی حَبِیبٍ ، عَنْ أَبِی الْخَیْرِ ، عَنْ عُقْبَۃَ بْنِ عَامِرٍ ، أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : إیَّاکُمْ وَالدُّخُولَ عَلَی النِّسَائِ ، فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الأَنْصَارِ : یَا رَسُولَ اللہِ ، إلاَّ الْحَمْوَ ؟ فَقَالَ : الْحَمْوُ الْمَوْتُ۔ (بخاری ۵۲۳۲۔ مسلم ۲۱)
(١٧٩٥٤) حضرت عقبہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ عورتوں کے پاس جانے سے بچو۔ ایک انصاری نے سوال کیا کہ اے اللہ کے رسول ! دیور یا جیٹھ کا کیا حکم ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ وہ تو موت ہے۔

17954

(۱۷۹۵۵) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنِ الْحَکَمِ ، قَالَ : سَمِعْتُ ذَکْوَانَ یُحَدِّثُ عَنْ مَوْلًی لِعَمْرِو بْنِ الْعَاصِ أنَّہُ أَرْسَلَہُ إلَی عَلِیٍّ یَسْتَأْذِنُ عَلَی أَسْمَائَ ابْنَۃِ عُمَیْسٍ فَأَذِنَ لَہُ حَتَّی إذَا فَرَغَ مِنْ حَاجَتِہِ سَأَلَ الْمَوْلَی عَمْرًا عَنْ ذَلِکَ ، فَقَالَ إنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَہَانَا أَنْ نَدْخُلَ عَلَی النِّسَائِ بِغَیْرِ إذْنِ أَزْوَاجِہِنَّ۔ (ترمذی ۲۷۷۹۔ احمد ۴/۲۰۳)
(١٧٩٥٥) حضرت ذکوان (رض) بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمرو بن عاص (رض) نے اپنے ایک خادم کو حضرت علی (رض) کے پاس بھیجا کہ ان سے حضرت اسماء بنت عمیس (رض) سے ملاقات کی اجازت طلب کریں جب اجازت مل گئی تو انھوں نے اپنی ضرورت کی بات کی تو خادم نے حضرت عمرو (رض) سے اس کی وجہ پوچھی تو اس پر حضرت عمرو بن عاص (رض) نے فرمایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں اس بات سے منع کیا ہے کہ ہم عورتوں سے ان کے خاوندوں کی اجازت کے بغیر ملاقات کریں۔

17955

(۱۷۹۵۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ مِسْعَرٍ ، عَنْ زِیَادِ بْنِ فَیَّاضٍ ، عَنْ تَمِیمِ بْنِ سَلَمَۃَ قَالَ : قَالَ عَمْرُو بْنُ الْعَاصِ : نُہِینَا أَنْ نَدْخُلَ عَلَی الْمُغِیبَاتِ إلاَّ بِإِذْنِ أَزْوَاجِہِنَّ۔
(١٧٩٥٦) حضرت عمرو بن عاص (رض) فرماتے ہیں کہ ہمیں اس بات سے منع کیا گیا ہے کہ ہم عورتوں سے ان کے خاوندوں کی اجازت کے بغیر ملاقات کریں۔

17956

(۱۷۹۵۷) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ قَالَ : أَخْبَرَنَا ہِشَامٌ ، عَنِ الْحَسَنِ ، وَابْنِ سِیرِینَ أَنَّہُمَا کَانَا لاَ یَرَیَانِ بَأْسًا أَنْ یَتَزَوَّجَ الرَّجُلُ عَلَی کَذَا وَکَذَا وَصِیفًا۔
(١٧٩٥٧) حضرت حسن (رض) اور حضرت ابن سیرین (رض) اس بات میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے کہ آدمی عورت سے اس بات پر شادی کرے کہ اسے اتنے خادم دے گا۔

17957

(۱۷۹۵۸) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالَ : لاَ بَأْسَ أَنْ یَتَزَوَّجَ الرَّجُلُ عَلَی بِنْتٍ وَخَادِمٍ وَعَلَی الْوُصَفَائِ وَالْوَصَائِفِ۔
(١٧٩٥٨) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ خادمہ باندیوں اور غلاموں کے عوض شادی کرنے میں کوئی حرج نہیں۔

17958

(۱۷۹۵۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ الْعَلاَئِ بْنِ عَبْدِ الْکَرِیمِ الْیَامِیِّ ، عَنْ عَمَّارِ بْنِ عِمْرَانَ رَجُلٍ مِنْ زَیْدِ اللہِ ، عَنِ امْرَأَۃٍ مِنْہُمْ ، عَنْ عَائِشَۃَ أَنَّہَا شَوَّفَتْ جَارِیَۃً وَطَافَتْ بِہَا وَقَالَتْ : لَعَلَّنَا نَتَصَید بِہَا شَبَابَ قُرَیْشٍ۔
(١٧٩٥٩) بنو زید اللہ کی ایک خاتون بیان کرتی ہیں کہ حضرت عائشہ (رض) ایک باندی کو بناؤ سنگھار کرکے اس کے ساتھ باہر آئیں اور فرمایا کہ اس کے ذریعے ہم قریش کے نوجوانوں کا شکارکریں گے۔ (مراد یہ تھ یکہ بچی کی خوبصورتی اور بناؤ سنگھار اس کے رشتہ ازدواج میں آسانی کا باعث بن سکتا ہے۔ راویہ کے مجہول ہونے کی بنا پر یہ روایت ضعیف ہے)

17959

(۱۷۹۶۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ قَالَ : حدَّثَنَا أُسَامَۃُ بْنُ زَیْدٍ ، عَنْ أَبِی حَازِمٍ ، عَنْ سَہْلِ بْنِ سَعْدٍ السَّاعِدِیِّ أَنَّہُمْ مَرُّوا عَلَیْہِ بِجَارِیَۃٍ قَدْ زُیِّنَتْ قَالَ : فَدَعَا بِہَا وَنَظَرَ إلَیْہَا وَأَجْلَسَہَا فِی حِجْرِہِ ، وَمَسَحَ عَلَی رَأْسِہَا وَدَعَا لَہَا بِالْبَرَکَۃِ۔
(١٧٩٦٠) حضرت ابو حازم (رض) فرماتے ہیں کہ کچھ لوگ اپنی ایک سنوری ہوئی بچی کو لے کر حضرت سہل بن ساعدی (رض) کے پاس سے گذرے، انھوں نے اسے بلایا، اس کی طرف دیکھا، اسے اپنے ساتھ بٹھایا اور اس کے سر پر ہاتھ پھیرا اور اسے برکت کی دعا دی۔

17960

(۱۷۹۶۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ قَالَ : حدَّثَنَا أُسَامَۃُ بْنُ زَیْدٍ ، عَنْ بَعْضِ أَشْیَاخِہِ قَالَ قَالَ : عُمَرُ : إذَا أَرَادَ أحَدٌ مِنْکُمْ أَنْ یُحَسِّنَ الْجَارِیَۃَ فَلْیُزَیِّنْہَا وَلْیَطَّوَّفْ بِہَا یَتَعَرَّضُ بِہَا رِزْقَ اللہِ۔
(١٧٩٦١) حضرت عمر (رض) فرماتے ہیں کہ اگر تم میں سے کوئی یہ چاہے کہ اپنی بچی کے ساتھ بھلائی کا معاملہ کرے تو اسے تیار کرے اور باہر لائے، اللہ تعالیٰ کا رزق اس کے لیے آئے گا۔ (یعنی اس کی شادی ہوجائے گی)

17961

(۱۷۹۶۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : قَالَ عُمَرُ : لاَ تُکْرِہُوا فَتَیَاتِکُمْ عَلَی الرجل الدَّمِیمِ مِنَ الرِّجَالِ فَإِنَّہُنَّ یُحْبِبْنَ مِنْ ذَلِکَ مَا تُحِبُّونَ۔
(١٧٩٦٢) حضرت عمر (رض) فرماتے ہیں کہ اپنی بیٹیوں کو پستہ قد اور بدشکل آدمیوں سے نکاح کرنے پر مجبور نہ کرو کیونکہ جو تم پسند کرتے ہو اسے وہ بھی پسند کرتی ہیں۔

17962

(۱۷۹۶۳) حَدَّثَنَا الضَّحَّاکُ بْنُ مَخْلَدٍ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الْحَسَنِ أَنَّہُ کَانَ یَکْرَہُ أَنْ یَتَزَوَّجَ الرَّجُلُ فِی أَرْضِ الْحَرْبِ وَیَدَعُ وَلَدَہُ فِیہِمْ۔
(١٧٩٦٣) حضرت حسن (رض) اس بات کو ناپسندیدہ خیال فرماتے تھے کہ آدمی ارض حرب میں شادی کرے اور اپنے بچے کو وہیں چھوڑ دے۔

17963

(۱۷۹۶۴) حَدَّثَنَا حُمَیْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ حَسَنٍ ، عَنِ ابْنِ أَبِی لَیْلَی ، عَنْ عَبْدِ الْکَرِیمِ ، عَنْ مُجَاہِدٍ أَنَّہُ کَرِہَ نِکَاحَ نَصَارَی أَہْلِ الرُّومِ مِنْ غَیْرِ أَہْلِ الْعَہْدِ قَالَ : فَوَصَفَ مُحَمَّدٌ الرَّجُلَ یَکُونُ أَسِیرًا فَیُرِیدُ أَنْ یَتَزَوَّجَ فَیَکْرَہُ ذَلِکَ لَہُ۔
(١٧٩٦٤) حضرت مجاہد (رض) نے ایسے رومی عیسائیوں سے نکاح کو مکروہ قرار دیا ہے جو عہد میں نہ ہوں۔ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بیان کیا ہے کہ قیدی آدمی کا شادی کرنا مکروہ ہے۔

17964

(۱۷۹۶۵) حَدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ بْنُ عَیَّاشٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَطَائٍ قَالَ : لاَ یُحْصِنُ الرَّجُلَ نِکَاحُ الْحَرَامِ۔
(١٧٩٦٥) حضرت عطائ (رض) فرماتے ہیں کہ ناجائز نکاح آدمی کو محصن نہیں بناتا۔

17965

(۱۷۹۶۶) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِیلُ بْنُ عَیَّاشٍ، عَنْ عَبْدِالْعَزِیزِ بْنِ عُبَیْدِاللہِ عن الشعبی قَالَ لاَ یُحْصِنُ الرَّجُلَ نِکَاحُ الْحَرَامِ۔
(١٧٩٦٦) حضرت شعبی (رض) فرماتے ہیں کہ ناجائز نکاح آدمی کو محصن نہیں بناتا۔

17966

(۱۷۹۶۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ بُدَیل بْنِ مَیْسَرَۃَ ، عَنْ أَبِی عَطِیَّۃَ ، عَنِ امْرَأَۃٍ مِنْہُمْ قَالَت : سَمِعْتُ عُمَرَ یَنْہَی عَنِ النَّقْشِ وَالتَّطَارِیفِ فِی الْخِضَابِ۔
(١٧٩٦٧) حضرت عمر (رض) نے خضاب کے ذریعے نقش ونگار بنانے اور اس سے انگلیوں کے کناروں کو رنگنے سے منع فرمایا ہے۔

17967

(۱۷۹۶۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ زَکَرِیَّا قَالَ حَدَّثَتْنِی أُمَیَّۃُ قَالَتْ : کُنْت أُقین الْعَرَائِسَ بِالْمَدِینَۃِ فَسَأَلْت عَائِشَۃَ عَنِ الْخِضَابِ ، فَقَالَتْ : لاَ بَأْسَ بِہِ مَا لَمْ یَکُنْ فِیہِ نَقْشٌ۔
(١٧٩٦٨) حضرت امیہ (رض) فرماتی ہیں کہ میں مدینے میں دلہنوں کو تیار کیا کرتی تھی۔ میں نے حضرت عائشہ (رض) سے خضاب کے بارے میں سوال کیا تو انھوں نے فرمایا کہ اس میں کوئی حرج نہیں، اگر نقش نہ بنائے جائیں۔

17968

(۱۷۹۶۹) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ خَالِد ، عَنْ شَیْخٍ أَنَّ عُمَرَ نَہَی عَنْ نَقْشٍ فِی الْخِضَابِ وَالتَّطَارِیفِ۔
(١٧٩٦٩) حضرت عمر (رض) نے خضاب کے ذریعے نقش ونگار بنانے اور اس سے انگلیوں کے کناروں کو رنگنے سے منع فرمایا ہے۔

17969

(۱۷۹۷۰) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ حَفْصٍ ، عَنْ یَعْلَی بْنِ مُرَّۃَ قَالَ : مَرَرْت عَلَی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَأَنَا مُتَخَلِّقٌ بِالزَّعْفَرَانِ ، فَقَالَ لِی : یَا یَعْلَی ، ہَلْ لَکَ امْرَأَۃٌ ؟ فَقُلْتُ : لاَ ، قَالَ : فَاذْہَبْ فَاغْسِلْہُ ثُمَّ اغْسِلْہُ ثُمَّ لاَ تَعُدْ ، قَالَ : فَغَسَلْتہ ثُمَّ غَسَلْتہ ثُمَّ لَمْ أَعُدْ۔ (ترمذی ۲۸۱۶۔ احمد ۴/۱۷۱)
(١٧٩٧٠) حضرت یعلی بن مرہ (رض) فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرے پاس سے گذرے میں نے زعفران لگایا ہوا تھا ۔ آپ نے فرمایا کہ اے یعلیٰ ! کیا تمہاری بیوی ہے ؟ میں نے کہا نہیں۔ آپ نے فرمایا کہ جاؤ اسے دھو لو، اسے دھولو اور پھر دوبارہ مت لگانا۔ میں گیا، میں نے اسے دھویا، پھر دھویا اور پھر دوبارہ کبھی نہ لگایا۔

17970

(۱۷۹۷۱) حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ وَجَرِیرٌ ، عَنِ الرُّکَیْنِ ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ حَسَّانَ ، عَنْ عَمِّہِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ حَرْمَلَۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ أَنَّ نَبِیَّ اللہِ کَرِہَ الصُّفْرَۃَ یَعْنِی الْخَلُوقَ۔ (ابوداؤد ۴۲۱۹۔ ابویعلی ۵۰۷۴)
(١٧٩٧١) حضرت عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ اللہ کے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے زرد رنگ کے استعمال کو مردوں کے لیے ناپسند قرار دیا ہے۔

17971

(۱۷۹۷۲) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِیزِ بْنِ صُہَیْبٍ ، عَنْ أَنَسٍ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَہَی عَنِ التَّزَعْفُرِ۔ (مسلم ۱۶۶۳۔ ابوداؤد ۴۱۷۶)
(١٧٩٧٢) حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے زعفران لگانے سے منع فرمایا ہے۔

17972

(۱۷۹۷۳) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنِ الْحَسَنِ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَأَی سَوَّادَ بْنَ عَمْرٍو مُتَخَلِّقًا، فَقَالَ : خطْ خطْ ، وَرْسْ وَرْسْ۔ (عبدالرزاق ۱۸۰۳۸)
(١٧٩٧٣) حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سواد بن عمرو (رض) کو دیکھا کہ انھوں نے زرد رنگ لگایا ہوا تھا آپ نے ان سے فرمایا کہ اس میں دوسرا رنگ ملا لو، اس میں دوسرا رنگ ملالو، ورس کا استعمال کرو، ورس کا استعمال کرو۔

17973

(۱۷۹۷۴) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنْ کَثِیرٍ مَوْلَی ابْنِ سَمُرَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : لاَ تَقْرَبُ الْمَلاَئِکَۃُ مُتَضَمِّخًا بِخَلُوقٍ۔
(١٧٩٧٤) حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ فرشتے اس شخص کے پاس نہیں جاتے جس نے خلوق نامی زرد خوشبو لگا رکھی ہو۔

17974

(۱۷۹۷۵) حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، عَنْ مُحَمَّدٍ أَنَّ الأَشْعَرِیَّ لَمَّا قَدِمَ الْبَصْرَۃَ رَأَی قَیْسَ بْنَ عُبَادٍ وَعَلَیْہِ أَثَرُ صُفْرَۃٍ، أَوْ قَالَ: خَلُوقٍ قَالَ: فَنَظَرَ إلَیْہِ فَانْطَلَقَ فغَسَلُہُ ثُمَّ جَائَ، فَقَالَ الأَشْعَرِیُّ: مَا أَسْرَعُ مَا أعتب ہَذَا۔
(١٧٩٧٥) حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں کہ حضرت ابو موسیٰ اشعری (رض) جب بصرہ آئے تو قیس بن عباد کو دیکھا انھوں نے زرد بوٹی لگا رکھی تھی۔ حضرت اشعری (رض) نے ان کی طرف دیکھا تو وہ گئے اور اسے دھو کر آگئے۔ حضرت اشعری (رض) نے فرمایا کہ یہ کتنی جلدی سمجھنے والا ہے !

17975

(۱۷۹۷۶) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ یَزِیدَ بْنِ أَبِی زِیَادٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِی لَیْلَی أنَّہُ دُعِیَ إلَی عُرْسٍ بِلَیْلٍ فَادَّہَنَ بِدُہْنٍ فِیہِ صُفْرَۃٌ فَأَصْبَحَ وَفِی لِحْیَتِہِ صُفْرَۃٌ فَغَسَلَہَا فَلَمْ یَذْہَبْ فَغَسَلَہَا بِصَابُونٍ۔
(١٧٩٧٦) حضرت یزید بن ابی زیاد (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عبد الرحمن بن ابی لیلیٰ (رض) کو ایک رات ایک شادی میں بلایا گیا، وہاں انھوں نے ایک خوشبو لگائی جس میں زردی تھی، صبح ان کی داڑھی میں زردی تھی۔ انھوں نے اسے دھویا لیکن وہ صاف نہ ہوئی، انھوں نے پھر اسے صابن سے دھویا۔

17976

(۱۷۹۷۷) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ قَالَ : أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَنْ عَطَائٍ الْخُرَاسَانِیِّ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ یَعْمَُرَ ، عَنْ عَمَّارٍ قَالَ : قَدِمْت مِنَ سَفَرٍ فَمَسَّحَنِی أَہْلِی بِشَیْئٍ مِنَ صُفْرَۃٍ فَأَتَیْت رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَسَلَّمْت عَلَیْہِ فَلَمْ یَرُدَّ عَلَیَّ وَلَمْ یُرَحِّبْ بِی وَقَالَ : انْطَلِقْ فَاغْسِلْ عَنْک ہَذَا ، فَذَہَبْتُ فَغَسَلْتُہُ فَبَقِیَ مِنْ أَثَرِہِ شَیْئٌ فَأَتَیْتُہُ فَسَلَّمْت عَلَیْہِ فَلَمْ یَرُدَّ عَلَیَّ وَلَمْ یُرَحِّبْ بِی ، فَقَالَ : انْطَلِقْ فَاغْسِلْ عَنْک ہَذَا ، فَذَہَبْتُ فَغَسَلْتہ ثُمَّ جِئْت فَسَلَّمْت عَلَیْہِ فَرَحَّبَ بِی وَقَالَ : إنَّ الْمَلاَئِکَۃَ لاَ تَقْرَبُ جِنَازَۃَ کَافِرٍ وَلاَ جُنُبٍ وَلاَ مُتَضَمِّخٍ بِخَلُوقٍ۔ (مسندہ ۴۴۱)
(١٧٩٧٧) حضرت عمار (رض) فرماتے ہیں کہ میں ایک سفر سے واپس آیا تو میری بیوی نے مجھے کوئی ایسی چیز لگادی جس میں زردی ملی ہوئی تھی۔ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور میں نے سلام کیا لیکن آپ نے میرے سلام کا جواب نہ دیا اور مجھے خوش آمدید بھی نہیں کہا۔ آپ نے فرمایا کہ جاؤ اور اسے دھو کر آؤ۔ میں گیا میں نے اسے دھویا لیکن اس کا اثر باقی رہ گیا۔ میں آیا میں نے سلام کیا لیکن آپ نے میرے سلام کا جواب نہ دیا اور مجھے خوش آمدید بھی نہ کہا۔ پھر فرمایا کہ جاؤ اور اسے دھو کر آؤ۔ میں گیا میں نے اسے دھویا پھر میں آیا میں نے سلام کیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے خوش آمدید کہا اور فرمایا کہ فرشتے کافر کے جنازے، جنبی اور زرد رنگ لگانے والے مرد کے پاس نہیں جاتے۔

17977

(۱۷۹۷۸) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ إِسْحَاقَ ، عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ سَعْدٍ قَالَ : رَأَیْتُ الْمُغِیرَۃَ بْنَ شُعْبَۃَ مُضَمَّخًا بِالْخَلُوقِ کَأَنَّہُ عُرْجُونٌ۔
(١٧٩٧٨) حضرت نعمان بن سعد (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت مغیرہ بن شعبہ (رض) کو دیکھا کہ انھوں نے خلوق جیسا رنگ لگا رکھا تھا۔

17978

(۱۷۹۷۹) حَدَّثَنَا ہُشَیْمُ بْنُ أَبِی سَاسَانَ ، عَنْ أَبَانَ بْنِ کَثِیرٍ النَّہْشَلِیِّ قَالَ : رَأَیْتُ أَنَسًا قَدْ مَسَحَ ذِرَاعَیْہِ بِشَیْئٍ مِنْ خَلُوقٍ مِنْ وَضَحٍ کَانَ بِہِ۔
(١٧٩٧٩) حضرت ابان بن کثیر نہشلی (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت انس بن مالک (رض) کو دیکھا کہ انھوں نے اپنے بازوؤں کے درمیان کسی عذر کی وجہ سے خلوق لگا رکھی تھی۔

17979

(۱۷۹۸۰) حَدَّثَنَا سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ عُرْوَۃَ ، عَنْ عَائِشَۃَ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: الْوَلَدُ لِلْفِرَاشِ۔ (بخاری ۲۴۲۱۔ مسلم ۱۰۸۱)
(١٧٩٨٠) حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ بچہ باپ کا ہوگا۔

17980

(۱۷۹۸۱) حَدَّثَنَا سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ بْنِ أَبِی یَزِیدَ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ عُمَرَ ، قَالَ : قضَی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِالْوَلَدِ لِلْفِرَاشِ۔ (احمد ۲۵۔ ابویعلی ۱۹۹)
(١٧٩٨١) حضرت عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فیصلہ فرمایا کہ بچہ باپ کا ہوگا۔

17981

(۱۷۹۸۲) حَدَّثَنَا سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ سَعِیدٍ وَأَبِی سَلَمَۃَ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : الْوَلَدُ لِلْفِرَاشِ۔ (مسلم ۱۰۸۱۔ ترمذی ۱۱۵۷)
(١٧٩٨٢) حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ بچہ باپ کا ہوگا۔

17982

(۱۷۹۸۳) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ قَالَ : أَخْبَرَنَا حُسَیْنُ الْمُعَلِّمُ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ جَدِّہِ ، أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : الْوَلَدُ لِلْفِرَاشِ وَلِلْعَاہِرِ الأَثْلَبُ قِیلَ : وَمَا الأَثْلَبُ ؟ قَالَ : الْحَجَرُ۔ (ابوداؤد ۲۲۶۸۔ احمد ۲/۱۷۹)
(١٧٩٨٣) حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ بچہ باپ کا ہوگا اور زانی کے لیے پتھر ہیں۔

17983

(۱۷۹۸۴) حَدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ بْنُ عَیَّاشٍ ، عَنْ شُرَحْبِیلَ بْنِ مُسْلِمٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا أُمَامَۃَ الْبَاہِلِیَّ یَقُولُ : سَمِعْت رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : الْوَلَدُ لِلْفِرَاشِ۔ (ترمذی ۲۱۲۰۔ ابوداؤد ۲۲۶۹)
(١٧٩٨٤) حضرت ابو امامہ باہلی (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ بچہ باپ کا ہوگا۔

17984

(۱۷۹۸۵) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ قَالَ : أَخْبَرَنَا مَہْدِیُّ بْنُ مَیْمُونٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِی یَعْقُوبَ ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ سَعْدٍ قَالَ: حَدَّثَنِی رَبَاحٌ الْحَبَشِیُّ، عَنْ عُثْمَانَ، أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَضَی بِالْوَلَدِ لِلْفِرَاشِ۔
(١٧٩٨٥) حضرت عثمان (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فیصلہ فرمایا کہ بچہ باپ کا ہوگا۔

17985

(۱۷۹۸۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَۃَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ زِیَادٍ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : الْوَلَدُ لِلْفِرَاشِ وَلِلْعَاہِرِ الْحَجَرُ۔ (بخاری ۶۷۵۰۔ احمد ۲/۳۸۶)
(١٧٩٨٦) حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ بچہ باپ کا ہوگا۔

17986

(۱۷۹۸۷) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ قَالَ : أَخْبَرَنَا سَعِیدٌ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ شَہْرِ بْنِ حَوْشَبٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ غَنْمٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ خَارِجَۃَ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : الْوَلَدُ لِلْفِرَاشِ۔
(١٧٩٨٧) حضرت عمرو بن خارجہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ بچہ باپ کا ہوگا۔

17987

(۱۷۹۸۸) حُدِّثْتُ عن جَرِیر ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَن أَبِی وَائِلٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہُ قَالَ: الْوَلَدُ لِلْفِرَاشِ۔ (ابویعلی ۵۱۲۶۔ ابن حبان ۴۱۰۴)
(١٧٩٨٨) حضرت عبداللہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ بچہ باپ کا ہوگا۔

17988

(۱۷۹۸۹) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ قَالَ : حدَّثَنِی شُعْبَۃُ قَالَ : سَأَلْتُ الْحَکَمَ وَحَمَّادًا ، عَنِ الرَّجُلِ یَلْحَقُ بِأَرْضِ الْعَدُوِّ أَتَتَزَوَّجُ امْرَأَتُہُ ؟ قَالَ : أَحَدُہُمَا : لاَ ، وَقَالَ : الآخَرُ : نَعَمْ۔
(١٧٩٨٩) حضرت شعبہ (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت حکم (رض) اور حضرت حماد (رض) سے سوال کیا کہ اگر کوئی شخص دشمنوں کی سرزمین میں چلا جائے تو کیا اس کی بیوی کی شادی کرادی جائے گی ؟ ایک نے فرمایا ہاں اور دوسرے نے فرمایا نہیں۔

17989

(۱۷۹۹۰) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ زَیْدٍ قَالَ : حدَّثَنَا عَاصِمٌ قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ : عَلَیْکُمْ بِالأَبْکَارِ مِنَ النِّسَائِ فَإِنَّہُنَّ أَعْذَبُ أَفْوَاہًا وَأَصَحُّ أَرْحَامًا وَأَرْضَی بِالْیَسِیرِ۔
(١٧٩٩٠) حضرت عمر (رض) فرماتے ہیں کہ باکرہ عورتوں سے نکاح کو ترجیح دو کیونکہ ان کی گفتگو زیادہ شیریں ہوتی ہے، زیادہ بچے پیدا کرنے والی ہوتی ہیں اور وہ تھوڑے پر راضی ہوجاتی ہیں۔

17990

(۱۷۹۹۱) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ قَالَ : أَخْبَرَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ قَیْسٍ ، عَنْ رَجُلٍ ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ قَالَ : تَزَوَّجُوا الأَبْکَارَ فَإِنَّہُنَّ أَقَلُّ خِبًّا وَأَشَدُّ وُدًّا۔
(١٧٩٩١) حضرت ابن مسعود (رض) فرماتے ہیں کہ باکرہ عورتوں سے شادی کرنے کو ترجیح دو ، کیونکہ یہ تھوڑے پر گزارا کرنے والی اور زیادہ محبت کرنے والی ہوتی ہیں۔

17991

(۱۷۹۹۲) حَدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ بْنُ عَیَّاشٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُثْمَانَ بْنِ خُثَیْمٍ ، عَنْ مَکْحُولٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : عَلَیْکُمْ بِالْجَوَارِی الشَّوَابِّ فَانْکِحُوہُنَّ فَإِنَّہُنَّ أَطْیَبُ أَفْوَاہًا وَأَعَزُّ أَخْلاَقًا أفیح أَرْحَامًا۔ (سعید بن منصور ۵۱۴۔ عبدالرزاق ۱۹۳۴۲)
(١٧٩٩٢) حضرت مکحول (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ نوجوان لڑکیوں سے نکاح کرنے کو ترجیح دو کیونکہ وہ زیادہ شیریں گفتگو والی ہوتی ہیں، اچھے اخلاق والی ہوتی ہیں اور زیادہ بچے پیدا کرنے والی ہوتی ہیں۔

17992

(۱۷۹۹۳) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَیْدٍ ، عَنِ الأَعْمَشِِ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنْ جَابِرٍ ، قَالَ : سَأَلَنِی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : بِکْرًا تَزَوَّجْت أَمْ ثَیِّبًا ؟ قَالَ : قُلْتُ : لاَ بَلْ ثَیِّبًا قَالَ : فَہَلاَّ جَارِیَۃً تُلاَعِبُہَا وَتُلاَعِبُک۔ (ابوداؤد ۲۰۴۱۔ بیہقی ۳۵۱)
(١٧٩٩٣) حضرت جابر (رض) فرماتے ہیں میری شادی کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھ سے سوال کیا کہ تم نے باکرہ سے شادی کی یا ثیبہ سے ؟ میں نے کہا ثیبہ سے، آپ نے فرمایا کہ باکرہ سے کیوں نہیں کی وہ تمہارے ساتھ دل لگی کرتی اور تم اس کے ساتھ۔

17993

(۱۷۹۹۴) حَدَّثَنَا عَبِیدَۃُ بْنُ حُمَیْدٍ، عَنِ الأَسْوَدِ بْنِ قَیْسٍ الْعَبْدِیِّ، عَنْ نُبَیْحِ بْنِ عَبْدِ اللہِ الْعَنَزِیِّ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ قَالَ: مَشَیْت مَعَ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: أَلَک امْرَأَۃٌ یَا جَابِرُ؟ قُلْتُ: نَعَمْ ، فَقَالَ : ثَیِّبًا نَکَحْت أَمْ بِکْرًا ؟ قُلْتُ: تَزَوَّجْتہَا وَہِیَ ثَیِّبٌ ، فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَلَوْلاَ تَزَوَّجْتہا جَارِیَۃً تُلاَعِبُہَا قَالَ : قُلْتُ لَہُ : قتل أبی مَعَک یَوْم کَذَا وَکَذَا وَترَکَ جَوَارِیًا لہ فَکَرِہْت أَنْ أَضُمَّ إلَیْہِنَّ جَارِیَۃً ، فَتَزَوَّجْت ثَیِّبًا تَقْصَعُ قَمْلَ إحْدَاہُنَّ ، وَتَخِیطُ دِرْعَ إحْدَاہُنَّ إذَا تَخَرَّقَ ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : فَإِنَّک نِعِمَّا رَأَیْت۔ (مسلم ۵۵۔ احمد ۳/۳۵۸)
(١٧٩٩٤) حضرت جابر بن عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ میں ایک دن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ چل رہا تھا کہ آپ نے مجھ سے فرمایا کہ اے جابر ! کیا تمہاری بیوی ہے ؟ میں نے کہا جی ہاں۔ آپ نے فرمایا کہ تم نے ثیبہ سے شادی کی یا باکرہ سے ؟ میں نے کہا کہ ثیبہ سے شادی کی۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ تم نے نوجوان لڑکی سے شادی کرتے تاکہ تم اس سے دل لگی کرتے۔ میں نے کہا کہ میرے والد فلاں جنگ میں آپ کی معیت میں جامِ شہادت نوش کرگئے، ان کی چھوٹی چھوٹی بیٹیاں ہیں، میں نے ان کے ساتھ ایک اور نوجوان کو لانا پسند نہ کیا۔ میں نے ایک ثیبہ سے شادی کی تاکہ وہ ان کی جوؤیں بھی نکالے اور اگر ان کا کپڑا پھٹ جائے تو اسے بھی سی دے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ تم نے صحیح بات سوچی۔

17994

(۱۷۹۹۵) حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِیرِینَ ، قَالَ : قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ : مَا بَقِیَ فِی شَیْئٍ مِنْ أَخْلاَقِ الْجَاہِلِیَّۃِ ، إلاَّ أَنِّی لاَ أُبَالِی إلی أَیِٔ الْمُسْلِمِینَ نَکَحْتُ وَأَیَّہُمْ أَنْکَحْتُ۔
(١٧٩٩٥) حضرت عمر بن خطاب (رض) فرماتے ہیں کہ مجھ میں جاہلیت کی عادات میں سے کوئی باقی نہیں رہی سوائے اس کے کہ میں نکاح کرتے اور کراتے ہوئے یہ نہیں سوچتا کہ کس مسلمان سے کررہا ہوں اور کس سے نکاح کروا رہا ہوں۔

17995

(۱۷۹۹۶) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللہِ الأَسَدِیُّ ، عَنِ ابْنِ أَبِی ذِئْبٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ، عَنْ عُمَرَ ، أَنَّہُ نَہَی أَنْ یَتَزَوَّجَ الْعَرَبِیُّ الأَمَۃَ۔
(١٧٩٩٦) حضرت عمر (رض) نے اس بات سے منع فرمایا ہے کہ عربی کسی باندی سے شادی کرے۔

17996

(۱۷۹۹۷) حَدَّثَنَا سُوَیْد بْنُ عَمْرٍو الْکَلْبِیُّ ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِیزِ بْنِ أَبِی سَلَمَۃَ قَالَ : أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللہِ بْنِ کَثِیرِ بْنِ الصَّلْتِ قَالَ نَکَحَ مَوْلًی لَنَا عَرَبِیَّۃً فَأُوتِیَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیزِ لیستعدی عَلَیْہِ ، فَقَالَ : وَاللَّہِ لَقَدْ عَدَا مَوْلَی أَلِ کَثِیرٍ طَوْرَہُ۔
(١٧٩٩٧) حضرت محمد بن عبداللہ بن کثیر بن صلت (رض) فرماتے ہیں کہ ہمارے ایک مولیٰ نے ایک عربی عورت سے شادی کی، وہ حضرت عمر بن عبد العزیز (رض) کے پاس لایا گیا تو آپنے فرمایا کہ آل کثیر کا مولیٰ اسی کے راستے پر چل پڑا ہے۔

17997

(۱۷۹۹۸) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ حَبِیبٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ طَلْحَۃَ ، قَالَ : قَالَ عُمَرُ : لأَمْنَعَنَّ فُرُوجَ ذَوَاتِ الأَحْسَابِ مِنَ النِّسَائِ إلاَّ مِنَ الأَکْفَائِ۔
(١٧٩٩٨) حضرت عمر (رض) فرماتے ہیں کہ میں اعلیٰ حسب والی عورتوں کو صرف ان کے برابر کے مردوں سے شادی کرنے کا حکم دیتا ہوں۔

17998

(۱۷۹۹۹) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، قَالَ : حَدَّثَنِی مِسْعَر ، قَالَ : حَدَّثَنِی عُمَرُ بْنُ قَیْسٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ أَبِی قُرَّۃَ الْکِنْدِیِّ قَالَ : عَرَضَ أَبِی عَلَی سَلْمَانَ أُخْتًا لہ فَأَبَی وَتَزَوَّجَ مَوْلاَۃً لَہُ یُقَالُ لَہَا بُقَیْرَۃُ۔
(١٧٩٩٩) حضرت عمرو بن ابی قرہ کندی (رض) فرماتے ہیں کہ میرے والد نے حضرت سلمان (رض) سے فرمائش کی کہ وہ ان کی بہن سے شادی کرلیں، انھوں نے انکار کردیا اور ان کی بقیرہ نامی ایک مولاہ سے شادی کرلی۔

17999

(۱۸۰۰۰) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِی الْکِنْدِیِّ ، عَنْ سَلْمَانَ قَالَ : لاَ نَؤُمُّہُمْ وَلاَ نَنْکِحُ نِسَائَہُمْ۔
(١٨٠٠٠) حضرت سلمان (رض) فرماتے ہیں کہ ہم ان کی امامت بھی نہیں کریں گے اور ان کی عورتوں سے شادی بھی نہیں کریں گے۔

18000

(۱۸۰۰۱) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللہِ الأَسَدِیُّ ، عَنِ ابْنِ أَبِی ذِئْبٍ قَالَ قَالَ ابْنُ شِہَابٍ فِی الْعَرَبِیِّ وَالْمَوْلَی : لاَ یَسْتَوِیَانِ فِی النَّسَبِ۔
(١٨٠٠١) حضرت ابن شہاب (رض) فرماتے ہیں کہ عربی اور مولی نسب میں برابر نہیں ہوسکتے۔

18001

(۱۸۰۰۲) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ آدَمَ قَالَ : حدَّثَنَا حَسَنٌ ، قَالَ : سَأَلْتُ ابْنَ أَبِی لَیْلَی ، عَنِ الْکُفُؤِ فِی النِّکَاحِ ، فَقَالَ : فِی الدِّینِ وَالْمَنْصِبِ قَالَ : قُلْتُ : فِی الْمَالِ ؟ قَالَ : لاَ۔
(١٨٠٠٢) حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے ابن ابی لیلیٰ (رض) سے نکاح میں برابری کے بارے میں سوال کیا تو انھوں نے فرمایا کہ برابری دین اور منصب میں ہوتی ہے، میں نے پوچھا مال میں ہوتی ہے، انھوں نے فرمایا کہ نہیں۔

18002

(۱۸۰۰۳) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، وَأَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِِ ، عَنْ شَقِیقٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لاَ أَحَدَ أَغْیَرُ مِنَ اللہِ وَلِذَلِکَ حَرَّمَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَہَرَ مِنْہَا ، وَمَا بَطَنَ۔ (مسلم ۳۳۔ بخاری ۷۴۰۳)
(١٨٠٠٣) حضرت عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ سے زیادہ غیر ت مند کوئی نہیں، اسی وجہ سے اس نے ہر طرح کی ظاہری اور باطنی بےحیائی کو حرام قرار دیا ہے۔

18003

(۱۸۰۰۴) حَدَّثَنَا الْحُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَنْ زَائِدَۃَ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ عُمَیْرٍ ، عَنْ وَرَّادٍ ، عَنِ الْمُغِیرَۃِ بْنِ شُعْبَۃَ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ أَتَعْجَبُونَ مِنْ غَیْرَۃِ سَعْدٍ ؟ فَوَاللَّہِ لأَنَا أَغْیَرُ مِنْ سَعْدٍ وَاللَّہُ أَغْیَرُ مِنِّی وَمن أَجْلِ غَیْرَۃِ اللہِ حَرَّمَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَہَرَ مِنْہَا ، وَمَا بَطَنَ۔ (بخاری ۷۴۱۶۔ مسلم ۱۷)
(١٨٠٠٤) حضرت مغیرہ بن شعبہ (رض) فرماتے ہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ کیا تم سعد (رض) کی غیرت پر تعجب کرتے ہو ؟ میں سعد (رض) سے زیادہ غیرت مند ہوں اور اللہ تعالیٰ مجھ سے زیادہ غیرت مند ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی غیرت کی وجہ سے ہر طرح کی ظاہری اور باطنی بےحیائی کو حرام قرار دیا ہے۔

18004

(۱۸۰۰۵) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ قَالَ : حدَّثَنَا الْحَجَّاجُ بْنُ أَبِی عُثْمَانَ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ أَبِی کَثِیرٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إبْرَاہِیمَ ، عَنِ ابْنِ عَتِیکٍ الأَنْصَارِیِّ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : قَالَ : نَبِیُّ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مِنَ الْغَیْرَۃِ مَا یُحِبُّ اللَّہُ وَمِنْہَا مَا یُبْغِضُ اللَّہُ فَأَمَّا الْغَیْرَۃُ الَّتِی یُحِبُّ اللَّہُ فَالْغَیْرَۃُ فِی الرِّیبَۃِ ، وَأَمَّا الْغَیْرَۃُ الَّتِی یُبْغِضُ اللَّہُ فَالْغَیْرَۃُ فِی غَیْرِ رِیبَۃٍ۔ (احمد ۵/۴۴۵۔ دارمی ۲۲۲۶)
(١٨٠٠٥) حضرت ابن عتیک انصاری (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ غیرت کی ایک قسم ایسی ہے جسے اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے اور ایک قسم ایسی ہے جسے اللہ تعالیٰ نے ناپسندیدہ قراردیا ہے۔ جو غیرت اللہ کو پسند ہے وہ غیرت ہے جو شک اور نافرمانی میں ہو اور جو غیرت اللہ کو ناپسند ہے یہ وہ غیرت ہے جو شک و نافرمانی کے بغیر ہو۔

18005

(۱۸۰۰۶) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِِ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِی الأَحْوَصِ ، قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللہِ : احْبِسُوا النِّسَائَ فِی الْبُیُوتِ فَإِنَّ النِّسَائَ عَوْرَۃٌ وَإِنَّ الْمَرْأَۃَ إذَا خَرَجَتْ مِنْ بَیْتِہَا اسْتَشْرَفَہَا الشَّیْطَانُ وَقَالَ : لَہَا : إنَّک لاَ تَمُرِّینَ بِأَحَدٍ إلاَّ أُعْجِبَ بِک۔ (ترمذی ۱۱۷۳۔ ابن حبان ۵۵۹۸)
(١٨٠٠٦) حضرت عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ عورت کو گھر میں رکھو کیونکہ عورت چھپانے کی چیز ہے، جب عورت اپنے گھر سے نکلتی ہے تو شیطان اسے تاڑتا ہے، اور اسے کہتا ہے کہ تو جس کے پاس سے بھی گذرتی ہے اسے متاثر کردیتی ہے۔

18006

(۱۸۰۰۷) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِِ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ حَارِثَۃَ بْنِ مُضَرِّبٍ ، قَالَ : قَالَ عُمَرُ : اسْتَعِینُوا عَلَی النِّسَائِ بِالْعُرْیِ إنَّ إحْدَاہُنَّ إذَا کَثُرَتْ ثِیَابُہَا وَحَسُنَتْ زِینَتُہَا أَعْجَبَہَا الْخُرُوجُ۔
(١٨٠٠٧) حضرت عمر (رض) فرماتے ہیں کہ عورت کو سادہ رکھ کے ان کی مدد کرو ، کیونکہ جب ان کے کپڑے زیادہ ہوتے ہیں اور زینت عمدہ ہوتی ہے تو انھیں باہر نکلنا پسند ہوتا ہے۔

18007

(۱۸۰۰۸) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ رَجَائٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَجْلاَنَ ، عَنْ سُمَیٍّ ، عَنْ أَبِی بَکْرٍ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ ہِشَامٍ قَالَ : کُلُّ شَیْئٍ مِنَ الْمَرْأَۃِ عَوْرَۃٌ حَتَّی ظُفُرُہَا۔
(١٨٠٠٨) حضرت ابوبکر بن عبدالرحمن (رض) فرماتے ہیں کہ عورت کی ہر چیز پردہ ہے حتی کہ اس کے ناخن بھی۔

18008

(۱۸۰۰۹) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ أَبِی جَعْفَرٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إنِّی غَیُورٌ وَإِنَّ إبْرَاہِیمَ کَانَ غَیُورًا ، وَمَا مِنَ امْرِئٍ لاَ یَغَارُ إلاَّ مَنْکُوسُ الْقَلْبِ۔
(١٨٠٠٩) حضرت ابو جعفر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ میں بہت غیرت والا ہوں، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) بھی غیر ت والے تھے اور غیرت صرف وہ شخص نہیں کرتا جو دیوث یا مخنث ہو۔

18009

(۱۸۰۱۰) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ الْیَمَانِ، عَنْ سُفْیَانَ، عَنْ جَابِرٍ وَمُطَرِّفٍ، عَنِ الشَّعْبِیِّ قَال: إذَا دُرِأَ اللِّعَانَ أُلْزِقَ بِہِ الْوَلَدُ۔
(١٨٠١٠) حضرت شعبی (رض) فرماتے ہیں کہ جب لعان ختم کردیا جائے تو بچہ باپ کا ہی ہوگا۔

18010

(۱۸۰۱۱) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ الْیَمَانِ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ َمُجَاہِدٍ ، وَعَطَائٍ مِثْلَہُ۔
(١٨٠١١) حضرت مجاہد (رض) سے بھی یونہی منقول ہے۔

18011

(۱۸۰۱۲) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ آدَمَ قَالَ: حدَّثَنَا زُہَیْرٌ ، عَنْ مُطَرِّفٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ قَالَ : إذَا لَمْ یَکُنْ لِعَانٌ أُلْحِقَ الْوَلَدُ بِالْوَالِدِ۔
(١٨٠١٢) حضرت شعبی (رض) فرماتے ہیں کہ جب لعان ختم کردیا جائے تو بچہ باپ کا ہی ہوگا۔

18012

(۱۸۰۱۳) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ قَالَ : حدَّثَنَا سَعِیدٌ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ، وَالْحَسَنِ قَالاَ : إذَا زَنَی الرَّجُلُ بِالْمَرْأَۃِ فَلَیْسَ لَہُ أَنْ یَتَزَوَّجَ ابْنَتَہَا وَلاَ أُمَّہَا۔
(١٨٠١٣) حضرت سعید بن مسیب (رض) اور حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کسی آدمی نے کسی عورت سے زنا کیا تو اس کی بیٹی یا اس کی ماں سے شادی نہیں کرسکتا۔

18013

(۱۸۰۱۴) حَدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ عَبْدِ الْکَرِیمِ ، عَنْ عَطَائٍ قَالَ : إذَا أَتَی الرَّجُلُ الْمَرْأَۃَ حَرَامًا حَرُمَتْ عَلَیْہِ ابْنَتُہَا وَإِذَا أَتَی ابْنَتَہَا حَرُمَتْ عَلَیْہِ أُمُّہَا۔
(١٨٠١٤) حضرت عطائ (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کسی آدمی نے کسی عورت سے زنا کیا تو اس کی بیٹی اس پر حرام ہوجائے گی اور اگر اس کی بیٹی سے زنا کیا تو اس کی ماں حرام ہوجائے گی۔

18014

(۱۸۰۱۵) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ الأَسْوَدِ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، وَعَطَائٍ فِی الرَّجُلِ یَفْجُرُ بِالْمَرْأَۃِ قَالاَ : لاَ یَحِلُّ لَہُ شَیْئٌ مِنْ بَنَاتِہَا۔
(١٨٠١٥) حضرت مجاہد (رض) اور حضرت عطائ (رض) فرماتے ہیں کہ اگر ایک آدمی نے کسی عورت سے زنا کیا تو اس کی بیٹی اس کے لیے حلال نہیں ہے۔

18015

(۱۸۰۱۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مُسَبِّحٍ ، قَالَ : سَأَلْتُ إبْرَاہِیمَ ، عَنْ رَجُلٍ فَجَرَ بِأَمَۃٍ ثُمَّ أَرَادَ أَنْ یَتَزَوَّجَ أُمَّہَا قَالَ : لاَ یَتَزَوَّجُہَا۔
(١٨٠١٦) حضرت عبداللہ بن مسبح (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابراہیم (رض) سے سوال کیا کہ آدمی نے ایک باندی سے زنا کیا تو کیا اس کی ماں سے شادی کرسکتا ہے ؟ انھوں نے فرمایا نہیں کرسکتا۔

18016

(۱۸۰۱۷) حدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ قَالَ : حدَّثَنَا سَیْفٌ ، عَنِ ابْنِ أَبِی نَجِیحٍ ، عَنْ طَاوُوسٍ ، أَنَّہُ کَانَ یَقُولُ : لو أنَّ رَجُلاً تَزَوَّجَ امْرَأَۃً فَطَلَّقَہَا ، أَوْ مَاتَ عَنْہَا وَلَہَا ابْنَۃٌ ، یَحِلُّ لابْنِ الرَّجُلِ أَنْ یَتَزَوَّجَہَا۔
(١٨٠١٧) حضرت طاؤس فرمایا کرتے تھے کہ ایک آدمی نے کسی عورت سے شادی کی، پھرو ہ مرگیا یا طلاق دے دی، جبکہ اس آدمی کی پہلے سے ایک بیٹی تھی، آدمی کے بیٹے کے لیے اس لڑکی سے شادی کرنا جائز ہے۔

18017

(۱۸۰۱۸) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ قَالَ : حدَّثَنَا سَیْفٌ ، عَنِ ابْنِ أَبِی نَجِیحٍ ، عَنْ عَطَائٍ قَالَ : لاَ بَأْسَ بِہِ۔
(١٨٠١٨) حضرت عطائ (رض) فرماتے ہیں کہ اس میں کوئی حرج نہیں۔

18018

(۱۸۰۱۹) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ قَالَ : حدَّثَنَا سَیْفٌ ، عَنِ ابْنِ أَبِی نَجِیحٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ؛ أَنَّہُ کَرِہَہُ۔
(١٨٠١٩) حضرت مجاہد (رض) فرماتے ہیں کہ یہ مکروہ ہے۔

18019

(۱۸۰۲۰) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، عَنْ سَیْفٍ ، عَنِ ابْنِ أَبِی نَجِیحٍ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ مَوْلَی ابْنِ عَبَّاسٍ ؛ أَنَّہُ کَرِہَہُ۔
(١٨٠٢٠) حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ ایسا کرنا مکروہ ہے۔

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔