hadith book logo

HADITH.One

HADITH.One

Urdu

Support

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Ibn Abi Shaybah

24. دعاؤں کا بیان

ابن أبي شيبة

29730

حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرٍ عَبْدُ اللہِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِی شَیْبَۃَ ، قَالَ : (۲۹۷۳۱) حدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنِ الْجُرَیْرِیِّ ، عَنْ أَبِی نَضْرَۃَ ، عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ قَالَ : حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ ثَابِتٍ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : تَعَوَّذُوا بِاللہِ مِنْ عَذَابِ النَّارِ ثَلاثًا ، قُلْنَا : نَعُوذُ بِاللہِ مِنْ عَذَابِ النَّارِ ، فقال : تَعَوَّذُوا بِاللہِ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ ، قلنا نَعُوذُ بِاللہِ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ ، قَالَ : تَعَوَّذُوا بِاللہِ مِنَ الْفِتَنِ مَا ظَہَرَ مِنْہَا ، وَمَا بَطَنَ ، قلنا نَعُوذُ بِاللہِ مِنَ الْفِتَنِ مَا ظَہَرَ مِنْہَا ، قَالَ : تَعَوَّذُوا بِاللہِ مِنْ فِتْنَۃِ الدَّجَّالِ ، قُلْنَا : نَعُوذُ بِاللہِ مِنْ فِتْنَۃِ الدَّجَّالِ۔
(٢٩٧٣١) حضرت زید بن ثابت فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تین مرتبہ فرمایا : تم لوگ جہنم کے عذاب سے اللہ کی پناہ مانگو، ہم (صحابہ ) نے کہا : ہم جہنم کے عذاب سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں، پھر فرمایا : تم لوگ قبر کے عذاب سے اللہ کی پناہ مانگو، ہم نے کہا : ہم قبر کے عذاب سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں، نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم لوگ فتنوں سے جو ظاہر ہیں اور جو ان میں سے چھپے ہوئے ہیں اللہ کی پناہ مانگو۔ ہم نے کہا : ہم ان فتنوں سے جو ظاہر ہیں اور جو چھپے ہوئے ہیں اللہ کی پناہ مانگتے ہیں، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ، تم لوگ دجال کے فتنہ سے اللہ کی پناہ مانگو، ہم نے کہا : ہم دجال کے فتنہ سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں۔

29731

(۲۹۷۳۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن أُسَامَۃَ بْنِ زَیْدٍ ، عَن مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْکَدِرِ ، عَنْ جَابِرٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : سَلُوا اللَّہَ عِلْمًا نَافِعًا ، وَتَعَوَّذُوا بِاللہِ مِنْ عِلْمٍ لاَ یَنْفَعُ۔
(٢٩٧٣٢) حضرت جابر فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے : تم لوگ اللہ سے نفع پہنچانے والے علم کا سوال کرو، اور ایسے علم سے اللہ کی پناہ مانگو جو نفع نہ پہنچائے۔

29732

(۲۹۷۳۳) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ ، عَنْ أَبِی عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ عَبْدِ اللہِ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، أَنَّہُ کَانَ یَقُولُ : اللَّہُمَّ إنِّی أَعُوذُ بِکَ مِنَ الشَّیْطَانِ مِنْ ہَمْزِہِ وَنَفْثِہِ وَنَفْخِہِ ، قَالَ : فَہَمْزُہُ الْمَوْتَۃُ ، وَنَفْثُہُ الشِّعْرُ ، وَنَفْخُہُ الْکِبْرُ۔ (ابن ماجہ ۸۰۸۔ احمد ۴۰۳)
(٢٩٧٣٣) حضرت عبداللہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ دعا مانگا کرتے تھے : اے اللہ ! میں تیری پناہ میں آتا ہوں شیطان سے ، اس کے جنوں سے، اور اس کے شعروں کے پھونکنے سے، اور اس کے تکبر سے۔
حضرت عطائ یا ابن مسعود فرماتے ہیں کہ ھمزہ بمعنی جنون نفثہ بمعنی شعر، نفخہ بمعنی : تکبر

29733

(۲۹۷۳۴) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ عَاصِمٍ الأَحْوَلِ ، عَنْ أَبِی عُثْمَانَ ، وَعَبْدِ اللہِ بْنِ الْحَارِثِ ، عَن زَیْدِ بْنِ أَرْقَمَ قَالَ: لاَ أَقُولُ لَکُمْ إِلاَّ مَا کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : اللَّہُمَّ إنِّی أَعُوذُ بِکَ مِنَ الْعَجْزِ وَالْکَسَلِ وَالْبُخْلِ وَالْجُبْنِ وَالْہَرَمِ وَعَذَابِ الْقَبْرِ ، اللَّہُمَّ آتِ نَفْسِی تَقْوَاہَا، أَنْتَ وَلِیُّہَا وَمَوْلاہَا، أَنْتَ خَیْرُ مَنْ زَکَّاہَا ، اللَّہُمَّ إنِّی أَعُوذُ بِکَ مِنْ عِلْمٍ لاَ یَنْفَعُ، وَنَفْسٍ لاَ تَشْبَعُ ، وَقَلْبٍ لاَ یَخْشَعُ، وَدُعَائٍ لاَ یُسْتَجَابُ۔
(٢٩٧٣٤) حضرت عبداللہ بن الحارث فرماتے ہیں کہ حضرت زید بن أرقم ایک مرتبہ فرمانے لگے : میں تمہارے لیے وہی دعا کہتا ہوں جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہا کرتے تھے : اے اللہ ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں عاجز آنے سے، اور سستی سے، کنجوسی سے اور بزدلی سے ، بڑھاپے سے اور قبر کے عذاب سے، اے اللہ ! تو میرے نفس کو متقی بنا دے تو ہی اس کا سرپرست اور آقا ہے، تو بہتر پاکیزہ بنانے والا ہے، اے اللہ ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں ایسے علم سے جو نفع نہ دے، اور ایسے نفس سے جو کبھی سیر نہ ہو سکے، اور ایسے دل سے جو ڈرتانہ ہو، اور ایسی دعا سے جو قبول نہ کی جائے۔

29734

(۲۹۷۳۵) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَن حُصَیْنٍ ، عَن ہِلالٍ ، عَن فَرْوَۃَ بْنِ نَوْفَلٍ ، عَنْ عَائِشَۃَ ، قَالَ : سَأَلْتُہَا عَن دُعَائٍ کَانَ یَدْعُو بِہِ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَتْ : کَانَ یَقُولُ : اللَّہُمَّ إنِّی أَعُوذُ بِکَ مِنْ شَرِّ مَا عَمِلْتُ وشَرِّ مَا لَمْ أَعْلَمْ۔ (مسلم ۶۵۔ ابوداؤد ۱۵۴۵)
(٢٩٧٣٥) حضرت فروہ بن نوفل فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ سے پوچھا کہ وہ کونسی دعا ہے جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مانگا کرتے تھے ؟ وہ فرمانے لگیں : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یوں دعا فرماتے تھے : اے اللہ ! میں آپ کی پناہ مانگتا ہوں اپنے کیے ہوئے عمل کے شر سے، اور وہ کام جو میں نے نہیں کیے ان کے شر سے۔

29735

(۲۹۷۳۶) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَن مُحَمَّدِ بْنِ عَجْلانَ ، عَن سَعِیدِ بْنِ أَبِی سَعِیدٍ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ : کَانَ مِنْ دُعَائِ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : اللَّہُمَّ إنِّی أَعُوذُ بِکَ مِنْ عِلْمٍ لاَ یَنْفَعُ ، وَمِنْ دُعَائٍ لاَ یُسْمَعُ ، وَمِنْ قَلْبٍ لاَ یَخْشَعُ ، وَمِنْ نَفْسٍ لاَ تَشْبَعُ۔ (ابوداؤد ۱۵۴۳۔ احمد ۳۴۰)
(٢٩٧٣٦) حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعاؤں میں سے یہ دعا بھی ہے : اے اللہ ! میں آپ کی پناہ مانگتا ہوں ایسے علم سے جو فائدہ نہ دے، اور ایسی دعاء جو سُنی نہ جائے، اور ایسے دل سے جو ڈرتا نہ ہو، اور ایسے نفس سے جو کبھی سیر نہ ہو سکے۔

29736

(۲۹۷۳۷) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، عَن حُمَیْدِ بْنِ عَطَائٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ الْحَارِثِ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ : کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : اللَّہُمَّ إنِّی أَعُوذُ بِکَ مِنْ قَلْبٍ لاَ یَخْشَعُ ، وَعِلْمٍ لاَ یَنْفَعُ وَدُعَائٍ لاَ یُسْمَعُ وَنَفْسٍ لاَ تَشْبَعُ ، وَمِنَ الْجُوعِ فَإِنَّہُ بِئْسَ الضَّجِیعُ۔ (حاکم ۵۳۳)
(٢٩٧٣٧) حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ دعا مانگا کرتے تھے : اے اللہ ! میں آپ کی پناہ مانگتا ہوں ایسے دل سے جو ڈرتا نہ ہو، اور ایسے علم سے جو نفع نہ دے ، اور ایسی دعا سے جو سُنی نہ جائے، اور ایسے نفس سے جو کبھی سیر نہ ہو، اور بھوک سے ، بیشک بھوک بُرا ساتھی ہے۔

29737

(۲۹۷۳۸) حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُوسَی ، عَن حَمَّادِ بْنِ سَلَمَۃَ ، عَن قَتَادَۃَ ، عَنْ أَنَسٍ ، أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یَقُولُ: اللَّہُمَّ إنِّی أَعُوذُ بِکَ مِنْ عِلْمٍ لاَ یَنْفَعُ، وَعَمَلٍ لاَ یُرْفَعُ، وَقَلْبٍ لاَ یَخْشَعُ، وَقَوْلٍ لاَ یُسْمَعُ۔ (احمد ۱۹۲۔ ابویعلی ۲۸۳۷)
(٢٩٧٣٨) حضرت انس فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اکثر یہ دعا مانگا کرتے تھے : اے اللہ ! میں آپ کی پناہ چاہتا ہوں ایسے علم سے جو نفع نہ دے، اور ایسے عمل سے جو قبولیت کے بلند درجات نہ پا سکے، اور ایسے دل سے جو ڈرتا نہ ہو اور ایسی پکار سے جو سُنی نہ جائے۔

29738

(۲۹۷۳۹) حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُوسَی ، عَن حَمَّادِ بْنِ سَلَمَۃَ ، عَن قَتَادَۃَ ، عَنْ أَنَسٍ ، أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یَقُولُ : اللَّہُمَّ إنِّی أَعُوذُ بِکَ مِنَ الْبَرَصِ وَالْجُذَامِ وَمِنْ سَیِّئِ الأَسْقَامِ۔ (ابوداؤد ۱۵۴۹۔ احمد ۱۹۲)
(٢٩٧٣٩) حضرت انس فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ دعا مانگا کرتے تھے : اے اللہ ! میں آپ کی پناہ مانگتا ہوں برص کے مرض سے، اور کوڑھ کے مرض سے، اور بُری بیماریوں سے۔

29739

(۲۹۷۴۰) حَدَّثَنَا عَبِیدَۃُ بْنُ حُمَیْدٍ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ ، عَن مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ أَبِیہِ قَالَ : کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُعَلِّمُنَا ہَذِہِ الْکَلِمَاتِ : اللَّہُمَّ إنِّی أَعُوذُ بِکَ مِنَ الْبُخْلِ ، وَأَعُوذُ بِکَ مِنَ الْجُبْنِ ، وَأَعُوذُ بِکَ أَنْ أُرَدَّ إِلَی أَرْذَلِ الْعُمُرِ ، وَأَعُوذُ بِکَ مِنْ فِتْنَۃِ الدُّنْیَا وَعَذَابِ الْقَبْرِ۔
(٢٩٧٤٠) حضرت سعد فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمیں یہ دعائیہ کلمات سکھایا کرتے تھے : اے اللہ ! میں آپ کی پناہ چاہتا ہوں کنجوسی سے ، اور میں آپ کی پناہ چاہتا ہوں بزدلی سے، اور میں آپ کی پناہ چاہتا ہوں ادھیڑ عمر تک پہنچنے سے ، اور میں آپ کی پناہ چاہتا ہوں دنیا کے فتنہ سے، اور قبر کے عذاب سے۔

29740

(۲۹۷۴۱) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، عَن ہِشَامٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ عَائِشَۃَ ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یَدْعُو : اللَّہُمَّ إنِّی أَعُوذُ بِکَ مِنَ الْکَسَلِ وَالْہَرَمِ وَالْمَأْثَمِ وَالْمَغْرَمِ۔ (بخاری ۶۳۶۸۔ مسلم ۲۰۷۸)
(٢٩٧٤١) حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ بیشک رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دعا مانگا کرتے تھے : اے اللہ ! میں آپ کی پناہ مانگتا ہوں سستی سے، اور بڑھاپے سے ، اور گناہوں میں ڈوبنے سے، اور مقروض ہونے سے۔

29741

(۲۹۷۴۲) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَن زَائِدَۃَ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ عُمَیْرٍ ، عَن مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، أَنَّہُ قَالَ لِبَنِیہِ : أَیْ بَنِیَّ تَعَوَّذُوا بِکَلِمَاتٍ کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَتَعَوَّذُ بِہِنَّ فَذَکَرَ مِثْلَ حَدِیثِ عَبِیدَۃَ ، إلاَّ أَنَّہُ لَمْ یَذْکُرْ : أَرْذَلِ الْعُمُرِ۔
(٢٩٧٤٢) حضرت سعد نے اپنے بیٹے مصعب سے فرمایا : اے میرے لاڈلے بیٹے ! تم ان کلمات کے ساتھ اللہ کی پناہ مانگو جن کلمات کے ذریعہ سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پناہ مانگا کرتے تھے، پھر راوی نے حضرت عبیدہ والی حدیث کے مثال الفاظ ذکر کیے مگر ” أرذل العمر “ کے لفظ کو ذکر نہیں ر فرمایا۔

29742

(۲۹۷۴۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إسْرَائِیلَ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَیْمُونٍ ، عَن عُمَرَ ، أَنَّ النبی صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یَتَعَوَّذُ مِنَ الْجُبْنِ وَالْبُخْلِ وَعَذَابِ الْقَبْرِ وَأَرْذَلِ الْعُمُرِ وَفِتْنَۃِ الصَّدْرِ۔
(٢٩٧٤٣) حضرت عمر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پناہ مانگتے تھے بزدلی سے، اور کنجوسی سے، اور قبر کے عذاب سے، اور ادھیڑ عمر سے، اور سینہ کے فتنہ سے ( سینہ کے فتنہ سے مراد ہے کہ آدمی ایسے فتنہ میں مرے کہ اس نے اس فتنہ سے اللہ سے معافی نہ مانگی ہو۔ )

29743

(۲۹۷۴۴) حَدَّثَنَا شَبَابَۃُ ، حدَّثَنَا یُونُسُ بْنُ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَیْمُونٍ ، عَن عُمَرَ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، مِثْلَہُ۔
(٢٩٧٤٤) اس سند سے بھی حضرت عمر سے مذکورہ حدیث کے الفاظ نقل کیے گئے ہیں۔

29744

(۲۹۷۴۵) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، عَن ہِشَامٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ عَائِشَۃَ ، أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یَدْعُو بِہَؤُلائِ الدَّعَوَاتِ : اللَّہُمَّ إنِّی أَعُوذُ بِکَ مِنْ فِتْنَۃِ النَّارِ وَعَذَابِ النَّارِ وَمِنْ فِتْنَۃِ الْقَبْرِ وَعَذَابِ الْقَبْرِ وَمِنْ شَرِّ فِتْنَۃِ الْغِنَی وَمِنْ شَرِّ فِتْنَۃِ الْفَقْرِ ، وَأَعُوذُ بِکَ مِنْ فِتْنَۃِ الْمَسِیحِ الدَّجَّالِ۔
(٢٩٧٤٥) حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کلمات کے ذریعہ دعا مانگا کرتے تھے : اے اللہ ! میں آپ کی پناہ مانگتا ہوں آگ کے فتنہ سے، اور آگ کے عذاب سے ، اور قبر کے فتنہ سے، اور قبر کے عذاب سے، اور امیری کا فتنہ برپا ہونے کے شر سے، اور فقیری کا فتنہ برپا ہونے کے شر سے، اور میں آپ کی پناہ مانگتا ہوں مسیح دجال کے فتنہ سے۔

29745

(۲۹۷۴۶) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِی صَالِحٍ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : تَعَوَّذُوا بِاللہِ مِنْ جَہَنَّمَ ، تَعَوَّذُوا بِاللہِ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ ، تَعَوَّذُوا بِاللہِ مِنْ فِتْنَۃِ الْمَسِیحِ الدَّجَّالِ ، تَعَوَّذُوا بِاللہِ مِنْ فِتْنَۃِ الْمَحْیَا وَالْمَمَاتِ۔
(٢٩٧٤٦) حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم لوگ اللہ کی پناہ مانگو جہنم سے، اور اللہ کی پناہ مانگو قبر کے عذاب سے، اور اللہ کی پناہ مانگو مسیح دجال کے فتنہ سے، اور اللہ کی پناہ مانگو زندگی اور موت کے فتنہ سے۔

29746

(۲۹۷۴۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن ہِشَامٍ الدَّسْتَوَائِیِّ ، عَن قَتَادَۃَ ، عَنْ أَنَسٍ ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یَتَعَوَّذُ مِنَ الْجُبْنِ وَالْبُخْلِ ، وَمِنْ فِتْنَۃِ الْمَحْیَا وَالْمَمَاتِ ، وَمِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ۔
(٢٩٧٤٧) حضرت انس فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پناہ مانگا کرتے تھے بزدلی سے اور کنجوسی سے، اور زندگی اور موت کے وقت کے فتنہ سے، اور قبر کے عذاب سے۔

29747

(۲۹۷۴۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن عُثْمَانَ الشَّحَّامِ ، عَن مُسْلِمِ بْنِ أَبِی بَکْرَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، أَنَّہُ کَانَ یَدْعُو فِی دُبُرِ الصَّلاۃِ یَقُولُ : اللَّہُمَّ إنِّی أَعُوذُ بِکَ مِنَ الْکُفْرِ وَالْفَقْرِ وَعَذَابِ الْقَبْرِ۔
(٢٩٧٤٨) حضرت ابو بکرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہر نماز کے بعد دعا مانگتے تھے : اے اللہ ! میں آپ کی پناہ میں آنا چاہتا ہوں کفر سے، اور غریبی سے، اور قبر کے عذاب سے۔

29748

(۲۹۷۴۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن مِسْعَرٍ ، عَنْ عَلْقَمَۃَ بْنِ مَرْثَدٍ ، عَنِ الْمُغِیرَۃِ ابْنِ عَبْدِ اللہِ ، عَنِ الْمَعْرُورِ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ قَالَ : قالَتْ أُمُّ حَبِیبَۃَ زَوْجُ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : اللَّہُمَّ أمْتِعْنی بِزَوْجِی النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَبِأَبِی أَبِی سُفْیَانَ وَبِأَخِی مُعَاوِیَۃَ ، قَالَ : فَقَالَ النبی صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إنَّکِ سَأَلْتِ اللَّہَ لآجَالٍ مَضْرُوبَۃٍ وَأَیَّامٍ مَعْدُودَۃٍ ، وَأَرْزَاقٍ مَقْسُومَۃٍ ، وَلَنْ یُعَجِّلَ شَیْئًا قَبْلَ حِلِّہِ ، أَوْ یُؤَخِّرَ شَیْئًا عَن حِلِّہِ وَلَوْ کُنْتِ سَأَلْتِ اللَّہَ أَنْ یُعِیذَکِ مِنْ عَذَابٍ فِی النَّارِ أَوْ عَذَابٍ فِی الْقَبْرِ کَانَ خَیْرًا وَأَفْضَلَ۔
(٢٩٧٤٩) حضرت عبداللہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زوجہ مطھرہ ام حبیبہ ایک دن دعا فرما رہی تھیں : اے اللہ ! آپ مجھے میرے شوہر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور میرے والد ابو سفیان اور میرے بھائی معاویہ کے ذریعہ دیر تک فائدہ پہنچاتے رہیے۔ عبداللہ فرماتے ہیں : تو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تو نے اللہ سے سوال کیا ہے ان لوگوں کے حق میں جن کی اموات کا وقت مقرر ہوچکا، اور جن کے دن گنے جا چکے ہیں، اور جن کے رزقوں کو تقسیم کردیا گیا ہے، اور وہ ہرگز بھی کسی چیز کو وقت مقررہ سے مقدم نہیں کرتے اور نہ ہی کسی چیز کو اس کے وقت مقررہ سے مؤخر کرتے ہیں، اور اگر تو اللہ سے اس طرح سوال کرتی : مجھے جہنم کے عذاب سے محفوظ فرما، اور قبر کے عذاب سے محفوظ فرما ! تو یہ تیرے لیے بہتر اور افضل ہوتا۔

29749

(۲۹۷۵۰) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ قَالَ : حدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ بْنُ عُمَرَ قَالَ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ یَحْیَی بْنُ حَبَّانَ ، عَنِ الأَعْرَجِ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ : فَقَدْت رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ذَاتَ لَیْلَۃٍ مِنَ الْفِرَاشِ فَالْتَمَسْتہ ، فَوَقَعَتْ یَدَیَّ عَلَی بَطْنِ قَدَمَیْہِ وَہُوَ فِی الْمَسْجِدِ وَہُمَا مَنْصُوبَتَانِ وَہُوَ یَقُولُ : إنَّی أَعُوذُ بِرِضَاکَ مِنْ سَخَطِکَ ، وَبِمُعَافَاتِکَ مِنْ عُقُوبَتِکَ وَأَعُوذُ بِکَ مِنْکَ ، لاَ أُحْصِی ثَنَائً عَلَیْکَ ، أَنْتَ کَمَا أَثْنَیْتَ عَلَی نَفْسِکَ۔ (مسلم ۳۵۲۔ ابوداؤد ۸۷۵)
(٢٩٧٥٠) حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ ایک رات میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بستر پر سے گم پایا تو میں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تلاش کرنا شروع کیا پس میرا ہاتھ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاؤں کے نچلے حصہ پر پڑگیا اس حال میں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مسجد میں تھے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دونوں پاؤں کھڑے ہوئے تھے، اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ دعا فرما رہے تھے : بیشک میں پناہ مانگتا ہوں آپ سے کہ آپ کی معافی کے بجائے سزا کا مستحق ٹھہروں، اور میں آپ کی پناہ میں آتا ہوں آپ کے غصہ سے، میں آپ کی ایسی تعریف کرنے کا اہل نہیں ہوں جیسی خود آپ نے اپنی تعریف فرمائی ہے۔

29750

(۲۹۷۵۱) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، أَخْبَرَنَا حُمَیْدٌ ، عَنْ أَنَسٍ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یَدْعُو بِہَذَا الدُّعَائِ : اللَّہُمَّ إنِّی أَعُوذُ بِکَ مِنَ الْہَمِّ وَالْحَزَنِ وَالْعَجْزِ وَالْکَسَلِ وَالْجُبْنِ وَالْبُخْلِ۔ (ترمذی ۳۴۸۵۔ احمد ۱۷۹)
(٢٩٧٥١) حضرت انس فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ دعا مانگا کرتے تھے : اے اللہ ! میں آپ کی پناہ چاہتا ہوں فکر اور رنج سے اور بےبس ہونے سے، اور سستی سے، بزدلی اور کنجوسی سے۔

29751

(۲۹۷۵۲) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَن حُصَیْنٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ ، عَنْ عَبَّادِ بْنِ عَاصِمٍ ، عَن نَافِعِ بْنِ جُبَیْرٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حِینَ افْتَتَحَ الصَّلاۃَ یَقُولُ: اللَّہُ أَکْبَرُ ثَلاثًا، الْحَمْدُ لِلَّہِ کَثِیرًا ثَلاثًا ، سُبْحَانَ اللہِ بُکْرَۃً وَأَصِیلاً ثَلاثًا ، اللَّہُمَّ إنِّی أَعُوذُ بِکَ مِنَ الشَّیْطَانِ مِنْ ہَمْزِہِ وَنَفْثِہِ وَنَفْخِہِ۔
(٢٩٧٥٢) حضرت جبیر فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نماز شروع کرتے وقت یہ کلمات ادا کرتے ہوئے سنا ہے ” اللہ سب سے بڑا ہے “ ، تین مرتبہ ” تمام تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں “ ، تین مرتبہ ” میں صبح و شام اللہ کی پانی بیان کرتا ہوں “ ، تین مرتبہ اے اللہ ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں شیطان سے ، اس کے جنون سے، اور اس کے شعروں کے پھونکنے سے، اور اس کے کبر سے۔

29752

(۲۹۷۵۳) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَن مَنْصُورٍ ، عَن حَبِیبِ بْنِ أَبِی ثَابِتٍ قَالَ : حدِّثْتُ ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یَقُولُ : اللَّہُمَّ إنِّی أَعُوذُ بِکَ مِنْ دُعَائٍ لاَ یُسْمَعُ ، وَعِلْمٍ لاَ یَنْفَعُ ، وَقَلْبٍ لاَ یَخْشَعُ ، وَنَفْسٍ لاَ تَشْبَعُ ، اللَّہُمَّ إنِّی أَعُوذُ بِکَ مِنْ شَرِّ ہَؤُلائِ الأَرْبَعِ ، اللَّہُمَّ إنِّی أَسْأَلُک عِیشَۃً سَوِیَّۃً ، وَمِیتَۃً تَقِیَّۃً ، وَمَرَدًّا إلَیْک غَیْرَ مُخْزٍ۔ (طبرانی ۱۴۳۵)
(٢٩٧٥٣) حضرت حبیب بن ثابت فرماتے ہیں کہ مجھے بتلایا گیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دعا مانگا کرتے تھے : اے اللہ ! میں آپ کی پناہ چاہتا ہوں ایسی دعاء سے جس کی شنوائی نہ ہو، اور ایسے علم سے جو نفع نہ دے، اور ایسے دل سے جو ڈرتا نہ ہو، اور ایسے نفس سے جو سیر نہ ہوتا ہو، اے اللہ میں آپ کی پناہ مانگتا ہوں ان چاروں کے شر سے، اے اللہ ! میں آپ سے سوال کرتا ہوں معتدل زندگی کا اور خوف و خشیت والی موت کا ، اور بغیر رسوائی و ندامت کے آپ کے پاس آنے کا۔

29753

(۲۹۷۵۴) حَدَّثَنَا الْمُطَّلِبُ بْنُ زِیَادٍ، عَنْ جَابِرٍ، عَنْ أَبِی جَعْفَرٍ، أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یَقُولُ: اللَّہُمَّ إنِّی أَعُوذُبِکَ مِنَ الشَّکِّ بَعْدَ الْیَقِینِ، وَأَعُوذُ بِکَ مِنْ مُقَارَنَۃِ الشَّیَاطِینِ، وَأَعُوذُ بِکَ مِنْ عَذَابِ یَوْمِ الدِّینِ۔
(٢٩٧٥٤) حضرت ابو جعفر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دعا مانگا کرتے تھے : اے اللہ ! میں آپ کی پناہ مانگتا ہوں یقین کے بعد شک کے آنے سے ، اور میں آپ کی پناہ مانگتا ہوں شیطان کی ہمنشینی سے، اور میں آپ کی پناہ مانگتا ہوں جزاء والے دن کے عذاب سے۔

29754

(۲۹۷۵۵) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، عَن سَعْدِ بْنِ أَوْسٍ ، عَن بِلالِ بْنِ یَحْیَی قَالَ : حدَّثَنِی شُتَیْرُ بْنُ شَکَلٍ ، عَنْ أَبِیہِ شَکَلِ بْنِ حُمَیْدٍ ، قَالَ : أَتَیْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقُلْتُ : عَلِّمْنِی تَعْوِیذًا أَتَعَوَّذُ بِہِ فَقَالَ : قُلِ : اللَّہُمَّ إنِّی أَعُوذُ بِکَ مِنْ شَرِّ سَمْعِی وَبَصَرِی وَلِسَانِی وَمَنِیِّی۔ (ابوداؤد ۱۵۴۶۔ احمد ۴۲۹)
(٢٩٧٥٥) حضرت شکل بن حمید فرماتے ہیں کہ میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس حاضر ہوا، میں نے کہا : آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مجھے ایسا تعویذ سکھا دیں جس سے میں تعویذ دیا کروں ؟ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کہو اے اللہ ! میں آپ کی پناہ چاہتا ہوں اپنے سننے اور دیکھنے کے شر سے اور اپنی زبان اور شرم گاہ کے شر سے۔

29755

(۲۹۷۵۶) حَدَّثَنَا عَفَّانُ قَالَ : حدَّثَنَا وُہَیْبٌ ، حَدَّثَنَا مُوسَی بْنُ عُقْبَۃَ قَالَ حَدَّثَتْنِی أُمُّ خَالِدٍ بِنْتُ خَالِدٍ ، أَنَّہَا سَمِعَتْ مِنَ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حَدِیثًا وَہُوَ یَتَعَوَّذُ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ۔
(٢٩٧٥٦) حضرت ام خالد بنت خالد فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قبر کے عذاب سے پناہ مانگتے ہوئے سنا ہے۔

29756

(۲۹۷۵۷) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِی سُفْیَانَ ، عَنْ جَابِرٍ عَن أُمِّ مُبَشِّرٍ قَالَتْ : دَخَلَ عَلَیَّ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَأَنَا فِی حَائِطٍ مِنْ حَوَائِطِ بَنِی النَّجَّارِ فِیہِ قُبُورٌ ، مِنْہُمْ قَدْ مُوِّتُوا فِی الْجَاہِلِیَّۃِ ، قَالَتْ: فَخَرَجَ فَسَمِعْتہ وَہُوَ یَقُولُ : اسْتَعِیذُوا بِاللہِ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ۔
(٢٩٧٥٧) حضرت ام مبشر فرماتی ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے پاس تشریف لائے اس حال میں کہ ہم بنو قبیلہ بنو النجاد کے باغات میں سے ایک باغ میں تھے، اس باغ میں کچھ ایسے لوگوں کی قبریں تھیں جو زمانہ جاہلیت میں انتقال کر گئے تھے، ام مشر فرماتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) باغ سے نکلے پس میں نے سنا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرما رہے تھے : تم لوگ اللہ کی پناہ طلب کرو قبر کے عذاب سے۔

29757

(۲۹۷۵۸) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، وَأَبُو مُعَاوِیَۃَ ، قَالا : حدَّثَنَا الأَعْمَشُ ، عَنِ الْمِنْہَالِ ، عَن زَاذَانَ ، عَنِ الْبَرَائِ ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : اسْتَعِیذُوا بِاللہِ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ۔
(٢٩٧٥٨) حضرت برائ فرماتے ہیں کہ یقیناً رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم لوگ اللہ کی پناہ طلب کرو قبر کے عذاب سے۔

29758

(۲۹۷۵۹) حَدَّثَنَا عَبِیدَۃُ بْنُ حُمَیْدٍ ، عَن حُمَیْدٍ قَالَ: سُئِلَ أَنَسٌ، عَنْ عَذَابِ الْقَبْرِ فَقَالَ أَنَسٌ: کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : اللَّہُمَّ إنِّی أَعُوذُ بِکَ مِنَ الْکَسَلِ وَالْہَرَمِ وَالْجُبْنِ وَالْبُخْلِ وَفِتْنَۃِ الدَّجَّالِ وَعَذَابِ الْقَبْرِ۔
(٢٩٧٥٩) حضرت حمید فرماتے ہیں کہ حضرت انس سے قبر کے عذاب کے متعلق پوچھا گیا ؟ تو آپ نے فرمایا : نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دعا مانگا کرتے تھے : اے اللہ ! میں آپ کی پناہ چاہتا ہوں سستی اور بڑھاپے سے ، اور بزدلی اور کنجوسی سے، اور دجال کے فتنہ سے، اور قبر کے عذاب سے۔

29759

(۲۹۷۶۰) حَدَّثَنَا عَبِیدَۃُ بْنُ حُمَیْدٍ ، عَنْ أَبِی سِنَانٍ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ أَبِی الْہُذَیْلِ ، عَن شَیْخٍ حَسِبْتہ قَالَ : کَانَ یُصَلِّی فِی مَسْجِدٍ إِیلیَاء ، قَالَ : سَمِعْتُ عَبْدَ اللہِ بْنَ عَمْرٍو یَقُولُ : إنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یَقُولُ : اللَّہُمَّ إنِّی أَعُوذُ بِکَ مِنْ قَلْبٍ لاَ یَخْشَعُ ، وَنَفْسٍ لاَ تَشْبَعُ ، وَعِلْمٍ لاَ یَنْفَعُ ، وَدُعَائٍ لاَ یُسْمَعُ ، اللَّہُمَّ إنِّی أَعُوذُ بِکَ مِنْ ہَؤُلائِ الأَرْبَعِ۔ (ترمذی ۳۴۸۲۔ احمد ۱۶۷)
(٢٩٧٦٠) حضرت عبداللہ بن عمرو فرماتے ہیں کہ بیشک رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دعا مانگا کرتے تھے : اے اللہ ! میں آپ کی پناہ مانگتا ہوں ایسے دل سے جو ڈرتا نہ ہو، اور ایسے نفس سے جو سیر نہ ہوتا ہو، اور ایسے علم سے جو نفع نہ دے، اور ایسی دعا سے جس کی شنوائی نہ ہو، اے اللہ ! میں آپ کی پناہ مانگتا ہوں ان چاروں سے۔

29760

(۲۹۷۶۱) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَن مَنْصُورٍ ، عَن مُجَاہِدٍ قَالَ : کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَدْعُو : اللَّہُمَّ إنِّی أَعُوذُ بِکَ مِنْ غَلَبَۃِ الدَّیْنِ وَغَلَبَۃِ الْعَدُوِّ وَبَوَارِ الأَیِّمِ۔ (طبرانی ۱۳۵۴)
(٢٩٧٦١) حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ دعا مانگا کرتے تھے : اے اللہ ! میں آپ کی پناہ چاہتا ہوں قرض کے غالب آنے سے، اور دشمن کے غلبہ سے، اور ایسی بغیر شوہر والی عورت سے جو نا مقبول ہو۔

29761

(۲۹۷۶۲) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِِ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنِ الْحَکَمِ قَالَ : کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَتَعَوَّذُ مِنْ أَرْبَعٍ : اللَّہُمَّ إنِّی أَعُوذُ بِکَ مِنْ غَلَبَۃِ الْعَدُوِّ ، وَمِنْ غَلَبَۃِ الدَّیْنِ ، وَفِتْنَۃِ الدَّجَّالِ ، وَعَذَابِ الْقَبْرِ۔
(٢٩٧٦٢) حضرت حکم فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چار چیزوں سے پناہ مانگتے تھے : اے اللہ ! میں آپ کی پناہ مانگتا ہوں دشمن کے غلبہ سے، اور قرض کے غلبہ سے، اور دجال کے فتنہ سے، اور قبر کے عذاب سے۔

29762

(۲۹۷۶۳) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَن شُعْبَۃَ ، عَنِ الْحَکَمِ ، عَنِ ابْنِ أَبِی لَیْلَی ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یَدْعُو بِہَذَا الدُّعَائِ : اللَّہُمَّ إنِّی أَعُوذُ بِکَ مِنْ غَلَبَۃِ الدَّیْنِ وَغَلَبَۃِ الْعَدُوِّ۔
(٢٩٧٦٣) حضرت ابن ابی لیلی فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ دعا مانگا کرتے تھے : اے اللہ ! میں آپ کی پناہ چاہتا ہوں غلبہ قرض سے، اور دشمن کے غلبہ سے۔

29763

(۲۹۷۶۴) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ الْحُبَابِ ، عَنْ عَبْدِ الْجَلِیلِ بْنِ عَطِیَّۃَ قَالَ : حدَّثَنَی جَعْفَرُ بْنُ مَیْمُونٍ قَالَ : حَدَّثَنَی عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِی بَکْرَۃَ قَالَ : حَدَّثَنِی أَبِی ، أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ کَلِمَاتُ لِلْمَکْرُوبِ : اللَّہُمَّ رَحْمَتَکَ أَرْجُو ، فَلا تَکِلْنِی إِلَی نَفْسِی طَرْفَۃَ عَیْنٍ ، وَأَصْلِحْ لِی شَأْنِی کُلَّہُ ، لاَ إلَہَ إِلاَّ أَنْتَ۔ (ابوداؤد ۵۰۴۹۔ احمد ۴۲)
(٢٩٧٦٤) حضرت ابو بکرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پریشانی کے کلمات یوں بیان کیے ہیں : اے اللہ ! میں صرف آپ کی رحمت کی امید کرتا ہوں پس مجھے پلک جھپکنے کے بقدر بھی میرے نفس کے سپرد مت فرما، اور میرے تمام معاملات کو درست فرما دے، تیرے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے۔

29764

(۲۹۷۶۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن ہِشَامٍ الدَّسْتَوَائِیِّ ، عَن قَتَادَۃَ ، عَنْ أَبِی الْعَالِیَۃِ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یَقُولُ عِنْدَ الْکَرْبِ : لاَ إلَہَ إِلاَّ اللَّہُ الْحَلِیمُ الْکَرِیمُ ، لاَ إلَہَ إِلاَّ اللَّہُ رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَرَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیمِ۔ (بخاری ۶۳۴۵۔ مسلم ۲۰۹۳)
(٢٩٧٦٥) حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مصیبت کے وقت یہ کلمات ادا فرماتے تھے : کوئی معبود نہیں سوائے اللہ کے جو حکمت والا ، سخی ہے، کوئی معبود نہیں سوائے اللہ کے ، جو آسمانوں کا رب اور عرش عظیم کا رب ہے۔

29765

(۲۹۷۶۶) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ قَالَ : حدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِیزِ بْنُ عُمَرَ قَالَ حَدَّثَنَی ہِلالٌ مَوْلَی عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِیزِ ، عَن عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِیزِ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ جَعْفَرٍ ، أَنَّ أُمَّہُ أَسْمَائَ بِنْتِ عُمَیْسٍ قَالَتْ : عَلَّمَنِی رَسُولُ اللہِ کَلِمَاتٍ أَقُولُہُنَّ عِنْدَ الْکَرْبِ : اللَّہَ اللَّہَ رَبِّی لاَ أُشْرِکُ بِہِ شَیْئًا۔ (ابوداؤد ۱۵۲۰۔ ابن ماجہ ۳۸۸۲)
(٢٩٧٦٦) حضرت اسماء بنت عمیس فرماتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے چند کلمات سکھائے تھے جن کو میں مصیبت و پریشانی کے وقت پڑھتی ہوں :” اللہ، اللہ جو میرا پالنے والا ہے۔ میں اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتی۔

29766

(۲۹۷۶۷) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ ہَاشِمٍ ، عَنِ ابْنِ أَبِی لَیْلَی ، عَنْ إِسْحَاقَ الْجَزَرِیِّ ، عَنْ أَبِی جَعْفَرٍ قَالَ : کَلِمَاتُ الْفَرَجِ: لاَ إلَہَ إِلاَّ اللَّہُ الْعَلِیُّ الْعَظِیمُ ، سُبْحَانَ اللہِ رَبِّ الْعَرْشِ الْکَرِیمِ ، الْحَمْدُ لِلَّہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ ، اللَّہُمَّ اغْفِرْ لِی وَارْحَمْنِی وَتَجَاوَزْ عَنی وَاعْفُ عَنی فَإِنَّک عَفُوٌّ غَفُورٌ۔
(٢٩٧٦٧) حضرت ابو جعفر فرماتے ہیں کہ کشادگی کے کلمات یہ ہیں : کوئی معبود نہیں سوائے اللہ کے جو کہ بلند شان والا ہے، اللہ ہر عیب سے پاک ہے اور عرش کریم کا رب ہے، تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے، اے اللہ ! میری مغفرت فرما دے اور مجھ پر رحم فرما، اور مجھ سے درگزر فرما، اور مجھے معاف فرما، پس یقیناً تو معاف فرمانے والا اور مغفرت کرنے والا ہے۔

29767

(۲۹۷۶۸) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ أَبِی سُلَیْمَانَ ، عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ ، عَن صَفْوَانَ بْنِ عَبْدِ اللہِ وَکَانَتْ تَحْتَہُ الدَّرْدَائُ ، فَأَتَاہَا فَوَجَدَ أُمَّ الدَّرْدَائِ وَلَمْ یَجِدْ أَبَا الدَّرْدَائَ ، فَقَالَتْ لَہُ : تُرِیدُ الْحَجَّ الْعَامَ ؟ قَالَ : نَعَمْ ، قَالَتْ : فَادْعُ اللَّہَ لَنَا بِخَیْرٍ فَإِنَّ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یَقُولُ : إنَّ دَعْوَۃَ الْمَرْئِ مُسْتَجَابَۃٌ لأَخِیہِ بِظَہْرِ الْغَیْبِ عِنْدَ رَأْسِہِ مَلَکٌ یُؤَمِّنُ عَلَی دُعَائِہِ کُلَّمَا دَعَا لَہُ بِخَیْرٍ قَالَ : آمِینَ ، وَلَک بِمِثْلِہِ ، ثُمَّ خَرَجْت إِلَی السُّوقِ فَلَقِیتُ أَبَا الدَّرْدَائِ فَحَدَّثَنِی ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِمِثْلِ ذَلِکَ۔ (مسلم ۲۰۹۵۔ ابن ماجہ ۲۸۹۵)
(٢٩٧٦٨) حضرت ابو الزبیر فرماتے ہیں کہ حضرت صفوان بن عبداللہ بن صفوان جن کے نکاح میں حضرت درداء ہیں وہ اپنی بیوی کے پاس تشریف لائے تو حضرت ام الدردا کو ان کے پاس پایا اور حضرت ابو الدردائ وہاں نہیں تھے۔ پس حضرت ام الدردائ ان سے فرمانے لگیں : کیا آپ کا اس سال حج کرنے کا ارادہ ہے ؟ صفوان نے کہا : جی ہاں، حضرت ام الدردائ نے کہا : ہمارے حق میں بھی خیر کی دعا کرنا، نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے تھے : بیشک آدمی کی دعا اپنے بھائی کے لیے اس کی غیر موجودگی میں قبول کی جاتی ہے اس دعا کرنے والے کے سر کے قریب ایک فرشتہ ہوتا ہے جو اس کی دعا پر آمین کہتا ہے، جب بھی وہ اپنے بھائی کے حق میں خیر کی دعا کرتا ہے، فرشتہ کہتا ہے : آمین، اور تجھے بھی یہی چیز عطا ہو، پھر صفوان بن عبداللہ کہتے ہیں کہ میں بازار کی طرف گیا تو میری ملاقات حضرت ابو الدردائ سے ہوگئی، پس انھوں نے بھی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حوالے سے مجھے یہ حدیث بیان کی۔

29768

(۲۹۷۶۹) حَدَّثَنَا یَعْلَی ، عَنِ الإِفْرِیقِیِّ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ یَزِیدَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : أَفْضَلُ الدُّعَائِ دَعْوَۃُ غَائِبٍ لِغَائِبٍ۔ (ابوداؤد ۱۵۳۰۔ ترمذی ۱۹۸۰)
(٢٩٧٦٩) حضرت عبداللہ بن عمرو فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے کہ : افضل ترین دعا کسی آدمی کا غیر حاضر شخص کے لیے دعا کرنا ہے۔

29769

(۲۹۷۷۰) حَدَّثَنَا عَبِیدَۃُ بْنُ حُمَیْدٍ ، عَن حُمَیْدٍ الطَّوِیلِ ، عَن طَلْحَۃَ ، عَن أُمِّ الدَّرْدَائِ قَالَتْ : دَعْوَۃُ الْمَرْئِ الْمُسْلِمِ لأَخِیہِ وَہُوَ غَائِبٌ لاَ تُرَدُ ، قَالَ : وَقَالَتْ : إِلَی جَنْبِہِ مَلَکٌ لاَ یَدْعُو لَہُ بِخَیْرٍ إِلاَّ قَالَ الْمَلَکُ : آمین وَلَکَ۔
(٢٩٧٧٠) حضرت طلحہ فرماتے ہیں کہ حضرت ام الدردائ نے فرمایا : کہ مسلمان آدمی کی اپنے غیر موجود بھائی کے حق میں کی گئی دعا کبھی رد نہیں جاتی، حضرت طلحہ کہتے ہیں کہ حضرت ام الدردائ نے یہ بھی فرمایا : دعا کرنے والے کے پہلو میں ایک فرشتہ ہوتا ہے، جب بھی وہ اپنے بھائی کے حق میں خیر کی دعا کرتا ہے تو فرشتہ کہتا ہے : آمین اور تیرے حق میں بھی یہ دعا قبول ہو۔

29770

(۲۹۷۷۱) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، عَن فُضَیْلِ بْنِ غَزْوَانَ ، قَالَ : سَمِعْتُ طَلْحَۃَ بْنَ عُبَیْدِ اللہِ بْنِ کَرِیزٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ أُمَّ الدَّرْدَائِ قَالَتْ : سَمِعْت النبی صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : إِنَّہُ یُسْتَجَابُ لِلْمَرْئِ بِظَہْرِ الْغَیْبِ لأَخِیہِ ، فَمَا دَعَا لأَخِیہِ بِدَعْوَۃٍ إِلاَّ قَالَ الْمَلَکُ : وَلَک بِمِثْلِ۔ (مسلم ۲۰۹۴۔ ابوداؤد ۱۵۲۹)
(٢٩٧٧١) حضرت ام الدردائ فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے : کہ آدمی کی اپنے غیر حاضر بھائی کے حق میں کی گئی دعا قبول کی جاتی ہے، پس وہ جب بھی اپنے بھائی کے لیے کوئی دعا کرتا ہے تو فرشتہ کہتا ہے : تیرے حق میں بھی یہ دعا قبول ہو۔

29771

(۲۹۷۷۲) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِیزِ بْنِ صُہَیْبٍ ، عَنْ أَنَسٍ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إذَا دَعَا أَحَدُکُمْ فَلْیَعْزِمْ فِی الدُّعَائِ وَلا یَقُلِ : اللَّہُمَّ إِنْ شِئْتَ فَأَعْطِنِی فَإِنَّ اللَّہَ لاَ مُسْتَکْرِہَ لَہُ۔ (بخاری ۶۳۳۸۔ مسلم ۲۰۶۳)
(٢٩٧٧٢) حضرت انس فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے کہ : جب بھی تم میں سے کوئی ایک دعا کرے تو اس کو چاہیے پختہ یقین کے ساتھ دعا کرے، ایسا مت کہے : اے اللہ ! اگر تو چاہے تو مجھے عطا فرما، پس یقیناً اللہ تعالیٰ کو کوئی مجبور نہیں کرسکتا۔

29772

(۲۹۷۷۳) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنِ ابْنِ عَجْلانَ ، عَنْ أَبِی الزِّنَادِ ، عَنِ الأَعْرَجِ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لاَ یَقُلْ أَحَدُکُمْ : اغْفِرْ لِی إِنْ شِئْتَ ، وَلْیَعْزِمْ فِی الْمَسْأَلَۃِ فَإِنَّہُ لاَ مُکْرِہَ لَہُ۔ (ابوداؤد ۱۴۷۸۔ ترمذی ۳۴۹۷)
(٢٩٧٧٣) حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے کہ تم میں سے کوئی ایسا مت کہے : اگر تو چاہے تو میری بخشش فرما، بلکہ اس کو چاہیے کہ وہ اپنی دعا میں پختہ یقین پیدا کرے، پس یقیناً اللہ کو کوئی مجبور نہیں کرسکتا۔

29773

(۲۹۷۷۴) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَن دَاوُد ، عَنِ الشَّعْبِیِّ قَالَ : قالَتْ عَائِشَۃُ لابْنِ أَبِی السَّائِبِ قَاصِّ أَہْلِ مَکَّۃَ اجْتَنِبَ السَّجْعَ فِی الدُّعَائِ فَإِنِّی عَہِدْت رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابَہُ ، وَہُمْ لاَ یَفْعَلُونَ ذَلِکَ۔ (طبرانی ۵۴)
(٢٩٧٧٤) امام شعبی فرماتے ہیں کہ حضرت عائشہ نے ابن ابی السائب جو کہ اہل مکہ کا قصہ گو ہے سے فرمایا : تم دعا میں تکلف اختیار کرنے سے بچو، میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان کے اصحاب سے واقف ہوں، وہ لوگ تکلف نہیں کیا کرتے تھے۔

29774

(۲۹۷۷۵) حَدَّثَنَا عَفَّانُ قَالَ : حدَّثَنَا الأَسْوَدُ بْنُ شَیْبَانَ ، حَدَّثَنَا أَبُو نَوْفَلُ بْنُ أَبِی عَقْرَبٍ ، عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ : کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُحِبُّ الْجَوَامِعَ مِنَ الدُّعَائِ ، وَیَدَعُ مَا بَیْنَ ذَلِکَ۔ (ابوداؤد ۱۴۷۷)
(٢٩٧٧٥) حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جامع دعاؤں کو پسند فرماتے تھے اور جو اس کے درمیان ہوتیں وہ چھوڑ دیتے تھے۔

29775

(۲۹۷۷۶) حَدَّثَنَا سَہْلُ بْنُ یُوسُفَ ، عَن حُمَیْدٍ ، عَنْ أَبِی الصِّدِّیقِ ، عَنْ أَبِی سَعِیدٍ قَالَ : إذَا سَأَلْتُمَ اللَّہَ فَاعْزِمُوا فَإِنَّ اللَّہَ لاَ مُسْتَکْرِہَ لَہُ۔
(٢٩٧٧٦) حضرت ابو سعید فرماتے ہیں کہ : جب تم اللہ سے سوال کرو تو پختہ یقین کے ساتھ کرو، پس یقیناً اللہ تعالیٰ کو کوئی مجبور نیں کرسکتا۔

29776

(۲۹۷۷۷) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَن ذَرٍّ ، عَن یُسَیْعٍ ، عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِیرٍ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : الدُّعَائُ ہُوَ الْعِبَادَۃُ ، ثُمَّ تَلا : {وَقَالَ رَبُّکُمُ ادْعُونِی أَسْتَجِبْ لَکُمْ} ۔۔۔ الآیَۃَ۔ (ترمذی ۳۲۴۷۔ ابوداؤد ۱۴۷۴)
(٢٩٧٧٧) حضرت نعمان بن بشیر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : دعا بھی عبادت ہے، پھر قرآن کی آیت تلاوت فرمائی : اور تمہارا رب فرماتا ہے تم مجھے پکارو میں تمہاری پکار کا جواب دوں گا۔

29777

(۲۹۷۷۸) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِی بَکْرٍ ، عَن مُوسَی بْنِ عُقْبَۃَ ، عَن نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَنْ فُتِحَ لَہُ مِنَ الدُّعَائِ مِنْکُمْ فُتِحَتْ لَہُ أَبْوَابُ الإِجَابَۃِ۔ (ترمذی ۳۵۴۸)
(٢٩٧٧٨) حضرت ابن عمر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے کہ تم میں سے جس شخص کے سامنے دعا کی حقیقت کھل گئی پس اس کے لیے قبولیت کے دروازے کھول دیے گئے۔

29778

(۲۹۷۷۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ أَبِی الْمَلِیحِ ، عَنْ أَبِی صَالِحٍ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَنْ لَمْ یَدْعُ اللَّہَ غَضِبَ عَلَیْہِ۔ (بخاری ۶۵۸۔ ابن ماجہ ۳۸۲۷)
(٢٩٧٧٩) حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جو شخص اللہ سے مانگتا نہیں اللہ تعالیٰ اس سے ناراض ہوتے ہیں۔

29779

(۲۹۷۸۰) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ عَلِیٍّ ، قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا الْمُتَوَکِّلِ النَّاجِیَّ قَالَ : قَالَ أَبُو سَعِیدٍ قَالَ نَبِیُّ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَا مِنْ مُسْلِمٍ یَدْعُو بِدَعْوَۃٍ لَیْسَ فِیہَا إِثْمَ وَلا قَطِیعَۃُ رَحِمٍ إِلاَّ أَعْطَاہُ اللَّہُ بِہَا إحْدَی ثَلاثٍ : إمَّا أَنْ یُعَجِّلَ لَہُ دَعْوَتَہُ ، وَإِمَّا یَدَّخِرَہَا لَہُ فِی الآخِرَۃِ ، وَإِمَّا أَنْ یَکْشِفَ عَنہُ من السُّوئَ بِمِثْلِہَا، قَالُوا : إذًا نُکْثِرُ یَا نبی اللہ ، قَالَ : اللَّہُ أَکْثَرُ۔ (بخاری ۷۱۰۔ احمد ۱۸)
(٢٩٧٨٠) حضرت ابو سعید فرماتے ہیں کہ اللہ کے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جب بھی کوئی مسلمان دعا کرتا ہے اور اس کی دعا میں کوئی گناہ اور قطع رحمی کی بات نہ ہو تو اللہ تعالیٰ اس کو تین باتوں میں ایک عطاء فرماتے ہیں : یا تو اس شخص کے لیے جلد ہی اس کی دعا کو پورا فرما دیتے ہیں یا اس کی دعا کو آخرت میں ذخیرہ فرما دیتے ہیں یا اس سے اس جیسی کوئی بُرائی دور فرما دیتے ہیں ، صحابہ نے کہا : اے اللہ کے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تب تو ہم کثرت سے دعائیں مانگیں گے، نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فریایا : اللہ بھی کثرت سے عطا فرمائے گا۔

29780

(۲۹۷۸۱) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ التَّیْمِیِّ قَالَ : کَانَ یُقَالُ : إذَا بَدَأَ الرَّجُلُ بِالثَّنَائِ قَبْلَ الدُّعَائِ ، فَقَدِ اسْتَوْجَبَ ، وَإِذَا بَدَأَ بِالدُّعَائِ قَبْلَ الثَّنَائِ کَانَ عَلَی رَجَائٍ۔
(٢٩٧٨١) حضرت ابراہیم تیمی فرماتے ہیں کہ یوں کہا جاتا تھا : جب آدمی دعا سے قبل اللہ کی ثنا بیان کرتا ہے تو یقیناً اس کی دعا قبول ہوجاتی ہے، اور جب اللہ کی ثنا سے قبل دعا سے ابتدا کرتا ہے تو اس کی دعا کو قبولیت کی امید ہوتی ہے۔

29781

(۲۹۷۸۲) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَن مَنْصُورٍ ، عَن ہِلالِ بْنِ یَِسَافٍ قَالَ : بَلَغَنِی أَنَّ الْمُسْلِمَ إذَا دَعَا فَلَمْ یُسْتَجَبْ لَہُ کُتِبَتْ لَہُ حَسَنَۃٌ۔
(٢٩٧٨٢) حضرت ھلال بن یساف فرماتے ہیں کہ مجھے یہ خبر پہنچی ہے جب کوئی مسلمان دعا کرے اور وہ دعا قبول نہ ہو تو اس کے حق میں ایک نیکی لکھ دی جاتی ہے۔

29782

(۲۹۷۸۳) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَن عُمَارَۃَ ، عَنْ أَبِی عَمَّارٍ ، عَن حُذَیْفَۃَ قَالَ : لَیَأْتِیَنَّ عَلَی النَّاسِ زَمَانٌ لاَ یَنْجُو فِیہِ إِلاَّ مَنْ دَعَا بِدُعَائٍ کَدُعَائِ الْغَرَقِ۔ (حاکم ۵۰۷)
(٢٩٧٨٣) حضرت حذیفہ فرماتے ہیں کہ ضرور بالضرور لوگوں پر ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ اس میں وہی لوگ نجات پائیں گے جو ڈوبنے والے کی دعا کی طرح دعا کریں گے۔

29783

(۲۹۷۸۴) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، عَن ہَمَّامٍ ، عَن حُذَیْفَۃَ مِثْلُہُ إلاَّ أَنَّہُ قَالَ : الَّذِی یَدْعُو۔
(٢٩٧٨٤) اس سند کے ساتھ بھی حضرت حذیفہ کا ما قبل جیسا ارشاد منقول ہے مگر اس میں دعا کی جگہ الَّذِی یَدْعُوکے الفاظ ہیں۔

29784

(۲۹۷۸۵) حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُوسَی ، حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَن ثَابِتٍ ، وَیُونُسُ بْنِ عُبَیْدٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، أَنَّ أَبَا الدَّرْدَائِ کَانَ یَقُولُ : جِدُّوا فی الدُّعَائِ فَإِنَّہُ مَنْ یُکْثِرُ قَرْعَ الْبَابِ یُوشِکُ أَنْ یُفْتَحَ لَہُ۔
(٢٩٧٨٥) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ حضرت ابو الدردائ فرمایا کرتے تھے : تم لوگ دعا میں خوب کوشش کیا کرو اس لیے کہ جو شخص کثرت سے دروازہ کھٹکھٹاتا ہے قریب ہے کہ اس کے لیے دروازہ کھول دیا جائے۔

29785

(۲۹۷۸۶) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، وَوَکِیعٌ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ ثُمَامَۃَ بْنِ عُقْبَۃَ الْمُحَلِّمِیِّ ، عَنِ الْحَارِثِ بْنِ سُوَیْد قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللہِ : إذَا کَانَ عَلَی أَحَدِکُمْ إمَامٌ یَخَافُ تَغَطْرُسَہُ وَظُلْمَہُ فَلْیَقُلِ : اللَّہُمَّ رَبَّ السَّمَاوَاتِ السبع وَرَبَّ الْعَرْشِ الْعَظِیمِ ، کُنْ لِی جَارًا مِنْ فُلانٍ وَأَحْزَابِہِ وَأَشْیَاعِہِ أَنْ یَفْرُطُوا عَلَیَّ ، أَوْ أَنْ یَطْغَوْا ، عَزَّ جَارُک وَجَلَّ ثَنَاؤُک ، وَلا إلَہَ غَیْرُک إِلاَّ أَنَّ أَبَا مُعَاوِیَۃَ زَادَ فِیہِ : قَالَ الأَعْمَشُ : فَذَکَرْتہ لإِبْرَاہِیمَ فَحَدَّثَ عَنْ عَبْدِ اللہِ بِمِثْلِہِ ، وَزَادَ فِیہِ : مِنْ شَرِّ الْجِنِّ وَالإِنْسِ۔ (بخاری ۷۰۷)
(٢٩٧٨٦) حضرت عبداللہ فرماتے ہیں کہ جب تم میں سے کسی ایک پر کوئی امام مسلط ہو اور آدمی اس کے غصہ اور ظلم سے ڈرتا ہو پس چاہیے کہ وہ اس طرح کہے : اے اللہ ! ساتوں آسمانوں کے رب اور عرش عظیم کے رب تو میرا مدد گار بن جا فلاں سے اور اس کے لشکروں سے اور اس کے حامیوں سے کہ وہ لوگ مجھ پر زیادتی کریں، یا وہ سرکشی کریں، تیرا پڑوسی عزت والا ہے، اور بڑی ہے تیری تعریف ، اور نہیں ہے کوئی معبود تیرے علاوہ،
مگر ابو معاویہ نے اس میں یہ اضافہ فرمایا ہے : اعمش کہتے ہیں کہ میں نے یہ حدیث ابراہیم کے سامنے ذکر کی، تو انھوں نے بھی حضرت عبداللہ سے یہی حدیث بیان کی مگر ابراہیم نے اس جملہ کا اضافہ فرمایا : ” جن اور انسان کے شر سے “۔

29786

(۲۹۷۸۷) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ قَالَ : حدَّثَنَا یُونُسُ بْنُ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنِ الْمِنْہَالِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ : حَدَّثَنِی سَعِیدُ بْنُ جُبَیْرٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : إذَا أَتَیْتَ سُلْطَانًا مَہِیبًا تَخَافُ أَنْ یَسْطُوَ عَلَیْک فَقُلْ : اللَّہُ أَکْبَرُ ، اللَّہُ أَعَزُّ مِنْ خَلْقِہِ جَمِیعًا، اللَّہُ أَعَزُّ مِمَّا أَخَافُ وَأَحْذَرُ، أَعُوذُ بِاللہِ الَّذِی لاَ إلَہَ إِلاَّ ہُوَ الْمُمْسِکُ السَّمَاوَاتِ السَّبْعِ أَنْ یَقَعْنَ عَلَی الأَرْضِ إِلاَّ بِإِذْنِہِ ، مِنْ شَرِّ عَبْدِکَ فُلانٍ وَجُنُودِہِ وَأَتْبَاعِہِ وَأَشْیَاعِہِ مِنَ الْجِنِّ وَالإِنْسِ ، اللَّہُمَّ کُنْ لِی جَارًا مِنْ شَرِّہِمْ ، جَلَّ ثَنَاؤُک وَعَزَّ جَارُک وَتَبَارَکَ اسْمُک ، وَلا إلَہَ غَیْرُک ثَلاثَ مَرَّاتٍ۔
(٢٩٧٨٧) حضرت ابن عباس فرماتے ہیں : جب تو کسی خوفناک بادشاہ کے پاس حاضر ہو اور تو ڈرتا ہو کہ وہ تجھ پر سختی کرے گا، پس تو تین مرتبہ یوں کہہ : اللہ سب سے بڑا ہے ، اللہ اپنی تمام مخلوق میں زیادہ عزت والا ہے، میں اس اللہ کی پناہ مانگتا ہوں جس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے جو کہ ساتوں آسمانوں کو روکنے والا ہے کہ وہ بغیر اس کی اجازت کے زمین پر گِر پڑیں، تیرے فلاں بندے کے شر سے، اور اس کے لشکروں اور پیروکاروں اور اس کے حامیوں کے شر سے، جنوں میں سے ہوں یا انسانوں میں سے، اے اللہ ! تو ان کے شر سے میرا مددگار بن جا، تیری اونچی ثناء ہے، اور تیرا پڑوسی معزز ہے، اور تیرا نام برکت والا ہے، اور تیرے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔

29787

(۲۹۷۸۸) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَن حُصَیْنٍ ، عَنْ عَامِرٍ قَالَ : کُنْتُ جَالِسًا مَعَ زِیَادِ بْنِ أَبِی سُفْیَانَ فَأُتِیَ بِرَجُلٍ یُحْمَلُ ، مَا نَشُکُّ فِی قَتْلِہِ ، قَالَ : فَرَأَیْتہ حَرَّکَ شَفَتَیْہِ بِشَیْئٍ مَا نَدْرِی مَا ہُوَ ، فَخَلَّی سَبِیلَہُ فَأَقْبَلَ إلَیْہِ بَعْضُ الْقَوْمِ فَقَالَ : لَقَدْ جِیئَ بِکَ ، وَمَا نَشُکُّ فِی قَتْلِکَ ، فَرَأَیْتُکَ حَرَّکْتَ شَفَتَیْک بِشَیْئٍ مَا نَدْرِی مَا ہُوَ ، قَالَ : فَخَلَّی سَبِیلَک ، قَالَ : قُلْتُ : اللَّہُمَّ رَبَّ إبْرَاہِیمَ وَرَبَّ إِسْحَاقَ وَرَبَّ یَعْقُوبَ وَرَبَّ جِبْرِیلَ وَمِیکَائِیلَ وَإِسْرَافِیلَ وَمُنَزِّلَ التَّوْرَاۃِ وَالإِنْجِیلِ وَالزَّبُورِ وَالْقُرْآنِ الْعَظِیمِ ، ادْرَأْ عَنی شَرَّ زِیَادٍ۔
(٢٩٧٨٨) حضرت عامر فرماتے ہیں کہ میں زیاد بن ابی سفیان کے پاس بیٹھا تھا کہ ایک آدمی کو گھسیٹتے ہوئے لایا گیا، ہمیں اس کے قتل ہونے میں کوئی شک نہیں تھا، عامر فرماتے ہیں : میں نے اس کو دیکھا اس کے ہونٹ ہلکی سی حرکت کر رہے ہیں میں نہیں جانتا تھا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے، عامر کہتے ہیں پس زیاد نے اس کو آزاد کردیا، پس لوگوں میں ایک آدمی اس کی طرف متوجہ ہوا اور کہنے لگا : تحقیق تجھے لایا گیا تھا اور ہمیں تیرے قتل ہونے میں کوئی شک نہیں تھا پس میں نے تجھے دیکھا کہ کسی چیز کی وجہ سے تیرے ہونٹ حرکت کر رہے تھے ہم نہیں جانتے کہ وہ کیا ہے ؟ آدمی نے کہا پھر زیاد نے تجھے آزاد کردیا ! وہ شخص کہنے لگا ! میں نے یہ دعا پڑھی تھی : اے اللہ ! ابراہیم کے پالنے والے اور اسحاق کے پالنے والے اور یعقوب کے پالنے والے، اور جبرائیل اور میکائیل اور اسرافیل کے رب، اور توراۃ ، انجیل ، زبور اور قرآن عظما کے نازل کرنے والے ، مجھ سے زیاد کے شر کو دور فرما۔

29788

(۲۹۷۸۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن مِسْعَرٍ ، عَنْ أَبِی بَکْرِ بْنِ حَفْصٍ ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ الْحَسَنِ ، أَنَّ عَبْدَ اللہِ بْنَ جَعْفَرٍ زَوَّجَ ابْنَتَہُ فَخَلا بِہَا فَقَالَ : إذَا نَزَلَ بِکَ الْمَوْتُ ، أَوْ أَمْرٌ مِنْ أُمُورِ الدُّنْیَا فَظِیعٌ فَاسْتَقْبِلِیہِ بِأَنْ تَقُولِی : لاَ إلَہَ إِلاَّ اللَّہُ الْحَلِیمُ الْکَرِیمُ ، سُبْحَانَ اللہِ رَبِّ الْعَرْشِ الْعَظِیمِ ، الْحَمْدُ لِلَّہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ۔ قَالَ الْحَسَنُ بْنُ الْحَسَنِ : فَبَعَثَ إلَیَّ الْحَجَّاجُ فَقُلْتُہُنَّ ، فَلَمَّا قُمْت بَیْنَ یَدَیْہِ قَالَ : لقد بَعَثْتُ إلَیْک ، وَأَنَا أُرِیدُ أَنْ أَضْرِبَ عُنُقَکَ وَلَقَدْ صِرْت، وَمَا مِنْ أَہْلِ بَیْتِ أَحَدٌ أَکْرَمُ عَلَیَّ مِنْک، سَلْنِی حَاجَتَک۔ (نسائی ۱۰۴۶۳)
(٢٩٧٨٩) حضرت حسن بن حسن فرماتے ہیں کہ عبداللہ بن جعفر نے اپنی بیٹی کی شادی کی تو اس کو تنہائی میں لے جا کر یہ نصیحت فرمائی : جب بھی تجھے موت آئے یا دنیا کے کاموں سے کوئی بُرا کام پیش آجائے، پس تو ان الفاظ کے ساتھ اس کا استقبال کر، کوئی معبود نیں ے ہے سوائے اس اللہ کے جو کہ حکمت والا اور سخی ہے، اللہ جو کہ عرش عظیم کا رب ہے، ہر عیب سے پاک ہے ، تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے۔
حضرت حسن بن حسن فرماتے ہیں : پس حجاج کو میری طرف بھیجا گیا، تو میں نے ان کلمات کو ادا کیا : پھر جب میں اس کے سامنے کھڑا ہوا وہ کہنے لگا : تحقیق مجھے تیری طرف بھیجا گیا تھا اور میں چاہ رہا تھا کہ میں تیری گردن اڑا دوں، اور اب تو اور تیرے اہل خانہ میں سے کوئی بھی ہو وہ میرے لیے بہت معزز ہوگیا ہے تو مجھ سے اپنی ضرورت کے مطابق مانگ لے۔

29789

(۲۹۷۹۰) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَن مِسْعَرٍ ، عَنْ عَلْقَمَۃَ بْنِ مَرْثَدٍ قَالَ : کَانَ الرَّجُلُ إذَا کَانَ مِنْ خَاصَّۃِ الشَّعْبِیِّ أَخْبَرَہُ بِہَذَا الدُّعَائِ : اللَّہُمَّ إلَہَ جِبْرِیلَ وَمِیکَائِیلَ وَإِسْرَافِیلَ وَإِلَہَ إبْرَاہِیمَ وَإِسْمَاعِیلَ وَإِسْحَاقَ عَافِنِی ، وَلا تُسَلِّطَنَّ أَحَدًا مِنْ خَلْقِکَ عَلَیَّ بِشَیْئٍ لاَ طَاقَۃَ لِی بِہِ ، وَذُکِرَ أَنَّ رَجُلاً أَتَی أَمِیرًا فَقَالَہَا ، فَأَرْسَلِہُ۔
(٢٩٧٩٠) حضرت علقمہ بن مرثد فرماتے ہیں کہ جب کوئی آدمی امام شعبی کا خاص آدمی بن جاتا تو وہ اس کو یہ دعا بتلاتے تھے : اے اللہ ! جبرائیل ، میکائیل اور اسرافیل کے معبود اور ابراہیم، اسماعیل اور اسحاق کے معبود ! مجھے عافیت دے، اور اپنی مخلوق میں سے کسی کو بھی مجھ پر مسلط نہ فرما جس کے مقابلہ کی میں طاقت نہ رکھتا ہوں۔
حضرت علقمہ فرماتے ہیں کہ ایک آدمی کو امیر کے پاس لایا گیا پس اس نے یہ کلمات کہے، تو امیر نے اس کو آزاد کردیا۔

29790

(۲۹۷۹۱) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ قَالَ : أَخْبَرَنَا عِمْرَانُ بْنُ حُدَیْرٍ ، عَنْ أَبِی مِجْلَزٍ قَالَ : مَنْ خَافَ مِنْ أَمِیرٍ ظُلْمًا فَقَالَ : رَضِیت بِاللہِ رَبًّا وَبِالإِسْلامِ دِینًا وَبِمُحَمَّدٍ نَبِیًّا وَبِالْقُرْآنِ حَکَمًا وَإِمَامًا أَنْجَاہُ اللَّہُ مِنْہُ۔
(٢٩٧٩١) حضرت ابو مجلز فرماتے ہیں جو شخص کسی افسر کے ظلم سے ڈرتا ہے تو وہ یہ کلمات کہہ لے : میں اللہ کو رب ماننے، اور اسلام کو دین ماننے ، اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نبی ماننے اور قرآن کو قاضی اور امام ماننے پر راضی ہوں، تو اللہ اس کو اس کے خوف سے نجات عطا فرما دیں گے۔

29791

(۲۹۷۹۲) حَدَّثَنِی یَحْیَی بْنُ أَبِی بکیر قَالَ : حدَّثَنَی زُہَیْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِیلٍ ، عَن مُعَاذِ بْنِ رِفَاعَۃَ بْنِ رَافِعٍ الأَنْصَارِیِّ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا بَکْرٍ یَقُول سَمِعْت رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ فِی ہَذَا الْقَیْظِ عَامَ الأَوَّلِ : سَلُوا اللَّہَ الْعَافِیَۃَ وَالْیَقِینَ فِی الآخِرَۃِ وَالاُولَی۔ (ترمذی ۳۵۵۸۔ احمد ۳)
(٢٩٧٩٢) حضرت ابوبکر فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس سال کی گرمیوں میں یہ فرماتے ہوئے سنا ہے : تم لوگ اللہ سے عافیت اور آخرت اور دنیا میں یقین کا سوال کرو۔

29792

(۲۹۷۹۳) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَن یَحْیَی بْنِ جَعْدَۃِ قَالَ : قَالَ أَبُو بَکْرٍ : سَمِعْت رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَامَ الأَوَّلِ ، وَالْعَہْدُ قَرِیبٌ یَقُولُ : سَلُوا اللَّہَ الْیَقِینَ وَالْعَافِیَۃَ۔
(٢٩٧٩٣) حضرت ابوبکر فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس سال قریب کے زمانے میں یہ فرماتے ہوئے سنا ہے : تم لوگ اللہ سے عافیت اور یقین طلب کرو۔

29793

(۲۹۷۹۴) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ الْحُبَابِ قَالَ : حدَّثَنَی عَبْدُ الْجَلِیلِ بْنُ عَطِیَّۃَ قَالَ : حَدَّثَنَی جَعْفَرُ بْنُ مَیْمُونٍ قَالَ : حَدَّثَنَی عَبْدُ الرَّحْمَن بْنُ أَبِی بَکْرَۃَ ، قَالَ : سَمِعْتُ أَبِی یَدْعُو بِہَذَا الدُّعَائِ : اللَّہُمَّ عَافِنِی فِی بَدَنِی ، اللَّہُمَّ عَافِنِی فِی سَمْعِی ، اللَّہُمَّ عَافِنِی فِی بَصَرِی ، لاَ إلَہَ إِلاَّ أَنْتَ غُدْوَۃً وَعَشِیَّۃً ، فَقُلْتُ لَہُ : یَا أَبَتِ ، سَمِعْتُک ، وَأَنْتَ تَدْعُو بِہَذَا الدُّعَائِ غُدْوَۃً وَعَشِیَّۃً قَالَ : یَا بُنَی ، إنِّی سَمِعْت رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَدْعُو بِہِ وَأَنَا أُحِبُّ أَنْ أَسْتَنَّ بِسُنَّتِہِ۔
(٢٩٧٩٤) حضرت عبدالرحمن بن ابی بکرہ فرماتے ہیں کہ میں سنتا تھا میرے والد صبح و شام یہ دعا پڑھا کرتے تھے : ” اے اللہ تو میرے جسم میں مجھے عافیت بخش دے ، اے اللہ ! تو میرے دیکھنے میں مجھے عافیت بخش دے، نہیں ہے کوئی معبود سوائے تیرے “ پس میں نے اپنے والد سے کہا : اے ابا جان ! میں آپ کو سنتا ہوں آپ صبح و شام یہ دعا پڑھتے ہیں ؟ وہ فرمانے لگے : اے میرے لاڈلے بیٹے ! میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ دعا پڑھتے ہوئے سنا ہے، اور میں پسند کرتا ہوں کہ میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت کو اپنانے والا ہوں۔

29794

(۲۹۷۹۵) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَن یَزِیدَ بْنِ أَبِی زِیَادٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ الْحَارِثِ قَالَ الْعَبَّاسُ : یَا رَسُولَ اللہِ ، عَلِّمْنِی شَیْئًا أَسْأَلُہُ رَبِّی ، قَالَ : سَلْ رَبَّک الْعَافِیَۃَ فِی الدُّنْیَا وَالآخِرَۃِ۔ (بخاری ۷۲۶۔ ترمذی۳۵۱۴)
(٢٩٧٩٥) حضرت عبداللہ بن الحارث فرماتے ہیں کہ عباس نے کہا : اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مجھے ایسی چیز سکھا دیں جس کا میں اپنے رب سے سوال کروں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اپنے رب سے دنیا و آخرت میں عافیت طلب کرو۔

29795

(۲۹۷۹۶) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِی بَکْرِ بْنِ أَبِی مُلَیْکَۃَ ، عَن مُوسَی بْنِ عُقْبَۃَ ، عَن نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : مَا سَأَلَ اللَّہَ عَبْدٌ شَیْئًا أَحَبَّ إلَیْہِ مِنْ أَنْ یَسْأَلَہُ الْعَافِیَۃَ۔ (ترمذی ۳۵۴۸)
(٢٩٧٩٦) حضرت ابن عمر فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو کوئی آدمی اللہ سے کسی چیز کا سوال کرتا ہے تو سب سے پسندیدہ بات یہ ہے کہ وہ اللہ سے عافیت کا سوال کرے۔

29796

(۲۹۷۹۷) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الشَّیْبَانِیِّ ، عَنِ الْعَبَّاسِ بْنِ ذُرَیْحٍ ، عَن شُرَیْحِ بْنِ ہَانِئٍ ، عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ : إِنِّی لَوْ عَرَفْتُ أَیُّ لَیْلَۃٍ لَیْلَۃُ الْقَدْرِ مَا سَأَلْتُ اللَّہَ فِیہَا إِلاَّ الْعَافِیَۃَ۔
(٢٩٧٩٧) حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ اگر میں جان لوں کہ فلاں رات لیلۃ القدر ہے تو میں اس میں اللہ سے صرف عافیت کا سوال کروں۔

29797

(۲۹۷۹۸) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ قَالَ: أَخْبَرَنَا أَبُو مَالِکٍ الأَشْجَعِیُّ، عَنْ أَبِیہِ، أَنَّہُ سَمِعَ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَأَتَاہُ رجل فَقَالَ: کَیْفَ أَقُولُ حِینَ أَسْأَلُ رَبِّی؟ قَالَ: قل اللَّہُمَّ ارْحَمْنِی وَاغْفِرْ لِی وَعَافِنِی وَارْزُقْنِی وَجَمَعَ أَصَابِعَہُ الأَرْبَعَ إِلاَّ الإِبْہَامَ فَإِنَّ ہَؤُلائِ یَجْمَعن لَکَ دِینَک وَدُنْیَاک۔ (مسلم ۲۰۷۳۔ احمد ۴۷۲)
(٢٩٧٩٨) حضرت ابو مالک الاشیعس کے والد فرماتے ہیں کہ انھوں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا ہے : ایک آدمی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس حاضر ہوا اور کہنے لگا : جب میں اپنے رب سے سوال کروں تو کیسے دعا کروں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تو کہہ : اے اللہ ! مجھ پر رحم فرما، اور مجھے بخش دے، اور مجھے عافیت عطا فرما، اور مجھے رزق عطا کر، اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انگوٹھے کے علاوہ اپنی چاروں انگلیوں کو جمع کر کے فرمایا : پس یہ ساری چیزیں تیرے دین و دنیا کو شامل ہیں۔ (یا جمع کرتی ہیں)

29798

(۲۹۷۹۹) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ قَالَ : أَخْبَرَنَا کَہْمَسُ بْنُ الْحَسَنِ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ بریدۃ قَالَ: قَالَتْ عَائِشَۃُ: لَوْ عَلِمْتُ أَیُّ لَیْلَۃٍ لَیْلَۃُ الْقَدْرِ کَانَ أَکْثَرُ دُعَائِی فِیہَا أَسْأَلُ اللَّہَ الْعَفْوَ وَالْعَافِیَۃَ۔ (ترمذی۳۵۱۳۔ ابن ماجہ۳۸۵۰)
(٢٩٧٩٩) حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ اگر مجھے معلوم ہوجاتا کہ کون سی رات لیلۃ القدر کی ہے ؟ تو میں اس رات میں کثرت سے یہ دعا کرتی : میں اللہ سے معافی اور عافیت کا سوال کرتی ہوں۔

29799

(۲۹۸۰۰) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ ، عَنْ أَبِی الْحَسَنِ یَعْنِی ہِلالَ بْنَ یَسَافَ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إنَّ فِی الْجُمُعَۃِ لَسَاعَۃً لاَ یُوَافِقُہَا رَجُلٌ مُسْلِمٌ یَسْأَلُ اللَّہَ فِیہَا شَیْئًا إِلاَّ أَعْطَاہُ ، فَقَالَ رَجُلٌ : یَا رَسُولَ اللہِ ، مَاذَا أَسْأَلُ قَالَ : سَلِ اللَّہَ الْعَافِیَۃَ فِی الدُّنْیَا وَالآخِرَۃِ۔ (بخاری ۹۳۵۔ مسلم ۱۳)
(٢٩٨٠٠) حضرت ابو الحسن ھلال بن یساف فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا راشاد ہے کہ : جمعہ کے دن میں ایک گھڑی ہوتی ہے ، مسلمان بندہ اس گھڑی سے موافقت نہیں کرتا اور اللہ سے بھلائی کا سوال نہیں کرتا مگر اللہ تعالیٰ اس کو ضرور عطا فرماتے ہیں تو ایک آدمی کہنے لگا : اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! میں اس میں کیا مانگوں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تو اللہ سے دنیا و آخرت میں عافیت کا سوال کر۔

29800

(۲۹۸۰۱) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ أَخْبَرَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ ، أَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ یَحْیَی بْنِ حَبَّانَ أَخْبَرَہُ ، أَنَّ عَمَّہُ أَبَا صِرْمَۃَ کَانَ یُحَدِّثُ ، أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یَقُولُ : اللَّہُمَّ إنِّی أَسْأَلُک غِنَایَ وَغِنَی مَوَالِیَ۔ (بخاری ۶۶۲۔ احمد ۴۵۳)
(٢٩٨٠١) حضرت ابو صرمہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دعا مانگا کرتے تھے : اے اللہ ! میں آپ سے اپنے غنٰی اور اپنے رشتہ داروں کے غنٰی کا سوال کرتا ہوں۔

29801

(۲۹۸۰۲) حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ سعد ، عَن سُفْیَانَ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِی الأَحْوَصِ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یَقُولُ : اللَّہُمَّ إنِّی أَسْأَلُک الْہُدَی وَالتُّقَی وَالْعِفَّۃَ وَالْغِنَی۔ (مسلم ۲۰۸۷۔ ترمذی ۳۳۸۹)
(٢٩٨٠٢) حضرت عبداللہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دعا فرمایا کرتے تھے : اے اللہ ! میں آپ سے سوال کرتا ہوں ہدایت، پرہیزگاری، پاک دامنی اور تیرے ما سوا سے بےنیازی کا۔

29802

(۲۹۸۰۳) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ ، عَن مُسْلِمِ بْنِ یَسَارٍ کَانَ مِنْ دُعَائِ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : اللَّہُمَّ فَالِقَ الإِصْبَاحِ وَجَاعِلَ اللَّیْلِ سَکَنًا وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ حُسْبَانًا ، اقْضِ عَنی الدَّیْنَ وَاغْنِنِی مِنَ الْفَقْرِ وَمَتِّعْنی بِسَمْعِی وَبَصَرِی وَقُوَّتِی فِی سَبِیلِک۔ (مالک ۲۱۲)
(٢٩٨٠٣) حضرت مسلم بن یسار فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعاؤں میں سے ایک دعا یہ بھی تھی : اے اللہ ! صبح کو پھاڑ کر طلوع کرنے والے، اور رات کو باعث سکون بنانے والے، اور سورج اور چاند کو اندازے سے چلانے والے، مجھ سے قرض کو دور فرما، اور مجھے فقر و غریبی سے بےنیاز کر دے، اور مجھے میرے سننے اور میرے دیکھنے اور میری طاقت تیرے راستے میں استعمال کرنے سے فائدہ پہنچا۔

29803

(۲۹۸۰۴) حَدَّثَنَا ابْنُ مُسْہِرٍ، عَن ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ، عَنْ أَبِیہِ قَالَ: کَانَ الرَّجُلُ إذَا دَعَا قَالَ: اللَّہُمَّ أَغْنِنِی وَأَغْنِ مَوْلایَ۔
(٢٩٨٠٤) حضرت عروہ بن زبیر فرماتے ہیں کہ آدمی جب بھی دعا کرے وہ یوں کہے : اے اللہ ! تو مجھے اور میرے رشتہ داروں کو اپنے ما سوا سے بےنیاز کر دے۔

29804

(۲۹۸۰۵) حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ ، أَخْبَرَنَا إسْرَائِیلُ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ عَمَّنْ حَدَّثَہُ ، عَن عُبَادَۃَ بْنِ الصَّامِتِ ، أَنَّہُ کَانَ یَقُولُ : اللَّہُمَّ إنِّی أَسْأَلُک الأَمْنَ وَالإِیمَانَ وَالصَّبْرَ وَالشُّکْرَ وَالْغِنَی وَالْعَفَافَ۔
(٢٩٨٠٥) حضرت عبادہ بن الصامت یہ دعا فرمایا کرتے تھے : اے اللہ ! میں آپ سے امن و ایمان کا ، صبر و شکر کا، اور بےنیازی اور پاکدامنی کا طالب ہوں۔

29805

(۲۹۸۰۶) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِی سُفْیَانَ ، عَنْ أَنَسٍ قَالَ : کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُکْثِرُ أَنْ یَقُولَ : یَا مُقَلِّبَ الْقُلُوبِ ، ثَبِّتْ قَلْبِی عَلَی دِینِکَ ، قَالُوا : یَا رَسُولَ اللہِ ، آمَنَّا بِکَ وَبِمَا جِئْت بِہِ ، فَہَلْ تَخَافُ عَلَیْنَا ؟ قَالَ : نَعَمْ ، إنَّ الْقُلُوبَ بَیْنَ إصْبَعَیْنِ مِنْ أَصَابِعِ اللہِ یُقَلِّبُہَا۔ (ترمذی ۲۱۴۰۔ احمد ۱۱۲)
(٢٩٨٠٦) حضرت انس فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کثرت سے دعا کرتے تھے : اے دلوں کو پھیرنے والے ! میرے دل کو اپنے دین پر ثابت قدم فرما، صحابہ نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ہم آپ پر اور آپ کے لائے ہوئے دین پر ایمان لائے ہیں، پس کیا پھر بھی آپ کو ہمارے بارے میں ڈر ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جی ہاں ! یقیناً لوگوں کے دل اللہ کی دو انگلیوں کے درمیان ہیں جن کو اللہ پھیرتا رہتا ہے۔

29806

(۲۹۸۰۷) حَدَّثَنَا مُعَاذٌ ، أَخْبَرَنَا أَبُو کَعْبٍ صَاحِبُ الْحَرِیرِ ، حَدَّثَنَا شَہْرُ بْنُ حَوْشَبٍ قَالَ : قُلْتُ لأُمِّ سَلَمَۃَ : یَا أُمَّ الْمُؤْمِنِینَ ، مَا کَانَ أَکْثَرُ دُعَائِ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إذَا کَانَ عِنْدَکَ ، قَالَتْ : کان أَکْثَرُ دُعَائِہِ : یَا مُقَلِّبَ الْقُلُوبِ ثَبِّتْ قَلْبِی عَلَی دِینِکَ ، ثُمَّ قَالَ : یَا أُمَّ سَلَمَۃَ ، إِنَّہُ لَیْسَ مِنْ آدَمِیٍّ إِلاَّ وَقَلْبُہُ بَیْنَ إصْبَعَیْنِ مِنْ أَصَابِعِ اللہِ ، مَا شَائَ أَقَامَ ، وَمَا شَائَ أَزَاغَ۔ (ترمذی ۳۵۲۲۔ احمد ۲۹۴)
(٢٩٨٠٧) حضرت شھر بن حوشب فرماتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین حضرت ام سلمہ سے پوچھا : اے ام المؤمنین ! جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کے پاس ہوتے تھے تو کون سی دعا کثرت سے کرتے تھے ؟ انھوں نے فرمایا : آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اکثر یہ دعا کرتے تھے : اے دلوں کو پھیرنے والے ! میرے دل کو اپنے دین پر ثابت قدمی عطا فرما، پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے ام سلمہ ! ہر آدمی کا دل اللہ کی دو انگلیوں کے درمیان ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے دین پر قائم رکھتا ہے، اور جسے چاہتا ہے اس کے دل کو ٹیڑھا کردیتا ہے۔

29807

(۲۹۸۰۸) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَن شُعْبَۃَ ، عَنِ الْحَکَمِ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِی لَیْلَی ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، أَنَّہُ کَانَ یَدْعُو بِہَذَا الدُّعَائِ : یَا مُقَلِّبَ الْقُلُوبِ ، ثَبِّتْ قَلْبِی عَلَی دِینِک۔
(٢٩٨٠٨) حضرت عبد الرحمن بن ابی لیلی فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ دعا فرمایا کرتے تھے : اے دلوں کے پھیرنے والے ! میرے دل کو اپنے دین پر ثابت قدمی عطا فرما۔

29808

(۲۹۸۰۹) حَدَّثَنَا یَزِیدُ ، أَخْبَرَنَا ہَمَّامُ بْنُ یَحْیَی ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ زَیْدٍ ، عَن أُمِّ مُحَمَّدٍ ، عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ : کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ یَا مُقَلِّبَ الْقُلُوبِ ، ثَبِّتْ قَلْبِی عَلَی دِینِکَ ، قُلْتُ : یَا رَسُولَ اللہِ ، إنَّک تَدْعُو بِہَذَا الدُّعَائِ ، قَالَ : یَا عَائِشَۃُ ، أَو مَا عَلِمْتِ أَنَّ الْقُلُوبَ ، أَوْ قَالَ : قَلْبَ ابْنِ آدَمَ بَیْنَ إصْبَعَی اللہِ، إذَا شَائَ أَنْ یُقَلِّبَہُ إِلَی ہُدَی قَلَبَہُ ، وَإِذَا شَائَ أَنْ یُقَلِّبَہُ إِلَی ضَلالَۃِ قَلَبَہُ ۔ (نسائی ۷۷۳۷۔ احمد ۲۵۰)
(٢٩٨٠٩) حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دعا فرماتے تھے : اے دلوں کو پھیرنے والے ! میرے دل کو اپنے دین پر ثابت قدمی عطا فرما، میں نے کہا : اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ یہ دعا فرما رہے ہیں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” اے عائشہ ! کیا تو نہیں جانتی کہ لوگوں کے دل، یا یوں فرمایا : آدم کے بیٹے کا دل اللہ تعالیٰ کی دو انگلیوں کے درمیان ہوتا ہے ، اللہ جب چاہتے ہیں اس کے دل کو ہدایت کی طرف پھیر دیتے ہیں ، اور جب چاہتے ہیں اس کے دل کو گمراہی کی طرف پھیر دیتے ہیں ؟ “

29809

(۲۹۸۱۰) حَدَّثَنَا عَبِیدَۃُ بْنُ حُمَیْدٍ، عَن مَنْصُورٍ، عَنِ الشَّعْبِیِّ قَالَ: قالَتْ أُمُّ سَلَمَۃَ: کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إذَا خَرَجَ قَالَ : اللَّہُمَّ إنِّی أَعُوذُ بِکَ مِنْ أَنْ أَزِلَّ ، أَوْ أَضِلَّ ، أَوْ أَظْلِمَ ، أَوْ أُظْلَمَ ، أَوْ أَجْہَلَ ، أَوْ یُجْہَلَ عَلَیَّ۔ (ابوداؤد ۵۰۵۳)
(٢٩٨١٠) حضرت ام سلمہ فرماتی ہیں کہ جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) گھر سے نکلتے تھے تو یوں دعا فرماتے : اے اللہ ! میں آپ کی پناہ چاہتا ہوں اس بات سے کہ میں لغزش کروں یا میں گمرا ہ ہوں، یا میں کسی پر ظلم کروں یا مجھ پر کوئی ظلم کرے، یا میں کسی کو ناواقف رکھوں یا کوئی مجھے ناواقف بنائے۔

29810

(۲۹۸۱۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن سُفْیَانَ ، عَن مَنْصُورٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَن أُمِّ سَلَمَۃَ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِنَحْوٍ مِنْہُ۔ (ترمذی ۳۴۲۷۔ نسائی ۷۹۲۳)
(٢٩٨١١) حضرت ام سلمہ سے اس سند کے ساتھ بی، ماقبل حدیث جیسا مضمون مروی ہے۔

29811

(۲۹۸۱۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، عَن فُضَیْلِ بْنِ مَرْزُوقٍ، عَنْ عَطِیَّۃَ، عَنْ أَبِی سَعِیدٍ قَالَ: مَنْ قَالَ إذَا خَرَجَ إِلَی الصَّلاۃِ: اللَّہُمَّ إنِّی أَسْأَلُک بِحَقِّ السَّائِلِینَ عَلَیْک وَبِحَقِّ مَمْشَایَ ہَذَا لَمْ أخْرجہ أَشَرًا ، وَلا بَطَرًا ، وَلا رِیَائً ، وَلا سُمْعَۃً ، خَرَجْتہ ابْتِغَائَ مَرْضَاتِکَ وَاتِّقَائَ سَخَطِکَ ، أَسْأَلُک أَنْ تُنْقِذَنِی مِنَ النَّارِ وَأَنْ تَغْفِرَ لِی ذُنُوبِی ، إِنَّہُ لاَ یَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلاَّ أَنْتَ إِلاَّ أَقْبَلَ اللَّہُ عَلَیْہِ بِوَجْہِہِ حَتَّی یَنْصَرِفَ ، وَوَکَّلَ بِہِ سَبْعِینَ أَلْفَ مَلَکٍ یَسْتَغْفِرُونَ لَہُ۔ (احمد ۲۱)
(٢٩٨١٢) حضرت ابو سعید فرماتے ہیں کہ جب کوئی شخص نماز کے لیے جائے اور یہ دعا پڑھے : اے اللہ ! میں آپ سے اس حق کے ساتھ سوال کرتا ہوں جو مانگنے والوں کا آپ پر ہے، اور اپنے اس چلنے کے حق کے ساتھ، میں نہیں نکلا غرور کرتے ہوئے اور نہ ہی اکڑ کر چلتے ہوئے، اور نہ ہی ریاکاری کے لیے، اور نہ ہی شہرت حاصل کرنے کے لیے، میں تو آپ کی رضا کی چاہت میں نکلا ہوں، اور آپ کی ناراضگی سے بچنے کے لیے، اور میں آپ سے سوال کرتا ہوں کہ آپ مجھے جہنم سے بچا لیں اور آپ میرے گناہوں کی بخشش فرما دیجیے، یقیناً آپ کے سوا کوئی بھی گناہوں کی بخشش کرنے والا نہیں ہے، تو اللہ تعالیٰ اپنے چہرے کے ساتھ اس بندے کی طرف متوجہ ہوجاتے ہیں یہاں تک کہ وہ لوٹ آئے، اور اللہ تعالیٰ ستر ہزار فرشتوں کی ذمہ داری لگا دیتے ہیں وہ اس شخص کے لیے استغفار کرتے رہتے ہیں۔

29812

(۲۹۸۱۳) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَن مُجَاہِدٍ ، عَنِ ابْنِ ضَمْرَۃَ ، عَن کَعْبٍ قَالَ : إذَا خَرَجَ الرَّجُلُ مِنْ مَنْزِلِہِ اسْتَقْبَلَتْہُ الشَّیَاطِینُ ، فَإِذَا قَالَ بِسْمِ اللہِ قَالَتِ الْمَلائِکَۃُ : ہُدِیتَ ، وَإِذَا قَالَ : تَوَکَّلْت عَلَی اللہِ قَالَتْ: کُفِیت ، وَإِذَا قَالَ لاَ حَوْلَ وَلا قُوَّۃَ إِلاَّ بِاللہِ قَالَتْ : حُفِظْت ، فَتَقُولُ الشَّیَاطِینُ بَعْضُہَا لِبَعْضٍ : مَا سَبِیلُکُمْ عَلَی مَنْ کُفِیَ وَہُدِیَ وَحُفِظَ۔ (ابوداؤد ۵۰۵۴۔ عبدالرزاق ۱۹۸۲۷)
(٢٩٨١٣) حضرت کعب فرماتے ہیں کہ جب آدمی اپنے گھر سے نکلتا ہے تو بہت سارے شیاطین اس کا استقبال کرتے ہیں، پس جب وہ کہتا ہے : میں اللہ کا نام لے کر گھر سے نکلا ، فرشتے کہتے ہیں : تجھے ہدایت دی گئی، اور جب وہ آدمی کہتا ہے : میں اللہ پر بھروسہ کرتا ہوں، فرشتے کہتے ہیں : تیری کفایت کی گئی ہے، اور جب وہ آدمی کہتا ہے : گناہوں سے بچنے اور عبادت کرنے کی طاقت اللہ ہی کی طرف سے ہے، فرشتے کہتے ہیں : تیری حفاظت کی گئی ہے۔ پس پھر شیاطین ایک دوسرے سے کہتے ہیں : تم لوگ کیسے اس شخص پر سرکشی کرسکتے ہو جس کی کفایت کی گئی ہو، اور جس کو ہدایت دی گئی ہو، اور جس کی حفاظت کی گئی ہو۔

29813

(۲۹۸۱۴) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَن شُعْبَۃَ ، عَن مَنْصُورٍ ، عَن مُجَاہِدٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ ضَمْرَۃَ ، عَن کَعْبِ الأَحْبَارِ قَالَ : إذَا خَرَجَ مِنْ بَیْتِہِ فَقَالَ : بِسْمِ اللہِ ، تَوَکَّلْت عَلَی اللہِ ، وَلا حول ولا قُوَّۃَ إِلاَّ بِاللہِ ، تلقت الشَّیَاطِینُ بَعْضُہُمْ بَعْضًا قَالُوا : ہَذَا عَبْدٌ قَدْ ہُدِیَ وَحُفِظَ وَکُفِیَ فَلا سَبِیلَ لَکُمْ عَلَیْہِ ، فَیَتَصَدَّعُونَ عَنہُ۔
(٢٩٨١٤) حضرت کعب احبار فرماتے ہیں کہ جب کوئی شخص اپنے گھر سے نکلتا ہے اور یہ کلمات کہتا ہے : میں اللہ کا نام لے کر گھر سے نکلا، اور میں نے اللہ پر ہی بھروسہ کیا، اور گناہوں سے بچنے اور نیکی کرنے کی طاقت اللہ ہی کی طرف سے ہے تو شیاطین ایک دوسرے سے ملتے ہیں اور کہتے ہیں : اس شخص کو ہدایت دی گئی ہے۔ اور اس کی حفاظت کی گئی ہے، اور اس کی کفایت کی گئی ہے، پس تمہیں اس پر کوئی تسلط حاصل نہیں ہے، پھر وہ اس بندے سے دور ہو کر بھاگ جاتے ہیں اور اس سے باز رہتے ہیں۔

29814

(۲۹۸۱۵) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، عَن ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ عَائِشَۃَ ، أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یَدْعُو : اللَّہُمَّ اغْسِلْ خَطَایَایَ بِمَائِ الثَّلْجِ وَالْبَرَدِ وَنَقِّ قَلْبِی مِنَ الْخَطَایَا کَمَا نَقَّیْت الثَّوْبَ الأَبْیَضَ مِنَ الدَّنَسِ ، وَبَاعِدْ بَیْنِی وَبَیْنَ خَطَایَایَ کَمَا بَاعَدْت بَیْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ۔ (بخاری ۶۳۶۸۔ مسلم ۲۰۷۸)
(٢٩٨١٥) حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دعا فرماتے تھے : اے اللہ ! میری غلطیوں کو برف سے اور اولے سے دھو دیجئے اور میرے دل کو غلطیوں سے اس طرح صاف کر دے جیسے آپ سفید کپڑے کو میل کچیل سے صاف فرما دیتے ہیں، اور میرے اور میری غلطیوں کے درمیان اتنا لمبا فاصلہ کر دے جتنا مشرق و مغرب کے درمیان ہے۔

29815

(۲۹۸۱۶) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ أَبِی بُکَیْرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَۃُ ، عَن مَجْزَأَۃَ بْنِ زَاہِرٍ الأَسْلَمِیِّ ، قَالَ : سَمِعْتُ عَبْدَ اللہِ بْنَ أَبِی أَوْفَی یُحَدِّثُ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، أَنَّہُ کَانَ یَدْعُو : اللَّہُمَّ طَہِّرْنِی بِالْبَرَدِ وَالثَّلْجِ وَالْمَائِ الْبَارِدِ ، اللَّہُمَّ طَہِّرْنِی مِنَ الذُّنُوبِ وَنَقِّنِی مِنْہَا کَمَا یُنَقَّی الثَّوْبُ الأَبْیَضُ مِنَ الدَّنَسِ۔ (مسلم ۳۴۶۔ ترمذی ۳۵۴۷)
(٢٩٨١٦) حضرت عبداللہ بن ابی اوفی فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ دعا مانگا کرتے تھے : اے اللہ ! آپ مجھے بارانی برف اور اولے، اور ٹھنڈے پانی کے ذریعہ سے پاک کردیں، اے اللہ ! آپ مجھے گناہوں سے پاک فرما دیں، اور مجھے گناہوں سے اس طرح پاک و صاف کردیں جیسا کہ سفید کپڑے کو میل کچیل سے پاک کیا جاتا ہے۔

29816

(۲۹۸۱۷) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَن مَنْصُورٍ ، عَن حَبِیبٍ قَالَ : حُدِّثْتُ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یَدْعُو یَقُولُ : اللَّہُمَّ طَہِّرْنِی بِالثَّلْجِ وَالْبَرَدِ وَالْمَائِ الْبَارِدِ وَنَقِّنِی مِنَ الْخَطَایَا کَمَا یُنَقَّی الثَّوْبُ الأَبْیَضُ مِنَ الدَّنَسِ وَبَاعِدْ بَیْنِی وَبَیْنَ خَطَایَایَ کَمَا بَاعَدْت بَیْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ۔ (طبرانی ۶۹۵۰)
(٢٩٨١٧) حضرت حبیب فرماتے ہیں کہ مجھے بیان کیا گیا ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دعا مانگتے ہوئے فرماتے تھے : اے اللہ ! مجھے بارانی برف ، اولے اور ٹھنڈے پانی کے ذریعہ سے پاک فرما دیں، اور مجھے گناہوں سے اس طرح پاک و صاف فرما دیں جیسا کہ سفید کپڑے کو میل کچیل سے پاک کیا جاتا ہے، اور میرے اور میرے گناہوں کے درمیان اتنا فاصلہ کردیں جتنا مشرق و مغرب کے درمیان ہے۔

29817

(۲۹۸۱۸) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَن عُمَارَۃَ بْنِ الْقَعْقَاعِ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ : کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إذَا کَبَّرَ سَکَتَ بَیْنَ التَّکْبِیرِ وَالْقِرَائَۃِ ، قَالَ : فَقُلْتُ لَہُ : بِأَبِی وَأُمِّی ، أَرَأَیْت سُکُوتَکَ بَیْنَ التَّکْبِیرِ وَالْقِرَائَۃِ ، أَخْبِرْنِی مَا تَقُولُ ؟ قَالَ : أَقُولُ : اللَّہُمَّ بَاعِدْ بَیْنِی وَبَیْنَ خَطَایَایَ کَمَا بَاعَدْت بَیْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ : اللَّہُمَّ نَقِّنِی مِنْ خَطَایَایَ کَالثَّوْبِ الأَبْیَضِ مِنَ الدَّنَسِ ، اللَّہُمَّ اغْسِلْنِی مِنْ خَطَایَایَ بِالْمَائِ وَالْبَرَدِ وَالثَّلْجِ۔ (مسلم ۱۴۹۔ ابن ماجہ ۸۰۵)
(٢٩٨١٨) حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب نماز کے لیے تکبیر کہتے تھے تو تکبیر اور قراءت کے درمیان کچھ دیر خاموش رہتے تھے، ابوہریرہ کہتے ہیں : میں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا : میرے ماں ، باپ آپ پر قربان ہوں ، میں تکبیر اور قراءت کے درمیان آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خاموش رہنے کو دیکھتا ہوں، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مجھے بتائیے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا پڑھتے ہیں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” میں یہ دعا پڑھتا ہوں : اے اللہ ! میرے اور میرے گناہوں کے درمیان اتنا لمبا فاصلہ کر دے جتنا مشرق و مغرب کے درمیان ہے، اے اللہ ! آپ مجھے میرے گناہوں سے اس طرح پاک و صاف کردیں جیسے سفید کپڑے کو میل کچیل سے پاک و صاف فرماتے ہیں، اے اللہ ! مجھ سے میرے گناہوں کو پانی ، اولے اور بارانی برف سے دھو دیں۔

29818

(۲۹۸۱۹) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ الْحُبَابِ ، حَدَّثَنَا مُعَاوِیَۃُ بْنُ صَالِحٍ قَالَ : حدَّثَنَی حَبِیبُ بْنُ عُبَیْدٍ ، عَن جُبَیْرِ بْنِ نُفَیْرٍ الْحَضْرَمِیِّ ، عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِکٍ الأَشْجَعِیِّ ، قَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ عَلَی الْمَیِّتِ : اللَّہُمَّ اغْسِلْہُ بِالْمَائِ وَالثَّلْجِ وَالْبَرَدِ وَنَقِّہِ مِنَ الْخَطَایَا کَمَا یُنَقَّی الثَّوْبُ الأَبْیَضُ مِنَ الدَّنَسِ۔
(٢٩٨١٩) حضرت عوف بن مالک الاشجعی فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو میت پر یہ دعا پڑھتے ہوئے سنا ہے : اے اللہ ! آپ اس کو پانی اور بارانی برف اور اولے سے دھو دیجیے۔ اور اس کے گناہوں کو ایسے پاک و صاف فرما دیں جیسا کہ سفید کپڑے کو میل کچیل سے پاک کیا جاتا ہے۔

29819

(۲۹۸۲۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ بُرْقَانَ قَالَ : بَلَغَنَا أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ إذَا سَمِعَ الرَّعْدَ الشَّدِیدَ قَالَ : اللَّہُمَّ لاَ تُہْلِکْنَا بِعَذَابِکَ ، وَلا تَقْتُلْنَا بِغَضَبِکَ وَعَافِنَا قَبْلَ ذَلِکَ۔
(٢٩٨٢٠) حضرت جعفر بن برقان فرماتے ہیں کہ مجھے خبر پہنچی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب سخت گرج کی آواز سنتے تو یہ دعا کرتے تھے : اے اللہ ! ہمیں اپنے عذاب کے ذریعہ سے ہلاک مت فرما، اور نہ ہی ہمیں اپنے غصہ کی وجہ سے قتل کر، اور اس سے پہلے ہی ہمیں عافیت عطا فرما۔

29820

(۲۹۸۲۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن مَہْدِیِّ بْنِ مَیْمُونٍ سَمِعَہُ مِنْ غَیْلانَ بْنِ جَرِیرٍ ، عَن رَجُلٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، أَنَّہُ کَانَ إذَا سَمِعَ الرَّعْدَ قَالَ : سُبْحَانَ اللہِ وَبِحَمْدِہِ سُبْحَانَ اللہِ الْعَظِیمِ۔
(٢٩٨٢١) حضرت ابن عباس جب بھی بجلی کی کڑک سنتے تو فرماتے : اللہ پاک ہے اور اپنی سب تعریفوں کے ساتھ ہے، اللہ پاک ہے جو کہ عظمت والا ہے۔

29821

(۲۹۸۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن سُفْیَانَ ، عَنِ ابْنِ طَاوُوس ، عَنْ أَبِیہِ ، أَنَّہُ کَانَ إذَا سَمِعَ الرَّعْدَ قَالَ : سُبْحَانَ مَنْ سَبَّحْت لَہُ۔
(٢٩٨٢٢) حضرت ابن طاو وس فرماتے ہیں کہ ان کے والد جب بجلی کی گرج سنتے تو فرماتے : پاک ہے وہ ذات جس کی تو نے پاکی بیان کی ہے۔

29822

(۲۹۸۲۳) حَدَّثَنَا ابْنُ مُبَارَکٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ یَزِیدَ بْنِ جَابِرٍ ، عَنِ ابْنِ أَبِی زَکَرِیَّا قَالَ : مَنْ سَمِعَ صَوْتَ الرَّعْدِ فَقَالَ : سُبْحَانَ اللہِ بِحَمْدِہِ لَمْ تُصِبْہُ صَاعِقَۃٌ۔
(٢٩٨٢٣) حضرت ابن ابی زکریا فرماتے ہیں : جو شخص گرج کی آواز سن کر یہ کلمات کہے : اللہ پاک ہے اور اپنی سب تعریفوں کے ساتھ ہے، تو آسمانوں سے گرنے والی بجلی اسے نہیں پہنچ سکے گی۔

29823

(۲۹۸۲۴) حَدَّثَنَا مَعَن ، عَن مَالِکِ بْنِ أَنَسٍ ، عَنْ عَامِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ الزُّبَیْرِ ، عَنْ أَبِیہِ ، أَنَّہُ کَانَ إذَا سَمِعَ الرَّعْدَ تَرَکَ الْحَدِیثَ ، وَقَالَ : سُبْحَانَ الَّذِی سَبَّحَ الرَّعْدُ بِحَمْدِہِ وَالْمَلائِکَۃُ مِنْ خِیفَتِہِ ، ثُمَّ یَقُولُ : إنَّ ہَذَا لَوَعِیدٌ لأَہْلِ الأَرْضِ شَدِیدٌ۔
(٢٩٨٢٤) حضرت عامر بن عبداللہ فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن زبیر جب بجلی کی گرج کی آواز سنتے تو بات چیت کرنا چھوڑ دیتے اور فرماتے : پاک ہے وہ ذات جس کی پاکی فرشتوں نے تمام تعریفوں کے ساتھ بیان کی ہے اور فرشتوں نے بھی پاکی بیان کی ہے اس سے ڈر کر پھر فرماتے : یہ گرج زمین والوں کے لیے بہت سخت وعید ہے۔

29824

(۲۹۸۲۵) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ بُرْقَانَ قَالَ : بَلَغَنِی أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : اللَّہُمَّ لاَ تَقْتُلْنَا بِغَضَبِکَ ، وَلا تُہْلِکْنَا بِعَذَابِکَ وَعَافِنَا قَبْلَ ذَلِکَ۔
(٢٩٨٢٥) حضرت جعفر بن برقان فرماتے ہیں کہ مجھے یہ خبر پہنچی ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دعا کرتے تھے : اے اللہ ! ہمیں تو اپنے غصہ سے قتل نہ فرما، اور ہمیں اپنے عذاب سے ہلاک مت کر، اور ہمیں اس سے پہلے ہی عافیت عطا فرما۔

29825

(۲۹۸۲۶) حَدَّثَنَا مَالِکُ بْنُ إسْمَاعِیلَ ، حَدَّثَنَا یَعْلَی بْنُ الْحَارِثِ قَالَ : حدَّثَنَیہِ جَامِعُ بْنُ شَدَّادٍ قَالَ : کَانَ الأَسْوَدُ النَّخَعِیُّ ابْنُ یَزِیدَ ، إذَا سَمِعَ الرَّعْدَ قَالَ : سُبْحَانَ الَّذِی یُسَبِّحُ الرَّعْدُ بِحَمْدِہِ وَالْمَلائِکَۃُ مِنْ خِیفَتِہِ۔
(٢٩٨٢٦) حضرت جامع بن شداد فرماتے ہیں کہ جب حضرت اسود نخعی بن یزید بجلی کی گرج کی آواز سنتے تھے تو فرماتے : پاک ہے وہ ذات جس کے خوف سے رعد اور تمام فرشتے اس کی پاکی بیان کرتے ہیں تمام تعریفوں کے ساتھ۔

29826

(۲۹۸۲۷) حَدَّثَنَا قُتَیْبَۃُ بْنُ سَعِیدٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِیَادٍ ، عَن حَجَّاجِ بْنِ أَرْطَاۃَ ، عَنْ أَبِی مَطَرٍ ، أَنَّہُ سَمِعَ سَالِمَ بْنَ عَبْدِ اللہِ یُحَدِّثُ عَنْ أَبِیہِ قَالَ : کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إذَا سَمِعَ الرَّعْدَ وَالصَّوَاعِقَ قَالَ : اللَّہُمَّ لاَ تَقْتُلْنَا بِغَضَبِکَ ، وَلا تُہْلِکْنَا بِعَذَابِکَ وَعَافِنَا قَبْلَ ذَلِکَ۔ (بخاری ۷۲۱۔ ترمذی ۳۴۵۰)
(٢٩٨٢٧) حضرت عبداللہ بن عمر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب بادلوں کی گرج اور بجلی کے کڑکنے کی آواز سنتے تو فرماتے : اے اللہ ! ہمیں اپنے غصہ سے قتل نہ فرما، اور نہ ہی ہمیں اپنے عذاب سے ہلاک کر، اور اس سے پہلے ہی ہمیں عافیت عطا کر۔

29827

(۲۹۸۲۸) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ الْقَطَّانُ ، عَنِ الأَوْزَاعِیِّ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ قَالَ : حدَّثَنَا ثَابِتٌ الزُّرَقِیُّ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لاَ تَسُبُّوا الرِّیحَ فَإِنَّہَا مِنْ رُوحِ اللہِ ، تَأْتِی بِالرَّحْمَۃِ وَالْعَذَابِ ، وَلَکِنْ تَعَوَّذُوا بِاللہِ مِنْ شَرِّہَا وَسَلُوا اللَّہَ مِنْ خَیْرِہَا۔ (ابن ماجہ ۳۷۲۷)
(٢٩٨٢٨) حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے کہ : تم لوگ ہوا کو بُرا بھلا مت کہو، پس یہ تو اللہ کی مہربانی ہے ، جو رحمت اور عذاب دونوں کو لاتی ہے۔ لیکن تم لوگ اللہ کی پناہ مانگو اس کے شر سے ، اور اللہ سے اس کی خیر و بھلائی کو طلب کرو۔

29828

(۲۹۸۲۹) حَدَّثَنَا أَسْبَاطٌ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَن حَبِیبِ بْنِ أَبِی ثَابِتٍ ، عَن سَعِیدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبْزَی ، عَنْ أَبِیہِ ، عَن أُبَیٍّ قَالَ : لاَ تَسُبُّوا الرِّیحَ فَإِذَا رَأَیْتُمْ مَا تَکْرَہُونَ فَقُولُوا : اللَّہُمَّ إنَّا نَسْأَلُک خَیْرَ ہَذِہِ الرِّیحِ وَخَیْرَ مَا فِیہَا وَخَیْرَ مَا أُرْسِلَتْ بِہِ ، وَنَعُوذُ بِکَ مِنْ شَرِّ ہَذِہِ الرِّیحِ وَشَرِّ مَا فِیہَا وَشَرِّ مَا أُرْسِلَتْ بِہِ۔ (ترمذی ۲۲۵۲۔ احمد ۱۲۳)
(٢٩٨٢٩) حضرت عبد الرحمن بن أبزی فرماتے ہیں کہ حضرت ابی ّ کا ارشاد ہے : تم لوگ ہوا کو بُرا مت کہو، جب تم اسے ناپسند سمجھنے لگو تو یوں کہو : اے اللہ ! ہم آپ سے اس ہوا اور جو کچھ اس ہوا میں ہے اور جس وجہ سے یہ ہوا بھیجی گئی ہے اس کی بھلائی کا سوال کرتے ہیں، اور ہم آپ کی پناہ مانگتے ہیں اس ہوا کے شر سے، اور جو کچھ اس ہوا میں ہے اس کے شر سے، اور جس وجہ سے یہ ہوا بھیجی گئی ہے اس کے شر سے۔

29829

(۲۹۸۳۰) حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ أَخْبَرَنَا شَیْبَانُ ، عَن مَنْصُورٍ ، عَن مُجَاہِدٍ قَالَ : ہَاجَتْ رِیحٌ ، أَوْ ہَبَّتْ رِیحٌ فَسَبُّوہَا فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ : لاَ تَسُبُّوہَا ، فَإِنَّہَا تَجِیئُ بِالرَّحْمَۃِ وَتَجِیئُ بِالْعَذَابِ ، وَلَکِنْ قُولُوا : اللَّہُمَّ اجْعَلْہَا رَحْمَۃً ، وَلا تَجْعَلْہَا عَذَابًا۔
(٢٩٨٣٠) حضرت منصور فرماتے ہیں کہ حضرت مجاہد نے فرمایا : ایک مرتبہ زور دار آندھی چلی تو لوگوں نے اسے برا بھلا کہا۔ یہ سن کر حضرت ابن عباس فرمانے لگے : تم اسے بُرا مت کہو۔ پس یقیناً ہوا کبھی رحمت کو لے کر آتی ہے ، اور کبھی عذاب کو لاتی ہے، لیکن یوں کہا کرو : اے اللہ ! تو اس ہوا کو باعث رحمت بنا دے اور تو اس کو باعث عذاب مت بنا۔

29830

(۲۹۸۳۱) حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إسْمَاعِیلَ ، عَنْ جَعْفَرٍ ، عَنْ أَبِیہِ قَالَ : کَانَ ابْنُ عُمَرَ إذَا عَصَفَتِ الرِّیحُ فَدَارَتْ یَقُولُ : شُدُّوا التَّکْبِیرَ فَإِنَّہَا مُذْہِبَتُہُ۔
(٢٩٨٣١) حضرت امام محمد الباقر فرماتے ہیں کہ جب طوفانی آندھی آتی اور بھنور بنتے تو حضرت ابن عمر فرماتے تھے : بلند اور زور دار تکبیر کہو پس یقیناً یہ تکبیر اس آندھی کو ختم کردینے والی ہے۔

29831

(۲۹۸۳۲) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ الأَسَدِیُّ حَدَّثَنَا یُونُسُ بْنُ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِی فَزَارَۃَ قَالَ : کَانَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَالِکٍ إذَا رَأَی الرِّیحَ قَالَ : اللَّہُمَّ إنَّا نَسْأَلُک خَیْرَہَا وَخَیْرَ مَا أرسلت فِیہَا وَنَعُوذُ بِکَ مِنْ شَرِّہَا، وَشَرِّ مَا قَدَّرْتَ فِیہَا۔
(٢٩٨٣٢) حضرت ابو فزارہ فرماتے ہیں : حضرت عبد الرحمن بن مالک جب بھی تیز ہوا چلتی دیکھتے تو فرماتے : اے اللہ ! ہم آپ سے اس ہوا کی خیر ، اور جو کچھ آپ نے اس ہوا میں بھیجا ہے اس کی خیر طلب کرتے ہیں، اور ہم آپ کی پناہ مانگتے ہیں اس ہوا کے شر سے اور جو کچھ آپ نے اس ہوا میں مقرر کیا ہے اس کے شر سے۔

29832

(۲۹۸۳۳) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ الْمِقْدَامِ بْنِ شُرَیْحٍ ، عَنِ الْمِقْدَامِ بْنِ شُرَیْحٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، أَنَّہُ ذَکَرَ أن عَائِشَۃَ حَدَّثَتْہُ ، أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ إذَا رَأَی سَحَابًا ثَقِیلاً مِنْ أُفُقٍ مِنَ الآفَاقِ تَرَکَ مَا ہُوَ فِیہِ ، وَإِنْ کَانَ فِی صَلاۃٍ حَتَّی یَسْتَقْبِلَہُ فَیَقُولُ : اللَّہُمَّ إنَّا نَعُوذُ بِکَ مِنْ شَرِّ مَا أُرْسِلَ بِہِ ، فَإِنْ أَمْطَرَ قَالَ : اللَّہُمَّ سَیْبًا نَافِعًا مَرَّتَیْنِ ، أَوْ ثَلاثًا ، فَإِنْ کَشَفَہُ اللَّہُ وَلَمْ یُمْطِرْ حَمِدَ اللَّہَ عَلَی ذَلِکَ۔ (بخاری ۶۸۶۔ ابوداؤد ۵۰۵۸)
(٢٩٨٣٣) حضرت عائشہ فرماتی ہیں : یقیناً جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آسمان کے کسی حصہ میں گھنا بادل دیکھتے تو جس کام میں مشغول ہوتے اسے چھوڑ دیتے اگرچہ نماز پڑھنے میں ہی مشغول ہوں، یہاں تک کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کا استقبال کرتے ہوئے فرماتے : ” اے اللہ ! ہم آپ کی پناہ مانگتے ہیں اس بھیجے ہوئے بادل کے شر سے “ پس اگر بارش ہونے لگتی تو فرماتے : اے اللہ ! اس ہونے والی بارش کو نفع والا بنا دے ۔ دو یا تین مرتبہ پڑھتے۔ پس اگر اللہ بادلوں کو ہٹا دیتا اور بارش نہ ہوتی تو اس بات پر اللہ کی حمد وثناء کرتے۔

29833

(۲۹۸۳۴) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ قَالَ : حدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ عَن نَافِعٍ ، عَنِ الْقَاسِمِ قَالَ : کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إذَا رَأَی الْمَطَرَ قَالَ : اللَّہُمَّ اجْعَلْہُ صَیْبًا نَافِعًا۔ (بخاری ۱۰۳۲۔ احمد ۹۰)
(٢٩٨٣٤) حضرت قاسم فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب بارش دیکھتے تو دعا فرماتے : اے اللہ ! اس ہونے والی بارش کو نفع مند بنا دے۔

29834

(۲۹۸۳۵) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ، عَن سَالِمِ بْنِ أَبِی الْجَعْدِ، عَن شُرَحْبِیلَ بْنِ السَّمْطِ قَالَ : قلْنَا لِکَعْبِ بْنِ مُرَّۃَ یَا کَعْبُ ، حَدِّثْنَا ، عَن رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فقَالَ : کُنَّا عِنْدَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَجَائَہُ رَجُلٌ فَقَالَ : یَا رَسُولَ اللہِ ، اسْتَسْقِ اللَّہَ لِمُضَرَ ، قَالَ : فَرَفَعَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَدَیْہِ فَقَالَ : اللَّہُمَّ اسْقِنَا غَیْثًا مَرِیعًا مَرِیًّا عَاجِلاً غَیْرَ رَائِثٍ نَافِعًا غَیْرَ ضَارٍّ، قَالَ : فَمَا جَمَّعُوا حَتَّی أُحیوا فَأَتَوْہُ فَشَکَوْا إلَیْہِ الْمَطَرَ ، فَقَالُوا : یَا رَسُولَ اللہِ ، تَہَدَّمَتِ الْبُیُوتُ فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِیَدِہِ: اللَّہُمَّ حَوَالَیْنَا، وَلا عَلَیْنَا، قَالَ: فَجَعَلَ السَّحَابُ یَتَقَطَّعُ یَمِینًا وَشِمَالاً۔ (ابن ماجہ ۱۲۶۹۔ طیالسی ۱۱۹۹)
(٢٩٨٣٥) حضرت شرحبیل بن السِّمط فرماتے ہیں : ہم نے حضرت کعب بن مرّہ سے کہا : آپ ہمیں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی کوئی حدیث بیان کریں ؟ پس وہ فرمانے لگے : ہم ایک مرتبہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس تھے کہ ایک آدمی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا اور کہنے لگا : اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! قبیلہ مضر والوں کے لیے پانی کی دعا فرمائیے، حضرت کعب فرماتے ہیں : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دعا کے لیے اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے اور دعا فرمائی : اے اللہ ! ہمں ا سیراب کر دے ایسی بارش سے جو زمین کو سبز و شاداب کر دے، نفع بخش ہو، جلد آئے نہ کہ دیر سے، فائدہ پہنچانے والی ہو نہ کہ نقصان پہنچانے والی ہو، حضرت کعب فرماتے ہیں : لوگوں نے ابھی ایک جمعہ بھی نہیں گزارا تھا یہاں تک کہ اتنی بارش ہوئی کہ زمین سرسبز و شاداب ہوگئی، پس لوگ آئے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے بارش کی شکایت کرنے لگے، پس لوگوں نے کہا : اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! تحقیق گھر گرنے لگے ہیں۔ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پھر دعا فرمائی : اے اللہ ! ہمارے ارد گرد بارش نازل فرما اور ہم پر مت نازل کر، حضرت کعب فرماتے ہیں : کہ یکایک بادل دائیں اور بائیں چَھٹ گئے۔

29835

(۲۹۸۳۶) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ آدَمَ ، عَن حَمْزَۃَ الزَّیَّاتِ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَن سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ عَن ابْنِ عَبَّاسٍ ، عَن أُبَیِّ بْنِ کَعْبٍ قَالَ : کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إذَا دَعَا لأَحَدٍ بَدَأَ بِنَفْسِہِ فَذَکَرَ ذَاتَ یَوْمٍ مُوسَی فَقَالَ : رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْنَا وَعَلَی مُوسَی ، لَوْ کَانَ صَبَرَ لَقَصَّ اللَّہُ عَلَیْنَا مِنْ خَبَرِہِ ، وَلَکِنْ قَالَ : {إنْ سَأَلْتُک عَن شَیْئٍ بَعْدَہَا فَلا تُصَاحِبْنِی قَدْ بَلَغْتَ مِنْ لَدُنِّی عُذْرًا}۔ (بخاری ۱۲۲۔ مسلم ۱۸۴۷)
(٢٩٨٣٦) حضرت ابی ّ بن کعب فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب بھی کسی کے لیے دعا کرتے تو اپنی ذات سے ابتدا فرماتے ، پس ایک دن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت موسیٰ ذکر کیا اور فرمایا : اللہ تعالیٰ کی رحمت ہو ہم پر اور موسیٰ پر، اگر وہ صبر فرماتے تو اللہ تعالیٰ ہمیں ان کی کچھ اور باتیں بھی بیان فرماتے، لیکن انھوں نے فرمایا : اگر میں اس کے بعد تجھ سے کسی چیز کا پوچھوں تو مجھے اپنے ساتھ مت رکھیو۔ تحقیق مل گیا ہے آپ کو میری طرف سے عذر۔

29836

(۲۹۸۳۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن سُفْیَانَ ، عَن مَنْصُورٍ ، عَنِ إِبْرَاہِیم قَالَ : کَانَ یُقَالُ : إذَا دَعَوْت فَابْدَأْ بِنَفْسِکَ فَإِنَّک لاَ تَدْرِی فِی أَیِّ دُعَائٍ یُسْتَجَابُ لَک۔
(٢٩٨٣٧) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ یہ کہا جاتا ہے : جب بھی تو کوئی دعا کرے تو اپنی ذات سے ابتدا کر، کیونکہ تو نہیں جانتا تیری کون سی قبولیت کے درجات پالے۔

29837

(۲۹۸۳۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن سُفْیَانَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ بْنِ الْمُہَاجِرِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : یَرْحَمُنَا اللَّہُ وَأَخَا عَادٍ۔ (ابن ماجہ ۳۸۵۲)
(٢٩٨٣٨) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اللہ ہم پر اور عاد کے بھائی ھود پر رحم فرمائے۔

29838

(۲۹۸۳۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ سَعِیدٍ ، عَن سَعِیدِ بْنِ یَسَارٍ قَالَ : جَلَسْت إِلَی ابْنِ عُمَرَ فَذَکَرْت رَجُلاً فَتَرَحَّمْت عَلَیْہِ فَضَرَبَ صَدْرِی ، وَقَالَ : ابْدَأْ بِنَفْسِک۔
(٢٩٨٣٩) حضرت سعید بن یسار فرماتے ہیں : میں حضرت ابن عمر کے پاس بیٹھا تھا، پس میں نے ایک آدمی کا تذکرہ کیا اور اس کے لیے اللہ کی رحمت کی دعا کی، تو ابن عمر نے میرے سینے پر مارا اور فرمایا : اپنی ذات سے ابتدا کر۔

29839

(۲۹۸۴۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن سُفْیَانَ ، عَن سَلَمَۃَ بْنِ کُہَیْلٍ ، عَنْ أَبِی الدَّرْدَائِ الأَنْصَارِیِّ قَالَ : قالَتْ عَائِشَۃُ لابْنِ أُخْتِہَا : إنَّک أَنْ تَدْعُوَ لِنَفْسِکَ خَیْرٌ مِنْ أَنْ یَدْعُوَ لَکَ الْقَاصُّ۔
(٢٩٨٤٠) حضرت ابو الدرداء انصاری فرماتے ہیں : حضرت عائشہ نے اپنے بھانجے سے فرمایا : بیشک تو اپنے لیے خود دعا کرے یہ اس سے بہت بہتر ہے کہ کوئی واعظ تیرے لیے دعا کرے۔

29840

(۲۹۸۴۱) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِِ ، عَن سَعِیدِ بْنِ مَسْرُوقٍ ، عَن سَلَمَۃَ بْنِ کُہَیْلٍ ، عَنْ أَبِی رِشْدِینَ کُرَیْبٍ مَوْلَی ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ : قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ : بِتُّ عِنْدَ خَالَتِی مَیْمُونَۃَ فَسَمِعْتُ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ فِی سُجُودِہِ :اللَّہُمَّ اجْعَلْ فِی قَلْبِی نُورًا ، وَفِی سَمْعِی نُورًا ، وَاجْعَلْ فِی بَصَرِی نُورًا ، وَاجْعَلْ أَمَامِی نُورًا ، وَاجْعَلْ خَلْفِی نُورًا ، وَاجْعَلْ مِنْ تَحْتِی نُورًا ، وَأَعْظِمْ لِی نُورًا۔
(٢٩٨٤١) حضرت ابن عباس فرماتے ہیں میں نے ایک رات اپنی خالہ ام المؤمنین حضرت میمونہ کے پاس گزاری، پس میں نے سنا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سجدے میں یہ دعا فرما رہے تھے : اے اللہ ! میرے دل میں نور کو ڈال دے، اور میرے کان میں نور ڈال دے ، اور میری آنکھوں میں نور ڈال دے، اور میرے آگے نور عطا فرما اور میرے پیچھے نور عطا فرما، اور میرے نیچے سے نور ہی نور کر دے اور مجھ کو نور عظیم عطا کر دے۔

29841

(۲۹۸۴۲) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَن مِسْعَرٍ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَن زِرِّ بْنِ حُبَیْشٍ ، عَنْ عَلِیٍّ قَالَ : مِنْ أَحَبِّ الْکَلِمِ إِلَی اللہِ أَنْ یَقُولَ الْعَبْدُ وَہُوَ سَاجِدٌ : ظَلَمْت نَفْسِی فَاغْفِرْ لِی۔
(٢٩٨٤٢) حضرت علی فرماتے ہیں : اللہ کے نزدیک محبوب ترین کلمہ یہ ہے : کہ اس کا بندہ سجدہ کی حالت میں یہ کلمات کہے : میں نے اپنی جان پر ظلم کیا ہے پس تو میری بخشش فرما۔

29842

(۲۹۸۴۳) حَدَّثَنَا عَبِیدَۃُ بْنُ حُمَیْدٍ، عَنْ ثُویر بْنِ أَبِی فَاخِتَۃَ، عَن مُجَاہِدٍ قَالَ: قَالَ أَبُو سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ: مَا وَضَعَ رَجُلٌ جَبْہَتَہُ لِلَّہِ سَاجِدًا فَقَالَ : یَا رَبِّ اغْفِرْ لِی یَا رَبِّ اغْفِرْ لِی یَا رَبِّ اغْفِرْ لِی ثَلاثًا إِلاَّ رَفَعَ رَأْسَہُ وَقَدْ غُفِرَ لَہُ۔
(٢٩٨٤٣) حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ حضرت ابو سعید خدری نے ارشاد فرمایا : جب کوئی آدمی سجدے کی حالت میں اپنی پیشانی اللہ کے سامنے جھکاتا ہے پھر تین مرتبہ یہ کلمات کہتا ہے : اے میرے پالنے والے ! میری بخشش کردیجیے۔ اے میرے پالنے والے ! میری بخشش کردیجیے۔ اے میرے پالنے والے ! میری بخشش کردیجیے۔ پھر جب سجدہ سے وہ اپنا سر اٹھاتا ہے تو اس کی مغفرت کردی جاتی ہے۔

29843

(۲۹۸۴۴) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَن مِسْعَرٍ ، عَنْ عَاصِمٍ قَالَ : کَانَ أَبُو وَائِلٍ یَقُولُ وَہُوَ سَاجِدٌ : رَبِّ إِنْ تَعْفُ عَنی تَعْفُ ، عَن طَوْلٍ مِنْک ، وَإِنْ تُعَذِّبْنِی تُعَذِّبْنِی غَیْرَ ظَالِمٍ ، وَلا مَسْبُوقٍ ، ثُمَّ یَبْکِی۔
(٢٩٨٤٤) حضرت عاصم فرماتے ہیں : کہ حضرت ابو وائل سجدے کی حالت میں یوں دعا فرماتے تھے : اے میرے مالک ! اگر آپ مجھے معاف کریں گے تو یہ معاف کرنا آپ کی مہربانی سے ہوگا اور اگر مجھے عذاب دیں گے تو عذاب دینے میں آپ نہ تو ظلم کرنے والے ہوں گے اور نہ ہی حد سے بڑھا ہوا عذاب دیں گے، پھر حضرت ابو وائل رونے لگتے۔

29844

(۲۹۸۴۵) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَن مُحَمَّدِ بْنِ سَعْدٍ الأَنْصَارِیِّ قَالَ : حدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ یزِید بْنِ رَبِیعَۃَ الدِّمَشْقِیُّ قَالَ: قَالَ أَبُو الدَّرْدَائِ: أَدْلَجْت ذَاتَ لَیْلَۃٍ إِلَی الْمَسْجِدِ ، فَلَمَّا دَخَلْت مَرَرْت عَلَی رَجُلٍ سَاجِدٍ وَہُوَ یَقُولُ: اللَّہُمَّ إنِّی خَائِفٌ مُسْتَجِیرٌ فَأَجِرْنِی مِنْ عَذَابِکَ ، وَسَائِلٌ فَقِیرٌ فَارْزُقْنِی مِنْ فَضْلِکَ ، لاَ بَرِیئَ مِنْ ذَنْبٍ فَأَعْتَذِرَ ، وَلا ذُو قُوَّۃٍ فَأَنْتَصِرَ ، وَلَکِنْ مُذْنِبٌ مُسْتَغْفِرٌ ، فَأَصْبَحَ أَبُو الدَّرْدَائِ یُعَلِّمُہُنَّ أَصْحَابَہُ إعْجَابًا بِہِا۔
(٢٩٨٤٥) حضرت عبداللہ بن یزید دمشقی فرماتے ہیں کہ حضرت ابو الدردائ نے ارشاد فرمایا : میں ایک رات مسجد میں داخل ہوا، جب میں داخل ہوگیا تو میرا گزر ایک آدمی پر ہوا جو سجدے کی حالت میں یہ دعا کررہا تھا : اے اللہ ! میں ڈرنے والا، پناہ مانگنے والا ہوں پس آپ مجھے اپنے عذاب سے پناہ دیجیے، اور میں سوالی ، بھیک مانگنے والا ہوں آپ اپنی مہربانی سے مجھے رزق عطا فرما دیجیے، اور میں گناہوں سے بری نہیں ہوں آپ میرا عذر قبول فرما لیجیے، اور نہ ہی میں طاقت والا ہوں آپ ظالموں سے میری حفاظت فرما دیجیے، لیکن میں گناہ کر کے معافی مانگنے والا ہوں پھر حضرت ابو الدردائ یہ دعا اپنے شاگردوں کو سکھلانا شروع کردی پسند آنے کی وجہ سے۔

29845

(۲۹۸۴۶) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ إِسْحَاقَ ، عَن مُحَارِبِ بْنِ دِثَارٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ : إذَا سَجَدَ أَحَدُکُمْ فَلْیَقُلْ : رَبِّ ظَلَمْت نَفْسِی فَاغْفِرْ لِی ، قَالَ مُحَارِبٌ : فَإِنَّہُ أَقْرَبُ مَا یَکُونُ إِلَی اللہِ عَزَّ وَجَلَّ۔
(٢٩٨٤٦) حضرت محارب بن دثار فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عمر نے ارشاد فرمایا : جب تم میں سے کوئی شخص سجدہ کیا کرے تو وہ یہ کلمات کہے : اے میرے رب ! میں نے اپنی جان سے ظلم کیا ہے تو میری مغفرت فرما۔ حضرت محارب فرماتے ہیں : کیونکہ آدمی اس حالت میں اللہ کے سب سے زیادہ قریب ہوتا ہے۔

29846

(۲۹۸۴۷) حَدَّثَنَا عَبِیدَۃُ بْنُ حُمَیْدٍ ، عَن مَنْصُورٍ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، عَن عَائِشَۃَ قَالَتْ : طَلَبْت رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَیْلَۃً فَلَمْ أَجِدْہُ ، قَالَتْ : فَظَنَنْت أَنَّہُ أَتَی بَعْضَ جَوَارِیہِ ، أَوْ نِسَائِہِ ، قَالَتْ : فَرَأَیْتہ وَہُوَ سَاجِدٌ وَہُوَ یَقُولُ : اللَّہُمَّ اغْفِرْ لِی مَا أَسْرَرْتُ ، وَمَا أَعْلَنْتُ۔ (احمد ۱۴۷۔ حاکم ۲۲۱)
(٢٩٨٤٧) حضرت عائشہ فرماتی ہیں : میں نے ایک رات رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تلاش کیا تو میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نہ پاس کی۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں : مجھے گمان ہوا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی کسی باندی یا بیوی کے پاس نہ چلے گئے ہوں، فرماتی ہیں کہ پھر میں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سجدے کی حالت میں پا لیا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ دعا پڑھ رہے تھے : اے اللہ ! میری مغفرت فرما ان کاموں سے جو میں نے چھپ کر کیے ہوں یا اعلانیہ کیے ہوں۔

29847

(۲۹۸۴۸) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ إِسْحَاقَ ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَن عَبْدِ اللہِ بْنِ مَسْعُودٍ ، أَنَّہُ قَالَ : مَنْ تَعَارَّ مِنَ اللَّیْلِ فَقَالَ : لاَ إلَہَ إِلاَّ أَنْتَ رَبِّ ظَلَمْت نَفْسِی فَاغْفِرْ لِی خَرَجَ مِنْ ذُنُوبِہِ کَمَا تَخْرُجُ الْحَیَّۃُ مِنْ سَلْخِہَا۔
(٢٩٨٤٨) حضرت قاسم بن عبد الرحمن فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود نے ارشاد فرمایا : جو شخص رات کو نیند سے جاگ جائے پھر وہ یہ کلمات کہہ لیا کرے : نہیں ہے کوئی معبود سوائے تیرے، اے میرے مالک ! میں نے اپنی جان پر ظلم کیا ہے تو میری مغفرت فرما دے، تو وہ شخص گناہوں سے اس طرح پاک و صاف ہو کر نکلے گا جیسے سانپ اپنی کچیلی سے نکلتا ہے۔

29848

(۲۹۸۴۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن سُفْیَانَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ ، عَن سَالِمِ بْنِ أَبِی الْجَعْدِ عَن زَیْدِ بْنِ صُوحَانَ ، عَن سَلْمَانَ ، أَنَّہُ کَانَ إذَا تَعَارَّ مِنَ اللَّیْلِ قَالَ : سُبْحَانَ رَبِّ النَّبِیِّینَ وإلہ الْمُرْسَلِینَ۔
(٢٩٨٤٩) حضرت زید بن صوحان فرماتے ہیں : حضرت سلمان جب رات کو نیند سے بیدار ہوجاتے تو فرماتے : پاک ہے وہ ذات جو نبیوں کو پالنے والا ہے اور رسولوں کا معبود ہے۔

29849

(۲۹۸۵۰) حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ ، عَن ہُرَیْمٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِی کَثِیرٍ مَوْلَی أُمِّ سَلَمَۃَ ، أَنَّ أُمَّ سَلَمَۃَ کَانَتْ إذَا تَعَارَّتْ مِنَ اللَّیْلِ تَقُولُ : رَبِّ اغْفِرْ وَارْحَمْ وَاہْدِ السَّبِیلَ الأَقْوَمَ۔
(٢٩٨٥٠) حضرت ابو کثیر جو کہ ام المؤمنین ام سلمہ کے آزاد کردہ غلام فرماتے ہیں : حضرت ام سلمہ جب رات کو نیند سے جاگ جاتیں تو یہ دعا فرماتیں : میرے مالک ! تو بخشش فرما اور رحم فرما، اور سیدھے راستہ کی طرف ہدایت نصیب فرما۔

29850

(۲۹۸۵۱) حَدَّثَنَا بَکْرُ بْنُ عُبَیْدٍ ، حَدَّثَنَا عِیسَی بْنُ الْمُخْتَارِ ، عَن مُحَمَّدِ بْنِ أَبِی لَیْلَی ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِی الأَحْوَصِ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ، أَنَّہُ کَانَ إذَا تَحَرَّکَ مِنَ اللَّیْلِ قَالَ : یَا أَیُّہَا النَّاسُ {قَدْ جَائَکُمْ بُرْہَانٌ مِنْ رَبِّکُمْ وَأَنْزَلْنَا إلَیْکُمْ نُورًا مُبِینًا}۔
(٢٩٨٥١) حضرت ابو الاحوص فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود جب رات کو جاگ جاتے تو فرماتے : اے لوگو ! (تحقیق تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے دلیل آچکی، اور ہم نے تمہاری طرف کھلے روشن نور کو اتارا) ۔

29851

(۲۹۸۵۲) حَدَّثَنَا مَعَن ، عَن مَالِکِ بْنِ أَنَسٍ ، عَنْ أَبِی حَازِمٍ ، عَن سَہْلِ بْنِ سَعْدٍ السَّاعِدِیِّ قَالَ : سَاعَتَانِ تُفْتَحُ فِیہِمَا أَبْوَابُ السَّمَائِ ، وَقَلَّ دَاعٍ تُرَدُّ عَلَیْہِ دَعْوَتُہُ : حَضْرَۃُ النِّدَائِ فِی الصَّلاۃِ ، والصَّفُّ فِی سَبِیلِ اللہِ عَزَّ وَجَلَّ۔ (ابوداؤد ۲۵۳۲۔ ابن حبان ۱۷۶۴)
(٢٩٨٥٢) حضرت ابو حازم فرماتے ہیں کہ حضرت سھل بن سعد ساعدی کا ارشاد ہے : دو گھڑیاں ایسی ہیں جن میں آسمان کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں، بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ دعا کرنے والے کی دعا کو واپس اس پر لوٹا دیا جاتا ہو، نماز کے لیے اذان کا وقت ہو، اور اللہ کے راستے میں جہاد کے لیے صف بندی کرتے وقت۔

29852

(۲۹۸۵۳) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ إِسْحَاقَ ، عَن مُحَارِبٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ : کَانَ یَأْمُرُ بِالدُّعَائِ عِنْدَ أَذَانِ الْمُؤَذِّنِینَ۔
(٢٩٨٥٣) حضرت محارب بن دثار فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمر کا ارشاد ہے کہ : مؤذنین کی اذان کے وقت دعا کا حکم کیا جاتا تھا۔

29853

(۲۹۸۵۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عن سُفْیَان ، عَن زَیْدٍ الْعَمِّیِّ ، عَنْ أَبِی إیَاسٍ ، عَنْ أَنَسٍ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : الدُّعَائُ بَیْنَ الأَذَانِ وَالإِقَامَۃِ لاَ یُرَدُّ۔
(٢٩٨٥٤) حضرت انس فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے : اذان اور اقامت کے درمیان کی جانے والی دعا ر د نہیں کی جاتی۔

29854

(۲۹۸۵۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن سُفْیَانَ ، عَن عُثْمَانَ بْنِ الأَسْوَدِ ، عَنْ أَبِی مُرَارَۃَ ، عَن مُجَاہِدٍ قَالَ : أَفْضَلُ السَّاعَاتِ مَوَاقِیتُ الصَّلاۃِ فَادْعُ فِیہَا۔
(٢٩٨٥٥) حضرت ابو مرارہ فرماتے ہیں کہ حضرت مجاہد کا ارشاد ہے : افضل ترین گھڑیاں نماز کے اوقات ہیں پس تم ان میں دعا مانگو۔

29855

(۲۹۸۵۶) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ آدَمَ قَالَ : حدَّثَنَا عَمَّارُ بْنُ رُزَیْقٍ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِی بُرْدَۃَ قَالَ : إنَّ السَّاعَۃَ الَّتِی یُسْتَجَابُ فِیہَا لِمَنْ دَعَا یَوْمَ الْجُمُعَۃِ حِینَ یَقُومُ الإِمَامُ فِی الصَّلاۃِ حَتَّی یَنْصَرِفَ مِنْہَا۔
(٢٩٨٥٦) حضرت ابو اسحاق فرماتے ہیں کہ حضرت ابو بردہ کا ارشاد ہے بیشک جمعہ کے دن وہ گھڑی جس میں دعا کرنے والے کی دعا قبول کی جاتی ہے وہ یہ ہے : جب امام نماز کے لیے کھڑا ہوتا ہے یہاں تک کہ وہ نماز سے لوٹ جائے۔

29856

(۲۹۸۵۷) حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ ، أَخْبَرَنَا إسْرَائِیلُ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَن بُرَیْدِ بْنِ أَبِی مَرْیَمَ ، عْن أَنَسٍ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إنَّ الدُّعَائَ لاَ یُرَدُّ بَیْنَ الأَذَانِ وَالإِقَامَۃِ فَادْعُوا۔
(٢٩٨٥٧) حضرت انس فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے : اذان اور اقامت کے مابین کی جانے والی دعا کبھی رد نہیں ہوتی ، پس تم لوگ اس میں دعا کرو۔

29857

(۲۹۸۵۸) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ وَاقِدٍ حَدَّثَنَا الْحَارِثُ بْنُ مُرَّۃَ ، حَدَّثَنَا یَزِیدُ الرَّقَاشِیُّ ، عَنْ أَنَسٍ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إذَا کَانَ عِنْدَ الأَذَانِ فُتِحَتْ أَبْوَابُ السَّمَائِ وَاسْتُجِیبَ الدُّعَائُ ، وَإِذَا کَانَ عِنْدَ الإِقَامَۃِ لَمْ تُرَدَّ دَعْوَۃٌ۔ (ابویعلی ۴۰۹۵۔ طیالسی ۲۱۰۶)
(٢٩٨٥٨) حضرت انس فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے : جب اذان کا وقت ہوتا ہے، تو آسمان کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں ، اور دعا قبول کی جاتی ہے، اور جب اقامت کا وقت ہوتا ہے تب تو دعا بالکل بھی رد نہیں کی جاتی۔

29858

(۲۹۸۵۹) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ إِسْحَاقَ ، حَدَّثَنَا اللَّیْثُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنِ الْحُکَیْمِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ قَیْسٍ ، عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ أَبِیہِ سَعْدٍ ، أَنَّہُ قَالَ : مَنْ قَالَ إذَا قَالَ الْمُؤَذِّنُ أَشْہَدُ أَنْ لاَ إلَہَ إِلاَّ اللَّہُ : رَضِیت بِاللہِ رَبًّا ، وَبِالإِسْلامِ دِینًا وَبِمُحَمَّدٍ نَبِیًّا ، غُفِرَ لَہُ ذُنُوبُہُ ، فَقَالَ لَہُ رَجُلٌ : یَا سَعْدُ ، مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہِ ، وَمَا تَأَخَّرَ ؟ قَالَ : لاَ ہَکَذَا سَمِعْت رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُہُ۔ (مسلم ۲۹۰۔ ابوداؤد ۵۲۶)
(٢٩٨٥٩) حضرت عامر بن سعد فرماتے ہیں کہ ان کے والد حضرت سعد نے فرمایا : جو شخص مؤذن کی آواز سن کر یہ کلمات کہے : میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی خدا نہیں ہے : میں اللہ کو رب مان کر، اسلام کو دین مان کر، اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نبی مان کر راضی ہوں، تو اس شخص کے تمام گناہوں کی مغفرت کردی جاتی ہے، پھر ایک آدمی ان سے کہنے لگا : اے سعد ! اس کے اگلے پچھلے سب گناہ معاف کردیے جاتے ہیں ؟ حضرت سعد نے فرمایا : نہیں س، میں نے صرف اتنی بات رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے ہوئے سنا۔

29859

(۲۹۸۶۰) حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ ، عَن ہُرَیْمٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِی کَثِیرٍ مَوْلَی أُمِّ سَلَمَۃَ ، عَن أُمِّ سَلَمَۃَ قَالَتْ : قَالَ لِی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : قُولِی عِنْدَ أَذَانِ الْمَغْرِبِ : اللَّہُمَّ عند إقْبَالُ لَیْلِکَ وَإِدْبَارُ نَہَارِکَ وَأَصْوَاتُ دُعَاتِکَ وَحُضُورُ صَلاتِکَ اغْفِرْ لِی۔ (ابوداؤد ۵۳۱۔ ترمذی ۳۵۸۹)
(٢٩٨٦٠) حضرت ام المؤمنین ام سلمہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھ سے فرمایا : تم مغرب کی اذان کے وقت یہ کلمات کہا کرو : اے اللہ ! تو رات کے آنے کے وقت اور دن کے جانے کے وقت اور تیرے پکارنے والوں کی آوازوں کے وقت، اور تیری نماز کے حاضر ہونے کے وقت میں میری مغفرت فرما۔

29860

(۲۹۸۶۱) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنِ الْعَوَّامِ ، عَنْ عَبْدِ الْکَرِیمِ الْمُکْتِبِ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ یَزِیدَ بْنِ مُعَاوِیَۃَ قَالَ : الْکَلِمَاتُ الَّتِی تَلَقَّی آدَم مِنْ رَبِّہِ : اللَّہُمَّ لاَ إلَہَ إِلاَّ أَنْتَ سُبْحَانَک وَبِحَمْدِکَ ، عَمِلْتُ سُوئًا وَظَلَمْتُ نَفْسِی فَارْحَمْنِی وَأَنْتَ خَیْرُ الرَّاحِمِینَ ، اللَّہُمَّ لاَ إلَہَ إِلاَّ أَنْتَ سُبْحَانَک وَبِحَمْدِکَ عَمِلْتُ سُوئًا وَظَلَمْتُ نَفْسِی فَتُبْ عَلَیَّ إنَّک أَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِیمُ۔
(٢٩٨٦١) حضرت عبد الکریم المکتب فرماتے ہیں کہ حضرت عبد الرحمن بن یزید بن معاویہ نے ارشاد فرمایا : وہ کلمات جو حضرت آدم نے اپنے رب سے سیکھے درج ذیل ہیں : اے اللہ ! تیرے سوا کوئی بھی معبود نہیں ہے، تو پاک ہے اور اپنی تمام تعریفوں کے ساتھ ہے میں نے بُرا کام کیا، اور اپنی جان پر ظلم کیا پس تو مجھ پر رحم فرما، اور تو رحم کرنے والوں میں سب سے بہتر رحم کرنے والا ہے، اے اللہ ! تیرے سوا کوئی بھی معبود نہیں ہے، تو پاک ہے، اور اپنی تمام تعریفوں کے ساتھ ہے، میں نے بُرا کام کیا، اور اپنی جان پر ظلم کیا، پس میری توبہ قبول فرما، یقیناً تو توبہ قبول کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔

29861

(۲۹۸۶۲) حَدَّثَنَا أَسْبَاطٌ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ قَیْسٍ ، عَنِ الْحَکَمِ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِی لَیْلَی ، عَن کَعْبِ بْنِ عُجْرَۃَ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مُعَقِّبَاتٌ لاَ یَخِیبُ قَائِلُہُنَّ : سُبْحَانَ اللہِ فِی دُبُرِ کُلِّ صَلاۃٍ ثَلاثًا وَثَلاثِینَ ، وَتَحْمَدَ ثَلاثًا وَثَلاثِینَ ، وَتُکَبِّرَ أَرْبَعًا وَثَلاثِینَ۔ (مسلم ۴۱۸۔ ترمذی ۳۴۱۲)
(٢٩٨٦٢) حضرت کعب بن عجرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : چند پیچھے آنے والے کلمات ایسے ہیں کہ ان کا کہنے والا کبھی خسارہ میں نہیں ہوتا، ہر نماز کے بعد ، سبحان اللہ تینتیس مرتبہ (٣٣) ، الحمد للہ تینتیس مرتبہ (٣٣) ، اللہ اکبر چونتیس مرتبہ (٣٤) ۔

29862

(۲۹۸۶۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن شُعْبَۃَ ، عَنِ الْحَکَمِ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِی لَیْلَی ، عَن کَعْبِ بْنِ عُجْرَۃَ قَالَ : ثَلاثٌ لاَ یَخِیبُ قَائِلُہُنَّ ، أَوْ قَالَ : قَائِلُوہُنَّ : یُسَبِّحُ ثَلاثًا وَثَلاثِینَ ، وَیَحْمَدُ ثَلاثًا وَثَلاثِینَ ، وَیُکَبِّرُ أَرْبَعًا وَثَلاثِینَ فِی دُبُرِ کُلِّ صَلاۃٍ ، قَالَ الْحَکَمُ : فَمَا تَرَکْتُہُنَّ بَعْدُ۔ (بخاری ۶۲۲۔ طیالسی ۱۰۶۰)
(٢٩٨٦٣) حضرت حکم ، حضرت عبد الرحمن بن ابی لیلی کے حوالے سے حضرت کعب بن عجرہ کا ارشاد نقل کرتے ہیں : تین کلمات ایسے ہیں کہ ان کا کہنے والا، یا فرمایا، ان کے کہنے والے، خسارہ میں نہیں ہوئے : تینتیس (٣٣) مرتبہ سبحان اللہ کہنا، اور تینتیس (٣٣) مرتبہ الحمد للہ کہنا، اور چونتیس (٣٤) مرتبہ اللہ اکبر کا کہنا، ہر نماز کے بعد ، حضرت حکم فرماتے ہیں : پھر میں نے کبھی بھی ان کلمات کو نہیں چھوڑا۔

29863

(۲۹۸۶۴) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِِ ، عَن مَنْصُورٍ ، عَنِ الْحَکَمِ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِی لَیْلَی ، عَن کَعْبٍ قَالَ : مُعَقِّبَاتٌ لاَ یَخِیبُ قَائِلُہُنَّ ، ثُمَّ ذَکَرَ مِثْلَ حَدِیثِ وَکِیعٍ۔
(٢٩٨٦٤) حضرت عبد الرحمن بن ابی لیلی فرماتے ہیں کہ حضرت کعب کا ارشاد ہے : چند کلمات پیچھے آنے والے ایسے ہیں ان کا کہنے والا خسارہ میں نہیں ہوتا، پھر حضرت ابو الاحوص نے حضرت وکیع والی حدیث جیسا مضمون نقل فرمایا۔

29864

(۲۹۸۶۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن یُونُسَ بْنِ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِی بَکْرِ بْنِ أَبِی مُوسَی ، عَنْ أَبِی مُوسَی ، أَنَّہُ کَانَ یَقُولُ إذَا فَرَغَ مِنْ صَلاتِہِ : اللَّہُمَّ اغْفِرْ لِی ذَنْبِی وَیَسِّرْ لِی أَمْرِی ، وَبَارِکْ لِی فِی رِزْقِی۔
(٢٩٨٦٥) حضرت ابوبکر بن ابی موسیٰ فرماتے ہیں کہ حضرت ابو موسیٰ جب نماز سے فارغ ہوتے تو یوں دعا فرماتے تھے : اے اللہ ! میرے گناہوں کو معاف فرما، اور میرے معاملہ کو آسان فرما، اور میرے رزق میں برکت عطا فرما۔

29865

(۲۹۸۶۶) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، أَخْبَرَنَا مِسْعَرٌ ، عَن مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَن طَیْسِلَۃَ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ : مَنْ قَالَ دُبُرَ کُلِّ صَلاۃٍ وَإِذَا أَخَذَ مَضْجَعَہُ : اللَّہُ أَکْبَرُ کَبِیرًا ، عَدَدَ الشَّفْعِ وَالْوِتْرِ ، وَکَلِمَاتِ اللہِ التَّامَّاتِ ، الطَّیِّبَاتِ الْمُبَارَکَاتِ ثَلاثًا ، وَلا إلَہَ إِلاَّ اللَّہُ مِثْلُ ذَلِکَ ، کُنَّ لَہُ فِی قَبْرِہِ نُورًا ، وَعَلَی الْجِسْرِ نُورًا ، وَعَلَی الصِّرَاطِ نُورًا حَتَّی یُدْخِلْنَہُ الْجَنَّۃَ ، أَوْ یَدْخُلَ الْجَنَّۃَ۔
(٢٩٨٦٦) حضرت طیسلہ فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمر کا ارشاد ہے : جو شخص نماز پڑھنے کے بعد اپنی جگہ پر ہی بیٹھا رہے اور یہ کلمات کہے : اللہ بڑی کبریائی والا ہے، طاق اور جفت عدد کے مطابق، اور اللہ کے کلمات مکمل ، پاکیزہ اور بابرکات ہیں۔ تین مرتبہ، اور اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے، تین مرتبہ۔ تو یہ کلمات اس شخص کے لیے قبر میں نور بن جائیں گے، اور پل صراط پر نور بن جائیں گے، یہاں تک کہ اس بندے کو جنت میں داخل کروائیں گے یا فرمایا : وہ جنت میں داخل ہوجائے گا۔

29866

(۲۹۸۶۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، عَن سُفْیَانَ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ ضَمْرَۃَ، عَنْ عَلِیٍّ، أَنَّہُ کَانَ یَقُولُ: تَمَّ نُورُک فَہَدَیْت فَلَکَ الْحَمْدُ ، وَعَظُمَ حِلْمُک فَعَفَوْت فَلَکَ الْحَمْدُ ، وَبَسَطْت یَدَک فَأَعْطَیْت فَلَکَ الْحَمْدُ رَبَّنَا وَجْہُک أَکْرَمُ الْوُجُوہِ، وَجَاہُک خَیْرُ الْجَاہِ، وَعَطِیَّتُک أَفْضَلُ الْعَطِیَّۃِ وَأَہْنَؤُہَا، تُطَاعُ رَبَّنَا فَتَشْکُرُ، وَتُعْصَی رَبَّنَا فَتَغْفِرُ، تُجِیبُ الْمُضْطَرَّ، وَتَکْشِفُ الضُّرَّ، وَتَشْفِی السَّقِیمَ، وَتُنْجِی مِنَ الْکَرْبِ وَتَقْبَلُ التَّوْبَۃ ، وَتَغْفِرُ الذَّنْبَ لِمَنْ شِئْت ، لاَ یُجْزِئُ بآلائِکَ أَحَدٌ ، وَلا یُحْصِی نَعْمَائَک قَوْلُ قَائِلٍ یَعْنِی : کُلٌّ یَقُولُ بَعْدَ الصَّلاۃِ۔ (ابویعلی ۴۳۶)
(٢٩٨٦٧) حضرت عاصم بن ضمرہ فرماتے ہیں کہ حضرت علی یوں دعا فرماتے تھے : تیرا نور مکمل ہوا پھر تو نے ہدایت عطا فرمائی، پس تیرے لیے ہی تمام تعریفیں ہیں، اور تیری حلم و بردباری عظیم ہوئی پھر تو نے در گزر فرمایا ، پس تمام تعریفیں تیرے ہی لیے ہیں، اور تیرا ہاتھ کشادہ ہوا، پھر تو نے عطا فرمایا پس تیرے لیے ہی تمام تعریفیں ہیں، ہمارے رب ! تیرا چہرہ تمام چہروں میں معزز ترین ہے، اور تیرا مرتبہ سب مرتبوں والے سے بہتر ہے، اور تیرا عطیہ افضل ترین اور فائدہ مند عطیہ ہے، ہمارے رب کی اطاعت کی جائے تو وہ ممنون ہوتا ہے، اور ہمارے رب کی نافرمانی کی جائے تو وہ مغفرت کرتا ہے، اور مجبور و پریشان کی پکار کا جواب دیتا ہے، اور تو مصیبت و تکلیف کو دور کرتا ہے، اور تو بیماروں کو شفا دیتا ہے، اور جس کے لیے چاہتا ہے گناہوں کو معاف کردیتا ہے، کوئی شخص بھی تیری نعمتوں کا بدلہ نہیں دے سکتا، اور کہنے والے کی بات تیری نعمتوں کو شمار نہیں کرسکتی، یہ سب کلمات آپ فرض نماز کے بعد کہتے تھے۔

29867

(۲۹۸۶۸) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَن عُمَیْرِ بْنِ سَعْدٍ قَالَ : کَانَ عَبْدُ اللہِ یَدْعُو بِہَذِہِ الدَّعَوَاتِ بَعْدَ التَّشَہُّدِ : اللَّہُمَّ إنِّی أَسْأَلُک مِنَ الْخَیْرِ کُلِّہِ مَا عَلِمْت مِنْہُ ، وَمَا لَمْ أَعْلَمْ وَأَعُوذُ بِکَ مِنَ الشَّرِّ کُلِّہِ مَا عَلِمْت مِنْہُ ، وَمَا لَمْ أَعْلَمْ ، اللَّہُمَّ إنِّی أَسْأَلُکَ خَیْرَ مَا سَأَلَک عِبَادُک الصَّالِحُونَ ، وَأَعُوذُ بِکَ مِنْ شَرِّ مَا عَاذَ مِنْہُ عِبَادُک الصَّالِحُونَ : رَبَّنَا آتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَفِی الآخِرَۃِ حَسَنَۃً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ ، رَبَّنَا إنَّنَا آمَنَّا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَکَفِّرْ عَنَّا سَیِّئَاتِنَا وَتَوَفَّنَا مَعَ الأَبْرَارِ ، رَبَّنَا وَآتِنَا مَا وَعَدْتَنَا عَلَی رُسُلِکَ ، وَلا تُخْزِنَا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ إنَّک لاَ تُخْلِفُ الْمِیعَادَ۔
(٢٩٨٦٨) حضرت عمیربن سعید فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود نماز میں تشھد کے بعد یہ دعائیں مانگا کرتے تھے : اے اللہ ! میں آپ سے تمام بھلائی کا سوال کرتا ہوں چاہے میں جانتا ہوں یا نہ جانتا ہوں، اور میں آپ کی پناہ مانگتا ہوں مکمل شر سے، میں اس کو جانتا ہوں یا نہ جانتا ہوں، اے اللہ ! میں آپ سے اس بھلائی کا سوال کرتا ہوں جس کا آپ کے نیک بندوں نے آپ سے سوال کیا ہے، اور میں اس شر سے آپ کی پناہ مانگتا ہوں جس کے شر سے آپ کے نیک بندوں نے پناہ مانگی ہے۔ اے ہمارے رب ! ہمیں دنیا میں خوبی اور آخرت میں خوبی دے اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا، اے ہمارے رب ! ہم ایمان لائے، اب ہمارے گناہ بخش دے، اور ہم سے ہماری برائیں دور کر دے، اور ہمیں قیامت کے دن رسوا نہ کرنا، یقیناً تو اپنے وعدہ کے خلاف نہیں کرتا۔

29868

(۲۹۸۶۹) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَن شُعْبَۃَ ، عَن زِیَادِ بْنِ فَیَّاضٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ مُصْعَبَ بْنَ سَعْدٍ یُحَدِّثُ ، عَن سَعْدٍ ، أَنَّہُ کَانَ إذَا تَشَہَّدَ قَالَ : سُبْحَانَ اللہِ مِلْئَ السَّمَاوَاتِ وَمِلْئَ الأَرْضِ ، وَمَا بَیْنَہُنَّ ، وَمَا تَحْتَ الثَّرَی ، قَالَ شُعْبَۃُ : لاَ أَدْرِی اللَّہُ أَکْبَرُ قَبْلُ ، أَوِ الْحَمْدُ لِلَّہِ حَمْدًا طَیِّبًا مُبَارَکًا فِیہِ ، لاَ إلَہَ إِلاَّ اللَّہُ وَحْدَہُ ، لاَ شَرِیکَ لَہُ ، لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ وَہُوَ عَلَی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیرٌ ، اللَّہُمَّ إنِّی أَسْأَلُک مِنَ الْخَیْرِ کُلِّہِ ، ثُمَّ یُسَلِّمُ۔
(٢٩٨٦٩) حضرت مصعب بن سعد فرماتے ہیں کہ حضرت سعد جب تشھد پڑھ لیتے پھر یہ دعا فرماتے : اللہ ہی کے لیے پاکی ہے جس سے آسمان بھر جائیں اور زمین بھر جائے اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے وہ بھر جائے اور جو کچھ زمین کے نیچے ہے وہ بھر جائے۔ حضرت شعبہ فرماتے ہں ہ : میں نہیں جانتا : پہلے اللہ سب سے بڑا ہے کہا یا یوں کہا : اللہ ہی کے لیے سب تعریفیں ہیں تعریف ، پاکیزہ اور بابرکت ہے، نہیں ہے کوئی خدا سوائے اللہ کے جو اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں ہے، اس ہی کا ملک ہے اور اس کے لیے ہی تعریف ہے، اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے، اے اللہ ! میں آپ سے تمام بھلائی کا سوال کرتا ہوں، پھر حضرت سعد سلام پھیر دیتے۔

29869

(۲۹۸۷۰) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنِ الْمُسَیَّبِ بْنِ رَافِعٍ ، عَن وَرَّادٍ مَوْلَی الْمُغِیرَۃِ قَالَ : کَتَبَ مُعَاوِیَۃُ إِلَی الْمُغِیرَۃِ بْنِ شُعْبَۃَ : أَیُّ شَیْئٍ کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ إذَا سَلَّمَ فِی الصَّلاۃِ ، قَالَ : فَأَمْلاہَا عَلَیَّ الْمُغِیرَۃُ ، قَالَ : فَکَتَبْت بِہَا إِلَی مُعَاوِیَۃَ ، أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یَقُولُ إذَا سَلَّمَ : لاَ إلَہَ إِلاَّ اللَّہُ وَحْدَہُ لاَ شَرِیکَ لَہُ ، لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ وَہُوَ عَلَی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیرٌ ، اللَّہُمَّ لاَ مَانِعَ لِمَا أَعْطَیْت ، وَلا مُعْطِیَ لِمَا مَنَعْت ، وَلا یَنْفَعُ ذَا الْجَدِّ مِنْک الْجَدُّ۔
(٢٩٨٧٠) حضرت وراد جو کہ حضرت مغیرہ بن شعبہ کے آزاد کردہ غلام ہیں فرماتے ہیں : حضرت معاویہ نے حضرت مغیرہ بن شعبہ کو خط لکھا اور پوچھا : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز سے سلام پھیرنے کے بعد کون سے کلمات فرماتے تھے ؟ حضرت وراد کہتے ہیں کہ حضرت مغیرہ نے وہ کلمات مجھے لکھوا دیے، اور وہ کہتے ہیں کہ پھر میں نے یہ کلمات لکھ کر حضرت معاویہ کے پاس بھیج دیے، یقیناً رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب سلام پھیرتے تھے تو فرماتے : ” نہیں ہے کوئی خدا سوائے اللہ کے ، جو کہ تنہا ہے، جس کا کوئی شریک نہیں ہے، اس کا ہی ملک ہے اور اسی کے لیے تعریفیں ہیں۔ اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے، اے اللہ ! جس کو تو دے اس کو کوئی روکنے والا نہیں، اور جس سے تو روک لے اس کو کوئی دینے والا نہیں، اور کسی شان والے کو اس کی شان تیرے ہاں کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتی۔

29870

(۲۹۸۷۱) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ، حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ قَالَ حدَّثَنِی شَیْخٌ، عَن صِلَۃَ بْنِ زُفَرَ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ یَقُولُ فِی دُبُرِ الصَّلاۃِ : اللَّہُمَّ أَنْتَ السَّلامُ وَمِنْک السَّلامُ ، تَبَارَکْت یَا ذَا الْجَلالِ وَالإِکْرَامِ ، ثُمَّ صَلَّیْت إِلَی جَنْبِ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو فَسَمِعَہُ یَقُولُہُ ، فَقُلْتُ لَہُ : إنِّی سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ یَقُولُ مِثْلَ الَّذِی تَقُولُ ، فَقَالَ عَبْدُ اللہِ بْنُ عَمْرٍو : إنِّی سَمِعْت رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُہُنَّ فِی آخِرِ صَلاتِہِ۔
(٢٩٨٧١) حضرت صلۃ بن زفر فرماتے ہیں کہ میں حضرت عبداللہ بن عمر کو نماز کے بعد یہ کلمات کہتے سنا : ” اے اللہ ! تو سلامتی والا ہے، اور تجھ سے ہی سلامتی ہے، تو برکت والا ہے، اے صاحب عظمت اور بزرگی والے۔ “ پھر میں نے حضرت عبداللہ بن عمرو کے پہلو میں نماز پڑھی تو انھیں بھی یہی کلمات فرماتے ہوئے سنا، تو میں نے ان سے کہا : میں نے حضرت ابن عمر کو بھی یہی کلمات فرماتے سنا ہے جو آپ نے ادا کیے، تو حضرت عبداللہ بن عمرو فرمانے لگے : یقیناً میں نے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نماز کے آخر میں یہ کلمات پڑھتے ہوئے سنا ہے۔

29871

(۲۹۸۷۲) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ ، عَن ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ ، عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ مَوْلًی لَہُمْ ، أَنَّ عَبْدَ اللہِ بْنَ الزُّبَیْرِ کَانَ یُہَلِّلُ دُبُرَ کُلِّ صَلاۃٍ یَقُولُ : لاَ إلَہَ إِلاَّ اللَّہُ وَحْدَہُ ، لاَ شَرِیکَ لَہُ ، لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ وَہُوَ عَلَی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیرٌ ، وَلا حَوْلَ وَلا قُوَّۃَ إِلاَّ بِاللہِ ، وَلا نَعْبُدُ إِلاَّ إیَّاہُ ، لَہُ النِّعْمَۃُ وَلَہُ الْفَضْلُ وَلَہُ الثَّنَائُ الْحَسَنُ ، لاَ إلَہَ إِلاَّ اللَّہُ مُخْلِصِینَ لَہُ الدِّینَ وَلَوْ کَرِہَ الْکَافِرُونَ ، ثُمَّ یَقُولُ ابْنُ الزُّبَیْرِ : کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُہَلِّلُ بِہِنَّ دُبُرَ کُلِّ صَلاۃٍ۔ (مسلم ۴۱۶۔ ابوداؤد ۱۵۰۲)
(٢٩٨٧٢) حضرت ابو الزبیر جو کہ حضرت عبداللہ بن زبیر کے آزاد کردہ غلام ہیں فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن زبیر ہر نماز کے بعد یوں کلمہ پڑھا کرتے تھے : نہیں ہے کوئی معبود سوائے اللہ کے جو تنہا ہے جس کا کوئی شریک نہیں ہے، اس ہی کا ملک ہے، اور اسی کے لیے تعریف ہے، اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے، گناہوں سے بچنے اور نیکی کے کرنے کی طاقت صرف اللہ کی مدد سے ہے، اور ہم اس کی ہی عبادت کرتے ہیں، اسی کی نعمت ہے، اور اسی کی مہربانی ہے، اور اس کے لیے اچھی تعریف ہے، نہیں ہے کوئی معبود سوائے اللہ کی ذات کے ، دین کے لیے اخلاص اپنائے ہوئے اگرچہ کافروں کو بُرا ہی لگے۔ پھر حضرت عبداللہ بن زبیر فرماتے : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہر نماز کے بعد یہی کلمات فرماتے تھے۔

29872

(۲۹۸۷۳) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ ، عَنْ أَبِیہِ قَالَ : أَتَی عَلِیُّ بْنُ أَبِی طَالِبٍ رضی اللہ عَنہ فَاطِمَۃَ رضی اللہ عنہا فَقَالَ إنِّی أَشْتَکِی صَدْرِی مِمَّا أَمدُ بِالْغَرْبِ ، قَالَتْ : وَأَنَا وَاللہ إنِّی لأشْتَکِی یَدَیَّ مِمَّا أَطْحَنُ الرَّحَا ، فَقَالَ : لَہَا : ائْتِی النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَدْ أَتَاہُ سَبْیٌ ائْتِیہِ لَعَلَّہُ یُخْدِمُکِ خَادِمًا ، فَانْطَلَقَا إِلَی النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَأَتَاہُمَا فَقَالَ : إنَّکُمَا جِئْتُمَانِی لأُخْدِمَکُمَا خَادِمًا ، وَإِنِّی سَأُخْبِرُکُمَا بِمَا ہُوَ خَیْرٌ لَکُمَا مِنَ الْخَادِمِ ، فَإِنْ شِئْتُمَا أَخْبَرْتُکُمَا بِمَا ہُوَ خَیْرٌ لَکُمَا مِنَ الْخَادِمِ : تُسَبِّحَانِہِ دُبُرَ کُلِّ صَلاۃٍ ثَلاثًا وَثَلاثِینَ وَتَحْمَدَانِہِ ثَلاثًا وَثَلاثِینَ وَتُکَبِّرَانِہِ أَرْبَعًا وَثَلاثِینَ ، وَإِذَا أَخَذْتُمَا مَضَاجِعَکُمَا مِنَ اللَّیْلِ فَتِلْکَ مِئَۃ قَالَ عَلِیٌّ رضی اللہ ، عَنہ : فَمَا أَعْلَمُنِی تَرَکْتہَا بَعْدُ ، قَالَ لَہُ عَبْدُ اللہِ ابْنُ الْکَوَّائِ : وَلا لَیْلَۃَ صِفِّینَ ، فَقَالَ لَہُ عَلِیٌّ : قَاتَلَکُمَ اللَّہُ یَا أَہْلَ الْعِرَاقِ ، وَلا لَیْلَۃَ الصِّفِّینِ۔ (ابن ماجہ ۴۱۵۲۔ احمد ۷۹)
(٢٩٨٧٣) حضرت سیائب فرماتے ہیں کہ حضرت علی حضرت فاطمۃ الزہرائ کے پاس تشریف لائے اور فرمانے لگے : کنویں کا ڈول کھینچنے کی وجہ سے میرا سینہ درد کررہا ہے، تو حضرت فاطمۃ الزہرائ نے فرمایا : اللہ کی قسم ! چکی پیسنے کی وجہ سے میرے ہاتھوں میں بھی درد رہتا ہے، پھر حضرت علی نے ان سے فرمایا : تم نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس جاؤ، تحقیق آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس چند غلام آئے ہیں، تم ان کے پاس جاؤ تو شاید وہ تمہیں خدمت کے لیے کوئی خادم عطا فرما دیں۔ پھر یہ دونوں حضرات نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف چلے جب دونوں پہنچے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم دونوں میرے پاس اس لیے آئے ہو کہ میں تمہیں خدمت کے لیے کوئی خادم عطا کروں، اور یقیناً میں تمہیں عنقریب ایک ایسی چیز بتاؤں گا جو تمہارے لیے خادم سے بھی بہتر ہوگی، اور اگر تم چاہو تو میں تمہیں وہ چیز بتادوں جو تمہارے حق میں خادم سے بھی بہتر ہے : ” تم دونوں ہر نماز کے بعد اور جب رات کو بستر پر لیٹنے لگو تو تینتیس (٣٣) مرتبہ سبحان اللہ، تینتیس (٣٣) مرتبہ الحمد للہ، اور چونتیس (٣٤) مرتبہ اللہ اکبر کہہ لیا کرو، تو یہ پورے سو (١٠٠) ہوجائیں گے۔ “
حضرت علی فرماتے ہیں : مجھے یاد نہیں اس کے بعد کبھی میں نے ان کلمات کو چھوڑا ہو، اس پر عبداللہ بن الکواء کہنے لگا : جنگ صفین کی رات کو بھی نہیں، تو حضرت علی نے فرمایا : اے عرا ق والو ! اللہ تمہیں ہلاک کرے، جنگ صفین کی رات کو بھی نہیں چھوڑے۔

29873

(۲۹۸۷۴) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : خُلَّتَانِ لاَ یُحَافِظُ عَلَیْہِمَا رَجُلٌ إِلاَّ دَخَلَ الْجَنَّۃَ ، ہُمَا یَسِیرٌ وَمَنْ یَفْعَلُہُمَا قلِیلٌ قِیلَ : مَا ہُمَا یَا رَسُولَ اللہِ قَالَ : الصَّلَوَاتُ الْخَمْسُ ، یُسَبِّحُ الرَّجُلُ فِی دُبُرِ کُلِّ صَلاتِہِ عَشْرًا وَیَحْمَدُ عَشْرًا وَیُکَبِّرُ عَشْرًا ، فَذَلِکَ خَمْسُونَ وَمِئَۃٌ عَلَی اللِّسَانِ ، وَأَلْفٌ وَخَمْسُمِئَۃٍ فِی الْمِیزَانِ قَالَ : وَلَقَدْ رَأَیْت رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَعُدُّہُنَّ فِی یَدِہِ وَیُسَبِّحُ ثَلاثًا وَثَلاثِینَ وَیَحْمَدُ ثَلاثًا وَثَلاثِینَ وَیُکَبِّرُ أَرْبَعًا وَثَلاثِینَ عِنْدَ مَضْجَعِہِ مِنَ اللَّیْلِ وَإِذَا أَوی إِلَی فِرَاشِہِ سَبَّحَ وَحَمِدَ وَکَبَّرَ مِئَۃ فَذَلِکَ مِئَۃ عَلَی اللِّسَانِ ، وَأَلْفٌ فِی الْمِیزَانِ ، فَأَیُّکُمْ یُذْنِبُ فِی اللَّیْلَۃِ أَلْفَیْنِ وَخَمْسَمِئَۃٍ۔ (ابن ماجہ ۹۲۶۔ ترمذی ۳۴۱۰)
(٢٩٨٧٤) حضرت عبداللہ بن عمرو فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : دو اچھی عادتیں ایسی ہیں کہ جو شخص ان عادات کی حفاظت کرے گا تو جنت میں داخل ہوگا، یہ دونوں آسان ہیں اور پھر بھی ان کے کرنے والے تھوڑے ہیں، پوچھا گیا : اے اللہ کے رسول ! وہ دو عادات کون سی ہیں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : پانچ نمازیں ہیں، جو شخص ہر نماز کے بعد دس مرتبہ سبحان اللہ، اور دس مرتبہ الحمد للہ اور دس مرتبہ اللہ اکبر کہے گا تو یہ زبان سے کہنے کے اعتبار سے ڈیڑھ سو (١٥٠) ہیں اور ترازو پر وزن کرنے کے اعتبار سے ڈیڑھ ہزار (١٥٠٠) ہوں گی، حضرت عبداللہ بن عمرو فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیکھا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو انگلیوں پر بھی شمار فرمایا اور دوسری (٢) اچھی عادت یہ ہے کہ آدمی رات کو بستر پر لیٹتے وقت تینتیس مرتبہ سبحان اللہ، تینتیس مرتبہ الحمد للہ اور چونتیس مرتبہ اللہ اکبر کہے گا، تو یہ زبان سے کہنے کے اعتبار سے سو (١٠٠) ہیں اور ترازو پر وزن کے اعتبار سے ہزار ہوں گے ۔ پس تم میں سے کون ہے جو رات کو ڈھائی ہزار گناہ کرتا ہو ؟ “

29874

(۲۹۸۷۵) حَدَّثَنَا شَبَابَۃُ حَدَّثَنَا شُعْبَۃُ ، عَن مُوسَی بْنِ أَبِی عَائِشَۃَ ، عَن مَوْلًی لاُمِّ سَلَمَۃَ ، عَن أُمِّ سَلَمَۃَ ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یَقُولُ إذَا صَلَّی الصُّبْحَ حِینَ یُسَلِّمُ : اللَّہُمَّ إنِّی أَسْأَلُک عِلْمًا نَافِعًا وَرِزْقًا طَیِّبًا وَعَمَلاً مُتَقَبَّلاً۔ (احمد ۳۰۵۔ ابویعلی ۶۹۶۱)
(٢٩٨٧٥) حضرت ام المؤمنین ام سلمہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب صبح کی نماز پڑھ کر سلام پھیرتے تو یوں دعا فرماتے تھے : اے اللہ ! میں آپ سے سوال کرتا ہوں نفع پہنچانے والے علم کا، اور پاکیزہ رزق کا اور مقبول عمل کا۔

29875

(۲۹۸۷۶) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَن حُصَیْنٍ ، عَن ہِلالِ بْنِ یَِسَافٍ عَن زَاذَانَ قَالَ : حدَّثَنِی رَجُلٌ مِنَ الأَنْصَارِ ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ فِی دُبُرِ الصَّلاۃِ : اللَّہُمَّ اغْفِرْ لِی وَتُبْ عَلَیَّ إنَّک أَنْتَ التَّوَّابُ الْغَفُورُ مِئَۃ مَرَّۃٍ۔ (احمد ۳۷۱۔ بخاری ۶۱۹)
(٢٩٨٧٦) ایک انصاری صحابی فرماتے ہیں کہ میں نے سنا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز کے بعد سو مرتبہ یہ دعا فرمائی : اے اللہ ! میری مغفرت فرما، اور میری توبہ قبول فرما، یقیناً تو ہی توبہ قبول کرنے والا اور مغفرت فرمانے والا ہے۔

29876

(۲۹۸۷۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن شُعْبَۃَ ، عَنِ الْحَکَمِ ، عَنْ أَبِی عُمَرَ الصینی وَعَن سُفْیَانَ ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِیزِ بْنِ رُفَیْعٍ سَمِعَہُ مِنْ أَبِی عُمَرَ ، عَنْ أَبِی الدَّرْدَائِ قَالَ : قُلْتُ : یَا رَسُولَ اللہِ ، ذَہَبَ الأَغْنِیَائُ بِالأَجْرِ ، یُصَلُّونَ کَمَا نُصَلِّی ، وَیَصُومُونَ کَمَا نَصُومُ ، وَیَحُجُّونَ کَمَا نَحُجُّ ، وَیَتَصَدَّقُونَ ، وَلا نَجِدُ مَا نَتَصَدَّقُ قَالَ : فَقَالَ : أَلا أَدُلُّکُمْ عَلَی شَیْئٍ إذَا فَعَلْتُمُوہُ أَدْرَکْتُمْ مَنْ سَبَقَکُمْ ، وَلا یُدْرِکُکُمْ مَنْ بَعْدَکُمْ إِلاَّ مَنْ عَمِلَ بِالَّذِی تَعْمَلُونَ : تُسَبِّحُونَ اللَّہَ ثَلاثًا وَثَلاثِینَ وَتَحْمَدُونَہُ ثَلاثًا وَثَلاثِینَ وَتُکَبِّرُونَہُ أَرْبَعًا وَثَلاثِینَ فِی دُبُرِ کُلِّ صَلاۃٍ۔ (احمد ۴۴۶۔ نسائی ۹۹۷۹)
(٢٩٨٧٧) حضرت ابو الدردائ فرماتے ہیں : میں نے ایک دن کہا : اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! مالدار لوگ اجر وثواب میں ہم سے بڑھ گئے ہیں۔ وہ لوگ نماز پڑھتے ہیں جیسے ہم نماز پڑھتے ہیں، اور وہ لوگ روزے رکھتے ہیں جیسا کہ ہم روزے رکھتے ہیں، اور وہ لوگ حج بھی کرتے ہیں جیسا کہ ہم حج کرتے ہیں، اور وہ صدقہ بھی دیتے ہیں، اور ہم اتنا مال ہی نہیں پاتے جس کا صدقہ کریں ؟ حضرت ابو الدردائ کہتے ہیں پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کیا میں تمہیں ایسی چیز نہ بتاؤں جس کو اگر تم کرو گے تو سبقت کرنے والوں کے اجر کو پہنچ جاؤ گے اور تمہارے بعد تمہارے اجر تک صرف وہی پہنچ سکے گا جو تمہاری طرح یہ عمل کرے گا : ” تم لوگ ہر نماز کے بعد تینتیس مرتبہ سبحان اللہ، اور تینتیس مرتبہ الحمد اللہ، اور چونتیس مرتبہ اللہ اکبر کہا کرو۔ “

29877

(۲۹۸۷۸) حَدَّثَنَا عَبِیدَۃُ بْنُ حُمَیْدٍ ، عَنِ الرُّکَیْنِ بْنِ الرَّبِیعِ عَنْ أَبِیہِ قَالَ : کَانَ عُمَرُ إذَا انْصَرَفَ مِنْ صَلاتِہِ قَالَ : اللَّہُمَّ أَسْتَغْفِرُک لِذَنْبِی ، وَأَسْتَہْدِیک لمرَاشَدِ أَمْرِی ، وَأَتُوبُ إلَیْک فَتُبْ عَلَی ، اللَّہُمَّ أَنْتَ رَبِّی فَاجْعَلْ رَغْبَتِی إلَیْک ، وَاجْعَلْ غِنَائِی فِی صَدْرِی وَبَارِکْ لِی فِیمَا رَزَقَتْنِی ، وَتَقَبَّلْ مِنِّی ، إنَّک أَنْتَ رَبِّی۔
(٢٩٨٧٨) حضرت ربیع فرماتے ہیں کہ حضرت عمر جب نماز سے فارغ ہوتے تو یوں دعا فرماتے : اے اللہ ! میں آپ سے اپنے گناہوں کی بخشش طلب کرتا ہوں، اور میں آپ سے اپنے امور کے مقاصد میں رہنمائی طلب کرتا ہوں، اور میں آپ سے معافی مانگتا ہوں پس آپ میری معافی کو فرما لیجیئے، اے اللہ ! آپ میرے مالک ہیں پس اپنی طرف میرے رزق کو بڑھا دیجیئے، اور میرے سینے میں اپنے ما سوا سے بےنیازی عطا فرما دیجیئے، اور جو آپ نے مجھے رزق عطا فرمایا ہے اس میں برکت عطا فرما دیجیئے، اور قبو کر میری دعا، یقیناً آپ میرے مالک ہیں۔

29878

(۲۹۸۷۹) حَدَّثَنَا ابْنُ مُبَارَکٍ ، عَن مَعْمَرٍ ، عَن سِمَاکِ بْنِ الْفَضْلِ ، عَن وَہْبِ بْنِ مُنَبِّہٍ قَالَ : مَثَلُ الَّذِی یَدْعُو بِغَیْرِ عَمَلٍ مَثَلُ الَّذِی یَرْمِی بِغَیْرِ وَتَرٍ۔
(٢٩٨٧٩) حضرت سماک بن فضل فرماتے ہیں کہ حضرت وھب بن منبہ نے ارشاد فرمایا : مثال اس شخص کی جو عمل کیے بغیر دعا مانگتا ہے ایسے ہی ہے جیسے کوئی شخص بغیر کمان کے تیر پھینکتا ہے۔

29879

(۲۹۸۸۰) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ ، عَن مَالِکِ بْنِ الْحَارِثِ قَالَ : کَانَ رَبِیعٌ یَأْتِی عَلْقَمَۃَ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ ، قَالَ : فَأَتَاہُ ، وَلَمْ یَکُنْ ثَمَّۃَ ، فَجَائَ رَجُلٌ فَقَالَ : أَلا تَعْجَبُونَ مِنَ النَّاسِ وَکَثْرَۃِ دُعَائِہِمْ وَقِلَّۃِ إجَابَتِہِمْ ، فَقَالَ رَبِیعٌ : تَدْرُونَ لِمَ ذَاکَ ؟ إنَّ اللَّہَ لاَ یَقْبَلُ إِلاَّ النَّخِیلَۃَ مِنَ الدُّعَائِ ، قَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْن یَزِید : فَلَمَّا جِئْتُ أَخْبَرَنِی عَلْقَمَۃ بِقَوْلِ رَبِیعٍ فَقُلْتُ لَہُ : أَمَا سَمِعْتَ قَوْلَ عَبْدَ اللہِ؟ قَالَ: وَمَا ذَاکَ؟ قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللہِ: وَالَّذِی لاَ إلَہَ غَیْرُہُ لاَ یَسْمَعُ اللَّہُ مِنْ مُسَمِّعٍ ، وَلا مِنْ مُرَائِی ، وَلا لاعِبٍ ، وَلا دَاعٍ إِلاَّ دَاعٍ دَعَا بِتَثَبُّتٍ مِنْ قَلْبِہِ۔
(٢٩٨٨٠) حضرت مالک بن حارث فرماتے ہیں : حضرت ربیع جمعہ کے دن حضرت علقمہ کے پاس تشریف لایا کرتے تھے حضرت مالک فرماتے ہیں : پس وہ ایک مرتبہ تشریف لائے تو وہاں کوئی موجود نہیں تھا، پھر ایک آدمی آیا اور کہنے لگا : کیا تمہیں تعجب نہیں ہوتا لوگوں کی کثرت سے دعا کرنے پر اور ان کی دعاؤں کے کم قبول ہونے پر ؟ اس پر حضرت ربیع نے فرمایا : کیا تم لوگوں کو اس کی وجہ معلوم ہے ؟ سنو ! یقیناً اللہ تعالیٰ صرف اخلاص سے مانگی گئی دعا کو قبول فرماتے ہیں حضرت عبد الرحمن بن یزید فرماتے ہیں : جب میں وہاں آیا تو حضرت علقمہ نے حضرت ربیع کے اس قول کے بارے میں مجھے بتلایا، تو میں حضرت ربیع سے کہا : کیا آپ نے حضرت عبداللہ بن مسعود کا قول نہیں سنا ؟ انھوں نے پوچھا : ان کا کیا قول ہے ؟ حضرت عبد الرحمن بن یزید نے فرمایا : حضرت عبداللہ بن مسعود کا ارشاد ہے : قسم ہے اس ذات کی جس کے سوا کوئی معبود نہیں، اللہ تعالیٰ نہیں سنتے کسی گوییّ کی پکار کو، اور نہ ہی ریاکاری کرنے والے کی پکار کو، اور نہ ہی کھیل کود کرنے والے کی پکار کو، اور نہ ہی بلانے والے کی پکار کو مگر اس کی دعا سنتے ہیں جو دل کی گہرائیوں سے دعا مانگتا ہے۔

29880

(۲۹۸۸۱) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَن مَالِکِ بْنِ الْحَارِثِ قَالَ : یَقُولُ اللَّہُ مَنْ شَغَلَہُ ذِکْرِی ، عَن مَسْأَلَتِی أَعْطَیْتہ فَوْقَ مَا أُعْطِی السَّائِلِینَ۔ (بخاری ۱۸۵۰۔ ترمذی ۲۹۲۶)
(٢٩٨٨١) حضرت اعمش فرماتے ہیں کہ حضرت مالک بن حارث نے حدیث قدسی بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا : اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : جس شخص کو میری یاد سوال کرنے سے غافل کر دے، تو میں اس کو سب مانگنے والوں میں سے زیادہ عطا کرتا ہوں۔

29881

(۲۹۸۸۲) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ قَالَ : حدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ أَبُو أُمَیَّۃُ بْنُ فُضَالَۃَ قَالَ : حَدَّثَنَا بَکْرُ بْنُ عَبْدِ اللہِ الْمُزَنِیّ قَالَ أَبُو ذَرٍّ : یَکْفِی مِنَ الدُّعَائِ مَعَ الْبِرِّ مَا یَکْفِی الطَّعَامَ مِنَ الْمِلْحِ۔
(٢٩٨٨٢) حضرت بکر بن عبداللہ المزنی فرماتے ہیں : حضرت ابو زر کا ارشاد ہے : دعا کے ساتھ نیکی کی اتنی ہی ضرورت ہے جتنی کھانے میں نمک کی ہوتی ہے۔

29882

(۲۹۸۸۳) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، عَن مُوسَی بْنِ مُسْلِمَ ، عْن عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ ، رَفَعَہُ قَالَ : مَنْ شَغَلَہُ ذِکْرِی عَن مَسْأَلَتِی أَعْطَیْتہ فَوْقَ مَا أُعْطِی السَّائِلِینَ ، یَعْنِی الرَّبَّ تَبَارَکَ وَتَعَالَی۔
(٢٩٨٨٣) حضرت عمرو بن مرۃ مرفوع حدیث بیان کرتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حدیث قدسی بیان فرمائی : جس شخص کو میری یاد سوال کرنے سے مشغول کر دے، تو میں اس شخص کو سب مانگنے والوں میں زیادہ عطا کرتا ہوں یعنی اللہ تبارک و تعالیٰ ، زیادہ عطا کرتے ہیں۔

29883

(۲۹۸۸۴) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَن شُعْبَۃَ ، عَن یَعْلَی بْنِ عَطَائٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ عَمْرَو بْنَ عَاصِمٍ یُحَدِّثُ ، أَنَّہُ سَمِعَ أَبَا ہُرَیْرَۃَ یَقُولُ : إنَّ أَبَا بَکْرٍ قَالَ لِلنَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : أَخْبِرْنِی بِشَیْئٍ أَقُولُہُ إذَا أَصْبَحْت وَإِذَا أَمْسَیْت، قَالَ : قُلِ : اللَّہُمَّ عَالِمَ الْغَیْبِ وَالشَّہَادَۃِ فَاطِرَ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ ، رَبَّ کُلِّ شَیْئٍ وَمَلِیکَہُ ، أَشْہَدُ أَنْ لاَ إلَہَ إِلاَّ أَنْتَ ، أَعُوذُ بِکَ مِنْ شَرِّ نَفْسِی ، وَمِنَ الشَّیْطَانِ وَشِرْکِہِ ، قُلْہُ إذَا أَمْسَیْت وَإِذَا أَصْبَحْت ، وَإِذَا أَخَذْت مَضْجَعَک۔
(٢٩٨٨٤) حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابوبکر صدیق نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض فرمایا : آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مجھے کوئی ایسی چیز بتادیں جس کو میں صبح و شام کے وقت کہہ لیا کروں، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم کہا کرو : اے اللہ ! غائب اور حاضر کو جاننے والے ، آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے والے، ہر چیز کے مالک اور بادشاہ ! میں گواہی دیتا ہوں کہ تیرے سوا کوئی معبود نہیں، میں اپنے نفس کے شر سے آپ کی پناہ مانگتا ہوں، اور شیطان کے شر سے اور اس کے کارندوں کے شر سے، تم اس دعا کو صبح و شام اور بستر پر لیٹتے وقت پڑھ لیا کرو۔

29884

(۲۹۸۸۵) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ الْحُبَابِ الْعُکْلِیُّ ، حَدَّثَنَا أَبُو مَوْدُودٍ قَالَ : حدَّثَنَی مَنْ سَمِعَ أَبَانَ بْنَ عُثْمَانَ قَالَ : حَدَّثَنَی أَبِی عُثْمَانُ ، أَنَّہُ سَمِعَ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : مَنْ قَالَ إذَا أَصْبَحَ وَإِذَا أَمْسَی ثَلاثَ مِرَارٍ : بِسْمِ اللہِ الَّذِی لاَ یَضُرُّ مَعَ اسْمِہِ شَیْئٌ فِی الأَرْضِ ، وَلا فِی السَّمَائِ وَہُوَ السَّمِیعُ الْعَلِیمُ لَمْ یُصِبْہُ فِی یَوْمِہِ ، وَلا فِی لَیْلَتِہِ شَیْئٌ۔ (ابوداؤد ۵۰۴۷۔ نسائی ۹۸۴۴)
(٢٩٨٨٥) حضرت عثمان فرماتے ہیں کہ یقیناً رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے : جو شخص صبح و شام میں تین مرتبہ یہ دعا پڑھے گا : شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جس کے نام کے ساتھ آسمان اور زمین کی کوئی چیز نقصان نہیں دے سکتی، اور وہ بہت سننے والا، خوب جاننے والا ہے، تو اس شخص کو اس دن اور رات میں کوئی نقصان نہ پہنچے گا۔

29885

(۲۹۸۸۶) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَن زَائِدَۃَ ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عُبَیْدِ اللہِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ بْنِ سُوَیْد ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ یَزِیدَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ قَالَ : کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إذَا أَمْسَی قَالَ : أَمْسَیْنَا وَأَمْسَی الْمُلْکُ لِلَّہِ وَالْحَمْدُ لِلَّہِ لاَ إلَہَ إِلاَّ اللَّہُ وَحْدَہُ لاَ شَرِیکَ لَہُ ، اللَّہُمَّ إنِّی أَسْأَلُک مِنْ خَیْرِ ہَذِہِ اللَّیْلَۃِ وَخَیْرِ مَا فِیہَا ، وَأَعُوذُ بِکَ مِنْ شَرِّہَا وَشَرِّ مَا فِیہَا اللَّہُمَّ إنِّی أَعُوذُ بِکَ مِنَ الْکَسَلِ وَالْہَرَمِ والْکِبَرِ وَفِتْنَۃِ الدُّنْیَا وَعَذَابِ الْقَبْرِ ، وَقَالَ الْحَسَنُ بْنُ عُبَیْدِ اللہِ : وَزَادَنِی فِیہِ زُبَیْدٌ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ بْنِ سُوَیْد ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ یَزِیدَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ، رَفَعَہُ ، قَالَ : لاَ إلَہَ إِلاَّ اللَّہُ وَحْدَہُ ، لاَ شَرِیکَ لَہُ ، لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ وَہُوَ عَلَی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیرٌ۔ (مسلم ۲۰۸۹۔ ابوداؤد ۵۰۳۲)
(٢٩٨٨٦) حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب شام ہوتی تو یہ دعا فرماتے : ہم نے شام کی اور اللہ کے ملک نے شام کی، اور تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں نہیں ہے اللہ کے علاوہ کوئی عبادت کے لائق، جو تنہا ہے اس کا کوئی شریک نہیں ہے۔ اے اللہ ! میں آپ سے اس رات کی بھلائی کا اور جو بھلائی اس رات میں ہے اس کا سوال کرتا ہوں، اور میں آپ کی پناہ مانگتا ہوں اس رات کے شر سے اور جو شر اس رات میں موجود ہے اس سے، اے اللہ ! میں آپ کی پناہ مانگتا ہوں سستی اور بڑھاپے سے، اور تکبر اور دنیا کے فتنہ سے، اور قبر کے عذاب سے۔
اور حضرت حسن بن عبید اللہ فرماتے ہیں : کہ حضرت زبید نے مرفوعًا ان الفاظ کا اضافہ بھی نقل کیا ہے : نہیں ہے کوئی عبادت کے لائق سوائے اللہ کے ، جو تنہا ہے اس کا کوئی شریک نہیں ہے، اس ہی کا ملک ہے اور اسی کے لیے تعریف ہے، اور اس کی ذات ہر چیز پر قدرت رکھنے والی ہے۔

29886

(۲۹۸۸۷) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ ، عَن سُفْیَانَ ، عَن سَلَمَۃَ بْنِ کُہَیْلٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبْزَی ، عَنْ أَبِیہِ قَالَ : کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إذَا أَصْبَحَ قَالَ : أَصْبَحْنَا عَلَی فِطْرَۃِ الإِسْلامِ ، وَکَلِمَۃِ الإِخْلاصِ ، وَدِینِ نَبِیِّنَا مُحَمَّدٍ ، وَمِلَّۃِ أَبِینَا إِبْرَاہِیمَ حَنِیفًا ، وَمَا کان مِنَ الْمُشْرِکِینَ۔
(٢٩٨٨٧) حضرت عبد الرحمن بن أبزی فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب صبح ہوتی تو یہ دعا فرماتے : ہم نے صبح کی فطرتِ اسلام پر ، اور اخلاص سے بھرے کلمہ پر، اور ہمارے نبی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دین پر، اور ہمارے والد حضرت ابراہیم کی ملت حنیفہ پر، اور وہ مشرکین میں سے نہیں تھے۔

29887

(۲۹۸۸۸) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، أَخْبَرَنَا فَائِدٌ أَبُو وَرْقَائَ ، حَدَّثَنَا عَبْدِ اللہِ بْنِ أَبِی أَوْفَی ، قَالَ : کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إذَا أَصْبَحَ یقول : أَصْبَحْنَا وَأَصْبَحَ الْمُلْکُ لِلَّہِ ، وَالْکِبْرِیَائُ وَالْعَظَمَۃُ ، وَالْخَلْقُ وَالأَمْرُ، وَاللَّیْلُ وَالنَّہَارُ ، وَمَا یُضْحَی فِیہِمَا لِلَّہِ وَحْدَہُ ، لاَ شَرِیکَ لَہُ ، اللَّہُمَّ اجْعَلْ أَوَّلَ ہَذَا النَّہَارِ صَلاحًا، وَأَوْسَطَہُ فَلاحًا ، وَآخِرَہُ نَجَاحًا ، أَسْأَلُک خَیْرَ الدُّنْیَا ، یَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِینَ۔ (عبد بن حمید ۵۳۱)
(٢٩٨٨٨) حضرت عبداللہ بن ابی اوفی فرماتے ہیں کہ جب صبح ہوتی تھی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یوں دعا فریایا کرتے تھے : ہم نے صبح کی اور اللہ کے ملک نے صبح کی، اللہ کی کبریائی اور بڑائی نے، اور مخلوق اور معاملہ نے، اور دن اور رات نے، اور جو کچھ ان دونوں میں ہوتا ہے، اس اللہ کے لیے جو اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں۔ اے اللہ ! تو اس دن کے اول حصہ کو درست بنا دے ، اور اس کے درمیانی حصہ کو کامیابی بنا دے، میں تجھ سے سوال کرتا ہوں دنیا کی بھلائی کا، اے تمام رحم کرنے والوں میں سے سب سے بڑھ کر رحم کرنے والے۔

29888

(۲۹۸۸۹) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، حَدَّثَنَا عُبَادَۃُ بْنُ مُسْلِمٍ الْفَزَارِیّ ، حَدَّثَنَا جُبَیْرُ بْنُ أَبِی سُلَیْمَانَ بْنِ جُبَیْرِ بْنِ مُطْعِمٍ ، زَعَمَ أَنَّہُ کَانَ جَالِسًا مَعَ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ فَقَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ فِی دُعَائِہِ حِینَ یُمْسِی وَحِینَ یُصْبِحُ لَمْ یَدَعْہُ حَتَّی فَارَقَ الدُّنْیَا ، أَوْ حَتَّی مَاتَ : اللَّہُمَّ إنِّی أسْأَلُک الْعَافِیَۃَ فِی الدُّنْیَا وَالآخِرَۃِ اللَّہُمَّ إنِّی أَسْأَلُک الْعَفْوَ وَالْعَافِیَۃَ فِی دِینِی وَدُنْیَایَ وَأَہْلِی وَمَالِی ، اللَّہُمَّ اسْتُرْ عَوْرَاتِی وَآمِنْ رَوْعَاتِی ، اللَّہُمَّ احْفَظْنِی مِنْ بَیْنِ یَدَیَّ وَمِنْ خَلْفِی ، وَعَن یَمِینِی وَعَن شِمَالِی وَمِنْ فَوْقِی ، وَأَعُوذُ بِعَظَمَتِکَ أَنْ أُغْتَالَ مِنْ تَحْتِی ، قَالَ جُبَیْرٌ : وَہُوَ الْخَسْفُ ، وَلا أَدْرِی : قَوْلُ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، أَوْ قَوْلُ جُبَیْرٍ۔ (نسائی ۷۹۷۱)
(٢٩٨٨٩) حضرت جبیر بن أبی سلیمان فرماتے ہیں کہ میں حضرت عبداللہ بن عمر کے ساتھ بیٹھا تھا تو آپ نے فرمایا : میں سنتا تھا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صبح و شام یہ دعا فرمایا کرتے تھے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس دعا کو نہیں چھوڑا یہاں تک کہ دنیا چھوڑ گئے یا یوں فرمایا : یہاں تک کہ وصال فرما گئے : اے اللہ ! میں تجھ سے دنیا و آخرت میں عافیت کا سوال کرتا ہوں، اے اللہ ! میں تجھ سے اپنے دین، اپنی دنیا، اپنے اہل اور اپنے مال میں معافی اور عافیت کا سوال کرتا ہوں، اے اللہ ! میری پردہ داری فرما، اور میری گھبراہٹ کو بےخوفی و اطمینان سے بدل، اے اللہ ! میرے سامنے سے، میرے پیچھے سے ، میری دائیں طرف سے، اور میری بائیں طرف سے اور میرے اوپر سے میری حفاظت کر، اور میں تیری عظمت کی پناہ چاہتا ہوں اس بات سے کہ اچانک اپنے نیچے سے ہلاک کیا جاؤں۔
حضرت جبیر فرماتے ہیں : اس کا مطلب ہے دھنسنا، اور میں نہیں جانتا کہ یہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مراد ہے یا جُبیر کی۔

29889

(۲۹۸۹۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن عُبَادَۃَ ، عَن جُبَیْرِ بْنِ أَبِی سُلَیْمَانَ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِنَحْوٍ مِنْہُ۔ (ابوداؤد ۵۰۳۵۔ ابن حبان ۹۶۱)
(٢٩٨٩٠) حضرت ابن عمر سے ما قبل جیسا نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد اس سند کے ساتھ بھی منقول ہے۔

29890

(۲۹۸۹۱) حَدَّثَنَا عَبِیدَۃُ بْنُ حُمَیْدٍ ، عَن مَنْصُورٍ ، عَن مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْکَدِرِ قَالَ : حُدِّثْتُ أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یَقُولُ إذَا أَصْبَحَ : بِکَ أَصْبَحْنَا وَبِکَ نَحْیَا وَبِکَ نَمُوتُ وَإِلَیْک النُّشُور وَإِذَا أَمْسَی قَالَ : اللہم بِکَ أَمْسَیْنَا وَبِکَ نَحْیَا وَبِکَ نَمُوتُ وَإِلَیْک الْمَصِیرُ۔
(٢٩٨٩١) حضرت محمد بن منکدر فرماتے ہیں مجھے بیان کیا گیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب صبح ہوتی تو یوں فرماتے تھے : اے اللہ ! تیرے نام کے ساتھ ہم صبح کرتے ہیں، اور تیرے نام کے ساتھ ہم زندہ ہیں اور تیرے نام کے ساتھ ہی ہم مریں گے، اور تیری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے۔ اور جب شام ہوتی تو یوں دعا فرماتے : اے اللہ ! تیرے نام کے ساتھ ہم شام کرتے ہیں ، اور تیرے نام کے ساتھ ہم زندہ ہیں، اور تیرے نام کے ساتھ ہم مریں گے۔ اور تیری طرف ہی ٹھکانا ہے۔

29891

(۲۹۸۹۲) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، حَدَّثَنَا مِسْعَرٌ قَالَ : حدَّثَنَی أَبُو عَقِیلٍ عَن سَابِقٍ ، عَنْ أَبِی سَلاَّمٍ خَادِمِ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، عن رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : مَا مِنْ مُسْلِمٍ ، أَوْ إنْسَانٍ ، أَوْ عَبْدٍ یَقُولُ حِینَ یُمْسِی وَحِینَ یُصْبِحُ ثَلاثَ مَرَّاتٍ رَضِیت بِاللہِ رَبًّا ، وَبِالإِسْلامِ دِینًا ، وَبِمُحَمَّدٍ نَبِیًّا ، إِلاَّ کَانَ حَقًّا عَلَی اللہِ أَنْ یُرْضِیَہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ۔
(٢٩٨٩٢) حضرت ابو سلام جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خادم ہیں ، وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے : کوئی بھی مسلمان یا انسان یا بندہ ایسا نہیں ہے جو صبح و شام تین مرتبہ یہ دعا پڑھتا ہو : میں اللہ کو رب مان کر ، اور اسلام کو دین مان کر، اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نبی مان کر راضی ہوں، مگر اللہ تعالیٰ پر اس بندے کا یہ حق ہے کہ قیامت کے دن اسے راضی کردیں۔

29892

(۲۹۸۹۳) حَدَّثَنَا زَیْدٌ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ شُرَیْحٍ ، حَدَّثَنِی أَبُو ہَانِئٍ ، عَنْ أَبِی عَلِیٍّ الْجَنَبِیِّ ، قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ یَقُولُ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَنْ قَالَ رَضِیت بِاللہِ رَبًّا وَبِالإِسْلامِ دِینًا وَبِمُحَمَّدٍ رَسُولا ، وَجَبَتْ لَہُ الْجَنَّۃُ۔ (ابوداؤد ۱۵۲۴۔ حاکم ۹۳)
(٢٩٨٩٣) حضرت ابو سعید الخدری فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے : جو شخص کہتا ہے : میں اللہ کو رب مان کر، اور اسلام کو دین مان کر، اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو رسول مان کر راضی ہوں، تو اس شخص کے لیے جنت واجب ہوگئی۔

29893

(۲۹۸۹۴) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْمُجَبَّرِ ، عَن صَفْوَانَ بْنِ سُلَیْمٍ ، عَنْ عَطَائِ بْنِ یَسَارٍ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَنْ قَالَ حِینُ یُمْسِی : رَضِیت بِاللہِ رَبًّا ، وَبِالإِسْلامِ دِینًا ، وَبِمُحَمَّدٍ رَسُولاً ، فَقَدْ أَصَابَ حَقِیقَۃَ الإِیمَانِ۔
(٢٩٨٩٤) حضرت عطاء بن یسار فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جو شخص شام کے وقت کہے : میں اللہ کو رب مان کر، اور اسلام کو دین مان کر ، اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو رسول مان کر راضی ہوں، تحقیق اس شخص نے ایمان کی حقیقت کو پا لیا۔

29894

(۲۹۸۹۵) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، حَدَّثَنَا مِسْعَرٌ ، عَن بُکَیْر بْنِ الأَخْنَسِ قَالَ : مَنْ قَالَ حِینَ یُمْسِی وَیُصْبِحُ ثَلاثًا، اللَّہُمَّ إنِّی أَمْسَیْت أَشْہَدُ ، وَإِذَا أَصْبَحَ قَالَ : اللَّہُمَّ أَصْبَحْت أَشْہَدُ ، أَنَّہُ مَا أَصْبَحَ بِنَا مِنْ عَافِیَۃٍ وَنِعْمَۃٍ، فَمِنْک وَحْدَک ، لاَ شَرِیکَ لَکَ ، فَلَکَ الْحَمْدُ لَمْ یُسْأَلْ عَن نِعْمَۃٍ کَانَتْ فِی لَیْلَتِہِ تِلْکَ ، وَلا یَوْمِہِ ، إِلاَّ قَدْ أَدَّی شُکْرَہَا۔ (ابوداؤد ۵۰۳۴۔ ابن حبان ۸۶۱)
(٢٩٨٩٥) حضرت مسعر فرماتے ہیں کہ حضرت بکیر بن الاخنس نے ارشاد فرمایا : جو شخص صبح و شام تین مرتبہ یہ دعا پڑھے گا : اے اللہ ! میں نے شام کی میں گواہی دیتا ہوں، اور صبح کے وقت یوں کہے : اے اللہ ! میں نے صبح کی میں گواہی دیتا ہوں ، یقیناً آج کے دن ہم میں سے کسی پر جو عافیت اور نعمت ہے ، وہ صرف آپ کی جانب سے ہے، اس کی نعمت و عافیت کی عطا میں اور کوئی آپ کا شریک نہیں ہے، سو آپ کے لیے ہی تعریف ہے، اس آدمی کے پاس اس رات اور اس دن میں جو کوئی نعمت ہوگی اس کا سوال نہیں کیا جائے گا، مگر یہ کہ اس بندے نے اس نعمت کا شکر ادا کردیا ہوگا۔

29895

(۲۹۸۹۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ بْنِ عَبْدِ الْمَلِکِ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُبَیْدِ بْنِ عُمَیْرٍ ، عَن عُبَیْدِ بْنِ عُمَیْرٍ ، أَنَّہُ کَانَ یَقُولُ إذَا أَصْبَحَ وَأَمْسَی : اللَّہُمَّ إنِّی أَسْأَلُک عِنْدَ حَضْرَۃِ صَلاواتک وَقِیَامِ دُعَاتِکَ أَنْ تَغْفِرَ لِی وَتَرْحَمَنِی۔
(٢٩٨٩٦) حضرت عبداللہ بن عبید فرماتے ہیں کہ حضرت عبید بن عمیر صبح و شام کے وقت یہ دعا کرتے تھے : اے اللہ ! میں آپ سے سوال کرتا ہوں نمازوں کے حاضر ہونے کے وقت اور آپ کے پکارنے والوں کے قیام کے وقت کہ آپ میری مغفرت فرما دیں اور مجھ پر رحم فرما دیجیے۔

29896

(۲۹۸۹۷) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ إدْرِیسَ ، عَن حُصَیْنٍ ، عَن تَمِیمِ بْنِ سَلَمَۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ سَخْبَرَۃَ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، أَنَّہُ کَانَ یَقُولُ إذَا أَصْبَحَ أو أَمْسَی : اللَّہُمَّ اجْعَلْنِی أَفْضَلِ عِبَادِکَ الْغَدَاۃَ ، أَو اللَّیْلَۃَ نَصِیبًا مِنْ خَیْرٍ تَقْسِمُہُ ، وَنُورٍ تَہْدِی بِہِ ، وَرَحْمَۃٍ تَنْشُرہا ، وَرِزْقٍ تَبْسُطُہُ ، وَضُرٍّ تَکْشِفُہُ ، وَبَلائٍ تَرْفَعُہُ ، وَشَرٍّ تَدْفَعُہُ ، وَفِتْنَۃٍ تَصْرِفُہَا۔
(٢٩٨٩٧) حضرت عبداللہ بن سبرہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عمر صبح یا شام کے وقت یہ دعا فرماتے تھے : اے اللہ ! مجھے دن کو یا رات کو تیرے بندوں میں سب سے افضل و بہتر بنا دے، حصہ دیتے ہوئے اس خیر میں سے جس کو تو تقسیم کرتا ہے، اس نور سے جس کے ذریعہ تو ہدایت دیتا ہے، اور اس رحمت سے جس کو تو پھیلاتا ہے، اور اس رزق سے جس کو تو کشادہ کرتا ہے، اس تکلیف سے جس کو تو ہٹا دیتا ہے، اور اس بلاء سے جس کو تو رفع فرماتا ہے، اور اس شر سے جس کو تو دفع کرتا ہے، اور اس فتنہ سے جس کو تو پھیر دیتا ہے۔

29897

(۲۹۸۹۸) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ إدْرِیسَ ، عَن حُصَیْنٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ قَالَ : قُلْتُ لِسَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ مَا تَقُولُونَ إذَا أَصْبَحْتُمْ وَأَمْسَیْتُمْ مِمَّا تَدْعُونَ بِہِ ، قَالَ : نَقُولُ : أَعُوذُ بِوَجْہِ اللہِ الْکَرِیمِ وَاسْمِ اللہِ الْعَظِیمِ وَکَلِمَۃِ اللہِ التَّامَّۃِ مِنْ شَرِّ السَّامَّۃِ وَاللاَّمَّۃِ وَمِنْ شَرِّ مَا جَہِلت أَیْ رَبِ ، وَشَرِّ مَا أَنْتَ آخِذٌ بِنَاصِیَتِہِ ، وَمِنْ شَرِّ ہَذَا الْیَوْمِ وَشَرِّ مَا بَعْدَہُ ، وَشَرِّ الدُّنْیَا وَالآخِرَۃِ۔
(٢٩٨٩٨) حضرت عمرو بن مُرّہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت سعید بن المسیب سے پوچھا : کہ آپ لوگ صبح و شام کے وقت کون سی دعا مانگتے ہو ؟ وہ فرمانے لگے : ہم یوں دعا کرتے ہیں : میں پناہ پکڑتا ہوں اللہ کی ذات کے ساتھ جو بہت سخی ہے، اور اللہ کے نام کے ساتھ جو بہت عظمت والا ہے، اور اللہ کے پورے پورے کلمہ کے ساتھ، موت اور نظر بد کے شر سے، اے میرے مالک ! جس چیز سے میں ناواقف ہوں اس کے شر سے، اور جس کی پیشانی تو نے پکڑی ہوئی ہے اس کے شر سے، اور اس دن کے شر سے، اور جو کچھ اس دن کے بعد ہے اس کے شر سے، اور دنیا و آخرت کے شر سے۔

29898

(۲۹۸۹۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن سُفْیَانَ ، عَن مَنْصُورٍ ، عَن رِبْعِیٍّ ، عَن رَجُلٍ مِنَ النَّخَعِ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَن سَلْمَانَ قَالَ: مَنْ قَالَ إذَا أَصْبَحَ وَإِذَا أَمْسَی اللَّہُمَّ أَنْتَ رَبِّی لاَ شَرِیکَ لَکَ ، أَصْبَحْنَا وَأَصْبَحَ الْمُلْکُ لَکَ لاَ شَرِیکَ لَہ ، غفر لہ ما أَحَدَثَ بَیْنَہُمَا۔
(٢٩٨٩٩) حضرت سلمان ارشاد فرماتے ہیں : جو شخص صبح کے وقت اور شام کے وقت یہ کلمات کہے : اے اللہ ! آپ میرے پالنے والے ہیں آپ کا کوئی شریک نہیں ہے، ہم نے صبح کی اور اللہ کے ملک و سلطنت نے صبح کی، جس کا کوئی شریک نہیں، تو ان دونوں وقتوں کے درمیان اس نے جو گناہ کیے ہوں ان کی مغفرت کردی جاتی ہے۔

29899

(۲۹۹۰۰) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِِ ، عَن مَنْصُورٍ ، عَن رِبْعِیٍّ بن حراش عَن رَجُلٍ مِنَ النَّخَعِ ، عَن سَلْمَانَ قَالَ : مَنْ قَالَ إذَا أَصْبَحَ اللَّہُمَّ أَنْتَ رَبِّی لاَ شَرِیکَ لَکَ کَانَ کَفَّارَۃً لِمَا أَحْدَثَ بَیْنَہُمَا۔
(٢٩٩٠٠) حضرت سلمان ارشاد فرماتے ہیں : جو شخص صبح کے وقت یہ کلمات کہے : اے اللہ ! آپ میرے پالنے والے ہیں آپ کا کوئی شریک نہیں ہے، تو یہ کلمات کفارہ بن جائیں گے اس کے ان کاموں کے لیے جو اس نے صبح و شام کے درمیان کیے ہوں گے۔

29900

(۲۹۹۰۱) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، عَن مُوسَی الْجُہَنِیِّ قَالَ : حدَّثَنِی رَجُلٌ ، عَن سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ قَالَ : مَنْ قَالَ سُبْحَانَ اللہِ حِینَ تُمْسُونَ وَسُبْحَانَ اللہِ حِینَ تُصْبِحُونَ حَتَّی یَفْرُغَ مِنَ الآیَۃِ ثَلاثَ مَرَّاتٍ أَدْرَکَ مَا فَاتَہُ مِنْ یَوْمِہِ۔
(٢٩٩٠١) حضرت موسیٰ الجھنی ایک شخص کے حوالے سے حضرت سعید بن جُبیر کا ارشاد نقل فرماتے ہیں : جو شخص تین مرتبہ اس آیت کو پڑھے گا : اللہ کی پاکی ہے جب تم شام کرتے ہو اور جب تم صبح کرتے ہو، جب وہ یہ آیت پڑھ لے گا ، جو عمل اس سے گزری ہوئی رات میں رہ گیا تھا تو اس کے برابر ثواب پالے گا، اور اگر ان کلمات کو دن میں کہا تو جو عمل اس سے گزرے ہوئے دن میں رہ گیا تھا اس کے برابر ثواب پالے گا۔

29901

(۲۹۹۰۲) حَدَّثَنَا الحَسَنُ بْنُ مُوسَی ، عَن حَمَّادِ بْنِ سَلَمَۃَ ، عَن سُہَیْلٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ أَبِی عَیَّاشٍ الزُّرَقِیِّ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَنْ قَالَ حِینَ یُصْبِحُ : لاَ إلَہَ إِلاَّ اللَّہُ وَحْدَہُ لاَ شَرِیکَ لَہُ ، لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ وَہُوَ عَلَی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیرٌ کَانَ لَہُ کَعَدْلِ رَقَبَۃٍ مِنْ وَلَدِ إسْمَاعِیلَ ، وَکُتِبَتْ لَہُ بِہَا عَشْرُ حَسَنَاتٍ، وَحُطَّتْ بِہَا عَنہُ عَشْرُ سَیِّئَاتٍ ، وَرُفِعَتْ لَہُ بِہَا عَشْرُ دَرَجَاتٍ ، وَکَانَ فِی حِرْزٍ مِنَ الشَّیْطَانِ حَتَّی یُمْسِیَ ، وَإِذَا أَمْسَی مِثْلُ ذَلِکَ حَتَّی یُصْبِحَ۔
(٢٩٩٠٢) حضرت ابو عیاش الزرقی فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جو شخص صبح کے وقت یہ کلمات کہے : نہیں ہے کوئی معبود سوائے اللہ کے جو تنہا ہے جس کا کوئی شریک نہیں ہے، اسی کا ملک ہے اور اسی کے لیے تعریف ہے، اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے تو اس شخص کو حضرت اسماعیل کی اولاد میں سے ایک غلام آزاد کرنے کا ثواب ملے گا، اور اس شخص کے لیے اس عمل کی وجہ سے دس نیکیاں لکھی جائیں گی، اور اس کے دس گناہوں کو مٹا دیا جائے گا، اور اس کے دس درجات بلند کیے جائیں گے، اور وہ شخص شام تک شیطان سے حفاظت میں رہے گا، اور جب شام کے وقت یہ کلمات کہے گا تو صبح تک یہ فوائد حاصل ہوں گے۔

29902

(۲۹۹۰۳) حَدَّثَنَا الحَسَنُ بْنُ مُوسَی ، عَن حَمَّادِ بْنِ سَلَمَۃَ ، عَن سُہَیْلٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ : کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ إذَا أَصْبَحَ : اللَّہُمَّ بِکَ أَصْبَحْنَا وَبِکَ أَمْسَیْنَا ، وَبِکَ نَحْیَا وَبِکَ نَمُوتُ ، وَإِلَیْک الْمَصِیرُ۔ (ابوداؤد ۵۰۲۹۔ ترمذی ۳۳۹۱)
(٢٩٩٠٣) حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب صبح ہوتی تو یہ کلمات کہا کرتے تھے : اے اللہ ! تجھ سے ہم نے صبح کی اور تجھ سے ہم نے شام کی، اور تیری وجہ سے ہم زندہ ہیں، اور تیرے حکم سے ہی ہم مریں گے، اور تیری طرف ہی لوٹنا ہے۔

29903

(۲۹۹۰۴) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ قَالَ : حدَّثَنَی فِطْرٌ قَالَ : حَدَّثَنَی عَبْدُ اللہِ بْنُ عُبَیْدِ بْنِ عُمَیْرٍ ، عَن رَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ قَالَ : مَنْ قَالَ حِینَ یُصْبِحُ لاَ إلَہَ إِلاَّ اللَّہُ وَحْدَہُ ، لاَ شَرِیکَ لَہُ ، لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ ، بِیَدِہِ الْخَیْرُ وَہُوَ عَلَی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیرٌ عَشْرَ مَرَّاتٍ ، رُفِعَ لَہُ عَشْرُ دَرَجَاتٍ ، وَمُحِیَ عَنہُ عَشْرُ سَیِّئَاتٍ ، وَبَرِئَ یَوْمَئِذٍ مِنَ النِّفَاقِ حَتَّی یُمْسِی ، وَإِنْ قَالَ حِینَ یُمْسِی کَانَ مِثْلَ ذَلِکَ ، وَبَرِئَ مِنَ النِّفَاقِ حَتَّی یُصْبِحَ۔
(٢٩٩٠٤) حضرت عبداللہ بن عبید بن عمیر فرماتے ہیں کہ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ میں سے ایک شخص نے فرمایا : جو شخص صبح کے وقت دس مرتبہ یہ کلمات پڑھے گا : اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے جو تنہا ہے، جس کا کوئی شریک نہیں ہے، اسی کے لیے ملک ہے اور اسی کے لیے تعریف ہے، اسی کے قبضہ میں بھلائی ہے، اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔ تو اس کے دس درجہ بلند کیے جاتے ہیں، اور اس کی دس برائیاں مٹا دی جاتی ہیں، اور وہ شخص اس دن شام تک نفاق سے بری ہوجاتا ہے، اور اگر شام کے وقت یہ کلمات کہے گا، تو اتنا ہی ثواب ملے گا، اور صبح تک نفاق سے بری ہوگا۔

29904

(۲۹۹۰۵) حَدَّثَنَا الحَسَنُ بْنُ مُوسَی ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَن یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ بْنِ حَیَّانَ ، عَنْ أَبِی زُرْعَۃَ بْنِ عَمْرِو بْنِ جَرِیرٍٍ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، عَن کَعْبٍ قَالَ : أَجِدُ فِی التَّوْرَاۃِ : مَنْ قَالَ إِذَا أَصْبحَ : اللَّہُمَّ إنِّی أَعُوذُ بِاسْمِکَ وَبِکَلِمَاتِکَ التَّامَّۃِ مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیمِ ، اللَّہُمَّ إنِّی أَعُوذُ بِاسْمِکَ وَبِکَلِمَاتِکَ التَّامَّۃِ مِنْ عذابک وَشَرِّ عِبَادِکَ ، اللَّہُمَّ إنِّی أَسْأَلُکَ بِاسْمِکَ وَکَلِمَاتِکَ التَّامَّۃِ مِنْ خَیْرِ مَا تُسْأَلُ وَمِنْ خَیْرِ مَا تُعْطِی وَمِنْ خَیْرِ مَا تُبْدِی وَمِنْ خَیْرِ مَا تُخْفِی : اللَّہُمَّ إنِّی أَعُوذُ بِکَ بِاسْمِکَ وَبِکَلِمَاتِکَ التَّامَّۃِ مِنْ شَرِّ مَا تَجَلَّی بِہِ النَّہَارُ ، لَمْ تُطِفْ بِہِ الشَّیَاطِینُ ، وَلا لِشَیْئٍ یَکْرَہُہُ ، وَإِذَا قَالَہُنَّ إذَا أَمْسَی کَمِثْلِ ذَلِکَ غَیْرَ أَنَّہُ یَقُولُ : مِنْ شَرِّ مَا دَجَا بِہِ اللَّیْلُ۔
(٢٩٩٠٥) حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ حضرت کعب نے ارشاد فرمایا : میں نے توراۃ میں لکھا پایا تھا جو شخص صبح کے وقت یہ کلمات کہے : اے اللہ ! میں آپ کے نام کے ساتھ اور آپ کے کامل کلمات کے ساتھ شیطان مردود سے پناہ مانگتا ہوں، اے اللہ ! میں آپ کے نام کے ساتھ اور آپ کے کامل کلمات کے ساتھ آپ کے عذاب سے اور آپ کے بندوں کے شر سے پناہ مانگتا ہوں ، اے اللہ ! میں آپ کے نام کے ساتھ اور آپ کے کامل کلمات کے ساتھ آپ سے ہر اس خیر کا سوال کرتا ہوں جو آپ سے مانگی جاسکتی ہے، اور ہر اس خیر کا جو آپ عطا کرتے ہیں، اور ہر اس خیر کا جو آپ ظاہر کرتے ہیں، اور ہر اس خیر کا جو آپ چھپاتے ہیں، اے اللہ ! میں آپ کی آپ کے نام کے ساتھ اور آپ کے کامل کلمات کے ساتھ پناہ مانگتا ہوں ہر اس شر سے جو دن میں ظاہر ہوتا ہے۔ تو شیطان اس شخص کے قریب بھی نہیں پھٹکیں گے، اور نہ ہی کوئی چیز اسے ناپسند لگے گی، اور جب ان کلمات کو شام کے وقت کہے گا تب بھی یہ فوائد حاصل ہوں گے، مگر یہ کہ آخری جملہ کی بجائے یوں کہے : اور ہر اس چیز کے شر سے جس کو رات نے چھپایا ہوا ہے۔

29905

(۲۹۹۰۶) حَدَّثَنَا سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنِ الْبَرَائِ قَالَ کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إذَا أَخَذَ مَضْجَعَہُ قَالَ : اللَّہُمَّ إلَیْک أَسْلَمْت نَفْسِی ، وَوَجَّہْت وَجْہِی ، وَإِلَیْک فَوَّضْت أَمْرِی : وَإِلَیْک أَلْجَأْت ظَہْرِی رَغْبَۃً وَرَہْبَۃً إلَیْک ، لاَ مَلْجَأَولا مَنْجَی مِنْک إِلاَّ إلَیْک : آمَنْت بِکِتَابِکَ الَّذِی أَنْزَلْت ، وَبِنَبِیِّکَ ، أَوْ رَسُولِکَ الَّذِی أَرْسَلْت۔
(٢٩٩٠٦) حضرت برائ فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب بستر پر لیٹتے تھے تو یہ دعا فرماتے : اے اللہ ! میں نے اپنے نفس کو تیرے ہی تابع کیا، اور اپنا چہرہ تیری طرف ہی پھیرلیا، اور اپنا معاملہ تیرے سپرد کیا، اور اپنی پشت تیری طرف جھکائی تیری طرف رغبت کرتے ہوئے اور تجھ سے ڈرتے ہوئے، نہ تجھ سے پناہ کی کوئی جگہ ہے اور نہ بھاگ کر جانے کی مگر تیری ہی طرف، میں ایمان لایا تیری کتاب پر جو تو نے اتاری، اور تیرے نبی پر، یا تیرے رسول پر، جو تو نے بھیجا۔

29906

(۲۹۹۰۷) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِِ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنِ الْبَرَائِ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِرَجُلٍ : یَا فُلانُ ، إذَا أَویْت إِلَی فِرَاشِکَ فَقُلِ : اللَّہُمَّ أَسْلَمْت نَفْسِی إلَیْک ، وَوَلَّیْت ظَہْرِی إلَیْک ، ثُمَّ ذَکَرَ نَحْوَہُ إِلاَّ أَنَّہُ قَالَ : فَإِنْ مِتَّ مِنْ لَیْلَتِکَ مِتَّ عَلَی الْفِطْرَۃِ ، وَإِنْ أَصْبَحْت أَصَبْت خَیْرًا۔
(٢٩٩٠٧) حضرت برائ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک آدمی سے فرمایا : اے فلاں ! جب تو اپنے بستر پر لیٹے تو یہ کلمات کہہ : ” اے اللہ ! میں نے اپنے نفس کو تیرے تابع کیا، اور اپنی پشت کو تیری طرف جھکایا۔ “ پھر ما قبل جیسا مضمون ذکر فرمایا مگر یہ بھی فرمایا : پس اگر تو اس رات کو مرگیا تو تیری موت فطرت پر واقع ہوگی، اور اگر تو نے صبح کی تو پھر خیر کو پالے گا۔

29907

(۲۹۹۰۸) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَن شُعْبَۃَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ ، عَن سَعْدِ بْنِ عُبَیْدَۃَ ، عَنِ الْبَرَائِ بْنِ عَازِبٍ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، أَنَّہُ قَالَ لِرَجُلٍ : إذَا أَخَذْت مَضْجَعَک فَقُلِ : اللَّہُمَّ إنِّی أَسْلَمْت نَفْسِی إلَیْک ، وَوَجَّہْت وَجْہِی إلَیْک ، وَفَوَّضْت أَمْرِی إلَیْک ، وَأَلْجَأْت ظَہْرِی إلَیْک رَہْبَۃً وَرَغْبَۃً إلَیْک ، لاَ مَنْجَی ، وَلا مَلْجَأَ مِنْک إِلاَّ إلَیْک ، آمَنْت بِکِتَابِکَ الَّذِی أَنْزَلْت وَنَبِیِّکَ الَّذِی أَرْسَلْت فَإِنْ مِتَّ مِتَّ عَلَی الْفِطْرَۃِ۔
(٢٩٩٠٨) حضرت براء بن عازب فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک آدمی سے ارشاد فرمایا : جب تو اپنے بستر پر لیٹے تو یہ کلمات کہہ لیا کر : اے اللہ ! میں نے اپنے نفس کو تیرے تابع کیا، اور تیری طرف اپنا چہرہ کیا، اور تیری طرف اپنے معاملہ کو سپرد کیا، اور تیری طرف ہی اپنی پشت کو پھیرا ، تیری طرف رغبت کرتے ہوئے اور تجھ سے ڈرتے ہوئے، اور نہ تجھ سے بھاگ کر جانے کی کوئی جگہ ہے اور نہ ہی تجھ سے پناہ کی کوئی جگہ ہے مگر تیری طرف، میں ایمان لایا تیری کتاب پر جو تو نے اتاری، اور میں ایمان لایا تیرے نبی پر جو تو نے بھیجا۔ پھر اگر تو اس رات کو مرگیا تو تیری موت فطرت پر واقع ہوگی۔

29908

(۲۹۹۰۹) حَدَّثَنَا عَبِیدَۃُ بْنُ حُمَیْدٍ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ عُمَیْرٍ ، عَن رِبْعِیِّ بْنِ حِرَاشٍ ، عَن حُذَیْفَۃَ قَالَ : کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إذَا أَخَذَ مَضْجَعَہُ قَالَ : اللَّہُمَّ بِاسْمِکَ أَمُوتُ وَأَحْیَا ، وَإِذَا قَامَ قَالَ : الْحَمْدُ لِلَّہِ الَّذِی أَحْیَانَا بَعْدَ مَا أَمَاتَنَا وَإِلَیْہِ النُّشُورُ۔
(٢٩٩٠٩) حضرت حذیفہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب بستر پر لیٹتے تو یہ دعا فرماتے : اے اللہ ! میں تیرے ہی نام کے ساتھ مرتا ہوں اور زندہ ہوتا ہوں، اور جب نیند سے اٹھتے تو یہ دعا فرماتے : سب تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جس نے ہمیں مارنے کے بعد زندہ کیا اور اسی کی طرف اٹھ کر جانا ہے۔

29909

(۲۹۹۱۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن سُفْیَانَ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ عُمَیْرٍ ، عَن رِبْعِیٍّ ، عَن حُذَیْفَۃَ قَالَ : کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إذَا نَامَ قَالَ : بِاسْمِکَ أَحْیَا وَأَمُوتُ ، وَإِذَا اسْتَیْقَظَ قَالَ : الْحَمْدُ لِلَّہِ الَّذِی أَحْیَانَا بَعْدَ مَا أَمَاتَنَا وَإِلَیْہِ النُّشُورُ۔
(٢٩٩١٠) حضرت حذیفہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سوتے وقت یہ دعا فرماتے : تیرے نام کے ساتھ زندہ ہوتا ہوں اور مرتا ہوں۔ اور جب بیدار ہوتے تو یہ دعا فرماتے : سب تعریفیں اللہ کے لیے جس نے ہمیں مارنے کے بعد زندہ کیا ۔ اور اسی کی طرف اٹھ کر جانا ہے۔

29910

(۲۹۹۱۱) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَن مَنْصُورٍ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ عُمَیْرٍ ، عَن رِبْعِیٍّ ، عَن حُذَیْفَۃَ ، عن النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِمِثْلِہِ ، الشَّکُّ مِنْ جَرِیرٍ فِی عَبْدِ الْمَلِکِ ، أَوْ مَنْصُورٍ۔
(٢٩٩١١) حضرت حذیفہ سے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مذکورہ ارشاد اس سند کے ساتھ بھی نقل کیا گیا ہے۔ اور سند میں شک حضرت جریر کی طرف ہے جو عبد الملک یا منصور کے بارے میں ہے۔

29911

(۲۹۹۱۲) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ ، عَنْ أَبِیہِ قَالَ : کُنْتُ قَاعِدًا عِنْدَ عَمَّارٍ فَأَتَاہُ رَجُلٌ فَقَالَ : أَلا أُعَلِّمُک کَلِمَاتٍ کَأَنَّہُ یَرْفَعُہُنَّ إِلَی النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إذَا أَخَذْت مَضْجَعَک مِنَ اللَّیْلِ فَقُلِ : اللَّہُمَّ أَسْلَمْت نَفْسِی إلَیْک ، وَفَوَّضْت أَمْرِی إلَیْک ، وَأَلْجَأْت ظَہْرِی إلَیْک ، آمَنْت بِکِتَابِکَ الْمُنَزَّلِ وَنَبِیِّکَ الْمُرْسَلِ ، اللَّہُمَّ نَفْسِی خَلَقْتہَا ، لَکَ مَحْیَاہَا وَلَک مَمَاتُہَا ، فَإِنْ کَفَتَّہَا فَارْحَمْہَا ، وَإِنْ أَخَّرْتہَا فَاحْفَظْہَا بِحِفْظِ الإِیمَانِ۔
(٢٩٩١٢) حضرت سائب فرماتے ہیں کہ میں حضرت عمار کے پاس بیٹھا تھا کہ آدمی ان کی خدمت میں حاضر ہوا۔ تو آپ نے فرمایا : کیا میں تجھے چند کلمات نہ سکھاؤں۔ گویا وہ ان کلمات کو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف منسوب فرما رہے تھے۔ کہ جب تو رات کو اپنے بستر پر لیٹے تو ان کلمات کو کہہ لیا کر : اے اللہ ! میں نے اپنے نفس کو تیرے تابع کیا، اور میں نے اپنا چہرہ تیری طرف کیا، اور میں نے اپنا معاملہ تیرے سپرد کیا، اور میں نے اپنی پشت کو تیری طرف پھیرا، میں ایمان لایا تیری کتاب پر جو اتاری گئی ہے، اور تیرے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جس کو بھیجا گیا ہے، اے اللہ ! میرے نفس کو تو نے ہی پیدا فرمایا ہے، تیرے لیے ہی اس کی زندگی ہے اور تیرے لیے ہی اس کا مرنا ہے، پس اگر تو اس کو موت دے گا تو پھر اس پر رحم فرما، اور اگر تو اس کی موت کو مؤخر کرے گا تو ایمان کو باقی رکھ کر اس کی حفاظت فرما۔

29912

(۲۹۹۱۳) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَن شُعْبَۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ أَبِی السَّفَرِ ، قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا بَکْرِ بْنَ أَبِی مُوسَی یُحَدِّثُ ، عَنِ الْبَرَائِ ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ إذَا اسْتَیْقَظَ قَالَ : الْحَمْدُ لِلَّہِ الَّذِی أَحْیَانَا بَعْدَ مَا أَمَاتَنَا وَإِلَیْہِ النُّشُورُ قَالَ شُعْبَۃُ ہَذَا ، أَوْ نَحْوُہُ ، وَإِذَا نَامَ قَالَ : اللَّہُمَّ بِاسْمِکَ أَحْیَا وَبِاسْمِکَ أَمُوتُ۔
(٢٩٩١٣) حضرت برائ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب بیدار ہوتے تو یہ دعا فرماتے : سب تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جس نے ہمیں مارنے کے بعد زندہ کیا، اور اسی کی طرف اٹھ کر جانا ہے۔ حضرت شعبہ فرماتے ہیں : کہ یہی فرمایا یا اس جیسا فرمایا تھا۔ اور جب سوتے تو یہ دعا فرماتے : اے اللہ ! آپ کے نام کے ساتھ ہی میں زندہ ہوتا ہوں اور آپ کے نام کے ساتھ ہی میں مرتا ہوں۔

29913

(۲۹۹۱۴) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَن ثَابِتٍ ، عَنْ أَنَسٍ ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یَدْعُو : اللَّہُمَّ آتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَفِی الآخِرَۃِ حَسَنَۃً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ۔ (احمد ۲۴۷۔ مسلم ۲۰۷۱)
(٢٩٩١٤) حضرت انس فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ دعا فرمایا کرتے تھے : اے اللہ ! ہمیں دنیا میں خوبی عطا فرما، اور ہمیں آخرت میں خوبی عطا فرما ، اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا لے۔

29914

(۲۹۹۱۵) حَدَّثَنَا عَبْدُاللہِ بْنُ نُمَیْرٍ حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ بْنُ عُمَرَ، عَن سَعِیدِ بْنِ أَبِی سَعِیدٍ الْمَقْبُرِیِّ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ، أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : إذَا أَرَادَ أَحَدُکُمْ أَنْ یَضْطَجِعَ عَلَی فِرَاشِہِ فَلْیَنْزِعْ دَاخِلَۃَ إزَارِہِ ، ثُمَّ لِیَنْفُضْ بِہَا فِرَاشَہُ فَإِنَّہُ لاَ یَدْرِی مَا خَلَفَہُ عَلَیْہِ، ثُمَّ لِیَضْطَجِعْ عَلَی شِقِّہِ الأَیْمَنِ، ثُمَّ لِیَقُلْ: بِاسْمِکَ رَبِّی وَضَعْت جَنْبِی وَبِکَ أَرْفَعُہُ، فَإِنْ أَمْسَکْت نَفْسِی فَارْحَمْہَا، وَإِنْ أَرْسَلْتہَا فَاحْفَظْہَا بِمَا تَحْفَظُ بِہِ عِبَادَک الصَّالِحِینَ۔
(٢٩٩١٥) حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جب تم میں سے کوئی شخص اپنے بستر پر لیٹنے کا ارادہ کرے تو اسے چاہیے کہ اپنے زائد کپڑے اتار دے، پھر اپنے بستر کو اچھی طرح جھاڑے، کیونکہ وہ نہیں جانتا کہ اس کے پیچھے اس بستر پر کیا تھا، پھر داہنی کروٹ پر لیٹ جائے۔ پھر یہ دعا پڑھے : میرے مالک تیرے نام کے ساتھ ہی میں اپنا پہلو رکھتا ہوں، اور تیرے نام کے ساتھ ہی میں اسے اٹھاتا ہوں، پس اگر تو نے میرے نفس کو روکا تو اس پر رحم فرما، اور اگر اس کو چھوڑ دیا تو اس کی حفاظت فرما جیسے تو اپنے نیک بندوں کی حفاظت فرماتا ہے۔

29915

(۲۹۹۱۶) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ حَدَّثَنَا زُہَیْرٌ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَن فَرْوَۃَ بْنِ نَوْفَلٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ لَہُ : مَجِیئٌ مَا جَائَ بِکَ ؟ قَالَ : یَا رَسُولَ اللہِ ، تُعَلِّمُنِی شَیْئًا أَقُولُہُ عِنْدَ مَنَامِی ، قَالَ : إذَا أَخَذْت مَضْجَعَک فَاقْرَأْ : (قُلْ یَا أَیُّہَا الْکَافِرُونَ) ثُمَّ نَمْ عَلَی خَاتِمَتِہَا فَإِنَّہَا بَرَائَ ۃٌ مِنَ الشِّرْکِ۔
(٢٩٩١٦) حضرت نوفل فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے پوچھا ؟ آنے والے کیا چیز تمہیں لے کر آئی ہے ؟ میں نے کہا : اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ مجھے کوئی دعا سکھلا دیجیے جو میں سونے کے وقت پڑھ لیا کروں، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جب تم اپنے بستر پر لیٹو تو یہ سورت کافرون پڑھ لیا کرو !ً ” کہہ دیجیے ! اے کافرو ! “ پھر اس کے خاتمہ پر سو جایا کرو کہ یہ شرک سے بری ہونے کا پروانہ ہے۔

29916

(۲۹۹۱۷) حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ ، عَنِ الأَفْرِیقِیِّ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ یَزِیدَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ لِرَجُلٍ مِنَ الأَنْصَارِ : کَیْفَ تَقُولُ حِینَ تُرِیدُ أَنْ تَنَامَ ؟ قَالَ : أَقُولُ : بِاسْمِکَ وَضَعْت جَنْبِی فَاغْفِرْ لِی ، قَالَ : قَدْ غُفِرَ لَک۔
(٢٩٩١٧) حضرت عبداللہ بن عمرو فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک انصاری صحابی سے فرمایا : جب تم سونے کا ارادہ کرتے ہو تو کس طرح دعا کرتے ہو ؟ اس صحابی نے فرمایا : میں یوں دعا کرتا ہوں ! تیرے ہی نام کے ساتھ میں اپنا پہلو رکھتا ہوں، تو میری مغفرت فرما، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تیری مغفرت کردی گئی ہے۔

29917

(۲۹۹۱۸) حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ أَبِی مَالِکٍ الأَشْجَعِیِّ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ نَوْفَلٍ الأَشْجَعِیِّ ، عَنْ أَبِیہِ قَالَ : قُلْتُ : یَا رَسُولَ اللہِ أَخْبِرْنِی بِشَیْئٍ أَقُولُہُ إذَا أَصْبَحْت وَإِذَا أَمْسَیْت ، فَقَالَ : اقْرَأْ {قُلْ یَا أَیُّہَا الْکَافِرُونَ} ، ثُمَّ نَمْ عَلَی خَاتِمَتِہَا فَإِنَّہَا بَرَائَ ۃٌ مِنَ الشِّرْکِ۔
(٢٩٩١٨) حضرت نوفل الاشجعی فرماتے ہیں کہ میں نے کہا : اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! مجھے کوئی ایسی چیز بتا دیجیے جو میں صبح و شام پڑھا کروں، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم سورت کافرون پڑھا کرو ! کہہ دیجیے ! اے کافرو ! پھر اس کے خاتمہ پر سو جایا کرو، پس یہ شرک سے بری ہونے کا پروانہ ہے۔

29918

(۲۹۹۱۹) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَن حَبِیبٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ بَابَاہُ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ : مَنْ قَالَ حِینَ یَأْوِی إِلَی فِرَاشِہِ لاَ إلَہَ إِلاَّ اللَّہُ وَحْدَہُ لاَ شَرِیکَ لَہُ لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ وَہُوَ عَلَی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیرٌ ، سُبْحَانَ اللہِ وَبِحَمْدِہِ ، الْحَمْدُ لِلَّہِ ، لاَ إلَہَ إِلاَّ اللَّہُ ، وَاللَّہُ أَکْبَرُ غُفِرَ لَہُ ذُنُوبُہُ ، وَإِنْ کَانَتْ مِثْلَ زَبَدِ الْبَحْرِ۔
(٢٩٩١٩) حضرت عبداللہ ابن باباہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابوہریرہ نے ارشاد فرمایا : جو شخص بستر پر لیٹتے وقت یہ دعا پڑھے اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں جو اکیلا ہے، جس کا کوئی شریک نہیں ہے، اسی کا ملک ہے اور اسی کے لیے تعریف ہے، اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے، اللہ پاک ہے اور اپنی تمام تعریفوں کے ساتھ ہے، سب تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں، اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور اللہ سب سے بڑا ہے۔ تو اللہ تعالیٰ اس شخص کے تمام گناہ معاف فرما دیتے ہیں اگرچہ سمندر کی جھاگ کے برابر ہوں۔

29919

(۲۹۹۲۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن مِسْعَرٍ ، عَنْ عِفَاقٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَیْمُونٍ قَالَ : مَنْ قَالَ إذَا أَوی إِلَی فِرَاشِہِ : أَشْہَدُ أَنْ لاَ إلَہَ إِلاَّ اللَّہُ وَحْدَہُ لاَ شَرِیکَ لَہُ لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ وَہُوَ عَلَی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیرٌ أَرْبَعَ مَرَّاتٍ غُفِرَ لَہُ ذُنُوبُہُ ، وَإِنْ کَانَتْ طِفَاحَ الأَرْضِ۔
(٢٩٩٢٠) حضرت عفاق فرماتے ہیں کہ حضرت عمرو بن میمون نے ارشاد فرمایا : جو شخص بستر پر لیٹ کر چار مرتبہ یہ دعا پڑھے : میں گواہی دیتا ہوں اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ، وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، اسی کا ملک ہے، اور اسی کے لیے تعریف ہے، اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔ تو اس کے تمام گناہوں کو بخش دیا جاتا ہے اگرچہ اس کے گناہ زمین کو بھر دیں۔

29920

(۲۹۹۲۱) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَن سَوَائٍ ، عَن حَفْصَۃَ ، أنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ إذَا أَخَذَ مَضْجَعَہُ قَالَ : رَبِّ قِنِی عَذَابَک یَوْمَ تَبْعَثُ عِبَادَک۔
(٢٩٩٢١) حضرت حفصہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بستر پر لیٹ کر یہ دعا فرماتے : میرے رب ! مجھے اپنے عذاب سے بچا لے جس دن تو اپنے بندوں کو اٹھائے گا۔

29921

(۲۹۹۲۲) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ حَدَّثَنَا زُہَیْرٌ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ عَلِیٍّ قَالَ : إذَا أَخَذْت مَضْجَعَک فَقُلْ : بِسْمِ اللہِ وَفِی سَبِیلِ اللہِ ، وَعَلَی مِلَّۃِ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔
(٢٩٩٢٢) حضرت عاصم فرماتے ہیں کہ حضرت علی نے ارشاد فرمایا : جب تو اپنے بستر پر لیٹ جائے تو یہ کلمات کہہ لیا کر : اللہ کے نام کے ساتھ، اور اللہ کے راستہ میں ہوں، اور اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے طریقہ پر ہوں۔

29922

(۲۹۹۲۳) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَن زَکَرِیَّا ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنِ الْبَرَائِ قَالَ : کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إذَا نَامَ تَوَسَّدَ یَمِینَہُ تَحْتَ خَدِّہِ وَیَقُولُ : قِنِی عَذَابَک یَوْمَ تَبْعَثُ عِبَادَک۔
(٢٩٩٢٣) حضرت برائ فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب سونے کا ارادہ فرماتے تو اپنے دائیں ہاتھ کو رخسار کے نیچے تکیہ بناتے اور یہ دعا فرماتے تھے : مجھے اپنے عذاب سے بچا لے جس دن تو اپنے بندوں کو اٹھائے گا۔

29923

(۲۹۹۲۴) حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ بْنُ مُوسَی ، عَنْ إسْرَائِیلَ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِی عُبَیْدَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، أَنَّہُ کَانَ إذَا نَامَ قَالَ : اللَّہُمَّ قِنِی عَذَابَک یَوْمَ تَبْعَثُ عِبَادَک ، وَکَانَ یَضَعُ یَمِینَہُ تَحْتَ خَدِّہِ۔
(٢٩٩٢٤) حضرت ابو عبیدہ کے والد فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب سونے کا ارادہ فرماتے تو یہ دعا پڑھتے : اے اللہ ! تو مجھے اپنے عذاب سے بچا لے جس دن تو اپنے بندوں کو اٹھائے گا۔ اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنا داہنا ہاتھ رخسار کے نیچے رکھتے تھے۔

29924

(۲۹۹۲۵) حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُوسَی حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَن سُہَیْلِ بْنِ أَبِی صَالِحٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ، أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ إذَا أَوی إِلَی فِرَاشِہِ قَالَ : اللَّہُمَّ رَبَّ السَّمَاوَاتِ وَرَبَّ الأَرَضِینَ ، ربنا وَرَبَّ کُلِّ شَیْئٍ ، فَالِقَ الْحَبِّ وَالنَّوَی ، مُنْزِلَ التَّوْرَاۃِ وَالإِنْجِیلِ وَالْقُرْآنِ ، أَعُوذُ بِکَ مِنْ شَرِّ کُلِّ ذِی شَرٍّ أَنْتَ آخِذٌ بِنَاصِیَتِہِ ، أَنْتَ الأَوَّلُ فَلَیْسَ قَبْلَک شَیْئٌ ، وَأَنْتَ الآخِرُ فَلَیْسَ بَعْدَکَ شَیْئٌ ، وَأَنْتَ الظَّاہِرُ فَلَیْسَ فَوْقَک شَیْئٌ ، وَأَنْتَ الْبَاطِنُ فَلَیْسَ دُونَک شَیْئٌ ، اقْضِ عَنی الدَّیْنَ وَأَغْنِنِی مِنَ الْفَقْرِ۔ (مسلم ۲۰۸۴۔ ابوداؤد ۵۰۱۲)
(٢٩٩٢٥) حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب بستر پر لیٹ جاتے تو یہ دعا فرماتے : اے اللہ ! آسمانوں کے مالک اور زمینوں کے مالک، اور ہمارے مالک اور ہر چیز کے مالک، دانے اور گٹھلی کے پیدا کرنے والے، توراۃ ، انجیل اور قرآن کے اتارنے والے، میں تیری پناہ مانگتا ہوں ہر شر والے کے شر سے جس کی پیشانی تو نے پکڑی ہو، تو ہی سب سے پہلا ہے، تجھ سے پہلے کوئی چیز نہیں تھی، اور تو ہی سب سے پچھلا ہے تیرے بعد بھی کوئی چیز نہیں ہوگی، اور تو ہی ظاہر و آشکارا ہے تیرے اوپر بھی کوئی چیز نہیں ہے ، اور تو ہی پوشیدہ ہے پس تیرے نیچے بھی کوئی چیز نہیں ہے، تو مجھ سے قرض کو دور فرما، اور مجھے فقر سے بےنیاز کر دے۔

29925

(۲۹۹۲۶) حَدَّثَنَا عَبِیدَۃُ بْنُ حُمَیْدٍ ، عَن مَنْصُورٍ ، عَنْ أَبِی مَعْشَرٍ قَالَ : حُدِّثْتُ أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یَقُولُ إذَا أَوی إِلَی فِرَاشِہِ : اللَّہُمَّ عَافِنِی فِی دِینِی وَعَافِنِی فِی جَسَدِی وَعَافِنِی فِی بَصَرِی وَاجْعَلْہُ الْوَارِثَ مِنِّی ، لاَ إلَہَ إِلاَّ اللَّہُ الْعَلِیُّ الْعَظِیمُ سُبْحَانَ اللہ رَبِّ السَّمَاوَاتِ السَّبْعِ وَرَبِّ الْعَرْشِ الْکَرِیمِ الْحَمْدُ لِلَّہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ۔ (ترمذی ۳۴۸۰۔ ابویعلی ۴۶۷۱)
(٢٩٩٢٦) حضرت ابو معشر فرماتے ہیں کہ مجھے بیان کیا گیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب اپنے بستر پر لیٹ جاتے تو یہ دعا فرمایا کرتے تھے : اے اللہ ! مجھے میرے دین میں عافیت بخش دے، اور میرے بدن میں عافیت بخش دے، اور میرے دیکھنے میں عافیت عطا فرما، اور مجھے اس کا حق دار بنا دے، اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے، جو کہ بلند وبالا ، عظمت والا ہے، ساتوں آسمانوں کا مالک، اور عرش کریم کا مالک ہے سب تعریفیں اللہ کے لیے ہیں۔

29926

(۲۹۹۲۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَن عُبَیْدِ بْنِ عَمْرٍو الْخَارِِفِیِّ ، عَنْ عَلِیٍّ قَالَ : مَا أَرَی أَحَدًا یَعْقِلُ دَخَلَ فِی الإِسْلامِ یَنَامُ حَتَّی یَقْرَأَ آیَۃَ الْکُرْسِیِّ۔
(٢٩٩٢٧) حضرت عبید بن عمرو الخارفی فرماتے ہیں کہ حضرت علی نے ارشاد فرمایا : کہ میں کسی کو عقل مند نہیں سمجھتا جو اسلام میں داخل ہوا ہو، یہاں تک کہ وہ سونے سے پہلے آیۃ الکرسی پڑھتا ہو۔

29927

(۲۹۹۲۸) حَدَّثَنَا الحَسَنُ بْنُ مُوسَی حَدَّثَنَا لَیْثُ بْنُ سَعْدِ بْنِ خَالِدٍ ، عَن عُقَیْلِ بْنِ خَالِدٍ ، عَنِ ابْنِ شِہَابٍ ، أَنَّہُ قَالَ: أَخْبَرَنِی عُرْوَۃُ ، عَنْ عَائِشَۃَ ، أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ إذَا أَخَذَ مَضْجَعَہُ نَفَثَ فِی یَدَیْہِ وَقَرَأَ فِیہِمَا بِالْمُعَوِّذَتَیْنِ ، ثُمَّ مَسَحَ بِہِمَا جَسَدَہُ۔ (بخاری ۵۰۱۷۔ ابوداؤد ۵۰۱۷)
(٢٩٩٢٨) حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب بستر پر لیٹتے تو معوذتین پڑھ کر دونوں ہاتھوں پر پھونکتے، پھر ان دونوں ہاتھوں کو پورے جسم پر پھیر لیتے۔

29928

(۲۹۹۲۹) حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ بْنُ مُوسَی ، عَنْ إسْرَائِیلَ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِی مَیْسَرَۃَ قَالَ : کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ عِنْدَ مَنَامِہِ : أَعُوذُ بِوَجْہِکَ الْکَرِیمِ وَکَلِمَاتِکَ التَّامَّۃِ مِنْ شَرِّ مَا أَنْتَ بَاطِشٌ بِنَاصِیَتِہِ ، اللَّہُمَّ إنَّک انت تَکْشِفُ الْمَأْثَمَ وَالْمَغْرَمَ ، اللَّہُمَّ لاَ یُخْلَفُ وَعْدُک ، وَلا یُہْزَمُ جُنْدُک ، وَلا یَنْفَعُ ذَا الْجَدِّ مِنْک الْجَدُ ، سُبْحَانَک وَبِحَمْدِک۔ (ابوداؤد ۵۰۱۳۔ نسائی ۱۰۶۰۳)
(٢٩٩٢٩) حضرت ابو میسرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سوتے قت یہ دعا پڑھا کرتے تھے : (اے اللہ) میں آپ کی سخی ذات کی اور آپ کے مکمل کلمات کی پناہ مانگتا ہوں ہر اس چیز کے شر سے جس کی پیشانی آپ کی قبضہ میں ہو، اے اللہ ! آپ ہی گناہوں اور قرض سے چھٹکارا دلاتے ہیں، اے اللہ ! تیرے وعدے کی خلاف ورزی نہیں کی جاسکتی، اور تیرے لشکر کو شکست نہیں دی جاسکتی، اور کسی شان والے کو اس کی شان تیرے ہاں کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتی۔ تو سب عیبوں سے پاک ہے اور تو اپنی تعریف کے ساتھ ہے۔

29929

(۲۹۹۳۰) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَن فُضَیْلِ بْنِ مَرْزُوقٍ قَالَ : حدَّثَنَا أَبُو سَلَمَۃَ الْجُہَنِیُّ ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَا قَالَ عَبْدٌ قَطُّ إذَا أَصَابَہُ ہَمٌّ، أَوْ حَزَنٌ : اللَّہُمَّ إنِّی عَبْدُک ابْنُ عَبْدِکَ ابْنُ أَمَتِکَ، نَاصِیَتِی بِیَدِکَ، مَاضٍ فِی حُکْمُک عَدْلٌ فِی قَضَاؤُک، أَسْأَلُک بِکُلِّ اسْمٍ ہُوَ لَکَ سَمَّیْت بِہِ نَفْسَک، أَوْ أَنْزَلْتہ فِی کِتَابِکَ، أَوْ عَلَّمْتہ أَحَدًا مِنْ خَلْقِکَ، أَو اسْتَأْثَرْت بِہِ فِی عِلْمِ الْغَیْبِ عِنْدَکَ أَنْ تَجْعَلَ الْقُرْآنَ رَبِیعَ قَلْبِی وَنُورَ صَدْرِی وَجَلائَ حُزْنِی وَذَہَابَ ہَمِّی إِلاَّ أَذْہَبَ اللَّہُ ہَمَّہُ وَأَبْدَلَہُ مَکَانَ حُزْنِہِ فَرَحًا ، قَالُوا : یَا رَسُولَ اللہِ ، یَنْبَغِی لَنَا أَنْ نَتَعَلَّمَ ہؤلاء الْکَلِمَاتِ ؟ قَالَ : أَجَلْ ، یَنْبَغِی لِمَنْ سَمِعَہُنَّ أَنْ یَتَعَلَّمَہُنَّ۔ (احمد ۳۹۱۔ ابویعلی ۵۲۷۶)
(٢٩٩٣٠) حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ہرگز کوئی بندہ یہ دعا نہیں پڑھتا جب اسے کوئی فکر یا غم پہنچتا ہے : اے اللہ ! میں خود تیرا بندہ ہوں، اور تیرے بندے کا بیٹا ہوں، اور تیری لونڈی کی اولاد ہوں۔ میری پیشانی تیرے ہاتھ میں ہے۔ میرے حق میں تیرا جو بھی فیصلہ ہو وہ نافذ ہونے والا ہے، اور تیرا میرے بارے میں جو بھی حکم ہے وہ سب انصاف ہی انصاف ہے، اور میں تیرے ہر اس نام کے وسیلہ سے سوال کرتا ہوں جو خود تو نے اپنا مقرر فرمایا ہے یا اپنی کتاب میں اس کو اتارا ہے، یا اپنی مخلوق میں سے کسی کو سکھایا ہے، یا خاص اپنے ہی علم غیب میں اسے پوشیدہ رکھا ہے کہ تو قرآن کو میرے دل کی بہار، اور میرے سینہ کا نور ، میرے غم کو دور کرنے والا اور میرے غم کے ازالہ کا سبب بنا دے۔ مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ اس بندے کی فکر کو ختم فرما دیتے ہیں اور اس کے غم کے بدلے اس کو فرحت و خوشی عنایت فرماتے ہیں۔ صحابہ نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! تب تو ہمارے لیے مناسب ہے کہ ہم ان کلمات کو سیکھ لیں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جی ہاں ! مناسب ہے ان لوگوں کے لیے جنہوں نے اس کو سنا ہے کہ وہ اس دعا کو سیکھ لیں۔

29930

(۲۹۹۳۱) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِِ ، عَن مَنْصُورٍ ، عَن رِبْعِیٍّ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ شَدَّادٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ جَعْفَرٍ قَالَ : قَالَ لِی عَلِیٌّ : أَلا أُعَلِّمُک کَلِمَاتٍ لَمْ أُعَلِّمْہَا حَسَنًا ، وَلا حُسَیْنًا ، إذَا طَلَبْت حَاجَۃً وَأَحْبَبْت أَنْ تَنْجَحَ فَقُلْ : لاَ إلَہَ إِلاَّ اللَّہُ وَحْدَہُ لاَ شَرِیکَ لَہُ الْعَلِیُّ الْعَظِیمُ ، وَلا إلَہَ إِلاَّ اللَّہُ وَحْدَہُ لاَ شَرِیکَ لَہُ الْحَلِیمُ الْکَرِیمُ ، ثُمَّ سَلْ حَاجَتَک۔ (نسائی ۱۰۴۶۹)
(٢٩٩٣١) حضرت عبداللہ بن جعفر فرماتے ہیں کہ حضرت علی نے مجھ سے ارشاد فرمایا : کیا میں تجھے چند ایسے کلمات نہ سکھا دوں جو میں نے حضرت حسن اور حضرت حسین کو بھی نہیں سکھائے ؟ جب تو کوئی ضرورت مانگے اور تو پسند کرتا ہے کہ تجھے اس میں کامیابی ہو تو پہلے یہ کلمات کہہ لیا کر ! اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں ہے بہت بلند وبالا ، عظمت والا ہے۔ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں ہے بڑا بردبار، بہت کرم کرنے والا ہے، پھر تو اپنی ضرورت کا سوال کر۔

29931

(۲۹۹۳۲) حَدَّثَنَا محمد بْنُ فُضَیْلٍ ، عَن لَیْثٍ ، عَن خَالِدٍ ، عَن سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ قَالَ : دَخَلْت الْمَسْجِدَ وَأَنَا أَرَی أَنِّی قَدْ أَصْبَحْت وَإِذَا عَلَیَّ لَیْلٌ طَوِیلٌ ، وَإِذَا لَیْسَ فِیہِ أَحَدٌ غَیْرِی ، فَقُمْت فَسَمِعْت حَرَکَۃً خَلْفِی فَفَزِعْت ، فَقَالَ : أَیُّہَا الْمُمْتَلِئُ قَلْبُہُ فَرَقًا ، لاَ تَفْرَقْ ، أو لاَ تَفْزَعْ وَقُلِ : اللَّہُمَّ إنَّک مَلِیکٌ مُقْتَدِرٌ مَا تَشَائُ مِنْ أَمْرٍ یَکُونُ ، ثُمَّ سَلْ مَا بَدَا لَکَ ، قَالَ سَعِیدٌ : فَمَا سَأَلْت اللَّہَ شَیْئًا إِلاَّ اسْتَجَابَ لِی۔
(٢٩٩٣٢) حضرت خالد فرماتے ہیں کہ حضرت سعید بن المسیب نے ارشاد فرمایا : میں مسجد میں داخل ہوا اور میرا ارادہ تھا کہ میں صبح تک مسجد میں رہوں گا، پس جب رات مجھ پر بہت لمبی ہوگئی اور جبکہ مسجد میں میرے علاوہ کوئی بھی نہیں تھا ، تو میں کھڑا ہوا۔ اچانک میں نے اپنے پیچھے کسی کی حرکت کی آواز سنی، تو میں ڈر گیا۔ پس کوئی کہنے لگا : اے اپنے دل کو گھبراہٹ سے بھرنے والے ! ڈر مت، یا خوف مت کھا، اور یہ کلمات کہہ : اے اللہ ! یقیناً تو ہی بادشاہ ہے، قدرت رکھنے والا ہے، جس کام کا تو ارادہ کرتا ہے وہ ہوجاتا ہے۔ پھر تو سوال کر جو بات تیرے سامنے ظاہر ہو۔ حضرت سعید فرماتے ہیں : پھر میں نے اللہ سے کوئی چیز نہیں مانگی مگر یہ کہ اللہ نے میری دعا قبول فرمائی۔

29932

(۲۹۹۳۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن مَالِکِ بْنِ مِغْوَلٍ قَالَ : طَلَبْت الْحَکَمَ فِی حَاجَۃٍ فَلَمْ أَجِدْہُ ، ثُمَّ طَلَبْتہ فَوَجَدْتہ وقَالَ : الْحَکَمُ : قَالَ خَیْثَمَۃُ : إذَا طَلَبَ أَحَدُکُمَ الْحَاجَۃَ فَوَجَدَہَا فَلْیَسْأَلَ اللَّہَ الْجَنَّۃَ ، لَعَلَّہُ یَوْمُہُ الَّذِی یُسْتَجَابُ لَہُ فِیہِ۔
(٢٩٩٣٣) حضرت وکیع فرماتے ہیں کہ حضرت مالک بن مغول نے فرمایا : میں نے حضرت حکم کو کسی ضرورت کے معاملہ میں تلاش کیا تو ان کو نہ پاسکا۔ پھر میں نے دوبارہ ان کی تلاش شروع کی تو ان کو ڈھونڈ لیا۔ اور حضرت حکم فرمانے لگے : حضرت خثیمہ نے ارشاد فرمایا : جب تم مں سے کوئی اپنی ضرورت کا سوال کرے پھر اس کی ضرورت پوری ہوجائے تو اس شخص کو چاہیے کہ وہ اللہ رب العزت سے جنت کا بھی سوال کرلے۔ شاید کہ وہ دن ایسا ہو کہ اس میں اس کی ہر دعا قبول کرلی جائے۔

29933

(۲۹۹۳۴) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَن مِسْعَرٍ ، عَن سَعْدِ بْنِ إبْرَاہِیمَ قَالَ : کَانَ طَلْقُ بْنُ حَبِیبٍ یَقُولُ : اللَّہُمَّ أَبْرِمْ لِہَذِہِ الأُمَّۃِ أَمْرًا رَشِیدًا تُعِزُّ فِیہِ وَلِیَّک وَتُذِلُّ فیہ عَدُوَّک وَیُعْمَلُ فِیہِ بِطَاعَتِک۔
(٢٩٩٣٤) حضرت سعد بن ابراہیم فرماتے ہیں کہ حضرت طلق بن حبیب یوں فرمایا کرتے تھے : اے اللہ ! تو اس امت کے لیے درست معاملہ کا قطعی فیصلہ فرما، جس میں تو اپنے دوست کو عزت بخش، اور اپنے دشمن کو ذلیل فرما، اور اس میں تیری ہی فرمان برداری کے ساتھ عمل کیا جائے۔

29934

(۲۹۹۳۵) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَنْ عُبَیْدِ بْنِ عَبْدِ الْمَلِکِ قَالَ : أَخْبَرَنِی مَنْ رَأَی عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِیزِ وَاقِفًا بِعَرَفَۃَ یَدْعُو وَہُوَ یَقُولُ بِإِصْبَعِہِ ہَکَذَا یُشِیرُ بِہَا : اللَّہُمَّ زِدْ مُحْسِنَ أُمَّۃِ مُحَمَّدٍ إحْسَانًا وَراجِعْ بِمُسِیئِہِمْ إِلَی التَّوْبَۃِ ، ثُمَّ یَقُولُ ہَکَذَا ، ثُمَّ یُدِیرُ بِإِصْبَعِہِ : وَحُطَّ مَنْ وَرَائَہُمْ بِرَحْمَتِک۔
(٢٩٩٣٥) حضرت عبید بن عبد الملک فرماتے ہیں کہ مجھے اس شخص نے بتلایا ہے جس نے حضرت عمر بن عبد العزیز کو مقام عرفات میں کھڑے ہو کر یہ دعا مانگتے ہوئے دیکھا ہے۔ وہ یوں فرما رہے تھے اور اپنی انگلی کے ساتھ اشارہ بھی فرما رہے تھے۔ اے اللہ ! تو امت محمدیہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بھلائی کرنے والوں کی بھلائی میں اضافہ فرما، اور ان کے گناہ کرنے والوں کو توبہ کی طرف پھیر دے۔ پھر اس طریقہ سے دعا فرمائی، اور اپنی انگلی کو بھی گھمایا اور تو اپنی رحمت کے ساتھ ان کا پیچھے سے احاطہ فرما۔

29935

(۲۹۹۳۶) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَن عُبَیْدِ بْنِ عَبْدِ الْمَلِکِ قَالَ : کَانَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیزِ یَقُولُ اللَّہُمَّ أَصْلِحْ مَنْ کَانَ صَلاحُہُ صَلاحًا لأُمَّۃِ مُحَمَّدٍ ، اللَّہُمَّ وَأَہْلِکْ مَنْ کَانَ ہَلاکُہُ صَلاحًا لأُمَّۃِ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔
(٢٩٩٣٦) حضرت عبید بن عبد الملک فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن عبد العزیز یوں دعا فرمایا کرتے تھے : اے اللہ ! تو اصلاح فرما اس شخص کی جس کا ٹھیک ہونا امت محمدیہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حق میں بہتر ہو۔ اے اللہ ! اور تو ہلاک فرما دے اس شخص کو جس کی ہلاکت امت محمدیہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حق میں بہتر ہو۔

29936

(۲۹۹۳۷) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَن حَجَّاجِ بْنِ دِینَارٍ ، عَنْ أَبِی ہَاشِمٍ ، عَنْ أَبِی الْعَالِیَۃِ ، عَنْ أَبِی بَرْزَۃَ الأَسْلَمِیِّ قَالَ : کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ إذَا أَرَادَ أَنْ یَقُومَ مِنَ الْمَجْلِسِ : سُبْحَانَک اللَّہُمَّ وَبِحَمْدِکَ أَشْہَدُ أَنْ لاَ إلَہَ إِلاَّ أَنْتَ ، أَسْتَغْفِرُک وَأَتُوبُ إلَیْک۔ (ابویعلی ۷۳۸۹)
(٢٩٩٣٧) حضرت ابو برزۃ الاسلمی فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب کسی مجلس سے اٹھنے کا ارادہ فرماتے تو یوں دعا فرمایا کرتے تھے : اے اللہ ! تو پاک ہے اور میں تیری حمد بیان کرتا ہوں، میں گواہی دیتا ہوں کہ تیرے سوا کوئی معبود نہیں، میں تجھ سے معافی چاہتا ہوں، اور تیرے سامنے توبہ کرتا ہوں۔

29937

(۲۹۹۳۸) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَن مُجَاہِدٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ قَالَ : مَنْ قَالَ حِینَ یَقُومُ مِنْ مَجْلِسِہِ سُبْحَانَک اللَّہُمَّ وَبِحَمْدِکَ أَشْہَدُ أَنْ لاَ إلَہَ إِلاَّ أَنْتَ أَسْتَغْفِرُک وَأَتُوبُ إلَیْک قَالَ : کَفَّر اللَّہُ عَنہُ کُلَّ ذَنْبٍ فِی ذَلِکَ الْمَجْلِسِ۔
(٢٩٩٣٨) حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمر نے ارشاد فرمایا : جو شخص مجلس سے اٹھتے وقت یہ دعا پڑھے : اے اللہ ! تو پاک ہے اور میں تیری حمد بیان کرتا ہوں ، میں گواہی دیتا ہوں کہ تیرے سوا کوئی معبود نہیں، میں تجھ سے معافی چاہتا ہوں اور تیرے سامنے توبہ کرتا ہوں۔ حضرت عبداللہ بن عمر فرماتے ہیں : اللہ رب العزت اس مجلس میں ہونے والے ہر گناہ کو اس سے ہٹا دیتے ہیں۔

29938

(۲۹۹۳۹) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ، عَن مَنْصُورٍ، عَن فُضَیْلِ بْنِ عَمْرٍو، عَن زِیَادِ بْنِ الْحُصَیْنِ قَالَ: دَخَلْتُ عَلَی أَبِی الْعَالِیَۃِ، فَلَمَّا أَرَدْت أَنْ أَخْرُجَ مِنْ عَندِہِ قَالَ : أَلا أُزَوِّدُک کَلِمَاتٍ عَلَّمَہُنَّ جِبْرِیلُ مُحَمَّدًا صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ؟ قَالَ : قُلْتُ : بَلَی ؟ قَالَ : فَإِنَّہُ لَمَّا کَانَ بِآخِرَۃٍ کَانَ إذَا قَامَ مِنْ مَجْلِسِہِ قَالَ : سُبْحَانَک اللَّہُمَّ وَبِحَمْدِکَ أَشْہَدُ أَنْ لاَ إلَہَ إِلاَّ أَنْتَ ، أَسْتَغْفِرُک وَأَتُوبُ إلَیْک ، قَالَ : فَقِیلَ : یَا رَسُولَ اللہِ ، مَا ہَؤُلائِ الْکَلِمَاتُ الَّتِی تَقُولُہُنَّ ؟ قَالَ : ہُنَّ کَلِمَاتٌ عَلَّمَنِیہِنَّ جِبْرِیلُ کَفَّارَاتٌ لِمَا یَکُونُ فِی الْمَجْلِسِ۔ (نسائی ۱۰۲۶۴)
(٢٩٩٣٩) حضرت زیاد بن الحصین فرماتے ہیں : میں حضرت ابو العالیہ کی خدمت میں حاضر ہوا، جب میں نے ان کے پاس سے نکلنے کا ارادہ کیا تو وہ فرمانے لگے : کیا میں تجھے ایسے کلمات نہ بتادوں جو کلمات حضرت جبرائیل نے حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سکھلائے تھے ؟ حضرت زیاد فرماتے ہیں : کہ میں نے کہا : کیوں نہیں ؟ (ضرور سکھلائیں ) تو حضرت ابو العالیہ فرمانے لگے : جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مجلس کے بالکل اخیر میں ہوتے اور مجلس سے اٹھنے لگتے تھے تو یہ کلمات پڑھتے : اے اللہ ! تو پاک ہے اور میں تیری حمد بیان کرتا ہوں، میں گواہی دیتا ہوں کہ تیرے سوا کوئی معبود نہیں ج ، میں تجھ سے معافی چاہتا ہوں ا ورتیرے سامنے توبہ کرتا ہوں۔ حضرت ابو العالیہ فرماتے ہیں : پھر پوچھا گیا : اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! جو کلمات آپ نے کہے ہیں وہ کیا ہیں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : یہ کلمات حضرت جبرائیل نے مجھے سکھائے ہیں، اور یہ مجلس میں ہونے والے کاموں کا کفارہ بن جاتے ہیں۔

29939

(۲۹۹۴۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن سُفْیَانَ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِی الأَحْوَصِ فِی قَوْلِہِ وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ حِینَ تَقُومُ قَالَ : إذَا قُمْت فَقُلْ : سُبْحَانَ اللہِ وَبِحَمْدِہِ۔
(٢٩٩٤٠) حضرت ابو اسحاق فرماتے ہیں کہ حضرت ابو الاحوص نے اللہ تعالیٰ کے اس قول کے بارے میں ارشاد فرمایا : (اور تسبیح کرو اپنے رب کی حمد کے ساتھ جب تم اٹھو) جب تو اٹھے تو یہ کلمات کہہ : اللہ پاک ہے اور میں اس کی حمد بیان کرتا ہوں۔

29940

(۲۹۹۴۱) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَن مُحَمَّدِ بْنِ مُسْلِمٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِینَارٍ ، عَن عُبَیْدِ بْنِ عُمَیْرٍ قَالَ : کُنَّا نَعُدُ الأَوَّابَ الْحَفِیظَ ، إذَا قَامَ مِنْ مَجْلِسِہِ قَالَ : اللَّہُمَّ اغْفِرْ لِی مَا أَصَبْت فِی مَجْلِسِی ہَذَا۔
(٢٩٩٤١) حضرت عمرو بن دینار فرماتے ہیں کہ حضرت عبید بن عمیر نے ارشاد فرمایا : جب کوئی شخص اپنی مجلس سے کھڑا ہو تو یہ دعا پڑھے : اے اللہ ! تو میری مغفرت فرما ان کاموں کی وجہ سے جو میں نے اپنی اس مجلس میں کیے ہیں۔

29941

(۲۹۹۴۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن سُفْیَانَ ، عَن حَبِیبٍ عَن یَحْیَی بْنِ جَعْدَۃَ قَالَ : کَفَّارَۃُ الْمَجْلِسِ سُبْحَانَک وَبِحَمْدِکَ أَسْتَغْفِرُک وَأَتُوبُ إلَیْک۔
(٢٩٩٤٢) حضرت حبیب فرماتے ہیں کہ حضرت یحییٰ بن جعدہ نے ارشاد فرمایا : مجلس کا کفارہ یہ کلمات ہیں : میں تیری پاکی بیان کرتا ہوں، اور تیری حمد بیان کرتا ہوں میں تجھ سے معافی چاہتا ہوں اور تیرے سامنے توبہ کرتا ہوں۔

29942

(۲۹۹۴۳) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، وَابْنُ نُمَیْرٍ ، عَن ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ ، عَنْ عَبَّادِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ الزُّبَیْرِ ، قَالَ : سَمِعْتُ عَائِشَۃَ تَقُولُ : سَمِعْت رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ وَہُوَ مُسْتَنِدٌ إِلَی صَدْرِی : اللَّہُمَّ اغْفِرْ لِی وَارْحَمْنِی وَأَلْحِقْنِی بِالرَّفِیقِ۔ (بخاری ۴۴۴۰۔ مسلم ۸۵)
(٢٩٩٤٣) حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ کلمات ارشاد فرماتے سنا، اس حال میں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے میرے سینہ سے ٹیک لگائی ہوئی تھی : اے اللہ ! میری مغفرت فرما، اور مجھ پر رحم فرما، اور مجھے رفیق اعلیٰ سے ملا دے۔

29943

(۲۹۹۴۴) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ مُسْلِمٍ ، عَن مَسْرُوقٍ ، عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ : کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُکْثِرُ أَنْ یَقُولَ قَبْلَ أَنْ یَمُوتَ : سُبْحَانَک اللَّہُمَّ وَبِحَمْدِکَ أَسْتَغْفِرُک وَأَتُوبُ إلَیْک ، قَالَت : فَقُلْتُ : یَا رَسُولَ اللہِ ، مَا ہَذِہِ الْکَلِمَاتُ الَّتِی أَحْدَثْتہَا تَقُولُہَا ؟ قَالَ : جُعِلَتْ لِی عَلامَۃٌ لأُمَّتِی إذَا رَأَیْتہَا قُلْتہَا إذَا جَائَ نَصْرُ اللہِ وَالْفَتْحُ۔ (بخاری ۷۹۴۔ مسلم ۳۵۱)
(٢٩٩٤٤) حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وصال فرمانے سے پہلے کثرت سے یہ دعا مانگ رہے تھے : اے اللہ ! میں تیری پاکی بیان کرتا ہوں اور تیری حمد بیان کرتا ہوں، میں تجھ سے معافی چاہتا ہوں اور تیرے سامنے توبہ کرتا ہوں۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں میں نے پوچھا : اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! یہ کون سے کلمات ہیں جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ادا فرما رہے ہیں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میرے لے میری امت کی یہ نشانی رکھ دی گئی ہے کہ جب میں ان کو دیکھوں گا تو یہ سورت پڑھوں گا : جب آگئی اللہ کی مدد اور فتح۔

29944

(۲۹۹۴۵) حَدَّثَنَا یُونُسُ بْنُ مُحَمَّدٍحَدَّثَنَا لَیْثُ بْنُ سَعْدٍ ، عَن یَزِیدَ ، عَن مُوسَی بْنِ سَرْجِسَ ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ ، عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ : قَالَ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَہُوَ یَمُوتُ ، وَعَندَہُ قَدَحٌ فِیہِ مَائٌ فَیُدْخِلُ یَدَہُ فِی الْقَدَحِ ، وَیَمْسَحُ وَجْہَہُ بِالْمَائِ ، ثُمَّ یَقُولُ : اللَّہُمَّ أَعَنی عَلَی سَکَرَاتِ الْمَوْتِ۔ (ترمذی ۹۷۸۔ احمد ۱۶۲۳)
(٢٩٩٤٥) حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب موت کے قریب تھے، اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ایک پیالہ تھا جس میں پانی موجود تھا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس پیالہ میں اپنا ہاتھ داخل فرمایا، اور اپنے چہرے کا پانی سے مسح فرمایا، پھر یہ دعا فرمانے لگے : اے اللہ ! تو میری موت کی سختیوں پر حفاظت فرما۔

29945

(۲۹۹۴۶) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَن مُسْلِمٍ، عَن مَسْرُوقٍ، عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ: لَمَّا ثَقُلَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: اللَّہُمَّ اغْفِرْ لِی، وَأَلْحِقْنِی بِالرَّفِیقِ، قَالَتْ: فَکَانَ ہَذَا آخِرَ مَا سَمِعْت مِنْ کَلامُہِ۔
(٢٩٩٤٦) حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو (بیماری نے ) بوجھل کردیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ دعا فرمائی : اے اللہ ! تو میری مغفرت فرما، اور مجھے رفیق اعلیٰ سے ملا دے ۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں : پس یہ آخری جملہ تھا جو میں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کلام سے سنا تھا۔

29946

(۲۹۹۴۷) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ الْحُبَابِ ، عَن مَالِکِ بْنِ أَنَسٍ ، عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ ، عَن طَاوُوس ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إذَا تَہَجَّدَ مِنَ اللَّیْلِ قَالَ : اللَّہُمَّ لَکَ الْحَمْدُ أَنْتَ نُورُ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ ، وَلَک الْحَمْدُ ، أَنْتَ قَیَّامُ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ ، وَلَک الْحَمْدُ أَنْتَ رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَمَنْ فِیہِنَّ ، أَنْتَ الْحَقُّ وَقَوْلُک الْحَقُّ وَالْجَنَّۃُ حَقٌّ وَالنَّارُ حَقٌّ وَالسَّاعَۃُ حَقٌّ ، اللَّہُمَّ لَکَ أَسْلَمْت وَبِکَ آمَنْت وَعَلَیْک تَوَکَّلْت وَبِکَ خَاصَمْت وَإِلَیْک حَاکَمْت ، فَاغْفِرْ لِی مَا قَدَّمْت ، وَمَا أَخَّرْت ، وَمَا أَسْرَرْت ، وَمَا أَعْلَنْت ، وَمَا أَنْتَ أَعْلَمُ بِہِ مِنِّی ، أَنْتَ الْمُقَدِّمُ وَالْمُؤَخِّرُ لاَ إلَہَ إِلاَّ أَنْتَ۔ (بخاری ۱۱۲۰۔ مسلم ۵۳۴)
(٢٩٩٤٧) حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب رات کو تہجد کی نماز پڑھتے تو یوں دعا فرماتے : اے اللہ ! تیرے لیے ہی تعریف ہے، تو آسمانوں اور زمین کا نور ہے، اور تیرے ہی لیے تعریف ہے تو ہی آسمانوں اور زمین کو قائم رکھنے والا ہے، اور تیرے ہی لیے تعریف ہے، تو ہی آسمانوں اور زمین کا رب ہے، اور ان کا رب ہے جو ان میں ہیں، تو ہی حق ہے، اور تیری بات حق ہے، اور جنت حق ہے، اور آگ حق ہے، اور قیامت حق ہے، اے اللہ ! میں تیرے ہی لیے تابع ہوگیا، اور تجھی پر میں ایمان لایا، اور تجھ پر ہی میں نے بھروسہ کیا، اور تیری ہی مدد کے ساتھ میں نے جھگڑا کیا (دشمن سے) ، اور تیری طرف میں فیصلہ لے کر آیا۔ پس مجھے بخش دے وہ سب جو کام میں نے پہلے کیے اور جو میں نے پیچھے کیے، اور جو میں نے چھپاکر کیے، اور جو میں نے اعلانیہ کیے، اور تو ان کو مجھ سے زیادہ جانتا ہے، تو ہی آگے کرنے والا اور تو ہی پیچھے کرنے والا ہے، تیرے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔

29947

(۲۹۹۴۸) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ حُبَابٍ ، عَن مُعَاوِیَۃَ بْنِ صَالِحٍ قَالَ : حدَّثَنِی أَزْہَرُ بْنُ سَعِیدٍ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ حُمَیْدٍ قَالَ : سَأَلْتُ عَائِشَۃَ : مَاذَا کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَفْتَتِحُ بِہِ قِیَامَ اللَّیْلِ ؟ قَالَتْ : لَقَدْ سَأَلْتنِی عَن شَیْئٍ مَا سَأَلَنِی عَنہُ أَحَدٌ قَبْلَک، کَانَ یُکَبِّرُ عَشْرًا وَیَحْمَدُ عَشْرًا وَیُسَبِّحُ عَشْرًا وَیَسْتَغْفِرُ عَشْرًا وَیَقُولُ: اللَّہُمَّ اغْفِرْ لِی وَاہْدِنِی وَارْزُقْنِی وَعَافِنِی وَیَتَعَوَّذُ مِنْ ضِیقِ الْمَقَامِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ۔(ابوداؤد ۷۶۲۔ ابن حبان ۲۶۰۲)
(٢٩٩٤٨) حضرت عاصم بن حمید فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ سے پوچھا : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کن کلمات کے ساتھ رات کو قیام شروع فرماتے تھے ؟ حضرت عائشہ فرمانے لگیں : البتہ تحقیق تو نے مجھ سے ایسی چیز کے بارے میں سوال کیا ہے جس کا تجھ سے پہلے کسی نے بھی سوال نہیں کیا، پھر فرمایا : آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دس مرتبہ تکبیر کہتے، اور دس مرتبہ حمد بیان کرتے، اور دس مرتبہ پاکی بیان کرتے، اور دس مرتبہ استغفار فرماتے، اور یوں دعا فرماتے :” اے اللہ ! تو میری مغفرت فرما، اور مجھے ہدایت عطا فرما، اور مجھے رزق عطا فرما، اور مجھے عافیت بخش دے۔ “ اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قیامت کے دن جگہ کی تنگی سے بھی پناہ مانگتے تھے۔

29948

(۲۹۹۴۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِی الضُّحَی ، عَن مَسْرُوقٍ قَالَ : کُنَّا مَعَ أَبِی مُوسَی ، فَجَنَّنََا اللَّیْلَ إِلَی بُسْتَانٍ خَرِبٍ ، قَالَ : فَقَامَ مِنَ اللَّیْلِ یُصَلِّی فَقَرَأَ قِرَائَۃً حَسَنَۃً ، ثُمَّ قَالَ : اللَّہُمَّ إنَّک مُؤْمِنٌ تُحِبُّ الْمُؤْمِنَ، وَمُہَیْمِنٌ تُحِبُّ الْمُہَیْمِنَ ، سَلامٌ تُحِبُّ السَّلامَ ، صَادِقٌ تُحِبُّ الصَّادِقَ۔
(٢٩٩٤٩) حضرت مسروق فرماتے ہیں کہ ہم حضرت ابو موسیٰ کے ساتھ تھے رات کافی تاریک ہوگئی تو ہم نے ایک ویران باغ میں پناہ لی، حضرت مسروق فرماتے ہیں : حضرت ابوموسی نے کھڑے ہو کر رات کو تہجد کی نماز شروع کی اور بہت ہی اچھی قراءت کی۔ پھر یوں دعا فرمائی : اے اللہ ! تو امن و ایمان دینے والا ہے، امن دینے والے کو پسند کرتا ہے، اور تو نگہبان ہے ، نگہبانی کو پسند کرتا ہے، اور تو سلام ہے ، سلامتی کو پسند کرتا ہے، تو سچا ہے سچ بولنے والے کو پسند کرتا ہے۔

29949

(۲۹۹۵۰) حَدَّثَنَا مُعَاوِیَۃُ بْنُ ہِشَامٍ ، حَدَّثَنَا شَیْبَانُ ، عَن یَحْیَی بْنِ أَبِی کَثِیرٍ ، عَنْ أَبِی سَلَمَۃَ ، أَنَّ رَبِیعَۃَ بْنَ کَعْبٍ أَخْبَرَہُ ، أَنَّہُ کَانَ یَبِیتُ عِنْدَ بَابِ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَکَانَ یَسْمَعُ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنَ اللَّیْلِ یَقُولُ : سُبْحَانَ اللہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ الْہَوِیَّ ، ثُمَّ یَقُولُ : سُبْحَانَ اللہِ وَبِحَمْدِہِ۔ (بخاری ۱۲۱۸۔ ترمذی ۳۴۱۶)
(٢٩٩٥٠) حضرت ربیعہ بن کعب فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دروازے کے قریب رات گزارتا تھا، اور میں سنتا تھا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رات گئے تک یہ کلمات پڑھتے تھے : ” اللہ ہر عیب سے پاک ہے جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے۔ “ پھر یہ کلمات پڑھتے : اللہ پاک ہے اور میں اس کی حمد و ثنا بیان کرتا ہوں۔

29950

(۲۹۹۵۱) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ أَبِی بُکَیْرٍ ، عَن شُعْبَۃَ ، عَن ثَابِتٍ ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یَدْعُو : اللَّہُمَّ آتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَفِی الآخِرَۃِ حَسَنَۃً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ۔
(٢٩٩٥١) حضرت ثابت فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یوں دعا فرمایا کرتے تھے : اے اللہ ! تو ہمیں دنیا میں خوبی عطا فرما، اور آخرت میں خوبی عطا فرما، اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا لے۔

29951

(۲۹۹۵۲) حَدَّثَنَا عَبِیدَۃُ بْنِ حُمَیْدٍ ، عَنْ أَنَسٍ قَالَ : دَخَلَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَی رَجُلٍ کَأَنَّہُ فَرْخٌ مَنْتُوفٌ مِنَ الْجَہْدِ ، قَالَ : فَقَالَ لَہُ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : ہَلْ کُنْت تَدْعُو اللَّہَ بِشَیْئٍ ؟ قَالَ : کُنْتُ أَقُولُ اللَّہُمَّ مَا کُنْت مُعَاقِبِی بِہِ فِی الآخِرَۃِ فَعَجِّلْہُ لِی فِی الدُّنْیَا ، فَقَالَ لَہُ : النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَلا قُلْتَ : اللَّہُمَّ آتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَفِی الآخِرَۃِ حَسَنَۃً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ قَالَ : فَدَعَا اللَّہَ فَشَفَاہُ۔ (بخاری ۷۲۸۔ مسلم ۲۰۶۸)
(٢٩٩٥٢) حضرت انس بن مالک فرماتے ہیں : کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک آدمی کے پاس تشریف لے گئے وہ آدمی مشقت کی وجہ سے گویا کمزور اکھڑے ہوئے بالوں والا چوزہ تھا، حضرت انس فرماتے ہیں : نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے پوچھا ؟ کیا تو اللہ سے کسی چیز کی دعا کرتا رہا ہے ؟ وہ کہنے لگا : مں یوں دعا کرتا تھا : اے اللہ ! آخرت میں جو سزا مجھے ملنے والی ہے وہ مجھے دنیا ہی میں دے دے۔ حضرت انس فرماتے ہیں : نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے ارشاد فرمایا : ” تو یوں دعا کیوں نہیں کرتا : اے اللہ ! تو ہمیں دنیا میں بھی خوبی دے، ور آخرت میں بھی خوبی دے، اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا لے۔ “ راوی فرماتے ہیں : کہ اس شخص نے اللہ سے یہ دعا کی تو اللہ نے اسے شفا عطا فرما دی۔

29952

(۲۹۹۵۳) حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ عَیَّاشٍ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَن حَبِیبِ بْنِ صَہْبَانَ ، قَالَ : سَمِعْتُ عُمَرَ وَہُوَ یَطُوفُ حَوْلَ الْبَیْتِ وَلَیْسَ لَہُ ہِجِّیرًا إِلاَّ ہَؤُلائِ الْکَلِمَاتِ : { رَبَّنَا آتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَفِی الآخِرَۃِ حَسَنَۃً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ}۔
(٢٩٩٥٣) حضرت حبیب بن صھبان فرماتے ہیں : کہ میں نے سنا حضرت عمر کو اس حال میں کہ وہ بیت اللہ کا طواف فرما رہے تھے، اور نہیں تھی ان کی عادت مگر ان کلمات کے ساتھ دعا کرنے کی : اے ہمارے رب ! تو ہمیں دنیا میں خوبی دے اور آخرت میں بھی خوبی دے، اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا لے۔

29953

(۲۹۹۵۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن سُفْیَانَ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنِ الْمُسَیَّبِ ، عَن حَبِیبِ بْنِ صَہْبَانَ ، عَن عُمَرَ بِمِثْلِہِ۔
(٢٩٩٥٤) اس سند کے ساتھ بھی حضرت عمر کا ما قبل والا عمل منقول ہے۔

29954

(۲۹۹۵۵) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِی عُبَیْدَۃَ ، قَالَ : حَدَّثَنِی أَبِی ، قَالَ : حدَّثَنَا الأَعْمَشُ ، عَنْ أَبِی صَالِحٍ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ : أَتَتْ فَاطِمَۃُ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ تَسْأَلُہُ خَادِمًا فَقَالَ لَہَا : مَا عِنْدِی مَا أُعْطِیک ، فَرَجَعَتْ فَأَتَاہَا بَعْدَ ذَلِکَ فَقَالَ : الَّذِی سَأَلْت أَحَبُّ إلَیْک أَمْ مَا ہُوَ خَیْرٌ مِنْہُ ، فَقَالَ : لَہَا عَلِیٌّ : قُولِی : لاَ ، بَلْ مَا ہُوَ خَیْرٌ مِنْہُ ، فَقَالَتْ فَقَالَ : قُولِی : اللَّہُمَّ رَبَّ السَّمَاوَاتِ السَّبْعِ وَرَبَّ الْعَرْشِ الْعَظِیمِ رَبَّنَا وَرَبَّ کُلِّ شَیْئٍ مُنْزِلَ التَّوْرَاۃِ وَالإِنْجِیلِ وَالْقُرْآنِ الْعَظِیمِ ، أَنْتَ الأَوَّلُ فَلَیْسَ قَبْلَک شَیْئٌ وَأَنْتَ الآخِرُ فَلَیْسَ بَعْدَکَ شَیْئٌ ، وَأَنْتَ الظَّاہِرُ فَلَیْسَ فَوْقَک شَیْئٌ وَأَنْتَ الْبَاطِنُ فَلَیْسَ دُونَک شَیْئٌ ، اقْضِ عَنَّا الدَّیْنَ وأَغْنِنَا مِنَ الْفَقْرِ۔ (مسلم ۶۳۔ ترمذی ۳۴۸۱)
(٢٩٩٥٥) حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ حضرت فاطمہ خادم مانگنے کے لیے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس تشریف لائیں۔ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے فرمایا : تمہیں دینے کو میرے پاس اس وقت کچھ بھی نہیں ہے۔ پس وہ واپس لوٹ گئیں ۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کے بعد خود ان کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا : جو چز تیرے نزدیک پسندیدہ تھی جس کا تو نے سوال کیا وہ عطا کروں یا اس سے بھی بہتر چیز ؟ یہ بات سن کر حضرت علی نے حضرت فاطمہ سے کہا : تم کہو : نہیں، بلکہ اس سے بھی بہتر چیز عطا کریں۔ حضرت فاطمہ نے ایسے ہی کہا، تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” تم یہ دعا پڑھ لیا کرو : اے اللہ ! ساتوں آسمانوں کے پروردگار اور عرش عظیم کے پروردگار، ہمارے پروردگار اور ہر چیز کے پروردگار، توراۃ ، انجیل اور قرآن عظیم کے اتارنے والے، تو ہی سب سے پہلا ہے تیرے سے پہلے کوئی چیز نہیں تھی، تو ہی سب سے پچھلا ہے، تیرے بعد بھی کوئی چیز نہیں ہوگی ، اور تو ظاہر و آشکارا ہے، تیرے اوپر بھی کوئی چیز نہیں ہے ، اور تو ہی پوشیدہ ہے، تیرے نیچے بھی کوئی چیز نہیں ہے، تو مجھ سے قرض کو دور فرما دے، اور مجھے فقر سے بےنیاز کر دے۔

29955

(۲۹۹۵۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن شُعْبَۃَ ، عَنِ الْحَکَمِ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِی لَیْلَی ، عَنْ عَلِیٍّ ، أَنَّ فَاطِمَۃَ اشْتَکَتْ إِلَی النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَدَہَا مِنَ الْعَجْنِ وَالرَّحَی ، قَالَ : فَقَدِمَ عَلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بسَبْیٌ فَأَتَتْہُ تَسْأَلُہُ خَادِمًا فَلَمْ تَجِدْہُ ، وَوَجَدَتْ عَائِشَۃَ فَأَخْبَرَتْہَا ، قَالَ عَلِیٌّ : فَجَائَنَا بَعْدَ مَا أَخَذْنَا مَضَاجِعَنا فَذَہَبْنَا نقوم فَقَالَ : مَکَانَکُمَا ، قَالَ : فَجَائَ فَجَلَسَ بَیْنِی وَبَیْنَہَا حَتَّی وَجَدْت بَرْدَ قَدَمِہِ فَقَالَ : أَلا أَدُلُّکُمَا عَلَی مَا ہُوَ خَیْرٌ لَکُمَا مِنْ خَادِمٍ : تُسَبِّحَانِہِ ثَلاثًا وَثَلاثِینَ ، وَتَحْمَدَانِہِ ثَلاثًا وَثَلاثِینَ ، وَتُکَبِّرَانِہِ ثَلاثًا وَثَلاثِینَ۔ (بخاری ۲۰۲۳۔ مسلم ۲۰۹۱)
(٢٩٩٥٦) حضرت عبد الرحمن بن أبی لیلی فرماتے ہیں کہ حضرت علی نے فرمایا : کہ حضرت فاطمہ نے آٹا گوندھنے اور چکی پیسنے کی وجہ سے ہاتھ میں درد کی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو شکایت کی۔ حضرت علی فرماتے ہیں : نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس چند قیدی لائے گئے تو حضرت فاطمہ خادم مانگنے کے لیے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس حاضر ہوئیں مگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو موجود نہ پایا۔ اور حضرت عائشہ کو موجود پایا تو اپنے آنے کا مقصد بتلا دیا۔ حضرت علی فرماتے ہیں : جب ہم اپنے بستروں پر لیٹ گئے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے پاس تشریف لائے۔ ہم نے اٹھنا چاہا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اپنی جگہ پر لیٹے رہو۔ حضرت علی کہتے ہیں : پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آئے اور میرے اور فاطمہ کے درمیان بیٹھ گئے، یہاں تک کہ میں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاؤں کی ٹھنڈک محسوس کی ، پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کیا میں تمہاری ایسی چیز کی طرف راہنمائی نہ فرماؤں جو تم دونوں کے لیے ایک خادم سے بھی بہتر ہے ؟ تم دونوں تینتیس مرتبہ سبحان اللہ، اور تینتیس مرتبہ الحمد للہ، اور چونتیس مرتبہ اللہ اکبر کہہ لیا کرو۔

29956

(۲۹۹۵۷) حَدَّثَنَا عَفَّانُ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ أَخْبَرَنَا جَبْرُ بْنُ حَبِیبٍ عَن أُمِّ کُلْثُومٍ بِنْتِ أَبِی بَکْرٍ ، عَنْ عَائِشَۃَ ، أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَّمَہَا ہَذَا الدُّعَائَ اللَّہُمَّ إنِّی أَسْأَلُک مِنَ الْخَیْرِ کُلِّہِ عَاجِلِہِ وَآجِلِہِ ، مَا عَلِمْت مِنْہُ ، وَمَا لَمْ أَعْلَمْ ، وَأَعُوذُ بِکَ مِنَ الشَّرِّ کُلِّہِ ، مَا عَلِمْت مِنْہُ ، وَمَا لَمْ أَعْلَمْ ، اللَّہُمَّ إنِّی أَسْأَلُک مِنْ خَیْرِ مَا سَأَلَک عَبْدُک وَنَبِیُّک ، وَأَعُوذُ بِکَ مِنْ شَرِّ مَا عَاذَ مِنْہُ عَبْدُک وَنَبِیُّک ، اللَّہُمَّ إنِّی أَسْأَلُک الْجَنَّۃَ ، وَمَا قَرَّبَ إلَیْہَا مِنْ قَوْلٍ ، أَوْ عَمَلٍ ، وَأَعُوذُ بِکَ مِنَ النَّارِ ، وَمَا قَرَّبَ إلَیْہَا مِنْ قَوْلٍ ، أَوْ عَمَلٍ ، وَأَسْأَلُک أَنْ تَجْعَلَ کُلَّ قَضَائٍ تَقْضِیہِ لِی خَیْرًا۔ (احمد ۱۳۴۔ ابن حبان ۸۶۹)
(٢٩٩٥٧) حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو یہ دعا سکھائی ہے : اے اللہ ! میں آپ سے تمام بھلائیوں کا سوال کرتا ہوں ، جو جلدی ملنے والی ہیں اور جو دیر میں ملنے والی ہیں، جن کو میں جانتا ہوں اور جن کو میں نہیں جانتا، اور میں تمام برائیوں سے پناہ مانگتا ہوں جن کو میں جانتا ہوں اور جن کو میں نہیں جانتا، اے اللہ ! میں تجھ سے اس بھلائی کا سوال کرتا ہوں جو تیرے بندے اور تیرے نبی نے مانگی ہے، اور میں تیری پناہ چاہتا ہوں ہر اس برائی سے جس سے تیرے بندے اور تیرے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پناہ مانگی ہے، اے اللہ ! میں تجھ سے جنت کا سوال کرتا ہوں، اور ہر اس قول اور عمل کا جو جنت کے قریب کر دے، اور میں آگ سے تیری پناہ چاہتا ہوں، اور ہر اس قول اور عمل سے جو اس آگ کے قریب کر دے، اور میں تجھ سے سوال کرتا ہوں یہ کہ تو ہر فیصلہ کو جو تو نے میرے لیے کیا ہے اس کو میرے حق میں بہتر کر دے۔

29957

(۲۹۹۵۸) حَدَّثَنَا مُعَاوِیَۃُ بْنُ ہِشَامٍ ، عَن شَرِیکٍ ، عَنْ أَبِی ہَاشِمٍ ، عَنْ أَبِی مِجْلَزٍ ، عَن قَیْسِ بْنِ عُبَادٍ قَالَ : صَلَّی عَمَّارٌ صَلاۃً کَأَنَّہُمْ أَنْکَرُوہَا ، فَقِیلَ لَہُ فِی ذَلِکَ فَقَالَ : أَلَمْ أُتِمَّ الرُّکُوعَ وَالسُّجُودَ ؟ قَالُوا : بَلَی ، قَالَ : فَإِنِّی قَدْ دَعَوْت اللہ بِدُعَائٍ سَمِعْتہ مِنْ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : اللَّہُمَّ بِعِلْمِکَ الْغَیْبَ وَقُدْرَتِکَ عَلَی الْخَلْقِ أَحْیِنِی مَا عَلِمْت الْحَیَاۃَ خَیْرًا لِی ، وَتَوَفَّنِی إذَا عَلِمْت الْوَفَاۃَ خَیْرًا لِی ، اللَّہُمَّ إنِّی أَسْأَلُک کَلِمَۃَ الإِخْلاصِ فِی الْغَضَبِ وَالرِّضَی ، وَالْقَصْدَ فِی الْغِنَی وَالْفَقْرِ ، وَخَشْیَتَکَ فِی الْغَیْبِ وَالشَّہَادَۃِ ، وَأَسْأَلُک الرِّضَا بِالْقُدْرَۃِ ، وَأَسْأَلُک نَعِیمًا لاَ یَنْفَدُ ، وَقُرَّۃَ عَیْنٍ لاَ تَنْقَطِعُ ، وَلَذَّۃَ الْعَیْشِ بَعْدَ الْمَوْتِ ، وَلَذَّۃَ النَّظَرِ إِلَی وَجْہِکَ ، وَشَوْقًا إِلَی لِقَائِکَ ، وَأَعُوذُ بِکَ مِنْ ضَرَّائَ مُضِرَّۃٍ ، وَفِتْنَۃٍ مُضِلَّۃٍ ، اللَّہُمَّ زَیِّنَّا بِزِینَۃِ الإِیمَانِ وَاجْعَلْنَا ہُدَاۃً مُہْتَدِینَ۔ (بزار ۱۳۹۲۔ طبرانی ۶۲۵)
(٢٩٩٥٨) حضرت قیس بن عباد فرماتے ہیں کہ حضرت عمار نے نماز پڑھائی تو لوگ گویا ان کی نماز کو ناپسند کر رہے تھے ، پھر ان سے اس بارے میں پوچھا گیا ؟ تو انھوں نے فرمایا : کیا میں رکوع و سجود کو مکمل طور پر ادا نہ کروں ؟ لوگوں نے کہا : کیوں نہیں ! ضرور ادا کریں۔ انھوں نے فرمایا : یقیناً میں نے اللہ سے دعا مانگی جو میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنی تھی۔ ” اے اللہ ! اپنے علم غیب کے ساتھ اور اپنی مخلوق پر قدرت کے ساتھ، تو مجھے زندہ رکھ جب تک تو جانتا ہے کہ زندگی میرے حق میں بہتر ہے، اور مجھے موت دے دے جب تو جان لے کہ موت میرے لیے بہتر ہے۔ اے اللہ ! میں تجھ سے غصہ اور خوشی میں اخلاص کی بات کا سوال کرتا ہوں، اور امیری اور فقیری میں میانہ روی کا ، ظاہر اور پوشیدگی میں تیرے خوف کا، اور میں تجھ سے سوال کرتا ہوں تقدیر پر راضی رہنے کا، اور میں تجھ سے سوال کرتا ہوں ایسی نعمت کا جو ختم نہ ہو، اور آنکھ کی ٹھنڈک کا جو منقطع نہ ہو، اور موت کے بعد مزے کی زندگی کا۔ اور تیرے چہرہ انور کے دیدار کی لذت کا، اور تیری ملاقات کے شوق کا، اور میں تیری پناہ مانگتا ہوں تکلیف کی حالت میں ہونے والی تکلیف سے اور گمراہ کرنے والے فتنہ سے۔ اے اللہ ! ہمیں ایمان کی زینت سے مزین فرما، اور ہمیں ہدایت دینے والا اور ہدایت یافتہ بنا دے۔

29958

(۲۹۹۵۹) حَدَّثَنَا عَبِیدَۃُ بْنُ حُمَیْدٍ ، عَن حُمَیْدٍ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لاَ یَتَمنَّ أَحَدُکُمَ الْمَوْتَ لِضُرٍّ نَزَلَ بِہِ فِی الدُّنْیَا وَلَکِنْ لِیَقُلِ : اللَّہُمَّ أَحْیِنِی مَا کَانَتِ الْحَیَاۃُ خَیْرًا لِی وَتَوَفَّنِی إذَا کَانَتِ الْوَفَاۃُ خَیْرًا لِی۔ (بخاری ۵۶۷۱۔ مسلم ۲۰۶۴)
(٢٩٩٥٩) حضرت انس بن مالک فرماتے ہیں : کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم میں سے کوئی شخص بھی دنیا کی کسی مصیبت کی وجہ سے موت کی تمنا نہ کرے۔ اور لیکن اسے چاہیے کہ وہ یوں دعا کرے : اے اللہ ! مجھے زندہ رکھ جب تک زندگی میرے حق میں بہتر ہو، اور مجھے وفات دے جب وفات میرے حق میں بہتر ہو۔

29959

(۲۹۹۶۰) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَن مَالِکِ بْنِ الْحَارِثِ قَالَ : کَانَ مِنْ دُعَائِ عَمَّارٍ اللَّہُمَّ إنِّی أَسْأَلُک بِعِلْمِکَ الْغَیْبَ وَقُدْرَتِکَ عَلَی الْخَلْقِ أَنْ تُحْیِیَنِی مَا عَلِمْت الْحَیَاۃَ خَیْرًا لِی وَتَوَفَّنِی مَا عَلِمْت الْوَفَاۃَ خَیْرًا لِی ، اللَّہُمَّ أَسْأَلُک خَشْیَتَکَ فِی الْغَیْبِ وَالشَّہَادَۃِ ، وَأَسْأَلُک الْقَصْدَ فِی الْغِنَی وَالْفَقْرِ ، وَأَسْأَلُک الْعَدْلَ فِی الرِّضَائِ وَالْغَضَبِ ، اللَّہُمَّ حَبِّبْ إلَیَّ لِقَائَک وَشَوْقًا إلَیْک فِی غَیْرِ فِتْنَۃٍ مُضِلَّۃٍ ، وَلا ضَرَّاء مَضَرَّۃٍ۔
(٢٩٩٦٠) حضرت مالک بن الحارث فرماتے ہیں کہ حضرت عمار یوں دعا کرتے : اے اللہ ! میں آپ سے سوال کرتا ہوں آپ کے علم غیب کے ساتھ، اور مخلوق پر آپ کی قدرت کے ساتھ، کہ آپ مجھے زندہ رکھیں جب تک آپ جانیں کہ زندگی میرے حق میں بہتر ہے، اور مجھے وفات دے دیں جب آپ جان لیں کہ وفات میرے لیے بہتر ہے۔ اے اللہ ! میں آپ سے سوال کرتا ہوں ظاہر اور پوشیدگی میں آپ کے خوف کا، اور میں آپ سے امیری اور فقیری میں میانہ روی مانگتا ہوں، اور میں آپ سے سوال کرتا ہوں غصہ اور خوشی میں اعتدال کا۔ اے اللہ ! میرے نزدیک اپنی ملاقات کو محوظب بنا دے، اور اپنی ملاقات کے شوق کو بھی جو نہ گمراہ کرنے والے فتنہ میں ہو اور نہ ہی کسی حالت تکلیف میں تکلیف دے۔

29960

(۲۹۹۶۱) حَدَّثَنَا مُعَاوِیَۃُ بْنُ ہِشَامٍ ، عَن عُمَرَ بْنِ رَاشِدٍ قَالَ : حدَّثَنَی إیَاسُ بْنُ سَلَمَۃَ بْنِ الأَکْوَعِ ، عَنْ أَبِیہِ قَالَ : مَا سَمِعْت رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَسْتَفْتِحُ دُعَاء إِلاَّ یَسْتَفْتِحُہُ بِسُبْحَانَ رَبِّی الأَعْلَی الْعَلِیِّ الْوَہَّابِ۔ (احمد ۵۴)
(٢٩٩٦١) حضرت سلمۃ بن الاکوع فرماتے ہیں کہ میں نے نہیں سنا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کہ آپ نے دعا شروع فرمائی ہو مگر یہ کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کلمات کے ساتھ دعا شروع فرماتے تھے : پاک ہے میرا پروردگار، بڑا عالیشان، بلند وبالا اور سب کچھ عطا کرنے والا ہے۔

29961

(۲۹۹۶۲) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ وَمَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِیَۃَ ، عَن مُوسَی الْجُہَنِیِّ ، عَن مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ أَبِیہِ قَالَ : جَائَ أَعْرَابِیٌّ إِلَی النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ : یَا رَسُولَ اللہِ ، عَلِّمْنِی شَیْئًا أَقُولُہُ ، قَالَ : قُلْ : لاَ إلَہَ إِلاَّ اللَّہُ وَحْدَہُ لاَ شَرِیکَ لَہُ لَہُ الْمُلْکُ اللَّہُ ، أَکْبَرُ کَبِیرًا ، وَالْحَمْدُ لِلَّہِ کَثِیرًا ، سُبْحَانَ اللہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ ، لاَ حَوْلَ وَلا قُوَّۃَ إِلاَّ بِاللہِ الْعَزِیزِ الْحَکِیمِ ، قَالَ : فَقَالَ الأَعْرَابِیُّ : ہَذَا لِرَبِّی فَمَا لِی ، قَالَ : قُلِ : اللَّہُمَّ اغْفِرْ لِی وَارْحَمْنِی وَاہْدِنِی وَارْزُقْنِی۔ (مسلم ۲۰۷۲۔ ابن حبان ۹۴۶)
(٢٩٩٦٢) حضرت سعد فرماتے ہیں کہ ایک دیہاتی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہو کر کہنے لگا : اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! مجھے کوئی ایسا ذکر بتادیں جو پڑھتا رہا کروں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” کہو : اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں ہے، اللہ سب سے بڑا ہے، اور سب تعریفیں اللہ کے لیے ہیں، اللہ پاک ہے جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے، گناہوں سے بچنے اور نیکی پر لگنے کی طاقت صرف اللہ کی ذات کی طرف سے ہے جو زبردست غالب حکمت والا ہے۔
حضرت سعد فرماتے ہیں دیہاتی نے پوچھا : یہ تو میرے رب کے لیے ہے اور میرے لیے کیا ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کہہ : اے اللہ ! مجھے بخش دے، اور مجھ پر رحم فرما، اور مجھے ہدایت دے ، اور مجھے رزق عطا فرما۔

29962

(۲۹۹۶۳) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، عَن مِسْعَرٍ ، عَنْ أَبِی الَعَنَبَسِ ، عَنْ أَبِی الْعَدَبَّس ، عَنْ أَبِی مَرْزُوقٍ ، عَنْ أَبِی غَالِبٍ ، عَنْ أَبِی أُمَامَۃَ قَالَ : خَرَجَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَکَأَنَّا اشْتَہَیْنَا أَنْ یَدْعُوَ لَنَا فَقَالَ : اللَّہُمَّ اغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا وَارْضَ عَنَّا وَتَقَبَّلْ مِنَّا وَأَدْخِلْنَا الْجَنَّۃَ وَنَجِّنَا مِنَ النَّارِ وَأَصْلِحْ لَنَا شَأْنَنَا کُلَّہُ ، فَکَأَنَّا اشْتَہَیْنَا أَنْ یَزِیدَنَا فَقَالَ : قَدْ جَمَعْت لَکُمُ الأَمْرَ۔ (احمد ۲۵۳)
(٢٩٩٦٣) حضرت ابو امامہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نکلے پس گویا ہم چاہ رہے تھے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے لیے دعا فرمائیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے اللہ ! ہماری مغفرت فرما، اور ہم پر رحم فرما، اور ہم سے راضی ہوجا، اور ہم سے قبول فرما، اور ہمیں جنت میں داخل فرما دے، اور ہمیں آگ سے چھٹکارا عطا فرما، اور ہمارے سارے معاملے کو درست فرما دے پھر ہم نے چاہا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مزید دعا فرمائیں ۔ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں نے تمہارے سارے مسئلوں کو اکٹھا کردیا ہے۔

29963

(۲۹۹۶۴) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، حَدَّثَنَا زَکَرِیَّا بْنُ أَبِی زَائِدَۃَ حَدَّثَنَا مَنْصُورُ بْنُ الْمُعْتَمِرِ قَالَ : حدَّثَنِی رِبْعِیُّ بْنُ حِرَاشٍ ، عَن عِمْرَانَ بْنِ حُصَیْنٍ ، أَنَّہُ قَالَ : جَائَ حُصَیْنٌ إِلَی النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَبْلَ أَنْ یُسْلِمَ فَقَالَ: یَا مُحَمَّدُ ، مَا تَأْمُرُنِی أَنْ أَقُولَ ؟ قَالَ : تَقُولُ : اللَّہُمَّ إنِّی أَعُوذُ بِکَ مِنْ شَرِّ نَفْسِی ، وَأَسْأَلُک أَنْ تَعْزِمَ لِی عَلَی أَرْشَدِ أَمْرِی ، قَالَ : ثُمَّ إنَّ حُصَیْنًا أَسْلَمَ بَعْدُ ، ثُمَّ أَتَی النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ : إنِّی کُنْت سَأَلْتُک الْمَرَّۃَ الأُولَی ، وَإِنِّی الآنَ أَقُولُ : مَا تَأْمُرُنِی أَقُولُ ؟ قَالَ : قُلِ : اللَّہُمَّ اغْفِرْ لِی مَا أَسْرَرْت ، وَمَا أَعْلَنْت ، وَمَا أَخْطَأْت ، وَمَا تَعَمَّدْت ، وَمَا جَہِلْت ، وَمَا عَلِمْت۔ (ترمذی ۳۴۸۳۔ احمد ۴۴۴)
(٢٩٩٦٤) حضرت عمران بن حصین فرماتے ہیں کہ حضرت حصین اسلام لانے سے قبل نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہنے گے : اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ مجھے کیا چیز پڑھنے کا حکم دیتے ہیں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم یہ دعا پڑھا کرو، ” اے اللہ ! میں آپ کی پناہ مانگتا ہوں اپنے نفس کے شر سے، اور میں آپ سے سوال کرتا ہوں کہ آپ مجھے میرے صحیح معاملہ پر پختہ کردیں۔ “ راوی فرماتے ہیں : پھر اس کے بعد حضرت حصین نے اسلام قبول کرلیا۔ اور پھر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہو کر کہنے لگے : میں نے پہلی مرتبہ بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہی سوال کیا تھا اور اب میں پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ سوال کرتا ہوں : آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مجھے کیا چیز پڑھنے کا حکم دیتے ہیں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تو یہ دعا پڑھ : اے اللہ ! تو میری مغفرت فرما ان کاموں سے جو میں نے پوشیدہ طور پر کیے، اور جو میں نے اعلانیہ کیے، اور جو میں نے غلطی سے کیے، اور جو میں نے جان بوجھ کر کیے، اور جو میں نے ناواقفیت سے کیے، اور جو میں نے جانتے بوجھتے ہوئے کیے۔

29964

(۲۹۹۶۵) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ ، عَنِ الْعَلائِ ، عَنْ أَبِی دَاوُدَ الأَوْدِیِّ ، عَن بُرَیْدَۃَ قَالَ : قَالَ لِی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : أَلا أُعَلِّمُک کَلِمَاتٍ مَنْ أَرَادَ اللَّہُ بِہِ خَیْرًا عَلَّمَہُ إیَّاہُنَّ ، ثُمَّ لَمْ یُنْسِہِ إیَّاہُنَّ أَبَدًا ، قَالَ: قُلِ : اللَّہُمَّ إنِّی ضَعِیفٌ فَقَوِّ فِی رِضَاک ضَعْفِی ، وَخُذْ إِلَی الْخَیْرِ بِنَاصِیَتِی ، وَاجْعَلِ الإِسْلامَ مُنْتَہَی رِضَائِی ، اللَّہُمَّ إنِّی ضَعِیفٌ فَقَوِّنِی ، وَذَلِیلٌ فَأَعِزَّنِی وَفَقِیرٌ فَارْزُقْنِی۔ (حاکم ۵۲۷)
(٢٩٩٦٥) حضرت بریدہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھ سے ارشاد فرمایا : کیا میں تجھے چند ایسے کلمات نہ سکھا دوں کہ اللہ جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرتا ہے اس کو یہ کلمات سکھاتا ہے پھر کبھی اس سے ان کلمات کو بھلاتا بھی نہیں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم یہ کلمات پڑھ لیا کرو : اے اللہ ! میں کمزور ہوں تو اپنی خوشنودی میں میری کمزوری کو طاقت سے بدل دے، اور میری پیشانی کو بھلائی کی طرف پکڑ لے، اور اسلام کو میری خوشنودی کی انتہا بنا دے۔ اے اللہ ! میں کمزور تو مجھے قوی بنا دے، اور میں ذلیل ہوں تو مجھے عزت بخش دے، اور میں فقیر ہوں تو مجھے رزق عطا فرما۔

29965

(۲۹۹۶۶) حَدَّثَنَا یُونُسُ بْنُ مُحَمَّدٍحَدَّثَنَا لَیْثُ بْنُ سَعْدٍ ، عَن یَزِیدَ بْنِ أَبِی حَبِیبٍ ، عَنْ أَبِی الْخَیْرِ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو ، عَنْ أَبِی بَکْرٍ ، أَنَّہُ قَالَ لِرَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : عَلِّمْنِی دُعَائً أَدْعُو بِہِ ، قَالَ : قُلِ : اللَّہُمَّ إنِّی ظَلَمْت نَفْسِی ظُلْمًا کَثِیرًا ، وَلا یَغْفِرُ الذَّنْبَ إِلاَّ أَنْتَ فَاغْفِرْ لِی مَغْفِرَۃً مِنْ عَندِکَ وَارْحَمْنِی إنَّک أَنْتَ الْغَفُورُ الرَّحِیمُ۔ (بخاری ۸۳۴۔ مسلم ۲۰۷۸)
(٢٩٩٦٦) حضرت عبداللہ بن عمرو فرماتے ہیں کہ حضرت ابوبکر نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا : آپ مجھے کوئی ایسی دعا سکھلا دیں جو میں مانگا کروں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم یہ دعا مانگو : اے اللہ ! میں نے اپنے آپ پر بہت ظلم کیا ہے، اور صرف تو ہی گناہ کو بخش سکتا ہے پس تو مجھے بخش اپنی خاص بخشش کے ساتھ اور مجھ پر رحم فرما۔ بیشک تو بخشنے والا، رحم والا ہے۔

29966

(۲۹۹۶۷) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللہِ الأَسَدِیُّ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ صَالِحٍ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ سَلِمَۃَ ، عَنْ عَلِیٍّ قَالَ : قَالَ لِی النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : أَلا أُعَلِّمُک کَلِمَاتٍ إذَا قُلْتہنَّ غُفِرَ لَکَ ، مَعَ أَنَّہُ مَغْفُورٌ لَکَ : لاَ إلَہَ إِلاَّ اللَّہُ الْحَلِیمُ الْکَرِیمُ لاَ إلَہَ إِلاَّ اللَّہُ الْعَلِیُّ الْعَظِیمُ سُبْحَانَ اللہِ رَبِّ السَّمَاوَاتِ السَّبْعِ وَرَبِّ الْعَرْشِ الْعَظِیمِ الْحَمْدُ لِلَّہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ۔ (ترمذی ۳۵۰۴۔ ابن حبان ۶۹۲۸)
(٢٩٩٦٧) حضرت علی فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے ارشاد فرمایا : کیا میں تجھے چند ایسے کلمات نہ سکھا دوں کہ جب تو ان کو پڑھے گا تو تیری بخشش کردی جائے گی۔ باوجود یہ کہ تو بخشا بخشایا ہے۔ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں جو بڑا بردبار، سخی ہے، اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں جو کہ بلند وبالا ، عظمت والا ہے، پاک ہے ساتوں آسمانوں کا رب، اور عرش کریم کا رب ہے، سب تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جو تمام جہانوں کا رب ہے۔

29967

(۲۹۹۶۸) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنِ الْجُرَیْرِیِّ ، عَنْ أَبِی الْوَرْدِ بْنِ ثُمَامَۃَ ، عَنِ اللَّجْلاجِ ، عَن مُعَاذٍ قَالَ : مَرَّ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَی رَجُلٍ وَہُوَ یَقُولُ : اللَّہُمَّ إنِّی أَسْأَلُک الصَّبْرَ ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : سَأَلْت اللَّہَ الْبَلائَ فَاسْأَلْہُ الْمُعَافَاۃَ ، وَمَرَّ عَلَی رَجُلٍ وَہُوَ یَقُولُ : اللَّہُمَّ إنِّی أَسْأَلُک تَمَامَ النِّعْمَۃِ فَقَالَ : یَا ابْنَ آدَمَ ، وَہَلْ تَدْرِی مِنْ تَمَامِ النِّعْمَۃِ ؟ قَالَ : یَا رَسُولَ اللہِ ، دَعْوَۃٌ دَعَوْت بِہَا رَجَائَ الْخَیْرِ ، قَالَ : فَإِنَّ مِنْ تَمَامِ النِّعْمَۃِ دُخُولَ الْجَنَّۃِ والعوذ مِنَ النَّارِ ، وَمَرَّ عَلَی رَجُلٍ وَہُوَ یَقُولُ : یَا ذَا الْجَلالِ وَالإِکْرَامِ ، فَقَالَ : قَدِ اسْتُجِیبَ لَکَ فَاسْأَلْ۔ (احمد ۲۳۱)
(٢٩٩٦٨) حضرت معاذ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا گزر ایک آدمی پر ہوا جو یہ دعا کررہا تھا : اے اللہ ! میں تجھ سے صبر مانگتا ہوں۔ تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تو نے اللہ سے مصیبت مانگی ہے پس تو اس سے صحت و عافیت کا سوال کر۔ اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ایک اور آدمی پر بھی گزر ہوا جو یہ دعا کررہا تھا : اے اللہ ! میں آپ سے مکمل نعمت کا سوال کرتا ہوں۔ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے آدم کے بیٹے ! کیا تو جانتا ہے کہ مکمل نعمت کیا ہے ؟ اس شخص نے کہا : اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! اس دعا سے میں نے خیر کے ارادہ کی امید کی ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : پس یقیناً مکمل نعمت جنت مں ت داخل ہونا اور جہنم سے بچنا ہے۔
اور ایک اور آدمی پر گزر ہوا تو وہ یہ دعا کررہا تھا : اے بزرگی اور اکرام و انعام والے ! تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تیری دعا قبول کی جائے گی پس تو سوال کر۔

29968

(۲۹۹۶۹) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ عَنِ الأعمش عَنِ یزید الرقاشی عَنِ أنس قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : ألظوا بـ : یَا ذَا الْجَلالِ وَالإِکْرَامِ۔ (ترمذی ۳۵۲۴۔ احمد ۱۷۷)
(٢٩٩٦٩) حضرت انس فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : یا ذا الجلال والاکرام (اے بزرگی اور بخشش والے ) کا ورد کیا کرو۔

29969

(۲۹۹۷۰) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا مِسْعَرٌ ، عن إِسْحَاقُ بْنُ رَاشِدٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ الْحَسَنِ ، أَنَّ عَبْدَ اللہِ بْنَ جَعْفَرٍ دَخَلَ عَلَی ابْنٍ لَہُ مَرِیضٍ یُقَالُ لَہُ صَالِحٌ ، فَقَالَ لَہُ : قُلْ لاَ إلَہَ إِلاَّ اللَّہُ الْحَلِیمُ الْکَرِیمُ ، سُبْحَانَ رَبِّ الْعَرْشِ الْعَظِیمِ ، الْحَمْدُ لِلَّہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ اللَّہُمَّ اغْفِرْ لِی ، اللَّہُمَّ ارْحَمْنِی ، اللَّہُمَّ تَجَاوَزْ عَنی ، اللَّہُمَّ اعْفُ عَنی فَإِنَّک عَفُوٌّ غَفُورٌ ، ثُمَّ قَالَ : ہَؤُلائِ الْکَلِمَاتُ عَلَّمَنِیہِنَّ عَمِّی ذَکَرَ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَّمَہُنَّ إیَّاہُ۔ (نسائی ۱۰۴۷۷)
(٢٩٩٧٠) حضرت عبداللہ بن الحسن فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن جعفر اپنے ایک بیٹے کے پاس تشریف لے گئے جو بیمار تھا اور اس کو صالح کہا جاتا تھا۔ پھر آپ نے اس سے فرمایا : تو یہ کلمات کہہ : اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں جو کہ بڑا بردبار، سخی ہے، پاک ہے اللہ جو عرش عظیم کا رب ہے، سب تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جو تمام جہانوں کا رب ہے۔ اے اللہ ! تو میری مغفرت فرما۔ اے اللہ ! تو مجھ پر رحم فرما۔ اے اللہ ! تو میری خطاؤں سے درگزر فرما۔ اے اللہ ! تو مجھے معاف فرما، یقیناً تو معاف کرنے والا بخشنے والا ہے۔ پھر حضرت عبداللہ بن جعفر نے فرمایا : یہ کلمات مجھے میرے چچا نے سکھلائے تھے اور انھیں یہ کلمات نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سکھلائے تھے۔

29970

(۲۹۹۷۱) حَدَّثَنَا عِیسَی بْنُ یُونُسَ ، عَنِ الأَوْزَاعِیِّ ، عَن حَسَّانَ بْنِ عَطِیَّۃَ ، عَن شَدَّادِ بْنِ أَوْسٍ ، أَنَّہُ قَالَ : احْفَظُوا عَنی مَا أَقُولُ لَکُمْ ، سَمِعْت رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : إذَا کَنَزَ النَّاسُ الذَّہَبَ وَالْفِضَّۃَ فَاکْنِزُوا ہَذِہِ الْکَلِمَاتِ اللَّہُمَّ إنِّی أَسْأَلُک الثَّبَاتَ فِی الأَمْرِ ، وَالْعَزِیمَۃَ عَلَی الرُّشْدِ ، وَأَسْأَلُک شُکْرَ نِعْمَتِکَ ، وَأَسْأَلُک حُسْنَ عِبَادَتِکَ ، وَأَسْأَلُک قَلْبًا سَلِیمًا وَلِسَانًا صَادِقًا ، وَأَسْأَلُک مِنْ خَیْرِ مَا تَعْلَمُ ، وَأَعُوذُ بِکَ مِنْ شَرِّ مَا تَعْلَمُ ، وَأَسْتَغْفِرُک لِمَا تَعْلَمُ ، إنَّک أَنْتَ عَلاَّمُ الْغُیُوبِ۔ (احمد ۱۲۳۔ ابن حبان ۱۹۷۴)
(٢٩٩٧١) حضرت شداد بن اوس فرماتے ہیں تم لوگ میری اس بات کو جو میں کہنے لگا ہوں اس کو یاد کرلو۔ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے سنا ہے ! جب لوگ سونا اور چاندی سے خزانہ بھرنے لگیں تو تم ان کلمات سے خزانہ بھرنا، اے اللہ ! میں آپ سے دین میں ثابت قدمی کا سوال کرتا ہوں آپ کی نعمت کے شکر کرنے کا، اور میں آپ سے سوال کرتا ہوں آپ کی بہترین عبادت کرنے کا، اور میں آپ سے سوال کرتا ہوں تندرست دل کا اور سچی زبان کا ، اور میں آپ سے سوال کرتا ہوں اس بھلائی کا جو آپ جانتے ہیں، اور میں آپ کی پناہ مانگتا ہوں اس برائی سے جس کو آپ جانتے ہیں، اور میں آپ سے بخشش طلب کرتا ہوں اس گناہ سے جس کو آپ جانتے ہیں۔ بیشک تو غیب کی باتوں کا جاننے والا ہے۔

29971

(۲۹۹۷۲) حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ ، عَنْ مُوسَی بْن عُبَیْدَۃَ ، عَن مُحَمَّدِ بْنِ کَعْبٍ قَالَ : کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُعَلِّمُ أَصْحَابَہُ ، یَقُولُ : قُولُوا : اللَّہُمَّ اغْفِرْ لَنَا حَوْبَاتِنَا وَأَقِلْنَا عَثَرَاتِنَا وَاسْتُرْ عَوْرَاتِنَا۔
(٢٩٩٧٢) حضرت محمد بن کعب فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے اصحاب کو یہ دعا سکھلاتے تھے۔ فرماتے تھے : تم یوں دعا کرو : اے اللہ ! ہمارے گناہوں کی مغفرت فرما، اور ہماری لغزشوں کو بھی معاف فرما اور ہماری پردہ پوشی فرما۔

29972

(۲۹۹۷۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ قَالَ حَدَّثَنَا مَالِکُ بْنُ مِغْوَلٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ بُرَیْدَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سَمِعَ رَجُلاً یَقُولُ : اللَّہُمَّ إنِّی أَسْأَلُک بِأَنَّک أَنْتَ اللَّہُ ، الأَحَدُ الصَّمَدُ ، الَّذِی لَمْ یَلِدْ وَلَمْ یُولَدْ ، وَلَمْ یَکُنْ لَہُ کُفُوًا أَحَدٌ ، فَقَالَ : لَقَدْ سَأَلَ اللَّہَ بِاسْمِہِ الأَعْظَمِ ، الَّذِی إذَا دُعِیَ بِہِ أَجَابَ ، وَإِذَا سُئِلَ بِہِ أَعْطَی۔ (ابوداؤد ۱۴۸۸۔ترمذی ۳۴۷۵)
(٢٩٩٧٣) حضرت بریدہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک آدمی کو یوں دعا کرتے ہوئے سنا : اے اللہ ! میں آپ سے سوال کرتا ہوں آپ ہی کے وسیلہ سے کہ آپ اللہ ہیں، ایک ہیں بےنیاز ہیں کہ جس نے نہ کسی کو جنا اور نہ وہ کسی سے جنا گیا ، اور کوئی بھی اس کا ہمسر نہیں ہے۔ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کہ اس شخص نے اللہ کے اسم اعظم کے وسیلہ سے سوال کیا ہے، کہ جب اس کے وسیلہ سے دعا مانگی جائے تو وہ قبول کرتا ہے، اور جب اس کے وسیلہ سے کچھ مانگا جائے تو وہ عطا کرتا ہے۔

29973

(۲۹۹۷۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ أَبِی خُزَیْمَۃَ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ : سَمِعَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَجُلاً یَقُولُ : اللَّہُمَّ إنِّی أَسْأَلُک بِأَنَّ لَکَ الْحَمْدَ لاَ إلَہَ إِلاَّ أَنْتَ وَحْدَک ، لاَ شَرِیکَ لَکَ ، الْمَنَّانُ بَدِیعُ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ ذُو الْجَلالِ وَالإِکْرَامِ ، فَقَالَ : لَقَدْ سَأَلَ اللَّہَ بِاسْمِہِ الأَعْظَمِ الَّذِی إذَا سُئِلَ بِہِ أَعْطَی وَإِذَا دُعِیَ بِہِ أَجَابَ۔ (ترمذی ۳۵۴۴۔ احمد ۲۶۵)
(٢٩٩٧٤) حضرت انس بن مالک فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک شخص کو یوں دعا کرتے ہوئے سنا : اے اللہ ! میں آپ سے سوال کرتا ہوں اس وسیلہ سے کہ آپ کے لیے ہی سب تعریف ہے، تیرے سوا کوئی معبود نہیں، تو اکیلا ہے تیرا کوئی شریک نہیں ہے، عطا کر کے فخر کرنے والا، آسمانوں اور زمین کو ایجاد کرنے والا، بزرگی اور اکرام والا ہے، تو آپ نے فرمایا : البتہ تحقیق اس شخص نے اللہ کے اسم اعظم کے وسیلہ سے سوال کیا ہے کہ جب اس کے وسیلہ سے مانگا جائے تو وہ عطا کرتا ہے، اور جب اس کے وسیلہ سے دعا کی جائے تو وہ قبول کرتا ہے۔

29974

(۲۹۹۷۵) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، حَدَّثَنَا مِسْعَرٌ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ مَیْسَرَۃَ ، عَنِ ابْنِ سَابِطٍ ، أَنَّ دَاعِیًا دَعَا فِی عَہْدِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ : اللَّہُمَّ إنِّی أَسْأَلُک بِاسْمِکَ اللہ الَّذِی لاَ إلَہَ إِلاَّ أَنْتَ الرَّحْمَن الرَّحِیمُ بَدِیعُ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ ، وَإِذَا أَرَدْت أَمْرًا فَإِنَّمَا تَقُولُ لَہُ : کُنْ ، فَیَکُونُ ، فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لَقَدْ کِدْت ، أَوْ کَادَ أَنْ یَدْعُوَ بِاسْمِہِ الْعَظِیمِ الأَعْظَمِ۔
(٢٩٩٧٥) حضرت عبد الرحمن بن سابط فرماتے ہیں کہ ایک دعا مانگنے والے نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں دعا مانگی پس وہ کہنے لگا : اے اللہ ! میں آپ سے سوال کرتا ہوں آپ کے نام اللہ کے وسیلہ کے ساتھ کہ نہیں ہے تیرے سوا کوئی معبود، نہایت مہربان رحم کرنے والا ہے، آسمانوں او زمین کو بغیر نمونے کے پیدا کرنے والا ہے، اور جب تو کسی کام کے کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو تو اس کو کہتا ہے : ہوجا، تو وہ کام ہوجاتا ہے۔ اس پر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : البتہ تو نے یا اس نے اللہ کے اسم اعظم عظمت والے نام کے وسیلہ سے دعا مانگی ہے۔

29975

(۲۹۹۷۶) حَدَّثَنَا عِیسَی بْنُ یُونُسَ ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ بْنِ أَبِی زِیَادٍ ، عَن شَہْرِ بْنِ حَوْشَبٍ ، عَنْ أَسْمَائَ بِنْتِ یَزِیدَ قَالَتْ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : اسْمُ اللہِ الأَعْظَمُ فِی ہَاتَیْنِ الآیَتَیْنِ : {وَإِلَہُکُمْ إلَہٌ وَاحِدٌ لاَ إلَہَ إِلاَّ ہُوَ الرَّحْمَن الرَّحِیمُ} وَفَاتِحَۃِ سُورَۃِ آلِ عِمْرَانَ : {الم اللَّہُ لاَ إلَہَ إِلاَّ ہُوَ الْحَیُّ الْقَیُّومُ} ۔ (ابوداؤد ۱۴۹۱۔ ترمذی ۳۴۷۸)
(٢٩٩٧٦) حضرت اسماء بنت یزید فرماتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اللہ کا اسم اعظم ان دو آیتوں میں مذکور ہے : ” اور تمہارا الہ ایک معبود ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے جو نہایت مہربان ، رحم کرنے والا ہے۔ “ اور سورة آل عمران کے شروع میں : الٓم۔ اللہ جس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے جو زندہ ہے سب کو قائم رکھنے والا ہے۔

29976

(۲۹۹۷۷) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، عَن مِسْعَرٍ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ عُمَیْرٍ قَالَ : قرَأَ رَجُلٌ الْبَقَرَۃَ وَآلَ عِمْرَانَ فَقَالَ کَعْبٌ : قَدْ قَرَأَ سُورَتَیْنِ إنَّ فِیہِمَا لِلاسْمِ الَّذِی إذَا دُعِیَ بِہِ اسْتَجَابَ۔
(٢٩٩٧٧) حضرت عبد الملک بن عمیر فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے سورة البقرۃ اور آل عمران کی تلاوت کی تو حضرت کعب فرمانے لگے، تحقیق تو نے دو سورتوں کی تلاوت کی ہے، ان دونوں سورتوں میں ایک ایسا نام ہے کہ جب اس نام کے وسیلہ سے دعا مانگی جائے تو وہ قبول کرتا ہے۔

29977

(۲۹۹۷۸) حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمُقْرِئُ ، عَن سَعِیدِ بْنِ أَبِی أَیُّوبَ قَالَ : حدَّثَنَی الْحَسَنُ بْنُ ثَوْبَانَ ، عَن ہِشَامِ بْنِ أَبِی رُقْیَۃَ ، عَنْ أَبِی الدَّرْدَائِ ، وَابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّہُمَا کَانَا یَقُولانِ : اسْمُ اللہِ الأَکْبَرُ رَبِّ رَبِّ۔
(٢٩٩٧٨) حضرت ہشام بن ابی رقیہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابو الدردائ اور حضرت ابن عباس فرمایا کرتے تھے : اللہ کا سب سے بڑا اونچا نام ہے میرا پروردگار، میرا پروردگار ہے۔

29978

(۲۹۹۷۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ أَبِی ہِلالٍ ، عَن حَیَّانَ الأَعْرَجِ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ زَیْدٍ قَالَ : اسْمُ اللہِ الأَعْظَمُ اللَّہُ۔
(٢٩٩٧٩) حضرت حیان الاعرج فرماتے ہیں کہ حضرت جابر ابن زید نے ارشاد فرمایا کہ اللہ کا اسم اعظم لفظ اللہ ہے۔

29979

(۲۹۹۸۰) حَدَّثَنَا سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَن مِسْعَرٍ عَمَّنْ سَمِعَ الشَّعْبِیَّ یَقُولُ : اسْمُ اللہِ الأَعْظَمُ اللہ ، ثُمَّ قَرَأَ ، أَوْ قَرَأْت عَلَیْہِ ہُوَ اللَّہُ الْخَالِقُ إِلَی آخِرِہَا
(٢٩٩٨٠) حضرت مسعر فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت شعبی کا قول سنا ہے : اللہ کا اسم اعظم لفظ اللہ ہے۔ پھر انھوں نے یا میں نے ان پر یہ آیت تلاوت فرمائی، وہ اللہ جو پیدا کرنے والا ہے۔ آیت کے اختتام تک۔

29980

(۲۹۹۸۱) حَدَّثَنَا سَہْلُ بْنُ یُوسُفَ ، عَن حُمَیْدٍ ، عَنْ أَبِی الصِّدِّیقِ قَالَ : قَالَ أَبُو سَعِیدٍ : إذَا سَأَلْتُمُ اللَّہَ تعالی فَارْفَعُوا فِی الْمَسْأَلَۃِ ، فَإِنَّ مَا عِنْدَ اللہِ لَسْتُمْ مُنْفِدِیہِ۔
(٢٩٩٨١) حضرت ابو الصدیق فرماتے ہیں کہ حضرت ابو سعید نے ارشاد فرمایا : جب تم لوگ اللہ سے کوئی چیز مانگو تو اپنے مانگنے میں خوب مبالغہ کرو۔ پس یقیناً جو کچھ اللہ کے پاس ہے تم اس کو ختم کرنے والے نہیں ہو۔

29981

(۲۹۹۸۲) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، حَدَّثَنَا ہِشَامٌ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ : إذَا تَمَنَّی أَحَدُکُمْ فَلْیُکْثِرْ فَإِنَّمَا یَسْأَلُ رَبَّہُ۔ (ابن حبان ۸۸۹۔ عبد بن حمید ۱۴۹۶)
(٢٩٩٨٢) حضرت عروہ فرماتے ہیں کہ حضرت عائشہ نے ارشاد فرمایا : جب تم میں سے کوئی شخص کسی چیز کی خواہش و تمنا کرے تو اس کو چاہیے کہ وہ کثرت سے مانگے کیونکہ وہ اپنے رب سے مانگ رہا ہے۔ (کسی اور سے نہیں )

29982

(۲۹۹۸۳) حَدَّثَنَا شَرِیکُ بْنُ عَبْدِ اللہِ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ عُمَیْرٍ ، عَن رَجَائِ بْنِ حَیْوَۃَ ، عَنْ أَبِی الدَّرْدَائِ قَالَ : إیَّاکَ وَدَعْوَۃَ الْمَظْلُومِ فَإِنَّہَا تَصْعَدُ إِلَی السَّمَائِ کَشَرَارَاتِ نَارٍ حَتَّی تُفْتَحَ لَہَا أَبْوَابُ السَّمَائِ۔
(٢٩٩٨٣) حضرت رجاء بن حیوہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابو الدردائ نے ارشاد فرمایا : تم مظلوم کی بد دعا سے بچو، کیونکہ اس کی بد دعا آسمان کی طرف ایسے اٹھتی ہے جیسا کہ آگ کی چنگاریاں اٹھتی ہیں یہاں تک کہ اس کے لیے آسمان کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں۔

29983

(۲۹۹۸۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن زَکَرِیَّا بْنِ إِسْحَاقَ قَالَ : حدَّثَنَی یَحْیَی بْنُ عَبْدِ اللہِ بْنِ صَیْفِیٍّ ، عَنْ أَبِی مَعْبَدٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، عَن مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : إیَّاکَ وَدَعْوَۃَ الْمَظْلُومِ فَإِنَّہُ لَیْسَ بَیْنَہَا وَبَیْنَ اللہِ حِجَابٌ۔
(٢٩٩٨٤) حضرت معاذ بن جبل سے مروی ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : تم مظلوم کی بد دعا سے بچو، کیونکہ اس کے درمیان اور اللہ کے درمیان کوئی پردہ نہیں ہوتا۔

29984

(۲۹۹۸۵) حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ بْنُ مُوسَی ، عَن شَیْبَانَ ، عَن فِرَاسٍ ، عَنْ عَطِیَّۃَ ، عَنْ أَبِی سَعِیدٍ ، رَفَعَہُ قَالَ : اجْتَنِبُوا دَعَوَاتِ الْمَظْلُومِ۔ (بخاری ۶۲۴۔ ابویعلی ۱۳۳۲)
(٢٩٩٨٥) حضرت ابو سعید مرفوعاً حدیث نقل کرتے ہیں کہ تم لوگ مظلوم کی بددعاؤں سے بچو۔

29985

(۲۹۹۸۶) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ حَدَّثَنَا مِسْعَرٌ ، عَن مَعَن ، عَنْ عَوْنِ بْنِ عَبْدِ اللہِ قَالَ : أَرْبَعٌ لاَ یُحْجَبْنَ عَنِ اللہِ : دَعْوَۃُ وَالِدٍ رَاضٍ وَإِمَامٍ مُقْسِطٍ وَدَعْوَۃُ الْمَظْلُومِ وَدَعْوَۃُ رَجُلٍ دُعَائً لأَخِیہِ بِظَہْرِ الْغَیْبِ۔
(٢٩٩٨٦) حضرت معن سے مروی ہے کہ حضرت عون ابن عبداللہ نے ارشاد فرمایا : چار چیزیں ایسی ہیں جو اللہ سے چھپی نہیں رہتیں، رضامند والد کی دعا، عادل امام کی دعا، اور مظلوم کی بد دعا، اور کسی شخص کا اپنے بھائی کی غیر موجودگی میں اس کے حق میں دعا کرنا۔

29986

(۲۹۹۸۷) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ حَدَّثَنَا أَبُو مَعْشَرٍ ، عَن سَعِیدِ بْنِ أَبِی سَعِیدٍ الْمَقْبُرِیِّ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ۔ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : دَعْوَۃُ الْمَظْلُومِ مُسْتَجَابَۃٌ ، وَإِنْ کَانَ فَاجِرًا فَفُجُورُہُ عَلَی نَفْسِہِ۔ (ابن حبان ۸۷۵۔ احمد ۳۶۷)
(٢٩٩٨٧) حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا مظلوم کی بد دعا قبول کی جاتی ہے اگر وہ گناہ گار ہو تو اس کا گناہ اس کے نفس پر بوجھ ہوتا ہے۔

29987

(۲۹۹۸۸) حَدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَن سَالِمِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنِ ابْنِ الْحَبْنَائِ ، عَنْ عَلِیٍّ قَالَ : ثَلاثَۃٌ لاَ تُرَدُّ دَعْوَتُہُمْ : الإِمَامُ الْعَادِلُ عَلَی الرَّعِیَّۃِ ، وَالْوَالِدُ لِوَلَدِہِ ، وَالْمَظْلُومُ۔
(٢٩٩٨٨) حضرت ابن الحبنائ سے مروی ہے کہ حضرت علی نے ارشاد فرمایا : تین شخص ایسے ہیں جن کی دعا رد نہیں کی جاتی؛ وہ حاکم جو اپنی رعایاپر عدل کرنے والا ہو ، اور باپ کی دعا بیٹے کے حق میں، اور مظلوم کی بد دعا۔

29988

(۲۹۹۸۹) حَدَّثَنَا شَرِیکٌ، عَن بَیَانَ أَبِی بِشْرٍ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ ہِلالٍ، عَنْ أَبِی الدَّرْدَائِ قَالَ: إیَّاکَ وَدَعْوَۃَ الْمَظْلُومِ۔
(٢٩٩٨٩) حضرت عبد الرحمن بن ھلال سے مروی ہے کہ حضرت ابو الدردائ نے ارشاد فرمایا : تم مظلوم کی بد دعا سے بچو۔

29989

(۲۹۹۹۰) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ سَلِمَۃَ ، أَنَّ رَجُلاً أَتَی مُعَاذًا فَقَالَ : أَوْصِنِی ، فَقَالَ : إیَّاکَ وَدَعْوَۃَ الْمَظْلُومِ۔
(٢٩٩٩٠) حضرت عبداللہ بن سلمہ سے مروی ہے کہ ایک شخص حضرت معاذ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا : مجھے کچھ وصیت فرما دیں : تو آپ نے ارشاد فرمایا : تم مظلوم کی بد دعا سے بچو۔

29990

(۲۹۹۹۱) حَدَّثَنَا عَبِیْدَۃُ بْنُ حُمَیْدٍ ، عَن مَنْصُورٍ ، عَن یُونُسَ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ عَلِیٍّ الأَزْدِیِّ قَالَ : حُدِّثْتُ أَنَّ دَاوُد عَلَیْہِ السَّلامُ کَانَ یَقُولُ : اللَّہُمَّ إنِّی أَعُوذُ بِکَ مِنْ غِنًی یُطْغِی ، وَمِنْ فَقْرٍ یُنْسِی ، وَمِنْ ہَوًی یُرْدِی ، وَمِنْ عَمَلٍ یُخْزِی۔
(٢٩٩٩١) حضرت علی الازدی فرماتے ہیں مجھے بیان کیا گیا ہے کہ حضرت داؤد یوں دعا فرماتے تھے : اے اللہ ! میں تجھ سے پناہ چاہتا ہوں ایسی امیری سے جو سرکش بنا دے، اور ایسی فقیری سے جو تجھے بھلا دے، اور ایسی خواہش سے جو ہلاک کر دے، اور ایسے عمل سے جو رسوا کر دے۔

29991

(۲۹۹۹۲) حَدَّثَنَا عَبِیْدَۃُ بْنُ حُمَیْدٍ ، عَن مَنْصُورٍ ، عَنْ عَطَائِ بْنِ أَبِی مَرْزُوقٍ ، عَن کَعْبٍ قَالَ : کَانَ دَاوُد عَلَیْہِ السَّلامُ یَقُولُ : اللَّہُمَّ خَلِّصْنِی مِنْ کُلِّ مُصِیبَۃٍ نَزَلَت اللَّیْلَۃَ مِنَ السَّمَائِ فِی الأَرْضِ ثَلاثًا ، وَیَقُولُ : اللَّہُمَّ اجْعَلْ لِی سَہْمًا فِی کُلِّ حَسَنَۃٍ نَزَلَتِ اللَّیْلَۃَ مِنَ السَّمَائِ فِی الأَرْضِ۔
(٢٩٩٩٢) حضرت کعب فرماتے ہیں : حضرت داؤد تین بار یوں دعا فرماتے تھے : اے اللہ ! مجھے ہر مصیبت سے خلاصی عطا فرما جو رات کو آسمان سے زمین میں اترتی ہے۔ اور فرماتے : اے اللہ ! تو ہر نیکی سے میرا حصہ مقرر فرما دے جو نیکی رات کو آسمان سے زمین میں اترتی ہے۔

29992

(۲۹۹۹۳) حَدَّثَنَا مُعَاوِیَۃُ بْنُ ہِشَامٍ ، عَن سُفْیَانَ ، عَنْ أَبِی مُصْعَبٍ وَہُوَ عَطَائٌ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَن کَعْبٍ قَالَ : کَانَ إذَا أَفْطَرَ اسْتَقْبَلَ الْقِبْلَۃَ ، وَقَالَ : اللَّہُمَّ خَلِّصْنِی مِنْ کُلِّ مُصِیبَۃٍ اللَّیْلَۃَ نَزَلَت مِنَ السَّمَائِ ثَلاثًا ، وَإِذَا طَلَعَ حَاجِبُ الشَّمْسِ قَالَ : اللَّہُمَّ اجْعَلْ لِی سَہْمًا فِی کُلِّ حَسَنَۃٍ نَزَلَتِ اللَّیْلَۃَ مِنَ السَّمَائِ إِلَی الأَرْضِ ثَلاثًا ، قَالَ : فَقِیلَ لَہُ ، فقَالَ : دَعْوَۃُ دَاوُد فَلَیِّنُوا بِہَا أَلْسِنَتَکُمْ وَأَشْعِرُوہَا قُلُوبَکُمْ۔
(٢٩٩٩٣) حضرت ابو مروان سے مروی ہے کہ حضرت کعب جب روزہ افطار فرماتے تو قبلہ کی طرف رخ کرتے اور تین بار یوں دعا فرماتے : اے اللہ ! مجھے ہر اس مصیبت سے خلاصی دے جو رات کو آسمان سے اترے گی، اور جب سورج کے کنارے طلوع ہوتے تو تین بار یوں دعا فرماتے : اے اللہ ! تو ہر نیکی میں میرا حصہ مقرر فرما جو رات کو آسمان سے زمین پر اترتی ہے۔ راوی فرماتے ہیں۔ پس ان سے اس دعا کے بارے میں پوچھا گیا ؟ تو انھوں نے فرمایا : حضرت داؤد کی دعا ہے، پس تم اس دعا سے اپنی زبانوں کو نرم کرو، اور اس کو اپنے دلوں کی نشانی بناؤ۔

29993

(۲۹۹۹۴) حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ عَوْفٍ ، عَنْ عَبَّاسٍ الْعَمِّیِّ قَالَ : بَلَغَنِی أَنَّ دَاوُد النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یَقُولُ فِی دُعَائِہِ سُبْحَانَک اللَّہُمَّ أَنْتَ رَبِّی ، تَعَالَیْت فَوْقَ عَرْشِکَ ، وَجَعَلْت عَلَی مَنْ فِی السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ خَشْیَتَکَ ، فَأَقْرَبُ خَلْقِکَ مِنْک مَنْزِلَۃً أَشَدُّہُمْ لَکَ خَشْیَۃً ، وَمَا عِلْمُ مَنْ لَمْ یَخْشَک ، أَوْ مَا حِکمۃ مَنْ لَمْ یُطِعْ أَمْرَک۔ (دارمی ۴۶۰۲)
(٢٩٩٩٤) حضرت عباس العمی سے مروی ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ مجھے خبر پہنچی ہے کہ حضرت داؤد اپنی دعا میں یہ کلمات پڑھا کرتے تھے : پاک ہے تیری ذات اے اللہ ! تو میرا پروردگار ہے۔ تو اپنے عرش سے بھی بلند ہے، اور تو نے ڈال دیا ہے اپنے خوف کو ان پر جو آسمانوں اور زمین میں ہیں۔ (پس تیرے قریب ترین شخص جو درجہ کے اعتبار سے تیرے نزدیک ہے وہ ہے جو شدت سے تجھ سے خوف کھاتا ہے) پس درجہ کے اعتبار سے تیرے نزدیک سب سے قریب ترین وہ شخص ہے جو سب سے زیادہ تجھ سے ڈرتا ہو، اور کیا علم ہو اس شخص کو جو تجھ سے ڈرتا نہ ہو، اور کیا حکمت ہو اس شخص کے پاس جو تیرے امر کی اطاعت نہ کرتا ہو۔

29994

(۲۹۹۹۵) حَدَّثَنَا عَفَّانُ بْنُ مُسْلِمٍ حَدَّثَنَا مُبَارَکٌ ، عَنِ الْحَسَنِ ، أَنَّ دَاوُد النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : اللَّہُمَّ لاَ مَرَضَ یُضْنِینِی ، وَلا صِحَّۃَ تُنْسِینِی ، وَلَکِنْ بَیْنَ ذَلِکَ۔
(٢٩٩٩٥) حضرت حسن سے مروی ہے کہ حضرت داؤد نے یوں دعا فرمائی ہے : اے اللہ ! ایسا مرض نہ ہو جو مجھے کمزور اور لاغر بنا دے، اور نہ ایسی صحت ہو کہ تو مجھے بھول جائے، اور لیکن اس کے درمیان رکھ۔

29995

(۲۹۹۹۶) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنِ ابْنِ عَجْلانَ ، عَن سَعِیدِ بْنِ أَبِی سَعِیدٍ قَالَ : کَانَ مِنْ دُعَائِ دَاوُد عَلَیْہِ السَّلامُ : اللَّہُمَّ إنِّی أَعُوذُ بِکَ مِنْ جَارِ السُّوئِ۔
(٢٩٩٩٦) حضرت سعید بن ابی سعید فرماتے ہیں کہ یہ حضرت داؤد کی دعا ہے : اے اللہ ! بیشک میں تیری پناہ مانگتا ہوں برے کی ہمسائیگی سے۔

29996

(۲۹۹۹۷) حَدَّثَنَا عَفَّانُ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ قَالَ: أَخْبَرَنَی حَبِیبُ بْنُ شَہِیدٍ، عَنِ ابْنِ بُرَیْدَۃَ، أَنَّ دَاوُد النَّبِیُّ علیہ السلام کَانَ یَقُولُ: اللَّہُمَّ إنِّی أَعُوذُ بِکَ مِنْ عَمَلٍ یُخْزِینِی ، وَہَوًی یُرْدِینِی ، وَفَقْرٍ یُنْسِینِی ، وَغِنًی یُطْغِی۔
(٢٩٩٩٧) حضرت ابن بریدہ سے مروی ہے کہ حضرت داؤد یوں دعا فرماتے تھے : اے اللہ ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں ایسے عمل سے جو رسوا کر دے، اور ایسی خواہش سے جو ہلاک کر دے، اور ایسی امیری سے جو سرکش بنا دے۔

29997

(۲۹۹۹۸) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَن مُحَمَّدِ بْنِ عَجْلانَ ، عَن مُسْلِمِ بْنِ أَبِی مَرْیَمِ قَالَ : جَائَتْ أُمُّ ہَانِئٍ إِلَی النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ: یَا رَسُولَ اللہِ، قَدْ کَبِرْت وَضَعُفْت فَعَلِّمْنِی عَمَلاً أَعْمَلُہُ، وَأَنَا جَالِسَۃٌ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إنَّک إِنْ کَبَّرْت اللَّہَ مِئَۃ تَکْبِیرَۃٍ کَانَتْ خَیْرًا مِنْ مِئَۃ بَدَنَۃٍ مُجَلَّلَۃٍ مُتَقَبَّلَۃٍ ، وَإِنَّک إِنْ سَبَّحْت اللَّہَ مِئَۃ تَسْبِیحَۃٍ کَانَتْ خَیْرًا مِنْ مِئَۃ رَقَبَۃٍ تُعْتِقِینَہَا ، وَإِنَّک إِنْ حَمِدْت اللَّہَ مِئَۃ تَحْمِیدَۃٍ کَانَتْ خَیْرًا مِنْ مِئَۃ فَرَسٍ مُسَرَّجٍ مُلَجَّمٍ یحمل عَلَیْہِنَّ فِی سَبِیلِ اللہِ عَزَّ وَجَلَّ۔ (نسائی ۱۰۶۸۰۔ ابن ماجہ ۳۸۱۰)
(٢٩٩٩٨) حضرت مسلم بن ابی مریم فرماتے ہیں کہ حضرت ام ھانی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور فرمانے لگیں : اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! میں کبر سنی کو پہنچ گئی اور کمزور ہوگئی ہوں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مجھے کوئی ایسا عمل سکھلا دیں جو میں بیٹھے بیٹھے کرتی رہا کروں۔ تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اگر تو سو مرتبہ اللہ کی کبریائی بیان کرے تو یہ سو جھول پہنائے ہوئے قبول شدہ اونٹوں سے بہتر ہے، اور بیشک تو اگر سو مرتبہ اللہ کی پاکی بیان کرے تو یہ سو غلاموں سے جن کو تو نے آزاد کیا ہو بہتر ہے، اور بیشک اگر تو اللہ کی سو مرتبہ حمد و ثنا کرے تو یہ زین کسے ہوئے اور لگام لگے ہوئے سو گھوڑوں سے بہتر ہے جن پر سامان اللہ کی راہ میں جانے کے لیے باندھا گیا ہو۔

29998

(۲۹۹۹۹) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ حَدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ بْنُ أَبِی خَالِدٍ قَالَ : حدَّثَنَی رَجُلٌ قِبَلَ الْجَمَاجِمِ مِنْ أَہْلِ الْمَسَاجِدِ قَالَ : أُخْبِرْت أَنَّ عِیسَی ابْنَ مَرْیَمَ عَلَیْہِ السَّلامُ کَانَ یَقُولُ : اللَّہُمَّ أَصْبَحْت لاَ أَمْلِکُ لِنَفْسِی مَا أَرْجُو، وَلا أَسْتَطِیعُ عنہا دَفْعَ مَا أَکْرَہُ ، وَأَصْبَحَ الْخَیْرُ بِیَدِ غَیْرِی، وَأَصْبَحْتُ مُرْتَہِنًا بِمَا کَسَبْت، فَلا فَقِیرَ أَفْقَرُ مِنِّی ، فَلا تَجْعَلْ مُصِیبَتِی فِی دِینِی ، وَلا تَجْعَلَ الدُّنْیَا أَکْبَرَ ہَمِّی ، وَلا تُسَلِّطْ عَلَیَّ مَنْ لاَ یَرْحَمُنِی۔
(٢٩٩٩٩) حضرت اسماعیل بن ابی خالد فرماتے ہیں کہ جنگ جماجم سے پہلے مسجد والوں میں سے ایک آدمی نے مجھے بیان کیا کہ مجھے خبر دی گئی ہے کہ حضرت عیسیٰ ابن مریم (علیہ السلام) یوں دعا فرماتے تھے : اے اللہ ! میں نے صبح کی ہے اس حال میں کہ میں اپنے نفس کے لیے اس چیز کا مالک نہیں جس میں پسند کرتا ہوں، اور نہ میں طاقت رکھتا ہوں اس چیز کو دور کرنے کی جس کو میں ناپسند کرتا ہوں، اور بھلائی و خیر نے میرے غیر کے قبضہ میں صبح کی ہے۔ اور میں نے صبح کی ہے اس حال میں کہ جو کچھ کھایا ہے وہ رہن رکھا گیا ہے، پس کوئی فقیر ایسا نہیں جو مجھ سے زیادہ فقر میں مبتلا ہو پس تو میرے دین کے معاملہ میں مجھے مصیبت میں مت ڈال، اور نہ ہی دنیا کو میرا سب سے بڑا غم بنا۔ اور مجھ پر مسلط نہ فرما اس شخص کو جو مجھ پر رحم نہ کرے۔

29999

(۳۰۰۰۰) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ حَدَّثَنِی إسْمَاعِیلُ قَالَ : ذُکِرَ عَن بَعْضِ الأَنْبِیَائِ ، أَنَّہُ قَالَ : اللَّہُمَّ لاَ تُکَلِّفْنِی طَلَبَ مَا لَمْ تُقَدِّرْہُ لِی ، وَمَا قَدَّرْت لِی مِنْ رِزْقٍ فَائْتِنِی بِہِ فِی یُسْرٍ مِنْک وَعَافِیَۃٍ ، وَأَصْلِحْنِی بِمَا أَصْلَحْت بِہِ الصَّالِحِینَ ، فَإِنَّمَا أَصْلَحَ الصَّالِحِینَ أَنْتَ۔
(٣٠٠٠٠) حضرت اسماعیل فرماتے ہیں کہ ذکر کیا گیا ہے کہ بعض انبیائ نے یہ دعا کی ہے : اے اللہ ! تو مجھے اس چیز کے طلب کرنے کا مکلف مت بنا جس ( پر تو نے مجھے قدرت عطا نہیں کی ) کو تو نے میرے مقدر میں نہیں رکھا۔ اور جو رزق تو نے میرے مقدر میں رکھا ہے تو اس کو اپنی طرف سے آسانی اور عافیت سے مجھے عطا فرما، اور مجھے نیک فرما اس چیز کے ذریعہ سے جس کے ذریعہ سے تو نے نیکو کاروں کو نیک بنایا، پس بیشک نیکو کاروں کی اصلاح کرنے والا تو ہی ہے۔

30000

(۳۰۰۰۱) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، أَخْبَرَنَا الْجُرَیْرِیُّ ، عَنْ أَبِی الْعَلائِ بْنِ الشِّخِّیرِ ، أَنَّ نُوحًا وَمَنْ بَعْدَہُ کَانُوا یَتَعَوَّذُونَ مِنْ فِتْنَۃِ الدَّجَّالِ۔
(٣٠٠٠١) حضرت ابو العلاء ابن الشخیر سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں کہ حضرت نوح اور ان کے بعد کے انبیاء کرام فتنہ ٔ دجال سے پناہ مانگا کرتے تھے۔

30001

(۳۰۰۰۲) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَن حُصَیْنٍ ، عَن ہِلالِ بْنِ یَِسَافٍ ، عَن سُحَیْمِ بْنِ نَوْفَلٍ قَالَ : بَیْنَمَا نَحْنُ عِنْدَ عَبْدِ اللہِ إذْ جَائَتْ وَلِیدَۃٌ أَعْرَابِیَّۃٌ إِلَی سَیِّدِہَا وَنَحْنُ نَعْرِضُ مُصْحَفًا ، فَقَالَتْ : مَا یجلسک وَقَدْ لَقَعَ فُلانٌ مُہْرَک بِعَیْنِہِ ، فَتَرَکَہُ یتقلب فِی الدَّارِ کَأَنَّہُ فِی قدر ، قُمْ فَابْتَغِ رَاقِیًا ، فَقَالَ عَبْدُ اللہِ : لاَ تَبْتَغِ رَاقِیًا وَانْفُثْ فِی مَنْخِرِہِ الأَیْمَن أَرْبَعًا ، وَفِی الأَیْسَرِ ثَلاثًا ، وَقُلْ : لاَ بَأْسَ ، لاَ بأس ، أَذْہِبَ الْبَأْسَ رَبَّ النَّاسِ ، اشْفِ أَنْتَ الشَّافِی ، لاَ یَکْشِفُ الضُّرَّ إِلاَّ أَنْتَ ، قَالَ : فَذَہَبَ ، ثُمَّ رَجَعَ إلَیْنَا ، قَالَ : قلت مَا أَمَرَتْنِی فَمَا جِئْت حَتَّی رَاثَ وَبَالَ وَأَکَلَ۔
(٣٠٠٠٢) حضرت سحیم بن نوفل فرماتے ہیں کہ ہم حضرت عبداللہ کے پاس بیٹھے تھے کہ اس درمیان ایک دیہاتی بچی اپنے آقا کے پاس حاضر ہوئی اور ہم قرآن مجید زبانی پڑھ رہے تھے۔ پس وہ کہنے لگی : کس چیز نے تجھے یہاں بٹھا رکھا ہے ؟ تحقیق تیرے فلاں اونٹ کو کسی نے نظر بد لگا دی ہے۔ پس اس نے کھانا چھوڑ دیا ہے اور گھر میں بہت بےچین ہو رہا ہے گویا کہ وہ ہانڈی میں ہو ! کھڑے ہو کر کسی تعویذ کرنے والے کو تلاش کر، تو حضرت عبداللہ نے فرمایا : کسی تعویذ کرنے والے کو تلاش مت کرو۔ اور اس کے دائیں نتھنے میں چار مرتبہ اور بائیں نتھنے میں تین مرتبہ پھونک مارو اور یہ کلمات کہو ، کوئی حرج کی بات نہیں، کوئی حرج کی بات نہیں، لوگوں کے رب اس حرج کو دور فرما۔ تو شفاء عطا کر تو شفا دینے والا ہے، مصیبت کو تیرے سوا کوئی دور نہیں کرتا ۔ راوی فرماتے ہیں ، وہ آدمی چلا گیا پھر ہمارے پاس واپس لوٹا تو کہنے لگا، جن کلمات کا آپ نے حکم دیا میں نے وہ پڑھے، میں آپ کے پاس نہیں آیا یہاں تک کہ اس نے لید کی اور پیشاب کیا اور کھانا کھایا۔

30002

(۳۰۰۰۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، حَدَّثَنَا سُفْیَانُ قَالَ: حدَّثَنَی عَمْرُو بْنُ مُرَّۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ الْحَارِثِ الْمُکْتِبِ ، عَن طَلِیقِ بْنِ قَیْسٍ الْحَنَفِیِّ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یَقُولُ فِی دُعَائِہِ: رَبِّ أَعِنی، وَلا تَعُنْ عَلَی ، وَانْصُرْنِی ، وَلا تَنْصُرْ عَلَی وَامْکُرْ لِی ، وَلا تَمْکُرْ عَلَی ، وَاہْدِنِی وَیَسِّرَ الْہُدَی لِیْ وَانْصُرْنِی عَلَی مَنْ بَغَی عَلَی ، رَبِّ اجْعَلْنِی لَکَ شَکَّارًا لَکَ ذَکَّارًا لَکَ رَہَّابًا لَکَ مُطِیعًا ، إلَیْک مُخْبِتًا، إلَیْک أَوَّاہًا مُنِیبًا، رَبِّ تَقَبَّلْ تَوْبَتِی، وَاغْسِلْ حَوْبَتِی، وَأَجِبْ دَعْوَتِی، وَاہْدِ قَلْبِی، وَثَبِّتْ حُجَّتِی، وَسَدِّدْ لِسَانِی، وَاسْلُلْ سَخِیمَۃَ قَلْبِی۔ (ابوداؤد ۱۵۰۵۔ ترمذی ۳۵۵۱)
(٣٠٠٠٣) حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی دعا میں یہ کلمات پڑھا کرتے تھے : اے میرے رب ! میری مدد فرما ، اور میرے خلاف مدد مت فرما، اور میری نصرت فرما اور میرے خلاف نصرت مت فرما۔ اور میرے حق میں تدبیر فرما اور میرے خلاف تدبیر مت فرما۔ اور مجھے ہدایت عطا فرما۔ اور ہدایت کو میرے لیے آسان فرما۔ اور میری نصرت فرما اس شخص کے خلاف جو مجھ پر سرکشی کرے۔ اے میرے رب ! تو مجھے بنا دے اپنی ذات کا بہت شکر ادا کرنے والا، اور بہت ذکر کرنے والا تیری ذات کا، اور تجھ سے بہت ڈرنے والا، اور اپنا فرمان بردار اپنی طرف عاجزی و انکساری کرنے والا، اپنی طرف دعا کرنے والا اور رجوع کرنے والا، اے میرے رب ! میری توبہ کو قبول فرما۔ اور میرے گناہوں کو دھو دے، اور میری دعاکو قبول فرما۔ اور میرے دل کو ہدایت عطا فرما، اور میری دلیل کو مضبوط فرما دے۔ اور میری زبان کو سیدھا کر دے۔ اور میرے دل کے کینہ و بغض کو ختم فرما دے۔

30003

(۳۰۰۰۴) حَدَّثَنَا مُعْتَمِرُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ عَبَّادِ بْنِ عَبَّادٍ ، عَنْ أَبِی مِجْلَزٍ ، عَنْ أَبِی مُوسَی قَالَ : أَتَیْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِوَضُوئٍ فَتَوَضَّأَ وَصَلَّی ، ثُمَّ قَالَ : اللَّہُمَّ اغْفِرْ لِی ذَنْبِی وَوَسِّعْ لِی فِی دَارِی وَبَارِکْ لِی فِی رِزْقِی۔ (نسائی ۹۹۰۸۔ احمد ۳۷۵)
(٣٠٠٠٤) حضرت ابو موسیٰ فرماتے ہیں کہ میں وضو کا پانی لے کر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس حاضر ہوا پس آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وضو فرمایا اور نماز ادا فرمائی۔ پھر فرمایا : اے اللہ ! میرے گناہوں کی بخشش فرما۔ اور میرے گھر میں وسعت عطا فرما، اور میرے لیے میرے رزق میں برکت عطا فرما۔

30004

(۳۰۰۰۵) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللہِ الأَسَدِیُّ ، عَن شَرِیکٍ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِی بُرْدَۃٍ ، عَنْ أَبِی مُوسَی قَالَ : کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَدْعُو بِہَؤُلائِ الدَّعَوَاتِ : اللَّہُمَّ اغْفِرْ لِی خَطِیئَتِی وَجَہْلِی وَإِسْرَافِی فِی أَمْرِی ، وَمَا أَنْتَ أَعْلَمُ بِہِ مِنِّی ، اللَّہُمَّ اغْفِرْ لِی جَدِّی وَہَزْلِی وَخَطَئِی وَعَمْدِی ، وَکُلُّ ذَلِکَ عِنْدِی۔ (بخاری ۶۳۹۸۔ احمد ۴۱۷)
(٣٠٠٠٥) حضرت ابو موسیٰ نے ارشاد فرمایا کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کلمات کے ساتھ دعا مانگا کرتے تھے : اے اللہ ! میری غلطی کو معاف فرما۔ اور میری لا علمی بھی، اور میرے معاملہ میں بےاعتدالی کو بھی، جس کو تو مجھ سے زیادہ جانتا ہے، اے اللہ میری سنجیدگی اور میرے مذاق کو معاف فرما۔ اور میری جان بوجھ کر ہونے والی غلطیوں کو اور بھول کر ہونے والی غلطیوں کو بھی معاف فرما۔ اور یہ سب چیزیں میری طرف سے ہیں۔

30005

(۳۰۰۰۶) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، عَن مُوسَی بْنِ عُبَیْدَۃَ ، عَن مُحَمَّدِ بْنِ ثَابِتٍ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ : کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : اللَّہُمَّ انْفَعَنی بِمَا عَلَّمْتنِی وَعَلِّمْنِی مَا یَنْفَعَنی وَزِدْنِی عِلْمًا ، وَالْحَمْدُ لِلَّہِ عَلَی کُلِّ حَالٍ ، وَأَعُوذُ بِاللہِ مِنْ عَذَابِ النَّارِ۔ (ترمذی ۳۵۹۹۔ ابن ماجہ ۲۵۱)
(٣٠٠٠٦) حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یوں دعا مانگا کرتے تھے : اے اللہ ! جو کچھ تو نے مجھے سکھایا ہے اس سے مجھے نفع عطا فرما۔ اور مجھے وہ چیز سکھا دے جو مجھے فائدہ پہنچائے۔ اور میرے علم میں اضافہ فرما۔ اور تمام تعریف اللہ کے لیے ہے ہر حال میں۔ اور میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں جہنم کے عذاب سے۔

30006

(۳۰۰۰۷) حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُوسَی ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَن سَعِیدٍ الْجُرَیْرِیِّ ، عَنْ أَبِی الْعَلائِ ، عَن عُثْمَانَ بْنِ أَبِی الْعَاصِ وَامْرَأَۃٍ مِنْ قَیْسٍ أَنَّہُمَا سَمِعَا النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ أَحَدُہُمَا : سَمِعْتہ یَقُولُ : اللَّہُمَّ اغْفِرْ لِی ذَنْبِی وَخَطَایَایَ وَعَمْدِی ، وَقَالَ الآخَرُ : سَمِعْتہ یَقُولُ : اللَّہُمَّ إنِّی أَسْتَہْدِیک لأَرْشَدِ أَمْرِی ، وَأَعُوذُ بِکَ مِنْ شَرِّ نَفْسِی۔ (احمد ۲۱۔ ابن حبان ۹۰۱)
(٣٠٠٠٧) حضرت عثمان بن أبی العاص اور قبیلہ قیس کی عورت سے مروی ہے ، ان دونوں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سُنا ہے، ان میں سے ایک نے فرمایا کہ میں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یوں فرماتے ہوئے سنا : اے اللہ ! میرے گناہوں کی مغفرت فرما اور میرے بھول کر اور جان بوجھ کر کیے جانے والے گناہوں کی بھی مغفرت فرما۔ اور دوسرے فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یوں فرماتے ہوئے سنا ہے۔ اے اللہ ! میں تجھ ہی سے اپنے درست معاملہ کے لیے ہدایت طلب کرتا ہوں۔ اور میں تیری ہی پناہ مانگتا ہوں اپنے نفس کے شر سے۔

30007

(۳۰۰۰۸) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، حَدَّثَنَا مِسْعَرٌ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ أَبِی رِشْدِینَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَن جُوَیْرِیَۃَ قَالَتْ : مَرَّ بِہَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صَلاۃَ الْغَدَاۃِ ، أَوْ بَعْدَ مَا صَلَّی الْغَدَاۃَ ، وَہِیَ تَذْکُرُ اللَّہَ ، فَرَجَعَ حِینَ ارْتَفَعَ النَّہَارُ ، أَوْ قَالَ : انْتَصَفَ النَّہَارُ وَہِیَ کَذَلِکَ ، فَقَالَ : لَقَدْ قُلْتُ مُنْذُ قُمْتُ عَنْکِ أَرْبَعَ کَلِمَاتٍ ثَلاثَ مَرَّاتٍ ہِیَ أَکْثَرُ وَأَرْجَحُ ، أَوْ أَوْزَنُ مِمَّا قُلْتِ : سُبْحَانَ اللہِ عَدَدَ خَلْقِہِ ، سُبْحَانَ اللہِ رِضَا نَفْسِہِ ، سُبْحَانَ اللہِ زِنَۃَ عَرْشِہِ ، سُبْحَانَ اللہِ مِدَادَ کَلِمَاتِہِ۔ (مسلم ۷۹۔ ترمذی ۳۵۵۵)
(٣٠٠٠٨) حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ حضرت ام المؤمنین حضرت جویریہ نے ارشاد فرمایا : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرے پاس سے گزرے صبح کی نماز کے وقت یا صبح کی نماز پڑھنے کے بعد اس حال میں کہ میں اللہ کا ذکر کر رہی تھی۔ پس آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) واپس لوٹے جب دن نکل آیا ، یا یوں فرمایا : جب نصف دن گزر گیا اور آپ اسی حالت میں تھیں۔ اس پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جب میں تمہارے پاس سے اٹھا تو میں نے چار کلمات تین مرتبہ پڑھے جو ثواب میں بہت زیادہ اور راجح ہیں یا یوں فرمایا؛ وہ وزن میں بہت بھاری ہیں اس سے جو کلمات تم نے پڑھے ۔ اور وہ یہ ہیں : اللہ کی پاکی ہے اس کی مخلوق کی تعداد کے بقدر، اللہ کی پاکی ہے اس کی خوشنودی کے لیے، اللہ ہی کی پاکی ہے اس کے عرش کے وزن کے بقدر، اللہ کی پاکی ہے اس کے کلمات کی روشنائی کے بقدر۔

30008

(۳۰۰۰۹) حَدَّثَنَا عَبِیدَۃ بْنُ حُمَیْدٍ ، عَن حُمَیْدٍ ، عَنِ الْحَسَنِ الْبَصْرِیِّ قَالَ : کَانَ یَقُولُ : کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَدْعُو : اللَّہُمَّ اغْفِرْ لِی اللَّہُمَّ ارْحَمْنِی اللَّہُمَّ اہْدِنِی اللَّہُمَّ سَدِّدْنِی اللَّہُمَّ عَافِنِی اللَّہُمَّ ارْزُقْنِی۔
(٣٠٠٠٩) حضرت حسن بصری سے مروی ہے وہ فرماتے تھے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یوں دعا فرمایا کرتے تھے : اے اللہ ! میری مغفرت فرما ! اے اللہ ! مجھ پر رحم فرما۔ اے اللہ ! مجھے ہدایت عطا فرما۔ اے اللہ ! تو مجھے سیدھا راستہ دکھا دے۔ اے اللہ ! تو مجھے عافیت بخش دے۔ اے اللہ ! تو مجھے رزق عطا فرما۔

30009

(۳۰۰۱۰) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ حَدَّثَنَا مِسْعَرٌ ، عَن حَبِیبِ بْنِ أَبِی ثَابِتٍ ، عَن رَجُلٍ ، عَن سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : اللَّہُمَّ ارْزُقْنَا مِنْ فَضْلِکَ ، وَلا تَحْرِمْنَا رِزْقَک ، وَبَارِکْ لَنَا فِیمَا رَزَقْتنَا ، وَاجْعَلْ رَغْبَتَنَا فِیمَا عِنْدَکََ ، وَاجْعَلْ غِنَانَا فِی أَنْفُسِنَا۔ (ابونعیم ۶۶)
(٣٠٠١٠) حضرت سعید بن جبیر سے مروی ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اے اللہ ! اپنے فضل سے ہمیں رزق عطا فرما۔ اور ہمیں اپنے رزق سے محروم مت فرما۔ اور جو رزق تو نے ہمیں عطا فرمایا ہے اس میں ہمیں برکت عطا فرما۔ اور ہمیں شوق عطا فرما اس چیز میں جو تیرے پاس ہے۔ اور ہمارے نفوس میں بےنیازی کو رکھ دے۔

30010

(۳۰۰۱۱) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، حَدَّثَنَا مِسْعَرٌ ، عَنْ أَبِی مُصْعَبٍ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ حُسَیْنٍ وَغَیْرِہِ ، قَالا : کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : اللَّہُمَّ أَقِلْنِی عَثْرَتِی ، وَاسْتُرْ عَوْرَتِی ، وَآمِنْ رَوْعَتِی ، وَاکْفِنِی مَنْ بَغَی عَلَیَّ وَانْصُرْنِی مِمَّنْ ظَلَمَنِی وَأَرِنِی ثَأْرِی فِیہِ۔
(٣٠٠١١) حضرت علی بن حسین وغیرہ حضرات فرماتے ہیں : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یوں دعا کرتے تھے : اے اللہ ! میری لغزشوں کو زائل فرما۔ اور میرے ستر کو چھپا دے۔ اور میرے خوف کو امن سے بدل دے ۔ اور میری کفایت فرما۔ اس شخص کے مقابلہ میں جو مجھ پر سرکشی کرے۔ اور میری مدد فرما اس سے جو مجھ پر ظلم کرے۔

30011

(۳۰۰۱۲) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ عَامِرٍ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، أَنَّہُ کَانَ یَقُولُ : اللَّہُمَّ إنِّی أَسْأَلُک بِأَنَّک الأَوَّلُ فَلا شَیْئَ قَبْلَک ، وَالآخِرُ فَلا شَیْئَ بَعْدَکَ وَالظَّاہِرُ فَلا شَیْئَ فَوْقَک ، وَالْبَاطِنُ فَلا شَیْئَ دُونَک أَنْ تَقْضِیَ عَنَّا الدَّیْنَ ، وَأَنْ تُغْنِیَنَا مِنَ الْفَقْرِ۔
(٣٠٠١٢) حضرت ابوہریرہ نے ارشاد فرمایا کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یوں دعا کرتے تھے : اے اللہ ! میں آپ ہی سے سوال کرتا ہوں کیونکہ آپ ہی سب سے پہلے ہیں آپ سے پہلے کوئی چیز نہیں، اور آپ سب سے بعد میں ہیں پس آپ کے بعد کوئی چیز نہیں ہے اور آپ ہی ظاہر و آشکارا ہیں آپ کے اوپر کوئی چیز نہیں ہے اور آپ ہی پوشیدہ و پنہاں ہیں آپ کے علاوہ کوئی چیز نہیں ہے۔ کہ آپ ہمارے قرض کو ادا فرما دیجیے۔ اور آپ ہمیں محتاجی سے بےنیاز کردیں۔

30012

(۳۰۰۱۳) حَدَّثَنَا عَفَّانُ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ أَخْبَرَنَا ہِشَامُ بْنُ عُرْوَۃَ ، عَن مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْکَدِرِ ، أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یَقُولُ : اللَّہُمَّ أَعِنِّی عَلَی ذِکْرِکَ وَشُکْرِکَ وَحُسْنِ عِبَادَتِکَ ، وَأَعُوذُ بِکَ أَنْ یَغْلِبَنِی دَیْنٌ ، أَوْ عَدُوٌّ ، وَأَعُوذُ بِکَ مِنْ غَلَبَۃِ الرِّجَالِ۔ (ابوداؤد ۱۵۱۷۔ احمد ۲۴۴)
(٣٠٠١٣) حضرت جابر بن المنکدر نے ارشاد فرمایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یوں دعا کرتے تھے : اے اللہ ! تو میری مدد فرما کہ میں تیرا ذکر کروں اور تیرا شکر کروں اور تیری اچھی عبادت کروں۔ اور میں تجھ سے تیری پناہ مانگتا ہوں اس بات سے کہ قرض یا کوئی دشمن مجھ پر غالب ہو ۔ اور میں تیری پناہ مانگتا ہوں آدمیوں کے غالب آنے سے۔

30013

(۳۰۰۱۴) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ بْنِ عَبْدِ الْمَلِکِ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ رَبِیعَۃَ قَالَ : جعلَنِی عَلِیٌّ خَلْفَہُ ، ثُمَّ سَارَ فِی جَانِبِ الْحَرَّۃِ ، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَہُ إِلَی السَّمَائِ فَقَالَ : اغْفِرْ لِی ذُنُوبِی ، إِنَّہُ لاَ یَغْفِرُ الذُّنُوبَ أَحَدٌ غَیْرُک ، ثُمَّ الْتَفَتَ إلَیَّ فَضَحِکَ ، قُلْتُ : یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ ، اسْتِغْفَارُک رَبَّک ، وَالْتِفَاتُک إلَیَّ تَضْحَکُ ؟ قَالَ: حَمَلَنِی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خَلْفَہُ ، ثُمَّ سَارَ بِی إِلَی جَانِبِ الْحَرَّۃِ ، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَہُ إِلَی السَّمَائِ فَقَالَ : اللَّہُمَّ اغْفِرْ لِی ذُنُوبِی إِنَّہُ لاَ یَغْفِرُ الذُّنُوبَ أَحَدٌ غَیْرُک ، ثُمَّ الْتَفَتَ إلَیَّ فَضَحِکَ ، فَقُلْتُ : یَا رَسُولَ اللہِ ، اسْتِغْفَارُک رَبَّک وَالْتِفَاتُک إلَیَّ تَضْحَکُ ؟ قَالَ ضَحِکْت لِضَحِکِ رَبِّی لِعَجَبِہِ لِعَبْدِہِ ، أَنَّہُ یَعْلَمُ أَنَّہُ لاَ یَغْفِرُ الذُّنُوبَ أَحَدٌ غَیْرُہُ۔ (ابوداؤد ۲۵۹۵۔ ترمذی ۳۴۴۶)
(٣٠٠١٤) حضرت علی بن ربیعہ ارشاد فرماتے ہیں کہ امیر المؤمنین نے مجھے اپنے پیچھے سواری پر بٹھایا پھر حرہ مقام کی جانب چلنے لگے پھر اپنا سر آسمان کی طرف بلند کیا اور یہ دعا پڑھی : میرے گناہوں کی بخشش فرما : بیشک تیرے سوا کوئی بھی گناہوں کی بخشش نہیں کرسکتا۔ پھر وہ میری طرف متوجہ ہو کر ہنسنے لگے۔ اس پر میں نے کہا، اے امیر المؤمنین ! آپ نے اپنے رب سے گناہوں کی بخشش طلب کی اور پھر میری طرف متوجہ ہو کر ہنسنے کیوں لگے ؟ تو انھوں نے فرمایا : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے سواری پر اپنے پیچھے بٹھایا۔ پھر مجھے لے کر حرہ مقام کی جانب چلنے لگے۔ پھر اسی طرح اپنا سر آسمان کی طرف اٹھایا اور یہ دعا فرمائی۔ اے اللہ ! میرے گناہوں کی مغفرت فرما۔ بیشک آپ کے سوا کوئی بھی گناہوں کی بخشش نہیں کرسکتا۔ پھر میری طرف متوجہ ہو کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہنسنے لگے۔ اس پر میں نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ نے اپنے رب سے بخشش طلب کی۔ اور پھر میری طرف متوجہ ہو کر ہنسنے کیوں لگے ؟ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا؛ میں مسکرایا اپنے رب کے مسکرانے کی وجہ سے کہ اللہ اپنے بندے پر تعجب کرتا ہے کہ وہ جانتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی بھی مغفرت نہیں کرسکتا۔

30014

(۳۰۰۱۵) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللہِ: إذَا أَرَادَ أَحَدُکُمْ الْحَاجَۃَ فَلْیَقُلِ: اللَّہُمَّ إنِّی أَسْتَخِیرُک بِعِلْمِکَ وَأَسْتَقْدِرُک بِقُدْرَتِکَ وَأَسْأَلُک مِنْ فَضْلِکَ فَإِنَّک تَقْدِرُ ، وَلا أَقْدِرُ وَتَعْلَمُ ، وَلا أَعْلَمُ وَأَنْتَ عَلاَّمُ الْغُیُوبِ اللَّہُمَّ إِنْ کَانَ ہَذَا الأَمْرَ الَّذِی أَرَدْتہ خَیْرًا لِی فِی دِینِی وَمَعِیشَتِی وَخَیْرِ عَاقِبَتِی فَیَسِّرْہُ لِی وَبَارِکْ لِی فِیہِ، وَإِنْ کَانَ غَیْرُ ذَلِکَ خَیْرًا فَقَدِّرْ لِی الْخَیْرَ حَیْثُمَا کَانَ، ثُمَّ رَضِّنِی بِمَا قَضَیْت۔ (بزار ۱۵۸۳)
(٣٠٠١٥) حضرت ابراہیم ارشاد فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود نے ارشاد فرمایا : جب تم میں سے کوئی ایک کسی ضرورت کے پوری کرنے کا ارادہ کرے تو اسے چاہیے کہ وہ یہ کلمات کہہ لیا کرے : اے اللہ ! میں تیرے علم کے ذریعہ تجھ سے خیر مانگتا ہوں۔ اور میں تیری قدرت کے ذریعہ تجھ سے قدرت مانگتا ہوں اور میں تیرے فضل کا سوال کرتا ہوں۔ بلاشبہ تجھے ہی قدرت حاصل ہے اور مجھے قدرت نہیں ہے۔ اور تو جانتا ہے اور میں نہیں جانتا، اور تو غیب کی باتوں کو خوب جاننے والا ہے۔ اے اللہ ! اگر یہ کام جس کے کرنے کا میں نے ارادہ کیا ہے میرے دین، دنیا و آخرت میں میرے لیے بہتر ہے تو اس کام کو میرے لیے آسان فرما۔ اور میرے لیے اس میں برکت فرما۔ اور اگر اس کے علاوہ کوئی اور کام بہتر ہے پس وہ خیر میرے مقدر فرما جہاں کہیں بھی ہو۔ پھر مجھے راضی فرما دے اس فیصلہ سے جو تو نے کیا ہے۔

30015

(۳۰۰۱۶) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ الْحُبَابِ قَالَ : حدَّثَنَی عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِی الْمَوَّالِی ، قَالَ : سَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ الْمُنْکَدِرِ یُحَدِّثُ عَبْدَ اللہِ بْنَ الْحَسَنِ ، عَنْ جَابِرٍ قَالَ : کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُعَلِّمُنَا الاسْتِخَارَۃَ کَمَا یُعَلِّمُنَا السُّورَۃَ مِنَ الْقُرْآنِ ، قَالَ : إذَا ہَمَّ أَحَدُکُمْ بِأَمْرٍ فَلْیُصَلِّ رَکْعَتَیْنِ غَیْرَ الْفَرِیضَۃِ ثُمَّ یُسَمِّی الأَمْرَ وَیَقُولُ : اللَّہُمَّ إنِّی أَسْتَخِیرُک بِعِلْمِکَ ، وَأَسْتَقْدِرُک بِقُدْرَتِکَ ، وَأَسْأَلُک مِنْ فَضْلِکَ الْعَظِیمِ ، فَإِنَّک تَقْدِرُ ، وَلا أَقْدِرُ وَتَعْلَمُ ، وَلا أَعْلَمُ وَأَنْتَ عَلاَّمُ الْغُیُوبِ ، اللَّہُمَّ إِنْ کَانَ ہَذَا الأَمْرُ خَیْرًا لِی فِی دِینِی وَعَاقِبَۃِ أَمْرِی فَاقْدِرْہُ لِی ، وَیَسِّرْہُ لِی ، وَبَارِکْ لِی فِیہِ ، وَإِنْ کَانَ شَرًّا فِی دِینِی وَعَاقِبَۃِ أَمْرِی فَاصْرِفْہُ عَنی وَاصْرِفْنِی عَنہُ وَاقْدُرْ لِی الْخَیْرَ حَیْثُ کَانَ ، ثُمَّ رَضِّنِی بِہِ۔ (بخاری ۱۱۶۲۔ ابوداؤد ۱۵۳۳)
(٣٠٠١٦) حضرت جابر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم کو استخارہ اس طرح سکھاتے تھے جیسے قرآن مجید کی کوئی سورت سکھاتے تھے۔ اور یوں ارشاد فرمایا کرتے تھے : جب تمہیں کوئی کام درپیش ہو تو دو رکعت نماز نفل پڑھو۔ پھر اس کام کا نام لو۔ اور یوں دعا کرو : اے اللہ ! میں ترھے علم کے ذریعہ تجھ سے خیر مانگتا ہوں اور تیری قدرت کے ذریعہ تجھ سے قدرت طلب کرتا ہوں، اور میں تیرے بڑے فضل کا سوال کرتا ہوں پس بلاشبہ تجھے قدرت ہے اور مجھے قدرت نہیں ہے۔ اور تو جانتا ہے اور میں نہیں جانتا اور غیب کی باتوں کو تو خوب جاننے والا ہے۔ اے اللہ ! اگر یہ کام میری دنیا و آخرت میں میرے لیے بہتر ہے تو اس کو میرے لیے مقدر فرما۔ اور آسان فرما۔ اور میرے لیے اس میں برکت عطا فرما۔ اور اگر یہ کام میری دنیا و آخرت میں شر ہے تو اس کو مجھ سے اور مجھ کو اس سے دور فرما۔ اور میرے لیے خیر مقدر فرما جہاں کہیں بھی ہو اور پھر اس سے راضی فرما دے۔

30016

(۳۰۰۱۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَن حَبِیبٍ ، عَن عُبَیْدِ بْنِ عُمَیْرٍ قَالَ : إذَا أَرَادَ أَحَدُکُمُ الْحَاجَۃَ فَلْیَقُلِ اللَّہُمَّ إنِّی أَسْتَخِیرُک بِعِلْمِکَ وَأَسْتَقْدِرُک بِقُدْرَتِکَ وَأَسْأَلُک مِنْ فَضْلِکَ ، فَإِنَّک تَقْدِرُ ، وَلا أَقْدِرُ وَتَعْلَمُ ، وَلا أَعْلَمُ وَأَنْتَ عَلاَّمُ الْغُیُوبِ ، اللَّہُمَّ إِنْ کَانَ ہَذَا الأَمْر الَّذِی أَرَدْتہ خَیْرًا لِی فِی دِینِی وَمَعِیشَتِی وَخَیْرِ عَاقِبَۃٍ فَیَسِّرْہُ لِی وَبَارِکْ لِی فِیہِ ، وَإِنْ کَانَ غَیْرُ ذَلِکَ خَیْرًا فَقَدِّرْ لِی الْخَیْرَ حَیْثُ کَانَ وَرَضِّنِی بِہِ۔
(٣٠٠١٧) حضرت عبید بن عمیر فرماتے ہیں کہ جب تم میں سے کسی ایک کو کوئی ضرورت درپیش ہو تو اس کو چاہیے کہ یوں دعا کرے اے اللہ ! میں تیرے علم کے ذریعہ تجھ سے خیر مانگتا ہوں۔ اور تیری قدرت کے ذریعہ تجھ سے قدرت طلب کرتا ہوں۔ اور میں تجھ سے تیرے فضل کا سوال کرتا ہوں ۔ پس بلاشبہ تجھے قدرت ہے اور مجھے قدرت نہیں ہے۔ اور تو جانتا ہے اور میں نہیں جانتا ۔ اور تو غیب کی باتوں کو خوب جاننے والا ہے۔ اے اللہ ! اگر یہ کام جس کے کرنے کا میں نے ارادہ کیا ہے میرے دین و دنیا اور آخرت میں بہتر ہے تو اس کو میرے لیے آسان فرما اور میرے لیے اس میں برکت فرما۔ اور اگر اس کے علاوہ کسی کام میں بھلائی ہے تو اس بھلائی کو میرے لیے مقدر فرما جہاں کہیں بھی ہو اور مجھے اس سے راضی فرما دے۔

30017

(۳۰۰۱۸) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ ، عَن خَالِدٍ ، عَنْ أَبِی قِلابَۃَ ، عَنِ ابْنِ مُحَیْرِیزٍ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إذَا سَأَلْتُمَ اللَّہَ فَاسْأَلُوہُ بِبُطُونِ أَکُفِّکُمْ ، وَلا تَسْأَلُوہُ بِظُہُورِہَا۔
(٣٠٠١٨) حضرت ابن محیریز فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جب تم اللہ سے سوال کرو تو تم اپنی ہتھیلیوں کے اندرونی حصہ کے ساتھ سوال کرو۔ اور تم ہتھیلیوں کی پشت سے سوال مت کرو۔

30018

(۳۰۰۱۹) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَن لَیْثٍ ، عَن شَہْرٍ قَالَ : الْمَسْأَلَۃُ ہَکَذَا وَبَسَطَ کَفَّہُ نَحْوَ وَجْہِہِ ، وَالتَّعَوُّذُ ہَکَذَا وَقَلَبَ کَفَّیْہِ۔
(٣٠٠١٩) حضرت لیث فرماتے ہیں کہ حضرت شھر نے ارشاد فرمایا : کہ سوال کرنا اس طرح ہوتا ہے، اور انھوں نے اپنے ہاتھوں کو پھیلایا اس انداز سے کہ ہتھیلی کا رخ چہرے کی طرف تھا۔ اور فرمایا : تعوذ اس طرح ہوتا ہے۔ اور انھوں نے اپنی ہتھیلیوں کو پلٹ دیا۔

30019

(۳۰۰۲۰) حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُوسَی حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلِمَۃَ حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ حَرْبٍ ، عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ ، أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یَدْعُو بِعَرَفَۃَ وَیَرْفَعُ یَدَیْہِ ہَکَذَا ، یَجْعَلُ ظَاہِرَہُمَا مِمَّا یَلِی وَجْہَہُ ، وَبَاطِنَہُمَا مِمَّا یَلِی الأَرْضَ۔ (احمد ۸۵۔ طیالسی ۲۱۷۴)
(٣٠٠٢٠) حضرت ابو سعید الخدری فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مقام عرفہ میں دعا مانگ رہے تھے، اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے دونوں ہاتھ اس طرح اٹھائے ہوئے تھے کہ ہاتھ کا ظاہری حصہ چہرے کے سامنے تھا۔ اور ہاتھ کا باطنی حصہ کا رخ زمین کی طرف تھا۔

30020

(۳۰۰۲۱) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنِ ابْنِ عَجْلانَ ، عَنِ الْعَبَّاسِ بْنِ ذُرَیْحٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : الإِخْلاصُ ہَکَذَا وَأَشَارَ بِإِصْبَعِہِ ، وَالدُّعَائُ ہَکَذَا یَعْنِی یُشِیرُ بِبُطُونِ کَفَّیْہِ ، وَالاسْتِخَارَۃُ ہَکَذَا وَرَفَعَ یَدَیْہِ وَوَلَّی ظَہْرَہُمَا وَجْہَہُ۔
(٣٠٠٢١) حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ اخلاص اس طرح ہے اور اپنی انگلی سے اشارہ کیا اور دعا مانگنا اس طرح ہے یعنی اپنی دونوں ہتھیلیوں کے اندرونی حصہ سے اور پناہ مانگنا اس طرح ہے۔ اور پھر اپنے دونوں ہاتھوں کو بلند کیا اور ان کی پشت کو اپنے چہرے کی طرف پھیر دیا۔

30021

(۳۰۰۲۲) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا وُہَیْبٌ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَجْلانَ ، عَن یَعْقُوبَ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ الأَشَجِّ ، عَن سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ، عَن سَعْدِ بْنِ مَالِکٍ ، عَن خَوْلَۃَ بِنْتِ حَکِیمٍ ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : لَوْ أَنَّ أَحَدَکُمْ إذَا نَزَلَ مَنْزِلاً قَالَ : أَعُوذُ بِکَلِمَاتِ اللہِ التَّامَّاتِ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ لَمْ یَضُرَّہُ فِی ذَلِکَ الْمَنْزِلِ شَیْئٌ حَتَّی یَرْتَحِلَ مِنْہُ۔ (مسلم ۲۰۸۰۔ احمد ۴۰۹)
(٣٠٠٢٢) حضرت خولہ بنت حکیم فرماتی ہیں : کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : تم میں سے جو شخص جب کسی منزل پر اترے اور یہ دعا پڑھ لے : میں اللہ کے پناہ مانگتا ہوں اس کے مکمل کلمات کے ساتھ اس کی مخلوق کے شر سے، تو اس منزل میں کوئی بھی چیز اس کو نقصان نہیں پہنچائے گی۔ یہاں تک کہ وہ وہاں سے کوچ کر جائے۔

30022

(۳۰۰۲۳) حَدَّثَنَا عُبَیْدُ بْنُ سَعِیدٍ ، عَن شُعْبَۃَ ، عَن زِیَادِ بْنِ مِخْرَاقٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ قَیْسَ بْنَ عَبَایَۃَ ، عَن مَوْلًی لِسَعْدٍ ، عَن سَعْدٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : إِنَّہُ سَیَکُونُ قَوْمٌ یَعْتَدُونَ فِی الدُّعَائِ۔ (ابوداؤد ۱۴۷۵۔ احمد ۱۸۳)
(٣٠٠٢٣) حضرت سعد فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے : بیشک عنقریب ایسے لوگ آئیں گے جو دعا میں زیادتی کریں گے۔

30023

(۳۰۰۲۴) حَدَّثَنَا عَفَّانُ بْنُ مُسْلِمٍ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ أَخْبَرَنَا سَعِیدٌ الْجُرَیْرِیُّ ، عَنْ أَبِی نَعَامَۃَ ، أَنَّ عَبْدَ اللہِ بْنَ مُغَفَّلٍ سَمِعَ ابْنَہُ یَقُولُ : اللَّہُمَّ إنِّی أَسْأَلُکَ الْقَصْرَ الأَبْیَضَ عَن یَمِینِ الْجَنَّۃِ إِذَا دَخَلْتہَا ، فَقَالَ : أَیْ بُنَی ، سَلِ اللَّہَ الْجَنَّۃَ وَعُذْ بِہِ مِنَ النَّارِ ، فَإِنِّی سَمِعْت رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : سَیَکُونُ قَوْمٌ یَعْتَدُونَ فِی الدُّعَائِ۔ (ابوداؤد ۹۷۔ احمد ۵۵)
(٣٠٠٢٤) حضرت ابو نعامہ فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن المغفل نے اپنے بیٹے کو یوں دعا کرتے ہوئے سنا ! اے اللہ ! میں آپ سے سفید موتیوں کے محل کا سوال کرتا ہوں ۔ جنت کے دائیں طرف جب میں اس میں داخل ہوں۔ تو انھوں نے فرمایا : اے میرے بیٹے ! تو اللہ سے جنت کا سوال کر ۔ اور جہنم سے اللہ کی پناہ مانگ پس بلاشبہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یوں فرماتے ہوئے سنا ہے۔ عنقریب ایسے لوگ ہوں گے جو دعا میں زیادتی کریں گے۔

30024

(۳۰۰۲۵) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِی صَالِحٍ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لأَنْ أَقُولَ سُبْحَانَ اللہِ وَالْحَمْدُ لِلَّہِ ، وَلا إلَہَ إِلاَّ اللَّہُ وَاللَّہُ أَکْبَرُ أَحَبُّ إلَیَّ مِمَّا طَلَعَتْ عَلَیْہِ الشَّمْسُ۔ (مسلم ۲۰۷۲۔ ترمذی ۳۵۹۷)
(٣٠٠٢٥) حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ان کلمات کا کہنا : اللہ پاک ہے، اور سب تعریف اللہ کے لیے ہے۔ اور اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ مجھے زیادہ پسند ہے اس چیز سے جس پر سورج طلوع ہوتا ہے یعنی دنیا سے۔

30025

(۳۰۰۲۶) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ ، عَن عُمَارَۃَ بْنِ الْقَعْقَاعِ ، عَنْ أَبِی زُرْعَۃَ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : کَلِمَتَانِ خَفِیفَتَانِ عَلَی اللِّسَانِ ثَقِیلَتَانِ فِی الْمِیزَانِ حَبِیبَتَانِ إِلَی الرَّحْمَن : سُبْحَانَ اللہِ وَبِحَمْدِہِ سُبْحَانَ اللہِ الْعَظِیمِ۔ (بخاری ۶۴۰۶۔ مسلم ۲۰۷۲)
(٣٠٠٢٦) حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : دو کلمات ایسے ہیں جو زبان پر ہلکے ہیں اور ترازو میں بھاری ہیں اور رحمن کے پسندیدہ ہیں : پاک ہے اللہ اور اپنی حمد کے ساتھ ہے۔ پاک ہے اللہ عظمت والا۔

30026

(۳۰۰۲۷) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ قَالَ سَمِعْت ہَانِئَ بْنَ عُثْمَانَ یُحَدِّثُ ، عَن أُمِّہِ حُمَیْضَۃَ بِنْتَ یَاسِرٍ ، عَنْ جَدَّتِہَا یُسَیْرَۃَ ، وَکَانَتْ إحْدَی الْمُہَاجِرَاتِ ، قَالَتْ : قَالَ لہا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : عَلَیْکُنَّ بِالتَّسْبِیحِ وَالتَّکْبِیرِ وَالتَّقْدِیسِ ، وَاعْقُدْنَ بِالأَنَامِلِ فَإِنَّہُنَّ یَأْتِینَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ مَسْئُولاتٍ مُسْتَنْطَقَاتٍ ، وَلا تَغْفُلْنَ فَتُنْسَیْنَ مِنَ الرَّحْمَۃِ۔
(٣٠٠٢٧) حضرت یُسَیرَہ جو مہاجرہ صحابیہ ہیں فرماتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : تم عورتوں پر لازم ہے اللہ کی پاکی بیان کرنا ۔ اور بڑائی بیان کرنا اور اللہ کی تعظیم و تکریم کرنا۔ اور ان کو اپنی انگلیوں پر شمار کرو کیونکہ ان انگلیوں سے پوچھا جائے گا اور ان کو گویائی دی جائے گی (قیامت کے دن) اور تم غفلت میں مبتلا مت ہونا۔ پس تم رحمت کی نظر سے بھلا دی جاؤ گی۔

30027

(۳۰۰۲۸) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، عَن مُوسَی بْنِ سَالِمٍ ، عَنْ عَوْنِ بْنِ عَبْدِ اللہِ ، عَنْ أَبِیہِ ، أَوْ عَنْ أَخِیہِ ، عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِیرٍ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : الَّذِینَ یَذْکُرُونَ مِنْ جَلالِ اللہِ من تَسْبِیحِہِ وَتَحْمِیدِہِ وَتَکْبِیرِہِ وَتَہْلِیلِہِ ، یَتَعَاطَفْنَ حَوْلَ الْعَرْشِ ، لَہُنَّ دَوِیٌّ کَدَوِیِّ النَّحْلِ ، یُذَکِّرُونَ بِصَاحِبِہِنَ ، أَوَ لاَ یُحِبُّ أَحَدُکُمْ أَنْ لاَ یَزَالَ عِنْدَ الرَّحْمَن شَیْئٌ یُذَکِّرُ بِہِ۔ (ابن ماجہ ۳۸۰۹۔ احمد ۲۷۱)
(٣٠٠٢٨) حضرت نعمان بن بشیر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا ۔ کہ وہ لوگ جو اللہ کی عظمت کا ذکر کرتے ہیں، اس کی پاکی بیان کرکے۔ اور اس کی تعریف بیان کر کے، اور اس کی بڑائی بیان کر کے اور کلمہ توحید پڑھ کر۔ تو عرش کے نزدیک فرشتے ان سے محبت کرتے ہیں۔ ان کی آواز شہد کی مکھی کی بھنبھناہٹ کی طرح ہوتی ہے۔ وہ ذکر کرتے ہیں ان کلمات کے پڑھنے والوں کا کیا تم میں سے کوئی ایک بھی اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ ہمیشہ مستقل رحمن کے نزدیک اس وجہ سے اس کا ذکر کیا جائے ؟

30028

(۳۰۰۲۹) حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُوسَی ، عَن حَمَّادِ بْنِ سَلَمَۃَ ، عَن حَجَّاجٍ الصَّوَافِّ، عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ، عَنْ جَابِرٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَنْ قَالَ سُبْحَانَ اللہِ الْعَظِیمِ غُرِسَ لَہُ نَخْلَۃٌ ، أَوْ شَجَرَۃٌ فِی الْجَنَّۃِ۔ (ترمذی ۳۴۶۴۔ ابن حبان ۸۲۶)
(٣٠٠٢٩) حضرت جابر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جو شخص یہ کلمات کہے : اللہ پاک ہے عظمت والا ہے، تو جنت میں اس کے لیے کھجور کا درخت یا ایک درخت لگا دیا جاتا ہے۔

30029

(۳۰۰۳۰) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ الْحُبَابِ ، أَخْبَرَنَا مَالِکُ بْنُ أَنَسٍ ، عَن سُمِیٍّ ، عَنْ أَبِی صَالِحٍ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَنْ قَالَ فِی یَوْمٍ مِئَۃ مَرَّۃٍ سُبْحَانَ اللہِ وَبِحَمْدِہِ حُطَّتْ خَطَایَاہُ وَلَوْ کَانَتْ مِثْلَ زَبَدِ الْبَحْرِ۔ (بخاری ۶۴۰۵۔ مسلم ۲۰۷۱)
(٣٠٠٣٠) حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جو شخص دن میں سو (١٠٠) مرتبہ یہ کلمہ کہے : پاک ہے اللہ اور اپنی تعریف کے ساتھ۔ تو اس کے گناہوں کو معاف کردیا جائے گا اگرچہ سمندر کے جھاگ کے برابر ہوں۔

30030

(۳۰۰۳۱) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ أَبِی بُکَیْرٍ ، عَن شُعْبَۃَ ، عَنِ الْجُرَیْرِیِّ ، عَنْ أَبِی عَبْدِ اللہِ الْجَسْرِیِّ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ الصَّامِتِ ، عَنْ أَبِی ذَرٍّ قَالَ : قَالَ لِی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : أَلا أُخْبِرُک بِأَحَبِّ الْکَلامُ إِلَی اللہِ ؟ قُلْتُ : یَا رَسُولَ اللہِ أَخْبِرْنِی بِأَحَبِّ الْکَلامُ إِلَی اللہِ ، قَالَ : أَحَبَّ الْکَلامُ إِلَی اللہِ : سُبْحَانَ اللہِ وَبِحَمْدِہِ۔ (مسلم ۲۰۹۳۔ ترمذی ۳۵۹۳)
(٣٠٠٣١) حضرت ابو ذر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھ سے ارشار فرمایا : کیا میں تمہیں خبر نہ دوں اس کلام کی جو اللہ کے نزدیک سب سے پسندیدہ ہے ؟ میں نے کہا : اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! مجھے ضرور بتلا دیں وہ کلام جو اللہ کے نزدیک پسندیدہ ہے۔ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اللہ کے نزدیک سب سے پسندیدہ کلام یہ ہے : پاک ہے اللہ اور اپنی تعریف کے ساتھ ہے۔

30031

(۳۰۰۳۲) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَن مِسْعَرٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ السَّکْسَکِیِّ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ أَبِی أَوْفَی قَالَ : أَتَی رَجُلٌ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَذَکَرَ أَنَّہُ لاَ یَسْتَطِیعُ أَنْ یَأْخُذَ مِنَ الْقُرْآنِ ، وَسَأَلَہُ شَیْئًا یُجْزِئُ بِالْقُرْآنِ ، فَقَالَ لَہُ : قُلْ سُبْحَانَ اللہِ وَالْحَمْدُ لِلَّہِ ، وَلا إلَہَ إِلاَّ اللَّہُ ، وَاللَّہُ أَکْبَرُ ، وَلا حَوْلَ وَلا قُوَّۃَ إِلاَّ بِاللہِ۔ (ابوداؤد ۸۲۸۔ احمد ۳۵۳)
(٣٠٠٣٢) حضرت عبداللہ بن ابی اوفی فرماتے ہیں کہ ایک آدمی حضور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا۔ پس اس نے ذکر کیا کہ وہ قرآن کو سیکھنے کی طاقت نہیں رکھتا۔ اور اس نے سوال کیا ایسی چیز کے بارے میں جو قرآن کے برابر ہو ثواب میں۔ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو ارشاد فرمایا : تو یہ کلمات کہہ لیا کر : اللہ پاک ہے ، اور سب تعریف اللہ کے لیے ہے۔ اور اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے، اور اللہ سب سے بڑا ہے ، گناہوں سے بچنے کی طاقت اور نیکی کرنے کی قوت صرف اللہ ہی کی مدد سے ہے۔

30032

(۳۰۰۳۳) حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُوسَی ، حَدَّثَنَا مَہْدِیُّ بْنُ مَیْمُونٍ ، عَن وَاصِلٍ ، عَن یَحْیَی بْنِ عُقَیْلٍ ، عَن یَحْیَی بْنِ یَعْمَُرَ ، عَنْ أَبِی الأَسْوَدِ الدُّؤَلِیِّ ، عَنْ أَبِی ذَرٍّ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : بکُلِّ تَسْبِیحَۃٍ صَدَقَۃٌ۔ (مسلم ۴۹۸۔ احمد ۱۶۸)
(٣٠٠٣٣) حضرت ابو ذر فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ہر تسبیح ایک صدقہ ہے۔

30033

(۳۰۰۳۴) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَن شُعْبَۃَ ، عَن مَنْصُورٍ ، عَن ہِلالِ بْنِ یَِسَافٍ ، عَنْ أَبِی عُبَیْدَۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ قَالَ : لأَنْ أَقُولَ : سُبْحَانَ اللہِ وَالْحَمْدُ لِلَّہِ ، وَلا إلَہَ إِلاَّ اللَّہُ وَاللَّہُ أَکْبَرُ أَحَبُّ إلَیَّ مِنْ أَنْ أَتَصَدَّقَ بِعَدَدِہَا دَنَانِیرَ۔
(٣٠٠٣٤) حضرت ابو عبیدہ فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ نے ارشاد فرمایا : میرے لیے ان کلمات کا کہنا : اللہ پاک ہے ، اور سب تعریف اللہ کے لیے ہے اور اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے، اور اللہ سب سے بڑا ہے، زیادہ پسندیدہ ہے اس بات سے کہ میں اس کی تعداد کے بقدر دینار صدقہ کروں۔

30034

(۳۰۰۳۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن مِسْعَرٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مَیْسَرَۃَ ، عَن ہِلالِ بْنِ یَِسَافٍ قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللہِ : لأَنْ أُسَبِّحَ تَسْبِیحَاتٍ أَحَبُّ إلَیَّ مِنْ أَنْ أُنْفِقَ عَدَدَہُنَّ دَنَانِیرَ فِی سَبِیلِ اللہِ عز وجل۔
(٣٠٠٣٥) حضرت ھلال بن یساف فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ نے ارشاد فرمایا : مجھے تسبیحات بیان کرنا اس بات سے زیادہ پسندیدہ ہے کہ اس کی تعداد کے بقدر دنانیر کو اللہ کے راستے میں خرچ کروں ۔

30035

(۳۰۰۳۶) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَن شُعْبَۃَ ، عَن مَنْصُورٍ ، عَن طَلْقِ بْنِ حَبِیبٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ : لأَنْ أَقُولَہَا یَعْنِی سُبْحَانَ اللہِ وَالْحَمْدُ لِلَّہِ ، وَلا إلَہَ إِلاَّ اللَّہُ وَاللَّہُ أَکْبَرُ أَحَبُّ إلَیَّ مِنْ أَنْ أَحْمِلَ عَلَی عِدَّتِہَا مِنْ خَیْلٍ بِأَرْسَانِہَا۔
(٣٠٠٣٦) حضرت طلق بن حبیب فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمرو ارشاد فرماتے ہیں : مجھے ان کلمات کا کہنا یعنی اللہ پاک ہے اور سب تعریف اللہ کے لیے ہے، اور اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے، اور اللہ سب سے بڑا ہے، زیادہ پسندیدہ ہے اس بات سے کہ میں ان کے برابر گھوڑوں پر سوار ہوں۔

30036

(۳۰۰۳۷) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، وَأَبُو أُسَامَۃَ ، عَن مِسْعَرٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ ، عَن مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ قَالَ : إذَا قَالَ الْعَبْدُ سُبْحَانَ اللہِ ، قَالَتِ الْمَلائِکَۃُ : وَبِحَمْدِہِ ، فَإِذَا قَالَ : سُبْحَانَ اللہِ وَبِحَمْدِہِ ، صَلُّوْا عَلَیْہِ ، وَقَالَ أَبُو أُسَامَۃَ صَلَّتْ عَلَیْہِ۔
(٣٠٠٣٧) حضرت مصعب بن سعد ارشاد فرماتے ہیں کہ جب کوئی بندہ کہتا ہے : اللہ پاک ہے، تو فرشتے کہتے ہیں، اور اسی کی تعریف ہے۔ اور جب بندہ کہتا ہے : اللہ پاک ہے اور اپنی تعریف کے ساتھ ہے، تو فرشتے اس کے لیے دعائے مغفرت کرتے ہیں، اور ابو اسامہ نے مونث کا صغہہ ذکر کیا ہے کہ ملائکہ اس کے لیے دعائے مغفرت کرتے ہیں۔

30037

(۳۰۰۳۸) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَن مُوسَی بْنِ عُبَیْدۃَ ، عَن زَیْدِ بْنِ أَسْلَمَ ، عْن جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : أَلا أُعَلِّمُکُمْ مَا عَلَّمَ نُوحٌ ابْنَہُ ؟ قَالُوا : بَلَی ، قَالَ : آمُرُک بِقَوْلِ : لاَ إلَہَ إِلاَّ اللَّہُ وَحْدَہُ لاَ شَرِیکَ لَہُ ، لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ وَہُوَ عَلَی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیرٌ ، فَإِنَّ السَّمَاوَاتِ لَوْ کَانَتْ فِی کِفَّۃٍ لَرَجَحَتْ بِہَا ، وَلَوْ کَانَتْ حَلْقَۃً قَصَمَتْہَا ، وَآمُرُک تُسَبِّحُ اللَّہَ وَتَحْمَدُہُ ، فَإِنَّہُ صَلاۃُ الْخَلْقِ وَتَسْبِیحُ الْخَلْقِ ، وَبِہَا یُرْزَقُ الْخَلْقُ۔ (بخاری ۵۴۸۔ احمد ۱۶۹)
(٣٠٠٣٨) حضرت جابر بن عبداللہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : کیا میں تم لوگوں کو وہ کلمات نہ سکھاؤں جو حضرت نوح نے اپنے بیٹے کو سکھائے تھے ؟ تو صحابہ نے فرمایا کیوں نہیں ؟ ضرور ، حضرت نوح نے فرمایا تھا، میں تجھے حکم دیتا ہوں ان کلمات کے پڑھنے کا : اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ تنہا ہے اس کا کوئی شریک نہیں ہے، اسی کا ملک ہے اور اسی کے لیے تعریف ہے، اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ پس بلاشبہ اگر تمام آسمانوں کو ایک ترازو کے پلڑے میں رکھا جائے تو کلمہ والا پلڑا جھک جائے۔ اور اگر کسی دائرہ میں ہو تو یہ کلمات ان کو توڑ دیں اور میں تجھے حکم دیتا ہوں اللہ کی پاکی اور اس کی تعریف بیان کرنے کا ۔ پس بیشک یہ مخلوق کی دعا ہے اور مخلوق کی تسبیح ہے۔ اور اسی کے ذریعے مخلوق کو رزق دیا جاتا ہے۔

30038

(۳۰۰۳۹) حَدَّثَنَا سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَن عُبَیْدِ بْنِ عُمَیْرٍ قَالَ : تَسْبِیحَۃٌ بِحَمْدِ اللہِ فِی صَحِیفَۃِ الْمُؤْمِنِ خَیْرٌ مِنْ أَنْ تَسِیلَ ، أَوْ تَسِیرَ مَعَہُ جِبَالُ الدُّنْیَا ذَہَبًا۔
(٣٠٠٣٩) حضرت عبید بن عمیر فرماتے ہیں کہ مومن کے نامہ اعمال میں اللہ کی تعریف کی ایک تسبیح کا ہوجانا بہتر ہے اس بات سے کہ اس کے ساتھ دنیا کے پہاڑ سونا بن کر بہہ پڑیں یا چل پڑیں۔

30039

(۳۰۰۴۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن مِسْعَرٍ ، عَنِ الْوَلِیدِ بْنِ الْعَیْزَارِ ، عَنْ أَبِی الأَحْوَصِ قَالَ : قَالَ سَمِعْتہ یَقُولُ : تَسْبِیحَۃٌ فِی طَلَبِ حَاجَۃٍ خَیْرٌ مِنْ لُقُوحِ صَفِیٍّ فِی عَامٍ أَزِبَۃً ، أَوْ لَزِبَۃٍ۔
(٣٠٠٤٠) حضرت ولید بن العیزار فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابو الاحوص کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ کسی ضرورت کو پورا کرنے میں تسبیح کرنا قحط سالی کے زمانہ میں دودھ سے بھرئے ہوئے تھنوں والی اونٹنی سے بہتر ہے۔

30040

(۳۰۰۴۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن مِسْعَرٍ ، عَنْ عفاق ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَیْمُونٍ قَالَ : أَیَعْجَزُ أَحَدُکُمْ أَنْ یُسَبِّحَ مِئَۃ تَسْبِیحَۃٍ وَتَکُونَ لَہُ أَلْفُ تَسْبِیحَۃٍ۔
(٣٠٠٤١) حضرت عمرو بن میمون ارشاد فرماتے ہیں کہ کیا تم میں سے کوئی سو مرتبہ تسبیح پڑھنے سے عاجز ہے اور وہ ثواب میں اس کے لیے ہزار تسبیح کے برابر ہوجائیں۔

30041

(۳۰۰۴۲) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَن ثَابِتٍ الْبُنَانِیِّ قَالَ : حدَّثَنَی رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عِنْدَ ہَذِہِ السَّارِیَۃِ قَالَ : مَنْ قَالَ سُبْحَانَ اللہِ وَبِحَمْدِہِ أَسْتَغْفِرُ اللَّہَ وَأَتُوبُ إلَیْہِ کُتِبَتْ لَہُ فِی رِقٍّ ، ثُمَّ طُبِعَ عَلَیْہَا خَاتَمٌ مِنْ مِسْکٍ فَلَمْ یُکْسَرْ حَتَّی یُوَافِیَ بِہَا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ۔
(٣٠٠٤٢) حضرت ثابت بنانی فرماتے ہیں کہ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ میں سے ایک آدمی نے مجھے بیان کیا ہے کہ : جو شخص یہ کلمات کہے : اللہ پاک ہے اور اپنی تعریف کے ساتھ ہے ، میں اللہ سے معافی چاہتا ہوں اور اسی سے اپنے گناہوں کی توبہ کرتا ہوں تو ایک سفید تختہ پر اس کے لیے ان کا ثواب لکھا جاتا ہے، پھر اس پر مشک کی ایک مہر لگا دی جاتی ہے۔ پھر نہیں توڑا جاتا اس مہر کو یہاں تک کہ وہ قیامت کے دن ان کلمات کا پورا پورا ثواب حاصل کرلے۔

30042

(۳۰۰۴۳) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ قَالَ : أَخْبَرَنَی ہِشَامُ أَبِی عَبْدِ اللہِ ، عَن یَحْیَی بْنِ أَبِی کَثِیرٍ ، عَنْ أَبِی الدَّرْدَائِ قَالَ : لأَنْ أُسَبِّحَ مِئَۃ تَسْبِیحَۃٍ أَحَبُّ إلَیَّ مِنْ أَنْ أَتَصَدَّقَ بِمِئَۃِ دِینَارٍ عَلَی الْمَسَاکِینِ۔
(٣٠٠٤٣) حضرت ابو الدردائ فرماتے ہیں کہ سو مرتبہ میں اللہ کی پاکی بیان کروں یہ مجھے زیادہ پسندیدہ ہے اس بات سے کہ میں سو دینار مساکین پر خرچ کروں۔

30043

(۳۰۰۴۴) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنِ دُکَیْنٍ ، أَخْبَرَنَا سُفْیَانُ ، عَن شَبِیبِ بْنِ غَرْقَدَۃَ ، عَن مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَطَائٍ قَالَ : قَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِسَوْدَۃِ : سَبِّحِی اللَّہَ کُلَّ غَدَاۃٍ عَشْرًا وَکَبِّرِی عَشْرًا وَاحْمَدِی عَشْرًا وَقُولِی : اغْفِرْ لِی عَشْرًا ، فَإِنَّہُ یَقُولُ : قَدْ فَعَلْت قَدْ فَعَلْت۔
(٣٠٠٤٤) حضرت محمد بن عمرو بن عطاء فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت سودہ سے ارشاد فرمایا : تم ہر صبح کو دس مرتبہ اللہ کی پاکی بیان کیا کرو۔ اور دس مرتبہ اس کی بڑائی بیان کرو۔ اور دس مرتبہ اس کی تعریف بیان کرو۔ اور دس مرتبہ یہ کلمات کہو ! مجھے معاف فرما دے۔ تو اللہ فرماتے ہیں : تحقیق میں نے ایسا کیا، میں نے ایسا کیا۔

30044

(۳۰۰۴۵) حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِیَۃَ ، عَن مُوسَی الْجُہَنِیِّ ، عَن مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ أَبِیہِ قَالَ : کُنَّا مَعَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ لَنَا : أَیَعْجَزُ أَحَدُکُمْ أَنْ یَکْسِبَ فِی الْیَوْمِ أَلْفَ حَسَنَۃٍ ؟ فَسَأَلَہُ سَائِلٌ : کَیْفَ یَکْسِبُ أَحَدُنَا أَلْفَ حَسَنَۃٍ ، قَالَ : یُسَبِّحُ اللَّہَ مِئَۃ تَسْبِیحَۃٍ ، فتُکْتَبُ لَہُ أَلْفُ حَسَنَۃٍ ، أو تُحَطُّ عَنہُ أَلْفُ خَطِیئَۃٍ۔ (مسلم ۲۰۷۳۔ احمد ۱۸۰)
(٣٠٠٤٥) حضرت سعد فرماتے ہیں کہ ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ تھے۔ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : کیا تم میں سے کوئی شخص عاجز ہے اس بات سے کہ وہ روز ایک ہزار نیکیاں کمائے ؟ تو ایک پوچھنے والے نے پوچھا : ہم میں سے کوئی ایک کیسے ہزار نیکیاں کما سکتا ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : وہ سو مرتبہ اللہ کی پاکی بیان کرے تو اس کے لیے ہزار نیکیاں لکھ دی جاتی ہیں یا اس کے ہزار گناہوں کو مٹا دیا جاتا ہے۔

30045

(۳۰۰۴۶) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، أَخْبَرَنَا الْجُرَیْرِیُّ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ شَقِیقٍ ، عَن کَعْبٍ قَالَ : إنَّ مِنْ خَیْرِ الْقِیلِ سُبْحَۃَ الْحَدِیثِ، قَالَ: قُلْتُ: یَا أَبَا عَبْدَ الرَّحْمَان، وَمَا سَبْحَۃُ الْحَدِیثِ، قَالَ: یُسَبِّحُ الرَّجُلُ، وَالْقَوْمُ یُحَدِّثُونَ۔
(٣٠٠٤٦) حضرت عبداللہ بن شقیق فرماتے ہیں کہ حضرت کعب نے ارشاد فرمایا : بلاشبہ بہترین بات سبحۃ الحدیث ہے : حضرت عبداللہ فرماتے ہیں میں نے پوچھا : سبحۃ الحدیث کیا ہے ؟ اے ابو عبد الرحمن ! انھوں نے فرمایا کہ : آدمی تسبیح کررہا ہو اور لوگ باتیں کر رہے ہوں۔

30046

(۳۰۰۴۷) حَدَّثَنَا أَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍحَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ زَیْدٍ ، عَن سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ قَالَ : کُنَّا عِنْدَ سَعْدِ بْنِ مَالِکٍ فَسَکَتَ سَکْتَۃً فَقَالَ : لَقَدْ أَصَبْت بِسَکْتَتِی ہَذِہِ مِثْلَ مَا سَقَی النِّیلُ وَالْفُرَاتُ ، قَالَ : قُلْنَا : وَمَا أَصَبْت ؟ قَالَ : سُبْحَانَ اللہِ وَالْحَمْدُ لِلَّہِ ، وَلا إلَہَ إِلاَّ اللَّہُ وَاللَّہُ أَکْبَرُ۔
(٣٠٠٤٧) حضرت سعید بن المسیب فرماتے ہیں کہ ہم حضرت سعد بن مالک کے پاس تھے پس ان پر سکتہ طاری ہوگیا۔ پھر وہ فرمانے لگے : البتہ تحقیق مجھے جو یہ سکتہ لاحق ہوا جسے دریائے نیل و فرات نے سراب کردیا ہو۔ حضرت سعید بن المسیب فرماتے ہیں۔ ہم نے پوچھا : آپ کو کا چیز لاحق ہوئی تھی۔ انھوں نے فرمایا اللہ پاک ہے، اور سب تعریف اللہ کے لیے ہے، اور اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے، اور اللہ سب سے بڑا ہے۔

30047

(۳۰۰۴۸) حَدَّثَنَا یَعْلَی بْنُ عُبَیْدٍ ، عَن مِسْعَرٍ ، عَنْ عَطِیَّۃَ ، عَنْ أَبِی سَعِیدٍ قَالَ : إذَا قَالَ الْعَبْدُ : الْحَمْدُ لِلَّہِ کَثِیرًا ، قَالَ الْمَلَکُ : کَیْفَ أَکْتُبُ ؟ قَالَ : یقول : اکْتُبْ لَہُ رَحْمَتِی کَثِیرًا ، وَإِذَا قَالَ الْعَبْدُ : اللَّہُ أَکْبَرُ کَبِیرًا ، قَالَ الْمَلَکُ : کَیْفَ أَکْتُبُ ؟ قَالَ : اکْتُبْ رَحْمَتِی کَثِیرًا ، وَإِذَا قَالَ : سُبْحَانَ اللہِ کَثِیرًا ، قَالَ الْمَلَکُ : کَیْفَ أَکْتُبُ ؟ قَالَ : اکْتُبْ لہ رَحْمَتِی کَثِیرًا۔
(٣٠٠٤٨) حضرت ابو سعید نے ارشاد فرمایا : جب بندہ کہتا ہے۔ سب تعریفیں اللہ کے لیے ہیں، تو فرشتہ عرض کرتا ہے، میں کیا لکھوں ؟ راوی کہتے ہیں : اللہ فرماتے ہیں۔ تم اس کے لیے میری ڈھیر ساری رحمت لکھ دو ۔ جب بندہ کہتا ہے اللہ اکبر کبیرا تو فرشتہ کہتا ہے کہ میں کاس لکھوں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اس کے لیے میری بہت ساری رحمت لکھ دو اور جب بندہ کہتا ہے کہ : اللہ تمام عیوب سے پاک ہے ، تو فرشتہ کہتا ہے میں کیا لکھوں ؟ پس ارشاد ہوتا ہے، تم اس کے لیے میری ڈھیر ساری رحمت لکھ دو ۔

30048

(۳۰۰۴۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن شَرِیکٍ ، عَن یَعْلَی بْنِ عَطَائٍ ، عَنْ أَبِی یحنس ، عَنْ أَبِی الدَّرْدَائِ قَالَ : بَخٍ بَخٍ لِخَمْسٍ : سُبْحَانَ اللہِ وَالْحَمْدُ لِلَّہِ ، وَلا إلَہَ إِلاَّ اللَّہُ وَاللَّہُ أَکْبَرُ وَوَلَدٌ صَالِحٌ یَمُوتُ۔
(٣٠٠٤٩) حضرت ابو الدردائ ارشاد فرماتے ہیں کہ شاباش ہے پانچ لوگوں کے لیے ! اللہ کی پاکی بیان کرنے والے کے لیے، اور اللہ کی تعریف بیان کرنے والے کے لیے، اور کلمہ اخلاص کہنے والے کے لیے ( اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں) اور اللہ کی بڑائی کرنے والے کے لیے۔ اور اس نیک لڑکے کے لیے جو جوانی میں مرجائے۔

30049

(۳۰۰۵۰) حَدَّثَنَا عَبِیْدَۃُ بْنُ حُمَیْدٍ ، عَنْ أَبِی الزَّعْرَائِ الْجُشَمِیِّ ، عَنْ أَبِی الأَحْوَصِ قَالَ : کَانَ عَبْدُ اللہِ بْنُ مَسْعُودٍ یَقُولُ : سُبْحَانَ اللہِ عَدَدَ الْحَصَی۔
(٣٠٠٥٠) حضرت ابو الأحوص فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود یوں پاکی بیان کیا کرتے تھے۔ اللہ ہر عیب سے پاک ہے کنکریوں کی تعداد کے بقدر۔

30050

(۳۰۰۵۱) حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ عُمَرُ بْنُ سَعْدٍ ، عَن یُونُسَ بْنِ الْحَارِثِ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ : مَنْ قَالَ سُبْحَانَ اللہِ الْعَظِیمِ وَبِحَمْدِہِ غُرِسَ لَہُ بِہَا نَخْلَۃٌ فِی الْجَنَّۃِ۔
(٣٠٠٥١) حضرت عبداللہ بن عمرو ارشاد فرماتے ہیں کہ جو شخص یہ کلمات کہے : اللہ پاک ہے عظمت والا ہے اور اپنی تعریف کے ساتھ ہے۔ تو جنت میں اس کلمہ کی وجہ سے اس کے لیے ایک درخت لگا دیا جاتا ہے۔

30051

(۳۰۰۵۲) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَن حُسَیْنِ بْنِ ذَکْوَانَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ بُرَیْدَۃَ ، عَن بُشَیْرِ بْنِ کَعْبٍ ، عَن شَدَّادِ بْنِ أَوْسٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : سَیِّدُ الاسْتِغْفَارِ أَنْ یَقُولَ : اللَّہُمَّ أَنْتَ رَبِّی وَأَنَا عَبْدُک لاَ إلَہَ إِلاَّ أَنْتَ خَلَقْتنِی وَأَنَا عَبْدُک أَصْبَحْت عَلَی عَہْدِکَ وَوَعْدِکَ مَا اسْتَطَعْت ، أَعُوذُ بِکَ مِنْ شَرِّ مَا صَنَعْت ، أَبُوئُ لَکَ بِنِعْمَتِکَ عَلَیَّ وَأَبُوئُ لَکَ بِذُنُوبِی فَاغْفِرْ لِی ، إِنَّہُ لاَ یَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلاَّ أَنْتَ۔
(٣٠٠٥٢) حضرت شداد بن اوس فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : سید الاستغفار یہ ہے کہ بندہ یوں کہے ! اے اللہ ! تو میرا رب ہے ، اور میں تیرا بندہ ہوں تیرے سوا کوئی معبود نہیں ہے تو نے ہی مجھے پیدا کیا ہے اور میں تیرا ہی بندہ ہوں میں نے صبح کی تیرے وعدے پر اور تیرے عہد پر اپنی استطاعت کے مطابق میں تیری پناہ مانگتا ہوں ان کاموں کے شر سے جو میں نے کیے ہیں، میں اعتراف کرتا ہوں مجھ پر ہونے والی تیری نعمتوں کا ، اور میں تیرے سامنے اپنے گناہوں کا بھی اعتراف کرتا ہوں، پس تو مجھے معاف فرما دے، بیشک تیرے علاوہ کوئی بھی گناہوں کو معاف نہیں کرسکتا۔
بخاری ٦٣٠٦۔ احمد ١٢٢

30052

(۳۰۰۵۳) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ الْحُبَابِ قَالَ: حَدَّثَنِی کَثِیرُ بْنُ زَیْدٍ ، قَالَ: حدَّثَنِی الْمُغِیرَۃُ بْنُ سَعِیدٍ بْنُ نَوْفَلٍ، عَن شَدَّادِ بْنِ أَوْسٍ، أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ لَہُ: أَلا أَدُلُّک عَلَی سَیِّدِ الاسْتِغْفَارِ؟ أَنْ تَقُولَ: اللہم أَنْتَ إلَہِی لاَ إلَہَ إِلاَّ أَنْتَ ، خَلَقْتنِی وَأَنَا عَبْدُک ، وَأَنَا عَلَی عَہْدِکَ وَوَعْدِکَ مَا اسْتَطَعْت، أَعُوذُ بِکَ مِنْ شَرِّ مَا صَنَعْت وَأَبُوئُ لَکَ بِنِعْمَتِکَ عَلَیَّ ، وَأَبُوئُ لَکَ بِذُنُوبِی فَاغْفِرْ لِی فَإِنَّہُ لاَ یَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلاَّ أَنْتَ ، مَا مِنْ عَبْدٍ یَقُولُہَا فَیَأْتِیہِ قَدَرُہُ فِی یَوْمِہِ قَبْلَ یُمْسِیَ ، أَوْ فِی مَسَائِہِ قَبْلَ یُصْبِحَ ، إِلاَّ کَانَ مِنْ أَہْلِ الْجَنَّۃِ۔ (طبرانی ۷۱۸۹)
(٣٠٠٥٣) حضرت شداد بن اوس فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے ارشاد فرمایا : کیا میں تمہاری سید الاستغفار کے بارے میں راہنمائی نہ فرماؤں ؟ تم یہ کلمات کہہ لیا کرو : اے اللہ ! تو ہی میرا معبود ہے۔ تیرے سوا کوئی معبود نہیں تو نے ہی مجھے پیدا کیا ہے اور میں تیرا بندہ ہوں۔ اور میں تیرے وعدے اور عہد کو اپنی طاقت کے بقدر پورا کرتا ہوں میں تیری پناہ مانگتا ہوں ان اعمال کے شر سے جو میں نے کیے ہیں، اور میں اعتراف کرتا ہوں مجھ پر ہونے والی تیری نعمتوں کا ، اور میں تیرے سامنے اپنے گناہوں کا اعتراف کرتا ہوں، پس تو میری مغفرت فرما۔ پس بیشک تیرے سوا کوئی بھی گناہوں کی مغفرت نہیں کرسکتا۔ کوئی بندہ ایسا نہیں کہ وہ ان کلمات کو کہے اس دن میں پس اس کا وقت مقرر شام ہونے سے پہلے اس کے پاس آئے، یا شام میں کہے تو صبح ہونے سے پہلے موت آئے، مگر یہ کہ وہ شخص اہل جنت میں سے ہوگا۔

30053

(۳۰۰۵۴) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِِ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ الْمُغِیرَۃِ ، عَن حُذَیْفَۃَ ، قَالَ : شَکَوْت إِلَی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ذَرَبَ لِسَانِی فَقَالَ : أَیْنَ أَنْتَ مِنَ الاسْتِغْفَارِ ، إنِّی لأَسْتَغْفِرُ اللَّہَ فِی کُلِّ یَوْمٍ مِئَۃ مَرَّۃٍ۔ (احمد ۳۹۴۔ دارمی ۲۷۲۳)
(٣٠٠٥٤) حضرت حذیفہ ارشاد فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اپنی زبان کی تیزی و بدگوئی کی شکایت کی ، تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : پس تیری استغفار کہاں ہے ؟ ( استغفار کیوں نہیں کرتا ) بیشک میں ہر روزسو مرتبہ اللہ سے استغفار کرتا ہوں۔

30054

(۳۰۰۵۵) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَۃَ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: إنِّی لاسْتَغْفِرُ اللَّہَ وَأَتُوبُ إلَیْہِ فِی الْیَوْمِ مِئَۃ مَرَّۃٍ۔ (ابن ماجہ ۳۸۱۵۔ نسائی ۱۰۲۶۸)
(٣٠٠٥٥) حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : میں بلاشبہ دن میں سو مرتبہ توبہ و استغفار کرتا ہوں۔

30055

(۳۰۰۵۶) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ حَدَّثَنَا نُمَیْرٍ مَالِکُ بْنُ مِغْوَلٍ ، عَن مُحَمَّدِ بْنِ سُوقَۃَ ، عَن نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : إِنْ کُنَّا لَنَعُدُّ لِرَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی الْمَجْلِسِ یَقُولُ : رَبِّ اغْفِرْ لِی وَتُبْ عَلَیَّ إنَّک أَنْتَ التَّوَّابُ الْغَفُورُ مِئَۃ مَرَّۃٍ۔ (ابوداؤد ۱۵۱۱۔ احمد ۲۱)
(٣٠٠٥٦) حضرت ابن عمر فرماتے ہیں کہ ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ایک مجلس میں کہے ہوئے ان کلمات کو گنتے تو وہ سو مرتبہ ہوتے تھے۔ اے میرے رب ! تو مجھے معاف فرما دے۔ اور میری توبہ کو قبول فرما۔ بلاشبہ تو ہی توبہ قبول کرنے والا اور مغفرت کرنے والا ہے۔

30056

(۳۰۰۵۷) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَن شُعْبَۃَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ ، عَنْ أَبِی بُرْدَۃَ ، قَالَ : سَمِعْتُ الأَغَرَّ وَکَانَ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُحَدِّثُ ابْنَ عُمَرَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : تُوبُوا إِلَی رَبِّکُمْ فَإِنِّی أَتُوبُ إلَیْہِ فِی الْیَوْمِ مِئَۃ مَرَّۃٍ۔ (مسلم ۲۰۷۵۔ ابوداؤد ۱۵۱۰)
(٣٠٠٥٧) حضرت ابن عمر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : تم لوگ اپنے رب سے توبہ کیا کرو۔ بلاشبہ میں دن میں سو مرتبہ توبہ کرتا ہوں۔

30057

(۳۰۰۵۸) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، حَدَّثَنَا مُغِیرَۃُ بْنُ أَبِی الْحُرِّ ، عَن سَعِیدِ بْنِ بُرْدَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ جَدِّہِ ، قَالَ : جَائَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ جُلُوسٌ فَقَالَ : مَا أَصْبَحْت غَدَاۃً إِلاَّ اسْتَغْفَرْت اللَّہَ فِیہَا مِئَۃ مَرَّۃٍ۔ (احمد ۴۱۰۔ ابن ماجہ ۳۸۱۶)
(٣٠٠٥٨) حضرت ابو بردہ کے والد فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے اس حال میں کہ ہم بیٹھے تھے۔ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : میں نے کبھی صبح نہیں کی مگر یہ کہ اس میں سو مرتبہ استغفار کیا۔

30058

(۳۰۰۵۹) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَن کَہَمْسٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ شَقِیقٍ ، قَالَ : کَانَ أَبُو الدَّرْدَائِ یَقُولُ : طُوبَی لِمَنْ وُجِدَ فِی صَحِیفَتِہِ نَبْذٌ مِنِ اسْتِغْفَارِ۔ (نسائی ۱۰۲۸۹)
(٣٠٠٥٩) حضرت عبداللہ بن شقیق فرماتے ہیں کہ حضرت ابو الدردائ ارشاد فرمایا کرتے تھے : خوشخبری ہے اس شخص کے لیے جس کے نامہ اعمال میں استغفار کا بھی کچھ حصہ پایا جائے۔

30059

(۳۰۰۶۰) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا بُکَیْرُ بْنُ أَبِی السَّمیطِ ، حَدَّثَنَا مَنْصُورُ بْنُ زَاذَانَ ، عَنْ أَبِی الصِّدِّیقِ النَّاجِی ، عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ ، قَالَ : مَنْ قَالَ أَسْتَغْفِرُ اللَّہَ الَّذِی لاَ إلَہَ إِلاَّ ہُوَ الْحَیُّ الْقَیُّومُ وَأَتُوبُ إلَیْہِ خَمْسَ مَرَّاتٍ غُفِرَ لَہُ ، وَإِنْ کَانَ عَلَیْہِ مِثْلُ زَبَدِ الْبَحْرِ۔
(٣٠٠٦٠) حضرت ابو الصدیق الناجی فرماتے ہیں کہ حضرت ابو سعید الخدری نے ارشاد فرمایا : جو شخص پانچ مرتبہ استغفار کے یہ کلمات پڑھے : میں اس اللہ سے اپنے گناہوں کی مغفرت چاہتا ہوں جس کے سوا کوئی معبود نہیں وہ زندہ ہے اور قائم رکھنے والا، اور میں اسی سے توبہ کرتا ہوں تو اس کی مغفرت کردی جاتی ہے اگرچہ سمندر کے جھاگ کے برابر ہوں۔

30060

(۳۰۰۶۱) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَن یُونُسَ ، عَن حُمَیْدِ بْنِ ہِلالٍ ، عَنْ أَبِی بُرْدَۃَ ، قَالَ : جَلَسْت إِلَی شَیْخٍ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی مَسْجِدِ الْکُوفَۃِ فَحَدَّثَنِی ، قَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، أَوْ قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : یَا أَیُّہَا النَّاسُ ، تُوبُوا إِلَی اللہِ وَاسْتَغْفِرُوہُ فَإِنِّی أَتُوبُ إِلَی اللہِ وَأَسْتَغْفِرُ فِی کُلِّ یَوْمٍ مِئَۃ مَرَّۃٍ ، قَالَ : قُلْتُ : اللَّہُمَّ إنِّی أَسْتَغْفِرُک اثْنَتَیْنِ ، قَالَ : ہُوَ مَا أَقُولُ لَک۔ (نسائی ۱۰۲۷۸۔ احمد ۲۶۰)
(٣٠٠٦١) حضرت ابو بردہ فرماتے ہیں کہ میں کوفہ کی مسجد میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب میں سے ایک بزرگ کے پاس بیٹھا تھا وہ فرمانے لگے کہ میں نے سنا یا فرمایا : کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے لوگو ! اللہ سے توبہ و استغفار کرو۔ پس بلاشبہ میں دن میں سو مرتبہ اللہ سے توبہ و استغفار کرتا ہوں۔ ابو بردہ فرماتے ہیں : میں نے دو مرتبہ پڑھا، اے اللہ میں تجھ سے معافی مانگتا ہوں۔ وہ صحابی فرمانے لگے : میں اسی بات کی تو تلقین کررہا ہوں۔

30061

(۳۰۰۶۲) حَدَّثَنَا مُعَاوِیَۃُ بْنُ ہِشَامٍ ، حَدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ رَجُلٍ ، عَن مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ ، قَالَ : مَنْ قَالَ أَسْتَغْفِرُ اللَّہَ الَّذِی لاَ إلَہَ إِلاَّ ہُوَ الْحَیُّ الْقَیُّومُ وَأَتُوبُ إلَیْہِ ثَلاثًا غُفِرَ لَہُ ، وَإِنْ کَانَ فَرَّ مِنَ الزَّحْفِ۔
(٣٠٠٦٢) حضرت معاذ بن جبل ارشاد فرماتے ہیں : کہ جو شخص تین مرتبہ یوں استغفار کے کلمات پڑھے ! میں اس اللہ سے معافی مانگتا ہوں جس کے سوا کوئی معبود نہیں وہ زندہ ہے سب کو قائم رکھنے والا ہے۔ اور میں اسی سے گناہوں کی توبہ کرتا ہوں۔ تو اس شخص کی مغفرت کردی جاتی ہے اگرچہ وہ شخص میدان جنگ سے ہی بھاگا ہو۔

30062

(۳۰۰۶۳) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ إسْرَائِیلَ ، عَنْ أَبِی سِنَانٍ ، عَنْ أَبِی الأَحْوَصِ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مَسْعُودٍ ، قَالَ : مَنْ قَالَ أَسْتَغْفِرُ اللَّہَ الَّذِی لاَ إلَہَ إِلاَّ ہُوَ الْحَیُّ الْقَیُّومُ وَأَتُوبُ إلَیْہِ ثَلاثًا غُفِرَ لَہُ ، وَإِنْ کَانَ فَرَّ مِنَ الزَّحْفِ۔
(٣٠٠٦٣) حضرت عبداللہ بن مسعود نے ارشاد فرمایا : جو شخص تین مرتبہ یوں استغفار کے کلمات پڑھے : میں اس اللہ سے معافی مانگتا ہوں جس کے سوا کوئی معبود نہیں وہ ہمیشہ زندہ رہنے والا، سب کو قائم رکھنے والا ہے، اور میں اسی کے سامنے اپنے گناہوں کی توبہ کرتا ہوں۔ تو اس شخص کے گناہوں کو معاف کردیا جاتا ہے ، اگرچہ وہ میدان جنگ سے فرار ہی ہوا ہو۔

30063

(۳۰۰۶۴) حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الْحَفَرِیُّ عُمَرُ بْنُ سَعْدٍ ، عَن یُونُسَ بْنِ الْحَارِثِ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو ، قَالَ : مَنْ قَالَ سُبْحَانَ اللہِ الْعَظِیمِ وَبِحَمْدِہِ غُرِسَ لَہُ بِہَا نَخْلَۃٌ فِی الْجَنَّۃِ۔ (طبرانی ۳۵۲۔ احمد ۲۳۹)
(٣٠٠٦٤) حضرت عبداللہ بن عمرو نے ارشاد فرمایا : جو شخص یہ کلمات پڑھے، اللہ تمام عیبوں سے پاک ہے عظمت والا ہے اور اپنی تعریف کے ساتھ ہے۔ تو اس کلمہ کی وجہ سے اس شخص کے لیے جنت میں ایک درخت لگا دیا جاتا ہے۔

30064

حدثنا أبو عبد الرحمن قَالَ حدثنا أبو بکر بن أبی شیبۃ قَالَ : (۳۰۰۶۵) حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ حَیَّانَ حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَن یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ، عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ، عَن طَاوُوس، عَن مُعَاذٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَا عَمِلَ ابْنُ آدَمَ عَمَلاً أَنْجَی لَہُ مِنَ النَّارِ مِنْ ذِکْرِ اللہِ ، قَالُوا : یَا رَسُولَ اللہِ ، وَلا الْجِہَادُ فِی سَبِیلِ اللہِ ؟ قَالَ : وَلا الْجِہَادُ فِی سَبِیلِ اللہِ ، إلاَّ أن تَضْرِبَ بِسَیْفِکَ حَتَّی یَنْقَطِعَ ، ثُمَّ تَضْرِبُ بہ حَتَّی یَنْقَطِعَ ، ثُمَّ تَضْرِبُ بِہِ حَتَّی یَنْقَطِعَ۔
(٣٠٠٦٥) حضرت معاذ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : آدم کے بیٹے کا کوئی عمل نہیں ہے جو اس کو جہنم سے زیادہ نجات دلا دے سوائے اللہ کے ذکر کے ، تو صحابہ نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! اللہ کے راستہ میں جہاد کرنا بھی نہیں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : نہ ہی اللہ کے راستہ میں جہاد کرنا مگر یہ کہ تو تلوار استعمال کرے یہاں تک کہ وہ ٹوٹ جائے پھر تو تلوار چلائے یہاں تک کہ ٹوٹ جائے پھر تو تلوار چلائے یہاں تک کہ وہ ٹوٹ جائے۔

30065

(۳۰۰۶۶) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ حُبَابٍ ، أَخْبَرَنَا مُعَاوِیَۃُ بْنُ صَالِحٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنِی عَمْرُو بْنُ قَیْسٍ الْکِنْدِیُّ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ بُسْرٍ ، أَنَّ أَعْرَابِیًّا ، قَالَ لِرَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : یَا رَسُولَ اللہِ ، إنَّ شَرَائِعَ الإِسْلامِ قَدْ کَثُرَتْ ، فَأَنْبِئْنِی فیہ بِأَمْرٍ أَتَشَبَّثُ بِہِ ، قَالَ : لاَ یَزَالُ لِسَانُک رَطْبًا بِذِکْرِ اللہِ۔ (ترمذی ۲۳۲۹۔ احمد ۱۸۸)
(٣٠٠٦٦) حضرت عبداللہ بن بسر فرماتے ہیں کہ ایک دیہاتی نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں عرض کیا : اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! بیشک اسلام کے احکامات بہت زیادہ ہیں۔ پس آپ مجھے کوئی ایسا عمل بتلا دیں جس کو میں مضبوطی سے تھام لوں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : کہ ہر وقت تو اللہ کے ذکر سے رطب اللسان ہو۔

30066

(۳۰۰۶۷) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَن دَاوُد ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِی لَیْلَی ، عَنْ أَبِی أَیُّوبَ الأَنْصَارِیِّ ، عَن رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : مَنْ قَالَ لاَ إلَہَ إِلاَّ اللَّہُ وَحْدَہُ لاَ شَرِیکَ لَہُ لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ بِیَدِہِ الْخَیْرُ وَہُوَ عَلَی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیرٌ عَشْرَ مَرَّاتٍ ، کُنْ لَہُ کَعَدْلِ عَشْرِ رَقَباتٍ ، أَوْ رَقَبَۃٍ۔ (مسلم ۲۰۷۱۔ احمد ۴۲۲)
(٣٠٠٦٧) حضرت ابوایوب انصاری فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جو شخص دس مرتبہ یہ کلمات پڑھے : اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ تنہا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، اسی کا ملک ہے اور اسی کے لیے تعریف ہے۔ ہر قسم کی بھلائی اس کے قبضہ ٔ قدرت میں ہے۔ اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔ تو یہ کلمات اس کے لیے دس گردنیں آزاد کرنے کے برابر ہوں گے۔

30067

(۳۰۰۶۸) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَن لَیْثٍ ، عَن طَلْحَۃَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْسَجَۃَ ، عَنِ الْبَرَائِ بْنِ عَازِبٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَنْ قَالَ لاَ إلَہَ إِلاَّ اللَّہُ وَحْدَہُ لاَ شَرِیکَ لَہُ لَہُ الْمُلْکُ ، وَلَہُ الْحَمْدُ وَہُوَ عَلَی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیرٌ ، کَانَ کَعِتْقِ رَقَبَۃٍ۔ (احمد ۲۸۵۔ حاکم ۵۰۱)
(٣٠٠٦٨) حضرت براء بن عازب فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جو شخص یہ کلمات پڑھے : اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ تنہا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، اسی کا ملک ہے اور اسی کے لیے تعریف ہے اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے، تو یہ ثواب میں ایک غلام آزاد کرنے کی طرح ہے۔

30068

(۳۰۰۶۹) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَن یَعْلَی بْنِ عَطَائٍ ، عَن بِشْرِ بْنِ عَاصِمٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ ، قَالَ : ذِکْرُ اللہِ بِالْغَدَاۃِ وَالْعَشِیِّ أَعْظَمُ مِنْ حَطْمِ السُّیُوفِ فِی سَبِیلِ اللہِ ، وَإِعْطَائِ الْمَالِ سَحًّا۔
(٣٠٠٦٩) حضرت عبداللہ بن عمرو نے ارشاد فرمایا : صبح و شام اللہ کا ذکر کرنا۔ اللہ کے راستے میں تلواریں توڑنے اور لگاتار مال خرچ کرنے سے زیادہ عظیم کام ہے۔

30069

(۳۰۰۷۰) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ وَاضِحٍ ، عَن مُوسَی بْنِ عُبَیْدَۃَ ، عَنْ أَبِی عَبْدِ اللہِ الْقَرَّاظِ ، عَن مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَنْ أَحَبَّ أَنْ یَرْتَعَ فِی رِیَاضِ الْجَنَّۃِ فَلْیُکْثِرْ ذِکْرَ اللہِ۔ (طبرانی ۳۲۶)
(٣٠٠٧٠) حضرت معاذ بن جبل فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جو شخص اس بات کو پسند کرتا ہے کہ وہ جنت کے باغات میں سے کھائے پیے ، پس اس کو چاہیے کہ وہ اللہ کے ذکر کی کثرت کرے۔

30070

(۳۰۰۷۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، عَن مِسْعَرٍ، عَنْ عَلْقَمَۃَ بْنِ مَرْثَدٍ، عَنِ ابْنِ سَابِطٍ، عَن مُعَاذٍ، قَالَ: لأَنْ أَذْکُرَ اللَّہَ مِنْ غُدْوَۃٍ حَتَّی تَطْلُعَ الشَّمْسُ أَحَبُّ إلَیَّ مِنْ أَنْ أُحْمَلَ عَلَی الْجِہَادِ فِی سَبِیلِ اللہِ مِنْ غُدْوَۃٍ حَتَّی تَطْلُعَ الشَّمْسُ۔
(٣٠٠٧١) حضرت ابن سابط فرماتے ہیں کہ حضرت معاذ نے ارشاد فرمایا کہ میں صبح سے لے کر سورج کے طلوع ہونے تک اللہ رب العزت کا ذکر کروں یہ مجھے زیادہ پسندیدہ ہے اس بات سے کہ میں صبح سے لے کر سورج طلوع ہونے تک اللہ کے راستہ میں جہاد کرنے کے لیے سواری پر سوار ہوں۔

30071

(۳۰۰۷۲) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ الْحُبَابِ ، حَدَّثَنَا مُعَاوِیَۃُ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ جُبَیْرِ بْنِ نُفَیْرٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ أَبِی الدَّرْدَائِ ، قَالَ : إنَّ الَّذِینَ لاَ تَزَالُ أَلْسِنَتُہُمْ رَطْبَۃً مِنْ ذِکْرِ اللہِ یَدْخُلُونَ الْجَنَّۃَ وَہُمْ یَضْحَکُونَ۔
(٣٠٠٧٢) حضرت جبیر بن نفیر فرماتے ہیں کہ حضرت ابو الدردائ نے ارشاد فرمایا : یقیناً وہ لوگ جو ہر وقت اللہ کے ذکر سے رطب اللسان ہوتے ہیں وہ لوگ جنت میں ہنستے ہوئے داخل ہوں گے۔

30072

(۳۰۰۷۳) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، حَدَّثَنَا مِسْعَرٌ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ مَیْسَرَۃَ ، عَن ہِلالِ بْنِ یَِسَافٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَیْمُونٍ، عَنِ الرَّبِیعِ بْنِ خُثَیْمٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ: مَنْ قَالَ عَشْرَ مَرَّاتٍ: لاَ إلَہَ إِلاَّ اللَّہُ وَحْدَہُ لاَ شَرِیکَ لَہُ لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ وَہُوَ عَلَی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیرٌ ، کُنَّ لہ کَعَدْلِ أَرْبَعِ رِقَابٍ ، أُرَاہُ قَالَ : مِنْ وَلَدِ إسْمَاعِیلَ۔
(٣٠٠٧٣) حضرت ربیع بن خثیم فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ نے ارشاد فرمایا : جو شخص دس مرتبہ یہ کلمات پڑھے : اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ تنہا ہے اس کا کوئی شریک نہیں ہے، اسی کا ملک ہے اور اسی کے لیے تعریف ہے، اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔ تو اسے ان کلمات کا ثواب چار غلاموں کو آزاد کرنے کے برابر ملے گا۔ راوی کہتے ہیں میرا خیال ہے کہ یوں فرمایا : حضرت اسماعیل کی نسل کے غلاموں کا۔

30073

(۳۰۰۷۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن مِسْعَرٍ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ مَیْسَرَۃَ ، عَن ہِلالٍ ، عَن أُمِّ الدَّرْدَائِ قَالَتْ : مَنْ قَالَ مِئَۃ مَرَّۃٍ غَدْوَۃً وَمِئَۃَ مَرَّۃٍ عَشِیَّۃً : لاَ إلَہَ إِلاَّ اللَّہُ وَحْدَہُ لاَ شَرِیکَ لَہُ لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ وَہُوَ عَلَی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیرٌ ، لَمْ یَجِئْ أَحَدٌ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ بِمِثْلِ مَا جَائَ بِہِ إِلاَّ مَنْ قَالَ مِثْلَہُنَّ ، أَوْ زَادَ۔
(٣٠٠٧٤) حضرت ھلال فرماتے ہیں کہ حضرت ام الدردائ نے ارشاد فرمایا : جو شخص سو (١٠٠) مرتبہ صبح اور سو مرتبہ شام کو یہ کلمات پڑھے گا، اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ تنہا ہے اس کا کوئی شریک نہیں ہے، اسی کا ملک ہے اور اسی کے لیے تعریف ہے اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔ تو نہیں آئے گا قیامت کے دن کوئی شخص اس جیسا عمل لے کر مگر وہ جو شخص جس نے اس کے برابر یا اس سے زیادہ مرتبہ ان کلمات کو پڑھا ہوگا۔

30074

(۳۰۰۷۵) حَدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَن یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ، عَن سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ، قَالَ : قَالَ مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ : لَوْ أَنَّ رَجُلَیْنِ یَحْمِلُ أَحَدُہُمَا عَلَی الْجِیَادِ فِی سَبِیلِ اللہِ وَالآخَرُ یَذْکُرُ اللَّہَ لَکَانَ أَفْضَلَ ، أَوْ أَعْظَمَ أَجْرًا الذَّاکِرُ۔
(٣٠٠٧٥) حضرت سعید بن المسیب فرماتے ہیں کہ حضرت معاذ بن جبل نے ارشاد فرمایا : کہ اگر دو آدمی ہوں ان میں سے ایک اللہ کے راستہ میں جہاد کرنے کے لیے گھوڑے پر سوار ہو اور دوسرا اللہ کا ذکر کرے تو فضیلت یا زیادہ اجر کے حاصل کرنے والا ذکر کرنے والا شمار ہوگا۔

30075

(۳۰۰۷۶) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ آدَمَ ، عَن مُفَضَّلٍ ، عَن مَنْصُورٍ ، عَن مُجَاہِدٍ ، عَنْ أَبِی بَکْرِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الحارث بن ہِشَامٍ ، عَن کَعْبٍ ، قَالَ : قَالَ مُوسَی : یَا رَبِّ دُلَّنِی عَلَی عَمَلٍ إذَا عَمِلْتہ کَانَ شُکْرًا لَکَ فِیمَا اصْطَنَعْت إلَیَّ ، قَالَ : یَا مُوسَی قُلْ : لاَ إلَہَ إِلاَّ اللَّہُ ، أَوْ قَالَ : لاَ إلَہَ إِلاَّ اللَّہُ وَحْدَہُ لاَ شَرِیکَ لَہُ لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ وَہُوَ عَلَی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیرٌ ، قَالَ : فَکَأَنَّ مُوسَی أَرَادَ مِنَ الْعَمَلِ مَا ہُوَ أَنْہَکُ لِجِسْمِہِ مِمَّا أُمِرَ بِہِ ، قَالَ : فَقَالَ لَہُ : یَا مُوسَی لَوْ أَنَّ السَّمَاوَاتِ السَّبْعَ وَالأَرْضِینَ السَّبْعَ وُضِعَتْ فِی کِفَّۃٍ ، وَوُضِعَتْ لاَ إلَہَ إِلاَّ اللَّہُ فِی کِفَّۃٍ لَرَجَحَتْ بِہِنَّ۔
(٣٠٠٧٦) حضرت کعب فرماتے ہیں کہ حضرت موسیٰ نے عرض کیا : اے میرے رب ! میری راہنمائی فرما دیں کسی ایسے عمل کی جانب جب میں اس عمل کو کروں تو یہ میری طرف سے آپ کا شکر ہوجائے ان تمام کاموں کے بدلے جو آپ نے میرے ساتھ بھلائی کے کیے ہیں۔ اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا : اے موسیٰ ! تم یہ کلمات پڑھ لیا کرو ! اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں یا یوں ارشاد فرمایا : اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ تنہا ہے اس کا کوئی شریک نہیں اس ہی کا ملک ہے اور اسی کے لیے تعریف ہے۔ اور وہ ہرچیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔ حضرت کعب فرماتے ہیں۔ گویا حضرت موسیٰ کوئی ایسا عمل چاہ رہے تھے کہ جس چیز کا حکم دیا جائے وہ ان کے جسم کو بہت زیادہ تھکا دے۔ حضرت کعب فرماتے ہیں کہ پس اللہ نے ان سے ارشاد فرمایا : اے موسیٰ ! اگر ساتوں آسمانوں کو اور ساتوں زمینوں کو ترازو کے ایک پلڑے میں رکھ دیا جائے اور کلمہ طیبہ ( اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ) اس کے دوسرے پلڑے میں رکھ دیا جائے تو کلمہ والا پلڑا جھک جائے۔

30076

(۳۰۰۷۷) حَدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَن سَالِمٍ ، قَالَ ، قِیلَ لأَبِی الدَّرْدَائِ : إنَّ أَبَا سَعْدِ بْنَ مُنَبِّہٍ جَعَلَ فِی مَالِہِ مِئَۃ مُحَرَّرَۃً ، فَقَالَ : إنَّ مِئَۃ مُحَرَّرَۃً فِی مَالِ رَجُلٍ لَکَثِیرٌ ، أَلا أُخْبِرُکُمْ بِأَفْضَلَ مِنْ ذَلِکَ ، إیمَانًا بلْزُومِ اللَّیْلِ وَالنَّہَارِ ، وَلا یَزَالُ لِسَانُک رَطْبًا مِنْ ذِکْرِ اللہِ۔
(٣٠٠٧٧) حضرت سالم فرماتے ہیں کہ حضرت ابو الدردائ کو بتلایا گیا کہ ابو سعد بن منبہ نے اپنے مال میں سے سو غلام آزاد کیے ہیں۔ حضرت ابودردائ نے فرمایا کہ سو غلام تو بہت ہیں لیکن میں تمہیں اس سے بہتر بتاؤں وہ یہ کہ تم دن رات ایمان کے ساتھ اپنی زبان کو اللہ کے ذکر سے تر رکھو۔

30077

(۳۰۰۷۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن مِسْعَرٍ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ مَیْسَرَۃَ ، عَن مُسْلِمٍ ، عَن سُوَیْد بْنِ جُہَیْلٍ ، قَالَ : مَنْ قَالَ بَعْدَ الْعَصْرِ : لاَ إلَہَ إِلاَّ اللَّہُ لَہُ الْحَمْدُ وَہُوَ عَلَی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیرٌ ، قَاتَلْنَ عَن قَائِلِہَا إِلَی مِثْلِہَا مِنَ الْغَدِ۔
(٣٠٠٧٨) حضرت سوید بن جُھیل نے ارشاد فرمایا : جو شخص عصر کے بعد یہ کلمات پڑھے : اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، اسی کے لیے تعریف ہے ، اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے تو فرشتے ان کلمات کے کہنے والے کا دفاع کرتے ہیں اگلے دن کے اسی وقت تک۔

30078

(۳۰۰۷۹) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، عَن مِسْعَرٍ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ مَیْسَرَۃَ ، عَن مُسْلِمٍ مَوْلَی سُوَیْد بْنِ جُہَیْلٍ ، عَن سُوَیْد ، قَالَ : کَانَ مِنْ أَصْحَابِ عُمَرَ ، ثُمَّ ذَکَرَ نَحْوَ حَدِیثِ وَکِیعٍ۔
(٣٠٠٧٩) حضرت سوید بن جھیل سے جو کہ حضرت عمر کے اصحاب میں سے ہیں بعینہ ماقبل والا ارشاد اس سند سے بھی منقول ہے۔

30079

(۳۰۰۸۰) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ حَدَّثَنَا مِسْعَرٌ ، عَن سَعْدِ بْنِ إِبْرَاہِیمَ ، عَن أَبِی عُبَیْدَۃَ ، قَالَ : الْعَبْدُ مَا ذُکِرَ اللَّہَ ، فَہُوَ فِی صَلاۃٍ۔
(٣٠٠٨٠) حضرت سعد بن ابراہیم فرماتے ہیں کہ حضرت ابو عبیدہ نے ارشاد فرمایا : جو بندہ بھی اللہ کا ذکر کرتا ہے وہ نماز کی حالت میں ہوتا ہے۔

30080

(۳۰۰۸۱) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَن مَنْصُورٍ ، عَن سَالِمٍ ، عَن مَسْرُوقٍ ، قَالَ : مَا دَامَ قَلْبُ الرَّجُلِ یَذْکُرُ اللَّہَ ، فَہُوَ فِی صَلاۃٍ ، وَإِنْ کَانَ فِی السُّوقِ۔
(٣٠٠٨١) حضرت سالم فرماتے ہیں کہ حضرت مسروق تابعی نے ارشاد فرمایا : جس آدمی کا دل مسلسل اللہ کا ذکر کرتا ہے تو وہ شخص نماز کی حالت میں ہوتا ہے اگرچہ وہ بازار ہی میں ہو۔

30081

(۳۰۰۸۲) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَن مَنْصُورٍ ، عَن ہِلالٍ عَن أَبِی عُبَیْدَۃَ قَالَ : مَا دَامَ قَلْبُ الرَّجُلِ یَذْکُرُ اللہ ، فَہُوَ فِی صَلاۃٍ ، وَإِنْ کَانَ فِی السُّوقِ ، وَإِنْ یُحَرِّکْ بِہِ شَفَتَیْہِ ، فَہُوَ أَفْضَلُ۔
(٣٠٠٨٢) حضرت ھلال فرماتے ہیں کہ حضرت ابو عبیدہ نے ارشاد فرمایا : جس آدمی کا دل مسلسل اللہ کا ذکر کرے تو وہ نماز کی حالت میں ہوتا ہے اگرچہ وہ بازار میں ہی ہو۔ اگر وہ ہونٹوں کو بھی ذکر کرتے ہوئے حرکت دے تو یہ سب سے زیادہ فضیلت کی بات ہے۔

30082

(۳۰۰۸۳) حَدَّثَنَا مَرْحُومُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیزِ ، عَنْ أَبِی نَعَامَۃَ السَّعْدِیِّ ، عَنْ أَبِی عُثْمَانَ النَّہْدِیِّ ، عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ ، قَالَ : خَرَجَ مُعَاوِیَۃُ عَلَی حَلْقَۃٍ فِی الْمَسْجِدِ فَقَالَ : مَا أَجْلَسَکُمْ قَالُوا : جَلَسْنَا نَذْکُرُ اللَّہَ وَنَحْمَدُہُ عَلَی مَا ہَدَانَا لِلإِسْلامِ وَمَنَّ عَلَیْنَا بِہِ ، قَالَ : آللہِ مَا أَجْلَسَکُمْ إِلاَّ ذَاکَ ، قَالُوا : وَاللہِ مَا أَجْلَسَنَا إِلاَّ ذَاکَ ، فَقَالَ : أَمَّا إنِّی لَمْ أَسْتَحْلِفْکُمْ تُہْمَۃً لَکُمْ ، وَمَا مِنْ أَحَدٍ بِمَنْزِلَۃٍ مِنْ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَقَلَّ عَنْہُ حَدِیثًا مِنِّی ، وَإِنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خَرَجَ عَلَی حَلْقَۃٍ مِنْ أَصْحَابِہِ فَقَالَ : مَا أَجْلَسَکُمْ ؟ فَقَالُوا : جَلَسْنَا نَذْکُرُ اللَّہَ وَنَحْمَدُہُ عَلَی مَا ہَدَانَا لِلإِسْلامِ وَمَنَّ عَلَیْنَا بِہِ ، قَالَ : آللہِ مَا أَجْلَسَکُمْ إِلاَّ ذَاکَ ، قَالُوا : وَاللہِ مَا أَجْلَسَنَا إِلاَّ ذَاکَ ، فَقَالَ : أَمَّا إنِّی لَمْ أَسْتَحْلِفْکُمْ تُہْمَۃً لَکُمْ وَلَکِنِّی أَتَانِی جِبْرِیلُ فَأَخْبَرَنِی ، أَنَّ اللَّہَ یُبَاہِی بِکُمَ الْمَلائِکَۃَ۔ (مسلم ۲۰۷۵۔ ترمذی ۳۳۷۹)
(٣٠٠٨٣) حضرت ابو سعید الخدری ارشاد فرماتے ہیں کہ حضرت معاویہ مسجد میں لگے ایک حلقہ میں تشریف لائے، پھر فرمانے لگے : کس چیز نے تمہیں یہاں بٹھا رکھا ہے ؟ لوگوں نے عرض کیا : ہم اللہ کا ذکر کر رہے ہیں اور اللہ کی تعریف بیان کر رہے ہیں کہ اس نے ہمیں اسلام کے ذریعہ ہدایت بخشی۔ اور اسلام کے ذریعہ ہم پر احسان فرمایا۔ حضرت معاویہ فرمانے لگے : اللہ کی قسم ! کیا واقعی تم لوگ اس مقصد کے لیے بیٹھے ہو ؟ لوگوں نے کہا ! اللہ کی قسم ! ہم صرف اسی وجہ سے بیٹھے ہیں تو حضرت معاویہ نے ارشاد فرمایا : بہرحال میں نے کسی تہمت کی وجہ سے تمہیں قسم نہیں دی، اور کوئی ایک بھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حدیث کے معاملہ میں مجھ سے کم درجہ کا نہیں۔ اور یقیناً رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صحابہ کے ایک حلقہ میں تشریف لائے پھر فرمانے لگے : کس چیز نے تمہیں یہاں بٹھا رکھا ہے ؟ صحابہ نے عرض کیا : ہم بیٹھ کر اللہ کا ذکر کر رہے ہیں اور ہم اس کی حمد بیان کر رہے ہیں کہ اللہ نے ہمیں اسلام کی ہدایت عطا فرمائی۔ اور اس کے ذریعہ ہم پر احسان فرمایا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ کی قسم ! کیا تم لوگ واقعی اس لیے بیٹھے ہو ؟ صحابہ نے عرض کیا : اللہ کی قسم ! ہم لوگ صرف اسی وجہ سے بیٹھے ہیں۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : یقیناً میں نے کسی تہمت کی وجہ سے تم سے قسم نہیں اٹھوائی۔ لیکن میرے پاس جبرائیل تشریف لائے تھے پس انھوں نے مجھے بتلایا ہے کہ اللہ رب العزت تمہاری وجہ سے ملائکہ کے سامنے فخر فرما رہے ہیں۔

30083

(۳۰۰۸۴) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو ، عَن مُحَمَّدِ بْنِ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : قَالَ عبَادَۃُ بْنُ الصَّامِتِ : لأَنْ أَکُونَ فِی قَوْمٍ یَذْکُرُونَ اللَّہَ مِنْ حِینَ یُصَلُّونَ الْغَدَاۃَ إِلَی حِینَ تَطْلُعُ الشَّمْسُ أَحَبُّ إلَیَّ مِنْ أَنْ أَکُونَ عَلَی مُتُونِ الْخَیْلِ أُجَاہِدُ فِی سَبِیلِ اللہِ إِلَی أَنْ تَطْلُعَ الشَّمْسُ ، وَلأَنْ أَکُونَ فِی قَوْمٍ یَذْکُرُونَ مِنْ حِینَ یُصَلُّونَ الْعَصْرَ حَتَّی تَغْرُبَ الشَّمْسُ أَحَبُّ إلَیَّ مِنْ أَنْ أَکُونَ عَلَی مُتُونِ الْخَیْلِ أُجَاہِدُ فِی سَبِیلِ اللہِ حَتَّی تَغْرُبَ الشَّمْسُ۔
(٣٠٠٨٤) حضرت محمد بن ابراہیم فرماتے ہیں کہ حضرت عبادہ بن الصامت نے ارشاد فرمایا کہ میں ایسے لوگوں میں بیٹھوں جو صبح کی نماز سے لے کر سورج کے طلوع ہونے تک ذکر کرتے ہیں یہ مجھے زیادہ پسند ہے اس بات سے کہ میں گھوڑے کی پشت پر بیٹھ کر اللہ کے راستہ میں سورج کے طلوع ہونے تک جہاد کروں۔ اور میں ایسے ہی لوگوں میں رہوں جو عصر کی نماز سے لے کر سورج غروب ہونے تک ذکر کرتے ہیں یہ مجھے زیادہ پسند ہے اس بات سے کہ میں گھوڑے کی پشت پر بیٹھ کر سورج غروب ہونے تک اللہ کے راستہ میں جہاد کروں۔

30084

(۳۰۰۸۵) حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ مُعَاذٍ ، عَن سُلَیْمَانَ التَّیْمِیِّ ، عَنْ أَبِی عُثْمَانَ ، عَن سَلْمَانَ ، قَالَ : لَوْ بَاتَ رَجُلٌ یُعْطِی الْقنَان الْبِیضَ وَبَاتَ آخَرُ یَقْرَأُ الْقُرْآنَ أَوْ یَذْکُرُ اللَّہَ تعالی لَرَأَیْت أَنَّ ذَلِکَ ، أَوْ قَالَ : أَنَّ ذَاکِرَ اللہِ أَفْضَلُ۔
(٣٠٠٨٥) حضرت ابو عثمان فرماتے ہیں کہ حضرت سلمان نے ارشاد فرمایا : اگر ایک شخص اس حال میں رات گزارے کہ وہ غلام اور لونڈیوں کو آزاد کرے اور ایک دوسرا شخص اس حال میں رات گزارے کہ وہ قرآن مجید کی تلاوت کرے یا اللہ کا ذکر کرے، تو میری رائے یہ ہے کہ یہ شخص ، یا یوں فرمایا : اللہ کا ذکر کرنے والا افضل ہے۔

30085

(۳۰۰۸۶) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ أَبِی ہِلالٍ ، عَنْ أَبِی الْوَازِعِ جَابِرٍ الرَّاسِی ، عَنْ أَبِی بَرْزَۃَ ، قَالَ : لَوْ أَنَّ رَجُلَیْنِ أَحَدُہُمَا فِی حِجْرِہِ دَنَانِیرَ یُعْطِیہَا ، وَالآخَرُ یَذْکُرُ اللَّہَ ، کَانَ ذَاکِرُ اللہِ أَفْضَلَ۔
(٣٠٠٨٦) حضرت ابو الوازع جابر الراسبی فرماتے ہیں کہ حضرت ابو برزہ نے ارشاد فرمایا : اگر دو آدمی ہوں ان میں سے ایک کی گود میں دینار ہوں جنہیں وہ لوگوں کو دے رہا ہو، اور دوسرا شخص اللہ کا ذکر کررہا ہو تو اللہ کا ذکر کرنے والا افضل شمار ہوگا۔

30086

(۳۰۰۸۷) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، حَدَّثَنَا مِسْعَرٌ ، قَالَ : حدَّثَنِی ثَعْلَبَۃُ بْنُ عَمْرٍو ، عَنْ عَمْرِو بْنِ سَعِیدٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو ، قَالَ : لَوْ أَنَّ رَجُلَیْنِ أَقْبَلَ أَحَدُہُمَا مِنَ الْمَشْرِقِ وَالآخَرُ مِنَ الْمَغْرِبِ ، مَعَ أَحَدِہِمَا ذَہَبٌ لاَ یَضَعُ مِنْہُ شَیْئًا إِلاَّ فِی حَقٍّ وَالآخَرُ یَذْکُرُ اللَّہَ حَتَّی یَلْتَقِیَا فِی طَرِیقٍ کَانَ الَّذِی یَذْکُرُ اللَّہَ أَفْضَلَہُمَا۔
(٣٠٠٨٧) حضرت عمرو بن سعید فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمرو نے ارشاد فرمایا : کہ اگر دو آدمی ہوں ان میں سے ایک مشرق سے آیا ہو اور دوسرا مغرب سے آیا ہو، ان مں اسے ایک کے پاس سونا ہو جسے وہ صرف حق کے کاموں میں خرچ کرے اور دوسرا شخص وہ اللہ کا ذکر کرے یہاں تک کہ ان دونوں کی راستہ میں ملاقات ہوجائے تو جو شخص اللہ کا ذکر کرنے والا تھا ان دونوں میں سے افضل شمار ہوگا۔

30087

(۳۰۰۸۸) حَدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَن مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ أَبِی جَعْفَرٍ ، قَالَ : مَا مِنْ شَیْئٍ أَحَبَّ إلی اللہ مِنَ الشُّکْرِ وَالذِّکْرِ۔
(٣٠٠٨٨) حضرت محمد بن عبد الرحمن فرماتے ہیں کہ حضرت ابو جعفر نے ارشاد فرمایا : کوئی بھی چیز اللہ کے نزدیک شکر ادا کرنے اور ذکر کرنے سے زیادہ پسندیدہ نہیں ہے۔

30088

(۳۰۰۸۹) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ آدَمَ ، حَدَّثَنَا عَمَّارُ بْنُ رُزَیْقٍ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنِ الأَغَرِّ أَبِی مُسْلِمٍ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ، وَأَبِی سَعِیدٍ یَشْہَدَانِ بِہِ عَلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہُ قَالَ: مَا جَلَسَ قَوْمٌ مُسْلِمُونَ مَجْلِسًا یَذْکُرُونَ اللَّہَ فِیہِ إِلاَّ حَفَّتْہُمُ الْمَلائِکَۃُ وَتَغَشَّتْہُمُ الرَّحْمَۃُ ، وَنَزَلَتْ عَلَیْہِمُ السَّکِینَۃُ ، وَذَکَرَہُمَ اللَّہُ فِیمَنْ عِنْدَہُ۔ (ترمذی ۳۳۷۸۔ ابن ماجہ ۳۷۹۱)
(٣٠٠٨٩) حضرت ابوہریرہ اور حضرت ابو سعید ، نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : کسی مسلمان قوم نے مجلس میں بیٹھ کر اللہ کا ذکر نہیں کیا مگر یہ کہ فرشتوں نے ان کو گھیر لیا اور رحمت نے ان کو ڈھانپ لیا اور ان پر سکینہ نازل ہوتی ہے اور اللہ ان کا ذکر فرشتوں کی مجلس میں فرماتے ہیں۔

30089

(۳۰۰۹۰) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ الْحُبَابِ ، أَخْبَرَنِی مَالِکُ بْنُ أَنَسٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنِی سُمِیٌّ مَوْلَی أَبِی بَکْرٍ ، عَنْ أَبِی صَالِحٍ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَنْ قَالَ فِی یَوْمٍ مِئَۃ مَرَّۃٍ : لاَ إلَہَ إِلاَّ اللَّہُ وَحْدَہُ لاَ شَرِیکَ لَہُ لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ وَہُوَ عَلَی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیرٌ ، کَانَ لَہُ کَعَدْلِ عَشْرِ رِقَابٍ ، وَکُتِبَتْ لَہُ مِئَۃ حَسَنَۃٍ ، وَمُحِیَ عَنْہُ مِئَۃ سَیِّئَۃٍ ، وَکَانت لَہُ حِرْزًا مِنَ الشَّیْطَانِ سَائِرَ یَوْمہ إِلَی اللَّیْلِ ، وَلَمْ یَأْتِ أَحَدٌ بِأَفْضَلَ مِمَّا أَتَی بِہِ إِلاَّ مَنْ قَالَ أَکْثَرَ۔ (بخاری ۳۲۹۳۔ مسلم ۲۰۷۱)
(٣٠٠٩٠) حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جو شخص دن میں سو مرتبہ یہ کلمات پڑھے : اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ تنہا ہے اس کا کوئی شریک نہیں اسی کا ملک ہے اور اسی کے لیے تعریف ہے، اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے، تو یہ اس کے لیے دس غلام آزاد کرنے کے برابر ہے، اور اس کے لیے سو نیکیاں لکھ دی جاتی ہیں اور اس کے سو گناہوں کو مٹا دیا جاتا ہے، اور یہ کلمات اس کے لیے سارا دن رات تک شیطان سے حفاظت کا ذریعہ ہیں، اور نہیں لائے گا قیامت کے دن اس سے افضل عمل کوئی بھی شخص مگر جس نے اس سے زیادہ مرتبہ ان کلمات کو پڑھا ہوگا۔

30090

(۳۰۰۹۱) حَدَّثَنَا عَفَّانُ حَدَّثَنَا أَبَانُ بْنُ یَزِیدَ الْعَطَّارُحَدَّثَنَا قَتَادَۃُ ، قَالَ : حدَّثَ أَبُو الْعَالِیَۃِ الرِّیَاحِیُّ ، عَن حَدِیثِ سُہَیْلِ بْنِ حَنْظَلَۃَ الْعَبْشَمِیِّ ، أَنَّہُ قَالَ : مَا اجْتَمَعَ قَوْمٌ قط یَذْکُرُونَ اللَّہَ إِلاَّ نَادَی مُنَادٍ مِنَ السَّمَائِ : قُومُوا مَغْفُورًا لَکُمْ ، قَدْ بُدِّلَتْ سَیِّئَاتُکُمْ حَسَنَاتٍ۔
(٣٠٠٩١) حضرت سھیل بن حنظلہ العبشمی فرماتے ہیں کہ کوئی قوم بھی ہرگز اللہ کا ذکر نہیں کرتی مگر یہ کہ آسمان سے ایک منادی (فرشتہ) یہ آواز لگاتا ہے : تم بخشے بخشائے کھڑے ہو جاؤ تحقیق تمہارے گناہوں کو نیکیوں سے بدل دیا گیا ہے۔

30091

(۳۰۰۹۲) حَدَّثَنَا عَبِیْدَۃُ بْنُ حُمَیْدٍ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَن ہِلالِ بْنِ یَِسَافٍ ، قَالَ : کَانَتِ امْرَأَۃٌ مِنْ ہَمْدَانَ تُسَبِّحُ وَتُحْصِیہِ بِالْحَصْباء ، أَوِ النَّوَی فَمَرَّتْ عَلَی عَبْدِ اللہِ ، فَقِیلَ لَہُ : ہَذِہِ الْمَرْأَۃُ تُسَبِّحُ وَتُحْصِیہِ بِالْحَصَی ، أَوِ النَّوَی ، فَدَعَاہَا فَقَالَ : لَہَا : أَنْتِ الَّتِی تُسَبِّحِینَ وَتُحْصِینَ ؟ فَقَالَتْ : نَعَمْ إنِّی لأَفْعَلُ ، فَقَالَ : أَلا أَدُلُّک عَلَی خَیْرٍ مِنْ ذَلِکَ ، تَقُولِینَ : اللَّہُ أَکْبَرُ کَبِیرًا ، وَالْحَمْدُ للہِ کَثِیرًا ، وَسُبْحَانَ اللہِ بُکْرَۃً وَأَصِیلاً۔
(٣٠٠٩٢) حضرت ھلال بن یساف فرماتے ہیں کہ قبیلہ ہمدان کی ایک عورت تھی جو اللہ کی پاکی بیان کرتی تھی اور اسے کنکریوں یا دانوں پر شمار کرتی تھی، پس وہ حضرت عبداللہ کے پاس سے گزری ، تو ان کو بتلایا گیا۔ کہ یہ عورت تسبیح پڑھتی ہے اور اس کو کنکریوں یا دانوں پر شمار کرتی ہے۔ تو حضرت عبداللہ نے اس عورت کو بلایا، اور اس سے پوچھا : کیا تو ہی وہ عورت ہے جو تسبیح پڑھتی ہے اور شمار کرتی ہے ؟ وہ کہنے لگی ! جی ہاں ! میں ہی ایسا کرتی ہوں، تو حضرت عبداللہ نے فرمایا : کیا مں اس سے بہتر فعل کی طرف تیری راہنمائی نہ کروں ؟ تم اس طرح ذکر کیا کرو : اللہ سب سے بڑا ہے، اور سب تعریفیں کثرت سے اللہ کے لیے ہیں، اور صبح و شام میں اللہ ہر عیب سے پاک ہے۔

30092

(۳۰۰۹۳) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ ، عَنِ الأَغَرِّ أَبِی مُسْلِمٍ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیمَا یُحَدِّثُ ، عَن رَبِّہِ ، قَالَ : مَنْ ذَکَرَنِی فِی نَفْسِہِ ذَکَرْتہ فِی نَفْسِی ، وَمَنْ ذَکَرَنِی فِی مَلأٍ مِنَ النَّاسِ ذَکَرْتہ فِی مَلأٍ أَکثر مِنْہُمْ وَأَطْیَبَ۔ (احمد ۳۵۴۔ ابن حبان ۳۲۸)
(٣٠٠٩٣) حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حدیث قدسی ارشاد فرمائی : کہ اللہ فرماتے ہیں ! جو شخص مجھے اپنے دل میں یاد کرتا ہے تو میں بھی اسے دل میں یاد کرتا ہوں، اور جو شخص لوگوں کی مجلس میں مجھے یاد کرتا ہے تو میں اسے ایسی مجلس میں یاد کرتا ہوں جو اس سے بڑی ہو اور اس سے پاکیزہ ہو۔

30093

(۳۰۰۹۴) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ أَبِی عُثْمَانَ ، عَن سَلْمَانَ ، قَالَ : إذَا کَانَ الْعَبْدُ یَحْمَدُ اللَّہَ فِی السَّرَّائِ وَیَحْمَدُہُ فِی الرَّخَائِ فَأَصَابَہُ ضُرٌّ فَدَعَا اللَّہَ قَالَتِ الْمَلائِکَۃُ : صَوْتٌ مَعْرُوفٌ مِنَ امْرِئٍ ضَعِیفٍ فَیَشْفَعُونَ لَہُ وَإِذَا کَانَ الْعَبْدُ لاَ یَذْکُرُ اللَّہَ فِی السَّرَّائِ ، وَلا یَحْمَدُہُ فِی الرَّخَائِ فَأَصَابَہُ ضُرٌّ فَدَعَا اللَّہَ قَالَتِ الْمَلائِکَۃُ : صَوْتٌ مُنْکَرٌ۔
(٣٠٠٩٤) حضرت ابو عثمان فرماتے ہیں کہ حضرت سلیمان نے ارشاد فرمایا : جب کوئی بندہ خوشی کی حالت میں اللہ کا ذکر کرتا ہے اور فراخی کی حالت میں اس کی حمد بیان کرتا ہے، پھر اسے کوئی تکلیف پہنچی تو اس نے اللہ سے دعا مانگی ! تو فرشتے کہتے ہیں، کمزور بندے کی جانی پہچانی آواز ہے ، پھر وہ اللہ کے سامنے اس بندے کی سفارش کرتے ہیں ، اور جب کوئی بندہ خوشی کی حالت میں اللہ کو یاد نہیں کرتا اور فراخی کی حالت میں اس کی حمدبیان نہیں کرتا پھر اس کو کوئی تکلیف پہنچی اور اس نے اللہ سے دعا مانگی تو فرشتے کہتے ہیں۔” بُری آواز ہے۔ “

30094

(۳۰۰۹۵) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنِ الأَصْبَغِ بْنِ زَیْدٍ ، عَن ثَوْرٍ ، عَن خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ ، قَالَ : إنَّ اللَّہَ یَتَصَدَّقُ کُلَو یَوْمٍ بِصَدَقَۃٍ فَمَا تَصَدَّقَ عَلَی عَبْدِہِ بِشَیْئٍ أَفْضَلَ مِنْ ذِکْرِہِ۔
(٣٠٠٩٥) حضرت خالد بن معدان فرماتے ہیں کہ اللہ رب العزت ہر روز صدقہ فرماتے ہیں، اللہ نے کبھی اپنے کسی بندے پر اس کے ذکر سے زیادہ افضل کسی چیز کا صدقہ نہیں فرمایا۔

30095

(۳۰۰۹۶) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَن زَائِدَۃَ ، عَن زِرٍّ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : مَنْ قَالَ فِی یَوْمٍ : لاَ إلَہَ إِلاَّ اللَّہُ وَحْدَہُ لاَ شَرِیکَ لَہُ لَہُ الْمُلْکُ ، وَلَہُ الْحَمْدُ ، وَہُوَ عَلَی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیرٌ ، کُنَّ لَہُ عَدْلَ أَرْبَعِ رَقَابات یُعْتِقُہُنَّ مِنْ وَلَدِ إسْمَاعِیلَ۔
(٣٠٠٩٦) حضرت عبداللہ بن مسعود نے ارشاد فرمایا : جو شخص دن میں یہ کلمات پڑھے : اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ تنہا ہے اس کا کوئی شریک نہیں ، اسی کا ملک ہے اور اسی کے لیے تعریف ہے، اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے، تو یہ کلمات اس کے لیے چار غلاموں کو آزاد کرنے کے برابر ہیں جنہیں اس نے حضرت اسماعیل کی اولاد میں سے آزاد کیا ہو۔

30096

(۳۰۰۹۷) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ، عَن زَائِدَۃَ، عَن مَنْصُورٍ، عَن طَلْحَۃَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْسَجَۃَ، عَنِ الْبَرَائِ بْنِ عَازِبٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: مَنْ قَالَ لاَ إلَہَ إِلاَّ اللَّہُ وَحْدَہُ لاَ شَرِیکَ لَہُ لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ وَہُوَ عَلَی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیرٌ ، عَشْرَ مَرَّاتٍ کُنَّ لَہُ کَعَدْلِ نَسَمَۃٍ۔ (نسائی ۹۹۵۳۔ طبرانی ۱۷۱۷)
(٣٠٠٩٧) حضرت براء بن عازب فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جو شخص دس مرتبہ یہ کلمات پڑھے : اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، اسی کا ملک ہے اور اسی کے لیے تعریف ہے اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے تو اس کا ثواب تمام مخلوق کی تعداد کے برابر ہوگا۔

30097

(۳۰۰۹۸) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَیْدٍ حَدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ ، عَنْ أَبِی بَکْرِ بْنِ حَفْصٍ ، عَنْ أَبِی رُعَافَۃَ رَجُلٌ مِنَ الأَنْصَارِ ، عَنْ أَبِی الدَّرْدَائِ ، قَالَ : مَنْ قَالَ فِی الْیَوْمِ مِئَۃ مَرَّۃٍ : لاَ إلَہَ إِلاَّ اللَّہُ وَحْدَہُ لاَ شَرِیکَ لَہُ لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ وَہُوَ عَلَی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیرٌ ، لَمْ یَجِئْ أَحَدٌ مِنْ أَہْلِ الدُّنْیَا بِأَفْضَلَ مِمَّا جَائَ بِہِ إِلاَّ إنْسَانٌ یَزِیدُ عَلَیْہِ۔
(٣٠٠٩٨) حضرت ابو رفاعہ جو کہ انصاری ہیں فرماتے ہیں کہ حضرت ابو الدردائ نے ارشاد فرمایا : جو شخص دن میں سو مرتبہ یہ کلمات پڑھے ! اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، اسی کا ملک ہے اور اسی کے لیے تعریف ہے اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے ، تو دنیا والوں میں سے کوئی بھی اس سے افضل عمل والا نہیں ہوگا مگر وہ شخص جس نے اس سے زیادہ مرتبہ ان کلمات کو پڑھا ہوگا۔

30098

(۳۰۰۹۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن سُفْیَانَ ، عَن مُطَرِّفٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، أَنَّ عُمَرَ خَرَجَ یَسْتَسْقِی فَصَعِدَ الْمِنْبَرَ فَقَالَ : {اسْتَغْفِرُوا رَبَّکُمْ إِنَّہُ کَانَ غَفَّارًا یُرْسِلِ السَّمَائَ عَلَیْکُمْ مِدْرَارًا وَیُمْدِدْکُمْ بِأَمْوَالٍ وَبَنِینَ وَیَجْعَلْ لَکُمْ جَنَّاتٍ وَیَجْعَلْ لَکُمْ أَنْہَارًا} وَ {اسْتَغْفِرُوا رَبَّکُمْ إِنَّہُ کَانَ غَفَّارًا} ثُمَّ نَزَلَ فَقِیلَ لَہُ : یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ ، لَوِ اسْتَسْقَیْت فَقَالَ : لَقَدْ طَلَبْت بِمَجَادِیحِ السَّمَائِ الَّتِی یُسْتَنْزَلُ بِہَا الْقَطْرُ۔
(٣٠٠٩٩) حضرت شعبی فرماتے ہیں کہ حضرت عمر پانی کی طلبی کی دعا کے لیے نکلے اور منبر پر چڑھ کر یہ آیات پڑھیں : معافی مانگو اپنے رب سے ، یقیناً وہ بہت زیادہ معاف فرمانے والا ہے، وہ برسائے گا تم پر آسمان سے موسلا دھار بارش اور نوازے گا تمہیں مال و اولاد سے اور پیدا کرے گا تمہارے لیے باغ اور جاری کر دے گا تمہارے لیے نہریں، اور معافی مانگو اپنے رب سے، پھر آپ منبر سے نیچے اتر آئے۔ پس آپ سے کہا گیا : اے امیر المؤمنین ! اگر آپ بارش بھی مانگتے تو اچھا ہوتا، تو آپ نے فرمایا : البتہ تحقیق میں نے آسمان کے نچھتر کے ذریعہ پانی طلب کیا ہے جس کے ذریعہ پانی کے قطرے اتارے جاتے ہیں۔

30099

(۳۰۱۰۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن عِیسَی بْنِ حَفْصٍ ، عَنْ عَطَائِ بْنِ أَبِی مَرْوَانَ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : خَرَجْنَا مَعَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ نَسْتَسْقِی فَمَا زَادَ عَلَی الاسْتِغْفَارِ۔
(٣٠١٠٠) حضرت ابو مروان اپنے والد کے واسطہ سے فرماتے ہیں کہ ہم لوگ حضرت عمر بن خطاب کے ساتھ پانی طلبی کی دعا کے لیے نکلے، تو انھوں نے استغفار پر زیادتی نہیں کی، (استغفار کے علاوہ کوئی دعا نہیں کی)

30100

(۳۰۱۰۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن مِسْعَرٍ ، عَن زَیْدِ الْعَمِّیِّ ، عَنْ أَبِی الصِّدِّیقِ النَّاجِی ، أَنَّ سُلَیْمَانَ بْنَ دَاوُد خَرَجَ بِالنَّاسِ یَسْتَسْقِی فَمَرَّ عَلَی نَمْلَۃٍ مُسْتَلْقِیَۃٍ عَلَی قَفَاہَا رَافِعَۃٍ قَوَائِمَہَا إِلَی السَّمَائِ وَہِیَ تَقُولُ ، اللَّہُمَّ إنَّا خَلْقٌ مِنْ خَلْقِکَ لَیْسَ لَنَا غِنًی عَن رِزْقِکَ ، فَإِمَّا أَنْ تَسْقِیَنَا وَإِمَّا أَنْ تُہْلِکَنَا، فَقَالَ: سُلَیْمَانُ لِلنَّاسِ: ارْجِعُوا، فَقَدْ سُقِیتُمْ بِدَعْوَۃِ غَیْرِکُمْ۔
(٣٠١٠١) حضرت ابو الصدیق الناجی فرماتے ہیں کہ حضرت سلیمان بن داؤد لوگوں کو پانی طلبی کی دعا کرنے کے لیے لے کر نکلے، پس ان کا گزر ایک چیونٹی پر ہوا جو الٹی ہو کر چت لیٹی ہوئی تھی، اور اپنی ٹانگیں آسمان کی طرف کی ہوئی تھیں اور یہ دعا مانگ رہی تھی : اے اللہ ! ہم بھی آپ کی مخلوق میں سے ایک مخلوق ہیں، ہم تیرے رزق سے بالکل بےنیاز نہیں ہیں، یا تو آپ ہمیں سیراب فرما دیں یا آپ ہمیں ہلاک کردیں۔ تو حضرت سلیمان نے لوگوں سے فرمایا : تم لوگ واپس لوٹ جاؤ ! تمہیں دوسروں کی دعا سے سیراب کردیا جائے گا۔

30101

(۳۰۱۰۲) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَن مُسْلِمٍ ، عَن مَسْرُوقٍ ، عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ : کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُعَوِّذُ بِہَذِہِ الْکَلِمَاتِ : أَذْہِبِ الْبَأْسَ رَبَّ النَّاسِ وَاشْفِ أَنْتَ الشَّافِی لاَ شِفَائَ إِلاَّ شِفَاؤُک شِفَائً لاَ یُغَادِرُ سَقَمًا ، قَالَتْ : فَلَمَّا ثَقُلَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی مَرَضِہِ الَّذِی مَاتَ فِیہِ أَخَذْت بِیَدِہِ فَجَعَلْتُ أَمْسَحُہَا وَأَقُولُہَا ، قَالَتْ : فَنَزَعَ یَدَہُ مِنْ یَدَیْ ، وَقَالَ : اللَّہُمَّ اغْفِرْ لِی وَأَلْحِقْنِی بِالرَّفِیقِ ، قَالَتْ : فَکَانَ ہَذَا آخِرَ مَا سَمِعْت مِنْ کَلامِہِ۔
(٣٠١٠٢) حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کلمات کے ذریعہ تعویذ (دم) کرتے تھے۔ ” لوگوں کے رب تکلیف کو دور فرما۔ تو شفا دے اور تو ہی شفا دینے والا ہے، تیری شفا کے سوا کوئی شفا نہیں ہے ایسی شفا دے کہ کوئی بیماری باقی نہ رہے۔ “ حضرت عائشہ فرماتی ہیں : جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مرض بڑھ گیا جس مرض میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات ہوئی تھی تو میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ہاتھ پکڑتی، پس میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاتھ کو ہی آپ کے جسم پر پھیرتی رہتی تھیں اور یہ دعا پڑھتی رہتی تھی : فرماتی ہیں : کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنا ہاتھ میرے ہاتھ سے چھڑایا اور یہ دعا پڑھی : اے اللہ ! تو مجھے معاف فرما۔ مجھے رفیق سے ملا دے ، حضرت عائشہ فرماتی ہیں ! یہ آخری بات تھی جو میں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کلام سے سنی تھی۔

30102

(۳۰۱۰۳) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَن مَنْصُورٍ ، عَنْ أَبِی الضُّحَی ، عَن مَسْرُوقٍ ، عَنْ عَائِشَۃَ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِمِثْلِ حَدِیثِ أَبِی مُعَاوِیَۃَ إِلاَّ أَنَّہُ لَمْ یَقُلْ : فَلَمَّا ثَقُلَ۔ (مسلم ۱۷۲۲۔ ابن ماجہ ۳۵۲۰)
(٣٠١٠٣) حضرت عائشہ کی ما قبل والی روایت اس سند کے ساتھ بھی مروی ہے مگر اس سند میں ” فلما ثقل “ کا لفظ نہیں ہے۔

30103

(۳۰۱۰۴) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ ، عَن سُفْیَانَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِی الضُّحَی ، عَن مَسْرُوقٍ ، عَنْ عَائِشَۃَ ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کان یَقُولُ لِلْمَرِیضِ : أَذْہِبَ الْبَأْسَ رَبَّ النَّاسِ وَاشْفِ أَنْتَ الشَّافِی لاَ شِفَائَ إِلاَّ شِفَاؤُک شِفَائً لاَ یُغَادِرُ سَقَمًا ، قَالَ سُفْیَانُ : فَذَکَرْتہ لِمَنْصُورٍ فَحَدَّثَنِی ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، عَن مَسْرُوقٍ ، عَنْ عَائِشَۃَ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِمِثْلِہِ۔ (بخاری ۵۷۵۰۔ مسلم ۱۷۲۲)
(٣٠١٠٤) حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ یقیناً نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مریض کے لیے یوں دعا فرمایا کرتے تھے ۔ لوگوں کے رب ! تکلیف کو دور فرما۔ تو شفا دے تو ہی شفا دینے والا ہے، تیری شفاء کے علاوہ کوئی شفاء نہیں ہے، ایسی شفا دے کہ کوئی بیماری باقی نہ رہے۔
حضرت سفیان فرماتے ہیں کہ میں نے یہ حدیث حضرت منصور کے سامنے ذکر کی تو انھوں نے یہ حدیث مذکورہ سند سے بھی بیان کی۔

30104

(۳۰۱۰۵) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِِ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنِ الْحَارِثِ ، عَنْ عَلِیٍّ ، قَالَ : کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إذَا دَخَلَ عَلَی مَرِیضٍ ، قَالَ : أَذْہِبِ الْبَأْسَ رَبَّ النَّاسِ وَاشْفِ أَنْتَ الشَّافِی لاَ شَافِیَ إِلاَّ أَنْتَ۔
(٣٠١٠٥) حضرت علی فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب کسی مریض پر داخل ہوتے تو یوں دعا پڑھتے : لوگوں کے رب ! تکلیف کو دور فرما۔ تو شفا دے تو ہی شفا دینے والا ہے، تیرے سوا کوئی شفا دینے والا نہیں۔

30105

(۳۰۱۰۶) حَدَّثَنَا سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ عَبْدِ رَبِّہِ ، عَنْ عَمْرَۃَ ، عَنْ عَائِشَۃَ ، أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ مِمَّا یَقُولُ لِلْمَرِیضِ ، بِبُزَاقِہِ بِإِصْبَعِہِ ، بِسْمِ اللہِ تُرْبَۃُ أَرْضِنَا بَرِیقَۃُ بَعْضِنَا یُشْفَی سَقِیمُنَا بِإِذْنِ رَبِّنَا۔
(٣٠١٠٦) حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے لعاب مبارک کو انگلی پر لگا کر مریض کے لیے یوں دعا کرتے تھے : اللہ کے نام کے ساتھ، ہماری زمین کی مٹی اور ہم میں بعض کے لعاب کے ذریعہ ہمارے مریض کو شفا دی جائے ہمارے رب کی اجازت سے۔

30106

(۳۰۱۰۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن سُفْیَانَ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُبَیْدِ اللہِ ، عَن زِیَادِ بْنِ ثُوَیْبٍ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : دَخَلَ عَلَیَّ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَأَنَا أَشْتَکِی ، فَقَالَ : أَلا أَرْقِیک بِرُقْیَۃٍ عَلَّمَنِیہَا جِبْرِیلُ : بِسْمِ اللہِ أَرْقِیک ، وَاللَّہُ یَشْفِیک مِنْ کُلِّ أَرِبٍ یُؤْذِیک ، وَمِنْ شَرِّ النَّفَّاثَاتِ فِی الْعُقَدِ وَمِنْ شَرِّ حَاسِدٍ إذَا حَسَدَ۔
(٣٠١٠٧) حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مجھ پر داخل ہوئے اس حال میں کہ میں تکلیف میں تھا۔ پھر فرمانے لگے : کیا میں تمہیں دم نہ کروں جو دم مجھے حضرت جبرائیل نے سکھایا ہے ! اللہ کے نام کے ساتھ میں تجھے دم کرتا ہوں اور اللہ ہی تجھے شفا دے ہر اس عضو سے جو تجھے تکلیف دے اور گرہوں میں پھونکنے والیوں کے شر سے، اور حسد کرنے والے کے شر سے جب وہ حسد کرے۔

30107

(۳۰۱۰۸) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَن حَجَّاجٍ ، عَنِ الْمِنْہَالِ بْنِ عَمْرٍو ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ الْحَارِثِ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : مَنْ دَخَلَ عَلَی مَرِیضٍ لَمْ تَحْضُرْ وَفَاتُہُ فَقَالَ : أَسْأَلُ اللَّہَ الْعَظِیمِ رَبَّ الْعَرْشِ الْعَظِیمِ أَنْ یَشْفِیَک سَبْعَ مَرَّاتٍ شُفِیَ۔
(٣٠١٠٨) حضرت عبداللہ بن عباس فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جو شخص کسی ایسے مریض کے پاس جائے جس کی موت قریب نہ ہو تو وہ سات مرتبہ یہ کلمات پڑھ لے : مں فاللہ سے سوال کرتا ہوں جو عظمت والا ہے، عرش عظیم کا رب ہے کہ وہ تجھے شفا دے، تو اس مریض کو شفا دی جائے گی۔

30108

(۳۰۱۰۹) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ الْحُبَابِ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ ثَوْبَانَ ، قَالَ : أَخْبَرَنِی عُمَیْرُ بْنُ ہَانِئٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ جُنَادَۃَ بْنَ أَبِی أُمِّیَّۃَ یَقُولُ : سَمِعْت عُبَادَۃَ بْنَ الصَّامِتِ یُحَدِّثُ ، عَن رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّ جِبْرِیلَ رَقَاہُ وَہُوَ یُوعَکُ فَقَالَ : بِسْمِ اللہِ أَرْقِیک مِنْ کُلِّ دَائٍ یُؤْذِیک مِنْ کُلِّ حَاسِدٍ إذَا حَسَدَ وَمِنْ کُلِّ عَیْنٍ ، وَاسْمُ اللہِ یَشْفِیک۔
(٣٠١٠٩) حضرت عبادہ بن الصامت ، نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حوالہ سے بیان فرماتے ہیں : جبرائیل نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دم کیا اس حال میں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سخت بخار میں مبتلا تھے، پس یہ کلمات پڑھے ! اللہ کے نام کے ساتھ میں آپ کو دم کرتا ہوں، ہر اس بیماری سے جو آپ کو تکلیف پہنچائے، ہر حسد کرنے والے سے جب وہ حسد کرے اور ہر (بُری) آنکھ سے، اور اللہ کا نام ہی آپ کو شفا دے گا۔

30109

(۳۰۱۱۰) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ الْعَبْدِیُّ ، حَدَّثَنَا زَکَرِیَّا بْنُ أَبِی زَائِدَۃَ ، حَدَّثَنَا سِمَاکٌ ، عَن مُحَمَّدِ بْنِ حَاطِبٍ ، قَالَ : تَنَاوَلْت قِدْرًا لَنَا فَاحْتَرَقَتْ یَدَیَّ فَانْطَلَقَتْ بِی أُمِّی إِلَی رَجُلٍ جَالِسٍ فِی الْجَبَّانَۃِ ، فَقَالَتْ لَہُ : یَا رَسُولَ اللہِ ، فَقَالَ : لَبَّیْکَ وَسَعْدَیْکَ ، ثُمَّ أَدْنَتْنِی مِنْہُ فَجَعَلَ یَنْفُثُ وَیَتَکَلَّمُ لاَ أَدْرِی مَا ہُوَ ، فَسَأَلْت أُمِّی بَعْدَ ذَلِکَ مَا کَانَ یَقُولُ ؟ قَالَتْ : کَانَ یَقُولُ : أَذْہِبِ الْبَأْسَ رَبَّ النَّاسِ وَاشْفِ أَنْتَ الشَّافِی لاَ شَافِیَ إِلاَّ أَنْتَ۔
(٣٠١١٠) حضرت محمد بن حاطب فرماتے ہیں کہ میں نے گرم ہانڈی پکڑ لی تو میرا ہاتھ جل گیا ، پھر میری والدہ مجھے ایک آدمی کے پاس لے گئیں جو بلند جگہ میں بیٹھا تھا، میری والدہ نے ان کو کہا : اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! تو انھوں نے فرمایا : تم خوش بخت و خوش نصیب رہو فرماؤ پھر میری والدہ نے مجھے ان کے قریب کردیا، پس وہ پھونک مارتے تھے اور کچھ بولتے تھے، میں نہیں جان پا رہا تھا کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں، پھر بعد میں میں نے اپنی والدہ سے پوچھا کہ وہ کیا پڑھ رہے تھے ؟ والدہ نے فرمایا : وہ یہ کلمات پڑھ رہے تھے : لوگوں کے رب ! تکلیف کو دور فرما۔ تو شفا دے اور تو ہی شفا دینے والا ہے۔ تیرے سوا کوئی شفا دینے والا نہیں ہے۔

30110

(۳۰۱۱۱) حَدَّثَنَا عَبِیْدَۃُ بْنُ حُمَیْدٍ ، عَن مَنْصُورٍ ، عَنِ الْمِنْہَالِ ، عَن سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ، عَنِ ابن عباس أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یُعَوِّذُ الْحَسَنَ وَالْحُسَیْنَ بِہَؤُلائِ الْکَلِمَاتِ : أُعِیذُکُمَا بِکَلِمَاتِ اللہِ التَّامَّۃِ مِنْ شَرِّ کُلِّ شَیْطَانٍ وَہَامَّۃٍ وَشَرِّ کُلِّ عَیْنٍ لامَّۃٍ ، قَالَ : وَکَانَ إبْرَاہِیمُ یُعَوِّذُ بِہَا إسْمَاعِیلَ وَإِسْحَاقَ۔
(٣٠١١١) حضرت عبداللہ بن عباس فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرات حسنین کو ان کلمات کے ذریعہ دم کرتے تھے : میں تم دونوں کو اللہ کے مکمل کلمات کی پناہ میں دیتا ہوں ہر شیطان اور مؤذی جانور کے شر سے، اور ہر بری آنکھ کے شر سے۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم بھی حضرت اسماعیل اور حضرت اسحاق (علیہ السلام) کو ان کلمات کے ذریعہ دم کرتے تھے۔

30111

(۳۰۱۱۲) حَدَّثَنَا یَعْلَی بْنُ عُبَیْدٍ ، حَدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَن مَنْصُورٍ ، عَنِ الْمِنْہَالِ ، عَن سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ : کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُعَوِّذُ الْحَسَنَ وَالْحُسَیْنَ ، ثُمَّ ذَکَرَ مِثْلَہُ إِلاَّ أَنَّہُ لَمْ یَقُلْ : وَشَرِّ۔
(٣٠١١٢) حضرت عبداللہ ابن عباس فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرات حسنین کو دم کرتے تھے، پھر راوی نے آگے ما قبل والی حدیث جیسا مضمون ذکر کیا۔ مگر لفظ ” شر “ نہیں بیان کیا۔

30112

(۳۰۱۱۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن شُعْبَۃَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ سَلِمَۃَ ، عَنْ عَلِیٍّ ، قَالَ : اشْتَکَیْت فَدَخَلَ عَلَیَّ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَأَنَا أَقُولُ : اللَّہُمَّ إِنْ کَانَ أَجَلِی قَدْ حَضَرَ فَأَرِحْنِی ، وَإِنْ کَانَ مُتَأَخِّرًا فَاشْفِنِی ، أَوْ عَافِنِی ، وَإِنْ کَانَ بَلائً فَصَبِّرْنِی ، فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : کَیْفَ قُلْتَ ؟ قَالَ : فَقُلْتُ لَہُ ، فَمَسَحَنِی بِیَدِہِ ، ثم قَالَ : اللَّہُمَّ اشْفِہِ ، أَوْ عَافِہِ فَمَا اشْتَکَیْت ذَلِکَ الْوَجَعَ بَعْدُ۔
(٣٠١١٣) حضرت علی فرماتے ہیں کہ میں تکلیف میں مبتلا تھا پس نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرے پاس تشریف لائے اس حال میں کہ میں یوں دعا کررہا تھا : اے اللہ ! اگر میری موت حاضر ہے تو مجھے موت کے ذریعہ راحت پہنچا۔ اور اگر ابھی موت مںِ تاخیر ہے تو مجھے شفا بخش یا مجھے عافیت عطا فرما، اگر کوئی مصیبت ہے تو مجھے صبر سے نواز دے۔ تو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم کیا پڑھ رہے ہو ؟ حضرت علی فرماتے ہیں : میں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے وہ کلمات پڑھے، تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنا ہاتھ مبارک مجھ پر پھیرا پھر یوں دعا پڑھی : اے اللہ ! تو اس کو شفا بخش یا تو اس کو عافیت بخش دے۔ حضرت علی فرماتے ہیں : پھر کبھی مجھے یہ تکلیف نہیں ہوئی۔

30113

(۳۰۱۱۴) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ أَبِی بُکَیْرٍ ، حَدَّثَنَا زُہَیْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، عَن یَزِیدَ بْنِ خُصَیْفَۃَ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ کَعْبٍ ، عَن نَافِعِ بْنِ جُبَیْرٍ، عَن عُثْمَانَ بْنِ أَبِی الْعَاصِ الثَّقَفِیِّ، قَالَ: قدِمْت عَلَی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَبِی وَجَعٌ قَدْ کَادَ یبطلنی ، فَقَالَ لی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : اجْعَلْ یَدَکَ الْیُمْنَی عَلَیْہِ ، ثُمَّ قُلِ : بِسْمِ اللہِ أَعُوذُ بِعِزَّۃِ اللہِ وَقُدْرَتِہِ مِنْ شَرِّ مَا أَجِدُ ، سَبْعَ مَرَّاتٍ ، فَفَعَلْتُ ، فَشَفَانِی اللَّہُ عَزَّ وَجَلَّ۔
(٣٠١١٤) حضرت عثمان بن ابی العاص الثقفی فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس حاضر ہوا اور میں شدید تکلیف میں مبتلا تھا، قریب تھا کہ یہ تکلیف مجھے کسی باطل کام میں مبتلا کر دے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے فرمایا : اپنا داہنا ہاتھ تکلیف والی جگہ پر رکھو، پھر سات مرتبہ یہ کلمات پڑھو : اللہ کے نام سے شروع کرتا ہوں، میں اللہ کی عزت اور اس کی قدرت کی برکت سے پناہ مانگتا ہوں ہر اس چیز کے شر سے جو میں پاتا ہوں۔ حضرت عثمان بن ابی العاص الثقفی فرماتے ہیں ! پس میں نے ایسا ہی کیا، تو اللہ عزوجل نے مجھے شفا عطا فرما دی۔

30114

(۳۰۱۱۵) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ الْحُبَابِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ بْنِ إسْمَاعِیلَ بْنِ أَبِی حَبِیبَۃَ ، قَالَ : حدَّثَنِی دَاوُد بْنُ الْحُصَیْنِ ، عَن عِکْرِمَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ ، کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُعَلِّمُنَا مِنَ الأَوْجَاعِ کُلِّہَا وَالْحُمَّی ہَذَا الدُّعَائَ : بِسْمِ اللہِ الْکَبِیرِ أَعُوذُ بِاللہِ الْعَظِیمِ مِنْ شَرِّ کُلِّ عِرْقٍ نَعَّار ، وَمِنْ شَرِّ حَرِّ النَّارِ۔
(٣٠١١٥) حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمیں تمام تکالیف اور بخار کے لیے یہ دعا سکھلایا کرتے تھے : اللہ کے نام سے شروع کرتا ہوں جو بہت بڑا ہے ، میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں جو کہ عظمت والا ہے ہر اس رگ کے شر سے جو فساد پیدا کرے، اور آگ کی گرمی کے شر سے۔

30115

(۳۰۱۱۶) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْفُضَیْلِ ، عَنِ الْعَلائِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ، عَنِ الْفُضَیْلِ بْنِ عَمْرٍو ، قَالَ : جَائَ رَجُلٌ إِلَی عَلِیٍّ، قَالَ : إنَّ فُلانًا شَاکٍ ، قَالَ : یَسُرُّک أَنْ یَبْرَأَ قَالَ : نَعَمْ ، قَالَ : قُلْ : یَا حَلِیمُ یَا کَرِیمُ اشْفِ ثَلاثًا۔
(٣٠١١٦) حضرت فضیل بن عمرو فرماتے ہیں کہ ایک آدمی حضرت علی کے پاس حاضر ہوا اور کہنے لگا کہ فلاں شخص بہت بیمار ہے، حضرت علی نے فرمایا : اس کا بیماری سے تندرست ہونا تجھے پسند ہے ؟ اس شخص نے کہا : جی ہاں ! آپ نے فرمایا : تم تین مرتبہ یہ کلمات پڑھو ، اے بردبار، اے بہت کرم کرنے والے تو شفا عطا فرما۔

30116

(۳۰۱۱۷) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللہِ حَدَّثَنَا أَبُو شِہَابٍ ، عَن دَاوُد ، عَنْ أَبِی نَضْرَۃَ ، عَنْ أَبِی سَعِیدٍ ، قَالَ : اشْتَکَی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَرَقَاہُ جِبْرِیلُ فَقَالَ : بِسْمِ اللہِ أَرْقِیک مِنْ کُلِّ شَیْئٍ یُؤْذِیک مِنْ کُلِّ حَاسِدٍ وَعَیْنٍ ، وَاللَّہُ یَشْفِیک۔
(٣٠١١٧) حضرت ابو سعید فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیمار ہوگئے تو جبرائیل نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دم کیا۔ پس یہ کلمات پڑھے، اللہ کے نام کے ساتھ میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دم کرتا ہوں، ہر اس چیز سے جو آپ کو ایذا پہنچائے، ہر حسد کرنے والے سے اور بری آنکھ سے، اور اللہ ہی آپ کو شفا دے گا۔

30117

(۳۰۱۱۸) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَن یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ، عَنْ عَمْرَۃَ بِنْتِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ قَالَتْ : اشْتَکَتْ عَائِشَۃُ أُمُّ الْمُؤْمِنِینَ ، وَإِنَّ أَبَا بَکْرٍ دَخَلَ عَلَیْہَا وَیَہُودِیَّۃ تَرْقِیہَا فَقَالَ : ارْقِیہَا بِکِتَابِ اللہِ۔
(٣٠١١٨) حضرت عمرہ بنت عبد الرحمن فرماتی ہیں کہ ام المؤمنین حضرت عائشہ بیمار ہوگئیں۔ اور حضرت ابوبکر ان کے پاس تشریف لائے اس حال میں کہ ایک یہودی عورت ان کو جھاڑ پھونک کر رہی تھی، تو آپ نے فرمایا : اس کو کتاب اللہ کے ساتھ دم کرو۔

30118

(۳۰۱۱۹) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَن حُمَیْدٍ ، عَنْ أَنَسٍ ، أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ إذَا دَخَلَ عَلَی مَرِیضٍ ، قَالَ : أَذْہِبَ الْبَأْسَ رَبَّ النَّاسِ وَاشْفِ أَنْتَ الشَّافِی لاَ شَافِیَ إِلاَّ أَنْتَ شِفَائً لاَ یُغَادِرُ سَقَمًا۔ (بخاری ۵۷۴۲۔ ابوداؤد ۳۸۸۶)
(٣٠١١٩) حضرت انس ارشاد فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب کسی مریض کے پاس تشریف لے جاتے تو یوں دعا فرماتے، لوگوں کے رب ! تکلیف کو دور فرما، اور تو شفا دے تو ہی شفا دینے والا ہے، تیرے سوا کوئی شفا دینے والا نہیں ہے، ایسی شفا دے جس کے بعد کوئی بیماری باقی نہ رہے۔

30119

(۳۰۱۲۰) حَدَّثَنَا عَبْدُاللہِ بْنُ نُمَیْرٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ، عَن حَکِیمِ بْنِ حَکِیمٍ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ، عَن حُذَیْفَۃَ بْنِ الْیَمَانِ، قَالَ: خَرَجَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِلَی حَرَّۃِ بَنِی مُعَاوِیَۃَ واتَّبَعْت أَثَرَہُ حَتَّی ظَہَرَ عَلَیْہَا فَصَلَّی الضُّحَی ، ثَمَانِ رَکَعَاتٍ طَوَّلَ فِیہِنَّ ، ثُمَّ انْصَرَفَ فَقَالَ : یَا حُذَیْفَۃُ طَوَّلْت عَلَیْک ، قُلْتُ: اللَّہُ وَرَسُولُہُ أَعْلَمُ ، قَالَ : إنِّی سَأَلْت اللَّہَ فِیہَا ثَلاثًا فَأَعْطَانِی اثْنَتَیْنِ وَمَنَعَنِی وَاحِدَۃً ، سَأَلْتُہُ أَنْ لاَ یُظْہِرَ عَلَی أُمَّتِی غَیْرَہَا فَأَعْطَانِی ، وَسَأَلْتُہُ أَنْ لاَ یُہْلِکَہَا بِالسِّنِینَ ، فَأَعْطَانِی وَسَأَلْتُہُ أَنْ لاَ یَجْعَلَ بَأْسَہَا بَیْنَہَا، فَمَنَعَنِی۔
(٣٠١٢٠) حضرت حذیفہ بن الیمان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بنو معاویہ قبیلہ کے نزدیک حرہ مقام کی طرف تشریف لے گئے، اور میں بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیچھے ہو لیا، یہاں تک کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وہاں پہنچ گئے، پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے چاشت کی آٹھ رکعت ادا کیں، اور ان کو بہت لمبا کیا، پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوٹے، اور فرمانے لگے، اے حذیفہ ! کیا میں نے تجھے طوالت میں ڈال دیا ؟ میں نے عرض کیا : اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) زیادہ بہتر جانتے ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : میں نے اللہ سے اس میں تین دعائیں مانگیں پس اللہ نے میری دو دعاؤں کو قبولیت عطا کی اور ایک کو منع فرما دیا، میں نے اللہ سے یہ دعا مانگی کہ میری امت پر کبھی کوئی غیر غالب نہ آئے، تو اللہ نے میری دعا کو شرف قبولیت بخشی، اور میں نے دعا مانگی کہ میری امت قحط کی وجہ سے ہلاک نہ ہو تو اللہ نے میری اس دعا کو بھی شرف قبولیت بخشی، اور میں یہ دعا مانگی کہ میری امت کے درمیان آپس مں و جنگ مت ہو تو اس دعا کو منع فرما دیا۔

30120

(۳۰۱۲۱) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَن رَجَائٍ الأَنْصَارِیِّ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ شَدَّادٍ ، عَن مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ ، قَالَ : صَلَّی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَوْمًا صَلاۃً فَأَطَالَ فِیہَا ، فَلَمَّا انْصَرَفَ قُلْتُ : یَا رَسُولَ اللہِ ، لَقَدْ أَطَلْت الْیَوْمَ الصَّلاۃَ ، قَالَ : إنِّی صَلَّیْت صَلاۃَ رَغْبَۃٍ وَرَہْبَۃٍ وَسَأَلْت اللَّہَ لأُمَّتِی ثَلاثًا ، فَأَعْطَانِی ثِنْتَیْنِ وَرَدَّ عَلَیَّ وَاحِدَۃً ، سَأَلْتُہُ أَنْ لاَ یُسَلِّطَ عَلَیْہِمْ عَدُوًّا مِنْ غَیْرِہِمْ فَأَعْطَانِیہَا ، وَسَأَلْتُہُ أَنْ لاَ یُہْلِکَہُمْ غَرَقًا فَأَعْطَانِیہَا ، وَسَأَلْتُہُ أَنْ لاَ یَجْعَلَ بَأْسَہُمْ بَیْنَہُمْ ، فَرُدَّت عَلَیَّ۔ (احمد ۲۴۰۔ ابن خزیمہ ۱۲۱۸)
(٣٠١٢١) حضرت معاذ بن جبل فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک دن نماز پڑھی اور بہت لمبی نماز پڑھی، جب نماز پڑھ کر فارغ ہوئے۔ میں نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ نے لمبی نماز پڑھی، تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : میں نے شوق اور خوف کی نماز پڑھی اور میں نے اللہ سے اپنی امت کے لیے تین چیزیں مانگیں، پس اللہ نے مجھے دو چیزیں عطا فرما دیں اور ایک چیز کو واپس مجھ پر رد کردیا۔ میں نے اللہ سے سوال کیا کہ اس امت پر ان کے علاوہ کسی دشمن کو مسلط مت فرما۔ پس اللہ نے اس دعا کو شرف قبولیت عطا فرمائی، اور میں نے اللہ سے سوال کیا کہ اس امت کو ڈوبنے کے عذاب کے ذریعہ ہلاک مت فرما، پس اللہ نے اس دعا کو بھی شرف قبولیت عطا فرمائی۔ اور میں نے یہ بھی سوال کیا کہ اس امت کے درمیان آپس میں کوئی جنگ نہ ہو تو یہ دعا مجھ پر واپس لوٹا دی گئی۔

30121

(۳۰۱۲۲) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ الْمُغِیرَۃِ حَدَّثَنَا ثَابِتٌ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِی لَیْلَی ، عَن صُہَیْبٍ ، قَالَ : کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إذَا صَلَّی ہَمَسَ شَیْئًا لاَ یُخْبِرُنَا بِہِ ، فقُلْنَا : یَا رَسُولَ اللہِ ، إنَّک مِمَّا إذَا صَلَّیْت ہَمَسْت شَیْئًا لاَ نَفْقَہُہُ ، قَالَ ، فَطِنْتُمْ بِی ؟ قُلْتُ : نَعَمْ ، قَالَ : ذَکَرْت نَبِیًّا مِنَ الأَنْبِیَائِ أُعْطِیَ جُنُودًا مِنْ قَوْمِہِ ، فَنَظَرَ إِلَیْہِمْ ، فَقَالَ : مَنْ یُکَافِئُ ہَؤُلائِ ، قَالَ : فَقِیلَ لَہُ : اخْتَرْ لِقَوْمِکَ إحْدَی ثَلاثٍ : إمَّا أَنْ یُسَلِّطَ عَلَیْہِمْ عَدُوًّا مِنْ غَیْرِہِمْ ، أَوِ الْجُوعَ ، أَوِ الْمَوْتَ ، قَالَ : فَعَرَضَ ذَلِکَ عَلَی قَوْمِہِ ، قَالَ : فَقَالُوا : أَنْتَ نَبِیُّ اللہِ فَاخْتَرْ لَنَا ، قَالَ : فَقَامَ إِلَی الصَّلاۃِ ، قَالَ : وَکَانُوا مِمَّا إذَا فَزِعُوا فَزِعُوا إِلَی الصَّلاۃِ فَصَلَّی فَقَالَ : اللَّہُمَّ أما أن تُسَلِّطْ عَلَیْہِمْ مِنْ غَیْرِہِمْ فَلا ، أَو الْجُوعُ فَلا ، وَلَکِنَّ الْمَوْتَ ، قَالَ : فَسَلَّطَ عَلَیْہِمَ الْمَوْتَ ، فَمَاتَ مِنْہُمْ سَبْعُونَ أَلْفًا فِی ثَلاثَۃِ أَیَّامٍ ، قَالَ : فَہَمْسِی الَّذِی تَسْمَعُونَ أنی أَقُولُ : اللَّہُمَّ بِکَ أُحَاوِلُ وَبِکَ أُصَاوِلُ ، وَلا حَوْلَ وَلا قُوَّۃَ إِلاَّ بِکَ۔ (نسائی ۱۰۴۵۰۔ احمد ۳۳۳)
(٣٠١٢٢) حضرت صھیب فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب نماز پڑھتے تو آہستہ سے کچھ کہتے جس کے بارے میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں نہیں بتلایا تھا۔ پس ہم نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! بلاشبہ ابھی جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز پڑھی ہے تو آہستہ سے کچھ کہا جس کو ہم نہیں سمجھ سکے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرمانے لگے، کیا تم نے میرے پڑھنے کو جان لیا ؟ ہم نے کہا ! جی ہاں ! آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : مجھے انبیاء میں سے ایک نبی کا قصہ یاد آگیا۔ جن کی قوم کے لشکر کو ان کا تابع بنادیا گیا تھا، پس انھوں نے اس لشکر کی طرف دیکھ کر فرمایا : کون ہے جو اس سے بدلہ لے سکتا ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : پس ان سے کہا گیا : آپ اپنی قوم کے لیے تین میں سے ایک بات منتخب کریں : یا تو ان پر کسی غیر دشمن کو مسلط کردیا جائے، یا پھر بھوک و فاقہ یا پھر موت ، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : انھوں نے اپنی قوم پر یہ تینوں چیزیں پیش کیں، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ان کی قوم نے کہا : آپ اللہ کے نبی ہیں آپ ہی ہمارے لیے کوئی ایک منتخب فرما لیں، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : پس وہ نماز کے لیے کھڑے ہوگئے۔ یہ بھی فرمایا : جب وہ لوگ کسی چیز سے ڈرتے تو وہ نماز کی پناہ پکڑتے تھے۔ پس ان نبی نے نماز پڑھی، پھر یوں فرمایا : اے اللہ ! یا تو آپ نے ان پر دشمن کو مسلط فرمانا تھا پس آپ ایسا مت کریں یا پھر بھوک تو وہ بھی نہیں، لیکن موت عطا کر دے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ان کی قوم پر موت کو مسلط کردیا گیا۔ پس ان کی قوم کے تین دنوں میں ستر ہزار افراد موت کی وادی میں سو گئے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : پس میں آہستہ سے جو پڑھ رہا تھا جو تم نے سنا میں یہ دعا پڑھ رہا تھا۔ اے اللہ ! میں آپ کی مدد سے سے ہی تدبیر کروں گا، اور آپ کی مدد سے ہی حملہ کروں گا، اور ایسا کرنے کی طاقت نہیں سوائے تیری مدد کے۔

30122

(۳۰۱۲۳) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ حَکِیمٍ ، أَخْبَرَنَا عَامِرُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَقْبَلَ ذَاتَ یَوْمٍ مِنَ الْعَالِیَۃِ حَتَّی إذَا مَرَّ بِمَسْجِدِ بَنِی مُعَاوِیَۃَ دَخَلَ فَرَکَعَ فِیہِ رَکْعَتَیْنِ وَصَلَّیْنَا مَعَہُ ، وَدَعَا رَبَّہُ طَوِیلاً ، ثُمَّ انْصَرَفَ إلَیْنَا فَقَالَ : سَأَلْتُ رَبِّی ثَلاثًا ، فَأَعْطَانِی اثْنَتَیْنِ وَرَدَّ عَلَیَّ وَاحِدَۃً ، سَأَلْت رَبِّی أَنْ لاَ یُہْلِکَ أُمَّتِی بِالسَّنَۃِ فَأَعْطَانِیہَا ، وَسَأَلْتُہُ أَنْ لاَ یُہْلِکَ أُمَّتِی بِالْغَرَقِ فَأَعْطَانِیہَا ، وَسَأَلْتُہُ أَنْ لاَ یَجْعَلَ بَأْسَہُمْ بَیْنَہُمْ ، فَمَنَعَنِیہَا۔ (مسلم ۲۲۱۶۔ احمد ۱۸۱)
(٣٠١٢٣) حضرت سعد فرماتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بلند جگہ سے ہماری طرف تشریف لائے۔ یہاں تک کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا گزر مسجد بنی معاویہ کے پاس سے ہوا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مسجد میں داخل ہوئے اور اس میں دو رکعت نماز ادا فرمائی۔ اور ہم نے بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ نماز پڑھی۔ اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے رب سے لمبی دعا مانگی، پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہماری طرف پلٹے۔ ور فرمایا۔ میں نے اپنے رب سے تین دعائیں مانگیں۔ پس رب نے مجھے دو چیزیں عطا فرما دیں اور ایک کو منع فرما دیا۔ میں نے اپنے رب سے سوال کیا کہ وہ میری امت کو فاقہ کے ذریعہ سے مت ہلاک فرمائیں، تو اللہ نے اس دعا کو شرف قبولیت عطا فرمائی، اور میں نے یہ بھی سوال کیا کہ میری امت کو ڈوبنے کے ذریعہ ہلاک مت فرمانا۔ پس اللہ نے اس دعا کو بھی شرف قبولیت عطا فرمائی، اور میں نے یہ بھی سوال کیا کہ امت کے درمیان کوئی جنگ نہ ہو تو اللہ نے منع فرما دیا۔

30123

(۳۰۱۲۴) حَدَّثَنَا وَکِیعُ بْنُ الْجَرَّاحِ ، عَن کَثِیرِ بْنِ زَیْدٍ ، عَنِ الْمُطَّلِبِ بْنِ عَبْدِ اللہِ ، أَنَّ أَبَا بَکْرٍ کَانَ یَقُولُ : اللَّہُمَّ اجْعَلْ خَیْرَ عُمْرِی أَخِیرَہُ ، وَخَیْرَ عَمَلِی خَوَاتِمَہُ ، وَخَیْرَ أَیَّامِی یَوْمَ أَلْقَاک ، قَالَ : وَکَانَ عُمَرُ یَقُولُ : اللَّہُمَّ اعْصِمْنِی بِحَبْلِکَ وَارْزُقْنِی مِنْ فَضْلِکَ وَاجْعَلْنِی أَحْفَظُ أَمْرَک۔
(٣٠١٢٤) حضرت مطلب بن عبداللہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابوبکر یہ دعا پڑھا کرتے تھے : اے اللہ ! میری عمر کے آخری حصہ کو بہتر بنا دے۔ اور میرے عمل کے اختتام کو بہتر بنا دے۔ اور جس دن میں تجھ سے ملاقات کروں میرے ان دنوں کو بہتر بنا دے۔ حضرت مطلب بن عبداللہ نے فرمایا : حضرت عمر یوں دعا فرمایا کرتے تھے : اے اللہ ! تو اپنی رسی کے ذریعہ میری حفاظت فرما۔ اور اپنے فضل سے مجھے رزق عطا فرما۔ اور مجھے ایسا بنا دے کہ میں تیرے حکم کی حفاظت کرنے والا بن جاؤں۔

30124

(۳۰۱۲۵) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ جَامِعِ بْنِ شَدَّادٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : کَانَ أَوَّلُ کَلامٍ تَکَلَّمَ بِہِ عُمَرُ أَنْ ، قَالَ : اللَّہُمَّ إنِّی ضَعِیفٌ فَقَوِّنِی وَإِنِّی شَدِیدٌ فَلَیِّنِی وَإِنِّی بَخِیلٌ فَسَخِّنِی۔
(٣٠١٢٥) حضرت شداد فرماتے ہیں کہ سب سے پہلی دعا جو حضرت عمر نے کی بیشک فرمایا : اے اللہ ! میں کمزور ہوں پس تو مجھے قوی بنا دے۔ اور میں بہت سخت ہوں تو مجھے نرم بنا دے۔ اور بیشک میں بہت کنجوس ہوں تو مجھے سخی بنا دے۔

30125

(۳۰۱۲۶) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ آدَمَ حَدَّثَنَا إسْرَائِیلُ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ عَن حَسَّانَ بْنِ فَائِدٍ الْعَبْسِیِّ، عَن عُمَرَ، أَنَّہُ کَانَ یَدْعُو : اللَّہُمَّ اجْعَلْ غِنَایَا فِی قَلْبِی وَرَغْبَتِی فِیمَا عِنْدَکَ وَبَارِکْ لِی فِیمَا رَزَقْتَنِی وَأَغْنِنِی عَمَّا حَرَّمْت عَلَیَّ۔
(٣٠١٢٦) حضرت حسان بن فائد العبسی ، حضرت عمر کے بارے میں فرماتے ہیں کہ وہ یہ دعا کرتے تھے : اے اللہ ! تو میرے دل میں بےنیازی کو بھر دے۔ اور مجھ میں شوق پیدا فرما اس چیز کا جو تیرے پاس ہے۔ اور جو رزق تو نے مجھے عطا فرمایا ہے اس میں برکت عطا فرما۔ اور جو چیز تو نے مجھ پر حرام کی ہے مجھے اس سے بےنیاز کر دے۔

30126

(۳۰۱۲۷) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ حَدَّثَنَا مِسْعَرٌ ، عَنِ الرُّکَیْنِ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَن عُمَرَ ، أَنَّہُ کَانَ یَقُولُ : اللَّہُمَّ أَسْتَغْفِرُک لِذَنْبِی ، وَأَسْتَہْدِیک لِمَرَاشِدِ أَمْرِی ، وَأَتُوبُ إلَیْک فَتُبْ عَلَیَّ إنَّک أَنْتَ رَبِّی ، اللَّہُمَّ فَاجْعَلْ رَغْبَتِی إِلَیْکَ ، وَاجْعَلْ غِنَایَا فِی صَدْرِی ، وَبَارِکْ لِی فِیمَا رَزَقْتَنِی ، وَتَقَبَّلْ مِنِّی إِنَّکَ أَنْتَ رِبِّی۔
(٣٠١٢٧) حضرت ربیع فرماتے ہیں حضرت عمر کے بارے میں کہ وہ یوں دعا کرتے تھے : اے اللہ ! میں آپ سے اپنے گناہوں کی معافی ما نگتا ہوں ۔ اور میں آپ سے اپنے بھلائی کے کاموں کی راہنمائی طلب کرتا ہوں۔ اور میں آپ سے توبہ کرتا ہوں۔ پس آپ میری توبہ قبول فرما لیجیے۔ یقیناً آپ ہی میرے رب ہیں۔ اے اللہ ! اپنی طرف کا مجھ میں شوق ڈال دیں۔ اور میرے سینے میں بےنیازی ڈال دیں۔ اور جو آپ نے مجھے رزق عطا کیا ہے اس میں برکت عطا فرما دیجیے۔ اور آپ میری طرف سے دعا کو قبول فرمائیے۔ اور یقیناً آپ ہی میرے رب ہیں۔

30127

(۳۰۱۲۸) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنِ الْعَوَّامِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ التَّیْمِیِّ ، قَالَ : قَالَ رَجُلٌ عِنْدَ عُمَرَ اللَّہُمَّ اجْعَلْنِی مِنَ الْقَلِیلِ ، قَالَ ، فَقَالَ : عُمَرُ : مَا ہَذَا الَّذِی تَدْعُو بِہِ ؟ فَقَالَ : إنِّی سَمِعْت اللَّہَ یَقُولُ : وَقَلِیلٌ مِنْ عِبَادِی الشَّکُورُ فَأَنَا أَدْعُو أَنْ یَجْعَلَنِی مِنْ أُولَئِکَ الْقَلِیلِ ، قَالَ : فَقَالَ : عُمَرُ : کُلُّ النَّاسِ أَعْلَمُ مِنْ عُمَرَ۔
(٣٠١٢٨) حضرت ابراہیم التیمی فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے حضرت عمر کے پاس یوں دعا کی : اے اللہ ! آپ مجھے قلیل میں سے بنا دیجیے۔ راوی کہتے ہیں : حضرت عمر نے پوچھا : تم نے یہ کیا دعا مانگی ؟ تو وہ شخص کہنے لگا : میں نے اللہ رب العزت کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے : ” اور میرے بندوں میں بہت تھوڑے شکر گزار ہیں۔ “ تو میں اللہ سے دعا کررہا ہوں کہ وہ مجھے ان تھوڑے بندوں میں سے بنا دے۔ راوی فرماتے ہیں : پھر حضرت عمر نے ارشاد فرمایا : تمام لوگ عمر سے زیادہ علم والے ہیں۔

30128

(۳۰۱۲۹) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ، عَنْ أَبِی خَلْدَۃَ، عَنْ أَبِی الْعَالِیَۃِ قَالَ سَمِعْت عُمَرَ یَقُولُ اللَّہُمَّ عَافِنَا وَاعْفُ عَنَّا۔
(٣٠١٢٩) حضرت ابو العالیہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر کو یوں دعا مانگتے ہوئے سنا : اے اللہ ! تو ہمیں عافیت بخش دے اور ہم سے درگزر فرما۔

30129

(۳۰۱۳۰) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَن طُعْمَۃَ بْنِ عَبْدِ اللہِ ، عَن رَجُلٍ یُقَالُ لَہُ مِیکَائِیلُ شَیْخٌ مِنْ أَہْلِ خُرَاسَانَ ، قَالَ : کَانَ عُمَرُ إذَا قَامَ مِنَ اللَّیْلِ یقول : قَدْ تَرَی مَقَامِی وتعلم حَاجَتِی فَارْجِعْنِی مِنْ عِنْدِکَ یَا اللَّہُ بِحَاجَتِی مُفَلَّجًا مُنَجَّحًا مُسْتَجِیبًا مُسْتَجَابًا لِی ، قَدْ غَفَرْت لِی وَرَحِمَتْنِی فَإِذَا قَضَی صَلاتَہُ ، قَالَ : اللَّہُمَّ لاَ أَرَی شَیْئًا مِنَ الدُّنْیَا یَدُومُ ، وَلا أَرَی حَالاً فِیہَا یَسْتَقِیمُ ، اللَّہُمَّ اجْعَلْنِی أنْطِقُ فِیہَا بِعِلْمٍ وَأَصْمُتُ بِحُکْمٍ ، اللَّہُمَّ لاَ تُکْثِرْ لِی مِنَ الدُّنْیَا فَأَطْغَی ، وَلا تُقِلَّ لِی مِنْہَا فَأَنْسَی ، فَإِنَّہُ مَا قَلَّ وَکَفَی خَیْرٌ مِمَّا کَثُرَ وَأَلْہَی۔
(٣٠١٣٠) خراسان کا ایک بوڑھا شخص جس کو میکائیل کہا جاتا تھا انھوں نے فرمایا کہ حضرت عمر جب رات کو نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو یہ دعا فرماتے : تو میرے کھڑے ہونے کو جانتا ہے اور میری ضرورت کو بھی جانتا ہے : اے اللہ ! تو مجھے اپنے پاس سے لوٹا اس حال میں کہ میری حاجت پوری ہو، کامیاب ہو، قبول ہونے والی قبول کی گئی میرے لیے۔ تحقیق تو نے میری مغفرت فرما دی اور تو نے مجھ پر رحم فرما دیا۔ پس جب اپنی نماز مکمل فرما لیتے تو فرماتے : اے اللہ ! میں نے دنیا میں کوئی چیز ایسی نہیں دیکھی جو دائمی ہو۔ اور نہ ہی کوئی ایسی حالت دیکھی جو کہ ہمیشہ سیدھی رہے۔ اے اللہ ! تو مجھے ایسا بنا دے کہ میں علم کے ساتھ بات کروں اور میں حکم کے ساتھ خاموش رہوں۔ اے اللہ ! تو میرے لیے دنیا کو زیادہ مت فرما دے کہ میں سرکش بن جاؤں۔ اور نہ ہی میرے لیے اس دنیا کو اتنا تھوڑا کر دے کہ میں تجھے بھول جاؤں، اس لیے کہ جو تھوڑا اور کافی ہو وہ بہتر ہے اس سے جو زیادہ ہو اور غفلت میں ڈال دے۔

30130

(۳۰۱۳۱) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَن لَیْثٍ ، عَن سُلَیْمِ بْنِ حَنْظَلَۃَ ، عَن عُمَرَ ، أَنَّہُ کَانَ یَقُولُ : اللَّہُمَّ إنِّی أَعُوذُ بِکَ أَنْ تَأْخُذَنِی عَلَی غِرَّۃٍ ، أَوْ تَذَرَنِی فِی غَفْلَۃٍ ، أَوْ تَجْعَلَنِی مِنَ الْغَافِلِینَ۔
(٣٠١٣١) حضرت سلیم بن حنظلہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر یوں دعا فرماتے تھے : اے اللہ ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں اس بات سے کہ تو بے خبری کی حالت میں میری پکڑ کرے، یا تو مجھے غفلت کی حالت میں چھوڑ دے ۔ یا تو مجھے غافلین میں سے بنا دے۔

30131

(۳۰۱۳۲) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَن شُعْبَۃَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ سَلِمَۃَ ، عَنْ عَلِیٍّ ، أَنَّہُ کَانَ یَدْعُو : اللَّہُمَّ ثَبِّتْنَا عَلَی کَلِمَۃِ الْعَدْلِ بِالرِّضَی وَالصَّوَابِ ، وَقِوَامِ الْکِتَابِ ، ہَادِینَ مَہْدِیِّینَ رَاضِینَ مَرْضِیِّینَ ، غَیْرَ ضَالِّینَ، وَلا مُضِلِّینَ۔
(٣٠١٣٢) حضرت عبداللہ بن سلمہ فرماتے ہیں کہ حضرت علی یوں دعا مانگا کرتے تھے : اے اللہ ! تو ہمیں انصاف کے کلمہ پر رضا مندی اور درستگی اور صحیح کتاب کے ساتھ ثابت قدم فرما، جو ہدایت کا راستہ دکھلانے والا، ہدایت یافتہ، راضی کرنے والا اور راضی ہونے والا، جو نہ گمراہ ہے اور نہ ہی گمراہ کرنے والا ہے۔

30132

(۳۰۱۳۳) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَن حَجَّاجٍ ، عَنِ الْوَلِیدِ بْنِ أَبِی الْوَلِیدِ عَمَّنْ حَدَّثَہُ ، عَنْ عَلِیٍّ ، أَنَّہُ کَانَ یَقُولُ فِی دُعَائِہِ : اللَّہُمَّ إنِّی أَسْأَلُک بِرَحْمَتِکَ الَّتِی وَسِعْت بِہَا کُلَّ شَیْئٍ ، وَبِعِزَّتِکَ الَّتِی أَذْلَلْتَ بِہَا کُلَّ شَیْئٍ ، وَخَضَعَ لَکَ بِہَا کُلَّ شَیْئٍ ، وَذَلَّ لَکَ بِہَا کُلَّ شَیْئٍ ، وَبِجَبَرُوتِکَ الَّتِی غَلَبْت بِہَا کُلَّ شَیْئٍ ، وَبِعَظَمَتِکَ الَّتِی غَلَبْت بِہَا کُلَّ شَیْئٍ ، وَبِسُلْطَانِکَ الَّذِی مَلأَت بِہِ کُلَّ شَیْئٍ ، وَبِقُوَّتِکَ الَّتِی لاَ یَقُومُ لَہَا شَیْئٌ ، وَبِنُورِکَ الَّذِی أَضَائَ لَہُ کُلُّ شَیْئٍ وَبِعِلْمِکَ الَّذِی أَحَاطَ بِکُلِّ شَیْئٍ ، وَبِاسْمِکَ الَّذِی یُبتدأ بِہِ کُلَّ شَیْئٍ ، وَبِوَجْہِکَ الْبَاقِی بَعْدَ فَنَائِ کُلِّ شَیْئٍ ، یَا نُورُ یَا قُدُّوسُ یَا نُورُ یَا قُدُّوسُ ثَلاثًا ، یَا أَوَّلَ الأَوَّلِینَ وَیَا آخِرَ الآخِرِینَ ، وَیَا اللَّہُ یَا رَحْمَانُ یَا رَحِیمُ ، اغْفِرْ لِی الذُّنُوبَ الَّتِی تُنْزِلُ النِّقَمَ ، وَاغْفِرْ لِی الذُّنُوبَ الَّتِی تہتک العصم ، وَاغْفِرْ لِی الذُّنُوبَ الَّتِی تُورِثُ النَّدَمَ ، وَاغْفِرْ لِی الذُّنُوبَ الَّتِی تَحْبِسُ الْقَسَمَ وَاغْفِرْ لِی الذُّنُوبَ الَّتِی تُغَیِّرُ النِّعَمَ ، وَاغْفِرْ لِی الذُّنُوبَ الَّتِی تُنْزِلُ الْبَلائَ ، وَتُدِیلُ الأَعْدَائَ ، وَاغْفِرْ لِی الذُّنُوبَ الَّتِی تَحْبِسُ غَیْثَ السَّمَائِ ، وَتُعَجِّلُ الْفَنَائَ ، وَتُظْلِمُ الْہَوَائَ ، وَتَرُدُّ الدُّعَائَ ، وَاغْفِرْ لِی الذُّنُوبَ الَّتِی ترِد إِلَی النَّارِ۔
(٣٠١٣٣) حضرت ولید بن ابو الولید نقل فرماتے ہیں کہ حضرت علی اپنی دعا میں پہلے تین مرتبہ یوں فرماتے : اے اللہ ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں تیری اس رحمت کے ساتھ جس کے ذریعے تو ہر چیز پر حاوی ہے ، اور تیری اس عزت کے ساتھ جس کے ذریعہ تو نے ہر چیز کو ذلیل کردیا، اور ہر چیز تیرے سامنے جھک گئی اور ہر چیز تیرے سامنے حقیر ہوگئی۔ اور تیری اس طاقت کے ساتھ جس کے ذریعہ تو ہر چیز پر غالب ہے۔ اور تیری اس عظمت کے ساتھ جس کے ذریعہ تو ہر چیز پر غالب ہے، اور تیری اس بادشاہت کے ساتھ جس کے ذریعہ تو نے ہر چیز کو بھر دیا، اور تیری اس قوت کے ساتھ جس کے سامنے کوئی چیز ٹھہر نہیں سکتی۔ اور تیرے اس نور کے ساتھ جس نے ہر چیز کو روشن کردیا۔ اور تیرے اس علم کے ساتھ جس نے ہر چیز کا احاطہ کیا ہوا ہے، اور تیرے اس نام کے ساتھ کہ جس سے ہر چیز کی ابتدا کی جاتی ہے، اور تیرے اس بابرکت چہرے کے ساتھ جو ہر چیز کے فنا ہونے کے بعد بھی باقی رہے گا ، اے نور بخشنے والے، اے برائیوں سے پاک ذات، اے نور بخشنے والے، اے برائیوں سے پاک ذات، (تین مرتبہ پڑھتے ) اے پہلوں میں سب سے پہلے، اور اے بعد والوں میں سے سب سے بعد والے ! اور اے اللہ ! اے رحم کرنے والے، اے بہت رحم کرنے والے، میرے ان گناہوں کو معاف فرما دے جن کی وجہ سے تو سزائیں نازل کرتا ہے، اور میرے ان گناہوں کو معاف فرما دے جن کی وجہ سے تو عصمت دری کرتا ہے ، اور میرے ان گناہوں کو بھی معاف فرما دے جن کی وجہ سے تو ندامت کا وارث بناتا ہے۔ اور میرے ان گناہوں کو بھی معاف فرما دے جن کی وجہ سے تو نصیب کو روک لیتا ہے۔ اور میرے ان گناہوں کو بھی معاف فرما دے جن کی وجہ سے تو نعمتوں کو بدل دیتا ہے اور میرے ان گناہوں کو بھی معاف فرما دے جن کی وجہ سے تو بلاؤں اور مصیبتوں کو نازل کرتا ہے ، اور دشمنوں کو غالب کرتا ہے، اور میرے ان گناہوں کو بھی معاف فرما جن کی وجہ سے تو آسمان کی بارش کو روک لیتا ہے، اور تو برباد کرنے میں جلدی کرتا ہے اور تو نفس پر ظلم کرتا ہے اور تو دعا کو رد کرتا ہے ، اور میرے ان گناہوں کو بھی معاف فرما جن کی وجہ سے تو جہنم کی طرف لوٹاتا ہے۔

30133

(۳۰۱۳۴) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ الأَسَدِیِّ ، عَن رَجُلٍ ، عَنْ عَلِیٍّ ، قَالَ : کَانَ یَقُولُ : اللَّہُمَّ یَا دَاحِیَ الْمَدحُوَّاتِ وَیَا بَانِیَ الْمَبْنِیَّاتِ وَیَا مُرْسِیَ الْمُرَسِّیَاتِ ، وَیَا جَبَّارَ الْقُلُوبِ عَلَی فِطْرَتِہَا شَقِیِّہَا وَسَعِیدِہَا ، وَبَاسِطَ الرَّحْمَۃِ لِلْمُتَّقِینَ ، اجْعَلْ شَرَائِفَ صَلَوَاتِکَ وَنَوَامِی بَرَکَاتِکَ وَرَأْفَاتِ تحننک ، وَعَوَاطِفَ زَوَاکِی رَحْمَتِکَ عَلَی مُحَمَّدٍ عَبْدِکَ وَرَسُولِکَ ، الْفَاتِحِ لِمَا أُغْلِقَ ، وَالْخَاتَمِ لِمَا سَبَقَ وَفَالِجِ الْحَقِّ بِالْحَقِ ، وَدَامِغِ جَاشِیَاتِ الأَبَاطِیلِ کَمَا حَمَّلْتَہُ ، فَاضْطَلَعَ بِأَمْرِکَ مُسْتَنْصِرًا فِی رِضْوَانِکَ غَیْرَ نَاکِلٍ عَن قَدَمٍ ، وَلا مُثْنِی عَنْ عَزْمٍ ، حَافِظٍ لِعَہْدِکَ ، مَاضٍ لِنَفَاذِ أَمْرِکَ ، حَتَّی أَورَی قبسا لقلبس آلاء اللہ تصل بآلہ أسبابہ بہ ہُدِیت الْقُلُوبِ ، بَعْدَ خَوْضَاتِ الْفِتَنِ والأثم وأنہج موضحات الأعلام إِلَی ودائرات الأَحْکَامِ ، فَہُوَ أَمِینُک الْمَأْمُونُ ، وَشَاہِدُک یَوْمَ الدِّینِ ، وَبَعِیثُکَ رَحْمَۃً لِلْعَالَمِینَ ، اللَّہُمَّ افْسَحْ لَہُ مُفْسَحًا عِنْدَکَ ، وَأَعْطِہِ بَعْدَ رِضَاہُ الرِّضَی مِنْ فَوْزِ ثَوَابِکَ الْمَحْلُولِ ، وَعَظِیمِ جَزَائِکَ الْمَعْلُولِ ، اللَّہُمَّ أَتْمِمْ لَہُ مَوْعِدَک بِابْتعَاثِکَ إیَّاہُ مَقْبُولَ الشَّفَاعَۃِ عَدْلَ الشَّہَادَۃِ مَرَضِیَّ الْمَقَالَۃِ ذَا مَنْطِقٍ عَدْلٍ وَخَطِیبٍ فَصْلٍ ، وَحُجَّۃٍ وَبُرْہَانٍ عَظِیمٍ ، اللَّہُمَّ اجْعَلْنَا سَامِعِینَ مُطِیعِینَ وَأَوْلِیَائَ مُخْلِصِینَ وَرُفَقَائَ مُصَاحِبِینَ ، اللَّہُمَّ أبْلِغْہُ مِنَّا السَّلامَ ، وَارْدُدْ عَلَیْنَا مِنْہُ السَّلامَ۔
(٣٠١٣٤) حضرت عبداللہ اسدی ایک شخص سے نقل کرتے ہیں کہ حضرت علی یوں دعا فرمایا کرتے تھے : اے اللہ ! اے بچھانے والے بچھی ہوئی زمینوں کے، عمارتوں کی تعمیر کرنے والے، پہاڑوں کے گاڑنے والے، اور دلوں کو بزور بنانے والے اس کی فطرت پر ان کے بدبخت ہونے کو اور نیک بخت ہونے کو، اور متقیوں اور پرہیزگاروں کے لیے رحمت کو کشادہ کرنے والے، نازل فرما اپنی بزرگ ترین خاصی رحمتیں اور بڑھنے والی برکتیں، اور اپنی بڑی مہربانی کو، اور اپنی پاکیزہ، مہربان رحمتوں کو حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جو تیرے بندے اور تیرے رسول ہیں، اور کھولنے والے ہیں اس سعات کو جو بند کردی گئی ، اور مکمل کرنے والے ہیں اس دین کو جو غالب آگیا، اور حق کو غالب کرنے والے ہیں سلامتی کے ساتھ، اور توڑنے والے ہیں ان لشکروں کے جو ناحق پر ہیں جیسا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو برانگیختہ کیا ان کے توڑنے پر پس مستعد ہوگئے تیرے حکم سے، مدد طلب کرنے والے تیری رضا مندی میں ، بلاقید کے پنیر میں، اور بلا سستی کے ارادے میں ( یعنی لشکر کفار کے توڑنے میں اٹھنے کے لیے آپ نے کوتاہی نہیں کی) نگاہ رکھنے والے تیری وحی کی طرف، حفاظت کرنے والے تیرے عصب (کے) تیرے حکم کے نفاذ پر وقت گزارنے والے، یہاں تک کہ روشن کردیا اسلام کے شعلہ نور کو روشنی لینے والوں کے لیے، اللہ کی نعمتیں ملا دیتی ہیں اس کے اسباب کو ان سے جو اس مشغلہ کے اھل لوگ ہیں ( یعنی وہ فائدہ اٹھا لیتے ہیں) آپ ہی کے سبب سے ہدایت ملی دلوں کو، ان کے فتنوں اور گناہوں میں ڈوب جانے کے بعد، اور آپ نے ظاہر کرنے والی نشانیوں کو مزید واضح کیا، اور اسلام کے چمکدار حکموں کو ، اور اسلام کی روشنیوں کو ، پس آپ ہی تیرے بھروسہ کے قابل امانت دار ہیں، اور آپ ہی قیامت کے دن تیرے گواہ ہیں، اور تیری بھیجی ہوئی رحمت میں تمام جہان والوں کے لیے، اے اللہ ! کشادہ کر دے ان کی جگہ اپنے پاس اور ان کو عطا فرما اپنی رضا مندی کے بعد ایسی رضا مندی جو تیرے اجر کی کامیابی کی طرف سے ہو، اور تیری عظیم جزا جو کہ کسی وجہ سے ملتی ہے اس کی طرف سے، اے اللہ، تو ان سے کیے جانے والے اپنے وعدے کو پورا فرما، ان کو مبعوث فرما کر شفاعت کیے جانے والے مقام پر، انصاف کی گواہی مقبول کر کے، اور آپ کے ہر قول کو اپنی رضا مندی کے موافق کر کے، اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو صاحب انصاف بنا کر، اور آپ کو ایسا خطیب بنا کر جو حق و باطل مں ر فرق کرنے والا ہو، اور بڑی حجت والا بنا کر۔ اے اللہ ! ہمیں بنا دے سننے والوں میں سے (پھر) فرمان برداری کرنے والوں میں سے، اور مخلص لوگوں کے دوستوں میں سے، اور اپنے ساتھیوں کے رفقاء میں سے، اے اللہ ! تو پہنچا دے ان کو ہماری طرف سے سلامتی، اور لوٹا دے ان کی طرف سے ہم پر سلامتی۔

30134

(۳۰۱۳۵) حَدَّثَنَا عَبِیْدَۃُ بْنُ حُمَیْدٍ ، عَنْ أَبِی جَعْفَرٍ مُحَمَّدٍ الْبَصْرِیِّ ، عَن رَجُلٍ یُدْعَی سَالِمًا ، قَالَ : کَانَ مِنْ دُعَائِ عَلِیٍّ : اللَّہُمَّ اجْعَلْنِی مِمَّنْ رَضِیتَ عَمَلَہُ وَقَصَّرْت أَمَلَہُ ، وَأَطَلْت عُمُرَہُ ، وَأَحْیَیْتہ بَعْدَ الْمَوْتِ حَیَاۃً طَیِّبَۃً وَرَزَقْتہ اللَّہُمَّ إنِّی أَسْأَلُک نَعِیمًا لاَ یَنْفَدُ ، وَفَرْحَۃً لاَ تَرْتَدُ ، وَمُرَافَقَۃَ نَبِیِّکَ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَإِبْرَاہِیمَ فِی أَعْلَی جَنَّۃِ الْخُلْدِ ، اللَّہُمَّ ہَبْ لِی شفقا یَوْجَلُ لَہُ قَلْبِی ، وَتَدْمَعُ لَہُ عَیْنِی ، وَیَقْشَعِرُّ لَہُ جِلْدِی وَیَتَجَافَی لَہُ جَنْبِی ، وَأَجِدُ نَفْعَہُ فِی قَلْبِی ، اللَّہُمَّ طَہِّرْ قَلْبِی مِنَ النِّفَاقِ ، وَصَدْرِی مِنَ الْغِلِ ، وَأَعْمَالِی مِنَ الرِّیَائِ ، وَعَیْنِی مِنَ الْخِیَانَۃِ ، وَلِسَانِی مِنَ الْکَذِبِ ، وَبَارِکْ لِی فِی سَمْعِی وَقَلْبِی ، وَتُبْ عَلَیَّ إنَّک أَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِیمُ ، اللَّہُمَّ إنِّی أَعُوذُ بِوَجْہِکَ الْکَرِیمِ الَّذِی أَشْرَقَتْ لَہُ السَّمَاوَاتُ السَّبْعُ وَکُشِفَتْ بِہِ الظُّلُمَاتُ وَصَلُحَ عَلَیْہِ أَمْرُ الأَوَّلِینَ وَالآخِرِینَ مِنْ أَنْ یَحِلَّ عَلَیَّ غَضَبُک ، أَوْ یَنْزِلَ بِی سَخَطُک ، أَوْ أَتَّبِعَ ہَوَایَ بِغَیْرِ ہُدًی مِنْک ، أَوْ أَقُولَ لِلَّذِینَ کَفَرُوا {ہَؤُلائِ أَہْدَی مِنَ الَّذِینَ آمَنُوا سَبِیلاً} اللَّہُمَّ کُنْ بِی بَرًّا رَؤُوفًا رَحِیمًا بِحَاجَتِی حَفِیًّا ، اللَّہُمَّ اغْفِرْ لِی یَا غَفَّارُ ، وَتُبْ عَلَیَّ یَا تَوَّابُ ، وَارْحَمْنِی یَا رَحْمَنُ ، وَاعْفُ عَنِّی یَا حَلِیمُ ، اللَّہُمَّ ارْزُقْنِی زَہَادَۃً وَاجْتِہَادًا فِی الْعِبَادَۃِ ، وَلَقِّنِی إیَّاکَ عَلَی شَہَادَۃٍ یسبق بُشْرَاہَا وَجَعَہَا وَفَرْحُہَا جَزَعہَا ، یَا رَبِّ لَقِّنِّی عِنْدَ الْمَوْتِ نَضْرَۃً وَبَہْجَۃً وَقُرَّۃَ عَیْنٍ وَرَاحَۃً فِی الْمَوْتِ ، اللَّہُمَّ لَقِّنِّی فِی قَبْرِی ثَبَاتَ الْمَنْطِقِ وَقُرَّۃَ عَیْنِ الْمَنْظَرِ وَسَعَۃً فِی الْمَنْزِلِ ، اللَّہُمَّ قفنی مِنْ عَمَلِ یَوْمِ الْقِیَامَۃِ مَوْقِفًا تُبَیِّضُّ بِہِ وَجْہِی ، وتُثَبِّتُ بِہِ مَقَالَتِی ، وَتُقَرُّ بِہِ عَیْنِی ، وَتَنْزِلُ بِہِ عَلَی أمنتی ، وَتَنْظُرُ إلَیَّ بِوَجْہِکَ نَظْرَۃً أَسْتَکْمِلُ بِہَا الْکَرَامَۃَ فِی الرَّفِیقِ الأَعْلَی فِی أَعْلَی عِلِّیِّینَ ، فَإِنَّ نِعْمَتَکَ تُتِمُّ الصَّالِحَاتِ ، اللَّہُمَّ إنِّی ضَعِیفٌ مِنْ ضَعْفٍ خَلَقْتَنِی إِلَی ضَعْف مَا أَصِیرُ ، فَمَا شِئْت لاَ مَا شئنا ، فَشَأْ لِی أَنْ أَسْتَقِیمَ۔
(٣٠١٣٥) حضرت ابو جعفر محمد بصری اس آدمی سے نقل کرتے ہیں جو سالم نام سے پکارا جاتا تھا کہ حضرت علی کی دعا میں سے ہے : اے اللہ ! مجھے بنا دے ان لوگوں میں سے جن کے عمل سے تو راضی ہے اور جن کی امیدوں کو تو نے چھوٹا کردیا، اور جن کی عمر کو تو نے لمبا کردیا، اور تو ان کو دے گا موت کے بعد پاکیزہ زندگی اور پاکیزہ رزق، اے اللہ ! میں تجھ سے مانگتا ہوں ایسی نعمت جو کبھی ختم نہ ہو، اور ایسی خوشی جو کبھی واپس نہ ہو، اور تیرے نبی حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور حضرت ابراہیم کی ہمراہی ہمیشہ کی جنت کے اعلی درجوں میں، اے اللہ ! مجھے عطا فرما ایسا گوشہ جس میں میرا دل روشن ہوجائے، اور میری آنکھوں سے آنسو بہہ پڑیں، اور میرے جسم پر کپکپی طاری ہوجائے، اور میرا پہلو بستر سے جدا ہوجائے، اور میں اپنے دل میں اس کا نفع پاؤں۔ اے اللہ ! میرے دل کو نفاق سے پاک و صاف کر دے، اور میرے سینہ کو کینہ سے، اور میرے عملوں کو دکھاوے سے ، اور میری آنکھ کو خیانت سے، اور میری زبان کو جھوٹ بولنے سے، اور میرے سننے میں اور میرے دل میں برکت عطا فرما۔ اور میری توبہ قبول فرما۔ بلاشبہ تو ہی توبہ قبول کرنے والا، رحم فرمانے والا ہے۔ اے اللہ ! میں پناہ لیتا ہوں تیرے باعزت چہرے کی جس نے ساتوں آسمانوں کو روشن کردیا، اور جس کے ذریعہ سے ظلمتوں کو ختم کردیا گیا، اور پہلے اور آخری لوگوں کا معاملہ جس کی بدولت درست ہوا اس بات سے کہ مجھ پر تیرا غضب اترے، یا مجھ پر تیری ناراضگی اترے اس بات سے کہ میں تیری طرف سے آنے والی ہدایت کو چھوڑ کر اپنی خواہشات کی پیروی کرنے لگوں یا اس بات سے کہ میں کافروں سے کہوں کہ وہ زیادہ راہ راست پر ہیں مومنوں سے، اے اللہ ! تو مجھ پر مہربان، شفیق اور رحم کرنے والا بن جا، اور میری ضرورت میں میرا شفیق، اے اللہ ! میری مغفرت فرما اے مغفرت فرمانے والے، اور میری توبہ قبول فرما اے توبہ قبول فرمانے والے، اور مجھ پر رحم فرما اے رحم فرمانے والے، اور مجھ سے درگزر فرما اے بردبار، الٰہی ! مجھے بقدر کفایت رزق عطا فرما، اور مجھے عبادت میں کوشش کرنے کی توفیق عطا فرما، اور مجھے اپنے سامنے ایسی گواہی تلقین فرما کہ جس کی خوشخبری اس کی تکلیف پر سبقت لے جائے، اور اس کی خوشی اس کے غم پر، اے میرے پروردگار ، مجھے موت کے وقت شادمانی اور آسودہ حالی کی چمک دمک عطا فرما اور آنکھ کی ٹھنڈک اور موت میں آسانی فرما۔ اے اللہ ! قبر میں مجھے ثابت قدم بنا۔ گھر میں مجھے میری پسند کا منظر دکھا۔ قیامت کے دن میرے چہرے کو روشن فرما۔ میری گفتگو کو ثابت فرما۔ میری آنکھ کو ٹھنڈا بنا، میری تمنا کو پورا فرما، میری طرف قیامت کے دن رحمت کی نظر فرما، تیری نعمت سے نیکیاں پوری ہوتی ہیں، اے اللہ ! میں کمزور ہوں اور تو نے مجھے کمزوری کی حالت میں پیدا کیا ہے، اصل چاہت تیری ہے تو مجھے اپنی چاہت کے سیدھے راستے پر چلا۔

30135

(۳۰۱۳۶) حَدَّثَنَا عَفَّانُ حَدَّثَنَا شُعْبَۃُ أَخْبَرَنِی مَنْصُورُ بْنُ الْمُعْتَمِرِ ، قَالَ : سَمِعْتُ رِبْعِیَّ بْنَ خِرَاشٍ ، عَنْ عَلِیٍّ ، قَالَ : ما مِنْ کَلِمَاتٍ أَحَبُّ إِلَی اللہِ أَنْ یَقُولَہُنَّ الْعَبْدُ : اللَّہُمَّ لاَ إلَہَ إِلاَّ أَنْتَ اللَّہُمَّ لاَ أَعْبُدُ إِلاَّ إیَّاکَ ، اللَّہُمَّ لاَ أُشْرِکُ بِکَ شَیْئًا ، اللَّہُمَّ إنِّی قَدْ ظَلَمْت نَفْسِی فَاغْفِرْ لِی ذُنُوبِی ، إِنَّہُ لاَ یَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلاَّ أَنْتَ۔
(٣٠١٣٦) حضرت ربعی بن حراش فرماتے ہیں کہ حضرت علی نے ارشاد فرمایا : ان کلمات سے زیادہ کوئی کلمات اللہ کے ہاں پسندیدہ نہیں ہیں کہ بندہ یوں کہے : اے اللہ ! تیرے سوا کوئی معبود برحق نہیں ، اے اللہ ! میں تیرے سوا کسی کی بھی عبادت نہیں کرتا، اے اللہ ! میں تیرے ساتھ کسی چیز کو بھی شریک نہیں ٹھہراتا، اے اللہ ! یقیناً میں نے اپنی جان پر ظلم کیا، پس تو میرے گناہوں کو معاف فرما، اس لیے کہ تراے سوا کوئی بھی گناہوں کو معاف نہیں کرسکتا۔

30136

(۳۰۱۳۷) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِِ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنِ الأَسْوَدِ وَعَلْقَمَۃَ ، قَالا : قَالَ عَبْدُ اللہِ : إنَّ فِی کِتَابِ اللہِ آیَتَیْنِ مَا أَصَابَ عَبْدٌ ذَنْبًا فَقَرَأَہُمَا ، ثُمَّ اسْتَغْفَرَ اللَّہَ إِلاَّ غَفَرَ لَہُ {وَالَّذِینَ إذَا فَعَلُوا فَاحِشَۃً أَوْ ظَلَمُوا أَنْفُسَہُمْ } إِلَی آخِرِ الآیَۃِ وَ {مَنْ یَعْمَلْ سُوئًا أَوْ یَظْلِمْ نَفْسَہُ}۔
(٣٠١٣٧) حضرت اسود اور حضرت علقمہ فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ نے ارشاد فرمایا : کتاب اللہ میں دو آیات ہیں، جو کوئی بندہ گناہ کرتا ہے پھر ان دونوں آیات کو پڑھ کر اللہ سے استغفار کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی مغفرت فرما دیتے ہیں۔ (آیت : اور وہ لوگ جو اگر کوئی کھلا گناہ کر بیٹھیں یا اپنی جانوں پر ظلم کر گزریں) آیت کے آخر تک، (آیت : اور جو کوئی کر بیٹھے برا کام یا ظلم کر بیٹھے اپنے اوپر) ۔

30137

(۳۰۱۳۸) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَن شَقِیقٍ ، قَالَ : کَانَ مِنْ دُعَائِ عَبْدِ اللہِ رَبَّنَا أَصْلِحْ ذَاتَ بَیْنِنَا وَاہْدِنَا سُبُلَ الإِسْلامِ وَأَخْرِجْنَا مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَی النُّورِ ، وَاصْرِفْ عَنَّا الْفَوَاحِشَ مَا ظَہَرَ مِنْہَا ، وَمَا بَطَنَ ، وَبَارِکْ لَنَا فِی أَسْمَاعِنَا وَأَبْصَارِنَا وَقُلُوبِنَا وَأَزْوَاجِنَا وَذُرِّیَّاتِنَا وَتُبْ عَلَیْنَا وَعَلَیْہِمْ إنَّک أَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِیمُ، وَاجْعَلْنَا لأَنْعُمِکَ شَاکِرِینَ مُثْنِینَ بِہَا قَائِلِینَ بِہَا وَأَتْمِمْہَا عَلَیْنَا۔
(٣٠١٣٨) حضرت شقیق فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ کی دعا یوں ہوتی تھی : اے ہمارے رب ! ہمارے درمیان صلح جوئی فرما دے، اور ہمیں سلامتی کے راستوں کی طرف ہدایت عطا فرما ، اور ہمیں گمراہی کی ظلمتوں سے ہدایت کے نور کی طرف نکال دے، اور تو ہم سے فاحشات کو جن کا تعلق ظاہر سے ہو یا باطن سے ان کو پھیر دے، اور تو ہمارے کانوں میں اور ہماری آنکھوں میں اور ہمارے دلوں میں اور ہماری بیویوں میں اور ہماری اولاد میں برکت عطا فرما۔ پس یقیناً تو ہی توبہ قبول کرنے والا رحم کرنے والا ہے، اور تو ہمیں ایسا بنا دے کہ تیری نعمتوں کا شکر کرنے والے ہوں۔ ان کے ذریعہ تعریف کرنے والے ہوں۔ ان کا ذکر کرنے والے ہوں۔ اور تو اپنی نعمتوں کو ہم پر پورا کر دے۔

30138

(۳۰۱۳۹) حَدَّثَنَا عَبِیْدَۃُ بْنُ حُمَیْدٍ ، عَن مَنْصُورٍ ، عَنْ أَبِی وَائِلٍ ، قَالَ : کَانَ عَبْدُ اللہِ یَقُولُ ، اللَّہُمَّ أَصْلِحْ ذَاتَ بَیْنِنَا ، ثُمَّ ذَکَرَ نَحْوًا مِنْ حَدِیثِ الأَعْمَشِ۔
(٣٠١٣٩) حضرت ابو وائل فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ یوں دعا کیا کرتے تھے : اے اللہ ! تو ہمارے درمیان صلح جوئی فرما، پھر راوی نے اعمش کی طرح باقی حدیث کو ذکر کیا۔

30139

(۳۰۱۴۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ الْمَسْعُودِیِّ ، عَنْ عَوْنِ بْنِ عَبْدِ اللہِ ، عَنْ أَبِی فَاخِتَۃَ ، عَنِ الأَسْوَدِ بْنِ یَزِیدَ ، قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللہِ : یَقُولُ اللَّہُ تعالی مَنْ کَانَ لَہُ عِنْدِی عَہْدٌ فَلْیَقُمْ قَالُوا : یَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، فَعَلِّمْنَا ، قَالَ : قُولُوا : اللَّہُمَّ فَاطِرَ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ عَالِمَ الْغَیْبِ وَالشَّہَادَۃِ إنِّی أَعْہَدُ إلَیْک عَہْدًا فِی ہَذِہِ الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا إنَّک إِنْ تَکِلْنِی إِلَی عملی تُقَرِّبُنِی مِنَ الشَّرِّ وَتُبَاعِدُنِی مِنَ الْخَیْرِ ، وَأَنِّی لاَ أَثِقُ إِلاَّ بِرَحْمَتِکَ فَاجْعَلْہُ لِی عِنْدَکَ عَہْدًا تُؤَدِّیہِ إلَیَّ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ إنَّک لاَ تُخْلِفُ الْمِیعَادَ۔
(٣٠١٤٠) حضرت اسود بن یزید فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ فرماتے ہیں۔ کہ جس شخص کا بھی میرے پاس کوئی عہد ہے پس وہ کھڑا ہوجائے ان کے شاگردوں نے عرض کیا : اے ابو عبد الرحمن : پس آپ ہمیں بھی یہ سکھا دیجیے، انھوں نے ارشاد فرمایا : تم سب یہ کلمات پڑھو، اے اللہ ! آسمانوں اور زمین کو پیدا کرنے والے ، ظاہر اور پوشیدہ باتوں کے جاننے والے، یقیناً میں اس دنیا کی زندگی میں تجھ سے ایک عہد کرتا ہوں یقیناً اگر تو نے مجھے میرے عمل کے سپرد کردیا تو تو نے مجھے شر کے قریب کردیا اور تو نے مجھے خیر سے دور کردیا۔ اور یقیناً میں نے نہیں یقین رکھا مگر تیری رحمت پر، پس تو اپنے پاس ہی میرے عہد کو رکھ لے جس کو قیامت کے دن پورا کرنا، یقیناً تو وعدہ کی خلاف ورزی نہیں کرتا۔

30140

(۳۰۱۴۱) حَدَّثَنَا عَفَّانُ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ أَخْبَرَنَا عَطَائُ بْنُ السَّائِبِ ، عَنْ أَبِی الأَحْوَصِ ، أَنَّ ابْنَ مَسْعُودٍ کَانَ إذَا دَعَا لأَصْحَابِہِ ، یقول : اللَّہُمَّ اہْدِنَا ، وَیَسِّرْ ہُدَاک لَنَا ، اللَّہُمَّ یَسِّرْنَا لِلْیُسْرَی وَجَنِّبْنَا الْعُسْرَی وَاجْعَلْنَا مِنْ أُولِی النُّہَی اللَّہُمَّ لَقِّنَّا نَضْرَۃً وَسُرُورًا ، وَاکْسُنَا سُنْدُسًا وَحَرِیرًا وَحَلِّنَا أَسَاوِرَ إلَہِ الْحَقِّ اللَّہُمَّ اجْعَلْنَا شَاکِرِینَ لِنِعْمَتِکَ مُثْنِینَ بِہَا قَائِلِیہَا وَتُبْ عَلَیْنَا إنَّک أَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِیمُ۔
(٣٠١٤١) حضرت ابو الاحوص فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود جب اپنے شاگردوں کے لیے دعا کرتے تو یوں فرماتے۔ اے اللہ ! تو ہمیں ہدایت دے، اور اپنی ہدایت کو ہمارے لیے آسان فرما۔ اے اللہ ! ہماری آسانی کو بھی آسان فرما۔ اور ہمیں تنگی سے دور فرما۔ اور ہمیں دانش مندوں میں سے بنا دے، اے اللہ ! ہمیں خوشی اور راحت و سکون عطا فرما، اور ہمیں سندس اور ریشم پہنا، اور ہمیں زیورات سے مزین فرما، اے سچے معبود ! اے اللہ ! ہمیں اپنی نعمتوں کا شکر گزار بنا دے، ان کے ذریعہ ثنا کرنے والا بنا دے ، اور ان کا ذکر کرنے والا بنا دے، اور تو ہماری توبہ کو قبول فرما، یقیناً تو ہی توبہ کو قبول کرنے والا ، رحم فرمانے والا ہے۔

30141

(۳۰۱۴۲) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ حَدَّثَنَا مِسْعَرٌ، عَنِ جواب التیمی عن الحارث بن سوید قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللہِ إن مِنْ أَحَبُّ الْکَلامِ إِلَی اللہِ أَنْ یَقُولَ الْعَبْدُ اللَّہُمَّ أَبُوئُ بِالنِّعْمَۃِ وَأَبُوئُ بِالذَّنْبِ فَاغْفِرْ لِی إنَّہُ لاَ یَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلاَّ أَنْتَ۔
(٣٠١٤٢) حضرت حارث بن سوید فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ نے ارشاد فرمایا : اللہ کا پسندیدہ کلام ہے کہ بندہ یوں دعا کرے : اے اللہ ! میں نعمت کا اعتراف کرتا ہوں اور گناہ کا اعتراف بھی کرتا ہوں، پس تو میری مغفرت فرما ، بیشک تیرے سوا کوئی بھی گناہوں کی مغفرت نہیں کرسکتا۔

30142

(۳۰۱۴۳) حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ ، عَن مِسْعَرٍ ، عَن مَعْنٍ قَالَ : کَانَ عَبْدُ اللہِ مِمَّا یَدْعُو یَقُولُ اللَّہُمَّ أَعِنِّی عَلَی أَہَاوِیلِ الدُّنْیَا وَبَوَائِقِ الدَّہْرِ وَمَصَائِبِ اللَّیَالِیِ وَالأَیَّامِ ، وَاکْفِنِی شَرَّ مَا یَعْمَلُ الظَّالِمُونَ فِی الأَرْضِ ، اللَّہُمَّ اصْحَبْنِی فِی سَفَرِی وَاخْلُفْنِی فِی حَضَرِی وَإِلَیْک فَحَبِّبْنِی ، وَفِی أَعْیُنِ النَّاسِ فَعَظِّمْنِی ، وَفِی نَفْسِکَ فَاذْکُرْنِی ، وَفِی نَفْسِی لَکَ فَذَلِّلْنِی ، وَمِنْ شَرِّ الأَخْلاقِ فَجَنِّبْنِی یَا رَحْمَنُ ، إِلَی مَنْ تَکِلُنِی ، أَنْتَ رَبِّی ، إِلَی بَعِیدٍ یَتَجَہَّمُنِی أَمْ إِلَی قَرِیبٍ قَلَّدْْتہ أَمْرِی۔
(٣٠١٤٣) حضرت معن فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود دعا کرتے ہوئے یوں فرماتے تھے : اے اللہ ! تو دنیا کی ہول ناکیوں سے میری مدد فرما ۔ اور زمانہ کی تنگیوں سے بھی اور دن اور رات کے مصائب سے بھی اور تو میرے لیے کافی ہوجا زمین میں ظلم کرنے والوں کے عمل کے شر سے، اے اللہ ! تو میرے سفر میں میرا مصاحب و ساتھی بن جا۔ اور میرے حضر میں خلیفہ بن جا، اور مجھے اپنی طرف محبوب بنا لے، اور لوگوں کی آنکھوں میں مجھے معزز کر دے، اور اپنی ذات میں میرا ذکر کر ، اور اپنے سامنے میرے نفس کو حقیر بنا دے، اور بُرے اخلاق سے تو مجھے دور فرما دے، اے بہت زیادہ رحم کرنے والے ! کس کی طرف تو مجھے سپرد کرے گا ؟ تو تو میرا رب ہے، دور کی طرف جو مجھ سے ترش روئی کرے یا کسی قریب کی طرف کہ جس کو تو میرے معاملہ کی ڈور پکڑا دے گا ؟

30143

(۳۰۱۴۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن سُفْیَانَ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِی عُبَیْدَۃَ ، قَالَ : کَانَ عَبْدُ اللہِ إذَا اجْتَہَدَ فِی الدُّعَائِ ، قَالَ اللَّہُمَّ إنِّی أَسْأَلُک مِنْ فَضْلِکَ الَّذِی أَفَضَلْت عَلَی ، وَبَلائِکَ الْحَسَنِ الَّذِی ابْتَلَیْتنِی ، وَنَعْمَائِکَ الَّتِی أَنْعَمْت عَلَیَّ أَنْ تُدْخِلَنِی الْجَنَّۃَ ، اللَّہُمَّ أَدْخِلْنِی الْجَنَّۃَ بِرَحْمَتِکَ وَمَغْفِرَتِکَ وَفَضْلِک۔
(٣٠١٤٤) حضرت ابو عبیدہ فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعو جب دعا میں بہت زیادہ جدوجہد کرتے تو یوں فرماتے : اے اللہ ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں تیرے اس فضل کی برکت سے جو تو نے مجھ پر مہربانی فرمائی اور تیری اچھی آزمائش کی برکت سے جس سے تو نے مجھے آزمایا، اور تیری ان نعمتوں کی برکت سے جو تو نے مجھ پر کی ہیں کہ تو مجھے جنت میں داخل فرما دے، اے اللہ ! تو مجھے اپنی رحمت سے اور اپنی بخشش سے اور اپنے فضل سے جنت میں داخل فرما۔

30144

(۳۰۱۴۵) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ إِسْحَاقَ ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مَسْعُودٍ ، قَالَ : مَا دَعَا عَبْدٌ قَطُّ بِہَذِہِ الدَّعَوَاتِ إِلاَّ وَسَّعَ اللَّہُ عَلَیْہِ فِی مَعِیشَتِہِ یَا ذَا الْمَنِّ فَلا یُمَنَّ عَلَیْک یَا ذَا الْجَلالِ وَالإِکْرَامِ یَا ذَا الطَّوْلِ لاَ إلَہَ إِلاَّ أَنْتَ ، ظَہْرُ اللاجِئِینَ وَجَارُ الْمُسْتَجِیرِینَ وَمَأْمَنُ الْخَائِفِینَ ، إِنْ کُنْتَ کَتَبْتنِی عِنْدَکَ فِی أُمِّ الْکِتَابِ شَقِیًّا فَامْحُ عَنِّی اسْمَ الشَّقَائِ ، وَأَثْبِتْنِی عِنْدَکَ سَعِیدًا ، وَإِنْ کُنْتَ کَتَبْتَنِی فِی أُمِّ الْکِتَابِ مُقترًا عَلَی رِزْقِی ، فَامْحُ حِرْمَانِی ، وَتَقْتِیر رِزْقِی ، وَاثْبِتْنِی عِنْدَک سَعِیدًا مُوَفَّقًا لِلْخَیْرِ ، فَإِنَّک تَقُولُ فِی کِتَابِکَ {یَمْحُو اللَّہُ مَا یَشَائُ وَیُثْبِتُ وَعِنْدَہُ أُمُّ الْکِتَابِ}۔
(٣٠١٤٥) حضرت قاسم بن عبد الرحمن فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود نے ارشاد فریایا : کوئی بندہ ان کلمات کے ساتھ دعا نہیں کرتا مگر اللہ اس بندے کی معیشت میں وسعت فرما دیتے ہیں۔ اے احسان کرنے والے ! پس تجھ پر احسان نہیں کیا جاسکتا، اے عظمت و اکرام والے، اے مہربانی کرنے والے، تیرے سوا کوئی معبود نہیں۔ التجا کرنے والوں کے مدد گار، اور پناہ مانگنے والوں کی پناہ گاہ، اور ڈرنے والوں کے لیے امن دینے والے، اگر تو نے مجھے اپنے پاس ام الکتاب میں شقی ، بدبخت لکھ دیا ہے۔ تو مجھ سے شقاوت کو مٹا دے۔ اور مجھے اپنے نزدیک نیک بخت لکھ دے۔ اور اگر تو نے ام الکتاب میں مجھ پر میرے رزق کو تنگ لکھ دیاے تو میری محرومی اور رزق کی تنگی کو مٹا دے، اور مجھے اپنے پاس نیک بخت لکھ دے، جس کو خیر کی توفیق دی گئی ہو، پس یقیناً تو نے اپنی کتاب میں ارشاد فرمایا ہے : اللہ جسے چاہتا ہے مٹا دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے برقرار رکھتا ہے، اور اسی کے پاس ام الکتاب ہے۔

30145

(۳۰۱۴۶) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ، عَنْ أَبِی عُبَیْدَۃَ، قَالَ سُئِلَ عَبْدُاللہِ: مَا الدُّعَائُ الَّذِی دَعَوْت بِہِ لَیْلَۃَ ، قَالَ لَکَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : سَلْ تُعْطَہُ ، قَالَ : قُلْتُ اللَّہُمَّ إنِّی أَسْأَلُک إیمَانًا لاَ یَرْتَدُّ ، وَنَعِیمًا لاَ یَنْفَدُ ، وَمُرَافَقَۃَ نَبِیِّکَ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی أَعْلَی دَرَجَۃِ الْجَنَّۃِ جَنَّۃِ الْخُلْدِ۔
(٣٠١٤٦) حضرت ابو عبیدہ فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود سے پوچھا گیا : وہ کون سی دعا ہے جو آپ نے اس رات مانگی تھی جس رات کو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آپ سے ارشاد فرمایا تھا : سوال کر تجھے عطا کیا جائے گا، آپ نے ارشاد فرمایا : میں نے یہ دعا پڑھی تھی : اے اللہ ! میں آپ سے سوال کرتا ہوں ایسے ایمان کا جس کے بعد کفر نہ ہو۔ اور ایسی نعمت کا جو کبھی ختم نہ ہو اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی معیت جنت کے اعلیٰ درجہ میں ہمیشہ کے لیے۔

30146

(۳۰۱۴۷) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، أَخْبَرَنَا حُصَیْنٌ ، عَنْ أَبِی الْیَقْظَانِ حُصَیْنِ بْنِ یَزِیدَ الثَّعْلَبِیِّ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مَسْعُودٍ ، أَنَّہُ کَانَ یَقُولُ : إذَا فَرَغَ مِنَ الصَّلاۃِ : اللَّہُمَّ إنِّی أَسْأَلُک مُوجِبَاتِ رَحْمَتِکَ وَعَزَائِمَ مَغْفِرَتِکَ وَأَسْأَلُکَ الْغَنِیمَۃَ مِنْ کُلِّ بِرٍّ وَالسَّلامَۃَ مِنْ کُلِّ إِثْمٍ ، اللَّہُمَّ إنِّی أَسْأَلُک الْفَوْزَ بِالْجَنَّۃِ وَالْجَوَارَ مِنَ النَّارِ ، اللَّہُمَّ لاَ تَدَعْ ذَنْبًا إِلاَّ غَفَرْتہ ، وَلا ہَمًّا إِلاَّ فَرَّجْتہ ، وَلا حَاجَۃً إِلاَّ قَضَیْتہَا۔
(٣٠١٤٧) حضرت حصین بن یزید الثعلبی فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود جب نماز سے فارغ ہوتے تھے تو یوں دعا فرماتے : اے اللہ ! میں تجھ سے مانگتا ہوں وہ تمام اسباب جو تیری رحمت کے لیے لازم ہوں اور وہ اسباب جن سے تیری مغفرت یقینی ہوجائے، اور میں تجھ سے ہر نیکی سے مال غنیمت کا حصہ مانگتا ہوں ، اے اللہ ! میں تجھ سے جنت والی کامیابی کا سوال کرتا ہوں، اور جہنم سے آزادی کا۔ اے اللہ ! تو کسی گناہ کو باقی نہ چھوڑ جس کو تو نے بخش نہ دیا ہو، اور نہ ہی کوئی فکر جس سے تو رہائی نہ دے، اور نہ ہی کوئی ضرورت جس کو تو پورا نہ فرما دے۔

30147

(۳۰۱۴۸) حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ بْنُ مُوسَی أَخْبَرَنَا إسْرَائِیلُ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِی الأَحْوَصِ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ، أَنَّہُ کَانَ یَدْعُو اللَّہُمَّ أَلْبِسْنَا لِبَاسَ التَّقْوَی ، وَأَلْزِمْنَا کَلِمَۃَ التَّقْوَی ، وَاجْعَلْنَا مِنْ أُولِی النُّہَی ، وَأَمِتْنَا حِینَ تَرْضَی ، وَأَدْخِلْنَا جَنَّۃَ الْمَأْوَی ، وَاجْعَلْنَا مِمَّنْ بَرَّ وَاتَّقَی ، وَصَدَّقَ بِالْحُسْنَی ، وَنَہَی النَّفْسَ عَنِ الْہَوَی ، وَاجْعَلْنَا مِمَّنْ تُیَسِّرُہُ لِلْیُسْرَی ، وَتُجَنِّبُہُ الْعُسْرَی ، وَاجْعَلْنَا مِمَّنْ یَتَذَکَّرُ فَتَنْفَعُہُ الذِّکْرَی ، اللَّہُمَّ اجْعَلْ سَعْیَنَا مَشْکُورًا وَذَنْبَنَا مَغْفُورًا ، وَلَقِّنَّا نَضْرَۃً وَسُرُورًا ، وَاکْسُنَا سُنْدُسًا وَحَرِیرًا ، وَاجْعَلْ لَنَا أَسَاوِرَ مِنْ ذَہَبٍ وَلُؤْلُؤٍ وَحَرِیرًا۔
(٣٠١٤٨) حضرت ابو الاحوص فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود یوں دعا فرمایا کرتے تھے : اے اللہ ! تو ہمیں تقوی کا لباس پہنا دے، اور تقوی کے کلمہ کو ہم پر لازم کر دے۔ اور ہمیں دانش مندوں میں سے بنا دے، اور ہمیں اس وقت موت دینا جب تو ہم سے راضی ہوجائے، اور ہمیں جنت المأویٰ میں داخل فرما دے اور ہمیں بنا دے ان لوگوں میں سے جنہوں نے نیکی کی اور تقویٰ اختیار کیا اور اچھائی کے ساتھ سچ کہا اور اپنے نفس کو خواہشات سے روکا۔ اور ہمیں بنا دے ان لوگوں میں سے جن کے لیے تو نے آسانی پیدا کی، اور تو نے تنگی کو ان سے دور کردیا۔ اور ہمیں بنا دے ان لوگوں میں سے جنہوں نے نصیحت حاصل کی، پس ان کی نصیحت نے ان کو نفع پہنچایا۔ اے اللہ ! ہماری کوششوں کو شکر سے لبریز فرما۔ اور ہمارے گناہوں کو بخش دے اور تو ہم سے خوشی و سرور کی حالت میں ملاقات فرمانا، اور تو ہمیں سندس اور ریشم کا لباس پہنانا اور آپ ہمیں سونے کے، اور موتیوں اور ریشم کے زیورات سے مزین فرمانا۔

30148

(۳۰۱۴۹) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ عَطِیَّۃَ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، أَنَّہُ قَالَ : اللَّہُمَّ اغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا وَعَافِنَا وَاہْدِنَا وَارْزُقْنَا ، قَالَ : فَقَالُوا لَہُ : لَوْ زِدْتنَا ، قَالَ : أَعُوذُ بِاللہِ أَنْ أَکُونَ مِنَ الْمُسْہَبِینَ۔
(٣٠١٤٩) حضرت عطیہ فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمر نے یوں دعا فرمائی : اے اللہ ! تو ہماری مغفرت فرما دے، اور ہم پر رحم فرما، اور ہمیں عافیت بخش دے، اور ہمیں ہدایت عطا فرما، اور ہمیں رزق عطا فرما۔ عطیہ فرماتے ہیں : ان کے شاگردوں نے ان سے عرض کیا : اگر آپ ہمارے لیے اور اضافہ فرما دیں تو بہتر ہوگا، آپ نے فرمایا : اور میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں کہ میں لالچ کرنے والا بن جاؤں۔

30149

(۳۰۱۵۰) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ ، عَن عُمَارَۃَ بْنِ غَزِیَّۃَ عَن یَحْیَی بْنِ رَاشِدٍ ، قَالَ : حجَجْنَا ، فَلَمَّا قَضَیْنَا نُسُکَنَا قُلْنَا : لَوْ أَتَیْنَا ابْنَ عُمَرَ فَحَدَّثْنَا ، فَأَتَیْنَا فَخَرَجَ إلَیْنَا فَجَلَسَ بَیْنَنَا فَصَمَتَ لِنَسْأَلَہُ ، وَصَمَتْنَا لِیُحَدِّثَنَا ، فَلَمَّا أَطَالَ الصَّمْتَ ، قَالَ : مَا لَکُمْ لاَ تَکَلَّمُونَ ، أَلا تَقُولُونَ : سُبْحَانَ اللہِ وَالْحَمْدُ لِلَّہِ ، وَلا إلَہَ إِلاَّ اللَّہُ وَاللَّہُ أَکْبَرُ ، وَلا حَوْلَ وَلا قُوَّۃَ إِلاَّ بِاللہِ ، الْحَسَنَۃُ بِعَشْرِ أَمْثَالِہَا إِلَی سَبْعِمِئَۃِ ضِعْفٍ ، فَإِنْ زِدْتُمْ خَیْرًا زَادَکُمَ اللَّہُ۔
(٣٠١٥٠) حضرت یحییٰ بن راشد فرماتے ہیں کہ ہم نے حج کیا، جب ہم اپنی قربانی کرچکے تو ہم کہنے لگے : اگر ہم حضرت ابن عمر کی خدمت میں حاضر ہوں تو وہ ہمیں کوئی حدیث بیان کردیں گے۔ پس ہم ان کی خدمت میں حاضر ہوئے تو وہ ہمارے پاس تشریف لے آئے پھر ہمارے درمیان بیٹھ گئے۔ پس وہ خاموش رہے تاکہ ہم ان سے سوال کرسکیں۔ اور ہم خاموش رہے تاکہ وہ ہمارے سامنے احادیث بیان کریں، پس جب خاموشی طوالت اختیار کرگئی تو انھوں نے ارشاد فرمایا : تمہیں کیا ہوا تم بات نیں ش کرتے ؟ کیا تم یہ کلمات نہیں پڑھو گے ؟ اللہ تمام عیبوں سے پاک ہے اور سب تعریفیں اللہ کے لیے ہیں اور اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور اللہ سب سے بڑا ہے، اور گناہوں سے بچنے کی طاقت اور نیکی کرنے کی قوت صرف اللہ کی مدد سے ہے ؟ نیکی کا ثواب تو دس گُنا سے لے کر سات سو گنا تک ہے ، پس اگر تم بھلائی میں اضافہ کرو گے تو اللہ بھی تمہیں زیادہ اجر عطا فرمائے گا۔

30150

(۳۰۱۵۱) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، عَن سُفْیَانَ ، عَن عُبَیْدِ اللہِ ، عَن نَافِعٍ ، أَنَّ ابْنَ عُمَرَ کَانَ یَقُولُ : اللَّہُمَّ لاَ تَنْزِعْ مِنِّی الإِیمَانَ کَمَا أَعْطَیْتنِیہِ۔
(٣٠١٥١) حضرت نافع فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمر اکثر یہ دعا فرمایا کرتے تھے : اے اللہ ! تو ایمان کو مجھ سے مت چھین جیسا کہ تو نے ایمان مجھے عطا کردیا ہے۔

30151

(۳۰۱۵۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن مِسْعَرٍ ، عَن سَعِیدِ بْنِ أَبِی بُرْدَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ یَقُولُ : رَبِّ بِمَا أَنْعَمْتَ عَلَیَّ فَلَنْ أَکُونَ ظَہِیرًا لِلْمُجْرِمِینَ ، فَلَمَّا صَلَّی ، قَالَ : مَا صَلَّیْت صَلاۃً إِلاَّ وَأَنَا أَرْجُو أَنْ تَکُونَ کَفَّارَۃً لِمَا أَمَامَہَا یَعْنِی ، قَالَہَا وَہُوَ رَاکِعٌ۔
(٣٠١٥٢) حضرت ابو بردہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن عمر کو یوں دعا کرتے ہوئے سنا : میرے رب جو کچھ تو نے مجھ پر انعام کیا تو میں ہرگز مجرموں کا مدد گار نہیں ہوں گا ، پھر جب نماز پڑھی تو فرمایا : میں نے کوئی نماز نہیں پڑھی مگر یہ کہ میں امید کرتا ہوں کہ وہ کفارہ ہیں ان گناہوں کے لیے جو آگے ہیں، مطلب یہ کلمات انھوں نے رکوع کی حالت میں کہے۔

30152

(۳۰۱۵۳) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، عَن مُحَمَّدٍ ، عَنْ أَبِی مُوسَی ، أَنَّہُ کَانَ یَقُولُ فِی دُعَائِہِ : اللَّہُمَّ إنِّی أَسْأَلُک مِنَ الْخَیْرِ کُلِّہِ مَا یَنْبَغِی أَنْ أَسْأَلَک مِنْہُ ، وَأَعُوذُ بِکَ مِنَ الشَّرِّ کُلِّہِ مَا یَنْبَغِی أَنْ أَتَعَوَّذَ بِکَ مِنْہُ۔
(٣٠١٥٣) حضرت محمد بن سیرین فرماتے ہیں کہ حضرت ابو موسیٰ اپنی دعا میں یہ کلمات پڑھا کرتے تھے۔ اے اللہ ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اس تمام بھلائی کا کہ مناسب ہے کہ میں تجھ سے اس کا سوال کروں، اور میں تیری پناہ مانگتا ہوں اس تمام شر سے کہ مناسب یہی ہے کہ میں تجھ سے ہی پناہ مانگوں۔

30153

(۳۰۱۵۴) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ حَدَّثَنَا یُونُسُ بْنُ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنِ الْمِنْہَالِ بْنِ عَمْرٍو ، عن سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : کَانَ یَقُولُ : اللَّہُمَّ إنِّی أَسْأَلُک بِنُورِ وَجْہِکَ الَّذِی أَشْرَقَتْ لَہُ السَّمَاوَاتُ وَالأَرْضُ أَنْ تَجْعَلَنِی فِی حِرْزِکَ وَحِفْظِکَ وَجِوَارِکَ وَتَحْتَ کَنَفِک۔
(٣٠١٥٤) حضرت سعید بن جبیر فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عباس یوں دعا فرمایا کرتے تھے : اے اللہ ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں تیرے چہرے کے نور کے ساتھ جس نے آسمانوں اور زمین کو روشن کردیا کہ تو مجھے اپنے حصار میں لے اور اپنی حفاظت میں، اور اپنے عہد میں اور اپنی حمایت کے تحت لے لے۔

30154

(۳۰۱۵۵) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ الْقَطَّانُ ، عَن سُفْیَانَ ، عَن طَارِقٍ ، عَن سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ، عَنْ أَبِی ہَیَّاجٍ الأَسَدِیِّ، قَالَ : سَمِعْتُ شَیْخًا یَطُوفُ خَلْفَ الْبَیْتِ وَہُوَ یَقُولُ : اللَّہُمَّ قِنِی شُحَّ نَفْسِی ، فَلَمْ أَدْرِ مَنْ ہُوَ ، فَلَمَّا انْصَرَفَ ، اتَّبَعْتُہُ ، فَسَأَلْتُ عَنْہُ ؟ فَقَالُوا : عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ۔
(٣٠١٥٥) حضرت سعید بن جبیر فرماتے ہیں کہ حضرت ابو ھیاج الاسدی نے ارشاد فرمایا کہ میں نے ایک بوڑھے کو سنا کہ وہ بیت اللہ کے گرد طواف کررہا ہے اور یہ دعا بھی کررہا ہے : اے اللہ ! تو مجھے میرے نفس کے بخل سے بچا لے۔ پس میں نہیں جانتا تھا کہ وہ بوڑھاکون ہے ؟ پھر جب وہ واپس جانے لگے تو میں ان کے پیچھے چل پڑا۔ میں نے ان کے متعلق پوچھا تو لوگوں نے بتلایا : کہ یہ حضرت عبد الرحمن بن عوف ہیں۔

30155

(۳۰۱۵۶) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَن الجریری عن ثمامۃ بن حزن قَالَ ، سمعت شیخاً یَقُولُ : اللَّہُمَّ إنِّی أَعُوذُ بِکَ مِنْ شَرٍّ لاَ یُخْلَطُ مَعَہُ غَیْرُہُ ، قَالَ : قُلْتُ : مَنْ ہَذَا الشَّیْخُ ، قَالَ : أَبُو الدَّرْدَائِ۔
(٣٠١٥٦) حضرت ثمامہ بن حزن فرماتے ہیں کہ میں نے ایک بوڑھے کو یوں دعا کرتے ہوئے سنا : اے اللہ ! میں آپ کی پناہ مانگتا ہوں اس شر سے جس کے ساتھ اس کے غیر کو نہ ملا دیا گیا ہو۔ حضرت ثمامہ فرماتے ہیں کہ میں نے پوچھا : یہ بوڑھا شخص کون ہے ؟ لوگوں نے کہا : حضرت ابو الدردائ ۔

30156

(۳۰۱۵۷) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَن حَبِیبٍ ، عَن عُرْوَۃَ بْنِ عَامِرٍ ، قَالَ : سُئِلَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنِ الطِّیَرَۃِ فَقَالَ : أَصْدَقُہَا الْفَأْلُ ، وَلا تَرُدُّ مُسْلِمًا ، فَإِذَا رَأَیْتُمْ مِنَ الطِّیَرَۃِ شَیْئًا تَکْرَہُونَہُ فَقُولُوا : اللَّہُمَّ لاَ یَأْتِی بِالْحَسَنَاتِ إِلاَّ أَنْتَ ، وَلا یَذْہَبُ بِالسَّیِّئَاتِ إِلاَّ أَنْتَ ، وَلا حَوْلَ وَلا قُوَّۃَ إِلاَّ بِاللہِ۔
(٣٠١٥٧) حضرت عروہ بن عامر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا گیا بد شگونی کے بارے میں ؟ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اس میں سب سے سچی بات نیک فال ہے۔ وہ کسی مسلمان کو رد نہیں کرتی، پس جب تم کسی چیز سے بد شگونی لو جو تمہیں ناپسند ہو تو یہ کلمات پڑھ لیا کرو : اے اللہ ! تیرے سوا کوئی اچھائی نہیں لاسکتا ، اور تیرے سوا کوئی برائی بھی نہیں لاسکتا اور گناہوں سے بچنے کی طاقت اور نیکی کے کرنے کی قوت صرف اللہ کی مدد سے ہے۔

30157

(۳۰۱۵۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا الأَعْمَشُ ، عَن حَبِیبٍ ، عَن عُرْوَۃَ بْنِ عَامِرٍ ، قَالَ : سُئِلَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنِ الطِّیَرَۃِ ، ثُمَّ ذَکَرَ مِثْلَ حَدِیثِ أَبِی مُعَاوِیَۃَ إِلاَّ أَنَّہُ قَالَ : وَلا حَوْلَ وَلا قُوَّۃَ إِلاَّ بِک۔
(٣٠١٥٨) حضرت عروہ بن عامر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بد شگونی کے متعلق سوال کیا گیا۔ پھر راوی نے ابو معاویہ کی طرح ہی حدیث کو ذکر کیا مگر یہ کلمات ذکر کیے، گناہوں سے بچنے کی طاقت اور نیکی کرنے کی قوت صرف اللہ کی مدد سے ہے۔

30158

(۳۰۱۵۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن أُسَامَۃَ بْنِ زَیْدٍ ، عَن نَافِعِ بْنِ جُبَیْرٍ ، قَالَ : قَالَ کَعْبٌ لِعَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو : ہَلْ تَطَیَّرُ ؟ قَالَ : نَعَمْ ، قَالَ : فَمَا تَقُولُ : قَالَ : أَقُولُ : اللَّہُمَّ لاَ طَیْرَ إِلاَّ طَیْرُک ، وَلا خَیْرَ إِلاَّ خَیْرُک ، وَلا رَبَّ غَیْرُک ، قَالَ : أَنْتَ أَفْقَہُ الْعَرَبِ۔
(٣٠١٥٩) حضرت نافع بن جبیر فرماتے ہیں کہ حضرت کعب نے حضرت عبداللہ بن عمرو سے سوال کیا کہ کیا تم بد شگونی لیتے ہو ؟ انھوں نے فرمایا : جی ہاں ! انھوں نے پوچھا : تم کیا دعا پڑھتے ہو ؟ ابن عمرو نے فرمایا : اے اللہ ! کوئی بد شگونی نہیں مگر تیری طرف سے اور کوئی بھلائی نہیں ہے مگر تیری طرف سے اور تیرے علاوہ کوئی پالنے والا نہیں ہے، تو حضرت کعب نے فرمایا : آپ تو عرب کے سب سے بڑے فقیہ ہیں۔

30159

(۳۰۱۶۰) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، عَن یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ، عَنْ أَبِی سَلَمَۃَ ، عَنْ أَبِی قَتَادَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : الرُّؤْیَا مِنَ اللہِ ، وَالْحُلْمُ مِنَ الشَّیْطَانِ ، فَإِذَا رَأَی أَحَدُکُمْ مَا یَکْرَہُ فَلْیَنْفُثْ عَن یَسَارِہِ وَلْیَتَعَوَّذْ مِنْ شَرِّہَا فَإِنَّہَا لن تَضُرَّہُ۔ (بخاری ۵۷۴۷۔ مسلم ۱۷۷۲)
(٣٠١٦٠) حضرت ابو قتادہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اچھے خواب اللہ کی طرف سے ہیں ، اور برے خواب شیطان کی طرف سے ہیں، پس جب تم میں سے کوئی ایک بُرا خواب دیکھے اسے چاہیے کہ وہ اپنے بائیں جانب تین مرتبہ تھوک دے۔ اور اس کے شر سے پناہ مانگے۔ وہ اس کو ہرگز نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔

30160

(۳۰۱۶۱) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللہِ بْنِ یُونُسَ ، عَن لَیْثِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ ، عَنْ جَابِرٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إذَا رَأَی أَحَدُکُمَ الرُّؤْیَا یَکْرَہُہَا فَلْیَبْصُقْ ، عَن یَسَارِہِ ثَلاثًا وَلْیَسْتَعِذْ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطَانِ ثَلاثًا ، وَیَتَحَوَّلُ ، عَنْ جَنْبِہِ الَّذِی کَانَ عَلَیْہِ۔ (مسلم ۱۷۷۲۔ ابوداؤد ۴۹۸۳)
(٣٠١٦١) حضرت جابر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جب تم میں سے کوئی ایک ایسا خواب دیکھے جو اسے برا لگے۔ پس اسے چاہیے کہ وہ اپنے بائیں جانب تین مرتبہ تھوکے اور تین مرتبہ شیطان سے اللہ کی پناہ مانگے۔ اور جس پہلو پر تھا اس پہلوکو بدل لے۔

30161

(۳۰۱۶۲) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ أَخْبَرَنَا ابْنُ عَوْنٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ النَّخَعِیِّ ، قَالَ : کَانُوا إذَا رَأَی أَحَدُہُمْ فِی مَنَامِہِ مَا یَکْرَہُ ، قَالَ : أَعُوذُ بِمَا عَاذَتْ بِہِ مَلائِکَۃُ اللہِ وَرَسُولِہِ مِنْ شَرِّ مَا رَأَیْت فِی مَنَامِی أَنْ یُصِیبَنِی مِنْہُ شَیْئٌ أَکْرَہُہُ فِی الدُّنْیَا وَالآخِرَۃِ۔
(٣٠١٦٢) حضرت ابراہیم النخعی فرماتے ہیں کہ صحابہ میں سے کوئی تو یوں دعا کرتا : میں پناہ مانگتا ہوں ان کلمات کے ساتھ جن کے ساتھ اللہ کے فرشتوں نے اور اس کے رسولوں نے پناہ مانگی ہے اس چیز کے شر سے جو میں نے اپنی نیند میں دیکھی ہے ، کہ اس مصیبت میں سے کوئی چزس مجھے پہنچے جس کو میں دنیا اور آخرت میں ناپسند کرتا ہوں۔

30162

(۳۰۱۶۳) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِکِ بْنُ أَبِی سُلَیْمَانَ ، عَنْ أَبِی عَلِیٍّ رَجُلٍ مِنْ بَنِی کَاہِلٍ ، قَالَ: خَطَبَنَا أَبُو مُوسَی الأَشْعَرِیُّ فَقَالَ : خَطَبَنَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ذَاتَ یَوْمٍ فَقَالَ : أَیُّہَا النَّاسُ ، اتَّقُوا ہَذَا الشِّرْکَ فَإِنَّہُ أَخْفَی مِنْ دَبِیبِ النَّمْلِ ، فَقَالَ مَنْ شَائَ أَنْ یَقُولَ : وَکَیْفَ نَتَّقِیہِ وَہُوَ أَخْفَی مِنْ دَبِیبِ النَّمْلِ یَا رَسُولَ اللہِ ؟ قَالَ قُولُوا : اللَّہُمَّ إنَّا نَعُوذُ بِکَ مِنْ أَنْ نُشْرِکَ بِکَ شَیْئًا نَعْلَمُہُ وَنَسْتَغْفِرُک لِمَا لاَ نَعْلَمُ۔ (بخاری ۵۰۹۔ احمد ۴۰۳)
(٣٠١٦٣) حضرت ابو علی جو قبیلہ بنو کاہل کے ایک شخص ہیں فرماتے ہیں کہ حضرت ابو موسیٰ اشعری نے ہم سے خطاب کیا اور فرمایا : کہ ایک دن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم سے خطاب کرتے ہوئے فرمانے لگے : اے لوگو ! شرک سے بچو یقیناً وہ چیونٹی کی آھٹ سے بھی زیادہ خفی ہے۔ پس جس نے پوچھنا چاہا تو پوچھا : اے اللہ کے رسول ہم کیسے اس سے بچ سکتے ہیں حالانکہ وہ تو چیونٹی کی آہٹ سے بھی زیادہ خفی ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : تم یہ کلمات پڑھ لیا کرو : اے اللہ ! ہم آپ کی پناہ مانگتے ہیں کہ ہم آپ کے ساتھ شریک ٹھہرائیں اس چیز کو جس کو ہم جانتے ہیں، اور ہم آپ سے بخشش طلب کرتے ہیں ان گناہوں کی جن کو ہم نہیں جانتے۔

30163

(۳۰۱۶۴) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَن مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ ، عَن عُبَیْدِ اللہِ بْنِ الْمُغِیرَۃِ بْنِ مُعَیْقِیبٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ سُلَیْمٍ، عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: اللَّہُمَّ أَتَّخِذُ عِنْدَکَ عَہْدًا تُؤَدِّیہِ إِلَیَّ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ، إنَّک لاَ تُخْلِفُ الْمِیعَادَ ، فَإِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ فَأَیَّ الْمُسْلِمِینَ آذَیْتہ ، أَوْ شَتَمْتہ ، أَوْ قَالَ ضَرَبْتہ ، أَوْ سَبَبْتہ فَاجْعَلْہَا لَہُ صَلاۃً وَاجْعَلْہَا لَہُ زَکَاۃً وَقُرْبَۃً تُقَرِّبُہُ بِہَا إلَیْک یَوْمَ الْقِیَامَۃِ۔(احمد ۴۴۹۔ ابویعلی ۱۲۵۷)
(٣٠١٦٤) حضرت ابو سعید خدری فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اے اللہ ! میں آپ سے ایک عہد کرتا ہوں جسے آپ قیامت کے دن پورا کیجیے گا۔ یقیناً آپ وعدہ کی خلاف ورزی نہیں فرماتے۔ یقیناً میں انسان ہوں۔ کوئی بھی مسلمان جس کو میں نے تکلیف پہنچائی ہو یا برا بھلا کہا ہو یا یوں فرمایا : جس کو میں نے مارا ہو یا جس کو میں نے سب و شتم کیا ہو پس آپ اس کو ایک رحمت دیجیے گا۔ اور آپ اس کو پاک کیجئے گا اور ایسی قربت کہ آپ اسے قیامت والے دن اپنے نزدیک کرلیجئے گا۔

30164

(۳۰۱۶۵) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَن مِسْعَرٍ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ قَیْسٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ أَبِی قُرَّۃَ ، عَن سَلْمَانَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ وَلَدِ آدَمَ أَنَا ، فَأَیُّمَا عَبْدٍ مِنْ أُمَّتِی لَعَنْتہ لَعْنَۃً ، أَوْ سَبَبْتہ سَبَّۃً فِی غَیْرِ کُنْہِہِ ، فَاجْعَلْہَا عَلَیْہِ صَلاۃً۔ (بخاری ۲۳۴۔ ابوداؤد ۴۶۲۶)
(٣٠١٦٥) حضرت سلمان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : میں آدم کی اولاد میں سے ہوں۔ پس میری امت کا کوئی بھی شخص جس پر میں نے لعنت کی ہو یا جس کو میں نے برا بھلا کہا ہو بغیر مستحق ہونے کے، پس تو اس کو رحمت عطا فرما۔

30165

(۳۰۱۶۶) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِی سُفْیَانَ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : اللَّہُمَّ أَیُّمَا مُؤْمِنٍ لَعَنْتہ ، أَوْ سَبَبْتہ ، أَوْ جَلَدْتہ فَاجْعَلْہَا لَہُ زَکَاۃً وَأَجْرًا۔ (مسلم ۲۰۰۸۔ احمد ۳۹۱)
(٣٠١٦٦) حضرت جابر فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اے اللہ ! کوئی بھی مومن بندہ جس پر میں نے لعنت کی ہو یا جس کو میں نے برا بھلا کہا ہو یا میں نے اسے کوڑے لگائے ہوں۔ تو ان چیزوں کو اس کے لیے پاکی اور اجر کا ذریعہ بنا۔

30166

(۳۰۱۶۷) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِی صَالِحٍ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : اللَّہُمَّ إنَّمَا بَشَرٌ فَأَیُّما رَجُلٍ مِنَ الْمُسْلِمِینَ سَبَبْتہ ، أَوْ لَعَنْتہ ، أَوْ جَلَدْتہ فَاجْعَلْہَا زَکَاۃً وَرَحْمَۃً۔ (مسلم ۲۰۰۷۔ احمد ۳۹۰)
(٣٠١٦٧) حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اے اللہ ! یقیناً میں انسان ہوں ۔ پس مسلمانوں میں سے کوئی بھی شخص جس کو میں نے برا بھلا کہا ہو یا جس پر میں نے لعنت کی ہو یا جس کو میں نے کوڑے لگائے ہوں ۔ پس تو اسے پاکی دے اور رحمت سے نواز دے۔

30167

(۳۰۱۶۸) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِی سُفْیَانَ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، مِثْلَہُ غَیْرَ أَنَّہُ قَالَ : زَکَاۃً وَأَجْرًا۔ (مسلم ۲۰۰۷۔ دارمی ۲۷۶۶)
(٣٠١٦٨) حضرت جابر فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ما قبل حدیث جیسی دعا فرمائی مگر آخر میں یوں فرمایا : کہ پاکی اور اجر عطا فرما۔

30168

(۳۰۱۶۹) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِی الضُّحَی ، عَن مَسْرُوقٍ ، عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ : اسْتَأْذَنَ عَلَی النبی صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَجُلانِ فَأَغْلَظَ لَہُمَا وَسَبَّہُمَا ، قَالَتْ : قُلْتُ : یَا رَسُولَ اللہِ مَنْ أَصَابَ مِنْک خَیْرًا فما أَصَابَ ہَذَانِ مِنْک خَیْرًا ، قَالَ : أَوَ مَا عَلِمْت مَا عَاہَدْت عَلَیْہِ رَبِّی ؟ قَالَتْ لَہُ : وَمَا عَاہَدْت عَلَیْہِ رَبَّک ؟ قَالَ : قُلْتُ : اللَّہُمَّ أَیُّمَا مُؤْمِنٍ سَبَبْتہ ، أَوْ لَعَنْتہ ، أَوْ جَلَدْتہ فَاجْعَلْہَا لَہُ مَغْفِرَۃً وَعَافِیَۃً وَکَذَا وَکَذَا۔ (مسلم ۲۰۰۷۔ احمد ۴۵)
(٣٠١٦٩) حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ دو آدمیوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اجازت طلب فرمائی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان پر غصہ کا اظہار فرمایا اور ان کو بُرا بھلا کہا، حضرت عائشہ فرماتی ہیں : میں نے کہا : اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ہر شخص نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بھلائی پائی۔ پس ان دونوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بھلائی نہیں پائی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : کیا تم جانتی ہو کہ میں نے اپنے رب سے کیا معاہدہ کیا ہے ؟ حضرت عائشہ نے پوچھا : کہ آپ نے اپنے رب سے کیا معاہدہ کیا ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : میں نے یوں کہا ہے کہ : اے اللہ ! کوئی بھی مومن بندہ جس کو میں نے برا بھلا کہا ہو یا جس پر میں نے لعنت کی ہو یا جس کو میں نے کوڑے لگائے ہوں۔ پس آپ اس کو اتنی اور اتنی مغفرت اور عافیت بخش دیجیے۔

30169

(۳۰۱۷۰) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَن حَبِیبٍ ، عَن بَعْضِ أَشْیَاخِہِ، قَالَ: کَانَ إذَا أَتَاہُ الأَمْرُ مِمَّا یُعْجِبُہُ، قَالَ : الْحَمْدُ لِلَّہِ الْمُنْعِمِ الْمُفْضِلِ ، الَّذِی بِنِعْمَتِہِ تَتِمُّ الصَّالِحَاتِ ، وَإِذَا أَتَاہُ الأَمْر مِمَّا یَکْرَہُہُ ، قَالَ : الْحَمْدُ لِلَّہِ عَلَی کُلِّ حَالٍ۔ (ابن ماجہ ۳۸۰۳)
(٣٠١٧٠) حضرت حبیب اپنے ایک استاذ سے نقل کرتے ہیں کہ انھوں نے ارشاد فرمایا : کہ جب کوئی عجیب معاملہ پیش آئے تو یہ کلمات پڑھو ! سب تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جو انعام و اکرام کرنے والا ، فضل کرنے والا ہے، جس کی نعمت سے اچھی چیزیں مکمل ہوتی ہیں۔ اور جب کوئی برا معاملہ پیش آئے تو یہ کلمات پڑھے : ہر حال میں تعریف اللہ ہی کے لیے ہے۔

30170

(۳۰۱۷۱) حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ مُعَاذٍ ، عَنِ التَّیْمِیِّ ، عَنْ أَبِی عُثْمَانَ ، عَن سَلْمَانَ ، قَالَ : إنَّ اللَّہَ یَسْتَحْیِی أَنْ یَبْسُطَ إلَیْہِ عَبْدُہُ یَدَیْہِ یَسْأَلُہُ بِہِمَا خَیْرًا فَیَرُدَّہُمَا خَائِبَتَیْنِ۔ (ابوداؤد ۱۴۸۳۔ ترمذی ۳۵۵۶)
(٣٠١٧١) حضرت ابو عثمان فرماتے ہیں کہ حضرت سلمان نے ارشاد فرمایا : یقیناً اللہ شرم کرتے ہیں اس بات سے کہ اس کا بندہ اس کی طرف ہاتھ پھیلائے۔ اور وہ ان ہاتھوں کے ساتھ بھلائی کا سوال کرے پھر اس کا رب ان کو نامراد لوٹا دے !۔

30171

(۳۰۱۷۲) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَن مَنْصُورٍ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنِ الأَغَرِّ أَبِی مُسْلِمٍ یَشْہَدُ بہ عَلَی أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، وَأَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ ، قَالا : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إنَّ اللَّہَ یُمْہِلُ حَتَّی یَذْہَبَ ثُلُثُ اللَّیْلِ ، ثُمَّ یَنْزِلُ إِلَی السَّمَائِ الدُّنْیَا فَیَقُولُ : ہَلْ مِنْ مُسْتَغْفِرٍ ؟ ہَلْ مِنْ تَائِبٍ ؟ ہَلْ مِنْ دَاعٍ ؟ ہَلْ مِنْ سَائِلٍ ؟ حَتَّی یَنْفَجِرَ الْفَجْرُ۔ (بخاری ۶۳۲۱۔ مسلم ۵۲۳)
(٣٠١٧٢) حضرت ابوہریرہ اور حضرت ابو سعید خدری فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : یقیناً اللہ مہلت دیتے ہیں یہاں تک کہ رات کا تہائی حصہ گزر جاتا ہے، پھر اللہ تعالیٰ آسمان دنیا پر نازل ہوتے ہیں ، اور یوں فرماتے ہیں : ہے کوئی مغفرت چاہنے والا ؟ ہے کوئی توبہ کرنے والا ؟ ہے کوئی دعا کرنے والا ؟ ہے کوئی مانگنے والا ؟ یہاں تک کہ فجر طلوع ہوجاتی ہے۔

30172

(۳۰۱۷۳) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمُحَارِبِیُّ ، عَن لَیْثٍ ، عَن شَہْرٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ غَنْمٍ ، عَنْ أَبِی ذَرٍّ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : یَقُولُ اللَّہُ : یَا عِبَادِی ، کُلُّکُمْ مُذْنِبٌ إِلاَّ مَنْ عَافَیْتہ ، فَاسْتَغْفِرُونِی أَغْفِرْ لَکُمْ ، وَمَنْ عَلِمَ أَنِّی ذُو قُدْرَۃٍ عَلَی أَنْ أَغْفِرَ لَہُ غَفَرْت لَہُ ، وَلا أُبَالِی ، یَا عِبَادِی ، کُلُّکُمْ ضَالٌّ إِلاَّ مَنْ ہَدَیْتہ فَاسْتَہْدُونِی أَہْدِکُمْ ، یَا عِبَادِی ، کُلُّکُمْ فَقِیرٌ إِلاَّ مَنْ أَغْنَیْتہ فَاسْأَلُونِی أُعْطِکُمْ۔ (ترمذی ۲۴۹۵۔ احمد ۱۵۴)
(٣٠١٧٣) حضرت ابوذر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اللہ فرماتے ہیں ! اے میرے بندو ! تم سب گناہ گار ہو مگر وہ جس کو میں نے عافیت بخشی۔ پس تم مجھ سے مغفرت مانگو میں تمہاری مغفرت کر دوں گا۔ اور جو شخص جان لے کہ میں قدرت والا ہوں کہ میں اس کی مغفرت کرسکتا ہوں تو میں اس کی مغفرت کر دوں گا اور مجھے کوئی پروا نہیں ہوگی۔ اے میرے بندو ! تم سب گمراہ ہو مگر جس کو میں نے ہدایت دی۔ پس تم مجھے سے ہدایت مانگو میں تمہیں ہدایت دوں گا۔ اے میرے بندو ! تم سب فقیر ہو مگر جس کو میں نے غنی کیا۔ پس تم مجھ سے مانگو میں تمہیں عطا کروں گا۔

30173

(۳۰۱۷۴) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ یَعْلَی ، عَن مَنْصُورٍ ، عَن رِبْعِیِّ بْنِ حِرَاشٍ ، قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللہِ بْنُ رَوَاحَۃَ : اللَّہُمَّ إنِّی أَسْأَلُک قُرَّۃَ عَیْنٍ لاَ تَرْتَدُّ وَنَعِیمًا لاَ یَنْفَدُ۔
(٣٠١٧٤) حضرت ربعی بن حراش فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن رواحہ نے یوں دعا مانگی : اے اللہ ! میں آپ سے سوال کرتا ہوں آنکھ کی ٹھنڈک کا جو کبھی واپس نہ لی جائے۔ اور ایسی نعمت کا جو کبھی ختم نہ ہو۔

30174

(۳۰۱۷۵) حَدَّثَنَا عَبِیْدَۃُ بْنُ حُمَیْدٍ ، عن منصور ، عَن رِبْعِیِّ بْنِ حِرَاشٍ ، قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللہِ بْنُ رَوَاحَۃَ : اللَّہُمَّ إنِّی أَسْأَلُک قُرَّۃَ عَیْنٍ لاَ تَرْتَدُّ ، وَنَعِیمًا لاَ یَنْفَدُ ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لَیْسَ مِنْ ہَاتَیْنِ شَیْئٌ فِی الدُّنْیَا۔
(٣٠١٧٥) حضرت ربعی بن حراش فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن رواحہ نے یوں دعا مانگی : اے اللہ ! میں آپ سے سوال کرتا ہوں آنکھ کی ٹھنڈک کا جو کبھی واپس نہ لی جائے ۔ اور ایسی نعمت کا جو کبھی ختم نہ ہو۔ تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ان دونوں میں سے کوئی چیز بھی دنیا میں موجود نہیں ہے۔

30175

(۳۰۱۷۶) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ ، عَنِ الْعَلائِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ ، قَالَ : کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إذَا فَرَغَ مِنْ طَعَامِہِ ، قَالَ : الْحَمْدُ لِلَّہِ الَّذِی مَنَّ عَلَیْنَا فَہَدَانَا، وَالْحَمْدُ لِلَّہِ الَّذِی أَشْبَعَنَا وَأَرْوَانَا، وَکُلُّ بَلائٍ حَسَنٍ ، أَوْ صَالِحٍ أَبْلانَا۔ (نسائی ۱۰۱۳۳۔ ابن حبان ۵۲۱۹)
(٣٠١٧٦) حضرت عمرو بن مرہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب کھانے سے فارغ ہوتے تو یہ دعا کرتے سب تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے ہم پر احسان فرمایا پس ہمیں ہدایت عطا فرمائی۔ اور سب تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے ہمیں سیر کیا اور ہمیں سیراب کیا۔ اور ہر وہ اچھی نعمت جو اس نے ہمیں عطا کی۔

30176

(۳۰۱۷۷) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ، عَن حَجَّاجٍ ، عَن رِیَاحِ بْنِ عَبِیْدَۃَ مَوْلَی أَبِی سَعِیدٍ، عَنْ أبِی سَعِیدٍ ، قَالَ: کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إذَا أَکَلَ طَعَامًا ، قَالَ : الْحَمْدُ لِلَّہِ الَّذِی أَطْعَمَنَا وَسَقَانَا وَجَعَلَنَا مُسْلِمِینَ۔
(٣٠١٧٧) حضرت ابو سعید فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب کھانا کھالیتے تو یوں دعا فرماتے : سب تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے ہمیں کھلایا اور پلایا اور ہمیں مسلمان بنایا۔

30177

(۳۰۱۷۸) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ التَّیْمِیِّ ، عَنِ الْحَارِثِ بْنِ سُوَیْد ، قَالَ کَانَ سَلْمَانُ إذَا طَعِمَ ، قَالَ : الْحَمْدُ لِلَّہِ الَّذِی کَفَانَا الْمُؤْنَۃَ ، وَأَوْسَعَ لَنَا الرِّزْقَ۔
(٣٠١٧٨) حضرت حارث بن سوید فرماتے ہیں کہ حضرت سلمان جب کھانا کھالیتے تو یوں دعا فرماتے سب تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے ہمارے خرچ کی کفایت کی۔ اور ہمارے رزق میں وسعت بخشی۔

30178

(۳۰۱۷۹) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَن حُصَیْنٍ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ بْنِ أَبِی سَعِیدٍ ، قَالَ : کَانَ أَبُو سَعِیدٍ إذَا وُضِعَ لَہُ الطَّعَامُ ، قَالَ : الْحَمْدُ لِلَّہِ الَّذِی أَطْعَمَنَا وَسَقَانَا وَجَعَلَنَا مُسْلِمِینَ۔
(٣٠١٧٩) حضرت اسماعیل بن ابو سعید فرماتے ہیں کہ جب کھانا رکھ دیا جاتا تو حضرت ابو سعید یوں فرماتے : سب تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے ہمیں کھلایا اور پلایا۔ اور ہمیں مسلمان بنایا۔

30179

(۳۰۱۸۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن سُفْیَانَ ، عَنِ الْجُرَیْرِیِّ ، عَنْ أَبِی الْوَرْدِ ، عَنِ ابْنِ أَعْبَدَ ، أَو ابْنِ مَعْبَدٍ ، قَالَ ، قَالَ عَلِیٌّ : تَدْرِی مَا حَقُّ الطَّعَامِ ؟ قَالَ : قُلْتُ : وَمَا حَقُّہُ ؟ قَالَ : تَقُولُ : بِسْمِ اللہِ اللَّہُمَّ بَارِکْ لَنَا فِیمَا رَزَقْتنَا ، قَالَ: تَدْرِی مَا شُکْرُہُ ؟ قُلْتُ : وَمَا شُکْرُہُ ؟ قَالَ : تَقُولُ : الْحَمْدُ لِلَّہِ الَّذِی أَطْعَمَنَا وَسَقَانَا۔
(٣٠١٨٠) حضرت ابن اعبد یا ابن معبد فرماتے ہیں کہ حضرت علی نے ارشاد فرمایا : کیا تم جانتے ہو کہ کھانے کا حق کیا ہے ؟ راوی کہتے ہیں کہ میں نے پوچھا ! کہ کھانے کا حق کیا ہے ؟ حضرت علی نے ارشاد فرمایا : تو یہ کلمات کہے : اللہ کے نام سے شروع کرتا ہوں۔ اے اللہ ! جو رزق تو نے ہمیں عطا فرمایا تو ہمارے لیے اس میں برکت عطا فرما۔ پھر فرمایا : تم جانتے ہو کہ کھانے کا شکر کیا ہے ؟ میں نے پوچھا : کھانے کا شکر کیا ہے ؟ ارشاد فرمایا : کہ تم یہ کلمات کہو : سب تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے ہمیں کھلایا اور پلایا۔

30180

(۳۰۱۸۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن سُفْیَانَ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ أَبِی النَّجُودِ ، عَن ذَکْوَانَ أَبِی صَالِحٍ ، عَنْ عَائِشَۃَ ، أَنَّہُ قُدِّمَ إلَیْہَا طَعَامٌ فَقَالَتْ : ائْدِمُوہُ ، فَقَالُوا : وَمَا إدَامُہُ ؟ قَالَتْ : تَحْمَدُونَ اللَّہَ عَلَیْہِ إذَا فَرَغْتُمْ۔
(٣٠١٨١) حضرت ذکوان بن ابی صالح فرماتے ہیں کہ حضرت عائشہ کے سامنے کھانا پیش کیا گیا تو آپ نے ارشاد فرمایا : کھانے کو اس کا حق دو اور اس کا حق فارغ ہو کر اللہ کا شکر ادا کرنا ہے۔

30181

(۳۰۱۸۲) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، وَأَبُو أُسَامَۃَ ، عَن زَکَرِیَّا بْنِ أَبِی زَائِدَۃَ ، عَن سَعِیدِ بْنِ أَبِی بُرْدَۃَ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إنَّ اللَّہَ لَیَرْضَی عَنِ الْعَبْدِ أَنْ یَأْکُلَ الأَکْلَۃَ فَیَحْمَدَہُ عَلَیْہَا ، أَوْ یَشْرَبَ الشَّرْبَۃَ فَیَحْمَدَہُ عَلَیْہَا۔
(٣٠١٨٢) حضرت انس بن مالک فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : یقیناً اللہ راضی ہوتے ہیں اپنے اس بندے سے جو ایک لقمہ کھاتا ہے پھر اس پر اللہ کی تعریف کرتا ہے یا ایک گھونٹ پیتا ہے پھر اس پر اللہ کی تعریف کرتا ہے۔

30182

(۳۰۱۸۳) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ یَزِیدَ بْنِ جَابِرٍ حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ زِیَادٍ، عَن سُلَیْمَانَ بْنِ عَبْدِاللہِ، عَن عِتْرِیسِ بْنِ عُرْقُوبَ ، قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللہِ: مَنْ قَالَ حِینَ یُوضَعُ طَعَامُہُ: بِسْمِ اللہِ، خَیْرُ الأَسْمَائِ فِی الأَرْضِ وَفِی السَّمَائِ لاَ یَضُرُّ مَعَ اسْمِہِ دَائٌ ، اللَّہُمَّ اجْعَلْ فِیہِ بَرَکَۃً وَعَافِیَۃً وَشِفَائً فَلا یَضُرُّہُ ذَلِکَ الطَّعَامُ مَا کَانَ۔
(٣٠١٨٣) حضرت عتریس بن عرقوب فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ نے ارشاد فرمایا جو شخص کھانا رکھے جانے کے وقت یہ کلمات پڑھے : اللہ کے نام سے شروع کرتا ہوں جو ناموں میں سب سے بہتر ہے ، اللہ ہی کے لیے ہے جو کچھ زمین میں ہے اور جو کچھ آسمانوں میں ہے۔ اس کے نام کے ساتھ کوئی بیماری نقصان نہیں پہنچا سکتی۔ اے اللہ ! اس کھانے میں برکت اور عافیت اور شفا رکھ دے۔ پس یہ کھانا کسی کو بھی نقصان نہیں دے گا۔

30183

(۳۰۱۸۴) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَن ہِشَامٍ ، قَالَ : کَانَ أَبِی لاَ یُؤْتَی بِطَعَامٍ وَلا شَرَابٍ حَتَّی الشَّرْبَۃِ مِنَ الدَّوَائِ فَیَشْرَبُہُ ، أَوْ یَطْعَمُہُ حَتَّی یَقُولَ : الْحَمْدُ لِلَّہِ الَّذِی ہَدَانَا وَأَطْعَمَنَا وَسَقَانَا وَنَعَّمَنَا ، اللَّہُ أَکْبَرُ ، اللَّہُمَّ أَلْفَتْنَا نِعْمَتَکَ بِکُلِّ شَرٍّ ، فَأَصْبَحْنَا وَأَمْسَیْنَا مِنْہَا بِکُلِّ خَیْرٍ نَسْأَلُک تَمَامَہَا وَشُکْرَہَا ، لاَ خَیْرَ إِلاَّ خَیْرُک ، وَلا إلَہَ غَیْرُک ، إلَہَ الصَّالِحِینَ وَرَبَّ الْعَالَمِینَ ، الْحَمْدُ لِلَّہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ ، لاَ إلَہَ إِلاَّ اللَّہُ ، مَا شَائَ اللَّہُ ، لاَ قُوَّۃَ إِلاَّ بِاللہِ ، اللَّہُمَّ بَارِکْ لَنَا فِیمَا رَزَقْتنَا وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ۔
(٣٠١٨٤) حضرت ہشام فرماتے ہیں کہ میرے والد کوئی بھی کھانا یا پینے کی چیز یہاں تک دوائی کا قطرہ بھی نہیں پیتے یا کھاتے تھے یہاں تک کہ یہ کلمات پڑھ لیا کرتے تھے سب تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے ہمیں ہدایت بخشی اور ہمیں کھلایا اور ہمیں پلایا اور ہمیں نعمتیں عطا فرمائیں اللہ ہی سب سے بڑا ہے۔ اے اللہ ! تیری نعمت نے ہمیں ہر شر سے مانوس بنا لیا ہے پس ہم نے صبح کی اور ہم نے شام کی تمام بھلائی کے ساتھ اس نعمت کی وجہ سے ۔ ہم تجھ سے سوال کرتے ہیں نعمت کے تمام ہونے کا اور اس کے شکر کا۔ تیری خیر کے سوا کوئی خیر نہیں ہے۔ اور تیرے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔ نیکو کاروں کے معبود ! اور تمام جہانوں کے پرور دگار، سب تعریف اس اللہ کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے۔ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ جو اللہ چاہے۔ اس کی مدد کے بغیر نیکی کرنے کی طاقت نہیں ہے۔ اے اللہ ! جو رزق تو نے ہمیں عطا فرمایا ہے تو ہمارے لیے اس میں برکت فرما دے اور ہمیں جہنم کے عذاب سے بچا لے۔

30184

(۳۰۱۸۵) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، عَن مِسْعَرٍ ، عَن ہِلالٍ ، عَن عُرْوَۃَ ، أَنَّہُ کَانَ إذَا وَضَعَ الطَّعَامَ ، قَالَ : سُبْحَانَک مَا أَحْسَنَ مَا تُبْلِینَا ، سُبْحَانَک مَا أَحْسَنَ مَا تُعْطِینَا ، رَبَّنَا وَرَبَّ آبَائِنَا الأَوَّلِینَ ، ثُمَّ یُسَمِّی اللَّہَ وَیَضَعُ یَدَہُ۔
(٣٠١٨٥) حضرت ھلال فرماتے ہیں کہ حضرت عروہ کے سامنے جب کھانا رکھ دیا جاتا تو یہ کلمات پڑھتے : تو تمام عیوب سے پاک ہے کیا اچھی نعمتوں سے تو نے ہمیں سرفراز فرمایا تو تمام عیوب سے پاک ہے کیا اچھی نعمتیں تو نے ہمیں عطا فرمائیں ۔ اے ہمارے پروردگار ، رب اور ہمارے آباؤ اجداد کے پروردگار، پھر آپ تسمیہ پڑھتے اور اپنا ہاتھ رکھتے۔

30185

(۳۰۱۸۶) حَدَّثَنَا جَرِیرُ بْنُ عَبْدِ اللہِ ، عَن مَنْصُورٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، عَن تَمِیمِ بْنِ سَلَمَۃَ ، قَالَ : حُدِّثْتُ أَنَّ الرَّجُلَ إذَا ذَکَرَ اسْمَ اللہِ عَلَی طَعَامِہِ وَحَمِدَہُ عَلَی آخِرِہِ لَمْ یُسْأَلْ عَن نَعِیمِ ذَلِکَ الطَّعَامِ۔
(٣٠١٨٦) حضرت تمیم بن سلمہ فرماتے ہیں کہ مجھے بیان کیا گیا ہے کہ جب کوئی شخص کھانے کے شروع میں اللہ کا نام لیتا ہے اور کھانے کے آخر میں اللہ کی حمد بیان کرتا ہے، تو اس سے اس کھانے کی نعمت کے متعلق سوال نہیں کیا جائے گا۔

30186

(۳۰۱۸۷) حَدَّثَنَا سَہْلُ بْنُ یُوسُفَ ، عَن حُمَیْدٍ ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ : سُئِلَ ہَلْ کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَرْفَعُ یَدَیْہِ ؟ قَالَ : نَعَمْ ، شَکَا النَّاسُ إلَیْہِ ذَاتَ جُمُعَۃٍ فَقَالُوا : یَا رَسُولَ اللہِ ، قُحِطَ الْمَطَرُ ، وَأَجْدَبَتِ الأَرْضُ ، وَہَلَکَ الْمَالُ ، قَالَ : فَرَفَعَ یَدَیْہِ حَتَّی رَأَیْت بَیَاضَ إبْطَیْہِ ، وَمَا فِی السَّمَائِ قَزَعَۃُ سَحَابٍ ، فَمَا صَلَّیْنَا حَتَّی إنَّ الشَّابَّ الْقَوِیَّ الْقَرِیبَ الْمَنْزِلِ لَیَہُمُّہُ الرُّجُوعُ إِلَی مَنْزِلِہِ ، قَالَ : فَدَامَتْ عَلَیْنَا جُمُعَۃٌ قَالَ فقالوا یا رسول اللہ تَہَدَّمَتِ الدُّورُ وَاحْتَبَسَ الرُّکْبَانُ ، قَالَ : فَتَبَسَّمَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ سُرْعَۃِ مَلالَۃِ ابْنِ آدَمَ فَقَالَ : اللَّہُمَّ حَوَالَیْنَا لاَ عَلَیْنَا ، قَالَ فأصحت السماء ۔
(٣٠١٨٧) حضرت حمید فرماتے ہیں کہ حضرت انس سے پوچھا گیا : کیا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دعا کرتے ہوئے اپنے دونوں ہاتھوں کو اٹھاتے تھے ؟ آپ نے ارشاد فرمایا : جی ہاں ! جمعہ کے دن لوگوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے شکایت کی ۔ پس کہنے لگے : اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! بارش نہیں ہو رہی زمین خشک ہوگئی، اور مال مویشی ہلاک ہوگئے ! حضرت انس فرماتے ہیں ! پس آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دعا کے لیے اپنے دونوں ہاتھ اتنے بلند کیے حتیٰ کہ میں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بغلوں کی سفیدی کو دیکھ لیا۔ اور آسمان میں کوئی بادل کا ٹکڑا نہیں تھا۔ پس ہم نے نماز پڑھی تھی یہاں تک کہ ایک طاقت ور جوان جس کا گھر قریب ہی تھا اور وہ اپنے گھر کی طرف لوٹنے کا ارادہ کررہا تھا حضرت انس فرماتے ہیں پس ایک ہفتہ مسلسل ہم پر بارش ہوتی رہی ہے۔ حضرت انس فرماتے ہیں : لوگوں نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! گھر گرگئے اور سوار رک گئے ! حضرت انس فرماتے ہیں : نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ابن آدم کے اتنی جلدی تنگ آنے سے مسکرائے پھر یوں دعا فرمائی : اے اللہ ! ہمارے ارد گرد نازل فرما، اور ہم پر مت نازل کر ، انس فرماتے ہیں : پس آسمان صاف ہوگیا۔

30187

(۳۰۱۸۸) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَن شُعْبَۃَ ، عَن مَنْصُورٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ یَسَارٍ ، عَن حُذَیْفَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لاَ تَقُولُوا : مَا شَائَ اللَّہُ وَشَائَ فُلانٌ ، وَلَکِنْ قُولُوا : مَا شَائَ اللَّہُ ، ثُمَّ شَائَ فُلانٌ۔
(٣٠١٨٨) حضرت حذیفہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : تم یوں مت کہا کرو کہ جو اللہ نے چاہا اور فلاں نے چاہا، لیکن یوں کہا کرو : جو اللہ نے چاہا اور پھر فلاں نے چاہا۔

30188

(۳۰۱۸۹) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَنِ الأَجْلَحِ ، عَن یَزَیْدَ بْنِ الأَصَمِّ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سَمِعَ رَجُلاً یَقُولُ : مَا شَائَ اللَّہُ وَشَائَ فُلانٌ ، فَقَالَ : جَعَلْتنِی لِلَّہِ عَدْلا ، قُلْ : مَا شَائَ اللَّہُ۔
(٣٠١٨٩) حضرت عبداللہ بن عباس فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک شخص کو یوں کہتے ہوئے سنا : جو اللہ نے چاہا اور فلاں نے چاہا، پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : تو نے مجھے اللہ کے برابر بنادیا ! تو یوں کہہ : جو کچھ اللہ نے چاہا۔

30189

(۳۰۱۹۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، حَدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِیزِ بْنِ رُفَیْعٍ ، عَن تَمِیمِ بْنِ طَرَفَۃَ الطَّائِیِّ ، عَنْ عَدِیِّ بْنِ حَاتِمٍ ، أَنَّ رَجُلاً خَطَبَ عِنْدَ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ : مَنْ یُطِعِ اللَّہَ وَرَسُولَہُ ، فَقَدْ رَشَدَ ، وَمَنْ یَعْصِہِمَا ، فَقَدْ غَوَی ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : بِئْسَ الْخَطِیبُ أَنْتَ ، قُلْ : وَمَنْ یَعْصِ اللَّہَ وَرَسُولَہُ۔ (مسلم ۵۹۴۔ ابوداؤد ۱۰۹۲)
(٣٠١٩٠) حضرت عدی بن حاتم فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس خطاب کیا پس وہ کہنے لگا : جس شخص نے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت و فرمان برداری کی، تحقیق وہ ہدایت پا گیا، اور جس شخص نے ان دونوں کی نافرمانی کی تحقیق وہ گمراہ ہوگیا۔ تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : تو بُرا خطیب ہے، یوں کہہ : جس شخص نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی۔

30190

(۳۰۱۹۱) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِِ، عَن مُغِیرَۃَ، عَنْ إبْرَاہِیمَ، قَالَ: خَطَبَ رَجُلٌ عِنْدَ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: مَنْ یُطِعَ اللَّہَ وَرَسُولَہُ ، فَقَدْ رَشَدَ ، وَمَنْ یَعْصِہِمَا ، فَقَدْ غَوَی ، قَالَ : فَتَغَیَّرَ وَجْہُ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَکَرِہَ ذَلِکَ، فَقَالَ: إبْرَاہِیمُ: فَکَانُوا یَکْرَہُونَ أَنْ یَقُولَ: وَمَنْ یَعْصِہِمَا، وَلَکِنْ یَقُولُ: مَنْ یَعْصِ اللَّہَ وَرَسُولَہُ۔
(٣٠١٩١) حضرت ابراہیم نخعی فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس خطاب کیا پس وہ کہنے لگا : جس شخص نے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کی پس وہ ہدایت پا گیا۔ اور جس شخص نے ان دونوں کی نافرمانی کی پس وہ گمراہ ہوگیا۔ راوی فرماتے ہیں کہ : پس نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چہرے کا رنگ متغیر ہوگیا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو ناپسند فرمایا : راوی کہتے ہیں : کہ حضرت ابراہیم نخعی نے ارشاد فرمایا : پس صحابہ ناپسند کرتے تھے کہ کوئی یوں کہے : اور جس شخص نے ان دونوں کی نافرمانی کی۔ لیکن یوں کہہ سکتا ہے : اور جس شخص نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی۔

30191

(۳۰۱۹۲) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِِ ، عَنْ أَبِی حَمْزَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، عَنِ الأَسْوَدِ ، عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَنْ دَعَا عَلَی مَنْ ظَلَمَہُ ، فَقَدِ انْتَصَرَ۔ (ترمذی ۳۵۵۲۔ ابویعلی ۴۴۳۷)
(٣٠١٩٢) حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جس شخص نے خود پر ظلم کرنے والے کے خلاف بد دعا کی تو وہ ظلم سے محفوظ ہوجاتا ہے۔

30192

(۳۰۱۹۳) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَن حَبِیبٍ ، عَنْ عَطَائٍ ، عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ : سَرَقَہَا سَارِقٌ فَدَعَتْ عَلَیْہِ ، فَقَالَ : لَہَا النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لاَ تُسَبِّخِی عَنْہُ۔ (ابوداؤد ۱۴۹۲۔ احمد ۱۳۶)
(٣٠١٩٣) حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ کسی چور نے ان کی کوئی چیز چوری کی ۔ پس انھوں نے اس کے لیے بد دعا کی۔ تو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے ارشاد فرمایا : تو اس سے اس کے گناہ کو ہلکا مت کر۔

30193

(۳۰۱۹۴) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَن حَجَّاجٍ ، عَن عُثْمَانَ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ مُوہِبٍ ، عَن مُوسَی بْنِ طَلْحَۃَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : کَلِمَاتٌ إذَا قَالَہُنَّ الْعَبْدُ وَضَعَہُنَّ مَلَکُ فی جَنَاحِہِ ، ثُمَّ عَرَجَ بِہِنَّ فَلا یَمُرُّ عَلَی مَلأٍ مِنَ الْمَلائِکَۃِ إِلاَّ صَلَّوْا عَلَیْہِنَّ وَعَلَی قَائِلِہِنَّ حَتَّی یُوضَعن بَیْنَ یَدَیِ الرَّحْمَن : سُبْحَانَ اللہِ ، وَالْحَمْدُ لِلَّہِ ، وَلا إلَہَ إِلاَّ اللَّہُ وَاللَّہُ أَکْبَرُ ، وَلا حَوْلَ وَلا قُوَّۃَ إِلاَّ بِاللہِ وَسُبْحَانَ اللہِ أنزاہ اللَّہُ عَنِ السُّوئِ۔ (طبرانی ۶۷۴۱)
(٣٠١٩٤) حضرت موسیٰ بن طلحہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : کچھ کلمات ایسے ہیں کہ جب کوئی بندہ ان کلمات کو پڑھتا ہے تو فرشتہ ان کلمات کو اپنے پروں میں رکھتا ہے، پھر ان کلمات کو اوپر لے جاتا ہے۔ پس وہ فرشتوں کے کسی بھی گروہ پر نہیں گزرتا مگر یہ کہ وہ ان کلمات پر اور ان کے کہنے والے پر رحمت کی دعا کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ یہ کلمات رحمن کے سامنے رکھ دیے جاتے ہیں : وہ کلمات یہ ہیں : اللہ سب عیبوں سے پاک ہے، اور سب تعریفیں اللہ کے لیے ہیں، اور اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، اور اللہ سب سے بڑا ہے۔ گناہوں سے بچنے کی طاقت اور نیکی کرنے کی ہمت صرف اللہ کی مدد سے ہے۔ اور اللہ پاک ہے۔ یعنی اللہ تمام برائیوں سے پاک ہے۔

30194

(۳۰۱۹۵) حَدَّثَنَا عَبِیْدَۃُ بْنُ حُمَیْدٍ ، عَن حُصَیْنٍ ، قَالَ : الْتَقَی إبْرَاہِیمُ ، وَمُجَاہِدٌ فَقَالا : جَائَ أَعْرَابِیٌّ إِلَی النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَشَکَا إلَیْہِ الْجُوعَ ، قَالَ : فَدَخَلَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِلَی بُیُوتِہِ ، ثُمَّ خَرَجَ فَقَالَ : مَا وَجَدْت لَکَ فِی بُیُوتِ آلِ مُحَمَّدٍ شَیْئًا ، قَالَ : فَبَیْنَمَا ہُوَ کَذَلِکَ إذْ جَائَتْہُ شَاۃٌ مَصْلِیَّۃٌ ، وَقَالَ الآخَرُ جَائَتْہُ قَصْعَۃٌ مِنْ ثَرِیدٍ ، فَوُضِعَتْ بَیْنَ یَدَیَ الأَعْرَابِی ، فَقَالَ لہ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : اطْعَمْ ، قَالَ : فَأَکَلَ ، فَقَالَ : یَا رَسُولَ اللہِ أَصَابَنِی الَّذِی أَصَابَنِی ، فَرَزَقَنِی اللَّہُ عَلَی یَدَیْک ، أَفَرَأَیْت إِنْ أَصَابَنِی ، وَأَنَا لَسْت عِنْدَکَ ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : قُلِ : اللَّہُمَّ إنِّی أَسْأَلُک مِنْ فَضْلِکَ وَرَحْمَتِکَ ، فَإِنَّہُ لاَ یَمْلِکُہُمَا إِلاَّ أَنْتَ ، فَإِنَّ اللَّہَ رَازِقُک۔ (طبرانی ۱۰۳۷۹)
(٣٠١٩٥) حضرت حصین سے روایت ہے کہ حضرت ابراہیم اور حضرت مجاہد کی ملاقات ہوئی تو ان دونوں نے فرمایا کہ ایک دیہاتی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اس نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بھوک کی شکایت کی۔ راوی فرماتے ہیں۔ پس نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے گھروں میں داخل ہوئے پھر نکلے۔ اور فرمایا : میں نے تیرے لیے آل محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گھروں میں کوئی چیز نہیں پائی، راوی فرماتے ہیں ، اس درمیان ہی اچانک ایک بھونی ہوئی بکری کا بچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں لایا گیا۔ اور دوسرے راوی فرماتے ہیں ! کہ ثرید کا ایک پیالہ لایا گیا۔ پس اس کو دیہاتی کے سامنے رکھ دیا گیا۔ تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے ارشاد فرمایا : تم کھاؤ ، راوی فرماتے ہیں ! پس اس نے کھالیا، پھر کہنے لگا اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! مجھے جو مصیبت پہنچی تھی وہ پہنچ چکی۔ پھر اللہ نے مجھے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاتھوں رزق عطا فرمایا، پس آپ کی کیا رائے ہے کہ اگر مجھے پھر بھوک آ لے اور میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس نہ ہوں ؟ تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : تم یہ کلمات پڑھنا : اے اللہ ! میں آپ سے آپ کے فضل کا سوال کرتا ہوں اور آپ کی رحمت کا ۔ یقیناً آپ کے سوا اس کا کوئی مالک نہیں ہے۔ پس یقیناً اللہ ہی تجھ کو رزق دینے والا ہے۔

30195

(۳۰۱۹۶) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَیْدٍ ، حَدَّثَنَا وَائِلُ بْنُ دَاوُد ، قَالَ : سَمِعْتُ الْحَسَنَ الْبَصْرِیَّ یُحَدِّثُ ، قَالَ : بَیْنَمَا رَجُلٌ رَأَی فِی الْمَنَامِ ، أَنَّ مُنَادِیًا یُنَادِی فِی السَّمَائِ ، أَیُّہَا النَّاسُ ، خُذُوا سِلاحَ فَزَعِکُمْ ، فَعَمَدَ النَّاسُ فَأَخَذُوا السِّلاحَ حَتَّی إنَّ الرَّجُلَ یَجِیئُ، وَمَا مَعَہُ عَصًا ، فَنَادَی مُنَادٍ مِنَ السَّمَائِ : لَیْسَ ہَذَا سِلاحَ فَزَعِکُمْ، فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ أَہْلِ الأَرْضِ: مَا سِلاحُ فَزَعِنَا ، فَقَالَ : سُبْحَانَ اللہِ وَالْحَمْدُ لِلَّہِ ، وَلا إلَہَ إِلاَّ اللَّہُ وَاللَّہُ أَکْبَرُ۔
(٣٠١٩٦) حضرت وائل بن داؤد فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت حسن بصری کو یوں بیان کرتے ہوئے سنا ہے کہ ہمارے درمیان ایک آدمی تھا جس نے خواب میں دیکھا کہ ایک منادی نے آسمان میں یہ ندا لگائی۔ اے لوگو ! تم اپنے خوف و گھبراہٹ کے لیے ہیام ر پکڑ لو۔ پھر لوگوں نے ارادہ کیا اور ہتھیار پکڑ لیے۔ یہاں تک کہ ایک آدمی آیا اس کے پاس لاٹھی تک نہیں تھی۔ پھر آسمان سے ایک منادی نے آواز لگائی : یہ تمہاری گھبراہٹ کے ہتھیار نہیں ہیں۔ تو اہل زمین میں سے ایک شخص نے پوچھا : ہماری گھبراہٹ کے ہتھیار کیا ہیں ؟ تو اس نے کہا : یہ کلمات ہیں ، اللہ تمام عیوب سے پاک ہے، اور سب تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں۔ اور اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔ اور اللہ سب سے بڑا ہے۔

30196

(۳۰۱۹۷) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ عَدِیِّ بْنِ ثَابِتٍ عَن سُلَیْمَانَ بْنِ صُرَدٍ ، أَنَّ رَجُلَیْنِ تَلاحَیَا فَاشْتَدَّ غَضَبُ أَحَدِہِمَا ، فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إنِّی لأعْرِفُ کَلِمَۃً لَوْ قَالَہَا ذَہَبَ غَضَبُہُ : أَعُوذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیمِ۔ (مسلم ۲۰۱۵۔ نسائی ۱۰۲۲۴)
(٣٠١٩٧) حضرت سلمان بن صرد فرماتے ہیں کہ دو آدمیوں نے جھگڑا کیا۔ پھر ان میں سے ایک کا غصہ تیز ہوگیا۔ تو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : میں ایک ایسا کلمہ جانتا ہوں اگر یہ اس کلمہ کو پڑھ لے تو اس کا غصہ ختم ہوجائے۔ وہ کلمہ یہ ہے : میں شیطان مردود سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں۔

30197

(۳۰۱۹۸) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَن زَائِدَۃَ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ عُمَیْرٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِی لَیْلَی ، عَن مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ ، قَالَ : اسْتَبَّ رَجُلانِ عِنْدَ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَغَضِبَ أَحَدُہُمَا غَضَبًا شَدِیدًا حَتَّی إنِّی لَیُخَیَّلُ إلَیَّ أَنَّ أَنْفَہُ تَمَزَّعَ ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إنِّی لأَعْرِفُ کَلِمَۃً لَوْ قَالَہَا ہَذَا الْغَضْبَانُ ذَہَبَ غَضَبُہُ : أَعُوذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطَانِ۔
(٣٠١٩٨) حضرت معاذ بن جبل فرماتے ہیں کہ دو آدمیوں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس سب و شتم کیا۔ پس ان دونوں میں سے ایک کو بہت سخت غصہ آگیا۔ یہاں تک کہ مجھے خیال ہوا کہ غصہ میں اس کی ناک بپھر گئی ہے ! رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : میں ایک ایسا کلمہ جانتا ہوں اگر یہ غصہ والا اس کلمہ کو پڑھ لے تو اس کا غصہ ختم ہوجائے گا، وہ کلمہ یہ ہے : میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں شیطان سے۔

30198

(۳۰۱۹۹) حَدَّثَنَا قُرَادٌ أَبُو نُوحٍ حَدَّثَنَا عِکْرِمَۃُ بْنُ عَمَّارٍ حَدَّثَنَا سِمَاکٌ الْحَنَفِیُّ ، قَالَ أَبُو زَمِیلٍ حَدَّثَنِی ابْنُ عَبَّاسٍ ، قَالَ : حدَّثَنِی عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ ، قَالَ : لَمَّا کَانَ یَوْمُ بَدْرٍ اسْتَقْبَلَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْقِبْلَۃَ ، ثُمَّ مَدَّ یَدَیْہِ ثُمَّ قَالَ : اللَّہُمَّ أَنْجِزْ لِی مَا وَعَدْتنِی ، اللَّہُمَّ ائْتِنِی مَا وَعَدْتنِی ، اللَّہُمَّ إنَّک إِنْ تُہْلِکْ ہَذِہِ الْعِصَابَۃَ مِنْ أَہْلِ الإِسْلامِ فَلا تُعْبَدْ فِی الأَرْضِ أَبَدًا ، فَمَا زَالَ یَسْتَغِیثُ رَبَّہُ وَیَدْعُو حَتَّی سَقَطَ رِدَاؤُہُ ، فَأَنْزَلَ اللَّہُ عَزَّ وَجَلَّ : {إذْ تَسْتَغِیثُونَ رَبَّکُمْ فَاسْتَجَابَ لَکُمْ أَنِّی مُمِدُّکُمْ بِأَلْفٍ مِنَ الْمَلائِکَۃِ مُرْدِفِینَ}۔ (مسلم ۱۳۸۳۔ ترمذی ۳۰۸۱)
(٣٠١٩٩) حضرت عبداللہ بن عباس فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب نے مجھے بیان کیا : غزوہ بدر کے دن نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قبلہ رخ ہوئے، اپنے ہاتھ پھیلائے اور یہ دعا مانگی : اے اللہ ! جو تو نے مجھ سے وعدہ کیا ہے تو وہ مجھے عطا فرما۔ اے اللہ ! اگر آپ نے اہل اسلام کی اس جماعت کو ہلاک کردیا۔ تو پھر کبھی بھی زمین میں تیری عبادت نہیں کی جائے گی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مسلسل اپنے رب سے فریاد کرتے رہے، اور اس سے دعا مانگتے رہے ، یہاں تک کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی چار زمین پر گرگئی ۔ تو پھر اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی : ترجمہ : جب تم فریاد کر رہے تھے اپنے رب سے تو اس نے تمہاری فریاد سن لی ، (اور فرمایا ہے) بیشک میں مدد دوں گا تمہیں ایک ہزار فرشتوں سے جو ایک دوسرے کے پیچھے لگاتار آتے جائیں گے۔

30199

(۳۰۲۰۰) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَن حُمَیْدٍ ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ : کَانَ من دعاء النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَوْمَ حُنَیْنٍ : اللَّہُمَّ إنَّک إِنْ تَشَأْ لاَ تُعْبَدْ بَعْدَ الْیَوْمِ۔ (مسلم ۱۳۶۳۔ احمد ۱۲۱)
(٣٠٢٠٠) حضرت انس فرماتے ہیں کہ غزوہ حنین کے دن حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعا یوں تھی : اے اللہ ! اگر تو چاہے کہ آج کے دن کے بعد تیری عبادت نہ کی جائے۔ ( لہٰذا مدد فرما)

30200

(۳۰۲۰۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ حَدَّثَنَا عِمْرَانَ بْنِ حُدَیْرٍ ، عَنْ أَبِی مِجْلَزٍ ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ إذَا لَقِیَ الْعَدُوَّ ، قَالَ : اللَّہُمَّ أَنْتَ عَضُدِی وَنَصِیرِی ، بِکَ أُحَاوِلُ وَبِکَ أَصُولُ وَبِکَ أُقَاتِلُ۔ (ابوداؤد ۲۶۲۵۔ ترمذی ۳۵۸۴)
(٣٠٢٠١) حضرت ابو مجلز فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جب کسی دشمن سے ملاقات ہوتی تو یوں دعا فرماتے : اے اللہ ! تو میرا بازو ہے اور میرا مدد گار ہے، تیری مدد سے میں تدبیر کروں گا، اور تیری مدد سے میں حملہ کروں گا اور تیری مدد سے میں قتال کروں گا۔

30201

(۳۰۲۰۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حَدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ بْنُ أَبِی خَالِدٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ ابْنَ أَبِی أَوْفَی یَقُولُ : دَعَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَی الأَحْزَابِ فَقَالَ : اللَّہُمَّ مُنْزِلَ الْکِتَابِ ، سَرِیعَ الْحِسَابِ ، ہَازِمَ الأَحْزَابِ ، اہْزِمْہُمْ وَزَلْزِلْہُمْ۔ (بخاری ۶۳۹۲۔ مسلم ۱۳۶۳)
(٣٠٢٠٢) حضرت ابن ابی اوفی فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے احزاب کے موقع پر یوں بد دعا فرمائی۔ اے اللہ ! کتاب کے نازل کرنے والے، حساب میں جلدی کرنے والے، گروہوں کو شکست سے دوچار کرنے والے، تو ان کو شکست سے دوچار کر دے، اور ان کے قدموں کو لڑکھڑا دے۔

30202

(۳۰۲۰۳) حَدَّثَنَا أَسْبَاطُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، عَن مُطَرِّفٍ ، عَنْ عَطِیَّۃَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ فِی قولہ تعالی : {فَإِذَا نُقِرَ فِی النَّاقُورِ} قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : کَیْفَ أَنْعَمُ وَصَاحِبُ الْقَرْنِ قَدِ الْتَقَمَ الْقَرْنَ وَحَنَی جَبْہَتَہُ یَسْتمِعُ مَتَی یُؤْمَرُ ، فَیَنْفُخُ ، فَقَالَ أَصْحَابُ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : کَیْفَ نَقُولُ ؟ قَالَ : قُولُوا : {حَسْبُنَا اللَّہُ وَنِعْمَ الْوَکِیلُ} عَلَی اللہِ تَوَکَّلْنَا۔ (طبرانی ۱۲۶۷۰)
(٣٠٢٠٣) حضرت ابن عباس اللہ تعالیٰ کے اس قول ” پس جب پھونک ماری جائے گی صور میں “ ، فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : میں کیسے خوش رہوں ؟ حالانکہ صور والے نے صور کو منہ میں ڈال لیا ہے، اور اپنی پیشانی موڑ لی ہے، غور سے سن رہا ہے کہ کب حکم دیا جائے کہ صور پھونک دو ؟ ! تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ نے فرمایا : تو ہم کیسے دعا مانگیں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : تم یہ کلمات پڑھا کرو، ہمیں اللہ کافی ہے، اور وہ اچھا کارساز ہے، اور ہم نے اللہ پر ہی بھروسہ کیا۔

30203

(۳۰۲۰۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن زَکَرِیَّا ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو ، قَالَ : لَمَّا أُلْقِیَ إبْرَاہِیمُ عَلَیْہِ السَّلامُ فِی النَّارِ ، قَالَ : حَسْبُنَا اللَّہُ وَنِعْمَ الْوَکِیلُ۔
(٣٠٢٠٤) حضرت شعبی فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمرو نے ارشاد فرمایا : کہ جب حضرت ابراہیم کو آگ میں ڈالا گیا تو انھوں نے یہ کلمات پڑھے : ہمیں اللہ کافی ہے اور وہ اچھا سازگار ہے۔

30204

(۳۰۲۰۵) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ أَبِی سِنَانٍ ، عَن سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ، قَالَ : التَّوَکُّلُ عَلَی اللہِ جِمَاعُ الإِیمَانِ۔
(٣٠٢٠٥) حضرت ابو سنان فرماتے ہیں کہ حضرت سعید بن جبیر نے ارشاد فرمایا : اللہ پر بھروسہ کرنا ایمان کی بنیاد ہے۔

30205

(۳۰۲۰۶) حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ بْنُ مُوسَی ، عَن مُوسَی بْنِ عُبَیْدَۃَ ، عَن مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَطَائٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : سَلِ اللَّہَ لِی الْوَسِیلَۃَ لاَ یَسْأَلُہَا لِی مُؤْمِنٌ فِی الدُّنْیَا إِلاَّ کُنْت لَہُ شَہِیدًا ، أَوْ شَفِیعًا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ۔ (بخاری ۶۱۴۔ ابوداؤد ۵۳۰)
(٣٠٢٠٦) حضرت عبداللہ بن عباس فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : تم لوگ اللہ سے میرے لیے وسیلہ مانگو۔ کوئی بھی مومن دنیا میں میرے لیے اس کا سوال نہیں کرتا مگر یہ کہ قیامت کے دن میں اس کا گواہ یا سفارشی بنوں گا۔

30206

(۳۰۲۰۷) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنِ الْجُرَیْرِیِّ ، عَنْ أَبِی الْعَلائِ ، عَن عُثْمَانَ بْنِ أَبِی الْعَاصِ ، أَنَّہُ أتَی رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ : یَا رَسُولَ اللہِ ، إنَّ الشَّیْطَانَ حَالَ بَیْنَ صَلاتِی وَقِرَائَتِی ، فَقَالَ : ذَاکَ شَیْطَانٌ یُقَالُ لَہُ : خَنْزَبُ فَإِذَا أَحْسَسْت بِہِ فَاتْفُلْ عَلَی یَسَارِکَ ثَلاثًا وَتَعَوَّذْ بِاللہِ مِنْ شَرِّہِ
(٣٠٢٠٧) حضرت عثمان بن ابی العاص فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا میں نے عرض کیاَ : اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! یقیناً شیطان میری نماز اور تلاوت کے درمیان حائل ہوگیا ! تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : یہ شیطان ہے جس کو خنزب کہا جاتا ہے۔ پس جب بھی تو اس کو محسوس کرے تو اپنے بائیں جانب تین مرتبہ تھوک دے۔ اور اللہ کی پناہ مانگ اس کے شر سے۔

30207

(۳۰۲۰۸) حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُوسَی ، أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَنْ أَبِی جَعْفَرٍ الْخِطْمِیِّ ، عَن مُحَمَّدِ بْنِ کَعْبٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ یَزِیدَ الْخِطْمِیِّ ، أَنَّہُ کَانَ یَقُولُ : اللَّہُمَّ ارْزُقْنِی حُبَّک وَحُبَّ مَنْ یَنْفَعُنِی حُبُّہُ عِنْدَکَ ، اللَّہُمَّ وَارْزُقْنِی مَا أُحِبُّ وَاجْعَلْہُ قُوَّۃً لِی فِیمَا تُحِبُّ ، وَمَا زَوَیْت عَنِّی مِمَّا أُحِبُّ فَاجْعَلْہُ لِی فَرَاغًا فِیمَا تُحِبُّ۔
(٣٠٢٠٨) حضرت محمد بن کعب فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن یزید الخطمی یوں دعا فرمایا کرتے تھے : اے اللہ ! تو مجھے اپنی محبت سے نواز دے۔ اور اس شخص کی محبت سے جس کی محبت مجھے تیرے نزدیک نفع پہنچائے۔ اے اللہ ! تو مجھے عطا فرما وہ چیز جسے میں پسند کرتا ہوں۔ اور تو مجھ میں قوت دے اس چیز کے بارے میں جسے تو پسند کرتا ہے اور میری محبوب چیزوں میں سے جو تو نے مجھ سے دور کی ہیں ان کے بدلے میرے دل کو ان چیزوں میں لگا دے جو تجھے محبوب ہیں۔

30208

(۳۰۲۰۹) حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ عَوَّامٍ ، عَن حُصَیْنٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : کَانَ مِنَّا رَجُلٌ یُقَالُ لَہُ ہَمَّامُ بْنُ الْحَارِثِ ، وَکَانَ لاَ یَنَامُ إِلاَّ قَاعِدًا فِی مَسْجِدِہِ فِی صَلاتِہِ ، وَکَانَ یَقُولُ : اللَّہُمَّ اشْفِنِی مِنَ النَّوْمِ بِیَسِیرٍ وَارْزُقْنِی سَہَرًا فِی طَاعَتِک۔
(٣٠٢٠٩) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ ہم میں ایک آدمی تھا جس کا نام حارث بن ھمام تھا۔ وہ نہیں سوتا تھا مگر مسجد میں تھوڑی دیر بیٹھ کر نماز کے حالت میں ، اور یوں دعا کیا کرتا تھا : اے اللہ ! تو مجھے تھوڑی سی ہی نیند کے ذریعہ شفا دے، اور مجھے اپنی فرمان برداری میں جاگنا عطا فرما۔

30209

(۳۰۲۱۰) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، وَأَبُو أُسَامَۃَ ، عَن مِسْعَرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا زِیَادُ بْنُ عِلاقَۃَ ، عَنْ عَمِّہِ قُطْبَۃَ بْنِ مَالِکٍ، أَنَّہُ کَانَ یَقُولُ اللَّہُمَّ جَنِّبْنِی مُنْکَرَاتِ الأَعْمَالِ وَالأَخْلاقِ وَالأَہْوَائِ وَالأَدْوَائِ۔
(٣٠٢١٠) حضرت زیادہ بن علاقہ فرماتے ہیں کہ ان کے چچا حضرت قطبہ بن مالک یوں دعا فرمایا کرتے تھے : اے اللہ ! تو مجھے محفوظ رکھ برے اعمال سے اور برے اخلاق سے ، اور بری خواہشات سے اور بیماریوں سے۔

30210

(۳۰۲۱۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن مِسْعَرٍ ، عَنِ الْہَیْثَمِ عَن طَلْحَۃَ ، عَن مُجَاہِدٍ ، قَالَ : کَانَ یَتَعَوَّذُ مِنَ الأَسَدِ وَالأَسْوَدِ وَرُوحِ الأَذَی۔
(٣٠٢١١) حضرت طلحہ فرماتے ہیں کہ حضرت مجاہد پناہ مانگا کرتے تھے شیر سے، اور خطرناک سانپ سے اور نفس کی تکلیف سے۔

30211

(۳۰۲۱۲) حَدَّثَنَا عَبِیْدَۃُ بْنُ حُمَیْدٍ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَن طَلْحَۃَ الْیَامِیِّ ، عَنْ أَبِی إدْرِیسَ رَجُلٌ مِنْ أَہْلِ الْیَمَنِ قَالَ : کَانَ یَقُولُ : اللَّہُمَّ اجْعَلْ نَظَرِی عِبَرًا وَصَمْتِی تَفَکُّرًا وَمَنْطِقِی ذِکْرًا۔
(٣٠٢١٢) حضرت طلحہ الیامی فرماتے ہیں کہ حضرت ابو ادریس جو کہ اہل یمن مں اسے ہیں وہ یوں دعا فرمایا کرتے تھے : اے اللہ ! میری آنکھ کو رونے والا بنا دے اور میری خاموشی کو سوچنے والا بنا دے اور میرے بولنے کو ذکر میں بدل دے۔

30212

(۳۰۲۱۳) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ الثَّقَفِیُّ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنْ أَبِی قِلابَۃَ ، أَنَّہُ قَالَ فِی دُعَائِہِ : اللَّہُمَّ إنِّی أَسْأَلُک الطَّیِّبَاتِ وَتَرْکَ الْمُنْکَرَاتِ وَحُبَّ الْمَسَاکِینِ وَأَنْ تَتُوبَ عَلَی ، وَإِذَا أَرَدْت بِعِبَادِکَ فِتْنَۃً فَتَوَفَّنِی غَیْرَ مَفْتُونٍ۔
(٣٠٢١٣) حضرت ایوب فرماتے ہیں کہ حضرت ابو قلابہ نے اپنی دعا میں یہ کلمات کہے : اے اللہ ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں پاکیزہ چیزوں کا، اور برائیوں کے چھوڑنے کا، اور مسکینوں کی محبت کا اور یہ کہ تو میری توبہ قبول کرلے، اور جب تو اپنے بندوں کو فتنہ میں مبتلا کرنے کا ارادہ کرے تو مجھے فتنہ میں مبتلا کے بغیر ہی موت دے دینا۔

30213

(۳۰۲۱۴) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، حَدَّثَنَا مُوسَی بْنُ مُسْلِمٍ الطَّحَّانُ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَابِطٍ ، قَالَ : کَانَ نَفَرٌ مُتَوَاخِینَ ، قَالَ : فَفَقَدُوا رَجُلاً مِنْہُمْ أَیَّامًا ، ثُمَّ أَتَاہُمْ فَقَالُوا : أَیْنَ کُنْت ؟ فَقَالَ : دَیْنٌ کَانَ عَلَیَّ فَقَالَ : ہَلاَّ دَعَوْت بہَؤُلائِ الدَّعَوَاتِ : اللَّہُمَّ مُنَفِّسَ کُلِّ کَرْبٍ وَفَارِجَ کُلِّ ہَمٍّ وَکَاشِفَ کُلِّ غَمٍّ وَمُجِیبَ دَعْوَۃِ الْمُضْطَرِّینَ رَحْمَنَ الدُّنْیَا وَالآخِرَۃِ وَرَحِیمَہُمَا ، أَنْتَ رَحْمَانِی فَارْحَمْنِی یَا رَحْمَنُ رَحْمَۃً تُغْنِینِی بِہَا عَن رَحْمَۃِ مَنْ سِوَاک۔
(٣٠٢١٤) حضرت عبد الرحمن بن سابط فرماتے ہیں کہ کچھ لوگ آپس میں بھائی بھائی بن گئے تھے، راوی کہتے ہیں : پھر ان لوگوں نے اپنے ایک ساتھی کو کچھ دن گم پایا پھر وہ واپس آگیا، انھوں نے پوچھا : تم کہاں تھے ؟ پس وہ کہنے لگا ! مجھ پر قرض تھا ۔ تو ایک شخص نے کہا : تم نے ان کلمات کے ذریعہ دعا کیوں نہ مانگی ؟ اے اللہ ! غموں کے دور کرنے والے، اور مصیبت کے دور کرنے والے، اور ہر غم کو ہٹانے والے ، اور مجبوروں کی پکار کا جواب دینے والے، دنیا اور آخرت کے رحمن، اور ان دونوں کے رحیم، تو ہی میرا رحمن ہے، پس مجھ پر رحم فرما، اے رحمن ! ایسی رحمت کہ جس کے ذریعہ میں تیرے علاوہ کی رحمت سے بےنیاز ہو جاؤں !

30214

(۳۰۲۱۵) حَدَّثَنَا عَبِیْدَۃُ بْنُ حُمَیْدٍ ، عَن دَاوُد ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : دَخَلْنَا عَلَی رَبِیعِ بْنِ خُثَیْمٍ ، فَدَعَا بِہَذِہِ الدَّعَوَاتِ : اللَّہُمَّ لَکَ الْحَمْدُ کُلُّہُ وَبِیَدِکَ الْخَیْرُ کُلُّہُ ، وَإِلَیْک یَرْجِعُ الأَمْرُ کُلُّہُ ، وَأَنْتَ إلَہُ الْخَلْقِ کُلِّہِ ، نَسْأَلُک مِنَ الْخَیْرِ کُلِّہِ ، وَنَعُوذُ بِکَ مِنَ الشَّرِّ کُلِّہِ۔
(٣٠٢١٥) حضرت شعبی فرماتے ہیں کہ ہم لوگ حضرت ربیع بن خثیم پر داخل ہوئے تو انھوں نے ان کلمات کے ساتھ دعا مانگی ۔ اے اللہ ! تمام کی تمام تعریفیں تیرے ہی لیے ہیں۔ اور تمام بھلائیاں تیرے ہی قبضہ میں ہیں، اور تیری طرف ہی تمام معاملات لوٹتے ہیں، اور تو ہی تمام مخلوق کا معبود ہے، ہم تجھ سے تمام بھلائیوں کا سوال کرتے ہیں، اور ہم تیری ہی پناہ مانگتے ہیں تمام شرور سے۔

30215

(۳۰۲۱۶) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، أَخْبَرَنَا عَلِیُّ بْنُ مَسْعَدَۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ الرُّومِیِّ ، قَالَ : کُنَّا عنْدَ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ فَقَالَ لَہُ رَجُلٌ : یَا أَبَا حَمْزَۃَ ، إنَّ إخْوَانَک یُحِبُّونَ أَنْ تَدْعُوَ لَہُمْ ، فَقَالَ : اللَّہُمَّ اغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا وَآتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَفِی الآخِرَۃِ حَسَنَۃً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ ، قَالُوا : زِدْنَا یَا أَبَا حَمْزَۃَ ، فَرَدَّہَا عَلَیْہِمْ ، قَالُوا : زِدْنَا یَا أَبَا حَمْزَۃَ ، قَالَ : حَسْبُنَا اللَّہُ یَا أَبَا فُلانٍ ، إِنْ أُعْطِینَاہَا ، فَقَدْ أُعْطِینَا خَیْرَ الدُّنْیَا وَالآخِرَۃِ۔
(٣٠٢١٦) حضرت عبداللہ الرومی فرماتے ہیں کہ ہم لوگ حضرت انس بن مالک کے پاس تھے۔ تو ایک آدمی ان سے کہنے لگا : اے ابو حمزہ ! یقیناً آپ کے بھائی پسند کرتے ہیں کہ آپ ان کے لیے دعا فرمائیں : تو آپ نے یوں دعا فرمائی ! اے اللہ ! تو ہماری مغفرت فرما۔ اور ہم پر رحم فرما، اور ہمیں دنیا میں بھلائی عطا فرما، اور ہمیں آخرت میں بھلائی عطا فرما اور ہمیں جہنم کے عذاب سے محفوظ فرما ان لوگوں نے عرض کیا : اے ابوحمزہ ! ہمارے لیے مزید دعا کیجیے : تو انھوں نے دوبارہ یہی دعا فرمائی : ان لوگوں نے عرض کیا : اے ابو حمزہ ہمارے لیے مزید دعا کیجیے، تو آپ نے فرمایا : اے ابو فلاں ہمیں اللہ کافی ہے، اگر ہمیں یہ سب کچھ عطا کردیا گیا تو ہمیں دنیا اور آخرت کی بھلائی دے دی گئی۔

30216

(۳۰۲۱۷) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ ، عَن لَیْثٍ ، عَن مُجَاہِدٍ ، عَن تُبَیْعٍ ، عَن کَعْبٍ ، قَالَ : لَوْلا کَلِمَاتٌ أَقُولُہُنَّ لَجَعَلَتْنِی الْیَہُودُ أَصِیحُ مَعَ الْحُمْرِ النَّاہِقَۃِ وَأَعْوِی مَعَ الْکِلابِ الْعَاوِیَۃِ ، أَعُوذُ بِوَجْہِکَ الْکَرِیمِ وَبِاسْمِکَ الْعَظِیمِ وَبِکَلِمَاتِکَ التَّامَّۃِ الَّتِی لاَ یُجَاوِزُہُنَّ بَرٌّ ، وَلا فَاجِرٌ ، الَّذِی لاَ یَخْفِرُ جَارُہُ مِنْ شَرِّ مَا یَنْزِلُ مِنَ السَّمَائِ ، وَمَا یَعْرُجُ فِیہَا ، وَمِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ وَذَرَأَ وَبَرَأَ۔
(٣٠٢١٧) حضرت تبیع فرماتے ہیں کہ حضرت کعب نے ارشاد فرمایا : اگر یہ کلمات نہ ہوتے جن کو میں پڑھتا ہوں تو یہود مجھے ایسا بنا دیتے کہ میں چیخنے والے گدھوں کے ساتھ چیختا اور بھونکنے والے کتوں کے ساتھ میں بھونکتا : وہ کلمات یہ ہیں، میں پناہ مانگتا ہوں تیرے اس معزز چہرے کی، اور تیرے عظیم نام کی، اور تیرے مکمل کلمات کی جن سے کوئی نیک اور بدکار تجاوز نہیں کرسکتا ، اور جس کے پڑوسی کو پناہ نہیں دی جاتی، ہر اس چیز کے شر سے جو آسمان سے اترتی ہے اور جو چیز آسمان میں بلند ہوتی ہے۔ اور اس چیز کے شر سے جس کو اس نے تخلقر کیا، وجود بخشا اور پیدا کیا۔

30217

(۳۰۲۱۸) حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ ، عَنْ أَبِی الْعُمَیْسِ ، عَنْ عَوْنٍ ، قَالَ : قالَتْ أَسْمَائُ بِنْتُ أَبِی بَکْرٍ : مَنْ قَرَأَ بَعْدَ الْجُمُعَۃِ فَاتِحَۃَ الْکِتَابِ وَ(قُلْ ہُوَ اللَّہُ أَحَدٌ) وَ(قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ) وَ(قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ) حَفِظَ مَا بَیْنَہُ وَبَیْنَ الْجُمُعَۃِ الأخری۔
(٣٠٢١٨) حضرت عون فرماتے ہیں کہ حضرت اسماء بنت ابوبکر نے ارشاد فرمایا : جو شخص جمعہ کی نماز کے بعد سورة فاتحہ، سورة اخلاص، سورة فلق اور سورة الناس کی تلاوت کرتا ہے، تو اس جمعہ سے لے کر اگلے جمعہ تک کے لیے اس کی حفاظت کردی جاتی ہے۔

30218

(۳۰۲۱۹) حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ بْنُ مُوسَی ، عَن فِرَاسٍ ، عَن شَیْبَانَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنْ أَبِی مُسْلِمٍ ، أَنَّہُ کَانَ یَقُولُ فِی آخِرِ قَوْلِہِ : وَصَلَ اللَّہُ بِالإِیمَانِ أُخُوَّتَکُمْ وَقَرَّبَ بِرَحْمَتِہِ مَوَدَّتَکُمْ ، وَمَکَّنَ بِإِحْسَانِہِ کَرَامَتَکُمْ ، وَنَوَّرَ بِالْقُرْآنِ صُدُورَکُمْ۔
(٣٠٢١٩) حضرت شعبی فرماتے ہیں کہ حضرت ابو مسلم اپنی بات کے آخر میں یوں فرماتے تھے : اللہ تمہاری مواخات کو ایمان کے ذریعہ جو ڑ دے، اور تمہارے محبوبین کو اپنی رحمت سے قریب کر دے۔ اور تمہارے معززین کو اپنے فضل سے قدرت عطا فرمائے، اور قرآن کے ذریعہ سے تمہارے سینوں کو منور کرے۔

30219

(۳۰۲۲۰) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، سُلَیْمَانُ بْنُ حَیَّانَ ، عَن مُحَمَّدِ بْنِ عَجْلانَ ، عَن سَعِیدِ بْنِ أَبِی سَعِیدٍ ، عَن عُقْبَۃَ بْنِ عَامِرٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَا سَأَلَ سَائِلٌ ، وَلا اسْتَعَاذَ مُسْتَعِیذٌ بِمِثْلِہِمَا، یَعْنِی الْمُعَوِّذَتَیْنِ۔ (ابوداؤد ۱۴۵۸۔ دارمی ۳۴۴۰)
(٣٠٢٢٠) حضرت عقبہ بن عامر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : کبھی کسی سوال کرنے والے نے سوال نہیں کیا اور نہ ہی پناہ مانگنے والے نے پناہ مانگی ، جیسا کہ معوذتین کے ساتھ سوال کرنے والے نے سوال کیا اور ان کے ذریعے پناہ مانگنے والے نے پناہ مانگی۔

30220

(۳۰۲۲۱) حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُوسَی ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَن ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، أَنَّ الْحَسَنَ بْنَ عَلِیِّ بْنِ أَبِی طَالِبٍ کَانَ یَقُولُ إذَا طَلَعَتِ الشَّمْسُ : سَمِعَ سَامِعٌ بِحَمْدِ اللہِ الأَعْظَمِی ، لاَ شَرِیکَ لَہُ لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ وَہُوَ عَلَی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیرٌ ، سَمِعَ سَامِعٌ بِحَمْدِ اللہِ الأَکْبَرِی ، لاَ شَرِیکَ لَہُ لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ وَہُوَ عَلَی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیرٌ ، سَمِعَ سَامِعٌ بِحَمْدِ اللہِ الأَمْجَدِی ، لاَ شَرِیکَ لَہُ لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ وَہُوَ عَلَی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیرٌ ، یَتْبَعُ ہَذَا النَّحْوَ۔
(٣٠٢٢١) حضرت عروہ فرماتے ہیں کہ جب سورج طلوع ہوتا تو حضرت حسن بن علی بن ابی طالب یوں دعا فرماتے تھے : سننے والے نے اس اللہ کی تعریف سنی جو بہت عظمت والا ہے، جس کا کوئی شریک نہیں، اسی کا ملک ہے اور اسی کے لیے تعریف ہے، اور وہ ہر چیز پر قادر ہے، سننے والے نے اس اللہ کی تعریف سنی جو بہت بڑا ہے، جس کا کوئی شریک نہیں ہے، اسی کا ملک ہے اور اسی کی تعریف ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے، سننے والے نے اس اللہ کی تعریف سنی جو بہت بزرگی والا ہے، جس کا کوئی شریک نہیں ہے اسی کا ملک ہے اور اسی کی تعریف ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے، اسی طریقہ سے دوبارہ کہتے۔

30221

(۳۰۲۲۲) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِِ ، عَن سِمَاکٍ ، عَن عِکْرِمَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إذَا أَرَادَ أَنْ یَخْرُجَ فِی سَفَرٍ قَالَ : اللَّہُمَّ أَنْتَ الصَّاحِبُ فِی السَّفَرِ وَالْخَلِیفَۃُ فِی الأَہْلِ اللَّہُمَّ إنِّی أَعُوذُ بِکَ مِنَ الْضُّبْنَۃِ فِی السَّفَرِ ، وَالْکَآبَۃِ فِی الْمُنْقَلَبِ ، اللَّہُمَّ اقْبِضْ لَنَا الأَرْضَ وَہَوِّنْ عَلَیْنَا السَّفَرَ۔ (احمد ۲۹۹۔ ابن حبان ۲۷۱۶)
(٣٠٢٢٢) حضرت عبداللہ بن عباس فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کسی سفر میں نکلنے کا ارادہ فرماتے تو یوں دعا کرتے : اے اللہ ! تو سفر میں میرا ساتھی ہے، اور گھر میں میرا خلیفہ ہے، اے اللہ ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں سفر میں بیمار ہونے سے، اور غم کی حالت میں لوٹنے سے، اے اللہ ! ہمارے لیے زمین کو لپیٹ دے ، اور ہمارے لیے سفر کو آسان فرما۔

30222

(۳۰۲۲۳) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ سَرْجِسَ ، قَالَ : کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إذَا خَرَجَ مُسَافِرًا یَتَعَوَّدُ مِنْ وَعْثَائِ السَّفَرِ وَکَآبَۃِ الْمُنْقَلَبِ وَالْحَوْرِ بَعْدَ الْکَوْرِ ، وَمِنْ دَعْوَۃِ الْمَظْلُومِ وَمِنْ سُوئِ الْمَنْظَرِ فِی الأَہْلِ وَالْمَالِ۔ (مسلم ۹۷۹۔ احمد ۸۳)
(٣٠٢٢٣) حضرت عبداللہ بن سرجس فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب سفر کے لیے نکلتے تو پناہ مانگتے تھے سفر کی مشقت سے، اور غم گین لوٹنے سے، اور رزق میں کشادگی کے بعد تنگی سے، اور مظلوم کی بد دعا سے، اور گھر میں اور مال میں بُرا منظر دیکھنے سے۔

30223

(۳۰۲۲۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن أُسَامَۃَ بْنِ زَیْدٍ ، عَن سَعِیدٍ الْمَقْبُرِیِّ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : أَرَادَ رَجُلٌ سَفَرًا فَأَتَی النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ : أَوْصِنِی ، فَقَالَ : أُوصِیک بِتَقْوَی اللہِ وَالتَّکْبِیرِ عَلَی کُلِّ شَرَفٍ۔ (ترمذی ۳۴۴۵۔ احمد ۴۴۳)
(٣٠٢٢٤) حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے سفر کا ارادہ کیا تو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہو کر کہنے لگا : مجھے وصیت فرما دیجئے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : میں تجھے وصیت کرتا ہوں اللہ سے ڈرنے کی ، اور ہر بلندی پر چڑھتے ہوئے تکبیر کہنے کی۔

30224

(۳۰۲۲۵) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ ، عَنِ ابْنِ عَجْلانَ ، قَالَ : حدَّثَنِی عَوْنُ بْنُ عَبْدِ اللہِ ، أَنَّ رَجُلاً أَتَی ابْنَ مَسْعُودٍ فَقَالَ : إنِّی أُرِیدُ سَفَرًا فَأَوْصِنِی ، فَقَالَ : إذَا تَوَجَّہْت فَقُلْ : بِسْمِ اللہِ حَسْبِی اللَّہُ وَتَوَکَّلْت عَلَی اللہِ فَإِنَّک إذَا قُلْتَ : بِسْمِ اللہِ ، قَالَ الْمَلَکُ : ہُدِیْتَ وَإِذَا قُلْتَ : حَسْبِی اللَّہُ ، قَالَ الْمَلَک ، حُفِظْت ، وَإِذَا قُلْتَ : تَوَکَّلْت عَلَی اللہِ ، قَالَ الْمَلَکُ : کُفِیت۔
(٣٠٢٢٥) حضرت عون بن عبداللہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص حضرت عبداللہ بن مسعود کی خدمت میں حاضر ہو کر کہنے لگا : میرا سفر کا ارادہ ہے پس آپ مجھے وصیت فرما دیجئے، تو آپ نے ارشاد فرمایا : جب تو سفر کے لیے متوجہ ہو تو یہ کلمات کہہ : اللہ کے نام کے ساتھ شروع کرتا ہوں، مجھے اللہ کافی ہے، میں نے اللہ پر بھروسہ کیا، پس جب تو کہے گا اللہ کے نام سے شروع کرتا ہوں تو فرشتہ کہے گا، تجھے ہدایت دی گئی، اور جب تو کہے گا، مجھے اللہ کافی ہے، تو فرشتہ کہے گا، تیری حفاظت کی گئی، ، اور جب تو کہے گا، میں نے اللہ پر بھروسہ کیا تو فرشتہ کہے گا، تیری کفایت کی گئی۔

30225

(۳۰۲۲۶) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَن مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : کَانُوا یَقُولُونَ فِی السَّفَرِ : اللَّہُمَّ بَلاغًا یُبَلِّغُ خَیْرًا مَغْفِرَتِکَ مِنْک وَرِضْوَانًا ، بِیَدِکَ الْخَیْرُ ، إنَّک عَلَی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیرٌ ، اللَّہُمَّ أَنْتَ الصَّاحِبُ فِی السَّفَرِ وَالْخَلِیفَۃُ عَلَی الأَہْلِ ، اللَّہُمَّ اطْوِ لَنَا الأَرْضَ وَہَوِّنْ عَلَیْنَا السَّفَرَ ، اللَّہُمَّ إنَّا نَعُوذُ بِکَ مِنْ وَعْثَائِ السَّفَرِ وَکَآبَۃِ الْمُنْقَلَبِ وَسُوئِ الْمَنْظَرِ فِی الأَہْلِ وَالْمَالِ۔
(٣٠٢٢٦) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ صحابہ سفر میں یوں دعا فرمایا کرتے تھے : اے اللہ ! خیر کو پہنچا ایسی خیر جس میں تیری طرف سے مغفرت ہو اور تیری رضا ہو، خیر تیرے ہی قبضہ میں ہے، یقیناً تو ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے ، اے اللہ ! تو ہی سفر میں ہمارا ساتھی ہے۔ اور گھر والوں پر ہمارا خلیفہ ہے۔ اے اللہ ! ہمارے لیے زمین کی دوری کو ختم فرما، اور ہم پر سفر کو آسان فرما، اے اللہ ! ہم تیری پناہ مانگتے ہیں سفر کی مشقت سے، اور غم گین لوٹنے سے اور گھر اور مال میں بُرا منظر دیکھنے سے۔

30226

(۳۰۲۲۷) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَن یَزِیدَ ، عَن مُجَاہِدٍ ، قَالَ : سَافَرْت مَعَ ابْنِ عُمَرَ فَإِذَا کَانَ مِنَ السَّحَرِ نَادَی : سَمِعَ سَامِعٌ بِحَمْدِ اللہِ وَنِعْمَتِہِ وَحُسْنِ بَلائِہِ عِنْدَنَا ، اللَّہُمَّ صَاحِبْنَا فَأَفْضِلْ عَلَیْنَا ثَلاثًا اللَّہُمَّ عَائِذٌ بِکَ مِنْ جَہَنَّمَ ثَلاثًا۔
(٣٠٢٢٧) حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن عمر کے ساتھ سفر کیا، پس جب صبح ہوئی تو آپ یوں ندا لگاتے تھے، تین مرتبہ، سننے والے نے سن لیا اللہ کی حمد اور اس کی نعمت اور اس کی طرف سے ہم پر ہر اچھے انعام کو ، اے اللہ ! تو ہمارا ساتھی بن ! پس ہم پر فضل فرما، پھر تین مرتبہ یوں ندا لگاتے : اے اللہ ! پناہ مانگتا ہوں جہنم سے۔

30227

(۳۰۲۲۸) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِِ ، عَن سِمَاکٍ ، عَن عِکْرِمَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ إذَا أَرَادَ الرُّجُوعَ ، یعنی مِنَ السَّفَرِ قَالَ : تَائِبُونَ عَابِدُونَ لِرَبِّنَا حَامِدُونَ ، وَإِذَا دَخَلَ عَلَی أَہْلِہِ ، قَالَ : تَوْبًا تَوْبًا لِرَبِّنَا أَوْبًا لاَ یُغَادِرُ عَلَیْنَا حَوْبًا۔
(٣٠٢٢٨) حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سفر سے لوٹنے کا ارادہ فرماتے تو یہ کلمات پڑھتے : ہم توبہ کرنے والے ہیں ، بندگی کرنے والے ہیں، اپنے رب کی حمد کرنے والے ہیں، اور جب اپنے گھر والوں پر داخل ہوتے تو یہ کلمات پڑھتے : ہم توبہ کر رہے، توبہ کر رہے، اپنے رب کی طرف ہی لوٹ رہے ہیں، وہ ہمارا کوئی بھی گناہ نہیں چھوڑے گا۔

30228

(۳۰۲۲۹) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَن زَکَرِیَّا ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنِ الْبَرَائِ ، قَالَ : کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إذَا قَفَلَ مِنْ سَفَرٍ ، قَالَ : آیِبُونَ تَائِبُونَ عَابِدُونَ لِرَبِّنَا حَامِدُونَ۔ (احمد ۳۰۰۔ طیالسی ۷۱۶)
(٣٠٢٢٩) حضرت برائ فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سفر سے واپس لوٹتے تو یہ کلمات پڑھتے ! ہم لوٹنے والے ہیں، توبہ کرنے والے ہیں بندگی کرنے والے ہیں ، اپنے رب کی حمد کرنے والے ہیں۔

30229

(۳۰۲۳۰) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ بْنُ عُمَرَ ، عَن نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، أَنَّہُ کَانَ إذَا رَجَعَ مِنَ الْجَیْشِ ، أَوِ السَّرَایَا ، أَوِ الْحَجِّ ، أَوِ الْعُمْرَۃِ ، قَالَ کُلَّمَا أَوْفَی عَلَی ثَنِیَّۃٍ ، أَوْ فَدْفَدٍ کَبَّرَ ثَلاثًا ، ثُمَّ قَالَ : لاَ إلَہَ إِلاَّ اللَّہُ وَحْدَہُ صَدَقَ وَعْدَہُ تَائِبُونَ عَابِدُونَ لِرَبِّنَا حَامِدُونَ۔ (بخاری ۱۷۹۷۔ مسلم ۹۸۰)
(٣٠٢٣٠) حضرت عبداللہ بن عمر فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب بھی کسی لشکر سے یا سرایا سے یا حج یا عمرے سے واپس لوٹتے ۔ راوی فرماتے ہیں جب بھی کسی پہاڑی راستہ یا چٹیل میدان پر پہنچتے تو تین مرتبہ تکبیر کہتے : پھر یہ کلمات پڑھتے، اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ اکیلا ہے، اس نے اپنے وعدہ کو سچا کیا ہم لوٹنے والے ہیں ، توبہ کرنے والے ہیں، بندگی کرنے والے ہیں، اپنے رب کی حمد کرنے والے ہیں۔

30230

(۳۰۲۳۱) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ ، عَن نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، ثُمَّ ذَکَرَ مِثْلَہُ ، أَوْ نَحْوَہُ۔
(٣٠٢٣١) حضرت عبداللہ بن عمر سے ما قبل والا ارشاد اس سند سے بھی نقل کیا گیا ہے۔

30231

(۳۰۲۳۲) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، حَدَّثَنَا سَعِیدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَن یَحْیَی بْنِ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ ، أَنَّہُ کَانَ مَعَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَلَمَّا کَانَ بِظَہْرِ الْبَیْدَائَ ، أَو بالْحَرَّۃَ ، قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ آیِبُونَ تَائِبُونَ عَابِدُونَ إِنْ شَائَ اللَّہُ لِرَبِّنَا حَامِدُونَ۔ (بخاری ۳۰۸۵۔ مسلم ۹۸۰)
(٣٠٢٣٢) حضرت انس بن مالک فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ سفر میں تھا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا گزر جب بھی کسی جنگل یا پتھریلی زمین میں ہوتا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ کلمات پڑھتے : ہم لوٹنے والے ہیں، توبہ کرنے والے ہیں، بندگی کرنے والے ہیں، اگر اللہ نے چاہا ، تو اپنے رب کی حمد کرنے والے ہیں۔

30232

(۳۰۲۳۳) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، أَخْبَرَنَا الْعَوَّامُ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ التَّیْمِیِّ ، قَالَ : کَانُوا إذَا قَفَلُوا قَالُوا : آیِبُونَ إِنْ شَائَ اللَّہُ تَائِبُونَ لِرَبِّنَا حَامِدُونَ۔
(٣٠٢٣٣) حضرت ابراہیم تیمی فرماتے ہیں کہ جب صحابہ سفر سے لوٹتے تھے تو یہ کلمات پڑھتے تھے، ہم لوٹنے والے ہیں اگر اللہ نے چاہا ، توبہ کرنے والے ہیں ، اپنے رب کی حمد کرنے والے ہیں۔

30233

(۳۰۲۳۴) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ یَزِیدَ ، قَالَ : حدَّثَنَا مَکْحُولٌ ، أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَمَّا دَخَلَ مَکَّۃَ تَلَقَّتْہُ الْجِنُّ بِالشَّرَرِ یَرْمُونَہُ ، فَقَالَ جِبْرِیلُ : تَعَوَّذْ یَا مُحَمَّدُ ، فَتَعَوَّذَ بِہَؤُلائِ الْکَلِمَاتِ فَدُحِرُوا عَنْہُ ، أَعُوذُ بِکَلِمَاتِ اللہِ التَّامَّاتِ الَّتِی لاَ یُجَاوِزُہُنَّ بَرٌّ ، وَلا فَاجِرٌ ، مِنْ شَرِّ مَا یَنْزِلُ مِنَ السَّمَائِ ، وَمَا یَعْرُجُ فِیہَا ، وَمِنْ شَرِّ مَا بُثَّ فِی الأَرْضِ ، وَمَا یَخْرُجُ مِنْہَا ، وَمِنْ شَرِّ اللَّیْلِ وَالنَّہَارِ ، وَمِنْ کُلِّ طَارِقٍ یَطْرُقُ بِخَیْرٍ یَا رَحْمَنُ۔
(٣٠٢٣٤) حضرت مکحول فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب مکہ میں داخل ہوئے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کچھ جن ملے جنہوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر انگارے پھینکے، تو حضرت جبرائیل نے فرمایا : اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! پناہ مانگیے : تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کلمات کے ذریعہ پناہ مانگی، پھر ان جنوں کو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہٹا دیا گیا : میں پناہ مانگتا ہوں اللہ کے مکمل کلمات کے ساتھ کہ جن سے کوئی نیکو کار اور بدکار تجاوز نہیں کرسکتا۔ ہر اس چیز کے شر سے جو آسمان سے اترتی ہے، اور جو آسمان میں بلند ہوتی ہے، اور ہر اس چیز کے شر سے جو زمین میں پھیلتی ہے، اور زمین سے نکلتی ہے، اور دن اور رات کے شر سے ، اور ہر رات کو آنے والے خیر کی توقع کرتے ہوئے اے رحم کرنے والے !

30234

(۳۰۲۳۵) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَن یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ، عَن مُحَمَّدِ بْنِ یَحْیَی بْنِ حَبَّانَ ، أَنَّ الْوَلِیدَ بْنَ الْوَلِیدِ بْنِ الْمُغِیرَۃِ الْمَخْزُومِیَّ شَکَا إِلَی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حَدِیثَ نَفْسٍ وَجَدَہُ وَأَنَّہُ قَالَ لَہُ : إذَا أَتَیْتَ إِلَی فِرَاشِکَ فَقُلْ : أَعُوذُ بِکَلِمَاتِ اللہِ التَّامَّۃِ مِنْ غَضَبِہِ وَعِقَابِہِ ، وَشَرِّ عِبَادِہِ ، وَمِنْ ہَمَزَاتِ الشَّیَاطِینِ وَأَنْ یَحْضُرُونِ ، فَو الَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ لاَ یَضُرُّک شَیْئٌ حَتَّی تُصْبِحَ۔
(٣٠٢٣٥) حضرت محمد بن یحییٰ بن حبان فرماتے ہیں کہ حضرت ولید بن مغیرہ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دل میں آنے والے خیالات کی شکایت کی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے ارشاد فرمایا : جب تو اپنے بستر میں آئے تو یہ کلمات پڑھ ، میں پناہ مانگتا ہوں اللہ کے مکمل کلمات کے ساتھ، اس کے غصہ اور اس کی پکڑ سے اور اس کے بندوں کے شر سے، اور شیطان کے وسوسوں سے کہ وہ میرے پاس حاضر ہوں پس قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے تجھے کوئی بھی چیز نقصان نہیں پہنچا سکے گی یہاں تک کہ تو صبح کرلے گا۔

30235

(۳۰۲۳۶) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، عَن زَکَرِیَّا بْنِ أَبِی زَائِدَۃَ ، عَن مُصْعَبٍ ، عَن یَحْیَی بْنِ جَعْدَۃَ ، قَالَ : کَانَ خَالِدُ بْنُ الْوَلِیدِ یَفْزَعُ مِنَ اللَّیْلِ حَتَّی یَخْرُجَ ، وَمَعَہُ سَیْفُہُ فَخُشِیَ عَلَیْہِ أَنْ یُصِیبَ أَحَدًا ، فَشَکَا ذَلِکَ إِلَی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ : إنَّ جِبْرِیلَ ، قَالَ لِی : إنَّ عِفْرِیتًا مِنَ الْجِنِّ یَکِیدُک ، فَقُلْ أَعُوذُ بِکَلِمَاتِ اللہِ التَّامَّۃِ الَّتِی لاَ یُجَاوِزُہُنَّ بَرٌّ ، وَلا فَاجِرٌ ، مِنْ شَرِّ مَا یَنْزِلُ مِنَ السَّمَائِ ، وَمَا یَعْرُجُ فِیہَا ، وَمِنْ شَرِّ مَا ذَرَأَ فِی الأَرْضِ ، وَمَا یَخْرُجُ مِنْہَا ، وَشَرِّ فِتَنِ اللَّیْلِ وَالنَّہَارِ ، وَکُلِّ طَارِقٍ إِلاَّ طَارِقًا یَطْرُقُ بِخَیْرٍ یَا رَحْمَنُ فَقَالَہُنَّ خَالِدٌ فَذَہَبَ ذَلِکَ عَنْہُ۔
(٣٠٢٣٦) حضرت یحییٰ بن جعدہ فرماتے ہیں کہ حضرت خالد بن ولید رات سے ڈرتے تھے، یہاں تک کہ وہ نکلے اس حال میں کہ ان کے پاس تلوار تھی۔ پس ان پر خوف طاری ہوگیا کہ وہ کسی کو تکلیف پہنچا دیں گے پس انھوں نے اس بات کی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے شکایت کی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جبرائیل نے مجھ سے فرمایا ہے : کہ جنوں کی ایک جماعت تیرے ساتھ مکر و فریب کرتی ہے، پس تو یہ کلمات پڑھ لے : میں پناہ مانگتا ہوں اللہ کے مکمل کلمات کے ساتھ کہ جن سے کوئی نیکو کار اور بدکار تجاوز نہیں کرسکتا، ہر اس چیز کے شر سے جو آسمان سے نازل ہوتی ہے اور جو آسمان میں بلند ہوتی ہے، اور اس چیز کے شر سے جو زمین میں پیدا ہوتی ہے اور جو زمین سے نکلتی ہے، اور دن اور رات کے فتنوں کے شر سے، اور ہر رات کو آنے والے سے مگر جو خیر لائے، اے رحم کرنے والے، پس حضرت خالد نے ان کلمات کو پڑھا، تو ان کی یہ حالت ختم ہوگئی۔

30236

(۳۰۲۳۷) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَن مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ جَدِّہِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إذَا فَزِعَ أَحَدُکُمْ مِنْ نَوْمِہِ فَلْیَقُلْ : بِسْمِ اللہِ أَعُوذُ بِکَلِمَاتِ اللہِ التَّامَّۃِ مِنْ غَضَبِہِ وَسُوئِ عِقَابِہِ وَشَرِّ عِبَادِہِ وَمِنْ شَرِّ الشَّیَاطِینِ ، وَمَا یَحْضُرُونِ۔
(٣٠٢٣٧) حضرت عبداللہ بن عمرو فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جب تم میں سے کوئی شخص رات کو اپنی نیند میں ڈر جائے ، تو یہ کلمات پڑھے : اللہ کے نام کے ساتھ : میں پناہ مانگتا ہوں اللہ کے مکمل کلمات کی، اس کے غضب سے اور اس کی بری پکڑ سے، اور اس کے بندوں کے شر سے، اور شیطانوں کے شر سے، اور جو کچھ وہ حاضر ہوتے ہیں۔

30237

(۳۰۲۳۸) حَدَّثَنَا عَفَّانُ بْنُ مُسْلِمٍ ، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، حَدَّثَنَا أَبُو التَّیَّاحِ ، قَالَ : سَأَلَ رَجُلٌ عَبْدَ اللہ بْنَ خَنْبَش : کَیْفَ صَنَعَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حِینَ کَادَتْہُ الشَّیَاطِینُ ؟ قَالَ : جَائَتِ الشَّیَاطِینُ إِلَی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنَ الأَوْدِیَۃِ ، وَتَحَدَّرَتْ عَلَیْہِ مِنَ الْجِبَالِ ، وَفِیہِمْ شَیْطَانٌ مَعَہُ شُعْلَۃُ نَارٍ یُرِیدُ أَنْ یَحْرِقَ بِہَا رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَأُرْعِبَ مِنْہُمْ ، قَالَ جَعْفَرٌ : أَحْسَبُہُ ، قَالَ : جَعَلَ یَتَأَخَّرُ ، قَالَ : وَجَائَہُ جِبْرِیلُ فَقَالَ : یَا مُحَمَّدُ ، قُلْ ، قَالَ : مَا أَقُولُ ؟ قَالَ : قُلْ : أَعُوذُ بِکَلِمَاتِ اللہِ التَّامَّاتِ الَّتِی لاَ یُجَاوِزُہُنَّ بَرٌّ ، وَلا فَاجِرٌ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ وَذَرَأَ وَبَرَأَ ، وَمِنْ شَرِّ مَا یَنْزِلُ مِنَ السَّمَائِ ، وَمِنْ شَرِّ مَا یَعْرُجُ فِیہَا ، وَمِنْ شَرِّ مَا ذَرَأَ فِی الأَرْضِ وَمِنْ شَرِّ مَا یَخْرُجُ مِنْہَا وَمِنْ شَرِّ فِتَنِ اللَّیْلِ وَالنَّہَارِ ، وَمِنْ شَرِّ کُلِّ طَارِقٍ إِلاَّ طَارِقًا یَطْرُقُ بِخَیْرٍ یَا رَحْمَنُ ، قَالَ : فَطُفِئَتْ نَارُ الشَّیْطَانِ ، قَالَ : وَہَزَمَہُمَ اللَّہُ۔
(٣٠٢٣٨) حضرت ابو التیاح فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے حضرت عبداللہ بن خنبش سے سوال کیا : جب شیاطین رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دھوکا دیتے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا کرتے تھے ؟ آپ نے ارشاد فرمایا : ایک مرتبہ کچھ شیاطین وادیوں سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے، اور پہاڑ سے اتر کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آگئے، اس حال میں کہ ان میں ایک شیطان تھا جس کے پاس ایک انگارہ تھا، اس کا ارادہ تھا کہ اس سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جلا دے گا، تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ان کا رعب طاری ہوگیا، حضرت جعفر فرماتے ہیں : میرا گمان ہے کہ راوی نے کہا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پیچھے ہٹنے لگے۔ راوی فرماتے ہیں : کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حضرت جبرائلب حاضر ہوئے۔ اور فرمایا : اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ پڑھیے : آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کہا : میں کیا پڑھوں ؟ حضرت جبرائیل نے ارشاد فرمایا : آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پڑھیے ! میں پناہ مانگتا ہوں اللہ کے مکمل کلمات کے ساتھ جن سے کوئی نیکو کار اور بدکار تجاوز نہیں کرسکتا، ہر اس چیز کے شر سے جو اس نے پیدا کی ، جس کو وجود بخشا اور جسے پیدا کیا اور ہر اس چیز کے شر سے جو آسمان میں بلند ہوتی ہے، اور اس چیز کے شر سے جو زمین میں پیدا ہوتی ہے، اور اس چیز کے شر سے جو زمین سے نکلتی ہے، اور دن اور رات کے فتنوں کے شر سے، اور ہر رات کو نمودار ہونے والی چیز کے شر سے مگر جو رات کو خیر لائے، اے رحمن ! راوی کہتے ہیں پس شیاطین کی آگ کو بجھا دیا گیا، کہتے ہیں پس اللہ نے ان شیاطین کو شکست دی۔

30238

(۳۰۲۳۹) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ حَدَّثَنَا مِسْعَرٌ ، عَنْ عَلْقَمَۃَ بْنِ مَرْثَدٍ ، عَنِ ابْنِ سَابِطٍ ، قَالَ : أَصَابَ خَالِدَ بْنَ الْوَلِیدِ أَرَقٌ فَقَالَ لَہُ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَلا أُعَلِّمُک کَلِمَاتٍ إذَا قُلْتہنَّ نِمْت اللَّہُمَّ رَبَّ السَّمَاوَاتِ، وَمَا أَظَلَّتْ ، وَرَبَّ الأَرْضِینَ ، وَمَا أَقَلَّتْ وَرَبَّ الشَّیَاطِینِ ، وَمَا أَضَلَّتْ ، کُنْ لِی جَاری مِنْ شَرِّ خَلْقِکَ کُلِّہِمْ جَمِیعًا أَنْ یَفْرُطَ عَلَیَّ أَحَدٌ مِنْہُمْ ، أَوْ یَبْغِی ، عَزَّ جَارُک ، وَلا إلَہَ غَیْرُک۔ (ترمذی ۳۵۲۳۔ طبرانی ۹۸۴)
(٣٠٢٣٩) حضرت ابن سابط فرماتے ہیں کہ حضرت خالد بن ولید کو رات میں نیند نہیں آتی تھی، تو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے ارشاد فرمایا : کیا میں تمہیں چند کلمات نہ سکھاؤں جب تم ان کو کہو گے تو تمہیں نیند آجائے گی ؟ تم یہ کلمات پڑھا کرو ! اے اللہ ! ساتوں آسمانوں کے رب اور جن چیزوں پر انھوں نے سایہ کیا ہوا ہے اور ساتوں زمینوں کے رب اور جن چیزوں کو انھوں نے اٹھا رکھا ہے اور شیاطین کے رب اور جو یہ گمراہ کرتے ہیں، تو میرا محافظ بن جا ! اپنی تمام مخلوق کے شر سے، کہ ان میں سے کوئی مجھ پر زیادتی کرے یا سرکشی کرے ، تیری پناہ غالب ہے ، اور تیرے سوا کوئی معبود نہیں۔

30239

(۳۰۲۴۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن سُفْیَانَ ، عَن رَجُلٍ مِنْ أَہْلِ الشَّامِ ، عَن مَکْحُولٍ ، أن النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ إذَا رَأَی الْبَیْتَ قَالَ : اللَّہُمَّ زِدْ ہَذَا الْبَیْتَ تَشْرِیفًا وَتَعْظِیمًا وَمَہَابَۃً ، وَزِدْ مَنْ حَجَّہُ ، أَو اعْتَمَرَہُ تَشْرِیفًا وَتَعْظِیمًا وَتَکْرِیمًا وَبِرًّا۔ (بیہقی ۷۳)
(٣٠٢٤٠) حضرت مکحول فرماتے ہیں کہ جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیت اللہ کو دیکھتے تو یوں دعا فرماتے : اے اللہ ! تو اس گھر کی عزت، عظمت اور ہیبت میں اضافہ فرما، اور جو شخص اس کا حج یا عمرہ کرے اس کی عزت ، عظمت ، اکرام اور نیکی میں بھی اضافہ فرما۔

30240

(۳۰۲۴۱) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَن یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سَعِیدٍ ، عَن سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ، أَنَّہُ کَانَ إذَا دَخَلَ مَسْجِدَ الْکَعْبَۃَ، وَنَظَرَ إِلَی الْبَیْتِ، قَالَ: اللَّہُمَّ أَنْتَ السَّلامُ وَمِنْک السَّلامُ فَحَیِّنَا رَبَّنَا بِالسَّلامِ۔
(٣٠٢٤١) حضرت محمد بن سعید فرماتے ہیں کہ حضرت سعید بن المسیب جب کعبہ کی مسجد میں داخل ہوتے اور بیت اللہ کی طرف دیکھتے تو یہ دعا پڑھتے : اے اللہ ! تو سلامتی والا ہے، اور تجھ ہی سے سلامتی ہے، اے ہمارے رب ! تو ہمیں سلامتی کا تحفہ دے۔

30241

(۳۰۲۴۲) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَن مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : أَوَّلُ مَا تَدْخُلُ مکۃ فَانْتَہَیْت إِلَی الْحِجْرِ فَاحْمَدَ اللَّہَ عَلَی حُسْنِ تَیْسِیرِہِ وَبَلاغِہِ۔
(٣٠٢٤٢) حضرت شعبی ارشاد فرماتے ہیں جب تو پہلی مرتبہ مکہ میں داخل ہو تو حجر اسود پر جا کر اللہ کی حمد کر آسانی پر اور آرام سے پہنچنے پر۔

30242

(۳۰۲۴۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ الْعُمَرِیِّ ، عَن مُحَمَّدِ بْنِ سَعِیدٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، أَنَّ عُمَرَ کَانَ إذَا دَخَلَ الْبَیْتَ ، قَالَ : اللَّہُمَّ أَنْتَ السَّلامُ وَمِنْک السَّلامُ فَحَیِّنَا رَبَّنَا بِالسَّلامِ۔
(٣٠٢٤٣) حضرت سعید فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب جب بیت المقدس میں داخل ہوتے تو یوں دعا پڑھتے : اے اللہ ! تو سلامتی والا ہے، اور تجھ ہی سے سلامتی ہے، ہمارے رب ! تو ہمیں سلامتی کا تحفہ دے۔

30243

(۳۰۲۴۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن مُوسَی بْنِ عُبَیْدَۃَ ، عَن وَہْبِ بْنِ وَہْبٍ ، عَن سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ، عَن عُمَرَ ، أَنَّہُ کَانَ یَقُولُ إذَا اسْتَلَمَہُ یَعْنِی الْحَجَرَ : آمَنْت بِاللہِ وَکَفَرْت بِالطَّاغُوتِ۔
(٣٠٢٤٤) حضرت سعید بن المسیب فرماتے ہیں کہ حضرت عمر جب حجر اسود کا استلام فرماتے تو یہ کلمات پڑھتے : میں اللہ پر ایمان لایا اور میں نے بتوں کی تکفیر کی۔

30244

(۳۰۲۴۵) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنِ الْمَسْعُودِیِّ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنِ الْحَارِثِ ، عَنْ عَلِیٍّ ، قَالَ : کَانَ یَقُولُ إذَا اسْتَلَمَ الْحَجَرَ : اللَّہُمَّ تَصْدِیقًا بِکِتَابِکَ وَسُنَّۃِ نَبِیِّک۔
(٣٠٢٤٥) حضرت حارث فرماتے ہیں کہ حضرت علی جب حجر اسود کا استلام فرماتے تو یہ کلمات پڑھتے، اے اللہ ! تیری کتاب کی تصدیق کرتے ہوئے اور تیرے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت پر عمل کرتے ہوئے ( استلام کرتا ہوں)

30245

(۳۰۲۴۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن سُفْیَانَ ، عَن عُبَیْدٍ الْمُکْتِبِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : إذَا اسْتَلَمْت الْحَجَرَ فَقُلْ : لاَ إلَہَ إِلاَّ اللَّہُ ، وَاللَّہُ أَکْبَرُ۔
(٣٠٢٤٦) حضرت عبیدالمکتب فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم نے ارشاد فرمایا : جب بھی تو حجر اسود کا استلام کرے تو یہ کلمات پڑھ لیا کر : اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور اللہ سب سے بڑا ہے۔

30246

(۳۰۲۴۷) حَدَّثَنَا مُعَاوِیَۃُ بْنُ ہِشَامٍ ، عَن شَرِیکٍ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَن مُجَاہِدٍ ، قَالَ : کَانَ یُسْتَحَبُّ أَنْ یُقَالَ عِنْدَ اسْتِلامِ الْحَجَرِ : اللَّہُمَّ تَصْدِیقًا بِکِتَابِکَ وَسُنَّۃِ نَبِیِّک۔
(٣٠٢٤٧) حضرت ابو اسحاق فرماتے ہیں کہ حضرت مجاہد نے ارشاد فرمایا : مستحب ہے کہ حجر اسود کا استلام کرتے ہوئے یوں کہا جائے ! اے اللہ ! تیری کتاب کی تصدیق کرتے ہوئے اور تیرے نبی کی سنت پر عمل کرتے ہوئے (استلام کرتا ہوں)

30247

(۳۰۲۴۸) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَن یَحْیَی بْنِ عُبَیْدٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ السَّائِبِ ، قَالَ سَمِعْت رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ بَیْنَ الرُّکْنِ وَالْحَجَرِ : {رَبَّنَا آتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَفِی الآخِرَۃِ حَسَنَۃً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ}۔
(٣٠٢٤٨) حضرت عبداللہ بن السائب فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو رکن یمانی اور حجر اسود کے درمیان یہ دعا پڑھتے ہوئے سنا ہے : اے ہمارے رب ! دے ہمیں دنیا میں بھلائی اور آخرت میں بھلائی، اور ہمیں جہنم کے عذاب سے بچا۔

30248

(۳۰۲۴۹) حَدَّثَنَا أَسْبَاطُ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَطَائٍ ، عَن سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ، قَالَ: کَانَ مِنْ دُعَائِ ابْنِ عَبَّاسٍ الَّذِی لاَ یَدَعُ بَیْنَ الرُّکْنِ وَالْمَقَامِ أَنْ یَقُولَ : اللَّہُمَّ قَنِّعْنِی بِمَا رَزَقْتنِی وَبَارِکْ لِی فِیہِ وَاخْلُفْ عَلَیَّ کُلَّ غَائِبَۃٍ لِی بِخَیْرٍ۔
(٣٠٢٤٩) حضرت سعید بن جبیر فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عباس کی دعاؤں میں سے ایک دعا یہ بھی تھی جسے وہ کبھی بھی حجر اسود اور رکن یمانی کے درمیان پڑھنا نہیں بھولتے تھے۔ اے اللہ ! مجھے قناعت عطا فرما اس رزق میں جو تو نے مجھے عطا فرمایا ہے، اور تو میرے لیے اس میں برکت عطا فرما، اور تو میرا جانشین بن جا اس غیر موجود چیز میں جس میں میرے لیے بھلائی ہو۔

30249

(۳۰۲۵۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن سُفْیَانَ ، عَن مَنْصُورٍ ، عَن ہِلالِ بْنِ یَِسَافٍ ، عَنْ أَبِی شُعْبَۃَ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، أَنَّہُ کَانَ یَقُولُ عِنْدَ الرُّکْنِ أو الْحَجَرِ : {رَبَّنَا آتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَفِی الآخِرَۃِ حَسَنَۃً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ}۔
(٣٠٢٥٠) حضرت ابو شعبہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عمر رکن یمانی اور حجر اسود کے درمیان یہ دعا پڑھا کرتے تھے، ہمارے رب ! دے ہمیں خوبی دنیا میں ، اور آخرت میں خوبی اور ہمیں جہنم کے عذاب سے بچا لے۔

30250

(۳۰۲۵۱) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ ، عَنِ ابْنِ ہُرْمُزَ ، عَن مُجَاہِدٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : عَلَی الرُّکْنِ الْیَمَانِیِّ مَلَکٌ یَقُولُ آمِینَ ، فَإِذَا مَرَرْتُمْ بِہِ فَقُولُوا : اللَّہُمَّ رَبَّنَا آتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَفِی الآخِرَۃِ حَسَنَۃً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ۔
(٣٠٢٥١) حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عباس نے ارشاد فرمایا : کہ رکن یمانی پر ایک فرشتہ مقرر ہوتا ہے جو دعاؤں پر آمین کہتا ہے، پس جب بھی تم اس کے پاس سے گزرو تو یہ دعا پڑھو ! اے اللہ ! ہمارے رب دے ہمیں دنیا میں خوبی اور آخرت میں خوبی اور ہمیں جہنم کے عذاب سے بچا۔

30251

(۳۰۲۵۲) حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إسْمَاعِیلَ ، عَنْ جَعْفَرٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، أَنَّہُ بَدَأَ بِالصَّفَا فَرَقَیَ عَلَیْہِ حَتَّی رَأَی الْبَیْتَ وَوَحَّدَ اللَّہَ وَکَبَّرَہُ ، وَقَالَ : لاَ إلَہَ إِلاَّ اللَّہُ وَحْدَہُ لاَ شَرِیکَ لَہُ لَہُ الْمُلْک، وَلَہُ الْحَمْدُ وَہُوَ عَلَی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیرٌ، لاَ إلَہَ إِلاَّ اللَّہُ وحدہ أَنْجَزَ وَعْدَہُ وَنَصَرَ عَبْدَہُ وَہَزَمَ الأَحْزَابَ وَحْدَہُ، ثُمَّ دَعَا بَیْنَ ذَلِکَ فَقَالَ: مِثْلَ ہَذَا ثَلاثَ مَرَّاتٍ، ثُمَّ أَتَی الْمَرْوَۃَ فَفَعَلَ عَلَی الْمَرْوَۃِ کَمَا فَعَلَ عَلَی الصَّفَا۔
(٣٠٢٥٢) حضرت جابر فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صفا پہاڑی سے ابتدا کی اور اس پر چڑھ گئے یہاں تک کہ بیت اللہ کو دیکھ لیا ۔ اور اللہ کی وحدانیت بیان کی اور تکبیر کہی ۔ اور یہ کلمات پڑھے، اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، اسی کا ملک ہے اور اسی کے لیے تعریف ہے، اور وہ ہر چیز پر قادر ہے، اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ اکیلا ہے، اس نے اپنا وعدہ پورا کیا اور اپنے بندے کی مدد کی، اور اس اکیلے نے تمام گروہوں کو شکست دی ، پھر ان دونوں کے درمیان دعا کی اور اسی طرح تین مرتبہ یہ کلمات پڑھے، پھر مروہ پہاڑی پر تشریف لائے، اور مروہ پر بھی ویسا ہی کیا جیسا کہ صفاء پر کیا تھا۔

30252

(۳۰۲۵۳) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِیٍّ ، عَن سُفْیَانَ ، عَن فِرَاسٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنْ وَہْبِ بْنِ الأَجْدَعِ ، قَالَ سَمِعْت عُمَرَ یَقُولُ : إذَا قُمْتُمْ عَلَی الصَّفَا فَکَبِّرُوا سَبْعَ تَکْبِیرَاتٍ ، بَیْنَ کُلِّ تَکْبِیرَتَیْنِ حَمْدُ اللہِ وَثَنَاؤٌ عَلَیْہِ وَصَلاۃ اللہِ عَلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَدُعَائٌ لِنَفْسِکَ ، وَعَلَی الْمَرْوَۃِ مِثْلُ ذَلِکَ۔
(٣٠٢٥٣) حضرت وھب بن الاجدع فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر کو یوں ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے کہ : جب تم لوگ صفا پہاڑی پر کھڑے ہو ، تو سات مرتبہ تکبیرکہو اور ہر دو تکبیروں کے درمیان اللہ کی حمد و ثنا بیان کرو، اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر درود بھیجو، اور اپنی ذات کے لیے دعا مانگو اور مروہ پہاڑی پر بھی ایسا ہی کرو۔

30253

(۳۰۲۵۴) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ ، عَن زَکَرِیَّا ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَن وَہْبِ بْنِ الأَجْدَعِ أَنَّہُ سَمِعَ عُمَرَ یَقُولُ : یَبْدَأُ بِالصَّفَا وَیَسْتَقْبِلُ الْقِبْلَۃَ الْبَیْتَ ، ثُمَّ یُکَبِّرُ سَبْعَ تَکْبِیرَاتٍ ، بَیْنَ کُلِّ تَکْبِیرَتَیْنِ حَمْدُ اللہِ ، وَصَلاۃٌ عَلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَمَسْأَلَۃٌ لِنَفْسِکَ ، وَعَلَی الْمَرْوَۃِ مِثْلُ ذَلِکَ۔
(٣٠٢٥٤) حضرت وھب بن الاجدع فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر کو یوں فرماتے ہوئے سنا ہے کہ صفا پہاڑی سے ابتدا کی جائے گی ، اور پہلے بیت اللہ کی طرف استقبال کرو، پھر سات مرتبہ تکبیر کہو، اور ہر دو تکبیروں کے درمیان اللہ کی حمدو ثنا بیان ہو، اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر درود ہو، اور اپنی ذات کے لیے سوال ہو، اور مروہ پہاڑی پر بھی ایسے ہی کیا جائے گا۔

30254

(۳۰۲۵۵) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، عَن عُبَیْدِ اللہِ ، عَن نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، أَنَّہُ کَانَ إذَا صَعِدَ علی الصَّفَا اسْتَقْبَلَ الْبَیْتَ ، ثُمَّ کَبَّرَ ثَلاثًا ، ثُمَّ قَالَ : لاَ إلَہَ إِلاَّ اللَّہُ وَحْدَہُ لاَ شَرِیکَ لَہُ لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ وَہُوَ عَلَی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیرٌ ، یَرْفَعُ بِہَا صَوْتَہُ ، ثُمَّ یَدْعُو قَلِیلاً ، ثُمَّ یَفْعَلُ ذَلِکَ عَلَی الْمَرْوَۃِ حَتَّی یَفْعَلَ ذَلِکَ سَبْعَ مَرَّاتٍ فَیَکُونُ التَّکْبِیرُ واحِدًا وَعِشْرِینَ تَکْبِیرَۃً ، فَمَا یَکَادُ یَفْرُغُ حَتَّی یَشُقَّ عَلَیْنَا وَنَحْنُ شَبَابٌ۔
(٣٠٢٥٥) حضرت نافع فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عمر جب صفا پہاڑی پر چڑھتے تو بیت اللہ کی طرف رخ کرتے پھر تین مرتبہ تکبیر کہتے پھر یہ کلمات پڑھتے : اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، اسی کا ملک ہے اور اسی کے لیے تعریف ہے، اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے، اور ان کلمات میں اپنی آواز کو بلند فرماتے۔ پھر تھوڑی دیر دعا کرتے، پھر یہی عمل مروہ پہاڑی پر بھی فرماتے یہاں تک کہ سات مرتبہ ایسے چکر لگاتے، تو تکبیر کی تعداد اکیس بن جاتی، ہم نوجوان ہونے کے باوجود فارغ ہونے کے قریب بہت زیادہ تھک جاتے تھے۔

30255

(۳۰۲۵۶) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنِ الأَصْبَغِ بْنِ یَزِیدَ ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ أَبِی أَیُّوبَ ، عَن سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ، أَنَّہُ کَانَ یقول : یَقُومُ الرجل عَلَی الصَّفَا وَالْمَرْوَۃِ قَدْرَ قِرَائَۃِ سُورَۃِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔
(٣٠٢٥٦) حضرت قاسم بن ابی ایوب فرماتے ہیں کہ حضرت سعید بن جبیر ارشاد فرمایا کرتے تھے : آدمی صفا اور مروہ پہاڑی پر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سورت پڑھنے کی مقدار کے بقدر کھڑا ہوگا۔

30256

(۳۰۲۵۷) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَن شُعْبَۃَ ، عَن مُغِیرَۃَ ، قَالَ : قَالَ الْحَکَمُ لإِبْرَاہِیمَ ، رَأَیْت أَبَا بَکْرِ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ یَقُومُ عَلَی الصَّفَا قَدْرَ مَا یَقْرَأُ الرَّجُلُ عِشْرِینَ وَمِئَۃَ آیَۃٍ فَقَالَ : إِنَّہُ لَفَقِیہٌ۔
(٣٠٢٥٧) حضرت مغیرہ فرماتے ہیں کہ حضرت حکم نے حضرت ابراہیم سے ارشاد فرمایا کہ میں نے حضرت ابوبکر بن عبد الرحمن بن حارث کو صفا پہاڑی پر دیکھا کہ انھوں نے ایک آدمی کے ایک سو بیس آیات پڑھنے کے بقدر قیام فرمایا : تو حضرت ابراہیم نے فرمایا ! یقیناً وہ تو فقیہ ہیں۔

30257

(۳۰۲۵۸) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : لَیْسَ عَلَی الصَّفَا وَالْمَرْوَۃِ دُعَائٌ مُؤقَّتٌ فَادْعُ مَا شِئْت۔
(٣٠٢٥٨) حضرت اعمش فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم نے ارشاد فرمایا : صفا اور مروہ پر کوئی دعا متعین نہیں جو چاہے دعا کرو۔

30258

(۳۰۲۵۹) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ، عَنْ عَطَائٍ، قَالَ: لَمْ أَسْمَعْ، أَنَّ عَلَی الصَّفَا وَالْمَرْوَۃِ دُعَائً مُوَقَّتًا۔
(٣٠٢٥٩) حضرت ابن جریج فرماتے ہیں کہ حضرت عطائ نے ارشاد فرمایا : میں نے نہیں سنا کہ صفا اور مروہ پر کوئی دعا متعین ہو۔

30259

(۳۰۲۶۰) حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ الْعَقَدِیُّ ، عَنْ أَفْلَحَ ، عَنِ الْقَاسِمِ ، قَالَ : لَیْسَ فِیہَا دُعَائٌ مُوَقَّتٌ فَادْعُ بِمَا شِئْت وَسَلْ مَا شِئْت۔
(٣٠٢٦٠) حضرت افلح فرماتے ہیں کہ حضرت قاسم ارشاد فرماتے ہیں کہ ان دونوں پر کوئی دعا متینم نہیں جو چاہے دعا کرو اور جو چاہے سوال کرو۔

30260

(۳۰۲۶۱) حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّیَالِسِیُّ ، عَن مُعَاذِ بْنِ الْعَلائِ ، قَالَ : شَہِدْت عِکْرِمَۃَ بْنَ خَالِدٍ المخزومی یَقُولُ : لاَ أَعْلَمُ عَلَی الصَّفَا وَالْمَرْوَۃِ دُعَائً مُؤَقَّتًا۔
(٣٠٢٦١) حضرت معاذ بن العلائ فرماتے ہیں کہ میں حضرت عکرمہ بن خالد المخزومی کے پاس حاضر تھا وہ ارشاد فرما رہے تھے : میں نہیں جانتا کہ صفا اور مروہ پر کوئی متعین دعا ہو۔

30261

(۳۰۲۶۲) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فضیل ، عَنِ الْعَلائِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : کَانَ عُمَرُ إذَا مَرَّ بِالْوَادِی بَیْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃِ یَسْعَی فِیہِ ویَقُولُ : رَبِّ اغْفِرْ وَارْحَمْ ، وَأَنْتَ الأَعَزُّ الأَکْرَمُ۔
(٣٠٢٦٢) حضرت المسیب فرماتے ہیں کہ حضرت عمر جب صفا اور مروہ کی وادی میں سعی کرتے ہوئے گزرتے تھے تو یوں دعا فرماتے : اے میرے رب ! مغفرت فرما اور رحم فرما ، اور تو بہت عزت والا اور کرم والا ہے۔

30262

(۳۰۲۶۳) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَن شَقِیقٍ ، عَن مَسْرُوقٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : کَانَ إذَا سَعَی فِی بَطْنِ الْوَادِی ، قَالَ : رَبِّ اغْفِرْ وَارْحَمْ إنَّک أَنْتَ الأَعَزُّ الأَکْرَمُ۔
(٣٠٢٦٣) حضرت مسروق فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود جب صفا اور مروہ کی وادی میں سعی کرتے تو یوں دعا فرماتے : اے میرے رب مغفرت فرما اور رحم فرما، یقیناً تو عزت والا اور کرم کرنے والا ہے۔

30263

(۳۰۲۶۴) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنِ حَجَّاجِ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنِ الْہَیْثمِ بْنِ حَنَشٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، أَنَّہُ کَانَ یَقُولُ : رَبّ اغْفِرْ وَارْحَمْ ، وأَنْتَ الأَعَزُّ الأَکْرَمُ۔
(٣٠٢٦٤) حضرت الھیثم بن حنش فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عمر یوں دعا مانگا کرتے تھے، میرے رب ! مغفرت فرما اور رحم فرما، یقیناً تو بہت زیادہ عزت والا اور کرم کرنے والا ہے۔

30264

(۳۰۲۶۵) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَن ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ ، أَنَّ أَبَاہُ کَانَ یَقُولُ وَہُوَ یَسْعَی بَیْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃِ اللَّہُمَّ إنَّ ہَذَا وَاحِدٌ إِنْ تَما أَتَمَّہ اللہ ، وَقَد أَتَمَّا۔
(٣٠٢٦٥) حضرت ہشام بن عروہ فرماتے ہیں کہ ان کے والد حضرت عروہ صفا اور مروہ کی سعی کے درمیان یہ شعر پڑھا کرتے تھے۔ یقیناً یہ ایک (چکر) اگر مکمل ہوا تو اللہ نے اس کو مکمل کیا۔ اور تحقیق وہ مکمل ہوگیا۔

30265

(۳۰۲۶۶) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ إدْرِیسَ ، عَن لَیْثٍ ، عَن مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ یَزِیدَ ، عَنْ أبِیہِ ، قَالَ : أَفَضْت مَعَ عَبْدِ اللہِ فَرَمَی سَبْع حَصَیَاتٍ ، یُکَبِّرُ مَعَ کُلِّ حَصَاۃٍ ، وَاسْتَبْطَنَ الْوَادِی حَتَّی إذَا فَرَغَ ، قَالَ : اللَّہُمَّ اجْعَلْہُ حَجًّا مَبْرُورًا ، وَذَنْبًا مَغْفُورًا ، ثُمَّ قَالَ : ہَکَذَا رَأَیْت الَّذِی أُنْزِلَتْ عَلَیْہِ سُورَۃُ الْبَقَرَۃِ صَنَعَ۔
(٣٠٢٦٦) حضرت محمد بن عبد الرحمن بن یزید فرماتے ہیں کہ میں حضرت عبداللہ بن مسعود کے ساتھ وقوف عرفہ کے اختتام پر منیٰ واپس لوٹا، تو آپ نے سات کنکریاں ماریں، آپ ہر کنکری کے ساتھ تکبیر پڑھتے تھے، اور پھر واوی میں اترے اور یوں دعا فرمائی، اے اللہ ! اس حج کو مقبول بنا دے اور گناہ کی بخشش فرما دے، پھر یوں ارشاد فرمایا : اس طرح میں نے دیکھا تھا جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر سورة بقرہ نازل ہوئی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایسا کیا۔

30266

(۳۰۲۶۷) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِِ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنِ الْہَیْثمِ بْنِ حَنَشٍ ، قَالَ سَمِعْت ابْنَ عُمَرَ حِینَ رَمَی الْجِمَارَ یَقُولُ : اللَّہُمَّ اجْعَلْہُ حَجًّا مَبْرُورًا وَذَنْبًا مَغْفُورًا۔
(٣٠٢٦٧) حضرت الھیثم بن حنش فرماتے ہیں کہ میں نے رمی جمار کے وقت حضرت ابن عمر کو یوں دعا کرتے ہوئے سنا : اے اللہ ! اس حج کو مقبول بنا دے، اور گناہوں کی بخشش فرما دے۔

30267

(۳۰۲۶۸) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَن مُغِیرَۃَ ، قَالَ : قُلْتُ لإِبْرَاہِیمَ : مَا أَقُولُ إذَا رَمَیْت الْجَمْرَۃَ ؟ قَالَ : قُلِ : اللَّہُمَّ اجْعَلْہُ حَجًّا مَبْرُورًا وَذَنْبًا مَغْفُورًا ، قَالَ : قلت أَقُولُہُ مَعَ کُلِّ حَصَاۃٍ ؟ قَالَ : نَعَمْ إِنْ شِئْت۔
(٣٠٢٦٨) حضرت مغیرہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابراہیم سے پوچھا : جب میں شیطان کو کنکری ماروں تو کیا دعا پڑھوں ؟ آپ نے ارشاد فرمایا : یہ دعا پڑھو : اے اللہ ! اس حج کو مقبول بنا دے، اور گناہوں کو بخش دے، مغیرہ کہتے ہیں : میں نے پوچھا : کیا یہ کلمات میں ہر کنکری کے ساتھ پڑھوں ؟ تو آپ نے ارشاد فرمایا ! جی ہاں ! اگر تم چاہو۔

30268

(۳۰۲۶۹) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : لَیْسَ عَلَی الْوُقُوفِ عِنْدَ الْجَمْرَتَیْنِ دُعَائٌ مُوَقَّتٌ فَادْعُ بِمَا شِئْت۔
(٣٠٢٦٩) حضرت اعمش فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم نے ارشاد فرمایا : دونوں جمروں کے پاس وقوف کے وقت کوئی دعا متعین نہیں جو چاہے دعا کرو۔

30269

(۳۰۲۷۰) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِی عَدِیٍّ ، عَنْ أَشْعَثَ ، قَالَ : کَانَ الْحَسَنُ یَقُولُ : یَدْعُو عِنْدَ الْجِمَارِ کُلِّہَا ، وَلا یُؤقِّتُ شَیْئًا۔
(٣٠٢٧٠) حضرت اشعث فرماتے ہیں کہ حضرت حسن فرمایا کرتے تھے : جمار کے پاس تمام دعائیں مانگا کرو، وہاں کوئی دعا متعین نہیں کی گئی۔

30270

(۳۰۲۷۱) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، قَالَ : قُلْتُ لِعَطَائٍ فِی الْجَمْرَۃِ شَیْئٌ مُؤقَّتٌ ، لاَ یُزَادُ عَلَیْہِ ؟ قَالَ : لاَ إِلاَّ قَوْلَ جَابِرٍ۔
(٣٠٢٧١) حضرت ابن جریج فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عطائ سے پوچھا؛ کیا جمرہ کے نزدیک کوئی دعا متعین ہے جس میں زیادتی نہیں کی جاسکتی ؟ آپ نے ارشاد فرمایا : نہیں، مگر حضرت جابر کے قول میں۔

30271

(۳۰۲۷۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن مُوسَی بْنِ عُبَیْدَۃَ ، عَنْ أَخِیہِ ، عَنْ عَلِیٍّ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : أَکْثَرُ دُعَائِی وَدُعَائِ الأَنْبِیَائِ قَبْلِی بِعَرَفَۃَ لاَ إلَہَ إِلاَّ اللَّہُ وَحْدَہُ لاَ شَرِیکَ لَہُ لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ وَہُوَ عَلَی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیرٌ ، اللَّہُمَّ اجْعَلْ فِی قَلْبِی نُورًا وَفِی سَمْعِی نُورًا وَفِی بَصَرِی نُورًا ، اللَّہُمَّ اشْرَحْ لِی صَدْرِی وَیَسِّرْ لِی أَمْرِی ، وَأَعُوذُ بِکَ مِنْ وَسْوَاسِ الصَّدْرِ ، وَشَتَاتِ الأَمْرِ ، وَفِتْنَۃِ الْقَبْرِ ، اللَّہُمَّ إنِّی أَعُوذُ بِکَ مِنْ شَرِّ مَا یَلِجُ فِی اللَّیْلِ ، وَشَرِّ مَا یَلِجُ فِی النَّہَارِ ، وَشَرِّ مَا تَہُبُّ بِہِ الرِّیَاحُ۔
(٣٠٢٧٢) حضرت علی فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : میری اور مجھ سے پہلے تمام انبیاء کی عرفہ کے مقام پر زیادہ مانگی جانے والی دعا یہ ہے : اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، اسی کا ملک ہے اور اسی کے لیے تعریف ہے۔ اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔ اے اللہ ! تو میرے دل میں نور کو ڈال دے۔ اور میرے کانوں میں بھی نور کو ڈال دے، اور میری آنکھوں میں بھی نور ڈال دے، اے اللہ ! میرے لیے میرے سینہ کو کھول دے، اور میرے لیے میرے معاملہ کو آسان فرما، اور میں تیری پناہ مانگتا ہوں سہنش کے وساوس سے، اور معاملہ کے بگڑنے سے اور قبر کے فتنہ سے، اے اللہ ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں ہر اس چیز کے شر سے جو رات میں داخل ہوتی ہے اور ہر چیز کے شر سے جو دن میں داخل ہوتی ہے، اور اس چیز کے شر سے جس کو ہوائیں چلاتی ہیں۔

30272

(۳۰۲۷۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن نَضْرِ بْنِ عَرَبِیٍّ ، عَنِ ابْنِ أَبِی حُسَیْنٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : أَکْثَرُ دُعَائِی وَدُعَائِ الأَنْبِیَائِ قَبْلِی بِعَرَفَۃَ : لاَ إلَہَ إِلاَّ اللَّہُ وَحْدَہُ لاَ شَرِیکَ لَہُ لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ یُحْیِی وَیُمِیتُ وَہُوَ عَلَی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیرٌ۔
(٣٠٢٧٣) حضرت ابن ابی حسین فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : عرفہ کے مقام پر کثرت سے کی جانے والی میری دعا اور مجھ سے پہلے کے انبیاء کی دعا یہ ہے : اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، اسی کا ملک ہے اور اسی کی تعریف ہے، وہی زندگی دیتا ہے اور وہی موت دیتا ہے اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔

30273

(۳۰۲۷۴) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَن مَنْصُورٍ ، عَن ہِلالٍ ، عَنْ أَبِی شُعْبَۃَ ، قَالَ : کُنْتُ بِجَنْبِ ابْنِ عُمَرَ بِعَرَفَۃَ وَإِنَّ رُکْبَتَیَّ لَتَمَسُّ رُکْبَتَہُ ، أَوْ فَخِذِی تَمَسُّ فَخِذَہُ ، فَمَا سَمِعْتہ یَزِیدُ عَلَی ہَؤُلائِ الْکَلِمَاتِ : لاَ إلَہَ إِلاَّ اللَّہُ وَحْدَہُ لاَ شَرِیکَ لَہُ لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ وَہُوَ عَلَی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیرٌ حَتَّی أَفَاضَ مِنْ عَرَفَۃَ إِلَی جَمْعٍ۔
(٣٠٢٧٤) حضرت ابو شعبہ فرماتے ہیں کہ میں میدان عرفات میں حضرت ابن عمر کے پہلو میں تھا۔ اور میرا گھٹنا ان کے گھٹنے سے چھو رہا تھا، یا میری ران ان کی ران سے چھو رہی تھی، پس میں نے نہیں سنا کہ انھوں نے ان کلمات پر کچھ زیادتی کی ہو ، اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، اسی کا ملک ہے اور اسی کے لیے تعریف ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ یہاں تک کہ وہ میدان عرفات سے منیٰ کی طرف لوٹ گئے۔

30274

(۳۰۲۷۵) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ شَترٍ ، قَالَ : قُلْتُ لابْنِ الْحَنَفِیَّۃِ : مَا خَیْرُ مَا نَقُولُ فِی حَجِّنَا ، قَالَ : لاَ إلَہَ إِلاَّ اللَّہُ ، وَاللَّہُ أَکْبَرُ۔
(٣٠٢٧٥) حضرت عبد الرحمن بن بشر فرماتے ہیں کہ میں نے ابن حنفیہ سے پوچھا : سب سے بہتر کلمات کیا ہیں جو ہم اپنے حج کے دوران پڑھیں ؟ تو آپ نے ارشاد فرمایا : اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور اللہ سب سے بڑا ہے۔

30275

(۳۰۲۷۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن مِسْعَرٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ ، عَن رَجُلٍ ، عَنِ ابْنِ الْحَنَفِیَّۃِ مِثْلُہُ۔
(٣٠٢٧٦) اس مذکورہ سند کے ساتھ بھی حضرت ابن حنفیہ کا ما قبل جیسا ارشاد نقل کیا گیا ہے۔

30276

(۳۰۲۷۷) حَدَّثَنَا حُمَیْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَن سَعِیدِ بْنِ السَّائِبِ ، عَن دَاوُد بْنِ أَبِی عَاصِمٍ ، قَالَ : وَقَفْت مَعَ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بِعَرَفَۃَ أَنْظُرُ کَیْفَ یَصْنَعُ ، فَکَانَ فِی الذِّکْرِ وَالدُّعَائِ حَتَّی أَفَاضَ۔
(٣٠٢٧٧) حضرت داؤد بن ابی عاصم فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت سالم بن عبداللہ کے ساتھ میدان عرفات میں وقوف کیا میں دیکھتا رہا کہ وہ کیا کرتے ہیں ؟ پس وہ ذکر اور دعا میں مشغول رہے یہاں تک کہ منیٰ واپس لوٹ گئے۔

30277

(۳۰۲۷۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن سُفْیَانَ ، عَن مَنْصُورٍ ، عَن ہِلالٍ ، عَنْ أَبِی شُعْبَۃَ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، أَنَّہُ کَانَ یَقُولُ حَوْلَ الْبَیْتِ : لاَ إلَہَ إِلاَّ اللَّہُ وَحْدَہُ لاَ شَرِیکَ لَہُ لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ وَہُوَ عَلَی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیرٌ۔
(٣٠٢٧٨) حضرت ابو شعبہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عمر بیت اللہ کے گرد طواف کرتے ہوئے یہ کلمات پڑھ رہے تھے، اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں ، اسی کا ملک ہے اور اسی کے لیے تعریف اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔

30278

(۳۰۲۷۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن أُسَامَۃَ بْنِ زَیْدٍ ، عَنِ ابْنِ أَبِی لَبِیبَۃَ ، عَنْ سَعْدٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : خَیْرُ الذِّکْرِ الْخَفِیُّ۔ (احمد ۱۷۲)
(٣٠٢٧٩) حضرت سعد فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : بہترین ذکر وہ ہے جو آہستہ ہو۔

30279

(۳۰۲۸۰) حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ ، عَن ہِشَامٍ ، عَن یَحْیَی ، عَن رَجُلٍ ، عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ : الذِّکْرُ الْخَفِیُّ الَّذِی لاَ یَکْتُبُہُ الْحَفَظَۃُ یُضَاعَفُ عَلَی مَا سِوَاہُ مِنَ الذِّکْرِ سَبْعِینَ ضِعْفًا۔
(٣٠٢٨٠) حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ آہستہ ذکر جس کو فرشتے نہیں لکھ سکتے۔ اس کا ثواب دوسرے ذکر کی نسبت ستر گنا بڑھا دیا جاتا ہے۔

30280

(۳۰۲۸۱) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، وَأَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ أَبِی عُثْمَانَ ، عَنْ أَبِی مُوسَی ، قَالَ : کُنَّا مَعَ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی سَفَرٍ فَجَعَلَ النَّاسَ یَجْہَرُونَ بِالتَّکْبِیرِ ، فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : ارْبَعُوا عَلَی أَنْفُسِکُمْ فَإِنَّکُمْ لیس تَدْعُونَ أَصَمَّ ، وَلا غَائِبًا ، إنَّکُمْ تَدْعُونَہُ سَمِیعًا قَرِیبًا وَہُوَ مَعَکُمْ۔
(٣٠٢٨١) حضرت ابو موسیٰ فرماتے ہیں کہ ہم لوگ ایک سفر میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ تھے۔ پس لوگ بلند آواز میں تکبیر کہہ رہے تھے۔ تو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اپنی جانوں پر نرمی کرو۔ تم لوگ کسی بہرے کو اور نہ ہی غیر موجود کو پکار رہے ہو۔ بلکہ تم لوگ ایسی ذات کو پکار رہے ہو جو سننے والا اور قریب ہے اور وہ ذات تمہارے ساتھ ہے۔

30281

(۳۰۲۸۲) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ ہَاشم ، عَنِ ابْنِ أَبِی لَیْلَی ، عَن صَدَقَۃَ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، قَالَ : إنَّ الْمُصَلِّیَ إذا صلی یُنَاجِی رَبَّہُ فَلْیَعْلَمْ بِمَا یُنَاجِیہِ ، وَلا یَجْہَرْ بَعْضُکُمْ عَلَی بَعْضٍ۔
(٣٠٢٨٢) حضرت ابن عمر فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : نمازی جب نماز پڑھتا ہے تو وہ اپنے رب سے سرگوشی کرتا ہے۔ پس چاہیے کہ تم میں سے ہر ایک جان لے کہ وہ اس ذات سے کیا سرگوشی کررہا ہے۔ اور تم میں سے بعض لوگ دوسروں پر آواز بلند نہ کریں۔

30282

(۳۰۲۸۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن عِمْرَانَ بْنِ حُدَیْرٍ ، عَنْ أَبِی مِجْلَزٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : أَیُّہَا النَّاسُ إنَّکُمْ لاَ تَدْعُونَ أَصَمَّ ، وَلا غَائِبًا یَعْنِی فِی رَفْعِ الصَّوْتِ فِی الدُّعَائِ۔
(٣٠٢٨٣) حضرت ابو مجلز فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عمر نے ارشاد فرمایا : اے لوگو ! تم کسی بہرے اور غائب کو نہیں پکارتے، یعنی وہ دعا میں آواز بلند کرنے سے متعلق بات کر رہے تھے۔

30283

(۳۰۲۸۴) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ نسیب ، قَالَ : صَلَّیْت إِلَی جَنْبِ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ، فَلَمَّا جَلَسْت فِی الرَّکْعَۃِ الثَّانِیَۃِ رَفَعْت صَوْتِی بِالدُّعَائِ فَانْتَہَرَنِی ، فَلَمَّا انْصَرَفَت قُلْتُ لَہُ : مَا کَرِہْت مِنِّی ؟ قَالَ: ظَنَنْت أَنَّ اللَّہَ لَیْسَ بِقَرِیبٍ مِنْک۔
(٣٠٢٨٤) حضرت عبداللہ بن نسیب فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت سعید بن المسیب کے پہلو میں نماز پڑھی ۔ پس جب میں دوسری رکعت میں بیٹھا۔ تو دعا کرتے ہوئے میری آواز بلند ہوگئی۔ تو انھوں نے مجھے خوب جھڑکا۔ جب میں نماز سے فارغ ہوا تو میں نے ان سے پوچھا : آپ کو میری کیا چیز ناپسند لگی ؟ انھوں نے فرمایا : تیرا کیا گمان ہے کیا اللہ تجھ سے قریب نہیں ہے ؟ !

30284

(۳۰۲۸۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن سُفْیَانَ ، عَنْ أَبِی ہَاشِمٍ ، عَن مُجَاہِدٍ ، أَنَّہُ سَمِعَ رَجُلاً یَرْفَعُ صَوْتَہُ فِی الدُّعَائِ فَرَمَاہُ بِالْحَصَی۔
(٣٠٢٨٥) حضرت ابو ہاشم فرماتے ہیں کہ حضرت مجاہد نے ایک آدمی کو دعا کے دوران آواز بلند کرتے ہوئے سنا تو انھوں نے اس کو کنکری ماری۔

30285

(۳۰۲۸۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن رَبِیعٍ ، عَن یَزِیدَ بْنِ أَبَانَ ، عَنْ أَنَسٍ ، وَعَنْ رَبِیعٍ ، عَنِ الْحَسَنِ أَنَّہُمَا کَرِہَا أَنْ یُسْمِعَ الرَّجُلُ جَلِیسَہُ شَیْئًا مِنَ الدُّعَائِ۔
(٣٠٢٨٦) حضرت انس فرماتے ہیں کہ حضرت ربیع اور حضرت حسن دونوں حضرات ناپسند کرتے تھے : کہ آدمی کی دعا کو اس کا ہمنشین بھی سن لے۔

30286

(۳۰۲۸۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن مُبَارَکٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : کَانُوا یَجْتَہِدُونَ فِی الدُّعَائِ ، وَلا تَسْمَعُ إِلاَّ ہَمْسًا۔
(٣٠٢٨٧) حضرت مبارک فرماتے ہیں کہ حضرت حسن نے ارشاد فرمایا : صحابہ دعا میں بہت زیادہ کوشش کرتے تھے۔ اور نہیں سنائی دیتی تھی مگر سرگوشی۔

30287

(۳۰۲۸۸) حَدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ إِسْحَاقَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ ابْنِ أَبِی ذُبَابٍ ، عَن سَہْلِ بْنِ سَعْدٍ قَالَ : مَا رَأَیْت رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ شَاہِرًا یَدَہُ فِی الدُّعَائِ عَلَی مِنْبَرٍ ، وَلا غَیْرِہِ ، وَلَقَدْ رَأَیْت یَدَیْہِ حَذْوَ مَنْکِبَیْہِ یَدْعُو۔
(٣٠٢٨٨) حضرت سھل بن سعد فرماتے ہیں کہ میں نے نہیں دیکھا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنے ہاتھوں کو دعا میں بلند کرتے ہوئے منبر پر اور نہ ہی اس کے علاوہ، اور البتہ میں نے دیکھا کہ آپ کے دونوں ہاتھ کندھوں کے برابر تھے دعا کرتے ہوئے۔

30288

(۳۰۲۸۹) حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ ، عَن سَعِیدٍ ، عَن قَتَادَۃَ ، عَنْ أَنَسٍ ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ لاَ یَرْفَعُ یَدَیْہِ فِی شَیْئٍ مِنَ الدُّعَائِ إِلاَّ فِی الاسْتِسْقَائِ۔
(٣٠٢٨٩) حضرت انس فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کسی بھی دعا میں اپنے ہاتھوں کو بلند نہیں کرتے تھے سوائے استسقاء کی دعا کے۔

30289

(۳۰۲۹۰) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنِ الْمُسَیَّبِ بْنِ رَافِعٍ ، عَن تَمِیمِ بْنِ طَرَفَۃَ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَۃَ ، قَالَ : خَرَجَ عَلَیْنَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : مَا لِی أَرَاکُمْ رَافِعِی أَیْدِیکُمْ کَأَنَّہَا أَذْنَابُ خَیْلٍ شُمْسٍ ، اسْکُنُوا فِی الصَّلاۃِ۔
(٣٠٢٩٠) حضرت جابر بن سمرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم پر تشریف لائے اور فرمایا : مجھے کیا ہوا کہ میں تمہارے ہاتھوں کو اٹھتا ہوا دیکھتا ہوں بدکے ہوئے گھوڑوں کی دموں کی طرح ؟ تم نماز میں سکون سے رہو۔

30290

(۳۰۲۹۱) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ ، عَن یَزِیدَ بْنِ أَبِی زِیَادٍ ، عَن سُلَیمَانَ بْنِ عَمْرِو بْنِ الأَحْوَصِ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا أَبُو ہِلالٍ ، عَنْ أَبِی بَرَزَۃَ ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ دَعَا عَلَی رَجُلَیْنِ فَرَفَعَ یَدَیْہِ۔
(٣٠٢٩١) حضرت ابو برزہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دو آدمیوں کے خلاف بد دعا فرمائی تو اپنے ہاتھوں کو بلند کیا۔

30291

(۳۰۲۹۲) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنِ الْجُرَیْرِیِّ ، عَن حَیَّانَ بْنِ عُمَیْرٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَمُرَۃَ ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَفَعَ یَدَیْہِ حیث صَلَّی فِی الْکُسُوفِ۔
(٣٠٢٩٢) حضرت عبد الرحمن بن سمرہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سورج گرہن کی نماز کے دوران اپنے دونوں ہاتھوں کو بلند کیا۔

30292

(۳۰۲۹۳) حَدَّثَنَا سَہْلُ بْنُ یُوسُفَ ، عَن حُمَیْدٍ ، قَالَ : سُئِلَ أَنَسٌ : ہَلْ کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَرْفَعُ یَدَیْہِ یَعْنِی فِی الدُّعَائِ فَقَالَ : نَعَمْ ، شَکَا النَّاسُ إلَیْہِ ذَاتَ جُمُعَۃٍ فَقَالُوا : یَا رَسُولَ اللہِ ، قَحَطَ الْمَطَرُ وَأَجْدَبَتِ الأَرْضُ وَہَلَکَ الْمَالُ ،قال: فَرَفَعَ یَدَیْہِ حَتَّی رَأَیْت بَیَاضَ إبْطَیْہِ۔
(٣٠٢٩٣) حضرت حمید فرماتے ہیں کہ حضرت انس سے پوچھا گیا : کیا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے دونوں ہاتھوں کو اٹھاتے تھے یعنی دعا میں ؟ تو آپ نے ارشاد فرمایا : جی ہاں ! لوگوں نے جمعہ کے دن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے شکایت کی ۔ پس وہ کہنے لگے ! اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! بارش روک دی گئی اور زمین خشک ہوگئی اور مال مویشی ہلاک ہوگئے۔ حضرت انس فرماتے ہیں : پس آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے ہاتھوں کو بلند کیا۔ یہاں تک کہ میں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بغلوں کی سفیدی کو دیکھ لیا۔

30293

(۳۰۲۹۴) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ أَبِی بُکَیْرٍ حَدَّثَنَا شُعْبَۃُ ، عَن ثَابِتٍ ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ : رَأَیْتُ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَرْفَعُ یَدَیْہِ فِی الدُّعَائِ حَتَّی یُرَی بَیَاضُ إبْطَیْہِ۔ (مسلم ۶۱۲۔ طیالسی ۲۰۴۷)
(٣٠٢٩٤) حضرت انس فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیکھا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دعا میں اپنے دونوں ہاتھوں کو بلند کیا یہاں تک کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بغلوں کی سفیدی دکھائی دینے لگی۔

30294

(۳۰۲۹۵) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ کُلَیْبٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَن وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ ، قَالَ : رَأَیْتُ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَضَعَ حَدَّ مِرْفَقِہِ الأَیْمَنِ عَلَی فَخِذِہِ الْیُمْنَی وَحَلَّقَ بِالإِبْہَامِ وَالْوُسْطَی وَرَفَعَ الَّتِی تَلِی الإِبْہَامَ یَدْعُو بِہَا۔
(٣٠٢٩٥) حضرت وائل بن حجر فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیکھا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی دائیں کو ہنی کی انتہاء کو اپنی دائیں ران پر رکھا اور انگوٹھے اور درمیانی انگلی کے ساتھ حلقہ بنایا ۔ اور شہادت کی انگلی کو بلند کر کے دعا مانگی۔

30295

(۳۰۲۹۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن عِصَامِ بْنِ قُدَامَۃَ ، عَن مَالِکِ بْنِ نُمَیْرٍ الْخُزَاعِیِّ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : رَأَیْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ جَالِسًا فِی الصَّلاۃِ وَاضِعًا یَدَہُ الْیُمْنَی عَلَی فَخِذِہِ یشیر بِإِصْبَعِہِ۔
(٣٠٢٩٦) حضرت نمیر الخزاعی فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نماز میں بیٹھنے کی حالت میں دیکھا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے داہنے ہاتھ کو اپنی دائیں ران پر رکھا ہوا تھا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی انگلی سے اشارہ فرما رہے تھے۔

30296

(۳۰۲۹۷) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ، عَنِ ابْنِ عَجْلاَنَ، عَنْ عَامِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ الزُّبَیْرِ، عَنْ أَبِیہِ، قَالَ: کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، إِذَا قَعَدَ یَدْعُو ، وَضَعَ یَدَہُ الْیُمْنَی عَلَی فَخِذِہِ الْیُمْنَی ، وَیَدَہُ الْیُسْرَی عَلَی فَخِذِہِ الْیُسْرَی، وَأَشَارَ بِإِصْبَعِہِ السَّبَّابَۃِ، وَوَضَعَ إِبْہَامَہُ عَلَی إِصْبَعِہِ الْوُسْطَی، وَیُلْقِمُ کَفَّہُ الْیُسْرَی رُکْبَتَہُ۔
(٣٠٢٩٧) حضرت عبداللہ بن زبیر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب بیٹھ کر دعا کرتے تھے تو اپنے دائیں ہاتھ کو دائیں ران پر رکھ لیتے اور اپنے بائیں ہاتھ کو بائیں ران پر رکھ لیتے۔ اور شہادت کی انگلی کے ساتھ اشارہ فرماتے، اس حال میں کہ انگوٹھے کو درمیانی انگلی کے سرے پر رکھتے تھے، اور اپنی بائیں ہتھیلی کو گھٹنے سے ملا دیتے۔

30297

(۳۰۲۹۸) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَن مَنْصُورٍ ، عَن رَاشِدٍ أَبِی سَعْدٍ ، عَن سَعِیدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبْزَی ، قَالَ : کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إذَا جَلَسَ فِی الصَّلاۃِ وَضَعَ یَدَہُ عَلَی فَخِذِہِ وَیُشِیرُ بِإِصْبَعِہِ فِی الدُّعَائِ۔
(٣٠٢٩٨) حضرت سعید بن عبدالرحمن بن ابزی فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب نماز کی حالت میں بیٹھتے تو اپنے ہاتھ کو اپنی ران پر رکھ لیتے۔ اور دعا میں اپنی انگلی سے اشارہ فرماتے تھے۔

30298

(۳۰۲۹۹) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِی صَالِحٍ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : أَبْصَرَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سَعْدًا وَہُوَ یَدْعُو بِأَصَابِعِہِ فَقَالَ : یَا سَعْدُ ، أَحِّدْ أَحِّدْ۔
(٣٠٢٩٩) حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت سعد کو دیکھا کہ وہ اپنی انگلیوں کے ساتھ دعا فرما رہے تھے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ایک سے کرو، ایک سے کرو۔ (یعنی ایک انگلی سے دعا کرو)

30299

(۳۰۳۰۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن سُفْیَانَ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنِ التَّمِیمِیِّ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : ہُوَ الإِخْلاصُ یَعْنِی الدُّعَائَ بِإِصْبَعٍ۔
(٣٠٣٠٠) حضرت تمیمی فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عباس نے ارشاد فرمایا : وہ تو اخلاص ہے یعنی انگلی سے دعا کرنا۔

30300

(۳۰۳۰۱) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَن سَلَمَۃَ بْنِ عَلْقَمَۃَ ، عَن مُحَمَّدِ عن کَثِیرِ بْنِ أَفْلَحَ ، قَالَ : صَلَّیْت ، قَالَ : فَلَمَّا کَانَ فِی آخِرِ الْقَعْدَۃِ قُلْتُ ہَکَذَا وأَشَارَ ابْنُ عُلَیَّۃَ بِإِصْبَعَیْہِ فَقَبَضَ ابْنُ عُمَرَ ہَذِہِ یَعْنِی الْیُسْرَی۔
(٣٠٣٠١) حضرت کثیر بن الافلح فرماتے ہیں کہ میں نے نماز پر ھی پس جب میں آخری قعدہ میں تھا، میں نے ایسے کیا : اور ابن علیہ نے اپنی انگلی کی طرف اشارہ کیا۔ تو حضرت ابن عمر نے اس کو بند کردیا یعنی بائیں انگلی کو۔

30301

(۳۰۳۰۲) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَن حَجَّاجٍ ، عَنْ عَطَائٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، أَنَّہُ کَانَ یُشِیرُ بِإِصْبَعِہِ فِی الصَّلاۃِ۔
(٣٠٣٠٢) حضرت عطائ فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمر نماز میں اپنی انگلی کے ساتھ اشارہ کرتے تھے۔

30302

(۳۰۳۰۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن مِسْعَرٍ ، عَنْ أَبِی عَلْقَمَۃَ ، عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ : إنَّ اللَّہَ وِتْرٌ یُحِبُّ الْوِتْرَ أَنْ یُدْعَا ہَکَذَا وَأَشَارَتْ بِإِصْبَعٍ وَاحِدَۃٍ۔
(٣٠٣٠٣) حضرت ابو علقمہ فرماتے ہیں کہ حضرت عائشہ نے ارشاد فرمایا : اللہ ایک ہے ، اللہ پسند کرتا ہے کہ اس طرح دعا مانگی جائے : اور آپ نے اپنی ایک انگلی سے اشارہ کیا۔

30303

(۳۰۳۰۴) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ ، عَن ہِشَامٍ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، أَنَّہُ رَأَی رَجُلاً یَدْعُو بِإِصْبَعَیْہِ کِلَیْہِمَا فَنَہَاہُ ، وَقَالَ : بِإِصْبَعٍ وَاحِدٍ بِالْیُمْنَی۔
(٣٠٣٠٤) حضرت ابن سیرین فرماتے ہیں کہ حضرت ابوہریرہ نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ اپنی دونوں انگلیوں کے ساتھ دعا کررہا تھا، تو آپ نے اس کو منع فرما دیا، اور ارشاد فرمایا : دائیں ہاتھ کی انگلی کے ساتھ دعا کرو۔

30304

(۳۰۳۰۵) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنِ ابْنِ عَجْلانَ ، عَن سُلَیْمَانَ بْنِ أَبِی یَحْیَی ، قَالَ : کَانَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَأْخُذُ بَعْضُہُمْ عَلَی بَعْضٍ یَعْنِی الإِشَارَۃَ بِإِصْبَعٍ فِی الدُّعَائِ۔
(٣٠٣٠٥) حضرت سلیمان بن ابی یحییٰ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ ان میں سے کچھ رکھتے تھے یعنی دعا میں انگلی سے اشارہ کرتے تھے۔

30305

(۳۰۳۰۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن مِسْعَرٍ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ عُمَیْرٍ ، عَنِ ابْنِ الزُّبَیْرِ ، قَالَ : إنَّکُمْ لَتَدْعُونَ ، أَفْضَلُ الدُّعَائِ ہَکَذَا وَأَشَارَ بِإِصْبَعِہِ۔
(٣٠٣٠٦) حضرت عبد الملک بن عمیر فرماتے ہیں کہ حضرت ابن الزبیر نے ارشاد فرمایا : یقیناً تم لوگ دعا کرتے ہو۔ اور افضل دعا اس طرح سے ہے اور آپ نے اپنی انگلی کا اشارہ کر کے دکھایا۔

30306

(۳۰۳۰۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، عَن مِسْعَرٍ، عن معبد بن خالد عن قیس بن سعد قَالَ: کان لاَ یزاد ہَکَذَا وَأَشَارَ بِإِصْبَعِہِ۔
(٣٠٣٠٧) حضرت معبد بن خالد فرماتے ہیں کہ حضرت قیس بن سعد نے ارشاد فرمایا : اس طرح سے زیادہ نہیں کیا جاتا تھا اور آپ نے اپنی انگلی سے اشارہ کیا۔

30307

(۳۰۳۰۸) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَن مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : إذَا أَشَارَ الرَّجُلُ بِإِصْبَعِہِ فِی الصَّلاۃِ ، فَہُوَ حَسَنٌ وَہُوَ التَّوْحِیدُ ، وَلَکِنْ لاَ یُشِیرُ بِإِصْبَعَیْہِ فَإِنَّہُ یُکْرَہُ۔
(٣٠٣٠٨) حضرت مغیرہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم نے ارشاد فرمایا : جب کوئی شخص نماز میں اپنی انگلی سے اشارہ کرتا ہے تو یہ اچھی بات ہے ، اور یہ توحید ہے، اور لیکن وہ اپنی دو انگلیوں سے اشارہ مت کرے۔ کیونکہ یہ مکروہ ہے۔

30308

(۳۰۳۰۹) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَن حَجَّاجٍ ، عَن طَلْحَۃَ ، عَن خَیْثَمَۃَ ، أَنَّہُ کَانَ یعقد ثَلاثًا وَخَمْسِینَ ، وَیُشِیرُ بِإِصْبَعِہِ۔
(٣٠٣٠٩) حضرت طلحہ فرماتے ہیں کہ حضرت خیثمہ تریپن تک گنتے تھے اور ایک انگلی سے اشارہ کرتے ہیں۔

30309

(۳۰۳۱۰) حَدَّثَنَا حَفص بْنُ غِیَاثٍ ، عَن عُثْمَانَ بْنِ الأَسْوَدِ ، عَن مُجَاہِدٍ ، أَنَّہُ قَالَ : الدُّعَائُ ہَکَذَا وَأَشَارَ بِإِصْبَعٍ وَاحِدَۃٍ مَقْمَعَۃٌ لِلشَّیْطَانِ۔
(٣٠٣١٠) حضرت عثمان بن الاسود فرماتے ہیں کہ حضرت مجاہد نے ارشاد فرمایا : دعا تو اس طرح ہوتی ہے۔ اور آپ نے ایک انگلی سے اشارہ فرمایا۔ شیطان کو قابو رکھنے کے لیے۔

30310

(۳۰۳۱۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ ، قَالَ : کَانُوا إذَا رَأَوْا إنْسَانًا یَدْعُو بِإِصْبَعَیْہِ ضَرَبُوا إحْدَاہُمَا ، وَقَالُوا : إنَّمَا ہُوَ إلَہٌ وَاحِدٌ۔
(٣٠٣١١) حضرت ابن سیرین فرماتے ہیں کہ صحابہ جب بھی کسی شخص کو دیکھتے کہ وہ دو انگلیوں کے ساتھ دعا کررہا ہے۔ تو وہ ایک انگلی کو مارتے اور کہتے : یقیناً وہ ایک معبود ہے۔

30311

(۳۰۳۱۲) حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ بْنُ مُوسَی ، عَنْ إسْرَائِیلَ ، عَنْ أَشْعَثَ بْنِ أَبِی الشَّعْثَائِ ، عَن رَجُلٍ مِنَ الأَنْصَارِ حَدَّثَہُ ، عَنْ جَدِّہِ، أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَرَّ عَلَیْہِ وَہُوَ یَدْعُو بِیَدَیْہِ فَقَالَ: أَحِّدْ فَإِنَّہُ أَحَدٌ۔ (مسند ۶۶۹)
(٣٠٣١٢) ایک انصاری آدمی فرماتے ہیں کہ ان کے دادا کے پاس سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا گزر ہوا اس حال میں کہ وہ دو انگلیوں سے دعا کر رہے تھے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ایک سے دعا کر کیونکہ وہ ایک ہے۔

30312

(۳۰۳۱۳) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَن ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ ، أَنَّ أَبَاہُ کَانَ یُشِیرُ بِإِصْبَعِہِ فِی الدُّعَائِ ، وَلا یُحَرِّکُہَا۔
(٣٠٣١٣) حضرت ہشام بن عروہ فرماتے ہیں کہ ان کے والد دعا میں انگلی سے اشارہ کرتے تھے اور انگلی کو حرکت نہیں دیتے تھے۔

30313

حدثنا بقی بن مخلد ، قَالَ : حدثنا أبو بکر ، قَالَ : (۳۰۳۱۴) حَدَّثَنَا وَکِیعُ بْنُ الْجَرَّاحِ ، عَنِ ابْنِ أَبِی لَیْلَی ، عَنْ عَطَائٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، أَنَّہُ قَالَ : لاَ تَقُومُوا تَدْعُونَ کَمَا تَصْنَعُ الْیَہُودُ فِی کَنَائِسِہِمْ۔
(٣٠٣١٤) حضرت عطائ فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عباس نے ارشاد فرمایا : تم لوگ کھڑے ہو کر دعا مت کرو جیسا کہ یہود اپنے گرجاؤں میں کرتے ہیں۔

30314

(۳۰۳۱۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن مِسْعَرٍ ، عَنِ ابْنِ الأَصْبَہَانِیِّ ، عَنْ أَبِی عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، أَنَّہُ رَأَی رَجُلاً یَدْعُو قَائِمًا بَعْدَ مَا انْصَرَفَ فَسَبَّہُ ، أَوْ شَتَمَہُ۔
(٣٠٣١٥) حضرت ابن الاصبھانی فرماتے ہیں کہ حضرت ابو عبد الرحمن نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ نماز پڑھنے کے بعد کھڑا ہو کر دعا کررہا تھا۔ تو آپ نے اس کو بُرا بھلا کہا یا اس کو گالی دی۔

30315

(۳۰۳۱۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، عَن مِسْعَرٍ ، عَنِ الْحَکَمِ ، عَنْ عَبْدَۃَ بْنِ أَبِی لُبَابَۃَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ یَزِیدَ، أَنَّہُ کَرِہَہُ۔
(٣٠٣١٦) حضرت عبدہ بن ابو لبابہ فرماتے ہیں کہ حضرت عبد الرحمن بن یزید کھڑے ہو کر دعا کرنے کو مکروہ سمجھتے ہیں۔

30316

(۳۰۳۱۷) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃُ ، عَن حَجَّاجٍ ، عَنِ الْحَکَمِ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ یَزِیدَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : ثِنْتَانِ بِدْعَۃٌ : أَنْ یَقُومَ الرَّجُلُ بَعْدَ مَا یَفْرُغُ مِنْ صَلاتِہِ مُسْتَقْبِلَ الْقِبْلَۃِ یَدْعُو ، وَأَنْ یَسْجُدَ السَّجْدَۃَ الثَّانِیَۃَ فَیَرَی أَنَّ حَقًّا عَلَیْہِ أَنْ یَلْزَقَ أَلْیَتَیْہِ بِالأَرْضِ قَبْلَ أَنْ یَنْہَضَ۔
(٣٠٣١٧) حضرت عبد الرحمن بن یزید فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود نے ارشاد فرمایا : دو چیزیں بدعت ہیں : ایک یہ کہ آدمی نماز سے فارغ ہونے کے بعد کھڑا ہو کر قبلہ کی طرف منہ کر کے دعا مانگے۔ اور دوسری یہ کہ وہ دوسرا سجدہ کرے ۔ اور وہ سمجھتا ہو کہ اس پر لازم ہے کہ وہ اپنی سرین کو زمین سے چپکائے اٹھنے سے پہلے۔

30317

(۳۰۳۱۸) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَن لَیْثٍ ، عَن مُجَاہِدٍ ، أَنَّہُ کَرِہَ الْقِیَامَ بَعْدَہَا تَشَبُّہًا بِالْیَہُودِ۔
(٣٠٣١٨) حضرت لیث فرماتے ہیں کہ حضرت مجاہد نماز کے بعد کھڑے ہو کر دعا مانگنے کو ناپسند کرتے تھے یہود کی مشابہت کی وجہ سے۔

30318

(۳۰۳۱۹) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، عَن جُوَیْبِرٍ ، عَنِ الضَّحَّاکِ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ، أَنَّہُ بَلَغَہُ ، أَنَّ قَوْمًا یَذْکُرُونَ اللَّہَ قِیَامًا ، قَالَ : فَأَتَاہُمْ فَقَالَ : مَا ہَذَہ النُّکْراء ۔
(٣٠٣١٩) حضرت ضحاک فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود کو خبر پہنچی : کہ ایک قوم کھڑے ہو کر اللہ کا ذکر کرتی ہے۔ ضحاک فرماتے ہیں۔ پس آپ ان کے پاس تشریف لائے اور فرمایا : یہ کیا بُرا کام ہے ؟ !۔

30319

(۳۰۳۲۰) حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ ، عَنْ جَمِیلِ بْنِ زَیْدٍ ، قَالَ : رَأَیْتُ ابْنَ عُمَرَ دَخَلَ الْبَیْتَ وَصَلَّی رَکْعَتَیْنِ ، ثُمَّ خَرَجْت وَتَرَکْتہ قَائِمًا یَدْعُو وَیُکَبِّرُ۔
(٣٠٣٢٠) حضرت جمیل بن زید فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن عمر کو دیکھا وہ بیت اللہ میں داخل ہوئے اور دو رکعت نماز پڑھی۔ پھر میں نکل آیا اس حال میں کہ میں نے ان کو چھوڑا کہ وہ کھڑے ہو کر دعا کر رہے تھے اور تکبیر کہہ رہے تھے۔

30320

(۳۰۳۲۱) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَن شُعْبَۃَ ، قَالَ : قُلْتُ لِمُغِیرَۃَ : کَانَ إبْرَاہِیمُ یَکْرَہُ إذَا انْصَرَفَ أَنْ یَقُومَ مُسْتَقْبِلَ الْقِبْلَۃِ یَرْفَعُ یَدَیْہِ ؟ قَالَ : نَعَمْ۔
(٣٠٣٢١) حضرت شعبہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت مغیرہ سے پوچھا؛ کیا حضرت ابراہیم اس بات کو ناپسند کرتے تھے کہ نماز سے فارغ ہو کر کوئی شخص قبلہ رو کھڑے ہو کر اپنے ہاتھوں کو بلند کرے ؟ تو آپ نے فرمایا ! جی ہاں !

30321

(۳۰۳۲۲) حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ مُعَاذٍ، عَنْ أَشْعَثَ، قَالَ: رَأَیْتُ الْحَسَنَ یَرْفَعُ بَصَرَہُ إِلَی السَّمَائِ فِی الصَّلاۃِ یَدْعُو وَہُوَ قَائِمٌ۔
(٣٠٣٢٢) حضرت اشعث فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت حسن کو دیکھا کہ انھوں نے نماز میں اپنی آنکیں ص آسمان کی طرف اٹھائی ہوئی تھیں اور وہ کھڑے ہو کر دعا کر رہے تھے۔

30322

(۳۰۳۲۳) حَدَّثَنَا شَرِیکُ بْنُ عَبْدِ اللہِ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَن بُرَیْدِ بْنِ أَبِی مَرْیَمَ ، عْن أَبِی الْحَوْرَائِ ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِیٍّ قَالَ : عَلَّمَنِی جَدِّی کَلِمَاتٍ أَقُولُہُنَّ فِی قُنُوتِ الْوِتْرِ : اللَّہُمَّ اہْدِنِی فِیمَنْ ہَدَیْت ، وَعَافِنِی فِیمَنْ عَافَیْت ، وَتَوَلَّنِی فِیمَنْ تَوَلَّیْت ، وَقِنِی شَرَّ مَا قَضَیْت ، وَبَارِکْ لِی فِیمَا أَعْطَیْت ، إنَّک تَقْضِی ، وَلا یُقْضَی عَلَیْک ، فَإِنَّہُ لاَ یَذِلُّ مَنْ وَالَیْت ، تَبَارَکْت وَتَعَالَیْت۔
(٣٠٣٢٣) حضرت حسن بن علی فرماتے ہیں کہ میرے نانا نے مجھے کچھ کلمات سکھائے ہیں جن کو میں قنوت وتر میں پڑھتا ہوں ! اے اللہ ! جن لوگوں کو تو نے راہ راست پر لگایا ہے ان کے ساتھ تو مجھے بھی راہ راست پر لگا دے۔ اور جن کو تو نے عافیت نصیب فرمائی ان لوگوں کے ساتھ مجھے بھی عافیت نصیب فرما دے اور جن کا تو کار ساز بنا ان کے ساتھ میرا بھی کارساز بن جا۔ اور جو فیصلہ تو فرما چکا اس کے شر سے مجھے بچا لے۔ اور جو کچھ تو نے مجھے دیا ہے تو اس میں برکت عطا فرما۔ کیونکہ تو ہی فیصلہ فرماتا ہے اور تیرے خلاف کوئی فیصلہ کرنے والا نہیں۔ پس یقیناً جس کا تو کارساز ہو وہ ذلیل نہیں ہوتا ، تو برکت والا اور بلندو برتر ہے۔

30323

(۳۰۳۲۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن حَسَنِ بْنِ صَالِحٍ ، عَن مَنْصُورٍ ، عَن شَیْخٍ یُکَنَّی أَبَا مُحَمَّدٍ ، أَنَ الْحُسَیْنَ بْنَ عَلِیٍّ کَانَ یَقُولُ فِی قُنُوتِ الْوِتْرِ : اللَّہُمَّ إنَّک تَرَی ، وَلا تُرَی ، وَأَنْتَ بِالْمَنْظَرِ الأَعْلَی ، وَإِنَّ إلَیْک الرُّجْعَی ، وَإِنَّ لَکَ الآخِرَۃَ وَالأُولَی ، اللَّہُمَّ إنَّا نَعُوذُ بِکَ أَنْ نَذِلَّ وَنَخْزَی۔
(٣٠٣٢٤) ایک شیخ جن کی کنیت ابو محمد ہے فرماتے ہیں کہ حضرت حسن بن علی قنوت وتر میں یوں دعا کرتے تھے : اے اللہ ! یقیناً تو دیکھتا ہے اور خود دکھائی نہیں دیتا اور تو بلند رتبہ اور منظر والا ہے۔ اور یقیناً تیری طرف ہی لوٹنا ہے۔ اور تیرے لیے ہی آخرت اور پہلے کی زندگی ہے۔ اے اللہ ! ہم تیری پناہ مانگتے ہیں ذلیل اور رسوا ہونے سے ۔

30324

(۳۰۳۲۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن ہَارُونَ بْنِ إِبْرَاہِیمَ ، عَن عَبْدِ اللہِ بْنِ عُبَیْدِ بْنِ عُمَیْرٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، أَنَّہُ کَانَ یَقُولُ فِی قُنُوتِ الْوِتْرِ : لَکَ الْحَمْدُ مِلْئَ السَّمَاوَاتِ السَّبْعِ ، وَمِلْئَ الأَرَضِینَ السَّبْعِ ، وَمِلْئَ مَا بَیْنَہُمَا مِنْ شَیْئٍ بَعْدُ ، أَہْلُ الثَّنَائِ وَالْمَجْدِ أَحَقُّ مَا قَالَ الْعَبْدُ ، کُلُّنَا لَکَ عَبْدٌ : لاَ مَانِعَ لِمَا أَعْطَیْت ، وَلا مُعْطِیَ لِمَا مَنَعْت ، وَلا یَنْفَعُ ذَا الْجَدِّ مِنْک الْجَدُّ۔
(٣٠٣٢٥) حضرت عبداللہ بن عبید بن عمیر فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عباس قنوت میں یہ دعا پڑھتے تھے : تیری تعریف ہے ساتوں آسمانوں اور ساتوں زمینوں اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے وہ بھر کر ، اور جو چیز اس کے بعد ہے اس کی مقدار بھر کر تیری تعریف، بڑائی اور شرف والا ہے تو۔ اور جو جو بندوں نے کیا۔ اور سب تیرے ہی بندے ہیں۔ ان میں سب سے درست بات یہ ہے کہ جو نعمت تو بخش دے اس کا کوئی روکنے والا نہیں اور جو تو روک لے اس کا دینے والا کوئی نہیں ۔ اور تیرے سامنے کسی مرتبہ والے کا مرتبہ کچھ کام نہیں دیتا۔

30325

(۳۰۳۲۶) حَدَّثَنَا محمد بْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ ، عَنْ أَبِی عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، قَالَ : عَلَّمَنَا ابْنُ مَسْعُودٍ أَنْ نَقُولَ فِی الْقُنُوتِ یَعْنِی فِی الْوِتْرِ : اللَّہُمَّ إنَّا نَسْتَعِینُک وَنَسْتَغْفِرُک وَنُثْنِی عَلَیْک الخیر، وَلا نَکْفُرُک وَنَخْلَعُ وَنَتْرُکُ مَنْ یَفْجُرُکَ اللَّہُمَّ إیَّاکَ نَعْبُدُ وَلَک نُصَلِّی وَنَسْجُدُ وَإِلَیْک نَسْعَی وَنَحْفِدُ وَنَرْجُو رَحْمَتَکَ وَنَخْشَی عَذَابَک إنَّ عَذَابَکَ بِالْکُفَّارِ مُلْحَقٌ۔
(٣٠٣٢٦) حضرت ابو عبد الرحمن فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود نے ہمیں سکھایا کہ ہم قنوت وتر میں یہ دعا پڑھیں : اے اللہ ! ہم تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں اور تجھ سے معافی مانگتے ہیں۔ اور ہم تیری بہت اچھی تعریف کرتے ہیں۔ اور ہم تیری ناشکری نہیں کرتے، اور ہم الگ کرتے ہیں اور ہم چھوڑتے ہیں اس شخص کو جو تیری نافرمانی کرے۔ اے اللہ ! ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں۔ اور تیرے لیے ہی نماز پڑھتے ہیں اور سجدہ کرتے ہیں اور تیری طرف ہی دوڑتے ہیں اور خدمت کے لیے حاضر ہوتے ہیں اور ہم تیری رحمت کے امید وار ہیں۔ اور ہم تیرے عذاب سے ڈرتے ہیں۔ اور بیشک تیرا عذاب کافروں کو ملنے والا ہے۔

30326

(۳۰۳۲۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن سُفْیَانَ ، عَنِ الزُّبَیْرِ بْنِ عَدِیٍّ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : قلْ فِی قُنُوتِ الْوِتْرِ : اللَّہُمَّ إنَّا نَسْتَعِینُک وَنَسْتَغْفِرُک۔
(٣٠٣٢٧) حضرت زبیر بن عدی فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم نے ارشاد فرمایا : تم صلوۃ الوتر میں یوں کہو : اے اللہ ! ہم تجھ سے مدد مانگتے ہیں اور تجھ سے معافی مانگتے ہیں۔

30327

(۳۰۳۲۸) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا مُغِیرَۃُ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، أَنَّہُ قَالَ : لَیْسَ فِی قُنُوتِ الْوِتْرِ شَیْئٌ مُوَقَّتٌ ، إنَّمَا ہُوَ دُعَائٌ وَاسْتِغْفَارٌ۔
(٣٠٣٢٨) حضرت مغیرہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم نے ارشاد فرمایا : قنوت وتر میں کوئی دعا متعین نہیں۔ بیشک وہ تو دعا اور استغفار ہے۔

30328

(۳۰۳۲۹) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَن حَمَّادِ بْنِ سَلَمَۃَ ، عَن ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ ہِشَامٍ، عَنْ عَلِیٍّ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یَقُولُ فِی آخِرِ وِتْرِہِ: اللَّہُمَّ إنِّی أَعُوذُ بِرِضَاک مِنْ سَخَطِکَ، وَأَعُوذُ بِمُعَافَاتِکَ مِنْ عُقُوبَتِکَ ، وَأَعُوذُ بِکَ مِنْک ، لاَ أُحْصِی ثَنَائً علَیْک أَنْتَ کَمَا أَثْنَیْت عَلَی نَفْسِکَ۔
(٣٠٣٢٩) حضرت علی فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وتر کے آخر میں یہ دعا کرتے تھے : اے اللہ ! میں تیری رضا مندی کی پناہ میں آتا ہوں تیری ناراضگی سے، اور تیری معافی کی پناہ لیتا ہوں تیرے غصہ سے ، اور میں تجھ سے تیری ذات کی پناہ لیتا ہوں۔ میں تیری پوری تعریف نہیں کرسکتا، تو ایسا ہی ہے جیسا کہ خود تو نے اپنی تعریف فرمائی۔

30329

(۳۰۳۳۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ زُبَیْدٍ ، عَنْ ذَرٍّ ، عَن سَعِیدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبْزَی ، عَنْ أبیہ ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یُوتِرُ ویقول فِی آخِرِ صَلاتِہِ إذَا جَلَسَ : سُبْحَانَ الْمَلِکِ الْقُدُّوسِ ثَلاثًا ، یَمُدُّ بِہَا صَوْتَہُ فِی الآخِرَۃِ۔
(٣٠٣٣٠) حضرت عبد الرحمن بن ابزی فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وتر پڑھتے تھے اور نماز کے آخر میں بیٹھتے تو تین مرتبہ یہ کلمات پڑھتے ۔ پاک ہے وہ بادشاہ اور بہت ہی مقدس ہے۔ اور آخر میں اپنی آواز کو لمبا کرتے۔

30330

(۳۰۳۳۱) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِی عُبَیْدَۃَ ، قَالَ : حدَّثَنَا أَبِی ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَن طَلْحَۃَ ، عَن ذَرٍّ ، عَن سَعِیدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبْزَی ، عَنْ أَبِیہِ ، عَن أُبَیِّ بْنِ کَعْبٍ ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یَقُولُ فِی آخِرِ صَلاتِہِ : سُبْحَانَ الْمَلِکِ الْقُدُّوسِ ثَلاثًا۔
(٣٠٣٣١) حضرت ابی بن کعب فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز کے آخر میں تین مرتبہ یہ کلمات پڑھتے تھے : پاک ہے وہ بادشاہ انتہائی مقدس ہے۔

30331

(۳۰۳۳۲) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا ابْنُ أَبِی لَیْلَی ، عَنْ عَطَائٍ ، عَن عُبَیْدِ بْنِ عُمَیْرٍ ، قَالَ : صَلَّیْت خَلْفَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ الْغَدَاۃَ فَقَالَ فِی قُنُوتِہِ : اللَّہُمَّ إنَّا نَسْتَعِینُک وَنَسْتَغْفِرُک وَنُثْنِی عَلَیْک الْخَیْرَ ، وَلا نَکْفُرُک ، وَنَخْلَعُ وَنَتْرُکُ مِنْ یَفْجُرُکَ ، اللَّہُمَّ إیَّاکَ نَعْبُدُ وَلَک نُصَلِّی وَنَسْجُدُ ، وَإِلَیْک نَسْعَی وَنَحْفِدُ ، وَنَرْجُو رَحْمَتَکَ وَنَخْشَی عَذَابَک ، إنَّ عَذَابَک بِالْکَافِرِینَ مُلْحَقٌ۔
(٣٠٣٣٢) حضرت عبید بن عمیر فرماتے ہیں کہ میں نے عمر بن خطاب کے پیچھے صبح کی نماز پڑھی ، تو انھوں نے قنوت فجر میں یہ دعا پڑھی : اے اللہ ! ہم تجھ سے مدد مانگتے ہیں اور تجھ سے معافی مانگتے ہیں۔ اور تیری بہت اچھی تعریف کرتے ہیں۔ اور ہم تیری نا شکری نہیں کرتے۔ اور ہم الگ ہوتے ہیں اور چھوڑتے ہیں اس شخص کو جو تیری نافرمانی کرے۔ اے اللہ ! ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں۔ اور تیرے لیے ہی نماز پڑھتے ہیں اور سجدہ کرتے ہیں۔ اور تیری طرف ہی دوڑتے ہیں اور تیری خدمت میں حاضر ہوتے ہیں۔ اور ہم تیری رحمت کے امیدوار ہیں۔ اور ہم تیرے عذاب سے ڈرتے ہیں۔ بیشک تیرا عذاب تو کافروں کو ملنے والا ہے۔

30332

(۳۰۳۳۳) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، أَخْبَرَنَا حُصَیْنٌ ، عَن ذَرٍّ ، عَن سَعِیدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبْزَی ، عَنْ أَبِیہِ قَالَ : إِنَّہُ کَانَ صَلَّی خَلْفَ عُمَرَ فَصَنَعَ مِثْلَ ذَلِکَ۔
(٣٠٣٣٣) حضرت عبد الرحمن بن ابزی فرماتے ہیں کہ انھوں نے حضرت عمر بن خطاب کے پیچھے فجر کی نماز پڑھی تو انھوں نے پہلے جیسا عمل کیا۔

30333

(۳۰۳۳۴) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا حُصَیْنٌ ، قَالَ : صَلَّیْت الْغَدَاۃَ ذَاتَ یَوْمٍ وَصَلَّی خَلْفِی عُثْمَانُ بْنُ زِیَادٍ ، قَالَ : فَقَنَتُّ فِی صَلاۃِ الصُّبْحِ ، قَالَ : فَلَمَّا قَضَیْت صَلاتِی ، قَالَ لِی : مَا قُلْتَ فِی قُنُوتِکَ ؟ فَقُلْتُ : ذَکَرْت ہَؤُلائِ الْکَلِمَاتِ : اللَّہُمَّ إنَّا نَسْتَعِینُک وَنَسْتَغْفِرُک وَنُثْنِی عَلَیْک الْخَیْرَ ، وَلا نَکْفُرُک ، وَنَخْلَعُ وَنَتْرُکُ مَنْ یَفْجُرُکَ ، اللَّہُمَّ إیَّاکَ نَعْبُدُ وَلَک نُصَلِّی وَنَسْجُدُ ، وَإِلَیْک نَسْعَی وَنَحْفِدُ ، وَنَرْجُو رَحْمَتَکَ وَنَخْشَی عَذَابَک الجد ، إنَّ عَذَابَک بِالْکَافِرِینَ مُلْحَقٌ ، قَالَ : قَالَ لِی عُثْمَانُ : کَذَا کَانَ یَصْنَعُ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ وَعُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ۔
(٣٠٣٣٤) حضرت ھشیم فرماتے ہیں کہ حضرت حصین نے فرمایا : میں نے ایک دن صبح کی نماز پڑھائی، اور عثمان بن زیاد نے میرے پیچھے نماز پڑھی آپ فرماتے ہیں، میں نے صبح کی نماز میں قنوت نازلہ پڑھی : فرماتے ہیں کہ جب میری نماز مکمل ہوئی تو عثمان بن زیاد نے مجھ سے کہا : آپ نے قنوت میں کون سی دعا پڑھی ؟ تو میں نے کہا : میں نے یہ کلمات ذکر کیے : اے اللہ ! ہم تجھ سے مدد مانگتے ہیں اور ہم تجھ سے معافی مانگتے ہیں۔ اور ہم تیری بہت اچھی تعریف کرتے ہیں اور ہم تیری ناشکری نہیں کرتے۔ اور ہم الگ ہوتے اور چھوڑتے ہیں اس شخص کو جو تر ی نافرمانی کرے ۔ اے اللہ ! ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں۔ اور تیرے ہی لیے نماز پڑھتے ہیں اور سجدہ کرتے ہیں۔ اور ہم تیری طرف ہی دوڑتے ہیں اور تیری خدمت میں حاضر ہوتے ہیں۔ اور ہم تیری رحمت کے امیدوار ہیں اور ہم تیرے سخت عذاب سے ڈرتے ہیں۔ بیشک تیرا عذاب کافروں کو ملنے والا ہے۔ حضرت حصین فرماتے ہیں ! کہ عثمان بن زیاد نے مجھے کہا : حضرت عمر بن خطاب اور حضرت عثمان بن عفان دونوں ایسے ہی کیا کرتے تھے۔

30334

(۳۰۳۳۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن سُفْیَانَ ، عَن حَبِیبِ بْنِ أَبِی ثَابِتٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سُوَیْد الْکَاہِلِیِّ ، أَنَّ عَلِیًّا قَنَتَ فِی الْفَجْرِ بِہَاتَیْنِ السُّورَتَیْنِ : اللَّہُمَّ إنَّا نَسْتَعِینُک وَنَسْتَغْفِرُک وَنُثْنِی عَلَیْک الْخَیْرَ ، وَلا نَکْفُرُک ، وَنَخْلَعُ وَنَتْرُکُ مَنْ یَفْجُرُکَ ، اللَّہُمَّ إیَّاکَ نَعْبُدُ ، وَلَک نُصَلِّی وَنَسْجُدُ وَإِلَیْک نَسْعَی وَنَحْفِدُ وَنَرْجُو رَحْمَتَکَ وَنَخْشَی عَذَابَک ، إنَّ عَذَابَک بِالْکَافِرِینَ مُلْحَقٌ۔
(٣٠٣٣٥) حضرت عبد الرحمن بن سوید الکاھلی فرماتے ہیں کہ حضرت علی فجر میں ان دو سورتوں کو بطور قنوت کے پڑھتے تھے۔ اے اللہ ! ہم تجھ سے مدد مانگتے ہیں اور ہم تجھ سے معافی مانگتے ہیں اور ہم تیری بہت اچھی تعریف کرتے ہیں اور ہم تیری ناشکری نہیں کرتے اور ہم الگ ہوتے ہیں اور چھوڑتے ہیں اس شخص کو جو تیری نافرمانی کرے۔ اے اللہ ! ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تیرے لیے ہی ہم نماز پڑھتے ہیں اور سجدہ کرتے ہیں اور تیری طرف ہی ہم دوڑتے ہیں اور تیری خدمت میں ہی ہم حاضر ہوتے ہیں۔ ہم تیری رحمت کے امیدوار ہیں اور ہم تیرے عذاب سے ڈرتے ہیں۔ بیشک تیرا عذاب کافروں کو ملنے والا ہے۔

30335

(۳۰۳۳۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ بُرْقَانَ ، عَن مَیْمُونِ بْنِ مِہْرَانَ ، قَالَ فِی قِرَائَ ۃِ أُبَیِّ بْنِ کَعْبٍ : اللَّہُمَّ إنَّا نَسْتَعِینُک وَنَسْتَغْفِرُک وَنُثْنِی عَلَیْک الْخَیْرَ ، وَلا نَکْفُرُک ، وَنَخْلَعُ وَنَتْرُکُ مَنْ یَفْجُرُکَ ، اللَّہُمَّ إیَّاکَ نَعْبُدُ، وَلَک نُصَلِّی وَنَسْجُدُ ، وَإِلَیْک نَسْعَی وَنَحْفِدُ ، وَنَرْجُو رَحْمَتَکَ وَنَخْشَی عَذَابَک إنَّ عَذَابَک بِالْکَافِرِینَ مُلْحِقٌ۔
(٣٠٣٣٦) حضرت میمون بن مھران حضرت ابی بن کعب کی قراءت کے متعلق یوں نقل فرماتے ہیں : اے اللہ ! ہم تجھ سے مدد مانگتے ہیں اور تجھ سے معافی مانگتے ہیں اور ہم تیری بہت اچھی تعریف کرتے ہیں اور ہم تیری ناشکری نہیں کرتے۔ اور ہم الگ ہوتے ہیں اور چھوڑتے ہیں اس شخص کو جو تیری نافرمانی کرے۔ اے اللہ ! ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تیرے ہی لیے ہم نماز پڑھتے ہیں اور سجدہ کرتے ہیں۔ اور تیری ہی طرف ہم دوڑتے ہیں اور خدمت میں حاضر ہوتے ہیں ہم تیری رحمت کے امیدوار ہیں اور ہم تیرے عذاب سے ڈرتے ہیں۔ بیشک تیرا عذاب کافروں کو ملنے والا ہے۔

30336

(۳۰۳۳۷) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَطَائٍ ، عَن عُبَیْدِ بْنِ عُمَیْرٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ عُمَرَ یَقْنُتُ فِی الْفَجْرِ : اللَّہُمَّ إنَّا نَسْتَعِینُک وَنُؤْمِنُ بِکَ وَنَتَوَکَّلُ عَلَیْک وَنُثْنِی عَلَیْک الْخَیْرَ ، وَلا نَکْفُرُک ، اللَّہُمَّ إیَّاکَ نَعْبُدُ وَلَک نُصَلِّی وَنَسْجُدُ وَإِلَیْک نَسْعَی وَنَحْفِدُ ، نَرْجُو رَحْمَتَکَ وَنَخْشَی عَذَابَک ، إنَّ عَذَابَک بِالْکَافِرِینَ مُلْحَقٌ ، اللَّہُمَّ عَذِّبْ کَفَرَۃَ أَہْلِ الْکِتَابِ الَّذِینَ یَصُدُّونَ عَن سَبِیلِک۔
(٣٠٣٣٧) حضرت عبید بن عمیر فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر بن خطاب کو فجر کی نماز میں یوں قنوت نازلہ پڑھتے ہوئے سنا : اے اللہ ! ہم تجھ سے مدد مانگتے ہیں ، اور ہم تجھ پر ایمان لاتے ہیں۔ اور ہم تجھ پر ہی بھروسہ کرتے ہیں ہم تیری بہت اچھی تعریف کرتے ہیں اور ہم ترای ناشکری نہیں کرتے۔ اے اللہ ! ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں۔ اور تیرے لیے ہی ہم نماز پڑھتے ہیں اور سجدہ کرتے ہیں۔ اور تیری ہی طرف دوڑتے ہیں اور خدمت میں حاضر ہوتے ہیں، ہم تیری رحمت کے امید وار ہیں اور ہم تیرے عذاب سے ڈرتے ہیں۔ بیشک تیرے عذاب کافروں کو ملنے والا ہے۔ اے اللہ ! کافر اہل کتاب کو عذاب دے ۔ جو روکتے ہیں تیرے راستہ سے۔

30337

(۳۰۳۳۸) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنِ ابْنِ عَجْلانَ ، عَن عُمَرَ بْنِ کَثِیرِ بْنِ أَفْلَحَ عَنِ ابْنِ عُمَرَ فِی الضَّالَّۃِ یَتَوَضَّأُ وَیُصَلِّی رَکْعَتَیْنِ وَیَتَشَہَّدُ وَیَقُولُ : بِسْمِ اللہِ یَا ہَادِیَ الضَّالِّ ، وَرَادَّ الضَّالَّۃِ ارْدُدْ عَلَیَّ ضَالَّتِی بِعِزَّتِکَ وَسُلْطَانِکَ فَإِنَّہَا مِنْ عَطَائِکَ وَفَضْلِک۔
(٣٠٣٣٨) حضرت عمر بن کثیر بن افلح فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عمر گمشدہ چیز کے بارے میں فرماتے تھے : وضو کرے اور دو رکعت نماز نفل پڑھے، اور کلمہ شہادت اور یہ کلمات پڑھے : اللہ کے نام کے ساتھ بھٹکنے والوں کو راستہ دکھانے والے۔ اور گمشدہ کو لوٹانے والے۔ میری گمشدہ چیز اپنی عزت اور بادشاہت کے وسیلہ سے مجھے واپس لوٹا دے۔ کیونکہ وہ تیرے فضل اور عطا ہی سے ملی تھی۔

30338

(۳۰۳۳۹) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَن أُسَامَۃَ ، عَنْ أَبَانَ بْنِ صَالِحٍ ، عَن مُجَاہِدٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : إنَّ لِلَّہِ مَلائِکَۃً فَضْلاً سِوَی خَلْقِہِ یَکْتُبُونَ وَرَقِ الشَّجَرِ ، فَإِذَا أَصَابَتْ أَحَدَکُمْ عَرْجَۃٌ فِی سَفَرٍ فَلِیُنَادِ : أَعِینُوا عِبَادَ اللہِ رَحِمَکُمُ اللَّہُ۔ (بزار ۳۱۲۸)
(٣٠٣٣٩) حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عباس نے ارشاد فرمایا : بیشک محافظین کے علاوہ اللہ کے کچھ زائد فرشتے ہیں۔ درخت کا جو پتہ گرتا ہے وہ اس کو لکھتے ہں ۔ پس جب تم میں سے کسی شخص کو سفر میں کوئی تکلیف پہنچے تو ان کلمات کی ندا لگاؤ۔ اللہ کے بندوں کی مدد کرو۔ اللہ تم پر رحم فرمائے۔

30339

(۳۰۳۴۰) حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إسْمَاعِیلَ ، عَنْ جَعْفَرٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : عَلَی ذِرْوَۃِ کُلِّ بَعِیرٍ شَیْطَانٌ فَإِذَا رَکِبْتُمُوہَا فَقُولُوا کَمَا أَمَرَکُمُ اللَّہُ {سُبْحَانَ اللہِ الَّذِی سَخَّرَ لَنَا ہَذَا وَمَا کُنَّا لَہُ مُقْرِنِینَ} وَامْتَہِنُوہَا لأَنْفُسِکُمْ فَإِنَّمَا یَحْمِلُ اللَّہُ۔
(٣٠٣٤٠) حضرت جعفر کے والد فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ہر اونٹ کی کوہان پر ایک شیطان ہوتا ہے، پس جب اس پر سوار ہو تو جیسے اللہ نے حکم دیا ہے ان کلمات کو پڑھو : اللہ پاک ہے جس نے اس کو ہمارے لیے مسخر کیا۔ اور ہم اسے قبضہ کرنے والے نہ تھے۔ اور یقیناً ہم اپنے رب کی طرف پلٹنے والے ہیں۔ اور پھر تم خدمت کرو اس کی۔ پس اللہ ہی نے سواری دی ہے۔

30340

(۳۰۳۴۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن أُسَامَۃَ بْنِ زَیْدٍ ، عَن مُحَمَّدِ بْنِ حَمْزَۃَ بن عَمْرٍو ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إِنَّ عَلَی ذِرْوَۃِ کُلِّ بَعِیرٍ شَیْطَانٌ ، فَإِذَا رَکِبْتُموہا فَامْتَہِنُوہَا ، وَاذْکُرُوا اسْمَ اللہِ ، ثم لاَ تقصروا عن حوائجکم۔ (احمد ۴۹۴۔ دارمی ۲۶۶۷)
(٣٠٣٤١) حضرت حمزہ بن عمرو فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : بیشک ہر اونٹ کی کوہان پر ایک شیطان ہوتا ہے۔ پس جب تم پر اس پر سوار ہو تو اس کی آزمائش کرو۔ اور اللہ کے نام کا ذکر کرو۔ پھر تم اپنی ضروریات سے رکے مت رہو۔

30341

(۳۰۳۴۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، عَن سُفْیَانَ، عَن حبیب، عَن عبد الرحمن بن أبی عمرۃ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إِن عَلَی ذِرْوَۃِ کُلِّ بَعِیرٍ شَیْطَانًا ، فَإِذَا رَکِبْتُمْ فَاذْکُرُوا اسْمَ اللہِ وَامْتَہِنُوہَا فَإِنَّمَا یَحْمِلُ اللَّہُ۔
(٣٠٣٤٢) حضرت عبد الرحمن بن ابی عمرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : بیشک ہر اونٹ کی کوہان پر ایک شیطان ہوتا ہے۔ پس تم اس پر سوار ہو تو اللہ کے نام کا ذکر کرو۔ پس تم اس کی خدمت کرو بیشک اللہ ہی نے سواری دی ہے۔

30342

(۳۰۳۴۳) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ الْقَطَّانُ ، عَن سُفْیَانَ ، عَنْ أَبِی ہَاشِمٍ ، عَنْ أَبِی مِجْلَزٍ ، أَنَّ حُسَیْنَ بْنَ عَلِیٍّ رَأَی رَجُلاً رَکِبَ دَابَّۃً فَقَالَ : {سُبْحَانَ الَّذِی سَخَّرَ لَنَا ہَذَا وَمَا کُنَّا لَہُ مُقْرِنِینَ} ، قَالَ أَفَبِہَذَا أُمِرْت ، قَالَ : کَیْفَ أَقُولُ ؟ قَالَ : الْحَمْدُ لِلَّہِ الَّذِی ہَدَانِی لِلإِسْلامِ الْحَمْدُ لِلَّہِ الَّذِی مَنَّ عَلَیَّ بِمُحَمَّدٍ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، الْحَمْدُ لِلَّہِ الَّذِی جَعَلَنِی فِی خَیْرِ أُمَّۃٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ ، ثُمَّ تَقُولُ: {سُبْحَانَ الَّذِی سَخَّرَ لَنَا ہذا}۔
(٣٠٣٤٣) حضرت ابو مجلز فرماتے ہیں کہ حضرت حسین بن علی نے ایک آدمی کو دیکھا جو سواری پر سوار ہوا پھر اس نے یہ دعا پڑھی ! اللہ پاک ہے جس نے اس کو ہمارے تابع کیا اور ہم اسے قبضہ کرنے والے نہ تھے۔ تو آپ نے فرمایا : تمہیں کیا اس طرح پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے ؟ اس نے کہا : میں کیسے پڑھوں ؟ آپ نے فرمایا : اس طرح کہو : سب تعریف اس اللہ کے لیے ہے جس نے مجھے اسلام کے لیے ہدایت بخشی۔ سب تعریف اس اللہ کے لیے ہے جس نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذریعہ مجھ پر احسان کیا۔ سب تعریف اس اللہ کے لیے ہے جس نے بنایا مجھے بہترین امت میں جسے لوگوں کی نفع رسانی کے لیے بھیجا گیا ہے، پھر یہ دعا پڑھو۔ اللہ پاک ہے جس نے اس کو ہمارے لیے مسخر کیا۔

30343

(۳۰۳۴۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن سُفْیَانَ ، عَن زُبَیْدٍ ، عَن مُرَّۃَ قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللہِ : مَنْ جَبُنَ مِنْکُمْ عَنِ الْعَدُوِّ أَنْ یُجَاہِدَہُ ، وَاللَّیْلِ أَنْ یُکَابِدَہُ وَضَنَّ بِالْمَالِ أَنْ یُنْفِقَہُ فَلْیُکْثِرْ مِنْ سُبْحَانَ اللہِ ، وَالْحَمْدُ لِلَّہِ ، وَلا إلَہَ إِلاَّ اللَّہُ وَاللَّہُ أَکْبَرُ۔
(٣٠٣٤٤) حضرت مرّہ فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود نے ارشاد فرمایا : تم میں سے جو شخص عاجز ہو دشمن سے جہاد کرنے سے اور رات کو مشقت برداشت کرنے سے اور بخل کی وجہ سے مال بھی خرچ نہ کرسکتا ہو تو وہ کثرت سے ان کلمات کا ورد کرے ، اللہ تمام عیوب سے پاک ہے اور سب تعریف اللہ کے لیے ہیں، اور اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، اور اللہ سب سے بڑا ہے۔

30344

(۳۰۳۴۵) حَدَّثَنَا شَبَابَۃُ ، عَن شُعْبَۃَ ، عَنْ أَبِی التَّیَّاحِ ، عَن مُوَرِّقٍ الْعِجْلِیّ ، عَن عُبَیْدِ بْنِ عُمَیْرٍ ، قَالَ : إِنْ عَجَزْتُمْ عَنِ اللَّیْلِ أَنْ تُکَابِدُوہُ ، وَعَنِ الْعَدُوِّ أَنْ تُجَاہِدُوہُ ، وَعَنِ الْمَالِ أَنْ تُنْفِقُوہُ ، فَأَکْثِرُوا مِنْ سُبْحَانَ اللہِ وَالْحَمْدُ لِلَّہِ ، وَلا إلَہَ إِلاَّ اللَّہُ وَاللَّہُ أَکْبَرُ فَإِنَّہُنَّ أَحَبُّ إلَیَّ مِنْ جَبَلَیْ ذَہَبٍ وَفِضَّۃٍ۔
(٣٠٣٤٥) حضرت مورّق عجلی فرماتے ہیں کہ حضرت عبید بن عمیر نے ارشاد فرمایا : اگر تم لوگ عاجز ہو راتوں کو مشقت برداشت کرنے سے اور دشمن سے جہاد کرنے سے، اور مال کے خرچ کرنے سے تو کثرت کے ساتھ ان کلمات کا ورد کرو : اللہ تمام عیوب سے پاک ہے اور سب تعریف اللہ کے لیے ہے۔ اور اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور اللہ سب سے بڑا ہے، پس یہ کلمات میرے نزدیک سونے اور چاندی کے پہاڑ سے بھی زیادہ پسندیدہ ہیں۔

30345

(۳۰۳۴۶) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنِ الْعَوَّامِ ، أَنَّہُ سَمِعَ إبْرَاہِیمَ التَّیْمِیَّ یَقُولُ : إذَا قَالَ : الْحَمْدُ لِلَّہِ وَسُبْحَانَ اللہِ قَالَتِ الْمَلائِکَۃُ وَبِحَمْدِہِ ، فَإذَا قَالَ : سُبْحَانَ اللہِ وَبِحَمْدِہِ ، قَالَتِ الْمَلائِکَۃُ : رَحِمَکَ اللَّہُ ، فَإذَا قَالَ : اللَّہُ أَکْبَرُ ، قَالَتِ الْمَلائِکَۃُ کَبِیرًا ، فَإذَا قَالَ : اللَّہُ أَکْبَرُ کَبِیرًا ، قَالَتِ الْمَلائِکَۃُ : رَحِمَک اللَّہُ ، فَإذَا قَالَ : الْحَمْدُ لِلَّہِ ، قَالَتِ الْمَلائِکَۃُ : رَبِّ الْعَالَمِینَ ، وَإذَا قَالَ : رَبِّ الْعَالَمِینَ ، قَالَتِ الْمَلائِکَۃُ : رَحِمَک اللَّہُ۔
(٣٠٣٤٦) حضرت عوام فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابراہیم التیمی کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جب بندہ کہتا ہے ! سب تعریفیں اللہ کے لیے ہیں اور اللہ تمام عیوب سے پاک ہے۔ تو فرشتے کہتے ہیں : اور اس کی تعریف کے ساتھ۔ پس جب بندہ کہتا ہے۔ اللہ تمام عیوب سے پاک ہے اور اپنی تعریف کے ساتھ ہے، تو فرشتے کہتے ہیں : اللہ تجھ پر رحم فرمائے : پس جب بندہ کہتا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے ، تو فرشتے کہتے ہیں : بہت بڑا، پس جب بندہ کہتا ہے : اللہ سب بڑوں سے بڑا ہے۔ تو فرشتے کہتے ہیں : اللہ تجھ پر رحم فرمائے۔ پھر جب بندہ کہتا ہے : سب تعریفیں اللہ کے لیے ہیں، تو فرشتے کہتے ہیں : تمام جہانوں کا پالنے والا بھی۔ اور جب بندہ یوں کہتا ہے ، تمام جہانوں کا پالنے والا بھی تو فرشتے کہتے ہیں اللہ تجھ پر رحم فرمائے۔

30346

(۳۰۳۴۷) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ الْجُعْفِیُّ ، عَنْ إسْرَائِیلَ ، عَن زِیَادٍ الْمصفِّر ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لأَبِی بَکْرٍ : أَلا أَدُلُّک عَلَی صَدَقَۃٍ تَمْلأ مَا بَیْنَ السَّمَائِ وَالأَرْضِ : سُبْحَانَ اللہِ وَالْحَمْدُ لِلَّہِ ، وَلا إلَہَ إِلاَّ اللَّہُ وَاللَّہُ أَکْبَرُ ، وَلا حَوْلَ وَلا قُوَّۃَ إِلاَّ بِاللہِ فِی یَوْمٍ ثَلاثِینَ مَرَّۃً۔
(٣٠٣٤٧) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت ابوبکر سے ارشاد فرمایا : کیا میں ایسے صدقہ کی طرف تمہاری راہنمائی نہ فرماؤں جو آسمان اور زمین کو ثواب سے بھر دیتا ہے ؟ اللہ تمام عیوب سے پاک ہے اور سب تعریفیں اللہ کے لیے ہیں۔ اور اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ اور اللہ سب سے بڑا ہے، گناہوں سے بچنے کی طاقت اور نیکی کرنے کی قوت صرف اللہ کی مدد سے ہے۔ دن میں تیس مرتبہ ان کلمات کا پڑھنا آسمان اور زمین کو ثواب سے بھر دیتا ہے۔

30347

(۳۰۳۴۸) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنِ ابْنِ عَجْلانَ ، عَنْ عَبْدِ الْجَلِیلِ ، عَن خَالِدِ بْنِ أَبِی عِمْرَانَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : خُذُوا جُنَّتَکُمْ ، قَالُوا : یَا رَسُولَ اللہِ ، مِنْ عَدُوٍّ حَضَرَ ؟ قَالَ : لاَ بَلْ مِنَ النَّارِ ، قُلْنَا : مَا جُنَّتُنَا مِنَ النَّارِ ، قَالَ : سُبْحَانَ اللہِ وَالْحَمْدُ لِلَّہِ ، وَلا إلَہَ إِلاَّ اللَّہُ وَاللَّہُ أَکْبَرُ ، وَلا حَوْلَ وَلا قُوَّۃَ إِلاَّ بِاللہِ ، فَإِنَّہُنَّ یَأْتِینَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ مُقَدِّمَاتٍ وَمُعَقِّبَاتٍ وَمُجَنِّبَاتٍ ، وَہُنَّ {الْبَاقِیَاتُ الصَّالِحَاتُ}۔ (نسائی ۱۰۶۸۴۔ حاکم ۵۴۱)
(٣٠٣٤٨) حضرت خالد بن ابی عمران فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : تم اپنی ڈھالیں پکڑ لو۔ صحابہ نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! کس موجود دشمن کے مقابلہ میں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : نہیں بلکہ جہنم سے بچنے کے لیے۔ ہم نے عرض کیا : جہنم سے بچانے والی ڈھال کون سی ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اللہ تمام عیوب سے پاک ہے اور سب تعریفیں اللہ کے لیے ہیں اور اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ۔ اور اللہ سب سے بڑا ہے، اور گناہوں سے بچنے کی طاقت اور نیکی کرنے کی قوت صرف اللہ کی مدد سے ہے۔ پس یہ کلمات آئیں گے قیامت کے دن آگے ہوں گے اور پیچھے ہوں گے اور بچانے والے ہوں گے۔ پس یہ کلمات باقی رہنے والے اور اچھے ہیں۔ ( اور وہ باقیات اور صالحات ہیں)

30348

(۳۰۳۴۹) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَن وقاء ، عَن سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ، قَالَ : رَأَی عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ إنْسَانًا یُسَبِّحُ بِتَسَابِیحَ معہ ، فَقَالَ عُمَرُ : رحمہ اللہ إنَّمَا یُجْزِیہِ مِنْ ذَلِکَ أَنْ یَقُولَ : سُبْحَانَ اللہِ مِلْئَ السَّمَاوَاتِ وَمِلْئَ الأَرْضِ وَمِلْئَ مَا شَائَ مِنْ شَیْئٍ بَعْدُ ، وَیَقُولَ : الْحَمْدُ للہِ مِلْئَ السَّمَاوَاتِ وَمِلْئَ الأَرْضِ وَمِلْئَ مَا شَائَ مِنْ شَیْئٍ بَعْدُ ، وَیَقُولُ : اللَّہُ أَکْبَرُ مِلْئَ السَّمَاوَاتِ وَمِلْئَ الأَرْضِ وَمِلْئَ مَا شَائَ مِنْ شَیْئٍ بَعْدُ۔
(٣٠٣٤٩) حضرت سعید بن جبیر فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب نے ایک شخص کو جو مختلف تسبیحات کررہا تھا۔ تو حضرت عمر نے فرمایا : اللہ اس پر رحم فرمائے۔ بیشک اس کے لیے کافی ہے کہ یوں کہے؛ اللہ پاک ہے آسمانوں اور زمین اور اس کے بعد جسے وہ چاہے اس کے بھرنے کی مقدار کے بقدر۔ اور یوں کہے : سب تعریفیں اللہ کے لیے ہیں، آسمانوں اور زمین اور اس کے بعد جسے وہ چاہے اس کے بھرنے کی مقدار کے بقدر۔ اور یوں کہے ! اللہ سب سے بڑا ہے آسمانوں اور زمین، اور اس کے بعد جسے وہ چاہے اس کے بھرنے کی مقدار کے بقدر۔

30349

(۳۰۳۵۰) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ مَیْسَرَۃَ ، قَالَ : اجْتَمَعَ ابْنُ مَسْعُودٍ ، وَعَبْدُ اللہِ بْنُ عَمْرٍو ، قَالَ ابْنُ مَسْعُودٍ : لأَنْ أَقُول إذَا خَرَجْت حَتَّی أَبْلُغُ حَاجَتِی سُبْحَانَ اللہِ وَالْحَمْدُ لِلَّہِ ، وَلا إلَہَ إِلاَّ اللَّہُ وَاللَّہُ أَکْبَرُ أَحَبُّ إلَیَّ مِنْ أَنْ أَحْمِلَ عَلَی عَدَدِہِنَّ مِنَ الْجِیَادِ فِی سَبِیلِ اللہِ ، وَقَالَ عَبْدُ اللہِ بْنُ عَمْرٍو : لأَنْ أَقُولَہُنَّ أَحَبُّ إلَیَّ مِنْ أَنْ أُنْفِقَ عَدَدَہُنَّ دَنَانِیرَ فِی سَبِیلِ اللہِ عَزَّ وَجَلَّ۔
(٣٠٣٥٠) حضرت عبد الملک بن میسرہ فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود اور حضرت عبداللہ بن عمرو اکٹھے ہوئے تو حضرت عبداللہ بن مسعود نے ارشاد فرمایا : میں ان کلمات کو پڑھتا ہوں جب بھی کبھی نکلتا ہوں یہاں تک کہ اپنی منزل پر پہنچ جاؤں۔ اللہ تمام عیوب سے پاک ہے اور سب تعریفیں اللہ کے لیے ہیں، اور اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں،۔ اور اللہ سب سے بڑا ہے۔ میرے نزدیک یہ کلمات زیادہ پسندیدہ ہیں اللہ کے راستہ میں جہاد کے لیے ان کی تعداد کے بقدر گھوڑوں اور سوار ہونے سے اور حضرت عبداللہ بن عمرو نے ارشاد فرمایا : میرے نزدیک ان کلمات کا پڑھنا اللہ کے راستہ میں ان کی تعداد کے بقدر دینار خرچ کرنے سے زیادہ پسندیدہ ہے۔

30350

(۳۰۳۵۱) حَدَّثَنَا جَرِیرُ بْنُ عَبْدِ الْحَمِیدِ ، عَن مَنْصُورٍ ، عَن سَالِمٍ ، عَن کُرَیْبٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لَوْ أَنَّ أَحَدَکُمْ إذَا أَرَادَ أَنْ یَأْتِیَ أَہْلَہُ ، قَالَ : بِسْمِ اللہِ اللَّہُمَّ جَنِّبْنَا الشَّیْطَانَ وَجَنِّبَ الشَّیْطَانَ مَا رَزَقْتَنَا ، فَإِنَّہُ إِنْ یُقَدَّرْ بَیْنَہُمَا وَلَدٌ فِی ذَلِکَ لَمْ یَضُرَّہُ شَیْطَانٌ أَبَدًا۔
(٣٠٣٥١) حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جب تم میں سے کوئی شخص اپنی بیوی سے ہمبستری کا ارادہ کرے تو یہ دعاپڑھ لے : اللہ کا نام لے کر کرتا ہوں، اے اللہ ! تو ہمیں شیطان سے محفوظ فرما اور جو تو اولاد ہمیں دے اس کو بھی شیطان سے محفوظ فرما۔ پس اگر اس فعل میں اس کے لیے کوئی بچہ مقدر ہوگا تو شیطان اس کو کبھی نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔

30351

(۳۰۳۵۲) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ إدْرِیسَ ، عَن دَاوُد ، عَنْ أَبِی نَضْرَۃَ ، عَنْ أَبِی سَعِیدٍ مَوْلَی أَبِی أسَیْدَ : تَزَوَّجْت وَأَنَا مَمْلُوکٌ فَدَعَوْت نَفَرًا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ منہم أبو مَسْعُودٍ ، وَأَبُو ذَرٍّ وَحُذَیْفَۃُ یُعَلِّمُونَنِی ، فَقَالَ : إذَا دَخَلَ عَلَیْک أَہْلُک فَصَلِّ رَکْعَتَیْنِ ، ثُمَّ سَلِ اللَّہَ مِنْ خَیْرِ مَا دَخَلَ عَلَیْک ، ثُمَّ تَعَوَّذْ بِہِ مِنْ شَرِّہِ ، ثُمَّ شَأْنُکَ وَشَأْنُ أَہْلِک۔
(٣٠٣٥٢) حضرت ابو سعید جو کہ ابو اسید کے آزاد کردہ غلام ہیں فرماتے ہیں : میں نے شادی کی اس حال میں کہ میں غلام تھا۔ پس میں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب میں سے ایک جماعت کو دعوت دی جن میں حضرت ابو مسعود اور حضرت ابو ذر اور حضرت حذیفہ وغیرہ حضرات بھی شامل تھے۔ ان لوگوں نے مجھے آداب سکھائے پس کہنے لگے : جب تیرے گھر والے تیرے پاس حاضر ہوں پس تو دو رکعت نماز پڑھ۔ اور اللہ سے خیر مانگ ان کے تیرے پاس آنے کی۔ پھر ان کے شر سے اللہ کی پناہ مانگ۔ پھر تو جانے اور تیرے گھر والے۔

30352

(۳۰۳۵۳) حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُوسَی ، قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ ، عَنِ ابْنِ أَخِی عَلْقَمَۃَ بْنِ قَیْسٍ ، عَنْ عَلْقَمَۃَ ، أَنَّ ابْنَ مَسْعُودٍ کَانَ إذَا غَشِیَ أَہْلَہُ فَأَنْزَلَ ، قَالَ : اللَّہُمَّ لاَ تَجْعَلْ لِلشَّیْطَانِ فِیمَا رَزَقْتَنِی نَصِیبًا۔
(٣٠٣٥٣) حضرت علقمہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابن مسعود جب اپنی بیوی سے ہمبستری کرتے تو انزال ہونے کے بعد یہ دعا پڑھتے۔ اے اللہ ! جو اولاد تو ہمیں دے شیطان کو اس میں سے کچھ حصہ بھی مت دے۔

30353

(۳۰۳۵۴) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَن بَکْرٍ ، قَالَ : کَانَ یُقَالُ : إنَّ سَتْرَ مَا بَیْنَ عَوْرَاتِ بَنِی آدَمَ وَبَیْنَ أَعْیُنِ الْجِنِّ وَالشَّیَاطِینِ أَنْ یَقُولَ أَحَدُکُمْ إذَا وَضَعَ ثِیَابَہُ بِسْمِ اللہِ۔ (ترمذی ۶۰۶)
(٣٠٣٥٤) حضرت بکر فرماتے ہیں کہ یوں بیان کیا جاتا ہے کہ بنی آدم کے ستروں اور جن اور شیاطین کی آنکھوں کے درمیان ایک پردہ ہے جب تم میں سے کوئی اپنے کپڑے اتارے تو یوں کہہ لیا کرے : اللہ کے نام کے ساتھ اتارتا ہوں۔

30354

(۳۰۳۵۵) حَدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِینَارٍ الْقَہْرَمَانِیِّ ، عَن سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : مَا مِنْ رَجُلٍ یَرَی مُبْتَلًی فَیَقُولُ : الْحَمْدُ لِلَّہِ الَّذِی عَافَانِی مِمَّا ابْتَلاک بِہِ وَفَضَّلَنِی عَلَیْک ، وَعَلَی کَثِیرٍ مِنْ خَلْقِہِ تَفْضِیلاً إِلاَّ عَافَاہُ اللَّہُ مِنْ ذَلِکَ الْبَلائِ کَائِنًا مَا کَانَ۔ (ترمذی ۳۴۳۱۔ ابن ماجہ ۳۸۹۲)
(٣٠٣٥٥) حضرت سالم فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمر نے ارشاد فرمایا : کوئی بھی آدمی کسی کو مصیبت میں مبتلا دیکھ کر یہ دعا نہیں پڑھتا : شکر ہے اللہ کا جس نے مجھے اس چیز سے عافیت میں رکھا جس میں تجھ کو مبتلا کیا ہے، اور مجھے تجھ پر اور بہت سی مخلوق پر نمایاں طور پر فضیلت دی۔ مگر یہ کہ اللہ اس بندے کو اس مصیبت میں مبتلا نہیں فرمائیں گے وہ مصیبت جیسی بھی ہو۔

30355

(۳۰۳۵۶) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ ، عَنْ أَبِی عُبَیْدَۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : لَمَّا بُعِثَ مُوسَی إِلَی فِرْعَوْنَ ، قَالَ : رَبِّ أَیَّ شَیْئٍ أَقُولُ ؟ قَالَ : قُلْ : ہَیَّا شَرًّا ہَیَّا ، قَالَ الأَعْمَشُ : تَفْسِیرُ ذَلِکَ : الْحَیُّ قَبْلَ کُلِّ شَیْئٍ ، وَالْحَیُّ بَعْدَ کُلِّ شَیْئٍ۔
(٣٠٣٥٦) حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ جب حضرت موسیٰ کو فرعون کے پاس بھیجا گیا تو آپ نے فرمایا : میرے رب ! میں کیا چیز پڑھوں ؟ اللہ نے ارشاد فرمایا : تم یوں کہو : ھیا شرًّا ھیا۔ اعمس کہتے ہیں اس کا مطلب یہ ہے ” اے وہ ذات ! جو ہر چیز سے پہلے زندہ تھی اور ہر چیز کے فنا ہوجانے کے بعد زندہ رہے گی۔ “

30356

(۳۰۳۵۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ أبی العمیس ، عَنْ أَبِی بَکْرِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عُتْبَۃَ ، عَنِ ابْنِ حُذَیْفَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ إذَا دَعَا لِرَجُلٍ أَصَابَتْہُ وَأَصَابَتْ وَلَدَہُ وَوَلَدَ وَلَدِہِ۔ (احمد ۳۸۵)
(٣٠٣٥٧) حضرت حذیفہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک شخص کے لیے دعا فرمائی جو اسے اور اس کے بچوں کو اور پوتوں کو پہنچی۔

30357

(۳۰۳۵۸) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ الثَّقَفِیُّ ، عَن یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ، عَن سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ، قَالَ : إنَّ الرَّجُلَ لَیُرْفَعُ بِدُعَائِ وَلَدِہِ مِنْ بَعْدِہِ۔
(٣٠٣٥٨) حضرت یحییٰ بن سعید فرماتے ہیں کہ حضرت سعید بن المسیب نے ارشاد فرمایا : بیشک آدمی کے مرنے کے بعد اس کے بچہ کی دعا کی وجہ سے اس کا درجہ بلند کیا جاتا ہے۔

30358

(۳۰۳۵۹) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَن حَمَّادِ بْنِ سَلَمَۃَ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ بَہْدَلَۃَ عَنْ أَبِی صَالِحٍ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : إنَّ الرَّجُلَ لَتُرْفَعُ لَہُ الدَّرَجَۃُ فِی الْجَنَّۃِ فَیَقُولُ : یَا رَبِّ أَنَّی لِی ہَذِہِ ؟ فَیُقَالُ : بِاسْتِغْفَارِ وَلَدِک۔ (احمد ۵۰۹)
(٣٠٣٥٩) حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : بیشک ایک آدمی کا جنت میں درجہ بلند کردیا جاتا ہے تو وہ کہتا ہے : اے میرے رب ! یہ درجہ کیسے مجھے عطا کیا گیا ؟ پس کہا جاتا ہے : تیرے بیٹے کے استغفار کرنے کی بدولت یہ درجہ عطا کیا گیا۔

30359

(۳۰۳۶۰) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَن ہِشَامِ بْنِ حَسَّانَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عبْدِ اللہِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إذَا تَغَوَّلَتْ لکُمَ الْغِیلانُ فَنَادُوا بِالأَذَانِ۔ (نسائی ۱۰۷۹۱)
(٣٠٣٦٠) حضرت جابر بن عبداللہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جب شیاطین جن تمہیں راستہ بھٹکا دیں۔ پس تم بلند آواز سے اذان دو ۔

30360

(۳۰۳۶۱) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنِ الشَّیْبَانِیِّ ، عَن یُسَیْرِ بْنِ عَمْرٍو ، قَالَ : ذُکِرَتِ الْغِیلانُ عِنْدَ عُمَر رحمہ اللہ فَقَالَ : إِنَّہُ لَیْسَ مِنْ شَیْئٍ یَسْتَطِیعُ أن یتغیر عَن خَلْقِ اللہِ خَلْقَہُ ، وَلَکِنْ لَہُمْ سَحَرَۃٌ کَسَحَرَتِکُمْ ، فَإِذَا رَأَیْتُمْ مِنْ ذَلِکَ شَیْئًا فَأَذِّنُوا۔
(٣٠٣٦١) حضرت یسیر بن عمرو فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر کے پاس غیلان جن کا ذکر کیا جو شکل تبدیل کر کے لوگوں کو راستہ سے بھٹکا دیتے ہیں۔ تو آپ نے ارشاد فرمایا : بیشک کسی چیز میں اتیش استطاعت نہیں کہ وہ اللہ کی تخلیق کو جیسے اللہ نے پیدا کی تھی بد ل دے۔ لیکن یہ دھوکا دہی تمہاری دھوکا دہی کی طرح ہے۔ جب تم ایسی کوئی چیز دیکھو تو اذان دے دیا کرو۔

30361

(۳۰۳۶۲) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللہِ الأَسَدِیُّ عن سفیان ، عَنِ ابْنِ أَبِی لَیْلَی عَنْ أَخِیہِ عِیسَی بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِی لَیْلَی ، عَنْ أَبِی أَیُّوبَ ، أَنَّہُ کَانَ فِی سَہْوَۃٍ لَہُ فَکَانَتِ الْغُولُ تَجِیئُ ، فَشَکَاہَا إِلَی النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ : إذَا رَأَیْتہَا فَقُلْ : بِسْمِ اللہِ أَجِیبِی رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ: فَجَائَتْہُ فَقَالَ : لَہَا فَأَخَذَہَا فَقَالَتْ لَہُ : إنِّی لاَ أَعُودُ ، فَأَرْسَلِہَا ، فَجَائَ فَقَالَ لَہُ : النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَا فَعَلَ أَسِیرُک ؟ فَقَالَ : أَخَذْتہَا فَقَالَتْ : إنِّی لاَ أَعُودُ ، فَأَرْسَلْتہَا ، فَقَالَ : إِنَّہَا عَائِدَۃٌ ، فَأَخَذْتہَا مَرَّتَیْنِ، أَوْ ثَلاثًا کُلَّ ذَلِکَ تَقُولُ: لاَ أَعُودُ، وَیَجِیئُ إِلَی النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَیَقُولُ: مَا فَعَلَ أَسِیرُک؟ فَیَقُولُ : أَخَذْتہَا فَتَقُولُ : لاَ أَعُودُ ، فَیَقُولُ : إِنَّہَا عَائِدَۃٌ فَأَخَذْتہَا فَقَالَتْ : أَرْسِلْنِی وَأُعَلِّمُک شَیْئًا تَقُولُہُ لاَ یَقْرَبُک شَیْئٌ، آیَۃَ الْکُرْسِی، فَأَتَی النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرَہُ فَقَالَ: صَدَقَتْ وَہِیَ کَذُوبٌ۔ (ترمذی ۲۸۸۰۔ احمد ۴۲۳)
(٣٠٣٦٢) حضرت ابو ایوب فرماتے ہیں کہ میں چبوترے میں ہوتا تو ایک شکل بدلنے والا جن میرے پاس آتا تھا، پس میں نے اس بات کی شکایت نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کی۔ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جب تو اس کو دیکھے تو یوں کہہ : اللہ کے نام کے ساتھ : تم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جواب دو ۔ آپ فرماتے ہیں : جب وہ آیا۔ پس میں نے یہ کلمات کہے اور اس کو پکڑ لیا۔ تو وہ مجھے کہنے لگا : یقیناً میں دوبارہ نہیں آؤں گا ۔ تو میں نے اس کو چھوڑ دیا۔ میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا تو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھ سے ارشاد فرمایا : تمہارے قیدی کا کیا بنا ؟ تو آپ نے عرض کیا : میں نے اس کو پکڑا ۔ تو وہ کہنے لگا : میں دوبارہ نہیں آؤں گا۔ پھر میں نے اس کو چھوڑ دیا۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : بیشک وہ دوبارہ واپس آئے گا۔ آپ فرماتے ہیں : میں نے اس کو دو یا تین مرتبہ پکڑا۔ وہ ہر مرتبہ کہتا : میں دوبارہ نہیں آؤں گا۔ اور آپ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس جاتے ، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ارشاد فرماتے : تمہارے قیدی کا کیا بنا ؟ تو آپ فرماتے : میں نے اس کو پکڑا تو وہ کہنے لگا : میں دوبارہ نہیں آؤں گا، تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ارشاد فرماتے : بیشک وہ دوبارہ آئے گا۔ آپ نے فرماتے ہیں ! پھر میں نے اس کو پکڑا تو وہ کہنے لگا : تم مجھے چھوڑ دو اور میں تمہیں ایسی چیز سکھاؤں گا جب تم اسے پڑھو گے تو کوئی چیز بھی تمہارے قریب نہیں آئے گی، وہ آیت الکرسی ہے۔ پس آپ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس بات کی خبر دی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اس نے سچ بات کی حالانکہ ہے وہ جھوٹا۔

30362

(۳۰۳۶۳) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِیزِ بْنُ عُمَرَ ، قَالَ : حدَّثَنِی مَنْ لاَ أَتَّہِمُ مِنْ أَہْلِ الشَّامِ ، عَن عُبَادَۃَ بْنِ الصَّامِتِ ، قَالَ : کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إذَا رَأَی الْہِلالَ ، قَالَ : اللَّہُ أَکْبَرُ اللَّہُ أَکْبَرُ الْحَمْدُ لِلَّہِ لاَ حَوْلَ وَلا قُوَّۃَ إِلاَّ بِاللہِ ، اللَّہُمَّ إنِّی أَسْأَلُک خَیْرَ ہَذَا الشَّہْرِ وَأَعُوذُ بِکَ مِنْ شَرِّ الْقَدَرِ وَأَعُوذُ بِکَ مِنْ شَرِّ یَوْمِ الْحَشْرِ۔
(٣٠٣٦٣) حضرت عبادہ بن الصامت فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب نیا چاند دیکھتے تو یوں دعا فرماتے : اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے، سب تعریفیں اللہ کے لیے ہیں، گناہوں سے بچنے کی طاقت اور نیکی کرنے کی قوت صرف اللہ کی مدد سے ہے، اے اللہ ! میں آپ سے اس مہینہ کی بھلائی مانگتا ہوں۔ اور میں تقدیر کے شر سے آپ کی پناہ لیتا ہوں۔ اور حشر کے دن کے شر سے میں آپ کی پناہ لیتا ہوں۔

30363

(۳۰۳۶۴) حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إسْمَاعِیلَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ حَرْمَلَۃَ ، قَالَ : انْصَرَفْت مَعَ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ فَقُلْنَا: ہَذَا الْہِلالُ یَا أَبَا مُحَمَّدٍ ، فَلَمَّا أَبْصَرَہُ ، قَالَ : آمَنْت بِالَّذِی خَلَقَک فَسَوَّاک فَعَدَلَک ، ثُمَّ الْتَفَتَ إلَیَّ فَقَالَ : کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إذَا رَأَی الْہِلالَ ، قَالَ ہَکَذَا۔
(٣٠٣٦٤) حضرت عبد الرحمن بن حرملہ فرماتے ہیں کہ میں حضرت سعید بن المسیب کے ساتھ واپس لوٹ رہا تھا تو ہم نے کہا : اے ابو محمد ! یہ نیا چاند ہے، پس جب آپ نے اسے دیکھا تو فرمایا : میں ایمان لایا اس ذات پر جس نے تجھے پیدا کیا پس تجھے برابر اور تجھے ٹھیک ٹھیک بنایا۔ پھر میری طرف متوجہ ہو کر فرمانے لگے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب نیا چاند دیکھتے تو اس طرح دعا فرماتے تھے۔

30364

(۳۰۳۶۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ حَدَّثَنَا زَکَرِیَّا ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ عَبِیدَۃَ ، عَنْ عَلِیٍّ رضی اللہ عنہ ، قَالَ : إذَا رَأَی أَحَدُکُمَ الْہِلالَ فَلا یَرْفَعْ بِہِ رَأْسًا إنما یَکْفِی أَحَدَکُمْ أَنْ یَقُولَ : رَبِّی وَرَبُّک اللَّہُ۔
(٣٠٣٦٥) حضرت عبیدہ فرماتے ہیں کہ حضرت علی نے ارشاد فرمایا : جب تم میں سے کوئی ایک نیا چاند دیکھے تو اس کی طرف سر مت اٹھائے۔ تم میں سے ہر ایک کے لیے کافی ہے کہ وہ یوں کہہ لے۔ میرا رب اور تیرا رب اللہ ہے۔

30365

(۳۰۳۶۶) حَدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، أَنَّ عَلِیًّا کَانَ یَقُولُ إذَا رَأَی الْہِلالَ : اللَّہُمَّ ارْزُقْنَا خَیْرَہُ وَنَصْرَہُ وَبَرَکَتَہُ وَنُورَہُ وَنَعُوذُ بِکَ مِنْ شَرِّہِ وَشَرِّ مَا بَعْدَہُ۔
(٣٠٣٦٦) حضرت عبیدہ فرماتے ہیں کہ حضرت علی جب نیا چاند دیکھتے تو یوں فرمایا کرتے تھے : اے اللہ ! ہمیں عطا فرما اس کی بھلائی، اور اس کی مدد، اور اس کی برکت، اور اس کی فتح اور اس کا نور، اور ہم تیری پناہ لیتے ہیں اس کے شر سے اور اس چیز کے شر سے جو اس کے بعد ہو۔

30366

(۳۰۳۶۷) حَدَّثَنَا یَعْلَی بْنُ عُبَیْدٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا حُجَّاجُ بْنُ دِینَارٍ ، عَن مَنْصُورٍ ، عَن مُجَاہِدٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، أَنَّہُ کَرِہَ أَنْ یَنْتَصِبَ لِلْہِلالِ وَلَکِنْ یَعْتَرِضُ فَیَقُولُ : اللَّہُ أَکْبَرُ الْحَمْدُ لِلَّہِ الَّذِی ذَہَبَ بِہِلالِ کَذَا وَکَذَا ، وَجَائَ بِہِلالِ کَذَا وَکَذَا۔
(٣٠٣٦٧) حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عباس مکروہ سمجھتے تھے کہ خاص طور پر نیا چاند دیکھنے کے لیے کھڑا ہوا جائے۔ اور لیکن جب وہ سامنے نظر آجاتا تو یہ کلمات پڑھتے : اللہ سب سے بڑا ہے، سب تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جو چاند کو اس طرح اور اس طرح لے گیا۔ اور اس طرح اور اس طرح چاند کو لے آیا۔

30367

(۳۰۳۶۸) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا سَعِیدٌ ، عَن قَتَادَۃَ ، أَنَّ نَبِیَّ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ إذَا رَأَی الْہِلالَ ، قَالَ : ہِلالُ خَیْرٍ وَرُشْدٍ ، ہِلالُ رُشْدٍ وَخَیْرٍ ، ہِلالُ خَیْرٍ وَرُشْدٍ ، آمَنْت بِالَّذِی خَلَقَک ثَلاثًا ، الْحَمْدُ لِلَّہِ ذَہَبَ بہِلالِ کَذَا وَکَذَا ، وَجَائَ بِہِلالِ کَذَا وَکَذَا۔
(٣٠٣٦٨) حضرت قتادہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب نیا چاند دیکھتے تو تین مرتبہ یوں کہتے : بھلائی اور ہدایت کا چاند ہے، ہدایت اور بھلائی کا چاند ہے، اور بھلائی اور ہدایت کا چاند ہے۔ میں ایمان لایا اس ذات پر جس نے تجھے پیدا کیا۔ پھر یہ پڑھتے سب تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جو چاند کو اس طرح اور اس طرح لے گیا۔ اور چاند کو اس طرح اور اس طرح لے آیا۔

30368

(۳۰۳۶۹) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، قَالَ : سَأَلْتُ ہِشَامَ بْنَ حَسَّانَ : أَیُّ شَیْئٍ کَانَ الْحَسَنَ یَقُولُ إذَا رَأَی الْہِلالَ ؟ قَالَ : کَانَ یَقُولُ : اللَّہُمَّ اجْعَلْہُ شَہْرَ بَرَکَۃٍ وَنُورٍ وَأَجْرٍ وَمُعَافَاۃٍ اللَّہُمَّ إنَّک قَاسِمٌ بَیْنَ عِبَادٍ مِنْ عِبَادِکَ فِیہِ خَیْرًا فَاقْسِمْ لَنَا فِیہِ مِنْ خَیْرِ مَا تَقْسِمُ لِعِبَادِکَ الصَّالِحِینَ۔
(٣٠٣٦٩) حضرت حسین بن علی فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ہشام بن حسان سے پوچھا : جب حضرت حسن نیا چاند دیکھتے تو کون سی دعا پڑھتے تھے ؟ آپ نے فرمایا : وہ یہ دعا پڑھتے تھے ! اے اللہ ! اس مہینہ کو برکت اور نور کا مہینہ بنا دے اور اجر اور معافی کا مہینہ بنا دے ۔ اے اللہ تو اپنے بندوں کے درمیان بھلائی کو تقسیم فرمانے والا ہے، پس تو ہمارے درمیان بھی اس خیر میں سے تقسیم فرما دے، جو تو نے اپنے نیک بندوں کے درمیان تقسیم فرمائی ہے۔

30369

(۳۰۳۷۰) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، قَالَ : سَأَلْتُ ابْنَ جُرَیْجٍ فَذَکَرَ عَنْ عَطَائٍ ، أَنَّ رَجُلاً أَہَلَّ ہِلالاً بِفَلاۃٍ مِنَ الأَرْضِ ، قَالَ : فَسَمِعَ قَائِلاً یَقُولُ : اللَّہُمَّ أَہِلَّہُ عَلَیْنَا بِالأَمْنِ وَالإِیمَانِ وَالسَّلامَۃِ وَالإِسْلامِ وَالْہُدَی وَالْمَغْفِرَۃِ وَالتَّوْفِیقِ لِمَا تَرْضَی وَالْحِفْظِ مِمَّا تَسْخَطُ ، رَبِّی وَرَبُّک اللَّہُ ، قَالَ : فَلَمْ یُتِمَّہُنَّ حَتَّی حَفِظْتہنَّ وَلَمْ أَرَ أَحَدًا۔
(٣٠٣٧٠) حضرت حسین بن علی فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن جریج سے سوال کیا (نئے چاند کے متعلق) تو انھوں نے حضرت عطاء کے حوالہ سے نقل کیا : کہ بیشک ایک آدمی نے بنجر زمین میں نیا چاند دیکھا۔ اس نے بیان کیا کہ میں نے کسی کو یہ کلمات کہتے ہوئے سنا : اے اللہ ! تو اس چاند کو ہم پر امن اور ایمان کے ساتھ، اور سلامتی اور اسلام کے ساتھ، اور ہدایت اور مغفرت کے ساتھ، اور ہر اس عمل کی توفیق کے ساتھ نکال جو تجھے پسند ہو، اور ہر اس عمل سے حفاظت کے ساتھ نکال جس سے تو ناراض ہوتا ہو۔ اے چاند تیرا اور میرا دونوں کا پروردگار اللہ ہے۔ وہ آدمی کہتا ہے : وہ مسلسل یہ کلمات پڑھتا رہا یہاں تک کہ میں نے ان کو یاد کرلیا : اور میں نے کسی کو بھی وہاں نہیں دیکھا۔

30370

(۳۰۳۷۱) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَن زَائِدَۃَ ، عَن مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : کَانَ یُعْجِبُہُمْ إذَا رَأَی الرَّجُلُ الْہِلالَ أَنْ یَقُولَ : رَبِّی وَرَبُّک اللَّہُ۔
(٣٠٣٧١) حضرت مغیرہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم پسند کرتے تھے کہ جب کوئی آدمی نیا چاند دیکھے تو یہ کلمات پڑھے : اے چاند تیرا اور میرا پروردگار اللہ ہے۔

30371

(۳۰۳۷۲) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا أَصَبْغُ بْنُ زَیْدٍ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَلائِ ، عَنْ أَبِی أُمَامَۃَ ، قَالَ : لَبِسَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ ثَوْبًا جَدِیدًا فَقَالَ : الْحَمْدُ لِلَّہِ الَّذِی کَسَانِی مَا أُوَارِی بِہِ عَوْرَتِی وَأَتَجَمَّلُ بِہِ فِی حَیَاتِی ثُمَّ قَالَ سَمِعْت رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : مَنْ لَبِسَ ثَوْبًا جَدِیدًا فَقَالَ : الْحَمْدُ لِلَّہِ الَّذِی کَسَانِی مَا أُوَارِی بِہِ عَوْرَتِی وَأَتَجَمَّلُ بِہِ فِی حَیَاتِی ، ثُمَّ عَمَدَ إِلَی الثَّوْبِ الَّذِی أَخْلَقَ ، أَوْ قَالَ : أَلْقَی ، فَتَصَدَّقَ بِہِ کَانَ فِی کَنَفِ اللہِ وَفِی حِفْظِ اللہِ وَفِی سِتْرِ اللہِ حَیًّا وَمَیِّتًا قَالَہَا ثَلاثًا۔
(٣٠٣٧٢) حضرت ابو امامہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب نے نیا کپڑا پہنا تو یہ دعا پڑھی : شکر ہے اللہ کا جس نے مجھے وہ کپڑے پہنائے جس سے میں اپنا ستر ڈھانکتا ہوں اور اپنی زندگی میں اس سے زینت حاصل کرتا ہوں۔ پھر فرمایا : میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یوں فرماتے ہوئے سنا ہے : جو شخص نیا کپڑا پہن کر یہ دعا پڑھے : شکر ہے اللہ کا جس نے مجھے وہ کپڑے پہنائے جن سے میں اپنا ستر ڈھانکتا ہوں ، اور اپنی زندگی میں اس سے زینت حاصل کرتا ہوں۔ اور پھر وہ پرانے کپڑوں کو جس کو اس نے پھاڑ دیا تھا یا فرمایا؛ جسے رکھ دیا صدقہ کر دے تو وہ زندگی میں اور مرنے کے بعد خدا کی حفاظت میں اور حمایت میں اور خدا کے چھپانے میں رہے گا۔ آپ نے یہ بات تین مرتبہ ارشاد فرمائی۔

30372

(۳۰۳۷۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن سُفْیَانَ ، عَنِ ابْنِ أَبِی لَیْلَی ، عَنْ أَخِیہِ عِیسَی ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِی لَیْلَی ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إذَا لَبِسَ أَحَدُکُمْ ثَوْبًا جَدِیدًا فَلْیَقُلْ : الْحَمْدُ لِلَّہِ الَّذِی کَسَانِی مَا أُوَارِی بِہِ عَوْرَتِی وَأَتَجَمَّلُ بِہِ فِی النَّاسِ۔
(٣٠٣٧٣) حضرت عبد الرحمن بن ابی لیلی فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جب تم میں سے کوئی ایک نیا کپڑا پہنے تو اسے چاہیے کہ یوں دعا کرے : شکر ہے اللہ کا جس نے مجھے وہ کپڑے پہنائے جن کو پہن کر میں اپنا ستر ڈھانپتا ہوں اور اپنی زندگی میں اس سے زینت حاصل کرتا ہوں۔

30373

(۳۰۳۷۴) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ أَبِی الأَشْہَبِ ، عَن رَجُلٍ مِنْ مُزَیْنَۃَ ، أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَأَی عَلَی عُمَرَ ثَوْبًا غَسِیلاً فَقَالَ : أجَدِیدٌ ثَوْبُک ہَذَا ؟ قَالَ : غَسِیلٌ یَا رَسُولَ اللہِ ، قَالَ : فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : الْبَسْ جَدِیدًا وَعِشْ حَمِیدًا وَتَوَفَّ شَہِیدًا یُعْطِکَ اللَّہُ قُرَّۃَ عَیْنٍ فِی الدُّنْیَا وَالآخِرَۃِ۔
(٣٠٣٧٤) قبیلہ مزینہ کے ایک آدمی نقل کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عمر کو دھلا ہوا کپڑا پہنے ہوئے دیکھا، تو ارشاد فرمایا : کیا تمہارے یہ کپڑے نئے ہیں ؟ حضرت عمر نے فرمایا : اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دھلے ہوئے ہیں۔ پس رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم نیا کپڑا پہنو، اور شکر کرتے ہوئے زندگی گزارو، اور شہید ہو کر وفات پاؤ، اللہ تمہیں دنیا اور آخرت میں آنکھ کی ٹھنڈک نصیب کرے۔

30374

(۳۰۳۷۵) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَنْ أَبِی وَہْبٍ ، عَن مَنْصُورٍ عَن سَالِمِ بْنِ أَبِی الْجَعْدِ ، قَالَ : إذَا لَبِسَ الإِنْسَاْن الثَّوْبَ الْجَدِیدَ فَقَالَ : اللَّہُمَّ اجْعَلْہَا ثِیَابًا مُبَارَکَۃً نَشْکُرُ فِیہَا نِعْمَتَکَ ، وَنُحْسِنُ فِیہَا عِبَادَتَکَ ، وَنَعْمَلُ فِیہَا بِطَاعَتِکَ ، لَمْ تُجَاوِزْ تَرْقُوَتَہُ حَتَّی یَغْفِرَ لَہُ۔
(٣٠٣٧٥) حضرت منصور فرماتے ہیں کہ حضرت سالم بن ابی الجعد نے ارشاد فرمایا : جب کوئی شخص نیا کپڑا پہن کر یوں دعا پڑھے : اے اللہ ! تو ان کپڑوں کو بابرکت بنا دے۔ جن کو پہن کر میں تیری نعمتوں کا شکر ادا کروں ۔ میں جن میں تیرے بندوں کے ساتھ اچھا سلوک کروں۔ میں جن کو پہن کر تیری فرمان برداری میں عمل کروں۔ یہ دعا ابھی اس کے حلق میں بھی نہیں پہنچتی کہ اللہ تعالیٰ اس کی مغفرت فرما دیتے ہیں۔

30375

(۳۰۳۷۶) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، حَدَّثَنَا مِسْعَرٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا عَوْنُ بْنُ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : لَبِسَ رَجُلٌ ثَوْبًا جَدِیدًا فَحَمِدَ اللَّہَ ، فَأُدْخِلَ الْجَنَّۃَ ، أَوْ غُفِرَ لَہُ ، قَالَ : فَقَالَ لَہُ رَجُلٌ : أَرْجِعُ إِلَی أَہْلِی حَتَّی أَلْبَسَ ثَوْبًا جَدِیدًا وَأَحْمَدُ اللَّہَ عَلَیْہِ۔
(٣٠٣٧٦) حضرت مسعر فرماتے ہیں کہ حضرت عون بن عبداللہ نے ارشاد فرمایا : ایک آدمی نیا کپڑا پہن کر اللہ کا شکر ادا کرتا ہے تو اسے جنت میں داخل کردیا جائے گا یا یوں فرمایا : اس کی مغفرت کردی جائے گی، تو ایک آدمی نے ان کو کہا : میں اپنے گھر والوں کی طرف نہیں لوٹوں گا یہاں تک کہ میں نیا کپڑا پہنوں گا اور اس پر اللہ کا شکر ادا کروں گا۔

30376

(۳۰۳۷۷) حَدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنِ الْجُرَیْرِیِّ ، عَنْ أَبِی نَضْرَۃَ ، قَالَ : کَانَ أَصْحَابُ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إذَا رَأَوْا عَلَی أَحَدِہِمَ الثَّوْبَ الْجَدِیدَ قَالُوا : تُبْلِی وَیُخْلِفُ اللَّہُ۔
(٣٠٣٧٧) حضرت ابو نضرہ فرماتے ہیں کہ ! نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ جب کسی کو نیا کپڑا پہنا ہوا دیکھتے تو یوں دعا دیتے ، پہنو اور پھاڑو، خدا تمہیں اور دے۔

30377

(۳۰۳۷۸) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا الْجُرَیْرِیُّ ، عَنْ أَبِی نَضْرَۃَ ، قَالَ : کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إذَا لَبِسَ ثَوْبًا جَدِیدًا سَمَّاہُ بِاسْمِہِ إِنْ کَانَ قَمِیصًا ، أَوْ إزَارًا ، أَوْ عِمَامَۃً یَقُولُ اللَّہُمَّ لَکَ الْحَمْدُ أَنْتَ کَسَوْتنِی ہَذَا ، أَسْأَلُک مِنْ خَیْرِہِ وَخَیْرِ مَا صُنِعَ لَہُ وَأَعُوذُ بِکَ مِنْ شَرِّہِ وَشَرِّ مَا صُنِعَ لَہُ۔
(٣٠٣٧٨) حضرت ابونضرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب نیا کپڑا پہنتے تو اس کا نام لیتے اگر قمیص ہو یا تہبند ہو یا عمامہ ہو تو یوں دعا پڑھتے : اے اللہ ! تیرے لیے ہی شکر ہے کہ تو نے مجھے یہ کپڑاپہنایا میں تجھ سے اس کی خیر کا اور جس کے لیے بنایا گیا ہے اس کی خیر کا سوال کرتا ہوں۔ میں تیری پناہ لیتا ہوں اس کے شر سے اور جس کے لیے اسے بنایا گیا ہے اس کے شر سے۔

30378

(۳۰۳۷۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا ہِشَامُ بْنُ عُرْوَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ عَائِشَۃَ فِی قَوْلِہِ : (وَلا تَجْہَرْ بِصَلاتِکَ وَلا تُخَافِتْ بِہَا) قَالَتْ : الدُّعَائُ۔
(٣٠٣٧٩) حضرت عروہ فرماتے ہیں کہ حضرت عائشہ نے اللہ کے قول اور نہ بلند آواز سے پڑھو تم اپنی نماز اور نہ بہت پست کرو تم اپنی آواز، کے بارے میں فرمایا : اس میں دعا مراد ہے۔

30379

(۳۰۳۸۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن سُفْیَانَ ، عَن عُبَیْدٍ الْمُکْتِبِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ وَعَنْ سُفْیَانَ ، عَن سِمَاکِ بْنِ عُبَیْدٍ ، عَنْ عَطَائٍ ، قَالَ : الدُّعَائُ۔
(٣٠٣٨٠) حضرت سماک بن عبید فرماتے ہیں کہ حضرت عطائ نے فرمایا : دعا مراد ہے۔

30380

(۳۰۳۸۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن سُفْیَانَ ، عَنِ الْہَجَرِیِّ ، عَنْ أَبِی عِیَاضٍ ، قَالَ : الدُّعَائُ۔
(٣٠٣٨١) حضرت حکم فرماتے ہیں کہ حضرت مجاہد نے اس آیت ( اور تم اپنی نماز میں آواز کو بلند نہ کرو اور نہ ہی اپنی آواز کو بہت پست کرو۔ ) کے بارے میں فرمایا : اس آیت میں دعا اور مانگنا مراد ہے۔

30381

(۳۰۳۸۲) حَدَّثَنَا بَکْرُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، قَالَ : حدَّثَنَا عِیسَی بْنُ الْمُخْتَارِ ، عَن مُحَمَّدٍ ، عَنِ الْحَکَمِ ، عَن مُجَاہِدٍ فِی ہَذِہِ الآیَۃِ : {وَلا تَجْہَرْ بِصَلاتِکَ وَلا تُخَافِتْ بِہَا} قَالَ : ذَلِکَ فِی الدُّعَائِ وَالْمَسْأَلَۃِ۔
(٣٠٣٨٢) حضرت مجاہد قرآن مجید کی آیت { وَلا تَجْہَرْ بِصَلاتِکَ وَلا تُخَافِتْ بِہَا } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اس سے مراد دعا ہے۔

30382

(۳۰۳۸۳) حَدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ ابْنُ عُلَیَّۃَ ، وَأَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَن لَیْثٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ الْحَسَنِ ، عَن أُمِّہِ ، عَن فَاطِمَۃَ بِنْتِ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَتْ : کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إذَا دَخَلَ الْمَسْجِدَ یَقُولُ : بِسْمِ اللہِ وَعَلَی سُنَّۃِ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اللَّہُمَّ اغْفِرْ لِی ذُنُوبِی وَافْتَحْ لِی أَبْوَابَ رَحْمَتِکَ ، وَإِذَا خَرَجَ ، قَالَ : بِسْمِ اللہِ وَالسَّلامُ عَلَی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، اللَّہُمَّ اغْفِرْ لِی ذُنُوبِی ، وَافْتَحْ لِی أَبْوَابَ فَضْلِک۔
(٣٠٣٨٣) حضرت فاطمہ بنت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتی ہیں : جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مسجد میں داخل ہوتے تو یوں دعا فرماتے : اللہ کے نام کے ساتھ داخل ہوتا ہوں اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے طریقہ پر۔ اے اللہ ! میرے گناہوں کو معاف فرما۔ اور میرے لیے اپنی رحمت کے دروازے کھول دے۔ اور جب نکلتے تو یوں دعا فرماتے ! اللہ کے نام کے ساتھ نکلتا ہوں ، اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر سلامتی ہو۔ اے اللہ ! میرے گناہوں کو معاف فرما۔ اور میرے لیے اپنے فضل و رحمت کے دروازے کھول دے۔

30383

(۳۰۳۸۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ سَعِیدٍ ، عَنْ أَبِی ہِنْدٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ عَمْرٍو الْمَدَنِیِّ ، عَنِ الْمُطَّلِبِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ حَنْطَبٍ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ إذَا دَخَلَ الْمَسْجِدَ ، قَالَ : اللَّہُمَّ افْتَحْ لِی أَبْوَابَ رَحْمَتِکَ وَیَسِّرْ لِی أَبْوَابَ رِزْقِک۔
(٣٠٣٨٤) حضرت مطلب بن عبداللہ بن حنطب فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب مسجد میں داخل ہوتے تو یوں دعا فرماتے : اے اللہ ! تو میرے لیے اپنی رحمت کے دروازے کھول دے اور میرے لیے اپنے رزق کے دروازوں کو آسان فرما دے۔

30384

(۳۰۳۸۵) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ إِسْحَاقَ ، عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ عَلِیٍّ ، قَالَ : کَانَ إذَا دَخَلَ الْمَسْجِدَ ، قَالَ : اللَّہُمَّ اغْفِرْ لِی ذُنُوبِی وَافْتَحْ لِی أَبْوَابَ رَحْمَتِکَ ، وَإِذَا خَرَجَ ، قَالَ : اللَّہُمَّ اغْفِرْ لِی ذُنُوبِی وَافْتَحْ لِی أَبْوَابَ فَضْلِک۔
(٣٠٣٨٥) حضرت نعمان بن سعد فرماتے ہیں کہ حضرت علی جب مسجد میں داخل ہوتے تو یوں دعا فرماتے : اے اللہ ! تو میرے گناہوں کو معاف فرما، اور تو میرے لیے اپنے فضل اور رحمت کے دروازوں کو کھول دے۔ اور جب مسجد سے نکلتے تو یوں دعا فرماتے ! اے اللہ ! تو میرے گناہوں کو معاف فرما۔ اور تو میرے لیے اپنے فضل کے دروازوں کو کھول دے۔

30385

(۳۰۳۸۶) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنِ ابْنِ عَجْلانَ ، عَن سَعِیدِ بْنِ أَبِی سَعِیدٍ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : قَالَ لِی کَعْبُ بْنُ عُجْرَۃَ : إذَا دَخَلْت الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ فَسَلِّمْ عَلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَقُلِ : اللَّہُمَّ افْتَحْ لِی أَبْوَابَ رَحْمَتِکَ ، وَإِذَا خَرَجْت فَسَلِّمْ عَلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَقُلِ : اللَّہُمَّ احْفَظْنِی مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیمِ۔
(٣٠٣٨٦) حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ حضرت کعب بن عجرہ نے مجھ سے ارشاد فرمایا : جب تو مسجد حرام میں داخل ہو تو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر سلام بھیج اور یہ دعا پڑھ : اے اللہ ! تو میرے لیے اپنی رحمت کے دروازوں کو کھول دے۔ اور جب تو نکلے تو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر سلام بھیج۔ اور یہ دعا پڑھ : اے اللہ ! تو شیطان مردود سے میری حفاظت فرما۔

30386

(۳۰۳۸۷) حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ الْعَقَدِیُّ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ مُبَارَکٍ ، عَن یَحْیَی بْنِ أَبِی کَثِیرٍ ، عَن مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، أَنَّ عَبْدَ اللہِ بْنَ سَلامٍ کَانَ إذَا دَخَلَ الْمَسْجِدَ سَلَّمَ عَلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَقَالَ : اللَّہُمَّ افْتَحْ لِی أَبْوَابَ رَحْمَتِکَ ، وَإِذَا خَرَجَ سَلَّمَ عَلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَتَعَوَّذَ مِنَ الشَّیْطَانِ۔
(٣٠٣٨٧) حضرت محمد بن عبد الرحمن فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن سلام جب مسجد میں داخل ہوتے تو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر سلام بھیجتے اور یہ دعا پڑھتے ! اے اللہ ! تو میرے لیے اپنی رحمت کے دروازوں کو کھول دے۔ اور جب مسجد سے نکلتے تو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر سلام بھیجتے اور شیطان سے پناہ مانگتے۔

30387

(۳۰۳۸۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن سُفْیَانَ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَن سَعِیدِ بْنِ ذِی حُدَّانِ ، عَنْ عَلْقَمَۃَ ، أَنَّہُ کَانَ إذَا دَخَلَ الْمَسْجِدَ ، قَالَ : سَلامٌ عَلَیْک أَیُّہَا النَّبِیُّ وَرَحْمَۃُ اللہِ وَبَرَکَاتُہُ ، صَلَّی اللَّہُ وَمَلائِکَتُہُ عَلَی مُحَمَّدٍ۔
(٣٠٣٨٨) حضرت سعید بن ذی حدان فرماتے ہیں کہ حضرت علقمہ جب مسجد میں داخل ہوتے تو فرماتے : اے نبی ! آپ پر سلامتی ہو اور اللہ کی رحمتیں اور برکتیں نازل ہوں۔ اللہ اور اس کے فرشتے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر درود بھیجیں۔

30388

(۳۰۳۸۹) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ کَانَ إذَا دَخَلَ الْمَسْجِدَ ، قَالَ : بِسْمِ اللہِ وَالسَّلامُ عَلَی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔
(٣٠٣٨٩) حضرت اعمش فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم جب مسجد میں داخل ہوتے تو یوں فرماتے : اللہ کے نام کے ساتھ داخل ہوتا ہوں اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر سلامتی ہو۔

30389

(۳۰۳۹۰) حَدَّثَنَا حَبِیبُ بْنُ أَبِی حَبِیبٍ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنِ الْحَکَمِ ، قَالَ : مَنْ سَمِعَ الْمُنَادِیَ یُنَادِی بِإِقَامَۃِ الصَّلاۃِ فَقَالَ : اللَّہُمَّ رَبَّ ہَذِہِ الدَّعْوَۃِ التَّامَّۃِ وَالصَّلاۃِ الْقَائِمَۃِ أَعْطِ مُحَمَّدًا سُؤْلَہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ إِلاَّ کَانَ مِمَّنْ یَشْفَعُ لَہُ۔
(٣٠٣٩٠) حضرت ابو اسحاق فرماتے ہیں کہ حضرت حکم نے ارشاد فرمایا : جو شخص منادی کی آواز سنے کہ وہ نماز کے کھڑے ہونے کی ندا لگا رہا ہے، تو یوں دعا کرے : اے اللہ ! پروردگار اس پوری پکار کے اور قائم ہونے والی نماز کے ۔ عطا فرما محمد کو ان کی درخواست قیامت کے دن۔ تو اس وجہ سے اس کی شفاعت کی جائے گی۔

30390

(۳۰۳۹۱) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِِ ، عَنْ أَبِی حَمْزَۃَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : إذَا سَمِعْت الْمُؤَذِّنَ ، قَالَ قَدْ قَامَتِ الصَّلاۃُ فَقُلِ : اللَّہُمَّ رَبَّ ہَذِہِ الدَّعْوَۃِ التَّامَّۃِ وَالصَّلاۃِ الْقَائِمَۃِ أَعْطِ مُحَمَّدًا صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سُؤْلَہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ لاَ یَقُولُہَا رَجُلٌ حِینَ یَقُومُ الْمُؤَذِّنُ إِلاَّ أَدْخَلَہُ اللَّہُ فِی شَفَاعَۃِ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ۔
(٣٠٣٩١) حضرت ابو حمزہ فرماتے ہیں کہ حضرت حسن نے ارشاد فرمایا : جب تو مؤذن کو یہ جملہ کہتے ہوئے سنے : تحقیق نماز کھڑی ہوگئی ۔ تو یوں دعا کر : اے اللہ ! پروردگار اس پوری پکار کے اور کھڑی ہونے والی نماز کے ، عطا فرما قیامت کے دن محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان کی درخواست۔ مؤذن کے کھڑے ہوتے وقت کوئی آدمی یہ دعا نہیں کرتا مگر یہ کہ اللہ اس آدمی کو قیامت کے دن محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شفاعت میں داخل کریں گے۔

30391

(۳۰۳۹۲) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَن سَعِیدٍ ، عَن قَتَادَۃَ ، أَنَّ عُثْمَانَ کَانَ إذَا سَمِعَ الْمُؤَذِّنَ ، قَالَ قَدْ قَامَتِ الصَّلاۃُ ، قَالَ : مَرْحَبًا بِالْقَائِلِینَ عَدْلاً وَبِالصَّلاۃِ مَرْحَبًا وَأَہْلاً ، ثُمَّ یَنْہَضُ إِلَی الصَّلاۃِ۔
(٣٠٣٩٢) حضرت قتادہ فرماتے ہیں کہ حضرت عثمان جب مؤذن کو یہ کلمات پڑھتے ہوئے سنتے : تحقیق نماز کھڑی ہوگئی، تو ارشاد فرماتے : بہت خوب انصاف کی بات کرنے والو، اور خوش آمدید نماز۔ پھر نماز کے لیے کھڑے ہوجاتے۔

30392

(۳۰۳۹۳) حَدَّثَنَا عِیسَی بْنُ یُونُسَ ، عَنِ الأَوْزَاعِیِّ عَمَّنْ أَخْبَرَہُ ، عَن مُجَاہِدٍ ، أَنَّہُ کَانَ إذَا قَالَ الْمُؤَذِّنُ حَیَّ عَلَی الصَّلاۃِ ، قَالَ : الْمُسْتَعَانُ اللہ ، فَإذَا قَالَ : حَیَّ عَلَی الْفَلاحِ ، قَالَ : لاَ حَوْلَ وَلا قُوَّۃَ إِلاَّ بِاللہِ۔
(٣٠٣٩٣) حضرت مجاہد جب مؤذن کے اس کلمہ کو سنتے : آؤ نماز کی طرف تو فرماتے؛ اللہ کی مدد سے ، پس جب مؤذن کہتا ! آؤ کامیابی کی طرف تو کہتے : گناہوں سے بچنے کی طاقت اور نیکی کرنے کی قوت صرف اللہ کی مدد سے ہے۔

30393

(۳۰۳۹۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن سُفْیَانَ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُبَیْدِ اللہِ ، عَن عُبَیْدِ اللہ بنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ الْحَارِثِ ، عَنْ أَبِیہِ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یَقُولُ مِثْلَ مَا یَقُولُ الْمُؤَذِّنُ ، فَإذَا قَالَ حَیَّ عَلَی الصَّلاۃِ حَیَّ عَلَی الْفَلاحِ ، قَالَ : لاَ حَوْلَ وَلا قُوَّۃَ إِلاَّ بِاللہِ۔
(٣٠٣٩٤) حضرت عبداللہ بن حارث فرماتے ہیں بیشک نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پڑھتے تھے جیسا کہ مؤذن پڑھتا تھا۔ پس جب مؤذن کہتا : آؤ نماز کی طرف آؤ کامیابی کی طرف تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یوں کہتے : گناہوں سے بچنے کی طاقت اور نیکی کے کرنے کی قوت صرف اللہ کی مدد سے ہے۔

30394

(۳۰۳۹۵) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ حُبَابٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا مُعَاوِیَۃُ بْنُ صَالِحٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِی حَبِیبُ بْنُ عُبَیْدٍ الْکَلاعِیُّ ، عَن جُبَیْرِ بْنِ نُفَیْرٍ الْحَضْرَمِیِّ ، عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِکٍ الأَشْجَعِیِّ ، قَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ عَلَی الْمَیِّتِ : اللَّہُمَّ اغْفِرْ لَہُ وَارْحَمْہُ وَعَافِہِ وَاعْفُ عَنْہُ وَأَکْرِمْ نُزُلَہُ وَأَوْسِعْ مُدْخَلَہُ وَاغْسِلْہُ بِالْمَائِ وَالثَّلْجِ وَالْبَرَدِ ، وَنَقِّہِ مِنَ الْخَطَایَا کَمَا یُنَقَّی الثَّوْبُ الأَبْیَضَ مِنَ الدَّنَسِ ، اللَّہُمَّ أَبْدِلْہُ دَارًا خَیْرًا مِنْ دَارِہِ ، وَزَوْجًا خَیْرًا مِنْ زَوْجِہِ ، وَأَہْلاً خَیْرًا مِنْ أَہْلِہِ وَأَدْخِلْہُ الْجَنَّۃَ ، وَنَجِّہِ مِنَ النَّارِ ، أَوْ قَالَ : وَقِہ عَذَابَ النَّارِ ، حَتَّی تَمَنَّیْت أَنْ أَکُونَ أَنَا ہُوَ۔
(٣٠٣٩٥) حضرت عوف بن مالک الاشجعی فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایک میت پر یوں دعا فرماتے ہوئے سنا : اے اللہ ! اس کی مغفرت فرما۔ اور اس پر رحم فرما۔ اور اس کو عافیت بخش اور اس سے درگزر فرما۔ اور اپنے مہمان کا اکرام فرما۔ اور اس کے داخل ہونے والی جگہ کو وسعت دے دے اور اس کو پانی سے اور برف سے اور ٹھنڈے پانی سے دھو دے۔ اور اس کو گناہوں سے ایسے پاک صاف کر دے جیسا سفید کپڑے کو گندگی سے صاف کیا جاتا ہے۔ اے اللہ ! اس کے گھر سے بہتر گھر کا بدل عطا فرما۔ اور اس کی بیوی سے بہتر بیوی کا اسے بدل عطا فرما۔ اور اس اہل و عیال سے بہتر اہل و عیال کا اسے بدل عطا فرما۔ اور اس کو جنت میں داخل فرما۔ اور اسے جہنم سے نجات دے یا یوں فرمایا : اور اس کو جہنم کے عذاب سے بچا۔ یہاں تک کہ میں تمنا کرنے لگا کہ وہ مردہ میں ہوتا۔

30395

(۳۰۳۹۶) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، قَالَ : حدَّثَنَا ہِشَامٌ الدَّسْتوَائِیُّ ، عَن یَحْیَی بْنِ أَبِی کَثِیرٍ ، عَنْ أَبِی إبْرَاہِیمَ الأَنْصَارِیِّ ، عَنْ أَبِیہِ ، أَنَّہُ سَمِعَ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یقول فِی الصَّلاۃِ عَلَی الْمَیِّتِ : اللَّہُمَّ اغْفِرْ لِحَیِّنَا وَمَیِّتِنَا وَشَاہِدِنَا وَغَائِبِنَا وَذَکَرِنَا وَأُنْثَانَا وَصَغِیرِنَا وَکَبِیرِنَا۔
(٣٠٣٩٦) حضرت ابراہیم انصاری فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایک میت پر نماز جنازہ میں یوں دعا کرتے ہوئے سنا ہے ؟ اے اللہ ! بخش دے ہمارے ہر زندہ کو اور ہمارے ہر متوفی کو، اور ہمارے ہر حاضر کو اور ہمارے ہر غیر حاضر کو اور ہمارے ہر مرد کو اور ہماری ہر عورت کو اور ہمارے ہر چھوٹے کو اور ہمارے ہر بڑے کو۔

30396

(۳۰۳۹۷) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَن شُعْبَۃَ ، عَنِ الْجُلاسِ ، عَن عُثْمَانَ بْنِ شَمَّاسٍ ، قَالَ : کُنَّا عِنْدَ أَبِی ہُرَیْرَۃَ فَمَرَّ بِہِ مَرْوَانُ فَقَالَ لہ : بَعْضَ حَدِیثَکَ عَن رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، ثُمَّ مَضَی ، ثُمَّ رَجَعَ فَقُلْنَا : الآنَ یَقَعُ بِہِ ، فَقَالَ : کَیْفَ سمعت رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُصَلِّی عَلَی الْجَِنَازَۃِ ؟ ، قَالَ : سَمِعْتُہُ یَقُولُ أَنْتَ ہَدَیْتہَا لِلإِسْلامِ وَأَنْتَ قَبَضْت رُوحَہَا ، تَعْلَمُ سِرَّہَا وَعَلانِیَتَہَا ، جِئْنَاک شُفَعَائَ فَاغْفِرْ لَہَا۔
(٣٠٣٩٧) حضرت عثمان بن شماس فرماتے ہیں کہ ہم لوگ حضرت ابوہریرہ کے پاس تھے۔ کہ مروان کا ان کے پاس سے گزر ہوا۔ تو وہ آپ سے کہنے لگا : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی کوئی حدیث بیان کریں، پھر وہ چلا گیا ، پھر تھوڑی دیر بعد لوٹا، تو ہم نے کہا : اب یہ ان کے ساتھ بیٹھ جائے گا، پس وہ کہنے لگا، آپ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نماز جنازہ پر کیا دعا پڑھتے ہوئے سنا ہے ؟ آپ نے فرمایا : میں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ دعا کرتے ہوئے سنا ہے : تو نے ہی اس کو اسلام کی ہدایت دی اور تو نے ہی اس کی روح کو قبض کیا۔ تو ہی اس کی پوشیدہ باتوں کو اور کھلی ہوئی باتوں کو جانتا ہے، ہم تو تیرے پاس اس کی شفاعت کرنے والے بن کر آئے ہیں ، پس تو اس کی مغفرت فرما دے۔

30397

(۳۰۳۹۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ ابْنِ أَبِی لَیْلَی ، عَن رَجُلٍ مِنْ أَہْلِ مَکَّۃَ ، عَنْ أَبِی سَلَمَۃَ ، قَالَ : کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ فِی الصَّلاۃِ عَلَی الْجِنَازَۃِ : اللَّہُمَّ اغْفِرْ لِحَیِّنَا وَمَیِّتِنَا وَذَکَرِنَا وَأُنْثَانَا وَشَاہِدِنَا وَغَائِبِنَا وَصَغِیرِنَا وَکَبِیرِنَا اللَّہُمَّ مَنْ أَحْیَیْتہ مِنَّا فَأَحْیِہِ عَلَی الإِسْلامِ ، وَمَنْ تَوَفَّیْتہ مِنَّا فَتَوَفَّہُ عَلَی الإِسْلامِ۔
(٣٠٣٩٨) حضرت ابو سلمہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز جنازہ میں یہ دعا پڑھتے تھے : اے اللہ ! تو بخش دے ہمارے ہر زندہ کو اور ہمارے ہر متوفی کو اور ہمارے ہر مرد کو اور ہماری ہر عورت کو اور ہمارے ہر حاضر کو اور ہمارے ہر غیر حاضر کو اور ہمارے ہر چھوٹے کو اور ہمارے ہر بڑے کو۔ اے اللہ ! تو ہم میں سے جس کو زندہ رکھے تو پس ایمان پر اس کو زندہ رکھنا : اور ہم میں سے تو جس کو موت دے تو پس ایمان پر اس کو موت دینا۔

30398

(۳۰۳۹۹) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ ، عَن حُصَیْنٍ ، عَنْ أَبِی مَالِکٍ ، قَالَ : کَانَ أَبُو بَکْرٍ إذَا صَلَّی عَلَی الْمَیِّتِ ، قَالَ : اللَّہُمَّ عَبْدُک أَسْلَمَہُ الأَہْلَ وَالْمَالَ وَالْعَشِیرَۃَ ، وَالذَّنْبُ عَظِیمٌ وَأَنْتَ غَفُورٌ رَحِیمٌ۔
(٣٠٣٩٩) حضرت ابو مالک فرماتے ہیں کہ حضرت ابوبکر جب کسی میت پر نماز جنازہ پڑھاتے تو یوں فرماتے ! اے اللہ ! تیری بندہ ہے ، گھر والوں اور مال اور خاندان نے اس کو سپرد کیا، اور بہت گناہ ہیں، اور تو بخشنے والا رحم کرنے والا ہے۔

30399

(۳۰۴۰۰) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِِ، عَن طَارِقٍ، عَن سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ، قَالَ: کَانَ عُمَرُ یَقُولُ فِی الصَّلاۃِ إِنْ کَانَ مسائ، قَالَ : اللَّہُمَّ أَمْسَی عَبْدُک ، وَإِنْ کَانَ صَبَاحًا ، قَالَ : اللَّہُمَّ أَصْبَحَ عَبْدُک قَدْ تَخَلَّی مِنَ الدُّنْیَا وَتَرَکَہَا لأَہْلِہَا وَاسْتَغْنَتْ عَنْہُ وَافْتَقَرَ إلَیْک کَانَ یَشْہَدُ أَنْ لاَ إلَہَ إِلاَّ أَنْتَ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُک وَرَسُولُک فَاغْفِرْ لہ ذُنُوبَہُ۔
(٣٠٤٠٠) حضرت سعید بن المسیب فرماتے ہیں کہ حضرت عمر اگر شام ہوتی تو نماز جنازہ میں یوں دعا کرتے : اے اللہ ! تیرے بندے نے شام کی۔ اور اگر صبح کا وقت ہوتا تو یوں دعا کرتے ! اے اللہ ! تیرے بندے نے صبح کی، تحقیق اس نے دنیا کو چھوڑ دیا، اور اس نے دنیا کو دنیا والوں کے لیے چھوڑ دیا، اور تو اس سے بےنیاز ہے اور وہ تیرا محتاج ہے، وہ گواہی دیتا تھا کہ تیرے سوا کوئی معبود برحق نہیں، اور یقیناً محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تیرے بندے اور تیرے رسول ہیں، پس تو اس کے گناہوں کی مغفرت فرما دے۔

30400

(۳۰۴۰۱) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِِ ، عَن مَنْصُورٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبْزَی قَالَ : کَانَ عَلِیٌّ یَقُولُ فِی الصَّلاۃِ عَلَی الْمَیِّتِ : اللَّہُمَّ اغْفِرْ لأَحْیَائِنَا وَأَمْوَاتِنَا وَأَلِّفْ بَیْنَ قُلُوبِنَا ، وَأَصْلِحْ ذَاتَ بَیْنِنَا وَاجْعَلْ قُلُوبَنَا عَلَی قُلُوبِ خِیَارِنَا ، اللَّہُمَّ اغْفِرْ لَہُ اللَّہُمَّ ارْحَمْہُ اللَّہُمْ أَرْجِعْہُ إِلَی خَیْرٍ مِمَّا کَانَ فِیہِ ، اللَّہُمَّ عَفْوَک۔
(٣٠٤٠١) حضرت عبداللہ بن عبد الرحمن بن ابزی فرماتے ہیں کہ حضرت علی نماز جنازہ میں یہ دعا پڑھا کرتے تھے : اے اللہ ! تو بخش دے ہمارے زندوں کو اور ہمارے مردوں کو ۔ اور ہمارے دلوں کے درمیان جوڑ پیدا فرما۔ اور ہم لوگوں کے آپس کے معاملات درست فرما۔ اور ہمارے دلوں کو ہمارے بہترین لوگوں کے دلوں جیسا بنا دے، اے اللہ ! تو اس کو معاف فرما دے اے اللہ ! تو اس پر رحم فرما۔ اے اللہ ! تو اس کو لوٹا دے ایسی بھلائی کی طرف جس میں وہ پہلے تھا۔ اے اللہ ! تیری معافی کے طلب گار ہیں۔

30401

(۳۰۴۰۲) حَدَّثَنَا عَبْدُالْوَہَّابِ الثَّقَفِیُّ، عَن خَالِدٍ، قَالَ: کُنْتُ فِی جَِنَازَۃِ غُنَیْمٍ فَحَدَّثَنِی رَجُلٌ عَنْہُ، أَنَّہُ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا مُوسَی صَلَّی عَلَی مَیِّتٍ فَکَبَّرَ فَقَالَ : اللَّہُمَّ اغْفِرْ لَہُ کَمَا اسْتَغْفَرَک وَأَعْطِہِ مَا سَأَلَک وَزِدْہُ مِنْ فَضْلِک۔
(٣٠٤٠٢) حضرت خالد فرماتے ہیں کہ میں حضرت غنیم کے جنازہ میں حاضر تھا تو ایک شخص نے مجھے ان کے حوالے سے بیان کیا کہ حضرت غنیم نے فرمایا : میں نے حضرت ابو موسیٰ کو ایک میت پر نماز جنازہ کے لیے تکبیر کہتے ہوئے سنا پھر آپ نے یوں دعا کی : اے اللہ ! تو اس کو بخش دے جیسا کہ اس نے تجھ سے بخشش مانگی، اور اس کو عطا فرما وہ چیز جس کا اس نے تجھ سے سوال کیا، اور اس میں اپنے فضل سے زیادتی فرما۔

30402

(۳۰۴۰۳) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَن مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو ، عَنْ أَبِی سَلَمَۃَ ، قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللہِ بْنُ سَلامٍ الصَّلاۃُ عَلَی الْجِنَازَۃِ أَنْ تَقُولَ : اللَّہُمَّ اغْفِرْ لِحَیِّنَا وَمَیِّتِنَا وَصَغِیرِنَا وَکَبِیرِنَا وَذَکَرِنَا وَأُنْثَانَا وَشَاہِدِنَا وَغَائِبِنَا ، اللَّہُمَّ مَنْ تَوَفَّیْتہ مِنَّا فَتَوَفَّہُ عَلَی الإِیمَانِ ، وَمَنْ أَبْقَیْتہ مِنَّا فَأَبْقِہِ عَلَی الإِسْلامِ۔
(٣٠٤٠٣) حضرت ابو سلمہ فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن سلام نے ارشاد فرمایا : نماز جنازہ میں تو یہ دعا کر : اے اللہ ! تو بخش دے ہمارے ہر زندہ کو اور ہمارے ہر متوفی کو، اور ہمارے ہر چھوٹے کو اور ہمارے ہر بڑے کو ، اور ہمارے ہر مرد کو اور ہماری ہر عورت کو اور ہمارے ہر حاضر کو اور ہمارے ہر غیر حاضر کو۔ اے اللہ ! ہم میں سے جسے تو موت دے تو پس اس کو ایمان پر موت دینا۔ اور ہم میں سے جس کو تو باقی رکھے تو اسلام پر اس کو باقی رکھنا۔

30403

(۳۰۴۰۴) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَن شُعْبَۃَ ، عَن زَیْدٍ الْعَمِّیِّ ، عَنْ أَبِی الصِّدِّیقِ النَّاجِی ، قَالَ : سَأَلْتُ أَبَا سَعِیدٍ ، عَنِ الصَّلاۃِ عَلَی الْجِنَازَۃِ ، فقَالَ : کُنَّا نَقُولُ : اللَّہُمَّ رَبَّنَا وَرَبَّہُ خَلَقْتہ وَرَزَقْتہ وَأَحْیَیْتہ وَکَفَیْتہ فَاغْفِرْ لَنَا وَلَہُ ، وَلا تَحْرِمْنَا أَجْرَہُ ، وَلا تُضِلَّنَا بَعْدَہُ۔
(٣٠٤٠٤) حضرت ابو الصدیق الناجی فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابو سعید سے نماز جنازہ کے متعلق سوال کیا تو آپ نے ارشاد فرمایا : ہم یوں دعا کرتے تھے : اے اللہ ! آپ ہمارے پروردگار ہیں اور اس کے بھی پروردگار ہیں، آپ ہی نے اس کو پیدا کیا اور آپ ہی نے اس کو رزق دیا ، اور آپ ہی نے اس کو زندہ کیا اور آپ ہی نے اس کو کفایت فرمائی، پس آپ ہماری اور اس کی مغفرت فرما دیجئے۔ اور ہمیں اس کے اجر سے محروم مت فرمائیے اور ہمیں اس کے بعد گمراہ مت کیجیے۔

30404

(۳۰۴۰۵) حَدَّثَنَا عَفَّانُ بْنُ مُسْلِمٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا أَبُو عَوَانَۃَ ، قَالَ : حَدَّثَنَا خَالِدٌ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ الْحَارِثِ ، عَنِ ابْنِ عَمْرِو بْنِ غَیْلانَ ، عَنْ أَبِی الدَّرْدَائِ ، أَنَّہُ کَانَ یَقُولُ فِی الصَّلاۃِ عَلَی الْمَیِّتِ : اللَّہُمَّ اغْفِرْ لأَحْیَائِنَا وَأَمْوَاتِنَا الْمُسْلِمِینَ اللَّہُمَّ اغْفِرْ لِلْمُؤْمِنِینَ وَالْمُؤْمِنَاتِ وَالْمُسْلِمِینَ وَالْمُسْلِمَاتِ وَأَصْلِحْ ذَاتَ بَیْنِہِمْ ، وَأَلِّفْ بَیْنَ قُلُوبِہِمْ ، وَاجْعَلْ قُلُوبَہُمْ عَلَی قُلُوبِ أخْیَارِہِمَ اللَّہُمَّ اغْفِرْ لِفُلانِ بْنِ فُلانٍ ذَنْبَہُ ، وَأَلْحِقْہُ بِنَبِیِّہِ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، اللَّہُمَّ ارْفَعْ دَرَجَتَہُ فِی الْمُہْتَدِینَ وَاخْلُفْہُ فِی عَقِبِہِ فِی الْغَابِرِینَ ، وَاجْعَلْ کِتَابَہُ فِی عَلِیَّیْنِ، وَاغْفِرْ لَنَا وَلَہُ یَا رَبَّ الْعَالَمِینَ ، اللَّہُمَّ لاَ تَحْرِمْنَا أَجْرَہُ ، وَلا تضِلنا بَعْدَہُ۔
(٣٠٤٠٥) حضرت ابن عمرو بن غیلان فرماتے ہیں کہ حضرت ابو الداردائ نماز جنازہ میں یہ دعا پڑھتے تھے : اے اللہ ! تو بخش ہمارے زندہ اور مردہ مسلمانوں کو۔ اے اللہ ! تو مؤمنند مردوں اور مؤمنین عورتوں کی بخشش فرما، اور مسلمانوں مردوں اور مسلمان عورتوں کی بھی، اور ن کے آپس کے معاملات کو درست فرما، اور ان کے دلوں کو ان کے بہترین لوگوں کے دلوں جیسا بنا دے، اے اللہ ! فلاں بن فلاں کے گناہوں کی بخشش فرما اور اس کو اپنے نبی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ملا دے۔ اے اللہ ! ہدایت یافتہ لوگوں میں اس کے درجہ کو بلند فرما، اور اس پیچھے رہ جانے والے باقی ماندہ لوگوں میں تو اس کا جانشین بن جا، اور اس کے نامہ اعمال کو علیین میں رکھ دے، تمام جہانوں کے پروردگار ہماری اور اس کی مغفرت فرما دے، اے اللہ ! ہمیں اس کے اجر سے محروم مت فرما، اور ہمیں اس کے بعد گمراہی میں مت ڈال۔

30405

(۳۰۴۰۶) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَن عُبَیْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ ، عَن نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، أَنَّہُ کَانَ یَقُولُ فِی الْجِنَازَۃِ إذَا صَلَّی عَلَیْہِ : اللَّہُمَّ بَارِکْ فِیہِ وَصَلِّ عَلَیْہِ وَاغْفِرْ لَہُ ، وَأَوْرِدْہُ حَوْضَ رَسُولِکَ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ فِی قِیَامٍ کَثِیرٍ وَکَلام کَثِیرٍ لَمْ أَفْہَمْ مِنْہُ غَیْرَ ہَذَا۔
(٣٠٤٠٦) حضرت نافع فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عمر جب کسی پر جنازے کی نماز پڑھتے تو یوں دعا فرماتے ! اے اللہ ! اس میں برکت عطا فرما اور اس پر رحمت بھیج۔ اور اس کی مغفرت فرما۔ اور اس کو اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حوض کوثر میں وارد کر۔ راوی کہتے ہیں، بڑے قیام اور زیادہ کلام مں ھ سے میں اس کے علاوہ کچھ نہ سمجھ سکا۔

30406

(۳۰۴۰۷) حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ حَرِیزٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِی عَوْفٍ ، عَنِ ابْنِ لُحَیٍّ الْہَوْزَنِیِّ ، أَنَّہُ شَہِدَ جِنَازَۃَ شُرَحْبِیلَ بْنِ السِّمْطِ فَقَدِمَ عَلَیْہَا حَبِیبُ بْنُ مَسْلَمَۃَ الْفِہْرِیُّ فَأَقْبَلَ عَلَیْنَا کَالْمُشْرِفِ عَلَیْنَا مِنْ طُولِہِ فَقَالَ : اجْتَہِدُوا لأَخِیکُمْ فِی الدُّعَائِ ، وَلْیَکُنْ مِمَّا تَدْعُونَ لَہُ اللَّہُمَّ اغْفِرْ لِہَذِہِ النَّفْسِ الْحَنَفِیَّۃِ المسلمۃ وَاجْعَلْہَا مِنَ الَّذِینَ تَابُوا وَاتَّبَعُوا سَبِیلَک ، وَقِہَا عَذَابَ الْجَحِیمِ وَاسْتَنْصِرُوا عَلَی عَدُوِّکُمْ۔
(٣٠٤٠٧) حضرت عبد الرحمن بن ابی عوف فرماتے ہیں کہ حضرت ابو لحی ّ الھوزنی، شرحبیل بن السمط کے جنازہ میں حاضر ہوئے۔ تو جنازہ پر حبیب بن مسلمہ فہری کو آگے کردیا گیا، پھر وہ ہماری طرف متوجہ ہوا جیسا کہ کسی لمبائی سے ہماری طرف آ رہا ہو، تو آپ نے فرمایا : تم اپنی بھائی کے لیے دعا میں کوشش کرو۔ اور تم ہو جاؤ اس کے لیے یوں دعا کرنے والے، اے اللہ ! تو اس پاکباز مسلمان کی مغفرت فرما۔ اور تو بنا دے اسے ان لوگوں میں سے جنہوں نے توبہ کی اور تیرے راستہ کی پیروی کی۔ اور اس کو جہنم کے عذاب سے بچا۔ اور تم لوگ اپنے دشمن کے برخلاف مدد مانگو۔

30407

(۳۰۴۰۸) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَن حَجَّاجٍ ، عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ ، عَنْ جَابِرٍ ، قَالَ : مَا بَاحَ لَنَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَلا أَبُو بَکْرٍ ، وَلا عُمَرُ فِی الصَّلاۃِ عَلَی الْمَیِّتِ بِشَیْئٍ۔
(٣٠٤٠٨) حضرت جابر فرماتے ہیں کہ ہمارے لیے نہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نہ ہی حضرت ابوبکر نے اور نہ ہی حضرت عمر نے نماز جنازہ کے لیے کوئی چیز ظاہر فرمائی۔

30408

(۳۰۴۰۹) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَن حَجَّاجٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ جَدِّہِ ، عَن ثَلاثِینَ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہُمْ لَمْ یُقِیمُوا فِی أَمْرِ الصَّلاۃِ عَلَی الْجِنَازَۃِ بِشَیْئٍ۔
(٣٠٤٠٩) حضرت عبداللہ بن عمرو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے تیس اصحاب سے نقل کرتے ہیں ! کہ انھوں نے نماز جنازہ میں کوئی چیز متعین نہیں فرمائی۔

30409

(۳۰۴۱۰) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ لَیْسَ فِی الصَّلاۃِ عَلَی الْمَیِّتِ دُعَائٌ مُؤقَّتٌ۔
(٣٠٤١٠) حضرت اعمش فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم نے فرمایا؛ میت پر پڑھی جانے والی نماز میں کوئی دعا متعین نہیں۔

30410

(۳۰۴۱۱) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِی عَدِیٍّ ، عَن دَاوُد ، عَن سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ وَالشَّعْبِیِّ ، قَالا : لَیْسَ عَلَی الْمَیِّتِ دُعَائٌ مُوَقَّتٌ۔
(٣٠٤١١) حضرت داؤد فرماتے ہیں کہ حضرت سعید بن المسیب اور حضرت شعبی نے فرمایا : میت پر پڑھی جانے والی نماز میں کوئی دعا متعین نہیں ہے۔

30411

(۳۰۴۱۲) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَن عِمْرَانَ بْنِ حُدَیْرٍ ، قَالَ : سَأَلْتُ مُحَمَّدًا ، عَنِ الصَّلاۃِ عَلَی الْمَیِّتِ فَقَالَ : مَا نَعْلَمُ لَہُ شَیْئًا یُؤقَّت ادْعُ بِأَحْسَنِ مَا تَعْلَمُ۔
(٣٠٤١٢) حضرت عمران بن حدیر فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت محمد سے نماز جنازہ کے متعلق سوال کیا : تو آپ نے ارشاد فرمایا : ہمیں نہیں معلوم کہ اس میں کسی دعا کو متعین کیا گیا ہو، جو اچھی دعا تم جانتے ہو اس کے ذریعہ دعا کرو۔

30412

(۳۰۴۱۳) حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ، عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ سُوَیْد، عَن بَکْرِ بْنِ عَبْدِاللہِ، قَالَ: لَیْسَ فِی الصَّلاۃِ عَلَی الْمَیِّتِ شَیْئٌ یُؤقَّتٌ۔
(٣٠٤١٣) حضرت اسحاق بن سوید فرماتے ہیں کہ حضرت بکر بن عبداللہ نے ارشاد فرمایا : نماز جنازہ میں کوئی چیز متعین نہیں کی گئی۔

30413

(۳۰۴۱۴) حَدَّثَنَا یَعْلَی بْنُ عُبَیْدٍ ، عَن مُوسَی الْجُہَنِیِّ ، قَالَ : سَأَلْتُ الشَّعْبِیَّ وَالْحَکَمَ ، وَعَطَائً وَمُجَاہِدًا فِی الصَّلاۃِ عَلَی الْمَیِّتِ شَیْئٌ مُؤقَّتٌ ؟ قَالُوا : لاَ ، إنَّمَا أَنْتَ شَفِیعٌ فَاشْفَعْ بِأَحْسَنِ مَا تَعْلَمُ۔
(٣٠٤١٤) حضرت موسیٰ الجہنی فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت شعبی اور حضرت حکم اور حضرت عطا، حضرت مجاہد سے سوال کیا :َ کیا نماز جنازہ میں کوئی چیز متعین ہے ؟ ان سب حضرات نے جواب دیا : نہیں ! بیشک تم تو شفاعت کرنے والے ہو۔ جو دعا تم زیادہ اچھی جانتے ہو اس کے ذریعہ شفاعت کرو۔

30414

(۳۰۴۱۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا الأَعْمَشُ ، عَنْ جَامِعِ بْنِ شَدَّادٍ ، عَن مُغِیثِ بْنِ سُمَیٍّ ، قَالَ : کَانَ رَجُلٌ مِمَّنْ کَانَ قَبْلَکُمْ یَعْمَلُ بالْمَعَاصِیَ فَادَّکَرَ یَوْمًا فَقَالَ : اللَّہُمَّ غُفْرَانَک غُفْرَانَک ، فَغَفَرَ لَہُ۔
(٣٠٤١٥) حضرت جامع بن شداد فرماتے ہیں کہ حضرت مغیث بن سمی ّ نے ارشاد فرمایا : تم سے پہلے لوگوں میں ایک آدمی تھا جو گناہ کے کام کیا کرتا تھا، پس وہ ایک دن اللہ کو یاد کر کے کہنے لگا : اے اللہ ! ترئی بخشش کا طالب ہوں، تیری بخشش کا طالب ہوں، پس اس کی مغفرت کردی گئی۔

30415

(۳۰۴۱۶) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَن حَجَّاجٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ السَّکْسَکِیِّ ، عَنِ ابْنِ أَبِی أَوْفَی ، قَالَ : جَائَ أَعْرَابِیٌّ إِلَی النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ : یَا رَسُولَ اللہِ ، عَلِّمْنِی شَیْئًا یُجْزِینِی مِنَ الْقُرْآنِ فَإِنِّی لاَ أُحْسِنُ شَیْئًا مِنَ الْقُرْآنِ ، فَقَالَ لَہُ رَسُولُ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : قُلْ سُبْحَانَ اللہِ وَالْحَمْدُ لِلَّہِ ، وَلا إلَہَ إِلاَّ اللَّہُ ، وَاللَّہُ أَکْبَرُ ، وَلا حَوْلَ وَلا قُوَّۃَ إِلاَّ بِاللہِ ، فَعَدَّہَا الأَعْرَابِیُّ فِی یَدِہِ خَمْسًا ، ثُمَّ وَلَّی ہُنَیْہَۃً ، ثُمَّ رَجَعَ فَقَالَ : یَا رَسُولَ اللہِ، ہَذَا لِرَبِّی فَمَا لِی ؟ قَالَ : قُلِ : اللَّہُمَّ اغْفِرْ لِی وَارْحَمْنِی وارزقنی وَعَافَنِی وَاہْدِنِی ، فَعَدَّہَا الأَعْرَابِیُّ فِی یَدِہِ خَمْسًا ، ثُمَّ انْطَلَقَ فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لَقَدْ مَلأَ الأَعْرَابِیُّ یَدَیْہِ مِنَ الْخَیْرِ إِنْ ہُوَ وَفَّی بِمَا قَالَ۔
(٣٠٤١٦) حضرت ابن ابی اوفی فرماتے ہیں کہ ایک دیہاتی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہو کر کہنے لگا : اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! مجھے کوئی ایسی چیز سکھا دیجیے جو میرے لیے قرآن کے قائم مقام ہوجائے ، پس بیشک میں قرآن کے کچھ حصہ کو بھی اچھے طریقہ سے نہیں پڑھ سکتا، تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے ارشاد فرمایا : تم یہ کلمات پڑھو : اللہ تمام عیوب سے پاک ہے، اور سب تعریفیں اللہ کے لیے ہیں ، اور اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، اور اللہ سب سے بڑا ہے، اور گناہوں سے بچنے کی طاقت اور نیکی کے کرنے کی قوت صرف اللہ کی مدد سے ہے۔ تو اس دیہاتی نے اپنے ہاتھوں میں ان پانچ کلمات کو شمار کیا۔ پھر وہ تھوڑی دیر میں واپس لوٹ گیا۔ پھر واپس آکر کہنے لگا : اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! یہ کلمات تو میرے رب کے لیے ہیں ! پس میرے لیے کیا ہو ١؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : تم یوں کہو ! اے اللہ ! میری مغفرت فرما، اور مجھ پر رحم فرما اور مجھے رزق عطا فرما اور مجھے عافیت بخش دے، اور مجھے ہدایت عطا فرما، تو دیہاتی نے ان پانچ چیزوں کو بھی اپنے ہاتھ پر شمار کرلیا۔ پھر وہ چلا گیا، تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : دیہاتی نے جو کہا ہے اگر وہ اس کو پورا کرے تو اس نے اپنے دونوں ہاتھوں کو خیر سے بھر لیا۔

30416

(۳۰۴۱۷) حَدَّثَنَا جَرِیرُ بْنُ عَبْدِ الْحَمِیدِ ، عَن عبد العزیز بن رُفَیْعٍ ، عَنْ أَبِی صَالِحٍ ، قَالَ : لُدِغَ رَجُلٌ مِنَ الأَنْصَارِ، فَلَمَّا أَصْبَحَ أَتَی النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ یَا رَسُولَ اللہِ ، مَا زِلْت الْبَارِحَۃَ سَاہِرًا مِنْ لَدْغَۃِ عَقْرَبٍ، فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : أَمَا إنَّک لَوْ قُلْتَ حِینَ أَمْسَیْت أَعُوذُ بِکَلِمَاتِ اللہِ التَّامَّۃِ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ مَا ضَرَّک عَقْرَبٌ حَتَّی تُصْبِحَ ، قَالَ أَبُو صَالِحٍ : فَعَلَّمْتہَا ابْنَتِی وَابْنِی فَلَدَغَتْہُمَا فَلَمْ یَضُرَّہُمَا بِشَیْئٍ۔ (نسائی ۱۰۴۳۳)
(٣٠٤١٧) حضرت ابو صالح فرماتے ہیں کہ ایک انصاری آدمی کو بچھو نے ڈنک مار دیا۔ جب صبح ہوئی تو وہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہو کر کہنے لگا : اے اللہ کے رسول ! میں ساری رات بچھو کے ڈسنے کی وجہ سے بیدار رہا ! نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اگر تم شام کے وقت یہ کلمات پڑھ لیتے ، میں پناہ لیتا ہوں اللہ کے مکمل کلمات کے ساتھ اس کی مخلوق کے شر سے، تو صبح ہونے تک بچھو تمہیں نقصان نہیں پہنچا سکتا تھا۔ ابو صالح فرماتے ہیں ! پس میں نے یہ کلمات اپنے بیٹے اور بیٹی کو سکھا دیے، پھر ان دونوں کو بچھو نے ڈنک مارا۔ اور ان کو کچھ تکلیف بھی نہیں پہنچی۔

30417

(۳۰۴۱۸) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا ہِشَامُ بْنُ حَسَّانَ ، عَن سُہَیْلِ بْنِ أَبِی صَالِحٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَنْ قَالَ حِینَ یُمْسِی ثَلاثَ مَرَّاتٍ أَعُوذُ بِکَلِمَاتِ اللہِ التَّامَّۃِ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ لَمْ یَضُرَّہُ لَسْعَۃٌ تِلْکَ اللَّیْلَۃَ ، قَالَ سُہَیْلٌ : فَکَانَ أَہْلُہُ قَدِ اعْتَادُوا أَنْ یَقُولُوہَا فَلُسِعَتِ امْرَأَۃٌ فَلَمْ تَجِدْ لَہَا وَجَعًا۔ (ترمذی ۳۶۰۰۔ احمد ۲۹۰)
(٣٠٤١٨) حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جو شخص شام کے وقت تین مرتبہ یہ کلمات پڑھے : میں پناہ لیتا ہوں اللہ کے مکمل کلمات کی اس کی مخلوق کے شر سے، تو اس رات میں کسی چیز کا ڈسنا اس کو نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ حضرت سھیل فرماتے ہیں : کہ ان کلمات کا پڑھنا ان کے گھر والوں کی عادت بن گئی۔ پھر ایک عورت کو ڈنک لگا پس اس کو ذرہ برابر بھی تکلیف محسوس نہیں ہوئی۔

30418

(۳۰۴۱۹) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرحمن بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَن حَجَّاجٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَن طَارِقِ بْنِ أَبِی مخَاشِنِ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : أُتِیَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِرَجُلٍ قَدْ لَدَغَتْہُ عَقْرَبٌ ، فَقَالَ : أَمَا إِنَّہُ لَوْ قَالَ أَعُوذُ بِکَلِمَاتِ اللہِ التَّامَّۃِ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ لَمْ یُلْدَغْ ، أَوْ لَمْ یَضُرَّہُ۔
(٣٠٤١٩) حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں لایا گیا جس کو بچھو نے ڈس لیا تھا، تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : بہرحال اگر وہ یہ کلمات پڑھ لیتا : میں پناہ لیتا ہوں اللہ کے مکمل کلمات کی اس کی مخلوق کے شر سے، تو اسے ڈنک نہ لگتا یا فرمایا : اس کو نقصان نہ پہنچتا۔

30419

(۳۰۴۲۰) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَن مُطَرِّفٍ ، عَنِ الْمِنْہَالِ بْنِ عَمْرٍو عَن مُحَمَّدِ بْنِ عَلِیٍّ ، عَنْ عَلِیٍّ ، قَالَ : بَیْنَمَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ذَاتَ لَیْلَۃٍ یُصَلِّی فَوَضَعَ یَدَہُ عَلَی الأَرْضِ فَلَدَغَتْہُ عَقْرَبٌ فَتَنَاوَلَہَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِنَعْلِہِ فَقَتَلَہَا ، فَلَمَّا انْصَرَفَ ، قَالَ : أَخْزَی اللَّہُ الْعَقْرَبَ ، مَا تَدَعُ مُصَلِّیًا ، وَلا غَیْرَہُ ، أَوْ مُؤْمِنًا ، وَلا غَیْرَہُ ، ثُمَّ دَعَا بِمِلْحٍ وَمَائٍ فَجَعَلَہُ فِی إنَائٍ وَجَعَلَ یَصُبُّہُ عَلَی إصْبَعِہِ حَیْثُ لَدَغَتْہُ وَیَمْسَحُہَا وَیُعَوِّذُہَا بِالْمُعَوِّذَتَیْنِ۔
(٣٠٤٢٠) حضرت علی فرماتے ہیں کہ ایک رات رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز پڑھ رہے تھے اس درمیان جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنا ہاتھ زمین پر رکھا تو بچھو نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ڈس لیا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی جوتی پکڑی اور اس کو مار دیا۔ جب نماز سے فارغ ہوئے تو ارشاد فرمایا : اللہ بچھو کو رسوا کرے ! یہ کسی نمازی کو اور اس کے علاوہ کو نہیں چھوڑتا یا یوں فرمایا : کہ کسی مومن کو اور اس کے علاوہ کو نہیں چھوڑتا، پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نمک اور پانی منگوایا پھر نمک کو برتن میں ڈال دیا۔ اور اپنی انگلی سے ڈسنے والی جگہ لگاتے اور ملتے جاتے۔ اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے معوذتین کے ذریعہ اس پر دم فرمایا۔

30420

(۳۰۴۲۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، عَن سُفْیَانَ، عَنِ الْقَعْقَاعِ، عَنْ إبْرَاہِیمَ، قَالَ: رُقْیَۃُ الْعَقْرَبِ شَجَّۃُ قَرْنِیَّۃٍ مَلِحَۃٍ بحر قفطا۔
(٣٠٤٢١) حضرت قعقاع فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم فرماتے ہیں ! بچھو کے ڈنک سے بچنے کا تعویذ یوں ہے۔ شَجَّۃُ قَرْنِیَّۃٍ مَلِحَۃٍ بحر قفطا۔

30421

(۳۰۴۲۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن سُفْیَانَ ، عَنِ الْمُغِیرَۃِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، عَنِ الأَسْوَدِ ، قَالَ : عَرَضْتہَا عَلَی عَائِشَۃَ فَقَالَتْ : ہَذِہِ مَوَاثِیقُ۔
(٣٠٤٢٢) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ حضرت اسود نے ارشاد فرمایا : میں نے یہ کلمات حضرت عائشہ پر پیش کیے تو آپ نے فرمایا : یہ عہد و اقرار کے الفاظ ہیں۔

30422

(۳۰۴۲۳) حَدَّثَنَا مُعَاوِیَۃ بْن ہِشَامٍ، قَالَ: حدَّثَنَا سُفْیَانُ، عَن قُدَامَۃَ بْنِ حَمَاطَۃَ ، عَن زِیَادِ بْنِ حُدَیْرٍ، قَالَ: سَمِعْتُ الْعَلائَ بْنَ الْحَضْرَمِیِّ یُحَدِّثُ خَالَہُ ، أَنَّہُ کَانَ مِنْ دُعَائِہِ حِینَ خَاضَ الْبَحْرَ : اللَّہُمَّ یَا حَلِیمُ یَا عَلِیُّ یَا عَظِیمُ۔
(٣٠٤٢٣) حضرت زیاد بن حدیر فرماتے ہیں کہ میں نے سنا کہ حضرت علاء بن الحضرمی اپنے ماموں سے بیان کر رہے تھے کہ سمندر میں داخل ہوتے وقت میری زبان پر یہ دعا تھی : اے اللہ ! اے بردبار اے بلند وبالا، اے بڑے بزرگ۔

30423

(۳۰۴۲۴) حَدَّثَنَا قُتَیْبَۃُ بْنُ سَعِیدٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا لَیْثُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ رَبِیعَۃَ ، عَنِ الأَعْرَجِ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : إذَا سَمِعْتُمَ الدِّیکَۃ فَسَلُوا اللَّہَ مِنْ فَضْلِہِ فَإِنَّہَا رَأَتْ مَلَکًا ، وَإِذَا سَمِعْتُمْ نَہِیقَ الْحِمَارِ فَتَعَوَّذُوا بِاللہِ مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیمِ فَإِنَّہَا رَأَتْ شَیْطَانًا۔ (بخاری ۳۳۰۳۔ مسلم ۲۰۹۲)
(٣٠٤٢٤) حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جب تم مرغ کی آواز سنو تو اللہ سے اس کا فضل مانگو، پس وہ فرشتہ کو دیکھتا ہے، اور جب تم گدھے کی آواز سنو تو تم شیطان سے اللہ کی پناہ مانگو، پس وہ شیطان کو دیکھتا ہے۔

30424

(۳۰۴۲۵) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَن مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ ، عَن مُحَمَّدِ بْنِ إبْرَاہِیمَ بْنِ الْحَارِثِ ، عَنْ عَطَائِ بْنِ یَسَارٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، یقول : إذَا سَمِعْتُمْ نُبَاحَ الْکِلابِ، أَوْ نُہَاقَ الْحِمَارِ مِنَ اللَّیْلِ فَتَعَوَّذُوا بِاللہِ فَإِنَّہُنَّ یَرَیْنَ مَا لاَ تَرَوْنَ۔ (بخاری ۱۲۳۴۔ احمد ۳۰۶)
(٣٠٤٢٥) حضرت جابر بن عبداللہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ : جب تم رات کو کتوں کے بھونکنے کی اور گدھوں کی آواز سنو تو اللہ کی پناہ مانگو، پس بیشک یہ وہ چیزیں دیکھتے ہیں جو تم نہیں دیکھتے۔

30425

(۳۰۴۲۶) حَدَّثَنَا وَکِیعُ بْنُ الْجَرَّاحِ ، عَن طَلْحَۃَ بْنِ عَمْرٍو ، عَنْ عَطَائٍ ، قَالَ : کَانَ ابْنُ عَبَّاسٍ إذَا سَمِعَ نُہَاقَ الْحِمَارِ ، قَالَ : بسم اللہ الرَّحْمَن الرحیم أَعُوذُ بِاللہِ السَّمِیعِ الْعَلِیمِ مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیمِ۔
(٣٠٤٢٦) حضرت عطائ فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عباس جب گدھے کی آواز سنتے تو یوں دعا فرماتے : اللہ کے نام سے شروع کرتا ہوں جو نہایت مہربان اور رحم کرنے والا ہے، میں اللہ کی پناہ لیتا ہوں جو سننے والا، جاننے والا ہے شیطان مردود سے۔

30426

(۳۰۴۲۷) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ ، عَن یُونُسَ بْنِ عَمْرٍو ، عَن برید بْنِ أَبِی مَرْیَمَ ، عْن أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَا مِنْ عَبْدٍ یَسْأَلُ اللَّہَ الْجَنَّۃَ ثَلاثَ مَرَّاتٍ ، إِلاَّ قَالَتِ الجنۃ : اللَّہُمَّ أدخلہ الجنۃ ، وما من عبد یستعیذوا باللہ من النار ثَلاثَ مَرَّاتٍ إلا قالت النار اللہم أجرہ مِنِّی۔ (ترمذی ۲۵۷۲۔ ابن حبان ۱۰۱۴)
(٣٠٤٢٧) حضرت انس بن مالک فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : کوئی بھی بندہ اللہ سے تین مرتبہ جنت کا سوال نہیں کرتا مگر جنت کہتی ہے ! اے اللہ ! اس کو جنت میں داخل کر دے۔ اور کوئی بھی بندہ تین مرتبہ جہنم سے اللہ کی پناہ نہیں طلب کرتا مگر جہنم کہتی ہے : اے اللہ ! اس کو مجھ سے بچا لے۔

30427

(۳۰۴۲۸) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَن مِسْعَرٍ ، عَنْ عَبْدِ الأَعْلَی التَّیْمِیِّ ، قَالَ : الْجَنَّۃُ وَالنَّارُ لَقِنَتَا السَّمْعَ مِنْ بَنِی آدَمَ ، فَإِذَا سَأَلَ الرَّجُلُ الْجَنَّۃَ قَالَتِ الْجَنَّۃُ : اللَّہُمَّ أَدْخِلْہُ فِیَّ ، وَإِذَا اسْتَعَاذَ مِنَ النَّارِ قَالَتْ : اللَّہُمَّ أَعِذْہُ مِنِّی۔
(٣٠٤٢٨) حضرت مسعر فرماتے ہیں کہ حضرت عبد الاعلی التیمی نے ارشاد فرمایا : جنت اور جہنم دونوں بنو آدم کی پکار سنتی ہیں ، پس جب آدمی جنت کا سوال کرتا ہے، تو جنت کہتی ہے، اے اللہ ! تو اس کو مجھ میں داخل فرما۔ اور جب وہ جہنم سے پناہ مانگتا ہے تو جہنم کہتی ہے : اے اللہ ! تو اس کو مجھ سے اپیی پناہ میں لے لے۔

30428

(۳۰۴۲۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن مِسْعَرٍ ، عَنْ عَامِرِ بْنِ شَقِیقٍ ، عَنْ أَبِی وَائِلٍ ، قَالَ : مَا شَہِدَ عَبْدُ اللہِ مَجْمَعًا ، وَلا مَأْدُبَۃً فَیَقُومُ حَتَّی یَحْمَدَ اللَّہَ وَیُصَلِّیَ عَلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَإِنْ کَانَ مِمَّا یتبع أَغْفَلَ مَکَان فِی السُّوقِ فَیَجْلِسُ فِیہِ فَیَحْمَدُ اللَّہَ وَیُصَلِّی عَلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔
(٣٠٤٢٩) حضرت عامر بن شقیق فرماتے ہیں کہ حضرت ابو وائل نے ارشاد فرمایا : کوئی اللہ کا بندہ کسی مجمع کی جگہ یا دسترخوان پر حاضر ہو پھر کھڑا ہوجائے یہاں تک کہ وہ اللہ کی حمد و ثنا بیان کرے اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر درود بھیجے۔ اور اگرچہ وہ سب سے غفلت والی جگہ بازار میں بھی جائے پھر اس جگہ میں بیٹھے تو وہ اللہ کی حمد و ثنا بیان کرے اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر درود بھیجے۔

30429

(۳۰۴۳۰) حَدَّثَنَا طَلْقُ بْنُ غَنَّامٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا شَیْبَانُ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَن حبَّۃ الْعُرَنِی ، عَنْ عَلِیٍّ ، قَالَ : مَنْ قَالَ عِنْدَ کُلِّ عَطْسَۃٍ یَسْمَعُہَا الْحَمْدُ لِلَّہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ عَلَی کُلِّ حَالٍ مَا کَانَ لَمْ یَجِدْ وَجَعَ ضِرْسٍ ، وَلا أُذُنٍ أَبَدًا۔
(٣٠٤٣٠) حضرت حبۃ العرنی فرماتے ہیں کہ حضرت علی نے ارشاد فرمایا : جو شخص چھینک سنتے وقت یہ کلمات پڑھے گا : شکر ہے اللہ کا جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے ہر حال میں جیسا بھی ہو، تو اس کو کبھی بھی داڑھ اور کان کا درد نہیں ہوگا۔

30430

(۳۰۴۳۱) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَن زَائِدَۃَ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ کُلَیْبٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : أَبْطَأَ عَلَی عُمَرَ خَبَرُ نَہَاوَنْدَ وَخَبَرُ النُّعْمَانِ بْنِ مُقَرِّنٍ فَجَعَلَ یَسْتَنْصِرُ۔
(٣٠٤٣١) حضرت کلیب اپنے والد کے واسطہ سے فرماتے ہیں کہ حضرت عمر کو جب نھاوند کی اور حضرت نعمان بن مقرن کی خبر ملنے میں دیر ہوگئی تو آپ نے اللہ سے مدد مانگنی شروع کردی۔

30431

(۳۰۴۳۲) حَدَّثَنَا یَعْلَی بْنُ عُبَیْدٍ ، عَن حَجَّاجِ بْنِ دِینَارٍ ، عَنِ الْحَکَمِ بْنِ جَحْلٍ ، عَن رَجُلٍ حَدَّثَہُ عَنْ عَلِیٍّ ، أَنَّہُ قَالَ : مَنْ قَرَأَ بَعْدَ الْفَجْرِ {قُلْ ہُوَ اللَّہُ أَحَدٌ} عَشْرَ مَرَّاتٍ لَمْ یَلْحَقْ بِہِ ذَلِکَ الْیَوْمَ ذَنْبٌ ، وَإِنْ جَہَدَتہ الشَّیَاطِینُ۔
(٣٠٤٣٢) حضرت حکم بن جحل نے ایک آدمی کے حوالے سے بیان کیا کہ حضرت علی نے ارشاد فرمایا : جو شخص فجر کی نماز کے بعد دس مرتبہ سورة اخلاص پڑھے، تو اس دن کوئی گناہ اس سے نہیں ملے گا، اگرچہ سب شیاطین ہی کوشش کریں۔

30432

(۳۰۴۳۳) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَن لَیْثٍ ، عَن ہِلالٍ ، قَالَ : مَنْ قَرَأَ {قُلْ ہُوَ اللَّہُ أَحَدٌ} عَشْرَ مَرَّاتٍ بُنِیَ لَہُ بُرْجٌ فِی الْجَنَّۃِ۔
(٣٠٤٣٣) حضرت لیث فرماتے ہیں کہ حضرت ھلال نے ارشاد فرمایا : جو شخص دس مرتبہ سورة اخلاص پڑھتا ہے، تو جنت میں ایک برج اس کے لیے بنادیا جاتا ہے۔

30433

(۳۰۴۳۴) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَن سَعِیدِ بْنِ سَعِیدٍ ، قَالَ : لَحِقَنِی نَافِعُ بْنُ جُبَیْرٍ حِینَ انْصَرَفْت مِنَ الْمَغْرِبِ ، فَقُلْتُ : مَا شَأْنُکَ ؟ فَقَالَ : إذَا مَرَرْت عَلَی قَبْرِ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقُلْ : السَّلامُ عَلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَرَحْمَۃُ اللہِ ، فَإِنَّ الشَّیْطَانَ یَقُولُ : لاَ صُحْبَۃَ ، فَإِذَا دَخَلْتُ عَلَی أَہْلِکَ فَقُلْ : السَّلامُ عَلَیْکُمْ ، فَإِنَّ الشَّیْطَانَ یَقُولُ : لاَ مَبِیتَ ، فَإِذَا أُتِیتَ بِعَشَائِکَ فَقُلْ : بِسْمِ اللہِ ، فَإِنَّ الشَّیْطَانَ یُوَلِّی خَاسِئًا یَقُولُ لأَصْحَابِہِ : لاَ مَبِیتَ ، وَلا عَشَائَ۔
(٣٠٤٣٤) حضرت سعید بن ابی سعید فرماتے ہیں کہ جب میں مغرب کی نماز سے فارغ ہوا تو حضرت نافع بن جبیر مجھ سے ملے : پس میں نے کہا : آپ کا کیا حال ہے ؟ تو انھوں نے فرمایا : جب تو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قبر سے گزرے تو یوں کہہ : نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر سلامتی ہو اور اللہ کی رحمت ہو۔ بیشک شیطان کہے گا : تمہارے لیے کوئی ساتھ نہیں۔ پس جب تو اپنے گھر والوں پر داخل ہو تو یوں کہہ : تم پر سلامتی ہو۔ تو بیشک شیطان کہے گا ، تمہارے لیے کوئی رات رہنے کی جگہ نہیں، پھر جب تیرے سامنے کھانا لایا جائے تو یوں کہہ : اللہ کے نام کے ساتھ شروع کرتا ہوں، یقیناً شیطان ذلیل و رسوا ہو کر بھاگ جائے گا اور اپنے ساتھیوں کو یوں کہے گا : نہیں تمہارے لیے رات رہنے کے لیے کوئی جگہ اور نہ ہی کچھ کھانے کے لیے۔

30434

(۳۰۴۳۵) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَن لَیْثٍ ، عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ ، عَنْ جَابِرٍ ، قَالَ : کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لاَ یَنَامُ حَتَّی یَقْرَأَ : {الم تَنْزِیلُ} وَ {تَبَارَکَ الَّذِی بِیَدِہِ الْمُلْکُ}۔ (بخاری ۱۲۰۹۔ دارمی ۳۴۱۱)
(٣٠٤٣٥) حضرت جابر فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نہیں سوتے تھے یہاں تک کہ سورة الم تنزیل اور سورة تبارک الذی بیدہ الملک پڑھ لیتے۔

30435

(۳۰۴۳۶) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَن لَیْثٍ ، عَن طَاوُوس ، قَالَ : فُضِّلَتْ : {الم تَنْزِیلُ} وَ{تَبَارَکَ الَّذِی بِیَدِہِ الْمُلْکُ} عَلَی سَائِرِ الْقُرْآنِ بِسِتِّینَ حَسَنَۃً۔ (ترمذی ۲۸۹۲۔ دارمی ۳۴۱۲)
(٣٠٤٣٦) حضرت لیث فرماتے ہیں کہ حضرت طاؤس نے ارشاد فرمایا : سورت { الم تَنْزِیلُ } اور سورت { تَبَارَکَ الَّذِی بِیَدِہِ الْمُلْکُ } کو پورے قرآن پر ساٹھ نیکیوں کے ساتھ فضیلت دی گئی ہے۔

30436

(۳۰۴۳۷) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَن زَائِدَۃَ ، عَن ہِشَامٍ ، عَنْ أَبِی یُونُسَ ، عَن طَاوُوس ، قَالَ : مَنْ قَرَأَ فی لیلۃ : {الم تَنْزِیلُ السَّجْدَۃَ} وَ {تَبَارَکَ الَّذِی بِیَدِہِ الْمُلْکُ} کَانَ مِثْلُ أَجْرِ لَیْلَۃِ الْقَدْرِ ، قَالَ : فَمَرَّ عَطَائٌ فَقُلْنَا لِرَجُلٍ مِنَّا : ائْتِہِ فَسَلْہُ ، فَقَالَ : صَدَقَ ، مَا تَرَکْتہمَا مُنْذُ سَمِعْتہمَا۔
(٣٠٤٣٧) حضرت ابو یونس فرماتے ہیں کہ حضرت طاؤس نے ارشاد فرمایا : جو شخص رات میں سورت { الم تَنْزِیلُ السَّجْدَۃَ } اور سورت { تَبَارَکَ الَّذِی بِیَدِہِ الْمُلْکُ } پڑھتا ہے تو اسے لیلۃ القدر کے ثواب کے برابر اجر ملتا ہے۔ راوی کہتے ہیں۔ کہ حضرت عطاء کا گزر ہوا۔ ہم نے اپنے ایک ساتھی سے کہا۔ تم ان کے پاس جاؤ اور اس حدیث کے متعلق پوچھو ؟ تو انھوں نے فرمایا : سچ کہا، جب سے میں نے ان دونوں کی یہ فضیلت سنی ہے تو میں نے اس وقت سے ان کو نہیں چھوڑا۔

30437

(۳۰۴۳۸) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ عَنْ أَبَانَ بْنِ صَالِحٍ ، أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : إذَا نَفَرَتْ دَابَّۃُ أَحَدِکُمْ ، أَوْ بَعِیرُہُ بِفَلاۃٍ مِنَ الأَرْضِ لاَ یَرَی بِہَا أَحَدًا فَلْیَقُلْ : أَعِینُوا عِبَادَ اللہِ ، فَإِنَّہُ سَیُعَانُ۔ (ابویعلی ۵۲۴۷)
(٣٠٤٣٨) حضرت ابان بن صالح فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جب تم میں سے کسی کا چوپایہ یا اونٹ جنگل میں بدک کر بھاگ جائے، اور اسے کوئی نظر نہ آئے تو وہ یوں دعا کہے : اللہ کے بندوں کی مدد کرو۔ عنقریب اس کی مدد کی جائے گی۔

30438

(۳۰۴۳۹) حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ ، عَن مِسْعَرٍ ، عَن ذَکْوَانَ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃً ، قَالَ : دَعْوَۃُ الْمُسْلِمِ مُسْتَجَابَۃٌ مَا لَمْ یَدْعُ بِظُلْمٍ ، أَوْ قَطِیعَۃِ رَحِمٍ ، أَوْ یَقُلْ : قَدْ دَعَوْت فَلَمْ أُجَبْ۔
(٣٠٤٣٩) حضرت ذکوان فرماتے ہیں کہ حضرت ابوہریرہ نے ارشاد فرمایا : مسلمان کی دعا قبول کی جاتی ہے جب تک وہ ظلم کی دعا نہ کرے یا قطع رحمی کی دعا نہ کرے یا یوں کہے تحقیق میں نے دعا کی پس قبول نہیں کی گئی۔

30439

(۳۰۴۴۰) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِیٍّ ، عَن سُفْیَانَ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَن عُبَیْدٍ مَوْلَی أَبِی رُہْمٍ ، قَالَ : مَرَرْت مَعَ أَبِی ہُرَیْرَۃَ عَلَی نَخْلٍ فَقَالَ : اللَّہُمَّ أَطْعِمْنَا مِنْ تَمْرٍ لاَ یَأْبرُہُ بَنُو آدم۔
(٣٠٤٤٠) حضرت عبید جو کہ ابو رھم کے آزاد کردہ غلام ہیں فرماتے ہیں : کہ حضرت ابوہریرہ کے ساتھ میرا گزر کھجور کے درخت پر ہو اتو آپ نے ارشاد فرمایا : اے اللہ ! ہمیں کھلا ایسی کھجور جس کو بنو آدم درست نہیں کرتا یعنی جنت کا پھل کھلا۔

30440

(۳۰۴۴۱) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِِ ، عَن مَنْصُورٍ ، عَن مُجَاہِدٍ ، قَالَ : کَانَ یُقَالُ : إذَا خَرَجَ الرَّجُلُ مِنَ الْمَسْجِدِ فَلْیَقُلْ : بِسْمِ اللہِ تَوَکَّلْت عَلَی اللہِ اللَّہُمَّ إنِّی أَعُوذُ بِکَ مِنْ شَرِّ مَا خَرَجْت لَہُ۔
(٣٠٤٤١) حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ یوں کہا جاتا ہے : جب آدمی مسجد سے نکلے تو یوں دعا کرے : اللہ کے نام کے ساتھ نکلتا ہوں اور میں نے اللہ پر بھروسہ کیا۔ اے اللہ ! میں تیری پناہ لیتا ہوں اس چزَ کے شر سے جس کے لیے میں نکلا ہوں۔

30441

(۳۰۴۴۲) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ إِسْحَاقَ ، قَالَ : حدَّثَنِی عزرۃ بْنُ قَیْسٍ صَاحِبُ الطَّعَامِ ، قَالَ : حَدَّثَتْنِی أُمُّ الفیض ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مَسْعُودٍ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : مَنْ قَالَ ہَؤُلائِ الْکَلِمَاتِ لَیْلَۃَ عَرَفَۃَ أَلْفَ مَرَّۃٍ، لَمْ یَسْأَلَ اللَّہَ شَیْئًا إِلاَّ أَعْطَاہُ إیَّاہُ ، لَیْسَ فِیہِ إِثْمَ ، وَلا قَطِیعَۃُ رَحِمٍ ، سُبْحَانَ اللہِ الَّذِی فِی السَّمَائِ عَرْشُہُ ، سُبْحَانَ اللہِ الَّذِی فِی الأَرْضِ مَوْطِئُہُ ، سُبْحَانَ اللہ الَّذِی فِی الْبَحْرِ سَبِیلُہُ ، سُبْحَانَ اللہ الَّذِی فِی الْجَنَّۃِ رَحْمَتُہُ ، سُبْحَانَ اللہ الَّذِی فِی النَّارِ سُلْطَانُہُ ، سُبْحَانَ اللہ الَّذِی فِی الْہَوَائِ رَحْمَتُہُ ، سُبْحَانَ اللہ الَّذِی فِی الْقُبُورِ قَضَاؤُہُ ، سُبْحَانَ اللہ الَّذِی رَفَعَ السَّمَائَ ، سُبْحَانَ اللہ الَّذِی وَضَعَ الأَرْضَ ، سُبْحَانَ اللہِ الَّذِی لاَ مَنْجَی مِنْہُ إِلاَّ إلَیْہِ۔ (ابویعلی ۳۵۶۴۔ طبرانی ۴۱۲)
(٣٠٤٤٢) حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جو شخص عرفہ کی رات کو ایک ہزار مرتبہ یہ کلمات پڑھتا ہے تو وہ جس چیز کا بھی اللہ سے سوال کرے گا اللہ وہ چیز اسے لازمی عطا کریں گے۔ جب کہ کوئی گناہ یا قطع رحمی دعا میں طلب نہ کی ہو۔ پاک ہے وہ اللہ جس کا عرش آسمان میں ہے، پاک ہے وہ اللہ جس کے پاؤں رکھنے کی جگہ زمین میں ہے، پاک ہے وہ اللہ جس کا راستہ سمندر میں ہے، پاک ہے وہ اللہ جس کی رحمت جنت میں ہے، پاک ہے وہ اللہ جس کی بادشاہت جہنم میں ہے، پاک ہے وہ اللہ جس کی رحمت ہوا میں ہے، پاک ہے وہ اللہ جس نے آسمانوں کو بلند کیا، پاک ہے وہ اللہ جس نے زمین کو رکھ دیا، پاک ہے وہ اللہ جس سے نجات کی کوئی جگہ نہیں ہے سوائے اسی کی ذات کے۔

30442

(۳۰۴۴۳) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ إِسْحَاقَ ، عَنْ عَبْدِ الْوَاحِدِ بْن زِیَادٍ ، قَالَ : حدَّثَنِی عَبْدُ الرَّحْمَانِ بْنُ زِیَادٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِی شَیْخٌ مِنْ قُرَیْشٍ ، عَنِ ابْنِ عُکَیم ، قَالَ : قَالَ لِی عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ : قَالَ لَہُ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : یَا ابْنَ الْخَطَّابِ ، قُلِ : اللَّہُمَّ اجْعَلْ سَرِیرَتِی خَیْرًا مِنْ عَلانِیَتِی ، وَاجْعَلْ عَلانِیَتِی صَالِحَۃً۔ (ترمذی ۳۵۸۶)
(٣٠٤٤٣) حضرت ابن عکیم فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب نے مجھ سے فرمایا : کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھ سے فرمایا تھا : اے خطاب کے بیٹے ! تو یوں کہہ : اے اللہ ! میری پوشیدگی کو میرے ظاہر سے بہتر بنا دے اور میرے ظاہر کو نیک بنا دے۔

30443

(۳۰۴۴۴) حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ ، عَن ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : کَانَ مِنْ دُعَائِ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اللَّہُمَّ أَعِنِّی عَلَی ذِکْرِکَ وَشُکْرِکَ وَحُسْنِ عِبَادَتِک۔ (ابوداؤد ۱۵۱۷۔ احمد ۲۴۷)
(٣٠٤٤٤) حضرت عروہ بن زبیر فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعا یوں ہوتی تھی : اے اللہ ! میری مدد فرما کہ میں تیرا ذکر کروں اور تیرا شکر ادا کروں اور تیری اچھی عبادت کروں۔

30444

(۳۰۴۴۵) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا سَلِمَۃُ بْنُ وَرْدَانَ ، قَالَ : سَمِعْتُ أَنَسًا ، قَالَ : أَتَتِ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ امْرَأَۃٌ تَشْکُو إلَیْہِ الْحَاجَۃَ فَقَالَ : أَدُلُّک عَلَی خَیْرٍ مِنْ ذَلِکَ ، تُہَلِّلِینَ اللَّہَ ثَلاثًا وَثَلاثِینَ عِنْدَ مَنَامِکَ وَتُسَبِّحِینَہُ ثَلاثًا وَثَلاثِینَ ، وَتَحْمَدِینَہُ أَرْبَعًا وَثَلاثِینَ ، قَالَ : تِلْکَ مِئَۃ مَرَّۃٍ خَیْرٌ مِنَ الدُّنْیَا ، وَمَا فِیہَا۔ (بخاری ۶۳۵)
(٣٠٤٤٥) حضرت انس فرماتے ہیں کہ ایک عورت نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنی ضروریات کی شکایت کرنے لگی، تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : میں اس سے بھی بہتر چیز کی طرف تیری راہنمائی کرتا ہوں۔ تو رات کو سوتے وقت تینتیس مرتبہ لا الہ الا اللہ، اور تینتیس مرتبہ سبحان اللہ، اور چونتیس مرتبہ الحمد للہ پڑھ۔ یہ کل میزان سو ہوئے ، یہ دنیا اور جو کچھ اس میں موجود ہے اس سے بہتر ہے۔

30445

(۳۰۴۴۶) حَدَّثَنَا مُصْعَبُ بْنُ الْمِقْدَامِ ، قَالَ : حدَّثَنِی إسْرَائِیلُ ، عَنْ أَبِی سِنَانٍ ضِرَارِ بْنِ مُرَّۃَ ، عَنْ أَبِی صَالِحٍ الْحَنَفِیِّ ، عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ ، وَأَبِی ہُرَیْرَہُ ، قَالا : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إنَّ اللَّہَ اصْطَفَی مِنَ الْکَلامِ أَرْبَعًا : سُبْحَانَ اللہِ وَالْحَمْدُ لِلَّہِ ، وَلا إلَہَ إِلاَّ اللَّہُ ، وَاللَّہُ أَکْبَرُ ، ثُمَّ قَالَ : مَنْ قَالَ سُبْحَانَ اللہِ ، کُتِبَ لَہُ عِشْرُونَ حَسَنَۃً ، وَحُطَّ عَنْہُ عِشْرُونَ سَیِّئَۃً ، وَمَنْ قَالَ : اللَّہُ أَکْبَرُ فَمِثْلُ ذَلِکَ ، وَمَنْ قَالَ : لاَ إلَہَ إِلاَّ اللَّہُ فَمِثْلُ ذَلِکَ ، وَمَنْ قَالَ الْحَمْدُ لِلَّہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ مِنْ قِبَلِ نَفْسِہِ کُتِبَتْ لَہُ ثَلاثُونَ حَسَنَۃً وَحُطَّ عَنْہُ ثَلاثُونَ سَیِّئَۃً۔ (عبدالرزاق ۳۱۰)
(٣٠٤٤٦) حضرت ابو سعید خدری اور حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : بیشک اللہ نے اپنے کلام میں سے چار کلمے چُنے ہیں : اللہ تمام عیوب سے پاک ہے، اور سب تعریفیں اللہ کے لیے ہیں۔ اور اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ اور اللہ سب سے بڑا ہے، پھر فرمایا : جو شخص کہتا ہے : اللہ تمام عیوب سے پاک ہے، تو اس کے لیے بیس نیکیاں لکھ دی جاتی ہیں، اور اس کے بیس گناہوں کو مٹا دیا جاتا ہے، اور جو شخص کہے : اللہ سب سے بڑا ہے ، تو اس کے لیے بھی یہی ثوابب ہے، اور جو شخص کہے : اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، تو اس کے لیے بھی ایسا ہی ثواب ہے، اور جو شخص اپنی طرف سے یوں کہے : سب تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے، تو اس کے لیے تیس نیکیاں لکھ دی جاتی ہیں اور اس کے تیس گناہوں کو مٹا دیا جاتا ہے۔

30446

(۳۰۴۴۷) حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا ہِشَامُ بْنُ الْغَازِ ، عَن مَکْحُولٍ ، قَالَ : مَنْ قَالَ لاَ حَوْلَ وَلا قُوَّۃَ إِلاَّ بِاللہِ ، وَلا مَلْجَأَ مِنَ اللہِ إِلاَّ إلَیْہِ ، دَفَعَ اللَّہُ عَنْہُ سَبْعِینَ بَابًا مِنَ الضُّرِّ أَدْنَاہَا الْفَقْرُ۔
(٣٠٤٤٧) حضرت ہشام بن الغاز فرماتے ہیں کہ حضرت مکحول نے ارشاد فرمایا : جو شخص یہ کلمات پڑھے گناہوں سے بچنے کی طاقت اور نیکی کے کرنے کی قوت صرف اللہ کی مدد سے ہے۔ اور اللہ کی ذات سے کوئی جائے پناہ نہیں سوائے اسی کی ذات کے، تو اللہ اس بندے سے تکلیف کے ستر دروازے دور کردیتے ہیں جن میں ادنیٰ ترین تکلیف فقر و محتاجی ہے۔

30447

(۳۰۴۴۸) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو ، قَالَ : حَدَّثَنَا شَرِیکُ بْنُ عَبْدِ اللہِ بْنِ أَبِی نَمِرٍ ، قَالَ : دَخَلَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْمَسْجِدَ ، وَرَجُلٌ یَقُولُ : اللَّہُمَّ لاَ إلَہَ إِلاَّ أَنْتَ ، وَعْدُک حَقٌّ ، وَلِقَاؤُک حَقٌّ ، وَالْجَنَّۃُ حَقٌّ ، وَالنَّارُ حَقٌّ ، وَالنَّبِیُّونَ حَقٌّ ، وَمُحَمَّدٌ حَقٌّ ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : سَلْ تُعْطَہُ۔ (طبرانی ۸۴۱۹)
(٣٠٤٤٨) حضرت شریک بن عبداللہ بن ابی نمر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مسجد میں داخل ہوئے اس حال میں کہ ایک آدمی یہ کلمات کہہ رہا تھا : اے اللہ ! تیرے سوا کوئی معبود برحق نہیں ہے۔ تیرا وعدہ حق ہے اور تجھ سے ملنا بھی برحق ہے، اور جنت بھی برحق ہے، اور جہنم بھی برحق ہے، اور تمام نبی بھی برحق ہیں، اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی برحق ہیں۔ تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : مانگ تجھے عطا کیا جائے گا۔

30448

(۳۰۴۴۹) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ بَکْرٍ السَّہْمِیُّ ، قَالَ : حدَّثَنَا ہِشَامٌ الدَّسْتَوَائِیّ ، عَن یَحْیَی بْنِ أَبِی کَثِیرٍ ، عَنْ أَبِی جَعْفَرٍ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : ثَلاثُ دَعَوَاتٍ مُسْتَجَاباتٌ لَہُنَّ لاَ شَکَّ فِیہِنَّ : دَعْوَۃُ الْمَظْلُومِ ، وَدَعْوَۃُ الْمُسَافِرِ ، وَدَعْوَۃُ الْوَالِدِ عَلَی وَلَدِہِ۔ (احمد ۲۵۸۔ ابوداؤد ۱۵۳۱)
(٣٠٤٤٩) حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : تین دعائیں ایسی ہیں جو قبول کی جاتی ہیں جن کی قبولیت میں کوئی شک نہیں، مظلوم کی دعا، اور مسافر کی دعا، اور باپ کی دعا بچہ کے حق میں۔

30449

(۳۰۴۵۰) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَن مُغِیرَۃَ ، عَنِ الأَسْلَعِ بْنِ حَیٍّ ، قَالَ : کُنْتُ بِالْمَدِینَۃِ أَطْلُبُ دَمًا لِی ، فَقُلْتُ لأَبِی ہُرَیْرَۃَ ادْعُ اللَّہَ أَنْ یَنْصُرَنِی ، فَقَالَ : اللَّہُمَّ إِنْ کَانَ مَظْلُومًا فَانْصُرْہُ ، وَإِنْ کَانَ ظَالِمًا فَانْصُرْ عَلَیْہِ۔
(٣٠٤٥٠) حضرت اسلع بن حیّ فرماتے ہیں کہ میں مدینہ میں تھا۔ میں اپنے لیے خون تلاش کررہا تھا، پس میں نے حضرت ابوہریرہ سے درخواست کی کہ آپ اللہ سے دعا فرمائیں کہ وہ میری مدد فرمائے تو آپ نے فرمایا : اے اللہ ! اگر یہ مظلوم ہے تو اس کی مدد فرما۔ اور اگر یہ ظالم ہے تو اس کے خلاف مدد فرما۔

30450

(۳۰۴۵۱) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَن مَنْصُورٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : جَائَ رَجُلٌ یَہُودِیٌّ إِلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ : ادْعُ اللہ لِی ، فَقَالَ : أَکْثَرَ اللَّہُ مَالَک وَوَلَدَک وَأَصَحَّ جِسْمَک وَأَطَالَ عُمْرَک۔
(٣٠٤٥١) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ ایک یہودی شخص نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہو کر کہنے لگا : آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ سے میرے حق میں دعا فرمائیں، تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا؛ اللہ تیرے مال اور اولاد میں کثرت عطا فرمائے، اور تیرے جسم کو تندرست کر دے اور تیری عمر کو لمبا کر دے۔

30451

(۳۰۴۵۲) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَن مَنْصُورٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : لاَ بَأْسَ أَنْ یَقُولَ لِلْیَہُودِیِّ وَالنَّصْرَانِیِّ : ہَدَاکَ اللَّہُ۔
(٣٠٤٥٢) حضرت منصور فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم نے ارشاد فرمایا : کوئی حرج کی بات نہیں ہے کہ یہودی اور عیسائی کو یوں کہا جائے ! اللہ تجھے ہدایت دے۔

30452

(۳۰۴۵۳) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ مُبَارَکٍ ، عَن مَعْمَرٍ ، عَن قَتَادَۃَ ، أَنَّ یَہُودِیًّا حَلَبَ لِلنَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَاقَۃً فَقَالَ : اللَّہُمَّ جَمِّلْہُ ، فَاسْوَدَّ شَعْرُہُ۔
(٣٠٤٥٣) حضرت قتادہ فرماتے ہیں کہ ایک یہودی نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے اونٹنی کا دودھ دھویا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے اللہ ! تو اس کو خوب صورت بنا دے، چنانچہ اس کے بال کالے ہوگئے۔

30453

(۳۰۴۵۴) حَدَّثَنَا عِیسَی بْنُ یُونُسَ ، عَنِ الأَوْزَاعِیِّ ، عَن حَسَّانَ بْنِ عَطِیَّۃَ ، قَالَ : لاَ بَأْسَ أَنْ یُؤَمِّنَ الْمُسْلِمُ عَلَی دُعَائِ الرَّاہِبِ ، فَقَالَ : إنَّہُمْ یُسْتَجَابُ لَہُمْ فِینَا ، وَلا یُسْتَجَابُ لَہُمْ فِی أَنْفُسِہِمْ۔
(٣٠٤٥٤) امام اوزاعی فرماتے ہیں کہ حضرت حسان بن عطیہ نے ارشاد فرمایا ! کوئی حرج نہیں کہ مسلمان عیسائی زاہد کی دعا پر آمین کہے، پھر فرمایا ! بیشک ان کی دعا ہمارے حق میں قبول کی جاتی ہے، اور خود ان کے اپنے حق میں قبول نہیں کی جاتی۔

30454

(۳۰۴۵۵) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَن یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ، عَن سَعِیدٍ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، أَنَّہُ کَانَ یَقُومُ عَلَی الْمَنْفُوسِ مِنْ وَلَدِہِ الَّذِی لَمْ یَعْمَلْ خَطِیئَۃً فَیَقُولُ : اللَّہُمَّ أَجِرْہُ مِنْ عَذَابِ النَّارِ۔
(٣٠٤٥٥) حضرت سعید فرماتے ہیں کہ حضرت ابوہریرہ نوزائدہ بچہ کی نماز پڑھانے کے لیے کھڑے ہوتے جس نے ایک گناہ بھی نہیں کیا ہوتا تھا۔ پھر یوں دعا فرماتے : اے اللہ ! تو اس کو جہنم کے عذاب سے بچا لے۔

30455

(۳۰۴۵۶) حَدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَن یُونُسَ ، عَن زِیَادِ بْنِ جُبَیْرٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنِ الْمُغِیرَۃِ بْنِ شُعْبَۃَ ، قَالَ : السِّقْطُ یدعی لِوَالِدَیْہِ بِالْعَافِیَۃِ وَالْمَغْفِرَۃِ۔
(٣٠٤٥٦) حضرت جبیر فرماتے ہیں کہ حضرت مغیرہ بن شعبہ نے ارشاد فرمایا : مردہ بچہ پیدا ہونے کی صورت میں بچہ کے والدین کے لیے عافیت اور رحمت کی دعا کی جائے۔

30456

(۳۰۴۵۷) حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ ، عَن سُفْیَانَ بْنِ حُسَیْنٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، أَنَّہُ کَانَ یَقُولُ : اللَّہُمَّ اجْعَلْہُ لَنَا فَرَطًا وَذُخْرًا وَأَجْرًا۔
(٣٠٤٥٧) حضرت سفیان بن حسین فرماتے ہیں کہ حضرت حسن یوں دعا فرمایا کرتے تھے ! اے اللہ ! اس بچہ کو ہمارے لیے آگے سامان کرنے والا اور اجر کا موجب اور وقت پر کام آنے والا بنا دے۔

30457

(۳۰۴۵۸) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَن شُعْبَۃَ ، قَالَ : حدَّثَنَا الْجُلاَسُ السُّلَمِیُّ ، قَالَ : سَمِعْتُ عَلِیَّ بْنَ جِحَاشٍ ، قَالَ سَمِعْت سَمُرَۃَ بْنَ جُنْدَبٍ وَمَاتَ ابْنٌ لَہُ صَغِیرٌ فَقَالَ : اذْہَبُوا فَادْفِنُوہُ ، وَلا تُصَلُّوا عَلَیْہِ فَإِنَّہُ لَیْسَ عَلَیْہِ إِثْم، وَادْعُوا اللَّہَ لِوَالِدَیْہِ أَنْ یَجْعَلَہُ لَہُمَا فَرَطًا وَأَجْرًا ، أَوْ نَحْوَہُ۔
(٣٠٤٥٨) حضرت علی بن جحاش فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت سمرہ بن جندب کو یوں فرماتے ہوئے سنا جبکہ میں کہ ان کا ایک چھوٹا بچہ مرگیا تھا پس آپ نے فرمایا : تم اس کو لے جا کر دفن کردو۔ اور اس کی نماز جنازہ مت کرو۔ کیونکہ اس پر کوئی گناہ نہیں ہے۔ اور اللہ سے اس کے والدین کے حق میں دعا کرو کہ وہ اس بچہ کو ان دونوں کے حق میں آگے سامان کرنے والا اور اجر کا موجب اور وقت پر کام آنے والا بنا دے۔

30458

(۳۰۴۵۹) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ آدَمَ ، قَالَ : حدَّثَنَا حُسَیْن عَنْ أَبِی بِشْرٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، قَالَ : تَسْبِیحَۃٌ فِی رَمَضَانَ أَفْضَلُ مِنْ أَلْفٍ فِی غَیْرِہِ۔
(٣٠٤٥٩) حضرت ابو بشر فرماتے ہیں کہ امام زہری نے ارشاد فرمایا : رمضان میں ایک مرتبہ اللہ کی پاکی بیان کرنا غیر رمضان میں ہزار مرتبہ تسبیح کرنے سے افضل ہے۔

30459

(۳۰۴۶۰) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَن حَجَّاجٍ ، عَن نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إذَا وَضَعَ الْمَیِّتَ فِی الْقَبْرِ ، قَالَ : بِسْمِ اللہِ وَبِاللہِ وَعَلَی سُنَّۃِ رَسُولِ اللہِ۔
(٣٠٤٦٠) حضرت ابن عمر فرماتے ہیں کہ جب میت کو قبر میں اتارا جاتا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ کلمات پڑھتے ! اللہ کے نام کے ساتھ اور خصوصیت سے اللہ کے ساتھ اور اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے طریقہ پر۔

30460

(۳۰۴۶۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن ہَمَّامٍ ، عَن قَتَادَۃَ ، عَنْ أَبِی الصِّدِّیقِ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِذَا وَضَعْتُمْ مَوْتَاکُمْ فِی قُبُورِہِمْ ، فَقُولُوا : بِسْمِ اللہِ ، وَعَلَی سُنَّۃِ رَسُولِ اللہِ۔
(٣٠٤٦١) حضرت ابن عمر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جب تم اپنے مردوں کو قبر میں اتارو تو یہ کلمات پڑھو : اللہ کے نام کے ساتھ اور اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے طریقہ پر۔

30461

(۳۰۴۶۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن شُعْبَۃُ ، عَن قَتَادَۃَ ، عَنْ أَبِی الصِّدِّیقِ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، أَنَّہُ کَانَ یَقُولُ مِثْلَ ذَلِکَ۔
(٣٠٤٦٢) حضرت ابن عمر سے ما قبل والی حدیث اس سند کے ساتھ بھی منقول ہے۔

30462

(۳۰۴۶۳) حَدَّثَنَا شَرِیکٌ ، وَأَبُو الأَحْوَصِ ، عَن مَنْصُورٍ ، عن أَبِی مُدْرِکٍ ، عَنِ عُمَرَ ، أَنَّہُ کَانَ یَقُولُ إذَا أَدْخَلَ الْمَیِّتَ قَبْرَہُ ، وَقَالَ أَبُو الأَحْوَصِِ : إذَا سَوَّوْا عَلَیْہِ : اللَّہُمَّ أَسْلَمَہُ إلَیْک الْمَالُ وَالأَہْلُ وَالْعَشِیرَۃُ وَالذَّنْبُ الْعَظِیمُ فَاغْفِرْ لَہُ۔
(٣٠٤٦٣) حضرت ابو مدرک فرماتے ہیں کہ جب میت کو قبر میں داخل کیا جاتا اور حضرت ابو الاحوص کہتے ہیں کہ جب اس پر مٹی ڈالی جاتی تو حضرت عمر یوں دعا فرماتے : اے اللہ ! اس شخص نے مال، اھل و عیال اور قبیلہ اور بڑے گناہ تیرے سپرد کیے ہیں۔ پس تو اس کی مغفرت فرما دے۔

30463

(۳۰۴۶۴) حَدَّثَنَا وَکِیعُ بْنُ الْجَرَّاحِ ، عَن سُفْیَانَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ ، عَن خَیْثَمَۃَ ، قَالَ : کَانُوا یَسْتَحِبُّونَ إذَا وُضِعَ الْمَیِّتُ فِی الْقَبْرِ أَنْ یَقُولُوا : بِسْمِ اللہِ وَفِی سَبِیلِ اللہِ وَعَلَی مِلَّۃِ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اللَّہُمَّ أَجِرْہُ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ وَعَذَابِ النَّارِ وَشَرِّ الشَّیْطَانِ۔
(٣٠٤٦٤) حضرت خیثمہ فرماتے ہیں کہ صحابہ پسند کرتے تھے کہ جب میت کو قبر میں اتارا جائے تو وہ یوں کہیں ! اللہ کے نام کے ساتھ اور اللہ کے راستہ میں اور اللہ کے رسول کے طریقہ پر، اے اللہ ! تو اس کو قبر کے عذاب سے اور جہنم کے عذاب سے اور شیطان کے شر سے بچا۔

30464

(۳۰۴۶۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن سُفْیَانَ ، عَن لَیْثٍ ، عَن مُجَاہِدٍ ، أَنَّہُ کَانَ یَقُولُ : بِسْمِ اللہِ وَفِی سَبِیلِ اللہِ وَعَلَی مِلَّۃِ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اللَّہُمَّ افْسَحْ لَہُ فِی قَبْرِہِ وَنَوِّرْ لَہُ فِیہِ ، وَأَلْحِقْہُ بِنَبِیِّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَأَنْتَ عَنْہُ رَاضٍ غَیْرُ غَضْبَانَ۔
(٣٠٤٦٥) حضرت لیث فرماتے ہیں کہ حضرت مجاہد یہ کلمات پڑھتے تھے، اللہ کے نام کے ساتھ ، اور اللہ کے راستہ میں، اور اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے طریقہ پر، اے اللہ ! تو اس کی قبر کو کشادہ کر دے۔ اور اس کی قبر کو نور سے بھر دے۔ اور تو اس کو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ملا دے اس حال میں کہ تو اس سے راضی ہو ناراض نہ ہو۔

30465

(۳۰۴۶۶) حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ ، عَنِ الْعَلائِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : إذَا وَضْعت الْمَیِّتُ فِی قَبْرِہِ فَلا تَقُلْ : بِسْمِ اللہِ ، وَلَکِنْ قُلْ : فِی سَبِیلِ اللہِ ، وَعَلَی مِلَّۃِ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَعَلَی مِلَّۃِ إبْرَاہِیمَ حَنِیفًا مسلما ، وَمَا کَانَ مِنَ الْمُشْرِکِینَ ، اللَّہُمَّ ثَبِّتْہُ بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِی الآخِرَۃِ ، اللَّہُمَّ اجْعَلْہُ فِی خَیْرٍ مِمَّا کَانَ فِیہِ ، اللَّہُمَّ لاَ تَحْرِمْنَا أَجْرَہُ ، وَلا تَفْتِنَّا بَعْدَہُ ، قَالَ : وَنَزَلَتْ ہَذِہِ الآیَۃُ فِی صَاحِبِ الْقَبْرِ : {یُثَبِّتُ اللَّہُ الَّذِینَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِی الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا وَفِی الآخِرَۃِ}۔
(٣٠٤٦٦) حضرت علاء بن المسیب اپنے والد کے واسطہ سے بیان فرماتے ہیں کہ جب تم میت کو قبر میں اتارو تو یوں مت کہو، اللہ کے نام کے ساتھ، بلکہ اس طرح کہو : اللہ کے راستہ میں اور اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے طریقہ پر، اور حضرت ابراہیم جو کہ سچے مسلمان تھے اور مشرکین میں سے نہیں تھے ان کے طریقہ پر، اے اللہ ! تو اس کو آخرت میں حق بات کے ذریعہ ثابت قدمی عطا فرما، اے اللہ ! جس حال میں یہ تھا اس سے بہتر حال میں اس کو کر دے، اے اللہ ! ہمیں اس کے اجر سے محروم مت فرما، اور ہمیں اس کے بعد آزمائش میں مت ڈال۔ اور فرمایا کہ یہ آیت قبر والے کے بارے میں اتری ہے : اللہ اہل ایمان کو دنیاوی زندگی میں اور آخرت میں قول حق (کی برکت) سے ثبات عطا فرماتا ہے۔

30466

(۳۰۴۶۷) حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ بْنُ مُوسَی ، عَنْ إسْرَائِیلَ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ عَلِیٍّ ، قَالَ : کَانَ یَقُولُ عِنْدَ الْمَنَامِ إذَا نَامَ : بِسْمِ اللہِ وَفِی سَبِیلِ اللہِ وَعَلَی مِلَّۃِ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَیَقُولُہُ إذَا أُدْخِلَ الرَّجُلَ قَبْرَہُ۔
(٣٠٤٦٧) حضرت عاصم فرماتے ہیں کہ حضرت علی جب سونے کے لیے لیٹتے تو یہ کلمات پڑھتے : اللہ کے نام کے ساتھ اور اللہ کے راستہ میں، اور اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے طریقہ پر اور یہی کلمات پڑھتے جب کسی آدمی کو قبر میں داخل کیا جاتا۔

30467

(۳۰۴۶۸) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِِ ، عَن مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : إذَا وَضَعْت الْمَیِّتَ فِی الْقَبْرِ فَقُلْ : بِسْمِ اللہِ وَعَلَی سُنَّۃِ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔
(٣٠٤٦٨) حضرت مغیرہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم نے ارشاد فرمایا؛ جب تم میت کو قبر میں اتارو تو یہ کلمات پڑھو ! اللہ کے نام کے ساتھ، اور اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے طریقہ پر۔

30468

(۳۰۴۶۹) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْن سُلَیْمَان عَنْ إسْمَاعِیلَ بْنِ أَبِی خَالِدٍ ، عَن جُبَیْرِ بْنِ عَدِیٍّ ، قَالَ : أُخْبِرْت ، أَنَّ عَلِیَّ بْنَ أَبِی طَالِبٍ کَانَ یَقُولُ إذَا أُدْخِلَ الْمَیِّتَ فِی قَبْرِہِ : بِسْمِ اللہِ ، وَعَلَی مِلَّۃِ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَتَصْدِیقِ کِتَابِکَ وَرُسُلِکَ وَبالْیَقِینِ بِالْبَعْثِ بَعْدَ الْمَوْتِ ، اللَّہُمَّ ارْحَبْ عَلَیْہِ قَبْرَہُ ، وَبَشِّرْہُ بِالْجَنَّۃِ۔
(٣٠٤٦٩) حضرت جبیر بن عدی فرماتے ہیں کہ مجھے خبر دی گئی ہے کہ حضرت علی یہ دعا پڑھتے تھے جب کسی میت کو قبر میں داخل کیا جاتا : اللہ کے نام کے ساتھ ! اور اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے طریقہ پر، اور تیری کتاب اور تیرے رسول کی تصدیق کے ساتھ، اور مرنے کے بعد دوبارہ اٹھنے کے یقین کے ساتھ، اے اللہ ! اس پر اس کی قبر کو کشادہ کر دے اور اس کو جنت کی خوش خبری دے دیجیے۔

30469

(۳۰۴۷۰) حَدَّثَنَا مُعْتَمِرُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَن حُصَیْنٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ التَّیْمِیِّ ، قَالَ : إذَا وُضِعَ الْمَیِّتُ فِی الْقَبْرِ فَقُلْ : بِسْمِ اللہِ وَإِلَی اللہِ ، وَعَلَی سُنَّۃِ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔
(٣٠٤٧٠) حضرت حصین فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم التیمی نے ارشاد فرمایا : جب میت کو قبر میں اتارا جائے۔ تو یہ کلمات پڑھو ! اللہ کے نام کے ساتھ، اور اللہ کی طرف، اور اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے طریقہ پر۔

30470

(۳۰۴۷۱) حَدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَن عبد اللہِ بْنِ أَبِی بَکْرٍ ، قَالَ : کَانَ أَنَسُ بْنُ مَالِکٍ إذَا سُوِّیَ عَلَی الْمَیِّتِ قَبْرُہُ قَامَ عَلَیْہِ ، ثُمَّ قَالَ : اللَّہُمَّ عَبْدُک رُدَّ عَلَیْک ، فَارْأَفْ بِہِ وَارْحَمْہُ ، اللَّہُمَّ جَافِ الأَرْضَ عَنْ جَنْبَیْہِ وَافْتَحْ أَبْوَابَ السَّمَائِ لِرُوحِہِ ، وَتَقَبَّلْہُ مِنْک بِقَبُولٍ حَسَنٍ ، اللَّہُمَّ إِنْ کَانَ مُحْسِنًا فَضَاعِفْ لَہُ فِی إحْسَانِہِ ، وَإِنْ کَانَ مُسِیئًا فَتَجَاوَزْ عَن سَیِّئَاتِہِ۔
(٣٠٤٧١) حضرت عبداللہ بن ابی بکر فرماتے ہیں کہ جب میت کو قبر پر مٹی ڈال کر اسے برابر کردیا جاتا تو حضرت انس قبر پر کھڑے ہو کر یوں دعا فرماتے : اے اللہ ! تیرا بندہ تیری طرف لوٹا دیا گیا ہے پس تو اس پر شفقت فرما اور اس پر رحم فرما۔ اے اللہ ! زمین کو اس کے پہلو کی جانب سے کشادہ کر دے۔ اور اس کی روح کے لیے آسمان کے دروازے کھول دے۔ اور اس کے اعمال کو اچھے طریقہ سے قبول فرما، اے اللہ ! اگر یہ نیکو کار تھا تو اس کی نیکیوں کو دو چند فرما دے، اور اگر خطا کار تھا تو اس کی خطاؤں سے درگزر فرما۔

30471

(۳۰۴۷۲) حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ ، عَن حَجَّاجٍ ، عَن عُمَیْرِ بْنِ سَعِیدٍ ، أَنَّ عَلِیًّا کَبَّرَ عَلَی یَزِیدَ بْنِ مُکَفَّفٍ أَرْبَعًا ، ثُمَّ قَامَ عَلَی الْقَبْرِ فَقَالَ : اللَّہُمَّ عَبْدُک ، وَابْنُ عَبْدِکَ نَزَلَ بِکَ الْیَوْمَ ، وَأَنْتَ خَیْرُ مَنْزُولٍ بِہِ ، اللَّہُمَّ وَسِّعْ لَہُ مُدْخَلَہُ وَاغْفِرْ لَہُ ذَنْبَہُ فَإِنَّا لاَ نَعْلَمُ إِلاَّ خَیْرًا وَأَنْتَ أَعْلَمُ بِہِ۔
(٣٠٤٧٢) حضرت عمیر بن سعید فرماتے ہیں کہ حضرت علی نے یزید بن مکفف کے جنازہ پر چار تکبیریں پڑھیں، پھر آپ نے اس کی قبر پر کھڑے ہو کر یوں دعا فرمائی ! اے اللہ ! یہ تیرا بندہ ہے اور تیرے بندے کا بیٹا ہے۔ آج یہ تیرا مہمان بنا ہے اور تو بہترین مہمان نواز ہے۔ اے اللہ ! اس کی قبر کو کشادہ کر دے، اور اس کے گناہ کو معاف فرما دے۔ پس بیشک ہم نہیں جانتے مگر بھلائی اور تو اس بارے میں زیادہ جاننے والا ہے۔

30472

(۳۰۴۷۳) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنِ ابْنِ أَبِی مُلَیْکَۃَ ، قَالَ : لَمَّا فُرِغَ مِنْ قَبْرِ عَبْدِ اللہِ بْنِ السَّائِبِ قَامَ ابْنُ عَبَّاسٍ عَلَی الْقَبْرِ فَوَقَفَ عَلَیْہِ ، ثُمَّ دَعَا ، ثُمَّ انْصَرَفَ۔
(٣٠٤٧٣) حضرت عبداللہ بن ابی ملیکہ فرماتے ہیں کہ جب حضرت عبداللہ بن سائب کی قبر برابر کر کے فارغ ہوئے۔ تو حضرت ابن عباس ان کی قبر پر کھڑے ہوئے۔ پس آپ اس پر کافی دیر کھڑے رہے، پھر آپ نے دعا کی اور واپس لوٹ گئے۔

30473

(۳۰۴۷۴) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، قَالَ : رَأَیْتُ أَیُّوبَ یَقُومُ عَلَی الْقَبْرِ فَیَدْعُو لِلْمَیِّتِ ، وَرُبَّمَا رَأَیْتہ یَدْعُو لَہُ وَہُوَ فِی الْقَبْرِ قَبْلَ أَنْ یَخْرُجَ۔
(٣٠٤٧٤) حضرت ابن علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ایوب کو ایک قبر پر کھڑے ہوئے دیکھا پھر آپ نے میت کے لیے دعا کی، اور کئی مرتبہ میں نے ان کو دیکھا کہ دفنانے والا ابھی قبر میں ہوتا اور اس کے نکلنے سے پہلے آپ میت کے لیے دعا فرماتے۔

30474

(۳۰۴۷۵) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ ، عَن قَیْسٍ ، قَالَ : دَخَلْنَا عَلَی خَبَّابٍ وَقَدِ اکْتَوَی سَبْعَ کَیَّاتٍ فِی بَطْنِہِ فَقَالَ : لَوْلا أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَہَانَا أَنْ نَدْعُوَ بِالْمَوْتِ لَدَعَوْت بِہِ۔ (بخاری ۵۶۷۲۔ مسلم ۲۰۶۴)
(٣٠٤٧٥) حضرت قیس فرماتے ہیں کہ ہم حضرت خباب کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے اس حال میں کہ انھوں نے اپنے پیٹ میں سات جگہ داغ لگوائے تھے، پس فرمانے لگے ۔ اگر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں موت کی دعا کرنے سے منع نہ فرمایا ہوتا تو میں ضرور اس کی دعا کرتا۔

30475

(۳۰۴۷۶) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِی ظَبْیَانَ ، قَالَ : کُنْتُ جَالِسًا عِنْدَ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: فَسَمِعَ رَجُلاً یَتَمَنَّی الْمَوْتَ ، قَالَ : فَرَفَعَ إلَیْہِ ابْنُ عُمَرَ بَصَرَہُ فَقَالَ : لاَ تَمَنَّ الْمَوْتَ فَإِنَّک مَیِّتٌ ، وَلَکِنْ سَلِ اللَّہَ الْعَافِیَۃَ۔
(٣٠٤٧٦) حضرت ابو ظبیان فرماتے ہیں کہ میں حضرت ابن عمر کے پاس بیٹھا ہوا تھا پس آپ نے ایک آدمی کو موت کی تمنا کرتے ہوئے سنا۔ راوی کہتے ہیں کہ حضرت ابن عمر نے اپنی آنکھیں فوراً اس کی طرف اٹھائیں پھر فرمایا : تو موت کی خواہش مت کر، تو نے مرنا تو ہے، لیکن تو اللہ سے عافیت کا سوال کر۔

30476

(۳۰۴۷۷) حَدَّثَنَا عَبِیدَۃُ بْنُ حُمَیْدٍ ، عَن حُمَیْدٍ ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لاَ یَتَمَنَّی أَحَدُکُمُ الْمَوْتَ لِضُرٍّ نَزَلَ بِہِ فِی الدُّنْیَا۔
(٣٠٤٧٧) حضرت انس فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : تم میں سے کوئی بھی شخص دنیا میں اترنے والی کسی مصیبت و تکلیف کی وجہ سے موت کی خواہش نہ کرے۔

30477

(۳۰۴۷۸) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَن حَجَّاجٍ ، عَن یَحْیَی بْنِ أَبِی کَثِیرٍ ، عَن عُرْوَۃَ ، عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ : کُنْت إِلَی جَنْبِ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَفَقَدْتہ فَابْتَغَیْتُہُ فَإِذَا ہُوَ بِالْبَقِیعِ رَافِعًا یَدَیْہِ یَدْعُو فَقَالَ : یَا بنت أَبِی بَکْرٍ ، أَخَشِیت أَنَّ یَحِیفَ اللَّہُ عَلَیْک وَرَسُولُہُ ، إنَّ اللَّہَ یَنْزِلُ فِی ہَذِہِ اللَّیْلَۃِ ، لَیْلَۃ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ ، فَیَغْفِرُ فِیہَا مِنَ الذُّنُوبِ أَکْثَرَ مِنْ عَدَدِ شَعْرِ مَعْزِ کَلْبٍ۔ (ترمذی ۷۳۹۔ احمد ۲۳۸)
(٣٠٤٧٨) حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پہلو میں تھی پس میں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو گم پایا تو میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تلاش کرنے لگی اچانک میں نے دیکھا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے ہاتھوں کو اٹھائے ہوئے دعا فرما رہے تھے۔ پس آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرمانے لگے : اے ابوبکر کی بیٹی ! کیا تجھے خوف ہے کہ اللہ اور اس کا رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تجھ پر ظلم کریں گے ؟ بیشک اللہ شعبان کی اس پندرہویں رات میں آسمان دنیا پر اترتے ہیں اور اس میں گناہوں کو معاف فرماتے ہیں قبیلہ بنو کلب کی بکریوں کے بالوں سے بھی زیادہ لوگوں کے۔

30478

(۳۰۴۷۹) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَن حَجَّاجٍ ، عَن مَکْحُولٍ ، عَن کَثِیرِ بْنِ مُرَّۃَ الْحَضْرَمِیِّ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إنَّ اللَّہَ یَنْزِلُ لَیْلَۃَ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ فَیَغْفِرُ فِیہَا الذُّنُوبَ إِلاَّ لِمُشْرِکٍ ، أَوْ مُشَاحِنٍ۔ (عبدالرزاق ۷۹۲۳)
(٣٠٤٧٩) حضرت کثیر بن مرۃ الحضرمی فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : بیشک اللہ شعبان کی پندرہویں رات کو اترتے ہیں پھر اس رات میں لوگوں کے گناہوں کو معاف فرماتے ہیں سوائے مشرک اور دل میں کینہ رکھنے والے کے۔

30479

(۳۰۴۸۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، عَن سُفْیَانَ، عَن مُوسَی بْنِ عُبَیْدَۃَ، عَنْ أَبِی بَکْرِ بْنِ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ، قَالَ: کَانَ لَہُ مَجُوسٌ یَعْمَلُونَ لَہُ فِی أَرْضِہِ وَکَانَ یَقُولُ لَہُمْ : أَطَالَ اللَّہُ أَعْمَارَکُمْ ، وَأَکْثَرَ أَمْوَالَکُمْ ، فَکَانُوا یَفْرَحُونَ بِذَلِکَ۔
(٣٠٤٨٠) حضرت موسیٰ بن عبیدہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابوبکر بن انس بن مالک کے پاس زرتشت تھے جو ان کی زمین میں کام کیا کرتے تھے۔ اور آپ ان کے لیے دعا فرمایا کرتے تھے : اللہ تمہاری عمریں لمبی کرے اور تمہارے مال کو زیادہ فرمائے۔ پس وہ لوگ اس دعا سے بہت خوش ہوتے تھے۔

30480

(۳۰۴۸۱) حَدَّثَنَا یَعْلَی بْنُ عُبَیْدٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سُوقَۃَ ، عَن نَافِعٍ قَالَ : کَانَ ابْنُ عمَرَ إذَا قَدِمَ حَاجًّا ، أَوْ مُعْتَمِرًا طَافَ بِالْبَیْتِ وَصَلَّی رَکْعَتَیْنِ ، وَکَانَ جُلُوسُہُ فِیہَا أَطْوَلَ مِنْ قِیَامِہِ ثَنَائً عَلَی رَبِّہِ وَمَسْأَلَۃً ، فَکَانَ یَقُولُ حِینَ یَفْرُغُ مِنْ رَکْعَتَیْہِ وَبَیْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃِ : اللَّہُمَّ اعْصِمْنِی بِدِینِکَ وَطَاعَتِکَ وَطَاعَۃِ رَسُولِکَ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، اللَّہُمَّ جَنِّبْنِی حُدُودَک ، اللَّہُمَّ اجْعَلْنِی مِمَّنْ یُحِبُّک وَیُحِبُّ مَلائِکَتَکَ وَرُسُلَک وَعِبَادَک الصَّالِحِینَ ، اللَّہُمَّ حَبِّبْنِی إلَیْک وَإِلَی مَلائِکَتِکَ وَرُسُلِکَ ، اللَّہُمَّ آتِنِی مِنْ خَیْرِ مَا تُؤْتِی عِبَادَک الصَّالِحِینَ فِی الدُّنْیَا وَالآخِرَۃِ ، اللَّہُمَّ یَسِّرْنِی لِلْیُسْرَی وَجَنِّبْنِی الْعُسْرَی ، وَاغْفِرْ لِی فِی الآخِرَۃِ وَالأُولَی ، اللَّہُمَّ أَوْزِعْنِی أَنْ أَفِیَ بِعَہْدِکَ الَّذِی عَاہَدْتنِی عَلَیْہِ ، اللَّہُمَّ اجْعَلْنِی مِنْ أَئِمَّۃِ الْمُتَّقِینَ ، وَاجْعَلْنِی مِنْ وَرَثَۃِ جَنَّۃِ النَّعِیمِ ، وَاغْفِرْ لِی خَطِیئَتِی یَوْمَ الدِّینِ۔
(٣٠٤٨١) حضرت نافع فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عمر جب حج یا عمرہ کرنے کے لیے تشریف لاتے تو بیت اللہ کا طواف کرتے اور دو رکعت نماز پڑھتے۔ اور ان دونوں رکعات میں آپ کا بیٹھنا آپ کے قیام سے زیادہ لمبا ہوتا، آپ اپنے رب کی ثنا کرتے اور دعا مانگتے۔ پس جب آپ دو رکعات سے فارغ ہوجاتے تو صفا اور مروہ کے درمیان یوں دعا فرماتے : اے اللہ ! تو اپنے دین کے ذریعہ اور اپنی اطاعت و فرمان برداری اور اپنے رسول کی اطاعت و فرمان برداری کے ذریعہ میری حفاظت فرما۔ اے اللہ ! تو مجھے اپنی حدود میں پڑنے سے بچا لے۔ اے اللہ ! مجھے ان لوگوں میں سے بنا دے جن سے تو محبت کرتا ہے اور تیرے فرشتے اور تیرے رسول جن سے محبت کرتے ہیں اور تیرے نیک بندے بھی، اے اللہ ! تو مجھے اپنا محبوب بنا لے، اور اپنے فرشتوں اور اپنے رسولوں کی طرف محبوب کر دے، اے اللہ ! تو مجھے بھلائی عطا کر جو تو اپنے نیک بندوں کو دنیا اور آخرت میں عطا کرے گا۔ اے اللہ ! میرے لیے آسانی پیدا فرما۔ اور مجھے سختی سے بچا لے۔ اور دنیا اور آخرت میں میری مغفرت فرما، اے اللہ ! مجھے توفیق دے کہ میں تیرے اس وعدہ کو پورا کروں جو تو نے مجھ سے کیا، اے اللہ ! مجھے متقی پیشواؤں میں سے بنا دے، اور یوم حساب کو میری غلطیوں کی مغفرت فرما۔

30481

(۳۰۴۸۲) حَدَّثَنَا یَعْلَی ، قَالَ : حدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ حَکِیمٍ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ زَیْدٍ أَبِی الشَّعْثَائِ ، قَالَ : إذَا أَتَیْتَ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ فَاقْعُدْ عَلَی بَابِ الْمَسْجِدِ وَقُلِ : اللَّہُمَّ اجْعَلْنِی الْیَوْمَ أَوْجَہَ مَنْ تَوَجَّہَ إلَیْک ، وَأَقْرَبَ مَنْ تَقَرَّبَ إلَیْک ، وَأَنْجَحَ مَنْ دَعَا وَطَلَبَ ، ثُمَّ ادْخُلْ وَسَلْ تُعْطَہُ۔
(٣٠٤٨٢) حضرت عثمان بن حکیم فرماتے ہیں کہ حضرت جابر بن زید ابو الشعثائ نے فرمایا : جب تو جمعہ کی نماز کے لیے آئے تو مسجد کے دروازے پر بیٹھ کر یوں دعا کر ! اے اللہ ! تو آج کے دن مجھے اس کی جانب متوجہ کر جو تیری طرف متوجہ ہو اور اس کے قریب جو تیرے قریب ہو۔ اور کامیاب بنا جو مانگوں اور طلب کروں پھر مسجد میں داخل ہو اور مانگو تم کو عطا کیا جائے گا۔

30482

(۳۰۴۸۳) حَدَّثَنَا شُعْبَۃُ ، عَنْ عَاصِمٍ مَوْلَی لقُرَیْبَۃِ بِنْتِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِی بَکْرٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ قُرَیْبَۃَ تُحَدِّثُ عَنْ عَائِشَۃَ ، أَنَّہَا قَالَتْ : لاَ تَقُولِی لِلْمِسْکِینِ : بِوَرِکِ فِیہِ ، فَإِنَّہُ یَسْأَلُ الْبَرُّ وَالْفَاجِرُ ، وَلَکِنْ قَوْلِی : یَرْزُقُنَا اللَّہُ وَإِیَّاکَ۔
(٣٠٤٨٣) حضرت قریبہ فرماتی ہیں کہ حضرت عائشہ نے ارشاد فرمایا : تم مسکین کو یوں مت کہو : تمہیں برکت دی جائے۔ اس لیے کہ نیکو کار اور بدکار سوال کرتا ہے۔ لیکن اس طرح کہا کرو ! اللہ ہمیں اور تمہیں رزق عطا فرمائے۔

30483

(۳۰۴۸۴) حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِیَۃَ ، عَن صُبَیْحٍ مَوْلَی بَنِی مَرْوَانَ ، عَن مَکْحُولٍ ، قَالَ : سَمِعْتُہُ یَقُولُ فِی الرَّہْصَۃِ : بِسْمِ اللہِ ، أَنْتَ الْوَاقِی وَأَنْتَ الشَّافِی وَأَنْتَ الْبَاقِی ، ثُمَّ یَعْقِدُ فِی خَیْطِ قِنَّبٍ جَدِیدٍ ، أَوْ شَعْرٍ ، ثُمَّ یَرْبِطُ بِہِ الدَّابَّۃَ لِلرَّہْصَۃِ۔
(٣٠٤٨٤) حضرت صبیح جو بنو مروان کے آزاد کردہ غلام ہیں فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت مکحول کو جانور کے کھر میں زخم کے لیے یوں دعا کرتے ہوئے سنا : اللہ کے نام کے ساتھ تو ہی بچانے والا، اور تو ہی شفا دینے والا ہے، اور تو ہی باقی رہنے والا ہے، پھر آپ نے نئے تسمہ میں ایک ڈوری یا کسی بال میں باندھ کر اس جانور کے ساتھ باندھ دیا اس کے کھر کے زخم کے لیے۔

30484

(۳۰۴۸۵) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، عَن سُفْیَانَ ، عَن مُحَمَّدِ بْنِ سَعِیدٍ ، أَوْ سَعِیدِ بْنِ مُحَمَّدٍ ، قَالَ : کَانَ مِنْ دُعَائِ طَاوُوس ، یَقُولُ : اللَّہُمَّ امْنَعْنِی الْمَالَ وَالْوَلَدَ ، وَارْزُقْنِی الأَمْوَال وَالْعَمَلَ۔
(٣٠٤٨٥) حضرت محمد بن سعید یا سعید بن محمد فرماتے ہیں کہ حضرت طاوس کی دعا یوں ہوتی تھی : اے اللہ ! تو مجھ سے مال اور اولاد کو روک لے اور مجھے ایمان اور عمل کی دولت عطا فرما۔

30485

(۳۰۴۸۶) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا فِطْرٌ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَابِطٍ ، قَالَ : کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَدْعُو بِہَؤُلائِ الْکَلِمَاتِ وَیُعَظِّمُہُنَّ : اللَّہُمَّ یا فَارِجَ الْغَمِّ ، وَکَاشِفَ الْکَرْبِ ، وَمُجِیبَ الْمُضْطَرِّینَ ، وَرَحْمَنَ الدُّنْیَا وَالآخِرَۃِ وَرَحِیمَہُمَا ، ارْحَمْنِی الْیَوْمَ رَحْمَۃً تُغْنِینِی بِہَا عَن رَحْمَۃِ مَنْ سِوَاک۔ (طبرانی ۵۵۸۔ بزار ۳۱۷۷)
(٣٠٤٨٦) حضرت عبد الرحمن ابن سابط فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کلمات کے ذریعہ دعا کرتے تھے اور بڑے شاندار طریقہ سے کرتے : اے غم کو دور کرنے والے، اور مصیبت کو اٹھانے والے، اور مجبوروں کی دعاؤں کا جواب دینے والے، دنیا اور آخرت کے رحمن اور ان دونوں کے رحیم، آج کے دن مجھ پر ایسی رحمت فرما جو مجھے تیرے علاوہ کی رحمت سے بےنیاز کر دے۔

30486

(۳۰۴۸۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ وَالْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، عَن سُفْیَانَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عِیسَی ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ أَبِی الْجَعْدِ ، عَن ثَوْبَانَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لاَ یَرُدُّ الْقَدَرَ إِلاَّ الدُّعَائُ ، وَلا یَزِیدُ فِی الْعُمُرِ إِلاَّ الْبِرُّ۔ (احمد ۲۸۰۔ حاکم ۴۹۳)
(٣٠٤٨٧) حضرت ثوبان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : تقدیر کو کوئی چیز ٹال نہیں سکتی سوائے دعا کے، اور عمر میں کوئی چیز بھی اضافہ نہیں کرسکتی سوائے نیکی کے۔

30487

(۳۰۴۸۸) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ آدَمَ ، قَالَ : حدَّثَنَا زُہَیْرٌ ، عَن مَنْصُورٍ ، عَن ہِلالِ بْنِ یَِسَافٍ ، عَن رَبِیعِ بْنِ عُمَیْلَۃَ ، عَن سَمُرَۃَ بْنِ جُنْدَبٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : أَحَبُّ الْکَلامُ إِلَی اللہِ أَرْبَعٌ : سبحان اللہ ، وَالْحَمْدُ للہِ ، وَلاَ إلَہَ إِلاَّ اللَّہُ ، وَاللَّہُ أَکْبَرُ ، لاَ یَضُرُّک بِأَیِّہِنَّ بَدَأْت۔ (مسلم ۱۶۸۵۔ احمد ۱۰)
(٣٠٤٨٨) حضرت سمرہ بن جندب فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اللہ کے نزدیک پسندیدہ کلام یہ چار کلمات ہیں، اللہ تمام عیوب سے پاک ہے اور سب تعریفیں اللہ کے لیے ہیں اور اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، اور اللہ سب سے بڑا ہے۔ کوئی نقصان والی بات نہیں کہ تو جس کلمہ کے ساتھ چاہے شروع کرے۔

30488

(۳۰۴۸۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، وَأَبُو دَاوُد ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَن سَلَمَۃَ بْنِ کُہَیْلٍ ، عَن ہِلالٍ ، عَن سَمُرَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : أَفْضَلُ الْکَلامُ أَرْبَعٌ : سُبْحَانَ اللہِ ، وَالْحَمْدُ لِلَّہِ ، وَلا إلَہَ إِلاَّ اللَّہُ وَاللَّہُ أَکْبَرُ ، لاَ عَلَیْک بِأَیِّہِنَّ بَدَأْت۔ (ابن ماجہ ۳۸۱۱۔ احمد ۱۱)
(٣٠٤٨٩) حضرت سمرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : افضل ترین کلام چار کلمات ہیں ! اللہ تمام عیوب سے پاک ہے، اور سب تعریفیں اللہ کے لیے ہیں، اور اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، اور اللہ سب سے بڑا ہے، تجھ پر کوئی گناہ نہیں جس کلمہ سے چاہے شروع کر۔

30489

(۳۰۴۹۰) حَدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَن مُغِیرَۃَ ، عَن سُرِّیَّۃٍ لِعَبْدِ اللہِ بْنِ جَعْفَرٍ قَالَتْ: مَرَرْت بِعَلِیٍّ وَأَنَا حُبْلَی فَمَسَحَ بَطْنِی، وَقَالَ : اللَّہُمَّ اجْعَلْہُ ذَکَرًا مُبَارَکًا ، قَالَتْ : فَوَلَدْت غُلامًا۔
(٣٠٤٩٠) حضرت سرّیہ جو عبداللہ بن جعفر کی باندی ہیں فرماتی ہیں کہ میں حضرت علی کے پاس سے گزری اس حال میں کہ میں حاملہ تھی۔ پس آپ نے میرے پیٹ پر ہاتھ پھیرا اور یوں دعا فرمائی : اے اللہ ! اس کو بابرکت لڑکا بنا دے۔ فرماتی ہیں کہ میں نے ایک بچہ کو جنم دیا۔

30490

(۳۰۴۹۱) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ بْنِ أُمَیَّۃَ ، عَن دَاوُد بْنِ شَابُورَ ، قَالَ : قَالَ رَجُلٌ لِطَاوُوسٍ: ادْعُ لَنَا ، فَقَالَ : مَا أَجِدُ لِقَلْبِی خَشْیَۃ الآنَ۔
(٣٠٤٩١) حضرت داؤد بن شابور فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے حضرت طاوس سے فرمایا : آپ ہمارے لیے دعا کر دیجییٗ ۔ پس آپ نے ارشاد فرمایا : میں اس وقت دل میں ڈر نہیں پاتا۔

30491

(۳۰۴۹۲) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ ، قَالَ : حدَّثَنَا مَہْدِیُّ بْنُ مَیْمُونٍ ، عَن غَیْلانَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، أَنَّہُ کَانَ إذَا نَعَبَ الْغُرَابُ ، قَالَ : اللَّہُمَّ لاَ طَیْرَ إِلاَّ طَیْرُک ، وَلا خَیْرَ إِلاَّ خَیْرُک ، وَلا إلَۃَ غَیْرُک۔
(٣٠٤٩٢) حضرت غیلان فرماتے ہیں کہ جب کوا کائیں کائیں کرتا تو حضرت ابن عباس یوں دعا فرماتے ! اے اللہ ! کوئی بدشگونی نہیں سوائے تیری بدشگونی کے، اور کوئی بھلائی نہیں سوائے تیری بھلائی کے ، اور تیرے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔

30492

(۳۰۴۹۳) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَن یَحْیَی بْنِ وَثَّابٍ ، قَالَ : سَمِعْتُہُ یَقُولُ فِی قُنُوتِہِ : اللَّہُمَّ عَذِّبْ کَفَرَۃَ أَہْلِ الْکِتَابِ ، اللَّہُمَّ اجْعَلْ قُلُوبَہُمْ عَلَی قُلُوبِ نِسَائٍ کَوَافِرَ۔
(٣٠٤٩٣) حضرت اعمش فرماتے ہیں کہ میں حضرت یحییٰ بن وثاب کو یوں دعائے قنوت کرتے ہوئے سنا : اے اللہ ! کافر اہل کتاب کو عذاب دے، اے اللہ ! ان کے دلوں کو کافر عورتوں کے دلوں جیسا کر دے۔

30493

(۳۰۴۹۴) حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ مُعَاذٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا حُمَیْدٌ ، عَنِ الْحَسَنِ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : کُنَّا نَدْعُو قِیَامًا وَقُعُودًا وَنُسَبِّحُ رُکُوعًا وَسُجُودًا۔
(٣٠٤٩٤) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ حضرت جابر بن عبداللہ نے ارشاد فرمایا : ہم کھڑے ہو کر اور بیٹھ کر دعا کرتے تھے، اور رکوع اور سجدے کی حالت میں تسبیح کرتے تھے۔

30494

(۳۰۴۹۵) حَدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَن مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْکَدِرِ ، قَالَ : جَائَ رَجُلٌ یَشْکُو امْرَأَتَہُ إِلَی النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَأَخَذَ بِرُؤُوسِہِمَا ، وَقَالَ : اللَّہُمَّ آدِمْ بَیْنَہُمَا۔
(٣٠٤٩٥) حضرت محمد بن المنکدر فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے آکر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اپنی بیوی کی شکایت کی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان دونوں کا سر پکڑا اور یوں دعا فرمائی؛ اے اللہ ! ان دونوں کے درمیان پیارو محبت پیدا فرما۔

30495

(۳۰۴۹۶) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَن صَالِحِ بْنِ حَیَّانَ ، قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا وَائِلٍ یَقُولُ : أَعْطَانِی عُمَرُ أَرْبَعَ أَعْطِیَۃٍ بِیَدِہِ ، وَقَالَ : التَّکْبِیرُ خَیْرٌ مِنَ الدُّنْیَا ، وَمَا فِیہَا۔
(٣٠٤٩٦) حضرت صالح بن حیان فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابو وائل کو یوں فرماتے ہوئے سنا : کہ حضرت عمر نے مجھے اپنے ہاتھ سے چار عطیات دیے اور فرمایا : ایک مرتبہ تکبیر کا کہنا، دنیا اور جو کچھ اس میں ہے اس سے بہتر ہے۔

30496

(۳۰۴۹۷) حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ حَرْبٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا شُعْبَۃُ بْنُ الْحَجَّاجِ ، عَن یَزِیدَ بْنِ خُمَیْرٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ عَبْدَ اللہِ بْنَ بُسْرٍ ، قَالَ : جَائَ رَجُلٌ إِلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَنَزَلَ ، فَأَتَاہُ بِطَعَامٍ ؛ سَوِیقٍ وَحَیْسٍ ، فَأَکَلَ ، وَأَتَاہُ بِشَرَابٍ فَشَرِبَ ، فَنَاوَلَ مَنْ عَن یَمِینِہِ ، وَکَانَ إذَا أَکَلَ تَمْرًا أَلْقَی النَّوَی ہَکَذَا - وَأَشَارَ بِإِصْبَعَیْہِ عَلَی ظَہْرِہِمَا - قَالَ : فَلَمَّا رَکِبَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَامَ أَبِی فَأَخَذَ بِلِجَامِہِ ، فَقَالَ : یَا رَسُولَ اللہِ ، ادْعُ اللَّہَ لَنَا ، فَقَالَ : اللَّہُمَّ بَارِکْ لَہُمْ فِیمَا رَزَقْتَہُمْ ، وَاغْفِرْ لَہُمْ ، وَارْحَمْہُمْ۔ (احمد ۱۸۷)
(٣٠٤٩٧) حضرت عبداللہ بن بسر فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہواپس آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کے پاس چلے گئے۔ پس وہ کھانے میں ستو اور گھی لایا پس آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے تناول فرمایا : اور پھر وہ پانی لایا پس آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نوش فرمایا۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے دائیں والے کو دے دیا، اور جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کھجور کھاتے تو اس کی گٹھلی یوں پھینکتے۔ اور آپ نے اپنی دونوں انگلیوں سے ان کی پشت پر اشارہ کر کے دکھایا۔ اور فرمایا : جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سواری پر سوار ہوگئے۔ تو میرے والد اٹھے اور آپ کے جانور کی لگام پکڑ لی پھر فرمایا : اے اللہ کے رسول ! اللہ سے ہمارے لیے دعا کیجیے۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یوں دعا فرمائی ! اے اللہ ! جو تو نے ان کو رزق عطا فرمایا ہے اس میں برکت عطا فرما، اور ان کی مغفرت فرما، اور ان پر رحم فرما۔

30497

(۳۰۴۹۹) حَدَّثَنَا ہَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ قَالَ : حدَّثَنَا أَبُو عَقِیلٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ خَالِدٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ زَیْدَ بْنَ عَلِیٍّ یُحَدِّثُ عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ جَدِّہِ ، قَالَ : کَانَ إذَا رَأَی الْکَوْکَبَ مُنْقَضًّا ، قَالَ : اللَّہُمَّ صَوِّبْہُ وَأَصِبْ بِہِ وَقِنَا شَرَّ مَا یَتَّبِعُ۔
(٣٠٤٩٨) حضرت علی فرماتے ہیں ! کہ ان کے والد جب کوئی ٹوٹا ہوا ستارہ دیکھتے تو یوں دعا فرماتے : اے اللہ ! تو اس کو درست کر دے اور اس کے ذریعہ درستگی فرما۔ اور ہمیں بچا اس شر سے جو اس کے پیچھے آنے والا ہے۔

30498

(۳۰۴۹۹) حَدَّثَنَا ہَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ ، قَالَ : حدَّثَنَا أَبُو عَقِیلٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا مُجَالِدٌ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَن مَسْرُوقٍ ، قَالَ : کَانَ ابْنُ مَسْعُودٍ إذَا اشْتَرَی مَمْلُوکًا ، قَالَ اللَّہُمَّ بَارِکْ لَنَا فِیہِ ، وَاجْعَلْہُ طَوِیلَ الْعُمُرِ کَثِیرَ الرِّزْق۔
(٣٠٤٩٩) حضرت مسروق فرماتے ہیں کہ حضرت ابن مسعود جب کوئی غلام خریدتے تو یوں دعا فرماتے : اے اللہ ! تو ہمارے لیے اس میں برکت پیدا فرما۔ اور اس کو لمبی عمر والا اور زیادہ رزق والا بنا دے۔

30499

(۳۰۵۰۰) حَدَّثَنَا ہَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ ، قَالَ : حدَّثَنَا أَبُو عَقِیلٍ ، عَن شَیْخٍ حَدَّثَہُ قَالَ : سَأَلْتُ ابْنَ سِیرِینَ : مَا أَقُولُ فِی الْبَرْقِ إذَا رَأَیْتہ ؟ قَالَ تُغْمِضُ عَیْنَیْک وَتَذْکُرُ اللَّہَ۔
(٣٠٥٠٠) حضرت ابو عقیل فرماتے ہیں کہ ان کے استاذ نے ارشاد فریایا : میں نے حضرت ابن سیرین سے پوچھا ! جب میں بجلی کی چمک دیکھوں تو کیا کہوں ؟ آپ نے ارشاد فرمایا : تم اپنی دونوں آنکھوں کو بند کرلو اور اللہ کا ذکر کرو۔

30500

(۳۰۵۰۱) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، قَالَ: حدَّثَنِی عَبْدُ اللہِ بْنُ الْوَلِیدِ ، عَن زِیَادٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ: مَنْ قَالَ إذَا قَالَ الْمُؤَذِّنُ أَشْہَدُ أَنْ لاَ إلَہَ إِلاَّ اللَّہُ ، أَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللہِ ،اکفنی من أبی وَأَشْہَدُ مَعَ مَنْ شَہِدَ کَانَ لَہُ أَجْرُ مَنْ شَہِدَ وَمَنْ لَمْ یَشْہَدْ۔
(٣٠٥٠١) حضرت زیاد فرماتے ہیں کہ حضرت حسن نے ارشاد فرمایا : جو شخص اس وقت یہ کلمات پڑھے۔ جب مؤذن یوں کہتا ہے : میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ، میں گواہی دیتا ہوں کہ بیشک محمد اللہ کے رسول ہیں۔ تو کافی ہوجا میرے لیے اس شخص سے جو انکار کرے۔ اور میں گواہی دینے والے کے ساتھ گواہی دیتا ہوں۔ تو کہنے والے کے لیے گواہی دینے والوں کے اور گواہی نہ دینے والوں کے برابر ثواب ہوگا۔

30501

(۳۰۵۰۲) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ أَبِی جَعْفَرٍ بَیَّاعِ الطَّعَامِ ، قَالَ: کَانَ أَبُو جَعْفَرٍ یَقُولُ: أَعُوذُ بِاللہِ مِنْ شَرِّ الشَّیْطَانِ وَالسُّلْطَانِ ، وَشَرِّ النَّبَطِیِّ إذَا اسْتَعْرَبَ ، وَشَرِّ الْعَرَبِیِّ إذَا اسْتَنْبَطَ ، فَقِیلَ: وَکَیْفَ یَسْتَنْبِطُ الْعَرَبِیُّ ؟ قَالَ: إذَا أَخَذَ بِأَخْذِہِمْ وَزِیِّہِمْ۔
(٣٠٥٠٢) حضرت ابو جعفر جو کھانا فروش ہیں فرماتے ہیں کہ حضرت ابو جعفر نے ارشاد فرمایا : میں اللہ کی پناہ لیتا ہوں شیطان اور بادشاہ کے شر سے، اور عجمیوں، شامیوں کے شر سے جب وہ بتکلف عربی بنیں اور ان عربوں کے شر سے جو بتکلف عجمی بنیں۔ ان سے پوچھا گیا ! اہل عرب کیسے بتکلف عجمی بنیں گے ؟ آپ نے فرمایا : جب وہ ان کے طور طریقے اپنا لیں گے۔

30502

(۳۰۵۰۳) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ أَبِی سُلَیْمَانَ عَن رَجُلٍ مِنْ أَہْلِ الْبَصْرَۃِ ، قَالَ: أُتِیَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِہَدِیَّۃٍ وَعَائِشَۃُ قَائِمَۃٌ تُصَلِّی فَأَعْجَبَہُ أَنْ تَأْکُلَ مَعَہُ ، فَقَالَ: یَا عَائِشَۃُ اجْمَعِی وَأَوْجِزِی ، قَالَ: قُولِی: اللَّہُمَّ إنِّی أَسْأَلُک مِنَ الْخَیْرِ کُلِّہِ عَاجِلِہِ وَآجِلِہِ ، وَأَعُوذُ بِکَ مِنَ الشَّرِّ کُلِّہِ عَاجِلِہِ وَآجِلِہِ ، وَمَا قَضَیْت مِنْ قَضَائٍ فَبَارِکْ لِی فِیہِ ،وَاجْعَلْ عَاقِبَتَہُ إِلَی خَیْرٍ۔
(٣٠٥٠٣) اہل بصرہ میں سے ایک آدمی فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں ایک ہدیہ لایا گیا۔ اس حال میں کہ حضرت عائشہ کھڑے ہو کر نماز پڑھ رہی تھیں۔ پس آپ نے چاہا کہ وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ کھائیں تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اے عائشہ ! سمیٹ اور مختصر کر۔ فرمایا : یوں کہو ! اے اللہ ! میں تجھ سے تمام بھلائی کا سوال کرتی ہوں جو جلدی ملنے والی ہو اور جو دیر سے ملنے والی ہو۔ اور میں تیری پناہ لیتی ہوں تمام برائیوں سے جو جلدی آنے والی ہیں اور جو دیر سے آنے والی ہیں۔ اور تو نے جو بھی فیصلہ فرمایا، پس تو اس فیصلہ میں میرے لیے برکت پیدا فرما، اور اس کے انجام کو اچھا کر دے۔

30503

(۳۰۵۰۴) حَدَّثَنَا مُعَاوِیَۃُ بْنُ ہِشَامٍ ، قَالَ: حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ عُمَیْرٍ ، عَن رَجُلٍ ، عَن مَکْحُولٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: مَا مِنْ رَجُلٍ یُحَمُّ فَیَغْتَسِلُ ثَلاثَۃَ أَیَّامٍ مُتَتَابِعَۃً ،یَقُولُ عِنْدَ کُلِّ غُسْلٍ: بِسْمِ اللہِ اللَّہُمَّ إِنِّی إنَّمَا اغْتَسَلْت الْتِمَاسَ شِفَائِکَ وَتَصْدِیقَ نَبِیِّکَ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِلاَّ کُشِفَ عَنْہُ۔
(٣٠٥٠٤) حضرت مکحول فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا ! کوئی آدمی نہیں جو بخار میں مبتلا ہو پھر وہ تین دن پے در پے غسل کرے اور ہر غسل کے وقت یوں کہے : اللہ کے نام کے ساتھ : اے اللہ ! بیشک میں نے شفا کی درخواست کرتے ہوئے غسل کیا اور تیرے نبی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تصدیق کرتے ہوئے۔ مگر یہ کہ اس سے بخار کی تکلیف دور کردی جائے گی۔

30504

(۳۰۵۰۵) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، قَالَ: حدَّثَنَا یُونُسُ بْنُ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَن زَیْدٍ الْعَمِّیِّ ، قَالَ: لَمَّا رَأَی یُوسُفُ عَزِیزَ مِصْرَ ، قَالَ: اللَّہُمَّ إنِّی أَسْأَلُک بِخَیْرِکَ مِنْ خَیْرِہِ وَأَعُوذُ بِقُوَّتِکَ مِنْ شَرِّہِ۔
(٣٠٥٠٥) حضرت زید العمی فرماتے ہیں کہ جب حضرت یوسف نے عزیز مصر کو دیکھا تو یوں دعا فرمائی : اے اللہ ! میں اس کی خیر سے تیری خیر کا سوال کرتا ہوں ۔ اور میں اس کے شر سے تیری طاقت کی پناہ لیتا ہوں۔

30505

(۳۰۵۰۶) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ: حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَن حُمَیْدٍ ، أَنَّ سَعِیدَ بْنَ أَبِی الْحَسَنِ کَانَ یَقُولُ: اللَّہُمَّ سَوِّمْنَا سِیمَائَ الإِیمَانِ وَأَلْبِسْنَا لِبَاسَ التَّقْوَی۔
(٣٠٥٠٦) حضرت حمید فرماتے ہیں کہ حضرت سعید بن ابو الحسن یوں دعا فرمایا کرتے تھے : اے اللہ ! ہم پر ایمان کی علامت لگا دے۔ اور ہمیں تقوی کا لباس پہنا دے۔

30506

(۳۰۵۰۷) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ: حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَنْ ثَابِتٍ ، قَالَ: کُنَّا فِی مَکَان لاَ تَنْفذُہُ الدَّوَابُّ فَقُمْت وَأَنَا أَقْرَأُ ہَؤُلائِ الآیَاتِ {غَافِرِ الذَّنْبِ وَقَابِلِ التَّوْبِ شَدِیدِ الْعِقَابِ}، قَالَ فَمَرَّ شَیْخٌ عَلَی بَغْلَۃٍ شَہْبَائَ ، قَالَ: قُلْ: یَا غَافِرَ الذَّنْبِ اغْفِرْ ذَنْبِی ، یَا قَابِلَ التَّوْبِ اقْبَلْ تَوْبَتِی ، یَا شَدِیدَ الْعِقَابِ اعْفُ عَنی عِقَابِی ، یَا ذَا الطَّوْلِ طُل عَلَیَّ بِخَیْرٍ ، قَالَ: فَقُلْتہَا ، ثُمَّ نَظَرْت فَلَمْ أَرَہُ۔
(٣٠٥٠٧) حضرت حماد بن سلمہ فرماتے ہیں کہ حضرت ثابت نے ارشاد فرمایا : کہ ہم لوگ ایسی جگہ میں تھے جسے جانور پار نہیں کر پا رہے تھے۔ پس میں کھڑا ہوا اس حال میں کہ میں ان آیات کی تلاوت کررہا تھا ! ترجمہ ! گناہ کو معاف کرنے والے، اور توبہ قبول کرنے والے، سخت پکڑ والے۔ آپ فرماتے ہیں : پس ایک بزرگ پیشانی پر بالوں والے خچر پر سوار ہو کر گزرے اور فرمایا : یوں کہو، اے گناہوں کو معاف کرنے والے، میرے گناہ کو معاف فرما، اے توبہ قبول کرنے والے، میری توبہ کو قبول فرما۔ اے سخت پکڑ والے، مجھ سے میری سزا کو معاف فرما۔ اے لمبائی والے ! مجھ پر خیر کو لمبا کر دے ۔ آپ فرماتے ہیں ! میں نے ان کلمات کو پڑھا۔ پھر میں نے دیکھا تو مجھے وہاں کوئی دکھائی نہیں دیا۔

30507

(۳۰۵۰۸) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ: حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَن ثَابِتٍ ، عَن عُبَیْدِ اللہِ بْنِ عُبَیْدٍ ، أَنَّ جِبْرِیلَ مُوَکَّلُ بِالْحَوَائِجِ ،فَإِذَا سَأَلَ الْمُؤْمِنُ رَبَّہُ ، قَالَ: احْبِسَ احْبِسْ حُبًّا لِدُعَائِہِ أَنْ یَزْدَادَ ، وَإِذَا سَأَلَ الْکَافِرُ ، قَالَ: أَعْطِہِ أَعْطِہِ بُغْضًا لِدُعَائِہِ۔
(٣٠٥٠٨) حضرت ثابت فرماتے ہیں کہ حضرت عبید اللہ بن عبید نے ارشاد فرمایا : بیشک حضرت جبرائیل ضروریات کے پورا کرنے پر مامور ہیں۔ پس جب کوئی مؤمن اپنے رب سے سوال کرتا ہے تو آپ فرماتے ہیں ! روک لو، روک لو۔ اس کی دعا کو پسند کرتے ہوئے کہ وہ زیادہ مانگے۔ اور جب کوئی کافر سوال کرتا ہے۔ تو آپ فرماتے ہیں : اس کو دے دو ، اس کو دے دو ۔ اس کی دعا کو ناپسند کرتے ہوئے۔

30508

(۳۰۵۰۹) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ: حدَّثَنَا حَمَّادٌ ، عَن ثَابِتٍ ، قَالَ: کَانَ أَنَسٌ یَقُولُ: لَقَدْ تَرَکْت بَعْدِی عَجَائِزَ یُکْثِرْنَ أَنْ یَدْعِینَ اللَّہَ أَنْ یُورِدَہُنَّ حَوْضَ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔
(٣٠٥٠٩) حضرت ثابت فرماتے ہیں کہ حضرت انس فرمایا کرتے تھے : البتہ تحقیق میں نے چھوڑیں اپنے بعد ایسی بوڑھی عورتیں جو کثرت کے ساتھ اللہ سے دعا مانگتیں تھیں کہ اللہ انھیں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حوض پر وارد کرے۔

30509

(۳۰۵۱۰) حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ بْنُ مُوسَی ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مُوسَی بْنُ عُبَیْدَۃَ ، عَن عُمَرَ بْنِ الْحَکَمِ الأَنْصَارِیِّ ، قَالَ: سَأَلْتُہ: ہَلْ صَلَّی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی مَسْجِدِ الْفَتْحِ الَّذِی یُقَالُ لَہُ: مَسْجِدُ الأَحْزَابِ ؟ قَالَ : لَمْ یُصَلِّ فِیہِ وَلَکِنَّہُ دَعَا ، فَکَانَ مِنْ دُعَائِہِ أَنْ ، قَالَ : اللَّہُمَّ لَکَ الْحَمْدُ لاَ ہَادِیَ لِمَنْ أَضْلَلْت ، وَلا مُضِلَّ لِمَنْ ہَدَیْت، وَلا مُہِینَ لِمَنْ أَکْرَمْت ، وَلا مُکْرِمَ لِمَنْ أَہَنْت ، وَلا نَاصِرَ لِمَنْ خَذَلْت ، وَلا خَاذِلَ لِمَنْ نَصَرْت ، وَلا مُعِزَّ لِمَنْ أَذْلَلْت ، وَلا مُذِلَّ لِمَنْ أَعْزَزْت ، وَلا رَازِقَ لِمَنْ حَرَمْت ، وَلا حَارِمَ لِمَنْ رَزَقْت ، وَلا مَانِعَ لِمَا أَعْطَیْت ، وَلا مُعْطِیَ لِمَا مَنَعْت ، وَلا رَافِعَ لِمَنْ خَفَضْت ، وَلا سَاتِرَ لِمَا خَرَقْت ، وَلا خَارِقَ لِمَا سَتَرْت ، وَلا مُقَرِّبَ لِمَا بَاعَدْت، وَلا مُبَاعِدَ لِمَنْ قَرَّبْت ، ثُمَّ دَعَا عَلَیْہِمْ فَلَمْ یُصْبِحْ فِی الْمَدِینَۃِ کرَّاب مِنَ الأَحْزَابِ ، وَلا مِنَ الْمُشْرِکِینَ إِلاَّ أَہْلَکَہُ اللَّہُ غَیْرَ حُیَیِّ بْنِ أَخْطَبَ وَقُرَیْظَۃَ قَتَلَہَا اللَّہُ وَشُتِّتَ۔ (احمد ۳۹۳)
(٣٠٥١٠) حضرت موسیٰ بن عبیدہ فرمافتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر بن الحکم انصاری سے سوال کیا : کیا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مسجد فتح میں جسے مسجد احزاب بھی کہا جاتا ہے اس میں کوئی نماز پڑھی ؟ آپ نے ارشاد فرمایا : آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس میں کوئی نماز ادا نہیں فرمائی۔ لیکن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس مں ش دعا فرمائی اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعا یوں تھی۔ ! اے اللہ ! تیرے لیے ہی تعریف ہے۔ جس کو تو نے گمراہ کیا اسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں۔ اور جسے تو نے ہدایت دی اسے کوئی گمراہ کرنے والا نہیں۔ اور جسے تو معزز بنا دے اس کی اہانت کرنے والا کوئی نہیں۔ اور جس کی تو اہانت کرے اس کو معزز بنانے والا کوئی نہیں۔ اور جس کو تو رسوا کر دے اس کی مدد کرنے والا کوئی نہیں۔ اور جس کی تو مدد کر دے اس کو رسوا کرنے والا کوئی نہیں۔ اور جس کو تو ذلیل کر دے اس کو عزت دینے والا کوئی نہیں اور جس کو تو عزت دے اسے ذلیل کرنے والا کوئی نہیں۔ اور جس کو تو محروم کر دے اسے رزق دینے والا کوئی نہیں، اور جس کو تو رزق دے اسے محروم کرنے والا کوئی نہیں۔ اور جسے تو عطا کرے اس سے روکنے والا کوئی نہیں۔ اور جس سے تو روک لے اسے عطا کرنے والا کوئی نہیں۔ اور جسے تو پست کردے اسے بلند کرنے والا کوئی نہیں اور جس کو تو پھاڑ دے اس کی پردہ پوشی کرنے والا کوئی نہیں۔ اور جس کی تو پردہ پوشی کرے اس کو پھاڑنے والا کوئی نہیں۔ اور جس کو تو دور کر دے اس کو کوئی قریب نہیں کرسکتا، اور جس کو تو قریب کرلے اس کوئی دور نہیں کرسکتا۔
پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دشمنوں کے لیے بد دعا کی۔ پس ان لشکروں میں سے کسی ایک نے بھی اور مشرکین میں سے بھی کسی نے مدینہ میں صبح نہیں کی مگر اللہ نے ہلاک کردیا۔ سوائے حیی بن اخطب اور قبیلہ بنو قریظہ کے ! اللہ ان کو ہلاک کرے اور منتشر کر دے۔

30510

(۳۰۵۱۱) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ الأسدی ، قَالَ: حدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ الْمُہَلَّبِ ، عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ ، عَنْ أَبِی عَبْدِ اللہِ الْجَدَلِیِّ ، قَالَ: کَانَ دَاوُد النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ: اللَّہُمَّ إنِّی أَعُوذُ بِکَ مِنْ جَارٍ عَیْنُہُ تَرَانِی وَقَلْبُہُ یَرْعَانِی ، إِنْ رَأَی خَیْرًا دَفَنَہُ ، وَإِنْ رَأَی شَرًّا أَشَاعَہُ۔
(٣٠٥١١) حضرت ابوعبداللہ الجدلی فرماتے ہیں کہ نبی داؤد یوں دعا فرمایا کرتے تھے : اے اللہ ! میں تیری پناہ لیتا ہوں پڑوسی کی آنکھ سے جو مجھے دیکھتی ہے اور اس کے دل سے جو میری نگرانی کرتا ہے۔ اگر وہ کوئی بھلائی دیکھتا ہے تو اسے چھپا لیتا ہے۔ اور اگر وہ کوئی برائی دیکھتا ہے تو اس کو پھیلا دیتا ہے۔

30511

(۳۰۵۱۲) حَدَّثَنَا سَعِیدُ بْنُ زَکَرِیَّا ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مُؤَمَّلٍ ، عَنِ ابْنِ أَبِی مُلَیْکَۃَ ، قَالَ: کَانَ ابْنُ عَبَّاسٍ إذَا أُتِیَ بِفِطْرٍ دَعَا قَبْلَ ذَلِکَ ، وَبَلَغَنَا أَنَّ الدُّعَائَ قَبْلَ ذَلِکَ یُسْتَجَابُ۔
(٣٠٥١٢) حضرت ابن ابی ملیکہ فرماتے ہیں کہ جب حضرت ابن عباس کے پاس افطاری کے لیے کھانا لایا جاتا تو آپ اس سے پہلے دعا فرماتے ، اور ہمیں خبر پہنچی ہے کہ اس سے پہلے دعا قبول ہوتی ہے۔؎

30512

(۳۰۵۱۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَن سُفْیَانَ ، عَنْ أَبِی ہَاشِمٍ الْوَاسِطِیِّ ، عَنْ أَبِی مِجْلَزٍ ، عَن قَیْسِ بْنِ عُبَادٍ ، عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ قَالَ: مَنْ قَالَ إذَا فَرَغَ مِنْ وُضُوئِہِ سُبْحَانَک اللَّہُمَّ وَبِحَمْدِکَ ،أَشْہَدُ أَنْ لاَ إلَہَ إِلاَّ أَنْتَ، أَسْتَغْفِرُک وَأَتُوبُ إلَیْک ،خُتِمَتْ بِخَاتَمٍ ، ثُمَّ رُفِعَتْ تَحْتَ الْعَرْشِ ،فَلَمْ تُکْسَرْ إِلَی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ۔
(٣٠٥١٣) حضرت قیس بن عباد فرماتے ہیں کہ حضرت ابو سعید خدری نے ارشاد فرمایا : جو شخص وضو سے فارغ ہو کر یہ کلمات پڑھے : پاک ہے تو اے اللہ ! اور سب تعریف تیرے لیے ہے۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ تیرے سوا کوئی معبود برحق نہیں ۔ میں تجھ سے معافی مانگتا ہوں۔ اور تیرے سامنے توبہ کرتا ہوں۔ تو ان کلمات پر ایک مہر لگا دی جاتی ہے اور انھیں عرش کے نیچے کی جانب اٹھا لیا جاتا ہے ، پھر اسے قیامت کے دن تک نہیں توڑا جائے گا۔

30513

(۳۰۵۱۴) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، وَعَبْدُ اللہِ بْنُ دَاوُد ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ بْنِ الْمُہَاجِرِ ، عَن سَالِمِ بْنِ أَبِی الْجَعْدِ ، قَالَ: کَانَ عَلِیٌّ یَقُولُ إذَا فَرَغَ مِنْ وُضُوئِہِ: أَشْہَدُ أَنْ لاَ إلَہَ إِلاَّ اللَّہُ ، وَأَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَرَسُولُہُ رَبِّ اجْعَلْنِی مِنَ التَّوَّابِینَ ، وَاجْعَلْنِی مِنَ الْمُتَطَہِّرِینَ۔
(٣٠٥١٤) حضرت سالم بن ابی الجعد فرماتے ہیں کہ حضرت علی وضو سے فارغ ہو کر یوں دعا فرمایا کرتے تھے؛ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی بھی معبود برحق نہیں ۔ اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ میرے رب، مجھے توبہ کرنے والوں میں سے بنا دے، اور مجھے پاک صاف بندوں میں سے بنا دے۔

30514

(۳۰۵۱۵) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ الْحُبَابِ ، قَالَ: حدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عبد اللہِ بْنِ وَہْبٍ النَّخَعِیُّ ، عَن زَیْدٍ الْعَمِّیِّ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ: مَنْ تَوَضَّأَ فَقَالَ: أَشْہَدُ أَنْ لاَ إلَہَ إِلاَّ اللَّہُ وَحْدَہُ لاَ شَرِیکَ لَہُ ،وَأَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَرَسُولُہُ ثَلاثَ مَرَّاتٍ ، فُتِحَتْ لَہُ ثَمَانیَۃُ أَبْوَابِ الْجَنَّۃِ یَدْخُلُ مِنْ أَیِّہَا شَائَ۔
(٣٠٥١٥) حضرت انس بن مالک فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جو شخص وضو کرے اور پھر تین مرتبہ یہ کلمات پڑھے ! میں گواہی دیتا ہوں کہ نہیں ہے کوئی معبود سوائے اللہ کے وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں ۔ اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ تو اس کے لیے جنت کے آٹھوں دروازے کھول دیے جاتے ہیں۔ جس سے چاہے گا جنت میں داخل ہوجائے گا۔

30515

(۳۰۵۱۶) حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمُقْرِیئُ ، عَن سَعِیدِ بْنِ أَبِی أَیُّوبَ ، قَالَ: حدَّثَنِی زَہْرَۃُ بْنُ مَعْبَدٍ أَبُو عَقِیلٍ ، أَنَّ ابْنَ عَمٍّ لَہُ أَخْبَرَہُ ، أَنَّہُ سَمِعَ عُقْبَۃَ بْنَ عَامِرٍ یَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: مَنْ تَوَضَّأَ فَأَتَمَّ وُضُوئَہُ ، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَہُ إِلَی السَّمَائِ فَقَالَ: أَشْہَدُ أَنْ لاَ إلَہَ إِلاَّ اللَّہُ وَحْدَہُ لاَ شَرِیکَ لَہُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَرَسُولُہُ ، فُتِحَتْ لَہُ ثَمَانیَۃُ أَبْوَابٍ مِنَ الْجَنَّۃِ یَدْخُلُ مِنْ أَیِّہَا شَائَ۔
(٣٠٥١٦) حضرت عقبہ بن عامر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جو شخص وضو کرے اور اچھی طرح وضو مکمل کرے، پھر اپنا سر آسمان کی طرف اٹھا کر یہ کلمات پڑھے : میں گواہی دیتا ہوں اس بات کی کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں اور یقیناً محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ تو اسے کے لیے جنت کے آٹھوں دروازوں کو کھول دیا جاتا ہے۔ جس سے چاہے وہ جنت میں داخل ہوجائے۔

30516

(۳۰۵۱۷) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَن جُوَیْبِرٍ ، عَنِ الضَّحَّاکِ ، قَالَ: کَانَ حُذَیْفَۃُ إذَا تَطَہَّرَ ، قَالَ: أَشْہَدُ أَنْ لاَ إلَہَ إِلاَّ اللَّہُ ، وَأَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَرَسُولُہُ ، اللَّہُمَّ اجْعَلْنِی مِنَ التَّوَّابِینَ وَاجْعَلْنِی مِنَ الْمُتَطَہِّرِینَ۔
(٣٠٥١٧) حضرت ضحاک فرماتے ہیں کہ حضرت حذیفہ جب وضو کرلیتے تو یہ کلمات پڑھتے ! میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔ اور میں اس بات کی بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کے بندے اور رسول ہیں۔ اے اللہ ! مجھے توبہ کرنے والوں میں سے بنا دے، اور مجھے پاک صاف بندوں میں سے بنا دے۔

30517

(۳۰۵۱۸) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، قَالَ: حدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِیزِ بْنُ صُہَیْبٍ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ ، قَالَ: کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إذَا دَخَلَ الْخَلائَ ، قَالَ: أَعُوذُ بِاللہِ مِنَ الْخُبْثِ وَالْخَبَائِثِ۔
(٣٠٥١٨) حضرت انس بن مالک فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب بیت الخلاء میں داخل ہوتے تو یہ دعا پڑھتے ! اے اللہ ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں خبیث جنوں سے مرد ہوں یا عورت۔

30518

(۳۰۵۱۹) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَن سَعِیدِ بْنِ أَبِی عَرُوبَۃَ ، عَن قَتَادَۃَ ، عَن قَاسِمٍ الشَّیْبَانِیِّ ، عَن زَیْدِ بْنِ أَرْقَمَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: إنَّ ہَذِہِ الْحُشُوشَ مُحْتَضِرَۃٌ ، فَإِذَا دَخَلَ أَحَدُکُمْ الخلاء فَلْیَقُلِ: اللَّہُمَّ إنِّی أَعُوذُ بِکَ مِنَ الْخُبْثِ وَالْخَبَائِثِ۔
(٣٠٥١٩) حضرت زید بن ارقم فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : بیشک یہ بیت الخلاء وغیرہ جنوں وغیرہ کے حاضر ہونے کی جگہیں ہیں۔ پس جب بھی تم میں سے کوئی ایک بیت الخلاء میں داخل ہو تو وہ یوں کہے : اے اللہ ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں خبیث جنوں سے مرد ہوں یا عورت۔

30519

(۳۰۵۲۰) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ الْعَبْدِیُّ ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِیزِ بْنِ عُمَرَ ، قَالَ: حدَّثَنِی الْحَسَنُ بْنُ مُسْلِمِ بْنِ یَنَّاقَ ، عَن رَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ عَبْدِ اللہِ بْنِ مَسْعُودٍ ، قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللہِ: إذَا دَخَلْت الْغَائِطَ فَأَرَدْت التَّکَشُّفَ فَقُلِ: اللَّہُمَّ إنِّی أَعُوذُ بِکَ مِنَ الرِّجْسِ وَالنَّجَسِ وَالْخُبْثِ وَالْخَبَائِثِ وَالشَّیْطَانِ الرَّجِیمِ۔
(٣٠٥٢٠) حضرت عبداللہ بن مسعود کے ایک شاگرد فرماتے ہیں کہ آپ نے ارشاد فرمایا : جب تم بیت الخلاء میں داخل ہو اور کپڑے اتارنے کا ارادہ کرو تو یوں کہو ! اے اللہ ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں گندگی سے اور نجاست سے ۔ خبیث جنوں سے مرد ہوں یا عورت، اور شیطان مردود سے۔

30520

(۳۰۵۲۱) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَن جُوَیْبِرٍ ، عَنِ الضِّحَاکِ ، قَالَ: کَانَ حُذَیْفَۃُ إذَا دَخَلَ الْخَلائَ ، قَالَ: أَعُوذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیمِ الرِّجْسِ النَّجَسِ الْخَبِیثِ الْمُخَبَّثِ الشَّیْطَانِ الرَّجِیمِ۔
(٣٠٥٢١) حضرت ضحاک فرماتے ہیں کہ حضرت حذیفہ جب بیت الخلاء میں داخل ہوتے تو یوں دعا فرماتے ! میں اللہ کی پناہ لیتا ہوں گندگی، نجاست سے، خبیث جن سے مرد ہو یا عورت، شیطان مردود سے۔

30521

(۳۰۵۲۲) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ أَبِی مَعْشَرٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ أَبِی طَلْحَۃَ ، عَنْ أَنَسٍ ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ إذَا دَخَلَ الْکَنِیفَ ، قَالَ: بِسْمِ اللہِ اللَّہُمَّ إنِّی أَعُوذُ بِکَ مِنَ الْخُبْثِ وَالْخَبَائِثِ۔
(٣٠٥٢٢) حضرت انس فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب بیت الخلاء میں داخل ہوتے تو یوں فرماتے : اللہ کے نام کے ساتھ داخل ہوتا ہوں۔ اے اللہ ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں خبیث جنوں سے مرد ہوں یا عورت۔

30522

(۳۰۵۲۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إسْرَائِیلَ ، عَنِ الزِّبْرِقَانِ الْعَبْدِیِّ ، عَنِ الضَّحَّاکِ ، قَالَ: إذَا دَخَلْت الْخَلائَ فَقُلِ: اللَّہُمَّ إنِّی أَعُوذُ بِکَ مِنَ الرِّجْسِ النَّجَسِ الْخَبِیثِ الْمُخْبِثِ الشَّیْطَانِ الرَّجِیمِ۔
(٣٠٥٢٣) حضرت زبرقان العبدی فرماتے ہیں کہ حضرت ضحاک نے ارشاد فرمایا : جب تو بیت الخلاء میں داخل ہو تو یوں کہہ؛ اے اللہ ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں گندگی، نجاست، خبیث جنوں سے مرد ہوں یا عورت، شیطان مردو د سے۔

30523

(۳۰۵۲۴) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ أَبِی بُکَیْرٍ ، قَالَ: حدَّثَنَا إسْرَائِیلُ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا یُوسُفُ بْنُ أَبِی بُرْدَۃَ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبِی یَقُولُ: دَخَلْتُ عَلَی عَائِشَۃَ فَسَمِعْتہَا تَقُولُ: کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إذَا خَرَجَ مِنَ الْغَائِطِ ، قَالَ: غُفْرَانَک۔
(٣٠٥٢٤) حضرت ابو بردہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ کو یوں فرماتے ہوئے سنا کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیت الخلاء سے نکلتے تو فرماتے : اے اللہ ! میں تجھ سے بخشش کا سوال کرتا ہوں۔

30524

(۳۰۵۲۵) حَدَّثَنَا ہُشَیْمُ بْنُ الْعَوَّامِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ التَّیْمِیِّ ، أَنَّ نُوحًا النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ إذَا فَرَغَ مِنَ الْغَائِطِ ، قَالَ: الْحَمْدُ لِلَّہِ الَّذِی أَذْہَبَ عَنِّی الأَذَی وَعَافَانِی۔
(٣٠٥٢٥) حضرت ابراہیم تیمی فرماتے ہیں کہ حضرت نوح جب بیت الخلاء سے فارغ ہوتے تو یوں دعا فرماتے : سب تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں جس نے مجھ سے ایذا دینے والی چیز دور کی اور مجھے چین دیا۔

30525

(۳۰۵۲۶) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا عَوَّامٌ ، قَالَ: حُدِّثْت أَنَّ نُوحًا عَلَیْہِ السَّلامُ کَانَ یَقُولُ: الْحَمْدُ لِلَّہِ الَّذِی أَذَاقَنِی لَذَّتَہُ وَأَبْقَی فِی مَنْفَعَتَہُ وَأَذْہَبَ عَنِّی أَذَاہُ۔
(٣٠٥٢٦) حضرت عوام فرماتے ہیں کہ مجھے بیان کیا گیا ہے کہ حضرت نوح یوں دعا کرتے تھے : سب تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے مجھے لذت چکھائی۔ اور مجھ میں اس کی منفعت کو باقی رکھا۔ اور مجھ سے ایذا دینے والی چیز دور کی۔

30526

(۳۰۵۲۷) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، وَوَکِیعٌ ، عَن سُفْیَانَ ، عَن مَنْصُورٍ ، عَنْ أَبِی عَلِیٍّ ، أَنَّ أَبَا ذَرٍّ کَانَ یَقُولُ إذَا خَرَجَ مِنَ الْخَلائِ: الْحَمْدُ لِلَّہِ الَّذِی أَذْہَبَ عَنِّی الأَذَی وَعَافَانِی۔
(٣٠٥٢٧) حضرت ابو علی فرماتے ہیں کہ حضرت ابو ذر جب بیت الخلاء سے نکلتے تو یوں دعا کرتے تھے : سب تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں جس نے مجھ سے ایذا دینے والی چیز دور کی اور مجھے چین دیا۔

30527

(۳۰۵۲۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، عَن زَمْعَۃَ، عَن سَلَمَۃَ بْنِ وَہْرَامٍ، عَن طَاوُوس، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: إذَا خَرَجَ أَحَدُکُمْ مِنَ الْخَلائِ فَلْیَقُلَ الْحَمْدُ لِلَّہِ الَّذِی أَذْہَبَ عَنِّی مَا یُؤْذِینِی وَأَمْسَکَ عَلَیَّ مَا یَنْفَعُنِی۔
(٣٠٥٢٨) حضرت طاو وس فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جب تم میں سے کوئی ایک بیت الخلاء سے نکلے تو یوں دعا کرے : سب تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے مجھ سے ایذا دینے والی چیز دور کی اور جو چیز مجھے نفع پہنچانے والی ہے اس کو روک دیا۔

30528

(۳۰۵۲۹) حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ ، قَالَ: حدَّثَنَا ہُرَیْمٌ ، عَن لَیْثٍ ، عَنِ الْمِنْہَالِ بْنِ عَمْرٍو ، قَالَ: کَانَ أَبُو الدَّرْدَائِ إذَا خَرَجَ مِنَ الْخَلائِ ، قَالَ: الْحَمْدُ لِلَّہِ الَّذِی أَمَاطَ عَنِّی الأَذَی وَعَافَانِی۔
(٣٠٥٢٩) حضرت منھال بن عمرو فرماتے ہیں کہ حضرت ابو الدردائ جب بیت الخلاء سے نکلتے تو یوں دعا فرماتے : سب تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے مجھ سے تکلیف کو دور کردیا اور مجھے چین دیا۔

30529

(۳۰۵۳۰) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَن جُوَیْبِرٍ ، عَنِ الضَّحَّاکِ ، قَالَ: کَانَ حُذَیْفَۃُ یَقُولُ إذَا خَرَجَ: الْحَمْدُ لِلَّہِ الَّذِی أَذْہَبَ عَنِّی الأَذَی وَعَافَانِی۔
(٣٠٥٣٠) حضرت ضحاک فرماتے ہیں کہ حضرت حذیفہ جب بیت الخلاء سے نکلتے تو یوں دعا فرماتے ! سب تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے مجھ سے ایذا دینے والی چیز دور کی اور مجھے چین دیا۔

30530

(۳۰۵۳۱) حَدَّثَنَا ہَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ ، قَالَ: حدَّثَنَا أَبُو عَقِیلٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُجَالِدٌ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَن مَسْرُوقٍ ، قَالَ: کَانَ ابْنُ مَسْعُودٍ إذَا اشْتَرَی مَمْلُوکًا ، قَالَ: اللَّہُمَّ بَارِکْ فِیہِ ،وَاجْعَلْہُ طَوِیلَ الْعُمُرِ کَثِیرَ الرِّزْقِ۔
(٣٠٥٣١) حضرت مسروق فرماتے ہیں کہ حضرت ابن مسعود جب کوئی غلام خریدتے تو یوں دعا فرماتے : اے اللہ ! تو اس میں برکت عطا فرما، اور اس کو لمبی عمر والا اور زیادہ رزق والا بنا دے۔

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔