hadith book logo

HADITH.One

HADITH.One

Urdu

Support

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Ibn Abi Shaybah

32. جنگ کرنے کا بیان

ابن أبي شيبة

34406

(۳۴۴۰۷) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ إِدْرِیسَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عُمَارَۃَ ، عَنْ أَبِی بَکْرِ بْنِ مُحَمَّدٍ ؛ أَنَّ حَبِیبَ بْنَ زَیْدٍ قَتَلَہُ مُسَیْلِمَۃُ ، فَلَمَّا کَانَ یَوْمُ الْیَمَامَۃِ ، خَرَجَ أَخُوہُ عَبْدُ اللہِ بْنُ زَیْدٍ وَأُمُّہُ ، وَکَانَتْ أُمُّہُ نَذَرَتْ أَنْ لاَ یُصِیبَہَا غُسْلٌ حَتَّی یُقْتَلَ مُسَیْلِمَۃُ ، فَخَرَجَا فِی النَّاسِ ، قَالَ عَبْدُ اللہِ بْنُ زَیْدٍ : جَعَلْتُہُ مِنْ شَأْنِی ، فَحَمَلْتُ عَلَیْہِ فَطَعَنْتُہُ بِالرُّمْحِ ، فَمَشَی إِلَیَّ فِی الرُّمْحِ ، قَالَ : وَنَادَانِی رَجُلٌ مِنَ النَّاسِ : أَنْ آجرْہُ الرُّمْحَ ، قَالَ : فَلَمْ یَفْہَمْ ، قَالَ فَنَادَاہُ : أَنْ أَلْقِ الرُّمْحَ مِنْ یَدِکَ ، قَالَ : فَأَلْقَی الرُّمْحَ مِنْ یَدِہِ ، وَغُلِبَ مُسَیْلِمَۃُ۔
(٣٤٤٠٧) حضرت ابوبکر بن محمد فرماتے ہیں کہ حبیب بن زید کو مسیلمہ نے قتل کیا تھا۔ جنگ یمامہ میں ان کے بھائی عبداللہ بن زید اور ان کی والدہ لڑائی کے لیے نکلے۔ ان کی والدہ نے قسم کھائی تھی کہ وہ اس وقت تک پانی کو ہاتھ نہیں لگائیں گی جب تک مسیلمہ کو قتل نہیں کردیا جاتا۔ چنانچہ وہ ماں بیٹا لشکر کے ساتھ روانہ ہوئے۔ عبداللہ بن زید کہتے ہیں کہ میں نے مسیلمہ کو اپنی نظر میں رکھا اور پھر اس پر حملہ کیا اور اسے نیزہ مارا۔ وہ نیزہ لے کر میری طرف بڑھا اور لوگوں میں سے ایک آدمی نے مجھے پکارا کہ اس کے منہ میں نیزہ مارو۔ وہ اس بات کو سمجھ نہ پایا۔ پھر اس نے اسے آواز دی کہ اپنے ہاتھ سے نیزہ پھینک دو ۔ اس نے اپنے ہاتھ سے نیزہ پھینک دیا اور مسیلمہ مغلوب ہوگیا۔

34407

(۳۴۴۰۸) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنْ ثُمَامَۃَ بْنِ عَبْدِ اللہِ ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ : أَتَیْتُ عَلَی ثَابِتِ بْنِ قَیْسٍ یَوْمَ الْیَمَامَۃِ ، وَہُوَ یَتَحنَّطُ ، فَقُلْتُ : أَیْ عَمِ ، أَلاَ تَرَی مَا لَقِیَ النَّاسُ ؟ فَقَالَ : الآنَ یَا ابْنَ أَخِی۔
(٣٤٤٠٨) حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ میں جنگ یمامہ کے دن حضرت ثابت بن قیس سے ملا درآنحالیکہ وہ شدید غصے کے عالم میں تھے۔ میں نے ان سے کہا کہ اے چچا جان ! آپ نہیں دیکھتے کہ آج لوگوں میں کیسی لڑائی ہوئی ؟ انھوں نے فرمایا کہ ہاں بھتیجے میں نے اب دیکھا ہے۔

34408

(۳۴۴۰۹) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ الْوَلِیدِ الْمُزَنِیِّ ، عَنْ أَبِی بَکْرِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عُتْبَۃَ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : أَتَیْتُ عَلَی عَبْدِ اللہِ بْنِ مَخْرَمَۃَ صَرِیعًا یَوْمَ الْیَمَامَۃِ ، فَوَقَفْتُ عَلَیْہِ ، فَقَالَ : یَا عَبْدَ اللہِ بْنَ عُمَرَ ، ہَلْ أَفْطَرَ الصَّائِمُ ؟ قُلْتُ : نَعَمْ ، قَالَ : فَاجْعَلْ لِی فِی ہَذَا الْمِجَنِّ مَاء ً ، لَعَلِّی أُفْطِرُ عَلَیْہِ ، قَالَ : فَأَتَیْتُ الْحَوْضَ وَہُوَ مَمْلُوئٌ دَمًا ، فَضَرَبْتُہُ بِحَجَفَۃٍ مَعِی ، ثُمَّ اغْتَرَفْتُ مِنْہِ فَأَتَیْتُہُ ، فَوَجَدْتُہُ قَدْ قَضَی۔
(٣٤٤٠٩) حضرت ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ میں جنگ یمامہ میں حضرت عبداللہ بن مخرمہ کے پاس آیا، وہ شدید زخمی حالت میں میدانِ جنگ میں پڑے تھے۔ میں ان کے پاس کھڑا ہوگیا۔ انھوں نے مجھ سے کہا کہ اے عبداللہ بن عمر ! کیا روزہ دار نے روزہ افطار کرلیا (یعنی کیا روزہ کھولنے کا وقت ہوگیا) میں نے کہا جی ہاں۔ انھوں نے فرمایا کہ میرے لیے اس پیالے میں پانی لے آؤ تاکہ میں بھی روزہ افطار کرلوں۔ میں حوض کی طرف آیا تو وہ خون سے بھرا ہوا تھا۔ میں نے خون کو ہٹا کر پیالے کو پانی سے بھرا اور ان کے پاس لایا تو وہ وفات پاچکے تھے۔

34409

(۳۴۴۱۰) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَنْ ثُمَامَۃَ بْنِ أَنَسٍ ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ : کُنْتُ بَیْنَ یَدَیْ خَالِدِ بْنِ الْوَلِیدِ وَبَیْنِ الْبَرَائِ یَوْمَ الْیَمَامَۃِ ، قَالَ : فَبَعَثَ خَالِدٌ الْخَیْلَ ، فَجَاؤُوا مُنْہَزِمِینَ ، قَالَ : وَجَعَلَ الْبَرَائُ یُرْعَدُ ، فَجَعَلْتُ أَطِدُہُ إِلَی الأَرْضِ وَہُوَ یَقُولُ ، إِنِّی أَجِدُنِی أَفْطُرُ ، قَالَ : ثُمَّ بَعَثَ خَالِدٌ الْخَیْلَ فَجَاؤُوا مُنْہَزِمِینَ ، قَالَ : فَنَظَرَ خَالِدٌ إِلَی السَّمَائِ ، ثُمَّ بَلَدَ إِلَی الأَرْضِ ، وَکَانَ یَصْنَعُ ذَلِکَ إِذَا أَرَادَ الأَمْرَ ، ثُمَّ قَالَ : یَا بَرَائُ ، أَوحدْ فِی نَفْسِہِ ، قَالَ : فَقَالَ : الآنَ ؟ قَالَ : فَقَالَ : نَعَمَ الآنَ ، قَالَ : فَرَکِبَ الْبَرَائُ فَرَسَہُ ، فَجَعَلَ یَضْرِبُہَا بِالسَّوْطِ ، وَکَأَنِّی أَنْظُرُ إِلَیْہَا وَہِیَ تَمْصعُ بِذَنَبِہَا ، فَحَمِدَ اللَّہَ وَأَثْنَی عَلَیْہِ ، وَقَالَ : یَا أَہْلَ الْمَدِینَۃِ ، إِنَّہُ لاَ مَدِینَۃَ لَکُمْ ، وَإِنَّمَا ہُوَ اللَّہُ وَحْدَہُ وَالْجَنَّۃُ ، ثُمَّ حَمَلَ وَحَمَلَ النَّاسُ مَعَہُ ، فَانْہَزَمَ أَہْلُ الْیَمَامَۃِ ، حَتَّی أَتَی حِصْنَہُمْ ، فَلَقِیَہُ مُحَکِّمُ الْیَمَامَۃِ ، فقال : یَا بَرَائُ ، فَضَرَبَہُ بِالسَّیْفِ ، فَاتَّقَاہُ الْبَرَائُ بِالْحَجَفَۃِ ، فَأَصَابَ الْحَجَفَۃَ ، ثُمَّ ضَرَبَہُ الْبَرَائُ فَصَرَعَہُ ، فَأَخَذَ سَیْفَ مُحَکِّمِ الْیَمَامَۃِ فَضَرَبَہُ بِہِ حَتَّی انْقَطَعَ، فَقَالَ : قَبَّحَ اللَّہُ مَا بَقِیَ مِنْک ، وَرَمَی بِہِ وَعَادَ إِلَی سَیْفِہِ۔
(٣٤٤١٠) حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ میں جنگ یمامہ میں حضرت خالد بن ولید اور حضرت براء کے درمیان تھا۔ حضرت خالد نے ایک لشکر کو لڑائی کے لیے روانہ فرمایا تو وہ شکست کھاکر واپس آگیا۔ اس کے بعد حضرت براء پر لرزہ طاری ہوگیا اور میں نے انھیں سکون دینے کے لیے زمین کے ساتھ ملا دیا۔ وہ کہہ رہے تھے کہ میرا روزہ ٹوٹ گیا۔ پھر حضرت خالد نے ایک اور جماعت کو لڑائی کے لیے بھیجا وہ بھی شکست کھاکر واپس آگئی، حضرت خالد نے آسمان کی طرف نگاہ اٹھائی اور پھر زمین کی طرف دیر تک دیکھتے رہے۔ حضرت خالد جب کسی کام کا ارادہ کرتے تو یونہی کیا کرتے تھے۔ پھر انھوں نے فرمایا کہ اے برائ ! تم حملہ کرو۔ حضرت براء نے پوچھا ابھی ؟ انھوں نے فرمایا جی ہاں ابھی۔ چنانچہ حضرت براء اپنے گھوڑے پر سوار ہوئے اور اسے کوڑے مارنے لگے۔ وہ منظر گویا میری آنکھوں کے سامنے ہے جب وہ گھوڑا اپنی دم کو ہلا رہا تھا۔ انھوں نے اللہ تعالیٰ کی حمدوثنا بیان کی اور فرمایا کہ اے شہر والو ! تمہارا کوئی شہر نہیں ہے۔ وہ اللہ یکتا ہے اور اس کے پاس تمہارے لیے جنت ہے۔ پھر حضرت براء نے حملہ کیا اور ان کے ساتھ لوگوں نے بھی حملہ کیا اور اہل یمامہ کو شکست ہوگئی۔ پھر حضرت براء یمامہ والوں کے قلعے میں گئے اور یمامہ کے محکم سے سامنا ہوا۔ اس نے حضرت براء پر حملہ کیا۔ حضرت براء نے اس کے حملے کو ناکام بنا کر اس پر حملہ کیا اور اسے مار گرایا۔ پھر آپ نے یمامہ کے محکم کی تلوار پکڑی اور اس کا سر قلم کردیا۔ پھر آپ نے فرمایا کہ تجھ میں سے جو باقی رہا اللہ اسے نامراد کرے۔ پھر آپ نے اس کی تلوار کو پھینک دیا اور اپنی تلوار کو اٹھا لیا۔

34410

(۳۴۴۱۱) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا ہِشَامٌ ، عَنْ مُحَمَّدٍ ، قَالَ : کَانَ الزُّبَیْرُ یَتْبَعُ الْقَتْلَی یَوْمَ الْیَمَامَۃِ ، فَإِذَا رَأَی رَجُلاً بِہِ رَمَقٌ أَجْہَزَ عَلَیْہِ ، قَالَ : فَانْتَہَی إِلَی رَجُلٍ مُضْطَجِعٍ مَعَ الْقَتْلَی، فَأَہْوَی إِلَیْہِ بِالسَّیْفِ ، فَلَمَّا وَجَدَ مَسَّ السَّیْفِ وَثَبَ یَسْعَی ، وَسَعَی الزُّبَیْرُ خَلْفَہُ وَہُوَ یَقُولُ : أَنَا ابْنُ صَفِیَّۃَ الْمُہَاجِرِ ، قَالَ : فَالْتَفَتَ إِلَیْہِ الرجل ، فَقَالَ : کَیْفَ تَرَی شَدَّ أَخِیک الْکَافِرَ ؟ قَالَ : فَحَاصَرَہُ حَتَّی نَجَا۔
(٣٤٤١١) حضرت محمد فرماتے ہیں کہ حضرت زبیر (رض) جنگ یمامہ کے دن مقتولین کو تلاش کررہے تھے۔ جب وہ کسی آدمی کے پاس سے گزرتے ، اس کا معائنہ کرتے، اگر اس میں زندگی کی کچھ رمق باقی ہوتی تو اسے بھجوا دیتے۔ آپ ایک آدمی کے پاس پہنچے، جو مقتولین میں لیٹا ہوا تھا۔ آپ نے اسے تلوار لگائی تو وہ اٹھ کر بھاگ کھڑا ہوا۔ حضرت زبیر (رض) اس کے پیچھے بھاگے اور کہتے جاتے تھے کہ میں صفیہ کا مہاجر بیٹا ہوں۔ آدمی ان کی طرف متوجہ ہوا اور کہنے لگا کہ آپ اپنے کافر بھائی کے پکڑنے کو کیسا سمجھتے ہیں۔ پھر انھوں نے اس کو گھیرا لیکن وہ آدمی بھاگ گیا۔

34411

(۳۴۴۱۲) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَنِ الشَّیْبَانِیِّ ، عَنْ عُبَیْدِ بْنِ أَبِی الْجَعْدِ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ شَدَّادٍ بْنِ الْہَادِّ ، قَالَ: أُصِیبَ سَالِمٌ مَوْلَی أَبِی حُذَیْفَۃَ یَوْمَ الْیَمَامَۃِ۔
(٣٤٤١٢) حضرت عبداللہ بن شداد بن ہاد کہتے ہیں کہ حضرت سالم مولی ابی حذیفہ جنگ یمامہ میں شہید ہوئے۔

34412

(۳۴۴۱۳) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ، عَنْ ہِشَامٍ، عَنْ أَبِیہِ، قَالَ: کَانَ شِعَارُ الْمُسْلِمِینَ یَوْمَ مُسَیْلِمَۃَ، یَا أَصْحَابَ سُورَۃِ الْبَقَرَۃِ۔
(٣٤٤١٣) حضرت عروہ فرماتے ہیں کہ مسیلمہ کے خلاف جنگ میں مسلمانوں کا شعار یہ جملہ تھا ” اے سورة البقرۃ والو ! “

34413

(۳۴۴۱۴) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : کَانَتْ فِی بَنِی سُلَیْمٍ رِدَّۃٌ ، فَبَعَثَ إِلَیْہِمْ أَبُو بَکْرٍ خَالِدَ بْنَ الْوَلِیدِ ، فَجَمَعَ مِنْہُمْ أُنَاسًا فِی حَظِیرَۃٍ ، حَرَّقَہَا عَلَیْہِمْ بِالنَّارِ ، فَبَلَغَ ذَلِکَ عُمَرُ ، فَأَتَی أَبَا بَکْرٍ ، فَقَالَ : اِنْزِعْ رَجُلاً یُعَذَّبُ بِعَذَابِ اللہِ ، فَقَالَ أَبُو بَکْرٍ : وَاللہِ لاَ أَشِیمُ سَیْفًا سَلَّہُ اللَّہُ عَلَی عَدُوِّہِ ، حَتَّی یَکُونَ اللَّہُ ہُوَ یَشِیمُہُ ، وَأَمَرَہُ فَمَضَی مِنْ وَجْہِہِ ذَلِکَ إِلَی مُسَیْلِمَۃَ۔
(٣٤٤١٤) حضرت عروہ فرماتے ہیں کہ جب بنو سلیم کے لوگ مرتد ہونے لگے تو حضرت ابوبکر (رض) نے حضرت خالد بن ولید (رض) کو ایک لشکر دے کر ان کی طرف روانہ فرمایا۔ وہاں انھوں نے لوگوں کو ایک جگہ جمع کرکے انھیں آگ لگا دی۔ جب حضرت عمر (رض) کو یہ بات معلوم ہوئی تو وہ حضرت ابوبکر (رض) کے پاس آئے اور ان سے کہا کہ آپ کو چاہیے کہ ایسے شخص کو قیادت سے معزول کردیں جو وہ عذاب دیتا ہے جو عذاب اللہ کا حق ہے ! حضرت ابوبکر (رض) نے فرمایا کہ خدا کی قسم میں ایسے اللہ کی تلوار کو نیام میں نہیں رکھ سکتا جب تک کہ اللہ تعالیٰ خود اپنی تلوار کو نیام میں نہ رکھ دے۔ پھر حضرت ابوبکر (رض) نے حضرت خالد بن ولید (رض) کو مسیلمہ کی طرف جانے کا حکم دے دیا۔

34414

(۳۴۴۱۵) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، قَالَ : حَدَّثَنَا ثُمَامَۃُ بْنُ عَبْدِ اللہِ ، عَنْ أَنَسٍ ؛ أَنَّ خَالِدَ بْنَ الْوَلِیدِ وَجَّہَ النَّاسَ یَوْمَ الْیَمَامَۃِ ، فَأَتَوا عَلَی نَہَرٍ ، فَجَعَلُوا أَسَافِلَ أَقْبِیَتِہِمْ فِی حُجَزِہِمْ ، ثُمَّ قَطَعُوا إِلَیْہِمْ ، فَتَرَامَوْا ، فَوَلَّی الْمُسْلِمُونَ مُدْبِرِینَ ، فَنَکَّسَ خَالِدٌ سَاعَۃً ، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَہُ ، وَأَنَا بَیْنَہُ وَبَیْنَ الْبَرَائِ ، وَکَانَ خَالِدٌ إِذَا حَزَبَہُ أَمْرٌ نَظَرَ إِلَی السَّمَائِ سَاعَۃً ، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَہُ إِلَی السَّمَائِ ، ثُمَّ یُفَرَی لَہُ رَأْیُہُ ، فَأَخَذَ الْبَرَائَ أَفکَلٌ ، فَجَعَلْتُ أطِدُہُ إِلَی الأَرْضِ ، فَقَالَ : یَا ابْنَ أَخِی ، إِنِّی لأَفْطُرُ ، ثُمَّ قَالَ : یَا بَرَائُ ، قُمْ ، فَقَالَ الْبَرَائُ : الآنَ ؟ قَالَ : نَعَمَ ، الآنَ۔ فَرَکِبَ الْبَرَائُ فَرَسًا لَہُ أُنْثَی ، فَحَمِدَ اللَّہَ وَأَثْنَی عَلَیْہِ ، ثُمَّ قَالَ : أَمَّا بَعْدُ ، یَا أَیُّہَا النَّاسُ ، إِنَّہُ مَا إِلَی الْمَدِینَۃِ سَبِیلٌ ، إِنَّمَا ہِیَ الْجَنَّۃُ ، فَحَضَّہُمْ سَاعَۃً ، ثُمَّ مَصَعَ فَرَسَہُ مَصَعَاتٍ ، فَکَأَنِّی أَرَاہَا تَمْصَعُ بِذَنَبِہَا ، ثُمَّ کَبَسَ وَکَبَسَ النَّاسُ۔ قَالَ حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ : فَأَخْبَرَنِی عُبَیْدُ اللہِ بْنُ أَبِی بَکْرٍ ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ : کَانَ فِی مَدِینَتِہِمْ ثُلْمَۃٌ ، فَوَضَعَ مُحَکِّمُ الْیَمَامَۃِ رِجْلَیْہِ عَلَیْہَا ، وَکَانَ عَظِیمًا جَسِیمًا فَجَعَلَ یَرْتَجِزُ ، أَنَا مُحَکِّمُ الْیَمَامَۃِ ، أَنَا مدارُ الْحلَّۃِ ، وَأَنَا وَأَنَا۔ قَالَ : وَکَانَ رَجُلاً ہَمِرًا ، فَلَمَّا أَمْکَنَہُ مِنَ الضَّرْبِ ضَرَبَہُ ، وَاتَّقَاہُ الْبَرَائُ بِحَجَفَتِہِ ، ثُمَّ ضَرَبَ الْبَرَائُ سَاقَہُ فَقَتَلَہُ ، وَمَعَ مُحَکِّمِ الْیَمَامَۃِ صَفِیحَۃٌ عَرِیضَۃٌ ، فَأَلْقَی سَیْفَہُ ، وَأَخَذَ صَفِیحَۃَ مُحَکِّمٍ ، فَحَمَلَ فَضَرَبَ بِہَا حَتَّی انْکَسَرَتْ ، فَقَالَ : قَبَحَ اللَّہُ مَا بَیْنِی وَبَیْنَکَ ، وَأَخَذَ سَیْفَہُ۔
(٣٤٤١٥) حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ جنگ یمامہ میں حضرت خالد بن ولید (رض) نے لوگوں کو دشمنوں کی طرف روانہ فرمایا۔ وہ دریا کے کنارے پر پہنچے، دشمن نے ایک چال کے ذریعے مسلمانوں پر حملہ کیا تو مسلمان تتر بتر ہوگئے اور الٹے پاؤں واپس لوٹ آئے۔ پھر حضرت خالد بن ولید (رض) نے کچھ دیر سر جھکایا اور پھر سر اٹھایا۔ میں اس وقت ان کے اور حضرت براء کے درمیان کھڑا تھا۔ حضرت خالد کا معمول تھا کہ جب انھیں کوئی اہم کام پیش آتا تھا تو وہ کچھ دیر آسمان کی طرف نظر اٹھاتے تھے اور پھر آسمان کی طرف سر اٹھاتے تھے۔ پھر وہ اپنی رائے کا اظہار فرماتے تھے۔ اتنے میں حضرت براء بن عازب (رض) پر کپکپی طاری ہوئی تو میں نے انھیں زمین کے ساتھ ملا دیا وہ کہنے لگے اے میرے بھائی ! میں روزہ توڑنا چاہتا ہوں۔ پھر حضرت خالد نے فرمایا کہ اے برائ ! اٹھو۔ انھوں نے کہا اس وقت ؟ حضرت خالد نے فرمایا کہ ہاں اسی وقت۔
(٢) پھر حضرت براء اپنے گھوڑے پر سوار ہوئے اور اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا بیان کی۔ پھر فرمایا اے لوگو ! مدینہ جانے کا کوئی راستہ نہیں ہے، راستہ ہے تو جنت کا ہے۔ پھر آپ نے کچھ دیر انھیں ترغیب دی۔ پھر اپنے گھوڑے کو تھپکیاں دیں اور چل پڑے اور لوگ بھی ان کے پیچھے چل پڑے۔
(٣) حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ یمامہ والوں کے شہر میں ایک ٹیلہ تھا۔ یمامہ کے سربراہ نے اس پر اپنے پاؤں رکھے اور وہ ایک موٹا اور لمبا آدمی تھا۔ وہ رجز پڑھنے لگا اور کہنے لگا کہ میں یمامہ کا سربراہ ہوں، میں یہاں کے لوگوں کا ٹھکانا ہوں اور میں، میں ہوں۔
(٤) حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ وہ ایک پہلوان آدمی تھا۔ اس نے حضرت برائ (رض) پر حملہ کیا تو حضرت براء نے زرہ کے ذریعے اپنا بچاؤ کیا پھر حضرت براء نے اس کی پنڈلی پر وار کیا اور اسے مار ڈالا۔ یمامہ کے حاکم کے پاس ایک چوڑی ذرہ تھی، حضرت براء نے اپنی تلوار رکھی اور اس کی ذرہ لے کر اس سے مارا اور وہ ٹوٹ گیا پھر آپ نے فرمایا کہ اللہ اس چیز کو رسوا کرے جو تیرے اور میرے درمیان ہے۔ پھر آپ نے اس کی تلوار لے لی۔

34415

(۳۴۴۱۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا مِسْعرٌ ، عَنْ أَبِی عَوْنٍ الثَّقَفِیِّ ، عَنْ رَجُلٍ لَمْ یُسَمِّہِ ؛ أَنَّ أَبَا بَکْرٍ لَمَّا أَتَاہُ فَتْحُ الْیَمَامَۃِ سَجَدَ۔
(٣٤٤١٦) حضرت ابو عون ثقفی روایت کرتے ہیں کہ جب حضرت ابوبکر (رض) کو یمامہ کی فتح کی خبر ملی تو آپ نے سجدہ کیا۔

34416

(۳۴۴۱۷) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا مُجَالِدٌ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا عَامِرٌ ، قَالَ : کَتَبَ خَالِدٌ إِلَی مَرَازِبَۃِ فَارِسَ وَہُوَ بِالْحِیرَۃِ وَدَفَعَہُ إِلَی بَنِی بُقیلَۃَ ، قَالَ عَامِرٌ : وَأَنَا قَرَأْتُہُ عِنْدَ بَنِی بُقیلَۃَ : بِسْمِ اللہِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ مِنْ خَالِدِ بْنِ الْوَلِیدِ إِلَی مَرَازِبَۃِ فَارِسَ ، سَلاَمٌ عَلَی مَنِ اتَّبَعَ الْہُدَی ، فَإِنِّی أَحْمَدُ إِلَیْکُمَ اللَّہَ الَّذِی لاَ إلَہَ إِلاَّ ہُوَ، أَمَّا بَعْدَ حَمْدِ اللہِ الَّذِی فَضَّ خَدَمَتَکُمْ ، وَفَرَّقَ کَلِمَتَکُمْ ، وَوَہَنَ بَأْسَکُمْ ، وَسَلَبَ مُلْکَکُمْ ، فَإِذَا جَائَکُمْ کِتَابِی ہَذَا فَابْعَثُوا إِلَیَّ بِالرَّہُنِ ، وَاعْتَقِدُوا مِنِّی الذِّمَّۃَ ، وَأَجِیبُوا إِلَیَّ الْجِزْیَۃَ، فَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوا، فَوَاللہِ الَّذِی لاَ إلَہَ إِلاَّ ہُوَ ، لأَسِیرَنَّ إِلَیْکُمْ بِقَوْمٍ یُحِبُّونَ الْمَوْتَ کَحُبِّکُمُ الْحَیَاۃَ ، وَالسَّلاَمُ عَلَی مَنِ اتَّبَعَ الْہُدَی۔ (ابوعبید ۸۶)
(٣٤٤١٧) حضرت عامر فرماتے ہیں کہ حضرت خالد بن ولید حیرہ میں تھے۔ انھوں نے وہاں سے فارس کے سرداروں کے نام خط لکھا، وہ خط انھوں نے بنو بقیلہ کو دیا اور میں نے ان کے پاس پڑھا تھا۔ اس خط میں تحریر تھا : بسم اللہ الرحمن الرحیم : خالد بن ولید کی طرف سے فارس کے سرداروں کے نام۔ ہدایت کا اتباع کرنے والوں پر سلامتی نازل ہو۔ میں اس اللہ کی حمد بیان کرتا ہوں جس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے تمہاری قوتوں کو منتشر کردیا اور تمہارے دلوں کو جدا کردیا اور تمہاری قوت کو کمزور کردیا اور تمہارے مالوں کو چھین لیا۔ جب میرا یہ خط تمہارے پاس آئے تو تم میرے پاس جزیہ بھیجو، ہمارے پاس ذمی بن کر رہنا قبول کرلو۔ اگر تم نے ایسا نہ کیا تو اس اللہ کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ میں تمہاری طرف ایک ایسی قوم کو بھیجوں گا جو موت کو ایسے پسند کرتے ہیں جیسے تم زندگی کو پسند کرتے ہو۔ اور ہدایت کی پیروی کرنے والوں پر سلامتی ہو۔

34417

(۳۴۴۱۸) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ زَکَرِیَّا بْنِ أَبِی زَائِدَۃَ ، عَنْ خَالِدِ بْنِ سَلَمَۃَ الْقُرَشِیِّ ، عَنْ عَامِرٍ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : کَتَبَ خَالِدُ بْنُ الْوَلِیدِ زَمَنَ الْحِیرَۃِ إِلَی مَرَازِبَۃِ فَارِسَ : بِسْمِ اللہِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ مِنْ خَالِدِ بْنِ الْوَلِیدِ إلَی مَرَازِبَۃِ فَارِسَ ، سَلاَمٌ عَلَی مَنِ اتَّبَعَ الْہُدَی ، أَمَّا بَعْدُ : فَإِنِّی أَحْمَدُ إِلَیْکُمَ اللَّہَ الَّذِی لاَ إلَہَ إِلاَّ ہُوَ ، الْحَمْدُ لِلَّہِ الَّذِی فَضَّ خَدَمَتَکُمْ ، وَفَرَّقَ جَمْعَکُمْ، وَخَالَفَ بَیْنَ کَلِمَتِکُمْ، فَإِذَا جَائَکُمْ کِتَابِی ہَذَا فَاعْتَقِدُوا مِنِّی الذِّمَّۃَ ، وَأَجِیبُوا إِلَی الْجِزْیَۃَ ، فَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوا أَتَیْتُکُمْ بِقَوْمٍ یُحِبُّونَ الْمَوْتَ حُبَّکُمْ لِلْحَیَاۃِ۔
(٣٤٤١٨) حضرت عامر شعبی فرماتے ہیں کہ حضرت خالد بن ولید (رض) نے فارس کے سرداروں کے نام حیرہ سے ایک خط لکھا جس میں تحریر تھا : بسم اللہ الرحمن الرحیم : خالد بن ولید کی طرف سے فارس کے سرداروں کے نام۔ ہدایت کا اتباع کرنے والوں پر سلامتی نازل ہو۔ میں اس اللہ کی حمد بیان کرتا ہوں جس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے تمہاری قوتوں کو منتشر کردیا اور تمہارے دلوں کو جدا کردیا اور تمہاری قوت کو کمزور کردیا اور تمہارے مالوں کو چھین لیا۔ جب میرا یہ خط تمہارے پاس آئے تو تم میرے پاس جزیہ بھیجو، ہمارے پاس ذمی بن کر رہنا قبول کرلو۔ اگر تم نے ایسا نہ کیا تو اس اللہ کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ میں تمہاری طرف ایک ایسی قوم کو بھیجوں گا جو موت کو ایسے پسند کرتے ہیں جیسے تم زندگی کو پسند کرتے ہو۔

34418

(۳۴۴۱۹) حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا یُونُسُ ، عَنْ أَبِی السَّفَرِ، قَالَ: لَمَّا قَدِمَ خَالِدُ بْنُ الْوَلِیدِ إِلَی الْحِیرَۃِ، نَزَلَ عَلَی بَنِی الْمَرَازِبَۃِ ، قَالَ : فَأُتِیَ بِالسَّمِّ ، فَأَخَذَہُ فَجَعَلَہُ فِی رَاحَتِہِ ، وَقَالَ : بِسْمِ اللہِ ، فَاقْتَحَمَہُ ، فَلَمْ یَضُرَّہُ بِإِذْنِ اللہِ شَیْئًا۔ (ابویعلی ۷۱۵۰)
(٣٤٤١٩) حضرت ابو سفر فرماتے ہیں کہ جب حضرت خالد بن ولید (رض) حیرہ آئے اور بنو مرازبہ کے پاس ٹھہرے تو وہاں ان کے پاس زہر لایا گیا اور اسے اپنی ہتھیلی پر رکھا اور پھر اللہ کا نام لے کر اسے پی لیا۔ لیکن وہ زہر اللہ کے حکم سے انھیں کوئی تکلیف نہ پہنچا سکا۔

34419

(۳۴۴۲۰) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللہِ الأَسَدِیُّ ، قَالَ : حدَّثَنَا حَسَنُ بْنُ صَالِحٍ ، عَنِ الأَسْوَدِ بْنِ قَیْسٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : صَالَحَنَا أَہْلُ الْحِیرَۃِ عَلَی أَلْفِ دِرْہَمٍ وَرَحْلٍ ، قَالَ : قُلْتُ : یَا أَبَۃ ، مَا کُنْتُمْ تَصْنَعُونَ بِالرَّحْلِ ؟ قَالَ : لَمْ یَکُنْ لِصَاحِبٍ لَنَا رَحْلٌ۔
(٣٤٤٢٠) حضرت اسود بن قیس اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ ہم نے حیرہ والوں سے ایک ہزار درہم اور ایک کجاوے کے بدلے صلح کی۔ میں نے ان سے پوچھا کہ اے ابا جان ! آپ لوگ کجاو وں کا کیا کرتے تھے ؟ انھوں نے فرمایا کہ ہمارے کسی ساتھی کے پاس کجاوہ نہیں تھا۔

34420

(۳۴۴۲۱) حَدَّثَنَا ہُشَیم ، عَنْ حُصَیْنٍ ، قَالَ : لَمَّا قَدِمَ خَالِدُ بْنُ الْوَلِیدِ ہَاہُنَا ، إِذَا ہُوَ بِمَسْلَحَۃٍ لأَہْلِ فَارِسَ ، عَلَیْہِمْ رَجُلٌ یُقَالَ لَہُ : ہزارَ مَرد ، قَالَ : فَذَکَرُوا مِنْ عِظَمِ خَلقِہِ وَشَجَاعَتِہِ ، قَالَ : فَقَتَلَہُ خَالِدُ بْنُ الْوَلِیدِ ، ثُمَّ دَعَا بِغَدَائِہِ فَتَغَدَّی وَہُوَ مُتَّکِئٌ عَلَی جِیفَتِہِ ، یَعْنِی جَسَدَہُ۔
(٣٤٤٢١) حضرت حصین فرماتے ہیں کہ جب حضرت خالد بن ولید (رض) فارس کو فتح کرنے کے لیے آئے تو معلوم ہوا کہ یہاں ایک آدمی ہے جس کا نام ہزار مرد ہے۔ اس کے بارے میں لوگوں نے بتایا کہ وہ بہت بہادر اور توانا ہے۔ حضرت خالد نے اسے قتل کیا اور پھر اس کا کھانا منگوا کر اس کی لاش کے پاس بیٹھ کرکھایا۔

34421

(۳۴۴۲۲) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ أَبِی وَائِلٍ ؛ أَنَّ خَالِدَ بْنَ الْوَلِیدِ کَتَبَ : بِسْمِ اللہِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ مِنْ خَالِدِ بْنِ الْوَلِیدِ إِلَی رُسْتُمَ وَمِہْرَانَ وَمَلأ فَارِسَ، سَلاَمٌ عَلَی مَنِ اتَّبَعَ الْہُدَی، فَإِنِّی أَحْمَدُ إِلَیْکُمَ اللَّہَ الَّذِی لاَ إلَہَ إِلاَّ ہُوَ، أَمَّا بَعْدُ : فَإِنِّی أَعْرِضُ عَلَیْکُمَ الإِسْلاَمَ، فَإِنْ أَقْرَرْتُمْ بِہِ فَلَکُمْ مَا لأَہْلِ الإِسْلاَمِ، وَعَلَیْکُمْ مَا عَلَی أَہْلِ الإِسْلاَمِ ، وَإِنْ أَبَیْتُمْ، فَإِنِّی أَعْرِضُ عَلَیْکُمَ الْجِزْیَۃَ ، فَإِنْ أَقْرَرْتُمْ بِالْجِزْیَۃِ ، فَلَکُمْ مَا لأَہْلِ الْجِزْیَۃِ، وَعَلَیْکُمْ مَا عَلَی أَہْلِ الْجِزْیَۃِ ، وَإِنْ أَبَیْتُمْ ، فَإِنَّ عِنْدِی رِجَالاً تُحِبُّ الْقِتَالَ کَمَا تُحِبُّ فَارِسُ الْخَمْرَ۔
(٣٤٤٢٢) حضرت ابو وائل فرماتے ہیں کہ حضرت خالد بن ولید (رض) نے خط میں لکھا : بسم اللہ الرحمن الرحیم : خالد بن ولید کی طرف سے رستم، مہران اور فارس کے سرداروں کے نام۔ ہدایت کی اتباع کرنے والوں پر سلامتی ہو۔ میں تمہارے سامنے اس اللہ کی تعریف کرتا ہوں جس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ حمد وصلوۃ کے بعد ! میں تمہیں اسلام کی دعوت دیتا ہوں۔ اگر تم اسلام قبول کرلو تو تمہیں وہ سب کچھ ملے گا جو اہل اسلام کے لیے ہے اور تم پر وہ سب باتیں لازم ہوں گی جو مسلمانوں پر لازم ہیں۔ اگر تم اسلام قبول کرنے سے انکار کرو تو میں تمہیں دعوت دیتا ہوں کہ تم جزیہ ادا کرو، اگر تم جزیہ ادا کرنے لگو تمہیں ہر وہ چیز ملے گی جو جزیہ ادا کرنے والوں کو ملتی ہے اور تم پر ہر وہ چیز لازم ہوگی جو جزیہ ادا کرنے والوں پر لازم ہوتی ہے۔ اور اگر تم انکار کردو تو میرے پاس ایسے مرد ہیں جو قتال کو ایسے پسند کرتے ہیں جیسے فارس والے شراب کو پسند کرتے ہیں۔

34422

(۳۴۴۲۳) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، قَالَ : حدَّثَنَا إِسْمَاعِیلُ ، عَنْ قَیْسٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ خَالِدَ بْنَ الْوَلِیدِ یُحَدِّثُ بِالْحِیرَۃِ ، عَنْ یَوْمِ مُؤْتَۃٍ۔
(٣٤٤٢٣) حضرت قیس فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت خالد بن ولید (رض) کو حیرہ میں غزوہ موتہ کے بارے میں بات کرتے ہوئے سنا ہے۔

34423

(۳۴۴۲۴) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ إِسْمَاعِیلَ بْنِ أَبِی خَالِدٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا عَمْرٍو الشَّیْبَانِیَّ یَقُولُ : کَانَ مِہْرَانُ أَوَّلَ السَّنَۃِ ، وَکَانَتِ الْقَادِسِیَّۃُ فِی آخِرِ السَّنَۃِ ، فَجَائَ رُسْتُمُ ، فَقَالَ : إِنَّمَا کَانَ مِہْرَانُ یَعْمَلُ عَمَلَ الصِّبْیَانِ۔
(٣٤٤٢٤) حضرت ابو عمرو شیبانی فرماتے ہیں کہ مہران سے جنگ سال کے شروع میں اور جنگ قادسیہ سال کے آخر میں ہوئی۔ رستم نے کہا تھا کہ مہران بچوں والا کام کیا کرتا تھا۔

34424

(۳۴۴۲۵) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ إِسْمَاعِیلَ ، عَنْ قَیْسٍ ، قَالَ : کَانَ أَبُو عُبَیْدِ بْنِ مَسْعُودٍ عَبَرَ الْفُرَاتَ إِلَی مِہْرَانَ ، فَقَطَعُوا الْجِسْرَ خَلْفَہُ ، فَقَتَلُوہُ ہُوَ وَأَصْحَابَہُ ، قَالَ : فَأَوْصَی إِلَی عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ ، قَالَ : فَرَثَاہُ أَبُو مِحْجَنٍ الثَّقَفِیُّ ، فَقَالَ : أَمْسَی أَبُو جَبْرٍ خَلاَئَ بُیُوتُہُ أَمْسَی أَبُو عَمْرٍو لَدَی الْجِسْرِ مِنْہُمْ وَمَا زِلْتَ حَتَّی کُنْتَ آخِرَ رَائِحٍ وَحَتَّی رَأَیْتُ مُہْرَتِی مُزْبَئِرَّۃ بِمَا کَانَ یَغْشَاہُ الْجِیَاعُ الأَرَامِلُ إلَی جَانِبِ الأَبْیَاتِ حزمٌ وَنَائِلُ وَقُتِّلَ حَوْلِی الصَّالِحُونَ الأَمَاثِلُ لَدَی الْفیلِ یَدْمَی نَحْرُہَا الشَّوَاکِلُ
(٣٤٤٢٥) حضرت قیس فرماتے ہیں کہ ابو عبید بن مسعود نے مہران کی طرف جانے کے لیے دریائے فرات کو عبور کیا، دشمنوں نے ان کے گذرنے کے بعد پل کو توڑ دیا اور انھیں اور ان کے ساتھیوں کو شہید کردیا۔ حضرت عمر بن خطاب (رض) نے اس موقع پر ابو محجن کو ان کی یاد میں اشعار کہنے کا حکم دیا اور انھوں نے اشعار کہے جن کا ترجمہ یہ ہے :” ابوجبر کا گھر ویران ہوگیا اور وہاں بھوکی بیوائیں ہیں۔ پل کے پاس بنو عمرو کناروں پر بےسروسامان پڑے ہیں۔ میں زندہ بچ جانے والوں میں سے آخری ہوں اور میرے پاس نیک لوگوں کو شہید کیا گیا۔ میرے گھوڑے کا خون بہا اور ایسابہا کہ ہر خاص وعام راستے پر اس کا خون تھا “

34425

(۳۴۴۲۶) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ إِسْمَاعِیلَ ، عَنْ قَیْسٍ ، قَالَ : عَبَرَ أَبُو عُبَیْدِ بْنُ مَسْعُودٍ یَوْمَ مِہْرَانَ فِی أُنَاسٍ ، فَقُطِعَ بِہِمَ الْجِسْرَ ، فَأُصِیبُوا ، قَالَ : قَالَ قَیْسٌ : فَلَمَّا کَانَ یَوْمُ مِہْرَانَ ، قَالَ أُنَاسٌ فِیہِمْ خَالِدُ بْنُ عُرْفُطَۃَ لِجَرِیرٍ : یَا جَرِیرُ ، لاَ وَاللہِ ، لاَ نَرِیمُ عَرْصَتِنَا ہَذِہِ ، فَقَالَ : اُعْبُرْ یَا جَرِیرُ بِنَا إِلَیْہِمْ ، فَقُلْتُ : أَتُرِیدُونَ أَنْ تَفْعَلُوا بِنَا مَا فَعَلُوا بِأَبِی عُبَیْدٍ ؟ إِنَّا قَوْمٌ لَسْنَا بسُبَّاحَ ، أَنْ نَبْرَحَ ، أَوْ أَنْ نَرِیمَ الْعَرْصَۃَ حَتَّی یَحْکُمَ اللَّہُ بَیْنَنَا وَبَیْنَہُمْ ، فَعَبَرَہُ الْمُشْرِکُونَ فَأُصِیبَ یَوْمَئِذٍ مِہْرَانُ وَہُوَ عِنْدَ النَّخِیلَۃِ۔
(٣٤٤٢٦) حضرت قیس فرماتے ہیں کہ حضرت ابو عبید بن مسعود مہران کی جنگ میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ تھے۔ ان کے گزرنے کے بعد پل کو کاٹ دیا گیا اور وہ شہید کردیئے گئے۔ حضرت قیس فرماتے ہیں کہ مہران کی جنگ میں کچھ لوگوں نے جن میں حضرت خالد بن عرفطہ بھی شامل تھے۔ حضرت جریر سے کہا کہ اے جریر ! ہم تو اپنی جگہ ہرگز نہیں چھوڑیں گے۔ انھوں نے کہا کہ اے جریر ! ہمیں یہ دریا عبور کرنا چاہیے۔ میں نے کہا کہ کیا تم یہ چاہتے ہو کہ وہ ہمارے ساتھ بھی وہی کچھ کریں جو انھوں نے ابو عبید کے ساتھ کیا ہے۔ ہم ایک ایسی قوم ہیں جو تیراکی نہیں جانتی۔ ہم اپنا علاقہ اس وقت تک نہیں چھوڑیں گے جب تک اللہ تعالیٰ ہمارے اور ان کے درمیان کوئی فیصلہ نہ فرمادے۔ پس مشرکین نے اسے عبور کیا اور اس دن مہران مارا گیا اس وقت وہ نخیلہ نامی مقام میں تھا۔

34426

(۳۴۴۲۷) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ إِسْمَاعِیلَ ، عَنْ قَیْسٍ ، قَالَ : قَالَ لِی جَرِیرٌ : انْطَلِقْ بِنَا إِلَی مِہْرَانَ ، فَانْطَلَقْتُ مَعَہُ حَیْثُ اقْتَتَلُوا ، فَقَالَ لِی : لَقَدْ رَأَیْتُنِی فِیمَا ہَاہُنَا فِیَّ مِثْلُ حَرِیقِ النَّارِ ، یَطْعَنْونِی مِنْ کُلِّ جَانِبٍ بِنَیَازِکِہِمْ ، فَلَمَّا رَأَیْتُ الْہَلَکَۃَ جَعَلْتُ أَقُولُ : یَا فَرَسِی ، أَلاَ یَا جَرِیرُ ، فَسَمِعُوا صَوْتِی فَجَائَتْ قَیْسٌ ، مَا یَرُدَّہُمْ شَیٌء حَتَّی تَخَلِّصُونِی ، قُلْتُ : فَلَقَدْ عَبَرْتُ شَہْرًا ، مَا أَرْفَعُ لِی جَنْبًا مِنْ أَثَرِ النَّیَازِکَ ۔ قَالَ : قَالَ قَیْسٌ : لَقَدْ رَأَیْتُنَا نَخُوضُ دِجْلَۃَ ، وَإِنَّ أَبْوَابَ الْمَدَائِنِ لَمُغْلَقَۃٌ۔
(٣٤٤٢٧) ! اس اثر کا مضمون واضح نہیں ہوا۔ محققِ مصنف ابن ابی شیبہ محمد عوامہ اس حدیث کے حاشیہ میں لکھتے ہیں : وفی الخبر کلمات لم اتبینھا۔

34427

(۳۴۴۲۸) حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ مُعَاذٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا التَّیْمِیُّ ، عَنْ أَبِی عُثْمَانَ ، قَالَ : لَمَّا قُتِلَ أَبُو عُبَیْدٍ ، وَہُزِمَ أَصْحَابُہُ ، قَالَ عُمَرُ : أَنَا فِئَتُکُمْ۔
(٣٤٤٢٨) حضرت ابو عثمان فرماتے ہیں کہ جب حضرت ابو عبید شہید کردیئے گئے اور ان کے ساتھی شکست کھا گئے تو حضرت عمر (رض) نے فرمایا تھا کہ میں تمہاری طرف سے بدلہ لوں گا۔

34428

(۳۴۴۲۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا ابْنُ عَوْنٍ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ ، قَالَ : لَمَّا بَلَغَ عُمَرُ قَتْلَ أَبِی عُبَیْدٍ الثَّقَفِیِّ ، قَالَ : إِنْ کُنْتُ لَہُ فِئَۃً ، لَوِ انْحَازَ إِلَیَّ۔
(٣٤٤٢٩) حضرت ابن سیرین فرماتے ہیں کہ جب حضرت عمر (رض) کو ابو عبید ثقفی کی شہادت کی خبر ملی تو انھوں نے فرمایا کہ اگر مجھے موقع ملا تو میں ان کا بدلہ لوں گا۔

34429

(۳۴۴۳۰) حَدَّثَنَا مَحْبُوبٌ الْقَوَارِیرِیُّ ، عَنْ حَنَشِ بْنِ الْحَارِثِ النَّخَعِیِّ ، قَالَ : حدَّثَنَا أَشْیَاخُ النَّخَعِ ؛ أَنَّ جَرِیرًا لَمَّا قَتَلَ مِہْرَانَ نَصَبَ ، أَوْ رَفَعَ رَأْسَہُ عَلَی رُمْحٍ۔
(٣٤٤٣٠) حضرت حنش بن حارث نخعی قبیلہ کے بزرگوں سے نقل کرتے ہیں کہ حضرت جریر نے جب مہران کو قتل کیا تو اس کے سر کو ایک نیزے پر نصب کردیا تھا۔

34430

(۳۴۴۳۱) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا مِسْعَرٌ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاہِیمَ ؛ أَنَّہُ مَرَّ بِرَجُلٍ یَوْمَ أَبِی عُبَیْدٍ ، وَقَدْ قُطِعَتْ یَدَاہُ وَرِجْلاَہُ ، وَہُوَ یَقُولُ : {مَعَ الَّذِینَ أَنْعَمَ اللَّہُ عَلَیْہِمْ مِنَ النَّبِیِّینَ وَالصِّدِّیقِینَ وَالشُّہَدَائِ وَالصَّالِحِینَ وَحَسُنَ أُولَئِکَ رَفِیقًا} ، فَقَالَ لَہُ بَعْضُ مَنْ مَرَّ عَلَیْہِ : مَنْ أَنْتَ ؟ قَالَ : امْرُؤٌ مِنَ الأَنْصَارِ۔
(٣٤٤٣١) حضرت سعد بن ابراہیم فرماتے ہیں کہ وہ حضرت ابو عبید کی شہادت کے دن ایک آدمی کے پاس سے گزرے اس کے ہاتھ اور پاؤں کاٹ دیئے گئے تھے۔ وہ قرآن مجید کی اس آیت کی تلاوت فرما رہے تھے : { مَعَ الَّذِینَ أَنْعَمَ اللَّہُ عَلَیْہِمْ مِنَ النَّبِیِّینَ وَالصِّدِّیقِینَ وَالشُّہَدَائِ وَالصَّالِحِینَ وَحَسُنَ أُولَئِکَ رَفِیقًا } ان کے پاس سے گزرنے والے ایک شخص نے پوچھا کہ آپ کون ہیں ؟ انھوں نے کہا کہ میں ایک انصاری ہوں۔

34431

(۳۴۴۳۲) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ إِسْمَاعِیلَ ، عَنْ قَیْسٍ ، قَالَ: شَہِدْتُ الْقَادِسِیَّۃَ ، وَکَانَ سَعْدٌ عَلَی النَّاسِ، وَجَائَ رُسْتُمُ ، فَجَعَلَ عَمْرَو بْنُ مَعْدِی کَرِبٍ الزُّبَیْدِیُّ یَمُرُّ عَلَی الصُّفُوفِ ، وَیَقُولُ: یَا مَعْشَرَ الْمُہَاجِرِینَ، کُونُوا أُسُودًا أَشِدَّاء ً ، فَإِنَّمَا الأَسَدَ مَنْ أَغْنَی شَأْنَہُ ، إِنَّمَا الْفَارِسِیَّ تَیْسٌ بَعْدَ أَنْ یُلْقِی نَیْزَکَہُ ، قَالَ : وَکَانَ مَعَہُمْ أَسْوَارٌ لاَ تَسْقُطُ لَہُ نُشَّابَۃٌ ، فَقُلْنَا لَہُ : یَا أَبَا ثَوْرٍ ، اتَّقِ ذَاکَ ، قَالَ : فَإِنَّا لَنَقُولُ ذَاکَ إِذْ رَمَانَا فَأَصَابَ فَرَسَہُ ، فَحَمَلَ عَمْرٌو عَلَیْہِ فَاعْتَنَقَہُ ، ثُمَّ ذَبَحَہُ ، فَأَخَذَ سَلَبَہُ ، سِوَارَیْ ذَہَبٍ کَانَا عَلَیْہِ ، وَمِنْطَقَۃً وَقَبَائَ دِیبَاجٍ۔ وَفَرَّ رَجُلٌ مِنْ ثَقِیفٍ ، فَخَلاَ بِالْمُشْرِکِینَ ، فَأَخْبَرَہُمْ ، فَقَالَ : إِنَّ النَّاسَ فِی ہَذَا الْجَانِبِ ، وَأَشَارَ إِلَی بَجِیلَۃَ، قَالَ : فَرَمَوْا إِلَیْنَا سِتَّۃَ عَشَرَ فِیلاً ، عَلَیْہَا الْمُقَاتِلَۃُ ، وَإِلَی سَائِرِ النَّاسِ فِیلَیْن ، قَالَ : فَکَانَ سَعْدٌ یَقُولُ یَوْمَئِذٍ: ذَبَّوا عَنْ بَجِیلَۃ ۔ قَالَ قَیْسٌ : وَکُنَّا رُبْعُ النَّاسِ یَوْمَ الْقَادِسِیَّۃِ ، فَأَعْطَانَا عُمَرُ رُبْعَ السَّوَادِ ، فَأَخَذْنَاہُ ثَلاَثَ سِنِینَ۔ فَوَفَدَ بَعْدَ ذَلِکَ جَرِیرٌ إِلَی عُمَرَ ، وَمَعَہُ عَمَّارُ بْنُ یَاسِرٍ ، فَقَالَ عُمَرُ : أَلاَ تُخْبِرَانِی عَنْ مَنْزِلَیْکُمْ ہَذَیْنِ ؟ وَمَعَ ذَلِکَ إِنِّی لأَسأْلْکُمَا ، وَإِنِّی لأََتَبَیَّنُ فِی وُجُوہِکُمَا أَیَّ الْمَنْزِلَیْنِ خَیْرٌ ؟ قَالَ : فَقَالَ جَرِیرٌ : أَنَا أُخْبِرَکَ یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ ، أَمَّا أَحَدُ الْمَنْزِلَیْنِ فَأَدْنَی نَخْلَۃً مِنَ السَّوَادِ إِلَی أَرْضِ الْعَرَبِ ، وَأَمَّا الْمَنْزِلُ الآخَرُ فَأَرْضُ فَارِسَ، وَعَکُہَا وَحَرُّہَا وَبَقُّہَا ، یَعْنِی الْمَدَائِنَ ، قَالَ : فَکَذَّبَنِی عَمَّارٌ ، فَقَالَ : کَذَبْتَ ، قَالَ : فَقَالَ عُمَرُ : أَنْتَ أَکْذَبُ ۔ قَالَ : ثُمَّ قَالَ : أَلاَ تُخْبِرُونِی عَنْ أَمِیرِکُمْ ہَذَا ، أَمُجْزئٌ ہُوَ ؟ قَالُوا : لاَ وَاللہِ ، مَا ہُوَ بِمُجْرِئٍ ، وَلاَ کَافٍ ، وَلاَ عَالِمٍ بِالسِّیَاسَۃِ ، فَعَزَلَہُ وَبَعَثَ الْمُغِیرَۃَ بْنَ شُعْبَۃَ۔
(٣٤٤٣٢) حضرت قیس فرماتے ہیں کہ میں جنگ قادسیہ میں مسلمانوں کی طرف سے شریک تھا۔ حضرت سعد بن ابی وقاص اس جنگ میں مسلمانوں کے امیر تھے۔ رستم اپنی فوج کو لے کر آیا تو حضرت عمرو بن معدی کرب زبیدی مسلمانوں کی صفوں میں سے گزرے اور ان سے کہا کہ اے مہاجرین کی جماعت ! بہادر شیر بن جاؤ، اصل شیر وہ ہے جو اپنی جان کی پروا نہ کرے۔ فارسیوں کا مزاج ہے کہ جب وہ اپنا نیزہ ڈال دیں تو بکرے کی طرح ہیں۔ ان کے علاقے کے گرد بڑی بڑی دیواریں ہیں جن سے تیر تجاوز نہیں کرتے۔ ہم نے ان سے کہا کہ اے ابو ثور ! ان سے بچ کر رہنا۔ پھر ہم نے تیر چلائے، ایک تیر فارسیوں کے بادشاہ کے گھوڑے کو لگا، پھر حضرت عمرو نے اس پر حملہ کرکے اسے قتل کردیا اور اس کا سامان حاصل کرلیا جس میں سونے کے دو کنگن تھے، ایک چادر تھی اور ایک ریشم کا چوغہ تھا۔
(٢) ثقیف کا ایک آدمی بھاگا اور اس نے جا کر مشرکین کو خبر دے دی اور اس نے بجیلہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ لوگ اس طرف سے آرہے ہیں، پھر انھوں نے ہماری طرف سولہ ہاتھی بھیجے جن پر جنگجو سوار تھے۔ اور تمام لوگوں کی طرف دوہاتھی بھیجے۔ حضرت سعد اس دن فرما رہے تھے کہ بجیلہ سے پیچھے ہٹ جاؤ۔ حضرت قیس فرماتے ہیں کہ ہم جنگ قادسیہ میں لوگوں کا ایک چوتھائی تھے۔ اور حضرت عمر (رض) نے ہمیں آلات جنگ کا چوتھائی حصہ دیا اور ہم نے تین سال اسے استعمال کیا۔
(٣) اس کے بعد حضرت جریر حضرت عمار بن یاسر کی معیت میں ایک وفد کے ساتھ حضرت عمر کے پاس آئے۔ حضرت عمر نے ان سے فرمایا کہ تم دونوں نے مجھے اپنے ان دو گھروں کے بارے میں نہیں بتایا۔ اس کے باوجود میں تم سے سوال کرتا ہوں اور میں تمہارے چہروں سے اندازہ کرسکتا ہوں کہ دونوں میں سے کون سا گھر بہتر ہے ؟ حضرت جریر نے کہا کہ اے امیر المومنین ! میں آپ کو خبر دیتا ہوں۔ ایک گھر تو وہ ہے جو سرزمین عرب سے کم کھجوریں دینے والا ہے اور دوسرا گھر سرزمین فارس ہے، اس کی گرمی، اس کی تپش اور اس کی وسیع وادی یعنی مدائن ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ حضرت عمار نے میری تکذیب کی اور کہا کہ آپ نے جھوٹ بولا۔ حضرت عمر نے فرمایا کہ تم جھوٹ بولتے ہو۔ پھر انھوں نے فرمایا کہ میں تمہیں تمہارے امیر کے بارے میں بتاؤں کہ کیا وہ تمہارے لیے کافی ہیں ؟ لوگوں نے کہا کہ نہ تو وہ کافی ہیں اور نہ ہی سیاست کے رموز کو جانتے ہیں۔ پھر حضرت عمر نے انھیں معزول کرکے حضرت مغیرہ بن شعبہ کو امیر بنا کر بھیج دیا۔

34432

(۳۴۴۳۳) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ إِسْمَاعِیلَ ، عَنْ قَیْسٍ ، قَالَ : کَانَ سَعْدٌ قَدَ اشْتَکَی قُرْحَۃً فِی رِجْلِہِ یَوْمَئِذٍ ، فَلَمْ یَخْرُجْ إِلَی الْقِتَالِ ، قَالَ : فَکَانَتْ مِنَ النَّاسِ انْکِشَافَۃٌ ، قَالَ : فَقَالَتِ امْرَأَۃُ سَعْدٍ ، وَکَانَتْ قَبْلَہُ تَحْتَ الْمُثَنَّی بْنِ حَارِثَۃَ الشَّیْبَانِیِّ : لاَ مُثَنَّی لِلْخَیْلِ ، فَلَطَمَہَا سَعْدٌ ، فَقَالَتْ : جُبْنًا وَغَیْرَۃً ، قَالَ : ثُمَّ ہَزَمْنَاہُمْ۔
(٣٤٤٣٣) حضرت قیس فرماتے ہیں کہ جنگ قادسیہ میں حضرت سعد بن ابی وقاص کے پاؤں پر ایک پھوڑا نکل آیا اور وہ قتال کے لیے نہ جاسکے۔ لوگوں میں ایک بےچینی تھی۔ حضرت سعد کی زوجہ جو کہ پہلے مثنی بن حارثہ شیبانی کے نکاح میں تھیں۔ انھوں نے کہا کہ گھڑ سواروں کے لیے کوئی مثنی نہیں ہے ! اس پر حضرت سعد نے انھیں تھپڑ مارا۔ اس نے کہا کہ بزدلی اور غیرت کی وجہ سے ! ! ! راوی کہتے ہیں کہ پھر ہم نے دشمنوں کو شکست دے دی۔

34433

(۳۴۴۳۴) حَدَّثَنَا ابْنُ إِدْرِیسَ ، عَنْ إِسْمَاعِیلَ ، عَنْ قَیْسٍ ؛ أَنَّ امْرَأَۃَ سَعْدٍ کَانَتْ یُقَالُ لَہَا : سَلْمَی بِنْتَ خَصَفَۃَ ، امْرَأَۃُ رَجُلٍ مِنْ بَنِی شَیْبَانَ ، یُقَالَ لَہُ : الْمُثَنَّی بْنُ الْحَارِثَۃِ ، وَأَنَّہَا ذَکَرَتْ شَیْئًا مِنْ أَمْرِ مُثَنَّی فَلَطَمَہَا سَعْدٌ ، فَقَالَتْ : جُبْنٌ وَغَیْرَۃٌ۔
(٣٤٤٣٤) حضرت قیس فرماتے ہیں کہ حضرت سعد بن ابی وقاص کی ایک بیوی جن کا نام سلمی بنت خصفہ تھا، وہ بنو شیبان کے ایک شخص مثنی بن حارثہ کے نکاح میں رہ چکی تھیں۔ انھوں نے ایک مرتبہ حضرت سعد کے سامنے مثنی کا ذکر کیا تو حضرت سعد نے انھیں تھپڑ مارا۔ انھوں نے کہا بزدلی اور غیر ت کی وجہ سے مارتے ہو ! ! !

34434

(۳۴۴۳۵) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُہَاجِرٍ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : أُتِیَ سَعْدٌ بِأَبِی مِحْجَنٍ یَوْمَ الْقَادِسِیَّۃِ وَقَدْ شَرِبَ الْخَمْرَ ، فَأَمَرَ بِہِ إِلَی الْقَیْدِ ، قَالَ : وَکَانَ بِسَعْدٍ جِرَاحَۃٌ ، فَلَمْ یَخْرُجْ یَوْمَئِذٍ إِلَی النَّاسِ ، قَالَ : وَصَعِدُوا بِہِ فَوْقَ الْعُذَیْبِ لِیَنْظُرَ إِلَی النَّاسِ ، قَالَ : وَاسْتَعْمَلَ عَلَی الْخَیْلِ خَالِدَ بْنَ عُرْفُطَۃَ ، فَلَمَّا الْتَقَی النَّاسُ ، قَالَ أَبُو مِحْجَنٍ : کَفَی حُزْنًا أَنْ تُرْدَی الْخَیْلُ بِالْقَنَا ۔۔۔ وَأُتْرَکُ مَشْدُودًا عَلَیَّ وَثَاقِیَا فَقَالَ لاِبْنَۃِ خَصَفَۃَ ، امْرَأَۃِ سَعْدٍ : أَطْلِقِینِی وَلَکِ عَلَیَّ إِنْ سَلَّمَنِیَ اللَّہُ أَنْ أَرْجِعَ حَتَّی أَضَعَ رِجْلِی فِی الْقَیْدِ ، وَإِنْ قُتِلْتُ اسْتَرَحْتُمْ ، قَالَ : فَحَلَّتْہُ حِینَ الْتَقَی النَّاسُ۔ قَالَ : فَوَثَبَ عَلَی فَرَسٍ لِسَعْدٍ یُقَالَ لَہَا : الْبَلْقَائُ ، قَالَ ، ثُمَّ أَخَذَ رُمْحًا ، ثُمَّ خَرَجَ ، فَجَعَلَ لاَ یَحْمِلُ عَلَی نَاحِیَۃٍ مِنَ الْعَدُوِّ إِلاَّ ہَزَمَہُمْ ، قَالَ : وَجَعَلَ النَّاسُ یَقُولُونَ : ہَذَا مَلَکٌ ، لِمَا یَرَوْنَہُ یَصْنَعُ ، قَالَ : وَجَعَلَ سَعْدٌ یَقُولُ : الضَّبْرُ ضَبْرُ الْبَلْقَائِ ، وَالطَّعَنُ طَعَنُ أَبِی مِحْجَنٍ ، وَأَبُو مِحْجَنٍ فِی الْقَیْدِ۔ قَالَ ، فَلَمَّا ہُزِمَ الْعَدُوَّ ، رَجَعَ أَبُو مِحْجَنٍ حَتَّی وَضَعَ رِجْلَیْہِ فِی الْقَیْدِ ، فَأَخْبَرَتْ بِنْتُ خَصَفَۃَ سَعْدًا بِاَلَّذِی کَانَ مِنْ أَمْرِہِ ، قَالَ : فَقَالَ سَعْدٌ : وَاللہِ لاَ أَضْرِبُ الْیَوْمَ رَجُلاً أَبْلَی اللَّہُ الْمُسْلِمِینَ عَلَی یَدَیْہِ مَا أَبْلاَہُمْ ، قَالَ : فَخَلَّی سَبِیلَہُ ، قَالَ : فَقَالَ أَبُو مِحْجَنٍ : قَدْ کُنْتُ أَشْرَبُہَا حَیْثُ کَانَ یُقَامُ عَلَیَّ الْحَدُّ ، فَأَظْہَرُ مِنْہَا ، فَأَمَّا إِذْ بَہْرَجَتْنِی فَلاَ وَاللہِ لاَ أَشْرَبُہَا أَبَدًا۔
(٣٤٤٣٥) حضرت محمد بن سعد فرماتے ہیں کہ قادسیہ کی جنگ کے دوران ایک دن ابو محجن شاعر کو شراب پینے کے جرم میں حضرت سعد بن ابی وقاص کے پاس لایا گیا۔ حضرت سعد نے اسے بیڑیوں میں باندھنے کا حکم دے دیا۔ اس وقت حضرت سعد زخمی تھے اور لوگوں کے پاس نہ جاسکتے تھے۔ لہٰذا انھوں نے اپنے مجاہدین کی نگرانی کے لیے عذیب نامی چشمے کے علاقے کو منتخب کیا اور معائنہ کرنے لگے۔ آپ نے خالد بن عرفطہ کو گھڑ سواروں کا قائد بنایا تھا۔ جب جنگ شروع ہوئی تو ابو محجن نے ایک شعرکہا جس کا ترجمہ یہ ہے کہ یہ کتنے افسوس کی بات ہے کہ تم گھڑ سواروں کو ہلاک کررہے ہو اور مجھے بیڑیوں میں جکڑ رکھا ہے۔
(٢) پھر اس نے حضرت سعد کی بیوی بنت خصفہ سے کہا کہ تم مجھے آزاد کردو میں قسم کھاتا ہوں کہ اگر زندہ رہا تو واپس آکر خود اس بیڑی میں خود کو جکڑ لوں گا اور اگر مار دیا گیا تو رحمت کی دعا کی درخواست کروں گا۔ پھر بنت خصفہ نے اس کھول دیا اورادھر میدان کارزار گرم ہوچکا تھا۔
(٣) اس نے ایک چھلانگ لگائی تو حضرت سعد کے بلقاء نامی گھوڑے پر سوار ہوا، ایک نیزہ پکڑا اور دشمنوں پر حملہ کردیا وہ جہاں جاتا تھا دشمنوں کو شکست دے دیتا ہے۔ یہاں تک کہ لوگوں نے کہنا شروع کردیا کہ یہ بادشاہ ہے ! اور حضرت سعد فرما رہے تھے کہ چھلانگ تو میرے گھوڑے بلقاء کی ہے اور نیزہ چلانا ابو محجن کا ہے جب کہ ابو محجن تو قید میں ہے ! !
(٤) جب دشمن کو شکست ہوگئی تو ابو محجن واپس آیا اور خود کو بیڑی میں جکڑ لیا۔ بنت خصفہ نے سارا واقعہ حضرت سعد کو بتایا تو انھوں نے فرمایا کہ خدا کی قسم میں ایسے آدمی پر حد جاری نہیں کرسکتا جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو کامیابی عطا فرمائی۔ پھر حضرت سعد نے ابو محجن کو آزاد کردیا۔ اس پر ابو محجن نے کہا کہ جب مجھ پر حد قائم کی جاتی تھی تو میں شراب پیتا تھا اور حد کے ذریعہ پاک ہوجاتا تھا اور اب جبکہ آپ نے مجھ سے حد معاف کردی ہے تو خدا کی قسم میں شراب نہیں پیوں گا۔

34435

(۳۴۴۳۶) حَدَّثَنَا عَفَّانٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا أَبُو عَوَانَۃَ ، قَالَ : حَدَّثَنَا حُصَیْنٌ ، عَنْ أَبِی وَائِلٍ ، قَالَ : جَائَ سَعْدُ بْنُ أَبِی وَقَّاصٍ حَتَّی نَزَلَ الْقَادِسِیَّۃَ وَمَعَہُ النَّاسُ ، قَالَ : فَمَا أَدْرِی لَعَلَّنَا أَنْ لاَ نَزِیدَ عَلَی سَبْعَۃِ آلاَفٍ ، أَوْ ثَمَانِیَۃِ آلاَفٍ ، بَیْنَ ذَلِکَ ، وَالْمُشْرِکُونَ سِتُونَ أَلْفًا ، أَوْ نَحْوَ ذَلِکَ ، مَعَہُمَ الْفُیُولُ ، قَالَ : فَلَمَّا نَزَلُوا ، قَالُوا لَنَا : ارْجِعُوا فَإِنَّا لاَ نَرَی لَکُمْ عَدَدًا ، وَلاَ نَرَی لَکُمْ قُوَّۃً ، وَلاَ سِلاَحًا ، فَارْجِعُوا ، قَالَ : قُلْنَا : مَا نَحْنُ بِرَاجِعِینَ ، قَالَ : وَجَعَلُوا یَضْحَکُونَ بِنَبْلِنَا ، وَیَقُولُونَ : دُوک ، یُشَبِّہُونَہَا بِالْمُغَازَلِ ، قَالَ : فَلَمَّا أَبَیْنَا عَلَیْہِمْ ، قَالُوا : ابْعَثُوا إِلَیْنَا رَجُلاً عَاقِلاً یُخْبِرُنَا بِاَلَّذِی جَائَ بِکُمْ مِنْ بِلاَدِکُمْ ، فَإِنَّا لاَ نَرَی لَکُمْ عَدَدًا ، وَلاَ عُدَّۃً۔ قَالَ : فَقَالَ الْمُغِیرَۃُ بْنُ شُعْبَۃَ : أَنَا ، قَالَ : فَعَبَرَ إِلَیْہِمْ ، قَالَ : فَجَلَسَ مَعَ رُسْتُمَ عَلَی السَّرِیرِ ، قَالَ : فَنَخَرَ وَنَخَرُوا حِینَ جَلَسَ مَعَہُ عَلَی السَّرِیرِ ، قَالَ : قَالَ الْمُغِیرَۃُ : وَاللَّہِ مَا زَادَنِی فِی مَجْلِسِی ہَذَا ، وَلاَ نَقَصَ صَاحِبُکُمْ ، قَالَ : فَقَالَ : أَخْبَرُونِی مَا جَائَ بِکُمْ مِنْ بِلاَدِکُمْ ، فَإِنِّی لاَ أَرَی لَکُمْ عَدَدًا ، وَلاَ عُدَّۃً ؟ قَالَ : فَقَالَ: کُنَّا قَوْمًا فِی شَقَائٍ وَضَلاَلَۃٍ ، فَبَعَثَ اللَّہُ فِینَا نَبِیَّنَا ، فَہَدَانَا اللَّہُ عَلَی یَدَیْہِ ، وَرَزَقَنَا عَلَی یَدَیْہِ ، فَکَانَ فِیمَا رَزَقَنَا حَبَّۃٌ ، زَعَمُوا أَنَّہَا تَنْبُتُ بِہَذِہِ الأَرْضِ ، فَلَمَّا أَکَلْنَا مِنْہَا ، وَأَطْعَمْنَا مِنْہَا أَہْلِینَا ، قَالُوا : لاَ خَیْرَ لَنَا حَتَّی تَنْزِلُوا ہَذِہِ الْبِلاَدَ فَنَأْکُلُ ہَذِہِ الْحَبَّۃَ۔ قَالَ : فَقَالَ رُسْتُمُ : إِذًا نَقْتُلُکُمْ ، قَالَ : فَقَالَ : فَإِنْ قَتَلْتُمُونَا دَخَلْنَا الْجَنَّۃَ ، وَإِنْ قَتَلْنَاکُمْ دَخَلْتُمَ النَّارَ ، وَإِلاَّ أَعْطَیْتُمَ الْجِزْیَۃَ ، قَالَ : فَلَمَّا قَالَ أَعْطَیْتُمَ الْجِزْیَۃَ ، قَالَ : صَاحُو وَنَخَرُوا ، وَقَالُوا : لاَ صُلْحَ بَیْنَنَا وَبَیْنَکُمْ ، فَقَالَ الْمُغِیرَۃُ : أَتَعْبُرُونَ إِلَیْنَا ، أَوْ نَعْبُرُ إِلَیْکُمْ ؟ قَالَ : فَقَالَ رُسْتُمُ : بَلْ نَعْبُرُ إِلَیْکُمْ ، قَالَ : فَاسْتَأْخَرَ عَنْہُ الْمُسْلِمُونَ حَتَّی عَبَرَ مِنْہُمْ مَنْ عَبَرَ ، قَالَ : فَحَمَلَ عَلَیْہِمَ الْمُسْلِمُونَ فَقَتَلُوہُمْ وَہَزَمُوہُمْ۔ قَالَ حُصَیْنٌ : کَانَ مَلِکُہُمْ رُسْتُمُ مِنْ أَہْلِ آذَرْبِیجَانَ۔ قَالَ حُصَیْنٌ : وَسَمِعْتُ شَیْخًا مِنَّا ، یُقَالَ لَہُ : عُبَیْدُ بْنُ جَحْشٍ : قَالَ : لَقَدْ رَأَیْتُنَا نَمْشِی عَلَی ظُہُورِ الرِّجَالِ ، نَعْبُرُ الْخَنْدَقَ عَلَی ظُہُورِ الرِّجَالِ ، مَا مَسَّہُمْ سِلاَحٌ ، قَدْ قَتَلَ بَعْضُہُمْ بَعْضًا ، قَالَ : وَوَجَدْنَا جِرَابًا فِیہِ کَافُورٌ ، قَالَ : فَحَسِبْنَاہُ مِلْحًا ، لاَ نَشُکُّ فِیہِ أَنَّہُ مِلْحٌ ، قَالَ: فَطَبَخْنَا لَحْمًا ، فَطَرَحْنَا مِنْہُ فِیہِ ، فَلَمَّا لَمْ نَجِدْ لَہُ طَعْمًا ، فَمَرَّ بِنَا عِبَادِیٌّ مَعَہُ قَمِیصٌ ، قَالَ : فَقَالَ : یَا مَعْشَرَ الْمُعْبِرِینَ ، لاَ تُفْسِدُوا طَعَامَکُمْ ، فَإِنَّ مِلْحَ ہَذِہِ الأَرْضِ لاَ خَیْرَ فِیہِ ، ہَلْ لَکُمْ أَنْ أُعْطِیَکُمْ فِیہِ ہَذَا الْقَمِیصَ، قَالَ : فَأَعْطَانَا بِہِ قَمِیصًا ، فَأَعْطَیْنَاہُ صَاحِبًا لَنَا فَلَبِسَہُ ، قَالَ : فَجَعَلْنَا نُطِیفُ بِہِ وَنُعْجَبُ ، قَالَ : فَإِذَا ثَمَنُ الْقَمِیصِ حِینَ عَرَفْنَا الثِّیَابَ دِرْہَمَانِ۔ قَالَ : وَلَقَدْ رَأَیْتُنِی أَشَرْتُ إِلَی رَجُلٍ ، وَإِنَّ عَلَیْہِ لَسِوَارَیْنِ مِنْ ذَہَبٍ ، وَإِنَّ سِلاَحَہُ تَحْت فِی قَبْرٍ مِنْ تِلْکَ الْقُبُورِ ، وَأَشَرْتُ إِلَیْہِ فَخَرَجَ إِلَیْنَا ، قَالَ : فَمَا کَلَّمَنَا وَلاَ کَلَّمْنَاہُ حَتَّی ضَرَبْنَا عُنُقَہُ ، فَہَزَمْنَاہُمْ حَتَّی بَلَغُوا الْفُرَاتَ ، قَالَ : فَرَکِبْنَا فَطَلَبْنَاہُمْ فَانْہَزَمُوا حَتَّی انْتَہَوْا إِلَی سُورَائَ ، قَالَ : فَطَلَبْنَاہُمْ فَانْہَزَمُوا حَتَّی أَتَوْا الصَّراۃَ ، قَالََ : فَطَلَبْنَاہُمْ فَانْہَزَمُوا حَتَّی انْتَہَوْا إِلَی الْمَدَائِنِ، قَالَ : فَنَزَلْنَا کُوْثَی ، قَالَ : وَمَسْلحَۃً لِلْمُشْرِکِینَ بِدَیْرِی مِنَ الْمَسَالحِ تَأْتِیہمْ خَیْلُ الْمُسْلِمِینَ فَتُقَاتِلُہُمْ ، فَانْہَزَمَتْ مَسْلحَۃُ الْمُشْرِکِینَ ، حَتَّی لَحِقُوا بِالْمَدَائِنِ۔ وَسَارَ الْمُسْلِمُونَ حَتَّی نَزَلُوا عَلَی شَاطِئِ دِجْلَۃَ ، وَعَبَرَ طَائِفَۃٌ مِنَ الْمُسْلِمِینَ مِنْ کَلْوَاذَی ، أَوْ مِنْ أَسْفَلَ مِنَ الْمَدَائِنِ ، فَحَصَرُوہُمْ حَتَّی مَا یَجِدُونَ طَعَامًا ، إِلاَّ کِلاَبَہُمْ وَسَنَانِیرَہُمْ ، قَالَ : فَتَحَمَّلُوا فِی لَیْلَۃٍ حَتَّی أَتَوْا جَلُولاَئَ ، قَالَ : فَسَارَ إِلَیْہِمْ سَعْدٌ بِالنَّاسِ ، وَعَلَی مُقَدِّمَتِہِ ہَاشِمُ بْنِ عُتْبَۃَ ، قَالَ : وَہُیَ الْوَقْعَۃُ الَّتِی کَانَتْ ، قَالَ : فَأَہْلَکَہُمَ اللَّہُ ، وَانْطَلَقَ فَلَّہُمْ إِلَی نَہَاوَنْدَ ۔ قَالَ : وَقَالَ أَبُو وَائِلٍ : إِنَّ الْمُشْرِکِینَ لَمَّا انْہَزَمُوا مِنْ جَلُولاَئَ أَتَوْا نَہَاوَنْد ، قَالَ : فَاسْتَعْمَلَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ عَلَی أَہْلِ الْکُوفَۃِ حُذَیْفَۃَ بْنَ الْیَمَانِ ، وَعَلَی أَہْلِ الْبَصْرَۃِ مُجَاشِعَ بْنَ مَسْعُودٍ السُّلَّمِیَّ ، قَالَ : فَأَتَاہُ عَمْرَو بْنَ مَعْدِی کَرِبَ ، فَقَالَ لَہُ : أَعْطِنِی فَرَس مِثْلِی ، وَسِلاَحَ مِثْلِی ، قَالَ : نَعَمْ ، أُعْطِیکَ مِنْ مَالِی ، قَالَ : فَقَالَ لَہُ عَمْرُو بْنُ مَعْدِی کَرِبَ : وَاللہِ لَقَدْ ہَاجَیْنَاکُمْ فَمَا أَفْحَمْنَاکُمْ ، وَقَاتَلْنَاکُمْ فَمَا أَجَبْنَاکُمْ ، وَسَأَلْنَاکُمْ فَمَا أَبْخَلْنَاکُمْ۔ قَالَ حُصَیْنٌ : وَکَانَ النُّعْمَانُ بْنُ مُقَرَّنٍ عَلَی کَسْکَرَ ، قَالَ : فَکَتَبَ إِلَی عُمَرَ : یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ ، إِنَّ مَثَلِی وَمَثَلَ کَسْکَرَ مَثَلُ رَجُلٍ شَابٍّ عِنْدَ مُومِسَۃٍ ، تُلَوَّنُ لَہُ وَتُعَطَّرُ ، وَإِنِّی أَنْشُدُک بِاللہِ لَمَا عَزَلَتْنِی عَنْ کَسْکَرَ ، وَبَعَثْتَنِی فِی جَیْشٍ مِنْ جُیُوشِ الْمُسْلِمِینَ ، قَالَ : فَکَتَبَ إِلَیْہِ : سِرْ إِلَی النَّاسِ بِنَہَاوَنْد ، فَأَنْتَ عَلَیْہِمْ۔ قَالَ : فَسَارَ إِلَیْہِمْ ، قَالَ : فَالْتَقَوْا ، فَکَانَ أَوَّلَ قَتِیلٍ ، قَالَ : وَأَخَذَ سُوَیْد بْنُ مُقَرَّنٍ الرَّایَۃَ ، فَفَتَحَ اللَّہُ لَہُمْ ، وَأَہْلَکَ اللَّہُ الْمُشْرِکِینَ ، فَلَمْ تَقُمْ لَہُمْ جَمَاعَۃٌ بَعْدَ یَوْمَئِذٍ۔ قَالَ : وَکَانَ أَہْلُ کُلِّ مِصْرٍ یَسِیرُونَ إِلَی عَدُوِّہِمْ وَبِلاَدِہِمْ۔ قَالَ حُصَیْنٌ : لَمَّا ہُزِمَ الْمُشْرِکُونَ مِنَ الْمَدَائِنِ ، لَحِقَہُمْ بِجَلُولاَئَ ، ثُمَّ رَجَعَ وَبَعَثَ عَمَّارُ بْنُ یَاسِرٍ ، فَسَارَ حَتَّی نَزَلَ الْمَدَائِنَ ، قَالَ : وَأَرَادَ أَنْ یَنْزِلَہَا بِالنَّاسِ ، فَاجْتَوَاہَا النَّاسُ وَکَرِہُوہَا ، فَبَلَغَ عُمَرُ أَنَّ النَّاسَ کَرِہُوہَا ، فَسَأَلَ : ہَلْ تصْلَحُ بِہَا الإِبِلُ ؟ قَالُوا : لاَ ، لأَنَّ بِہَا الْبَعُوضَ ، قَالَ : فَقَالَ عُمَرُ : فَإِنَّ الْعَرَبَ لاَ تصْلَحُ بِأَرْضٍ لاَ تصْلَحُ بِہَا الإِبِلُ ، قَالَ : فَرَجَعُوا ، قَالَ : فَلَقِیَ سَعْدٌ عِبَادِیًّا ، قَالَ : فَقَالَ : أَنَا أَدُلُّکُمْ عَلَی أَرْضٍ ارْتَفَعَتْ مِنَ الْبَقَّۃِ ، وَتَطَأْطَأَتْ مِنَ السَّبْخَۃِ ، وَتَوَسَّطَتِ الرِّیفَ ، وَطَعَنَتْ فِی أَنْفِ البَّرِیۃِ ، قَالَ : أَرْضٌ بَیْنَ الْحِیرَۃِ وَالْفُرَاتِ۔
(٣٤٤٣٦) حضرت ابو وائل فرماتے ہیں کہ حضرت سعد بن ابی وقاص اپنا لشکر لے کر قادسیہ پہنچے۔ میرے خیال میں ہم لوگ سات یا آٹھ ہزار سے زائد نہیں تھے۔ جبکہ مشرک دشمن ساٹھ ہزار سے زائد تھے۔ ان کے پاس ہاتھی بھی تھے۔ جب وہ میدان میں اترے تو انھوں نے ہم سے کہا کہ واپس چلے جاؤ، نہ تمہارے پاس تعداد ہے، نہ قوت ہے اور نہ ہی اسلحہ۔ واپس چلے جاؤ۔ ہم نے کہا کہ ہم واپس نہیں جائیں گے۔ وہ ہمارے تیروں کو دیکھ کر بھی ہنستے تھے اور انھیں چرخے سے تشبیہ دیتے تھے۔ جب ہم نے ان کی بات ماننے اور واپس جانے سے انکار کردیا تو انھوں نے کہا کہ کسی سمجھدار آدمی کو ہمارے پاس بھیجو جو تمہاری آمد کے مقصد کو ہمارے لیے واضح کردے کیونکہ ہم تو نہ تم میں کوئی تعداد دیکھتے ہیں اور نہ ہی کوئی قوت !
(٢) اس پر حضرت مغیرہ بن شعبہ نے کہا کہ میں ان کے پاس جاتا ہوں۔ حضرت مغیرہ ان کے پاس گئے اور جاکر رستم کے ساتھ اس کے تخت پر بیٹھ گئے۔ یہ بات رستم کو اور اس کے ساتھیوں کو بہت ناگوار محسوس ہوئی۔ حضرت مغیرہ نے کہا کہ میرے یہاں بیٹھنے سے نہ تو میری عزت میں اضافہ ہوا ہے اور نہ تمہارے بادشاہ کی شان میں کوئی کمی ہوئی ہے۔ رستم نے کہا کہ مجھے بتاؤ کہ تم اپنے شہر سے یہاں کیوں آئے ہو کیونکہ میں تم میں نہ کوئی تعداد دیکھتا ہوں اور نہ ہی قوت ؟ اس پر حضرت مغیرہ بن شعبہ (رض) نے فرمایا کہ ہم ایک ایسی قوم تھے جو بدبختی اور گمراہی کا شکار تھی۔ اللہ تعالیٰ نے ہم میں ایک نبی کو بھیجا جن کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ہمیں ہدایت عطا فرمائی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی وجہ سے ہمیں روزی بھی عطا کی۔ جو روزی ان کی وجہ سے ہمیں ملی اس میں ایک ایسا غلہ تھا جس کے بارے میں لوگوں کو خیال ہے کہ وہ اس سرزمین میں پیدا ہوتا ہے۔ جب ہم نے اسے کھایا اور اپنے گھر والوں کو کھلایا تو لوگوں نے کہا کہ ہمارے لیے اس وقت تک کوئی بھلائی نہیں جب تک ہم اس سرزمین میں جاکر اس غلے کونہ کھالیں۔
(٣) رستم نے کہا کہ پھر ہم تمہیں قتل کریں گے۔ حضرت مغیرہ نے کہا کہ اگر تم ہمیں قتل کرو گے تو ہم جنت میں داخل ہوں گے اور اگر ہم نے تمہیں قتل کیا تو تم جہنم میں جاؤ گے۔ لڑائی نہ ہونے کی صورت میں تمہیں جزیہ دینا ہوگا۔ جب حضرت مغیرہ نے کہا کہ تمہیں جزیہ دینا ہوگا تو وہ لوگ چیخنے لگے اور شدید غصے کا اظہار کرنے لگے۔ اور کہا کہ تمہاری اور ہماری صلح نہیں ہوگی۔ پھر حضرت مغیرہ نے فرمایا کہ تم ہماری طرف پیش قدمی کرتے ہو یا ہم تمہاری طرف بڑھیں ؟ رستم نے کہا کہ ہم تمہاری طرف آتے ہیں۔ پس مسلمان پیچھے ہوئے اور ان میں سے جس نے آگے بڑھنا تھا آگے بڑھا اور مسلمانوں نے ان پر حملہ کیا، انھیں قتل کیا اور انھیں شکست دے دی۔ راوی حضرت حصین فرماتے ہیں کہ ان کے بادشاہ رستم کا تعلق آذربائیجان سے تھا۔
(٤) حضرت حصین فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے ایک بزرگ عبید بن جحش کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ہم آدمیوں کی پشتوں پر چل رہے تھے اور آدمیوں کی پشتوں پر خندق عبورکر رہے تھے۔ انھیں کسی ہتھیارنے چھوا تک نہیں تھا، انھوں نے ایک دوسرے کو قتل کیا تھا۔ ہمیں ایک شیشی میں کچھ کافورملی، ہم نے سمجھا کہ یہ نمک ہے۔ چنانچہ ہم نے گوشت پکایا اور اس پرا سے چھڑکا لیکن ہمیں کچھ ذائقہ محسوس نہ ہوا۔ ہمارے پاس سے ایک قمیص میں ملبوس ایک عیسائی راہب گزرا اور اس نے کہا کہ اے عرب کے لوگو ! اپنا کھانا خراب نہ کرو۔ اس سرزمین کے نمک میں کوئی خیر نہیں۔ کیا میں تمہیں اس کے بدلے یہ قمیص دے دوں۔ چنانچہ نے ہم نے وہ شیشی ایک قمیص کے بدلے اسے دے دی اور وہ قمیص اپنے ایک ساتھی کو دی اور وہ اس نے پہن لی۔ ہم اسے گھمانے لگے اور خوش ہونے لگے۔ بعد میں ہمیں معلوم ہوا کہ اس قمیص کی قیمت دو درہم ہے۔
(٥) عبید بن جحش نامی بزرگ فرماتے ہیں کہ میں نے ایک ایسے آدمی کو دیکھا جس نے دو کنگن پہن رکھے تھے، اس کا ہتھیار ایک قبر میں تھا۔ میں نے اسے باہر نکلنے کو کہا وہ باہر نکلا، نہ اس نے ہم سے بات کی اور نہ ہم نے اس سے بات کی اور ہم نے اسے قتل کردیا۔ پھر ہم نے انھیں شکست دے دی اور وہ فرات چلے گئے۔ ہم نے انھیں تلاش کیا اور شکست خوردہ ہو کر سوراء تک چلے گئے۔ پھر ہم نے انھیں تلاش کیا، انھیں شکست دی تو وہ صراۃ چلے گئے، پھر ہم نے انھیں تلاش کیا، انھیں شکست دی تو وہ مدائن چلے گئے۔ پھر ہم کوثیٰ نامی جگہ ٹھہرے، وہاں مشرکین کے مسلح جنگجو تھے۔ مسلمانوں کے گھڑ سواروں نے ان سے جنگ کی تو وہ شکست کھا کرمدائن چلے گئے۔
(٦) پھر مسلمان چلے اور دریائے دجلہ کے کنارے جاکر پڑاؤ ڈالا۔ پھر مسلمانوں کی ایک جماعت نے کلواذی یا اس کی نچلی جانب سے مدائن کو عبور کیا اور کافروں کا محاصرہ کرلیا۔ یہاں تک کہ ان کے پاس کھانے کے لیے ان کے کتوں اور بلیوں کے سوا کچھ نہ بچا۔ پھر ایک رات کے بعد وہ جلولاء آئے اور حضرت سعد (رض) لوگوں کو لے کر چلے اور حضرت ہاشم بن عتبہ لوگوں کے آگے تھے۔ اس کے بعد اللہ نے دشمنوں کو ہلاک کردیا اور ان میں سے کچھ لوگ نہاوند چلے گئے۔ حضرت ابو وائل فرماتے ہیں کہ جب مشرکین کو جلولاء میں شکست ہوگئی تو وہ نہاوند چلے گئے۔ حضرت عمر (رض) نے کوفہ والوں پر حضرت حذیفہ بن یمان کو اور بصرہ والوں پر مجاشع بن مسعود سلمی کو حاکم بنادیا۔ پھر حضرت عمرو بن معدی کرب ان کے پاس آئے اور کہا کہ مجھے میرے گھوڑے جیسا گھوڑا اور میرے ہتھیار جیسا ہتھیار دو ۔ انھوں نے کہا کہ ہاں میں تمہیں اپنے مال میں سے دیتا ہوں۔ پھر عمرو بن معدیکرب نے ان سے کہا کہ ہم نے تمہاری ہجو کی لیکن ہم نے تمہیں خاموش نہ کرایا۔ ہم نے تم سے قتال کیا لیکن ہم نے تمہیں بزدل نہ کیا اور ہم نے تم سے سوال کیا لیکن ہم نے تمہیں بخیل نہ بنایا۔
(٧) حضرت حصین فرماتے ہیں کہ حضرت نعمان بن مقرن کسکر کے حاکم تھے۔ انھوں نے حضرت عمر کو خط لکھا جس میں انھوں نے تحریر کیا کہ اے امیر المؤمنین ! میری اور کسکر کی مثال اس نوجوان کی سی ہے جو کسی فاحشہ عورت کے پاس ہو اور وہ عورت اس کے لیے زیب وزینت اختیار کرے اور خوشبو لگائے۔ میں آپ کو قسم دیتا ہوں کہ آپ مجھے کسکر سے معزول کرکے کسی لشکر میں بھیج دیں۔ حضرت عمر (رض) نے انھیں جواب میں فرمایا کہ تم نہاوند چلے جاؤ اور تم وہاں کے لشکر کے امیر ہو۔
(٨) حضرت نعمان بن مقرن وہاں فوج سے جاملے اور مشرکین سے لڑائی کی اور وہ پہلے شہید ثابت ہوئے۔ پھر سوید بن مقرن نے جھنڈا تھاما اور اللہ پاک نے ان کے ہاتھ پر فتح عطا فرمائی۔ اور مشرکین کو ہلاک فرمادیا اور اس کے بعد سے ان کی کوئی جماعت سر نہ اٹھا سکی۔ ہر شہر والے اپنے دشمنوں اور ان کے شہروں کی طرف جایا کرتے تھے۔
(٩) حضرت حصین فرماتے ہیں کہ جب مشرکین کو مدائن میں شکست ہوگئی تو وہ جلولاء میں مسلمانوں کے ساتھ مل گئے تھے۔ پھر وہ واپس آگئے اور حضرت عمار بن یاسر کو بھیج دیا۔ وہ چلے اور مدائن پہنچے۔ اور ارادہ کیا کہ لوگوں کو وہاں اتاریں۔ وہاں لوگوں کی صحت خراب ہوگئی اور انھوں نے اس کو ناپسند کیا۔ حضرت عمر (رض) کو یہ بات معلوم ہوئی کہ لوگوں نے اس جگہ کو پسند نہیں کیا۔ تو آپ نے سوال کیا کہ کیا اونٹ وہاں ٹھیک رہتے ہیں ؟ آپ کو بتایا گیا کہ نہیں کیونکہ وہاں مچھر بہت ہیں۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا کہ عرب اس جگہ ٹھیک نہیں رہتے جہاں اونٹ ٹھیک نہ رہتے ہوں۔ پھر لوگ وہاں سے واپس آگئے۔ پھر حضرت سعد (رض) ایک عیسائی راہب کو ملے۔ اس نے کہا کہ میں تمہیں ایک ایسی سرزمین کے بارے میں بتاتا ہوں جو نشیب سے بلند ہے، ٹیلے سے کم تر ہے۔ اس کی آب وہوا معتدل ہے اور وہ تمام مخلوق کے لیے عمدہ ہے۔ اور وہ حیرہ اور فرات کے درمیان کی سرزمین ہے۔

34436

(۳۴۴۳۷) حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِی زَائِدَۃَ ، عَنْ مُجَالِدٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : کَتَبَ عُمَرُ إِلَی سَعْدٍ یَوْمَ الْقَادِسِیَّۃِ : إِنِّی قَدْ بَعَثْتُ إِلَیْک أَہْلَ الْحِجَازِ وَأَہْلَ الْیَمَنِ ، فَمَنْ أَدْرَکَ مِنْہُمَ الْقِتَالَ قَبْلَ أَنْ یَتَفَقَّؤُوا ، فَأَسْہِمْ لَہُمْ۔
(٣٤٤٣٧) حضرت شعبی فرماتے ہیں کہ جنگ قادسیہ کے موقع پر حضرت عمر (رض) نے حضرت سعد کے نام ایک خط لکھا جس میں لکھا کہ میں آپ کی طرف حجاز والوں کو اور یمن والوں کو بھیج رہا ہوں، ان میں سے جو قتال کے قابل ہو اسے مال غنیمت میں سے حصہ دیجئے۔

34437

(۳۴۴۳۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا مِسْعَرٌ ، عَنْ حَبِیبِ بْنِ أَبِی ثَابِتٍ ، عَنْ نُعَیْمِ بْنِ أَبِی ہِنْدٍ ، قَالَ : قَالَ رَجُلٌ یَوْمَ الْقَادِسِیَّۃِ : اللَّہُمَّ إِنَّ حُدَیۃ سَوْدَائُ بَدِیۃٌ ؟ فَزَوِّجْنِی الْیَوْمَ مِنَ الْحُورِ الْعَیْنِ ، ثُمَّ تَقَدَّمَ فَقُتِلَ ، قَالَ : فَمَرُّوا عَلَیْہِ وَہُوَ مُعَانِقُ رَجُلٍ عَظِیمٍ۔
(٣٤٤٣٨) حضرت نعیم بن ابی ہند فرماتے ہیں کہ جنگ قادسیہ میں ایک آدمی نے دعا کی کہ اے اللہ ! میری بیوی حدیہ کالی اور دیہاتن ہے آج میری شادی موٹی آنکھوں والی حور سے کردے۔ پھر وہ میدان جنگ میں آگے بڑھا اور شہید ہوگیا۔ جب لوگوں کا اس کی نعش کے پاس سے گزر ہوا تو وہ ایک بہت بڑے پہلوان سے لپٹا ہوا تھا۔

34438

(۳۴۴۳۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا مِسْعَرٌ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاہِیمَ ، قَالَ : مَرُّوا عَلَی رَجُلٍ یَوْمَ الْقَادِسِیَّۃِ وَقَدْ قُطِعَتْ یَدَاہُ وَرِجْلاَہُ ، وَہُوَ یُفْحَصُ وَہُوَ یَقُولُ : {مَعَ الَّذِینَ أَنْعَمَ اللَّہُ عَلَیْہِمْ مِنَ النَّبِیِّینَ وَالصِّدِّیقِینَ وَالشُّہَدَائِ وَالصَّالِحِینَ وَحَسُنَ أُولَئِکَ رَفِیقًا}، قَالَ: فَقَالَ: مَا أَنْتَ یَا عَبْدَ اللہِ؟ قَالَ: أَنَا امْرُؤٌ مِنَ الأَنْصَارِ۔
(٣٤٤٣٩) حضرت سعد بن ابراہیم فرماتے ہیں کہ وہ قادسیہ کی جنگ میں ایک آدمی کے پاس سے گزرے اس کے ہاتھ اور پاؤں کاٹ دیئے گئے تھے۔ وہ قرآن مجید کی اس آیت کی تلاوت فرما رہے تھے : { مَعَ الَّذِینَ أَنْعَمَ اللَّہُ عَلَیْہِمْ مِنَ النَّبِیِّینَ وَالصِّدِّیقِینَ وَالشُّہَدَائِ وَالصَّالِحِینَ وَحَسُنَ أُولَئِکَ رَفِیقًا } ان کے پاس سے گزرنے والے ایک شخص نے پوچھا کہ آپ کون ہیں ؟ انھوں نے کہا کہ میں ایک انصاری ہوں۔

34439

(۳۴۴۴۰) حَدَّثَنَا ابْنُ إِدْرِیسَ ، عَنْ حُصَیْنٍ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَیْدَۃَ ، عَنِ الْبَرَائِ ، قَالَ : أَمَرَنِی عُمَرُ أَنْ أُنَادِیَ بِالْقَادِسِیَّۃِ : لاَ یُنْبَذُ فِی دُبَّائَ ، وَلاَ حَنْتَمٍ ، وَلاَ مُزَفَّتٍ۔
(٣٤٤٤٠) حضرت براء فرماتے ہیں کہ حضرت عمر نے مجھے حکم دیا کہ میں قادسیہ میں یہ اعلان کروں کہ کدو کے بنے ہوئے برتن، لکڑی کے برتن اور تارکول چڑھے برتن میں نبیذ نہیں بنائی جائے گی۔

34440

(۳۴۴۴۱) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ شَقِیقٍ ، قَالَ : جَائَنَا کِتَابُ أَبِی بَکْرٍ بِالْقَادِسِیَّۃِ ، وَکَتَبَ عَبْدُ اللہِ بْنُ الأَرْقَمِ۔
(٣٤٤٤١) حضرت شقیق فرماتے ہیں کہ قادسیہ میں ہمارے پاس حضرت ابوبکر (رض) کا خط آیا اور وہ حضرت عبداللہ بن ارقم نے لکھا تھا۔

34441

(۳۴۴۴۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حَدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنِ الأَسْوَدِ بْنِ قَیْسٍ الْعَبْدِیِّ ، عَنْ شِبْرِ بْنِ عَلْقَمَۃَ ، قَالَ : لَمَّا کَانَ یَوْمُ الْقَادِسِیَّۃِ قَامَ رَجُلٌ مِنْ أَہْلِ فَارِسَ فَدَعَا إِلَی الْمُبَارِزَۃِ ، فَذَکَرَ مِنْ عِظَمِہِ ، فَقَامَ إِلَیْہِ رَجُلٌ قَصِیرٌ ، یُقَالَ لَہُ : شِبْرُ بْنُ عَلْقَمَۃَ ، قَالَ : فَقَالَ لَہُ الْفَارِسِیُّ ہَکَذَا ، یَعْنِی احْتَمَلَہُ ، ثُمَّ ضَرَبَ بِہِ الأَرْضَ فَصَرَعَہُ ، قَالَ : فَأَخَذَ شِبْرٌ خِنْجَرًا کَانَ مَعَ الْفَارِسِیِّ ، فَقَالَ بِہِ فِی بَطْنِہِ ہَکَذَا ، یَعْنِی فَخَضْخَضَہُ ، قَالَ : ثُمَّ انْقَلَبَ عَلَیْہِ فَقَتَلَہُ ، ثُمَّ جَائَ بِسَلْبِہِ إِلَی سَعْدٍ ، فَقُوِّمَ بِاثْنَیْ عَشْرَ أَلْفًا ، فَنَفَلَہُ سَعْدٌ إِیَاہُ۔
(٣٤٤٤٢) حضرت شبر بن علقمہ فرماتے ہیں کہ جنگ قادسیہ میں اہل فارس کا ایک آدمی کھڑا ہوا اور اس نے مقابلے کی دعوت دی۔ اس نے اپنی بہادری کا ذکر کیا۔ پھر ایک چھوٹے قد کے آدمی جن کا نام شبر بن علقمہ تھا۔ وہ اس کی طرف آگے بڑھے، اس فارسی پہلوان نے شبر کو اٹھا کر زمین پردے مارا۔ شبر نے اس فارسی پہلوان کا خنجر پکڑا، اور اس کے پیٹ میں گھونپ دیا۔ پھر اسے مار ڈالا۔ پھر اس کا سامان لے کر حضرت سعد (رض) کے پاس آئے۔ حضرت سعد (رض) نے بارہ ہزار درہم کی قیمت لگائی اور اسے مال غنیمت کے طور پردے دیا۔

34442

(۳۴۴۴۳) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِِ ، عَنِ الأَسْوَدِ بْنِ قَیْسٍ ، عَنْ شِبْرِ بْنِ عَلْقَمَۃَ ، قَالَ : بَارَزْتُ رَجُلاً یَوْمَ الْقَادِسِیَّۃِ مِنَ الأَعَاجِمِ فَقَتَلْتُہُ ، وَأَخَذْتُ سَلَبَہُ ، فَأَتَیْتُ بِہِ سَعْدًا ، فَخَطَبَ سَعْدٌ أَصْحَابَہُ ، ثُمَّ قَالَ : ہَذَا سَلَبُ شِبْرٍ ، وَہُوَ خَیْرٌ مِنَ اثْنَیْ عَشَرَ أَلْفَ دِرْہَمٍ ، وَإِنَّا قَدْ نَفَلْنَاہُ إِیَّاہُ۔
(٣٤٤٤٣) حضرت شبر بن علقمہ فرماتے ہیں کہ میں نے جنگ قادسیہ میں ایک عجمی سے لڑائی کی اور اسے قتل کردیا۔ پھر میں اس کا سامان لے کر حضرت سعد بن ابی وقاص کے پاس آیا ۔ حضرت سعد نے اپنے ساتھیوں میں اعلان کرتے ہوئے کہا کہ یہ شبر کالایا ہوا سامان ہے اور بارہ ہزار درہم سے بہتر ہے۔ اور ہم نے اسے مال غنیمت کے طور پردے دیا۔

34443

(۳۴۴۴۴) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ حُصَیْنٍ ، عَمَّنْ شَہِدَ الْقَادِسِیَّۃَ ، قَالَ : بَیْنَا رَجُلٌ یَغْتَسِلُ إِذْ فَحَصَ لَہُ الْمَائُ التُّرَابَ عَنْ لَبِنَۃٍ مِنْ ذَہَبٍ ، فَأَتَی سَعْدًا فَأَخْبَرَہُ ، فَقَالَ : اجْعَلْہَا فِی غَنَائِمِ الْمُسْلِمِینَ۔
(٣٤٤٤٤) حضرت حصین جنگ قادسیہ میں شریک ہونے والے ایک مجاہد سے نقل کرتے ہیں کہ ایک آدمی غسل کررہا تھا کہ اسے پانی میں سونے کی ایک اینٹ ملی، وہ اس نے لا کر حضرت سعد کو دے دی۔ حضرت سعد نے فرمایا کہ اسے مال غنیمت میں رکھ دو ۔

34444

(۳۴۴۴۵) حَدَّثَنَا عَبَّادٌ ، عَنْ حُصَیْنٍ ، عَمَّنْ أَدْرَکَ ذَاکَ ؛ أَنَّ رَجُلاً اشْتَرَی جَارِیَۃً مِنَ الْمَغْنَمِ ، قَالَ : فَلَمَّا رَأَتْ أَنَّہَا قَدْ خَلُصَتْ لَہُ ، أَخْرَجَتْ حُلِیًّا کَثِیرًا کَانَ مَعَہَا ، قَالَ : فَقَالَ الرَّجُلُ : مَا أَدْرِی مَا ہَذَا ، حَتَّی آتِیَ سَعْدًا فَأَسْأَلَہُ ، فَقَالَ : اجْعَلْہُ فِی غَنَائِمِ الْمُسْلِمِینَ۔
(٣٤٤٤٥) حضرت حصین جنگ قادسیہ میں شریک ہونے والے ایک مجاہد سے نقل کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے مال غنیمت سے ایک باندی خریدی۔ جب باندی نے دیکھا کہ وہ اس کی ہوچکی ہے تو اس نے بہت سا زیور نکال کر اسے دے دیا۔ اس آدمی نے کہا کہ میں نہیں جانتا کہ اس زیور کا کیا حکم ہے۔ پھر وہ حضرت سعد کے پاس لے کر آیا اور اس کے بارے میں سوال کیا تو حضرت سعد نے فرمایا کہ اسے مسلمانوں کے مال غنیمت میں رکھ دو ۔

34445

(۳۴۴۴۶) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الشَّیْبَانِیِّ ، عَنْ حَبِیبِ بْنِ أَبِی ثَابِتٍ ، عَنِ الأَسْوَدِ بْنِ مَخْرَمَۃَ ، قَالَ : بَاعَ سَعْدٌ طَسْتًا بِأَلْفِ دِرْہَمٍ مِنْ رَجُلٍ مِنْ أَہْلِ الْحِیرَۃِ ، فَقِیلَ لَہُ : إِنَّ عُمَرَ بَلَغَہُ ہَذَا عَنْک فَوَجَدَ عَلَیْک ، قَالَ : فَلَمْ یَزَلْ یَطْلُبُ إِلَی النَّصْرَانِیِّ ، حَتَّی رَدَّ عَلَیْہِ الطَّسْتَ وَأَخَذَ الأَلْفَ۔
(٣٤٤٤٦) حضرت اسود بن مخرمہ فرماتے ہیں کہ حضرت سعد نے اہل حیرہ کے ایک آدمی سے ایک طشت ایک ہزار درہم کا خریدا۔ انھیں بتایا گیا کہ حضرت عمر کو اس بات کی اطلاع ہوئی ہے اور وہ آپ پر سخت ناراض ہیں۔ اس کے بعد حضرت سعد اس نصرانی کو تلاش کرتے رہے اور اسے ڈھونڈ کر طشت اسے واپس دیا اور ایک ہزار درہم حاصل کئے۔

34446

(۳۴۴۴۷) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ، قَالَ: حدَّثَنَا الصَّبَّاحُ بْنُ ثَابِتٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَشْیَاخُ الْحَیِّ، قَالَ جَرِیرُ بْنُ عَبْدِاللہِ: لَقَدْ أَتَی عَلَی نَہْرِ الْقَادِسِیَّۃِ ثَلاَثُ سَاعَاتٍ مِنَ النَّہَارِ، مَا یَجْرِی إِلاَّ بِالدَّمِ، مِمَّا قَتَلْنَا مِنَ الْمُشْرِکِینَ۔
(٣٤٤٤٧) حضرت جریر بن عبداللہ فرماتے ہیں کہ جنگ قادسیہ میں ایک دن قادسیہ کے دریا میں تین گھنٹے تک پانی کی جگہ خون بہتا رہا اور یہ ان مشرکوں کا خون تھا جنہیں ہم نے قتل کیا تھا۔

34447

(۳۴۴۴۸) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ، قَالَ: حدَّثَنَا حَنَشُ بْنُ الْحَارِثِ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبِی یَذْکُرُ ، قَالَ: لَمَّا قَدِمْنَا مِنَ الْیَمَنِ نَزَلْنَا الْمَدِینَۃَ ، فَخَرَجَ عَلَیْنَا عُمَرُ ، فَطَافَ فِی النَّخْعِ وَنَظَرَ إِلَیْہِمْ ، فَقَالَ: یَا مَعْشَرَ النَّخْعِ ، إِنِّی أَرَی السَّرْو فِیکُمْ مُتَرَبِّعًا، فَعَلَیْکُمْ بِالْعِرَاقِ وَجُمُوعِ فَارِسَ، فَقُلْنَا: یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ، لاَ، بَلَ الشَّامُ نُرِیدُ الْہِجْرَۃَ إِلَیْہَا ، قَالَ : لاَ ، بَلَ الْعِرَاقُ ، فَإِنِّی قَدْ رَضِیتُہَا لَکُمْ ، قَالَ : حَتَّی قَالَ بَعْضُنَا : یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ ، لاَ إِکْرَاہَ فِی الدِّینِ ، قَالَ : فَلاَ إِکْرَاہَ فِی الدِّینِ ، عَلَیْکُمْ بِالْعِرَاقِ ، قَالَ : فِیہَا جُوعُ الْعَجَمِ ، وَنَحْنُ أَلْفَانِ وَخَمْسُ مِئَۃٍ ، قَالَ : فَأَتَیْنَا الْقَادِسِیَّۃَ ، فَقُتِلَ مِنَ النَّخْعِ وَاحِد ، وَکَذَا وَکَذَا رَجُلاً مِنْ سَائِرِ النَّاسِ ثَمَانُونَ ، فَقَالَ عُمَرُ : مَا شَأْنُ النَّخْعِ ، أُصِیبُوا مِنْ بَیْنِ سَائِرِ النَّاسِ ؟ أَفَرَّ النَّاسُ عَنْہُمْ ؟ قَالُوا : لاَ ، بَلْ وَلُوا عُظْمَ الأَمْرِ وَحْدَہُمْ۔
(٣٤٤٤٨) حضرت حارث فرماتے ہیں کہ جب ہم یمن سے واپس آئے اور مدینہ منور ہ ٹھہرے تو حضرت عمر (رض) ہمارے پاس تشریف لائے۔ آپ نے قبیلہ نخع والوں میں ایک چکر لگایا اور ان سے فرمایا کہ اے نخع والو ! میں تم میں عزت کو اترتے ہوئے دیکھ رہا ہوں۔ تم عراق یافارس چلے جاؤ۔ انھوں نے کہا کہ اے امیر المومنین ! ہم تو شام کی طرف ہجرت کرنا چاہتے ہیں۔ حضرت عمر نے فرمایا کہ نہیں عراق ٹھیک ہے۔ میں تمہارے لیے عراق سے راضی ہوں۔ ہم میں سے بعض نے کہا کہ اے امیر المومنین ! دین میں سختی نہیں ہے۔ حضرت عمر نے فرمایا کہ دین میں سختی نہیں ہے تمہارے لیے عراق ٹھیک ہے۔ اس میں عجم کی جماعتیں ہیں اور ہم صرف اڑھائی ہزار ہیں۔ پھر ہم قادسیہ آئے اور نخعی لوگوں میں سے صرف ایک آدمی شہید ہوا جبکہ باقی لوگوں میں سے اسی افراد مارے گئے۔ حضرت عمر کو معلوم ہوا تو آپ نے فرمایا نخعی لوگوں نے کیا کیا کہ باقی لوگوں میں سے وہی شہید ہوئے، کیا لوگ انھیں چھوڑ کر بھاگ گئے تھے۔ لوگوں نے بتایا نہیں بلکہ وہ مشکل کاموں میں اپنی مرضی سے کودے تھے۔

34448

(۳۴۴۴۹) حَدَّثَنَا ابْنُ إِدْرِیسَ ، عَنْ حَنَشِ بْنِ الْحَارِثِ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : مَرَّتِ النَّخْعُ بِعُمَرَ ، فَأَتَاہُمْ فَتَصَفَّحَہُمْ ، وَہُمْ أَلْفَانِ وَخَمْسُ مِئَۃٍ ، وَعَلَیْہِمْ رَجُلٌ ، یُقَالَ لَہُ : أَرْطَاۃُ ، فَقَالَ : إِنِّی لأَرَی السَّرْو فِیکُمْ مُتَرَبِّعًا ، سِیرُوا إِلَی إِخْوَانِکُمْ مِنْ أَہْلِ الْعِرَاقِ ، فَقَالُوا : لاَ ، بَلْ نَسِیرُ إِلَی الشَّامِ ، قَالَ : سِیرُوا إِلَی الْعِرَاقِ ، فَقَالُوا : لاَ إِکْرَاہَ فِی الدِّینِ ، فَقَالَ : سِیرُوا إِلَی الْعِرَاقِ ، فَلَمَّا قَدِمُوا الْعِرَاقَ جَعَلُوا یَحْبِسُونَ الْمہْرَ فَیَذْبَحُونَہُ ، فَکَتَبَ إِلَیْہِمْ : أَصْلِحُوا ، فَإِنَّ فِی الأَمْرِ مَعْقِلاً ، أَوْ نَفْسًا۔
(٣٤٤٤٩) حضرت حارث فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نخعی لوگوں کے پاس سے گزرے اور انھیں گنا تو وہ اڑھائی ہزار تھے۔ ان کے سربراہ کا نام ارطاۃ تھا۔ حضرت عمر نے فرمایا کہ میں تم میں عزت کو اترتے ہوئے دیکھتا ہوں تم عراق میں اپنے بھائیوں کے پاس چلے جاؤ۔ انھوں نے کہا کہ نہیں ہم تو شام کی طرف جائیں گے۔ حضرت عمر نے فرمایا کہ تم عرا ق کی طرف جاؤ۔ انھوں نے کہا کہ دین میں زبردستی نہیں ہے۔ حضرت عمر نے فرمایا کہ تم عراق کی طرف جاؤ۔ پس وہ عراق کی طرف گئے تو انھوں نے وہاں گھوڑے کے بچے کو پکڑ کر ذبح کرنا شروع کردیا۔ حضرت عمر نے انھیں خط لکھا : تم درست ہو جاؤ۔ اس لیے کہ ایسے معاملہ میں جان اہم ہے۔

34449

(۳۴۴۵۰) وَسَمِعْت أَبَا بَکْرِ بْنَ عَیَّاشٍ ، یَقُولُ : کَانَتْ بَنُو أَسَدٍ یَوْمَ الْقَادِسِیَّۃِ أَرْبَعُ مِئَۃٍ ، وَکَانَتْ بَجِیلَۃُ ثَلاَثَۃَ آلاَفٍ ، وَکَانَتِ النَّخْعُ أَلْفَیْنِ وَثَلاَثُ مِئَۃٍ ، وَکَانَتْ کِنْدَۃُ نَحْوَ النَّخْعِ ، وَکَانُوا کُلُّہُمْ عَشَرَۃَ آلاَفٍ ، وَلَمْ یَکُنْ فِی الْقَوْمِ أَحَدٌ أَقَلَّ مِنْ مُضَرَ۔
(٣٤٤٥٠) حضرت ابوبکر بن عیاش فرماتے ہیں کہ جنگ قادسیہ میں بنو اسد چار سو، بجیلہ تین ہزار، نخعی دو ہزار تین سو، اور کندہ والے بھی اتنے ہی تھے۔ یہ سب لوگ کل دس ہزار تھے اور لوگوں میں قبیلہ مضر سے کم کوئی نہ تھا۔

34450

(۳۴۴۵۱) سَمِعْتُ أَبَا بَکْرٍ ؛ أَنَّ عُمَرَ فَضَّلَہُمْ ، فَأَعْطَی بَعْضَہُمْ أَلْفَیْنِ ، وَبَعْضَہُمْ سِتَّ مِئَۃٍ۔
(٣٤٤٥١) حضرت ابوبکر فرماتے ہیں کہ حضرت عمر نے انھیں زیادہ دیا بعض کو دو ہزار اور بعض کو چھ سو۔

34451

(۳۴۴۵۲) وَذَکَرَ أَبُو بَکْرِ بْنُ عَیَّاشٍ ؛ فِی قَوْلِہِ: {فَسَوْفَ یَأْتِی اللَّہُ بِقَوْمٍ یُحِبُّہُمْ وَیُحِبُّونَہُ} ، قَالَ: أَہْلُ الْقَادِسِیَّۃِ۔
(٣٤٤٥٢) حضرت ابوبکر بن عیاش قرآن مجید کی آیت { فَسَوْفَ یَأْتِی اللَّہُ بِقَوْمٍ یُحِبُّہُمْ وَیُحِبُّونَہُ } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اس سے مراد قادسیہ والے ہیں۔

34452

(۳۴۴۵۳) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ سَعْدٍ ، عَنْ أَبِی بَکْرِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عُتْبَۃَ ، قَالَ : کَتَبَ عُمَرُ إِلَی سَعْدٍ وَغَیْرِہِ مِنْ أُمَرَائِ الْکُوفَۃِ : أَمَّا بَعْدُ ، فَقَدْ جَائَنِی مَا بَیْنَ الْعُذَیْبِ وَحُلْوَانَ ، وَفِی ذَلِکُمْ مَا یَکْفِیکُمْ إِنَ اتَّقَیْتُمْ وَأَصْلَحْتُمْ، قَالَ : وَکَتَبَ : اجْعَلُوا بَیْنَکُمْ وَبَیْنَ الْعَدُوِّ مَفَازَۃً۔
(٣٤٤٥٣) حضرت ابوبکر بن عمرو بن عتبہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر نے حضرت سعد اور کوفہ کے دوسرے امراء کو خط لکھا کہ میرے پاس عذیب اور حلوان کے درمیان کا علاقہ آیا ہے۔ یہ تمہارے لیے کافی ہے اگر تم تقویٰ اختیار کرو اور درستی سے چلو۔ اور اپنے اور اپنے دشمنوں کے درمیان خلا رکھو۔

34453

(۳۴۴۵۴) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا مِسْعَرٌ ، عَنْ عَوْنٍ بن عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : مُرَّ عَلَی رَجُلٍ یَوْمَ الْقَادِسِیَّۃِ وَقَدِ انْتَثَرَ بَطْنُہُ ، أَوْ قَصَبُہُ ، قَالَ لِبَعْضِ مَنْ مَرَّ عَلَیْہِ : ضُمَّ إِلَیَّ مِنْہُ ، أَدْنُو قِیدَ رُمْحٍ ، أَوْ رُمْحَیْنِ فِی سَبِیلِ اللہِ ، قَالَ : فَمَرَّ عَلَیْہِ وَقَدْ فَعَلَ۔
(٣٤٤٥٤) حضرت عون بن عبداللہ فرماتے ہیں کہ جنگ قادسیہ میں ایک مسلمان مجاہد کاپیٹ پھٹ گیا تھا اور اس کی انتڑیاں باہرنکل آئی تھیں۔ اس نے اپنے پاس سے گزرنے والے ایک شخص سے کہا کہ میری انتڑیوں کو اندرکردو اور مجھے چلاؤ تاکہ میں اللہ کے راستے میں تھوڑا اور آگے بڑھ سکوں۔ چنانچہ اس آدمی نے ایسا ہی کیا۔

34454

(۳۴۴۵۵) حَدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، قَالَ : رَأَیْتُ أَصْحَابَ عُبَیْدٍ یَشْرَبُونَ نَبِیذَ الْقَادِسِیَّۃِ ، وَفِیہِمْ عَمْرُو بْنُ مَیْمُونٍ۔
(٣٤٤٥٥) حضرت ابو اسحاق فرماتے ہیں کہ میں نے عبید کے ساتھیوں کو دیکھا کہ وہ قادسیہ کی نبیذ پی رہے تھے اور ان میں عمرو بن میمون بھی تھے۔

34455

(۳۴۴۵۶) حَدَّثَنَا حُمَیْدٌ ، عَنْ حَسَنٍ ، عَنْ مُطَرِّفٍ ، عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِہِ ، قَالَ : اشْتَرَی طَلْحَۃُ بْنُ عُبَیْدِ اللہِ أَرْضًا مِنَ نَشَاسْتَجُ ، نَشَاسْتَجُ بَنِی طَلْحَۃَ ، ہَذَا الَّذِی عِنْدَ السَّیْلَحِینِ ، فَأَتَی عُمَرُ ، فَذَکَرَ ذَلِکَ لَہُ ، فَقَالَ : إِنِّی اشْتَرَیْت أَرْضًا مُعْجَبَۃً ، فَقَالَ عُمَرُ : مِمَّنِ اشْتَرَیْتَہَا ؟ مِنْ أَہْلِ الْکُوفَۃِ ؟ اشْتَرَیْتَہَا مِنْ أَہْلِ الْقَادِسِیَّۃِ ؟ قَالَ طَلْحَۃُ : وَکَیْفَ اشْتَرَیْتُہَا مِنْ أَہْلِ الْقَادِسِیَّۃِ کُلِّہِمْ ، قَالَ : إِنَّک لَمْ تَصْنَعْ شَیْئًا ، إِنَّمَا ہِیَ فَیْئٌ۔
(٣٤٤٥٦) حضرت مطرف نقل کرتے ہیں کہ حضرت طلحہ بن عبید اللہ نے کوفہ میں سیلحین سے زمین کا ایک ٹکڑا خریدا۔ پھر وہ حضرت عمر کے پاس آئے اور ان سے اس کا تذکرہ کیا اور فرمایا کہ میں نے ایک عمدہ اور خوبصورت زمین خریدی ہے۔ حضرت عمر نے پوچھا کہ تم نے کس سے خریدی ہے ؟ کوفہ والوں سے ؟ کیا تم نے قادسیہ والوں سے خریدی ہے ؟ حضرت طلحہ نے کہا کہ میں نے تمام قادسیہ والوں سے خریدی ہے۔ حضرت عمر نے فرمایا کہ تم نے کچھ نہیں کیا یہ تو مال غنیمت ہے۔

34456

(۳۴۴۵۷) حَدَّثَنَا حُمَیْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنِ الْحَسَنِ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَمَّنْ یَذْکُرُ ؛ أَنَّ أَہْلَ الْقَادِسِیَّۃِ رَغُمُوا الأَعَاجِمَ حَتَّی قَاتَلُوا ثَلاَثَۃَ أَیَّامٍ۔
(٣٤٤٥٧) حضرت لیث فرماتے ہیں کہ قادسیہ کے مجاہدین نے عجمیوں کو مقابلے کی دعوت دی اور ان سے تین دن تک لڑائی کی۔

34457

(۳۴۴۵۸) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ ہِلاَلِ بْنِ یَِسَافٍ ، عَنْ رَبِیعِ بْنِ عُمَیْلَۃَ ، عَنْ حُذَیْفَۃَ ، قَالَ : اخْتَلَفَ رَجُلٌ مِنْ أَہْلِ الْکُوفَۃِ وَرَجُلٍ مِنْ أَہْلِ الشَّامِ فَتَفَاخَرَا ، فَقَالَ الْکُوفِیُّ: نَحْنُ أَصْحَابُ یَوْمِ الْقَادِسِیَّۃِ، وَیَوْمِ کَذَا وَکَذَا ، وَقَالَ الشَّامِیُّ : نَحْنُ أَصْحَابُ یَوْمِ الْیَرْمُوکِ ، وَیَوْمِ کَذَا وَیَوْمِ کَذَا ، فَقَالَ حُذَیْفَۃُ: کِلاَکُمَا لَمْ یَشْہَدْہُ اللَّہُ ہُلْکَ عَادٍ ، وَثُمَّودَ ، وَلَمْ یُؤَامِرَہُ اللَّہُ فِیہِمَا إِذْ أَہْلَکَہُمَا ، وَمَا مِنْ قَرْیَۃٍ أَحْرَی أَنْ تَدْفَعَ عَظِیمَۃً مِنْہَا ، یَعْنِی الْکُوفَۃَ۔
(٣٤٤٥٨) حضرت ربیع بن عمیلہ فرماتے ہیں کہ کوفہ اور شام کے دو آدمیوں کا باہم مناظرہ ہوا، کوفی نے کہا کہ ہم قادسیہ کی جنگ میں شریک ہونے والے ہیں اور فلاں فلاں لڑائی لڑنے والے ہیں۔ شامی نے کہا کہ ہم نے یرموک کی لڑائی لڑی ہے اور فلاں فلاں لڑائی میں شریک ہوئے ہیں۔ حضرت حذیفہ نے فرمایا کہ تم میں سے کسی نے وہ وقت نہیں دیکھا جب اللہ تعالیٰ نے قوم عاد اور قوم ثمودکو ہلاک کیا تھا۔ جب اللہ تعالیٰ نے انھیں ہلاک کیا تو ان کی ایک دوسرے پر افضلیت کو نہیں دیکھا تھا۔ کوفہ کی بستی سے بڑھ کر کوئی بستی ایسی نہیں جسے کوئی بڑی ذمہ داری سونپی جائے۔

34458

(۳۴۴۵۹) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا أَبُو عَوَانَۃَ ، عَنْ جَرِیرِ بْنِ رِیَاحٍ ، عَنْ أَبِیہِ ؛ أَنَّہُمْ أَصَابُوا قَبْرًا بِالْمَدَائِنِ ، فَوَجَدُوا فِیہِ رَجُلاً عَلَیْہِ ثِیَابٌ مَنْسُوجَۃٌ بِالذَّہَبِ ، وَوَجَدُوا مَعَہُ مَالاً ، فَأَتَوْا بِہِ عَمَّارُ بْنُ یَاسِرٍ ، فَکَتَبَ فِیہِ إِلَی عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ ، فَکَتَبَ إِلَیْہِ عُمَرُ : أَنْ أَعْطِہِمْ ، وَلاَ تَنْتَزِعْہُ۔
(٣٤٤٥٩) حضرت ریاح فرماتے ہیں کہ مسلمان مجاہدین کو مدائن میں ایک قبر ملی، جس میں ایک آدمی تھا جس کے بدن پر سونے کی تاروں والے کپڑے اور بہت سا مال تھا۔ مجاہدین اسے حضرت عمار بن یاسر کے پاس لائے۔ حضرت عمار نے اس بارے میں حضرت عمر بن خطاب کو خط لکھا۔ حضرت عمر نے انھیں حکم دیا کہ یہ سارا مال مجاہدین کو دے دو ۔

34459

(۳۴۴۶۰) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنِ الشَّیْبَانِیِّ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عُبَیْدِ اللہِ ؛ أَنَّ عُمَرَ اسْتَعْمَلَ السَّائِبَ بْنَ الأَقْرَعِ عَلَی الْمَدَائِنِ ، فَبَیْنَمَا ہُوَ فِی مَجْلِسِہِ ، إِذْ أُتِیَ بِتِمْثالٍ مِنْ صُفْرٍ کَأَنَّہُ رَجُلٌ قَائِلَ بِیَدَیْہِ ہَکَذَا ، وَبَسَطَ یَدَیْہِ وَقَبَضَ بَعْضَ أَصَابِعِہِ ، فَقَالَ : ہَذَا لِی ، ہَذَا مِمَا أَفَائَ اللَّہُ عَلَیَّ ، فَکَتَبَ فِیہِ إِلَی عُمَرَ ، فَقَالَ عُمَرُ : أَنْتَ عَامِلٌ مِنْ عُمَّالِ الْمُسْلِمِینَ ، فَاجْعَلْہُ فِی بَیْتِ مَالِ الْمُسْلِمِینَ۔
(٣٤٤٦٠) حضرت محمد بن عبید اللہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر نے سائب بن اقرع کو مدائن کا حاکم بنایا۔ ایک دن وہ اپنی مجلس میں بیٹھے تھے کہ ان کے پاس تانبے کا ایک تھال لایا گیا جو آدمی کے ہاتھ کی شکل کا بنا ہوا تھا۔ سائب بن اقرع نے اس تھال میں ہاتھ ڈالا اور ایک مٹھی بھر کر کہا کہ یہ میرا ہے یہ اللہ نے مجھے عطا کیا ہے۔ پھر انھوں نے اس بارے میں حضرت عمر کو خط لکھا تو حضرت عمر نے فرمایا کہ تم تو محض مسلمانوں کے ایک گورنر ہو، یہ سب کچھ مسلمانوں کے بیت المال میں جمع کرادو۔

34460

(۳۴۴۶۱) حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّیَالِسِیُّ ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَۃَ ، عَنْ سِمَاکٍ ، عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ حُمَیْدٍ ؛ أَنَّ عَمَّارًا أَصَابَ مَغْنَمًا ، فَقَسَّمَ بَعْضَہُ وَکَتَبَ یَعْتَذِرُ إِلَی عُمَرَ یُشَاوِرُہُ ، قَالَ : یُبَایِعُ النَّاسَ إِلَی قُدُومِ الرَّاکِبِ۔
(٣٤٤٦١) حضرت نعمان بن حمید فرماتے ہیں کہ حضرت عمار کو کچھ مال غنیمت ملا اور اس کا کچھ حصہ آپ نے تقسیم کردیا۔ پھر انھوں نے حضرت عمر سے معذرت کرنے اور مشورہ لینے کے لیے حضرت عمر کو خط لکھا۔ آپ نے فرمایا کہ سوار کے آنے تک لوگوں کو روکے رکھو۔

34461

(۳۴۴۶۲) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا إِسْمَاعِیلُ ، عَنْ شِبْلِ بْنِ عَوْفٍ : کَانَ مِنْ أَہْلِ الْقَادِسِیَّۃِ ، وَکَانَ یُصَفِّرُ لِحْیَتَہُ۔
(٣٤٤٦٢) حضرت اسماعیل فرماتے ہیں کہ شبل بن عوف اہل قادسیہ میں سے ہیں اور داڑھی کو زرد کرتے تھے۔

34462

(۳۴۴۶۳) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ سِمَاکٍ ، عَنْ مِلْحَانَ بْنِ سُلَیْمَانَ بْنِ ثَرْوَانَ ، قَالَ : کَانَ سَلْمَانُ أَمِیرَ الْمَدَائِنِ ، فَإِذَا کَانَ یَوْمُ الْجُمُعَۃِ ، قَالَ : یَا زَیْدُ ، قُمْ فَذَکِّرْ قَوْمَک۔
(٣٤٤٦٣) حضرت سلمان مدائن کے امیر تھے۔ جمعے کے دن وہ فرماتے کہ اے زید اٹھو اور اپنی قوم کو نصیحت کرو۔

34463

(۳۴۴۶۴) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حَدَّثَنَا أَبُو ہِلاَلٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ : کَانَ عَلَی ابْنِ أُمِّ مَکْتُومٍ یَوْمَ الْقَادِسِیَّۃِ دِرْعٌ سَابِغٌ۔
(٣٤٤٦٤) حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ جنگ قادسیہ میں ابن ام مکتوم پر ایک لمبی چادر تھی۔

34464

(۳۴۴۶۵) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا حُصَیْنٌ ، عَنْ مُحَارِبِ بْنِ دِثَارٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : اخْتَلَفْتُ أَنَا وَسَعْدٌ بِالْقَادِسِیَّۃِ فِی الْمَسْحِ عَلَی الْخُفَّیْنِ۔
(٣٤٤٦٥) حضرت ابن عمر فرماتے ہیں کہ جنگ قادسیہ میں میرے اور حضرت سعد کے درمیان موزوں پر مسح کے بارے میں اختلاف ہوا تھا۔

34465

(۳۴۴۶۶) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَنْ زَائِدَۃَ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، قَالَ : فَرَّ رَجُلٌ مِنَ الْقَادِسِیَّۃِ ، أَوْ مِہْرَانَ ، أَوْ بَعْضِ تِلْکَ الْمُشَاہَدِ فَأَتَی عُمَرَ ، فَقَالَ : إِنِّی قَدْ ہَلَکْتُ ، فَرَرْتُ ، فَقَالَ عُمَرُ : کَلاَّ ، أَنَا فِئَتُک۔
(٣٤٤٦٦) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ ایک آدمی قادسیہ یا مہران کی جنگ سے فرار ہوا اور حضرت عمر کے پاس آیا اور اس نے عرض کیا کہ میں ہلاک ہوگیا، میں میدانِ جنگ سے فرار ہوگیا۔ حضرت عمر نے اس سے فرمایا ہرگز نہیں میں تمہاری مدد کروں گا۔

34466

(۳۴۴۶۷) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ الأَسَدِیُّ ، قَالَ : حدَّثَنَا الْوَلِیدُ ، عَنْ سِمَاکِ بْنِ حَرْبٍ ، قَالَ : أَدْرَکْتُ أَلْفَیْنِ مِنْ بَنِی أَسَدٍ قَدْ شَہِدُوا الْقَادِسِیَّۃَ فِی أَلْفَیْنِ أَلْفَیْنِ ، وَکَانَتْ رَایَاتِہمْ فِی یَدِ سِمَاکٍ صَاحِبِ الْمَسْجِدِ۔
(٣٤٤٦٧) حضرت سماک بن حرب فرماتے ہیں کہ بنو اسد کے دو ہزار لوگ قادسیہ کی لڑائی میں شریک تھے اور ان کے جھنڈے مسجد والے سماک کے ہاتھ میں تھے۔

34467

(۳۴۴۶۸) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ عَاصِمٍ الأَحْوَلِ ، قَالَ : سَأَلَ صُبَیْحٌ أَبَا عُثْمَانَ النَّہْدِیَّ وَأَنَا أَسْمَعُ، فَقَالَ لَہُ : ہَلْ أَدْرَکْتَ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ؟ قَالَ : نَعَمْ ، أَسْلَمْتُ عَلَی عَہْدِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَأَدَّیْتُ إِلَیْہِ ثَلاَثَ صَدَقَاتٍ ، وَلَمْ أَلْقَہُ ، وَغَزَوْتُ عَلَی عَہْدِ عُمَرَ غَزَوَاتٍ ، شَہِدْتُ فَتْحَ الْقَادِسِیَّۃِ، وَجَلُولاَئَ ، وَتُسْتَرَ ، وَنَہَاوَنْد ، وَالْیَرْمُوکَ ، وَآذَرْبَیْجَانَ ، وَمِہْرَانَ ، وَرُسْتُمَ ، فَکُنَّا نَأْکُلُ السَّمْنَ وَنَتْرُکُ الْوَدَکَ ، فَسَأَلْتُہُ عَنِ الظُّرُوفِ ؟ فَقَالاَ : لَمْ نَکُنْ نَسْأَلُ عَنْہَا ، یَعْنِی طَعَامَ الْمُشْرِکِینَ۔ (ابن سعد ۹۷۔ مسند ۶۲۸)
(٣٤٤٦٨) حضرت عاصم احول فرماتے ہیں کہ صبیح نے ابو عثمان نہدی سے سوال کیا کہ کیا آپ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا زمانہ دیکھا ہے ؟ انھوں نے کہا کہ ہاں میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں اسلام لایا تھا اور تین مرتبہ آپ کی طرف زکوۃ بھی بھجوائی تھی، لیکن میری حضور سے ملاقات نہیں ہوئی۔ میں نے حضرت عمر (رض) کے زمانے میں مختلف لڑائیوں میں حصہ لیا، میں قادسیہ، جلولائ، تستر، نہاوند، یرموک، آذربائیجان، مہران اور رستم کی لڑائی میں شریک رہا۔ ہم چربی کھایا کرتے تھے اور تیل چھوڑ دیا کرتے تھے۔ میں نے ان سے مشرکین کے برتنوں میں کھانے کے بارے میں سوال کیا تو انھوں نے فرمایا کہ ہم ان کے بارے میں سوال نہیں کیا کرتے تھے۔

34468

(۳۴۴۶۹) حَدَّثَنَا عَائِذُ بْنُ حَبِیبٍ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الْحَکَمِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : ضُرِبَ یَوْمُ الْقَادِسِیَّۃِ لِلْعَبِیدِ بِسِہَامِہِمْ کَمَا ضُرِبَ لِلأَحْرَارِ۔
(٣٤٤٦٩) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں قادسیہ میں آزاد لوگوں کی طرح غلاموں کو بھی حصہ دیا گیا تھا۔

34469

(۳۴۴۷۰) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، عَنْ جَعْفَرٍ ، عَنْ مَیْمُونٍ ، قَالَ : لَمَّا جَائَ وَفْدُ الْقَادِسِیَّۃِ حَبَسَہُمْ ثَلاَثَۃَ أَیَّامٍ لَمْ یَأْذَنْ لَہُمْ ، ثُمَّ أَذَّنَ لَہُمْ ، قَالَ : تَقُولُونَ : الْتَقَیْنَا فَہَزَمْنَا ، بَلِ اللَّہُ الَّذِی ہَزَمَ وَفَتَحَ۔
(٣٤٤٧٠) حضرت میمون فرماتے ہیں کہ جب قادسیہ کا وفد آیا تو حضرت عمر (رض) نے تین دن تک انھیں ملاقات کی اجازت نہ دی، پھر انھیں اجازت دی تو فرمایا کہ تم کہتے ہو کہ ہم لڑے اور ہم نے دشمن کو شکست دی حالانکہ فتح اور شکست دینے والا تو اللہ ہے۔

34470

(۳۴۴۷۱) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا الصَّلْتُ بْنُ بَہْرَامَ ، قَالَ : حَدَّثَنَا جمیعُ بْنُ عُمَیْرٍ التَّیْمِیُّ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ ، قَالَ : شَہِدْتُ جَلُولاَئَ فَابْتَعْتُ مِنَ الْغَنَائِمِ بِأَرْبَعِینَ أَلْفًا ، فَقَدِمْتُ بِہَا عَلَی عُمَرَ ، فَقَالَ : مَا ہَذَا ؟ قُلْتُ : ابْتَعْتُ مِنَ الْغَنَائِمِ بِأَرْبَعِینَ أَلْفًا ، فَقَالَ : یَا صَفِیَّۃُ ، احْتَفِظِی بِمَا قَدِمَ بِہِ عَبْدُ اللہِ بْنُ عُمَرَ ، عَزَمْتُ عَلَیْک أَنْ تُخْرِجِی مِنْہُ شَیْئًا ، قَالَتْ : یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ ، وَإِنْ کَانَ غَیْرَ طَیِّبٍ ؟ قَالَ : ذَاکَ لَکِ۔ قَالَ: فَقَالَ لِعَبْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ : أَرَأَیْتَ لَوِ اُنْطُلِقَ بِی إِلَی النَّارِ ، أَکُنْتَ مُفْتَدِیِّ ؟ قُلْتُ : نَعَمْ ، وَلَوْ بِکُلِّ شَیْئٍ أَقْدِرُ عَلَیْہِ ، قَالَ : فَإِنِّی کَأَنَّنِی شَاہِدُکَ یَوْمَ جَلُولاَئَ وَأَنْتَ تُبَایِعُ ، وَیَقُولُونَ : ہَذَا عَبْدُ اللہِ بْنُ عُمَرَ صَاحِبُ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَابْنُ أَمِیرِ الْمُؤْمِنِینَ ، وَأَکْرَمُ أَہْلِہِ عَلَیْہِ ، وَأَنْتَ کَذَلِکَ ، قَالَ : فَإِنْ یُرَخِّصُوا عَلَیْکَ بِمِئَۃٍ ، أَحَبَّ إِلَیْہِمْ مِنْ أَنْ یُغْلُوا عَلَیْکَ بِدِرْہَمٍ ، وَإِنِّی قَاسِمٌ ، وَسَأُعْطِیکَ مِنَ الرِّبْحِ أَفْضَلَ مَا یَرْبَحُ رَجُلٌ مِنْ قُرَیْشٍ ، أُعْطِیک رِبْحَ الدِّرْہَمِ دِرْہَمًا ، قَالَ : فَخَلَّی عَلَیَّ سَبْعَۃَ أَیَّامٍ ، ثُمَّ دَعَا التُّجَّارَ فَبَاعَہُ بِأَرْبَعِ مِئَۃِ أَلْفٍ ، فَأَعْطَانِی ثَمَانِینَ أَلْفًا ، وَبَعَثَ بِثَلاَثُ مِئَۃِ أَلْفٍ وَعِشْرِینَ أَلْفًا إِلَی سَعْدٍ ، فَقَالَ : اقْسِمْ ہَذَا الْمَالَ بَیْنَ الَّذِینَ شَہِدُوا الْوَقْعَۃَ ، فَإِنْ کَانَ مَاتَ مِنْہُمْ أَحَدٌ ، فَابْعَثْ بِنَصِیبِہِ إِلَی وَرَثَتِہِ۔ (ابوعبید ۶۳۶)
(٣٤٤٧١) حضرت عبداللہ بن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ میں جلولاء کی جنگ میں شریک ہوا اور میں نے مال غنیمت سے چالیس ہزار حاصل کئے۔ پھر میں نے وہ حضرت عمر کی خدمت میں پیش کئے، انھوں نے پوچھا کہ یہ کیا ہے ؟ میں نے کہا کہ میں نے مال غنیمت سے حاصل کئے ہیں۔ انھوں نے فرمایا کہ اے صفیہ ! جو چیز عبداللہ بن عمر لائے ہیں اس کی حفاظت کرو۔ میں تمہیں قسم دیتا ہوں کہ تم نے اس میں سے کچھ نہیں نکالنا۔ انھوں نے کہ اے امیر المومنین ! اگر کوئی چیز غیر طیب ہو تو ؟ حضرت عمر نے فرمایا کہ وہ تمہارے لیے ہے۔
(٢) پھر حضرت عمر نے حضرت عبداللہ بن عمر سے فرمایا کہ اگر مجھے آگ کی طرف لے جایا جارہا ہو تو کیا تم یہ چیز فدیہ دے کر مجھے چھڑاؤ گے ؟ انھوں نے عرض کیا کہ میں ضرور ایسا کروں گا بلکہ ہر وہ چیز جو میرے پاس ہو میں فدیے میں دے دوں گا۔ پھر حضرت عمر نے فرمایا کہ جلولاء کی جنگ میں لوگوں نے تمہارا خیال رکھا، تمہارے ہاتھ پر بیعت کی اور کہا کہ یہ عبداللہ بن عمر ہیں، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابی ہیں۔ امیر المومنین کے بیٹے ہیں، ان کے معزز ترین فرد ہیں اور آپ واقعی ایسے ہیں۔ وہ آپ کو سو درہم کی رعایت کریں یہ انھیں زیادہ پسند ہے اس بات سے کہ وہ آپ سے ایک درہم زیادہ وصول کریں۔ میں تقسیم کرتا ہوں میں تمہیں قریش کے ہر آدمی سے زیادہ نفع دوں گا۔ پھر آپ نے تاجروں کو بلایا اور ان کی چیزیں چار لاکھ کی بیچ دیں۔ حضرت عبداللہ بن عمر فرماتے ہیں کہ انھوں نے مجھے اسی ہزار دیئے اور تین لاکھ بیس ہزار حضرت سعد کو بھجوا دیئے اور فرمایا کہ یہ مال ان مجاہدین میں تقسیم کردو جو جنگ میں شریک تھے۔ اگر ان میں سے کوئی مرچکا ہو تو اس کے ورثہ کو دے دو ۔

34471

(۳۴۴۷۲) حَدَّثَنَا أَبُو الْمُوَرِّعِ ، عَنْ مُجَالِدٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : لَمَّا فَتَحَ سَعْدٌ جَلُولاَئَ أَصَابَ الْمُسْلِمُونَ أَلْفَ أَلْفٍ ، قَسَمَ لِلْفَارِسِ ثَلاَثَۃَ آلاَفِ مِثْقَالَ ، وَلِلرَّاجِلِ أَلْفَ مِثْقَالٍ۔
(٣٤٤٧٢) حضرت شعبی فرماتے ہیں کہ جب حضرت سعد نے جلولاء کو فتح کیا تو مسلمانوں کو لاکھوں کے حساب سے مال غنیمت حاصل ہوا۔ آپ نے گھڑ سوار کو تین ہزار اور پیدل کو ایک ہزار مثقال عطا فرمائے۔

34472

(۳۴۴۷۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا ہِشَامُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنْ زَیْدِ بْنِ أَسْلَمَ ، عْن أَبِیہِ ، قَالَ : أُتِیَ عُمَرُ بِغَنَائِمَ مِنْ غَنَائِمِ جَلُولاَئَ ، فِیہَا ذَہَبٌ وَفِضَّۃٌ ، فَجَعَلَ یَقْسِمُہَا بَیْنَ النَّاسِ ، فَجَائَ ابْنٌ لَہُ ، یُقَالَ لَہُ : عَبْدُ الرَّحْمَن ، فَقَالَ : یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ ، اُکْسُنِی خَاتَمًا ، فَقَالَ : اذْہَبْ إِلَی أُمِّکَ تَسْقِیک شَرْبَۃً مِنْ سَوِیقٍ ، قَالَ : فَوَاللہِ مَا أَعْطَانِی شَیْئًا۔
(٣٤٤٧٣) حضرت اسلم فرماتے ہیں کہ حضرت عمر کے پاس جلولاء کا مال غنیمت لایا گیا اس میں سونا اور چاندی بھی موجود تھے۔ آپ وہ مال غنیمت لوگوں میں تقسیم کررہے تھے کہ ان کے ایک بیٹے جن کا نام عبد الرحمن تھا، وہ آئے اور عرض کیا اے امیر المومنین ! مجھے ایک انگوٹھی دے دیجئے۔ حضرت عمر نے ان سے فرمایا کہ اپنی ماں کے پاس چلے جاؤ وہ تمہیں ستو کا شربت پلائے گی۔ آپ نے انھیں کچھ نہ دیا۔

34473

(۳۴۴۷۴) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا ہِشَامُ بْنُ سَعْدٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ أَسْلَمَ ، عْن أَبِیہِ ، قَالَ : سَمِعْتُ عَبْدَ اللہِ بْنَ الأَرْقَمِ صَاحِبَ بَیْتِ مَالِ الْمُسْلِمِینَ ، یَقُولُ لِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ : یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ ، عِنْدَنَا حِلْیَۃٌ مِنْ حِلْیَۃِ جَلُولاَئَ ، وَآنِیَۃُ ذَہَبٍ وَفِضَّۃٍ ، فَرَ فِیہَا رَأْیَک ، فَقَالَ : إِذَا رَأَیْتَنِی فَارِغًا فَآذنِّی ، فَجَائَ یَوْمًا ، فَقَالَ : إِنِّی أَرَاکَ الْیَوْمَ فَارِغًا ، یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ ، قَالَ : اُبْسُطْ لِی نِطْعًا فِی الْجِسْرِ ، فَبَسَطَ لَہُ نِطْعًا ، ثُمَّ أَتَی بِذَلِکَ الْمَالِ ، فَصُبَّ عَلَیْہِ ، فَجَائَ فَوَقَفَ عَلَیْہِ ، ثُمَّ قَالَ : اللَّہُمَّ إِنَّک ذَکَرْتَ ہَذَا الْمَالَ ، فَقُلْتَ : {زُیِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّہَوَاتِ مِنَ النِّسَائِ وَالْبَنِینَ وَالْقَنَاطِیرِ الْمُقَنْطَرَۃِ مِنَ الذَّہَبِ وَالْفِضَّۃِ} وَقُلْتَ : {لِکَیْلاَ تَأْسَوْا عَلَی مَا فَاتَکُمْ ، وَلاَ تَفْرَحُوا بِمَا آتَاکُمَ} اللَّہُمَّ إِنَّا لاَ نَسْتَطِیعُ إِلاَّ أَنْ نَفْرَحَ بِمَا زَیَّنْتَ لَنَا ، اللَّہُمَّ أُنْفِقُہُ فِی حَقٍّ ، وَأَعُوذُ بِکَ مِنْ شَرِّہِ۔
(٣٤٤٧٤) حضرت اسلم فرماتے ہیں کہ عبداللہ بن ارقم مسلمانوں کے بیت المال کے امیر تھے۔ انھوں نے حضرت عمر بن خطاب (رض) سے عرض کیا کہ اے امیر المومنین ! ہمارے پاس جلولاء کا زیور اور وہاں کے سونے و چاندی کے برتن ہیں۔ ان کے بارے میں اپنی رائے فرما دیجئے۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا کہ جب تم مجھے فارغ دیکھو تو اس بارے میں بتانا۔ ایک دن وہ حاضر ہوئے اور کہا کہ اے امیر المومنین ! آج آپ فارغ ہیں۔ حضرت عمر نے فرمایا کہ ایک چٹائی بچھاؤ۔ ایک چٹائی بچھائی گئی اور اس پر وہ سارا مال ڈالا گیا۔ حضرت عمر (رض) اس کے پاس کھڑے ہوئے اور فرمایا کہ اے اللہ تو نے اس مال کا ذکر کیا ہے اور تو نے فرمایا ہے { زُیِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّہَوَاتِ مِنَ النِّسَائِ وَالْبَنِینَ وَالْقَنَاطِیرِ الْمُقَنْطَرَۃِ مِنَ الذَّہَبِ وَالْفِضَّۃِ } اور تو نے فرمایا ہے { لِکَیْلاَ تَأْسَوْا عَلَی مَا فَاتَکُمْ ، وَلاَ تَفْرَحُوا بِمَا آتَاکُمَ } اے اللہ ہمارے بس میں یہ نہیں ہے کہ ہم اس چیز پر خوش نہ ہوں جو تو نے ہمارے لیے مزین فرمائی ہے۔ اے اللہ اسے حق کے راستے میں خرچ فرما اور میں اس کے شر سے تیری پناہ چاہتاہوں۔

34474

(۳۴۴۷۵) حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ بْنُ مُوسَی ، قَالَ : أَخْبَرَنَا إِسْرَائِیلُ ، عَنْ أَبی إِسْحَاقَ ، عَنْ سَمُرَۃََ بْنِ جَعْوَنَۃَ الْعَامِرِیِّ، قَالَ: أَصَبْتُ قَبَاء ً مَنْسُوجًا بِالذَّہَبِ مِنْ دِیبَاجٍ یَوْمَ جَلُولاَئَ ، فَأَرَدْتُ بَیْعَہُ فَأَلْقَیْتُہُ عَلَی مَنْکِبِی ، فَمَرَرْتُ بِعَبْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ ، فَقَالَ : تَبِیعُ الْقَبَائَ ؟ قُلْتُ : نَعَمْ ، قَالَ : بِکَمْ ؟ قُلْتُ : بِثَلاَثِ مِئَۃِ دِرْہَمٍ ، قَالَ : إِنَّ ثَوْبَک لاَ یَسْوِی ذَلِکَ ، وَإِنْ شِئْتَ أَخَذْتُہُ ، قُلْتُ : قَدْ شِئْتُ ، قَالَ : فَأَخَذَہُ۔
(٣٤٤٧٥) حضرت سمرہ بن جعونہ عامری فرماتے ہیں کہ مجھے جلولاء کی لڑائی میں ریشم کی بنی ہوئی اور سونے کی کڑھائی شدہ ایک قباء ملی۔ میں نے اسے بیچنے کا ارادہ کیا اور اسے اپنے کندھے پر رکھا۔ میں حضرت عبداللہ بن عمر (رض) کے پاس سے گزرا تو انھوں نے مجھ سے پوچھا کہ کیا تم اس قباء کو بیچنا چاہتے ہو ؟ میں نے ہاں میں جواب دیا تو انھوں نے پوچھا کہ کتنے میں بیچو گے۔ میں نے کہا کہ تین سو درہم میں۔ انھوں نے فرمایا کہ تمہارا یہ کپڑا اتنے کا نہیں ہے۔ اگر تم چاہو تو میں لے لوں۔ میں نے کہا میں چاہتا ہوں پھر انھوں نے وہ قباء لے لی۔

34475

(۳۴۴۷۶) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللہِ الأَسَدِیُّ ، قَالَ : حدَّثَنَا حَیَّانُ ، عَنْ مُجَالِدٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : أُتِیَ عُمَرُ مِنْ جَلُولاَئَ بِسِتَّۃِ أَلْفِ أَلْفٍ ، فَفَرَضَ الْعَطَائَ۔
(٣٤٤٧٦) حضرت شعبی فرماتے ہیں کہ حضرت عمر کے پاس جلولاء سے ساٹھ لاکھ آئے۔ آپ نے اس میں سے سالانہ وظیفہ مقرر کیا۔

34476

(۳۴۴۷۷) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا یُونُسُ بْنُ عُبَیْدِ اللہِ ، قَالَ : حَدَّثَنَا الْحَکَمُ بْنُ الأَعْرَجِ ، قَالَ : سَأَلْتُ ابْنَ عُمَرَ عَنِ الْمَسْحِ عَلَی الْخُفَّیْنِ ؟ فَقَالَ : اخْتَلَفْتُ أَنَا وَسَعْدٌ فِی ذَلِکَ وَنَحْنُ بِجَلُولاَئَ۔
(٣٤٤٧٧) حضرت حکم بن اعرج فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن عمر (رض) سے موزوں پر مسح کے بارے میں سوال کیا تو انھوں نے فرمایا کہ جلولاء میں میرے اور حضرت سعد کے درمیان اس بارے میں اختلاف ہوا تھا۔

34477

(۳۴۴۷۸) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ وِقَائِ بْنِ إِیَاسٍ الأَسَدِیِّ ، عَنْ أَبِی ظَبْیَانِ ، قَالَ : کُنَّا مَعَ سَلْمَانَ فِی غُزَاۃٍ، إِمَّا فِی جَلُولاَئَ ، وَإِمَّا فِی نَہَاوَنْد ، قَالَ : فَمَرَّ رَجُلٌ وَقَدْ جَنَی فَاکِہَۃً ، فَجَعَلَ یَقْسِمُہَا بَیْنَ أَصْحَابِہِ ، فَمَرَّ سَلْمَانُ فَسَبَّہُ ، فَرَدَّ عَلَی سَلْمَانَ وَہُوَ لاَ یَعْرِفُہُ ، قَالَ : فَقِیلَ : ہَذَا سَلْمَانُ ، قَالَ : فَرَجَعَ إِلَی سَلْمَانَ یَعْتَذِرُ إِلَیْہِ ، قَالَ : فَقَالَ لَہُ الرَّجُلُ : مَا یَحِلُّ لَنَا مِنْ أَہْلِ الذِّمَّۃِ ، یَا أَبَا عَبْدِ اللہِ ؟ قَالَ : ثَلاَثٌ ؛ مِنْ عَمَاک إِلَی ہُدَاک ، وَمِنْ فَقْرِکَ إِلَی غِنَاک ، وَإِذَا صَحِبْتَ الصَّاحِبَ مِنْہُمْ تَأْکُلُ مِنْ طَعَامِہِ ، وَیَأْکُلُ مِنْ طَعَامِکَ ، وَیَرْکَبُ دَابَّتَکَ فِی أَنْ لاَ تَصْرِفَہُ عَنْ وَجْہٍ یُرِیدُہُ۔
(٣٤٤٧٨) حضرت ابو ظبیان فرماتے ہیں کہ ہم ایک غزوہ میں حضرت سلمان (رض) کے ساتھ تھے۔ وہ جلولاء کا غزوہ تھا یا نہاوند کا۔ ایک آدمی نے وہاں کسی باغ سے کچھ پھل توڑے تھے، اور اپنے ساتھیوں میں تقسیم کررہا تھا۔ وہ حضرت سلمان (رض) کے پاس سے گزرا تو حضرت سلمان نے اسے برا بھلا کہا۔ وہ حضرت سلمان کو جانتا نہ تھا لہٰذا اس نے جوابا انھیں برا بھلاکہا۔ اسے کسی نے بتایا کہ حضرت سلمان ہیں۔ پھر وہ حضرت سلمان کے پاس گیا اور ان سے معذرت کی۔ پھر اس نے سوال کیا کہ اے ابو عبداللہ ! ہمارے لیے اہل ذمہ کی املاک میں سے کتنا جائز ہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ تین چیزیں : تمہارے نابینا پن سے تمہاری ہدایت تک، تمہارے فقر سے تمہارے غنا تک اور جب تم ان میں کسی کا ساتھ اختیار کرو تو ان کے کھانے میں سے کھاؤ اور وہ تمہارے کھانے میں سے کھائے۔ اور وہ تمہاری سواری پر سوار ہو اور تم اس کو اس جگہ سے نہ روکو جہاں وہ جانا چاہتا ہے۔

34478

(۳۴۴۷۹) حَدَّثَنَا مُعَاوِیَۃُ بْنُ عَمْرٍو ، قَالَ : حدَّثَنَا زَائِدَۃُ ، قَالَ : حَدَّثَنَا عَاصِمُ بْنُ کُلَیْبٍ الْجَرْمِیُّ ، قَالَ : حَدَّثَنِی أَبِی ؛ أَنَّہُ أَبْطَأَ عَلَی عُمَرَ خَبَرَ نَہَاوَنْد وَابْنَ مُقَرِّنٍ ، وَأَنَّہُ کَانَ یَسْتَنْصِرُ ، وَأَنَّ النَّاسَ کَانُوا یَرَوْنَ مِنَ اسْتِنْصَارِہِ أَنَّہُ لَمْ یَکُنْ لَہُ ذِکْرُ إِلاَّ نَہَاوَنْد وَابْنِ مُقَرِّنٍ ، قَالَ : فَقَدِمَ عَلَیْہِمْ أَعْرَابِیٌّ ، فَقَالَ : مَا بَلَغَکُمْ عَنْ نَہَاوَنْد وَابْنِ مُقَرِّنٍ ، قَالُوا : وَمَا ذَاکَ ؟ قَالَ : لاَ شَیْئَ ، قَالَ : فَنُمِیَتْ إِلَی عُمَرَ ، قَالَ : فَأَرْسَلَ إِلَیْہِ ، فَقَالَ : مَا ذِکْرُک نَہَاوَنْدَ وَابْنَ مُقَرِّنٍ ؟ فَإِنْ جِئْتَ بِخَبَرٍ فَأَخْبِرْنَا۔ قَالَ: یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ ، أَنَا فُلاَنُ بْنُ فُلاَنٍ الْفُلاَنِی، خَرَجْتُ بِأَہْلِی وَمَالِی ، مُہَاجِرًا إِلَی اللہِ وَرَسُولِہِ ، حَتَّی نَزَلْنَا مَوْضِعَ کَذَا وَکَذَا ، فَلَمَّا ارْتَحَلْنَا إِذَا رَجُلٌ عَلَی جَمَلٍ أَحْمَرَ لَمْ أَرَ مِثْلَہُ ، فَقُلْنَا : مَنْ أَیْنَ أَقْبَلْتَ ؟ قَالَ : مِنَ الْعِرَاقِ ، قُلْنَا : فَمَا خَبَرُ النَّاسِ، قَالَ: الْتَقَوْا، فَہَزَمَ اللَّہُ الْعَدُوَّ ، وَقُتِلَ ابْنُ مُقَرِّنٍ ، وَلاَ وَاللہِ ما أَدْرِی مَا نَہَاوَنْدُ وَلاَ ابْنُ مُقَرِّنٍ ، قَالَ : أَتَدْرِی أَیَّ یَوْمٍ ذَاکَ مِنَ الْجُمُعَۃِ ؟ قَالَ : لاَ وَاللہِ ، مَا أَدْرِی ، قَالَ : لَکِنِّی أَدْرِی ؛ فَعَدَّ مَنَازِلَک ، قَالَ : ارْتَحَلْنَا یَوْمَ کَذَا وَکَذَا ، فَنَزَلْنَا مَوْضِعَ کَذَا وَکَذَا ، فَعَدَّ مَنَازِلَہُ ، قَالَ : ذَاکَ یَوْمُ کَذَا وَکَذَا مِنَ الْجُمُعَۃِ ، وَلَعَلَّک أَنْ تَکُونَ لَقِیتَ بَرِیدًا مِنْ بُرْدِ الْجِنِ ، فَإِنَّ لَہُمْ بُرُدًا ، قَالَ : فَمَضَی مَا شَائَ اللَّہُ ، ثُمَّ جَائَ الْخَبَرُ بِأَنَّہُمَ الْتَقَوْا فِی ذَلِکَ الْیَوْمِ۔
(٣٤٤٧٩) حضرت عاصم بن کلیب جرمی فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) کے پاس نہاوند اور حضرت نعمان بن مقرن کی خبر آنے میں دیر ہوگئی۔ حضرت عمر (رض) اس بارے میں لوگوں سے پوچھا کرتے تھے، لیکن نہاوند اور ابن مقرن کی کوئی خبر انھیں حاصل نہ ہوئی۔ اتنے میں ایک دیہاتی آیا اور اس نے کہا کہ تمہیں نہاوند اور ابن مقرن کے بارے میں کیا خبر پہنچی ہے ؟ لوگوں نے کہا کہ کیا خبر ہے ؟ اس نے کہا کچھ نہیں۔ پھر حضرت عمر (رض) کو اس بات کی اطلاع ہوئی تو آپ نے اس دیہاتی کو بلایا اور اس سے پوچھا کہ تم نے نہاوند اور ابن مقرن کا ذکر کیوں کیا تھا ؟ اگر تمہارے پاس کوئی خبر ہے تو ہمیں بتادو۔ اس دیہاتی نے کہا کہ اے امیر المومنین ! میں فلاں بن فلاں ہوں اور میں فلاں قبیلے سے ہوں۔ میں اپنے اہل و عیال اور مال کو لے کر اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہجرت کی غرض سے نکلا ہوں۔ ہم نے فلاں فلاں جگہ قیام کیا ہے۔ جب ہم روانہ ہوئے تو ہم نے سرخ اونٹ پر ایک ایسا آدمی دیکھا جو ہم نے پہلے کبھی نہ دیکھا تھا۔ ہم نے اس سے کہا کہ تم کہاں سے آئے ہو ؟ اس نے کہا کہ میں عراق سے آیا ہوں۔ ہم نے کہا کہ وہاں لوگوں کی کیا خبر ہے ؟ اس نے کہا کہ وہاں جنگ ہوئی ہے، اللہ نے دشمن کو شکست دے دی اور ابن مقرن شہید ہوگئے۔ خدا کی قسم میں نہاوند اور ابن مقرن کو نہیں جانتا۔ حضرت عمر نے اس سے پوچھا کہ کیا تم بتاسکتے ہو کہ وہ کون سا دن تھا ؟ اس نے کہا کہ میں نہیں جانتا۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا کہ تم نے کس کس جگہ قیام کیا ہے۔ مجھے اپنے قیام کی جگہیں بتاؤ۔ اس نے کہا کہ ہم فلاں دن نکلے تھے اور ہم نے فلاں فلاں جگہ قیام کیا تھا۔ اس طرح دن کو معلوم کرلیا گیا۔ حضرت عمر نے اس سے فرمایا کہ شاید تم جنوں کے کسی قاصد سے ملے تھے۔ پھر کچھ عرصہ گزرا تو نہاوند کی خبر آگئی اور وہ جنگ اسی دن ہوئی تھی۔

34479

(۳۴۴۸۰) حَدَّثَنَا حُسَیْنٌ ، عَنْ زَائِدَۃَ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ کُلَیْبٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : أَبْطَأَ عَلَی عُمَرَ خَبَرَ نَہَاوَنْد وَخَبَرَ النُّعْمَانِ ، فَجَعَلَ یَسْتَنْصِرُ۔
(٣٤٤٨٠) حضرت کلیب فرماتے ہیں کہ حضرت عمر کے پاس نہاوند اور حضرت نعمان بن مقرن کی خبر آنے میں دیر ہوگئی تو آپ لوگوں سے اس بارے میں مدد طلب کرتے تھے۔

34480

(۳۴۴۸۱) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، قَالَ : حدَّثَنَا إِسْمَاعِیلُ ، عَنْ قَیْسِ بْنِ أَبِی حَازِمٍ ، عَنْ مُدْرِکِ بْنِ عَوْفٍ الأَحْمَسِیِّ ، قَالَ : بَیْنَا أَنَا عِنْدَ عُمَرَ إِذْ آتَاہُ رَسُولُ النُّعْمَانِ بْنِ مُقَرِّنٍ ، فَسَأَلَہُ عُمَرُ عَنِ النَّاسِ ؟ قَالَ : فَذَکَرُوا عِنْدَ عُمَرَ مَنْ أُصِیبَ یَوْمَ نَہَاوَنْدَ ، فَقَالُوا : قُتِلَ فُلاَنٌ وَفُلاَنٌ ، وَآخَرُونَ لاَ نَعْرِفُہُمْ ، فَقَالَ عُمَرُ : لَکِنَّ اللَّہَ یَعْرِفُہُمْ ، قَالُوا : وَرَجُلٌ شَرَی نَفْسَہُ ، یَعْنُونَ عَوْفَ بْنَ أَبِی حَیَّۃَ أَبَا شُبَیْلٍ الأَحْمَسِیَّ ، فَقَالَ مُدْرِکُ بْنُ عَوْفٍ : ذَاکَ وَاللہِ خَالِی یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ ، یَزْعُمُ النَّاسُ أَنَّہُ أَلْقَی بِیَدَیْہِ إِلَی التَّہْلُکَۃِ ، فَقَالَ عُمَرُ : کَذَبَ أُولَئِکَ ، وَلَکِنَّہُ مِنَ الَّذِینَ اشْتَرَوْا الآخِرَۃَ بِالدُّنْیَا ، قَالَ إِسْمَاعِیلُ : وَکَانَ أُصِیبَ وَہُوَ صَائِمٌ ، فَاحْتُمِلَ وَبِہِ رَمَقٌ ، فَأَبَی أَنْ یَشْرَبَ حَتَّی مَاتَ۔
(٣٤٤٨١) حضرت مدرک بن عوف احمسی کہتے ہیں کہ میں حضرت عمر کے پاس تھا کہ ان کے پاس حضرت نعمان بن مقرن کا قاصد آیا۔ حضرت عمر نے اس سے لوگوں کے بارے میں سوال کیا۔ اس نے نہاوند کی جنگ میں شہید ہونے والے مجاہدین کا تذکرہ کیا۔ اور بتایا کہ فلاں بن فلاں شہید ہوگئے اور کچھ اور لوگ بھی ہیں جنہیں ہم نہیں جانتے۔ حضرت عمر نے فرمایا لیکن اللہ انھیں جانتا ہے۔ اس جنگ کے بعض عینی شاہدین نے بتایا کہ ایک آدمی بہت بہادری سے لڑا جس کا نام عوف بن ابی حیہ ابو شبیل احمسی ہے۔ یہ سن کر مدرک بن عوف نے کہا کہ خدا کی قسم ! اے امیر المومنین وہ میرے ماموں ہیں۔ لوگوں کا خیال ہے کہ انھوں نے خود اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالا ہے۔ حضرت عمر نے فرمایا کہ یہ لوگ جھوٹ بولتے ہیں۔ انھوں نے دنیا کے بدلے آخرت کو خرید لیا۔ حضرت اسماعیل فرماتے ہیں کہ جب وہ زخمی ہوئے تو روزہ کی حالت میں تھے۔ ان میں زندگی کی رمق باقی تھی۔ انھیں پانی پیش کیا گیا لیکن انھوں نے پینے سے انکار کردیا اور اسی حال میں انتقال کرگئے۔

34481

(۳۴۴۸۲) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، قَالَ : حدَّثَنَا شُعْبَۃُ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ زَیْدٍ ، عَنْ أَبِی عُثْمَانَ ، قَالَ : أَتَیْتُ عُمَرَ بِنَعْیِ النُّعْمَانِ بْنِ مُقَرِّنٍ ، فَوَضَعَ یَدَہُ عَلَی رَأْسِہِ ، وَجَعَلَ یَبْکِی۔
(٣٤٤٨٢) حضرت ابوعثمان فرماتے ہیں کہ میں حضرت عمر (رض) کے پاس نعمان بن مقرن کی شہادت کی خبر لایا تو آپ نے سر پر ہاتھ رکھا اور رونا شروع کردیا۔

34482

(۳۴۴۸۳) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ إِیَاسِ بْنِ مُعَاوِیَۃَ ، قَالَ : جَلَسْتُ إِلَی سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ، فَقَالَ : إِنِّی لأَذْکُرُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ حِینَ نَعَی النُّعْمَانَ بْنَ مُقَرِّنٍ۔
(٣٤٤٨٣) حضرت سعید بن مسیب فرماتے ہیں کہ مجھے یاد ہے کہ جب حضرت عمر بن خطاب (رض) کے پاس حضرت نعمان بن مقرن کی شہادت کی خبر آئی۔

34483

(۳۴۴۸۴) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، قَالَ : حدَّثَنَا مَہْدِیُّ بْنُ مَیْمُونٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللہِ بْنِ أَبِی یَعْقُوبَ ، عَنْ بِشْرِ بْنِ شَغَافٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ سَلاَمٍ ، قَالَ : لَمَّا کَانَ حَیْثُ فُتِحَتْ نَہَاوَنْد ، أَصَابَ الْمُسْلِمُونَ سَبَایَا مِنْ سَبَایَا الْیَہُودِ ، قَالَ : وَأَقْبَلَ رَأْسُ الْجَالُوتِ یُفَادِی سَبَایَا الْیَہُودِ ، قَالَ : وَأَصَابَ رَجُلٌ مِنَ الْمُسْلِمِینَ جَارِیَۃً بُسْرۃ صَبِیحَۃ ، قَالَ : فَأَتَانِی ، فَقَالَ : ہَلْ لَکَ أَنْ تَمْشِیَ مَعِی إِلَی ہَذَا الإِنْسَاْن عَسَی أَنْ یُثَمِّنَ لِی بِہَذِہِ الْجَارِیَۃِ ؟ قَالَ : فَانْطَلَقْتُ مَعَہُ ، فَدَخَلَ عَلَی شَیْخٍ مُسْتَکْبِرٍ لَہُ تُرْجُمَانٌ ، فَقَالَ لِتُرْجُمَانِہِ : سَلْ ہَذِہِ الْجَارِیَۃَ ، ہَلْ وَقَعَ عَلَیْہَا ہَذَا الْعَرَبِیُّ ؟ قَالَ : وَرَأَیْتُہُ غَارٌ حِینَ رَأَی حُسْنَہَا ، قَالَ : فَرَاطَنَہَا بِلِسَانِہِ فَفَہِمْتِ الَّذِی قَالَ ، فَقُلْتُ لَہُ : أَثمْت بِمَا فِی کِتَابِکَ بِسُؤَالِکَ ہَذِہِ الْجَارِیَۃَ عَلَی مَا وَرَائَ ثِیَابِہَا ، فَقَالَ لِی : کَذَبْتَ ، مَا یُدْرِیک مَا فِی کِتَابِی ؟ قُلْتُ : أَنَا أَعْلَمُ بِکِتَابِکَ مِنْک ، قَالَ : أَنْتَ أَعْلَمُ بِکِتَابِی مِنِّی ؟ قُلْتُ : أَنَا أَعْلَمُ بِکِتَابِکَ مِنْک ، قَالَ : مَنْ ہَذَا ؟ قَالُوا : عَبْدُ اللہِ بْنُ سَلاَمٍ ، قَالَ : فَانْصَرَفْتُ ذَلِکَ الْیَوْمَ۔ قَالَ : فَبَعَثَ إِلَیَّ رَسُولاً بِعْزْمُۃٍ لتیَأْتِیَنِی ، قَالَ : وَبَعَثَ إِلَیَّ بِدَابَّۃٍ ، قَالَ : فَانْطَلَقْتُ إِلَیْہِ لَعَمْرُ اللہِ احْتِسَابًا رَجَائَ أَنْ یُسْلِمَ ، فَحَبَسَنِی عِنْدَہُ ثَلاَثَۃَ أَیَّامٍ ، أَقْرَأُ عَلَیْہِ التَّوْرَاۃَ وَیَبْکِی ، قَالَ : وَقُلْتُ لَہُ : إِنَّہُ وَاللہِ لَہُوَ النَّبِیّ الَّذِی تَجِدُونَہُ فِی کِتَابِکُمْ ، قَالَ : فَقَالَ لِی : کَیْفَ أَصْنَعُ بِالْیَہُودِ ؟ قَالَ : قُلْتُ لَہُ : إِنَّ الْیَہُودَ لَنْ یُغْنُوا عَنْک مِنَ اللہِ شَیْئًا ، قَالَ : فَغَلَبَ عَلَیْہِ الشَّقَائُ وَأَبَی أَنْ یُسْلِمَ۔ (بخاری ۳۱۵۹)
(٣٤٤٨٤) حضرت عبداللہ بن سلام فرماتے ہیں کہ جب نہاوند فتح ہوا تو بہت سے جنگی قیدی مسلمانوں کے ہاتھ لگے۔ ایک مالدار شخص ان قیدیوں کا فدیہ دے کر انھیں چھڑا رہا تھا۔ ایک مسلمان کو ایک بہت خوبصورت اور جوان باندی ملی تھی۔ وہ میرے پاس آیا اور اس نے کہا کہ میرے ساتھ اس مالدار کی طرف چلو شاید وہ مجھے اس باندی کی قیمت دے دے۔
(٢) چنانچہ میں اس کے ساتھ چلا ، ہم ایک مغرور بوڑھے کے پاس پہنچے جس کا ایک ترجمان تھا۔ اس نے اپنے ترجمان سے کہا کہ اس باندی سے سوال کرو کہ کیا اس عربی نے اس سے جماع کیا ہے ؟ وہ اس باندی کے حسن کو دیکھ کر غیرت میں آگیا تھا۔ اس نے باندی سے اپنی زبان میں کچھ مجہول بات کی جسے میں سمجھ گیا تھا۔ میں نے اس سے کہا کہ تو نے اس باندی سے اس کی خفیہ بات کے بارے میں سوال کرکے اپنی کتاب کی روشنی میں گناہ کا ارتکاب کیا ہے۔ اس نے مجھ سے کہا کہ تم جھوٹ بولتے ہو، تمہیں کیا معلوم کہ میری کتاب میں کیا ہے ؟ میں نے کہا کہ میں تمہاری کتاب کو تم سے زیادہ جانتا ہوں۔ اس نے کہا کہ کیا تم میری کتاب کو مجھ سے زیادہ جانتے ہو ؟ میں نے کہا کہ ہاں میں تمہاری کتاب کو تم سے زیادہ جانتا ہوں۔ اس نے پوچھا کہ یہ کون ہے ؟ لوگوں نے بتایا کہ یہ عبداللہ بن سلام ہیں۔ پھر اس دن میں واپس آگیا۔
(٣) پھر اس نے میری طرف ایک قاصد کو بھیجا اور مجھے تاکید کے ساتھ اپنے پاس بلایا۔ میں اس کے پاس اس نیت سے گیا کہ شاید وہ اسلام قبول کرلے اور میرے نامہ اعمال میں نیکیوں کا اضافہ ہوجائے۔ اس نے مجھے اپنے پاس تین دن تک روکے رکھا۔ میں اسے توراۃ پڑھ کر سناتا تھا اور وہ روتا تھا۔ میں نے اس سے کہا کہ واللہ یہ وہی نبی ہیں جن کا ذکر تم توراۃ میں پاتے ہو۔ اس نے کہا کہ پھر میں یہود کا کیا کروں ؟ میں نے کہا کہ اللہ کے مقابلے میں وہ تمہارے کسی کام نہیں آسکتے۔ بہرحال اس پر بدبختی غالب آگئی اور اس نے اسلام قبول کرنے سے انکار کردیا۔

34484

(۳۴۴۸۵) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا أَبُو عِمْرَانَ الْجَوْنِیُّ ، عَنْ عَلْقَمَۃَ بْنِ عَبْدِ اللہِ الْمُزَنِیِّ ، عَنْ مَعْقِلِ بْنِ یَسَارٍ ؛ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ شَاوَرَ الْہُرْمُزَانِ فِی فَارِسَ وَأَصْبَہَانَ وَآذَرْبَیْجَانَ ، فَقَالَ : أَصْبَہَانُ الرَّأْسِ ، وَفَارِسُ وَآذَرْبَیْجَانُ الْجَنَاحَانِ ، فَإِنْ قَطَعْت أَحَدَ الْجَنَاحَیْنِ مَالَ الرَّأْسُ بِالْجَنَاحِ الآخَرِ ، وَإِنْ قَطَعْتِ الرَّأْسَ وَقَعَ الْجَنَاحَانِ ، فَابْدَأْ بِالرَّأْسِ، فَدَخَلَ الْمَسْجِدَ ، فَإِذَا ہُوَ بِالنُّعْمَانِ بْنِ مُقَرِّنٍ یُصَلِّی ، فَقَعَدَ إِلَی جَنْبِہِ ، فَلَمَّا قَضَی صَلاَتَہُ ، قَالَ : مَا أُرَانِی إِلاَّ مُسْتَعْمِلُک ، قَالَ : أَمَّا جَابِیًا فَلا ، وَلَکِنْ غَازِیًا ، قَالَ : فَإِنَّک غَازٍ ، فَوَجَّہَہُ وَکَتَبَ إِلَی أَہْلِ الْکُوفَۃِ أَنْ یَمُدَّوہُ۔ قَالَ : وَمَعَہُ الزُّبَیْرُ بْنُ الْعَوَّامِ ، وَعَمْرُو بْنُ مَعْدِی کَرِبٍَ ، وَحُذَیْفَۃُ ، وَالْمُغِیرَۃُ بْنُ شُعْبَۃَ ، وَابْنُ عُمَرَ ، وَالأَشْعَثُ بْنُ قَیْسٍ۔ قَالَ : فَأَرْسَلَ النُّعْمَانُ الْمُغِیرَۃَ بْنَ شُعْبَۃَ إِلَی مَلِکِہِمْ ، وَہُوَ یُقَالَ لَہُ : ذُو الْحَاجِبَیْنِ ، فَقَطَعَ إِلَیْہِمْ نَہَرَہُمْ ، فَقِیلَ لِذِی الْحَاجِبَیْنِ : إِنَّ رَسُولَ الْعَرَبِ ہَاہُنَا ، فَشَاوَرَ أَصْحَابَہُ ، فَقَالَ : مَا تَرَوْنَ ؟ أَقْعُدُ لَہُ فِی بَہْجَۃِ الْمُلْکِ وَہَیْئَۃِ الْمُلْکِ ، أَوْ أَقْعُدُ لَہُ فِی ہَیْئَۃِ الْحَرْبِ ؟ قَالُوا : لاَ ، بَلَ اُقْعُدْ لَہُ فِی بَہْجَۃِ الْمُلْک ، فَقَعَدَ عَلَی سَرِیرِہِ ، وَوَضَعَ التَّاجَ عَلَی رَأْسِہِ ، وَقَعَدَ أَبْنَائُ الْمُلُوکِ سِمَاطَیْنِ ، عَلَیْہِمَ الْقِرَطَۃُ وَأَسَاوِرُۃُ الذَّہَبِ وَالدِّیبَاجِ ، قَالَ : فَأَذِنَ لِلْمُغِیرَۃِ ، فَأَخَذَ بِضَبْعِہِ رَجُلاَنِ ، وَمَعَہُ رُمْحُہُ وَسَیْفُہُ ، قَالَ : فَجَعَلَ یَطْعُنُ بِرُمْحِہِ فِی بُسُطِہِمْ یُخْرِقُہَا لِیَتَطَیَّرُوا ، حَتَّی قَامَ بَیْنَ یَدَیْہِ ، قَالَ : فَجَعَلَ یُکَلِّمُہُ ، وَالتُّرْجُمَانُ یُتَرْجِمُ بَیْنَہُمَا : إِنَّکُمْ مَعْشَرَ الْعَرَبِ أَصَابَکُمْ جُوعٌ وَجُہْدٌ ، فَجِئْتُمْ ، فَإِنْ شِئْتُمْ مِرْنَاکُمْ وَرَجَعْتُمْ۔ قَالَ : فَتَکَلَّمَ الْمُغِیرَۃُ بْنُ شُعْبَۃَ ، فَحَمِدَ اللَّہَ وَأَثْنَی عَلَیْہِ ، ثُمَّ قَالَ : إِنَّا مَعْشَرَ الْعَرَبِ کُنَّا أَذِلَّۃً یَطَؤنَا النَّاسُ وَلاَ نَطؤہُمْ ، وَنَأْکُلُ الْکِلاَبَ وَالْجِیفَۃَ ، وإِنَّ اللَّہَ ابْتَعَثَ مِنَّا نَبِیًّا ، فِی شَرَفٍ مِنَّا ، أَوْسَطَنَا حَسَبًا ، وَأَصْدَقَنَا حَدِیثًا ، قَالَ : فَبَعَثَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِمَا بَعَثَہُ بِہِ ، فَأَخْبَرَنَا بِأَشْیَائَ وَجَدْنَاہَا کَمَا قَالَ ، وَإِنَّہُ وَعَدَنَا فِیمَا وَعَدَنَا أَنَا سَنَمْلِکُ مَا ہَاہُنَا وَنَغْلِبُ عَلَیْہِ ، وَإِنِّی أَرَی ہَاہُنَا بَزَّۃً وَہَیْئَۃً ، مَا أَرَی مَنْ خَلْفِی بِتَارِکِیہَا حَتَّی یُصِیبُوہَا ۔ قَالَ : ثُمَّ قَالَتْ لِی نَفْسِی : لَوْ جَمَعْتَ جَرَامِیزَک فَوَثَبْتَ فَقَعَدْتَ مَعَ الْعِلْجِ عَلَی سَرِیرِہِ حَتَّی یَتَطَیَّرَ ، قَالَ : فَوَثَبْتُ وَثْبَۃً ، فَإِذَا أَنَا مَعَہُ عَلَی سَرِیرِہِ ، فَجَعَلُوا یَطَؤونِی بِأَرْجُلِہِمْ وَیَجُرُّونِی بِأَیْدِیہِمْ ، فَقُلْتُ : إِنَّا لاَ نَفْعَلُ ہَذَا بِرُسُلِکُمْ ، فَإِنْ کُنْتُ عَجَزْتُ ، أَوْ اسْتَحْمَقْتُ فَلاَ تُؤَاخِذُونِی ، فَإِنَّ الرُّسُلَ لاَ یُفْعَلُ بِہِمْ ہَذَا۔ فَقَالَ الْمَلِکُ : إِنْ شِئْتُمْ قَطَعْنَا إِلَیْکُمْ ، وَإِنْ شِئْتُمْ قَطَعْتُمْ إِلَیْنَا ، فَقُلْتُ : لاَ ، بَلْ نَحْنُ نَقْطَعُ إِلَیْکُمْ ، قَالَ : فَقَطَعْنَا إِلَیْہِمْ فَتَسَلْسَلُوا کُلَّ خَمْسَۃٍ ، وَسَبْعَۃٍ ، وَسِتَّۃٍ ، وَعَشَرَۃٍ فِی سِلْسِلَۃٍ ، حَتَّی لاَ یَفِرُّوا ، فَعَبَرْنَا إِلَیْہِمْ فَصَافَفْنَاہُمْ ، فَرَشَقُونَا ، حَتَّی أَسْرَعُوا فِینَا ، فَقَالَ الْمُغِیرَۃُ لِلنُّعْمَانِ : إِنَّہُ قَدْ أَسْرَعَ فِی النَّاسِ ، قَدْ خَرَجُوا ، قَدْ أَسْرَعَ فِیہِمْ ، فَلَوْ حَمَلْتَ ؟ قَالَ النُّعْمَانُ : إِنَّک لَذُو مَنَاقِبَ ، وَقَدْ شَہِدْتَ مَعَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَلَکِنْ شَہِدْتُ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَکَانَ إِذَا لَمْ یُقَاتِلْ أَوَّلَ النَّہَارِ ، انْتَظَرَ حَتَّی تَزُولَ الشَّمْسُ ، وَتَہُبَّ الرِّیَاحُ ، ویَنْزِلَ النَّصْرَ۔ ثُمَّ قَالَ : إِنِّی ہَازٌّ لِوَائِی ثَلاَثَ ہَزَّاتٍ ، فَأَمَّا أَوَّلُ ہَزَّۃٍ فَلْیَقْضِ الرَّجُلُ حَاجَتَہُ وَلْیَتَوَضَّا ، وَأَمَّا الثَّانِیَۃُ نَظَرَ رَجُلٌ إِلَی شِسْعِہِ وَرَمَّ مِنْ سِلاَحِہِ ، فَإِذَا ہَزَزْتُ الثَّالِثَۃَ فَاحْمِلُوا ، وَلاَ یَلْوِیَنَّ أَحَدٌ عَلَی أَحَدٍ ، وَإِنْ قُتِلَ النُّعْمَانُ فَلاَ یَلْوِیَنَّ عَلَیْہِ أَحَد ، وَإِنِّی دَاعِیَ اللَّہَ بِدَعْوَۃٍ ، فَأَقْسَمْتُ عَلَی کُلِّ امْرِئٍ مِنْکُمْ لَمَّا أَمَّنَ عَلَیْہَا ، فَقَالَ : اللَّہُمَّ اُرْزُقَ النُّعْمَانَ الْیَوْمَ الشَّہَادَۃَ فِی نَصْرٍ وَفَتْحٍ عَلَیْہِمْ ، قَالَ : فَأَمَّنَ الْقَوْمُ ، قَالَ : وَہَزَّ ثَلاَثَ ہَزَّاتٍ ، قَالَ : ثُمَّ نَثَلَ دِرْعَہُ ، ثُمَّ حَمَلَ وَحَمَلَ النَّاسُ ، قَالَ : وَکَانَ أَوَّلَ صَرِیعٍ ، قَالَ مَعْقِلٌ : فَأَتَیْتُ عَلَیْہِ ، فَذَکَرْتُ عَزْمَتَہُ ، فَلَمْ أَلْوِ عَلَیْہِ ، وَأَعْلَمْتُ عَلَمًا حَتَّی أَعْرِفَ مَکَانَہُ ، قَالَ : فَجَعَلْنَا إِذَا قَتَلْنَا الرَّجُلَ شُغِلَ عَنَّا أَصْحَابُہُ بِہِ۔ قَالَ : وَوَقَعَ ذُو الْحَاجِبَیْنِ عَنْ بَغْلَۃٍ لَہُ شَہْبَائَ ، فَانْشَقَّ بَطْنُہُ ، فَفَتَحَ اللَّہُ عَلَی الْمُسْلِمِینَ ، فَأَتَیْتُ مَکَانَ النُّعْمَانِ وَبِہِ رَمَقٌ ، فَأَتَیْتُہُ بِإِدَاوَۃٍ فَغَسَلْتُ عَنْ وَجْہِہِ ، فَقَالَ : مَنْ ہَذَا ؟ فَقُلْتُ : مَعْقِلُ بْنُ یَسَارٍ ، قَالَ : مَا فَعَلَ النَّاسُ ؟ قُلْتُ : فَتَحَ اللَّہُ عَلَیْہِمْ ، قَالَ : لِلَّہِ الْحَمْدُ ، اُکْتُبُوا بِذَلِکَ إِلَی عُمَرَ ، وَفَاضَتْ نَفْسُہُ ، وَاجْتَمَعَ النَّاسُ إِلَی الأَشْعَثِ بْنِ قَیْسٍ ، قَالَ : فَأَرْسَلُوا إِلَی ابْنِ أُمِّ وَلَدِہِ : ہَلْ عَہِدَ إِِلَیْک النُّعْمَانُ عَہْدًا ، أَمْ عِنْدَکَ کِتَابٌ ؟ قَالَ : سَفْطٌ فِیہِ کِتَابٌ ، فَاخْرُجُوہُ ، فَإِذَا فِیہِ : إِنْ قُتِلَ النُّعْمَانُ فَفُلاَنٌ ، وَإِنْ قُتِلَ فُلاَنٌ فَفُلاَنٌ۔ قَالَ حَمَّادٌ ، قَالَ عَلِیُّ بْنُ زَیْدٍ : فَحَدَّثَنَا أَبُو عُثْمَانَ ، قَالَ : ذَہَبْتُ بِالْبِشَارَۃِ إِلَی عُمَرَ ، فَقَالَ : مَا فَعَلَ النُّعْمَانُ ؟ قُلْتُ : قُتِلَ ، قَالَ : وَمَا فَعَلَ فُلاَنٌ ؟ قُلْتُ : قُتِلَ ، قَالَ : مَا فَعَلَ فُلاَنٌ ؟ قُلْتُ : قُتِلَ ، وَفِی ذَلِکَ یَسْتَرْجِعُ ، قُلْتُ : وَآخَرُونَ لاَ أَعْلَمُہُمْ ، قَالَ : لاَ تَعْلَمُہُمْ ، لَکِنَّ اللَّہَ یَعْلَمُہُمْ۔
(٣٤٤٨٥) حضرت معقل بن یسار فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے ہرمزان سے فارس، اصبہان اور آذربائیجان کے بارے میں مشورہ کیا۔ انھوں نے کہا کہ اصبہان کی مثال سر کی سی ہے اورفارس اور آذربائیجان کی مثال بازوؤں کی سی ہے۔ اگر آپ ایک بازو کو کاٹ دیں گے تو سر دوسرے بازو کے سہارے باقی رہے گا اور اگر آپ سر کو کاٹ دیں گے تو بازو خود ہی گرجائیں گے۔ پھر حضرت عمر (رض) مسجد میں گئے تو دیکھا کہ حضرت نعمان بن مقرن نماز پڑھ رہے ہیں۔ آپ ان کے قریب بیٹھ گئے، جب انھوں نے نماز پوری کرلی تو حضرت عمر نے ان سے فرمایا کہ میں تمہیں امیر بنانا چاہتاہوں۔ انھوں نے عرض کیا کہ اگر کسی علاقے کا بنانا ہے تو میں راضی نہیں اور اگر جہاد پر بھیجنے کا بنانا ہے تو مجھے قبول ہے۔ حضرت عمر نے فرمایا کہ جہاد کے لیے امیر بن کر جاؤ گے۔ آپ نے انھیں روانہ فرمایا اور اہل کوفہ سے فرمایا کہ ان کی مدد کرو۔ ان کے ساتھ زبیر بن عوام، عمرو بن معدی کرب، حضرت حذیفہ، مغیرہ بن شعبہ، ابن عمر اور اشعث بن قیس بھی تھے۔
(٢) حضرت نعمان بن مقرن نے حضرت مغیرہ بن شعبہ کو ان کے بادشاہ کے پاس بھیجا جس کا نام ” ذوالحاجبین “ تھا۔ اسے بتایا گیا کہ عربوں کا قاصد آرہا ہے۔ اس نے اپنے ساتھیوں سے مشورہ کیا کہ میں اس کے ساتھ بادشاہوں کے انداز میں بیٹھوں یا جنگجو کے انداز میں ؟ انھوں نے مشورہ دیا کہ بادشاہوں کے انداز میں بیٹھو۔ پس وہ اپنے تخت پر بیٹھا اور اپنے سر پر تاج رکھا۔ اس کے شہزادے بھی اس کے آس پاس بیٹھ گئے جن کے کانوں میں بالیاں اور ہاتھوں میں سونے کے کنگن تھے اور ان کے جسموں پر ریشم کا لباس تھا۔ حضرت مغیرہ کو ملاقات کی اجازت ملی، آپ کو دو آدمیوں کے پہرے میں لایا گیا، آپ کی تلوار اور آپ کا نیزہ آپ کے ہاتھ میں تھے۔ حضرت مغیرہ نے اپنے نیزے سے ان کے قالین میں سوراخ کردیئے تاکہ وہ اس سے بدفالی لیں۔ وہ بادشاہ کے سامنے کھڑے ہوئے۔ دونوں کے درمیان ایک شخص ترجمان تھا۔ بادشاہ نے کہا کہ اے اہل عرب تمہیں بھوک اور تکلیف نے ستایا ہے اور تم ہماری طرف آلپکے ہو، اگر تم چاہو تو ہم تمہیں مال دے کر واپس بھیج دیتے ہیں۔
(٣) حضرت مغیرہ بن شعبہ نے گفتگو شروع کی، اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا بیان کی اور پھر فرمایا کہ ہم عرب ذلیل لوگ تھے۔ لوگ ہم پر ظلم ڈھاتے تھے لیکن ہم کسی پر ظلم نہیں کرتے تھے۔ ہم کتے اور مردارکھاتے تھے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ہم میں ایک ایسے نبی کو مبعوث فرمایا جن کی بعثت سے ہمیں عزت بخشی، وہ خاندان کے اعتبار سے سب سے بہتر اور گفتگو کے اعتبار سے سب سے زیادہ سچے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو دین عطا فرمایا اور جو باتیں آپ نے فرمائیں وہ سب سچ ثابت ہوئیں۔ انھوں نے ہم سے ایک وعدہ یہ بھی کیا تھا کہ فلاں فلاں علاقے کے مالک بنیں گے اور لوگوں پر غالب آئیں گے۔ میں تمہارے اس علاقے میں بہت زیب وزینت اور آرائش دیکھ رہا ہوں اور جو لوگ میرے پیچھے ہیں وہ کبھی ان چیزوں سے دستبردار نہیں ہوں گے۔ پھر میں نے اپنے دل میں کہا کہ اگر میں چھلانگ لگا کر اس کے تخت پر بیٹھ جاؤں تو یہ اس سے بدفالی لیں گے۔ پس میں نے چھلانگ لگائی اور بادشاہ کے ساتھ اس کے تخت پر جا بیٹھا۔ وہ مجھے اپنی ٹانگوں سے مارنے لگے اور اپنے ہاتھوں سے کھینچنے لگے۔ میں نے کہا کہ ہم تمہارے قاصدوں کے ساتھ ایسا نہیں کریں گے۔ اگر میں نے نادانی کی ہے تو تم مجھے سزا نہ دو کیونکہ قاصدوں کے ساتھ ایسا نہیں کیا جاتا۔
(٤) بادشاہ نے کہا کہ اگر تم چاہو تو ہم تم پر حملہ کریں اور اگر تم چاہو تو تم ہم پر حملہ کردو۔ میں نے کہا کہ ہم تم پر حملہ کریں گے۔ پس لوگ پانچ، سات، چھ اور دس کی ٹولیوں میں تقسیم ہوگئے تاکہ بھاگ نہ سکیں۔ ہم ان کی طرف بڑھے اور ان کے سامنے صف بنا کر کھڑے ہوگئے۔ وہ تیزی سے ہماری طرف دوڑے۔ حضرت مغیرہ نے حضرت نعمان سے کہا کہ وہ جلدی سے آگئے ہیں، وہ نکل پڑے ہیں اگر آپ حملہ کردیں تو بہتر ہے۔ حضرت نعمان نے کہا کہ آپ بہت سے فضائل اور مناقب والے ہیں۔ آپ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ بہت سے غزوات میں شریک رہے ہیں۔ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ دیکھا ہے کہ آپ دن کے شروع حصے میں قتال نہیں فرماتے تھے، جب سورج زائل ہوجاتا، ہوا چلنے لگتی اور مدد نازل ہوتی تو پھر آپ قتال کرتے تھے۔
(٥) پھر حضرت نعمان (رض) نے کہا کہ میں اپنا جھنڈا تین مرتبہ ہلاؤں گا۔ جب میں پہلی مرتبہ جھنڈے کو حرکت دوں ہر شخص اپنی حاجت کو پورا کرکے وضو کرلے۔ جب میں دوسری مرتبہ جھنڈا ہلاؤں تو ہر شخص اپنا ہتھیار اٹھا لے اور جب میں تیسری مرتبہ جھنڈا ہلاؤں تو حملہ کردینا۔ کوئی شخص کسی کی طرف متوجہ نہ ہو، اگر نعمان بھی مار دیا جائے تو کوئی اس کی طرف بھی متوجہ نہ ہو۔ میں اللہ کی طرف بلانے والا ہوں۔ میں ہر شخص کو قسم دیتا ہوں کہ وہ اس چیز کی حفاظت کرے جو اس کے سپرد کی گئی ہے۔ پھر انھوں نے فرمایا کہ اے اللہ نعمان کو آج مدد اور کامیابی والی شہادت عطا فرما۔ اس پر لوگوں نے آمین کہا۔ پھر انھوں نے جھنڈے کو تین مرتبہ ہلایا۔ پھر آپ نے ذرہ پہنی اور حملہ کردیا اور لوگوں نے بھی حملہ کردیا۔ اس جنگ میں سب سے پہلے حضرت نعمان شہید ہوئے۔ حضرت معقل فرماتے ہیں کہ میں ان کے پاس آیا اور میں نے ان سے ان کی قسم کا ذکر کیا۔ میں ان کے پاس نہ ٹھہرا اور ان کی جگہ پر نشان لگا دیا تاکہ میں ان کی جگہ پہچان لوں۔ پس جب ہم کسی آدمی کو قتل کرتے تو اس کی وجہ سے اس کے ساتھی ہم سے غافل ہوجاتے تھے۔
(٦) ان کا بادشاہ ذوالحاجبین اپنی ایک مادہ خچر پر سوار تھا، وہ اس سے گرا اور اس کا پیٹ پھٹ گیا اور اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو فتح یاب فرمادیا۔ پھر میں حضرت معقل کے پاس آیا اور میں نے دیکھا کہ ان میں زندگی کی ایک رمق تھی۔ میں ان کے پاس پانی کا ایک برتن لایا اور میں نے ان کا چہرہ دھویا۔ انھوں نے پوچھا کہ کون ہے ؟ میں نے کہا کہ معقل بن یسار ہوں۔ انھوں نے پوچھا کہ لڑائی کا کیا بنا ؟ میں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں فتح یاب فرمادیا ہے۔ انھوں نے فرمایا کہ تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں، اس بارے میں حضرت عمر (رض) کو لکھ بھیجو۔ پھر ان کی روح پرواز کرگئی۔ پھر لوگ اشعث بن قیس کے پاس جمع ہوئے۔ انھوں نے کہا کہ حضرت نعمان کی ام ولد کے بیٹے کو پیغام بھیج کر پوچھو کہ کیا حضرت نعمان نے آپ کو کوئی عہد دیا ہے یا کوئی خط دیا ہے۔ انھوں نے ایک خط نکالا اس میں لکھا تھا کہ اگر نعمان شہید ہوجائیں تو فلاں کو امیر بنادیا جائے اور اگر فلاں بھی شہید ہوجائے تو فلاں کو امیر بنادیا جائے۔
(٧) حضرت ابو عثمان فرماتے ہیں کہ میں اس جنگ کی فتح کی خوشخبری دینے حضرت عمر بن خطاب (رض) کے پاس گیا۔ انھوں نے فرمایا کہ نعمان کا کیا بنا ؟ میں نے کہا کہ وہ شہید ہوگئے۔ انھوں نے فرمایا کہ فلاں کا کیا بنا ؟ میں نے کہا کہ وہ بھی شہید ہوگئے۔ انھوں نے کہا کہ فلاں کا کیا بنا ؟ میں نے کہا کہ وہ بھی شہید ہوگئے۔ حضرت عمر نے انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھا۔ میں نے کہا کہ کچھ لوگ اور بھی شہید ہوئے ہیں جنہیں میں نہیں جانتا۔ حضرت عمر نے فرمایا کہ تم نہیں جانتے لیکن اللہ تعالیٰ جانتا ہے۔

34485

(۳۴۴۸۶) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَنْ حَبِیبِ بْنِ الشَّہِیدِ ، عَنْ مُحَمَّدٍ ، قَالَ : لَمَّا حَمَلَ النُّعْمَانُ ، قَالَ : وَاللہِ مَا وَطِئَنَا کَتِفَیْہِ حَتَّی ضُرِبَ فِی الْقَوْمِ۔
(٣٤٤٨٦) حضرت محمد فرماتے ہیں کہ جب حضرت نعمان نے حملہ کیا تو خدا کی قسم ابھی ہم نے پوری طرح حملہ بھی نہیں کیا تھا کہ لوگوں کے درمیان وہ نشانہ بن گئے۔

34486

(۳۴۴۸۷) حَدَّثَنَا شَاذَانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَنْ أَبِی عِمْرَانَ الْجَوْنِیِّ ، عَنْ عَلْقَمَۃَ بْنِ عَبْدِ اللہِ ، عَنْ مَعْقِلِ بْنِ یَسَارٍ ، قَالَ : شَاوَرَ عُمَرُ الْہُرْمُزَانَ ، ثُمَّ ذَکَرَ نَحْوًا مِنْ حَدِیثِ عَفَّانَ ، إِلاَّ أَنَّہُ قَالَ : فَأَتَاہُمَ النُّعْمَانُ بِنَہَاوَنْد ، وَبَیْنَہُمْ وَبَیْنَہُ نَہَرٌ ، فَسَرَّحَ الْمُغِیرَۃُ بْنُ شُعْبَۃَ ، فَعَبَرَ إِلَیْہِمَ النَّہَرَ ، وَمَلِکُہُمْ یَوْمَئِذٍ ذُو الْحَاجِبَیْنِ۔
(٣٤٤٨٧) حضرت معقل بن یسار فرماتے ہیں کہ حضرت عمر نے ہرمزان سے مشورہ کیا۔ (پھر انھوں نے عفان جیسی حدیث نقل کی) اس میں یہ اضافہ ہے : حضرت نعمان انھیں لے کر نہاوند گئے اور ان کے اور لوگوں کے درمیان دریا تھا۔ حضرت مغیرہ نے لوگوں کو دریا عبورکرایا اور اس وقت ان کا بادشاہ ذوالحاجبین تھا۔

34487

(۳۴۴۸۸) حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا أَسْبَاطُ بْنُ نَصْرٍ ، عَنِ السُّدِّیِّ ، عَنْ عَبْدِ خَیْرٍ ، عَنِ الرَّبِیعِ بْنِ خُثَیْمٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ سَلاَمٍ ؛ وَقَعَ لَہُ فِی سَہْمِہِ عَجُوزٌ یَہُودِیَّۃٌ ، فَمَرَّ بِرَأْسِ الْجَالُوتِ ، فَقَالَ : یَا رَأْسَ الْجَالُوتِ ، تَشْتَرِی مِنِّی ہَذِہِ الْجَارِیَۃَ ؟ فَکَلَّمَہَا فَإِذَا ہِیَ عَلَی دِینِہِ ، قَالَ : بِکَمْ ؟ قَالَ : بِأَرْبَعَۃِ آلاَفٍ ، قَالَ : لاَ حَاجَۃَ لِی فِیہَا ، فَحَلَفَ عَبْدُ اللہِ بْنُ سَلاَمٍ : لاَ یُنْقِصُہُ ، فَسَارَ عَبْدُ اللہِ بْنُ سَلاَمٍ بِشَیْئٍ ، فَقَرَأَ ہَذِہِ الآیَۃَ : {وَإِنْ یَأْتُوکُمْ أُسَارَی تُفَادُوہُمْ} الآیَۃَ ، فَقَالَ عَبْدُ اللہِ بْنُ سَلاَمٍ : أَنْتَ ؟ قَالَ : نَعَمْ ، قَالَ : لَتَشْتَرِیَنَّہَا ، أَوْ لَتَخْرُجَنَّ مِنْ دِینِکَ ، قَالَ : قَدْ أَخَذْتُہَا ، قَالَ : فَہَبْ لِی مَا شِئْتَ ، قَالَ : فَأَخَذَ مِنْہُ أَلْفَیْنِ ، وَرَدَّ عَلَیْہِ أَلْفَیْنِ۔
(٣٤٤٨٨) حضرت ربیع بن خثیم فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن سلام کو نہاوند کے مال غنیمت کے حصے میں ایک بوڑھی یہودن ملی۔ وہ اسے لے کر یہودیوں کے ایک مالدار سردار کے پاس سے گزرے اور اس سے کہا کہ کیا اس کو خریدو گے۔ اس نے بڑھیا سے بات کی تو اسے معلوم ہوا کہ وہ اس کے دین پر ہے۔ اس نے پوچھا کہ کتنے میں بیچو گے ؟ حضرت عبداللہ بن سلام نے فرمایا کہ چار ہزار میں۔ اس نے کہا کہ مجھے اس کی ضرورت نہیں۔ حضرت عبداللہ بن سلام نے قسم کھائی کہ وہ اس سے کم نہیں کریں گے۔ پھر حضرت عبداللہ بن سلام سے اس نے سرگوشی کی اور قرآن مجید کی یہ آیت پڑھی { وَإِنْ یَأْتُوکُمْ أُسَارَی تُفَادُوہُمْ } پھر اس نے کہا کہ تم عبداللہ بن سلام ہو ؟ انھوں نے فرمایا کہ ہاں۔ پھر اس سے کہا کہ یا تو یہ باندی مجھے بیچو یا اپنے دین سے نکل جاؤ۔ اس نے کہا کہ میں نے اس باندی کو لے لیا تم جو چاہو اس کی قیمت میں سے مجھے ہدیہ کردو۔ حضرت عبداللہ بن سلام نے دو ہزار لے لیے اور دو ہزار اسے واپس کردیئے۔

34488

(۳۴۴۸۹) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا أَبُو عَوَانَۃَ ، قَالَ : حَدَّثَنِی دَاوُد بْنُ عَبْدِ اللہِ الأَوْدِیُّ ، عَنْ حُمَیْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحِمْیَرِیَّ ؛ أَنَّ رَجُلاً کَانَ یُقَالَ لَہُ : حُمَمَۃُ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، خَرَجَ إِلَی أَصْبَہَانَ غَازِیًا فِی خِلاَفَۃِ عُمَرَ ، فَقَالَ : اللَّہُمَّ إِنَّ حُمَمَۃَ یَزْعُمُ أَنَّہُ یُحِبُّ لِقَائَک ، فَإِنْ کَانَ حُمَمَۃُ صَادِقًا فَاعْزِمْ لَہُ بِصِدْقِہِ ، وَإِنْ کَانَ کَاذِبًا فَاعْزِمْ لَہُ عَلَیْہِ ، وَإِنْ کَرِہَ ، اللَّہُمَّ لاَ تَرُدُّ حُمَمَۃَ مِنْ سَفَرِہِ ہَذَا ، قَالَ : فَأَخَذَہُ الْمَوْتُ ، فَمَاتَ بِأَصْبَہَانَ ، قَالَ : فَقَامَ أَبُو مُوسَی ، فَقَالَ : یَا أَیُّہَا النَّاسُ ، أَلاَ إِنَّا وَاللہِ مَا سَمِعْنَا فِیمَا سَمِعْنَا مِنْ نَبِیِّکُمْ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَمَا بَلَغَ عِلْمُنَا إِلاَّ أَنَّ حُمَمَۃَ شَہِیدٌ۔
(٣٤٤٨٩) حضرت حمید بن عبد الرحمن حمیری فرماتے ہیں کہ ایک صحابی جن کا نام ” حممہ “ تھا۔ وہ حضرت عمر (رض) کے زمانے میں اصبہان کی طرف جہاد کی نیت سے نکلے۔ انھوں نے اس غزوہ میں دعا کی کہ اے اللہ ! حممہ سمجھتا ہے کہ وہ تجھ سے ملاقات کو پسند کرتا ہے۔ اگر حممہ سچا ہے تو اس کے سچ کو صادر فرمادے اور اگر وہ جھوٹا ہے تو بھی اس کا فیصلہ فرمادے خواہ وہ اس کو ناپسند ہی کیوں نہ کرے۔ اے اللہ ! حممہ کو اس سفر سے واپس نہ بھیج۔ راوی کہتے ہیں کہ بعد ازاں اصبہان میں ان کا انتقال ہوگیا۔ ان کے انتقال کے بعد حضرت ابو موسیٰ (رض) نے خطبہ ارشاد فرمایا اور اس میں کہا کہ اے لوگو ! رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشادات اور ہمارے علم کے مطابق حممہ شہید ہیں۔

34489

(۳۴۴۹۰) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، عَن عَلْقَمَۃَ ، قَالَ : حاصَرْنَا مَدِینَۃَ نَہَاوَنْد ، فَأَعْطَیْت مُعَضِّدًا ثَوْبًا لِی فَاعْتَجَرَ بِہِ ، فَأَصَابَہُ حَجَرٌ فِی رَأْسِہِ ، فَجَعَلَ یَمْسَحُہُ وَیَنْظُرُ إِلَیَّ وَیَقُولُ : إِنَّہَا لِصَغِیرَۃٍ ، وَإِنَّ اللَّہَ لَیُبَارِکُ فِی الصَّغِیرَۃِ۔
(٣٤٤٩٠) حضرت علقمہ فرماتے ہیں کہ ہم نے شہر نہاوند کا محاصرہ کیا اور میں نے حضرت معضد کو اپنا ایک کپڑا دیا اور انھوں نے اس کی پگڑی باندھی۔ ان کے سر میں ایک پتھر آن لگا۔ وہ اپنے سر کو ملنے لگے اور میری طرف دیکھ کر کہنے لگے۔ یہ بہت چھوٹا ہے اور اللہ تعالیٰ چھوٹے میں برکت عطا فرمائے گا۔

34490

(۳۴۴۹۱) حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ بْنُ مُوسَی ، قَالَ : أَخْبَرَنَا إِسْرَائِیلُ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنِ الصَّلْتِ ، وَأَبِی مُسَافِعٍ ، قَالَ : کَتَبَ إِلَیْنَا عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ وَنَحْنُ مَعَ النُّعْمَانِ بْنِ مُقَرِّنٍ : إِذَا لَقِیتُمَ الْعَدُوَّ فَلاَ تَفِرُّوا ، وَإِذَا غَنِمْتُمْ فَلاَ تَغْلُوا ، فَلَمَّا لَقِینَا الْعَدُوَّ ، قَالَ النُّعْمَانُ لِلنَّاسِ : لاَ تُوَاقِعُوہُمْ ، وَذَلِکَ فِی یَوْمِ جُمُعَۃِ ، حَتَّی یَصْعَدَ أَمِیرُ الْمُؤْمِنِینَ الْمِنْبَرَ یَسْتَنْصِرُ ، قَالَ : ثُمَّ وَاقَعْنَاہُمْ ، فَأُقْعِصَ النُّعْمَانُ ، وَقَالَ : سَجُّونِی ثَوْبًا ، وَأَقْبِلُوا عَلَی عَدُوِّکُمْ ، وَلاَ أَہُوَلَنَّکُمْ ، قَالَ: فَفَتَحَ اللَّہُ عَلَیْنَا ، قَالَ : وَأَتَی عُمَرَ الْخَبَرُ ؛ أَنَّہُ أُصِیبَ النُّعْمَانُ وَفُلاَنٌ وَفُلاَنٌ، وَرِجَالٌ لاَ نَعْرِفُہُمْ یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ ، قَالَ : لَکِنَّ اللَّہَ یَعْرِفُہُمْ۔
(٣٤٤٩١) حضرت صلت اور حضرت ابو مسافع کہتے ہیں کہ ہم نعمان بن مقرن کے پاس تھے کہ ہمارے پاس حضرت عمر بن خطاب کا خط آیا، جس میں انھوں نے لکھا تھا کہ جب تم دشمن کا سامناکرو تو مت بھاگنا، جب تمہیں مال ملے تو خیانت نہ کرنا۔ پس جب ہمارا دشمن سے سامنا ہوا تو حضرت نعمان نے لوگوں سے کہا کہ ان پر ابھی حملہ نہ کرنا۔ (وہ جمعہ کا دن تھا) جب تک امیرالمومنین منبر پر اللہ سے مدد کی دعا نہ کرلیں۔ پھر ہم نے دشمن پر چڑھائی کی اور حضرت نعمان فورا ہی موت کی زد میں آگئے۔ انھوں نے شدید زخمی ہونے کے بعد کہا کہ مجھ پر ایک کپڑا ڈال دو اور دشمن پر ٹوٹ پڑو اور میری وجہ سے کمزور نہ ہونا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ہمیں فتح عطا فرمادی۔ جب حضرت عمر (رض) کو اطلاع ہوئی کہ حضرت نعمان اور فلاں فلاں لوگ شہید ہوگئے ہیں اور کچھ ایسے لوگ بھی جنہیں ہم نہیں جانتے تو حضرت عمر نے فرمایا کہ لیکن اللہ انھیں جانتا ہے۔

34491

(۳۴۴۹۲) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا إِسْحَاقَ ، یَقُولُ : سَمِعْت أَبَا مَالِکٍ وَأَبَا مُسَافِعٍ مِنْ مُزَیْنَۃَ یُحَدِّثَانِ ؛ أَنَّ کِتَابَ عُمَرَ أَتَاہُمْ مَعَ النُّعْمَانِ بْنِ مُقَرِّنٍ بِنَہَاوَنْد : أَمَّا بَعْدُ ، فَصَلُّوا الصَّلاَۃَ لِوَقْتِہَا ، وَإِذَا لَقِیتُمَ الْعَدُوَّ فَلاَ تَفِرُّوا ، وَإِذَا ظَفَرْتُمْ فَلاَ تَغْلُوا۔
(٣٤٤٩٢) حضرت ابو مالک اور ابو مسافع کہتے ہیں کہ ہم نہاوند میں حضرت نعمان بن مقرن کے ساتھ تھے کہ حضرت عمر (رض) کا خط آیا جس میں لکھا تھا کہ نماز کو اس کے وقت پر ادا کرنا، جب دشمن سے سامنا ہو تو پیٹھ مت پھیرنا اور جب کامیاب ہوجاؤ تو خیانت نہ کرنا۔

34492

(۳۴۴۹۳) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عن عَبْدُ الْمَلِکِ بْنُ عُمَیْرٍ ، قَالَ : کَتَبَ عُمَرُ إلَی النُّعْمَانِ بْنِ مُقَرِّنٍ : اسْتَشِرْ وَاسْتَعِنْ فِی حَرْبِکَ بِطُلَیْحَۃَ ، وَعَمْرِو بْنِ مَعْدِی کَرِبَ ، وَلاَ تُوَلِّیہِمَا مِنَ الأَمْرِ شَیْئًا ، فَإِنَّ کُلَّ صَانِعٍ ہُوَ أَعْلَمُ بِصِنَاعَتِہِ۔
(٣٤٤٩٣) حضرت عبد الملک بن عمیر فرماتے ہیں کہ حضرت عمر نے حضرت نعمان بن مقرن کو خط میں لکھا کہ لڑائی میں حضرت طلیحہ اور حضرت عمرو بن معدی کرب سے مشورہ اور مدد لیتے رہنا۔ لیکن انھیں کوئی ذمہ داری نہ سونپنا۔ کیونکہ ہر بنانے والا اپنی بنائی ہوئی چیز کو خوب جانتا ہے۔

34493

(۳۴۴۹۴) حَدَّثَنَا سَہْلُ بْنُ یُوسُفَ ، عَنْ حُمَیْدٍ ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ : کَانَ النُّعْمَانُ بْنُ مُقَرِّنٍ عَلَی جُنْدِ أَہْلِ الْکُوفَۃِ ، وَأَبُو مُوسَی الأَشْعَرِیُّ عَلَی جُنْدِ أَہْلِ الْبَصْرَۃِ۔
(٣٤٤٩٤) حضرت انس فرماتے ہیں کہ حضرت نعمان بن مقرن کوفہ کے لشکر کے اور حضرت ابو موسیٰ اشعری بصرہ کے لشکر کے امیر تھے۔

34494

(۳۴۴۹۵) حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ عَیَّاشٍ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ أَبِی وَائِلٍ ، قَالَ : غَزَوْنَا مَعَ سَلْمَانَ بْنِ رَبِیعَۃَ بَلَنْجَرَ ، فَحَرَّجَ عَلَیْنَا أَنْ نَحْمِلَ عَلَی دَوَابِّ الْغَنِیمَۃِ ، وَرَخَّصَ لَنَا فِی الْغِرْبَالِ وَالْحَبْلِ وَالْمُنْخُلِ۔
(٣٤٤٩٥) حضرت ابو وائل کہتے ہیں کہ ہم بلنجر کی لڑائی میں سلمان بن ربیعہ کے ساتھ تھے۔ انھوں نے ہمیں مال غنیمت کے جانوروں پر سوار ہونے سے منع کیا اور ہمیں مال غنیمت کے ڈھول، رسی اور چھاننی استعمال کرنے کی اجازت دی۔

34495

(۳۴۴۹۶) حَدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنِ ابْنِ الأَصْبَہَانِیِّ ، عَنِ الشَّیْبَانِیِّ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنْ مَالِکِ بْنِ صَحَارٍ ، قَالَ : غَزَوْنَا بَلَنْجَرَ فَجُرِحَ أَخِی ، قَالَ : فَحَمَلْتُہُ خَلْفِی ، فَرَآنِی حُذَیْفَۃُ ، فَقَالَ : مَنْ ہَذَا ؟ فَقُلْتُ : أَخِی جُرِحَ ، نَرْجِعُ قَابِلاً نَفْتَحُہَا إِنْ شَائَ اللَّہُ ، فَقَالَ حُذَیْفَۃُ : لاَ وَاللہِ ، لاَ یَفْتَحُہَا عَلَیَّ أَبَدًا ، وَلاَ الْقُسْطَنْطِینِیَّۃ ، وَلاَ الدَّیْلَمَ۔
(٣٤٤٩٦) حضرت مالک بن صحار فرماتے ہیں کہ ہم نے بلنجر کی لڑائی میں حصہ لیا۔ اس میں میرا بھائی زخمی ہوگیا۔ میں نے اسے اپنی کمر پر سوار کیا۔ حضرت حذیفہ (رض) نے مجھے دیکھا تو پوچھا کہ یہ کون ہے ؟ میں نے کہا کہ میرا بھائی ہے، زخمی ہوگیا ہے۔ ہم اگلے سال اسے فتح کرنے کے لیے آئیں گے۔ حضرت حذیفہ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اسے میرے ہاتھ پر فتح نہیں فرمائے گا نہ قسطنطینیہ کو اور نہ دیلم کو۔

34496

(۳۴۴۹۷) حَدَّثَنَا ابْنُ إِدْرِیسَ ، عَنْ مِسْعَرٍ ، عَنْ أَبِی حَصِینٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنْ مَالِکِ بْنِ صَحَارٍ ، قَالَ : غَزَوْنَا بَلَنْجَرَ فَلَمْ یَفْتَحُوہَا ، فَقَالُوا : نَرْجِعُ قَابِلاً فَنَفْتَحُہَا ، فَقَالَ حُذَیْفَۃُ : لاَ تُفْتَحُ ہَذِہِ ، وَلاَ مَدِینَۃَ الْکُفْرِ ، وَلاَ الدَّیْلَمَ ، إِلاَّ عَلَی رَجُلٍ مِنْ أَہْلِ بَیْتِ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔
(٣٤٤٩٧) حضرت مالک بن صحار فرماتے ہیں کہ ہم نے بلنجر کے جہاد میں حصہ لیا۔ لیکن ہمیں فتح حاصل نہ ہوئی۔ لوگوں نے کہا کہ ہم اگلے سال اسے فتح کرنے کے لیے آئیں گے۔ اس پر حضرت حذیفہ (رض) نے فرمایا کہ یہ علاقہ، کفر کا شہر اور دیلم محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اہل بیت میں سے ایک آدمی کے ہاتھ پر فتح ہوں گے۔

34497

(۳۴۴۹۸) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ عَطَائٍ ، وَمُحَمَّدِ بْنِ سُوقَۃَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : لَمَّا غَزَا سَلْمَانُ بَلَنْجَرَ أَصَابَ فِی قِسْمَتِہِ صُرَّۃً مَنْ مِسْکٍ ، فَلَمَّا رَجَعَ اسْتَوْدَعْتہَا امْرَأَتَہُ ، فَلَمَّا مَرِضَ مَرَضَہُ الَّذِی مَاتَ فِیہِ ، قَالَ لاِمْرَأَتِہِ وَہُوَ یَمُوتُ : أَرِینِی الصُّرَّۃَ الَّتِی اسْتَوْدَعْتُکِ ، فَأَتَتْہُ بِہَا ، فَقَالَ : ائْتِنِی بِإِنَائٍ نَظِیفٍ ، فَجَائَتْ بِہِ ، فَقَالَ : أَدِیفیہِ ، ثُمَّ انْضَحِی بِہِ حَوْلِی ، فَإِنَّہُ یَحْضُرُنِی خَلْقٌ مِنْ خَلْقِ اللہِ ، لاَ یَأْکُلُونَ الطَّعَامَ ، وَیَجِدُونَ الرِّیحَ ، ثُمَّ قَالَ : اُخْرِجِی عَنِّی وَتَعَاہَدِینِی ، فَخَرَجَتْ ، ثُمَّ رَجَعَتْ وَقَدْ قَضَی۔
(٣٤٤٩٨) حضرت شعبی فرماتے ہیں کہ حضرت سلمان نے جب بلنجر کے علاقے میں جہاد میں حصہ لیا تو ان کے حصے میں مشک کی ایک تھیلی آئی جو انھوں نے اپنی بیوی کے پاس امانت کے طورپر رکھوا دی۔ پھر اپنے مرض الوفات میں انھوں نے اپنی بیوی سے کہا کہ وہ تھیلی مجھے لا دو ۔ پھر آپ نے ایک صاف برتن منگوایا اور اپنی بیوی سے فرمایا کہ اس خوشبو میں پانی ملا کر اسے میرے ارد گرد چھڑک دو ، کیونکہ میرے پاس اللہ کی ایسی مخلوق (فرشتے) آرہی ہے جو کھانا نہیں کھاتے لیکن خوشبو محسوس کرتے ہیں۔ پھر تم باہر چلی جاؤ۔ ان کی بیوی یہ عمل کرکے باہر چلی گئیں جب واپس آئیں تو ان کا انتقال ہوچکا تھا۔

34498

(۳۴۴۹۹) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ الْقَطَّانُ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنِ الرُّکَیْنِ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : کُنَّا مَعَ سَلْمَانَ بْنِ رَبِیعَۃَ بِبَلَنْجَرَ ، فَرَأَیْتُ ہِلاَلَ شَوَّالٍ یَوْمَ تِسْعٍ وَعِشْرِینَ ، لَیْلَۃً ثَلاَثِینَ ضُحًی ، قَالَ : فَقَالَ : أَرِنِیہِ ، فَأَرَیْتَہُ ، فَأَمَرَ النَّاسَ فَافْطُرُوا۔
(٣٤٤٩٩) حضرت رکین کے والد فرماتے ہیں کہ ہم سلمان بن ربیعہ کے ساتھ بلنجر میں تھے۔ میں نے رمضان کے انتیس روزے رکھنے کے بعد تیسویں دن چاشت کے وقت چاند دیکھا تو انھوں نے فرمایا کہ مجھے دکھاؤ، میں نے انھیں چاند دکھایا تو انھوں نے لوگوں کو روزہ توڑنے کا حکم دے دیا۔

34499

(۳۴۵۰۰) حَدَّثَنَا ابْنُ إِدْرِیسَ ، قَالَ سَمِعَ أَبَاہُ وَعَمَّہُ یَذْکُرَانِ ، قَالَ : قَالَ سَلْمَانُ : قَتَلْتُ بِسَیْفِی ہَذَا مِئَۃَ مُسْتَلْئِمٍ، کُلُّہُمْ یَعْبُدُ غَیْرَ اللہِ ، مَا قَتَلْتُ مِنْہُمْ رَجُلاً صَبْرًا۔
(٣٤٥٠٠) حضرت سلمان فرماتے تھے کہ میں نے اپنی اس تلوار سے سو آدمیوں کو قتل کیا ہے وہ سب اللہ کے غیر کی عبادت کرتے تھے۔ میں نے اس سے کسی صبر کرنے والے آدمی کو قتل نہیں کیا۔

34500

(۳۴۵۰۱) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِہِ ، عَنْ حُذَیْفَۃَ ، قَالَ : لاَ یَفْتَحُ الْقُسْطُنْطِینِیَّۃ ، وَلاَ الدَّیْلَمَ ، وَلاَ الطَّبَرِسْتَانَ إِلاَّ رَجُلٌ مِنْ بَنِی ہَاشِمٍ۔
(٣٤٥٠١) حضرت حذیفہ (رض) فرماتے تھے کہ قسطنطنیہ، دیلم اور طبرستان بنوہاشم کے ایک آدمی کے ہاتھ پر فتح ہوں گے۔

34501

(۳۴۵۰۲) حَدَّثَنَا حُمَیْدٌ، عَنْ حَسَنٍ، عَنْ مُجَالِدٍ، قَالَ: صَالَحَ أَہْلَ الْجَبَلِ کُلَّہُمْ، لَمْ یُؤْخَذْ شَیْئٌ مِنَ الْجَبَلِ عَنْوَۃً۔
(٣٤٥٠٢) حضرت مجالد فرماتے ہیں کہ تمام اہل جبل نے صلح کی تھی اور جبل کا کوئی حصہ زبردستی نہیں لیا گیا تھا۔

34502

(۳۴۵۰۳) حَدَّثَنَا حُمَیْدٍ ، عَنْ حسن ، عَنْ مُطَرِّف ، قَالَ : مَا فَوْقَ حُلْوَانَ فَہُوَ ذِمَّۃٌ، وَمَا دُونَ حُلْوَانَ مِنَ السَّوَادِ فَہُوَ فَیْئٌ ، قَالَ : سَوَادُنَا ہَذَا فَیْئٌ۔
(٣٤٥٠٣) حضرت مطرف فرماتے ہیں کہ حلوان سے اوپر کا حصہ ذمہ میں ہے اور حلوان کے علاوہ فیٔ ہے اور ہمارا یہ علاقہ فیٔ ہے۔

34503

(۳۴۵۰۴) حَدَّثَنَا شَاذَانُ ، قَالَ: حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ ، عَنْ أَبِی الْعَلاَئِ ، قَالَ: کُنْتُ فِیمَنَ افْتَتَحَ تَکْرِیتَ فَصَالَحْنَاہُمْ عَلَی أَنْ یَبْرُزُوا لَنَا سُوقًا ، وَجَعَلْنَا لَہُمَ الأَمَانَ ، قَالَ : فَأَبْرُزُوا لَنَا سُوقًا ، قَالَ : فَقُتِلَ قَیْنٌ مِنْہُمْ ، فَجَائَ قَسَّہُمْ ، فَقَالَ : أَجَعَلْتُمْ لَنَا ذِمَّۃَ نَبِیِّکُمْ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَذِمَّۃَ أَمِیرِ الْمُؤْمِنِینَ ، وَذِمَّتَکُمْ ، ثُمَّ أَخْفَرْتُمُوہَا ؟ فَقَالَ أَمِیرُنَا : إِنْ أَقَمْتُمْ شَاہِدَیْنِ ذَوَیْ عَدْلٍ عَلَی قَاتِلِہِ أَقَدْنَاکُمْ بِہِ وَإِنْ شِئْتُمْ حَلَفْتُمْ وَأَعْطَیْنَاکُمَ الدِّیَۃَ وَإِنْ شِئْتُمْ حَلَفْنَا لَکُمْ وَلَمْ نُعْطِکُمْ شَیْئًا۔ قَالَ : فَتَوَاعَدُوا لِلْغَدِ ، فَحَضَرُوا ، فَجَائَ قَسُّہُمْ ، فَحَمِدَ اللَّہَ وَأَثْنَی عَلَیْہِ ، ثُمَّ ذَکَرَ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضَ ، وَمَا شَائَ اللَّہُ أَنْ یَذْکُرَ حَتَّی ذَکَرَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ، ثُمَّ قَالَ: أَوَّلُ مَا یُبْدَأُ بِہِ مِنَ الْخُصُومَاتِ الدِّمَائُ ، قَالَ : فَیَخْتَصِمُ ابْنَا آدَمَ ، فَیَقْضِی لَہُ عَلَی صَاحِبِہِ، ثُمَّ یُؤْخَذُ الأَوَّلُ فَالأَوَّلُ ، حَتَّی یَنْتَہِیَ الأَمْرُ إِلَی صَاحِبِنَا وَصَاحِبِکُمْ ، قَالَ : فَیُقَالَ لَہُ : فِیمَ قَتَلَتْنِی ؟ قَالَ : فَلاَ نُحِبَّ أَنْ یَکُونَ لِصَاحِبِکُمْ عَلَی صَاحِبِنَا حُجَّۃٌ ، أَنْ یَقُولَ : قَدْ أَخَذَ أَہْلُک مِنْ بَعْدِکَ دِیَتَک۔
(٣٤٥٠٤) حضرت ابو علاء فرماتے ہیں کہ میں بھی تکریت کی فتح میں شامل تھا۔ ہم نے ان سے اس بات پر صلح کی کہ وہ ہمیں مال کی ایک مقررہ مقدار دیں اور ہم ان کو امان دیں گے۔ چنانچہ انھوں نے ہمیں مال دے دیا۔ پھر ان میں سے ایک شخص کو کسی نے قتل کردیا تو ان کا راہب ہمارے پاس آیا اور اس نے کہا کہ کیا تم نے اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اپنے امیر المومنین اور اپنا عہد نہیں دیا تھا، پھر تم نے اس عہد کی پاسداری نہیں کی ؟ ! ہمارے امیر نے کہا کہ تم اس کے قاتل پر دو عادل گواہ پیش کردو تو ہم قاتل تمہارے حوالے کردیں گے اور اگر تم چاہو تو قسم کھالو ہم تمہیں فدیہ دے دیں گے اور اگر تم چاہو تو ہم قسم کھا لیں اس صورت میں تمہیں کچھ نہیں ملے گا۔
پس اگلے دن کی ملاقات طے ہوئی، ان کا پادری آیا اور اس نے اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا بیان کی، زمین و آسمان کا تذکرہ کیا، قیامت کے دن کا ذکر کیا پھر اس نے کہا کہ خصومات میں سب سے پہلے خون کا حساب ہوگا۔ آدم (علیہ السلام) کے دو بیٹے فریق ہوں گے اور ایک کے خلاف فیصلہ کردیا جائے گا۔ پھر ایک ایک کرکے خون کا حساب ہوگا معاملہ ہمارے اور تمہارے ساتھی تک آپہنچے گا۔ پس مقتول قاتل سے کہے گا کہ تو نے مجھے کیوں قتل کیا تھا ؟ ہمیں یہ بات پسند نہیں ہے کہ تمہارا ساتھی ہمارے ساتھی کو یہ جواب دے کر خاموش کرادے کہ تیرے بعد والوں نے تیری دیت وصول کرلی تھی۔

34504

(۳۴۵۰۵) حَدَّثَنَا قُرَادٌ أَبُو نُوحٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ مُعَاوِیَۃَ الْقُرَشِیُّ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ عبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِی بَکْرَۃَ ، قَالَ : لَمَّا نَزَلَ أَبُو مُوسَی بِالنَّاسِ عَلَی الْہُرْمُزَانِ وَمَنْ مَعَہُ بِتُسْتَرَ ، قَالَ : أَقَامُوا سَنَۃً ، أَوْ نَحْوَہَا لاَ یَخْلُصُونَ إِلَیْہِ ، قَالَ : وَقَدْ کَانَ الْہُرْمُزَانُ قَتَلَ رَجُلاً مِنْ دَہَاقِنَتِہمْ وَعُظَمَائِہِمْ فَانْطَلَقَ أَخُوہُ حَتَّی أَتَی أَبَا مُوسَی ، فَقَالَ : مَا تَجْعَلُ لِی إِنْ دَلَلْتُکَ عَلَی الْمَدْخَلِ ؟ قَالَ : سَلْنِی مَا شِئْتَ ، قَالَ : أَسْأَلُک أَنْ تَحْقِنَ دَمِی وَدِمَائَ أَہْلِ بَیْتِی ، وَتُخْلِی بَیْنَنَا وَبَیْنَ مَا فِی أَیْدِینَا مِنْ أَمْوَالِنَا وَمَسَاکِنِنَا ، قَالَ : فَذَاکَ لَکَ ، قَالَ : ابْغِنِی إِنْسَانًا سَابِحًا ذَا عَقْلٍ وَلُبٍّ یَأْتِیک بِأَمْرٍ بَیِّنٍ۔ قَالَ : فَأَرْسَلَ أَبُو مُوسَی إِلَی مَجْزَأَۃَ بْنِ ثَوْرٍ السَّدُوسِیِّ ، فَقَالَ لَہُ : ابْغِنِی رَجُلاً مِنْ قَوْمِکَ سَابِحًا ذَا عَقْلٍ وَلُبٍ وَلَیْسَ بِذَاکَ فِی خَطَرِہِ فَإِنْ أُصِیبَ کَانَ مُصَابُہُ عَلَی الْمُسْلِمِینَ یَسِیرًا وَإِنْ سَلَّمَ جَائَنَا بِثَبْتٍ فَإِنِّی لاَ أَدْرِی مَا جَائَ بِہِ ہَذَا الدِّہْقَانُ ، وَلاَ آمَنَ لَہُ وَلاَ أَثِقُ بِہِ۔ قَالَ : فَقَالَ : مَجْزَأَۃُ : قَدْ وَجَدْتُ ، قَالَ : مَنْ ہُوَ ؟ فَأْتِ بِہِ ، قَالَ : أَنَا ہُوَ ، قَالَ أَبُو مُوسَی : یَرْحَمُک اللَّہُ مَا ہَذَا أَرَدْتُ ، فَابْغِنِی رَجُلاً ، قَالَ : فَقَالَ : مَجْزَأَۃُ بْنُ ثَوْرٍ : وَاللہِ لاَ أَعْمِدُ إِلَی عَجُوزٍ مِنْ بَکْرِ بْنِ وَائِلٍ أَفْدِی ابْنَ أُمَّ مَجْزَأَۃَ بِابْنِہَا ، قَالَ : أَمَا إِذْ أَبَیْتَ فَتَیَسَّر۔ فَلَبِسَ ثِیَابَ بِیاضٍ ، وَأَخَذَ مِنْدِیلاً ، وَأَخَذَ مَعَہُ خِنْجَرًا ، ثُمَّ انْطَلَقَ إِلَی الدِّہْقَانِ حَتَّی سَبَحَ فَأَجَازَ إِلَی الْمَدِینَۃِ ، فَأَدْخَلَہُ مِنْ مَدْخَلِ الْمَائِ ، حَیْثُ یُدْخَلُ عَلَی أَہْلِ الْمَدِینَۃِ ، قَالَ : فَأَدْخَلَہُ فِی مَدْخَلٍ شَدِیدٍ ، یَضِیقُ بِہِ أَحْیَانًا حَتَّی یَنْبَطِحَ عَلَی بَطْنِہِ وَیَتَّسِعَ أَحْیَانًا فَیَمْشِی قَائِمًا وَیَحْبُو فِی بَعْضِ ذَلِکَ حَتَّی دَخَلَ الْمَدِینَۃَ وَقَدْ أَمَرَہُ أَبُو مُوسَی أَنْ یَحْفَظَ طَرِیقَ بَابِ الْمَدِینَۃِ ، وَطَرِیقَ السَّورِ ، وَمَنْزِلَ الْہُرْمُزَانِ فَانْطَلَقَ بِہِ الدِّہْقَانُ حَتَّی أَرَاہُ طَرِیقَ السَّورِ وَطَرِیقَ الْبَابِ ، ثُمَّ انْطَلَقَ بِہِ إِلَی مَنْزِلِ الْہُرْمُزَانِ وَقَدْ کَانَ أَبُو مُوسَی أَوْصَاہُ أَنْ لاَ تَسْبِقَنِی بِأَمْرٍ۔ فَلَمَّا رَأَی الْہُرْمُزَانَ قَاعِدًا وَحَوْلَہُ دَہَاقِنَتُہُ ، وَہُوَ یَشْرَبُ ، فَقَالَ لِلدِّہْقَانِ : ہَذَا الْہُرْمُزَانِ ؟ قَالَ : نَعَمْ ، قَالَ: ہَذَا الَّذِی لَقِیَ الْمُسْلِمُونَ مِنْہُ مَا لَقُوا أَمَا وَاللہِ لأُرِیحَنَّہُمْ مِنْہُ ، قَالَ : فَقَالَ لَہُ الدِّہْقَانُ : لاَ تَفْعَلْ ، فَإِنَّہُمْ یَتَحْرَّزُونَ وَیَحُولُونَ بَیْنَکَ وَبَیْنَ دُخُولِ ہَذَا الْمَدْخَلِ فَأَبَی مَجْزَأَۃُ إِلاَّ أَنْ یَمْضِیَ عَلَی رَأْیِہِ عَلَی قَتْلِ الْعِلْجِ فَأَدَارَہُ الدِّہْقَانُ وَأَلاصہُ أَنْ یَکُفَّ عَنْ قَتْلِہِ فَأَبَی فَذَکَرَ الدِّہْقَانُ قَوْلَ أَبِی مُوسَی لَہُ : اتَّقِ أَنْ لاَ تَسْبِقَنِی بِأَمْرٍ، فَقَالَ : أَلَیْسَ قَدْ أَمَرَک صَاحِبُک أَنْ لاَ تَسْبِقَہُ بِأَمْرٍ ؟ فَقَالَ : ہَاہ ، أَمَا وَاللہِ ، لَوْلاَ ہَذَا لأَرِیحَنَّہُمْ مِنْہُ فَرَجَعَ مَعَ الدِّہْقَانِ إِلَی مَنْزِلِہِ ، فَأَقَامَ یَوْمَہُ حَتَّی أَمْسَی ، ثُمَّ رَجَعَ إِلَی أَبِی مُوسَی ، فَنَدَبَ أَبُو مُوسَی النَّاسَ مَعَہُ فَانْتَدَبَ ثَلاَثُ مِئَۃٍ وَنَیِّفٌ فَأَمَرَہُمْ أَنْ یَلْبَسَ الرَّجُلَ ثَوْبَیْنِ لاَ یَزِیدَ عَلَیْہِ وَسَیْفہُ فَفَعَلَ الْقَوْمُ ، قَالَ : فَقَعَدُوا عَلَی شَاطِئِ النَّہَرِ یَنْتَظِرُونَ مَجْزَأَۃَ أَنْ یَأْتِیَہُمْ ، وَہُوَعِنْدَ أَبِی مُوسَی یُوصِیہِ وَیَأْمُرُہُ ، قَالَ عَبْدُ الرَّحْمَن بْنُ أَبِی بَکْرَۃَ : وَلَیْسَ لَہُمْ ہُمْ غَیْرُہُ ، یُشِیرُ إِلَی الْمَوْتِ لأََنْظُرَنَّ مَا یَصْنَعُ ، وَالْمَائِدَۃُ مَوْضُوعَۃٌ بَیْنَ یَدَیْ أَبِی مُوسَی ، قَالَ : فَکَأَنَّہُ اسْتَحَیَی أَنْ لاَ یَتَنَاوَلَ مِنَ الْمَائِدَۃِ شَیْئًا ، قَالَ : فَتَنَاوَلَ حَبَّۃً مِنْ عِنَبٍ فَلاَکَہَا فَمَا قَدَرَ عَلَی أَنْ یُسِیغَہَا ، فَأَخَذَہَا رُوَیْدًا ، فَنَبَذَہَا تَحْتَ الْخِوَانِ وَوَدَّعَہُ أَبُو مُوسَی وَأَوْصَاہُ ، فَقَالَ مَجْزَأَۃُ لأَبِی مُوسَی : إِنِّی أَسْأَلُک شَیْئًا فَأَعْطِنِیہِ ، قَالَ : لاَ تَسْأَلنِی شَیْئًا إِلاَّ أَعْطَیْتُکَہُ ، قَالَ : فَأَعْطِنِی سَیْفَک أَتَقَلَّدُہُ إِلَی سَیْفِی فَدَعَا لَہُ بِسَیْفِہِ ، فَأَعْطَاہُ إیَّاہُ۔ فَذَہَبَ إلَی الْقَوْمِ وَہُمْ یَنْتَظِرُونَہُ حَتَّی کَانَ فِی وَسَطٍ مِنْہُمْ ، فَکَبَّرَ وَوَقَعَ فِی الْمَائِ ، وَوَقَعَ الْقَوْمُ جَمِیعًا ، قَالَ : یَقُولُ عَبْدُ الرَّحْمَن بْنُ أَبِی بَکْرَۃَ : کَأَنَّہُمَ الْبَطُّ فَسَبَحُوا حَتَّی جَازُوا ، ثُمَّ انْطَلَقَ بِہِمَا إلَی النُّقْبِ الَّذِی یَدْخُلُ الْمَائُ مِنْہُ فَکَبَّرَ ، ثُمَّ دَخَلَ ، فَلَمَّا أَفْضَی إِلَی الْمَدِینَۃِ ، فَنَظَرَ لَمْ یَتِمّ مَعَہُ ، إِلاَّ خَمْسَۃٌ وَثَلاَثُونَ ، أَوْ سِتَّۃٌ وَثَلاَثُونَ رَجُلاً ، فَقَالَ لأَصْحَابِہِ : أَلاَ أَعُودُ إِلَیْہِمْ فَأُدْخِلَہُمْ ؟ فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ أَہْلِ الْکُوفَۃِ ، یُقَالَ لَہُ : الْجَبَانُ لِشَجَاعَتِہِ : غَیْرُک فَلْیَقُلْ ہَذَا یَا مَجْزَأَۃُ إِنَّمَا عَلَیْک نَفْسُک ، فَامْضِ لِمَا أُمِرْتَ بِہِ ، فَقَالَ لَہُ : أَصَبْتَ فَمَضَی بِطَائِفَۃٍ مِنْہُمْ إِلَی الْبَابِ فَوَضَعَہُمْ عَلَیْہِ ، وَمَضَی بِطَائِفَۃٍ إِلَی السَّورِ وَمَضَی بِمَنْ بَقِیَ حَتَّی صَعِدَ إِلَی السَّورِ فَانْحَدَرَ عَلَیْہِ عِلْجٌ مِنَ الأَسَاوِرَۃِ وَمَعَہُ نَیزک ، فَطَعَنَ مَجْزَأَۃَ فَأَثْبَتَہُ ، فَقَالَ لہم مَجْزَأَۃُ : امْضُوا لأَمْرِکُمْ لاَ یَشْغَلَنَّکُمْ عَنِّی شَیْء ٌ فَأَلْقَوْا عَلَیْہِ بَرْدُعَۃً ، لِیَعْرِفُوا مَکَانَہُ وَمَضَوْا وَکَبَّرَ الْمُسْلِمُونَ عَلَی السَّورِ وَعِنْدَ بَابِ الْمَدِینَۃِ ، وَفَتَحُوا الْبَابَ وَأَقْبَلَ الْمُسْلِمُونَ عَلَی عَادَتِہِمْ حَتَّی دَخَلُوا الْمَدِینَۃَ ، قَالَ : قِیلَ لَلْہُرْمُزَانِ : ہَذَہِ الْعَرَبُ قَدْ دَخَلُوا ، قَالَ : لاَ شَکَّ أَنَّہُمَا قَدْ دَحَسُوہَا عَلَیْہِمْ ، قَالَ : مِنْ أَیْنَ دَخَلُوا ؟ أَمِنَ السَّمَائِ ، قَالَ : وَتَحَصَّنَ فِی قَصَبَۃٍ لَہُ۔ وَأَقْبَلَ أَبُو مُوسَی یَرْکُضُ عَلَی فَرَسٍ لَہُ عَرَبِیٍّ ، حَتَّی دَخَلَ عَلَی أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ وَہُوَ عَلَی النَّاسِ ، فَقَالَ : لَکِنْ نَحْنُ یَا أَبَا حَمْزَۃَ لَمْ نَصْنَعَ الْیَوْمَ شَیْئًا وَقَدْ فَرَغُوا مِنَ الْقَوْمِ ، قَتَلُوا مَنْ قَتَلُوا وَأَسَرُوا مَنْ أَسَرُوا وَأَطَافُوا بِالْہُرْمُزَانِ بِقَصَبَتِہِ ، فَلَمْ یَخْلُصُوا إِلَیْہِ حَتَّی أَمَّنُوہُ ، وَنَزَلَ عَلَی حُکْمِ عُمرَ بْنِ الْخَطَّابِ أَمِیرِ الْمُؤْمِنِینَ ، قَالَ : فَبَعَثَ بِہِمْ أَبُو مُوسَی مَعَ أَنَسٍ بِالْہُرْمُزَانَ وَأَصْحَابَہُ فَانْطَلَقُوا بِہِمْ حَتَّی قَدِمُوا عَلَی عُمَرَ ، قَالَ : فَأَرْسَلَ إِلَیْہِ أَنَسٌ : مَا تَرَی فِی ہَؤُلاَئِ ؟ أَدْخِلْہُمْ عُرَاۃً مُکَتَّفِینَ ، أَوْ آمُرُہُمْ فَیَأْخُذُونَ حُلِیَّہُمْ وَبِزّتِہِمْ ، قَالَ : فَأَرْسَلَ إِلَیْہِ عُمَرُ لَوْ أَدْخَلْتَہُمْ کَمَا تَقُولُ عُرَاۃً مُکَتَّفِینَ ، لَمْ یَزِیدُوا عَلَی أَنْ یَکُونُوا أَعْلاَجًا وَلَکِنْ أَدْخِلْہُمْ عَلَیْہِمْ حُلِیُّہُمْ وَبِزّتِہِمْ حَتَّی یَعْلَمَ الْمُسْلِمُونَ مَا أَفَائَ اللَّہُ عَلَیْہِمْ فَأَمَرَہُمْ فَأَخَذُوا بِزَّتِہِمْ وَحُلِیَّہُمْ حَتَّی دَخَلُوا عَلَی عُمَرَ ، فَقَالَ الْہُرْمُزَانُ لِعُمَرَ : یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ أَیَّ کَلاَمَ أُکَلِّمَکَ ؟ أَکَلاَمُ رَجُلِ حَیٍّ لَہُ بَقَائَ أَوْ کَلاَمُ رَجُلٍ مَقْتُولٍ ؟ قَالَ : فَخَرَجْتْ مِنْ عُمَرَ کَلِمَۃٌ لَمْ یُرِدْہا ، تَکَلَمَ فَلاَ بَأْسَ عَلَیْکَ ، فَقَالَ لَہٌ الْہُرْمُزَانُ : یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ ، قَدْ عَلِمْتَ کَیْفَ کُنَّا وَکُنْتُمْ ، إِذْ کُنَّا عَلَی ضَلاَلَۃٍ جَمِیعًا کَانَتِ الْقَبِیلَۃُ مِنْ قَبَائِلِ الْعَرَبِ تَرْی نُشَابَۃَ بَعْضِ أَسَاوِرَتِنَا فَیَہْرُبُونَ الأَرْضِ الْبَعِیدَۃِ ، فَلَمَّا ہَدَاکُمَ اللَّہُ ، فَکَانَ مَعَکُمْ لَمْ نَسْتَطِعْ نُقَاتِلَہُ فَرَجَعَ بِہِمْ أَنَسٌ۔ فَلَمَّا أَمْسَی عُمَرُ أَرْسَلَ إلَی أَنَسٍ : أَنَ اُغْدُ عَلَیَّ بِأَسْرَاک أَضْرِبُ أَعْنَاقَہُمْ فَأَتَاہُ أَنَسٌ ، فَقَالَ : وَاللہِ یَا عُمَرُ مَا ذَاکَ لَکَ ، قَالَ : وَلِمَ ؟ قَالَ : إِنَّک قَدْ قُلْتَ لِلرَّجُلِ : تَکَلَّمَ فَلاَ بَأْسَ عَلَیْک ، قَالَ : لَتَأْتِینِی عَلَی ہَذَا بِبُرْہَانٍ ، أَوْ لأَسُوؤُنَّکَ ، قَالَ : فَسَأَلَ أَنَسٌ الْقَوْمَ جُلَسَائَ عُمَرَ ، فَقَالَ : أَمَا قَالَ عُمَرُ لِلرَّجُلِ تَکَلَّمَ فَلاَ بَأْسَ عَلَیْک ؟ قَالُوا : بَلَی ، قَالَ : فَکَبَّرَ ذَلِکَ عَلَی عُمَرَ ، قَالَ : إِمَا لاَ فَأَخْرَجَہُمْ عَنِّی فَسَیَّرَہُمْ إِلَی قَرْیَۃٍ ، یُقَالَ لَہَا : دَہْلَکَ فِی الْبَحْرِ ، فَلَمَّا تَوَجَّہُوا بِہِمْ رَفَعَ عُمَرُ یَدَیْہِ ، فَقَالَ : اللَّہُمَّ اکْسِرْہَا بِہِمْ ثَلاَثًا فَرَکِبُوا السَّفِینَۃَ ، فَانْدَقَّتْ بِہِمْ وَانْکَسَرَتْ وَکَانَتْ قَرِیبَۃً مِنَ الأَرْضِ فَخَرَجُوا ، فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْمُسْلِمِینَ : لَوْ دَعَا أَنْ یُغْرِقَہُمْ لَغَرِقُوا وَلَکِنْ إِنَّمَا قَالَ : اکْسِرْہَا بِہِمْ ، قَالَ : فَأَقَرَّہُمْ۔
(٣٤٥٠٥) حضرت عبد الرحمن بن ابی بکرہ فرماتے ہیں کہ جب حضرت ابوموسیٰ (رض) مجاہدین کو لے کر ہرمزان کی سرکوبی کے لیے تستر پر حملہ آور ہوئے تو انھوں نے یہاں ایک سال تک قیام کیا لیکن فتح یاب نہ ہوسکے۔ ہرمزان نے اس دوران تستر کے ایک معزز اور سرکردہ آدمی کو قتل کرادیا۔ مقتول کا بھائی ایک دن حضرت ابو موسیٰ (رض) کے پاس آیا اور ان سے کہا کہ اگر میں آپ کو ہرمزان کے قلعے میں داخل ہونے کا راستہ بتادوں تو کیا انعام پاؤں گا ؟ حضرت ابوموسیٰ نے کہا تو کیا چاہتا ہے ؟ اس نے کہا کہ آپ میرا اور میرے گھر والوں کا خون معاف کردیں، مجھے اور میرے گھر والوں کو مال و اسباب لے کر نکلنے دیں۔ حضرت ابو موسیٰ نے اس کی حامی بھرلی۔ اس نے کہا کہ اب مجھے کوئی ایسا آدمی دیجئے جو تیراکی جانتا ہو اور عقل مند ہو۔ وہ آپ کے پاس واضح خبر لائے گا۔
(٢) حضرت ابو موسیٰ نے مجزأۃ بن ثور سدوسی کو بلایا اور ان سے کہا کہ اپنی قوم میں سے کوئی ایسا آدمی دیجئے جو تیراکی جانتاہو اور خوب عقل مند ہو، لیکن وہ ایسا اہم آدمی نہ ہو جس کی شہادت مسلمانوں کے لیے مایوسی کا سبب ہو۔ اگر وہ سلامت رہا تو ہمارے پاس خبر لے آئے گا۔ میں نہیں جانتا کہ یہ آدمی کیا چاہتا ہے ، نہ مجھے اس پر اعتماد ہے۔
(٣) حضرت مجزأۃ نے کہا کہ وہ شخص مل گیا۔ حضرت ابو موسیٰ نے پوچھا کہ وہ کون ہے ؟ انھوں نے کہا کہ میں ہوں۔ حضرت ابو موسیٰ نے کہا کہ اللہ آپ پر رحم فرمائے، میں یہ نہیں چاہتا، مجھے کوئی اور آدمی دیجئے۔ حضرت مجزأۃ بن ثور نے فرمایا کہ خدا کی قسم میں بکر بن وائل کی اس بڑھیا پر بھی اعتماد نہیں کرتا جس نے ام مجزأۃ کے بیٹے پر اپنے بیٹے کو فدا کردیا۔ بہرحال اگر آپ مناسب سمجھیں تو موقع عنایت فرمائیں۔
(٤) حضرت مجزأۃ نے سفید کپڑے پہنے اور ایک رومال اور ایک خنجر ہمراہ لے لیا۔ پھر اس آدمی کے ساتھ چلے، راستے میں ایک ندی کو تیر کر عبور کیا۔ پھر ندی کے راستے سے ان کے قلعے میں داخل ہوئے۔ بعض اوقات راستہ اتنا تنگ ہوجاتا کہ پیٹ کے بل چلنا پڑتا اور بعض اوقات راستہ کھل جاتا تو قدموں پر چلتے۔ بعض اوقات گھٹنوں کے بل چلتے۔ یہاں تک کہ شہر میں داخل ہوگئے۔ حضرت ابو موسیٰ نے انھیں حکم دیا تھا کہ شہر کے دروازے کا راستہ اور اس کی فصیل کا راستہ اور ہرمزان کے گھر کو یاد رکھیں۔ وہ آدمی انھیں لے گیا اور انھیں فصیل کا راستہ، دروازے کا راستے اور ہرمزان کا گھر دکھا دیا۔ حضرت ابو موسیٰ نے حضرت مجزأۃ کو وصیت کی تھی کہ خود سے کوئی کارروائی نہ کرنا جب تک مجھے علم نہ ہوجائے۔
(٥) جب حضرت مجزأۃ نے دیکھا کہ ہرمزان اپنے دوستوں کے ساتھ بیٹھا شراب پی رہا ہے تو انھوں نے اس آدمی سے کہا کہ یہ ہرمزان ہے ؟ اس نے کہا ہاں یہی ہے۔ حضرت مجزأۃ نے کہا کہ یہی وہ شخص ہے جس نے مسلمانوں کو تکلیف پہنچائی ہے۔ میں اسے زندہ نہیں چھوڑوں گا۔ اس آدمی نے کہا کہ ایسا نہ کرو۔ اس کی حفاظت پر مامور لوگ تمہیں اس تک پہنچنے بھی نہیں دیں گے اور مسلمان بھی قلعہ میں داخل نہ ہوسکیں گے۔ حضرت مجزأۃ اپنی بات پر اڑے رہے۔ اس آدمی نے بہت سمجھایا بالآخر حضرت ابو موسیٰ (رض) کی نصیحت یاد دلائی تو حضرت مجزأۃ رک گئے اور پھر اس آدمی کے گھر آگئے اور شام تک وہیں رہے۔
(٦) اگلے دن حضرت ابو موسیٰ کے پاس گئے، انھوں نے حضرت مجزأۃ کے ہمراہ تین سو سے زائد مجاہدین کا دستہ روانہ فرمایا اور انھیں حکم دیا کہ ہر شخص صرف دو کپڑے پہنے اور تلوار ہمراہ رکھے۔ لوگوں نے ایسا ہی کیا۔ پھر سب مجاہدین نہر کے کنارے بیٹھ کر حضرت مجزأۃ کا انتظار کرنے لگے، حضرت مجزأۃ حضرت ابوموسیٰ کے پاس تھے اور احکام و ہدایات لے رہے تھے۔ حضرت عبد الرحمن بن ابی بکرہ فرماتے ہیں کہ ان لوگوں کو موت کے سوا کسی چیز کی چاہت نہ تھی۔ وہ منظر میری نظروں کے سامنے ہے کہ دستر خوان حضرت ابو موسیٰ (رض) کے سامنے بچھا ہوا تھا، لیکن حضرت مجزأۃ اس بات میں شرم محسوس کررہے تھے کہ دستر خوان سے کوئی چیز لیں۔ انھوں نے انگور کا ایک دانہ اٹھایا لیکن اسے بھی نگلنے کی ہمت نہ ہوئی اور اسے آہستگی سے نکال کر نیچے رکھ دیا۔ حضرت ابوموسیٰ نے انھیں نصیحتیں کیں اور انھیں رخصت کردیا۔ رخصت ہوتے ہوئے حضرت مجزأۃ نے حضرت ابو موسیٰ سے کہا کہ میں آپ سے ایک چیز مانگوں تو کیا آپ مجھے عطا فرمائیں گے۔ حضرت ابو موسیٰ نے فرمایا کہ آپ نے جب بھی مجھ سے کوئی چیز مانگی ہے میں نے آپ کو پیش کی ہے۔ حضرت مجزأۃ نے کہا کہ مجھے اپنی تلوار دے دیجئے۔ چنانچہ حضرت ابو موسیٰ نے اپنی تلوار ان کو دے دی۔
(٧) پھر حضرت مجزأۃ مجاہدین کے ساتھ آملے اور اللہ اکبر کہہ کر پانی میں کو دگئے۔ پیچھے سب لوگ بھی پانی میں کود گئے۔ حضرت عبد الرحمن بن ابی بکرہ فرماتے ہیں کہ وہ بطخوں کی طرح پانی میں تیر رہے تھے۔ انھوں نے ندی کو عبور کیا، پھر اس سوراخ کی طرف بڑھے جس سے پانی اندر جارہا تھا۔ جب وہ شہر کے قریب پہنچے تو ان کے ساتھ صرف پینتیس یا چھتیس آدمی تھے۔ انھوں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ میں واپس جاکر انھیں بھی لے آتا ہوں۔ اس پر ایک کوفی آدمی جنہیں جبان کہا جاتا تھا انھوں نے کہا کہ آپ کو یہ بات نہیں کرنی چاہیے، آپ اپنی ذمہ داری کو ادا کیجئے جو حکم آپ کو ملا ہے اس کو کر گزرئیے۔ حضرت مجزأۃ نے کہا کہ تم ٹھیک کہتے ہو۔
(٨) پھر آپ نے ایک دستے کو دروازے کی طرف اور ایک کو فصیل کی طرف مقرر فرمایا اور باقیوں کو لے کر فصیل پر چڑھ گئے۔ اتنے میں اس اور ہ قوم کا ایک جنگجو ہاتھ میں نیزہ لیے حملہ آور ہوا اور اس نے وہ نیزہ حضرت مجزأۃ کو مار دیا۔ حضرت مجزأہ نے لوگوں سے کہا کہ میری فکر مت کرو۔ مجاہدین نے ان پر ایک علامت لگادی تاکہ ان کی جگہ کو جان سکیں۔ پھر مسلمانوں نے فصیل اور شہر کے دروازے پر کھڑے ہو کر اللہ اکبر کہا اور دروازہ کھول دیا اور مسلمان شہر میں داخل ہوگئے۔ ہرمزان کو بتایا گیا کہ عرب لوگ داخل ہوگئے ہیں۔ اس نے کہا کہ یہ لوگ کہاں سے داخل ہوئے ہیں ؟ کیا آسمان سے آگئے ہیں ؟ پھر وہ اپنے ایک خفیہ تہہ خانے میں پناہ گزین ہوگیا۔
(٩) حضرت ابو موسیٰ اپنے ایک عربی گھوڑے پر سوار تشریف لائے، حضرت انس بن مالک (رض) سے ملاقات ہوئی، وہ لوگوں کے امیر تھے۔ انھوں نے کہا کہ اے ابو حمزہ آج تو ہم نے کچھ نہیں کیا۔ وہ قوم سے فارغ ہوگئے، قتل ہونے والے قتل ہوگئے اور قید ہونے والے قید ہوگئے۔ پھر انھوں نے ہرمزان کے خفیہ مکان کا محاصرہ کیا اور جب تک اسے امان نہ مل گئی اس تک رسائی حاصل نہ ہوسکی۔ حضرت ابو موسیٰ (رض) نے ہرمزان اور اس کے ساتھیوں کو حضرت انس بن مالک (رض) کے ساتھ حضرت عمر کی طرف بھیج دیا۔ حضرت انس نے ملاقات سے پہلے حضرت عمر کے پاس آدمی کو بھیج کر ان سے پوچھا کہ انھیں بس ضروری لباس کے ساتھ حاضر خدمت کیا جائے یا ان کے شاہانہ لباس کے ساتھ انھیں لایا جائے۔ حضرت عمر (رض) نے پیغام بھجوایا کہ اگر تم انھیں صرف ضروری لباس کے ساتھ لاؤ گے تو لوگوں کے نزدیک وہ عجمی پہلوانوں سے زیادہ کچھ نہ ہوں گے۔ تم انھیں ان کی شان و شوکت کے حلیہ میں لاؤ تاکہ مسلمانوں کو معلوم ہوسکے کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں کتنا فائدہ عطا کیا ہے۔ پس وہ لوگ شاہانہ ٹھاٹھ باٹھ کے ساتھ حضرت عمر کی خدمت میں حاضر ہوئے۔
(١٠) ہرمزان نے حضرت عمر (رض) سے کہا کہ اے امیر المومنین ! میں آپ سے کون سا کلام کروں ؟ ایک زندہ آدمی کا سا کلام جس کی زندگی بخشی جائے گی یا ایک مردہ کا سا کلام ؟ اس موقع پر حضرت عمر (رض) کی زبان سے یہ جملہ نکل گیا کہ تم بات کرو، تمہارا کوئی نقصان نہیں ہوگا۔ اس پر ہرمزان نے کہا کہ اے امیر المومنین ! آپ جانتے ہیں کہ ہم کیا تھے اور آپ کیا تھے ؟ ہم سب گمراہی میں تھے۔ عرب کے قبائل جب ہمارے پہلوانوں کو دیکھتے تھے تو دور بھاگ جاتے تھے۔ جب اللہ تعالیٰ نے تمہیں ہدایت عطا کی تو تمہیں ایسا زور نصیب ہوا کہ ہم تم سے مقابلہ نہیں کرسکتے۔
(١١) شام کو حضرت عمر نے حضرت انس کو بلایا اور ان سے فرمایا کہ صبح اپنے قیدیوں کو میرے پاس لانا میں ان کی گردنیں مار دوں گا۔ حضرت انس (رض) نے عرض کیا کہ آپ ایسا نہیں کرسکتے ؟ حضرت عمر نے فرمایا کہ وہ کیوں ؟ حضرت انس نے کہا کہ آپ نے اس آدمی سے کہا تھا کہ تم بات کرو، تمہیں کوئی نقصان نہیں ہوگا۔ حضرت عمر نے فرمایا کہ اس پر گواہ لاؤ ورنہ میں تمہیں سزا دوں گا۔ حضرت انس نے حضرت عمر کے ہم نشینوں سے پوچھا کہ کیا انھوں نے یہ نہیں کہا تھا ؟ سب نے جواب دیا کہ کہا تھا۔ اس پر حضرت عمر کو بہت افسوس ہوا اور آپ نے فرمایا کہ اگر انھیں قتل نہیں کرنا تو پھر انھیں یہاں سے لے جاؤ اور دہلک نامی بستی میں چھوڑ دو ۔ جس کے لیے سمندر کے راستے سے گزر کر جانا پڑتا ہے۔ جب وہ لوگ اس بستی کی طرف روانہ ہوئے تو حضرت عمر (رض) نے اپنے ہاتھ اٹھائے اور تین مرتبہ یہ دعا کی کہ اے اللہ اس کشتی کو توڑ دے۔ جب وہ کشتی میں سوار ہوئے تو کشتی ٹوٹ گئی، لیکن وہ کنارے کے قریب تھے لہٰذا سب بچ گئے۔ اس پر ایک مسلمان نے کہا کہ اگر حضرت عمر ان کے غرق ہونے کی دعا کرتے تو وہ سب غرق ہوجاتے لیکن چونکہ انھوں نے کشتی کے ٹوٹنے کی دعا کی تھی اس لیے کشتی ٹوٹ گئی۔

34505

(۳۴۵۰۶) حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ حُمَیْدٍ ، عَنْ أَنَسٍ : قَالَ : حَاصَرْنَا تُسْتَرَ فَنَزَلَ الْہُرْمُزَانُ عَلَی حُکْمِ عُمَرَ فَبَعَثَ بِہِ أَبُو مُوسَی مَعِی ، فَلَمَّا قَدِمْنَا عَلَی عُمَرَ سَکَتَ الْہُرْمُزَانِ فَلَمْ یَتَکَلَّمْ ، فَقَالَ لَہُ عُمَرُ : تَکَلَّمَ ، فَقَالَ : أَکَلاَمُ حَیٍّ أَمْ کَلاَمُ مَیِّتٍ ؟ قَالَ : تَکَلَّمَ فَلاَ بَأْسَ ، قَالَ : إِنَّا وَإِیَّاکُمْ مَعْشَرَ الْعَرَبِ مَا خَلَّی اللَّہُ بَیْنَنَا وَبَیْنَکُمْ فَإِنَّا کُنَّا نَقْتُلُکُمْ وَنُقْصِیکُمْ وَأَمَّا إِذْ کَانَ اللَّہُ مَعَکُمْ لَمْ یَکُنْ لَنَا بِکُمْ یَدَانِ ، فَقَالَ عُمَرُ : مَا تَقُولُ یَا أَنَسُ ؟ قُلْتُ : یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ تَرَکْتُ خَلْفِی شَوْکَۃً شَدِیدَۃً وَعَدَدًا کَثِیرًا إِنْ قَتَلْتَہُ أَیِسَ الْقَوْمُ مِنَ الْحَیَاۃِ ، وَکَانَ أَشَدُّ لِشَوْکَتِہِمْ وَإِنِ اسْتَحْیَیْتَہُ طَمِعَ الْقَوْمُ۔ فَقَالَ : یَا أَنَسُ اسْتَحْیِی قَاتِلَ الْبَرَائِ بْنِ مَالِکٍ وَمَجْزَأَۃَ بْنِ ثَوْرٍ ، فَلَمَّا خَشِیتُ أَنْ یَبْسُطَ عَلَیْہِ قُلْتُ : لَیْسَ إِلَی قَتْلِہِ سَبِیلٌ ، فَقَالَ عُمَرُ : لِمَ ؟ أَعْطَاک ؟ أَصَبْتَ مِنْہُ ؟ قُلْتُ : مَا فَعَلْتُ ، وَلَکِنَّک قُلْتَ لَہُ : تَکَلَّمَ فَلاَ بَأْسَ، قَالَ : لَتَجِیئَنَّی بِمَنْ یَشْہَدُ ، أَوْ لأََبْدَأَنَّ بِعُقُوبَتِکَ ، فَخَرَجْتُ مِنْ عِنْدِہِ ، فَإِذَا أَنَا بِالزُّبَیْرِ قَدْ حَفِظَ مَا حَفِظْتُ فَشَہِدَ عِنْدَہُ فَتَرَکَہُ ، وَأَسْلَمَ الْہُرْمُزَانُ وَفَرَضَ لَہُ۔
(٣٤٥٠٦) حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ ہم نے تستر کا محاصرہ کیا تو ہرمزان نے حضرت عمر کی خلافت کے سامنے سر تسلیم خم کرلیا۔ حضرت ابوموسیٰ (رض) نے ہرمزان کے ساتھ مجھے حضرت عمر کی طرف بھیجا۔ جب ہم حضرت عمر (رض) کی خدمت میں حاضر ہوئے تو ہرمزان نے کوئی بات نہ کی اور خاموش رہا۔ حضرت عمر نے اس سے فرمایا کہ بات کرو۔ اس نے کہا کہ زندہ شخص کی بات کروں یامردہ کی ؟ حضرت عمر (رض) نے فرمایا کہ تم بات کرو تم پر کوئی حرج نہیں۔ اس نے کہا کہ اے اہل عرب اللہ تعالیٰ نے ہمارے اور تمہارے درمیان بہت فرق کردیا ہے، ایک وقت وہ تھا جب ہم تمہیں قتل کرتے تھے اور تم پر غالب آتے تھے۔ اور جب اللہ تمہارے ساتھ ہوگیا تو اب ہمارا تم پر زور نہیں چلتا۔ پھر حضرت عمر نے فرمایا کہ اے انس تم کیا کہتے ہو ؟ میں نے کہا کہ اے امیر المومنین ! میں نے اپنے پیچھے زبردست طاقت اور بڑی تعداد چھوڑی ہے۔ اگر آپ اس کو قتل کردیں گے تو لوگ زندگی سے مایوس ہوجائیں گے اور یہ ان کی قوت کے لیے سخت ہوگا اور اگر آپ اسے زندہ چھوڑیں گے تو لوگ لالچ کریں گے۔
حضرت عمر نے فرمایا کہ کیا میں براء بن مالک اور مجزأۃ بن ثور کے قاتل کو زندہ چھوڑ دوں ! حضرت انس فرماتے ہیں کہ جب میں نے دیکھا کہ وہ اسے قتل کردیں گے تو میں نے کہا کہ آپ اسے قتل نہیں کرسکتے ؟ انھوں نے فرمایا کیوں ؟ کیا تم نے اس سے کوئی مالی مدد لے لی ہے ؟ میں نے کہا میں نے ایسا نہیں کیا۔ آپ نے اس سے کہا کہ تم بات کرو تمہارا کوئی نقصان نہیں ہوگا۔ حضرت عمر نے فرمایا کہ تم اس بات پر گواہ پیش کرو ورنہ میں تمہیں سزا دوں گا۔ پس میں گواہ کی تلاش میں نکلا تو مجھے حضرت زبیر ملے، انھیں بھی وہ بات یاد تھی جو مجھے یاد تھی۔ انھوں نے اس بات کی گواہی دی تو حضرت عمر نے ہرمزان کو چھوڑ دیا اور بعد میں اس نے اسلام قبول کرلیا اور حضرت عمر نے اس کا وظیفہ مقرر کردیا۔

34506

(۳۴۵۰۷) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعبَۃَ ، عَنْ حَبِیبِ بْنِ شِہَابٍ ، عَنْ أَبِیہِ ؛ أَنَّہُ غَزَا مَعَ أَبِی مُوسَی حَتَّی إِذَا کَانَ یَوْمُ قَدِمُوا تُسْتَرَ ، رُمِیَ الأَشْعَرِیُّ فَصُرِعَ فَقُمْتُ مِنْ وَرَائِہِ بِالْتِّرسِ حَتَّی أَفَاقَ ، قَالَ : فَکُنْتُ أَوَّلُ رَجُلٍ مِنَ الْعَرَبِ أَوْقَدَ فِی بَابِ تُسْتَرَ نَارًا ، قَالَ : فَلَمَّا فَتَحْنَاہَا وَأَخَذْنَا السَّبْیَ ، قَالَ أَبُو مُوسَی : اخْتَرْ مِنَ الْجُنْدِ عَشَرَۃَ رَہْطٍ لِیَکُونُوا مَعَک عَلَی ہَذَا السَّبْیِ ، حَتَّی نَأْتِیَک ، ثُمَّ مَضَی وَرَائَ ذَلِکَ فِی الأَرْضِ ، حَتَّی فَتَحُوا مَا فَتَحُوا مِنَ الأَرْضَینِ ، ثُمَّ رَجَعُوا عَلَیْہِ فَقَسَّمَ أَبُو مُوسَی بَیْنَہُمَ الْغَنَائِمَ ، فَکَانَ یَجْعَلُ لِلْفَارِسِ سَہْمَیْنِ وَلِلرَّاجِلِ سَہْمًا وَکَانَ لاَ یُفَرِّقُ بَیْنَ الْمَرْأَۃِ وَبَیْنَ وَلَدِہَا عِنْدَ الْبَیْعِ۔
(٣٤٥٠٧) حضرت شہاب فرماتے ہیں کہ انھوں نے حضرت ابوموسیٰ کے ساتھ جہاد کیا۔ جس دن ہم تستر پہنچے، حضرت اشعری کو تیرلگا اور وہ زمین پر گرگئے۔ میں ان کے پیچھے کمان لے کر کھڑا ہوگیا۔ جب انھیں افاقہ ہوا تو انھوں نے کہا کہ میں عرب میں سے پہلا شخص ہوں جس نے تستر کے دروازے پر آگ جلائی ہے۔ جب ہم نے تستر کو فتح کرلیا اور قیدی پکڑ لیے تو حضرت ابوموسیٰ نے فرمایا کہ فوج میں سے دس آدمیوں کا انتخاب کرلو کہ وہ ہماری واپسی تک ان قیدیوں کی نگرانی کے لیے تمہارے ساتھ رہیں۔ پھر وہ آگے بڑھے اور بہت سے علاقے فتح کرکے واپس آگئے۔ حضرت ابو موسیٰ نے مجاہدین کے درمیان مال غنیمت کو تقسیم کیا، وہ گھڑ سوار کو دو حصے اور پیادہ کو ایک حصہ دیتے تھے اور جب کسی قیدی عورت کو فروخت کرتے تو اس کو اس کے بچے سے جدا نہ کرتے تھے۔

34507

(۳۴۵۰۸) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ ، عَنْ حَبِیبِ بْنِ شِہَابٍ ، قَالَ : حدَّثَنِی أَبِی ، قَالَ : کُنْتُ أَوَّلُ مَنْ أَوْقَدَ فِی بَابِ تُسْتَرَ وَرُمِیَ الأَشْعَرِیُّ فَصُرِعَ ، فَلَمَّا فَتَحُوہَا وَأَخَذُوا السَّبْیَ ، أَمَّرَنِی عَلَی عَشَرَۃٍ مِنْ قَوْمِی ، وَنَفَّلَنِی بِرَجُلٍ سِوَی سَہْمِی وَسَہْمِ فَرَسِی قَبْلَ الْغَنِیمَۃِ۔
(٣٤٥٠٨) حضرت شہاب فرماتے ہیں کہ سب سے پہلے میں نے تستر کے دروازے پر آگ جلائی۔ حضرت اشعری کو تیر لگا اور وہ زمین پر گرگئے۔ جب تستر کا دروازہ کھولا گیا اور دشمنوں کو قیدی بنایا گیا تو حضرت ابو موسیٰ نے مجھے دس لوگوں پر امیر بنادیا، اور انھوں نے مال غنیمت کی تقسیم سے پہلے مجھے میرے اور میرے گھوڑے کے حصے کے علاوہ ایک آدمی کا حصہ دیا۔

34508

(۳۴۵۰۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا شُعْبَۃُ ، عَنِ الْعَوَّامِ بْنِ مُزَاحِمٍ ، عَنْ خَالِدِ بْنِ سَیْحَانَ ، قَالَ : شَہِدَتْ تُسْتَرَ مَعَ أَبِی مُوسَی أَرْبَعُ نِسْوَۃٍ ، أَوْ خَمْسٌ فَکُنَّ یَسْقِینَ الْمَائَ وَیُدَاوِینَ الْجَرْحَی فَأَسْہَمَ لَہُنَّ أَبُو مُوسَی۔
(٣٤٥٠٩) حضرت خالد بن سیحان فرماتے ہیں کہ تستر میں حضرت ابو موسیٰ کے ساتھ جہاد میں چار یا پانچ عورتیں بھی شریک تھیں جو پانی پلاتی تھیں اور زخمیوں کی دیکھ بھال کرتی تھیں، حضرت ابو موسیٰ نے انھیں بھی مال غنیمت میں سے حصہ دیا۔

34509

(۳۴۵۱۰) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا ہَمَّامٌ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ زُرَارَۃَ بْنِ أَوْفَی ، عَنْ مُطَرِّفِ بْنِ مَالِکٍ ؛ أَنَّہُ قَالَ : شَہِدْتُ فَتْحَ تُسْتَرَ مَعَ الأَشْعَرِیِّ ، قَالَ : فَأَصَبْنَا دَانْیَالَ بِالسَّوسِ ، قَالَ : فَکَانَ أَہْلُ السَّوسِ إِذَا أَسْنَتوا أَخْرَجُوہُ فَاسْتَسْقَوْا بِہِ وَأَصَبْنَا مَعَہُ سِتِّینَ جَرَّۃً مُخَتَّمَۃً ، قَالَ : فَفَتَحْنَا جَرَّۃً مِنْ أَدْنَاہَا ، وَجَرَّۃً مِنْ أَوْسَطِہَا ، وَجَرَّۃً مِنْ أَقْصَاہَا فَوَجَدْنَا فِی کُلِّ جَرَّۃٍ عَشَرَۃَ آلاَفٍ ، قَالَ ہَمَّامٌ : مَا أَرَاہُ قَالَ إِلاَّ عَشَرَۃَ آلاَفٍ ، وَأَصَبْنَا مَعَہُ رَیْطَتَیْنِ مِنْ کَتَّانٍ وَأَصَبْنَا مَعَہُ رَبَعَۃً فِیہَا کِتَابٌ وَکَانَ أَوَّلُ رَجُلٍ وَقَعَ عَلَیْہِ رَجُلٌ مِنْ بَلَعَنَبَرَ ، یُقَالَ لَہُ : حُرْقُوصٌ ، قَالَ : فَأَعْطَاہُ الأَشْعَرِیُّ الرَّیْطَتَیْنِ ، وَأَعْطَاہُ مِئَتَیْ دِرْہَمٍ ، قَالَ : ثُمَّ إِنَّہُ طَلَبَ إِلَیْہِ الرَّیْطَتَیْنِ بَعْدَ ذَلِکَ ، فَأَبَی أَنْ یَرُدَّہُمَا عَلَیْہِ ، وَشَقَّہُمَا عَمَائِمَ بَیْنَ أَصْحَابِہِ۔ قَالَ : وَکَانَ مَعَنَا أَجِیرٌ نَصْرَانِیٌّ یُسَمَّی نُعَیْمًا ، فَقَالَ : بِیعُونِی ہَذِہِ الرِّبْعَۃَ بِمَا فِیہَا ، قَالُوا : إِنْ لَمْ یَکُنْ فِیہَا ذَہَبٌ ، أَوْ فِضَّۃٌ ، أَوْ کِتَابُ اللہِ ، قَالَ : فَإِنَّ الَّذِی فِیہَا کِتَابُ اللہِ فَکَرِہُوا أَنْ یَبِیعُوہُ الْکِتَابَ فَبِعْنَاہُ الرِّبْعَۃَ بِدِرْہَمَیْنِ وَوَہَبْنَا لَہُ الْکِتَابَ ، قَالَ قَتَادَۃُ : فَمِنْ ثُمَّ کُرِہَ بَیْعُ الْمَصَاحِفِ ،لأَنَّ الأَشْعَرِیَّ وَأَصْحَابَہُ کَرِہُوا بَیْعَ ذَلِکَ الْکِتَابِ۔ قَالَ ہَمَّامٌ : فَزَعَمَ فَرْقَدُ السَّبَخِیُّ ، قَالَ : حَدَّثَنِی أَبُو تَمِیمَۃَ ؛ أَنَّ عُمَرَ کَتَبَ إِلَی الأَشْعَرِیِّ : أَنْ یُغَسِّلُوا دَانْیَالَ بِالسِّدْرِ وَمَائِ الرَّیْحَانِ ، وَأَنْ یُصَلِّی عَلَیْہِ ، فَإِنَّہُ نَبِیٌّ دَعَا رَبَّہُ أَنْ لاَ یَلِیہِ إِلاَّ الْمُسْلِمُونَ۔
(٣٤٥١٠) حضرت مطرف بن مالک فرماتے ہیں کہ میں تستر کی فتح میں حضرت ابو موسیٰ اشعری (رض) کے ساتھ تھا۔ مقام سوس میں ہمیں حضرت دانیال (علیہ السلام) کی قبر ملی۔ اہل سوس کا معمول تھا کہ جب ان کے یہاں قحط آتا تو وہ ان کے ذریعے بارش طلب کیا کرتے تھے۔ ہمیں ان کے ساتھ ساٹھ گھڑے ملے جن کے منہ مہر سے بند کئے گئے تھے۔ ہم نے ایک گھڑے کو نیچے سے، ایک کو درمیان سے اور ایک کو اوپر سے کھولا تو ہر گھڑے میں دس ہزار درہم تھے۔ ساتھ ہمیں روئی کے کپڑے کے دو بنڈل ملے اور کتابوں کی ایک الماری ملی۔ سب سے پہلے بلعنبر کے ایک آدمی نے حملہ کیا تھا جس کا نام حرقوس تھا۔ حضرت ابو موسیٰ نے اسے دو بنڈل اور دو سو درہم دیئے۔ بعد میں اس سے یہ دو بنڈل واپس مانگے گئے تو اس نے دینے سے انکار کردیا اور اسے کاٹ کر اپنے ساتھیوں کو عمامے بنا دیئے۔
راوی کہتے ہیں کہ اس جنگ میں ہمارے ساتھ ایک نصرانی مزدور تھا جس کا نام ” نُعیم “ تھا۔ اس نے کہا کہ مجھے یہ الماری بیچ دو ۔ اس سے کہا گیا کہ اگر اس میں سونا یا چاندی یا اللہ کی کتاب نہ ہو تو لے لو۔ دیکھا گیا تو اس میں اللہ کی کتاب تھی۔ لہٰذا لوگوں نے کتاب کے بیچنے کو ناپسند خیال کیا اور الماری اسے دو درہم میں بیچ دی اور کتاب اسے ہدیہ کردی۔ حضرت قتادہ فرماتے ہیں کہ اس کے بعد سے مصاحف کی بیع کو مکروہ خیال کیا جانے لگا کیونکہ حضرت اشعری اور ان کے ساتھیوں نے اسے مکروہ خیال کیا تھا۔
حضرت ابو تمیمہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر نے حضرت ابو موسیٰ کو خط لکھا کہ حضرت دانیال کی قبر کو بیری اور ریحان کے پانی سے غسل دو اور ان کی نماز جنازہ پڑھو، کیونکہ انھوں نے دعا کی تھی کہ صرف مسلمان ہی ان کے وارث بنیں۔

34510

(۳۴۵۱۱) حَدَّثَنَا شَاذَانُ قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَنْ أَبِی عِمْرَانَ الْجَوْنِیِّ ، عَنْ أَنَسٍ؛ أَنَّہُمْ لَمَّا فَتَحُوا تُسْتَرَ، قَالَ : وَجَدْنَا رَجُلاً أَنْفُہُ ذِرَاعٌ فِی التَّابُوتِ کَانُوا یَسْتَظْہِرُونَ ، أَوْ یَسْتَمْطِرُونَ بِہِ فَکَتَبَ أَبُو مُوسَی إِلَی عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ بِذَلِکَ ، فَکَتَبَ عُمَرُ: إِنَّ ہَذَا نَبِیٌّ مِنَ الأَنْبِیَائِ ، وَالنَّارُ لاَ تَأْکُلُ الأَنْبِیَائَ أَوْ الأَرْضُ لاَ تَأْکُلُ الأَنْبِیَائَ فَکَتَبَ إِلَیْہِ : أَنْ اُنْظُرْ أَنْتَ وَرَجُلٌ من َأَصْحَابِکَ ، یَعْنِی أَصْحَابَ أَبِی مُوسَی ، فَادْفِنُوہُ فِی مَکَان لاَ یَعْلَمُہُ أَحَدٌ غَیْرُکُمَا ، قَالَ : فَذَہَبْتُ أَنَا ، وَأَبُو مُوسَی فَدَفَنَّاہُ۔
(٣٤٥١١) حضرت انس فرماتے ہیں کہ جب ہم نے تستر کو فتح کیا تو ہم نے دیکھا کہ وہاں ایک آدمی کی قبر ہے جس کا جسم سلامت ہے۔ وہ لوگ اس کے ذریعے بارش طلب کیا کرتے تھے۔ حضرت ابو موسیٰ نے اس بارے میں حضرت عمر کو خط لکھا تو حضرت عمر نے جواب میں فرمایا کہ یہ کسی نبی کی قبر ہے کیونکہ زمین انبیاء کے جسم کو نہیں کھاتی۔ اور انھیں کسی ایسی جگہ دفن کردو جہاں تمہارے اور تمہارے ایک ساتھی کے سوا کوئی نہ جانتا ہو۔ چنانچہ میں اور حضرت ابوموسیٰ ان کی میت کو لے کر گئے اور اسے دفن کردیا۔

34511

(۳۴۵۱۲) حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ حُمَیْدٍ ، عَنْ حَبِیبٍ أَبِی یَحْیَی ؛ أَنَّ خَالِدَ بْنَ زَیْدٍ ، وَکَانَتْ عَیْنُہُ أُصِیبَتْ بِالسَّوسِ، قَالَ: حَاصَرْنَا مَدِینَتَہَا ، فَلَقِینَا جَہْدًا ، وَأَمِیرُ الْجَیْشِ أَبُو مُوسَی وَأَخَذَ الدِّہْقَانُ عَہْدَہُ وَعَہْدَ مَنْ مَعَہُ ، فَقَالَ أَبُو مُوسَی : اعْزِلْہُمْ فَجَعَلَ یَعْزِلْہُمْ ، وَجَعَلَ أَبُو مُوسَی یَقُولُ لأَصْحَابِہِ : إِنِّی لأَرْجُوَ أَنْ یَخْدَعَہُ اللَّہُ عَنْ نَفْسِہِ فَعَزَلَہُمْ وَبَقَیَ عَدُوُّ اللہِ فَأَمَرَ بِہِ أَبُو مُوسَی فَنَادَی وَبَذَلَ لَہُ مَالاً کَثِیرًا فَأَبَی وَضَرَبَ عُنُقَہُ۔
(٣٤٥١٢) حضرت حبیب بن ابی یحییٰ فرماتے ہیں کہ سوس کی لڑائی میں حضرت خالد بن زید کی آنکھ شہید ہوگئی تھی۔ ہم نے سوس کا محاصرہ کیا، اس دوران ہمیں بہت مشقت اٹھانا پڑی۔ لشکر کے امیر حضرت ابو موسیٰ تھے۔ وہاں کے ایک آدمی نے اپنا اور اپنے اہل و عیال کا امان حاصل کیا تو حضرت ابو موسیٰ نے اس سے فرمایا کہ دشمنوں سے الگ ہوجا۔ اس نے اپنے اہل و عیال کو محفوظ مقام پر پہنچانا شروع کردیا۔ حضرت ابو موسیٰ نے اپنے ساتھیوں سے فرمایا کہ ہوسکتا ہے کہ یہ دھوکا دے۔ چنانچہ وہ اپنے اہل کو محفوظ کرکے پھر لڑائی کے لیے دشمنوں کے ساتھ ہولیا۔ حضرت ابو موسیٰ نے حکم دیا کہ اسے گرفتار کرکے لایا جائے، وہ لایا گیا اور اس نے اپنی جان کے بدلے بہت سا مال دینے کی فرمائش کی، لیکن حضرت ابو موسیٰ نے انکار کردیا اور اس کی گردن اڑا دی۔

34512

(۳۴۵۱۳) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ ، عَنْ حُمَیْدٍ ، عَنْ حَبِیبٍ أَبِی یَحْیَی ، عَنْ خَالِدِ بْنِ زَیْدٍ ، عَنْ أَبِی مُوسَی ، بِنَحْوِہِ۔
(٣٤٥١٣) ایک اور سند سے یونہی منقول ہے۔

34513

(۳۴۵۱۴) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا ہَمَّامٌ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ أَنَسٍ ، أَنَّہُ قَالَ : شَہِدْتُ فَتْحَ تُسْتَرَ مَعَ الأَشْعَرِیِّ ، قَالَ : فَلَمْ أُصَلِّ صَلاَۃَ الصُّبْحِ حَتَّی انْتَصَفَ النَّہَارُ ، وَمَا یَسُرَّنِی بِتِلْکَ الصَّلاَۃِ الدُّنْیَا جَمِیعًا۔
(٣٤٥١٤) حضرت انس فرماتے ہیں کہ میں تستر کی لڑائی میں حضرت ابو موسیٰ اشعری (رض) کے ساتھ شریک تھا۔ ایک دن میری صبح کی نماز قضا ہوگئی اور میں آدھا دن گزرنے تک نما زنہ پڑھ سکا۔ مجھے اس نماز کے بدلے ساری دنیا بھی مل جائے تو مجھے خوشی نہ ہوگی۔

34514

(۳۴۵۱۵) حَدَّثَنَا رَیْحَانُ بْنُ سَعِیدٍ ، قَالَ : حدَّثَنِی مَرْزُوقُ بْنُ عَمْرٍو ، قَالَ : حَدَّثَنِی أَبُو فَرْقَدٍ ، قَالَ : کُنَّا مَعَ أَبِی مُوسَی یَوْمَ فَتَحْنَا سُوقَ الأَہْوَازِ فَسَعَی رَجُلٌ مِنَ الْمُشْرِکِینَ وَسَعَی رَجُلاَنِ مِنَ الْمُسْلِمِینَ خَلْفَہُ ، قَالَ : فَبَیْنَا ہُوَ یَسْعَی وَیَسْعَیَانِ إِذْ قَالَ أَحَدُہُمَا لَہُ : مَتَّرَسُ فَقَامَ الرَّجُلُ فَأَخَذَاہُ فَجَائَا بِہِ أَبَا مُوسَی ، وَأَبُو مُوسَی یَضْرِبُ أَعْنَاقَ الأُسَارَی ، حَتَّی انْتَہَی الأَمْرُ إِلَی الرَّجُلِ ، فَقَالَ أَحَدُ الرَّجُلَیْنِ : إِنَّ ہَذَا جُعِلَ لَہُ الأَمَانُ ، قَالَ أَبُو مُوسَی : وَکَیْفَ جُعِلَ لَہُ الأَمَانُ ؟ قَالَ : إِنَّہُ کَانَ یَسْعَی ذَاہِبًا فِی الأَرْضِ ، فَقُلْتُ لَہُ مَتَّرَسُ ، فَقَامَ ، فَقَالَ أَبُو مُوسَی : وَمَا مَتَّرَسُ ؟ قَالَ : لاَ تَخَفْ ، قَالَ : ہَذَا أَمَانٌ خَلَّیَا سَبِیلَہُ ، قَالَ : فَخَلَّیَا سَبِیلَ الرَّجُلِ۔
(٣٤٥١٥) حضرت ابو فرقد فرماتے ہیں کہ جب ہم نے حضرت ابو موسیٰ (رض) کی قیادت میں اہواز کے بازار کو فتح کیا تو مشرکین کا ایک آدمی بھاگا۔ دو مسلمان بھی اس کے پیچھے بھاگے، دوڑتے ہوئے ایک مسلمان نے اس سے کہا ” مترس “ یہ سن کر وہ رک گیا، انھوں نے اسے پکڑ لیا اور حضرت ابو موسیٰ کے پاس لے آئے۔ حضرت ابو موسیٰ قیدیوں کے سر قلم کررہے تھے، جب اس آدمی کی باری آئی تو اسے پکڑنے والے مسلمانوں نے کہا کہ اسے امان دی گئی ہے۔ حضرت ابو موسیٰ نے پوچھا کہ اسے کیسے امان دی گئی ؟ اس آدمی نے کہا کہ یہ بھاگ رہا تھا میں نے اسے کہا ” مترس “ تو یہ کھڑا ہوگیا۔ حضرت ابو موسیٰ نے پوچھا کہ مترس کا کیا مطلب ہے ؟ اس نے کہا کہ اس کا مطلب ہے مت ڈرو۔ حضرت ابو موسیٰ نے فرمایا کہ یہ امان ہے۔ اس آدمی کو جانے دو ۔ لہٰذا اس آدمی کو آزاد کردیا گیا۔

34515

(۳۴۵۱۶) حَدَّثَنَا مَرْحُومُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیزِ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ سدیْسٍ الْعَدَوِیِّ ، قَالَ : غَزَوْنَا مَعَ الأَمِیرِ الأُبُلَّۃَ فَظَفَرْنَا بِہَا ، ثُمَّ انْتَہَیْنَا إِلَی الأَہْوَازِ وَبِہَا نَاسٌ مِنَ الزَّطِّ وَالأَسَاوِرَۃِ فَقَاتَلْنَاہُمْ قِتَالاً شَدِیدًا فَظَفَرْنَا بِہِمْ وَأَصَبْنَا سَبْیًا کَثِیرًا ، فَاقْتَسَمْنَاہُمْ فَأَصَابَ الرَّجُلُ الرَّأْسَ وَالاِثْنَیْنِ فَوَقَعْنَا عَلَی النِّسَائِ فَکَتَبَ أَمِیرُنَا إِلَی عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ بِاَلَّذِی کَانَ فَکَتَبَ إِلَیْہِ : إِنَّہُ لاَ طَاقَۃَ لَکُمْ بِعِمَارَۃِ الأَرْضِ خَلَّوْا مَا فِی أَیْدِیکُمْ مِنَ السَّبْی وَلاَ تُمَلِّکُوا أَحَدًا مِنْہُمْ أَحَدًا وَاجْعَلُوا عَلَیْہِمْ مِنَ الْخَرَاجِ قَدْرَ مَا فِی أَیْدِیہِمْ مِنَ الأَرْضِ ، فَتَرَکْنَا مَا فِی أَیْدِینَا مِنَ السَّبْیِ ، فَکَمْ مِنْ وَلَدٍ لَنَا غَلَبَہُ الْہِمَاسُ وَکَانَ فِیمَنْ أَصَبْنَا أُنَاسٌ مِنَ الزَّطِّ یَتَشَبَّہُونَ بِالْعَرَبِ ، یُوفِرُونَ لِحَاہُمْ ، وَیَأْتَزِرُونَ وَیَحْتَبُونَ فِی مَجَالِسِہِمْ فَکَتَبَ فِیہِمْ إِلَی عُمَرَ ، فَکَتَبَ إِلَیْہِ عُمَرُ : أَنْ أَدْنِہِمْ مِنْک فَمَنْ أَسْلَمَ مِنْہُمْ فَأَلْحِقْہُ بِالْمُسْلِمِینَ ، فَلَمَّا بُلُوْا بِالنَّاسِ لَمْ یَکُنْ عِنْدَہُمْ بَأْسٌ وَکَانَتِ الأَسَاوِرَۃُ أَشَدَّ مِنْہُمْ بَأْسًا فَکَتَبَ فِیہِمْ إِلَی عُمَرَ ، فَکَتَبَ إِلَیْہِ عُمَرُ : أَنْ أَدْنِہِمْ مِنْک ، فَمَنْ أَسْلَمَ مِنْہُمْ فَأَلْحَقَہُ بِالْمُسْلِمِینَ۔
(٣٤٥١٦) حضرت سدیس عدوی فرماتے ہیں کہ ہم نے اپنے امیر کے ساتھ ابلہ کی لڑائی میں حصہ لیا۔ وہاں ہم کامیاب ہوئے، پھر ہم اہواز گئے، وہاں سوڈان اور اس اور ہ کے لوگ تھے۔ ہم نے ان سے زبردست لڑائی کی اور ہم کامیاب ہوگئے۔ اس میں بہت سے قیدی ہمارے ہاتھ لگے اور ہم نے انھیں آپس میں تقسیم کرلیا۔ بعض لوگوں کو ایک اور بعض کو دو قیدی ملے۔ ہم نے اپنی مملوکہ عورتوں سے جماع بھی کیا۔ حضرت عمر (رض) کو اس کی اطلاع ہوئی تو انھوں نے ہمیں خط لکھا جس میں تحریر تھا کہ تمہیں ان قیدیوں پر قبضہ جمانے کا کوئی حق نہیں، سب قیدیوں کو آزاد کردو اور تم ان میں سے کسی کے مالک نہیں ہو۔ ان کے پاس جتنی زمین ہے اس کے بقدر ان سے خراج لو۔ چنانچہ اس حکم کے آنے کے بعد ہم نے سب قیدیوں کو آزاد کردیا۔ جن سوڈانی لوگوں پر ہم غالب آئے تھے ان میں سے بہت سے عربوں کے مشابہ تھے۔ لمبی داڑھی رکھتے تھے، ازار باندھتے تھے اور ٹانگوں کے گرد حلقہ بنا کر بیٹھتے تھے۔ ان کے بارے میں حضرت عمر کو خط لکھا گیا تو آپ نے فرمایا کہ ان لوگوں کو اپنے قریب کرو، ان میں سے جو اسلام قبول کرلے اسے مسلمانوں کے ساتھ شامل کردو۔ جب وہ لوگوں کے ساتھ گھل مل جائیں گے تو ان میں سختی نہیں رہے گی۔ اس اور ہ ان سے زیادہ زور آور تھے۔ ان کے بارے میں بھی حضرت عمر کو لکھا گیا تو آپ نے جواب میں فرمایا کہ ان کو قریب کرو جو اسلام قبول کرلے اسے مسلمانوں کے ساتھ ملا دو ۔

34516

(۳۴۵۱۷) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ: حدَّثَنَا شُعْبَۃُ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ، عَنِ الْمُہَلَّبِ، قَالَ: أَغَرْنَا عَلَی مَنَاذِرَ وَأَصَبْنَا مِنْہُمْ وَکَأَنَّہُ کَانَ لَہُمْ عَہْدٌ فَکَتَبَ عُمَرُ : رُدُّوا مَا أَصَبْتُمْ مِنْہُمْ ، قَالَ: فَرَدُّوا ، حَتَّی رَدُّوا النِّسَائَ الْحَبَالَی۔
(٣٤٥١٧) حضرت مہلب فرماتے ہیں کہ ہم نے اہل مناذر پر چڑھائی کی اور ان پر غلبہ پا لیا۔ ان کا مسلمانوں کے ساتھ عہد تھا۔ جس کی وجہ سے حضرت عمر نے ہمیں خط میں لکھا کہ تم نے ان کا جو کچھ حاصل کیا ہے واپس کردو حتی کہ ان کی وہ عورتیں بھی واپس کردوجو حاملہ ہوچکی ہیں۔

34517

(۳۴۵۱۸) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، قَالَ : حَدَّثَنِی عَطَائُ بْنُ السَّائِبِ ، عَنْ أَبِی زُرْعَۃَ بْنِ عَمْرو بْنِ جَرِیرٍ ؛ أَنَّ رَجُلاً کَانَ ذَا صَوْتٍ وَنِکَایَۃٍ عَلَی الْعَدُوِّ مَعَ أَبِی مُوسَی فَغَنِمُوا مَغْنَمًا ، فَأَعْطَاہُ أَبُو مُوسَی نَصِیبَہُ وَلَمْ یُوفِہِ فَأَبَی أَنْ یَأْخُذَہُ إِلاَّ جَمْیعًا فَضَرَبَہُ عِشْرِینَ سَوْطًا وَحَلقَہُ فَجَمَعَ شَعَرَہُ ، وَذَہَبَ إِلَی عُمَرَ ، فَدَخَلَ عَلَیْہِ ، فَقَالَ جَرِیرٌ : وَأَنَا أَقْرَبُ النَّاسِ مِنْہُ فَأَخْرَجَ شَعَرَہُ مِنْ ضَِبْنہِ فَضَرَبَ بِہِ صَدْرَ عُمَرَ ، فَقَالَ : أَمَا وَاللہِ لَوْلاَہُ ، فَقَالَ عُمَرُ : صَدَقَ لَوْلاَ النَّارُ ، فَقَالَ : مَالِکَ ؟ فَقَالَ : کُنْتُ رَجُلاً ذَا صَوْتٍ وَنِکَایَۃٍ عَلَی الْعَدُوِّ فَغَنِمْنَا مَغْنَمًا وَأَخْبَرَہُ بِالأَمْرِ ، وَقَالَ : حَلَقَ رَأْسِی وَجَلَدَنِی عِشْرِینَ سَوْطًا ، یَرَی أَنَّہُ لاَ یُقْتَصَّ مِنْہُ ، فَقَالَ عُمَرُ : لأَنْ یَکُونَ النَّاسُ کُلُّہُمْ عَلَی مِثْلِ صَرَامَۃِ ہَذَا ، أَحَبَّ مِنْ جَمِیعِ مَا أُفِیء عَلَیْنَا ، قَالَ : فَکَتَبَ عُمَرُ إِلَی أَبِی مُوسَی: سَلاَمٌ عَلَیْکُمْ، أَمَّا بَعْدُ؛ فَإِنَّ فُلاَنَ بْنَ فُلاَنٍ أَخْبَرَنِی بِکَذَا وَکَذَا وَإِنِّی أُقْسِمُ عَلَیْک إِنْ کُنْتَ فَعَلْتَ بِہِ مَا فَعَلْتَ فِی مَلأ مِنَ النَّاسِ، لَمَا جَلَسْتَ فِی مَلأ مِنْہُمْ ، فَاقتصّ مِنْک وَإِنْ کُنْتَ فَعَلْتَ بِہِ مَا فَعَلْتَ فِی خَلاَئٍ ، فَاقْعُدْ لَہُ فِی خَلاَئٍ ، فَیُقْتَصَّ مِنْک ، فَقَالَ لَہُ النَّاسُ : اُعْفُ عَنْہُ ، فَقَالَ : لاَ وَاللہِ ، لاَ أَدَعُہُ لأَحَدٍ مِنَ النَّاسِ ، فَلَمَّا دَفَعَ إِلَیْہِ الْکِتَابُ ، قَعَدَ لِلْقِصَاصِ ، فَرَفَعَ رَأْسَہُ إِلَی السَّمَائِ ، وَقَالَ : قَدْ عَفَوْتُ عَنْہ۔ وَقَدْ قَالَ حَمَّادٌ أَیْضًا : فَأَعْطَاہُ أَبُو مُوسَی بَعْضَ سَہْمِہِ وَقَدْ قَالَ أَیْضًا جَرِیرٌ : وَأَنَا أَقْرَبُ الْقَوْمِ مِنْہُ ، قَالَ : وَقَالَ أَیْضًا : قَدْ عَفَوْتُ عَنْہُ لِلَّہِ۔
(٣٤٥١٨) حضرت ابو زرعہ بن عمرو بن جریر فرماتے ہیں کہ حضرت ابو موسیٰ کے ساتھیوں میں ایک آدمی بہت بہادر اور دلیر تھا۔ جب مسلمانوں کو مال غنیمت حاصل ہوا تو حضرت ابو موسیٰ نے اسے اس کا حصہ پورا نہ دیا۔ اس نے کم حصہ لینے سے انکار کردیا۔ حضرت ابو موسیٰ نے اسے بیس کوڑے لگوائے اور اس کا سر مونڈ دیا۔ اس نے اپنے بال جمع کئے اور حضرت عمر (رض) کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنے بال ان کے سینے پر مارے اور کہا کہ خدا کی قسم ! اگر وہ نہ ہوتی ! حضرت عمر نے فرمایا کہ یہ سچ کہتا ہے کہ اگر جہنم نہ ہوتی۔ پھر حضرت عمر نے اس سے اس کی وجہ پوچھی تو اس نے ساری بات بتائی اور کہا کہ حضرت ابو موسیٰ کا خیال ہے کہ ان سے اس کا بدلہ نہیں لیا جائے گا۔ حضرت عمر نے فرمایا کہ لوگوں کے درمیان برابری کرنا میرے نزدیک مال غنیمت کے حصول سے بہتر ہے۔
پھر حضرت عمر نے حضرت ابو موسیٰ کو خط لکھا جس میں سلام کے بعد فرمایا کہ فلاں بن فلاں نے مجھے یہ خبر دی ہے اور میں تمہیں قسم دے کر کہتاہوں کہ اگر تم نے اس کے ساتھ یہ زیادتی لوگوں کے سامنے کی ہے تو لوگوں کے سامنے بیٹھ کر اسے بدلہ دو اور اگر تنہائی میں کی ہے تو تنہائی میں اسے بدلہ دو ۔ لوگوں نے حضرت عمر سے درخواست کی کہ انھیں معاف فرما دیجئے۔ حضرت عمر نے فرمایا کہ میں انصاف کو کسی کے لیے پس پشت نہیں ڈال سکتا۔ جب خط انھیں ملا تو وہ بدلے کے لیے بیٹھے اور اپنا سر آسمان کی طرف اٹھایا لیکن اس آدمی نے کہا کہ میں نے آپ کو معاف کردیا۔

34518

(۳۴۵۱۹) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا أَبُو عَوَانَۃَ ، قَالَ : حَدَّثَنَا الْمُغِیرَۃُ ، عَنْ سِمَاکِ بْنِ سَلَمَۃَ ؛ أَنَّ الْمُسْلِمِینَ لَمَّا فَتَحُوا تُسْتَرَ وَضَعُوا بِہَا وَضَائِعَ الْمُسْلِمِینَ وَتَقَدَّمُوا لِقِتَالِ عَدُوِّہِمْ ، قَالَ : فَغَدَرَ بِہِمْ دِہْقَانُ تُسْتَرَ ، فَأَحْمَی لَہُمْ تَنُّورًا وَعَرَضَ عَلَیْہِمْ لَحْمَ الْخِنْزِیرِ وَالْخَمرِ ، أَوِ التَّنُّورِ ، قَالَ : فَمِنْہُمْ مِنْ أَکَلَ فَتُرِکَ ، قَالَ : فَعَرَضَ عَلَی نُہَیْبِ بْنِ الْحَارِثِ الضَّبِّیِّ ، فَأَبَی فَوُضِعَ فِی التَّنُّورِ ، قَالَ : ثُمَّ إِنَّ الْمُسْلِمِینَ رَجَعُوا ، فَحَاصَرُوا أَہْلَ الْمَدِینَۃِ حَتَّی صَالَحُوا الدِّہْقَانَ ، فَقَالَ ابْنُ أَخٍ لِنُہَیْبٍ لِعَمِّہِ : یَا عَمَّاہُ ہَذَا قَاتِلُ نُہَیْبٍ ، قَالَ : یَا ابْنَ أَخِی إِنَّ لَہُ ذِمَّۃً ، قَالَ سِمَاکٌ : بَلَغَنِی أَنَّ عُمَرَ بَلَغَہُ ذَلِکَ ، فَقَالَ : یَرْحَمُہُ اللَّہُ ، وَمَا عَلَیْہِ لَوْ کَانَ أَکَلَ۔
(٣٤٥١٩) حضرت سماک بن سلمہ فرماتے ہیں کہ جب مسلمانوں نے تستر کو فتح کیا اور دشمن سے قتال کے لیے آگے بڑھ گئے تو وہاں کے ایک مالدار آدمی نے مسلمان مجاہدین سے غداری کی اور انھیں گرفتار کرلیا۔ پھر اس نے ایک تنور جلایا اور ان کے ساتھ خنزیر کا گوشت اور شراب رکھی اور ان سے کہا کہ یا تو یہ کھالو یا تنور میں ڈال دیئے جاؤ گے۔ چنانچہ جس نے شراب پی لی اور خنزیر کا گوشت کھالیا اسے چھوڑ دیا گیا۔ حضرت نہیب بن حارث کے سامنے یہ چیزیں پیش کی گئیں لیکن انھوں نے انکار کردیا۔ اور اس پر انھیں تنور میں ڈال دیا گیا مسلمان جب جنگی مہمات سے واپس آئے اور شہر کا محاصرہ کیا اور تستر والوں سے صلح ہوئی تو اس مالدار آدمی سے بھی صلح ہوگئی۔ ایک دن حضرت نہیب کے بھتیجے نے اپنے چچا سے کہا کہ اے چچا جان یہ آدمی نہیب کا قاتل ہے۔ انھوں نے جواب دیا کہ اب یہ لوگ مسلمانوں کے عہد میں آچکے ہیں اس لیے اب ہم انھیں کچھ نہیں کہہ سکتے۔ جب اس سارے واقعہ کی اطلاع حضرت عمر کو ہوئی تو انھوں نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نہیب پر رحم فرمائے اگر وہ مجبوری میں جان بچانے کے لیے وہ چیزیں کھالیتے تو کوئی گناہ نہ ہوتا۔

34519

(۳۴۵۲۰) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، قَالَ : حدَّثَنَا الْعَلاَئُ بْنُ الْمِنْہَالِ ، قَالَ : حَدَّثَنَا عَاصِمُ بْنُ کُلَیْبٍ الْجَرْمِیُّ ، قَالَ : حَدَّثَنِی أَبِی ، قَالَ : حَاصَرْنَا تَوجَ وَعَلَیْنَا رَجُلٌ مِنْ بَنِی سُلَیْمٍ ، یُقَالَ لَہُ : مُجَاشِعُ بْنُ مَسْعُودٍ ، قَالَ : فَلَمَّا فَتَحْنَاہَا ، قَالَ : وَعَلَیَّ قَمِیصٌ خَلَقٌ ، قَالَ : فَانْطَلَقْتُ إِلَی قَتِیلٍ مِنَ الْقَتْلَی الَّذِینَ قَتَلْنَا مِنَ الْعَجَمِ ، قَالَ : فَأَخَذْتُ قَمِیصَ بَعْضِ أُولَئِکَ الْقَتْلَی ، قَالَ : وَعَلَیْہِ الدِّمَائُ ، قَالَ : فَغَسَلْتُہُ بَیْنَ أَحْجَارٍ وَدَلَّکْتُہُ حَتَّی أَنْقَیْتُہُ ، وَلَبِسْتُہُ وَدَخَلْتُ الْقَرْیَۃَ ، فَأَخَذْتُ إِبْرَۃً وَخُیُوطًا ، فَخِطْتُ قَمِیصِی فَقَامَ مُجَاشِعٌ ، فَقَالَ : یَا أَیُّہَا ألنَّاسُ لاَ تَغْلَّوا شَیْئًا مَنْ غَلَّ شَیْئًا جَائَ بِہِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ، وَلَوْ کَانَ مِخْیطًا۔ قَالَ : فَانْطَلَقْتُ إِلَی ذَلِکَ الْقَمِیصِ فَنَزَعْتُہُ ، وَانْطَلَقْتُ إِلَی قَمِیصِی ، فَجَعَلْتُ أُفَتّقُہُ ، حَتَّی وَاللہِ یَا بُنَیَّ جَعَلْتُ أَخْرِقُ قَمِیصِی تَوَقِّیًا عَلَی الْخَیْطِ أَنْ یَنْقَطِعَ فَانْطَلَقْتُ بِالْقَمِیصِ وَالإِبْرَۃِ وَالْخیوطِ الَّذِی کُنْتُ أَخَذْتُہُ مِنَ الْمُقَاسِمِ ، فَأَلْقَیْتُہُ فِیہَا ، ثُمَّ مَا ذَہَبْتُ مِنَ الدُّنْیَا حَتَّی رَأَیْتَہُمْ یَغْلَّونَ الأَوسَاق فَإِذَا قُلْتُ : أَیَّ شَیْئٍ ہّذَا ؟ قَالُوا : نَصِیبُنَا مِنَ الْفَیْئِ أَکْثَرُ مِنْ ہَذَا۔
(٣٤٥٢٠) حضرت کلیب جرمی بیان کرتے ہیں کہ جب ہم نے توج نامی علاقے کا محاصرہ کیا تو ہماری قیادت بنوسلیم کے مجاشع بن مسعود کے ہاتھ تھی۔ جب ہم نے توج کو فتح کیا تو اس وقت میرے بدن پر ایک پرانی قمیص تھی۔ میں ایک عجمی مقتول کے پاس گیا اور میں نے اس کی قمیص اتاری، اسے دھویا اور صاف کرکے پہن کے بستی میں داخل ہوا۔ بستی میں سے میں نے ایک سوئی اور دھاگا لیا اور اپنی قمیص کو سی لیا۔ اس کے بعد حضرت مجاشع نے مجاہدین سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اے لوگو ! کسی قسم کی خیانت نہ کرو، جس نے خیانت کی اسے قیامت کے دن خیانت کا حساب چکانا ہوگا خواہ وہ ایک سوئی ہی کیوں نہ ہو۔
پھر میں نے اس قمیص کو اتارا اور اپنی قمیص کے اس حصہ کو دوبارہ پھاڑ دیا جو اس دھاگے سے سیا تھا۔ پھر میں نے وہ سوئی اور دھاگا وہیں رکھ دیئے جہاں سے اٹھائے تھے۔ پھر میں نے اپنی زندگی میں وہ زمانہ دیکھاجب لوگ وسق کے وسق میں خیانت کرتے تھے، اگر ان سے کہا جائے کہ یہ کیا کررہے ہو تو کہتے ہیں کہ غنیمت میں ہمارا حصہ اس سے زیادہ ہے۔

34520

(۳۴۵۲۱) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : لَمَّا قَدِمَ عَلَی عُمَرَ فَتَحَ تُسْتَرَ وَتُسْتَرُ مِنْ أَرْضِ الْبَصْرَۃِ سَأَلَہُمْ: ہَلْ مِنْ مُغْرِبَۃٍ، قَالُوا: رَجُلٌ مِنَ الْمُسْلِمِینَ لَحِقَ بِالْمُشْرِکِینَ فَأَخَذْنَاہُ، قَالَ: مَا صَنَعْتُمْ بِہِ؟ قَالُوا: قَتَلْنَاہُ ، قَالَ: أَفَلاَ أَدْخَلْتُمُوہُ بَیْتًا ، وَأَغْلَقْتُمْ عَلَیْہِ بَابًا ، وَأَطْعَمْتُمُوہُ کُلَّ یَوْمٍ رَغِیفًا ، ثُمَّ اسْتَتَبْتُمُوہُ ثَلاَثًا فَإِنْ تَابَ وَإِلاَّ قَتَلْتُمُوہُ؟ ثُمَّ قَالَ: اللَّہُمَّ لَمْ أَشْہَدْ، وَلَمْ آمُرْ، وَلَمْ أَرْضَ إِذْ بَلَغَنِی، أَوْ حِینَ بَلَغَنِی۔
(٣٤٥٢١) حضرت محمد بن عبد الرحمن کے والد فرماتے ہیں کہ جب حضرت عمر (رض) کو تستر کی فتح کی خبر ملی تو آپ نے پوچھا کہ کیا وہاں کوئی عجیب بات پیش آئی ؟ آپ کو بتایا گیا کہ ایک مسلمان مرتد ہو کر مشرکین سے جاملا، ہم نے اس پکڑ لیا۔ حضرت عمر نے پوچھا کہ تم نے پھر اس کا کیا کیا ؟ لوگوں نے بتایا کہ ہم نے اسے قتل کردیا۔ آپ نے فرمایا کہ تم نے اسے قید میں کیوں نہ رکھا، تمہیں چاہیے تھا کہ اسے تین دن قید میں رکھتے، اسے روزانہ ایک روٹی دیتے اور اسلام میں واپس آنے کا کہتے۔ اگر وہ توبہ کرلیتا تو ٹھیک وگرنہ تم اسے قتل کردیتے۔ پھر حضرت عمر نے دعا کی کہ اے اللہ ! تو گواہ رہنا میں نے اس کا حکم بھی نہیں دیا اور میں اس پر راضی بھی نہیں ہوں۔

34521

(۳۴۵۲۲) حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ بْنُ مُوسَی ، قَالَ : أَخْبَرَنَا إِسْرَائِیلُ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنِ الْمُہَلَّبَ بْنِ أَبِی صُفْرَۃَ ، قَالَ : حَاصَرْنَا مَدِینَۃَ بِالأَہْوَازِ فَافْتَتَحْنَاہَا وَقَدْ کَانَ ذکر صُلْحٍ فَأَصَبْنَا نِسَاء ً فَوَقَعْنَا عَلَیْہِنَ فَبَلَغَ ذَلِکَ عُمَرَ، فَکَتَبَ إِلَیْنَا : خُذُوا أَوْلاَدَہُمْ وَرُدُّوا إِلَیْہِمْ نِسَائَہُمْ ، وَقَدْ کَانَ صَالَحَ بَعْضَہُمْ۔
(٣٤٥٢٢) حضرت مہلب بن ابی صفرہ کہتے ہیں کہ ہم نے اہواز کا محاصرہ کیا اور پھر اسے فتح کرلیا۔ وہاں صلح کا ذکر چلا اور ہم نے کچھ عورتوں کو قیدی بنا کر ان سے جماع کیا تھا۔ پھر یہ خبر حضرت عمر (رض) تک پہنچی تو آپ نے فرمایا کہ اپنی اولاد حاصل کرلو اور ان کی عورتیں انھیں واپس کردو۔

34522

(۳۴۵۲۳) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ الْوَلِیدِ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ عُمَرَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ حَاطِبٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ جَدِّیَّ مُحَمَّدَ بْنَ حَاطِبٍ ، قَالَ : ضُرِبَ عَلَیْنَا بَعْثٌ إِلَی إِصْطَخْرَ فَجَعَلَ الْفَارِسَ لِلْقَاعِدِ۔
(٣٤٥٢٣) حضرت محمد بن حاطب فرماتے ہیں کہ ہمیں اصطخر کی طرف بھیجا گیا اور فارس کو قاعد کے لیے بنایا گیا۔

34523

(۳۴۵۲۴) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ کَیْسَانَ ، قَالَ سَمِعْتُ شُویسًا الْعَدَوِیَّ یَقُولُ : غَزَوْتُ مَیْسَانَ فَسَبَیْتُ جَارِیَۃً ، فَنَکَحْتُہَا حَتَّی جَائَ کِتَابٌ مِنْ عُمَرَ : رُدُّوا مَا فِی أَیْدِیکُمْ مِنْ سَبْیِ مِیسَانَ فَرَدَدْتُ فَلاَ أَدْرِی عَلَی أَیِّ حَالٍ رُدَّدتْ ، حَامِلٌ ، أَوْ غَیْرُ حَامِلٍ ؟ حَتَّی یَکُونَ أَعْمَرَ لِقُرَاہُمْ ، وَأَوْفَرُ لِخَرَاجِہِمْ۔ (ابو عبید ۳۷۸)
(٣٤٥٢٤) حضرت شویس عدوی کہتے ہیں کہ میں نے میسان کی جنگ میں حصہ لیا، میں نے ایک باندی کو قیدی بنایا اور اس سے نکاح کیا۔ پھر ہمارے پاس حضرت عمر کا خط آیا جس میں لکھا تھا کہ میسان کے قیدیوں کو واپس کردو، میں نے اس باندی کو واپس کردیا اور میں نہیں جانتا کہ وہ حاملہ تھی یا نہیں تھی۔ یہ ان کی بستی کے لیے زیادہ آبادی اور زیادہ خراج کی وصولی کا سبب تھا۔

34524

(۳۴۵۲۵) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ سِمَاکٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ عِیَاضًا الأَشْعَرِیَّ ، قَالَ : شَہِدْتُ الْیَرْمُوکَ ، وَعَلَیْنَا خَمْسَۃُ أُمَرَائَ : أَبُو عُبَیْدَۃَ بْنُ الْجَرَّاحِ وَیَزِیدُ بْنُ أَبِی سُفْیَانَ وَابْنُ حَسَنَۃَ وَخَالِدُ بْنُ الْوَلِید وَعِیَاضٌ ، وَلَیْسَ عِیَاضٌ ہَذَا بِاَلَّذِی حَدَّثَ عَنْہُ سِمَاکٌ ، قَالَ : وَقَالَ عُمَرُ : إِذَا کَانَ قِتَالٌ فَعَلَیْکُمْ أَبُو عُبَیْدَۃَ ، قَالَ : فَکَتَبْنَا إِلَیْہِ : إِنَّہُ قَدْ جَاشَ إِلَیْنَا الْمَوْتُ وَاسْتَمْدَدْنَاہُ ، قَالَ : فَکَتَبَ إِلَیْنَا : إِنَّہُ قَدْ جَائَنِی کِتَابُکُمْ تَسْتَمِدُّونَنِی وَإِنِّی أَدُلَّکُمْ عَلَی مَنْ ہُوَ أَعَزَّ نَصْرًا وَأَحْضَرَ جُنْدًا ، فَاسْتَنْصَرُوہُ ، وَإِنَّ مُحَمَّدًا صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَدْ کَانَ نُصِرَ یَوْمَ بَدْرٍ فِی أَقَلَّ مِنْ عِدَّتِکُمْ ، فَإِذَا أَتَاکُمْ کِتَابِی ہَذَا فَقَاتَلُوہُمْ، وَلاَ تُرَاجِعُونِی، قَالَ: فَقَاتَلْنَاہُمْ، فَہَزَمْنَاہُمْ ، وَقَتَلْنَاہُمْ فِی أَرْبَعَۃِ فَرَاسِخَ ، قَالَ : وَأَصَبْنَا أَمْوَالاً ، قَالَ : فَتَشَاوَرْنَا فَأَشَارَ عَلَیْنَا عِیَاضٌ أَنْ نُعْطِیَ کُلِّ رَأْسٍ عَشَرَۃً۔ قَالَ : وَقَالَ أَبُو عُبَیْدَۃَ : مَنْ یُرَاہِنُنِی ؟ قَالَ : فَقَالَ شَابٌّ : أَنَا ، إِنْ لَمْ تَغْضَبْ ، قَالَ : فَسَبَقَہُ ، قَالَ : فَرَأَیْتُ عَقِیصَتَیْ أَبِی عُبَیْدَۃَ تَنْقُزَانِ ، وَہُوَ خَلْفَہُ عَلَی فَرَسٍ عَربِیٍّ۔
(٣٤٥٢٥) حضرت عیاض اشعری کہتے ہیں کہ میں جنگ یرموک میں شریک تھا، اس میں ہمارے پانچ امیر تھے : حضرت ابو عبیدہ بن جراح، حضرت یزید بن ابی سفیان، حضرت ابن حسنہ، حضرت خالد بن ولید اور حضرت عیاض۔ اور حضرت عمر نے فرمایا تھا کہ جب لڑائی ہو تو حضرت ابو عبیدہ کی اطاعت کو لازم پکڑنا۔ پھر اس لڑائی میں ہم شدید خطرات میں گھر گئے تو ہم نے حضرت عمر سے مدد طلب کی۔ انھوں نے جواب میں لکھا کہ تمہارا خط مجھے ملا ہے جس میں تم نے مجھ سے مددمانگی ہے۔ میں تمہیں اس اللہ سے مدد مانگنے کو کہتا ہوں جس کی مدد زیادہ غالب ہے اور جس کا لشکر زیادہ مضبوط ہے اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غزوہ بدر میں تم سے کم تعداد کے ساتھ دشمن کو شکست دی تھی، جب میرا یہ خط تمہارے پاس پہنچ جائے تو میری طرف رجوع نہ کرنا۔ اس خط کے ملنے کے بعد ہم نے خوب لڑائی کی اور دشمن کو شکست دے دی۔ ہم نے چار فرسخ تک ان سے لڑائی کی اور بہت سا مال حاصل کیا۔ پھر ہم نے آپس میں مال کی تقسیم کے بارے میں مشورہ کیا تو حضرت عیاض نے مشورہ دیا کہ ہر ایک کو دس دیئے جائیں۔
پھر حضرت ابو عبیدہ نے فرمایا کہ مجھ سے کون دوڑ لگائے گا۔ ایک نوجوان نے کہا کہ اگر آپ ناراض نہ ہوں تو میں آپ کے ساتھ دوڑ لگاتا ہوں۔ پھر وہ نوجوان آگے نکل گیا۔ راوی کہتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ حضرت ابو عبیدہ اپنے عربی گھوڑے پر اس نوجوان کے پیچھے تھے اور ان کے بالوں کی مینڈھیاں اڑ رہی تھیں۔

34525

(۳۴۵۲۶) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، قَالَ : حدَّثَنَا إِسْمَاعِیلُ ، عَنْ قَیْسٍ ، قَالَ : رَأَیْتُ رَجُلاً یُرِیدُ أَنْ یَشْتَرِیَ نَفْسَہُ یَوْمَ الْیَرْمُوکِ ، وَامْرَأَۃٌ تُنَاشِدُہُ ، فَقَالَ : رُدُّوا عَنِّی ہَذِہِ فَلَوْ أَعْلَمُ أَنَّہُ یُصِیبُہَا الَّذِی أرِیدُ مَا نَفِسْتُ عَلَیْہَا إِنِی وَاللہِ لَئَنْ اسْتَطَعْتُ لاَ یَمْضِی یَوْمٌ یَزُولُ ہَذَا مِنْ مَکَانِہِ وَأَشَارَ بِیَدِہِ إِلَی جَبَلٍ ، فَإِنْ غَلَبْتُمْ عَلَی جَسَدِی فَخُذُوہُ ، قَالَ قَیْسٌ : فَمَرَرْنَا عَلَیْہِ ، فَرَأَیْنَاہُ بَعْدَ ذَلِکَ قَتِیلاً فِی تِلْکَ الْمَعْرَکَۃِ۔
(٣٤٥٢٦) حضرت قیس فرماتے ہیں کہ جنگ یرموک میں میں نے ایک آدمی کو دیکھا جو اپنی جان فدا کرنے کو تیار تھا اور اس کی بیوی اسے واسطے دے کر روک رہی تھی۔ وہ کہہ رہا تھا کہ اسے مجھ سے دورکرو، میں اس کے لیے ہرگز نہیں رک سکتا۔ حضرت قیس فرماتے ہیں کہ بعد میں ہم نے اس کو دیکھا کہ وہ اس معرکہ میں شہید ہوگیا تھا۔

34526

(۳۴۵۲۷) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، قَالَ : حدَّثَنَا مِسْعَرٌ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاہِیمَ ، عَن سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ، عَمَّنْ حَدَّثَہُ ؛ أَنَّہُ لَمْ یُسْمَعْ صَوْتٌ أَشَدَّ مِنْ صَوْتِہِ ، وَہُوَ تَحْتَ رَایَۃِ ابْنِہِ یَوْمَ الْیَرْمُوکِ ، وَہُوَ یَقُولُ : ہَذَا یَوْمٌ مِنْ أَیَّامِ اللہِ اللَّہُمَّ نَزِّلْ نَصْرَک ، یَعْنِی أَبَا سُفْیَانَ۔
(٣٤٥٢٧) حضرت سعید بن مسیب نقل کرتے ہیں کہ جنگ یرموک میں ابو سفیان کی آواز سے بلند آواز کسی کی نہ تھی، وہ اپنے بیٹے کے جھنڈے کے نیچے کھڑے تھے اور کہہ رہے تھے کہ یہ اللہ کے دنوں میں سے ایک دن ہے۔ اے اللہ ! اپنی مدد کو نازل فرما۔

34527

(۳۴۵۲۸) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ ہِلاَلِ بْنِ یَسَافٍ ، عَنْ رَبِیعِ بْنِ عُمَیْلَۃَ ، عَنْ حُذَیْفَۃَ ، قَالَ : اخْتَلَفَ رَجُلٌ مِنْ أَہْلِ الْکُوفَۃِ وَرَجُلٌ مِنْ أَہْلِ الشَّامِ ، فَتَفَاخَرَا ، فَقَالَ الْکُوفِیُّ : نَحْنُ أَصْحَابُ یَوْمِ الْقَادِسِیَّۃِ وَیَوْمِ کَذَا وَکَذَا ، قَالَ الشَّامِیُّ : نَحْنُ أَصْحَابُ الْیَرْمُوکِ وَیَوْمِ کَذَا وَیَوْمِ کَذَا۔
(٣٤٥٢٨) حضرت حذیفہ سے منقول ہے کہ ایک کوفی اور ایک شامی شخص کا باہم تفاخر ہوا، کوفی نے کہا کہ ہم قادسیہ والے اور فلاں فلاں لڑائی والے ہیں، شامی نے کہا کہ ہم یرموک والے اور فلاں فلاں لڑائی والے ہیں۔

34528

(۳۴۵۲۹) حَدَّثَنَا ابْنُ إِدْرِیسَ ، عَنْ حُصَیْنٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنْ سُوَیْد بْنِ غَفَلَۃَ ، قَالَ : شَہِدْنَا الْیَرْمُوکَ ، فَاسْتَقْبَلْنَا عُمَرَ ، وَعَلَیْنَا الدِّیبَاجُ وَالْحَرِیرُ فَأَمَرَ فَرُمِیْنَا بِالْحِجَارَۃِ ، قَالَ : فَقُلْنَا : مَا بَلَغَہُ عَنَّا ؟ قَالَ : فَنَزَعَنَاہُ ، وَقُلْنَا : کَرِہَ زِیَّنَا ، فَلَمَّا اسْتَقْبَلْنَا رَحَّبَ بِنَا ، ثُمَّ قَالَ : إِنَّکُمْ جِئْتُمُونِی فِی زِیِّ أَہْلِ الشِّرْک إِنَّ اللَّہَ لَمْ یَرْضَ لِمَنْ قَبْلَکُمَ الدِّیبَاجَ وَالْحَرِیرَ۔
(٣٤٥٢٩) حضرت سوید بن غفلہ فرماتے ہیں کہ ہم یرموک کی لڑائی سے واپس آئے تو حضرت عمر ہمارے استقبال کے لیے آئے۔ اس وقت ہمارے جسم پر ریشم کا لباس تھا۔ حضرت عمر نے لوگوں کو حکم دیا کہ انھیں پتھر مارے جائیں۔ ہم نے کہا کہ انھیں ہمارے بارے میں نہ جانے کیا خبر ملی ہے ؟ پھر ہم نے ریشم کے کپڑے اتار دیئے اور کہا کہ انھیں ہمارا یہ حلیہ ناپسند آیا ہے۔ پھر جب ہم گئے تو انھوں نے ہمارا استقبال کیا اور فرمایا کہ پہلے تم مشرکین کے حلیے میں آئے تھے اور اللہ تعالیٰ نے تم سے پہلے لوگوں کے لیے بھی ریشم کو پسند نہیں کیا ہے۔

34529

(۳۴۵۳۰) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا جَرِیرُ بْنُ حَازِمٍ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : شَہِدْتُ الْیَرْمُوکَ ، فَأَصَابَ النَّاسُ أَعْنَابًا وَأَطْعِمَۃً ، فَأَکَلُوا وَلَمْ یَرَوْا بِہَا بَأْسًا۔
(٣٤٥٣٠) حضرت ابن عمر فرماتے ہیں کہ میں یرموک کی لڑائی میں شریک تھا، وہاں لوگوں کو کھجوریں اور غلے ملے، وہ انھوں نے کھائے اور اس میں کچھ حرج نہیں سمجھا۔

34530

(۳۴۵۳۱) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ، قَالَ: لَمَّا أَسْلَمَ عِکْرِمَۃُ بْنُ أَبِی جَہْلٍ، أَتَی النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : یَا رَسُولَ اللہِ وَاللہِ ، لاَ أَتْرُکُ مَقَامًا قُمْتَہُ لأَصُدَّ بِہِ عَنْ سَبِیلِ اللہِ ، إِلاَّ قُمْتُ مِثْلَہُ فِی سَبِیلِ اللہِ، وَلاَ أَتْرُکُ نَفَقَۃً أَصُدَّ بِہَا عَنْ سَبِیلِ اللہِ، إِلاَّ أَنْفَقْتُ مِثْلَہَا فِی سَبِیلِ اللہِ، فَلَمَّا کَانَ یَوْمُ الْیَرْمُوکِ نَزَلَ فَتَرَجَّلَ ، فَقَاتَلَ قِتَالاً شَدِیدًا ، فَقُتِلَ فَوُجِدَ بِہِ بِضْعٌ وَسَبْعُونَ ، مِنْ بَیْنِ طَعْنَۃٍ ، وَضَرْبَۃٍ ، وَرَمْیَۃٍ۔
(٣٤٥٣١) حضرت ابو اسحاق فرماتے ہیں کہ جب عکرمہ بن ابوجہل نے اسلام قبول کیا اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول ! میں نے اللہ کے راستے سے روکنے کے لیے جو طریقہ کار اختیار کیا تھا میں وہ ہر طریقہ اللہ کے راستے میں اختیار کروں گا اور جتنا مال میں نے اللہ کے راستے سے روکنے کے لیے خرچ کیا تھا اتنا ہی مال میں اللہ کے راستے میں خرچ کروں گا۔ جنگ یرموک میں حضرت عکرمہ (رض) سواری سے اتر کر پیدل لڑے اور زبردست لڑائی کی، پھر وہ شہید ہوگئے اور ان کے جسم پر نیزوں، تلواروں اور تیروں کے ستر سے زیادہ نشانات تھے۔

34531

(۳۴۵۳۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا ہِشَامُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنْ زَیْدِ بْنِ أَسْلَمَ ، عْن أَبِیہِ ، قَالَ : لَمَّا أَتَی أَبُو عُبَیْدَۃَ الشَّامَ حُصِرَ ہُوَ وَأَصْحَابُہُ ، وَأَصَابَہُمْ جَہْدٌ شَدِیدٌ فَکَتَبَ إِلَیْہِ عُمَرُ : سَلاَمٌ عَلَیْکُمْ ، أَمَّا بَعْدُ ، فَإِنَّہُ لَمْ تَکُنْ شِدَّۃٌ إِلاَّ جَعَلَ اللَّہُ بَعْدَہَا فَرْجًا وَلَنْ یَغْلِبَ عُسْرٌ یُسْرَیْنِ وَکَتَبَ إِلَیْہِ : {یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا اصْبِرُوا وَصَابِرُوا وَرَابِطُوا وَاتَّقُوا اللَّہَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُونَ} ، قَالَ : فَکَتَبَ إِلَیْہِ أَبُو عُبَیْدَۃَ : سَلاَمٌ ، أَمَّا بَعْدُ ، فَإِنَّ اللَّہَ ، قَالَ : {إِنَّمَا الْحَیَاۃُ الدُّنْیَا لَعِبٌ وَلَہْوٌ وَزِینَۃٌ وَتَفَاخُرٌ بَیْنَکُمْ وَتَکَاثُرٌ فِی الأَمْوَالِ وَالأَوْلاَدِ} إِلَی آخِرِ الآیَۃِ ، قَالَ : فَخَرَجَ عُمَرُ بِکِتَابِ أَبِی عُبَیْدَۃَ ، فَقَرَأَہُ عَلَی النَّاسِ ، فَقَالَ : یَا أَہْلَ الْمَدِینَۃِ إِنَّمَا کَتَبَ أَبُو عُبَیْدَۃَ یُعَرِّضُ بِکُمْ ، وَیَحُثُّکُمْ عَلَی الْجِہَادِ۔ قَالَ زَیْدٌ : قَالَ أَبِی : فَإِنِّی لَقَائِمٌ فِی السُّوقِ ، إِذْ أَقْبَلَ قَوْمٌ مُبَیَّضِینَ ، قَدْ ہَبَطُوا مِنَ الثَّنِیَّۃِ ، فِیہِمْ حُذَیْفَۃُ بْنُ الْیَمَانَ یُبَشِّرُونَ ، قَالَ : فَخَرَجْتُ أَشْتَدُّ حَتَّی دَخَلْتَ عَلَی عُمَرَ ، فَقُلْتُ : یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ ، أَبْشِرْ بِنَصْرِ اللہِ وَالْفَتْحِ ، فَقَالَ عُمَرُ : اللَّہُ أَکْبَرُ ، رُبَّ قَائِلٍ لَوْ کَانَ خَالِدُ بْنُ الْوَلِیدِ۔
(٣٤٥٣٢) حضرت اسلم فرماتے ہیں کہ جب حضرت ابو عبیدہ شام آئے تو وہ اور ان کے ساتھی گھیر لیے گئے اور انھیں شدید تکلیف کا سامنا کرنا پڑا۔ حضرت عمر نے ان کی طرف خط لکھاجس میں سلام کے بعد تحریر کیا کہ اللہ نے ہر پریشانی کے بعد آسانی رکھی ہے۔ کوئی ایک پریشانی دو آسانیوں پر غالب نہیں آسکتی۔ آپ نے قرآن مجید کی یہ آیت بھی ان کی طرف لکھ بھیجی { یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا اصْبِرُوا وَصَابِرُوا وَرَابِطُوا وَاتَّقُوا اللَّہَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُونَ } راوی کہتے ہیں کہ اس کے بعد حضرت ابو عبیدہ نے انھیں جواب میں تحریر کیا {إِنَّمَا الْحَیَاۃُ الدُّنْیَا لَعِبٌ وَلَہْوٌ وَزِینَۃٌ وَتَفَاخُرٌ بَیْنَکُمْ وَتَکَاثُرٌ فِی الأَمْوَالِ وَالأَوْلاَدِ } پھر حضرت عمر (رض) نے حضرت ابو عبیدہ کا خط لوگوں کو سنایا اور ان سے فرمایا کہ اے مدینہ والو ! حضرت ابو عبیدہ تمہیں جہاد کی ترغیب دے رہے ہیں۔
حضرت زید فرماتے ہیں کہ میرے والد نے فرمایا کہ میں بازار میں کھڑا تھا کہ کچھ لوگ وادی سے اترتے ہوئے آئے، ان میں حضرت حذیفہ (رض) بھی تھے اور وہ فتح کی خوشخبری دے رہے تھے۔ میں بھی خوشی میں باہر آیا اور حضرت عمر کے پاس حاضر ہوا اور میں نے ان سے کہا کہ اے امیر المومنین اللہ کی مدد اور فتح کی خوشخبری ہو۔ حضرت عمر نے اللہ اکبر کہا۔ کسی کہنے والے نے کہا کہ کاش خالد بن ولید ہوتے۔

34532

(۳۴۵۳۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا الأَعْمَشُ ، عَنْ أَبِی وَائِلٍ ، عَنْ عَزْرَۃَ بْنِ قَیْسٍ الْبَجَلِیِّ ؛ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ لَمَّا عَزَلَ خَالِدَ بْنَ الْوَلِیدِ وَاسْتَعْمَلَ أَبَا عُبَیْدَۃَ عَلَی الشَّامِ ، قَامَ خَالِدٌ ، فَخَطَبَ النَّاسَ ، فَحَمِدَ اللَّہَ وَأَثْنَی عَلَیْہِ ، ثُمَّ قَالَ : إِنَّ أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ اسْتَعْمَلَنِی عَلَی الشَّامِ ، حَتَّی إِذَا کَانَتْ بَثنِْیَّۃَ وَعَسَلاً عَزَلَنِی وَآثَرَ بِہَا غَیْرِی ، قَالَ : فَقَامَ رَجُلٌ مِنَ النَّاسِ مِنْ تَحْتِہِ ، فَقَالَ : اصْبِرْ أَیُّہَا الأَمِیرُ فَإِنَّہَا الْفِتْنَۃُ ، قَالَ : فَقَالَ خَالِدٌ : أَمَا وَابْنُ الْخَطَّابِ حَیٌّ فَلاَ وَلَکِنْ إِذَا کَانَ النَّاسُ بِذِی بَلَی وَبذِی بَلَی وَحَتَّی یَأْتِیَ الرَّجُلُ الأَرْضَ یَلْتَمِسُ فِیہَا مَا لَیْسَ فِی أَرْضِہِ ، فَلاَ یَجِدُہُ۔
(٣٤٥٣٣) حضرت عزرہ بن قیس بجلی فرماتے ہیں کہ جب حضرت عمر نے حضرت خالد بن ولید کو معزول کردیا اور شام میں حضرت ابو عبیدہ کو حاکم مقرر کردیا تو حضرت خالد نے خطبہ دیا، اس میں اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا بیان کی اور فرمایا کہ بیشک امیر المومنین نے مجھے شام پر عامل مقرر کیا، پھر جب مکھن اور شہد رہ گیا تو مجھے معزول کرکے مجھ پر کسی دوسرے کو ترجیح دے دی۔ اس پر ایک آدمی نے کھڑے ہو کر کہا کہ اے امیر صبر کیجئے، یہ ایک فتنہ ہے۔ حضرت خالد نے فرمایا کہ جب تک حضرت عمر حیات ہیں تب تک تو کوئی فتنہ نہیں، پھر جب لوگ بغیر امیر کے ہوجائیں گے۔ یہاں تک کہ ایک آدمی ایک سرزمین میں آئے گا اور اس میں وہ چیز تلاش کرے گا جو اس کی سرزمین میں نہیں ہے لیکن وہ اسے نہیں پائے گا۔

34533

(۳۴۵۳۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا مُبَارَکٌ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : قَالَ عُمَرُ ، لَمَّا بَلَغَہُ قَوْلُ خَالِدِ بْنِ الْوَلِیدِ : لأَنْزِعَنَّ خَالِدًا ، وَلأَنْزِعَنَّ الْمُثَنَّی حَتَّی یَعْلَمَا أَنَّ اللَّہَ یَنْصُرُ دِیْنَہُ لَیْسَ إِیَّاہُمَا۔
(٣٤٥٣٤) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ جب حضرت عمر کو حضرت خالد بن ولید کی بات معلوم ہوئی تو آپ نے فرمایا کہ میں خالد اور مثنی کو معزول کردوں گا تاکہ ان دونوں کو معلوم ہوجائے کہ اللہ اپنے دین کی مدد کرتا ہے ان دونوں کی نہیں کرتا۔

34534

(۳۴۵۳۵) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ، عَنِ الْقَاسِمِ ، عَنْ أَسْلَمَ مَوْلَی عُمَرَ ، قَالَ : لَمَّا قَدِمْنَا مَعَ عُمَرَ الشَّامَ ، أَنَاخَ بَعِیرَہُ ، وَذَہَبَ لِحَاجَتِہِ ، فَأَلْقَیْتُ فَرْوَتِی بَیْنَ شُعْبَتَیَ الرَّحْلِ ، فَلَمَّا جَائَ رَکْبٌ عَلَی الْفَرْوَۃِ فَلَقِینَا أَہْلَ الشَّامِ یَتَلَقَّوْنَ عُمَرَ ، فَجَعَلُوا یَنْظُرُونَ فَجَعَلْتُ أُشِیرُ لَہُمْ إِلَیْہِ ، قَالَ : یَقُولُ عُمَرَ : تَطْمَحُ أَعْیُنُہُمْ إِلَی مَرَاکِبَ مَنْ لاَ خَلاَقَ لَہُ ، یُرِیدُ مَرَاکِبَ الْعَجَمِ۔
(٣٤٥٣٥) حضرت عمر کے خادم حضرت اسلم فرماتے ہیں کہ جب ہم حضرت عمر کے ساتھ شام آئے تو انھوں نے اپنے اونٹ کو بٹھایا اور حاجت کے لیے تشریف لے گئے۔ میں نے کجاوے میں پوستین بچھا دی، جب وہ واپس آئے تو پوستین پر سوار ہوئے۔ پھر ہم اہل شام کو ملے وہ مجھ سے حضرت عمر کا پوچھتے تھے تو میں ان کی طرف اشارہ کرتا تھا۔ ان کی صورتحال دیکھ کر حضرت عمر فرماتے تھے کہ ان کی آنکھیں ان سواریوں کی طرف زیادہ مائل ہوتی ہیں جو درستی سے خالی ہیں۔ یعنی عجمیوں کی سواریوں کی طرف۔

34535

(۳۴۵۳۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إِسْمَاعِیلَ ، عَنْ قَیْسٍ ، قَالَ : لَمَّا قَدِمَ عُمَرُ الشَّامَ اسْتَقْبَلَہُ النَّاسُ وَہُوَ عَلَی بَعِیرِہِ ، فَقَالُوا : یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ ، لَوْ رَکِبْتَ بِرْذَوْنًا ، یَلْقَاک عُظَمَائُ النَّاسِ وَوُجُوہُہُمْ ، فَقَالَ عُمَرُ : لاَ أَرَاکُمْ ہَاہُنَا إِنَّمَا الأَمْرُ مِنْ ہَاہُنَا ، وَأَشَارَ بِیَدِہِ إِلَی السَّمَائِ۔
(٣٤٥٣٦) حضرت قیس فرماتے ہیں کہ جب حضرت عمر شام آئے تو لوگوں نے ان کا استقبال کیا، وہ اپنے اونٹ پر سوار تھے، لوگوں نے کہا کہ امیر المومنین ! اگر آپ اعلیٰ نسل کے گھوڑے پر سوار ہوتے تو اچھا ہوتا، کیونکہ آپ سے یہاں کے بڑے اور سرکردہ لوگ ملیں گے۔ حضرت عمر نے فرمایا کہ معاملات یہاں نہیں بلکہ وہاں طے ہوتے ہیں اور آپ نے آسمان کی طرف اشارہ فرمایا۔

34536

(۳۴۵۳۷) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ إِسْمَاعِیلَ ، عَنْ قَیْسٍ ، قَالَ : جَائَ بِلاَلٌ إِلَی عُمَرَ وَہُوَ بِالشَّامِ ، وَحَوْلُہُ أُمَرَائُ الأَجْنَادِ جُلُوسًا ، فَقَالَ : یَا عُمَرُ ، فَقَالَ : ہَا أَنَا ذَا عُمَرُ ، فَقَالَ لَہُ بِلاَلٌ : إِنَّک بَیْنَ ہَؤُلاَئِ وَبَیْنَ اللہِ ، وَلَیْسَ بَیْنَکَ وَبَیْنَ اللہِ أَحَدٌ ، فَانْظُرْ عَنْ یَمِیْنِکَ ، وَانْظُرْ عَنْ شِمَالِکَ ، وَانْظُرْ مِنْ بَیْنِ یَدَیْک وَمِنْ خَلْفِکَ إِنَّ ہَؤُلاَئِ الَّذِینَ حَوْلَک ، وَاللہِ إِنْ یَأْکُلُونَ إِلاَّ لُحُومَ الطَّیْرِ ، فَقَالَ عُمَرُ : صَدَقْتَ ، وَاللہِ لاَ أَقُومُ مِنْ مَجْلِسِی ہَذَا ، حَتَّی یَتَکَفَّلُوا لِکُلِّ رَجُلٍ مِنَ الْمُسْلِمِینَ مُدَّیْ طَعَامٍ ، وَحَظَّہُمْ مِنَ الْخَلِّ وَالزَّیْتِ فَقَالُوا : ذَاکَ إِلَیْنَا ، یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ قَدْ أَوْسَعَ اللَّہُ الرِّزْقَ ، وَأَکْثَرَ الْخَیْرَ ، قَالَ : فَنِعْمَ۔
(٣٤٥٣٧) حضرت قیس فرماتے ہیں کہ حضرت عمر شام میں تھے کہ حضرت بلال (رض) ان کے پاس آئے، اس وقت حضرت عمر کے آس پاس لشکروں کے قائدین بیٹھے تھے۔ حضرت بلال نے آواز دی اے عمر ! حضرت عمر نے فرمایا کہ عمر یہاں ہے۔ حضرت بلال نے ان سے کہا کہ آپ ان لوگوں کے اور اللہ کے درمیان ہیں اور آپ کے اور اللہ کے درمیان کوئی نہیں، آپ اپنے آگے، پیچھے، دائیں اور بائیں دیکھئے، جو لوگ آپ کے اردگرد بیٹھے ہیں یہ صرف پرندوں کا گوشت کھاتے ہیں۔ حضرت عمر نے فرمایا کہ آپ نے سچ کہا۔ میں اپنی اس نشست سے اس وقت تک نہیں اٹھوں گا جب تک ہر مسلمان کو اس بات کا پابند نہ کردوں کہ وہ دو مد غلہ اور سرکہ اور زیتون استعمال کرے۔ لوگوں نے کہا کہ اے امیر المومنین ! کیا ہمارے لیے یہ ہوگا حالانکہ اللہ تعالیٰ نے رزق کو وسیع اور خیر کو زیادہ کردیا ہے۔ حضرت عمر نے فرمایا ہاں۔

34537

(۳۴۵۳۸) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیۃَ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ أَسْلَمَ مَوْلَی عُمَرَ ، قَالَ : لَمَّا قَدِمَ عُمَرُ الشَّامَ أَتَاہُ رَجُلٌ مِنَ الدَّہَّاقِینَ ، فَقَالَ : إِنِّی قَدْ صَنَعْتُ طَعَامًا ، فَأُحِبَّ أَنْ تَجِیئَ فَیَرَی أَہْلُ أَرْضِی کَرَامَتِی عَلَیْک ، وَمَنْزِلَتِی عِنْدَکَ ، أَوْ کَمَا قَالَ ، فَقَالَ : إِنَّا لاَ نَدْخُلُ ہَذِہِ الْکَنَائِسَ ، أَوْ ہَذِہِ الْبِیَعَ الَّتِی فِیہَا الصُّوَرُ۔
(٣٤٥٣٨) حضرت عمر کے غلام حضرت اسلم فرماتے ہیں کہ جب حضرت عمر شام آئے تو ان کے پاس وہاں کے دہاقین میں سے ایک آدمی آیا، اس نے کہا کہ میں نے کھانا تیار کیا ہے اور میں چاہتا ہوں کہ آپ میرے گھر آئیں تاکہ میرے علاقے کے لوگوں کو آپ کے نزدیک میرے مقام اور مرتبے کا اندازہ ہوجائے۔ حضرت عمر نے فرمایا کہ ہم ایسے عبادت خانوں میں داخل نہیں ہوتے جن میں تصاویر ہیں۔

34538

(۳۴۵۳۹) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ قَیْسِ بْنِ مُسْلِمٍ ، عَنْ طَارِقِ بْنِ شِہَابٍ ، قَالَ : لَمَّا قَدِمَ عُمَرُ الشَّامَ أَتَتْہُ الْجُنُودُ وَعَلَیْہِ إِزَارٌ وَخُفَّانِ وَعِمَامَۃٌ ، وَہُوَ آخَذٌ بِرَأْسِ بَعِیرِہِ یَخُوضُ الْمَائَ ، فَقَالُوا لَہُ : یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ تَلْقَاک الْجُنُودُ وَبِطَارِقَۃِ الشَّامِ ، وَأَنْتَ عَلَی ہَذَا الْحَالِ ، قَالَ : فَقَالَ عُمَرُ : إِنَّا قَوْمٌ أَعَزَّنَا اللَّہُ بِالإِسْلاَمِ فَلَنْ نَلْتَمِسُ الْعِزَّ بِغَیْرِہِ۔
(٣٤٥٣٩) حضرت طارق بن شہاب فرماتے ہیں کہ جب حضرت عمر شام آئے تو آپ کے پاس بہت سے لشکر آئے، حضرت عمر کے جسم پر ازار، موزے اور عمامہ تھا، آپ نے اپنے اونٹ کو پکڑ رکھا تھا اور اسے پانی پلا رہے تھے۔ لوگوں نے کہا کہ اے امیر المومنین ! آپ کے پاس بہت سے لوگ اور شام کے حکمران آرہے ہیں اور آپ اس حال میں ہیں۔ حضرت عمر نے فرمایا کہ ہم وہ لوگ ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے اسلام کے ذریعے عزت عطا فرمائی ہے، ہم اسلام کے علاوہ کسی چیز میں عزت تلاش نہیں کریں گے۔

34539

(۳۴۵۴۰) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ، قَالَ: حدَّثَنَا ہِشَامُ بْنُ سَعْدٍ، قَالَ: حَدَّثَنِی عُرْوَۃُ بْنُ رُوَیْمٍ، عَنِ الْقَاسِمِ، عَنْ عَبْدِاللہِ بْنِ عُمَرَ، قَالَ: جِئْتُ عُمَرَ حِینَ قَدِمَ الشَّامَ، فَوَجَدْتہ قَائِلاً فِی خِبَائِہِ، فَانْتَظَرْتہ فِی فَیئِ الْخِبَائِ، فَسَمِعَتْہُ حِینَ تَضَوَّرَ مِنْ نَوْمِہِ ، وَہُوَ یَقُولُ : اللَّہُمَّ اغْفِرْ لِی رُجُوعِی مِنْ غَزْوَۃِ سَرْغَ ، یَعْنِی حِینَ رَجَعَ مِنْ أَجْلِ الْوَبَائِ۔
(٣٤٥٤٠) حضرت عبداللہ بن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ جب حضرت عمر (رض) شام آئے تو میں نے انھیں دیکھا کہ وہ اپنے خیمے میں دن کے وقت آرام فرما رہے تھے، میں نے خیمے کے سائے میں ان کا انتظار کیا۔ جب وہ بیدار ہوئے تو میں نے ان کی آواز سنی وہ کہہ رہے تھے کہ اے اللہ ! سرغ کے غزوہ سے میری واپسی کو معاف فرما۔ یعنی جب وہ وباء کی وجہ سے وہاں سے واپس آئے تھے۔

34540

(۳۴۵۴۱) حَدَّثَنَا مِسْعَرٌ ، عَنِ الشَّیْبَانِیِّ ، عَنْ أَسیِر بْنِ عَمْرٍو ، قَالَ : لَمَّا أَتَی عُمَرُ الشَّامَ ، أُتِیَ بِبِرْذَوْنٍ ، فَرَکِبَ عَلَیْہِ ، فَلَمَّا ہَزَّہُ نَزَلَ عَنْہُ ، ثُمَّ قَالَ : قَبَّحَک اللَّہُ ، وَقَبَّحَ مَنْ عَلَّمَک۔
(٣٤٥٤١) حضرت اسیر بن عمرو کہتے ہیں کہ جب حضرت عمر (رض) شام آئے تو آپ کے پاس سواری کے لیے ایک عجمی نسل کا گھوڑا لایا گیا، آپ اس پر سوار ہوئے تو وہ کانپنے لگا، آپ اس سے نیچے اتر گئے اور فرمایا کہ اللہ تیرا براکرے اور اس کا بھی برا کرے جس نے تجھے سدھایا ہے۔

34541

(۳۴۵۴۲) حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ ، عَنْ أَبِی الْعُمَیْسِ ، قَالَ : أَخْبَرَنِی قَیْسُ بْنُ مُسْلِمٍ ، عَنْ طَارِقِ بْنِ شِہَابٍ ، قَالَ : لَمَّا قَدِمَ عُمَرُ الشَّامَ خَطَبَ النَّاسَ ، فَقَالَ : لاَ أَعْرِفَنَّ رَجُلاً طَوَّلَ لِفَرَسِہِ فِی جَمَاعَۃٍ مِنَ النَّاسِ ، قَالَ : فَأَتَی بِغُلاَمٍ یُحْمَلُ ، قَدْ ضَرَبَتْہُ رِجْلُ فَرَسٍ ، فَقَالَ لَہُ عُمَرُ : مَا سَمِعْت مَقَالَتِی بِالأَمْسِ ، قَالَ : بَلَی ، یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ ، قَالَ : فَمَا حَمَلَک عَلَی مَا صَنَعْتَ ؟ قَالَ : رَأَیْتُ مِنَ الطَّرِیقِ خَلْوَۃً ، قَالَ : مَا أَرَاک تَعْتَذِرُ بِعُذْرٍ ، مَنْ رَجُلانِ یَحْتسبَانِ عَلَی ہَذَا ، فَیُخْرِجَانِہِ مِنَ الْمَسْجِدِ ، فَیُوَسِّعَانِہِ ضَرْبًا ؟ وَالْقَوْمُ سُکُوتٌ ، لاَ یُجِیبُہُ مِنْہُمْ أَحَدٌ ، قَالَ : ثُمَّ أَعَادَ مَقَالَتَہُ ، فَقَالَ لَہُ أَبُو عُبَیْدَۃَ : یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ أَمَا تَرَی فِی وُجُوہِ الْقَوْمِ کَرَاہَۃً ، أَنْ تَفْضَحَ صَاحِبَہُمْ ، قَالَ : فَقَالَ لأَہْلِ الْغُلاَمِ : انْطَلِقُوا بِہِ فَعَالِجُوہُ فَوَاللہِ لَئَنْ حَدَثَ بِہِ حَدَثٌ لأَجْعَلَنَّکَ نَکَالاً ، قَالَ : فَبَرِئَ الْغُلاَمُ وَعَافَاہُ اللَّہُ۔
(٣٤٥٤٢) حضرت طارق بن شہاب فرماتے ہیں کہ جب حضرت عمر (رض) شام آئے تو آپ نے لوگوں کو خطبہ دیا جس میں ارشاد فرمایا کہ کوئی شخص لوگوں کے درمیان اپنے گھوڑے کی لگام کو ڈھیلا نہ کرے۔ پھر اگلے دن آپ کے پاس ایک غلام لایا گیا جس کو اس کے گھوڑے نے لات ماری تھی۔ حضرت عمر نے اس سے فرمایا کہ کیا کل تم نے میری بات نہیں سنی تھی ؟ اس نے کہا اے امیر المومنین ! میں نے آپ کی بات سنی تھی۔ حضرت عمر نے فرمایا کہ پھر تم نے ایسی حرکت کیوں کی ؟ اس نے کہا کہ میں نے راستہ خالی دیکھا تو جانور کی رسی ڈھیلی کردی۔ پھر حضرت عمر نے لوگوں کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا کہ کون دو آدمی اسے مسجد سے باہر لے جا کر اسے سزا دیں گے۔ یہ بات سن کر کسی نے جواب نہ دیا۔ حضرت عمر نے پھر اپنی بات دہرائی تو حضرت ابو عبیدہ نے عرض کیا کہ اے امیر المومنین ! لوگوں کو یہ بات پسند نہیں ہے کہ ان کا ساتھی یوں رسوا ہو۔ پھر حضرت عمر نے غلام کے رشتہ داروں سے کہا کہ اسے لے جاؤ اور اس کا علاج کراؤ۔ اگر آئندہ کسی نے یہ حرکت کی تو میں اسے سزا دوں گا۔ پھر وہ لڑکا درست ہوگیا اور اللہ تعالیٰ نے اسے عافیت عطا فرمائی۔

34542

(۳۴۵۴۳) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ ابْنِ عَوْنٍ ، عَنْ مُحَمَّدٍ ، قَالَ : ذُکِرَ لَہُ ؛ أَنَّ عُمَرَ رَجَعَ مِنَ الشَّامِ حِینَ سَمِعَ أَنَّ الْوَبَائَ بِہَا فَلَمْ یَعْرِفْہُ ، وَقَالَ : إِنَّمَا أَخْبَرَ أَنَّ الصَّائِفَۃَ لاَ تُخْرِجُ الْعَامَ فَرَجَعَ۔
(٣٤٥٤٣) حضرت محمد سے کسی نے بیان کیا کہ جب حضرت عمر نے سنا کہ شام میں وباء ہے تو وہاں سے واپس آگئے۔ اس پر انھوں نے اس بارے میں لاعلمی کا اظہار کیا اور فرمایا کہ وہ اس لیے واپس آئے تھے کیونکہ ان سے کہا گیا کہ گرمی میں جنگ والے اس سال نہیں نکلیں گے، اس پر وہ واپس آگئے۔

34543

(۳۴۵۴۴) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِیلُ بْنُ عَیَّاشٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ یَزِیدَ الرَّحَبِیِّ ، وَمُحَمَّدٍ الْخَوْلاَنِیِّ ، عَنْ عُرْوَۃَ بْنِ رُوَیْمٍ ، قَالَ : کَتَبَ عُمَرُ إِلَی أَبِی عُبَیْدَۃَ کِتَابًا فَقَرَأَہُ عَلَی النَّاسِ بِالْجَابِیۃِ : مِنْ عَبْدِ اللہِ عُمَرَ أَمِیرَ الْمُؤْمِنینَ إِلَی أَبِی عُبَیْدَۃَ : سَلاَمٌ عَلَیْک ، أَمَّا بَعْدُ ، فَإِنَّہُ لَمْ یُقِمْ أَمْرَ اللہِ فِی النَّاسِ ، إِلاَّ حَصِیفُ الْعَقْلِ بَعِیدُ الْقُوَّۃَ لاَ یَطَّلِعُ النَّاسُ مِنْہُ عَلَی عَوْرَۃٍ ، وَلاَ یَحْنِقُ فِی الْحَقِّ عَلَی جرِّتِہِ وَلاَ یَخَافُ فِی اللہِ لَوْمَۃَ لاَئِمٍ ، وَالسَّلاَمُ عَلَیْک۔
(٣٤٥٤٤) حضرت عروہ بن رویم فرماتے ہیں کہ حضرت عمر نے حضرت ابو عبیدہ بن جراح کو خط لکھا، جو حضرت ابو عبیدہ نے جابیہ میں لوگوں کو پڑھ کر سنایا، اس میں تحریر تھا : اللہ کے بندے عمر امیر المومنین کی طرف سے ابو عبیدہ کے نام، تم پر سلامتی ہو، لوگوں میں اللہ کے حکم کو وہی شخص نافذ کرسکتا ہے جس کی عقل روشن ہو اور قوت خوب ہو، لوگ اس کے رازوں پر واقف نہ ہوسکیں اور وہ حق کے نفاذ میں گھبراتا نہ ہو اور اللہ کے معاملے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پروا نہ کرے۔ تم پر سلامتی ہو۔

34544

(۳۴۵۴۵) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، قَالَ : حدَّثَنَا ہِشَامٌ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : لَمَّا قَدِمَ عُمَرُ الشَّامَ کَانَ قَمِیصُہُ قَدْ تَجَوَّبَ عَنْ مُقْعَدَتِہِ ؛ قَمِیصٌ سُنْبُلاَنِیٌّ غَلِیظٌ فَأَرْسَلَ بِہِ إِلَی صَاحِبِ أَذْرَعَاتٍ ، أَوْ أَیْلَۃٍ ، قَالَ : فَغَسَلَہُ وَرَقَّعَہُ وَخَیَّطَ لَہُ قَمِیصَ قُبْطَرِی فَجَائَہُ بِہِمَا ، فَأَلْقَی إِلَیْہِ الْقُبْطَرِی فَأَخَذَہُ عُمَرُ فَمَسَّہُ ، فَقَالَ : ہَذَا لَیِّنٌ فَرَمَی بِہِ إِلَیْہِ ، وَقَالَ : أَلْقِ إِلَیَّ قَمِیصِی ، فَإِنَّہُ أَنْشَفُہُمَا لِلْعَرَقِ۔
(٣٤٥٤٥) حضرت عروہ فرماتے ہیں کہ جب حضرت عمر شام آئے تو ان کی قمیص پیچھے کی جانب سے پھٹی ہوئی تھی، وہ ایک موٹی سنبلانی قمیص تھی۔ آپ نے وہ قمیص درزی کے پاس بھیجی وہ اس نے دھو کر رفو کی اور ان کے لیے ایک قبطری قمیص سی دی اور ان کی طرف دونوں قمیصوں کو لایا۔ اور قبطری قمیص آپ کی خدمت میں پیش کی۔ حضرت عمر نے اسے چھوا اور فرمایا کہ یہ نرم ہے۔ پھر آپ نے وہ قمیص اس کی طرف پھینک دی اور اس سے کہا میری قمیص مجھے دے دو وہ پسینے کو زیادہ جذب کرنے والی ہے۔

34545

(۳۴۵۴۶) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرُ ، عَنْ ثَوْرٍ ، عَنْ زِیَادِ بْنِ أَبِی سَوْدَۃَ ، عَنْ أَبِی مَرْیَمَ ، قَالَ : لَمَّا قَدِمَ عُمَرَ الشَّامَ ، أَتَی مِحْرَابَ دَاوُدَ ، فَصَلَّی فِیہِ ، فَقَرَأَ سُورَۃَ ص ، فَلَمَّا انْتَہَی إِلَی السَّجْدَۃِ سَجَدَ۔
(٣٤٥٤٦) حضرت ابو مریم فرماتے ہیں کہ جب حضرت عمر شام آئے تو حضرت داؤد (علیہ السلام) کی جائے نماز میں نماز ادا کی اور سورة ص کی تلاوت کی، جب آیت سجدہ پر پہنچے تو سجدہ کیا۔

34546

(۳۴۵۴۷) حَدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ أَبِی الْجُوَیْرِیَّۃَ الْجَرْمِیِّ ، قَالَ : کُنْتُ فِیمَنْ سَارَ إِلَی الشَّامِ یَوْمَ الْخَازِرِ فَالْتَقَیْنَا وَہَبَّ الرِّیحُ عَلَیْہِمْ فَأَدْبَرُوا فَقَتَلْنَاہُمْ عَشِیَّتَنَا وَلَیْلَتَنَا حَتَّی أَصْبَحْنَا، قَالَ: فَقَالَ إِبْرَاہِیمُ ، یَعْنِی ابْنَ الأَشْتَرِ: إِنِّی قَتَلْتُ الْبَارِحَۃَ رَجُلاً ، وَإِنِّی وَجَدْتُ مِنْہُ رِیحَ طِیبٍ ، وَمَا أُرَاہُ إِلاَّ ابْنُ مَرْجَانَۃَ شَرَّقَتْ رِجْلاَہُ وَغَرَّبَ رَأْسُہُ ، أَوْ شَرَّقَ رَأْسُہُ وَغَرَّبَتْ رِجْلاَہُ ، قَالَ : فَانْطَلَقْتُ فَنَظَّرْت ، فَإِذَا ہُوَ وَاللہِ ، یَعْنِی عُبَیْدِ اللہِ بْنَ زِیَادٍ۔
(٣٤٥٤٧) حضرت ابو جویریہ جرمی کہتے ہیں کہ میں ان لوگوں میں سے تھا جو یوم خازر کو شام کی طرف گئے تھے۔ جب ہمارا دشمن سے سامنے ہوا تو ٹھنڈی ہوا چلی اور وہ سب ٹھنڈ سے گھبرا گئے، ہم نے شام سے لے کر صبح تک ان سے قتال کیا۔ ابراہیم بن اشتر نے بتایا کہ میں نے گزشتہ رات ایک آدمی کو قتل کیا اور مجھے اس سے اچھی خوشبو آئی۔ میرے خیال میں وہ ابن مرجانہ تھا۔ وہ دو ٹکڑوں میں تقسیم ہوا اس کے پاؤں مشرق کی طرف اور سر مغرب کی طرف یا سر مشرق کی طرف اور پاؤں مغرب کی طرف ہوگئے تھے۔ پس میں گیا اور میں نے دیکھا تو وہ وہی یعنی عبید اللہ بن زیاد تھا۔

34547

(۳۴۵۴۸) حَدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ عَطَائٍ ، عَنِ ابْنِ وَائِلٍ ، أَوْ وَائِلِ بْنِ عَلْقَمَۃَ ؛ أَنَّہُ شَہِدَ الْحُسَیْنَ بِکَرْبِلاَئَ ، قَالَ : فَجَائَ رَجُلٌ ، فَقَالَ : أَفِیکُمْ حُسَیْنٌ ؟ فَقَالَ : مَنْ أَنْتَ ؟ فَقَالَ : أَبْشِرْ بِالنَّارِ ، فَقَالَ : بَلْ رَبٌّ غَفُورٌ ، وَشَفِیعٌ مُطَاعٌ ، قَالَ : مَنْ أَنْتَ ؟ قَالَ : ابْنُ حُوَیْزَۃَ ، قَالَ : اللَّہُمَّ حُزَّہُ إِلَی النَّارِ ، قَالَ : فَذَہَبَ ، فَنَفَرَ بِہِ فَرَسُہُ عَلَی سَاقَیْہِ ، فَتَقَطَّعَ ، فَمَا بَقِیَ مِنْہُ غَیْرُ رِجْلَہُ فِی الرِّکَابِ۔
(٣٤٥٤٨) حضرت ابن وائل یا وائل بن علقمہ فرماتے ہیں کہ میں کربلا میں حضرت حسین (رض) کے ساتھ تھا۔ اتنے میں ایک آدمی آیا اور اس نے کہا کیا تم میں حسین ہے ؟ انھوں نے پوچھا کہ تم کون ہو۔ اس نے کہا تمہیں جہنم کی خبر دیتا ہوں۔ انھوں نے کہا رب معاف کرنے والا ہے اور سفارشی کی بات مانی جاتی ہے۔ تم کون ہو ؟ اس نے کہا کہ میں ابن حویزہ ہوں۔ حضرت حسین نے اسے بددعا دی اور کہا کہ اے اللہ اسے جہنم کی طرف کھینچ کرلے جا۔ اس کے بعد جب وہ اپنے گھوڑے پر سوار ہوا تو اس کا گھوڑا بدک گیا اور اندھا دھند بھاگنے لگا، گھوڑے نے اسے ایسا گھسیٹا کہ گھوڑے کی زین میں اس کے پاؤں کے سوا کچھ باقی نہ رہا۔

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔