hadith book logo

HADITH.One

HADITH.One

Urdu

Support

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Ibn Abi Shaybah

26. ایمان کا بیان

ابن أبي شيبة

30944

(۳۰۹۴۵) حَدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ أَبِی حَیَّانَ ، عَنْ أَبِی زُرْعَۃَ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ: کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَوْمًا بَارِزًا لِلنَّاسِ فَأَتَاہُ رَجُلٌ ، فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللہِ ، مَا الإِیمَانُ ؟ فَقَالَ: الإِیمَانُ أَنْ تُؤْمِنَ بِاللہِ وَمَلائِکَتِہِ وَکُتُبِہِ وَلِقَائِہِ وَرُسُلِہِ وَتُؤْمِنَ بِالْبَعْثِ الآخِرِ ، قَالَ: یَا رَسُولَ اللہِ ، مَا الإسْلامُ ، قَالَ: أَنْ تَعْبُدَ اللَّہَ ، وَلا تُشْرِکَ بِہِ شَیْئًا وَتُقِیمَ الصَّلاۃَ الْمَکْتُوبَۃَ وَتُؤْتِیَ الزَّکَاۃَ الْمَفْرُوضَۃَ وَتَصُومَ رَمَضَانَ ، قَالَ: یَا رَسُولَ اللہِ ، مَا الإِحْسَانُ ؟ قَالَ: أَنْ تَعْبُدَ اللَّہَ کَأَنَّک تَرَاہُ فَإِنَّک إِنْ لاَ تَرَاہُ فَإِنَّہُ یَرَاک۔ (مسلم ۵۔ احمد ۴۲۶)
(٣٠٩٤٥) حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگوں میں کھلی جگہ میں بیٹھے ہوئے تھے۔ ایک آدمی نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا : اے اللہ کے رسول 5! ایمان کی حقیقت کیا ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ایمان کی حقیقت یہ ہے کہ تم اللہ کو اور اس کے فرشتوں کو ، اور اس کی کتابوں کو اور اس سے ملاقات کرنے کو اور اس کے رسولوں کو دل سے مانو۔ اور مرنے کے بعد دوبارہ اٹھنے کو دل سے مانو۔ اس آدمی نے عرض کیا : اسلام کی حقیقت کیا ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اسلام کی حقیقت یہ ہے کہ تم اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی چیز کو بھی شریک مت ٹھہراؤ اور فرض نمازوں کو قائم کرو، اور فرض زکوۃ کی ادائیگی کرو، اور رمضان کے روزے رکھو، اس نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول 5! احسان کی حقیقت کیا ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : یہ ہے کہ تم اللہ کی عبادت کرو گویا تم اس کو دیکھ رہے ہو۔ پس اگر ایسا ممکن نہیں کہ تم اسے دیکھ سکو پھر اس کا گمان کرو کہ وہ تمہیں دیکھ رہا ہے۔

30945

(۳۰۹۴۶) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ أَبِی جَمْرَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، أَنَّ وَفْدَ عَبْدِ الْقَیْسِ أَتَوْا النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: مَنِ الْوَفْدُ ، أَوْ مَنِ الْقَوْمُ ، قَالُوا: رَبِیعَۃُ ، قَالَ: مَرْحَبًا بِالْقَوْمِ ، أَوْ بِالْوَفْدِ غَیْرَ خَزَایَا ، وَلا نَدَامَی ، فَقَالُوا: یَا رَسُولَ اللہِ ، إنَّا نَأْتِیک مِنْ شُقَّۃٍ بَعِیدَۃٍ ، وَإِنَّ بَیْنَنَا وَبَیْنَکَ ہَذَا الْحَیَّ مِنْ کُفَّارِ مُضَرَ ، وَإِنَّا لاَ نَسْتَطِیعُ أَنْ نَأْتِیَک إلاَّ فِی الشَّہْرِ الْحَرَامِ ، فَمُرْنَا بِأَمْرٍ فَصْلٍ نُخْبِرُ بِہِ مَنْ وَرَائَنَا نَدْخُلُ بِہِ الْجَنَّۃَ ، قَالَ: فَأَمَرَہُمْ بِأَرْبَعٍ وَنَہَاہُمْ عَنْ أَرْبَعٍ: أَمَرَہُمْ بِالإِیمَانِ بِاللہِ وَحْدَہُ ، وَقَالَ: ہَلْ تَدْرُونَ مَا الإِیمَانُ بِاللہِ ، قَالُوا: اللَّہُ وَرَسُولُہُ أَعْلَمُ ، قَالَ: شَہَادَۃُ أَنْ لاَ إلَہَ إلاَّ اللَّہُ ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللہِ وَإِقَامُ الصَّلاۃِ وَإِیتَائُ الزَّکَاۃِ وَصَوْمُ رَمَضَانَ ، وَأَنْ تُعْطُوا الْخُمُسَ مِنَ الْمَغْنَمِ ، فَقَالَ: احْفَظُوہُ وَأَخْبِرُوا بِہِ مَنْ وَرَائَکُمْ۔ (بخاری ۸۷۔ مسلم ۲۴)
(٣٠٩٤٦) حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ قبیلہ عبد القیس کا وفد نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں پہنچا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : کس قبیلہ کا وفد ہے ؟ یا فرمایا : کون لوگ ہیں ؟ صحابہ (رض) نے جواب دیا ! قبیلہ ربیعہ کے افراد ہیں : آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : خوش آمدید ان لوگوں کو یا فرمایا وفد والوں کو نہ دنیا میں تمہارے لیے رسوائی ہے اور نہ آخرت کی شرمندگی۔ پھر ان لوگوں نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول 5! ہم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس بہت دور جگہ سے آئے ہیں، اور چونکہ ہمارے درمیان اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے درمیان کفارِ مضر کا قبیلہ ہے، اس لیے ہم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس صرف ان مہینوں میں آسکتے ہیں جن میں لڑنا حرام ہے۔ لہٰذا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حق و باطل کے درمیان فرق کرنے والے ایسے احکام ہمیں عطا فرما دیجئے ۔ جن پر ہم خود بھی عمل کریں اور ان لوگوں کو بھی اس کی اطلاع کریں جن کو ہم پیچھے وطن میں چھوڑ کر آئے ہیں۔ اور اس پر عمل کرنے کی وجہ سے ہم جنت میں داخل ہوجائیں۔ راوی کہتے ہیں : آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو چار باتوں کا حکم دیا اور چار باتوں سے روکا؛ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو ایک اللہ پر ایمان لانے کا حکم دیا۔ اور فرمایا : کیا تم جانتے ہو کہ اللہ پر ایمان لانے کا مطلب کیا ہے ؟ انھوں نے عرض کیا : اللہ اور اس کا رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) زیادہ جانتے ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : گواہی دینا اس بات کی کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور محمد اللہ کے رسول ہیں۔ اور نماز کا قائم کرنا اور زکوۃ دینا ، اور رمضان کے روزے رکھنا، ( اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے چار کے علاوہ پانچویں بات کا بھی حکم فرمایا) کہ مال غنیمت میں سے خمس دینا۔ پھر فرمایا : ان کو یاد کرو اور جن کو تم نے پیچھے چھوڑا ہے ان کو اس کی اطلاع کرو۔

30946

(۳۰۹۴۷) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِی الْجَعْدِ ، عَنْ عَطِیَّۃَ مَوْلَی بَنِی عَامِرٍ ، عَنْ یَزِیدَ بْنِ بِشْر السَّکْسَکِیِّ ، قَالَ: قدِمْت الْمَدِینَۃَ فَدَخَلْتُ عَلَی عَبْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ ، فَأَتَاہُ رَجُلٌ مِنْ أَہْلِ الْعِرَاقِ ، فَقَالَ: یَا عَبْدَ اللہِ ، مَالَک تَحُجُّ وَتَعْتَمِرُ وَتَرَکْت الْغَزْوَ فِی سَبِیلِ اللہِ ، فَقَالَ: وَیْلَک إنَّ الإِیمَانَ بُنِیَ عَلَی خَمْسٍ: تَعْبُدُ اللَّہَ وَتُقِیمُ الصَّلاۃَ وَتُؤْتِی الزَّکَاۃَ وَتَحُجُّ الْبَیْتَ وَتَصُومُ رَمَضَانَ قَالَ: فَرَدَّہَا عَلَیْہِ ، فَقَالَ: یَا عَبْدَ اللہِ ، تَعْبُدُ اللَّہَ وَتُقِیمُ الصَّلاۃَ وَتُؤْتِی الزَّکَاۃَ وَتَحُجُّ الْبَیْتَ وَتَصُومُ رَمَضَانَ قَالَ: فَرَدَّہَا عَلَیْہِ ، فَقَالَ: یَا عَبْدَ اللہِ ، تَعْبُدُ اللَّہَ وَتُقِیمُ الصَّلاۃَ وَتُؤْتِی الزَّکَاۃَ وَتَحُجُّ الْبَیْتَ وَتَصُومُ رَمَضَانَ ، کَذَلِکَ ، قَالَ لَنَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔
(٣٠٩٤٧) حضرت یزید بن بشر السکسکی (رض) فرماتے ہیں کہ جب میں مدینہ آیا تو میں حضرت عبداللہ بن عمر (رض) کی خدمت میں حاضر ہوا ۔ تو اہل عراق میں سے ایک آدمی آپ (رض) کے پاس آ کر کہنے لگا : اے عبداللہ ! آپ (رض) کو کیا ہوا صرف حج اور عمرہ کرتے ہیں اور آپ (رض) نے اللہ کے راستہ میں جہاد کرنے کو ترک کردیا ہے ؟ تو آپ (رض) نے فرمایا : تیری ہلاکت ہو، ایمان کی بنیاد پانچ چیزوں پر رکھی گئی ہے۔ تو اللہ کی عبادت کرے، اور نماز کی پابندی کرے، اور زکوۃ ادا کر دے، اور بیت اللہ کا حج کرے، اور رمضان کے روزے رکھے، راوی کہتے ہیں اس نے پھر وہی سوال کیا تو آپ (رض) نے فرمایا : اے اللہ کے بندے ! ایمان تو یہ ہے کہ تو اللہ کی عبادت کرے اور نماز کی پابندی کرے، اور زکوۃ دے، اور بیت اللہ کا حج کرے اور رمضان کے روزے رکھے ۔ راوی کہتے ہیں اس نے پھر وہ سوال دوہرایا، تو آپ (رض) نے فرمایا : اے اللہ کے بندے ایمان تو یہ ہے کہ تو اللہ کی عبادت کرے، اور نماز کی پابندی کرے، اور زکوۃ دے اور بیت اللہ کا حج کرے، اور رمضان کے روزے رکھے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسی طرح ہم سے فرمایا تھا۔

30947

(۳۰۹۴۸) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ عُمَارَۃَ ، عَنْ أَبِی زُرْعَۃَ ، قَالَ عُمَرُ: عُرَی الإِیمَانِ أَرْبَعٌ: الصَّلاۃُ وَالزَّکَاۃُ وَالْجِہَادُ وَالأَمَانَۃُ۔
(٣٠٩٤٨) امام ابو زرعہ (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے ارشاد فرمایا : ایمان کی ابتدا تو چار چیزیں ہیں : نماز، زکوۃ ، جہاد ، اور امانت۔

30948

(۳۰۹۴۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ صِلَۃَ ، قَالَ: قَالَ حُذَیْفَۃُ: الإسْلامُ ، ثَمَانیَۃُ أَسْہُمٍ: الصَّلاۃُ سَہْمٌ وَالزَّکَاۃُ سَہْمٌ وَالْجِہَادُ سَہْمٌ وَصَوْمُ رَمَضَانَ سَہْمٌ وَالأَمْرُ بِالْمَعْرُوفِ سَہْمٌ وَالنَّہْیُ عَنِ الْمُنْکَرِ سَہْمٌ وَالإِسْلامُ سَہْمٌ ، وَقَدْ خَابَ مَنْ لاَ سَہْمَ لَہُ۔
(٣٠٩٤٩) حضرت صلہ (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت حذیفہ (رض) نے ارشاد فرمایا : اسلام کے آٹھ حصے ہیں ! نماز ایک حصہ ہے، زکوۃ ایک حصہ ہے ، اور جہاد ایک حصہ، اور رمضان کے روزے ایک حصہ، اور نیکی کا حکم کرنا ایک حصہ، اور برائی سے روکنا ایک حصہ، اور فرمان برداری کرنا ایک حصہ ہے ، اور جس شخص کا کوئی حصہ نہیں تحقیق وہ نامراد ہوگیا۔

30949

(۳۰۹۵۰) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنِ الْحَکَمِ ، قَالَ: سَمِعْتُ عُرْوَۃَ بْنَ النَّزَّالِ یُحَدِّثُ عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ ، قَالَ: أَقْبَلْنَا مَعَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ غَزْوَۃِ تَبُوکَ ، فَلَمَّا رَأَیْتہ خَالِیًا قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللہِ ، أَخْبِرْنِی بِعَمَلٍ یُدْخِلُنِی الْجَنَّۃَ ، فقَالَ: بَخٍ ، لَقَدْ سَأَلْت عَنْ عَظِیمٍ ، وَہُوَ یَسِیرٌ عَلَی مَنْ یَسَّرَہُ اللَّہُ عَلَیْہِ: تُقِیمُ الصَّلاۃَ الْمَکْتُوبَۃَ وَتُؤَدِّی الزَّکَاۃَ الْمَفْرُوضَۃَ وَتَلْقَی اللَّہَ لاَ تُشْرِکُ بِہِ شَیْئًا ، أَوَلا أَدُلُّک عَلَی رَأْسِ الأَمْرِ وَعَمُودِہِ وَذِرْوَۃِ سَنَامِہِ ؟ أَمَّا رَأْسُ الأَمْرِ فَالإِسْلام مَنْ أَسْلَمَ سَلِمَ ، وَأَمَّا عَمُودہ فَالصَّلاۃ ، وَأَمَّا ذِرْوَتہ وَسَنَامہ فَالْجِہَادُ فِی سَبِیلِ اللہِ۔
(٣٠٩٥٠) حضرت معاذ بن جبل (رض) فرماتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ غزوہ تبوک سے واپس آ رہے تھے ۔ پس جب میں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اکیلے دیکھا تو میں نے پوچھا ! اے اللہ کے رسول 5! مجھے کسی ایسے عمل کی اطلاع دیجیے جس پر عمل کرنے کی وجہ سے میں جنت میں داخل ہو جاؤں۔ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : واہ واہ ! تحقیق تو نے ایک بہت بڑے معاملہ کے متعلق سوال کیا۔ اور یہ آسان ہے اس شخص کے لیے جس کے لیے اللہ آسان فرما دیں : وہ یہ ہے کہ فرض نماز کی پابندی کرے، اور فرض زکوۃ ادا کرے، اور تو اللہ سے ملاقات کرے اس حالت میں کہ تو نے اس کے ساتھ کسی چیز کو بھی شریک نہ ٹھہرایا ہو۔ اور کیا میں تیری راہنمائی نہ کروں معاملہ کی بنیاد پر اور اس کے ستون پر، اور اس کی چوٹی پر ؟ بہرحال معاملہ کی بنیاد اسلام ہے، جو شخص اسلام لے آیا وہ محفوظ ہوگیا۔ اور اس کا ستون نماز ہے، اور اس کی چوٹی اور کوہان اللہ کے راستہ میں جہاد کرنا ہے۔

30950

(۳۰۹۵۱) حَدَّثَنَا عَبِیدَۃُ بْنُ حُمَیْدٍ ، عَنِ الْحَکَمِ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ مَیْمُونِ بْنِ أَبِی شبیب ، عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ ، قَالَ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ غَزْوَۃَ تَبُوکَ ۔۔۔ثُمَّ ذَکَرَ نَحْوَہُ۔
(٣٠٩٥١) حضرت معاذ بن جبل (رض) فرماتے ہیں کہ ہم نے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ غزوہ تبوک سے نکلے اور پھر ما قبل جیسا مضمون ذکر فرمایا۔

30951

(۳۰۹۵۲) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِِ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ رِبْعِیٍّ ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ بَنِی أَسَدٍ ، عَنْ عَلِیٍّ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: أَرْبَعٌ لَنْ یَجِدَ رَجُلٌ طَعْمَ الإِیمَانِ حَتَّی یُؤْمِنَ بِہِنَّ: لاَ إلَہَ إلاَّ اللَّہُ وَحْدَہُ ،وَأَنِّی رَسُولُ اللہِ بَعَثَنِی بِالْحَقِّ وَبِأَنَّہُ مَیِّتٌ ، ثُمَّ مَبْعُوثٌ مِنْ بَعْدِ الْمَوْتِ وَیُؤْمِنَ بِالْقَدَرِ کُلِّہِ۔ (ترمذی ۲۱۴۵۔ احمد ۱۳۳)
(٣٠٩٥٢) حضرت علی (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : چار چیزیں ایسی ہیں کہ آدمی ہرگز ایمان کا ذائقہ نہیں پاسکتا یہاں تک کہ وہ ان چار چیزوں پر دل سے یقین نہ کرلے : وہ چیزیں یہ ہیں : یقین کرنا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں وہ اکیلا ہے ، اور یقیناً میں اللہ کا رسول ہوں اللہ نے مجھے حق دے کر بھیجا ہے۔ اور اس بات کا یقین کہ وہ مرے گا اور مرنے کے بعد پھر اٹھایا جائے گا۔ اور وہ ہر قسم کی تقدیر کو دل سے مان لے۔

30952

(۳۰۹۵۳) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِی الْجَعْدِ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: جَائَ أَعْرَابِیٌّ إِلَی النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ: السَّلامُ عَلَیْک یَا غُلامَ بَنِی عَبْدِ الْمُطَّلِبِ ، فَقَالَ: وَعَلَیْک ، فَقَالَ: إنِّی رَجُلٌ مِنْ أَخْوَالِکَ مِنْ بَنِی سَعْدِ بْنِ بَکْرٍ وَأَنَا رَسُولُ قَوْمِی إلَیْک وَوَافِدُہُمْ وَأَنَا سَائِلُک فَمُشْتَدَّۃٌ مَسْأَلَتِی إیاک ، وَمُنَاشِدُک فَمُشْتَدَّۃٌ مُنَاشَدَتِی إیَّاکَ ، قَالَ: خُذْ یَا أَخَا بَنِی سَعْدٍ ، قَالَ: مَنْ خَلَقَک وَہُوَ خَالِقُ مَنْ قَبْلَک وَہُوَ خَالِقُ مَنْ بَعْدَکَ ؟ قَالَ: اللَّہُ ، قَالَ: نَشَدْتُک بِذَلِکَ أَہُوَ أَرْسَلَک ؟ قَالَ: نَعَمْ ، قَالَ: مَنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ السَّبْعَ وَالأَرْضِینَ السَّبْعَ وَأَجْرَی بَیْنَہُنَّ الرِّزْقَ ؟ قَالَ: اللَّہُ ، قَالَ: نَشَدْتُک بِذَلِکَ أَہُوَ أَرْسَلِکَ ؟ قَالَ: نَعَمْ ، قَالَ: فَإِنَّا وَجَدْنَا فِی کِتَابِکَ وَأَمَرَتْنَا رُسُلُک أَنْ نُصَلِّیَ فِی الْیَوْمِ وَاللَّیْلَۃِ خَمْسَ صَلَوَاتٍ لِمَوَاقِیتِہَا فَنَشَدْتُک بِذَلِکَ أَہُوَ أَمَرَک بِہِ ؟ قَالَ: نَعَمْ ، قَالَ: فَإِنَّا وَجَدْنَا فِی کِتَابِکَ وَأَمَرَتْنَا رُسُلُک أَنْ نَأْخُذَ مِنْ حَوَاشِی أَمْوَالِنَا فَنَرُدَّہَا عَلَی فُقَرَائِنَا فَنَشَدْتُک بِذَلِکَ أَہُوَ أَمَرَک بِذَلِکَ ؟ قَالَ: نَعَمْ ، ثُمَّ قَالَ: أَمَّا الْخَامِسَۃُ فَلَسْت سَائلک عنہا ، وَلا أَرَبَ لِی فِیہَا ، قَالَ: ثُمَّ قَالَ: أَمَا وَالَّذِی بَعَثَک بِالْحَقِّ لأَعْمَلَنَّ بِہَا وَمَنْ أَطَاعَنِی مِنْ قَوْمِی ، ثُمَّ رَجَعَ فَضَحِکَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حَتَّی بَدَتْ نَوَاجِذُہُ ، ثُمَّ قَالَ: وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ لَئِنْ صَدَقَ لَیَدْخُلَنَّ الْجَنَّۃَ۔
(٣٠٩٥٣) حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ ایک دیہاتی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہو کر کہنے لگا : تجھ پر سلامتی ہو اے بنی عبدالمطلب کے لڑکے : پس آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تجھ پر بھی ہو : پھر اس نے کہا : بیشک میں تمہارے ننھیال قبیلہ بنو سعد بن بکر قبیلہ کا آدمی ہوں۔ اور میں تمہاری طرف اپنی قوم کا پیغامبر اور قاصد بن کر آیا ہوں ۔ اور میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کچھ سوال کروں گا۔ اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے میرا سوال کرنا سخت انداز میں ہوگا۔ اور آپ سے قسم کا مطالبہ کرنا ، پس میرے آپ سے قسم کے مطالبہ میں سختی ہوگی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے بنو سعد کے بھائی : سوال کرو۔
اس دیہاتی نے کہا : آپ کو کس نے پیدا کیا ؟ اور وہی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے لوگوں کا اور آپ کے بعد والے لوگوں کا پیدا کرنے والا ہوگا۔ ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اللہ نے ، دیہاتی نے پوچھا : میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کیا اس نے آپ کو رسول بنا کر بھیجا ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جی ہاں ! اس نے پوچھا : ساتوں آسمانوں اور ساتوں زمینوں کو کس نے پیدا کیا اور ان کے درمیان رزق کس نے پھیلایا ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ نے، اس نے پوچھا : میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کیا اس نے آپ کو رسول بنا کر بھیجا ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جی ہاں، اس نے عرض کیا : پس ہم آپ کی کتاب میں لکھا ہوا پاتے ہیں اور آپ کے قاصد نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم دن اور رات میں پانچ نمازیں ان کے وقت پر ادا کریں۔ میں آپ کو قسم دے کر پوچھتا ہوں ، کیا یہی معاملہ ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جی ہاں ! اس نے عرض کیا : پس ہم آپ کی کتاب میں لکھا ہوا پاتے ہیں اور آپ کے قاصد نے ہمیں حکم دیا ہے کہ اپنے مالوں میں سے مقررہ حصہ نکال کر اپنے فقراء میں تقسیم کردیں۔ میں آپ کو قسم دے کر پوچھتا ہوں کیا معاملہ اسی طرح ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جی ہاں ! پھر اس نے عرض کیا : بہرحال پانچواں سوال میں اس کے متعلق آپ سے نہیں پوچھوں گا اور نہ ہی مجھے اس میں کوئی شک ہے ، راوی کہتے ہیں ، پھر اس نے کہا : قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق دے کر بھیجا ہے میں اور میری قوم میں سے جو میری اطاعت کرے گا ضرور بالضرور ان اعمال کی پابندی کریں گے۔ پھر وہ واپس لوٹ گیا۔ تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اتنا ہنسے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی داڑھیں ظاہر ہوگئیں۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے اگر اس نے سچ کہا تو یہ ضرور بالضرور جنت میں داخل ہوگا۔

30953

(۳۰۹۵۴) حَدَّثَنَا شَبَابَۃُ بْنُ سَوَّارٍ ، قَالَ: حدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ الْمُغِیرَۃِ ، عَنْ ثَابِتٍ ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ: کُنَّا قَدْ نُہِینَا أَنْ نَسْأَلَ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ شَیْئٍ ، فَکَانَ یُعْجِبُنَا أَنْ یَأْتِیَ الرَّجُلُ مِنْ أَہْلِ الْبَادِیَۃِ الْعَاقِلُ فَیَسْأَلُہُ وَنَحْنُ نَسْمَعُ ، فَجَائَ رَجُلٌ مِنْ أَہْلِ الْبَادِیَۃِ ، فَقَالَ: یَا مُحَمَّدُ أَتَانَا رَسُولُک فَزَعَمَ أَنَّ اللَّہَ أَرْسَلِکَ ، فقَالَ: صَدَقَ ، قَالَ: فَمَنْ خَلَقَ السَّمَائَ ؟ قَالَ: اللَّہُ ، قَالَ: فَمَنْ خَلَقَ الأَرْضَ ؟ قَالَ: اللَّہُ ، قَالَ: فَمَنْ نَصَبَ ہَذِہِ الْجِبَالَ ؟ قَالَ: اللَّہُ ، قَالَ: فَبِالَّذِی خَلَقَ السَّمَائَ وَخَلَقَ الأَرْضَ وَنَصَبَ الْجِبَالَ آللَّہُ أرسلک ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: وَزَعَمَ رَسُولُک أَنَّ عَلَیْنَا خمس صلوات فی یومنا ولیلتنا قَالَ صدق ،قَالَ: فَبِالَّذِی أرسلک آللَّہُ أمرک بہذا قَالَ نعم: قَالَ: وزَعَمَ رَسُولُک أَنَّ عَلَیْنَا زکاۃ فی أموالنا قَالَ صدق ،قَالَ: فَبِالَّذِی أرسلک آللَّہُ أمرک بہذا قَالَ نعم: قَالَ: فزَعَمَ رَسُولُک أَنَّ عَلَیْنَا صَوْمَ شَہْر رَمَضَانَ فِی سَنَتِنَا ، قَالَ: صَدَقَ ، قَالَ: فَبِالَّذِی خَلَقَ السَّمَائَ وَخَلَقَ الأَرْضَ وَنَصَبَ الْجِبَالَ آللَّہُ أَمَرَک بِہَذَا ؟ قَالَ: نَعَمْ ، قَالَ: وزَعَمَ رَسُولُک ، أَنَّ عَلَیْنَا الْحَجَّ لِمَنِ اسْتَطَاعَ إلَیْہِ سَبِیلاً ، قَالَ صَدَقَ ، قَالَ: فَبِالَّذِی خَلَقَ السَّمَائَ وَخَلَقَ الأَرْضَ وَنَصَبَ الْجِبَالَ آللَّہُ أَمَرَک بِہَذَا ؟ قَالَ: نَعَمْ ، ثُمَّ وَلَّی ، وَقَالَ: وَالَّذِی بَعَثَک بِالْحَقِّ لاَ أَزْدَادُ عَلَیْہِ شَیْئًا ، وَلا أَنْقُصُ مِنْہُ شَیْئًا ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: إِنْ صَدَقَ دَخَلَ الْجَنَّۃَ۔ (مسلم ۴۱۔ ترمذی ۶۱۹)
(٣٠٩٥٤) حضرت ثابت (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت انس (رض) نے ارشاد فرمایا : تحقیق ہمیں روک دیا گیا تھا کہ ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کسی بھی چیز کے متعلق سوال کریں، تو ہم پسند کرتے تھے کہ گاؤں والوں میں سے کوئی عقل مند آدمی آ کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کرے اور ہم سنیں، پس ایک دیہاتی آدمی آگیا اور کہنے گا : اے محمد 5! ہمارے پاس آپ کا قاصد آیا اس نے دعویٰ کیا کہ آپ کو اللہ نے رسول بنا کر بھیجا ہے۔ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اس نے سچ کہا : اس نے پوچھا : زمین کو کس نے پیدا کیا ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ نے، اس نے پوچھا : ان پہاڑوں کو کس نے گاڑا ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ نے ، اس نے کہا : پس قسم ہے اس ذات کی جس نے آسمان کو پیدا کیا اور زمین کو پیدا کیا، اور پہاڑوں کو گاڑا کیا اللہ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو رسول بنا کر بھیجا ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جی ہاں !
ٍ اس نے عرض کیا اور آپ کے قاصد نے یہ دعویٰ کیا کہ ہم پر دن رات میں پانچ نمازوں کا ادا کرنا ضروری ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اس نے سچ کہا : اس نے پوچھا : پس قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو رسول بنا کر بھیجا : کیا اللہ نے آپ کو اس کا حکم دیا ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جی ہاں ! اس نے عرض کیا، آپ کے قاصد نے یہ بھی کہا کہ ہم پر ہمارے مالوں میں زکوۃ ادا کرنا ضروری ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اس نے سچ کہا : اس نے پوچھا ! پس قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو رسول بنا کر بھیجا کیا اللہ نے آپ کو اس کا حکم دیا ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جی ہاں ! اس نے عرض کیا : پس آپ کے قاصد نے یہ بھی کہا : ہم پر سال میں ایک مہینہ کے روزے رکھنا لازم ہے۔ آپ نے فرمایا : اس نے سچ کہا ! اس نے پوچھا : پس قسم ہے اس ذات کی جس نے آسمان اور زمین کو پیدا کیا اور پہاڑوں کو گاڑا کیا اللہ نے آپ کو اس کا حکم دیا ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جی ہاں ! اس نے عرض کیا : آپ کے قاصد نے کہا : ہم میں سے ان لوگوں پر حج فرض ہے جو اس کے راستہ کی استطاعت رکھتے ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اس نے سچ کہا۔ اس نے پوچھا ! پس قسم ہے اس ذات کی جس نے آسمان اور زمین کو پیدا کیا اور پہاڑوں کو گاڑا کیا اللہ نے آپ کو اس کا حکم دیا ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جی ہاں پھر وہ پلٹا اور کہنے لگا : اور قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق دے کر بھیجا نہ ہی اس میں کسی قسم کی زیادتی کروں گا اور نہ ہی اس میں سے کسی قسم کی کمی کروں گا ۔ تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اگر اس نے سچ کہا تو جنت میں داخل ہوگا۔

30954

(۳۰۹۵۵) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ الْحُبَابِ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ مَسْعَدَۃَ ، قَالَ: حدَّثَنَا قَتَادَۃُ ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِکٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: الإسْلامُ عَلانِیَۃٌ وَالإِیمَانُ فِی الْقَلْبِ ، ثُمَّ یُشِیرُ بِیَدِہِ إِلَی صَدْرِہِ: التَّقْوَی ہَاہُنَا التَّقْوَی ہَاہُنَا۔ (احمد ۱۳۴۔ بزار ۲۰)
(٣٠٩٥٥) حضرت انس بن مالک (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اسلام تو ظاہری انقیاد کا نام ہے، اور ایمان دل میں ہوتا ہے۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے ہاتھ سے اپنے سینہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : تقویٰ یہاں ہوتا ہے، تقویٰ یہاں ہوتا ہے۔

30955

(۳۰۹۵۶) حَدَّثَنَا مُصْعَبُ بْنُ الْمِقْدَامِ ، قَالَ: حدَّثَنَا أَبُو ہِلالٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لاَ إیمَانَ لِمَنْ لاَ أَمَانَۃَ لَہُ۔ (احمد ۱۳۵۔ ابن حبان ۱۹۴)
(٣٠٩٥٦) حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جس شخص میں امانت داری نہیں اس میں ایمان بھی کچھ نہیں۔

30956

(۳۰۹۵۷) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ، قَالَ: حدَّثَنَا عَوْفٌ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرِو ابْنِ ہِنْدٍ الْجَمَلِیِّ، قَالَ: قَالَ عَلِیٌّ: الإِیمَانُ یَبْدَأُ نُقْطَۃً بَیْضَائَ فِی الْقَلْبِ ، کُلَّمَا ازْدَادَ الإِیمَانُ ازْدَادَتْ بَیَاضًا حَتَّی یَبْیَضَّ الْقَلْبُ کُلُّہُ ، وَالنِّفَاقُ یَبْدَأُ نُقْطَۃً سَوْدَائَ فِی الْقَلْبِ کُلَّمَا ازْدَادَ النِّفَاقُ ازْدَادَتْ سَوَادًا حَتَّی یَسْوَدَّ الْقَلْبُ کُلُّہُ ، وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ لَوْ شَقَقْتُمْ ، عَنْ قَلْبِ مُؤْمِنٍ لَوَجَدْتُمُوہُ أَبْیَضَ ، وَلَوْ شَقَقْتُمْ ، عَنْ قَلْبِ مُنَافِقٍ لَوَجَدْتُمُوہُ أَسْوَدَ الْقَلْب ۔
(٣٠٩٥٧) حضرت عبداللہ بن عمرو بن ھند الجملی (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت علی (رض) نے ارشاد فرمایا : ایمان کی شروعات دل میں ایک سفید نقطہ سے ہوتی ہے۔ جیسے جیسے ایمان بڑھتا رہتا ہے سفیدی میں بھی اضافہ ہوتا ہے، یہاں تک کہ ایمان کے نور سے مومن کا سارا دل سفید ہوجاتا ہے اور نفاق کی شروعات دل میں ایک سیاہ نقطہ سے ہوتی ہے، جیسے جیسے نفاق بڑھتا ہے سیاہی میں بھی زیادتی ہوتی ہے، یہاں تک کہ سارا دل ہی نفاق کی ظلمتوں سے کالا ہوجاتا ہے۔ اور قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے، اگر تم مومن کے دل کو چیر کر دیکھو تو ضرور تم اس کو سفید پاؤ گے ، اور اگر تم منافق کے دل کو چیر کر دیکھو تو ضرور تم اس کو سیاہ پاؤ گے۔

30957

(۳۰۹۵۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ: حدَّثَنَا الأَعْمَشُ ، عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ مَیْسَرَۃَ ، عَنْ طَارِقِ بْنِ شِہَابٍ ، قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللہِ: إنَّ الرَّجُلَ لَیُذْنِبُ الذَّنْبَ فَیُنْکَتُ فِی قَلْبِہِ نُکْتَۃٌ سَوْدَائُ ، ثُمَّ یُذْنِبُ الذَّنْبَ فَتُنْکَتُ أُخْرَی حَتَّی یَصِیرَ قَلْبُہُ لَوْن الشَّاۃِ الرَّبْدَائِ۔
(٣٠٩٥٨) حضرت طارق بن شھاب (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) نے ارشاد فرمایا : بیشک جب آدمی کوئی گناہ کرتا ہے تو اس کے دل میں ایک سیاہ نقطہ پیدا ہوجاتا ہے۔ پھر جب وہ دوبارہ گناہ کرتا ہے تو دوسرا نکتہ پیدا ہوجاتا ہے یہاں تک کہ اس کا دل خاکستری رنگ کی بکری کی طرح ہوجاتا ہے۔

30958

(۳۰۹۵۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، قَالَ: قَالَ ہِشَامٌ ، عَنْ أَبِیہِ: مَا نَقَصَتْ أَمَانَۃُ عَبْدٍ قَطُّ إلاَّ نَقَصَ إیمَانہ۔
(٣٠٩٥٩) حضرت ہشام (رض) فرماتے ہیں کہ ان کے والد حضرت عروہ (رض) نے ارشاد فرمایا : امانت داری نہ کرنا بندے سے ایمان کے علاوہ کچھ کمی نہیں کرتا۔

30959

(۳۰۹۶۰) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنْ عُبَیْدِ بْنِ عُمَیْرٍ ، قَالَ: الإِیمَانُ ہَیوبٌ۔
(٣٠٩٦٠) حضرت عمرو (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عبید بن عمیر (رض) نے ارشاد فرمایا : ایمان خوف زدہ ہونے کا نام ہے۔

30960

(۳۰۹۶۱) ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنْ نَافِعِ بْنِ جُبَیْرٍ ، أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَعَثَ بشر بْنَ سُحَیْمٍ الْغِفَارِیَّ یَوْمَ النَّحْرِ یُنَادِی فِی النَّاسِ ، إِنَّہُ لاَ یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ إلاَّ نَفْسٌ مُؤْمِنَۃٌ۔
(٣٠٩٦١) حضرت نافع بن جبیر (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قربانی کے دن حضرت بشر بن سحیم غفاری (رض) کو لوگوں میں یہ ندا لگانے کے لیے بھیجا : جنت میں اس شخص کے علاوہ کوئی داخل نہیں ہوگا جس کا نفس مومن ہوگا۔

30961

(۳۰۹۶۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ: حدَّثَنَا ہِشَامُ بْنُ عُرْوَۃ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ: لاَ تَغُرَّنَّکُمْ صَلاۃُ امْرِئٍ ، وَلا صِیَامُہُ ، مَنْ شَائَ صَامَ وَمَنْ شَائَ صَلَّی ، أَلا لاَ دِینَ لِمَنْ لاَ أَمَانَۃَ لَہُ۔
(٣٠٩٦٢) حضرت ہشام بن عروہ (رض) فرماتے ہیں کہ ان کے والد حضرت عروہ (رض) نے ارشاد فرمایا؛ تمہیں ہرگز دھوکا میں مت ڈالے کسی کا نماز پڑھنا اور روزہ رکھنا ، جو چاہے نماز پڑھتا ہو اور جو چاہے روزہ رکھتا ہو، لیکن جس میں امانت داری نہیں اس کا دین میں کوئی حصہ نہیں ہے۔

30962

(۳۰۹۶۳) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ: حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَنْ أبی جَعْفَرٍ الْخطْمِیِّ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ جَدِّہِ عُمَیْرِ بْنِ حَبِیبِ بْنِ خُمَاشَۃَ ، أَنَّہُ قَالَ: الإِیمَانُ یَزِیدُ وَیَنْقُصُ ، قِیلَ لَہُ: وَمَا زِیَادَتُہُ ، وَمَا نُقْصَانُہُ ، قَالَ: إذَا ذَکَرْنَاہُ وَخَشِینَاہُ فَذَلِکَ زِیَادَتُہُ ، وَإِذَا غَفَلْنَا وَنَسِینَا وَضَیَّعْنَا فَذَلِکَ نُقْصَانُہُ۔
(٣٠٩٦٣) حضرت عمیر بن حبیب بن خماشہ (رض) نے ارشاد فرمایا : ایمان میں کمی زیادتی ہوتی ہے ، ان سے پوچھا گیا : ایمان کی کمی و زیادتی کیا ہے ؟ آپ (رض) نے فرمایا : جب ہم اس کا ذکر کریں اور اس ذات سے ڈریں تو یہ ایمان کا زیادہ ہونا ہے، اور جب ہم اس سے غافل ہوجائیں اور اسے بھول جائیں اور ہم اس کو ضائع کریں تو یہ اس کا کم ہونا ہے۔

30963

(۳۰۹۶۴) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، أَنَّہُ کَانَ یَقُولُ: اللَّہُمَّ لاَ تَنْزِعْ مِنِّی الإِیمَانَ کَمَا أَعْطَیْتنیہ۔
(٣٠٩٦٤) حضرت نافع (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عمر (رض) یوں دعا فرمایا کرتے تھے : اے اللہ ! مجھ سے ایمان کو مت چھیننا جیسا کہ آپ نے مجھے عطا کیا ہے۔

30964

(۳۰۹۶۵) حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ مَعْقِل ، عَنْ غَالِبِ عَنْ بَکْرٍ ، قَالَ: لَوْ سُئلتُ عَنْ أَفْضَلِ أَہْلِ ہَذَا الْمَسْجِدِ فَقَالُوا: تَشْہَدُ أَنَّہُ مُؤْمِنٌ مُسْتَکْمِلُ الإِیمَانِ بَرِیئٌ مِنَ النِّفَاقِ ، لَمْ أَشْہَدْ ، وَلَوْ شَہِدْت لَشَہِدْت ، أَنَّہُ فِی الْجَنَّۃِ ، وَلَوْ سُئِلْت عَنْ رَجُلٍ ، أَشَرِّ أَو أَخْبَثِ ، الشَّکُّ مِنْ أَبِی بَکْرٍ ، رَجُلٍ فَقَالُوا: نَشْہَدُ أَنَّہُ مُنَافِقٌ مُسْتَکْمِلُ النِّفَاقِ بَرِیئٌ مِنَ الإِیمَانِ ، لَمْ أَشْہَدْ ، وَلَوْ شَہِدْت لَشَہِدْت أَنَّہُ فِی النَّارِ۔
(٣٠٩٦٥) حضرت غالب بن بکر فرماتے ہیں کہ اگر مجھ سے مسجد کے سب سے افضل آدمی کے بارے میں سوال کیا جائے کہ کیا آپ گواہی دیتے ہیں کہ وہ کامل ایمان والا مومن ہے اور نفاق سے بری ہے۔ تو میں گواہی نہیں دوں گا اور اگر گواہی دوں گا تو یہ گواہی اس بات کی گواہی ہوگی کہ وہ جنت میں ہے۔ اگر مجھ سے سب سے برے آدمی کے بارے میں سوال کیا جائے اور لوگ کہیں کہ کیا آپ گواہی دیتے ہیں کہ وہ مکمل نفاق والا منافق ہے اور ایمان سے محروم ہے تو میں گواہی نہیں دوں گا کیونکہ اگر میں گواہی دوں تو وہ گواہی اس بات کی ہوگی کہ وہ جہنم میں ہے۔

30965

(۳۰۹۶۶) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، قَالَ: حدَّثَنَا فُضَیْلُ بْنُ غَزْوَانَ ، قَالَ: حَدَّثَنَا عُثْمَان بْنُ أَبِی صَفِیَّۃَ الأَنْصَارِیُّ ، قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللہِ بْنُ عَبَّاسٍ لِغُلامٍ مِنْ غِلْمَانِہِ: أَلا أُزَوِّجُک فَمَا مِنْ عَبْدٍ یَزْنِی إلاَّ نَزَعَ اللَّہُ مِنْہُ نُورَ الإِیمَانِ۔
(٣٠٩٦٦) حضرت عثمان بن ابی صفیہ الانصاری (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عباس (رض) نے اپنے لڑکوں میں سے ایک لڑکے سے کہا : کیا میں تیرا نکاح نہ کر دوں ؟ پس نہیں ہے کوئی بندہ جو زنا کرے مگر اللہ اس سے ایمان کا نور چھین لیتا ہے۔

30966

(۳۰۹۶۷) حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَۃَ، عن ہشام عَنْ أَبِیہِ، عَنْ عَائِشَۃَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: لاَ یَزْنِی الزَّانِی حِینَ یَزْنِی وَہُوَ مُؤْمِنٌ، وَلا یَسْرِقُ حِینَ یَسْرِقُ وَہُوَ مُؤْمِنٌ۔ (بزار ۱۱۲)
(٣٠٩٦٧) حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : زنا کرنے والا جب زنا کرتا ہے تو اس کا ایمان باقی نہیں رہتا۔ اور چوری کرنے والا جب چوری کرتا ہے تو اس کا بھی ایمان باقی نہیں رہتا۔

30967

(۳۰۹۶۸) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الشَّیْبَانِیِّ ، عَنْ ثَعْلَبَۃَ ، عَنْ أَبِی قِلابَۃَ قَالَ: حدَّثَنِی الرَّسُولُ الَّذِی سَأَلَ عَبْدُ اللہِ بْنُ مَسْعُودٍ ، قَالَ: أَسْأَلُک بِاللہِ أَتَعْلَمُ ، أَنَّ النَّاسَ کَانُوا فِی عَہْدِ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَی ثَلاثَۃِ أَصْنَافٍ مُؤْمِنِ السَّرِیرَۃِ وَمُؤْمِنِ الْعَلانِیَۃِ ، وَکَافِرِ السَّرِیرَۃِ کَافِرِ الْعَلانِیَۃِ ، وَمُؤْمِنِ الْعَلانِیَۃِ کَافِرِ السَّرِیرَۃِ ، قَالَ: فَقَالَ عَبْدُ اللہِ: اللَّہُمَّ نَعَمْ ، قَالَ: فَأَنْشُدُک بِاللہِ: مِنْ أَیِّہِمْ کُنْت ، فَقَالَ: اللَّہُمَّ مُؤْمِنُ السَّرِیرَۃِ مُؤْمِنُ الْعَلانِیَۃِ ، أَنَا مُؤْمِنٌ ، قَالَ أَبُو إِسْحَاقَ: فَلَقِیت عَبْدَ اللہِ بْنَ مَعْقِلٍ ، فَقُلْتُ: إنَّ أُنَاسًا مِنْ أَہْلِ الصَّلاحِ یَعِیبُونَ عَلَیَّ أَنْ أَقُولَ: أَنَا مُؤْمِنٌ ، فَقَالَ عَبْدُ اللہِ بْنُ مَعْقِلٍ: لَقَدْ خِبْتَ وَخَسِرْت إِنْ لَمْ تَکُنْ مُؤْمِنًا۔
(٣٠٩٦٨) حضرت ثعلبہ (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت ابو قلابہ (رض) نے ارشاد فرمایا : مجھے بیان کیا اس قاصد نے جس نے حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) سے یوں سوال کیا تھا : میں آپ کو اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ آپ جانتے ہیں کہ لوگ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں تین قسم کے تھے : وہ جو پوشیدہ اور ظاہری طور پر مومن ہو اور وہ جو پوشیدہ اور ظاہری طور پر کافر ہو اور وہ جو ظاہری طور پر مومن ہو اور پوشیدہ طور پر کافر ہو۔ راوی کہتے ہیں : حضرت عبداللہ (رض) نے ارشاد فرمایا : ایسا یقیناً تھا۔ اس نے کہا : پس میں آپ کو اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ آپ ان تینوں قسم میں سے کون تھے : راوی کہتے ہیں کہ آپ (رض) نے فرمایا : یقیناً ظاہری اور پوشیدہ طور پر مومن تھا۔ میں مومن تھا۔
ابو اسحاق (رض) فرماتے ہیں : میں حضرت عبداللہ بن معقل (رض) سے ملا تو میں نے عرض کیا : یقیناً نیکوکاروں میں سے چند لوگ میرے یوں کہنے پر عیب لگاتے ہیں۔ میں مومن ہوں، تو حضرت عبداللہ بن معقل (رض) نے فرمایا : تحقیق تو ناکام و نامراد ہوا اگر تو مومن نہ ہو۔

30968

(۳۰۹۶۹) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ مُوسَی بْنِ مُسْلِمٍ الشَّیْبَانِیِّ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ التَّیْمِیِّ ، قَالَ: وَمَا عَلَی أَحَدِکُمْ أَنْ یَقُولَ: أَنَا مُؤْمِنٌ ، فَوَاللہِ لَئِنْ کَانَ صَادِقًا لاَ یُعَذِّبُہُ اللَّہُ عَلَی صِدْقِہِ ، وَإِنْ کَانَ کَاذِبًا لَمَا دَخَلَ عَلَیْہِ مِنَ الْکُفْرِ أَشَدُّ عَلَیْہِ مِنَ الْکَذِبِ۔
(٣٠٩٦٩) حضرت موسیٰ بن مسلم الشیبانی (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم التیمی (رض) نے ارشاد فرمایا : تم میں سے کسی ایک کے لیے یوں کہنا نقصان دہ نہیں ہے کہ میں مومن ہوں۔ اللہ کی قسم اگر وہ سچا ہے تو اللہ اسے سچ بولنے پر عذاب نہیں دیں گے، اور اگر وہ جھوٹا ہے تو کفر کا عذاب جھوٹ کے عذاب سے زیادہ سخت ہے۔

30969

(۳۰۹۷۰) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ، عَن عَلْقَمَۃَ، قَالَ: قَالَ لَہُ رَجُلٌ: أَمُؤْمِنٌ أَنْتَ، قَالَ: أَرْجُو۔
(٣٠٩٧٠) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت علقمہ (رض) سے ایک آدمی نے پوچھا : کیا آپ مومن ہیں ؟ آپ (رض) نے فرمایا : میں امید کرتا ہوں اس کی۔

30970

(۳۰۹۷۱) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِی ہِنْدٍ ، عَنْ شَہْرِ بْنِ حَوْشَبٍ ، عَنِ الْحَارِثِ بْنِ عَمِیرۃَ الزُّبَیْدِیِّ ، قَالَ: وَقَعَ الطَّاعُونُ بِالشَّامِ فَقَامَ مُعَاذٌ بِحِمْصٍ فَخَطَبَہُمْ ، فَقَالَ: إنَّ ہَذَا الطَّاعُونَ رَحْمَۃُ رَبِّکُمْ وَدَعْوَۃُ نَبِیِّکُمْ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَمَوْتُ الصَّالِحِینَ قَبْلَکُمْ ، اللَّہُمَّ اقْسِمْ لآلِ مُعَاذٍ نُصِیبَہُمُ الأَوْفَی مِنْہُ ، قَالَ: فَلَمَّا نَزَلَ ، عَنِ الْمِنْبَرِ أَتَاہُ آتٍ ، فَقَالَ: إنَّ عَبْدَ الرَّحْمَن بْنَ مُعَاذٍ قَدْ أُصِیبَ ، فَقَالَ: إنَّا لِلَّہِ وَإِنَّا إلَیْہِ رَاجِعُونَ ، قَالَ: ثُمَّ انْطَلَقَ نَحْوَہُ ، قَالَ: فَلَمَّا رَآہُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ مُقْبِلاً ، قَالَ: إِنَّہُ {الْحَقُّ مِنْ رَبِّکَ فَلا تَکُونَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِینَ} ، قَالَ: فَقَالَ: یَا بُنَیَّ سَتَجِدُنِی إِنْ شَائَ اللَّہُ مِنَ الصَّابِرِینَ قَالَ: فَمَاتَ آلُ مُعَاذٍ إنْسَانًا إنْسَانًا حَتَّی کَانَ مُعَاذٌ آخِرَہُمْ ، قَالَ: فَأُصِیبَ ، فَأَتَاہُ الْحَارِثُ بْنُ عَمِیرَۃَ الزُّبَیْدِیُّ ، قَالَ: فَأُغْشِیَ عَلَی مُعَاذٍ غَشْیَۃً ، قَالَ: فَأَفَاقَ مُعَاذٌ وَالْحَارِثُ یَبْکِی ، قَالَ: فَقَالَ مُعَاذٌ: مَا یُبْکِیک ؟ قَالَ: فَقَالَ: أَبْکِی عَلَی الْعِلْمِ الَّذِی یُدْفَنُ مَعَک، قَالَ: فَقَالَ: إِنْ کُنْت طَالِبَ الْعِلْمِ لاَ مَحَالَۃَ فَاطْلُبْہُ مِنْ عَبْدِاللہِ بْنِ مَسْعُودٍ وَمِنْ عُوَیْمِرٍ أَبِی الدَّرْدَائِ وَمِنْ سَلْمَانَ الْفَارِسِیِّ ، قَالَ: وَإِیَّاکَ وَزَلَّۃَ الْعَالِمِ ، قَالَ: قُلْتُ: وَکَیْف لِی أَصْلَحَک اللَّہُ أَنْ أَعْرِفَہَا ، قَالَ: إنَّ لِلْحَقِّ نُورًا یُعْرَفُ بِہِ ، قَالَ: فَمَاتَ مُعَاذٌ وَخَرَجَ الْحَارِثُ یُرِیدُ عَبْدَ اللہِ بْنَ مَسْعُودٍ بِالْکُوفَۃِ، قَالَ: فَانْتَہَی إِلَی بَابِہِ فَإِذَا عَلَی الْبَابِ نَفَرٌ مِنْ أَصْحَابِ عَبْدِ اللہِ یَتَحَدَّثُونَ، قَالَ: فَجَرَی بَیْنَہُمَ الْحَدِیثُ حَتَّی ، قَالُوا: یَا شَامِیُّ أَمُؤْمِنٌ أَنْتَ ؟ قَالَ: نَعَمْ ، فَقَالُوا: مِنْ أَہْلِ الْجَنَّۃِ ؟ قَالَ: فَقَالَ: إنَّ لِی ذُنُوبًا لاَ أَدْرِی مَا یَصْنَعُ اللَّہُ فِیہَا فَلَوْ أنی أَعْلَمُ، أَنَّہَا غُفِرَتْ لِی لأَنْبَأْتُکُمْ أَنِّی مِنْ أَہْلِ الْجَنَّۃِ ، قَالَ: فَبَیْنَمَا ہُمْ کَذَلِکَ إذْ خَرَجَ عَلَیْہِمْ عَبْدُ اللہِ ، فَقَالُوا لَہُ: أَلا تَعْجَبُ مِنْ أَخِینَا ہَذَا الشَّامِیِّ یَزْعُمُ أَنَّہُ مُؤْمِنٌ ، ولا یَزْعُمُ أَنَّہُ مِنْ أَہْلِ الْجَنَّۃِ ، قَالَ: فَقَالَ عَبْدُ اللہِ: لَوْ قُلْتُ إحْدَاہُمَا لاتَّبَعَتُہَا الأُخْرَی ، قَالَ: فَقَالَ الْحَارِثُ: {إنَّا لِلَّہِ وَإِنَّا إلَیْہِ رَاجِعُونَ} صَلَّی اللَّہُ عَلَی مُعَاذٍ ، قَالَ: وَیْحَک وَمَنْ مُعَاذٌ ، قَالَ: مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ ، قَالَ: وَمَا قَالَ؟ قَالَ: إیَّاکَ وَزَلَّۃَ الْعَالِمِ فَأحْلِفُ بِاللہِ ، أَنَّہَا مِنْک لَزَلَّۃٌ یَا ابْنَ مَسْعُودٍ ، وَمَا الإِیمَانُ إلاَّ أَنَّا نُؤْمِنُ بِاللہِ وَمَلائِکَتِہِ وَکُتُبِہِ وَرُسُلِہِ وَالْیَوْمِ الآخِرِ وَالْجَنَّۃِ وَالنَّارِ وَالْبَعْثِ وَالْمِیزَانِ، وَإِنَّ لَنَا ذُنُوبًا لاَ نَدْرِی مَا یَصْنَعُ اللَّہُ فِیہَا ، فَلَوْ أنا نَعْلَمُ أَنَّہَا غُفِرَتْ لَنَا لَقُلْنَا: إنَّا مِنْ أَہْلِ الْجَنَّۃِ ، فَقَالَ عَبْدُ اللہِ: صَدَقْت وَاللہِ إِنْ کَانَتْ مِنِّی لَزَلَّۃً۔ (ابوداؤد ۴۵۹۶۔ حاکم ۴۶۰)
(٣٠٩٧١) حضرت حارث بن عمیرہ الزبیدی فرماتے ہیں کہ جب شام میں طاعون پھیلا تو حضرت معاذ (رض) حمص کے مقام پر خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے اور ارشاد فرمایا : یہ طاعون تمہارے رب کی رحمت ہے، اور تمہارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعا ہے۔ اور تم سے پہلے کے نیک لوگوں کی موت ہے۔ اے اللہ ! آلِ معاذ کو اس میں سے پورا پورا حصہ عطا فر فرما۔
راوی کہتے ہیں : جب آپ (رض) منبر سے نیچے اترے تو ایک آنے والے نے آ کر خبر دی : بیشک عبد الرحمن بن معاذ طاعون میں مبتلا ہوگئے ۔ تو آپ (رض) نے فرمایا : ہم اللہ ہی کے لیے ہیں اور ہم اس کی طرف ہی لوٹ کر جانے والے ہیں۔ راوی فرماتے ہیں۔ پھر آپ (رض) اس کی طرف چلے : راوی کہتے ہیں جب عبد الرحمن نے آپ کو آتے ہوئے دیکھا تو فرمایا : بیشک یہی حق ہے تیرے رب کی طرف سے پس تم ہرگز شک کرنے والوں میں سے مت ہونا، راوی کہتے ہیں : پھر آپ (رض) نے یہ آیت پڑھی : ضرور پائیں گے آپ ان شاء اللہ صابروں میں سے۔ راوی فرماتے ہیں : پس آل معاذ ایک ایک فرد کر کے مرگئے یہاں تک کہ حضرت معاذ (رض) ان میں سے آخر میں رہ گئے۔ راوی فرماتے ہیں : پھر آپ (رض) بھی طاعون میں مبتلا ہوگئے۔ تو حارث بن عمیر الزبیدی آپ کے پاس آئے۔ راوی فرماتے ہیں : حضرت معاذ (رض) پر بےہوشی طاری ہوگئی۔ جب آپ (رض) کو ہوش آیا تو حارث رو رہے تھے تو حضرت معاذ (رض) نے فرمایا : تمہیں کس چیز نے رلا دیا ؟ حارث نے کہا : میں اس علم کے ضائع ہونے پر رو رہا ہوں جو آپ کے ساتھ دفن ہوجائے گا۔ آپ (رض) نے فرمایا : اگر تو علم کا طالب ہے تو کوئی مشکل نہیں پس تو حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) سے اس کو طلب کر، اور عویمر ابو الدرداء سے ، اور سلمان فارسی (رض) سے، اور فرمایا : تم عالم کی غلطیوں سے بچو۔ حارث کہتے ہیں میں نے پوچھا : میں کیسے اس کی غلطی کو پہچانوں ؟ ( اللہ آپ کو تندرست فرمائے) آپ (رض) نے فرمایا : یقیناً حق کے لیے نور ہوتا ہے جس کے ذریعہ وہ پہچان لیا جاتا ہے۔
راوی فرماتے ہیں : پھر حضرت معاذ (رض) کی وفات ہوگئی، اور حارث حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) کی غرض سے کوفہ کی طرف نکلے۔ جب ان کے دروازے پر پہنچے۔ تو دیکھا وہاں حضرت عبداللہ (رض) کے اصحاب کا گروہ دروازے پر بحث و مباحثہ کر رہے ہیں۔ راوی فرماتے ہیں کہ ان کے درمیان بات چیت جاری تھی یہاں تک کہ وہ کہنے لگے، اے شامی بھائی : کیا تم مومن ہو ؟ آپ (رض) نے کہا جی ہاں ! پھر انھوں نے پوچھا : جنتیوں میں سے ہو ؟ آپ (رض) نے کہا : یقیناً میرے سے کچھ گناہ سرزد ہوئے ہیں میں نہیں جانتا کہ اللہ نے ان گناہوں کا کیا معاملہ کیا، پس اگر مجھے معلوم ہوتا کہ میرے ان گناہوں کو معاف کردیا گیا ہے، تو میں تمہیں ضرور بتلاتا کہ بیشک میں جنتی ہوں راوی فرماتے ہیں : ہم اسی درمیان میں تھے کہ حضرت عبداللہ (رض) ہمارے پاس تشریف لے آئے، تو ان کے اصحاب نے ان سے کہا : کیا آپ تعجب نہیں کرتے ہمارے اس شامی بھائی پر جو مومن ہونے کا گمان تو کرتا ہے اور جنتی ہونے کا گمان نہیں کرتا، راوی کہتے ہیں : حضرت عبداللہ (رض) نے ارشاد فرمایا : اگر میں ان دونوں میں سے ایک کہوں گا تو ساتھ ہی دوسری بات بھی کہوں گا، تو حارث نے کہا : ہم اللہ ہی کے لیے ہیں اور ہم نے اس کی طرف ہی لوٹ کر جانا ہے ! اللہ معاذ (رض) پر رحمت فرمائے !۔ آپ (رض) نے پوچھا : ہلاکت ہو، کون معاذ ؟ انھوں نے کہا : معاذ بن جبل (رض) ۔ آپ (رض) نے پوچھا : انھوں نے کیا فرمایا تھا ؟ حارث نے کہا : تم عالم کی غلطیوں سے بچے۔ پس میں اللہ کی قسم اٹھا کر کہتا ہوں کہ اے ابن مسعود (رض) آپ غلطی پر ہیں۔ نہیں ہے ایمان مگر یہ کہ ہم اللہ پر ایمان لائیں، اور اس کے فرشتوں پر اور اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر ، اور آخرت کے دن پر، اور جنت اور جہنم پر، اور مرنے کے بعد اٹھنے پر، اور ترازو پر، اور ہمارے کچھ گناہ ہوتے ہیں ہم نہیں جانتے کہ اللہ نے ان کے بارے میں کیا معاملہ فرمایا پس اگر ہم جان لیں کہ ہمارے ان گناہوں کو معاف کردیا تو ہم ضرور کہیں گے کہ ہم جنتی ہیں۔ تو حضرت عبداللہ (رض) نے فرمایا : تم نے سچ کہا۔ اللہ کی قسم میں غلطی پر تھا۔

30971

(۳۰۹۷۲) حَدَّثَنَا مُعْصَبُ بْنُ الْمِقْدَامِ ، قَالَ: حدَّثَنَا عِکْرِمَۃُ بْنُ عَمَّارٍ ، قَالَ: حَدَّثَنِی أَبُو زُمَیْلٍ ، عَنْ مَالِکِ بْنِ مَرْثَدٍ الزِّمَّانِیِّ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ: قَالَ أَبُو ذَرٍّ: سَأَلْت رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: مَاذَا یُنَجِّی الْعَبْدَ مِنَ النَّارِ ، فَقَالَ: الإِیمَانُ بِاللہِ ، قَالَ: قُلْتُ: یَا نَبِیَّ اللَّہُ أَوَ مَعَ الإِیمَانِ عَمَلٌ ، فَقَالَ: تَرْضَخُ مِمَّا رَزَقَک اللَّہُ ، أَوْ یَرْضَخُ مِمَّا رَزَقَہُ اللَّہُ۔
(٣٠٩٧٢) حضرت ابوذر (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا : وہ کون سا عمل ہے جو بندے کو جہنم سے نجات دلاتا ہے ؟ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اللہ پر ایمان لانا۔ آپ (رض) فرماتے ہیں : میں نے پوچھا : اے اللہ کے نبی 5! کیا ایمان کے ساتھ کوئی عمل بھی ؟ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تو دے اس رزق میں سے جو اللہ نے تجھے دیا۔ یا یوں فرمایا : وہ دے اس رزق میں سے جو اللہ نے اسے دیا ہے۔

30972

(۳۰۹۷۳) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ: حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَیْدٍ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ زَیْدٍ ، عَنْ أُمِّ مُحَمَّدٍ ، أَنَّ رَجُلاً قَالَ لِعَائِشَۃَ: مَا الإِیمَانُ ؟ قَالَتْ: أُفَسِّرُ أَمْ أُجْمِلُ ، قَالَ: لاَ بَلْ أَجْمِلِی ، فقَالَتْ: مَنْ سَرَّتْہُ حَسَنَتُہُ وَسَائَتْہُ سَیِّئَتُہُ فَہُوَ مُؤْمِنٌ۔ (ترمذی ۲۱۶۵۔ احمد ۴۴۶)
(٣٠٩٧٣) حضرت ام محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتی ہیں کہ ایک آدمی نے حضرت عائشہ (رض) سے پوچھا : ایمان کی علامت کیا ہیـ؟ آپ (رض) نے فرمایا : میں تفصیل سے بیان کروں یا مختصر طور پر بیان کروں ؟ اس نے کہا : نہیں بلکہ اجمالاً بیان کریں۔ تو آپ (رض) نے فرمایا : جس کو اس کی نیکی اچھی لگے اور اس کی برائی کھٹکے تو وہ مومن ہے۔

30973

(۳۰۹۷۴) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سابق ، قَالَ: حدَّثَنَا إسْرَائِیلُ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، عَن علْقَمَۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: لَیْسَ الْمُؤْمِنُ بِالطَّعَّانِ ، وَلا اللَّعَّانِ ، وَلا بِالْفَاحِشِ ، وَلا بِالْبَذِیئ۔ (ترمذی ۱۹۷۷۔ احمد ۴۰۴)
(٣٠٩٧٤) حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : مومن طعن وتشنیع کرنے والا، لعن طعن کرنے والا، اور فحش کلامی اور بد کلامی کرنے والا نہیں ہوتا۔

30974

(۳۰۹۷۵) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ سَلَمَۃَ بْنِ کُہَیْلٍ ، عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ سَعْدٍ ، قَالَ: الْمُؤْمِنُ یُطْبَع عَلَی الْخِلالِ کُلِّہَا إلاَّ الْخِیَانَۃَ وَالْکَذِبَ۔
(٣٠٩٧٥) حضرت مصعب بن سعد (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت سعد (رض) نے فرمایا : مومن تمام چیزوں کا عادی ہوسکتا ہے مگر خیانت کا اور جھوٹ کا نہیں۔

30975

(۳۰۹۷۶) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ مَالِکِ بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ یَزِیدَ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ: الْمُؤْمِنُ یُطْوَی عَلَی الْخِلالِ کُلِّہَا غَیْرَ الْخِیَانَۃِ وَالْکَذِبِ۔
(٣٠٩٧٦) حضرت عبد الرحمن بن یزید (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) نے ارشاد فرمایا : مومن تمام عادات کو اپنا سکتا ہے سوائے خیانت اور جھوٹ کے۔

30976

(۳۰۹۷۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ: حدَّثَنَا الأَعْمَشُ ، قَالَ: حُدِّثْت عن أَبِی أُمَامَۃَ قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: یُطْوی الْمُؤْمِنُ عَلَی کُلِّ شیئٍ إلاَّ الْخِیَانَۃَ وَالْکَذِبَ۔
(٣٠٩٧٧) حضرت ابو امامہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : مومن تمام عادات کو اپنا سکتا ہے مگر خیانت اور جھوٹ کو نہیں۔

30977

(۳۰۹۷۸) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَنْ زَائِدَۃَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، عَنْ أَبِی مُوسَی ، عن النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ: تَکُونُ فِی آخِرِ الزَّمَانِ فِتَنٌ کَقِطَعِ اللَّیْلِ الْمُظْلِمِ ، یُصْبِحُ الرَّجُلُ مُؤْمِنًا وَیُمْسِی کَافِرًا وَیُمْسِی مُؤْمِنًا وَیُصْبِحُ کَافِرًا۔
(٣٠٩٧٨) حضرت ابو موسیٰ (رض) فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا؛ آخری زمانہ میں اتنے فتنہ ہوں گے جیسا کہ اندھیری رات کا ٹکڑا ہوتا ہے۔ آدمی صبح کرے گا مومن ہونے کی حالت میں۔ اور شام کرے گا کافر ہونے کی حالت میں ۔ اور شام کرے گا مومن ہونے کی حالت میں اور صبح کرے گا کافر ہونے کی حالت میں۔

30978

(۳۰۹۷۹) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ حَجَّاجِ بْنِ أَبِی عُثْمَانَ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ أَبِی کَثِیرٍ ، عَنْ ہِلالِ بْنِ أَبِی مَیْمُونَۃَ ، عَنْ عَطَائِ بْنِ یَسَارٍ ، عَنْ مُعَاوِیَۃَ بْنِ الْحَکَمِ السُّلَمِیِّ ، قَالَ: کَانَتْ لِی جَارِیَۃٌ تَرْعَی غَنَمًا لِی فِی قِبَلِ أُحُدٍ وَالْجَوَّانِیَّۃ ، فَاطَّلَعْتہَا ذَاتَ یَوْمٍ وَإِذَا الذِّئْبُ قَدْ ذَہَبَ بِشَاۃٍ مِنْ غَنَمِہَا ، قَالَ: وَأَنَا رَجُلٌ مِنْ بَنِی آدَمَ آسَفُ کَمَا یَأْسَفُونَ ، لَکِنِّی صَکَکْتہَا صَکَّۃً فَأَتَیْت رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَعَظَّمَ ذَلِکَ عَلَیَّ ، فَقُلْتُ یَا رَسُولَ اللہِ ، أَفَلا أُعْتِقُہَا قَالَ: ائْتِنِی بِہَا ، فَقَالَ لَہَا: أَیْنَ اللَّہُ ؟ قَالَتْ فِی السَّمَائِ ، قَالَ: مَنْ أَنَا ؟ قَالَتْ: أَنْتَ رَسُولُ اللہِ ، قَالَ: أَعْتِقْہَا ، فَإِنَّہَا مُؤْمِنَۃٌ۔ (مسلم ۳۳۔ ابوداؤد ۹۲۷)
(٣٠٩٧٩) حضرت عطاء بن یسار (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت معاویہ بن الحکم السلمی (رض) نے ارشاد فرمایا : میری ایک باندی تھی جو احد اور جوانیہ مقام پر میری بکریاں چراتی تھی۔ پس ایک دن میں اس کے پاس گیا تو اچانک ایک بھیڑیا ریوڑ میں سے ایک بکری لے گیا۔ آپ (رض) نے کہا : میں آدم کے بیٹوں میں سے ایک آدمی ہوں میں نے افسوس کیا جیسا کہ وہ افسوس کرتے ہیں۔ لیکن میں نے اس کے چہرے پر زور سے تھپڑ دے مارا۔ پھر میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا، مجھے یہ بہت ناگوار گزرا تھا، میں نے کہا : اے اللہ کے رسول 5! کیا میں اسے آزاد کر دوں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اسے میرے پاس لاؤ۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے پوچھا : اللہ کہاں ہے ؟ اس نے کہا : آسمان میں ۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا : میں کون ہوں ؟ اس نے کہا : آپ اللہ کے رسول ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اس کو آزاد کردو بیشک یہ مومن ہے۔

30979

(۳۰۹۸۰) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ ہَاشِمٍ ، عَنِ ابْنِ أَبِی لَیْلَی ، عَنِ الْمِنْہَالِ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، عَنِ الْحَکَمِ یَرْفَعُہُ ، أَنَّ رَجُلاً أَتَی النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ: إنَّ عَلَی أُمِّی رَقَبَۃً مُؤْمِنَۃً ، وَعِنْدِی رَقَبَۃٌ سَوْدَائُ أَعْجَمِیَّۃٌ ، فَقَالَ: ائْتِ بِہَا ، فَقَالَ: أَتَشْہَدِینَ أَنْ لاَ إلَہَ إلاَّ اللَّہُ وَأَنِّی رَسُولُ اللہِ ؟ قَالَتْ: نَعَمْ ، قَالَ: فَأَعْتِقْہَا۔ (بزار ۱۳۔ طبرانی ۱۳۳۶۹)
(٣٠٩٨٠) حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت حکم (رض) نے مرفوعاً بیان کیا ہے کہ ایک آدمی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کرنے لگا : میری والدہ کے ذمہ ایک مومنہ باندی تھی۔ اور میرے پاس ایک عجمی سیاہ رنگ کی باندی ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اس کو میرے پاس لاؤ۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا : کیا تم گواہی دیتی ہو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، اور میں اللہ کا رسول ہوں ؟ اس نے کہا، جی ہاں ! آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اس کو آزاد کردو۔

30980

(۳۰۹۸۱) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: مَثَلُ الْمُؤْمِنِ مَثَلُ الزَّرْعِ لاَ تَزَالُ الرِّیحُ تُمِیلُہُ ، وَلا یَزَالُ الْمُؤْمِنُ یُصِیبُہُ بَلائٌ ، وَمَثَلُ الْکَافِرِ کَمَثَلِ شَجَرَۃِ الأَرْزِ لاَ تَہْتَزُّ حَتَّی تَسْتَحْصِدَ ۔ (مسلم ۲۱۶۳۔ ترمذی ۲۸۶۶)
(٣٠٩٨١) حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : مومن کی مثال اس کھیتی کی سی ہے جس کو ہوا مسلسل جھکاتی رہتی ہے ، اور اسی طرح مومن بھی ہمیشہ بلاؤں اور مصیبتوں میں مبتلا رہتا ہے۔ اور کافر کی مثال صنوبر کے درخت کی سی ہے وہ نشو ونما نہیں پاتا یہاں تک کہ اس کے کٹنے کا وقت آجاتا ہے۔

30981

(۳۰۹۸۲) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، قَالَ: حدَّثَنَا زَکَرِیَّا ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ: أَخْبَرَنِی ابْنُ کَعْبِ بْنِ مَالِکٍ ، عَنْ أَبِیہِ کعب ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: مثل الْمُؤْمِنُ کَمَثَلِ الخَامَۃِ من الزَّرْعِ تَفِیئُہَا الرِّیحُ تَصْرَعُہَا مَرَّۃً وَتَعْدِلُہَا أُخْرَی حَتَّی تَہِیجَ ، وَمَثَلُ الْکَافِرِ کَمَثَلِ الأَرْزَۃِ الْمُجْذِیَۃِ عَلَی أَصلہَا لاَ یَفِیئُہَا شَیْئٌ حَتَّی یَکُونَ انْجِعَافُہَا مَرَّۃً وَاحِدَۃً۔ (بخاری ۵۶۴۳۔ مسلم ۵۹)
(٣٠٩٨٢) حضرت کعب (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : مومن کی مثال اس ناپختہ کمزور کھیتی کی سی ہے جس کو ہوا حرکت دیتی رہتی ہے۔ ایک مرتبہ اس کو پچھاڑتی ہے اور پھر دوسری مرتبہ اس کو سیدھا کھڑا کردیتی ہے یہاں تک کہ وہ خشک ہوجاتی ہے، اور کافر کی مثال اس صنوبر کے درخت کی سی ہے جو اپنی جڑوں پر مضبوط کھڑا ہوتا ہے اس کو کوئی چیز بھی نہیں ہلا سکتی یہاں تک کہ وہ ایک مرتبہ ہی اکھڑ جاتا ہے۔

30982

(۳۰۹۸۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُدَیْرٍ ، عَنْ یحیی بْنِ سعید ، عَنْ بَشِیرِ بْنِ نَہِیکٍ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ: مَثَلُ الْمُؤْمِنِ الضَّعِیفِ کَمَثَلِ الْخَامَۃِ مِنَ الزَّرْعِ تُمِیلُہَا الرِّیحُ مَرَّۃً وَتُقِیمُہَا مَرَّۃً ، قَالَ: قُلْتُ: فَالْمُؤْمِنُ الْقَوِیُّ ، قَالَ: مِثْلُ النَّخْلَۃِ تُؤْتِی أُکُلَہَا کُلَّ حِینٍ فِی ظِلِّہَا ذَلِکَ ، وَلا تُمِیلُہَا الرِّیحُ۔
(٣٠٩٨٣) حضرت بشیر بن نہیک (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت ابوہریرہ (رض) نے ارشاد فرمایا : کمزور مومن کی مثال ناپختہ کھیتی کی سی ہے۔ ہوا کبھی اس کو جھکا دیتی ہے۔ اور کبھی اس کو سیدھا کھڑا کردیتی ہے۔ راوی کہتے ہیں : میں نے پوچھا : اور قوی مومن کی مثال ؟ آپ (رض) نے فرمایا : اس کی مثال کھجور کے درخت کی سی ہے جو اپنا پھل دیتا ہے جب بھی کوئی اس کے سائے میں ہوتا ہے اور ہوا اس کو کبھی نہیں جھکاتی۔

30983

(۳۰۹۸۴) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ یَعْلَی بْنِ عَطَائٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو ، قَالَ: مَثَلُ الْمُؤْمِنِ کَمَثَلِ النَّحْلَۃِ تَأْکُلُ طَیِّبًا وَتَضَعُ طَیِّبًا۔
(٣٠٩٨٤) حضرت عطائ (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) نے ارشاد فرمایا : مومن کی مثال شہد کی مکھی کی سی ہے۔ جو پاک چیز کھاتی ہے اور پاک چیز دیتی ہے۔

30984

(۳۰۹۸۵) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ بُرَیْدِ بْنِ عَبْدِ اللہِ ، عَنْ أَبِی بُرْدَۃَ عَنْ أَبِی مُوسَی ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: الْمُؤْمِنُ لِلْمُؤْمِنِ کَالْبُنْیَانِ یَشُدُّ بَعْضُہُ بَعْضًا۔ (بخاری ۴۸۱۔ مسلم ۱۹۹۹)
(٣٠٩٨٥) حضرت ابو موسیٰ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : مومن دوسرے مومن کے لیے عمارت کی طرح ہے جس کا بعض حصہ بعض کو مضبوط بناتا ہے۔

30985

(۳۰۹۸۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِی عَمَّارٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُرَحْبِیلَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: إنَّ عَمَّارًا مُلِئَ إیمَانًا إِلَی مُشَاشِہِ۔
(٣٠٩٨٦) حضرت عمرو بن شرحبیل (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : حضرت عمار (رض) کے جوڑوں تک ایمان بھرا ہوا ہے۔

30986

(۳۰۹۸۷) حَدَّثَنَا عَثَّامُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ ہَانِئِ بْنِ ہَانِئٍ ، قَالَ: کُنَّا جُلُوسًا عِنْدَ عَلِیٍّ فَدَخَلَ عَمَّارٌ ، فَقَالَ: مَرْحَبًا بِالطَّیِّبِ الْمُطَیَّبِ ، سَمِعْت رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ: إنَّ عَمَّارًا مُلِئَ إیمَانًا إِلَی مَشَاشِہِ۔ (ابن ماجہ ۱۴۷)
(٣٠٩٨٧) حضرت ھانی بن ھانی (رض) فرماتے ہیں کہ ہم لوگ حضرت علی (رض) کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ حضرت عمار (رض) تشریف لائے۔ تو حضرت علی (رض) نے فرمایا : خوش آمدید پاکیزہ اور خوشبودار کو۔ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یوں فرماتے ہوئے سنا ہے : یقیناً عمار (رض) کے جوڑوں تک میں ایمان بھرا ہوا ہے۔

30987

(۳۰۹۸۸) حَدَّثَنَا عَفَّان ، قَالَ: حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، قَالَ: حدَّثَنَا زَکَرِیَّا ، قَالَ: سَمِعْتُ الْحَسَنَ یَقُولُ: إنَّ الإِیمَانَ لَیْسَ بِالتَّحَلِّی ، وَلا بِالتَّمَنِّی ، إنَّمَا الإِیمَانُ مَا وَقَرَ فِی الْقَلْبِ وَصَدَّقَہُ الْعَمَلُ۔ (ابن عدی ۲۲۹۰)
(٣٠٩٨٨) حضرت زکریا (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت حسن (رض) کو یوں فرماتے ہوئے سنا ہے کہ : ایمان مزین ہونے اور خواہش کرنے کا نام نہیں۔ بیشک ایمان تو وہ ہے جو دل میں راسخ ہو اور عمل اس کی تصدیق کرے۔

30988

(۳۰۹۸۹) حَدَّثَنَا ابْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ بْنِ مُہَاجِرٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، أَنَّہُ قَالَ لِغِلْمَانِہِ: مَنْ أَرَادَ مِنْکُمُ الْبَائَۃَ زَوَّجْنَاہُ ، فَلا یَزْنِی مِنْکُمْ زَانٍ إلاَّ نَزَعَ اللَّہُ مِنْہُ نُورَ الإِیمَانِ ، فَإِنْ شَائَ أَنْ یَرُدَّہُ، وَإِنْ شَائَ أَنْ یَمْنَعَہُ إیَّاہُ مَنَعَہُ۔
(٣٠٩٨٩) حضرت مجاہد (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عباس (رض) نے اپنے لڑکوں سے ارشاد فرمایا : تم میں سے جو نکاح کا ارادہ رکھتا ہو تو ہم اس کی شادی کردیتے ہیں۔ اس لیے کہ تم میں کوئی زنا کرنے والا زنا نہیں کرے گا مگر اللہ اس سے ایمان کا نور چھین لیں گے۔ پھر اگر لوٹانا چاہیں گے تو لوٹا دیں گے اور اگر روکنا چاہیں گے تو اس سے ایمان کو روک لیں گے۔

30989

(۳۰۹۹۰) حَدَّثَنَا قَبِیصَۃُ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ ابْنِ طَاوُوس ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ ، عَجَبًا لإخْوَانِنَا مِنْ أَہْلِ الْعِرَاقِ یُسَمُّونَ الْحَجَّاجَ مُؤْمِنًا۔
(٣٠٩٩٠) حضرت ابن طاوس (رض) فرماتے ہیں کہ ان کے والد حضرت طاوس (رض) نے ارشاد فرمایا : ہمارے عراقی بھائیوں کے لیے تعجب ہے کہ وہ حجاج بن یوسف کو مومن گردانتے ہیں !۔

30990

(۳۰۹۹۱) حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ عَیَّاشٍ ، عَنِ الأَجْلَحِ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ: أَشْہَدُ أَنَّہُ مُؤْمِنٌ بِالطَّاغُوتِ کَافِرٌ بِاللہِ ، یَعْنِی الْحَجَّاجَ۔
(٣٠٩٩١) حضرت اجلح (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت شعبی (رض) نے ارشاد فرمایا : میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ شیاطین پر ایمان رکھتا ہے اور اللہ سے کفر کرتا ہے۔ یعنی حجاج بن یوسف۔

30991

(۳۰۹۹۲) حَدَّثَنَا فُضَیْلُ بْنُ عِیَاضٍ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ خَیْثَمَۃ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو ،قَالَ: یَأْتِی عَلَی النَّاسِ زَمَانٌ یَجْتَمِعُونَ وَیُصَلُّونَ فِی الْمَسَاجِدِ وَلَیْسَ فِیہِمْ مُؤْمِنٌ۔
(٣٠٩٩٢) حضرت خیثمہ (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) نے ارشاد فرمایا : لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا لوگ جمع ہوں گے اور مساجد میں نماز پڑھیں گے ۔ اس حال میں کہ ان میں ایک بھی مومن نہیں ہوگا۔

30992

(۳۰۹۹۳) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ آدَمَ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ عَاصِمٍ ، قَالَ: قلْنَا لِطَلْقِ بْنِ حَبِیبٍ: صِفْ لَنَا التَّقْوَی ، قَالَ: التَّقْوَی عَمَلٌ بِطَاعَۃِ اللہِ رَجَائَ رَحْمَۃِ اللہِ عَلَی نُورٍ مِنَ اللہِ ، وَالتَّقْوَی تَرْکُ مَعْصِیَۃِ اللہِ مَخَافَۃَ اللہِ عَلَی نُورٍ مِنَ اللہِ۔
(٣٠٩٩٣) حضرت عاصم (رض) فرماتے ہیں کہ ہم نے حضرت طلق بن حبیب (رض) سے عرض کیا : آپ ہمیں تقویٰ کی تعریف بیان کر دیجئے۔ تو آپ (رض) نے فرمایا : تقویٰ نام ہے اللہ کی رضا مندی کے مطابق عمل کرنے کا ، اللہ کی رحمت کی امید کرتے ہوئے ۔ اللہ کی جانب سے نور بصیرت پر۔ اور تقویٰ نام ہے اللہ کی نافرمانی چھوڑنے کا، اللہ سے ڈرنے کا۔ اللہ کی جانب سے نور بصیرت پر۔

30993

(۳۰۹۹۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، أَنَّہُ کَانَ إذَا ذَکَرَ الْحَجَّاجَ ، قَالَ: أَلا لَعَنْۃُ اللہِ عَلَی الظَّالِمِینَ۔
(٣٠٩٩٤) حضرت منصور (رض) فرماتے ہیں ، کہ حضرت ابراہیم (رض) کے سامنے جب بھی حجاج بن یوسف کا ذکر کیا جاتا تو آپ (رض) فرماتے : خبردار ظلم کرنے والوں پر اللہ کی لعنت۔

30994

(۳۰۹۹۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ: کَفَی بِمَنْ شَکَّ فِی الْحَجَّاجِ لَحَاہُ اللَّہُ۔
(٣٠٩٩٥) حضرت منصور (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم (رض) نے ارشاد فرمایا : اس شخص کے حق میں جو حجاج کے بارے میں شک کرے اتنی سزا کافی ہے : کہ اللہ اسے اپنی رحمت سے دور کر دے۔

30995

(۳۰۹۹۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ أَبِی بَشِیرٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مِساور ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: مَا یُؤْمِنُ مَنْ بَاتَ شَبْعَانَ وَجَارُہُ طاوٍ إِلَی جَنْبِہِ۔ (ابویعلی ۲۶۹۱۔ حاکم ۱۶۷)
(٣٠٩٩٦) حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : مومن نہیں ہے وہ شخص جو خود پیٹ بھرنے کی حالت میں رات گزارے اور اس کا پڑوسی بھوکا ہو۔

30996

(۳۰۹۹۷) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ یَعْلَی التَّیْمِیُّ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ طَلْقِ بْنِ حَبِیبٍ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ ، قَالَ: ثَلاثٌ مَنْ کُنَّ فِیہِ وَجَدَ طَعْمَ الإِیمَانِ وَحَلاوَتَہُ: أَنْ یَکُونَ اللَّہُ وَرَسُولُہُ أَحَبَّ إلَیْہِ مِمَّا سِوَاہُمَا ، وَأَنْ یُحِبَّ فِی اللہِ وَیُبْغِضَ فِی اللہِ ، وَذَکَرَ الشِّرْکَ۔
(٣٠٩٩٧) حضرت طلق بن حبیب (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت انس بن مالک (رض) نے ارشاد فرمایا : تین خصلتیں ایسی ہیں کہ جس شخص میں بھی پائی جائیں تو اس شخص نے ایمان کے ذائقہ اور اس کی مٹھاس کو پالیا۔ وہ یہ ہیں کہ : اللہ اور اس کے رسول کی محبت دنیا کی تمام چیزوں سے زیادہ ہو، اور یہ کہ وہ کسی سے محبت کرے اللہ کی خوشنودی میں، اور کسی سے بغض رکھے اللہ کی خوشنودی میں، اور شرک کا ذکر فرمایا۔

30997

(۳۰۹۹۸) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، قَالَ: حدَّثَنَا ہِشَامٌ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنِ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَۃَ ، وَابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّہُمَا دَخَلا عَلَی عُمَرَ حِینَ طُعِنَ ، فَقَالاَ: الصَّلاۃُ ، فَقَالَ: إِنَّہُ لاَ حَظَّ لأَحَدٍ فِی الإسْلامِ أَضَاعَ الصَّلاۃَ فَصَلَّی وَجُرْحُہُ یَثْعَبُ دَمًا۔ (بیہقی ۳۵۷)
(٣٠٩٩٨) حضرت مسور بن مخرمہ (رض) اور حضرت ابن عباس (رض) دونوں حضرات حضرت عمر (رض) کے پاس تشریف لے گئے جب انھیں نیزہ مارا گیا ۔ ان دونوں نے کہا : نماز کا وقت : تو حضرت عمر (رض) نے فرمایا : اس شخص کا اسلام میں کوئی حصہ نہیں جس نے نماز کو ضائع کردیا۔ پھر انھوں نے اس حال میں نماز پڑھی کہ ان کے زخم سے خون رس رہا تھا۔

30998

(۳۰۹۹۹) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ شباک ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، عَن عَلْقَمَۃَ ، أَنَّہُ کَانَ یَقُولُ لأَصْحَابِہِ : امْشُوا بِنَا نَزْدَاد إیمَانًا۔
(٣٠٩٩٩) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت علقمہ (رض) اپنے اصحاب سے فرمایا کرتے تھے۔ ہمارے ساتھ چلو تاکہ ہم اپنے ایمان میں اضافہ کریں۔

30999

(۳۱۰۰۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا الأَعْمَشُ ، عَنْ جَامِعِ بْنِ شَدَّادٍ ، عَنِ الأَسْوَدِ بْنِ ہِلالٍ الْمُحَارِبِیِّ ، قَالَ : قَالَ لِی مُعَاذٌ اجْلِسْ بِنَا نُؤْمِنُ سَاعَۃً ، یَعْنِی نَذْکُرُ اللَّہَ۔
(٣١٠٠٠) حضرت اسود بن ھلال المحاربی (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت معاذ (رض) نے مجھ سے فرمایا : ہمارے ساتھ بیٹھو ہم کچھ گھڑی ایمان کا مذاکرہ کرلیں یعنی : ہم اللہ کا ذکر کرلیں۔

31000

(۳۱۰۰۱) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ مَہْدِیِّ بْنِ مَیْمُونٍ ، عَنْ عِمْرَانَ الْقَصِیرِ ، عَنْ مُعَاوِیَۃَ بْنِ قُرَّۃَ ، قَالَ : کَانَ أَبُو الدَّرْدَائِ یَقُولُ : اللَّہُمَّ إنِّی أَسْأَلُک إیمَانًا دَائِمًا وَعِلْمًا نَافِعًا وَہَدْیًا قَیِّمًا ، قَالَ مُعَاوِیَۃُ : فَنُرَی أَنَّ مِنَ الإِیمَانِ إیمَانًا لَیْسَ بِدَائِمٍ وَمِنَ الْعِلْمِ عِلْمًا لاَ یَنْفَعُ وَمِنَ الْہَدْیِ ہَدْیًا لَیْسَ بِقَیِّمٍ۔
(٣١٠٠١) حضرت معاویہ بن قرہ (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت ابوالدردائ (رض) یوں دعا فرماتے تھے : اے اللہ ! میں آپ سے مانگتا ہوں ہمیشہ کا ایمان، اور علم نافع اور سیدھا راستہ۔
حضرت معاویہ (رض) فرماتے ہیں : پس ہمیں سمجھ آئی ! بیشک ایمان ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہمیشہ نہ رہے ، اور علم ایسا بھی ہوتا ہے جو نفع نہ پہنچائے، اور ایسا بھی راستہ ہوتا ہے جو سیدھا نہ ہو۔

31001

(۳۱۰۰۲) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ جَامِعِ بْنِ شَدَّادٍ ، عَنِ الأَسْوَدِ بْنِ ہِلالٍ : قَالَ : کَانَ مُعَاذٌ یَقُولُ لِرَجُلٍ مِنْ إخْوَانِہِ : اجْلِسْ بِنَا فَلْنُؤْمِنْ سَاعَۃً ، فَیَجْلِسَانِ یَتَذَاکَرَانِ اللَّہَ وَیَحْمَدَانِہِ۔
(٣١٠٠٢) حضرت اسود بن ھلال (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت معاذ (رض) اپنے ساتھیوں میں سے کسی ایک سے کہتے : ہمارے ساتھ بیٹھو پس تاکہ ہم کچھ دیر ایمان کا مذاکرہ کریں۔ پھر وہ دونوں بیٹھ کر اللہ کا ذکر اور اس کی حمد و ثنا بیان کرتے۔

31002

(۳۱۰۰۳) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ طَلْحَۃَ ، عَنْ زُبَیْدٍ ، عَنْ زِرٍّ ، قَالَ : کَانَ عُمَرُ مِمَّا یَأْخُذُ بِیَدِ الرَّجُلِ وَالرَّجُلَیْنِ مِنْ أَصْحَابِہِ فَیَقُولُ : قُمْ بِنَا نَزْدَاد إیمَانًا۔
(٣١٠٠٣) حضرت زرّ (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) ان لوگوں میں سے تھے جو اپنے اصحاب میں سے ایک یا دو آدمیوں کا ہاتھ پکڑ کر فرماتے : ہمارے ساتھ آؤ ہم ایمان میں اضافہ کریں۔

31003

(۳۱۰۰۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا الأَعْمَشُ ، عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ مَیْسَرَۃَ وَالْمُغِیرَۃِ بْنِ شِبْلٍ ، عَنْ طَارِقِ بْنِ شِہَابٍ الأَحْمَسِیِّ ، عَنْ سَلْمَانَ ، قَالَ : إنَّ مَثَلَ الصَّلَوَاتِ الْخَمْسِ کَمَثَلِ سِہَامِ الْغَنِیمَۃِ ، فَمَنْ یَضْرِبُ فِیہَا بِخَمْسَۃٍ خَیْرٌ مِمَّنْ یَضْرِبُ فِیہَا بِأَرْبَعَۃٍ وَمَنْ یَضْرِبُ فِیہَا بِأَرْبَعَۃٍ خَیْرٌ مِمَّنْ یَضْرِبُ فِیہَا بِثَلاثَۃٍ ، وَمَنْ یَضْرِبُ فِیہَا بِثَلاثَۃٍ خَیْرٌ مِمَّنْ یَضْرِبُ فِیہَا بِسَہْمَیْنِ ، وَمَنْ یَضْرِبُ فِیہَا بِسَہْمَیْنِ خَیْرٌ مِمَّنْ یَضْرِبُ فِیہَا بِسَہْمٍ ، وَمَا جَعَلَ اللَّہُ مَنْ لَہُ سَہْمٌ فِی الإسْلامِ کَمَنْ لاَ سَہْمَ لَہُ۔
(٣١٠٠٤) حضرت طارق بن شھاب الاحمسی (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت سلمان (رض) نے فرمایا : بیشک پانچ نمازوں کی مثال غنیمت کے حصول کی سی ہے۔ پس جو شخص اس میں سے پانچ حصے لیتا ہے وہ بہتر ہے اس سے جو اس میں سے چار حصے لیتا ہے۔ اور جو شخص اس میں سے چار حصے لیتا ہے وہ بہتر ہے اس سے جو اس میں سے تین حصے لیتا ہے اور جو شخص اس میں سے تین حصے لیتا ہے وہ بہتر ہے اس سے جو اس میں سے دو حصے لیتا ہے اور جو شخص اس میں سے دو حصے لیتا ہے وہ بہتر ہے، اس سے جو ایک حصہ لیتا ہے۔ اور اللہ نہ بنائے اس شخص کو جس کا اسلام میں ایک حصہ ہو اس کی طرح جس کا کوئی حصہ نہیں۔

31004

(۳۱۰۰۵) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنِ الْعَوَّامِ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ مُدْرِکٍ ، عَنْ أَبِی زُرْعَۃَ ، عَنْ أَبِی ہُرَیرَۃَ ، قَالَ الإِیمَانُ نُورٌ ، فَمَنْ زَنَا فَارَقَہُ الإِیمَانُ ، فَمَنْ لامَ نَفْسَہُ وَرَاجَعَ رَاجَعَہُ الإِیمَانُ۔
(٣١٠٠٥) حضرت ابو زرعہ (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت ابوہریرہ (رض) نے ارشاد فرمایا : ایمان تو ایک نور ہے پس جو شخص زنا کرتا ہے تو ایمان اس سے جدا ہوجاتا ہے۔ پھر جو شخص اپنے نفس کو ملامت کرتا ہے اور اللہ کی طرف رجوع کرتا ہے تو ایمان اس کے پاس واپس لوٹ آتا ہے۔

31005

(۳۱۰۰۶) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو ، عَنْ أَبِی سَلَمَۃَ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : أَکْمَلُ الْمُؤْمِنِینَ إیمَانًا أَحْسَنُہُمْ خُلُقًا۔
(٣١٠٠٦) حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : مومنین میں سے کامل ایمان والے وہ لوگ ہیں جو اخلاق کے اعتبار سے زیادہ اچھے ہیں۔

31006

(۳۱۰۰۷) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ ، حدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو ، عَنْ أَبِی سَلَمَۃَ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : أَکْمَلُ الْمُؤْمِنِینَ إیمَانًا وَأَفْضَلُ الْمُؤْمِنِینَ إیمَانًا أَحْسَنُہُمْ خُلُقًا۔
(٣١٠٠٧) حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : مومنین میں سے کامل ایمان والے اور افضل ترین ایمان والے وہ لوگ ہیں جو ان میں سے اخلاق کے اعتبار سے زیادہ اچھے ہیں۔

31007

(۳۱۰۰۸) حَدَّثَنَا حَفْصُ ، عَنْ خَالِدٍ ، عَنْ أَبِی قِلابَۃَ ، عَنْ عَائِشَۃَ ، قَالَتْ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : أَکْمَلُ الْمُؤْمِنِینَ إیمَانًا أَحْسَنُہُمْ خُلُقًا۔
(٣١٠٠٨) حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : مومنین میں سے کامل ترین ایمان والے وہ لوگ ہیں جو اخلاق کے زیادہ اچھے ہیں۔

31008

(۳۱۰۰۹) حَدَّثَنَا الْمُقْرِیئُ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ أَبِی أَیُّوبَ ، عَنِ ابْنِ عَجْلانَ عَنِ الْقَعْقَاعِ ، عَنْ أَبِی صَالِحٍ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَکْمَلُ الْمُؤْمِنِینَ أَحْسَنُہُمْ خُلُقًا۔
(٣١٠٠٩) حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : مومنین میں سے کامل ترین ایمان والے وہ لوگ ہیں جو اخلاق کے زیادہ اچھے ہیں۔

31009

(۳۱۰۱۰) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ جَرِیرِ بْنِ حَازِمٍ ، عَنْ یَعْلَی بْنِ حَکِیمٍ ، قَالَ : أَکْبَرُ ظَنِّی ، أَنَّہُ قَالَ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ، قَالَ : قَالَ ابْنُ عُمَرَ : إن الْحَیَائُ وَالإِیمَانُ قُرِنَا جَمِیعًا ، فَإِذَا رُفِعَ أَحَدُہُمَا رُفِعَ الآخَرُ۔
(٣١٠١٠) حضرت سعید بن جبیر (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عمر (رض) نے ارشاد فرمایا : بیشک حیا اور ایمان دونوں کو ملا دیا گیا ہے۔ پس جب ان دونوں میں سے ایک اٹھتا ہے تو دوسرے کو بھی اٹھا لیا جاتا ہے۔

31010

(۳۱۰۱۱) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ سَلَمَۃَ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، عَن عَلْقَمَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَجُلٌ عِنْدَ عَبْدِ اللہِ : إنِّی مُؤْمِنٌ ، فَقَالَ : قُلْ : إنِّی فِی الْجَنَّۃِ ، وَلَکِنَّا نُؤْمِنُ بِاللہِ وَمَلائِکَتِہِ وَکُتُبِہِ وَرُسُلِہِ۔
(٣١٠١١) حضرت علقمہ (رض) فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) کے پاس یوں کہا : یقیناً میں مومن ہوں۔ آپ (رض) نے فرمایا : یوں کہہ ! یقیناً میں اہل جنت میں سے ہوں ؟ ! اور فرمایا لیکن ہم اللہ پر اور اس کے فرشتوں پر ، اور اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر ایمان لاتے ہیں۔

31011

(۳۱۰۱۲) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، عَن عَلْقَمَۃَ ، قَالَ : قیلَ لَہُ : أَمُؤْمِنٌ أَنْتَ ، قَالَ : أَرْجُو۔
(٣١٠١٢) حضرت ابراہیم (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت علقمہ (رض) سے پوچھا گیا کیا آپ مومن ہیں ؟ آپ (رض) نے فرمایا : میں امید کرتا ہوں۔

31012

(۳۱۰۱۳) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ سِمَاکِ بْنِ سَلَمَۃَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عِصْمَۃَ ، أَنَّ عَائِشَۃَ ، قَالَتْ : أَنْتُمُ الْمُؤْمِنُونَ إِنْ شَائَ اللَّہُ۔
(٣١٠١٣) حضرت عبد الرحمن بن عصمہ (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عائشہ (رض) نے ارشاد فرمایا : اگر اللہ نے چاہا تو تم ایمان والے ہو۔

31013

(۳۱۰۱۴) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ مِسْعَرٍ ، عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ ، عَنْ أَبِی عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، قَالَ : إذَا سُئِلَ أَحَدُکُمْ : أَمُؤْمِنٌ أَنْتَ ، فَلا یَشُکَّنَّ۔
(٣١٠١٤) حضرت عطاء بن السائب (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت ابو عبد الرحمن (رض) نے ارشاد فرمایا : جب تم میں سے کسی ایک سے سوال کیا جائے : کیا تم مومن ہو ؟ تو وہ ہرگز شک مت کرے۔

31014

(۳۱۰۱۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ مِسْعَرٍ ، عَنْ زِیَادِ بْنِ عِلاقَۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ یَزِیدَ ، قَالَ : إذَا سُئِلَ أَحَدُکُمْ : أَمُؤْمِنٌ أَنْتَ ؟ فَلا یَشُکُّ فِی إیمَانِہِ۔
(٣١٠١٥) حضرت زیاد بن علاقہ (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن یزید (رض) نے ارشاد فرمایا : جب تم میں سے کسی ایک سے سوال کیا جائے : کہ کیا تم مومن ہو ؟ تو وہ ہرگز اپنے ایمان میں شک مت کرے۔

31015

(۳۱۰۱۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ مِسْعَرٍ ، عَنْ مُوسَی بْنِ أَبِی کَثِیرٍ ، عَنْ رَجُلٍ لَمْ یُسَمِّہِ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : سَمِعْتُ ابْنَ مَسْعُودٍ یَقُولُ : أَنَا مُؤْمِنٌ۔
(٣١٠١٦) حضرت ابو کثیر (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) کو فرماتے ہوئے سنا : کہ میں مومن ہوں۔

31016

(۳۱۰۱۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِی وَائِلٍ ، قَالَ : جَائَ رَجُلٌ ، فَقَالَ : لَقِیت رَکْبًا ، فَقُلْتُ : مَنْ أَنْتُمْ ، قَالُوا : نَحْنُ الْمُؤْمِنُونَ ، قَالَ : أَفَلا قَالُوا : نَحْنُ فِی الْجَنَّۃِ۔
(٣١٠١٧) حضرت اعمش (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت ابو وائل (رض) نے فرمایا : ایک آدمی آ کر کہنے لگا : میں چند سواروں سے ملا تو میں نے ان سے پوچھا : تم کون لوگ ہو ؟ وہ کہنے لگے : ہم ایمان والے ہیں، آپ (رض) نے فرمایا : انھوں نے یوں کیوں نہیں کہہ دیا : کہ ہم جنت میں ہیں ! !

31017

(۳۱۰۱۸) حَدَّثَنَا ابْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ ابْنِ طَاوُوس ، عَنْ أَبِیہِ ، وَعَنْ مُحِلٍّ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ أَنَّہُمَا کَانَا إذَا سُئِلا قَالا : آمَنَّا بِاللہِ وَمَلائِکَتِہِ وَکُتُبِہِ وَرُسُلہ۔
(٣١٠١٨) حضرت طاوس (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت محل اور حضرت ابراہیم (رض) جب ان دونوں سے ایمان کا پوچھا جاتا تو فرماتے : ہم ایمان لائے اللہ پر، اور اس کے فرشتوں پر اور اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر۔

31018

(۳۱۰۱۹) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الشَّیْبَانِیِّ ، قَالَ : لَقِیت عَبْدَ اللہِ بْنَ مَعْقِلٍ ، فَقُلْتُ لَہُ : إنَّ أُنَاسًا مِنْ أَہْلِ الصَّلاحِ یَعِیبُونَ عَلَیَّ أَنْ أَقُولَ : أَنَا مُؤْمِنٌ ، فَقَالَ عَبْدُ اللہِ بْنَ مَعْقِلٍ : لَقَدْ خِبْتَ وَخَسِرْتَ إِنْ لَمْ تَکُنْ مُؤْمِنًا۔
(٣١٠١٩) حضرت شیبانی (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن معقل (رض) سے ملاقات کی تو میں نے ان سے عرض کی : دین داروں میں سے کچھ لوگ عیب لگاتے ہیں میرے یوں کہنے پر : میں مومن ہوں۔ تو حضرت عبداللہ بن معقل (رض) نے فرمایا : تحقیق تم ناکام و نامراد ہو اگر تم مومن نہ ہو۔

31019

(۳۱۰۲۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُنَبِّہٍ ، عَنْ سَوَّارِ بْنِ شَبِیبٍ ، قَالَ : جَائَ رَجُلٌ إِلَی ابْنِ عُمَرَ ، فَقَالَ : إنَّ ہَاہُنَا قَوْمًا یَشْہَدُونَ عَلَیَّ بِالْکُفْرِ ، فَقَالَ : أَلا تَقُولُ : لاَ إلَہَ إلاَّ اللَّہُ فَتُکَذِّبُہُمْ۔
(٣١٠٢٠) حضرت سوار بن شبیب (رض) فرماتے ہیں کہ ایک آدمی حضرت ابن عمر (رض) کی خدمت میں حاضر ہو کر کہنے لگا : یہاں کچھ لوگ ہیں جو میرے خلاف کفر کی گواہی دیتے ہیں ، تو آپ (رض) نے فرمایا : تم یوں کیوں نہیں کہتے؛ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ اس طرح ان کی تکذیب کرو۔

31020

(۳۱۰۲۱) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الشَّیْبَانِیِّ ، عَنْ أَبِی قِلابَۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ یَزِیدَ الأَنْصَارِیِّ ، قَالَ : تَسَمَّوْا بِأَسْمَائِکُمَ الَّتِی سَمَّاکُمَ اللَّہُ بِالْحَنِیفِیَّۃِ وَالإِسْلامِ وَالإِیمَانِ۔
(٣١٠٢١) حضرت ابو قلابہ (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن یزید الانصاری (رض) نے ارشاد فرمایا : تم اپنے آپ کو ان ناموں کے ساتھ مسمّٰی کرو جو اللہ نے تمہارے نام رکھے ہیں۔ حنیفی، مسلمان اور مومن۔

31021

(۳۱۰۲۲) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ شَقِیقٍ ، عَنْ سَلَمَۃَ بْنِ سَبْرَۃَ ، قَالَ : خَطَبَنَا مُعَاذٌ ، فَقَالَ : أَنْتُمُ الْمُؤْمِنُونَ وَأَنْتُمْ أَہْلُ الْجَنَّۃِ۔
(٣١٠٢٢) حضرت سلمہ بن سبرہ (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت معاذ (رض) نے ہم سے خطاب فرمایا : اور فرمانے لگے : تم لوگ ایمان والے ہو اور تم جنتی ہو۔

31022

(۳۱۰۲۳) حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ أَیُّوبَ ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ بُرْقَانَ ، قَالَ : کَتَبَ إلَیْنَا عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیزِ أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ عُرَی الدِّینِ وَقِوَامَ الإسْلامِ الإِیمَانُ بِاللہِ وَإِقَامُ الصَّلاۃِ وَإِیتَائُ الزَّکَاۃِ فَصَلُّوا الصَّلاۃَ لِوَقْتِہَا۔
(٣١٠٢٣) حضرت جعفر بن برقان فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز (رض) نے ہمیں خط لکھا جس میں فرمایا : حمدو صلوۃ کے بعد یقیناً دین کی مضبوطی اور اسلام کی بنیاد، ایمان باللہ، اور نمازوں کی پابندی کرنا، اور زکوۃ دینا ہے، پس تم لوگ نماز کو اس کے وقت پر پڑھا کرو۔

31023

(۳۱۰۲۴) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا سَعِیدٌ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ أَنَسٍ ، أَنَّ نَبِیَّ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : یَخْرُجُ مِنَ النَّارِ مَنْ قَالَ لاَ إلَہَ إلاَّ اللَّہُ ، وَکَانَ فِی قَلْبِہِ مِنَ الْخَیْرِ شَعِیرَۃً ، ثُمَّ قَالَ الثَّانِیَۃَ : یَخْرُجُ مِنَ النَّارِ مَنْ قَالَ لاَ إلَہَ إلاَّ اللَّہُ ، وفِی قَلْبِہِ مِنَ الْخَیْرِ مَا یَزِنُ بُرَّۃً ، ثُمَّ قَالَ : یَخْرُجُ مِنَ النَّارِ مَنْ قَالَ لاَ إلَہَ إلاَّ اللَّہُ، وَکَانَ فِی قَلْبِہِ مِنَ الْخَیْرِ مَا یَزِنُ ذَرَّۃ۔
(٣١٠٢٤) حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ اللہ کے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جہنم سے نکلے گا وہ شخص جس نے اس کلمہ کو پڑھا ہو : اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور اس کے دل میں جو کے دانے کے برابر بھلائی ہو، پھر دوسری مرتبہ فرمایا : اور جہنم سے نکلے گا وہ شخص جس نے اس کلمہ کو پڑھا ہو : اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور اس کے دل میں گیہوں کے وزن کے برابر بھلائی ہو، پھر فرمایا : جہنم سے نکلے گا وہ شخص بھی جس نے اس کلمہ کو پڑھا ہو : اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اس حال میں کہ اس کے دل میں ذرے کے وزن کے برابر بھلائی ہو۔

31024

(۳۱۰۲۵) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا ابْنُ أَبِی ذِئْبٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، أَنَّ نَفَرًا أَتَوْا رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَأَعْطَاہُمْ إلاَّ رَجُلاً مِنْہُمْ ، فَقَالَ سَعْدٌ : یَا رَسُولَ اللہِ ، أَعْطَیْتَہُمْ وَتَرَکْتَ فُلانًا وَاللہِ إنِّی لأُرَاہُ مُؤْمِنًا ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : أَوْ مُسْلِمًا ، فَقَالَ سَعْدٌ : وَاللہِ إنِّی لأرَاہُ مُؤْمِنًا ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : أَوْ مُسْلِمًا ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ذَلِکَ ثَلاثًا۔
(٣١٠٢٥) حضرت سعد (رض) فرماتے ہیں کہ ایک گروہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا ، تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سب کو مال عطا کیا سوائے ان میں سے ایک آدمی کے، تو سعد (رض) نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول 5! آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سب کو عطا کیا اور فلاں کو چھوڑ دیا۔ اللہ کی قسم ! میں اسے مومن جانتا ہوں۔ تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : یا مسلمان سمجھتے ہو ؟۔ تو سعد (رض) نے عرض کیا : میں اس کو مومن جانتا ہوں، تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : یا مسلمان سمجھتے ہو ؟ پس رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ تین بار کہا۔

31025

(۳۱۰۲۶) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ أَبِی عُثْمَانَ ، عَنْ سَلْمَانَ ، قَالَ : یُقَالُ لَہُ : سَلْ تُعْطَہُ ، یَعْنِی النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ وَادْعُ تُجَبْ ، فَیَرْفَعُ رَأْسَہُ فَیَقُولُ : أُمَّتِی أُمَّتِی مَرَّتَیْنِ ، أَوْ ثَلاثًا فَقَالَ سَلْمَانُ یَشْفَعُ فِی کُلِّ مَنْ فِی قَلْبِہِ مِثْقَالُ حَبَّۃِ حِنْطَۃٍ مِنْ إیمَانٍ ، أَوْ مِثْقَالُ شَعِیرَۃٍ مِنْ إیمَانٍ ، أَوْ مِثْقَالُ حَبَّۃِ خَرْدَلٍ مِنْ إیمَانٍ ، قَالَ سَلْمَانُ : فَذَلِکُمُ الْمَقَامُ الْمَحْمُودُ۔
(٣١٠٢٦) حضرت ابو عثمان (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت سلمان (رض) نے ارشاد فرمایا : ان کو کہا جائے گا : مانگو تمہیں عطا کیا جائے گا۔ یعنی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو۔ شفاعت کرو ، تمہاری شفاعت قبول کی جائے گی۔ دعا کرو قبول کی جائے گی۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنا سر اٹھائیں گے اور ارشاد فرمائیں گے دو یا تین مرتبہ ! میرے رب ! میری امت ، میری امت ! پھر حضرت سلمان (رض) نے فرمایا : آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) شفاعت کریں گے ہر اس شخص کے بارے میں جس کے دل میں گندم کے دانے کے برابر بھی ایمان ہو، یا فرمایا : کہ جو کے دانے کے برابر ایمان ہو، یا فرمایا : کہ رائی کے دانے کے برابر ایمان ہو۔ حضرت سلمان (رض) نے فرمایا : یہ تمہارے لیے مقام محمود ہے۔

31026

(۳۱۰۲۷) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنِ عَمْرٍو ، عَنْ أَبِی سَلَمَۃَ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لاَ یَزْنِی الزَّانِی حِینَ یَزْنِی وَہُوَ مُؤْمِنٌ ، وَلا یَسْرِقُ حِینَ یَسْرِقُ وَہُوَ مُؤْمِنٌ، وَلا یَشْرَبُ الْخَمْرَ حِینَ یَشْرَبُ وَہُوَ مُؤْمِنٌ، وَلا یَنْتَہِبُ نُہْبَۃً یَرْفَعُ النَّاسُ فِیہَا أَبْصَارَہُمْ وَہُوَ مُؤْمِنٌ۔
(٣١٠٢٧) حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : زنا کرنے والا جب زنا کرتا ہے تو اس کا ایمان باقی نہیں رہتا، اور چور جب چوری کرتا ہے تو اس کا ایمان باقی نہیں رہتا، اور شراب پینے والا جب شراب پیتا ہے تو اس کا ایمان باقی نہیں رہتا، اور ڈاکو جب ڈاکہ ڈالتا ہے اس حال میں کہ لوگوں کی آنکھیں اس کی طرف اٹھ رہی ہوتی ہیں تو اس کا ایمان باقی نہیں رہتا۔

31027

(۳۱۰۲۸) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا مُحَمَّدٌ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ عَبَّادِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ الزُّبَیْرِ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ عَائِشَۃَ ، قَالَتْ : سَمِعْت رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : لاَ یَزْنِی الزَّانِی حِینَ یَزْنِی وَہُوَ مُؤْمِنٌ ، وَلا یَسْرِقُ حِینَ یَسْرِقُ وَہُوَ مُؤْمِنٌ ، وَلا یَشْرَبُ ، یَعْنِی الْخَمْرَ حِینَ یَشْرَبُ وَہُوَ مُؤْمِنٌ فَإِیَّاکُمْ إیَّاکُمْ۔
(٣١٠٢٨) حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یوں فرماتے ہوئے سنا ہے : زنا کرنے والا جب زنا کرتا ہے تو اس کا ایمان باقی نہیں رہتا ، اور چوری کرنے والا جب چوری کرتا ہے تو اس کا ایمان باقی نہیں رہتا ، اور شراب پینے والا جب شراب پیتا ہے تو اس کا ایمان باقی نہیں رہتا۔ پس تم بچو ( ان گناہوں سے) ۔

31028

(۳۱۰۲۹) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ مُدْرِکٍ ، عَنِ ابْنِ أَبِی أَوْفَی ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لاَ یَزْنِی الزَّانِی حِینَ یَزْنِی وَہُوَ مُؤْمِنٌ ، وَلا یَسْرِقُ حِینَ یَسْرِقُ وَہُوَ مُؤْمِنٌ ، وَلا یَشْرَبُ الْخَمْرَ حِینَ یَشْرَبُہَا وَہُوَ مُؤْمِنٌ ، وَلا یَنْتَہِبُ نُہْبَۃً ذَاتَ شَرَفٍ یَرْفَعُ الْمُسْلِمُونَ إلَیْہَا رُؤُوسَہُمْ وَہُوَ مُؤْمِنٌ۔
(٣١٠٢٩) حضرت ابن ابی اوفی (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : زنا کرنے والا جب زنا کرتا ہے تو اس کا ایمان باقی نہیں رہتا، اور چوری کرنے والا جب چوری کرتا ہے تو اس کا ایمان باقی نہیں رہتا۔ اور شراب پینے والا جب شراب پیتا ہے تو اس کا ایمان باقی نہیں رہتا ، اور ڈاکو جب کسی شریف سے چھینا جھپٹی کرتا ہے اور مسلمانوں کے سر بےبسی سے اس کی طرف اٹھتے ہیں تو اس کا ایمان باقی نہیں رہتا۔

31029

(۳۱۰۳۰) حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُوسَی ، قَالَ : حدَّثَنَا شُعْبَۃُ ، عَنْ فِرَاسٍ ، عَنْ مُدْرِکٍ ، عَنِ ابْنِ أَبِی أَوْفَی ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ۔۔۔ نَحْوَہُ۔
(٣١٠٣٠) حضرت ابن ابی اوفی (رض) فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : پھر راوی نے ما قبل والی حدیث نقل کی۔

31030

(۳۱۰۳۱) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ، قَالَ: حدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو ، عَنْ أَبِی سَلَمَۃَ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : الْحَیَائُ مِنَ الإِیمَانِ وَالإِیمَانُ فِی الْجَنَّۃِ وَالْبَذَائِ مِنَ الْجَفَائِ وَالْجَفَائُ فِی النَّارِ۔
(٣١٠٣١) حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : حیا ایمان کا حصہ ہے اور ایمان جنت میں ہوگا اور بد اخلاقی سنگدلی کا حصہ ہے۔ اور سنگدلی جہنم میں ہوگی۔

31031

(۳۱۰۳۲) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَنْ زَائِدَۃَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ ، أَنَّہُ قَالَ : قیلَ : یَا رَسُولَ اللہِ ، أَیُّ الأَعْمَالِ أَفْضَلُ ، قَالَ : الصَّبْرُ وَالسَّمَاحَۃُ ، قِیلَ : أَیُّ الْمُؤْمِنِینَ أَکْمَلُ إیمَانًا ، قَالَ أَحْسَنُہُمْ خُلُقًا۔
(٣١٠٣٢) حضرت جابر بن عبداللہ (رض) فرماتے ہیں : پوچھا گیا : اے اللہ کے رسول 5! کون سے اعمال افضل ہیں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : صبر کرنا اور سخاوت کرنا، پوچھا گیا : پس مومنین میں سے کامل ترین ایمان والا کون ہے ! آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو ان میں زیادہ اچھے اخلاق والا ہو۔

31032

(۳۱۰۳۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ ، عَنْ جَابِرٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : بَیْنَ الْعَبْدِ وَبَیْنَ الْکُفْرِ تَرْکُ الصَّلاۃِ۔ (ابوداؤد ۴۶۴۵۔ ترمذی ۲۶۲۰)
(٣١٠٣٣) حضرت جابر (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : بندے اور کفر کے درمیان صرف نماز چھوڑنے کا فاصلہ ہے۔

31033

(۳۱۰۳۴) حَدَّثَنَا عَبِیدَۃُ بْنُ حُمَیْدٍ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِی سُفْیَانَ، عَنْ جَابِرٍ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔۔۔ نَحْوَہُ۔ (مسلم ۸۸۔ ترمذی ۲۶۱۹)
(٣١٠٣٤) حضرت جابر (رض) فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا پھر راوی نے مذکورہ حدیث نقل کی۔

31034

(۳۱۰۳۵) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ وَاضِحٍ ، عَنْ حُسَیْنِ بْنِ وَاقِدٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ ابْنَ بُرَیْدَۃَ یَقُولُ : سَمِعْت أَبِی یَقُولُ : سَمِعْت رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یقول : الْعَہْدُ الَّذِی بَیْنَنَا وَبَیْنَہُمَ الصَّلاۃُ ، فَمَنْ تَرَکَہَا فَقَدْ کَفَرَ۔ (ترمذی ۲۶۲۱۔ احمد ۳۴۶)
(٣١٠٣٥) حضرت بریدہ (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یوں فرماتے ہوئے سنا ہے : ہمارے درمیان اور کفر کے درمیان صرف نماز چھوڑنے کا فرق ہے۔ پس جس نے نماز کو چھوڑ دیا تحقیق اس نے کفر کیا۔

31035

(۳۱۰۳۶) حَدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ زِرٍّ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : مَنْ لَمْ یُصَلِّ فَلا دِینَ لَہُ۔
(٣١٠٣٦) حضرت زر (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) نے ارشاد فرمایا : جو شخص نماز نہیں پڑھتا اس کا دین میں کچھ حصہ نہیں۔

31036

(۳۱۰۳۷) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ ہِشَامٍ الدَّسْتَوَائِیِّ ، عَنْ یَحْیَی ، عَنْ أَبِی قِلابَۃَ ، عَنْ أَبِی الْمَلِیحِ ، عَنِ بُرَیْدَۃَ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : مَنْ تَرَکَ الْعَصْرَ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُہُ۔
(٣١٠٣٧) حضرت بریدہ (رض) فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جس شخص نے عصر کی نماز چھوڑ دی تحقیق اس کے اعمال ضائع ہوگئے۔

31037

(۳۱۰۳۸) حَدَّثَنَا عِیسَی ، وَوَکِیعٌ ، عَنِ الأَوْزَاعِیِّ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ أَبِی کَثِیرٍ ، عَنْ أَبِی قِلابَۃَ ، عَنْ أَبِی الْمُہَاجِرِ ، عَنْ بُرَیْدَۃَ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : مَنْ تَرَکَ الْعَصْرَ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُہُ۔
(٣١٠٣٨) حضرت بریدہ (رض) فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جس شخص نے عصر کی نماز چھوڑ دی تحقیق اس کے اعمال ضائع ہوگئے۔

31038

(۳۱۰۳۹) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا عَبَّادُ بْنُ مَیْسَرَۃَ الْمُنْقِرِیُّ ، عَنْ أَبِی قِلابَۃَ ، وَالْحَسَنِ ، أَنَّہُمَا کَانَا جَالِسَیْنِ، فَقَالَ أَبُو قِلابَۃَ : قَالَ أَبُو الدَّرْدَائِ : مَنْ تَرَکَ الْعَصْرَ حَتَّی تَفُوتَہُ مِنْ غَیْرِ عُذْرٍ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُہُ ، قَالَ: وَقَالَ الْحَسَنُ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَنْ تَرَکَ صَلاۃً مَکْتُوبَۃً حَتَّی تَفُوتَہ مِنْ غَیْرِ عُذْرٍ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُہُ۔
(٣١٠٣٩) حضرت عباد بن میسرہ المنقری (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت ابو قلابہ (رض) اور حضرت حسن (رض) دونوں بیٹھے تھے تو حضرت ابو قلابہ (رض) نے فرمایا : کہ حضرت ابو الدردائ (رض) نے ارشاد فرمایا ہے : جس شخص نے عصر کی نماز کو چھوڑ دیا یہاں تک کہ بغیر عذر کے اس نے نماز کو قضا کردیا تحقیق اس کے اعمال ضائع ہوگئے، راوی فرماتے ہیں ! حضرت حسن (رض) نے ارشاد فرمایا : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے : جو شخص فرض نماز کو بغیر کسی عذر کے چھوڑ دے یہاں تک کہ اس کو قضا کر دے تو تحقیق اس کے اعمال ضائع ہوگئے۔

31039

(۳۱۰۴۰) حَدَّثَنَا ہَوْذَۃُ بْنُ خَلِیفَۃَ ، قَالَ : حدَّثَنَا عَوْفٌ ، عَنْ قَسَامَۃَ بْنِ زُہَیْرٍ ، قَالَ : لاَ إیمَانَ لِمَنْ لاَ أَمَانَۃَ لَہُ ، وَلا دِینَ لِمَنْ لاَ عَہْدَ لَہُ۔
(٣١٠٤٠) حضرت عوف (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت قسامہ بن زھیر (رض) نے ارشاد فرمایا : جو شخص امانت دار نہیں اس کا ایمان میں کچھ حصہ نہیں۔ اور جو شخص عہد کی وفا نہ کرے تو اس کا دین میں کچھ حصہ نہیں۔

31040

(۳۱۰۴۱) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، قَالَ : إنَّ أَفْضَلَ الْعِبَادَۃِ الرَّأْیُ الْحَسَنُ۔
(٣١٠٤١) حضرت اعمش (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت مجاہد (رض) نے فرمایا؛ بلاشبہ افضل ترین عبادت اچھا مشورہ ہے۔

31041

(۳۱۰۴۲) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ یُوسُفَ بْنِ مَیْمُونٍ ، قَالَ : قُلْتُ لِعَطَائٍ إنَّ قِبَلَنَا قَوْمًا نَعُدُّہُمْ مِنْ أَہْلِ الصَّلاحِ إِنْ قُلْنَا نَحْنُ مُؤْمِنُونَ عَابُوا ذَلِکَ عَلَیْنَا ، قَالَ : فَقَالَ عَطَائٌ نَحْنُ الْمُسْلِمُونَ الْمُؤْمِنُونَ ، وَکَذَلِکَ أَدْرَکْنَا أَصْحَابَ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُونَ۔
(٣١٠٤٢) حضرت یوسف بن میمون (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عطائ (رض) سے عرض کیا : اگر ہم کچھ لوگوں کی ضمانت کریں تو ہم انھیں نیکوکار پاتے ہیں : اگر ہم یوں کہیں : ہم مومنین ہیں۔ تو وہ اس وجہ سے ہم پر عیب لگاتے ہیں۔ راوی کہتے ہیں : حضرت عطائ (رض) نے فرمایا : ہم تو مومنین اور مسلمان ہیں، ہم نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب کو اس طرح ہی کہتے ہوئے پایا تھا۔

31042

(۳۱۰۴۳) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ ، عَنْ أَبِی الْبَخْتَرِیِّ ، عَنْ حُذَیْفَۃَ ، قَالَ : الْقُلُوبُ أَرْبَعَۃٌ : قَلْبٌ مُصَفَّحٌ ، فَذَلِکَ قَلْبُ الْمُنَافِقِ ، وَقَلْبٌ أَغْلَفُ ، فَذَلِکَ قَلْبُ الْکَافِرِ ، وَقَلْبٌ أَجْرَدُ ، کَأَنَّ فِیہِ سِرَاجًا یُزْہِرُ ، فَذَاکَ قَلْبُ الْمُؤْمِنِ ، وَقَلْبٌ فِیہِ نِفَاقٌ وَإِیمَانٌ ، فَمَثَلُہُ کَمَثَلِ قُرْحَۃٍ یَمُدُّ بِہَا قَیْحٌ وَدَمٌ ، وَمَثَلُہُ کَمَثَلِ شَجَرَۃٍ یَسْقِیہَا مَائٌ خَبِیثٌ وَمَائٌ طَیِّبٌ ، فَأَیُّ مَائٍ غَلَبَ عَلَیْہَا غَلَبَ۔ (طبری ۴۰۶)
(٣١٠٤٣) حضرت ابو البختری (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت حذیفہ (رض) نے ارشاد فرمایا : دل چار طرح کے ہوتے ہیں ایک وہ دل جس میں کھوٹ ہے یہ منافق کا دل ہے۔ ایک وہ دل جو غلاف میں لپٹا ہوا ہے یہ کافر کا دل ہے۔ ایک وہ دل جو شفاف ہے اور اس سے روشنی جھلکتی ہے یہ مومن کا دل ہے۔ ایک وہ دل جس میں نفاق اور ایمان ہے۔ اس کی مثال اس پھوڑے کی سی ہے جس میں پیپ اور خون ہے۔ اس کی مثال اس درخت کی سی ہے جس کو صاف اور گندا پانی ملتا ہے جو پانی غالب آجائے اس میں اسی کا اثر ہوتا ہے۔

31043

(۳۱۰۴۴) أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِی سُفْیَانَ ، عَنْ أَنَسٍ ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یُکْثِرُ أَنْ یَقُولَ : یَا مُقَلِّبَ الْقُلُوبِ ، ثَبِّتْ قَلْبِی عَلَی دِینِکَ قَالُوا : یَا رَسُولَ اللہِ : آمَنَّا بِکَ وَبِمَا جِئْت بِہِ فَہَلْ تَخَافُ عَلَیْنَا ، قَالَ : إنَّ الْقُلُوبَ بَیْنَ إصْبَعَیْنِ مِنْ أَصَابِعِ اللہِ یُقَلِّبُہَا۔
(٣١٠٤٤) حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اکثر یہ دعا مانگا کرتے تھے : اے دلوں کے پھیرنے والے : میرے دل کو اپنے دین پر ثبات عطا فرما؛ صحابہ (رض) نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول 5! ہم ایمان لائے آپ پر اور آپ کے لائے ہوئے دین پر۔ کیا اب بھی آپ کو ہمارے متعلق ڈر ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جی ہاں ! بلاشبہ تمام دل اللہ کی انگلیوں میں سے دو انگلیوں کے درمیان ہیں جنہیں وہ پھیرتا رہتا ہے۔

31044

(۳۱۰۴۵) حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ مُعَاذٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا أَبُو کَعْبٍ صَاحِبُ الْحَرِیرِ ، قَالَ : حَدَّثَنَا شَہْرُ بْنُ حَوْشَبٍ ، قَالَ : قُلْتُ لأمِّ سَلَمَۃَ : یَا أُمَّ الْمُؤْمِنِینَ مَا کَانَ أَکْثَرُ دُعَائِ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إذَا کَانَ عِنْدَکَ ، قَالَ : قُلْتُ : کَانَ أَکْثَرُ دُعَائِہِ : یَا مُقَلِّبَ الْقُلُوبِ ثَبِّتْ قَلْبِی عَلَی دِینِکَ ، قُلْتُ : یا رسول اللہ ، مَا أَکْثَرُ دُعَائِکَ یَا مُقَلِّبَ الْقُلُوب ثَبِّتْ قَلْبِی عَلَی دِینِکَ قَالَ : یَا أُمَّ سَلَمَۃَ : إِنَّہُ لَیْسَ من آدَمِیٌّ إلاَّ وَقَلْبُہُ بَیْنَ إصْبَعَیْنِ مِنْ أَصَابِعِ اللہِ مَا شَائَ أَقَامَ ، وَمَا شَائَ أَزَاغَ۔
(٣١٠٤٥) حضرت شھر بن حوشب (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ام المومنین ام سلمہ (رض) سے دریافت کیا : جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کے پاس ہوتے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کثرت سے کون سی دعا کرتے تھے ؟ راوی کہتے ہیں : آپ نے ارشاد فرمایا : آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کثرت سے یہ دعا کرتے تھے : اے دلوں کو پھیرنے والے ! میرے دل کو اپنے دین پر ثبات عطا فرما۔ میں نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول 5! آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اکثر یہ دعا ہی ہوتی ہے : اے دلوں کے پھیرنے والے ! میرے دل کو اپنے دین پر ثبات عطا فرما۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اسے ام سلمہ ! کوئی بھی شخص نہیں ہے مگر یہ کہ اس کا دل اللہ کی انگلیوں میں سے دو انگلیوں کے درمیان ہے جسے چاہے سیدھا کردیتا ہے اور جسے چاہے ٹیڑھا کردیتا ہے۔

31045

(۳۱۰۴۶) حَدَّثَنَا یَزِیدُ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا ہَمَّامُ بْنُ یَحْیَی ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ زَیْدٍ ، عَنْ أُمِّ مُحَمَّدٍ ، عَنْ عَائِشَۃَ ، قَالَتْ : کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : یَقُولُ : یَا مُقَلِّبَ الْقُلُوبِ ، ثَبِّتْ قَلْبِی عَلَی دِینِکَ ، قُلْتُ : یَا رَسُولَ اللہِ إنَّک لَتَدْعُو بِہَذَا الدُّعَائِ ، قَالَ : یَا عَائِشَۃُ ، أَو مَا عَلِمْت أَنَّ قَلْبَ ابْنِ آدَمَ بَیْنَ إِصَابِعَیِ اللہِ ، إذَا شَائَ أَنْ یُقَلِّبَہُ إِلَی الْہُدَی قَلَّبَہُ ، وَإِنْ شَائَ أَنْ یُقَلِّبَہُ إِلَی ضَلالَۃٍ قَلَّبَہُ۔
(٣١٠٤٦) حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ دعا مانگا کرتے تھے : اے دلوں کے پھیرنے والے ! میرے دل کو اپنے دین پر ثبات عطا فرما۔ میں نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول 5! آپ یہ دعا فرما رہے ہیں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے عائشہ (رض) ! کیا تجھے معلوم نہیں ابن آدم کا دل اللہ کی دو انگلیوں کے درمیان ہے۔ جب چاہتے ہیں اس کے دل کو ہدایت کی طرف پھیر دیتے ہیں اور جب چاہتے ہیں اس کے دل کو گمراہی و ضلالت کی طرف پھیر دیتے ہیں ؟ !۔

31046

(۳۱۰۴۷) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنِ الْحَکَمِ بْنِ عُتَیْبَۃ ، قَالَ : سَمِعْتُ ابْنَ أَبِی لَیْلَی یُحَدِّثُ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، أَنَّہُ کَانَ یَدْعُو بِہَذَا الدُّعَائِ : یَا مُقَلِّبَ الْقُلُوبِ ثَبِّتْ قَلْبِی عَلَی دِینِک۔
(٣١٠٤٧) حضرت ابن ابی لیلی (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ دعا مانگا کرتے تھے : اے دلوں کے پھیرنے والے ! میرے دل کو اپنے دین پر ثبات عطا فرما۔

31047

(۳۱۰۴۸) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ ذَرٍّ ، عَنْ وَائِلِ بْنِ مُہَانَۃَ ، قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللہِ : مَا رَأَیْت مِنْ نَاقِصِ الدِّینِ وَالرَّأْیِ أَغْلَبَ لِلرِّجَالِ ذَوِی الأَمْرِ عَلَی أَمْرِہِمْ مِنَ النِّسَائِ ، قَالُوا : یَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، وَمَا نُقْصَانُ دِینِہَا ، قَالَ : تَرْکُہَا الصَّلاۃَ أَیَّامَ حَیْضِہَا ، قَالُوا : فَمَا نُقْصَانُ عَقْلِہَا ، قَالَ : لاَ تَجُوزُ شَہَادَۃُ امْرَأَتَیْنِ إلاَّ بِشَہَادَۃِ رَجُلٍ۔
(٣١٠٤٨) حضرت وائل بن مہانہ (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) نے ارشاد فرمایا : میں نے نہیں دیکھا کسی کو عورتوں سے زیادہ ناقص دین اور مشورہ دینے کے اعتبار سے اور ہوشیار مردوں پر ان کے معاملات میں غالب آنے کے اعتبار سے۔ لوگوں نے عرض کیا : اے ابو عبد الرحمن ! ان کے دین میں کیا کمی ہے ؟ آپ (رض) نے فرمایا : حیض کے دنوں میں ان کا نماز ترک کرنا۔ لوگوں نے عرض کیا : اور ا ن کی عقل کی کمی کیسے ہے ؟ آپ (رض) نے فرمایا : دو عورتوں کی گواہی جائز نہیں مگر ایک آدمی کی گواہی کے ساتھ۔

31048

(۳۱۰۴۹) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ حسن بْنِ عَیَّاشٍ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، قَالَ : سُئِلَ إبْرَاہِیمُ ، عَنِ الرَّجُلِ یَقُولُ لِلرَّجُلِ : أَمُؤْمِنٌ أَنْتَ ، قَالَ : الْجَوَابُ فیہ بِدْعَۃٌ ، وَمَا یَسُرُّنِی أنی شَکَکْت۔
(٣١٠٤٩) حضرت مغیرہ (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم (رض) سے ایسے آدمی کے بارے میں پوچھا گیا جو کسی آدمی سے پوچھے ! کیا تو مومن ہے ؟ آپ (رض) نے فرمایا : اس کا جواب دینا بدعت ہے۔ اور میں خوش نہیں ہوں کہ میں کہوں کہ مجھے ایمان میں شک ہے۔

31049

(۳۱۰۵۰) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ حَبِیبِ بْنِ الشَّہِیدِ ، عَنْ عَطَائٍ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ : لاَ یَزْنِی الزَّانِی حِینَ یَزْنِی وَہُوَ مُؤْمِنٌ ، وَلا یَسْرِقُ وَہُوَ مُؤْمِنٌ ، وَلا یَشْرَبُ الْخَمْرَ وَہُوَ مُؤْمِنٌ۔
(٣١٠٥٠) حضرت عطاء (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت ابوہریرہ (رض) نے ارشاد فرمایا : زنا کرنے والا جب زنا کرتا ہے تو اس کا ایمان باقی نہیں رہتا ۔ اور چوری کرنے والا جب چوری کرتا ہے تو اس کا ایمان باقی نہیں رہتا اور شراب پینے والا جب شراب پیتا ہے تو اس کا ایمان باقی نہیں رہتا۔

31050

(۳۱۰۵۱) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ عُمَارَۃَ بْنِ عُمَیْرٍ ، عَنْ أَبِی عَمَّارٍ ، عَنْ حُذَیْفَۃَ ، قَالَ : وَاللہِ إنَّ الرَّجُلَ لَیُصْبِحُ بَصِیرًا ، ثُمَّ یُمْسِی ، وَمَا یَنْظُرُ بِشُفْرٍ۔
(٣١٠٥١) حضرت ابو عمّار (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت حذیفہ (رض) نے ارشاد فرمایا : اللہ کی قسم ! یقیناً آدمی صبح کرے گا دیکھنے کی حالت میں، پھر وہ شام کرے گا اس حال میں کہ وہ پلک بھی نہیں دیکھ سکتا ہوگا۔

31051

(۳۱۰۵۲) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ یَسَارٍ ، قَالَ : بَلَغَ عُمَرَ ، أَنَّ رَجُلاً بِالشَّامِ یَزْعُمُ ، أَنَّہُ مُؤْمِنٌ ، قَالَ : فَکَتَبَ عُمَرُ : أَنِ اجْلِبُوہُ عَلَی ، فَقَدِمَ عَلَی عُمَرَ ، فَقَالَ : أَنْتَ الَّذِی تَزْعُمُ أَنَّک مُؤْمِنٌ ، قَالَ : نَعَمْ ، قَالَ : ہَلْ کَانَ النَّاسُ عَلَی عَہْدِ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إلاَّ عَلَی ثَلاثَۃِ مَنَازِلَ : مُؤْمِنٌ وَکَافِرٌ وَمُنَافِقٌ ، وَاللہِ مَا أَنَا بِکَافِرٍ ، وَلا نَافَقْتُ ، قَالَ : فَقَالَ لَہُ عُمَرُ : ابْسُطْ یَدَک ، قَالَ ابْنُ إدْرِیسَ : قُلْتُ : رَضِیً بِمَا قَالَ : قَالَ : رَضِیً بِمَا قَالَ۔
(٣١٠٥٢) حضرت سعید بن یسار (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) کو خبر پہنچی کہ شام میں ایک آدمی ہے جو دعویٰ کرتا ہے کہ یقیناً وہ مومن ہے۔ راوی فرماتے ہیں تو حضرت عمر (رض) نے تحریر لکھی کہ اس کو میرے پاس حاضر کرو چنانچہ وہ حضرت عمر (رض) کے پاس حاضر ہوا تو آپ (رض) نے فرمایا : تو ہی وہ شخص ہے جو دعویٰ کرتا ہے کہ تو مومن ہے ؟ اس نے کہا : جی ہاں ! کیا لوگ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں تین قسم کے نہیں تھے ؟ مومن، منافق اور کافر، اللہ کی قسم میں کافر نہیں ہوں۔ اور نہ میں منافقت کرتا ہوں ۔ راوی کہتے ہیں : پس حضرت عمر (رض) نے اس سے فرمایا : اپنا ہاتھ کشادہ کر۔
حضرت ابن ادریس (رض) فرماتے ہیں : میں نے پوچھا : انھوں نے پسند کیا جو اس نے کہا ؟ راوی کہتے ہیں : ہاں ! انھوں نے پسند کیا جو اس نے کہا۔

31052

(۳۱۰۵۳) حَدَّثَنَا شَبَابَۃُ بْنُ سَوَّارٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا لَیْثُ بْنُ سَعْدٍ ، عن یزید عَنْ سَعْد بْنِ سِنَانٍ ، عَنْ أَنَسٍ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : یَکُونُ بَیْنَ یَدَیَ السَّاعَۃِ فِتَنٌ کَقِطَعِ اللَّیْلِ الْمُظْلِمِ یُصْبِحُ الرَّجُلُ فِیہَا مُؤْمِنًا وَیُمْسِی کَافِرًا وَیُصْبِحُ کَافِرًا وَیُمْسِی مُؤْمِنًا۔ (حاکم ۴۳۸۔ ترمذی ۲۱۹۷)
(٣١٠٥٣) حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : قیامت کے قریب بہت سے فتنے ہوں گے اندھیری رات کے حصہ کی طرح۔ جس میں آدمی صبح کرے گا مومن ہونے کی حالت میں اور شام کرے گا کافر ہونے کی حالت میں ۔ اور صبح کرے گا کافر ہونے کی حالت میں اور شام کرے گا مومن ہونے کی حالت میں۔

31053

(۳۱۰۵۴) حَدَّثَنَا عِیسَی بْنُ یُونُسَ ، عَنِ الأَوْزَاعِیِّ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ أَبِی عَمْرٍو السَّیْبَانِیِّ ، قَالَ : قَالَ حُذَیْفَۃُ : إنِّی لأَعْلَمُ أَہْلَ دِینَیْنِ ، أَہْلُ ذَیْنِکَ الدِّینَیْنِ فِی النَّارِ : أَہْلُ دِینٍ یَقُولُونَ : الإِیمَانُ کَلامُ ، وَلا عَمَلَ وَإِنْ قَتَلَ وَإِنْ زَنَا ، وَأَہْلُ دِینٍ یَقُولُونَ : کَانَ أَوَّلُونَا أُرَاہُ ذَکَرَ کَلِمَۃً سَقَطَتْ عَنِّی لِیَأْمُرُوننَا بِخَمْسِ صَلَوَاتٍ فی کُلِّ یَوْمٍ ، وَإِنَّمَا ہِیَ صَلاتَانِ : صَلاۃُ الْعِشَائِ وَصَلاۃُ الْفَجْرِ۔
(٣١٠٥٤) حضرت یحییٰ بن ابو عمرو السیبانی (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت حذیفہ (رض) نے ارشاد فرمایا : میں دین کے دو گروہوں کے بارے میں جانتا ہوں یہ دونوں دین کے گروہ والے جہنم میں ہوں گے۔ ایک دین والا گروہ کہتا ہے ! ایمان نام ہے کلام کا نہ کہ عمل کا۔ اگرچہ وہ قتل کرے اگرچہ وہ زنا کرے، اور ایک دین کے گروہ والے کہتے ہیں : ہم سے پہلے والے لوگ۔ راوی کہتے ہیں میرا خیال ہے کہ آپ (رض) نے یہاں ایک کلمہ کا ذکر کیا تھا جو مجھ سے ساقط ہوگیا۔ ہمیں پانچ نمازوں کا حکم دیتے تھے پورے دن میں۔ حالانکہ وہ صرف دو نمازیں ہیں، عشاء کی نماز اور فجر کی نماز۔

31054

(۳۱۰۵۵) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنِ ابْنِ عَجْلانَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ دِینَارٍ ، عَنْ أَبِی صَالِحٍ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : الإِیمَانُ سِتُّونَ ، أَوْ سَبْعُونَ ، أَوْ بِضْعَۃٌ ، أَوْ أَحَدُ الْعَدَدَیْنِ أَعْلاہَا شَہَادَۃُ أَنْ لاَ إلَہَ إلاَّ اللَّہُ وَأَدْنَاہَا إمَاطَۃُ الأَذَی عَنِ الطَّرِیقِ , وَالْحَیَائُ شُعْبَۃٌ مِنَ الإِیمَانِ۔
(٣١٠٥٥) حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ایمان کے شعبے ساٹھ یا ستر یا ستر سے کچھ اوپر ہیں یا ان دو عددوں میں کوئی ایک عدد مراد ہے۔ اس میں افضل ترین شعبہ گواہی دینا اس بات کی کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ اور سب سے ادنیٰ شعبہ راستہ سے کسی تکلیف دہ چیز کا ہٹا دینا ہے۔ اور حیا بھی ایمان کا ایک شعبہ ہے۔

31055

(۳۱۰۵۶) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : الْحَیَائُ مِنَ الإِیمَانِ۔ (مسلم ۶۳۔ ترمذی ۲۶۱۵)
(٣١٠٥٦) حضرت عبداللہ بن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : حیا ایمان کا حصہ ہے۔

31056

(۳۱۰۵۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا الأَعْمَشُ ، عَنْ سَلَمَۃَ بْنِ کُہَیْلٍ ، عَنْ حَبَّۃَ بْنِ جُوَیْنٍ الْعُرَنِیِّ ، قَالَ : کُنَّا مَعَ سَلْمَانَ وَقَدْ صَافَنَّا الْعَدُوُّ ، فَقَالَ : ہَؤُلائِ الْمُؤْمِنُونَ وَہَؤُلائِ الْمُنَافِقُونَ وَہَؤُلائِ الْمُشْرِکُونَ ، فَیَنْصُرُ اللَّہُ الْمُنَافِقِینَ بِدَعْوَۃِ الْمُؤْمِنِینَ ، وَیُؤَیِّدُ اللَّہُ الْمُؤْمِنِینَ بِدَعْوَۃِ الْمُنَافِقِینَ۔
(٣١٠٥٧) حضرت حبہ بن جو ین العرنی (رض) فرماتے ہیں کہ ہم لوگ حضرت سلمان فارسی (رض) کے ساتھ دشمن کے سامنے صف بنائے کھڑے تھے تو آپ (رض) نے ارشاد فرمایا : یہ لوگ مومنین ہیں، اور یہ منافقین ہیں اور یہ مشرکین ہیں۔ پس اللہ مومنین کی دعاؤں کی وجہ سے منافقین کی مدد فرمائیں گے، اور منافقین کی دعاؤں کی وجہ سے مومنین کی تائید کریں گے۔

31057

(۳۱۰۵۸) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِی قُرَّۃَ ، قَالَ : قَالَ سَلْمَانُ لِرَجُلٍ : لَوْ قَطَعْت أَعْضَائً مَا بَلَغْت الإِیمَانَ۔
(٣١٠٥٨) حضرت ابو قرہ (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت سلمان (رض) نے ایک آدمی سے کہا : اگر تیرے اعضاء کو ٹکڑے ٹکڑے بھی کردیا جائے تب بھی تو ایمان کی حقیقت کو نہیں پہنچ سکتا۔

31058

(۳۱۰۵۹) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ ، عَنِ الْبَرَائِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : أَوْثَقُ عُرَی الإسْلامِ الْحُبُّ فِی اللہِ وَالْبُغْضُ فِی اللہِ۔ (احمد ۲۸۶)
(٣١٠٥٩) حضرت براء (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اسلام کی مضبوط ترین بنیاد کسی سے اللہ کی خوشنودی کے لیے محبت کرنا ہے، اور اللہ ہی کی خوشنودی میں کسی سے بغض رکھنا ہے۔

31059

(۳۱۰۶۰) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ مَالِکِ بْنِ مِغْوَلٍ ، عَنْ زُبَیْدٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، قَالَ : أَوْثَقُ عُرَی الإِیمَانِ الْحُبُّ فِی اللہِ وَالْبُغْضُ فِیہِ۔
(٣١٠٦٠) حضرت زبید (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت مجاہد (رض) نے ارشاد فرمایا : ایمان کی مضبوط ترین بنیاد، کسی سے اللہ کی خوشنودی کے لیے محبت کرنا اور اللہ ہی کی خوشنودی میں کسی سے بغض رکھنا ہے۔

31060

(۳۱۰۶۱) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا دَاوُد ، عَنْ زُرَارَۃَ بْنِ أَوْفَی ، عَنْ تَمِیمٍ الدَّارِیِّ ، قَالَ : أَوَّلُ مَا یُحَاسَبُ بِہِ الْعَبْدُ یَوْم الْقِیَامَۃ صَلاۃُ الْمَکْتُوبَۃُ فَإِنْ أَتَمَّہَا وَإِلاَّ قِیلَ : انْظُرُوا ہَلْ لَہُ مِنْ تَطَوُّعٍ ، فَأُکْمِلَت الْفَرِیضَۃُ مِنْ تَطَوُّعِہِ ، فَإِنْ لَمْ تَکْمُلَ الْفَرِیضَۃُ وَلَمْ یَکُنْ لَہُ تَطَوُّعٌ أُخِذَ بِطَرَفَیْہِ فَقُذِفَ بِہِ فِی النَّارِ۔ (ابن ماجہ ۱۴۲۶۔ دارمی ۱۳۵۵)
(٣١٠٦١) حضرت زراہ بن اوفی (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت تمیم الداری (رض) نے ارشاد فرمایا : قیامت میں آدمی کے اعمال میں سب سے پہلے فرض نماز کا حساب کیا جائے گا، اگر وہ پوری نکل آئی تو ٹھیک ورنہ کہا جائے گا : دیکھو کیا اس کے پاس نفلوں کا بھی کوئی ذخیرہ ہے ؟ اگر ہوا تو پھر اس کے نفلوں سے فرض کی تکمیل کردی جائے گی۔ اور اگر اس کے فرائض مکمل نہ ہوئے اور اس کے پاس نفلوں کا ذخیرہ بھی نہ ہوا ۔ تو پھر اس کو دونوں ہاتھوں سے پکڑا جائے گا۔ اور اس طرح سے اس کو جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔

31061

(۳۱۰۶۲) حَدَّثَنَا یُونُسَ بْن ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا أَبُو مَعْشَرٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ صَالِحٍ الأَنْصَارِیِّ ، أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَقِیَ عَوْفَ بْنَ مَالِکٍ ، فَقَالَ : کَیْفَ أَصْبَحْت یَا عَوْفَ بْنَ مَالِکٍ ، قَالَ : أَصْبَحْت مُؤْمِنًا حَقًّا ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إنَّ لِکُلِّ قَوْلٍ حَقِیقَۃً ، فَمَا ذَلِکَ ، فَقَالَ : یَا رَسُولَ اللہِ : أَلَمْ أَظْلف نَفْسِی ، عَنِ الدُّنْیَا ، أسْہَرْت لَیْلِی وَأَظْمَأْت ہَوَاجِرِی , وَکَأَنِّی أَنْظُرُ إِلَی عَرْشِ رَبِّی ، وَکَأَنِّی أَنْظُرُ إِلَی أَہْلِ الْجَنَّۃِ یَتَزَاوَرُونَ فِیہَا ، وَکَأَنِّی أَنْظُرُ إِلَی أَہْلِ النَّارِ یَتَضَاغُونَ فِیہَا ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : عَرَفْت أَوْ آمَنْت فَالْزَمْ۔
(٣١٠٦٢) حضرت محمد بن صالح الانصاری (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عوف بن مالک (رض) سے ملاقات کی تو فرمایا : اے عوف بن مالک ! تو نے کس حال میں صبح کی ؟ آپ (رض) نے عرض کیا : میں نے سچا مومن ہونے کی حالت میں صبح کی۔ پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : بیشک ہر قول کی ایک حقیقت ہوتی ہے۔ اس بات کی کیا حقیقت ہے ؟ آپ (رض) نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول 5! کیا میں نے اپنے نفس کو دنیا سے نہیں روکا ؟ میں نے راتوں میں خود کو جگایا : اور شدید گرمی کی دوپہر میں خود کو پیاسا رکھا۔ گویا کہ میں اہل جنت کی طرف دیکھ رہا ہوں کہ وہ آپس میں ایک دوسرے سے جنت میں باتیں کر رہے ہیں، اور گویا کہ میں اہل جہنم کی طرف دیکھ رہا ہوں کہ وہ جہنم میں چیخ و پکار کر رہے ہیں۔ تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : تو نے پہچان لیا یا فرمایا تو ایمان لایا پس اس کو لازم پکڑے رکھ۔

31062

(۳۱۰۶۳) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا دَاوُد ، عَنْ زُرَارَۃَ بْنِ أَوْفَی ، عَنْ تَمِیمٍ الدَّارِیِّ بِمِثْلِ حَدِیثِ یَزِیدَ ، إلاَّ أَنَّہُ لَمْ یَذْکُرْ فِیہِ وَیُؤْخَذُ بِطَرَفَیْہِ فَیُقْذَفُ بِہِ فِی النَّارِ۔
(٣١٠٦٣) حضرت زراہ بن اوفی (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت تمیم الداری (رض) نے فرمایا : پھر راوی نے ماقبل حدیث یزید کو ذکر کیا مگر یہ جملہ ذکر نہیں کیا، اور اس کو دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔

31063

(۳۱۰۶۴) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا مَالِکُ بْنُ مِغْوَلٍ ، عَنْ زُبَیْدٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: کَیْفَ أَصْبَحْت یَا حَارِثَ بْنَ مَالِکٍ ، قَالَ : أَصْبَحْت مُؤْمِنًا حَقًّا ، قَالَ : إنَّ لِکُلِّ قَوْلٍ حَقِیقَۃً فَمَا حَقِیقَۃُ ذَلِکَ ، قَالَ : أَصْبَحْت عَزَفَتْ نَفْسِی عَنِ الدُّنْیَا فَأَسْہَرْت لَیْلِی وَأَظْمَأْت نَہَارِی وَلکَأَنِّی أَنْظُرُ إِلَی عَرْشِ رَبِّی قَدْ أُبْرِزَ لِلْحِسَابِ ، وَلکَأَنِّی أَنْظُرُ إِلَی أَہْلِ الْجَنَّۃِ یَتَزَاوَرُونَ فِی الْجَنَّۃِ ، وَلکَأَنِّی أَسْمَعُ عُوَائَ أَہْلِ النَّارِ، قَالَ : فَقَالَ لَہُ : عَبْدٌ نَوَّرَ الإِیمَانِ فِی قَلْبِہِ ، إذْ عَرَفْت فَالْزَمْ۔ (عبدالرزاق ۲۰۱۱۴۔ بزار ۳۲)
(٣١٠٦٤) حضرت زبید (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے حارث بن مالک (رض) تم نے کس حال میں صبح کی ؟ آپ (رض) نے عرض کیا : میں نے سچا مومن ہونے کی حالت میں صبح کی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : یقیناً ہر بات کی ایک حقیقت ہوتی ہے، تمہارے ایمان کی حقیقت کیا ہے ؟ آپ (رض) نے عرض کیا ! میں نے اس حال میں صبح کی کہ میرے نفس نے دنیا سے کنارہ کشی اختیار کی، پس میں نے راتوں میں خود کو جگایا۔ اور دن میں خود کو پیاسا رکھا۔ گویا کہ میں اپنے رب کے عرش کی طرف دیکھ رہا ہوں کہ وہ حساب لینے کے لیے ظاہر ہوگیا۔ اور گویا کہ میں اہل جنت کی طرف دیکھ رہا ہوں کہ وہ جنت میں ایک دوسرے سے بات چیت کر رہے ہیں اور گویا کہ میں اہل جہنم کی چیخ و پکار کی آواز سن رہا ہوں، راوی کہتے ہیں، پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے ارشاد فرمایا : یہ ایسا بندہ ہے کہ ایمان نے اس کے دل میں نور کو بھر دیا ہے۔ اگر تو نے اس کو پہچان لیا تو پھر اس کو لازم پکڑو۔

31064

(۳۱۰۶۵) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ مُوسَی بْنِ مُسْلِمٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا ابْنُ سَابِطٍ ، قَالَ : کَانَ عَبْدُ اللہِ بْنُ رَوَاحَۃَ یَأْخُذُ بِیَدِ النَّفَرِ مِنْ أَصْحَابِہِ فَیَقُولُ : تَعَالَوْا نُؤْمِنُ سَاعَۃً تَعَالَوْا فَلْنَذْکُرُ اللَّہَ وَنَزْدَدْ إیمَانًا ، تَعَالَوْا نَذْکُرُہُ بِطَاعَتِہِ لَعَلَّہُ یَذْکُرُنَا بِمَغْفِرَتِہِ۔ (احمد ۲۶۵)
(٣١٠٦٥) حضرت ابن سابط (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن رواحہ (رض) اپنے اصحاب میں سے چند لوگوں کا ہاتھ پکڑ کر فرماتے ! آؤ ہم کچھ دیر کے لیے ایمان و یقین کی باتیں کریں۔ آؤ پس ہم اللہ کا ذکر کر کے ایمان میں اضافہ کریں۔ آؤ ہم اس کی اطاعت کا ذکر کریں تاکہ وہ بھی ہمارا ذکر کرے مغفرت کرتے ہوئے ۔

31065

(۳۱۰۶۶) حَدَّثَنَا یَزِیدُ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا الْعَوَّامُ بْنُ حَوْشَبٍ ، عَنْ أَبِی صَادِقٍ ، عَنْ عَلِیٍّ ، قَالَ : إنَّ الإسْلامَ ثَلاثُ أَثَافِیِ : الإِیمَانُ وَالصَّلاۃُ وَالْجَمَاعَۃُ ، فَلا تُقْبَلُ صَلاۃٌ إلاَّ بِإِیمَانٍ ، وَمَنْ آمَنَ صَلَّی وَمَنْ صَلَّی جَامَعَ ، وَمَنْ فَارَقَ الْجَمَاعَۃَ قَیْدَ شِبْرٍ فَقَدْ خَلَعَ رِبْقَۃَ الإسْلامِ مِنْ عُنُقِہِ۔
(٣١٠٦٦) حضرت ابو صادق (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت علی (رض) نے ارشاد فرمایا : اسلام کے تین پائے ہیں : ایمان، نماز اور جماعت۔ پس نماز بغیر ایمان کے قبول نہیں ہوگی۔ اور جو ایمان لایا وہ نماز پڑھے گا، اور جو نماز پڑھے گا وہ جماعت کے ساتھ ہوگا۔ اور جو شخص جماعت سے ایک بالشت فاصلہ جتنا بھی جدا ہوگیا تو اس نے اسلام کا ہار اپنے گلے سے اتار دیا۔

31066

(۳۱۰۶۷) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُطَرِّفٍ ، عَنْ حَسَّانَ بْنِ عَطِیَّۃَ ، عَنْ أَبِی أُمَامَۃَ الباہلی، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : الْحَیَائُ وَالْعِیُّ شُعْبَتَانِ مِنَ الإِیمَانِ۔ (احمد ۲۶۹۔ حاکم ۵۲)
(٣١٠٦٧) حضرت ابو امامہ باھلی (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : حیا اور کم بولنا دونوں حیا کے شعبے ہیں۔

31067

(۳۱۰۶۸) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ ، عَنْ مُحَارِبِ بْنِ دِثَارٍ ، عَنِ ابْنِ بُرَیْدَۃَ ، قَالَ: وَرَدْنَا الْمَدِینَۃِ، فَأَتَیْنَا عَبْدَ اللہِ بْنَ عُمَرَ ، فَقُلْنَا : یَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، إنَّا نُمْعِنُ فِی الأَرْضِ فَنَلْقَی قَوْمًا یَزْعُمُونَ أَنْ لاَ قَدَرَ ، فَقَالَ : مِنَ الْمُسْلِمِینَ مِمَّنْ یُصَلِّی إِلَی الْقِبْلَۃِ ، قُلْنَا نَعَمْ مِمَّنْ یُصَلِّی إِلَی الْقِبْلَۃِ ، قَالَ : فَغَضِبَ حتَّی وَدِدْت أَنِّی لَمْ أَکُنْ سَأَلْتُہُ ، ثُمَّ قَالَ : إذَا لَقِیت أُولَئِکَ فَأَخْبِرْہُمْ ، أَنَّ عَبْدَ اللہِ بْنَ عُمَرَ مِنْہُمْ بَرِیئٌ وَأَنَّہُمْ مِنْہُ بُرَآئُ ، ثُمَّ قَالَ : إِنْ شِئْتَ حَدَّثْتُک ، عَنْ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فقلت : أَجَلْ فَقَالَ : کُنَّا عِنْدَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ رَجُلٌ جَیِّدُ الثِّیَابِ طَیِّبُ الرِّیحِ حَسَنُ الْوَجْہِ ، فَقَالَ : یَا رَسُولَ اللہِ ، مَا الإسْلامُ ، قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : تُقِیمُ الصَّلاۃَ وَتُؤْتِی الزَّکَاۃَ وَتَصُومُ رَمَضَانَ وَتَحُجُّ الْبَیْتَ وَتَغْتَسِلُ مِنَ الْجَنَابَۃِ ، قَالَ : صَدَقْت ، فَمَا الإِیمَانُ ، قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : تُؤْمِنُ بِاللہِ وَالْیَوْمِ الآخِرِ وَالْمَلائِکَۃِ وَالْکِتَابِ وَالنَّبِیُّینَ وَبِالْقَدَرِ کُلِّہِ خَیْرِہِ وَشَرِّہِ وَحُلْوِہِ وَمُرِّہِ ، قَالَ : صَدَقْت ، ثُمَّ انْصَرَفَ ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : عَلَیَّ بِالرَّجُلِ ، قَالَ : فَقُمْنَا بِأَجْمَعِنَا فَلَمْ نَقْدِرْ عَلَیْہِ ، فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : ہَذَا جِبْرِیلُ أَتَاکُمْ یُعَلِّمُکُمْ أَمْرَ دِینَکُمْ۔
(٣١٠٦٨) حضرت محارب بن دثار (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت ابن بریدہ (رض) نے ارشاد فرمایا : ہم مدینہ آئے تو حضرت عبداللہ بن عمر (رض) کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ ہم نے عرض کیا : اے ابو عبد الرحمن ! ہم اپنے شہروں سے بہت دور تھے ۔ تو ہماری چند ایسے لوگوں سے ملاقات ہوئی جو کہتے ہیں کہ تقدیر کوئی چیز نہیں، آپ (رض) نے پوچھا : کیا وہ لوگ مسلمانوں میں سے ہیں ؟ اور قبلہ رخ ہو کر نماز پڑھتے ہیں ؟ ہم نے عرض کیا : جی ہاں ! راوی کہتے ہیں : پس آپ (رض) اتنے غضبناک ہوئے کہ میں نے چاہا کہ میں آپ (رض) سے سوال نہ کرتا۔ پھر آپ (رض) نے فرمایا : جب تم ان لوگوں سے ملو تو ان کو بتلا دو کہ یقیناً عبداللہ بن عمر (رض) ان سے بری ہے، اور وہ لوگ مجھ سے بری ہیں، پھر فرمایا : اگر تم چاہو تو میں تمہارے سامنے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حدیث بیان کروں ؟ میں نے عرض کیا ! جی ہاں ! پھر آپ (رض) نے ارشاد فرمایا : ہم لوگ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس بیٹھے تھے۔ پس ایک آدمی آیا صاف ستھرے کپڑوں والا، اچھی خوشبو والا اور خوبصورت چہرے والا، کہنے لگا : اے اللہ کے رسول 5! اسلام کی حقیقت کیا ہے ؟ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : یہ کہ تم نماز کی پابندی کرو، اور زکوۃ دو ، اور رمضان کے روزے رکھو۔ اور بیت اللہ کا حج کرو اور جنابت سے پاکی کا غسل کرو۔ اس شخص نے کہا ! آپ نے سچ فرمایا : ایمان کی حقیقت کیا ہے ؟ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : یہ کہ تو ایمان لائے اللہ پر ، اور آخرت کے دن پر، اور فرشتوں پر، اور کتاب پر، اور نبیوں پر اور تقدیر کے اچھے، بُرے ہونے پر اور اس کی مٹھاس اور کھٹاس پر۔ اس شخص نے کہا : آپ نے سچ فرمایا : پھر وہ شخص واپس چلا گیا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : مجھے جوتی دو ، آپ (رض) فرماتے ہیں ہم سب کھڑے ہوگئے۔ پس ہمیں اس پر قدرت نہ ہوئی، پھر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : یہ جبرائیل تھے جو تمہیں تمہارے دین کے معاملات سکھانے آئے تھے۔

31068

(۳۱۰۶۹) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا أَبَانُ الْعَطَّارُ ، قَالَ : حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ أَبِی کَثِیرٍ ، عَنْ زَیْدٍ ، عَنْ أَبِی سَلاَّمٍ ، عَنْ أَبِی مَالِکٍ الأَشْعَرِیِّ ، أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یَقُولُ : الطُّہْرُ شَطْرُ الإِیمَانِ۔
(٣١٠٦٩) حضرت ابو مالک اشعری (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : پاکی نصف ایمان ہے۔

31069

(۳۱۰۷۰) حَدَّثَنَا ابْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِی لَیْلَی الْکِنْدِیِّ ، عَنْ حُجْرِ بْنِ عَدِیٍّ ، قَالَ : حدَّثَنَا عَلِیٌّ ، أَنَّ الطُّہُورَ شَطْرُ الإِیمَانِ۔
(٣١٠٧٠) حضرت حجر بن عدی (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت علی (رض) نے ارشاد فرمایا : پاکی نصف ایمان ہے۔

31070

(۳۱۰۷۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا الأَوْزَاعِیُّ ، عَنْ حَسَّانَ بْنِ عَطِیَّۃَ ، قَالَ : الْوُضُوئُ شَطْرُ الإِیمَانِ۔
(٣١٠٧١) امام اوزاعی (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت حسان بن عطیہ (رض) نے ارشاد فرمایا : وضو نصف ایمان ہے۔

31071

(۳۱۰۷۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِی لَیْلَی الْکِنْدِیِّ ، عَنْ غُلامٍ لِحُجْر ، أَنَّ حُجْرًا رَأَی ابْنًا لَہُ خَرَجَ مِنَ الْغَائِطِ ، فَقَالَ : یَا غُلامُ نَاوِلْنِی الصَّحِیفَۃَ مِنَ الْکُوَّۃِ فَسَمِعْت عَلِیًّا یَقُولُ : الطُّہُورُ نِصْفُ الإِیمَانِ۔
(٣١٠٧٢) حضرت ابو لیلی کندی (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت حجر (رض) کے لڑکے نے فرمایا کہ حضرت حجر (رض) نے اپنے ایک لڑکے کو دیکھا کہ وہ بیت الخلاء سے نکل کر کہنے لگا، اے لڑکے مجھے طاقچے سے قرآن دو : میں نے حضرت علی (رض) کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ پاکی نصف ایمان ہے۔

31072

(۳۱۰۷۳) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا زَکَرِیَّا ، قَالَ : حَدَّثَنِی الْحَوَارِیُّ ، أَنَّ عَبْدَ اللہِ بْنَ عمر ، قَالَ : إنَّ عُرَی الدِّینِ وَقِوَامَہُ الصَّلاۃُ وَالزَّکَاۃُ لاَ یُفَرَّقُ بَیْنَہُمَا ، وَحَجُّ الْبَیْتِ وَصَوْمُ رَمَضَانَ ، وَإِنَّ مِنْ إصْلاحِ الأَعْمَالِ الصَّدَقَۃَ وَالْجِہَادَ ، قُمْ فَانْطَلِقْ۔
(٣١٠٧٣) حضرت حواری (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمر (رض) نے ارشاد فرمایا : دین کی بنیاد اور روح نماز اور زکوۃ ہے ان دونوں کے درمیان فرق نہیں کیا جائے گا، اور بیت اللہ کا حج کرنا، اور رمضان کے روزے رکھنا ہے، اور یقیناً اچھے اعمال میں سے صدقہ اور جہاد ہے ، اٹھو اور جہاد پر جاؤ۔

31073

(۳۱۰۷۴) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : أَکْمَلُ الْمُؤْمِنِینَ إیمَانًا أَحْسَنُہُمْ خُلُقًا۔
(٣١٠٧٤) حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : مومنین میں سے کامل ترین ایمان والے وہ لوگ ہیں جو اخلاق کے اعتبار سے زیادہ اچھے ہیں۔

31074

(۳۱۰۷۵) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِی إسْمَاعِیلَ ، عَنْ مَعْقِلٍ الْخَثْعَمِیِّ ، قَالَ : أَتَی عَلِیًّا رَجُلٌ وَہُوَ فِی الرَّحْبَۃِ ، فَقَالَ : یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ ، مَا تَرَی فِی امْرَأَۃٍ لاَ تُصَلِّی ، قَالَ : مَنْ لَمْ یُصَلِّ فَہُوَ کَافِرٌ۔
(٣١٠٧٥) حضرت معقل خثعمی (رض) فرماتے ہیں کہ ایک آدمی حضرت علی (رض) کی خدمت میں حاضر ہوا اس حال میں کہ وہ گھر کے صحن میں تھے۔ پھر وہ کہنے لگا : اے امیر المومنین ! آپ (رض) کی کیا رائے ہے اس عورت کے بارے میں جو نماز نہیں پڑھتی، آپ (رض) نے فرمایا : جو شخص نماز نہیں پڑھتا وہ کافر ہے۔

31075

(۳۱۰۷۶) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِی صَالِحٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ ضَمْرَۃَ ، عَنْ کَعْبٍ ، قَالَ : مَنْ أَقَامَ الصَّلاۃَ وَآتَی الزَّکَاۃَ فَقَدْ تَوسَّطَ الإِیمَانَ۔
(٣١٠٧٦) حضرت عبداللہ بن ضمرہ (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت کعب (رض) نے ارشاد فرمایا : جو شخص نماز قائم کرتا ہے اور زکوۃ ادا کرتا ہے تحقیق اس کا ایمان درمیانے درجہ کا ہے۔

31076

(۳۱۰۷۷) حَدَّثَنَا مُحَمَّد بْنُ عُبَیْد ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِی صَالِحٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ ضَمْرَۃَ ، عَنْ کَعْبٍ ، قَالَ : مَنْ أَقَامَ الصَّلاۃَ وَآتَی الزَّکَاۃَ وَسَمِعَ وَأَطَاعَ فَقَدْ تَوَسَّطَ الإِیمَانَ ، وَمَنْ أَحَبَّ لِلَّہِ وَأَبْغَضَ لِلَّہِ وَأَعْطَی لِلَّہِ وَمَنَعَ لِلَّہِ فَقَدِ اسْتَکْمَلَ الإِیمَانَ۔
(٣١٠٧٧) حضرت عبداللہ بن ضمرہ (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت کعب (رض) نے ارشاد فرمایا : جو شخص نماز قائم کرتا اور زکوۃ ادا کرتا ہے۔ اور سنتا ہے اور اطاعت کرتا ہے ، تحقیق اس کا ایمان درمیانے درجہ کا ہے، اور جو شخص اللہ کے لیے محبت رکھتا ہے، اور اللہ ہی کے لیے بغض رکھتا ہے، اور اللہ ہی کے لیے عطا کرتا ہے اور اللہ ہی کے لیے روکتا ہے تحقیق اس کا ایمان مکمل ہوگیا۔

31077

(۳۱۰۷۸) حَدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ بْنُ عَیَّاشٍ ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ بْنِ عُبَیْدٍ الْکَلاعِیِّ ، قَالَ : أَخَذَ بِیَدِی مَکْحُولٌ ، فَقَالَ : یَا أَبَا وَہْبٍ ، لِیَعْظُمْ شَأْنُ الإِیمَانِ فِی نَفْسِکَ ، مَنْ تَرَکَ صَلاۃً مَکْتُوبَۃً مُتَعَمِّدًا فَقَدْ بَرِئَتْ مِنْہُ ذِمَّۃُ اللہِ ، وَمَنْ بَرِئَتْ مِنْہُ ذِمَّۃُ اللہِ فَقَدْ کَفَرَ۔
(٣١٠٧٨) حضرت عبید اللہ بن عبید الکلاعی (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت مکحول (رض) نے میرا ہاتھ پکڑ کر ارشاد فرمایا : اے ابو وھب (رض) ! اپنے نفس میں ایمان کی عظمت بڑھاؤ، جس شخص نے جان بوجھ کر فرض نماز چھوڑی تحقیق اللہ کا ذمہ اس سے بری ہے، اور جس سے اللہ کا ذمہ بری ہو تحقیق اس نے کفر کیا۔

31078

(۳۱۰۷۹) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ قَیْسٍ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، قَالَ : قَالَ عَلِیٌّ : الصَّبْرُ مِنَ الإِیمَانِ بِمَنْزِلَۃِ الرَّأْسِ مِنَ الْجَسَدِ ، فَإِذَا ذَہَبَ الصَّبْرُ ذَہَبَ الإِیمَانُ۔
(٣١٠٧٩) حضرت ابو اسحاق (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت علی (رض) نے ارشاد فرمایا : صبر کا ایمان میں وہی درجہ ہے جو سر کا جسم میں ہے۔ پس جب صبر گیا تو ایمان بھی چلا جاتا ہے۔

31079

(۳۱۰۸۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ صِلَۃَ ، عَنْ عَمَّارٍ ، قَالَ : ثَلاثٌ مَنْ جَمَعَہُنَّ جَمَعَ الإِیمَانَ : الإِنْصَافُ مِنْ نَفْسِکَ ، وَالإِنْفَاقُ مِنَ الإِقْتَارِ ، وَبَذْلُ السَّلامِ لِلْعَالِمِ۔
(٣١٠٨٠) حضرت صلہ (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عمار (رض) نے ارشاد فرمایا : تین چیزیں ایسی ہیں جس نے ان کو جمع کیا اس نے ایمان کو جمع کرلیا ! اپنے نفس سے انصاف کرنا ، اور کنجوسی کی بجائے خرچ کرنا، اور دنیا میں سلامتی پھیلانا۔

31080

(۳۱۰۸۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ صِلَۃَ ، عَنْ عَمَّارٍ : {إنَّہُمْ لاَ أَیْمَانَ لَہُمْ} قَالَ : لاَ عَہْدَ لَہُمْ۔
(٣١٠٨١) حضرت صلہ (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عمار (رض) نے ارشاد فرمایا : ان لوگوں کا ایمان میں کچھ حصہ نہیں۔ فرمایا : جن میں وعدے کی وفا نہیں۔

31081

(۳۱۰۸۲) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : کَانَ یُقَالَ : لاَ یَدْخُلُ النَّارَ إنْسَانٌ فِی قَلْبِہِ مِثْقَالُ حَبَّۃِ خَرْدَلٍ مِنْ إیمَانٍ۔ (مسلم ۹۳)
(٣١٠٨٢) حضرت منصور (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم (رض) نے ارشاد فرمایا : یوں کہا جاتا ہے ! وہ انسان جہنم میں داخل نہیں ہوگا جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر ایمان ہو۔

31082

(۳۱۰۸۳) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ الْحُبَابِ ، عَنِ الصَّعْقِ بْنِ حَزْنٍ ، قَالَ : حدَّثَنِی عَقِیلُ الْجَعْدِی ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ سُوَیْد بْنِ غَفَلَۃَ ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : أَوْثَقُ عُرَی الإِیمَانِ الْحُبُّ فِی اللہِ وَالْبُغْضُ فِی اللہِ۔ (طیالسی ۳۷۸۔ حاکم ۴۸۰)
(٣١٠٨٣) حضرت ابن مسعود (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ایمان کی مضبوط بنیاد، کسی سے اللہ کی خوشنودی میں محبت کرنا ، اور اللہ ہی کی خوشنودی میں بغض رکھنا ہے۔

31083

(۳۱۰۸۴) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ جَرِیرِ بْنِ حَازِمٍ ، قَالَ : حدَّثَنِی عِیسَی بْنُ عَاصِمٍ ، قَالَ : حَدَّثَنا عَدِیُّ بْنُ عَدِیٍّ ، قَالَ : کَتَبَ إلَیَّ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیزِ أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ الإِیمَان فَرَائِضَ وَشَرَائِعَ وَحُدُودَ وَسُنَن ، فَمَنِ اسْتَکْمَلَہَا اسْتَکْمَلَ الإِیمَانَ ، وَمَنْ لَمْ یَسْتَکْمِلْہَا لَمْ یَسْتَکْمِلِ الإِیمَانَ ، فَإِنْ أَعِشْ فَسَأُبَیِّنُہَا لَکُمْ حَتَّی تَعْمَلُوا بِہَا ، وَإِنْ أَمُتْ قَبْلَ ذَلِکَ فَمَا أَنَا عَلَی صُحْبَتِکُمْ بِحَرِیصٍ۔
(٣١٠٨٤) حضرت عدی بن عدی (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن عبد العزیز (رض) نے مجھے لکھا اور فرمایا : حمدو صلوۃ کے بعد، یقیناً ایمان کے کچھ فرائض و احکام اور حدود اور ضابطے ہیں۔ پس جس نے ان کو پورا کرلیا اس کا ایمان مکمل ہوگیا، اور جس شخص نے ان کو پورا نہ کیا اس کا ایمان بھی مکمل نہ ہوا۔ پس اگر میں زندہ رہا تو عنقریب میں ان کو تمہارے سامنے بیان کروں گا تاکہ تم ان پر عمل کرنے لگو، اور اگر میں یہ بتانے سے پہلے ہی مر جاؤں تو میں تمہاری صحبت پر زیادہ حریص نہیں ہوں۔

31084

(۳۱۰۸۵) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا ہِشَامُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنْ زَیْدِ بْنِ أَسْلَمَ ، قَالَ : لاَ بُدَّ لأَہْلِ ہَذَا الدِّینِ مِنْ أَرْبَعٍ : دُخُولٌ فِی دَعْوَۃِ الإسْلامِ ، وَلا بُدَّ مِنَ الإِیمَانِ وَتَصْدِیقٌ بِاللہِ وَبِالْمُرْسَلِینَ أَوَّلِہِمْ وَآخِرِہِمْ وَبِالْجَنَّۃِ وَالنَّارِ وَالْبَعْثِ بَعْدَ الْمَوْتِ ، وَلا بُدَّ من أَنْ تَعْمَلَ عَمَلاً تُصَدِّقُ بِہِ ، وَلا بُدَّ مِنْ أَنْ تَعْلَمَ عِلْمًا یُحْسِنُ بِہِ عَمَلَک ، ثُمَّ قَرَأَ : {وَإِنِّی لَغَفَّارٌ لِمَنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا ثُمَّ اہْتَدَی}۔
(٣١٠٨٥) حضرت ہشام بن سعد (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت زید بن اسلم (رض) نے ارشاد فرمایا : دین والوں کے لیے چار باتیں لازمی ہیں، اسلام کی دعوت میں داخل ہونا، اور ایمان لانا ضروری ہے، اور تصدیق کرنا اللہ کی ، اور اس کے پہلے اور آخری رسولوں کی، اور جنت، جہنم کی، اور موت کے بعد دوبارہ اٹھنے کی، اور ضروری ہے کہ ایسا عمل کریں جو ان کے ایمان کے سچّا ہونے کی تصدیق کرے، اور ضروری ہے کہ وہ اتنا علم سیکھیں جس کے ذریعہ ان کا عمل اچھا ہوجائے۔ پھر آپ (رض) نے یہ آیت تلاوت فرمائی، اور بیشک میں غفار ہوں اس شخص کے حق میں جس نے توبہ کی اور ایمان لایا اور اچھے کام کیے پھر سیدھی راہ پر چلتا رہا۔

31085

(۳۱۰۸۶) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنِ الْجُرَیْرِیِّ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ شَقِیقٍ ، قَالَ : مَا کَانُوا یَقُولُونَ لِعَمَلٍ تَرَکَہُ رَجُلٌ کُفْرٌ غَیْرِ الصَّلاۃِ ، قَالَ : کَانُوا یَقُولُونَ : تَرْکُہَا کُفْرٌ۔
(٣١٠٨٦) حضرت جریری (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن شقیق (رض) نے ارشاد فرمایا : صحابہ (رض) کسی عمل کے بھی چھوڑنے کی وجہ سے آدمی کو کافر نہیں گردانتے تھے سوائے نماز کے، راوی کہتے ہیں : وہ لوگ فرمایا کرتے تھے نماز کا چھوڑنا کفر ہے۔

31086

(۳۱۰۸۷) حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرٍ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ أَبِی وَائِلٍ ، قَالَ : قیلَ لَہُ : إنَّ أُنَاسًا یَزْعُمُونَ أَنَّ الْمُؤْمِنِینَ یَدْخُلُونَ النَّارَ ، قَالَ : لَعَمْرُک وَاللہِ إنَّ حَشْوَہَا غَیْرُ الْمُؤْمِنِینَ۔
(٣١٠٨٧) حضرت عاصم (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت ابو وائل (رض) سے کہا گیا : بیشک بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ مومنین جہنم میں داخل ہوں گے، آپ (رض) نے فرمایا : اللہ کی قسم ! جہنم کی بھرتی مومنین کے علاوہ لوگوں سے ہوگی۔

31087

(۳۱۰۸۸) حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ عَیَّاشٍ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، قَالَ : سَمِعْتُ شَقِیقًا یَقُولُ وَسَأَلَہُ رَجُلٌ : سَمِعْتَ ابْنَ مَسْعُودٍ یَقُولُ : أَنَّہُ مَنْ شَہِدَ أَنَّہُ مُؤْمِنٌ فَلْیَشْہَدْ ، أَنَّہُ فِی الْجَنَّۃِ ، قَالَ : نَعَمْ۔
(٣١٠٨٨) حضرت مغیرہ (رض) فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے حضرت شقیق (رض) سے پوچھا : کیا آپ (رض) نے حضرت ابن مسعود (رض) کو یوں فرماتے سنا ہے : بلاشبہ جو شخص اس بات کی گواہی دے کہ وہ مومن ہے پس اسے چاہیے کہ وہ اس بات کی گواہی بھی دے کہ یقیناً وہ جنت میں ہوگا ؟ حضرت شقیق (رض) نے فرمایا : جی ہاں ! میں نے یہ سنا ہے۔
تم کتاب الإیمان والحمد للہ رب العالمین ، والصلاۃ علی محمد صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ۔
(ایمان کا بیان مکمل ہوا۔ )

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔