hadith book logo

HADITH.One

HADITH.One

Urdu

Support

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Ibn Abi Shaybah

29. وصیت کا بیان۔

ابن أبي شيبة

31358

حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، قَالَ : حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ ، قَالَ : (۳۱۳۵۹) حَدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ بْنُ عَیَّاشٍ ، عَنْ شُرَحْبِیلَ بْنِ مُسْلِمٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا أُمَامَۃَ الْبَاہِلِیَّ یَقُولُ : سَمِعْت رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی خُطْبَتِہِ عَامَ حَجَّۃِ الْوَدَاعِ یَقُولُ : إنَّ اللَّہَ قَدْ أَعْطَی کُلَّ ذِی حَقٍّ حَقَّہُ ، فَلاَ وَصِیَّۃَ لِوَارِثٍ۔
(٣١٣٥٩) شرحبیل بن مسلم فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابو امامہ باھلی (رض) کو یہ فرماتے سنا کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حجّۃ الوداع کے خطبے میں یہ فرماتے سنا : بیشک اللہ تعالیٰ نے حق دار کو اس کا حق دے دیا ہے، پس کسی وارث کے لیے کوئی وصیت معتبر نہیں۔

31359

(۳۱۳۶۰) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ شَہْرِ بْنِ حَوْشَبٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ غَنْمٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ خَارِجَۃَ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : لاَ وَصِیَّۃَ لِوَارِثٍ۔
(٣١٣٦٠) عمرو بن خارجہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : کسی وارث کے لیے وصیت معتبر نہیں۔

31360

(۳۱۳۶۱) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ، عَنْ حَجَّاجٍ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ، عَنِ الْحَارِثِ، عَنْ عَلِیٍّ، قَالَ: لَیْسَ لِوَارِثٍ وَصِیَّۃٌ۔
(٣١٣٦١) حضرت حارث حضرت علی (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : کسی وارث کے لیے وصیت کا کوئی اعتبار نہیں۔

31361

(۳۱۳۶۲) حَدَّثَنَا مُلاَزِمُ بْنُ عَمْرٍو ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ بَدْرٍ ، قَالَ : سَأَلَ رَجُلٌ ابْنَ عُمَرَ ، فَقَالَ : یَا ابْنَ عُمَرَ مَا تَرَی فِی الْوَصِیَّۃِ لِلْوَارِثِ ؟ فَانْتَہَرَہُ وَقَالَ : ہَلْ قَارَبْت الْحَرُورِیَّۃَ ، فَقَالَ : لاَ تَجُوزُ الْوَصِیَّۃُ لِلْوَارِثِ۔
(٣١٣٦٢) عبداللہ بن بدر روایت کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے عبداللہ بن عمر (رض) سے سوال کیا کہ اے ابن عمر ! آپ کی وارث کے لیے وصیت کرنے کے بارے میں کیا رائے ہے ؟ آپ نے اس کو ڈانٹا اور فرمایا : کیا تمہارا خارجیوں سے تعلق ہے ؟ کسی وارث کے لیے وصیت کرنا جائز نہیں۔

31362

(۳۱۳۶۳) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ، عَنْ ہِشَامٍ، عَنِ الْحَسَنِ وَابْنِ سِیرِینَ، قَالاَ: لَیْسَ لِوَارِثٍ وَصِیَّۃٌ إلاَّ إنْ یَشَائَ الْوَرَثَۃُ۔
(٣١٣٦٣) ہشام روایت کرتے ہیں کہ حسن بصری اور محمد بن سیرین نے فرمایا : کسی وارث کے لیے وصیت معتبر نہیں مگر اس وقت جبکہ تمام ورثاء چاہیں۔

31363

(۳۱۳۶۴) حَدَّثَنَا ابْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ أَبِی مِسْکِینٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ، قَالَ : لَیْسَ لِوَارِثٍ وَصِیَّۃٌ۔
(٣١٣٦٤) ابو مسکین روایت کرتے ہیں کہ سعید بن جبیر (رض) نے فرمایا : کسی وارث کے لیے وصیت معتبر نہیں۔

31364

(۳۱۳۶۵) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : إذَا أَوْصَی الرَّجُلُ بِوَصِیَّۃَ لِوَارِثٍ ، فَأَجَازَ الْوَرَثَۃُ قَبْلَ أَنْ یَمُوتَ ، ثُمَّ رَجِعَ الْوَرَثَۃُ بَعْدَ مَوْتِہِ ، فَہُمْ عَلَی رَأْسِ أَمْرِہِمْ ، وَإِذَا کَانَ لِغَیْرِ وَارِثٍ زِیَادَۃ عَلَی الثُّلُثِ فَمِثْلُ ذَلِکَ ، وَإِذَا کَانَتْ لِغَیْرِ وَارِثٍ مَا بَیْنَہُ وَبَیْنَ الثُّلُثِ فَإِنَّہَا جَائِزَۃٌ۔
(٣١٣٦٥) ابراہیم فرماتے ہیں کہ جب کوئی آدمی کسی وارث کے لیے وصیت کرے اور اس کے مرنے سے پہلے اس کے ورثاء اس کی اجازرت دے دیں پھر اس کے مرنے کے بعد اپنے فیصلے سے رجوع کرلیں تو ان کو اس کا اختیار ہے، اور اگر کسی غیر وارث شخص کے لیے ایک تہائی سے زیادہ مال کی وصیت کی گئی ہو تب بھی ایسا ہی ہے، اور اگر کسی نے غیر وارث کے لیے ایک تہائی سے کم کی وصیت کی ہو تو وہ نافذ ہوجاتی ہے۔

31365

(۳۱۳۶۶) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَنْ دَاوُدَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنْ شُرَیْحٍ ، قَالَ : إذَا اسْتَأْذَنَ الرَّجُلُ وَرَثَتَہُ فِی الْوَصِیَّۃِ فَأَوْصَی بِأَکْثَرَ مِنَ الثُّلُثِ ، فَطَیَّبُوا لَہُ ، فَإِذَا نَفَضُوا أَیْدِیَہُمْ مِنْ قَبْرِہِ فَہُمْ عَلَی رَأْسِ أَمْرِہِمْ ، إنْ شَاؤُوا أَجَازُوا ، وَإِنْ شَاؤُوا لَمْ یُجِیزُوا۔
(٣١٣٦٦) حضرت شریح فرماتے ہیں کہ جب کوئی آدمی اپنے ورثاء سے وصیت کی اجازت مانگ کر ایک تہائی سے زائد مال کی وصیت کر دے اور وہ رضا مندی کا اظہار بھی کردیں تو اس آدمی کے مرنے کے بعد ان ورثاء کو نئے سرے سے اس وصیت کو نافذ کرنے یا نہ کرنے کا اختیار حاصل ہوجاتا ہے۔

31366

(۳۱۳۶۷) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ صَالِحِ بْنِ مُسْلِمٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : سَأَلْتُہ ؟ فَقَالَ : ہُمْ عَلَی رَأْسِ أَمْرِہِمْ۔
(٣١٣٦٧) صالح بن مسلم فرماتے ہیں کہ میں نے شعبی سے ایسی وصیت کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے فرمایا : ان کو نئے سرے سے اختیار مل جائے گا۔

31367

(۳۱۳۶۸) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنِ ابْنِ طَاوُوسٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : یَرْجِعُونَ إنْ شَاؤُوا۔
(٣١٣٦٨) ابن طاؤس اپنے والد سے روایت کرتے ہیں ایسے ورثاء اگر چاہیں تو اپنے فیصلے سے رجوع کرسکتے ہیں۔

31368

(۳۱۳۶۹) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ : فِی رَجُلٍ أَوْصَی بِأَکْثَرَ مِنَ الثُّلُثِ بِرِضًا مِنَ الْوَرَثَۃِ ، فَلَمَّا مَاتَ أَنْکَرُوا ذَلِکَ ، قَالَ : ہُوَ جَائِزٌ عَلَیْہِمْ۔
(٣١٣٦٩) یونس حضرت حسن (رض) سے روایت کرتے ہیں ان سے ایسے آدمی کے بارے میں پوچھا گیا جس نے ورثاء کی رضا مندی سے ان کے لیے ایک تہائی مال سے زیادہ کی وصیت کی اور جب وہ مرگیا تو ورثاء نے ایک تہائی سے زیادہ نکالنے سے انکار کردیا، آپ نے فرمایا یہ ان کے لیے جائز ہے۔

31369

(۳۱۳۷۰) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، قَالَ : کَانَ عَطَائٌ یَقُولُ : جَائِزٌ ، قَدْ أَذِنُوا۔
(٣١٣٧٠) ابن جریج فرماتے ہیں کہ عطاء فرمایا کرتے تھے کہ یہ بات ورثاء کے لیے جائز ہے ، علماء نے اس کی اجازت دی ہے۔

31370

(۳۱۳۷۱) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ حَمَّادٍ : أَنَّہُ قَالَ : فِی الرَّجُلِ یُوصِی بِأَکْثَرَ مِنَ الثُّلُثِ یُجِیزُہُ الْوَرَثَۃُ ، ثُمَّ یَرْجِعُونَ فِیہِ ؟ قَالَ : لَیْسَ لَہُمْ أَنْ یَرْجِعُوا ، وَقَالَ الْحَکَمُ : إنْ شَاؤُوا رَجَعُوا فِیہِ۔
(٣١٣٧١) شعبہ حماد سے روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے اس شخص کے بارے میں جو ایک تہائی سے زیادہ کی وصیت کرے، ورثاء اس کی اجازت دے دیں اور پھر بعد میں رجوع کرلیں فرمایا : ان کو اس طرح رجوع کرنے کا اختیار نہیں ہے، اور حکم فرماتے ہیں کہ اگر چاہیں تو وہ رجوع کرسکتے ہیں۔

31371

(۳۱۳۷۲) حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِی غَنِیَّۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنِ الْحَکَمِ ، قَالَ : إذَا أَوْصَی الرَّجُلُ فَزَادَ عَلَی الثُّلُثِ فَاسْتَأْذَنَ ابْنَہُ فِی حَیَاتِہِ فَأَذِنَ لَہُ ، فَإِذَا مَاتَ فَعَادَ إلَی ابْنِہِ ، إنْ شَائَ أَجَازَہُ وَإِنْ شَائَ رَدَّہُ۔
(٣١٣٧٢) حضرت حکم فرماتے ہیں کہ جب کوئی آدمی ایک تہائی سے زیادہ مال کی وصیت کرے اور اپنی زندگی میں اپنے بیٹے سے اس کی جازت لے اور بیٹا اس کو اجازت دے دے، تب بھی اس آدمی کے مرنے کے بعد اس کے بیٹے کو اختیار ہوگا ، چاہے تو اس وصیت کو نافذ کر دے اور چاہے تو ردّ کر دے۔

31372

(۳۱۳۷۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ الْمَسْعُودِیِّ ، عَنْ أَبِی عَوْنٍ ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ : أَنَّ رَجُلاً اسْتَأْذَنَ وَرَثَتَہُ فِی مَرَضِہِ فِی أَنْ یُوصِیَ بِأَکْثَرَ مِنَ الثُّلُثِ فَأَذِنُوا لَہُ ، فَلَمَّا مَاتَ رَجَعُوا ، فَسُئِلَ ابْنُ مَسْعُودٍ عَنْ ذَلِکَ ؟ فَقَالَ : ذَلِکَ لَہُمْ ، ذَلِکَ التَّکَرُّہُ لاَ یَجُوزُ۔
(٣١٣٧٣) قاسم بن عبد الرحمن فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے اپنے مرض وفات میں اپنے ورثاء سے اس بات کی اجازت مانگی کہ ایک تہائی سے زائد مال کی وصیت کرے، انھوں نے اس کی اجازت دے دی، لیکن جب وہ آدمی مرا تو وہ انکاری ہوگئے، حضرت ابن مسعود (رض) سے اس بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا انھیں اس بات کا اختیار ہے اور ان کو اس کے خلاف پر مجبور کرنا جائز نہیں۔

31373

(۳۱۳۷۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، عَن دَاوُدَ بْنِ أَبِی ہِنْدٍ ، عَنْ عَامِرٍ۔ وَعَنْ خَالِدٍ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ ، عَنْ شُرَیْحٍ ، قَالَ : إذَا أَوْصَی الرَّجُلُ فِی مَرَضِہِ بِأَکْثَرَ مِنَ الثُّلُثِ لِغَیْرِ وَارِثٍ أَوْ لِوَارِثٍ ، فَأَذِنَ الْوَرَثَۃُ ، ثُمَّ مَاتَ فَلَہُمْ أَنْ یَرْجِعُوا۔
(٣١٣٧٤) حضرت شریح فرماتے ہیں کہ جب کوئی آدمی اپنے مرض الموت میں کسی غیر وارث یا وارث کے لیے ایک تہائی سے زائد مال کی وصیت کرے اور ورثاء بھی اس کی اجازت دیدیں ، پھر وہ آدمی مرجائے تو ان کو رجوع کا حق حاصل ہے۔

31374

(۳۱۳۷۵) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ یَزِیدَ أَبِی خَالِدٍ الدَّالاَنِیِّ ، قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا عَوْنٍ مُحَمَّدِ بْنِ عُبَیْدِ اللہِ یُحَدِّثُ ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ : أَنَّہُ قَالَ ؛ فِی الرَّجُلِ یُوصِی بِأَکْثَرَ مِنَ الثُّلُثِ یُجِیزُہُ الْوَارِثُ ، ثُمَّ لاَ یُجِیزُہُ بَعْدَ مَوْتِہِ ، قَالَ : ذَلِکَ التَّکَرُّہُ لاَ یَجُوزُ۔
(٣١٣٧٥) عبد الرحمن حضرت عبداللہ سے روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے اس آدمی کے بارے میں جو ایک تہائی سے زائد مال کی وصیت کرے اور وارث بھی اس کو نافذ کرنے کی اجازت دے دے لیکن اس کے مرنے کے بعد اس کو نافذ نہ کرے فرمایا : اس پر جبر کرنا جائز نہیں۔

31375

(۳۱۳۷۶) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، أَوْ ہُشَیْمٌ ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : إذَا أَوْصَی بِوَصِیَّۃٍ ، ثُمَّ أَوْصَی بِأُخْرَی بَعْدَہَا ، قَالَ : یُؤْخَذُ بِالأُخْرَی مِنْہُمَا۔
(٣١٣٧٦) یونس حضرت حسن سے روایت کرتے ہیں فرمایا کہ جب کوئی شخص ایک وصیت کرے اور اس کے بعد کوئی دوسری وصیت کر دے تو دوسری وصیت پر عمل کیا جائے گا۔

31376

(۳۱۳۷۷) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِینَارٍ، عَنْ عَطَائٍ وَطَاوُوسٍ وَأَبِی الشَّعْثَائِ ، قَالُوا : یُؤْخَذُ بِآخِرِ وَصِیَّۃٍ۔
(٣١٣٧٧) عمرو بن دینار حضرت عطائ، طاؤس اور ابو الشعثاء سے روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے فرمایا کہ ایسے آدمی کی آخری وصیت پر عمل کیا جائے گا۔

31377

(۳۱۳۷۸) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ یُونُسَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ الْحَسَنِ : أَنَّ رَجُلاً أَوْصَی فَدَعَا نَاسًا ، فَقَالَ : أُشْہِدُکُمْ أَنَّ غُلاَمِی فُلاَنًا إنْ حَدَثَ بِی حَدَثٌ فَہُوَ حُرٌّ ، فَخَرَجُوا مِنْ عِنْدِہِ فَقِیلَ لَہُ : أَعْتَقْت فُلاَنًا وَتَرَکْت فُلاَنًا وَکَانَ أَحْسَنَ بَلاَئً ، فَقَالَ : رُدُّوا عَلَیَّ الْبَیِّنَۃَ ، أُشْہِدُکُمْ أَنِّی قَدْ رَجَعْت فِی عِتْقِ فُلاَنٍ ، وَأَنَّ فُلاَنًا لِعَبْدِہِ الآخَرِ إنْ حَدَثَ بِی حَدَثٌ فَہُوَ حُرٌّ ، فَمَاتَ الرَّجُلُ ، فَقَالَ الأَوَّلُ : أَنَا حُرٌّ ، وَقَالَ الآخَرُ : أَنَا حُرٌّ ، فَاخْتَصَمَا إلَی عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ مَرْوَانَ ، فَرَدَّ عِتْقَ الأَوَّلِ وَأَجَازَ عِتْقَ الآخَرِ۔
(٣١٣٧٨) ہشام حضرت حسن سے روایت کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے وصیت کی ، اور لوگوں کو بلا کر کہا : اگر مجھے موت آگئی تو میں آپ لوگوں کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ میرا فلاں غلام آزاد ہے، اس سے کہا گیا کہ تم نے فلاں غلام کو تو آزاد کردیا لیکن دوسرا فلاں غلام جو اس سے زیادہ خدمت کرنے والا تھا اس کو تم نے چھوڑ دیا، اس پر اس نے کہا لوگوں کو دوبارہ بلاؤ ! اور ان سے کہا میں تمہیں گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ میں نے اس غلام کی آزادی سے رجوع کرلیا اور دوسرا فلاں غلام آزاد ہے اگر میں مر جاؤں، چنانچہ وہ آدمی مرگیا تو پہلے غلام نے دعویٰ کیا کہ میں آزاد ہوں اور دوسرے نے کہا کہ میں آزاد ہوں، چنانچہ وہ عبد الملک بن مروان کے پاس فیصلہ کروانے کے لیے گئے تو انھوں نے پہلے غلام کی آزادی کو ردّ کر کے دوسرے غلام کی آزادی کا اعلان فرما دیا۔

31378

(۳۱۳۷۹) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، قَالَ : إذَا أَوْصَی الرَّجُلُ بِوَصِیَّۃٍ ، ثُمَّ نَقَضَہَا فَہِیَ الآخِرَۃُ ، وَإِنْ لَمْ یَنْقُضْہَا فَإِنَّہُمَا تَجُوزَانِ جَمِیعًا فِی ثُلُثِہِ بِالْحِصَصِ۔
(٣١٣٧٩) معمر زہری سے نقل کرتے ہیں کہ جب کوئی آدمی کوئی وصیت کرے اور پھر اس کو توڑ کر دوسری وصیت کر دے تو دوسری وصیت ہی کا اعتبار کیا جائے گا، اور اگر وہ پہلی وصیت کو نہ توڑے تو اپنے اپنے حصّے کے تناسب سے اس کے ثلث میں دونوں وصیتیں نافذ ہوجائیں گی۔

31379

(۳۱۳۸۰) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ الْحُبَابِ ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَۃَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ : أَنَّ ابْنَ أَبِی رَبِیعَۃَ کَتَبَ إلَی عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ : فِی الرَّجُلُ یُوصِی بِوَصِیَّۃٍ ثُمَّ یُوصِی بِأُخْرَی ، قَالَ : أَمْلَکُہُمَا آخِرُہُمَا۔
(٣١٣٨٠) عمرو بن شعیب سے روایت ہے کہ ابن أبی ربیعہ نے حضرت عمربن خطاب سے اس آدمی کے بارے میں سوال کیا جس نے ایک وصیت کی پھر دوسری وصیت کر ڈالی، آپ نے فرمایا کہ ان دونوں میں سے آخری وصیت نافذ ہونے کی زیادہ حق دار ہے۔

31380

(۳۱۳۸۱) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنِ الْحَارِثِ ، عَنْ عَلِیٍّ : فِی رَجُلٍ أَوْصَی لِرَجُلٍ فَمَاتَ الَّذِی أُوصِیَ لَہُ قَبْلَ أَنْ تَأْتِیَہُ ، قَالَ : ہِیَ لِوَرَثَۃِ الْمُوصَی لَہُ۔
(٣١٣٨١) حارث حضرت علی (رض) سے اس آدمی کے بارے میں روایت کرتے ہیں جس نے کسی آدمی کے لیے وصیت کی پھر جس کے لیے وصیت کی تھی وہ اس وصیت کرنے والے سے پہلے ہی مرگیا، آپ نے فرمایا اس وصیت کے حق دار اس شخص کے ورثاء ہیں۔

31381

(۳۱۳۸۲) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، قَالَ سَأَلَتْ عَمْرًا عَنْہُ ، قَالَ : کَانَ الْحَسَنُ یَقُولُ : ہِیَ لِوَرَثَۃِ الْمُوصَی لَہُ۔
(٣١٣٨٢) حفص فرماتے ہیں کہ میں نے اس بارے میں عمرو (رض) سے سوال کیا تھا انھوں نے فرمایا کہ حضرت حسن (رض) فرمایا کرتے تھے کہ یہ وصیت اس شخص کے ورثاء کو جائے گی۔

31382

(۳۱۳۸۳) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ أَبِی مَعْشَرٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : إذَا أَوْصَی لِرَجُلٍ وَہُوَ مَیِّتٌ یَوْمَ یُوصِی لَہُ فَإِنَّ الْوَصِیَّۃَ تَرْجِعُ إلَی وَرَثَۃِ الْمُوصِی ، وَإِذَا أَوْصَی لِرَجُلٍ ثُمَّ مَاتَ فَإِنَّ الْوَصِیَّۃَ لِوَرَثَۃِ الْمُوصَی لَہُ۔
(٣١٣٨٣) ابو معشر حضرت ابراہیم سے روایت کرتے ہیں کہ جب کوئی آدمی کسی کے لیے کچھ مال کی وصیت کرے اور جس دن اس نے وصیت کی اسی دن مرجائے تو وصیت ورثاء کی طرف لوٹے گی ( کہ وہ اس کو نافذ کریں گے) اور جب کسی کے لیے وصیت کی اور جس کے لیے وصیت کی تھی مرجائے تو اس کے ورثاء وصیت کے حق دارہوں گے۔

31383

(۳۱۳۸۴) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ خَالِدٍ ، عَنْ أَبِی قِلاَبَۃَ ، قَالَ : لاَ وَصِیَّۃَ لِمَیِّتٍ۔
(٣١٣٨٤) ابو قلابہ فرماتے ہیں کہ مردے کے لیے وصیت معتبر نہیں۔

31384

(۳۱۳۸۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ قَالَ : لاَ وَصِیَّۃَ لِمَیِّتٍ۔
(٣١٣٨٥) شعبی فرماتے ہیں کہ مردے کے لیے وصیت معتبر نہیں۔

31385

(۳۱۳۸۶) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ : فِی الرَّجُلِ یُوصِی بِالْوَصِیَّۃِ فَیَمُوتُ الَّذِی أُوصِیَ لَہُ قَبْلَ الَّذِی أَوْصَی ، قَالَ : لَیْسَ لَہُ شَیْئٌ ، أَنَّہُ أَوْصَی لَہُ وَہُوَ مَیِّتٌ۔
(٣١٣٨٦) زہری اس شخص کے بارے میں جو کچھ وصیت کرے لیکن جس کے لیے وصیت کی وہ اس سے پہلے ہی مرجائے فرماتے ہیں : اس وصیت کا کوئی اعتبار نہیں ، کیونکہ اس نے گویا مردے کے لیے وصیت کی ہے۔

31386

(۳۱۳۸۷) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ حَمَّادٍ : فِی الرَّجُلِ یُوصِی بِالْوَصِیَّۃِ فَیَمُوتُ الْمُوصَی لَہُ قَبْلَ الَّذِی أَوْصَی ، قَالَ : تَبْطُلُ ، وَإِنْ مَاتَ الَّذِی أَوْصَی ، ثُمَّ الَّذِی أُوصِیَ لَہُ ، کَانَ لِوَرَثَتِہِ۔
(٣١٣٨٧) حماد فرماتے ہیں اس شخص کے بارے میں جس نے کوئی وصیت کی اور جس کے لیے وصیت کی تھی وہ اس سے پہلے مرجائے، کہ وہ وصیت باطل ہوجائے گی، اور اگر پہلے وصیت کرنے والا مرجائے پھر وہ جس کے لیے وصیت کی گئی تھی تو اس کے ورثاء اس مال کے حق دار ہوں گے۔

31387

(۳۱۳۸۸) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ : فِی رَجُلٍ أَوْصَی لِرَجُلٍ بِثُلُثِ مَالِہِ وَأَفَادَ مَالاً قَبْلَ أَنْ یَمُوتَ ثُمَّ مَاتَ ، قَالَ : لَہُ ثُلُثُ الَّذِی أَوْصَی لَہُ ، وَلَہُ ثُلُثُ مَا أَفَادَ۔
(٣١٣٨٨) حضرت ابراہیم سے اس آدمی کے بارے میں روایت ہے جو کسی کے لیے اپنے ایک تہائی مال کی وصیت کرے اور پھر مرنے سے پہلے اس کا مال بڑھ جائے ، پھر مرجائے، فرمایا : اس شخص کو جس کے لیے وصیت کی گئی ہے اس کے پہلے مال کا ایک تہائی حصّہ ہے اور اس کے ساتھ اس نئے حاصل شدہ مال کا ایک تہائی حصّہ ہے۔

31388

(۳۱۳۸۹) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ خِلاَسٍ ، عَنْ عَلِیٍّ : فِی رَجُلٍ أَوْصَی بِثُلُثِ مَالِہِ وَقُتِلَ خَطَأً، قَالَ : الثُّلُثُ دَاخِلٌ فِی دِیَتِہِ۔
(٣١٣٨٩) خلاس حضرت علی (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے اس آدمی کے بارے میں جس نے اپنے ایک تہائی مال کی وصیت کی پھر غلطی سے قتل ہوگیا، فرمایا : ایک تہائی کی وصیت اس کی دیت میں بھی جائے گی۔

31389

(۳۱۳۹۰) حَدَّثَنَا حَفْصٌ، عَنْ أَشْعَثَ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ، عَنِ الْحَارِثِ، عَنْ عَلِیٍّ ، قَالَ: لَہُ ثُلُثُ مَالِہِ ، وَثُلُثُ دِیَتِہ۔
(٣١٣٩٠) حارث حضرت علی (رض) کا فرمان نقل کرتے ہیں کہ اس آدمی کو اس وصیت کرنے والے کا ایک تہائی اور اس کی دیت کا بھی ایک تہائی دیا جائے گا۔

31390

(۳۱۳۹۱) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِی عَدِیٍّ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الْحَسَنِ : فِی الرَّجُلِ أَوْصَی بِثُلُثِ مَالِہِ فَقُتِلَ خَطَأً ، قَالَ : یَدْخُلُ ثُلُثُ الدِّیَۃِ فِی ثُلُثِ مَالِہِ۔
(٣١٣٩١) حضرت حسن (رض) سے اس آدمی کے بارے میں روایت ہے جس نے اپنے ایک تہائی مال کی وصیت کی پھر غلطی سے قتل ہوگیا، آپ نے فرمایا : دیت کا ایک تہائی اس کے مال کے ایک تہائی میں داخل ہوجائے گا۔

31391

(۳۱۳۹۲) حَدَّثَنَا عَبَّادٌ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : أَہْلُ الْوَصِیَّۃِ شُرَکَائُ فِی الْوَصِیَّۃِ ، إنْ زَادَتْ وَإِنْ نَقَصَتْ ، قَالَ : فَأَخْبَرْت بِہِ ابْنَ سِیرِینَ فَأَعْجَبَہُ ذَلِکَ۔
(٣١٣٩٢) اشعث، حضرت شعبی سے روایت کرتے ہیں آپ نے فرمایا : وصیت کے مالک وصیت کے مال میں شریک ہوں گے چاہے وہ بڑھے یا گھٹے، أشعث فرماتے ہیں کہ میں نے یہ بات محمد بن سیرین سے بیان کی تو انھوں نے اس کو پسند کیا۔

31392

(۳۱۳۹۳) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ حُبَابِ ، عَنِ ابْنِ لَہِیعَۃَ ، عَنْ یَزِیدَ بْنِ أَبِی حَبِیبٍ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِیزِ : فِی رَجُلٍ أَوْصَی لِرَجُلٍ بِوَصِیَّۃٍ ، ثُمَّ جَائَہُ مَالٌ أَوْ أَفَادَ مَالاً ، قَالَ : لاَ یَدْخُلُ فِیہِ۔
(٣١٣٩٣) یزید بن ابی حبیب حضرت عمر بن عبد العزیز (رض) سے روایت کرتے ہیں اس آدمی کے بارے میں جس نے کسی کے لیے کوئی وصیت کی ، پھر اس کے پاس مال آگیا، فرمایا کہ وہ اضافی مال اس وصیت میں داخل نہیں ہوگا۔

31393

(۳۱۳۹۴) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : إذَا أَوْصَی الرَّجُلُ لِلرَّجُلِ بِخَمْسِینَ دِرْہَمًا عُجِّلَتْ لَہُ مِنَ الْعَیْنِ ، وَإِذَا أَوْصَی بِثُلُثٍ أَوْ رُبُعٍ کَانَ فِی الْعَیْنِ وَالدَّیْنِ۔
(٣١٣٩٤) اعمش سے روایت ہے کہ حضرت ابراہیم نے فرمایا : جب کوئی آدمی کسی کے لیے پچاس درہم کی وصیت کرے تو اس کو وہ دراہم میت کے نقد مال میں سے دے دیے جائیں گے، اور جب کوئی ایک تہائی یا ایک چوتھائی مال کی وصیت کرے تو وہ مال اس آدمی کو میت کے نقد مال اور قرض دونوں سے نکال کردیا جائے گا۔

31394

(۳۱۳۹۵) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنِ الْحَسَنِ : فِی الرَّجُلِ یُوصِی لِلرَّجُلِ بِخَمْسِینَ دِرْہَمًا مِنْ مَالِہِ ، قَالَ : یُعَجِّلُ لَہُ مَا بَیْنَہُ وَبَیْنَ ثُلُثِ الْعَیْنِ۔
(٣١٣٩٥) عمرو حضرت حسن سے روایت کرتے ہیں اس آدمی کے بارے میں جو کسی کے لیے اپنے مال میں سے پچاس درہم کی وصیت کرے، آپ نے فرمایا کہ موجودہ نقد مال کے ایک تہائی حصے سے نکال کر دے دیے جائیں۔

31395

(۳۱۳۹۶) حَدَّثَنَا ابْنُ مُبَارَکٍ ، عَنْ یَعْقُوبَ ، عَنْ عَطَائٍ وَقَتَادَۃَ۔ وَعَنْ مَطَرٍ ، عَنِ الْحَسَنِ : فِی رَجُلٍ أَوْصَی لِبَنِی عَمِّہِ رِجَالٍ وَنِسَائٍ ، قَالُوا لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الأُنْثَی ، إلاَّ أَنْ یَکُونَ قَالَ : {لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الأُنْثَیَیْنِ}۔
(٣١٣٩٦) مطر حضرت حسن سے روایت کرتے ہیں اس آدمی کے بارے میں جس نے اپنے چچا کی اولاد کے لیے وصیت کی جن میں مرد بھی ہیں اور عورتیں بھی، علماء فرماتے ہیں کہ ایسی صورت میں مرد کو عورت کے برابر حصہ دیا جائے گا، لیکن اگر اس نے یہ کہا ہو کہ ایک مرد کو دو عورتوں کے برابر حصّہ دیا جائے گا تو ممکن ہے ایسا ہی کیا ہو۔

31396

(۳۱۳۹۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ طَلْحَۃَ بْنِ الأَعْلَمِ الْحَنَفِیِّ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ : أَنَّ رَجُلاً أَوْصَی لأَرَامِلَ بَنِی حَنِیفَۃَ ، فَقَالَ الشَّعْبِیُّ : ہُوَ لِلرِّجَالِ وَالنِّسَائِ مِمَّنْ خَرَجَ مِنْ کَمَرَۃِ حَنِیفَۃَ۔
(٣١٣٩٧) طلحہ بن أعلم حنفی حضرت شعبی سے روایت کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے قبیلہ بنو حنیفہ کی بیوہ عورتوں کے لیے وصیت کی ، حضرت شعبی نے فرمایا : یہ وصیت ہر اس مرد و عورت کے لیے ہے جو حنیفہ کی نسل سے ہو۔

31397

(۳۱۳۹۸) حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّیَالِسِیُّ ، عَنْ وُہَیْبٍ ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ : فِی الرَّجُلِ یَقُولُ : لِبَنِی فُلاَنٍ کَذَا وَکَذَا ، قَالَ : ہُوَ لِغَنِیِّہِمْ وَفَقِیرِہِمْ وَذَکَرِہِمْ وَأُنْثَاہُمْ۔
(٣١٣٩٨) یونس حضرت حسن سے روایت کرتے ہیں اس آدمی کے بارے جو وصیت میں یوں کہے : فلاں کی اولاد کے لیے اتنا اتنا مال ہے، آپ نے فرمایا : مال ان کے مال داروں اور فقراء اور مرد و عورت سب کے لیے ہوگا۔

31398

(۳۱۳۹۹) حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ خَالِدٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ جَعْفَرٍ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : سَأَلْتُ الْقَاسِمَ عْن رَجُلٍ کَانَتْ لَہُ مَسَاکِنُ فَأَوْصَی بِثُلُثِ کُلِّ مَسْکَنٍ لَہُ ؟ قَالَ : یُخْرَجُ حَتَّی یَکُونَ فِی مَسْکَنٍ وَاحِدٍ۔
(٣١٣٩٩) سعد بن ابراہم فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت قاسم سے اس آدمی کے بارے میں دریافت کیا جس کے کچھ گھر تھے، پھر اس نے ہر گھر کے ایک تہائی کی وصیت کردی، آپ نے فرمایا : اس پورے حصّے کو ایک مکان سے نکال کردیا جائے گا۔

31399

(۳۱۴۰۰) حَدَّثَنَا یَعْلَی ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ ، عَنْ عَطَائٍ : فِی رَجُلٍ أَوْصَی بِثُلُثِ مَالِہِ وَأَشْیَائَ سِوَی ذَلِکَ ، وَتَرَکَ دَارًا تَکُونُ ثُلُثُہَا ، أَیُعْطَاہَا الْمُوصَی لَہُ بِالثُّلُثِ ، قَالَ : لاَ وَلَکِنْ یُعْطَی بِالْحِصَّۃِ مِنَ الْمَالِ وَالدَّارِ۔
(٣١٤٠٠) حضرت عطاء سے اس آدمی کے بارے میں روایت ہے جس نے ایک تہائی مال اور اس کے علاوہ کچھ اشیاء کی وصیت کی ، اور ایک گھر چھوڑ کر مرا جو اس کے مال کا ایک تہائی ہوتا ہے، ان سے پوچھا گیا کیا جس آدمی کے لیے وصیت کی گئی ہے اسے وہ گھر ایک تہائی حصّے میں دیا جاسکتا ہے ؟ انھوں نے فرمایا : نہیں، بلکہ اس کو مال اور گھر دونوں کا ایک حصّہ دیا جائے گا۔

31400

(۳۱۴۰۱) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الْحَکَمِ وَحَمَّادٌ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ : أَنَّہُ سُئِلَ عَنْ رَجُلٍ ، قَالَ : ثُلُثَیْ ثَلاَثُمِئَۃ دِرْہَمٍ : مِئَۃٌ لِفُلاَنٍ ، وَمِئَۃٌ لِفُلاَنٍ ، وَمَا بَقِیَ مِنْ ثُلُثی ؛ فَہُوَ لِفُلاَنٍ ، قَالَ : فَلِفُلاَنٍ مِئَۃٌ ، وَلِفُلاَنٍ مِئَۃٌ ، وَمَا بَقِیَ فَلِفُلاَنٍ ، وَإِنْ لَمْ یَبْقَ شَیْئٌ ، فَلَیْسَ بِشَیْئٍ۔
(٣١٤٠١) حکم اور حماد حضرت ابراہیم سے روایت کرتے ہیں کہ ان سے اس آدمی کے بارے میں پوچھا گیا جس نے کہا تھا کہ میرے مال کا تہائی حصّہ تین سو درہم ہیں، سو فلاں آدمی کو دیے جائیں، سو فلاں آدمی کو ، اور جو باقی بچیں وہ فلاں تیسرے شخص کو دے دیے جائیں، آپ نے فرمایا : پہلے شخص کے لیے سو درہم ، دوسرے کے لیے بھی سو درہم، اور تہائی مال سے جتنا بچے وہ سب کا سب تیسرے آدمی کا ہے، اگر کچھ نہ بچے تو تیسرے آدمی کو کچھ نہ ملے گا۔

31401

(۳۱۴۰۲) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ حُبَابٍ ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَۃَ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ : فِی رَجُلٍ أَوْصَی ، قَالَ : ثُلُثَیْ لِفُلاَنٍ ، فَإِنْ مَاتَ فَہُوَ لِفُلاَنٍ ، قَالَ : ہُوَ لِلأَوَّلِ۔
(٣١٤٠٢) قتادہ حضرت سعید بن مسیب سے روایت کرتے ہیں اس آدمی کے بارے میں جو کہے کہ میرا تہائی مال فلاں آدمی کے لیے ہے ، اور اگر وہ میری زندگی میں وفات پا جائے تو فلاں دوسرے شخص کے لیے ہے، آپ نے فرمایا وہ مال پہلے آدمی کو دیا جائے گا۔

31402

(۳۱۴۰۳) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ الحُبَابٍ ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَۃَ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : ہُوَ لِلأَوَّلِ۔
(٣١٤٠٣) قتادہ حضرت حسن سے بھی یہی روایت کرتے ہیں۔

31403

(۳۱۴۰۴) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ حُبَابٍ ، عَنْ حَمَّادٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ حُمَیْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، قَالَ : یُجْرِی کَمَا قَالَ۔
(٣١٤٠٤) قتادہ حضرت حمید بن عبد الرحمن سے روایت کرتے ہیں کہ جس طرح اس وصیت کرنے والے نے کہا ہے اسی طرح عمل کیا جائے گا۔

31404

(۳۱۴۰۵) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ حُبَابٍ ، عَنْ حَمَّادٍ ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، مِثْلَہُ۔
(٣١٤٠٥) ہشام بن عروہ اپنے والد ماجد سے بھی یہی مضمون نقل کرتے ہیں۔

31405

(۳۱۴۰۶) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ الثَّقَفِیُّ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ، قَالَ : بَلَغَنِی أَنَّ صَفِیَّۃَ أَوْصَتْ لِقَرَابَۃٍ لَہَا بِمَالٍ عَظِیمٍ، وَکَثِیرٍ مِنَ الْیَہُودِ کَانُوا وَرَثَتَہَا لَوْ کَانُوا مُسْلِمِینَ فَوَرِثَہَا غَیْرُہُمْ مِنَ الْمُسْلِمِینَ وَجَازَ لَہُمْ مَا أَوْصَتْ۔
(٣١٤٠٦) یحییٰ بن سعید فرماتے ہیں کہ مجھے یہ خبر پہنچی ہے کہ حضرت صفیہ (رض) نے اپنے رشتہ داروں کے لیے بہت سے مال کی وصیت کی تھی، اور بہت سے یہودی ان کے خاندان کے ایسے تھے اگر وہ مسلمان ہوتے تو ان کے وارث ہوتے، لیکن ان کے کافر ہونے کی وجہ سے ان کے خاندان کے مسلمان ان کے وارث ہوئے، اس لیے جو مسلمان نہ تھے ان کے حق میں ان کی وصیت نافذ ہوگئی۔

31406

(۳۱۴۰۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حَدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ نَافِعٍ : أَنَّ صَفِیَّۃَ أَوْصَتْ لِقَرَابَۃٍ لَہَا یَہُود۔
(٣١٤٠٧) حضرت نافع سے روایت ہے کہ حضرت صفیہ (رض) نے اپنے بعض رشتہ داروں کے لیے وصیت کی تھی جو یہودی تھے۔

31407

(۳۱۴۰۸) حَدَّثَنَا مُعَاذٌ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنْ مُحَمَّدٍ ، قَالَ : وَصِیَّۃُ الرَّجُلِ جَائِزَۃٌ لِذِمِّیٍّ کَانَ أَوْ لِغَیْرِہِ۔
(٣١٤٠٨) محمد سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ آدمی کی وصیت جائز ہے ذمّی کے لیے ہو یا کسی اور کے لئے۔

31408

(۳۱۴۰۹) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنِ الْحَکَمِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : کَانَ یَقُولُ : الْوَصِیَّۃُ لِلْیَہُودِیِّ وَالنَّصْرَانِیِّ وَالْمَجُوسِیِّ وَالْمَمْلُوکِ جَائِزَۃً۔
(٣١٤٠٩) حکم روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابراہیم فرمایا کرتے تھے کہ یہودی ، نصرانی، مجوسی اور غلام کیلئے وصیت کرنا جائز ہے۔

31409

(۳۱۴۱۰) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ عَطَائٍ : أَنَّ امْرَأَۃً مِنْ أَزْوَاجِ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَوْصَتْ لِقَرَابَۃٍ لَہَا مِنَ الْیَہُودِ۔
(٣١٤١٠) لیث حضرت عطاء سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ایک زوجہ محترمہ نے اپنے یہودی رشتہ داروں کے لیے وصیت کی تھی۔

31410

(۳۱۴۱۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ: حدَّثَنَا سُفْیَانُ، عَنْ جَابِرٍ، عَنْ عَامِرٍ، قَالَ: لاَ بَأْسَ أَنْ یُوصَی لِلْیَہُودِیِّ وَالنَّصْرَانِیِّ۔
(٣١٤١١) جابر حضرت عامر سے روایت کرتے ہیں فرمایا کہ یہودی اور نصرانی کے لیے وصیت کرنے میں کوئی حرج نہیں۔

31411

(۳۱۴۱۲) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ قَتَادَۃَ {إلاَّ أَنْ تَفْعَلُوا إلَی أَوْلِیَائِکُمْ مَعْرُوفًا} قَالَ : أَوْلِیَائِکَ مِنْ أَہْلِ الْکِتَابِ ، یَقُولُ : وَصِیَّۃٌ وَلاَ مِیرَاثَ لَہُمْ۔
(٣١٤١٢) قتادہ آیت {إلاَّ أَنْ تَفْعَلُوا إلَی أَوْلِیَائِکُمْ مَعْرُوفًا } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ آیت میں اولیاء سے مراد اہل کتاب میں سے اولیاء ہیں جن کے بارے میں یہ حکم ارشاد ہے کہ ان کے لیے وراثت نہیں لیکن وصیت ہوسکتی ہے۔

31412

(۳۱۴۱۳) حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ ہَارون، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَطَائٍ ، قَالَ: سَمِعَہُ وَہُوَ یُسْأَلُ عَنِ الْوَصِیَّۃِ لأَہْلِ الشِّرْکِ؟ قَالَ : لاَ بَأْسَ بِہَا۔
(٣١٤١٣) ابن جریج فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عطاء کو فرماتے سنا جبکہ ان سے مشرکین کے لیے وصیت کرنے کا حکم پوچھا جا رہا تھا ، فرمایا اس میں کوئی حرج نہیں۔

31413

(۳۱۴۱۴) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِینَارٍ : أَنَّ عُمَرَ أَوْصَی إلَی حَفْصَۃَ۔
(٣١٤١٤) عمرو بن دینار فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے حضرت حفصہ (رض) کو اپنی وصیت کی ذمہ داری دی۔

31414

(۳۱۴۱۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، قَالَ: حدَّثَنَا أَبُو جَنَابٍ، عَنْ أَبِی عَوْنٍ الثَّقَفِیِّ: أَنَّ رَجُلاً أَوْصَی إلَی امْرَأَتِہِ، فَأَجَازَ ذَلِکَ شُرَیْحٌ۔
(٣١٤١٥) ابو عون ثقفی فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے اپنی بیوی کو اپنی وصیت پورا کرنے کی ذمہ دار بنایا، تو حضرت شریح نے اس کی اجازت دے دی۔

31415

(۳۱۴۱۶) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ عَمْرٍو الأَزْدِیِّ ، قَالَ : حدَّثَتْنِی خَالَتِی ، وَکَانَتِ امْرَأَۃُ إبْرَاہِیمَ ، قَالَتْ : أَوْصَی إلَیَّ إبْرَاہِیمُ بِشَیْئٍ مِنْ وَصِیَّتِہِ۔
(٣١٤١٦) حضرت ابراہیم کی اہلیہ فرماتی ہیں کہ حضرت ابراہیم (رض) نے مجھے اپنی وصیت کے کچھ حصّے کے نافذ کرنے کی ذمہ داری دی۔

31416

(۳۱۴۱۷) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ ، عَنْ عَطَائٍ ، قَالَ : لاَ تَکُونُ الْمَرْأَۃُ وَصِیًّا ، فَإِنْ فَعَلَ نُظِرَ إلَی رَجُلٍ یَوْثقُ بِہِ ، فَجُعِلَ ذَلِکَ إلَیْہِ
(٣١٤١٧) عبد الملک حضرت عطاء سے روایت کرتے ہیں ، انھوں نے فرمایا کہ عورت کو وصیت نافذ کرنے کی ذمہ داری نہیں سونپی جاسکتی، اگر کوئی آدمی ایسا کر بیٹھے تو کوئی بااعتبار آدمی ڈھونڈ کر اس کو یہ ذمہ داری دی جاسکتی ہے۔

31417

(۳۱۴۱۸) وَسَمِعْت وَکِیعًا یَقُولُ : قَالَ سُفْیَانُ : تَکُونُ وَصِیًّا ، رُبَّ امْرَأَۃٍ خَیْرٌ مِنْ رَجُلٍ۔
(٣١٤١٨) وکیع فرماتے ہیں کہ میں نے سفیان کو یہ فرماتے سنا کہ عورت وصیت کی ذمہ دار بن سکتی ہے کیونکہ بہت سی عورتیں آدمی سے بہتر ہوتی ہیں۔

31418

(۳۱۴۱۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنْ رَجُلٍ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ : فِی رَجُلٍ أَوْصَی وَصِیَّۃً لِلْمُحْوِجِینَ ، قَالَ : یُجْعَلُ فِی الْقَرَابَۃِ ، فَإِنْ لَمْ یَکُونُوا فَللْمَوَالِی ، فَإِنْ لَمْ یَکُونُوا فَللْجِیرَانِ۔
(٣١٤١٩) معمر ایک آدمی کے واسطے سے عکرمہ سے روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے اس آدمی کے بارے میں فرمایا جس نے حاجت مندوں کے لیے وصیت کی تھی کہ اس وصیت کو سب سے پہلے اس کے رشتہ داروں میں خرچ کیا جائے، اگر وہ نہ ہوں تو غلاموں میں اور اگر وہ بھی نہ ہوں تو پڑوسیوں میں۔

31419

(۳۱۴۲۰) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنْ مُحَمَّدٍ ، قَالَ : قَالَ عُبَیْدُ اللہِ بْنُ عَبْدِ اللہِ بْنِ مَعْمَرٍ فِی الْوَصِیَّۃِ : مَنْ سَمَّی : جَعَلْنَاہَا حَیْثُ سَمَّی ، وَمَنْ قَالَ حَیْثُ أَمَرَ اللَّہُ : جَعَلْنَاہَا فِی قَرَابَتِہِ۔ (عبدالرزاق ۱۶۴۳۰)
(٣١٤٢٠) محمد روایت کرتے ہیں کہ عبید اللہ بن عبداللہ بن معمر نے وصیت کے بارے میں فرمایا جس شخص نے وصیت کرتے ہوئے آدمی کا نام لیا تو ہم اس آدمی کو اس کا مال دلا دیں گے جس کا اس نے وصیت میں نام لیا، اور جس نے اس طرح وصیت کی جہاں اللہ کا حکم ہے وہیں خرچ کردیا جائے تو ہم اس کے قرابت داروں کو مال دلائیں گے۔

31420

(۳۱۴۲۱) حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنِ الْحَسَنِ : فِی الرَّجُلِ یُوصِی لِلأَبَاعِدِ وَیَتْرُکُ الأَقَارِبَ ، قَالَ : تُجْعَلُ وَصِیَّتُہُ ثَلاَثَۃُ أَثْلاَثٍ : لِلأَقَارِبِ ثُلُثَانِ ، وَلِلأَبَاعِدِ ثُلُثٌ ، وَأَمَّا مُحَمَّدُ بْنُ کَعْبٍ ، فَقَالَ : إنَّمَا ہُوَ مَالٌ ، أَعْطَاہُ اللَّہُ ، یَضَعُہُ حَیْثُ أَحَبَّ۔
(٣١٤٢١) معتمر اپنے والد سے وہ حضرت حسن سے اس آدمی کے بارے میں روایت کرتے ہیں جو دور کے رشتہ داروں کے لیے وصیت کرے اور قریب کے رشتہ داروں کو چھوڑ دے، فرمایا کہ اس کے وصیت شدہ مال کو تین حصّوں میں تقسیم کیا جائے گا ، قریبی رشتہ داروں کے لیے دو تہائی، اور دور کے رشتہ داروں کے لیے ایک تہائی، اور محمد بن کعب فرماتے تھے کہ یہ تو اللہ کا دیا ہوا مال ہے جہاں اس کا جی چاہے خرچ کرے۔

31421

(۳۱۴۲۲) حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ ، عَنْ حُمَیْدٍ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ ، قَالَ : ضَعُوہَا حَیْثُ أَمَرَ بِہَا۔
(٣١٤٢٢) حُمید محمد بن سیرین کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں کہ وصیت کرنے والے نے جس جگہ وصیت کے مال کو خرچ کرنے کا حکم دیا ہے اسی جگہ اسے خرچ کرو۔

31422

(۳۱۴۲۳) حَدَّثَنَا ابْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنْ ہَمَّامٍ : أَنَّ قَتَادَۃَ سُئِلَ عَنِ الرَّجُلِ یُوصِی لِغَیْرِ قَرَابَتِہِ ؟ قَالَ : کَانَ سَالِمٌ وَسُلَیْمَانُ بْنُ یَسَارٍ وَعَطَائٌ یَقُولُونَ : ہِیَ لِمَنْ أُوصِی لَہُ بِہَا۔
(٣١٤٢٣) ھمام سے روایت ہے کہ قتادہ سے اس آدمی کے بارے میں سوال کیا گیا جو ان لوگوں کے لیے وصیت کرتا ہے جن کا اس سے کوئی رشتہ نہیں، فرمایا کہ سالم، سلیمان بن یسار اور عطاء فرمایا کرتے تھے کہ وہ مال اس کو دیا جائے گا جس کے لیے اس نے اس مال کی وصیت کی۔

31423

(۳۱۴۲۴) حَدَّثَنَا الضَّحَّاکُ بْنُ مَخْلَدٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَطَائٍ ، قَالَ : قُلْتُ : أَوْصَی إِنْسَانٌ فِی سَبِیلِ اللہِ ، وَفِی الْمَسَاکِینِ ، وَتَرَکَ قَرَابَۃً مُحْتَاجِینَ ؟ قَالَ : وَصِیَّتُہُ حَیْثُ أَوْصَی بِہَا۔
(٣١٤٢٤) ابن جریج عطاء سے روایت کرتے ہیں فرماتے ہیں کہ میں نے عطاء سے سوال کیا کہ ایک آدمی نے مجاہدین اور مسکینوں کے لیے وصیت کی لیکن اس کے رشتہ داروں میں بہت سے حاجت مند لوگ ہیں، فرمایا کہ اس کی وصیت وہیں نافذ کی جائے گی جہاں اس نے کی ہے۔

31424

(۳۱۴۲۵) حَدَّثَنَا الضَّحَّاکُ بْنُ مَخْلَدٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنِ ابْنِ أَبِی مُلَیْکَۃَ ، قَالَ : أَمَرَہُمْ بِأَمْرٍ فَإِنْ خَالَفُوا جَازَ وَبِئْسَ مَا صَنَعُوا ، وَقَدْ کَانَ عَطَاء قَالَ : ذُو الْقَرَابَۃِ أَحَقُّ بِہَا۔
(٣١٤٢٥) ابن جریج روایت کرتے ہیں کہ ابن ابی ملیکہ نے فرمایا کہ وصیت کرنے والے نے وصیت کے ذمہ داروں کو یہ حکم دیا ہے، اگر وہ اس حکم کی مخالفت کریں تب بھی نافذ تو ہوجائے گی لیکن ان کا یہ فعل برا ہوگا، اور حضرت عطاء فرمایا کرتے تھے کہ قرابت دار زیادہ حق دار ہیں۔

31425

(۳۱۴۲۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، قَالَ: حدَّثَنَا إسْرَائِیلُ، عَنْ جَابِرٍ، عَنْ عَامِرٍ، قَالَ: لِلرَّجُلِ ثُلُثُہُ، یَطْرَحُہُ فِی الْبَحْرِ إنْ شَائَ۔
(٣١٤٢٦) جابر حضرت عامر سے روایت کرتے ہیں، فرمایا کہ آدمی کو اپنے تہائی مال کا اختیار ہے، چاہے تو اس کو سمندر میں پھینک دے۔

31426

(۳۱۴۲۷) حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ ، عَنْ حُمَیْدٍ ، عَنِ الْحَسَنِ : فِی الرَّجُلِ یُوصِی لِلأَبَاعِدِ وَیَتْرُکُ الأَقَارِبَ ، قَالَ : تُجْعَلُ وَصِیَّتُہُ ثَلاَثَۃَ أَثْلاَثٍ : لِلأَقَارِبِ ثُلُثَانِ ، وَلِلأَبَاعِدِ ثُلُثٌ۔
(٣١٤٢٧) حمید حضرت حسن سے روایت کرتے ہیں اس آدمی کے بارے میں جو دور کے رشتہ داروں کے لیے وصیت کر دے اور قریبی رشتہ داروں کو چھوڑ دے، آپ نے فرمایا کہ اس کے وصیت شدہ مال کے تین حصّے کیے جائیں، قریبی رشتہ داروں کے لیے دو تہائی اور دور کے رشتہ داروں کے لیے ایک تہائی۔

31427

(۳۱۴۲۸) حَدَّثَنَا الضَّحَّاکُ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنِ ابْنِ طَاوُوس ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : کَانَ لاَ یَرَی الْوَصِیَّۃَ إلاَّ لِذَوِی الأَرْحَامِ أَہْلِ الْفَقْرِ ، فَإِنْ أَوْصَی بِہَا لِغَیْرِہِمْ إنْتُزِعَتْ مِنْہُمْ فَرُدَّتْ إلَیْہِمْ ، فَإِنْ لَمْ یَکُنْ فِیہِمْ فُقَرَائُ فَلأَہْلِ الْفَقْرِ مَا کَانُوا ، وَإِنْ سَمَّی أَہْلُہَا الَّذِینَ أُوصِی لَہُمْ۔
(٣١٤٢٨) ابن طاؤس فرماتے ہیں کہ طاؤس حاجت مندوں ذوی الأرحام رشتہ داروں کے علاوہ کسی کے لیے وصیت کرنے کو جائز نہیں سمجھتے تھے، اور یہ رائے رکھتے تھے کہ اگر کوئی ان کے علاوہ کسی کے لیے وصیت کرے تو ان سے مال لے کر ذوی الأرحام رشتہ داروں کو دلایا جائے گا، اور اگر ذوی الأرحام رشتہ داروں میں حاجت مند نہ ہوں تو وصیت کا مال فقراء میں تقسیم کیا جائے گا چاہے وہ کوئی بھی ہوں، اگرچہ وصیت کرنے والے نے ان لوگوں کا نام بھی لیا ہو جن کے لیے وصیت ہے۔

31428

(۳۱۴۲۹) حَدَّثَنَا ابْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَۃَ ، عَنْ عَطَائِ بْنِ أَبِی مَیْمُونَۃَ ، قَالَ : سَأَلْتُ الْعَلاَئَ بْنَ زِیَادٍ وَمُسْلِمَ بْنَ یَسَارٍ عَنِ الْوَصِیَّۃِ ؟ فَدَعَا بِالْمُصْحَفِ فَقَرَأَ : {إنْ تَرَکَ خَیْرًا الْوَصِیَّۃُ لِلْوَالِدَیْنِ وَالأَقْرَبِینَ} قَالاَ: ہِیَ لِلْقَرَابَۃِ۔
(٣١٤٢٩) عطاء بن أبی میمونہ فرماتے ہیں کہ میں نے علاء بن زیاد اور مسلم بن یسار سے وصیت کے بارے میں دریافت کیا تو انھوں نے قرآن پاک منگوایا اور آیت {إنْ تَرَکَ خَیْرًا الْوَصِیَّۃُ لِلْوَالِدَیْنِ وَالأَقْرَبِینَ } پڑھی ، اور پھر فرمایا کہ وصیت رشتہ داروں کے لیے ہے۔

31429

(۳۱۴۳۰) حَدَّثَنَا ابْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنْ ہَمَّامِ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنِ الْحَسَنِ وَعَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ یَعْلَی ، قَالاَ : تُرَدُّ عَلَی قَرَابَتِہِ۔
(٣١٤٣٠) قتادہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت حسن اور حضرت عبد الملک بن یعلیٰ نے فرمایا کہ وصیت رشتہ داروں کی طرف لوٹا دی جائے گی۔

31430

(۳۱۴۳۱) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ حُمَیْدٍ ، عَنْ أَنَسٍ : أَنَّ أَبَا طَلْحَۃَ أَتَی النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ : یَا رَسُولَ اللہِ ، إنِّی جَعَلْت حَائِطِی لِلَّہِ ، وَلَوَ اسْتَطَعْت أَنْ أُخْفِیَہُ لَمْ أُظْہِرْہُ ، فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : اجْعَلْہُ فِی فُقَرَائِ أَہْلِک۔ (مسلم ۲۸۵۔ ابوداؤد ۱۶۸۶)
(٣١٤٣١) حمید حضرت انس (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ ابو طلحہ (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس حاضر ہوئے، اور عرض کیا اے اللہ کے رسول ! میں نے اپنا باغ اللہ کے نام پردے دیا، اور اگر میں اس بات کو چھپا سکتا تو اس کو ظاہر نہ کرتا، نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اس باغ کو اپنے حاجت مند قرابت داروں میں تقسیم کردو۔

31431

(۳۱۴۳۲) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، أَنَّہُ کَانَ یَقُولُ : فِی الرَّجُلِ إذَا أَوْصَی فِی مَرَضِہِ ، ثُمَّ بَرَأَ فَلَمْ یُغَیِّرْ وَصِیَّتَہُ تِلْکَ حَتَّی یَمُوتَ بَعْدُ ، قَالَ : یُؤْخَذُ بِمَا فِیہَا۔
(٣١٤٣٢) یونس سے روایت ہے کہ حضرت حسن فرمایا کرتے تھے اس آدمی کے بارے میں جو بیماری کے زمانے میں وصیت کرے پھر تندرست ہوجائے اور اپنی اس وصیت کو تبدیل نہ کرے یہاں تک کہ اسی حالت میں مرجائے ، فرماتے ہیں کہ اس کی وصیت کے مطابق اس کا مال لے لیا جائے گا۔

31432

(۳۱۴۳۳) حَدَّثَنَا ابْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَۃَ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ یَعْلَی : فِی رَجُلٍ أَوْصَی بِوَصِیَّۃٍ فِی مَرَضِہِ فَبَرَأَثُمَّ تَرَکَہَا حَتَّی مَاتَ ، قَالَ : جَائِزَۃٌ۔
(٣١٤٣٣) قتادہ عبد الملک سے اس آدمی کے بارے میں روایت کرتے ہیں جس نے بیماری کے زمانے میں کوئی وصیت کی پھر تندرست ہوگیا اور مرنے تک اس وصیت کو اسی حال میں چھوڑے رکھا، فرمایا کہ وہ وصیت نافذ ہوجائے گی۔

31433

(۳۱۴۳۴) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِی ہِنْدٍ ، قَالَ : سُئِلَ عَامِرٌ عَنْ رَجُلٍ مَاتَ وَتَرَکَ ثَلاَثَۃَ بَنِینَ ، وَأَوْصَی بِمِثْلِ نَصِیبِ أَحَدِہِمْ ؟ قَالَ : ہُوَ رَابِعٌ ، لَہُ الرُّبْعُ۔
(٣١٤٣٤) داؤد بن ابی ہند فرماتے ہیں کہ حضرت عامر سے اس آدمی کے بارے میں سوال کیا گیا جس نے مرتے وقت تین بیٹے چھوڑے اور ایک بیٹے کے حصّے کے بقدر مال کی وصیت کردی آپ نے فرمایا : وہ آدمی جو چوتھا ہے، اس کو ایک چوتھائی حصّہ ملے گا۔

31434

(۳۱۴۳۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حَدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ مَنْصُورٍ وَالأَعْمَشُ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : إذَا تَرَکَ الرَّجُلُ ثَلاَثَۃَ بَنِینَ وَأَوْصَی بِمِثْلِ نَصِیبِ أَحَد بَنِیہِ ، قَالَ : زِدْ وَاحِدًا اجْعَلْہَا مِنْ أَرْبَعَۃٍ۔
(٣١٤٣٥) منصور اور اعمش روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابراہیم نے فرمایا : جب کوئی آدمی تین بیٹے چھوڑ کر مرے اور ایک بیٹے کے حصّے کے بقدر مال کی وصیت کر دے تو ایک آدمی کا اضافہ سمجھ کر مال کو چار حصّوں میں تقسیم کرلو۔

31435

(۳۱۴۳۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ دَاوُدَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : زِدْ وَاحِدًا وَاجْعَلْہَا مِنْ أَرْبَعَۃٍ۔
(٣١٤٣٦) شعبی سے بھی یہی مضمون منقول ہے۔

31436

(۳۱۴۳۷) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ آدَمَ ، قَالَ : حدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ : فِی رَجُلٍ تَرَکَ ابْنَیْنِ وَأَبَوَیْنِ ، وَأَوْصَی بِمِثْلِ نَصِیبِ أَحَدِ الاِبْنَیْنِ ، قَالَ ، ہِیَ مِنْ ثَمَانِیَۃٍ۔
(٣١٤٣٧) منصور حضرت ابراہیم سے روایت کرتے ہیں اس آدمی کے بارے میں جس نے دو بیٹے اور والدین چھوڑے اور ایک بیٹے کے حصّے کے برابر مال کی وصیت کی ، فرمایا کہ اس کو آٹھ میں سے ایک حصّہ ملے گا۔

31437

(۳۱۴۳۸) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ آدَمَ ، قَالَ : حدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ وَمُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ : فِی رَجُلٍ تَرَکَ سِتَّۃَ بَنِینَ وَأَوْصَی بِمِثْلِ نَصِیبِ بَعْضِ وَلَدِہِ ، قَالَ : قَالَ مَنْصُورٌ : ہِیَ مِنْ سَبْعَۃٍ ، یَدْخُلُ مَعَہُمْ ، وَقَالَ مُغِیرَۃُ : یُنْقَصُ وَلاَ یُتَمُّ لَہُ مِثْلُ نَصِیبِ أَحَدِہِمْ۔
(٣١٤٣٨) منصور اور مغیرہ حضرت ابراہیم سے روایت کرتے ہیں اس آدمی کے بارے میں جس نے چھ بیٹھے چھوڑے اور چند بیٹوں کے حصّے کے برابر مال کی وصیت کردی، منصور کی روایت کے مطابق انھوں نے فرمایا : اس کو سات میں سے ایک حصّہ ان بیٹوں کے برابر دیا جائے گا، اور مغیرہ کی روایت کے مطابق فرمایا کہ اس کے حصّے کو کم رکھا جائے گا اور کسی ایک بیٹے کے برابر نہیں دیا جائے گا۔

31438

(۳۱۴۳۹) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاویَۃ ، حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ الثَّقَفِیُّ ، قَالَ : لَقِیَنِی إبْرَاہِیمُ فَقَالَ : مَا تَقُولُ فِی رَجُلٍ أَوْصَی بِنِصْفِہِ وَثُلُثِہِ وَرُبْعِہِ ، قَالَ : فَلَمْ یَکُنْ عِنْدِی فِیہَا شَیْئٌ ، فَقَالَ : إبْرَاہِیمُ ، خُذْ مَالاً لَہُ نِصْفٌ وَثُلُثٌ وَرُبْعٌ : اثْنَا عَشَرَ فَخُذْ نِصْفَہَا سِتَّۃً وَثُلُثَہَا أَرْبَعَۃً وَرُبْعَہَا ثَلاَثَۃً ، فَاقْسِمَ الْمَالَ عَلَی ثَلاَثَۃَ عَشَرَ ، فَمَا أَصَابَ سِتَّۃً کَانَ لِصَاحِبِ النِّصْفِ ، وَمَا أَصَابَ أَرْبَعَۃً کَانَ لِصَاحِبِ الثُّلُثِ ، وَمَا أَصَابَ ثَلاَثَۃً کَانَ لِصَاحِبِ الرُّبْعِ۔
(٣١٤٣٩) ابو عاصم ثقفی فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم مجھ سے ملے اور پوچھا تم کیا کہتے ہو اس آدمی کے بارے میں جس نے اپنے آدھے، اور ایک تہائی اور ایک چوتھائی مال کی وصیت کردی، مجھے اس کے جواب کا کوئی علم نہیں تھا، خود ہی انھوں نے فرمایا : اس کے مال کے اتنے حصّے کرو جس سے آدھا، ایک تہائی اور ایک چوتھائی نکل آئیں، یعنی بارہ حصّے کرلو، اس کا آدھا چھ ہے اور اس کا ایک تہائی چار ہے، اور اس کا ایک چوتھائی تین ہے، اب مال کے تیرہ حصّے کرو، چھ کے مقابلے میں جتنا مال آئے آدھے حصّے والے کو دے دو ، اور چار کے مقابلے میں جتنا مال آئے ایک تہائی حصّے والے کو دے دو ، اور تین کے مقابلے میں جتنا مال آئے ایک چوتھائی حصّے والے شخص کو دے دو ۔

31439

(۳۱۴۴۰) حَدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : کَانُوا یَکْرَہُونَ أَنْ یُوصِیَ الرَّجُلُ بِمِثْلِ نَصِیبِ أَحَدِ الْوَرَثَۃِ حَتَّی یَکُونَ أَقَلَّ۔
(٣١٤٤٠) منصور سے روایت ہے کہ حضرت ابراہیم نے فرمایا علماء ناپسند کرتے تھے اس بات کو کہ آدمی کسی ایک وارث کے حصّے کے برابر مال کی کسی کے لیے وصیت کر دے، بلکہ وہ فرماتے تھے کہ وصیت وارث کے حصّے سے کم ہونی چاہیے۔

31440

(۳۱۴۴۱) حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا عُبَادَۃُ الصَّیْدَلاَنِیُّ ، عَنْ ثَابِتٍ ، عَنْ أَنَسٍ : أَنَّہُ أَوْصَی بِمِثْلِ نَصِیبِ أَحَدِ وَلَدِہِ۔
(٣١٤٤١) ثابت روایت کرتے ہیں کہ حضرت انس (رض) نے اپنی اولاد میں سے ایک بچے کے حصّے کے برابر مال کی وصیت کی تھی۔

31441

(۳۱۴۴۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ حَدَّثَنَا زَائِدَۃُ أَبُو قُتَیْبَۃَ الْہَمْدَانِیُّ ، عَنْ یَسَارِ بْنِ أَبِی کَرِبٍ ، عَنْ شُرَیْحٍ : أَنَّہُ قَضَی فِی رَجُلٍ أَوْصَی لِرَجُلٍ بِسَہْمٍ مِنْ مَالِہِ وَلَمْ یُسَمِّ ، قَالَ : تُرْفَعُ السِّہَامُ فَیَکُونُ لِلْمُوصَی لَہُ سَہْمٌ۔
(٣١٤٤٢) یسار بن ابی کرب حضرت شریح سے روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے ایک آدمی کے بارے میں فیصلہ کیا تھا جس نے کسی کے لیے اپنے مال کے ایک غیر متعین حصّے کی وصیت کی تھی اور مال کی تحدید نہیں کی تھی، آپ نے فرمایا : مال کے حصّے بنا لیے جائیں اور جس کے لیے وصیت کی گئی ہے اس کو بھی ایک حصّہ دے دیا جائے۔

31442

(۳۱۴۴۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَہْلِ خُرَاسَانَ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ ، قَالَ : لَیْسَ لَہُ شَیْئٌ ، ہَذَا مَجْہُولٌ۔
(٣١٤٤٣) سفیان ایک خراسانی کے حوالے سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عکرمہ نے فرمایا : اس آدمی کو کچھ نہیں ملے گا کیونکہ یہ مجہول وصیت ہے۔

31443

(۳۱۴۴۴) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا ابْنُ مُبَارَکٍ ، عَنْ یَعْقُوبَ بْنِ الْقَعْقَاعِ ، عَنْ عَطَائٍ۔ وَیَعْقُوبَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ صُہَیْبٍ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ : فِی رَجُلٍ أَوْصَی لِرَجُلٍ بِسَہْمٍ مِنْ مَالِہِ ، قَالَ : لَیْسَ بِشَیْئٍ ، لَمْ یُبَیِّنْ۔
(٣١٤٤٤) محمد بن صہیب روایت کرتے ہیں کہ حضرت عکرمہ نے اس آدمی کے بارے میں فرمایا جس نے کسی کے لیے اپنے مال کے ایک حصّے کی وصیت کی کہ اس وصیت کی کوئی وقعت نہیں کیونکہ اس نے مال کی مقدار بیان نہیں کی۔

31444

(۳۱۴۴۵) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ الْحُبَابِ ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ زَیْدٍ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنْ إیَاسِ بْنِ مُعَاوِیَۃَ ، قَالَ : کَانَتِ الْعَرَبُ تَقُولُ : لَہُ السُّدُسُ۔
(٣١٤٤٥) ایوب روایت کرتے ہیں کہ حضرت ایاس بن معاویہ نے فرمایا عرب کہا کرتے تھے کہ اس آدمی کو چھٹا حصّہ ملے گا۔

31445

(۳۱۴۴۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا مُحَمَّدُ ، عَنْ أَبِی قَیْسٍ ، عَنِ الْہُزَیْلِ : أَنَّ رَجُلاً جَعَلَ لِرَجُلٍ سَہْمًا مِنْ مَالِہِ وَلَمْ یُسَمِّ ، فَقَالَ عَبْدُ اللہِ : لَہُ السُّدُسُ۔
(٣١٤٤٦) ھُزیل سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے کسی کے لیے اپنے مال کے ایک حصّے کی وصیت کردی اور مقدار بیان نہیں کی تو حضرت عبداللہ (رض) نے فرمایا اس کے لیے چھٹا حصّہ ہے۔

31446

(۳۱۴۴۷) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَنْ حُمَیْدٍ : أَنْ عَدِیًّا سَأَلَ إیَاسًا ؟ فَقَالَ : السَّہْمُ فِی کَلاَمُ الْعَرَبِ السُّدُسُ۔
(٣١٤٤٧) حُمید سے روایت ہے کہ عدی نے حضرت ایاس بن معاویہ سے اس بارے میں سوال کیا تو انھوں نے فرمایا ” حصّے “ سے مراد اہل عرب کے محاورات میں چھٹا حصّہ ہوتا ہے۔

31447

(۳۱۴۴۸) حَدَّثَنَا ابْنُ مُبَارَکٍ ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَۃَ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ خِلاَسٍ ، أَنَّ امْرَأَۃً قِیلَ لَہَا فِی مَرَضِہَا : أَوْصِی بِکَذَا ، أَوْصِی بِکَذَا ، فَأَوْمَأَتْ بِرَأْسِہَا ، فَلَمْ یُجِزْہُ عَلِیُّ بْنُ أَبِی طَالِبٍ۔
(٣١٤٤٨) خلاس سے روایت ہے کہ ایک عورت سے مرض الموت میں کہا گیا کہ فلاں وصیت کردو ، فلاں وصیت کردو اور وہ سر کو اثبات میں ہلاتی رہی، حضرت علی (رض) کے پاس فیصلہ گیا تو آپ نے اس وصیت کو نافذ نہیں کیا۔

31448

(۳۱۴۴۹) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ ، عَنْ حُسَیْنِ الْمُعَلِّمِ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ أَبِی رَبِیعَۃَ ، أَو الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ أَبِی رَبِیعَۃَ ، قَالَ : قُلْتُ لِعُمَرَ : شَیْئٌ یَصْنَعُہُ أَہْلُ الْیَمَنِ ، یُوصِی الرَّجُلُ، ثُمَّ یُغَیِّرُ وَصِیَّتَہُ ، قَالَ : لِیُغَیِّرْ مَا شَائَ مِنْ وَصِیَّتِہِ۔
(٣١٤٤٩) عبداللہ بن حارث بن ابی ربیعہ یاحارث بن عبداللہ بن ابی ربیعہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر (رض) سے عرض کیا کہ اہل یمن یہ کام کرتے ہیں کہ آدمی کوئی وصیت کردیتا ہے پھر اپنی وصیت کو بدل دیتا ہے، آپ نے فرمایا آدمی کو اختیار ہے کہ اپنی وصیت میں تبدیلی کرے۔

31449

(۳۱۴۵۰) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، قَالَ : قَالَ عُمَرُ : مَا أَعْتَقَ الرَّجُلُ فِی مَرَضِہِ مِنْ رَقِیقِہِ فَہِیَ وَصِیَّۃٌ إنْ شَائَ رَجَعَ فِیہَا۔
(٣١٤٥٠) مجاہد سے روایت ہے کہ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : آدمی اپنے مرض الموت میں جو غلام آزاد کرتا ہے وہ وصیت کے حکم میں داخل ہے اگر چاہے تو رجوع بھی کرسکتا ہے۔

31450

(۳۱۴۵۱) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَطَائٍ ، قَالَ : یُغَیِّرُ الرَّجُلُ مِنْ وَصِیَّتِہِ مَا شَائَ إلاَّ الْعَتَاقَۃ۔
(٣١٤٥١) ابن جریج سے روایت ہے کہ عطاء نے فرمایا : آدمی اپنی وصیت میں جو تبدیلی چاہے کرسکتا ہے سوائے غلاموں کی آزادی کے۔

31451

(۳۱۴۵۲) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمُحَارِبِیُّ ، عَنِ الشَّیْبَانِیِّ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : کُلُّ وَصِیَّۃٍ إنْ شَائَ رَجَعَ فِیہَا غَیْرِ الْعَتَاقَۃَ۔
(٣١٤٥٢) شیبانی روایت کرتے ہیں کہ حضرت شعبی نے فرمایا : آدمی اپنی وصیت میں جو تبدیلی چاہے کرسکتا ہے سوائے غلاموں کی آزادی کے۔

31452

(۳۱۴۵۳) حَدَّثَنَا ابْنُ مَہْدِی، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَۃَ، عَنْ حَجَّاجٍ، عَنِ الْحَکَمِ، عَنْ إبْرَاہِیمَ، قَالَ: إذَا أَوْصَی الرَّجُلُ بِوَصَایَا، وَأَعْتَقَ غُلاَمًا لَہُ إنْ حَدَثَ بِہِ حَدَثُ الْمَوْتِ، قَالَ: لاَ یَرْجِعُ فِی الْعِتْقِ؛ لَیْسَ الْعِتْق کَسَائِرِ الْوَصِیَّۃ۔
(٣١٤٥٣) حکم سے روایت ہے کہ حضرت ابراہیم نے فرمایا : جب آدمی بہت سی وصیتیں کر دے اور اپنے غلام کو بھی آزاد کر دے اس شرط پر کہ اگر اس کو موت آگئی تو وہ آزاد ہیں، تو غلاموں کی آزادی میں وہ رجوع نہیں کرسکتا ، کیونکہ غلام کی آزادی دوسری وصیتوں کی طرح نہیں ہے۔

31453

(۳۱۴۵۴) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : إذَا أَوْصَی الرَّجُلُ فَإِنَّہُ یُغَیِّرُ وَصِیَّتَہُ مَا شَائَ ، قِیلَ لَہُ : فَالْعَتَاقَۃُ ، قَالَ الْعَتَاقَۃُ وَغَیْرُ الْعَتَاقَۃِ ، وَإِنَّمَا یُؤْخَذُ بِآخِرِہَا۔
(٣١٤٥٤) ہشام روایت کرتے ہیں کہ حضرت حسن (رض) نے ارشاد فرمایا جب کوئی آدمی وصیت کرے تو اپنی وصیت میں جو تبدیلی چاہے کرسکتا ہے، پوچھا گیا : غلاموں کی آزادی کی وصیت کا بھی یہی حکم ہے ؟ فرمایا غلاموں کی آزادی اور دوسری وصیتوں کا یہی حکم ہے، صرف اس آدمی کی آخری وصیت کو نافذ کیا جائے گا۔

31454

(۳۱۴۵۵) حَدَّثَنَا الضَّحَّاکُ بْنُ مَخْلَدٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِینَارٍ ، عَنْ طَاوُوسٍ : أَنَّہُ کَانَ لاَ یَرَی بَأْسًا أَنْ یَعُودَ الرَّجُلُ فِی عَتَاقِہِ۔
(٣١٤٥٥) عمرو بن دینار روایت کرتے ہیں کہ حضرت طاؤس اس بات میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے کہ آدمی مرض الموت میں آزاد کیے ہوئے غلاموں کی آزادی میں رجوع کرلے۔

31455

(۳۱۴۵۶) حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ ، عَنْ عَاصِمٍ ، قَالَ : مَرِضَ أَبُو الْعَالِیَۃَ فَأَعْتَقَ مَمْلُوکًا لَہُ ذَکَرُوا لَہُ أَنَّہُ مِنْ وَرَائِ النَّہَرِ ، فَقَالَ : إنْ کَانَ حَیًّا فَلاَ أُعْتِقُہُ ، وَإِنْ کَانَ مَیِّتًا فَہُوَ عَتِیقٌ ، وَذَکَرَ ہَذِہِ الآیَۃَ : {وَلَہُ ذُرِّیَّۃٌ ضُعَفَائُ}۔
(٣١٤٥٦) عاصم فرماتے ہیں کہ ابو العالیہ بیمار ہوگئے اور انھوں نے ایک غلام آزاد کردیا، لوگوں نے ان کو بتایا کہ وہ نھر سے آگے گیا ہوا ہے فرمایا اگر وہ زندہ ہے تو میں اس کو آزاد نہیں کرتا اور اگر وہ مرگیا ہے تو آزاد ہے، اور پھر اس آیت کی تلاوت کی { وَلَہُ ذُرِّیَّۃٌ ضُعَفَائُ } ( اور اس کی کمزور اولاد ہے) ۔

31456

(۳۱۴۵۷) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنْ مُحَمَّدٍ ، قَالَ : کَانُوا یُوصُونَ ، فَیَکْتُبُ الرَّجُلُ فِی وَصِیَّتِہِ : إنْ حَدَثَ بِی حَدَثٌ قَبْلَ أَنْ أُغَیِّرَ وَصِیَّتِی ہَذِہِ فَإِنْ بَدَا لَہُ أَنْ یُغَیِّرَ غَیَّرَ إنْ شَائَ الْعَتَاقَۃَ وَغَیْرَہَا ، فَإِنْ لَمْ یَسْتَثْنِ فِی وَصِیَّتِہِ غَیَّرَ مِنْہَا مَا شَائَ غَیْرَ الْعَتَاقَۃِ۔
(٣١٤٥٧) ہشام سے روایت ہے کہ محمد نے فرمایا لوگ اس طرح وصیت کیا کرتے تھے کہ آدمی اپنی وصیت میں لکھتا کہ ” اگر مجھے موت آگئی قبل ازیں کہ میں اپنی وصیت میں تبدیلی کروں “ اگر اس کو تبدیلی کی ضرورت محسوس ہو تو تبدیلی کرسکتا ہے چاہے غلام کی آزادی کی وصیت ہو یا اور کوئی، اور اگر اس نے وصیت میں کوئی شرط نہیں لگائی تھی تب بھی وصیت میں تبدیلی کرسکتا ہے سوائے غلام کی آزادی کے۔

31457

(۳۱۴۵۸) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ رُوحِ بْنِ الْقَاسِمِ ، عَنِ ابْنِ أَبِی نَجِیحٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ : کَانَ یُقْسِمُ عَلَیْہِ قَسَمًا ، أَنَّ الْمُعْتَقَ عَنْ دُبُرِ وَصِیَّۃٍ ، وَأَنَّ لِلرَّجُلِ أَنْ یُغَیِّرَ مِنْ وَصِیَّتِہِ مَا شَائَ۔
(٣١٤٥٨) ابن ابی نجیح سے روایت ہے کہ مجاہد (رض) اس بات پر قسم کھایا کرتے تھے کہ جس غلام کو مرنے کے بعد آزاد کیا جائے اس کی آزادی وصیت کے حکم میں ہے، اور آدمی کو اپنی وصیت میں تبدیلی کا اختیار ہے اگر اس کا جی چاہے۔

31458

(۳۱۴۵۹) حَدَّثَنَا سَعِیدُ بْنُ خُثَیْمٍ ، عَنْ حَنْظَلَۃَ ، عَنْ طَاوُوسٍ ، قَالَ : یَرْجِعُ مَوْلَی الْمُدَبَّرِ فِیہِ مَتَی شَائَ۔
(٣١٤٥٩) حنظلہ روایت کرتے ہیں کہ طاؤس نے فرمایا کہ مدبَّر غلام کا آقا جب چاہے اس کی آزادی سے رجوع کرسکتا ہے۔

31459

(۳۱۴۶۰) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، عَنْ نَافِعٍ ، قَالَ : قالَتْ عَائِشَۃُ : لِیَکْتُبَ الرَّجُلُ فِی وَصِیَّتِہِ : إنْ حَدَثَ بِی حَدَثٌ قَبْلَ أَنْ أُغَیِّرَ وَصِیَّتِی ہَذِہِ۔
(٣١٤٦٠) نافع سے روایت ہے کہ حضرت عائشہ (رض) نے فرمایا : آدمی کو چاہیے کہ اپنی وصیت میں یہ بات لکھ دے : ” اگر مجھے موت آجائے قبل ازیں کہ میں اپنی اس وصیت کو تبدیل کروں۔ “

31460

(۳۱۴۶۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ أَبِی الْعُمَیْسِ ، عَنْ عَامِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ الزُّبَیْرِ : أَنَّ ابْنَ مَسْعُودٍ أَوْصَی فَکَتَبَ فِی وَصِیَّتِہِ : بِسْمِ اللہِ الرَّحْمَن الرَّحِیمِ ، ہَذَا مَا أَوْصَی بِہِ ابْنُ مَسْعُودٍ : إنْ حَدَثَ بِہِ حَدَثٌ فِی مَرَضِہِ ہَذَا۔
(٣١٤٦١) عامر بن عبداللہ بن زبیر سے روایت ہے کہ حضرت ابن مسعود (رض) نے وصیت کی اور اپنی وصیت میں لکھا : ” بِسْمِ اللہِ الرَّحْمَن الرَّحِیمِ یہ وصیت ہے ابن مسعود کی اگر اس کو اس بیماری میں موت آجائے۔ “

31461

(۳۱۴۶۲) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنْ مُحَمَّدٍ ، قَالَ : کَانُوا یُوصُونَ فَیَکْتُبُ الرَّجُلُ فِی وَصِیَّتِہِ : إنْ حَدَثَ بِی حَدَثٌ قَبْلَ أَنْ أُغَیِّرَ وَصِیَّتِی ہَذِہِ۔
(٣١٤٦٢) ہشام روایت کرتے ہیں کہ محمد نے فرمایا : لوگ جب وصیت کیا کرتے تھے تو اپنی وصیت میں لکھ دیا کرتے تھے کہ : ” اگر مجھے اپنی وصیت میں تبدیلی کرنے سے پہلے موت آجائے۔ “

31462

(۳۱۴۶۳) حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّیَالِسِیُّ ، عَنْ أَبِی خَلْدَۃَ ، عَنْ أَبِی الْعَالِیَۃِ ، قَالَ : أَوْصَیْت بِضْعَ عَشْرَ مَرَّۃٍ أُوَقِّت وَقْتًا إذَا جَائَ الْوَقْتُ کُنْت بِالْخِیَارِ۔
(٣١٤٦٣) ابو خلدہ سے روایت ہے کہ ابو العالیہ نے فرمایا : میں دس سے زائد مرتبہ وصیت کرچکا ہوں، میں وصیت کا ایک وقت مقرر کردیتا ہوں، جب وہ وقت آتا ہے تو مجھے اختیار حاصل ہوجاتا ہے ( اس وصیت کو باقی رکھوں یا بدل دوں) ۔

31463

(۳۱۴۶۴) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ أَبِی عُمَیْرٍ الْحَارِثُ بْنُ عُمَیْرٍ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ : أَنَّہُ کَانَ یَشْتَرِطُ : إنْ حَدَثَ بِی حَدَثٌ قَبْلَ أُغَیِّرَ کِتَابِی ہَذَا۔
(٣١٤٦٤) نافع سے روایت ہے کہ حضرت ابن عمر (رض) نے اپنی وصیت میں یہ شرط لگائی تھی ” اگر مجھے اس تحریر میں تبدیلی کرنے سے پہلے موت آجائے۔ “

31464

(۳۱۴۶۵) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ ابْنِ طَاوُوس : أَنَّ رَجُلاً مِنْ أَہْلِ الْیَمَنِ أَوْصَی ، فَقَالَ : فُلاَنٌ حُرٌّ وَفُلاَنٌ حُرٌّ - وَلَمْ یُسَمِّ - إنْ مِتّ فِی مَرَضِی ہَذَا ، فَبَرَأَ الرَّجُلُ فَخَاصَمَہُ مَمْلُوکَاہُ إِلَی قَاضِی أَہْلِ الْجَنَدِ ، فَشَاوَرَ فِی ذَلِکَ طَاوُوسًا ، فَقَالَ طَاوُوس : ہُمْ عَبِیدٌ ، إنَّمَا کَانَتْ نِیَّتُہُ : إنْ حَدَثَ بِہِ حَدَثٌ۔
(٣١٤٦٥) ابن طاؤس سے روایت ہے کہ یمن کے ایک باشندے نے وصیت کی اور یوں کہا : فلاں غلام آزاد ہے، اور فلاں غلام آزاد ہے، اور یہ نہیں کہا : ” اگر میں اس بیماری میں مر جاؤں “ چنانچہ وہ آدمی صحت یاب ہوگیا، اس کے غلاموں نے جَنَد کے قاضی کے پاس دعویٰ دائر کیا، انھوں نے حضرت طاؤس سے مشورہ کیا تو طاؤس نے فرمایا : وہ غلام ہیں کیونکہ اس آدمی کی نیت ہی میں یہ بات تھی کہ : ” اگر مجھے موت آجائے۔ “

31465

(۳۱۴۶۸) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ : أَنَّہُ سُئِلَ عَنْ رَجُلٍ أَوْصَی بِجَارِیَتِہِ لاِبْنِ أَخِیہِ ، ثُمَّ وَطِئَہَا ؟ قَالَ : أَفْسَدَ وَصِیَّتَہُ۔
(٣١٤٦٦) عاصم سے روایت ہے کہ شعبی سے اس آدمی کے بارے میں سوال کیا گیا جس نے اپنے بھتیجے کے لیے اپنی باندی کی وصیت کی پھر اس کے ساتھ وطی کرلی، آپ نے فرمایا اس آدمی نے اپنی وصیت کو فاسد کردیا۔

31466

(۳۱۴۶۷) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ حَمَّادٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : إذَا أَوْصَی بِہِمَا فَہُمَا مِنَ الثُّلُثِ۔ یَعْنِی : الْحَجَّ وَالزَّکَاۃَ۔
(٣١٤٦٧) حماد سے روایت ہے کہ حضرت ابراہیم نے فرمایا جب کوئی آدمی حج اور زکوۃ دونوں کی ادائیگی کی وصیت کر دے تو ان کی ادائیگی ایک تہائی مال سے کی جائے گی۔

31467

(۳۱۴۶۸) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : إذَا أَوْصَی بِحَجَّۃ وَلَمْ یَکُنْ حَجَّ فَمِنَ الثُّلُثِ۔
(٣١٤٦٨) مغیرہ حضرت ابراہیم کا فرمان نقل کرتے ہیں کہ جب کوئی شخص اپنے حج کی وصیت کرے جو اس نے ادا کیا تھا تو اس کی ادائیگی ایک تہائی مال سے کی جائے گی۔

31468

(۳۱۴۶۹) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ ، قَالَ : مِنَ الثُّلُثِ۔
(٣١٤٦٩) ہشام روایت کرتے ہیں کہ محمد بن سیرین نے بھی فرمایا ہے کہ ایک تہائی مال سے ادائیگی ہوگی۔

31469

(۳۱۴۷۰) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ یُونُسَ وَمَنْصُورٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : ہُوَ مِنْ جَمِیعِ الْمَالِ۔
(٣١٤٧٠) یونس اور منصور سے روایت ہے کہ حضرت حسن (رض) نے فرمایا کہ ان کی ادائیگی پورے مال سے کی جائے گی۔

31470

(۳۱۴۷۱) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ سُلَیْمَانَ التَّیْمِیِّ ، عَنِ الْحَسَنِ وَطَاوُسٍ : فِی الرَّجُلِ عَلَیْہِ حِجَّۃُ الإسْلاَمِ وَتَکُونُ عَلَیْہِ الزَّکَاۃُ فِی مَالِہِ ؟ قَالاَ : یَکُونَانِ ہَذَیْنِ بِمَنْزِلَۃِ الدَّیْنِ۔
(٣١٤٧١) سلیمان تیمی سے روایت ہے کہ حضرت حسن اور حضرت طاؤس نے اس آدمی کے بارے میں فرمایا جس پر فرض حج بھی واجب تھا اور مال میں زکوۃ بھی واجب تھی ، کہ یہ دونوں قرض کے درجے میں ہیں۔

31471

(۳۱۴۷۲) حَدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ بْنُ عَیَّاشٍ ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِیزِ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ : فِی الرَّجُلِ یَمُوتُ وَیُوصِی أَنْ یُحَجَّ عَنْہُ ، أَوْ یُتَصَدَّقَ عَنْہُ کَفَّارَۃُ رَمَضَانَ ، أَوْ کَفَّارَۃُ یَمِینٍ ؟ قَالَ : مِنَ الثُّلُثِ۔
(٣١٤٧٢) عبد العزیز سے روایت ہے کہ شعبی نے اس آدمی کے بارے میں فرمایا جو مرنے سے پہلے وصیت کر دے کہ اس کی جانب سے حج کرو ادیا جائے یا رمضان کے روزوں کا کفارہ صدقہ کردیا جائے یا قسم کا کفارہ صدقہ کردیا جائے، کہ ان کی ادائیگی ایک تہائی مال سے ہوگی۔

31472

(۳۱۴۷۳) حَدَّثَنَا عَبْدُالأَعْلَی، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ الزُّہْرِیِّ، قَالَ: إذَا کَانَ عَلَی الرَّجُلِ شَیْئٌ وَاجِبٌ فَہُوَ مِنْ جَمِیعِ الْمَالِ۔
(٣١٤٧٣) معمر سے روایت ہے کہ زہری نے فرمایا جب کسی آدمی پر کوئی واجب چیز رہتی ہو تو اس کی ادائیگی پورے مال سے کی جائے گی۔

31473

(۳۱۴۷۴) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ طَاوُوسٍ ، قَالَ : ہُوَ مِنْ جَمِیعِ الْمَالِ۔
(٣١٤٧٤) لیث سے روایت ہے کہ حضرت طاؤس نے فرمایا : اس کی ادائیگی پورے مال سے کی جائے گی۔

31474

(۳۱۴۷۵) حَدَّثَنَا ابْنُ مُبَارَکٍ ، عَنْ صَالِحِ بْنِ خَوَّاتٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ أَبِی بَکْرٍ : أَنَّ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِیزِ کَتَبَ : أَنَّ الْمُکَاتَبَ لاَ تَجُوزُ لَہُ وَصِیَّۃٌ ، وَلاَ ہِبَۃٌ إلاَّ بِإِذْنِ مَوْلاَہُ۔
(٣١٤٧٥) عبداللہ بن ابی بکر سے روایت ہے کہ حضرت عمربن عبد العزیز نے لکھا کہ مکاتب کے لیے اپنے آقا کی اجازت کے بغیر وصیت کرنا جائز نہیں۔

31475

(۳۱۴۷۶) حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِی عَدِیٍّ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : الْمُکَاتَبُ لاَ یَعْتِقُ ، وَلاَ یَہَبُ إلاَّ بِإِذْنِ مَوْلاَہُ۔
(٣١٤٧٦) اشعث (رض) سے روایت ہے کہ حضرت حسن نے فرمایا : مکاتب اپنے آقا کی اجازت کے بغیر نہ غلام آزاد کرسکتا ہے اور نہ ہبہ کرسکتا ہے۔

31476

(۳۱۴۷۷) حَدَّثَنَا الضَّحَّاکُ بْنُ مَخْلَدٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، قَالَ : قُلْتُ لِعَطَائٍ : الأَحْمَقُ وَالمُوَسْوَسُ أَتَجُوزُ وَصِیَّتُہُمَا إنْ أَصَابَا الْحَقَّ وَہُمَا مَغْلُوبَانِ عَلَی عُقُولِہِمَا ؟ قَالَ : مَا أَحْسَبُ لَہُمَا وَصِیَّۃ۔
(٣١٤٧٧) ابن جریج فرماتے ہیں کہ میں نے عطاء سے پوچھا : بیوقوف اور بد حواس آدمی اگر درست وصیت کردیں جبکہ ان کی عقل مغلوب ہو تو کیا ان کی وصیت نافذ ہوگی، آپ نے فرمایا : میں اس کی وصیت کو معتبر نہیں سمجھتا۔

31477

(۳۱۴۷۸) حَدَّثَنَا ابْنُ مَہْدِی ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَۃَ ، عَنْ إیَاسِ بْنِ مُعَاوِیَۃَ : فِی وَصِیَّۃِ الْمَجْنُونِ ، قَالَ : إِذَا أَصَابَ الْحَقّ جَازَ۔
(٣١٤٧٨) حماد بن سلمہ سے روایت ہے کہ حضرت ایاس بن معاویہ نے مجنون کی وصیت کے بارے میں فرمایا کہ اگر وہ وصیت قاعدے کے مطابق درست ہو تو نافذ ہوجائے گی۔

31478

(۳۱۴۷۹) حَدَّثَنَا ابْنُ مَہْدِیٌّ ، عَنْ ہَمَّامٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ حُمَیْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، قَالَ : لاَ تَجُوزُ وَصِیَّۃ وَلاَ طَلاَق إِلاَّ فِی عَقْلٍ۔
(٣١٤٧٩) قتادہ سے روایت ہے کہ حمید بن عبد الرحمن نے فرمایا : وصیت اور طلاق عقل کے بغیر نافذ نہیں ہوتیں۔

31479

(۳۱۴۸۰) حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ کُلَیْبٍ ، قَالَ : إنْ کَانَ سَمَّی الْغُزَاۃَ : أُعْطِیَ الْغُزَاۃَ ، وَإِلاَّ : طَاعَۃُ اللہِ : سَبِیلُہُ۔
(٣١٤٨٠) عباد بن عوام سے روایت ہے کہ اگر اس وصیت کرنے والے نے مجاہد ین کا نام لیا تھا تو مجاہدین کو وہ چیز دے دی جائے، ورنہ اللہ تعالیٰ کی فرمان برداری اس کا راستہ ہے۔

31480

(۳۱۴۸۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِی حَبِیبَۃَ ، عَنْ أَبِی الدَّرْدَائِ : فِی الرَّجُلِ أَوْصَی بِشَیْئٍ فِی سَبِیلِ اللہِ ، قَالَ فِی الْمُجَاہِدِینَ۔
(٣١٤٨١) ابو حبیبہ سے روایت ہے کہ حضرت ابو الدردائ (رض) نے اس آدمی کے بارے میں فرمایا جس نے کسی چیز کو اللہ کے راستے میں دینے کی وصیت کی ، کہ وہ مجاہدین کو دی جائے گی۔

31481

(۳۱۴۸۲) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ سِیرِینَ : أَنَّ امْرَأَۃً أَوْصَتْ بِثَلاَثِینَ دِرْہَمًا فِی سَبِیلِ اللہِ ، فَلَمَّا کَانَ زَمَنُ الفُرْقَۃِ قُلْتُ لاِبْنِ عُمَرَ : امْرَأَۃٌ أَوْصَتْ بِثَلاَثِینَ دِرْہَمًا فِی سَبِیلِ اللہِ ، فَنُعْطِیہَا فِی الْحَجِّ ؟ فَقَالَ : أَمَا إِنَّہُ مِنْ سَبِیلِ اللہِ۔
(٣١٤٨٢) انس بن سیرین فرماتے ہیں کہ ایک عورت نے اللہ کے راستے میں تیس درہم دینے کی وصیت کی ، میں نے جدائی کے زمانے میں حضرت ابن عمر (رض) سے عرض کیا کہ ایک عورت نے اللہ کے راستے میں تیس درہم دینے کی وصیت کی ہے کیا ہم وہ درہم حج میں لگا دیں ؟ آپ نے فرمایا : حج بھی اللہ کے راستوں میں سے ایک راستہ ہے۔

31482

(۳۱۴۸۳) حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ بْنُ مُوسَی ، عَنْ مُوسَی بْنِ عُبَیْدَۃَ ، عَنْ وَاقِدِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ زَیْدٍ : أَنَّ رَجُلاً مَاتَ وَتَرَکَ مَالاً وَأَوْصَی بِہِ فِی سَبِیلِ اللہِ ، فَذَکَرَ ذَلِکَ الْوَصِیُّ لِعُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ ، فَقَالَ : أَعْطِہِ عُمَّالَ اللہِ ، قَالَ : وَمَا عُمَّالُ اللہِ ؟ قَالَ : حُجَّاجُ بَیْتِ اللہِ۔
(٣١٤٨٣) واقد بن محمد بن زید سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے مرتے وقت کچھ مال چھوڑا اور اس کو اللہ کے راستے میں دینے کی وصیت کر گیا، اس کی وصیت کے ذمہ دار نے یہ بات حضرت عمر (رض) کے سامنے ذکر کی تو آپ نے فرمایا وہ مال اللہ تعالیٰ کے کام کرنے والوں کو دے دو ، اس نے پوچھا اللہ تعالیٰ کے کام کرنے والے کون ہیں ؟ آپ نے فرمایا : بیت اللہ کے حاجی۔

31483

(۳۱۴۸۴) حَدَّثَنَا ابْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنْ أَیْمَنَ بْنِ نَابِلٍ ، قَالَ : سَأَلَ رَجُلٌ مُجَاہِدًا عَنْ رَجُلٍ ، قَالَ : کُلُّ شَیْئٍ لِی فِی سَبِیلِ اللہِ ؟ قَالَ مُجَاہِدٌ : لَیْسَ سَبِیلُ اللہِ وَاحِدًا ، کُلُّ خَیْرٍ عَمِلَہُ فَہُوَ فِی سَبِیلِ اللہِ۔
(٣١٤٨٤) ایمن بن نابل فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے حضرت مجاہد سے اس آدمی کے بارے میں پوچھا جس نے کہا تھا کہ میری ہر چیز اللہ کے راستے میں دے دی جائے، آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ کا کوئی ایک راستہ نہیں ، بلکہ ہر نیک عمل کرنے والا، اللہ تعالیٰ کے راستے میں ہے۔

31484

(۳۱۴۸۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ سِیرِینَ : أَنَّ رَجُلاً أَوْصَی بِشَیْئٍ فِی سَبِیلِ اللہِ ، فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ: الْحَجُّ فِی سَبِیلِ اللہِ۔
(٣١٤٨٥) انس بن سیرین فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے ایک چیز اللہ کے راستے میں دینے کی وصیت کی، حضرت ابن عمر (رض) نے فرمایا : حج بھی اللہ کا راستہ ہے۔

31485

(۳۱۴۸۶) حَدَّثَنَا عِیسَی بْنُ یُونُسَ ، عَنِ الأَوْزَاعِیِّ : أَنَّ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِیزِ کَتَبَ فِی رَجُلٍ تَصَدَّقَ بِمَالِہِ کُلِّہِ عَلَی غَیْرِ وَارِثٍ ، ثُمَّ حَبَسَہُ حَتَّی مَاتَ ، یُرَدُّ ذَلِکَ إلَی الثُّلُثِ۔
(٣١٤٨٦) اوزاعی روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمر بن عبد العزیز نے اس آدمی کے بارے میں لکھا جس نے غیر وارث پر سارا مال صدقہ کردیا اور پھر اس مال کو اپنے پاس رکھا یہاں تک کہ مرگیا، کہ اس مال میں سے ایک تہائی اس غیر وارث شخص کو دیا جائے گا۔

31486

(۳۱۴۸۷) حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ الأَسْوَدِ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، قَالَ : مَنْ صَنَعَ فِی مَالِہِ شَیْئًا لَمْ یُنَفِّذْہُ حَتَّی یَحْضُرَہُ الْمَوْتُ : فَہُوَ فِی سَبِیلِہِ۔
(٣١٤٨٧) عثمان بن أسود فرماتے ہیں کہ حضرت مجاہد نے فرمایا : جس نے اپنے مال میں کوئی ایسی وصیت کی جسے اس نے موت تک نافذ نہیں کیا تو وہ اس مصرف میں جائے گا۔

31487

(۳۱۴۸۸) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ یُونُسَ ، قَالَ : جَائَ رَجُلٌ إلَی الْحَسَنِ بِوَصِیَّۃٍ مَخْتُومَۃٍ لِیَشْہَدَ عَلَیْہَا ، فَقَالَ الْحَسَنُ : مَا تَجِدُ فِی ہَؤُلاَئِ النَّاسِ رَجُلَیْنِ تَثِقْہُمَا تُشْہِدُہُمَا عَلَی کِتَابِکَ ہَذَا ؟!۔
(٣١٤٨٨) یونس فرماتے ہیں کہ ایک آدمی حضرت حسن کے پاس ایک وصیت نامہ لے کر آیا جو مہر بند تھا، تاکہ حضرت حسن (رض) کو اس پر گواہ بنا لے ، حضرت حسن نے فرمایا کیا تمہیں ان لوگوں میں کوئی دو با اعتماد نہیں ملتے جن کو تم اس تحریر پر گواہ بنا سکو ؟

31488

(۳۱۴۸۹) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، قَالَ : أَرَاہُ عَنْ إبْرَاہِیمَ : فِی الرَّجُلِ یَخْتِمُ وَصِیَّتَہُ ، وَیَقُولُ لِلْقَوْمِ : اشْہَدُوا عَلَی مَا فِیہَا ، قَالَ : لاَ تَجُوزُ إلاَّ أَنْ یَقْرَأَہَا عَلَیْہِمْ ، أَوْ تُقْرَأَ عَلَیْہِ فَیُقِرَّ بِمَا فِیہَا۔
(٣١٤٨٩) جریر نے مغیرہ سے روایت کیا، اور فرمایا کہ میرے خیال میں انھوں نے یہ بات حضرت ابراہیم سے نقل کی ہے، کہ انھوں نے اس آدمی کے بارے میں فرمایا جس نے اپنے وصیت نامے کو مہر بند کیا اور لوگوں سے کہتا ہے کہ اس میں جو کچھ لکھا ہوا ہے اس پر گواہ ہو جاؤ ! کہ یہ جائز نہیں ہے یہاں تک کہ ان کو وہ وصیت پڑھ کر سنائے، یا اس آدمی کے سامنے وہ وصیت نامہ پڑھا جائے اور وہ اس تحریر کا اقرار کرے۔

31489

(۳۱۴۹۰) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃ ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ زَیْدٍ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنْ أَبِی قِلاَبَۃَ : فِی الرَّجُلِ یَکْتب الوَصِیَّۃ وَیَقُولُ : اشْہَدُوا عَلَی مَا فِی ہَذِہِ الصَّحِیفَۃِ ، قَالَ : لاَ ، حَتَّی یُعْلَمَ مَا فِیہَا۔
(٣١٤٩٠) ایوب حضرت قلابہ سے اس آدمی کے بارے میں روایت کرتے ہیں جس نے وصیت نامہ لکھا اور کہتا ہے : گواہ ہو جاؤ اس وصیت نامے کی تحریر پر، فرمایا کہ جائز نہیں جب تک وہ لوگوں کو اس میں لکھی ہوئی وصیت بتا نہ دے۔

31490

(۳۱۴۹۱) حَدَّثَنَا ابْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ زَیْدٍ ، قَالَ : ذَہَبْت مَعَ حَفْصِ بْنِ عَاصِمٍ إلَی سَالِمٍ وَقَدْ خَتَمَ وَصِیَّتَہُ ، فَقَالَ : إنْ حَدَثَ بِی حَادِثٌ فَاشْہَدُوا عَلَیْہَا۔
(٣١٤٩١) سعید بن زید فرماتے ہیں کہ میں حفص بن عاصم کے ساتھ حضرت سالم کے پاس گیا جبکہ انھوں نے اپنے وصیت نامے کو مہر بند کردیا تھا، فرمایا اگر مجھے موت آجائے تو تم اس وصیت نامے پر گواہ ہوجانا۔

31491

(۳۱۴۹۲) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ الْحُبَابِ ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَۃَ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ یَعْلَی قَاضِی الْبَصْرَۃِ : فِی الرَّجُلِ یَکْتُبُ وَصِیَّتَہُ ، ثُمَّ یَخْتِمُہَا ، ثُمَّ یَقُولُ : اشْہَدُوا عَلَی مَا فِیہَا ، قَالَ : جَائِزٌ۔
(٣١٤٩٢) قتادہ سے روایت ہے کہ بصرہ کے قاضی عبد الملک بن یعلیٰ نے فرمایا اس آدمی کے بارے میں جو وصیت نامے کو لکھ کر مہر لگا دے اور پھر لوگوں سے کہے کہ اس میں جو لکھا ہوا ہے اس پر گواہ ہو جاؤ ! کہ ایسا کرنا جائز ہے۔

31492

(۳۱۴۹۳) حَدَّثَنَا عَبَّادٌ ، عَنْ رَوْحِ بْنِ الْقَاسِمِ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ أَبِی بَکْرِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : کَانَ غُلاَمٌ مِنْ غَسَّانَ بِالْمَدِینَۃِ ، وَکَانَ لَہُ وَرَثَۃٌ بِالشَّامِ ، وَکَانَتْ لَہُ عَمَّۃٌ بِالْمَدِینَۃِ ، فَلَمَّا حُضِرَ أَتَتْ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ فَذَکَرَتْ ذَلِکَ لَہُ وَقَالَتْ : أَفَیُوصِی ؟ قَالَ : احْتَلَمَ بَعْدُ ؟ قَالَ : قُلْتُ : لاَ ، قَالَ : فَلْیُوصِ، قَالَ : فَأَوْصَی لَہَا بِنَخْلٍ ، فَبِعْتہ أَنَا لَہَا بِثَلاَثِینَ أَلْفِ دِرْہَمٍ۔
(٣١٤٩٣) ابوبکر بن عمرو بن حزم فرماتے ہیں کہ غسان کا ایک نوجوان لڑکا مدینہ میں رہتا تھا جس کے ورثاء شام میں رہتے تھے اور اس کی ایک پھوپھی مدینہ منورہ میں تھی، جب اس کی موت کا وقت قریب آیا تو اس کی پھوپھی حضرت عمر بن خطاب (رض) کے پاس آئی، اور اس کی حالت کا ذکر کر کے پوچھا کہ کیا وہ لڑکا کوئی وصیت کرسکتا ہے ؟ آپ نے فرمایا : کیا وہ بالغ ہوگیا ہے ؟ کہتے ہیں میں نے کہا : نہیں، آپ نے فرمایا : پھر وہ وصیت کرسکتا ہے، کہتے ہیں اس لڑکے نے اپنی پھوپھی کے لیے ایک نخلستان کی وصیت کی ، راوی کہتے ہیں کہ میں نے وہ نخلستان اس عورت کے لیے تیس ہزار درہم میں بیچا۔

31493

(۳۱۴۹۴) حَدَّثَنَا أَبُو عِصَامٍ ، عَنِ الأَوْزَاعِیِّ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ : أَنَّ عُثْمَانَ أَجَازَ وَصِیَّۃَ ابْنِ إحْدَی عَشْرَۃَ سَنَۃً۔
(٣١٤٩٤) زہری سے روایت ہے کہ حضرت عثمان (رض) نے گیارہ سالہ لڑکے کی وصیت کو نافذ فرمایا۔

31494

(۳۱۴۹۵) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ : أَنَّ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِیزِ أَجَازَ وَصِیَّۃَ الصَّبِیِّ۔
(٣١٤٩٥) زہری ہی سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن عبد العزیز نے بچے کی وصیت کو نافذ فرمایا۔

31495

(۳۱۴۹۶) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنْ مُحَمَّدٍ ، أَنَّ عَبْد اللہِ بْنِ عُتْبَۃَ سُئِلَ عَنْ وَصِیَّۃِ جَارِیَۃٍ صَغَّرُوہَا وَحَقَّرُوہَا ؟ فَقَالَ : مَنْ أَصَابَ الْحَقَّ أُجِر۔
(٣١٤٩٦) محمد سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عتبہ سے ایک بچی کی وصیت کے بارے میں سوال کیا گیا جس کو لوگوں نے کم عمر اور حقارت کے انداز میں بیان کیا تھا آپ نے فرمایا : جس شخص نے حق کے مطابق وصیت کی اس کو اجر دیا جائے گا۔

31496

(۳۱۴۹۷) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَنِ الشَّیْبَانِیِّ ، عَنْ أَبِی بَکْرِ بْنِ أَبِی مُوسَی ، قَالَ : أَوْصَی ابْنٌ لأَبِی مُوسَی غُلاَمٌ صَغِیرٌ بِوَصِیَّۃٍ ، فَأَرَادَ إخْوَتُہُ أَنْ یَرُدُّوا وَصِیَّتَہُ ، فَارْتَفَعُوا إلَی شُرَیْحٍ ، فَأَجَازَ وَصِیَّۃَ الْغُلاَمِ۔
(٣١٤٩٧) ابوبکر بن ابی موسیٰ سے روایت ہے کہ ابو موسیٰ (رض) کے ایک کم عمر بیٹے نے وصیت کردی، اس کے بھائیوں نے چاہا کہ اس کی وصیت کو ختم کردیں ، اس کے لیے قاضی شریح کی عدالت میں مرافعہ کیا تو انھوں نے اس بچے کی وصیت کو نافذ فرما دیا۔

31497

(۳۱۴۹۸) حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّیَالِسِیُّ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنْ حَمَّادٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : تَجُوزُ وَصِیَّۃُ الصَّبِیِّ فِی مَالِہِ فِی الثُّلُثِ فَمَا دُونَہُ۔
(٣١٤٩٨) حماد سے روایت ہے کہ حضرت ابراہیم نے فرمایا : بچے کی اپنے مال میں ایک تہائی پا اس سے کم میں وصیت جائز ہے۔

31498

(۳۱۴۹۹) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ مُطَرِّفٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : قُلْتُ لَہُ : تَجُوزُ وَصِیَّتُہُ ؟ قَالَ : جَائِزَۃٌ۔
(٣١٤٩٩) مطرف سے روایت ہے کہتے ہیں شعبی سے میں نے سوال کیا : کیا بچے کی وصیت جائز ہے ؟ فرمایا جائز ہے۔

31499

(۳۱۵۰۰) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ عُمَارَۃَ ، قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا عَمْرِو بْنِ الأَجْدَعِ ، قَالَ : اخْتَصَمَ إلَی عَلِیٍّ ظِئْرُ غُلاَمٍ ، فَأَمَرَ عَلِیٌّ أَنْ نُعْتِقَہُ ، فَأَعْتَقْنَاہُ۔
(٣١٥٠٠) عُمارہ فرماتے ہیں کہ میں نے ابو عمر بن اجدع کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ حضرت علی (رض) کے پاس ایک بچے کی دایہ کا شوہر مقدمہ لے کر آیا ، آپ نے ہمیں حکم دیا کہ ہم اسے آزاد کردیں، چنانچہ ہم نے اسے آزاد کردیا۔

31500

۳۱۵۰۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنْ شُرَیْحٍ : أَنَّہُ قَالَ فِی وَصِیَّۃِ الصَّبِیِّ : أَیُّمَا مُوصٍ أَوْصَی فَأَصَابَ حَقًّا جَازَ۔
(٣١٥٠١) شعبی سے روایت ہے کہ حضرت شریح نے بچے کی وصیت کے بارے میں فرمایا کہ جس وصیت کرنے والے نے کوئی درست وصیت کی وہ نافذ ہوجائے گی۔

31501

( (۳۱۵۰۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا یُونُسُ بْنُ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِیہِ : أَنَّ صَبِیًّا أَوْصَی لِظِئْرٍ لَہُ مِنْ أَہْلِ الْحِیرَۃِ بِأَرْبَعِینَ دِرْہَمًا ، فَأَجَازَہُ شُرَیْحٌ۔
(٣١٥٠٢) ابو اسحاق فرماتے ہیں کہ ایک بچے نے اپنے حیرہ کے علاقے کی ایک دایہ کے لیے چالیس درہم کی وصیت کی، قاضی شریح نے اس وصیت کو نافذ فرما دیا۔

31502

(۳۱۵۰۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا یُونُسُ بْنُ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ شُرَیْحٍ ، قَالَ : إذَا اتَّقَی الصَّبِیُّ الرُّکّی، أَنْ یَقَعَ فِیہَا فَقَدْ جَازَتْ وَصِیَّتُہُ۔
(٣١٥٠٣) ابو اسحاق سے روایت ہے کہ قاضی شریح نے فرمایا : جب بچہ اتنا بڑا ہوجائے کہ کنویں کی منڈیر پر اس خوف سے نہ جائے کہ کنویں میں گرجائے گا تو اس کی کی گئی وصیت نافذ ہوجائے گی۔

31503

(۳۱۵۰۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا زَکَرِیَّا ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : لاَ تَجُوزُ وَصِیَّۃُ غُلاَمٍ وَلاَ جَارِیَۃٍ حَتَّی یُصَلِّیَا۔
(٣١٥٠٤) زکریا سے روایت ہے کہ شعبی نے فرمایا کہ کسی لڑکے یا لڑکی کی وصیت جائز نہیں یہاں تک کہ وہ نماز کی عمر کو پہنچ جائیں۔

31504

(۳۱۵۰۵) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ عَطَائٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : لاَ یَجُوزُ عِتْقُ الصَّبِیِّ ، وَلاَ وَصِیَّتُہُ ، وَلاَ بَیْعُہُ ، وَلاَ شِرَاؤُہُ ، وَلاَ طَلاَقُہُ۔
(٣١٥٠٥) حضرت عطاء حضرت ابن عباس (رض) کا فرمان نقل کرتے ہیں کہ بچے غلام کا آزاد کرنا، اس کی وصیت اور اس کی خریدو فروخت اور اس کی طلاق درست نہیں ہے۔

31505

(۳۱۵۰۶) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ، عَنْ ہِشَامٍ، عَنِ الْحَسَنِ، قَالَ: لاَ تَجُوزُ وَصِیَّۃُ غُلاَمٍ حَتَّی یَحْتَلِمَ، وَلاَ جَارِیَۃٍ حَتَّی تَحِیضَ۔
(٣١٥٠٦) ہشام روایت کرتے ہیں کہ حضرت حسن نے فرمایا کسی لڑکے کی وصیت بالغ ہونے سے پہلے درست نہیں اور کسی لڑکی کی وصیت اس کو حیض آنے سے پہلے درست نہیں۔

31506

(۳۱۵۰۷) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، قَالَ : وَصِیَّتُہُ لَیْسَتْ بِجَائِزَۃٍ إلاَّ مَا لَیْسَ بِذِی بَالٍ۔
(٣١٥٠٧) زھری فرماتے ہیں کہ بچے کی وصیت جائز نہیں، سوائے اس مال کے جس کی بہت اہمیت نہ ہو۔

31507

(۳۱۵۰۸) حَدَّثَنَا عِیسَی بْنُ یُونُسَ ، عَنْ أَبِی بَکْرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ ، عَنْ مَکْحُولٍ ، قَالَ : سَمِعْتُہُ یَقُولُ : إذَا بَلَغَ الْغُلاَمُ خَمْسَۃَ عَشَرَ جَازَتْ وَصِیَّتُہُ۔
(٣١٥٠٨) مکحول فرماتے ہیں کہ جب بچہ پندرہ سال کا ہوجائے تو اس کے لیے وصیت کرنا جائز ہے۔

31508

(۳۱۵۰۹) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : لاَ تَجُوزُ وَصِیَّتُہُ۔
(٣١٥٠٩) حضرت حسن سے منقول ہے کہ نابالغ بچے کی وصیت جائز نہیں ہے۔

31509

(۳۱۵۱۰) حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ ، عَنِ الْمُسْتَمِرِّ بْنِ الرَّیَّانِ ، قَالَ : حضَرْت جَابِرَ بْنَ زَیْدٍ فِی الْمَسْجِدِ الْجَامِعِ ، وَقَالَ لَہُ زُرَارَۃُ بْنُ أَوْفَی - وَہُوَ یَوْمَئِذٍ عَلَی الْقَضَائِ : أَنَّہُ رُفِعَ إلَیَّ غُلاَمٌ أَعْتَقَ عَبْدًا لَہُ ، فَأَنْکَرَ ذَلِکَ الأَوْلِیَائُ ، فَرَأَیْت أَنْ أَرُدَّ ذَلِکَ ، ثُمَّ یُؤدِّی الْغُلاَمُ ، حَتَّی یَشِبَّ الْغُلاَمُ وَیُحِبَّ الْمَالَ ، فَإِنْ شَائَ أَنْ یَمْضِیَ أَمْضَی ، وَإِنْ شَائَ أَنْ یَرُدَّ رَدَّ۔
(٣١٥١٠) مستمر بن ریّان سے روایت ہے فرمایا کہ میں جامع مسجد میں حضرت جابر بن زید کے پاس تھا جبکہ ان کو حضرت زرارہ بن اوفی نے جو اس وقت قاضی تھے فرمایا کہ میرے پاس ایک نابالغ بچے کا مقدمہ آیا ہے جس نے اپنے غلام کو آزاد کردیا تھا اور اولیاء نے اس کو ماننے سے انکار کردیا تھا، میری رائے یہ ہوئی کہ اس آزادی کو ردّ کر دوں پھر بعد میں لڑکا جب بالغ ہوجائے گا اور اس کے دل میں مال کی محبت آنے لگے گی اس وقت اگر وہ لڑکا غلام کی آزادی کو نافذ کرنا چاہے تو کرلے اور اگر آزادی سے دستبردار ہونا چاہے تو ہوجائے۔

31510

(۳۱۵۱۱) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ عَوْف ، قَالَ : شَہِدْت ہِشَامَ بْنَ ہُبَیْرَۃٍ قَضَی فِی رَجُلٍ أَوْصَی لأُخْتٍ لَہُ عِنْدَ مَوْتِہِ بِمِثْلِ نَصِیبِ اثْنَیْنِ مِنْ وَلَدِہِ ، وَتَرَکَ الْمَیِّتُ بَنِینَ وَبَنَاتٍ ، فَأَرَادَتِ الْمُوصَی لَہَا أَنْ تَجْعَلَ نَفْسَہَا بِمَنْزِلَۃِ الذَّکَرِ ، وَأَبَی الْوَرَثَۃُ أَنْ یَجْعَلُوہَا إلاَّ بِمَنْزِلَۃِ الأُنْثَی ، فَقَضَی أَنَّہَا بِمَنْزِلَتِہَا إنْ لَمْ تَکُنْ تُبَیِّنَ۔
(٣١٥١١) عوف کہتے ہیں کہ میں ہشام بن ہبیرہ کے پاس اس وقت موجود تھا جب انھوں نے ایک آدمی کے بارے میں فیصلہ کیا جس نے مرتے وقت اپنی بہن کے لیے اپنے دو بچوں کے برابر مال کی وصیت کی تھی، اور اس کے ورثاء میں بیٹے اور بیٹیاں دونوں تھے، اس بہن نے جس کے لیے وصیت کی گئی تھی یہ چاہا کہ اپنے آپ کو مذکر اولاد کے برابر قرار دے اور ورثاء چاہتے تھے کہ اس کو مونث اولاد کے برابر حصّہ دیں، انھوں نے فیصلہ فرمایا کہ اس بہن کو مونث اولاد کے برابر سمجھا جائے گا اگر وہ واضح طور پر بیان نہ کرے۔

31511

(۳۱۵۱۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ عَوْفٍ الأَعْرَابِیِّ ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ ہُبَیْرَۃَ : أَنَّہُ قَضَی فِی رَجُلٍ أَوْصَی لِرَجُلٍ بِمِثْلِ نَصِیبِ أَحَدِ وَلَدِہِ ، وَلَہُ ذَکَرٌ وَأُنْثَی ، أَنَّ لَہُ نَصِیبَ الأُنْثَی۔ قَالَ أَبُو بَکْرٍ : قَالَ وَکِیعٌ : قَالَ سُفْیَانُ : لَہُ نَصِیبُ أُنْثَی۔
(٣١٥١٢) عوف اعرابی روایت کرتے ہیں کہ ہشام بن ھبیرہ نے ایک آدمی کے بارے میں فیصلہ کیا جس نے کسی کے لیے اپنے ایک بچے کے برابر مال کی وصیت کی تھی جبکہ اس کی اولاد میں مذکر اور مونث دونوں ہوں، کہ اس آدمی کو لڑکی کے برابر حصّہ دیا جائے گا، ابوبکر کہتے ہیں کہ وکیع حضرت سفیان سے بھی یہی نقل کرتے ہیں کہ اس کو لڑکی کے حصّے کے برابر مال دیا جائے گا۔

31512

(۳۱۵۱۳) حَدَّثَنَا عُمَرُ ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ : فِی رَجُلٍ أَوْصَی لِرَجُلٍ بِفَرَسٍ وَسَمَّاہُ ، وَقَالَ : ثُلُثُ مَالِی لِفُلاَنٍ وَفُلاَنٍ ، وَکَانَ الْفَرَسُ کَفَاف ثُلُثِ مَالِہِ ، قَالَ الزُّہْرِیُّ : نَرَی أَنْ یُقَسِّمَ ثُلُثَ مَالِہِ عَلَی حِصَصِہِمْ۔
(٣١٥١٣) یونس زہری سے روایت کرتے ہیں اس آدمی کے بارے میں جس نے کسی کے لیے ایک گھوڑے کی وصیت کی اور کہا کہ میرے مال کا تیسرا حصّہ فلاں اور فلاں کے لیے ہے، جبکہ اس کا گھوڑا اس کے ایک تہائی مال کے برابر تھا، زہری فرماتے ہیں کہ ہماری رائے یہ ہے کہ اس کا ایک تہائی مال ان کے حصّوں کے برابر تقسیم کردیا جائے۔

31513

(۳۱۵۱۴) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِہِ ، عَنِ الْحَسَنِ : أَنَّہُ قَالَ فِی رَجُلٍ أَوْصَی بِدَرَاہِمٍ وَبِالسُّدُسِ وَنَحْوِہِ : یَتَحَاصُّونَ جَمِیعًا۔
(٣١٥١٤) حضرت حسن سے روایت ہے کہ انھوں نے اس آدمی کے بارے میں فرمایا جس نے کسی کے لیے دراہم کی وصیت کی اور کسی کے لیے مال کے چھٹے حصّے کی وصیت کی اور اس طرح کی دوسری وصیتیں کی، کہ وہ سب حصّے بانٹ لیں گے۔

31514

(۳۱۵۱۵) حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ وَرْدَانَ ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ : أَنَّہُ کَانَ لاَ یَرَی بَأْسًا أَنْ یُوصِیَ الرَّجُلُ لِمَمْلُوکِہِ بِمِئَۃِ دِرْہَمٍ وَالْمِئَتَیْنِ إذَا رَضِیَ الأَوْلِیَائُ ، وَإِنْ جَعَلَ لَہُ شَیْئًا مِنْ ثُلُثِہِ فَہُوَ فِی عُنُقِہِ۔
(٣١٥١٥) یونس روایت کرتے ہیں کہ حضرت حسن اس بات میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے کہ کوئی آدمی اپنے غلام کے لیے سو یا دو سو درہم کی وصیت کرے جبکہ اس آدمی کے اولیاء راضی ہوں، اور اگر وہ اس کے لیے اپنے مال کے تیسرے حصّے کی وصیت کر دے تو وہ اس کی گردن پر ہے۔

31515

(۳۱۵۱۶) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، قَالَ : سَأَلْتُ عُمَرَاً عَنِ الرَّجُلِ یُوصِی لِعَبْدِہِ ؟ فَقَالَ : کَانَ الْحَسَنُ یَقُولُ : لَوْ أَوَصَی لَہُ بِرَغِیفٍ وَصِلَتُہُ عَتَاقَتُہُ۔
(٣١٥١٦) حفص فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عمرو سے اس آدمی کے بارے میں سوال کیا جو اپنے غلام کے لیے وصیت کرے، انھوں نے فرمایا : حضرت حسن فرمایا کرتے تھے کہ اگر وہ اس کے لیے ایک چپاتی کی وصیت بھی کرے تو اس کی آزادی اس کے ساتھ مل جائے گی۔

31516

(۳۱۵۱۷) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِِ ، عَنْ شَبِیبِ بْنِ غَرْقَدَۃَ ، عَنْ جُنْدُبٍ ، قَالَ : سَأَلَ طَہْمَانُ ابْنَ عَبَّاسٍ : أَیُوصِی الْعَبْدُ ؟ قَالَ : لاَ۔
(٣١٥١٧) جندب فرماتے ہیں کہ طھمان نے حضرت ابن عباس (رض) سے سوال کیا کہ کیا غلام وصیت کرسکتا ہے ؟ فرمایا نہیں !

31517

(۳۱۵۱۸) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ الْحَسَنِ وَمُحَمَّدٍ ، قَالاَ : وَصِیَّۃُ الرَّجُلِ حَیْثُ جَعَلَہَا إلاَّ أَنْ یُتَّہَمَ الْوَصِیُّ بِہِ۔
(٣١٥١٨) ہشام روایت کرتے ہیں کہ حضرت حسن اور محمد بن سیرین فرماتے ہیں کہ آدمی کی وصیت اس جگہ نافذ ہوجائے گی جہاں اس نے کی الّا یہ کہ وصیت کے ذمہ دار پر تہمت آجائے۔

31518

(۳۱۵۱۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ عَامِرٍ ، قَالَ : الْوَصِیُّ بِمَنْزِلَۃِ الْوَالِدِ ، وَإِذَا اتُّہِمَ الْوَصِیُّ عُزِلَ ، أَوْ جُعِلَ مَعَہُ غَیْرُہُ۔
(٣١٥١٩) جابر سے روایت ہے کہ حضرت عامر نے فرمایا : وصیت کا ذمہ دارتو باپ کے درجے میں ہے، اور جب اس پر کوئی تہمت لگ جائے تو اس کو معزول کردیا جائے یا اس کے ساتھ دوسرا آدمی ملا دیا جائے۔

31519

(۳۱۵۲۰) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، عَنْ عُمَرَ ، قَالَ : إذَا کَانَتْ وَصِیَّۃٌ وَعَتَاقَۃٌ تَحَاصُّوا۔
(٣١٥٢٠) مجاہد حضرت عمر (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ جب وصیت اور غلام کی آزادی جمع ہوجائے تو اس کو حصّوں پر تقسیم کرلیا جائے۔

31520

(۳۱۵۲۱) حَدَّثَنَا حَفْصٌ وَابْنُ عُلَیَّۃَ، عَنْ أَشْعَثَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: إذَا کَانَتْ عَتَاقَۃٌ وَوَصِیَّۃٌ بُدِئَ بِالْعَتَاقَۃِ۔
(٣١٥٢١) نافع حضرت ابن عمر (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ جب غلام کی آزادی اور وصیت جمع ہوجائیں تو غلام کی آزادی سے ابتدا کی جائے۔

31521

(۳۱۵۲۲) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ أَشْعَثَ وَحَجَّاجٌ ، عَنِ الْحَکَمِ ، عَنْ شُرَیْحٍ : أَنَّہُ کَانَ یَبْدَأُ بِالْعَتَاقَۃِ۔
(٣١٥٢٢) حکم روایت کرتے ہیں کہ حضرت شریح (رض) غلام کی آزادی سے ابتدا کیا کرتے تھے۔

31522

(۳۱۵۲۳) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ : فِی الرَّجُلِ یُوصِی بِعَتَاقِ عَبْدِہِ فِی مَرَضِہِ وَیُوصِی مَعَہُ بِوَصَایَا، قَالَ : یُبْدَأُ بِعَتَاقِ الْعَبْدِ قَبْلَ الْوَصَایَا ، فَإِنْ أَوْصَی أَنْ یَشْتَرِیَ لَہُ نَسَمَۃً فَتَعْتِقُ : کَانَتِ النَّسَمَۃُ کَسَائِرِ الْوَصِیَّۃِ۔
(٣١٥٢٣) مغیرہ راوی کہتے ہیں کہ حضرت ابراہیم نے اس آدمی کے بارے میں فرمایا جس نے اپنی بیماری میں اپنے غلام کو آزاد کرنے کی وصیت کی تھی اور اس کے ساتھ دوسری کچھ وصیتیں بھی کی تھیں کہ غلام کو دوسری وصیتوں کے پورا کرنے سے پہلے آزاد کیا جائے گا، البتہ اگر اس نے یہ وصیت کی ہو کہ ایک غلام خرید کر آزاد کیا جائے تو وہ وصیت دوسری وصیتوں کی طرح ہوگی۔

31523

(۳۱۵۲۴) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ، عَنْ یُونُسَ، عَنِ الْحَسَنِ: أَنَّہُ کَانَ یَقُولُ : یُبْدَأُ بِالْعَتَاقِ وَإِنْ أَتَی ذَلِکَ عَلَی الثُّلُثِ کُلِّہِ۔
(٣١٥٢٤) یونس روایت کرتے ہیں کہ حضرت حسن فرمایا کرتے تھے کہ پہلے غلام کو آزاد کیا جائے گا چاہے ایک تہائی مال میں سے صرف وہ غلام ہی نکلتاہو۔

31524

(۳۱۵۲۵) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنْ مُحَمَّدٍ : أَنَّہُ کَانَ یَقُولُ فِی الْوَصِیَّۃِ یَکُونُ فِیہَا الْعِتْقُ فَتَزِیدُ عَلَی الثُّلُثِ ، قَالَ : الثُّلُثُ بَیْنَہُمْ بِالْحِصَصِ۔
(٣١٥٢٥) ایوب روایت کرتے ہیں کہ محمد فرماتے ہیں کہ جس وصیت میں غلام کی آزادی بھی بیان کی گئی ہو اور وہ وصیت ایک تہائی مال سے بڑھ جائے تو ایک تہائی مال وصیت کے حق داروں میں حصّوں کی بنیاد پر تقسیم کیا جائے گا

31525

(۳۱۵۲۶) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ، عَنِ الشَّیْبَانِیِّ عَمَّنْ حَدَّثَہُ، عَنْ مَسْرُوقٍ: أَنَّہُ قَالَ فِی الْعَتَاقَۃِ وَالْوَصِیَّۃِ، قَالَ: یُبْدَأُ بِالْوَصِیَّۃِ۔
(٣١٥٢٦) شیبانی ایک واسطے سے حضرت مسروق سے روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے غلام کی آزادی اور دوسری وصیت کے بارے میں فرمایا کہ دوسری وصیت سے ابتدا کی جائے گی۔

31526

(۳۱۵۲۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ مُطَرِّفٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ بِالْحِصَصِ۔
(٣١٥٢٧) مطرّف شعبی سے وصیت کے حصّوں کی بنیاد پر حق داروں کے درمیان تقسیم کرنے کے روایت کرتے ہیں۔

31527

(۳۱۵۲۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : یُبْدَأُ بِالْعَتَاقَۃِ۔
(٣١٥٢٨) منصور حضرت ابراہیم سے روایت کرتے ہیں کہ غلام کی آزادی سے ابتدا کی جائے گی۔

31528

(۳۱۵۲۹) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ حَمَّادٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : إنَّمَا یُبْدَأُ بِالْعَتَاقَۃِ إذَا سَمَّی مَمْلُوکًا بِعَیْنِہِ۔
(٣١٥٢٩) حماد روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابراہیم نے فرمایا کہ غلام کی آزادی سے اس وقت سے ابتدا کی جائے گی جب وصیت کرنے والا غلام کو متعین کر کے آزاد کرے۔

31529

(۳۱۵۳۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : قَالَ سُفْیَانُ : إذَا أَوْصَی بِأَشْیَائَ ، وَقَالَ : أَعْتِقُوا عَنِّی فَبِالْحِصَصِ ، وَإِذَا أَوْصَی ، فَقَالَ : فُلاَنٌ حُرٌّ ، بُدِئَ بِالْعَتَاقَۃِ۔
(٣١٥٣٠) وکیع سے روایت ہے کہ حضرت سفیان نے فرمایا جب کوئی آدمی مختلف چیزوں کی وصیت کرے اور پھر کہے : میری جانب سے ایک غلام بھی آزاد کردو تو وصیت کو حصّوں کی بنیاد پر تقسیم کیا جائے گا، اور جب کہے کہ فلاں غلام آزاد ہے تو غلام کی آزادی پہلے نافذ کی جائے گی۔

31530

(۳۱۵۳۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَطَائٍ ، قَالَ : یُبْدَأُ بِالْعَتَاقَۃِ۔
(٣١٥٣١) ابن جریج سے روایت ہے کہ حضرت عطاء نے فرمایا کہ پہلے غلام کو آزاد کیا جائے گا۔

31531

(۳۱۵۳۲) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ عَطَائٍ ، قَالَ : بِالْحِصَصِ۔
(٣١٥٣٢) حجاج حضرت عطاء سے روایت کرتے ہیں کہ وصیت کو حصّوں کی بنیاد پر تقسیم کیا جائے گا۔

31532

(۳۱۵۳۳) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنِ الْحَکَمِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ ، یُبْدَأُ بِالْعَتَاقَۃِ۔
(٣١٥٣٣) حکم روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابراہیم نے فرمایا پہلے غلام کو آزاد کیا جائے گا۔

31533

(۳۱۵۳۴) حَدَّثَنَا عَبْدُ السَّلاَمِ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ : فِی رَجُلٌ مَاتَ وَتَرَکَ أَلْفَیْ دِرْہَمٍ وَعَبْدًا قِیمَتُہُ أَلْفُ دِرْہَمٍ ، وَأَوْصَی لِرَجُلٍ بِخَمْسِمِئَۃٍ وَأَعْتَق الْعَبْد ، قَالَ : یَعْتِقُ الْعَبْدُ وَتَبْطُلُ الْوَصِیَّۃُ۔
(٣١٥٣٤) حجاج روایت کرتے ہیں کہ حضرت شعبی نے اس آدمی کے بارے میں فرمایا جس نے مرتے وقت دو ہزار درہم اور ایک غلام چھوڑا جس کی قیمت ایک ہزار درہم تھی اور اس نے ایک آدمی کو پانچ سو روپے دینے کی وصیت کی اور غلام کو آزاد کردیا، فرمایا کہ غلام کو آزاد کردیا جائے گا اور باقی وصیت باطل ہوجائے گی۔

31534

(۳۱۵۳۵) حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ ، عَنْ دَاوُدَ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ : فِی قَوْلِہِ : {وَإِذَا حَضَرَ الْقِسْمَۃَ أُوْلُواْ الْقُرْبَی وَالْیَتَامَی وَالْمَسَاکِینُ فَارْزُقُوہُم مِّنْہُ} فَحَدَّثَ عَنْ مُحَمَّدٍ ، عَنْ عَبِیدَۃَ : أَنَّہُ وَلِیَ وَصِیَّۃً فَأَمَرَ بِشَاۃٍ فَذُبِحَتْ فَصَنَعَ طَعَامًا لأَجْلِ ہَذِہِ الآیَۃِ ، وَقَالَ : لَوْلاَ ہَذِہِ الآیَۃُ لَکَانَ ہَذَا مِنْ مَالِی۔
(٣١٥٣٥) سعید بن مسیب نے اللہ تعالیٰ کے فرمان { وَإِذَا حَضَرَ الْقِسْمَۃَ أُولُوا الْقُرْبَی وَالْیَتَامَی وَالْمَسَاکِینُ فَارْزُقُوہُم مِّنْہُ } کی تفسیر میں محمد بن سیرین کے واسطے سے حضرت عبیدہ کے بارے میں بیان فرمایا کہ وہ ایک وصیت کے ذمہ دار بن گئے تو انھوں نے ایک بکری ذبح کرنے کا حکم دیا اور اس سے اس آیت میں بیان کردہ لوگوں کے لیے کھانا تیار کرایا، اور پھر فرمایا کہ اگر یہ آیت نہ ہوتی تو یہ سب کام میرے مال سے ہوتا۔

31535

(۳۱۵۳۶) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ فِی قَوْلِہِ : {وَإِذَا حَضَرَ الْقِسْمَۃَ أُولُوا الْقُرْبَی وَالْیَتَامَی وَالْمَسَاکِینُ فَارْزُقُوہُمْ مِنْہُ} قَالَ : کَانَ إذَا قَسَمَ الْقَوْمُ الْمِیرَاثَ ، وَکَانَ ہَؤُلاَئِ شُہُودًا رُضِخَ لَہُمْ مِنَ الْمِیرَاثِ ، فَإِنْ کَانُوا غَیَبًا وَأَحَدٌ مِنْہُمْ شَاہِدٌ ، فَإِنْ شَائَ أَعْطَی مِنْ نَصِیبِہِ وَإِلاَّ قَالَ لَہُمْ قَوْلاً مَعْرُوفًا ، قَالَ : یَقُولُ : إنَّ لَکُمْ فِیہِ حَقًّا۔
(٣١٥٣٦) مغیرہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابراہیم نے اللہ تعالیٰ کے فرمان { وَإِذَا حَضَرَ الْقِسْمَۃَ أُولُوا الْقُرْبَی وَالْیَتَامَی وَالْمَسَاکِینُ فَارْزُقُوہُم مِّنْہُ } کی تفسیر میں فرمایا کہ جب لوگ میراث تقسیم کرتے اور یہ لوگ وہاں موجود ہوتے تو ان کو میراث میں سے تھوڑا بہت دے دیا جاتا تھا، اور اگر ورثاء موجود نہ ہوتے اور اس وقت ان لوگوں میں سے کوئی وہاں موجود ہوتا تو اگر اپنے حصّے سے دینا چاہتا تو دے دیتا ورنہ ان سے مناسب بات کہہ دیتا، یعنی یوں کہتا؛ بلاشبہ تمہارا اس مال میں حق ہے۔

31536

(۳۱۵۳۷) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ یَمَانٍ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ أَبِی الْعَالِیَۃِ وَالْحَسَنِ ، قَالاَ : یَرْضَخُونَ وَیَقُولُونَ قَوْلاً مَعْرُوفًا۔
(٣١٥٣٧) عاصم روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابو العالیہ (رض) اور حسن (رض) نے فرمایا کہ ان لوگوں کو کچھ مال دے دیا جائے گا اور ورثاء ان سے اچھی بات کہیں۔

31537

(۳۱۵۳۸) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : کَانَ رَجُلٌ یَقْسِمُ مِیرَاثًا ، فَقَالَ لِصَاحِبِہِ : أَلاَ تَجِیئُ نُحْیِی آیَۃً مِنْ کِتَابِ اللہِ قَدْ أُمِیتَتْ ، فَقَسَمَ بَیْنَہُمْ مِنْ نَصِیبِہِ۔
(٣١٥٣٨) مغیرہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت شعبی نے فرمایا کہ ایک آدمی میراث تقسیم کررہا تھا اس دوران وہ اپنے ساتھی سے کہنے لگا : کیوں نہ ہم کتاب اللہ کی ایک آیت پر عمل کریں جس پر لوگوں نے عمل چھوڑ دیا ہے ! اس کے بعد اس نے ان لوگوں کے درمیان اپنے حصّے میں سے کچھ مال تقسیم کردیا۔

31538

(۳۱۵۳۹) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ، عنَْسُفْیَانُ بْنُ حُسَیْنٍ، عَنِ الْحَسَنِ وَابْنِ سِیرِینَ: فِی قَوْلِہِ: {وَإِذَا حَضَرَ الْقِسْمَۃَ أُولُوا الْقُرْبَی وَالْیَتَامَی} ، قَالاَ : ہِیَ مُثبتۃٌ ، فَإِذَا حَضَرَتْ وَحَضَرَ ہَؤُلاَئِ الْقَوْمِ أُعْطُوا مِنْہَا وَرُضِخَ لَہُمْ۔
(٣١٥٣٩) سفیان بن حسین روایت کرتے ہیں کہ حضرت حسن اور محمد بن سیرین (رض) نے اللہ تعالیٰ کے فرمان { وَإِذَا حَضَرَ الْقِسْمَۃَ أُولُوا الْقُرْبَی وَالْیَتَامَی وَالْمَسَاکِینُ فَارْزُقُوہُم مِّنْہُ } کے بارے میں فرمایا کہ یہ منسوخ نہیں ہوئی، اس لیے جب میراث تقسیم کی جا رہی ہو اور یہ لوگ وہاں موجود ہوں تو ان کو کچھ مال دے دیا جانا چاہیے۔

31539

(۳۱۵۴۰) حَدَّثَنَا عَبْدُالأَعْلَی، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ الزُّہْرِیِّ: فِی قَوْلِہِ: {وَإِذَا حَضَرَ الْقِسْمَۃَ أُولُوا الْقُرْبَی} إنَّہَا مُحْکَمَۃٌ۔
(٣١٥٤٠) معمر حضرت زہری سے نقل کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان { وَإِذَا حَضَرَ الْقِسْمَۃَ أُولُوا الْقُرْبَی وَالْیَتَامَی وَالْمَسَاکِینُ فَارْزُقُوہُم مِّنْہُ } منسوخ شدہ نہیں۔

31540

(۳۱۵۴۱) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، قَالَ : سَمِعْتُ یُونُسَ بْنَ جُبَیْر یُحَدِّثُ عَنْ حِطَّانَ ، عَنْ أَبِی مُوسَی: فِی ہَذِہِ الآیَۃِ : {إِذَا حَضَرَ الْقِسْمَۃَ أُولُوا الْقُرْبَی وَالْیَتَامَی وَالْمَسَاکِینُ فَارْزُقُوہُمْ مِنْہُ وَقُولُوا لَہُمْ قَوْلاً مَعْرُوفًا} قَالَ : قَضَی بِہَا أَبُو مُوسَی۔
(٣١٥٤١) حطان حضرت ابو موسیٰ (رض) سے نقل کرتے ہیں کہ انھوں نے آیت {إِذَا حَضَرَ الْقِسْمَۃَ أُولُوا الْقُرْبَی وَالْیَتَامَی وَالْمَسَاکِینُ فَارْزُقُوہُمْ مِنْہُ وَقُولُوا لَہُمْ قَوْلاً مَعْرُوفًا } کے مطابق فیصلہ جاری فرمایا۔

31541

(۳۱۵۴۲) حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَبْدِ الْوَارِثِ ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَۃَ ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ : أَنَّ عُرْوَۃَ قَسَمَ مِیرَاثَ أَخِیہِ مُصْعَبٍ ، فَأَعْطَی مَنْ حَضَرَہُ مِنْ ہَؤُلاَئِ وَبَنُوہُ صِغَارٌ۔
(٣١٥٤٢) ہشام بن عروہ سے روایت ہے کہ حضرت عروہ نے اپنے بھائی مصعب کی میراث تقسیم کی تو آیت میں مذکورہ لوگوں میں سے جو وہاں موجود تھے ان کو بھی اس میں سے دیا، حالانکہ ان کے بچے نابالغ تھے۔

31542

(۳۱۵۴۳) حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَۃَ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِی بَکْرِ بْنِ أَبِی مُوسَی وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِی بَکْرٍ : أَنَّہُمَا کَانَا یُعْطِیَانِ مَنْ حَضَرَ مِنْ ہَؤُلاَئِ۔
(٣١٥٤٣) ابو اسحاق حضرت ابوبکر بن ابو موسیٰ اور عبد الرحمن بن ابی بکر کے بارے میں نقل کرتے ہیں کہ وہ آیت میں مذکور لوگوں میں جو موجود ہوتا اس کو مال دیا کرتے تھے۔

31543

(۳۱۵۴۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنِ السُّدِّیِّ ، عَنْ أَبِی سَعِیدٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ : {وَإِذَا حَضَرَ الْقِسْمَۃَ أُولُوا الْقُرْبَی وَالْیَتَامَی وَالْمَسَاکِینُ فَارْزُقُوہُمْ مِنْہُ}، قَالَ : إنْ کَانُوا کِبَارًا رُضِخُوا ، وَإِنْ کَانُوا صِغَارًا اعْتُذِرَ إلَیْہِمْ ، فَذَلِکَ قَوْلہ {قَوْلاً مَعْرُوفًا}۔
(٣١٥٤٤) ابو سعد سے روایت ہے کہ حضرت سعید بن جبیر (رض) نے آیت { وَإِذَا حَضَرَ الْقِسْمَۃَ أُولُوا الْقُرْبَی وَالْیَتَامَی وَالْمَسَاکِینُ فَارْزُقُوہُمْ مِنْہُ } کی تفسیر میں فرمایا کہ اگر ورثاء بالغ ہوں تو ان لوگوں کو کچھ مال دے دیا جائے ، اور اگر ورثاء نابالغ ہوں تو ان لوگوں سے معذرت کرلی جائے ، یہ مطلب ہے { قَوْلاً مَعْرُوفًا } کا۔

31544

(۳۱۵۴۵) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ ، عَنْ حُمَیْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، قَالَ : وَلِیَ أَبِی مِیرَاثًا فَأَمَرَ بِشَاۃٍ فَذُبِحَتْ فَصُنِعَتْ ، فَلَمَّا قَسَمَ ذَلِکَ الْمِیرَاثَ أَطْعَمَہُمْ ، وَقَالَ : لِمَنْ لَمْ یَرِثْ مَعْرُوفًا۔
(٣١٥٤٥) محمد بن سیرین سے روایت ہے کہ حضرت حمید بن عبد الرحمن نے فرمایا کہ میرے والد ایک مرتبہ وراثت کے مال کے ذمہ دار بنے، تو انھوں نے ایک بکری ذبح کروا کر پکوائی پھر جب میراث تقسیم کرچکے تو ان لوگوں کو کھلا دیا جو وہاں موجود تھے اور اس کے بعد جو لوگ وارث نہیں تھے ان سے اچھی بات فرما دی۔

31545

(۳۱۵۴۶) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ یَمَانٍ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنِ السُّدِّیِّ ، عَنْ أَبِی مَالِکٍ : نَسَخَتْہَا آیَۃُ الْمِیرَاثِ۔
(٣١٥٤٦) سدی روایت کرتے ہیں کہ ابو مالک نے فرمایا کہ اس آیت کو میراث کی آیت نے منسوخ کردیا ہے۔

31546

(۳۱۵۴۷) حَدَّثَنَا ابْنُ یَمَانٍ، عَنْ سُفْیَانَ، عَنِ الشَّیْبَانِیِّ، عَنْ عِکْرِمَۃَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: مُحْکَمَۃٌ لَیْسَتْ بِمَنْسُوخَۃٍ۔
(٣١٥٤٧) عکرمہ حضرت ابن عباس (رض) کا فرمان نقل کرتے ہیں کہ یہ آیت مُحکَم ہے منسوخ نہیں۔

31547

(۳۱۵۴۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا الأَعْمَشُ ، قَالَ : سَمِعْتُ الشَّعْبِیَّ یَقُولُ فِی الْمَسْجِدِ مَرَّۃً : سَمِعْت حَدِیثًا مَا بَقِیَ أَحَدٌ سَمِعَہُ غَیْرِی، سَمِعْت عَمْرَو بْنَ شُرَحْبِیلَ یَقُولُ: قَالَ عَبْدُ اللہِ: إنَّکُمْ مَعْشَرَ الْیَمَنِ مِنْ أَجْدَرِ قَوْمٍ أَنْ یَمُوتَ الرَّجُلُ، وَلاَ یَدْعُ عُصْبَۃً فَلْیَضَعْ مَالَہُ حَیْثُ شَائَ، قَالَ الأَعْمَشُ: فَقُلْتُ لإِبْرَاہِیمَ: إنَّ الشَّعْبِیَّ، قَالَ کَذَا وَکَذَا، قَالَ إبْرَاہِیمُ: حَدَّثَنِی ہَمَّامُ بْنُ الْحَارِثِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُرَحْبِیلَ، عَنْ عَبْدِاللہِ مِثْلَہُ۔ (سعید بن منصور ۲۱۷)
(٣١٥٤٨) اعمش فرماتے ہیں کہ میں نے ایک مرتبہ حضرت شعبی کو مسجد میں یہ فرماتے ہوئے سنا : میں نے ایک حدیث ایسی سنی ہوئی ہے کہ اس کے سننے والوں میں میرے علاوہ کوئی زندہ نہیں رہا، میں نے عمرو بن شرحبیل کو فرماتے ہوئے سنا : حضرت عبداللہ (رض) نے فرمایا کہ اے یمن والو ! تم میں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ آدمی مرجاتا ہے اور عصبہ بننے والے رشتہ داروں میں سے کوئی چھوڑ کر نہیں جاتا، ایسے آدمی کو اختیار ہے کہ جہاں چاہے اپنا مال لگا دے۔
اعمش فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابراہیم سے عرض کیا کہ شعبی نے اس طرح فرمایا ہے، حضرت ابراہیم فرمانے لگے : مجھے ھمّام بن الحارث نے عمرو بن شرحبیل کے واسطے سے حضرت عبداللہ سے یہی بیان کیا ہے۔

31548

(۳۱۵۴۹) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ ، قَالَ : سَأَلْتُ عَبِیدَۃَ عَنْ رَجُلٍ لَیْسَ عَلَیْہِ عَقْدٌ وَلَیْسَ عَلَیْہِ عُصْبَۃٌ ، یُوصِی بِمَالِہِ کُلِّہِ ؟ قَالَ : نَعَمْ۔
(٣١٥٤٩) محمد بن سیرین فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عبیدہ سے ایسے آدمی کے بارے میں سوال کیا جس نے نہ کسی کے ساتھ کوئی معاملہ کر رکھا ہے اور نہ اس کا عصبہ بننے والا کوئی رشتہ دار زندہ ہے ، کہ کیا وہ شخص مرتے وقت پورے مال کی وصیت کرسکتا ہے ؟ انھوں نے فرمایا : جی ہاں !

31549

(۳۱۵۵۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنْ مَسْرُوقٍ ؛ سُئِلَ عَنْ رَجُلٍ مَاتَ وَلَمْ یَتْرُکْ مَوْلًی عَتَاقَۃٍ ، وَلاَ وَارِثًا ؟ قَالَ : مَالُہُ حیْثُ وَضَعَہُ ، فَإِنْ لَمْ یَکُنْ أَوْصَی بِشَیْئٍ فَمَالُہُ فِی بَیْتِ الْمَالِ۔
(٣١٥٥٠) شعبی فرماتے ہیں کہ حضرت مسروق سے ایسے آدمی کے بارے میں دریافت کیا گیا جس نے مرتے وقت آزاد کرنے والا آقا چھوڑا ہے نہ ہی کوئی وارث ، فرمانے لگے کہ حضرت سالم نے فرمایا ہے کہ اس کا مال وہیں صَرف کیا جائے گا جہاں صَرف کرنے کی اس نے وصیت کی ہو، اور اگر اس نے کوئی وصیت نہ کی ہو تو اس کا مال بیت المال میں جمع کرلیا جائے گا۔

31550

(۳۱۵۵۱) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ : فِی رَجُلٍ وَالَی رَجُلاً فَأَسْلَمَ عَلَی یَدَیْہِ ، قَالَ : إنْ شَائَ أَوْصَی بِمَالِہِ کُلِّہِ۔
(٣١٥٥١) یونس روایت کرتے ہیں کہ حضرت حسن (رض) نے اس آدمی کے بارے میں فرمایا جس نے کسی کے ساتھ موالات کا معاملہ کیا اور پھر اس کے ہاتھ پر مسلمان ہوگیا ، کہ اگر یہ آدمی بھی چاہے تو مرتے وقت اپنے پورے مال کی وصیت کرسکتا ہے۔

31551

(۳۱۵۵۲) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ : أَنَّ أَبَا الْعَالِیَۃِ أَوْصَی بِمِیرَاثِہِ لِبَنِی ہَاشِمٍ۔
(٣١٥٥٢) مغیرہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابو العالیہ نے اپنے مال وراثت کی بنو ہاشم کے لیے وصیت کردی تھی۔

31552

(۳۱۵۵۳) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، قَالَ : حدَّثَنَا ہِشَامٌ ، عَنْ أَبِیہِ : أَنَّ عَبْدَ اللہِ بْنَ مَسْعُودٍ وَعُثْمَانَ وَالْمِقْدَادَ بْنَ الأَسْوَدِ، وَعَبْدَ الرَّحْمَن بْنَ عَوْفٍ وَمُطِیعَ بْنَ الأَسْوَدِ أَوْصَوا إلَی الزُّبَیْرِ بْنِ الْعَوَّامِ ، قَالَ : وَأَوْصَی إلَی عَبْدِ اللہِ بْنِ الزُّبَیْرِ۔
(٣١٥٥٣) حضرت عروہ فرماتے ہیں کہ عبداللہ بن مسعود، عثمان ، مقداد بن أسود، عبد الرحمن بن عوف اور مطیع بن أسود (رض) نے حضرت زبیر بن عوّام (رض) کو وصیت کا ذمہ دار بنایا تھا، اور عبد الرحمن بن زبیر (رض) نے مجھے وصیت کا ذمہ دار بنایا۔

31553

(۳۱۵۵۴) حَدَّثَنَا أَزْہَرُ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ : کَانَ وَصّی لِرَجُلٍ۔
(٣١٥٥٤) نافع فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عمر (رض) نے ایک آدمی کی وصیت کی ذمہ داری اٹھائی تھی۔

31554

(۳۱۵۵۵) حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، قَالَ : أَوْصَی إلَیَّ ابْن عَمٍّ لِی ، قَالَ : فَکَرِہْت ذَلِکَ ، فَسَأَلْت عَمْرًا ؟ فَأَمَرَنِی أَنْ أَقْبَلَہَا ، قَالَ : وَکَانَ ابْنُ سِیرِینَ یَقْبَلُ الْوَصِیَّۃَ۔
(٣١٥٥٥) ابن عون فرماتے ہیں کہ میرے ایک چچا زاد نے مجھے وصیت کا ذمہ دار بنایا، میں نے ناپسندیدگی کا اظہار کیا، اس کے بعد میں نے حضرت عمرو سے اس بارے میں پوچھا تو انھوں نے مجھے یہ ذمہ داری قبول کرلینے کا حکم فرمایا، فرماتے ہیں کہ محمد بن سیرین بھی وصیت کی ذمہ داری لے لیا کرتے تھے۔

31555

(۳۱۵۵۶) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ، عَنْ إسْمَاعِیلَ، عَنْ قَیْسٍ، قَالَ: کَانَ أَبُو عُبَیْد عَبَرَ الْفُرَاتِ فَأَوْصَی إلَی عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ۔
(٣١٥٥٦) قیس فرماتے ہیں کہ حضرت ابو عبید فرات کے پار چلے گئے اور انھوں نے حضرت عمر بن خطاب (رض) کو اپنا وصی بنا چھوڑا تھا۔

31556

(۳۱۵۵۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إِسْرَائِیلَ ، عَنْ أَبِی الْہَیْثُمَّ ، قَالَ : بَعَثَ إلَیَّ إبْرَاہِیمُ فَأَوْصَی إلَیَّ۔
(٣١٥٥٧) ابو الہیثم فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم نے پیغام بھیج کر مجھے اپنا وصی بنایا تھا۔

31557

(۳۱۵۵۸) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ أَبِیہِ : أَنَّہُ قَالَ : مَرِضَ مَرَضًا أَشْفَی مِنْہُ ، فَأَتَاہُ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَعُودُہُ ، فَقَالَ : یَا رَسُولَ اللہِ ، إنَّ لِی مَالاً کَثِیرًا وَلَیْسَ یَرِثُنِی إِلاَّ ابْنَۃٌ لِی ، أَفَأَتَصَدَّقُ بِالثُّلُثَیْنِ ؟ قَالَ : لاَ ، قَالَ : فَالشَّطْرَ ؟ قَالَ : لاَ ، قُلْتُ : فَالثُّلُثُ ؟ قَالَ : الثُّلُثُ کَثِیرٌ۔ (بخاری ۶۷۳۳۔ مسلم ۱۲۵۲)
(٣١٥٥٨) عامر بن سعد روایت کرتے ہیں کہ حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) نے فرمایا کہ میں ایک مرتبہ اتنا بیمار ہوا کہ قریب المرگ ہوگیا، میرے پاس عیادت کے لیے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے تو میں نے عرض کیا یا رسول اللہ 5! میرے پاس بہت سا مال ہے اور میرا وارث میری ایک بیٹی کے علاوہ کوئی نہیں، کیا میں اپنے مال کا دو تہائی حصّہ صدقہ کرسکتا ہوں ؟ آپ نے فرمایا : نہیں ! میں نے عرض کیا : تو کیا آدھا مال صدقہ کرسکتا ہوں ؟ آپ نے فرمایا : نہیں ! میں نے عرض کیا : اور ایک تہائی ؟ آپ نے فرمایا : ایک تہائی بہت ہے۔

31558

(۳۱۵۵۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : وَدِدْت أَنَّ النَّاسَ غَضُّوا مِنَ الثُّلُثِ إلَی الرُّبُعِ ، لأَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : الثُّلُثُ کَثِیرٌ۔ (بخاری ۲۷۴۳۔ مسلم ۱۲۵۳)
(٣١٥٥٩) عروہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا کہ لوگوں نے ایک تہائی سے کم کر کے ایک چوتھائی مال کی وصیت کرنا شروع کردی، اس لیے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تھا : ایک تہائی بہت ہے۔

31559

(۳۱۵۶۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، أَنَّ الزُّبَیْرَ أَوْصَی بِثُلُثِہِ۔
(٣١٥٦٠) عروہ فرماتے ہیں کہ حضرت زبیر (رض) نے ایک تہائی مال کی وصیت کی تھی۔

31560

(۳۱۵۶۱) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : ذُکِرَ عِنْدَ عُمَرَ الثُّلُثُ فِی الْوَصِیَّۃِ ، قَالَ : الثُّلُثُ وَسَطٌ لاَ بَخْسٌ ، وَلاَ شَطَطٌ۔
(٣١٥٦١) نافع سے روایت ہے کہ حضرت ابن عمر (رض) نے فرمایا کہ حضرت عمر (رض) کے سامنے ایک تہائی مال کی وصیت کا ذکر کیا گیا تو آپ نے فرمایا : ایک تہائی درمیانی مقدار ہے۔ نہ بہت کم ہے نہ بہت زیادہ۔

31561

(۳۱۵۶۲) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ بُرْدٍ ، عَنْ مَکْحُولٍ : أَنَّ مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ قَالَ : إنَّ اللَّہَ تَصَدَّقَ عَلَیْکُمْ بِثُلُثِ أَمْوَالِکُمْ زِیَادَۃً فِی حَیَاتِکُمْ۔ یَعْنِی : الْوَصِیَّۃَ۔
(٣١٥٦٢) مکحول سے روایت ہے کہ حضرت معاذ بن جبل (رض) نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے تمہیں تمہارے مالوں کا ایک تہائی عطا فرما کر تمہاری زندگی میں اضافہ فرما دیا ہے، اور وہ اس سے وصیت مراد لے رہے تھے۔

31562

(۳۱۵۶۳) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ بُرْقَانَ ، عَنْ خَالِدِ بْنِ أَبِی عَزَّۃَ ، قَالَ : قَالَ أَبُو بَکْرٍ : آخُذُ مِنْ مَالِی مَا أَخَذَ اللَّہُ مِنَ الْفَیْئِ فَأَوْصَی بِالْخُمُسِ۔
(٣١٥٦٣) خالد بن ابی عزّہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابوبکر نے فرمایا میں اپنے مال میں سے اتنا لیتا ہوں جتنا اللہ تعالیٰ نے مال فیٔ میں سے لیا ہے، اس کے بعد اپنے مال کے پانچویں حصّے کی وصیت کردی۔

31563

(۳۱۵۶۴) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ جُوَیْبِرٍ ، عَنِ الضَّحَّاکِ ، قَالَ : أَوْصَی أَبُو بَکْرٍ وَعَلِیٌّ بِالْخُمُسِ۔
(٣١٥٦٤) ضحاک فرماتے ہیں کہ حضرت ابوبکر (رض) اور علی (رض) نے اپنے مال کے پانچویں حصّے کی وصیت فرمائی تھی۔

31564

(۳۱۵۶۵) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ حُمَیْدٍ ، عَنْ بَکْرٍ : أَنَّ حُمَیْدَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، قَالَ : مَا کُنْت لأَقْبَلَ وَصِیَّۃَ رَجُلٍ یُوصِی بِالثُّلُثِ وَلَہُ وَلَدٌ۔
(٣١٥٦٥) بکر فرماتے ہیں کہ حضرت حمید بن عبد الرحمن نے فرمایا کہ میں اس آدمی کی وصیت قبول نہیں کرتا جس نے اولاد کے ہوتے ہوئے ایک تہائی مال کی وصیت کی ہو۔

31565

(۳۱۵۶۶) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنْ مُحَمَّدٍ ، عَنْ شُرَیْحٍ ، قَالَ : الثُّلُثُ جَیِّدٌّ وَہُوَ جَائِزٌ۔
(٣١٥٦٦) محمد روایت کرتے ہیں کہ حضرت شریح نے فرمایا کہ ایک تہائی مال بہت عمدہ ہے اور اس کی وصیت جائز ہے۔

31566

(۳۱۵۶۷) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ بَشِیرِ بْنِ عُقْبَۃَ ، عَنْ یَزِیدَ بْنِ الشِّخِّیرِ ، قَالَ : کَانَ مُطَرِّفٌ یَرَی الْخُمُسَ فِی الْوَصِیَّۃِ حَسَنًا۔
(٣١٥٦٧) یزید بن شخّیر فرماتے ہیں کہ حضرت مطرّف مال کے پانچویں حصّے کی وصیت کو اچھا سمجھتے تھے۔

31567

(۳۱۵۶۸) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : کَانُوا یَقُولُونَ الَّذِی یُوصِی بِالْخُمُسِ أَفْضَلُ مِنَ الَّذِی یُوصِی بِالرُّبُعِ ، وَالَّذِی یُوصِی بِالرُّبُعِ أَفْضَلُ مِنَ الَّذِی یُوصِی بِالثُّلُثِ۔
(٣١٥٦٨) اعمش روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابراہیم نے فرمایا کہ علماء فرمایا کرتے تھے کہ جو آدمی مال کے پانچویں حصّے کی وصیت کرے وہ اس آدمی سے بہتر ہے جو ایک چوتھائی مال کی وصیت کرے، اور ایک چوتھائی مال کی وصیت کرنے والا ایک تہائی مال کی وصیت کرنے والے سے افضل ہے۔

31568

(۳۱۵۶۹) حَدَّثَنَا یَعْلَی وَابْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : إنَّمَا کَانُوا یُوصُونَ بِالْخُمُسِ وَالرُّبُعِ ، وَالثُّلُثُ مُنْتَہَی الْجَامِحِ ، وَقَالَ ابْنُ نُمَیْرٍ : مُنْتَہَی الْجِمَاحِ۔
(٣١٥٦٩) اسماعیل سے روایت ہے کر حضرت شعبی نے فرمایا کہ پہلے لوگ پانچویں حصّے یا چوتھائی مال کی وصیت کرتے تھے ، اور تہائی مال جلد باز کی آخری حدّ ہے، ابن نمیر کی روایت میں ہے کہ ایک تہائی جلد بازی کی انتہا ہے۔

31569

(۳۱۵۷۰) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِِ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنِ الْحَارِثِ ، عَنْ عَلِیٍّ ، قَالَ : لأَنْ أُوصِیَ بِالْخُمُسِ أَحَبُّ إلَیَّ مِنْ أَنْ أُوصِیَ بِالرُّبُعِ ، وَلأَنْ أُوصِیَ بِالرُّبُعِ أَحَبُّ إلَیَّ مِنْ أَنْ أُوصِیَ بِالثُّلُثِ ، وَمَنْ أَوْصَی لَمْ یَتْرُکْ۔
(٣١٥٧٠) حارث روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی (رض) نے فرمایا کہ میں مال کے پانچویں حصّے کی وصیت کروں مجھے زیادہ پسندیدہ ہے اس بات سے کہ میں چوتھائی مال کی وصیت کروں، اور چوتھائی مال کی وصیت مجھے تہائی مال کی وصیت سے زیادہ پسند ہے، اور جس شخص نے وصیت کی اس نے اپنے ورثاء کے لیے کچھ نہ چھوڑا۔

31570

(۳۱۵۷۱) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ آدَمَ ، قَالَ : حدَّثَنَا مَنْدَل ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ طَلْحَۃَ ، عَنْ أَبِی عَمَّارٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُرَحْبِیلَ ، قَالَ : الثُّلُثُ حَیْفٌ وَالرُّبُعُ حَیْفٌ۔
(٣١٥٧١) ابو عمار سے روایت ہے کہ حضرت عمرو بن شرحبیل نے فرمایا کہ ایک تہائی مال کی وصیت ظلم ہے اور ایک چوتھائی مال کی وصیت بھی ظلم ہے۔

31571

(۳۱۵۷۲) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ آدَمَ ، قَالَ : حدَّثَنَا مَنْدَل ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ مَالِکِ بْنِ الْحَارِثِ ، عَنِ الْعَبَّاسِ ، قَالَ : الرُّبُعُ حَیْفٌ وَالثُّلُثُ حَیْفٌ۔
(٣١٥٧٢) مالک بن حارث فرماتے ہیں کہ حضرت عباس نے فرمایا ایک چوتھائی کی وصیت ظلم ہے اور ایک تہائی مال کی وصیت ظلم ہے۔

31572

(۳۱۵۷۳) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَنْ زَائِدَۃَ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، قَالَ : قَالَ إبْرَاہِیمُ : کَانَ یُقَالَ : السُّدُسُ خَیْرٌ مِنَ الثُّلُثِ فِی الْوَصِیَّۃِ۔
(٣١٥٧٣) حضرت منصور سے روایت ہے کہ حضرت ابراہیم نے فرمایا وصیت میں چھٹے حصہ کا ہونا تہائی ہونے سے بہتر ہے۔

31573

(۳۱۵۷۴) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ عَطَائٍ ، عَنْ أَبِی عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، قَالَ : کَانُوا یَسْتَحِبُّونَ أَنْ یَتْرُکُوا مِنَ الثُّلُثِ۔
(٣١٥٧٤) عطاء روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابو عبد الرحمن فرماتے ہیں کہ علماء اس بات کو اچھا سمجھتے تھے کہ آدمی ایک تہائی مال میں سے کچھ ورثاء کے لیے چھوڑ دے۔

31574

(۳۱۵۷۵) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ قُثَم مَوْلَی ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : قَالَ عَلِیٌّ : وَصِیَّتِی إلَی أَکْبَرِ وَلَدِی غَیْرَ طَاعن عَلَیْہِ فِی بَطْنٍ وَلاَ فِی فَرْجٍ۔
(٣١٥٧٥) قثم مولیٰ ابن عباس فرماتے ہیں کہ حضرت علی (رض) نے فرمایا : میری وصیت کا ذمہ دار میرا بڑا بیٹا ہے، اس حال میں کہ میں نے اس پر پیٹ اور شرمگاہ کے معاملے میں کوئی زیادتی نہیں کی۔

31575

(۳۱۵۷۶) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، قَالَ : حدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : مَا حَقُّ امْرِئٍ مُسْلِمٍ یَبِیتُ لَیْلَتَیْنِ وَلَہُ شَیْئٌ یُوصِی بِہِ ، إلاَّ وَوَصِیَّتُہُ مَکْتُوبَۃٌ عِنْدَہُ۔ (مسلم ۱۲۴۹۔ ابوداؤد ۲۸۵۴)
(٣١٥٧٦) نافع روایت کرتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمر (رض) نے فرمایا کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے کہ مسلمان آدمی پر یہ واجب ہے دو راتیں بھی اس پر اس حال میں نہ گزریں کہ اس کے پاس وصیت کے قابل کوئی چیز ہو اور اس نے اس کی وصیت اپنے پاس لکھ نہ رکھی ہو۔

31576

(۳۱۵۷۷) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ دَاوُدَ ، عَنْ عَامِرٍ ، قَالَ : مَنْ أَوْصَی بِوَصِیَّۃٍ لَمْ یَحِفْ فِیہَا وَلَمْ یُضَارَّ أَحَدًا أَنْ یَکُونَ لَہُ مِنَ الأَجْرِ مَا لَوْ تَصَدَّقَ بِہِ فِی حَیَاتِہِ فِی صِحَّتِہِ۔
(٣١٥٧٧) داؤد سے روایت ہے کہ حضرت عامر نے فرمایا کہ جس شخص نے کوئی وصیت کی اور اس میں کسی پر ظلم نہیں کیا اور نہ کسی کو نقصان پہنچایا اس کو اتنا ہی ثواب ملے گا جتنا کہ اس کو اپنی زندگی میں تندرستی کے زمانے میں صدقہ کرنے پر ملتا۔

31577

(۳۱۵۷۸) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ دَاوُدَ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : الضِّرَارُ فِی الْوَصِیَّۃِ مِنَ الْکَبَائِرِ ، ثُمَّ تَلاَ {غَیْرَ مُضَارٍّ وَصِیَّۃً مِنَ اللہِ}۔
(٣١٥٧٨) عکرمہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا کہ وصیت کے ذریعے سے کسی کو نقصان پہنچانا کبیرہ گناہوں میں سے ہے پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی : { غَیْرَ مُضَارٍّ وَصِیَّۃً مِنَ اللہِ }۔

31578

(۳۱۵۷۹) حَدَّثَنَا ابْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ حَبِیبٍ ، قَالَ : ذَہَبْت أَنَا وَالْحُکْمُ إلَی سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ فَسَأَلْتُہُ عَنْ قولہ : {وَلْیَخْشَ الَّذِینَ لَوْ تَرَکُوا مِنْ خَلْفِہِمْ ذُرِّیَّۃً ضِعَافًا خَافُوا عَلَیْہِمْ} إلَی قَوْلہ {سَدِیدًا} قَالَ : ہُوَ الَّذِی یَحْضُرُہُ الْمَوْتُ فَیَقُولُ لَہُ مَنْ یَحْضُرُہُ : اتَّقِ اللَّہَ وَأَعْطِہِمْ صِلْہُمْ بَرَّہُمْ وَلَوْ کَانُوا ہُمَ الَّذِینَ یَأْمُرُونَہُ بِالْوَصِیَّۃِ لأَحَبُّوا أَنْ یُنْفِقُوا لأَوْلاَدِہِمْ۔ فَأَتَیْنَا مِقْسَمًا فَسَأَلَنَاہ ؟ فَقَالَ : مَا قَالَ سَعِیدٌ ؟ فَقُلْنَا : کَذَا وَکَذَا ، قَالَ : لاَ ، وَلَکِنَّہُ الرَّجُلُ یَحْضُرُہُ الْمَوْتُ فَیُقَالُ لَہُ : اتَّقِ اللَّہَ وَأَمْسِکْ عَلَیْک مَالِکَ فَإِنَّہُ لَیْسَ أَحَدٌ أَحَقَّ بِمَالِکَ مِنْ وَلَدِکَ وَلَوْ کَانَ الَّذِی یُوصِی ذَا قَرَابَۃٍ لاَحَبُّوا أَنْ یُوصِیَ لَہُمْ۔
(٣١٥٧٩) سفیان سے روایت ہے کہ حضرت حبیب نے فرمایا کہ میں اور حکم حضرت سعید بن جبیر کے پاس گئے اور میں نے ان سے آیت { وَلْیَخْشَ الَّذِینَ لَوْ تَرَکُوا مِنْ خَلْفِہِمْ ذُرِّیَّۃً ضِعَافًا خَافُوا عَلَیْہِمْ ۔۔۔ سَدِیدًا } کی تفسیر پوچھی، انھوں نے فرمایا اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو مرنے والے کے پاس اس کی موت کے وقت حاضر ہوں اور اس کو نصیحت کریں کہ اللہ سے ڈرو ! اور وہ ان حاضرین کو صلہ رحمی اور احسان کے طور پر کچھ دے ، حالانکہ اگر اس آدمی کی جگہ خود یہ لوگ ہوں تو وہ یہ چاہیں کہ اپنی اولاد کے لیے خرچ کریں۔
پھر ہم حضرت مِقسَم کے پاس آئے، اور ان سے بھی اسی آیت کے متعلق سوال کیا انھوں نے پوچھا کہ حضرت سعید نے کیا فرمایا ؟ ہم نے عرض کیا کہ یہ یہ فرمایا ہے، فرمایا یہ درست نہیں، بلکہ یہ آیت اس آدمی کے متعلق ہے جس کو موت کے وقت کہا جا رہا ہو کہ اللہ سے ڈر اور اپنا مال اپنے پاس روک رکھ ! کہ تیرے مال کا تیری اولاد سے زیادہ حق دار کوئی نہیں ہے، اور اگر وصیت کرنے والا اس کا رشتہ دار ہو تو وہ یہ چاہیں کہ وہ ان کے لیے وصیت کرے۔

31579

(۳۱۵۸۰) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنْ دَاوُدَ بْنَ أَبِی ہِنْدٍ ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ عَمْروٍ ، قَالَ : اشْتَکَی أَبِی فَلَقِیت ثُمَامَۃَ بْنَ حَزَنٍ الْقُشَیْرِیَّ ، فَقَالَ لِی : أَوْصَی أَبُوک ؟ قُلْتُ : لاَ ، قَالَ : إنِ اسْتَطَعْت أَنْ یُوصِیَ فَلْیُوصِ ، فَإِنَّہَا تَمَامٌ لِمَا انْتَقَصَ مِنْ زَکَاتِہِ۔ (طبرانی ۶۹)
(٣١٥٨٠) قاسم بن عمرو فرماتے ہیں کہ میرے والد بیمار ہوگئے ، میں حضرت ثمامہ بن حزن قشیری سے ملا تو انھوں نے مجھ سے پوچھا : کیا تمہارے والد نے وصیت کی ہے ؟ میں نے کہا : نہیں ! فرمانے لگے : اگر تم سے ہو سکے کہ ان سے وصیت کروا سکو تو کرو ادو، کیونکہ وصیت زکوۃ کی کمی کو پورا کرتی ہے۔

31580

(۳۱۵۸۱) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِی ہِنْدٍ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : الضِّرَارُ فِی الْوَصِیَّۃِ مِنَ الْکَبَائِرِ ، ثُمَّ قَرَأَ: {وَمَنْ یَعْصِ اللَّہَ وَرَسُولَہُ وَیَتَعَدَّ حُدُودَہُ یُدْخِلْہُ نَارًا خَالِدًا فِیہَا}۔
(٣١٥٨١) عکرمہ سے روایت ہے کہ حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا کہ وصیت میں کسی کو نقصان پہنچانا کبیرہ گناہوں میں سے ہے، پھر آپ نے پڑھا : { وَمَنْ یَعْصِ اللَّہَ وَرَسُولَہُ وَیَتَعَدَّ حُدُودَہُ یُدْخِلْہُ نَارًا خَالِدًا فِیہَا }۔

31581

(۳۱۵۸۲) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنِی إبْرَاہِیمُ بْنُ مَیْسَرَۃَ ، أَنَّہُ سَمِعَ طَاوُوسًا یَقُولُ : مَا مِنْ مُسْلِمٍ یُوقِنُ بِالْوَصِیَّۃِ یَمُوتُ لَمْ یُوصِ إلاَّ أَہْلُہُ مَحْقُوقُونَ أَنْ یُوصُوا عَنْہُ۔
(٣١٥٨٢) ابراہیم بن میسرہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت طاؤس کو یہ فرماتے سنا : جو مسلمان وصیت کا پختہ ارادہ رکھتا ہے ، مگر بغیر وصیت کے مرجاتا ہے اس کے ورثاء پر واجب ہے اس کی طرف سے وصیت کریں۔

31582

(۳۱۵۸۳) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، قَالَ : حدَّثَنَا مِسْعَرٌ ، قَالَ : حَدَّثَنَا أَبُو حَمْزَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : إِنَّمَا کَانُوا یَکْرَہُونَ أَنْ یَمُوتَ الرَّجُلُ قَبْلَ أَنْ یُوصِیَ قَبْلَ أَنْ تُنَزَّلَ الْمَوَارِیثُ۔
(٣١٥٨٣) ابراہیم فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام وصیت کرنے سے پہلے مرجانے کو میراث کی آیات نازل ہونے سے پہلے تک ہی ناپسند کیا کرتے تھے۔

31583

(۳۱۵۸۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ مَالِکِ بْنِ مِغْوَلٍ ، عَنْ طَلْحَۃَ ، قَالَ : قُلْتُ لاِبْنِ أَبِی أَوْفَی : أَوْصَی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ؟ قَالَ : لاَ ، قُلْتُ : فَکَیْفَ أَمَرَ النَّاسَ بِالْوَصِیَّۃِ ؟ قَالَ : أَوْصَی بِکِتَابِ اللہِ۔ (بخاری ۲۷۴۰۔ مسلم ۱۲۵۶)
(٣١٥٨٤) حضرت طلحہ فرماتے ہیں کہ میں نے ابن ابی اوفیٰ (رض) سے پوچھا : کیا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وصیت کی تھی ؟ فرمایا کہ نہیں ! میں نے پوچھا کہ پھر لوگوں کو وصیت کا حکم کیسے دیا گیا ؟ فرمانے لگے : آپ نے کتاب اللہ پر عمل کرنے کی وصیت کی تھی۔

31584

(۳۱۵۸۵) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ وَابْنُ نُمَیْرٍ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ شَقِیق ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، عَنْ عَائِشَۃَ ، قَالَتْ : مَا تَرَکَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ دِینَارًا ، وَلاَ دِرْہَمًا ، وَلاَ أَوْصَی بِشَیْئٍ۔ (مسلم ۱۲۵۶۔ ابن ماجہ ۲۶۹۵)
(٣١٥٨٥) مسروق سے روایت ہے کہ حضرت عائشہ (رض) نے فرمایا کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کوئی دینار چھوڑا نہ درہم ، اور نہ ہی کسی چیز کی وصیت فرمائی۔

31585

(۳۱۵۸۶) حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا إسْرَائِیلُ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ أَرَقْمَ بْنِ شُرَحْبِیلَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : مَاتَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَلَمْ یُوصِ۔ (احمد ۳۴۳۔ ابویعلی ۲۵۵۳)
(٣١٥٨٦) أرقم بن شرحبیل سے روایت ہے کہ حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا : نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس حال میں فوت ہوئے کہ آپ نے کوئی وصیت نہیں کی تھی۔

31586

(۳۱۵۸۷) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، عَنِ الأَسْوَدِ ، قَالَ : ذَکَرُوا عِنْدَ عَائِشَۃَ أَنَّ عَلِیًّا کَانَ وَصِیًّا ، فَقَالَتْ : مَتَی أَوْصَی إلَیْہِ ؟ فَلَقَدْ کُنْت مُسْنِدَتَہُ إلَی حِجْرِی ، فَانْخَنَثَ فَمَاتَ ، فَمَتَی أَوْصَی إلَیْہِ؟!۔ (بخاری ۲۷۴۱۔ احمد ۳۲)
(٣١٥٨٧) أسود فرماتے ہیں کہ حضرت عائشہ (رض) کے سامنے یہ بات ذکر کی گئی کہ حضرت علی (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے وصی تھے، آپ نے فرمایا کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو کب وصیت کی تھی ؟ میں نے تو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنی گود میں ٹیک دے رکھی تھی کہ آپ کا جسم مبارک ڈھیلا پڑگیا اور آپ وفات پا گئے، تو پھر ان کو وصیت کب فرمائی ؟

31587

(۳۱۵۸۸) حَدَّثَنَا ابْنِ جُرَیْجٍ، عَنْ لَیْثٍ، عَنْ طَاوُوسٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: إِذَا تَرَکَ الْمَیِّت سَبْعمِئۃ دِرْہَم فَلا یُوصِی۔ (سعید بن منصور ۲۵۰)
(٣١٥٨٨) طاؤس سے روایت ہے کہ حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا : جب مرنے والا سات سو درہم چھوڑ کر جا رہا ہو تو وصیت نہ کرے۔

31588

(۳۱۵۸۹) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ حَبَّابٍ ، عَنْ ہَمَّامٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ {إنْ تَرَکَ خَیْرًا الْوَصِیَّۃُ} قَالَ : خَیْرُ الْمَالِ ، کَانَ یُقَالَ : أَلْفُ دِرْہَمٍ فَصَاعِدًا۔
(٣١٥٨٩) ھمام سے روایت ہے کہ حضرت قتادہ نے فرمان باری تعالیٰ {إنْ تَرَکَ خَیْرًا الْوَصِیَّۃُ } کی تشریح میں فرمایا : اس وقت لوگوں میں یہ بات معروف تھی کہ بہتر مال ایک ہزار درہم ہے۔

31589

(۳۱۵۹۰) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنْ أَبِیہِ : أَنَّ عَلِیًّا دَخَلَ عَلَی رَجُلٍ مِنْ بَنِی ہَاشِمٍ یَعُودُہُ ، فَأَرَادَ أَنْ یُوصِیَ فَنَہَاہُ ، وَقَالَ : إنَّ اللَّہَ یَقُولُ : {إنْ تَرَکَ خَیْرًا} وَإِنَّک لَمْ تَدَعْ مَالا ، فَدَعْہُ لِعِیَالِک۔
(٣١٥٩٠) عروہ سے روایت ہے کہ حضرت علی (رض) بنو ہاشم کے ایک آدمی کے پاس اس کی تیمارداری کے لیے آئے، وہ وصیت کرنے لگا تو آپ نے اس کو منع فرمایا اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ ” اگر (مرنے والا) مال چھوڑے “ اور تم تو کوئی مال چھوڑ کر نہیں مر رہے، اس لیے جو ہے وہ اپنے بچوں کے لیے چھوڑ دو !۔

31590

(۳۱۵۹۱) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ شَرِیکٍ ، عَنِ ابْنِ أَبِی مُلَیْکَۃَ ، عَنْ عَائِشَۃَ ، قَالَ : قَالَ لَہَا رَجُلٌ : إنِّی أُرِیدُ أَنْ أُوصِیَ ، قَالَتْ : کَمْ مَالُک ؟ قَالَ : ثَلاَثَۃُ آلاَفٍ ، قَالَتْ : فَکَمْ عِیَالُک ؟ قَالَ : أَرْبَعَۃٌ ، قَالَتْ : فَإِنَّ اللَّہَ یَقُولُ : {إنْ تَرَکَ خَیْرًا} وَإِنَّہُ شَیْئٌ یَسِیرٌ ، فَدَعْہُ لِعِیَالِکَ فَإِنَّہُ أَفْضَلُ۔
(٣١٥٩١) ابن ابی ملیکہ فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے حضرت عائشہ (رض) سے عرض کیا کہ میں وصیت کرنا چاہتا ہوں ، انھوں نے پوچھا تیرے پاس کتنا مال ہے ؟ عرض کیا : تین ہزار، آپ نے پوچھا تیرے اہل و عیال کتنے افراد ہیں ؟ کہنے لگا ، چار، آپ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے یہ شرط ذکر فرمائی ہے ” اگر مال چھوڑے “ اور تیرے پاس تو بہت معمولی سا مال ہے اس کو اپنے بچوں کے لیے چھوڑ دو ، یہی افضل ہے۔

31591

(۳۱۵۹۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، عَنْ سُفْیَانَ، عَنْ حَبِیبٍ، عَنْ إبْرَاہِیمَ: فِی قَوْلِہِ {وَصِیَّۃً لأَزْوَاجِہِمْ} قَالَ: ہِیَ مَنْسُوخَۃٌ۔
(٣١٥٩٢) حبیب سے روایت ہے کہ حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان : { وَصِیَّۃً لأَزْوَاجِہِمْ } منسوخ ہے۔

31592

(۳۱۵۹۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنِ الْجَہْضَمِ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ بَدْرٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ {إنْ تَرَکَ خَیْرًا الْوَصِیَّۃُ} ، قَالَ : نَسَخَتْہَا آیَۃُ الْمِیرَاثُ۔
(٣١٥٩٣) عبداللہ بن بدر سے روایت ہے کہ حضرت ابن عمر (رض) نے فرمایا کہ {إنْ تَرَکَ خَیْرًا الْوَصِیَّۃُ } کو میراث کی آیت نے منسوخ کردیا ہے۔

31593

(۳۱۵۹۴) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ، عَنْ أَشْعَثَ، عَنِ الْحَسَنِ قَالَ: نَسَخَتْہَا آیَۃُ الْفَرَائِضِ، وَتَرَکَ الأَقْرَبُونَ مِمَّنْ لاَ یَرِثُ۔
(٣١٥٩٤) أشعت سے روایت ہے کہ حضرت حسن نے فرمایا کہ اس آیت کو میراث کی آیت نے منسوخ کردیا ہے، اور قریبی رشتہ داروں میں سے ان کو چھوڑ دیا ہے جو وارث نہیں ہوتے۔

31594

(۳۱۵۹۵) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَطَائٍ ، قَالَ : الْوَصِیَّۃُ لَیْسَتْ بِمَضْمُونَۃٍ ، إنَّمَا ہِیَ بِمَنْزِلَۃِ الدَّیْنِ فِی مَالِ الرَّجُلِ۔
(٣١٥٩٥) ابن جریج روایت کرتے ہیں کہ حضرت عطاء نے فرمایا کہ وصیت کا ضمان نہیں ہے یہ تو آدمی کے مال میں قرضے کی طرح ایک چیز ہے۔

31595

(۳۱۵۹۶) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ بْنِ مَیْسَرَۃَ ، عَنْ طَاوُوسٍ : أَنَّہُ کَانَ یَرَی الْوَصِیَّۃَ مَضْمُونَۃً۔
(٣١٥٩٦) ابراہیم بن میسرہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت طاؤس وصیت کو ذمہ داری میں داخل کیا کرتے تھے۔

31596

(۳۱۵۹۷) حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ عَیَّاشٍ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ الْحَسَنِ قَالَ : إذَا أَوْصَی رَجُلٌ إلَی رَجُلٍ غَائِبٍ ، ثُمَّ قَدِمَ فَأَقَرَّ بِالْوَصِیَّۃِ ، ثُمَّ أَنْکَرَ فَلَیْسَ لَہُ ذَلِکَ۔
(٣١٥٩٧) ہشام سے روایت ہے کہ حضرت حسن نے فرمایا : جب کوئی آدمی کسی غیر حاضر آدمی کو وصیت کرے ، اور وہ آدمی آ کر وصیت کا اقرار کرے اور اس کے بعد انکار کرنا چاہے تو اس کو اس کا اختیار نہیں ہے۔

31597

(۳۱۵۹۸) حَدَّثَنَا مُعْتَمِرُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، أَنَّہُ قَرَأَ عَلَی فُضَیْلِ بْنِ مَیْسَرَۃَ ، عَنْ أَبِی حَرِیزٍ ، عَنِ الْحَکَمِ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، عَنْ عُمَرَ ، قَالَ : إذَا الْتَقَی الزَّحْفَانِ وَالْمَرْأَۃُ یَضْرِبُہَا الْمَخَاضُ لاَ یَجُوزُ لَہُمَا فِی مَالِہِمَا إلاَّ الثُّلُثُ۔
(٣١٥٩٨) مجاہد سے روایت ہے کہ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : جب دو لشکروں میں لڑائی چھڑ جائے اور جب عورت حاملہ ہو تو ان کو اپنے مال کے ایک تہائی سے زیادہ میں تصرف کرنے کا حق نہیں۔

31598

(۳۱۵۹۹) حَدَّثَنَا ابْنُ مُبَارَکٍ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ الْحَسَنِ : فِی الرَّجُلِ یُعْطِی فِی الْمُزَاحَفَۃِ وَرُکُوبِ الْبَحْرِ وَالطَّاعُونِ وَالْحَامِلِ ، قَالَ : مَا أَعْطَوا فَہُوَ جَائِزٌ ، لاَ یَکُن مِنَ الثُّلُثِ۔
(٣١٥٩٩) ہشام سے روایت ہے کہ حضرت حسن نے اس آدمی کے بارے میں فرمایا جو جنگ کے دوران کسی کو کچھ دے دے یا سمندر کے سفر کے دوران یا طاعون کے زمانے میں، یا حاملہ عورت کسی کو کچھ دے دے، کہ جو کچھ انھوں نے دیا اس کا دینا درست ہے، اور وہ ایک تہائی مال میں شمار نہیں کیا جائے گا۔

31599

(۳۱۶۰۰) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : مَا صَنَعَت الْحَامِلُ فِی شَہْرِہَا فَہُوَ مِنَ الثُّلُثِ۔
(٣١٦٠٠) اشعث سے روایت ہے کہ حضرت حسن نے فرمایا کہ حاملہ اپنے حمل کے مہینے میں مال کے اندر جو تصرف کرے وہ ایک تہائی میں سے شمار کیا جائے گا۔

31600

(۳۱۶۰۱) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ ، عَنْ عَطَائٍ : فِی الرَّجُلِ یَکُونُ بِہِ السِّلُّ وَالْحُمَّی وَہُوَ یَجِیئُ وَیَذْہَبُ ، قَالَ : مَا صَنَعَ مِنْ شَیْئٍ فَہُوَ مِنْ جَمِیعِ الْمَالِ ، إلاَّ أَنْ یَکُونَ أُضْنِی عَلَی فِرَاشِہِ۔
(٣١٦٠١) عبد الملک روایت کرتے ہیں کہ حضرت عطاء نے اس آدمی کے بارے میں فرمایا جس کو تپ دق یا بخار کا مرض ہو اور وہ چلتا پھرتا ہو، کہ وہ اپنے مال میں جو تصرف کرے وہ پورے مال میں سے شمار ہوگا، ہاں مگر اس صورت میں جبکہ وہ بستر پر پڑا ہوا ہو (چلنے پھرنے کی طاقت نہ رکھتا ہو) ۔

31601

(۳۱۶۰۲) حَدَّثَنَا عُمَرُ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَطَائٍ ، قَالَ : مَا صَنَعَتِ الْحَامِلُ فَہُوَ وَصِیَّۃٌ۔
(٣١٦٠٢) ابن جریج روایت کرتے ہیں کہ حضرت عطاء نے فرمایا کہ حاملہ مال میں جو تصرف کرے وہ وصیت سمجھی جائے گی۔

31602

(۳۱۶۰۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ قَالَ : حَدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنِِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَطَائٍ قَالَ : الْحَامِلُ وَصِیَّۃٌ۔
(٣١٦٠٣) دوسری سند سے بھی حضرت عطاء سے یہی ارشاد منقول ہے۔

31603

(۳۱۶۰۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، حَدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ عَامِرٍ ، عَنْ شُرَیْحٍ ، قَالَ : الْحَامِلُ وَصِیَّۃٌ۔
(٣١٦٠٤) عامر حضرت شریح سے بھی یہی ارشاد نقل کرتے ہیں۔

31604

(۳۱۶۰۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ زَیْدٍ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ، قَالَ أَعْطَتِ امْرَأَتِی عَطیَّۃ وَہِیَ حَامِلٌ ، فَقَالَتْ لِلْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ ، فَقَالَ : ہُوَ مِنْ جَمِیعِ الْمَالِ۔ قَالَ حَمَّادٌ : قَالَ یَحْیَی : وَنَحْنُ نَقُولُ : ہُوَ مِنْ جَمِیعِ الْمَالِ مَا لَمْ یَضْرِبْہَا الطَّلْقُ۔
(٣١٦٠٥) یحییٰ بن سعید فرماتے ہیں کہ میری اہلیہ نے حمل کے زمانے میں کوئی عطیہ دیا اور اس بات کو قاسم بن محمد سے ذکر کیا تو انھوں نے فرمایا کہ یہ عطیہ پورے مال سے لیا جائے گا، حماد نقل کرتے ہیں کہ یحییٰ نے فرمایا کہ ہم کہتے ہیں کہ یہ عطیہ پورے مال میں سے ہوگا جب تک اس کو درد زِہ شروع نہ ہو۔

31605

(۳۱۶۰۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ حَدَّثَنَا إسْرَائِیلُ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ عَامِرٍ ، قَالَ : الْحَامِلُ وَصِیَّۃٌ۔
(٣١٦٠٦) جابر حضرت عامر سے نقل کرتے ہیں کہ حاملہ کا مال میں تصرف کرنا وصیت کے حکم میں ہے۔

31606

(۳۱۶۰۷) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ مُحَمَّدٍ ، قَالَ : حُبِسَ إیَاسُ بْنُ مُعَاوِیَۃَ فِی الظِّنَّۃِ ، فَأَرْسَلِنِی ، فَقَالَ : انْطَلِقْ إلَی الْحَسَنِ فَاسْأَلْہُ مَا حَالِی فِیمَا أخذتُ مِنْ مَالِی عَلَی حَالِی ہَذِہِ ؟ قَالَ : فَأَتَیْت الْحَسَنَ فَقُلْتُ لَہُ : إنَّ أَخَاک إیَاسًا یُقْرِئُک السَّلاَمَ وَیَقُولُ : مَالِی فِیمَا أحدِثُ فِی یَوْمِی ہَذَا ؟ فَقَالَ الْحَسَنُ : حَالُہُ حَالُ الْمَرِیضِ ، لاَ یَجُوزُ لَہُ إلاَّ الثُّلُثُ۔
(٣١٦٠٧) محمد فرماتے ہیں کہ ایاس بن معاویہ کو ایک تہمت کی بناء پر گرفتار کرلیا گیا، انھوں نے مجھ سے فرمایا کہ حضرت حسن کے پاس جا کر پوچھو کہ اس حالت میں میرے لیے اپنے مال میں سے کچھ لینے کا کیا حکم ہے ؟ کہتے ہیں کہ میں حضرت حسن کے پاس گیا اور میں نے جا کر ان سے عرض کیا کہ آپ کے بھائی ایاس آپ کو سلام کہتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ میرے لیے اپنے مال میں اس حال میں تصرف کرنا کیسا ہے ؟ حضرت حسن نے فرمایا ان کا حکم مریض کے حکم کی طرح ہے، اس لیے ان کے لیے ایک تہائی سے زیادہ مال میں تصرف جائز نہیں۔

31607

(۳۱۶۰۸) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ سِمَاکٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : إِذَا وَضَعَ رِجْلَہُ فِی الْغَرْزِ فَمَا أَوْصَی بِہِ فَہُوَ مِنَ الثُّلُثِ۔
(٣١٦٠٨) سماک روایت کرتے ہیں کہ حضرت شعبی نے فرمایا کہ جب کوئی آدمی اپنے پاؤں رکا ب میں ڈال دے تو اس وقت وہ جو وصیت کرے ایک تہائی مال سے پوری کی جائے گی۔

31608

(۳۱۶۰۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنْ شُرَیْحٍ ، قَالَ : إذَا وَضَعَ رِجْلَہُ فِی الْغَرْزِ فَمَا تَکَلَّمَ بِہِ مِنْ شَیْئٍ فَہُوَ مِنْ ثُلُثِہِ۔
(٣١٦٠٩) شعبی سے روایت ہے کہ حضرت شریح نے ارشاد فرمایا جب کوئی آدمی اپنے پاؤں رکاب میں ڈالے تو اس وقت وہ اپنے مال کے بارے میں جو بات کہے ایک تہائی مال میں سے پوری کی جائے گی۔

31609

(۳۱۶۱۰) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ سِمَاکٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، أَنَّہُ قَالَ : إذَا وَضَعَ الرَّجُلُ رِجْلَہُ فِی الْغَرْزِ یَقُولُ : إذَا سَافَرَ فَمَا أَوْصَی بِہِ فَہُوَ مِنَ الثُّلُثِ۔
(٣١٦١٠) شعبی روایت کرتے ہیں کہ حضرت مسروق نے فرمایا :ـ کہ جب کوئی آدمی اپنے پاؤں رکا ب میں ڈال دے تو اس وقت وہ جو وصیت کرے ایک تہائی مال سے پوری کی جائے گی۔

31610

(۳۱۶۱۱) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ الْحَسَنِ : فِی الأَسِیرِ فِی أَیْدِی الْعَدُوِّ : إنْ أَعْطَی عَطِیَّۃً ، أَوْ نَحَلَ نَحْلاً ، أَوْ أَوْصَی بِثُلُثِہِ فَہُوَ جَائِزٌ۔
(٣١٦١١) ہشام سے روایت ہے کہ حضرت حسن نے فرمایا کہ وہ آدمی جس کو دشمن نے قید کر رکھا ہو اگر کسی کو کوئی عطیہ دے یا ایک تہائی مال کی وصیت کرے تو یہ اس کے لیے جائز ہے۔

31611

(۳۱۶۱۲) حَدَّثَنَا مَعْن بْنُ عِیسَی ، عَنِ ابْنِ أَبِی ذِئْبٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، قَالَ : لاَ یَجُوزُ لِلأَسِیرِ فِی مَالِہِ إلاَّ الثُّلُثُ۔
(٣١٦١٢) ابن ابی ذئب راوی ہیں کہ زہری نے فرمایا کہ قیدی کے لیے اپنے مال کے ایک تہائی سے زیادہ میں تصرف کرنا جائز نہیں۔

31612

(۳۱۶۱۳) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : بَیْعُ الْوَصِیِّ جَائِزٌ۔
(٣١٦١٣) مغیرہ حضرت ابراہیم سے نقل کرتے ہیں کہ وصی کا مال کو بیچنا جائز ہے۔

31613

(۳۱۶۱۴) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، عَنْ شَرِیکٍ ، عَنِ الشَّیْبَانِیِّ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : الْوَصِیُّ بِمَنْزِلَۃِ الأَبِ۔
(٣١٦١٤) شیبانی حضرت شعبی سے نقل کرتے ہیں کہ وصی باپ کے درجے میں ہوتا ہے۔

31614

(۳۱۶۱۵) حَدَّثَنَا ابْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ حَمْزَۃَ ، عَنْ أَبِی وَہْبٍ ، قَالَ : أمْرُ الْوَصِیِّ جَائِزٌ إلاَّ فِی الرِّبَاعِ ، وَإِنْ بَاعَ بَیْعًا لَمْ یُقَلْ۔
(٣١٦١٥) یحییٰ بن حمزہ حضرت ابو وھب کا فرمان نقل کرتے ہیں کہ وصی کا معاملہ کرنا جائز ہے سوائے زمینوں کے، اور اگر وہ کوئی چیز بیچ دے تو اس کی فروختگی کو ختم نہ کیا جائے۔

31615

(۳۱۶۱۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ یَزِیدَ بْنِ إبْرَاہِیمَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : یَنْظُرُ والِی الْیَتِیمِ مِثْلُ مَا یُرَی لِلْیَتِیمِ یَعْمَل لِلْیَتِیمِ بِہِ۔
(٣١٦١٦) یزید بن ابراہیم نقل کرتے ہیں کہ حضرت حسن نے فرمایا : یتیم کا ولی غور کرے اور پھر جو مناسب سمجھے یتیم کے مال میں وہی تصرف کرے۔

31616

(۳۱۶۱۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ شَرِیکٍ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنِ الشَّیْبَانِیِّ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : الْوَصِیُّ بِمَنْزِلَۃِ الْوَالِدِ۔
(٣١٦١٧) شیبانی حضرت شعبی سے نقل کرتے ہیں کہ وصی باپ کے درجے میں ہوتا ہے۔

31617

(۳۱۶۱۸) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ : أَنَّ شُرَیْحًا کَانَ یُجِیزُ شَہَادَۃَ الأَوْصِیَائِ۔
(٣١٦١٨) ابو اسحاق فرماتے ہیں کہ حضرت شریح وصیت کے ذمہ داروں کی گواہی قبول کرلیا کرتے تھے۔

31618

(۳۱۶۱۹) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ حَمَّادٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، مِثْلُہُ۔
(٣١٦١٩) حماد نے حضرت ابراہیم سے بھی یہی بات نقل کی ہے۔

31619

(۳۱۶۲۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ عَامِرٍ ، قَالَ : لاَ تَجُوزُ ، ہُوَ خَصْمٌ۔
(٣١٦٢٠) جابر حضرت عامر سے نقل کرتے ہیں کہ وصی کی گواہی جائز نہیں، بلکہ وہ فریقِ مخالف کے حکم میں ہے۔

31620

(۳۱۶۲۱) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ حُمَیْدٍ ، عَنِ الْحَسَنِ : أَنَّ عُمَرَ أَوْصَی لأُمَّہَاتِ أَوْلاَدِہِ بِأَرْبَعَۃِ آلاَفٍ ، أَرْبَعَۃِ آلاَفٍ۔
(٣١٦٢١) حسن روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے اپنی اُمِّ ولد باندیوں کے لیے چار چار ہزار درہم کی وصیت کی تھی۔

31621

(۳۱۶۲۲) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ سَلَمَۃَ بْنِ عَلْقَمَۃَ ، عَنِ الْحَسَنِ : أَنَّ عِمْرَانَ بْنَ حُصَیْنٍ أَوْصَی لأُمَّہَاتِ أَوْلاَدِہِ۔
(٣١٦٢٢) حسن فرماتے ہیں کہ حضرت عمران بن حصین (رض) نے اپنی اُمِّ ولد باندیوں کے لیے وصیت کی تھی۔

31622

(۳۱۶۲۳) حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ حَیَّانَ ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ بُرْقَانَ ، قَالَ : قُلْتُ لِمَیْمُونِ بْنِ مِہْرَانَ : الرَّجُلُ یُوصِی لأُمِّ وَلَدِہِ ؟ قَالَ : ہُوَ جَائِزٌ۔
(٣١٦٢٣) جعفر بن برقان فرماتے ہیں کہ میں نے میمون بن مہران سے پوچھا کہ کیا آدمی اپنی امِّ ولد باندی کے لیے وصیت کرسکتا ہے ؟ آپ نے فرمایا ایسا کرنا جائز ہے۔

31623

(۳۱۶۲۴) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ یَمَانٍ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ جَابِرٍ ، قَالَ : أَوْصَی الشَّعْبِیُّ لأُمِّ وَلَدِہِ۔
(٣١٦٢٤) جابر فرماتے ہیں کہ حضرت شعبی نے اپنی اُمِّ ولد باندی کے لیے وصیت کی تھی۔

31624

(۳۱۶۲۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنِ الْحَکَمِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ : فِی الرَّجُلِ یَہَبُ لأُمِّ وَلَدِہِ ، قَالَ : ہُوَ جَائِزٌ۔
(٣١٦٢٥) حکم روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابراہیم نے اس آدمی کے بارے میں فرمایا جو اپنی اُمِّ ولد باندی کو کچھ مال دے کہ اس کے لیے ایسا کرنا جائز ہے۔

31625

(۳۱۶۲۶) حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ، قَالَ: قُلْتُ لِیُونُسَ: رَجُلٌ وَہَبَ لأُمِّ وَلَدٍ شَیْئًا ثُمَّ مَاتَ؟ قَالَ: کَانَ الْحَسَنُ یَقُولُ: ہُوَ لَہَا۔
(٣١٦٢٦) معمر کہتے ہیں کہ میں نے حضرت یونس سے عرض کیا کہ اس آدمی کا کیا حکم ہے جس نے اپنی ام ولد باندی کو کچھ عطیہ دیا پھر مرگیا، فرمایا کہ حضرت حسن فرمایا کرتے تھے کہ وہ عطیہ اسی باندی کا ہے۔

31626

(۳۱۶۲۷) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ حَمَّادٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : إذَا أَحْرَزَتْ أُمُّ الْوَلَدِ شَیْئًا فِی حَیَاۃِ سَیِّدِہَا فَمَاتَ سَیِّدُہَا فَہُوَ لَہَا وَقَدْ عَتَقَتْ ، فَإِنِ انْتَزَعَ الْمَیِّتُ شَیْئًا قَبْلَ أَنْ یَمُوتَ ، أَوْ أَوْصَی بِشَیْئٍ مِمَّا کَانَتْ أَحْرَزَتْ فِی حَیَاتِہِ : یَصْنَعُ فِیہِ مَا شَائَ۔
(٣١٦٢٧) حماد روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابراہیم نے فرمایا : جب ام ولد باندی کوئی چیز اپنے آقا کی زندگی میں محفوظ کرلے اور پھر اس کا آقا مرجائے تو وہ چیز اسی باندی کی ہوگی، اور باندی آزاد ہوجائے گی، اور اگر مرنے والا مرنے سے پہلے کچھ واپس لے لے یا جو چیز باندی کے پاس ہے اس کے بارے میں وصیت کر دے تو اس کو ایسا کرنے کا اختیار ہے۔

31627

(۳۱۶۲۸) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ عَبْدِ الْکَرِیمِ بْنِ رُفَیْعٍ ، قَالَ : تُوُفِّیَ رَجُلٌ بِالرَّیِّ وَتَرَکَ مَالاً وَرَقِیقًا ، فَقَالَ : عَبْدِی فُلاَنٌ لِفُلاَنٍ وَعَبْدِی فُلاَنٌ لِفُلاَنٍ ، وَلَمْ تَبْلُغْ وَصِیَّتُہُ الثُّلُثَ ، فَلَمَّا أَقْبَلَ بِالرَّقِیقِ إلَی الْکُوفَۃِ مَاتَ بَعْضُ رَقِیقِ الْوَرَثَۃِ ، وَلَمْ یَمُتْ رَقِیقُ الَّذِی أَوْصَی لَہُمْ ، فَسَأَلْت إبْرَاہِیمَ ؟ فَقَالَ : یُعْطَی أَصْحَابَ الْوَصِیَّۃِ عَلَی مَا أَوْصَی بِہِ صَاحِبُہُ۔
(٣١٦٢٨) عبد الکریم بن رفیع فرماتے ہیں کہ رےؔ میں ایک آدمی فوت ہوگیا اور اس نے مال اور غلام ترکے میں چھوڑے، اور وصیت میں کہا : میر افلاں غلام فلاں کے لیے ہے، اور فلاں غلام فلاں شخص کے لیے ہے، اور اس کی وصیت ایک تہائی مال تک نہیں پہنچی ، پھر جب غلاموں کو کوفہ لایا گیا تو بعض غلام مرگئے، اور وہ غلام نہیں مرے جن کی اس نے ان لوگوں کے لیے وصیت کی تھی، میں نے اس معاملے کے بارے میں حضرت ابراہیم سے پوچھا تو انھوں نے فرمایا جن لوگوں کے غلاموں کی وصیت کی گئی ہے ان کو وصیت کرنے والے کی وصیت کے مطابق غلام دے دیے جائیں۔

31628

(۳۱۶۲۹) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ: فِی رَجُلٍ جَعَلَ وَصِیَّتَہُ إلَی مُکَاتَبِہِ ، فَقَالَ : الْمُکَاتَبُ : إنِّی قَدْ أَنْفَقْت مُکَاتَبَتِی عَلَی عِیَالِ مَوْلاَیَ ، فَقَالَ : یُصَدَّقُ ، وَیَجُوزُ ذَلِکَ ، وَلاَ بَأْسَ أَنْ یُوصِیَ إلَی عَبْدِہِ ، فَإِنْ قَالَ الْعَبْدُ : إنِّی قَدْ کَاتَبْت نَفْسِی ، أَوْ بِعْت نَفْسِی ، لَمْ یَجُزْ ذَلِکَ۔
(٣١٦٢٩) مغیرہ سے روایت ہے کہ حضرت ابراہیم نے اس آدمی کے بارے میں فرمایا جس نے اپنی وصیت کا ذمہ دار اپنے مکاتب غلام کو بنایا تھا اور بعد میں مکاتب نے یہ کہا : میں نے اپنا بدل کتابت اپنے آقا کی اولاد پر خرچ کردیا ہے، کہ اس مکاتب کی تصدیق کی جائے گی اور ایسا کرنا جائز ہے، اور آدمی کے لیے اپنے غلام کو وصیت کرنا بھی جائز ہے ، لیکن اگر غلام بعد میں کہے کہ میں نے اپنے آپ کو مکاتب بنادیا، یا کہے کہ میں نے اپنے آپ کو بیچ دیا تو یہ اس کے لیے جائز نہیں۔

31629

(۳۱۶۳۰) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ ، عَنْ عَطَائٍ ، قَالَ : سُئِلَ عَنْ رَجُلٍ أَوْصَی لِبَنِی ہَاشِمٍ ، أَیَدْخُلُ مَوَالِیہِمْ مَعَہُمْ ؟ قَالَ : لاَ۔
(٣١٦٣٠) عبد الملک روایت کرتے ہیں کہ حضرت عطاء سے ایک آدمی کے بارے میں پوچھا گیا جس نے بنو ہاشم کے لیے وصیت کی تھی، کیا ان کے آزاد کردہ غلام بھی اس وصیت میں داخل ہوں گے ؟ فرمایا : نہیں !

31630

(۳۱۶۳۱) حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ ، عَنْ عَطَائٍ : أَنَّ سَعْدَ بْنَ عُبَادَۃَ قَسَمَ مَالَہُ بَیْنَ وَرَثَتِہِ عَلَی کِتَابِ اللہِ ، وَامْرَأَۃٌ لَہُ قَدْ وَضَعَتْ رَجُلاً ، فَأَرْسَلِ أَبُو بَکْرٍ وَعُمَرُ إلَی قَیْسِ بْنِ سَعْدٍ أَنْ أَخْرِجْ لِہَذَا الْغُلاَمِ حَقَّہُ ، قَالَ : قَالَ أَمَّا شَیْئٌ صَنَعَہُ سَعْدٌ فَلاَ أَرْجِعُ فِیہِ ، وَلَکِنْ نَصِیبِی لَہُ ، فَقِبَلاَ ذَلِکَ مِنْہُ۔
(٣١٦٣١) عطاء فرماتے ہیں کہ حضرت سعد بن عبادہ (رض) نے اپنا مال اپنے ورثاء میں کتاب اللہ کے مطابق تقسیم کردیا ، اور پھر ان کی ایک بیوی نے ایک لڑکا جنا، حضرت ابوبکر (رض) اور عمر (رض) نے حضرت قیس بن سعد (رض) کو پیغام بھیجا کہ اس لڑکے کے لیے اس کا حق نکالو ! انھوں نے فرمایا : حضرت سعد نے جو تقسیم کردی ہے اس کو تو میں ختم نہیں کرسکتا، البتہ میرا حصّہ جو بنتا ہے وہ اس لڑکے کو دیتا ہوں، چنانچہ حضرت ابوبکر و عمر (رض) نے ان کی اس بات کو منظور فرما لیا۔

31631

(۳۱۶۳۲) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ بَیَانٍ ، عَنْ وَبَرَۃَ ، قَالَ : اشْتَرَی رَجُلٌ أُخْتًا لَہُ کَانَتْ سُبِیَّت فِی الْجَاہِلِیَّۃِ فَاشْتَرَاہَا وَابْنًا لَہَا لاَ یُدْرَی مَنْ أَبُوہُ ، فَشَبَّ فَأَصَابَ مَالاً ، ثُمَّ مَاتَ فَأَتَوْا عُمَرَ فَقَصُّوا عَلَیْہِ الْقِصَّۃَ ، فَقَالَ : خُذُوا مِیرَاثَہُ فَاجْعَلُوہُ فِی بَیْتِ الْمَالِ ، مَا أُرَاہُ تَرَکَ وَلِیَّ نِعْمَۃٍ ، وَلاَ أَرَی لَک فَرِیضَۃً ، فَبَلَغَ ذَلِکَ ابْنَ مَسْعُودٍ ، فَقَالَ : مَہْ ، حَتَّی أَلْقَاہُ ، فَلَقِیَہُ ، فَقَالَ : یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ عَصَبَۃٌ وَوَلِیُّ نِعْمَۃٍ ، قَالَ : کَذَا ؟ قَالَ : نَعَمْ، فَأَعْطَاہُ الْمَالَ۔
(٣١٦٣٢) وبرہ فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے اپنی ایک بہن کو خریدا جو زمانہ جاہلیت میں قید ہوگئی تھی، اس نے اس کو اس کے ایک بیٹے سمیت خرید لیا جس کا باپ نامعلوم تھا، چنانچہ وہ جوان ہوگیا، اور اس نے مال حاصل کرلیا ، پھر وہ مرگیا، لوگ حضرت عمر (رض) کے پاس آئے اور ساری بات بیان کی، آپ نے فرمایا اس کی میراث لے کر بیت المال میں داخل کردو، میرے خیال میں اس نے کوئی وارث نہیں چھوڑا جو اس کے مال کا حق دار ہوتا، اور میری رائے میں تمہارے لیے کوئی میراث نہیں، یہ بات حضرت ابن مسعود (رض) کو پہنچی تو انھوں نے فرمایا : رہنے دو ! اور انھوں نے اس بات کی تردید فرما دی، اس کے بعد وہ حضرت عمر (رض) سے ملے تو فرمایا : اے امیر المؤمنین ! وہ آدمی عصبہ ہے اور اس میت کے مال کا حق دار ہے، آپ نے پوچھا؛ ایسا ہی ہے ؟ انھوں نے جواب دیا : جی ہاں ! چنانچہ آپ نے اس کو مال عطا فرما دیا۔

31632

(۳۱۶۳۳) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ عِیسَی ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، عَنِ الأَسْوَدِ ، قَالَ : جَائَ رَجُلٌ إلَی عُمَرَ ، فَقَالَ لَہُ : کَانَتْ لِی أُخْتٌ بَغِیٌّ فَتُوُفِّیَتْ وَتَرَکَتْ غُلاَمًا فَمَاتَ وَتَرَکَ ذَوْدًا مِنَ الإِبِلِ ، فَقَالَ عُمَرُ : مَا أَرَی بَیْنَکَ وَبَیْنَہُ نَسَبًا ، ائْتِ بِہَا فَاجْعَلْہَا فِی إبِلِ الصَّدَقَۃِ ، قَالَ : فَأَتَی ابْنَ مَسْعُودٍ فَذَکَرَ ذَلِکَ لَہُ ، فَقَامَ عَبْدُ اللہِ فَأَتَی عُمَرَ ، فَقَالَ : مَا تَقُولُ یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ ؟ فَقَالَ : مَا أَرَی بَیْنَہُ وَبَیْنَہُ نَسَبًا ، فَقَالَ : أَلَیْسَ ہُوَ خَالُہُ وَوَلِیُّ نِعْمَتِہِ ؟ فَقَالَ : مَا تَرَی ؟ قَالَ : أَرَی أَنَّہُ أَحَقُّ بِمَالِہِ ، فَرَدَّہَا عَلَیْہِ عُمَرُ۔
(٣١٦٣٣) اسود فرماتے ہیں کہ ایک آدمی حضرت عمر (رض) کے پاس آیا اور ان سے عرض کرنے لگا کہ میری ایک زانیہ بہن تھی ، وہ فوت ہوگئی اور اس نے ایک بچہ چھوڑا جو بعد میں فوت ہوگیا اور ترکے میں کچھ اونٹ چھوڑ کر مرا ، حضرت عمر (رض) نے ارشاد فرمایا کہ میرے خیال میں تمہارے درمیان نسب کا کوئی رشتہ نہیں، اس لیے تم ان اونٹوں کو لا کر صدقہ کے اونٹوں میں داخل کردو، راوی فرماتے ہیں کہ وہ آدمی اس کے بعد حضرت ابن مسعود (رض) کے پاس آیا اور ان سے ساری بات بیان کی، چنانچہ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) اٹھ کر حضرت عمر (رض) کے پاس پہنچے، اور فرمایا : اے امیر المؤمنین ! آپ نے اس مسئلے کے بارے میں کیا ارشاد فرمایا ؟ آپ نے فرمایا کہ میرے خیال میں ان دونوں کے درمیان نسب کا کوئی رشتہ نہیں، حضرت ابن مسعود (رض) نے فرمایا کہ کیا وہ اس بچے کا ماموں اور اس کے مال کا حق دار نہیں ؟ آپ نے پوچھا کہ تمہارا کیا خیال ہے ؟ حضرت ابن مسعود (رض) نے جواب دیا کہ میری رائے میں وہ اس بچے کے مال کا حق دار ہے، چنانچہ حضرت عمر (رض) نے وہ مال اس آدمی کو واپس لوٹا دیا۔

31633

(۳۱۶۳۴) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ أَبِی عَوَانَۃَ ، قَالَ : سُئِلَ حَمَّادٌ عَنْ رَجُلٍ أَوْصَی فِی الْفُقَرَائِ بِدَرَاہِمَ ؟ قَالَ : لَمْ یَرَ بَأْسًا أَنْ یُفَضِّلَ بَعْضَہُمْ عَلَی بَعْضٍ بِقَدْرِ الْحَاجَۃِ۔
(٣١٦٣٤) ابو عوانہ فرماتے ہیں کہ حماد سے ایک آدمی کے بارے میں پوچھا گیا جس نے فقراء کو کچھ درہم دینے کی وصیت کی تھی، انھوں نے فرمایا کہ ہم اس بات میں کوئی حرج نہیں سمجھتے کہ کچھ فقراء کو دوسروں پر ضرورت کے مطابق ترجیح دی جائے۔

31634

(۳۱۶۳۵) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، قَالَ : قُلْتُ لِعَطَائٍ : أَحَقٌّ تَسْوِیَۃُ النِّحَلِ بَیْنَ الْوَلَدِ عَلَی کِتَابِ اللہِ ؟ قَالَ : نَعَمْ ، وَقَدْ بَلَغَنَا ذَلِکَ عَنْ نَبِیِّ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہُ قَالَ : سَوَّیْت بَیْنَ وَلَدِکَ ؟ قُلْتُ : فِی النُّعْمَانِ ؟ قَالَ : وَغَیْرِہِ ، زَعَمُوا۔
(٣١٦٣٥) ابن جریج فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عطاء سے پوچھا کہ کیا کتاب اللہ کی رُو سے بچوں کو مال دینے میں برابر ی ضروری ہے ؟ انھوں نے فرمایا ہاں ! اور ہمیں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ بات پہنچی ہے کہ آپ نے صحابی سے پوچھا تھا کہ کیا تم نے اپنے بچوں میں برابری کی ہے ؟ میں نے عرض کیا کہ یہ بات حضرت نعمان کے بارے میں منقول ہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ محدثین فرماتے ہیں کہ کچھ اور صحابہ کے بارے میں بھی یہی بات منقول ہے۔

31635

(۳۱۶۳۶) حَدَّثَنَا عَبَّادٌ ، عَنْ حُصَیْنٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : سَمِعْتُ النُّعْمَانَ بْنَ بَشِیرٍ یَقُولُ : أَعْطَانِی أَبِی عَطِیَّۃً ، فَقَالَتْ أُمِّی عَمْرَۃُ ابْنَۃُ رَوَاحَۃَ : فَلاَ أَرْضَی حَتَّی تُشْہِدَ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَأَتَی رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : یَا رَسُولَ اللہِ ، إنِّی أَعْطَیْت ابْنَ عَمْرَۃَ عَطِیَّۃً فَأَمَرَتْنِی أَنْ أُشْہِدَک ، فَقَالَ : أَعْطَیْت کُلَّ وَلَدِکَ مِثْلَ ہَذَا ؟ قَالَ : لاَ ، قَالَ : فَاتَّقُوا اللَّہَ وَاعْدِلُوا بَیْنَ أَوْلاَدِکُمْ ، قَالَ : فَرَجَعَ فَرَدَّ عَطِیَّتَہُ۔ (بخاری ۲۵۸۷۔ مسلم ۱۲۴۲)
(٣١٦٣٦) شعبی فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت نعمان بن بشیر (رض) کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ میرے والد محترم نے مجھے کچھ مال دیا تو میری والدہ عمرہ بنت رواحہ نے فرمایا کہ میں اس وقت تک راضی نہیں ہوں گی جب تک آپ اس پر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو گواہ نہ بنالیں، چنانچہ وہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس پہنچے اور عرض کیا یا رسول اللہ ! میں نے عمرہ کے بیٹے کو کچھ مال دیا ہے، وہ کہتی ہے کہ میں آپ کو اس پر گواہ بناؤں، آپ نے پوچھا کہ کیا تم نے اتنا مال اپنے ہر بچے کو دیا ہے ؟ وہ فرمانے لگے کہ نہیں ! آپ نے ارشاد فرمایا کہ ” اللہ سے ڈرو اور اپنے بچوں کے درمیان برابری کیا کرو “ فرماتے ہیں انھوں نے واپس آ کر اپنا مال واپس لے لیا۔

31636

(۳۱۶۳۷) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ حُمَیْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، وَعَنْ مُحَمَّدِ بْنِ النُّعْمَانِ ، عَنْ أَبِیہِ : أَنْ أَبَاہُ نَحَلَہُ غُلاَمًا وَأَنَّہُ أَتَی النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِیُشْہِدَہُ ، فَقَالَ : أَکُلَّ وَلَدِکَ أَعْطَیْتہ مِثْلَ ہَذَا ، قَالَ : لاَ قَالَ : فَارْدُدْہُ۔ (مسلم ۱۲۴۲۔ ترمذی ۱۳۶۷)
(٣١٦٣٧) محمد بن نعمان اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ ان کے والد نے ان کو ایک غلام ہبہ کیا، اور پھر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس حاضر ہوئے تاکہ آپ کو اس بات پر گواہ بنادیں، آپ نے پوچھا کہ کیا تم نے اپنے ہر بچے کو اس طرح کا غلام ہبہ کیا ہے ؟ “ انھوں نے جواب دیا کہ نہیں ! آپ نے فرمایا کہ اس سے وہ غلام واپس لے لو۔

31637

(۳۱۶۳۸) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَنْ أَبِی حَیَّانَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِیرٍ ، قَالَ : انْطَلَقَ بِی أَبِی إلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِیُشْہِدَہُ عَلَی عَطِیَّۃٍ أَعْطَانِیہَا ، قَالَ : لَک غَیْرُہُ ، قَالَ : نَعَمْ ، قَالَ : کُلَّہُم أَعْطَیْتَہُمْ مِثْلَ أُعْطِیَّتِہِ ؟ قَالَ : لاَ ، قَالَ : فَلاَ أَشْہَدُ عَلَی جَوْرٍ۔ (بخاری ۲۶۵۰۔ احمد ۲۶۸)
(٣١٦٣٨) شعبی سے روایت ہے کہ حضرت نعمان بن بشیر (رض) نے ان سے فرمایا کہ میرے والد محترم ، مجھے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس لے گئے تاکہ آپ کو ایک ہبہ کا گواہ بنا سکیں جو انھوں نے مجھے عطا فرمایا تھا، آپ نے پوچھا ” کیا تمہارے پاس اس کے علاوہ بھی کچھ مال ہے ؟ انھوں نے عرض کیا ” جی ہاں “ آپ نے پوچھا ” کیا تم نے ہر بچے کو اس جیسا مال دیا ہے ؟ “ انھوں نے عرض کیا ” نہیں “ اس پر آپ نے فرمایا ” میں ظلم پر گواہ نہیں بن سکتا “۔

31638

(۳۱۶۳۹) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنِ ابْنِ أَبِی نَجِیحٍ ، قَالَ : کَانَ طَاوس إذَا سُئِلَ عَنْہُ ، قَرَأَ : {أَفَحُکْمَ الْجَاہِلِیَّۃِ یَبْغُونَ}۔
(٣١٦٣٩) ابن ابی نجیح فرماتے ہیں کہ جب حضرت طاوس سے اس بارے میں سوال کیا جاتا تو یہ آیت تلاوت فرماتے { أَفَحُکْمَ الْجَاہِلِیَّۃِ یَبْغُونَ } (کیا وہ جاہلیت کا فیصلہ چاہتے ہیں )

31639

(۳۱۶۴۰) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ الزُّہْرِیِّ، قَالَ: قَالَ عُرْوَۃٌ: یُرَدُّ مِنْ حَیْفِ الْحَیِّ مَا یُرَدُّ مِنْ حَیْفِ الْمَیِّتِ۔
(٣١٦٤٠) زہری سے روایت ہے کہ حضرت عروہ نے ارشاد فرمایا : ” جو ظلم مرنے والے کا ناقابلِ قبول ہے وہ زندہ آدمی کا بھی ناقابلِ قبول ہے۔ “

31640

(۳۱۶۴۱) حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ ، عَنْ مِسْمَعِ بْنِ ثَابِتٍ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ : أَنَّہُ کَانَ یَکْرَہُہُ۔
(٣١٦٤١) مسمع بن ثابت فرماتے ہیں کہ حضرت عکرمہ اس بات کو ناپسند فرماتے تھے۔

31641

(۳۱۶۴۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ مَالِکِ بْنِ مِغْوَلٍ ، عَنْ أَبِی مَعْشَرٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : کَانُوا یَسْتَحِبُّونَ أَنْ یَعْدِلَ الرَّجُلُ بَیْنَ وَلَدِہِ حَتَّی فِی الْقُبَلِ۔
(٣١٦٤٢) ابو معشر سے روایت ہے کہ حضرت ابراہیم نے فرمایا کہ فقہاء اس بات کو مستحب سمجھتے تھے کہ آدمی اپنے بچوں میں برابری رکھے، یہاں تک کہ ان کا بوسہ لینے میں بھی۔

31642

(۳۱۶۴۳) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الْحَکَمِ : أَنَّہُ کَرِہَ أَنْ یُفَضِّلَ الرَّجُلُ بَعْضَ وَلَدِہِ عَلَی بَعْضٍ وَکَانَ یُجِیزُہُ فِی الْقَضَائِ۔
(٣١٦٤٣) اشعث سے روایت ہے کہ حضرت حکم اس بات کو ناپسند فرماتے تھے کہ آدمی کچھ بچوں کو دوسروں پر ترجیح دے، لیکن فیصلے میں اس کی اجازت بھی دے دیا کرتے تھے۔

31643

(۳۱۶۴۴) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، قَالَ : حدَّثَنَا مُجَالِدٌ ، عَنْ عَامِرٍ ، عَنْ شُرَیْحٍ ، أَنَّہُ قَالَ : لاَ بَأْسَ أَنْ یُفَضِّلَ الرَّجُلُ بَعْضَ وَلَدِہِ عَلَی بَعْضٍ۔
(٣١٦٤٤) عامر فرماتے ہیں کہ حضرت شریح نے ارشاد فرمایا کہ اس بات میں کوئی حرج نہیں کہ آدمی کچھ بچوں کو دوسروں پر ترجیح دے۔

31644

(۳۱۶۴۵) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَنْ زَائِدَۃَ ، عَنْ أَبِی حَیَّانَ ، قَالَ : حدَّثَنِی أَبِی ، قَالَ : حَضَرَ جَارٌ لِشُرَیْحٍ وَلَہُ بَنُونَ ، فَقَسَمَ مَالَہُ بَیْنَہُمْ لاَ یَأْلُو أَنْ یَعْدِلَ ، ثُمَّ دَعَا شُرَیْحًا فَجَائَ ، فَقَالَ : أَبَا أُمَیَّۃَ إنِّی قَسَمْت مَالِی بَیْنَ وَلَدِی وَلَمْ آلُ ، وَقَدْ أَشْہَدْتُک ، فَقَالَ شُرَیْحٌ : قِسْمَۃُ اللہِ أَعْدَلُ مِنْ قِسْمَتِکَ ، فَارْدُدْہُمْ إلَی سِہَامِ اللہِ وَفَرَائِضِہِ وَأَشْہِدْنِی وَإِلاَّ فَلاَ تُشْہِدْنِی ، فَإِنِّی لاَ أَشْہَدُ عَلَی جَوْرٍ۔
(٣١٦٤٥) ابو حیان اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت شریح کا ایک پڑوسی جس کے ایک سے زائد بچے تھے ان کے پاس آیا ، اور اپنا مال ان بچوں کے درمیان برابری کا لحاظ کیے بغیر تقسیم کردیا، پھر اس نے حضرت شریح کو بلایا، آپ گئے تو اس نے کہا اے ابو امیہ ! میں نے اپنا مال اپنے بچوں کے درمیان تقسیم کردیا ہے اور میں نے برابری کی رعایت نہیں کی، اور اب میں آپ کو گواہ بناتا ہوں، حضرت شریح نے فرمایا : ” اللہ کی تقسیم تیری تقسیم سے زیادہ انصاف والی ہے، اس تقسیم کو ختم کر کے اللہ تعالیٰ کے مقرر کیے ہوئے حصّوں کے مطابق تقسیم کرو اور پھر مجھے گواہ بناؤ، ورنہ مجھے گواہ مت بناؤ کیونکہ میں ظلم پر گواہ نہیں بننا چاہتا۔ “

31645

(۳۱۶۴۶) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ مُسْلِمٍ ، عَنْ مَسْرُوقٍ : أَنَّہُ حَضَرَ رَجُلاً یُوصِی فَأَوْصَی بِأَشْیَائَ لاَ تََنْبَغِی ، فَقَالَ مَسْرُوقٌ : إنَّ اللَّہَ قَدْ قَسَمَ بَیْنَکُمْ فَأَحْسَنَ ، وَإِنَّہُ مَنْ یَرْغَبْ بِرَأْیِہِ عَنْ رَأْیِ اللہِ یَضِل ، أَوْصِ لِذَوِی قَرَابَتِکَ مِمَّنْ لاَ یَرْغَب ، ثُمَّ دَع الْمَالَ عَلَی مَنْ قَسَمَہُ اللَّہُ عَلَیْہِ۔
(٣١٦٤٦) مسلم روایت کرتے ہیں کہ حضرت مسروق ایک آدمی کے پاس گئے جو وصیت کررہا تھا، اس نے کچھ نامناسب وصیتیں کیں، حضرت نے فرمایا : ” بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے درمیان بہت اچھی تقسیم فرما دی ہے، اور بلاشبہ جو رائے اختیار کرنے میں اللہ تعالیٰ کے فیصلے سے روگردانی کرے گا وہ گمراہ ہوجائے گا، تم اپنے قرابت داروں میں سے ان لوگوں کے لیے وصیت کردو جو تمہارے مال میں رغبت رکھتے ہیں، پھر مال کو ان لوگوں کے درمیان رہنے دو جن پر اللہ تعالیٰ نے تقسیم کیا ہے۔

31646

(۳۱۶۴۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إسْرَائِیلَ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنِ الْقَاسِمِ وَالشَّعْبِیِّ : فِی رَجُلٍ کَانَ بِہِ جُذَامٌ ، فَقَالَ : أَخِی شَرِیکِی فِی مَالِی ، فَقَالَ : إنْ شَہِدَتِ الشُّہُودُ أَنَّہُ أَوْصَی بِہِ قَبْلَ أَنْ یُصِیبَہُ وَجَعَہُ شَرَّکَہُ۔
(٣١٦٤٧) جابر حضرت قاسم اور شعبی سے روایت کرتے ہیں کہ وہ آدمی جس کو کوڑھ کا مرض لاحق ہو اور وہ اقرار کرے کہ میرا بھائی میرے مال میں شریک ہے اگر گواہ گواہی دے دیں کہ اس نے بیماری لگنے سے پہلے یہ وصیت کی تھی تو وہ اپنے بھائی کو اپنے مال میں شریک کرسکتا ہے۔

31647

(۳۱۶۴۸) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنِ الْحَکَمِ وَالْحَسَنِ ، قَالَ : إذَا أَقَرَّ بَعْضُ الْوَرَثَۃِ بِدَیْنٍ عَلَی الْمَیِّتِ جَازَ عَلَیْہِ فِی نَصِیبِہِ۔
(٣١٦٤٨) منصور حضرت حکم اور حسن سے روایت کرتے ہیں کہ جب کوئی وارث میت پر کسی قرضے کا اقرار کرے تو وہ اقرار اس وارث کی میراث میں ملنے والے حصّے کے اندر معتبر سمجھا جائے گا۔

31648

(۳۱۶۴۹) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ مُطَرِّفٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ : فِی وَارِثٍ أَقَرَّ بِدَیْنٍ ، قَالَ : عَلَیْہِ فِی نَصِیبِہِ بِحِصَّتِہِ ، قَالَ : ثُمَّ قَالَ بَعْدَ ذَلِکَ : یُخَرَّجُ مِنْ نَصِیبِہِ۔
(٣١٦٤٩) مطرف حضرت شعبی سے اس وارث کے بارے میں اقرار کرتے ہیں جو قرضے کا اقرار کرے انھوں نے فرمایا کہ اس قرضے میں اس کے حصّے کے برابر اس پر واجب ہوجائے گا ، راوی کہتے ہیں کہ پھر انھوں نے فرمایا کہ اس کے حصّے سے اتنا نکال لیا جائے گا۔

31649

(۳۱۶۵۰) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : عَلَیْہِ فِی نَصِیبِہِ بِحِصَّتِہِ۔
(٣١٦٥٠) یونس سے روایت ہے کہ حضرت حسن نے فرمایا کہ وہ قرضہ اس کے حصّے کے بقدر اس پر واجب الاداء ہوجائے گا۔

31650

(۳۱۶۵۱) حَدَّثَنَا عَبْدُ السَّلاَمِ بْنُ حَرْبٍ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ عَامِرٍ : فِی رَجُلٍ مَاتَ وَتَرَکَ ابْنَیْنِ ، وَتَرَکَ مِئَتَیْ دِینَارٍ ، فَأَقَرَّ أَحَدُ الاِبْنَیْنِ أَنَّ عَلَی أَبِیہِ خَمْسِینَ دِینَارًا ، قَالَ : یُؤْخَذُ مِنْ نَصِیبِ ہَذَا وَیَسْلََمُ لِلآخَرِ نَصِیبُہُ۔
(٣١٦٥١) مغیرہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت عامر نے اس آدمی کے بارے میں فرمایا جس نے مرتے وقت دو بیٹے اور ترکے میں دو سو دینار چھوڑے، پھر ایک بیٹے نے اقرار کیا کہ اس کے والد پر پچاس دینار قرضہ تھا، آپ نے فرمایا وہ قرضہ اس اقرار کرنے والے کے حصّے میں سے لے لیا جائے اور دوسرے کا حصّہ صحیح سلامت محفوظ رہے گا۔

31651

(۳۱۶۵۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : إذَا أَقَرَّ بَعْضُ الْوَرَثَۃِ بِدَیْنٍ عَلَی الْمَیِّتِ جَازَ عَلَیْہِ فِی نَصِیبِہِ۔
(٣١٦٥٢) مغیرہ سے روایت ہے کہ حضرت شعبی نے فرمایا کہ جب کوئی وارث میت پر کسی قرضے کا اقرار کرے تو وہ اس پر اس کے حصّے میں سے واجب الاداء ہوگا۔

31652

(۳۱۶۵۳) حَدَّثَنَا حَفْصٌ، عَنْ أَشْعَثَ، عَنِ الشَّعْبِیِّ، قَالَ: إذَا شَہِدَ رَجُلاَنِ أَوْ ثَلاَثَۃٌ مِنَ الْوَرَثَۃِ فَإِنَّمَا أَقَرُّوا عَلَی أَنْفُسِہِمْ۔
(٣١٦٥٣) اشعث سے روایت ہے کہ حضرت شعبی نے فرمایا کہ جب ورثاء میں سے دو یا تین آدمی گواہی دیں تو یہ گواہی ان کی طرف سے اقرار ہی سمجھی جائے گی۔

31653

(۳۱۶۵۴) حَدَّثَنَا حَفْصٌ، عَنْ أَشْعَثَ، عَنِ الْحَکَمِ وَحَمَّادٌ، عَنْ إبْرَاہِیمَ، قَالَ: یَجُوزُ عَلَی الْوَرَثَۃِ بِحِسَابِ مَا وَرِثُوا۔
(٣١٦٥٤) حکم اور حماد حضرت ابراہیم سے روایت کرتے ہیں کہ وہ قرضہ ورثاء پر ان کے ملنے والی وراثت کے حساب سے لاگو ہوجائے گا۔

31654

(۳۱۶۵۵) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : ہُمَا شَاہِدَانِ مِنَ الْمُسْلِمِینَ ، تَجُوزُ شَہَادَتُہُمَا عَلَی الْوَرَثَۃِ کُلِّہِمْ۔
(٣١٦٥٥) اشعث سے روایت ہے کہ حضرت حسن نے فرمایا کہ وہ دونوں گواہ مسلمان ہیں، اس لیے ان کی گواہی تمام ورثاء پر نافذ ہوگی۔

31655

(۳۱۶۵۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنِ الْحَکَمِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : إذَا شَہِدَ اثْنَانِ مِنَ الْوَرَثَۃِ جَازَ عَلَیْہِمَا فِی أَنْصِبَائِہِمَا ، وَقَالَ الْحَکَمُ : یَجُوزُ عَلَیْہِمْ جَمِیعًا۔
(٣١٦٥٦) حکم سے روایت ہے کہ حضرت ابراہیم نے فرمایا کہ جب دو وارث گواہی دے دیں تو قرضہ انہی کے حصّوں میں واجب ہوگا، اور خود حضرت حکم فرماتے ہیں کہ وہ قرضہ سب ورثاء پر واجب ہوگا۔

31656

(۳۱۶۵۷) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ ، عَنْ إسْرَائِیلَ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنِ الْحَارِثِ ، قَالَ : إذَا شَہِدَ اثْنَانِ مِنَ الْوَرَثَۃِ لِرَجُلٍ بِدَیْنٍ أُعْطِیَ دَیْنَہُ۔
(٣١٦٥٧) منصور سے روایت ہے کہ حضرت حارث نے فرمایا کہ جب دو وارث کسی آدمی کے لیے قرضے کی گواہی دے دیں تو اس کو اس کا قرضہ دلا دیا جائے گا۔

31657

(۳۱۶۵۸) حَدَّثَنَا عَبْدُ السَّلاَمِ ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : إذَا شَہِدَ أَحَدُ الْوَرَثَۃِ جَازَ عَلَیْہِمْ کُلِّہِمْ۔
(٣١٦٥٨) یونس روایت کرتے ہیں کہ حضرت حسن نے فرمایا کہ جب کوئی وارث گواہی دے دے تو تمام ورثاء پر قرضہ لاگو ہوجائے گا۔

31658

(۳۱۶۵۹) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ الْحُبَابِ ، عَنْ مَرْوَانَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ : سُئِلَ عَنْ رَجُلٍ ، قَالَ : إنْ حَدَثَ بِی حَدَثٌ فَعَبْدِی حُرٌّ ، فَاحْتَاجَ إلَیْہِ ، أَلَہُ أَنْ یَبِیعَہُ ؟ قَالَ : نَعَمْ۔
(٣١٦٥٩) ابراہیم روایت کرتے ہیں کہ حضرت محمد بن سیرین سے ایک آدمی کے بارے میں پوچھا گیا جس نے کہا تھا کہ اگر مجھے کوئی بیماری لاحق ہوجائے تو میرا غلام آزاد ہے ، پھر اس کو اس کے بیچنے کی ضرورت پڑگئی، کیا وہ اس کو بیچ سکتا ہے ؟ فرمایا : ” جی ہاں ! “

31659

(۳۱۶۶۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إسْرَائِیلَ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ عَامِرٍ : فِی رَجُلٍ قَالَ لِعَبْدِہِ : إنْ مِتّ فِی مَرَضِی ہَذَا فَأَنْتَ حُرٌّ ، قَالَ : لَیْسَ لَہُ أَنْ یَبِیعَہُ حَتَّی یَمُوتَ۔
(٣١٦٦٠) جابر سے روایت ہے کہ حضرت عامر نے اس آدمی کے بارے میں فرمایا جس نے اپنے غلام سے کہا کہ اگر میں اس بیماری میں مر جاؤں تو تو آزاد ہے، کہ اس کے لیے موت تک اس غلام کو بیچنا جائز نہیں ہے۔

31660

(۳۱۶۶۱) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی، عَنْ ہِشَامٍ، عَنِ الْحَسَنِ وَمُحَمَّدٍ: أَنَّہُمَا کَرِہَا أَنْ یَشْتَرِیَ الْوَصِیُّ مِنَ الْمِیرَاثِ شَیْئًا۔
(٣١٦٦١) ہشام سے روایت ہے کہ حضرت حسن اور محمد نے اس بات کو ناپسند کیا ہے کہ وصی وراثت کے مال میں سے کچھ خریدے۔

31661

(۳۱۶۶۲) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ الأَسْوَدِ ، عَنْ مُجَاہِدٍ وَعَطَائٍ ، قَالاَ : لاَ یَجُوزُ لِوَالٍ أَنْ یَشْتَرِیَ مِمَّا وَلِیَ عَلَیْہِ۔ قَالَ : وَقَالَ مُجَاہِدٌ : لاَ تَشْتَرِ إحْدَی یَدَیْک مِنَ الأُخْرَی۔
(٣١٦٦٢) عثمان بن أسود فرماتے ہیں کہ حضرت مجاہد اور عطاء نے فرمایا کہ کسی ذمہ دار کے لیے اس مال میں سے کچھ خریدنا جائز نہیں جو اس کی ذمہ داری میں ہو، راوی کہتے ہیں کہ حضرت مجاہد نے یہ بھی فرمایا کہ تمہارا ایک ہاتھ دوسرے ہاتھ سے کچھ نہیں خرید سکتا۔

31662

(۳۱۶۶۳) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ صِلَۃَ بْنِ زُفَرَ ، قَالَ : کَانَ عِنْدَ عَبْدِ اللہِ فَأَتَاہُ رَجُلٌ عَلَی فَرَسٍ أَبْلَقٍ ، فَقَالَ : تَأْمُرُنِی أَنْ أَشْتَرِیَ ہَذَا ؟ قَالَ : وَمَا شَأْنُہُ ؟ قَالَ : أَوْصَی إلَیَّ رَجُلٌ وَتَرَکَہُ فَأَقَمْتہ فِی السُّوقِ عَلَی ثَمَنٍ ، قَالَ : لاَ تَشْتَرِہِ ، وَلاَ تَسْتَسْلِفْ مِنْ مَالِہِ۔ قَالَ أَبُو إِسْحَاقَ : سَمِعْتہ مِنْ صِلَۃَ مُنْذُ سِتِّینَ سَنَۃً۔
(٣١٦٦٣) صلہ بن زفر فرماتے ہیں کہ میں حضرت عبداللہ کے پاس تھا کہ ایک آدمی ان کے پاس ایک چتکبرے گھوڑے پر سوار ہو کر آیا، اور اس نے کہا کیا آپ مجھے حکم دیتے ہیں کہ میں اس مال میں سے کچھ خریدوں ؟ آپ نے پوچھا ” یہ کیسا مال ہے ؟ “ اس نے کہا : ایک آدمی نے مجھے وصیت کی اور یہ مال چھوڑ کر مرا، میں نے اس کو ایک ثمن کے بدلے بازار میں لگا دیا، آپ نے فرمایا اس کو نہ خریدو اور اس کے مال سے کچھ نہ لو۔
ابن اسحاق فرماتے ہیں کہ میں نے صلہ بن زفر سے یہ بات ساٹھ سال پہلے سنی تھی۔

31663

(۳۱۶۶۴) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ آدَمَ ، قَالَ : حدَّثَنَا سِنَانُ بْنُ ہَارُونَ الْبُرْجُمِیُّ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الْحَسَنِ وَابْنِ سِیرِینَ، قَالاَ : فِی رَجُلٍ أَوْصَی لِعَبْدِہِ بِالثُّلُثِ ، قَالاَ : ذَلِکَ مِنْ رَقَبَتِہِ ، فَإِنْ کَانَ الثُّلُثُ أَکْثَرَ مِنْ ثَمَنِہِ عَتَقَ وَدَفَعَ إلَیْہِ مَا بَقِی ، وَإِنْ کَانَ أَقَلَّ مِنْ ثُمَّنِہِ عَتَقَ وَسَعَی لَہُمْ فِیمَا بَقِی ، وَإِنْ أَوْصَی لَہُمْ بِدَرَاہِمَ ، فَإِنْ شَائَ الْوَرَثَۃُ أَجَازُوا ، وَإِنْ شَاؤُوا لَمْ یُجِیزُوا۔
(٣١٦٦٤) اشعث سے روایت ہے کہ حضرت حسن اور محمد بن سیرین نے اس آدمی کے بارے میں فرمایا جس نے اپنے غلام کے لیے ایک تہائی مال کی وصیت کی تھی کہ یہ مال اس کی گردن میں سے ہی دیا جائے گا، سو اگر ایک تہائی اس کی قیمت سے زائد ہو تو اس کو آزاد کردیا جائے گا اور باقی مال اس کو دے دیا جائے گا، اور اگر اس کی قیمت سے کم ہو تو وہ آزاد ہوجائے گا اور باقی قیمت ورثاء کے لیے کمائے گا، اور اگر کسی مرنے والے نے غلاموں کو دراہم دینے کی وصیت کی تو اگر ورثاء چاہیں تو اس وصیت کو نافذ کردیں اور چاہیں تو نافذ نہ کریں۔

31664

(۳۱۶۶۵) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ آدَمَ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنِ ابْنِ أَبِی خَالِدٍ ، عَنْ حَکِیمِ بْنِ جَابِرٍ : أَنَّہُ قِیلَ لَہُ فِی الْوَصِیَّۃِ عِنْدَ الْمَوْتِ : لَوْ أَعْتَقْت غُلاَمَک ! فَقَرَأَ ہَذِہِ الآیَۃَ : {وَلْیَخْشَ الَّذِینَ لَوْ تَرَکُوا مِنْ خَلْفِہِمْ ذُرِّیَّۃً ضِعَافًا خَافُوا عَلَیْہِمْ}۔
(٣١٦٦٥) ابن ابی خالد فرماتے ہیں کہ حکیم بن جابر سے موت کے وقت وصیت کے بارے میں کہا گیا کہ اگر آپ اپنے غلام کو آزاد کردیں تو کیا ہی اچھا ہو ! انھوں نے یہ آیت پڑھی { وَلْیَخْشَ الَّذِینَ لَوْ تَرَکُوا مِنْ خَلْفِہِمْ ذُرِّیَّۃً ضِعَافًا خَافُوا عَلَیْہِمْ }۔

31665

(۳۱۶۶۶) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ آدَمَ ، قَالَ : حدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیزِ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ ، عَنْ حَکِیمِ بْنِ جَابِرٍ : أَنَّہُ لَمَّا حَضَرَہُ الْمَوْتُ وَکَانَ لَہُ غُلاَمٌ فَقِیلَ لَہُ : لَوْ أَعْتَقْت ہَذَا ؟ فَقَالَ : إنِّی لَمْ أَتْرُکْ لِوَلَدِی غَیْرَہُ ، قَالَ : فَأَعَادُوا عَلَیْہِ : لَوْ أَعْتَقَہُ ، فَقَرَأَ ہَذِہِ الآیَۃَ {وَلْیَخْشَ الَّذِینَ لَوْ تَرَکُوا مِنْ خَلْفِہِمْ ذُرِّیَّۃً ضِعَافًا خَافُوا عَلَیْہِمْ} إلَی قَوْلِہِ {سَدِیدًا}۔
(٣١٦٦٦) اسماعیل حضرت حکیم بن جابر کے بارے میں روایت کرتے ہیں کہ ان کی موت کا وقت آیا اور ان کا ایک غلام تھا، ان سے کہا گیا کہ اچھا ہوگا اگر آپ اس کو آزادکر دیں ، فرمانے لگے کہ میں اپنے ورثاء کے لیے اس کے علاوہ کوئی غلام چھوڑ کر نہیں جا رہا، راوی کہتے ہیں کہ انھوں نے دوبارہ کہا کہ آپ آزاد کردیں تو اچھا ہوگا، چنانچہ اس پر آپ نے آیت { وَلْیَخْشَ الَّذِینَ لَوْ تَرَکُوا مِنْ خَلْفِہِمْ ذُرِّیَّۃً ضِعَافًا خَافُوا عَلَیْہِمْ ۔۔۔ سَدِیدًا } کی تلاوت فرمائی۔

31666

(۳۱۶۶۷) حَدَّثَنَا ابْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ نُسَیْرٍ ، قَالَ : قَالَ رَجُلٌ لِلرَّبِیعِ بْنِ خُثَیْمٍ : أَوْصِ لِی بِمُصْحَفِکَ ، قَالَ : فَنَظَرَ إلَی ابْنٍ لَہُ صَغِیرٍ ، فَقَالَ : {وَأُولُوا الأَرْحَامِ بَعْضُہُمْ أَوْلَی بِبَعْضٍ فِی کِتَابِ اللہِ}۔
(٣١٦٦٧) نُسیر فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے حضرت ربیع بن خثیم سے فرمایا کہ آپ اپنے مصحف کی میرے لیے وصیت فرما دیں ! آپ نے اپنے چھوٹے بیٹے کی طرف دیکھ کر اس آیت کی تلاوت فرمائی (بعض رشتہ دار اللہ کی کتاب میں بعض سے بڑھ کر ہیں) ۔

31667

(۳۱۶۶۸) حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ ، عَنْ عَاصِمٍ ، قَالَ : مَرِضَ أَبُو الْعَالِیَۃِ فَأَعْتَقَ مَمْلُوکًا ، ذَکَرَوا لَہُ أَنَّہ مِنْ وَرَائِ النَّہَرِ ، فَقَالَ : إنْ کَانَ حَیًّا فَلاَ أَعْتِقُہُ ، وَإِنْ کَانَ مَیِّتًا فَہُوَ عَتِیقٌ وَذَکَرَ ہَذِہِ الآیَۃَ {وَلَہُ ذُرِّیَّۃٌ ضُعَفَائُ}۔
(٣١٦٦٨) عاصم فرماتے ہیں کہ حضرت ابو العالیہ بیمار ہوئے تو انھوں نے اپنا ایک غلام آزاد فرمایا جس کے بارے میں ان سے کہا گیا کہ وہ نہر پار گیا ہوا ہے، فرمایا کہ اگر وہ زندہ ہے تو میں اس کو آزاد نہیں کرتا اور اگر مرگیا ہے تو وہ آزاد ہے، اور پھر اس آیت کا ذکر فرمایا : { وَلَہُ ذُرِّیَّۃٌ ضُعَفَائُ }۔

31668

(۳۱۶۶۹) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ آدَمَ ، عَنِ الأَشْجَعِیِّ سَمِعَ سُفْیَانَ یَقُولُ : فِی رَجُلٍ أَوْصَی بِثُلُثِہِ لِرَجُلَیْنِ فَیُوجَدُ أَحَدُہُمَا مَیِّتًا ، قَالَ : یَکُونُ لِلآخَرِ۔ یَعْنِی : الثُّلُثَ کُلَّہُ۔ قَالَ یَحْیَی : وَہُوَ الْقَوْلُ۔
(٣١٦٦٩) اشجعی فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت سفیان کو اس آدمی کے بارے میں جس نے دو آدمیوں کے لیے وصیت کی تھی پھر ایک مردہ پایا گیا یہ فرماتے سنا کہ وہ مال یعنی پورا تہائی مال دوسرے کے لیے ہوگا۔
یحییٰ فرماتے ہیں ” یہی مضبوط قول ہے۔ “

31669

(۳۱۶۷۰) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ یَمَانٍ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ ، عَنْ عَطَائٍ : فِی رَجُلٍ أَوْصَی لِعَقِبِ بَنِی فُلاَنٍ ، قَالَ : لَیْسَ الْمَرْأَۃُ مِنَ الْعَقِبِ۔
(٣١٦٧٠) عبد الملک سے روایت ہے کہ حضرت عطاء نے اس آدمی کے بارے میں فرمایا جس نے کسی کے بعد والوں کے لیے وصیت کی تھی کہ ’ ’ عورت آدمی کے بعد والوں میں سے نہیں “

31670

(۳۱۶۷۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنِ ابْنِ أَبِی ذِئْبٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، قَالَ : عَقِبُ الرَّجُلِ : وَلَدُہُ ، وَوَلَدُ وَلَدِہِ مِنَ الذُّکُورِ۔
(٣١٦٧١) ابن ابی ذئب سے روایت ہے کہ زہری نے فرمایا کہ آدمی کے بعد والے لوگوں میں اس کی مذکر اولاد اور پھر ان کی مذکر اولاد ہے۔

31671

(۳۱۶۷۲) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، قَالَ : حدَّثَنَا وَضَّاحٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ حَمَّادٍ : فِی رَجُلٍ تُوُفِّیَ وَتَرَکَ ثَلاَثَۃَ بَنِینَ ، وَقَالَ : ثُلُثُ مَالِی لأَصْغَرِ بَنِیَّ ، فَقَالَ : الأَکْبَرُ : أَنَا لاَ أُجِیزُ ، وَقَالَ الأَوْسَطُ : أَنَا أُجِیزُ ، فَقَالَ : اجْعَلْہَا عَلَی تِسْعَۃِ أَسْہُمٍ : یُرْفَعُ ثَلاَثَۃ ، فَلَہُ سَہْمُہُ وَسَہْمُ الَّذِی أَجَازَہُ۔ وَقَالَ حَمَّادٌ : یُرَدُّ عَلَیْہِمَ السَّہْمُ جَمِیعًا۔ وَقَالَ عَامِرٌ : الَّذِی رَدَّ إنَّمَا رَدَّ عَلَی نَفْسِہِ۔
(٣١٦٧٢) مغیرہ سے روایت ہے کہ حضرت حماد نے اس آدمی کے بارے میں فرمایا جس نے مرتے ہوئے تین بیٹے چھوڑے اور کہا کہ میرا ایک تہائی مال میرے سب سے چھوٹے بیٹے کے لیے ہے، بعد میں بڑے بیٹے نے کہا میں ایسی وصیت نافذ نہیں کرتا اور درمیان والے بیٹے نے کہا کہ میں اسے نافذ کرتا ہوں، فرمایا کہ میری رائے میں اس مال کے نو حصّے کیے جائیں، تین حصّے بڑے بیٹے کو دیے جائیں گے، اور پھر چھوٹے بیٹے کو اس کا حصّہ اور وصیت کو نافذ کرنے والے کا حصّہ دے دیا جائے گا، حماد فرماتے ہیں کہ ان سب پر وہ حصّہ لوٹایا جائے گا اور عامر فرماتے ہیں کہ جس نے وصیت کو ردّ کیا اس نے فقط اپنے حصّے میں سے ہی ردّ کیا ہے۔

31672

(۳۱۶۷۳) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنِ الْفَزَارِیِّ ، عَنِ الأَوْزَاعِیِّ ، قَالَ : سُئِلَ الزُّہْرِیُّ عَنِ امْرَأَۃٍ أَوْصَتْ بِثُلُثِ مَالِہَا لِزَوْجِہَا فِی سَبِیلِ اللہِ ؟ قَالَ : لاَ یَجُوزُ إلاَّ أَنْ تَقُولَ : ہُوَ فِی سَبِیلِ اللہِ إلَی زَوْجِی ، یَضَعُہُ حَیْثُ شَاء ۔
(٣١٦٧٣) اوزاعی فرماتے ہیں کہ زہری سے ایک عورت کے بارے میں سوال کیا گیا جس نے اپنے ایک تہائی مال کی اپنے شوہر کو فی سبیل اللہ دینے کی وصیت کی تھی، فرمایا کہ یہ وصیت جائز نہیں، ہاں مگر اس وقت جبکہ وہ یوں کہے کہ یہ مال اللہ کے راستے میں دینے کے لیے میرے شوہر کو دیا جائے، اور وہ جہاں چاہے اسے خرچ کرے۔

31673

(۳۱۶۷۴) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، قَالَ : کُنْتُ عِنْدَ دَاوُد بْنِ أَبِی ہِنْدٍ ، فَجَائَ رَجُلاَنِ أَوْ أَکْثَرُ مِنْ آلِ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ بَیْنَہُمْ عُبَیْدُ اللہِ بْنُ أَبِی بَکْرٍ ، وَجَاؤُوا مَعَہُمْ بِکِتَابٍ فِی صَحِیفَۃٍ ذَکَرُوا أَنَّہَا وَصِیَّۃُ أَنَسِ بْنِ مَالِکَ ، فَفُتِحْت صَدْرُہَا : بِسْمِ اللہِ الرَّحْمَن الرَّحِیمِ ہَذَا ذِکْرُ مَا کَتَبَ أَنَسُ بْنُ مَالِکٍ فِی ہَذِہِ الصَّحِیفَۃِ مِنْ أَمْرِ وَصِیَّتِہِ ، إنِّی أُوصِی مَنْ تَرَکْت مِنْ أَہْلِی کُلّہُم بِتَقْوَی اللہِ وَشُکْرِہِ وَاسْتِمْسَاکٍ بِحَبْلِہِ ، وَإِیمَانٍ بِوَعْدِہِ ، وَأُوصِیہِمْ بِصَلاَحِ ذَاتِ بَیْنِہِم وَالتَّرَاحُمِ وَالْبِرِّ وَالتَّقْوَی ، ثُمَّ أَوْصَی إنْ تُوُفِّیَ أَنَّ ثُلُثَ مَالِہِ صَدَقَۃٌ إلاَّ أَنْ یُغَیِّرَ وَصِیَّتَہُ قَبْلَ أَنْ یَلْحَقَ بِاللہِ ، أَلْف فِی سَبِیلِ اللہِ إنْ کَانَ أَمْرُ الأُمَّۃِ یَوْمئِذٍ جَمِیعًا ، وَفِی الرِّقَابِ وَالأَقْرَبِینَ ، وَمَنْ سَمَّیْت لَہُ الْعِتْقَ مِنْ رَقِیقِی یَوْمَ دُبُر مِنِّی فَأَدْرَکَہُ الْعِتْقُ فَإِنَّہُ یُقِیمُہُ وَلِیُّ وَصِیَّتِی فِی الثُّلُثِ غَیْرَ حَرِجٍ ، وَلاَ مُنَازِعٍ۔
(٣١٦٧٤) ابن عُلیّہ فرماتے ہیں کہ میں داؤد بن ابی ہند کے پاس تھا، کہ حضرت انس بن مالک (رض) کی آل کے دو یا دو سے زیادہ آدمی آئے جن میں حضرت عبید اللہ بن ابی بکر بھی شامل تھے، اور وہ اپنے ساتھ ایک دستاویز کے اندر ایک خط بھی لائے ، اور انھوں نے یہ بتایا کہ یہ حضرت انس بن مالک (رض) کی وصیت ہے، میں نے اسے کھولا تو اس میں درج تھا : ” بسم اللہ الرحمن الرحیم : یہ ذکر ہے اس وصیت کا جو انس بن مالک نے اس دستاویز میں لکھی ہے، میں اپنے تمام گھر والوں کو اللہ تبارک و تعالیٰ سے ڈرنے اور اس کا شکر ادا کرنے اور اس کی رسّی کو مضبوطی کے ساتھ تھامنے اور اس کے وعدے پر ایمان لانے کی وصیت کرتا ہوں، اور ان کو میں آپس میں اچھے طریقے سے رہنے اور ایک دوسرے کے ساتھ صلہ رحمی کرنے اور دوسروں ے ساتھ نیکی کرنے اور اللہ سے ڈرتے رہنے کی وصیت کرتا ہوں، پھر انھوں نے وصیت فرمائی کہ ان کے مال کا ایک تہائی حصّہ صدقہ ہے، ہاں مگر یہ کہ وہ موت سے پہلے اپنی وصیت کو تبدیل کردیں، جس میں سے ایک ہزار اللہ کے راستے کے مجاہدین کے لیے ہے اگر اس وقت امت کا شیرازہ منتشر نہ ہو، اور غلاموں کو آزاد کرنے اور رشتہ داروں میں تقسیم کرنے کے لیے ہے، اور میرے وہ غلام جن کو میں نے اپنے بعد آزاد کردیا ہے اور اس کی آزادی کا وقت آگیا تو میری وصیت کا ذمہ دار ایک تہائی اس کو شامل کرے، اس طرح کہ کوئی پریشانی اور جھگڑا پیدا نہ کرے۔

31674

(۳۱۶۷۵) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ، عَنْ مُحَمَّدٍ ، قَالَ : کَانَ مِنْہُمْ مَنْ یُوَرِّثُ الصَّامِتَ وَمِنْہُمْ مَنْ لاَ یُوَرِّثُہُ۔
(٣١٦٧٥) محمد بن سیرین فرماتے ہیں کہ اسلاف میں سے بعض لوگ بےزبان مال (درہم و دینار) چھوڑتے تھے اور بعض نہیں چھوڑتے تھے۔

31675

(۳۱۶۷۶) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ مُوسَی ، قَالَ : قَالَ سُفْیَانُ : لاَ تَجُوزُ وَصِیَّۃٌ لأَہْلِ الْحَرْبِ۔
(٣١٦٧٦) عبید اللہ بن موسیٰ فرماتے ہیں کہ سفیان نے فرمایا کہ اہل حرب کے لیے وصیت کرنا جائز نہیں ہے۔

31676

(۳۱۶۷۷) حَدَّثَنَا حُمَیْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ السَّائِبِ : أَنَّ رَجُلاً أَوْصَی أَنْ تُعْتَقَ عَنْہُ رَقَبَتَانِ بِثَمَنٍ ، وَسَمَّاہُ ، فَلَمْ یُوجَدْ بِذَلِکَ الثَمَنُ رَقَبَتَانِ ، فَسَأَلْت عَطَائً ، فَقَالَ : اشْتَرُوا رَقَبَۃً وَاحِدَۃً وَأَعْتِقُوہَا عَنْہُ۔
(٣١٦٧٧) سعید بن سائب فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے وصیت کی کہ اس کی طرف سے دو غلام خرید کر آزاد کردیے جائیں، اور قیمت بھی بتائی، لیکن اس قیمت میں دو غلام نہیں مل سکے، میں نے حضرت عطاء سے اس بارے میں پوچھا تو انھوں نے فرمایا کہ ایک غلام خرید کر اس کی طرف سے آزاد کردیا جائے۔

31677

(۳۱۶۷۸) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا ہِشَامُ بْنُ حَسَّانٍ ، قَالَ : کَانَ أَوَّلُ وَصِیَّۃِ مُحَمَّدِ بْنِ سِیرِینَ : ہَذَا مَا أَوْصَی بِہِ مُحَمَّدُ بْنُ أَبِی عَمْرَۃَ ، أَنَّہُ یَشْہَدُ أَنْ لاَ إلَہَ إلاَّ اللَّہُ ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَرَسُولُہُ ، وَأَوْصَی بَنِیہِ وَأَہْلِہِ أَنِ {اتَّقُوا اللَّہَ وَأَصْلِحُوا ذَاتَ بَیْنِکُمْ وَأَطِیعُوا اللَّہَ وَرَسُولَہُ إنْ کُنْتُمْ مُؤْمِنِینَ} ، وَأُوصِیہِمْ بِمَا أَوْصَی بِہِ إبْرَاہِیمُ بَنِیہِ وَیَعْقُوبُ : {یَا بَنِیَّ إنَّ اللَّہَ اصْطَفَی لَکُمُ الدِّینَ فَلاَ تَمُوتُنَّ إلاَّ وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ} وَزَعَمَ أَنَّہَا کَانَتْ أَوَّلَ وَصِیَّۃِ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ۔
(٣١٦٧٨) ہشام بن حسان فرماتے ہیں کہ محمد بن سیرین (رض) کی پہلی وصیت یہ تھی : یہ وہ وصیت ہے جو محمد بن ابی عمرہ نے کی، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی معبود نہیں اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں، اور میں اپنے بیٹوں اور اپنے گھر والوں کو اللہ تعالیٰ سے ڈرنے کی وصیت کرتا ہوں اور اس بات کی کہ آپس میں اچھے طریقے سے رہیں، اور اگر ایمان والے ہیں تو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کریں، اور میں ان کو اس بات کی وصیت کرتا ہوں جس کی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے بیٹوں اور حضرت یعقوب (علیہ السلام) کو وصیت کی تھی کہ ” اے میرے بیٹو ! بیشک اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے دین کو پسند کیا ہے، سو تمہیں موت اسی حالت میں آئے کہ تم مسلمان ہو “ اور وہ فرماتے ہیں کہ یہی حضرت انس بن مالک (رض) کی بھی پہلی وصیت تھی۔
تم کتاب الوصایا بحمد اللہ وعونہ
(بحمد اللہ کتاب الوصایا اختتام کو پہنچی)

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔